زندگی آمیز اور زندگی آموزادب کا نمائندہ نقوش اقبال نمبر1 شمارہ نمبر 122۔۔۔۔ستمبر 1977 مدیر محمد طفیل طلوع تین چہرے میرے تصور میں آج بھی زندہ ہیں۔ جو میرے تھے اور مر گئے۔ ان میں سے دو چہروں کا تعلق میرے والدین سے ہے اور تیسرے چہرے کا تعلق علامہ اقبال سے! ہوا یوںکہ ایک صاحب تانگے پر نقارہ رکھے ہوئے اسے زور زور سے پیٹ رہے تھے۔ جب لوگ متوجہ ہوئے اور اکٹھے ہو گئے تو اگلی نشست پر بیٹھے ہوئے صاحب اٹھے اور انہوںنے اعلان کیا کہ میں آپ کو بڑی دلخراش خبر سنانے لگا ہوں کہ آج صبح علامہ اقبال کا انتقال ہو گیا۔ جنازہ سہ پہر کے قریب میو روڈ سے اٹھایا جائے گا۔ ا س وقت میری عمر پندرہ برس کے لگ بھگ ہو گی۔ ایک کھلنڈری عمر ‘ اس کے باوجود یہ خبر سنی تو سناٹے میںآ گیا۔ جیسے کچھ کھو گیا ہو۔ کیا اس عمر میں میں علامہ کے مرتبے سے آگاہ تھا؟ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ دوستوں میں بھی کوئی ایسا نہ تھا جو مجھے بتاتا کہ لٹ گئے۔ پھر میرا دل کیوں ویران ہو گیا؟ جب کسی کل سکون نہ ملا تو میں نے ٹھانی کہ ا س کے گھر چلنا چاہیے۔ کہ جس گھر سے علامہ اقبال چلے گئے ہیں ۔چنانچہ میو روڈ پہنچا۔ اس وقت کمرے میں صرف چند نفوس تھے۔ دو تین خواتین دو تین مرد۔ تین چار بجے کے بعد میںتو اتنی خلقت کہ کندھا دینے کے لیے پہنچی کہ چارپائی کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھے گئے۔ پھر بھی کندھا دینا کسی کسی کو نصیب ہوا۔ ایک جم غفیر تھا۔ حیران و پریشان! صبح نو بجے سے لے کر دوپہر تک بارہ بجے تک میں علامہ کی چارپائی کے ساتھ لگا رہا۔ صورت یہ تھی کہ علامہ اقبال کا چہرہ میرے سامنے تھا اور میں اسے مسلسل تکے جا رہا تھا۔ جیسے عمر بھر کی دوری کا آج ہی حساب چکانا ہو۔ اور میں اس وقت تک وہاں بیٹھا رہا۔ جب تک کہ بھیڑ نے میرا وہاں بیٹھنا محال نہیں بنا دیا تھا۔ ہاں تومیں یہ کہہ رہا تھا کہ میں اس وقت علامہ اقبال کے جتنا قریب تھا اور کوئی نہ تھا۔ اس کے باوجود علامہ کا مجھ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے چکور چاند کا عاشق ہوتا ہے اور چاند کو چکور کا حال معلوم نہیں ہوتا۔ جو میرے تھے وہ مر گئے۔ ان میں سے تین چہرے میرے تصور میں آج بھی زندہ ہیں۔ محمد طفیل ٭٭٭ اس شمارے میں ۱۹۶۹ء میں غالب کی صد سالہ برسی منائی گئی۔ نجی اداروں کے علاوہ پاک و ہند کی حکومتوں نے بھی کروڑوں ہی کی رقم خرچ کر ڈالی۔ یوں ایک دو ملکوں میں نہ ہوا۔ پوری دنیا دلچسپی لے رہی تھی۔ روس بھی اس مہم میں شریک تھا۔ امریکہ بھی دوڑ میں موجود تھا۔ دنیا کہتی ہے کہ دولت ہو تو ہر مشکل آسان بندہ اس کلیے پر ایمان نہیں رکھتا اور کام سے دولت ہوتے ہوں گے۔ ادب کی بارگاہ میں دولت کی پری بھی دغا دے سکتی ہے۔ اس وادی میں خزانے سے زیادہ جذبے اور ایثار کی مانگ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے دیکھا کہ ایک نجی ادارہ۔ جس کے وسائل محدود تھے۔ اس نے غالب پر ایسا کام کیا کہ نہ کسی حکومت سے بن پڑا اور نہ کسی نیم سرکاری ادارہ سے! نقوش نے تین مہتمم بالشان نمبر پیش کیے جن کی گونج ادب کے ایوانوں میں موجود رہے گی۔ بلکہ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا۔ گونج میں ایک توانائی پیداہوتی جائے گی۔ اپنا اپنا جینے کا چلن ہے ۔ کسی کے نزدیک سب کچھ حال ہے۔ کسی کے نزدیک آنے والا کل جو لوگ حال کے لیے جیتے ہیں وہ غلطاں ہیں سمیٹو سمیٹو میں جو کل کے لیے جینا چاہتے ہیں ان کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ بانٹو بانٹو! میں ایک ایسا مست مولا ہوں کہ میرے پاس بانٹنے کے لیے تو کچھ نہیں ہے۔ اس کے باوجود سرخروئی کی تھپکی مل جاتی ہے۔ جیسے جذبہ اور ایثار بڑی قوتیں ہوں۔ ایک امتحان کل درپیش تھا ۔ ایک امتحان آج درپیش ہے۔ کل مسئلہ غالب کا تھا۔ آج مسئلہ اقبال کا ہے۔ یقین کیجیے کہ غالب پر کچھ پیش کرتے ہوئے میں صرف مطمئن تھا۔ آج سکون کی دولت سے بھی مالامال ہوں۔ اقبال پر میرے کام کی یہ ابتدا ہے ۔ تکمیل کے بعد آپ سے باتیں ہوں گی۔ ابھی تو میں ڈرا اور سہما ہوا ہوں۔ ابھی مجھے کوہ طور سے واپس تو اتر لینے دیجیے۔ (محمد نقوش) حالات و واقعات حیات نامہ اقبال رفیع الدین ہاشمی علامہ اقبال پر بہت کچھ تو پہلے لکھا جا چکا ہے اور ۱۹۷۷ء کو سال اقبال قرار دیے جانے کے بعد اقبالیاتی ادب کی رفتار اشاعت تیز تر ہو گئی ہے… مگر سیکڑوں کتابوں اور ہزاروں مقالات کے وسیع ذخیرے میں اقبال کی ایک مستند سوانح عمری کی کمی اقبالیاتی ادب کا بہت بڑا خلا ہے… اقبال کے حالا ت پر موجود دو چار کتابوں سے حیات اقبال کے بعض اہم واقعات کے بارے میں پتا نہیں چلتا کہ وہ کب وقوع پذیر ہوئے… اقبالیات کے نقاد اور طلبہ بخوبی جانتے ہیں کہ اقبال کے شعری اور فکری ارتقاء کے مطالعے اور تفہیم کے لیے حیات اقبال کے مختلف واقعات کو ماہ و سال کے تعین کے ساتھ جاننا کس قدر ضروری ہے۔ زیر نظر حیات نامہ اقبال علامہ اقبال کی اکسٹھ سالہ طویل زندگی کی شب و روز کی مصروفیات سفر و حضر کی مختلف سرگرمیوں اور کسی حد تک ان کی ذہنی کیفیات اور ان کے عزائم اور ارادوں کا واقعاتی خاکہ ہے جسے اقبا ل کی سوانح کا بنیادی خاکہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس میں اقبال کی زندگی میں رونما ہونے والے تقریباً سو واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے… ہر واقعے کا ذکر تاریخ اور ماہ و سال کے تعین کے ساتھ کیا گیا ہے اس ضمن میں مستند کتابوں کی بنا پر ہر ممکن طریقے سے کھوج لگانے کی کوشش کی گئی ہے… تاہم ناکافی شواہد کی بنا پر بعض واقعات کی حتمی تاریخ اور بعض کا حتمی مہینہ متعین نہیں کیا جا سکا۔ علامہ اقبال کے آبائو اجداد ۸ ۱ ویں صدی کے اواخر یا ۱۹ ویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ پہنچے اورمحلہ کھٹیکاں میں قیام پذیر ہوئے۔ ۱۸۷۷ء ۹ نومبر ولادت اقبال بمقام سیالکوٹ ٭ ابتدائی تعلیم مولانا غلام حسن اور علامہ سید میر حسن کے مکتب میں حاصل کی۔ ٭ مشن ہائی سکول سیالکوٹ میں داخل ہوئے۔ ٭ ابھی سکول میں پڑھتے تھے کہ کلام موزوں زبان سے نکلنے لگا۔ (سر عبدالقادر) ۱؎ یہ نشان ظاہر کرتا ہے کہ ان واقعات کے ماہ و سال کا تعین نہیں ہو سکا۔ ۱۸۹۱ء ۱؎ مشن ہائی سکول سیالکوٹ کے طالب علم کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی سے اینگلو ورنیکلر مڈل سکول امتحان پاس کیا۔ ۱۸۹۲ء باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ داغ دہلوی سے سلسلہ تلمذ قائم ہوا۔ زبان دہلی کے شمارہ نومبر میں ایک غزل شائع ہوئی۔ جو اقبال کی قدیم ترین مطبوعہ دستیاب غزل ہے۔ ۱۸۹۳ء انٹرنس (میٹرک) کا امتحان دینے کے لیے گجرات گئے۔ سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے میٹرک کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا سکول کی طرف سے تمغہ دیا گیا اور وظیفہ بھی جاری ہوا۔ اپریل ۷ مئی۔ گجرات کے سول سرجن خان بہادر ڈاکٹر عطا محمد خاں کی بیٹی کریم بی بی (والدہ آفتاب اقبال) سے شادی ہو گئی۔ سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ میں سال اول گیارھویں جماعت میں داخل ہوئے۔ ۱۸۹۵ء سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ کے طالب علم کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی سے انٹر میڈیٹ کا امتحان درجہ دوم میں پاس کیا۔ سیالکوٹ سے لاہور آئے اور گورنمنٹ کالج کی بی ۔ اے کی جماعت میں داخل ہوئے… کالج کے اڈرینگل ہوسٹل حال اقبال ہوسٹل کے کمرہ نمبر ۱ میں قیام پذیر ہوئے۔ اندرون بھاٹی دروازہ میں منعقدہ اردو بزم مشاعرہ میں پہلی بار شرکت کی۔ ۱۸۹۶ء انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کی رکنیت اختیار کی۔ ۱۸۹۷ء بی ۔ اے کا امتحان درجہ دوم میں پاس کیا۔ عربی کے مضمون میں اول آنے پر پنجاب یونیورسٹی نے خان بہادر ایف ایس جلال الدین میڈل عطا کیا۔ ۱۸۹۸ء لاہور لا سکول کی پہلی جماعت میں داخلہ لیا۔ قانون کا ابتدائی امتحان دیا مگر فقہ کے پرچے میں فیل ہو گئے۔ ۱ ؎ اس نشان سے ظاہرہوتا ہے کہ ان واقعات کے مہینے کا تعین نہیںہو سکا۔ ۱۸۹۹ء ایم ۔ اے فلسفہ کا امتحان تیسرے درجے میں پاس کیا۔ یونیورسٹی بھر میں واحد کامیاب امیدوار ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی کی طرف سے خان بہادر شیخ نانک بخش میڈل دیا گیا۔ کورڈینگل ہوسٹل کمرہ نمبر ۱ سے اندرون بھاٹی گیٹ کوچہ جلوٹیاں کے ایک مکان میں منتقل ہو گئے۔ ۱۳مئی۔ اورئینٹل کالج لاہور میں میکلوڈ عریبک ریڈر مقرر ہوئے۔ ۱۲ نومبر۔ پہلی بار انجمن حمایت اسلام لاہور کی مجلس انتظامیہ کے رکن منتخب ہوئے۔ ولادت آفتاب اقبال ۱۹۰۰ء یکم جنوری۔ اسلامیہ کالج لاہور میں چھ ماہ کے لیے انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ ۲۴ فروری ۔ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں نظم درد دل پڑھی۔ اپریل ۔ مخزن کے پہلے شمارے میں نظم ہمالہ شائع ہوئی۔ یکم جولائی۔ اورئنٹل کالج لاہور میں اپنی ملازمت پر واپس آ گئے۔ ایکسٹر ااسسٹنٹ کمشنری کے امتحان میں شامل ہوئے مگر میڈیکل بورڈ نے انہیں اف فٹ قرار دیا۔ امرتسر میں نواب سر سلیم اللہ کی صدارت میں منعقدہ کشمیری کانفرنس میں شریک ہوئے۔ ۱۹۰۲ء ۲۳ فروری انجمن حمایت اسلا م کے سالانہ جلسے میں نظم اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں کو پڑھی صدر جلسہ میاں نظام الدین سب جج راولپنڈی نے پنجاب کے ملک الشعراء کا خطاب دیا۔ اگست۔ اعلیٰ تعلیم کیلیے امریکہ جانے کا خیال پیدا ہوا۔ ۳ اکتوبر۔ گورنمنٹ کالج لاہور میںچھ ماہ کے لیے انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۳ء یکم مارچ۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں نظم ’’فریاد امت ‘‘ پڑھی۔ ۳ اپریل۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی مدت ملازمت ختم ہو گئی۔ مئی۔ برادر بزرگ شیخ عطا محمد ایک مقدمے میں ماخوذ ہو گئے۔ انہیں چھڑانے کے لیے فورٹ سنڈیمین بلوچستان کا سفر کیا۔ ۳ جون۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ سب سے پہلی تصنیف علم الاقتصاد کی اولین اشاعت ۱۹۰۴ء اگست۔ موسم گرما کی تعطیلات میں برادر شیخ عطا محمد کے پاس ایبٹ آباد چلے گئے۔ وہاں احباب کے اصرا ر پر ایک لیکچر قومی زندگی دیا۔ بانگ درا کی نظم ابر قیام ایبٹ آباد کی یادگار ہے۔ ۱۹۰۵ء گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیمی رخصت لی۔ یکم ستمبر۔ یورپ سے اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور سے روانگی۔ ۲ ستمبر۔ آمد دہلی خواجہ نظام الدین اولیاؒ اور مرزا غالب کے مزارات پر حاضری دی۔ ۳ستمبر۔ دہلی سے روانگی۔ ۴ ستمبر۔ آمد بمبئی۔ ۷ستمبر۔ بمبئی سے بحری جہاز کے ذریعے روانگی۔ ۱۲ ستمبر ۔ آمد عدن ۳ ۲ ستمبر۔ آدم مارسیلز ۲۴ ستمبر۔ آمد لندن ۲۵ ستمبر ۔ آمد کیمبرج ٹرینٹی کالج میں داخلہ ۱۹۰۶ء کیمبرج میں قیام ۱۹۰۷ء کیمبرج سے بی اے کی ڈگری لی۔ یکم جون۔ کیمبرج میں پروفیسر آرنلڈ کی دعوت میں شرکت۔ جولائی۔ ٹرینٹی کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تیسرے ہفتے جرمنی چلے گئے۔ پی ایچ ڈی کے لیے ہائیڈل برگ اور میونخ میں رہ کر The Development of Metaphysics in Persiaکے موضوع پر مقالہ مکمل کیا۔ میونخ یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ ۱۹۰۸ء کچھ عرصہ لندن یونیورسٹی میں عربی کے استاد کی حیثیت سے کام کیا۔ مئی۔ لندن کے کیکسٹن ہال میںسید امیر علی کی صدارت میں منعقدہ مسلمانان لندن کے ایک اجلاس میں شرکت ۔ یکم جولائی۔ لنکنز ان سے بیرسٹری کی تکمیل کی۔ ۲۷ جولائی۔ لاہور پہنچنے پر باغ بیرون بھاٹی دروازہ میں گلاب دین نے اقبال کے اعزاز میں ایک دعوت دی ۔ موہن لال روڈ (حال اردو بازار) میں واقع ایک مکان میں قیام پذیر ہوئے۔ اگست۔ سیالکوٹ پہنچے تو اہل شہر نے پر جوش استقبال کیا۔ اکتوبر۔ انارکلی والے مکان میںمنتقل ہو گئے۔ ۳۰ اکتوبر۔ چیف کورٹ پنجاب نے اقبال کو قانونی پریکٹس کی اجازت عطا کی۔ انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کی تجدید ہوئی اور اقبال انجمن کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ دسمبر ۔ اقبال کی قیادت میں کشمریری مسلمانان کے ایک وفد نے امرتسر جا کر نواب سر سلیم اللہ سے ملاقات کی۔ The Development of Metaphysics in Persiaکی اولین اشاعت۔ ۱۹۰۹ء ۱۰ جنوری۔ انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کے اجلاس میں شرکت ۶ فروری۔ انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ ۲۴ فروری۔ تین سال کے لیے انجمن حمایت اسلام انتظامیہ کے رکن منتخب ہوئے۔ مئی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے قائم مقام پروفیسر مقرر ہوئے۔ ۱۹۱۰ء ۲ فروری۔ انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۸ مارچ ۔ لاہور سے حیدر اآباد دکن کے سفر پر روانہ ہوئے (دکن کا پہلا سفر)۔ حیدر آباد میں مہاراجہ سر کشن پرشاد اور اکبر حیدری سے ملاقاتیں۔ اورنگ زیب کے مزار پر حاضری۔ ۲۹ مارچ ۔ لاہور واپس پہنچے۔ ۲۶ جولائی۔ انجمن حمایت اسلام کی کالج کمیٹی کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ ۱۹۱۱ء اپریل۔ انجمن کے سالانہ جلسے میں والد شیخ نور محمد کی موجودگی میں نظم ’’شکوہ‘‘ پڑھی۔ دہلی میں منعقدہ آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے تیسرے اجلاس کی صدارت کی۔ ۱۹۱۲ء ۷ ستمبر۔ کانپور پہنچے مسجد کی شہادت کے سلسلے میں کانپور کے کلکٹر سے خواجہ حسن نظامی کی معیت میں ملاقات کی۔ ۸ ستمبر ۔ الہ آباد پہنچے… اکبر الہ آبادی سے ملاقات۔ الہ آبادسے دہلی پہنچے۔ حکیم اجمل خاں سے ملاقات لالہ رام پرشاد پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور کے اشتراک سے مرتبہ تاریخ ہند کی اشاعت ۔ باغ بیرون موچی دروازہ میں منعقدہ ایک جلسہ عام میں نظم جواب شکوہ پڑھی۔ ۱۹۱۴ء سردار بیگم والدہ جاوید اقبال سے شادی ہوئی (دوسری شادی)۔ ۹ نومبر ۔ اقبال کی والدہ امام بی بی سیالکوٹ میں انتقال کر گئیں۔ دسمبر۔ مختار بیگم (لدھیانہ ) سے شادی ہوئی۔ (تیسری شادی)۔ ۱۹۱۵ء ۱۷ جنوری۔ مکتوب بنام مولانا گرامی اردو اشعار لکھنے سے دل برداشتہ ہوتاجاتا ہوں۔ فارسی کی طرف زیادہ میلان ہوتا جاتا ہے اور وجہ یہ ہے کہ دل کا غبار اردو میں نہیں نکال سکتا۔ ۱۷ اکتوبر ۔ پہلی بیوی سے علامہ اقبال کی بیٹی معراج بیگم انتقال کر گئیں۔ اسرار خودی کی اولین اشاعت ۱۹۱۶ء ۳۰ جنوری۔ انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۴ جولائی۔ اسرار خودی کی اشاعت پر بعض حلقوں کے ردعمل کے سلسلے میں مکتوب بنام فصیح اللہ کاظمی میرے نزدیک حافظ کی شاعری نے بالخصوص اور عجمی شاعری نے بالعموم مسلمانوں کی سیرت اور عام زندگی پر نہایت مذموم اثر کیا ہے۔ اسی واسطے میں نے ان کے خلاف لکھا ہے۔ مجھے امید تھی کہ لوگ مخالفت کریں گے اور گالیاں دیں گے لیکن میرا ایمان گوارا نہیںکرتا کہ حق بات نہ کہوں۔ ۱۹۱۷ء ۱۳ نومبر۔ مکتوب بنام سید سلیمان ندوی: تصوف کا وجود ہی سرزمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے۔ ۸۱۹۱۸ کچھ عرصے کے لیے اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے فلسفہ کے طلبہ کوپڑھایا۔ رموز بے خودی کی اولین اشاعت۔ ۱۹۱۹ء ۱۴ دسمبر۔ انجمن حمایت اسلام کے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ ۳۰ دسمبر ۔ میاں فضل حسین کی صدارت میں منعقدہ جلسہ عام بیرون موچی دروازہ میں ترکوں کی حمایت میںتقریر۔ ۱۹۲۰ء مارچ۔ دہلی کا سفر ۳۱ مارچ۔ انجمن حمایت اسلام کے آنریری جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ (از ڈاکٹر نکلسن)ٰ لندن میں شائع ہوا۔ ۱۹۲۱ء ۷ ستمبر۔ مکتوب بنام وحید احمد۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا۔ ۱۹۲۲ء ۱۶ اپریل۔ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں نظم ’’خضر راہ‘‘ پڑھی ۲۰ اپریل ۔ مکتوب بنام سید سلیمان ندوی میں نقرس کی وجہ سے دو ماہ کے قریب صاحب فراش رہا۔ ۳۱ جولائی۔ انجمن حمایت اسلام کے آنریری جنرل سیکرٹری کے عہدے سے استعفا دے دیا۔ یکم ستمبر۔ مکتوب بنام ابراہیم خلیف: میں ایک عرصے سے فلسفے کا مطالعہ چھوڑ بیٹھا ہوں۔ ۱۴ اکتوبر ۔ انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ دسمبر۔ آخر ماہ میں میکلوڈ روڈ والے مکان میں منتقل ہوگئے۔ علامہ اقبال کی سب سے پہلی کتاب A Voice from the East(از نواب سر ذوالفقار علی) شائع ہوئی۔ ۱۹۲۳ء یکم جنوری۔ حکومت کی طرف سے نائٹ ہڈ (سر) کا خطاب دیا گیا۔ ۴ جنوری۔ مکتوب بنام غلام بھیک نیرنگ : (بسلسلہ سر کا خطاب) اس قسم کے واقعات احساس سے فروتر ہیں۔ سیکڑوں خطوط اور تار آئے اور آ رہے ہیں اور مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ لوگ ان چیزوں پر کیوں گراں قدر جانتے ہیں… قسم ہے خدائے ذوالجلال کی… دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ ۱۷ جنوری۔ سر کا خطاب ملنے پر معززین لاہور کی طرف سے اقبال کے اعزاز میں مقبرہ جہانگیر میں ایک استقبالیہ دیا گیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی مجلس فلسفہ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک استقبالیے میں تقریر۔ ۳۰ مارچ۔ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میںنظم طلع اسلام پڑھی۔ ۲۴ جون۔ مکتوب بنام زمیندار: بولشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہوجانے کے مترادف ہے … مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں صحیح راہ وہی ہے جو ہمیں قرآن نے ہم کو بتائی ہے۔ ۸ جولائی۔ دوسری بار انجمن حمایت اسلام کے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ پیام مشرق کی اولین اشاعت۔ ۱۹۲۴ء ۱۹ مئی۔ انجمن حمایت اسلام کے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے استعفی دے دیا اور صدر انجمن منتخب ہو گئے۔ ۲۸ جون۔ انجمن حمایت اسلام کی صدارت سے مستعفی ہو گئے۔ ستمبر ۔ بانگ درا کی اولین اشاعت۔ ۵ اکتوبر ۔ ولادت جاوید اقبال۔ ۱۹ اکتوبر ۔ لاہور سے لدھیانے چلے گئے۔ ۲۱ اکتوبر۔ تیسری بیوی مختار بیگم لدھیانے میں انتقال کر گئیں۔ حکیم احمد شجاع کے اشتراک سے مرتب چھٹی ساتویں اورآٹھویں جماعتوں کے لیے اردو کی تین درسی کتابوں کی اولیں اشاعت۔ ۱۹۲۶ء ۲۰ جولائی۔ مجلس قانون ساز پنجاب کے امیدوار کھڑے ہونے پر بیان : میں اس قسم کے مشاغل سے بالکل علیحدہ رہا لیکن اب قوم کی مصیبتیں مجبور کر رہی ہیں کہ میں اپنا حلقہ عمل قدرے وسیع کروں۔ شاید میرا نا چیز وجود اس ملت کے لیے زیادہ مفید ہو سکے۔ ۲۳ نومبر۔ مجلس قانون ساز پنجاب کے ممبر منتخب ہوئے۔ علامہ اقبال پر پہلی اردو کتاب ’’اقبال‘‘ (از مولوی احمد الدین وکیل) شائع ہوئی۔ ۱۹۲۷ء ۲۴ مارچ۔ حبیبیہ حال میں منعقدہ ایک جلسے کی صدارت کی مذہب اور سائنس کے موضوع پر مرزا بشیر الدین محمود کی تقریر۔ ۱۶ اپریل ۔ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں The Spirit of Islamic Cultureکے موضوع پر انگریزی میںتقریر۔ ۳ مئی۔ ڈبی بازار لاہورکے ہندو مسلم فسادات کے سلسلے میں قائم ہونے والی ریلیف کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ میٹرک کے طلبہ کے لیے منتخب فارسی نظم و نثر پر مشتمل آئینہ عجم شائع ہوئی۔ جون ۔ زبو ر عجم کی اولیں اشاعت۔ مجلس قانون ساز پنجاب کی کارروائیوں میں بھرپور شرکت کی۔ ۱۹۲۸ء ۸ اپریل ۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں فلسفہ اسلام کے موضوع پر انگریزی تقریر اورئنٹل کانفرنس لاہور کے اجلاس میں A Plea for the Deeper Study of the Muslim Scientists کے موضوع پر صدارتی خطبہ دیا۔ دسمبر۔ دہلی میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں شکرت کے بعد براستہ بمبئی جنوبی ہند کے سفر پر روانہ ہوئے۔ چوہدری محمد حسین اور عبداللہ چغتائی بھی شریک سفر تھے۔ ۱۹۲۹ء ۷ جنوری۔ انجمن خواتین اسلام مدراس کے زیر اہتمام ٹاکرس گارڈن مدراس میںمنعقدہ ایک استقبالیے میں شرکت۔ ۹جنوری۔ اراکین مسلم لائبریری و انجمن ترقی اردو بنگلور کے زیر اہتمام منعقدہ استقبالیے میں شرکت۔ ۱۰ جنوری۔ میسورپہنچے۔ شام ۶ بجے میسور یونیورسٹی میں Knowledge and Religious Experienceکے موضوع پر خطبہ دیا۔ ۱۱جنوری۔ ٹائون ہال میسور میںمسلمانان شہر میسور اوریتیم خانہ اسلامیہ کی طرف سے منعقدہ استقبالیے میں شرکت۔ سلطان ٹیپو شہید کے مزار پر حاضری۔ ۱۵ جنوری۔ میسور سے حیدر آباد دکن پہنچے۔ مختلف موضوعات پر تین لیکچر دیے۔ ۱۸ جنوری۔ نظام دکن سے ملاقات۔ ۱۴ اپریل ۔ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں ’’قرآن کا مطالعہ‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔ مئی۔ پنجاب ہائی کورٹ میں جج کی خالی نشست پوری کرنے کے لیے اقبال کا نام تجویز ہوا مگر سر شادی لال چیف جسٹس کی مخالفت کی وجہ سے تقرر نہ ہو سکا۔ ۲۳ نومبر۔ علی گڑھ انٹرمیڈیٹ کالج یونین کے جلسے میں شرکت۔ دسمبر۔ آخری ہفتے میں علی گڑھ کا سفر۔ ۱۹۳۰ء ۱۷ اگست۔ والد گرامی شیخ نور محمد انتقال فرما گئے۔ چھ انگریزی خطبات کا مجموعہ The Reconstruction of Religious thoughts in Islamپہلی بار شائع ہوا۔ ۲۷ دسمبر۔ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں نواب بہاول پور کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا۔ ۲۹ دسمبر۔ کل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں منعقدہ الہ آباد میں ایک علیحدہ مسلم مملکت کا تصور پیش کیا۔ ۱۹۳۱ء اپریل۔ دہلی میں منعقدہ آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں شریک ہوئے۔ ۲ مئی۔ باغ بیرون موچی دروازہ میں علامہ اقبال کی صدارت میں جداگانہ طریق انتخاب کی حمایت میں ایک جلسہ عام منعقد ہوا۔ ۹ مئی۔ لاہور سے روانگی برائے بھوپال۔ ۱۰ مئی۔ بھوپال میں مسلم اکابر کے ایک اجلاس میں شرکت ۳ جون۔ باغ بیرون موچی دروازہ میں اقبال کی صدار ت میں ایک جلسہ عام منعقد ہوا۔ جس میں مغل پورہ انجینئرنگ کالج کے انگریز پرنسپل اسلام دشمن رویے کی مذمت کی گئی۔ ۳ جولائی۔ باغ بیرون موچی دروازہ میں منعقدہ ایک جلسہ عام میں انجینئرنگ کالج کے مسئلہ پر علامہ اقبال کی تقریر۔ ۸ ستمبر۔ دوسری گول میز کانفرنس لندن میں شرکت کے لیے لاہور سے روانگی۔ ۹ ستمبر۔ آمد دہلی… شام کو دہلی سے روانہ ہوئے۔ ۱۰ ستمبر۔ آمد بمبئی۔ ۱۲ ستمبر۔ بمبئی سے لندن کے لیے روانگی بذریعہ بحری جہاز ملوجا۔ ۱۶ ستمبر۔ آمد عدن۔ ۲۰ ستمبر آمد پورٹ سعید۔ ۲۷ ستمبر لند ن پہنچ کر سینٹ جیمز پیلس میں قیام کیا۔ یکم اکتوبر کو غلام رسول مہر بھی لندن پہنچ کر اقبال کے شریک سفر ہو گئے۔ ۷ اکتوبر۔ ایران کے سابق وزیر اعظم سید ضیاء الدین طباطبائی کی طرف سے منعقدہ ظہرانے میں شرکت۔ ۸ اکتوبر۔ عراقی سفارت خانے کے سیکرٹری افضل بے کی طرف سے منعقدہ ظہرانے میں شرکت۔ ۹ اکتوبر۔ البانیہ کے سفیر اور مسٹر و مسز پنکہرڈ کی دعوتوں میں شریک ہوئے۔ ۱۰ اکتوبر۔ ہندوستانی اکابر کے ہمراہ ایک دعوت میں شریک ہوئے۔ ۱۱ اکتوبر۔ ووکنگ کی شاہ جہاں مسجد دیکھنے گئے۔ ۱۲ اکتوبر۔ سر ڈینی راس ملاقات کے لیے آئے۔ ۱۴ اکتوبر ۔ رٹز ہوٹل میں ہندوستانی وفد کے اعزاز میں دی جانے والی دعوت میں شرکت۔ ۱۶ اکتوبر۔ افغان کونصل خانے میںنادر شاہ کی تاج پوشی کی سالگرہ میں شریک ہوئے۔ غازی رئوف بے اور سعید شامل نے علامہ اقبال سے ملاقات کی۔ ۲۳ اکتوبر۔ نیشنل لیگ آف انگلیند کی صدر مس مارگریٹ فارقوہرسن کی دعوت میں شرکت۔ ۴ نومبر۔ انڈیا سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک علمی اجلاس سے خطاب کیا۔ ۱۸ نومبر۔ کیمبرج پہنچے۔ اپنے اساتذہ پروفیسر سارلے اور پروفیسر ڈکنسن سے ملاقاتیں کیں۔ اپنے اعزاز میں ایک دیے جانے والے استبالیے میں شرکت۔ اقبال لٹریری ایسوسی ایشن کی طرف سے منعقدہ ایک استقبالیے میں شرکت۔ ۲۱ نومبر۔ ۲۸ ستمبر سے ۲۰ نومبر تک گول میز کانفرنس کی کارروائیوں میں شریک ہونے کے بعد لندن سے روانہ ہوئے۔غلام رسول مہر بھی شریک سفر تھے۔ پیرس میں چند گھنٹے رکے دسردا رامرائو سنگھ اور اقبال شیدائی سے ملاقات ہوئی۔ ۲۲ نومبر۔ روم پہنچے۔ ڈاکٹر سکارپا ۱؎ نے استقبال کیا۔ ۲۳ نومبر۔ روم میں آثار قدیمہ کی سیر کی۔ ۲۴ نومبر۔ اطالوی انسائیکلو پیڈیا کے دفتر میں گئے اور انسائیکلو پیڈیا کے ایڈیٹر پروفیسر جینٹلی سے ملاقات ہوئی۔ ۲۵ نومبر۔ افغانستان کے جلا وطن شاہ امان اللہ خان سے ملاقات ہوئی۔ ۲۶ نومبر۔ اٹلی کی رائل اکیڈمی میں لیکچر دیا۔ متن ملاحظہ ہو بشیر احمد ڈار کی مرتبہ Letters and Writings of Iqbalصفحہ ۸۰ تا ۸۲ ۲۷ نومبر ۔ مسولینی پر ملاقات پر اسے نصیحت۔ یورپ سے منہ موڑ کر مشرق کا رخ کرو۔ یورپ کا اخلاق افسوس ہے ٹھیک نہیں لیکن مشرق کی ہوا تازہ ہے اس میں سانس لو۔ ۲۸ نومبر۔ نیپلز گئے اورپومپی آئی کے آثار دیکھے۔ ۲۹ نومبر۔ برنڈزی پہنچے۔ ۱؎ ہندوستان میں اٹلی کے ایک سابق قونصل جنرل اور اقبال کے مداح اٹلی کی رائل اکیڈمی نے انہی کے ایما پر اقبال کو اٹلی آنے کی دعوت دی۔ ۳۰ نومبر۔ روانگی از برانڈزی بذریعہ بحری جہاز وکٹوریہ۔ یکم دسمبر۔ آمد سکندریہ۔ انجمن شاہ المسلمین کے ارکان سے ملاقاتیں شام کو بذریعہ ریل قاہرہ پہنچے۔ میٹروپولیٹن ہوٹل میں قیام کیا۔ ۲ دسمبر۔ مصری علماء اور اکابر سے ملاقاتیں… اہرام مصر دیکھنے گئے۔ ۳ دسمبر۔ ڈاکٹر محمد حسین ہیکل اور دیگر مصری اکابر سے ملاقاتیں… متعدد دعوتوں میں شرکت۔ ۴ دسمبر۔ مصری عجائب گھروں مساجد اور آثار قدیمہ کی سیر کی۔ ۵ دسمبر ۔ قاہرہ سے روانگی بذریعہ ریل ۶ دسمبر۔ بیت المقدس پہنچے۔ گرانڈ ہوٹل میں قیام کیا۔ موتمر عالم اسلامی کے افتتاحی اجلاس میں تقریر۔ ۷ دسمبر ۔ موتمر کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ ۱ دسمبر۔ پورا ہفتہ موتمر کی کارروائیوں میں شریک رہے۔ مقامات مقدسہ کی زیارت کی موتمر میں آخر ی تقریر کی اپنے وطنوں کو واپس جائو تو روح اخوت کو ہر جگہ پھیلا دو اور نوجوانوں پر خاص توجہ دو۔ ۱۵ دسمبر۔ بیت المقدس سے روانگی … پورٹ سعید پہنچے۔ ۱۷ دسمبر۔ پلسنا بحری جہاز سے روانگی برائے ہندوستان۔ ۲۸ دسمبر۔ بمبئی پہنچے دارالخلافت میں آرام کیا۔ شام کو ایوان رفعت میں عطیہ فیضی سے نصب گھنٹے کی ملاقات کے بعد ریل سے روانگی… ۲۹ دسمبر۔ دہلی پہنچے۔ ۳۰ دسمبر۔ صبح آٹھ بجے لاہور پہنچے۔ سفر فلسطین میری زندگی کا نہایت یادگار واقعہ ثابت ہوا ہے۔ ۱۹۳۲ء ۷ جنوری ۔ روانگی از لاہور ۸ جنوری۔ آمد دہلی… اسی شام کو روانگی برائے لاہور۔ ۹ جنوری۔ آمد لاہور۔ یکم مارچ۔ ٹائون ہال لاہور کے باغ میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سیکرٹری خواجہ عبداالوحید کے زیر اہتمام منعقدہ ایک استقبالیے میں شرکت۔ ۶ مارچ ۔ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لاہور کے زیر اہتمام وائی ایم سی اے ہال میں پہلا یوم اقبال منایا گیا۔ ۲۱ مارچ۔ باغ بیرون موچی دروازہ میں منعقدہ آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اجلاس میں صدارتی خطبہ ۲۰ جون۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت سے مستعفی ہو گئے۔ اگست۔ مولانا انور شاہ کاشمیری ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ ۷ اکتوبر۔ تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور سے روانگی۔ ۲۴ نومبر ۔ نیشنل لیگ کی طرف سے علامہ اقبال کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا۔ ۳۰ دسمبر ۔ کانفرنس کی کارروائیوں میں شرکت کے بعد لندن سے روانگی۔ جاوید نامہ کی اولیں اشاعت ۱۹۳۳ء پیرس میں برگساں سے ملاقات ۔ جنوری۔ پہلے ہفتے میں ہسپانیہ پہنچے۔ مسجد قرطبہ کی زیارت کی ۔ مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت تک پہنچا دیا جو مجھے پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۔ (مکتوب بنام شیخ محمد اکرام)۔ ۲۴ جنوری۔ میڈرڈ یونیورسٹی میں The Intellectual World of Islam and Spain کے موضو ع پر تقریر۔ ۲۶ جنوری۔ پیرس پہنچے۔ یکم فروری۔ پیر س سے روانگی فروری۔ آمد لاہور ۱۷ مارچ۔ لاہور سے روانگی ۱۸ مارچ۔ آمد دہلی… جامعہ ملیہ دہلی میں علامہ اقبال کی صدارت میں جلسہ ہوا۔ غازی رئوف پاشا کی تقریر لاہور واپسی ۱۴ اپریل۔ لاہور سے روانگی ۱۵ اپریل ۔ آمد دہلی… جامعہ ملیہ دہلی میں تقریر… پروفیسر محمد مجیب کی دعوت میں شرکت۔ لاہور واپسی ۲۰ اکتوبر۔ نادر شاہ کی دعوت پر سہ رکنی وفد علامہ اقبال۔ سید سلیمان ندوی راس مسعود کے ایک ممبر کی حیثیت سے افغانستان کے سفر پر روانہ ہوئے ۔ بیرسٹر غلام رسول علامہ کے سیکرٹری اور علی بخش ملازم کی حیثیت سے شریک سفر تھے۔ ۲۳ اکتوبر۔ کابل پہنچ کر شاہی مہمان خانے درالامان میں قیام کیا۔ نادر شاہ سے ملاقات۔ ۲۶ اکتوبر۔ صدر اعظم سردار ہاشم کی دعوت میں شرکت ۲۷ اکتوبر۔ جامع مسجد پل خشتی میں نماز جمعہ ادا کی۔ ملا شور سے ملاقات۔ ۲۸ اکتوبر۔ وزیر جگ شاہ محمود خاں کی دعوت چائے میں شرکت… انجمن ادبی کابل کی طرف سے منعقدہ استقبالیے میں تقریر۔ ۲۹ اکتوبر۔ وزیر خارجہ سردار فیض محمد خاں سے ملاقات ۳۰ اکتوبر۔ روانگی از کابل… غزنین پہنچ کر حکیم سنائی محمود غزنوی اور داتا گنج بخش کے والد گرامی کے مزارات پر فاتحہ پڑھی۔ ۳۱ اکتوبر۔ غزنین سے روانگی… آمد قلات غزنی یکم نومبر۔ قلات غلزئی سے روانہ ہو کر قندھا رپہنچے۔ ۲ نومبر۔ قندھار سے روانہ ہو کر براستہ ؤچمن کوئٹہ پہنچے۔ ۳ نومبر۔ کوئٹہ سے بذریعہ ریل روانہ ہو کر شام لاہور پہنچے ۴ دسمبر۔ پنجاب یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ اقبا ل پہلے ہندوستانی تھے جنہیں یہ ڈگری دی گئی۔ ۱۹۳۴ء ۱۰ جنوری۔ بروز عید الفطر… شدید سردی میں سویوں پر دہی ڈال کر کھایا۔ گلا بیٹھ گیا۔ طویل علالت کا آغاز ۶ اپریل۔ مکتوب بنام ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہ حیدر آبادی انشاء اللہ اگلے سال لندن جائوں گا ۱۱جون۔ حکیم نابینا سے علاج کرانے دہلی گئے ۱۲ جون۔ آمد لاہور ۲۹ جون۔ جاوید اقبال کو لے کر سر ہند شریف گئے۔ ۳۰ جون۔ لاہور واپسی یکم جولائی۔ انجمن حمایت اسلام کے صدر منتخب ہوئے ۱۴ جولائی۔ انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کے اجلاس میں شرکت ۳۰ اگست۔ انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کے اجلاس میں شرکت ۵ دسمبر۔ سر تیج بہادر سپرد ملاقات کے لیے آئے ۲۱ دسمبر۔ لاہور سے روانگی ۲۲ دسمبر۔ دہلی پہنچے اور اسی روز علی گڑھ چلے گئے ۵ ۲ دسمبر۔ واپسی لاہور۔ ۱۹۳۵ء جنوری۔ بال جبریل کی اولین اشاعت ۲۹ جنوری۔ بھوپال میں برقی علاج کے لیے لاہور سے روانہ ہوئے ۳۰ جنوری۔ آمد دہلی… جامعہ ملیہ دہلی میں بصدارت علامہ اقبال خالدہ ادیبہ خانم کی تقریر… اسی شام دہلی سے روانگی ۳۱ جنوری۔ بھوپال پہنچ کر ریاض منزل میں قیام کیا۔ …برقی علاج جاری رہا ۷ مارچ۔ بھوپال سے روانگی ۸ مارچ۔ آمد دہلی ۹ مارچ۔ روانگی از دہلی ۱۰ مارچ۔ لاہور آمد نواب حمید اللہ خاں والی بھوپال نے پانچ سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کیا۔ ۱۱ مئی۔ مکتوب بنام لمعہ: آپ کے ایما پر ٹیگور میری مزاج پرسی کے لیے لاہور آئے تھے مگر میں لاہور میں موجود نہ تھا۔ اس لیے ملاقات نہ ہو سکی۔ ذاتی مکان جاوید منزل واقع میو روڈ حال علامہ اقبال روڈ میں منتقل ہو گئے۔ ۲۳ مئی۔ علامہ اقبال کی اہلیہ (والد ہ جاوید اقبال) کا انتقال ۷ جولائی۔ مکتوب بنام لمعہ: میری صحت ٹھیک ہے مگر روز بروز انحطاط محسوس کر رہا ہوں۔ ۱۵ جولائی۔ بھوپال میں برقی علاج کے دوسرے کورس کے لیے لاہور سے روانگی… جاوید اور علی بخش بھی شریک سفر تھے۔ ۱۶ جولائی۔ دہلی سے ہوتے ہوئے ۱۷ جولائی۔ بھوپا ل پہنچے اور شیش محل میں قیام کیا …برقی علاج ہوتا رہا ۲۸ اگست۔ روانگی از بھوپال ۲۹ اگست۔ دہلی سے ہوتے ہوئے ۳۰ اگست۔ لاہور پہنچے ۲۵ اکتوبر۔ حالی کے صد سالہ جشن ولادت میں شرکت کے لیے پانی پت پہنچے۔ جاوید اقبال نذیر نیازی چوھدری محمد حسین اور راجہ حسن اختر بھی شریک سفر تھے ۲۶ اکتوبر۔ نواب بھوپال کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں شرکت ۱۱ دسمبر۔ مکتوب بنام راس مسعود: نواب صاحب بھوپال نے جو رقم میرے لیے مختص فرمائی ہے وہ میرے لیے کافی ہے… ضرورت سے زیادہ کی ہوس روپیہ کا لالچ ہے جو کسی طرح بھی مسلمان کے شایان شان نہیں ہے مجھے اس رقم ۱؎ کو قبول کرتے ہوئے حجاب آتا ہے۔ ۱؎ سر آغا خاں نے اقبال کا وظیفہ مقرر کرنے کی پیش کش کی تھی اس کی طرف اشارہ ہے۔ ۱۹۳۶ء ۲۹ فروری۔ بھوپال میں برقی علاج کے تیسرے کورس کے لیے لاہور سے روانگی۔ یکم مارچ۔ دہلی سے ہوتے ہوئے ۲ مارچ۔ بھوپال پہنچے ۔ شیش محل میں قیام کیا۔ بھوپال میں برقی علاج جاری رہا۔ ۸ اپریل ۔ بھوپال سے روانگی ۹ اپریل۔ آمد لاہور ۱۲اپریل۔ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں آخر بار شریک ہو کر نظم نغمہ سرمدی پڑھی۔ اپریل۔ قائد اعظم نے لاہور پہنچ کر علامہ اقبا ل سے ملاقات کی۔ علامہ اقبال پنجاب مسلم لیگ کے صدر مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۷ء ۱۵ جنوری۔ مکتوب بنام راس مسعود: امسال دربار حضورؐ میں حاضری کا قصدتھا مگر بعض موانع پیش آ گئے انشاء اللہ امید ہے کہ سال آئندہ حج کروں گا اور دربار رسالت میں بھی حاضری دوں گا۔ ۲۷ جنوری۔ علامہ اقبال نے مصری علماء کے وفد کے اعزاز میں سپنسر ہوٹل ۶ منٹگمری روڈ میں کھانے کی دعوت دی۔ ۲۸ اپریل۔ انجمن حمایت اسلام کے صدر منتخب ہوئے ۱۳ جون۔ مکتوب بنام سر اکبر حیدری: تنہا خواہش جو ہنوز میرے جی میں خلش پیدا کرتی ہے یہ رہ گئی ہے کہ اگر ممکن ہو سکے تو حج کے لیے مکہ جائوں اور وہاں سے اس ہستی کے مزار پر حاضری دوں جس کا ذات الٰہی سے بے پایاں شغف میرے لیے وجہ تسکین اور سرچشمہ الہام رہا ہے۔ یکم جولائی۔ علالت کے سبب انجمن کی صدارت سے استعفا دے دیا۔ ۲ دسمبر۔ مکتوب بنام سید میراں شاہ: الحمد للہ کہ آپ خیریت سے ہیں اور حج کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ خدا تعالیٰ آپ کو یہ سفر مبارک کرے… کاش میں بھی آپ کے ساتھ چل سکتا لیکن افسوس ہے کہ جدائی کے آیام ابھی کچھ معلوم ہوتے ہیں میں تو اس قابل نہیں ہوں کہ حضورؐ کے روضہ مبارک پر یاد بھی کیا جا سکوں۔ ۱۹۳۸ء یکم جنوری : سال نو کا ریڈیائی پیغام: آج زمان و مکان کی تمام پہنائیاں سمٹ رہی ہیں…} لیکن تمام ترقی کے باوجود اس زمانہ میں ملوکیت کے جبر و استعداد نے جمہوریت اشترایت فسطائیت اورنہ جانے کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں۔ ان نقابوں کی آڑ میں دنیا بھر میں قدر حریت اور شرف انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہو رہی ہے کہ تایخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال نہیں پیش کر سکتا… ہمیں نئے سال کی ابتدا اس دعا کے ساتھ کرنی چاہیے کہ خداوند کریم حاکموں کو انسانیت اور نوع انساں کی محبت عطا فرمائے۔ ۹ جنوری: انٹر کالجیٹ برادر ہڈ کے زیر اہتمام لاہور میںیوم اقبال منایا گیا۔ ۱۶ فروری: مکتوب بنام ڈاکٹر مظفر الدین: حیدری صاحب نے مجھے ایک مزید عنایت یہ کی کہ وہ یہ کہ اقبال ڈے کے موقع پر حضور نظام کے توشہ خانہ سے بھی ایک ہزار روپیہ عطا فرمایا مگر افسوس کہ میں اس عطیے کو قبول نہ کر سکا۔ ۲۱ اپریل۔ جاوید منزل میں صبح سواپانچ بجے خالق حقیقی سے جا ملے۔ نومبر۔ آخری شعری مجموعہ ارمغان حجاز کی اولین اشاعت ۱۹۵۰ء فروری۔ نواب زین جنگ بہادر کے نقشے کے مطابق مزار اقبال کی تعمیر مکمل ہوئی۔ ۱۹۶۰ء ۲۱ اپریل۔ ٹویو یونیورسٹی ٹوکیو کی طرف سے وفات ایمریطس ڈاکٹر آف لٹریچر کی ڈگری عطا ہوئی۔ ۱۹۷۷ء حکومت پاکستان نے ۱۹۷۷ء کو سال اقبال قرار دے کر صد سالہ جشن ولادت علامہ اقبال منانے کا اعلان کیا۔ نقوش کے اقبال نمبر کی اشاعت۔ ٭٭٭ حیات اقبال (وطن ‘ اسلاف‘ پیدائش ‘ تعلیم‘ ملازمت) پروفیسر عبدالقوی دسنوی کشمیر کی سر زمین جنت نظر کو یہ فخر ہمیشہ رہے گا کہ اس کی آب و گل نے ایک ایسے برہمن خاندان کی پرورش کی ہے جس کو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے اسلاف ہونے کا حق حاصل ہے۔ اور جس کی وجہ سے اس خاندان کا احترام اہل شرق اور غرب کی نگاہوں میں بڑھتا رہے گا۔ خود علامہ اقبال کو بھی اپنے کشمیری اور برہمن زادہ ہونے پر ناز تھا جس کا اظہار اس نے اس طر ح کیا ہے: تنم گلے ز خیابان جنت کشمیر دل از حریم حجاز و نواز شیر از است اسی برہمن خاندان کے ایک فرد نے اسلام قبول کیا اور صالح نام رکھا۔ انہیں صالح کی اولاد میں سے ایک فرد شیخ محمدرفیق نے بعض حالات سے مجبور ہو کر کشمیر سے ہجرت کی اور سیالکوٹ اپنے رہنے سہنے اور زندگی گزارنے کے لیے منتخب کیا۔ یہی محمد رفیق شاعر مشر ق علامہ اقبال کے دادا تھے جن کے اس فیصلہ نے سیالکوٹ کو خطہ کشمیر کا ہم مرتبہ بنا دیا۔ شیخ محمد رفیق کی کوئی اولاد زندہ نہ رہتی تھی اس لیے۔ ’’شیخ نور محمد کے پیدا ہونے سے پہلے اور بعد میں ان کے والدین نے وہ تمام رسوم ادا کیں جن کو صرف جہالت اور ضعیف الاعتقادی اور بے اولاد والدین کی ایک خاص اضطرابی کیفیت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے شیخ نور محمد کی پیدائش پر ان کی ناک چھید دی گئی اور ا س میں ایک چھوٹی سی نتھ پہنا دی گئی۔ گویا اپنے زعم میں قدرت کے سامنے لڑکے کو لڑکی بنا پر پیش کیا گیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ لڑکپن میں کئی سال تک نور محمد اس نتھ کو پہنے پھرتے رہے اس رعایت سے ان کا عرف نتھو پڑ گیا ۱؎‘‘۔ شیخ محمد رفیق کے بارے میں ہمارے محققین بہت زیادہ باتیں بتا سکے ہیں۔ لیکن شیخ نور محمد ۲؎ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آگے چل کر اسم بامسمیٰ ہوئے خلیفہ عبدالحکیم مصنف فکر اقبال نے ان سے ملاقات کی تھی چنانچہ وہ ان کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ۱؎ روزگار فقیر جلد اول صفحہ ۱۹۵۔۱۹۶ ۲؎ شیخ نور محمد نے طویل عمر پائی ان کا انتقال ۷ اگست ۱۹۳۰ء کو سیالکوٹ میں ہوا۔ روزگار فقیر جلد اول ص ۱۹۵ ’’راقم الحروف کو ان کے والد ماجد شیخ نور محمد صاحب سے ملنے کابھی اتفاق ہوا۔ جس زمانہ میں علامہ اقبال انارکلی میں رہتے تھے وہ دراصل اسم بامسمیٰ تھے نور محمد ان کے چہرے پر مجلی تھا۔ ایک محمدی کیفیت ان میں یہ بھی تھی کہ وہ نبی امی کی طرح نوشت و خواند کے معاملہ میں امی تھے وہ خدارسیدہ صوفی تھے ۱؎‘‘۔ اس بات پر سب متفق ہیں کہ شیخ نور محمد نہایت عبادت گزار خدا ترس پرہیز گار اور صوفی منش انسان تھے اور بزرگان دین کی طرح نہایت سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ قناعت پسندی کا یہ حال تھا کہ کپڑے سی کر گزر اوقات کرتے تھے۔ یا عورتوں کے برقعوں ۲؎ کی ٹوپیاں تیار کرتے تھے اور اسی مختصر آمدنی پر گزر بسر کرتے تھے ان کے بعض اس طرح کے واقعات مشہور ہیں: خلیفہ عبدالحکیم تحریر کرتے ہیں: ’’علامہ اقبال نے ایک روز ہم سے فرمایاکہ والد مرحوم کو غیر معمولی روحانی مشاہدات بھی ہوتے تھے۔ فرمایا کہ والدہ مرحومہ کا بیان ہے کہ اندھیری رات تھی اور کمرے میں چراغ روشن نہ تھا۔ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ تمام کمرہ روشن ہے۔ حالانکہ باہر چاندنی تھی اور نہ چراغ تھا ۳؎‘‘۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے اقبال کامل میں علامہ اقبال کی زبانی ایک واقعہ درج کیا ہے کہ جس سے ان کی اسلام سے محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے: ’’جب میں سیالکوٹ میں پڑھتا تھا تو صبح اٹھ کر روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کرتا تھا والد مرحوم اپنے اوراد و وظائف سے فرصت پا کر آتے اور مجھے دیکھ کر گزر جاتے اور ایک دن میرے پاس سے گزرے تو فرمایا کہ کبھی فرصت ملی تو میں تم کو ایک بات بتلائوں گا۔ بالآخرانہوںنے ایک مدت کے بعد یہ بات بتائی اور ایک دن صبح کو جب میں حسب دستور قرآن کی تلاوت کر رہا تھا۔ میرے پاس آئے اور فرمایا بیٹا یہ کہنا تھا کہ جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ یہ قرآن تم پر ہی اترا ہے یعنی اللہ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے۴؎‘‘۔ ڈاکٹر اکبر حسین قریشی اقبال کے والد کا ایک اور واقعہ اس طرح رقم طراز ہیں: ۱؎ فکر اقبال ص ۱۳ ۲؎ اقبال کی تاریخ ولادت از مالک رام تحریر دہلی جولائی ستمبر ۱۹۷۵ء ص ۴۳ ۳۔ فکر اقبال از خلیفہ عبدالحکیم ۱۴۔۱۵ ۴؎ اقبال کامل از عبدالسلام ندوی ص ۳۔۴ ’’اقبال نے اپنے والد کی خدا ترسی کا ایک واقعہ رموز بے خودی میں نہایت موثر طریقہ سے بیان کیا ہے کہ میں نے ایک سائل کو بری طرح ڈانٹا۔ والد سن رہے تھے انہوںنے اس دردانگیز طریقہ سے میری ا س درشتی پر سرزنش کی کہ اس کے بعد آج تک میں خبھی کسی سائل کے ساتھ کسی قسم کی سخت کلامی نہیں برت سکتا۱؎‘‘ یا علامہ اقبال سکاچ مشن کالج میں داخلہ لینے گئے تو ان کے والد نے ان سے عہد لیا کہ: ’’تم تعلیمی زندگی میں کامیاب ہونے کے بعد اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کر دو گے‘‘۲؎۔ ان تمام واقعات سے علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد کی بزرگی درویشی‘ خدا ترسی حق شناسی‘ انسانی دوستی اور اسلام سے والہانہ محبت کا پتا چلتا ہے۔ انہوںنے اپنی عبادت ریاضت اور صوفیانہ طبیعت ہی کی وجہ سے عارفانہ زندگی کے ایک خاص کماں کے درجہ کو پا لیا تھا شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے ایک شب خواب میں دیکھا: ’’… پہلی ہی ملاقات میں شیخ نور محمد صاحب نے اقبال کی پیدائش کا ایک دلچسپ قصہ مجھ سے بیان کیا۔ فرمانے لگے کہ اقبال ابھی ماں کے کے پیٹ میں تھا کہ میں نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت خوشنما پرندہ سطح زمین سے تھوڑی بلندی پر اڑ رہا تھا۔ اور بہت سے لوگ ہاتھ اٹھا کر اور اچھل اچھل کر اس کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ کسی کی گرفت میں نہیںآیا میں بھی ان تماشائیوں میں کھڑا تھا اور خواہش مند تھا کہ غیر معمولی جمال کا یہ پرندہ میرے ہاتھ آ جائے وہ پرندہ یک بیک میرے آغوش میں آ گرا۔ میں بہت خوش ہوا اور دوسرے منہ تکتے رہ گئے اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے اس خواب کی تعبیر القا ہوئی کہ پرندہ عالم روحانی میں میرا پیدا ہونے والا بچہ ہے جو صاحب اقبال ہو گا۳؎‘‘۔ شیخ نور محمد صاحب کے گھر اور خاندان میںاسی طرح کی مذہبی درویشانہ اور صوفیانہ زندگی‘ اور عقائد اور خیالات تھے مندرجہ بالا واقعات سے ان کے افکار اور ذہنی روکا پتا چلتا ہے۔ اسی فضا اور ماحول میں جس میں یہ خاندان پروان چڑھ رہا تھا علامہ اقبال ۹ نومبر ۱۸۷۷ء ۴؎ کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے گھر کے عارفانہ مزاج کے متعلق ایک اور جگہ کہتے ہیں: ۱؎ تلمیاعات و اشارات اقبال از اکبر حسین قریشی ص ۱۴ ۲؎ تلمیحات و اشارات اقبال از اکبر حسین قریشی ص ۱۵ ۳؎ فکر اقبال از خلیفہ عبدالحکیم ص ۱۴ ۴؎ اب تک علامہ اقبال کی صحیح تاریخ ولادت کا فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ مختلف تحریروں میں مختلف تاریخیں درج ہیں ملاحظہ کیجیے: (۱) شیخ محمد اقبال ام اے سابق پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور آپ کی ولادت ۱۸۷۰ء میں ہوئی۔ (لالہ سری رام خمخانہ جاوید حصہ اول ص ۳۶۹) (۲) علامہ سر محمد اقبال ۱۸۷۲ء میں بمقام سیالکوٹ میں پیدا ہوئے (خلیفہ عبدالحکیم آثار اقبال مرتبہ غلام دستگیر رشید ص ۱۷) ۳؎ اقبال خود سیالکوٹ میںپیدا ہوئے جہاں ان ے والد آ کر رہ گئے ولادت ۱۸۷۲ء میں ہوئی (عبدالقادر سروری آثار اقبال مرتبہ غلام دستگیر رشید ص ۱۰۶ء ) (بقیہ حاشیہ آئندہ صفحہ) جس گھر کا مگر چراغ ہے تو ہے اس کا مذاق عارفانہ علامہ اقبال کی والدہ امام بی بی بھی نیک طبیعت عبادت گزار پرہیز گار اور سادہ مزاج تھیں علامہ کی تربیت دیکھ دیکھ کر اور ذہنی نشوونما میں ان کی پاکیزہ اور حسن سیرت کا بڑا اثر پڑ ا ہے چنانچہ اس کا اعتراف جس طرح سے علامہ اقبال نے اپنی والدہ کی وفات ۹ نومبر ۱۹۱۴ء عمر ۷۸ سال پر اپنی طویل اور عظیم نظم والدہ مرحومہ کی یاد میں میں کیا ہے اردو میں اس کی مثال نہیں ملتی اس نظم کا ہر شعر رعلامہ کے سچے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) (۴) علامہ اقبال کی ولادت ۲۴ ذوالحجہ ۱۲۸۹ھ مطابق فروری ۱۸۷۳ء کو ہوئی۔ (عبدالمجید سالک ذکر اقبال ص ۱۔نزیر احمد کلید اقبال ص ۱۷) (۵) علم و ادب کا یہ درخشندہ ستارہ ۱۸۷۳ میں آصمان سیالکوٹ میں جلوہ گر ہوا۔ (یادگار اقبال مرتبہ سید محمد طفیل احمد بدر امروہوی ص ۱۸) (۶) اقبال اصلاً کشمیری برہمن تھے یعنی خالص آریائی نژاد ۔ ان کی ولادت ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء ہے (سید عابد عی عابد شعر اقبال ص ۶۵) (۷) اقبال ۱۸۷۳ء میں پیدا ہوئے۔ اس وقت پنجاب میں انگریزی حکومت نئی نئی تھی۔ (عنایت اللہ حیات اقبال) (۸) لیکن ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کی تاریخ بھی جو سالک نے سیالکوت میونسپل کمیٹی کے رجسٹر سے دیکھ کر لکھی تی ٹھیک نہیں صحیح تاریخ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ ہے جو اس کے بعد ہی دوسرے لڑکے کی تاریخ ولادت ہے۔ (مالک رام۔ اقبال کی تاریخ ولادت۔ تحریر دہلی جولائی ستمبر ۱۹۷۵ء ص ۴۵) (۹) … سچ یہی ہے کہ جسٹس کمیٹی کا ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کی بنیاد پر دسمبر ۱۸۷۳ء سے جشن صد سالہ اقبال کے طور پر سال ولادت منانے کا پروگرام ہی درست تھا۔ (ڈاکٹر نظیر صوفی علامہ اقبال کی صحیح تاریخ ولادت کیا ہے۔ تحریر جولائی ستمبر ۷۵ء ص ۵۴) (۱۰) Born in Sialkot on 22nd February 1873. Iqbal was education at marray college sialkot and Govt. College Lahore. (Muhammad Sadique A History of Urdu Literature P357) (۱۱)۔ Iqbal was born at Sialkot in the Punjab on February 22 1873 (Syed Abdul Wahid Iqbal His art and thought page 3) (۱۲)۔ اقبال ۱۸۷۵ء میں بمقام سیالکوٹ میں اپنے خوس نصیب والدین کے ہاں پیدا ہوئے۔ (کشمیری میگزین اپریل ۱۹۰۹ء انوار اقبال مرتب بشیر احمد ڈار ص ۷۹۔۸۰) (۱۳)۔ اللہ نے اس کام کے لیے اقبال کو ہندوستان میں ۱۸۷۵ء میں پیدا کیا۔ (محمد حسنین بی اے جامعہ اقبال کا نام اور کام یا د اقبال مرتبہ چودھری غلا م سرور فگار) (بقیہ حاشیہ صفحہ آئندہ) چند شعر یہاں درج کیے جاتے ہیں تاکہ اقبال اور ان کی والدہ کو سمجھنے میں مدد ملے مرحومہ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں : کس کو اب ہو گا وطن میں آہ میرا انتظار کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بیقرار خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آئوں گا اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آئوں گا تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا گھر میرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی میں تیری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی …… …… …… …… …… …… دام سیمین تخیل ہے مرا آفاق گیر کر لیا ہے جس سے تیری یاد کو میں نے اسیر یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے جیسے کعبے میں دعائوں سے فضا معمور ہے …… …… …… …… …… …… زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا! آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے! سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے! محمد اقبال کو علامہ سر ڈاکٹر محمد اقبال تک پہنچے میں ان کے گھر کے اس ماحول نے بڑا کام کیا ۔ پھر تعلمی راہ میں گہرا نقش جس استاد نے چھوڑا اور علامہ اقبال کی تعمیر میں حصہ لیا وہ بھی اسی طبیعت اور انداز فکر کے مالک تھے چنانچہ ابتدائی تعلیم سے ہی وہ اس راہ پر مضبوطی سے چل نکلے۔ (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) (۱۴)۔ تقویم عیسویں کا ایک ہزار آٹھ سوپچھترواں سال تھا کہ مردم خیز خطہ پنجاب کے شہر سیالکوت میں اقبال کی ولادت ہوئی۔ (محمد عبدالرزاق علیگ ۔ دیباچہ کلیات اقبال مطبوعہ ۱۳۴۳ھ) (۱۵) اقبال سیالکوت میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد نے کشمیر سے آ کر بودوباش اختیار کر لی تھی ان کی ولادت ۱۸۷۵ء میں ہوئی۔ (عبدالقادر سروری جدید شاعری ص ۱۵۷) (۱۶)۔ سال ولادت ۱۸۷۵ء اور مقام ولادت سیالکوٹ ملک پنجاب ہے۔ (رام بابو سکسینہ۔ ڈاکٹر اقبال ضمیمہ تاریخ ادب اردو ص ۱۸۶ ترجمہ عسکری) (۱۷)۔ ڈاکٹر صاحب (اقبال) اسی سال سیالکوٹ میں ۱۸۷۶ء میں پیدا ہوئے (عبدالسلام ندوی اقبال کامل ص ۳) (۱۸)۔ سر شیخ محمد اقبال ۱۸۷۶ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ (سید بہاء الدین احمد۔ گلستان ہزار رنگ ص ۵۱۶) (۱۹)۔ آپ ۱۸۷۶ء میں بمقام سیالکوٹ میںپیدا ہوئے۔ (منشی محمد دین فوق ڈاکٹر سر محمد اقبال نیرنگ خیال اقبا ل نمبر ستمبر اکتوبر ۱۹۳۲ء ص ۲۵) جب ذرا بڑے ہوئے اور مکتب میں بیٹھنے کے لائق ہوئے تو عام مسلمان بچوں کی طرح ان کی بھی مکتبی تعلیم شروع ہوئی۔ پہلے استاد ۱؎ غلام حسین تھے جو سیالکوٹ کے محلہ شوالہ کی مسجد میں خطیب او رامام تھے۔ مولوی وحید الدین فقیر بیان کرتے ہیں: ’’ایک دن مولوی میر حسن صاحب مولوی غلام حسین سے ملنے کے لیے گئے غلام حسین صاحب مکتب میں بچوں کو پڑھا رہے تھے۔ مولوی میر حسن کی نظر اقبال پر پڑی اور پہلی نگاہ میںہی میں انہوںنے محسوس کیا: بالائے سرش ز ہوش مندی می تافت ستارہ بلندی مولوی غلام حسین سے انہوں نے پوچھا کہ یہ بچہ کس کا ہے اور اس کا کیا نام ہے؟ مولوی غلام حسین نے جواب دیا یہ شیخ نور محمد کا لڑکا محمد اقبال ہے اس واقعہ سے ایک دو دن بعد مولوی میر حسن کی ملاقات شیخ نور محمد سے ہوئی انہوں نے شیخ صاحب سے کہا کہ آپ اپنے لڑکے کو شوالہ کے مکتب میں پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں۔ اب اسے آپ میرے پاس بھیجیں میں اسے پڑھائوں گا۔ شیخ نور محمد مولوی صاحب کا بڑا احترام کرتے تھے۔ چنانچہ انہوںنے اقبال کو مولوی غلام حسین کے یہاں سے اٹھا لیا شوالہ کے مکتب میں جانا موقوف ہو گیا۔ اور اب وہ مولوی میر حسن ۲؎ کے یہاں پڑھنے کے لیے جانے لگے۔ ۱؎ روزگار فقیر حصہ اول ص ۲۱۰ ۲؎ عبدالمجید سالک لکھتے ہیں… اقبال انہیں بچوں میں سے تھے جن کو مولانا سید میر حسن اہ جیسا مجمع البحر ین استاد مل گیا تھا اور اسی استاد نے حقیقت میں اقبال کو اقبال بنا دیا…(ذکر اقبال ص ۲۷۳) مولانا سید میر حسن کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ بڑے روشن خیال عالم تھے اسی وجہ سے سر سید سے ا ن کے بڑے گہرے تعلقات تھے چنانچہ اس تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے شیخ آفتاب احمد لکھتے ہیں: سر سید مرحوم سے پہلی مرتبہ ملاقات ۱۸۷۷ء میں ہوئی دونوں کے تعلقات دوستانہ قائم ہو گئے اور جو اول الذکر کے سفر آخرت اختیار کرنے تک قائم رہے۔ سر سید کی زندگی میں اس کے بعد کوئی ایسا سال نہ تھا کہ جب مولوی صاحب مرحوم سر سید مغففور کی دعو ت پر محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں شریک نہ ہوئے ہوں ۔ سید کے اس دعوے ولے بریاں ز عشق مصطفے دارم کا بہترین ثبوت وہ واقعہ ہ جس کے مولوی صاحب مرحوم عینی شاہد تھے سرسید مرحوم کی زندگی کے آخری دن تھے۔ مولوی صاحب کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کے لیے علی گڑھ میں تشریف فرما تھے۔ رات کودیر تک کسی اہم مسئلہ کے متعلق گفتگو ہوتی رہی اور پھر دونوں بزرگ سو گئے۔ آدھی رات کے وقت مولوی صاحب کی آنکھ کھلی تو سرسید والے پلنگ کو خالی پایا۔ مولوی صاحب کو کچھ تردد ہوا باہر نکل کر دیکھا توسرسید برآمدہ کے ایک کونے میں کھڑے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے دعا کر رہے تھے کہ خدا ان کی قوم کو گمراہی کی طرف سے بچائے اور ترقی کی طرف لائے اس نیک مرد کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ سرسید کے اس اخلاص کا مرحوم پر اس قدر اثر ہوا کہ تادم مرگ ان کے مداح رہے سرسید کی وفات کے بعد ان کی سالگرہ کے دن حیات جاوید کامطالعہ کیا کرتے اور یہ طریقہ وفات تک جاری رہا۔ (شیخ آفتاب احمد علامہ اقبال کے استاد۔ نیرنگ خیال اقبال نمبر ستمبر اکتوبر ۱۹۳۲ء ص ۷۲) عمر کر یہ وہ زمانہ تھا جس میں اقبال کو بٹیریں اور کبوتر پالنے کا بہت شوق تھا اور اکھاڑے میں ورزش سے بھی بڑی دلچسپی تھی اور ان کے یہ تمام شوق اس وقت بھی قائم رہے جب وہ مولانا میر حسن کے یہان مکتبی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ عبدالمجید سالک رقمطراز ہیں : ’’بچپن میں اقبال کو بٹیریں پالنے کا اور کبوتر اڑانے کا اور اکھاڑے میں ورزش کرنے کا بہت شوق تھا۔ مولانا میر حسن کے صاحبزادے سید محمد تقی ان مشاغل میں ان کے شریک تھے اور مولانا میر حسن بھی منع نہ کرتے تھے۔ بلکہ ایک دفعہ مولانا نے دیکھا کہ اقبال سبق پڑھ رہے تھے اور ایک ہاتھ میں بٹیر تھام رکھی ہے آپ نے فرمایا کم بخت اس میں تجھے کیا مزہ ملتا ہے و اقبال نے برجستہ جواب دیا حضرت ذرا اسے پکڑ کر دیکھیے۔ لال پہلوان لالو جو اقبال کے بچپن کے دوست ہیں ان کی کبوتر بازی کے قصے سناتے ہیں ۱؎‘‘۔ مولانا میر حسن کی تعلیم کا انداز بالکل مختلف تھا۔ وہ عام روش سے ہٹ کر درس اس طرح دینا چاہتے تھے کہ طالب علم کو زبان و ادب سے دلچسپی پیدا ہو اور وہ اس زبان و ادب کی اہمیت اور قدر و قیمت سے آگاہ ہو۔ چنانچہ سید عابد علی عابد تحریر کرتے ہیں: ’’… میر حسن شاہ نے جب اقبال کو گلستاں‘ بوستاں‘ سکندر نامہ ‘ انوار سہیلی اور ظہوری کی تصانیف پڑھائیں تو رسمی انداز تدریس سے قطع نظر کر کے یہ کوشش کی کہ اقبال کے دل میں فارسی ادب کا احترام پیدا ہوجائے اور نتیجتاً اس ذوق سلیم کی تربیت ہو جس کے بغیر مطالعہ بیکار اور بے ثمرہ ہو جاتا ہے ‘‘ ۲؎ اقبال مولانا میر حسن شاہ سے تعلیم حاصل کرتے رہے لیکن کبھی کبھی مولانا غلام حسین کے یہاں بھی چلے جاتے تھے پھر میر حسن شاہ ہی کی خواہش سے اقبال کے والد نے ان کا داخلہ سکاچ مشن ہائی سکول میں سیالکوٹ میں کرا دیا جہاں شاہ صاحب بعد میں خود مدرس ہو گئے تھے یہاں اقبال نے ان سے دینی تعلیم حاصل کرنے کا بھی سلسلہ جار ی رکھا۔ اور مدرسہ کی تعلیم میں بھی پیش پیش رہے انہوںنے ۱۸۸۷ میں پرائمری اور ۱۸۹۰ء میں مڈل اور ۱۸۹۲ء میں ۳؎ انٹرنس کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اور وظیفہ کے حقدار ہوئے۔ اسی دوران میں اس سکول میں انٹرمیڈیٹ کی تعلیم بھی شروع ہو گئی۔ اور اس کا نام سکاچ مشن کالج پر گیا۔ چنانچہ اقبال کے ایف اے کی تعیم یہیں سے حاصل کی اور امتحان میں کامابی کے بعد لاہور چلے آئے اور اس لیے کہ اس وقت تک سکاچ مشن کالج میں بی اے کے کلاسیز نہیں کھلے تھے یہاں انہوںنے گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے میں داخلہ لیا۔ سیالکوٹ کے زمانہ قیام میں اقبال نے میرحسن شاہ سے تعلیم کا سلسلہ جار ی رکھا اور ہر طرح وہ ان سے فیض اٹھاتے رہے۔ دراصل مولانا میر حسن شاہ عربی پنجابی اور اردو کے بہت بڑے عالم تھے اسلامیات پر گہری نظر رکھتے تھے ادبیات لسانیات ریاضیات اور تفسیر قرآن کے بھی بڑے ماہر تھے ۴؎ ۔ وہ عام مذہبی لوگوں کی طرح خشک مزاج نہ تھے۔ بلکہ اس قدر خوش مزاج مجسم اخلاق اور وسیع قلب و نظر کے مالک تھے کہ دوسرے مذاہب کے طلبہ اور اساتذہ بھی ان سے متاثر رہتے تھے اور ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ ان کی زندگی لیکن پرکشش تھی اردو فارسی کے بے شمار شعر زبان رپ رہتے تھے جس کا عام اثر یہ ہوتا تھا کہ جو طالب علم ان کے قریب آتے تھے انہیں بھی اردو فارسی کا وہی ذوق پیدا ہو جاتا تھا ۔ ۱؎ ذکر اقبال از عبدالمجید سالک ص ۱۲ ۲؎ شعر اقبال از عابد علی عابد ص ۶۶ ۳؎ روزگار فقیر میں ۱۸۹۳ء درج ہے۔ ۴؎ ذکر اقبال ص ۲۷۴ علامہ اقبال بھی متاثر ہوئے انہیں بھی اپنے استاد کی طرح فارسی کے سیکڑوں شعر یاد ہو گئے تھے۔ انہوںنے علامہ اقبال کو عربی فارسی اور اردو کے علاوہ علم و حکمت اور تصوف سے بھی روشناس کرایا اور اسلامیات سے ایسی رغبت پیدا کر دی کہ پھر ساری زندگی اس کی محبت میں سرشار رہے۔ مولانا میر حسن درسی تعلیم سے ہٹ کر طلبہ کو اس انداز سے تربیت دیتے تھے کہ عملی زندگی میں وہ حیات اور اس کے راز ہائے سربستہ کو سمجھ سکیں۔ اور کامیابی کے ساتھ اسے برتا سکیں۔ اور اعتماد اور یقین کے ساتھ اسے خوب سے خوب تر بنانے کی سعی کر سکیں۔ چنانچہ علامہ اقبال بھی ان کی تعلیم و تربیت سے اچھی طرح فیض یاب ہوئے جس کا احساس خود علامہ کو ہمیشہ رہا۔ وہ ساری زندگی اپنے استاد کی شفقت محبت اور قابلیت اور نیک نفسی کی تعریف کرتے رہے ۱؎ ۔ سید عبداللہ سے ڈاکٹر اقبال کا یہ کہنا : ’’عبداللہ جی یورپ کا کوئی ایسا بڑا عالم یا فلسفی نہیں ہے Oriental and Accidentalمستشرق یا مستغرب ہے جس سے میں نہ ملا ہوں یا کسی نہ کسی موضوع پر بے جھجک بات نہ کی ہو۔ لیکن نہ جانے کیا بات ہے کہ شاہ جی (میر حسن شاہ) سے بات کرتے ہوئے میری قوت گویائی جواب دے جاتی ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے کسی بھی نقطہ نظر سے مجھے اختلاف ہوتا ہے لیکن دل کی یہ بات بہ آسانی زبان پر لا نہیں سکتا‘‘۔ بھی اس کی مثال ہے جس سے استاد اور شاگرد دونوں کے تعلق اور اعلیٰ صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہ۔ علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم التجائے مسافر میں بھی اپنے استاد سے متعلق نہایت عقیدت اور احترام کے جذبات کا اظہار کیا ہے ملاحظہ کیجیے: وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجھ کو نفس سے جس کی کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو دعا ہے کہ خداوند آسماں و زمیں کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو ایک اور جگہ اپنے محترم استاد سے فیض اٹھانے کا اس طرح اعتراف کرتے ہیں: مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے پہلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں یہ استاد کے لیے عقیدت و محبت اور احترام کاجذبہ ہی تھا کہ جب گورنر پنجاب میکلیگن نے علامہ سے دریافت کیا: ’’… آپ کی نظر میں اس وقت کوئی شخص شمس العلماء کے لیے موزوں ہے؟‘‘ تو علامہ نے جواب دیا: ’’میں ایک شرط پر نام پیش کرنے کو تیار ہوں کہ صرف اسی نام کو پیش نظر رکھا جائے کسی دوسرے نام کو سفارش میں شریک نہ کیا جائے میکلگین نے کسی قدر تامل کے بعد شرط قبول کر لی علامہ اقبال نے فرمایا کہ میرے نزدیک مولوی میر حسن شاہ پروفیسر مر ے کالج سیالکوٹ اس خطاب کے بہترین مستحق ہیں‘‘۔ ۱؎ روزگار فقیر جلد اول ص ۲۰۴ میکلیگن نے کہا: ’’میں ںے ان کا نام آج پہلی دفعہ سنا ہے کیا انہوںنے کچھ کتابیں لکھی ہیں؟‘‘ علامہ نے فرمایا: ’’انہوںنے کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن میں ان کی زندہ تصنیف ہوں آپ کے سامنے موجود ہوں وہ استاد محترم ہیں‘‘ ۱؎ اس واقعہ کو شیخ آفتاب احمد نے اپنے مضمون علامہ سر محمد اقبال کے استاد مطبوعہ نیرنگ خیال اقبال نمبر ستمبر اکتوبر ۱۹۳۲ء میں اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’گورنمنٹ کی جوہر شناسی کہیے یا مصالح ملکی کا تقاضا سمجھیے کہ جبیں سائی یا ناصیہ فرسائی کا کوئی خراج وصول کیے بغیر ڈاکٹر اقبال کو سر اقبال بنا دینے کی ٹھانی گورنر پنجاب نے اس عنایت خسروانہ کے ایماکا اظہار فرمایا۔ اقبال نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ مگر ساتھ ہی ایک شرط بھی پیش کر دی کہ مجھے یہ خطاب بسر و چشم منظور ہے مگر اس شرط پر کہ میرے استاد کو شمس العلماء بنا دیا جائے‘‘۔ (صفحہ ۷۵) استاد محترم ۱؎ سے جو علامہ کا گہرا لگائو تھا وہ اسی شدت کے ساتھ ان کی وفات (۲۵ ستمبر ۱۹۲۹ء ) تک قائم رہا۔ زمانہ قیام لاہور میں جب بھی ضڑورت ہوئی۔ وہ ان سے اصلاح و مشورہ لیتے رہے۔ رموز بے خودی ۳؎ کے بعض اشعار کے سلسلے میں اقبال نے دوسروں کے علاوہ اپنے استاد میر حسن سے بھی مشورہ کیا تھا جس کا اعتراف اس کتاب کے دیباچہ میں علامہ نے اس طرح کیا ہے: ۱؎ ذکر اقبال ص ۱۱۹ ۲؎ میر حسن شاہ بھی مرتے دم تک اپنے عزیز شاگرد سے والہانہ شفقت برتتے تھے چنانچہ اس سلسلے میں شیخ آفتاب احمد رقمطراز ہیں: …شاگرد کی قابلیت نے استاد کے دل میںوہ گھر کر رکھا تھا کہ مولوی صاحب مرحوم اپنے نزدیک ترین عزیزوں سے علامہ اقبال کو زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ اس زمانہ میں کہ مولوی صاحب بصارت سے محروم اپنی دنای کو ایک چارپائی کی وسعت تک محدود پاتے تھے۔ علامہ اقبال ایک خطرناک مرض میں مبتلا ہو کر دہلی علاج کے لیے تشریف لے گئے۔ اس حالت میں کہ استاد خود مرض الموت کے پنجہ میں گرفتار ہو رہے تھے شاگر د کی علالت کی اس قدر تشویش تھی کہ ایک آدمی کا یہ فرض قرار دے رکھا تھا کہ وہ اسٹیشن پر سے جا کر انقلاب خرید کر لاتا ارو مولوی صاحب کو علامہ اقبال کی علالت کے متعلق تاریں پڑھ کر سنایا کرتا۔ (نیرنگ خیال اقبال نمبر ستمبر اکتوبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۷۵) ۳؎ رموز بے خودی طبع اول ۱۹۱۵ء ’’استاذی حضرت قبلہ مولانا مولوی میر حسن صاحب دام فیضہم پروفیسر مرے کالج سیالکوٹ اور مولانا شیخ غلام قادر صاحب گرامی شاعر خاص حضور نظام دکن خلد اللہ ملکہ و اجلالہ میرے شکریہ کے مستحق ہیں کہ ان دونوں بزرگوں سے بعض اشعار کی زبان اور طرز بیان کے متعلق قابل قدر مشورہ ملا ۱؎‘‘۔ ۱۸۹۵ء مٰں لاہور پہنچ کر علامہ اقبال نے گورنمنٹ کالج میں بی اے میں داخلہ لیا اور ۱۸۹۷ء میں امتحا میں امتیازی کامیابی حاصل کر کے وظیفہ کے مستحق قرار پائے عربی اور انگریزی دونوں مضامین میں اول آنے کی وجہ سے دو طلائی تمغے کے حقدار ہوئے۔ علامہ اقبال نے جس زمانہ میں بی اے میں داخلہ لیا اسی زمانہ ۱۸۹۵ء میں فلسفہ کے مشہور پروفسیر آرنلڈ علی گڑھ سے علیحدگی اختیار کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں چلے آئے تھے جہاں وہ پروفیسر فلسفہ کی حیثیت سے کام کرنے لگے تھے چنانچہ علامہ اقبال کو فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ایک مشہور عالم استاد سے ملا ان کی علیم نے اقبال کے ذہن و دماغ کو خوب جلا بخشی اور ا ن میں فلسفہ کا اچھا اور صاف ستھرا ذوق پیدا کر دیا۔ خود علامہ اقبال ذہین تھے اور سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک تھے اس لیے پروفسیر آرنلڈ ان کی صلاحیتوں سے اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ ان سے دوستانہ سلوک شروع کر دیا ارو وہ اپنے دوستوں سے یہ کہتے ہوئے اقبال کی تعریف کیا کرتے تھے کہ: ’’ایسا شاگرد استاد کو محقق اور محقق کو محقق تر بنا دیتا ہے ۲؎‘‘۔ ۱۸۹۹ء میں علامہ ایم اے کے امتحان میں شریک ہوئے اور شاندار کامیابی حاصل کی۔ وہ ساری یونیور سٹی میں اول آئے اور طلائی تمغہ ان کے حصے میں آیا۔ اختتام تعلیم کے بعد ہی انہیں اورئنٹل کالج لاہور میں بحیثیت لکچرر جگہ مل گئی جہاں وہ فلسفہ تاریخ اور سیاست مدن پڑھانے لگے۔ بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور جس میں وہ طالب علم کی زندگی گزار چکے تھے استاد کی ذمہ داری قبول کی اور فلسفہ اور انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے درس و تدریس میں مصروف ہو گئے۔ کامیابی کی اس اعلیٰ منزل تک پہنچانے میں جہاں میر حسن شاہ کے درس نے بڑا کام کیا وہاں آرنلڈ کی تعلیم نے نمایاں حصہ لیا۔ جس کو علامہ اقبال خود محسوس کرتے رہے۔ اور جس کا اعتراف مختلف وقتوں میں مختلف طریقوں سے کرتے رہے۔ چنانچہ ۱۹۰۴ء میں جب آرنلڈ ۳؎ ولایت چلے گئے تو علامہ اقبال نے اپنے استاد آرنلڈ کی یاد میں اپنی مشہور نظم نالہ فراق کہی جس کے مطالعہ سے اقبال اور آرنلڈ کے گہرے تعلقات کا ہی پتا نہیں چلتا بلکہ اس کا بھی احساس ہوتا ہے کہ علامہ کی علمی تشنگی خود انہیںمضطرب رکھتی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح یہاں سے نکل کر دیار مغرب میں اس پیاس کو بجھائیں۔ اس نظم کے چند بند ملاحظہ کیجیے: ہو گئی رخصت مسرت غم مرا ہمدم ہوا دفتر صبر و شکیبائی جو تھا برہم ہوا کچھ عجیب اس کی جدائی میں مرا عالم ہوا دل مرا منت پذیر نالہ پیہم ہوا حاضراں از دور چوں محشر خروشیم دیدہ اند دیدہ ہا باز است لیک ازراہ گوشم دیدہ اند ۱؎ مضامین اقبال ص ۵۵۔ ۲؎ ذکر اقبال ص ۱۷ ۔ ۳؎ آرنلڈ ولایت میں انڈیا آفس لائبریری کے لائبریرین مقرر ہوئے پھر لندن یونیورسٹی کے سکول آف اورئنٹل اسٹڈیز میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۰ء میں وفات پائی (شرح بانگ درا از مہر ص ۷۰) ذرہ میرے دل کا خورشید آشنا ہونے کو ہے آئینہ ٹوٹا ہوا عالم نما ہونے کو ہے نخل میری آرزئووں کا ہرا ہونے کو ہے آہ کیا جانے کوئی میں کیا سے کیا ہونے کو ہے ابر رحمت دامن از گلزار من برچیدو رفت اند کے برغنچہ ہائے آرز باریدو رفت اور کھول دے گا دشت وحشت عقدہ تقدیر کو توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو دیکھتا ہے دیدہ حیراں تیری تصویر کو کیا تسلی مگر ہو گرویدہ تقریر کو تاب گویائی نہیںرکھتا دہن تصویر کا خامشی کہتے ہیں جس کو ہے سخن تصویر کا (کلیات اقبال مرتبہ عبدالرزاق ص ۶) اس نظم کے ساتھ اقبال کا یہ نوٹ بھی شائع ہواہے جس سے اقبال اور آرنلڈ کے گہرے تعلق پر واضح روشنی پڑتی ہے: ’’استاذی قبلہ مسٹر آرنلڈ کے ولایت تشریف لے جانے کے بعد ان کی جدائی نے اقبال کے دل پر کچھ اس قسم کا اثر یا کہ کئی دنوں تک سکون قلب کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا ایک دن زور تخیل نے ان کے مکان کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا اور یہ چند اشعار بے اختیار زبان پر آ گئے‘‘۔ علامہ اقبال کی زندگی کے تقریباً تئیس سے تیس سال انیسویں صدی کے حصہ میں آئے تھے اس دوران میں وہ شریف النفس ماں کی آغوش میں صوفی منش باپ کی نگرانی میںمیر حسن شاہ جیسے عالم فاضل کی تعلیم و تربیت میں اور پروفیسر آرنلڈ کی بصارت اور بصیرت کے درمیان پروان چڑھے اورعلم و ادب کی دولت سے مالا مال ہوئے اور اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں سے آگاہ کرتے ہوئے تعلیم حاصل کرنے کی راہ سے گزر کر تعلیم دینے کی ذمہ داری قبول کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوںنے اپنی ذہنات اور ذکاوت سے ایک اور استاد کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اور دوسرے استاد کو مشفق دوست بنا لیا۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے یونیورسٹی امتحان میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں اور ایک زمانہ کو اپنی طرف رجو ع کر لیا لیکن پھر بھی علم کی پیاس شدت سے محسوس کرتے رہے اور وہ اسے بجھانے کے لیے یورپ کا سفر اختیار کرنا چاہتے تھے یہی وجہ ہے کہ نالہ فراق میں بے اختیار ان کی زبان پر آ گیا: توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو شاعری علامہ اقبال کی بہت ابتدائی عمر کا کلام دستیاب نہیں ہو سکا۔ کب سے انہوںنے شاعری شروع کی اس کے بارے میں بھی محققین خاموش ہیں البتہ ان کی بھاوج اہلیہ شیخ عطا محمد کے اس بیان سے اس کا علم ہوتا ہے کہ بہت کم سنی میں علامہ اقبال کی طبیعت شاعری کی طرف مائل تھی اور وہ بتاتی ہیں: ’’اقبال بہت چھوٹی عمر میں بے حد ذہین تھے اور شعروں سے ان کی طبیعت کو مناسبت تھی۔ بارہا ایسا ہو ا کہ میں بعض دوسری عورتوں کے ساتھ رات کے وقت آزار بند بنا کرتی تھی اور اقبال بازار سے منظوم قصے لا کر ہمیں لحن سے سنایا کرتے تھے ان کی آواز بہت شیریں تھی۔ ۱؎ اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ابھی سیالکوٹ کے سکول میں تعلیم پا رہے تھے کہ انہیں شعر و شاعری سے دل چسپی پیدا ہو گئی تھی چنانچہ پہلے انہوںنے اپنی مادری زبان پنجابی میں شاعری شروع کی تھی لیکن بدقسمتی سے اس دور کی شاعری کے نمونے محفوظ نہیں رکھے جا سکے یا اب تک حاصل نہیںکیے جا سکے۔ بعد میں شمس العلماء میر حسن کی رہنمائی میں اردو میں شعر کہنے لگے۔ چنانچہ اس زمانے کی حسب ذیل چار غزلیں اب تک دستیاب ہو سکی ہیں جن میں یہ تین غزلیں: ۱۔ آب تیغ یار تھوڑا سا نہ لے کر رکھ دیا باغ جنت میں خدا نے آب کوثر رکھ دیا ۲۔ کیا مزہ بلبل کو آیا شیوہ بیداد میں ڈھونڈتی پھرتی ہے اڑ اڑ کے جو گھر صیاد کا ۳۔ جان دے کر تمہیں جینے کی دعا دیتے ہیں پھر بھی کہتے ہو کہ عاشق ہمیں کیا دیتے ہیں گلدستہ زبان دہلی کے ستمبر ۷۱۸۹۳ نومبر ۷۱۸۹۳ فروری ۱۸۹۴ ء کے شماروں میں شائع ہوئی ہیں اورچوتھی غزل : تم آزمائو ہاں کو زباں سے نکال کے یہ صدقہ ہو گی میرے سوال وصال کے ۱۸۹۴ء کی ہے لیکن خدنگ نظر لکھنو ماہ نامہ مئی ۱۹۰۲ء میں جگہ پا سکی ہے۔ گویا یہ چار غزلیں اس وقت کی ہیں جب علامہ کی عمر بمشکل ۱۶ یا ۱۷ سال کی ہو گی ۲؎۔ یہ غزلیں اس زمانہ کے عام مذاق اور مزاج کی ترجمان ہیں ان میں سے اپہلی تین غزلیں اس زمانے کے مشہور گلدستہ میں شائع ہوئی ہیں اس کے باوجود اقبال کی طرف لوگوں نے نگاہیں نہیں اٹھائیں حالانکہ اس زمانے کے مشاعروںمیں بھی اقبال نے شرکت کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس وقت ان کی شاعری میں ایسی کوئی بات نہ تھی جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی وہی عام اور فرسودہ حالات بے لطف بے مزہ لیکن جب چوتھی غزل اپنے ساتھیوں کے کہنے پر لاہور کے ایک مشاعرے میں انہوںنے پہلی بار پڑھی تو تحسین و آفریں کی صدائیں بلند ہوئیں اس مشاعرہ میں شاہزادہ ارشد گورگانی ۳؎ بھی موجود تھے اقبال نے جب یہ شعر پڑھا: ۱؎ ذکر اقبال ص ۱۱ ۲؎ اگر سال ولادت ۱۸۷۷ء کو درست مان لیا جائے۔ ۳؎۔ انیسویں صدی کے اخیر سے پہلے دہلی کی تیمور ی شمع گل ہو چکی تھی صاحب عالم مرزا عبدالغنی ارشد گورگانی دودمان مغلیہ کی چند یادگاروں میں سے ایک صاحب علم و فضل ہنوز باقی تھے لیکن دود چراغ کشتہ یعنی اپنے خانوادہ کی طرح اجنبی فضامیں پریشان تھے۔ انہوںنے کسب معاش کی خاطر لاہور کو اپنا مسکن بنایا تھا وہ تصنیف و تالیف برجستہ اور شعر و سخن کا فکر بے ساختہ کیا کرتے تھے۔ ان کا شمار اساتذہ فن اور مشاہیر وقت میں تھا۔ (کلیات اقبال صفحہ ۳۲)۵۸ برس کی عمر میں ۲۱ فروری ۸۱۹۰۲ کو اچانک اس دار فانی سے ملک جاودانی کو سدھارے۔ خم خانہ جاوید جلد اول صفحہ ۲۶۷) موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے تو مرزا ارشد تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے انہوںنے کہا اقبال اس عمر میں یہ شعر۔ یہ پہلا موقع تھا جب اہل لاہور کی نگاہیں اقبال کی طرف اٹھنے لگیں تھیں۔ اور ادب شناس حضرات اقبال شناس ہونے لگے تھے۔ اسی زمانہ سے شیخ عبدالقادر کے ساتھ اقبال کے دوستانہ تعلقات پید ا ہوئے اور بڑھنے لگے اور مرزا جلال الدن مولوی احمد الدین۔ خواجہ رحیم بخش‘ وجاہت جھنجھانوی غلام قادر گرامی ‘ خلیفہ نظا م الدین ‘ جالب دہلوی ‘ آغا شاعر قزلباش‘ سید غلام بھیک نیرنگ‘ احمد حسین خاں اور محمد دین فوق سے بھی تعلقات استوار ہوئے اور بعض حضرات کے کہنے کے مطابق علامہ اقبال نے ارشد گورگانی سے اپنی کلام پر اصلاح بھی لی ۲؎ ۔ لیکن اس سے پہلے دوران قیام سیالکوٹ میں ہی اقبال نے خط و کتابت کے ذریعہ داغ سے اپنے کلام پر اصلاح لینی شروع کی تھی۔ داغ اس زمانہ میں حیدر آباد دکن سے وابستہ ہو چکے تھے۔ اور ان کی شرہت اور مقبولیت سارے ہندوستان میں تھی لیکن داغ سے شاگردی کا یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکا غالباً ۱۹۰۰ء کے ساتھ ختم ہو گیا اس لیے کہ: داغ نے ان کی چند غزلوں کی اصلاح کے بعد لکھ بھیجا کہ اب تمہارے کلام کو اصلاح کی ضڑورت نہیں ۳؎ ۔ لیکن بقول سر عبدالقادر: ’’البتہ اس کی یاد دونوںطر ف رہ گئی تھی۔ داغ کا نام اردو شاعری میں ایسا پایہ رکھتا ہے کہ اقبال کے دل میں داغ سے اس مختصر اور غائبانہ تعلق کی بھی قدر ہے اور اقبال نے داغ کی زندگی میں ہی قبول عام کا درجہ حاصل کیا تھا کہ داغ مرحوم ا س بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ اقبال بھی ان لوگوں میں شامل ہے جن کے کلام کی انہوں نے اصلاح کی۴؎‘‘۔ فروری ۱۸۹۶ء میں علامہ اقبال کی ایک نظم فلاح قوم ۵؎ یا ترقی و تعلیم ۶ ؎ کہی جو ذیل کے نوٹ کے ساتھ کشمیری میگزین لاہور بابت مارچ ۱۹۰۹ء میں شائع ہوئی: ۱؎ شعر اقبال از عابد علی عابد صفحہ ۷۷ ۲؎ محمد اقبال صاحب نے بھی آپ کو اپنا ابتدائی کلام دکھایا ہے… (خمخانہ جاوید جلد اول صفحہ ۲۶۷) ۳؎ فکر اقبال از خلیفہ عبدالحکیم صفحہ ۱۶۔ ۴۔ بانگ درا دیباچہ صفحہ ۵۔ سرور رفتہ صف ۸۰ ۶۔ نوادر اقبال ص ۷۹ ’’یہ نظم ۱؎ ڈاکٹر اقبا نے فروری ۱۸۹۶ء میں سب سے پہلی مجلس کشمیری ۲؎ مسلمانان لاہور کے جلسہ میں پڑھی تھی۔ اس وقت آپ نہ بی اے تھے نہ ایم اے نہ پروفیسر ایک معمولی مگر ذہین طالب علم آج وہی نظم ان کو نظر ثانی اور اجازت کے بعد میگزین میںاس وقت شائع ہوئی ہے جب کہ آپ خدا کے فضل سے ایم اے بھی ہیں بیرسٹربھی ہیں اور ایل ایل ڈی اور پی ایچ ڈی بھی ۔ اور زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ باوجود اس شہرت اور علمی اعزاز کے اہل خطہ بھی ہیں بلکہ انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کے جنرل سیکرٹری ہیں ۳؎‘‘۔ علامہ اقبال اس انجمن سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ اس کے جلسوں میں پر جوش بامقصد اصلاحی نظمیں پڑھتے تھے۔ تاکہ قوم کی اصلاح اور فلاح کے لیے کچھ کر سکیں۔ یہ نظم فلاح قوم جو ستائیس اشعار پر مشتمل ہے انجمن کے اسی مقصد اور اقبال کے اسی جذبے کی ترجمانی کرتی ہے۔ ۱۸۹۶ء میںعلامہ اقبا نے مولانا ابو سعید محمد شعیب کی تصنیف مختصر العروض کے لیے ایک قطعہ تاریخ تحریر کیا۔ اس وقت اقبال ایم اے کے طالب علم تھے۔ یہ قطعہ اس کتاب کے آخر میں مفتی محمد عبداللہ ٹونکی کی تقریظ خان احمد حسین احمد اور سید غلام بھیک مواج کے قطعات تاریخ کے ساتھ شائع ہوا جس میں علامہ اقبال کا نام اس طرح درج ہے: شاعر باکمال ناظم عالی جناب شیخ محمد اقبال شاگرد جناب داغ دہلوی متعلم بی اے کلاس گورنمنٹ کالج لاہور ۴؎۔ یہ قطعہ تاریخ گیارہ شعر پر مشتمل ہے پہلا شعر یہ ہے: مصنف جبکہ ایسا ہو رسالہ کیوں نہ ہو ایسا گہر باری تقاضا یہ مزاج ابر نیاں کا اس سال علامہ اقبال کی صرف ایک غزل مطبوعہ صورت میں ملتی ہے جو شور محشر (مشاعرہ لاہور کا ماہوار رسالہ) کے دسمبر ۱۸۹۶ء کے شمارے میں شائع ہوئی مطلع یہ ہے: تصور بھی جو بندھتا ہے تو خال روئے جاناں کا بلندی پر ستارہ ہے شب تاریک ہجراں کا یہ غزل بیس شعر پر مشتمل ہے مقطع اس لیے اہم ہے کہ اس میں داغ شاگردی پر فخر کیا گیا ہے: ۱؎ منشی محمد دین فوق کی تحریک پر پڑھی تھی۔ ۲؎ انجمن کشمیری مسلمانان اس کا علم شاید بہت کم لوگوںکو ہو گا فروری ۱۸۹۶ ء میں لاہور کی کشمیری برادری کے چند بزرگوں نے ایک انجمن کشمیری مسلمانان کے نام سے قائم کی جس کے اغراض و مقاصد حسب ذیل تھے۔ اصلاح رسوم شادی و غمی ۲۔ کشمیری مسلمانوں میں تعیم تجارت صنعت و حرفت اور زراعت کو رواج دینا ۔ ۳۔ قوم میںاتحاد و اتفا ق بڑھانا۔ (اقبال نمبر ادبی دنیا دور ششم شمارہ ۲۴ صفحہ ۱۹۶) ۳۔ نوادر اقبال صفحہ ۷۹ ۴۔ باقیات اقبال از قاضی افضل حق قرشی اردو کراچی شمارہ ۳ ‘ ۱۹۶۹ء نسیم و تشنہ ہی اقبال کچھ نااں نہیں اس پر مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغ سخنداں کا محمد عبداللہ قریشی اس غزل کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’’اقبال بی اے کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو چکے تھے۔ کہ فوق صاحب ۳۱ جنوری ۱۸۹۶ء گھڑتل (ضلع سیالکوٹ) سے ملازمت کی تلاش میں لاہور آئے اور بھاٹی دروازہ بازار حکیماں کی انجمن اتحاد کے مشاعروں کی دھوم سن کر وہاں پہنچے اور ان میں شریک ہو کر داد سخن دینے لگے۔ ایک مشاعرے کے لیے جس کے لیے یہ طرح تجویز کی گئی تھی: میرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا اقبال نے غزل پڑھی جس کے مقطع میں داغ کی شاگردی پر یوں فخر کا اظہار کیا گیا ہے۔ ‘‘ ۲؎ ۱۸۹۷ء کے آٹھ قطعات ملتے ہیں جو پندرہ ستمبر ۱۹۰۱ء کے کشمیری گزٹ میں شائع ہوئے ہیں یہ قطعات کشمیر اور اہل کشمیر سے متعلق ہیں نوادر اقبال ۳؎ میں ایک قطعہ زیادہ ہے یعنی اس میں نو قطعات درج ہیں۔ ۱۸۹۸ء میں اقبال کا کوئی کلام شائع نہیںہوا۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ اقبال نے کچھ کہا نہ ہو البتہ ا س کا احتمال ہے کہ کہیں ضائع نہ ہو گیا ہو یا یہ بھی ممکن ہے کہ ابھی تک ہماری نظروں سے اوجھل ہو۔ ۱۸۹۹ء کا بھی کوئی کلام شائع نہیں ہوا البتہ ایک خط بنام مولانا احسن مارہروی دستیاب ہے جو نہایت اہم ہے اس سے اقبال کے ابتدائی زمانہ کے مزاج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ملاحظہ کیجیے: مکرم بندہ جناب میر صاحب السلام علیکم دونوں رسالے پہنچے سبحان اللہ نواب صاحب کی غزل کیا مزے کی ہے۔ افسوس کہ اب تک میں ںے آپ کے گلدستہ کو کوئی غز ل نہیں دی۔ انشاء اللہ تعالیٰ امتحان کے بعد باقاعدہ ارسال کیا کروں گا۔ ایک تکلیف دیتا ہوں اگر آپ کے پاس استاذی حضرت مرزا داغ کی تصویر ہو تو ارسال فرمائیے بہت ممنون ہوں گا۔ اگر آ پ کے پاس نہ ہو تو مطلع فرمائیے گا کہ کہاں سے مل سکتی ہے۔ میں نے تمام دنیا کے بڑے بڑے شاعروں کے فوٹو جمع کرنے شروع کیے ہیں۔ چنانچہ انگریزی جرمنی اور فرنچ شعرا کے فوٹوز کے لیے امریکہ لکھا ہے۔ غالباً کسی نہ کسی استاد بھائی کے پاس تو حضرت کا فوٹو ضرور ہو گا اگر آپ کو معلوم ہو تو ازراہ عنایت جلد مطلع فرمائیے۔ حضرت امیر مینائی کے فوٹو کی بھی ضرورت ہے ۴؎۔ والسلا م خاکسار محمد اقبال از لاہور گورنمنٹ کالج۔ بورڈنگ ہائوس ۲۸ فروری ۱۸۹۹ء ۱؎ نسیم بھرت پوری تشنہ بلند شہری ۲؎ اقبال اور فوق اقبال نمبر ادبی دنیا دور ششم شمارہ ۲۴ ص ۲۳۳ ۳؎ نوادر اقبال مرتبہ عبدالغفار شکیل ص ۲۹۱ ۴؎ اقبال نامہ ص ۳ ۱۹۰۰ء میں علامہ اقبال کی مندرجہ ذیل تخلیقات منظر عام پر آئیں تھیں: نالہ یتیم ۲۴ فروری ۱۹۰۰ اقبال کی ایک الوداعی نظم ۲۵ مئی ۱۹۰۰ ابر گہر بار (فریاد امت) ۱۹۰۰ء ہمالہ (کوہستان ہمالہ) ۱۹۰۰ء غزل (لاکھ سرتاج سخن ناظم شرداں ہو گا) انیسویں صدی کے اواخر یا بیسویں صدی کے شروع کی غزل ۱؎ نالہ یتیم علامہ اقبال کی پہلی طویل نظم ہے جو مسدس کے ۳۵ بڑے بند پر مشتمل ہے اسے انہوں نے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ منعقدہ ۱۸۹۹ء میں پڑھا تھا منشی محمد الدین فوق جو کشمیری تھے اور علامہ اقبال کے بڑے اچھے دوست تھے اس نظم کے متعلق لکھتے ہیں: ’’لیکن جس نظم سے آپ کی شہرت ہندوستان کے علمی طبقہ اور بالخصوص پنجاب کے ہر کس و ناکس میں پھیلی وہ نالہ یتیم کی نظم تھی جو ۱۸۹۹ء میں دوستوں کے اصرار سے آپ نے انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسہ میں عجیب سوز و گداز اور دلنشیں سروں میں پڑھی۔ نظم کا مضمون اور اس کا انداز بیان کچھ ایسا مقبول ہوا کہ لوگ بار بار سنتے تھے اور متاثر ہو کر انجمن کے لیے روپیہ کی بارش برساتے تھے اور پھر بھی سیر نہ ہوتے تھے اس کے بعد انجمن کے ہر سالانہ اجلاس میں نظم اقبال ایک ضروری جزو ہو گئی ۲؎‘‘۔ نالہ یتیم کے بارے میں عبدالمجید سالک رقم طراز ہیں: ’’۱۸۹۹ء میں انجمن حمایت اسلام لاہور کا جو سالانہ جلسہ ہوا اس میں اقبال نے ایک نظم نالہ یتیم کے عنوان سے پڑھی نظم بے حد موثر تھی اور ترنم اس سے بھی زیادہ موثر تھا۔ چنانچہ اس پر ہزاروں حاضرین اشک بار ہوئے اور دور دور تک اس نظم کی دھوم مچ گئی۔ بہت سی مجلسوں اور انجمنوں کی طرف سے اقبال کو فرمائشیں موصول ہونے لگیں لیکن انہوںنے ہمیشہ ان فرمائشوں کی تعمیل سے انکار کیا ۳؎‘‘۔ محمد عبدالرزاق مرتب کلیات اقبال بیان کرتے ہیں: سب سے اول اقبال نے احباب کے اصرار اور تقاضے پر ایک طویل نظم بہ عنوان نالہ یتیم ۱۸۹۹ء میں لکھی اور انجمن حمایت اسلام لاہور کے پندرھویں سالانہ جلسے میں اپنے مخصوص انداز کے ساتھ پڑھی حاضرین جلسہ ہمہ تن گوش تھے ۔ ان کی آنکھیں اشک بار تھیں ان پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری تھی۔ یہ نظم سراپا سوز و گداز اور مجسم درد و تاثیر ہونے کے باعث نہایت خاص و عام میں ا س قدر مقبول ہوئی کہ ایک دفعہ پڑھی جانے سے تسلی نہ ہوئی۔ ۱؎ سرود رفتہ ص ۱۴۷ ۲؎ حالات اقبال از فوق۔ انوار اقبال ص ۸۴۔۸۵ ۳؎ ذکر اقبال ص ۴۰ اکثر بار بار پڑھوائے جن کا اثر سامعین پر یہ ہووا کہ ان کے سست پائے عمل چست ہو گئے اور ان کی اخوت اور ہمدردی ایسی شکل میں ظاہر ہوئی کہ چاروں طرف سے چندوں کی بوچھاڑ ہو نے لگی اور بے کس و بے بس اطفال قوم کے واسطے سیم و زر کا ایک ڈھیر لگ گیا… اس نظم میں اقبال کی شہرت کراچی سے رنگون اور کشمیر سے راس کماری تک پھیلا دی۱؎‘‘۔ رویداد انجمن بابت ۱۹۰۰ء میں اس نظم کے بارے میں جو کچھ تحریر ہے اسے مولانا غلام رسول مہر کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے: ’’یہ نظم پہلی ہے جو علامہ اقبال نے انجمن حمایت اسلام لاہور کے پندرھویں سالانہ اجلاس منعقدہ ۲۳‘۲۴‘۲۵ فروری ۱۹۰۰ء میں پڑھی تھی۔ اور جس سے ان کی شاعرانہ شہرت کا آغاز ہوا یہ نظم ۲۴ فروری کے تیسرے اجلاس میں بعد نماز عصر پڑھی گئی تھی۔ شمس العلماء مولانا نذیر احمد خاں اس اجلاس کے صدر تھے انجمن کی رویداد مظہر ہے شیخ محمد اقبال صاحب نے نالہ یتیم جو چھپا ہوا تھا پڑھنا شروع کیا اس کے ہر شعر پر تحسین و آفریں کے نعرے چاروں طرف سے بلند ہو رہے تھے اور سینکڑوں آنکھیں تھیں جودریائے اشک بہا رہی تھیں۔ اس کے پڑھنے کے دوران میں تین سو روپے سے کچھ اوپر نقد چندہ ہو گیا اور کل کاپیاں اس نظم کی اسی وقت فروخت ہو گئیں نظم ایسی مقبول ہوئی کہ چار چار روپے کو بھی ایک ایک کاپی بکی۔ (رویداد انجمن بابت ۱۹۰۰ء ص ۳۰ل۔۳۱) مولانا نذیر احمد خاں شاعروں کی حوصلہ افزائی کے عادی نہ تھے لیکن نظم سن چکنے کے بعد انہوںنے فرمایا: ’’میں نے دبیر اور انیس کی بہت سی نظمیں سنی ہیںمگر واقعی ایسی دل شگاف نظم کبھی نہیں سنی۔ ۲؎‘‘ (رویداد ص ۳۶) مختلف حضرات کی تحریروںکے مندرجہ بالا اقتباسات خاص طور پر اس لیے پیش کیے گئے ہیں تاکہ اس نظم کی اہمیت قدر و قیمت اور مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکے او رآسانی کے ساتھ محسوس کیا جا سکے کہ علامہ اقبال نے ابتدا ہی میں کامیابی کی کس منزل کو جا لیا تھا۔ ان اقتباسات سے اقبال کی اپنی طبیعت مزاج اور رجحان کی بھی جھلک ملتی ہے جس کی وجہ سے اسی زمانہ سے ان کی شخصیت کا احترام نگاہوں میں اور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اقبال کی مشہور نظم فریاد امت بارہ بند (۱۴۸ شعر) پر مشتمل ہے۔ عبدالغفار شکیل مرتب نوادر اقبال کی تحریر کے مطابق یہ نظم ابر گہربار کے نام سے ۱۹۰۰ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں خود علامہ اقبال نے پڑھی تھی۔ سید عبدالواحد معینی ایم اے اکسن معتمد مجلس اقبال کراچی اپنی کتاب باقیات اقبال میں تحریر کرتے ہیں: ۱؎ کلیات اقبال ص ۴۰ ۲؎ سرور رفتہ ص ۶ ’’یہ نظم لاہور کے ایک ناشر نے مندرجہ ذیل شذرہ کے ساتھ شائع کی تھی: وہ مقبول نظم جو جناب ڈاکٹر شیخ محمد اقبا صاحب ایم اے نے تقریباً ۱۳ سال ہوئے انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں تخیلاً باستانہ سرور کائناتؐ خلاصہ موجودات عاشقانہ فریاد کے رنگ میں ابر گہر بار کے عنوان سے پڑھی تھی۔ ازاں بعد ۱۹۱۳ء مٰں باجازت مصنف فریاد امت کے نام سے چھاپ دی گئی ۱؎‘‘۔ مولانا غلام رسول مہر نے لکھا ہے کہ یہ نظم انجمن حمایت اسلام کے اٹھارویں سالانکہ اجلاس یکم مارچ ۱۹۰۳ء میں پڑھی محمد انور حارث نے اپنی کتاب رخت سفر ۲؎ میں مارچ ۱۹۰۴ء تحریر کیا ہے ۔عبداللہ قریشی نے اپنے مضمون اقبال اور انجمن کشمیری مسلمانان ۳؎ میں ۸۱۹۰۱ بیان کیا ہے میں نے پہلے بیان کو صحیح مانا ہے اور اسے انیسویں صدی کی نظموں میں شمار کیا ہے۔ اس صدی کی آخری نظم ہمالہ یا کوہستان ہمالہ جو انیسویں صدی کے آخری میںکہی گئی ہے اور پہلی بار مخزن لاہور اپریل ۱۹۰۱ ء میں شائع ہوئی ہے بعد میں حذف و اصلاح کے بعد بانگ درا میں پہلی نظم کی حیثیت سے شامل کر دی گئی ہے۔ بانگ درا کے دیباچہ میں شیخ عبدالقادر رقم طراز ہیں: ’’…شیخ محمد اقبال نے اس کے ایک جلسہ میں اپنی وہ نظم جس میں کوہ ہمالہ سے خطاب ہے پڑھ کر سنائی ا س میں انگریزی خیالات تھے اور فارسی بندشیں اس پر خوبی کہ وطن پرستی کی چاشنی اس میں موجو د تھی۔ مذاق زمانہ کی ضروریات وقت کے موافق ہونے کے سبب بہت مقبول ہوئی اور کئی طرف سے فرمائشیں ہونے لگیں کہ اسے شائع کیا جائے مگر شیخ صاحب یہ عذر کرکے کہ ابھی نظر ثانی کی ضرورت ہے اسے اپنے ساتھ لے گئے اور وہ اس وقت چھپنے نہ پائی تھی اس بات کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ میں نے ادب اور اردو کی ترقی کے لیے رسالہ مخزن جاری کرنے کا ارادہ کیا اس اثنا میں شیخ محمدا قبال سے میری دوستانہ ملاقات پیداہو چکی تھی میں نے ان سے وعدہ لیا کہ اس رسالہ کے حصہ نظم کے لیی وہ نئے رنگ کی نظمیں مجھے دیا کریں گے ۔ پہلا رسالہ شائع ہونے کو تھا یکہ میں ان کے پاس گیا اور میں نے ان سے کوئی نظم مانگی انہوںنے کہا کہ ابھی کوئی نظم تیار نہیں میں نے کہا ’’ہمالہ‘‘ والی نظم دے دیجیے اور دوسرے مہینے کے لیے کوئی اور لکھیے انہوںنے اس نظم کو دینے میں بہت پس و پیش کی ۔ کیونکہ انہیںیہی خیالت ھا کہ اس میں کچھ خامیاں ہیں مگر میں دیکھ چکا تھا کہ بہت مقبول ہوئی اس لیے میں نے زبردستی وہ نظم ان سے لے لی اور مخزن کی پہلی جلد کے پہلے نمبر میں جو اپریل ۱۹۰۱ء میں نکلا شائع کر دی‘‘۔ اسی تحریر سے اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ یہ نظم ہمالہ انیسویں صدی کے آخر زمانہ میں ہی کہی گئی تھی۔ اسی صدی کی غالباً آخری غزل شیخ عبدالقادر کی فرمائش س گمان ہے فی البدیہہ کہی گئی تھی جس کا مطلع یہ ہے: ۱؎ باقیات اقبال ص ۲۶ ۲؎ ص ۵۴ ۳؎ اقبال نمبر ادبی دنیا لاہور ص ۱۹۶ لاکھ سرتاج سخن ناظم شرواں ہو گا پر مرے سامنے اک طفل دبستاں ہو گا اس غزل کو غلام رسول مہر نے اپنی کتاب ’’سرود رفتہ‘‘ میں یہ تحریر کرتے ہوئے شامل کیا ہے: ’’یہ غزل انیسویں صدی کے اواخر یا بیسویں صدی کے اوائل کی ہے…۱؎‘‘ لیکن ڈاکٹر عبدالحق لکھتے ہیں: ’’اتنا تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ غزل انیسویں صدی کے اواخر کی نہیں ہے اب بیسویں صدی کے اوائل کا نفاذ کب تک ہو گا۔ راقم السطور کا خیال ہے کہ اسرار خودی کے بعد کی غزل ہے ۔ اس لیے کہ اس سے پہلے اور کہیں بھی وہ مرد مومن کا لفظ یا خودی کا لفظ مستعمل نہیں ہوا ہے۲؎‘‘۔ میں صر ف اتنا عرض کروں گا کہ مولانا غلام رسول مہر کی بات کو رد کرنے کے لیے ابھی ہمارے پاس کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے۔ ڈاکٹر عبدالحق کی بات سے بات نہیں بنتی۔ ممکن ہے آگے کوئی ایسا ثبوت فراہم ہو جائے کہ یہ غزل بیسویں صدی کی ثابت ہو جائے۔ ابھی تو میں مولانا غلام رسول مہر کے خیال کے پہلے حصہ کو مانتے ہوئے اسے انیسویں صدی کے اواخر کی ہی مانتا ہوں۔ انیسویں صدی کے اختتام تک پہنچے پہنچے داغ کی شاگردی کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے لیکن ان کی شاعری کا رنگ اقبال کی بعد کی غزلوں میں بھی نمایاں ہے۔ اس لیے کہ داغ سے علامہ نہ صرف متاثر تھے بلکہ ان کی شاعری کی قدر و قیمت سے آگاہ اور ان کی شخصیت کے قدر دان تھے۔ چنانچہ ان کی وفات پر ۱۹۰۵ء میں ایک یادگار نظم جو انہوںنے قلم بند کی تھی اس کے چند شعر ملاحظہ کیجیے: عظمت غالب ہے اک مدت سے پیود میں مہدی مجروح ہے شہر خموشاں کا مکیں توڑ ڈالی موت نے غربت میں مینائے امیر چشم محفل میں ۃے اب ت کیف صہبائے امیر آج لیکن ہمنوا سارا چمن ماتم میں ہے شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے چل بسا داغ آہ میت اس کی زیب دوش ہے آخری شاعر جہاں آباد کا خاموش ہے …… …… …… …… …… …… اشک کے دانے زمین شعر میں بوتا ہوں میں تو بھی ردائے خاک دلی داغ کو روتا ہوں میں ۳؎ ان اشعار کے مطالعہ سے اقبال اور داغ کے تعلق اور اقبال کے دل میں داغ کے لیے جس قسم کے جذبات تھے ان سے اندازہ نہایت واضح طور سے لگایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک علامہ اقبال کی اس دور کی غزل گوئی کا تعلق ہے ان کی سب سے پرانی غزل جسے محققین کی تیز نگاہوں نے ڈھونڈنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے سمبر ۱۸۹۳ء میں گلدسگتہ زبان دہلی میں شائع ہوئی تھی۔ بہت ممکن ہے کہ یہ غزل پہلے لکھی گئی ہو اور بعد میں شائع ہوئی ہو۔ ۱؎ سرود رفتہ ص ۱۴۷ ۲؎ اقبال کے ابتدائی افکار ص ۱۴۲ ۳؎ یادگار داغ نمبر مخزن لاہور اپریل ۱۹۰۵ء میں یہ نظم شائع ہوئی ہے۔ اس سے قبل کا اقبال کا کلام تو ضائع ہو گیا ہے یا ابھی تک نگاہوں سے اوجھل ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اقبال نے سب سے پہلے کوئی غزل کہی ہو بہرحال انیسویں صدی کے آخر میں آٹھ سال کی مدت میں اقبال کی کل چھ غزلیں تلاش کے بعد حاصل ہو سکی ہیں جن میں سب سے مختصر غزل پانچ شعر کی ہے اور سب سے طویل غزل بیس شعر پر مشتمل ہے۔ مجموعی حیثیت سے چھ غزلوں میں کل باسٹھ شعر ہیں جو عام طور سے سادہ عاشقانہ اور قدیم انداز کے رسمی ہیں ان غزلوں میں وہی لہجہ وہی ہلکے پھلکے جذبات اور وہی احساسات ملتے ہیں جن کا اظہار اس زمانہ میں اردو کے بہت سے دوسرے شعراء عام طور سے کر رہے تھے یا کر چکے تھے ہونا بھی یہی چاہیے تھا کہ یہی رنگ و آہنگ عوام میں مقبول تھا اور انہیںفرسودہ خیالات کی تکرار اور سستے جذبات کے اظہار کو شاعری سمجھا جا رہا تھا۔ علامہ اقبال کی عمر ہی کیا تھی وہ اس دام خیال سے نکل کر راگ کیوں کر الاپ سکتے تھے۔ چنانچہ اسی رنگ میں رنگ گئے اور انہیںالفاظ تشبیہات تلمیحات تراکیب موضوعات کے سہارے غزل گوئی کی اتدا کی جو اس وقت غزل کی دنیا میں مستعمل تھے۔ جدید تحقیق کے مطابق علامہ اقبال نے اس دور میں کل چھ نظمیں کہی ہیں جن کے مطالعہ سے ان کی ابتدائی نظم گوئی کے میلانات موضوعات لب و لہجہ اور انداز فکر کا پتا چلتا ہے۔ اقبال کی غزلیں ۱۸۹۳ء تک کی مل جاتی ہیں لیکن سب سے پرانی نظم تقریباً تین سال بعد یعنی ۱۸۹۶ء کی دستیاب ہوء ہے آئندہ ممکن ہے کہ محققین اس سے پہلے کی نظمیں دریافت کرنے میں کامیابی حاصل کر لیں بہرحال ان نظموں کی روشنی میں یہ بات ضرو ر کہی جا سکتی ہے کہ اقبال اجتماعی شعور قومی احساس اور وطن پرستی کا نہایت پاکیزہ جذبہ رکھتے تھے۔ ان نظموں میں بعض حصے ایسے ہیں جن کے مطالعہ سے اقبال کے پوری قوم کی اصلاح اور راست روی کی پوشیدہ تمنا کا اظہار ہوتا ہے۔ اور ان کے قلب و نظر دونوں کی کیفیات سے آگاہی ہوتی ہے اور اس طرح اس وقت کے اقبال کو سمجھنے بوجھنے اور پہچاننے میں آسانی ہوتی ہے۔ ٭٭٭ اقبال نمبر جلد دوم ابھی ادارہ نقوش نے اقبال نمبر پر اپنی پہلی جلد پیش ک ہے۔ دوسری جلد بھی تیار ہے۔ جو انشاء اللہ نومبر ۱۹۷۷ء تک پیش کر دی جائے گی۔ دوسری جلد کی اہمیت پہلی جلد سے بھی زیادہ ہو گی۔ کیونکہ اس جلد میں بھی قابل ذکر (کچھ کمیاب اور کچھ نایاب) مواد ہے۔ جو اس ادارہ کا طرہ امتیاز ہے۔ اس حصے میں بھی پاک و ہند کے نامور اہل قلم کے مضامین جو اہل علم کے لیے حوالوں کا کام دیں گے۔ (ادارہ نقوش‘ لاہور) ٭٭٭ اقبال اور عشق رسولؐ سرمایہ درد تو غارت نتواں کردن اشکے کہ زدل خیزد دریدہ شکستم من ٭٭٭ علامہ اقبال بارگاہ رسالتؐ میں ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں علامہ اقبال کے جد اعلیٰ کشمیر میں بابا لوئی حاجی کے نام سے مشہور مشائخ میں شمار ہوتے تھے جو بابا نصر الدین ؒ (المتوفی ۸۵۵ھ) کے مرید تھے ۱؎ ۔ والدین ماجدین اور استاد میر حسن کی تربیت سے علامہ کی ذہنی نشوونما جس نہج پر ہوئی ہے اس کی تفصیل مختلف کتابوں اور مقالوں میں موجود ہے۔ بچپن میں علامہ نے ایک پیشہ ور گدائے مبرم کی سرزنش کی تھی تووالد مرحوم ۲؎ لرز گئے تھے اور اس طرح بیٹے سے خطاب کیا تھا کہ جیسا کہ رموز بے خودی میں ہے: اند کے اندیش و یاد آور پسر اجتماع امت خیر البشرؐ باز ایں ریش سفید من نگر لرزہ بیم و امید من نگر برپدر ایں جور نازیبا کن پیش مولا بندہ را رسوا کن غنچہ از شاخسار مصطفیٰ گل شو از باد بہار مصطفیٰؐ از بہارش رنگ و بو باید گرفت بہرہ از خلق او باید گرفت فطرت مسلم سراپا شفقت است درجہاں دست و زبانش رحمت است والدہ مرحومہ کی تربیت سے جو فیض حاصل ہوا تھا ا س کا ذکر بھی اقبال نے اس طرح کیا ہے: تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا گھر مرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات والدین ماجدین اور استاد کا ذکر ’’التجائے مسافر‘‘ میں بھی ہے: پھر آرکھوں قدم مادر و پدر پہ جبیں کیا جنہوںنے محبت کا رازداں مجھ کو وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجھ کو نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو ۱؎ تفصیل کے لیے دیکھیں رسالہ صحیفہ لاہور اکتوبر ۱۹۷۳ء صفحہ ۱۔۱۲ ۲۔ ان کا انتقال ۱۷ اگست ۱۹۳۰ء کو ہوا۔ ۳۔ والدہ مرحومہ کا انتقال ۹ نومبر ۱۹۱۴ کو ہوا رسالہ صحیفہ لاہور اکتوبر ۱۹۷۳ء صفحہ ۱۳۱ مکاتیب اقبال حصہ دوم لاہور ۱۹۵۱ء صفحہ ۱۱۱۔ ۱۱۳ میں اقبال اور ان کے والد صاحب کے متعلق دو واقعات ملتے ہیں جو دلچسپی سے خالی نہیں۔ استاد مرحوم المتوفی ۸۱۹۲۹ سے مستفید ہونے کا زمانہ ایف اے کی تعلیم کی تکمیل تک رہا یہی زمانہ والدین سے زیادہ قریب رہنے کا بھی تھی۔ وہ خود فرماتے ہیں: ’’جب میں ایف ا ے میں پڑھتا تھا تو صبح کی نماز کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتا تھا۔ والد صاحب مسجد سے نماز پڑھ کر آت یتو کبھی منزل ختم کر چکا ہوتا کبھی جاری رہتی۔ ایک دن آ کر پوچھتے ہیں کہ کیا پڑھتے تھے؟ مجھے حیرت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا کہ چھ مہینے ہو گئے اور ہر روز دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم پڑھتا ہوں پھر یہ سوا ل کیسا؟ نہایت نرمی سیفرمایا میںپوچھتا ہوں کہ کچھ سمجھ بھی آ جاتا ہے؟ اب میرا استعجاب اور غصہ جاتا رہا ۔ اور کہا کچھ عربی جانتا ہوں کہیں کہیں سمجھ میں آ جاتا ہے۔ بات ختم ہو گئی کوئی چھے ماہ بعد ایک دن لے کر بیٹھ گئے اورفرمایا بیٹا قرآن کریم اس کی سمجھ میں آ سکتا ہے جس پر یہ نازل ہوتا ہے میں حیران تھا کہ کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد قرآن کریم کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ فرمایا یہ تم نے کیسے سمجھ لیا کہ قرآن کریم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کسی پر نازل نہیں ہو سکتا۔ میں پھر حیران ہوا تو فرمایا انسانیت کو جس معراج پر پہنچانا فطرت کا مقصود ہے اس کا نمونہ ہمارے سامنے محمدؐ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ حضرت آدمؑ سے حضرت عیسیٰؑ تک ہر نبی محمدؐ ہی کے مختلف مدارج تھے وہ سلسلے گویا Muhammad in the Making (تکمیل محمدؐ) کے منازل تھے ۔ بنیادی اصول ہر جگہ ایک تھا۔ البتہ شعور انسانی کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ فروعات کی تکمیل ہوتی جاتی تھی۔ حتیٰ کہ محمدؐ مکمل ہو گیا۔ باب نبوت بند ہو گیا۔ انسانیت اپنی معراج کبریٰ تک پہنچ گئی۔ اب ہر انسان کے سامنے معراج انسانیت کا نمونہ محمدؐ موجود ہے۔ کوئی انسان جتنا محمدیت کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اتنا ہی قرآن ا س پر نازل ہوتا جاتاہے۔ یہ مفہوم تھا میرے کہنے کا کہ قرآن کریم اس کی سمجھ میں آسکتا ہے کہ جس پر نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے ۱؎‘‘۔ سیالکوٹ سے ۱۸۹۵ء میں ایف اے پاس کر کے لاہور آ گئے وہاں ۱۸۹۷ء میں بی اے اور ۱۸۹۹ء میں پروفیسر آرنلڈ کی تربیت میں ایم اے پاس کیا پھر پروفسیر موصوف کی کشش نے انہیں انگلستان بلوا لیا۔ ڈاکٹری اور بیرسٹری کی سند لے کر ۱۹۰۸ ء میں واپس آئے ۲؎۔ لیکن وہاں جانے ۳؎ سے پہلے اورواپسی پر حضرت نظام الدین اولیائؒ کے آستانے پر دہلی میں حاضری دی جس سے ظاہر ہے کہ انہیں اپنے والدین کے زیر تربیت اللہ والوں سے کس قدر عقیدت تھی۔ ۱؎ رسالہ فکر و نظر(اسلام آباداگست ۱۹۷۶ء صفحہ ۱۱۹) والد صاحب مذکورہ بالا کی ہدایت کے پیش نظر علامہ اقبال نے بال جبریل میں فرمایا ہے: ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کشا ہے نہ رازیؒ نہ صاحب کشاف ۲؎ کیمبرج لندن اور میونک یونیورسٹیوں کے علمی مشاغل کا مفصل تذکرہ مختلف کتابوں میں موجود ہے۔ ۳؎ انگلستان ۱۹۰۵ء میں گئے تھے ۱۹۰۳ ء میں نظم ابر گہر بار (فریاد امت) لکھی تھی اور ۱۱ مارچ کے مکتوب میں اس کا ذکر ہے۔ یورپ میں قیام کے زمانے میں علامہ اقبال نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہاں کے لوگ وطنیت اور قومیت کے نظریوں کے پردے میں کمزور قوموں کو ختم کرنے کا منصبہ بنا رہے ہیں۔ جنگ بلقان ارو جنگ طرابلس محض مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے کی گئی تھیںاس لیے علامہ اقبال نے شکوہ جواب شکوہ‘ فاطمہ بنت عبداللہ اور حضور رسالت مآبؐ میں ۱؎ عنوانوں سے جو نظمیں لکھی ہیں وہ مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی میں ہیں۔ نظم شمع اور شاعر بھی اسی جذبے کے تحت لکھی گئی ہے۔ جو فروری ۱۹۱۲ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہی وہ نظم ہے جس میں غالباً پہلی بار انہوںنے بیخودی اور خودی کے نظریے پیش کیے تھے۔ فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو قطرہ ہے لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے پھر انہوںنے باقاعدہ اپنے مذکورہ نظریوں سے متعلق اسرار خودی اور رموز بے خودی مثنویاں شائع کیں۔ لکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا دونوں کتابیں ۱۹۱۴ء اور ۱۹۱۸ میں شائع ہوئیں ۲؎ ۔ لیکن وہ خد ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جو خیالات میں نے ان مثنویوں میں ظاہر کیے ہیں ان کو برابر ۱۹۰۷ء سے ظاہر کر رہا ہوں ۳؎ بہرحال اسرار خودی کے یہ اشعار حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں جس انداز سے لکھے گئے ہیں وہ اہل دل کے لیے متاع گراں مایہ ہے: در دل مسلم مقام مصطفیٰؐ است آبروئے ماز نام مصطفیٰؐ است طور موجے از غبار خانہ اش کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش کمتر از آنے ز اوقاتش ابد کاسب افزایش از ذاتش ابد بوریا ممنون خواب راحتش تاج کسریٰ زیر پائے امتش در شبستاں حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید رموز بے خودی میں بھی جگہ جگہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کیا ہے اور یہ کہ: ہست دین مصطفیٰؐ دین حیات شرع او تفسیر آئین حیات پھر اس مثنوی کے آخر میں عرض حال ہے جس سے انتہائی خلوص کے ساتھ عرض کرتے ہیں: ۱؎ نظم شفاخانہ حجاز میں اقبا ل آرزو کرتے ہیں: میں موت ڈھونڈتا ہوں زمین حجاز میں ۶ اکتوبر ۱۹۱۱ء کو اکبر الہ آبادی کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں خدا آ پ کو اور مجھ کو بھی زیارت روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نصیب کرے۔ مدت سے یہ آرزو دل میں پرورش پا رہی ہے کہ دیکھیے کب جوان ہوتی ہے۔ ۲؎ مکاتیب اقبال حصہ دوم نمبر ۹۱ ۳؎ مکاتیب اقبال۔ حصہ اول۔ نمبر ۵۱ اے ظہور تو شباب زندگی جلوہ ات تعبیر خواب زندگی اے زمیں از بازگاہت ارجمند آسماں از بوسہ بامت بلند شش جہت روشن ز تاب رو سے تو ترک و تاجیک و عرب ہندو سے تو از تو بالا پایہ ایں کائنات فقر تو سرمایہ ایں کائنات در جہاں شمع حیات افروختی بندگاں راخواجگی آموختی… اس نعت کے بعد قوم کے متعلق کہتے ہیں: محفل از شمع نوا افروخبتم قوم را رمز حیات آموختم لیکن پھر عرض پرداز ہیں: اے بصیری رار دابخشندہ بربط سلما مرا نجشندہ ذوق حق دہ ایں خطا اندیش را ایں کہ نشنا سد متاع خویش را گردلم آئینہ بے جوہر است وربحر فم غیر قرآن مضمر است اے فروغت صبھ اعصار و دہور چشم تو بینندہ ما فی الصدور پردہ ناموس فکرم چاک کن ایں خیاباں راز خارم پاک کن تنگ کن رخت حیات اندر برم اہل ملت را نگہدار از شرم سبز کشت نابسامانم مکن بہرہ گیر ازا بر نیانم مکن خشک گرداں بادہ درانگور من زہر ریز اندر مئے کافور من روز محشر خوارو رسوا کن مرا بے نصیب از بو سرپاکن مرا اللہ اللہ کتنا خلوص ہے ایسے خلوص کی مثالیںاہل اللہ کے یہاں بھی اکثر کم یاب ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔ اس کے بعد پھر عرض کرتے ہیں: گر در اسرار قرآں سفتہ ام با مسلماناں اگر حق گفتہ ام اے کہ از احساں تو ناکس کس است یک و عایت مزد گفتارم بس است عرض کن پیش خدا خداے عز و جل عشق من گردد ہم آغوش عمل… پھرایک اور آرزو پیش کرتے ہیں: رخت جاں تادر جہاں آوردہ ام آرزوئے دیگرے پروردہ ام ہمچو دل در سینہ ام آسودہ است محرم از صبح حیاتم بودہ است اپنے والد صاحب کے فیضان کا ذکر بھی کرتے ہیں کہ: از پدر تا نام تو آموختم آتش ایں آرزو افروختم تافلک دیرینہ تر سازد مرا درقمار زندگی بازو مرا آرزوئے من جواں ترمی شود ایں کہن صہبا گراں ترمی شود ایں تمنا زیر خاکم گوہر است در بشم تاب ہمیں یک اختر است اس آرزو کا ذکر بعد میں کریں گے۔ ابھی خود اپنے گزشتہ حالات بھی بے کم و کاست عرض کرنا چاہتے ہیں کہ: مدتے بالالہ رویاں ساختم عشق با مرغولہ مویاں باختم بادہ ہا با ماہ سیمایاں زدم بر چراغ عافیت و اماں زدم عقل آزر پیشہ ام زنار بست نقش او در کشود جانم نشست سالہا بودم گرفتار شکے از باغ خشک من لا ینفکے حرفے از علم الیقیں ناخواندہ در گماں آباد حکمت ماندہ ظلمتم از تاب حق بیگانہ بود شامم از نور شفق بیگانہ بود اس کے بعد پھر اپنی آرزو کا ذکر کرتے ہیں: ایں تمنا در دلم خوابیدہ ماند در صدف مثل گہر پوشیدہ ماند آخر از پیمانہ چشمم چکید در ضمیر من نواہا آفرید اے زیار غیر تو جانم تہی برلبش آرم اگر فرماں دہی زندگی را از عمل سامان نبود پس مرا ایں آرزو شایان ہنود شرم از اظہار او آید مرا شفقت تو جرات افزا ید مرا ہست شان رحمتت گیتی نواز آرزو دارم کہ میرم در حجاز پھر بہت ڈرتے ڈرتے ہوئے ا س آرزو کا اظہار کرتے ہیں جس کا ذکر انہوںنے نظم شفاخانہ حجاز میں پہلے بھی کیا تھا کہ: میں موت ڈھونڈتا ہوں زمین حجاز میں ۱؎ اور یہ آرزو یقینا موجب افتخار و ابتہاج ہے کہ: بافلک گویم کہ آرامم نگر دیدہ آغازم انجامم نگر ۱؎؎ ایک حدیث کی رو سے یہ بات حقیقت بن جاتی ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے جس قدر زیادہ عقیدت ہو گی اسی قدر حضورؐ کا قرب زیادہ حاصل ہو گا۔ سحر خیزی سے بھی یہ محبت حاصل ہو جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی سحر خیی کا ذکر ۳۱ اکتوبر ۱۹۱۶ء ک مکتوب میں کیا ہے دیکھیں مکاتیب حصہ دوم نمبر ۶۵ یہاں یہ عرض کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مثنوی رموز بے خودی کن حالات میں لکھی گئی ۔ علامہ اقبال ۴ اکتوبر ۱۹۱۵ء کے مکتوب میں لکھتے ہیں: ’’ہندوستان کے مسلمان کئی صدیوں سے ایرانی تارات کے اثر میں ہیں۱؎ ۔ ان کو عربی اسلام سے اور اس کے نصب العین اور غرض و غایت سے آشنائی نہیں۔ ان کے لٹریری آئیڈیل بھی ایرانی ہیں اور سوشل نصب العین بھی ایرانی ۔ میں چاہتا ہوں کہ اس مثنوی میں حقیقی اسلام کو بے نقاب کروں جس کی اشاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے ہوئی تھی۔ صوفی لوگوں نے اسے تصوف پر ایک حملہ تصور کیا ہے اور یہ خیال کسی حد تک درست بھی ہے۔ انشاء اللہ دوسرے حصے میں رموز بے خودی میں دکھائوں گا کہ تصوف کیا ہے اور کہاں سے آیا صحابہ کرامؓ کی زندگی سے کہاں تک ان کی تعلیمات کی تصدیق ہوتی ہے جس کا تصوف ہامی ہے‘‘۔ مسلمانوں کی بے حسی اور انحطاط کے اسباب و علل کا ذکر کئی جگہ علامہ نے کیا ہے۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا ثکر ۱۰ جولائی ۱۹۱۶ء کے ایک مکتوب میں اس طرح ہے: ’’حدیث میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کرتاہے افسوس ہے مسلمان مردہ ہیں۔ انحطا ط ملی نے ان کے تمام قویٰ کو شل کر دیا ہے۔ اور انحطاط کا سب سے بڑا جار یہ ہے کہ یہ اپنے صید پر ایسا اثر ڈالتا ہے کہ جس سے انحطاط کا مسحور اپنے قاتل کو اپنا مربی تصور کرنے لگ جاتا ہے۔ یہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہے۔ مگر ہمیں ادائے فرض سے کام ہے۔ ملامت کا خوف رکھنا ہمارے مذہب میں حرام ہے میں مثنوی اسرار خودی کا دوسرا حصہ لکھ رہا ہوں۔ امید ہے اس حصے میں بعض باتوں پر مزید روشنی پڑے گی…حقیقت یہ ہے کہ کسی مذہب یا قوم کے دستور العمل و شعار میں باطنی معانی تلاش کرنا یا باطنی علوم پیدا کرنا اصل میں اس دستور العمل کو مسخ کر دینا ہے ۔ یہ ایک نہایت Subtle(لطیف؟) طریق تنسیخ کا ہے اور یہ طریق وہی قومیں اختیار یا ایجاد کر سکتی ہیں جن کی فطرت گوسفندی ہو۔ شعرائے عجم میں بیشتر وہ شعراء ہیں جو اپنے فطری میلان کے باعث وجودی فلسفے کی طرف مائل تھے۔ اسلام سے پہلے بھی ایرانی قوم میںیہ میلان طبیعت موجود تھااور اگرچہ اسلا م نے کچھ عرصے تک اس کا نشوونما نہ ہونے دیا تاہم وقت پا کر ایران کا آبائی اور طبعی مذاق اچھی طرح سے ظاہر ہوا۔ یا بہ الفاظ دیگر مسلمانوں میں ایک ایسے لٹریچر کی بنیاد پڑی جس کی بنا پر وحدت الوجود تھی۔ ان شعرا نے عجیب و غریب اور بظاہر دل فریب طریقوں سے شعائر اسلام کی تردید و تنسیخ کی ہے اور اسلام کی ہر محمود شے کو ایک طرح سے مذموم بیان کیا ہے…۲؎‘‘ ۱؎ اسی قسم کے خیالات کا اظہار اکبر الہ آبادی کے نام مکتوبات میں بھی ہے۔ دیکھیں مکاتیب اقبال حصہ دوم نمبر ۲۱۔۲۲ ۲؎ ۱۹ جولائی ۱۹۱۶ء کے ایک مکتوب میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔ فرماتے ہیں اس طرح ان لوگوں نے نہایت بے دردی سے قرآن اور اسلام میں (بقیہ حاشیہ صفحہ آئندہ) اگر علامہ اقبال کے ا س نظریے کے مطابق ہمارے شعرا کا مطالعہ کیا جائے تو واقعی عجیب و غریب باتیں ظاہر ہوں گی۔ قوم اور ملت کا در د محض حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے حد درجہ محبت اور عقیدت کی وجہ سے تھا اسی لیے سیرت طیبہ کا مطالعہ علامہ اقبال کا محبوب مشغلہ تھا۔ ۳ اکتوبر ۱۹۱۸ء کو مولانا سلیمان ندویؒ کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: ’’…معنوی طور پر آپ کی صحبت رہی کیونکہ رات کو سیرۃ النبیؐ کا مطالعہ رہتا تھا۔ مولانا شبلیؒ مرحوم نے مسلمانوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے جس کا صلہ دربار نبویؐ سے عطا ہو گا‘‘۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عقیدت کا ذکر مولانا غلام قادر گرامی کے نام ۱۲ اکتوبر ۱۹۱۸ء کے ایک مکتوب میں اس طرح ہے: ’’مسلم کو موت نہیں چھو سکتی کہ اس کی قوت حیات و موت کو اپنے اندر جذب کر کے حیات و ممات کا تناقض مٹا چکی ہے شاید نضیرنام ایک شخص تھا جو پہلے حضور علیہ الصلوہ والسلام کو سخت اذیت دیتا تھا۔ فتح مکہ کے بعد جب حضورؐ شہر میں داخل ہوئے تو ایک مجمع عام میں آپؐ نے علیؓ کو حکم دیا کہ اس کی گردن اڑا دو۔ ذوالفقار حیدری نے ایک آن میں اس کم بخت کا خاتمہ کر دیا۔ اس کی لاش خاک و خون میں تڑپ رہی تھی لیکن وہ ہستی جس کی آنکھوں میں دوشیزہ لڑکیوں سے بھی زیادہ حیا تھی اور جس کا قلب تاثرات لطیف کا سرچشمہ تھا۔ اس درد انگیز منظر سے مطلق متاثر نہ ہوئی۔ نضیر کی بیٹی نے باپ کے قتل کی خبر سنی تو وہ نوحہ و فریاد کرتی اور باپ کی جدائی میں درد انگیز اشعار پڑھتی ہوئی دربار نبویؐ میں حاضر ہوئی۔ اللہ اکبر اشعارسنے تو حضورؐ اس قدر متاثر ہوئے کہ اس لڑکی کے ساتھ مل کر رونے لگے۔ یہاں تک کہ جوش ہمدردی نے اس سب سے زیادہ ضبط کرنے والے انسان کے سینے مین ایک آہ سر دنکلوا کر چھوڑی۔ پھر نضیر کی تڑپتی ہوئی لاش کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔ یہ فعل محمد رسول اللہؐ کا ہے اور اپنی روتی ہوئی آنکھ پر انگلی رکھ کر کہا کہ یہ فعل محمد بن عبداللہ کا ہے پھر حکم دیا کہ نضیر کے بعد کوئی شخص مکہ میں قتل نہ کیا جائے۔ غرض کہ اسی طرح مسلم حنیف جذبات متناقض یعنی قہر و محبت اپنے قلب کی گرمی سے تحلیل کرتا ہے اور اس کا دائرہ اثر اخلاقی تناقضات تک ہی محدو دنہیں بلکہ تمام تناقضات پر بھی حاوی ہے۔ پھر مسلم جو حامل محمدیت کا اور وارث ہے موسویت کا اور ابراہیمیت کا کیونکر کسی شے میں جذب ہو سکتا ہے؟ (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) ہندی اور یونانی تخیلات داخل کر دیے ہیں۔ کاش مولانا نظامی کی دعا اس زمانے میں قبول ہواور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تشریف لائیں اور ہندی مسلمانوں پر اپنا دین بے نقاب کریں… جس قوم میں طاقت و توانائی مفقود ہو جائے جیسا کہ تارتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہو گئی تو پھر اس قوم کا نقطہ نگاہ بدل جایا کرتاہے ان کے نزدیک ناتوانی ایک حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے اور ترک دنیا موجب تسکین اس ترک دنیا کے پردے میں قومیں اپنی سستی اور کاہلی اور اس شکست کو جوان کے تنازع للبقا میں ہو چھپایا کرتی ہیں۔ خود ہندوستان کے مسلمانوں کو دیکھیے کہ ان کی ادبیات کا انتہائی کمال لکھنو کی مرثیہ گوئی پر ختم ہوا‘‘۔ البتہ اس زمان و مکان کی مقید دنیا کے مرکز میں ایک ریگستان ہے جو مسلم کو جذب کر سکتا ہے اور ا س کی قوت جاذبہ ذوق اور فطری نہیںبلکہ مستعار ہے ایک کف پا سے جس نے اس ریگستان کے چمکتے ذرو ں کو بھی پامال کیا تھا‘‘۔ اسی انداز سے علامہ اقبال نے ایک جگہ اور بھی فرمایا ہے: ’’البتہ ایک ہستی ضرور ایسی گزری ہے جس نے خود ہی ایک نظریہ پیش کیا اور خود ہی اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ۔ جانتے ہو وہ کون تھا؟ … وہ محمد عربیؐ تھا یا پھر موسیٰؑ‘‘۔ ۱؎ یہ بات بھی محض حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی عقیدت کی وجہ سے تھی کہ وہ مولانا سلیمان ندوی کے نام ۲ دسمبر ۱۹۱۸ء کو لکھتے ہیں: ’’آ امت محمدیہ کے خاص افراد میں سے ہیں اور اس لیے مامور من اللہ قوم کے خاص افراد ہی کو امر الٰہی ودیعت کیا گیا ہے۔ فرقہ یاسیہ کو چھوڑ کر فرقہ رجائیہ میں آ جائیے جس حقیقت کو آپ درپردہ دیکھ چکے ہیں اس کی بے نقابی کا زمانہ قریب ہے انشاء اللہ‘‘۔ اسی رجائیت کا ذکر علامہ اقبال نے اپنی نظم طلوع اسلام کے آخر میں کیا تھا: کنا راز زاہداں برگیرو بیباکانہ ساغر کش پس از مدت ازیں شاخ کہن بانگ ہزار آمد بہ مشتاقاں حدیث خواجہ بدروحنین آور تصرفہا سے پہنانش بچشم آشکار آمد دگر شاخ خلیلؑ از کون ما نمناک می گردد بباز ار محبت نقد ما کامل عیار آمد پھر اپریل ۱۹۲۲ء تک پیام مشرق چھپ گئی ہو گی اور اس پر غالباً ماہ جون کے رسالہ معارف (اعظم گڑھ) میں مولانا سلیمان ندوی کا تبصرہ شائع ہوا تھا۔ علامہ اقبال نے اس کا شکریہ ادا کیا ہے ۲؎۔ پیام مشرق میں علامہ نے کشمیری کی نسبت کے ساتھ ساتھ حجازی دل کا ذکر بھی کیا ہے: تنم گلے ز خیابان جنت کشمیر دل از حریم حجاز و نواز شیراز است اس کتاب میں بھی انہوںنے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس طرح عرض کیا ہے: باخدا در پردہ گویم با تو گویم آشکار یا رسول اللہؐ او پنہاں و تو پیدا ے من اور خطاب بہ مصطفی کمال پاشا والی نظم میں کہا ہے: امیےؐ بود کہ ماز اثر حکمت او واقف از سر نہاں خانہ تقدیم شدیم اصل مایک شرر باختہ رنگے بودہ ست نظر سے کرد کہ خورشید جہانگیر شدیم ۱؎ دیکھیں مکاتیب اقبال حصہ اول نمبر ۱۲۴ ۲؎ ایضا نمبر لیکن حصہ دوم کے مکتوب میں جو ۱۶ مارچ ۱۹۱۲ کو لکھا گیا پیام مشرق کے جلد شائع ہونے کی یہ اطلاع ہے کہ ابھی طباعت ہو رہی ہے۔ اور شروع میں امیر امان اللہ خان کے لیے جو اشعار ہیں ان میں یہ شعر کس قدر رفعت اور سربلندی کا پیام ہے۔ ہر کہ عشق مصطفیٰؐ سامان اوست بحر و بر در گوشہ دامان اوست ۱؎ ہم اوپر نظم طلوع اسلام کا ذکر کر چکے ہیں ۲؎ وہ ۱۹۲۳ء میں لکھی گئی جبکہ مصطفی کمال نے ترکوں کو آزاد کرایا تھا… وہ نظم بانگ درا میں شامل ہے جوستمبر ۱۹۲۴ء میں شائع ہوئی اس کتاب میں بھی جگہ جگہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت کا اظہار کیا گیا ہے۔ غزلوں میں سے چند اشعار یہ ہیں: کرم اے شہؐ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر بہ کرم وہ گدا کہ تو نے عطا کیاہے جنہیں دماغ سکندری ٭٭٭ اے باد صبا کملی والےؐ سے جا کہیو یہ پیغام مرا قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا دنیا بھی گئی ٭٭٭ مرا ساز اگرچہ ستم رسیدہ زخمہ ہائے عجم رہا وہ شہید زوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی بانگ درا کی اکثر نظموں میں بھی یہی عقیدت نظر آتی ہے بلا د اسلامیہ ترانہ ملی وطنیت ایک حاجی مدینے کے راستے میں خطاب بہ جوانان اسلام وغیرہ دیکھیے پھر حضور رسالت مآبؐ عرض کرتے ہیں: حضورؐ دہر میں آسودگی نہیںملتی تلاش میں جس کی ہے وہ زندگی نہیںملتی ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیںملتی مکر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں پھر زبور عجم ۱۹۲۶ء میں مکمل ہوئی اور دوسرے سال شائع ہوئی۔ اس میں بھی حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے نور عین حضر ت امام حسین رضی اللہ عنہ کی حیات طیبہ سے جوش عمل حاصل کرنا چاہتے ہیں لکھتے ہیں: ۱؎ جواب شکوہ میں بھی ہے: کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ۲؎ یکم جنوری ۱۹۲۳ء کو علامہ اقبال کو سر کاخطاب ملا تھا۔ ۴جنوری کے ایک مکتوب میں اس خیال سے کہ اب کوئی انہیںحکومت کا بندہ نہ سمجھے لکھتے ہیں: قسم ہے خدائے ذوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جان اور آ برو ہے اور قسم ہے اس بزرگ و برتر کی جس کی وجہ سے مجھے خدا پر ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں دنیا کی کوئی طاقت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی انشاء اللہ۔ اقبال کی زندگی مومنانہ نہیںلیکن اس کا دل مومن ہے۔ پھر ۱۴جنوری ۱۹۲۳ء کے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں کہ میرا عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی اسی طرح مستفیض ہو سکتے ہیں جس طرح صحابہؓ ہو اکرتے تھے۔ ریگ عراق منتظر کشت حجاز تشنہ کام خون حسینؓ باز وہ کوفہ وہ شام خویش را ۱؎ ایک جگہ یوں بھی عرض کرتے ہیں: حکمت و فلسفہ کردہ ست گراں خیز مرا خضر من از سرم ایں بار گراں پاک انداز حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت بڑی مصلحت رکھتی ہے۔ مصطفیٰؐ از کعبہ ہجرت کردہ با ام الکتاب پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سیرت مبارکہ ہے کہ جس سے بے ہمہ اور باہمہ کا درس ملتا ہے۔ زندگی انجمن آرا و نگہدار خود است اے کہ در قافلہ بے شو باہمہ رو اس کے بعد علامہ اقبال الٰہیات اسلامیہ والے انگریزی خطبات کی تیاری میں مصرو ف رہے۔ گو کہ زبور عجم کی ترتیب کے وقت وہ کونسل کے ممبر بھی منتخب ہو چکے تھے۔ اور سیاسی خدمات میں بھی پیش پیش تھے ۲؎۔ انگریزی خطبات گو کہ علامہ اقبال نے ۱۹۲۸ء سے لکھنے شروع کیے ہیں لیکن بہت پہلے سے یہ کام ان کے ذہن میں تھا۔ مولانا سلیمان ندویؒ کے نام جو مکاتیب میں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ۱۹۲۲ء سے ان کی تیاری میں لگے ہوئے تھے۔ یہ مکاتیب ۶۰ تا ۶۶ ۶۸ تا ۸۰ ۔ ۸۲۔۸۹۔۹۱ جن میں ان مسائل سے متعلق استفسارات ہیں جن کا ذکر ان خطبات میں آتا ہے۔ ان مکاتیب کی مدت تحڑیر ۱۹۲۲ء سے ۱۹۳۳ء تک ہے گو کہ وہ شروع کے چھے خطبات ۱۹۳۰ء تک تیار کر چکے تھے مکتوب نمبر ۱۰۶ (حصہ اول) میں ۵ دسمبر ۱۹۲۸ ء کو لکھتے ہیں۔ ’’تین لیکچر امسال لکھے گئے ہیں۔ تین آئندہ سال لکھوں گا اورمدراس میں ہی دسمبرت ۱۹۲۹ یا جنوری ۱۹۳۰ء میں دوں گا۔ حیدر آباد (دکن) بھی ٹھہروں گا۔ کیونکہ عثمانیہ یونی ورسٹی کا تار آیا ہے کہ لیکچر ہواں بھی دیے جائیں ۳؎‘‘۔ علامہ اقبال نے یہ لیکچر مدراس حیدر آباد اور علی گڑھ میں دیے لیکن ان سے متعلق ان کا مطالعہ جاری رہا۔ چنانچہ ساتوں لیکچر کیا مذہب کا امکان ہے؟ Is Religion Possible انہوںنے لندن Aristotlian Society کے لیے تیار کیا تھا جس کی تکمیل کا ذکر ۲۹ مئی ۱۹۳۲ء کے مکتوب نمبر ۱۲۳ حصہ دوم میں ہے۔ ممکن ہے کہ اس کے بعد بھی اس میں ترمیم اور اضافہ کیا گیا ہو لیکچروں خطبات کے مضامین کی نوعیت کے اعتبار سے مکتوب نمبر ۱۹ حصہ اول بھی بڑی مناسبت رکھتاہے جو ۲ ستمبر ۱۹۲۵ء کو لکھا گیا تھا: ۱؎ بال جبریل میں بھی ہے: قافلہ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسو ے دجلہ و فرات ۲ ؎ غالباً اسی زمانے میں علامہ اقبال نے ڈاکٹر نکلسن کو وہ طویل مکتوب لکھا ہے جو مکاتیب حصہ اول کے آخر میں ہے۔ ۳؎ مکتوب نمبر ۱۴۶ حصہ اول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انگریزی خطبات ۲۰ مئی ۱۹۳۰ء سے پہلے شائع ہو چکے تھے۔ ’’…کیا اچھا ہو کہ وہ مولوی صاحب شریعت محمدیہ پر ایک مبسوط کتاب تحریر فرمائیں جس میں عبادت و معاملات کے متعلق صرف قرآن سے استدلال کیا گیا ہو۔ معاملات کے متعلق خاص طور پر …ایک مدت سے ہم یہ سن رہے ہیں کہ قرآن کامل کتاب ہے اور خود اپنے کمال کی مدعی ہے ۔ رسالہ ابلاغ امرتسر کے ہر نمبر میں اورمولوی حشمت علی صاحب کے رسالہ اشاعتہ القرآن کے ہر نمبر میں اسی پر بحث ہوتی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ا س ک کمال کو عملی طور پر ثابت کیا جائے کہ سیاست انسانی کے لیے تمام ضروری قواعد عبادات یا معاملات کے متعلق بالخصوس موخر الذکر کے متعلق دیگر اقوام میں اس وقت مروج ہیں ان پر قرآنی نقطہ نگاہ سے زمانہ حال کے ۱؎ Iurisprudence(اصول فقہ) پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کرے گا وہی اسلام کا مجدد ہو گا اوربنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم بھی وہی شخص ہوگا‘‘۔ پھر شرعی تقاضوں اور حالات حاضرہ سے متعلق علامہ اقبال نے اس طرح اظہار خیال کیا: ’’ شارع امی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اصول بتائے ہیں کہ ان کی ہمہ گیری کے سامنے حال کے مغربی فقہا کا تفقہ جس پر ہمارے وکیلوں اور بیرسٹروں کو ناز ہے ایک طفل مکتب کی ابجد خوانی معلوم ہوتی ہے۔ رسالت محمدیہ کا مقصد صر ف یہی نہیں کہ بندوںکو اپنے رب سے ملائے بلکہ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ بندوں کو چار عناصر کی دنیا میں رہنے اور انفرادی اور ملی زندگی بسر کرنے کے لیے ایک مکمل آئین بھی تیار فرمائے اور یہ آئین خدا ے تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس وقت تک مسلمان نو کے پاس ہے۔ اس سے مستفید ہونے کے لیے قوت استدلال اور پاکیزگی عمل کی ضرورت ہے اور ان اوصاف کی متاع گراں بہا بھی ابھی تک بکلی مفقود نہیں ہوئی۔ … ان مسلمانوں کو اپنے ہر فعل کے لیے خواہ انفرادی ہو خواہ اجتماعی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں نظام کار تلاش کرنا چاہیے اور جو نظام کار ان دو ماخذوں سے ملے اسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے ۲؎‘‘۔ یہی وہ زمانہ تھا جب کہ علامہ اقبال سیاست کے میدان میں داخل ہوئے تھے۔ وہ ۱۹۲۶ء میں کونسل کے ممبر ہوئے اور ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ الہ آباد میں صدر کی حیثیت سے اپنے خطبے میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن (پاکستان) کا مطالبہ تھا۔ پھر آپ دوسری گول میز کانفرنس لندن کے ممبر منتخب ہوئے۔ یہ کانفرنس ۱۷ ستمبر ۱۹۳۱ء میں شروع ہو کر یکم دسمبر ۱۹۳۱ء میں ختم ہوئی۔ واپسی میں وہ سپین وغیرہ کی سیر بھی کی۔ غالباً الہ آباد کے اجلاس ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کے زمانے میں یا اس سے پہلے علامہ اقبال نے ایک خواب دیکھا تھا۔ راغب احسن صاحب کے نام ایک مکتوب مورخہ ۲۸ مئی ۱۹۳۱ء میں لکھتے ہیں: ۱؎ یہی بات مولانا سلیمان ندوی ؒ کے نام ۸ مارچ ۱۹۲۶ء اور ۷ اپریل ۱۹۲۶ء کے مکاتیب میں بھی ہے۔ ۲؎ رسالہ صحیفہ لاہور اکتوبر ۱۹۷۳ء صفحہ ۲۳۸ ’’ایک مدت ہوئی میں نے خواب دیکھا تھا کہ ایک سیاہ پوش فوج عربی گھوڑوں پر سوار ہے۔ مجھے تفہیم ہوئی کہ یہ ملائکہ ہیں۔ میرے نزدیک اس کی تعبیر یہ ہے کہ ممالک اسلامیہ میں کوئی جدید تحریک پیدا ہونے والی ہے عربی گھوڑوں سے مراد روح اسلامیت ہے ۱؎‘‘۔ ۱۹۳۰ء میں ہی علامہ اقبال جاوید نامہ شروع کر چکے ہوں گے۔ ۲۰ جنوری ۱۹۳۱ء کے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: ’’آخری نظم جاوید نامہ جس کے دو ہزار اشعار ہوں گے ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ممکن ہے کہ اس مارچ تک ختم ہو جائے یہ ایک قسم کی ڈوائن کامیڈی ہے اور مثنوی مولانا رومؒ کی طرز پر لکھی گئی ہے‘‘۔۲؎ یہ کتاب ۲۲ اپریل ۳؎ تک مکمل ہو چکی تھی گو کہ فروری ۱۹۳۲ء میں شائع ہوئی۔ ۴؎ اس کتاب میں وہ رومیؒ کی زبانی اسرار معراج بیان کرتے ہیں: شاید ثالث شعور ذات حق خویش را دیدن نبور ذات حق پیش نورش ار بمانی استوار حتی و قائم چوں خدا خود را شمار مرد مومن در نسازد باصفات مصطفیؐ راضی نہ شد الا بہ ذات ۵؎ چیست معراج آرزوئے مشاہدے امتحانے روبروے شاہدے شاہد عادل کہ بے تصدیق او زندگی مارا چوگل را رنگ و بو در حضور ش کس نماند استوار وربماند ہست او کامل عیار ذرہ از کف مدہ تابے کہ ہست پختہ گیر اندر گرہ تابے کہ ہست تاب خود را رفزو دن خوشتراست پیش خورشید آزمودن خوشتراست پیکر فرسودہ را دیگر تراش امتحان خویش کن موجود باش ایں چنیں موجود محمود است و بس ورنہ نار زندگی دود است و بس ۱؎ مکاتیب حصہ دوم مکتوب ۹۶ ۲؎ مکاتیب حصہ اول نمبر ۱۰۸ ۳؎ مکاتیب حصہ دوم نمبر ۱۸۰ ۴؎ مکاتیب حصہ دوم نمبر ۱۸۶ موسیٰ ز ہوش رفت بیک جلوہ صفات تو عین ذات می نگری در تبسمی بال جبریل کا پہلا شعر بھی اسی انداز کا ہے: میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بت کدہ صفات میں مرد مومن کے لیے ان اشعار میں بھی پیام ہے اور اس جو ش اور گرمی تاب کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے جس سے زندگی محمود بن سکتی ہے۔ معراج مبارک انسانی صلاحیتوں کا منتہیٰ ہے جس کے متعلق علامہ اقبال نے کئی مقامات پر عجیب عجیب نکات بتائے ہیں اور قوم کو بیدار کرنے کے لیے اس سے بہت مفید نتائج اخذ کیے ہیں: مثلا بانگ درا میں فرماتے ہیں: رہ یک گام ہے ہمت کے لیے عرش بریں کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات بال جبریل میں ہے: سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیؐ سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں اورع ضرب کلیم میں ارشاد ہے: نادک ہے مسلماں کا ہدف اس کا ہے ثریا ہے سر سرا پردہ جاں نکتہ معراج جاوید نامہ میں بارہا حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا ذکر ہے۔ ایک موقع پر خلافت آدم کے ذیل میں کس قدر خلوص سے کہا ہے: مصطفیؐ اندر حرا خلوت گزید مدتے جز خویشتن کس راندید نقش مارا اور دل اوریختند ملتے از خلوتش انگیختند می توانی منکر یزداںشدن منکر از شان نبیؐ نتواں شدن ۱؎ یہ آخری شعر ہزاروں نعتوں پر بھاری ہے۔ اور سراپا حقیقت ہے کتاب کے آخر میں خطاب بہ جاوید نژاد نو ہے اس میں ادب اور عشق کا خاص پیغام ہے لکھتے ہیں: دیں سراپا سوختن اندر طلب انتہایش عشق و آغازش ادب آبروئے گل ز رنگ و بوئے اوست بے ادب بے رنگ و بو بے آبروست نوجوانے راچوبینم بے ادب ۲؎ روز من تاریک می گرد چوشب تاب و تب در سینہ افزاید مرا یاد عہد مصطفیؐ آید مرا اسی لیے الطریق کلہ ادب بھی کہا گیا ہے اور سورۃ الحجراب (۳) میں فرمان ہے: ۱؎ ایک جگہ یہ شعر بھی ہے: قوت قلب و جگر گردد نبیؐ از خدا محبوب تر گردد نبیؐ ۲؎ ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے دیکھا کہ علامہ اقبال سخت بے چین ہیں۔ پوچھنے پر بتایا کہ آج ایک نوجوان مسلمان مجھ سے ملنے آیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار محمد صاحب کہتا تھا مجھے سخت افسوس ہوا۔ (حیات اقبال ص ۱۱۵) یایھا الذین امنو الا ترقعوآ اصواتکم فوق صوت النبی ترجمہ: اے ایمان والو اپنی آوازوں کو نبیؐ کی آواز سے اونچا مت کرو۔۱؎ جاوید نامہ میں منصور حلاج کی زبانی حقیقت محمدی کاراز بتایا ہے کہ نور محمدیؐ ہی سے کائنات میں بہار ہے۔ وہ جو ہردہر ہے ۔ اور دہر اسی سے پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے تقدیر کی تشکیل ہوتی ہے۔ پیش او گیتی جبیں فرسودہ است خویش را خود عبدہ فرمودہ است عبدہ از فہم تو بالاتر است زانکہ ادہم آدم و ہم جوہر است جوہر او نے عرب نے اعجمم است آدم است و ہم ز آدم اقدم است عبدہ صورت گر تقدیر ہا اندرو ویرانہ ہا تعمیر ہا عبدہ ہم جانفرا ہم جاں ستاں عبدہ ہم شیشہ ہم سنگ گراں عبد دیگر عبدہ چیزے دگر ماسراپا انتظار او منتظر عبدہ دہر است و دہر از عبدہ ماہمہ رنگیم او بے رنگ و بو عبدہ با ابتدا بے انتہا ست عبدہ را صبح و شام ما کجا ست کس ز سر عبدہ آگاہ نیست عبدہ جز سر الا اللہ نیست دراصل یہ اسی عبدیت کا مقام اقربیت ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ۱۔ سبحن الذی آسریٰ بعبدہ (بنی اسرائیل ۔ ۱) اور مقام محمود بھی اسی لیے ہے۔ ۲۔ فاوحیٰ الیٰ عبدہ ما اوحیٰ (النجم ۔ ۱۰) ۳۔ تبرک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعلمین نذیراً (الفرقان۔۱) جاوید نامہ کے بعد علامہ اقبال نے اپنی مثنوی مسافر ۱۹۳۴ء میں لکھی ہوا یہ کہ نادر شاہ والی افغانستان نے مولانا سید سلیمان ندویؒ سر راس مسعود اور علامہ اقبال کو دینی تعلیمی امور میں مشورے کے لیے کابل دعوت دی یہ تینوں حضرات اکتوبر ۱۹۳۳ء کے آخر میں وہاں گئے اور قندھار کے راستے سے ۲ نومبر کو واپس ہوئے۔ افسوس کہ واپسی کے چند روز بعد ہی نادر شاہ قتل کر دیے گئے ۲؎۔ مثنوی مسافر میں لکھتے ہیں: فقر و شاہی واردات مصطفیؐ ست ایں تجلیائے ذات مصطفیؐ ست ایں دو قوت از وجود مومن است ایں قیام و آں سجود مومن است فقر سوز و درد و داغ و آرزو ست فقر رادر خوں تپیدن آبرو ست ۱؎ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اور امہات المومنینؓ کے احترام کے لیے سورۃ الاحزاب کی آیت (۶) بھی دیکھیں۔ ۲؎ بال جبریل میں بھی نادر شاہ پر چند اشعار ہیں: سر شک دیدہ نادر بہ داغ لالہ فشاں مثنوی کے آخر میں ظاہر شاہ ابن نادر شاہ سے خطاب ہے چند اشعار یہ ہیں: برخور از قرآن اگر خواہی ثبات در ضمیرش دیدہ ام آب حیات می دہد مارا پیام لا تخف می رساند بر مقام لا تخف قوت سلطان و میر از لا الہ ہیبت مرد فقیر از لا الہ تا دو تیغ لا و الا داشتیم ماسوا اللہ رانشاں نگذاشتیم لا اور الا کا سبق بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی عطیہ ہے ج سکا ذکر اسی مثنوی میں اقوام سرحد سے خطاب کرتے ہوئے بھی کرتے ہیں: اے زخود پوشیدہ خود را بازیاب در مسلمانی حرام است ایں حجاب رمز دیں مصطفیؐ دانی کہ چیست فاش دیدن خویش راشا منشہی ست چیست دیں دریافتن اسرار خویش زندگی مرگ است بے دیدار خویش آں مسلمانے کی بیند خویش را از جہانے برگزنیہ خویش را از ضمیر کائنات آگاہ اوست تیغ لاموجود الا اللہ اوست اسی مثنوی میں دح سنائی المتوفی ۵۴۵ھ بھی حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرنے کا پیغام دیتی ہے۔ مصطفیؐ بحر است و موج او بلند خیز و ایں دریا بجوے خویش بند پھر جنوری ۱۹۳۵ء میں بال جبریل شائع ہوئی… اس میں بھی متعدد مقامات پر حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے: محمدؐ بھی ترا جبریلؑ بھی قرآن بھی تیرا مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟ وہ دانائے سبل ختم رسل مولائے کل جس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآن وہی فرقاں وہی یسین وہی طہ سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیؐ سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں عشق دم جبرئیل عشق دل مصطفیؐ عشق خدا کا رسولؐ عشق خدا کا پیام نظم ذوق و شوق میں مدینہ منورہ کی راہ کو ہ اصنم اور وادی کاظمہ کا ذکر اس طرح کیا ہے: سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب کوہ اصنم ۱؎ کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں گرد دے پاک ہے ہوا برگ تخیل دھل گئے ریگ نواح کاظمہ بزم ہے مثل پرنیاں ۱؎ کوہ اصنم اور کاظمہ کی تلمیح قصیدہ بردہ کے اس شعر سے ہے: ام ھبت الریح من تلقاء کاظمۃ وار مض البرق فی الظلماء من اضم اسی نظم میں یہ شعر بھی ہے: تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا عشق تمام مصطفیؐ عقل تمام بولھب علامہ اقبال کو غالباً اواخر جنوری ۱۹۳۴ء سے گلے کی تکلیف شروع ہوئی تھی۔ مکتوب نمبر ۵۶ حصہ اول میں لکھتے ہیں خہ مجھے قریباً دو اڑھائی ماہ سے Acute Laryngitisکی شکایت ہے جس کی وجہ سے بولنے یا عام طور پر کلام کرنے میں تکلیف ہوتی ہے۔ بہت علاج کیا مگر کچھ فائدہ نہیںہوا۔ لندن انشاء اللہ اگلے سال جائوں گا۔ یہ مکتوب ۶ اپریل ۱۹۳۴ ء کا ہے۔ پھر کئی دوسرے مکاتیب مثلا ۱۱۶۔۱۲۵ حصہ دوم میں بھی اس کا ذکر ہے۔ ۲۳ مئی ۱۹۳۵ء کو علامہ کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا مکتوب ۲۱۲ حصہ اول لیکن پھر بھی ۳ مئی ۱۹۳۵ء (مکتوب ۲۱۳ حصہ اول) کو قرآن کے متعلق ایک کتاب لکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں۔ پھر ۳ اپریل ۱۹۳۶ء کے خواب کا ایک مکتوب (نمبر ۲۴۵۔حصہ اول) میں ذکر کرتے ہیں کہ: ’’۳ اپریل ۱۹۳۶ء کی رات ۳ بجے کے قریب (میں اس شب بھوپال میں تھا) میں نے سر سید علیہ الرحمتہ کو خواب میں دیکھا پوچھتے ہیں کہ تم کب سے بیمار ہو میں نے عرض کیا دو سال سے اوپر مدت گزر گئی۔ فرمایا حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرو۔ میری آنکھ اسی وقت کھل گئی اور اس عرض داشت کے چند شعر جو اب طویل ہو گئی ہے میری زبان پرجاری ہو گئے… انشاء اللہ ایک مثنوی فارسی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ نام کے ساتھ یہ عرض داشت شائع ہوگی۔ ۴ اپریل کی صبح سے میری آواز میں کچھ تبدیلی شروع ہوئی اب پہلے کی نسبت آواز صاف تر ہے اور اس میں رنگ Ringعود کر رہا ہے۔ جو انسانی آواز کا خاصہ ہے گو اس ترقی کی رفتار بہت سست ہے…‘‘ چنانچہ یہ مثنوی فارسی گو کہ ستمبر ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی اس کی ترتیب اس خواب کے بعد ہی شروع ہو گئی ہو گی۔ یہ خواب اس مثنوی میں اس طرح درج ہے: در حضور رسالت مآبؐ اے تو مابیچارگاں را ساز و برگ دارہاں ایں قوم را از ترس مرگ سوختی لات و منات کہنہ را تازہ کر دی کائنات کہنہ را درجہان ذکر و فکر انس و جاں تو صلوت صبح تو بانگ اذاں لذت سوز و سرور از لا الہ در شب اندیشہ نور از لا الہ ذکر تو سرمایہ ذوق و سرور قومرادارد بہ فقر اندر غیور اے مقام و منزل ہر راہرو جذب تو اندر دل ہر راہرو سازما بے صوت گردید آں چناں زخمہ برر گہاے او آید گراں در عجم گردیدم و ہم در عرب مصطفیؐ نایاب و ارزاں بولھب ایں مسلماں زادہ روشن دماغ ظلمت آباد ضمیرش بے چراغ… ایں ز خود بیگانہ ایں مسرت فرنگ نان جومی خواہد از دست فرنگ ناں خریدایں فاقہ کش باجان پاک داد مارا نالہ ہاے سوز ناک… مومن و از رمز مرگ آگاہ نیست در دلش لا غالب الا اللہ نیست تادل او درمیان سینہ مرد می نیندیشد مگر از خواب و خورد… قم بازنی گوے و اورا زندہ کن درولش اللہ ہو را زندہ کن پھر چند اشعار کے بعد علامہ اقبال اپنی بیماری کا ذکر کرتے ہیں اوراس کا علاج چاہتے ہیں: آہ زاں دردے کہ در جا و تن است گوشہ چشم تو داروے من است در نسازد واہا جان زار تلخ و بویش بر مشامم ناگوار کار ایں بیمار نتواں برد پیش من بو طفلاں نالم ازداردے خویش تلخی اورا فریبم از شکر خندہ ہا در لب بدوزد چارہ گر چوں بصیری از تو می خواہم کشود تابمن باز آید آں روزے کہ بود مہر تو بر عاصیاں افزوں تراست درخطا بخشی چو مہر ما در است اس مثنوی میں بھی جگہ جگہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قوم کو رجوع ہونے کا مشورہ دیا ہے: مرد حق باز آفریند خویش را جز بہ نور حق نہ بیند خویش را برعیار مصطفیؐ خود را زند تاجہانے دیگرے پیدا کند ٭٭٭ عصر ما مارا زما بیگانہ کرد از جمال مصطفیؐ بیگانہ کرد ٭٭٭ شرع برخیز دز اعماق حیات روشن از نورش ظلام کائنات گر جہاں و اند حرامش را حرام تا قیامت پختہ ماند ایں نظام نیست ایں کار فقیہاں اے پسر بانگاہے دیگرے اورانگر حکمش از عدل است و تسلیم و رضا ست بیخ او اندر ضمیر مصطفیؐ ست ٭٭٭ چوں بنام مصطفیؐ خوانم درود از خجالت آب می گردد وجود عشق می گوید کہ اے محکوم غیر سینہ تو از بتاں مانند دیر تانداری از محمدؐ رنگ و بو از درود خود میالا نام او ۱۴ جون ۱۹۳۶ء کے مکتوب نمبر ۴ ۱ میں علامہ اقبال لکھتے ہیں ضرب کلیم امید ہے کہ اس ماہ کے آخر تک چھپ جائے گی۔ فارسی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ۱؎ اس کے بعد شائع کی۔ خیال ہے کہ ا س سال جولائی میں ضر ب کلیم اور یہ فارسی مثنوی ستمبر میں شائع ہوئی ۲؎۔ اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ضرب کلیم میں سے بھی چند اشعار جو نظم اے روح محمدؐ میں ہیں پیش کیے جائیں: شیرازہ ہواا ملت مرحوم کا ابتر اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں پوشیدہ جو ہے مجھ میں وہ طوفاں کدھر جائے ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے اس راز کو اب فاش کر اے روح محمدؐ آیات الٰہی کا نگہبان کدھر جائے اس کتاب ۳؎ میں بھی حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے قوی رشتہ رکھنے کے لیے تاکید ہے: دیں مسلک زندگی کی تقویم دیں سر محمدؐ و براہیم دل در سخن محمدیؐ بند اے پور علیؓ بو علی چند چوں دیدہ راہ بیں نداری قاید قرشی بہ از بخاری ۴؎ اب ہم علامہ اقبال کی زندگی کے بالکل آخر دور سے متعلق عرض کرنا چاہتے ہیں۔ اس دور میں انہیں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ہم بے تاب و بے قرار دیکھتے ہیں۔ ۱۹ فروری ۱۹۳۷ء کے مکتوب نمبر ۲۰۴ حصہ اول سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک صاحب نے ان سے ایک (رباعی) مانگ لی تھی جس کا ایک مصرع یہ ہے: از نگاہ مصطفیؐ پنہاں بگیر علامہ نے اپنی تڑپ اور بے تابی نیز انتہائی عقیدرت کا اظہار جو اس رباعی میںموجود ہے اس طرح کر دیا ہے: بہ پایاں چوں رسد ایں عالم پیر شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر مکن رسوا ۵؎ حضور خواجہ مارا حساب من ز چشم او نہاں گیر ۱؎ اس مثنوی کے متعلق خود علامہ کی رائے مکتوب نمبر ۱۸۷ (حصہ اول) میںدیکھیں۔ ۲؎ اشاریہ ہائی آثار منظوم اقبال پنجابی ادبی اکیڈمی لاہور ۱۹۷۵ء صفحہ ۶۔ ۳؎ مکتوب ۲۵ (حصہ اول) میں علامہ لکھتے ہیں اس کتاب کا Realistic ہونا ضروری ہے اور نوائے چنگ کی تلافی Epigrammatic سے کی گئی ہے… ۴؎ مکتوب نمبر ۱۵ (حصہ اول) میں علامہ اس شعر کے متعلق لکھتے ہیں قرشی سے مراد حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہیں بخاری سے مراد بو علی سینا ہیں ۵؎ اسی خجالت کا اظہار اسرار خودی میںبھی کیا تھا: رزق خویش از نعمت دیگر مجو موج آب از چشمہ خاور مجو تانباشی پیش پیغمبر خجل روز فردائے کہ باشد جان گسل مثنوی پس چہ باید کرد میں بھی ہم یہ شعر پڑھ چکے ہیں چوں بنام مصطفیؐ خوانم درود از خجالت آب سی گردد وجود غلام بھیک نیرنگ لکھتے ہیں: ’’۱۹۳۷ء کے موسم سرما میں ایک روز جاوید منزل میں ان سے ملاقات ہوئی۔ دیر تک صحبت رہی۔ وہ اس وقت بہت کمزور تھے۔ سفر مدینہ کا ذکر بھی رہا۔ کہنے لگے کہ جس قدر تھوڑی سی طاقت مجھ میں باقی رہ گئی ہے اس کو مدینہ کے سفر کے لیے بچا بچا کر رکھ رہا ہوں افسوس کہ ان کی یہ تمنا پوری نہ ہوئی اور وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اقبال کا قلبی تعلق حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات قدسی صفات سے اس قدر نازاں تھا کہ حضورؐ کا ذکر آتے ہی ان کی حالت دگرگوں ہو جاتی تھی۔ اگرچہ وہ فوراً ضبط کر لیتے تھے چونکہ میں بارہا ان کی یہ کیفیت دیکھ چکا تھا ا س لیے میں نے ان کے سامنے تو نہیں کہا مگر خاص لوگوں سے بطور راز یہ ضرور کہا کہ یہ اگر حضورؐ کے مرقد پاک پر حاضر ہوں گے تو زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ وہیں جاں بحق ہو جائیں گے…۱؎‘‘۔ اسی زمانے میں ایک مکتوب نمبر ۱۱۹(حصہ اول) ۲ دسمبر ۱۹۳۷ء کو پیر غلام میراں شاہ کے نام لکھا تھا: ’’کاش میں بھی آپ کے ساتھ (حج کے لیے) چل سکا اور آپ کی صحبت کی برکت سے مستفیض ہوتا۔ لیکن افسوس ہے کہ جدائی کے آیام میں بھی کچھ باقی معلوم ہوتے ہیں۔ میں تو اس قابل نہیں ہوں کہ حضورؐ کے روضہ مبارک پر یاد بھی کیا جا سکوں۔ تاہم حضورؐ کے اس ارشاد سے جرات ہوتی ہے کہ الطالح لی یعنی گنہگار میرے لیے ہے۔ امید ہے کہ آپ اس دربار میں پہنچ کر مجھے فراموش نہ فرمائیں گے‘‘۔ حج اور زیارت مدینہ منورہ کی ایسی تڑ پ کا اظہار کئی مکاتیب میں ہے۔ یپر صاحب موصوف حج سے واپ]س آئے تواس وقت بھی علامہ اقبال نے ان کو خط لکھا۔ مکتوب نمبر ۱۲۱ ()حصہ اول) مورخہ ۲۹ مارچ ۱۹۳۸ء میں (یعنی انتقال سے قریب تین ہفتے پہلے) لکھتے ہیں: ’’…دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اس امر کی توفیق دے کہ آپ اپنی قوت ہمت اثر رسوخ اور دولت و عظمت کو حقائق اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے صرف کریں۔ اس تاریک زمانے میں حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ جلد آپ کی طبیعت میں ایک بہت بڑا انقلاب پیدا ہو جس کی ابھی آپ کو توقع نہیں افسوس ہے کہ شمال مغربی ہندوستان میں جن بزرگوں نے علم اسلام بلند کیا ان کی اولادیں دنیوی جاہ و منصب کے پیچھے پڑ کر تباہ ہو گئیں۔ اور آج ان سے زیادہ جاہل کوئی مسلمان مشکل سے ملے گا۔ الا ماشاء اللہ وقت تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ انہی بزرگوں کی اولاد سے کسی کی روحانیت کو بیدار کرے گا اور کلمہ اسلام کے اعلا پر مامور کرے…‘‘ ۱؎ رسالہ اقبال (لاہور اکتوبر ۱۹۵۷ء صفحہ ۳۰) علامہ اقبال کی زندگی کے آخری ایام کا ذکر ہے کہ مولانا اسلم جیراجپوری یوم اقبال کے موقع پر ان سے نیاز حاصل کرنے کے لیے تشریف لے گئے اس سال ان کا ارادہ حج کرنے کا تھا لیکن بیماری اور کمزوری کی یہ حالت تھی کہ کوٹھی سے باہر نکلنا بھی مشکل تھا۔ کہتے تھے کہ میں دو سال سے ارادہ سفر حج میں ہوں۔ عملاً جب موقع اللہ دے۔ بلکہ وہ اشعار بھی لکھ لیے ہیں جو ا س سفر کے متعلق ہیں۔ ان میں سے کہیں کہیں سے کچھ سنایا بھی… مکہ سے مدینہ روانگی کے وقت ایک غزل لکھی ہے جس میںاللہ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں: تو باش ایں جاوباخاصاں بیامیز کہ من دارم ہو اے منزل دوست یہ شعر سناتے ہی گریہ ایسا گلوگیر ہوا کہ آواز بند ہو گئی اور آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ مجھے یہ دیکھ کر مجبوراً موضوع سخن بدلنا پڑا ۱؎۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت سے متعلق دوسرے واقعات بھی ملتے ہیںَ مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورے کے لیے علامہ اقبال اور سر فضل حسین مرحوم اور ایک دو اور مشہور قانون داں اصحاب کو اپنے ہاں بلایا اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان ک قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کا سامان دیکھ کر اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معاً ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ جس رسول پاکؐ کی جوتیوں کے صدقے آج ہم کو یہ مرتبے نصیب ہوئے ہین اس نے بوریے پر سو کر زندگی گزار دی تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوئوں کی جھڑی بندھ گئی اور بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا۔ اٹھے اور برابر کے غسلخانے میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلوا کر اپنا بستر کھلوایا اور ایک چارپائی اسی غسل خانے میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہے غسل خانے ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے ‘‘۔ ۲؎ مولانا مودودی یہ بھی لکھتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کے ساتھ ان کی والہانہ عقیدت کا حال اکثر لوگوں کو معلوم ہے۔ مگر یہ شاید کسی کو نہیںمعلوم کہ انہوں نے اپنے سارے تفسف اور اپنی تمام عقلیت کو رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ایک متاع حقیر کی طرح نذ ر کر کے رکھ دیا ہے۔ حدیث کی جن باتوں پر نئے تعلیم یافتہ نہیںپرانے مولوی تک کان کھڑے کرتے ہیں اور پہلو بدل کر تاویلیں کرنے لگتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر آ ف فلاسفی ان کے ٹھیٹھ لفظی مففہوم پر ایمان رکھتا تھا۔ اور ایسی کوئی حدیث سن کو ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں شک کا گزر نہ ہوتا تھا۔ ۱؎ ۱؎ آثار اقبال حیدر آباد دکن ۱۹۶۴ء صفحہ ۹۰ ۲؎ جوہر اقبال صفحہ ۳۹۔۴۰ ایک مرتبہ ایک صاحب نے ان کے سامنے بڑے اچنبھے کے انداز میں اس حدیث کا ذکر کیا جس میں بیان ہوا کہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب ثلاثہؓ کے ساتھ احد پر تشریف رکھتے تھے اتنے میں احد لرزنے لگا اور حضورؐ نے فرمایا کہ ٹھہر جا تیرے اوپر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس پر پہاڑ ساکن ہو گیا۔ اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا کہ اس میں اچنبے کی کون سی بات ہے ؟ میں اس کو استعارہ و مجاز نہیں بلکہ ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک اس کے لیے کسی تاویل کی حاجب نہیں اگر تم حقیقت سے آگاہ ہوتے تو تمہیںمعلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے مادے کے بڑے سے بڑ ے تودے بھی لرز اٹھتے ہیں مجازی طور پر نہیں واقعی لرز اٹھتے ہیں۔ ۱؎‘‘ ارمغان حجاز میں علامہ اقبال کے انتقال کے بعد نومبر ۱۹۳۸ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعض مضامین کا ذکر اوپر آ چکا ہے حضور رسالت مآب ؐ کے عنوان سے جو فصل شروع ہوتی ہے اس کا آغاز عزت بخاری کے اس شعر سے ہوتا ہے: ادب گا ہیست زیر آسماں از عرش نارک تر نفس گم کردہ می آید جنیدؒ و بایزیدؒ ایں جا علامہ اقبال جو دل لے کر پیدا ہوئے تھے اس کی تسکین کے لیے عشق رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی لازم تھا۔ وہ اپنی پیری کا ذکر کرتے ہوئے ایک پرند کی مثال پیش کرتے ہیں جو شام کو کسی آشیانے کی تلاش میں اڑتا پھرتا ہے: بایں پیری رہ یثرب گرفتم نوا خواں از سرور عاشقانہ چو آں مرغے کہ در صحرا سر شام کشاید پر بفکر آشیانہ پھر عالم خیال ہیں کہ صحرائے عرب کی سیر کرتے ہیں جہاں مدینہ طیبہ کے راستے میں کتنے قافلے درود پڑھتے ہوئے گامزن ہیں۔ چہ خوش صحرا کہ درودے کاروانہا درودے خواند و محمل براند بہ ریگ گرم او آور سجودے جبیں را سوز تاداغے بماند پھر ا س صحرا کی درد مندی کا ذکر کرتے ہیں: چہ خوش صحرا کہ شامش صبح خنداست شبش کوتاہ و روز او بلند است قدم اے راہرو آہستہ تر نہ چو ماہر ذرہ اوورد مند است اس صحرا میں مستی اور جذب کے عالم میں عراقی اورجامی کے اشعار گنگناتے ہوئے چلتے ہیں: گہے شعر عراقی را نجوانم گہے جامی زند آتش بجانم ندانم گرچہ آہنگ عرب را شریک نغمہ ہائے سار بانم پھر اپنے ساتھی سے کہتے ہیں: بیا اے ہم نفس باہم بنالیم من و تو کشتہ شان جمالیم ۱؎ جوہر اقبال ص ۳۸ دو حرفے بر مراد دل بگوئیم بپائے خواجہؐ چشماں را بمالیم اسی راہ میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے مسلمان بھائیوں کی حالت زار کا ذکر کرتے ہیں: شب ہندی غلاماں را سحر نیست بایں خاک آفتابے را گزر نیست بماکن گوشہ چشمے کہ در شرق مسلمانے زما بیچارہ تر نیست اس مسکین ہندی غلام کے لیے سورۃ الدھر کی آیت ۸ کے مطابق حق غلامی مانگتے ہیں: حق آں دہ کہ مسکین و اسیر است فقیر و غیرت اود یر میرا ست بروے او در میخانہ بستند دریں کشور مسلماں تشنہ میراست اور اس کے لیے یہ گزارش کرتے ہیں کہ: دگر پاکیزہ کن آب و گل او جہانے آفریں اندر دل او ہوا تیز و بد امانش دو صد چاک بیندیش از چراغ بسمل او پھر مسلمانوں کے زوال کے ہت سے اسباب بھی بیان کرتے ہیں مثلاً ان کے دلوں میں غیر اللہ نے جگہ کر لی ہے۔ وہ موت سے ڈرنے لگے ہیں۔ ملوکیت نے انہیں فریب دے رکھا ہے مشکل پسندی سے گھبراتے ہیں۔ مکتب نے انہیں مردہ دل بنادیا ہے۔ وہ دل ضرور رکھتے ہیں لیکن ان کے دلوں میں محبوب نہیں ہے ۔ یقین سے محروم ہو گئے ہیں۔ اور میری بات بھی نہیںمانتے۔ پھر انتہائی عشق میں یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ : تو فرمودی رہ بطحا گرفتیم وگرنہ جز تو مارا منزلے نیست بے شک حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے کرم سے اللہ کو پہچاننے کی سعادت نصیب ہوئی ہے: بچشم من نگہ آوردہ تست فروغ لا الہ آوردہ تست دو چارم کن بہ صبح من رانی شبم را تاب مہ آوردہ تست کیونکہ جہاں از عشق و عشق از سینہ تست اور آپؐ ہی کے طفیل میں: تپیدم ‘ آفریدم‘ آرمیدم لیکن افسوس ہے کہ ندانم با کہ گفتم نکتہ شوق کہ تنہا بودم و تنہا سرودم حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ: چومیگویم مسلمانم بلرزم کہ دانم مشکلات لا الہ را بہرحال علامہ اقبال ایک ہی آرزو رکھتے ہیں کہ مارا مصطفیؐ بس بکوے تو گرازیک نوا بس مرا ایں ابتدا ایں انتہا بس خراب جرات آں رند پا کم خدارا گفت مارا مصطفی بس اس عشق و مستی کے عالم میں اگر کوئی ہم نوا مل جائے تو اس سے یہی کہا جائے گا کہ: بیا باہم در آویزیم و رقصیم زگیتی دل برانگریزیم و رقصیم یک اندر حریم کوچہ دوست زچشماں اشک خوں ریزیم و رقصیم اللہ اللہ کیا کیف و سرور ہو گا۔ اللہ پاک اس پر لاکھوں رحمتیں نازل فرمائے کہا جاتا ہے کہ انتقال سے ۱۰۔ ۱۲ منٹ پہلے یہ رباعی ان کی زبان پر تھی۔ سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سرآمد روزگار ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید ایک اور نعت علامہ اقبال کی یادگار ہے: اے کہ بردلہا رموز عشق آساں کردہ ای سینہ ہارا از تجلی یوسفساں کردہ ای اے کہ صدر طور است پیدا از نشاں پای تو خاک یثرب را تجلی گاہ عرفاں کردہ ای اے کہ بعد از تو نبوت شد بہر مفہوم شرک بزم را روشن ز نور شمع عرفاں کردہ ای اے کہ ہم نام خدا باب دیار علم تو امیے بودی و حکمت را نمایاں کردہ ای فیض تو دشت عرب را مطمح نظار ساخت خاک ایں ویرانہ را گلشن بداماں کردہ ای دل نہ نالد در فراق ماسوا ے نور تو خشک چو بے راز ہجر خویش گریاں کردہ ای۱؎ مذکورہ بالا اشعار کے مطالعے سے اندازہ ہو گا کہ جس طرح علامہ اقبا ل نے اسلام کو سمجھنے کے لیے ایک نئے انداز فکر کی تشکیل کی تھی اسی طرح حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے صحیح فائدہ حاصل کرنے کے لیے ایسے نکات کی نشان دہی کی ہے جو عموماً اہل علم سے پوشیدہ ہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا اس شعر میں بھی یہی نکات موجود ہیں۔ یا خاتم الرسل المبارک صنورۃ صلی علیک منزل القرآن ترجمہ: اے خاتم المرسلینؐ آپ برکت ۲؎ و سعادت کا وہ سر چشمہ ہیں جس پر قرآن ۳؎ ۴؎ نازل فرمانے والے نے درود ۵؎ سلام بھیجا ہے۔ ۱؎ رسالہ اسلامی تعلیم لاہور مارچ تا جون ۱۹۷۴ء ص ۶ ٭٭٭ اقبال اور روحانیت ڈاکٹر غلام جیلانی برق روحانیت ایک حسین داخلی انقلاب کا نام ہے جو محبت خدمت رحم و احسان اور ذکر و عبادت سے پیدا ہوتا ہے۔ روحانیت نم زندگی ہے۔ اور خالص مادیت سم زندگی۔ آج کی دنیا سم زندگی سے تو آشنا ہے لیکن نم زندگی سے بے گانہ۔ ایک دن اقبال مسلمانوں سے پرے حضور یزداں میں جا پہنچے ۔ اور شکایت کی کہ دنیا دل روحانیت سے خالی ہو گئی ہے اور اس لیے : چمن خوش است و لے در غور نوایم نیست اللہ نے بات سنی لیکن: تبسمے بلب او رسید و ہیچ نگفت یہ تبسم طنزیہ تھا۔ گویا اللہ کہہ رہا تھا کہ میں نے سوالاکھ انبیا بھیجے سینکڑوں کتابیں نازل کیں اور اصلاح کی کروڑوں گھٹائیں میں تمہائیں کشت دل کو سیراب کرنے کے لیے اٹھائیں۔ بایں ہمہ اگر دنیا دل سے خالی ہو گئی ہے تو قصور کس کا؟ عشق کا گنج گراںمایہ تجھے مل جاتا تو نے فرہاد نہ کھودا کبھی ویرانہ دل (اقبال) اقبال نے روحانیت کے لیے کئی تعبیروں کے لیے کام لیا ہے۔ کہیں اسے سوز و مستی جذب و شوق کہا ہے۔ کہیں نیاز و گداز کا نام دیا ہے اور کہیں عشق و محبت کا۔ ساقی نامہ میں کہتے ہیں: مرے نالہ یتیم شب کا نیاز مری خلوت و انجمن کا گداز یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر عشق یا روحانیت زندگی کا حسن جوہر اور جلال ہے۔ تاج و سریر فقر و عشق کے معجزات ہیں نیز فقر مقام نظر علم مقام خبر فقر میں مستی ثواب علم میں مستی گناہ کائنات کی مہیب طاقتین دو ہی ہیں۔ علم اور عشق۔ علم کا دائرہ اثر آسمان تک ہے۔ اور عشق کا لامکاں تک علم ایک تند و سرکش قوت ہے۔ اگر اس کی زمام عشق کے ہاتھ میں ہو تو یہ کائنات کے لیے لعنت بن جاتا ہے پچھلی دو عالمی جنگوں میں تقریباً بارہ کروڑ افراد ہلاک زخمی یا بے گھر ہوئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم پر میجر جنرل جی ایف سی فلر نے دی سیکنڈ ورلڈ وار کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی واقعات ذیل اسی کتا ب سے لیے گئے ہیں: جنوری ۱۹۴۳ء کے پہلے بیس ایام میں جرمنی کے نقصانات یہ تھے: ہلاک ایک لاکھ قیدی ۹۱ ہزار لاریاں تباہ ایک لاکھ بیس ہزار ٹینک تباہ سات ہزار طیارے تباہ پانچ ہزار (ص ۲۵۵) ۱۳ فروری ۱۹۴۵ء تک صرف تین دن میںجرمنی کے شہر ڈریسڈن Dresden پر اتحادیوں کے ۴۱۵۰ بماروں نے لاکھوں ٹن آگ بم اور گولے برسائے جس سے یہ نقصان ہوا: ہلاک ۲۵ ہزار زخمی ۳۰ ہزار عمارات تباہ ۳۴ ہزار نقصان اس لیے کم ہوا کہ لوگ تین دن تک زیر زمین پناہ گاہوں میں رہے۔ (ص ۳۱۷) ۶ جون ۱۹۴۵ء سے ۲۵ اگست ۱۹۴۵ء تک (۲ ماہ ۱۹ دن) جرمنوں کے نقصانات یہ تھے: ہلاک اور زخمی ۲ لاکھ قیدی ۲لاکھ ۳۰ ہزار گاڑیاں تباہ ۲۰ ہزار توپیں تباہ ۲ہزار طیارے تباہ ۲۳۷۸ ۹ مارچ ۱۹۴۵ء کو ٹوکیوپر پہلاف ضائی حملہ ہوا اس میں شہر پر ۱۶۶۷ ٹن بم گرائے گئے نقصانات کی تفصیل یہ ہے: زندہ جل گئے ۱۸۵۰۰۰ نفوس مکان تباہ ۷۶۷۰۰۰ بے گھر ہو گئے ۳۱ لاکھ اور ۱۵ مربع میل شہر راکھ ہو گیا۔ (ص ۳۸۷) دو ایٹم بم پہلا ۶ اگست ۱۹۴۵ ء کو ہیروشیما پر گرایا گیا اس سے یہ نقصان ہوا: ہلاک ۷۸۱۵۰ زخمی ۱۸۰۰۰۰ گم ۱۳۹۸۳ مکانات تباہ ۶۲ ہزار دوسرا بم ۸ اگست ۱۹۴۵ء کو ناگاساکی پر پھینکا گیا تھا اس سے چالیس ہزار ہلاک اور اتنے ہی زخمی ہوئے۔ (ص ۳۹۴) اگر علم کی تیغ براں عشق کے ہاتھ میں نہ ہو تو یہی کچھ ہوتا ہے… یہی وہ بے دین سیاست ہے جسے اقبال نے چنگیزی کہا تھا اور یہی وہ علم ہے جسے زہرہلاہل سے تعبیر کیاتھا۔ من درون شیشہ ہائے عصر حاضر دیدہ ام آنچناں زہرے کہ ازوے مارہادر پیش وتاب انقلاب اے انقلاب مجھے عصر رواں کی بوتلوں میں وہ زہر (علم بے عشق) نظر آ رہا ہے۔ جسے سانپ دیکھ پائیں تو خوف سے کانپ اٹھیں اٹھو اور اس دنیا کو برہم کر دو۔ برہم کر دینے سے مراد بے خدا انسان کو باخدا بنانا۔ اسے سجدوں کی لذت اور نوائے سحر گاہی کی مستی سے آشنا کرتا ہے۔ جو سرود جذب و شوق اور سرمستی سجدوں میں ہے۔ وہ اور کہیں نہیں اسی لیے اقبال دعا مانگتے ہیں: نہ خو اہم ایں جہان و آں جہاں را مرا ایں بس کہ دانم رمز جاں را سجودے دہ کہ از سوز و سرورش بوجد آرم زمین وآسماں را اسی جذب و سرور کی خاطر اقبال نے رومی کا دامن تھاما تھا: زچشم مست ساقی دام کردم سرورے از مقام کبریائی ٭٭٭ صحبت پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سر بکف اقبال نے اس مضمون کو یوں بھی ادا کیا ہے: بو علی اندر غبار ناقہ گم دست رومی پردہ محمل گرفت اور اپنے مطرب سے کہتا ہے : اے نغمہ سرا بیتے از مرشد روم آور تاغوطہ زند جانم در آتش تبریزے تیغ علم بدست عشق علم کی تلوار تاریخ انسانی میں بارہا عشق کے ہاتھ میں بھی آئی یہ تلوار انسانی محبت میں اس حد تک ڈوبی ہوئی تھی کہ اس نے خون ناحق کا ایک قطرہ تک زمین پر گرنے نہ دیا۔ اس کی نہایت تابناک مثال حضور صلعم کا اسوہ حسنہ ہے حضورؐ نے مدینہ کے دس سالہ قیام میں ستاسی مہمات مختلف اطراف میں بھیجی تھیں۔ ان میں آدھی تبلیغی و اصلاحی تھیں اور نصف فوجی خود حضورؐ نے ستائیس مہمات میں حصہ لیا تھا مثلاً بدر‘ احد‘ خندق‘ خیبر‘ حدیبیہ‘ مکہ‘ حنین‘ طائف اورتبوک وغیرہ۔ مدنی زندگی کے پہلے تین سال تک حضورؐ کا اثر نواح مدینہ تک تھا لیکن سات برس بعد آپ کے اقتدار کی شمالی سرحد اردن جنوبی جیمن شرقی خلیج فارس اور غربی بحیرہ احمر تھی۔ اس سلطنت کا رقبہ اندازاً سات لاکھ مربع میل تھا۔ اور فوجی مہمات کی تعداد چالیس کے قریب تھی ان تمام مہمات میں جانی نقصانیہ ہوا۔ کفار ۹۰۰ ہلاک مسلمان ۲۵۷شہید میزان ۱۱۵۷ مسلمان نہ تو نہتوں پر ہاتھ اٹھاتے تھے۔ نہ بوڑھوں بچوںاور عورتوں کو دکھ دیتے تھے پھر ان کا کردا ر اتنا بلند تھا کہ انداز حیات اتنا پاکیزہ اور مفتوحہ بلاد س ے ان کا سلوک اتنا رحمدلانہ اور ان کی شخصیت اتنی دلکش تھی۔ کہ ان کے پرنور چہروں کو دیکھ کر لوگ ایمان لے آتے۔ اور جنگ ختم ہو جاتی یا ہونے ہی نہ پاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ غزوات میںجانی نقصان اتنا کم ہوا تھا۔ اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی کہ ہوں ایک جنیدی دارد شیری عشق ایک ایسی توانائی کو جنم دیتا ہے۔ جو آندھیوں بجلیوں اور کائنات کی مخفی طاقتوں ملائکہ کو مدد کے لیے کھینچ لاتی ہے بدروحنین میں آسمان سے کئی ہزار فرشتے نازل ہوئے تھے اور غزوہ خندق میں ایک آندھی نے حملہ آوروں کو بھگا دیا تھا۔ یہ توانائی بیماریوں سے بھی بچاتی ہے جب ایک مریض کو حضرت مسیحؑ نے لمس سے اچھا کر دیا تو اسے پوچھا میرے آقا میں آئندہ بیماری سے محفوظ رہنے کے لیے کیا کروں ؟ تو فرمایا Go and sin no moreجائو اور آئندہ گناہ نہ کرو۔ انجیل مارقس میں ہے:All things are possible to him that beleives(۲۳۔۹) (ایک مومن کے لیے کوئی چیز ناممکن نہیں) قرآن مقدس میں ہے: من عمل صالحا من ذکر او انثی وھو مومن فلنحییتہ حیوۃ طیبۃ والنجزیذھم اجرھم باحسن ماکانو ا یعملون (نحل ۹۷) (مرد و زن سے جو بھی ایمان لانے کے بعد اچھے کام کرے تگا اہم اسے دنیا میں مسرت و آسودگی عطا کریں گے اور آگے چل کر اسے بہترین بدلہ دیں گے) طور و حرا آپ جانتے ہیں کہ نزول تورات سے پہلے اللہ نے چالیس راتوں کے لیے موسیٰ علیہ السلام کو طور پر بلا لیا تھا۔ وہاں آپ نے چالیس دن رات مسلسل عبادت کی۔ اس سے آپ کی روح دھل کر صاف ہو گئی۔ حریم دل میں تجلیاں دوڑنے لگیں۔ اور آپ پیغام الٰہی کا استقبال کرنے کے قابل ہو گئے۔ یہی کچھ حضور صلعم کے ساتھ ہوا کہ نزول وحی سے تیس چالیس دن پہلے آپ ایک پراسرار صفحے کے تحت غار حرا میں جانے لگے۔ جب مسلسل ذکر و عبادت سے آپ ان بلندیوں پر جا پہنچے۔ جہاں اللہ کی بات سن سکتے تھے۔ تو آواز آئی: اقرابسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا وربک الاکرم الذی علم بالقلم (علق ۔ ۱۔۴) (اے محمدؐ! اپنے رب کا نام لے کر پڑھ۔ وہ رب جس نے انسان کو لوتھڑے سے بنایا۔ پڑھ تیر ا رب بہت عظیم ہے اس نے قلم کی وساطت سے علم پھیلایا)۔ مصطفیؐ چوں در حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید دنیا کے عظیم انسان وہ تھے جن کی روح عظیم تھی۔ یہ عظمت عبادت سے پیدا ہوتی ہے اور اس کے سامنے ساری کائنات جھک جاتی ہے۔ اس کی بہترین مثال داتاؒ و جہانگیر ہیں۔ دونوںلاہور میں دفن ہیں۔ ایک شہنشاہ ہند تھا اور دوسرا فقیر۔ اس شہنشاہ کی تربت پہ سال بھر میں ایک ہاتھ بھی دعا کے لیے نہیں اٹھتا۔ اور دوسری طرف حضرت داتا کے مزار پر ایک ہزار سال سے ہزاروں زائرین روزانہ آتے ہیں۔ تو کیا اب بھی قرآن کے اس فیصلے پر کوئی شک باقی ہے: ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم (حجرات ۱۳) (اللہ کے ہاں تم میں سب سے بڑ ا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو) یعنی جس کی سطح روحانیت بلند تر ہو۔ انسان روح و بدن کا امتزاج ہے۔ اللہ کی عبادت بدن کو عافیت روح کو عظمت اور انسان کو ذوق خدائی عطا کرتی ہے۔ نوائے عشق را ساز است آدم کشاید راز و خود راز است آدم جہاں او آفرید ایں خوبتر ساخت مگر با ایزد انبانہ است آدم ایک فرانسیسی مفکر لوئیس پاول Louis Pauwelsکہتا ہے: ’’انیسویں صدی کے آخر تک سائنس کو حتمی اور علم کی آخری سرحد سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب اس کی سرحدیں مابعدالطبعیات سے مل گئی ہیں اور فزکس میٹا فزکس کا شعبہ نظر آنے لگی ہے… میں زندگی گو چار پہلو حقیقت سمجھتا ہوں چوتھا پہلو روح ہے‘‘۔ The Morning of the Magicians انگریزی ترجمہ طبع انگلستان ۱۹۶۳ء صفحہ ۴۲‘‘۔ کیمبرج کا شہرہ آفاق پروفیسر اور مستشرق آر نکلسن اپنی کتاب رومی طبع انگلستان ۱۹۵۰ء میں کہتا ہے: ’’مشرق کے صوفیہ و فلاسفہ نے انسان کو سکھ پہنچانے کے لیے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان میں بدھ کنفوشس کرشن کالیداس دیاس‘ رومی‘ ابن العربی‘ سعدی‘اجمیری اورداتا رحمتہ اللہ علیہم خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ان کی کتابوں کے مطالعہ سے مغرب پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ نفرت حماقت ہے۔ یہ کائنات روحانی ہے اور تمام لوگ اللہ کی اولاد ہیں‘‘ ۔ (صفحہ ۸) اگر اقبال کا تمام کلام ایک جلد میں جمع کر دیا جائے تو میں ا س کا نام کتاب عشق یا دیوان روحانیت تجویز کروںگا۔ یہ روحانیت اقبال نے اپنے مرشد سے حاصل کی تھی: بیا کہ من زخم پیر روم آوردم مئے سخن کہ جواں تر زبادہ عبنی است یہ بحث بہت طویل ہے۔ جسے تفصیلاً بیان کرنے کے لیے ایک عمر چاہیے۔ اس لیے میں اسے یہیں ان اشعار پر ختم کرتا ہوں: غلط نگہ ہے تری چشم نیم باز اب تک ترا نیاز نہیں آشنائے ناز اب تک گسستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک کہ تو ہے نغمہ رومی سے بے نیاز اب تک ٭٭٭ علامہ اقبال کی دعائیں میرزا ادیب جہاں تک لغوی مفہوم کا تعلق ہے دعا کا مطلب ہے پکارنا بلانا مدد طلب کرنا۔ اسلامی نقطہ نظر سے استمداد کی غرض سے صرف خداوند عالم کو پکارنا چاہیے وہی پکارنے والے کی پکار سنتا ہے اور اس کا دکھ درد دو ر کرتا ہے اس کی آرزو پوری کرتا ہے۔ خدائے واحدہ لا شریک کے سوا اس پوری کائنات میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو ڈھاسن کر مانگنے والے کو و ہ کچھ دے سکتی ہے جو وہ مانگ رہا ہے۔ خدا ہی مسبب ا لاسباب ہے خدا ہی دعا قبول کرنے پر قادر ہے اور علامہ اقبال نے بھی اپنے اردو و فارسی کلام میں جہاں کہیں دعا مانگی ہے اس طرح مانگی ہے جس طرح ایک خودی شناس ؤبندے کو مانگنی چاہیے۔ اگرچہ بعض مقامات پر انہوںنے کلام میں جہاں کہیں دعا مانگی ہے اس طرح مانگی ہے کہ جس طرح ایک خودی شناس بندے کو مانگنی چاہیے۔ اگرچہ بعض مقامات پر انہوںنے فطری شوخی سے بھی کام لیا ہے مگر یہاں اس نقطے کو فراموش نہیںکرنا چاہیے کہ ان کی یہ شوخی گستاخی تمرد یا کج فہمی سے بروئے کار نہیں آتی بلکہ یہ نتیجہ ہے اس گہرے اور ناقابل شکست اعتماد کا جو انہیں اپنے اللہ کی بے پاماں شفقتوں پر حاصل ہے گویا یہ شوخی علامہ کو اپنے رب کے قریب تر کر دیتی ہے اور اس طرح وہ جو کچھ کہتے ہیں یا مانگتے ہیں اپنے خالق حقیقی سے قریب تر ہو کر کہتے ہیں یا مانگتے ہیں۔ علامہ نے اپنی شاعری میں کئی جگہوں پر دعا مانگی ہے۔ کہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے اور کہیں بالواسطہ طور پر اور میری کوشش یہ ہے کہ اس مضمون میں ان کی دعائوں کی نشان دہی کروں مگر اس سے بیشتر اس روح کی طر ف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو ان کی دعائوں کی تہہ میں کارفرما ہے۔ یہ روح ہے اے اللہ مجھے ہر شے کی اصل حقیقت کا علم عطا کر۔ یہ دعا ہے حضور نبی کریمؐ کی اور اس دعا میں آپ نے خدائے عز و جل سے ہر شے کی اصل حقیقت کے علم سے آگاہ ہونے کی آرزو کا اظہار کیا ہے ان دعائیہ الفاظ کو پیش نظر رکھ کر علامہ کی اس دعا کی طرف توجہ کیجیے جو ان کے فارسی مجموعہ کلام زبور عجم کے شروع میں درج ہے۔ اس دعا کے سات اشعار ہیں اور یہ سات اشعار اس ترتیب سے سامنے آتے ہیں: یارب درون سینہ دل باخبربدہ دربادہ نشہ رانگرم آں نظر بدہ ایں بندہ را کہ بانفس دیگراں نزیست یک آہ خانہ زاد مال سحر بدہ سلیم مرا بہ جوئے تنک مایہ پلیچ جو لانگہے بواری و کوہ و کمر بدہ سازی اگر حریف یم بے کراں مرا بااضطراب موج سکون گہر بدہ شاہین من بصید پلنگاں گزاشتی ہمت بلند و چنگل ازیں تیز تر بدہ رفتم کہ طائر حرم را کنم شکار تیرے کہ نافگندہ فتد کارگربدہ خاکم بہ نور نغمہ دائود بر فروز ہر ذرہ مرا پر و بال شرر بدہ س نظم کے سب سے پہلے شعر میں وہ روح مکمل طور پر برسر عمل ہے جس کا ذکر حضورؐ کی دعا کے سلسلے میں کیا گیا ہے۔ یا رب درون سینہ د با خبربدہ علامہ نے اپنے سینے کے اندر ایک ایسے دل کی آرزو مندی کی ہے جو باخبر ہے اور یہ باخبر سطحی یا معمولی درجے کی باخبری ہرگز نہیں۔ وہ اپنے لیے ایسا دل باخبر چاہتے ہیں جو ایک ایسی نظر سے مربوط ہے جسے شراب میں نشے کو دیکھ لینے کی صلاحیت حائل ہے۔ شراب کیا ہے محض ایک سیال جس کا کوئی نہ کوئی رنگ ہی ہے۔ مگراس کی اصل حقیقت نہ تو اس کا سیال ہونا ہے اور نہ اس کا کوئی رنگ ہے اس کی اصل حقیقت نشہ نشے کے بغیر شراب اور عام پانی میں فرق ہی کیا رہ جاتاہے۔ اور علامہ جب شراب میں نشے کو اپنی ذہنی گرفت میں لینے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو گویا ہر ایک شے کی اصل حقیقت کے علم کے آرزو مند ہیں خبر کے نہیں نظر کے قائل ہیں۔ یہ نظم ظاہرہے کہ ایک دعا کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ دعا ایک بندے نے بارگاہ خداوندی میںحاضر ہو کر مانگی ہے مگر یہ بات کسی صورت میں قابل نظر اندازی نہیں ہے کہ یہ دعا مانگنے والا ایک عام بندہ ہرگز نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں نے شرع میں عرض کیا ہے کہ ایک خودی شناس بندہ ہے خودی شناس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنا انا کو مجروح نہ کرے اور یہاں سے وہ شروع سے لے کر آخر تک اسے برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پہلے شعر میں تو حقیقت شناسی کا علم مانگا ہے اور دوسرے شعر میں اپنے خالق کو بتا دیا ہے کہ یہ بندہ یقینا تیرا ہی بندہ ہے۔ لیکن دنیا میں کسی کے سہارے زندہ رہنے پر تیار نہیں ہے نفس دیگراں کا وہ کسی حالت میں بھی محتاج نہیںۃے۔ اور یہ مانگتا ہے تو مثال سحرا یک آہ خانہ زاد سحر بڑا فکر انگیز استعارہ ہے۔ سحر حیات افروز شے ہے سحر زندگی کی علامت ہے۔ علامہ نے اپنے ایک نعتیہ شعر میں اپنے خوددار انہ رویے کا اس طرح ثبوت دیا ہے: خواجہ من نگارہ دار آبروئے گدائے خویش آنکہ ز جوئے دیگراں پر نہ کند پیالہ را یہ شعر پڑھ کر علامہ اقبال کے پیش رو غالب کے ایک شعر کا بھی خیال آ جاتا ہے: تشنہ لب بر ساحل دریاز غیرت جاں دہم گربہ موج افتد گمان چین پیشانی مرا دونوں شاعروں نے اپنی غیرت مندی کا اظہار کیا ہے علامہ نفس دیگراں ہو یا جو سے دیگراں ان میں سے کسی کے بھی مرہون منت ہونا پسند نہیں کرتے اور غالب کی غیرت مندی کا یہ عالم ہے کہ وہ موج دریا کو چین پیشانی محسوس کرتا ہے تو دریا سے پیاس بجھانے پر آمادہ نہیںہوتا۔ بلکہ اس کے کنارے فرط تشنگی سے مر جانا قبول کر لیتاہے۔ یہاں دونوںشاعروں کا تقابلی مطالعہ پیش نظر نہیں مگر اس حقیقت کا اظہار بھی ضرور مقصود ہے کہ دونوں شاعروں کی انا یا غیر ت مندی احتیاج کی کوئی بھی صورت قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ آہ کوئی ایسی آہ نہیں جس کی تعمیر میں کسی کا احسان شامل ہو بلکہ یہ خانہ زادہ آہ ہے اور اسے سحر کے مماثل قرار دے کر ندرت تخیل کا ثبوت دیا ہے۔ سحر اپنی نمود کے لیے کسی کی مرہو ن منت نہیں افق سے خود بخود پھوٹ پڑتی ہے اور علامہ اپنی آہ کی بھی یہی کیفیت چاہتے ہیں۔ علامہ کا ساری دعا میں یہ رویہ ہے کہ میں یہ جو کچھ ہوں۔ یعنی یہ نہیں کہا کہ میں کچھ بھی نہیں۔ وہ یہ کچھ ہیں اور وہ اب جو کچھ مانگ رہے ہں اپنی ذات و صفات کے مطابق مانگ رہے ہیں۔ چنانچہ تیسرا شعر دیکھیے۔ : سلیم سر بجوئے تنک مایہ مبیح جو لانگہے بوادی وکوہ و کمر بدہ یہ نہیں کہا کہ میں تو ایک قطرہ ناچیز ہوں یا قطرہ ناچیز بھی نہیں ہوں۔ علامہ اس قسم کی فروتنی کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں کہ میں تو ایک سیل ہوں ایک تنک آب ندی میں مجھے محدود کرنا مجھ پر ظلم کے مترادف ہے۔ مجھے اپنے جولانی کے لیے وادیوں کوہستانی بلندیوں اور پہاڑوں کی ضرورت ہے تنگ ندی میری شان کے خلاف ہے۔ علامہ نے اپنے آپ کو سیل کہا ہے ایک اور غزل کا مطلع بھی یاد آ جاتا ہے۔ صورت پرستم من بت خانہ شکستم من آں سیل سبک سیرم ہر بند گسستم من میں ایک سیل ہی نہیں بلکہ ایک ایسا سیل سبک ہوں جس نے اپنے راستے میں آنے والے ہر بند کو توڑ ڈالا ہے۔ اس کے بعد کے شعر میں علامہ نے خو د کو حریف یم بیکراں کہا ہے اور یہ شعر انتہائی خوبصورت اور فکر انگیز ہے۔ سمندر سے بڑی بڑی موجیں اٹھتی رہتی ہے۔ طافان آتے رہتے ہیں۔ سطح بحڑ شورش افزا رہتی ہے تاہم موجوں کے اس ہمہ گیر اضطراب کے باوجود صد ف کے اندر گوہر کی تخلیق سکون کے ساتھ جاری رہتی ہے۔ سمندر کی طوفان خیزیوں کا اس عمل پر کوئی بھی اثر نہیں پڑتا۔ علامہ خدا سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ جب تو نے میرے شاہین کو مرد مومن کو شیروں کے شکار کے لیے چھوڑ دیا ہے تو اب ضرور ت اس امر کی ہے کہ اسے ہمت بلند کے ساتھ اس کے پنجے کی تیزی میں بھی اضافہ کر۔ طائران حرم سے مراد امت مسلمہ ہے افراد ہیں۔ علامہ کی آرزو ہے کہ ان افراد کو اپنی فکر سے متاثر کریں اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ ایسا مانگتے ہیں جو ابھی پھینکا ہی نہ گیا ہو کہ کامیاب ہو جائے یہ گویا یقین محکم کی کیفیت ہے۔ نظم کے آخری شعر کے دونوں مصرعوں میں دعائیہ انداز ملتا ہے۔ پہلے مصرعے میں اپنی خاک کو نغمہ دائود کے نور سے تابندہ ہونے اور اس خاک کے ہر ذرے کو شرر کی صورت میں متحرک ہونے کی آرزو کا اظہار کیا ہے۔ نغمہ دائود سے علامہ خاصے متاثر ہیں چنانچہ ان کے ایک فارسی کلام کے مجموے کا نام ہی زبور عجم ہے۔ میں نے علامہ کی اس فارسی دعا کو اس بنا پر سب سے زیادہ اہمیت دی ہے کہ ایک تو یہ دعا پیغمبر پاکؐ کی آرزو مندی سے ہم آہنگ ہے۔ نبی مکرمؐ کی طرح علامہ نے بھی ہر شے کی حقیقت سے باخبر ہونے کی دعا کی ہے اورپھر اس نظم میں وہ فکری عناصر بھی ملتے ہیں جن کی ترتیب سے علاہم کا فلسفہ خودی تشکیل پذیر ہوتا ہے۔ ۱۹۰۵ء میں تعلیم کی خاطر انگلستان کو روانہ ہوتے وقت علامہ غلام بھیک نیرنگ کی معیت میں حضرت محبوب الٰہیؒ دہلی کی درگاہ میں حاضر ہوئے تھے۔ یہاں انہوں نے جو دعا مانگی تھی وہ بانگ درا کے حصہ اول میں درج ہے۔ اس نظم کے دوسرے بند میں انہوںنے اپنی دل آرزوئوں کا ذکر کیا ہے۔ اس بند کا پہلا شعر ہے: چمن کو چھوڑ کے نکلا ہوں مثل نکہت گل ہوا ہے صبر کا منظور امتحاں مجھ کو چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو نظر ہے ابرکرم پر درخت صحرا ہوں کیا خدا نے نہ محتاج باغباں مجکو فلک نشیں صفت مہر ہوں زمانے میں تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجکو پہلے دو شعر تمہید کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ان کے بعد جو دو شعر آتے ہیں وہ علامہ کے ایک خاص ذہنی رجحان اور ذاتی عقیدے کی طر ف بڑا بلیغ اشارہ کر رہے ہیں۔ شاعر دنیا میں کسی کا محتاج ہونا نہیںچاہتا وہ شہر کے کسی چمن کا درخت بن کر محتاج باغباں ہونے سے درخت صحرا ہونا پسند کرتا ہے۔ جو کسی باغباں کا مرہون منت نہیں ہوتا۔ شاعر کا یہ رجحان بتدریج ترقی کرتا جاتا ہے۔ اور ایک مقام پر پہنچ کر اس کا فلسفہ خودی بن جاتا ہے۔ دوسرا شعر اس لحاظ سے بڑا اہم ہے کہ شاعر عقیدۃ اس امر کا قائل ہے کہ دینے والا صرف اللہ ہے وہی ہر شے پر قادر ہے اس لیے وہ حضرت محبوب الٰہ سے دعا کی التجا کر رہے ہیں۔ نظم کا عنوان یی ہے التجائے مسافر دعائے مسافر نہیں۔ آگے جتنے شعر آئیں گے وہ اسی التجائے مسافر میں شامل ہوں گے۔ واضح طور پر یہ عرض کیا جا سکتا ہے کہ علامہ اپنی آرزوئوں کا اظہار کر رہے ہیں اور حضرت محبو ب الٰہیؒ سے ملتجی ہیں کہ وہ خدا سے ان آرزوئوں کے پورا ہونے کے لیے دعا کریں ۔ فرماتے ہیں: مقام ہمسفروں سے ہو اس قدر آگے کہ سمجھے منزل مقصود کارواں مجھ کو مری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے کسی سے شکوہ نہ ہو زیر آسماں مجکو علامہ نے مصرع ثانی کی عملی صورت اپنی غزل کے ایک مشہور شعر میں اس طرح پیش کر دی ہے: تیری بندہ پروری سے میرے دن گزر رہے ہیں نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایت زمانہ التجائے مسافر میںبعد کے چند شعر یہ ہیں: دلوں کو چاک کرے مثل شانہ جس کا اثر تری جناب سے ایسی ملے فغاں مجکو بنایا تھا جسے چن چن کے خار و خس میں نے چمن میں پھر نظر آئے وہ آشیاں مجکو پھر آرکھوں قدم مادر و پدریہ جبیں کیا جنہوںنے محبت کا رازداں مجکو علامہ کو اپنے والد محترم اور مادر ملت سے انتہائی عقیدت رہتی۔ وہ سمجھتے رہتے کہ جو کچھ دنیا میں انہوںنے حاصل کیا ہے وہ ان ی ہی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے ل۔ اور ان کے والد تھے بھی ایک برگزیدہ ہستی جن کا یہ قول علامہ کبھی فراموش نہ کر سکے۔ اقبال قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کرو جیسے تم پر یہ نازل ہو رہا ہو‘‘۔ اور اپنی والدہ مکرمہ کی وفات پر تو انہوںنے ایک نہایت دردناک نظم کہی تھی جس کا عنوان تھا والدہ مرحومہ کی یاد میں اس نظم کے باقی شعر یہ ہیں: وہ شمع بار گہ خاندان مرتضوی رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجکو نفس سے جس سے کھلی میری آرزو کی گلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجکو دعا یہ کہ خدواند آسماں و زمین کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجکو یہ تینوں شعر علامہ نے اپنے محترم استاد سید میر حسن کے بارے میں کہے ہیں اپنے استاد کا وہ کس قدر احترام کرتے تھے اس سلسلے میں صرف ایک واقعہ لکھتا ہوں۔ حکومت نے جب علامہ کو نائٹ ہڈ کے خطاب سے سرفراز کرنا چاہا تو علامہ نے اس کے لیے یہ شرط رکھی کہ پہلے میرے استاد کو خطاب دیا جائے ورنہ میں اسے قبول نہیں کروں گا۔ خطاب کے لیے متعلقہ ہستی کا صاحب تصنیف ہونا ضروری تھا۔ اس لیے حکومت نے اعتراض کر دیا کہ آ پ کے استاد مصنف نہیں ہیں علامہ نے فرمایا وہ صاحب تصنیف ہیں اور ان کی زندہ تصنیف میں ہوں۔ جب سید میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب مل گیا تو علامہ نے اپنے لیے نائٹ ہڈ (سر) کا خطاب قبول کیا۔ آگے چل کر علامہ نے اپنے بھائی کے احسانات کا ذکر کیا ہے اوران کے متعلق التجا کی ہے۔ ریاض دہر میں مانند گل رہے خنداں اوپر جو تین شعر دیے گئے ہیں میں ان میں بھی آخری شعر میں محبوب الٰہی سے بارگاہ خداوندی میں دعا ہی کی التجا کی گئی ہے ۔ یہ دعائیہ اشعار میں ایک خاص ماحول میں کہے گئے ہیں اس لیے ا س ماحول کا اثر نظم پر چھایا ہوا ہے۔ علامہ نے اپنی ذات کے متعلق صرف تین شعر کہے ہیں۔ یہ شعرا وپر درج ہو چکے ہیںَ ان میں سے پہلے شعر کا مصرع اولیٰ ہے فلک نشین صفت مہر ہوں زمانے میں۔ اور تیسرے شعر کا مصرع ثانی کسی سے شکوہ نہ ہو زیر آسماں مجکو بنظر تعمق دیکھا جائے تو علامہ نے محض اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں مانگا۔ وہ صفت مہر اس وجہ سے ہونا چاہتے ہیں کہ اس خاکدان ہستی کو منور و تابناک کریں۔ ہمسفروں سے آگے نکلنے سے ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ کارواں کی راہ نمائی کرسکیں۔ انہیں قافلے سے بچھڑنے والوں کو پھر قافلے کی طرف لانا ہے اور وہ کہتے ہیں: اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے تو ترے لیے ہے مرا شعلہ نوا قندیل بانگ درا میں اپنے رب کو مخاطب کر کے علامہ نے جو دعا مانگی ہے اسے حقیقتاً ایک اجڑے گلستاں کے بلبل نالاں کا نالہ پردرد سمجھنا چاہیے او رعلامہ نے خود بھی اس نظم کے آخری شعر میں کہہ دیا ہے: میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑا گلستاں کا تاثیر کا سائل ہوں محتاج کر داتا دے اس نظم کو وہ قومی دعا سمجھا جا سکتا ہے جو قوم کے ایک درد مند شاعر نے اپنے خالق حقیقی کے حضور مانگی ہے یہ شاعر اپنے پہلو میں درد مند دل رکھتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ رنگین نوا بھی ہے اور شاعر رنگین نوا علامہ سے اپنے ہی قول کے مطابق دیدہ بینائے قوم ہوتاہے اور : مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ جسم (قوم) مبتلائے درد ہو تو آنکھ کا اشک بار ہوجانا لازمی ہے۔ اور اس نظم کا ایک ایک مصرع ایک ایک لفظ ایک اشک بیتاب ہے جو شاعر کے مژگاں پر آ کر لرز رہا ہے۔ شاعر نے پہلے شعر میں ہی زندہ تمنا کی آرز و کی ہے زندہ تمنا زندگی کا سمبل ہے یہ نہ ہو تو زندگی کی آگ بجھ جاتی ہے۔ اور یہ خاکستر کا ایک ڈھیر بن کر رہ جاتی ہے۔ انسان میں ساری امنگوں ولولوں اور جوش و خروش کے پیچھے ایک زندہ تمنا ہی برسر عمل ہوتی ہے علامہ زندہ تمنا کے بہت بڑے مبلغ ہیں اپنے کلام میں انہوںنے جا بجا اوربہ تکرار تخلیق آرزو کا اظہار کیا ہے ایک شعر میں آرزو مندی کا ذکر اس انداز سے ہوا ہے: مسلم استی سینہ را از آرزو و آباد دار ہر زماں پیش نظر لا تخلف المعیاد دار اس نظم میںعلامہ نے عربی ثقافت کی معروف علامتوں سے کام لیا ہے۔ یہ عربی ثقافت ہے وادی خاراں حرم محمل لیلا وغیرہ۔ اس دعا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کا بے ساختہ پن ہے۔ علامہ اپنے رب سے براہ راست مخاطب ہیں اور الفاظ ہیں کہ آنسوئوں کی ایک لڑی کی طرح ان کے نہاں خانہ دل سے نکلتے چلے آ رہے ہیں۔ پھر وادی فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے پھر شوق تماشا دے پھر ذوق تقاضا دے صرف وادی فاراں کے ہر ذرے کو چمکانے سے بات نہیں بن سکتی۔ اگر ہر ذرہ چمک بھی اٹھے اور دیکھنے والوں میں شوق تماشا یا ذوق تقاضا ہو تو ان ذروں کی درخشندگی اکارت جائے گی ۔ ان کا چمکنا اور نہ چمکنا برابر ہو جائے گا۔ شوق تماشا لازماً ضروری ہے مگر علامہ ذوق تقاضا پر بھی زور دیتے ہیں۔ شوق تماشا میں آرزو ندی ہے مگر ذوق تقاضا میں تحریک اور فعالیت ہے۔ اور علامہ کے ہاں یہ ترکیب زیادہ اہم ہے جیسا کہ ایک غزل میں بھی فرمایا ہے : اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی ذوق تقاضا انسانی انا کی عملی صور ت میں ظہور پذیر ہوتاہے۔ اور علامہ دعا کے معاملے میں بھی اسے نظر انداز نہیں کرتے۔ محروم تماشا کو پھر دیدہ بینا دے دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے دوسرے مصرع میں جس آرزو مندی کی نشان دہی ہوتی ہے اس کا ذکر علامہ اقبال کے ہاں کئی مقامات پر ملتاہے: جوانوں کو مری آہ سحر دے پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے خدایا آرزو میری یہی ہے مرا نور بصیرت عام کر دے یہ ان کے نور بصیر ت ہے جس میں وہ ملت کے ہر فرد کو حصہ دار بنانے کے آرزو مند ہیں۔ وہ ہر فرد ملت کو پوری پوری اہمیت دیتے ہیں : ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ اس دعا کے باقی اشعار یہ ہیں: بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے پیدا دل ویراں میں پھر شورش محشر کر اس محمل خالی کو پھر شاہد لیلا دے اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کو وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرما دے رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کر خودداری ساحل دے آزادی دریا دے بے لوث محبت ہو بیباک صداقت ہو سینوں میں اجالا کر دل صورت مینا دے احساس عنایت کر آثار مصیبت کا امروز کی شورش میں اندیشہ فردا دے لے چل ‘ کر اور دے کے بے تکلفانہ تخاطب کے الفاظ ہیں۔ ان میں تکلف اور تصنع کا ہلکا سا اثر بھی نہیںہے۔ اس دعا میں ایک اور بات بھی بطور خاص قابل ذکر ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ یہاں آرزو مندی کے ہر پہلو میں حرکت موجود ہے۔ گرما دے ‘ تڑپا دے اور چمکا دے ‘ شوق تماشا‘ ذوق تقاضا‘ دیدہ بینا‘ شورش محشر‘ خودداری ساحل‘ آزادی دریا ایک اور بات بھی بطور خاص قابل ذکر ہے کہ یہاں آرزو مندی کے ہر پہلو حرکت موجود ہے۔ گرما دے تڑپا دے ‘ چمکا دے ‘ شوق تماشا‘ ذوق تقاضا‘ دیدہ بینا‘ شورش محشر خودداری ساحل آزادی دریا‘ احساس کی شدت‘ ان کی ساری لفظی ترکیبوں میں جنبش و تحڑک کی ایک لہر رواں دواں ہے اور حرکت و عمل علامہ اقبال کا پیغام ہے قوم کے ہر فرد کے نام سکوں طلبی کو نہ تو ان کے پیغام سے کوئی رابطہ ہے اورنہ ان کی دعا سے۔ آرز و انگیزی کی کوئی بھی صورت ہو علامہ کا ذہن تگاپوئے دمادم سے الگ نہیں ہوتا۔ علامہ کے دوسرے مجموعہ کلام (اُردو) بال جبریل میں دعا کے عنوان سے ایک نظم شامل ہے اوریہ دعا کئی جہتوں سے نہایت اہم ہے اور فکر اقبال میں اس کا ایک خاص مقام ہے دعا کے اشعارذیل میں نقل کرتا ہوں: ہے یہی میری نماز ہے یہی مرا وضو میری نوائوں میں ہے میرے جگر کا لہو صحبت اہل صفا نور و حضور و سرور سر خوش و پرسوز ہے لالہ لب آبجو راہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق ساتھ میرے رہ گئی ایک میری آرزو میرا نشیمن نہیں درگہ میر و وزیر میرا نشیمن بھی تو شاخ نشیمن بھی تو تجھ سے گریباں مرا مطلع صبح نشور تجھ سے مرے سینے میں آتش اللہ ہو تجھ سے مری زندگی سوز و لب و درد و داغ تو ہی مری آرزو تو ہی مری جستجو پاس اگر تو نہیں شہر ہے ویراں تمام تو ہے تو آباد ہیں اجڑے ہوئے کاخ و کو پھر وہ شراب کہن مجھ کو عطا کر کہ میں ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبو چشم کرم ساقیا دیر سے ہیں منتظر جلوتیوں کے سبو خلوتیوں کے کدو تیری خدائی سے ہی میرے جنوں کو گلہ اپنے لیے لا مکاںمیرے لیے چار سو فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا؟ حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں رو برو اس نظم کو محض اس کے ذاتی تناظر میں دیکھا جائے تو لازماً اس کی وسیع اور نہایت بلیغ معنویت بری طرح متاثرہو کر رہ جائے گی اس لیے اسے اس کے اس مخصوص پس منظرمیں دیکھنا لازمی ہو گا جسے الگ کر دیا جائے تو اس کا سارا مفہوم ایک تنگنائے معنی کی حدود میں محدود ہو جائے گی۔ اور یہ اقدام نتیجتہً نظم کے ساتھ ناانصافی پر محمول ہو گا۔ تو سوال یہ ہے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جن کی مربوط صورت سے یہ پس منظر بروئے کار آتا ہے۔ ۱: یہ دعا تیسری رائونڈ ٹیبل کانفرنس لندن(۱۷ نومبر ۱۹۳۲ء تا ۲۴ دسمبر ۱۹۳۲ئ) کے بعد کہی گئی تی اس کانفرنس میں حضرت علامہ بطور مسلم مندوب کے شامل ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ کانفرنس میں ہندوستان اور برطانیہ کے متعدد مشاہیر شامل تھے۔ ب: یہ دعا مسجد قرطبہ میں لکھی گئی تھی۔ ج: اس دعا کے فوراً بعدعلامہ کی وہ غیر فانی ننظم بھی لکھی گئی تھی جس کاعنوان ہے مسجد قرطبہ اس کے عنوان کے نیچے علامہ نے خود یہ الفاظ لکھے تھے: ہسپانیہ کی سرزمین بالخصوص قرطبہ میں لکھی گئی۔ اس لیے ان دونوں نظموں کو معناً ایک دوسری سے مربوط سمجھنا چاہیے۔ رائونڈ ٹیبل کانفرنس لندن جیسے مقام میںمنعقد ہوئی۔ لندن دنیا کا نہایت بارونق شہر ہر طر ف آبادی ہی آبادی اور کانفرنس میں علامہ ہمہ وقت مندوبین کے ہجوم میںگھرے رہے۔ اس کانفرنس میںشرکت علامہ کی نظر میں محض ایک سیاسی فریضہ تھا۔ اس میں جو کچھ ہوا جتنی کاررائی ہوئی اس کا تعلق ان کے ذوق و شو ق سے نہیں تھا۔ علامہ نے اس ہجوم مندوبین میں خود کو تنہا محسوس کیا ہو گا۔ انہیں تنہائی کا احساس ہوا ہو گا۔ تنہائی صحبت ناجنس اور مشاہیر ہندو برطانیہ کی بزم آرائیوں میں بے سود شرکت ان کے دل و داغ پر وہ تاثر چھوڑتا ہے جس کی کچھ جھلکیاں ہم اس دعا کے دو تین شعروں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں۔ راہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو میرا نشیمن نہیں ورگہ میر و وزیر میری نشیمن بھی تو شاخ نشیمن بھی تو اور یہ شعر بھی اسی زمرے میں آتا ہے: پاس اگر تو نہیں شہر ہے ویراں تمام تو ہے تو آباد ہیں اجڑے ہوئے کاخ و کو علامہ نے سوچا ہوگا کہ لندن کی راہ۔ راہ محبت نہیں اور یہ جو بڑے بڑے لوگ میرے ارد گرد جمع ہیں بھلا ان سے میرا کیا واسطہ میں راہ محبت کا راہی۔ میرا نشیمن ان لوگوں کی بارگاہ ہرگزنہیں اوریہ لندن…بہت بڑا شہر۔ ہر وقت یہاں گہما گہمی ہمہ ہمی مگر میری نظروںمیں یہ شہر ویران ہے کیونکہ میں یہاں خو دکو اجنبی محسوس کرتا ہوں یہ خیال علامہ اقبال کے تحت الشعور میںہوں گے۔ اور جب وہ اجڑے ہوئے کاخ و کو میں پہنچے تو انہٰں محسوس ہوا کہ رفیق حقیقی کی جلوہ طرازیوں سے یہ مسجد قرطبہ کے اجڑے ہوئے کاخ و کو جن کی فضا صدیوں سے بے اذاں ہے آباد ہو گئے ہیں۔ علامہ کی اداسی کی ایک اوروجہ یہ بھی ہے کہ لندن کی اس رائونڈ ٹیبل کانفرنس نے علامہ کے ذہن پر ایک بڑاناخوشگوار اثر ڈالا تھا۔ کانفرنس میںکانگرس نے حصہ نہیں لیا تھا۔ ہندوستان کی اکثریتی جماعت کی نمائندگی کرنے والوں نے کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیاتھا۔ ظاہر ہے کا کانفرنس ناکامی پر منتج ہوئی تھی اس کانفرنس نے یہ بھی ثابت کر دیا تھا کہ کانگرس کو ہندوستان کا مجموعی مفاد عزیز نہیںبلکہ عزیز ہے تواپنی قوم کا مفاد یہ گویا علامہ کے لیے صحبت ناجنس کا اثر رکھتی تھی۔ ایک اور شعر میں بھی انہوںنے اپنے ذاتی تاثر کا اظہار یوں کیا ہے: صحبت اہل صفا نور و حضور و سرور سرخوش و پرسوز ہے لالہ لب آب جو لندن میں بھیت بھیت کی بولیاں بولنے والوں میںعلامہ پریشان ہو گئے۔ وہ خود کو لالہ صحرا سمجھتے تھے جو آب جو کے کنارے ہی سرخوش وپرسوز ہوتا ہے اور یہیں صحبت اہل صفا نور و حضور و سرور کے لمحے مہیا کرتی ہے۔ دوسرا عنصر ی ہے کہ یہ دعا مسجد قرطبہ میں لکھی گئی ہے میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ یہ دونون نظمیں آپس میں مربوط ہیں بلکہ میں تو کچھ ایسا محسوس کرتا ہوں کہ دعا کو اگرایک فوارہ سمجھا جائے تو مسجد قرطبہ کے اشعار اس فوارے میں سے ذرا مختلف رنگوں کی پھوٹتی ہوئی لہریں ہیں جو ادھر ادھر بکھر گئی ہیں۔ یا دعا ایک گلشن ہے اور عقیدت و محبت او رذوق و شوق کی ہوائیں ا س گلشن کے پودوں کی شاخوں سے رنگا رنگ اور خوشنما پھول اڑا کر باہر لے گئی ہیں اور یہ پھوہل ایک ترتیبی صورت اختیار کر لیتے ہیں تو اس ترتیب کو نظم مسجد قرطبہ کہہ سکتے ہیں۔ دعا کے کئی شعروں کو مسجد قرطبہ کے بعض شہروں کی روشنی میں ہی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اس سلسلے میں کچھ کہنے سے پیشتر علامہ کے ان خیالات سے آگاہی ضروری ہے جو انہوںنے مسجد قرطبہ کے بارے میںاپنے مکاتیب کے ذریعے بیان کیے تھے۔ مولانا غلام رسول مہر کے نام اپنے خط میں علامہ تحریر فرماتے ہیں: ہسپانیہ میں جو کچھ دیکھا ایک خط کے ظرف تنگ میں کیونکر سما سکتا ہے۔ جاوید اقبال کے نام جو خط لکھا ہے اس میں لھکتے ہیں۔ خدا کا شکر گزار ہوں ک میں اس مسجد کے دیکھنے کے لیے زندہ رہا۔ یہ مسجد دنیا کی تمام مساجد سے بہتر ہے۔ خدا کرے تم جوا ہو کر اس عمارت کے انوار سے اپنی آنکھیں روشن کرو۔ شیخ محمد اکرام کے نام اپنے خط میں فرماتے ہیں: ’’میں اپنی سیاحت اندلس سے بیحد لذت گیر ہوا۔ وہاں دوسری نظموں کے علاوہ ایک نظم مسجد قرطبہ پر لکھی جو کسی وقت شائع ہو گی۔ الحمرا کا تو مجھ پر کچھ اثر نہ ہوا لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت تک پہنچا دیا کہ مجھے پہلے کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔‘‘ الحمرا کا تو مجھ پر کچھ اثر نہ ہوا اس لیے دعا کا یہ شعر بھی ذہن میں لائیے: میرا نشیمن نہیں ورگہ میر و وزیر میرا نشیمن بھی تو شاخ نشیمن بھی تو ہسپانیہ سے واپسی پر علامہ نے ایک ملاقات میں اسلامی فن تعمیر پر روشن ڈالتے ہوئے کہا تھا: ’’مسلمانوں کی عمارات دو قسم کی ہیں جلالی اورجمالی اور یہ دونوں قسم کی عمارات اپنے بنانے والوں کے کردار کا آئینہ ہیں۔ جہانگیر شاہ جہاں اور عالمگیر میں محبت کا عنصر زیادہ تھا۔ اس لیے تاج محل شاہدرہ شالا مار اور شاہی مسجد لاہور حسن و جمال کا مظہر بن گئیں۔ شیر شاہ سوری پیکر جلال تھا اس لیے اس کے تعمیر کردہ قلعوں میں ہیبت برستی ہے۔ اندلس کی بعض عمارتوں میں بھی اسلامی فن تعمیر کی اس خاص کیفیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن جوں جوں قومی زندگی کے قویٰ شل ہوتے جاتے ہیں۔ تعمیر ات کے اسلامی انداز میں ضعف آتا گیا۔ وہاں کی تین عمارتوں میں مجھے ایک خاص فرق نظر آیا۔ قصر زہرا دیوئوں کا کارنامہ معلوم ہوتاہے۔ مسجد قرطبہ مہذیب دیووںکا مگر الحمرا مہذب انسانوں کا۔ میں الحمرا کے ایوانوںمیں جا بجا گھومتا پھرا۔ دیوار پر ہو الغالب لکھا ہوا نظر آتا تھا میں نے دل میں کہا کہ یہاں تو ہر طرف خدا غالب ہے کہیں انسان بھی نظر آئے تو بات ہو‘‘۔ اس بیان کے آخر فقرے کو ذہن میں رکھ کر دعا کا یہ شعرپڑھیے: تیری خدائی ہی سے میرے جنوں کو گلہ ہے اپنے لیے لامکاں میرے لیے چار سو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ دعا پر مسجد قرطبہ کا تقدس چھایا ہوا تھا۔ مسجد ہی کی مناسبت سے نماز اور وضو کا ذکر آتا ہے اور یہ نماز اور وضو شاعر ی نواگری سے مربو ط ہے۔ یہ نوائیں اس بنا پر نماز اور وضو کا مقام حاصل کر لیتی ہیں کہ ان میں شاعر کا خون جگر شامل ہے ۔ خون جگر کو علامہ اقبال کی نظر میں بڑی اہمیت حاصل ہے اسی خون جگر کا ذکر مسجد قرطبہ میں یوں کیا گیا ہے: رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف و صوت معجزہ فن کی ہی خون جگر سے نمود قطرہ خون جگر سل کو بناتا ہے دل خون جگر سے صدا سوز و سرور و سرود دعا کے پہلے سا ت شعروں میں ان روابط کی وضاحت ہو جاتی ہے جو بندہ مومن کی اپنے خالق کے ساتھ استوار ہیں۔ جب ان روابط کا ذکر ہو جاتا ہے تو حرف التجا بے اختیار شاعر کے ہونٹوں پر آ جاتا ہے۔ پھر وہ شراب کہن مجھ کو عطا کر کہ میں ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبو چشم کرم ساقیا! دیر سے ہیں منتظر جلوتیوں کے سبو خلوتیوں کے کدو شراب کہن کا تصور نظم مسجد قرطبہ کے دن دو شعروں کی طرف لے جاتا ہے: روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب راز خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں ٭٭٭ آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب دعا کاآخری شعر ہے: فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو مسجد قرطبہ کا آخری شعر بھی اظہار فن ہی سے متعلق ہے۔ نقش ہیں سب ناتمام خون جگرکے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر یہ دعا ایک مر د مومن کی دعا ہے اور ان لمحوں میںمانگی گئی ہے جن میں وہ حرم قرطبہ کے اندر کھڑاہے۔ وہ حرم قرطبہ جس کا وجود عشق سے ہے اور عشق سراپا دوام ہے جس میں رفت و بود نہیں ہے۔ ان لمحوں میں اس کے دل کے پردے پر ماضی کے وہ منظر پھرتے ہیں جب مردان حق اور عربی شہسوار جو حامل خلق عظیم اور صاحب صدق و یقین تھے اور جن کی حکومت سے یہ رمز غریب فاش ہوئی کہ سلطنت اہل دل فقیر ہے شاہی نہیں ایسے میں وہ بے شمار ستون دیکھتا ہے اور ہہ ستون اسے شام کے صحرا میں ہجوم نخیل کی طرح نظر آتے ہیں… عظمت ماضی کے تابناک زمانے کی یاد میں ذہن کے افق پر سایہ افگن سینے میں ذوق و شوق کا ہجوام دل میں سوز و تب و درد و داغ یہ تقدس مآب ماحول اس پر وجد کا سا عالم طاری کر دیتا ہے۔ اور ھر اس کی روح سے جو سراپا سوز گداز ہے اشک ہائے عقیدت ایک والہانہ جوش کے زیر اثر اس کے لبوں تک پہنچ جاتے ہیں اور وہاں سے شبنم سحر گاہی کی مانند جو ہوا کے جھونکوں سے مسلسل کراتے رہتے ہیں بے اختیار ٹپک پڑتے ہیں اس دعا میں الفاظ شاعر کی روح کے اشک ہائے عقیدت ہیں۔ علامہ کی فارسی مثنوی اسرار خودی میں ایک طویل دعا شامل ہے اور ا س سے پیشتر کہ اس دعا کے چند اشعار درج کروں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ یہ مثنوی علامہ کے نظریہ خودی کو محیط ہے۔ علامہ نے اس مثنوی میں اپنے نظریے کی مکمل طور پر وضاحت کر دی ہے اور چونکہ یہ دعا اسی مثنوی کا حصہ ہے اس لیے اس کے اشعار بھی اسی نظریے کے رنگ میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دعا کا پہلا شعر یہ ہے: اے چوں جاں اندر وجود عالمی جان ما باشی و از مالی رمی اس موقعے پر چندر بھان برہمن لاہوری کا ایک بہت خوب صورت شعر یاد آ گیا ہے: اے برتر از تصور و وہم و گماں ما اے درمیان ماہ بروں ازمیان ما دعا کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے: نغمہ از فیض تو در عود حیات موت در راہ تو محسود حیات باز تسکین دل ناشاد شو باز اندر سینہ ہا آباد شو باز از ماخواہ ننگ و نام را پختہ تر کن عاشقان خام را از تہید ستاں رخ زیبا مپوش عشق سلمانؓ و بلالؓ ارزاں فروش چشم بے خواب و دل بے تاب دہ باز مارا فطرت سیماب وہ سیماب سیم خام سے الگ اس بنا پر ہے کہ اسم یں بے تابی اور تڑپ ہے ورنہ علامہ نے خود ہی فرمایا ہے: کوہ آتش خیز کن ایں کاہ را نہ آتش ما سوز غیر اللہ را ما پریشاں در جہاں چوں اختریم ہمدم و بیگانہ از یک دیگریم باز ایں اوراق را شیرازہ کن باز آئین محبت تازہ کن رہرواں را منزل تسلیم بخش قوت ایمان ابراہیم بخش! عشق را از شغل لا آگاہ کن آشنائے رمز الا اللہ کن من مثال لالہ صحرا ستم درمیان محفلے تنہا ستم ہمدمے دیوانہ فرزانہ از خیال این و آں بیگانہ تابجان او سپارم ہوئے خویش بازبینم دردل اوروئے خویش سازم از مشت گل خود پیکرش ہم صنم اورا شوم ہم آزرش آپ محسو س کرین گے کہ یہ دعا باکل سیدھے سادے انداز میں مانگی گئی ہے۔ یہاں کسی قسم کی پیچیدگی نہیںشاعر دینے والے سے مانگ رہا ہے جس اندازمیں ایک بندے کیو مولاسے مانگنا چاہیے۔ اپنے اندر کسی قوم کے تصنع اور بناوٹ کے روادار نہیں ہیں۔ مانگنے میں کوئی ہیر پھیر نہیں قطعاً کوئی تکلف نہیں شعر ‘ خواہ۔ مپوش۔ ارزاں فروش۔ دہ ۔ کن۔ بخش۔ یہ الفاظ جہاں بندے کے گہرے اور ہمہ یر خلوص پر شاہد ہیں وہاں یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ اسے اپنے خالق کے ساتھ ساتھ اپنی ذات پر بھی ناقابل شکست اعتماد حاصل ہے ورنہ اسے بھی اس بے تکلفی سے مانگتے ہوئے اجتناب کرنا چاہیے تھا۔ اپنی دوسری مثنوی رموز بے خودی کے آخر میں علامہ اقبال سرور کائناتؐ سے مخاطب ہوتے ہیں۔ یہاں دامن ا مید بہ حضور رحمتہ اللعالمینؐ پھیلایا گیا ہے: اے ظہور تو شباب زندگی جلوہ ات تعبیر خواب زندگی اے زمین از بارگاہت ارجمند آسماں از بوسہ بامت بلند شش جہت روشن ز تاب روئے تو ترک و تاجیک و عرب و ہندوئے تو یہ تخاطب ستائیس اشعار تک چلا گیا ہے اس کے بعد علامہ ابال نے حرف مطلب زبان پر لاتے ہیں: پردہ ناموس فکرم چاک کن ایں خیاباں راز خارم پاک کن تنگ کن رخت حیات اندر برم اہ ملت رانگہدار از شرم سبز کشت نابس مانم مکن بہرہ گیر از ابر نیانم مکن اور یہ شعر تو عقیدت کی انتہائی بلندی پر جا پہنچا ہے: روز محشر خوار و رسوا کن مرا بے نصیب از بوسہ پا کن مرا میں نے علامہ کی دعائیہ نظم التجائے مسافر کے سلسلے میں کہا تھا کہ مرد مومن کا اعتقادیہ ہے کہ دینے والا صرف خدا ہے وہی ہر بندے کی آرزو پوری کرسکتا ہے۔ وہی پکار سنتا ہے اور وہی ہر شے دینے پر قادر ہے۔ بندہ دعا کر سکتا ہے چنانچہ علامہ بھی حضور اکرمؐ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں: عرض کن پیش خدائے عز و جل عشق من گردد ہم آغوش عمل دولت جاں حزیں بخشندہ بہرہ از علم دیں بخشندہ در عمل پایندہ تر گرداں مرا آب نیانم گہر گرداں مرا پیام مشرق میں بھی ایک مختصر سی نظم ملتی ہے جس کا عنوا ن ہے دعا کل تین شعر ہیں: اے کہ از خمخانہ فطرت بہ جامم ریختی ز آتش صہبائے من بگزاز مینائے مرا عشق را سرمایہ ساز اگر مئی فریاد من شعلہ بیباک گرداں خاک سینائے مرا چوں بہ میرم از غبار من چراغ لالہ ساز تازہ کن داغ مرا سوزاں بصحرائے مرا اس دعا کے بین السطور جو جذبہ آتشیں برسرکار ہے اس کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے اس نظم کامطالعہ ضروری ہے جو اس کے بعد شامل کی گیء ہے گمان غالب یہی ہے کہ علامہ اقبال جب یہ دعا کہہ رہے تھے تو دوسری نظم تسخیر فطرت سے متعلق تصورات ان کے ذہن میں موج زن تھے۔ اس نظم (تسخیر فطرت) کے پہلے دو شعر ہیں: نعرہ زد عشق کہ خونیں جگر پیدا شد حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد فطرت آشفت کہ از خاک جہان مجبور خود گرے خود شکنے خود نگرے پیدا شد دعا کے مطالعے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ جو شخص بارگاہ رب العزت میں ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے وہ کوئی خاکسار قسم آدمی نہیں ہے۔ صاحب نظر ہے خود گر ہے۔ خود شکن ہے اور خود نگر ہے۔ یہ نظمیں نفسیاتی طور پر ایک دوسری سے مربوط ہوتی ہیں علامہ اس جام پر مطمئن نہیں ہیں جسے فطرت کے مے خانے سے لبریز کیا گیا ہے۔ وہ ایسی شرا ب کے خواہش مند ہیں کہ جو صہبا گداز ہو… فطرت کی شرا ب صہبا گداز نہیںہو سکتی۔ اور پھر یہ بھی نہیںکہا کہ عشق کو میری فریاد کی گرمی کے لیے سرمایہ بنا بلکہ کہا یہ ہے کہ میری فریاد کی گرمی کو عشق کے لیے سرمایہ بنا دے اور اپنی خاک کو شعلہ بیباک میں منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ خاک کی شرر ریزی ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ اور اس موضوع کا ذکر مختلف پیرایوں میںمختلف مقامات پر کر چکے ہیں۔ یہ حضرت علامہ کی چھ اردو فارسی نظمیں جن کا اوپر کی سطروں میں خصوصی مطالعہ کیا گیا ہے اصطلاحاً یہ دعائیہ نظمیں ہیں۔ ان میں سے ہر نظم اپنی ذات میں مکمل ہے۔ ان کے علاوہ بھی دعا کے لیے علامہ کے ہاتھ اٹھے ہیں اور انہوںنے کسی خاص موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ضمناً باری تعالیٰ کو بھی مخاطب کر لیا ہے۔ ایسے مقامات پر دعا کے لیے انہوںنے بیشتر مقامات پر رباعیات کا انتخاب کیا ہے اس قسم کی رباعیات پر بہت حد تک دعائیہ رنگ چھایا ہوا ہے۔ یا کہیں کہ انہوںنے نعتیہ شعر کہہ دیا ہے اور پیغمبر پاکؐ کو مخاطب کر لیا ہے آخر الذکر مثال کیلیے یہ دو شعر ملاحظہ فرمائیے: کرم اے شہ عرب و عجمؐ کہ کھڑے ہیں منتظر کرم وہ گدا تو نے عطا کیاہے جنہیں دماغ سکندری بانگ درا میں ایک قطعہ ملتا ہے: کل ایک شوریدہ خواب گاہ نبیؐ پر رو رو کے کہہ رہا تھا کہ مصر ہندوستان کے مسلم بنائے ملت مٹا رہے ہیں اس میں بھی ایک شعر دعائیہ انداز کا ہے: غضب میں یہ مرشدان خود بیں ہیں خدا تری قوم کو بچائے بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں علامہ نے فارسی میںایک مختصر مثنوی لکھی تیھ۔ جس کا نام ہے پس چہ باید کرد اے اقوام شرق اس مثنوی کے آخر میں چند شعر درج ہیں یہ اشعار دعائیہ ہیں عنوان ہے در حضور رسالت مآبؐ سرخی کے نیچے یہ نوٹ شامل ہے۔ شب سہ اپریل ۱۹۳۶ء کہ در دارالاقبل بھوپال بودم سید احمد خاں رحمتہ اللہ علیہ رادر کواب تویدم فرمودند کہ از علالت خویش در حضور رسالت مآبؐ عرض کن۔ یہ اشعار عقیدت مندانہ جذبات کے ساتھ گہرے ذاتی کرب میں بھی ڈوبے ہوئے ہیں علامہ حضورؐ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں: ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی کشتی و دریا و طوفانم توئی آہوئے زارو زبون و ناتواں کس بہ فتراکم نہ بست اندر جہاں آہوئے زارو زبون و ناتواں سے اشارہ اپنی علالت کی طرف ہے دو سال بعدفوت ہو گئے تھے۔ اے پناہ من حریم کوئے تو من بامیدے رمیدم سوئے تو چوں بصیری از تومی خواہم کشود تابمن باز آید آں روزے کہ بود بصیریؒ… امام بصیریؒ جنہوں نے مشہور نعتیہ قصیدہ بردہ لکھا تھا۔ یہ قصیدہ بارگاہ نبیؐ میں قبول ہوا اور مصنف کو فالج کی بیماری سے نجات ملی علامہ کی یہی آرزو ہے کہ حضور ان پر بھی نظر توجہ فرمائیں اور یہ بھی علالت سے نجات پائیں۔ علامہ آگے فرماتے ہیں: مہر تو برعاصیاں افزوں تر است در خطا بخشی چو مہرمادر است باپرستاران شب دارم ستیز باز روغن در چراغ من بریز اے وجود توجہاں را نو بہار پر تو خود را دریغ از من مدار تیشہ ام را تیز تر گرداں کہ من محنتے دارم فزوں از کوہکن مومنم از خویشتن کافرینم برفسانم زن کہ بدگوہر نیم اے کہ وادی کرد دا سوز عرب بندہ خود را حضور خود طلب جاں ز مہجوری نیالہ در بدن نالہ من وائے من اے وائے من بال جبریل میں ساقی نامہ کا تیسر ا بند دعائیہ انداز کا ہے۔ علامہ نے اس بند میں ساقی سے خطاب کر کے اپنی چند قلبی آرزوئوں کا اظہار کیا ہے۔ ساقی سے خطاب فارسی اردو شاعری میں بطور ایک کلاسیکی روایت کے بہت مدت سے استعمال ہو رہا ہے۔ کہیں تو ساقی متصوفانہ روپے کے زیر اثر ساقی ازل کامفہوم لیے ہوئے ہیل۔ اور کہیں اس پر مجازی رنگ چھایا ہوا ہے تصوف مسلک شعرا نے ساقی کو اول الذکر معنوں میںبرتا ہے اور غیر صوفی شعرا نے اسے پیر مغاں اور محبوب کی علامت بنا دیا ہے۔ علامہ کے یہاں بھی یہ دونوں اندازپائے جاتے ہیںَ ساقی ان کے یہاں مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے کہیں کہیں ساقی سے ان کی مراد رسول کریمؐ کی ذات بابرکات بھی ہے: بانگ درا میں علامہ نے ساقی سے یوں خطاب کیاہے: نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی کٹی ہے رات تو ہنگامہ گستری میں تری سحر قریب ہے اللہ کا نام لے ساقی بال جبریل میںساقی یہ صورت اختیار کرتا ہے: لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی تین سو سال سے ہند کے مے خانے بند اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی ایک غزل میں ساقی سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی دل ہر ذرہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی اور اس کے بعد فوراً ہی جو غزل ملتی ہے اس میں بھی ساقی سے خطاب کیا گیا ہے اس کا ایک شعر ہے: وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھونک سکتی ہے طلب صادق نہ ہو تیری تو پھر کیا شکوہ ساقی ساقی نامہ کے چند دعائیہ اشعار یہ ہیں مگر یہ بات نظر انداز نہیںکرنی چاہیے کہ یہاں ساقی سے مراد خدا کی ذات ہے… اور یہاں بھی علامہ نے جو کچھ مانگا ہے وہ ایک مرد مومن کی حیثیت سے مانگا ہے: شراب کہن پھر پلا ساقیا وہی جام گردش میں لا ساقیا! مجھے عشق کے پر لگا کے اڑا میری خاک جگنو بنا کے اڑا خرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پیروں کا استاد کر ہری شاخ ملت ترے نم سے ہے نفس اس بدن میں ترے دم سے ہے تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دل مرتضیٰؓ سوز صدیقؓ دے جگر سے وہی تیر پھر پار کر تمنا کو سینوں میںبیدار کر ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر جوانوں کو سوز جگر بخش دے مرا عشق میری نظر بخش دے مری نائو گرداب سے پار کر یہ ثابت ہے تو اس کو سیار کر اس بند کے آخری دو شعر ملاحظہ فرمائیے: یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر مرے قافلے میں لٹا دے اسے لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے بال جبریل میں یہ دو رباعیاں اسی زمرے میں شامل کی جا سکتی ہیں: دلوں کو مرکز مہر و وفا کر حریم کبریا سے آشنا کر جسے نان جویں بخشی ہے تو نے اسے بازوئے حیدر بھی عطاکر اس رباعی کے آخری دو مصرعوں کا مضمون برنگ دیگر ایک اور شعر میں بھی بیان کیا گیا ہے: تیری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فکر و غنا نہ کر کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری بال جبریل کی دوسری رباعی یہ ہے: عطا اسلاف کا جذب دروں کر شریک زمرہ لا یحزنون کر خرد کی گتھیاں سلجھا چکا ہوں مرے مولا! مجھے صاحب جنوں کر یہ جنوں کہیں عشق کی اصطلاح بھی اختیار کر لیتا ہے۔ جنوں کو علامہ اقبال نے خرد کا مد مقابل قرار دیا ہے۔ اور ہر مقام پر جنوں کو خرد پر فوقیت دی ہے جنوں ایک ایسی کیفیت ہے جس کا علم صوفی و ملا کو نہیں ہے۔ کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی ان کا سر دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے ٭٭٭ اقبال نے کل اہل خیاباں کو سنایا یہ شعر نشاط آور و پرسوز و طرب ناک میں صورت گل دست صبا کا نہیں محتاج کرتا ہے مرا ہوش جنوں میری قبا چاک جنوں علامہ اقبال کی نظر میں شورش افزائے حیات ہے۔ مرکز خودی ہے انسانی انا کا فقط کمال ہے یہاں تک کہ: خاموش نہ بیٹھے گا محشر میں جنوںمیرا یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک علامہ کے تیسرے اردو مجموعہ کلام ضرب کلیم میں کوئی دعائیہ نظم قطعہ یا رباعی نہیں ہے البتہ کہیں کہیں ایک آدھ شعر مل جاتاہے میں ذیل کے اشعار دیکھ سکا ہوں نظم الہام اور آزدای کا آخری شعر ہے: محکوم کے الہام سے اللہ ہی بچائے غارت گر اقوام ہے وہ صورت چنگیز ایک نظم کاعنوان ہے سرود حرام صرف تین شعروں پر مشتمل ہے دوسرا شعر ہے: خدا کرے کہ اسے اتفاق ہو مجھ سے فقیہہ شہر کہ ہے محرم حدیث و کتاب ایک اور نظم کا عنوان ہے ’’غلاموں کی نماز‘‘ بغلی سرخی ہے ’’ترکی و فد ہلال احمر لاہور میں‘‘ اس کا آخری شعر ہے: خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو وہ سجدہ جس میں ۃے ملت کی زندگی کا پیام علامہ کے آخری مجموعہ کلام ارمغان حجاز (اردو) کی رباعیات میں کہیں دعائیہ رنگ تو نہیں ہے مگر ایک رباعی میں خدا کو ذرا شوخی کے ساتھ مخاطب کیا ہے: فراغت دے اس کار جہاں سے کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے ہوا پیری سے شیطاں کہنہ اندیش گناہ تازہ تر لائے کہاں سے ایک اور رباعی بھی ملاحظہ فرمائیے: دگرگوں عالم شام و سحر کر جہان خش و تر زیر و زبر کر رہے تیری خدائی داغ سے پاک مرے بے ذوق سجدوں سے حذر کر اس مجموعے میں اردو کلام کے ساتھ فارسی کلام بھی ہے۔ فارسی میں ذیل کی رباعیات میں علامہ اقبال خدا سے مخاطب ہیں۔ رام را ہے کہ اورا منزلے نیست ازاں تخمے کہ ریزم حاصلے نیست من از غم ہاتمی تر سم و لیکن مدہ آں غم کہ شایان دلے نیست مدہ آں غم کہ شایان دے نیست میں بھرپور دعائیہ انداز میں ملتا ہے۔ مئے من از تنک جاماں نگہ دار شراب پختہ از خاماں نگہ دا شر راز نیستانے دور تر بہ بہ خاصاں بخش و از عاماں نگہ دار ٭٭٭ عطا کن شور رومی سوز خسرو عطا کن صدق و اخلاص سنائی چناں بابندگی در ساختم من نہ گیرم گر مرا بخشی خدائی ٭٭٭ زبحر خود بجوئے من گہر دہ متاع من بہ کوہ و دشت و در دہ دلم نہ کشود ازاں طوفان کہ داری مرا شورے ز طوفانے دگر دہ ٭٭٭ زشوق آموختم آں ہائو ہوئے کہ از سنگے کشاید آبجوئے ہمیں یک آزرزو دارم کہ جاوید ز عشق تو بگیرد رنگ و بوئے جاوید کے لیے ایک رباعی کے دوسرے دو مصرعوں میں اپنی آرزو کا اظہار یوں کیا ہے: سحر جاوید رادر سجدہ دیدم بہ صبحش چہرہ شامم بیار اے جاوید علامہ اقبال کے صاحب زادے ہیں۔ مگر حکیم الامت نے جہاں کہیں بھی یہ نام استعمال کیا ہے ان کی مراد ملت اسلامیہ کا ہر نوجوان بھی ہے جاوید کے پردے میں ان کا مقصود ہر مسلم نوجوان ہی ہوتا ہے مثلاً مرا طریق امیری نہیں غریبی ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر آپ دیکھیں گے کہ جو باتیں جاوید سے مخاطب ہو کر کہی گئی ہیں بیشتر ذہنی باتیں اس نظم میں بھی ہیں جس میں تخاطب ایک نوجوان سے ہے اور جس کا عنوان ہے ایک نوجوان کے نام۔ عتابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں نہ ہو نومید نومیدی زوال علم و عرفاں ہے امید مرد مومن ہے خدا کے رازدانوں میں نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے بسیر کر پہاڑوں کی چٹانوں میں جاوید نامہ میں مناجات کے زیر عنوان جو اشعار درج ہیں ان کا ذکر و عاہی کے دائرے میں ہونا چاہیے۔یہ صریحاً دعائیہ اشعار ہیں۔ ایک بات اس موقع پر نظر اندا ز کرنی چاہے کہ اس کتاب میں علامہ عالم افلاک کی سیر کرنے والے ہیں اس لیے یہاں بار بار اجرا م فلکی نظم کے عناصر ترکیبی کے طور پر استعمال ہوئے ہیں علامہ نے خود کہہ دیا ہے: آنچہ گفتم از جہانے دیگر است ایں کتاب از آسمانے دیگر است تمہید کے بعد منا باقی رنگ بتدریج گہرا ہوتا چلا جاتا ہے: زیستم تا زیستم اندر فراق وانا آنسوئے ایں نیلی رواق اس شعر کے فوراً بعد خدا سے براہ راست مخاطب ہو جاتے ہیں: ستہ در ہا بزیم باز کن خاک را با قدسیاں ہمراز کن آتشے در سینہ من بر فروز عود را بگذارم و ہیزم رابسوز باز بر آتش بنہ عود مرا در جہاں آشفتہ کن دود مرا آتش پیمانہ من تیز کن باتغافل یک نگہ آمیز کن ماترا جوئیم و تو از دیدہ دور نے غلط ما کو رو تو اندر حضور یا کشا ایں پردہ اسرار را یا بگیر ایں جان بے دیدار را نخل فکرم ناامید از برگ و بر یاتبر بفرست یا باد سحر عقل داری ہم جنونے وہ مرا رہ بہ جذب اندرو نے وہ مرا علامہ کو رواق نیلی نام کے پرے سفر کرنا ہے اس لیے وہ کہتے ہیں کہ یا تو اس پردہ اسرار کو کھول دے یا اس محروم دیدار جان کو میرے جسم سے نکال دے ان شعروں میں علامہ اقبال نے آتش کا بہ تکرار ذکر کیا ہے۔ آتش سے ان کی مراداند رونی جذبے کی شدت اور طوفانی ہے۔ یہ جنوں انگیز جنوں آمیز اوردر جنوں زا جذبہ ہے جو مسافر کو آنسوئے نیلی رواق سفر پر آمادہ کر سکتا ہے۔ یہ دعائیں اصلاً اور حقیقتاً ایک مرد مومن کی دعائیں ہیں اور اگر صرف ان دعائون ہی کا یہ ذرف نگاہ مطالعہ کیا جائے تو مرد مومن کیا ہے اور اس کو کیا ہونا چاہیے… یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ ان دعائوں میں علامہ نے ان صفات کی آرزو مندی کا اظہار کیا ہے جو مرد مومن کے لیے ضروری ہیں اور انہی صفات کی بنا پر وہ نیابت الٰہیہ کا فریضہ ادا کر سکتا ہے۔ ٭٭٭ اقبال چند عاشقان رسولؐ کے حضور ڈاکٹر محمد ریاض تہران (ایران) علامہ اقبالؒ کی زندگی اور ان کی تصانیف کا ایک ایمان افروز اور یقین آفریں پہلو رسولؐ ہے۔ اس موضوع پر کئی کتب اور مقالات موجود ہیں مگر یہ شیریں تر از جاں مضمون قیامت تک توجہ طلب رہے گا۔ درحقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ اور عاشقانہ الفت کے بغیر ایمان و عمل کے جملہ دعو سے سراب ہیں اور وہ شاعر کتنا خوش نصیب ہے جسے مندرجہ ذیل اشعار کے سے کئی اور لکھنے کی سعادت ملی ہے رحمتہ اللہ علیہ: آیہ کائنات کا معنی دیر باب توؐ نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو لوح بھی توؐ قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ ذرہ ریگ کو دیا توؐ نے طلوع آفتاب شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی مود فقر جنیدؒ و بایزیدؒ تیرا جمال بے نقاب ۱؎ ٭٭٭ جہان از عشق و عشق از سینہ تست سرورش از مئی دیرینہ تست جز ایں چیزی نمی دانم ز جبریلؑ کہ او یک جوہرانہ آئینہ تست بچشم من نگہ آور دہ تستؐ فروغ لا الہ آوردہ تست دو چارم کن بہ صبح من آنی شبم را تاب مہ آدردہ تست تب و تاب دل از سوز غم تستؐ نو ای من ز تاثیر دم تست بنالم زانکہ اندر کشور ہند ندیدم بندہ کو محرم تست جبیں را پیش غیر اللہ سودیم چو گبر ان در حضور او سرودیم ننالم از کس می نالم از خویش کہ ماشایان شان توؐ نبودیم مرا ایں سوز از فیض دم تستؐ سرورش از مئی دیرینہ تست خجل ملک عجم از درویشی من کہ دل در سفینہ من محرم تست در آں دریا کہ اورا ساحلی نیست دلیل عاشقاں غیر از دلی نیست توؐ فرمودی رہ بطحا گرفتیم دگر نہ جر توؐ مارا منزلی نیست بکوی توؐ گدا زیک نوا بس مرا ایں ابتدا ایں انتہا بس ۲؎ خراب جرات آن رند پاکم خدارا گفت مارا مصطفیؐ بس ٭٭٭ باخدا در پردہ گوئم با توؐ گوئم آشکار یا رسول اللہؐ اوپنہان و تو پیدائے من ۳؎ می توانی منکر یزداں شدن منکر از شان نبیؐ نتواں شدن۴؎ یہاں عشق رسولؐ سے مربوط ایک ضمنی موضوع پر چند سطریں لکھنے کی سعادت حاصل کی جا رہی ہے۔ یہ کلام اقبال میں عاشقان رسولؐ کے ان واقعات کا انعکاس ہے جس سے عشق رسولؐ کی حیات افروز قوت نمایاں ہوتی ہے۔ ہر کہ عشق مصطفیؐ سامان اوست بحر و بر در گوشہ دامان اوست زانکہ ملت را حیات از عشق اوست برگ و ساز کائنات از عشق اوست جلوہ بی پردہ اووا نمود جوہر پنہاں کہ بود اندر وجود روھ را جز عشق او آرام نیست عشق او روزیست کورا شام نیست ۴؎ اقبال کے یہ منظوم تاثرات حضرت ابوبکر صدیقؓ حضر ت عبداللہ بن مسعودؓ حضرت سلمان فارسیؓ حضرت بلالؓ ‘ حضرت اویس قرنیؓ ، بایزید بسطامیؒ اور امام محمد بوصیریؒ کے بارے میں ہیں اقبال کے تاثرات کے سب مآخذ راقم الحروف پر واضح نہیں پھر بھی مختصر تعارفی نوٹ کے ساتھ کچھ اشارات پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ تحقیق طلب باتوںکا ایک زمینہ فراہم ہوتا رہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نام عبداللہ بن قحافہ کنیت ابوبکر اور القاب صدیق اور عتیق (آتش جہنم سے آزاد) کہا جاتا ہے کہ آں حضرتؐ کے اسرا اور معراج کی واقعات کی بے چون و چرا تصدیق کرنے پر آپ کو ملقب کیا گیا تھا صدیقیت نبوت کے بعد اعلیٰ تر روحانی مقام و مرتبہ ہے حضرت ابوبکرؓ بعثت سے قبل کے دور سے آنحضرتؐ کے دوست تھے۔ آپ نے صادق امین خاتم النبینؐ کے اعلان نبوت کی دیگر تمام مردوں سے پہلے تصدیق کی اور مدت العمر رفیق نبیؐ رہے۔ وفات کے بعد آ پ مسجد النبیؐ میں آنحضرتؐ کے بائیں طرف محو خواب ہوئے۔ آں امن الناس بر مولایؐ ما آن کلیمؑ اول سینای ما ہمت او کشت ملت را چوابر ثانی اسلامی دغار و بدر و قبر خلیفہ اول عاشق رسولؐ بلکہ مزاج شناس نبیؐ تھے حسین بن منصور حلاج (م ۳۰۹ ہجری) نے کتاب الطواسین (طاسین السراج) میں کہا ہے ۵؎ کہ آنحضرت کو حضرت ابوبکر صدیقؓ سے بہتر کسی دوسرے نے نہیں جانا پہچانا۔ اقبال اس بات کو بانداز دگر یوں بیان فرماتے ہیں۔ معنی حرفم کنی تحقیق اگر بنگری با دیدہ صدیقؓ اگر ۶؎ قوت قلب و جگر گردد نبیؐ از خدا محبوب تر گردد نبیؐ علامہ مرحوم کو حضرت صدیق اکبرؐ سے بے نہایت ارادت تھی۔ مثنوی رموز بے خودی میں انہوںنے حضرت صدیقؓ کو خواب میں دیکھنے اور ان کی زبانی سورہ اخلاص کی معنی خیز منظوم تفسیر بھی لکھی۔ انہوںنے کئی اشعار میں امت مسلمہ کے لیے اس سوز و ساز کی آرزو کی جو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ کا خاصا رہا ہے۔ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو اس بے خوف و حزن زندگی کے حصول کی کوشش کرنا چاہیے جو تعلیمات رسولؐ کے نتیجے میں حضرت صدیقؓ کا خاصہ بن گئی تھی۔ دیکھیے رموز غم اور یاس کی مذمت) سوز صدیقؓ و علیؓ از حق طب ذرہ عشق نبیؐ از حق طلب (پ م) تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دل مرتضیؓ سوز صدیقؓ دے (ب ج) ایک دو بیتی میں اقبال مسلمانوں کے لیے جناب صدیقؓ کے بے نیازانہ اورخود اختیارانہ فقر کی تمنا کرتے ہیں۔ خطاب جناب رسالتمابؐ سے ہے: دگرگوں کر دلا دینی جہاں را ز آثار بدن گفتند جاں را ازاں فقری کہ با صدیقؓ دادی مشوری آور ایں آسودہ جان را جناب صدیقؓ نے کچھ اوپر دو سال کی خلافت کے بعد ۲۲ جمادی الاخر میں ۱۲ ہجری میں وصال فرمایا تھا۔ اقبال نے ان کے ایثار اور عشق رسولؐ پر مبنی ایک واقعہ حیات کو ایمان پردر اردو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ واقعہ غزوہ تبوک سے مربوط ہے اور تفصیلات دیگر کتابوں کے علاوہ ابودائود (کتاب الزکوۃ) میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ البتہ اقبال کے ہاں ایک معمولی تصرف بھی ہے۔ آنحضرتؓ نے جب حضرت صدیقؓ کو پوچھا کہ گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہیں۔ تو انہوںنے جواباً عرض کیا تھا۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کو اس عاشق رسولؐ کے بارے میں اقبال کے دیگر تاثرات سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم بانگ درا حصہ سوم کی اس عشق آموز اور ایثار آمیز نظم کو نقل کیے دیتے ہیں۔ صدیقؓ اک دن رسول پاکؐ نے اصحابؓ سے کہا دیں مال راہ حق میں جو ہوں تم میں مالدار ارشاد سن کے فرط طرب عمرؓ اٹھے اس روز ان کے پاس تھے درہم کئی ہزار دل میں یہ کہہ رہے تھے کہ صدیقؓ سے ضرور بڑھ کر رکھے گا آج قدم میرا راہوار لائے غرض کہ مال رسول امیںؐ کے پاس ایثار کی ہے دست نگر ابتدائے کار پوچھا حضور سرورؐ عالم نے اے عمرؓ! اے وہ کہ جوش حق سے ترے دل کے ہے قرار ! رکھا ہے کچھ عیال کی خاطر بھی تو نے کیا؟ معلوم ہے اپنے خویش و اقارب کا حق گزار کی عرض نصف مال ہے فرزند و زن کا حق باقی جو ہے وہ ملت بیضا پہ ہے نثار اتنے میں وہ رفیق نبوت بھی آ گیا جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار لے آیا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت ہر چیز جس سے چشم جہاں میں ہوا اعتبار ملک یمین و درہم و دینار و رخت و جنس اسپ قمر سم و شتر و قاطر دھمار بولے حضورؐ چاہیے فکر عیال بھی کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار اے تجھ سے دیدہ مہ و انجم فروغ گیر اے تیری ذات باعث تکوین روزگار پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس حضور عبداللہؓ بن مسعود حضرت ابوعبدالرحمن عبداللہ ؓ بن مسعود بن غافل سابقون الاولون اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ وہ چھٹے اسلام لانے والے ہیں اور ان دس خوش بختوں میں سے ہیں جنہیں زندگی میں ہی جنت کی بشارت ملی ہے۔ وہ دو ہجرت والوںمیںبھی ہیں کیونکہ ایک بر انہوں نے حبشہ کی طر ف ہجرت کی اور دوسری بار مکہ سے مدینہ وہ اکثر وقت نبی اکرمؐ کی صحبت میں گزارتے تھے۔ اور اسی لیے صاحب النعلین کہے جاتے ہیں۔ وہ ایک عالم دین اورم حدث تھے حضر ت احمدؓ بن حنبل کی المسند میںان کی روایت سے آٹھ سو سے زیادہ احادیث مروی ملتی ہیں۔ وہ بظاہر حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں کچھ عرصہ والی کوفہ بھی رہے۔ وفات ۳۲ یا ۳۳ ہجری میں ہوئی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے ہیں الاصابہ ۷؎ میں ان کے حالات دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ ایک بلند پایہ عاشق نبیؐ تھے اور سفر و حضر اور امن و جنگ میں ہر جگہ رسول اللہؐ کی خدمت اور نبیؐ کے پیغام کا اتباع ان کا شعار رہا ہے۔ اقبال نے مثنوی رموز بے خودی میں تفسیر لم یلد ولم یولد حضرت ابن مسعودؓ کے عشق رسولؐ کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک جنگ غزسے میںان کا ایک بھائی شہید ہو گیا۔ اور حضرت موصوف زار و قطار رونے لگے۔ ہائے وہ مکتب نبویؐ کا میرا ہم جماعت اور ہائے وہ مجھ سا عاشق رسولؐ آج دیدار نبیؐ سے محروم ہو گیا ہے اور میں اکیلے نبیؐ کے دیدار اورصحبت سے مستفیض ہو رہا ہوں۔ انہیںبھائی سے نسبی وابستگی نہ تھی۔ غم یہ تھا کہ ایک عاشق رسولؐ کا فقدان ہو گیا ہے یا ان کا برادر عزیز دربار نبویؐ کی غیر مترقبہ نعمتوں سے محروم ہو گیا: ابن مسعودؓ آں چراغ افروز عشق جسم و جان او سراپا سوز عشق سوخت از مرگ برادر سینہ اش آب گردید از گداز آئینہ اش گریہ ہای خویش را پایاں ندید درغمش چوں مادراں شیون کشید ای دریغا آن سبق خوان نیاز یار من اندر دبستان نیاز آہ آن سرد سہی بالائی من در رہ عشق نبیؐ ہمپای من حیف او محروم دیدار نبیؐ چشم من روشن ز دیدار نبیؐ اس واقعے کا ماخذ سردست نہ مل سکا کہ یہ کس غزوے سے مربوط ہے ؟ حضرت ابن مسعودؓ کے ایک بھائی حضرت عقبہؓ تھے تاریخ اور سیرت کی کتب میں مذکور ہے کہ یہ دونوں بھائی اور ان کی والدہ جو صحابیہ تھیں مسجد النبیؐ سے متصل رہتے اوراپنا اکثر وقت آنحضرتؐ کی خدمت میں گزارتے تھے۔ یہ آنحضرتؐ کے قریبی ہمسایے تھے مگر غزوات کے سلسلے میں اتنا ہی مذکور ملتا ہے کہ جنگ بدر میں زخمی ابوجہل کا سر حضرت ابن مسعودؓ ہی نے کاٹا تھا … بہرحال واقعہ مذکور سے اقبال کی یہ ایمان افروز نتیجہ گیری قابل توجہ ہے: نکتہ ای ہمدم فرزانہ بیں شہدرا در خانہ ہائے لانہ بیں قطرہ از لالہ حمراستی قطرہ از نرگس شہلا ستی ایںنمی گوید کہ من از عبہرم آں نمی گوید من از نیلو فرم ملت ماشان ابراہیمیؑ است شہد ما ایمان ابراہیمیؑ است دل بہ محبوبؐ حجازی بستہ ایم زیں جہت بایک دگر پیوستہ ایم رشتہ مایک تولا یش بس است چشم مارا کیف صہبا یش بس است مستی او تابخون ماد دید کہنہ را آتش زد و نو آفرید عشق او سرمایہ جمعیت است ہمچو خون اندر عروق ملت است عشق در جان و نسب در پیکر است رشتہ عشق از نسب محکم تراست امت اوؐ مثل اوؐ نور حق است ہستی ما از وجودش مشتق است تاریخ اسلام میںعشق رسولؐ کی یہ توجیہہ و تفسیر پہلی بار پیش کی گئی ہے۔ الدھم ارحم قائلہ۔ حضرت سلمان فارسیؓ ان کا مولد اصفحان کا علاقہ جی یا خوزستان کا رام ہرمز بتایا جاتا ہے۔ مجوسی(زرتشتی) مذہب پر پیدا ہوئے اور نام ماہویا روزبہ تھا۔ ان کی طبیعت متجسس تھی۔ کئی ممالک کی سیاحت کی اور عیسائی مذہب قبو ل کر لیا۔ جوانی میں بنی کلب کے اسیر ہوئے اور بنی قریظہ کے ہاتھ فروخت کر دیے گئے جو انہیں مدینہ لائے۔ اپنے مطالعے اور تجسس کی بنا پر وہ ایک نئے بنی کے منتظر رہتے تھے اور اس لیے دین اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کر کے وہ فوراً مسلمان ہو گئے۔ انہیں بنی اکرمؐ نے خود خرید کر آزاد کروایا تھا۔ حضرت سلمانؓ عاشق و خادم رسولؐ تھے۔ احزاب (خندق) کے غزوے میں ان کے خصوصی مشورے نے مسلمانوں کو فتح دی۔ اسلام سے ان کی شدید وابستگی اس سے ظاہر ہے کہ وہ اپنے باپ دادا کا نام اسلام بتایا کرتے تھے۔ حضڑت سلمانؓ نے درویشانہ زندگی بسر کی ۔ وہ والی مدائن مقرر ہوئے مگر ٹوکریاں بنا کر گزر اوقات کرتے تھے اور بیت المال سے وصول ہونے والے ماہانے کو خیرات میںدے دیتے تھے۔ اقبال نے ان کی زندگی میں ان واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے: فارغ از باب دام و اعمام باش ہمچو سلمانؓ زادہ اسلام باش ۸؎ آن مسلمانان کہ میری کردہ اند مثل سلمانؓ در مدائن بودہ اند حکمرانی بود و سامانی نداشت دست اوجز تیغ و قرآنی نداشت سروری در دین ما خدمت گری است عدل فاروقیؓ و فقر حیدریؓ است ۹؎ حضرت سلیمانؑ انس و جان کے حاکم تھے مگر ان کا معمول بھی حضرت سلمانؓ کا سا تھا۔ مگر ان کے ظاہری جاہ و جلال اور جبروت تمکنت میں کلام نہیں غالباً اسی لیے اقبال سلمانی کی اصطلاح کو فقر و جمال کے طور پر استعمال کرتے ہیں مگر سلیمانی ان کے ہاں جلا ل و سلطانی کا مظہر ہے۔ فرد از توحید لاہوتی شود ملت از توحید جبروتی شود ہر دواز توحید می گیرد و کمال زندگی ایں را جلال آں را جمال ایں سلمیانی است آن سلمانی است آن سراپا فقر و ایں سلطانی است آں یکی رابیند ایں گردو یکی درجہاں با آں نشیں با ایں بزمی ۱۰؎ بہرحال اصطلاح اقبال میں آئین سلمانی یہ ہے کہ رسولؐ اور امت رسولؐ کے ساتھ مستحکم ارتباط رکھا جائے۔ اسی اسلامی بیخودی نے حضرت فاروقؓ ‘ حضرت خالدؓ، حضرت ایوب انصاریؓ اور جناب سلمان فارسیؓ اور کئی دوسروں کو محبوب قلوب بنادیا تھا۔ ابطحی دردشت کویش ازراہ رفت ازدم او سوز الا اللہ رفت مصریاں افتادہ در گرداب نیل سست رگ تورانیان زندہ پیل آل عثماں در شکنج روزگار مشرق و مغرب ز خونش لالہ زار عشق را آئین سلمانی نماند خاک ایراں ماند و ایرانی نماند سوز و ساز زندگی رفت از گلشن آن کہن آتش فسرد اندر دلش مسلم ہندی شکم رابندہ خود فروشی دل زدین برکندہ در مسلماں شان محبوبی نماند خالدؓ و فاروقؓ و ایوبیؓ نماند ۱۱؎ اقبال نے یہ اشعار ۱۹۲۲ء یا اس سے ایک سال آگے پیچھے لکھے ہوں گے۔ اس کے بعد تا ایں دم کچھ سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیاں ضرور ہوئی ہیں لیکن آئین سلمانی سے روگردانی کا وہ عالم ہے الا ماشاء اللہ عشق رسولؐ کی مناسبت سے اقبال نے کئی جگہ حضرت سلمانؓ اور حضرت بلالؓ کا ذکر ایک ساتھ کیا ہے۔ حضرت بلالؓ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: نظر تھی صورت سلماںؓ ادا شناس تری شراب دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری اور مندرجہ ذیل شعر دعائیہ ہے: از تہی دستاں رخ زیبا مپوش عشق سلمانؓ و بلالؓ ارزاں فروش کہا جاتا ہے کہ حضرت سلمان فارسیؓ آنحضرتؐ کے مبارک بالوں کی اصلاح کیا کرتے تھے۔ اسی مناسبت سے عربی اور فارسی زبانوں میں سلمانی اردو کے حجام کا مرادف ہے۔ حضرت سلمانؓ ۳۵ یا ۳۶ ہجری میں ایک طویل عمر کے بعد فوت ہوئے۔ ان کے مدفن کا نام سلمان پاک ہے مدائن عراق۔ آنحضرتؐ انہیں اپنے گھر کا ایک فرد خیال فرماتے رہے ہیں۔(سلمان منا اہل البیت)۔ حضرت بلالؓ مردم چشم زمیں یعنی وہ کالی دنیا وہ تمہارے شہدا پالنے والی دنیا گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا تپش اندوز ہے اس نامؐ سے پارے کی طرح غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح جواب شکوہ کے اس بند میں حضرت بلالؓ کے آبائی مولد حبشہ اور براعظم افریقہ کے دیگر اسلامی خطوں کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت بلالؓ مکہ مکرمہ میں غلامی کی حالت میںپیدا ہوئے اور جوانی میں اسلام لے آئے اور اپنے کافر آقائوں کے ہاتھو ں بڑے مظالم برداشت کرتے رہے۔ آخر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انہیں بظاہر خرید کر آزاد کر دیا: در رہ عشق ابن فلاں چیزی نیست ید بیضاں کلیمیؑ بہ سیاہیؓ بخشند ۱۲؎ حضرت بلالؓ کو خوش الحانی کی نعمت ملی ہوئی تھی اور ان کی اذان نماز کے ذکر سے تواریخ اسلام پر ہیں۔ ان کی اذاں کوئی عام اذان نہ تھی۔ وہ ایک مجاہد اسلام کے دل کی صدا تھی کہ اللہ اکبر: الفاظ و معانی میں تفاوت نہیںلیکن ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور ۱۳؎ اقبال کے الفاظ میں آج کے واعظین میں پختہ خیالی نہیں فلسفی امام غزالی کے تلقین یقین سے محروم ہیں اور موذن روح بلالیؓ (سوز و ساز) سے نتیجہ یہ ہے کہ نمازیوں کی موجودگی کے باوجود مساجد آباد نہیں: واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی برق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی رہ گئی رسم اذاں روح بلالیؓ نہ رہی فلسفہ رہ گیا تلقین غزالیؒ نہ رہی مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نماز ہی نہ رہے یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے مگر یاد رہے کہ شکوہ میں کہا گیا تھا کہ مسلمان سلمانؓ بلالؓ اور اویس قرنیؓ کا سا عشق رسولؐ رکھتے ہیں: تجھ کو چھوڑا کہ رسولؐ عربی کو چھوڑا؟ بت گری پیشہ کیا ؟ بت شکنی کو چھوڑا؟ عشق کو عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟ رسم سلمانؓ و اویس قرنیؓ کو چھوڑا؟ آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں زندگی مثل بلالؓ حبشی رکھتے ہیں! متفرق ابیات کے علاوہ علامہ اقبالؒ نے حضرت بلالؓ کے بارے میں اردو میں دو مستقل نظمیںلکھی ہیں بانگ درا بالترتیب حصہ اول اور حصہ دوم ۔ پہلی نظم میںیہ عاشق رسولؐ حضرت بلالؓ سے براہ راست خطاب کرتا ہے۔ اسے حضرت بلالؓ کی زندگی پر رشک آ رہا ہے کہ وہ حبش سے حجاز لائے گئے اور سالہا سال تک خدمت رسولؐ میں اور نبی آخر الزمانؐ کے جمال ایمان افروز سے بہرہ مند رہے۔ آخری شعر میں عاشق شاعر اس مبارک زمانے پر رشک کرتا ہے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار عشاق رسولؐ کو میسر تھا۔ عشق رسولؐ کی مظہر یہ پہلی نظم یوں ہے مگر یاد رہے کہ حضرت بلالؓ کے باپ مکے میں آئے اور موصوف کا مولد یہی مقام بنا تھا۔ بلالؓ چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے کسیؐ کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیی جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں نظر تھی صورت سلماںؓ ادا شناس تری شراب دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری تجھے نظارے کا مثل کلیمؑ سودا تھا اویسؓ طاقت دیدار کو ترستا تھا مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا ترے لیے تو یہ صحرا ہی طور تھا گویا تری نظر کو کر رہی دید میں بھی حسرت دید خنک دلے کہ تپید دو مے نیا سائید گری وہ برق تری جان ناشکیبا پر کہ خندہ زن تری ظلمت تھی دست موسیٰؑ پ]ر تپش ز شعلہ گرفتند و بر دل تو زدند چہ برق جلوہ بخاشاک حاصل تو زدند ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری کسیؐ کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی نماز اس کے نظٓرے کا اک بہانہ بنی خوشادہ وقت کہ یثرب مقام تھا اس کا خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اسؐ کا! منقولہ نظم میں حضرت موسیٰؑ کے تقاضائے دیدار باری (قرآن مجید: ۱۱:۱۳)اور حضرت اویس قرنیؓ کے عشق رسولؐ کی تلمیحات قابل توجہ ہیں۔ (حضرت اویسؓ کا ذکر آگے آئے گا) حضرت موسیٰؑ کے معجزہ ید بیضا (دست سفید اور دست موسیٰؑ وغیرہ اس کا مرادف ہے) کو اقبال نے حضرت بلالؓ کے عشق رسولؐ اور ایمان کامل کے ذکر میں کئی جگہ بیان کیا دیکھیے منقولہ اشعار ہے ۔ یہاں ادبی ذوق رکھنے والے حضرات اقبال کے شاعرانہ بلوغ کی داد دیں گے کیونکہ اسلام و ایمان نور ہے اور ا س نے ایک سیاہ فام حبشی حضرت بلالؓ کی سیرت کو وہی تلالور بخشا ہے جو تشبیہاً اظہار مجعجزہ کے وقت حضرت موسیٰؑ کے دست مبارک کو آفتاب آسا پرنور کر دیتا تھا۔ اوپر نظم کے آٹھویں شعر میں عشق رسولؐ اور ایمان کی تپش کو برق کے استعارے سے واضح کیا گیا ہے۔ دوسری نظم کے پہلے بند میں اقبال کسی محترم مستشرق کا حوالہ دیتے ہیں جس نے لکھا ہے کہ اسکندر مقدونی یونانی کے سے فاتح کو جس نے برصغیر میں پورس اور ایران میں دارا داریوش سوم کو شکست دی آج ایشیا کے لو گ بھول چکے ہیں۔ اقبال کے ماخذ کا ہمیں علم نہیں کہ مغربی حق شناس سے ان کا اشارہ کس مصنف کی طرف ہے۔ دوسرا بند البتہ جس میں اسکندر رومی اور بلال حبشیؓ کی شہرت اور قدر و منزلت کا موازنہ کیا ہے شاعر کا اپنا اضافہ ہ۔ فرماتے ہیں کہ صدائے بلالؓ (اذاں) کی گونج اب بھی موجود ہے اور تاقیامت موجود رہے گی۔ جبکہ یلغار سکندر کی گھن گرج تمام ہو چکی۔ غور کریں کہ عشق رسولؐ اور متاع ایماں کا کیا بلند مرتبہ ہے۔ ایک شاہنشاہ انجم سپاہ فراموش ہو چکا ہے مگر ایک معمولی حبشی غلام کروڑوں انسانوں کے دلوں کا حاکم ہے کم از کم صدائے اذاں سن کر یا د بلالؓ آ ہی جاتی ہے۔ بلالؓ لکھا ہے ایک مغربی حق شناس نے اہل قلم میں جس کا بہت احترام تھا جولانگہ سکندر رومی تھا ایشیا گردوں سے بھی بلند تر اس کا مقام تھا تاریخ کہہ رہی ہے کہ رومی کے سامنے دعویٰ کیا جو پورس و دارا نے خام تھا دنیا کے اس شہنشہ انجم سپاہ کو حیرت سے دیکھتا فلک نیل فام تھا آج ایشیا میں اس کو کوئی جانتا نہیں تاریخ داں بھی اسے پہچانتا نہیں لیکن بلالؓ وہ حبشی زادہ حقیر فطرت تھی جس کی نور نبوت سے مستیز جس کا امیں ازل سے ہوا سینہ بلالؓ محکوم اس صدا کے ہیں شاہنشہ و فقیر ہوتا ہے جس سے اسود و احمر میں اختلاط کرتی ہے جو غریب کو ہم پہلوئے امیر! ہے تازہ آج تک وہ نوائے جگر گداز صدیوں سے سن رہا ہے جسے گوش چرخ پیر اقبال کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے؟ رومی فنا ہوا حبشی کو دوام ہے! اوپر ساتویں شعر میں اذاں کی طرف اشارہ ہے اور اگلا شعر قیام نماز کی حکمتوں کا آئینہ دار ہے۔ یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اقبال کے ہاں رومی مولانا جلال الدین محمد ہیں (م ۶۷۲ ہجری صاحب مثنوی) مگر چند ابیات میں رومی سے اسکندر کی طرف اشارہ ہے حضرت بلالؓ نے کہتے ہیں کہ جہاد کرتے ہوئے مرتبہ شہادت حاصل کیا اور شام میں مدفون ہیں ۱۴؎۔ حضرت اویس قرنیؓ حضرت اویس قرنیؓ کے بارے میں اقبال کے شعر اوپر نقل کیے جا چکے ہیں۔ وہ ایک عدیم النظر عاشق رسولؐ ارو درویش مشرب شخص تھے فراق رسولؐ اور خوف عقبیٰ ؤسے ان کی آنکھیں اشک بار رہتی تھیں۔ قرن یمن میں ہے۔ جناب اویسؓ وہیں کے رہنے والے تھے۔ آں حضرتؐ کے معاصر تھے اور شوق دیدار سے بے قرار مگر بوڑھی اور بے سہارا ماں کو اکیلے چھوڑ کر حجاز نہ جا سکے۔ وہ تابعین کے زمرے میں آتے ہیں۔ صحابہؓ سے جو انہیں مل پاتے۔ ان سے آنحضرتؐ کے حالات پوچھ کر روتے رہنا ان کا معمول تھا۔ ان کی زندگی میں عاشقانہ جذب و انجذاب تھا۔ فرماتے ہیں کہ مجھ میں ایک شعلہ ہے غزوہ احد میں آنحضرتؐ کا مبارک دانت شہید ہونے کی خبر جب ان تک پہنچی تو اس عاشق رسولؐ نے ایک ایک کر کے اپنے سارے دانت توڑ ڈالے۔ روایت ہے کہ حضرت اویسؓ کی مناسبت سے آنحضرتؐ نے فرمایا تھا کہ یمن کی طرف سے مجھے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ اویس قرنیؓ کے بارے میں ایک ارشاد رسولؐ یوں ملتا ہے کہ قیامت کے دن وہ قبیلہ ربیعہ و مضر کی بھیڑوں کی تعداد کے برابر میری امت کے افراد کی شفاعت کریں گے۔ نیز یہ کہ اویسؓ بہترین تابعین میں سے ہیںَ حضرت اویسؓ شتر چرانی سے کسب معاش کرتے تھے ان کی خوراک خشک روٹی رہی ہے۔ روایات میں ہے کہ آنحضرتؐ نے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کو مامور کیا تھا کہ یمن جائیں اور اویس قرنیؓ سے ملیں اور انہیں آنحضرتؐ کاسلام اور پیراہن مبارک پہنچائیں۔ اس وصیت کے مطابق آنحضرتؐ کے بتائے ہوئے حلیے کی رو سے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓنے حج کے موقع پر منادی کروا کے اہل یمن کو جمع کیا‘ ان سے حضر ت اویسؒ کا اتا پتا دریافت کیا اور دونوں حضرات یمن تشریف لے گئے ۔ حضرت اویس قرنیؒ سے دونوں نے مزاج پرسی کی فرمایا یوم قیامت کی تیار ی میںمصروف ہوں۔ حضرت اویس قرنیؓ کے حالات کی معتبر کتابوں میں مندرج ملتے ہیں کہتے ہیں جنگ صفین میں وہ حضرت علی کی حمایت میں شریک ہوئے اور شہید کر دیے گئے تھے (۳۷ہجری)۔ شیخ بایزید بسطامیؒ نام طیفور بن عیسیٰ تھا۔ بسطام (خراسان) کے رہنے والے تھے دوسری ؍ تیسری صدی ہجری کے صوفیائے کبار میں سے تھے صوفیہ کے تذکروں میں ان کے حالا ت موجود ہیںَ نیز ان کی شطحیات (صوفیانہ دعوئوں) روحانی معراج اور گفتار کے بارے میں کئی کتابیں ملتی ہیں۔ اقبال نے دیگر صوفیائے کبار کے ساتھ ان کا ذکر کئی جگہ کیا ہے جیسے : زائران ایں مقام ارجمند پاک مرداں از مقامات بلند پاک مرداں چون فضیل و بوسعید عارفاں مثل جنیدؒ و بایزیدؒ (ج ن) عجیب نہیںکہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں شکوہ سنجرؒ و فقر جنیدؒ و بسطامیؒ (ج ن) مگر یہاں آپ کا ذکر زمرہ عشق میں کرنا مقصود ہے۔ ان کا طریقہ تصوف طریقہ طیفوریہ بھی عشق رسولؐ سے خصوصی طور پر منوط و مربوط ہے ۔ اقبال نے مثنوی اسرار خودی میں لکھا ہے کہ حضرت بسطامیؒ اس قدر عاشق رسولؐ اور پیر و سنیت تھے کہ خربوزہ نہ کھاتے تھے کیونکہ اس پھل کے کھانے کا مسنون طریقہ انہیںمعلوم نہ تھا: کامل بسطام در تقلید فرد اجتناب از خوردن خربوزہ کرد عاشقی؟ محکم شود از تقلید یارؐ تاکمند تو شود یزداں شکار حاشیہ کتاب میں علامہ مغفورؒ نے لکھا ہے : حضرت بایزید بسطامی ؒ نے خربوزہ کھانے سے محض اس بنا پر اجتناب کیا تھا کہ انہیںمعلوم نہ تھا کہ نبی کریمؐ نے یہ پھل کس طرح کھایا ہے اس کامل تقلید کا نام عشق ہے۔ بایزید ۲۶۱ہجری یا اس سے کچھ پیش و پس میں فوت ہوئے ہیں۔ سال وفات میں کئی اور سنین بھی مذکور ملتے ہیں۔ امام بو صیریؒ پورا نام محمد بن سعید ہے (متوفی بظاہر ۶۹۴ ہجری) بوصیر مصر میں ہے امام محمد بن سعیدؒ کو اپنے مولد کی نسبت سے بوصیری کہا جاتا ہے ۔ اقبال نے مثنوی رموز بے خودی اور پس چہ باید کرد کے آخر میں دو جگہ ان کا ذکر کیا مگر شعر اور نثر (حاشیے ) میں بوصیری کو بصیری ہی لکھا ہے۔ امام محمد بوصیری مصریؒ ایک عالم اور عاشق رسولؐتھے ۔ ان پر فالج کی بیماری کا حملہ ہوا جس کے دوران انہوں نے ۱۵۶ اشعار کی حامل ایک بے نظیر نعت نبویؐ لکھی۔ اس کا عنوان الکواکب الوریۃ فی مدح خیر البریۃؐ ہے مگر عر ف عام میں اسے قصیدہ بردہ کہتے ہیں۔ عربی دان حضرت کی رائے ہے کہ شاعر دربار نبویؐ حضرت حسان ثابتؓ کی نعوت کے بعدعربی میں اس قصیدے سے بہتر نعت نبویؐ نہیں لکھی گئی کہتے ہیں کہ یہ ارمغان نعت دربار نبویؐ میں مقبول ہوا اور شاعرنے عالم خواب میں دیکھا کہ نبی اکرمؐ سے اپنی چادر مطہر عطافرما رہے ہیں۔ اس خوش نصیب عاشق شاعر کو دیدار نبویؐ نصیب ہوا اور مرض فالج سے بھی رستگاری ملی قصیدہ بردہ کی مختلف زبانوں میں درجنوں شرحیں موجود ہیں۔ اقبال نے اپنے بعض مکتوبات اور اوپر مذکور دومثنویوں میں نعتیہ اور عرض حال کے اشعار میں امام بوصیریؒ کا ذکر کیاہے۔ قصیدہ بردہ کے کم از کم تین شعروں کے مضمون کو بھی اقبال نے اپنے اشعار میں سمویا ہے۔ امام بوصیری: احل امتہ فی حرز ملتہ کاللیث حل مع الاشباں فی اجم اقبال: امتش در حرز دیوار حرم نعرہ زن مانند شیراں دراجم امام بوصیری: لما دعا اللہ داعینا لطاعتہ باکرم الرسل کنا اکرم الامم اقبال پس خدا برما شریعت ختم کرد بر رسولؐ ما رسالت ختم کرد رونق از محفل ایام را اوؐ رسل اختم وما اقوام را امام بو صیری: ام ھبت الرحیح من تلقاء کاظمۃ او او مض البرق فی اظلماء من اضہم اقبال: سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب کوہ اصنم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں گرد سے پاک ہے ہوا برگ نخیل دھل گئے ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں پہلی دو مثالیں رموز بے خودی سے ہیں اور تیسری مثال بال جبریل(نظم ذوق و شوق) سے جہاں شاعر نے مضمون کو ترقی دی ہے۔ کوہ اصنم (نواح مدینہ میں) اور کاظمہ (مدینہ) البتہ اسی قصیدہ بردہ سے مقتبس ہیں۔ رموز بے خودی میں عرض حال مصنف بحضور رحمتہ اللعالمینؐ کے عنوان سے اقبال نے جو شعر لکھے ہیں وہ فارسی کے نعتیہ ادب کا گل سر سبد کہے جا سکتے ہیں اور اتفاق دیکھیے کہ ایک ایرانی مصنف نے ان پر غیر معمولی توجہ دکھائی ہے ۱۵؎۔ شروع کے ۸ ابیات دیکھیں ایک ایک شعر کی شرح میں کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ای ظہور تو شباب زندگی جلوہ ات تعبیر خواب زندگی ای زمیں از بارگاہت ارجمند آسماں از بوسہ بامت بلند شش جہت روشن ز تاب روی تو ترک و تاجیک و عرب ہندوی تو از تو بالا پایہ ایں کائنات فقر تو سرمائی ایں کائنات درجہاں شمع حیات افروختی بندگاں از خواجگی آموختی بی توازنا بود مند یہا خجل پیکران ایں سر ای آب و گل تادم تو آتشی ا گل کشود تودہ ہای خاک را آدم نمود ذرہ دا منگیر مہر و ماہ شد یعنی از نیروی خویش آگاہ شد اس سارے عرض حال میں (بقول حفیظ جالندھری تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی) شاعر نے چند باتیں کہی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ قرآن مجید کی تعلیمات بیان کر رہا ہے مگر عجمی مسلمان کہتے ہیں کہ وہ یورپہی فلسفہ پیش کر رہا ہے۔ (معرکہ خودی بے خودی کی طرف اشارہ ہے) دوسرے یہ کہ وہ حسن پرستی اور تشکیک کی منازل میں رہا ہے مگر اب وہ منازل طے ہو چکیں۔ تیسرے یہ کہ وہ عاشق رسولؐ ہے۔ چوتھے یہ کہ اسے دربار نبویؐ سے بربط سلمیٰ (عربوں کے انداز کی اسلامی شاعری) عطا ہوئی جو امام بو صیریؒ کو عطا کی جانے والی چادر مطہرہ کی طرح مقد س ہے۔ شاعر کی التماس و آرزو یہ ہے کہ اسے باعمل بننے کی سعادت ملے اور اس کا مدفن مدینہ ہو: تامر افتاد بر رویت نظر از اب دام گشتہ محبوب تر عشق در من آتشی افروخت است فرصتش بادا کہ جانم سوخت است نالہ مانند نی سامان من آں چراغ خانہ ویران من ای بصیری رار دا بخشندہ بربط سلمیٰ مرا بخشندہ ذوق حق دہ ایں خطا اندیش را اینکہ نشنا سد متاع خویش را در عمل پائندہ تر گرداں مرا آب نیسانم گہر گرداں مرا از درت خیزد اگر اجزای من دای امروزم خوشا فرد ای من کو کبم را دیدہ بیدار بخش مرقدی در سایہ دیوار بخش اقبال زندگی کے آخری تقریباً چار سال سے بیمار اور زیر علاج رے۔ اس دوران وہ بھوپال جاتے رہے جہاں ان کا برقی علاج ہوتا تھا۔ وہ بیشتر سر سید احمد خاں کے پوتے سر راس مسعود (م ۱۹۳۷ئ) کے ہاں مہمان ہوتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر ۳ اپریل ۱۹۳۶ء کی رات کو انہیں خواب میں سر سید احمد خاں مرحوم نظر آئے اور فرمایا اپنے مرض کی شفایابی کی خاطر آنحضرتؐ کے حضور میں التجا کرو در حضور رسالت مآبؐ کے عنوان سے اقبال کا التجا اسی سلسلے میں ہے۔ یہاں شاعر حضور پاکؐ کے ان احسانات کا ذکر کرتا ہے جو انہوںنے عالم انسانی پر کیے ہیں۔ وہ حسب دستور مسلمانوں کے انحطاط اور زوال پر نوحہ کناں اور ان کے اصلاح احوال کا قلبی آرزو مند ہے۔ ذاتی التجائیں اس کی صرف دو ہیں ایک یہ کہ اسے حج اور زیارت کی توفیق ارزانی ہو۔ اور دوسرے یہ کہ اس کی صحت بحال ہوتا کہ وہ مسلمانوں کو نئے افکار سے مستفید کر سکے۔ فرماتے ہیں کہ بیماری نے صبح کی تلاوت قرآن کی لذت چھین لی آواز کے بیٹھ جانے کا اشارہ ہے۔ اور دوائوں کی بدبو اورتلخی نے ذوق و شام کو پراگندہ کر دیا ہے پس حضرت امام محمد بصیریؒ کی طرح ان کی بھی چارہ سازی فرمائی جائے۔ در نفس سوز جگر باقی نماند لطف قرآن سحر باقی نماند آہ زان دردی کہ در جان و تن است گوشہ چشم تو داردمی من است در نساز د بادواہا جان زار تلخ و بویش برمشامم ناگوار کار ایں بیمار نتواں برد پیش من چو طفلاں نالم ازداروی خویش تلخی اورا اففیبم از شکر خندہ ہا در لب بدوز دچارہ گر مہر تو بر عاصیاں افزوں تراست در خطا بخشی چو مہر دراست ای وجود تو جہاں را نو بہار پر تو خود را ادریغ از من مدار چوں بصیری از و می خواہم کشود تاہن باز آید آں روزی کہ بود ٭٭٭ حاشیے اوروضاحتیں ۱؎ بال جبریل نظم ذوق شوق ۲؎ ارمغان حجاز (بحضور رسالت مآبؐ) ۳؎ پیام مشرق (مئے باقی آخری سے پہلی غزل کا مقطع) ۴؎ جاوید نامہ (فلک عطارد) ۵؎ طبع پیرس ۱۹۱۳ء (تصحیح توئی میسینوں) ۶؎ کلیات اشعار فارسی مولانا رومی اقبال لاہوری طبع تہران میں (طبع اول)۱۹۶۴ء اور طبع دوم ۱۹۷۳ء یہاں بظاہر عمداً صدیق کو تصدیق بنا دیا گیا ہے۔ ۷؎ الاصابہ فی تمیز الصحابہؓ لا بن حجر(احمد الکنانی العسقلانی) الجز الثانی قاہرہ ۱۹۳۹ء (مطبع مصطفی محمد) صفحہ ۳۶۰ الی ۳۶۲ ۔ (الشمارہ ۹۵۵) ۸؎ رموز بے خودی (تفسیر لم یلد ولم یولد) ۹؎ حوالہ ۵ سے مربوط ۱۰؎ جاوید نامہ (آں سوئے افلاک) ۱۱؎ حوالہ ۵ سے مربوط ۱۲؎ پیام مشرق (مئے باقی غزل شمارہ ۳۲) ۱۳؎ بال جبریل نظم حال و مقام ۱۴؎ یہاں استدرا کا حضرت بلالؓ کے بارے میں چند سوانحی سطور لکھی جاتی ہیں: نام بلال بن رباح اورکنیات ابو عبداللہ اور ابن حمامہ ہیںَ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ امیہ بن خلف کے غلام تھے جس نے مسلمان ہو جانے پر ان پر بے پناہ مظالم ڈھائے تھے۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انہیں خرید کر آزاد کرواد یا تھا یا اپنے ایک غیر مسلم غلام کے بدلے حضرت بلالؓ سابقون الاولون میں سے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد بالغ مردوں میں وہ دوسرے شخص ہیں جو آنحضرتؐ پر ایمان لائے تھے۔ پہلی صدی ہجری میں اذان کی فرضیت کے بعد حضرت بلالؓ موذن مقرر ہوئے تھے۔ فتح مکہ کے بعد حرم بیت اللہ شریف میں بھی پہلی اذان انہوں نے ہی دی تھی۔ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت کے آغاز سے حضرت بلالؓ بلاد شام چلے آئے اور تبلیغ و جہاد میں مصروف ہو گئے۔ اس کے بعد وہ صرف دو تین بار مدینہ منورہ تشریف لائے اور حضرت عمرؓ ‘ نیز حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کی فرمائش پر اذان دی۔ حضرت بلالؓ سب صحابہؓ کی نظر میں بے حد محترم رہے ہیں۔ ان کی وفات ۱۷ تا ۲۱ ہجری کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ (دائرہ المعارف اسلامیہ انگریزی جدید اڈیشن) ۱۵؎ سرود اقبال (مقدمہ) از فخری الدین حجازی تہران ۱۳۵۴ھ شمسی ؍ ۱۹۷۵ئ۔ ٭٭٭ رسولؐ نمبر سیرۃ رسولؐ ایسا موضوع ہے جس پر دنیا میں سب سے زیادہ لکھا گیا ہے۔ ہر عالم نے لکھا ہر دانشور نے لکھا ۔ پھر بھی حق ادا نہ ہوا۔ ایک ایسی ہی کوشش ادارہ نقوش کی بھی ہے۔ وہ بھی مقدور بھر اپنا فر ض ادا کر رہا ہے۔ اب تک جتنے بھی کام ادارہ نقوش نے اپنے ذمے لیے ان کی ایک دائمی حیثیت ہے۔ وہ نمبر ادب کا لازوال حصہ بن گئے ۔ انشاء اللہ اس موضوع پر بھی فوقیت حاصل ہو گی! (ادارہ نقوش ‘ لاہور) ٭٭٭ اقبال جن سے متاثر ہوا حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا ٭٭٭ ابن عربی ۱؎ اور اقبال ڈاکٹر سید عبداللہ وحدت الوجود کے مسئلے پر علامہ اقبال کے خیالات سب کو معلوم ہیں انہوںنے اپنی نظم و نثر میں اس تصور کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے…اور یہ بھی معلوم ہے کہ مسلمان اہل فکر و عرفان میں اس تصور کے سب سے بڑے نمائندے (یا شارح یا مبلغ ) شیخ اکبر محی الدین ابن عربی تھے ۔ یہ باتیں فکر اقبال پر کام کرنے والے جملہ حضرات جانتے ہیں۔ اس موضوع پر ایک نیا مقالہ لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوتی ہے کہ قارئین کی کثیر تعداد بعض نقادوں کی تحریر ات کے زیر اثر دنیائے اسلام کے اس عظیم عارف اور مفکر ابن عربی کے حقیقی عظمتوں سے بے خبر بلکہ انکار ی ہے۔ دوسری طرف یہ ہوا ہے کہ علامہ اقبال کی کڑی دین داری یعنی صرف قرآنی اصولوں ہی سے یا دینی نظریات کو فکر یت کے ہر رنگ سے آزادد کر کے خیالات کے برعکس حال ہی میں اردو ادب کے بعض نقادوں اور مفکروں نے ابن عربی کی فکریات و شعوریات کے احیا کی سنجدیہ کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اور نہ صرف وحدت الوجود کے مسئللے کی نئی تحقیق و تعبیر ہو رہی ہے بلکہ ابن عربی کو متقشفانہ دین پرستی کے خلاف جہاد کرنے والا اور اشیاء اور کائنات کی ظاہری سطح کے باطن میں چھپی ہوئی حقیقتوں کے معنی دریافت کرنے والا عارف ثابت کیا جاتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ دونوں انتہا میں غلط ہیں اس لیے ضروری ہوا کہ ہم اس افراط و تفریط سے بچ کر ایک متوازن رائے قائم کریں تاکہ ایک طرف ہم اس عظیم عارف کی جس نے مشرق و مغرب دونوں کو بیک وقت متاثر کیا ہے اور دنیا میں اسلامی علم و عرفان کا گہرا نقش قائم کیا ہے صحیح مرتبہ شناسی کر سکیں اور دوسری طرف یہ واضح کر سکیں ۲؎ کہ علامہ اقبال نے شیخ کے خیالا و فکریات پر جو تنقید کی ہے وہ اصولی ہے اور وہ کسی صورت میں ابن عربی کی عظمت کے دوسرے پہلوئوں کے منکر نہ تھے ۔ انہیں ابن عربی کے محض چند خیالات سے اختلاف تھا لہٰذا سوچے سمجھے بغیر یہ کہہ دینا کہ علامہ اقبال نے ابن عربی کے دشمن تھے حضرت علامہ کے وجود اختلاف سے بے خبری تھی اور اس کے ساتھ ناانصافی بھی۔ میں عرض کر چکا ہوں کہ ان عربی سے علامہ کا اختلاف اصولی تھا۔ چنانچہ وہ اپنے مکاتیب میں جہاں یہ لکھتے ہیں کہ: ’’جہاں تک مجھے علم ہے فصوص میں سوائے الحاد اور زندقہ کے اور کچھ نہیں‘‘ (اقبال نامہ ج ۱‘ ص ۴۴‘ مکتوب بنام سراج الدین پال) ۱؎ میں نے دانستہ ابن العربی نہیںلکھا ۔ اسی نام کے ایک دوسرے عالم اور فقیہہ ہیں جو باہم تقریباً معاصر تھے الگ رکھنے کی خاطر فقیہہ اور عالم کو ابن العربی اور ہمارے مقالے کے موضوع اور فلسفی (شیخ اکبر)ٰ کو ابن عربی لکھنے میں احتیاط مد نظر رکھی گئی ہے۔ فقیہہ ابن العربی الاحکام کے مصنف تھے ۔ ۲؎ ہسپانوی پروفیسر آسین اور فرانسیسی محقق مسینون (Massingnon) اور سید حسین نصر اور عربی میں عفیفی کی تحریریں ملاحظہ ہوں۔ وہاں وہ علامہ سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں ان کا نام عزت و تکریم سے لیتے ہوئے ان سے دریافت کرتے ہیں کہ : ’’حضرت محی الدین ابن عربی نے فتوحات یا کسی اور کتاب میں حقیقت زمان کی بحث کس کس جگہ کی ہے حوالے مطلوب ہیں‘‘۔ (اقبال نامہ ج ۱‘ ص ۱۶۴ و ص ۱۲۴) اسی طرح خطبات میں بھی ان کا نام عزت سے لیتے ہیں اور ایک دو موقعوں پر ان سے استشہاد بھی کرتے ہیں۔ ابن عربی سے علامہ اقبا ل کے بڑے اختلافات دو ہیں : ایک مسئلہ وحدت الوجود اور دوم ان کی دینی رمزیت۔ رمزیت کے معنی یہ ہیں کہ دین یا قرآن کے ظاہر کے پیچھے جو باطنی معانی ہیں انہیں حقیقی واصل قرار دیا جائے اور ظاہری الفاظ یا عبارت کو محض رمز یا علامت سمجھ کر تاویل کے ذریعے ظاہری علوم کے بجائے باطنی معنی کو اصل سمجھا جائے ۔ مثنوی اسرار خودی کے دیباچے کے سلسلے میں جو بحث چھڑی تھی۔ اور اس میں علامہ نے اپنے معترضین کے جواب میں مضمون بھی لکھے تھے ان میں سے ایک مضمون ۱؎ میں انہوںنے ابن عربی سے اپنے اختلاف کے وجوہ بتائے ہیں ۱۔شیخ کا نظریہ قدم ارواح کملا ۲۔ مسئلہ وحدت الوجود اور ۳۔ مسئلہ تنزلات ستہ وغیرہ۔ اسی طرح کے کچھ اور اختلافات بھی ہیں دیکھیے امقالات اقبال مرتبہ سید عبدالواحد معینی اشاعت اول ۱۹۶۳ء ص ۱۶۱ و بعد) قبل اس کے مذکورہ اختلافات کو زیر بحث لایا جائے مناسب بلکہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً ابن عربی کے مجموعی فکر و فضائل کی مجمل سی روداد بیان کر دی جائے تاکہ اقبال اور ابن عربی کے ذہنی فاصلوں کا کچھ اندازہ ہو سکے۔ الشیخ الاکبر محی الدین ابن عربی)ابن العربی۲؎)مرسیہ (اندلس) میں ۷ ۱ رمضان ۵۶۰ھ؍ ۲۸ جولائی ۱۱۶۵ء میں پیدا ہوئے اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۳۸ بررس کی عمر میں ترک وطن کر کے مصر اور دیگر بلاد مشرق میں متعدد علمی سیاحتوں کے بعد بالآخر دمشق میں اقامت گزیں ہو گئے اور یہیں ۶۳۸؍ ۱۲۴۰ء میں وفات پائی۔ کتابیں انہوںنے بتعداد و کثیر لکھیں (تعداد میں اختلاف ہے۔ کم سے کم ۲۵۱ جو ان کی اپنی ایک یادداشت کے مطابق ہے اور زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو) ان میں سب سے زیادہ شہرت ان کی دو کتابوں کو حاصل ہے۔ ۱۔ الفتوحات المکیہ جو مکہ معظمہ میں ۶۲۹ھ میں ختم ہوئی یہ بہت ضخیم ہے۔ ۲۔ فصوص الحکم جو دمشق میں ۶۲۷ھ میں تصنیف ہوئی۔ ا س دوری کتاب میں ابن عربی نے اپنی خاص تکنیک (تاویل) سے کام لے کر قرآن مجید کی آیات اور منتخب احادیث کی مخصوص اندازمیں تفسیر و تشریح کی ہے۔ ۱؎ مقالات اقبال مرتبہ سید عبدالواحد معینی ص ۱۶۰ بعنوان اسرار خودی اور تصوف ۲؎ جیسا کہ پہلے بیان ہوا بعض مصنفین احتیاطاً انہیں ابن عربی ہی لکھتے ہیں تاکہ ان کے دوسرے ہم نام اندلسی ابن العربی فقیہہ سے الگ پہچانا جا سکے۔ (متوفی ۵۴۳ھ ۱۱۴۸ئ) اگر یہ کہہ دیا جائے کہ ابن عربی اسلام کی علمی و دینی تاریخ کی سب سے بڑی متنازعہ فہ شخصیت ہیں تو اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے۔ گزشتہ چھ سا ت صدیوں میں ابن عربی کے افکار کیے حق میں لکھنے والے علماء و متصوفین کبار کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے۔ اسی طرح ان کے خلاف لکھنے والوں کی قطار بھی اتنی ہی طویل ہے جن میں بڑے بڑے لوگ شامل ہیں… اور اس آخری دور میں مولانا اشرف علی تھانوی اور علامہ اقبال وحدت الوجود کے ممتاز ناقدین میں ہیں۔ جدید زمانے میں ایرانی دانشور حسین ۱؎ نصر اور العفیفی ۲؎ نے ابن عربی کا محققانہ مطالعہ کیا ہے اورمغربی مصنفین اور مورخین فلسفہ و تصوف میں ہسپانوی آسین اور پروفیسر نکلسن بھی ہیں جنہوں نے ابن عربی کے تخیلی ادب اور صوفیانہ شاعری کی تشریح و تنقید کی ہے۔ ابن عربی کے حامی وہ اکثر لوگ جنہیں ان کی شخصیت میں ایک عظیم صوفی مفکر اور ادیب نظر آیا ہے اور مخالف وہ لوگ ہیں جو انہیں ان کے اصول تاویل ‘ باطنی اور رمزی طریق کار اور دین کے قطعی و معروضی حقائق و احکام کو رمز اور تخیل کے وسیلے سے مبہم بنانے والے ملحد کی حیثیت سے پیش کرتے ہیںَ اور اس میں شبہ نہیں کہ جہاں تک ہم ان کی مختلف کتابوں میں انہیں دیکھتے ہیں وہ ایک معجون مرکب معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے یہاں دین (اشعریت) بھی ہے کلام (مذہب معتزلہ) بھی ہے یونایت (رواقیت) بھی ہے اور نو افلاطونی اشراقیت بھی ۔ تصوف اور اس کی متعلقہ نفسیات بھی ہے اور شعر و ادب کی بھی عفیفی کے نزدیک وہ صوفی سے بھی زیادہ فلسفی ہیں ۳؎ ۔ لیکن بعض لوگ انہیں اس کے برعکس محض صوفی کہتے ہیں۔ ابن مسدی نے ان کے عقائد کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے وہ عبادات میں ظاہری مذہب(ابن حزم کے ظاہر و مسلک کے)آدمی ترھے مگر اعتقادات میں باطنی النظر تھے ۴؎۔ گویا انہوںنے ایک جامع شخصیت بننے کے شوق میإں خود کو موضوعیت اور معروضیت کا ملغوبہ بنانے کی کوشش کی ہے اور ہر مکتب فکر و نظر کو اپنی طرف متوجہ کر کے خود کو ہمہ گیر اختلاف کا نشانہ بنا کر وسیع ترین اور حیرت انگیز شہرت حاصل کر لی۔ متقشف دینی نقطہ نظر سے کوئی کچھ کہے یہ تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ ابن عربی عالم اسلام کی عظیم ترین (گو کہ بے حد متنازع فیہہ ) تخلیقی اور علمی شخصیتوں میں سے ہیں جنہیں محض یہ کہہ کر ٹالا نہیں جا سکتا کہ ان کے یہاں الحاد و زندقہ ہے باقی کچھ نہیں۔ یہ رائے درست بھی ہو تب بھی ہم یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ ہماری تاریخ کے بڑے بڑے علمی رجال ان سے الجھتے بھی ہیں اوران کے سامنے سر بھی جھکاتے ہیں۔ یہاں تک کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ جہا ان سے الجھتے ہیں وہاں ان کا احترام بھی کرتے ہیں اور ان کی کشفی غلطیوں کی تاویل کر کے ان کی بزرگی کو تسلیم کرتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں: ’’عجائب کاروبار است کہ شیخ محی الدین از مقبولاں نظری آید‘‘۵؎ ۱؎ ملاحظہ ہو ان کی کتاب The Yhree Muslim Sages ۲؎ عفیفی: The Mystical Philosophy of Mohyid Din Ibnul Arabi ۳؎ عفیفی: محولہ بالا انگریزی کتاب ص ۱۲۲ ۴؎ اردو دائرہ معارف اسلامیہ مقالہ ابن عربی ۵؎ تعلیمات مجددیہ از ملک حسن علی ص ۱۸۶ اور حق یہ ہے کہ ابن عربی کو عجمی تصوف یعنی ایرانی مجوسی خیالات کا نمائندہ اعظم کہہ کر بھی ٹالا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ اول تو وہ امتزاج پسند شخصیت ہیں جنہوںنے مختلف عناصر فکری وے اپنا ایک نظام فکر اس قدر مربوط و مضبوط تیار کیاہے کہ صدیوں سے اسے توڑنے کی کوشش ہو رہی ہے مگر ابھی ٹوٹا نہیں۔ دوم ان کے مداحوں اور عقیدت مندوں میں ترکوں جیسی صلابت پسند قوم کے اہل علم بھی شامل ہیں (مثلاً صدر الدین قونوی۔ ترکوں پر ابن عربی کے اثرات کے لیے دیکھیے ایس اے کیو حسینی کی انگریزی کتاب ۱؎ دیباچہ)۔ ترکوں کو ان معنوں میں تو عجمی کہا جا سکتا ہے کہ وہ عرب نہیں لیکن توانائی اور جلال و شوکت میں ایرانیوں سے بالکل مختلف قوم ہیں۔ مولانا رومی کا سلسلہ بھی صدر الدین قونوی کے توسط سے ابن عربی سے مل جاتا ہے ۔ معلوم نہیں کہ اس خاص پہلو کی تعبیر کس طرح ہو گی۔ کیونکہ علامہ اقبال رومی کو عجمی تصوف کا نمائندہ نہیں کہتے۔ اس صورت میں سارا مسئلہ نہایت ہی پریشان کن ہو جاتا ہے۔ اور عقل اس کے حل سے عاجز آ جاتی ہے۔ میرے نزدیک ابن عربی کی مقبولیت (یا بصورت اختلاف ان کی شہرت) کا باعث منجملہ دیگر اسباب یہ ہے کہ ان کی ناابل انکار تخلیقی اور امتزاجی صلاحیت نے ایک ایسا ہی دینی فکر ی و تخیلی عجوبہ تیار کیا ہے جو اچھا ہو یا برا چونکا دینے وولا اور مبہوت کر دینے والا ضرور ہے۔ ان کے فکر سے طبع انسانی یا ذوق انسانی کے وہ خلا پر ہو جاتے ہیں اور متقشف دین داری سے بالعموم پیدا ہو جاتے ہیں انسانی طبیعت ذر ا سی لچک اور کشادگی کی طلب گار ہوتی ہے۔ اس پر تخیل اور فکر کے دروازے بند کر دینے سے ظاہری ڈسپلن تو پیدا ہو جاتا ہے مگر باطن کی دنیا مقیدہو کر سکڑ جاتی ہے۔ ابن عربی خود عجمی نہت ھے وہ اندلس سے آئے عجم میں بھی رہے اور عرب میں بھی یہ امر ابھی تک قابل مطالعہ ہے کہ ان کے افکار عظیمیہ کے حقیقی مصادر کیا ہیں مگرا تنا ماننا پڑے گا کہ انہوںنے جو نظام تصورات دیا ہے وہ مبہوت کر دینے والا ہے… وہ ایک جامع شخص تھے۔ عفیفی کی رائے میں وہ صوفی کم اور حکیم اور تھیوصوفسٹ زیادہ تھے (کتاب محولہ بالا ص ۱۱۲) اور ترجمان الاشواق ان کی نظموں کا مجموعہ جذب و حال سے لبریز ہے۔ علمائے ظاہر اپنی جگہ درست ہی تھے لیکن انسان جیسی عجیب و غریب مخلوق مسلسل اور ہمہ گیر ضابطہ بندی سے اکتا کر کبھی کبھی تخیل اور عجائبات کی دنیا میں بھی نکل جانا چاہتی ہے… اس لحاظ سے ابن عربی کو اسلام کی علمی تاریخ کا سب سے بڑا تخیلی تخلیق کار اور مفکر کہا جا سکتا ہے جس کے طلسم افکار میں دین خالص سے لے کر توہمات کی دنیا تک کے سب رنگ مل جاتے ہیں… جو تیز اور شوخ بھی ہیں اور دلفریب اور گمراہ کن بھی… انہوںنے فکر کی ایسی دنیا تخلیق کی جس میں کشش بھی ہے اور کشش (بالضم ) بھی۔ ۱؎ The Pantheistic Monism of Ibnul Arabi عفیفی کی رائے میں ابن عربی عالم بھی تھے اور عارف بھی۔ قشیری نے اپنے رسالہ فی التصوف میں لکھا ہے کہ العارف الفوق مایقول اور العالم دون ما یقول(عارف کا حال اس کے قال سے برتر اور افزوں تر ہوتا ہے اور عالم کا حال اس کے قال سے کم تر ہوتا ہے) ایک حکیم حقیقت کا مشاہدہ کر کے اس کا خارج سے برآمد قیاسات کی بنا پر تجزیہ کرتا ہے اور عارف قعر دریا میں غوطہ زن ہو کر ستر تک پہنچ جاتا ہے۔ مگر ابن عربی عالم کامل اور عرفان کامل ہے۔ اس طرح انہیں کمالات کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے ابن عربی کی آخری دو کتابیں آزمائش کا درجہ رکھتی ہیں کہ جن کی رمزی زبان کے عقدے کھولنے کی کوشش میں کئی لوگوں نے عمریں بسر کر دیں اور پھر بھی کامیاب نہ ہوئے۔ میں اسے طلسماتی تخلیق کاری کہتا ہوں اور اسی کی بنا پر ابن عربی کو اسلامی علمی تاریخ کی عظیم شخصیتوں میں شمار کرتا ہوں۔ میں نے عنوان مضمون کے اعتبار سے ابن عربی کے مرتبے کے متعلق اگرچہ اس کا کچھ جواز بھی ہے شاید ضرورت سے کچھ زیادہ ہی لکھ دیا ہے اب معذرت کرتے ہوئے مجھے یہ دیکھنا چاہیے کہ علامہ اقبال کو شیخ الاکبر کے جن خیالات و مسائل کے بارے میں اختلاف ہے وہ کیا ہیں… اور ان کے اختلاف کی اساس اور معنوی قدر و قیمت کیا ہے؟ سابقاً عرض کیا جا چکا ہے کہ حضرت علامہ نے ابن عربی کے جن بڑے نظریات پر اعتراض کیا ہے ان میں مطلق عجمی تصوف کے علاوہ جو مستقل بحث کا محتاج موضوع ہے نمایاں مسئلے تین ہیں ضن میں سے ہر ایک اپنی جگہ اہم مبحث ہے: ۱۔ وحدت الوجود ۲۔ تنزلات ستہ یا مراتب شش گانہ ۳۔ قدم ارواح کملا (یعنی یہ عقیدہ کا ملین (انبیاء اولیا) کی روحیں قدیم ہیں حادث نہیں۔ غور کیا جائے تو یہ تینوں مسئیلے ایک ہی موضوع کی تین شاخیں ہیں مرکزی موضوع وحدت الوجود ہے چنانچہ اسی کو مرکز بحث بنانا مفید ہو گا۔ وحدت الوجود اور تنزلات ستہ ان اصطلاحات کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ مغربی اصطلاح Pantheismوحد ت الوجود سے ترادف نہیںرکھتی۔ اس کے صرف بعض پہلو وحدت الوجود سے مشابہت رکھتے ہیں۔ اسی طرح سپنوزا کا فلسفہ بعض مماثلتوں کے باوجود شیخ اکبر کے نظریہ وحدت سے مختلف ہے۔ شیخ کے مخصوص نظریے پر بحث کرتے ہوئے مسئلہ وجود بھی ہمارے سامنے آتاہے جس کا انگریزی میں لکھنے والے مصنف Beingترجمہ کرتے ہیںَ اسلامی ادبوں میں لفظ ذات بڑی اہمیت رکھتا ہے جسے لفظ وجود کا ہم معنی لفظ کہا جا سکتا ہے۔ شیخ اکبر کے خیال میں وجود صرف ذات باری کو کہہ سکتے ہیں جسے ذات مطلق ذات بحث یا ذات احدیت بھی کہا گیا ہے پھر ذات مطلق نے اپنے اندر سے موجودات خلق کی مگریہ موجودات کائنات ذات مطلق سے الگ نہیں اس کے اندر ہے۔ موجود مطلق خدا کی ذات ہی ہے باقی سب تعینات ہیں جنہیں صفات ذات باری یا مظاہر باری کہا گیا ہے مگر یہ مظاہر ذات باری سے جدا نہیں۔ کائنات میں جو کچھ نظر آتا ہے خدا نہیں مگر خدا سے جدا بھی نہیں ۱؎۔ یہ مظاہر ذات حق ہی کے شئون ہیں اس سے الگ نہیں خدا کی ذات احد ہے واحد نہیں۔ واحد ہوتی تو تعدد میں اس کا کوئی ثانی یا مثل بھی ہوتا۔دنیا میں جو کچھ نظر آتا ہے آئینے کے مقابل آئینے کی مانند ہے جس میں ذات حق جو نور ہے منعکس ہوتی ہے۔ یہی انعکاسات موجودات کہلاتے ہیں۔ ان کی اپنی ہستی کوئی نہیں سب اس نور کی صد رنگ تجلیات ہیں جو ہر لحظہ نور حق سے منعکس ہوتی ہے۔ یہی انعکاسات موجودات کہلاتے ہیں ۔ ان کی اپنی ہستی کوئی نہیں سب اس نور کی صد رنگ تجلیات ہیں جو ہر لحظہ نور حق سے منعکس ہوتی ہیں۔ اور تازہ بتازہ اور نو بہ نو رنگ اس سے خلق ہوت رہتے ہیں۔ اور ہوتے رہیں گے ۲؎۔ یہی خلق مسلسل زمان یا دہر کہلاتی ہے۔ (ابن عربی دہر کو بمعنی خدا استعمال کرتے ہیں)۔ خلاصہ یہ ہے کہ وجود موجود صرف خدا ہے اور باقی کوئی نہیں۔ جو کچھ نظر آتا ہے وہ سب پرتو ہیں اس سلسلہ تخلیق کے جو ذات باری مسلسل کرتی رہتی ہے۔ یہ ذات باری سے الگ نہیں۔ اسی خلق مسلسل کی ظاہری شکل کائنات کہلاتی ہے۔ جسے عالم امکان بھی کہتہے ہیں ۔ ابن عربی نے ذات مطلق سے عالم امکان تک چھے مراتب کا سراغ لگایا ہے انہیں کو مراتب یا تنزلات ستہ کہا گیا ہے۔ ذات مطلق یا ذات بحت احدیت کے مقام لاتعین اور مرتبہ لامتناہیت پر فائز ہے لیکن باقی چھ مرتبے یا تنزلات واسطے یا سیڑھیاں ہیں۔ پہلے مرتبے یا تنزل میں وحدیت یا حقیقت محمدیہ کا ظہور ہوا جسے ابن عربی نے کلمہ محمد یہ یا النور المحمدیہ کہا ہے یاد رہے کہ ابن عربی نے ذات محمدیہ اور حقیقت محمدیہ میں امتیاز کیا ہے تمام موجودات کامادہ یہی مرتبہ ہے۔ یہ ذات الٰہی اور مظاہر کونیہ کے درمیان واسطہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات اجمالیہ کا ظہور ہوتا ہے۔ ان کو ظہورات یا تجلیات کا نام دیا جاتا ہے۔ مرثیہ ثانی یا تنزل ثانی واحدیت ہ۔ اس میں صفات الٰہی کا تفصیلی اظہار ہوتاہے۔ وحدیت میں اور واحدیت میں جملہ ممکنات کے حقائق یا اعیان ثابتہ ہیں جو علم الٰہی میں موجود ہیں۔ تیسرا تنزل عالم ملکوت یا عالم ارواح ہے۔ چوتھا تنزل مثالی ہے جس سے عالم مثال کا ظہور ہوتا ہے۔ یہ عالم عالم ارواح اور عالم اجسام ک درمیان تعلق پیدا کرنے کے لیے ہے۔ تنزل پنجم جسے عالم ناسوت بھی کہتے ہیں اس سے عالم اجسام کا ظہور ہوتا ہے۔ یہی مرتبہ ہماری ظاہری کائنات ہے۔ تنزل کو ششم عالم انسان ہے جسے مرتبہ کون جامع کہا جاتاہے۔ اسے حقیقت انسانیہ کہتے ہیں۔ آخری تین مراتب کو مراتب کونیہ کہا جاتا ہے۔ افسانوں میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ذات اقدس کا مظہر اتم ہیں۔ وہی انسان الکامل ہیں اور کمال الٰہی کے کل معانی اہیں میں متحقق ہوئے ہیں۔ ۱؎ مگر سپنواز کے نظریے کے مطابق خدا اور کائنات کی حقیقت یہ ہے۔ (ڈیورنٹ : سپنوزا کا حال) ۲؎ یوں ابن عربی Beingکو مانتے ہیں وہا ں Becomingکو بھی مانتے ہیں۔ یہ ہے ابن عربی کے نزدیک خدا کائنات اور انسان کی حقیقت۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ شیخ الاکبر کے نظام فکر میں یہ تینوں الگ الگ معلوم ہونے کے باوجود الگ نہیں کیونکہ وجود صرف وجود مطلق ہے باقی موجودات ہیں جو اس وجود مطلق کے شئون یا تجلیات ہیں یہ جو عالم محسوس یا عالم کثرت ہے اعتباری ہے ہمیں الگ نظر آتا ہے مگر دراصل الگ نہیں ایک ہی ذات ہر اسم کا مسمی ہر مظہر کی اصل اور ہر تعین کی حقیقت ہے۔ کوئی غیر نہیں ہر جگہ اسی کا ظہور ہے۔ دنیا میں جتنے کمالات و اوصاف ہیں سب کے سب اسی کے مظاہر و اظلال ہیں۔ انسان(کائنات) اور خدا کے درمیان نسبت سریان الذات کی ہے یعنی اس میں ذات خداوندی کی صفات کی تجلیات جاری و ساری ہیں۔ ذات باری مرتبہ احدیت میں ذات منزہ ہے لیکن وہ ذات جب تلی کے ذریعے ظہور فرماتی ہے تو اس وقت وہ صورت تشبیہہ میں تجلی فرماتی ہے ۱؎۔ خدا ک متعلق یہ عقیدہ رکھنا ابن عربی کے نزدیک توحید ہے کسی صوفی شاعر نے کہا ہے کہ توحید: واحد دیدن بود نہ واحد گفتن شیخ الاکبر کا تصور اس سے بھی آگے ہے وہا ں دیدن کی بھی گنجائش نہیں۔ ایک او رمحقق مولانا محمد تھانوی نے لکھا ہے اس نظریے کے مطابق ذا ت خداوندی او ر کائنات ایک دوسرے کے عین ہیں اور ذا ت خداوندی ایک بحر ناپیدا کنار ہے اور اشیائے کائنات اس کی سطح پر بلبلے اور موجیں ہیں جو برابر ابھرتے اور مٹتے رہتے ہیں جس طرح ان چیزوں کی دریا سے علیحدہ کوئی ہستی نہیں اسی طرح اشیائے کائنات بھی ذات خداوندی سے علیحدہ ہو کر غیر حقیقی اور معدوم ہیں۔ (تحقیق وحدت الوجود و الشہور از شیخ محمد تھانوی کا مقدمہ از ثنا الحق ۱۹۶۳ء کراچی ص ۱۰۸ ‘ ص۱۰۹) ابن عربی کا یہ نظریہ ان کی اپنی کتابوں میں بہت الجھا ہوا ہے اور غیر مربوط ہے لیکن ان کے پیروئوں نے زیادہ واضح کر کے اسے مربوط شکل عطا کی ہے ان میں عبدالکریم الجیلی (م۸۳۲ئ) کی کتاب الانسان الکامل قابل ذکر ہیں۔ ذات کی حقیقت صفات کا مفہوم ہویت کے معنی اسمائے الٰہی کا جمال و کمال تجلیات ‘ علم ‘ ازل ‘ ابد‘ قلب ‘ عقل‘ صورۃ محمدیہ‘ فلکیات‘ مقام قربت و مقام عبودیت وغیرہ اس کے موضوعات ہیں۔ لیکن ان کے پیروئوں کی ہر کتاب میں اس کی صورت مختلف سی نظر آتی ہے کہیں اس کے معنی سیرالی اللہ ہیں اورکہیں سیر فی اللہ کبھی محض سر معرفت یا معرفت سر عالم ایک حقیقت واحدہ اعراض مجتعمہ کا نام ہے کبھی یہ کہا گیا ہے کہ وحدت الوجود کے حقائق و معارف کا منبع نفس کلیہ ہے۔ کبھی یہ کہا گیا ہے کہ وحدت الوجود حقائق و معارف کا منبع نفس کلیہ ہے۔ کسی نے وجود منسا لکھا ہے (جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور حضرت شاہ اسمعیل شہید کی کتابوں میں ہے)۔ ۱؎ وحدت الوجود کا نظریہ بے حد دقیق ہے اس کی جو تشریح شیخ کی کتابوں میں ملتی ہے یا ان کے عقیدت مندوں اور مخالفوں نے عربی اور فارسی کتابوں میں اور عہد حاضر میں حسین نصر عفیفی اور ایس اے کیوحسینی نے اپنی اپنی انگریزی کتابوں میں کی ہے وہ بھی دقیق ہے میں نے جو تشریح اوپر کی ہے اس کے لیے میں نے ملک حسن علی جامعی کی کتاب تعلیمات مجددیہ سے استفادہ کیا ہے کیونکہ یہ آسان ترین شرح ہے۔ انگریزی میں بعض لکھنے والو ں نے اس اصطلاح (وحدت الوجود) کا ترجمہ Monism کیا ہے لیکن بوجوہ یہ ترجمہ کافی نہیں… اور حق یہ ہے کہ اس کی صحیح اور قطعی تعریف اب تک نہیں ہوئی۔ Pantheism کی ایک ہمہ گیر تعریف شاید یہ ہے کہ: "God is all that is and nothing is which is not necessarily include in and which has not necessarily been evolved out of God" (Robert Flint Anti Theisitic Theories P 337) مگر یہ تعریف بھی کیا تعریف ہے اس پر بھی تو کئی اعتراضات وارد ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ مسلک پھر کئی شاخوںمیں تقسیم ہو جاتا ہے جس کی تفصیل میںاس وقت الجھنا بے سود ہے۔ اتنا بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ وحدت ۱؎ کا تصور اس مسلک کی ہر شاخ میں موجود ہے۔ خواہ وہ وحدت ایک جوہر Substanceکی ہے یا کسی ذات لا تعین کی۔ بہرحال وحدت ہر جگہ ہے اور چونکہ عالم شہود عالم کثرت ہے اس لیے وحدت کے اثبات کے لیے کثرت کا ہونا خواہ وہ غیر حقیقی ہی کیوں نہ ہو۔ لازم ٹھہرا۔ فلنٹ کہتا ہے: ـ" Reality is just one self existing thing or system and that all things and events of Daily Experience are out part or Modification of this ultimate thing. " (Flint Cited Abone) اس عبارت میں جس چیز کو Realityکہا گیا ہے اس سے مراد اسلامی اصطلاح میں ذات خداوندی ہے ۲؎۔ ابن عربی کے مسلک وحدت الوجود کو ایس اے کیو حسینی نے اپنی کتاب میں Pantheistic Monismقرار دیا ہے اور کہا ہے کہ میں اسے صرف Monismبھی کہہ سکتا تھا لیکن ابن عربی کے یہاں خلق کا جو تصور ہے اس کی بنا پر شیخ کے مسلک کو Pantheistic Monismکہنا مناسب ہو ا۔ (حسینی کی اسی نام کی کتاب مقدمہ ۱۱۱) بہرحال یہ تصور کوئی نیا نہیںبلکہ بہت قدیم ہے ۔ جب سے انسانوں نے سوچنا شروع کیا ہے ہر دور میں سوچنے والوں کے ایک نہ ایک طبقے کو تین سوال پریشان کرتے رہے ہیں وہ سوا ل یہ ہیں: ۱۔ یہ اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کیا ہے۔ ب۔ اسے کس نے اور کس طرح پیدا کیا ہے۔ ج۔ انسان کا اس کائنات میں مقام اورایک کا دوسرے سے تعلق کیا ہے۔ ۱؎ Monism توحید یا وحدت کی کئی قسمیں ہیں۔ Substantial Attributive Materialistic Agnostic, Atheistic ۲؎ The one Absuloute Substance The one All Comprehensive being is called God ۳؎ دیکھتے علامہ اقبال دیباچہ اسرار خودی اشاعت اول (مقالات اقبال مرتبہ معینی نیز حسینی کی محولہ بالا کتاب اور Story of Philosophy by Will Durant P 131 SQ ہندوئوں سے لے کر یونانیوں تک اور فکر قدیم سے لے کر فکر جدید تک ۳؎ ہر زمانے میں اہل فکر نے ان سوالوں کے جواب دیے ہیں مغربی فکر میں سپنوزا نے جو اندلسی یہودیوں کے ایک جلاوطن خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور ہالینڈ میں آ بسا تھا۔ ابن عربی کے زمانے کے فوراً بعد اسی قسم کا ایک نظری دیا ہے ۱؎۔ میں اس وقت ابن عربی کے عقیدہ وحدت الوجود کا تجزیہ کر کے یہ واضح کر رہا ہوں کہ ا س کی نوعیت کیا ہے اور اس کے حق میں اور اس کے خلاف کیا کیا رد عمل اور اس بحث میں علامہ اقبال کے رد عمل کا اسلامی روایت کے تسلسل کے حوالے سے مقام کیا ہے؟ علامہ اقبال نے جن اہم وجود سے وحدت الوجود کی مخالفت کی ان کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ اسرار خودی کی اشاعت اول ۱۹۱۵ء کے دیباچے میں لکھتے ہیں: ۱۔ اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر قریباً تمام اسلامی اقوام کو ذو ق عمل سے محروم کر دیا ہے۔ (مقالات اقبال صفحہ ۱۵۶) ۲۔ ابن عربی کے خیالات میں تنزلات ستہ کا خیال نو افلاطونی فلسفے سے لیا گیا ہے۔ ۳ ۔ اور یہ خیال دین (قرآن ) کے خلاف ہے۔ دراصل علامہ اقبال کی مخالفت وحدت الوجود قدیم اسلامی روایت دینی کے تسلسل سے پیوستہ ہے۔ ا ن سے پہلے ابن جوزی اور امام ابن تمیمہ سے لے کر شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانیؒ) تک…اور ان کے بعد متعدد اہل دین نے اس کی مخالفت کی ہے لہٰذا علامہ اقبال کے موقف کو روایت سے وابستہ کر کے سمجھنا آصان ہو گا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے وحدت الوجود کی تردید کرتے ہوئے اسے ایک مقام تو قرار دیا ہے لیکن سلوک اور کشف کا ایک ابتدائی مرحلہ کہا ہے یعنی یہ سلوک کی ایک ابتدائی کیفیت ہے جس سے حضرت مجدد خود بھی گزرے اور خاصی مدت تک توحید وجودی کے حق میں رہے لیکن انہوں نے اپنے مکاتیب میں واضح کیا ہے کہ میں بہت جلد اس مقام سے گزر گیا کیونکہ مجھے اس کی کیفیت کی خامی نظر آ گئی آگے بڑھنے پر یہ محسوس ہوا کہ خدا کی ذات اور کائنات میں اصل اور ظل کا تعلق ہے اور لیکن اس مقام ظلیت سے بھی اطمینان نہ ہوا۔ اس میں بھی وحدت وجود کا شائبہ نظر آیا۔ یہ مقام بھی انہیں غیر حقیقی معلوم ہوا۔ اب وہ مقام عبدیت میں پہنچے او رنتیجہ یہ نکالا کہ خدا او رکائنات ایک دوسرے سے الگ وجود رکھتے ہیں سبحانہ ورا الوری ثم وراء الوری… ان کے نزدیک خدا اور بندے میں تعلق خالق اور مخلوق کا ہے۔ رب رب ہے اور بندہ بندہ۔ لہٰذا وہ ابن عربی کے تصورات کو بالکل چھوڑ کر شریعت خالص کی منزل پر آ گئے انہوںنے فرمایا مارا نص باید نہ کہ فص یعنی ہمیں قرآن و سنت چاہیے نہ کہ فصوص الحکم (ابن عربی کی کتاب)۔ عام طور سے حضرت مجدد ؒ کے عقیدے کو وحد شہود کہتے ہیں یعنی یہ سالک کے محض جذبہ اور شہود کی کارفرمائی ہے اور اسے وجود کی وحد ت نظر آتی ہے۔ ورنہ اصلیت اور حقیقت سے اس کا کچھ تعلق نہیںل۔دراصل سالک اپنے سلوک کے دوران ایک مقام پر مشاہدہ کرتا ہے کہ خدا عین عالم ہے لیکن یہ کیفیت عارضی ہوتی ہے اصلی نہیں ہوتی۔ ۱؎ دیکھیے Wil Durant کی کتاب Story of Philosophyباب سپنوزا کے متعلق۔ حضرت مجد د کی رائے میں جو کچھ ہے خدا کا خلق کردہ ہے خدا کی ذا ت لامتناہی ہے اور وراء الوراء ہے۔ اسی خیال کی بناپر ان کے نظری کو ورائیہ کہا گیا ہے جبکہ ابن عربی کا مسلک عینیہ ہے۔ حضرت مجددؒ حلول اور اتحاد کے نظریے کے بھی مخالف ہیں۔ اور بقا و فنا کے معاملے میں مسلک شہود یہ یا ورائیہ رکھتے ہیں۔ وہ صرف شریعت کو واجب الاتباع سمجھتے ہیں۔ البتہ لطائف قبیلہ کو تسلیم کرتے ہیں کہ مگر یہ لطائف ذاتی اور انفرادی ہوتے ہیں انہیں شریعت کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ حضرت مجددؒ کے ان خیالات نے اکبری وجہانگیری دور کے الحاد کو تقریباً ختم کر دیا ہے اور انہیں شریعت کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ حضرت مجددؒ کے ان خیالات نے اکبری و جہانگیری دور کے الحاد کو تقریباً ختم کر دیا ہے اور حضرت کا نظریہ شہود (یا ورائیہ) برابر مقبول ہوتا گیا اگرچہ وحدت وجود کا تصور بھی متوازی چلتا رہا۔ یہ معلوم ہے کہ ہندوستان میں دور شاہجہانی میں مثنوی مولانا روم بہت مقبول تھی اس کی وجہ سے بھی وحدت الوجود کو تقویت ملتی رہی۔ کیونکہ رومی وحدت الوجود کو مانتے تھے تاہم ورائیہ مسلک بھی جاری رہا۔ دونوں عقیدوں کو ماننے والے اپنے اپنے خیال پر قائم رہے تاآنکہ شاہ ولی اللہ دہلوی نے وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود میں تطبیق کی کوشش کی اور فرمایا کہ یہد ونوں اصطلاحیں دراصل ایک ہی مفہوم رکھتی ہیں۔ یا دونو ں ایک خاص دائرے میں ایک ہیں اور دوسرے دائرے میں مختلف ہیں۔ لیکن بالآخر مطلب ایک ہی ہے لیکن خواجہ میر درد نے اپنی کتابوں میں وحدت الوجود کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’وحدۃ وجود کے فقط یہ معنی ہیں کہ موجودبالذات صرف ایک ذات ہے اور یہ معنی نہیںکہ واجب اور ممکن کی ماہیت ایک ہے اور عبد اور معبود ایک دوسرے کا عین ہیں… اور وحدت الشہور کے یہ معنی ہیں کہ ذات واجب کے بغیر موجودات ممکنہ کا وجود نہیں اور موجودات اسی ایک ذات کے نور سے موجود ہیں (علم الکتاب اور واردات میر درد)‘‘۔ دور حاضر میں وحدت الوجود کے خلاف لکھنے والوں میں اہم نام مولانا اشرف علی تھانوی کا ہے۔ (باقی مخالفین نظر یہ وحدۃ الوجود کے لیے دیکھیے اردو دائرہ معارف اسلامیہ لاہور مقالہ ابن العربی نیز ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی کتاب Mnjaddids Conception of Tawhid) ۔ غرض وحدۃ الوجود کی مخالفت کی ایک روایت پہلے سے موجود تھی۔ جو اقبال تک پہنچی۔ لیکن دوسرے موضوعات کی طرح اس معاملے میں بھی اقبال کی اساس مخالفت جدا ہے۔ باقی مخالفین اور علامہ اقبال کے موقف میں سب سے بڑی وجہ امتیاز یہ ہے کہ جہاں دوسرے مخالفین اسے ایک انفرادی مسئلہ سمجھتے ہیں اقبال کا مطمح نظر اس معاملے میں انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے وہ بار بار کہتے ہیں کہ ابن عربی کے اس نظریے نے مسلمانوں کے ومی کردار اور سیرت اضمحلال پید اکر دیا ہے۔ اس تصور کی وجہ سے قوم کے اجتماعی قوائے عمل کو ضعف پہنچاہے علامہ اقبال کی رائے میں ساری عجمی (ایرانی فارسی) شاعری کے زیر اثر حیات کش او رموت آفرین ہو گئی ہے (دیکھیے معینی مقالات اقبال ص ۱۶۲) علامہ کی رائے میں ابن عربی ہی عجمی تصوف کے سب سے بڑے نمائندے ہیں جس کے علامہ سخت مخالف ہیں۔ علامہ اقبا ل نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تصوف خصوصاً ابن عربی کا تصوف انحطاطب شوکت اسلامی کا سب سے بڑا سبب ہے وحدتہ الوجود کے متعلق علامہ اقبال کی رائے یہ ہے کہ : ’’میرا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نظام عالم میں جاری و ساری نہیں بلکہ عالم کا خالق ہے اور اس کی ربوبیت کی وجہ سے یہ نظام قائم ہے جب وہ چاہے گا اس کا خاتمہ ہو جائے گا‘‘۔ (معینی : مقالات اقبال ص ۱۶۳ مضمون اسرار خودی اور تصوف) ابن عربی اور تصوف دونوں کے معاملے میں علامہ کی یہ رائے وقیع اور اصولی طور سے صحیح ہے لیکن ہمارے اکثر نقادوں نے اس مسئلے کے مقصد و منشا میں کہیں زیادہ شدت اختیار کر لی ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسئلہ عجمیت کی طرح تصوف اور ابن عربی کے بارے میں تجزیے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ بالکل یقینی امر ہے کہ علامہ نفس تصوف کے مخالف نہ تھے۔ اور خود شیخ الاکبر کو بھی انہوں نے اتنا نہیں گھٹایا جتنا مذکورہ بالا نقادوں نے گھٹایا ہے۔ علامہ کے مکاتیب اقبال نامہ وغیرہ کو دیکھیے۔ ان میں وہ ابن عربی کو جا بجا حضرت اور شیخ اکبر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ خطبات (تشکیل جدید الہیات اسلامیہ) میں ایک جگہ یہ عبارت آئی ہے: ’’چنانچہ اسلامی اندلس کے مشہور صوفی فلسفی محی الدین ابن عربی کا یہ قول کیا خوب ہے کہ وجود مدرک تو خدا ہے اور کائنات معنی‘‘۔ (اردو ترجمہ از سید نذیر نیازی ص ۲۸۱) اس چھوٹے سے اقتباس پر غور کیجیے اور نتیجہ خود نکال لیجیے۔ اس عبارت میں احترام کا جذبہ کام کر رہا ہے۔ اسی طرح علاہم نے اسلامی تصوف اور عجمی تصوف میں امتیاز کیا ہے۔ وہ اول الذکر کے حامی بلکہ ایک مکتوب کی رو سے ایک صوفی سلسلے میں بیعت تھے۔ مقالات اقبال مضمون بجواب خواجہ حسن نظامی۔ اور یہ امر بھی قابل تجزیہ ہے کہ مسلمانوں کے انحطاط کی ذمے داری محض تصوف پر ہے اور اگر علامہ اپنی مجوزہ کتاب تصوف کی تاریخ لکھ پاتے تو یقینا وہ اسی نتیجے پر پہنچتے کہ مسلمانوں کے زوال کی ذمے داری بعض دوسرے بڑے اسباب بھی ہیں۔ مثلاً سبائیت‘ عدم مرکزیت جماعت مسلمین‘ تفرق اورعارضہ تجدید یہ سب زوال شوکت اسلامیہ کے اہم اسباب ہیں۔ ابن عربی کو عجمی تصوف کا بانی کہنا بھی قابل تجزیہ ہے۔ بلکہ خود صوفی کہنا بھی شاید درست نہیں۔ جیسا کہ عفیفی نے اپنی کتاب میں انہیں صوفی سے زیادہ ادیب اور دینی مفکر قرار دیا ہے کیونکہ ان کا طریق کار ادیبانہ و مفکرانہ ہے۔ علامہ اقبال کا سب سے بڑا اعتراض ابن عربی پر یہ ہے کہ ان کا نظام فکر یونانیت اشراقیت اور مجوسی اثرا ت کا مرکب ہے میں نے اس صورت حال کا نام امتزاجیت رکھا ہے۔ ابن عربی کی زبان رمزی ہے اور جب وہ اس زبا ن کا استعمال قرآن کی تفسیر میں کرتے ہیں تو قرآن مجید کی روح کو نقصان پہنچتا ہے۔ ابن عربی کے نزدیک ہر شے کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن چنانچہ ان کے نزدیک قرآن مجید کے الفاظ کا بھی ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ بس یہیں سے علامہ اقبال کا ابن عربی کے ساتھ اختلاف شروع ہو جاتاہے۔ ابن عربی کا سب سے بڑا طریق کار اصول تاویل ہے۔ لیکن یہ وہ تاویل نہیں جو مفسرین کے یہاں مروج ہے۔ بلکہ یہ تاویل کی ایک تخیلی نوع ہے آخر تاویل کے لیے کسی خاص ضرورت کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے ایک عقلی منطق بھی درکار ہے۔ لیکن سارے قرآن کو تاویل کا تختہ مشق بنانا کسی طرح مناسب نہیں۔ اقبال کی رائے میں ابن عربی کے یہاں ہر لفظ کی تاویل سے روح قرآنی مسخ ہو گئی ہے۔ یہ تفسیر نہیں تحریف ہے۔ اس معاملے میں علامہ اقبال علمائے دین کے اس طریقے کے ہم نوا ہیں جنہیں راسخون کہا جاتا ہے مثلا ائمہ اربعہ اور امام ابن تمیمیہ اور دوسرے علمائے ظاہر وہ ظاہری فرقے کے امام ابن حزم کے قائل ہو سکتے ہیں مگر ابن عربی کی تاویل و رمز کو تسلیم نہیں کر سکتے۔ اور یہ بھی بالکل قدرتی ہے کہ وہ ابن عربی کے خیالات میں یونانیت او ر اشتراقیت کی آمیزش کے خلاف ہیں۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ علامہ دین کے قائل ہیں اور علامہ کا یہ اعتراض ہے کہ ان عربی نے کشف خاص کو مشغلہ عوام بنا دیا ہے ۔اور ایسے خیالات پھیلائے جنہیں عوام نہیں سمجھ سکتے۔ علامہ کا اختلاف محض وحدۃ الوجود کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے بھی ہے کہ بقول حسرت موہانی: جلوہ خاص کو بدنام کیا عام کیا اگر محض وحدت الوجود مدنظر ہوتی تو وہ حسین بن منصور حلاج کے بھی اتنے ہی مخالف ہوتے جتنے ابن عربی کے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ حلاج کے معاملے میں وہ مثل قدیم صوفیہ کے اس لیے رواداری برتتے ہیں کہ اس کا اعلان انا الحق جذبہ خاص سے نمودار ہو کر اس کی ذات تک محدود رہا مگر علامہ اس سزا کو جائز قرار دیتے ہیں جو علما نے منصور کو دلوائی مگر انفرادی کشف و جذبہ کے مقام میں وہ حلاج کامرتبہ تسلیم کرتے ہیں اور علمانے سزا اس لیے دلوائی کہ یہ کشف خاص کہیں عقیدہ عوام نہ بن جائے اور شریعت قرآن بالکل نظر انداز نہ ہو جائے جس میں خدا اور بندے میں صریح امتیاز پر زور دیا گیا ہے۔ یہی صورت مولانا روم کی ہے کیونکہ وہ بھی وحدت الوجود کے قائل تھے (بقول شبلی در سوانح مولانا روم) لیکن صرف اس وجہ سے علامہ اقبال کی عقیدت میں فرق نہیں آیا کہ وہ رومی کو وحدۃ الوجود کے قائل ہونے کے باوجود اپنا مرشد مانتے ہیں۔ توکہنا یہ ہے کہ ابن عربی کے محض اس وجہ سے مخالف نہیں کہ وہ وحدۃ الوجودی تھے بلکہ ان کاے فکر کا قابل اعتراض پہلو یہ ہے کہ انہوںنے قرآن مجید کو تاویل اور باطنی رمز کا تختہ مشق بنا کر قرآن کے ظاہر اور باطن دونوں کو نقصان پہنچایا۔ بہرحال علامہ کے نزدیک وحدۃ الوجد کا عقیدہ درست نہیں یہ قطعی ہے اور علامہ کے پاس اس امر کے حق میں قوی دلیلیں بھی ہیں… لیکن کچھ اور لوگ ہیں جو علامہ کا مطلب سمجھے بغیر تصوف اورابن عربی کے مخالف ہیں۔ میری ذاتی رائے میں یہ مسائل (علامہ کے خیالات کی روشنی میں) مزید تجزیہ و تحقیق کے طلب گار ہیں مثلاًیہ مسئلہ کہ تصوف مسلمانوں کے اجتماعی انحطاط کی ذمے داری ہے۔ اس قابل ہے کہ تاریخی واقعات کی روشنی میں اس کا تجزیہ کیا جائے۔ محض سرسری مشاہدات پر رائے قائم نہ کی جائے۔ اسی طرح ابن عربی اور وحدت الوجود کے موضوعات قابل تجزیہ ہیں۔ دراصل جب سے فکر انسانی نے آنکھ کھولی ہے یہ سوال انسان کو ہمیشہ ستاتا رہا ہے کہ یہ دنیا کیا ہے ہم کیا ہیں اور ہمیں کس نے بنانا ہے اور کس لیے بنایا ہے اور کائنات کا باہم تعلق کیا ہے؟ اور انسان کا اس میں کیا مقام ہے ۔ ان سوالوں کے مختلف جواب سامنے آتے رہے ہیں۔ ان میں ایک جواب وحدۃ الوجود بھی ہے ۔ ہندو ویدانت سے لے کر نظریہ ابن عربی تک… اور ابن عربی سے لے کر سپنوزا تک فکر کی گردش وحدت الوجود کے گرد گھومتی ہے۔ بقول علامہ یہ اگرچہ اصل سول کا غیر تسلی بخش جواب ہے تاہم آفرینش ے بارے میں دوسرے جواب بھی کچھ کم غیر تسلی بخش نہیں۔ اصل میں قصہ یہ ہے کہ اس معاملے میں خا موشی اور لا سوال بلا کیف ہی سب سے اچھا جواب ہے جیسا کہ اہل دین امام احمد بن حبنلؒ وغیرہ نے دیا کہ ہم خدا پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں اور بلا سوال اور بے قیل و قال اسے مانتے ہیں۔ بس یہی جواب صحیح جواب ہے لیکن اگر اس سوال کو کسی فکر (فلسفہ) کے نظام میں ڈھالا جائے تو یا تو مادے کو بلا چون و چرا ازلی و ابدی ماننا پڑے گا یا پھر وحدت الوجود قسم کے کسی نظریے سے متفق ہونا پڑ ے گا جیسا کہ شبلی نے سوانح مولانا رومی میں لکھا ہے کہ میں ذاتی طورپر یہ سمجھتا ہو ں کہ اقبال وحد ۃ الوجود کے کھلے مخالف ہونے کے باوجود حقیقت کائنات کی بحث میں بھی خود (اپنی منطق کے دبائو میں آ کر) کسی ایسے ہی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حقیقت مطلقہ کاایک رخ خارجی یعنی یہ کائنات ہے اور دوسر اداخلی ہے اور یہ ذات باری ہے چنانچہ خطبات میں فرمایا ہے: ۱؎ فطرت یا عالم طبیعی ایک گزرتا ہوا لمحہ یا ذات الہیہ میں (ترجمہ نیازی ص ۸۶) ۲؎ فطرت کو ذات الٰہیہ سے وہی نسبت ہے جو سیرت کردار کو ذات انسانی سے (ص ایضاً) علامہ کے پہلے ارشاد سے یہ ترشح ہتا ہے کہ فطرت ذات الٰہیہ کی ہی ایک صفت کا ظہور خارجی ہے جو اس کا عین نہیں مگر اس کا غیر بھی نہیں۔ ابن عربی کے خیال کی رو سے یہ ظہور خارجی بھی عین ہے علامہ کے خیال میں غیر نہیں مگر عین بھی نہیں۔ دونوں کے موقف میں فرق کیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ ابن عربی کی رائے میں وجود صرف وجود مطلق ہے۔ اور اسی میں کائنات شامل ہے۔ لیکن کائنات کی مثال آئینے کے مقابل آئینے کی ہے جس میں کچھ تمثالیں ہیں جو آمنے سامنے منعکس ہوتی ہیں یہی انعکاسات عالم یا کائنات ہیں یہ خود ہی ناظر اور خود ہی منظور ہیں۔ غرض بقول غالب اصل شہود و شاہد مشہود ایک ہے غالب نے دوسرے مصرعے میں سوال اٹھایا ہے کہ حیران ہوں یا پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں؟ تو جواباً عرض ہے کہ انعکاسات ایک دوسرے کا مشاہدہ کر رہے ہیں کائنات کا ذرہ ذرہ شاہد بھی ہے اور مشہود بھی ہے مشاہدہ کا عمل باہمی ہے۔ اس تصور کی رو سے لازمی ہو جاتا ہے کہ کائنات اور خدا کو ایک دوسرے کا عین سمجھ لیا جائے۔ ابن عربی کے دقیق تصورات کی بحث میں میر تقی میر شاعر کے شعر سے استدلال کرنا ٹھیک نہیں لیکن چونکہ ہمارے شعرائے فارسی و اردو بھی دراصل ابن عربی ہی کا سبق دہرا رہے ہیں اس لیے میر کے اس شعر کا حوالہ کچھ زیادہ بے جا نہیں کہ: ہم آپ ہی کو اپنا مسجود مانتے ہیں اپنے سوائے کس کو موجود مانتے ہیں اور پھر کہا کہ: پہلے عالم عین تھا اس کا اب وہ عین عالم ہے ابن عربی کو یہ پوزیشن اس لیے اختیار کرنی پڑی کہ وہ اگریہ نہ کرتے تو انہیں ایک اور سوال کا جواب دینا پڑتا۔ یعنی یہ کہ اگر باری تعالیٰ نے یہ سب کچھ خلق کیا ہے تو مخلوق کو جس مادے سے خلق کیا گیا ہے وہ خلق سے پہلے کہاں تھا۔ اگر جواب یہ دیا جائے کہ خدا نے عدم سے وہ مادہ پیدا کیا۔ اس پر یہ سوال ہوگ اکہ اس صورت میں عدم کو کوئی شے یا مکان قرض کر کے یہ ماننا پڑے گا کہ عدم بھی ایک کائنات ہے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ گویا عدم بھی ایک قائم بالذات شے اور ابدی ہے اور یہ باطل ہے کیونکہ صرف خدا ہی ھوا الاول والاخر والظاہر والباطن ہے۔ اور اگر مادے کو خدا کے متوازی ایک ابدی شے مانا جائے تو یہ بھی باطل ہے۔ اس صورت میں ابن عربی جیسے وجودیوں کو یہی جواب آسان اور عملی طور سے قابل فہم نظر آیا کہ خدا کا غیر کوئی وجود نہیں رکھتا۔ سب کچھ ذات مطلق ہے اور باقی جو کچھ نظر آتا ہے انعکاسات ہیں۔ یہ بحث خطبات میں کئی جگہ آئی ہے خصوصاً اول اور خطبہ چہارم میں خلاصہ یہ ہے کہ علامہ اقبال کو ابن عربی کے افکار سے سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ ان کی تعلیم روح قرآنی کے عملی واجتماعی پہلوئوں کے خلاف ہے۔ ورنہ خود ان کے اپنے افکار میں متناہی کا لامتناہی تک پہنچ جانا ممکن ہے کیونک خودی کی غایت بھی یہی ہے۔ باقی رہا تصور تنزلات ستہ وغیرہ سے حضرت علامہ کا اختلاف سوا اس کا سبب ظاہر ہے کہ یہ یونانی خیال ہے۔ ارواح کملا وغیرہ کا قدیم ہونا بھی دراصل سلسلہ وجودیہ کی ایک شاخہے اس کے لیے الجیلی کی کتاب الانسان الکامل ملاحظہ ہو۔ علامہ کے نزدیک یہ نو افلاطونیت کے اثرات ہیں (دیکھیے مقالات اقبال مضمون اسرار خودی اور تصوف) بایں ہمہ شیخ الاکبر کی تخلیقی عظمت کے منکر نہیں اوران کا ہر جگہ احترام سے نام لیتے ہیں۔ جیسا کہ اس سے قبل بیا ن ہو چکا ہے۔ آخر میں مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ حضرت علامہ ابن عربی (اور ان کے نظریہ وحدت الوجود) کے لاکھ مخالف ہوں ان کے اپنے افکار مغربی حکماء سے زیادہ مسلم حکماء کے اثرات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس طرح حضرت علامہ کے نظام فکر کو ہم مسلمانوں کی فکری روایت کا تسلسل سمجھتے ہیں جس کی انہوںنے نئی تعبیر کی ہے دوسری بات یہ ہے کہ حضرت علامہ کا میلان حکماء اور مفکر عارفوں سے زیادہ راسخون (علمائے دین اور حاملین شریعت) کی طرف ہے اور یہ بات اس لیے لکھی ہے کہ حضرت علامہ کے بعض اقوام و اشعار سے یہ غلط نتیجہ نکالا جا رہا ہے کہ وہ علماء کے مخالف تھے حالانکہ ان کی تحریرات کا بڑا حصہ ا س غلط فہمی کی تردید کر رہا ہے۔ ٭٭٭ اقبال اور عراقی مولانا امتیاز علی خاں عرشی علامہ اقبال مرحوم نے اپنی انگریزی کتاب The Reconstruction of Religious Thoughts in Islamمیں کئی بار عراقی کا حوالہ یا ہے۔ ۱۔ تیسرے لیکچر میں فرماتے ہیں ۱؎: ’’صوفی شاعر عراقی نے بھی زمان کا ایک تصور پیش کیا ہے وہ کہتا ہے کہ زمان ہر درجہ حیات کی ہستی کے لیے مختلف ہے کثیف اجسام کا وقت شمس و قمر کی گردش سے وابستہ ہے۔ لیکن غیر مادی ہستیوں کے لیے کثیف اجسام کا ایک سال ایک لمحہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اوپر جاتے ہوئے الٰہی وقت یہ ہوگا کہ اس میں کوئی حادثہ یکے بعد دیگرے نہیں بلکہ سب کچھ بیک وقت و بیک نظر موجود ہے ۔ بالفاظ دیگر زمان الٰہی میں درور و توالی نہیں اور نہ وہ لمحات میں انقسام پذیر ہے۔ خدا کے ہاں زمان وہی چیز ہے جسے قرآن ام الکتاب کہتا ہے۔ جس کے اندر تمام حوادث ایک لمحہ حاضر میںموجود ہیں‘‘۔ اسی لیکچر میں فرماتے ہیں: ’’جلال الدین دوانی عراقی اور پروفیسر رائس کے تصور علم الٰہی میں صداقت کا شائبہ ضرور ہے لیکن ان کے تصورات کو درست مانا جائے تو کائنات ابداً ایک معین اور مشخص نظام حوادث بن جاتی ہے‘‘َ ۲؎ ۲۔ پانچویں لیکچر میں لکھتے ہیں: ’’عراقی کا نظریہ مدارج و وسعت ادراک زمان سے پہلے بھی بیان ہو چکا ہے۔ کہ زمان میں وسعت ادراک الٰہیہ ازل سے ابد تک کے واقعات کو محیط ہے۔ اب عراقی کے نظریہ مکان کا ذکر ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں خدا کی ذات میں مکان بھی ہے ۔ ۱؎ دیکھیے فکر اقبال از خلیفہ عبدالحکیم ص ۷۹۹ و تشکیل جدید (انگریزی) ص ۷۶ ۲؎ فکر اقبال ص ۸۰۱ و تشکیل جدید ص ۷۹ قرآن کریم کی کچھ آیات کے حوالے سے وہ نتیجہ نکالتا ہے کہ خدا انسان کی شہ رگ کے قریب ہونا اور اس قسم کے بیانات میں مکانیت موجود ہے لیکن عراقی کا یہ نظریہ مکان بھی اس کے نظریہ زمان کی طرح درست نہیں‘‘۔ ’’عراقی کہتا ہے کہ ملائکہ کے لیے بھی مکانیت اور فاصلہ ہے لیکن وہ لطیف قسم کا ہے نور کی طرح لطیف چیز ٹھوس چیزوں میں بے رکاوٹ گزر جاتی ہے (۱) لیکن عراقی کے نزدیک جہاں حرکت فی المکان ہے وہاں ابھی کچھ نفس موجود ہے۔ مکانی لطافت میں روح انسان ہی کو یہ کمال حاصل ہے کہ اس پر حرکت و وکون کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ نفس افلاک کی سیر کرتا ہوابھی ایک طرح سے ساکن بھی ہے اور متحرک بھی (۲)‘‘۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی نے اپنی کتاب اقبال کا تصور زمان و مکان میں دوانی اور عراقی کے نظریے کے بارے میں لکھا ہے: ’’ملا جلال الدین دوانی اور صوفی شاعر عراقی نے وقت کا ایک اضافی تصور لیا ہے مختلف ہستیوں کے لیے جو خالص مادیت سے لے کر خالص روحانیت تک مختلف مدارج رکھتی ہیں۔ زمان کی نوعیت مختلف ہے مادی اشیاء کے لیے وقت آسمانوں کی گردش سے پیدا ہوتا ہے۔ اور اس کو ماضی حال اور مستقبل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت کی نوعیت اس قسم کی ہے کہ جب تک ایک دن ختم نہیں ہو جاتا دوسرا دن شروع نہیں ہوتا۔ غیر مادی ہستیوں کے لیے بھی ترتیب اور تسلسل موجود ہے۔ لیکن وقت کا بہائو ایسا ہے جو مدت مادی ہستی کے لیے ایک سال کی ہے وہ غیر مادی ہستی کے لیے ایک دن سے زیادہ نہیں ۔ غیر مادی ہستیوں کے نچلے طبقوںکو درجہ بدرجہ طے کر کے آخر میں ہم ربانی یا الٰہی وقت پر پہنچتے ہیں۔ جو گزرنے یا بہائو کی خاصیت سے بالکل مبراہے اور اس لیے اس میں نہ تقسیم ہے نہ ترتیب اور نہ تغیر۔ یہ دوام سے بھی بالا تر ہے اور نہ اس کا آغاز ہے نہ انجام یہی وہ وقت ہے جس کو قرآن کریم نے ام الکتاب کا لقب دیا ہے اور جس میں ساری تاریخ عالم علت و معلول کے سلسلہ سے آزاد ہو کر ایک مافوق الدوام اب میں سماجاتی ہے۔ ‘‘۔ عراقی سے اس قسم کی طبقہ بندی کا مکان یا فضا کے لیے بھی کی ہے اس کا خیال ہے کہ فضا کے تین طبقے ہیں : ’’پہلا مادی طبقہ اشیا کی فضا کا ہے جس کے تین درجے ہیں پہلے درجے میں وزن دار اشیا کی فضا ہے دوسرے درجے میں ہوا اور اسی نوعیت کی ہلکی چیزوں کی فضا ہے اور تیسرے درجے میں نور یا روشنی کی فضا ہے۔ یہ تینوں فضائیں ایک دوسرے کے اس قدر قریب واقع ہیں کہ ان میں سوائے ذہنی تحلیل اور روحانی واردات کے اور کسی ذریعے سے امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔ ۱؎ فکر اقبال ص ۸۳۰ ۲؎ کتاب مذکور ص ۸۳۱ اس پہلے طبقہ کی فضا میں ہم دو نقطوں کے درمیان ایک فاصلہ کی تعریف کر سکتے ہیںل ۲۔ دوسرا طبقہ غیر مادی ہستیوں یعنی ملائکہ وغیرہ کی فضا کا ہے۔ اس فضا میں بھی فاصلہ کاایک مفہوم موجود ہے۔ کیونکہ اگرچہ غیر مادی ہستیاںپتھر کی دیواروںمیں سے گزر سکتی ہیں تاہم وہ حرکت سے بالکل بے نیاز نہیں ہیں اور حرکت کے ساتھ فاصلے کا مفہوم لازماً پایا جاتا ہے۔ فضا سے آزادی اور بے نیاز ی کا بلند ترین درجہ انسانی روح کو عطا ہوا ہے۔ ۳۔ تیسرا طبقہ ربانی یا الٰہی فضا کا ہے جس تک فضا کے تمام لامحدود اقسام سے گزر کر پہنچتے ہیں۔ یہ فضا ابعاد اور فاصلوں کی تمام قیدوں اور بندشوں سے آزاد ہے اور اسی پر تمام لامتناہیاں آ کر مرتکز ہو جاتی ہیں۔ اس طرح عراقی نے مکان کے جدید تصورات تک یعنی ا س تصور تک پہنچنے کی کوشش کی ہے کہ فضا ایک لامحدود سلسلہ ہے اور حرکیاتی خواص رکھتی ہے ۱؎‘‘۔ علامہ اقبال نے خلیفہ عبدالحکیم اور ڈاکٹر صدیقی میں سے کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ عراقی نے مذکورہ بالا خیالات کا اظہار اپنی کس کتاب میں کیا ہے؟ لیکن علامہ نے ۸ اگست ۱۹۳۳ء کو ایک خط حضرت مہر علی شاہ گولڑوی رحمتہ اللہ علیہ کو لکھا ہ۔ اس میں فرماتے ہیں ۲؎: ’’مولوی سید انور شاہ مرحوم و مغفور نے مجھے عراقی کا ایک رسالہ مرحمت فرمایا تھا اس کا نام تھا (غایتہ المکان ۳؎) فی درایتہ الزمان بہ جناب کو ضرور اس کا علم ہو گا۔ میں نے یہ رسالہ دیکھا ہے‘‘۔ اس کے بعد ۱۳ جون ۱۹۳۷ء کو ایک خط ماسٹر عبداللہ چغتائی کو لکھا۔ اور اس میں فرمایا: ’’ہمارے اسلامی صوفیہ تو ایک مدت سے تعدد زمان و مکان کے قائل ہیںَ یہ خیال یورپ میں سب سے پہلے جرمنی کے فلسفی کانٹ نے پیدا کیا تھا۔ لیکن مسلمان صوفیہ اس سے پانچ چھ سو سال پہلے اس نکتے سے آشنا تھے ۔ عراقی کے رسالے کا قلمی نسخہ غالباً ہندوستان میں موجود ہے او ر میں نے ان کے ایک رسالہ کا جو خاص طور پر زمان اور مکان پر ہے اپنے لیکچروں میں ملخص بھی دیا ہے ‘‘۔ ۴؎ ۱؎ اقبال کا تصور زمان و مکان ص ۲۴۔۲۶ طبع مرکنٹائل پریس لاہور ۲؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۴۴۳ طبع لاہور ۱۹۵۱ء ۳؎ قوسین کے لفظ کاتب نے چھوڑ دیے تھے میں نے ازروئے قیاس بڑھائے ہیں۔ ۴؎ اقبال نامہ حصہ دوم ص ۳۴۴ ان خطوں سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ نے عراقی کے اس رسالے کا حوالہ دیا ہے جا کانام غایتہ المکان فی درایتہ الزمان ہے لیکن عراقی کے کسی تذکرہ نگار نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ ہان فن تصوف پر اس کی د وکتابوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو لمعات اور اصطلاحات صوفیہ کے نام سے چھپ چکی ہیں۔ مگر ان میں زمان و مکان کی بحث ضمناً بھی نہیں ملتی ۱؎۔ رضا لائبریری کے فن تصوف فارسی میں اس نام کا ایک رسالہ محفوظ ہے جس میں زمان و مکان سے متعلق علامہ کی نقل کر دہ باتیں جوں کی توں ہیں مثلاً تیسرے لیکچر کے جو مطالب اوپر لکھے جا چکے ہیں ان کو اس رسالے میں بایں عبارت بیان کیا گیا ہے: ’’بدان…کہ مکان برسہ قسم است قسم اول مکان جسمانیات است قسم دوم مکان روحانیات قسم سوم مکان اللہ تعالیٰ قسم اول برسہ قسم است: مکان جسمانیات کثیف و مکان جسمانیات لطیف و مکان جسمانیات الطف ۔ اما مکان جسمانیات کثیف زمین است۔ مزاحمت و مضائقت رو ظاہر است کہ تایکے فراترنشود دیگرے بجای او نتواند نشست۔ اما مکان جسمانیات لطیف مکان باداست۔ و درین مکان ہم مزاحمت است۔ اما مکان جسمانیات الطف مکان انوار صوری است چو ں نور آفتاب و ماہ و ستارہ و آتش۔ و ہرچہ درمکان جسمانیات لطیف کہ باداست دور است دریں مکان نزدیک است۔ بداں کہ درین مکان جسمانیات الطف مزاحمت و مضایقت نیست قسم دوم از اقسام امکنہ مکان روحانیات است۔ وآں انواع بسیار است ہر چند روحانیے لطیف تر امکان او لطیف تر ۲؎‘‘۔ ’’رسیدیم بہ مقصود: بدان کہ حق تعالیٰ از مکانہا کہ یاد کردیم منزہ و مقدس و متعالی است نہ حلول و دریں مکانہا است نہ مماست آن اورا مقصود است۔ نہ محاذ اۃ آن براجائز است ۔ و مکان او عزو جل فوق ایں ہمہ مکانہاست۔ وآن مکان قرب در قرب است۔ چنانچہ بعد درواز ہیچ وجہ ممکن نیست۔ علیین و مسافلین نزد مکان نامتناہی یک نقطہ است بلکہ کمتر ازان و این مکان را نہ طول است ونہ غرض‘ ونہ عمق‘ ونہ بعد‘ ونہ مسانت‘ ونہ فوق‘ ونہ تحت‘ ونہ یمین ‘ ونہ یسار‘ ونہ خلف ‘ ونہ قدام‘‘۔ ۳؎ ۱؎ کلیات عراقی تبصیح سعید نفیسی چاپ سوم تہران ۱۳۳۸ ھ ۲؎ غایتہ المکان ۱۲ الف ۳؎ ایضاً ۱۲ ب اس کے بعد مطالب بالا کو مثالوں سے واضح کرنے کی سعی فرمائی ہے اورپھر زمان کے بارے میں لکھا ہے : ’’زمان سہ نوع است: زمان جسمانیات ‘ و زمان روحانیات و زمان حق تعالیٰ۔ اما نوع اول بر دو مرتبہ اول زمان جسمانیات کثیف است۔ و آن زمان از حرکات افلاک خیزد۔ چناں کہ پار و امسال و دی و امروز و فردا و درازی و کوتاہی این زمان روشن و معلوم است سال دراز است و ماہ کوتاہ… و درین زمان مزاحمت و مناقضت و مضایقت است۔ تادی ترفت امروز نتوانست آمدن۔ و تا امرو ز نرفت۔ فردا نیاید و اجتماع ایشان دریک زمان محال است۔ مرتبہ دوم زمان جسمانیات لطیف است و این زمان پریان است۔ و ہرچہ در زمان جسمانیات کثیف درا ز است۔ درین زمان کوتاہ است۔ نوع دوم زمان ارواح و روحانیات است۔ و درین قسام بسیار است۔ وغرض ازین یک قسم حاصل می شود و برآن اکتفا فی کنیم و این زمان ملائکہ است۔ بداں کہ ہر چند در زمان جنیات دراز است و بسیار است در زمان ملائکہ کوتاہ و اندک است د درین زمان مزاحمت و مضائقہ نیست۔ ہزار سال گزشتہ باہزار سال ناآمدہ درین زمان جمع تواندآمد و ماضی این زمان جز ازل نیست و مستقبل آن جزا بدنہ و این زمان بازل و ابد محیط نیست و نتواند بود زیرا کہ این متناہی است ۔ و متناہی بہ نامتناہی محیط نشود۔ وورای این زمان حق تعالیٰ است ۔ فہم کن حالیے کہ را کہ اورانہ ماضی بود نہ مستقبل او محیط بد بہ ازل و ابد۔ بلکہ ازل و ابد دران یک نقطہ باشد ازل آن ابد وا بد آن ازل ۔ بلکہ آن را نہ ازل باشد ونہ ابد واگر برازی این زمان نگری ازل وو ابدکم از طرفتہ العین نماید۔ واگراز کوتاہی آن اندیشی ازل و ابدارا دران یک لمحہ یابی و این زمان را گزشتن و آمدن نیست۔ و تعدد‘ و تحدد‘ و تبعض رابدد راہ نیست‘‘ ۔ ۱؎ ’’وہم چنان کہ مکان حق تعالیٰ یکے است زمان او تعالیٰ یکے است۔ وبا آن کہ زمان و مکان او یکے است۔ ہیچ ذرہ از ذرہ ہای آفرینش کہ وے تعالیٰ آن رامحیط نیست۔ صد سال و یک دم بہ نسبت او لیک سان است و ہیچ شی ازو دور نیست۔ بلک باہر ذرہ چنان است کہ کوئی در تمام مملکت جز آن یک ذرہ موجود نیست۔ ۱؎ غایتہ المکان ۲۱ الف وبا آن کہ زمان یکے است ہیچ لحظہ از ازل بے اول و ہیچ لحظہ از ابد بے آخر تقدیر نتوان کرد۔ امانہ قبال اوتوان گفتانہ بعداو۔ این زمان رابہ آن لحظہ چنان بینی کہ گوئی زمان خود جزء این زمان نیست و حق تعالیٰ درین یک زمان نامتعدد کہ تعدوتجزی نہ پذیر د نہ ہیچ متعدد و متجزی درو گنجد۔ قادراست بہ یک قدرت نا متعدد برہمہ مقدورات نامتناہی۔ و عالم است۔ بہ یک علم نامتعدد ہمہ معلومات نامتناہی را۔ و مرید است۔ بہ یک ارادہ نامتعدد ہمہ مرادات نامتناہی را۔ دبینا است بہ یک بینائی نامتعدد ہمہ دیدن ہاے نامتناہی را۔ وشنواست بہ یک شنوائی نا متعدد دہمہ مسموعات نامتناہی را ومتکلم است بہ یک گفتن نا متعدد و ہمہ گفتن ہائے نامتناہی را‘‘۱؎۔ میری دانست میںمذکورہ بالا عبارتوں سے واضح ہو جاتاہے کہ علامہ اقبا ل نے عراقی کے نام سے جو مطالب بیان یے ہیں وہ اسی کتاب سے ماخوذ ہیں۔ اب یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کتاب کانام کیا ہے اور اس کامولف کون ہے۔ رضا لائبریری کے ایک نسخے میں جو ۲ صفر ۱۲۱۲ھ کا نوشتہہے۔ کتاب کا نام دیباچہ مصنف میں غایتہ المکان فی درایتہ الزمان اور خاتمہ کاتب ترقیمہ میں الرسالہ المسماۃ بالمکانیۃ والزمانیۃ لکھا گیا ہے۔ دوسرے مخطوطے میں جو بے تاریخا ہے۔ دیباچے اور ترقیمے میں وہی نام نظر آتے ہیں جو مورخ نسخے میں درج ہیں۔ ملا جامی ن نفحات الانس میں غایتہ المکان فی معرفہ الزمان و المکان نام بتایا ہے۔ یہی نام کشف الظنون میں اختیار کیا گیا ہے مگر اس کے نسخہ مطبوعہ استبول کے حاشیے میں غایتہ الامکان فی درایتہ المان بھی مذکور ہ۔ یہی نام کتاب کے مطبوعہ نسخے کے دیباچے میں نظر آتاہے۔ جسے رسائل نعمت اللہ ولی کے ساتھ میرزا عبدالحسین مونس نعمتہ الٰہی نے ۱۳۱۱ھ ش میں تہران سے شائع کیاتھا۔ خدا بخش لائبریری پٹنہ کی فہرست ۱۷؍۱۷۷ میں بھی یہی نام مندرج ہوا ہے۔ احمد منزوی نے فہرست نسخہ ہای خطی فارسی (ج ۲ ح ۱ ص ۸۲۴) میں اس کتاب کے ۱۷ مخطوطوں کا ذکر کرتے ہوئے عنوان میں دونو ں نام تحریر کیے ہیں۔ ۱ ؎ غایتہ المکان ورق ۲۱ الف تا ۲۲ ب چوں کہ کتاب میں زمان و مکان دونوں سے بحث کی گئی ہے۔ اس لیے میرے نزدیک غایتہ الامکان فی معرفہ الزمان و المکان نام قابل ترجیح ہے۔ مولف کا نام مورخ نسخے کے ترقیمے میں عین القضاۃ سید ہمدانی اور بے تاریخ میں عین القضاۃ سید علی ہمدانی لکھا گیا ہے۔ یہاں یہ صراحت ضروری ہے ک عین القضاۃ ہمدانی سید نہیں ۃیں اور سید علی ہمدانی کا لقب عین القضاۃ نہیں ۔ عین القضاۃ کا نام ابوالفضائل عبداللہ بن محمد المیانجی الہمدانی اور سال وفات ۵۲۵ھ (۱۳۸۴ئ) ہے۔ اور سید ہمدانی کا نام الاامیر السید علی شہاب بن محمد الہمدانی اور سنہ وفات ۷۸۶ھ (۱۳۸۴ئ) ہے۔ مگر ان دونوں کے ترجمہ نگار ان کی کسی ایسی کتاب کا ذکر نہیں کرتے جس کاموضوع زمان و مکان ہو۔ حاجی خلیفہ نے کشف الظنون میں کتاب کے ساتھ مصنف کا بھی ذکر کیا ہے جس کا موضو ع زمان و مکان ہو۔ حاجی خلیفہ نے کشف الظنون میں کتاب کے ساتھ مصنف کا بھی ذکر کیاہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: غایتہ الامکان فی معرفۃ الزمان و المکان رسالتہ فارسیتہ للشیخ محمود الاشنوی اولہ الحمد للہ الذی لا آخر لاولیۃ مصنف کے بارے میں مولانا جامی فرماتے ہیں: ’’شیخ محمود الاشنوی رحمتہ اللہ علیہ کہ صاحب رسالہ غایتہ الامکان فی معرفتہ الزمان و المکان است در گنبد مقبرہ وے مدفون است۔ وااین شیخ محمود از اصحاب و تلامذہ مولانا شمس الدین محمد بن عبدالملک دیلمی است رحمتہ اللہ تعالیٰ کہ ازا کابر مشائخ و محققان است۔ و سخن در حقیقت زمان و تحقیق آن چنان چہ در مصنفات وے مذکور است در مصنفات دیگران کم یافت شود ‘‘ ۱؎ خدا بخش لائبریری کے فہرست نگار نے بھی جامی کا اتباع کیا ہے۔ احمد منزوی کے ذکر کردہ مخطوطوں میں سے ایک نسخہ ۷۰۰ ھ ( ۱۳۰۰ئ) کا نوشتہ ہے کہ اس کے کاتب نے مصنف کانا م تاج الدین محمود بن خدا اد اشنہی لکھا ہے۔ نسخہ مطبوعہ کے آغاز و انجام میں صرف ’’محمود الاثنوی‘ تحریر ہوا ہے۔ بہرحال مذکورہ بالا شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غایتہ الامکان کے مصنف کا نام تاج الدین محمود بن خداداد اشنہی ہے۔ ۱؎ نفخات ۲۸۸ چاپ بمبئی ۱۲۸۴ ذکر مجدالدین طالبہ اب یہ دیکھنا ہے کہ تاج الدین محمود کا عہد کیا ہے۔ نفحات الانس میں اسے مولانا شمس الدین محمد بن عبدالملک ویلمی کا شاگرد بتایا ہے۔ مگر ان کی تاریخ وفات معلوم نہیں ۔ نیز اسے سلطان مجد الدین طالبہ کے گنبد مزار میںمدفون بتایا ہے اور طالبہ کہ فخر رازی (متوفی ۶۰۶ھ ؍ ۱۲۱۰ئ)کا معاصر قرار دیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اشنوی رازی سے متاخر ہے۔ مصنف نے اپنی کتاب میں حسب ذیل اشعار درج کیے ہیں: (۱) عاشقان راچہ روے باتو جز آنک لب بد دزند و در تو می نگرند ۲۔ بردر تو مقیم نتوان بود ہو سے می پزندو می گزرند ۱؎ ۳۔ ژرف دریا اگر گہر زاید ازدہان سگے نیا لاید ۲؎ ۴۔ اندرین بحر بیکران چون غوک دست و پائے بزن چہ دانی بوک ۳؎ ۵۔ اندرین رہ اگرچہ آن نکنی دست و پائے بزن زیان نکنی ۴؎ ۶۔ دارم سخنے یا دنمی یا رم کرد فریاد کہ فریاد نمی یارم کرد ۵؎ ان شعروں میں سے نمبر ۴ اور نمبر ۵ حکیم سنائیؒ کی مشہور مثنوی حدیقتہ الحقیقتہ کے ہیں جو خاتمہ مثنوی کے مطابق ۵۲۵ھ (ا۔۱۱۳۰ئ) کی تصنیف ہے۔ لہٰذا غایہ الامان سنہ مذکور کے بعد کی تالیف ہو گی۔ خدا بخش لائبریری کی فہرست میں یہ بھی کھا ہے کہ نجم الدین رازی (متوفی ۶۵۴؍ ۱۲۵۶ئ)نے اپنی تفسیر قرانم موسوم بہ بحر القائق میںاشنوی کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اشنوی ۶۵۴ ھ سے پہلے فوت ہوا ہے۔ غایتہ الامکان میں ایک جگہ لکھا ہے : از شیخ الاسلام قدس اللہ روحہ شنیدم کہ ہر کہ سہ شبانہ روز درین مقام مقیم تواند بود شگرف مردے باشد ۶؎۔ شیخ الاسلام لقب سے اس عہد میں دو بزرگ مشہور تھے۔ عبداللہ انصاری متوفی ۴۸۱ھ ؍ ۱۰۸۸ء اور احمد جام ژندہ پیل (متوفی ۵۳۶ئ؍۲۔۱۱۴۱ئ) اگر یہاں شنیدم کتابت کی غلطی نہیں تو یہ ماننا ہوگا کہ اشنوی ۵۳۶ھ کے بعد اور ۶۵۴ھ سے پہلے مرا تھا۔ خداکرے کہ کسی محقق کو اشنوی کا سال وفات مل جائے تاکہ یہ گتھی سلجھ جائے۔ آخر میں یہ عرض کر دوں کہ اشنوی منسوب ہے آذربائی جان کے ایک چھوٹے سے شہر اشنہ کی طرف سیوطی نے اسے اشنہی لکھا ہے ۷؎۔ ۱؎ غایتہ المکان ۳ب ۲؎ ایضاً ۳؎ ایضاً ۶ ب وحدیقہ ص ۲۷۷ بمبئی ۱۸۵۹ء ۴؎؎ حدیقہ ص ۱۵۶ طبع مذکور ۵؎ غایہ ۶ ۲ الف ۶؎ غایتہ المکان ۶ ب و مطبوعہ ص ۱۵۶ ۷؎ لب الباب فی تحریر الانساب ص ۱۷ طبع بریل ۱۸۵۱ء و معجم البلدان حموی ۱؍۲۶۲ طبع مصر۱۳۲۳ھ ٭٭٭ اقبال اور اس کے دو معاصر مفکرین لیفٹیننٹ کرنل خواجہ عبدالرشید نہ من تنہا دریں میخانہ مستم ازیں می ہم چوں من بسیار شد مست اقبال کے ان دو معاصڑین میں سے پہلے صاحب صحیفۃ التکوین محمد ناصر الملک(ہز ہائی نس والی چترال) تھے جنہوں نے منظوم احسن التحقیق فی مباحث التخلیق لکھ کر نام پیدا کیا ۔ درحقیقت یہ پہلا فارسی کلام تھا جس میں سائنسی نکتہ نگاہ سے تخلیق کائنات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کی اشاعت سے پہلے وہ خود اپنے تعارف میں لکھتے ہیں کہ انہوںنے متعدد معاصرین کی طرف رجوع کیا جنہوںنے ان کے کلام کی داد دی چنانچہ کہتے ہیں: ’’درین اثنا برائے چند روز اتفاق در لاہور افتاد و بعضے احباب اکابر فضلا مثل سر محمد اقبال مضامین کتاب رانا مکمل تصور فرمودہ لہٰذا از ۱۹۲۸ء تا حال کہ ۱۹۳۶ء است بمطالعہ جدید ترین کتب متعلق این مباحث اشغال درزیدم و ہر یک مسئلہ را کہ اہم دانستم جزو این صحیفہ نمودم‘‘۔ پھر کہتے ہیں کہ: ’’از ناظم مکتبہ علمیہ مرقیہ دارالعلوم جناب استاذ مولوی عبدالرحیم نمود امدادے کافی و شافی یافتم‘‘۔ اس کے معاً بعد تعارف میں لکھتے ہیں: ’’صحیفہ ہذا علامہ مشرقی نیزدر ۱۹۳۲ء بغور ملاحظہ فرمودہ اند و در بعض مسائل علم الحیات مشورہ اصلاح ہم دادہ سعی مصنف رابنظر استحسان دیدہ اند‘‘۔ ان حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے زمانے کے معروف اور جید علماء سے انہوں نے رجوع کیا۔ اس میں کلام کی گنجائش نہیں کہ علامہ اقبال اور علامہ مشرقی اپنے زمانے کے دو فقید المثال عالم تھے جو جدید و قدیم علوم سے بہرو ور تھے۔ اور پھر مولانا عبدالرحیم پشاوری کامقام بھی کچھ کم نہ تھا۔ مگر اپنے خیالات جدید کی تطبیق قرآنی آیات کے ساتھ کی ہے اور یہی ان کے کلام کی شان ہے۔ جدید سائنسی طرز فکر کو فارسی شاعری میں منتقل کرنے والے بہت کم لوگ ہیں۔ اور اگر ہم یہ کہہ دیں کہ ان کے علاوہ اور کوئی بھی نظر نہیں آتا تو ہم مبالغہ سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ آئندہ صفحات میں جن اشعار سے ہم مثالیں دیں گے قارئین کو معلوم ہو جائے گا فرماتے ہیں: ’’کسے کہ جو یائے معارف قرآنی است و بامسائل فلسفہ نیز شغف دارد اگر درمیان بردو تطابق می بینند جرمش چیست؟ واگر معان تنزل بغیر تاویل بایک مسئلہ فلسفہ تو افق بپذیر و دراخفائے آن فائدہ یعنی چہ؟‘‘ اپنے پیش روئوں میں سے بھی تین مستند ہستیوں کی نشان دہی کرتے ہیں جن کا علم دنیائے اسلام میں معروف و مقبول ہے اور جن سے انہوں نے استفادہ کیا ہے لکھتے ہیں: ’’در سنین ماضیہ و حال افراد جلیل القدر وعظیم المرتبت مثل سرسید و مفتی محمد عبدہ و علامہ طنطاوی ہمچون تطابق رامعلوم نمودہ اظہار آن را مفید و دانستہ اندوہا اشاعت آں کوشیدہ‘‘۔ ان کے علاوہ مسیحی علمائوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جن سے انہوںنے استفادہ کیا ہے بلکہ جو مشہور جدید سائنسدان ہیں سب کے نام گنواتے ہیں۔ ان کے نظریات کو بھی بالتشریح حواشی میں ذکر کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اپنے اس منظوم کلام کو جدید ترین بنانے میں انہوں نے کسی علم سے کنارہ کشی نہیں کی بلکہ سب کو درمیان میں لایا گیا ہے اور آیات قرآنی کے ساتھ تطابق کر کے ثابت کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ قرآن حکیم میں موجود ہے: جمیع العلم فی القرآن لکن تقاصر عنہ افہام الرجال تعارف میں ایک مقام پر آ کر کیا عجیب بات کر گئے ہیں لکھتے ہیں: ’’معنے ہر لفظ قرآن در بنفتاد پردہ محجوب و مستوراست و ہرپردہ کہ آزآن و اشود معنی جدید ہویدا می شود کہ بالفاظ دیگر ظہور نور است بخیال احقر اگر فخر الدین رازی حکمت یونان را بہ قرآن دید خوب کردد اگر طنطاوی فلسفہ جدید در حقائق سائنس رادر قرآن یافت کارے مرغوب کرد۔ حقائق قرآنیہ بالا تر از ہمہ است۔ قرآن مجید یک آئینہ ایست کہ مردم ہر عصڑ حسب استعداد خود تابہ حد کمال کہ منتہائے علوم مروجہ آن عصر است صورت کمال خود را اور آن مشاہدہ می توانند نمود و اگر بالفرض بقائے ایں دنیا ملیون ہا سال باشد انکشاف حقائق در علوم مادیہ ہم چنان بامعارف قرآنیہ دوش بدوش خواہد رفت: ہست قرآں سر بسر گفتار حق نیز عالم جملگی کردار حق کے بود کردار و گفتار خدا ہم چو قول ماز فعل ما جدا چونکہ کلام سارا فارسی زبان میں ہے دیباچے میں فارسی زبان کے رواج کے متعلق بہت عمدہ بات کر جاتے ہیں جو کہ پاک و ہند کے فارسی دانوں کے لیے ایک مرغوب شے ہو گی میں ا س کا یہاں نقل کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں فرماتے ہیں: ’’فارسی اختصاصی بہ ایران ندارد بلکہ اکثر قطاع ماوراء النہر و بدخشان و افغانستان بہ آن تکلم می کنند و فارسی در بلاد ہندوستان ہم ازیں ممالک شیوع یافتہ نہ کہ از ایران۔ فارسی ہندوستان ہمان لغت اہل ماورا النہر و بدخشان و افغانستا ن است کہ از عہد سلطان محمود غزنوی تا عصر بابری در خطہ ہندوستان نفوذ و شیوع واشت ۔ پس اگر التزام لغت ایران نکردہ شود چنداں حرج نخواہد بود۔ اصطلاحات علمیہ را در عربی توان جست نہ در ژندو اومقائے زردشت‘‘۔ اب کچھ کلام ملاحظہ فرمائیے اور داد دیجیے کہ ان کا فکر کس قدر بلند ہے نہ صرف فکر بلند ہے بلکہ بعض بعض جگہوں پر تو مسائل کے حل میں اقبال سے بھی اولیت لے گئے ہیں: نیست کس رہبر ترا در این طریق بیہدہ ضایع مکن فکر دقیق (یعنی فارسی زبان میں اس سے پہلے ایسی باتیں تم سی کسی نے نہیں کی ہیں) کان حکمت ہست قرآن مبین غفلت از آن کرد قوم مسلمین از کتاب حق نہ جستہ راز ہا درپے یونانیاں رفتیم ما علم یوناں ناقص و ابتر بود علم قرآن کامل و برتر بود از فلاطوں و ارسطو تابہ کے سوخت علم کہنہ چوں خشکیدہ نے از محیط عرض گفتہ نکتہ سنج ہست یکصد کم الوف بست و پنج ور حساب میل قطرش آمدہ ہفت ہزارو نہ صد و ہم شانزدہ بنگر اندر دور بینی ماہ را تا درون پردہ یابی راہ را کوہ ہا بینی در ان و دشت ہا کان گواہی میدہد بر قول ما منکشف شد رمز ہائے ارتقاء آنچہ بود از چشم ما در اختفا آنچہ دید ستم بہ قرآن کریم حل آن اسرار ادوار قدیم قبل از شرح و بیان ارتقاء از نجوم و اختران گویم ترا شد ز بحث نجم آغاز کتاب پس ہبوطے تابہ جرثومے بہ آب بعد از آں آید صعودے سربسر تابہ دور آدم والا گہر باش در شب محو سیر آسمان کن تماشائے طلسم اختران ایں ہمہ سیارہ ہائے خوش خرام منسلک جملہ بہ سلک یک نظام ہر یکے دارد مدار خویشتن ہر یکے رقصد بہ تار خویشتن احمدؐ آخر زمان خیر البشر گفت بسیار اند دنیا ہا دگر ہست ہریک پر ز مخلوق خدا آدم و پیغمبر ہر یک جدا بیست لک دیگر مثیل کہکشان در فضائے بیکران دیدن توان راز اصل حافرات آن زمان ہست پنہاں از عقول مردمان گفت دانا از اثیر و برق بود آمد ذرات مادی در وجود این اثیر آمد بہ اول کجا ازچہ پیداگشت برق شعلہ زا شد زبرق منفی و مثبت اثیر جابجا پر از گرد ہاے کشمیر تو اثیرش گو ویا نور و ضیاء زین نباید نقص در گفتار ما روشنی امواج مقناطیس و برق گرہمے خوانی اثیرش چیست فرق یا بد اندر پیچ و تاب موجہ صورت مادی وجود ذرہ علت اولیٰ مادہ بود نور گر بپرسی از کجا کرد این ظہور امتحان ذرہ کن در خرد بین عالم صغریٰ بہ بینی اندرین از دخان اجرام را بود ابتدا میدہد ازین خبر قرآن ما این زمان بینی کہ از جذب قمر مدوجزر آید بہر شام و سحر بود کے دور ہیولائے قدیم کے جدا گشتند اجسام سدیم عالم نو ہر زمان سازد خدا چند عالمہا برد سوئے فنا قید ابعاد ثلاثہ را گزار سوئے بعد چار بین شورہ سپار پس ز تحلیل زمان اندر مکان بعد چارم را بگو بعد زکان ہم چنین ھریک ازیں سیارگان دارد ایامے خود و ہم سالیان در تناسب با مسافت ز آفتاب سال ہر سیار را خواہی بباب این بیانم ہست از بس مختصر در کتاب شرح این را در نگر اسی طرح سے اشعار بالترتیب چلتے چلتے ہیں۔ ارض و سما کی تخلیق کے مطابق اور ہر جنس کے لیے علیحدہ علیحدہ اشعار ہیں۔ مگر جس رنگ میں بھی کہتے ہیں جدید تحقیق کو نظر انداز نہیں کرتے۔ یہ ان کا ایک خصوصی وصف ہے۔ وہ تحقیق سے بخوبی آگاہ ہیں اور اصطلاحات سے بھی آشنا ہیں۔ جدید اضافی نظریے ان کے پیش نظر رہتے ہیں اورزمان و مکان کے حدود سے بھی آگاہ ہیں۔ حیات و موت کے نظریوں سے بھی واقف ہیں فرماتے ہیں: ماہ شجاج آمد از معصرات منتظم شد بر زمین بہر حیات چوں بیامد از ہوا بر روئے خاک بر زمین افتاد شو ہولناک آب اندر بحر ہا جوشندہ بود ابر گشتہ بر زمین با رندہ بود نکتہ دیگر ہمے گویم بیاب از کجا آمد ہمہ دریائے آب آنکھ صالح تر بود پائندہ تر انتخاب قدرت است این سر بسر میدہد درس تنازع للبقاء لیس للانسان الا ما سعی دیکھئے کس خوبصورتی سے مسئلہ ارتقاء کو پیش کیا ہے: شخص نادان ترک دنیا میکنند مرد راہ ایجاد اشیاء می کند یہاں لا رھبانیۃ فی الاسلام کی طرف اشارہ ہے اور تحقیق کو تصوف پر ترجیح دی گئی ہے جو اصل اسلام ہے۔ قبل آدم گفت آدم با بدند مردم انبوہ در ھر جا بدند قربت انساں با بوزینہ نیست بین این دو رشتہ دیرینہ نیست نقص در قول خدا ہرگز مجو نقص با باشد بہ فکر خام تو غرضکہ اس طرح قرآن حکیم کے اسرار و روموز کھلتے چلے جاتے ہیں اور بڑی روانی کے ساتھ اشعار بہے چلے جاتے ہیں۔ ہم نے صرف یہاں کچھ انتخاب کیا ہے ورنہ پورا کلام ۱۷۰ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ اس انتخاب سے مقصد یہ بتانا ہے کہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے معاصرین میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ان کہی کی نہج پر سوچتے اور فکر کرتے تھے۔ جدید تعلیم سے بھ مزین تھے اور فکر نو سے بھی آشنا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان کے فکر کے اندر بھی تجدد ہے اور تقلید مفقود ہے۔ علامہ اقبال کے ہاں بھی فکری اجتہاد موجود ہے جو بات دیکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ علامہ اقبال کے ہمعصر مفکروں میں تقریباً تمام کے تمام اس مسلک ے لوگ تھے جو تقلید کے قابل نہیں سمجھتے تھے بلکہ مذہبی رجحانات میں اجتہاد کو ترجیح دیتے تھے۔ یہی ایک ایسا وصف ہے جو قوم کو آگے لے کر بڑھ سکتا ہے قوم پر سکوت طاری نہیں ہونے دیتا۔ اسی طرح کی دوسری شخصیت مصنف راز بے خودی کی ہے۔ یہ شخصیت خان بہادر پیرزادہ مظفر احمد مخلص بہ فضلی قریشی صدیقی نقشبندی آفاقی کی ہے جنہوں نے ۱۳۳۷ء میں یہ مثنوی شائع کی ۔ یہ ۱۹۱۸ء کی بات ہے ۔ یہ مثنوی حیدر آباد کے میر عثمان علی خان بہادر کو ہدایتہ پیش کی گئی ہے لکھتے ہیں: بوسہ خواہد از عطارد خامہ ام باج از زہرہ ستاند چامہ ام ہنیدم ہریانہ ایران من است گوشہ کاشانہ کاشان من است فتنہ آخر زمان شد آشکار آمد اسرار خودی بر روئے کار از خودی سر زد سرون اہرمن شد جہاں یک سر زبون اہرمن ارمغان درد دل آوردہ ام کاروان درد دل آوردہ ام راز عشقم سر بصحرا می نہم آب اشکم موج طوفان می زنم آن سمابم من کہ از نیساں چشم موجہ خون شہیدان می زنم می زنم جان جنون زیر گلیم جام درد عشق پنہان می زنم عقل را طبل جنوں آوارگی کوبکو شہر و بیابان می زنم جام خالی میدہد ساقی مرا سربسنگ یاس و حرمان می زنم می روم تسخیر ایران می کنم خیمہ در تر شیز و شروان می زنم می کنم کار سخن ماند زر سکہ عثمان علی خان می زنم بنگرم تاشہ چہ فرمان می دمد چشم دل بر راہ فرمان می زنم پھر مقدمہ شروع ہوتا ہے اور باین الفاظ: ’’نثر و نظم کا یہ مختصر سا مجموعہ کلام موسوم بہ راز بے خودی مذہبی نقطہ خیال سے تنقیداً جواب ہے ڈاکٹر محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لا لاہور کی مثنوی اسرار خودی کا جو جوان کے خیالات جدت طراز کا تازہ نتیجہ ہے‘‘۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ مثنوی تصو ف کے خلاف علامہ کا اعلان ہے حالانکہ مثنوی کی دوسری اشاعت میں علامہ نے خود اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ مگر وہ اشعار جو حافظ سے متعلق مثنوی سے خارج کر دیے گئے تھے۔ یہ مثنوی راز بے خودی اس کا موجب بنی دیگران احتجاجات کے جو اس زمانے میں پیش آئے علامہ نے جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں کہ انہوں نے حافظ کی شخصیت کے متعلق کچھ نہیںکہا تھا بلکہ مسلمانوں کے دور انحطاط کو اجاگر کیا تھا جو کہ ہماری نگاہ میں درست ہے۔ یہ مثنوی راز بے خودی محض ایک جذباتی اظہار ہے اور چونکہ اس میں بڑے بلند پایہ اشعار ہیں ہم نے ان کو اختصار پیش کرنے کا ارادہ کیا ہے تاکہ اقبال شناس حضرات کو علم ہو جائے کہ اس زمانے میں کس کس قسم کے احتجاج ہوا کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں نامناسب نہ ہو گا کہ ان کا ایک جملہ نقل کر دیا جائے لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب کی مثنوی تصوف کے برخلاف محضر تو ہیں صوفیہ کرام اور انسانی انا یا خودی کی تبلیغ کا اسلامی روایات کے خلاف ایک نیا فرمان اور تازہ اعلان ہے۔ اس مثنوی میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربی اوحد کرمانی شیخ فرید الدین عطار‘ شیخ فخر الدین رازی کو نام بنام اور تمام صوفیہ عظام کو درپردہ بھیڑ بکری قوم مغلوبہ رہبان کا خطاب دیا گیا ہے ارو حافظ کو بھنگڑ بتلایا گیا ہے اور انسان خودی کو خدا سے ملا دیا گیا ہے‘‘۔ علامہ اقبال کے انگریزی مقالات اگرچہ بہت بعد میں کہے گئے مگر ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہی بزرگوں کو اقبال نے کتنا اونچا مقام دیا ہے۔ مثنوی اسرا ر خودی کو یہ نہ سمجھ سکے اور جذبات کی رو میں بہہ کر یہ سب کچھ لکھ گئے۔ اقبال کے کلام میں بڑا عمق ہے اور وسعت بھی جوہر ایک کے سمجھنے کی بات نہیں ہے بہرحال خواجہ حسن نظامی کے احتجاج کے ساتھ قابل مصنف کا بھی ہاتھ نمایاں نظر آتا ہے جنہوں نے مثنوی اسرا خودی کے اشعار کو خارج کروا دیا۔ یہ لوگ اتنا تو سمجھ گئے کہ اقبال نے شیخ اکبر اور عراقی و حافظ کے خلاف تو لکھ دیا ہے مگر یہ نہ سمجھ سکے کہ رومی کے خلاف ایک لفظ بھی انہوں نے منہ سے نہیں نکالا آکر اس کی وجہ کیا تھی اور اس کو تو پیر رومی ہی کہتے گئے: روئے خود بنمود پیر حق سرشت کو بہ حرف پہلوی قرآن بنشت اب مثنوی اسراربے خودی سے چند اشعار نقل کیے جاتے ہیں ذرا غور فرمائیے وہوہذا: زجام فیضی حافظ بسکہ سرمست سخن باشم ایاغ چامہ من تشنہ دارد شراب آسا مقدس نسخہ سر الٰہی بودہ ام فضلی چہ غم نیتم آگاہ راز خود کتاب آسا اس کے بعد ہم نے یہی مناسب سمجھا ہے کہ اپنے تذکرہ شعراء پنجاب سے مصنف کے حالات اور کچھ انتخاب نقل کر دیا جائے چونکہ یہ تذکرہ فارسی زبان میں ہے اس لیے عیناً ویسے ہی اس کو درج کر دیا جاتا ہے۔ جو قارئین کے لیے بموجب استفادہ ہو گا اقبال کے شیدائیوں کے لیے ترجمہ کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ ابو سلیمان پیرزادہ کہ اسم تاریخی او مظفر احمد بود بتخلص فضلی و لقب خان بہادر معروف بود از اولادو احفاد حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید بود۔ بعد از پایان تحصیلات خود دارد شہر لکھنو گردید و در سال ۱۸۹۰ء بمنصب ضلعداری ۱؎ مامور گردیدو بشہر ہائے ملتان لاہور۔ ساہی وال و فیروز پور رفتہ و انجام وظیفہ نمود دارا ی شخصیتی بسیار پر احترام و خوش وضع بود۔ او صوفی بود و علاقہ شدیدی نسبت را باو امر اسلام داشت اہل مطالعہ و شعر بود و کتاب خانہ مجللی درست کردہ بود مجموعہ ای بزبان فارسی تحت عنوان گلبانگ سخن چاپ کردہ بود آثارش عبارتست از: ۱۔ نقیب الاولیاء ۲۔ سیمرغ ۱؎ ضلعدار بمعنی شہر دار است ۳۔ کارنامہ اسلام ۴۔ مثنوی لسان العرفان ۵۔ گلبانگ سخن ۶۔ قصیدہ بلیغ البیان ۷۔ فریاد و فضلی و مثنوی واردات دل ۸۔ مثنوی راز بیخودی مرحبا ای یادگار نزہت باغ ارم ؤحبذا ای نو بہار گلشن مینو سواد حسن برخاک جگرگیر تو می نازو بلی خیزد از خاک ہمایوں تو عذرا یا سعاد چشمہ آب تو باشد ہمدم آب حیات گوشہ دشت تو باشد روکش ربع سداد نخواہم رفت در ایران بہ تحصیل زبان دانی کہ کاشا نست در ہندوستان کاشانہ خویشم برتر از آسمانست پایہ ما آسمانست زیر سایہ ما شاعر ملی پاکستان مولانا اقبال لاہور در زندگی خود کتابی منظوم تحت عنوان اسرار خودی بچاپ سانیدہ بود ولی بدلیل اینکہ روحانیون آن زمان این کتاب را بنظر تعصب دیدہ و فلسفہ آنرانمی فہمیدند شلوق عجیبی را براہ انداختند روحانیوں می خواستند کہ مردم را در عقیدہ ہائے اشراقیت افلاطونیت و قبر پستی و کرامات خارق العادہ کشانیدہ و بہدف ہائے شخصی خود برسند اما اقبال لاہوری می خواست کہ آں عقیدہ راز بے خودی نگاشت و بتکذیب اقبا ل لاہور پرداخت انتخابی ازان مثنوی مدین قرار است: وادی ایمن شد از جام تجلی زار مست طور مست و جلوہ مست و نور مست و نار مست جوش سرمستی ست مستان راجو دہر کار مست نام ہمچون ننگ مست و ننگ ہمچون عار مست فصل گل مستانہ آمد غنچہ مست و خار مست بلبل مستانہ مست و نالہ ہائے زار مست مست مستانم بلی مستانہ می گویم سخن بادہ مست و جام مست و نشہ سرشار مست فضلی مستانہ می گویند کز می توبہ کرد آنکہ می گردید دی در کوچہ و بازار مست من نمی گویم کہ قیصر کن مرا صاحب دیہم و افسر کن مرا از تو می خواہم ترا ای کام بخش ای ہمہ بخش ہمہ فرجام بخش دین و دل می خواستم فضلی نثار عشق دوست عقل خود بین از سعادت باز میدارد مرا بادہ ام آن دہ کہ مدہوشم کند یاد خود داری فراموشم کند وہ چہ می سرجوش کیف بے خودی آتش خاموش کیف بے خودی ریختند آن بادہ اندر جام من گشت دور بے خودی فرجام من وہ چہ بودستم چہاد اگشتہ ام خویشتن را خود تماشہ گشتہ ام او المستی گفت من گفتم بلے خواند او یا عبد و من یا ربنا مست پیمان شراب لم یزل برہمان عہدم کہ بستم در ازل مرحبا نور صفائے سینہ ام احسن التقویم را آئینہ ام او بمن نزدیک از جان منست عین اویم آن او آن منست بندہ را فرعون بسامان می کنی با خدا دست و گریبان می کنی چوں بخود می بیند از روے خودی عیب را گوید جمال معنوی مست گردد چوں بیوے خویشتن از خودی گیرد صد آہو برختن خویش را بر خویشتن تقسیم کرد خود پرستی خلق را تعلیم کرد علم او طومار عصیان در بغل خالی از حسن عمل پر از خلل ہرچہ گفتی از خودی حاشا غلط سر بسر از لفظ تا معنی غلط در حیات کس خودی را دخل نیست خلق عالم نورس ایں نخل نیست در حریم حق خودی را نیست بار در حرم مزدور دیوان راچہ کار از خودی ناکام مستی جام مے بے خبر از لذت فرجام مے ضد ہر شئی ہست ہرشی را نشان سایہ را نور و زمین را آسمان ضد آن چیزی کہ نام او خودی است چہرہ پرداز وجود بند گیست بندہ شد از بندگی تا بندہ تر زندہ تر ار زندہ تر فرخندہ تر مقصد تخلیق انسان بند گیست بندگی سر ہست و سامان بند گیست قال و قیل از علم و فن مقصود نیست شور بلبل از چمن مقصود نیست بسکہ جرمن تیوری ینگ من است صحبت اقبال من رنگ من است آدم و حوائے من باشد خودی مادر و باباے من باشد خودی کیستم آن شاعر جادو بیان می زنم برہم طلسم آسمان الغرض از سحر گفتار شغال قوم شد مسحور پندار شغال عقل را گر صنعت و ایجاد ہاست جہل را ہم حجت و اسناد ہاست این قدر برکود مچین نار خودی آدمی را بز مخوا ں اے آدمی آدم است او گوسپند و میش نیست نوش تریاق است زہر نیش نیست مرد دانا پختہ می گوید سخن ہرچہ گویس سختہ می گوید سخن چیست دنیا از خودی ہا دم زدن نی قماش و نقرہ و فرزند و زن آنچہ اندر زندگی مردن بود از خودی خود را برون آوردن بود ای کہ حافظ شماتت می کنی رند میکش را ملامت میکنی ای بعلم خویش مخمور عمل توچہ دانی سر مستان ازل توچہ میدانی مے و میخانہ چیست؟ ساقی و بزم و خم و پیمانہ چیست؟ نیر اقبال او تابندہ باد آسمان چون چاکر انش بندہ باد می کنم سرچامہ ای اندر دعا از ملک آمین اجابت از دعا ٭٭٭ اقبال اور غالب کے ذہنی رشتے ڈاکٹر عبدالحق اقبال برصغیر کے ہی نہیں بلکہ بنی نوع انسا ن کی تہذیب کے ایک لازوال برگزیدہ شاعر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔ ان کے فکر کی اساس کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ انسان کی عظمت و برنائی کا وہ آفاقی تصور ہے جو صحف سماوی کے علاوہ کہیں اور دکھائی نہیںدیتا۔ یہی تصور ان کی فکر و نظر کا نقطہ پرکار حق ہے۔ جس کے مختلف نام ہیں۔ اقبال اسی انفرادی نقطہ نظر کی وجہ سے انسانی تہذیب کا ناگریز جز بن چکے ہیں۔ مشرقی ادبیات میں یہ شرف صرف اقبال کو حاصل ہے۔ وہ ایک عظیم فن کار ہیں… اس عظمت میں وسعت فکر اور گہرائی کے ساتھ دلکش شعری اسلوب اظہار کا عنصر بھی شامل ہے۔ شعر اور فلسفہ کا جتنا خوب صورت امتزاج اقبال کے یہاں ملتا ہے دنیائے ادب میں نظر نہیں آتا۔ اسے ہم فن کی معراج تو کہہ سکتے ہیں مگر فلسفہ نہیں۔ غالباً اسی وجہ سے اقبال کی فلسفیانہ حیثیت کو وہ مقام نہیںمل سکا جو شاعری میں حاصل ہے۔ بہرحال یہ حسن امتزاج نقطہ نظر اور تنقید و تبصرہ کی سخت گیری کو بے معنی بنا دیتا ہے۔ امتزاج کا پہلو بے حد متنوع دلکش اور پیچیدہ ہے۔ افکار کا تلاطم اور ابلاغ کی کم مایگی نے اس پیچیدگی میں اضافہ کیا ہے۔ ہر بڑے مفکر اور فن کار کی طرح اقبال کو ترسیل کی تشنگی کا باربار احساس ہوتا ہے۔ شمع نفس کا سینے میںفروزاںہونا اورتاب گفتار کا بس کہنا اسی شدت احساس کا برملا اظہار ہے۔ اس مقام پر فلسفہ و شعر حرف تمنا کی طرح پیکر خاموش دکھائی دیتے ہیں۔ اقبال کی طرح غالب کے یہاں اور بھی الفاظ و اظہار کی تنگ دامانی کا گلہ ملتا ہے۔ مجھے انتعاش غم نے پئے عرض حال بخشی ہوس غزل سرائی تپش فسانہ خوانی یہی بار بار جی میں میرے آئے ہے کہ اقبال کروں خوان گفتگو پر دل و جان کی میہمانی مطالعہ اقبال بہت ہی صبر آزما کام ہے۔ ہم دامن کشاں یا سرسری گزر نہیں کر سکتے۔ ہر قدم پر ٹھوکر کھانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ لیکن یہ محرومی ہو گی کہ دانائے راز کے افکار کو حرف آخر مان لیں اور تنقید و تبصرہ سے دست کش ہو جائیں جبکہ اقبال بے پردہ دیدن۔ اور جستجو کو بقائے زندگی سمجھتے ہیں۔ اقبالیات کا ذخیرہ بہت حد تک مایوس کن ہے اور افسوس ناک حد تک تاویلات کا دفتر بے معی بن کر رہ گیا ہے۔ کچھ ناقدین نے اسے چیستاں بنا دیا ہے کچھ نے مشرق اور کچھ نے صرف مغربی افکار کا چربہ قرار دیا ہے۔کم و بیش غالب کے ستھ یہی کچھ ہوا ہے حالانکہ دونوں فن کاروں کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے انہیں جیسا ذہنی افق بھی درکار ہے اور بہت کم اہل نظر ہیں جو اس ذہنی افق تک پہنچ سکتے ہیں۔ ان کے منصب و مقام کے عین کے لیے دیدہ بینا اور فروغ نظر چاہیے تاکہ ذکر و فکر کے سرچشموں کا سراغ لگایا جاسکے۔ اور تخلیق کے پراسرا ر رمز کا انکشاف ہو سکے اور ان کی شخصیت اور فنکی افہام و تفہیم کو سہل الحصول بنایا جا سکے۔ اقبال کے فکر و فن اور تخلیقی فعالیت کے سرچشموں کی نشان دہی میں یک طرفہ احکامات صادر کیے گئے ہیں۔ کبھی اسے کلیتہ مغرب اور کبھی مشرق سے ماخوذ بتایا گیا ہے جبکہ اقبال نے مشرق و مغرب کیدبستانوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔ یوں بھی ان کی نظر میں مشرق و مغرب روح و مادہ اور جدید و قدیم کی بحث دلیل کم نظر ی ہے۔ اچھے اقدار اور صحت مند افکار کی اہمیت ہے باقی سب مکرو فسوں ہے۔ اقبال نے اپنے فلسفہ و شعر کو زیادہ متنوع ہمہ گیر اور قابل عمل بنانے کے لیے مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد افراد و افکار سے مدد لی ہے۔ مارکس‘ مسولینی‘ رومی اور نطشے اس جھرمٹ میں ساتھ ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ گویااقبال نے مختلف ماخذ سے اپنے ذہن کی سیرابی کی ہے اور یہی ان کے سرچشمے ہیں۔ جن پر ابھی خاطر خواہ نظر نہیںڈالی گئی ہے۔ یہاں اقبال کے ایک کم معروف مگر اہم سرچشمہ کی طرف آپ کو متوجہ کرانا چاہتا ہوں۔ جب کبھی فکر اقبال کے مشرقی ماخذ کی نشان دہی کی جاتی ہے تو مولانا رومی کا ذکر ناگزیر بن جاتا ہے۔ کیونکہ اقبال نے ان سے بڑی عقیدت کا اظہار کیا ہے جیسے: پیر رومی مرشد روشن ضمیر یا : صحبت او خاک ما اکسیر کرد یا: بوسہ زن بر آستانے کاملے عقیدت کے اظہار میں اقبال نے غلو سے بھی کام لیا ہے اور بہ قو ل مجنوں گورکھپوری اس عقیدت سے اقبال کی فلسفیانہ حیثیت کو نقصان بھی پہنچا ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کا خیال صحیح ہے کہ برسغیر میں اقبال کی بدولت رومی شناسی میں اضافہ ہوا ہے۔ اقبال نے اس حد تک استفادہ نہیں کیا ہے جس حد تک کہ وہ نیاز مند نظر آتے ہیں۔ بلکہ دونوں کے افکار میں متضاد مقام ہی آتے ہیں۔ مولانا رومی کے علاوہ اقبال کے یہاں فارسی کے دوسرے فن کاروں اور حکماء کا بھی حوالہ ملتا ہے۔ جیسے حافظ ‘ سعدی صائب‘ بیدل ‘ غنی ‘ سنائی عطا وغیرہ۔ اقبال نے اپنے اسلو ب و آہنگ کا جلا دینے مین ان فن کاروں سے استفادہ کیا ہے۔ اوری ہ کوئی نئی بات نہیں۔ہر مفکر ہر فنکار اپنے اسلاف اور ماضی کے کارناموں اور ان کی یافت کا سہارا لے کر اپنی انفرادیت کو فروغ دیتا ہے ان سے مستفید ہوتا ہے اور منحرف بھی۔ سلسلہ فکر انسانی کی ارتقاء کا یہی اصل الاصول بھی ہے ماضی اور اسلاف کا عظیم سرمایہ فکر آنے والی نسلوں کی رہ نمائی کرتاہے اسی کے سہارے تعمیر نو کا عمل جاری رہتا ہے اقبال کے نغمہ و فن کا ایک اہم سرچشمہ مرزا غالب کا شعر و فن ہے۔ جس سے اقبال کے اسالیب فن کا رشتہ استوار ہوا ہے۔ دونوں کے فکر و خیال میں ایک حد تک مشابہت موجود ہے۔ اگرچہ اختلافی پہلو بھی خاصے ہیں۔ ہم غالب اور اقبال کے فکری رشتے پر گفتگو کرتے وقت یہ بات بھی پیش نظر رکھیں کہ غالب مفکر نہ تھے اور نہ فلسفیانہ ادب کے شناور نہ ان کا کوئی انفرادی فلسفہ حیات ہے۔ ہاں وہ ایک محدود سماج اور فضا میں دیدہ ور فن کار تھے۔ نظر میں بالیدگی اور گہرائی تھی عام انسانوں کی ذہنی سطح سے اونچے اشیاء کائنات پر سنجیدہ اور فکر انگیز نظر رکھتے تھے۔ ان کا دور اور سماج کا انحطاط سے دوچار تھا۔ اس دور انحطاط میں غالب جیسے عبقری کا وجود ایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔ اور اسی ذہن رسانے آنے والے دور کو متاثر کیا ہے۔ ہاں اگر وہ اقبال کے زمانے میں ہوتے تو شاید علم و فکر کے معیار اور منہاج پر پورے اترتے اتنا تو تسلیم شدہ ہے کہ غالب پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہمارے شعر و ادب میں فکر و نظر کی گہرائی اور اس کے وسیع ممکنات کا جائزہ لیا ہے۔ ہمیں انفس و آفاق کے مسائل پر گہری اور سنجیدہ نظر کی طرف متوجہ کیا۔ اظہار کے سانچوں کو نئی روشنی دی۔ جذبہ و احساس کو فکر کی ہمہ گیری دی۔ زبان و اسالیب کی دنیائے نو کو پوری کامیابی کے ساتھ پیش کیا ۔ میرو انشاء کی زبان میں گم ہو جانا یا مطمئن ہو جانا شعر و ادب کی معراج نہیں۔ ایک ایسی بان کی بھی ضرورت تھی کہ جو فکر و فلسفہ کی متحمل ہو سکے۔ اس اہم تقاضے کو سب سے پہلے غالب نے محسوس کیا اور اقبال کے لیے بہت سے مرحلے آسان کر دیے۔ غالب صحیح معنوں میں اقبال کے پیشرو ہیں۔ فکر و اسلوب کی یہی میراث تھی جس سے فائدہ اٹھاؤتے ہوئے اقبا ل نے بڑی عمارت تیار کی اور زبان و اسلوب کو اوج ثریا تک پہنچا دیا۔ اردو کے تمام شعراء میں صرف غالب ہی اقبال کی رہ نمائی کر سکے۔ اس ضمن میں خود اقبال کے اقرار و اعتراف کا دائرہ وسیع ہے یہاں اسی جمال کی تفصیل پیش کرنا چاہوں گا۔ غالب سے اقبال کی ذہنی قربت ان کی شاعری کے ابتدائی دورمیں شروع ہو جاتی ہے۔ ان کی فکری زندگی کا یہ تشکیلی دور ہے اور اقبالیات کے مطالعہ میں بہت ہی نتیجہ خیز ہے۔ ان کی شاعری انیسویں صدی کی آخری دہائی سے شروع ہو جاتی ہے اس دور کا کلام باقیات اور نودرات کے مجموعوں میںموجود ہے۔ اس حصہ کلام کا بیان اور اسلوب غالب کے اسالیب سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اقبال کے یہاںاسماء و اعلام تلمیحات اورحوالوں کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔ یہ سلسلہ اسی دور سے شروع ہو جاتا ہے۔ اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب کے مسلمانوں سے ۱۸۹۸ء کی نظم ہے۔ اس میں طوسی رازی سینا غزالی ظہیر‘ سعدی وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے اور اسی دور سے تضمینیں بھی شروع ہو جاتی ہیں۔ ان تضمینوں سے ذہن اقبال کی پسندیدگی اور ندرت خیال کا اندازہ ہو تا ہے اوران سے ان کے خیال کی تائید اور توثیق ہوتی ہے۔ مولانا روم سعدہ‘ حافظ‘ قدسی‘ بیدل‘ صائب خان آرزو کے ہمراہ غالب بھی دکھائی دیتے ہیں بلکہ غالب کے اشعار کی تعداد دوسرے بھی شعرا کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ایک نعتیہ نظم میں یہ مشہور مصرعہ ملتا ہے: آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا غالب کے عنوان سے بانگ درا میں جو نظم موجود ہے وہ مخزن ستمبر ۱۹۰۱ء میں شائع ہوئی تھی۔ دیوان غالب کا پہلا شعر اس نظم کے دوسرے بند کا آخری شعر تھا: نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا بعد میں یہ شعر نظم میں شامل نہ ہو سکا۔ بانگ درا کے ابتدائی حصہ میں ایک اور نظم ہے جس کا عنوان شمع ہے اور دسمبر ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں بھی مندرجہ شعر ۶ بند کا شعر تھا جو بانگ درا کے متن میں شامل نہ ہو سکا: از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ طوطی کی کوشش جہت سے مقابل ہے آئینہ غالب ذولسان شاعر ہیں اور ان کے مطابق ان کے کمال فن کا بہترین اظہار ان کی فارسی شاعری میں ممکن ہو سکا ہے وہ اس پر نازاں بھی تھے برصغیر کے فارسی شعرا کو اہل زبان ہونے پر شدید احساس رہا جس سبک ہندی کی عصبیت اور لسانی خود مختاری کی تائید میں خاں آرزو نے آواز بلند کی تھی وہ غالب کے دل کی آوا ز تھی۔ اور اقبا بھی اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتے تھے۔ نظم ابر کہسار ۱۹۰۱ ء میں شائع ہوئی تھی۔ موضوع کی رعایت سے اقبال نے بہت ہی برمحل شعر کا انتخاب کیا تھا اور یہ شعر خان آرزو کا ہی ہے: تند و پر شور و سیہ مست ز کہسار آمد میکشاں مژدہ کہ ابر آمد و بسیار آمد غالب نے قاطع برہان میں یہ شعر بدون ذکر شاعر نقل کیا ہے ۔ اقبال غالب کی اردو و فارسی شاعری ونثری تحریر سے بھی اچھی طرح باخبر تھے۔ اس سلسلے میں ایک اور بھی پہلو نمایاں ہے۔ قیاس کہتا ہے کہ غالب شناسی کے لیے مولانا میر حسن نے اقبال کو مزید شوق دلایا ہو گا۔ اقبال پر مولانا کی سب سے گہری چھاپ ہے اس اعتراف پر نظر ڈالیے اور اقبال کی زبان سے سنیے: مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلا ہے ٭٭٭ وہ شمع بارگہ خاندان مرتضویؐ رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجھ کو اس کے علاوہ اقبال نے ایک خط میں کہیں زیادہ فکر انگیز بات کہی ہے: ’’یہ بڑ ے بزرگ عالم اور شعر فہم ہیں۔ میں نے انہیںسے اکتساب فیض کیا ہے‘‘۔ اس وجہ سے ان کو اقبال گر بھی کہا گیا ہے۔ مولانا شعر و ادب کا بہت ہی پاکیزہ ذوق رکھتے تھے۔ غالب جو برصغیر کی فارسی شاعری کے آخری روشن چراغ تھے انہیں مولانا میر حسن کیسے نظر اندا زکر سکیت تھے یہ ہو سکتا ہے کہ غالب تک رسائی میں مولانا سے تعلق کو بھی دخل ہو۔ اس سے قطع نظر مولانا میر حسن سر سید اور ان کی تحریک کے دل سے قدرداں تھے جبکہ پنجاب کے علماء سخت مخالفت کر رہے تھے۔ مولانا کا یہ تعلق ان کی روشن خیالی وسیع النظری کی دلیل ہے۔ خطوط سر سید کے مطالعہ سے بھی یہ بات روشن ہوتی ہے کہ عبدالمجید ساک نے ذکر اقبا ل میں لکھا ہے کہ سرسید کبھی پنجاب جاتے مولانا سے ملتے اور ان کے ساتھ قیام فرماتے اور مولانا بھی ہر طرح سے تعاون کے لیے تیار رہتے۔ سرسید کو غالب سے جو تعلق تھا وہ بھی پوشید ہ نہیں ہے۔ اس طرح سر سید اورمولانا میر حسن کے واسطے سے بھی اقبال کی ذہنی قربت کی نشان دہی کی جا سکتی ہے اور گم شدہ کڑیاں مربوط ہو سکتی ہیں اور ان دونوں فن کاروں کے ذہنی اور فکری رشتوں پر مزید روشنی کا امکان ہو سکتا ہ۔ غالب سے اقبال کی ذہنی دل چسپی کے دوسرے محرکات کے علاوہ خود ان کا اکتساب اور انتخاب نظر ہی کیا کم ہے۔ اتنی بات تو واضح ہے کہ اردو کے شعری سرمایہ میں غالب ہی وہ فن کار تھے جن کے یہاں ایک بلند آہنگ فن کار کا وجود اور اس کی دلآویز شخصیت کے متنوع پہلو نظر آتے ہیں۔ غالب کا اسلو ب اور پیرایہ بیان اقبال کے لیے انتہائی دلکش تھا۔ ۱۹۰۱ ء میں لکھی جانے والی نظم کا یہ شعر یہی ثبوت فراہم کرتاہے: شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر خندہ زن ہے غنچہ دلی گل شیراز پر گل شیراز سے مراد صر ف عرفی ہی نہیں ہے بلکہ اقبال نے آسمان شیراز کے تینوں ستاروں سعدی حافظ اور عرفی کو مخاطب کیا ہے جو غالب کے ہمنوا نہیں بن سکتے۔ ہاں اگر کوئی حریف و ہمنوا بننے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ گلشن ویمر میں خوابیدہ گوئٹے ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے اس نظم کے تجزیے میں ایک اہم پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ’’غالب کی اہمیت اقبال کی نظر میں اس لیے بھی ہے کہ غالب ایک تہذیب کا نمائندہ اور ایک عظیم فکری روایت کا وارث و ترجمان بلکہ آخری وارث و ترجمان تھا۔ جس کے بعد جہان آباد دہلی کے بام و در سراپا نالہ خاموش بن گئے گویا غالب کی قدر و قیمت اس لیے بھی ہے کہ وہ ان تہذیبی و فکری قدروں کا شناسا اور معیار شناس تھا جن کی معیار شناسی خود اقبال کے فکر و فن کے امتیاز خاص ہے‘‘۔ جہان آباد کے اجڑنے اور تاراج ہونے کا دل دوز بیان اقبال کے یہاں جابجا ملتا ہے۔ اور اسی تہذیبی زوال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہے زیارت گاہ مسلم گو جہان آباد بھی سرزمین دلی کی مسجود دل غم دیدہ ہے ذرے ذرے میں لہو اسلاف کا خوابیدہ ہے اس تباہی کو غالب نے دیکھا تھا اوراقبال نے محسوس کیا تھا۔ یہ احساس دنیائے فکر میں تلاطم خیز بن جاتا ہے اقبال کی پوری شاعری کھوئے ہوئوں کی جستجو کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے علاوہ اس نظم میں جس بنیادی نکتے کی طرف شاعرمتوجہ ہے وہ غالب کی فکری ہر بلندی ہے۔ غالب کی ہستی فکر انسانی کے ممکنات کی بشارت دینے والی تفسیر رمز کائنات دل افروز سخن کاداناں لب اعجاز سے نطق کو ناز بخشنے والی‘ فکر کامل کی ہمنشیں‘ فخر روزگار اور گوہر آب دار جیسے کلمات سے متصف ہے۔ مرثیہ داغ ۱۹۰۴ء میں لکھا گیا۔ اس کا مطلع عظمت غالب سے شروع ہوتا ہے: عظمت غالب ہے اک مدت سے پیوند زمیں مہدی مجروح ہے شہر خموشاں کا مکیں غالب سے اقبال کی شیفتگی بڑھتی جاتی ہے۔ ان کے اسلوب و افکار کے دوراہے ساتھ ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ عظمت و جلال کا پرشور وپروقار لب و لہجہ‘ تند و تیز تخیل احتاجی و انقلابی رجحانات جوش انگیزی و ولولہ انگیزی‘ تب و تاب ‘ سوز و ساز خلش و اضطراب کے ساتھ ماتم یک شہر آرزو اور مقام آرزو مندی پیہم ہم سفر اور ہم راز دکھائی دیتے ہیں اور یہ کاروان سفر: بیا کہ قاعدہ آسماں بگر دانیم تک پہنچتا ہے۔ غالب سے اقبال کا شغف صرف ایک دور یا ایک زمانہ تک محدود نہیں بلکہ ا س میں برابر توسیع دکھائی دیتی ہے۔ ۱۹۱۰ ء کا زمانہ ان کی شخصیت اور فکر کا انتہائی پیچیدہ دور ہے۔ اس دور میں وہ اپنی یادداشت قلم بند کرتے ہیں جو ۱۹۶۵ء میں Stray Reflection کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ پچھلے سال اس خاکسار نے شائع کیا ہے۔ شذرات فکر اقبال کے اس مختصر مجموعہ کلام میںاقبال نے اپنی گہری اور فکر انگیز بصیرت کا اظہار کیا ہے ۔ یہ اقبال کی کارگہ فکر کا ایک ستارہ ہے۔ غالب کی قدر شناسی کی ایسی بشارت ہم حالی سے بھی نہ سن سکے۔ As far as I can see Mirza Ghalib - the persian poet - is probably the only permanent contribution the We - Indian Muslims have made to the general Muslim Literature. Indeed he is one of those poets whose imaginations and intellect place them above the narrow limitations of Creed and Nationality. His recognition is yet to come. اقبال کی اس حیرت انگیز پیش گوئی پر غور کیجے تو اعتراف کرنا پڑے گا کہ اقبال کا یہ کہنا بے جا نہیں: بنتے ہیں مری کارگہ فکر میں انجم لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان عظمت غالب کے بارے میں یہ دوسری پیش گوئی ہے پہلی بار خو د فن کار کے قلم سے ارشاد ہوا تھا: شہرت شعرم گیتی بعد من خواہد شدن دوسری بار ایک دوسرے عظیم فن کار نے بشارت دی تھی ۔ آج کے دور کی غالب شناسی کو سامنے رکھیے تو اس کی معنویت کا اندازہ ہو سکے گا۔ غالب صرف مغل تہذیب کا ہی زائیدہ نہیں بلکہ ہماری ہزار سالہ تہذیب کا عکس و اظہار کا پیکر ہے۔ اس کے علاوہ اس مختصر سی ڈائرہ میں اقبال کی فکری سرگزشت کا ایک اہم ترین انکشاف ملتا ہے۔ جو اس کے علاوہ کہیں اور نظر نہیں آتا۔ اس سے اقبال کی فکری سرگزشت اور قلبی واردات کا پتہ چلتا ہے۔ مرزا غالب سے براہ راست استفادہ کا ذکر بھی یہیں ہوا ہے۔ عبارت ملاحظہ ہو: I confess I owe a greate deal to Hegel, Goethe, Mirza Ghalib, Mirza Abdul Qadir Bedil, and words worth. The first two led me in to the inside to the things , the third and fourth tought me how to remain oriental ain spirt and expression after having assimilated foreign ideals of poetry, and the last saved me from athiesm in my student days. جاوید نامہ (۱۹۳۳ئ) اقبال کی فکری سرگزشت اور واردات قلبی کا بھرپور اظہار ہے۔ ی صرف شاعر کا ہی نہیں بلکہ فکر و نظر کی بھی معراج ہے۔ مختلف عالم کیف کا دلآویز منظر اس سفر میں پیش کیا گیا ہے حضور رسالتمآبؐ مسیح ابن مریم، گوتم، زرتشت، جمال الدین افغانی ، نطشے کے ساتھ جلیل القدر فن کاروں کی فہرست میں غالب بھی شامل ہیں اور فلک مشتری پر ملاقات ہوتی ہے۔ اس فلک پر حلاج، غالب اور قرہ العین حیدر نموداری ہوتی ہیں۔ نوائے غالب اس بڑے احتجاجی آواز سے شروع ہوتی ہے جو غالب کا پسندیدہ موضوع رہا ہے: بیا کہ قاعدہ آسماں بگردانیم قضا بگردش رطل گراں بگردانیم اقبال نے لکھا ہے: غالب و حلاج و خاتون عجم شور ہا افگندہ در جان حرم ایں نواہا روح را بخشند ثبات گرمی او از درون کائنات غالب و اقبال کی ذہنی اور فکری مشابہتوں کے بہت سے پہلو باہم مشترک ہیں۔ اس اشتراک کے ساتھ دونوں کی تخلیقی فعالیت اور شخصی کوائف میں بہت سی پیچیدگیاں ایک سی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں ان پہلوئوں کا تذکرہ مقصود نہیں اقبال کو غالب سے جو ذہنی تعلق ہے۔ وہ مزید غور طلب ہے۔ جس تعلق کا آغاز شاعری کے اولین دور سے ہوا تھا وہ پایان عمر تک برقرا ر رہا۔ سامنے کی ایک مثال دینا چاہوں گا بال جبریل کی نظم فرمان خدا فرشتوں کے نام ۱۹۳۶ء کے لگ بھگ لکھی گئی۔ یہ نظم بہ قول مجنون گورکھپوری کمیونسٹ مینی فیسٹو قرار دی جا سکتی ہے۔ اور مارکس بھی اس سے زیادہ انقلابی خیال نہ پیش کر سکے۔ اسی نظم کے اس شعر پر غور کیجیے اور غالب کے اسلوب و آہنگ کی پیروی کا ایک نادر نمونہ ملاحظہ کیجیے: حق را بسجودے صنماں رابطوافے بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو غالب کے اس مشہور قطعہ کے اشعار پر نظر ڈالیے: فرصت اگرت دست و ہد مغتنم انگار ساقی و مغنی و شرابے سرودے زنہار ازاں قوم مباشی کہ فروشند حق رابسجودے و نبی را بہ درودے سنائی اور اقبال بشیر احمد ڈار خودی تعمیر کن در پیکر خویش چو ابراہم معمار حرم شو حکیم عبدامجد مجذور بن آدم سنائی فارسی شعرا اور ادبا میں شاید دوسرا شخص ہ جس کے نام کے ساتھ حکیم استعمال ہوتا ہے۔ دوسرا شخص حکیم ناصر خسرو ہے جس نے فارسی شعر میں فلسفہ و حکمت کے خیالات پہلی دفعہ بیان کیے ہیں اور سنائی نے حکمت و تصوف کے افکار کو فارسی شاعری میں بیان کر کے آئندہ آنے والوں کے لیے ایک نیا میدان مہیا کیا ہے ۔ حکیم ناصر خسرو کی پیروی کوئی آسان کام نہ تھا۔ کیونکہ خالص عقلی فلسفہ مسلمانوں میںزیادہ عروج نہ پا سکا۔ البتہ حکمتی فلسفہ بڑا مقبول ہوا۔ جس نے تصوف کے لبادے میں بہت عروج حاصل کیا چنانچہ سنائی عطار۔ اور رومی اس طرح کے سینکڑوں شعر ا نے اس موضوع پر خوب خوب لکھا۔ سنائی جس دور میں غزنی میں پیدا ہوا وہ غزنوی خاندان کا بالکل آخری دور تھا۔ مسعود سوم (۴۹۲۔۵۰۸؍۱۰۹۹۔۱۱۱۵)اور اس کے بعد دو مختصر بادشاہوں کو چھوڑ کر بہرام شاہ (۵۱۲۔۵۴۷؍۱۱۱۸۔۱۱۵۲) کے زمانو ں میں اس نے اپنی زندگی بسر کی ۔ ان دونوں بادشاہوں اور خاص طور پر بہرام شاہ کی تعریف میں کئی قصیدے اس کے دیوان میں موجود ہیں ان کے علاوہ سنائی نے سلجوقی حکمران سلطان سنجر کی تعریف میں قصیدے کہے ہیں۔ ابتدائی دور میں ہی سنائی غزنی سے بلخ پہنچ گیا۔ وہ کافی مدت وہاں مقیم رہا۔ اس سفر میں اسے بڑی مشکلا سے دوچار ہونا پڑا جن کی طرف اس نے اپنی مثنوی کارنامہ بلخ میں کچھ اشارے کیے ہیں۱؎۔ بلخ میں رہائش کے دوران سنائی ایک ذہنی انقلاب سے دوچار ہوتا ہے۔ افسوس ہے کہ اس انقلاب کی داسان خود سنائی نے قلم بند نہیں کی۔ عام تذکرہ نویسوں نے اس کو اس طرح بیان کیا ہے گویا ی انقلاب کسی داخلی واردات کا نتیجہ نہ تھا۔ بلکہ محض ایک خارجی حادثہ تھا جو یونہی وقوع پذیر ہ گیا اور اس حادثے کے زیر اثر سنائی کی دنیا کا رخ بدل گیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن سنائی قصیدہ لکھ کر بہرام شاہ کے دربار میں جا رہا تھا کہ فوجی مہم پر روانہ ہونے سے پہلے ادشاہ کو سنا سکے۔ راستے میں ایک بادہ خوار مجذوب سے واسطہ پڑا جس نے سنائی کی کوتاہ اندیشی اور کم فہمی کا مذاق اڑایا اور اس کی نادانی پر ایک جام نوش کیا۔ ۱؎ مدرس رضوی مثنوی ہائے حکیم سنائی ص ۱۸۲و مابعد اس مجذوب کی یہ حرکت سنائی کے قلب پر اس طرح اثر انداز ہوئی کہ اس نے بادشاہوں کے درباروں سے قطع تعلق کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد سنائی نے قصیدہ گوئی ختم کر دی اور زہد و تقویٰ کی زندگی کا آغاز کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض فسانہ طرازی ہے۔ حکیم سنائی یقینا ایک ذہنی انقلاب سے دوچار ہوا جس نے اس کی زندگی کا رخ بدل ڈالا۔ لیکن بادشاہا ن وقت سے اس کا تعلق آکر عمر تک قائم رہا چنانچہ حدیقتہ الحقیقتہ جیسی بے مثال صوفیانہ مثنوی حکمران وقت یعنی بہرام شاہ کے نام معنون کی گئی۔ سنائی غزنی میں پیدا ہوا اور اس کی صحیح تاریخ ولادت تو تحقیق نہیں ہو سکی۔ محققین کا خیال ہے کہ وہ ۴۶۳؍۱۰۷۰ یا ۴۷۳؍۱۰۸۰ میں پیدا ہوا اور ۵۲۵؍۱۱۳۰ یا ۵۳۵؍۱۱۴۰ میں وفات پائی ۔ غزنوی حکمران مسعود سوم کے زمانے میں اس کی شاعری کا آغاز ہوا اور ا س کی مدح میں بھی اس نے کچھ قصائد لکھے۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ غزنی سے بلخ چلاگیا۔ بلخ میں سنائی کا قیام کافی عرصہ رہا اور اسے یہاں بے شمار تکالیف کا سامنا کرنا پڑا جس کی طرف اس نے اپنی مثنوی کارنامہ بلخ میںاشارے کیے ہیںَ محققین کا ٰخیال ہے کہ سنائی ۵۰۰؍۱۱۰۷ سے قبل لبلخ میں وارد ہوا اور یہ وہ دور تھا جب سلاجقہ کی باہمی چپقلش کے باعث ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہو چکا ھا۔ ۴۸۳؍۱۰۹۰ء میں بصرہ پر قرامطہ نے حملہ کیا اور اسے لوٹ کر برباد کر ڈالا۔ پھر جگہ جگہ اسماعیلیوں کے مراکز حکومت کے خلاف سرگرم عمل تھے ملک شاہ کا انتقال ۴۸۵؍۱۰۹۲ء میں ہوا اس کے بعد بارہ سال تک ملک میں طوائف الملوکی رہی۔ یہ عدم استحکام کی کیفیت برکیارق کی وفات کے بعد تک یعنی ۴۹۸؍۱۱۰۵ تک قیام رہی۔ ۱۰۹۷ ء میں پہلی صلیبی حملہ ہوا جس کے رد عمل کے طور پر برکیارق نے اپنے ہم عصر امیروں کو عیسائی حملہ آوروں کے خلاف جنگ کی تیاری کرنے کے سلسلے میں خطوط لکھے اور بس۔ اس کی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے سوتیلے بھائی کے خلاف جنگ کرتے گزرا۔ حتیٰ کہ وہ ۴۹۸ میں فوت ہو گیا۔ اس طوائف الملوکی میں غریب عوام کی حالت انتہائی افسوسناک تھی۔ دونوں طرف کی فوجوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کیے رکھا اور پھر جب کسی کو شکست کا سامنا ہوتا تو خوراک کے ذخیروں کو سپرد آتش کر دیا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر طرف قحط نمودار ہونے لگا سلطان سنجر کی فوجوں نے جو ظلم رو ا رکھے ان کی کوئی انتہا نہ تھی۔ ان حالات کے باعث مختلف فرقوں کی طرف سے فسادات نے سر اٹھانا شروع کیا۔ ان میںنمایاں کردار اسماعیلیوں شیعوں اورکرامیوںکا تھا اور پھر ایک گروہ عیاروں کا بھی نمودار ہوا جو شہروں میں نہتے انسانوں پر ظلم ڈھاتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان خوفناک حالات نے جو مسلمانوں کے دینی اور اخلاقی زوال کی نشان دہی کر رہے تھے۔ سنائی کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں جھانکنے کا موقع مہیا کیا۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمان سیاسی طور پر بظاہر ہر طرف غالب تھے لیکن ان کا اخلاقی احساس اس قدر کمزور ہو چکاتھا کہ ان میں سے بہت سے لو گ ایک دوسرے کا استحصال کرنے سے نہیں جھجکتے تھے۔ وہ گروہ جو کبھی فتوحات کا علمبردار تھا۔ اب اس کا دائرہ عمل بے کسوں اور نہتے انسانوں کو لوٹنے اور بے آبرو کرنے تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔ شہروں اور ایک شہر کے بازاروں میں مختلف فرقوں کے درمیان کھلم کھلا جنگ ہوتی اور بے شمار معصوم اور بے گناہ لوگ موت کے گھاٹ اتار ے جاتے۔ یہی وہ مایوس کن حالات تھے جن کا سامنا کرتے ہوئے سنائی جیسا حساس شخص دسوچنے پر مجبورہو گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان لوگوںمیں رہ کر بھی ان سے بالکل الگ تھلگ زندگر بسر کرے گا۔ لیکن اس کی پوری کوشش ہو گی کہ لوگ پھر سے اپنے دینی اور اخلقی نصب العین کی طرف پوری توجہ کریں چنانچہ ایک قصیدے میں اس نے اپنے ہم عصروں کے انسانوں کی حالت پر افسوسناک نقشہ کھینچا ہے۔ : گرما ہمہ سیہ گلیمیم طرفہ نیست سیم سپید کردہ سیاہ ایں گلیم ما امروز خفتہ ایم چو اصحاب کہف لیک فردا زگور باشد کہف و رقیم ما سرگشتہ شد سنائی یا رب تو رہ نمائی ای رہنمائی خلق و خدائی علیم ما دوسری جگہ قوم کی حالت کا یوںذکر کرتے ہیں: خرمن خود را بدست خویشتن سوزیم ما کرم پیلہ ہم بدست خویشتن دوز دکفن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سنائی کی وفات کے تقریباً ایک سو سال بعد منگولوں نے بغداد کی عظمت خاک میں ملا دیا اور مسلمانوں کی سیاسی برتری کو بالکل ختم کر ڈالا۔ سنائی اس زوال پذیر معاشرے کی حالت دیکھ دیکھ کر پریشان ہوتا تھا۔ اور اسی کوشش میں اس نے اپنی شاعری میں مسلمانوں کی بہتری کے لیے وقف کر دی تھی۔ اس نے اپنے معاشرے کی برائیوں کی جڑ یہی قرار دی تھی کہ لوگ سیم و زر کی خاطر تمام اخلاقی اور دینی تقاضوں کو قربان کر دیتے ہیں۔ علماء کی کثرت دنیاوی فوائد حاصل کرنے کے لیے اپنے علم و ضمیر کو فروخت کرنے پر تیار ہے۔ بہتر ہے کہ ہم غور کریں اور اپنے مستقبل کو بہتر کرنے کی طرف توجہ کریں: بکشاے گوش عقل و نگہ کن بچشم دل درکار بار مردم در عالم دنی بشناس کردگار و نگہدار جاے خویش دین محمدی و طریق معینی یہی دور تھا جب غزالی نے ۴۸۸؍۱۰۹۵ میں اس دنیا اوراس کے جلال و عظمت کو خیر باد کہا او ر تنہائی اور عزلت کی زندگی اختیار کی۔ یقینا دنوںکی حالت میں خارجی حالات یکساں تھے۔ اور دونوں کا رد عمل بھی تقریباً ایک جیسا نظر آتا تھا۔ ۔ غزالی کے معاملہ میں یہ ذہنی کیفیت اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب اس کی عمر ۳۸ سال کے لگ بھگ تھی اور سنائی کے معاملے میں یہ انقلاب اس وقت نمودار ہوتا ہے جب وہ بمشکل ۲۵ یا ۳۰ سال کا تھا۔ حیرت اس بات رپ ہوتی ہے کہ غزالی نے اخلاقی اور دینی اصلاح کا روستہ تصوف میں پایا اور اس کے لیے اس نے احیاء العلوم جیسی عظیم کتاب لکھی جس کے خیالات و تصورات کا عکس بہت وسیع اور گہرا ثابت ہوا ہے۔ سنائی نے بھی ترک دنیا کا راستہ اختیار کیا اور اپنے شاعرانہ ملکہ کو تصوف کی ترویج میں استعمال کیا۔ سنائی پہلا شخص ہے جس نے متصوفانہ خیالات کے اظہار کے لیے شاعری کا ذریعہ استعمال کیا۔ اس کی اہم تصانیف میں حدیقتہ الحقیقہ اور سر العباد بنیادی حیثیت رکھتی ہیں جن کاا ثر غزالی کی احیاء کی طرح بڑا وسیع اور گہرا ثابت ہوا۔ لیکن دوسری طرف اس دور کی کچھ خصوصیات ایسی ہیں جن کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس دور میں بے شمار دانشور‘ حکیم ‘ شاعر اور صوفی موجود تھے۔ جن کے کارناموں سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں غزالی کے علاوہ شہر ستانی نسفی‘ نظام الملک‘ عمر خیام‘ ابو سعید ابوالخیر ‘ انور ی‘ مغربی اس دور کی نمایاں شخصیتیںتھیں۔ عام لو گ ان حکماء اور شاعرو ں اور صوفیوں کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہی دور تھا جب کہ نظام الملک کی کوششوں سے مدرسی نظام قائم ہوا۔ جس کے باعث علماء اور نوکر شاہی اور ادیبوں میں ایک باہمی ربط پیدا ہوا چونکہ وہ سبھی ان مدارس کی پیداوار تھے ان مدارس کے باعث جہاں ملکی یعنی ایرانی روابط اور اسلامی تعلیم میں ہم آہنگی پیدا کی وہاں سنی اسلام کے ارتقاء او ر استحکام میں بھی اس نے اہم کردار ادا کیا ۔ ان مدارس میں دینی تعلیم پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ اور بعض دوسرے مضامین مثلاً عقلیات‘ حکمت و فلسفہ پر پابندی عاید کر دی گئی۔ یہ درحقیقت رد عمل تھا شیعی اثر و نفوذ کا کیونکہ ان کے ہاں حکمت و فلسفہ کا بڑا رواج تھا۔ اس دور کی دوسر ی خصوصیت خانقاہوں کا عام رواج تھا ۔ بعض لوگوں کا خایل ہے کہ یہ خانقاہیں سب سے پہلے کرامیوں نے قائم کی تھیں۔ ی فرقہ محمد ابن کرام (متوفی ۲۵۵؍۸۶۹) کا قایم کردہ ہے۔ یہ لوگ اپنے زہد و تعبد کے لیے بہت مشہو ر تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرقہ اس زمانے کی گراوٹ کے خلا ف ردعمل کے طور پر ظاہر ہوا تھا۔ اور اس کے پیروعام طور پر اپنی نیکی عبادت اور ترک علائق کے لیے مشہور تھے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لیے انہوںنے خانقاہیں قائم کیں ۔ جب سلجوقیوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لے مدراس قائم کیے تو اس کے ساتھ ہی انہوںنے ان خانقاہوں کو بھی اپنی سرپرستی میں لے لیا اور ان کے لیے بے شمار اوقاف قائم کیے۔ اسلام کی توسیع میں اس خانقاہی نظام کا کافی حصہ ہے اور وسط ایشیاء اور شمالی افریقہ میں تو اسلام اسی ذریعے سے پھیلا۔ یہی وہ دور تھا جب معتزلہ کی تحریک قطعی اور آخری طورپر ختم ہو گئی اور اشاعرہ کو کلی طور پر فروغ حاصل ہوا۔ امام الحرمین غزالی اور فخر الدین رازی جیسے دانشوروں کی کوشش سے اعتزال رو بہ زوال ہوا لیکن اس کے ساتھ فکر و تفکر کی راہیں کھلی رہیں۔ خو د سنائی اپنے زمانے کے تمام علوم سے بہرہ ور تھا اور شاید فارسی ادب میں دو ہی شخص ہیں جن کے نام کے ساتھ حکیم کا لقب استعمال ہوتا ہے ایک سنائی اور دوسرا ناصر خسرو۔ لیکن چونکہ ا س دور میں حکمت و فلسفہ کا استعمال دین کے مقاصد کے خلاف ہو رہا تھا اس لیے سنائی نے عقل کے مقابلے پر وحی کی اہمیت پر زیادہ زور دیا ایک قصیدے میں حکیم کہتا ہے : اسی سنائی گر ہمیں جوئی ز لطف حق سنا عقل را قرباں کن اندر بارگاہ مصطفی مصطفی اندر جہاں آنگہ کسی گوید کہ عقل آفتاب اندر فلک آنگہ کسی جوید سہا در شریعت ذوق دیں یابی نہ اندر عقل ازانک قشر عالم دارد‘ مغز روح ابنیا کاں نجات دکاں شفا کار باب سنت جستہ اند بو علی سینا ندارد در نجات و در شفا لیکن اگر ہم ان کے کلام میں علم و عقل سے متعلق اشعار کا مطالعہ کریں تو قاری کے سامنے سنائی کا صحیح موقف آ جاتا ہے۔ علم کے متعلق فرماتے ہیں: عل رہ جانب الہ برد جہل رہ سبوی نفس و جاہ برد علم داں خاصہ خدا آمد علم خوان شرح مصطفی آمد کا دیکسالہ را بہا دو درم علم یک لحظہ را بہا عالم ۱؎ عقل کے متعلق حکیم سنائی فرماتے ہیں: عقل ہم گوہر است و ہم کان است در تن مرد عقل سلطان است دایہ زیر ایں کہن بنیاء نیست کس را چو عقل مادر زاد ۲؎ ایک قصیدے میں اپنے متعلق لکھتے ہیں: بسکہ شنیدی صفت روم و چیں خیز و بیا ملک سنائی را بہ بیں تاہمہ دل بہ بینی بے حرص و بخل تاہمہ جان بینی بے کبر و کیں زیر قدم کردہ از اقلیم شک تابہ نہانخانہ عین الیقیں اوز ہمہ فارغ و آزاد و خوش چوں گل و چوں سوسن و چوں یاسمیں ۳؎ ایک قصیدے میں اپنے زمانے کی اخلاقی و دینی افراتفری اور عقل کے مطابق وحی کی افادیت کا ذکر کرتے ہیں: مسلماناں مسلماناں مسلمانی مسلمانی ازیں آئین بے دیناں پشیمانی پشیمانی مسلمانی کنوں اسمے است بر عرفی و عاداتی دریغا‘ کو مسلمانی دریغا کو مسلمانی فروشد آفتاب دیں برآمد روز بے دیناں کجا شد درد بودردا وآں اسلام سلمانی جہاں یکسر ہمہ پر دیو و پرغولند و امت را کہ بار دکرد جز اسلام و جز سنت نگہبانی شراب حکمت شرعی خورید اندر حریم دل کہ محروم اند ازیں عشرت ہوس گویان یونانی ۴؎ سنائی کی وفات بارہویں صدی کے پہلے نصف میں واقع ہوئی لیکن بہت جلد اس کا کلام اسلامی دنیا کے ہر کونے میں پھیل گیا۔ اس کی مقبولیت کا تو یہ عالم تھا کہ اس کی زندگی میں ہی بعض حکماء و صوفیہ نے اس کے اشعار اپنے مکتوب اور مضامین میں بطور استشہاد نقل کرنے شروع کر دیے۔ چنانچہ احمد غزالی جو بلند مقام مفکر اور صوفی تھے اور سنائی کے معاصر‘ انہوںنے اپنے شاگرد عین القضاۃ ہمدانی کو خط لکھتے وقت ان کے اشعار نقل کیے ہیں۔ ایک دوسرے ہمعصر دانشور اور شاعر نے اس کے لیے عیسی عصر اور طبیب زیرک کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ۱؎ سیر الاولیاء ۵۳۹ ۲؎ ایضاً ۵۴۲‘۵۴۳ ۳؎ دیوان سنائی ۵۴۵ ۴؎ قصیدہ فی تعریض الاسلام و الدین ایضاً ۶۷۸ و ما بعد پھر مولانا روم نے تو سنائی کی اولیت کا اقرار کھلے دل سے کیا ہے فرماتے ہیں: عطار روح بود و سنائی دو چشم او ما از پی سنائی و عطار آمدیم روایت بیا ن کی جاتی ہے کہ ایک ہمعصر شار نے حکیم سنائی پر اعتراض کیا کہ وہ اپنی شاعری میں قرآن حکیم کی آیات کثرت سے نقل کرتا ہے۔ جو قابل اعتراض با ت ہے۔ رومی نے اس اعتراض کا جواب دیا اور اس دوران سنائی کی عظمت کا اعتراف کیا اس کی شاعری قرآن حکیم کے رموز و اسرار کے بیان پر مشتمل ہے۔ اس نے قرآنی حکمت سے استفادہ کیا ہے اور وہی موتی ہمارے سامنے پیش کیے ہیں۔ ان کو سمجھنے اور ان سے استفادہ حاصل کرنے کی صلاحیت اگر کسی میں نہیں و اس کا کوئی چارہ نہیں ۱؎۔ دیوان شمس تبریز میں ایک غزل میں حکیم سنائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: گفت کسے خواجہ سنائی بمرد مرگ چنیں خواجہ نہ کارے است خورد کاہ نبود او کہ بہ بادی پرید آب نبود او کہ بہ سرما فسرد شانہ نبود او کہ بہ موی شکست دانہ نبود او کہ زمینش فشرد گنج زری بود دریں خاکداں کو دو جہاں را بجومی می شمرد ۲؎ یعنی سنائی کی موت کی خبر سن کر فرماتے ہیں کہ ایسے دانشور کی موت کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ وہ تنکا نہ تھا کہ ہوا اسے اڑا کر لے جائے۔ وہ پانی نہ تھا کہ سردی سے منجمد ہو گیا۔ وہ کنگھی نہ تھا کہ بالوں سے ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ دانہ نہ تھاکہ مٹی میں مل کر فنا ہو جائے۔ وہ تو سونے کا خزانہ تھا اس دنیا میں۔ وہ دنیا جس کو محض ایک جو کے دانے کے برابر بھی نہ سمجھتا تھا۔ سنائی ایک تصنیف حدیقہ ہے جسے الٰہی نامہ بھی کہا جاتا ہے رومی نے اس کتاب کے متعلق اپنی رائے کا یوں اظہار کیا ہے کہ قرآن حکیم دودھ ہے اور الٰہی نامہ اس کا مکھن ۳؎۔ ۱؎ Whinfield کے مثنوی رومی کے انگریزی ترجمے کا دیباچہ ص ۶۴ ۲؎ دیوان شمس تبریز (انگریزی ترجمہ نکلسن) ص ۸۶‘ دیوان سنائی میں اس نظم کا پہلا شعر یوں ہے: مرد سنائی نہ ہمانا کہ مرد مردن آں خواجہ نہ کارے است خورد ۳؎ نکلسن کا انگریزی ترجمہ دیوان شمس تبریز دیباچہ صفحہ xxxiii فٹ نوٹ ۴۔ روایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک دن رومی کے دوست حسام الدین چپلی نے مولانا س ذکر کیا کہ ہمارے بعض رفیق سنائی کے حدیقہ الاولیاء اور عطار کی منطق الطیر کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر آپ الٰہی نامہ کی طرح ایک نئی نظم لکھ ڈالیں۔ یہ سن کر مولانا نے فرمایا کہ مجھے پہلے ہی اس کا خیال تھا چنانچہ اس نظم کی طرح میں نے ڈال دی ہے۔ پھر اس کا پہلا شعرپڑھ کر سنایا: بشنواز نی چوں حکایت می کند از جدائی ہا شکایت می کند مثنوی مولانا روم کے دفتر اول میں ماشاء اللہ کان کی تفسیر کرتے ہوئے رومی نے سنائی کے اشعار نقل کیے ہیں فرماتے ہیں: بشنو ایں پند از حکیم غزنوی تابیابی در تن کہنہ نوی ۱؎ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہ اپنا حال جاہلوں سے مخفی رکھنا چاہیے روی نے سنائی کا قول نقل کیا ہے فرماتے ہیں: بشنو الفاظ حکیم پردہ ای سر ہماں جانہ کہ بادہ خوردہ ۲؎ یہ حوالہ سنائی کے حدیقہ سے ہے جہاں سنائی فی سلوک طریق الاخرہ پر بحث کرتا ہے فرماتے ہیں: ایں ہمہ علم جسم مختصر است علم رفتن براہ حق دگر است جست ایں راہ را نشاں و دلیل آں نشاں از کلیم پرس و خلیل جست زاد چنیں رہ ای غافل حق بریدن بریدن از باطل اسی بحث کے دوران فرماتے ہیں: سر مدار از مقام ہستی پی سر ہماں جانہ کہ خوردی می ۳؎ پہلے دفتر ہی میں تفسیر قول حکیم کے عنوان کے تحت سنائی کا ایک شعر نقل کیاہے فرماتے ہیں: ۱؎ دفتر اول شعر ۱۹۰۵ء ۲؎ دفتر اول شعر ۳۴۲۶ ۳؎ حدیقہ انگریزی ترجمہ فارسی متن صفحہ ۷۰۴۵ بہرچہ زراہ وامانی چہ کفرآں حرف و چہ ایماں بہرچہ از دوست دور افتی چہ زشت آں نقش و چہ زیبا ۱؎ اس برعظیم میں سنائی بہت مقبول رہا ہے ۔ فوائد الفواد میں اس کانام لے کر ایک دو شعر نقل کیے گئے ہیں۔ ۲؎ ایک جگہ سنائی کیے کلام کی تاثیر کا ذکر کرتے ہوئے مشہور صوفی شیخ سیف الدین فاخزری (م ۱۲۶۰؍ ۶۵۸) کا قول نقل کیا ہے کہ مجھے حکیم سنائی کے ایک قصیدے نے مسلمان کیا ہے۔ اس قصیدے کا ایک شعر اس مجلس میں پڑھا گیا۔ برسر طور ہوا طنبور شہوت می زنی عشق مردلن ترانی را بدیں خواری مجوی یعنی تم ہوس کے کوہ طور پر شہوت کا طنبورہ بجا رہے ہو۔ یہ (لن ترانی کہنے والے) حضرت موسیٰ کے عشق کا کیا ذلیل و خوار اظہار ہے ۳؎ ؟ شیخ سیف الدین باخرزی اکثر کہا کرتے تھے کہ کاش ایسا ہو کہ ہوا مجھے اس جگہ لے جائے جہاں حکیم سنائی کی خاک ہے یا ہوا ان کی خاک میرے پاس لے آئے تاکہ میں اسے اپنی آنکھوں کا سرمہ بنا لوں ۴؎۔ اسی زمانے میں امیر خورد نے سیر الاولیاء لکھی جو حضرت نظام الدین اولیاء اور دیگر چشتی بزرگوں کے حالات پر مشتمل ہے۔ اس میں حکیم سنائی کے بے شمار اشعار نقل کیے گئے ہیں۔ خلفای اربعہ کی تعریف میں جو اشعار درج ہیں وہ سبھی سنائی سے لیے گئے ہیںَ اسی طرح مختلف موضوعات پر بحث کرتے ہوئے اکثر حوالے حکیم سنائی سے ہی لیے گئے ہیںَ کہیں کہیں عطار کے اشعار بھی نقل کیے گئے ہیں لیکن رومی کا بالکل ذکر نہیں۔ فوائد میں صرف ایک جگہ رومی کے ایک شعر کا ایک مصرع بغیر نام لیے نقل کیا گیا ہے ۵؎۔ ۱؎ دیوان سنائی ص ۵۱ ۲؎ فوائد الفواد اردو ترجمہ ص ۹۹ ۳؎ فوائد الفواد ۴۶۷‘ ۴۶۸ یہ شعر جس قصیدے میں شامل ہے وہ دیوان سنائی کے صفحہ ۷۱۴‘۷۱۵ میں موجود ہے۔ ۴؎ فوائد الفواد ۴۶۸ ۵؎ ایضاً ۳۵۳ مصرعہ ہے عشق را بو حنیفہ درس نگفت رومی کا پورا شعر یوں ہے: آں طرف کہ عشق می افزود رد بو حنیفہ و شافعی درسی نکرد دفتر سوم شعر ۳۸۳۲ ذہنی انقلاب سے دو چار ہونے کے بعد جب اقبال نے غور و فکر کیا تو سب سے پلے اس نے رومی کی مثنوی کی طرف توجہ کی چنانچہ اسرار خودی میں اقبال نے رومی سے اپنی بے پناہ عقیدت کا برملا اظہار کیا ہے ۔ سنائی کے متعلق پہلا حوالہ جو ہمیںٰ ملتا ہے وہ ۱۹۲۲ء کے قریب ایک خط میں ہے جو اقبال نے پروفیسر اکبر منیر کے نام لکھا اس میں فرماتے ہیں: ’’حکیم سنائی اور مولانا روم کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اس قسم کے لوگ اقوم و علل کی زندگی کا اصلی راز ہیں… حکیم سنائی سے طرز ادا سیکھنا چاہیے کیونکہ مطالب عالیہ کے ادا کرنے میں ان سے بڑھ کر کسی نے قدم نہیں رکھا ۱؎‘‘۔ اس سے پہلے گرامی کے نام ایک خط میں سنائی کا ذکر آیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گرامی کو جب اسرار خودی ملی تو انہوں نے اقبال کو لکھا کہ یہ مثنوی پڑھ کر مجھے معلوم ہوا کہ آپ حکیم سنائی ہیں جس کے جواب میں اقبال نے لکھا کہ اگر اقبال حکیم سنائی ہے تو گرامی کیا ہو گا؟ ۲؎ ارمغان حجاز میں اقبال نے خود اسی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ: عطا کن صدق و اخلاص سنائی ۳؎ دوسری جگہ اس نے آپ کو سنائی اور رومی کے زمرے میں شامل کیا ہے: نصیب از آتشے دارم کہ اول سنائی از دل رومی برانگیخت مجھے اس آگ سے حصہ ملا ہے جسے سنائی نے رومی کے دل میں پیدا کیا۔ اور جس کے باعث اس نے مثنوی جیسی لاثانی کتاب لکھی۔ اور یہ آگ کیا ہے؟ ی وہ جذبہ ہے جواپنے ہمعصر زوال پذیر معاشرے کو دیکھ کر ان کے دل میں پیدا ہوا۔ اور انہوںنے فیصلہ کیا کہ قوم کو اسلام کی تعلیم کی طرف دوبارہ متوجہ کرانا چاہیے تاکہ قرآن و سنت کی رہنمائی میں وہ کھویا ہوا مقام حاصل کر سکیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ جس بیماری میں مسلمان اس گیارھویں صدی عیسویں میں مبتلا تھے۔ وہی بیماری اب بھی انہیں کھائے جا رہی ہے چنانچہ: فردوس میں رومی سے کہتا تھا سنائی مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسی وہی آتش حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش ۱؎ اقبال نامہ دوم ۱۶۲ ۲؎ عبداللہ قریشی مکاتیب اقبال بنام گرامی ص ۱۴۳ ۳؎ کلیات اقبال فارسی ۸۹۷ ۴؎ کلیات اقبال اردو ۵۸۰ اس کا مطلب واضح ہے کہ اقبال اسی روایت کا علم بردار ہے جو حلاج سنائی اور رومی نے قائم کی تھی چنانچہ ارمغان حجا ز میں کہتے ہیں: چو رومی در حرم دادم اذاں من ازو آموختم اسرار جاں من بہ دور فتنہ عصر کہن او بہ دور فتنہ عصر رواں من ۱؎ سنائی کا ایک مشہور قصیدہ مقام اہل توحید کے متعلق ہے جس کا ذکر فوائد الفواد کے حوالے سے کیا گیا ہے ۔ اس قصیدے میں حکیم سنائی نے اپنے زمانے کے حالات اور مستقبل کے لائحہ عمل کا ذکر کیا ہے: مکن در جسم و جاں منزل کہ ایں دون است و آں والا قدم زیں ہر دو بیروں نہ نہ اینجا باش و نہ آنجا سخں کر ردی دیں گوئی چہ عبرانی چہ سریانی مکاں کز بہرحق جوی چہ جا بلقاچہ جا بلسا شہادت گفتن آں باشد کہ ہم ز اول در آشامی ہمہ دریای ہستی را بداں حرف نہنگ آسا عروس حضرت قرآں نقاب آنگہ بر اندازد کردار الملک ایمان رامجرد بیند از غوغا عجب نبود گر از قرآں نصیبت نیست جز نقشی ہ از خورشید جز گرمی نیابد چشم نابینا چو علمت ست خدمت کن چو دانایاں کہ زشت آید گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا ترا تیغی بکس دادند تا غزوی کنی با تن تو چوں از وی سپر سازی نمائی زندہ در ہیچا ترا یزداں ہمی گوید کہ در دنیا مخور بادہ ترا ترسا ہمی گوید کہ در صفرا مخور حلوا ز بحر دیں تونگذاری حرام از حرمت یزداں ولیک از بحر تن مانی حلال از گفتہ ترسا ۲؎ ۱؎ ارمغان ۷۷ ۲؎ دیوان ۵۱،۵۷ سنائی کے اس قصیدے کے جواب میں اقبال نے ایک نظم لکھی جو بال جبریل میں شامل ہے۔ اس نظم کے عنوان میں اقبال نے لکھا ہے کہ : ’’اعلیٰ حضرت شہید امیر المومنین نادر شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے لطف و کرم سے نومبر ۱۹۳۳ء میں مصنف کو حکیم سنائی غزنوی کے مزار مقدس کی زیارت نصیب ہوئی یہ چند افکار پریشاں جن میں حکیم ہی کے ایک مشہور قصیدے کی پیروی کی گئی ہے۔ اس روز سعید کی یادگار میں سپرد قلم کیے گئے۔ ما از پئی سنائی و عطار آمدیم اس نظم کے چند اشعار پیش کیے جا رہے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح اقبال نے سنائی اور رومی کی طرح اپنے زمانے کے مسلمانوں کو مستقبل کا راستہ دکھانے کی کوشش کی ہے: خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں زرہ کوئی اگر محفوظ رکھ سکتی ہے تو استغنا وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا فرنگی شیشہ گر کے گن سے پتھر ہو گئے پانی مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختی خارا سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ ابھی اس بحر میں بھی باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا ۱؎ مثنوی مسافر میں جو افغانستان کے سفر کی یادگار کے طور پر معرض وجود میں آئی اقبا ل نے حکیم سنائی کے مزار کی زیارت کی سید سلیمان ندوی مرحوم کی روایت ہے کہ جب اقبال حکیم سنائی کے دربار پر حاضر ہوئے تو ان کا دل ایسا پسیجا کہ آنکھوں سے آنسو امڈ آئے۔ ان تاثرات کو اقبا ل نے یہاں قلم بند کیا ہے۔ سنائی کے کلام نے بقول اقبال انسان کو ہمت دلائی اور مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی اہلیت بخشی وہ حکیم غیب ہے یعنی عالم الغیب سے اس کا رابطہ بہت گہر ا ہے۔ رومی نے جو کام سرانجام دیا وہ اسی حکیم صاحب کے مکام کے کام کی تکمیل تو ہی تھی جیسا کہ مولانا فرماتے ہیں: ترک جوشی کردہ ام من نیم خا م از حکیم غزنوی بشنو تمام در الٰہی نامہ گوید شرح ایں آن حکیم غیب و فخر العارفین اس کے بعد اقبال نے اپنا اور حکیم سنائی کا موازنہ شروع کیا ہے۔ یہ موازنہ ہمیں پیام مشرق میں اقبال اور گوئٹے کے موازنے کی یاد تازہ کرتا ہے۔ گوئٹے نے جو مغربی ماحول اورتہذیبی اقدار میںپرورش پائی تھی اور اقبال پیران مشرق کی نگاہ دوربیں سے مستفید ہے۔ ۱ ؎ کلیات اقبال اردو ۳۱۴،۳۱۸ وہ ایسی سرزمین سے پیدا ہوا جہاں تہذیب و تمدن اپنے پورے عروج پر تھا۔ اس کے برعکس اقبال ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوا جو تقریباً زوال پذیر تھا۔ ایسے حالات میں دونوں کے پیغام میں فرق تھا۔ اس کا نغمہ اپنے ہم وطنوں کے لیے فردوس گوش تھا۔ لیکن اقبال کا نغمہ سوئے ہوئوں کے لیے صدائے جرس کا کام دیتا ہے۔ دونوں کائنات کے تاریخی عمل کے نشیب و فراز اور اس کے اسرار و رموز سے پوری طرح واقف ہیں اور اسی لیے دونوں نے اپنی اپنی قوم کو زندگی کا پیغام دیاہے۔ جب گوئٹے کا فن اپنے عروج پر پہنچا اس وقت جرمن قوم کا انحطاط ہر پلو سے انتہا تک پہنچ چکا ھتا۔ ۱؎ ۔ اسی لیے گوئٹے کا پیغام گویا ایک مردہ قوم کودوبارہ زندگی بخشنے والا تھا تقریباً ایسی ہی حالت اس برعظیم کے مسلمانوں کی تھی اور اقبال کا کلام ان کے لیے نئی زندگی کا پیغام تھا۔ ہر دو پیغام حیات اندر ممات ۲؎؎ دونوں نایاب موتی ہیں جو دریائے ناپیدا کنار میں پیداہوئے لیکن گوئٹے اپنی فطری تڑپ کے باعث صدف کا دل چیر کر باہر نکل آیا اور اس نے اپنی چمک اور روشنی سے دنیا کو منور کر دیا۔ اس کے مقابلے میں اقبال ابھی تک صدف کی چار دیواری میں محبوس ہے۔ لیکن پیام مشرق ۱۹۲۳ء میں شائع ہوئی اور وفات تک چودہ برسوں میں وہ گوئٹے ہی کی طرح خنجر برہنہ بن کر چکا اور اسی کی طرح وہ صدف سے نکل کر دنیا کے ہر کونے کو منور کرنے میں کامیاب ہوا۔ ا س حقیقت کا اظہار اقبال نے اسرار خودی کی تمہید میں کیا ہے رات کو جب وہ سویا ہوا تھا تو مولانا روم اسے خواب میں ملے اور انہوںنے اسے کہا کہ تم آگ ہو اس سے سارے عالم کو روشن کر دو۔ اپنے سوز سے دوسروں کو بھی مستفید کر دو۔ حق تعالیٰ نے جو ملک و دیں کے رموز تم پر آشکار کیے ہیں ان کو کھول کر بیان کر دو۔ خیز و جان نو بدہ ہر زندہ را از قم خود زندہ تر کن زندہ را ۳؎ گلشن راز جدید کی تمہید میں علامہ اقبال نے اپنے موقف او راپنے مقصد کی بلاواسطہ توضیح کی ہے ۔ مشرق کے عام انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ تمہاری خاک بدن جان سے محروم ہو چکی ہے چنانچہ میں نے اپنی جان تمہارے جسم میں ڈالی۔ میری آتش اندرون نے مجھے داغ دا کر رکھا ہے۔ اس چراغ سے اپنی دنیا روشن کر لو۔ یہی حقیقت حکیم سنائی کی زندگی کی بھی ترجمانی کرتی ہے اس کی دلآویز آواز نے مایوس انسانوں میں زندگی کی ایک نئی لہر پیدا کردی۔ دونوں کو ذو ق حضور سے وافر حصہ ملا ہے۔ وہی ذوق حضور جسے اقبال رومی کے تتبع میں دید کے لفظ سے پکارتا ہے۔ ۱؎ پیام مشرق دیباچہ ص ۷ ۲؎ ایضاً ص ۳ ۳؎ کلیات اقبال فارسی ص ۱۰ آدمی دید است باقی پوست است دید آں باشد کہ دید دوست است اس حقیقت کو رومی نے دوسرے شعر میں بیان کیا ہے : ہر کہ عاشق شد جمال ذات را اوست سید جملہ موجودات را ۱؎ سنای کو یہ ذوق حضوری پنہاں کے ذریعے حاصل ہوا اور اقبال کو پیدا کے ذریعے۔ خدائے بابرکات کی ذات والا صفات اول تا آخڑ اور ظاہر و باطن میں موجود ہے۔ اگر آپ ظاہر کے راستے تک اس پہنچنے کی کوشش کریں یا باطن کا راستہ اختیار کریں تو منزل مقصود ایک ہی ہے حضرت ابراہیمؑ نے ملکوت السموت والارض کا مشاہدہ کیا ہے اور حقیقت کا ادراک حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ہوئے ہیں۔ آنحضرتؐ نے غار حرا کی تاریک تنگنائی میں حقیقت کا مشاہدہ کیا ۔ انہوںنے اپنے باطن کی گہرائی میں ڈوب کر اسی حقیقت کبریٰ کا مشاہدہ کیا جس کا نظارہ ابراہم نے ملک السموت والارض کے واسطے سے کیا تھا۔ ظاہر و باطن پیدا و پنہاں کے یہ دو مختلف راستے ایک ہی حقیقت کی طرف لے جاتے ہیں۔ اگر سنائی پنہاں کے راستے پر گامزن ہے اور اقبال نے پیدا کا ذریعہ اختیار کیاہے تو اس ظاہری فرق سے حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ دونوں کو سرور حاصل ہوتا ہے اور ذوق حضور کا سرمایہ نصیب ہوتا ہے۔ جن موضوعات پر سنائی نے قلم اٹھایا ہے وہ خدائے بزرگ و برتر کی تعریف اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ عام طور پر زہد و عرفان تفسیر سورۃ والضحیٰ فی غزو النفس و محل الروح در زہد موعظہ در بطلان حجت دہریاں‘ در بیانمرات ایقان‘ در بیان عوارف لاہوتی‘ فی تفصیل الفقر وغیرہ ہیں۔ یہ موضوع سنائی کے دیوان میں شامل قصائد سے لیے گئے ہیں۔ اسی طرح کے موضوع حدیقہ میں زیر بحث آئے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس اقبال کا موضوع فکر زیادہ تر تقدیر مومن رہا ہے۔ سب سے پہلی نظم جو اقبال نے اس سلسلے میں لکھی ہے وہ بانگ درا کے دوسرے حصے میں عبدالقادر کے نام سے موسوم ہے اس کا موضوع یہی تقدیر مومن ہے یعنی ملت اسلامیہ کے مستقبل کا صحیح ادراک اور اس کے لیے مناسب طریقہ کار۔ وہ ظلمت جو ہمارے افق پر طاری ہو چکی ہے اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے اس طرح بانگ درا کے دوسرے حصے میں ایک غزل ہے جس پر مارچ ۱۹۰۷ء کی تاریخ درج ہے۔ اس میں ایک شعر ہے۔ میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو ۱؎ کلیات اقبال فارسی ص ۶۰۳‘۶۱۱ اس میں وہی تصور کارفرما ہے کہ ملت اسلامیہ کی موجودہ پریشان حالی اور اس کے مستقبل کی درخشانی کا طریق کار کیا ہونا چاہیے۔ مارچ ۱۹۱۰ء میں اقبال کو حیدر آباد دکن جانے کا اتفاق ہوا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ قطب شاہی بادشاہوں کے مزارات دیکھنے چلا گیا۔ مزارات سے انسانی زندگی کی ناپائیداری کا شدید احساس شاعرکے دل پر مرقسم ہو تا ہے۔ مصرو بابل مٹ گئے ایران و یونان و روما کی قدیم سلطنتیں صفحہ دنیا سے نیست و نابود ہو گئیں۔ کیامسلم قوم کا بھی یہی مقدر ہے کیا اس کی تقدیر بھی اس فطری قانون کے مطابق عمل پذیر ہو گی ا س نظم میں یہی مسلہ اس کے ذہن و قلب پر حاوی نظر آتا ہے۔ ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور یعنی سیاسی طور پر مسلمانوں کا کردار ختم ہو چکا ہے اگرچہ ان کی تہذیبی کوششوں کے امکانات ابھی نمودار نہیں ہوئے یعنی ممکن ہے کہ مسلمان اپنی آزاد حکومتیں قائم نہ کر سکیں لیکن بعض تہذیبی اقدار مثلاً انسان دوستی مادی امتیازات سے ماورا ہو کر انسانوں کو بہ حیثیت انسان سمجھ کر ان سے سلوک کرنے کی روایت ایسی ہے جو مسلمانوں کی مخصوص تہذیبی روایات ہیں جن کا مکمل اظہار شاید مستقل میں ہو سکے۔ لیکن ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ اقبال نے اس نظریے میں ترمیم کر دی رموز بے خودی ۱۹۱۸ ء میں شائع ہوئی ی کتاب تقدیر مومن کی نقاب کشائی کرتی ہے۔ چنانچہ انہوںنے ایک عنوان قائم کیا ہے: در معنی ایں کہ ملت محمدیہ نہایت زمانی ہم ندارد یعنی ملت اسلامیہ کا مستقبل کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے فرماتے ہیں کہ: گرچہ ملت ہم بمیرد مثل فرد از اجل فرماں پذیرد مثل فرد امت مسلم ز آیات خدا ست اصلش از ہنگامہ قالو ابلیٰ ست از اجل ایں قوم بے پرواستے استوار از نحن نزلنا ستے سنائی نے ایمان کی تفصیلی کہانی بیان کی ہے اور اقبال نے مردان مومن کی تقدیر کی نقاب کشائی کرنی چاہی لیکن دونوں کا فکری ماخذ قرآن حکیم ہے۔ سنائی قرآن حکیم کے متعلق فرماتے ہیں: از در تن بہ منظر جان آئی بہ تماشائی باغ قرآن آئی تا بہ جان تو جملہ بنماید آنچہ بود آنچہ ہست‘ آنچہ آید یعنی قرآن حکیم نہ صرف ماضی اور حال کا آئینہ دار ہے بلکہ مستقبل کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے: در بن چاہ جانت را وطن است نور قرآن بہ سوی آن رسن است خیز و خود را رسن بہ چنگ آور تابیائی نجات خویش مگر گر ترا تخت و تاج باید و جاہ چہ نشینی مقیم در بن چاہ رسن از درد ساز و دلو از آہ یوسف خویش را بر آر از چاہ انسان کی زندگی کی بنیاد جسم کی بجائے جان وروح ہے جو قعر باطن میں موجود ہے۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے قرآن کا نور بہترین راہ نما ہے۔ کنویں کی تہہ میں صاف اور میٹھا پانی بہہ رہا ہے۔ ہست قرآن چو آب سرد فرات ۱؎ اس تک پہنچنے کے لیے رسی اور ڈول کی ضرورت ہے۔ رسی اور دوغم سے بنانی چاہیے اور ڈول آہوں سے بنے گا۔ اور اس ڈول اور رسی کی مدد سے یوسف گم گشت کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اقبال نے قرآن ہی کی مدد سے ملت اسلامیہ کی تشکیل نو کانقشہ پیش کیا ہے۔ چنانچہ رموز بے خودی میں فرماتے ہیں: آں کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت او لا یزال و قدیم نسخہ اسرار تکوین حیات بے ثبات از قوتش گیرد ثبات ۲؎ جاوید نامہ میں قرآن حکیم کی اس کوبی کو واضح تر شکل میں بیان کیا ہے جس کی طرف سے سنائی نے: آنچہ بود آنچہ ہست آنچہ آید کہہ کر اشارا کیا ہے فرماتے ہیں: صد جہاں تازہ در آیات اوست عصر ہا پیچیدہ در آنات اوست یک جہانش عصر حاضر را بس است گیر اگر در سینہ دل معنی رس است چوں کہن گردد جہانے در برش می دہد قرآں جہانے دیگر ش ۳؎ اس ذہنی ہم آہنگی اور قلبی یگانگت کے باعث اقبالنے سنائی کی قبر پر کھڑے ہو کر مسلم ملت کی زبو ں حالی بیان کرنا شروع کر دی۔ اس زبوں حالی کی وجہ سے اور صرف افرنگی ذہنی استیلا کی وجہ سے ہے۔ اقبال جب کہتا ہے کہ : مومن از افرنگیاں دید آنچہ دید فتنہ ہا اندر حریم آمد پدید ۱؎ سنائی کے یہ سب اشعار حدیقہ ص ۱۶۲۔۱۷۰ سے ماخوذ ہیں۔ حدیقہ مطبوعہ نو لکشور ۱۳۰۴ ہجری۔ ۲؎ کلیات اقبال فارسی ۱۲۱ ۳؎ ایضاً ص ۶۵۴ تو یہ فتنہ محض سیاسی استیلا کی شکل میں نہیں ہے۔ یہ فتنہ سیاسی استیلا کے ساتھ ساتھ ذہنی استیلا کی پیداوار ہے ۔ یعنی افرنگی تہذیب نے مسلمانوں کے ذہن کو اس طرح متاثر کر رکھا ہے کہ وہ اسلام کی صحیح تعلیم اور اس کے معیارات خیر و شر سے ناآشنائے محض ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس افرنگی تہذیبی یلغا ر کے ایک اہم پہلو کی طرف اقبال نے یہاں خاص طور پر توجہ دلائی ہے اور وہ یہ ہے جسے اقبال فتنہ آب و گل کے نام دیتا ہے۔ جاوید نامہ میں دومختلف جگہوں پر اس فتنے کی طرف اشارہ کیا ہے: بندہ کر آب و گل بیروں نجست شیشہ خود را بسنگ خود شکست ۱؎ جو شخص اس آب و گل کے قید خانے سے باہر نہ آ سکا‘ اس نے گویا اپنی ذات اور خودی کی نشوونما اور اس کے ارتقاء کا ہمیشہ کے لیے راستہ بند کر دیا۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں: گرچہ آدم بردمید از آب و گل رنگ و نم چون گل کشد از آب و گل حیف اگر در آب و گل غلطہ دوام حیف اگر برتر نپرد زیں مقام ۲؎ یہ فتنہ آب و گل اقبال کی نگاہ میں مغرب کی مادہ پرستانہ فکر کی پیداوار ہے۔ مادیت قدیم ہو یا جدید میکانکی ہو یا جدلیاتی‘ دونوں خدا اور آخرت اخلاق اور روحانیت کے اعلیٰ اقدار سے محروم ہونے کے باعث زندگی میں انتشار و بے راہ روی‘ ذہنی پریشانی اور کج فہمی پیدا کرتی ہے۔ قومیت اور زمین پیوستگی اشتراکیت و ملوکیت و سرمایہ داری سبھی اسی فتنے کی پیداوار ہیں۔ اقبا ل کو گلہ ہے کہ مسلمان مغرب کی اس تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا اس لیے فرنگی فکر اس کو مدہوش کیے ہوئے ہے: تا نگاہ او ادب از دل نخورد چشم او را جلوہ افرنگ برد جب سنائی کے سامنے سب کیفیت بیا ن ہو چکی تو اقبال س سے ملتجی ہے کہ وہ ا س مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کرے۔ سنائی کا پہلا جواب اب تو یہ ہے کہ اس فتنے سے حفاظت کا پہلا قطعی اور حقیقی طریقہ یہ ہے کہ فقر اختیار کیا جائے۔ فقر ایک ایسی اصطلاح ہے جس کو اقبال نے ایک نیا معنی پہنادیا ہے۔ ۱؎ کلیات اقبال فارسی ۶۹۷ ۲؎ ایضاً ۲۵۱ قرآن حکیم میںفقر کا مفہوم احتیاج واضح ہے‘ ایسا احتیاج جو کسی تعریف کا مستحق معلو م نہیں ہوتا۔ لیکن صوفیانہ ادب میں ٖقر کا لفظ استعمال ہونے لگا یہاں تک کہ فقر اور تصوف ہم معنی سمجھے جانے لگے ۱؎۔ لیکن اقبال کے ہاں فقر کا مفہوم وہ صفات ہیں جو ایک صحیح مسلمان کی تعمیر میں لا بدی ہیں۔ فقر اقبال کی نگاہ یں بے دولتی و رنجوری ۲؎ نہیں بلکہ دلیل خسروی ۳ ؎ ہے: آہ! کہ کھویا گیا تجھ سے فقیری کا راز ورنہ ہے مال فقیر سلطنت روم و شام ۴؎ صحیح فقیر کی پہچان اقبال کے ہاں یہ ہے کہ اس سے بوئے اسد اللٰہی آئے اور جو پوری شان بے نیازی سے اس دنیا کے معاملات سے نبرد آزما ہو۔ جیسا کہ سنائی کے سامنے ملت اسلامیہ کے حال کا ذکر کرتے ہوئے اقبال نے کہا ہے کہ مغرب کے افکار کی یلغار سے محافظت کے لیے عقل و خرد کا ادب خوردہ دل ہونا ضروری ہے۔ یہی وہ صفت ہے کہ جو فقر کا جزو لاینفک ہے۔ چیست فقر اے بندگان آب و گل؟ یک نگاہ را بیں یک زندہ دل ۵؎ یعنی صحیح فقیر وہ ہے جو راہ بیں ہو اور جس کی خودی اتنی پختہ ہو کہ اس کی روشنی میں وہ ذات خداوندی کا مشاہدہ کر سکے ۔ یعنی: اندرون خویش جوید لا الہ فقر ے لیے دونوں اجزا ضروری ہیں نگاہ راہ بین و دل بیدار۔ ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کو نگاہ راہ بیں میسر آ جائے لیکن جب تک اس کا دل بیدار نہیں ہو گا اس کی نگاہ را بیں گمراہی کا موجب ہو گی۔ دل بیدار ندادند بہ دانای فرنگ ایں قدر ہست کہ چشم نگرانے دارد ۶؎ یہاں معاملہ ہے تضاد کا…ایک طرف آب و گل کا تقاضا ہے اور دوسری طرف دل ہے جو آب و گل کی دنیا سے ماورا ایک عالم بالا سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ دل اقبال کی اصطلاح میں گوشت کا وہ لوتھڑا نہیں جو انسان کے سینے میں دھڑکتا ہے۔ تو می گوئی کہ دل از خاک و خون است گرفتار طلسم کاف و نون است ۱؎ اس مسئلے کی تفصیلات کے لیے دیکھیں علی بن عثمان ہجویری کی تصنیف کشف المہجوب باب فقر۔ اور شہاب الدین سہروردی عوارف المعارف باب فقر۔ ۲؎ بال جبریل ۶۴ ۳؎ زبور عجم ۱۶۳ ۴؎ بال جبریل ۹۱ ۵؎ پس چہ باید کرد ۲۳ ۶؎ زبور عجم ۱۳۰ دل ما گرچہ اندر سینہ ماست ولیکن از جہان ما برون است ۱؎ یہی وہ دل ہے جو انسان کے سرمایہ حیات عقل و خرد کو شیطان کے حملوں اور ورعغلانوں سے محفوظ رکھتا ہے اور راہ راست دکھاتا ہے: خرد زنجیر بودے آدمی را اگر در سینہ رو دل نبودے ۲؎ یہی عقل و خرد جو انسان کے واسطے اس کائنات کو مسخر کرتی ہے اور اسے اشرف المخلوقات کا بلند مقام عطا کرتی ہے۔ اگرا س دل کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے تو کائنات مستقبل کے مہیب خطرات سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ اس لیے اس دل کی حفاظت اور اس کی پرداخت انسان کا اولین فرض ہے: ہمیں فقر است و سلطانی کہ دل را نگہ داری چو دریا گوہر خویش ۳؎ سنائی نے جواب دیا ہے کہ : سلطنت اندر جہاں آب و گل قیمت او قطرہ از خون دل ایک پر جلال و باشکوہ سلطنت ثمرہ ہے دل کے ایک قطرہ خوں کا۔ اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دل کی پرداخت یا اس کی نشوونما کیسے کی جائے؟ اس جسم خاک و خوں یا خانہ آب و گل میں دل کیسے بیدار ہوا؟ وہ دل جو فاروقؓ کے سینے میں موجزن تھا جو علی المرتضیٰؓ کی زندگی کا ماحصل تھا! دل بیدار فاروقی دل بیدار کراری مس آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری ۴؎ سنائی کہتا ہے کہ دل بیدار جو فاروقی و کراری میں جلوہ افروز رہا ہے۔ عشق کی پیداوار ہے۔ اقبال کے ہاں عشق پر بڑی تفصیلی بحث موجود ہے۔ اگر اس کے کلام کا مکمل احاطہ کیا جائے تو شاید ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ یہ عشق کیا شے ہے؟ فقر کی طرح عشق بھی ایک خاص اقبالی اصطلاح بن گیا ہے ویسے ہمارے ہاں فارسی ادب میں اور خصوصاً صوفیانہ ادب میں خواہ نثر ہو یا نظم عشق پر تفصیلی بحث موجود ہے۔ یہاں اس کے متعلق بحث کرنا کوئی فائدہ مند نہ ہو گا۔ اتنا معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمان حکماء فلاسفر اور صوفیہ کے ہاں عشق کو کائنات کی اصل قرار دیا گیا ہے۔ ۱؎ ارمغان حجاز ۱۶۸ ۲؎ ایضاً ص ۱۶۸ ۳؎ ایضاً ۱۶۷ ۴؎ بال جبریل ۵۷ مولانا روم کے ہاں بھی یہ تصور کارفرما ہے کہ ارتقاء حیات دراصل اسی عشق کی بدولت ہے جو کائنات کی ہر شے میں جاری و ساری ہے۔ پیام مشرق میں لالہ طور کی کئی رباعیات میں اقبال نے یہ تصور بیان کیا ہے: بباغاں باد فرور دیں دہد عشق براغاں غنچہ چوں پردیں وہد عشق شعاع مہر او قلزم شگاف است بماہی دیدہ راہ بیں دہد عشق دوسری رباعی میں فرماتے ہیں: بہ برگ لالہ رنگ آمیزی عشق بجان ما بلا انگیزی عشق اگر ایں خاکداں را وا شگافی درونش بنگری خوں ریزی عشق ۱؎ اور یہی عشق ہے جو انسان کی ایک خصوصی صفت ہے۔ خواجہ احرارؒ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جس امانت کا ذکر قرآن حکیم میں کیا گیا ہے جس کا بوجھ اٹھانے سے پہاڑوں اور دیگر مخلوق نے انکار کر دیا تھا اور انسان نے طوعاً اسے قبول کر لیا تھا۔ وہ امانت یہی عشق ہی تھا۔ سنائی فرماتے ہیں: زیر کی ربود عاشقی آدم این بمان تا بدان رسی دردم ۲؎ یہی خیال ہے جس کو رومی نے یوں بیان کیا ہے: زیر کی ز ابلیس و عشق از آدم است اسرار خودی میں خودی کی تکمیل کے لیے عشق کی منزل لازمی قرار دی گئی ہے: فطرت او آتش اندوزد عشق عالم افروزی بیا موزد ز عشق ۳؎ جس طرح اسرار خودی میں خودی کی تقویت او رتکمیل کے لیے اس عشق کا ذات محمدیؐ پر مرتکز ہونا ضروری قرار دیا ہے اسی طرح سنائی نے بھی اسی حقیقت کا برملا اظہار کیا ہے یہ عشق محمدیؐ محض جذباتی لگائو نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آیا ہو یا ان کا ذکر ہوا تو عقیدت کا اظہار کر دیا جائے بلہ عشق محمدی ؐ کا مفہوم جیسا کہ خود اقبال نے اسرار خودی کے ایک فٹ نوٹ میں بیان کیا ہے ۱؎ کلیات اقبال فارسی ۱۹۶۰ ۲؎ حدیقہ ص ۳۷۵ کلیات اقبال فارسی ۱۸ آپ کی کامل تقلید ہے ۱؎ چنانچہ سنائی اقبال کے جواب میں کہتا ہے: می ندانی عشق و مستی از کجاست ؟ ایں شعاع آفتاب مصطفی ست اسی عشق محمدی کے سوز میں مسلمان کی زندگی کا راز ہے۔ انسانی ہستی کے لیے جسم و مادہ کی پرداخت ایک ضروری پہلو ہے وہ اس کے ارتقائی مدارج کی ابتدائی منزل ہے جس کے بغیر اس کی روحانی ترقی ناقص رہ جاتی ہے۔ چنانچہ اسرار خودی کے انگریزی ترجمے کے دیباچے میں اقبال نے اس امر کی طرف خاص توجہ دلائی ہے پھر رموز بے خودی میں ایک عنوان ہے کہ توسیع حیات ملیہ از تسخیر نظام عالم است یعنی اس مادی دنیا پر قابو پانا خودی کے قویٰ کی تقویت کے لیے اشد ضروری ہے: حق جہاں را قسمت نیکاں شمرد جلوہ اش بادیدہ مومن سپرد قرآن حکیم میں مذکور ہے کہ یہ دنیا مومن کی میراث ہے۔ اسی آیت کی بنیاد پر اقبال نے یہ ظریہ قائم کیا ہے کہ اس جہاں کی تسخیر ملت کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔ علم اسما اعتبار آدم است حکمت اشیاء حصار آدم است ۲؎ گلشن راز جدید میں اسی مسئلے پر بحث کرتے ہوئے اس کے حدود بھی بیان کر دی ہیں یعنی مادی دنیا کی تسخیر کے ساتھ ساتھ دل کی دنیا کی طرف بھی توجہ ضروری ہے فرماتے ہیں: زمانے با ارسطو آشنا باش دمے باساز بیکن ہم نوا باش ولیکن از مقام شاں گزر کن مشو گم اندریں منزل سفر کن ۳؎ اسی حقیقت کو یعنی مادی دنیا کی تسخیر کے ساتھ دل کی طرف متوجہ ہونا اقبال نے مشہور حدیث کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے ایک دن آنحضرتؐ بیٹھے تھے کہ ذکر ہوا شیطان ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہے ۔ کسی صحابی نے سوال کیا کہ کیا آپؐ کے ساتھ بھی ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں لیکن میں نے اسے مسلمان بنا لیا ہے۔ یعنی مادی ماحول میں رہ کر بھی دل کی دنیا اسی طرح آباد ہے جس طرح کہ گویا مادی معاملات سے علیحدہ اور بے نیاز رہ کر کام ہو رہا ہے: ۱؎ کلیات فارسی ۲۲۰ ۲؎ ایضاً ۱۴۱۔۱۴۴ اس سلسلے میں دیکھیے جاوید نامہ کلیات فارسی ص ۶۶۲ ۳؎ کلیات ۵۴۸ کشن ابلیس کارے مشکل است زانکہ او گم اندر اعماق دل است خوشتر آں باشد مسلمانش کنی کشتہ شمشیر قرآنش کنی ۱؎ اس کو مولانا روم نے یوں بیا ن کیا ہے: علم را بر تن زنی مارے بود علم را بر جاں زنی یارے بود چنانچہ سنائی یہی نسخہ پیش کرتاہے: باخبر شو از رموز آب و گل پس بزن بر آب و گل اکسیر دل سب سے پہلے آب و گل کے رموز سے واقفیت ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ دل کی دنیا کی آبادی ضروری ہے۔ وگرنہ نتیجہ مہلک ہ گا۔ بوعلی صاحب علم و حکمت ہے جس کی خوشہ چینی کوئی بری شے نہیں لیکن اس کے ساتھ حکمت کلیمی سے اکتساب لابدی ہے۔ چنانچہ سنائی کا پیغام یہ ہے کہ: بو علی دانندہ آب و گل است بے خبر از خستیگہائے دل است مصطفی بحر است و موج او بلند خیز و ایں دریا بجوے خویش بند جب تک ہم مصطفیؐ کے سمندر میں غوطہ زن نہیں ہوں گے ہمیں منزل تک پہنچنا نصیب نہ ہو گا۔ اور اس سے سمندر میں غوطہ زن ہو کر لولوئے تابدار کا حصول بھی ممن ہے کہ ہم عقل کے ساتھ عشق خبر کے ساتھ نظر اور آب وگل کی دنیا میں دل کی پرورش کرتے رہیں۔ دل کی پرورش عشق محمدی ہی کی طفیل ممکن ہے: دل ز دیں سرچشمہ بر قوت است دیں از معجزات صحبت است دیں مجو اندر کتب اے بے خبر علم و حکمت از کتب دیں از نظر یہاں اقبال نے صحبت کی طرف اشارہ کیا ہے فرماتے ہیں کہ دین علمی طور پر تو یقینا کتابوں سے ہی حاصل ہوتا ہے لیکن دین کو اپنی ذات پر وارد کرنے کے لیے مردان خدا کی صحبت ناگزیر ہوتی ہے۔ خطاب بہ جاوید میں فرماتے ہیں: صد کتاب آموزی از اہل ہنر خوشتر آن درسے کہ گیری از نظر ہر کسے زاں مے کہ ریزد از نظر مست می گردد بانداز دگر ۲؎ ۱؎ کلیات اقبال ۶۶۳ ۲؎ جاوید نامہ ۲۳۸ کتابوں سے بلاشبہ علوم کا اکتساب ہوتا ہے لیکن آناں کہ خاک را بہ نظر کیمیا کنند کے بغیر تکمیل ذات ممکن نہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو دیدار ذات سے منور ہو کر لوگوں کو راہ راست کی طرف رہنمائی کا فرض سرانجام دیتے ہیں : فقر مقام نظر علم مقام خبر ۱؎ ایک جگہ مرید ہندی سوال کرتا ہے کہ اسنان کی غایت کیاہے خبر یا نظر؟ رومی اس کا جواب دیتا ہے: آدمی دید است باقی پوست است دید آں باشد کہ دید دوست است ۲؎ اوردوسرے الفاظ میں: جملہ تن را در گداز اندر بصر در نظر رو‘ در نظر رو‘ در نظر ۳؎ یعنی تکمیل انسانیت کے لیے صحبت مردان خدا ناگریز ہے: چارد سازیہائے دل از اہل دل مسلمانوں کی درماندگی کو دور کرنے کے لیے حکیم سنائی نے جو پیغام اقبال کی زبان سے دیا ہے اس کا لب لباب گویا یہ ہے کہ راہ حق پر پورے علم و یقین سے گامزن ہو ا جائے اور راستے کی مشکلات کو عشق مصطفیؐ کے نور سے دور کیا جائے۔ اس اسلامی نظام حیات کو محض احساس کمتری کے باعث ترک کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہمیں چاہیے کہ پورے عزم و حوصلہ اور مستقبل پر پورے یقین کے ساتھ ا سکو اپنایا جائے۔ معذرت خواہانہ رویہ ترک کر کے پورے اطمینان قلب سے اس کو اختیار کرنا چاہیے: پردہ بگذار آشکار اے گزیں اس پیغام کے آخر میں سنائی نے عالم غیب سے مستقبل کا ایک امید افزا نقشہ کھینچا ہے۔ میں نے کل فطرت کائنات کو دیکھا ہے جس کی آنکھوں کے سامنے ظاہر کے تما م پردے ختم ہو جاتے ہیں دیکھا کہ وہ آب و خاک کے آمیزے میں کچھ تلاش کر رہی ہے شاید کوئی انوکھی اور تازہ شبیہہ کی تعمیر کے لیے کوشاں ہے میں نے اس سے سوال کیا کہ وہ کس کی تلاش میں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ خدا کا حکم صادر ہوا ہے کہ ایک نئے آدم کی تخلیق کی جائے مگر اس پرانی مٹی سے… چنانچہ میں نے دیکھا… حکیم سنائی اقبال کو بیا ن کر رہے ہیں کہ اس نے مٹی کے ایک معمولی ٹکڑے کو کئی طرح سے آزمایا ‘ اسے پے بہ پے گرم کیا تولا اور پھر گرم کیا‘ آخر میں اس ٹکڑے کو لالہ کا آب و رنگ بکشا اور ا س کے ضمیر میں لا الہ کا تخم بویا۔ اس کے بعد مجھ سے مخاطب ہو کر کہا: باش تا بینی بہار دیگرے از بہار پاستاں رنگیں ترے ۱؎ بال جبریل ۱۱ ۲؎ ایضاً ۱۸۴ مثنوی دفتر اول شعر ۱۴۰۶ ۳؎ جاوید نامہ ۱۹ مثنوی رومی دفتر ششم شعر ۱۴۶۳ تم مسلمانوں کی موجودہ پستی سے پریشان ہو مگر اطمینان رکھو کہ حیات نے اس خاکی انسان سے ایک نئے مسلمان کی تعمیر کا عزم کر رکھا ہے اور بہت جلد وہ ایسی شان و شکوہ عظمت و جلال سے پردہ کائنات پر نمودار ہو گا کہ اس کی پرانی عظمت اس کی موجودہ اور مستقبل کی عظمت کے مقابلے میں ماند نظر آئے گی۔ حالات کتنے ہی ناسازگار نظر آتے ہوں مسلمان کی کامیابی کو اب کوئی روک نہیںسکے گا۔ لالہ را در وادی و کوہ و دمن از دمیدن باز نتواں داشتن ٭٭٭ حافظ اور اقبال ڈاکٹر یوسف حسین خان اقبال نے اسرار خودی کے پہلے اڈیشن کے منظوم باب میں حافظ کی شاعری پر اعتراض کیا تھا کہ ا س سے مسلمانوں میں بے عملی پیدا ہو گی ۔ اس نے ادبیات اسلامیہ کی اصلاح کے لیے جو اصول پیش کیے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فنی مقاصد سے زیادہ اخلاقی مقاصد کو عزیز رکھتا ہے۔ تصوف پر بھی اس کی یہ تنقید تھی کہ اس کے نزدیک وہ خواب آور ہے چنانچہ اس نے خودی کا نیا تصور پیش کیا جو اب تک خانقہی تصوف میںمذموم خیال کیا جاتا تھا۔ یہ تصور عمل اور آرزو مندی کا آئینہ دار ہے اور اس کے انفرادی اور اجتماعی مقاصد سے ہم آہنگ تھا۔ اس نے متصوف شاعروں کو مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ میرے خیال میں اقبال کی یہ تنقید اسی طرح یک طرفہ تھی۔ جس طرح اس کی فلاطوں پر تنقید تھی۔ حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو خود اقبال کے بعض خیالات پر افلاطوں کا اثر ہے۔ مقصد پسندی کے ادب میں افلاطوں کے اصول فن کار فرما نظر آتے تھے۔ افلاطوں کا کہنا تھا کہ فن (آرٹ) کو اخلاق کا تابع ہونا چاہیے۔ فن کی تخلیق مملکت کے مجموعی مفاد کے مطابق ہونی چاہیے۔ افلاطوں نے اپنے فلسفی بادشاہ کو مشورہ دیا تھا کہ صرف ان شاعروں کو ملک میں رہنے کی اجازت دی جائے جو نکو کاری کی تلقین کرتے ہوں۔ اور جن کی شاعری سے باہمی مقاصد کو فروغ حاصل ہوتا ہو۔ دراصل اقبال نے افلاطوں پر جو الزام لگایا اس کا اطلاق فلاطینوس سکندری پلاٹینس پر ہوتا ہے جس کے نو افلاطونی تصوف کے اثر صوفیا نے قبول کیا جن میں اقبال کے مرشد مولانا روم بھی شامل ہیں لیکن مولانا کے عشق کے جوش اور ولولے نے ان کے تصوف کی قلب ماہیت کر دی۔ اقبال نے اسی چیز کی پیروی اور تقلید کی اور اپنا روحانی سفر ان کی رہبری میں طے کیا۔ کچھ ایسا محسوس ہوت اہے کہ اقبال کی شخصیت ادبی ذوق کے معاملے میں منقسم تھی۔ ایک طرف تو وہ حسن بیان اور ادبی لطف کو پسند رکتا تھا اور دوری طرف کہتا تھاکہ مجھے رنگ و آب شاعری سے کوئی سروکار نہیں مجھ پر شاعرہونے کی تہمت کیوں لگاتے ہو؟ اس نے اردو اور فارسی دونوں میںشاعری کی۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی اس کی مادری زبان نہیںتھی۔ اس نے ان دونوں زبانوں کی تحصہل میں بڑی ریاضت کی۔ یہ اس کے وسیع مطالعے کا پھل تھا ہ اس نے دونوں زبانوں میں پوری قدرت حاصل کی۔ یہی نہیں بلکہ اپنا خاص اسلوب تخلیق کیا جو پہچانا جاتا ہے۔ شروع شروع میں لکھنو کے ادیبوں اور شاعروں نے اس کی زبان کو غیر فصیح کہا لیکن تھوڑے دنوں بعد سب اردو والوں نے اسے اپنا سب سے بڑا شاعر مانا۔ اہل ایران نے بھی اس کی فارسی کی ترکیبوں اور محاوروں پر اعتراض کیا تھا لیکن اب بھی وہ اس کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ایران میں اس کی شاعری پر بعض اونچے درجے کے ادیبوں نے اپنی آراء شائع کیں۔ اور اس کی شاعری کو سراہا ۱؎۔ اقبال نے فنی کمال حاصل کرنے کے لیے بڑی ریاضت کی اور اس بات کو ایک عالمگیر اصول کے طور پر پیش کیا کہ بغیر محنت کے کوئی فنی کمال کی بلندی تک نہیں پہنچ سکتا۔ ایجاد معانی میں اس نے حافظ اور بہزاد کی مثال پیش کی ہے اور اس انداز سے کہ گویا یہ دونوں دنیا کے بڑے فن کار ہیں: ہر چند کہ ایجاد و معانی ہے خدا داد کوشش سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر میخانہ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاد ہے محنت پیہم کوئی ہو ھر نہیںکھلتا روشن شرر تیشہ سے ہے خانہ فرہاد اقبال کی منقسم شخصیت کا اظہار اس سے بھی ہوتا ہے کہ حافظ پر کڑی تنقید کرنے کے باوجود وہ اس کے حسن ادا اور لطافت بیان کا قائل تھا اور شعوری طورپر کوشش کرتا تھا کہ اپنی فارسی غزلوں میں اس کا رنگ و آہنگ پیداکرے اور اس کے رموز و ملائم کو برتے اس نے حافظ کے استعاروں اور کنایوں کو اپنے فکر و فن میں رنگینی پیدا کرنے کے لیے سمونے کی پوری کوشش کی اور میرا خیال ہے کہ وہ بڑی حد تک اپنی اس کوشش میں کامیاب رہا۔ اقبال نے خلیفہ عبدالحکیم سے جو اس کے مقربروں اور معتقدوں میں سے تھے ایک مرتبہ گفتگو کے دوران کہا تھا کہ بعض اوقات مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حافظ کی روح مجھ میں حلول کر گئی ہے ۲؎۔ اس کے باوجود اقبال کا خیال تھا کہ حافظ کی دلبرانہ شاعری سخت کوشی اور زندگی کی جدوجہد کے منافی ہے اور اس کی خو ش باشی اور تسلیم و رضا کی تعلیم سے مسلمانوں کی عملی صلاحیتیں مفلوج ہو جائیں گی۔ وہ حافظ کی رندانہ بے خودی مے گساری اور زندگی کی بے ثباتی کی تلقین کو ان اخلاقی مقاصد کی ضد سمجھتا تھا۔ جو اس کے پیش نظر تھے۔ اس سے قبل حالی نے بھی اسی قسم کے خیالات ظاہر کیے تھے اور اردو کی عاشقانہ شاعری کو ناپاک دفتر کہا تھا جس کی عفونت سے اجتماعی زندگی زہر آلود تھی۔ حالی نے بھی سر سید احمد خاں کی تحریک کے اثر میں آ کر افلاطونی اصول کا پرچار کیاتھا کہ ادب کو اخلاق کا تابع ہونا چاہیے۔ ۱؎ ایران کے عہد جدید کے جن بلند مقام شاعروں نے اقبال کی فنی اور فکری عظمت کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور اس کے فارسی کلام کی خوبی و زیبائی کو تسلیم کیا ہے ان میں ملک الشعراء بہار ‘ علامہ دہخدا‘ آقائی صادق سرمد شاعری ملی ایران‘ ااقائی حبیب نعیمانی‘ آقائی رجائی آقائی ادیب برومند‘ آقای وکتر قاسم رسا اور آقای علی فدای شامل ہیں۔ آکر الذکر نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ اقبا ل نے باوجود اس کے کہ فارسی اس کی مادری زبان نہیں اس زبان کو پوری قدرت اور فصاحت کے ساتھ برتا اور اس طرح ایک محال بات کو ممکن کر دکھایا۔ (رومی عصر عبدالحمید عرفانی چاپ تہران) ملک الشعراء بہار نے نہ صرف اقبال کے کلام کی ادبی خوبیوں کا اعتراف کیا بلکہ اس کی مفکرانہ عظمت کو سراہا اور کہا کہ وہ ہماری ہزار سالہ اسلامی تہذیب و فکر و نظر کا ثمر ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال نے اسلامی علوم و حکمت کو اپنی فکر میں جذب کر لیا لیکن اس کے علاوہ اس نے مغربی تفکر کے ان عناصر کو بھی اپنے جذبہ تخیل سے ہم آمیز کیا جو اسلامی تہذیب کی روح سے موافقت رکھتے تھے۔ اس طرح اس کی شاعری میںمشرقی او رمغربی علم و ادب کا سنگم نظر آتا ہے جس کی مثال کسی دوسرے کے یہاں نہیںملتی۔ ۲؎ فکر اقبال۔ ص ۳۷۴ یور پ سے واپسی کے بعد اقبال نے اپنی زندگی کا مقصد یہ ٹھہرایا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو عمل کے لیے متحرک کرے اس لیے اس نے نوجوان مسلمانوں کو حافظ کی دلبرانہ شاعری کے مضر اثرا ت سے آگاہ کیا اور ان کی توجہ اجتماعی مقاصد کی طرف مبذو ل کی۔ چنانچہ اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن میں اس نے کہا: ہوشیار از حافظ صہبا گسار جامش از زہرا جل سرمایہ دار رہن ساقی خرقہ پرہیز او می علاج ہول رستا خیز او نیست غیر از بادہ در بازار او از دو جام آشفتہ شدد ستار او آں فقیر ملت می خوارگاں آں امام امت بی چارگاں نغمہ چنگش دلیل انحطاط ہاتف و جبرئیل انحطاط مار گلزاری کہ دارد زہر ناب صید را اول ہمی آرد بخواب بی نیاز از محفل حافظ گزر الحذر از گو سنفداں الحذر لطف یہ ہے کہ اس کڑی تنقید میں بھی اقبال حافظ کے پیرایہ بیان کے جادو سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس کایہ مصرعہ ازدوجام آشفتہ شددستار او حافظ کے اس شعر کی بازگشت ہے جس میں س نے صوفی کی کم ظرفی ظاہر کی ہے کہ تھوڑی سی پی کر اس نے اپنی ٹوپی ٹیڑھی کر لی دو پیالے اور پی لیتا تو اس کی پگڑی کھل کر زمین پر گر جاتی: صوفی سر خوش ازیں دست کہ کج کرد کلاہ بداجام دگر آشفتہ شود دستارش اقبال کا یہ مصرعہ ازدوجام آشفتہ شدستار او حافظ کے مندرجہ بالا شعر کے زیر اثر لکھا گیا ہے۔ پھر اس تنقید میں اقبال نے حافظ اور عرفی کا مقابلہ کیا ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ دونوں شیرازی ہیں حافظ کو اس نے جادو بیانی اور عرفی کو آتش زبانی کے اوصاف سے متصف کیا ۔ لیکن اس کے ساتھ حافظ پر اس کا یہ اعتراض تھا کہ وہ رمز زندگی سے نا آشنا تھا اور اس میں ہمت مردانہ کی کمی تھی عرفی کی توانائی اور بلند حوصلگی کو اس نے سراہا اور اسے حافظ پر ترجیح دی۔ اس کا خیال تھا کہ عرفی کے خیالات اس کے فلسفہ خودی سے ہم آہنگ ہیں۔ ا س نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ عرفی ہنگامہ خیز کے ساتھ بیٹھ کر شراب نوشی کرو تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اگر زندہ ہو تو حافظ سے احتراز نہ کرو۔ اس یلے کہ وہ زندگی کو موت میں بدل دے گا۔ اس کا ساغر آزادوں اور متحرک انسانوں کے لیے نہیں۔ حافظ جادو بیاں شیرازی است عرفی آتش بیاں شیرازی است ایں سوی ملک خودی مرکب جہاند آں کنار آب کنار باد ماند ایں قتیل ہمت مردانہ آں ز رمز زندگی بے گانہ روز محشر رحم اگر گوید بگیر عرفیا! فردوس و حور او حریر غیرت او خندہ برحورا زند پشت پا برجنت الماویٰ زند بادہ زن با عرفی ہنگامہ خیز زندہ از صحبت حافظ گریز اقبا ل نے عرفی کو حافظ پر اس واسطے سے ترجیح دی ہے کہ اس کے کلا م میں بعض ایسے اشعار ملتے تھے جن سے قوت و توانائی اور حوصلہ مندی ظاہر ہوتی ہے۔ مولانا اسلم جیراجپوری کے نام اپنے خط میں اس نے لکھا: ’’خواجہ حافظ پر جو اشعار میں نے لکھے تھے ان کا مقصد محض ایک لٹریری اصول کی تشریح و توضیح تھا۔ خواجہ کی پرائیویٹ شخصیت یا ان کے معتقدات سے سروکار نہ تھا لیکن عوام اس باریک امتیاز کو سمجھ نہ سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس پر بڑی لے دے ہوئی۔ اگر لٹریری اصول یہ ہو کہ حسن حسن ہے خواہ اس کے نتائج مفید ہوں خواہ مضر تو خواج دنیا کے بہترین شعرا میں سے ہیں۔ بہرحال میں نے وہ اشعار حذف کر دیے ہیں اور ان کی جگہ اس لٹریری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جس کو صحیح سمجھتا ہوں عرفی کے اشارے سے محض اس کے بعض اشعار کی طرف تلمیح مقصود تھی مثلاً: گرفتم آنکہ بہشتم و ہند بے طاعت قبول کردن صدقہ نہ شرط انصاف است لیکن اس مقابلے سے حافظ اور عرفی کے درمیان میں خو د مطمئن نہ تھا۔ اوریہ ایک زید وجہ ان اشعار کو حذف کر دینے کی تھی۔ دیباچہ بہت مختصر تھا اور اپنے اختصار کی وجہ سے غلط فہمی کا باعث تھا جیسا کہ مجھے بعض احباب کے خطوط سے اور دیگر تحریروں سے معلوم ہوتاہے کہ جو وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہیں… تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے اور یہی مفہوم قرون اولیٰ میں اس کا لیا جاتا تھا تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ہاں جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اورعجمی اثرات کی وجہ سے نظام عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کیا جاتاہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے ۱؎‘‘۔ اقبال نے اپنے خط بنام اکبر الہ آبادی میں لکھا ہے: ’’میں نے خواجہ حافظ پر کہیں یہ الزا م نہیںلگایا کہ ان کے دیوان میں مے کشی بڑھ گئی ہے ۔ میرا اعتراض حافظ پر اور نوعیت کا ہے اسرار خودی میں جو لکھا گیا ہے وہ ایک لٹریری نصب العین کی تنقید تھی جو مسلمانوں میںکئی صدیوں سے پاپولر ہے۔ اپنے وقت میں اس نصب العین سے ضرور فائدہ ہوا۔ اس وقت یہ غیر مفید ہی نہیںبلکہ مضر ہے خواجہ حافظ کی ولایت سے اس تنقید میں کوئی سروکار نہ تھا۔ نہ ان کی شخصیت سے نہ ان اشعار میں مے عسے مراد وہ ہے جو لوگ ہوٹلوں میں پیتے ہیں بلکہ اس سے وہ حالت سکر مراد ہے جو حافظ کے کلام سے بہ حیثیت مجموعی پیدا ہوتی ہے ۲؎‘‘۔ ۱؎ اقبال نامہ جلد اول ص ۵۔۵۴ ایضاً جلد دوم ص ۴۔۵۳ اقبال نے عرفی کو حافظ پر اس واسطے ترجیح دی تھی کہ اس کے یہاں جوش اور توانائی کا اظہار ہے۔یہ خصوصیت اکبری عہد کے اکثر شاعروں کے کلام میں ہے ۔ وہ زمانہ مغلوں کی اقبال مندی کا مرانی او ر اقتدا رکا تھا جس کا اثر عام طور پر طبائع پر پڑنا لازمی تھا۔ عرفی اگر ایران میں ہوتا تو غالباً اس کے کلام میں وہ قوت اور تمکنت نہ ہوتی جو اس عہد کے ہندوستان میں زندگی بسر کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ فیضی کے یہاں بھی شان و تحکم کی کمی نہیں۔ پھر باوجود انداز بیان کی بلند آہنگی کے اکبری عہد کے سب شاعروں کا قوی رجحان تصوف کی طرف ہے اسی روایتی تصوف کی طرف جو اقبا کو ایک آنکھ نہیں بھاتا عرفی نے تو تصوف پر ایک رسالہ بھی لکھا ہے جس کا نام نفسیہ رکھا تھا جس کی نسبت صاحب مآثڑ رحیمی نے لکھا ہے۔ ’’ورسالہ نیز موسوم بہ نفسیہ در نثر نوشتہ کہ صوفیان و درویشان راسر لوحہ دفتر تصوف و تحقیق می تو اند شد‘‘۔ پھر اس کے دیوان میں بھی حافظ کے دیوان کی طرح شاہد و شراب پر ہزاروں اشعار موجود ہیںَ معشوق پرستی میں باوجود اپنی خودداری اور نخت کے ہر قسم کی ذلت برداشت کرنے پر فخر کیا ہے۔ کفر عشق کا اسی طرح ذکر کرتا ہے جس طرح دوسرے شعرائے متصوفین کرتے ہیں۔ عرفی کی خود پسندی کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے سامنے کسی دوسرے شاعر کو خاطر میں نہیں لاتا۔ سعدی کے متعلق اس نے لکھا ہے کہ اس نے اپنے شیرازی ہونے پر اس لیے فخر کیا تھا کہ اسے معلوم تھا کہ یہ میرا بھی وطن ہونے والا ہے۔ لیکن حافظ کے آگے اس نے بھی گھٹنے ٹیک دیے اور اس کا سر عقیدت سے جھک گیا چنانچہ کہتا ہے: بگرد مرقد حافظ کہ کعبہ سخن است در آمدیم بعزم طواف در پرواز اس سے یہ واضح ہو گیا کہ اقبال نے عرفی کو حافظ پر جو ترجیح دی تھی و ہ اس کے چند اشعار کی بنا پر تھی جن میں متحرک تصورات بیان کیے گئے تھے۔ اس قسم کے متحرک تصورات حافظ کے یہاں بھی جن کی نشاندہی ہم آئندہ صفحات میں کریں گے۔ اسی لیے اسرار خودی کے دوسرے اڈیشن سے یہ حصہ خارج کر دیا گیا میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں وہ اکبر الہ آبادی کی رائے سے بھی متاثر ہوا۔ اقال نے حافظ پر اور تصوف کے متعلق جو اعتراض کیے تھے ان سے صوفیوں میں بڑی برہمی پیدا ہو گئی تھی۔ خواجہ حسن نظامی نے اقبا ل کے خلاف مضامین لکھے جن کے جواب میں اس نے امرتسر کے اخبار وکیل میں شائع کیے۔ اس بحثا بحثی نے کافی طول کھینچا۔ اکبر الہ آبادی بھی اس معاملے میں خواجہ حسن نظامی کے ہمنوا تھے۔ لیکن وہ چونکہ ذاتی طو ر پر اقبال کو عزیز رکھتے تھے اس لیے انہوں نے خواجہ حسن نظامی پر روک کا کام کیا۔ اپنے ایک خط میں انہوں نے خواجہ صاحب کو مشور ہ دیا کہ : ’’اقبال سے زیادہ نہ لڑیے دعا ے ترقی و درستی اقبال کیجیے‘‘۔ بایں ہمہ اکبر الہ آبادی نے اپنے مخصوص رنگ میں اس معاملے میں طبع آزمائی کی جس سے اقبال کے خیالات پر عام صوفیوں کے احساسات کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ تصوف کی حمایت میں کہتے ہیں: زبان سے دل میں صوفی ہی خدا کا نام لاتا ہے یہی مسلک ہے جس میں فلسفہ اسلام لاتا ہے سخن میں یوں تو بہت موقع تکلف ہے خود خدا سے جھکے بس یہی تصوف ہے اقبال کی تنقید سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ اس کا خودی کا فلسفہ مذہبی کم اور سیاسی زیادہ ہے۔ وہ اجتماعی تنظیم کے بعدسیاسی قوت و اقتدار کاخواب دیکھ رہا ہے۔ جن لوگوں نے ی رائے قائم کی تھی وہ میرے خیال میں غلطی پر نہیں تھے۔ چنانچہ اکبر الہ آبادی نے بھی اپنے ان اشعار میں جو اقبال کے شعرپر تضمین ہیں اسی خیال کو پیش کیا ہے: حضرت اقبال اور خواجہ حسن پہلوانی ان میں ان میں بانکپن جب نہیں ہے زور شاہی کے لیے آئو گتھ جائیں خدا ہی کے لیے ورزشوں میں کچھ تکلف ہی سہی ہاتھا پائی کو تصوف ہی سہی ہست درہر گوشہ ویرانہ رقص می کند دیوانہ با دیوانہ رقص ۱؎ اکبر الہ آبادی نے جس سیاسی اقتدار کو موہوم خیال کیا تھا وہ بالآخر حقیقت بن گیا ہے جسے وجود میں لانے پر اقبال کا بڑا ہاتھ ہے ۔ اس نے اسرار خود میںاپنے ہم مشربوں سے شکایت کی تھی کہ میں تو انہیں شکوہ خسروی دینا چاہتا ہوں تاکہ تخت کسریٰ ان کے پائوں تلے رکھ دوں اوروہ ہیں کہ مجھ سے عشق و عاشقی کی حکایت آب و رنگ شاعری میں سموئی ہوئی سننا چاہتے ہیں۔ اسی لیے انہیں میرے دل کی کیفیت کا پتا نہیں کہ اس کے اندر کتنی بے قراری اور تڑپ کروٹیں لے رہی ہے: من شکوہ خسروی اورا دہم تخت کسریٰ زیر پای اونہم او حدیث دلبری خواہد زمن رنگ و آب شاعری خواہد زمن بے خبر بے تابی جانم ندید آشکارم دیدہ و پنہانم ندید اقبال کو اپنے پیغام کی صداقت پر پورا یقین تھا۔ وہ پورے اعتماد و وثوق سے کہتا ہے کہ مجھے غلاموں کی پیشانی پر سلطانی شان اور دبدبہ دکھائی دیتا ہے ۔ اس پر کسی کو تعجب نہ کرنا چاہیے اگر ایاز کی خاک سے شعلہ محمود کی تابناکی نمایاں ہو۔ اس کاروئے سخن نہ صرف مسلمانوں کی طرف بلکہ سب ایشیائی اقوام کی طرف تھا جو اس وقت مغرب کی استعماری قوتوں کی غلام تھیں: من بسیمای غلاماں فر سلطاں دیدہ ام شعلہ محمود از خاک ایاز آید بروں حافظ کے متعلق اقبال کی تنقید کی تہ میں جو متحرک کام کر رہا تھا اسے سمجھنا ضروری ہے۔ دراصل اقبال کو خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حافظ کے دلبرانہ پیرایہ بیان کے سامنے اس کی افادیت اورمقصد پسندی کی شاعری رکھی پھیکی سمجھی جائے۔ اس لیے اس نے ایک طر ف تو آب و رنگ شاعری کو غیر ضروری بتایا اور دوسری جانب کوشش کی کہ اس کے اشعار میں توانائی کے ساتھ دلکشی بھی پیدا ہو۔ اس بات کے لیے اس نے بلا تکلف حافظ کے پیرایہ بیان کا تتبع کیا۔ ۱؎ خطوط بنام اکبر الہ آبادی خاص کر اپنی غزلوں میں۔ اقبال کو اگرچہ احساس تھا کہ حافظ کی روح اس کے جسم میں حلول کیے ہوئے ہے ۔ لیکن زمانے کا تقاضا تھا کہ وہ اپنی ساری فنی صلاحیتوں کو اجتماعی مقاصد کے فروغ دینے میں صرف کر دے۔ اقبال کی شاعرانہ فکر جب پروان چڑھی تو اس وقت تقریباً سارا عالم اسلامی اور ایشیا کے دوسرے ملک سامراجی شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کا انحطاط حد کو پہنچ چکا تھا۔ غیر قوم کی غلامی پستی اور بے چارگی معاشرتی انتشار علم و فن میں پس ماندگی یہ تھی ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت سید احمد خاں کی تحریک نے نیند کے ماتوں کو جھنجھوڑ کر اٹھایا تھا لیکن ابھی تک آنکھیں آدھی کلی اور آدھی بند تھیں۔ ابھی تک اہیں اپنے اوپر اعتماد نہیں تھا۔ خود شناسی کی منزل تو ابھی کالے کوسوں دور تھی۔ وہ دوسروں کے سہارے جی رہے تھے لیکن دوسروں کے سہارے کوئی جماعت زندگی کی دوڑ میں آگے نہیں بڑھ سکتی۔ حالی قومی زندگی کے بڑے خلوص کے ساتھ نوحہ خوانی کر چکے تھے۔ اب ضرورت تھی کہ ادب میں اجتماعی معونیت پیدا کی جائے تاکہ اس کے ہمرہان سست عناصر عمل اور حرکت کے لیے آمادہ ہوں اور ان کے دل میں ترقی کا حوصلہ پیدا ہو۔ اقبال کی شاعری کا مقصد اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ اجتماعی زندگی کے احوال بدلنے سے احساس و فکر کی صورتیں بھی بدلتی ہیں جن کا عکس زمانے کے فن میں نظر آتا ہے۔ حالی سر سید احمد خاں کی مقرر کی ہوئی حدود سے باہر نہ جا سکے اقبال کی پرواز محدود نہ تھی وہ فضا کی وسعتوں سے آنکھ مچولی کھیلتی رہی۔ وہ طائر زیر دام نہیں بلکہ طائر بالائے بام تھا جس کی آزدی کی کوئی حد نہ تھی۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے علاوہ عالم اسلامی اور ایشیا کی دوسری قوموں کی ابتری اورانحطاط کا گہرا اثراقبال کے د ل و دماغ نے قبول کیا۔ ہندوستان کے مسلمان مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد انتہائی پستی اور بے بسی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ترکستان شمال مغربی چین انڈونیشیا مالیشیا شمالی افریقہ سب غلامی میں مبتلا تھے۔ ان حالات میں اگر اقبال جیسے حساس شاعر نے اجتماعی معنویت کے لیے اپنی شاعری کو وقف کر دیا تو اس پر کوئی تعجب نہ ہونا چاہیے۔ نہ اسے معمول کے خلاف کہا جا سکتا ہے۔ خودی کے استحکام کے ساتھ اس نے جدید علوم سائنس کی تحصیل پر زور دیاتاکہ اس کی پس ماندہ جماعت میں تسخیر فطرت کی صلاحیت پیدا ہووہ خانقاہی تصوف کی سکونی دروں بنینی کے بجائے متحرک قسم کی بروں بین کا احساس پید اکرنا چاہتا تھا تاکہ انفس و آفاق دونوں کی بصیرت حاصل ہو۔ انفس کی حد تک خودی کا احساس اور آفاق کی حد تک سائنس کی تعلیم کو جماعیتی امراض کا علاج تجویز کیا۔ اقبال کا خیال تھاکہ حافظ کی شاعری اور متصوفانہ خیالات سے جماعت کی قوت عمل کمزور ہو گی۔ وہ ان خیالات کو عجمی لے سے تعبیر کرتا ہے جو خواب آور ہے۔ اس کا عقیدہ تھا کہ کوئی جماعت بھی حرکت و عمل کے جوکھوں میں پڑے بغیر سر بلندی نہیں حاصل کر سکتی۔ تاثیر غامی سے خودی جس کی ہوئی نرم اچھی نہیںاس قوم کے حق میں عجمی لے ایسی کوئی دنیا نہیں افلاک کے نیچے بے معرکہ ہاتھ آئیں جہاں تخت عجم و کے دوسری جگہ اسی مضمون کو اس طرح اداکیا ہے: ہے شعر عجم گرچہ طربناک و دل آویز اس شع سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز مشرقی اقوام کی حالت دیکھتے ہوئے وہ پیر مغاں سے درخواست کرتا ہے کہ انہیں مقصدیت کی شراب پلا کہ وہی ان کے لیے حقیقت ہے مجاز کی شراب پینے پلانے کا زمانہ گیا۔ تجھ کو خبر نہیں ہے کیا بزم کہن بدل گئی اب نہ خدا کے واسطے ان کو مے مجاز دے اس کے خیال میں اہل مشرق کو باکل نئی قسم کی نے اور مے کی ضرورت تھی۔ ایسی نے جس کی نوا سے دل سینوں میں رقص کرنے لگیں۔ اور ایسی مے جو جان کے شیشے کو پگھلا دے: نی کہ دل ز نوایش بسینہ می رقصند می کہ شیشہ جاں را دہد گداز آور دوسری جگہ اسی مطلب کو اس طرح بیان کیا ہے: بہر زمانہ اگر چشم تو نکو نگرد طریق میکدہ و شیوہ مغاں دگر است من آں جہان خیالم کہ فطرت ازلی جہان بلبل و گل را شکست و ساخت مرا یورپ کے قیام کے دوران میں اقبال نے دیکھا کہ وہاں عقلیت کے خلاف زبردست ردعمل رونما ہو چکا ہے۔ اور سائنٹفک جبریت کی جگہ ارادیت اور عقلیت کی جگہ وجدانیت کا فلسفہ مقبول ہے۔ ارادیت والنڑازم اور وجدان (ان ٹیوشن) دونوں میں انسانی نفس کی آزادی کے اصول کو تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ دونوں فلسفے مادیت کی جبریت کے مقابلے میں مذہبی اور اخلاقی تعلیم سے ہم آہنگ تھے اور ان میں انسانیت کے لیے اصلاح و ترقی اور امید و آزادی کا پیغام پوشیدہ تھا اقبال ان تصورات سے متاثر ہوا۔ چونکہ خود اس کا ذہن فعال اور تخلیقی تھا۔ اس نے مغربی علم و حکمت کے ان اثرات کو اسلامی رنگ میں ڑنگ دیا اور بڑی خوبی سے مغربی افکار پر مشرقی روحانیت کا غازہ مل دیا۔ مشرقی اور مغربی علم و حکتم کے ان اثرات کا اسلامی رنگ میں رنگ دیا اور بڑی خوبی س مگربی افکار پر مشرقی روحانیت کا غازہ ل دیا۔ مشرق اور مغربی علم و فکر سے جو مرکب بنا وہ اس کا اپنا ہے۔ چونکہ اس کے بنانے میں اس کا ذوق اور خون جگر بھی سرایت کر دیا ہے اس لے ہم اسے ا س کی روحانی تخلیق کہہ سکتے ہیں۔ اس کا ذہن انتخابی ذہن تھا لیکن وہ کچھ بھی دوسروں سے لیتا تھا اس پر اپنی شخصیت کی چھاپ لگا دیتا تھا۔ اس بات کو دراصل زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے کہ اس کے فیضان کے سرچشموں کو دریافت کیا جا سکے۔ بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے مختلف ذہنی اور روحانی عناصرکو اپنے دل کی آنچ میں تپا کر کیا شکل و صورت عطا کی اور اپنے فنی وجدان سے انہیں کس طرح نئے اندراز میں معنی خیز بنایا۔ اسلامی مفکروں اور شاعروں میں اس نے سب سے زیادہ اثر مولانا روم کا قبول کیا۔ انہیں کی رہبری میں اس نے افلاک کی روحانی سیر کی جس کی تفصیل جاوید نامہ میں ہے۔ اقبال کی طرح مولانا روم کا تصوف بھی متحرک ہے۔ اگرچہ خودی کا ان کے یہاں وہ مفہوم نہیں جو اقبال نے اسے دیا ہے۔ پھر مولانا کے یہاں ماورائیت اور ہمہ اوستی فلسفہ دونوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ یہاں بھی اقبال نے انتخاب سے کام لیا ہے اور ان کی مثنوی سے وہی چیزیں لی ہیں جو اس کو اپنے تصورات سے ہم آہنگ ہیں۔ اسلامی حکما میں ابن مسکویہ‘ ابن عربی اور عبدالکریم جیلی اور مغربی مفکروں میں فشٹے نیٹشے برگسوں اور وارڈ اور شاعروں میں گوئٹے کا اثر اقبال کے فکر و فن میں نمایاں ہے۔ غرض کہ ان سبھوں کے توانا اور متحرک تصورات کو اقبال نے ایک نئے قابل میں ڈھال کر اپنی شاعری کی صورت گری کی ۔ ان حکماء کے خیالات کو اس نے اپنے جذبہ و تخیل کا اس خوبی سے جز بنایا کہ وہ اسی کے ہو گئے۔ اقبال نے حافظ کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ وہ اس کے پیرایہ بیان کا دلدادہ تھا لیکن وہ محسوس کرتا تھا کہ جس جماعت سے اس کا تعلق ہے اسے سکون و اطمینان سے زیادہ ہیجانی اور جذباتی کیفیت کی ضرورت ہے جو اسے مقاصد کے حصول پر اکسا سکے ۔ وہ اپنے ارادے اور اختیار کو برنا سیکھے جس کے بغیر ترقی اور اصلاح ممکن نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اقبال نے جو زندگی کی حکمت پیش کی وہ اجتماعی معنویت کے فنی اثبات کا زبردست کارنامہ ہے جس کی مثال مشرقی ادب میں نہیںملتی۔ خود مولانا روم جن کی مریدی پر اسے فخر تھا بڑی حد تک اجتماعی مقصد پسندی سے نابلد تھے اور اگر واقف تھے تو کوئی واضح نقوش ان کے ذہن میں نہیں تھے میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی ادب کی تاریخ میں کسی زمانے میں بھی تخلیقی ادب کو اس انداز سے پیش نہیں کیا گیا جس انداز میں اقبا ل نے اسے پیش کیا۔ اس نے مولانا روم کے خیالات کی نئی تعبیر و توجیہہ کی اور اس ضمن میں جونکتہ آفرینیاں کیں ان کی مثال نہیںملتی۔ اس سے خود اس کے قلب و نظر کی وسعت گہرائی اور توانائی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس نے مولانا روم سے بہت کچھ لیا اوراپنی تعبیر و توجیہہ سے انہیں بہت کچھ دیا بھی۔ اسنے مولانا کے خیالات کے لیے حافظ کا پیرایہ بیان اختیار کیا خاص کر اپنی غزلوں میں اس طرح اس کے یہاں مولانا اور حافظ پہلو بہ پہلو پائے جاتے ہیںَ اقبال کو متصوفانہ شاعری اور خاص طور پر حافظ پر یہ اعتراض تھا کہ اس کے رموز علائم سے اسلامی تہذیب کی بنیادیں متزلزل ہو گئیں مشرق وسطے اورایران کے صوفیا نے فلاطینوس سکندری پلاٹینس کے باطنی فلسفے کی پیروی کی شیخ الاشراق شہاب الدین سہروردی نے اسے اپنی تصنیف حکمت الاشراق میں مرتب کر کے وحدت الوجود کو نظام کائنات کی صورت میں پیش کیا۔ اس کے نزدیک ذات واجب نور محض ہے جس کا اشعاع یا اشراق تمام کائنات ہستی میں نظر آتا ہے۔ کائنات کے نظم میں تدریج پائی جاتی ہے جو روح کلی سے لے کر ادے تک مختلف شیون میں ظہور پذیر ہوتی ہے ۔ عالم کا نظام باہمی کشش سے قائم ہے۔ یہ پوری بحث افلاطوں اور فلاطینوس سکندری کے یہاں علمی تجرید کے اندا زمیں ہے۔ ان کے یہاں عشق و محبت کی گرمی اور سپردگی نہیںپائی جاتی۔ اس کے برعکس اسلامی تصوف میں نوافلاطونی تصورات سے فیض اٹھانے کے بعد انہیں اپنے طور پر نئے رنگ میں ڈھال دیا گیا۔ قرون اولیٰ کے صوفیا میں بھی عشق و محبت کی شدت ملتی ہے۔ ان کے یہاں عشق و محبت کو تزکیہ باطن کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ موجوات میںفطری طور پر جو کشش پائی جاتی ہے وہی عشق ہے۔ حق تعالیٰ نور الانوار اور کائنات میں سب سے زیادہ حسین ہے۔ اس لیے اس کی محبت سے انسان کو جومسرت حاصل ہوتی ہے وہ کسی دوسری شے کی محبت سے نہیں ہوتی۔ حکمت اشراق کی بدولت وحدت وجود کے خیاالت متصوفانہ شاعر ی کا جز بن گئے ۔ خد اقبال کے مرشد مولانا روم کے یہاں فلسفہ اشراق کا اثر موجودہے۔ اقبال کی طرح مولانا کے یہاں بھی عشق ارتقاء کا محرک ہے۔ مثنوی میں یہ تصور مختلف صورتوں میں پیش کیا گیا ہے کہ ہر انسانی روح خدا سے جدا ہو کر اس کی طر ف لوٹ جانا چاہتی ہے۔ ہر کسے کو دور ماند از اصل خویش باز جوید روزگار وصل خویش غرض کہ شعرائے متصوفین نے وحدت وجود اور عشق ومحبت کے بارے میں جن خیالات کی ترویج و اشاعت کی وہ اسلامی فکر کا جز بن گئے ۔ اقبال کا خیال ہے کہ متصوفانہ شاعری مسلمانوں کے سیاسی انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوئی۔ جب کسی جماعت میں قوت و اقتدار اور توانائی مفقود ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ تاتاریوں کی یورش کے بعد مسلمانوں میں ہو گئی تو اس کے نزدیک ناتوانی حسین و جمیل شے بن جاتی ہے اور ترک دنیا کے ذریعے وہ اپنی شکست اور بے عملی کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے چنانچہ اقبال نے اپنے خط بنام سراج الدین پال لکھا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ کسی مذہب یا قوم کے دستور العمل و شعار میں باطنی معنی تلاش کرنا یا باطنی مفہوم پیدا کرنا اصل میں اس دستور العمل کو مسخ کر دینا ہے۔ یہ ایک نہایت سٹل طریق تنسیخ کاہے۔ اور یہ طریق وہی قومیں اختیار یا ایجاد کرتی ہیں جن کی فطرت گوسفندی ہو۔ شعرائے عجم میں بیشتر وہ شعرا ہیں جو اسے اپنے فطری میلان کے باعث وجودی فلسفے کی طرف مائل تھے اسلام سے پہلے بھی ایرانی قوم میں یہ میلان طبیعت موجود تھا اور اگرچہ اسلام نے کچھ عرصے تک اس کا نشوونما نہ ہونے دیا تاہم وقت پا کر ایران کا آبائی اور طبعی مذاق اچھی طرح سے ظاہر ہوا یا بالفاظ دیگر مسلمانوں میں ایک ایسے لٹریچر کی بنیاد پڑی جس کی بنا وحدت الوجود تھی۔ ان شعراء نے نہایت عجیب وغریب اور بظاہر دل فریب طریقوں سے شعائر اسلام کی تردید و تنسیخ کی ہے اور اسلام کی ہر محمود شے کو ایک طرح سے مذموم بیان کیاہے۔ اگر اسلام افلاس کو برا کہتا ہے تو حکیم سنائی افلاس کو اعلیٰ درجے کی سعادت قرار دیتا ہے۔ اسلام جہاد فی سبیل اللہ کو حیات کے لیے ضروری تصور کرتا ہے۔ تو شعرائے عجم ا س شعار اسلام میں کوئی اور معنی لاش کرتے ہیں مثلاً: غازی زپے شہادت اندر تگ و پوست غافل کہ شہید عشق فاضل ترازو ست در روز قیامت ایں باو کے ماند ایں کشتہ دشمن است وآں کشتہ دوست یہ رباعی شاعرانہ اعتبار سے نہایت عمدہ ہے اور قابل تعریف ہے۔ مگر انصاف سے دیکھیے تو جہاد اسلامیہ کی تردید میں اسے سے زیادہ دل فریب اور خوب صورت طریق اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ شاعرنے کملا یہ کیا ہے کہ جس کو اس نے زہر دیا تھا اس کو احساس بھی اس امر کا نہیں ہو سکتا کہ مجھے کس نے زہر دیا ہے بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ مجھے آب حیات پلایا گیا ہے۔ آہ مسلمان کئی صدیوں سے یہی سمجھ رہے ہیں ۱؎‘‘۔ اقبال کا بنیادی اعتراض حافظ پر یہ ہے کہ اس کی دنیا کی بے ثباتی کی تعلیم اور اس کا دلبرانہ پیرایہ بیان سخت کوشی اور زندگی کی جدوجہد کے منافی ہے۔ اس کی خوش باشی اور عشق و محبت کی شاعری سے اندیشہ ہے۔ کہ نوجوانوں کو عمل کی صلاحیت مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ ۱؎ خطوط اقبال جلد ۱ ص ۶۔۳۵ اس کی تسلیم و رضا کی تعلیم اور رندانہ بے خودی لوگوں کو غلط راستے پر ڈال دے گی اور اجتماعی مقاصد ان کی نظروں س اوجھل ہو جائیں گے۔ اقبال سے پہلے حالی نے عشق و عاشقی کی شاعری کو مسلمانوں کے انحطاط کا سبب قرار دیا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ مولانا حالی اور اقبال دونوں کے پیش نظر اصلاح تھی اور دونوں کے دلوں میں اخلاص اور دردمندی تھی۔ لیکن کسی زبان کی فنی تخلیق کی آزادی فتوے کے ذعیے محدود نہیں کی جا سکتی فنی آزادی ذوقی چیز ہے اور وہ اپنے مدور کا تعین خود اپنے اندرونی اقتضا سے کرتی ہے۔ اسرارخودی کے دیباچے پر جب بہت اعتراض ہوئے تو یہ صحیح ہے کہ ابال نے اسے دوسرے اڈیشن سے خارج کردیا لیکن اس نے اپنی رائے نہیں بدلی۔ چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ حافظ اور اقبال ایک دوسرے کی ضد ہیں اور اگر کوئی ان میں سے کسی ایک کو مانتا ہے تو لازمی طور پر وہ دوسرے کی عظمت کا منکر ہے۔ یہ نقطہ نظر فقیہانہ ہے فنی اور ادبی نہیں۔ فنی عظمت کے مختلف اسباب ہیں۔ اس کا امکان ہے کہ وہ فن کاروں کے اختلاف کے باوجود دونوں کے تخلیقی کارناموں کو تسلیم کیا جائے اور ان سے مسرت و بصیرت حاصل کی جائے فنی تخلیق کی تفہیم اور پرکھ یک طرفہ نہیں ہونی چاہیے فن کاروں کی تخلیق الگ الگ روپ دھارتی ہے جس سے ان کا اصلی جوہر نمایاں ہوتا ہے۔ پھر اس کا بھی امکان ہے کہ دو فن کاروں کے بعض امور میں اختلاف کے باوجود ان کے بعض دوسرے خیالات میں اتحاد و اشتراک کے عناصر موجود ہوں اور وہ دونوں ایک دوسرے سے اتنے زیادہ دور نہ ہوں جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً حافظ اور اقبال دونوں کے یہاں عشق فنی محرک ہے۔ حافظ کا عشق مجاز و حقیقت کا ہے اور اقبال کا مقصدیت کا۔ اس فرق کے باوجو دمشترک فنی محرک انہیںایک دوسرے سے قریب لے آتا ہے۔ فنی تخلیق میں جس طرح کوئی تصور بے سیل اور خالص حالت میں نہیںہوتا اسی طرح جذبہ و فکر پہلو بہ پہلو موجود رہتے ہیں۔ اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ان کو ترکیب و امتزاج سے ان کی قلب ماہیت ہو جاتی ہے۔ شاعری میں ضب وہ لفظوں کا جامہ زیب تن کرتے ہیں تو لازمی ہے کہ ان پر فن کار کے فکر و اسلوب کا رنگ چڑھ جائے۔ کوئی شاعر بالکل نئی بات نہیںکہتا۔ وہ پرانی باتوں کو ہی اپنے اسلوب اور طرز ادا سے نیا بناتا ہے۔ انسانی تجربہ فکر و فن میں اکثر اوقات سب نفسیاتی عناصر میں امتزاج وترکیب پیدا کرتا ہے۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی عنصر زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے اس کا انحصار اس پر ہے کہ فن کار کا تجربہ کس خاص لمحے میں وجود میں آتاہے۔ اور اس کے خارجی اور اندونی محرک کیا تھے۔ شاعرانہ ادب کا چاہے کچھ موضوع ہو فنی لحاظ سے وہ اس وقت موثر اور مکمل اور معنی خیز ہو گا۔ جب کہ اس کی تخیلی تفہیم ہو سکے۔ تخیل کی کارفرمائی کے بغیر فکر و جذبہ کی آمیزش ادھوری رہتی ہے اور اس کی تفہیم فنی تخلیق کی گہررائی میں نہیں اتر سکتی۔ اقبال کے فن میں تخیلی فکر اور اجتماعی رنگ بڑی خوبی سے ہم آمیز ہیں۔ وہ عقل جزوی کا مولانا روم کی طرح زبردست نقاد تھا۔ اور اس کے مقابلے میں اس نے جذبہ وجدان یا ععشق کی برتری کو طرح طرح سے بیا ن کیا۔ لیکن یہ عجیب باتر ہے کہ اس کے باوجود وہ ہمارا سب سے بڑا تعقل پسند شاعر ہے۔ میں تو یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ اردو تو اردو فارسی میں بھی ایسا تعقل پسند ان ٹلک چوئل شاعر پید انہیںہوا۔ یہ ضرو ر ہے کہ اس کا تعقل تحلیلی یا منطقی نہیں بلکہ تخیلی اور وجدانی ہے ۔ اس کے کلام میں علمی حقائق کا پس منظر کسی نہ کسی شکل میں قائم رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی فارسی اور اردو غزلیں بھی اس سے مستثنا نہیں ہیں۔ اس کے برخلاف حافظ کے یہاں کوئی مستقل نظام تصورات نہیں ہے جسے تعقل کی لڑی میں پرویا جا سکے۔ وہ خالص جذبے کا شاعر ہے اس کے جذبے میں اگر کسی چیز کی آمیزش ہے تو وہ اس کے ذاتی اور شخصی تجربے ہیں جن میںکوئی رنگ آہنگ نہیںملتا۔ اس کے یہاں عقل ووجدان کا تضاد نہیں جیساکہ مولانا روم اور اقبال کے یہاں ہے۔ حافظ کے یہاں ا س کے شاعرانہ تجربے کی وحدت مکمل ہے۔ عقل بھی وہی کہتی ہے کہ جو وجدان کہتا ہے۔ اس کی آواز دلنواز دھیمی اور سریلی ہے۔ اعتدال ایسا کہ نہ ہیجان ہے نہ بلند آہنگی حافظ کے یہاں جلا ل و جمال دونوں نہایت ہی پراسرار اور دل نشین انداز میں جلوہ افروز ہیں حکمت بھی بزم اور نازک اشاروں میں جمال کے سر میں اپنا سر ملاتی ہے۔ ایسی فنی وحت فارسی اور اردو کے کسی شاعر کے یہاں نہیں۔ اسی وجہ سے حافظ کے پراسرار تغزل کے سامنے ہر ایک کو سر جھکانا پڑتا ہے۔ اس پر اعتراض کرنے والوں میں کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا یکہ شاعری کے لطیف جذبا ت کا اظہار نہیں بلکہ ان کی غذا بھی ہے۔ اس سے انسانی روح کو جو سرور اور بالیدگی حاصل ہوتی ہے وہ ادب کی کسی صنف سے نہیںہوتی۔ شاعری کے حسن طرز یا ادا یا ہئیت میں پوشیدہ ہے۔ اس میں پیچیدگی بھی ہوتی ہے اوروحدت بھی جسے کافی بالذات کہنا چاہیے۔ احساسات کی توانائی سمٹ کر وحدت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ دراصل اسلوب اور ہئیت اس سے جدا نہیں۔ یہ خالص ذہنی اور ذوقی چیز ہے۔ فطرت میں اس کا وجود نہیں۔ اگر کوئی فطرت کے ہئیت و اسلوب کی بات کرے تو یہ استعارے کے طور پر تو ممکن ہے لیکن اسے حقیقت نہیں کہہ سکتے۔ فطرت چونکہ جدت سے محروم ہے اس لیے وہ اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے لیکن انسانی ذہن کی طرح تخلیق نہیں کر سکتی۔ چنانچہ کسی شاعر کے اسلوب و ہیئت کی نقل نہیں ہو سکتی یہی وجہ ہے کہ حافظ کے بعد خود ایران میں اس کے اسلوب کا تتبع نہ ہو سکا۔ بابا فغانی شیرازی نے حافظ کے طرز کو چھوڑ کر تغزل میں تفکر کی آمیزش کی اور ایک نئے اسلوب کی بنیاد ڈالی۔ اکبری عہد کے تازہ گویان ہند نے جن میں ظہور ی نظیری ‘ عرفی اور فیضی شامل ہیں اسی نئے اسلوب کو اپنایا بعد میں یہی سبک ہندی کہلایا ۔ اس میں نہ سعدی کی روانی اور صفائی ہے اور نہ حافظ کی نزاکت اور لطافت اور نغمگی ۔ تفکر کے ساتھ لفظی پیچیدگی اور معنوی الجھائو لازمی ہے جو اکبریعہد کے سب شاعروں میں کم و بیش موجود ہے۔ خیالات کی پیچیدگی بیدل کے یہاں انتہائی شکل میں نظر آتی ہے۔ غالب اور اقبال نے بیدل کے بوجھل اسلوب کو چھوڑ کراکبری عہد کے اساتذہ کی طر ف رجوع کیا جو ان کے مخصوص طرز ادا میں نمایاں ہے۔ اقبال کے یہاں جو بلند آہنگی ہے وہ مقصدیت کی اندرونی معنوی لہر سے ہم آہنگ ہے۔ فن کار کی حسن آفرینی پر زمانے اور حالات کا لازمی اثر پڑتا ہے۔ حافظ کے زمانے اور اقبال کے زمانے میں بڑا فرق ہے۔ فن کار کا ماخذ وہ کش مکش ہے جو فن کارکو اپنی ذات کے علاوہ اپنے عہد کے معاشرتی اور سیاسی حالات سے کرنا پڑتی ہے۔ اقبال کی فنی تخلیق پر جن حالات کا اثر پڑتا ہے ان کا ہم اوپر جائزہ لے چلے ہیں۔ حافظ کے زمانے میں ایران میں سیاسی انتشار اور ابتری تھی۔ شیراز میں آئے دن حکومتوں کا تختہ الٹتا رہتا تھا لیکن جس تہذیب کے سایے میں حافظ نے آنکھ کھولی اس میں کوئی خلل نہیں پیدا ہوا تھا۔ ا س وقت ایران میں اسلامی تہذیب کو اس قسم کے خطرے درپیش تھے جو سیاسی غلامی کا نتیجہ ہیں۔ تیمور نے اسلامی حکومتوں کو اپنی ترکتازیوں سے ضرور درہم برہم کر دیا تھا۔ لیکن اسلامی تہذیب کے چوکھٹے میں کوئی رخنہ نہیںپیدا ہوا ۔ قوت و اقتدار کے جھگڑے آپس کے تھے غیروں کے نہ تھے۔ تیمور کی حکومت روس اور چین کی سرحدوں تک پہنچ چکی تھی۔ عثمانی ترکوں نے وسط یورپ میں وینیا تک اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ ہندوستان میں کلجی اور تغلق حکمرانوں نے تقریباً پورے ملک کو مرکزی حکومت کا باجگزار بنا لیا تھا۔ غرض کہ مشرق سے مغرب تک مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کا بول بالا تھا اور اسلامی تہذیب کی بنیادیں مضبوط تھیں۔ اقبال کی تنقید کا نشانہ مغربی سامراج تھا حافظ کی تنقید کا رخ ان کی طرف تھا جو دین و تمدن کی پیشوائی کے دعوے دار تھے اور اپنے اخلاقی عیوب کو ریاکاری کے لبادے میں چھپاتے تھے۔ اقبال سیاسی غلامی سے نجات دلانا چاہتا تھا۔ اور حافظ کے پیش نظر معاشرتی زندگی کی طہارت تھی۔ اس نے علماء صوفیائ‘ زاہد‘ واعظ‘ شحنہ سب کو اپنے شیریں طنز کا نشانہ بنایا اور ان کی قلعی کھول دی۔ شاہ شجاع کے زمانے میں خواجہ عماد ایک مشہور فقیہہ تھے اور بادشاہ کو ان سے بڑی عقیدت تھی۔ ان کی بلی ان کی نماز کی دیکھا دیکھی سر جھکاتی اور اٹھاتی تھی جیسے اپنے مالک کی طرح رکوع و سجود میں مشغول ہو۔ لوگوں میں عامطورپر یہ مشہور تھا کہ خواجہ عماد کی بلی بھی عبادت گزار ہے۔ خواجہ عماد کی ریاکاری پر اس طرح طنز کیا ہے: ای کبک خوش خرام کجا میردی بایست غرہ مشوکہ گربہ زاہد نماز کرد فنی اور جمالیاتی تخلیق کے محرک اور اسباب پیچیدہ ہیں۔ ان میں بعض اندرونی ہیں اور بعض خارجی اندرونی اسباب کا تعلق فن کار کے جذبے سے ہے اور خارجی اسباب کا تعلق معاشرتی ماحو سے ۔ پھر یہ دونوں قسم کے اسباب ایک دوسرے سے بالکل الگ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ گتھے ہوئے ہیں گتھے ہوئے بھی ایسے نہیں جیسے دو جامد چیزیں باہم آمیز ہوتی ہیں بلکہ متحرک اشیاء کی طرح مربوط ۔ دونوں کی حرکت ایک دوسرے کو توانائی اور قوت بخشتی ہے۔ دونوں کی وحدت فن کار کو تخلیق پر ابھارتی ہے۔ فن میں حقیقت حاضرہ کا پرتو کسی نہ کسی شکل میں ضرور دکھائی دیتا ہے۔ فن کار کے تجربے کا تعلق لازمی طور پر اپنے زمانے سے ہوتا ہے۔ وہ یا تو اپنے زمانے کو قبول کرتا ہے یا اسے رد کرتا ہے ۔ غرض یہ دونوں حالتوں میں وہ انے زمانے سے وابستہ رہتا ہے۔ اس کا تجربہ جب اپنی بلندی پرپہنچتا ہے تو روحانی صورت اختیار کر لیتاہے۔ شاعر اپنے اس روحاین تجربے کو لفظوں کا جامہ پہناتا ہے جو اسے معاشرتی زندگی عطا کرتی ہے۔ شاعر اپنے جذبہ وتخیل کے اظہار کے لیے زبان ماحول تاریخی روایات اور تہذیبی نفسیات جو اسے ورثے میں ملی ہیں ان سب سے صرف نظر کرتا ہے۔ ان سب کے مجموعی اثر سے اس کے فن کا خمیر تیار ہوتا ہے۔ شعر کو سمجھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے ان سب اثرات کا تجزیہ اس طرح ممکن نہیں جیسے کیمیاوی طور پر مادی اشیاء کاکیا جاتا ہے۔ شاعری مکالمہ ہے شاعر اور اس کے زمانے کے درمیان۔ یہ خود کلامی مختلف شاعروں میں مختلف روپ اختیار کرتی ہے۔ حافظ اور اقبال دونوں عشق کی بات کرتے ہیں اقبال عشق کی قوت محرکہ سے انقلاب پیداکرنا چاہتا ہے۔ حافظ کے سامنے کوئی اجتماعی مقصد نہ تھا۔ وہ عشق کے ذریعے نشاط و مستی کا اظہار کرتا ہے جو کافی بالذات ہے۔ یہ مجاز اور حقیقت دونوں میں قدر مشترک ہے۔ اس کا اگر کوئی مقصد ہے تو سوائے انسانی روح کے آزادی کے اور کچھ نہیں۔ حافظ اور اقبال دونوں روح کی آزادی کے مقصد میں متحد ہیں لیکن دونوں کے حصول مقصد کے ذرائع مختلف ہیں۔ دونوں نے اپنی شاعری اور وجدانی بصیرت کے توسط سے مطلق حقیقت کا مشاہدہ کیا۔ یہ زہنی تجزیہ نہیںبلکہ براہ راست دو بدو مشاہدہ ہے۔ دونوں کا جمالیاتی تجربہ جذبہ و وجدان سے اپنی غذا حاصل کرتا ہے۔ ذہنی تجزیے میں حقیقت سکون و جمود کی شکل سامنے آتی ہے۔ اس کے برعکس وجدانی امتؤزاج میں فن کار حقیقت کا متحرک حالت میں مشاہد ہ کرتا ہے اقبال کے مشاہدے میں وجدانی تجربہ تعقلی عمل سے خالی نہیںَ حافظ کے یہاں تعقل بھی وجدانی ہے۔ وہ جب فکر معقول کی بات کرتاہے تو بھی تعقل سے زیادہ جذبہ و وجدان اس کے پیش نظر ہوتاہے۔ وہ جذبے سے کبھی کبھی اپنے آپ کو علاحدہ نہیںخرسکتا۔ وہ خاطر مجموع کا کتنا ہی خواہش مند کیوں نہ ہو جذبہ اس کے کلام میں جوش گرمی اور حرارت پیدا کر دیتا ہے۔ اپنی ذات میں پرسکون استغراق نہ حافظ کے لیے ممکن ہے نہ اقبال کے لیے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جمالیاتی تجربے کی سکون آفرینی کو جذبہ پامال کر دیتا ہو۔ حافظ اور اقبال دونوں کے یہاں اور خاص کر حافض کے یہاں مسیت موضوع اور جذبہ شیر و شکر ہیں۔ اس طرح فنی تخلیق عام گیر اور ابدی بن جاتی ہے۔ اسی کو فن کی جمالیاتی قدر کہتے ہیں۔ جب ہم کسی فنی شہ پارے سے متاثر ہوتے ہیں تو ہیہت موضوع اور جذبے کو علیحدہ علیحدہ محسوس نہیں کرتے کیونکہ ان کا ایک دوسرے سے جدا وجود باقی نہیں رہتا۔ دراصل ا ن کی لطیف آمیزش انہیںایک آزا د تخلیقی کل بنا دیتی ہے۔ بعض اوقات فن کار کسی خارجی واقعے یا حقیقت کا اثر لے کر اسے اپنے جذبے کا جز بناتا ہے جو ہئیت اور طرز ادا کی خراد پر چڑھ کر جمالیاتی شکل میںجلوہ فگن ہوتا ہے۔ اس وقت یہ کہنا دشوار ہو جاتا ہے کہ فنی اصلیت جذبہ ہے یا اس کی خارجی ہئیت جو ہماری نظروں کے سا منے آتی ہے اقبال نے خارجی احوال کی مقصد پسندی کو اپنی نظم شمع اور شاعر میں اپنے جذبے کا جز بنایا ہے۔ اس کی رمزیت اور حسن ادا ملاحظہ ہو شمع شاعر کو اس طرح خطاب کرتی ہے: مجھ کو جو موج نفس دیتی ہے پیغام اجل لب اسی موج نفس سے ہے نوا پیرا ترا میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا گل بد امن ہے مری شب کے لہو سے میری صبح ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا دوسرے بند میں استعارے اور کناے کو سمو کر اس طرح ہئیت آفرینی کی ہے: تھا جنہیں ذوق تماشا وہ تو رخصت ہو چکے لے کے اب تو وعدہ دیدار عام آیا تو کیا انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے ساقیا محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا پھول بے پردا ہیں توگرم نوا ہو یا نہو کارواں بے حس ہے آواز درا ہو یا نہو اقبال نے اپنے اندرونی تجربوں کو لحن و صوت کا لباس اس لیے پہنایا تاکہ اس کے دل میں جو آگ پڑی دہک رہی تھی اس میں سے ایک شرار باہر پھینک سکے وہ اپنے جذبے کو دوسروں پر بھی طاری کرنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے اس نے اپنے کلام میں ہئیت موضوع اور جذبہ و تخیل کی وحدت بیدار کی جس میں بے پناہ جذب و کشش ہے: تو بجلو دور نقابی کہ نگاہ برتابی مہ من اگر ننام تو بگور کہ چوجارہ غزلے زدم کہ شاید بنو اقرارم آید آپ شعلہ کم نکردد نرگسستن شرارہ اس مقصد پسندی میں جذبہ غیر عود کو اپنے سامنے رکھتا ہے اور اسے اپناراز دار بنانا چاہتا ہے۔ اے کہ زمن فزودہ گرمی آہ و نالہ را زندرہ کن از صدائے من خاک ہزار سالہ را غنچہ دل گرفتہ را از نفسم گرہ کشای تازہ کن از نسیم من داغ درون لالہ را اقبال کے نزدیک مقصد پسندی ہی میں حسن اور حقیقت پنہاں ہیں۔ مہ من کہ اگر ننالم تو بگود گرچہ چارہ۔ اس کے برخلاف حافظ خارجی حقیقت یعنی معشوق کو جب اپنے جذبے سے وابستہ کرتا ہے تو وہ دنیا جہاں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ یہ دروں بینی کاکمال ہے محبوب کی زلف میں گرفتار ہونا اس کے نزدیک آزادی ہے۔ دراصل بندہ عشق دونوں جہان سے آزاد ہے: فاش می گویم داز گفتہ خود دلشادم بندہ عشقم و ازہر دو جہاں آزادم گدای کوی تو از ہشت خلد مستفنیست اسیر عشق تو از ہر دو عالم آزادست جمالیاتی تجربہ خالص تجربہ ہے جس میں ہر ا س عنصر کو الگ کر دیا جاتا ہے جو وہ خود نہیں ہے۔ اس میں وہ تخلیقی لمحے بھی آتے ہیں جن میں ابدیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ زمان و مکاں سے ماورا اور خود اپنے تجربی کیف سے بھی ماورا ہوتے ہیں جمالیاتی وحدت میں جذبہ ہئیت اور موضوع کی تثلیث ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہے۔ وہ سارے ذہنی عناصر جو اس وحدت میں نہیںسموئے گئے علاھدہ کر دیے جاتے ہیں۔ فن کار اپنے آپ کو اس جمالیاتی وحدت میں کھو دیتا ہے۔ کھو جانے کے بعد پھر سے وہ اپنے آپ کو اس میں پاتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی تخلیقی آزادی اور اس کی انفرادیت زمانے کے عمل اور رد عمل کا کھیل ہے۔ وہ زندگی کے روشن و تار کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی تخلیقی آزادی شعور اور لا شعور کو ایک دوسرے میں سمو دیتی ہے۔ نہ اس کی انا کے حدود ہیں اور نہ اس کے فن کے حدود ہیں: عالم آب و خاک رابر محک و لم بسای روشن و تار خویش راگبر عیار ایں چنیں (اقبال) فن کار اپنے وجود کے معروض کو جو بہتے ہوئے چشمے کے مثل ہیں اپنے جذب دل کے پشتے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور جب اس میں ٹھیرائو کی حالت پیداہو جاتی ہے تو اسے اپنے شعور و وجدان کا جز بنا لیتا ہے تاکہ اس کی مدد سے تخلیق جمال کرے۔ وہ داخلیت میں خارجی حقیقت کے پس منظر کو پیوست کرتا ہے۔ جو انسانی وجود کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اس طرح دروں و بروں کا امتیاز جمالیاتی تخلیق میں مٹ جاتا ہے۔ اور تجربے کی مکمل وحدت ظہور میں آتی ہے۔ فن کار جمالیاتی احساس کی خاطر بعض اوقات خود اپنے وجود سے بالا تر ہو جاتا ہے۔ یہ وجود سے گریز نہیں بلکہ شعور اور وجدان کا اس میں ڈوب جانا ہے۔ یہ حسن کے تجربے کا عالم گیر اصول ہے۔ حافظ نے یہاں حسن کی طرح محبت بھی جمالیاتی کیف ہے۔ اقبال کے یہاں حسن اور محبت کے احساس میں تعقل و شعور کو دخل ہے جس کے ذریعے سے جذبہ خارجی حقیقت کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرتا ہے۔ دونوں کی فنی تخلیق میں ہئیت موضوع اور جذبے کا ایسا لطیف امتزاج ہے کہ ان کا تجزیہ آسان نہیں۔ اس کی تفہیم کل کی حیثیت ہو سکتیہے دراصل فنی تخلیق اعجاز ہے جسے صرف کل کے طور پر سمجھنا ممکن ہے تحلیل و تجزیہ اسے مسخ کر ڈالتے ہیں۔ موضوع اور جذبے کی تخیلی تفہیم ایک ساتھ ہی ممکن ہے کہ بغیر اس کے تناسب اور موزونیت کی رمزی اور علامتی کیفیت کا احساس نہیں ہو سکتا۔ شعر کے معنی لفظی نہیںبلکہ جمالیاتی ہیں جس میں ہئیت اور حسن ادا کو بڑا دخل حاصل ہے۔ فن کا بنیادی اصول یہی ہے۔ چاہے شاعری ہو یا موسیقی مصوری ہو یا فن تعمیر مجسمہ سازی ہو یا ناٹک سب میں معنی خیز ہئیت کا اصول کار فرما ہے یہی ا ن کے تناسب اور موزونیت کا ضامن ہے جس کے جذبے کے اظہار میں مدد ملتی ہے۔ بغیر ہئیت کے جذبہ خود اپنے اندر گھٹ کر رہ جائے گا۔ اس کے اظہار میں روانی اور ترنم ہئیت ہی کی دین ہے حافظ کے تغزل میں حسن ادا اور ہئیت اپنی معراج کو پہنچ گئی ہے جس کی مثال فارسی اور اردو کے کسی دوسرے شاعرکے یہاں نہیں ملتی۔ بلاشبہ مولانا روم کو طرز ادا اور ہئیت میں وہ بلند مقام نہیںملا جو حافظ کو حاصل ہے۔ مولانا روم کے معانی اور موضوع نہایت بلند اور اخلاقی افادیت کے حامل ہیں لیکن ان کی مثنوی اور غزلیات جو شمس تبریز کے دیوان میں شامل ہیں۔ ڈھیلی ڈھالی اورناہموار زبان میں پیش کی گئی ہیں۔ ان کے کلام کی ہئیت حافظ کے مقابلے میں جاذب نظر نہیں کہی جا سکتی۔ اس کے برعکس اقبال کا پیرایہ بیان مولانا روم کے مقابلے میں حسن ادا کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ اقبال نے پیرایہ بیان کی حد تک حافظ کا تتبع کیا اورشعوری طور پر رنگینی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ فارسی اس کی مادری زبان نہ تھی لیکن وہ بڑی حد تک اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوا ۔ بعض جگہ ممکن ہے کہ اس کی زبان میں سقم رہ گیا ہو لیکن فی الجملہ اس کی فصاحت کو اہل زبان نے تسلیم کیا ہے۔ اقبال نے فارسی زبان پر جو قدرت حاصل کی ہے وہ قابل تعجب ہے اور ایک غیر اہل زبان کے لیے فخر کا موجب ہے ہندوستان کے فارسی لکھنے والوںمیں ایرانی لوگ امیر خسرو کی فصاحت کو مانتے ہیں۔ حالانکہ ان کے یہاں بھی بعض جگہ محاورے کا سقم اور نقص موجود ہے۔ ایک جگہ انہوںنے ہندی محاورے کا فارسی میں ترجمہ کر دیا ہے۔ ہندی میں محاورہ ہے کہ ایک گانٹھ سے کیا جاتا ہے یہ محاورہ ٹھیٹ ہندوستانی زندگی کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہندوستان میں دہقانی لوگ اپن دھوتی کے ایک جانب کمر پر لپیٹ کر اس میں روپے پیسے اڑس لیتے ہیں۔ یہ طریقہ سارے ملک میں اب بھی ہے اور امیر خسرو کے زمانے میں بھی تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ طریقہ ایران کا نہیں ہے جہاں دھوتی کی بجائے شلواریا پاجامہ پہنا جاتاہے۔ امیر خسرو نے اپنے ایک شعر میں اس ہندی محاورے کا ترجمہ کیا ہے: جاں می رود زتن چوگرہ می زند بزلف مردن مراست از گرہ اوچہ می رود ایران میں گر کی بجائے کیسہ کہتے ہیںَ امیر خسرو کے اس محاورے کا تتبع مرزا غالب نے بھی اپنی ایک غزل میں کیا ہے حالانکہ انہیں اپنی فارسی دانی پر بڑا فخر تھا۔ گوئی مباد در شکن طرہ خوں شود دل ز ان تست از گرہ ماچہ می رود اقبال نے ایک جگہ تیز خرام لکھا ہے جس پر اہل زبان نے اعتراض کیا۔ اعتراض یہ ہے کہ خردا میدن کے معنی ناز و انداز سے چلنے کے ہیں تیز خرازم میں اس لفظ کے اصلی معنی کی نفی ہوتی ہے۔ ہاں خوش خرام اور آہستہ خرام درست ہے اقبال نے خرا میدن کے مصدر کے معنی چلنا سمجھے ہیں اور اسی لیے تیز خرام کی ترکیب استعمال کی ہے جو فصیح نہیں۔ اگرخرا میدن کے معنی ناز اے آہستہ چلنے کے ہیں تو سعدیؒ نے آہسہ خرام کیوںلکھا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لفظ آہستہ زائد ہے۔ جب زائد از ضرورت ہے تو غیر فصیح ہے لیکن سعدی کو کون غیر فصیح کہہ سکتا ہے۔ اس کی فصاحت کا کوئی دوسرا فارسی زبان کا شاعر نہیں کر سکتا۔ یہ اسی کا شعر ہے: آہستہ خرام بلکہ مخرام زیر قدمت ہزار جانست اسی طرح اگر خرامیدن میں خوش خرا میدن بھی شامل ہے تو خوش خرام کی ترکیب میں خوش کا لفظ زائد ہے: ای کبک خوش خرام کجا میروی بایست غرہ مشو کہ گربہ زاہد نماز کرد (حافظ) جب آہستہ خرام اور خوش خرام فصیح ہیں تو تیز خرام بھی فصیح ہونا چاہیے۔ لیکن زبان کے معاملے میں منطق کام نہیںدیتی۔ فصیح اور غیر فصیح کا آخری فیصلہ اہل زبان ہی کر سکتے ہیں۔ جو وہ کہیں وہی درست ہے۔ ہمیں ان کے فیصلے کو ماننا چاہیے۔ اقبال نے ایک غزل میں غلط خرامی کی ترکیب بھی استعمال کی ہے میں نہیں جانتا کہ اہل زبان کی اس کی نسبت کیا رائے ہے ان کی رائے چاہے کچھ ہو شعر میں جو خیال پیش کیا گیا ہے وہ نہایت بلند ہے: غلط خرامی مانیز لذتی دارد خوشم کہ منزل مادور وراہ خم نجم است اگر خسرو غالب اور اقبال کے کلام میں فارسی محاورے کا کوئی سقم ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ان کی فنی عظمت کو بٹا لگ گیا ان کے کلام کی جذباتی اور جمالیاتی حقیقت مسلم ہے۔ کلام کی خوبی کا اظہار کامیاب ابلاغ اور معنی خیزی سے ہوتا ہے جو ان کے یہاں موجود ہے۔ حافظ کی طرح اقبال کی غزل پڑھتے ہی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی طلسمی فضا میں داخل ہو گئے ہیں۔ حافظ کا دیوان اس شعر سے شروع ہوتا ہے: الا یا ایھا الساقی ادرکاما و نا دلہا کہ عشق آساں نمود اول ولی افتاد مشکلہا اس سے بحث نہیں کہ یہ غزل حافظ کی شاعرانہ زندگی کے کس دور میں لکھی گئی ہے۔ لیکن اس میں وہ معانی ہیں جن کی تفصیل و تشریح اس کے سارے دیوان میں ملتی ہے۔ عشق اور بے خودی کی طلسمی کیفیت اس کی ساری شاعری پر چھائی ہوئی ہے۔ دوسرے شعر میں پہلے شعر کی وضاحت ہے: ببوی نافہ کاخر صبا زاں طرہ بکشاید زتاب جند مشکینش چہ خوں افتاد درد لہا حافظ کے یہاں زلف و گیسو عشق کی گرفتاری کارمز ہے۔ زلف کاکل کے پیچ و خم سے منازل عشق کی دشواریاں ان دونوں اشعار کی تشریح پورے دیوان میں طرح طرح سے کی گئی ہے۔ اقبال کی فارسی غزلوں کا پہلا مجموعہ پیام مشرق ہے جسے مے باقی کا عنوان دیا ہے۔ اس کی پہی غزل ہی میں اقبال نے اپنی اجتماعی معنویت اور زندگی کے ممکنات کو صاف صاف بیان کر دیا ہے۔ اس کے سارے کلام میں یہی دونوں شعری محرک طرح طرح سے پیش کیے گئے ہیں۔ عشق خودی اور بے خودی انہیں کی خاطرہے۔ انہیںہم اقبال کی شاعری کا لب لباب کہہ سکتے ہیں: گماں مبر کہ سر شتند در ازل گل ما کہ ماہنوز خیالیم در ضمیر رجرد بہ علم غرہ مشو کار می کشی دگر است فقیہہ شہر گریباں و آستیں آلود بہار برگ پراگندہ را بہم بربست نگاہ ماست کہ برلالہ رنگ و آب افزود پھر مقصد پسندی کے راز ہائے سربستہ بھی انہیںپیر میکدہ بتاتاہے۔ اس معاملے میں وہ حافظ کے رموز و علامات پر اپنا رنگ اس طرح چڑھا دیتے ہیں: شبی بمیکدہ خوش گفت پیر زندہ دلی بہ ہر زمانہ خلل است و آتش نمرود پھر بت شکن محمود کے دل میں ایاز کی محبت کا بت کدہ بناتے ہیں اور اپنے ہم چشموں کو تاکید کرتے ہیں کہ اہل دیر سے نرم انداز میں بات کر و تاکہ محمود کے عشق کی لاج رہ جائے: بہ ریریاں سخن نرم گو کہ عشق غیور بنائے بت کدہ افگند در دل محمود حافظ اور اقبال دونوںہی اپنی شاعری میں اندرونی جذباتی زندگی کی داستان بیان کرتے ہیں۔ دونوں کے یہاں زندہ خیالات اور پر کیف جذبات لفظوں کا جامہ زیب تن کرتے ہیں ا س انداز میں کہ ہیئت اور معانی کی دوئی باقی نہیں رہتی۔ دونوں کی غزلوں میں ہم کلامی ہے۔ یہ ایک طرح کی غیر شخصی داخلیت ہے جو شاعر کے جذباتی تجربے کو طلسمی خاصیت عطا کرتی ہے۔ اقبال اپنی کردار نگاری میں فلسفہ و تاریخ سے مدد لیتاہے۔ یہ اس کی مقصد پسندی کا خاص رمزی اورعلامتی اظہار ہے۔ حافظ کی کردار نگاری خالص تخیلی ہے۔ جیسے ساقی پیر مغاں مغبچہ محتسب صوفی و اعظ وغیرہ۔ حافظ اور اقبال دونوں کہانی کہتے ہیں۔ ان کی کہانیاں مسلسل نہیں ہوتیں بلکہ تخیلی ٹکڑوں میں پوشیدہ ہوتی ہیں جنہیں جوڑنا پڑتا ہے تاکہ ان میں ربط و معنی پیدا ہوں ۔ دونوں بیکر سازی کرتے ہیں جو ذہنی اور جذباتی ملازمت کی تخلیق ہے۔ اقبال کے یہاں چونکہ حافظ کے مقابلے میں تعقلی رنگ نمایاں ہے۔ اس لیے وہ اپنی پیکر سازی اور تلمیحات میں ماضی کی یادوں سے استفادہ کرتا ہے۔ اور ان سے شعوری طور پر تجربے کی نئی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے اس نئے تجربے کی نوعیت اس تجربے سے مختلف ہے جو ماضی میں بیت چکا ہے۔ اقبال کے یہاں حافظ خاص قسم کا نفسیاتی تجربہ ہے جس میں وہ منتخب واقعات اور تاثرات کو مرتب کر کے انہیں تخلیقی وجدان کا جز بناتا ہے۔ یہ ترتیب شعوری قسم کا نفسیاتی تجربہ ہے جس میں وہ منتخب واقعات اور تاثرات کو مرتب کر کے انہیں تخلیقی وجدان کا جز بناتا ہے۔ یہ ترتیب شعوری ہے ورنہ واقعہ یہ ہے کہ اپنی اصلی حالت میں سب یادیں غلط ملط اور گڈ مڈ ہو جاتی ہیں۔ ان میں مسرت و غم جذبات توقعات آرزوئیں جدوجہد کش مکش اور ان سب کے رد عمل اکثر اوقات ملے جلے ہوتے ہیں۔ اقبال تعقلی طور پر ان کا تجزیہ کر کے ان کی فنی صورت گری کرتا ہے اور ان پر اپنے جذبہ و تخیل کا رنگ چڑھا دیتا ہے۔ شاعری میں تاریخ کا تجربہ واقعاتی نہیںبلکہ جذباتی ہوتاہے۔ جذبہ و واقعات اور حوادث کو اس طرح پروتا ہے کہ حقیقت ایک مسلسل تخلیقی حرکت بن جاتی ہے۔ اقبال کے نزدیک انسانی وجود ایک سے زیادہ زمانوں کی مخلوق ہے۔ جس میں ماضی کی سیکڑوں صدیاں سوئی ہوئی ہیں جن میں روحانی وحدت موجود ہے۔ جو تاریخی واقعات اور تلمیحات وہ اپی شاعری میں استعمال کرتا ہے ان کی حقیقت خام مواد کی ہے جسے وہ اپنے شاعرانہ طلسم کے چوکھٹے میں جس طرح چاہتا ہے ڈھال لیتا ہے۔ اسی میں اس کے فن کا کمال پوشیدہ ہے۔ وہ حقیقت کا جو پیکر تراشتا ہے وہ اپنے اندرونی جذبے اور پرکشش ہئیت کے باعث ہمارے لیے جاذب نظر اور معنی خیز ہوتا ہے۔ اس کے تصورات بھی جذبے کی طرح ہئیت کی تشکیل میں مدد دیتے ہیں اور اسے نکھارتے ہیں: میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ میری تمام سرگزشت کھوے ہوئوں کی جستجو حافظ کے یہاں بھی ماضی اور حال ایک دوسرے میں ایسے پیوست ہیں کہ یہ معلوم کرنا دشوار ہے کہ اس کا روئے سخن کس طرف ہے۔ اس کے تغزل کا یہ مخصوص پیرایہ بیان ہے کہ وہ جو کچھ کہتا ہے پردے میں کہتاہے۔ اس نے جو طلسمی دنیا بنائی اس کا اظہار رمز و ابہام ہی میں ممکن تھا جو اس کی غزل کی خاص خصوصیت ہے۔ اس کے بعد آنے والے غزل نگاروںنے ا س باب میں اپنی اپنی بساط کے مطابق ا س کا تتبع کیا۔ اس کا پتا لگانا بھی دشوار ہے کہ اس کامحبوب مجازی ہے یا حقیقی؟ یہاں بھی وہ شروع سے آخر تک ابہام و اشتباہ کے پردے میںبات کرتا ہے۔ حافظ اخلاقی معتقدات یا مقصد پسندی کے بغیر اپنے جذبہ و احساس کو لفظوں میں اس خوبی سے اور حسن ادا سے منتقل کرتا ہے کہ طلسمی کیفیت قاری یا سامع کے لیے مکمل ہو جاتی ہے۔ اسے خارجی سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس کے بیان کی اندرونی توانائی اور رعنائی کافی بالذات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تغزل میں تصورات کی نہیں بلکہ جذبے اور ہئیت کی ضرور ت ہے جسے پیرایہ بیان کہتے ہیں۔ جو لفظ حافظ نے اپنی غزل میں برتے دوسرے بھی انہیں برتتے ہیں لیکن وہ تاثر و تاثیر نہیں پیدا ہوتی جو حافظ کے کلام سے ہوتی ہے۔ لفظوں کی ترتیب میں بہت سے ذہنی اور جذباتی عناصر شامل ہوتے ہیں جن سے فنی حسن ادا پیدا ہو جاتا ہے۔ اس میں ذہنی تلازمات انداز فکر دقت نظر طرز ادا کی طرفگی اور رنگینی ان سب کا مجموعی اثر ہمیں مسحور کر دیتا ہے حافظ کا دیوان کیا ہے طلسمات کا مخزن ہے تعجب نہیں کہ خود اس کی زندگی ہی میں اس کے اشعار کو لسان الغیب کہنے لگے تھے کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن کیفیات کا علیحدہ علیحدہ زمان و مکاں کے فرق کے ساتھ کبھی کبھی تجربہ ہوتا ہے۔ وہ حافظ کے یہاں ہئیت و معانی کی حدت میں یک جا موجود ہیں اور ان میں اتنی زبردست توانائی اور قوت پوشیدہ ہے کہ ہم انہیں شعوری یا غیر شعوری یا غیر شعور طور پر اپنے اوپر طاری کر نے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں اس طرح اس کا وجدانی اور روحانی تجربہ ہمارا تجربہ بن جاتا ہے۔ ہمارے ذاتی تجربے میں جو واقعات بڑے پیچیدہ تھے وہ حافظ کے یہاں سادہ سلجھے ہوئے اور صاف محسوس ہوتے ہیں اس کے تاثر کی وحدت ہمارے قلب و نظر کے لیے تاثیر کی وحدت میں منتقل ہو جاتی ہے۔ اسے اس کی قدرت کا بیان کا اعجاز کہناچاہیے۔ حافظ اور اقبال دونوں میںفن کی تخلیقی توانائی ہے۔ یہ توانائی نہ صرف یہ کہ روحانی مسرت کا سرچشمہ ہے۔ بلکہ بجائے خود حسین و جمیل ہے حافظ کے یہاں اس سے باطنی آزادی کا اظہار ہوتا ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ توانائی عقیدت اور تخیل کے جوش سے عبارت ہے۔ اس کے بغیر حافظ اور اقبال دونوں کی شاعری میں گرمی اور حرارت نہیں پیدا ہو سکتی تھی دراصل اگر کسی میں روحانی توانائی کی کمی ہے تو وہ نیک انسان تو بن سکتا ہے لیکن عظیم فن کار نہیں ہو سکتا۔ جس کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ صرف پیتا ہی نہیں بلکہ چھلکا بھی دیتا ہے۔ جیسا کہ اقبال نے کہا ہے: زاں فراوانی کہ اندر جان اوست ہر تہی را پر نمودن شان اوست حافظ اس توانائی کو شوق کہتا ہے جو موسیقی سے لہکتا اور بھڑکتا ہے۔ تا مطرباں ز شوق مست آگہی دہند قول و غزل بسا ز و نوامی فرستمت یہی شوق کبھی اسے مجبور کرتا ہے کہ محبوب کی زلف سے جان کے عوض آشفتگی اور پریشانی خریدے۔ دل اس گھاٹے کی تجارت میں ہی اپنا نفع تلاش کرتا ہے: دلم ز حلقہ ز لفش بجاں خرید آشوب چہ سود دید ندانم کہ ایں تجارت کرد اس میں شک نہیں کہ کسی شاعر کے سوانحی حالات سے اس کے ذہن کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے لیکن اس پر حد سے زیادہ بھروسا کرنا مناسب نہیں۔ ایسا کرنے میں اندیشہ ہے کہ شعر کی اصلیت کہیں نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔ زندگی کے تجربے میں جب فن کار کے جذبہ و تخیل میں گھل مل جاتے ہیں تو وہ ا س اندرونی کیمیا گری کے باعظ ہمارے لیے جاذب قلب و نظر ہوتے ہیں۔ شاعر کے جذبتی تجربے جب شعر میں تحلیل ہو جاتے ہیں تو ہمیں ان کی وحدت کو دیکھنا چاہیے۔ انہیں اس کے سوانحٰ حالات سے مربوط کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے مثلاً ہم جانتے ہین کہ حافظ اور اقبال دونوں کا اپنے معاشرے کے نچلے درمیانی طبقے سے تعلق تھا۔ دونوں نے اپنی ذاتی جدوجہد اور قابلیت اور علم و فضل سے معاشرے میں اپنا مقام بنایالیکن ان کے کلام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مقام ایسا نہ تھا جس سے وہ مطمئن ہوں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان کی یہ محرومی اور نا آسودگی کس حد تک ان کی فنی تخلیق کی محرک بنی۔ لیکن لسانی احوال کی طرح معاشری اور سوانحی احوال کو بھی ایک حد کے اندر رکھنا ضروری ہے ورنہ یک طرفہ نتائج برآمد ہونے کا اندیشہ ہے۔ فنی تخلیق معاشرے کا ایک فرد انجام دیتا ہے۔ لیکن اس کام میں اصلی محرک خود اس کی اندرونی خلش اور اپچ ہوتی ہے۔ جو بعض اوقات معاشری حالات کے باوجوداپنا اظہار چاہتی ہے۔ اقبال کی شاعری کے متعلق یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس پر خود اس کی زندگی اور خیالات کا گہرا اثر ہوا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس سے زیادہ اثر ا س کی شاعرانہ تخیلق نے اس کی زندگی خیالت کی سمت متعین کرنے پر ڈالا۔ اسی طرح یہ دیکھا گیا ہے کہ فن کار اپنی آزادی کے دعوے کے باوجود اپنی تخلیق کاری کا ذہنی طور پر پابند ہو جاتا ہے۔ فن کار کی زندگی اس کی اندرونی صلاحیت کی آئینہ دار ہوتی ہے اور اس کی اندرونی صلاحیت اس کی زندگی سے اپنے خدوخال متعین کرتی ہے۔ بعض اوقات فن کار کے لاشعور میں جو خزانہ چھپا ہوتا ہے وہ شعور کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ شعوری طور پر فن کار نے علم و حکمت کی جو معلومات حاصل کیں وہ لاشعور کی سطح کو گدگداتی ہیں اور اس کے باطن میں جو پوشید ہ ہے۔ اس میں مل ملا کر سب کو اس سے اگلوا دیتی ہیں۔ اس طرح شعور اور لاشعور نہ صرف ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں بلکہ فنی تخلیق میں بالکل تحلیل ہو جاتے ہیں شعور اور لاشعور کے اس عمل اور رد عمل سے شاعر کی ذہنی اور جذباتی نشوونما میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں جنہیں وہ خود محسوس نہیںکرتا۔ اقبال کے یہاں مجاز نے مقصدیت کا رنگ و آہنگ بعد میں اختیار کیا لیکن حافظ کا کلام پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ شروع ہی سے مجاز اور حقیقت ایک دوسرے میں پیوست ہیں اور جذبہ و تخیل کی نشوونما کا عمل اس قدر خاموش اور غیر واضح ہے کہ اس کے خدوخال کبھی نمایاںنہیں ہوئے۔ میں اسے حافظ کی فنی تخلیق کا معجزہ سمجھتا ہوں کہ اس کے کلام میں ا س بات کا قطعی طورپر پتا چلانا دشوار ہے کہ اس کا شروع کا کلام کون سا ہے درمیانی عہد کا کون سا ہے اور آخر عمر کا کون سا ہے؟ اس کے اندرونی تخلیقی تجربے میں شروع ہی سے بھرپور پختگی نظر آتی ہے۔ اقبال کا ابتدائی کلام اور آخر ی زمانے کا کلام اگر سوانحٰ حالات کا پتا نہ ہو جب بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ یہی حال غالب کا بھی ہے لیکن حافظ کے کلام میں حسن ادا اور بلاغت کا جو انداز شروع میں تھا وہی آخر تک رہا۔ تذکرہ نوسیون نے لکھا ہے کہ اس نے اپنی پہلی غزل باباکو ہی اعتکاف کی حالت میں کہی۔ اس کا مطلع ہے: دوش وقت سحر از غصہ نجاتم دادند دندراں ظلمت شب آب حیاتم دادند انداز بیان اور پختگی کے اعتبار سے حافظ ی یہ غزل ا س کی اعلیٰ ترین تخلیقات میں شمار ہونے کے لائق ہے۔ یہ روایت کہ یہ اس کی پہلی غزل تھی تاریخی لحاظ سے غلط سہی لیکن اس سے یہ ضرور معلوم ہوتاہے کہ اس کے ہم عصروں کے نزدیک اس کے کلام میں مبتدیوں کی سی خام کاری کا اظہار کبھی نہیں ہوا۔ اس کی کسی غزل پر یہ حکم لگانا کہ یہ ابتدائی ہے اور یہ آخری زمانے کی ہے ممکن نہیں۔ اس کے انداز بیان میں شروع سے آخر تک یکسانیت ہے۔ اس کا جذب و کیف جیسا جوانی میں تھا ویسا ہی بڑھاپے میں ہے۔ یہ بات اسلوب کی کوتاہی اور جمود کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ وہ جیسا کامل شروع میں تھا ویساہی آخر تک رہا۔ یہ صرف دنیا کی الہامی کتابوں کی خصوصیت ہے کہ ان کے اسلوب میں شروع سے آکر تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ حافظ کا کلام بھی اسی نہج کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ جب وہ اپنے اندرونی تجربے کو لفظوں کا جامہ پہناتا ہے تو اس کی روح کی شدت اور پاکیزگی ان میں سما جاتی ہے۔ یہی چیز قاری یا سامع پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اور بعض اوقات بے خودی کی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ فنی تخلیق ادراک و تخیل کا کرشمہ ہے۔ یہ ذہن اور فطرت کی آویزش کا نتیجہ ہے۔ اس کی خاطر فن کار کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ا س کے لیے ضروری ہے کہ وہ شعور اور لاشعور کے منتشر اجزا کو سمیٹ کر اپنی شخصیت کا حصہ بنائے اور انہیں وجدانی طورپر اپنی روح کی وحدت عطا کرے۔ حقیقی فن کار اپنے فن کا عاشق ہوتاہے۔ اس کے نزدیک اس کا فن حسن کی قدر بن جاتا ہے جب اس کی اندرونی ریاضت پراسرار طور پر اس کے خیالی پیکر کو معنی خیز بناتی ہے اور پیکری تعین عطا کرتی ہے تو شاعر لفظوں کے ذریعے تخلیق حسن کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے وجود کے دریا میں غوطہ زن ہوتا ہے تاکہ اس کی تہہ میں سے فن پارے کا موت نکال لائے حافظ نے اپنے اس فنی عمل کے لیے سمندر اور قطرے کے استعارے بڑے ہی انوکھے اندا ز میں استعمال کیے ہیں۔ یہ صوفیانہ استعارے نہیں جو شعرائے متصوفین کے یہاں ملتے ہیں بلکہ خالص فنی عظمت کے استعارے ہیں۔ وہ اپنی فطرت عالیہ کو خطاب کرتا ہے تو اظہار کے لیے پیاسی اور بیتاب تھی۔ اب تو پن گھٹ پر پہنچ گئی جو تیرا مقصود تھا مجھ خاکسار کو بھی ایک قطرہ عطا کر دے۔ مشرب و بحر کی رعایت اورقطرہ و خاک کے مقابلے میں بلاغت اور معنی آفرینی کا حق ادا کیا ہے: ای آنکہ رہ بمشرب مقصود بردہ زیں بحر قطرہ بمن خاکسار بخش اس سے ملتا جلتا مضمون اقبال کے یہاں بھی ہے۔ حافظ اور اقبال دونوں بے حد خوددار تھے۔ وہ اپنی فطرت عالیہ کے سواکسی کے سامنے فنی تخلیق کے روحانی عناصر کی بھیک نہیںمانگ سکتے تھے حافظ کی طرح اقبال بھی اپنی فطرت عالیہ کے چمن سے شبنم کے ایک قطرے کی درخواست کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں تیرے چمن میں اگا ہوں شبنم کا ایک قطرہ مجھے عطا کر دے تاکہ میرے فن کا غنچہ کھل جائے۔ تیری توجہ سے میری تخلیقی صلاحیت بروئے کار آ جائے گی اسی طرح جیسے شبنم کے ایک قطرے سے غنچہ اپنی تکمیل کی منزل طے کر لیتا ہے۔ اگر تو ایک قطرہ بخش دے گا تو تیرے دریا میں اس سے کوئی کمی واقع نہیں ہو گی ہاں میں اپنی مراد پا جائوں گا۔ از چمن تو رستہ ام قطرہ شمبنی بخش خاطر غنچہ دا شود کم نشولہ بجوی تو غرض کہ ایسا لگتا ہے کہ حافظ اور اقبال دونوں اپنے تخلیقی اظہار کے دیوانے ہیحں ۔ اس یلے کہ ان کی فنی تخلیق حسن کی تخلیق ہے جس کی زیبائی سے پہلے وہ خود مسحور ہوتے ہیں اورپھر دوسروں کو مسحور کر تے ہیں تخلیق کے لمحوں میں وہ اپنے آپ کو فراموش کر دیتے ہین فن کار جتنا اپنے کو بھول کر اپنی توجہ اپنے فن کی طرف کرتاہے اتنا ہی اس کی تخلیق تابناک ہوتی ہے۔ وہ اس کے وجود سے اسی طرح غذا حاصل کرتی ہے جیسے پودا زمین سے اپنی زندگی پاتا ہے وہ زمین کے سب کیمیائی عناصر جذب کر لیتا ہے۔ اس طرح فن پارے میں فن کار کی شخصیت کے سارے عناصر تحلیل ہو جاتے ہیں۔ شعور لاشعور فکر جذبہ سب اس کے تخیل میں گھل مل جاتے ہیں اور مجموعی طور پر اپنی تاثیر دکھاتے ہیں۔ ان کے الگ الگ دھارے باقی نہیں رہتے۔ بلکہ وہ تخلیقی وجدان کا ایک بہتا ہوا چشمہ بن جاتے ہیں جو اٹھلاتا اٹکھیلیاں کرتا مستانہ وار اپنے مقرر راستے پر چلا جاتا ہے۔ حافظ اور اقبال کی فنی تخلیق میں انفرادیت اور آفاقیت دونوں پہلو بہ پہلو موجود ہیں۔ ان میںتضاد نہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے کا تکلمہ کرتی ہیں۔ ہر عظیم فن کار کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے تخیل اورجذبے میں انفرادی اور آفاقی عناصر ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات کسی فن کار کے یہاں ایک عنصر نمایاں ہو جاتاہے اور کسی کے یہاں دوسرا۔ علمی تحقیق کے نتائج پر وقتاً فوقتاً نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن فنی تخلیق کی صداقت ہمیشہ کے لیے ہے۔ چاہے کوئی اسے مانے یا نہ مانے اس پر نظر ثانی کی گنجائش کبھی نہیں نکلتی۔ ہومر کی شاعری کے موضوعات فرسودہ ہیں لیکن ان پر نظر ثانی نہیں ہو سکتی۔ جس طرح کہ یونانی علوم و حکمت پر کی جا سکتی ہے۔ ان علوم کے بعض اصول کو قبول کر لیا جاتا ہے اور بعض کو رد۔ ہومر کی فنی تخلیق موجودہ زمانے کے لحاظ سے برمحل ہو یا نہ ہو لیکن ا س کی متبادل صورت نہیں پیش کی جا سکتی۔ یہی حال دانتے کی شاعری کا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تخیل کی تخلیق اپنی آزاد اکائی رکھتی ہے اور اس کا دامن ہمیشگی سے ٹکا ہوتا ہے۔ وہ اپنی جگہ مکمل ہوتی ہے آنے والا زمانہ یہ سوا ل نہیں اٹھا سکتا کہ وہ ایسی کیوں ہے ویسی کیوں نہیں؟ فن پارے کا حسن اور ہم آہنگی ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ چاہے لوگوں کے خیالات اور عقائد میںکتنا ہی انقلاب کیوںنہ پیدا ہو جائے۔ عظیم فن کار اپنے زمانے میں ہوتے ہوئے بھی اپنے زمانے سے ماورا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات وہ اپنے ہم جنسوں میںتنہائی محسوس کرتا ہے اس لیے فن کو اپنا رفیق دو مساز بناتا ہے۔ اس کی نا آسودگی فنی تخلیق کے لیے محرک ثابت ہوتی ہے۔ اکثر اوقات اپنے زمانے سے بلند ہونے کے باعث وہ حقیقت حاضرہ سے مفاہمت نہیں کر سکتا۔ اس کا لازمی نتیجہ ذہنی اور روحانی کش مکش ہے جس کی تلافی وہ اپنی فنی تخلیق میں کرنے کی کوشش کرتا ہے کبھی وہ خواب و خیال کی دنیا بساتا ہے اور کبھی فردوس گم شدہ کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ حافظ اور اقبال ارضیت کے قدر دان ہونے کے باوجود ماورائی حقائق پر پور ا یقین رکھتے تھے۔ وہ عالم غیب اور عالم شہاد ت میں اور عالم شہادت کو عالم غیب میں دیکھتے تھے۔ حقیقت اور مجاز اور مقصدیت کی تہہ میں ان کی اسی نفسی کیفیت کو تلاش کرنا چاہیے۔ ان کا یہ یقین و ایمان ہی ان کے بظاہر متضاد خیالات میں مشترک اور اتصالی کڑی ہے۔ حافظ اور اقبال دونوں کے یہاں فن کی آزادی کا احساس موجود ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ انہوںنے روایات کی پابندی کی بجائے ان کے وہ عناصر لے لیے جو ان کے فن میں کھپتے تھے۔ روایات کے اس رد و قبول ے عمل سے فن کار کی اظہار ذات کی آفاقیت نمایاں ہوتی ہے۔ اسی آفقیت کا تصور ہم فنی روایات کے بغیر نہیں کر سکتے۔ یہ ضرور ہے کہ عظیم فن کاران روایات کے بعض اجزا کو اپنانے کے ساتھ ان میں ذاتی تصرف بھی کرتا ہے یا نئی روایات کی داغ بیل ڈالنا ہے جنہیں مستقبل میں اپنایا جاتا ہے روایات میں چاہے وہ نئی ہوں یا پرانی ‘ گہرائی پائی جاتی ہے۔ فن کار کا تخیل اس گہرائی کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ حافظ نے اپنے فن کے ذریعے جو جمالیاتی خزانے دنیا کو دیے وہ خود فراموشی کے عالم میں دیے۔ اسے کبھی اس کا احساس نہیں ہو اکہ وہ اپنی تخلیق حسن سے دنیا کو کیا کچھ دے رہا ہے۔ اس کی محوبیت اور استغراق کا یہ عالم تھا کہ اس کے نزدیک کروں کی گردش کا نغمہ اور اس کا جذبہ ایک ہو گئے تھے۔ اس ی بے خودی مکمل بے خودی تھی۔ اس کے برعکس اقبال کی بیخودی شعوری اور ارادی تھی ۔ حافظ خاموشی سے گفتگو کرنے کا عادی تھا۔ خاموشی ہی اسے زندگی کے سارے راز ظاہر کر دیتی تھی۔ اس کا تخیل اس کے جذب دروں کا دم ساز تھا۔ وہ اسے ان عالموں میں لے گیا جو ہمارے تجربے سے بالا تر ہیں۔ یہاں اپنے خود اپنے وجود کا احساس باقی نہیںرہا وہ اور جذبہ ایک ہو گئے: بمی پرستی ازاں نقش خود زدم بر آب کہ تا خراب کنم نقش خود پرستیدن یہ عجب بات ہے کہ حافظ جو سرتاپا جذبہ ہے شروع سے آخر تک جذبے کا اظہار اتنا نمایاں نہیں جتنا کہ اقبال کے یہاں ہے جس کے جذبے میں شعور و تعقل کی آمیزش ہے۔ حافظ کے فن میں جذبے کی زیریں لہریں ہمیشہ موجود رہیں لیکن یہ اس کے فنی ضبط و اعتدال کا کمال ہے کہ اس نے انہیں بس اتنا ابھرنے دیا جتنا وہ چاہتا تھا ۔ کہیں ان کہیں ان کے سایے دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں ان کی مبہم جنبش نظر آتی ہے۔ اور کہیں صرف یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ نیچے نیچے رواں دواں ہیں۔ غرض کہ اپنے جذبے کی ان اندرونی لہروں پر اسے قابو حاصل رہا جو اس کے فنی کمال پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے برخلاف اقبال کو اپنے جذبے پر قابو نہیں۔ شاید وہ دیدہ و دانستہ اس پر قابو حاصل نہیں خرنا چاہتا اس لیے کہ فنی کمال سے زیادہ اس کے پیش نظر مقاصد کی تابناکی تھی۔ اس کے یہاں جذبے کی موجوں کا ابھار اور جوش اور برانگیختگی چھپائے نہیں چھپتی چاہے وہ نظم ہو چاہے غزل میں۔ اس نے اپنی غزلوں میں حافظ کی رنگینی اور مستی مستعار لی ہے۔ لیکن وہ بھی اس واسطے کہ تاثیر پیدا ہواوروہ اپنے فن سے لوگوں کے دلوں کو لبھا سکے۔ فکر و فلسفہ نے انسانی وجود پر شبہ ظاہر کیا ۔ اقبال نے اس سارے مسئلے کو اپنے جوش عشق سے حل کر دیا۔ جو اس کے وجود اور شعور کا معروض ہے ۔ یہی اس کی فنی تخلیق کا سب سے زبردست محرک ہے: دربود و نبود من اندیشہ گماں باداشت از عشق ہویدا شد ایں نکتہ کہ ہستم من حافظ کا بیشتر کلام خود رو ہے جس میں شعوری ارادے کو بہت کم دخل ہے اس کے برخلاف اقبال کی فنی تخلیق میں شعوری ارادے کو خاصا دخل معلوم ہوتاہے ۔ جو فن پارہ از خود وجود میں آتا ہے اس کی ہئیت فن کار کے تخیل میں پہلے سے متعین ہو جاتی ہے۔ اور جس تخلیق میں ارادے اور شعور کو دخل ہو اس کی ہئیت اور موضوع پر دونوں کے لیے فن کار کو کاوش کرنی پڑتی ہے۔ اول الذکر میں اندرونی ریاضت زیادہ اور خارجی کاوش کم اور ثانی الذکر میں اندرونی ریاضت نسبتاً کم اور خارجی کاوش زیادہ ہونا لازمی ہے۔ ہر حال میں فنی تخلیق آزاد وجود اختیار کر لیتی ہے۔ اور اپنے خالق سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔ حافظ اور اقبال دونوں نے استعاروں کے ذریعے اپنے خیالات کو ظاہر کیا ہے۔ عظیم شاعری کی یہی زبان ہے شاعر اسی عالم کے ذریعے اپنی فنی تکمیل اور آزادی کے اصول کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی میں مسرت اوربصیرت کا خزانہ پوشیدہ ہے۔ جس کا سامع اور قاری متلاشی ہوتا ہے۔ بعض اوقات دونوں کے یہاں استعارے اور رموز و علائم ایک دوسرے میں اس طرح شیر و شکر ہیں کہ ان کی نشاندہی دشوار ہے عظیم فن کاروں کے یہاں جس طرح ہئیت و موضوع جذبہ و فکر علم و عرفان ایک دوسرے میں تحلیل ہو کر ایک وحدت بن جاتے ہیں اسی طرح ان کی تخلیقی توانائی کی یہ دولت استعارے اور رموز و علائم بھی ہم آمیز ہو کر اپنے جداگانہ خدوخال ایک دوسرے میں گم کر دیتے ہیں۔ یہ علم معانی و بیان کی خلاف ورزی نہیںبلکہ تکمیل ہے۔ لیکن اس کا حق حافظ اور اقبال جیسے عظیم تخلیقی فن کارو ں ہی کو پہنچتا ہے۔ ٭٭٭ اقبال کی شخصیت و فن کے چند پہلو عشق است و ہزار افسوں حسن است و ہزار آئیں نے من بہ شمار آئیم نے توبہ شمار آئی ٭٭٭ نیرنگ خیال کا اقبال نمبر نیرنگ خیال کا اقبال نمبر ۱۹۳۲ء میں چھپا تھا۔ اس نمبر کی تاریخی اہمیت ہے۔ کیونکہ یہ نمبر علامہ اقبال کی زندگی میں چھپا تھا اور جسے علامہ اقبال نے پسند فرمایا تھا۔ اس نمبر سے استفادہ کیے بغیر کوئی بھی اقبال پر اپنے کام کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔ اقبالیات کے سلسلے کی یہ اولیں اور دائمی کڑی ہے۔ اس نمبر کو بھی ادارہ نقوش کی طرف سے افسانے کے ساتھ دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔ (یہ نمبر اکتوبر میں بازار میں آ جائے گا) مرتبہ : حکیم یوسف حسن من جانب(ادارہ نقوش‘ لاہور) ٭٭٭ اقبال کا نظام فکر محمد رضی الدین صدیقی علامہ اقبال کی وفات کے بعد ان کے منظوم کلام کے متعلق بے شمار کتابیں اور مقالات تحریر کیے گئے لیکن ان کے خیالات و افکار کو ایک مربوط نظام میں ترتیب دینے پر کماحقہ توجہ نہیں کی گئی۔ یہ بات عام طور پر معلوم ہے کہ علامہ اقبال کا خصوصی مضمون فلسفہ تھا۔ اور لاہور کیمبرج اور جرمنی میں فلسفہ کے مطالعہ اور اس پر تحقیقات کے دوران انہیں مشرق و مغرب کے فلاسفہ اور مفکرین کے خیالات کو غور کے ساتھ ساتھ مطالعہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی افتا د طبیعت بھی کچھ ایسی تھی کہ وہ محض سطحی معلومات حاصل کرنے اور دوسروں کی تقلید کرنے پر اکتفا نہیںکر سکتے تھے۔ بلکہ خود بھی غور و فکر کے عادی تھے اور یورپ سے واپسی کے بعد اپنا تمام وقت مطالعہ اور تحقیق و تصنیف کے لیے وقف کر چکے تھے۔ ان حقائق کی روشنی میں علامہ اقبال کے منظوم کلام اور مضامین و مقالات خصوصاً الہیات اسلامیہ پر انگریزی خطبات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب انہوںنے اسرار و رموز کی تصنیف شروع کی تو ان کے ذہن میں ایک مربوط فکری نظام کا خاکہ تشکیل پا چکا تھا جس کو انہوںنے بتدریج دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اب ضرورت اس کی ہے کہ ان تمام تحریروں کے تحلیلی مطالعہ سے اقبال کے نظام فکر کے تدریجی تشکیل کی نشان دہی کی جائے اور اس کو مربوط شکل میں مرتب کیا جائے۔ فلاسفہ کا عام طورپر یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنے افکار کو ایک مبسوط کتاب کی صورت میں منطقی استدلال کے ساتھ ایک دوسرے سے منسلک اور ماخوذ نتائج کے طور پر پیش کرتے ہیں فلسفہ کے ایک متعلم کی طرح علامہ اقبال کو بھی یہی پیرایہ اظہاراختیار کرنا چاہیے تھا لیکن انہوںنے اپنا مقصد حیات اور اپنی علمی کاوشوں کا نصب العین دوسرے فلاسفہ سے جداگانہ متعین کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ نسل انسانی کو جو دور حاضر کی غیر معمولی مادی ترقی سے گمراہ ہو کر تباہی کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے سیدھا راستہ بتائیں اور تباہی سے بچائیں۔ وہ اس حقیقت سے بھی واقف تھے کہ ان کے متعینہ مقصد کے لیے فلسفہ کی کتاب کی بہ نسبت الہامی شاعری زیادہ موثر اور کارگر ہو سکتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ شاعری کی زبان دل کش اور دل آویز ہونے کے علاوہ یہ قوت اور صلاحیت بھی رکھتی ہے کہ کسی مفہوم کو جو فلسفیانہ مضمون یا عالمانہ مقالہ میںکئی صفحوں پر پھیلی ہوئی تشریح و توضیح کے باوجود خاطر خواہ سمجھ میں نہیں آتا ایک اچھے شعر کے ذریعے خوب دل نشیں کر دے: صد نالہ شب گیرے صد صحیح بلا خیزے صد آہ شرر ریزے یک شعر دل آویزے اسی قسم کی وجوہات ہیںجن کی بنا پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے علامہ اقبال نے زیادہ تر شاعری کا وسیلہ اختیار کیا اگرچہ حسب ضرورت انہوںنے اپنے افکار کو بلند پایہ اور عالمانہ نثر کے اسلوب میں بھی پیش کیا ہے جس کا ثبوت ان کے مضامین و مقالات اور خصوصاً ان انگریزی خطبات سے فراہم ہوتا ہے جو آکسفورڈ یونیورسٹی جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن اورمحمڈن کالج مدراس میں دیے گئے تھے ظاہر ہے کہ ان علمی درس گاہوں میں نظم کی بجائے نثر کا اسلوب اختیار کرنا ہی زیادہ مناسب تھا۔ غرض یہ کہ علامہ اقبال کے فکری نظام کو مرتب کرتے وقت ان کے تمام اردو اور فارسی منظوم کلام کے علاوہ نثری تحریروں اور خصوصاً خطبات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ اقبال کے نظام فکر کو مرتب کرتے وقت سب سے پہلے اس امر کو ملحوظ رکھنا لازمی ہو گا کہ ان کی فکر قرآنی تعلیمات اور اسلامی شعار اور اقدار کے ماتحت تشکیل پائی ہے اور اگرچہ انہوںنے مغربی فلسفہ اور جدید سائنس کا بھی بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہے لیکن ان سب کو اسلام کے بنیادی اصول پر پرکھتے اور ان اصول سے مطابق یا مخالف ہونے کی بنا پر انہیں قبول یا مسترد کردیتے ہیںَ بلکہ اس معاملہ میں وہ مسلم متکلمین کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھتے ہیں کہ ان متکلمین کے خیالات جہاں کہیں قرآنی تعلیمات کے منافی ہوں انہیں بھی مسترد کر دیتے ہیں۔ بادی النظر میں ایسا معلوم ہوتاہے کہ چند بڑے اہم عنوان جن کے تحت علامہ اقبال کے افکار کو منطقی طورپر ترتیب دیا جا سکتا ہے اس طر ح متعین ہوتے ہیں۔ ۱۔ فکر اور وجدان کی حقیقت اور ان کا باہمی تعلق تحصیل علم کے ذرائع روحانی تجربہ کے امکانات۔ ۲۔ خالق عالم کا وجود اور اس کی صفات ۔ توحید کا مطلب عبادت کا مقصد۔ ۳۔ تخلیق کائنات کی ماہیت مادہ و توانائی۔ زمان و مکاں اور علت و معلول کے تصورات کی تشریح۔ ۴۔ تخلیق آدم اور انسان کا مقصد حیات نیابت الٰہی خیر و شر اور جبر و قدر کے مسائل۔ ۵۔ وحی در رسالت ختم نبوت کا لزوم۔ انسان کامل کا تصور۔ ۶۔ فرد اور جماعت کے حقوق و فرائض خودی اور بیخودی کا تصور۔ قوموں کا عروج و زوال۔ وحدت آدم اور عالمگیر اخوت و مساوات۔ ۷۔ نظریہ حیات اور زندگی کے اعلیٰ اقدار۔ موت اور حیات بعد الموت کی حقیقت۔ ۸۔ موجودہ تہذیب کی دشواریوں سے نوع انسان کی نجات کا طریقہ اور اس ضمن میں امت مسلمہ کا کردار۔ ۹۔ اہل مشرق اور خصوصاً مسلمانوں کی پستی اور کمزوری کے اسباب اور ان کا ازالہ۔ فکر اور وجدان سے شرو ع کر کے تمام درمیانی مسائل سے گزرتے ہوئے انسانی معاشرہ خصوصاً ملت اسلامیہ کے انتہائی نقطہ عروج تک افکار و خیالات کا ایک سلسلہ ہے جو اقبال کے کلام اور علمی تحریروں میںمنتشر پایا جاتا ہے۔ اور جس کو منطقی تحلیل وتشریح کے بعد ترتیب دے کر مربوط شکل میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مسائل کے متعلق یہ تحقیقات کرنی ہوں گی کہ قدیم یونانی فلاسفہ اورمفکرین سے لے کر از منہ وسطیٰ کے متکلمین اورپھر ڈے کارٹ سے لے کر برگساں تک جدید فلاسفہ اور بڑے سائنس دانوںنے کیا خیالات پیش کیے تھے۔ اور علامہ اقبال ان میں سے کن خیالات سے متفق تھے۔ اور کن سے انہیں اختلاف تھا۔ خود ان کے اپنے خیالات کیاتھے۔ اور یہ خیالات کس طرح اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اس قسم کی ایک کوشش راقم الحروف نے کوئی تہائی صدی قبل اقبال کا تصور زمان و مکاں والے مضمون میں کی تھی جس میں مذکورہ بالا پروگرام کو ملحوظ رکھا گیا تھا۔ دوسرے موضوعات اور عنوانات پر بھی اسی طرح تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔ میرے فاضل دوست اور دیرینہ رفیق ڈاکٹر عبدالحکم مرحوم نے یہ کام شروع کیا تھا اور اس کا ایک خاکہ اپنی کتاب فکر اقبال میں پیش کیا تھالیکن افسوس کہ ان کی عمر نے وفا نہ کی اور ان کی ناگہانی وفات کی وجہ سے یہ کام تشنہ تکمیل رہ گیا۔ ان کے بعد کچھ قابل علماء نے کسی قدر کام کیا ہے لیکن اس قسم کی انفرادی کوشش کے علاوہ ایک بڑے اور منظم ادارہ کا فرض ہے کہ ماہرین کی ایک جماعت کے اشتراک سے ایک باضابطہ منصوبہ کے تحت اس اہم کام کا بیڑا اٹھائے تاکہ اقبال کے نظام فکر کی کماحقہ تدوین ہو سکے۔ علامہ اقبال کے نظام فکر سے متعلق بعض مسائل جیسے زمان و مکاں کا تصور جبر و قدر کا مسئلہ مذہب اور سائنس کا تعلق موت و حیات کی حقیقت قوموں کے عروج و زوال کے اسباب وغیرہ پر میں نے وقت بہ وقت مختصر طور پر اظہار خیال کیا ہے اس موقع پرمیں چند دوسرے اہم موضوعات کے متعلق مختصر اشارے کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ مسائل علامہ اقبال کے افکار کے اہم اجزا ہیں اور ان کے نظام فکر کو مرتب کرتے وقت ان کو پیش رکھنا ضروری ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے فکر اور وجدان کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ ان کے متعلق علامہ اقبال کا خیال ہے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے کے مقابل اور متضاد سمجھنے کی کوئی وجہ نہیںَ یہ دونوں ایک ہی سرچشمہ سے نمودار ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ فکر حقیقت کا تجزیہ کر ک اس کو جزواً جزواً سمجھتی ہے اور وجدان اس کو یک لخت بحیثیت مجموعی اخذ کر لیتا ہے۔ دونوں کو اپنی نشوونما کے لیے ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اقبال برگسوں Gergsonکی اس رائے سے متعفق ہیں کہ وجدان کی حیثیت ایک اعلیٰ قسم کی ذہن کی ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ خیال کہ فکر چوں کہ محدود ہوتی ہے اس لیے لامحدود کو نہیں سمجھ سکتی۔ علم میںفکر کی حیثیت کے متعلق ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ یہ غلط فہمی اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ فکر کو ساکن اور جامد سمجھ لیا گیا حالانکہ وہ متحرک ہے اوراپنی داخلی لامحدودیت کو بتدریج ظاہر کرتی جاتی ہے۔ یہ اس تخم کی مانند ہے جو شروع ہی سے اپنے اندر پورے درخت کی وحدت کو سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ اس ذرے میں اییک کل پوشیدہ ہے اور اسی کل کو قرآن کریم میں لوح محفوظ کہا گیا ہے۔ جس میں تمام عالم موجود ہے لیکن اس کا اظہار بتدریج ہو رہا ہے۔ اس طرح فکر کے لیے یہ عین ممکن ہے کہ لامحدود کو سمجھ سکے۔ اقبال بتاتے ہیں کہ ہم اس کائنات کی جزوی حقیقتوں پر غور کرتے کرتے ہی لامحدود کو تصور کرنے کی تربیت حاصل کرتے ہیں اور اسی لیے قرآن کریم میں بار بار مظاہر فطرت کے مشاہدے اوران کے متعلق غور و فکر کی تاکید کی گئی ہے۔ فکر و وجدان یعنی بالفاظ دیگر عقل اور ایمان کے امتزاج کی یہی تعلیم ہے کہ جس کو اقبال نوع انسانی کی نجات کے لیے لازمی سمجھتے ہیں۔ اور جس کو انہوںنے فلسفیانہ طورپر اپنے خطبات میں تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کے علاوہ اپنے منظوم کلام میں بھی جا بجا نہایت دل نشین انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ ایسی عقل کے قائل ہیں جو نسیم کی مانند سیر چمن پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ گل و نسریں کے رگ و ریشہ میں داخل ہو کر ان کا مطالعہ کرے۔ جو نہ صرف دنیا و مافیہا کے متعلق قیاس آرائی کرے بلکہ آں سوئے افلاک بھی نظر دوڑائے اور جس کی خمیر میں فرشتوں کا نور اور انسانوں کو سوز دل شامل ہو: اے خوش آں عقل کہ پہنائے دو عالم با اوست نورا فرشتہ و سوز دل آدم با اوست اقبال کو یقین ہے کہ ایسی ہی عقل جو ادب خوردہ دل ہو نبی آدم کو گمراہی سے نجات دلا سکتی ہے اور صحیح راستہ دکھا سکتی ہے ۔ اور وہی انسان جس کی سرشت میں ایمان اور عقل کا مناسب امتزاج ہو ایک ایسی نئی دنیا تعمیر کر سکتاہے کہ جو اس کی تخلیقی قوتوں کے لیے سازگار ہو: زیر کی از عشق گردد حق شناس کار عشق از زیرکی محکم اساس عشق چوں بازیرکی ہم برشود نقش بند عالم دیگر شود فکر اور وجدان کی حقیقت اور ان کے باہمی تعلق پر بحث کرنے کے بعد دیکھنا ہو گا کہ خالق کائنات کی ذات اور صفات کے متعلق اقبال کا تصور کیا ہے؟ فلسفہ اور علم کلام میں خالق عالم کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے تین قسم کے دلائل پیش کیے جاتے ہیں کونیاتی (Cosmilogical) غایتی (Tebological) اوروجودیاتی (Ontological) علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں ان دلائل کا تجزیہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ ان تینوں میںمنطقی خامیاں پائی جاتی ہیں اور وہ خالق کائنات کے وجود کو ثابت کرنے میں ناکام ہیں۔ وجود باری تعالیٰ کے متعلق صحیح تصور قائم کرنے کے لیے اقبال قرآن کریم کی اس تعلیم سے مدد لیتے ہیں کہ ایک واحد ہستی ہے جو ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی اور اس ظاہر و باطن میں دوئی نہیں وہ بتاتے ہیں کہ جوہر وجو دمیں ایک تخلیقی اور تکوینی مشیت ہے جسے نفس یا انا کہہ سکتے ہیں اور قرآن کریم نے اس انائے مطلق کی انفرادیت کو سورۃ اخلاص میں بڑی بلاغت کے ساتھ پیش کیا ہے کہ وہ ذات مطلق احد اور صمد ہے نہ کوئی دوسرافرد اس کی تولید میں حصہ لیتاہے اور نہ وہ کسی کی تولید اس طرح کرتاہے کہ جس طرح دوسرے افراد کی تولید ہوتی ہے۔ موجودات کی کوئی شے اس کے مماثل اورہمسر نہیں ہے۔ ان آیات کا مقصد محض عقیدہ تثلیث کی تردید کرنا ہی نہیں بلکہ باری تعالیٰ کے کامل اور مطلق ہونے کو واضح کرنا بھی ہے۔ اقبا ل کہتے ہیں کہ اکثر مذاہب میںیہ رجحان رہا ہے کہ خالق علم کی انفرادیت کو وحدت الوجود کے تصور کے ذریعہ کائنات کی ہر شے میں پھیلا دیں۔ لیکن قرآن کریم اس کا مخالف ہے۔ قرآن کریم کی وہ تشبیہہ جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ جو آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک چراغ ہے جو فانوس کے اند ر ہے اور فانوس ایک طاق میں رکھا ہوا ہے خالق عالم کے منفرد ہونے پر دلالت کرتی ہے اور ہمہ اوست کے تصور کے بالکل برعکس ہے۔ خالق عالم کی ذات میں علم قدرت کاملہ اور خلاقی کی صفات بھی پائی جاتی ہیں۔ محدود نفوس کے لیے فطرت ایک خارجی چیز ہوتی ہے لیکن خالق کا تعلق کائنات سے صانع اور مصنوع کا سا تعلق نہیں ہے۔ کائنات کی پیدائش سے متعلق جو الجھنیں پیدا ہوتی ہیں وہ خالق عالم کو ایک محدود نفس والے صانع کی مماثل تصور کرنے سے پیش آتی ہیں۔ اس تصور میں کائنات اپنے خالق سے ایک جداگانہ شے رہ جاتی ہے حالانکہ خالق عالم کے فعل تخلیق میں جلدیا بدیر ار قریب یا بعید ہونے کا کوئی سوال پید انہیں ہوتا۔ اس کا ارادہ او رشے کا موجود ہو جانا ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں۔ اس کا تخلیقی فعل آزاد ہے جو زمان و مکاں اور مادے سے مقید نہیں۔ مادی کائنات خالق عالم کی ذات و صفات سے جداگانہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی کیونکہ خدا خالق بھی ہے اور قیوم بھی اور کائنات خدا کے فعل تخلیق ہی کی مظہر ہے۔ اس منزل پر اقبال نے کانٹ اور ایڈنگٹن کے اس نظریہ کا اعادہ کیا ہے کہ کائنات کی ریاضیات اور اصول طبیعیات محدود نفوس نے اپنی ضرورت اور اپنے سمجھنے کے لیے تراشے ہیں اورنہ یہ کوئی حقیقت مطلقہ نہیں۔ نفس نے یہ عمل تغیر کے اندر ثبات کی تلاش میں کیا ہے لیکن یہ حقیقت ثابتہ خود اس کی ماہیت میں موجود ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خالق کائنات کے عمل تخلیق کا انداز کیا ہے۔ ارسطو اور دوسرے قدیم فلاسفہ نے کائنات کو ایک ازلی اورا بدی حیثیت بھی دے رکھی تھی اور ان کے نزدیک کسی قادر مطلق کی خلاقی کو اس میں دخل نہیںتھا۔ لیکن قرآن حکیم نے اس نظریہ کی تردید کی کہ کائنات موجود بالذات ہے اس ضمن میں اقبال اشاعرہ کے اس تصور کی تشریح کرت ہیں کہ کائنات جواہر یا اجزائے لاتیجزی پر مشتمل ہے ۔ اور ان کی بے شمار تعداد ہر لمحہ معرض وجود میں آتی رہتی ہے۔ اور اس طرح کائنات یاموجودات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اشاعرہ کی کوشش تھی کہ خدا کو ایک بامشیت خلاق قوت ثابت کیا جائے جو زمان و مکان اورمادی جواہر میں محصور نہیں بلکہ مستقل تخیل میں مشغول ہے۔ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون اس کے بعد اقبال اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ خدا چوں کہ انائے مطلق ہے لہٰذا اس کی قدرت اور مشیت کے نفوس ہی کی تخلیق ہوتی ہے۔ اس لیے کائنات میں ہر موجود شے اور فطرت کا مظہر نفس ہی کا مظہر ہے اور حقیقت کا ہر معیار اپنی ذات کا شعور ہے خواہ وہ شعور کسی درجہ میںہو۔ ہر نفس کی خودی جلوت کے باوجود اپنی خلوت بھی رکھتی ہے۔ جس کے اندر دوسرے نفوس کو دخل حاصل نہیں ہوتا۔ یہ بات انا کی ماہیت میں داخل ہے۔ انسان کے نفس میں انا کا عنصر مقابلتاً زیادہ ترقی یافتہ ہے اس لیے وہ دوسری مخلوقات سے افضل ہے اور خدا کے مرکز ذات کے قریب تر ہے۔ ازروئے قرآن خدا کا انسان کی شہ رگ سے قریب تر ہونا یہی معنی رکھتا ہے اور اسی وجہ سے انسان خدا کی خلاقی میں حصہ لے سکتا ہے۔ اسی الوہیتی قریب اور مماثلت کے باعث انسان کے مقاصد اور اس کی تمنائیں لامحدود ہیں اور وہ ہر قسم کے ماحو ل کا مقابلہ کر سکتا ہے اور اس کو اپنے اغراض کے مطابق ڈھال سکتا ہے یعنی بالفاظ دیگر وہ اپنی تقدیر کا خود معمار ہے۔ اب خدا کے علم اور اس کی قدرت کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ نفس محدود کے لیے عالم اور معلوم کی تفریق باقی رہتی ہے اور ایسا نسف عالم کل بھی ہو جائے تو پھر بھی ہستی معلوم اس سے خارج ہی رہے گی۔ لیکن انائے مطلق والا محدود کے لیے کوئی وجود خارجی نہیں ہو سکتا اور اس کے لیے کوئی ماسوا نہیں۔ جب خدا کے فعل کو جو ناقابل تقسیم ہے خارج سے دیکھا جائے تو وہی کائنات ہے۔ خدا کے ہاں فکر وارادہ اور فعل اور شے مخلوق سب ایک ہیں۔ چوں کہ محدود نفوس ایسے انائے مطلق کا تصور قائم نہیں کر سکتے۔ اور اس بارے میں منطقی استدلال بھی کام نہیںدیتا اس لیے نفسی وجدان کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ خدا کا علم اس قسم کا نہیں کہ جو ہماری طرح حواس یا ادراک یا استدلال کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ خدا کے علم میں عالم اور معلوم جدا نہیں لیکن ہمارے علم میں معلوم بغیر عالم کے بھی موجو د رہتا ہے۔ خدا عالم مستقبل ہونے کے علاوہ خلاق حقیقی بھی ہے۔ مستقبل اگر پہلے ہی سے مقدر اور مقرر ہے تو پھر خدا کی مشیت بے معنی ہو جاتی ہے۔ اور نہ خلاق رہتا ہے نہ فتال مایرید۔ خدا حیات مطلقہ ہے اور زندگی کا خاصہ یہ ہے کہ تازہ آفرینی اور جدت طرازی کرتی رہے جس کو قرآن کریم میں کل یوم ھو فی شان کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔ اکثر متکلمین نے خدا کو عالم کل تو تسلیم کیا ہے لیکن اس کے علم کو اپنے محدود علم پر قیاس کیا ہے اور اس کی خلاقی اور ندرت آفرینی کو ملحوظ نہیںرکھا۔ اسی لیے خدا کے قادر مطلق ہونے اور انسان کے جبر و اختیار کے مسئلوں میں الجھنیں پیدا ہوئیں جن کو علامہ اقبال نے تحلیل و تشریح کے ذریعہ رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ خالق عالم کی طرف سے تخلیق آدم کے مسئلہ پر غور کرنے کے دوران یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبوت اور رسالت کا منصب کیا ہے اور یہ امر کیسے لازم آتا ہے کہ نبوت کا ایک سلسلہ منزل پر پہنچ کر ختم ہو جائے۔ ان مسئلوں سے بحث کرتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ بنی نوع انسانی کے ابتدائی دو ر میں خالق عالم نے تعلیم و تلقین کا یہی طریقہ استعمال کیا کہ ایک خاص انسان کی طرت میں ایک معینہ معیار کے مطابق افکار و اعمال ودیعت کر دے تاکہ وہ دوسرے انسانوں کے لیے اسوہ حسنہ بن جائے ۔ لیکن ارتقاء کی ایک خاص منزل تک پہنچ جانے کے بعد تعلیم و تلقین کا یہ طریقہ ترک کر دیا گیا ہے کیونکہ اس کا ماخذ عقل و استدلال سے ماور ا تھا۔ انسان کے عہد بلوغ میں فطرت کا تقاضا یہ تھا کہ انسان مشاہدہ مطالعہ اور استقراء کے ذریعہ اپنے ماحو کی تسخیر کرے اور ماورائے عقل ذرائع کو اس نوبت پر ترک کر دے۔ فلسفیانہ افکار اور حکیمانہ استدلال قدیم زمانے میں بھی ملتے ہیں لیکن وہ فکر محض کا نتیجہ تھے اور مبہم توہمات اور روایتی تصورات کو منطقی طور پر پیش کرنے کی ایک کوشش پر مبنی تھے اسی لیے نوع انسانی پر ان کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ اقبال کہتے ہیں کہ اس نقطہ نظر سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی عالم قدیم اور عالم جدید کے مابین ایک واسطہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اپنے سرچشمہ وحی کے لحاظ سے آپؐ عالم قدیم سے ہے لیکن اس وحی کی روح اور اس کے مقصود کے اعتبار سے آپؐ عالم جدید سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ آپؐ ہی کا وجود گرامی ہے کہ زدنگی پر علم و حکمت سے وہ سرچشمے منکشف ہوئے جو اس کے آئندہ رخ کے عین مطابق تھے۔ لہذا اسلام کا ظہور عقل استقرائی کا ظہور ہے جس نے قدیم انداز نبوت کو منسوخ کر دیا۔ نوع انسانی کے موجودہ دور ارتقاء میں اب اس کی ضرورت نہیں رہی کہ ہر چھوٹی سی بات کے لیے انسان خارجی سہارا ڈھونڈتا پھرے اور خود کچھ نہ سوچے۔ اس کے شعور ذات کی تکمیل اسی طرح ہو سکتی ہے کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے۔ یہی وہج ہے کہ اب کسی مزید نبی کی ضرورت نہیں رہی۔ بادشاہت بھی ختم ہو گئی اور مذہبی پیشوائوں کا اقتدار بھی منسوخ ہو گیا کیونکہ بالغ انسانیت کے لیے اب یہ سارے لوازمات غیر ضروری ہو گئے۔ اسی لیے قرآن نے بار بار یہ تلقین کی کہ ہر فرد بشر خود تدبر اور تفکر کرے مشاہدہ انفس و آفاق کے ذریعہ اپنے لیے ہدایت حاصل کرے اور نوع انسان کی تاریخ سے بھی سبق لے۔ اس کے معنی قطعاً یہ نہیں کہ اب روحانی وجدان و عرفان کے دروازے بند ہو گئے ہیں وہ دروازے بدستور کھلے ہیں لیکن دینی اور دنیاوی امور میں اب عقل و حکمت کا دور آ گیا ہے جو وحی اور الہام سے متناقض نہیں ختم نبوت کے یہی معنی ہیں کہ اب کسی فوق الفطرت ذرائع سے ہدایت حاصل کرنے والے نئے مدعی کی ضرورت نہیں رہی۔ اب کسی شخص کو یہ حق نہیںپہنچتا کہ عوام الناس کو اپنے الہامات پر بے چون و چرا ایمان لاؤنے کی تلقین کرے۔ اب تمام اقسام کے تجربے انسانی عقل اور مشاہدہ کے تابع ہوں گے کیوں کہ نوع انسان پر علم و حکمت کے دروازے کھول دیی گئے ہیں اورفطرت کو سمجھنا اور اس کو مسخر کرنا اسی علم و حکمت کی بنا پر ہو گا۔ آخر میں اس مضمون میں اقبال کے نظام فکر سے متعلق صرف ایک اورموضوع پر مختصر اظہارخیال کیا جائے گا۔ اور اس امر کی نشاندہی کی جائے گی کہ علامہ اقبال نے فرد او رجماعت کے حقوق و فرائض کیا مشخص کیے ہیں۔ اور ان میںکیا تعلق بتایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فرد کی زدنگی اور ترقی کا اصل محرک اپنی انا یا خودی کی حفاظت کا جذبہ ہے اوراس کے لیے جو قومیں ترقی کرنا چاہتی ہیں ان کے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی شخصیت اور صلاحیتوں کی تربیت کریں۔ اسلام نے انفرادی ذمہ داری اور سعی عمل کو زندگی کا اصل اصول قرار دیا ہے۔ اس سعی و عمل کی بدولت انسان خود کو اشرف المخلوقات ثابت کر سکتا ہے ۔ اقبال نے اپنے خطبہ میں آیہ کریمہ انا عرضنا الامانت علی السموۃ والارض کی تفسیر یوں کی ہے کہ جس امانت کا بوجھ اٹھانے سے آسمان وزمین نے انکار کر دیا تھا لیکن جس کو انسان نے قبول کر لیا۔ وہ یہی شخصیت اور احساس خودی کی ذمہ داری ہی تھی۔ اسی ذمہ داری کی بدولت اس کو تمام تر عظمت اور فضیلت حاصل ہوئی اور اسی سے اس میں ٰہ صلاحیت پیدا ہوئی کہ وہ نہ صرف حقائق اشیا کا علم حاصل کرے بلکہ اپنی ضرورت کے مطابق فطرت میں تصرف کر سکے۔ اپنی اس استعداد کی بدولت وہ رفعت و کمال کے اعلیٰ ترین مدارج تک پہنچ سکتا ہے۔ انسانی فضیلت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کی فطرت کو فطرت الٰہی کے مطابق ٹھہرایا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے : فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا پس چونکہ ایجاد و تخلیق ذات الٰہی کی ایک صفت ہے اس لیے انسان کی فطرت میں بھی یہ وصف ایک حدتک ودیعت کر دیا گیا ہے تاکہ وہ ایجاد و تخلیق کے ذریعہ اپنے ماحول پر قابو پائے۔ اس نکتہ کو علامہ اقبال نے اپنے خطبا ت میں اس طرح پیش کیا ہے۔ ’’انسان کے لیے مقدر ہو چکا ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش کی کائنات کی گہری آرزوئوں میں شریک ہو اور اس طرح نہ صرف خود اپن مقدر کی بلکہ کائنات کی تقدیر بھی تشکیل کرے کبھی وہ کائنات کی قوتوں سے اپنے تئیں مطابق بناتا ہے اور کبھی ان کو پوری قوت کے ساتھ اپنے مقاصد کے مطابق ڈھالتاہ۔ اس تدریجی تعبیر ے عمل میں خدا اور اس کا شریک کار ہوتا ہے بشرطیکہ انسان کی طرف سے پیش قدمی کی گئی ہو۔ ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر و اما بانفسھم کا مطلب یہی ہے۔ اگر انسان کی طرف سے پیش قدمی نہیں ہوئتی اور وہ وجود کے قومی کو ترقی نہیں دیتا اور اگر وہ زندگی کے بڑھتے ہوئے دھارے کا زور محسوس نہیں کرتا تو اس کی روح پتھر بن اتی ہے اوروہ مثل مردہ مادہ کے ہو جاتا ہے‘‘۔ (خطبات ص ۱۲) اس سارے بیان سے واضھ ہے کہ انفرادی ذمہ داری کا احسا س سعی عمل کی توفیق اور ایجاد وتخلیق کی صلاحیت افراد کی یہی بڑی صنعتیں ہیں جن کے بغیر قوموں کی ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب افراد سے گزر کر اقبال قوم اور جماعت کی ضرورت صفات کا جائزہ لیتے ہیں اور تلقین کرتے ہیں کہ قوم کی ترقی کے لیے سب سے پہلے اس کے بنیادی اصول یعنی نصب العین یا نظریہ حیات Idealogyکے تحفظ کی ضرورت ہے۔ جب کوئی قوم اپنی تہذیب اور ملی روایات پر یقین نہیں رکھتی اپنی عقل کو غیروں کے افکار کی زنجیر میں مقید کر دیتی ہے اوراپنی تمنائوں اور نصب العین کو دوسروں سے مستعار لینے میں تامل نہیں کرتی تو پھر وہ نیابت الٰہی کے حق سے دست بردار ہو جاتی ہے علامہ اقبا ل اس کو ناموش کہن کے نام سے موسوم کرتے تھے اور کہتے ہیں: زندہ فرد از ارتباط جان و تن زندہ قوم از حفظ ناموس کہن یعنی فرد کی زندگی تو جان اور جسم میں ارتباط سے قائم ہے لیکن قوم اسی وقت زندہ رہ سکتی ہے جب وہ اپنے ناموس کہن کی حفاظت کرے اور اپنے مقصد حیات کو فراموش نہ کرے۔ اقبال کہتے ہیںکہ سیاسی محکومیت سے زیادہ خطرناک ذہنی غلامی ہوتی ہے جب کوئی قوم اپنے شعار ملی کو چھوڑ کر دوسری جماعت کے خیالات اور افکار کو اختیار کر لیتی ہے او ر انہی کے مطابق عمل کرنا شروع کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ قوم کی ترقی کے لیے ایک اہم اور لازمی شرط اول تطہیر فکر یعنی پہلے افکار کو پاک کرنا اور پھر تعمیر فکر یعنی صحیح افکار کی تعمیر کرنا ہے۔ اس کے بعد اقبال ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں کہ فرد اور جماعت کا باہمی تعلق کیا ہے اور کہتے ہیں کہ وہی معاشرہ ترقی یافتہ ہو گا جس میں اس مسئلہ کو بحسن و خوبی حل کیا گیا ہو جس قوم میںفرد و جماعت کا رشتہ مناسب اور فطرت کے مطابق ہو گا اس کی ترقی کے امکانات وسیع ہوں گے اور جہاں افراد اور جماعت میں باہمی نزاع او ر کش مکش پائی جائے وہاں ترقی مفقود ہو گی۔ فرد اور جماعت کے اغراض و مقاصد میں کوئی دائمی تضا د نہیں ہونا چاہیے۔ وہی معاشرہ فطر ت کے مطابق ہو گا جس میں فرد کی شخصیت کو اپنی نگہبانی اورنشوونما کا موقع حاصل ہو اور اسی کے ساتھ اجتماعی مقاصد کو ٹھیس بھی نہ لگے۔ اقبال کہتے ہیں کہ فرد کو جماعتی زندگی کے اخلاقی اقدار کا تابع ہونا چاہیے کیونکہ فرد کی شخصیت عمرانی ماحول کے بغیر روشن نہیں ہو سکتی۔ فرد جب اپنے آ پ کو نظم و ضبط ملت کا پابند بنا لیتا ہے او رمعاشرہ کی خدمت میں منہمک ہو جاتا ہے تو اس وقت وہ اپنے وجود کے بلند ترین مقام تک پہنچتا ہے۔ فرد اور جماعت کا تعلق ایک قسم کا زندہ نامیاتی تعلق ہے۔ اعلیٰ جماعتی نظام کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس جماعت میں بلند پایہ کے افراد پیدا ہوں۔ انسانی ارتقاء کا تعلق ایک قسم کا زندہ نامیاتی تعلق ہے۔ اعلیٰ جماعتی نظام کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس جماعت میں بلند پایہ کے افراد پیدا ہوں۔ انسانی ارتقاء کا منشایہ ہے کہ فرد اور جماعت کے اقدار حیات میں ہم آہنگی پیدا کرے۔ جو تمدن اس مقصدمیں کامیاب ہو جاتا ہے وہی زندگی کی گتھیوں کو اچھی طرح سلجھانے کی صلاحیت رکھتاہے۔ علامہ اقبال کی رائے کہ جس خوبی سے اسلامی تمدن میں فرد اور جماعت کے مقصد میں ہم آہنگی پیدا کی گئی ہے۔ اور مادی و روحانی زندگی کو ایک دوسرے سے مربوط کیا گیا ہے وہ خود اس امر کا ضامن ہے کہ اسلامی تمدن ہر قسم کی مشکلات میں پڑ کر اور جلا پائے گا۔ اور بڑے بڑے انقلابوں کے باوجود اپنی ہستی کو برقرار رکھ سکے گا۔ انقلابوں کوجھیلنا قوتوں کے قوت حیات پر دلالت کرتا ہے ۔ اور تغیروں سے عہدہ برا ہونا صرف اجتماعی اقدار کی بدولت ممکن ہے نئے حالات پر قابو پانا اور ان کو اپنے نظام حیات کے مطابق بنانا قوموں کی بقا اور احیا کے لیے نہایت ضروری ہے اور اسلامی نظام کی یہی بڑی خصوصیت ہے کہ ہر انقلاب کے بعد اسلامی تہذیب از سر نو زندہ ہو جاتیہے اور اپنے اندرونی جوش حیات کی بدولت ہر نمرود کی آگ گلزار بنا سکتی ہے ۔ علامہ اقبال کے نظام فکر کی ترتیب کے لیے اس مضمون میں کچھ اشارے دیے گئے ہیں ظاہر ہے کہ اس موقع پر صرف چند مباحث کی نشا دہی ممکن تھی اور بعض دوسرے مسائل کا تو ذکر بھی نہیں ہو سکا۔ ان میں سے ہر موضوع پر دفتر کے دفتر لکھے جا سکتے ہیں اور یہی کام ہے جو علماء اور محققین کو انجام دینا ہے۔ اس مضمون میں میرا مقصد صرف یہی تھا کہ اس کام کی اہمیت اور ضرورت کی طرف توجہ دلائی جائے تاکہ اس کو جلد سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ ٭٭٭ دیدہ ور ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ٭ ان کی آنکھ بینا تھی ذہن بیدار تھا اور فکر عالمگیر تھا۔ … علامہ اقبال اپنے وسیع مطالعے فکری تجربے اور ذہنی مشاہدے سے صحیح معنوں میں دیدہ ور کی منزل پر پہنچ چکے تھے۔ … وہ اس حقیقت سے آشنا تھے کہ ا س مختصر کر دی زندگی کی آموزش گاہ میں فیضیاب ہو کر دیدہ ور کی منز ل تک پہنچنا کوئی آسان بات نہیں۔ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا … تاہم وہ اپنی ہمہ گیر دانش اور قلبی بصیرت سے دیدہ ور بن کر اس زیست کے راز کے راز دان بن چکے تھے اور ان کو بھی اس کا شدید احساس تھا کہ : دگر دانائے راز آید کہ ناید یہ راز خالق اور انسان کے قریبی رشتے سے وابستہ تھا! یہ راز خلقت کائنات میں جاری و ساری تخلیقی عمل میں مضمر تھا! یہ راز خودی تھا یا سر بیخودی تھا! یہ راز خودی اور بیخودی کے تخلیقی عمل درد عمل میں پنہاں تھا! یہ راز کائنات میں انسان کے تفوق اور لامتناہی ارتقا کا پاسباں تھا! راز داان نے مختلف زاویوں سے اسی راز کی پردہ کشائی کی۔ ٭ انسان کے اعلیٰ مقام اور احترام کی علمبردار بلکہ احترام آدم کو ہی اصل تہذیب قریب دینے والے : برتر از گردوں مقام آدم است اصل تہذیب احترام آدم است ٭ انسان کی ارتقائی سر بلندی کے نہ صر ف قائل بلکہ درس دینے والے اور اس تخیل کے مجدد: ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں اس ذرے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم یہ ذرہ نہیں شاید سمٹا ہوا صحرا ہے تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں انسان کی ہر قوت سرگرم تقاضا ہے عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے ٭ اسلام کی روح پرور تعلیم اور اسلامی نظام حیات کے شارح قرآن حکیم کو منبع حکمت اور حقیقت اور بنی خاتم المرسلین کی مشعل رشد و ہدایت ماننے اور سمجھنے والے اسلام کے بجائے روح کے دلدادہ اور اسلام اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے مبلغ جغرافیائی تفریق اور نیشنلزم کے محدود اور مہلک تخیل کے بجائے وحدت انسانی اور ملت اسلامی کے ہمہ گیر نظریے کو پروان چڑھانے والے سرمایہ داری اور سامراجیت یا اشتراکیت او ر ملوکیت پر اسلام کے فلسفہ زندگی اور علم و فکر و عدل و توحید پر مبنی نظام حیات کو ترجیح دینے والے ان کی نظر میں اشتراکیت اورملوکیت: ہر دو جاں را ناصبور و ناشکیب ہر دو یزداں ناشناس آدم فریب زندگی ایں را خروج آں را خراج درمیان ایں دو سنگ آدم نہ جاج ٭ مشرق کو پیغام بیداری دینے والے اور اقوا م شرق میں احساس زیاں اور خود شناسی کا جذبہ ابھارنے والے اپنے وسائل پر انحصار اور خود اعتمادی عسکری قوت انفردی اور اجتماعی عزت نفس کا در س دینے والے نے بتایا کہ مغرب کی اندھی تقلید سے شرق اجتناب کرے اورمغرب کے علم و ہنر کو اختیار کرے۔ مغرب کی اصل طاقت اور ترقی کا راز اس سمجھایا کہ: قوت مغرب نہ از چنگ رباب نے زر رقص دختران بے حجاب قوت افرنگ از علم و فن است از ہمیں آتش چراغش روشن است ٭ ایشیا کی انفرادیت اور اجتماعی شخصیت کی نشاندہی کی اور ایشیا میں ملت اسلامیہ کی آزادی کو پوری ایشیا کی آزادی سے تعبیر کیا : ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر ٭ برصغیر ہند مسلمانوں کی آزاد مملکت کے قیام کے لیے فکری اور عملی جدوجہد کرنے والے پنجاب اسمبلی (لاہور) سے گول میز کانفرنس تک ایک مسلسل سیاسی عمل سے اس نظریے کی آبیاری کی مسلمانوں کی سیاسی جماعت مسلم لیگ میں شامل ہ کر ایک صحیح اور مثبت کردار ادا کیا تاآنکہ خطبہ الہ آباد میں برصغیر میں ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا ‘ گویا قیام پاکستان کی بیش گوئی کی۔ ٭٭٭ اقبال: ہمارا عظیم ترین شاعر ڈاکٹر محمد احسن فاروقی یہ مانا کہ شاعری اور ادب کوئی گھوڑ دوڑ نہیں ہے کہ اس میں ایک فرد کے سب سے آگے بتانے کی ضرورت ہو۔ ہر وہ شاعر جو اپنی مخصوص انفرادیت نمایاں کر لے وہ بڑا ہوتا ہے اور اس کی بڑائی کو دوسرے کی بڑائی سے مقابلہ کر کے اس کا مقام مقرر کر نا مشکل ہوتا ہے مگر تنقید کا ایک کام یہ بھی ہے کہ ہر ادب میں چوٹی کے ایک یاد و شاعروں کے مقام کا تعین کر لے۔ اسی طرح انگریزی کے عظیم ترین شاعر شیکسپئیر اور ملٹن کہے جاتے ہیں جرمنی کے گوئٹے اور شیلر بتائے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں پرانی روایت کے مطابق میر اور سودا کو کچھ ایسا ہی مقام دیا جاتا ہے۔ مگر جدید دور میںغالب سب پر حاوی بتائے جاتے ہیں اور اقبال کا مقام مقرر کرتے ہوئے نقاد اب تک ہچکچاتے ہیں۔ اقبا ل کا بہترین کلام اردو میں نہیں بلکہ فارسی میں ہے اور غالب نے اردو کے بابت کہا: میں کون اور ریختہ کیا اس سے مدعا جز انبساط خاطر حضرت نہیں مجھے اور پھر کیا: فارسی بیں تابینی نقش ہائے رنگ رنگ بگزر از مجموعہ اردو بیرنگ منست اقبال نے بھی اردو کے بجائے فاسی کو اپنا یا اور ان کے عظیم ترین مجموعے جیسے اسرار و رموز پیام مشرق اور جاوید نامہ فارسی ہی میں ہیں میں نے کہیں پہلے کہا تھا کہ اردو کے بہترین شاعر میر ‘ غالب ‘ میر انیس اور اقبال ہیں مگر زمانہ کے ساتھ میری رائے یہ ہو گئی۔ کہ میر میر انیس کے یہاں فکری پہلو زیادہ اہم ہیں ہے اس لیے غالب اور اقبال سے کم درجہ پر رکھنا چاہیے اور اس وقت عام صاحبان ذوق کی بھی یہی رائے ہو رہی ہے کہ ہماری روایت کے دو سب سے بڑے شاعر غالب اور اقبال ہی ہیں۔ جذبات درد و غم ہیں میر سب سے آگے ہیں مگر شاعری کے عظیم ہونے کے لیے اس میں اس سے کچھ اور زیادہ چاہیے۔ زبان پر ملکہ اور الفاظ کے ذریعہ عکسی کشی میں میر انیس سب سے آگے ہیں مگر ان کی فخر ایک خاص ایک خاص طبقہ یا فرقہ کی روایتی فکر ہے جو نہ آفاقی ہے اورنہ عظیم وہ مداح شہ دین یعنی امام حسینؓ ہیں مگر امام حسین کی عظمت کو اقبال نے ہر جگہ ایسا خراج تحسین پیش کیا ہے جو مرثیہ گوئی میں ناممکن تھا۔ ایک جگہ وہ کہتے ہیں: موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید ایں دو قوت از حیات آید پدید زندہ حق از قوت شبیری است باطل بالآخر داغ حسرت میر است اور اسرار و رموز کی وہ نظم کہ جس کا مطلع ہے: آن امام عاشقاں پور بتول سرو آزاد زبستان رسولؐ عظمت میں ہر مرتبہ سے آگے بڑھ جاتی ہے اور یہ شعر تو امام حسینؓ کے بابت آخری رائے ہے: تاقیامت قطع استبداد کرد موج خون او چمن ایجاد کرد اس طرح فکر اور اس کی ادا میں وہ میر انیس اور تمام مرثیہ گو یوں سے آگے نکل جاتے ہیں۔ اب رہے غالب تو ہم یہ ضرور محسوس کرتے ہیں کہ غالب کی ہستی زیادہ پہلو دار تھی اوروہ مفکر بھی ضرور تھے مگر ان کی فکر اتنی ہمہ گیر اور وسیع نہ ہو سکی جتنی اقبال کی ہے۔ اقبال نے خود غالب کی فکری عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ اور انہیں گوئٹے کے برابر جگہ دی ہے مگر ہم یہ بھی محسوس کرلیتے ہیں کہ یہ ان کی انکساری ہے ورنہ غالب کی فکر مشرقی فکر کا نچوڑ سہی مگر مشرق اور مغرب کی عظیم پر اقبال ان کی کہیں زیادہ حاوی ہیں۔ غالب کا رجحان فلسفیانہ سہی مگر اقبا یورپ کی فکر کے جتنے منتہی تھے اتنا غالب کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔ اقبال کا عظیم مقام مقرر کرنے کے لیے ہم کو غالب سے زیادہ وسیع میدان کو دیکھنا ہے جو اقبال کے سامنے تھا بلکہ کے قلمرو میں تھا۔ گہرائی اوربلندی میں وہ غالب ہی کی طرح تھے اور اسی سے ہی وہ اپنے کو پیر رومی کا مرید ہندی گردانا کرتے تھے مگر یورپ کی جدید بلکہ ترین فکر میں رچ بس جانے کی وجہ سے وہ ان دونوں اپنے مانے ہوئے استادوں سے کہیں زیادہ آگے تھے۔ اس لیے اگر ہم انہیں اپنی روایت کا عظیم ترین شاعر کہیں تو غلط نہ ہو گا۔ انہوں نے شاعری کو وہ فکری عظمت دی جو پہلے کوئی نہ دے سکا۔ کوئی بھی ایسا نہ ہو گا جو اقبال کی فکری عظمت کا لوہا نہ مانتا ہو مگر اب بھی پرانے زمانہ میں والے کچھ لوگ جی رہے ہیں جو اقبال کی زبان دانی یا اس میں ان کے کمال کے بابت شبہ کرتے ہیں۔ زبان کے سلسلے میں اقبال کی زبان پر لکھنو اور دہلی والوں نے بڑے اعتراض کیے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان اعتراضات سے پریشان ہو کر آخر کار انہوںنے فارسی میں کہنا شروع کیا اور اپنی بہترین فکر کو فارسی کا جامہ پہنایا۔ اس امر کو میں ایک اور نقطہ نظر سے دیکھ چکا ہوں جس کو میں انگریزی میں اقبال پر مضمون میں پیش کیا ہے۔ اقبا ل اور غالب کا اردو سے فارسی کی طرف آجانا محض انکی نااہلی نہیں ہے بلکہ اردو زبان کی کم مائیگی ہے۔ نشاۃ الثانیہ کے عظیم انگریزی ادیب لارڈ بیکن نے (جس کے بابت ایک مدرسہ کا خیال کہ اس نے شیکسپئر کے ڈرامے لکھے تھے اپنی بہترین تصانیف لاطینی میں پیش کیں اور اپنے عظیم مضامین کا انگریزی سے لاطینی میں خود کر کے یہ کہا کہ یہ آئندہ زندہ میں کے مگر آج آج ہم اس ترجمہ کو نہیں بلہ ان کے اصل کو ایسا مانتے ہیں کہ انگریزی شیکسپئر ملٹن اور بیکن کی زبان کہتے ہیں۔ غالب اور ایک حد تک اقبال کا بھی وہ دو ر تھا کہ اردو زبان اس فکر کی گہرائیوں میں جانے کے قابل نہیں ہوتی تھی جو وہ ادا کرنا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے اردو کو ایک حد تک ترک کر کے فارسی کو اپنایا۔ دہلی میں اور خاص طور پر لکھنو میں اردو زبان کی فارسی سے کافی حد تک الگ کرنے کی اور عام رواج سے قریب لانے کی کوشش کی گئی مگر کیا حاصل ہوا۔ اول تو وہ فارسی اور عربی سے اتنی وابستہ رہی کہ جو لوگ ان روایات سے وابستہ نہیں تھے جیسے ہندوستان کے ہندو لوگ انہوں نے ایک سنکسرت زدہ زبان اختیار کی اور جواب بھارت کی قومی زبان ہے۔ اردو کو فارسی سے پاک کرنے کی کوشش نے لکھنو کی شاعری کی عظمت کو کم کر دی ااور پھر غالب نے یہ ثابت کر دیا کہ عظیم خیالات کو ادا کرنے کے لیے اردو کا جتنا ممکن ہو فارسی زدہ ہونا ضروری ہے۔ غالب کا حضرت علیؑ کی شان میں قصیدہ جوان کے مجموعہ ہندی کا حاصل ہے یوں شروع ہوتا ہے: دہر جز جلوہ یکتائی معشوق نہیں ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خودبیں اور اس میں ایسے شعر ہیں: کوہکن گر سنہ مزدور طرب گاہ رقیب بیستوں آئینہ خواب گراں شیریں لہٰذا جب ہم اردو زبان کے ادبی درجہ پر ارتقاء کو دیکھتے ہیں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جیسے سیاست میں ہندو مسلمان اشتراک کا آخر میں نتیجہ نفاق ہی نکلتا رہا اسی طرح زبان کے سلسلہ میں یہ راہ ٹھیک بیٹھی کہ اردو جس قدر بھاشا سے الگ اور فارسی اور عربی سے قریب ہوتی جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ چنانچہ پہلے غالب اور پھر اقبال ایک ایسی زبان کے موجد ہیں جو ہند کے مسلمانوں کی زبان ہو سکتی ہے کیونکہ وہ فارسی فارسی اور عربی کی روایات سے اتنی قریب ہو گئی ہے کہ جتنا ممکن ہو سکتا ہے۔ غالب کو شاید اس کی خبر نہیں تھی کہ مسلمانوں کے لیے ہندوستان ا ایک الگ حصہ کاٹ دیا جائے گا مگر اقبال ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے آخر کار اس تقسیم کو وجود میں لانے کی کامیاب کوشش کی۔ چنانچہ پاکستان وجود میں آ جانے کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس میں لکھنو والی اردو کے چلنے کا امکان بہت کم ہے اور مستقبل اسی زبان کا ہے جو غالب نے استعمال کی اور جس کو اقبال نے تکمیل تک پہنچایا۔ اس وقت پاکستان میں علاقائی زبان کا کافی کافی غلغلہ اٹھ رہا ہے مگر جو جو حالات کے اثر سے مختلف علاقوں کے لوگ قریب آ رہے ہیں وہ وہ واضح ہوتا جا رہا ہے۔ کہ ہماری قومی زبان وہی راہ اختیار کرے گی جو اقبال نے اسے دی تھی۔ اقبال کی اردوہو یا فارسی وہ پاکستانی زبان کی بنیاد ہے۔ اور یہاں کی زبان کی راہ اسی طرح مقرر کر دیتی ہے کہ آئندہ یہی زبان چلے گی اور چلتی رہے گی۔ اقبال نے کہا تھا: انقلابے کہ نہ گنجد بضمیر افلاک فاش بینم نہ دانم کہ چسپاں می بینم اور ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں کہ زبان کے سلسلے میں بھی انقلاب آ رہا ہے جس کو اقبال نے شاعر کی مخصوص نظر سے دیکھ لیا تھا۔ اقبال کی فارسی بھی ایرانیوں کی فارسی بھی ایرانیوں کی فارسی سے مختلف ہے اور اردو بھی وہ ہے جو لکھنو اور دہلی حیدر آباد اور پٹنہ کی اردو سے الگ اور پنجاب کی اردو سے قریب ہے۔ اس طرھ اگر ہم اب یقین کر لیں کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ ہماری قومی زبان بالکل اسی رخ پر ا ٓگئی ہے جو رخ اقبال نے دیا ہے تو یہی ہمارا صحیح نتیجہ ہو گا اور اس وقت اقبا ل ہماری زبان کسے بھی اتنے ہی عظیم معمار ٹھہریں گے جتنے بڑے وہ ہمارے افکار کے مدرس ہیں۔ لہٰذا اقبال زبان سے ہمیں جو الجھنیں پیدا ہوتی ہیں انہیں بالکل ختم کر دینا چاہیے اوعر یہ مان لینا چاہیی کہ وہ فارسی زدہ اردو زدہ فارسی جو اقبال نے استعمال کی ہے وہی ہماری قومی زبان ہو گی۔ محاوروں کو Read Mehapharکہا گیا ہے۔ یہ مختلف علاقوں سے زبان مٰں آتے جاتے رہتے ہیں مگر زبان کی بنیاد اور مزاج کے مستقل حصہ میں شامل ہو کر نکل جاتے ہیں۔ آخر کار ہماری قومی زبان وہی ہو گی جو اقبال نے اپنی شاعری میں مستقل کر دی ہے اوراس لیے زبان کے لحاظ سے بھی وہ عظیم شاعر ہیں۔ ہر عظیم شاعر کی طرح وہ زبان دان نہیں زبان بان ہیں۔ ورڑسورتھ نے اپنے مقدمہ میں جو جدید شاعری کی تنقیدی بنیاد ہے یہ کہا تھا کہ شاعر زبان دان ہی نہیں بلکہ زبان بان ہوتا ہے یعنی وہ عام زبان کا پابند نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی طبع کے موافق نئی زبان تعمیر کرتا ہے۔ ملٹن کی زبان اس قدر زیادہ لاطینی زدہ ہے کہ کچھ لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ ملٹن انگریزی بالکل بھول گیا تھا۔ شاعری کی زبان کا معاملہ شاعر کی طبع اور اس کی قوم کی ضرورت پرمبنی ہوتا ہے ۔ اقبال کی اردو پر جو جو اعتراضات ہوئے ان کا اقبال نے خو د تشفی بخش جواب دیا ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ ہر عظیم شاعر کی طرح وہ نئی نظر لے یکر پیدا ہوئے تھے۔ اور اس لیے انہیں اپنے مطالب کو ادا کرنے کے لیے نئی زبان کی ضرورت تھی۔ دہلی اور لکھنو کی وہ بامحاورہ یا روز مرہ زبان ایسے تخریبی دور کی زبان تھی کہ وہ عظیم خیالات کو ادا کرنے سے قاصر تھی اس لیے انہوںنے اسے استعمال ضرو ر کای مگر جب ی دیکھا کہ وہ آگے نہیں جاتی تو فارسی کو اختیار کیا۔ ظاہر ہے کہ ہر عظیم شاعر کی طرح ان کی شاعری عام معیار کی نہیں ہے اس لے اس کا خاص ذریعہ فارسی زدہ اردو وہی ٹھہرتی ہے جو آگے بڑھ کر بالکل ہندوستانی فارسی ہی ہو جاتی ہے۔ ہمیں اس معاملہ پر وہ ٹکی بندھی نظر نہ ڈالنا چاہیے کہ جس کے مطابق شاعر کو محض زبان دانی کی حیثیتت سے دیکھا جاتا ہے۔ زبان محض آلہ کار ہو جاتی ہے اور ہر آلہ کار کی طرح کام کی ضرورت کے ساتھ اسے بدل دیناپڑتاہ۔ اقبال نے ہماری زبان کو جو اردو بھی ہے اور فارسی بھ اس معیاری طریقہ پر بدلا کہ وہ عظیم مطالب کے ادا کرنے کا ذریعہ ہو گئی۔ اس معنے میں انہوںنے زبان کی بھی وہ خدمت انجام دی ہے جو ان سے پہلے کوئی اور نہ کر سکا۔ میر اور سودا نے جو زبان بنائی تھی وہ داغ تک ختم ہو گئی۔ اقبال نے جو زبان بنائی ہے وہ اس کے لیے پاکستان بنا اور وہ تمام پاکستان کی مشترکہ زبان ہے۔ اس معنے میں وہ پہلے پاکستانی شاعر ہیں اور تمام آئندہ شاعروں اور ادیبوں کے لیے معیار بہم پہونچاتے رہیں گے میر انیس اور غالب کی اب یہ اہمیت ہے کہ انہوںنے اقبا ل کو متاثر کیا یعنی اقبال کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے: آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری اقبا ل پہلے عظیم پاکستانی شاعر ہیں اور ان کی عظمت کا احساس پاکستانی نقطہ نظر سے دیکھنے پر تشفی بخش طریقہ ہو سکتا ہے۔ ٹوئن بی نے تاریخی اعتبار سے جو تقسیم سوسائٹیوں میں کی ہے ان میں وہ حصہ جو پاکستان ہے عربو ایرانین Arbo Iranian سوسائٹی میں آتا ہے۔ انگریزی شہنشاہیت نے اسے اس سوسائٹی سے ملا دیا تھا جسے ٹوئن بی انڈک Indicسوسائٹی کہتا ہے۔ اس وقت بھی ہندوستان میں ایرانین سوسائٹی کے لوگ رہ گئے ہیں مگر یہ آخر کار انڈک سوسائٹی میں مدغم ہو جائیں گے۔ برخلاف اس کے جو لوگ پاکتان میں رہتے بستے آئے ہیں یا ہجرت کر کے آگئے ہیں وہ عربو ایرانین سوسائٹی کے فرد ہو جائیں گے ۔ اقبال نے سب سے پہلے اس پوری شاعری کا شاعر ہونے کی کشش کی ۔ اس پوری سوسائٹی کی زبان سعدی حافظ اور رومی کے زمانہ سے فارسی چلی آ رہی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی زبان مغل دور میں فارسی ہی رہی۔ اردوبعد میں وجود میں آئی اور اس کا زیادہ رواج انگریزوں کے دور میں ہوا اور بڑھتا گیا۔ اس میں وہ مشترکہ مقامی عناصر شامل ہوتے گئے۔ جن کی بنا پر وہ عام لوگوں کیزبان ہو تی گئی۔ مگر اس کو ادبی اور علمی درجہ پر اٹھجنے کے لیے اس کا فارسی سے تعلق لازمی رہا لکھنو میں اس بات کی کوشش ہوئی کہ اس عام زبان کو انڈک سوسائٹی کی کلچر سے وابستہ کیا جائے مگر کیونکہ اس کا رسم الحظ فارسی رہا اسی لیے ہندوئوں کو اسے اپنانے کے لیے اس کا رسم الخط بھی دیونا گری کرنا پڑا۔ غر ض یہ کہ اردو کے دیگر مراکز سے زیادہ لاہور کا مرکز عرب ایرانی کلچر سے زیادہ قریب تر رہا اور اسی کے نمائندے اس دور میں اقبال ہوئے۔ چنانچہ پاکستانی کلچر اگر مثال کے ذریعہ واضح کرنا ہو تو یہ کہہ دینا کافی ہے کہ اقبال اس کے پورے طور پر نمائندہ ہیں۔ اس طرح اردو کے تمام نمایاں شاعر ان کے پیشرو ہو جاتے ہیں۔ اور ہندوستان میں مسلمانوں کو کلچر ور ادب ان کے ذریعہ ہی کمال اور دوام حاصل کرتی نظر آتی ہے۔ مستقبل کا ایک منظر نظر آتا ہے جس میں ہندی مسلمانوں کے کلچر کے مختلف دھارے اقبال کے پنج ندپر پر آ کر مل گئے ہیں اور یہ ایک دریا ہو کر ابد کے سمندر تک بہتے چلے جائیں گے ۔اسی طرح سماجی ارتقاء میں اقبا کا مقام اہم ترین ٹھیرتا ہے۔ اس قومی پس منظر کے علاوہ ان کا ایک عالمی پس منظر بھی ہے اور اس میں بھی وہ پاکستان کی انفرادی اہمیت قائم رکھتے ہوئے یہاں کی شاعری کو عالمی شاعری سے ہمکنار کر دیتے ہیں۔ میں نے ایک مضمون میں اقبا اور ٹی ایس ایلیٹ کے عنوان سے کبھی پہلے لکھا تھا اس میں یہ دکھایا تھا کہ یہ دونوں شاعر پہلی جنگ عظیم کے بعد نمایاں ہونے کے باوجود ایک خاص مذہب سے بڑے پختہ طور پر وابستہ ہیں ٹی ایس ایلیٹ اپنے کو رومن کیتھولک مذہب کا اسی غلو سے پیرو بتاتا ہے جس غلو سے اقبال اپنے کو مسلم یا مومن کہتے ہیں۔ بعد کے خام خیال لوگوںنے دونوں کو قدامت پرستی سے انکار کیا مگر وہ خود کوئی مستقل فکری نظام پیش کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ وہ تمام لادینی نظام فکرجویورپ کی شاعری اور بعد میں ہماری شاعری کے ایک حد تک بنیاد ہوئے کوئی مستقل اثر نہ قائم کر سکے۔ اقبال شاعر اسلام ہیں مگر ان کا اسلام جدید فکر میں نیٹشے موجودیت برگسان وغیرہ سے ہمکنار نظر آتا ہے۔ انہوںنے ان سب مفکرین پر اپنی نظموں میں جو اظہار خیال کیاہے ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہاں تک ان سے اختلاف اور کہاں تک اتفاق کرتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے ک وہ اسلامی فکر سے ان جدید خیالات کوپرکھ رہے ہیں اور ان کو رد کرنے کے بجائے ان میں وہ تبدیلی پیدا کر رہے ہیں جو اسلام کے نقطہ نظر سے انہیں دیکھنے پر ان میں آ جانا چاہیے۔ اس طرح وہ اسلامی فکر کو اہم قرار دیتے ہوئے اسے جدید فکر سے ہمکنار دکھاتے ہیں۔ اسلامی فکر اپنی بنیاد سے ہٹے بغیر جدید فکر سے ہمنکار ہو جاتی ہے۔ مفکرین کے دو گروہ ہو گئے تھے ایک دینی اور دوسرا لادینی اقبال کی یہ فکر بتاتی ہے کہ مسیحی طرز فکر میں ایسا ہو جانا لازمی تھا مگر اسلامی فکر میں سب کا ایک ہی راہ پر مقام مقرر ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اقبال محض مفکرین میں بھی ایک ایسے مقا م پر نظر آتے ہیں جو ان سب سے زیادہ آگے ہے چنانچہ عالمی فکر میں بھی ان کا اہم مقام ہے اور ان کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ وہ مشرقی اور مغربی فکر کا مشترکہ میدان تلاش کر لیتے ہیں اور اس طرح تمام عالمی فکر کو ایک مرکز کر دیتے ہیں اس سلسلہ میں وہ عقل و بحث سے کام نہیںلیت بلکہ یقین اورتخیل کی مدد سے اپنا مقصد حاصل کر لیتے ہی ۔ ان کے بابت یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ وہ فلسفی ہیں یا شاعر ہں اور جو لوگ اور ایسے لوگ زیادہ ہیں شاعر کو کم درجہ کافرد سمجھتے ہیں وہ انہیں فلسفی ہی کہتے ہیں مجھے امریکی مفکر جارج سنتھیانا Santhyanaکی وہ تصنیف یاد آتی ہے جس میں اس نے لاطینی شاعر لکریشپس اطالوی شاعر دانتے اور جرمن شاعر گوئٹے پر تنقید کرتے ہوئے یہ دکھایا ہے کہ… ان شاعروں نے یوری کی تمام اہم فکر کو تخیلی صورت دے دی ہے۔ یونانی اور رومی فکر کا نچوڑ لکریشس کے یہاں ہے۔ قرون وسطیٰ اور عیسائی فکر کا دانتے کی اہم تصنیف میں ۃے اور قرون وسطیٰ سے جدید دور تک کی تمام فکر گوئٹے کے یہاں ہے وہیں ان تین شاعروں میں چوتھا اقبال کو بھی شامل کرتا ہوں کیوں کہ ان کے یہاں وہ تمام فکر آ گئی ہے جس کو جدید فکر کہا جائے جو گوئٹے سے شروع ہوتی ہے اور موجودیت تک آتی ہے اقبال کا کمال یہ بھی ہے کہ وہ فکری شاعری کو گوئٹے سے آگے بڑھا کر جدید دور ہی تک نہیںلاتے بلکہ مشرق کی تمام فکر کو مغرب کی تمام فکر سے امتزاج بھی تلاش کرتے ہیں اس معنے میں وہ تینوں شاعروں سے درجہ ارتقاء میں آگے ہیں کیونکہ ان کی شاعری کا نظام فکر نہ صرف ان تینوں شاعروں کو گھیرتا ہے۔ بلکہ اس میں مخصوص اسلامی فکر بھی شامل کرتاہے۔ اور اس تمام امتزاج کو جدید دور میں لے آتا ہے۔ دانتے اور مولانا روم ہمعصر تھے۔ اور یہ کہا جاتاہے کہ عیسائیت کے لیے جو کچھ دانتے نے کیا وہی کچھ اسلا م کے لیے مولانا روم نے کیا۔ گوئٹے نے جس طرح یورپ کی فکر کو جدید دور میں مستحکم کیا اسی طرح اقبال نے ایشیا کی اور اسلام کی فکر کو جدید ترین دور کی فکر سے ہم آہنگ کیا ہے۔ اس طرح وہ بھی عظیم ترین مفکر شاعروں میں ہیں اور کیونکہ وہ اپنے پیشروئوں کے تمام ام کو سمیٹتے اور اسے جدید ترین فکر سے ہم آہنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے ان کو ان تمام شاعروں سے درجہ ارتقاء میں آگے بتانا چاہیے۔ اقبال کی شاعری کی عظمت کا اعتراف بار بار ہو چکا ہے۔ ان کی شاعری کے اس پہلو پر کتابیں کی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور اب بھی بہت کچھ لکھنے کی گنجائش ہے۔ میں اس معنے میں ان کا موازنہ ملٹن سے کر چکا ہوں۔ اس سلسلہ میں مجھے جواب شکوہ کا یہ بند یا د آتارہتا ہے: جب مئے درد سے ہو خلقت شاعر مدہوش آنکھ جب خون کے اشکوں سے بنے لالہ فروش کشور دل میں ہوں خاموش خیالوں کے خروش چرخ سے سوئے زمیں شعر کو لاتا ہے سروش قید دستور سے بالا ہے مگر دل میرا فرش سے شعر ہوا عرش پہ نازل میرا (سرود رفتہ ص ۱۳۶) یہ مسلم ہے کہ وہ عظمت جلال یا SUBLIMITYکے شاعرہیں۔ اور اردو یا فارسی میں وہ پہلے شاعرہیں جو شاعر کے معاشرے میں مقام کو اہمیت دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں شاعر اور شاعری کو کوئی نیچے درجہ کا عمل سمجھا جاتا ہے اس لیے بار بار وہ اپنے کو شاعر کہلوانے سے انکار کرتے ہیں: مری نوائے دو رنگی کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرم راز درون مئے خانہ مگر ساتھ ہی ساتھ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ: شاعر رنگس نوا ہے دیدہ بینائے قوم اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ ہماری روایت کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے فکری عوامل میں شاعری کی جگہ کا تعین کیا ہم انہیںفلسفی شاعر اور قومی شاعر کہنے پر مجبور ہیں مگر وہ ان سطحوں سے آغے بڑھ کر آفاقی سطح پر بھی آ جاتے ہیں۔ جاوید نامہ ان کے آفاقی مقام کا آئینہ ہے مگر ان کے کسی شعر یا نظم کو لے لیجیے وہ ہمیں معمولی سطح سے آفاقی سطح پر ضرور لے جاتی ہوئی نظر آئے گی۔ اس طرح ان کے ہر شعر میں معلمولی تخیلی کیف کے علاوہ وہ عظیم کیفیت بھی ہے جو ہمیں دنیاو مافیہا سے اوپر لے جاتی ہے اور بندے کو خدا سے ہم سخن کراتی ہے۔ اس طرح ان کی شاعری ایک مذہبی تجربہ یا روحانی تجربہ کا ذریعہ ہے۔ شروع ہی سے ان کی شاعری ہمیں ایک ایسے عظیم اور عمیق عالم میں لے جاتی ہے جہاں اردو یا فارسی کا کوئی شاعر نہ پہنچ سکا۔ مثلاً وہ تصور درد میں کہتے ہیں: قصہ دار و رسن بازی طفلانہ دل التجائے ارنی سرخی افسانہ دل یا رب اس ساغر لبریز کی مے کیا ہو گی جادہ راہ بقا ہے خط پیمانہ دل عرش کا ہے کبھی کعبہ کا ہے دھوکا اس پر کس کی منزل ہے الٰہی میرا کاشانہ دل خاک ڈھیر کو اکسیر بنا دیتی ہے یہ اثر رکھتی ہے خاکستر پروانہ دل اور یہ بلندی پرواز اور گرمی گفتار ان کے یہاں بڑھتی گی۔ فارسی کی رباعیاں اردو کے قطعے ان کے مخصوص افکار کو شعلوں کی طرح چمکاتے ہیں اور سننے والوں کو روح کو گرماتے ہیں۔ شاعری جزو ے از پیغمبری نہیںبلکہ مکمل پیغمبری ہو جاتی ہے۔ عہد وکٹوریہ کے انگلستان میں جو فکر کا سیلاب شاعری سے ہمکنار ہوا تھا اور جس کا نمائندہ برائوننگ تھا اقبال اسی کی موج پر سوار ہیں اور اس موج کو اپنے مخصوص مشرقی اور اسلامی رخ پر چلا رہے ہیں۔ یورپ کے مفکر شاعروں کے اثر سے ہمیں بھٹک جانے کا امکان تھا مگر اقبال ان سب ٹھبکانے والے رجحانات سے الگ ہو کر ا س راہ پر آ گئے ہیں جو ہی صرا ط المستقیم ہے اسلامی شاعر کہنے سے ان کی فکر محدود ہو جاتی ہے مگر لفظ اسلامی ان کے یہاں لا انتہا کا ہم معنے ہے۔ پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلمانوں کی ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے اپنی انگریزی تصنیف ROCONSTRUCTION OF ISLAMIC THOUGHTمیں وہ اسلام کے ان دائمی معنوں پر آ جاتے ہیں جو حضرت ابراہیم سے حضرت محمد صلعم کے سامنے تھا اور جس کو بعد کے فرقہ پرستوں نے مبہم کر دیا۔ اسی طرح ان کے لیے اسلام کسی ایک نقطہ نظر کا اظہار نہیں رہ جاتا بلکہ آفاقی اوردوامی فکر کا ہم معنے ہو جاتا ہے۔ اور اسی فکر کو وہ اپنی شعلہ مقالی سے اور برق طبعی سے تخیلی جامہ پہناتے ہیں کہ اپنی قوم کے خاک کے ڈھیر کو اکسیر بنا دیتے ہیں۔ اقبال کی شاعری ایک بیداری کا نتیجہ بھی تھی اور اسی بیداری کا عظیم ترین آلہ کار بھی ٹھیری اس طرح ان کا شمار نادر ترین شاعروں میں ہونا چاہیے جو زمانہ کے ساتھ چلے اور اسے مخصو رخ دی میں بھی کامیاب ہوئے ۔ فکری درجہ پر پاکستان اس تمام فکر کا نتیجہ ہے جو اسلام کے ساتھ ہندوستان میں آئی اور ہر دور میں ترقی کرتی گئی مگر بنیادی طور پر اسلامی ہی رہی کیونکہ اس کے اصو ل آفاقی تھے۔ اس عظیم فکر کو اقبال نے اس زبان کا خوب صورت اور شاندار جامہ پہنایا ہے ج اسلامی دنیا کی حکمران ہے اور رہے گی۔ محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں سے ایک خاص جدلیاتی کشمکش شروع ہوتی ہے جو محمد غوری کے ہندوستان پر حکومت قائم کر لینے سے مستقل ہو جاتی ہے۔ اس کشمکش کا طول قصہ ہے جو میں نے سنگم میں بیان کیا ہے اور اس قصہ کا خاتمہ پاکستان کا وجود ہوتا ہے۔ فکری درجہ پر اس خاتمہ کے بانی اقبال ہیں۔ جیسے عملی درجہ پر قائد اعظم محمد علی جناح اقبال نے پاکستان کی تعمیر میں جو حصہ لیا ہے اس کی تفسیر غالب کے اس شعر سے ہوتی ہے: خار ہا از اثر گرمی رفتارم سوخت منت ہر قدم راہ روان ست مرا اقبال کی شاعری اس گرمی گفتار کا عروج کمال ہے۔ اس نے راہ کے کانٹوں کو جلایا ہی نہیں بلکہ ان کو جلا کر ایک نئے عالم فکر اورعمل کی راہ ہموار کی جدید دور یں ہر عظیم آدمی کا رول سیاسی ہو گیا ہے اسی طرح جیسے قرون وسطیٰ میں اس کا رول مذہبی تھا۔ پاکستان بن جانے پر میرے ایک ہندو دوستنے کہا کہ کبھی پہلے کے ایک شاعر کے خیال کو یوں عملی طور پر وجود میں آتے نہیں دیکھا۔ فلسفہ انسان کے فکری COGNATIVEپہلو سے سیاست عملی CONATIVEپہلو سے اور شاعری جذباتی AFFETIVEپہلو سے تعلق رکھتے ہیں مگر اقبال کی ہستی میں یہ تینوں پہلو ایک آہنگ میں آ گئے ہیں وہ ایسے مفکر ہیں جو تمام جدید اور قدیم فکر کو ایک آہنگ میں لاتا ہے مگر نمایاں طور پر وہی شاعر ہی ہیں یعنی اس فکر کو جذبات کے زور سے روشن کرتے ہیں اور میدان عمل میں وہ فکر و جذبات کے زور پر آئے اور جناح کو سمجھا گئے کہ پاکستان ہی ہندوستان کے مسلمانوں کا آخری حاصل ہے۔ پاکستان ایک مادی اور سیاسی وجود ہے جس میں ترمیم تنسیخ اور اضافہ ہوتا رہے گا۔ مگر اس کی روح اقبال کی فکری شاعری ہے اور رہے گی۔ اقبال کے تصور پاکستان میں بنگال نہٰں تھا۔ اور اب وہ پاکستان سے بھی نکل گیا مگر اس کا ایک الگ ملک رہنا اور ہندوستان سے کافی کشیدہ ہو جانا۔ ہندوستان کے ہندوئوں اور مسلمانوں کی بابت اقبال کے اس خیال کا ترجمان ہے جس کا بذات خود انہوں نے تجربہ کیا تھا اور جس کا حاصل یہ تھا کہ ہندو اور مسلمان کتنا ہی مل جل کر رہنے کی کوشش کریں مگر آخر کار وہ الگ ہی الگ ہوتے رہیں گے۔ اقبال نے دیدہ بینا ئے قوم کا رول پوری طرح ادا کیا اور ادا کرتے رہیں گے۔ وہ وقتی مصالح بھی پڑے مگر ان کی دیدہ بینا ان کو یہ دکھاتی رہی کہ یہ وقتی چیزیں میںان کی نظر دائمی قدرو ں پر رہی اور ان ہی سے ان کی شاعری ہمیں ہمیشہ روشناس کراتی رہے گی۔ غرض اقبال کا مقام یہ ہے کہ انہوں نے ہند کے مسلمانوں کی شاعری کو جو فارسی زدہ اردو میں تھی یا اردو زدہ فارسی میں عالمی درجہ پر پہنچا دیا ۔ یہ شاعری ہندوستانی فضا سے اٹھ کر عالمی اور آفاقی فضا میں لے جاتی ہے۔ اس کا اثر پیامی ہے ۔ اقبال نے کہا تھا: نہ فلسفی سے ہے مجھ کو نہ مولوی سے غرض یہ دل کا دوش وہ اندیشہ نظر کا فتور وہ ہمیں تنگ نظر فقیہوں اور یک طرفہ فلسفیوں کے دائرے سے نکال کر تخیل اور جذبات کے اس عالم میں لے آتی ہے جہاں بندہ خدا سے ہم سخن ہو جاتا ہے۔ اور کائنات کے رازوں کا محرم بن جاتاہے۔ وہ یہ بھی واضح کر دیتے ہیں کہ یہ اور یہی کام شاعر کا ہے۔ مشر ق اور مغرب کے عظیم شاعر یہی کام کرتے آئے ہیںَ دانتے ملٹن گوئٹے رومی نے خاص طورپر رومی نے جو کام اپنے زمانہ تک کے لیے کیا وہ ہمارے زمانہ کے لیے کر رہے ہیں۔ وہ آج تک کے عالم فکر کو ایک تخیلی زندگی دے رہے اور جذبات سے معمور کر رہے ہیں۔ ہمارے ادب میں وہی آفاقی درجہ کے شاعر ہیں اور جو زمانہ گزر رہا ہے ان کی یہ حیثیت زیادہ سے زیادہ مسلم ہوتی جا رہی ہے۔ ٭٭٭ اقبال کا نظریہ تاریخ ڈاکٹر محمد شمس الدین صدیقی انسانی معاشرے میں پیش آنے والے واقعات اور حوادث اورانسان کے اعمال و افعال کے سلسلے کوانسانی تاریخ کہتے ہیں اور جب ہم لفظ تاریخ مجرد استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد انسانی تاریخ ہی ہوتی ہے۔ علامہ اقبال نے تاریخ کو اسی مفہوم میںایک طرح کا ضخیم گرامو فون قرار دیا ہے جس میں قوموں کی صدائیں محفوظ ہیں۔ شذرات فکر اقبال ص ۱۴۰۔ لیکن ان کے خیال میں ماضی کے واقعات و حوادث کو محض تاریخ وار دیکھنے یا بیان کر دینے کا نام تاریخ نہیں ہے بلکہ اس میں ان واقعات و حوادث کے اسباب و علل کو سمجھنے ان کے باہمی ربط و تعلق کو جانؤنے اور ان کی روشنی میں افراد و اقوام کے عروج و زوال کے اصول اخذ کرنے کا مفہوم بھی شامل ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ تاریخ محض انسانی محرکات کی توجیہہ و تفسیر ہے شذرات فکر اقبال ص ۱۳۰۔ تاریخ کے اسی وسیع مفہوم میں وہ اسے اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ رموز بیخودی میںفرماتے ہیں: چیست تاریخ اے ز خود بیگانہ داستانے؟ قصہ؟ افسانہ؟ ایں ترا از خویشتن آگہ کند آشنائے ار و مرد رہ کند روح را سرمایہ تاب است ایں جسم ملت را چو اعصاب است ایں ہمچو خنجر بر فسانت می زند باز بر روئے جہانت می زند شعلہ افسردہ در سوزش نگر دوش در آغوش امروزش نگر شمع او بخت امم را کوکب است روشن از وے امشب وہم ونشیب است چشم پر کارے کہ بیند رفتہ را پیش تو باز آفریند رفتہ را بادہ صد سالہ در مینائے او مستی پارینہ در صہبائے او ضبط کن تاریخ را پائندہ شو از نفسہائے رمیدہ زندہ شو دوش را پیونچ با امروز کن زندگی مرا مرغ دست آموز کن رشتہ ایام را آور بدست ورنہ گردی روز کو روشب پرست سر زند از ماضی تو حال تو خیزد از حال تو استقبال تو مشکن ار خواہی حیات لازوال رشتہ ماضی ز استقبال و حال موج ادراک تسلسل زندگی ست مے کشان را شور قلقل زندگی ست اسی مثنوی کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں۔ افراد کی صورت میں احساس نفس کا تسلسل قوت حافظہ سے ہے۔ اقوام کی صورت میں اس کا تسلسل و استحکام قومی تاریخ کی حفاظت سے ہے گویا قومی تاریخ حیات ملیہ کے لیے بمنزلہ قوت حافظہ کے ہے جو اس کے مختلف مراحل کے حسیات و اعمال کو مربوط کر کے قومی انا کا زمانی تسلسل محفوظ و قائم رکھتی ہے‘‘۔ علامہ اقبال کے نزدیک تاریخ کا مطالعہ اس قدر اہم ہے کہ وہ اپنے خطبات میں قرآن مجید کے حوالے سے مشاہدات باطن اور عالم فطرت کی طرح تاریخ کو بھی علم انسانی کا ایک سرچشمہ قرا ر دیتے ہیں۔ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ص ۱۴۴و۱۹۴) اقبال کے خیال میں تاریخ وہ آئینہ ہے جس میں دیکھنے سے انسان اپنے آپ کو جانتا پہچانتا ہے۔ اور اسکے ربط سے اعلیٰ مقاصد و نصب العین حاصل کرتا اور ان تک پہنچنے کا راستہ پا سکتاہے۔ مستقبل کی صحت مند تعمیر اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تعمیر کرنے والے اپنے ماضی اپنی تاریخ سے پوری طرح باخبر نہ ہوں۔ اس کی صحت مند روایات کو تعمیر نو کے ڈھانچے میں اچھی طرح محفوظ نہ کر لیں۔ اور ان لغزشوں سے باز نہ رہیں ن کے باعث ان کے اسلاف رو بزال اور بے وقعت ہوئے۔ لیکن اریخ سے کوئی سبق ہم اسی وقت حاصل کر سکتے ہیں جب یہ تسلیم کریں کہ آدمی اپنے اعمال و افعال میں مجبور نہیں بلکہ مختارہے۔ اگر ہم انسان کو جبلی محرکات کا یا ماحول اور زمانے کا یا تقدیر کا غلام مان لیں تو نہ خیر و شیر ہی کی کوئی معنویت باقی رہ جاتی ہے اور تاریخ کے مطالعے سے ہی کی کوئی ضرورت یا افادیت ثابت کی جا سکتی ہے۔ علامہ اقبال انسان کو نہ تو مجبور مطلق مانتے ہیں اور نہ مختار مطلق کہ قادر مطلق تو صرف ذات باری تعالیٰ ہے مثنوی گلشن راز جدید میںزندگانی کی تشریح کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: چنیں فرمودہ سلطان بدر است کہ ایمان درمیان جبر و قدر است یہ سچ ہے کہ اسنان مخلوق ہے اور اپنے خالق کے سامنے بے بس ہے لیکن خالق نے انہیں اس مجبوریوں میںجکڑ کر بھی نہیں رکھا ہے بلکہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اسے پورااختیار دیا ہے۔ انسان جبلی محرکات کا غلام نہیں ہے۔ بلکہ انہیں اپنے قابو میں رکھنے پر قادر ہے وہ اپنے ماحول اور زمانے کا بھی غلا م نہیں ہے بلکہ انہیں بدلنے پر قادر ہے وہ اپنے مستقبل کو اپنی مرضی اور ارادے کے مطابق تشکیل دینے پر بھی قادر نہیں ہے اور انسان کے اس اختیار اور قدرت کا ثبوت نہ صرف تاریخ سے بلکہ خود اس کے اپنے اور اردگرد کے مشاہدے سے بخوبی فراہم ہو سکتا ہے۔ اقبال نے بانگ درا میں ایک نظم انسان کے عنوان سے لکھی ہے جس کے آخری تین شعر یہ ہیں: تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں انسان کی ہر قوت سرگرم تقاضا ہے اس ذرے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم یہ ذرہ نہیں شاید سمٹا ہوا صحرا ہے چاہے تو بدل ڈالے ہئیت چمنستاں کی یہ ہستی دانا ہے بینا ہے توانا ہے اقبال کے نزدیک تقدیر کا وہ مفہوم ہے جو عام طور پر رائج ہے کہ جو کچھ ہونے والا ہے وہ پہلے سے طے شدہ ہے بالکل غلط ہے۔ برخلاف اس کے وہ لکھتے ہیں کہ دراصل تقدیر عبارت ہے اس زمانے سے جس کے امکانات کا انکشاف ابھی باقی ہے (تشکیل جدید ص ۷۶)۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ قرآن پاک کابھی یہی ارشاد ہے کہ ہمیں نے ہر شے پیدا کی اور ہمیں ںیاس کا اندازہ مقرر کیا۔ لیکن کسی شے کی تقدیر قسمت کا وہ بے رحم ہاتھ نہیں جو ایک سخت گیر آقا کی طرح خارج سے کام کر رہاہو بلکہ یہ ہر شے کی حد ودع ہے یعنی اس کے وہ امکانات جن کا حصول ممک ہے اور جو ا س کے اعماق وجود میں مضمر ہیں اور بغیر کسی خارجی دبائو کے علی التواتر قوت سے فعل میں آ جاتے ہیں (تشکیل جدید ص ۷۷)۔ غرض کہ مختصر یہ کہ اقبال انسان کو مجبور نہیں بلکہ مختار مانتے ہیں اسی لیے تاریخ کے مطالعے کی تلقین کرتے ہیں۔ اقبا ل حیات کے ارتقائی نظریے کو مانتے ہیں اس لیے وہ قرآن پاک کے بیان کردہ قصہ آدم کی یہ تعبیر پیش کرتے ہیں کہ کرہ ارض پر انسان کے اولین ظہور کا بیا نہیں ہے۔ اس قرآنی قصے کو ایک تاریخی واقعے کے طور پر نہیں بلکہ ایک تمثیل کے طور پر دیکھنا چاہیے جس کا تعلق ابوالبشر سے نہیں بلکہ نوع انسانی سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید نے ہبوط آدم کا زکر کیا تو یہ بیان کرنے کے لیے نہیں کہ کرہ ارض میں انسان کا ظہور کس طرح ہوا بلکہ اس کے پیش نظر حیات انسانی کا وہ ابتدائی دور ہے جب اس پر جبلی خواہشات کا غلبہ تھا اور جس سے گزر کر اس نے رفتہ رفتہ محسوس کیا کہ وہ اپنی ذات میں آزاد اور اس لیے شک اور نافرمانی دونوں کا اہل ہے۔ ہبوط کا اشارہ کسی اخلاقی پستی کی طرف نہیں اس کا اشارہ اس تغیر کی طرف ہے جو شعور کی صاف اور سادہ حالت میں شعور ذات کی اولین جھلک سے اس نے اپنے اندر محسوس کیا ۔ وہ پابند فطرت اور مجبور زندگی کے خواب سے بیدار ہو ا اور سمجھا کہ اس کی حیثیت بھی خود بھی اپنی جگہ پر ایک سبب کی ہے یعنی وہ اس دنیائے اسبا ب میں مجبور نہیں بلکہ خود بھی اسباب و علل پیدا کرنے کا اہل ہے (تشکیل جدید ص ۱۲۷‘۱۲۸)۔ اس قرآنی تمثیل میں جنت کا اشارہ بھی اقبال کے خیال میں اس فوق الحواس بہشت کی طرف نہیں ہے۔ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انسان جنت سے نکل کر انسان زمین پر آ گرا تھا۔ بلکہ اس کا اشارہ حیات انسانی کے اس ابتدائی دور کی طرف ہے جس میں انسان کا اپنے ماحو ل سے ابھی عملاً کوئی رشتہ قائم نہیں ہوا تھا۔ اور جس میں وہ انسانی حاجتوں کے تکلیف دہ احساس سے بے خبر تھا۔ انسان کی پہلی نافرمانی وہ پہلا اختیاری عمل تھا جو اس نے اپنے ارادے سے اور اپنی مرضی سے کیا اور یی وج ہے کہ اس کی تقصیر معاف کر دی گئی عہد نامہ عتیق مین آدم کے جرم نافرمانی کی بنا پر زمین کو ملعون اور دارالعذاب قرار دیا گیا ہے۔ جہاں انسان اپنے اولیں گناہ کی پاداش میں قید و بند کی زندگی بسر کر رہا ہے لیکن قرآن مجید کے لحاظ سے دنیا انسان کا مستقر اور متاع ہے جس کے لیے اسے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے ازروئے قرآن یہ دنیا انسان کے لیے ایک امتحان گاہ ہے جہاں اسے شر اور خیر سے آزمایا جاتا ہے۔ کہ انسان کی مخفی قوتوں کی تربیت اسی طریقے سے ممکن ہے۔ چنانچہ اقبال سارے عالم انسانیت کی تاریخ کو خیر اور شر کی کشمکش کے طورپر ہی دیکھتے ہیں۔ ان کا مشہور شعر ہے: ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی یہاں چراغ مصطفوی علامت ہے حق یا خیر کی اور شرار بو لہبی سے مراد ہے باطل یا شر۔ اسی طرح ایک اور مشہور شعر ہے: نہ ستیزہ گاہ جہاں نئی نہ حریف پنجہ فگن نئے وہی فطرت اسد اللہی وہ مرحبی وہی عنتری یہاں فطرت اسد اللہی حق یا خیر کی نمائندگی کرتی ہے اورمرحبی و عنتری باطل یا شر کی۔ اس سلسلے میں یہ دو شعر بھی دیکھیے: موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید ایں دو قوت از حیات آید پدید زندہ حق از قوت شبیری است باطل آخر داغ حسرت میری است اقبال پوری انسانی تاریخ کو حق وباطل کی باہمی آویزش کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ ان یک نزدیک اہل حق خواہ کسی نسل کسی رنگ کسی خطہ ارض اور کسی زمانے سے تعلق رکھتے ہوں سب ایک ہیں۔ اسی طرح باطل کے پرستار یا حامی خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں ہوں ہزار سال پرانے ہوں یا دور جدید کے سب ایک ہیں قوم او ر وطن کے موضوع پر علامہ اقبال نے جو بحث مولانا حسین احمد مدنی سے کی تھی اس سلسلے میں ایک مضمون جغرافیائی حدود اور مسلمان کے عنوان سے لکھا تھا۔۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ کون نہیں جانتا کہ حضرت ابراہیم سب سے پہلے پیغمبر تھے جن کی وحی میں قوموں نسلوں اور وطنوں کو بالائے طاق رکھا گیا ۔ بنی آدم کی صرف ایک تقسیم کی گئی موحد و مشرک اس وقت سے لے کر دو ہی ملتیں دنیا میں ہیں تیسری کوئی ملت نہیں… امت مسلمہ کے مقابل میں تو صرف ایک ہی ملت ہے اور وہ الکفرۃ ملتہ واحدہ کی ہے۔ اسی مضمون میںآگے چل کر وہ کھتے ہیں: ’’انسان کی تاریخ پر نظر ڈالواور ایک لامتناہی سلسلہ باہمی آویزشوں کا خونریزیوں کا اور خانہ جنگیوں کا کیا ان حالات میں عالم بشری میں ایک ایسی امت قائم ہو سکتی ہے جس کی اجتماعی زندگی امن اور سلامتی پر موسس ہو ؟ قرآن کا جواب ہے کہ ہاں ہو سکتی ہے بشرطیکہ توحید الٰہی کو انسانی فکر و عمل میں حسب منشائے الٰہی مشہود کرنا انسان کانصب العین قرار پائے‘‘۔ اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ اقبال کے نزدیک انسان کی اجتماعی زندگی اسی وقت امن و سلامتی سے ہمکنار ہو سکتی ہے جب وہ شر و باطل یعنی کفر و تاریکی کی قوتوں پر غالب آ کر حق و صداقت یعنی ایمان و خیر کی بنیاد پر اپنی تعمیر کرے۔ علاوہ اس خیال کے بھی حامل ہیں کہ خیر و شر کی قدیمی کشمکش میںفتح آخر خیر ہی کی ہو گی۔ ان الباطل کان ہوا قا۔ علامہ کہتے ہیں: تاخدا ان یطفئو فرمودہ است از فسردن این چراغ آسودہ است اس شعر میںچراغ کا اشارہ چراغ حق و ایمان کی طرف ہے۔ اور ان یطفئوا کا اشارہ کلام مجید کی ا س آیت کی طرف ہے یریدون ان یطفو انور اللہ بافو اھھم واللہ متم نورہ ولوکرہ الکفرون یعنی کفار اللہ کے نور کو بجھانے کی فکر میں ہیں لیکن اللہ ان کی آرزوئوں کے خلاف اس نور کو بڑھائے گا اور مکمل کرے گا۔ اس طرح حق و باطل کی قدیمی کشش میں حق باری نہیں ہارے گا۔ اسی لیے اقبال انسانیت کے مستقبل کے بارے میں بہت پرامید ہیں۔ نہ صرف پر امید بلکہ پر یقین ہیں چنانچہ جاوید نامہ میں فرشتوں کی زبان سے کہلواتے ہیں: فروغ مشت خاک از نوریاں افزوں شود روزے زمیںاز کوکب تقدیر او گرداں شود روزے اسی طرح اردو کا مشہور شعر ہے: عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے اقبال کی یہ رجائیت اور انسان کے تابناک مستقبل پر ان کا یہ اعتماد دور حاضر کے قنوطیت سے بھرپور فلسفیانہ نظریات کے ظلمت خانے میںایک مینار نور سے کم نہیں۔ اقبال کی رجائیت کی اساس محض اعتقاد ی نہیں ہے بلکہ عقلی و استنباطی بھی ہے۔ انہوں نے حیات و کائنات کے مشاہدے اور تاریخ کے وسیع و عمیق مطالعے کے بعد جو نتائج اخذ کیے ہیں اور جو نظام حکمت مرتب کیا ہے اس سے بھی ان کی رجائیت کی توثیق ہوتی ہے ۔ جیسا کہ عام طور پر معلوم ہے کہ ان کے نظام حکمت کی عمارت کا سنگ بنیاد ان کا نظریہ خودی ہے۔ اسی سے ان کے سارے افکار و تصورات مشتق ہیں۔ سادہ لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال نے خودی سے مراد وہ شعور لیا ہے جو خود شناس و خود آگاہ ہو۔ اسے آپ چاہیں تو خود شناسی خود شعوری یا خود آگاہی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اب اقبال کا یہ کہنا ہے کہ خودی کوئی شے نہیں جو خلا یا مکان میںپڑی ہوئی ہو۔ بلکہ اس کی اصل فعلیت ہے وہ ایک حرکی اور تخلیقی قوت ہے جو انسان کے افعال کو مربوط کرتی ہے اور ان کے اندر وحدت پیداکرتی ہے۔ وہ ایک رفعت پذیر روح ہے جو اپنے عروج و ارتقاء میں ایک مرتبہ وجود سے دوسرے میں قدم رکھتی چلی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی علی ہذا اس کی پے در پے ترقی پذیر روح کے سفر کا دارومدار ا س بات پر ہے کہ اس حقیقت سے رابطہ پیدا کرے جس نے اس کا ہر چہار طرف احاطہ کر رکھا ہے یعنی مکان و زمان کی وہ عظیم وسعت جو اس امر کی منتظر ہے کہ انسان کا وسعت تسخیر اسے پورے طورپر مسخر کر سکے۔ (تشکیل جدید ص ۱۶‘۱۹) علامہ کے خیال میں کائنات بتدریج نراج کی حالت سے نظم و آہنگ کی طرف سفر کر رہی ہے۔ اور اعلیٰ ارتقائی درجے پر نفس باشعور یعنی انسان اس عمل ترقی میں احسن الخالقین کا معاون ہے۔ اقبال کی نظرمیں کائنات مجموعہ اشیا نہیںبلکہ مجموعہ افراد ہے جن میں سے ہر ایک فرد محدود و متناہی ہوتے ہوئے بھی مرکز واردات حایت ہے خود اللہ تعالیٰ بھی ایک فردیا ذات ہے مگر وہ بے مثل و لامحدود ہے وہ حقیقت کل ہے جس کی حیات کا ہر محہ بیدار ی اور خلاقی کا لمحہ ہے۔ وہ انائے مطلق ہے جس سے دانائوں ہی کا صدور ممکن ہے۔ یعنی اس کی تخلیقی قدرت کا اظہار ان وحدتوں کی شکل ہی میں ہوتا ہے جن کو ہم انا یا خودی سے تعبیر کرتے ہیں کائنات انائوں سے عبارت ہے جو مختلف درجو ں پر ہیں وجود کے سرگم میںانائیت کا نغمہ درجہ بدرجہ تیز ہوتا چلا جاتا ہے تاآنکہ ذات انسانی میں یہ درجہ کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ تمام متناہی انائوں میںانسانی اناسب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ کہ یہ سب سے زیادہ خودشعور سب سے زیادہ آزاد و متحرک سب سے زیادہ تخلیقی ہے۔ انسانی انا یا خودی کی وہ صفت جو اسے تمام دوسری خودیوں سے ممتاز کرتی ہے یہ ہے کہ وہ قدر آشنا ہے اور اس کے اعمال و افعال میں ہدایت اور بامقصد ضبط و تصرف کے دو گونہ عناصر کارفرما ہیں۔ یہ انسانی خودی کی قدر آشنائی ہے جو اس میں کسی نہ کسی آئیڈیل یعنی نصب العین کی محبت پیداکر دیتی ہے۔ اقبال کے خیال میں اپنے نصب العین تک پہنچنے یا اسے حاصل کرنے کی خواہش ہی وہ قوت ہے جو انسانی خودی کے عمل کے لیے مہمیز کا کام کرتی ہے اور اس کے عمل کی جہت کو متعین کرتی ہے۔ نصب العین ہی خودی کی تمام سرگرمی و حرکت کا سبب بنتی ہے۔ اس نصب العین کے لیے اقبال اپنی شاعری میںمختلف لفظ استعمال کرتے ہیں کبھی اسے مدعا کہتے ہیں کبھی آرزو کبھی تمنا کبھی مقصود کبھی منزل کبھی کچھ اور غرض موقع موقع سے وہ نصب العین کے لیے کئی لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح نصب العین کی محبت کے لیے بھی انہوں نے مختلف لفظ استعمال کیے ہیں کبھی اسے عشق کہتے ہیں کبھی مشتاقی کبھی شوق‘ کبھی ذوق ‘ کبھی مستی کبھی جذب‘ اور کبھی کچھ اور اقبال ارتقائے حیات کے پیچھے آرزوئوں اور تمنائوں ہی کا دست قدرت کارفر ما دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مقصد کی لگن اور حصول آرزو کی ترپ دلوں کو بیقرار رکھتی ہے اور دلوں کی یہ بیقراری اپنی خواہش کے مطابق خارج میںواقعات کو ڈھالتی ہے اور اسباب پیدا کرتی ہے۔ خارج میں جو کچھ ظہور پذیر ہوتاہے وہ اصل میں آرزوئوں اور تمنائوں کے باطنی سرچشمے کا مرہون منت ہوتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے انسان نے جو دستور و قواعد بنائے ہیں اور جو عمرانی ومعاشرتی علوم و فنون ایجاد کیے وہ اسی لیے کہ انسان کے دل میں منظم باضابطہ اور محفوظ ترقی یافتہ زندگی بسر کرنے کی آرزو پیدا ہو ئی۔ تہذیب و تمدن کے سارے سامان اور تنظیم و ارتقاء کے تمام اسباب آرزو و تمنا ہی کی بدولت معرض وجود میں آتے ہیں: چیست نظم قوم و آئین و رسوم چیست راز تازگی ہائے علوم آرزوئے کو بزور خود شکست سرز دل بیروں زد و صورت بست غرض انسان وہی کچھ بنتے اور حاصل کرتے ہیں جس کے بننے اور حاصل کرنے کی تمنا ان کے دلوں میں موجزن ہوتی ہے۔ ہم تخلیق مقاصد کے باعث ہی زندہ متحڑک ہیں اورہماری زندگی میں جس قدر چمک اور تابناکی ہے وہ آرزئوں کی ہی مرہون منت ہے۔ ماز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم اب اقبال کے خیال میں اگرچہ قوم باجماعت… خواہ وہ جغرافی و وطنی بنیاد پر قائم ہوئی یا نسلی دلونی بنیاد پر یا نظریاتی بنیاد پر… اپنی ایک علیحدہ شخصیت اور وجود رکھتی ہے جس کامقصد اجتماعی انا یا جماعتی خودی کا استحکام و ارتقاء ہوتا ہے تاہم اس کا وجود اساسی طور پر اختلاط افراد کا نتیجہ ہوتا ہے اور اس کی ذہنی و دماغی قابلیت کا دھارا افراد ہی کے دماغ سے ہو کر بہتا ہے اور وہ اصل میں افراد کی شخصیت کے استحکام اور ان کی خودی کی توسیع و رفعت کا ایک ذریعہ ہوتی ہے۔ لیکن بقول اقبال: ’’حیات ملیہ کا انتہائی کمال یہ ہے کہ افراد قوم کسی آئین مسلم کی پابندی سے اپنے ذاتی جذبات کے حدود مقرر کریں تاکہ انفرادی اعمال کا تباین و تناقض مٹ کر تمام قوم کے لیے ایک قلب مشترک پیدا ہو جائے‘‘۔ (دیباچہ مثنوی رموز بے خودی) اقبال معاشرے یا جماعت کے وجودکو ضروری سمجھتے ہیں کہ بغیر اجتماعی تعلقات کے فرد کی شخصیت کی تکمیل ممکن نہیں لیکن آخری تجربے میں ان کے لحاظ سے فرد قدر بالذات ہے اور جماعت قدر بالواسطہ کہ فرد کا وجود بے منت غیر ہے اورجماعت کا وجود افراد پر منحصر ہے۔ اب جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ فرد کے عمل کا سرچشمہ اس کی خودی کا نصب العین ہے۔ اس لیے تاریخ کی حرکات کے اسباب اور قوموں کے عروج و زوال کے قوانین اقبال کے نزدیک خارجی نہیں جیسا کہ مارکس یا بعض اور مفکرین سمجھتے ہیں بلکہ یہ قوانین داخلی ہیں یعنی خود انسان کے اندر کارفرماہیں ۔ خودی کی قت محرکہ نصب العین سے اس کا عشق ہے خودی کے تمام اعمال نصب العین تک پہنچنے یا اسے حاصل کرنے کے لیے ہوتے ہیں: آرزو صید مقاصد را کمند دفتر اعمال را شیرازہ بند ٭٭٭ مدعا گردد اگر مہمیز ما ہمچو صرصری رود شبدیز ما ٭٭٭ مدعا راز بقائے زندگی جمع سیماب قوائے زندگی ٭٭٭ آرزو ہنگامہ آرائے خودی موج بے تابے زریائے خودی ٭٭٭ زندگی در جستجو پوشیدہ است اصل اودر آرزو پوشیدہ است آرزو اور دل خود زندہ دار تانہ گردد مشت خاک تو غبار لیکن ظاہر ہے کہ نصب العین بھی کئی ہو سکتے ہیں ضروری نہیںکہ ایک فرد کا جو مدعا ہو وہی دوسرے فرد کا بھی ہو لیکن اگر کسی جماعت کے افراد کے نصب العین میں وحدت نہیں ہو گی تو پھر لازماً اس جماعت کے عمل میں بھی یک جہتی نہیں ہو گی۔ نصب العین کی وحدت کسی بھی جماعت کی ترقی کے لیے اشد ضروری ہے اور یہ وحدت جماعت میں کوئی صاحب نظر اور باعمل فرد ہی پید اکر سکتا ہے۔ یہ اپنے آپ نہیں پیدا ہو جاتی۔ اسی لحاظ سے اقبال نے اقوام کی تقدیر کو افراد کے ہاتھوں میںقرار دیا ہے۔ یہ مقاصد و عزائم کا اتفاق و اشتراک ہے جو کسی جماعت کو متحد و منظم کر کے ایک قوم بنا دتیا ہے۔ اس اشتراک و اتحاد کے بغیر کوئی جماعت صحیح عنوں میں قوم نہیں کہلا سکتی۔ جس طرح ہر شخص کی زندگی میںچھوٹے بڑے کئی مقاصد ہوتے ہیں لیکن کامیاب زندگی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ تمام مقاصد کسی ایک مقصد غائی کے تحت آ جائیں اور فردکی تما م توجہ و سعی اسی مقصد غائی کی طرف مبذول ہو جائے جو اس کا نصب العین کہلائے گا بالکل اسی طرح کسی جماعت کی ترقی کے لیے بھی ایک مقصد غائی یعنی نصب العین کا ہونا ضروری ہے کہ یہی اس کے اجتماعی عمل میں یک جہتی پیدا کر سکتا ہے۔ افکار و کردار کی وحدت اور عزائم و مقاصد کا اتحاد سب کا انحصار نصب العین کی وحد ت پر ہے: ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام ایک اور جگہ اقبال کہتے ہیں: شبے پیش خدا بگریستم زار مسلماناں چرا زار اند و خوار اند ندا آمد نمی دانی کہ ایں قوم دے دارند و محبوبے ندارند یہا ں محبوب سے مراد نصب العین ہی ہے جس کی محبت قوت محرکہ کا کام کرتی ہے اور عروج پر پہنچاتی ہے۔ اقبال کے خیال میں فرد کے لیے … چنانچہ اسی بنا پر افراد کے مجموعے یعنی قوم یا ملت کے لیے … بلند ترین نصب العین اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ خلیفہ اللہ فی الارض بنے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے میں وہ سب صفات حسنہ پیدا کرے جن سے اللہ تعالیٰ کو متصف کیاجاتا ہے۔ جب وہ تلقین کرتے ہیں یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ تو اس سے ان کی مراد یہی ہوتی ہے ۔ اقبال نے تاریخ کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو قوم یا جو معاشرہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نیابت کرنے کی نیت یا اہلتی نہیںرکھتا وہ فنا ہو جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر جو معاشرہ من حیث القوم صفات حسنہ سے عاری ہو جاتا ہے وہ مٹ جاتا ہے البتہ اتنا ہے کہ اس قوم یا معاشرے کی تباہی فوراً ہی وقوع پذیر نہیں ہوتی بلکہ وقت لیتی ہے۔ اس کی دو جبلتیں ہیں ایک تو یہ کہ قومی و اجتماعی زندگی کی مدت ایک فرد کی زندگی کی مدت کے مقابلے میں طویل ہوتی ہے اور اس لیے قومی اعمال کے نتائج دیر میں ظاہر ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہر قوم کی زندگی میں کچھ حیات بخش اور صالح میلانات بھی ہوتے ہیں جو ہلاکت آفرین رجحانات و خصائص کے اثر کو کسی ھد تک معتدل کرتے رہتے ہیںَ اس طرح قوم کی تباہی فوری نہیں ہوتی بلکہ آہستہ آہستہ ہوتی ہے حتیٰ کہ انحطاط و زواں اثر کو کسی حد تک معتدل کرتے رہتے ہیں اور اس طرح قوم کی تباہی فوری نہیں ہوتی بلکہ آہستہ آہستہ ہوتی ہ یحتیٰ کہ انحطا ط و زوال اس نقطے تک پہنچ جاتاہے کہ اس قوم کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ قوموں کی تاریخ میں قانون مکافات عمل کی سست روی کا ایک سبب اور بھی ہے کہ جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے رحمت و مغفرت کا دروانہ ہر وقت کھلا رکھتا ہے اور غلط کار اور صفات حسنہ سے عاری قوم کو اصلاح و درستی کرنے پر اور صراط مستقیم پر آنے کی پوری پوری مہلت دینا چاہتا ہے اس لے پاداش عمل میں جلدی نہیںکرتا۔ ارشاد خداوندی ہے: وربک الغفور ذوالرحمہ لویوا اخذھم بما کسبو العجل لھم العذاب بل لھم موعد لن یجدو امن دونہ موثلا و تلک القریٰ اھلکنا ھم لما ظلموا و جعلنا لمھلکھم موعدا (کہف ۵۹) ’’اللہ تعالیٰ تو معاف کرنے والا اوررحم کرنے والا ہے۔ ورنہ اگر وہ برے کاموں پر لوگوں کی گرفت کر لے تو ان پر فوراً عذاب بھیج دے جس کے مقابلے میں وہ کوئی پناہ نہ پائیں گے اور یہ آبادیاں جن کو ہم نے ہلاک کر دیا ہے جب انہوں نے ظلم کیا لیکن ہم نے ان کی ہلاکت کا ایک وقت مقرر کر رکھاتھا۔ ‘‘ جیسا کہ ذکر ہوا کہ اقبال کے نزدیک انسانی عمل کی قوت محرکہ نصب العین کا عشق ہے۔ فرد ہوکہ جماعت مقصد کی لگن ہی اس کی جدوجہد کی اصل محرک ہے۔ وہی خفتہ قوتوں کو بیدار کرتی ہے ان کے مختلف اجزا کو باہم مربوط کرتی ہے۔ ان میں ترتیب و تنظیم پیداکرتی ہے۔ اور ن میں ایثار و قربانی کا جذبہ ابھارتی ہے حیات قومی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ قوم کے افراد اپنے نصب العین کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی حتیٰ کہ اپنی جان اور اپنی اولاد کی قربانی دینے سے بھی گریز نہ کریں۔ ایثار و قربانی کا جذبہ قوم میں اسی نسبت سے بڑھتا ہے جس نسبت سے نصب العین کے ساتھ اس کی محبت اور لگن میں ترقی ہوتی ہے۔ نصب العین کی لگن قوم کی قوت عمل کو بڑھا دیتی ہے۔ اور وہ ترقی کرنے لگتی ہے۔ لیکن اگر قوم میں کسی وجہ سے اپنے نصب العین پر یقین و اعتماد نہ رہے اور اس کی محبت کمزور پڑ جائے تو قوت محرکہ کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کا جوش عمل بھی سرد پڑ جاتاہے۔ اور رفتہ رفتہ وہ قوم زوال و فنا سے ہمکنار ہو جاتی ہے بالفاظ اقبال : مرگ قوم از ترک مقصود حیات اگرکوئی قوم نیا بت الہیہ کے منصب پر فائز ہونے یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات حسنہ کو زیادہ سے زیادہ اپنانے کو اپنا نصب العین نہ بنائے بلہ اس سے کمترر کوئی اور مقصد اپنے پیش نظر رکھے مثلاً مادی و اقتصادی خوشحالی یا توسیع ملک و عالمی اقتدار یا اشاعت و ترویج اشتمالیت یا نسلی تفوق کا استحکام یا کچھ اور تو وہ جب تک اس قوم کے بیشتر افراد اس نصب العین کی صحت و صداقت اور خوبی و فضیلت پر یقین و اعتماد کے حامل ہوں گے اس وقت تک اس قسم کی تمام سرگرمیان اور پالیسیاں اس سمت میں مرتکز رہیں گی اور اس نسب العین کے حصول کے لیے بیشتر افراد ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں گے۔ اس طرح یقین اتحاد اور تنظیم کے باعظ قومی یک جہتی پیدا ہو کر وہ قوم اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہو جائے گی اور اس وقت تک کامیاب و کامرانہ ہوتی رہے گی جب تک من حیث القوم اپنے نصب العین کی صداقت و فضیلت پر اس کا پختہ یقین رہے گا لیکن چونکہ نصب العین ناقص اور محدود ہو گا ۔ اس لیے ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب اپنے نصب العین کی محدودیت اور ناقصیت قوم رپ آشکار ہو جائے گی۔ اس کے اسباب خارجی بھی ہو سکتے ہیں اور داخلی بھی خارجی بایں معنی کہ کسی اور بہتر و برتر نصب العین والی قوم یا جماعت سے سامنا ہو یا ربط پیدا ہو اور داخلی بایں معنیٰ کہ قوم اپنے نصب العین و انسانی و عالمی تناظر میں دیکھنے لگے۔ اور اپنے ضمیر کی روشنی میں اسے ناقص و محدود پائے ۔ غرض یہ کہ ایک وقت ایسا ضرور آ جاتا ہے کہ جب قوم اپنے مقصود کو حاصل کر لینے کے بعد اس سے برگشتہ ہو جاتی ہے اسے ترک کر دیتی ہے اور اس سے بہتر نصب العین کو اپنا مقصود بنا کر پھر سرگرم عمل ہو جاتی ہے یا پھر اگر ایسا نہیں کرتی تو نصب العین کے نقص سے آگاہ ہوجانے کے باعث اس سے قوم کی محبت اور لگن میں کمی آ جاتی ہے ۔ اور اس کا جوش عمل اور یک جہتی ختم ہو کر قوم زوال و فنا سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ اس نظریے کی توثیق قدیم تاریخ کے مطالعے سے بھی باآسانی ہو سکتی ہے اور ماضی قریب کے واقعات سے بھی گویا یہ کہنا درست ہو گا کہ ناقص محدود یا غلط نصب العین کی پرستار جماعت یا قوم کے زوال کا سامان خود اس نصب العین ہی میں موجود ہوتا ہے۔ اقبال جب اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ گئے تھے تو یورپ اقوام کے مقاصد کا بغور مطالعہ کر کے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ان کے نصب العین میں دو عناصر خاص طور پر نمایاںتھے۔ ہر قیمت پر وطنی یا نسلی قومیت کا فروغ اور اپنی قوم کے لیے اقتصادی خوشحالی اور مادی آسائش و راحت کا حصول یورپی اقوام کے نصب العین میں اقبال کو اخلاقی و مذہبی اور انسان دوستانہ قدروں کا کوئی عمل دخل نہیں نظر آتا۔ چنانچہ انہوں نے اقوام مغرب کے رویے کو غلط اور ناقص قرار دے کر ۱۹۰۷ء میں یہ تنبیہہ کر دی تھی: دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا ۱۹۱۴ء اور پھر ۱۹۳۹ء کی عالمی جنگیں جن کا خمیازہ متحارب قوموں کو ہولناک تباہی وسیع جانی و مالی نقصان اور اپنے اقتدار میں نمایاں ضعف کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ان کے ناقص اور غلط مقاصد ہی کا لازمی نتیجہ تھیں۔ ان عالمی جنگوںنے مغرب کے اہل فکر کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے نصب العین پر نظر ثانی کریں۔ چنانچہ دور حاضر کے ممتاز ترین تاریخ دان ٹائن بی کا خیال ہے کہ اگر اہل مغرب زندہ رہنا چاہتے ہیں تو انہیںمذہب کی طرف واپس آنا پڑے گا۔ اور اپنی قوتوں کو روحانیت میں لگانا پڑے گا۔ کیونکہ کسی مذہب ہی ایسی چیز ہے جس کے ذریعے دنیا متحد ہو سکتی ہے۔ سیاست اتحاد انسانی قائم کرنے کی اہل نہیں۔ سیاست نے تو ہمیشہ دنیا کو منقسم رکھااور تفرقے کے راستے پر چلایا۔ ٹائن بی سے بہت پہلے علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں کہاتھا کہ جس مایوسی اور دل گرفتگی میں آج کل کی دنیا گرفتار ہے اورجس کے زیر اثر انسانی تہذیب کو ایک زبردست خطرہ لاحق ہے۔ اس کا علاج نہ تو عہد وسطیٰ کی صوفیانہ تحریک سے ہو سکتا ہے اور نہ جدید زمانے کی وطنی قومیت اور لادین اشتراکیت کی تحریکوں سے۔ اس وقت دنیا کو حیات نو کی ضرورت ہے۔ اگر عصر حاضر کا انسان دوبارہ وہ اخلاقی ذمے داری اٹھا سکے گا جو جدید سائنس نے اس پر ڈال رکھی ہے تو صرف مذہب کی بدولت صرف اسی طرح اس کے اندر ایمان اور یقین کی اس کیفیت کا احیا ہو گا جس کی بدولت وہ اس زندگی میں ایک انفرادیت پیدا کرتے ہوئے آگے چل کر بھی اسے محفوظ اور برقرار رکھ سکے گا۔ اس لیے کہ مذہب جہاں تک اس کے مدارج عالیہ کا تعلق ہے نہ تو محض عقیدے کا نام ہے۔ نہ کلیسا اور رسوم ظاہری کا۔ لہٰذا جب تک انسان کو اپنے آغاز اور انجام یا دوسرے لفظوں میں اپنی ابتدا او رانتہا کی کوئی نئی جھلک نظر نہیں آتی وہ کبھی اس معاشرے پر غالب نہیں آ سکتا جس میں باہمد گر مقابلے اور مسابقت نے ایک غیر انسانی شکل اختیار کر رکھی ہے اور نہ اس تہذیب و تمدن پر غالب آ سکتاہے جس کی روحانی وحدت اس کی مذہبی اور سیاسی قدروں کے اندر ونی تصادم سے پارہ پارہ ہو چکی ہے۔ (خطبہ بعنوان کیا مذہب کا امکان ہے) اقبال کے خیال میں بنی نوع انسان ہمیشہ تاریکی میں نہیں بھٹکتی رہے گی بلکہ دنیا کی ہر قوم ہر معاشرہ اور ہر جماعت اپنے تجربے اور عالم انسانیت کے مشاہدے ک بنا پر اپنے آپ ناقص اور محدود نصب العین سے آخر کار آگاہ ہوجائے گی اور اس طرح ٹھوکریں کھا کھا کر لازماً صحیح سمت میں اور صحیح نصب العین کی طرف اپنا رخ موڑ دے گی۔ جیسا کہ ذکر ہوا اقبال کے خیال میں صحیح نصب العین ہے نیابت الٰہی یا بالفاظ دیگر حکومت الہیہ کا قیام اور اقبال کو اعتماد کامل ہے کہ تاریخ کا عمل آخر انسان کو راہ راست پر ضرور لے آئے گا۔ تاریخ کی حرکت بے مقصد بے منزل اور اٹکل پچو نہیں ہے۔ ازروء قرآن اللہ تعالیٰ نے کائنات اور انسان کو تفریحاً کھیل کے طور پر نہیں پیداکیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : وما خلقنا اسماء والارض وما بینھما العبین انبیا۱۶ چنانچہ اقبال کے نزدیک عمق تاریخ ایک خاص منزل کی جانب رواں ہے اور وہ منز ل ہے۔ ایسی مثالی نسل کو جنم دیتا ہے جو ایسے افراد پر مشتمل ہو کہ مثال آپ ہوں اور انسان کامل کے والدین کی صلاحیت رکھتے ہیںَ (اسرار خودی کے انگریزی ترجمے کا مقدمہ) ۔ گویا اقبال کے خیال میں تاریخ کی حرکت اس سمت میں ہے کہ صٖات حسنہ سے متصف افراد سے عبارت ایک وسیع معاشرہ وجود میں آئے جو سارے عالم انسانیت کے لیے ایک ایسی مثال قائم کر دے کہ ا س کی تقلید ہر قوم کے لیے کرنے لگے۔ اقبال کو اعتماد ہے کہ یہ مقصد مستقبل میں ضرور حاصل ہو گا اور عالم انسانیت کی تعمیر بالآخر ایک ایسے نظریے کی بنیاد پر عمل میں آئے گی جو انسان کو محض حیوان ناطق نہیںقرار دیتا بلکہ اشرف المخلوقات مان کر اسے خلیفہ اللہ فی الارض کے منصب پر فائز دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ نظریہ عرف عام میں اسلام کے نام سے موسوم ہے۔ محض اس بنا پر نہیں کہ وہ ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے تھے بلکہ تاریخ عالم اورمختلف حکماء و فلاسفہ کے افکار و تصورات کے مطالعے کے بعد پورے غور و خوص سے اقبال اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دنیا کے قدیم و جدید نظام ہائے فکر و عمل کے مقابلے میں اسلام کا تصور الہ اور تصور انسان کامل وہ تصور حیات فکری و عملی ہر دو لحاظ سے بلند ترین وسیع ترین اور صحیح ترین ہے۔ اسی لیے انہیں امید ہے کہ اس تصور کی حامل جماعت یعنی امت مسلمہ کا مستقبل تابناک ہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ امت فنا نہیں ہو گی بلکہ جن عقائد و افکار اورتصورات و اقدار کی وہ حامل اورامین ہے ان کا شیوخ اور غلبہ ہمہ گیر ہو گا۔ مستقبل میں اسلامی قدروں اور ملت اسلامیہ کی عالمگیر شہرت کے بارے میں اقبال نے کبھی اشارۃً اپنے اعتماد کا اظہار جا بجا کیا ہے۔ مثلاً مسجد قرطبہ میں کہتے ہیں: آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب عالم نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب اس خوش آئند زمانے کے بارے میں جب انسانیت اپنی منزل مراد کو پہنچ جائے گی اور ہر طرف اسلام کا بول بالا ہو گا تو اردو کا یہ شعر دیکھیے: شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے ایک اور مقام پر چینیوں ساسانیوں‘ رومیوں اور یونانیوںاور تاتاریوں کے زوال کا ذکر کرنے کے بعد اقبال کہتے ہیں: در جہاں بانگ اذاں بود است و ہست ملت اسلامیاں بود است و ہست عشق آئین حیات عالم است امتزاج سالمات عالم است عشق از سوز دل ما زندہ است از شرار لا الہ تابندہ است گرچہ مثل غنچہ دل گیریم ما گلستاں میرد اگر میریم ما غرض اقبال کو آخر کار ملت اسلامیہ کی ہمہ گیر کامیابی کا یقین ہے اور یہ اس وجہ سے کہ یہ ملت جغرافی نسلی لونی یا لسانی حدود کی پابندنہیں بلکہ ساری دنیا کو اپنا گھر سمجھتی ہے۔ اور روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو ایک کنبہ اور ایک برادری قرار دیتی ہے ملت اسلامیہ جن تصورات و اقدار کی حامل ہے انہیں بنی نوع انسان اپنے تجربات کی بدولت رفتہ رفتہ برابر قبول کرتی جا رہی ہے خواہ اس کا اعتراف نہ کرے کہ اس نے یہ تصورات و اقدار اسلامی تعلیمات سے حاصل کی ہیں۔ آج کی دنیا میں حریت مساوات اور اخوت کا جو چرچا ہے یہ اسلام کی اشاعت و ترویج سے پہلے کہاں پایا جاتا تھا۔ اسی طرح آدمیت کا احترام بنی آدم اعضائے یک دیگر اند کا تصور محنت کا وقار ‘مذہبی رواداری ہر قسم کے استحصال سے نفرت عورت کی عزت معاشرتی عدل کی اہمیت تعلیم عام کی ضرورت وغیرہ کتنے ہی تصورات ہیں جنہیں آج ہم بطور مسلمات کے تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ اسلام کی اشاعت سے پہلے دنیا بھر میں رائج نہیںتھے یہ سب اسلام ہی کی دین ہیں ملت اسلامیہ خوش نصیب ہے کہ ان بلند قدروں کو بلا چوں و چرا مانتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگی اور سیرت و کردار میں انہیںعملاً نافذ دیکھ چکی ہے۔ چونکہ ملت اسلامیہ کا نصب العین وسیع اور بلند ہے اور اس کا مقصود غائی یہ ہے کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسان اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت یعنی توحید الٰہی سے آگاہ ہو کر اپنی زندگی کو منشائے الٰہی سے ہم آہنگ کر لیں۔ تاکہ ان کے دلوں میںقومی امتیازات و گروہی تعصبات کے دہکتے ہوئے شعلے سرد پڑ جائیں اور ان کے سینے میں محبت و مردت ہمدردی و یگانگت کے نور سے جگمگا اٹھیں اور وہ سب انسانوں کو ایک خدا کی مخلوق سمجھ کر اپنی زندگی کو اخوت و مساوات انسانی کے اصول پر استوار کر لیں اور اپنے انفرادی اور اجتماعی اخلاق کو پاکیزہ بنائیں ۔ اس لیے اقبال کو یقین ہے کہ یہ ملت آخر کار ضرور غالب ہو گی۔ اس ملت کا غلبہ دراصل اس کے نقطہ نظر اور نصب العین کا غلبہ ہو گا۔ اسی لیے اقبال خاص طورپر مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تاریخ کے اس عمل کو تیز کرنا ان کا فرض ہے اور ان کی ذمے داری ہے۔ اور اس ذمے داری کو پورا کرنے میں انہیںتساہل سے بالکل کام نہیںلینا چاہیے۔ سبق پھرپڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا آب و تاب چہرہ ایام تو در جہاں شاہد علی الاقوام تو نکتہ سنجاں را صلا کے عام دہ از علوم امیے پیغام دہ اے کہ می داری کتابش در بغل تیز تر نہ پا بہ میدان عمل فکر انسان بت پرستے بت گرے ہر زماں اور جستجوئے پیکرے باز طرح آزری انداخت است تازہ تر پروردگارے ساخت است کاید از خوں ریختن اندر طرب نام اور رنگ است و ہم ملک و نسب آدمیت کشتہ شد چوں گو سفند پیش پائے ایں بت نا ارجمند اے کہ خوروستی ز مینائے خلیل گریم خونت ز صہبائے خلیل برسر ایں باطل حق پیرہن تیغ لا موجود الا ہو بزن جلوہ در تاریکی ایام کن آنچہ بر تو کامل آمد عام کن یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ جب ملت اسلامہی کا نصب العین وسیع اور بلند تھا تو پھر وہ اپنے مقام عروج پر برقرار کیوں نہیں رہی اور زوال سے کیوں ہم کنار ہوتی چلی گیئ۔ اس کا جواب اقبا ل یہ دیتے ہیںکہ ملت نے اپنا نصب العین بھلا دیاتھا‘ قرآن کی اسلامی تعلیمات میں علما نے غیر اسلامی ایرانی و یونانی تصورات کی آمیزش کر دی تھی اور نازک خیالیوں اور فلسفانہ موشگافیوں سے انہیں ایسا رنگ دے دیا تھا کہ جس کا اصل قرآنی تعلیمات اور عہد نبوی و دور صحابہ کی زندگی سے کچھ تعلق نہ تھا متصوفین نے شریعت کے مقابلے میں طریقت کواس قدر ابھار دیا تھا کہ عوام کے دلوں میںشریعت کی محبت اور اس پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ جاتا رہا تھا جس سے ان میں تن آسانی سہل انگاری پیدا ہوتی گئی کردار میں سختی و محکمی باقی نہیں رہی ضعف آ گیا۔ نہ صرف یہ کہ عام مسلمانوں کے کردار میںقوت و محکی کی کمی ہو گئی بلکہ دلنوازی دلآویزی اور دلکشی بھی نہیں رہی۔ تا شعار مصطفی از دست رفت قوم را رمز بقا از دست رفت لیکن اقبال کے خیال میں یہ نہیںسمجھنا چاہیے کہ جس طرح فرد کی زندگی میں شباب کا زمانہ ایک ہی بار آتا ہے اسی طرح کوئی قوم ایک ہی بار عروج و ترقی حاصل کر سکتی ہے۔ دوبارہ سہ بار نہیں کر سکتی۔ قوم کی زندگی کو ایک فرد کی زندگی پر قیاس نہیں کرنا چاہیے کہ فرد کی زندگی تو حیات و ممات کے طبیعتی و جسمانی قوانین کی پابند ہوتی ہے لیکن قوم کی زندگی طبیعی و جسمانی نہیںبلکہ اخلاقی و روحانی اصول و قوانین کی پابند ہوتی ہے۔ قوموں کی زندگی اورموت عروج و زوال میں اصل اور یہ فیصلہ کن عنصر نصب العین کا شعور اس کی محبت اور اس کے لیے جوش عمل ہے۔ قومو ں کی تقدیر ان کے اپنے ہاتھ میں ہے چاہیں تو اس تقدیر کو وہ اپنے عمل سے بدل سکتی ہیں۔ اگر سابق میں ان کا نشو وار تقا غلط اصولوں پر ہوتا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ زوال و فنا کے راستے پر چل نکلی ہیں تو اپنے مقصد اپنے طرز فکر و عمل اور اپنے اخلاق وکردار کو بدل کر وہ پھر ایک نئے دور حیات کا آغاز کر سکتی ہیں۔ ازروئے قرآن ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر را ما بانفسھم یعنی اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتاجب تک کہ اس کے افراد اپنے آپ کو نہ بدلیں۔ مختصر یہ کہ جس طرح مارکس کے نظریہ تاریخ کو تاریخ انسانی کی مادی تعبیر کا نام دیا گیا ہے اقبال کے نظریہ تاریخ کو تاریخ انسانی کی اخلاقی تعبیر کا نام دیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اقبال کا تصور حیات بہت وسیع ہے اور اس میں زندگی کس طرح گزارنی چاہیے کے جواب میں جو کچھ کہا جا سکتا ہے سب شامل ہے۔ چنانچہ اخلاق سے مراد محض عمل صالح اور معاملات بین الافرادنہیں بلکہ اس میں علم و حکمت بھی شامل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خیر کثیر قرار دیا ہے۔ انسان اپنے علم و حکمت ہی کی قوت سے فطرت کے قوانین کو جان کر اس کی تسخیر کرتا ہے۔ عالم رنگ و بو کو اپنے تصرف میں لاتا ہے۔ موالید و عناصر پر حکمرانی کرتا ہے اور انہیں زندگی اورمعاشرے کے فروغ و استحکام کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جماعتیں اسی وقت آزادی اورعزت کی زندگی بسر کر سکتی ہیں جب وہ خارجی دنیا اور اس کے پوشیدہ قوتوں پر تصرف حاصل کریں۔ انسانی تمدن کی ترقی عبارت ہے عالم خارج پر تصرف حاصل کرنے کے طریقوں کی ترقی سے قوائے عالم کی تسخیر استحکام خودی اور حیات ملیہ کی استواری کے لیے نہایت ضروری ہے اقبال کے الفاظ میں: ماسوا از بحر تسخیر است و بس سینہ او عرضہ تیرا است و بس جستجو را محکم از تدبیر کن انفس و آفاق را تسخیر کن ہر کہ محسوسات را تسخیر کرد عالمے از ذرہ تعمیر کرد تاز تسخیر قوائے ایں نظام زد فنونے ہائے تو گردد تمام نائب حق در جہاں آدم شود بر عناصر حکم او محکم شود آخری شعر میں جو نائب حق کی ترکیب اقبال نے استعمال کی ہے پھر ہمیں اسی بنیادی نکتے کی طرف لوٹاتی ہے کہ ان کے نزدیک نیابت الہیہ کے رتبے پر فائز ہونا ہی بہترین اور بلند ترین نصب العین ہے جو انسانیت اپنے آگے رکھ سکتی ہے اورانسانی تاریخ کو اسی پیمانے سے جانچنا چاہیے کہ کس جماعت یا کس قوم نے یہ نصب العین اپنے آگے رکھا اور کس حد تک اسے حاصل کیا۔ اسی طرح حال اور مستقبل کے لیے بھی اقبال کا معیار یہی ہے اور وہ مستقبل کے بارے میں بہت پر امید ہیں کہ ساری نوع انسانی رفتہ رفتہ اسی نصب العین کی طر ف آ جائے گی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انسانی شاہراہ ارتقا یعنی تاریخ کی منزل آخر اسلامی نظریہ حیات و کائنات اور قرآنی تصور اخلاق و معاشرت کا شیوع اور استقرار ہی ہے ۔ اقبال کے خیال میں مسلمانوں میںمستقبل میں جو تغیر رونما ہونے والا ہے یہ نہیں ہے کہ وہ مغرب یا مشرق کے کسی غلط اور ناقص نظریہ حیات کے پیرو بن کو کسی ناقص نصب العین کو حاصل کرنے میں سرگرم عمل ہو جائیں گے بلکہ مسلمانوں میں آئندہ یہ تغیر ہو گا کہ وہ اپنے اسلامی عقائد و اقدار کو ایک ایسی زبردست عملی علمی‘ ثقافتی اور عقلی قوت بنائیں گے جو ہر ملک اور ہرقوم اور ہر معاشرے کے دلوں کو مسخر کرے گی اور جس کی وجہ سے عالم انسانی پائیدار امن و سلامتی اور اتحاد و یک جہتی کی نعمتوں سے ہمکنار ہو گا۔ اقبال اپنے ایک خظ میں لکھتے ہیں: ’’اگر عالم بشریت کا مقصد اقوام انسانی کا امن و سلامتی اور انکی موجودہ اجتماعی ہیئتوں کو بدل کر ایک واحد اجتماعی نظام قرار دیا جائے تو سوائے نظام اسلامی کے کوئی دوسرا نظام ذہن میں نہیں آ سکتا۔ کیونکہ قرآن سے میری سمجھ میں جو کچھ آیا ہے اس کی رو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میںایک تدریجی مگر اساسی انقلاب کا متمنی بھی ہے جو اس کے قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے‘‘۔ ۱۹۱۱ء کی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میںتقریر کرتے ہوئے انہوںنے صاف صاف یہ کہہ دیا تھا: ’’مجھ کو پان اسلامسٹ ہونے کا اقرار ہے اور میرا یہ اعتقاد ہے کہ ہماری قوم ایک شاندار مستقبل رکھتی ہے اور جو مشن اسلام کا اور ہماری قوم کا ہے وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ شرک اور باطل پرستی دنیا سے ضرور مٹ کر رہے گی اور اسلامی روح آخر کار غالب آ ئے گی‘‘۔ ٭٭٭ اقبال کی اپنے کلام پر نظر ثانی جگن ناتھ آزاد اقبال کی پرورش ایک ایسے ماحول میں ہوئی تھی جس کا خمیر شعر و ادب کے رچے ہوئے مذاق میں اٹھا تھا۔ ان کے استاد مولوی میر حسن نے جنہوں نے اقبال کو لڑکپن ہی میں اردو فارسی اور عربی پڑھائیں انہیں ان زبانوں کی شاعری کے اعلیٰ نمونوں سے بھی روشناس کرایا چنانچہ اقبال کی ابتدائی شاعری میں بھی ایرانی اور عرب شعرا کے معیاری اشعار کی یا اشعار کے ٹکڑوں کی تضمینیں ملتی ہیں۔ فارسی اورعربی کے معیاری کلام کے مطالعے مولوی میر حسن کی تربیت اور اپنی افتاد طبع کے باعث اقبال اپنے لام کو ابتدا ہی سے اسی طرح دیکھنے کے عادی ہو گئے تھے۔ جس طرح ایک آئینہ گر آئینہ بنانے کے بعد انہیں دیکھتا ہے اور جب تک مصرعے کی نوک پلک ہر اعتبار سے سنوار نہیں لیتے تھے انہیں اطمینان نہیں ہوتا تھا۔ اسی طالب علمی کے زمانے میں ہی اقبال نے داغ سے اپنے کلام پر اصلاح لینا شروع کر لی تھی۔ اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ داغ نے شاعری کے اس پہلو کی طرف کہ مصرعے کی نوک پلک کو درست کرنا ضروری ہے اقبال کو خاص طور سے توجہ دلائی ہو گی۔ چنانچہ ان کی اسی زمانے کی ایک غزل کا مقطع ہے: لطف بڑھ جاتا ہے اقبال سخن گوئی کا شعر نکلے صدف دل سے گہر کی صورت یہ صدف دل سے شعر کے گہر کی صورت نکلنے کا معیار اقبال سے ہمیشہ اپنے سامنے رکھا ہے اور اگر کوئی شعر یا مصرع کی طرح چمکتا دمکتا انہیںنظر نہیں آیا تو انہوںنے اسے اپنے کلام سے خارج کر دیا اور یا پھر اسے چمکانے دمکانے اور نکھارنے سنوارنے کی طرف متوجہ ہوئے۔ میں اپنے اس مقالے میں اول الذکر قسم کے اشعار یعنی قلمرو اور نظر انداز کیے ہوئے اشعار کو زیادہ تر زیر بحث نہیںلائوں گا بلکہ صرف ان اشعار کا ذکر کروں گا جن میںاقبال نے ترمیم کی ہے۔ اس بحث کو شروع کرنے سے قبل میں اقبال کی زندگی کا ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ ۱۹۱۸ء میں جب رموز بے خودی چھپی تو جسٹس دین محمد نے اقبال سے کہا کہ یوں تو یہ ساری مثنویاں لاجواب ہیں لیکن اس کا ایک شعر مجھے خاص طور سے پسند آیا اور وہ شعر یہ ہے: درمان کارزار کفر و دیں ترکش مار اخدنگ آخریں اقبال نے جواب میں کہا کہ دین محمد! یہ شعر میری چالیسویں کوشش کا نتیجہ ہے۔ ا س کے ساتھ ہی شعر میں ترمیم کے متعلق اقبال کی وہ رائے بھی پیش کر دینا ضروری سمجھتا ہوں جس کا اظہار انہوںنے پرنسپل لوکس کے ساتھ دوران گفتگو میں کیا تھا۔ یہ واقعہ مولینا عبدالمجید سالک کے الفاظ میں سنیے: ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ فارمن کرسچین کالج لاہور کا سالانہ اجلاس جس میں علامہ بھی مدعو تھے کالج کے پرنسپل ڈاکٹر لوئس نے علامہ سے کہا ک آپ اجلاس اور چائے سے فارغ ہونے کے بعد ذرا ٹھہریے گا۔ مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے ڈاکٹر لوکس تقریب سے فارغ ہونے ک یبعد علامہ اقبال کے پا س آئے اور سوال کیا کہ آیا آپ کے نزدیک آپ کے نبیؐ پر قرآن کا مفہوم نازل ہوتا تھا جسے وہ اپنے الفاظ میں بیان کر دیتے تھے یا الفاظ بھی نازل ہوتے تھے علامہ نے صاف جواب دیا کہ میرے نزدیک قرآن کی عبارت عربی زبان میں آں حضرت صلعم پر نازل ہوتی تھی یعنی قرآن کے مطالب ہی نہیں بلکہ الفاظ بھی الہامی ہیں۔ ڈاکٹر لوکس نے اس پر تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ جیسا اعلیٰ پایہ فلسفی Verval Inspiration (الہام لفظی) پر کیونکر اعتقاد رکھ سکتا ہے علامہ نے ارشاد فرمایا ڈاکٹر صاحب میں اس معاملے میں کسی دلیل کا محتاج نہیں ہوں۔ مجھے تو خود اس کا تجربہ حاصل ہے کہ میں پیغمبر نہیں ہوں۔ محض ایک شاعر ہوں۔ جب مجھ پر شعر کہنے کی کیفیت طاری ہوتی ہے و مجھ پر بنے بنائے اور ڈھلے ڈھلائے شعر اترنے لگتے ہیں۔ اور می انہیں بعینہ نقل کر دیتا ہوں۔ بارہا ایسا ہوا کہ میں نے ان اشعار میںکوئی ترمیم کرنی چاہی لیکن میری ترمیم اصل اور ابتدائی نازل شدہ شعر کے مقابلے میں بالکل ہیچ نظر آئی اور میں نے شعر کو جوں کا توں رکھا۔ جس حالت میں ایک شاعر پر پورا شعر نازل ہو سکتا ہے تو ا س میںکیا مقام تعجب ہے کہ آں حضرت صلعم پر قرآن کی پوری عبارت لفظ بہ لفظ نازل ہوتی تھی؟ اس پر ڈاکٹر لوکس لاجواب ہو گئے‘‘۔ (ذکر اقبال ص ۲۴۴‘۲۴۵) لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اقبال نے اپنے کلام میںخاصی ترمیمیں کی ہیں کہیں ایک لفظ بدلا کہیں کئی الفاظ بدلے کہیں سارا مصرع تبدیل کیا کہیں سارا شعر تبدیل کیا کہیں مصرعوں کی ترتیب میں تبدیلی کی اور کہیں ایک بند کا ایک مصرع یا ایک شعر اس بند سے نکال کے کسی اور بند میں شامل کیا۔ کہیں پہلے کے بند کو بعد میں لے آئے اور کہیں بعد کے بند کو پہلے لے آئے وغیرہ وغیرہ۔ اور اس ضمن میں سخن شناسوں کے مشورے کو اقبال نے ہمیشہ اہمیت دی لیکن یہ ضروری نہیںکہ ہر مشورہ انہوںنے ہمیشہ قبول کیا ہو گا چونکہ اقبال اس دولت سے مالا مال تھے جسے Openmind کہتے ہیں اس لیے کسی مشورے کو غور و خوص کے بغیر انہوںنے رد نہیں کیا اور کسی مشورے کو محض مروت میں آ کے قبول نہیںکیا۔ حبیب الرحمن شروانی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’… آپ کا خط حفاظت سے صندوق میں رکھ دیا ہے نظر ثانی کے وقت آپ کی تنقیدوں سے فائدہ اٹھائوں گا۔ اگر میری نظم کے متعلق آپ اس قسم کا خط لکھ دیا کریںتو میں آپ کا نہایت ممنون ہوں گا‘‘۔ (۲۵ مئی ۱۹۰۳ئ) ایک اور خط میں انہیںلکھتے ہیں: ’’آپ کا نوازش نامہ آج صبح ملا ۔ حقیقت ہے کہ آج مجھے اپنے ٹوٹے پھوٹے اشعار کی داد مل گئی۔ بعض بعض جگہ جو تنقید آپ نے فرمائی ہے بالکل درست ہے۔ بالخصوص لفظ چبھ کے متعلق مجھے آپ سے کلی اتفاق ہے… مجھے معلوم ہے کہ اس نظم کے بعض دیگر اشعار میں بھی کچھ قابل اعتراض باتیں ہیں۔ اس سال مجھے امید نہ تھی کہ میں کوئی نظم پڑھ سکوں گا۔ مڈل کے امتحان کے پرچوں سے فراغت نہ ہوئی طبیعت کو یکسوئی کس طرح نصیب ہوتی… آپ نے جو ریمارکس اس کے اشعار پر لکھے ہیں میں اس کا تہہ دل سے مشکور ہوں آپ لوگ نہ ہوں تو واللہ ہم شعر کہنا ہی ترک کر دیں…‘‘۔ اس خط میں اقبال نے جس شعر کی طرف اشارہ کیا ہے وہ شعر یہ ہے: صفت نوک سرخار شب فرقت میں چبھ رہی ہے نگہ دیدہ انجم مجھ کو یہ شعر طویل نظم ابر گہر بار کے جو بعد میں فریاد امت کے عنوان سے ایک کتابچے کی صورت میں چھپی ساتویں بند میں آیا ہے۔ یہ بند سارے کا سارا اقبال نے اس نظم کے چار اور بندوں کے ساتھ خارج کر دیاہے اور باقی ماندہ حصہ یعنی ایک بند کے عنوان سے بانگ درا میں شامل کیا ہے جس کا پہلا شعر ہے: قصہ دار درسن بازی طفلانہ دل التجائے ارنی سرخی افسانہ دل اور اس گیارہ اشعارکے بند میں بھی اقبال نے اسے بانگ درا میں شامل کرتے وقت دو شعر خارج کر دیے ہیں۔ رموز بے خودی کے بعض اشعار پر علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم نے جو اعتراضات کیے ان کے متعلق اقبال کے خطوط اقبال کے اس ذوق کی مکمل تصویر قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں جو صحیح معنی میں صحیح محاورے اور لفظ کے اس صحیح استعمال کی تلاش کے لیے ہر وقت آمادہ و مضطرب رہتا ہے۔ اقبال نے اپنے خطوط میں علامہ سید سلیمان ن دوی کو علوم اسلام کی جوائے شیر کے فرہاد اور استاذ الکل کہہ کر خطاب کیا ہے۔ ان کے اعتراضات سے متلق انہیں ایک خط میں لکھتے ہیں معارف میں ابھی آپ کا ریویو(مثنوی رموز بے خودی) پر نظر سے گزرا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ نے جو کچھ فرمایا وہ میرے لیے سرمایہ افتخار ہے اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے! صحت الفاظ و محاورات کے متعلق جو کچھ آ پ نے لکھا ہے ضرور صحیح ہو گا لیکن اگر آپ ان لغزشوں کی طرف بھی توجہ فرماتے تومیرے لیے آپ کا ریویو زیادہ مفید ہوتا۔ اگر آپ نے غلط ومحاورات نوٹ کر رکھے ہیں تو مہربانی کر کے مجھے ان سے آگاہ کیجیے کہ وہ دوسرے ایڈیشن میں ان کی اصلاح ہو جائے۔ ’’غالباً آپ نے رموز بے خودی کے صفحات ہی پر نوٹ کیے ہوں گے۔ اگر ایسا ہوتو وہ کاپی ارسال فرما دیجیے میں دوسری کاپی اس کے عوض میں آپ کی خدمت میں بھجوا دوں گا۔‘‘ اس تکلیف کو میں ایک احسان تصور کروں گا۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ ‘‘ یہ ۱۰ مئی ۱۹۱۸ء کا خط ہے۔ غالباً اس خط کے جواب میں سید سلیمان ندوی نے لکھا ہو گا کہ میں آپ کو ان لغزشوں سے آگاہ کروں گا لیکن شاید سلیمان ندوی صاحب نے کچھ مدت تک ان لغزشوں کی نشان دہی نہیں کی ۔ چنانچہ اقبال ۸ ستمبر ۱۹۱۸ء کے خط میں انہیں لکھتے ہیں رموز بے خودی کی لغزشوں سے آگاہ کرنے کا وعدہ آپ نے کیا تھا۔ اب تو ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے ۔ امید کہ توجہ فرمائی جائے گی تاکہ میں دوسرے ایڈیشن میںآپ کے ارشادات سے مستفیدہو سکوں‘‘۔ غالباً اس کے کچھ مدت کے بعد اقبا ل کو مولانا ندوی مرحوم کا وہ خط مل گیا جس کا انہیں انتظار تھا۔ اس کے جواب میں آپ لکھتے ہیں۔ قوافی کے متعلق جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا بالکل بجا ہے مگر شاعری اس مثنوی ۱؎ سے مقصود نہ تھی اس واسطے میں نے بعض باتوں میں عمداً تساہل برتا۔ اس کے علاوہ مولانا روم کی مثنوی میں قریباً ہر صفحہ پر اس قسم کے قوفی کی مثالیں ملتی ہیں اور ظہور ی کے ساقی نامہ کے چند اشعار بھی زیر نظر تھے۔ غالباً اور مثنویوں میںبھی ایسی مثالیں ہوں گی۔ اصول تشبیہہ کے متعلق کاش آپ سے زبانی گفتگو ہو سکتی۔ قوت واہمہ کے عمل کی رو سے بیدل اور غنی کا طریق کار زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ گو کتب بلاغت کے خلاف ہے۔ زمانہ حال کے مغربی شعراء کا بھی طرز عمل یہی ہے۔ تاہم آپ کے ارشادات نہایت مفید ہیں او رمیں ان سے مستفید ہونے کی پور ی کوشش کروں گا۔ بحر تلخ رو کلمہ بہ سکون لام باریک ترز جو بمعنی کم در عرض و عمق کو ری ذوق‘ محفل از ساغر رنگیں کردن سرمہ از دیدہ مردم شکست ساز برق آہنگ از گل غربت (بمعنی شر) نوابالیوں صبح آفتاب اندر قفس وغیرہ کی مثالیں اساتذہ میں موجود ہیں مگر اس خیال سے کہ آپ کا وقت ضائع ہو گا نظر انداز کرتا ہوں۔ البتہ اگر آپ اجازت دیں تو لکھوں محض یہ معلوم کرنے کے لیے کہ میں نے غلط مثالیں تو انتخاب نہیں کیں۔ ایک امر دریافت طلب ہے۔ اس سے آگاہ فرما کر ممنون کیجیے۔ قطرہ از نرگس شہلا ستی پر جو کچھ آپ نے ارشاد فرمایا ہے میں نہیںسمجھ سکا۔ کیا آپ کا یہ مقصود ہے کہ قطرہ کا لفظ شہلا کے لیے یعنی قطرہ شہلا موزوں نہیں یا کچھ اور ؟ علی ہذا القیاس خیمہ بر زدد رحقیقت از مجاز ’’نعرہ زر شیرے از دامان دشت‘‘ ’’باز بانت کلمہ توحید خواند ‘‘ کے متعلق یہی سوال ہے… (۳ اکتوبر ۱۹۱۸ئ) ۔ کچھ مدت بعد اقبال پھر اسی سوال کو موضوع بحث بناتے ہیں اور سید سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھتے ہیں۔ کئی روز ہوگئے ایک عریضۃ خدمت عالی میں لکھا تھا۔ جواب سے ہنوز محروم ہوں خیمہ برزد در حقیقت از مجاز کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ از میں تجاوز کا مفہوم نہیں ہے کیونکہ خیمہ برزدن کے معنی قیام کرنے کے ہیں۔ ۱؎ یہاں مثنوی سے مراد ’’اسرار خودی‘‘ ہے۔ میں تلاش میں تھا کہ کوئی سند مل جائے۔ جیسا کہ میں نے گزشتہ خط میں عرض بھی کیا تھا کہ آج کلیات سعدی میں وہ سند مل گئی جو ارسال خدمت ہے: صوفی از صومعہ گو خیمہ بزن در گلزار وقت آن نیست کہ درخانہ نشینی بیکار بصیری کو چادر عطا کرنا کوئی روایات میں آیا ہے گزشتہ خط میں اس کا حوالہ لکھنا بھول گیا تھا ۔ مولوی ذوالفقار علی دیو بندی نے شرح قصیدہ بردہ میںمنجملہ اور روایات بھی لکھی ہیںَ ملطع فرمائیے کہ جو اسناس میں نے اپنے خطو ط میں لکھے ہیں ان کی نسبت آ پ کی کیا رائے ہے الفاظ ورثہ اور خیال کے متعلق بھی عرض کروںگا۔ (۲۰ نومبر ۱۹۱۸ئ) اس کے بعد غالباً اقبال کو سید سلیمان ندوی کی طرف سے دو خطوط ملے (کاش اس موضوع پر اقبال کے نام سید سلیمان ندوی مرحوم کے لکھے ہوئے خطوط دستیاب ہو سکتے) جن کے جواب میں اقبال نے ۲۳ اکتوبر اور ۳۰ اکتوبر کو دو خطو ط لکھے۔ اوران میں سلیمان ندوی صاحب کے ایک ایک اعتراض پر مفصل بحچ ک ہے اور اپنے دعوے کی دلیل میں فارسی اساتذہ کے اشعار پیش کیے مثلاً اس شعر پر: من ز جو باریک ترمی سازمش تابہ صحن گلشنت انداز مش پر مولینا کا اعتراض یہ تھا کہ لفظ باریک اس معنی میں صحیح نہیں ہے ۱؎ اقبال نے جواب میں صائب کے یہ دو شعر لکھے: نازک تر است از رگ جاں گفتگوئے من باریک شد محیط چو آمد بہ جوئے من از تواضع می تواں مغلوب کردن خصم را می شود باریک چوں سیلاب از پل بگزرد نعرہ زد شیرے از دامان دشت پر مولینا کا اعتراض یہ تھا کہ شیر کے لیے نعرے کا لفظ صحیح نہیں ہے۔ اقبال نے جواب میں لکھا کہ لفظ نعرہ حیوانات کی آواز کے لیے بھی آتا ہے۔ اس وقت نعرہ اسپ کی سند موجود ہے۔ اور مجھے یاد ہے کہ شیر کے لیے بھی مستعمل ہواہے۔ انشاء اللہ عرض کروں گا مگر میں نے اور وجوہ سے اس شعر میں ترمیم کر دی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ غریدن بہت بہتر ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اقبال ٹیک چند بہار کی ’’بہار عجم‘‘ میں سے گھوڑے کے تعلق سے مندرجہ ذیل مصرع پیش کرتے ہیں: بابر ماند چو پے بر نہاد و نعرہ کشاد اب اقبال کا وہ شعر دیکھیے جس پر مولینا نے اعتراض کیا تھا: نعرہ زد شیرے از دامان دشت دشت و دراز ہیبتش لرزندہ گشت اور اس شعر کی تبدیل شدہ صورت یہ ہے: ۱؎ شعر ما قبل یہ ہے : ز آسمان آبگوں یم می چکد بردل گرمم و مادم می چکد شیر ببر آمد پدید از طرف دشت از خروش او فلک لرزندہ گشت مولینا نے لفظ دشت پہ بھی یہ کہہ کر اعتراض کیاتھا کہ یہاں دشت کا لفظ مناسب نہیں ہے کیونکہ جہاں اورنگ زیب عالمگیر نماز پڑھ رہے تھے وہاں بقول اقبال ہر درخت پر طائر تسبیح خواں تھے گویا وہ جگہ اجاڑ بیاباں اور صحرا کی طرح نہیں تھی۔ اقبال نے یہ کہہ کر دشت اور بیشہ مرادف بھی آتے ہیں اور دشت کے لیے ضروری نہیں کہ بالکل خشک ہو یحیی شیرازی کا یہ شعر پیش کیا: مپرس از آب و رنگ کوہسارش ہزاراں دشت لالہ داغدارش اس کے بعد آپ لکھتے ہیں دشت در معنی آبادی ویرانہ آیا ہے اور معنی کلیت کے پید اکرتا ہے… رموز ہی میں اقبال کا ایک مصرع ہے: از گل غربت زماں گم کردہ مولینا نے اس کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’از گل‘‘ بمعنی بدولت اچھے معنوں میں آتا ہے۔ برے معنوں میںنہیں آتا۔ اقبال نے جواب میں لکھا کہ بہار عجم میںٹیک چند بہار نے زیر لفظ گل یہ محاورہ بھی دیا ہے اور اشعار بھی دیے ہیں مثلاً زیر دست چرخ بودن از گل بے فطرتی است مولنا نے محفلے رنگیں بہ یک ساغر کند پر اعتراض کیا کہ بیان تشنہ ہے اقبال نے سند میں ناصر علی کا یہ شعر پیش کر دیا۔ بہ ہفتا دود و ملت گردش چشم قومی سازد بہ یک پیمانہ رنگیں کردہ یک شہر محفل ہا اقبال کامصرع ہے: کور ذوقاں داستانہا ساختند کور ذوق کی نسبت مولینا کا ارشاد تھا کہ بے مزہ ترکیب ہے۔ اقبال نے ظہور ی اور ملا طغرا کے مندرجہ ذیل اشعار سند کے طور پر پیش کیے : چہ گم زیں عروس سخن رابتر کہ بر کور ذوقاں شود جلوہ گر (ظہوری) کور ذوقاں زفیض تربتیت چوں مسیحا مزاج دان سخن (ملا طغرا) اقبال نے دشت کی صفت بحر تلخ رو کہہ کے بیان کی: بود بحر تلخ رویک سادہ دشت مولینا نے غالباً اس پر بھی اعتراض کیا ہے۔ اقبال نے پھر بہار عجم کے حوالے سے لکھا ہے کہ تلخ رو بحر کی صفات میں آتاہے۔ ساز برق آہنگ اونتواختہ پر مولینا کا ارشاد تھا کہ ساز برق صحیح نہیں۔ اقبال نے جواب میں کہا کہ مصرع میں ساز کی صفت برق آہنگ ہے اورپھر بہار عجم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ زیر لفظ ساز برق آہنگ ساز کی صف میں آتی ہے۔ ایک بڑا اعتراض مولینا کا اقبال کے اس مصرعے پر تھا: باز بانت کلمہ توحید خواند جس میں اقبال نے لفظ کلمہ میں حرف دوم بہ سکون لام استعمال کیا تھا۔ اقبال نے جواب میں ٹیک چند بہار کی ابطال ضرورت کا حوالہ دیا اور لکھا کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس رسالے میں اس لفظ پر بحث ہے بہت سے الفاظ جن کو اساتذہ نے ببحریک اور بسکون دونوں طرح استعمال کیا ہے انہوںنے کمی کر دی مثلا رب ارنی‘ رمضان ‘ حرکت متوازی و قرآن وغیرہ اس کا بسکون استعمال ہونا یقینی ہے۔ اسناد انشاء اللہ عرض کروں گا۔ جواہر الترکیب میںچار دفعہ بسکون آیا ہے۔ اسی رموز ہی کی تمہید میں ایک شعر تھا: فرد و قوم آئینہ یک دیگر اند ہم خیال و ہم نشین و ہمراند مولینا نے ہم خیال کی صحت پر شبہ کا اظہار کیا ہے۔ اقبال نے فارسی کے ایک شاعر کا یہ شعر سند کے طور پر پیش کر تو دیا: یاد ایا مے کہ باہم آشنا بودیم ما ہم خیال و ہم صفیر و ہم نوا بودیم ما لیکن بعد میں اپنے شعر کے مصرع ثانی کو یوں تبدیل کر دیا: سلک و گوہر کہکشان و اختراند گویا مصرع کو تبدیل کرنے کا سبب ہم خیال کی صحت پر شبہے کی موجودگی نہیں تھی بلکہ تشریحی انداز کی جگہ تشبیہہ کا جادو جگا کر اقبال نے مصرعے کو کہیں سے کہیںپہنچا دیا۔ اب اس سلسلے میں اقبال کے ایک اور مکتوب کا متعلقہ حصہ دیکھیے۔ موضوع زیر بحث یہ ہے کہ اقبال نے بادہ نارسا کی ترکیب اور لفظ مینار استعمال کیا تھا مولینا نے ان پر اعتراض کیا ہو گا اقبال لکھتے ہیں: ’’میری خامیوں سے مجھے ضرور آگاہ کیا کیجیے آپ کو زحمت تو ہو گی لیکن مجھے فائدہ ہو گا‘‘ بادہ نارسا کے لیے مجھے کوئی سند یاد نہیں۔ بادہ فارس یا میوہ فارس (بمعنی خام) لکھتے ہیں لفظ مینار غلط ہے صحیح لفظ منار (بغیر ی کے) ہے ۔ یہ الفاظ اس زمانے کی نظموں میں واقع ہوئے ہیں جس زمانے میں میں یہ سمجھتا تھا کہ لٹریچر میں ہر طرح کی آزادی لے سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض نظموں میں میں نے اصول بحر کا بھی خیال نہیں کیا اور ارادۃً (۳ اپریل ۱۹۱۹ئ) اسی طرح کی بات ایک پہلے خط میں بھی اقبال مولینا کو لکھ چکے ہیں۔ یہ قوافی کے متعلق ہے او ر اس کا ذکر ۳ اکتوبر ۱۹۱۸ء کے خط میں اوپر آ چکا ہے۔ گویا شعر کے معاملے میں اقبال کی باریک بینی اور فن شعر کے مختلف پہلوئوں پر اقبال کی نظر نے اس شخص کے اعتراضات کو بھی آنکھیں بند کر کے قبول نہیںکیا جسے وہ استاذ الکل کہتے تھے۔ جتنا احترام اقبال کے دل میں سید سلیمان ندوی مرحوم کا تھا اس سے کہیں زیادہ احترام وہ اپنے استاد مولوی میر حس کا کرتے تھے۔ ایک بار انہوںنے سید محمد عبداللہ سے کہا کہ یورپ کا کوئی ایسا بڑا عالم یا فلسفی نہیںہے مستشرق یا مستغرب جس سے میں نہ ملا ہوں یا کسی نہ کسی موضوع پر بے جھجک بات نہ کی ہو لیکن نہ جانے کیا بات ہے کہ شاہ جی سے بات کرتے ہوئے میری قوت گویائی جواب دے جاتی ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے نقطہ نظر سے مجھے اختلاف ہوتا ہے لیکن دل کی با ت باآسانی زبان پر نہیں لا سکتا ۱؎‘‘۔ ۱؎ روزگار فقیر جلد اول نقش ثانی ۱۹۶۳ء صفحہ ۲۰۹ ایک بار انہی سید محمد عبداللہ کے اصرارپر اقبال نے اپنے چند اشعار انہیں سنائے آخری شعر تھا: طور موجے از غبار خانہ اش کعبہ را بیت الحرم کا شانہ اش فقیر سید وحید الدین اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے جب یہ شعر پڑھا تو سید محمد عبداللہ موجے از غبار کی ترکیب سے سوچ میں پڑ گئے آخر ہمت کر کے اس پر اعتراض جڑ ہی دیا۔ بولے ڈاکٹر صاحب موج باد اور موج آب تو سنا تھا لیکن موج غباریا موج خاک کی ترکیب پہلی بار سنی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا وہ سامنے شاہ جی کی لغت رکھی ہے اس میں ابھی دیکھ لیتے ہیں۔ چنانچہ لغت دیکھی گئی موج خاک یا موج غبار کی ترکیب ا س میں نہیں ملی۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے یہ کہتے ہوئے لغت بند کر دی کہ میں جس مفہوم کو بیان کرنا چاہتا ہوں اس کے لیے یہی الفاظ موزوں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں میرے مفہوم کی صحیح اور واقعی ترجمانی نہیں ہو سکتی۔ سید صاحب کا بیان ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی اس تاویل توجیہہ اور دلیل سے میں مطمئن نہیں ہوا اور ایک دن موقع پا کر سیالکوٹ میں مولوی میر حسن صاحب کے سامنے اس بحث کو چھیڑ دیا۔ اس لیے انہوںنے سید محمد عبداللہ شاہ صاحب کی طرف خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔ سید محمد عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ میں اس بحث کا لطف اٹھانا چاہتا تھا اس لیے پوری بات کہہ کر ہی دم لیا۔ مولوی صاحب نے یہ شعر سنا تو فرمایا کہ اسے یوں بھی کہا جا سکتا تھا: طور مشت از غبار خانہ اش ۱؎ ڈاکٹر صاحب اس پر فوراً بولے میرا مقصد یہاں Transparency گویا بلور کی مانند شفاف بیان کرنا ہے۔ حجم بتانا نہیں ہے۔ اس اصلاح کے بعد تو حجم متعین ہو جائے گا۔ اس کے بعد انہوںنے سیرت نبویؐ کا وہ واقعہ بیان کیا کہ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو زمین پر مٹی پر لیٹے ہوئے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی محبت کے ساتھ فرمایا: اٹھ ابوتراب پھر انہوںنے سید محمد عبداللہ شاہ سے بطرز استفہام پوچھا کہ کیا حضورؐ نے حضرت علیؓ سے اس طرح جو تخاطب فرمایا تھا وہ ازراہ مذاق و تفنن تھا؟ میرے بھائی ! اس خطاب میں اشارہ تھا علیؓ کے ایثار نفس فقر اور قوت ایمانی کی طرف جس نے انہیں اپنی خاک یعنی ذات اور جسم و جاں پر اور تمام دنیوی خواہشات پر حکمرانی بخش دی تھی۔ ۱؎ فقیر وحید الدین صاحب نے یہ مصرع اسی طرح لکھا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ان سے سہو ہوا ہے مولوی میر حسن صاحب نے یوں کہا ہو گا: طور مشتے از غبار خانہ اش ڈاکٹر صاحب نے کہا جس طرح ابوتراب کا مفہوم خاک کا باپ سمجھنا درست نہیں اسی طرح یہاں موج از غبار کو خاک کی لہر تصور کر لینا بھی درست نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ شعر طور موجے از غبار خانہ اش کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش آج بھی ان کے مجموعہ کلام اسرار خودی میںکسی تغیر و اصلاح کے بغیر موجود ہے۔ لیکن یہ انہی مولوی صاحب کی تربیت کا اثر تھا کہ شرو ع میں اقبال فن کی باریکی کے معاملے میں اپنے اکثر معترضین کے ساتھ بحث میں الجھ جایا کرتے تھے۔ بعد میں ایک مقام ایسا بھی آ گیا کہ اس قسم کی بحث مباحثے کو محض تضیع اوقات سمجھ کر وہ نظر انداز کر دیا کرتے تھے لیکن شروع میں یہ صورت نہیں تھی اور غالباً انہی مباحثوں کا ہی نتیجہ تھاکہ اقبال کے اندر خود انتقادی کی ایک ایسی ہی کیفیت پیدا ہو گئی تھی کہ وہ اپنے اشعار کو اکثر نقد و نظر کی کسوٹی پر رکھتے رہتے تھے۔ اور یہ عمل اتنی شدت اور اتنی مدت تک جاری رہا کہ آج اقبال کے قریب قریب سارے متروک کلام اور ترمیم یافتہ مصرعوں اور اشعار پر مشتمل چھوٹی بڑی کئی کتابیں معرض وجود میں آ چکی ہیں۔ لیکن اس ترمیم یافتہ کلام پر بحث کرنے سے قبل زمان اور شعر و ادب کے متعلق اقبال کی افتاد طبع کا قدرے اور مطالعہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس ضمن میں مولینا عبدالمجید سالک لکھتے ہیں ۱۹۰۳ء کا ذکر ہ یکسی صاحب نے کسی اخبار میں تنقید ہمدرد کے نام سے اقبال اور ناظر کے بعض اشعار پر زبان و فن کی بنا پرچند اعتراضات کیے۔ اس پر اقبال نے اردو زبان پنجاب میں کے عنوان سے ایک نہایت معقول اور دنداں شکن جوابی مضمون لکھا جو مخزن میں شائع ہوا۔ چند ابتدائی کلمات کے بعد اقبال نے ایک نہایت کام کی بات کہی جو ذیل میں درج کی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’ہمارے دوست تنقید ہمدرد میں اس بات پر مضر ہیں کہ پنجاب میںغلط اردو کے مروج ہونے سے یہی بہتر ہے کہ اس صوبے میں اس زبان کا رواج ہی نہ ہو لیکن نہیںبتاتے کہ غلط اور صحیح کی معیار کیا ہے۔ جو زبان بہم وجوہ کامل ہو اور ہر قسم کے ادا ئے مطلب پرقادر ہو اس کے محاورات و الفاظ کی نسبت تو اس قسم کی معیار خود قائم ہو جاتی ہے لیکن جو زبان ابھی زبان بن رہی ہو اور جس کے محاورات اور الفاظ جدید ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً اختراع کیے جا رہے ہوں اس کے محاورات وغیرہ کی صحت اورعدم صحت کی معیار قائم کرنا میری رائے کے محالات میں سے ہے۔ ابھی کل کی بات ہے اردو زبان جامع مسجد کی سیڑھیوں تک محدود تھی مگر چونکہ بعض خصوصیات کی وجہ سے ا س میں بڑھنے کا مادہ تھا اس واسطے اس بولی نے دیگر حصوں کو بھی تسخیر کرنا شروع کیا اور کیا تعجب ہے کہ کبھی تمام ہندوستان اس کے زیر نگیں ہو جائے ایسی صورت میںممکن نہیں کہ جہاں جہاں اس کا رواج ہو وہاں کے لوگوں کا طریق معاشرت کے تمدنی حالات اور ان کا طرز بیان اس پر اثر کیے بغیر رہے۔ علم السنہ کا یہ ایک مسلم اصول ہے کہ جس کی صداقت اور صحت تمام زبانوں کی تاریخ سے واضح ہو جاتی ہے۔ اور یہ بات کسی لکھنوی یا دہلوی کے امکان میں نہیں ہے کہ اس اصول کے عمل کو روک سکے تعجب ہے کہ میز کمرہ‘ کچہری‘ نیلام وغیرہ اور فارسی اور انگریزی کے محاورات کے لفظی ترجمے تو بلا تکلف استعمال کرو لیکن اگرکوئی شخص اپنی ارد و تحریر میں کسی پنجابی محاورے کا لفظی ترجمہ یا پر معنی پنجابی لفظ استعمال کرے تو اس کو کفر و شرک کا مرتکب سمجھو۔ اور باتوں میں اختلاف ہو تو ہو مگر یہ مذہب منصوص ہے کہ اردو کی چھوٹی بہن یعنی پنجابی میں کوئی لفظ اردو کا نہ گھسنے پائے۔ یہ قید ایک ایسی قدی ہے جو علم وزبان کے اصولوں کی صریح مخالف ہے اور جس کا قائم و محفوظ رکھنا کسی فرد بشر کے امکان میں نہیں ہے۔ اگر یہ کہو کہ پنجابی کوئی علمی زبان نہیں ہے کہ جس سے اردو الفاظ و محاورات اخذ کرے تو آپ کا عذر بے جا ہو گا۔ اردو ہی ابھی کہاں کی علمی زبان بن چکی ہے جس سے انگریزی نے کئی ایک الفاظ بدمعاش‘ بازار‘ لوٹ ‘ چالان وغیرہ لے لیے ہیں اور ابھی روز بروز لے رہی ہے‘‘۔ …آگے چل کر اقبال صرف ان اعتراضات کا جواب دیتے ہیں جو ان کے اشعار پر کیے گئے تھے مثلاً اقال کا ایک شعر تھا: آرزو یاس کو یہ کہتی ہے اک مٹے شہر کا نشاں ہوں میں تنقید ہمدرد نے لکھا تھا کہ آرزو یاس سے کہتی ہے ہونا چاہیے کو یہاں درست نہیں۔ اس پر اقبال لکھتے ہیں کہ: ’’اکابر شعرائے قدیم و حال کا کلام اس دعوے کا موید ہے کہ کہنا کا صلہ کو بھی آتا ہے اور سے بھی ۔ البتہ ایک باریک فرق ان کے استعمال میں ضرو ر ہے اور وہ یہ ے کہ جہاں کہنے کا مقولہ ایک کلمہ مفرد یا مرکب ناقص (ترکیب اضافی یا تو صیفی وغیرہ) ہو اور اور اس میں مفعول اول کی کوئی صفت پائی جائے تو ہمیشہ کو آئے گا مثلاً زید نے عمر کو جاہل کہا۔ یا جز جام جہاں بیں کے پیمانے کو کیا کہیے۔ مگر جہاں مقولہ مرکب ناقص یا کلمہ مفرد بھی ہو لیکن وہ مفعول اول کی صفتپہ دال نہ ہو اورنیز جمال مقولہ ایک جملہ یعنی مرکب تام ہو وہاں کہنا کا صلہ کو اور سے دونوں کی طرح آتا ہے۔ مندرجہ بالا شعر میں کہنا کا مقولہ مرکب مام یعنی اک مٹے شہر کا نشقاں ہو ں میں ہے آ پ کا ادعا یہ ہے کہ یہاں کو کی جگہ سے ہونا چاہے۔ میں کہتا ہوں کہ سے اور کو دونوں ہو سکتے ہیں اور اساتذہ کا کلام میرا موید ہے۔ فخر المتقدمین و المتاخرین حضرت امیر علیہ الغفران ایک مشہور غزل میں فرماتے ہیں: مر کے راحت تو ملی پر ہے یہ کھٹکا باقی آگے عیسیٰؑ سر بالیں نہ کہیںقم مجھ کو اس شعر میں کہنا کا مقولہ ایک مرکب تام یعنی قم ہے۔ اور حضرت مرحوم اس کا صلہ کو استعمال کرتے ہیں ۔ مومن فرماتے ہیں: دیا اس بدگماں کو طعنہ غیر غضب ہے کیا کہوں اپنی زباں کو شیخ غلام ہمدانی مصحفی جن کے انداز کے جناب حسرت وارفتہ ہیں فرماتے ہیں: کہیو اے باد صبا بچھڑے ہوئے یاروں کو راہ ملتی ہی نہیں دشت میں آواروں کو اور لیجیے مرزا رفیع سودا دولتمند بخیل کی ہجو میں فرماتے ہیں: غرض اٹھ کر چلا وہ جب واں سے کہہ گیا کان میں یہ مہماں سے چاہو جو کچھ کہ اب تناول کو کہہ دو بلوا کے تم بکاول کو مرزا نے پہلے شعرمیں کہنا کا صلہ سے استعمال کیا ہے اور دوسرے میں ’’کو‘‘ اب فرمائیے آپ کے دلیرانہ دعوے کی تردید ہوئی یا نہیں؟ اقبال کا ایک اور شعر تھا: حال اپنا اگر تجھے نہ کہیں اور رکھیں اسے کہاں کے لیے اس پر بھی معترض نے وہی اعتراض کیاکہ تجھے کی جگہ’’تجھ سے‘‘‘ ہونا چاہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے اقال نے میرتقی میر ‘ مرزا سودا‘مومن‘ ظفر‘ داغ‘ اور امیر کے اشعار پیش کیے ہیں جن میں ایسے موقع پر مجھے تمہیں تجھے بے تکلف استعمال ہوتے ہیں اقبال کا ایک مصرع تھا: جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں معترض نے لکھا ہے کہ اس موقع پر ’’ہوا آنا‘‘ صحیح نہیں۔ اقبال نے جوا ب دیا کہ ’’ہوا آنا‘‘ اردو محاورہ نہ ہو گا۔ میرا مقصود بھی تو محاورہ نہیں ہے۔ خان آرزو مرحوم نے بھی اسی قسم کا ایک اعتراض شیخ علی حزیں علیہ الرحمتہ کے ایک شعر پر کیا تھا مگر مولینا صہبائی مرحوم اس اعتراض کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ایراد الفاظ گاہے بطریق محاورہ و روز مرہ بود کہ مردم را باہم درادعائے مدعا بے تکلف اتفاق افتدوگاہے برائے متناسب ورعایت محسناب بدیہی الخ۔ میرے شعر میں پھولوں کو جو تعلق ہوا ہے اور باغ سے ہے وہ ظاہر ہے اور اسی مناسبت کی وجہ سے یہ لفظ استعمال کیے گئے ہیں ہاں اگر آپ کے اعتراض کا مفہوم یہ ہو کہ آنا ہوا کے ساتھ اردو میں مسموع نہیں ہے تو ظفر دہلوی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے: خدا جانے سحر کس کی گلی سے یہ ہوا آئی حباب آسا جو میرا ہو گای ہے پیرہن ٹھنڈا اقبال کا ایک شعر تھا: آشیاں ایسے گلستاں میں بنائوں کس طرح اپنے ہم جنسوں کی بربادی کو دیکھوں کس طرح تنقید ہمدرد نے اعتراض کیا کہ بتائوں اور دیکھوں کا قافیہ غلط ہے۔ اس پر اقبال نے لکھا ہے کہ بلاشبہ اس شعر میں ایطائے خفی ہے جس کو شاریگاں کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔ میںتسلیم کرتاہوں کہ قواعد قافیہ کی رو سے یہ قافیہ غلط ہے مگر اساتذہ نے اکثر فن قافی کے اصولوں کی پابندی نہیں کی۔ اس کے بعد اقبال نے یہ اشعار بطور سند پیش کیے ہیں: پھر دل میں مرے لگی ہے آتش نالے سے برس رہی ہے آتش (مومن) جب وادی وحشت میں گزر میرا ہوا ہے ہر ایک بگولا پئے تعظیم اٹھا ہے (ناسخ) سنگ دل تجھ کو مرے ساتھ یہ کاوش کب تک مری سوزش کے لیے غیر سے سازش کب تک (امیر) اس کے بعد اقبال نے شعرائے فارسی کے کلام سے بے شمار مثالیں پیش کر کے یہ بتایا ہے کہ قواعد قافیہ کی خلاف ورزی عام ہے مثلاً چہ گفت آں خداوند تنزیل وحی خداوند امرو خداوند نہی (فردوسی) چناں نادر افتاد در روضہ کہ در لاجوردی طبق بیضہ (سعدی) اسی طرح اردو اور فارسی کے بے شمار اشعار نقل کر کے اصول قافیہ پر بحث کی ہے اور نتیجہ نکالا ہے کہ اس قسم کی خفیفسی خلاف ورزیاں قابل اعتراض نہیں ہیں کیونکہ اکثر شعراء کے کلام میں پائی جاتی ہیں۔ اقبال نے مفلسی کے عنوان سے دو چار اشعار ’’مخزن‘‘ میں لکھے تھے ان میں سے دو یہ ہیں: ہاتھ اسے مفلسی صفا ہے ترا ہائے کیا تیر بے خطا ہے ترا شور آواز چاک پیراہن لب اظہار مدعا ہے ترا معترض نے اعتراض کیا کہ صفا بمعنی صاف لکھنا صحیح نہیں ہے۔ اس پر اقبال لکھتے ہیں: اہل زبان کے تصرفات سے ایک یہ بھی ہے کہ بسا اوقات مصدر کو بمعنی اسم فاعل استعمال کرتے ہیں جس طرح اردو والوں نے صفا مصد ر کو صاف کے معنوں میں استعمال کیا ہے حکیم افضل الدین خاقانی خلیفہ بغداد کی تعریف میں فرماتے ہیں۔ ابر انفاسش زواں قحط قحطاں آمدہ علی ہذا اکبھی حال کو اسم فاعل کے معنوں میںبولتے ہیں۔ کلام ہو تو حضرت داغ دام فیضہ کایہ مطلع ملاحظہ فرمائیے: آئینہ منہ پر بھلا اور براکہتا ہے سچ ہے یہ صاف جو ہوتا ہے صفا کہتا ہے دہلی مرحوم کی زبان پر اعتبار نہ کرو تو میر انیس علیہ الرحمتہ کا یہ مصرع حاضر ہے: بت توڑ کے کعبے کو صفا کر دیا کس نے البتہ ظفر کا یہ شعر قابل اعتبار نہیں کیونکہ یہاں صفا بہ معنی صاف بہ ترکیب فارسی بندھا ہے اور فارسی میں صفا بہ معنی صاف مستعمل نہیں ہے: وہ آئینہ ہے نہ جس کو ہو حاجت سیماب ایک اضطراب ہے کافی دل صفا کے لیے دوسرے شعر پر تنقید ہمدرد نے یہ اعتراض جڑ دیا ہے کہ شعر لب کیونکر بن گیا اس پر اقبال نیے جو بحث کی ہے وہ قابل ملاحظہ ہے: ’’اس شعر میں ایک نازک بات تھی مگر افسوس کہ آ پ نے تدبر نہ کیا اور یہ اعتراض کر دیا۔ کہ شور لب کیونکر بن گیا مینا خانہ خیال کے تماشائی ہو کر ایسی جنبش مژگاں سے رنگ تماشا کو ’’توڑنا ۱؎‘‘ مناسب نہ تھا۔ اقبال ہیچ مداان عرض کرتاہے کہ لب اظہار میں اضافت بیانی ہے۔ آپ کا اعتراض صحیح ہوتا تو اگ لب اظہار سے حقیقی لب مراد لی جاتی۔ ہاں اضافت بیانی کی سند چاہو تو حاضر ہے: صف مژگان تو گر عکس بدریا فگند خار قلاب بود در بدن ماہی ما (شیخ علی حزیں) کمال گرمی سعی تلاش دید نہ پوچھ بسان خار مرے آئینے سے جوہر کھینچ (مرز ا غالب) بس جب ماہی ما اورمیرے آئینے سے میں مراد ہو سکتی ہے تو لب اظہار سے لب مراد کیوں نہ ہو؟ اور اظہار اور شور میں جومناسبت ہے وہ ظاہر ہے لیکن مجھے امید نہیں کہ آپ اس توضیح کو قبول کریں ایک اور تشریح پیش کرتا ہوں۔ شاید طبع قبول سے شرف اندوزہو۔ شور کولب کے ساتھ اظہار میں مشارکت ہے۔ پس یہ استعارہ بے تکلف ہے اور استعارہ بے تکلف تمام فصحا کے نزدیک جائز ہے۔ علم معانی کا کوئی چھوٹا سا رسالہ لے کر پڑھیے اس میں بھی اسی قسم کے استعارے کو جائز لکھا دیکھیے گا۔ قطع نظر اس بات کے کہ آپ خوب جانتے ہیں کہ استعارے کا میدان وسیع ہے شاعر اہل زبان کے محاورات کا پابند ہوتا ہے۔ اور یہ پابندی ضروری ہے لکن اہل زبان کے تخیلات کی پابندی ضروری نہیں۔ یہ ضروری نہیںکہ اگر معتقدین نے ’’گلشن طور‘‘ لکھا ہے تو ہم ہمیشہ ’’گلشن طور‘‘ ہی لکھا کریں۔ جس شخص نے ملا ظہور پر یہ اعتراض کر دیا تھا کہ آتش بیگانہ مسموع نہیں ہے میری رائے میں وہ غلطی پر تھا کیونکہ ظہوری کا تخیل ایرانیوں کے تخیل کا مقلد نہیں ہو سکتا۔ اسی خیال سے بیدل علیہ الرحمتہ نے فارسیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے خرام کاشتن (ہر گہ دو قدم خرام می کاشت) لکھ دیا ار نافہموں نے اسکی آزادی تخیل کو سہام اعتراض کا نشانہ بنایا۔ متقدمین میں سے ناصر علی سرہندی اور مرزا جلال اسیر بھی ان قیود سے آزاد ہیں۔ خواجہ آتش گرگ بغل میں تحریر فرماتے ہیں اور حضرت امیر کے اشعار سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے: ہم بار خاطر قفس و آشیاں نہیں غالباً ’’گرگ بغل‘‘ اور ’’خاطر قفس‘‘ کا استعارہ آپ کسی ایرانی یا اردو شاعر کے کلام میں نہ پائیں گے۔ پس میرے رائے میں استعارے پر اعتراض کرنے کا حق کسی محقق کو حاصل نہیں اور اس صورت میں جب کہ استعارہ اصلیت سے معرا ہو… اپنے استعارے کی تائید میں شیخ علی حزیں علیہ الرحمتہ کا ایک شعر پیش کرتا ہوں۔ جب طرح میں نے لب سے مراد آواز لب یا گفتار لی ہے اسی طرح شیخ الرحمتہ اپنے شعر میں ناقوس سے مراد آواز ناقوس لیتے ہیں: سر کافر فرشدن داریم کو بت خانہ عشقے کہ ناقوسش بجائے نغمہ یا می شود مارا ۱؎ مردم برہم مزن تا نشکنی رنگ تماشا را کی طرف اشارہ ہے یعنی اگر ’’رنگ کو توڑنا‘‘ جائز ہے تو شور کا لب بن جانا کیوں باعث تعجب ہو۔ اقبال کا ایک مصرع تھا اس جہاں میں اک مشیت اور سو افتاد ہے۔ معترض نے لکھا ہے کہ سو افتاد کی جگہ ’’سو افتادیں‘‘ لکھنا چاہیے تھا۔ اس کے جوا ب میں بھی اقبال نے خواجہ آتش تسلیم جلال کے اشعار نقل کر کے متعرض کو خاموش کر دیا۔ اس کے بعد اقبال کے اس مشہور مصرعے پر مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی اعتراض کیا گیا۔ اقبال نے لکھا کہ ’’معلوم نہیں آپ کا اعتراض اسی مصرعے کی زبان پر ہے یا مفہوم پر سیدھا کرنا یہاں انہی معنوںمیں لکھا گیا ہے جن معنوں میں یہ معنون دہلوی نے لکھا تھا: تیرے قامت نے کیا خوب ہی سیدھا اس کو سرد گلشن کو بہت دعوی رعنائی تھا اگر آپ کہیں کہ محاورے کا اطلاق اپنی ذات پر نہیں ہو سکتا تو صحیح نہیں ظفر مرحو م کا مطلع ہے: عشق میں کیا ہم ہی اے تقدیر سیدھے ہو گئے کتنے اس قالب میں ٹیڑھے تیر سیدھے ہو گئے اصل میں سیدھا کرنا فارسی محاورہ ’’راست کردن‘‘ کا ترجمہ ہے اور یہ محاورہ صوفیہ کرام کے اشعار میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ یہی وہ راستی ہے جوعشق کی ضرورت سے پیدا ہوتی ہے ۔ اور جس کا اثر سکندر کے آئینے کا جام جہاں نما بنا سکتا ہے۔ حرماں نصیب اقبال کو اسی راستی کی آرزو ہے۔ عبدالمجید سالک اس بحث میں الفاظ و محاورات کے صحیح استعمال سے متعلق اقبال کے ذوق تجسس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں اقبال کی منصف مزاجی اور طالب علمانہ ذہنیت کا ایک روشن ثبوت یہ ہے کہ جب تنقید ہمدرد نے میں نے کہنا ہے پر اعتراض کیا یہ غلط اور خلاف محاورہ ہے تو اقبال نے اپنے جواب میں اس غلطی کو تسلیم کر لیا اور لکھا کہ پنجاب میں چونکہ ’’نے‘‘ کا یہ استعمال عام ہے اس لیے بعض اوقات بے خیالی کے عالم میں ہم لوگ اسے شعر میں باندھ دیتے ہیں لیکن اس کے خلاف محاورہ ہونے میں کوئی کلام نہیں‘‘۔ انہی خیالات کا نچوڑ بیس برس بعد ۱۹ اگست ۱۹۲۳ء کو اقبال نے سردار عبدالرب نشتر کے نام ایک خط میں پیش کیا جس میں انہوں نے زبان کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا آپ کا جواب درست ہے کہ میں اس میں کوئی اضافہ نہیں کرنا چاہتا سوائے اس کے کہ زبان کو میں ایک بت تصور نہیں کرتا جس کی پرستش کی جائے بلکہ اظہار مطالب کا ایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اورجب اس میں انقلابات کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کو وضع کرنے میں مذاق سلیم کو ہاتھ میں نہ دینا چاہیے۔ تو گویا اقبال نے جب اپنے کلام میں وقتاً فوقتاً ترمیم کی تو یہی معیار ان کے سامنے رہا لیکن تبدیلی آخر تبدیلی ہے۔ بعض دفعہ اس کی بدولت مصرع پہلے سے بہتر ہو جاتاہے۔ اور بعض دفعہ اس کے برعکس بھی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ الہام لفٖظی کے بارے میں پرنسپل لوکس سے جب اقبال مصرعے میں ترمیم و تبدیلی کی بات کر رہے تھے تو انہوںنے خود یہ کہا تھا کہ بارہا ایسا ہوا ہے کہ میں نے ان اشعار میں کوئی ترمیم کرنی چاہی لیکن میری ترمیم اصل اور ابتدائی نال شدہ شعر کے مقابلے میں بالکل ہیچ نظر آئی۔ اور میں نے شعر کو جوں کا توں رکھا‘‘۔ لیکن اس کے باوجود اقبال نے اپنے اشعار میں ترمیمیں کی ہیں جن میں سے چند ایک کا سطور ذیل میں جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اقبال کا پہلا اردو مجموعہ کلام بانگ درا ہے اور اس کی پہلی نظم کا عنوان ہے ہمالہ یہ نظم ’’مخزن‘‘ کے اولیں شمارے میں (اپریل ۱۹۰۱ئ) میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں بارہ بند تھے نظر ثانی کرتے وقت اقبال نے اس میں سے بعض بند حذف کر دیے ۔ بعض میں تھوڑی سی ترمیم کر دی اور بعض مصرعوں کی ترتیب بدل دی۔ آج اسی نظم کا پہلا بند ا س صورت میں ہمارے سامنے ہے: اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستان چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے اس بند کا دوسرا شعر پہلے یوں تھا: تجھ پہ کچھ ظاہر نہین دیرینہ روزی کے نشاں تو جواں ہے دورہ شام و سحر کے درمیاں ترمیم نے جو حسن پیدا کر دیا ہے وہ ظاہر ہے اور کسی بحث کا محتاج اس لیے نہیں ہے کہ دورہ شام و سحر کی ترکیب کے مقابلے میں گردش شام و سحر زیادہ مانوس اور زیادہ دلکش ترکیب ہے۔ اسی بند کی ٹیپ کا شعر یہ تھا: تیری ہستی پر نہیں باد تغیر کا اثر خندہ زن ہے تیری شرکت گردش ایام پر اس شعر کی جگہ یہ شعر لانا: ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے اقبا ل کی جودت طبع کی دلیل ہے جہاں تک اصل شعر: تیری ہستی پر نہیںباد تغیر کا اثر خندہ زن ہے تیری شوکت گردش ایام پر کا تعلق ہے اس سے پہلے دونوں اشعار کے ساتھ ربط معنوی کے علاوہ ایک ربط لفظی بھی موجود ہے لیکن اس کی جگہ نئے شعر : ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے کا پہلے کے دونوں اشعار کے ساتھ ربط لفظی باقی نہیں رہا۔ اب صرف ایک ربط معنوی ہے لیکن یہ ربط معنوی اتنا شدید اور حسین ہے اور اتنے تہہ در تہ پہلوئوں کا حامل ہے کہ عدم ربط لفظی کی کمی محسوس ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ احسا س ہوتا ہے کہ ایک رسمی قسم کے ربط لفظی کو کھو کر ہم نے معنی اور مضمون آفرینی کی ایک کائنات پا لی ہے۔ لفظ کو معنی پر اس طرح سے قربان کرنا اور وہ بھی اآج سے ستتر اٹھتر برس قبل اردو شاعری کے لیے ہر اعتبار سے ایک فال نیک تھی۔ گویا اس وقت اردو شاری پر جامی کایہ مصرع اپنا پرتو ڈال رہا تھا۔ ورائے شاعری چیزے دگر ہست۔ اس کھٹکے کو انگریزی میں شاعری کا براہ راست اثر بھی کہا جا سکتا ہے بقول فراق رکاوٹ سے روانی پیداکرنا انگریزی شاعری کا طرہ امتیاز رہا ہے اور اقبا ل کے یہاں یہ فن اس کی اردو اور فارسی شاعری دونوں میں نظر آتا ہے۔ اس طرح کی مثالیں ’’ہمالہ‘‘ سے پہلے کی نظموں میں بھی موجود ہیں لیکن ان کا ذکر یہاں اس لیے مناب معلوم نہیں ہوتا کہ ان نظموں کو اقبال اپنے متروک کلام کا حصہ بنا چکے ہیں۔ ویسے یہ شعر: ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے توتجلی ہے سراپا چشم بینان کے لیے اس نظم میں پہلے بھی موجود تھا لیکن دوسرے بند کی ٹیپ کا شعر تھا اور وہ یہ تھا: تو توہے مدت سے اپنی سرزمیں کا آشنا کچھ بتا ان رازداران حقیقت کا پتا تیری خاموشی میں ہے عہد سلف کا ماجرا تیرے ہر ذرے میں ہے کوہ المپس کی فضا ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے گویا جہاں تک ربط لفظی کا تعلق ہے۔ اس بند کے چار مصرعوں کے ساتھ یہ شعر پوری طرح مربوط تھا لیکن اقبال نے غالباً اس متروک بند کے پہلے اور تیسرے مصرعے میں پہلے بند یک مضمون کا اعادہ پسندنہ کیا اور اس طرح سے پورے چھ مصرعے قلمزد کر کے وہ مذکورہ شعر کو پہلے بند کی ٹیپ کے طور پر لے آئے جہاں وہ کوہ طور کی طرح چمک رہا ہے: اب اس نظم کا پانچواں بند دیکھیے: جنبش موج نسیم صبح گہوارہ بنی جھومتی ہے نشہ ہستی میں ہر گل کی کلی یوں زبان برگ سے گویا ہے اس کی خامشی دست گلچیں کی جھٹک میں نے نہیں دیکھی کبھی کہہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ مرا کنج خلوت خانہ قدرت ہے کاشانہ مرا اس بند کے دوسرے مصرعے کی ابتدائی صورت یہ تھی۔ جھومتی ہے کیا مزے لے لے کے ہر گل کلی ظاہر ہے کہ مزے لے لے کے ایک عامیانہ اور سامنے کا انداز بیان تھا۔ اس کی جگہ اقبال نے نشہ ہستی کی ترکیب لا کے اسے صر ف معنوی اعتبار سے ہی مصرع اول کے ساتھ مربوط نہیںکیا بلہ جنبش موج نسیم صبح کی رعایت سے نشہ ہستی کی ترکیب لا کر سارے شعر میں سرشاری کی ایک کیفیت پیدا کر دی ہے۔ یہ مصرع: یوں زبان برگ سے گویا ہے اس کی خامشی پہلے یوں تھا: یوں زبان برگ سے کہتی ہے اس کی خامشی ترمیم کی وجہ ظاہر ہے ۔ جنبش موج نسیم صبح ‘ گہوارہ‘ نشہ ہستی‘ زبان برگ‘ دست گلچیں‘ افسانہ‘ کنج خلوت خانہ قدرت کاشانہ ایسے الفاظ کے ساتھ اسی آہنگ اور کیفیت کا لفظ ہی زیب دے سکتا تھا۔ اس لیے اقبال نے غالباً کہتی ہے کی جگہ ’’گویا ہے‘‘ کو ترجیح دی۔ اب چھٹا بند ملاحظہ فرمائیے: آج یہ بند اس طرح سے ’’بانگ درا‘‘ میںشامل ہے: آتی ہے ندی فراز کوہ سے گاتی ہوئی کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی آئنہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی سنگ رہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی ہوئی چھیڑتی جا اس عراق دلنشیں کے ساز کو اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو اور اس کی ابتدائی صورت یہ تھی: نہر چلتی ہے سرود خامشی گاتی ہوئی آئنہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی کوثرو تسنیم کی لہروں کو شرماتی ہوئی ناز کرتی ہے فراز راہ سے جاتی ہوئی اس ترمیم کو دیکھ کر مجھے آتش کا ایک شعر یاد آ رہا ہے: بندش الفاظ جڑنے سے نگوں سے کم نہیں شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا اور اقبال اپنے فن کی تشکی میں اس مرصع سازی سے قبل کبھی غافل نہیں رہے: گل رنگیں کا پہلا بند ہے: تو شناسائے خراش عقدہ مشکل نہیں اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں یب محفل ہے شریک شورش محفل نہیں یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں اس چمن میں میں سراپا سوز و ساز آرزو اور تیری زندگانی بے گداز آرزو اس کا دوسرامصرع پہلے یوں تھا: واقف افسردگی ہائے طپید دل نہیں اور چوتھا مصرع یوں: کیوں یہ تسکین خموشی زا مجھے حاصل نہیں اس ترمیم کے بارے میں غلام رسول مہر لکھتے ہیں: ’’بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مصرعوں کی بندشیں پسند نہ تھیں اس لیے انہیں بدل دیا‘‘لیکن مہر صاحب نے اس امر پر بحث نہیں کی کہ یہ بندشیں کیوں پسند نہیں تھیں۔ مہر صاحب کے اس نظریے سے اختلاف کی گنجائش نہیں کہ اب بند اسلوب بیان کے اعتبار سے بدرجہا بہتر ہو گیا ۔ لیکن مذکورہ مصرعوں کی تبدیلی کے محرکات کیا رہے ہوں گے اس سوال کو مہر صاحب نے نہیں چھیڑا۔ جب میں سکول میں پڑھتا تھا تو ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ شعر کاقریب النثر ہونا مصائب شعری میں شامل ہے اور اس ضمن میں اسکول کے استاذہ اکثر یہ شعر ہمیں سنایا کرتے تھے: دندان تو جملہ درد ہانند چشمان تو زیر ابر انند لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شعر کے قریب النثر ہونے کو مصائب شعری میں شامل کرنا صحیح نہیں۔ شاعری کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ایک شعر قریب النثر نہ ہو کر بھی معمولی شعر ہو سکتا ہے اور قریب النثر ہو کر بھی اچھا شعر ہو سکتا ہے۔ اقبال کے اکثر و بیشتر اشعار اسلوب بیان کے اعتبار سے قریب النثر شاعری کی ذیل میں آتے ہیں اورہو صرف بہت اچھے اشعار ہی نہیں بلکہ عظیم شاعری کے نمونے ہیں مثلاً: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے یا میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بتکدہ صفات میں دراصل فارسی ترکیبوں اور بندشوں کی فراوانی کے باوجود اقبال کے کلام کا رجحان براہ راست انداز بیان کی طرف رہا ہے۔ اقبال کا یہ اسلوب اقبال کے ساتھ شروع ہو کے اقبا ل کے ساتھ ختم ہو گیا۔ اسی رجحا ن اور افتاد طبع کے تحت اقبا ل نے واقف افسردگی ہائے طپید دل نہیں پر اے گل رنگین ترے پہلو میں شاید دل نہیں کو اور کیوں یہ تسکین خموشی زا مجھے حاصل نہیں پر یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں کو ترجیح دی ہو گی۔ اس نظم کے دوسرے بند کی ترمیم دیکھیے: توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں یہ نظر غیرانہ نگاہ چشم صورت میں نہیں آہ یہ دست جفا جوائے گل رنگیں نہیں کس طرح تجھ کو یہ سمجھائوں کہ میں گلچیں نہیں کام مجھ کو دیدہ حکمت کے الجھیڑوں سے کیا دیدہ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ ترا اس کی جدید صورت میں اقبا ل نے پہلے چا رمصرعوں کو تو جوں کا توں رہنے دیا ہے لیکن ٹیپ کے شعر کو انہوں نے یوں تبدیل کر دیا ہے: آشنائے سوز فریاد دل مہجور ہوں پھول ہو میں بھی مگر اپنے چمن سے دور ہوں میری ناقص رائے میںپہلا شعر جسے اقبال نے رد کیا اس شعر سے بہتر ہے جو اقبا ل نے بعد میں شامل کیا: آشنائے سوز فریاد دل مہجور ہوں پھول ہوں میں بھی مگر اپنے چمن سے دور ہوں لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے چاروں مصرع ہائے ما قبل کے ساتھ ہم آہنگ ہے نیا شعر: کام مجھ کو دیدہ حکمت کے الجھیڑوں سے کیا دیدہ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ ترا لفظی اعتبار سے اوپر کے مصرعوں کے ساتھ ہم آہنگ سہی معنوی اعتبار سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اور پھر الجھیڑوں کے لفظ کا صوتی آہنگ ان مصرعوں میں جن کا تانا بانا اقبال نے نگاہ چشم صرتمیں دست جفا جو اور گل رنگینی ایسی ترکیبوں سے بنا ہے کسی طرح قابل قبول نہیں۔ گل رنگیں کے بعد بانگ درا میں نظموں کی ترتیب یہ ہے۔ عہد طفلی‘ مرزا غالب‘ ابر کوہسار‘ ایک مکڑا اور مکھی ‘ ایک پہاڑ اور گلہری‘ ایک گائے اور بکری‘ بچے کی دعا‘ ہمدردی‘ ماںکا خوا‘ پرندے کی فریاد‘ خفتگاں خاک سے استفسار‘ شمع اور پروانہ ‘ عقل و دل‘ صدائے درد‘ آفتاب (ترجمہ گائتری) شمع‘ ایک آرزو‘ آفتاب صبح‘ درد عشق‘ گل پژمردہ‘ سید کی لوح تربت‘ ماہ نو‘ انسان اور بزم قدرت‘ پیام صبح ‘ عشق اور موت‘ زہد اور رندی شاعر‘ دل‘ موج دریا‘رخصت اے بزم جہاں] طفل شیر خوار‘ تصویر درد‘ نالہ فراق‘ چاند‘ بلال‘ سرگزشت آدم ترانہ ہندی‘ جگنو‘ صبح کا ستارہ‘ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘ نیا شوالہ‘ داغ ‘ ابر‘ ایک پرندہ اور جگنو‘ بچہ اور شمع‘ کنار راوی‘ التجائے مسافر اور غزلیات اور اس طرح سے بانگ درا کا حصہ اول یعنی ۱۹۰۵ ء تک کی اردو نظموں سے صرف سات نظمیں آفتاب‘ ماہ نو انسان اور بزم قدرت پیام صبح ‘ابر‘ ایک پرندہ اور جگنو‘ اور بچہ اور شمع ایسی ہیں جن میںاقبال نے کوئی ترمیم نہیںکی باقی چالیس نظموں میںترمیمیں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔ میں یہاں صرف ان چار نظموں مرزا غالب‘ خفتہ گان خاک سے استفسار تصویر درد اور التجائے مسافر کا ذکر کروں گا۔ مرزا غالب کا معاملہ خاصا دلچسپ ہے دوسرا بند جو ابتدائی صورت میں یوں تھا: معجز کلک تصور ہے ویا دیواں ہے یہ یا کوئی تفسیر رمز فطرت انساں ہے یہ نازش موسیٰ کلامی ہائے ہندوستاں ہے یہ نور معنی سے دل افروز سخند اناں ہے یہ نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا یہ بند معجز کلک تصور اور تفسیر رمز فطرت انساں ایسی جدید تراکیب کے باوجود بلند پایہ بیان کا حامل نہ ہو سکا۔ اورپھر نازش موسیٰ کلامی ہائے ہندوستان کی ترکیب اور ترکیب اپنی ندرت کے باوجود نامانوس غرابت کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ غالب کے شعر کی تضمین کرتے وقت اس خصوصیت کی حامل نہیںہو سکتی جو اقبال کے اس فن کا طرہ امتیاز ہے اقبال کے فن تضمین کا کمال یہ ہے کہ وہ تضمین کرتے وقت شاعر کے منہ سے مصرع چھین لیتا ہے۔ خواہ وہ نظیری ہو خواہ مصائب خواہ بیدل ہو خواہ غالب لیکن مذکورہ تضمین خاصی کمزور رہی ہے۔ اس لیے اس بندگی کی جگہ اقبال نے جو نیابند شامل کیا ہے اس سے اقبال صرف ایک بڑے شاعر کے طور پر ہی نہیں بلکہ ایک بڑے نقاد کے طور پر بھی ہمارے سامنے آتے ہیں اور وہ بند یوں ہے: محفل ہستی تیری بربط سے ہے سرمایہ دار جس طرح ندی کے نغموں سے سکوت کوہسار تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار تیری کشت فکرسے اگتے ہیں عالم سبزہ وار زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں اس نظم کے پہلے بند کی ترمیم بھی اقبال کے گہرے نقد و نظر کی حامل ہے جس میں انہوںنے فکر انساں کو تری ہستی پہ یہ روشن ہوا فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا کو سے تبدیل کیا اور روح تھا تو اور تھی بزم سخن پیکر ترا کو تھا سراپا روح تو بزم سخن پیکر ترا اور دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے صورت روح و رواں ہر شے میں جو مستور ہے کو یوں بنایا دیدی تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستورہے ’’خفتگان خاک سے استفسار‘‘ اپنی اولین صورت میں جب فروری ۱۹۰۲ء کے مخزن میں شائع ہوئی تو فنی اعتبار سے اس کا رنگ روپ ہی کچھ اور تھا۔ اقبال نے بعد میں اس کے تین بندوں میں سے خاصے شعر حذف کر دیے۔ بعض شعر نئے کہے۔ بعض میں ضروری ترمیم کی تب کہیں جا کے وہ اپنی اس کاوش سے مطمئن ہوئے ہیں۔ میں یہاںاس نظر کے ہر شعر پر بحث نہیںکروں گا بلکہ صرف مثال کے طور پر دو ایک نمونے پیش کروں گا مثلاً اپنی اولین صورت میں اس نظم کے پہلے بند میںیہ اشعار بھی تھے: کھیت سے آتا ہے دہقاں منہ میں کچھ گاتا ہا پائے گرد آلود دیتے ہیں مسافت کا پتا کام دھندا ہو چکا اب نیند ہے آرام ہے ہائے وہ آغاز محنت جا کا یہ انجام ہے دوسرے بند میںاس قسم کے اشعار تھے: اے عدم کے رہنے والو ! رم جو یوں خاموش ہو مے وہ کیسی ہے نشے میںجس کے تم مدہوش ہو وہ ولایت بھی ہمارے دیس کی صورت ہے کیا شب وہاں کی کیا ہے صبح و شام کی رنگت ہے کیا اورتیسرے بند میں یہ شعر تھے: اس جدائی میں نہفتہ وصل کا ساماں ہے کیا چشم سربستہ سرمہ گوہر پے انساں ہے کیا اس نگر کی طرح کیا واں بھی ہے رونا موت کا کیا وہاں کی زندگی کو بھی ہے کھٹکا موت کا ترمیم شدہ نظم میں اس طرح کے متعدد اشعار خارج کر دیے گئے ہیں اور نظم میں اب ایک فنی شہ پارے کے طور پر ہمارے سامنے ہے لیکن صرف یہ کہہ دینا کہ نظم کی قطعی صورت اس کی پلی صورت سے بہتر ہے کافی نہیںہے بالخصوص جبکہ نظم کے مرکزی خیال میں اقبال نے کوئی تبدیی نہیں کی۔ مرکزی خیال اس نظم کا پہلے بھی یہی تھا اور اب بھی یہی ہے کہ: تم بتا دو جو اس گنبد گرداں میں ہے موت اک چبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے لیکن وہ کیا طلسم ہے کیا معجزہ ہے جس نے اس نظم کو پہلے سے کہیں زیادہ معیاری اور زیادہ اثر انگیز بنا دیا ہے کہنے کو تو اقبال نے کئی موقعوں پر کہا ہے کہ: مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ یا نغمہ کجا و ن کجا سوز سخن بہانہ است سوئے قطار می کشم ناقہ بے مار را یا نہ بینی خیر ازاں مرد فرد دست کہ برمن تہمت شعر و سخن بست لیکن میرے خیال میں یہ ایک بڑے فن کار کے شاعرانہ اسالیب بیان ہیں۔ ایک نقاد کی حیثیت سے شعر کی باریکی پر اقبال کی جو گہری نظر تھی اس کی ایک جھلک Stray Reflectionدیکھیے لکھتے ہیں: ’’شاعری میں منطقی سچائی کی تلاش بالکل بے کار ہے۔ تخیل کا نصب العین حسن ہے نہ کہ سچائی‘‘۔ شعر میں حسن کے متعلق جب بھی اقبال کی یہ رائے میرے سامنے آتی ہے تو میرا ذہن لامحالہ ہئیت کے بارے میں آسکر وائلڈ کے اس اظہار خیال کی جانب مبذول ہو جاتا ہے: From is everything, It is the secret of life. Start with the worship fo from and there is no secret in art that will not be reyealed to you. فارم یا ہئیت ایک ایسی اصطلاح ہے جس کے متعلق یقینا ایک سے زیادہ رائیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن اگر بقول اقبال شعر میں تخیل کا نصب العین حسن ہے تو یہ حسن ہئیت کو نظر انداز کرنے سے معرض وجو د میں نہیں لایا جا سکتا۔ اس صورت میں آتش کی مذکورہ بالا رائے ہے اختلاف کرنا دشوار ہے کہ: بندش الفاظ جڑنے سے گوں کے کم نہیں شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا ’’تصویر درد‘‘ اقبال کی ایم بہت ہی اہم نظم ہے جس کا پہلا شعر فارسیت سے لبریز ہونے کے باوجود قریباً ہر عاشق کلام اقبال کی زبان پر ہے: نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری یہ نظم جو ایک ترکیب بند ہے اپنی موجودہ صورت میں انہتر اشعار پر مشتمل ہے اور اس کے آٹھ بند ہیں۔ ابتدا میں اس کے دس بند تھے نظر ثانی میں اقبال نے دو بند مکمل طور پر حذف کر دیے اور مختلف بندوںمیں سے بھی بعض اشعار نکال دیے: مقام حیرت ہے کہ اقبال نے اس نظم میں سے یہ اشعار بھی خارج کر دیے : ہوئی ہے سرمہ آواز گو لذت خموشی کی نگہ بن بن کے آنکھوںسے نکلتی ہے فغاں میری مری حیرت روانی سوز ہے اس درجہ اے ساقی! کہ مینا بن گئی آخر شراب ارغواں میری ہو سکتا ہے کہ اقبال لفظ ’’گو‘‘ اور اس درجہ کا استعمال معیوب سمجھتے ہوں۔ میں بھی معیوب سمجھتا ہوں لیکن چند اور اشعار کو خارج کرکے اقبال نے اس نظم کے حسن کو مجروح کر دیا ہے مثلاً شراب عشق میں کیا جانے کیا تاثیر ہوتی ہے کہ مشت خاک جس سے رو کش اکسیر ہوتی ہے یہ وہ شے ہے تکلم بن کے رہتی ہے زبانوں میں نگاہوں میںمثال سرمہ تسخیر ہوتی ہے زباں میری ہے لیکن کہنے والا اور ہے کوئی میری تقریر گویا اور کی تقریر ہوتی ہے بس اے ذوق خموشی رخصت فریاد دے مجھ کو کہ چپ بیٹھوں تو گویائی گریباں گیر ہوتی ہے ان کے علاوہ چند اشعار اور دیکھیے اوریہ ا س بند کے اشعار ہیں جو بانگ درا میں اس شعر سے شروع ہوتاہے: ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا اس بند میں سے اقبال نے جو اشعار حذف کیے ہیں وہ یہ ہیں: دکھا دوں گا میں اسے ہندوستاں رنگ وفا سب کو کہ اپنی زندگانی تجھ پر قرباں کر کے چھوڑوں گا نہیں بے وجہ وحشت میں اڑانا خاک زنداں کا کہ میں اس خاک سے پیدا بیاباں کر کے چھوڑوں گا ابھی مجھ دل دلے کو ہمصفیر دادر رونے دو کہ میں سارے چمن کو شبنمستاں کر کے چھوڑوں گا تعصب نے میری خاک وطن میں گھر بنایا ہے وہ طوفاں ہوں کہ میں اس گھر کو ویراں کر کے چھوڑوں گا اٹھا دوں گا نقاب عارض محبوب یک رنگی تجھے اس خانہ جنگی پریشماں کر کے چھوڑوں گا پکر کر عجز کا دامن پہنچ عرش معلی پر نگاہوں کو نظم اس بام کا زینا نہیں آتا عدو صبح صفائے دل کے ہیے ظلمت تعصب کی مقابل چشم نابینا کے آئینا نہیں آتا اکارت ہے بناوٹ سے ترارونا نمازوں میں کہ ہاتھ میں اس طرح وہ پوشیدہ گنجینہ نہیں آتا بنا آنکھوں کو جام اشک دل کودردکامینا مزہ جینے کا کچھ بے ساغر و مینا نہیں آتا بجھا دینا ہی اچھا ہے چراغ زندگانی کا محبت میں جو مر مر کے تجھے جینا نہیں آتا بنا اس راہ میں ذوق طلب کو ہمسفر اپنا اکیلے لطف سیر وادی سینا نہیںآتا تلاش خضر کب تک تشنہ زہر محبت ہو جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا دراصل اس وقت یہ نظم جس صورت میں ہمارے سامنے ہے اس میں اس قسم کے قریب قریب تمام مضامین آ گئے ہیں۔ اقبال اس را زسے آشنا تھے کہ کثرت معانی اور کثرت اشعار دو مختلف چیزیں ہیں۔ اس لیے انہوںنے وہ تامام اشعارقلمزد کر دیے جن کا مفہوم کسی نہ کسی صورت میں نظم کے باقی ماندہ اشعار میںموجود تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ مجھ یسے طالب علم کلام اقبال کو ان اشعار کا حذف کرنا پسند نہیں آیا لیکن مجھے یہ بات پسند آئے یانہ آئے کسی بھی نظم کا جہاں تک تعلق ہے ٹی ایس ایلیٹ کے اس خیال کی تردید آسان نہیں کہ نظم کا تاثر بحیثیت مجموعی ساری نظم میں دیکھنا چاہیے نہ کہ نظم کے ایک ایک مصرعے میں یا ایک ایک شعر میں ۔ داغ کے مرثیے میں سے اقبال نے جو اشعار خارج کیے وہ پھر ایک نکتہ رس نقاد کے طور پر اقبال کی تصویر ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اپنے استاد کے انتقال پر درد و غم کے عالم میں اقبال نے کہنے کو تو یہ کہہ دیا کہ: جوہر رنگیں نوائی پا چکا جس دم کمال پھر نہ ہو سکتی تھی ممکن میر و مرزا کی مثال کر دیا قدرت نے پیدا دونوں کا نظیر داغ یعنی وصل فکر میرزا اور درد میر یہ دونوں اشعار باکمال شعر کے اعتبار سے بے مثال سہی لیکن اقبال پر بطور صاحب نقد و نظر اس حقیقت کے فاش ہونے میں دیرنہ لگی کہ کلام داغ فکر غالب اور درد میری تقی میر کا مقام اتصال نہیں ہے۔ چنانچہ انہوںنے داغ کے متعلق صرف وہی اشعار نظم میں رہنے دیے ہیں جن کا اطلاق سوائے داغ کے کسی اور کے کلام پر ہو ہی نہیں سکتا ۔ اٹھیں گے آزر ہزاروں شعر کے بت خانے سے مے پلائیں گے نئے ساقی نئے میخانے سے لکھی جائیں گی کتاب دل کی تفسیریں بہت ہوں گی اے خواب جوانی تیری تعبیریںبہت ہوبہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون اٹھ گیا ناوک فگن مارے گا دل پر کون التجائے مسافر وہ نظم ہے جو اقبال نے یورپ جاتے ہوئے دہلی میں درگاہ حضرت محبوب الٰہی پر کہی۔ اس نظم کے اشعار میں اقبال نے ترمیم تو نہیں کی لیکن متعدد بندنظم سے خارج کر دیے اور جو اشعار خارج کیے ان میں خامی کوئی نہیں تھی لیکن ایک تو ان میں تکرار تھی اور دوسرا بندشیں چست نہیں تھیں مثلاً اپنے برادر محترم شیخ عطاء محمد کے متعلق یہ شعر خارج کر دیا۔ وہ میرا یار بھی معشوق بھی برادر بھی کہ جس کے عشق سے جنت ہے یہ جہاں مجھ کو اور اس کی جگہ یہ شعر رہنے دیا کہ انگوٹھی میں نگینے کی طرح نظر آ رہا ہے: وہ میرا یوسف ثانی وہ شمع محفل عشق ہوئی ہے جس کی اخوت قرار جاں مجھ کو ایک اور شعر جو نہایت عمدہ شعر ہے: بھلا ہو دونوں جہاں میںحسن نظامی کا ملا ہے جس کی بدولت یہ آستاں مجھ کو غالباً اس لیے خارج کر دیا گیا ہے کہ نظم کا موضوع آفاقی ہے اوراس میں مقامی رنگ پیدا کرنا اقبال کے مزاج سے ہم آہنگ نہ تھا۔ ویسے بھی کلام اقبال کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اقبال مقامی موضوعات میں اکثر و بیشتر بلکہ بلا استثناء ہمہ گیریت اور آفاقیت کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں اور جہاں موضوع ہی آفاقی ہو اقبال اسے قید مقامی میںلانا اعلیٰ شاعری کے منافی سمجھتے ہیں غالباً یہی انداز فکر اس شعر کو اس نظم سے خارج کرنے کا سبب بنا۔ اس نکتے کی ایک بہت عمدہ مثال جواب شکوہ میں ملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا موضوع آفاقیت کا حامل ہے: آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا اشک بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا آسماں گیر ہوا نعرہ مستانہ ترا اوراس میں اشعار اس طرح کے آئے ہیں: تخت فغفور بھی ان کا تھا سریر کے بھی یونہی باتیں ہیں کہ تم میںوہ حمیت ہے بھی اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی نقش ہے صفحہ ہستی پہ صداقت ان کی چنانچہ اس میں سے مندرجہ ذیل بند جس میں علی گڑھ یونیورسٹی اور لیگ آف نیشنز کاذکرکیا گیا ہے خارج کر دیا۔ یہ نہیں کہ علی گڑھ یونیورسٹی یا لیگ آف نیشنز کا ذکر کلام اقبال میں شجر ممنو کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اس نظم میں اس کی گنجائش نہیں تھی۔ کشور ہند میں کلیہ ناکام کا بت عربستاں میں شفاخانہ اسلام کا بت اور لندن میں عبادت کدہ عام کا بت لیگ والوں نے تراشا ہے بڑے نام کا بت اور اس کے ٹیپ کے شعر: بادہ آشام نئے بادہ نیا خم بھی نئے یعنی کعبی بھی نیا بت بھی نئے تم بھی نئے کو ذرا سی ترمیم کے ساتھ ایک اور بند کی ٹیپ کا شعر بنا دیا اور وہ ترمیم یہ ہے کہ یعنی کعبہ بھی بنا کو حرم کعبہ بھی نیا کر دیا وجہ ظاہر ہے کہ یعنی کی یائے عربی کا دنیا اقبال کو ناگوار گزرا ہو گا۔ یہاں یہ زکر بھی مناسب نہ ہو گا کہ اسی نظم کے ایک مصرعے میں نقطہ عنابی کا ’’ع‘‘ تقطیع سے گر رہا تھا… ساحل بحر بہ رنگ فلک عنابی ہے اقبال نے نظر ثانی کے وقت یہ غلطی رفع کر دی اور مصرع یوں بدل دیا: رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے ’’جواب شکوہ‘‘ میں ترمیموں کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔ لیکن اس نظم میں ان ترمیموں سے زیادہ اہم اشعار کی ترتیب میں تبدیلی ہے جس کی وجہ سے نظم کا حسن بیان کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے۔ یہاں میں صرف ایک مثال پیش کروں گا۔ ۳۰ نومبر ۱۹۱۲ء کو جب اقبا نے یہ نظم زمیندارہ ٹرکش رییف فنڈ ٹرسٹ کے جلسے میں پڑھی تو آخری بند یوں تھا: مثل بو قید ہے غنچے میں پریشاں ہو جا رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا شوق وسعت ہے تو ذرے سے بیاباں ہو جا نغمہ موج سے ہنگامہ طوفاں ہو جا بول اس نام کا ہر قوم میں بالا کر دے اور دنیا کے اندھیرے میں اجالا کر دے اس بات سے قطع نظر کہ تیسرے مصرعے کو انہوں نے : ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا کر دیا قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس بند کو نظم کے آخر سے ہٹا کر پانچ بندوں کے اوپر لے آئے اور آخری شعر کو اس طرح تبدیل کر کے: قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے مندرجہ ذیل بند کو فوراً ا س کے بعد لے آئے: ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے اور اس ترتیب سے دونوںبندوں میںوہ ربط معنوی پیدا ہو کر دیا جو اس سے قبل ناپید تھا۔ ’’جواب شکوہ ‘‘ کی ترمیموں کے سلسلے میں میں نے عرض کیا ہے کہ : یعنی کعبہ بھی نیا بت بھی نیا تم بھی نئے میں اس لیے تبدیلی کی کہ یعنی یائے عربی تقطیع میں گر رہی تھی۔ مجھے اپنے ا س خیال کی تائید اقبال کے ایک اور ترمیم سے بھی ملتی ہے اور وہ گورستان شاہی کا پہلا شعر ہے جو شرو ع میںیوں تھا: آسماں بادل کا پہنے خرقہ دیرینہ ہے یعنی دھندلا سا جبین ما کا آئینہ ہے غالباً اسی مذکور غلطی کو رفع کرنے کے لیے اقبال نے اس مصرعے کو یوں تبدیل کیا: کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے یہاں پھر میری ناقص رائے تبدیلی نے شعر کی بہتری پیدا نہیںکی بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہو گیا۔ لفظ ’’دھندلا‘‘ میںنون غنہ جو موسیقی کی کیفیت پید اکر رہا ہے وہ کیفیت ’’مکدر‘‘ کا لفظ لانے سے مفقود ہو گئی ہے اور شعر میں نغمگی کی کیفیت کم ہو گء ہے میری رائے میںپہلا مصرع بہتر تھا اور اسے ی رہنا چاہیے تھا۔ اس نظم کے یوں تو اکثر مصرعوں میں اقبال نے ترمیم کی ہے لیکن جن اشعار میںاقبا ل نے ترمیم کو اعجازکے مقام پر پہنچا دیا ہے وہ یہ ہیں: چاند جو صرت گر ہستی کا اک مجاز ہے پہنے سیمابی قبا محو خرام ناز ہے اور زندگی سے یہ پرانا خاکداںمعمور ہے موت میں بھی زندگی کی تڑپ مستور ہے یہ اشعار اپنی اولیں صورت میںیوں تھے: یہ قمر جو ناظم عالم کا اک اعجاز ہے پہنے ہوئے سونے کی بقا محو خرام ناز ہے اور زندگی کی مے سے مینائے جہاں لبریز ہے منظر حسرت بھی ہے کوئی تو حسن آمیز ہے ویسے یہ بالکل ہی ایک الگ موضوع ہے اور اس پر اس مقالے میں بحث کرنے کا موقع نہیں ہے کہ اقبال کے یہاں بہریں بالعموم رقصاں اور جولاں کیوںنظر آتی ہیں۔ وہی بحریں جو دوسرے شعراء کے کلام میں سیدھے سادے طور پر سامنے آتی ہیں اقبال کے کلام میںبقول سردار جعفری ناچتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ یوں تو اقبال کے اکثر و بیشتر مصرعے اس کیفیت سے لبریز ہیں خواہ اس کی وجہ جوا ز ہم زیادہ تر Long Vowelsکے استعمال کو قرار دیں جیسے: کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ اس جلوہ بے پردہ کو پردوں میںچھپا دیکھ ایام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ بیتاب نہ ہو معرکہ بیم و رجا دیکھ یا زیادہ تر Short Vowelsکو جیسے: پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب مرغاں سحر تیری فضائوںمیں ہیں بیتاب اے وادی لولاب گر صاحب ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب دیں بندہ مومن کے لیے موت ہے یا خواب اے وادہ لولاب لیکن جب اقبال اپنے کسی مصرعے میںترمیم کرتے ہیں تو تبدیل شدہ مصرعے میں یہ کیفیت رقص بالعموم ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔ ابھی چند سطور قبل جو دو ترمیم شدہ اشعار میں نے پیش کیے ہیں وہ میرے اس نظریے کی تائید میں مثال کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ گورستان شاہی کے ذکر میںمیںپہلے یہ عرض کر چکا ہوں کہ میرے نزدیک اس نظم کے پہلے شعر کی تبدیلی نے شعر کے حسن میںکوئی اضافہ نہیں کیا۔ ایسی ہی ایک مثال اور اس وقت پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اکتوبر ۱۹۱۲ء کے ’’مخزن‘‘ میں شہیدان طرابلس‘‘ کے عنوان سے ایک نظم شائع ہوئی تھی۔ یہ نظم بعد میں ’’بانگ درا‘‘ میں حضور رسالت مآبؐ میں کے عنوان سے چھپی ہے۔ اس کے دوسرے بند کے بعد جو اس شعر پر ختم ہوتا ہے: نکل کے باغ جہاں سے برنگ بو آیا ہمارے واسطے کی تحفہ لے کے تو آیا پہلے یہ شعر کہا تھا: کہا یہ میں نے کہ سچی خوشی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیںملتی اسے اقبال نے اب یوں تبدیل کیا ہے: حضور دہر میں آسودگی نہیںملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیںملتی اس تبدیلی میں تخاطب کے وقت اقبال نے ایک احترام کا پہلو تو پید اکیا ہے لیکن وہ پہلو پہلے شعر میں بی محذوف انداز میں موجود تھا اورکہا یہ میں نے سے بیا ن میں جو ایک ربط پیدا ہو جاتا ہے وہ موجودہ صورت میں پیدانہیں ہو سکا اور اگر ڈرامائی کیفیت پیدا کرنا مقصود تھا تو جو ڈرامائی کیفیت پہلے موجود تھی اس میں کوئی خاص اضافہ نہیںہوا اس کے بعد شہر میں بھی اقبال نے تبدیلی کی ہے وہ شعر اصل میں یوں تھا: ریاض دہر میں ہیں یوں تو رنگ رنگ کے پھول وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیںملتی اب پہلے مصرعے کی تبدیلی کے بعد شعر کی صورت یہ ہے: ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں وفا کی جس میںہو بو وہ کلی نہیںملتی میری ناقص رائے میں: ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں سے پہلا مصرع: ریاض دہر میںہیں یوں تو رنگ رنگ کے پھول بہتر تھا ۔ صرف یہی نہیں کہ وہ مصرع موجودہ مصرعے سے زیادہ چست ہے بلکہ اس میں نغمگی اور موسیقی کی کیفیت بھی موجود ہ مصرعے سے کہیں زیادہ ہے۔ رنگ رنگ میں نون غنہ کی تکرار نے جو ایک غنائی کیفیت پیدا کر دی ہے اس سے ترمیم شدہ مصرع محروم ہے ۔ ’’فاطمہ بنت عبداللہ‘ ‘ میں دوسرے شعر کو جو پہلے یوں تھا: کس قدر غیرت تجھے اے حور صحرائی ملی غازیان ملت بیضا کی سقائی ملی اسے اب یوں بدل دیا ہے: یہ سعادت حور صحرائی تری قسمت میں تھی غازیاں دین کی سقائی تری قسمت میں تھی قابل غور بات یہ ہے کہ ترمیم سے مفہوم میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی الفاظ بھی قریب قریب وہی ہیں لیکن ترتیب الفاظ کے ساتھ ایک آدھ لفظ کی تبدیلی سے بحر کا صوتی آہنگ بدل گیا ہے اور اقبال کا یہ ایک ایسا کرشمہ ہے جس پر لسانیات اور حروف تہجی کی غنائی اہمیت کے طلبہ کو جم کے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اشعار کو حذف کردینے کا کمال فن اس نظم میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے جس کا عنوان ہے ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ اس نظم میں اقبال نے مصرعوں میں تبدیلی نہیں کی لیکن گیارہ اشعار حذف کر کے نظم کے تاثر میں بحیثیت مجموعی ایک شدید اضافہ کر دیا ہے۔ حذف شدہ گیارہ اشعار یہ ہیں۔ اپنی نادانی میںانساں کس قدر آسودہ ہے تہمت تاثیر سے موج نفس آلودہ ہے زندگی کی رہ میں جب میں طفل نو رفتار تھا جادہ خوابیدہ ہر ہر گام پر دشوار تھا قطع تیری ہمت افزائی سے یہ منزل ہوئی میری کشتی بوسہ گستاخ لب ساحل ہوئی ٭٭٭ وہ قومی فطرت کہ ہے جس کی طبیعت استوار جس کے دل سے کانپتے ہیں حادثات روزگار ٭٭٭ ہم سمجھتے ہیں ثبات زندگی پیکر سے ہے پیکروں کی بے ثباتی جور پیکر گر سے ہے خام فکری سے شفق خون سحر سمجھی گئی صبح شبنم سے بیاض چشم تر سمجھی گئی دیکھنے میں گرچہ ہے مثل شرران کا فروغ خندہ زن ہے صرصر ایام پر ان کا فروغ کیسی حجت خیز ہے ظلمت فروشی رات کی دن کے ہنگاموں کا مدفن ہے خموشی رات کی ظلمت آشفتہ کاکل وسعت عالم میں ہے اشک انجم در گریباں روز کے ماتم میں ہے طفلک شش روزہ کون و مکاں خاموش ہے رات کے آغوش میں لپٹا ہوا بیہوش ہے آب دریا خفتہ ہے مواج ہوا غش کردہ ہے پست ہر ہستی ساز زندگی کا پردہ ہے ۱؎ اپنے بڑے بھائی (شیخ عطا محمد) کی طرف اشارہ ہے۔ اس قسم کی تبدیلیاں ’’بانگ درا‘‘ کی متعدد اورنظموں میں بھی ہیں جن کا فرداً فرداً ذکر میں نے اس مقالے میں نہیںکیا۔ غزلوں میں بھی ایسی ترمیمیں موجود ہیں اور جو نظمیں اقبال نے اپنے کلام میں سے حذف کر دی ہیں ان کی تعداد تو خاصی زیاد ہ ہے لیکن بال جبریل اور ضرب کلیم کے اشعار میں اقبال نے کیا کیا ترمیمیں کیں ان کا مجھے سراغ نہیںمل سکا۔ ہو سکتا ہے ان میں ترمیمیں نہ کی ہوں اور اگر ہوئی ہوں تو وہ اشعار ترمیم سے قبل کہیں شائع نہ ہوئے ہون۔ بال جبریل کے ایک شعر کے متعلق اتنا ہی مجھے علم ہے کہ جب اقبال نے اپنی غزل: اپنی جولانگاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں کہی تو وہ شعرا س میں شامل تھا اور جب ’’بال جبریل‘‘ شائع ہوئی تو وہ شعر اس غزل میں نہیں تھا اور وہ شعر یہ ہے: عرصہ محشر میں میری خوب رسوائی ہوئی دادر محشر کو اپنا رازداں سمجھا تھا میں اسی طرح فارسی کلام میں بھی اسرار و رموز کے علاوہ کتابوں میں اشعار کی ترمیم کا پتا مجھے نہیں چل سکا۔ اسرار خودی اور رموز بے خودی کی بعض ترمیموں کا ذکر اس مقالے کی تمہیدمیں آ چکا ہے۔ چند اور ترمیمیں اب ملاحظہ فرمائیے: اسرار خودی کے شروع ہی میں ایک شعر اپنی ابتدائی صورت میں یوں تھا: بے نیاز از گوش امروز آمدم من صدائے شاعر فرداستم اس شعر کی ترمیم شدہ صورت یہ ہے: نغمہ ام از زخمہ بے پروا ستم من نوائے شاعر فرداستم میں تو اس ترمیم سے متعلق یہ کہوں گا کہ شعر زمین سے اٹھ کر آسمان تک پہنچ گیا ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ صدائے شاعر فرداستم سے نوائے شاعر فرداستم کہیں بہتر ہے صوتی اعتبار سے بھی لفظی اعتبار سے بھی اور معنوی اعتبار سے بھی شاید جو کچھ کہتا ہے وہ صدا کی بہ نسبت نوا سے زیادہ قریب ہے اور پھر اس کے علاوہ مقام حیرت یہ ہے کہ اقبال نے شعر کی ابتدائی صورت میں آمدم اور فرداستم کا قافیہ کیسے گوار ا کر لیا۔ یہ قافیہ غلط تو نہیں لیکن اس کی بد آہنگی کو اقبال کے مذاق سلیم نے چند لمحوں کے لیے بھی گوارا کر لیا ہو باعث استعجاب ہے۔ ایک اور شعر میں ترمیم دیکھیے: حرکت اعصاب گردوں دیدہ ام در رگ مہ دورہ خوں دیدہ ام کو یوں بنا دیا: حرکت اعصاب گردوں دیدہ ام در رگ مہ گردش خوں دیدہ ام دورہ خوں اور گردش خوں میں جو لطیف سا فرق ہے اسے مذاق سلیم ہی محسوس کر سکتا ہے۔ ایک اور شعر میں ایک نہایت خوبصورت ترمیم دیکھیے اصل شعر یوں ہے: چوں نبی دختر چہ را بے پردہ دید چادر خود پیش روئے او کشید اس شعر میں دختر چہ کا لفظ اگرچہ صحیح ہے غلط نہیں ہے لیکن نامانوس ہے اور مذاق سلیم پر گراں گزرتا ہے اس لیے اس شعر میں اقبال نے صرف اسی لفظ کو تبدیل کیا اور شعر کو یہ صورت دے کر دخترک راچوں نبی بے پردہ دید چادر خود پیش روئے او کشید اسے صرف بے عیب ہی نہیں بنا دیا بلکہ پہلے سے زیادہ خوب صورت بھی بنا دیا ہے۔ افلاطوں کے بارے میں پہلے شعر کی صورت یہ تھی: راہب اول فلاطون حکیم از گروہ سفندان قدیم ظاہر ہے کہ پہلی صورت میں اقبال نے جس قطعیت کا اظہار کیا تھا وہ بآسانی چیلنج ہو سکتی تھی اور ممکن ہے غلط ہے غلط بھی ثابت ہو جاتی چنانچہ اول کی جگہ دیرینہ لفظ استعمال کر کے اقبال نے شعر سے معنوی عیب نکال کے اس لفظی اور معنوی دونوں خوبیوںسے مملو کر دیا ۔ اب ’’اسرار خودی‘‘ کے دو ایک اور اشعار پیش کر کے میں رموز بے خودی کی چند ایک ترمیموں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ اس سلسلے میں پہلا شعر ہے: ذرہ شو صحرا مشو گر عاقلی تاز فیض نیرے تاباں شوی اور دوسراہے: من مثال لالہ صحرا ستم در ہجوم عاملے تنہا ستم پہلے شعر کو دوسرے مصرعے کو اقبال نے یوں تبدیل کیا: تاز نور آفتابے بر خودی اور دوسرے شعر کے دوسرے مصرعے کو یوں: درمیان محفلے تنہا ستم دونوں ترمیمیں ان دو صداقتوں کا فرق واضح کرتی ہیں جن میں سے ایک کا نام ہے سائنسی صداقت اور دوسرے کا نام ہے شاعر انہ صداقت صداقتیں دونوں ہیں لیکن اقبال نے ان ترمیموں میں سائنسی صداقت پر ہمیشہ شاعرانہ صداقت کو ترجیح دی ہے ۔ ممکن ہے کہ اسم موقعے پریہ سوال بھی پیدا ہوکہ کیا اقبال ایسے مفکر شاعر کے یہاں بھی اپیل ہمیشہ احساس اور جذبے ہی کے لیے رہی ہے تومیرا جواب یہی ہے کہ جی ہاں اقبال کی یہی خصوصیت ہے اور جہاں کہیں اقبال نے سائنسی حقائق کو بھی پیش کیا ہے۔ تو ایک سائنس دان کے طور پر نہیں بلکہ شاعر کے طور پر اور شاعرانہ صداقت کو سائنسی صداقت پر ہمیشہ ترجیح دی ہے۔ ’’رموز بے خودی‘‘ کی ابتدا ہی میں ملت اسلامیہ کو خطاب کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا: اے ترا حق زہدہ اقوام کرد ختم بر تو دورہ ایام کرد بعدمیں اسے یوں بنا دیا: اے ترا حق خاتم اقوام کرد برتو ہر آغاز را انجام کرد پہلے مصرع میں لفظ زبدہ Creamکی خوبصورتی اور معنویت سے انکار نہیں لیکن ملت اسلامیہ کے تعلق سے لفظ خاتم مرور ایام کے ساتھ ایک طرح سے جزو ادب اور جزو تمدن بن گیا ہے۔ اس معنی میں یہ لفظ محض نہیں رہ گیا ہے بلکہ ایک اپج اور ایک پیکر بن گیا ہے۔ چنانچہ انتقال ذہنی فوری طور پر اسی مفہوم کی تراکیب مثلاً خاتم الانبیا یا ختم المرسلینؐ کی طرف ہوتا ہے جس سے مفہوم سریع الفہم بھی ہو جاتا ہے اور دلکش بھی۔ زبدہ کے لفظ میں یہ بات نہ تھی۔دوسرے مصرعے کی تبدیلی بھی انتخاب الفاظ کی ایک روشن دلیل ہے۔ دراصل شاعری میں مقاصد کوضرورت سے زیادہ اہمیت دے کر یا دوسرے معنی میں ادب برائے زندگی کے مفہوم سے مرعوب ہو کر ہم نے انتخاب الفاظ کی اہمیت کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ لفظ اور معنی کو ایک دوسرے کے ساتھ یک جان ہونا چاہیے جیسے کہ اقبال نے خود اپنے ایک قطعے میں اس مسئلے پر یہ کہہ کر روشنی ڈالی ہے: عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں الجھی ہوئی روح کس جوہر سے خاک تیرہ کس جوہر سے ہے میری مشکل مستی و سوز و سرود و درد و داغ تیری مشکل مے سے ہے ساغر کہ مے ساغر سے ہے ارتباط حرف و معنی اختلاط جان و تن جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے لیکن یہ ارتباط حرف و معنی کا کمال بھی اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے کہ جب الفاظ کو استعمال کرنے والا فن کار الفاظ کو استعمال کرنے کے فن میںماہر ہو اور اسے اس مہارت کے برتنے کا سلیقہ حاصل ہو۔ فلابیر نے جب یہ کہا تھا کہ مصنف کا قلم ہی لفظ کی قسمت کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ دراصل اسی نقطہ نگاہ کا اظہار خیال کر رہا تھا کہ آئینہ ساز کو آئینہ سازی میں کمال حاصل ہونا چاہیے۔ آئینے میں سو قسم کی نزاکتیں پیدا کرنے ہی سے عکس ہزار طرح کی نزاکتوں کا متحمل ہو سکتا ہے۔ جامی نے اسی بات کو اپنے انداز میں کہا ہے: بقدر آئینہ حسن تو می نماند رو دریغ کائنہ مانہفتہ درزنگ است اقبال کے سامنے خواہ اس کا ارد و کلام ہو خواہ فارسی کلام ہمیشہ یہی معیار رہا ہے اور اسی معیار کے پیش نظر اقبال نے جہاں کہیں مناسب سمجھا ہے اپنے کلام میں ترمیم کی ہے۔ میں اپنے اس خٰال کی تائید میں ایک اور روشن مثال پیش کروں گااور وہ بھی رموز بے خودی ہی میں سے ہے۔ ایک شعر اپنی ابتدائی صورت میں یوں تھا: مسلمے از ماسوا بیگانہ تاکجا زنجیری بت خانہ بعد میںنظر ثانی کے وقت اقبا ل نے اس میں صرف اتنی ہی تبدیلی کی کہ: تاکجا زنجیری بت خانہ تاکجا زناری بت خانہ بنا دیا ۔ غالباً یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے یک بت خانے کے ذکر میں زنجیر کا لفظ خارج کر دینے اور اس کی جگہ زنار کا لفظ آنے سے مڑعے کے حسن بیان اور حسن معنی میں کس قدر اضافہ ہو گیا ہے۔ اس ایک ذرا سی تبدیلی نے فن کار کی چابک دستی اور دقت نظری دونوں کا امتزاج قاری کے سامنے نمایاں کر دیا ہے۔ اقبال نے اپے کلا م میں جو ترمیمیں خی ہیں ان کی بنیادی قدر یہ ہے کہ اقبال نے معنی کی تقدیس کے ساتھ لفظ کی تقدیس کو بھی نظر انداز کرنہیںکیا اور معنی میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرنے کے ساتھ ہی ساتھ لفظ میں بھی تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے بہ یک وقت شعور اور وجدان دونوں سے کام لیا ہے۔ اقبال مفہوم اور فکر کے مواد کو الفاظ کی بھٹی میں انتہائی آنچ دے کر چتانے کے فن سے آگاہ ہیں اوریہ مواد جب پگھلنے کے بعد شعر میں سانچے میں ڈھلتا رہے تو ہر قسم کی آلودگی سے پاک و صاف ہو چکا ہوتا ہے۔ کلام اقبال میں ترمیموں اور تبدیلیوں پر بحث کرتے ہوئے مولینا غلام رسول مہر کہتے ہیں کہ اقبال صرف انہی نظمو ں کو محفوظ رکھنے پر رضامند تھے جو تعلیم و تربیت کے لحاظ سے کائنات انسانیت کے لیے مفید ہو سکتی تھیں۔ یعنی جو ان کے خاص پیغام خاص تعلیم اورحقائق حیات کی حاصل تھیں اور جن کے ذریعے سے انسان اپنے تخلیقی وظائف اور مقاصد بہتر طریق پر بجا لانے کے اہل بن سکتے ہیں۔ اور مجھے مہر صاحب کے اس محاکمے سے اختلاف ہے۔ اقبال نے اپنے کلام میں جو ترمیمیں کی ہیں انکی تہ تک پہنچنے کے لیی مہر صاحب کا قائم کیا ہوا اصول شاید دور تک ہماری رہنمائی نہ کر سکے اور ممکن ہے کہ اس اصول کی پابدی کرنے سے ہم کلام اقبال کی ترمیموں کا ادراک حاصل کرنے میں قطعاً ناکام رہ جائیں۔ میرے نزدیک اس معاملے میں خود اقبال کی یہ رائے جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے ہماری زیادہ بہتر طورپر رہنمائی کر سکتی ہے کہ : ’’شاعری میں منطقی سچائی کی تلاش بالکل بے کار ہے تخیل کا نصب العین حسن ہے نہ کہ سچائی ‘‘۔ اسی خیال کو الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ اقبال ضرب کلیم میں یوں بیان کرتے ہیں: ہر چند کہ ایجاد معانی ہے خداداد کوشش ہے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر میخانہ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاد بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیںکھلتا روشن شر رتیشہ سے ہے خانہ فرہاد ٭٭٭ اقبال اور بیداری ذات ڈاکٹر وزیر آغا پرانے پتھر کے زمانے سے لے کر پہلو ٹنک کے دور تک انسانی معاشرہ کے انگنت روپ سامنے آئے ہیں لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو تاحال انسان فقط دو بنیاد ی معاشرتی نظاموں ہ۸ سے آشنا ہوا ہے۔ ایک وہ جس میں افرادایک دوسرے کے شانوں سے شانے جوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں یعنی فرد اور فرد کے مابین فاصلہ موجود نہیں ہوتا۔ چنانچہ مقابلہ کی فضا از خود منہا ہو جاتی ہے۔ او رتمام افراد کو ایک سے مواقع او رسہولیات میسر آ جاتی ہیں جن کے نتیجے میں مساوات قائم ہو جاتی ہے۔ یعنی پانچوں انگلیا ںبرابر ہو جاتی ہیں۔ لیکن چونکہ معاشرے کا ارتقاء فرد کو بروئے کار لائے بغیر ممکن نہیں لہٰذا جب ’’فرد‘‘ کی حیثیت قطعاً ثانوی ہو جائے تو کچھ عرصے کے بعد اس قس کے معاشرے میں زوال اور کہولت کے آثارپیدا ہونے لگتے ہیں۔ پہلے افرادکا ذہنی اور جسمانی معیار بہتر ہوتا ہے پھر وہ معاشرہ جوان افراد کے مجموعے کا نام ہے بحیثیت مجموعی حرکی قوت سے محروم ہونے لگتا ہے۔ تاآنکہ فطرت کے دائرے کے اندر محبوس ہو کر رک جاتا ہے۔ معاشرے کی دوسری قسم وہ ہے جس میں فرد ارو فرد کے درمیان نمایاں فاصلہ موجود ہے۔ یعنی ہر فرد کو پورے مواقع میسر آتے ہیں جن میں وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کر کے دوسرے افراد پر سبقت لے جاتا ہے ایسے معاشرے میں مساوات کے بجائے طبقات اور افراد کا فرق سامنے آتا ہے جب اس قسم کے معاشرے میں رہنے والے افراد کا درمیانی فاصلہ بہت زیادہ ہو جائے (اور فی زمانہ یہ فاصلہ دولت کی غیر مساوی تقسیم کے باعث زیادہ ہو رہا ہے) تو فردکے ہاں تنہائی اور بے بسی او ر زندگی کے سیل رواں سے کٹ جانے کا احساس بڑی شدت سے ابھرتا ہے۔ اور وہ نیوراتی کیفیت جنم لیتی ہے جو ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے نتیجتہ پہلے فرد اور اس کے بعد پورا معاشرہ ذہنی انجماد کی نذر ہو جاتاہے۔ اور استحصال کی روایت بالآخر خون چوسنے والی ایک ایسی مخلوق کو سامنے لے آتی ہے جو معاشرے کے بجائے صرف اپنے طبقے کے مفاد کے لیے کام کرتی ہے۔ زراعت کے نظام میں بھی کاشتکاری کے دو طریق مروج ہیں۔ ایک طریق یہ ہے کہ کھیت میں زیادہ سے زیادہ پودے اگائے جاتے ہیں اس طور کہ پودوں کا درمیانی فاصلہ کم ہو اور وہ زمین سے ایک جیسی خوراک حاصل کریںَ دوسرا طرقی یہ ہے کہ کھیت میں پودوں کی تعداد نسبتاً کم ہو پوداے اور پودے کے درمیان فاصلہ زیادہ ہو تاکہ ان میں سے ہر پودا اپنی صلاحیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ خوراک حاصل کرکے اپنی نشوونما کر سکے۔ گویا مقابلے کی فضا میں نشوونما کو تحریک ملے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اشتراکی ممالک میں زراعت کا مقدم الذکر طریق اور سرمایہ دار ممالک میںزراعت کا موخر الذکر طریق زیادہ مقبول ہے۔ یہ تقسیم ان دونوں معاشروں کے مزاج کی تقسیم کے عین مطاق بھی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک خاص طرح کی آب و ہوا آبادی میںاضافہ اوردیگر عوامل کے تحت مشرقی ممالک میں از منہ قدیم ہی سہے فرد اور فرد کا درمیانی فاصلہ بہت کم تھا۔ ایک منضبط معاشرتی نظام نے کردا ر کو ایک قریب قریب منہا کر دیا تھا اور اس کے بجائے مثال نمونے Typeکو ابھار دیا تھا۔ مشترکہ خاندانی نظام نے شخصی جائیدا د کے تصور کو زیادہ ابھرنے نہیں دیا تھا۔ اور افراد گویا ایک عظیم الشان مشین کے پرزے بن کر رہ گئے تھے مثلاً قدیم زمانے میں سمریا اور موہنجوڈرو‘ ہڑپہ کی تہذیبیں ایک مشینی نظام کا ر ہی سے مشابہ تھیں۔ پھر ایران اور ہندوستان میں ذات پات کا تصور دیہات کا خود کفیل نظام اور مشترکہ خاندان کی روایت ان سب نے بھی افراد کے درمیانی فاصلے کو کم کر دیاتھا۔ لہٰذا اگر دور حاضر میں سوشلزم اور مساوات کا تصور مشرقی ممالک کو زیادہ مرغوب ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کا قدیم معاشرتی نظام اسے بآسانی قبول کر سکتا ہے۔ دوسری طرف مغربی ممالک میں فرد اورفرد کے درمیان فاصلہ ہمیشہ قائم رہا ہے ار فرد اور معاشرے کا تصادم بھی جاری رہا اور معاشرتی ہمہ اوست کے بجائے فوق البشر کو وجود میں لانے کی خواہش ہمیشہ جوان رہی اور یہ سب کچھ مغربی ممالک کے اس مزاج کے عین مطابق تھا جس کی تشکیل میں وہاں کی آب و ہوا اور نان و نمک نے بھرپور حصہ لیا تھا چنانچہ ان ممالک میں سرمایہ داری کا نظام مقبول ہوا جو افراد کی صلاحیتوں کا اثبات کرتا اور مقابلے کی فضا کو جنم دیتا ہے۔ اقبال نے ان دونوں نظاموں کا بنظر غائر مطالعہ کیا تھا ان کے سامنے ان دونوں کی خوبیاں تھیں اور نقائص بھی … انہیںعلم تھا کہ جب فرد اور فرد کے درمیان فاصلہ باقی نہ رہے تو معاشرہ ایک خود کار مشین میں ڈھل کر ارتقاکے پورسے سلسلے منقطع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب فرد اور فرد کا درمیانی فاصلہ بہت زیادہ ہو جائے تو بکھرنے اور لخت لخت ہونے کا عمل وجود میں آتا ہے اور پھر ایک ایسااستحصالی نظام جنم لیتا ہے جس میں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو نگل جاتی ہے ۔ اقبال اس صورت حال کے بھی خلاف تھے۔ پھر انہیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ مشرقی ممالک کا انداز فکر بحیثیت مجموعی استخراجی ہے یعنی ان ممالک میں پروان چڑھنے والے معاشروں کا فرد ہمیشہ نہ صرف مطیع ہونے میں عافیت محسوس کرتا ہے بلکہ خوشہ چینی کے عمل میں بھی مبتلا رہتا ہے عشق کا رویہ بھی ایسے معاشروں ہی میں ایک روایت سے بنتا ہے جن میں رہنے والا فرد خود کو کل (معاشرہ جوہر وغیرہ) کا دست نگر محسوس کر رہا ہو اور اس کے سامنے دست سوال درازکرنے کو اپنے لیے سعادت قرار دے۔ مگر دوسری طرف مغربی ممالک کا انداز فکر استقرائی ہے۔ یعنی فرد کسی کل سے اخذ و اکتساب کی طر ف مائل ہونے کے بجائے اپنی مخفی صلاحیتوں اور اوصاف کے بل بوتے پر پوری کائنات سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کرتاہے اور اس معرکے میں بیشتر اوقات عقل وخرد پر بھروسہ کرتا ہے۔ اقبال دیکھ رہے تھے کہ یہ دونوںنظام اور رویے انتہا پسندی کے مظہر تھے لہٰذا انہوںنے ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھا جس میںدونوں کے مزاج یکجا ہوں یعنی استخراجی انداز فکر کے ساتھ اسقرائی انداز فکر اور عشق کے ساتھ عقل مل جل کر ارتقا کی طرف گام زن دکھائی دیں۔ اقبال کے نزدیک یہی اسلامی ثقافت کا لب لباب بھی تھا جسے مسلمانوں نے بہت سے بیرونی اثرات کے تحت بھلا دیا تھا۔ مگر جس کی بازیابی ہندی مسلمانوں کی ترقی کا واحد علاج تھا۔ لہٰذا اقبال کے نظام فکر میںعشق اور خرد کی کہانی کچھ یوںمرتب ہوئی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی سفر کے دو مراحل ہیں۔ ابتداً عقل کا تحلیلی اور تجزیاتی عمل ہے جو عشق کے وجدانی عمل میں ضم ہو جاتا ہے۔ عشق دائرے میں حرکت کرتا ہے اور اس کی رفتار لمحہ بہ لمحہ تیز سے تیز تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ تآنکہ مزاج یا بے ہئیتی کی وہ صرت وجود میںآتی ہے جسے خود فراموشی کانام ملنا چاہیے۔ اس عالم میں دائرے کی لکیر ٹوٹتی ہے اور عشق کی رفتار کائنات سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے یہ لمحہ تخلیق کا لمحۃ ہے جس میں انسان بے ہئیتی کے عالم سے ایک نئی ہیئت کو جنم دیتا ہے۔ اورایسا کرتے ہوئے اپنے شعور اور بصیرت کو بھی بروئے کار لاتا ہے۔ گویا ابتدائی مراحل میں عقل اور شعور کے جو عناصڑ اس کی ذات میں جذب ہو ئے تھے وہ انتہائی مراحل میں آ گہی کی تشکیل میں اس طور سے شامل ہو گئے کہ بے خودی کے باوصف خودی وجود میںآ گئی۔ اور انسان کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ اپنی ذات کو نہ صرف بے خودی میں کھو جانے سے باز رکھے بلکہ اسے کائنات کی تخلیقی قوت کے سامنے ایک متوازی قوت کے طور پر ابھار دے غور کیجیے تو یہ ساری کہانی فن کے تخلیقی عمل کی کہانی ہی سے مشابہ ہے۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے تخلیقی عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے می نے لکھا تھا کہ تخلیقی عمل عملاً تین مراحل پر مشتمل ہے۔ طوفان کا مرحلہ جب ذات کے اندر تصادم کا آغاز ہوتا ہے۔ مزاج کا مرحلہ جب بے ہئیتی کا تسلط قائم ہو جاتا ہے اور جست کا مرحلہ جب فن کار وژن آہنگ اور میڈیم Mediumکو بیک وقتبروئے کا رلا کر بے ہئیتی کو ہئیت مہیا کرتاہے۔ اور ایسا کرنے کے خود کو سانس رکنے کی کرب ناک کیفیت سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عشق میں طوفان کا مرحلہ وہ ہے جب اس کے طواف کی رفتار ایک لخت تیز ہو کر کائنات کے مظاہر کی عام رفتار سے تجاوز کر جاتی ہے ۔ غور کیجیے کہ کائنات کے جملہ مظاہر ایک ازلی و ابدی طواف میں مشغول ہیں۔ انسانی زندگی بچپن سے عہد پیری تک ایک دائرے میں ہی سفر کرتی ہے پھر نطفے سے انسان جنم لیتاہے ۔ اورنطفے ہی میں ڈھل جاتا ہے۔ اسی طرح بیج اور درخت کا دائرہ بھی ازلی و ابدی ہے موسموں کو لیجیے۔ پورا سال چار موسموںکا ایک دائرہ بناتاہے۔ اس کے بعد نظام شمسی کو دیکھے کہ سورج کے گرد سیاروں کا طواف جاری ہے خود سورج کہکشاں کا طواف کر رہا ہے۔ اور کہکشاں اپنے محور پر گھوم رہی ہے۔ اسی طرح سے انگنت کہکشائیں کسی ایسے نقطے کے گرد رقص کناں ہیں جن کی کوئی نہایت نہیں ہے گویا کائنات کے سب مظاہر اپنی اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ دائرہ در دائرہ طواف کر تے چلے جا رہے ہیں یعنی کسی کے عشق میں مبتلا ہیں۔ انسانی زندگی کی رفتار سیاروں کی رفتار سے مختلف اور سیاروں کی رفتار سورجوں اورپھر کہکشائوں کی رفتار سے مختلف ہے۔ تاہم یہ سب مظاہر اپنی اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ طواف کرنے پر مجبور ہیں کہ یہی ان کا نوشتہ تقدیر ہے۔ مگر کیا دائرے کا یہ سفر قید و بند کی صورت نہیں؟ بات یہ ہے کہ دائرے کا یہ سفر اس وقت تک قید و بند کی جب تک اس کی رفتار کم ہے لیکن اگراس کی رفتار تیز ہو جائیتو ایک مقام پر یہ دائرے کی لکیر کو توڑ کر آزاد ہو جاتا ہے۔ کائنات میں سب سے زیادہ رفتار روشنی کی ہے یعنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ جب کوئی وجود اس رفتا ر سے سرگرم عمل ہوتا ہے تو اس کی موجودیت از خود ختم ہو جاتی ہے اوروہ خود نور یعنی قوت بن جاتا ہے۔ اسی طرح جب رفتار نو ر کی رفتار سے کم ہوتی ہے تو قوت (نور) از خود وجودمیں ڈھلنے اور نظر آنے لگتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو نظر آنے والی کائنات تخلیقی سطح کا منظر پیش نہیں کرتی کیونکہ اس کی رفتار سے کم ہوتی ہے تو قوت (نور) از خود وجود میں ڈھلنے اور نظر آنے لگتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو نظر آنے والی کائنات تخلیقی سطح کا منظر پیش نہیں کرتی کیونکہ اس کی رفتار نور کی رفتار سے کم تر ہے کائنات کی تخلیقی سطح وہ ہے جہاں اس نے نور کی رفتار کو اختیار کر ک وجود ک دائرے کو توڑدیا ہے جب رفتار اتنی زیادہ ہو جاء یکہ وجو دکا دائرہ ہی ٹٹ جاء اور پھر دائرے کا مرکز اس کے محیط سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے اور ایسا عالم وجو د میں آ جاتا ہے کہ جو کائنات کے اس بے نام اور بے صورت تخلیقی مواد پر مشتمل ہے۔ جسے سائنس میں Ambiplasma کانام ملا ہے۔ واضح رہے کہ انتہائی رفتار اور انتہائی سکون ایک ہی شے کے دو نام ہیں لہٰذا پوری کائنات اپنی تخلیقی سطح پر بیک وقت انتہائی تیز رفتار بھی ہے ارو انتہائی پر سکون بھی۔ اس پس منظر میں صوفی کا عارفانہ تجربہ اپنے صحیح خدوخال کے ساتھ نظرآئے گا کیونکہ جب صوفی کا عشق اسے وجود کی قید سے رہائی بخشتا ہے تو وہ نور کے اس عالم سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے جو بیک وقت رفتار بھی ہے اور ٹھہرائو بھی۔ مگر اقبال کا رویہ صوفیانہ نہیں جمالیاتی ہے۔ اقبال بھی صوفی کی طرح عشق بے پناہ رفتار کے قائل ہیں تاکہ وہ نورکی جھلک پا سکیں اس کے بعد وہ اس نور میں جذب نہیں ہوتے بلکہ اس سے اکتساب کر کے اپنے اندر کی شمع کو روشن کر تے ہیں اور ایک ویسے ہی تخلیقی عمل کا مظاہر ہ کرتے ہیں جیسا کہ کائنات کی تخلیقی سطح پر جاری ہے اور جسے خود اقبال نے صدا کن فیکون سے تعبیر کیا ہے گویا اقبال کے ہاں جب عشق کی رفتار کائنات کی تخلیقی سطح کی رفتار سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے تو اقبال مرد مومن (فنکار) کے ذریعے اس ’’نور‘‘ کی تجسیم کرتے ہیں یعنی اسے صورتوں میں ڈھالتے ہیں اور یہ عمل اصلاً تخلیق فن ہی کی ایک صورت ہے اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اقبال کے ہاں عقل اور عشق دونوں ذریعے ہیں جو بالآخر خودی یا بیداری ذات پر منتج ہوتے ہیںَ ان میں سے عقل وہ مواد مہیا کرتی ہے جو صورتوں کی بوقلمونی اور رنگینی میں صرف ہوتا ہے اور عشق وہ رفتار مہیا کرتا ہے جس کے بغیر وجود کے دائرے کی لکیر کو توڑ کر کائنات کے تخلیقی باطن تک رسائی ممکن نہیںَ پھر جب بیداری ذات کا مرحلہ آتا ہے تو فنی تخلیق اپنی ہئیت کی تشکیل کے لیے فن کار کے شعور اور بصیرت سے اور اپنی روح کے نکھار کے لیے فنکار کی وہبی اور جمالیاتی صلاحیت سے فیض یاب ہوتی ہے۔ اقبال کے ہاں عشق کے مراحل سے آگے خودی کی قندیل کو روشن کرنے کا جو مرحلہ آیا ہے وہ ان کی شاعری میں دو اہم علامتوں یعنی پروانہ اورج گنو کے مختصر سے تجزیے سے آئینہ ہو سکتا ہے ابتداً اپنی شاعری میں اقبال نے پروانے سے اپنے تعلق کی خاطر کا بار بار ذکر کیا ہے جو اس بات پر دال ہے کہ اقبال عشق کے دائرہ میں اسیر ہوئے اور پر وانے کی طرح شمع کا طواف کرنے لگے۔ اپنی نظم ’’شمع و پروانہ‘‘ میں اقبا ل نے پروانے کے ذوق تماشا ئے روشنی میں بڑی کشش محسوس کی اور یہ کشش خود ان کی اپنی ذات کے ذوق تماشا کی آئینہ دار تھی۔ پروانہ تجھ سے کرتاہے اے شمع پیار کیوں یہ جان بے قرار ہے تجھ پہ نثار کیوں سیماب وا رکھتی ہے تیری ادا اسے آداب عشق تو نے سکھائے ہیں کیا اسے؟ کرتا ہے یہ طواف تیری جلوہ گاہ کا پھونکا ہوا ہے کیا تیری برق نگاہ کا آزاد موت میں اسے آرام جاں ہے کیا شعلے میں تیرے زندگی جاوداں ہے کیا غم خانہ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو اس تفتہ دل کا نخل تمنا ہرا نہ ہو گرنا تیرے حضور میں اس کی نماز ہے ننھے سے دل میں لذت سوز و گداز ہے کچھ اس میں جوش عاشق حسن قدیم ہے چھوٹا سا طور تو یہ ذرا سا کلیم ہے پروانہ اور ذوق تماشائے روشنی کیڑا ذرا سا اوپر تمنائے روشنی غالباً اس کشش کی وجہ یہ تھی کہ خود اقبال کو کائنات کے مظاہر میں حسن ا زل شمع ہی کی طرح روشن دکھائی دیا تھا اور وہ بے اختیار اس کی طرف کھنچتے چلے گئے تھے۔ اقبال کے ابتدائی کلام میں حسن ازل کے ذکر کی بڑی فروانی ہے یوں لگتا ہے جیسے انہیں پوری کائنات میں حسن ازل سے جاری و ساری نظر آیا ہے… حسن جی کی صفت روشنی (تپش ) ہے ۔ یہ ایک ایسی آگ ہے جس میں غسل کرنا باطن کی طہارت اور پاکیزگی پر منتج ہوتا ہے چنانچہ شروع شروع میں حسن ازل ہی اقبال کی عزیز ترین منزل ہے اور وہ اس حد تک رسائی پانے کے لیے پرواز کی تب و تاب جاودانہ کو بروئے کار لانے پر مستعد دکھائی دیتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ہاں پروانے کی کارکردگی کو اہمیت ہی اس لیے ملی ہے کہ پروان مجسم عشق اور تجسس ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب وہ بچے کو متجسس دیکھتے ہیں تو اسے طفلک پروانہ خو کا لقب عطا کر دیتے ہیں: کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلک پروانہ خو شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے تو مختصراً یوں کہہ لیجیے کہ اقبال کے نزدیک شمع روشنی کا منبع ہے اور روشنی حسن از ل ہے دوسری طرف شاعر ایک طفلک پروانہ عشق اور تجسس کی علامت! مگر اقبال کے ہاں پروانے سے تعلق خاطر آخر تک قائم نہیں رہ سکا بلکہ جلد ہی ان کے ہاںایک اور کیڑے سے تعلق خاطر پیدا ہو ا جسے انہوں نے کریک شب تاب کہہ کر پکارا۔ اس سے اقبال کے روحانی ارتقاء کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ پروانہ جسے اقبال نے مک ناداں کا خطاب دیا ہے عشق کی علامت ہے۔ اس کا کام شمع کے گرد طواف کرنا ہے۔مگر کرمک شب تاب یعنی جگنو شمع کا متوالا نہیں کیونکہ روشنی اسے ذات کے بطون سے مہیا کر دی گئی ہے۔ اقبال کے ہاں جب پروانہ سے جگنو کی طرف سفر کاآغا ز ہوا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ عشق کی سرحد کو عبو رکر لے گا آگہی کے مراحل میں داخل ہو رہے تھے۔ چنانچہ اسی لیے انہوں نے پروانے کی تعریف میں رطب للسان رہنے کی بجائے اب اس کے طریق کار اور رویے پر نقد ونظر سے بھی کام لینا شروع کیا مثلاً اقبال کا ایک شعر ہے: کرمک ناداں طواف شمع سے آزاد ہو اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک خاص اور متعین رفتار سے طے ہونے والے طواف کو قید و بند کی حالت قرار دینے لگتے ہیں۔ اور ان کے ہاں یہ خیال اب پختہ ہونے لگا تھا کہ روشنی کہیں باہر نہیں بلکہ ذات کے تجلی زار میں مستور ہے۔ یہ ایک بہت بڑا انکشاف تھا جو یقینا سوچ بچار کا نہیںبلکہ کشف اور روحانی تجربے کا ثمر تھا یوں لگتا ہے جیسے اقبال کو یکایک طواف شمع کسی پابجولاں قیدی یاکنوئیں کے بیل کے طواف کی صورت میں نظر آیا اور انہوںنے طواف کے اس دائرے کو ایک جست کی مدد سے عبور کیا۔ مگر یہ جست باہر کی طرف نہیں بلکہ اندر کی طرف تھی اب اقبال روشنی کے کسی خارجی نقطے کی طرف لپکنے کے بجائے اپنی ہی ذات کے مرکزی نقطے میں آباد ہو گء یتھے اس مرکزی نقطے کو اقبال نے تجلی زار کا نام دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے جو روشنی انہوں نے باہر کی دنیا میں دیکھی تھی وہ اب ان کے اندر نمودار ہو گئی تھی۔ چنانچہ اب انہوں نے خود کو کرمک ناداں کے بجائے کرمک شب تاب کے روپ میںپیش کیا۔ اب وہ شمع کے متلاشی نہیں بلکہ خود شمع بردار تھے اور جہان تاریک میںجہاں سے گزرتے ہر شے ان کے وجود کے دائرے میں آ گر روشن ہو جاتی ۔ اس سلسلے کو کرمک شب تاب کے زیر عنوان اقبال کے یہ اشعار قابل غور ہیں: شنیدم کرمک شب تاب می گفت نہ آں مورم کہ کس نالدر نشیم تواں بے منت بیگانگاںسوخت نہ پنداری کہ من پروانہ کیشم اگر شب تیرہ تراز چشم آہو ست خود افروزم چراغ راہ خویشم جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا جب عشق کی رفتار عام رفتار سے تجاو ز کرتی ہے تو دائرے کی لکیر کاحصار ٹوٹتا ہے پھر وہ سارا دائرہ ایک ایسا منور نقطہ بن جاتا ہے جس کی کوئی نہایت نہیں ہے۔ اس لیے اقبال کے ہاں اصل صورت یہ پیدا ہوئی کہ عشق کی بے پناہ رفتارنے کرمک ناداں کو کرمک شب تاب کا درجہ عطا کر دیا یعنی اقبال کا باطن تجسس کے ادار کو عبور کرکے ایک ایسی انوکھی چکاچوند سے بہرہ مند ہو گیا جس کے لیے مناسب ترین لفظ آگہی ہے ارو آہی نہ تو عشق ہے اور نہ عقل۔ گو اس میں عشق کا مہیا کردہ جلوہ بھی موجود ہے اور عقل کا مہیا کردہ شعور بھی ۔ آگہی بیدار ی ذات یا شعور ذات کا دوسرا نام ہے ۔ یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں عشق اور عقل کی تفریق ختم ہو جاتی ہے۔ اور انسان کائنات کی تخلیقی سطح پر سانس لینے لگتا ہے اقبال نے آگہی کے اس روپ کے لیے خودی کالفظ استعمال کیا ہے جو ہر اعتبار سے مستحسن ہے۔ واضح رہے کہ بے خودی کی منزل تک پہنچنے کی حد تک صوفی اور شاعر ہم قدم رہتے ہیں مگر اس کے بعد ان کے ہاں بعد القطبین پیدا ہو جاتا ہے جہاں تک صوفی کا تعلق ہے اول تو وہ جذب اور بے خودی کی کیفیت سے شاذ ہی باہر آتا ہے۔ اور جب کبھی آتا ہے تو اپنے عارفانہ تجربے کو دوسروں تک منتقل کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرتاہے کہ اس تجربے کے دوران حاصل کیے گئے علم کو دوسروں تک پہنچاتا ہے صوفیہ کے سلسلوں نے یہی خدمت سرانجام دی ہے اور یوں فلسفیانہ مباحث پیدا کر کے خلق خدا کو مابعد الطبیعیاتی مسائل پر سوچنے کی طرف راغب کیا ہے مگر وہ عارفانہ تجربے کو منتقل نہیں کر پائے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے بڑے پیار سے انہٰں بے فیض بھی کہا ہے صوفی کے مقابلے میں ایک فنکار بالخصوص شاعر قاری کو ورا الورا کے بارے میں معلومات فراہم نہیںکرتا اور نہ اسے فلسفیانہ مباحث ہی میں الجھاتا ہے بلکہ اسے ایک متوازی عارفانہ تجربے سے شناسائی کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اقبال نے یہی کچھ کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ سچے شاعر کی ذات کا ایک رخ کائنات کے تخلیقی باطن کی طرف ہوتا ہے جہاں سے وہ پرو میتھس کی طرح روشنی چراتا ہے اور دوسرا رخ آب و گل کی اس کائنات کی طرف جو اس سے مستیزہوتی ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ چاند سورج سے روشنی لے کر زمین کو عطا کرتا ہے۔ اور ایسا کرتے ہوئے سورج کی تیز اور چندھیا دینے والی روشنی کو لطیف ملائم اور پراسرار بنا دیتا ہے یہی حال شاعر کا ہے کہ وہ نور ازل سے اکتساب کرتا ہے اور پھر اس نور کی قلب ماہیت کر کے جو تجسیم کی ایک صورت ہے اسے خلق خدا تک منتقل کر دیتا ہے۔ اور اپنے اس تخلیقی عمل میں شعور کو بھی اسی طرح بروئے کار لاتاہے جیسے لاشور کو مگر صوفی اگر وہ بیک وقت صوفی اور فنکار نہیں ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صوفی اپنی پروں کے لمس سے نگاہ کی قدرت سے سالک کے ہاں ایک متوازی عارفانہ کیفیت کو جنم دینے پر قادر ہے وہ محض اپنی خوش اعتمادی کا اظہار کرتے ہیں اور بس! ٭٭٭ اقبال کی نظر میں انسانی زندگی کا مقصد ڈاکٹر نذیر احمد اقبال کی شاعری کا ایک منفرد اور مخصوص پہلو فکر اور مقصدیت ہے۔ اس کے اشعار میں عقل اور بصیرت قلب کے تضادات کی بحث ہے۔ انسانی خودی کی تشکیل کے مراحل کی نشاندھی ہے۔ زندگی اور فن کے مقاصد کی ترجمانی ہے اور انسان اور فطرت اور فرد اور معاشرے کے تعلقات پر گفتگو ہے۔ لیکن یہ رنگ پکڑنے سے پہلے وہ اپنی شاعری کے ابتدائی دورمیں روایتی اردو غزل بھی لکھتے تھے او ر انگریزی ادب کے زیر اثر نظموں میں مناظر فطرت کی نقشہ کشی کرتے ہوئے تشبیہہ و استعارہ اور عام صنائع بدائع کی پائمال ڈگر سے بہت پرے بھی نہیں جاتے تھے۔ تاہم قریباً اسی زمانے میں وہ ہندوستانی معاشرت کے عیب اور کوتاہیاں دیکھ کر کڑھتے تھے اور ان کی اصلاح بھی چاہتے ہیں۔ ’’نیا شوالہ‘‘ اسی دور کی مصلحانہ کوشش کے ماثر میں سے ہے۔ لیکن یہ دور زیادہ ریر تک نہیں چلا۔ ۱۹۰۵ ء سے ۱۹۰۸ء تک کے عرصہ میں جب آپ جرمنی میں یورپی فلسفے کے مطالعے میں مصروف تھے تو آپ کو مغربی تہذیب پر قریب سے نظر ڈالنے کا موقع ملا۔ آپ نے دیکھا کہ اس تہذیب کا ایک نمایاں پہلو مادیت وطنیت اور اپنے رنگ و نسل پر تفاخر ہے جو اعلیٰ انسانی اقدار کے منافی ہے لیکن اس کے باوجود وہ مغربی فلسفے اور ثقافت کی بعض خوبیوں کے قائل تھے اور ان سے آخر تک متاثر رہے۔ چنانچہ وہ اپنی ’’تشکیل الٰہیات‘‘ میں خہتے ہیں کہ مجھے ڈر ہے کہ ہمارے لوگ یورپ کی ظاہر ی چمک دمک سے متاثر ہو کر اسی کی نقالی میں رہ جائیں گے اور اس کے سائنسی طریق اور باطن کی خوبیوں سے بیگانہ رہیں گے۔ اور اپنے متعلق تو وہ یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ میں اسلامی تعلیمات پر بھی جدید مغربی علوم کی روشنی پر نظر ڈالتا ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی ذات پر اسلامی تصوف فلسفے اور تعلیمات کا اثر سب سے گہرا ہے بلکہ انہیں ہی ان کے فکری تشخص کا مرکز کہا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مغربی فلسفے اور ہندوی ویدانت وغیرہ کے اثر ات وہ ہیں جو ان پر باہر سے وار د ہوئے ۔ فلسفہ مادیت اور معیار زندگی کا ہر قیمت پر بلند سے بلند تر کرتے چلے جانا مغربی ثقافت کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ عقل ظاہر بین ان کے لیے ایک ذریعہ بن جاتی ہے۔ جو بصیرت قلبی یا عشق کو ایک غیر متعلق شے سمجھتے ہوئے اس سے کنارہ گیر رہتی ہے او را س لیے روحانی اقدار سے عملاً روگردان ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اقبال کی شاعری اور فکرمیں حقیقی تضاد مشرق اور مغرب کے درمیان نہیں بلکہ مادیت اور اقدار روحانی کے درمیان ہے۔ اور یہ مادیت جو روحانی اقدار کی قائل ہے کہیں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ا س میں مغرب اور مشرق کی کچھ تخصیص نہیں مغرب خراب و مشرق از اں بیشتر خراب۔ تاہم مغرب میں مادیت بطور ایک فلسفے ارونظریہ حٰات کے زندہ ہے اور سرمایہ داری اور سامراج اس کی عملی صورتیںہیں۔ یہ مغربی مادیت جسے اقبال ابلیسیت کہتے ہیں۔ د و نمایاں جز رکھتی ہے اوری ہ وہ ہیں جن کا ہمارے اس برصغیر کے رہنے والوں نے پچھلی دو صدیوں میں خوب تجزیہ کیا ہے۔ ایک جز یا عنصر توفرنگی کا متمردانہ اور پر رعونت سامراج تھا۔ جسے اقبال فرعونیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور دوسرا وہ سنگدلانہ سرمایہ داری نظام ہے جس سے فرنگی نے یہاں کی دولت کو اپنے لیے سمیٹا اور جسے اقبال قارونیت کہتے ہیں۔ اگرچہ یورپ میں اس ابلیسیت کے رد عمل سے ایک مزدکی انقلاب مارکس اور لینن کی تعلیم نے بھی پیدا کیا ۔ لیکن وہ اس کا مکمل جواب نہیں بن سکا۔ اقبال کی نظر میں مظلوم اقوام کے پاس اس ابلیسیت کا جواب اسلام اور صرف اسلام ہے۔ چنانچہ ابلیس کی مجلس شوریٰ میں ابلیس کہتا ہے کہ میرے طریق اگر شکست کا خوف ہے تو اسلام سے ہے مزدکیت کی سرمایہ دشمنی سے نہیں مزدکیت فتنہ فردانہیں اسلام ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک اسلام کے پاس ابلیسیت سے جہاد لڑنے کا کیا ذریعہ ہے خیر و شر کے کارزار میں خیر کے علمبردار کے پاس جو دنیا میں خدا کا نائب بھی ہونا چاہیے تھا۔ کیا ہتھیار ہے۔ اقبال کے خیال میں یہ ہتھیار اور ذریعہ خود انسان کی اپنی خودی ہے کہ جب وہ پختہ ہ تو نہ صرف شر کی حریف غالب ہوتی ہے بلکہ وہ تمام قدروں کی آخری قدر بھی ہے۔ قاری کو خیال رہے کہ اقبال کے کلام میںخودی ایک اصطلاحی لفظ ہے جو ذات شعور ذات اور تکمیل ذات وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اوراس سے وہ غرور اور تکبر مرادنہیں جس کے خلاف ہمارے عام صوفی شاعر وعط کہتے رہتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک انسانی خودی کا پختہ کرنا پراچین ہندو ی متوں کو بے عملی اور مسکنت یاعہد عتیق کے اہل کتاب کی رہبانیت اور گوسفندی کے بس کی با ت نہیں۔ پختگی حاصل کرنے کے لیے اسے مجاہدہ خیر و شر کے خونریز عمل سے گزرنا ضروری ہے ۔ ایسا نہ ہوتا تو ہمہ وقت مصروف طاعت فرشتے انسان کے لیے مثال ہوتے ۔ لیکن اقبال اپنے کلام میں تخلیق آدم کے قصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انسان کے خمیر میں نہ صرف فرشتوں کا نور ہے بلکہ اس میں عزازیل کی نافرمانی کاشعلہ بھی بھڑکتا ہے۔ ان میں سے اگر کسی عنصر کا انعدام کر دیا جائے تو ترقی کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ ان دو متضاد عناصر کی کشمکش اور باہمی تعامل سے ہی انسان خود گری کرتا ہے اور انہی کی پیکار سے انسانی تہذیب و تکمیل پاتی ہے۔ اقبال کی نظر میں انسانی خودی کی پختگی کے لیے سالک راہ کے پاس دو بڑے ذریعے ہیں۔ وہ اپنی اصطلاح میں ایک کو فقر اور دوسرے کو عشق کہتے ہیں۔ فقر اس ہمت سے پیدا ہوتا ہے جس سے انسان اپنی زندگی کو غیر ضروری اور غیر متعلق اشیا امور سے منقطع کر سکتا ہے۔ یہ عمل ایک شست و شو اور صفائی کا عمل ہے اور ایک نظر سے دیکھا جائے تو اسے ایک منفی نوعیت کا عمل کہا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں عشق ایک مثبت شے ہے لیکن عشق کے ظہور سے پہلے ضروری ہے کہ خودی کی لوح انسان کی ہمت تمام غیر متعلق نقوش سے صاف کر چکے لازم ہے کہ عشق کے مقدس محل ظہور کو سالک کی اہمیت حب الشہوات سے پاک کر چکی ہو تبھی وہ اس مقام فقر کو پا سکے گا۔ جس کے متعلق خود رسول اللہ صلعم کا ارشاد ہے کہ فقر میرا فخر ہے۔ لیکن اقبال کے فقرکو رہبانیت سے تمیز کرنا ضروری ہے کہ وہ تنگ دلی اور پیوست کی پیداوار نہیں۔ اقبال کا فقر غنی ہے کہ اس کی اساس استغنا ہے۔ یہ فقر دنیا کی طیبات سے نفرت نہیں کرتا بلکہ اپنے استغنا سے ان چیزوں کو رد کردیتا ہے جو عشق کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہوں۔ اور پھر اگر رکاوٹ دنیا کے کسی فرعون کی جانب سے ہے تو وہ اس سے بھاگ کرگوشہ نشین نہیں ہو جاتا بلکہ اسے ہی گوشے میں لگا دیتا ہے۔ جس طرح شعر اقبال میں خودی کا مفہوم غرور و تکبر سے الگ ہے اسی طرح اس کا عشق بھی اس معروف جنسی جذبے س ورا ہے جس کی مثالیں ہمارے غزل گو شاعروں کے کلام میں ہیں۔ اقبال کے نزدیک عشق بلند مقاصد کے لیے مجاہدانہ کوششوں کا نام ہے۔ حیات انسانی کا ایک نہایت بلند مقصد یہ ہے کہ وہ اس دھرتی پر خدا کا نائب بنے۔ اس کے لیے اسے خود نگری اور خود گری کی کٹھنائیوں سے گزرنا پڑتا ہے جس سے اس کی خودی کی تہذیب ہوتی ہے اور جس کے بغیر وہ اس مقام پر فائز نہیں ہو سکتا۔ لیکن بلند مقاصد کا ادراک اور انہیں اپنے لیے متعین کرنا نور بصیرت چاہتا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ سچے فن کار کو تو یہ نور ودیعت ہوا ہے اور شاعری فی الاصل پیغمبری کا ایک جزو ہے۔ چنانچہ اقبال کے نزدیک سچا فن اکر وہ نہیں جو گوپیوں میں بیٹھ کر مرلی بجاتا ہے بلکہ وہ ہے جس پر حیات انسانی کے بلند ترین مقاصد منکشف ہوتے ہیں اور وہ ان کا اظہار ایسے اسلوب میں کرتا ہے کہ وہ مخاطب انسانوںکے دلوں میںانکے لیے ولولہ پیدا کر دیتا ہے۔ اقبال کی نظر میں خودی کی تشکیل اور تکمیل ہی زندگی کا سب سے اونچا منصب ہے۔ ان کی طرف بڑھتے ہوئے وہ ان رکاوٹوں کو جوراہ میں حائل ہوں اپنی سخت کوشی سے دور کرتا جاتا ہے۔ پہلے قدم پر وہ پائوں کی اس زنجیر کو جسے عقل کہتے ہیں خیر باد کہتا ہے۔ کیونکہ اس کی ریشہ دوانیوں کا بڑا مقصد مادی اسباب جمع کرنا تھا۔ یہ مادی اسباب راہ کو آسان نہیںبناتے بلکہ حقیقتاً یہ وہ بوجھ ہیں جو راہ چلنا دوبھر کر دیتے ہیں۔ وہ عقل کی بجائے اپنے نور بصیرت پر تکیہ کرتا ہے جو اس کی رہنمائی فقر اور عشق کی طرف کرتا ہے اور یہ دورویے اسے خودی کے اس مقام تک لے جاتے ہیں جہاں وہ صحیح معنوں میں خلیفتہ اللہ فی الارض ہو جاتاہے۔ تخلقو بالاخلاق اللہ پھر وہ خدا ہی کی طرح دوسرے بندوں کے لیے سراپا رافت و رحمت بن جاتا ہے۔ ٭٭٭ اقبال کا مثالی انسان جگن ناتھ آزاد اقبال نے جسطرح اپنی اردو اور فارسی شاعری میںعظمت انساں کے گیت گائے ہیں اس کی مثال شاید کسی اور زبان کی شاعری میںنہ مل سکے۔ کلام اقبال میں کہیں تو عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں اور کہیںکہکشاں ستارے اور نیلگوں آسماں عروج آدم خاکی کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔ کہیںمشیت خاک کے فرشتوں سے زیادہ تابناک ہونے کی بشارت ملتی ہے تو کہیں یہ خاک پراسرار ثریا سے بھی اونچی جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس ضمن میں ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا اقبال کی عظمت آدم کا یہ تصور محض خالی خولی ایک جذباتی تصور ہے یا اس میں ایسے عوامل شریک ہیں جن کی بنیاد میں شعوری اور سماجی حقیقتیں کام کر رہی ہیں۔ اس بحث کو شروع کرنے سے قبل یہ بیان کردینا بھی نامناسب نہیں ہو گا کہ انسان کے روئے زمین پر ظہور کا مسئلہ ان مشکل ترین مسائل میں سے ایک ہے جن سے ذہن انسانی تخلیق کائنات سے لے کر آج تک دوچار ہوتا چلا آ رہا ہے اکبر الہ آبادی نے اس دقیق مسئلے کو اپنے مزاج کا موضوع بنایا اور یہ کہہ کر بات کو ہنسی میں ٹالنے کی کوشش کی : کہا منصور نے خدا ہوں میں ڈارون بولا بوزنہ ہوں میں ہنس کے کہنے لگے مرے اک دوست فکر ہر کس بہ قدر ہمت اوست حالانکہ منصور کے انا الحق کہنے سے اس نظریہ ارتقاء کی تردید نہیںہوتی جو ڈارون نے پیش کیا تھا۔ انا الحق پر اقبال کا یہ اعتراض تو سمجھ میں آ سکتا ہے کہ یہ ہندو ۱؎ ویدانت کا اثر تھا۔ لیکن یہ کہ انا الحق کہنے سے جدید نظریہ ارتقا کی نفی ہوتی ہے قرین قیاس نہیں کشود اسرار کی اس کڑی منزل سے اقبال بھی گزرے ہیں اورنظام کائنات میں انسان کا ایک اعلیٰ اور ارفع مقام متین کرنے کے باوجود ان کا ذوق تجسس اس قسم کے اشعار میں ظاہر ہوتا رہا ہے: ۱؎ کائنات کے متعلق جب یہ نقطہ نظر قائم ہوا تو ا س کا براہ راست نتیجہ غیر شخصی جذب کے تصور کی صورت میں برآمد ہوا۔ سب سے پہلے یہ تصور حضرت بایزید بسطامیؒ میںرونما ہوا اور یہ مکتب کے مابعد کے مخصوص خط و خال میں سے ہے۔ اس تصور کے نشوونما پر ان ہندوزائرین کا اثر پڑا ہوگا۔ جو ایران میںسے ہوتے ہوئے ان بدھی مندروں کو جایا کرتے تھے جو اس وقت باکو میں موجود تھے۔ اس مکتب کو حسین منصور نے بالکل وحد ت الوجودی بنا دیا اور ایک سچے ہندو ویدانتی کی طرح انا الحق (اہم برہم اسمی) چلا اٹھا۔ (Development of Metaphysics in Persia by Iqbal)ترجمہ از میر حسن الدین۔ کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں کہاں جائے گا آیا ہے کہاں سے خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے میں خود اس فکرمیں رہتا ہوں کہ میری انتہا کیا ہے اگر مقصود کل ہوں میں تو مجھ سے ماورا کیاہے مرے ہنگامہ ہائے نو بہ نو کی ابتدا کیا ہے دراصل اقبال کے نزدیک حقیقت کی بنیاد روحانیت ہے اور اسی روحانیت پر یہ سارانظام عالم قائم ہے۔ زندگی کا یہ کارخانہ اقبال کی نظرمیں محض ذراتی یا غیر ذی روح عناصر کے باہمی امتزاج کا نتیجہ نہیں ہے۔ چنانچہ آغاز کائنات سے لے کر انسان کی ظہور پذیری تک کی منازل کومحض طبیعیاتی اور کیمیاوی اصطلاحات میں بیان کرنا اقبال کے نظام فکر کے ساتھ متصادم ہونے کے مترادف ہے۔ اس لیے اقبال کی شاعری میںاقبال کانظریہ انسان تلاش کرنے کے لیے س تصر کو بالائے طاق رکھنا پڑے گا کہ انسان کی تخلیق اس مادے سے ہوئے ہے جس کامقدر انجام کار ایک غیر متحرک اور جامد صورت اختیار کرتا ہے بلکہ اس کے خلاف فلسفہ اقبال کی رو سے انسان علت العلل ماہیت کی بنیادی صداقت ہے۔ اقبال کا یہ نظریہ کلام اقبال میں جا بجا نظر آتا ہے زبو ر عجم میں کہتے ہیں: برخیز کہ آدم را ہنگام نمود آمد ایں مشت غبارے سے را انجم بہ سجود آمد آں راز کہ پوشیدہ در سینہ ہستی بود از شوخی آب و گل در گفت و شنود آمد مہ و ستارہ کہ در راہ شوق ہم سفراند از شوخی سنج دادا فہم و صاحب نظر اند چہ جلوہ ہاست کہ دیدند زکف خاکے فقا بہ جانب افلاک سوی مانگرند! اقبال کے نزدیک یہ ایک بنیادی اور صداقت ہے کہ انسان خدا ہی کی تخلیق ہے لیکن خالق اور مخلوق کار شتہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا۔ بلکہ اقبال کی شاعری میںیہ ایک ایسا پہلو اختیار کرتا ہے ج اس سے قبل دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ اور اس کی مثالیں کلام اقبال میں اول سے آخر تک موجو دہیں: مجھ کو پیدا کر کے اپنا نکتہ چیں پیداکیا نقش ہوں اپنے مصور سے گلہ رکھتا ہوں میں کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے یا کشا ایں پردہ اسرار را یا بگیر ایں جان بے دیدار را نخل فکرم نا امید از برگ و بر یا تبر بفرست یا باد سحر خدائی اہتمام خشک و تر ہے خدوندا خدائی درد سر ہے ولیکن بندگی استغفراللہ یہ درد سر نہیں درد جگر ہے لیکن یہ اقبال کی بنائی ہوئی خالق و مخلوق کے رشے کی مکمل تصویر نہیںبلکہ اس تصویر کے متعدد پہلوئوں میں سے محض ایک پہلو ہے ۔ ایک اور پہلو جو اس تصویر میں شامل ہے یہ ہے: متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی اس تصویر کا ایک اور اہم پہل زبور عجم کی اس غزل میں نظر آتا ہے: ما از خدائے گم شدہ حالم او بہ جستجو ست چوں ما نیاز مندو گرفتار آرزو ست گاہے بہ برگ لا نویسد پیام خویش گاہے درون سینہ مرغاں بہ ہاو ہو ست در نرگس آرمید کہ بینہ جمال ما چنداں کرشمہ داں کہ نگاہش بہ گفتگو ست آہے سحر گہے کہ زند در فراق ما بیرون را ندروں زبر و زیر و چار سو ست ہنگامہ بست از پئے دیدار خاکیے نظارہ رابہانہ تماشائے رنگ و بو ست ان تمام پہلوئو ںمیں جو اقبال کے قائم کے ہوئے خدا اور انسان کے رشتے کی محض ایک جھلک پیش کرتے ہیں کہ خواہ بندگی اقبال کے لیے درد سر ہو یا مقام بندگی دے کر اقبال شان خداوندی لینے کو بھی تیار نہ ہوں یا خدا انسان کی تلاش میں سرگرداں ہو۔ ایک نکتہ آئینے کی طرح روشن ہے اوروہ ہے ذات مطلق سے الگ انسان کا اپنا وجود۔ سمندر سے الگ ندی کا اپنا وجود۔ قطرہ الگ سمندر الگ انائے مقید الگ انائے مطلق الگ۔ اے خوش آں جوئے تنک مایہ کہ از ذوق خودی دردل خاک فرو رفت و بہ دریا نہ رسید یہ بدریانہ رسیدن ہی انسان ی خودی کا کمال ہے جسے فلسفہ اقبال میںایک مرکزی خیال کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ تو خیر خالق و مخلوق کے باہمی رشتے کے مختلف پہلوئوں کی بات ہوئی بنیادی بات اس تعلق سے فکر اقبال میں یہ ہے کہ خدا نے کائنات اور انسان کو اپنی فراوانی تکمیل کے باعث پیداکیا۔ ذات خداوندی تخلیقی قوتوں سے لبریز ہے۔ اور ان تخلیقی قوتوں کے قدرتی بہائو کا ایک مظہر تخلیق آدم ہے۔ اس مخلوق کے اندر ذات خداوندی کی غیر محدود تخلیقی قوتیں تو نہیں لیکن اس میں دو صلاحیتیں موجود ہیں جو جادہ تکمیل پر گامزن ہو کر انسان کے اندر خدائی صفات کے پیدا کرنے کاموجب بن سکتی ہیں لیکن یہ سب رحمت خداوندی کا ایک شمہ ہے ۔ اس کے سوا اس کی نہ کوئی اصل و حقیقت ہے نہ بنیاد۔ رحمت خداوندی کا مظہر انسان…گلشن کائنات کا گل سرسید ہے۔ یہ شاخ نہاں سدرہ ہے۔ خار و خس چمن نہیں ہے۔ ذات مطلق نے ربوبیت کی آب و تاب اور شان ربانی انسان ہی کے ذریعے سے نمایاں کی ہے۔ تخلیق کائنات کا سبب دراصل تخلیق آدم ہی ہے۔ گویا اقبال کے نزدیک اس عظیم ارتقاء پذیر نظام میںانسان کا ظہور کوئی اتفاقی امر نہیں ہے اور نہ ہی اس بے حد و بے پایاں کائناتی حقیقت میں انسان محض ایک ذرے کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ : تو فرد زندہ تراز مہر منیر آمدہ ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی نہیں ۃے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی اقبال کے نزدیک کائنات کی تخلیق محض ایک مقر کے پیش نظر ہوئی ہے کہ انسانی انا کے ظہور اور اس کی تکمیہل کے لیے زمین تیار کی جائے کائنات اگر ایک تمثیل ہے تو انسان اس تمثیل کا عظیم ترین کردار ہے۔ انسان ایک ایسی کتاب ہے جس میں کائنات کی حیثیت محسن ایک دیباچے کی ہے۔ انسان کے بغیر کائنات بالکل ایسی ہی ہے جیسے میملٹ پرنس آف ڈنمارک کے بغیر۔ انسان کی رو ئے زمین پر ظہور کی تصویر اقبال نے اپنے سحر انہ انداز میں پیش کی ہے : نعرہ زد عشق کہ خونیں جگرے پیدا شد حسن لرزید کہ صاحب نظر سے پیداشد فطرت آشفت کہ از خاک جہان مجبور خود گرے خود شکنے خودنگرے پیدا شد خبرے رفت نہ گردوں بہ شبستان ازل حزر اے پردگیاں پردہ در سے پید اشد آرزو بے خبر از خویش بہ آغوش حیات چشم وا کر دد جہان دگرے پیدا شد زندگی گفت کہ در خاک تپیدم ہمہ عمر تا ازیں گنبد دیرینہ درے پیدا شد انائے مطلق کے ساتھ انائے مقید کا رشتہ اقبال نے اپنی شاعری میں اور اپنی نثر میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے انائے مطلق کے اندر ایک جاودانی زندگی بسر کر رہی ہے۔ اقبال نے انسان کو اکثر غیر فانی کہا ہے۔ اس کی تشریح یہ ہیکہ اقبال کے نزدیک انسان انائے مطلق کی تخلیقی قوت کے اندر ایک امکان کے طور پر موجود ہے گویا انائے مقید انائے مطلق کی ایک مخلوق ہوتے ہوئے بھی اس سے الگ ایک ہستی رکھتی ہے۔ نہ آثار خودی کس راخبر نیست خودی در حلقہ شام و سحر نیست ز خضر ایں نکتہ نادر شنیدم کہ بحر از موج خود دیرینہ ترنیست ضمیرش بحر ناپیدا کنارے دل ہر قطرہ موج بے قرارے حیات آتش خودی ہا چوں شرر ہا چو انجم ثابت و اندر سفر ہا ربانی حقیقت کے اندر ایک امکان کے طور پر انا کی موجودگی غیر فانی ہے لیکن اس امر کو فراموش بھی نہ کرنا چاہیے کہ اس انا کی نمود کا سبب محض حکم ربانی اور تخلیق ربانی ہے اور سلسلہ ارتقاہی اس کے حصول کا باعث بنتا ہے۔ گویا حقیقت مطلقہ میں ایک امکان کے طور پر اس کا قیام بے شک قدیم سہی لیکن کائنات میں اس کی نمود حادث ہے۔ اندھیرے اجالے میں ہے تابناک من و تو میں پیدا من و تو سے پاک ازل اس کے پیچھے ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی سفر اس کا انجام و آغاز ہے یہی اس کی تقویم کا راز ہے کرن چاند میں ہے شرر سنگ میں یہ بے رنگ ہے ڈوب کر رنگ میں ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر اقبال آدم کے جنت سے زمین تک کے سفر کو ایک سفر ارتقاء کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ یہ زوال آدم نہیں بلکہ عروج آدم ہے۔ زمین آدم کے لیے کوئی مصائب خانہ نہیں ہے جہاں آدم کو سزا بھگتنے کے لیے بھیج دیا گیا ہے یہاں اقبال قرآن کے نظریہ ہبوط آدم کو جدید ارتقاء کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عہد نامہ قدیم آدم کی حکم عدولی کے لیے زمین کو برا بھلا کہتاہے۔ لیکن قرآن زمین کو انسان کے لیے مسکن و مامن سمجھتا ہے اور انسان کے لیے ذریعہ منفعت قرار دیتا ہے جسے اپنے تصرف میں لانے کے لیے انسان کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے ۱؎۔ ولقد مکنکم فی الارض رجعلنا لکم فیھا معایش قلیلا ما تشکرون ؎۲ … گویا ہبوط آدم کی روایت بیان کرنے سے قرآن کا مقصد یہ بتانا نہین ہے کہ انسان جنت سے نقل مکانی کر کے زمین پر آیا۔ بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ انسان جبلی میلان کی ایک ابتدائی حالت سے چل کر آزاد انا کے باشعور تصرف کی منزل تک پہنچا جہاں اس کے اندر شک کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوئی اور حکم عدولی کرنے کی صلاحیت بھی۔ یہ ہبوط کوئی اخلاقی معزولی نہیں ہے بلکہ یہ انسان کے سادہ شعور سے خود آگاہی ہے کے اولیں پرتو کی جانب سفر ہے۔ اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے اقبال کہتے ہیں: ’’انسان کا حکم عدولی کا پہلا عمل اس کا آزادانہ طور پر اپنے اختیار کو استعمال کرنے کا پہلا عمل بھی تھا اور یہی سبب آدم کا پہلا ارتکاب جرم معاف کر دیا گیا تھا‘‘۔ اور یہیں سے اقبال کے تصور عظمت انسان کی ابتدا ہوتی ہے اس سلسلے میں اقبال لکھتے ہیں: ’’جنت میں جس کا ذکر اس روایت میں آیا ہے سب سے پہلا واقعہ جو رونما ہوا انسانی کا ارتکاب جرم حکم عدولی تھا۔ جس کے فوراً بعد اسے جنت سے نکال دیا گیا دراصل قرآن اس لفظ (جنت) کا مفہوم جس طرح سے روایت میں آیا ہے خود بیان کرتا ہے۔ ا س روایت کے دوسرے حصے میں باغ (جنت) کا جو بیان دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں نہ بھوک ہے نہ پیاس نہ گرمی نہ عریانی۔ اس لیے اس ضمن میں میری سو چ اس مفہوم کی جانب مائل ہے کہ قرآنی روایت میں جنت ایک ابتدائی حالت کے تصور کانام ہے جس میں انسان عملی طور پر اپنے ماحول سے لاتعلق رہتا ہے اور نتیجتہً اس انسانی طلب کے نیش کو محسوس نہیں کرتا جس کی نمود ہی دراصل انسانی تہذیب کے آغاز کی نشاندہی کرتی ہے‘‘۔ طلب انسانی کے اس نیش سے انسان جنت میں نہیں بلکہ زمین پر آ کے آگاہ ہوتا ہے۔ گویا اسے اپنی صلاحیتوں اور ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا احساس زمیں ہی پر آ کے ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ انسان کو زمین پر نائب حق بنا کر بھیجا جاتاہے۔ یہ منصب انسان کو جنت میں حاصل نہیں تھا۔ دوسرے الفاظ میں زمین انسان کے لیے ہر اعتبار سے ایک ارفع تر مقام ہے۔ ۱؎ Reconstruction of Religious thought in Islamکے صفحہ ۸۴ پر اس آیت کا حوالہ صحیح نہیں دیا گیا ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ طباعتکی غلطی ہے۔ مذکور ہ آیت دراصل سورہ الاعراف کی نویں آیت نہیں ہے بلکہ دسویں آیت ہے (آزاد) ۲؎ اور ہم ہی نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ہے اور اس میں تمہارے لیے سامان معیشت پیدا کیے (مگر) تم کم ہی شکر کرتے ہو۔ (ترجمہ : فتح محمد جالندھری) بقول اقبال: خیر یا نیکی کوئی جبر کا معاملہ نہیں ۃے بلکہ ایک اخلاقی نصب العین کے ساتھ آزادانہ طور پر سپردگی کا نام ہے ۔ اور آزاد انا جب آزاد انا کے بغیر کسی جبر کے تعاون کرتا ہے تو خیر یا نیکی معرض وجود میں آتی ہے۔ ایک ایسا فرد (جو آزادی فکر سے عاری ہے اور ) جس کی حرکات محض مشینی حاکات کی سی حیثیت رکھتی ہیں اس قابل نہیں ہوتا کہ اس سے خیر یا نیکی ظہور پذیر ہو سکے‘‘۔ اپنے اس خیال کو اقبال جاوید نامہ میں نہایت فن کارانہ طور سے پیش کرتے ہیں۔ جب تخلیق کائنات کے پہلے ہی دن آسمان زمین کو ملامت کرتاہے… افق سے پہلی صبح طلوع ہوتی ہے اور وہ عالم نو زادہ کو اپنے پہلو میں لے لیتی ہے۔ یہ زمین اس وقت تک محض ایک خاکداں ہے۔ اس کادشت کسی کارواں سے آشنا نہیںہے۔ نہ اس کے پہاڑوں میں کوئی نہر ہنگامہ آرا ہے نہ اس ے صحرا پر ابھ بادل نے تراوش کی ہے۔ اشجار کی شاخیں اور طائروں کی نغمہ ریزی دونوں مفقود ہیں۔ نہ کہیں مرغزار ہے۔ نہ رم آہو۔ اسکے بحر و بر روح کی تجلی سے خالی ہیں۔ زمین کا پیکر کہ طیلساں کی مانند ہے۔ ایک پیچ و تاب کھاتے ہوئے دھوئیں پر مشتمل ہے۔ سبزہ اد بہار سے نا آشنا زمین کی گہرائیوں میںسویا ہوا ہے ایسے وقت میں چرخ نیلی فام نے زمین کو یہ کہتے ہوئے طعنہ دیا کہ میں نے کسی کو بھی اس خست حالت میں نہیں دیکھا جس خستہ حالت میں تجھے دیکھ رہا ہوں۔ میری وسعتوں میں تجھ ایسا کور چشم کہاں ملے گا۔ میری قندیل خورشید کے بغیرتو روشنی سے محروم ہے۔ خاک اگر بلندی میںکوہ الوند بھی بن جائے تب بھی وہ آسمان کی طرح روشن و پائندہ نہیں ہو سکتی۔ یا تو دلبری کے ساز وسامان کے ساتھ بسر کر یا احساس کمتری س مر جا… زمین آسمان کے اس طعنے سے شرمندہ ہو جاتی ہے اور اس پر ناامیدی دلگیری اور اضمحلال غلبہ پا لیتے ہیں چنانچہ وہ خدا کے حضور میں اپنی بے نوری پرتڑپ اٹھتی ہے حتیٰ کہ آسمان کے اس طر ف سے یہ آواز سنائی دیتی ہے… اے امینے از امانت بے خبر غم مخور اندر ضمیر خودنگر روز ہا روشن ز غوغائے حیات نے ازاں نورے کہ بینی در جہات نور صبح از آفتاب داغ دار نور جاں پاک از غبار روزگار نور جاں بے جادہ ہا اندر سفر از شعاع مہرو مہ سیار تر شستہ از لوح جاں نقش امید نورجاں از خاک تو آید پدید عقل آدم بر جہاں شبخوں زند عشق او بر لامکاں شبخوں زمد راہ واں اندیشہ او بے دلیل چشم او بیداد تراز جبرئیل خاک و در پرواز مانند ملک یک رباط کہنہ در راہش فلک می خلد اندر وجود آسماں مثل نوک سوزن اندر پرنیاں داغ ہاشوید زدامان وجود بے نگاہ او جہاں کور و کبود گرچہ کم تسبیح و خوں ریز است او روزگاراں را چو مہمیز است او چشم او روشن شود از کائنات تابہ بیند ذات را اندر صفات یہی نظریہ اردو میں ایک اور انداز کا میخانہ الہام بن کر ہمارے سامنے آتا ہے جب روح ارضی آدم کا استقبا ل کرتے ہوئے کہتی ہے: سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے تعمیر خودی کر اثر آہ رسا دیکھ خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں صنعت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ نانسدہ ترے عود کا ہر تار ازل سے تو جنس محبت کا خریدار ازل سے تو پیر صنم خانہ اسرار ازل سے محنت کش و خونریز و کم آزاد ازل سے ہے راکب تقدیر جہاں تیری رضا دیکھ اقبال خیر و شر کی بحث میںآزادی کو نیکی کے لیے ایک شرط قرار دیتے ہیں۔ لیک نساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیںکہ انائیمقید جسے طرح طرح کے اعمال کی اضافی اقدار پر غور و خوض کرنے کے بعد ایک طرز عمل کو منتخب کرنے کی قوت حاصل ہے ظہور کی اجازت دینا دراصل ایک بہت بڑا خطرہ مول لینا ہے اور ذات حق نے یہ خطرہ مول لینا قبول کیا تو محض اس لیے کہ انسان کی ذات پر پورا بھروسہ تھا ۱؎۔ اب یہ دیکھنا انسان کا کام ہے کہ وہ اس بھروسے کا کیوں کر اہل ثابت ہو سکتا ہے۔ شاید یہ خطرہ مول لینے سے ہی ایسی مخلوق کی جس کی تخلیق خیر محض کے تانے بانے سے ہوئی ہو اورپھر پست سے پست سطح پر اسے لے آیا گیا ہو امکانی قوت کا امتحان بھی لیا جا سکتا ہے۔ اور انہیں فروغ بھی دیا جا سکتا ہے قرآن نے اسی مفہوم کو واضح کرنے کے لیے کہا ہے ۔ اور پرکھنے کے لیے ہم تمہاری نیکی اور بدی سے آزمائش کرتے رہیں گے ۲؎۔ کل نفس ذائقہ الموت و نبلوکھ بالشر والخیر فتنۃ و الینا ترجعون ؎۳ اس لے خیر اور شر متضاد کیفیتیں ہونے کے باوجود ایک ہی کل کے جزو ہیں۔ ۱؎ یہاں اقبال His Immense Faith in Manکے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ لفظی ترجمہ یہ ہوگا۔ کہ خدا کو انسان کی ذات میں بے انتہا اعتقاد تھا۔ ۲؎ Reconstruction of Religious Thought in Islamاس آیت کا حوالہ بھی غلط دیا ہوا ہے یہ طباعت ہی کی غلطی ہو سکتی ہے۔ دراصل یہ سور ۃ الانبیاء کی پینتیسویں آیت ہے نہ کہ چھتیسویں (آزاد) ۳؎ ہر متنفس کو موت کامزہ چکھنا ہے اور ہم تم لوگوں کی سختی اورآسودگی اور آزمائش ک طور پر مبتلا کرتے ہیں۔ اور تم ہماری طرف ہی لوٹ کر آئو گے۔ (ترجمہ فتح محمد جالندھری) محمد پکھتال نے سختی اور آسودگی کی جگہ With Evil and With Goodلکھا ہے جو یقینا بہتر ترجمہ ہے (آزاد)۔ ان تمام حوالوں کے بعد یہ بحث یہاں پہنچتی ہے کہ بقول اقبال انسان کی تخلیق تو خدا ہی کرتا ہے۔ لیکن اس کا ارتقاء مادے (زمین) کا مرہون منت ہے۔ زندگی کی پہلی صورت بے شک ایک خلیاتی ہئیت اجتماعی ہو لیکن زندگی کا عروج (اشرف المخلوقات) انسان ہی ہے ۔ اقبا ل کا نظریہ انسان نظریہ ارتقاء کی نفی نہیں کرتا بلکہ اسے اپنا ایک مفہوم عطا کرتا ہے۔ صرف نظریہ ارتقاء ہی کیا اقبال نے جو بھی عظیم نظریے ورثے میں پائے ہیں انہیںبالعموم جوں کا توں قبول نہیں کیا بلکہ ان کی اپنے غور و فکر کے پیش نظر ایک نئی تفسیر پیش کی ہے۔ اس کتاب کا جو آج Reconstruction of Religious Thought in Islamکے نام سے ہمارے ہے ابتدائی مجوزہ نام تھا Islam as I Under Stood It۔ حب وطن کا نظریہ اقبال تک پہنچا تو اقبال نے اسے ایک وسیع معنی پہنائے اشتراکیت کا نظریہ اقبال کے سامنے آیا تو اسے بھی اقبال نے جوں کا توں قبول نہیں کیا بلکہ اس میں روحانیت کا عنصر داخل کرنے کی کوشش کی ۔ اقبال اپنی ان کوششوں میںکامیاب ہوئے یا نہیں یہ ایک الگ بات ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں ہو سکتا کہ اقبال نے ہر نظام فکر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کی اور اپنے فکر و نظر کی روشنی میں اسے جانچنے پرکھنے میں مصروف رہے۔ نظریہ عظمت انسان بھی انہی نظریات کی ذیل میں آتا ہے۔ جہاں تک ارتقاء کا تعلق ہے اقبال مادے کی اہمیت کے منکر نہیں ہیں لیکن مادے کے متعلق ان کا نظریہ مادہ پرستوں والا بلکہ وہ مادے کو روح کا لباس ظاہری کہتے ہیں۔ مادہ اقبال کے نزدیک ایک غیر نفس یا غیرانا (Non Self)حقیقت ہے جسے انائے مطلق اپنے ظہور کے لیے پس منظرکے طور پر معرض وجود میںلائی ہے۔ اقبال کی شاعری اور نثر دونوںاور اس امر کا ثبوت مہیا کرتی ہیں کہ اقبال ارتقاء کے قائل ہیں اور تعلیم قرآن کی روشنی میں اس کا جواب بھی مہیاکرتے ہیں۔ پیام مشرق کی نظم تسخیرفطرت اس کی ایک عمدہ مثال ہے جس میں ابلیس آدم کو اوبہ نہاد است خاک کہہ کے اسے سجدہ کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اس ضمن میں افکار ابلیس کے ماقبل کے حصہ نظم کا آخری اقبا ل کا نظریہ اور وضاحت سے بیان کرتا ہے: زندگی گفت کہ در خاک تپیدم ہمہ عمر تا ازیں گنبد دیرینہ درے پیدا شد ارتقا کے بارے میں اقبال کے خیالات ایک منضبط انداز سے ہمیں ان کی تصنیف Development of Metaphysics in Persiaمیںنظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں اقبال نے ابن مسکویہ کے مختلف نظریات بالخصوص نظریہ ارتقاء کو بڑی اہمیت دی ہے۔ الکلام میں مولانا شبلی نے ابن مسکویہ کے نظریہ ارتقا کا جو خلاصہ پیش کیا ہے۔ اقبال نے اس کا مکمل طور پر حوالہ دیاہے اور اس سے قطعاً کوئی اظہار اختلاف نہیں کیا۔ مولانا شبلی نے ابن مسکویہ کے نظریہ ارتقاء کا مندرجہ ذیل خلاصہ پیش کیا ہے: ’’ابتدائی جوہر کے اتحاد سے فلزاتی اقلیم وجود میں آئی جو حیات کی ادنیٰ ترین صورت ہے۔ اقلیم بناتی ارتقاء کا اعلیٰ ترین زینہ ہے ۔ پہلا ظہور خود رو گھاس کا ہے پھر پودے اور مختلف قسم کے درخت وجود میں آتے ہیں۔ ان میں سے بعض کے ڈانڈے اقلیم حیوانی سے مل جاتے ہیں کیونکہ ان میں بعض حیوانی خصوصیات ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ بناتی اور حوانی اقالیم کے درمیان حیات کی ایک اور صورت پائی جاتی ہے جو نہ تو حیوانی ہے نہ بناتی بلکہ دونوں کی خصوصیات اس میں مشترک ہیں جیسے مرجان حیات ی اس درمیانی منزل کے بعد قوت حرکت اور زمین پر رینگنے والے کیڑوں کے حاسہ لمس کے نشوونما کا درجہ ہے۔ عمل تفریق کے ذریعے سے خاسہ لمس سے حوادث کی دوسری صورتیں نمو پاتی ہیںجہاں تک کہ ہم اعلیٰ درجے کے حیوانات کے طبقے تک پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں عقل ایک ارتقائی حالت میں ظہور پذیر ہونے لگتی ہے۔ بندرمیں انسانیت کی کچھ جھلک سی آ جاتی ہے جو مزید نشوونما کے بعد بتدریج راست قامت ہو جاتا ہے اور انسان کی طرح اس میں بھی قوت فہم پیدا ہو جاتی ہے۔ یہاں حیوانیت کا اختتام او ر انسانیت کا آغا ز ہوتا ہے ‘‘۔ ابن مسکویہ کے نظریہ ارتقاء اور جدید نظریہ ارتقاء میں اس قدر حیرت انگیز مماثلت کے باوجود اس حقیقت کو فراموش نہ کرنا چاہیے کہ اس مماثلت کے اندر عدم مماثلت کے عناصر بھی چھپے ہوئے ہیںَ ابن مسکویہ کے نظریے کی بنیاد روحانیت پر ہے اور ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی بنیاد مادیت پر ۔ ابن مسکویہ اس سارے ارتقائی نظام کے لیے مادے کو قطعی بنیاد قرار نہیں دیتا ہے۔ اس کے نزدیک اس تمام ارتقائی سلسلے کا مخرج و منبع ذات حق ہے۔ نہ کہ مادہ۔ واجب الوجود صر ف خدا کی ذات ہے۔ مادہ واجب الوجودنہیں بلکہ حقیقت مطلق کے صدور مظاہر کے عمل میں ایک مرحلہ ہے اور ا س مرحلے کی غرض و غایت یہ ہے کہ انجام کار اسے اس منظر کے لیے پس منظر کا کام دینا ہے جسے اشرف المخلوقات یا انسان کہتے ہیں۔ گویا دوسرے لفظوں میں ارتقاء کا یہ سارا سلسلہ بے مقصد نہیں ہے بلکہ بامقصد ہے کیونکہ مشیت ایزدی کے مطابق اس سلسلہ ارتقاء میں وہ لمحہ ایک ناگزیر حیثیت رکھتا ہے جب انائے مطلق کے مظاہر میں سے انائے مقید اعلیٰ ترین اور اشرف ترین مظہر بن کے کائنات میں جلوہ افروز ہو۔ اقبال اسی نظریہ ارتقا کے قائل ہیں۔ پیکر ہستی ز آثار خودی است ہر چہ مے بینی ز اسرار خودی است صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او غیر او پیدا است از اثبات او در جہاں تخم خصومت کاشت است خویشتن را غیر خود پنداشت است یعنی انائے مطلق انائے مقید کے لیے سر چشمے کی حیثیت رکھتی ہے۔ انائے مطلق سے انائے مقید میں پھوٹنے کا عمل شاعرانہ الفاظ میں وہی ہے جو شعلے سے شرر کے پھوٹنے کا عمل ہے۔ ضمیرش بحر نا پیدا کنارے دل ہر قطرہ موج بیقرارے زا ورا بے نمود ما نمودے نہ مارا بے کشود او کشودے سرو برگ شکیبائی ندارد بجز افراد پیدائی ندارد حیات آتش خودی ہاچوں شرر ہا چو انجم ثابت و اندر سفر ہا جہاں را از ستیز او نظامے کف خاک از ستیز آئینہ فامے درون سینہ ما خاور او فروغ خاک ما از جوہر او صرف انائے مقید ہی کیا اقبال کے نزدیک ساری حقیقت کائنات کا مخزن و منبع خداہی کی ذات ہے۔ یہاں اس امر کو ملحوظ رکھنا ضروریہے کہ اقبال سلسلہ ارتقاء میں ایک تمثیلی ظہور کے قائل ہیں یعنی کم سطح والے ظہور کے بعد اونچی سطح والا ظہور سامنے آتا ہے۔ اور ہر مرحلہ لامتناہی امکانات کا حامل ہوتا ہے۔ یعنی خلیے کے ارتقاء کی موجودہ صورت… انسان… ارتقاء کی قطعی اور آخری صورت نہیںہے۔ انسان کے لیے ذہنی طورپر بھی اورعضویاتی طور پربھی ابھی کئی ارتقائی مراحل منتظر ہیں۔ اقبال کے اس شعر: عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے میں اشار ہ صرف انسان کے خلامیں پرواز کی طرف نہیںہے بلکہ اس کے ساتھ ہی اس شعر میں اور بھی کئی اشارے مضمر ہیں۔ لفظ عروج ذہنی روحانی اور جسمانی ہر طرح کی بلندی کے مفہوم کا حامل ہے۔ اس ضمن میں اقبال روح اور جسم کو الگ الگ کر کے دیکھنے کے بھی قائل ہیں۔ انہیں روح یا جسم میں کوئی متناقض یا متضاد نظر نہیں آتا۔ روح اور جسم اقبال کے نزدیک ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں۔ جاوید نامہ میں اپنے ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: اے کہ گوئی محمل جان است تن سر جاں را در نگر برتن متن محمے نے حالے از احوال اوست محملش خواندن فریب گفتگو است چیست جاں جذب و سرود و سوز و درد ذوق تسخیر سپہر گرد گرد چیست تن؟ بارنگ و بو خو کردن است بامقام چار سو خو کردن است گویا اقبال کے نزدیک انسانی جسم کی تخلیق کسی ایسے مادے سے نہیں ہوئی جو روح سے قطعاً بے تعلق یا بے نیاز ہے اور یہ بھی نہیں کہ جسم کی تخلیق اس لیے ہوئی ہے کہ روح اس میں قیام کر سکے۔ جسم بھی اسی حقیقت کا ایک پرتو ہے جس کا ایک پرتو روح ہے۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ انہیں ایک دوسرے سے الگ الگ تصور کرنا اور الگ الگ بیان کرنا کوتاہی فکر ہے اور کوتایہ زبان بھی۔ اس نکتے کو اقبال گلشن راز جدید میں یوں سحر کارانہ انداز سے بیان کرتے ہیں: تن و جاں را دو تا گفتن کلام است تن و جاں را دو تا دیدن حرام است بجاں پوشیدہ ریز کائنات است بدن حالے ز احوال حیات است عروس معنی از صورت حنا بست نمود خویش را پیرایہ ہا بست حقیقت روئے خود را پردہ باف است کہ او لذتے در انکشاف است اقبال کے نزدیک جسم اور روح میں نہ کوئی دوئی ہے نہ کوئی مفارقت۔ دونوں ایک ہی چیز کے مظہر ہیں بلکہ اقبال تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دونوں کی ساخت ایک ہی شے سے ہوتی ہے۔ روح بھی اعمال کے ایک نظام کا نام ہے اور جسم بھی۔ دونوں کے اعمال میں کوئی حد فاصل قائم کرنا بھی ممکن نہیں۔ اقبال ایک چھوٹی سی مثال دے کر اپنا مفہوم واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب میں میز پر سے کتاب اٹھاتا ہوں تو یہ طے کرنا مشکل ہے کہ اس عمل میں میرے جسم کا کتنا حصہ ہے اور روح کا کتنا۔ روح کے اظہار کے لیے جسم کی موجودگی ضروری ہے۔ لیکن اقبال کے بیان میں ایک الجھن اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ روح کی اہمیت جسم کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ جہاں جسم اپنی ہستی برقرار رکھنے کے لیے روح کا محتاج ہے وہاں روح حقیقت ربانی کی محتاج ہے۔ یہاں اقبال روح کے بارے میں ایک اور لطیف نکتہ پیش کرتے ہیں۔ مسئلہ ارتقاء کے متعلق یہ لکھنے کے بعد کہ ابن مسکویہ پہلا مسلمان تھا جس نے نمود انسان کے متعلق ایک واضح اور کئی پہلوئوں سے ایک جدید تھیوری پیش کی۔ آپ کہتے ہیں کہ رومی نے جب حیات جاوداں کے مسئلے کو حیاتیاتی ارتقاء کا مسئلہ کہا اور بعض مسلمان مفکرین کے نظریے کے برعکس اسے ایک ایسا مسئلہ قرار نہ دیا جو خالص بعد الطبیعیاتی انداز کے دلائل سے حاصل ہو سکے تو رومی کا یہ انداز فکر قرآن کی روح کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ تھا لیکن نئی دنیا کے لیے مسئلہ ارتقاء امید اور جوش و ولولہ کا باعث نہیںبلکہ ایک پریشانی اور قنوطیت کا سبب بنا ہے۔ اس کی وجہ یہ غیر مدلل جدید نظریہ ہے کہ انسان کی موجودہ ساخت ذہنی بھی ہے اورنفسیاتی بھی حیاتیاتی ارتقاء میں حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور موت جسے ایک حیاتیاتی وقوعہ سمجھا جاتا ہے تعمیری مفہوم سے عاری ہے ۱؎ ۔ یہاں اقبال یہ کہہ کر دنیا کو اس وقت ایک رومی کی ضرورت ہے جو انسان کے اندر ایک امید افزا رویہ پیدا کر سکے اور ا س کے دل میں زندگی کے لیے جوش اور ولولے کی شمع روشن کر سکے رومی کے مندرجہ ذیل اشعار دہراتے ہیں: ’’… اس کے بعد جیسا کہ تم جانتے ہو خالق اعظم نے انسان کو حیوانی حالت سے انسانی حالت تک پہنچایا چنانچہ انسان ایک فطری نظام سے دوسرے فطری نظام میں پہنچ گیا حتیٰ کہ وہ دانا اور توانا ہو گیا جیسا کہ وہ اب ہے اپنی اولین روحوں کے بارے میں اب اسے کچھ یاد نہیں اور اسے موجودہ روح کی حالت سے بھی تبدیل کیا جائے گا‘‘۔ ۲؎ ان اشعار کو نقل کرنے کے بعد اقبال لکھتے ہیں لیکن جس نکتے نے مسلمان فلسفیوں اور فقیہوں میں خاصا اختلاف رائے پیدا کیا ہے وہ یہ ہے کہ کیا انسان کے ظہور نو (بردز) کے معنی یہ ہیں کہ اسے اپنا پہلا مادی (جسمانی) ذریعہ بھی عطا ہو گا۔ ان میں سے اکثر علماء جن میں اسلام کے آخری عظیم فقیہ شاہ ولی اللہ بھی شامل ہیں اس خیال کے حامی ہیں کہ انسان کا ظہور نو (بروز) انا کے نئے ماحول کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوئے کسی نہ کسی جسمانی ذریعے کا متقاضی ہو گا ۳؎‘‘۔ ۱؎ انسانی انا‘ اس کی آزادی اور حیات ابد (اقبال) ۲؎ اس بات کے لیے میں معذرت خواہ ہوں کہ مثنوی مولانا روم کا نسخہ بروقت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اقبا ل کے (فارسی سے) انگریزی ترجمے کا اردو ترجمہ پیش کیاہے ۔ (آزاد)۔ ۳؎ انسانی انا‘ اس کی آزادی اور حیات ابد (اقبال) اس مقام پر آ کر اقبال اضطراب قلبی اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور چونکہ رومی اور شاہ ولی اللہ کے نظریات ان کے عقیدے سے ٹکراتے نظر آتے ہیں اس لیے وہ سورہ ق کی تیسری اور چوتھی آیت کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے رومی اور شاہ ولی اللہ کے نظریات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں میرے نزدیک یہ آیات بڑی وضاحت سے کہہ رہی ہیںکہ کائنات کی ماہیت کے پیش نظر یہ بات ممکن ہے کہ انسانی اعمال کے قطعی جائزے کے لیے جس طرح کی انفرادیت کی ضرورت ہے اسے کسی اور طرح سے برقرار رکھا جائے۔ یہ دوسرا طریقہ ہے کہ اس کے بارے میں ہم نہیں جانتے نہ ہی اس کی تخلیق نو کی ماہیت کے بارے میں ہمیں اس کے ساتھ جسم کا تصور وابستہ کرنے سے خواہ وہ کتنا ہی لطیف کیوں نہ ہو کوئی مزید بصیرت یا دقت نظری حاصل ہو سکتی ہے۔ قرآن کی یہ مطابقات ایک حقیقت کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں لیکن اس کی ماہیت یا کردار کو فاش نہیں کرتیں۔ چنانچہ فلسفیانہ طور پر بات کرتے ہوئے ہم اس سے زیادہ آگے نہیں جا سکتے کہ انسان کی گزشتہ تاریخ کے پیش نظر یہ انتہائی غیر اغلب نظر آتا ہے کہ اس کا کیریر جسم کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائے ۱؎‘‘۔ اس موقعے پر اقبال کے مندرجہ ذیل خط کا ذکربے محل نہ ہو گا جو انہوںنے اس موضوع پر علامہ سید سلیمان ندوی کو لکھا: ’’مرزا غالب کے اس شعر کا مفہوم آپ کے نزدیک کیا ہے: ہر کجا ہنگامہ عالم بود رحمتہً للعالمینے ہم بود حال کے بیت دان کہتے ہیں کہ بعض سیاروںمیں انسان یا انسانوں سے اعلیٰ تر مخلوق کی آبادی ممکن ہے۔ اگر ایسا ہو تو رحمتہ اللعالمینؐ کا ظہور وہاں بھی ضروری ہے۔ اس صورت میں کم ازکم محمدیت کے لیے تناسخ یا بزور لازم آتا ہے۔ شیخ اشراق تناسخ کے ایک شکل میں قائل تھے ۔ ان کے اس عقیدے کی وجہ یہی تو نہ تھی؟‘‘ (مکاتیب اقبال صفحہ ۱۱۶۔۱۱۷) اب اس بحث کو ہم اقبال کی نظم و نثر کو بنیاد بنا کر دورنہیںلے جا سکتے۔ بالخصوص جبکہ اقبال خود یہ کہہ کر اس بحث کا دروازہ بند کر دیتے ہیں کہ یہ دوسرا طریقہ کیا ہے ہم اس کے بارے میں نہیں جانتے۔ نہ ہی اس تخلیق نو کی ماہیت کے متعلق ہمیں اس کے ساتھ جسم کا تصور وابستہ کرنے سے خواہ کتنا ہی لطیف کیوں نہ ہو کوئی مزید بصیرت حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اس بحث کا دروازہ بند کر دینے کے باوجود اقبال انسان کے اندر چھپے ہوئے امکانات اور ان امکانات کی روشنی میں عظمت آدم کا جو تصور پیش کرتے ہیں وہ فکر اقبال اورشعر اقبال کی عالم انسانیت کو ایک دین ہے۔ اسی مذکور ہ مقالے انسانی انا اس کی آزادی اور حیات ابد میں بروز کی بحث کو نا مکمل چھوڑ کے وہ پھر عروج آدم خاکی کے موضوع کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ دوزخ اور جنت احوال ہیں جگہیں نہیں ہیں… ۱؎ انسانی انا ‘ اس کی آزادی اورحیات ابد (اقبال) قرآن کے الفاظ میں جہنم خدا کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔ جو دلوں کو ریز نگیں کر لیتی ہے… کسی فرد کی بطور انسان کے اپنی ناکامی کا تکلیف دہ احساس… جنت وہ مسرت ہے جو انتظار اور شکست و ریخت کی قوتوں پر فتح پانے سے نصیب ہوتی ہے ۱؎۔ اسلام میں ہمیشہ کے لیے مرد ود قرار دیے جانے کا کوئی تصور نہیں۔ بعض آیات میں دوزخ میںپڑنے کے تعلق سے مدتوں کا جو لفظ آیا ہے (۷۸:۲۳) اس کے متعلق خود قرآن ہی سے یہ بات ظہار ہے کہ اس کا مفہوم ہے ایک معینہ مدت ۔ جہاں تک شخصیت کے ارتقاء اور ااس کی نشوونما کا تعلق ہے اس وقت قطعی طور پر غیر متعلق نہیں ہے۔ کردار مائل بہ استقلال ہوتا ہے۔ اس کو تشکیل نو کے لیے پورا وقت ملنا چاہے۔ اس لیے قرآن حکیم کی رو سے جہنم کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ کوئی جاودانی اذیت ہے جو ایک مستقم مزاج خدا نے انسان پر مسلط کر دی ہے۔ یہ دراصل ایک اصلاحی تجربہ ہے جس کی بدولت ایک بے لچک اور درشت انا کوایک بار پھر حساس بنایا جا سکتا ہے تاکہ وہ لطف خداوندی کی لطیف موج نسیم سے لذت یاب ہو سکے۔ اسی طرح سے جنت کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں انسان چھٹی منانے کے لیے پہنچ گیا ہو۔ زندگی ایک اکائی ہے اور مسلسل اکائی ۔ انسان ہمیشہ آگے کی طرف قدم بڑھا رہا ہے تاکہ وہ اس صداقت مطلق کی تازہ ترین تجلیات سے فیض یاب ہو سکے جو ہر لمحہ ایک نئی آن اور نئی شاان سے نمایاں ہو رہی ہے اور تجلیات ربانی حاصل کرنے والی شخصیت کوئی جامد شخصیت نہیںہو سکتی۔ آزاداناً کا ہر عمل دایک نئے عمل اورنئے مقام کی تخلیق کرتا ہے۔ اور اس طرح سے تخلیقی نقاب کشائی کے مزید مواقع فراہم کرتا ہے۔ اقبال کے انگریزی مقالے انسانی انا اس کی آزادی اور حیات ابد کا یہ اقتباس قدرے طویل ہو گیا ہے لیکن یہ اقتباس اقبال کے فکر و نظر کا وہ پہلو ہمارے سامنے لے آتا ہے جس کی بدولت اقبال نے اردو اور فارسی شاعری کو عظمت آدم کے موضوع پر انتہائی نادر اشعار دیے ہیں مثلاً: اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے وہ دشت سادہ وہ تیرا جہاں بے بنیاد مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں انہی کا کام ہے پہ جن کے حوصلے ہیں زیاد سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰؐ سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے غافل نہ ہو خودی سے کہ اپنی پاسبانی شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ یقیں پیدا کر اے غافل یقیں سے ہاتھ آتی ہے وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری عروج آدم خاکی کے منتظر ہیں تمام یہ کہکشاں یہ ستارے یہ نیلگوں افلاک ۱؎ قائل ہم بھی ہیں دوزخ و جنت کے معنی کے ہیں معتقد نہیں صورت کے دوزخ تاریکیاں تری دوری کی جنت انوار ہیں تری قربت کے (محروم) واقف ہو اگر لذت بیداری شب سے اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پراسرار آغوش میں اس کی وہ تجلی ہے کہ جس میں کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیار مشکل نہیں یاران چمن معرکہ باز پر سوز اگر ہو نفس سینہ دراج شاید کہ زمیں ہے یہ کسی اور جہاں کی تو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں زیر پر آ گیا تو یہی آسماں زمین فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک بلند تر ز سپہر است منزل من و تو براہ قافلہ خورشید میل فرسنگ است درون گنبد در بستہ اش نگنجیدم من آسمان کہن را چو خار ہلویم صدر جہاں می رواید از کشت خیال ما چو گل یک جہان و آں ہم از خون تمنا ساختی طرح نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم ایں چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی باغبان گر ز خیابان تو برکند ترا! صفت سبزہ دگر بار و میدن آموز نقش دگر طراز دہ آدم پختہ تر بیار بعت خاک ساختن می نہ سزد خدائے را در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بکمند آور ای ہمت مردانہ در طلبش دل تپید دیر و حرم آفرید مابہ تمنائے او اوبہ تمنائے ما منہ از کف چراغ آرزو را بدست آور مقام ہائو ہو را مشو در چار سوئے ایں جہاں گم بخود باز آو بشکن چار سو را دل دریا سکوں بیگانہ از تست بہ جیبش گوہر یک دانہ از تست تو اے موج اضطراب خود نگہدار کہ در یار متاع از خانہ تست سحر ہادر گریبان شب اوتست دروگیتی را فروغ از کوکب اوست نشان مرد حق دیگرچہ گویم ۱؎ چو مرگ آید تبسم برلب اوست ہستی و نیستی از دیدن و نا دیدن من! چہ زمان و چہ مکاں شوخی افکار من است ساز تقدیرم و صد نغمہ پنہاں دارم ہر کجا زخمہ اندیشہ رسد تار من است ۱؎ اقبال کے اس مصرعے میں بعض لوگوں نے خواہ مخواہ ترمیم کر کے اسے یوں لکھنا شروع کر دیا ہے نشان مرد مومن یا تو گویم مجھے اس ترمیم کے بارے میں صرف یہی کہنا ہے کہ ترمیم یافتہ مصرعہ اقبال کا نہیں ۔ (ملاحظہ ہو ’’ارمغان حجاز‘‘ لاہور ایڈیشن ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۶۵) این من از فیض تو پائندہ نشان تو کجا ست ایں دو گیتی اثر ماست جہاں تو کجا ست عشق اندر جستجو افتادہ آدم حاصل است جلوہ اور آشکار از پردہ آب و گل است آفتاب و ماہ و انجم می تواں دادن زدست در بہائے آں کف خاکے کہ داروئے دل است یکی در معنی آدم نگراز من ہچ می پرسی ہنوز اندر طبیعت می خلد موزوں شود روزے چناں موزوں شود ایں پیش پا افتادہ مضمونے کہ یزداں را دل از تاثیر اوپر خوں شود روزے تو کیستی ز کجائی کہ آسمان کبود ہزار چشم براہ تو از ستارہ کشود من آں جہان خرابم کہ فطرت ازلی جہان بلبل و گل را شکست و ساخت مرا ہنگامہ ایں محفل از گردش جام من ایں کوکب شام من ایں ماہ تمام من عقل تو حاصل حیات عشق تو سر کائنات پیکر خاک خوش بیا سوئے عالم جہات زہرہ و ماہ و مشتری از تو رقیب یک دگر از پئے یک نگاہ تو کشمکش تجلیات اس طرح کے دلکش اور معنی آفریں اشعار سے جن کا موضوع عظمت آدم ہے اقبال کا کلام لبریز ہے ۔ اور اقبال نے عظمت آدم کا جو معیا ر پیش کیا ہے ا س کے لیے بنیادی شرط سوز دروں ہے جستجوئے پیہم ہے عمل اور مسلسل عمل ہے اس کے لیے رنگ و نسل اورمذہب و ملت کی قید نہیں اور اسی میں اقبال کی اپنی عظمت کا راز پنہاں ہے۔ کفر اور اسلام اقبال کی نگاہ میں کچھ اور ہی مفہوم رکھتے ہیں اقبال مسلمان کو کافر اور کافر کو مسلمان کہتے ہیں محض اسی شرط کے پیش نظر انہوںنے جو ایک مثالی انسان کے لیے عائد کی ہے یعنی عشق سوز دروں کا وش پیہم تلاش مسلسل۔ اس ضمن میں اقبال کے مندرجہ ذیل اشعار جو فلسفہ اقبال کے مرکزی خیال پر بھرپور روشنی ڈالتے ہیں خاص توجہ کے مستحق ہیں: اگر ہے عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی نہ فقیری مومن ہے تو کرتاہے فقیری میں بھی شاہی کافر بیدار دل پیش صنم بہ ز دیندارے کہ خفت اندر حرم اور اسی زاویہ نگاہ کے پیش نظر اقبال کے تصوف کی بحث میں محی الدین ابن عربی کی تعلیم کو اسلام کی تعلیم سے دو ر اور دیباچہ اسرار خودی میں بھگوان کرشن کی تعلیم کو تعلیم اسلام کے قریب قرار دیتے ہیں۔ اور یہی اقبال کا وہ عالمگیر انداز فکر ہے جس کے پیش نظر وہ جب گورونانک دیو کا ذکر کرتے ہیں تو انہیں مرد کامل کہتے ہیں: پھر اٹھی توحید کی آخر صدا پنجاب سے ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے اور یہی فکر اقبال کا وہ پہلو ہے جس پر کھلے دل کے ساتھ مزید کام کرنے کی اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭ اردو غزل کی معنوی توسیع میں اقبا ل کا حصہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری علامہ اقبال نہ تو شاعروں کے شاعر تھے اور نہ انہیں ترنم کے ذریعے مجمع پر چھا جانے کا فن آتا تھا‘ زبان اور بیان اور فکر و خیال ہر اعتبار سے وہ ایک پر شکوہ اور بلند سطح شاعر تھے اور ان کے اشعار سے سنجیدہ مطالعہ یا سماعت کے بعد ہی لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جو قبول عام جیتے جی اقبال کو نصیب ہوا وہ اردو کے دوسرے شعرا کو بہت کم میسر آیا ہے۔ اقبال کی وفات کے بعد بھی ان کی شہرت کا چاند گہنایا نہیں ہے ان کی مقبولیت کم نہیں ہوئی۔ بلکہ لوگوں میں ان کے مطالعے کا ذوق و شوق بڑھتا ہی گیا ہے اور ان کی شہرت پاک و ہند کی حدود سے بہت آگے بڑھ کر آفاقی بن گئی ہے۔ چنانچہ غالب کے سوا اردو میں اب تک کوئی شاعر ایسا نظر نہیں آتا جسے شہرت و قبولیت کے میدان میں اقبال کا حریف کہا جا سکے۔ اقبال کی اس عالمگیر شہرت و مقبولیت کا کیا سبب ہے؟ اس کا ایک مختصڑ جواب تو یہی ہے کہ غالب کی طرح وہ بھی حیات و کائنات اورنفسیات انسانی کے غیر معمولی نباض و ترجمان ہیں۔ لیکن اگر بات صرف اتنی ہی ہوتی تو ان کی شہرت و مقبولیت کا حلقہ بھی غالب کی طرح صرف حلقہ خواص یعنی علمائے فکر و فن اور پختہ کاران ذوق و شوق تک محدود ہوتا اور ا ن کے نام و کلام سے صرف وہی لوگ واقف ہوتے جو علم و فکر اور ذوق سخن کی ایک بلند سطح رکھتے ہیںلیکن ہم یہ دیکھتے ہیںکہ ان کی حکمرانی بچے بوڑھے جوان چھوٹے بڑے ادنیٰ اعلیٰ‘ طلبہ ‘ اساتذہ حتیٰ کہ مزدور و کسان تک ان کے نام سے آشنا ہیں اور بقدر توفیق ان کے کلام سے لطف اٹھاتے ہیں۔ اقبال کی اس شہرت و مقبولیت کا سب سے نمایاں سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری صورت اور معنی ہر لحاظ سے ہمہ گیر ہے۔ اس میں کسی کسی کے لیے نہیں سب کے لیے دل جوئی و غمگساری اور دلکشی و دلچسپی کا سامان موجود ہے گویا ان کی شاعری ایک طرح کی قوس قزح ہے جس میں وہ سارے رنگ جو اردو شاعری کے آسمان پر بکھرے ہوئے تھے ایک جگہ مجتمع ہو گئے ہیں اور رنگوں کا یہی اجتماع ایک خاص رنگ میں ڈھل کر کشش عام کا وسیلہ بن گیاہے۔ کلام اقبال کی اس ہمہ گیری و ہمہ رنگی کی کیا نوعیت ہے؟ ا س کو سمجھنے کے لیے اردو شاعری میں ہئیت و موضوع کے جتنے صنفی تجربے ہوئے ہیں ان سب پر نظر ڈالنی ہو گی۔ اس تناظر میں آپ یہ دیکھیں گے کہ اردو میں ہر شاعر کا اپنا ایک مخصوص ومحدود میدان ہے کوئی مثنوی کا شاعر ہے کوئی غزل کا‘ کوئی نظم کا شاعر ہے کوئی قطعہ کا کوئی مسدس کا شاعر ہے کوئی مرثیے کا‘ کوئی جدید نظم کا شاعر ہے ‘ کوئی قدیم کا‘ کوئی نظریات کا شاعر ہے‘ کوئی تاثرات کا ‘ کوئی علم کا شاعر ہے کوئی فکر کا کوئی کلاسیکیت کا شاعر ہے کوئی رومانویت کا‘ کوئی حسن کا شاعر ہے کوئی عشق کا۔ کوئی سماجی میلانات کا شاعر ہے کوئی سیاسی افکار کا‘ کوئی تصوف کا شاعر ہے کوئی اخلاق کا ‘ کوئی مذہب کا شاعر ہے کوئی مادیت کا‘ کوئی طنز و مزاح کا شاعر ہے کوئی شوخی و ظرافت کا ان میں چند ایک ایسے بھی ہیں جن کا کلام ایک سے زیادہ صفات کا حامل ہے۔ لیکن اقبال کے سوا ایسا کوئی نہیں ہے جس کا کلام جملہ اصناف سخن اور اقسام فن پر حاوی ہو اور جسس نے ہر ایک میں اپنا ایک انمٹ نشان یادگار چھوڑا ہو اقبال کی اس جامعیت کے دوسرے اجزا پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لیکن غزل گوئی کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی گئی اسی لیے اس پر قدرے تفصیل سے گفتگو کرنا مناسب ہو گی۔ ارد و شاعری میں غزل گوئی کی صنف آج سے نہیںشروع ہی سے حد درجہ مقبول ہے اور ہم رہی ہے۔ کسی نے اردو شاعری کی آبرو قرار دیا ہے کسی نے شاعری کا عطر کہا ہے اور کسی نے موسیقی کا رس خیال کیاہے ۔ اردو کے بیشتر شعرا اسی صنف کے توسط سے جانے پہچانے گئے ہیں لیکن اقبال کے عہد تک جو لوگ ممتا ز ہوئے ان میں ولی‘ سراج‘ درد‘ میر‘ مومن‘ غالب‘ حالی‘ داغ ‘ حسرت‘ فانی ـ ‘اصغر ‘ جگر ‘ فراق اور یگانہ وغیرہ کے نام آتے ہیں ان میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہے اور ایک نے غزل کے لب و رخسار کسی نہ کسی طرح سنوارے ہیں اقبال بھی غزل گوئی حیثیت سے انہیں شعراء کی صنف میں آتے ہیں لیکن غزل کے حق میں ان کی دین دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ اور اچھوتی ہے انہوں نے صرف اس کے لب و رخسار نہیں سنوارے بلکہ اس کی سیرت و کردار بھی بدلا ہے۔ اردو کے دوسرے غزل گو شعرا کی طرح اقبال بھی ابتداً غزل کی طرف لپکے اور غزل ہی کے ذریعے وہ بہ حیثیت شاعر اول اول جانے پہچانے گئے انہیں اپنی شاعری کی پہلی بھرپور داد غزل ہی کے ایک شعر پر ملی: موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے اس کے بعد کچھ دنوں انہوںنے داغ دہلوی کے زیر اثر اسی رنگ میںغزلیں کہیں اور جو اس زمانے کا مقبول ترین رنگ تھا اور جس میں خیال افروزی و فکر انگیزی کے بجائے زیادہ اہمیت زبان و بیان کے رکھ رکھائو اور چٹخارے کو دی جاتی تھی اقبال اس رنگ قدیم میں بھی خاصے کامیاب رہے اور بعض ایسے اشعار کہہ گئے جو رنگ قدیم میں ہونے کے باوجود اپنے اندر ایک طرح کا نیا پن رکھتے ہیں چند اشعار دیکھیے: بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں لرز جاتا ہے آواز اذاں سے ٭٭٭ نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کے پھونک ڈالے ہیں ٭٭٭ جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی الٰہی کیا چھاپ ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں ٭٭٭ بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں ٭٭٭ کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے ٭٭٭ اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے ٭٭٭ اس چمن میں مرغ دل گائے نہ آزادی کے گیت آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے ٭٭٭ یہ اشعار ۱۹۰۴ ء تک کی غزلوں سے ماخوذ ہیں اور بانگ درا کے حصہ اول میں موجود ہیں ان اشعار کے اسلوب او تراکیب و تشبیہات پر اس رنگ قدیم کی جھلک صاف نظر آتی ہے جو فارسی کے زیر اثر ایک مدت سے ارد و میں معقول چلا آ رہا تھا۔ پھر بھی ان میں دو شعر ایسے ہیں جو اقبال کے آئندہ غزل گوء کے امکانات کا سراغ دیتے ہیںَ خاص طور پر آخری شعر طرز فکر اور ااسلوب کے اعتبار سے اردو کی روایتی غزل سے بہت الگ ہیں۔ دونو ں شعر بتاتیہیں کہ اقبال کی غزل آگے چل کر آزادی وطن اور عقل و عشق کے باب میں کیا رخ اختیار کرنے والی ہے۔ چنانچہ ’’بانگ درا‘‘ کے حصہ دوم کی غزلیں جن کی تخلیق ۱۹۰۵ء اور ۱۹۰۷ء کے درمیان ہوئی ہے اس رخ کے خدوخال کو کچھ اور نمایاں کرنے لگی ہیں مثلا یہ دو قطعے: زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں ٭٭٭ مدیر مخزن سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام کہہ دے جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے صاف پتا دے رہے ہیں کہ اقبال علم و فکر‘ شعر و سخن اور اخلاق ومذہب سب کو انسان کی عملی زندگی سے ہم آہنگ دیکھنے کی آرزو رکھتے ہیں اس آرزو کے آثار بانگ درا کے تیسرے حصے میں صاف طور پر نظر آنے لگے ہیں دو چار شعر دیکھیے: زندگی کی راہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ بار دوش ہے ٭٭٭ پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی ٭٭٭ کب تلک طور پر دریوزہ گری مثل کلیم اپنی ہستی سے جدا آتش سینائی کر ٭٭٭ تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں ٭٭٭ مل ہی جائے گی کبھی منزل لیلیٰ اقبال کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر ٭٭٭ اس زمانے کی ایک غزل ایس ہے جو ملی زندگی اور اردو شاعری دونوں کے مستقبل کے بارے میں اقبال کی دور رس نگاہوں کا ثبوت بہم پہنچاتی ہے چند منتخب اشعار دیکھیے: زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہو گا سکوت تھا پردہ دارجس کا وہ راز اب آشکار ہو گا ٭٭٭ دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا ٭٭٭ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا ٭٭٭ میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہو گی آہ میری نفس میرا شعلہ بار ہو گا ٭٭٭ ہر چند کہ ان اشعار کا نرم لب و لہجہ اور دھیما تاثر کلاسیکی غزل جیساہے لیکن اقبال کی رومانویت کاوہ خاص رخ ہر طرف جھلکنے لگا ہے جس کا ذکر ابھی اوپر کیا گیا ہے۔ اور جو پوری آب وتاب کے ساتھ بال جبریل کے صفحات پر نمودار ہوا ہے۔ بال جبریل کی غزلیں اردو میں ہر لحاظ سے ماضی کے سرمایہ غزل سے مختلف ہیں اردو غزل بنیادی طور پر حسن و عشق اور ان کے لوازم کی شاعری تھی۔ ایسی شاعری جس میں عاشقانہ جذبات اور محسوسات کی دنیا ہی کو سب کچھ سمجھا جاتا ہے تفکر و تامل کو اس میں کچھ زیادہ دخل نہ تھا۔ یہ مانا کہ اقبال سے پہلے غالب کی غزلوں پر فکر اور فلسفے کا سایہ نظر آتا ہے۔ بلکہ بعض بعض مقامات پر تو غالب و اقبال کے نظریہ فن اور انداز فکر میں ایسی یکرنگی و ہم آہنگی نظر آتی ہے کہ قاری کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ اس جگہ صرف چند اشعار بطور تمثال دیکھیے: حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی غالب نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام جگر کے بغیر اقبال ٭٭٭ آرایش جمال سے فارغ نہیں ہنوز پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں غالب یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون اقبال ٭٭٭ قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا غالب اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت نہ دیکھے وہ نظر کیا اقبال ٭٭٭ خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اب تک رہنے دے ابھی یاں کہ مجھے کام بہت ہے غالب باغ بہشت سے مجھے حکم سفردیا تھا کیوں کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر اقبال ٭٭٭ جہاں جہاں اس قسم کی مماثلت کی بنا پر بعض ناقدین نے علامہ اقبال کو غالب کا معنوی شاگرد بتایا ہے۔ مدیر مخزن نے تو ’’بانگ درا‘‘ کے دیباچے میں یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اقبال کے روپ میں غالب نے دوبار ہ جنم لیا ہے خود علامہ اقبال بانگ درا سے لے کر جاوید نامہ تک غالب کا ذکر خاص اہتمام و احترام کے ساتھ کیا ہے۔ یہ ساری باتیں غالب و اقبال کے خیالات میں یک گونہ اشتراک کا ثبوت بہم پہنچاتی ہیں۔ بایں ہمہ اقبال کو غالب کی بازگشت خیال کرنا درست نہ ہو گا۔ ان کی آواز غالب سے یکسر الگ ہے سب جانتے ہیں کہ غالب نہ تو کوئی فلسفی تھے اور نہ ان کے پاس سوچا سمجھا نظام فکر یا فلسفہ حیات تھا۔ ہاں ان کا اسلوب سخن یا طرز اظہار ضرور فلسفیانہ ہے یعنی وہ ایک فلسفی کے انداز میں کیوں کیسے کس لیے کاجواب تلاش کرتے ہوئے اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقبال کی غزلوں میں یہ بھی ہے اور اس کے آگے بڑھ کر یہ بھی کہ ان کی غزلیں ایک منظم فکر اور ایک خاص آدرش کی داعی و ترجمان ہیں۔ اس جگہ کہا جا سکتاہے کہ مولانا حالی کی آخری عمر کی غزلیں بھی دعوت پیغام سے خالی نہیں ہیں۔ یہ بات بھی کسی حد تک صحیح ہے اور شاید اسی لیے حالی سے بھی اقبال خاصے متاثر نظر آتے ہیں حالی کے دور آخر کی غزلیں یقینا پیش رو شعراء کی غزلوں سے بہت مختلف ہیں حالی نے اردو غزل کو بعض نئی سمتوں سے آشنا کیا ہے ۔ اس کے موضوعات میں وسعت پیدا کی ہے پرانے موضوعات کو تعمیری رخ دیا ہے اوراس کی بے مقصد لے کو مقصد سے ہم آہنگ کیا ہے ۔ پھر بھی مولانا حالی کی غزل گوئی کی نوعیت اقبال کی غزل گوئی سے بہت الگ ہے۔ مولانا حالی نے اردو غزل کو صرف ایک عمومی اصلاحی رجحان دیا ہے۔ اقبال نے اسے ایک خاص انقلابی موڑ بخشا ہے حالی کے دیے ہوء اصلاحی رجحان کی کیا صورت ہے اس کو سمجھنے کے لیے غزلیات حالی کے چند اشعار دیکھیے: خاور سے باختر جن کے نشاں تھے برپا کچھ مقبروں میں باقی ان کی نشانیاں ہیں ٭٭٭ کھیتوں کو دے لو پانی اب بہہ رہی ہے گنگا کچھ کر لو نوجوانوں اٹھتی جوانیاں ہیں ٭٭٭ جہاں میں حالی کسی پہ اپنے سوا بھروسی نہ کیجیے گا یہ راز ہے اپنی زندگی کا بس اس کا چرچا نہ کیجیے گا ٭٭٭ گو رو چکے ہیں دکھڑا سو بار قوم کا ہم پر تازگی وہی ہے اس قصہ کہن کی ٭٭٭ بڑھائو نہ آپس میں ملت زیادہ مبادا کہ ہو جائے نفرت زیادہ ٭٭٭ تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز ٭٭٭ داستان گل کی قفس میں نہ سنا اے بلبل ہنستے ہنستے ہمیں ظالم نہ رلانا ہرگز ٭٭٭ اس طرح کے اور بھی اشعار ہیں جس پر ملک و ملت کی اصلاح کا یہی رنگ چھایا ہوا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خاندان کا کوئی بڑا بوڑھا اپنے چھوٹوں کو جمع کر کے دھیمی آواز میں پندو نصائح کر رہا ہے ۔ حالی کے اس لب و لہجہ میں طبیعت کی نرمی ملت کی غمخواری‘ قومی زوال کی نوحہ گری‘ اور آنے والی نسل کو شادماں اور کامران دیکھنے کی آرزو سبھی کچھ شامل ہے۔ لیکن ان کے یہاں و ہ تب وتاب اور گرمی کلام نظر نہیں آتی جو اقبال کا طرہ امتیاز ہے۔ حالی کی غزل گوئی پر مرثیہ اور وعظ کا رنگ غالب ہے۔ اس میں اقبال کی غزلوں کی شگفتگی اور تازگی اور حرارت و توانائی نہیں ہے بس یوں سمجھ لیجیے کہ اردو غزل کے سلسلے میں حالی کی وین موضوعات میں کچھ تبدیلیون اور بعض اصلاحی ترمیموں تک محدود ہے انہوںنے اردو غزل سے صرف حسن و عشق سے متعلق بعض جذبات کی تطہیر اور مذہب و اخلاص کی بعض اصلاحات کا کام لیا ہے اور یہ بھی سرسید کی تقلید میں ۔ ان کے اصلاحی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کی ایک کوشش ہے‘ اقبال کے قوافی و ردیف کی پابندی کے سوا اردو غزل کی روایت سے یکسر بغاوت کی ہے اور حالی نے اصلاحی رنگ سے بہت آگے بڑھ کر اسے پیغامبری کے منصب پر فائز کر دیا ہے۔ مختصر یہ کہ غزل کو نیا رخ دینے کے باب میں حالی کی حیثیت سرسید کے مقلد کی تھی اور علامہ اقبال اپنے پیش رو بزرگوں خصوصاً سرسید غالب‘ اور حالی سے متاثر ہونے کے باوجو د اپنے عہد کے مفکر و مجدد تھے اقبال سے پہلے ارد وغزل بہ حیثیت مجموعی ایک فرد کی داخلیت کا ذاتی سفر تھی۔ اس سفر کا بڑا حاصل خدا کی تلاش میں خود کو فنا کر دینا تھا‘ اس میں زندگی کے حقائق سے آنکھ ملانے کی سکت نہ تھی۔ اقبال کی داخلیت خارجی زندگی کو پوری پوری اپنی گرفت میں لے کر رومانی انداز میں آگے بڑھی ہے اور تلاش کی منزلوں سے آگے نکل کر خدا سے ہمکلام ہو گئی ہے اس طرح اس نے اردو غزل اور غزل گو شاعر دونوں کو نئی عظمتوں اور تازہ بلندیوں سے ہمکنار کر دیا ہے چند شعر دیکھیے: روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر ٭٭٭ اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیراہے یا میرا ٭٭٭ قصور وار غریب الدیار ہوں لیکن ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد ٭٭٭ متاع بے بہا ہے درد و سوز و آرزو مندی مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی ٭٭٭ خداوند یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری ٭٭٭ اب جو فغاں میری پہنچی ہے ستاروں تک تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی غزل کا یہ بیباک اور پرسوز لب و لہجہ جو بندے کو خدا سے ہمکلام ہونے کا حوصلہ بخشتا ہے۔ اقبال سے پہلے اردو غزل میں کہیں نظر نہیں آتا۔ اگرچہ اقبال نے اس لہجے کو ایک مقطعے میں اپنی عبدیت کے پیش نظر گستاخ ٹھہرایا ہے: چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبال کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند لیکن انہوںنے فکر و فن کی جس بلند سطح سے بندے کو خدا سے ہمکلامی کا شرف بخشا ہے۔ س میں گستاخی کا شائبہ نہیں ہے۔ یہ گستاخی نہیں ایسی شوخی ہے جو فریقین کے درمیان حد درجہ قربت و موانست اور ایک دوسرے کے لیے احترام ومحبت کا پتا دیتی ہے اس لہجے سے بندے اور خدا کے درمیان فاصلہ بڑھ جانے یا ان کے منصوبوں میں فرق آ جانے کا امکان نہیں ہے یہ معصوم و منفرد لب و لہجہ تو درمیانی فاصلے کو کم کرنے اور اپنے اپنے منصب کا احساس دلانے کے لیے دانستہ اختیار کیا گیا ہے اقبال کا یہ انفرادی لب ولہجہ اور موضوعاتی تنوع دوسرو ں سے الگ تھلگ ہونے کے باوصف غزل کے اس مزاج خاص سے اپنا رشتہ استوار رکھتا ہے جسے غزل کے قدیم ترین نقاد شمس قیس بن رازی نے المجعم میں اور آج کے بعض ناقدین نے اپنی تحریروں میں جنون عشقیات کا نام دیا ہے عشق اور اس کی کیفیات و لوازم غزل کے رشتہ داران ازلی میں سے ہیں۔ غزل کا ضمیر محبت سے اٹھایا ہے اور وہ اسی سہارے زندہ رہی ہے۔ اسی نے دیگر اصناف سخن سے اسے ممتاز یا ہے اس سے اس میں عام و خاص سب کی کشمکش کا سامان پیدا ہوا ہے اور اسی کی نوع بہ نو تشکیلات نے اس میں تازگی و توانائی کے آثار پیدا کیے ہیں۔ اردو غز ل کے کسی دور پر بھی نظر ڈالیے عشق کی کرشمہ سازیوں سے خالی نہ ملے گی۔ ہر عہد اورہر نئے زمانے میں اس کی نئی نئی تعبیریں کی گئی ہیں جداگانہ تفسیریں لکھی گئی ہیں اور اسکی اثر پذیری میں ایک نیا رنگ بھر اگیا ہے۔ کبھی اسے دل بہلانے کا شغل ٹھہرایا گیا ہے : شغل بہتر ہے عشق بازی کا کیا حقیقی و کیا مجازی کا ولی اور کبھی اضطراری کیفیت سے موسوم کیا گیا ہے : عشق پر زور نہیں کہ ہے یہ وہ آتش غالب کہ لگانے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے غالب کسی نے اسے سوز کہا کسی نے ساز کسی نے آگ سے تعبیر کیا کسی نے گریہ نیم شبی سے کسی نے مستی کا نام دیا کسی نے ہوشیاری کا کسی نے دماغ کاخلل قرار دیا کسی نے ہر مرض کی دوا بتایا کبھی وہ شمع بنا کبھی پروانہ کبھی شگفت گل کا نام پایا کبھی نالہ بلبل کا کسی نے دل کا دوست جانا کسی نے جان کا دشمن غرضکہ اردو شاعری میں محبت کے بہت سے نام اور بے شمار کام رہے ہیں لیکن بہ حیثیت مجموعی ان سب کا تعلق جنسی جذبات یا مسائل تصوف سے رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک کو مجازی اور دوسرے کو حقیقی بھی کہہ سکتے ہیں۔ مجاز بے محابا لگائو اور جنسی جذبات کی تکرار نے اردو غزل کو وہ چٹخارا دیا جس کی بھرپور نمود داغ کی شاعری میں ہوئی اور تصوف یا عشق حقیقی کی معرفت ہماری شاعری کا حقیقی رخ زمین کی بجائے آسمان کی طرف ہو گیا۔ عرش سے تو اس کا رشتہ مضبوط ہو گیا لیکن قدم فرش پر قائم نہ رہ سکے۔ علامہ اقبال کے لفظوں میں اندیشہ ہائے افلاکی میں تو وہ گرفتار ہی لیکن زمین کے ہنگاموں کو سہل نہ بنا سکی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ مجازی اور حقیقی دراصل عشق کی دو انتہائوں کے نام تھے ایک جسم کی آسودگی اور ذہن کی لذت کشی کاسامان فراہم کرتا تھا۔ دوسرا جسم کو نظر انداز کر کے براہ راست روح کی تشنگی بجھانے میں لگا ررہا۔ عشق کی یہ انتہائیں جسم و روح کے اس رشتے کو بھولے ہوئے تھیں جس کے بغیر نہ جسم توانا رہ سکتاتھا نہ روح نتیجہ ظاہر تھا سیراب و آسودہ ہو کر بھی جسم و روح کے اس رشتے کو بھولے ہوئے تھیں جس کے بغیر نہ جسم توانا رہ سکتا تھا نہ روح نتیجہ ظاہر تھا سیراب و آسودہ ہو کر بھی جسم و روح دونوں ہی تشنہ و ناآسودہ رہے۔ اردو غزل گوئی کی تاریخ میں ا س تشنگی و ناآسودگی کا اولین احساس مولانا حالی کو ہوا انہوں نے شعوری طور پر اس طرف توجہ کی اور محبت کو بیک وقت جسم و روح دونوں سے وابستہ کر کے اسے نئے معنی دیے ان کے یہاں عشق کا مذہب بدل گیا اب وہ مجازی و حقیقی کے خانوں سے نکل کر انسان اور انسانیت کے حق میں زخموں کا مرہم بن گیا ۔ اس سے پہلے محبت کا تعلق یا تو گوشت پوست والی محبوبہ سے ہو سکتا تھا یا پیرومرشد سے حالی نے محبت کو جنس و تصوف کے جھمیلوں سے نکال کر انسان کے دکھ درد کا مداوا اور دو دلوں کو جوڑنے کا وسیلہ بنایا یہ وسیلہ کسی خاص طبقے یا فرد کے لیے مخصوص نہ رہا بلکہ محبوبہ و مرشد سے لے کر ماں باپ بھائی بہن دوست عزیز اور ملک و ملت تک سب کے جسم و جاں کا مسیحا بن گیا۔ اقبال نے یہ اعلان فرما کر : محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند عشق کی اس سچائی کو اور آگے بڑھایا ان کے یہا ں عشق محض دو دلوں کو جوڑنے واور دکھی انسانیت کی دلجوئی کا وسیلہ نہین رہا بلکہ حیات و کائنات کی تسخیر کا موثر آلہ بن گیا ہ۔ ذہن و روح اور جسم و جان کی ساری فتوحات اس کے تابع ہو گئی ہیں۔ غرضکہ اقبال کے یہاں عشق کسی اضطراری کیفیت یا جنسی جذبے کا نام نہیں ہے بلکہ عشق نام ہے پاکیزہ مقاصد کے حصول کے لیے شدید آرزو مندی اور بے پناہ لگن کا ‘ اسی کادوسرانام ہے ان کے یہاں قوت عمل اور قوت اجتہاد ہے۔ یہ قوت عمل و اجتہاد نئے نئے مقاصد و نصب العین تراشتی ہے۔ شرار بو لبی سے ستیزہ کار رہتی ہے انسان کی خودی کو بیدار کرتی ہے اسے استحکام بخشتی ہے ۔ اپنی تقدیر کا آپ خالق ٹھہراتی ہے فرماں رہ عالم بتاتی ہے۔ آسمانوں کی سیر کراتی ہے۔ جوش عمل سے سرشار رکھتی ہے اور بندے کو خدا سے ہم کلام ہونے کا شرف بخشتی ہے: باغ بہشت سے مجھے حکم سفر ملا تھا کیوں کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظارکر اقبال کی غزلوں میں جہاں کہیں عشق یا اس کے مترادفات شوق و جنوں وغیرہ کا لفظ آیا ہے اسی پس منظر اور انہی معنوں میںآیا ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے غزل کے چند اشعاردیکھیے: عشق کی تیغ جگر دار اڑا لی کس نے علم کے ہاتھ میں ہے خالی نیام اے ساقی ٭٭٭ عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں ٭٭٭ عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم عشق سے مٹی کی تصویروں میںسوز دمبدم ٭٭٭ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی ٭٭٭ اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق ٭٭٭ جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی ٭٭٭ نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے شکار مردہ سزا وار شاہباز نہیں ٭٭٭ مقام عقل سے آساں گزر گیا اقبال مقام شوق پہ کھویا گیا یہ فرزانہ ٭٭٭ ترے دشت و در میں مجھ کو وہ جنوں نظر نہ آیا کہ سکھا سکے فرد کو رہ و رسم و کارسازی ٭٭٭ فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک ٭٭٭ یہ اور اس قسم کے بہت سے اشعار ہیں جن میں اقبال نے عشق اور اس کے مترادفات کا ذکر کیا ہے ۔ یہ ذکر غزل کی سرشت اور امن کے اندرونی آہنگ سے رشتہ قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے لیکن ان کے یہاں عشق کی یہ معنویت عہد غالب تک کی غزل گوئی سے بہت مختلف ہے۔ یہ معنویت جنسی خواہش یا جبلی رجحان کا نتیجہ نہیں حیات و کائنات کے بارے میں شعور انسانی کی بخشی ہوئی آگیہ کی تخلیق ہے۔ اس میں محض جذبات کا بہائو نہیں عقل و دانش کا ٹھہرائو بھی ہے یہی بہائو اور ٹھہرائو غزل کے سا ز سے ہم آہنگ ہو کر جب اشعار کی صورت میں نمودار ہے تو اثر انگیزی و حسن آفرینی کے لحاظ سے کچھ کا کچھ ہو گیا ہے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اقبال نے صاحب ساز کی حیثت سے ساز غزل پر کڑی نظر رکھی ہے اور سروش کو کہیں بھی غلط آہنگ نہیں ہونے دیا۔ غزل کے بنیاد ی عنصر عشق اور اس کی تعمیر نو سے قطع نظر اقبا ل نے اپنی نظر کو محض شخصی تاثرات کی ترجمانی تک محدود نہیںرکھا بلکہ اسے ایک ایسا اجتماعی و افادی رخ دیا جس نے غزل کو دست معانی اور وحدت مطالب کے لحاظ سے نظم کا مد مقابل بنادیا ہے۔ بعض نظم نگار شعراء خاص طور پر حضرت جوش ملیح آبادی جس غز ل کو جان سے مار دینے کی فکر میں تھے۔ وہی غزل اقبال سے فکر و فن کی تازہ رفعتیں اور زبان و بیان کی نئی وسعتیں لے کر کچھ اس انداز سے منظر عام پر آئی کہ خود نظم کے لیے ایک طرح کا خطرہ بن گئی۔ اقبال سے پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ غزل کی صنف صرف عشقیہ جذبات و منتشر خیالات کی متحمل ہو سکتی ہے۔ گہرے سیاسی و فلسفیانہ افکار اور آئے دن بدلتے ہوئے سماجی رجحانات کی ترجمانی کا حق اس سے ادا نہیںہو سکتا‘ اقبال نے حکیمانہ موضوعات اور نظری مسائل کو غزل میں جگہ دے کر اس خیال کا بطلان کر دیا ان کی غزلوں میں معنوی تسلسل یا وحدت تاثیر کی کیفیت تو خیر ہر جگہ موجود ہے جو ایک ہی موڈ میں کہی ہوئی غزل کے اشعار میں بہر طور رونما ہو جاتی ہے لیکن ان کی غزلوں میں وہ خارجی آہنگ موجودہے جو اقبال سے پہلے صرف نظم کا طرہ امتیاز خیال کیا جاتا تھا ۔ یہ خارجی آہنگ محض قافیہ ردیف یا غزل کے فارم کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ اسے منظم افکار و مربوط خیالات کی ترجمانی اور اشعار کے ارتباط معنوی نے جنم دیا ہے۔ یہ ترجمانی اور ارتباط معنوی کم و بیش اقبال کی ہر غزل کے اشعار میں نظر آتا ہے لیکن بعض غزلیں ایسی ہیں جنہیں اس سلسلے میں مثالی کہہ سکتے ہیں میری مراد ان غزلوں سے ہے جن میں سے بعض کے مطلعے ہیں: ستاروں سے آگے جہاں اوربھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ٭٭٭ گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر ٭٭٭ اگر کج رو ہیں انجم یہ جہاں تیرا ہے یا میرا مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا ٭٭٭ دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ کہ یہی ہے امتوںکے مرض کہن کا چارہ ٭٭٭ اس نوع کی غزلوں میں سے صرف ایک غزل بطور نمونہ دیکھتے چلیے اس کے چند اشعار یہ ہیں: پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیںبنتا نہ بن اپنا تو بن من کی دنیا ؟ من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق تن کی دنیا؟ تن کی دنیا سود و سودا فکر و فن پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن ان اشعار میں وہ رومان پرور فضا بھی موجود ہے جس کا تعلق غزل کے اندرونی آہنگ یا مزاج خاص سے ہے اور فکر و آگہی کا عطا کردہ وہ معنوی تسلسل و تاثر بھی جس کی ایک اچھی نظم سے توقع کی جا سکتی ہے۔ اور جو اقبال ہی کے زیر اثر ان کے بعد کی اردو غزل کا نمایاں وصف بنتا جا رہا ہے۔ اقبال نے اس وصف خاص کی مدد سے غزل کی آب جو کو بحر بیکراں بنایا ہے اور اسی کی بدولت ان کی غزل عام و خاص سب کی توجہ کا مرکز بنی ہے۔ کلام اقبال کے سیکڑوں اشعار زبان زد خلائق ہیں اور تحریر و تقریر میں بطور اقوال زریں استعمال ہوتے ہیں لیکن میںنے یہ محسوس کیا ہے کہ ان اشعار میں سے بیشتر کا تعلق نظموں سے نہیں ان کی غزلوں سے ہے چند اشعار دیکھیے: خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد ٭٭٭ عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے ٭٭٭ گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی ٭٭٭ تیرا امام بے حضور تیری نماز بے حضور ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر ٭٭٭ مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دلنوازی کا مروت حسن عالمگیر ہے مردان غازی کا ٭٭٭ زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی ٭٭٭ قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں ٭٭٭ اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ٭٭٭ آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی ٭٭٭ نگہ بلند‘ سخن دلنواز‘ جاں پر سوز یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے ٭٭٭ مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرم راز درون مے خانہ ٭٭٭ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ٭٭٭ اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے ٭٭٭ کرے گی دادر محشر کو شرمسار اک روز فقیہ و صوفی و ملا کی سادہ اوراقی ٭٭٭ نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ٭٭٭ اس طرح کے سینکڑوں اشعار ہیں جن کی حیثیت ضرب المثل کی سی ہو گئی ہے۔ یہ بات اورہے کہ لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہوں کہ ان اشعار کا تلعق اقبال کی غزل سے ہے یا نظم سے غزل کے اشعار کی یہ مقبولیت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اقبال نے روح عصر کی ترجمانی و پیغام رسانی کاجو تجربہ غزل گوئی میں کیا تھا وہ فنی حیثیت سے ہر طرح کامیاب رہا ہے۔ اقبال کی فارسی غزل گوئی کا ذکرچھیڑنے سے اس جگہ میں نے عمداً گریز کیا ہے اس لیے اس جگہ میرا مقصود صرف اردو غزل میں اقبال کے شاعرانہ منصب و مقام کی نشاندہی کرنا تھا‘ ورنہ جو لوگ فارسی کا ذوق رکھتے ہیں اور اقبال کی فارسی شاعری کا مطالعہ بھی کیا ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ اقبال کی فارسی شاعری ان کی اردو غزل سے کہیں زیادہ وقیع و حسین ہے۔ زبورعجم کی فارسی غزلیں اور بال جبریل کی اردو غزلیں ساتھ ساتھ رکھ کر دیکھی جائیں تو اندازہ ہو گا کہ اقبال نے حدیث خلوتیاں کے باب میں جس رمز و ایما کو کمال گویائی قرار دیا تھا اس کا بھرپور اظہار زبور عجم کی غزلوں میں ہوا ہے اور شاید اسی لیے اقبال نے صاحبان ذوق کو اسے خلوت میں پڑھنے کا مشورہ دیا ہے: اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبور عجم فغان نیم شبی بے نوائے راز نہیں ٭٭٭ سرو د انجم صوفی تبسم اقبال اپنی کتاب ’’پیام مشرق‘‘ کے دیباچے میں ایک جگہ لکھتا ہے: ’’پیام مشرق‘‘ کے متعلق جو ’’مغربی دیوان‘‘ سے سو سال بعد لکھا گیا ہے۔ مجھے کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں۔ ناظرین خود اندازہ کر لیں گے کہ اس کا مدعا زیادہ تر ان اخلاقی مذہبی اور ملی حقائق کو پیش نظر لانا ہے جن کا تعلق افراد و اقوام کی باطنی تربیت سے ہے۔ ا س س سوسال بیشتر کی جرمنی اور مشرق کی موجودہ حالت میںکچھ نہ کچھ مماثلت ضرور ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوام عالم کا باطنی اضطراب جس کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہم محض اس لیے نہیں لگا سکتے کہ خود اس اضطراب سے متاثر ہیں۔ ایک بہت بڑے روحانی اور تمدنی انقلاب کا پیش خیمہ ہے یور پ کی جنگ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو تقریباً ہر پہلو سے فنا کر دیا ہے۔ اوراب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرت زندگی کی گہرائیوںمیں ایک نیا آدم اور ا س کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے جس کا ایک دھندلا سا خاکہ ہمیں حکیم آئن سٹائن اور برگساں کی تصانیف میں ملتا ہے۔ یورپ نے اپنے علمی اخلاقی اور اقتصادی نصب العین کے خوفناک نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں…لیکن افسوس ہے کہ اس کے نکتہ رس مگر قدامت پرست مدبرین اس حیرت انگیز انقلاب کا صحیح اندازہ نہیںکر سکے جو انسانی ضمیر میں اس وقت واقع ہو رہا ہے۔ خالص ادبی اعتبار سے دیکھیں تو جنگ عظیم کی کوفت کے بعد یورپ کے قوائے حیات کا اضمحلال ایک صحیح اور پختہ ادبی نصب العین کی نشوونما کے لیے نامساعد ہے بلکہ اندیشہ ہے کہ اقوام کی طبائع پروہ فرسودہ‘ سست رگ اور زندگی کی دشواریوں سے گریز کرنے والی عجمیت غالب نہ آ جائے جو جذبات قلب کو افکار دماغ سے متمیز نہیں کر سکتی البتہ امریکہ مغربی تہذیب کے عناصر میں ایک صحیح عنصر معلوم ہوتا ہے۔ اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ ملک قدیم روایات کی زنجیروں سے آزادہے اور اس کا اجتماعی وجدان نئے اثرات و افکار کو آسانی سے قبول کر سکتا ہے۔ مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق نے صدیوں کی مسلسل نیند کے بعد آنکھ کھولی ہے۔ مگر اقوام مشرق کو یہ محسوس کر ینا چاہیے کہ زندگی اپنے حوالی میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کر سکتی جب تک کہ پہلے اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ ہو۔ اور کوئی نئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں میں متشکل نہ ہو۔ فطرت کا یہ اٹل قانون جس کو قرآن نے ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیرو ا ما بانفسھم کے سادہ او ر بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے زندگی کے فردی اور اجتماعی دونوں پہلوئوں پر حاوی ہے اور میں نے اپنی تصانیف میں اسی صداقت کو مد نظر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس وقت دنیا اور بالخصوص ممالک مشرق میں ہر ایسی کوشش جس کا مقصد افراد و اقوام کی نگاہ کو جغرافی حدود سے بالاتر کر کے ایک صحیح اور قومی انسانیت سیرت کی تجدید یا تولید ہو قابل احترام ہے۔ اقبال نے ان چند سطروں میںپہلی جنگ عظیم کو قیامت کے موزوں لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ ایسی قیامت جس نے پرانی دنیا کے نظام کو درہم برہم کر دیا اور ایک ایسی بنیاد رکھی کہ اس میں ایک نئے آدم کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا نے فکر و عمل تعمیر ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے بعض بہت بصیرت افروز اشارے بھی کیے ہیں جن سے اس کے فلسفیانہ افکار کا سراغ ملتا ہے۔ پیام مشرق پہلی بار ۱۹۲۳ء میں شائع ہوئی۔ اس سے پہلے مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کا پہلا ایڈیشن ۱۹۱۵ء میں اور اس کے فوراً بعد رموز بیخودی بھی مطبوعہ صورت میں قارئین کے سامنے آ چکی تھی۔ اردو نظموں اور غزلوں کا مجموعہ بانگ درا ۱۹۲۴ء میں چھپا ۔ اقبال نے اسرار خودی میں حیات افراد کے تعین عمل پر بحث کی اور ان کی فردی انا کی اساس اور تدریجی نشوونما پر روشنی ڈالی اور اسی ضمن میں اجتماعی یا قومی انا کے بارے میں رمو ز بے خودی میں اپنے خیالا ت کا اظہار کیا تاکہ انفرادی اور اجتماعی عمل کا تباین اور تناقض دور ہو سکے جو ملی زندگی میںایک قلب مشترک کا کام دے سکے۔ ان دو کتابوں میں مصنف نے اپنے افکار کو نظریاتی انداز میںپیش کیا ہے لیکن پیام مشرق کے طبع ہونے کے بعد یہی نظریاتی مسائل مختلف نظموں کے روپ میں ہمارے سامنے آ گئے۔ اقبال کا یہ مجموعہ کلام ایک محدود دور کی پیداوار ہے۔ اور مخصوص حالات و ضروریات کے ماتحت ظہورمیں آیا ہے۔ اس مجموعے کی بعض نظمیں ایک طرف اس عہد کی رفتار واقعات کی آئینہ داری کرتی ہیں اور دوسری طرف شاعر کے فطری رجحان نظام فکر اور اسلوب بیان کی واضح تصاویر ہیں ۔ مثلاً تسخیر فطرت کرمک شب تاب‘ زندگی اور سرود انجم وغیرہ۔ اگرچہ افکار شعر ی کے اعتبار سے تسخیر فطرت کی نظم کو سب پر فوقیت حاصل ہے لیکن میں نے سرود انجم کی چھوٹی سی نظم کا اس لیے انتخاب کیا ہے کہ: ۱۔ یہ نظام اس دورانقلاب کی بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ ترجمانی کرتی ہے۔ ۲۔ یہ نظم فکری اعتبار سے آفاقیت کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ ۳۔ اس نظم سے شاعر کے بعض لسانی اور عروضی اجتہادات کا سراغ ملتا ہے۔ ۴۔ اس نظم میں شاعر نے نہایت اختصار سے کام لیا ہے اور انداز تغزل کو بڑی فنکارانہ ہنر مندی کے ساتھ قالب نظم میں سمویا ہے۔ اس اعتبار سے یہ نظم غزل و نظم کے امتزاج کا ایک حسین مرقع بھی ہے۔ ۵۔ ا س نظم میں موسیقیت اور غنائی توانائی اپنی پوری قوت اور دلکشی اور جذب و کشش کے ساتھ موجود ہے۔ ۶۔ اس نظم کی زبان سادہ مگر بلیغ ہے اور باوجود انتہائی ایمائی اسلوب کے پڑھنے والے‘ کو اپنی گہرائیوں کی طرف کشاں کشاں لے جاتی ہے۔ سب سے پہلے اس نظم کو سن لیجیے: سرود انجم ہستی ما نظا ما مستی ما خرام ما گردش بے مقام ما زندگی دوام ما دور فلک بکام ما می نگریم و می رویم ٭٭٭ جلوہ گہ شہود را بتکدہ نمود را رزم نبود و بود را کش مکش وجود را عالم دیر و زود را می نگریم و می رویم ٭٭٭ گرمی کارزار ہا خامی پختہ کار ہا تاج و سریر و دار ہا خواری شہر یار ہا بازی روزگار ہا می نگریم و می رویم ٭٭٭ خواجہ ز سروری گزشت بندہ زچاکری گزشت زاری و قیصری گزشت دور سکندری گزشت شیوہ بت گری گزشت می نگریم و می ردیم ٭٭٭ خاک خموش و در خروش سست نہاد و سخت کوش گاہ بہ بزم نا و نوش گاہ جنازہ بدوش میر جہان و سفتہ گوش می نگریم و می ردیم ٭٭٭ توبہ طلسم چون و چند عقل تو در کشاد و بند مثل غزالہ در کمند زار و زبون و درد مند ما بہ نشیمن بلند می نگریم و می ردیم ٭٭٭ پردہ چرا ظہور چیست؟ اصل ظلام و نور چیست؟ چشم و دل و ظہور چیست؟ فطرت نا صبور چیست؟ ایں ہمہ نزد و دور چیست؟ می نگریم و می ردیم ٭٭٭ بیش تو نزد ما کمی سال تو بیش ما دمی اے بکنار تو یمی ساختہ بہ شبنمی ما بتلاش عالمی می نگریم و می ردیم ٭٭٭ اقبال میں جدت کا مادہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ لیکن اس کی اردو اور فارسی نظموں اور غزلوں کا ڈھانچہ بالعموم کلاسیکی ہے۔ اگر وہ چاہتا تو اپنی شاعری میں نئے نئے عروضی تجربات کر سکتا تھا لیکن اس کی توجہ زیادہ تر افکار پر مرکوز رہی اس کے باوجود اس نے اردو اور فارسی میںبعض ایسی اہم تبدیلیاں کیںجنہوںنے ہماری شاعری کا رخ بدل دیا۔ اقبال نے پرانی روایتی مصطلحات شعری کو نیا مفہوم عطا کیا جس کی پہلی مثال ہمیں اس کی ایک ابتدائی غزل کے اس مطلعے سے ملتی ہے: نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینے مین اسے اور ذرا تھام ابھی اقبال نے اپنے کلام میں موضوع اورہئیت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی۔ بال جبریل کی دو نظمیں ساقی نامہ اور مسجد قرطبہ ارو فارسی میں کرمک شب تاب اور سرود انجم اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ اب آئیے ذرا اس نظم زیر بحث کے مختلف پہلوئوں پر ایک غائر نظر ڈالیں۔ شاعر سب سے پہلے اپنے پڑھنے والوں کے دل و دماغ کو ارضی حدود سے بالا تر کھینچ کر ایک لا محدود آفاقی فضا میں لے جاتا ہے۔ او ر ستاروں سے روشناس کراتا ہے جو ایک لا انتہا کشادہ وسعتوں میں گھوم رہے ہیں۔ اور دنیا کے ہر طرح کے مخمصوں اور مادی زندگی کی تمام فکر مندیوں اور خرخشوں سے آزاد اپنی پوری شان استغنا کے ساتھ محو خرام ہیں اور بڑی تمکنت کے انداز میں فضا میں گنگناتے چلے جارہے ہیں اور ہم فانی انسانوں کی فانی زندگی پر خندہ زن بلکہ طعنہ زن ہیں۔ اس نظم کے آٹھ بند ہیں پہلا بند دیکھیے: ہستی ما نظا مما مستی ما خرام ما گردش بے مقام ما زندگی دوام ما دور فلک بکام ما می نگریم و می رویم اس بند میں ستارے اپنے تعارف کراتے ہیں کہ ان کی ہستی کی بنیاد نظام فلکی پر ہے جب تک وہ نظام قائم ہے وہ بھی قائم و دائم ہیں۔ زندگی میں اتار چڑھائو ہوتا ہے انسانی زندگی میں کبھی ہیجان موجزن ہوتا ہے کبھی اس دھارے میں افسردگی اور پست روی آ جاتی ہے۔ ستاروں کی ہر حرکت جسے شاعرنے خرام کہا ہے سرتاپا مستی ہے۔ اس میں کبھی خمار کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ ستاروں کا سفر حیات کسی منزل پر نہیں رکتا‘ اسی گردش بے مقام نے ان کی زندگی کو دوام عطا کیا ہے۔ زمین والے گردش فلک سے فہمے جاتے ہیں۔ ستارے اس سے بے فکر ہیں۔ یہاں تو دور فلک ساز گار ہے بلکہ خود ان کا ہم سفر اور ہم قدم ہے۔ اب اس عالم بے نیازی و بے فکری میں ان کے لیے سوائے اس کے اور کوئی کام نہیں کہ وہ اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالتے چلے جائیں اور آگے نکل جائیں۔ اس گردوپیش میں ان کی نظر اس کائنات پر پڑتی ہے جو نہ جانے کیا ہے؟ کہاں سے منصہ شہود پر آ گئی ہے لیکن ایک حسین بتکدہ بن کر ہمارے روبرو آئی ہے شاعر نے اسے بتکدہ نمود کہا اگر چہ حسین ہے لیکن نمود ہے نہ جانے اس کے پیچھے کیا ہے۔ یہ دنیا ہست و نیست کی رزم گاہ ہے۔ جہاں بقا و فنا کی کشمکش پوری توانائی کے ساتھ جاری ہے۔ ایک شے مٹتی ہے تو دوسری ابھر آتی ہے۔ پھرکوئی جلدی ابھرتی ہے اور کوئی دیر میں‘ کوئی آج کوئی کل۔ لیکن ابدیت کے آغوش میں کھیلنے والے ستاروں کو اس سے کیا غرض وہ تو ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ اب ذرا شاعر کے زاویے سے اس منظر پر نظر ڈالیے: جلوہ گہ شہود را بتکدہ نمود را رزم نبود و بود را کشمکش وجود را عالم دیر و زود را می نگریم و می رویم ’’غزلیہ‘‘ اسلوب بیان میں انتہائی اختصار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے شاعر کو رمز و ایما سے کام لینا پڑتا ہے ۔ نظم میں منطقیانہ ترتیب اور وضاحت و صراحت کی گنجائش ہوتی ہے لیکن غزل کی ساخت اس منطقی تسلسل اور طول صراحت کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ اقبال نے اپنی اس نظم میں نظمیہ اور غزلیہ اسلوب بیان میںنہایت حسین و بلیغ امتزاج پیدا کیا ہے خاص کر یہ بند: گرمی کارزار ہا خامی پختہ کار ہا تاج و سریر و دار ہا خواری شہر یار ہا بازی روزگار ہا می نگریم و می رویم ذرا دیکھیے کہ شاعر نے کس فنکارانہ مہارت سے چند لفظوں میں جنگ کی ہولناکیوں اور اس کے عبرت ناک نتائج کی تصویر ہمارے سامنے لا کھڑی کر دی ہے۔ گرمی کارزار ہا کے دو لفظوں میںایک جہان معنی پوشیدہ ہے۔ گرمی کے لفظ میں کتنی سرگرمیاں کتنے ہنگامے جلوہ فرما ہیں۔ اور کارزار ہا میں کتنی تباہ کاریوں کا انبوہ ہے۔ یہ جنگیں کون کراتا ہے۔ آپ اور میں نہیں۔ یہ بڑے بڑے تجربہ کار اور پختہ کار ذہنوں کی کاوش اور فکر کا نتیجہ ہوتے ہیںَ لیکن اس پختگی فکر میں بڑی خامی ہوتی ہے۔ ایسی لغزش کہ ایک دانا ہی سے سرزد ہوتی ہے اور ظاہر ہ کہ وہ لغزش بھی بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ پھر ان جنگی تباہ کاریوں کے کیا نتائج ہوتے ہیں شاعر نے دو چار لفظوں میں بیان کر دیے: تاج و سریر و دارہا خواری شہر یار ہا پہلی عالمی جنگ میںبڑی بڑی سلطنتیں تہ وبالا ہو گئیں۔ تخت و تاج لٹ گئے جلیل القدر شہنشاہ رسوا اور ذلیل ہوئے جو سر کبھی جھکتے نہ تھے دار پر آویزاں ہو گئے۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن قدرت کی نظر میں ایسے تھا جیسے کوئی بچہ اپنے کھلونوں سے کھیلتا ہوا انہیںنہایت بے پروا انداز میں بے تکلف توڑ کر رکھ دے۔ قدرت کی ستم ظریفیاں شاعر انہیں بازی روزگار ہا جمع کے صیغے میں بیان کیا۔ ستارے یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آگے نکل جاتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے جاتے ہیں: خواجہ ز سروری گزشت بندہ ز چاکری گزشت زاری و قیصری گزشت دور سکندری گزشت شیوہ بت گری گزشت می نگریم و می رویم دنیا میں آمریت کی جگہ جمہوری نظام حکومت نے لے لی: آقا آقا نہ رہا غلام غلام نہ رہا زارا ور قیصر جیسے با جبروت اور قاہر فرمانروائوں کی حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔ دور سکندری ختم ہوا فتح عالم کے محض شوق میںدنیا کو تہ و بالا کرنے کے ناجائز حقوق سلب کر لیے گئے۔ زارو قیصر و سکندر کیا تھے؟ یہ وہ بت تھے جو دنیا والوں نے اپنی بے بسی اور بیچارگی کے دکھوں کو چھپانے اوراایک چھوٹی سی تسکین حاصل کرنے کے لیے تراشے تھے ان بتوں کو یکسر توڑ دیا گیا۔ یہ بت گری تھی۔ اس بت گری کی رسم مٹ گئی اور انسانیت کا سر پھر ایک بار بلند ہوا۔ اقبال اس کے بعد کے دو بندوں میں ستاروں کی زبان سے انسانی زندگی کی تصویر یوں پیش کرتا ہے: خاک خموش و در خروش سست نہاد و سخت کوش گاہ بہ بزم ناو نوش گاہ جنازہ بدوش میر جہان و سفتہ گوش می نگریم و می رویم انسان ایک مشت خاک ہے لیکن ولولوں کے ہنگامے سے پر خروش فانی ذرا سی ٹھیس سے ختم ہو جانے والا لیکن انتہائی جفاکش کبھی محفل نشاط میں رونق افروز کبھی لاش اٹھائے ہوئے شہر خموشاں کو رواں۔ کہیں آقا ہے کہیں غلام یہ ہے انسان۔ پھر اس کی اور بیچارگی دیکھیے: توبہ طلسم چون و چند عقل تو در کشاد و بند مثل غزالہ در کمند زار و زبون و درد مند ما بہ نشیمن بلند می نگریم و می رویم انسان جبر و اختیار کے مابین گرفتا ر ہے۔ حقائق اشیاء پر غور کرتا ہے تو منطقی استدلال کی زنجیروں میںالجھ کر رہ جاتا ہے۔ فکر انسانی کیا ہے اس غزال کی طرح ہے جو کمند میں اسیر ہو ا اور اس کی آزادی کا دائرہ کمند کی درازی تک محدود ہو۔ ستارے انسان کو اس بیچارگی کو دیکھتے ہیں اور اس کے احسن تقسیم اور مسجود ملائک ہوتے ہوئے اس کی بے بسی پر اظہار تاسف کرتے ہیں اورپھر اپنی عظمت کا اظہار کس تمکنت سے کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ما بہ نشیمن بلند اے انسان تو کس جگہ ہے ہمیں دیکھ ہم کتنی بلند سطح پر ہیں کتنی آزادی اور آسودگی کے ساتھ تیری بے بسی کو دیکھتے اور پھر بڑی بے نیازی سے گزر جا تے ہیں۔ مابہ نشیمن بلند میں جو طنز پوشیدہ ہے وہ اصحاب نظر سے پوشیدہ نہیں۔ اس نظم سے شاعر کامقصد اپنے قارئین کو محض ستاروں کا نغمہ سنانا نہیں ہے۔ چنانچہ وہ گریز کرتا ہے اور اصلی مقصد کی طرف آتا ہے۔ اورپھر بڑی فکری بلاغت اور فنی چابکدستی سے ستاروں سے ہم آہنگ ہو کر ایک گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔ یہ کائنات کیا ہے اس کی اصل حقیقت کیا ہے کچھ چیزیں آشکار ہیں کچھ پنہاں جو نہاںہیں وہ کیوںہیں؟ جو آشکار ہیں ان کی غایت کیا ہے؟ یہ اندھیرا اور اجالا کیا ہے جب یہ عالم ہے تو پھر انسان کو آنکھیں کیوں عطا ہوئیں دل کیوںملا۔ احساس کیوں دیا گیا؟ جن کا نتیجہ کچھ نہیں پھر ستم یہ کہ انسانی فطرت کی تلاش حقیقت کے لیے بدستور بے قرار ہے آخرکیوں؟ یہ دور اور نزدیک کے تفرقے تو چلے جاتے ہیں۔ پردہ چرا ظہور چیست؟ اصل ظلام و نور چیست؟ چشم و دل و شعور چیست؟ فطرت ناصبور چیست؟ ایں ہمہ نزد و دور چیست؟ می نگریم و می رویم یہیں پہ آ کے اقبال انسان کے بارے میں اپنے مخصوص زاویہ نگاہ کی طرف اشارہ کر جاتا ہے کہ انسان نے جب سے آنکھ کھولی ہے وہ حقیقت عالم کے معلوم کرنے کے لیے محو جستجو ہے۔ حقیقت آشکار ہو نہ ہو ‘ فطرت کا منشا اسے سرگرم جستجو رکھتاہے کیونکہ یہی اس کی زندگی ہے۔ سفر حیات کی کوئی منزل نہیں۔ انسانی زندگی ایک سفر ہے اور سفر ہی ا س کی منزل بھی ہے۔ اب ذرا آخری بند کی طرف آئیے: اخیر میں ستارے اپنی زندگی اور انسانی زندگی کا مقابلہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ببش تو نزد ما کے سال تو پیش ما دمے اے بکنار تو یمے ساختہ بہ شبنمے ما بہ تلاش عالمے می نگریم و می رویم اے انسان! جسے تو زیادہ سمجھتا ہے وہ ہمارے نزدیک کم ہے (بہت کم) جسے تو سال کہتا ہے وہ ہمارے لیے ایک لمحہ ہے(ایک حقیر لمحہ) اے انسان تیرے سینے میں ایک سمندر ہے (ایک وسیع سمندر) پھر تو ایک قطرہ شبنم (ایک حقیر قطرہ شبنم) پر کیوں قناعت کرگیا ہے؟ ہماری طرف دیکھ کہ ہماری زندگی ابدی ہے لیکن اس کے باوجود ہم ایک اور عالم کی تلاش میں ہیں (ایک عظیم عالم کی) ایک وسیع تر دنیا کی۔ میں نے اس بند کے ترجمے میں چند لفظ بتکراستعمال کیے ہیں بہت کم اور ایک حقیر لمحہ ایک وسیع سمندر‘ ایک حقیر قطرہ شبنم ‘ ایک عظیم عالم۔ اس کی تفصیل سنیے۔ اس میں آپ کو شاعر کے شاعرانہ کمال کا سراغ ملے گا۔ فارسی زبان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ’’حروف‘‘ الفاظ کے ساتھ پیوست ہو کر الفاظ میںمعنوی وسعت پیدا کرتے ہیں اس بندمیں شاعر نے ’’ے‘‘ کو استعمال کیا ہے۔ صرف و نحو میں ’ی‘‘ بالعموم ایک کا مفہوم دیتی ہے۔ جیسے کتابے ایک کتاب۔ اس بند میں ’’ے‘‘ کہیں تحقیری ہے کہیں تعظیمی ’’کمے‘‘ اور ’’شبنمے‘‘ کے الفاظ میں تحقیری ہے اور ’’یمے‘‘ اور ’’عالمے‘‘ کے لفظوں میں تعظیمی۔ اقبال کا ایک شعر ہے: نہ زباں کوئی غزل کی نہ زباں سے آشنا میں کوئی دلکشا صدا ہو عجمی ہو یا کہ تازی غزل کی کوئی زباں نہیں اور نہ غزل سے کوئی شخص شاعر بنتا ہے۔ شاعر ہی زبان کو سنوارتا اور غزل یا شعر کو جنم دیتا ہے۔ اس کے لیے ایک صدائے دلکشا کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر بڑا شاعر جس زبان میںشعر کہتا ہے اسے توانائی اور قوت بخشتا ہے اور اسے عظیم بنا دیتاہے۔ اقبال لاکھ کہے کہ میں ایک پیغام لے کے آیا ہوں شاعر نہیں ہوں لیکن اس نے اپنی شاعری سے اردو اور فارسی زبان کو ایک نیا مقام عطا کیا ہے جس کی ایک ادنیٰ مثال آج کی نظم ’’سرود انجم‘‘ ہے۔ اس نظم کو لکھے ہوئے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن ستاروں کا یہ نغمہ اب بھی فضامیں اسی طرح گونج رہا ہے اور حقائق حیات کا اعلان کر رہا ہے۔ ٭٭٭ گلشن راز قدیم اور گلشن راز جدید میکش اکبر آبادی یہ دونوں مثنویاں دو جلیل القدر اور مشہور مصنفوں کی ہیں جو شاعر اور دانشور بھی ہیں اور دانائے راز بھی۔ یہ چند سوالوں کا جواب ہیں جو ایک سوال کرنے والے کو دیے گئے ہیں۔ ان دونوں کے زمانے میں تقریباً سا سو سال کا فرق ہے ۔ ان سوالوں کے جو جواب دیے گئے ہیں ان میں کسی خاص فرق کے تلاش کی ضرورت نہیں کیونکہ آخری مصنف نے خود اعتراف کر لیا ہے کہ فرق صرف انداز بیان کا ہے : بہ طرز دیگر از مقصود سفتم گلشن راز قدیم حضرت علامہ نجم الدین محمود شبستریؒ کی تصنیف ہے۔ پروفیسر برائون نے محمود شبستری کو سنائی ‘ عطار‘ رومی اور جامی کی صف میں شمار کیاہے اورکہا ہے کہ ایران میں صوفی شاعر بہت ہوئے ہیں اور اب بھی ہیں مگر جس پائے کے شاعر محمود شبستری رومی اور عطا ر تھے ایسے نہ ان سے پہلے ہوئے اور نہ ان کے بعد ۱؎۔ اس مثنوی کی وجہ تصنیف خود مصنف نے اس طرح بیان کی ہے: ’’خراسان کے ایک بزرگ نے جو وہاں کے بہترین اور سر بر آوردہ وہ مشائخ میں سے تھے ایک قاصد کو چند سوال دے کر بھیجا یہ سوالات نظم میں تھے وہ سوال قاصد نے تبریز کی ایک مجلس میں پیش کیے جہاں شہر کے تمام بزرگ اور اکابر موجود تھے۔ سب نے بالاتفاق مجھ سے جواب دینے کے لیے کہا۔ ان بزرگوں میں ایک ایسے بھی تھے جو ان معارف کو بارہا میری زبان سے سن چکے تھے انہوں نے فرمایا کہ ان سوالوں کا جواب فی البدیہہ دیا جائے میں نے معذرت سے کہا کہ ان مسائل کو میں اپنے رسائل میں بیان کر چکا ہوں انہوںنے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ جس طرح یہ سوال نظم میں ہیں اسی کے مطابق تو جواب بھی نظم میں ہی ہونا چاہئیں۔ چنانچہ میں نے بغیر فکر کیے ان جوابات کو نظم میں بیان کرنا شروع کر دیا۔ نثر میں ان مسائل کو بہت سی کتابین ہیں مگر نظم میں یہ مسائل اس سے پہلے بیان نہیںکیے گئے تھے۔ ی بات میں فخر سے نہیںکہہ رہا ہوں بلکہ معذرت اور بطور خدا کے شکر کے کہہ رہا ہوں۔ عروض و قافیہ اور الفاظ میں معنی نہیںسماتے اور سمندر کو کوزے میں بند نہیںکیا جا سکتا ویسے مجھے شاعری سے بھی عار نہیں ہے کیونکہ سو قرنوںمیںبھی ایک عطارؒ پیدا نہیںہوتا: ۱؎ شبستریؒ کا سال وفات ۱۳۲۰ء ہے ۔ تاریخ ادبیات ایران میں ج ۴ ص ۲۲۔ گلشن راز جدید علامہ اقبال کی تصنیف ہے ۔ (مشمولہ زبور عجم) مرا زیں شاعری خود عار ناید کہ در صد قرن یک عطار ناید لیکن میں نے جو کچھ کہاہے وہ کسی سے ماخوذ نہیں ہے۔ تاہ میں نے جو کچھ کہا ہے اس کے لیے یہ دعویٰ بھی نہیں ہے کہ کسی اور نے نہیں کہا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ بہ سبیل اتفاق توارد ہو گیا ہو مگر یہ باتیں کسی سے سنی ہوئی نہیں ہیں بلکہ میرے مشاہدات ہیں‘‘۔ یہ تمہید خود حضرت محمود شبستری کی ہے۔ اس پر شارح گلشن راز حضرت محمد بن یحییٰ بن علی الجیلانی النور بخشی نے یہ صراحت کی ہے کہ جن بزرگ نے خراسان سے یہ سوالات دریافت کیے تھے وہ ایر سید حسینی شیخ الاسلام بہاء الدین ذکریا ملتانی کے خلیفہ تھے شیخ بہاء الدین ذکریا ملتانی شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی مصنف عوارف المعارف کے خلیفہ ہیں۔ شرح گلشن راز ۷۷ھ مطاق ۱۴۷۲ء کی تصنیف ہے یعنی اصل تصنیف سے ایک سوساٹھ سال بعد کی محمد بن علی الجیلانی کا سلسلہ واردات اس طرح مشہور بزرگ حضرت شیخ علاء الدولہ سمنانی تک پہنچتا ہے۔ محمد بن علی الجیلانی حضرت سید محمد نور بخش کے مرید ہیں اور وہ حضرت خواجہ اسحاق ختلانی کے مرید ہیں اور وہ حضرت سید علی ہمدانی کے مرید ہیں اور وہ حضرت محمود مزدقانی کے مرید ہیں۔ اور وہ حضرت شیخ علاء الدولہ سمنانی رحمتہ اللہ علیہم کے مرید ہیں حضرت سمنانی کا سلسلہ بارہ واسطوں سے حضرت جنید بغدادیؒ سے ملتا ہے اور حضرت جنید بغدادیؒ دو واسطوں سے حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے بیعت ہیں ۱؎۔ شارح گلشن راز نے یہ بھی لکھا ہے کہ جن بزرگ کے فرمانے سے محمود شبستریؒ نے سوالات کا منظو م جواب دیا وہ حضرت شیخ امین الدین تھے جو محمود شبستریؒ کے پیر تھے۔ یہاں یہ معلوم کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ گلشن راز کے شارح محمد بن علی الجیلانیؒ خود بھی حضڑت محمود شبستریؒ کی طرح وحدۃ الوجود کے شدت سے حامی تھے اور سلسلے کے اعتبار سے حضرت شیخ علاء الدولہ سمنانی سے منسلک ہیں شیخ علاء الدولہ وحدۃ الوجود کے مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ شیخ عبدالرزاق کاشیؒ سے اس مسئلے میں ان کا اختلاف رہا ہے ۔ مولانا جامی علیہ الرحمتہ نے نغمات الانس میں دونوں بزرگوں کے مکتوب نقل کیے ہیں۔ یہ بات توجہ طلب ہے کہ صوفیوں میں کوئی مرید اصول میں اپنے مرشد سے مخالفت نہیں کر سکتا نہ کہ مسئلہ توحید میں جو اصل اصول ہے۔ اس صورت میں محمد بن علی الجیلانی اپنے شیخ سلسلہ شیخ علاء الدولہ سمنانی کے خلاف وحدۃ الوجود کی موافقت نہیں کر سکتے تھے۔ اس صورت حال میں حضرت مولانا جامیؒ نے شیخ عبدالرزاق کاشی اور امیر اقبال سیستانی کی جو گفتگو نقل کی ہے وہ اس اختلاف کا بہترین حل ہے۔ امیر اقبال سیستانی شیخ علاء الدولہ سمنانی کے مرید ہیں۔ مولانا جامیؒ نے لکھا ہے: ۱؎ شرح گلشن راز قلمی ص ۶۸۰ ’’امیر اقبال سیستانی کا اقبالیہ ک رستے میں شیخ عبدالرزاق کاشی کا ساتھ ہو گیا۔ شیخ نے اس مسئلے میں امیر اقبال کا غلو دیکھا تو پوچھا کہ تمہارے شیخ (علاء الدولہ سمنانی) کا شیخ محی الدین ابن عربی کے بارے میں کیا اعتقاد ہے۔ امیر اقبال نے کہا کہ وہ ابن عربی کو عظیم الشان انسان مانتے ہیں اور محارف کا امام سمجھتے ہیں لیکن ابن عربیؒ کے اس قول کو حق تعالیٰ وجود مطلق ہے غلط نہیں سمجھتے ہیں اور اسے پسند نہیں کرتے‘‘۔ (نفحا ت الانس جامی) بعض صوفیوں نے ابن عربی کی اس اصطلاح کو پسند نہیں کیا کیونکہ وجود مطلق کی اصطلاح خالص فلسفیانہ ہے قدیم تصوف میں یہ اصطلاح نظر نہیں آتی لیکن اصل مسئلہ یعنی لا موجود الا اللہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے تعبیر اور انداز بیان کا اختلاف ضرور ہے جن دانشوروں نے بھی اس بات پر غور کیا کہ ہم اور یہ محسوس کرنے والا عالم کیا ہے؟ انہوں نے اس سوال کے مختلف جواب دیے ہیں یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے صرف اسلامی صوفیوں اور نظریہ مایا کے حامیوں کا مسلک بیان کرنا ہے۔ یہ مکاتب فکر اس پر متفق ہیں کہ حقیقی وجود ایک ہے اور وہ برہما یا خدا ہے لیکن خود ہم اور یہ عالم کیا ہے؟ ا س سوال کے جواب مختلف ہیں جو اصحاب اس فکر پر غور نہیں کر سکتے اور اس نظریے کے صرف نصف حصے پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں وہ کئی طرح کی غلط فہمیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں مثلاً یہ کہ وحدت الوجود اور نظریہ مایا ایک ہی ہے یا ایک دوسرے سے مستفاد ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ سری شنکر اور ابن عربی اس پر تو متفق ہیں کہ وجود حقیقی خدا کا ہے لیکن سری شنکر کے نزدیک یہ دکھائی دینے والا عالم دھوکاہے یہ عالم جہالت سے بنا ہے اور اس کے فنا ہونے سے ہی برہما کا تحقق ہواہے برہما اپنی مایا کے ذریعے عالم کے بطور ظاہر ہوتاہے یہ ہستی شر ہے اور اس کے فنا ہونے پر ہی نجات اور عرفان کا دارومدار ہے ۱؎۔ اسلامی صوفی خصوصاً شیخ اکبر محی الدین ابن عربی اور جمہوریہ صوفیہ جن کو اہل نور کہا جاتا ہے ان کا مسلک ہے کہ ظاہر و باطن خدا کے سوا کوئی موجود نہیں ہے یہ دکھائی دینے والا عالم جو خدا کا غیر محسوس ہوتا ہے اور جسے ماسوا کہتے ہیں خدا کے علاوہ اور ا س کا غیر نہیں ہے غیریت اور کثرت جو محسوس ہوتی ہے ی ہماری عقل کا کارنامہ ہے کہ ہم اسے غیر سمجھ لیتے ہیں۔ ابن عربی نے کہا ہے الحق محسوس والخلق معقول جو کچھ محسوس ہوتا ہے وہ حق ہی ہے خلق تو صرف معقول یعنی ہمارے ذہن کی پیداوار ہے۔ اس کو علامہ اقبال نے اس شعر میں بیان کیا ہے: بہ بزم ما تجلی ہاست بنگر جہاں ناپیدو او پیداست بنگر ۱؎ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو نقد اقبال وحدۃ الوجود کے نظریے کو صحیح تسلیم کرنے کے بعد جو ایرا د واقع ہوتے ہیں یا ذہن میںجو شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ سائل خراسانی نے انہیں بیان کیا ہے اور ان کا جواب یہ مانگا ہے چنانچہ محمود شبستری نے ان کاجواب دیا ہے۔ اور علامہ اقبال کی رائے میں شیخ محمود شبستری کے زماے سے آج تک اتنے بہتر جواب نہیں دیے گئے اور اس موضوع پر اس سے بہتر تصنیف نہیں ہوئی مگر چونکہ علامہ تصوف کی قدیم اصطلاحات کو اس زمانے کے مزاج کے مطابق نہیں سمجھتے۔ اس لیے انہوںنے ضرورت محسوس کی کہ ان باتوں کو بہ طرز دیگربیان کیاجائے۔ اس جگہ یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر نظریہ وحدت الوجود غلط ہے یا علامہ اس کے قائل نہیں ہیں تو ان کو ا س بہ طرز دیگر کی ضرور ت کیوںپیش آئی۔ مثلاًیہ سوال کیا گیا کہ جب سارا عالم حق یا خدا ہے اور ان کی حقیقت ایک ہے تو پھر یہ قدیم اور حاد ث کس طرح علیحدہ ہوئے کہ ایک خدا ہو گیا اورایک عالم یا یہ کہ جب عارف بھی خدا ہی اور معروف بھی خدا ہی ہے تو پھر انسان کو معرفت حاصل کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی۔ ان سوالوں کا ایک سیدھا سادا جواب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ کہاں خدا اور کہاں بندہ‘ نہ کبھی یہ ایک تھے نہ کبھی جدا ہوئے‘ کہاں عارف اور کہاں معروف اور یہ جواب وہی ہے جو علمائے ظاہر اور وہ لوگ دیتے ہیں جو وحد ت الوجود کو کفر و زندقہ یا کم سے کم مغالطہ کشفی سمجھتے ہیں لیکن ان سوالوں کا جواب دینے والوں ے ایسا نہیں کیا بلکہ وحدت الوجود کو حق سمجھا اور سائل کے شکوک دور کیے اور اس کے ساتھ ہی ان مسائل کی بہترین تشریح کی۔ تصوف اور خصوصاً وحدت الوجود کے متعلق علامہ اقبال کے بیان بہت متضاد ہیں لیکن ان کی تصانیف کو اگر تاریخی اعتبار سے ترتیب دیا جائے تو یہ مشکل بآسانی حل ہو جاتی ہے اور ثابت ہو جاتا ہے کہ اسرار خودی سے ارمغان حجاز تک آتے آتے انہوںنے تصو ف اور وحدت الوجود کی تائید شروع کر دی تھی۔ اور اسرار خودی میں ابن عربی کے جس نظریے کو وہ مسلمانوں میںقوت عملکے فقدان کا ذمہ دار قرار دے چکے ہیں بعد کی تصانیف اسی نظریے کی تائید کرتے نظر آتے ہیں ۱؎ خود ان کی یہ تصنیف ’’گلشن راز‘‘ ا س بات کا پورا ثبوت ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اسلام میں انحطاط ابن عربیؒ سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا اور اس کے دو وجوہ تھے وہ تاریخ اسلام کے معمولی طالب علم سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ کتنے مسلمان تھے جو ابن عربی کے نظریے سے واقف تھے اور اسے حق سمجھتے تھے۔ اور آج کتنے مسلمان ہیں جو ان مسائل کو سمجھتے ہیں عجیب بات یہ ہے کہ ہندوئوں کے تنزل میں نظریہ مایا کا اثر بھی ابھی تک کسی محقق نے ثابت نہیں کیا۔ یہاں عرض کرنا یہ ہے کہ گلشن راز جدید کی رو سے بھی علامہ اقبال وحدۃ الوجود کو حق سمجھتے ہیں اور اپنی تصانیف میں جگہ جگہ اس کی صراحت کرتے ہیں: ۱؎ تفصیل کے لیے نقد اقبال ملاحظہ ہو تو اے نادان دل آگاہ دریاب بخود مثل نیاگاں راہ دریاب چساں مومن کند پوشیدہ رافاش ز لاموجود الا اللہ دریاب (ارمغان حجاز) اس کے علاوہ علامہ صوفیوں کی طرح خودی کی تکمیل کے لیے فنا کو ضروری سمجھتے ہیں: اند کے اندر حرائے دل نشیں ترک خود کن سوئے ہجرت گزیں محکم از حق شو سوئے خود گام زن لات و عزائے ہوس را سر شکن ٭٭٭ بخود گم بہر تحقیق خودی شو انا الحق گوئے و صدیق خودی شو ٭٭٭ منور شو ز نور من راتی مژہ برہم مزن تو خود نمائی ۱؎ ٭٭٭ علامہ اس کے قائل ہیں کہ اسلامی تصوف نے خودی کے لیے نئے باب کھولے ہیں ۲؎۔ اور کودی کا فلسفہ اسلامی حکماء اور صوفیہ سے ماخوذ ہے ۳؎۔ لیکن ان کے خیال میں تصوف کے مخصوص اصطلاحات جو کہ فرسودہ ما بعد الطبیعیات نے تشکیل کی ہیں ایک نئے دماغ پر موت کا سا اثر رکھتے ہیں ۴؎۔ اسی کے پیش نظر انہوںنے جگہ جگہ بہ طرز دیگر از مقصود سفتم پر عمل کیا ہے۔ چنانچہ بقاباللہ کے بجائے خودی مرد کامل یا عارف کی جگہ مرد مومن وغیرہ اصطلاحات مقرر کی ہیں اور عام صوفیوں کے انداز بیان سے قطع نظر مخصوص صوفیہ کی تقلید کی ہے مثلاً اکثر جگہ فتوح الغیب کی تقلید میں ترک جہات کی تلقین فرماتے ہیں: کمال زندگی دیدار ذات است طریقش رستن از بند جہات است (گلشن راز جدید) ٭٭٭ گلشن راز جدید علامہ اقبال کی تصنیف ہے اور اس کی بحر بھی وہی ہے جو قدیم مثنوی کی ہے اور سوال بھی وہی ہیں علامہ نے اس کا سبب تصنیف یہ بیان کیاہے کہ اہل مشرق کے دلوں میں سے وہ سوز جاتا رہا ہے جو ان کی خصوصیت تھی۔ وہ بے جان تصویر کی طرح ہو گئے ہیں۔ نہ ان کے دل میں کوئی مدعا ہے نہ ان کے سا ز میں کوئی آواز ہے ۔ کفن پہن کر میں نے قبر میں آرا م کیا جب بھی کوئی فتنہ محشر نہ دیکھ سکا۔ ۱؎ مزید تفصیل اور فنا کا بیان ’’نقد اقبال‘‘ میں ملاحظہ ہو۔ ۲؎ خطبات اقبال ۳؎ فلسفہ سخت کوشی ۴؎ خدا کا تصور اور عبادت کے معنی میری نگاہ نے ایک دوسرا انقلاب دیکھااور میں نے محمود شبستری کے نامے کا جواب ایک دوسرے طرز سے لکھا یہ واقعہ ہے کہ محمود شبستری کے زمانے سے آج تک کسی نے محمود شبستری کی طرح ہمارے دل میں آگ روشن نہیں کی۔ کوی یہ نہ سمجھے کہ میں نے شاعروں کی طرح افسانہ لکھا ہے۔ اور بغیر شراب پئے مست ہو گیا ہوں بلکہ میں نے کچھ عرصے اپنے باطن میں خلوت اختیار کی اور تب ایک لازوال جہان پیدا کیا اور اس قسم کی شاعری سے مجھے شرم نہیں آتی۔ کیونکہ سو قرنوں میں بھی ایک عطار پیدا نہیں ہوتا میں جبریل امین کا ہم داستان ہوںمیں نے پہلے خودی کے کیف کو آزمایا اورپھر اہل مشرق پر اسے تقسیم کیا اگر جبریل بھی میرا کلام پڑے تو اپنے مقام سے بیزار ہو جائے اور خدا کی تجلی اور وصال جاودانی کے بجائے انسان کا سا سوز و گداز اور غم پنہاں مانگنے لگے۔ اس طرح دونوں مصنفوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہو نے جو کچھ لکھا ہے وہ ان کی واردات اور ان کا کشف و شہودہے۔ گلشن راز جدید شاعری کے بہترین نمونوں میں سے ہے اگرچہ مسائل شاعری غالب آ گئی ہے شاید اس لیے بھی کہ علامہ اقبال نے جواب نامہ محمود سوچ سمجھ کر اور فرصت میں لکھا ہے لیکن حضرت محمود شبستری نے یہ مثنوی فی البدیہہ لکھی ہے اور اہل علم سمجھتے ہیں کہ فلسفیانہ مضامین کا نظم کرنا بذات خود ایک دشوار کام ہے ۔ نہ کہ فی البدیہہ اور اہل علم کی ایک محفل میں بیٹھ کر نظ کرنا اور ا س خوبی سے نظم کرنا جو شاعرانہ اعجا ز بیان کاایک شاہکار ہے۔ ٭٭٭ قاصد خراسانی نے سب سے پہلا سوال تفکر کے متعلق کیا ہے۔ تفکر کی اسلام میںبڑی اہمیت ہے قرآن نے جگہ جگہ تفکر کی تاکید کی ہے۔ بعض حدیثوںمیں تفکر کو طاعت و عبادت پر ترجیح دی گئی ہے۔ صوفیوں میں تفکر کی اہمیت تمام اعمال و عبادات سے زیادہ ہے اسی لیے سب سے پہلا سوال سائل نے تفکر کے متعلق کیا ہے ۔ اس موقعہ پر مولانا عبدالرحمن جامیؒ کی دو رباعیاں نقل کی جاتی ہیں جو اپنی جامعیت اور حسن بیان کے اعتبار سے بے نظیر ہیں اور علامہ اقبال کے جواب کے سمجھنے میں ان سے سہولت ہو گی: گر در دل تو گل گزرد گل باشی در بلبل بے قرار بلبل باشی تو جزوی و حق کل است گر روزے چند اندیشہ کل پیشہ کنی کل باشی ٭٭٭ اے برادر تو ہمیں اندیشہ ما بقی تو استخوان و ریشہ گرگل است اندیشہ تو گلشنی ور بود خار توہمہ گلخنی (لوائح جامی ) اب محمو د شبستری اور اس کے بعد اقبا ل کا جواب ملاحظہ فرمائیں: پہلا سوال: نخست از فکر خویشم در تحیر چہ چیز است آنکہ گویندش تفکر تفکر کیا ہے ؟ شبستری فرماتے ہیں کہ باطل سے حق کی طرف جانے اور جزو میں کل مطلق یعنی خلق میں حق کا مشاہد ہ کرنے کا نام تفکر ہے۔ یہ راہ دور و داراز ہے۔ موسیٰ کی طرح عصا یعنی اپنی ہستی کا احساس چھوڑ دو اور وادی ایمن میں داخل ہو جائو اور انی انا اللہ(میں خدا ہوں) کی آواز سنو۔ فکر صحیح بغیر تجرد و خلوت کے حاصل نہیں ہوتی۔ تشبیہ کا خیال نابینائی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور صرف ایک آنکھ سے دیکھنے کا نتیجہ تنزیہ ہے تنگ چشمی سے تناسخ کا عقیدہ پید ا ہوتا ہے۔ اہل ظاہر کی آنکھیں بیمار ہیں کہ ظاہر کو نہیں دیکھتے بلک مظاہر کو دیکھتے ہیں: دوسرا سوال ہے: کدا میں فکر مارا شرط راہ است چراگہ طاعت و گاہے گناہ است راہ معرفت میں کسی قسم کی فکر درکار ہے اور کبھی فکر عبادت ہو جاتی ہے اور کبھی گناہ اس کا سبب کیا ہے؟ اس کے جواب میں شبستریؒ نے صوفیہ کا مشہور قول بیان کر دیا ہے کہ خدا کی ذات میں فکر نہ کرو اس کی صدفات میں فکر کرو۔ ذات میں فکر کرنا گناہ ہے ذات میں فکر باطل ہو جاتی ہے۔ اس کی ذات آیات سے روشن نہیں ہے بلکہ آیات اس کی ذا ت سے روشن ہیں تمام عالم اس کے نور سے ظاہر ہوا ہے خدا کی ذات عالم سے روشن نہیںہے جہاں خدا کا نور دلیل ہو وہاں جبریل کو گفتگو کی مجال نہیں ہے۔ فرشتے کو خدا کا قرب حاصل ہو مگر معی اللہ ۱؎ مقام میںفرشتے کی بھی گنجائش نہیں ۲؎۔ محمود شبستری مخاطب صوفیہ ہیں اس لیے ان کا جواب ایک محقق صوفی کا سا ہے اور علامہ اقبال کے مخاطب ارباب دانش اور ان کی شاعری کے قدردان سامعین ہیں۔ اقبال نے دونوں سوالوں کا ایک جواب بنا کر جواب دیا ہے اور حق یہ ہے کہ ان کا جواب شعر و فلسفہ کا بہترین امتزاج ہے۔ اقبال نے اکثر مقامات پر اپنی شاعری سے مشکل آسان کر لی ہے۔ لیکن شبستری نے استدلال سے کام لیا ہے جس کے لیے علم و شریعت کے علاوہ بہت سے علو جاننے اور ان میں کمال کی ضرورت ہے اقبال کہتے ہیں: آدمی کے سینے میں ایک نور ہے۔ ایسا نور کی اس کا غیب بھی ا س کے لیے حضور ہے۔ میں نے اسے ثابت بھی دیکھا سیار بھی نور بھی اور نار بھی کبھی وہ برہان و دلیل پر نازاں ہے تو کبھی روح میںسے نور حاصل کرتا ہے وہ خاک آلود بھی ہے ور مکان سے پاک بھیی۔ روز و شب میں اسیر بھیہے اور زمان سے مبرا بھی کبھی تھک جاتا ہے تو ساحل پر مقام کر لیتا ہے اور کبھی اس کے جام میںدریائے بے پایاں آ جاتا ہے خود ہی دریا ہے خود ہی موسیٰ کا وہ عصا ہے جس نے دریا کا سینہ دونیم کر دیا تھا ایک آنکھ سے اپنی خلوت کو دیکھتا ہے اور دوسری آنکھ سے اپنی جلوت کو اگر ایک آنکھ بند کر لے اور صرف جلوت یا صرف خلوت کو دیکھے تو یہ گناہ ہے اور اگر دونوں آنکھیں کھول کر دیکھے یعنی ظاہر پر بھی نظر رہے اور مظہر پر بھی تو یہ صحیح راستہ ہے۔ ۱؎ لی مع اللہ حدیث کی طرف اشارہ ہے مطلب فنائے کلی سے ہے۔ ۲؎ یہ دونوں سوالوں کے جواب کا خلاصہ ہے۔ اس میں ہنگامے ہیں مگر بغیر شور کے اس میں رنگ و آواز ہے مگر بے چشم و گوش کے۔ اس کے شیشے میں سارا عالم ہے لیکن اس کا ظہور ہم پر بتدرئج ہتاہے۔ زندگی اسی کے ذریعے کمند ڈال کر ہر پست و بلند کو اسیر کر لیتی ہے۔ اور اسی کے ذریعے خود کو اپنی قید میںکر لیتی ہے۔ اور ماسوا (غیر خدا) سے چھوٹ جاتی ہے۔ اور ایک روز دونوں عالم اس کے شکار ہو جاتے ہیں اگر تم اس طرح دونوں عالم حاصل کر لو تو سارا زمانہ مر جائے گا مگر تم نہ مرو گے کوشش کرو اور پہلے وہ عالم تسخیر کر لو جو تمہارے اندر ہے اگر خدا کو حاصل کرنا چاہیت ہو تو اپنے آپ سے نزدیک ہو جائو۔ یہ چاند تارے تمہیں سجدہ کرنے لگیں گے اور ساری کائنات تم کو اپنی مرضی کے مطابق تعمیر اور تسخیر کر سکو گے۔ یہی وہ بادشاہت ہے جو دین کے ساتھ توام ہے۔ محمود شبستریؒ سے ہی کیے گئے سوالوں میں سے اقبال نے (۹) نو سوال منتخب کر لیے ہیں۔ اور ان کو بھی اسی انداز سے ترتیب دیا ہے کہ وہ سب سوال ایک دوسرے کا جزو معلوم ہوتے ہیں۔ جو تقریباً سب نظریہ وحدت الوجود سے متعلق ہیں۔ تفکر کے متعلق دو سوالوں کو ایک قرار دے کر اس کا جواب دیا ہے جو ابھی ذکر کیا جا چکا ہے۔ باقی سوال یہ ہیں: (۲) چہ بحر است ایں کہ علمش ۱؎ ساحل آمد زقعر او چہ گوہر حاصل آمد (۳) وصال ممکن و واجب بہم چیست حدیث قرب و بعد و بیش و کم چیست (۴) قدم و محدث از ہم چوں جدا شد کہ ایں عالم شدآں دیگر خدا شد اگر معروف و عارف ذات پاکست چہ سود اور سر ایں مشت خاک است (۵) کہ من باشم مرا از من خبر کن چہ معنی دارد اندر خود سفر کن (۶) چہ جزو است آنکہ او از کل فزون است طریق جستن آں جزو چون است (۷) مسافر چوں بود رہر و کدام است کرا گویم کہ او مرد تمام است (۸) کدامی نکتہ را نطق است انا الحق چہ گوئی ہرزہ بود آں رمز مطلق ۱؎ میرے قلمی نسخے میں علمش کے بجائے نطقش ہے۔ (۹) کہ شدبر سر وحدت واقف آخر؟ شناسائے چہ آمد عارف آخر؟ ٭٭٭ قدیم و محدث از ہمچوں جدا شد کہ ایں عالم شد آں دیگر خدا شد اگر معروف و عارف ذات پاکست چہ سودا اور سر ایں مشت خاک است سوال یہ ہے کہ اگر وجود ایک ہے تو حاث اورقدیم علیحدہ علیحدہ کیسے ہو گئے کہ ایک عالم ہو گیا اور ایک خدا اور جب پہچاننے والاا اور پہچانے جانے والا ایک ہی ہے یعنی خدا تو پھر انسان کے سر میں کیا سمو سمایا ہے کہ وہ معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ شبستریؒ کا جواب یہ دیتے ہیں کہ تو وہ ’’جمع‘‘ ہے جو عین واحد ہے اورتو ہی وہ واحد ہے جو عین کثرت ہے لیکن اس کے لیے یقین اور کشف و شہود کی ضرورت ہے تاکہ وہم غیریت کے حجاب اٹھ جائیں یہ کثرت اور روحانی محض وہم ہے۔ جسے تو اپنے غلط علم کی وجہ سے حقیقت سمجھ بیٹھا ہے۔ اور اپنا علم چھوڑ دو اپنی ہستی کو غیر نہ سمجھو اور غیریت کے وہم کو تاراج کر دو تو تمہارا نقطہ اول آخر میں مل جائے گا۔ اور ایسے مقام پر پہنچ جائو گے جس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہان نہ فرشتے کی گنجائش ہے نہ کسی رسول کی۔ پس جس وقت یہ مسافت طے ہو جاتی ہے اور یہ مقام حاصل ہو جاتا ہے توحق اس کے سر پر تاج خلافت رکھ دیتا ہے وہی مرد کامل ہے جو خواجگی کے ساتھ کار غلامی بھی کرتا ہے یعنی حقیقت میں فنا ہو کر بقا حاصل کر لیتا ہے۔ اور خدا کی منشا کے مطابق اپنے فرائض پورے کرتا ہے۔ قدیم و محدث از ہم چوں جدا شد اقبال اس سوا ل کا جواب اس طرح دیتے ہیں کہ غیریت کو ہم نے ایجاد کر لیا ہے کہ خودی اسی کی وجہ سے زندہ ہے او رعارف و معروف کا فراق ہی بہتر ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ قدیم اور حادث سب ہمارے اعتبارات ہیں ہم دوش وفردا کا شمار کرتے رہتے ہیں اور آج اور کل ہے اور تھا اور ہو گا کرتے رہتے ہیں خو د کو خدا سے علیحدہ سمجھ لینا ہماری فطرت ہے تڑپنا اور نہ پہنچنا ہماری فطرت ہے جدائی ہی سے خاک میںنظر پیدا ہوتی ہے ہم اور وہ خدا کا راز ہے اور ظاہر و باطن سب خدا ہی کا نورہے اگرچہ ہماری محفل میں بہت سے جلوے ہیں لیکن یہ سارا جہاں معدوم اور نیست ہے خدا ہی موجود اور ظاہرہے یہ در و دیوار یہ شہر و مکاں کچھ بھی نہیں ہے یہاں ہمارے سوا اور اس کے سوا حقیقت مطلق اورمظاہر حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے خودی کو اپنی آغوش میں لے لینا اور فنا کو بقا سے ملا دینا یہی سودا ہے جو اس مشت خاک کے سر میں ہے حقیقت کے سمندر میں گم ہوجانا ہمارا انجام نہیں ہے اگر تم اس حقیقت کو حاصل کر لو تو پھر فنا نہیں ہے۔ کدامی نقطہ را نطق است انا الحق چہ گوئی ہرزہ بود آں رمز مطلق کیا انا الحق کا قول کسی حقیقت سے ناشی ہے یا محض بیہودہ بات ہے۔ شبستریؒ نے جواب دیا ہے کہ انا الحق راز کا اظہار ہے یہاں غیر حق کہاں ہے جو انا الحق کہے۔ عالم کے تمام ذرے ہر وقت انا الحق میں محو ہیں قرآن نے کہا ہے کہ کوئی شے ایسی نہیں جو تسبیح نہ کرتی ہو اگر تو بھی توحید علمی سے گزر کر توحید کشفی اور توحید عیانی تک پہنچ جائے تو انا الحق کہنے لگے۔ وادی ایمن میں آ اور دیکھ کہ درخت بھی انی انا اللہ کہتا ہے: روا باشد انا اللہ از درختے چرانبود روا از نیک بختے تو پھر ایک اچھے انسان سے یہ بات کیا بعید ہے کہ جس شخص کے دل میں شک نہیں ہے وہ یقین کے ساتھ جانتا ہے کہ ہستی ایک کے سوا نہیں ہے انانیت حق ہی کو سزاوار ہے اس کی جناب میں تو میں اور وہ نہیں ہے ۔ ہر آں کو خالی از خود چوں خلا شد انا الحق اندر و صوت و صدا شد شود با وجہ باقی غیر ہالک یکے گر دو سلوک و سیر و سالک بہ تعین تھا جو ہستی سے جدا ہوگیا۔ وگرنہ نہ خدا بندہ ہوا نہ بندہ خداہو گیا کیونکہ کثرت کا وجود محض ایک نمودا ور جو کچھ نظر آتا ہے وہ حقیقت کے مطابق نہیں ہے آئینے کو اپنے برابر رکھو اور دیکھو اس میں یہ دوسرا شخص کون ہے۔ عدم ہستی کے ساتھ ضم نہیںہو سکتا اور نور و ظلمت جمع نہیں ہو سکتے۔ ایک وہمی نقطہ ہے جسے نہر جاری کہنے لگے ہیں۔ میرے سوا اس صحرا میں کون ہے پھر یہ آواز اور آواز کی بازگشت کیا چیز ہے عرص فانی ہے اور جو ہر عرض سے مرکب ہے جسم سوا طول عرض اور عمق کے کیا ہے واقعہ یہ ہے کہ حق کے سوا کوئی موجود نہیں ہے اگر انا الحق کہنا چاہو تو ہو الحق کہو کہ تم غیر نہیں ہو اپنے آپ کو پہچانو اور ہستی و ہمی کی نمود اپنے سے جدا کر دو۔ کدامی نقطہ را نطق است انا الحق اقبال اس کے جواب میں فر ماتے ہیں کہ ایک مغ نے دیر کے حلقے میں کہا کہ زندگی نے فریب کھایا اور من کہا خدا سویا ہوا ہے اور ہمارا وجود اس کے خواب ہی سے ہے تخت و فوق اور چار سو سب خواب ہے سکون و سیر و جستجو سب خواب ہے۔ دل بیدار اور عقل نکتہ ہیں سب خواب ہے۔ گمان فکر تصدیق و یقیں سب خواب ہے یہ تیری چشم بیدار تیرا کردار و گفتار بھی سب خواب ہے جب خدا بیدار ہو جائے گا تو پھر کچھ بھی موجود نہیں رہے گا۔ چو او بیدار گردد دیگرے نیست متاع شوق را سوداگرے نیست یہ سب صحیح ہے مگر ذرا اپنے اندر دیکھو وہ بے نشان (خودی) کون ہے جو تمہارے سینے میں پنہاں ہے ۱؎ ۔ خودی کو ہی حق سمجھو خودی باطل نہیں ہے خودی جب پختہ ہو جاتی ہے تو لازوال ہو جاتی ہے یہ سارا جہاں فانی ہے سوائے خودی کے سب کچھ ہیچ ہے اپنے ااپ میں گم ہو کر خودی کو پا جائو انا الحق کہو اور صدیق خودی ہو جائو۔ خودی را پیکر خاکی حجاب است طلوع او مثل آفتاب است درون سینہ ما خاور او فروغ خاک ما از جوہر او تو می گوئی مرا از خود خبر کن چہ معنی دارد اندر خود سفر کن ترا گفتم کہ ربط جاں و تن چیست سفر در خود کن و بنگر کہ من چیست سفر در خویش زادن بے اب و مام ثریا را گرفتن از لب بام ٭٭٭ کہ من باشم … اقبال کے نزدیک اپنے اندر سفر کرنے کا مطلب اندروں بینی سے ہے: اگر چشمے کشائی بر دل خویش درون سینہ بینی منزل خویش وہ فرماتے ہیں کہ اپنے اندر دیکھو تمہیںاپنی منزل نظر آ جائے گی۔ ہر وقت اپنی نگہ داشت کرتے رہو تاکہ گمان سے گزرکر یقین تک پہنچ جائو۔ زندگی کا کمال ذات کا دیدار ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ جہت اور سمت یعنی تعینات کی قید سے آزاد ہو جائو خدا کے ساتھ خلوت اختیار کر لو اور اس طرح کہ وہ تمہیںدیکھے اورتم اسے۔ پلک نہ جھپکائو اس طریقے سے تمہارا وجود (اعتباری) فنا ہو جائے گا۔ اور اس کے بعد ا س کے حضور(بقا باللہ) اس طرح محکم رہو کہ اس کے بحر نور میں گم نہ ہو جائو۔ خدا کی جلوہ گا ہ میں اس طرح جل جائو کہ بہ ظاہر تم اور یہ باطن خدا روشن ہو جائے جس نے یہ دیدہ حاصل کر لی وہی عالم بالا کا امام ہے اور ہم ناتمام ہیں اور وہ کامل و مکمل ہے اور اس طرح یہ معلوم ہو جائے گا کہ: مسافر چوں بود رہرو کدام است کرا گویم کہ او مرد تمام است ٭٭٭ ۱؎ میں زمین و آسمان میں نہیں سماتا ہاں قلب مومن میں میری سمائی ہے (حدیث قدسی) پر تو حسنت نہ گنجد در زمین و آسماں در حریم سینہ حیرانم کی چوں جا کردہ محبت اور دید چاہے اپنی ہی ہو فراق کی متقاضی ہے اور اپنے دیدار کے لیے بھی آئینے کی ضرورت ہے ۔ جو بقا کا لازمہ ہے۔ حقیقت مطلق نے اپنے دیدار کے لیے کائنات کی صورت میں ظہور فرمایا ہے اقبال جگہ جگہ اسی مقام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ صوفیہ نے کہا ہے: انسان کامل و ایم در فراق است اس قول کی شرح مولانا عبدالعلی بحر العلوم نے شرح مثنوی روم میں ا س طرح کی ہے کہ انسان کامل ہر چند سیرالی اللہ اور سیر من اللہ پوری کر لیے لیکن سیر فی اللہ کی حدو نہایت نہیں ہے اس لیے کہ تجلیات الٰہی کی حدونہایت نہیں ہے۔ ہر تجلی کے مشاہدے کے بعد سالک دوسری تجلی کا سالک رہتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول مبارک رب زدنی علما میں اسی حقیقت کی طر ف اشارہ ہے ۱؎۔ کہ من باشم مرا از من خبر کن چہ معنی دارد اندر خود سفر کن حضرت شبستریؒ نے اس سوال کے دو حصے کر لیے ہیں ایک یہ کہ ’’من‘‘ یا انا کیا ہے اور ایک یہ کہ اپنے اند ر سفر کرنے سے کیا مطلب ہے؟ دوسرے مصرعے کا جواب وہی ہے کہ ان تعینات سے رہائی حاصل کر لو۔ یکے رہ برتر از کون و مکاں شو جہاں بگذار و خود در خود جہاں شو نماند درمیانہ راہ رو راہ چو ہائی ہو شود ملحق بہ اللہ ’’انا‘‘ یا ’’من‘‘ کیا ہے ؟ شبستری ؒ نے فرمایا ہے کہ وجود مطلق میں چونکہ نسبتیں اور اضافتیں معدوم ہیں اس لیے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جب نسبت اضافت یا اعتبار اس حقیقت کو عارض ہوتی ہے اور ہر تعین ایک اسم مخصوص سے مسمیٰ ہو جاتا ہے تو اسے ’’انا‘‘ کہتے ہیں درحقیقت ’’من‘‘ ہستی مطلق ہی ہے جس نے کوئی تعین روحانی یا جسمانی اختیار کر لیا ہے۔ حقیقت کز تعین شد معین تو اورا در عبادت گفتہ من اپنے اندر سفر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اندر تفکر اور کون و مکان اسماء و صفات اور تمام تعینات سے گزر جائو۔ یہ تمام سوال اوران کے جواب ایک ہی نظریے (وحدت الوجود) کے گرد گردش کرتے ہیں بعض سوال اور ان کے جواب بالکل واضح ہیں اور بعض سوال ایسے بھی ہیں جو چیستان یا لطائف کی نوعیت رکھتے ہیں ان کے بارے میں جواب دینے والوں کو اپنے جوہر طبع جودت ذہن اور زور بیان دکھانے کا زیادہ موقع میسر آیا ہے لیکن نظریات و مسائل کی وضاحت میں ان کی زیادہ اہمیت نہیں ہے اس لیے انہیں ترک کر نا مناسب معلوم ہوا۔ مثلاً: ۱؎ جواہر غیبی چہ بحر است ایں کہ علمش ساحل آمد زقعر اوچہ گوہر حاصل آمد ٭٭٭ چہ جزو است آنکہ او از کل فزون است طریق جستن آں جزو چون است ٭٭٭ کہ شد بر سر وحدت واقف آخر شناسائے چہ آمد عارف آخر ٭٭٭ انسان کامل (آخری منزل) تمام صوفی بالاتفاق انسان کو خدا کا کامل ترین مظہر قرار دیتے ہیں یعنی جو انسان کہ کشف و یقین اور ریاضت و مجاہدہ سے خلافت الٰہیہ کا مقام حاصل کر لیتاہے وہی صوفیوں کی زبان میں انسان کامل اور اقبال کی زبان میں مرد کامل کہے جانے کا مستحق ہے: جہاں انسان شد و انساں جہانے ازیںپاکیزہ ترا نبود بیانے چونیکو بنگری در اصل ایں کار ہموں بیند ہموں دیدست و دیدار (گلشن راز قدیم) ان اشعار کی شرح میںمولانا محمد بن علی جیلانی فرماتے ہیں: ’’یعنی جہاں انسان کے ساتھ مل کر انسان کبیر ہے اور انسان کہ سب کا خلاصہ ہے ایک جہاں ہے علیحدہ۔ حق انسان میںظاہر ہوا اور اس کی آنکھ ہو گیا اوراپنی آنکھ سے اپنامشاہدہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اسم اللہ کا مظہر ہے اور اللہ اسم ذات ہے جو جامع ہے تمام اسماء و صفات کو پس انسان تمام مراتب عالم کاجامع ہے اورتمام عالم حقیت انسانی کا مظہر ہے‘‘۔ حضرت علی علیہ السلام کے مشہور شعر ہیں: و تزعم انک جرم صغیر وفیک انطوی العالم الاکبر وانت الوجود و نفس الوجود وما فیک الوجود لایحصر ترجمہ: تو اپنے کو ایک حقیر ہستی سمجھتا ہے حالانکہ تجھ میں سب سے بڑا عالم پوشیدہ ہے تو ہی عین وجودہے اور تجھ میں جو کچھ ہے اس کا حصر نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ ٭٭٭ جاوید نامہ کاایک پہلو اسلوب احمد انصاری ’’جاوید نامہ‘‘ جو فارسی زبان میں ایک منفرد نظم ہے۔ ۱۹۳۲ء میں منظر عام پر آئی۔ اس کے پس پشت جو عملی تاریخی اور ادبی روایت ہے ۔ اس کا سلسلہ ماضی میں بہت دور تک چلا گیا ہے۔ اطالوی شاعر دانتے کی شہرہ آفاق نظم ’’طربیہ خداوندی‘‘ (Divina Commedia) کے بارے میںیہ امر بہ تحقیق ثابت ہو چکاہے کہ اس میں دوزخ اعراف اور بہشت کی جو تخیلی سیر ورجل کی قیادت میںدانتے نے کرائی ہے۔ اس پر معراج نبویؐ سے متعلق وافر اور وسیع ذخیرہ ادب اور خصوصاً ادب اور خصوصاً محی الدین ابن عربی کی ’’الفتوحات المکیہ‘‘ کے واضح اثرات پائے جاتے ہیں۔ معراج نبویؐ جسمانی تھی یا روحانی یہ ایک متنازعہ فیہ مسئلہ ہے۔ لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ مکانی کائنات کی ا س سیاحت کے بارے میں بے حد قیاس آرائیاں کی گئی ہیں اور سیرت پر کتابوں اور متصوفانہ تصانیف میں اس فضائی پرواز کو قابل وثوق ثابت کرنے کے لیے لاتعداد پرتوں ‘ منزلوں اور فلک الافلاک کے مختلف درجوں کی نشان دہی کی گئی ہے ابو العلا معری کے ’’الرسالہ الغفرآن‘‘ اور ابن عربی کی الفتوحات المکیہ دونوں میں یہ مدور دائرے اور زینہ بہ زینہ اوپر کی طرف لے جانے والے یہ راستے بالصراحت اور تفصیل کے ساتھ مذکور ہوئے ہیں۔ ہسپانوی عالم آکسن کا یہ پختہ خیال ہے کہ دانتے اس روایت اور ادبی سرمائے سے کماحقہ واقف تھا۔ اور اسے اپنی نظم کا خاکہ ان مآخذ سے مستعار لینے میں کوئی یدیہی زحمت نہ ہوئی ہو گی۔ اقبا ل کی نظر میں یہ سارا سرمایہ بھی تھا ور دانتے کی نظم بھی۔ یہ امر یقینا باعث دلچسپی اور موجب حیرت ہے کہ ان سب مفکروں شاعروں نے موجودہ سائنسی انکشافات سے بہت پہلے اپنے تخیل کی ہمہ گیری اور جدت کے طفیل خلا میں پرواز کا یہ تجربہ خالس وجدانی سطح پر کیا ۔ طربیہ خداوندی اور ’’جاوید نامہ‘‘ دونوں اس صنف ادب میں شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں۔ جسے Vision Literatureکہا جا سکتا ہے۔ یہاں دانتے اور اقبال کا موازنہ مقصود نہیں ۔ لیکن چند بنیادی مفروضات (Assumptions)کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ دانتے محض ایک غنائی شاعر نہیں ایک آفاقی شاعرہے۔ اس کے یہاں اس تنائو کا عکس ملتا ہے جسے عقلیت اور عقیدے کے ایمان کی تجلیاں بھی جن تین مسائل سے وہ برابر دست و گریباں رہا وہ ہمیں عدم سے تخلیق کا وجود میں آنا مادے اور روح کا باہمی تعلق اور آزاد قوت فیصلہ کی نوعیت اور اس کا دائرہ کار۔ اس کے ذہن افق پر یہ خیال برابر مستولی رہا کہ انسان کسی روحانی طاقت سے گہرا ارتباط رکھتا ہے۔ اور اسے محکم کرنے کے لیے گناہ کا اندرونی اور شعوری احساس اور خدا سے عفو کی توقع لازمی عناصر ہیں۔ دانتے کا عیسائیت کا تصور یہ ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک لافانی رویائے (Vision)کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔ وہ انسانی زندگی کو قضائے الٰہی (Divine Judgement)کی روشنی میں اور معینہ اخلاقی نظٓم اقدار کی نسبت سے پرکھنے کا قائل ہے یعنی اس کی دلچسپی حیات ظاہری کے ہنگاموں سے نسبتاً کم ہے اور حیات دوام سے زیادہ ہے۔ طربیہ خداوندی کی بساط بہت وسیع ہے۔ دوزخ‘ اعراف اور بہشت سے متعلق روحانی اور نسفی کیفیات کی مصوری دانتے نے بڑے اچھوتے انداز سے کی ہے۔ جو ذہن اور تخیل کو فوراً اسیر کر لیتی ہے۔ ہم عصر اٹلی کی سیاست میں ملوث شخصیتوں اور ہر طرح کے اخلاقی جرائم کے مرتکب لوگوں کے خاے جو اپنے اعمال کا ثمرہ چکھنے پر مجبور ہیں انتہائی مہیب اور انتہائی ابہجت انگیز مناظر کی پیش کش اور انسانی برتائو کی تہہ میں پیچ در پیچ محرکات کی کارفرمائی ان سب کو نمایاں کرنے میں اس کی فطانت اپنے جوہر دکھاتی ہے۔ دانتے کے شعری عمل کو جو عنصر وحدت بخشتاہے وہ اس کی محبوبہ بیاترچ (Beatrice)کا وہ نقش ہے جو مدا گردش میں بھی رہتا ہے ۔ اورجسے اس کے رویائے سے منقطع بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ نقش ہے کہ جس کی مدد سے دانتے نے حقیقت آخری کی محسوس اور منفرد شبیہہ اپنے آئینہ ادراک میں اتارنے کی کوشش کی ہے۔ اگر ورجل کو حقیقت کے انکشاف کا ایک عقلی وسیلہ مان لیا جائے تو بیاترچ یقینا اس کے عرفان کا ایک وجدانی اور تخیل ذریعہ ہے۔ یہ ایک پیچیدہ اور تہ در تہ علامیہ Symbolہے جس کی وساطت سے دانتے نے کائنات کو اپنے نفس کے اند ر سمویا ہے۔ اور اسے خارجی طور پر متشکل بھی کیا ہے۔ رومی کی طرح دانتے کے ہاں بھی عشق ایک قومی اور محیط محرک ہے۔ لیکن رومی کے برعکس وہ محض فکری سطح پر اپنا عمل نہیںکرتا۔ بلکہ برتے ہوئے تجربے کی سطح پر اپنی محبوبہ کی شخصیت سے دانتے نے جو آسودگی فیضان اور اہتراز حاصل کی تھا وہ ایک ناقابل بیان عمل کے ذریعے بالآخر دیدار خداوندی میںخارجی ہئیت اختیار کر کے اس کے جذبات اور احساسات کی تطہیر اور قلب ماہیت کا وسیلہ بنتا ہے۔ بیاترچ کی آنکھیں اور اس کی مسکراہٹ جویائے رحمت کے لیے ایک بالواسطہ زینے کا کام دیتی ہے۔ اپنی محبوبہ اور الوہی حقیقت دونوں کے لیے اس گلاب جویائے رحمت کے لیے ایک بالواسطہ زینے کا کام دیتی ہ۔ اپنی محبوبہ اور الوہی حقیقت دونوں کے لیے اس نے گلاب کے پھول کا رمز استعمال کیا ہے۔ وہ انسانی محبت کے تجربے سے تجلیات الٰہی کے حصول تک پہنچتا ہے۔ الوہی قوت کی طرف یہ کشش ہی اس کے لیے سب سے بڑا محرک ثابت ہوتی ہے۔ اور پایان کار اس میں اس کی شخصیت مدغم ہو جاتی ہے۔ جاوید نامہ کاآغاز مناجات سے ہوتا ہے۔ اقبال کے قلب کا سارا سوز اور حیات آب و گل اورزمان و مکان کی پابندیوں سے ماوراء ہو کرعالم بے جہت تک رسائی کی ساری بے تابی یہاں ظاہر ہو جاتی ہے۔ روح زمین آسمان کا طعنہ سنکر خجل ضرور ہوتی ہے لیکن یہ احساس ندامت ہی اسے انے استحقاق کو منوانے پر مجبور کرتا ہے۔اور یہی محرک بنتا ہے زمینی سیاح کا اپنے خلائی سفر کا آغاز کرنے کا۔ اس سفر کے دوران زندہ رود کا (جو شاعر کا افسانوی Fictionalنام ہے گزر چھ سیارگان سماوی سے ہوتا ہے۔ یعنی فلک قمر‘ فلک عطارد‘ فلک زہرہ‘ فلک مریح ‘فلک مشتری اور فلک زحل اور اس کی ملاقات مغرب اور خصوصاً مشرق کی بعض اہم ترین شخصیتوں سے ہوتی ہے۔ مثلاً عارف ہندی (وشوامتر) ارواح سعید حلیم پاشا اور جمال الدین افغانی ارواح فرعون و کچنر ارواح جلیلہ حلاج‘ غالب اور قرۃ العین طاہرہ ارواح صادق و جعفر‘ آں سوئے افلاک کے مقام پر نطشے سید علی ہمدانی اور غنی کاشمیری اور کاخ سلاطین میں ارواح نادر ‘ ابدالی اور سلطان ٹیپو شہید یعنی ٹیپو سلطان سے۔ ان کے علاوہ وہ طواسین بھی قابل ذکرہیں جن میں گوتم بدھ‘ زرتشت اور ٹالسٹائی کی تعلیمات منقش نظر آتی ہیں اور طواسین محمدؐ میں ابوجہل کا وہ نوحہ سنائی پڑتا ہے جو اسلامی وجدان حیات کے انقلاب انگیز اثرات کے خلاف ایک دلدوز صدائے احتجاج ہے۔ اس کا جواب ہمیں بھل کے نغمے کی گونج میں ملتا ہے۔ جس میں اسلام کے مد مقابل قوتیں اپنا اثبات کرنے پر مصر معلوم ہوتی ہیں۔ ایک اور اہم مقام ابلیس کا نمودارہوتا ہے۔ جسے خواجہ اہل ذوق کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ اور ہو نالہ جو اس کے لبوں پر آتا ہے کچھ کم اہم نہیں ہے۔ اسی کے مماثل وہ نعرہ ستانہ ہے جو حلاج کی زبان سے ادا کیا گیا ہے حلاج ابلیس اور نطشے تینوں کے درمیان بعض عناصر مشترک ہیں۔ جن کا ذکر بعد میں آئے گا۔ اس وجدانی خلائی سفر میں اقبال کے رہنما مرشد رومی ہیں جو ایک پہاڑ کے عقب سے نمودارہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے دانتے ک نظم میں اس کا رہبر ورجل کا ورود ہوتا ہے۔ جن مختلف کرداروں سے شاعر کی ملاقات اس سیاحت کے دوران ہوتی ہے ان کے توسط سے بعض مہمات امور کی عقدہ کشائی کرائیگئی ہے دانتے کے برعکس اقبال عشق کے نہیں بلکہ عمل کے شاعر ہیں۔ گو عشق کا محرک جاوید نامہ میں کلیتہ مفقود نہیں ہے۔ اقبال کی زیادہ تر دلچسپی دانتے کے برخلاف قوت اراد ی کی قوت یا ضعف یا آزادی یاپابندی سے اتنی نہیں ہے جتنی اس عمل سے جس کے ذریعے قوت ارادی تربیت حاصل کرتی ہے ۔ موت کے بعد روح پر کیا گزرتی ہے۔ اور اسے کن کن کیفیتوں سے سابقہ پڑتا ہے اس مسئلے سے کہیں زیادہ جاوید نامہ کے شاعر کا شغف ان حوادث اور کیفیات سے ہے جو ا س کرہ ارضی پر انسان کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مشرق و مغرب کی سیاست قوموں کی تقدیر سازی کے پس پشت محرکات خیر و شر کی کشمکش‘ اخلاقی ضابطوں کی بالادستی‘ کفر و ایمان کا تنازع او ر انسانی خودی کا عشق کے وسیلے سے اثبات و شعور ذات کی مختلف جہتیں یہی سب موضوعات ہیں جو اقبال کے لیے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ تسلیم کرنے میں البتہ تامل نہیں ہونا چاہے کہ اقبال کے ہاں تمثیلی اشاریت کا رنگ اتنا گہرا نہیں ہے جتنا دانتے کے ہاں۔ نظم کے آغاز ہی میں یہ دو شعر رو می کی زبان سے ادا کرائے گئے ہیں: گفت موجود آنکہ می خواہد نمود آشکارائی تقاضائے وجود زندگی خود را بہ خویش آراستن بر وجود خود شہادت خواستن اور یہ نظم کے سیاق و سباق میں ایک کلیدی اہمیت کے حامل ہیں جاوید نامہ میں اقبال کا سروکار از اول تا آخر تجدید شعور کے سلسلے میں ہے۔ زندگی میںبہ حیثیت مجموعی اور انسان کی اپنی ذات میں بالخصوص خود نمائی یا آشکار ائی کا جذبہ ان کے نزدیک بنیادی ہے او ریہ مختلف جہتیں رکھتا ہے۔ اس کا تعلق بیک وقت شعور کائنات سے بھی ہے اور شعور حق سے بھی ۔ دراصل شعور ذاتی کی توثیق کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے ان دونوں سے مربوط یا جائے شعورکی ان تینوں نوعیتوں کو اقبال نے ایک دوسرے پر منحصر اور ایک دوسرے کے اندر پیوست تصور کیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر ان کا خیال ہے کہ انسان کو اپنے آپ کو ان تینوں قسم کی شہادتوں سے گزارنا چاہیے۔ شاہد اول شعور خویشتن خویش را دیدن بنور خویشتن شاہد ثانی شعور دیگرے خویش را دیدن بنور دیگرے شاہد ثالث شعور ذات حق خویش را دیدن بنور ذات حق یہ الفاظ دیگر مرکزی نقطہ اور نقطہ آغاز ت شعور ذات ہی ہے۔ لیکن اسے مستحکم کرنے اور موثر بنانے اور اس میں توانائی اور آفاقیت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے غیر خود کے آئینے کے مقابل رکھ کر دیکھا جائے او ر اس کا رشتہ اس ذات حق سے استوار کیا جائے۔ جو ہر قسم کے انفرادی اور نجی شعور ذات کا مصدراور ماخذ ہے۔ تاکہ اس کی حدود وسیع کی جا سکیں۔ حلاج کے واسطے سے نظم میں آگے چل کر باہمی انحصار Interdependenceکی اس ترتیب کو ذرا بدل دیا گیا ہے۔ شعور ذات حق کی بجائے ’’نقش حق‘‘ اور شعور خویشتن کی بجائے ’’نقش جاں‘‘ کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔ نقش حق کو نقش جاں اور نقش جہاں دونوں کے ساتھ آمیز کرنے اور باہمی تطابق پیدا کرنے پر زور دیا گیا ہے: نقش حق اول بجاں انداختن باز اورا در جہاں انداختن نقش جاں نادر جہاں گردد تمام می شود دیدار حق دیدار عام نقش حق داری جہاں نخچیر تست ہم عناں تقدیر با تدبیر تست اسی سے ملحق مسئلہ ذات و صفات کا ہے اور ان دونوں کے مابین وہی نسبت اور تعلق ہے جو جوہر اور اس کے اعراض کے درمیان ہوتاہے۔ جوہر میں پیوست تو ضرور ہیں لیکن یہ ایک طرح سے جوہر کی توسیع بھی ہے اوراس لیے بیرونی سطح (Periphery)پر اپنا وجود رکھتے ہیںَ دراصل جوہر ہی کی نسبت سے اعتراض قابل فہم بنتے ہیں۔ اور اس لیے یہ کہا گیا ہے: برمکان خود رسیدن زندگی است ذات رابے پردہ دیدن زندگی است مرد مومن در نسازد با صفات مصطفے راضی نہ شد الا بذات چیست معراج؟ آرزوئے شاہدے امتحانے رو بروئے شاہدے اور زندگی جن مختلف شیون میں اپنا اظہار کرتی رہتی ہے۔ اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک جلوت اور ایک خلوت ایک اندرونی اور ایک ظاہری ایک پیدا اور ایک پنہاں۔ جلوت کا تعلق صفات سے ہے۔ جس میں ان کا علم حاصل کیا جاتا ہے اور خلوت کا ذات سے۔ جس کے نہاں خانوںمیں وہ اپنے آپ کو منکشف کرتی ہے۔ جلوت کی راہ نما عقل ہے اور خلوت کا رہبر عشق۔ دونوں ایک دوسرے سے گہرا ربط رکھتے ہیں اور دونوں ہی شخصیت کلی کے اثبات کے لیے ایک جولانگاہ فراہم کرتے ہیں: شیوہ ہائے زندگی غیب و حضور آں یکے اندر ثبات آں در مرور گہ بہ جلوت می گزار و خویش را گہ بخلوت جمع ساز و خویش را جلوت او روشن از نور صفات خلوت او مستیز از نور ذات عقل اور اسوئے جلوت می کشید عشق اور اسوئے خلوت می کشید ثبات و مرود جلوت و خلوت‘ ذات و صفات اور عقل و عشق وہ متضادات ہیں جن کے باہمی رد عمل اور تجازب سے حقیقت کلی دراصل مرکب ہے۔ یا جن کے وسیلے سے وہ اپنے آپ کو آشکار کرتی ہے۔ اور انہی میں جان و تن یا روح اور جسم کا تضاد بھی شامل ہے جسم مکان سے متعلق اور اس کا اسیر اور زندانی ہے۔ اور روح اس سے ماوراء اور مستغنی معراج دراصل اس تبدیلی سے عبارت ہے جو شعور کی گہرائیوں میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ یہی وجدان یا نظر کو متعین کرتی ہے۔ معراج کا جسمانی پہلو اتنا زیادہ ہے کہ قابل غور نہیں کہ جتنا اس کا اندرونی روحانی پہلو۔ یہ ایک اچانک اور تخلیقی تبدیلی ہے۔ جو شخصیت کے خلیوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ اور موجودہ ماحول دفعتاً قلب ماہیت کر دیتی ہے۔ اس لیے یہ کہا گیا ہے: چیست جاں؟ جذب پر درد سوز درود ذوق تسخیر سپہر گرد گرد! چیست تن؟ بارنگ و بو خو کردن است با مقام چار سو خو کردن است از شعور است ایں کہ گوئی نزد دور چیست معراج؟ انقلاب اندر شعور انقلاب اندر شعور از جذب و شوق دار ہاند جذب و شوق از تحت و فوق اور اسی کیفیت یعنی عشق کے بارے میں جو مکان کی اسیری سے چھٹکارا دلا کر انسان کو لامکانی بناتی ہے اس سے پہلے یہ کہا گیا تھا: عاشقی ؟ از سو بہ بے سوئی خرام مرگ را بر خویشتن گرداں حرام یہاں نقطہ نظر تمام تر موضوعی ہے اور اندرونی حقیقتوں پر زور دیا گیا ہے۔ جسم ہمیں مکان آب و گل کا پابند رکھنا چاہتا ہے۔ اور روح زمان و مکان اور تحت وفوق کی پابندیوںسے آزاد کراتی ہے۔ یہ خیال کہ زمان و مکان نزدیکی اور دوری اورپستی اور بلندی معروضی اکائیاں نہیں ہیں اور نہ اس حیثیت سے کویء وجود رکھتی ہیں۔ بلکہ ان کا انحصار فرد کی نفسی کیفیت پرہے۔ اقبال کے علاوہ انگریزی شاعری ولیم بلیک کے ہاں بھی پایا جاتا ہے خصوصاً اس کی طویل نظم ملٹن Miltonمیں انے انگریزی خطبات میں اقبال نے صراحتہً اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ زمان مکان انسانی شعور کی معجز نمائیاں ہیں اس طرح کا نقطہ نظر جرمن فلسفی کانٹ نے بھی پیش کیا ہے۔ اس کے نزدیک بھی یہ سب انسانی شعور کے آفریدہ ہیں۔ یا یہ کہیے کہ اس کے خارجی مظاہر ہیں ۔ سو اور بے سوئی کی اصطلاحات اقبال نے رومی سے مستعار لی ہیں ۔ سمت کا احساس نقطہ آغاز ہے۔ جہان چار سو سے جسے غالب نے شش جہات کہا ہے چل کر بے سوئی کی منزل تک پہنچنا شعور اور احساس کے ددرجہ بدرجہ ارتقاء اور تطہیر کی نشان دہی کرتا ہے ۔ انہی کے مماثل رنگ اور بے رنگی کاتصور ہے ان دونوں کا تعلق بھی بالترتیب عالم موجودات اور عالم امکانات یا ماورائی کائنات سے ہے چنانچہ رومی سے جب یہ سوال کیا گیا : عالم از رنگ ست و بے رنگی است حق چیست عالم ؟ چیست عالم؟ چیست حق؟ تو اس کا جواب انہوںنے انتہائی بلاغت کے ساتھ اس طرح دیا: آدمی شمشیر و حق شمشیر زن عالم ایں شمشیر را سنگ فسن! شرق حق را دید و عالم را ندید غرب در عالم خزید از حق رمید چشم برحق باز کردن بندگی است خویش را بے پردہ دیدن زندگی است ہر کہ از تقدیر خویش آگاہ نیست خاک او با سوز جاں ہمراہ نیست یہاں انسان حق اور عالم تینوں کے درمیان باہمی تفاعل اور ان کے درجات کی حد بندی کی کوشش کی گئی ہے۔ اور شمشیر کاشعری پیکر اس کو ظہار کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ مشرق اور مغرب کے طرز فکر میں جو خامی ہے وہ دونوں کی انتہا پسندی ہے جو حق اور موجودات سے لگائو کے سلسلے میں برتی گئی ہے۔ اور اس طرح شعور حق اور شعور ذات کے بھی مدارج ہیں۔ اور جیسا کہ اس سے پہلے بھی کہا گیا ہے کہ شعور ذات کے لیے شعور حق کی شہادت اور توثیق ضروری ہے کہ اس کے بغیر اس کی مستزاد توانائیاں اورامکانات قوۃ سے فعل میں نہیں آ سکتے اور صحیح معنوں میں شعور ذات جسم و جان کو باہم آمیز کرنے اور ہستی مطلق یا انائے محدود سے ربط و اتصال کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس نقش بے رنگی کے بارے میں زرتشت کی زبان سے یہ کہلوایا گیا ہے: نقش بے رنگے کہ اوراکس ندید جز بخون اہرمن نتواں کشید خویشتن را وا نمودن زندگی است ضرب ادرا آزمودن زندگی است یہ دانمودن خودی کے مرکزی نقطوں کا اپنے اثبات پر اصرار کرنا اور اپنے آپ کو منوانا ہے انسان کی زندگی کا منتہا اور مقصد اقبال کے خیال میں تجدید شعور کا عمل ہے۔ بیرنگی کے اتھاہ سمندر میں ڈوب جانا اس کی تقدیر نہیں ہے۔ لیکن اس سے کسب فیض کرنا بہر صورت ضروری ہے۔ اس کسب فیض کے نتیجے کے طور پر شعور ذات کی نفتہ صلاحیتیں جس طور پر اجاگر ہوتی ہیں اور بے پناہ توسیع حاصل کرتی ہیں اس کی طرف اس طور سے اشارہ کیا گیا ہے: آنچہ در آدم نگنجد عالم است آنچہ در عالم نگنجد آدم است اور اس سے پہلا شعر یہ ہے: من چہ گویم ازیم بے ساحلش غرق اعصار و دہور اندورلش اس منزل پر پہنچ کر عالم اصغر عالم اکبر کی جگہ لے لیتا ہے۔ کیونکہ اس کا وجود اضافیت کے مطلقیت کی طرف بڑھتا ہے۔ اور اس طرح عالم اکبر کی ضرورت باقی نہیںرہتی کیونکہ جس چیز کی سمائی عالم اکبر میں نہیں ہو سکتی اس کے لیے عالم اصغر اپنا سینہ وا کردیتا ہے۔ اس گفتگو سے عالم بالا کا ابطال مقصود نہیں کیونکہ وہ ہر حال تجربے کا ایک بنیاد ی مفروضہ Datumہے لیکن یہاں شعور ذات کے مختلف مدارج اور اس کے کیف و کم اور اس کی بے پناہ گنجائشوں کی طرف اشارہ کرنا اصل مطمح نظر ہے۔ پیر ہندی (جہاں دوست) اور زندہ رود کے درمیان جو مکالمہ وقوع پذیر ہوا ہے۔ اس میں عقل دول جان و تن‘ فکر و ذکر اور شنید و دید علم و ہنر اور دیدار دوست کے درمیان جو امتیازات برتے گئے ہیں وہ قابل غور ہیں: گفت مرگ عقل؟ گفتم ترک فکر گفت مرگ قلب‘ گفتم ترک ذکر گفت تن؟ گفتم ہ زاداز گردرہ گفت جاں؟ گفتم کہ رمز لا الہ گفت آدم؟ گفتم از اسرار اوست گفت عالم؟ گفتم او خود روبروست گفت ایں علم و ہنر؟ گفتم کہ پوست گفت حجت چیست؟ گفتم روئے دوست یہاں اس سوال و جواب میں ایک طر ح کا بدیہی انداز پایا جات اہے۔ اس میں اختصار بھی ہے اور تقلیل الفاظ کے ساتھ دو ٹوک طریقے پر مفہوم کی اکائیوں کو سمونے کی طرف میلان بھی جو اقبال کی شاعری میں اکثر ملتا ہے یہاں متضادات کے جوڑوں کو بلا کم و کاست پڑھنے والے کے سامنے رکھ دیاگیا ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مجرد عقل سے زیادہ عمل تفکر قابل قدر ہے اور دل کو غذا مراقبے Contemplationسے ملتی ہے۔ اس طرح جہاں ایک طرف جسم ایک مشت خاک سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ جان خود ہستی مطلق کے نفوذ اور پرتو کا ایک مظہر ہے۔ اور عالم حقیقت کو جھٹلانا اس لیے ممکن نہیں کیونکہ حواس انسانی اس پر شاہد عادل ہیں۔ علم و ہنر انسان کی زیر کی اور مشاقی پر دلیل ہیں لیکن سو دلیلوں کی ایک دلیل جو انسانی شعور میں بالیدگی پیدا کرتی ہے۔ وہ جلوہ بے حجاب ہے جس کے ذریعے انائے محدود اور انائے مطلق کے درمیان ربط و تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ ان مشاہدات کے پیش نظر اس نظام اقدارکا کسی قدر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جس کی طرف شاعرکو رغبت محسوس ہوتی ہے۔ اس سے پہلے جلوت و خلوت کی دو اصطلاحیں استعمال کی جا چکی ہیں۔ ان میں یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ جلوت کا تعلق ظاہرہ اور بیرونی زندگی سے اور خلوت کا اندرونی اور داخلی واردات سے ہے ۔ طواسین زرتشت میں زرتشت کی زبان سے اس فرق و ا متیا ز کو محو کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اور نہ اس کا ابطال کیا گیا ہے بلکہ ا س فرق کو توسیع کی گئی ہے از منہ وسطیٰ کے انگلستان میں متصوفانہ نظام میں روح کی زندگی کا جو تصور ملتا ہے اس میں تین مدارج قائم کیے گئے ہیں۔ یعنی خالص عمل کی زندگی مراقبے اور استغراق کی زندگی اور ضابطے اور قانون کی وہ زندگی جس میں ا دونوں کا تکملہ نظر آتا ہے۔ اور استغراق کی زندگی میں حاصل شدہ ثمرات ریاض کو بار آور بنانے اور آئین الٰہی کو نافذ کرنے کے سلسلے میں ان سے کام لیے جانے پر زور دیا جاتا ہے۔ یہاں زرتشت کی زبان سے صر ف دو منزلوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یعنی خلوت میں روح کو جو تربیت حاصلہے اور اپنی تزئین کا جو سامان فراہم کرتی ہے۔ اسے جلوت کو سنوارنے اور نفس انسانی کی اصلاح کے لیے کام میں لایا جاتا ہے۔ جلو ت اور خلوت مین وہی رشتہ ہے جو جستجو اور دید میں ہے۔ یعنی چاہے جستجو اولیں محرک ہو لیکن ہمارے لیے وہیں پر رک جانا احسن نہیں ہے کیونکہ جستجو کی آخری دید کا حصول ہے: چیست خلوت درد و سوز و آرزو ست انجمن دید است و خلوت جستجو است عشق در خلوت کلیم اللہی است چوں بہ جلوت می خرامد شاہی است خلوت و جلوت کمال سوز و ساز ہر دو حالات ومقامات نیاز چیست آں بگذشتن از دیر و کنشت چیست ایں تنہا نہ رفتن در بہشت گرچہ اندر خلوت و جلوت خدا است خلوت آغاز ست و جلوت انتہا ست بعد میں جمال الدین افغانی کی زبان سے اس مفہوم کو یوں ادا کرایا گیا ہے: مصطفے اندر حرا خلوت گزید مدتے جز فویشتن کس راندید ٭٭٭ گرچہ داری جان روشن چوں کلیم ہست افکار تو بے خلوت عقیم ٭٭٭ حفظ ہر نقش آفریں از خلو است خاتم اورا نگین از خلوت است یہاں دراصل کسی الٹ پھیر (Reversal)سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ بلکہ جلوت کے مفہوم کی ایک نئی اور وسیع تر تعبیر پیش کی گئی ہے۔ اور خلوت و جلوت کو کمال سوز و ساز کہہ کر ان کا ایک دوسرے پر انحصار کیا گیا ہے اور بھرپور زندگی کے لیے خیال اور عمل زکرو فکر کی دونوں سطحوں پر ان کی ضروریات کو نمایان کیا گیا ہے۔ سوز و ساز کا کمال یہی ہے کہ جان و تن ترک و شمولیت اور علم و عشق کے مختلف اور بظاہر متضاد راستے جو ایک دورسرے کا انقطاع کرتے ہیں ایک وحدت میں سمو دیے گئے ہیں۔ اقبال نے دو بنیادی نقطہ ہائے نظر کا امتیاز واضح کرنے کے لیے عقل و عشق کی اصطلاحات جگہ جگہ استعمال کی ہیں وہ انسانی زندگی اور ارتقاء کے عمل میں دونوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ گو عشق کو نسبتاً بلند تر درجہ دینے پر مضر نظر آتے ہیں۔ جاوید نامہ میں عقل کی جگہ انہوںنے زیرکی کا لفظ استعمال کیا ہے او رسعید حلیم پاشا کی زبان سے مشرق و مغرب کے مابین فرق کو اس طرح واضح کیا ہے: غربیاں را زیرکی ساز حیات شرقیاں را عشق راز کائنات زیرکی از عشق گرد حق شناس کار عشق از زیرکی محکم اساس عشق چوں بازیرکی ہمبر شود نقش بند عالم دیگر شود خیز و نقش عالم دیگر نبہ عشق را با زیرکی آمیز دہ لیکن مشرق و مغرب کے کارناموں کے سلسلے میں مابہ الامتیاز عنصر کونمایاں کرنے کے ساتھ ہی اقبال کا زور اس امر پر بھی ہے کہ عقل و عشق کا نہ صرف ایک دوسرے پر انحصار ہے بلکہ ان کی ہم آمیزی اور باہمی امتزاج ایک دوسرے کے لیے باعث تقویت بھی بن سکتا ہے۔ جس سے یہ نتیجہ نکالنا شاید غلط نہ ہو کہ اقبال ایسی زیرکی‘ مشاقی اور مجرد عقل کے قائل نہیں‘ جو اندرونی سرجوش جبلت اور روحانی بصیرت سے مستغنی ہو کر محض اپنی توانائیوں پر بھروسہ کرے۔ اقبال کا اصرار دو عناصر پر ہے۔ اول حق شناس اور دوسرے نقش بندی عالم موجودات اور ان دونوں کے حصول کے لیے عقل و عشق کا باہمی تفاعل اور رد عمل ضروری ہے۔ جمال الدین افغانی کی زبان سے علم شوق اور عشق کے درمیان اور اس کے مماثل تحقیق اور تحقیق کے مابین امتیاز کو اس طرح سامنے لایا گیا ہے: علم از تحقیق لذت می برد عشق از تحقیق لذت می برد صاحب تحقیق را جلوت عزیز صاحت تحقیق را خلوت عزیز چشم عیسے خواست دیدار وجود ایں ہمہ از لذت تحقیق بود در نگر ہنگامہ آفاق را زحمت جلوہ مدہ خلاق را حفظ ہر نقش آفرین از خلوت است خاتم اورانگیں از خلوت است یہاں پھر علم اور عشق تحقیق اور تخلیق اور جلوت و لوت کے جوڑے موجود ہیں۔ تحقیق اور تخلیق میں وہی فرق ہے جو افروختہ Accumulatedاور آمیختہ مخروج Assimilatedعناصر کے درمیان ہوتاہے۔ یا فکر و ذکر یا خواہش دیدار اور کیف دیدار کے درمیان باطنی زندگی کے اس عنصر کو کمال نقطہ تک پہنچانے پر ہے جسے خلوت کے تصور سے وابستہ کیا گیا ہے ۔ بانگ درا کی ایک مشہور نظم ارتقا میں اقبال نے اس خیال کا عکس پیش کیا ہیکہ خیر اور شر آپس میں پیوست ہیں۔ اور ان کا آپس میں پیوست ہونا ہی زندگی کی نامیاتی قوت کے اظہار کی ضمانت کرتا ہے۔ لیکن ان کی ہمہ گیریت بصیرت سے یہ رمز بہرحال چھپا ہوا نہیں ۃے ک گو ارتقائے حیات و کائنات ایک مستقل عمل ہے۔ مگراس کے ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر شاید یہ ضروری ہو کہ خیر شر کو اپنے اندر سمیٹ لے اور اس طرح موخر الذکر کی قلب ماہیت ہو جائے۔ بہ الفاظ دیگر ان کا اصرار شر کا استیصال کرنے پر نہیں ہے۔ بلکہ اس کی تفہیم اور اسکی حقیقت کو بدلنے پر ہے تاکہ اس طرح خیر و شر کی ثنویت Dualityختم ہو سکے اور وہ ایک وحدت کلی کا حصہ بن جائیں ۔ جاوید نماہ میں اس خیال کو اس طرح پیش کیا گیا ہے ۔ کشتن ابلیس کا ہے مشکل است زانکہ او اندر اعماق دل است خوشتر آں باشد مسلمانش کنی کشتہ شمشیر قرآنی کنی ا جلال بے جمالے الاماں از فراق بے وصالے الاماں علم بے عشق است از طاغوتیاں علم با عشق از لاہوتیاں! یہ چا ر اشعار بغایت غور طلب ہیں اقبال کے ہاں ابلیس کی اشارتی اہمیت کئی جہتیں رکھتی ہے۔ وہ بیک وقت شر پندار‘ علم ‘ جلال اور قوت ارادی کے ادعا کا نمائندہ ہے یہ کہہ کر کہ کشتن ابلیس مشکل کام ہے اس لیے کہ شر کی جڑیں انسانی شخصیت کی اتھاہ گہرائیوں میں پیوست ہیں۔ اقبال نے ایک ناقابل انکار حقیقت کی طر ف ہماری توجہ دلائی ہے اسی طرح پندار علم ایک طرح کی شہوت Concupiscenceکے مرادف ہے۔ چونکہ ابلیس کو مغلوب کرنا ایک ناممکن الحصول آئیڈیل ہے۔ اس لیے اس پر فتح پانے کا بجز اس کے دوسرا کوئی راستہ نہیں کہ خیر اسے اناء یاور اس کا ارتفاع Sublinationعمل میں لائے۔ اور مسلمانش کنی سے اقبال کی غالباً یہی مراد ہے۔ یہ عمل خیر کی توانائیوں کو بروئے کار لانے کی یعنی اندرونی صداقتوں کو فعال بنانے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جلال اور جمال کاامتزاج زندگی میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا خلوت و جلوت یا فکر و ذکر کو ایک دوسرے کا سہارا بنانا یا علم و عشق کے باہمی تفاعل پر زوردینا۔ ایسا علم ‘جو عشق کی حرارت اور بصیرت سے محروم ہو نخیل بے رطب ہی نہیں ہے۔ بلکہ شر اور فساد کی قوتوں کی افزائش کا سبب بھی بنتا ہے۔ طاغوتیاں کے لفظ میں وہ تمام اشارے موجود ہیں۔ جو علم اور تحقیق کے کارناموں کو خود کمتفی بنا کر افراتفری کا راستہ کھول دیتے ہیں۔ اور وہ علم جسے اندرونی روشن غذا فراہم کرتی ہے۔ عالم لہوت کی طرف راہنمائی کرتاہے ان دونوں اصطلاحوں کے استعمال سے اقبال نے مجرد علم کی حد بندیوں کی طرف بڑی خوبی اور انتہائی معنویت کے ساتھ اشارہ کیا ہے۔ فلک مشتری میں اقبال کی ملاقات تین ارواح جلیلہ سے ہوتی ہے یعنی حلاج‘ غالب اور قرۃ العین طاہرہ حلاج جس نے انا الحق کا نعرہ بلند کیا تھا۔ شدت شوق ناصبوری پیہم اور اضطراب بے پناہ کا ایک بھرپور استعارہ ہے اور اس کی روح میں پوشیدہ یہی طوفان اور مدوجزر وسیلہ بنتا ہے۔ حق کی مسلسل تلاش اور بالآخر اس سے مکمل تطابق اور ہم آہنگی کا۔ نوائے حلاج میں سے مندرجہ ذیل تین اشعار اس کے اس ذہنی رویے کی غمازی کرتے ہیں: ز خاک خویش طلب آتشے کہ پیدا نیست تجلی دگرے در خود تقاضا نیست بملک جم مذہم مصرع نظیری را کسے کہ کشتہ نشد از قبیلہ ما نیست حلاج کی شخصیت موضوعیت کلی کی مکمل خارجی تجسیم سے عبارت ہے اس کا اپنی ہی خاک سے آتش سوزاں کو طلب کرنا جس کے شعلوں میں وہ جل کر خاک ہو گیا‘ ایک گہری بصیرت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس تند اندرونی جذبے کی روشنی میں خالق اورمخلوق کے رمیان کوئی بعد اور دوری باقی نہیں رہتی اور موجودات کی رنگا رنگ دلفریبیاں بھی سراب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں۔ حلاج اسی سبب سے نظیری کی اس رائے سے اتفاق رکھتا ہے کہ جس نے الوہی حقیقت سے وابستگی کے اس دماغ کو اپنے سینے میں محسوس نہیں کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ محبت کا یہی وہ زخ ہے جس نے حلاج کو شہادت کے اعزاز سے مفخر کیا۔ اس لیے کہ یہ مناسب معلوم ہوا کہ ابال علم اور عشق کے مابین نسبت کو ایک بار پھر حلاج کی زبان سے ادا کرائیں۔ ان دونوں اکائیوں کے درمیان امتیاز اس خلیج کو بھی واضح کرتا ہے۔ جو بعض لوگوں کو آئین شریعت کے نفاذ اور تصوف کے داخلی تجربے کے درمیان محسوس ہوتی ہے۔ گویا یہ خلیج ایسی گہری اور ناقابل عبورنہیں: علم بربیم و رجا دارد اساس عاشقاں رانے امید و نے حراس علم ترساں از جلال کائنات عشق غرق اندر جمال کائنات علم رابر رفتہ و حاضر نظر عشق گوید آنچہ می آید نگر علم پیماں بستہ با آئین جبر چارہ او نیست غیر از جبر و صبر عشق آزاد و غیور و ناصبور در تماشائے وجود آمد جسور بے خلشہا زیستن نازیستن باید آتش در تہ پا زیستن! آخری شعر ہمیں نوائے حلاج کے اس شعر کی بازگشت معلوم ہوتا ہے: زخاک خویش طلب آتشے کہ پیدانیست تجلی دگرے در خود تقاضا نیست یہ چھ اشعار جو اوپر درج کیے گئے ہیں ایک قطعی اور مبرم بیان کی تشکیل کرتے ہیں جو علم و عقل اور عشق کے متضاد نقطہ ہائے نظر کو حاوی ہے۔ اول الذکر ظن و تخمین کے اندیشوں اور وسوسوں میں گھرا رہتاہے۔ اور پھونک پھونک کر قدم اٹھاتا ہے۔ عشق اس کے برعکس ممکنات کی دنیا میں بے خوف و خطر کود پڑتا ہے۔ علم کا تعلق جلال کائنات سے ہے او عشق کا جمال کائنات کے مشاہدے سے ہے۔ علم مکان کی طرح زمان کی پابندیوں میں بھی اسیر ہے عشق کے لیے وقت ماضی حال اور مستقبل کے نقطوں میں اسیر نہیں بلکہ یہ ایک سیل روان ہے جس کے کناروں کا پتا نہیں۔ عشق کی فطررت علم کے خلاف جبر و صبر پر منحصر نہیں وہ آزادی استغنا اور اضطراب پیہم کی طالب انہی کی طرف راجع ہے۔ یہ ایک طرح کی اندرونی توانائی ہے جو انسا ن کو ہمیشہ آتش زیر پا رکھتی ہے اور اسے اپنے عزائم کے حصول پر آمادہ کرتی ہے۔ عشق کا یہی جذبہ آدرشوں کی تخلیق بھی کراتا ہے۔ اور انہیں فکری سطح سے آگے لے جا کر عمل کی شکل میں نمایاں بھی کرتا ہے۔ طاہرہ کی زبان سے نکلا ہواپہلا ہی شعر اس امر کی تصدیق کرتا ہیک حلاج اور طاہرہ کے طرز فکر میں کافی ہم آہنگی اور مماثلت پائی جاتی ہے۔ کم و کیف کا فرق چاہے جس قدر بھی ہو: از گناہ بندہ صاحب جنوں کائنات تازہ آید بروں زندہ رود غالب سے ان کا ایک شعر کا جس میں قدرے تصرف دوسرے مصرع کے آخر میں کیا گیا ہے: قمری کف خاکستر و بلبل قفس رنگ اے نالہ نشان جگر سوختہ چیست؟ مطلب پوچھتا ہے اور غالب کے جاب سے یہ بخوبی مترشح ہوتا ہے کہ نالہ کہ خیز داز سوز جگر دل کی تپش اور حرارت کا آئینہ دار ہے جو حیات کی رنگا رنگی اور ماورائے حیات کیفیت کی بے رنگی دونوں کی طرف لے جاتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہی اندرونی سوزش زندگی کے تمام مظاہر کی بوقلمونی ور ارژنگی میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔ اور اسی کی وساطت سے ہم زمان و مکان کی حد بندیوں کو پھلانگ کر اس کائنات میں بھی داخل ہو سکتے ہیں۔ جہاں بے رنگی ہی اصل حقیقت ہے یعنی جہاں حقیقت مطلقہ جو بے نا م و رنگ بھی ہے اور تعدد و تشخص سے بے نیاز بھی ہماری گرفت میں آ سکتی ہے۔ قمری از تاثیر اودا سوختہ بلبل از دے رنگہا اندوختہ اندر و مرگے بآغوش حیات یک نفس اینجا حیات آنجا ممات آنچناں رنگے کہ ارژنگی ازوست آنچناں رنگے کہ بے رنگی ازوست تواندانی ایں مقام رنگ و بو ست قسمت ہر دل بقدر ہائے و ہوست یا برنگ آیا بہ بے رنگی گزر یا نشانے گیری از سوز جگر حلاج نے اس سے پہلے اس امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ بے خلشہا زیستن نازیستن کے مرادف ہے۔ اس لیے زندہ رود کے اس سوال کے جواب میں: از تو پرسم گرچہ پرسیدن خطاست تہر آں جوہر کہ نامش مصطفے است! حلاج نے نبی کریمؐ کی ذات اقدس کے حوالے سے جو عشق الٰہی میں اکمل اور اس لیے اقبال کے لیے عشق کی انتہائی تنزیہی شکل کی علامت ہیں اس جذبے کی تعبیر و تفسیر پیش کی ہے جو ان کے نعرہ انا الحق کی قوت محرکہ اور روح رواں ہے اس تعبیر و تفسیر کو ایک لحاظ سے ان اشعار ما قبل کا جو علم اور عشق کے تضاد کے بارے میں اس سے پہلے پیش کیے گئے تھے تکملہ سمجھنا چاہیے: عبدہ از فہم تو بالا تر است زانکہ اوہم آدم و ہم جوہر است عشق کے اس لازوال اور آفاقی جذبے کی جو لفظ عبدہ میں مستز ہے ور آدمیت ور جوہر آدمیت دونوںکا عطر پیش کرتا ہے۔ بہت بلیغ اظہار ہے۔ ا س میں نرمی سپردگی اور انجذاب کی جو چھپی ہوئی کیفیت ہے۔ وہ عبد کے لفظ سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے۔ اور اس لیے یہ لفظ خالق و مخلوق کے مابین تمام امکانی رشتوں کا احاطہ کرتا ہے۔ یہیں وہ عشق اپنے کمال کو پہنچتا ہے۔ جس کی مختلف تعبیریں جاوید نامہ اور اقبال کی پوری شاعری میں مختلف مقامات پر ملتی ہیں۔ عبد اور عبدہ میں وہی فرق ہے جو شریعت اور طریقت خبر اور نظر اور سکندری یا شاہی اور فقر کے درمیان پایا جاتا ہے۔ اسی لیے حلاج کا یہ کہنا ہر اعتبار سے قابل قبول معلوم ہوتا ہے: عبد دیگر عبدہ چیزے دگر ما سراپا انتظار او منتظر کس ز سر عبدہ آگاہ نیست عبدہ جز سر الا اللہ نیست لا الہ تیغ ودم او عبدہ فاش تر خواہی بگو ہو عبدہ عبدہ چند و چگون کائنات عبدہ راز درون کائنات! آں سوئے افلاک س پہلے اقبال کی ملاقات حلاج بے دار و رسن یعنی نطشے سے ہوتی ہے جس کے لیے اقبال اپنے دل میں ایک جذبہ تحسین و ستائش رکھتے تھے کیونکہ: حرف او بے باک و افکارش عظیم غربیاں از تیغ گفتارش دونیم اس میں اشارہ مضمر ہے کہ عیسائیت کے اخلاقی اور روحانی نظام اقدار پر نطشے کی اس بے محابا تنقید کی طرف جس کی برش کی کاٹ مشکل سے کی جا سکتی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ اس میں عفو و درگزر پر جو زور ملتا ہے۔ وہ دوں ہمتی اور سفلہ پن کی طرف لے جاتاہے اور محکومانہ ذہنیت کو فروغ دیتا ہے۔ عیسائیت بنیادی طورپر افکار کا مذہب ہے۔ اقرار اور اثبت کا نہیںنطشے کا سارا زور قوت کی طرف راجع خود ارادیت Will to Powerپر ہے۔ اور جو مذہبی محرکات اس میں رکاوٹ پیدا کریں وہ اس قابل نہیںکہ انہیں کچل دیا جائے۔ نطشے کے روحانی اضطراب کا نقشہ اقبال نے ان الفاظ میں کھینچا ہے: راہرو راکس نشاں ازرہ نداد صد خلل درواردات اوفتاد نقد بود و کس عیار اور انکرد کاردانے مرد کار اور انکرد عاشقے در آہ خود گم گشتہ سالکے دروازہ خود گم گشتہ مستی روہر ز جاجے را شکست از خدا ببرید وہم از خود گسست حلاج کے حوالے سے اقبال اس سے پہلے یہ کہہ چکے تھے کہ نقش حق در جہاں انداختن کے دوہی طریقے ہیں یعنی یا بزور دلبری یا بزور قاہری ۔ اور ان دونوں میں دلبری اور از قاہری اولیٰ تراست نطشے بھی اختلاط دلبری و قاہری کے مسئلے سے دوچار تھا۔ لیکن وہ اس اختلاط کے حصول میں اپنی انتہائی نتدی او رشور انگیزی کی وجہ سے ناکام رہا۔ اور اس کیفیت سے اپنے آپ کو متصفنہ کر سکا۔ جس مقام کبریا کا وہ متلاشی تھا اور ا س مقام کبریائی میں بے سوئی اور بے رنگی دونوں تصورات جن کا ذکر اس سے پہلے کیا گیاشامل ہیں۔ وہ عقل و حکمت کی دین نہیں ہے۔ نطشے لا سے گزر کر الا تک رسائی حاصل نہ کر سکا۔ بہ الفاظ دیگر عیسائیت پر اپنی تخریبی تنقید سے بڑھ کر اسلام کے مثبت اور تخلیقی نظام اقدار کا عرفان اور اراک نہ پا سکا۔ کیونکہ نفی سے اثبات تک پہنچنے کا وسیلہ عہدہ کا وہ جانفزا وظیفہ ہے۔ جسے حلاج کی زبان سے انتہائی فصاحت اور پرجوش Impassionedشعری انداز میں واضح کیا جا چکاہے۔ اس لیے اقبا ل کو یہ کہنا پڑا: آنچہ جو ید مقام کبریاست ایںمقام از عقل و حکمت ماورا است زندگی شرح اشارات خودی است لا و الا از مقامات خودی است اوبہ لا درماندہ و تا الا نہ رفت از مقام عبدہ بیگانہ رفت بہ الفاظ دیگر نطشے عشق کے اس سرمدی نشے سے نا آشنا رہا۔ جس کے جلترنگ سے حلاج کا تارنفس ز اول تا آخر جھنجھناتا رہا۔ حلاج اور نطشے کے ساتھ ایک اہم کردار جس سے ہم متعارف ہوتے ہیں خواجہ اہل فراق یعنی ابلیس کا ہے اپنے اوپر اس کی فوقیت حلاج نے اس امر کے انکشاف کی وجہ سے بتائی ہے کہ : از فتادن لذت برخاستن عیش افزودن ز درد کاستن ان تینو ں کا ذکر ایک ساتھ کرنے کا جواز یہ ہے کہ وہ بھی لا یا نفی کانمائندہ ہے اور ترجمان ہے۔ رومی نے اس کے بارے میں کہا ہے: فطرتش بیگانہ ذوق وصال زہد او ترک جمال لا یزال! تا گسستن از جمال آساں نمود کار پیش افگند از ترک سجود اند کے از واردات او نگر مشکلات او ثبات او نگر غرق اندر رزم خیر و شر ہنوز صد پیمبر دیدہ و کافر ہنوز لیکن ابلیس کے وجود کی غرض و غایت جیسا کہ اس سے پہلے بھی کہا گیا ہے یہ ہے کہ خیر و شر ارتقائے حیات کے لازمی عناصر ہیں۔ ابلیس اپنی صفاء اس طرح پیش کرتاہے کہ وہ وجود حق کا منکر نہیں ہے۔ اس کا ظاہری انکار زیر و بم کائنات کو قائم رکھنے کے لیے لابدی ہے۔ ورنہ دراصل اس کے انکار میں اس کا اقرار پوشیدہ ے۔ وہ بھی دیدار الٰہی سے بہرہ ور ہو چکا ہے۔ مگر اس دید نے اس میں بظاہر سپردگی پیدا نہیں کی۔ جیساکہ آدم کے رویے سے بلا شک و شبہ ظاہر ہے۔ اور اس لیے آدم کے سلسلے میں اس کا رد عمل تحقیر آمیز ہے۔ سب سے اہم نکتہ جسے ابلیس نے اپنی برات کے لیے پیش کیاہے وہ یہ کہ وہ قہر خداوندی Divine Wrathکا مورد اس لیے بنا کہ آدم جو حب الٰہی کا معمول تھا لیکن جو گندم چشی کے بعد سزا کا مستوجب ٹھہرا تھا۔ قہر الٰہی سے مامون رہنے گویا اس کا یہ کہنا ہے کہ اس نے اپنی جرات او ر دلیری کی بدولت آدم کویہ تما م و کمال قہر کا نشانہ بننے سے محفوظ رکھا ۔ بیشک ابلیس شریعت سے عدول کا مرتکب معلوم ہوتا ہے۔ اور اپنی شخصیت کے کشت زار ہی سے اس کے شعلے پیدا ہوتے ہیں لیکن دراصل یہ سب ایک حجاب سے زیادہ نہیں کیونکہ نہ تو وہ دل سے جمال و جلال الٰہی کا منکر ہے۔ اور نہ یہ انکار ایسا ہے کہ جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہو۔ بہ الفاظ دیگر جس دن امر حق اس پر سے گزرا گیا۔ یہ ظاہری بے اعتنائی اور کشیدگی ختم ہو جائے گی۔ درگزشتم از سجود اے بے خبر ساز کردم ارغنون خیر و شر از وجود حق مرا منکر مگیر دیدہ برباطن کشا ظاہر مگیر گربگویم نیست ایں ازا بلہی است زانکہ بعد از دید نتواں گفت نیست من بلے در پردہ لا گفتہ ام گفتہ من خوشتر از نا گفتہ ام تا نصیب از درد آدم داشتم قہر یار از بہر او نگزاشتم شعلہ ہا از کشت زار من دمید اوز مجبوری بہ مختاری رسید زشتی خود را انمودم آشکار با تو دادم ذوق ترک و اختیار! نظم کے آخری حصے میں ہمیں بعض اہم موضوعات کی تکرا ر ملتی ہے۔ یعنی شعور ذات اور شعور ذات حق جس ے رومی نے گفتگو کا آغاز کیاتھا۔ اس تکرار سے مقصد اس مفہوم کو برابر ذہن کے آئنہ خانے میں نمایاں اور روشن رکھناہے تاکہ اس کی اہمیت کا احساس تازہ رہے چنانچہ شاہ ہمدان کی زبان سے یہ کہلوایا گیا ہے : چیست جاں دارن بحق پرداختن؟ کوہ را با سوز جاں بگداختن! جلوہ مستی؟ خویش را در یافتن! درشیاں چوں کو کبے برتافتن! خویش رانا یافتن نا بودن است یافتن خود را بخود بخشودن است! پھر جب شاعر کا گزر ماورا کے افلاک ہوتا ہے۔ تو پہلی ندائے جمال میں ذات حق تک رسائی ہی دراصل زیست کے مرادف متصور کی جاتی ہے کہ یہی اس کا منشا اور منتہا ہے۔ اسے برتنے کے لیے مشاقی اور خلاقی دونوں لازمی ہیں۔ انسان اپنی تقدیر کی صورت گری پر قادر ہے اور یہ قوت تخلیق پر تصرف رکھنے ہی کی وجہ سے ممکن ہے : چیست بودن رانی اے مرد نجیب؟ از جمال ذات حق بردن نصیب! آفریدن؟ جستجوئے دلبرے دانمون خویش را بر دیگرے! زندگی ہم فانی و ہم باقی است ایں ہم خلاقی و مشتاقی است زندہ مشاق شو خلاق شو ہمچو ماگیرندہ اخلاق شو! بندہ آزاد را آید گراں زیستن اندر جہان دیگراں! ہر کہ اورا قوت تخلیق نیست پیش ماجز کافر و زندیق نیست مرد حق برندہ چوں شمشیر باش خود جہان خویش را تقدیر باش! اقبال کے نزدیک تقدیر کوئی پہلے سے طے شدہ شے نہیں ہے۔ بلکہ امکانات سے عبارت ہے جو انائے مطلق کے شعور میں موجود توہیں لیکن جنہیں تلاش کرنے اور زندگی میںمشکل کرنے پر انسان کو پورا اختیار حاصل ہے۔ اس طرح تقدیر یعنی Distinyاور ابدیت یعنی Eternity ایک طور سے مرادفات ہیں۔ اور تقدیر کا یہ مفہوم کم ہمتی پیدا کرنے کے بجائے ہمارے اندر عزم و ارادے کی آگ کو روشن کر دیتا ہے۔ فلک مریخ میں اس سے پہلے حکیم مریخی نے اس موضوع سے بہت پتے کی باتیں کہی ہیں: گرزیک تقدیر خوں گرد و جگر خواہ از حق حکم تقدیر دگر تو اگر تقدیر نو خواہی رواست زانکہ تقدیرات حق لا انتہا ست ارضیاں نقد خودی درباختند نکتہ تقدیر رانشنا ختند رمز اریکش بحر نے مضمر است تو اگر دیگر شعی اور دیگر است ! شمنی؟ رفتند گی تقدیر تست قلزمی؟ پایندگی تقدیر برتست! ان اشعار سے یہ بخوبی مترشح ہے کہ انسان کسی نوشتہ ماقبل ما ہر گز پابند نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لیے شعور ذات آزاد قوت ارادی اور تقدیر ایک دوسرے پر منحصر ہے ۔ ایک دوسرے سے گہرے طور پر وابستہ اور ایک دوسرے سے یکسر غیر منقطع ہیں۔ دوسری ندائے جمال میں اصرار اس امر پر ہے کہ زندگی کے بطن میں نت نئی قبائیں زیب تن کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ توحید کے اقرار سے فرد لاہوتی اور ملت جبروتی بن جاتی ہے۔ یعنی دونوں کی انا مستحک اور لازوال ہو جاتی ہے اور تجلی یا اندرونی داعیہ روح یا قوت تخلیق سے بہرہ اندوز ہوئے بغیر ثبات کا حصول ناممکن ہے۔ توحید میں ایمان و ایقان دراصل حیات کے اثات کا دوسرانام ہے۔ زندگانی نیست تکرار نفس اصل او ازحی و قیوم است و بس فرد از توحید لاہوتی شود! مت از توحید جبروتی شود! بے تجلی نیست آدم را ثبات جلوہ ما فرد و ملت را حیات ہر دواز توحید می گیرد کمال زندگی ایں را جلال آں را جمال! اور تیسری ندائے جمال میں شعور ذات کی حقیقت اور حیات و کائنات سے اس کے رشتے کو پھر دہرایا گیا ہے: زندگی خواہی خودی را پیش کن چار سو را غرق اندر خویش کن! آخر میں بنیادی محرک Motifکے لوٹ آنے سے نظم کا آغاز و انجا ایک دوسرے سے منسلک ہونے لگتے ہیں۔ جاوید نامہ میں ہم جن شخصیتوں سے متعارف ہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی اہم مسئلے پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان میںسیاسی فلسفیانہ اور مذہبی سب ہی طرح کے مسائل شامل ہیں۔ لیکن ان سب میں شعور ذات کے محرک کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے فروغ اور ارتقاء کو جو محرکات متعین کرتے ہیں اور اس میں ممد ہوتے ہیں۔ وہ ایک طرح کے قطبین Polarities کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے علم و عشق ذکر و فکر‘ جا و تن غیب و حضور مشاقی او ر خلاقی تحقیق و تخلیق عبد اور عبدہ جلال و جمال‘ دید و شنید‘ جلوت و خلوت ذات و صفات‘ خیر و شر اور ژنگی اور بے رنگی وغیرہ۔ ان سب کے درمیان بلکہ تضاد کے باوجود شاعر کی وحدت آمیز Unitiveفکر ان کے اندرونی ارتباط کو پا لیتی ہے۔ ان سب کی الگ الگ اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں لیکن ان کی علیحدگی ایک خاص منزل پر پہنچ کر محو ہو جاتی ہے۔ حقیقت کا مکمل عرفان دونوں کے علیحدہ علیحدہ اور بیک وقت موجود کے اعتراف کے بغیر ممکن نہیں۔ اس نظم میں کرداروں کی اہمیت بذات خود اتنی نہیں جتنی ان کی اساطیری اور اشارتی اہمیت کیونکہ وہ سب بہر نوع ان بنیاد محرکات کو پیش کرنے کے لیے ایک معمولی Medium کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن سے نظم کا تانا بانا تیار کیا گیا ہے اور جن کی تکرار مختلف سیاق و سباق میںبرابر ملتی رہتی ہے۔ ٭٭٭ رسالہ معارف اور اقبال ڈاکٹر نجم الاسلام اس مضمون کا مقصد رسالہ معارف اعظم گڑھ اور اقبال کے علمی اور ادبی روابط کا ایک جائزہ پیش کرنا ہے۔ جو مطالعہ اقبال کے لیے ایک نئی جہت ہو سکتی ہے یعنی دوسرے علمی و ادبی رسائل اوراقبال کے روابط کا جائزہ بھی اسی طور پر لیا جا سکتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ اس نوعیت کے مطالعے سے کچھ مفید معلومات اقبالیات کے سلسلے میں حاصل ہو سکیں۔ سردست معارف کے تمام شماروں کا احاطہ مقصود نہیں بلکہ بالخصوص ابتدائی دس برس کے شماروں کا جائزہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔ ٭٭٭ رسالہ معارف کا پہلا شمارہ جولائی ۱۹۱۶ء (رمضان ۱۳۳۴ھ) میں نکلا تھا۔ اس میں اقبال کا ایک ضمنی ذکر ملتا ہے ۔ تقریظ و انتقاد کے تحت ادارہ معارف کے کسی رکن کے قلم سے جن کا نام درج نہیں غالباً خود سید دلیمان کے قلم سے کلام اکبر پر انتہقاد کی تمہید میں دوسرے جدید اردو شعراء کے ساتھ اقبال کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ ’’ولی دکنی سے لے کر امیر و داغ و جلال کے زمانے تک ہماری شاعری جس تنگ و محدود شاہراہ پر چل رہی تھی۔ اہل محفل کا دل سے اتنا اکتا گیا تھا کہ اگر نئے راستے پیدا نہ ہوتے تو اردو شاعری فنا ہو چکی ہوتی۔ مولانا شبلی کی تاریخی شاعری‘ مولانا حالی کا پندو موعظمت‘ مولوی اسماعیل میرٹھی کی اخلاقی کہانیاں ڈاکٹر اقبا ل کا فلسفہ‘ میر اکبر حسین صاحب کی پر معنی اور لطیف ظرافت ‘ اردو شاعری کی جدید تاریخ کے شاندار ابواب ہیں‘‘۔ (ص ۵۳) اپریل ۱۹۱۷ء کے شمارے میں اقبال کی اختیار کردہ اصطلاح ’’علم الاقتصاد‘‘ کا ذکر ہے جو اکنامکس کے اردو مترادف کے بطور اول اول اقبال کی کتاب ’’علم الاقتصاد‘‘ کے ذریے اردو حلقوں میں روشناس ہوئی تھی۔ معارف کے تبصرہ نگارنے نشاندہی کی ہے کہ یہ اصطلاح اقبال نے مصر کی تقلید میں اختیار کی تھی۔ تبصرہ نگار کا نام درج نہیں ہے لیکن یہ سلیمان ندوی ہوں گے۔ پروفیسر محمد الیاس برنی کی کتاب علم المعیشت پر تبصرہ کرتے ہوئے اکنامکس کے اردو مترادف اور اردو کتابوں کے بارے میں بھی مفید معلومات پیش کی گئی ہیں جو یہ ہیں: ’’سال رواں کی زندہ کتابوں میں پروفیسر محمد الیاس برنی کی علم المعیشت ہے مصنف نے پولیٹکل اکانومی کا ترجمہ علم المعیشت کیا ہے۔ ہندوستان میںسب سے پہلے اس علم پر غالباً ۱۸۶۹ء میں دلی کالج کے ایک ہندو ماسٹر نے ایک کتاب لکھی تھی۔ پھر یہی کتاب کسی قدر تکمیل کے بعد سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ کی طرف سے شائع کی گئی۔ اس وقت ا س علم کا نام انتظام مدن قرار پایا۔ اس کے بعد چند سال ہوئے میو کالج اجمیر کے ایک مسلمان پروفیسر نے ایک انگریزی کتاب کا کفایت شعاری کے نام سے خلاصہ کیا۔ ڈاکٹر اقبال نے مصر کی تقلید میں اس کا علم الاقتصاد کے نام سے ملک میں روشناس کیا اب و علم المعیشت کی جدید اصطلاح ہمارے سامنے ہے… (ص ۵۴) جون ۱۹۱۷ء کے شمارے میں مولانا عبدالسلام ندوی کاجو مقالہ اشتراکیت اور فوضویت یعنی سوشلزم اور انارکزم کے عنوان سے نکلا اس میں مقالہ نگار نے علم المعیشت کی جدید اصطلاح ککے بجائے اقبال کی اختیار کردہ اصطلاح علم الاقتصاد ہی کو برقرار رکھا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’یورپ میں سب سے پہلے اووین (Owen) ۱؎ کے زمانے میں سوشیالزم کا لفظ ایجاد اور شورش فرانس ۱۸۳۰ء و ۱۸۴۸ء نے اس کو تمام یورپ میںپھیلا دیا بالآخر وہ پولیٹکل اکانومی یعنی علم الاقتصاد کا جزو ہو کر ایک مستقل فلسفہ بن گیا‘‘ ۔ (ص ۲۹) اپریل ۱۹۱۸ء کے شمارے میں باب التقریظ و الانتقاد کے تحت رموز بے خودی پر مفصل تبصرہ ہے۔ اس پر بھی اگرچہ نقاد کا نام درج نہیں ہے لیکن سید سلیمان ندوی ہی کے قلم سے نکلا ہوا کہ اس کی تمہید ایک مدیرانہ اعتذار لیے ہوئے ہے۔ مکاتیب اقبال میں بھی ا س کا زکر آتا ہے ۔ اقبال نے سید سلیمان ندوی سے پوچھا ہے کہ آپ کا تبصرہ کب شائع ہوا؟ تبصرہ یوں شائع ہوتا ہے مدت سے ارادہ تھا کہ جناب ڈاکٹر محمد اقبال کی شاعری پر ایک انتقادی نظر ڈالی جائے۔ لیکن کثرت مشاغل اور قلت فرصت نے موقع نہ دیا۔ ابھی ان کی ایک مثنوی رموز بے خودی موصول ہوئی ہے۔ اس تقریب سے اب خیالات کے عرض کا کسی قدر موقع مل گیا ہے ص ۴ اس کے بعد اقبال کی شاعری کے آغاز اور زبان شعر کی تراکیب آفرینی کی طرف اشارات پیش کیے ہیں لکھتے ہیں: ’’جہاں تک مجھے یاد آتا ہے ڈاکٹر اقبال کی شاعری کا پبلک آغاز رسالہ مخزن لاہور کے ساتھ ساتھ ہوا۔ یہ رسالہ ۱۹۰۲ یا ۱۹۰۳ء کے قریب قریب نکلنا شروع ہوا تھا اس لحاظ سے ڈاکٹر اقبال کی پبلک شاعری کی عمر قریباً ۱۶ برس ہے اس عرصے میں ان کی متعدد چھوٹی بڑی نظمیں شائع ہوئیں جن میں سے اکثر کی اہل معنی نے دادری اوربعض پر اہل ظاہر نے گرفت کی ابتدا سے ڈاکٹر اقبال کی زبان اشکار پسند ار ترکیب آفریں واقع ہوئی ہے۔ ۱؎ رابرٹ اووین (Robert Owen)برطانوی مصلح اور سوشلسٹ پیدائش ۱۷۷۱ء وفات ۱۸۵۱ء کبھی کبھی سہل پسندی کے ثبوت کے لیے انہوں نے نہایت رداں اور آسان زبان میں نظمیں لکھیں۔ لیکن پھر وہ ڈاکٹر اقبال کے اشعار نہ رہے بلکہ ان کی حیثیت ایک عام اردو شاعر کے خیالات موزوں کی رہ گئی‘‘۔ (ص ۴۱) اس کے بعد کہا گیا ہے کہ کائنات کے اسرار و حقائق کی تعلیم و تلقین کے لیے ہمیشہ سے چار راستے رہے ہیں۔ مذہب فلسفہ تصوف اور شاعری پہلے یہ تھا کہ انسان اپنے ذوق اور مناسبت طبع کی بنا پر ان میں سے ایک راستے کو اپنے لیے انتخاب کر لیتا تھا لیک عجم کے صوفیوںنے دیکھا کہ اس طریقے سے بہت کم تعداد ہماری گرفت میں آتی ہے انہوں نے چاروں کو ملا کر ایک کر دیا تاکہ ہر مخاطب انسان ان مٰں سے کسی ایک پر ضرور ہے کہ سر ڈال دے گا۔ حکیم سنائی پہلے شخص ہیں جو اس میں طریقہ خاص کے موجد ہیں اور اس کے بعد مولانائے روم کے عہد میں یہ فن عروج کمال تک پہنچ جاتا ہے چوتھی صدی سے لے کر دسویں صدی تک شعرائے باطن ے ہم کو جو کچھ سمجھایا ہے ہمارے حاکانہ غیظ و غضب فاتحانہ جوش و خروش اور مجاہدانہ زور و قوت کو اعتدال پر لانے کے لیے وہ ضروری تھا لیکن اب یہ حالت یہ ہے کہ ہمارے مشتعل قوی سرد ہو گئے ہمارے خون کی گرمی محکومانہ زور و قوت کو اعتدال پر لانے کے لیے وہ ضروری تھا کہ ہم کو جو کچھ سمجھایا ہمارے حاکمانہ غیظ و غضب فاتحاہ جو و خروش اور مجاہدانہ زور و قوت کو اعتدال پر لانے کے لیے وہ ضروری تھا لیکن اب حالت یہ ہے کہ ہمارے مشتعل قویٰ سر د گئے ہمارے خون کی گرمی محکومانہ برودت سے بدل گئی ہے ہمارے قویٰ میں مفتوحانہ ضعف آ گیا ہے۔ اس لیے ضرور ت تھی کہ ہمارے اہل دل شعراء مثنوی مولوی روم کا ایک دوسرا نسخہ ہمارے لیے تیار کر دیں۔ شعرائے حال میں ڈاکٹر اقبال کوا للہ تعالیٰ نے اس ضرورت کے لیے چن لیا انہوں نے اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر دو مثنویاں لکھیں اسرار خودی اور رمو زبے خودی (ص ۴۱ تا ۴۳) اس کے بعد وہ اقرار کرتے ہیں کہ پہلی مثنوی میری نظر سے نہیں گزری البتہ رداً اور اعتراضاً اس کے بعض بعض ٹڑکڑے اخبارات میں دیکھے (اس کے علاوہ) اس سفر میں (شاید اجلاس ناگپوریا اجلاس کلکتہ کے سلسلے میں جن کا ذکر اسی شمارے کے شذرات میں ہے) مجھے مسٹر محمد علی کی زبان سے اوس کے متعدد ابواب سننے کا موقع ملا انہوںنے اس ذوق اور وجد کے ساتھ اس کے اشعار سنائے کہ میں سراپا اثر ہو گیا۔ شاعر نے جو کچھ کہا تھا کہ اس کو ایک بہتر مفسر کی زبان سے سن کر خود بخود اس کے اسرار و حکم کے عقدے وا ہونے لگے۔ (ص ۴۴) رموز بے خودی کے سلسلے می تعارفی تفصیلات کے علاوہ انہوںنے اپنے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کے اہم نکات یہ ہیں: ۱۔ زبان کے لحاظ سے میں ڈاکٹر اقبال کو ان شعرا میں گنتا ہوں جو معنوی محاسن اور باطنی خوبیوں کے مقابلے میں الفاظ اور محاوروں کی ظاہری صحت کی پروا نہیںکرتے لیکن حق یہ ہے کہ اس ایک لغزش مستان پر ہزاروں سنجیدہ اور متین رفتاریں قربان ہیں۔ مصرعوں کے دروبست اور فصل و وصل میں قصور ممکن ہے لیکن یہ ناممکن ہے کہ جو مصرع ڈاکٹر اقبال کی زبان سے نکل جائے وہ تیر و نشتر بن کر سننے والوں کے دل و جگر میں نہ اتر جائے ۔ (ص ۴۴) ۲۔ ڈاکٹر اقبال اپنے مخاطب کے احساسات پر مذہب فلسفہ تصوف اور شاعری ہر راہ سے حملہ کرتے ہیں۔ اور اس لیے اختلاف مذاق کے باوجود ان مختلف راہوں میں سے کسی ایک سے بھی بچ کر نہیں نکل سکتا۔ (ص ۴۴) ۳۔ زیر تقریظ مثنوی میرے خیال میں زبان کے لحاظ سے اسرار خودی سے بہتر ہے اور اصلی معنی کے لحاظ سے دونوں میںیہ فرق ہے کہ اس میں مظاہر سیاست کے بیشتر اور اس میں مذہب کے عناصر زیادہ ہیں لیکن منزل مقصود ایک ہے۔ (ص ۴۴) ۴۔ مسلمانوں کے مزاج قومی کو جن لوگوں نے پہچانا ہے وہ صرف تین شخص ہیں۔ مولانا شبلی نے آخری تین سال کے کلام میں مولانا ابوالکلام نے مجلدات الہلال میں اور ڈاکٹر اقبا ل نے اپنی ان دو مثنویوں میں اور اب معلوم ہوتا ہے کہ یہ راستے اوروں پر بھی مکشوف ہو رہے ہیں۔ (ص ۴۵) ۵۔ شاعر نے ان مطالب پا نژدہ گانہ میں سے (جن میں مثنوی منقسم ہے) ہر ایک کو واقعات حکایات اور آیات قرآن و حدیث سے محکم کیا ہے۔ قرآن مجید کی آیتیں نہایت خوبی سے اس انگشتری کا نگینہ بنتی چلی گئی ہیں جہاں تک ہمارے مطالعے نے کام دیا ہے احادیث میں دفعہ ۱۴ (اور معنی انیکہ سیدۃ النساء فاطمہ الزہرا اسوہ کاملہ ست برائے نسا اسلام) کے علاوہ اور تمام واقعات صحیح ماخذوں سے لیے گئے ہیں ۔ (ص ۴۷) ۶۔ یہ مثنوی بھی ڈاکٹر اقبال کی دوسری نظموں کی طرح تعقید لفظی اور معنوی سے بری نہیں تاہم بعض مقامات پر مسلسل اشعار اس قدر رواں ہیں اور سلیس البیانی کے ساتھ موثر ہیں کہ بار بار ان کو پڑھنے کو جی چاہتا ہے مثال میں مذمت خوف و یاس اور اتباع شریعت سے متعلق اشعار پیش کیے ہیں (ص ۴۷ ‘ ۴۸) ۔ ۱۔ شاہ عالم گیر گردوں آستاں اعتبار دود مان گورگاں پایہ اسلامیاں برترازو احترام شرع پیغمبر ازو درمیان کارزار کفر و دیں ترکش مار اخدنگ آخریں تخم الحادے کہ اکبر پرورید باز اندر فطرت دارا دمید شمع دل در سینہ ہا روشن نبود ملت ما از فساد ایمن نبود حق گزید از ہند عالمگیر را آں فقیر صاحب شمشیر را برق تیغش خرمن الحاد سوخت شمع دیں در محفل ما بر فروخت ۷۔ ڈاکٹر اقبال نے عالم گیر اور اکبر کی نسبت اپنا جو خیال ضمناً ظاہر کیا ہے ۱؎ ۔ اب اکثر ارباب فکر اسی نتیجے پر ہیں۔ (ص ۴۹) ۸۔ ایک بالغ نظر شخص اس مثنوی میں الفاظ کی صحت یا صحیح فارسی تھی میں ان کے استعمال کی صحت میں شک اور بعض محاوروں کی گرفت کر سکتا ہے لیکن اصل یہ ہے کہ اقبال کے شاعرانہ خیالات میں اتنی تیز روانی ہے کہ یہ خس و خاشاک اس کی خوبی و لطافت میں مزاحم نہیں ہو سکتے۔ (ص ۵۰)۔ ۹۔ نکتہ چینی اور حرف گیری بہت ہو چکی۔ اب کچھ سوچنا اور سمجھنا بھی چاہیے اور یہی اس مثنوی کا اہم المطالب ہے (ص ۵۰) ۱۰۔ ڈاکٹر اقبا ل نے جو اسرار و نکات اس میں حل کیے ہیں ان کی بنا پر یہ مثنوی نہ صرف شاعری اور فن قومیات کا ایک رسالہ ہے بلکہ ہمارے خیال میں جدید علم کلام کی ایک بہترین کتاب ہے توحید کا ثبوت رسالت کی ضرورت ‘ قرآن پر ایمان رکھنے کا سبب قبلہ کی حاجت وغیرہ اعتقادی مسائل پر نہایت پر اثر اور تشفی بخش دلائل ا س کے اندر موجود ہیں (ص۵۰)۔ جون ۱۹۱۸ء کے شمارے میں ترانہ اقبال کے عنوان سے سات اشعار کی غزل چھپی ہے جس کا مطلع یہ ہے: نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا میںہلاک جاودی سامری تو قتیل شیوہ آزری یہ غزل بانگ درا میں میں اور تو کے عنوان سے دو اشعار کے اضافوں کے ساتھ اور ایک شعر میںمعمولی لفظی تبدیلی کے ساتھ ملتی ہے معارف میں چوتھے شعر کا مصرع یوں شروع ہوتا ہے۔ تری راکھ میں ہے اگر شرر… بانگ درا میں راکھ کی جگہ خاک کا لفظ آتا ہے اوریہ دو اشعار بھی اضافہ شدہ ہیں: دم زندگی رم زندگی غم زندگی سم زندگی غم رم نہ کر سم غم نہ کھا کہ یہی ہے شان قلندری نہ ستیزہ گاہ جہاں نئی نہ حریف پنجہ فگن نئے وہی فطرت اسد اللہی و ہی مرحبی وہی عنتری مارچ ۱۹۱۹ء کے شمارے میںاقبال کا ایک ضمنی ذکر آتا ہے۔ اس شمارے میں متعدد قدیم اور جدید معاصر رسائل اور اخبارات پر تبصرہ ہے۔ رسالہ صبح امید لکھنو ہفتہ وار قوم دہلی رسالہ اعجاز القرآن امرتسر اسوہ حسنہ دہلی (یہ پہلے میرٹھ سے شائع ہوتا تھا) رسالہ زمانہ کانپور رسالہ انتظامیہ فرنگی محل لکھنو رسالہ محقق دہلی رسالہ الواعظ حیدر آباد دکن رسالہ مخزن لاہور…ان سب کا تعارف ایک ہی شمارے میں آ گیا ہے تحریر کے تیور بتاتے ہیں کہ سید سلیمان ندوی کے قلم سے ہو گا کیونکہ برساقی رسالوں کی خوب خبر لی ہے مگر مخزن یا ذکر بڑے احترام سے کیا ہے اور لکھا ہے کہ ہمارے اکثر ادبی رسالوں کا پدر اول ہے یہ امر اس کے اولیات میں شمار ہو گا کہ جدید تعلیم یافتہ فرقے کو اسی نے سب سے پہلے ادھر متوجہ کیا۔ اس وقت اردو کے اکابر اہل قلم مثلاً ڈاکٹر اقبال‘ میر نیرنگ‘ مولوی حسرت موہانی ان کا جوہر تحریر اسی کے ذریعے منظر عام پرنمایاں ہوا (ص ۵۰۴) اسی سا ل کے اکتوبر کے شمارے میں اقبال کی نظم (یا قطعہ چار اشعار کا)پولیٹکل گداگری کے عنوان سے چھپی ہے جس میں خلافت کی گدائی کی مذمت ہے ۔ اور لطف یہ ہے کہ اسی شمارے میں اس سے قبل دو ممتاز خلافتیوں سید حسرت موہانی۔ اور محترم محمد علی جوہر سابق ایڈیٹر کامریڈ کا کلام بعنوان مشترک زندانیوں کا وداع رمضان بھی درج ہے اقبال کی یہ نظم عنوان اور پہلے شعر کی تبدیلی کے ساتھ بانگ درا میں شامل ہے۔ بانگ درا میں اس کا عنوان بدل کر دریوزہ خلافت کر دیا گیا ہے پہلا شعر معارف میں اس طرح آتا ہے: بہت آزمایا ہے غیروں کو تو نے مگر آج ہے وقت خود آزمائی یہ بانگ درا میں اس شعر سے بدل دیا گیا ہے: اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی اس طرح معارف کے ذریعے اقبال کی ایک اور تازہ نظم کا زمانہ تصنیف معلوم ہو جاتا ہے یہ نظم اورجون ۱۹۱۸ء کے شمارے کی غزل جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے تازہ کلام کے بطور ہی اشاعت کے لیے بھیجی گئی ہوں گی۔ اپریل ۱۹۲۰ء کے شمارے میںملت بیضا پر ایک عمرانی نظر کے ایک تازہ ایڈیشن پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ ۱۹۱۱ء میں علی گڑھ کالج کے پرنسپل کے ایما سے اقبال نے اس عنوان پر انگریزی زبان میںایک فلسفیانہ لیکچر دیا تھا کہ مسلمانوں کی موجودہ بیداری کا ان کے مستقبل پر کیا اثر پڑنے والا ہے۔ مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر زمیندار نے مذکورہ بالا نام سے اس کا اسی زمانے میں اردو میں ترجمہ کر دیا تھال پھر اسے مرغوب ایجنسی لاہور نے شائع کیا۔ معارف کے تبصڑے میں بتایا گیا ہے کہ اقبال نے اس لیکچر میں جماعت اسلامی (ملت اسلامی) کی ہئیت ترکیبی اسلامی تمدن کی ہمرنگی ‘ اور ایک خالص اسلامی نظام اخلاق کی ضرورت پر بحث کی ہے اور یہ دکھلایا ہے کہ مسلمانوں کی قومیت وطنیت اور عصبیت دوسری قوموں سے بالکل مختلف ہے کیونکہ اس کا مرکز صرف اسلام ہے جو دوسرے مذاہب کی طرح عقلی اورنظری نہیں بلکہ عملی ہے‘ ان کا تمدن عالم گیر ہے۔ اور ان چیزوں کے ترکیب و امتزاج سے جو لوگ پیدا ہوئے ہیں وہ اسلامی اخلاق کے خالص نمونے ہیں۔ اس لیے اگر مسلمان ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ان کو یہی اصول پیش نظر رکھنا چاہیے اس کے بعد انہوں ے مسلمانوں کو موجودہ تعلیمی اور اقتصادی حالت سے بحث کی ہے۔ اس ضمن میں ایک اسلامی یونیورسٹی کے قیام تعلیم نسوان مسلمانوں کے عام افلاس اور صنعت و حرفت اور تجارت کی طرح متوجہ ہونے کی ضرورت پر بہت زور دیا ہے۔ آخر میں دکھلایا ہے کہ اگر مسلمان صحیح معنی میں ایک متمدن قوم بننا چاہتے ہیں تو ان کو سب سے پہلے سچا مسلمان بننا چاہیے ‘‘۔ (ص ۳۱۸‘ ۳۱۹)۔ جون ۱۹۲۱ء کے شمارے میں اقبال کی مثنوی اسرار خودی کے انگریزی ترجمے پر انگلستان کے ادبی رسالے اتھینیم کا ریویو اردو میں منتقل کر کے دیا گیا ہے۔ پھر اگست ۱۹۲۱ء کے شمارے میں ضمناً دو جگہ اقبال کا ذکر آیا ہے اول شذرات میںٹیگورکی وطن واپسی کے ذیل میں مدیر معارف نے لکھا ہے کہ جس وقت اس سرزمین پر ٹیگور اکبر اور اقبال کا دم قائم ہے کون اس کے فخر کی گردن جھکا سکتا ہے۔ (ص ۸۳) اسی شمارے میں مولوی عبدالماجد صاحب بی اے (بعد کے مولانا عبدالماجد دریا بادی) کے ایک انگریزی مضمون کا (جو ملکی زبانوں میں ارود کے درجے کے موضوع پر ماڈرن ریویو کے مارچ نمبر میں نکل چکا تھا) اردو ترجمہ بھی شامل ہے۔ اس میں اردو کے زندہ شعراء میں دو کا ذکر سب سے زیادہ نمایاں ہے یعنی اکبر اور اقبال مولانا عبدالماجد کے خیال میں: ’’ زندہ لوگوں میں اکبر الہ آبادی کا نام سب سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے کلام میں دقت نظر اور حکیمانہ نکتہ سنجی کے ساتھ ظرافت اور شوخی کا امتزاج دنیائے شاعری کاایک بے مثل معجزہ ہے۔ ان کے بعد اقبال کانمبر آتا ہے جو ایک عرصہ سے بھگوت گیتا کے انداز میں اپنا پر قوت فلسفہ عمل دنیا کے سامنے حیرت انگیز بلند خیالی اور اثر کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ ان کی بعض فارسی نظموں کا ترجمہ کیمبرج کے فاضل پروفیسر نکولسن نے انگریزی میں کیاہے‘‘۔ (ص ۱۳۲) اس رائے میں بھگوت گیتا کا ذکر ‘ بظاہر ماڈرون ریویو کی رعایت سے آگیا ہے۔ یا پھر یہ کہ مضمون نگار کی ابتدائی دور کی سوچ ہے جبکہ الحاد و دہریت تک کا رنگ ان پر بتایا جا رہا ہے جس کا مدافعانہ ذکر اسی دو ر کے معارف کے ایک شذرے میں بھی ملتا ہے۔ ستمبر ۱۹۲۱ء کے شمارے میں (جون ۱۹۲۱ء کے شمارے کی طرح) اسرار خودی کے انگریزی ترجمے پر انگلستان کے ایک دوسرے ہفتہ وار رسالہ نیشن کے ریویو کا ترجمہ درج کیاگیا ہے جو کیمبرج کے پروفیسر ڈکنسن کے قلم سے نکلا تھا ۔ ڈکنسن کے تبصرے کا حاصل یہ ہے: ۱۔ مشرقی ہم سے کسی طرح کم نہیں ہیں البتہ وہ متواضح و اخادہم سے زیادہ ہیں پس کیا وجہ ہے کہ مستقبل قریب میں وہ ہمارے اپنے درمیانی رشتے (مشرق پر مغرب کا تفوق) کو الٹ نہ دیں۔ ۲۔ اس نقطہ نظر سے جناب اقبال کی کتاب آئندہ واقعات کے حق میں ایک شگون نحس کی حیثیت رکھتی ہوئی معلوم ہوگی۔ ۳۔ کیمبرج میں اقبال سے اپنی گفتگو کیذکر اور ان کے فلسفہ سیاست کو میکٹاگارٹ میک ٹیگرٹ برگساں اور نیٹشے کے خیالات کی معجون و مرکب قرار دینے کے بعد کہا ہے کہ اقبال کا یہ خیال کہ مکمل شخصیتوں کے درمیان امتزاج و اعتدال کا نام حقیقت ہے۔ ڈاکٹر میکٹا گارٹ(میک ٹیگریٹ) سے ماخوذ ہے۔ البتہ اقبال نے اس حقیقت کو بجائے ظواہر زمانی کے عقب میں دائماً و مستقلاً موجود رہنے کے ائندہ کے لیے نصب العین قرار دیا ہے۔ ۴۔ ڈکنسن کے خیال میں سب سے زیادہ قومی اثر نطشے کا ہے قوت خودی‘ ضرورت استیلا‘ اورمنافع حصولات اس تعلیم سے ساری مثنوی لبریزہے۔ ۵۔ (اقبال کے ) اس فلسفہ (خودی) کے نقطہ نظر سے بالآخر بجائے اس کے افراد ذات باری میں جذب ہو جائیں ذات باری افراد میں جذب ہو کر رہے گی۔ اقبال ان تمام فلسفوں کے دشمن ہیں جو مستی واجب الوجود کو تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ افلاطون کے جو وہ اس قدر مخالف ہیں اس کی بنا بھی بس یہی ہے اقبال کی ساری مثنویاں گویا اس تصوف کا جواب ہے جس کا مطالعہ آج سے پندرہ برس بیشتر ان کا خاص مشغلہ تھا۔ ۶۔ اقبال کا کلام ایک سیاسی مفہوم اور سیاسی قوت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ یہ شاعرباوجود انتہائی آزاد خیال حکمائے مغرب کے ساختہ پرداختہ ہونے کے ایک پر جوش مسلمان بھی ہے۔ محمدؐ اس کے پیمبر برحق اور قرآن اس کی کتاب آسمانی ہے فطرت بشری قدیم معتقدات کو جدید لباس پہنانے پر اس قدر حریص ہے کہ یہ شاعر بھی یہ عقیدہ رکھتا ہے یا اس کا اظہار کرتاہے کہ اس کی تعلیم بھی اسی کہنہ کتاب (قرآن) کی تعلیم کا عکس ہے۔ ۷۔ اقبال کا فلسفہ اگرچہ اصولی حیثیت سے عام ہے لین عملاً اس کو انہوںنے ایک گروہ کے ساتھ محدود و مختص کر دیا ہے۔ ان کی رائے میں وارث تاج و تخت صرف مسلمان ہی ہو سکتے ہیں اور باقی دنیا کو یا تو ان میں جذب ہو جانا چاہیے یا فنا ہو جانا چاہیے‘ پس خودی پر زور دینے زہد اور رہبانیت کومٹانے اور قوت و استیلا کی رجز خوانیکا صاف مفہوم اس قدر ہے کہ ایک وطن دوست اپنی مظلوم قوم کو مقابلے کے لیے ابھار اورللکار رہا ہے۔ اقبال کی صاف و صریح الفاظ میں جہاد کی دعوت دیتے ہیں اور جہاد بھی کیسا بالسیف۔ ۸۔ یہ سچ ہے کہ حب زر حب جاہ حب ملک گیری کے لیے انہوں نے جنگ کو ممنوع ٹھہرایا ہے ۔ لیکن نیت خواہ کیسی ہی خالص ہو عملی زندگی میںیہ قید بالکل بے معنی ہے جنگ بہر صورت جنگ ہے… اگر مشرق ایک بار ا س پر آمادہ ہو گیا کہ اسلحہ کی قوت سے اسلا م کو آزاد و متحد کر کے رہے گا تو پھر اسے سکون نہیں حاصل ہو سکتا۔ تاوقتیکہ یا وہ ساری دنیا کو مسخر نہ کر لے اوریا یہ کوشش ناکامی پر ختم نہ ہو جائے۔ ۹۔ جنگ کے معنی تمدن کے تمام شعبوں کی بربادی کے ہیں۔ خصوصاً ان اعلیٰ شعبوں کی جو اقبال کے دائرے میں آتے ہیں لیکن مغرب اس نظیر سے فائدہ اٹھانے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتا۔ بلکہ بعض منچلے اہل مغرب تو اپنے اہل وطن سے مایوس ہو کر مشرق سے کسی ستارہ ہدایت کے طلوع کی امید قائم کر رہے ہیں۔ ستارہ بے شک طلوع ہوا ہے لیکن وہ ستارہ امن و امان نہیں بلکہ یہی ستارہ خونین ہے۔ ۱۰۔ مشرق اگر مسلح ہوگیا تو ممکن ہے مغرب کو تسخیر کر ڈالے لیکن کیا اس سے وہ فساد و ہلاکت کی قتو کو بھی مسخر کر لے گا۔ نہیں بلکہ قدیم خون ریزیاں رہ رہ کر ابھرتی رہیں گی۔ اور ساری دنیا کو مبتلائے مصائب رکھیں گی۔ بس اس کے سوا اور کوئی نتیجہ نہیں کیا اقبال کا یہی اختتامی پیام ہے؟ (ص ۲۱۲ تا ۲۱۶) ان مخالفانہ تبصروں پر جو ترجمہ ہو کر جون اور ستمبر کے معارف میں بھی نقل ہو چکے تھے۔ خود اقبال کے جوابی مکتوب بنا م نکلسن (بزبان انگریزی) کا اردو ترجمہ معارف کی اکتوبر ۱۹۲۱ء کی اشاعت میں چھپا ہے۔ جس میں بڑی خوبی سے ایتھینیم اور نیشن کے ریویو کے بارے میں اقبال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ریویو نگار نے بعض غلطیاں واقعات سے متعلق کی ہیں۔ مگر غالباً دانستہ اس لیے کہ اگر میری اردو نظموں کی صحیح تاریخہائے اشاعت اس کے پیش نظر ہوتیں تو یقینا میری دماغی زندگی کے ارتقاء سے متعلق اس کی رائے بالکل مختلف قائم ہوئی ہوتی۔ دوسر ے وہ فرماتے ہیںکہ اس نے تبصرہ نگار نے میرے مسئلہ انسان کامل کو جرمن فلسفی نیٹشے کے سوپرمین فوق الانسان سے گڈ مڈ کر دیا ہے۔ میں نے تصوف کے مسئلہ انسان کامل پر کچھ اوپر بیس سال ہوئے لکھا تھا جبکہ نیٹشے کی بھنک بھی میرے کان میں نہیں پڑی تھی۔ یہ مضمون اسی زمانے میں رسالہ انڈین اینٹی کویری میں شائع ہو گیا تھا اور اس کے بعد ۱۹۰۸ء میں إیرے انگریزی رسالے فلسفہ عجم میں منضم ہو کر نکلا انگریزوں کو اس مسئلے کے سمجھنے کے بجائے جرمن فلاسفہ کے انگلستان کے ہی ایک جلیل القدر فلسفی الگزنڈر سے زیادہ ملے گی جس کے لیکچروں کا مجموعہ پچھلے سال گلاسکو سے شائع ہوا ہے اس کی کتاب کا جوباب معبود و خدا کے زیر عنوان ہے پڑھنے کے قابل ہے ملاحظہ ہو صفحہ ۳۴۷… الگزنڈر اس باب میں مجھ سے بہت آگے بڑھا ہوا ہے میرا عقیدہ یہ ہے کہ عالم میں جو شان الٰہی جلوہ گر ہے وہ بالآخر انسان کے قالب میں رونما ہو کر رہے گی ۱؎۔ بخلاف اس کے الگزینڈر اس کا قائل ہے کہ وہ حقیقت منتظر ایک خدائے ممکن الوجود کی شکل میں جلوہ گر ہو گی میں اس باب میں الگزینڈر سے متفق نہیں تاہم اگر انگریز شائقین اپنے اس ہم وطن کے صفحات کی مدد سے میرے خیالات کوسمجھنا چاہیں تو ان کی نظروں میں وہ اس قدر نامانوس نہ باقی رہیں گے‘‘۔ (ص ۲۸۷) اس کے بعد وہ ڈکنسن کے اعتراضات کو لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ دل چسپ مجھے مسٹر ڈکنسن کا ریویو معلوم ہوا اور اس کے متعلق چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں ملخصاً اقبال کے چند نکات ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں: ۱۔ مسٹر ڈکنسن کا خیال (جیسا کہ میرے نام کے ایک خط میں انہوں نے ظاہر کیا ہے ۲؎) یہ ہے کہ میں نے اپنی مثنوی میں معنوی مادی قوت کو معبودیت کے درجے میں رکھا ہے۔ حالانکہ یہ خیال قطعاً غلط ہے۔ میں جس شے کا قائل ہوں وہ روحانی قوت ہے نہ کہ جسمانی طاقت۔ بے شبہ جب کسی قوم کو جہاد کی دعوت دی جائے تو اس صدا پر لبیک کہنا میرے عقیدے میں اس کا فرض ہونا چاہیے لیکن جو ع الارض تسخیرممالک کے لیے جنگ و جدل کرنا میں نے حرام قرار دیا ہے ۔ (ملاحظہ ہوا سرار خودی صفحہ ۱۰۳ ) البتہ ڈکنسن کا یہ کہنا صحیح ہے کہ نتیجہ جنگ بہر صورت تخریب ہی ہوتا ہے۔ خواہ اس کی غایب حق و انصاف ہو یا ہوس ملک گیری و تسخیر‘ اس لیے جنگ کا انسداد قطعاً کرنا چاہیے۔ لیکن تجربے نے بتا دیا ہے کہ معاہدہ صلح نامہ مجلسیں‘ کانفرنسیں ‘ انسداد جنگ کے حق میں یکسر بیہودہ ثابت ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ بالفرض کسی ذریعے سے اگر ظاہری محاربات کو روک بھی دیا جائے تو حریص و طابع اقوام اپنے سے کم متمدن اور کم طاقتور اقوام کے لوٹنے کی کچھ اور تدابیر نکالیں گی ۔ ۱؎ اقبال کے اس قول کی تشریح میں مدیر معارف نے حاشیہ لکھا ہے کہ اقبال کی مراد نیابت الٰہی و خلافت حقہ ہے ۔ نہ کہ تجسیم خالق ۔ ۲؎ اقبال سے ظہار کے ریویو کے علاوہ ڈکنسن کے اسرار خودی کے سلسلے میں اقبال کو خط بھی لکھا گیا تھا وہ اقبال سے شخصاً واقف تھے انہوںنے اقبال کے دور طالب علمی ہیں جبکہ اقبال فارسی تصوف پر رسالہ تیار کر رہے تھے کیمبرج میں اقبال کو ولیم بلیک کی تصانیف کے مطالعے پر آمادہ کیا تھا اور خود ان کے بقول اقبال نے انہیں یہ یقین دلایا تھا کہ بلیک کے صفحات میں بھی انہی تجربات کا ذکر ہے جنہیں حکمائے مشرق بیان کرتے رہتے ہیں۔ (معارف ستمبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۲۱۳) پس اصل ضرورت ایسی زندہ شخصیت کی ہے جو ہمارے مسائل معاشرت کو حل کرے ہمارے خصومات کا فیصلہ اور بین الاقوامی اخلاق کو مستحکم تر بنیاد پر قائم کرے۔ اسی خیال کو پروفیسر میکنزی نے اپنے مقدمہ فلسفہ معاشرت (انٹر وڈکشن ٹو سوشل فلاسفی) کی آخری بکمال خرابی ادا کیا ہے (اس کے بعد اس کتاب سے دو اقتباسات دے کر کہتے ہیں کہ) میں نے انسان کامل جو خاکہ پیش کیا ہے وہ انگریزی پبلک کی سمجھ میں اسی وقت آ سکتا ہے جب وہ امور متذکرہ بالاکو پیش نظر رکھے۔ یاد رہے کہ خاندان انسانیت کی خانہ جنگیوں کا خاتمہ معاہدوں اور صلح ناموں سے نہیں ہو سکتا۔ ان کی ختم کرنے والی شے صرف ایک زندہ شخصیت ہو سکتی ہو۔ میں نے اسی ہستی کو مخاطب کر کے کہا ہے : باز در عالم بیار ایام صلح جنگجویاں رابدہ پیغام صلح (ص ۲۸۸‘ ۲۸۹) ۲۔ مسٹر ڈکنسن نے اس کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ کہ میری تعلیم مردانگی و سختی کرنے کی ہے لیکن یہ تعلیم حقیقت کے اس مفہوم پر مبنی ہے جو میں نے مثنوی میں لیا ہے میرے عقیدے میں حقیقت نام ہے شخصیتوں اور خودیوں کے مجموعے کا جس کی اجماعی تشکیل کشمکش سے ہوتی ہے اور یہی کمشکش بالآخر باہم نظم و ارتباط پیدا کرتی ہے۔ ارتقائے حیات کے اعلیٰ مدارج مدارج اور شخصی عدم ممات کے لیے یہ کش مکش لازمی ہے۔ نیٹشے شخصی عدم ممات کا قائل نہ تھا اور ا س کے آرزو مندوں سے کہا کرتا تھا کہ کیا تم دوش دہر پر ایک دائمی بار رہنا چاہتے ہو۔ نیٹشیکو اس بات میں غلط فہمی یوں ہوئی کہ خود دہر یا زمانے ہی کے متعلق اس کا تخیل غلط تھا اور مسئلہ دہر کے اخلاقی پہلوپر کبھی اس کی نظر ہی نہیں گئی تھی۔ بخلاف اس کے میں تو انسان کا بلند ترین نصب العین بھی عدم ممات سمجھتا ہوں جس کو اس نے اپنی تمام قوتوں کو مرکز بنا لینا چاہیے۔ اسی لیے میں ہر قسم کی حرکت کو جس میں کشمکش بھی شامل ہے جس سے خودی زیادہ محکم ہو ضروری سمجھتا ہوں اور اسی لیے میں صوفیانہ جمود اور راہبانہ سکون کا مخالف ہوں میں اس کشمکش کا جو مفہوم لیتا ہوں وہ اصلاً اخلاقی ہے نہ کہ سیاسی درآں حالیکہ نیٹشے کے پیش نظر غالباً ا س کا صرف سیاسی مفہوم تھا( اس ذیل چند اور بھی نکتے بیان کیے ہیں اور ان تصریحات سے آخر میں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ میں نے جنگ و تنازعہ کی ضرورت جس مفہوم میں تسلیم کی ہے وہ اصلاً اخلاقی ہی ہے اور ڈکنسن نے افسوس ہے کہ میری نظم مردانگی و سختی کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا ہے۔ (ص ۲۹۰‘۲۹۱) ۳۔ مسٹر ڈکنسن یہ بھی فرماتے ہیں کہ میرے فلسفے کے اصول اگرچہ عام و عالمگیر ہیں لیکن ان کا دائرہ اطلاق مختص و محدود کر دیا گیا ہے یہ خیال بے شبہ ایک معنی میں صحیح ہے شاعری اور فلسفے میں انسانی نصب العین ہمیشہ عالم گیر ہی رکھا جاتا ہے لیکن اس نصب العین کی تحصیل جب عملی زندگی میں کی جائے گی تو لا محالہ اس کا آغاز کسی مخصوص جماعت سے کرنا ہو گا جو اپنا ایک مستقل مسلک اور مخصوص موضوع رکھتی ہو اور جس کے حدود میں تبلیغ عملی و لسانی سے وسعت ہو سکتی ہو۔ یہ جماعت میرے عقیدے میں اسلام ہے نسلی امتیاز جو اقوام کے اتحاد و اشتراک عمل کی راہ میں سب سے بڑا مانع ہے ۔ اس کی سب سے زیادہ کامیاب مخالف اب تک یہی جماعت رہی ہے۔ رینان کا یہ مقولہ غلط تھا کہ اسلا م اور سائنس باہم متناقض ہیں فی الحقیقت اسلام اور امتیاز نسلی باہم متناقض ہیں۔ یہ اصول نسلی نہ صرف اسلام بلکہ عام انسانیت کا سب سے بڑا دشمن ہے اور اس سے وسوسہ شیطانی کی بیخ کنی کرنا تمام محبان نو ع انسانی کا فرض ہونا چاہیے۔ میں نے جب یہ محسوس کیا کہ قومیت کا تخیل جو نسل و وطن کے امتیازات پر مبنی ہے دنیائے اسلام پر بھی حاوی ہوتا جاتاہے اورجب مجھے یہ نظر آتا ہے کہ مسلمان اپنے نصب العین کی عمومیت و عالم گیری کو چھوڑ کر وطنیت اور قومیت کے پھندے میں پھنستے جاتے ہیں تو بحیثیت ایک مسلمان اور محب نوع انسانی کے میں نے اپنا فرض سمجھا کہ ارتقائے انسانیت میں انہیںان کے اصلی فرائض پر توجہ دلا دوں۔ اس سے انکار نہیںکہ اجتماعی زندگی کے ارتقاء نشوونما میں قبیلہ دار اورقومی انتظامات کا وجود بھی ایک عارضی حیثیت اور ہنگامی ضروریات کے لیے مفید ہے۔ ارو اگر ان کی اتنی ہی کائنات تسلیم کر لی جائے تو میں ان کا مخالف نہیں لیکن جب انہیں ارتقائے انسانیت کی آخری انتہائی منزل قرار دیا جاتا ہے تو مجھے ان کے بدترین لعنت قرار دینے میں تامل نہیں ہے۔ بے شبہ اسلام سے مجھے انتہائی شیفتگی ہے لیکن میں نے جو آغاز کار کے لیے جمعیت اسلام کو منتخب کیا ہے اس کی محرک قومی و وطنی عصبیت نہیں جیسا کہ مسٹر ڈکنسن میری جانب منسوب کرتے ہیں بلکہ مخصوص عملی سہولتیں ہیں اس لیے کہ دنیا کی مختلف جماعات میں صرف جمعیت اسلام ہی مجھے اس غرض کے لیے سب سے زیادہ موزوں نظر آتی ہے۔ پھر یہ بھی واضح رہے کہ اسلام کے حدود ایسے تنگ بھی نہیں جیسے مسٹر ڈکنسن نے سمجھ رکھے تھے۔ قرآن جس وقت عامہ خلائق کو اتفا ق و اشتراک کے لیے صلائے عام دیتا ہے تو ان کے جزئی اختلافات کو بالکل نظر انداز کر کے کہتا ہے : قل تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم (ص ۳۹۱‘۲۹۲) اس کے بعد اقبا ل نے ڈکنسن کی ایک اور معتصبانہ غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ اسلام کو ایک خون ریز مذہب سمجھنے کاجو معتصبانہ خیال یورپ میں قدیم سے چلا آتا ہے۔ وہ ڈکنسن صاحب کے سر پر بھی سوار ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ نہ صرف مسلمان بلکہ کافہ انام اسلام عقیدے کی رو سے آسمانی بادشاہت میں داخل ہونے کے لائق ہے بشرطیکہ نسل و قوم کے اصنام کو توڑ دیا جائے اور ایک دوسرے کی خودی اور انا کو تسلیم کر لیاجائے۔ مجالس اقوام حکم برداریاں صلح نامے ‘ اورفرا مین شاہی خواہ ان میں جمہوریت کا کتنا ہی رنگ بھر ا جائے کسی طرح نوع انسانی کے لیے باعث فوز و فلاح نہیںبن سکتے۔ انسان کی فلاح صرف اس میں ہے کہ سب کو بالکل مساوی و آزاد سمجھا جائے۔ ضرورت اس کی ہے کہ سائنس کا مصرف جو اب تک دنیا کی ویرانی و بربادی میںہوتا رہا ہے۔ سرے سے اس کو الٹ دیا جائے اور مخفی سیاسیات کو جس کا مقصود اب تک صرف اس قدر رہا ہے کہ جو قومیں زیادہ طاقت ور اور زیادہ ہوشیار نہیںان کو برباد کیا جائے ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا جائے۔ بے شک دوسری قوموں کی طرح مسلمانو ں نے بھی جنگجوئی و تسخیر ممالک سے کام لیا ہے اور مجھے اس سے بھی انکار نہیں کہ ان میں سے بعض نے اپنی ذاتی حرص و ہوس ہو جامہ مذہب پہنایا ہے بایں ہمہ میں یہ ازعان کامل کے ساتھ کہتا ہوں کہ ملک گیری عقائد اسلام میں ہرگزد اخل نہیں ہے بلکہ میرا تو یہ خیال ہے کہ مسلمانوں کے فتوحات اور کشور کشائیوں نے ہی اس مبارک نظام جمہوریت اور معاشرت کے نشوونما کو روک دیا۔ جس کی تخم ریزی قرآن و احادیث نبوی کے صفحات میں کی گئی تھی۔ یہ ضرور ہوا کہ مسلمانوں نے بڑی بڑی سلطنتیں قائم کر لیں۔ لیکن اس کے لیے انہیں اپنے بعض اہم ترین اصول قربان کرنے پڑے اور اسلام کے سیاسی مطمح نظر پر قدیم مشرکانہ رنگ پھر دوڑ گیا۔ اس کے بعد چین میں محض دعوت و تبلیغ کے اثر سے کروڑوں مسلمانوں کی موجودگی کی مثال دے کر اقبال کہتے ہیں کہ بغیر کسی قسم کے جبر و اکراہ اور سیاسی قوت کے شمول کے بھی اسلام بخوبی پھیل سکتا ہے۔ ڈکنسن کے الزام تعصب کیرد میں وہ کہتے ہیں کہ میںنے بیس برس سے زاید دنیا کے فلسفے کا مطالعہ کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس بنا پر رائے قائم کرنے میں بے تعصبی برت سکتا ہوں میری فارسی مثنویوں کا مدعا اسلام کی وکالت نہیں بلکہ مقصود صرف اس قدر تھا کہ دنیا کے سامنے ایک عالم و عالمگیر تعمیر ی نصب العین پیش کرو ں‘ لیکن اس نصب العین کا خاکہ تیار کرتے وقت مجھے ناممکن معلوم ہوا کہ اس نظام معاشرت کو سرے سے نظر انداز کر جائوں جس کی غایت وجود یہ ہے کہ ذات پات دولت و مرتبہ نسل و قم کے امتیازات کو مٹا دیا جائے اور جس کی تعلیم یہ ہے کہ ایک طرف معاملات دنیوی کو بھی برتا جائے۔ اور دوسری طرف انسان معاملات میں اغراض دنیوی سے بالکل قطع نظر کر کے محض احکام الٰہی پر نظر رکھے۔ یورپ اس قدیم تعلیم سے بیگانہ ہے۔ یہ درس ہم اس کو دے سکتے ہیں (ص ۲۹۱تا ۲۹۴) آخر میںکچھ وضاحتیں نکلسن کے لیے بھی ہیں۔ اول تو اقبال یہ کہتے ہیں کہ میں نے جو یادداشتیں آپ کو لکھ بھیجی تھیں اورج نہیں آپ نے اپنے مقدمہ اسرار خودی میں شامل کر دیا ہے ان میں بالمقصد میں نے اپنے اور مغربی حکماء کے خیالات کے مابین تعلقات دکھائے تھے۔ اس خیال سے کہ ا س سے انگلستان میں میرے خیالات سمجھنے میںسہولت رہے گی ورنہ اگر میںچاہتا تو بہت آصانی سے اپنے خیالا ت کے لیے سر رشتہ اسناد قرآن اور مسلمان صوفیہ و حکماء کے اقوال پیش کر سکتا تھا۔ بلکہ اسرار طبع اول کے دیباچے میں جو ہندوستان میںشائع ہوا تھا میں نے یہی کیا بھی تھا۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ میں دعوے کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسرار کا فلسفہ جو کچھ ہے وہ قدیم مسلمان صوفیہ و حکماء ہی کی تعلیمات کا تکملہ ہے۔ برگسان نے دہر و زمان کی جو تشریح کی ہے وہ تک ہہمارے ہاں کے تصوف میں بھی موجود ہے۔ قرآن اگرچہ کوئی فلسفے کی کتاب نہیں ہے تاہم حیات انسانی کے مقصد و رفتار کے متعلق اس میں بھی متعین ہدایات موجود ہیں جن کا منبیٰ بالآخر بعض اصول حکمیہ ہی ہیں۔ انہی قدیم اصول کا اگر کوئی موجودہ مسلمان متعلم فلسفہ آج اعادہ کرے اور وہ بھی قرآن اور فلسفہ ماخوذ از قرآن کی روشنی میں تو اس پر پرانی بوتلوں میںنئی شراب بھرنے کا اطلاق کرنا جیسا کہ ڈکنسن نے کیا ہے کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔ یہ تو محض قدیم متن کی تفسیر جدید تجربات کی روشنی میں ہے۔ مقام تاسف ہے کہ مغرب اسلامی فلسفے سے اس قدر نا آشنا ہے۔ مجھے اس مبحث پر ایک ضخیم کتاب لکھنے کی فرصت ہوتی تو میں یورپ کے علمائے فلسفہ کو بتا سکتا کہ ہمارے اور ان کے فلسفے میں کسی بڑٰ حد تک اشتراک ہے (ص ۲۹۴) باوجود ان کے اس مسکت جواب کے جو وہ ۱۹۲۱ء ہی میں دے چکے تھے۔ اقبا ل کے بعض کرم فرما آج تک انہی پرانے اعتراضات کو تواتر و تسلسل کے ساتھ اٹھاتے چلے آتے ہیں تاکہ اقبال کے تاثرات میں کمی ہو۔ بہر کیف مدیر معارف نے اقبال کی اس اہم تحریر کی افادیت کو محسوس کر کے اسی زمنے میں اردو ترجمے کی صورت میں شائع کر دیا تھا اور پوری دیانت کے ساتھ یعنی اس سے قبل میں ان دونوں تبصروں کا ترجمہ بھی شائع کیا جن کے بعض نکات کی تردید اقبال نے اپنی اس تحریر میںکی تھی۔ اقبال کے سلسلے میں معارف کی ایک اہم تجویز جنوری ۱۹۲۲ء کے شذرات میںملتی ہے۔ مدیر معارف نے اپنے شذرات میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اس فیصلے پر تنقید کے ساتھ کہا کہ شاہزادہ ولی عہد برطانیہ اور ان کے ساتھ گورنر صوبہ متحدہ ممبر تعلیمات حکومت ہند مہاراجہ گوالیار اور نواب صاحب رام پور کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دی جائیں…تجویز پیش کی ہے کہ اعزازی ڈگریاں ارباب علم و فضل کو دی جانی چاہئیں اور ایسے فضلا س قطع نظر جن کی سیاسیات مسلم یونیورسٹی کے نزدیک ایک غیر پسندیدہ ہے اپنی طرف سے بعض ایسے فضلا کے نام بھی پیش کیے جو اہل موالات میں سے ہیں اور اس اعزاز کے مستحق بھی ہیں یعنی سید امیر علی‘ عما د الملک سید حسین بلگرامی‘ ڈاکٹر اقبال‘ جسٹس عبدالرحیم اور عبدالحلیم شرر۔ مدیر معار ف لکھتے ہیں: ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جس کی بابت امیدیں دلائی گئی تھیں کہ وہ قرطبہ اور بغداد کی جانشین ہو گی بالآخر وجود میں آ گئی تو اس کا سب سے پہلا کار نمایاں دنیا کے سامنے یہ پیش ہوتاہے کہ ۱۲ فروری کو شاہزادہ ولی عہد بہادر مسلم یونیورسٹی کی سرزمین وک اپنے درود سے مشرف کریں گے۔ یونیورسٹی انہیں ڈاکٹر کی اعزازی ڈگری دے گی اور ان کے ساتھ چار اور صاحبوں کو بھی ڈاکٹر کی اعزازی ڈگری عطا ہو گی۔ یہ قابل اعزاز اصحاب اربعہ کون ہیں؟ گورنر صوبہ متحدہ ممبر تعلیمات حکومت ہند‘ مہاراجہ صاحب گوالیار‘ اور نواب صاحب رامپور۔ اس سے قطع نظر کر کے مسلم یونیورسٹی کی یہ انگریز نوازی موجودہ قومی جذبات کے کہاں تک موافق ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن خوش نصیب اصحاب اربعہ پر یہ اعزاز کی بارش ہونے والی ہے وہ واقعتہ ً اس اعزاز سے کچھ بھی مناسبت رکھتے ہیں؟ اس سوال کا جواب آج مسلم یونیورسٹی کے ارباب حل و عقد آسانی سے ٹال سکتے ہیں لیکن ایک وقت آنے والا ہے جب یہ سوال اس آسانی سے نہ ٹل سکے گا۔ اور جب دنیا کی ہر امانت کی طرح اس امانت کا بھی حساب دینے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ بہتر ہو گا کہ اس وقت کے لیے کوئی بھی معقول جواب ابھی سے سوچ لیا جائے۔ یونیورسٹیوں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ علم و اخلاق کی روایات کو زندہ رکھا جائے ۔ اور ان کی زندگی ترقی دی جاتی رہے‘ آنریری ڈگری اعزاز ہے جو کوئی یونیورسٹی اپنے اصل مقاصد کے لحاظ سے کسی فرد کو دے سکتی ہے۔ باقی اگر کسی دولت مند نے باوجود علم و اخلاق سے معرا ہونے کے یونیورسٹی کی مالی مدد کی ہے تواس احسان کے اعتراف کے لیے یونیورسٹی کے پاس اور بہت سی صورتیں ہیں مثلاً یہ کہ اسے یونیورسٹی کا ریکٹر منتخب کر دیا جائے اور اس کے نام پر کوئی عمارت یونیورسٹی میں تعمیر کرا دی جائے و قس علی ھذا… دنیا کی دوسری یونیورسٹیوں میں آنریری ڈگریاں جس درجے کا ملین فنون و اساتذہ علوم کو ملتی رہتی ہیں اس کی توضیح کے لیے یورپ اور امریکہ سے مثالیں تلاش کر کے لانے کی حاجت نہیں ہندوستا ن میں علی گڑھ سے چند قدم پر بنارس اور ذرا اور آگے بڑھ کر کلکتہ ہے ولی عہد بہادر کا استقبال ان دونوں جگہوں پر بھی ہوا۔ آخر ان یونیورسٹیوں نے اس موقعے پر کیا کیا؟ بنارس کی ہندو یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی آنریری ڈگری دی مگر کس کو؟ مسز بسنٹ کو جن کے ہاتھوں ہندو کالج کی بنیاد پڑی تھی۔ جن کی ایک عمر ہندو علوم و فنون کی ترویج و اشاعت میں بسر ہو چکی تھی۔ اور جن کی علمی و دماغی قابلیت کا اعتراف ملک کے نہیں دنیا کے گوشے گوشے سے ہو چکا ہے۔ کلکتے کی سرکاری یوینورسٹی نے متعدد اشخاص کوڈاکٹریٹ کی آنریری ڈگریاں دیں مگر یہ کون لوگ تھے؟ یہ وہ تھے جو اپنی عمر یں فلسفہ‘ سائنس تاریخ و ادب کی خدمت گزاری میں صرف کر چکے ہیں جن کانام علمی دنیا کے بچے بچے کی زبا ن پر ہے اور جن کی عزت و تعظیم کرنا خود علم و فن کی عزت و تعظیم کرنا ہے۔ مسلمانوں میں بے شک قحط الرجال ہے لیکن کیا قحط اس قدر سخت ہے کہ مسلم یونیورسٹی کو اپنے اخوان طریقت میں چند افراد بھی اس پایے کے نظر نہ آئے کہ ان لوگوں سے قطع نظر کیجیے جن کی سیاسیات مسلم یونیورسٹی کے نزدیک قابل نفرت ہے تو بھی کیا اہل موالات میں ایک متنفس بھی اس پایے کا نہیں نکل سکتا؟ سید امیر علی کی خدمات تاریخ و مذہب ‘ عماد الملک سید حسین بلگرامی کا علم و فضل و تعلق علی گڑھ ڈاکٹر اقبال کی فلسفیانہ و ادبی عظمت جسٹس عبدالرحیم کی قانونی وسعت نظر مولوی عبدالحلیم شرر کی خدمات زبان و ادب شاید یہ تمام قربانیاں مسلم یونیورسٹی کی درگاہ میں ناقابل قبول ہیں‘‘۔ (ص ۵ تا ۷) جولائی ۱۹۲۲ء کے شذرات میں اس مسئلے کاذکر پھر آتا ہے۔ ماہ گزشتہ میں برطانیہ کی ایک ممتاز یونیورسٹی کی طرف سے ایک اداکارہ مس ایمن ٹیری کو بھی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دیے جانے کی خبر آ چکی تھی۔ اس لیے مدیر معارف نے لکھا کہ پچھلی ششماہی میں ہماری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ملک کے بعض رنگین طبع امرا کوعلمی خطابات سے متفخر کرنے کی جو تجویز فرمائی تھی اس کے لیے سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی کے اس طرز عمل سے زیادہ واضح اور مستند سند جواز اورکہاں سے ہاتھ آ سکتی ہے‘‘۔ (ص ۴) جنوری ۱۹۲۳ء کے شمارے میں شذرات میں پھر ذکر اقبال آتا ہے اور موقع ہے کہ اقبال کو سر کا خطاب ملنے کا مدیر معارف کو شکایت ہے کہ حکومت نے تاخیر سے قدردانی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’سال نو کے عجائبات خطاب میں ڈاکٹر اقبال کا سر اقبال بن جانا ہے۔ اگر حکومت نے ہمارے قومی شاعر کی یہ علمی قدردانی کی ہے تو یہ فال نیک مبارک ہو۔ اور اس کے ساتھ یہ اس امر کا تازہ ثبوت ہے کہ ہماری ملکی زبان کے خدمت گزاروں کی قدردانی انگریز اوس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک ان کے خیالات رومن خط میں ان کے پیش نظر نہ ہوں ڈاکٹر اقبال بیس برس سے مختلف مشرقی زبانوں میں اپنے افکار نادرہ اور جذبات عالیہ کا اظہار کر رہے ہیں لیکن ہماری حکومت نے ان کا اعراف اس وقت کیا جب پروفیسر نکلسن کے قلم سے ان کے بعض رموز و اسرار شاعرانہ انگلستان کی بزم سخن میں جا کر فاش ہوئے‘‘ (ص ۸) اگست ۱۹۲۳ء کے شمار ے میں اقبال کی مشہور فارسی نظم نغمہ ساربان حجاز کے عنوان سے چھپی ہے جس کے آٹھ بند ہیں اور جو یوں شروع ہوتی ہے۔ درہم و دینار من دولت بیدارمن… (ص۳۷) ۔ غالباً تازہ ہو گی۔ یعنی اسی زمانے میں کہی گئی ہو گی جبکہ معارف میں چھپی ہے۔ اپریل اور مئی ۱۹۲۴ء کے دو شماروں میں اقبال کی بھیجی ہوئی دو فارسی غزلیں بعنوان انوار منیر چھپی ہیں جن پر محمد اختر منیر سیاح ایران و عراق در بغداد کا نام درج ہے اور مرسلہ اقبال کی صڑاحت بھی موجود ہے اپریل کے شمارے والی غزل کا مطلع یہ ہے: جہان من پر از سامان و سامانے نمی بینم چہ درما نہا بہر دردے و درمانے نمی بینم (ص۳۱۴) مئی ۱۹۲۴ء کے شمارے میں قافیہ و ردیف کی تبدیلی کے ساتھ غزل اس مطلعے سے شروع ہوتی ہے: بہار و بوستان و سبزہ و نسریں نمی خواہم لب جوی و لب جام و لب نوشیں نمی خواہم (ص۳۸۹) محمد اختر منیر اور اقبال سے ان کے مراسم کے بارے میں ممکن ہے کوئی واقفیت مزید معلومات بہم پہنچا سکے۔ جنوری تا جون ۱۹۲۴ء کے کسی درمیانی شمارے (غالباً فروری ۱۹۲۴ئ) میں بھی اقبال کا کلام شائع ہوا تھا جیسا کہ پیش نظر فہرست مضمون نگار ان معارف جلد سیز دہم میں شعرا کی فہرست سے معلوم ہوتاہے۔ اس جلد کے ص ۱۴۴ پر کلام اقبال چھپا تھا لیکن وہ خاص شمارہ اس وقت ہمدست نہیں۔ جنوری ۱۹۲۵ء کے شمارے میں شذرات عبدالسلام ندوی کے قولم سے ہیں جیسا کہ فہرست مضامین درج ہے ۔ اور اس میں اس خبر پر اظہار مسرت کیا گیا ہے کہ مسلم یونیورسٹی نے اقبال اور سید امیر علی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کا فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ ابتداً یہ تجویز معارف ہی کے شذرات میں پیش کی گئی تھی وہ لکھتے ہیں: ’’ہم کو نہایت مسرت ہوئی کہ مسلم یونیورسٹی نے صاحب زادہ آفتاب احمد خاں کے دور حکومت میں علم پرستی شروع کر دی ہے ۔ اور اس سلسلے میں ڈاکٹر اقبال اور سید امیر علی کو ڈاکٹری کی اعزازی ڈگری دینے کا فیصلہ کیا ہے اس نے گزشتہ سال اسکے لیے جس مرغ زریں بال کا انتخاب کیا تھا۔ اس کو دیکھتے ہوئے ہم کو یہ بالکل توقع نہیں تھی کہ وہ کبھی ان لوگوں پر بھی اپنی غلط نگاہ ڈالے گی جو خواہ مخواہ سفید فلس کیپ کاغذ کو سیاہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہم خوش ہیں کہ صاحب زادہ صاحب نے اس خیال کو غلط ثابت کیا ہے۔ او ر اب اگر ہمارا جدید تعلیم یافتہ گروہ مسلم یونیورسٹی کی ڈگری کو وقعت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو ہم کو یقین ہے کہ ہماری یونیورسٹی کا یہ حسن انتخاب اس کے بعض افراد کو دوسرے قومی و ذاتی مشاغل کے ساتھ علمی خدمات کی طرف بھی متوجہ کرے گا‘‘۔ (ص۴‘۴)۔ اسی شمارے میں اقبال کا ایک ضمنی ذکر علامہ شروانی کے عنوان سے مولانا حبیب الرحمان شروانی کے خاندانی و شخصی حالات و علمی و تعلیمی اور دیگر کارناموں پر سید منظر علی وقار (حیدر آبا د دکن) کے قلم سے نکلا ہے جس میں ان شعرائے اردو میں جن کی نغز گوئی سے مولانا شروانی شاد کام ہوئے ہیں اقبال کا نام بھی آتا ہے (ص ۴۰) اسی شمارے میں نیٹشے کے فلسفہ اخلاق پر بھی ایک مضمون چھپا ہے جوسید مظفر الدین ندوی کے قلم سے ہے اورجس میں نیٹشے کے بارے میں پیام مشرق سے کچھ اشعار بھی دیے گئے ہیں۔ اس مضمون کی ضرورت در حقیقت اردو داں حلقے کے لیے اقبالیات ہی کے ذیل میں آتی ہے جس کو معارف نے اسی زمانے میں پورا کر دیا تھا۔ اسی طرح مئی ۱۹۲۶ء کے شمارے میں سید محمد محسن ترمذی کا ایک عمدہ مضمون علم التاریخ نکلا ہے جس کا خاتمہ اقبال کے ان اشعار پر ہوتا ہے: آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے (ص۔۳۵) یہیں پر اس جائز ے کو ختم کیا جاتا ہے جو معارف کے ابتدائی دس برسوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس جائزے کو اقبال او ر سید سلیمان ندوی کے مکتوبات کی روشنی میں غالباً مفید بنایا جا سکتا ہے بہرکیف اس جزوی جائزے سے بھی اقبالیات کے سلسلے میں کئی مفید معلومات ملتی ہیں اوریہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ مدیر معارف کے نزدیک جو ترک موالات کے قائل تھے اور اقبال اہل موالات میں سے تھے اور اسرارخودی کے ایک نکتے سے بھی انہیں اختلاف تھا۔ سر کے خطاب سے بھی کچھ سر مہری تھی بایں ہمہ انہوں نے اقبال کے بلند قومی مرتبے اور اعلیٰ خدمات علم و فضل اور شاعرانہ کمالات کے ذکر سے مسلسل معارف کے صفحات کو مزین رکھا۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سامنے معارف ہی نے اول اول تجویز پیش کی کہ ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری اقبال کو دی جائے اوراس طرح اقبال پر نہیں ملت پر ایک احسان کیا کہ اپنے ا س محسن کو مسلسل یاد رکھنے اور پہچاننے کا فرض ملت کو اس ابتدائی زمانے میں سجھایاجبکہ اقبال کے بعض نکتہ چین لفظی فرفت سے آگے کی بات سوچتے ہی نہیں تھے۔ ٭٭٭ اقبال اور اقتصادیات ڈاکٹر مرزا امجد علی بیگ حکیم الامت اور شاعر مشرق یا نظریہ پاکستان کے خالق کی حیثیت سے تو لوگ علامہ اقبال سے متعارف ہیں لیکن ان کی اقتصادیات سے دلچسپی پر ذرا کم ہی بحث ہوتی ہے۔ حالانکہ ان کی علمی اور تحقیقی کوششوں کا پہلا ثمر علم الاقتصاد نام کی ایک کتاب ہے جو انہوں نے ۱۹۰۳ء میں شائع کی جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوا کرتے تھے ۱؎۔ خود ڈاکٹر اقبا ل نے مہاراجہ کشن پرشاد بہادر کوایک خط میں لکھا ہے کہ علم الاقتصاد پر سب سے پہلے مستندکتاب میں نے لکھی ہے ۲؎۔ قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی نے اقبالیات کے تنقیدی جائزے میں جو ۱۹۵۵ء میں شائع ہوا فرمایاہے کہ یہ کتاب ۱۹۰۱ء میں شائع ہوئی تھی اور اب نایاب ہے۔ اس کا اصل مسودہ اقبال نے عطیہ بیگم کو دیا تھا۔ اپنی اس تصنیف کواقبال نے خود بھی کوئی اہمیت نہ ری اور اس کی دوسری اشاعت کی کبھی نوبت ہی نہ آئی ۳؎۔ اور بقول ممتاز حسن صاحب اشاعت تو درکنار یہ کتاب نظروں سے ایسی غائب ہوئی کہ کہٰں سے ایک نسخہ مہیا کرنا دشوار ہو گیا۔ خوش قسمتی سے لاہور کی پبلک لائبریری میں اس کا ایک نسخہ دستیاب ہو گیا۔ اسے عاریتاً اکاڈمی نے حاصل کیا اور ۱۹۶۱ء میں اسے شائع کر ایا ۴؎۔ اس ایڈیشن میں ممتا ز حسن صاحب کا پیش لفظ اور ڈاکٹر انور اقبال قریشی سابق مشیر اقتصادیات حکومت پاکستان کا مقدمہ شامل ہے۔ مجلہ اقبال ریویو کے مدیر معاون جناب خورشید احمد نے نسخے کے متن کی تصحیح انجام دی ہے اور متن پر حواشی بھی لکھے ہیں۔ انگریزی اصطلاحات اور ان کی وضاحٹ بھی حاشیے میں درج کی گئی ہے۔ چونکہ عا م طور سے لوگوں نے اس کتاب کا مطالعہ کم کر دیا ہے۔ لہٰذا اس مختصر مقالے میں کتاب علم الاقتصاد کی نمایاں خصوصیات واضح کرنے کے بعد چند اہم معاشی موضوعات پر علامہ اقبال کے خیالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ علم الاقتصاد ڈاکٹر اقبال کے یور پ جانے سے دو برس پیشتر شائع ہوئی۔ اس تصنیف کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مصنف نے اقتصادیات کی باقاعدہ تعلیم کالج میں حاصل نہیں کی بی اے میں انگریزی فلسفہ اور عربی اقبال کے اختیاری مضامین تھے ۔ ۱۸۹۹ء میں انہوں نے فسلفے میں ایم اے کیا علم الاقتصاد ایم اے کرنے کے چار سال بعد ہوئی۔ انور اقبال قریشی نے اپنے دیباچے میں فرمایا ہے کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ خیال پیدا ہو ا کہ اقبال نے اپنی کیمبرج کی تعلیم کے دوران میں معاشیات پر پروفیسر مارشل کے لیکچرضرور سنے ہوں گے کیونکہ اس زمانے میں مارشل کا کیمبرج میں بہت شہرہ تھا۔ اور یہ کتاب ان لیکچروں سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہو گئی۔ کتاب کو زیادہ غور سے پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس میں پروفیسر ٹاسگ کا اثر زیادہ نمایاں ہے لیکن میری حیرت کی انتہانہ رہی جب مجھے پتا چلا کہ علم الاقتصاد ۱۹۰۳ء میں شائع ہوئی اور اقبال ۱۹۰۵ء میں انگلستان گئے۔ اس وقت تک ٹاسگ کی کتاب شائع نہیں ہوئی تھی۔ اور مارشل کے لیکچروں سے متاثر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا تھا‘‘۔ ا س تصنیف کے مآخذ کے سلسلے میں مصنف کا اپنا دیباچہ جو کتاب علم الاقتصاد پر تحریر کیا گیا ہے ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہے ۔ علامہ نے فرمایا ہے کہ اس دیباچے میں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ یہ کتاب کسی خاص انگریزی کتاب کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ اس کے مضامین مخلف مشہور اور مستند کتب سے اخذ کیے گئے ہیں اور بعض جگہ میں نے اپنی رائے کا اظہار بھی کیا ہے ۶؎۔ اس ضمن میں ی نکتہ بھی اہم ہے کہ پروفیسر مارشل کی کتاب اصول اقتصادیات Principles of Economy کاپہلا ایڈیشن ۱۸۹۰ء میں شائع ہو چکا تھا۔ ۱۸۹۱ء میں دوسرا ایڈیشن ۱۸۹۵ء میں تیسرا ایڈیشن اور ۱۸۹۸ء میں چوتھا ایڈیشن منظر عام پر آ چکا تھا۔ یعنی ۱۹۰۳ء میں جب اقبال کی کتاب علم الاقتصاد شائع ہوئی تو اس وقت تک مارشل کی شہرہ آفاق تصنیف اصول اقتصادیات کے چار ایڈیشن شائع ہو چکے تھے۔ چونکہ اقبال نے خود اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے مستند کتب سے استفادہ کیا ہے لہٰذا یہ نتیجہ اخذ کرنا بیجا نہ ہو گا کہ انہوں نے مارشل سے بھی استفادہ کیا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مارشل سے استفادے کے واضح ثبوت اس تصنیف میں موجودہیں۔ ابتدائی ابواب کے کئی پیراگراف مارشل کی کتاب اصول اقتصادیات کا بلا واسطہ ترجمہ معلوم ہوتے ہیں ورنہ یہ تو ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس تصنیف سے متاثر ہو کر قلمبند کیے گئے ہیں ۷؎‘‘۔ اقبا ل نے اس دیباچے میں اپنے مربی و محسن ڈاکٹر آرنلڈ کا بھی ذکر کیاہے کہ ان کے فیضان صحبت اور تحریک سے یہ تصنیف معرض وجود میں آئی۔ لالہ جیا رام اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور اور اپنے ہم جماعت فضل حسین (جو بعدمیں سر فضل حسین کے نام سے مشہور ہوئے) کے تعاون کا اعتراف بھی اس دیباچے میں موجود ہے کیونکہ اقبال نے ان حضرات کے کتب خانوں سے استفادہ کیا تھا۔ کتاب علم الاقتصا د پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ جلد اول میں صرف ایک باب ہے اور اس میں علم الاقتصاد کی ماہیت اور اس کے طریق تحقیق پر بحث کی گئی ہے۔ حصہ دوم میں جو پیدائش دولت سے متعلق ہے چار ابواب ہیں جو بالترتیب زمین محنت سرمایہ اور پیدائش دولت کے لحاظ سے کسی قوم کی قابلیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ حصہ سوم میں تبادلہ دولت کے چھ ابواب ہیں۔ مسئلہ قدر تجارت بین الاقوام زر نقد کی ماہیت اور اس کی قدر حق الضرب‘ زر کاغذی اور اعتبار اور اس کی اہمیت پر بحث کی گئی ہے۔ حصہ چہارم یعنی پیداوار دولت کے حصہ دار کے ذیل میں بھی چھ ابواب ہیں جن میں لگان سود منافع‘ اجرت‘ دستکاروں کی حالت پر مقابلہ نامکمل کا اثر اور مالگزاری کا جائزہ لیا گیا ہے۔ حصہ پنجم کے تین ابواب ہیں جن میں آبادی وجہ معیشت جدید ضروریات کی افزائش اور صرف دولت کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۸؎۔ اس مختصر مقالے میںتمام موضوعات پر سرسری سا تبصرہ بھی ناممکن ہے ۔ اس لیے صرف تین اہم موضوعات یعنی ملکیت زمین‘ بے قید معیشت‘ اور تعلیم کی اقتصادی اہمیت پر اقبال کے خیالات کا ایک مختصر سا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ اپنی کتاب علم الاقتصاد کے چوتھے حصے میں جہاں پیداوار دولت کے حصہ داروں کا مفصل جائزہ پیش کیا گیا ہے اس کے پہلے باب میں جولگان سے متعلق ہے اقبال نے فرمایا ہے کہ جائداد شخصی کی صورت میں لگان خود بخود پیدا ہوتا ہے۔ جوں جوں آبادی بڑھتی جاتی ہے جو زمینیں افزائش آبادی کے پیشتر کاشت کی جاتی تھیں ان کا لگان بڑھ جاتا ہے۔ زمیندار روز بروز دولت مند ہوتے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ مزید دولت جو ان کو ملتی ہے نہ ان کی اپنی کوششوں سے اور نہ ان کی زمینوں کے محاصل کی مقدار بڑھنے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ لہٰذا بعض حکما کے نزدیک زمین کسی خاص فرد کی ملکیت نہیں بلکہ قومی ملکیت ہونی چاہیے۔ یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ لگان کی یہ زائد مقدار جو آبادی کی زیادتی کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ سرکار قوم کا حق ہے کہ نہ کہ زمین داروں کا۔ یہ ایک دلچسپ بحث ہے لیکن چونکہ ابتدائی کتاب اس کے لیے موزوں نہیں اس واسطے ہم اسے نظر انداز کرتے ہیں۔ ۹؎ علم الاقتصاد کی ابتدائی کتاب میں تو اقبال نے اس مسئلے پرتفصیلی بحث سے گریز کیا ہے لیکن جب ان کی شاعری جزو پیغمبری بنی تو زبور عجم میںانہوںنے ایک انقلابی نعرہ بلند کیا: خواجہ از خون رگ مزدور ساز و لعل ناب از جفائے وہ خدایاں کار دہقاناں خراب انقلاب انقلاب اے انقلاب!! یا وہ خدایا یہ زمیں میری نہیں تیری ہے تیرے آبا کی نہیں میری نہیں تیری نہیں بلکہ ارض اللہ ہے ابلیس کی مجلس شوریٰ میں جہاں ابلیس نے اندیشے ظاہر کیے ہیں کہ : عصر حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں وہاں بھی ملکیت زمیں کا تذکرہ کیا ہے: اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین ۱۹۰۳ء میں جب علم الاقتصاد شائع ہوئی تو سرمایہ دارانہ نظام کا بول بالا تھا اس اقتصادی نظام میں نجی ملکیت کے ساتھ ساتھ حکومت کی مداخلت سے آزاد اور بے لگام معیشت اہم حیثیت رکھتی ہے اقبال نے بے قید معیشت پر اپنی پہلی تصنیف ہی میں ناقدانہ تبصرہ کیاہے۔ عاملین پیدائش کی اجرت کا تجزیہ کرت یہوئے دستکاروں کی حالت رپ مقابلہ نامکمل اثرات پر بحچ کی ہے اور بے قید معیشت کی خامیوں کی نشان دہی فرمائی ہے۔ حکما کا ایک طبقہ جس کو حکمائے متوکلین کے نام سے موسو م کرنا چاہیے کہتا ہے ک موجودہ نظام صنعت میں قوانین وغیرہ کی مدد سے کوئی دست اندازی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کو تمام قانونی اور دیگر قیود سے آزاد کر کے اس با ت پر اعتماد کرنا چاہیے کہ بالآخر جو کچھ ہو گا نوع انسان کے لیے اچھا ہو گا۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقی آزادی قیود کو دور کرنے سے حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ بعض قیود ایسے ہوتے ہیں جن سے آزادی کا دائرہ اور زیادہ وسیع ہو جاتا ہے ۱۰؎۔ ۱۹۰۳ء سے پہلے بھی بے قید معیشت یا سرمایہ دارانہ نظام کے متعلق علامہ کی رائے بہت اچھی نہ تھی۔ یہ آب جو آگے بڑھ کر دریائے تند و تیز کی شکل اختیار کرتی ہے اور طلوع اسلام میں وہ فرماتے ہیں: تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے یا لینن خدا کے حضور فریادی ہے: کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری منتظر روز مکافات علم الاقتصاد میں دستکاروں کی حالت کا تجزیہ اور اجرت کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اقبال مزدور کی حمایت کرتے ہیںاور اس کی اجرت میں اضافے کی تجاویز پیش کرتے ہیں۔ یہی انداز ان کی شاعر ی میں بھی نمایاں ہے بندہ مزدور کے اوقات کی تلخی اور سرمایہ داری کی حیلہ گری پر جا بجا تنقید کی ہے۔ بال جبریل میں لینن خدا کے حضور میں عرض پرداز ہے: تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات اس ضمن میں ایک ضروری بات یہ بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اگرچہ سرمایہ دار اورمزدور کی جنگ میں اقبال مزدور کے حامی ہیں اور لینن اور کارل مارکس کی زبان سے انہوں نے بہت کچھ کہا ہے اور کہلوایا ہے مگر وہ روسی اشتراکیت کو جو مساوات شکم سے زیادہ نہیں لادینیت اور منفیت کا مظاہرہ سمجھتے ہیں ۱۱؎۔ روس را قلب و جگر گردید خوں از ضمیرش حرف لا آمد بروں کردہ ام اندر مقاماتش نگاہ لا سلاطیں لا کلیسا لا الہ فکر او در تند باد لا بماند مرکب خود را سوائے الا نراند در مقام لانیا ساید حیات سوئے الا می خرامد کائنات بے قید معیشت پر مختلف زاویوں سے تنقید کرنے والوں کی کبھی کمی نہیں لیکن مرض کی تشخیص کے بعد صحیح علاج کی کوشش کم کی گئی ہے۔ ۱۹۰۳ء میں اقبال نے کئی ایسے عوامل کی نشاندہی کی ہے جو قومی ترقی کیلیے بے حد اہم ہیں۔ مثلاً قومی تعلیم تحدید نسل اور صرف دولت وغیرہ اور جن پر موجودہ زمانے میں کافی تحقیق کی جار ہی ہے۔ تحدید نسل اور صرف دولت پر شرح و بسط کے ساتھ علیحدہ تبصر کی ضرورت ہے۔ اس مختصر مقالے میں تعلیم کی اقتصادی اہمیت پر مختصراً روشنی ڈالی جائے گی۔ عاملین پیدائش کی اجرت کا تجزیہ یوں تو اقتصادیات کی ہر کتاب کا ایک ضروری جزو ہوتا ہے۔ لیکن اقبال کی اس تصنیف میں ایک علیحدہ باب میں دستکاروں کی حالت پر مقابلہ نامکمل کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اوراجرت کے متعلق اس زمانے کے مستند نظریات بیان کرنے کے بعد انہوںنے فرمایا ہے: ’’ہمارے نزدیک کمی اجرت کا مفید ترین نسخہ قومی تعلیم ہے یہ وہ چیز ہے جس سے دستکار کا ہنر اس کی محنت کی کارکردگی اور اس کی ذہانت ترقی کرتی ہے۔ اس کے اخلاق سنورتے ہیں اور وہ اس قابل بنتاہے کہ اس پر اعتماد کیا جائے تعلیم کی مددسے دستکار اپنے کام کو سہولت کے ساتھ کر لینے کی راہیں سوچ سکتا ہے۔ اور شراب خوری اور ہر قسم کی غلط کاری سے محفوظ رہتا ہے۔ جو بالعموم جہالت اور نا عاقبت اندیشی کا نتیجہ ہوا کرتا ہے ۱۲؎‘‘۔ قومی تعلیم کا خیال ہمیشہ ان کے ذہن میں موجود رہا۔ علم الاقتصاد کی تصنیف کے زمانے میں یا اس سے کچھ پہلے سید کی لوح ترتیب کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے اس میں بھی قومی تعلیم کا تذکرہ ہے۔ مدعا تیرا اگر دنیا میں ہو تعلیم دیں ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں یہ اقبال کے دور اول کی شاعری ہے۔ شاعری کے دوسرے دور میں طلبہ علی گڑھ کالج کے نام جو پیغام ہے اس میں بالواسطہ تعلیم کے مقصد کی طرف اشارہ ہے: آتی تھی کوہ سے صدا راز حیات ہے سکوں کہتا تھا مور ناتواں لطف خرام اور ہے موت ہے عیش جاوداں ذوق طلب اگرنہ ہو گردش آدمی ہے اور گردش جام اور ہے شمع سحر یہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا راز غم کدہ نمود میں شرط دوام اور ہے دور سوم کی شاعری میں اورپھرا سرار و رموز بال جبریل اور ضرب کلیم میں تعلیم وتربیت کے مختلف پہلوئوں پر کھل کر اظہار خیال فرمایا ہے مولانا عبدالسلام ندوی نے اقبال کامل میں تعلیم کے موضوع پر اقبال کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی شاعری کے پہلے اور دوسرے دور میں تعلیم پر کچھ نہ لکھا۔ اس موضوع پر سب سے پہلے انہوںنے اپنی شاعری کے تیسرے دور میں اپنے خیالات ظاہر کیے ۱۳؎۔ مجھے بصد ادب یہ عرض کرنا ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے پہلے اور دوسرے دور میں بھی تعلیم پر اظہار خیال کیا اور ان کی شاعری کے دور اول کے زمانے میں شائع شدہ کتاب علم الاقتصاد میں قومی تعلیم کی جو اہمیت انہوں نے بتائی اس پر اندازاً ۵۸ سال تک کسی نے توجہ نہ کی ۱۹۶۱ء میں تھیوڈ ر شولتز نے امریکن اکانامک ایسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس میں اپنے خطبہ صدارت میں قومی تعلیم کی اقتصادی اہمیت کو واضح کیا اس کے بعد سے اس موضوع پر مضامین کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے۔ اقتصادیات کے کسی بھی قابل قدر جریدے کو اٹھا کر دیکھ لیجیے تعلیم کی اقتصادی اہمیت پر ایک نہ ایک مضمون ضرور نظر آئے گا۔ تعلیم اور اقتصادی ترقی کے موضوع پر ایک اور مشہور ماہر اقتصادیات جان گالبریتھ نے ۱۹۶۱ء میں ہندوستان کی ایک یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ امریکہ میںدوسروں کے ساتھ ساتھ تھیوڈر شولتز کی تحقیقات نے حال ہی میں یہ واضح کیا ہے ک تعلیمی اخراجات سے پیدائش میں متعدبہ مدد ملتی ہے۔ انسانوں کی ذہنی اصلاح پر صرف ہونے والے ہر ڈالر سے قومی آمدنی میں اکثر اتنا اضافہ ہوتا ہے۔ کہ ریلوں مشینی آلات یا دوسری اشیائے سرمایہ پر اٹھنے والے کسی ڈالر سے بھی نہیں ہوتا۔ کسانوں اور مزدوروں کو بے علمی سے نجات دلانا یقینا بجائے خود بھی ایک مقصد ہے لیکن ساتھ ہی یہ ہر طرح کی زراعتی ترقی کے لیے ایک ناگزیر اقدام بھی ہے۔ دنیا بھر میںجہاں کہیں بھی دیہاتی ان پڑھ ہیں زراعت کی ترقی رکی کھڑی ہے۔ جہاں کہیں بھی دیہاتی پڑھ لکھ گئے ہیں ترقی کے راستے کھل گئے ہیں۔ اس رخ سے دیکھا جائے تو تعلیم سرمایہ کاری کی نہایت پیدا کار صورت بن جاتی ہے ۱۴؎۔ ماہرین اقتصادیات کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے قومی منصوبہ بندی میں اب تعلیم کو دوسرے شعبوں کے مقابلے میں ترجیح دی جاتی ہے۔ مرکزی اور صوبائی بجٹ میں ایک مخصوص رقم تعلیم کے لیے رکھی جاتی ہے اور ہر سال اور ہر منصوبے میں اس رقم میں اضافہ کیا جارہاہے۔ ماہرین اقتصادیات نے بتایا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی قومی آمدنی کا ۴ فی صد یا اس سے زائد تعلیم پر صرف کرتے ہیں اور پسماندہ ممالک ۲ فی صد یا اس سے کم۔ لہٰذا ہم دانستہ طور پر اس کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ تعلیم پر زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کی جائے تاکہ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل بحسن و خوبی انجام پذیر ہو سکے۔ یہ سب کچھ ہم ۱۹۶۱ء کے بعد کرنے لگے ہیں لیکن اقبال کی وسیع النظری اور حکیمانہ طرز فکر قابل ستائش ہے کہ علامہ نے ۱۹۰۳ ء میں یا اس سے پہلے قومی تعلیم کی اہمیت کا اندازہ لگایا تھا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے کبھی اس جانب توجہ نہ کی۔ اقتصادیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے راقم الحروف کی رائے میں علامہ کی طرف فکر کا ایک ہم پہلو یہ ہے کہ وہ حالات کا تجزیہ کر کے خاموش نہیں ہو جاتے بلکہ حالات و واقعات کے تجزیے کے بعد وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ پس چہ باید کرد؟ علامہ اقبا ل نے اپنی مثنوی پس چہ باید کرد ؟ اپنی وفات کے دو سال پیشتر شائع کی تھی جو ان کے افکار عالیہ کا ایک صاف اور شفاف آئینہ ہے اور بقول کسے مولوی معنوی کی مثنوی کی طرح اس میں بھی وہی جوش و خروش وہی سوز وتخیل ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا زبان پہلوی کے قرآن کا سورۃ اخلاص ہے ۱۵؎۔ لیکن ایک ماہر اقتصادیا ت کی طرح وہ ہمیشہ حالات و واقعات کا تجزیہ کرنے کے بعد صرف یہ سوال کرتے ہیں کہ پس چہ باید کرد؟ بلکہ ا س مسئلے کا شافی نسخہ بھی تجویز فرماتے ہیں۔ قومی ترقی کے لیے بھی انہوںنے تعلیم کا نسخہ کیمیا تجویز فرمایا ہے ایسی تعلیم نہیںجو ہمیشہ المحاد سے مذہب اخلاق ‘ حس عمل اور ذوق تجسس کو ضرب کاری لگائے اور شاہین بچوں کو تشکیل خودی کے فرائض سے یکسر غافل کر دے بلکہ ایسی تعلیم جو دین اور دنیا والوں کو دونوں کو سنوارنے میں مدد دے۔ اسی لیے ان کے خیال میں مذہبی اور صنعتی تعلیم کا نظام تعلیم کا لازمی جزو ہونا چاہیے: بہ پور خویش دین و دانش آموز کہ تابد چوں مہ و انجم نگینش بدست او اگر دادی ہنر را ید بیضا ست اندر آستینش ذرا غور فرمائیے اس قطعے میں زبان شعر سے وہی بات کی گئی ہے جو علم الاقتصاد کے حصہ پنجم باب چہارم میں ۱۹۰۳ء میںکہی گئی تھی۔ ہمارے نزدیک کمی اجرت کا بہترین قومی تعلیم ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے دستکار کا ہنر اس کی محنت کی کارکردگی اور اس کی ذہانت ترقی کرتی ہے۔ اس کے اخلاق سنورتے ہیں اوروہ اس قابل بنتا ہے کہ اس پر اعتماد کیا جائے۔ تعلیم کی مدد سے دستکار اپنے کام کو سہولت کے ساتھ کر لینے کی راہیں سوچ سکتا ہے ۱۶؎۔ حکیم الامت علامہ اقبال کو مسلمانوں کے افلاس اور ان کی معاشی زبوں حالی کا شدت سے احساس تھا۔ یہی احساس نالہ یتیم اور شکوہ جیسی معرکتہ الآرا نظموں کی تخلیق کا باعث بنا۔ اسی احساس کے تحت انہوںنے لیجسلیٹو کونسل کے ممبر کی حیثیت سے صوبائی بجٹ پر ناقدانہ تبصرہ کیا اور ایک بار یہ تجویز بھی پیش کی کہ ج کاشتکاروں ی آمدنی ایک خاص حد سے کم ہو انہیں انکم ٹیکس کی طرح لگان میں بھی رعایت دی جائے یا اس سے معافی دی جائے ۱۷؎ مارچ ۱۹۳۲ء والے لاہور کے خطبہ صدارت میں انہوںنے تجویز پیش کی کہ مسلمان نوجوانوں کی انجمنیں اس غرض سے قائم کی جائیں کہ وہ اور باتوں کے علاوہ تجارت اور کاروبار کے میدان میں تنظیم کے لیے جدوجہد کریں اور دیہات میں کاشتکاروں کی اقتصادی بدحالی اور مقروضیت کے ازالے کے لیے ایک تبلیغی مہم چلائیں ۱۸؎۔ اواخر عمر میں اقبال کومسلمانوں کے افلاس اور اقتصادی زبوں حالی کا کس قدر شدید احساس تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے اس خط و کتابت کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کے مابین ہوئی۔ ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں علامہ نے تحریر فرمایا ہے کہ روٹی کا مسئلہ دن بدن سخت ہوتا جا رہا ہے مسلمانوں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ پچھلے دو سو سال سے ان کی معاشی حالت دن بدن گرتی جا رہی ہے عام طور پر ان کا یہ خیال ہے کہ ان کا افلاس ہندو سود خواروں اور سرمایہ داروں کی بدولت ہے ابھی انہیں یہ محسوس نہیںہوا کہ ان کے افلاس میں بیرونی استعمار کا بھی برابر دخل ہے مگر یہ احساس پیدا ہو کر رہے گا کہ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے افلاس اور ناداری کیک مسئلے کا کیا حل نکالا جائے۔ مسلم لیگ کے مستقبل کا انحصار تمام تر اسی پر ہے کہ وہ اس مسئلے کا کیا حل پیش کرتی ہے ۱۹؎۔ یہ خط ۱۹۳۷ء میں لکھا گیا تھا لیکن ۱۹۰۳ء کی تصنیف علم الاقتصاد کے دیباچے میں غربت و افلاس کے سلسلے میں جو کچھ اقبال نے لکھا ہے وہ ایک درد مند دل کی آوا زہے فرماتے ہیں کہ ذرا خیال کرو کہ غریبی یا یوں کہو کہ ضروریات زندگی کے کام طورپر پورا نہ ہونے سے انسانی طرز عمل کہاں تک متاثر ہوتا ہے۔ غریبی قومی اور انسانی پر بہت برااثر ڈالتی ہے بلکہ بسا اوقات انسانی روح کے مجلا آئینے کو اس قدر زنگ آلو د کر دیتی ہے کہ اخلاقی و تمدنی لحاظ سے اس کا وجود و عدم برابر ہو جاتاہے پھر آگے چل کر اسی دیباچے میں سوال کرتے ہیں کہ کیا ایسانہیں ہو سکتا کہ گلی کوچوں میں چپکے چپکے کراہنے والے دلوں کی دل خراش صدائیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائیں وارایک درد مند دل کو ہلا دینے والے افلاس کا نظارہ ہمیشہ کے لیے صفحۃ عالم سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے ۲۰؎۔ اور چونہ اقبال کی رائے میں اس سوال کے جواب کا انحصار زیادہ تر ان واقعات و نتائج پر بھی ہے جو علم الاقتصاد کے دائرہ تحقیق میں داخل ہیں اس لیے اس کا مطالعہ قریباً قریباً ضروریات زندگی میں سے ہے۔ چنانچہ علامہ نے اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ۱۹۰۳ء میں علم الاقتصاد شائع کی۔ لیکن اقتصادیات کا مطالعہ اقبال کی زندگی میں ایک ضمنی حیثیت رکھتا تھا۔ اور اس سے زیادہ غالباً ممکن بھی نہ تھا کہ اگرچہ اقبا ل کو زندگی بھر معاشیات سے دلچسپی رہی لیکن انہیں اس مضمون سے وہ تعلق پیدا نہ ہو ا جو شعر ‘ فلسفہ‘ سیاسیات‘ اور قانون سے تھا۔ ممتاز حس صاحب نے ۱۹۶۱ء میں شائع شدہ علم الاقتصاد کے پیش لفظ میں تحریر کیا ہے کہ خود اقبال نے مجھ سے بیان کیا کہ کیمبرج کے زمانے میں انہیں وقتاً فوقتاً انہیں یہ احساس ہوتا تھا کہ فلسفے میں ان کا انہماک ضرورت سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ چنانچہ اس احساس کے پیش نظر وہ کیمبرج کی دانش گاہ میں گاہے گاہے اقتصادیات کے درس میں شریک ہوا کرتے تھے تاکہ اپنی شخصیت میں توازن قائم رکھ سکیں ۲۱؎۔ ممتاز حسن خاں صاحب کیاس رائے سے بھی کسی کو اختلاف نہیں ۃو سکتا کہ علم الاقتصاد اورمعاشیات پر اقبال کی مختلف تحریروں اور تقریروں کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مسلمانوں کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والے رہنمائوں میں قوم کی اقتصادی مشکلات کا جو احساس اور شعور اقبال کو تھا وہ کسی اور کو نہ تھا ۲۲؎۔ لہٰذا اقبال کی سیاسی بصیرت اور ان کے حکیمانہ طرز فکر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ اقتصادی امور پر ان کی نگارشات و تقاریر کو یکجا کر کے ان پر تحقیق کی جائے بہت ممکن ہے کہ ایسی صورت نکل آئے کہ گلی کوچوں میں چپکے چپکے کراہنے والے دلوں کی دل خراش صدائیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائیں اورایک درد مند دل کو ہلا دینے والے افلاس کا درد ناک نظارہ ہمیشہ کے لیے صفحہ عالم سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے۔ ۱؎ شیخ محمد اقبال ’’علم الاقتصاد‘ شائع کردہ اقبال اکادمی کراچی ۱۹۶۱ء (الف) سرورق۔ ۲؎ مولانا عبدالسلام ندوی اقبال کامل۔ مطبع معارف اعظم گڑھ ۱۹۴۸ء (ب) ص ۹۴ ۳؎ قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی ’’اقبالیات کا تنقیدی جائزہ‘‘ اقبال اکادمی کراچی ۱۹۵۵ء (ج) ص ۲۱ ۴؎ (الف) ص ۱ ۵؎ (الف) ص ۱۱ ۶؎ (الف) ص ۲۳ ۷؎ علم اقتصاد و انسانی زندگی کے معمول کاروبار پر بحث کرتا ہے اور اس کا مقصد اس امر کا تحقیق کرنا ہے کہ لوگ اپنی آمدنی کس طرح حاصل کرتے ہیں اور اس کا استعمال کس طرح کرتے ہیں۔ پس ایک اعتبار سے تو اس کا موضوع دولت ہے اور دوسرے اعتبار سے یہ ایک وسیع علم کی ایک شاخہے جس کا موضوع خود انسان ہے۔ (الف) ص ۲۳ اور اسی طرح ص ۲۴ کے دونوں پیراگراف Alered Marshall, Principles of Economics Macmillan, London, 1920, p.1. Economics is a study of mankind in the ordinary business of life thus it is on one side a study of wealth, and on the other hand more important side, A part of the study of men. PP.2 IBID. ۸؎ (الف) فہرست مضامین ۹؎ (الف ) ص ۱۰۲ ۱۰؎ (الف) ص ۱۸۳ ۱۱؎ (الف ص ۸ ۱۲؎ (الف) ص ۱۸۰ ۱۳؎ (ب) ص ۳۴۶ ۱۴؎ جان کینتھ گالبریتھ اقتصادی ترقی ترجمہ حنیف رامے مکتبہ جدید لاہور ۱۹۶۶ء (د) ص ۱۲۱ ۱۵؎ (ج) ص ۲۳ ۱۶؎ (الف) ص ۶ ۱۷؎ (الف) ص ۵ ۱۸؎ (الف) ص ۹ ۱۹؎ (الف) ص ۲۳ ۲۰؎ (الف ) ص ۲۴ ۲۱؎ (الف) ص ۳ ۲۲؎ (الف) ص ۹ ٭٭٭ اقبال… توحیدی فکر اور وحدت کے خواب سجاد باقر رضوی بیسویں صدی کے آغاز کا زمانہ ایک طرف تو مغرب کی استعماری اور استحصالی قوتوں کی بالادستی کی انتہا ہے اوردوسری طرف مشرقی اقوام کی بیداری کی ابتدا عالم انسانیت کے ان محسنو ں میں جنہوں نے مردہ قوموں کے لیے صور پھونکا اقبال کا نام سر فہرست ہے۔ بیسویں صدی کے پہلے اڑتیس برس اقبال کی طبعی زندگی کے سال ہیں۔ ان کی طبعی موت کے بعد کے اڑتیس سال ان کے خوابوں کی زندگی کے سال ہیں ۔ ۱۹۳۸ء سے لے کر ۱۹۷۶ء تک اقبال کے بیشتر خوابوں نے موجودہ حقیقتوں کی شکل اختیار کی ۔ اب ہمیں ان کے خوابوں کو پہچاننے کے لیے ان حقیقتوں کی نقاب کشائی کرنی ہو گی۔ (۱) مسلمانان ہند کی وحدت اور ایک قوت کی صورت میں اس وحدت کا اظہار اقبال کا وہ خواب تھا جس کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے ۱۹۴۰ء میں قرارداد پاکستان پیش کی اور بالآخر ۱۹۴۷ء میںایک علیحدہ اسلامی ریاست کا وجود عمل میں آیا۔ (۲) عالم اسلام کی وحدت کا خواب جس کے لیے اقبا ل نے کہا تھا : ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر ایک عظیم تر وحدت کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔ ۱۹۷۳ء میں لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس اقبال کے خواب کی تعبیر ثابت ہوئی۔ آج اسلامی ممالک جس یکجہتی کی راہ پر گامزن ہیں اور جس طرح وہ عر ب و عجم کے فرق کو ختم کر کے ملت اسلامیہ کی سر بلندی اور اقوام عالم میں اپنے اعزاز و احترام کے لیے کوشاں ہیں وہ اقبال کے خواب کی صحیح ترجمانی ہے۔ تمام اسلامی ممالک میں روح اسلام نئی توانائیوں کے ساتھ بیدار ہو رہی ہے۔ اس کی جلالی و جمالی قوتیں اپنے تمام تر امکانات کو بروئے کا رلانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ اقبال نے اپنے عہد میں ان ممالک کو مغرب کی استعماری قوتوں کے شکنجے میں کسا ہوا دیکھا تھا۔ غربت و افلاس نفرت و نفاق ان قوموں کا مقدر معلوم ہوتا تھا۔ لیکن اقبال کی نگاہ دوربین روح عصر اور تاریخ کی جدلیاتی منطق کو دیکھ رہی تھیں۔ انہوںنے ملت اسلامیہ کو اخوت و محبت کا پیغام دیا۔ اسلام کے لافانی اصولوں کو نئے تاریخٰ پس منظر میں پیش کر کے اسے مغربی استعمار و استحصال سے آزاد ہونے کی تلقین کی۔ غلامی کے شکنجے سے آزاد ہونے کی راہ دکھائی۔ قومی خودی کو مستحکم کرنے کا مشورہ دیا اور بالآخر تاریخ کی قوتوں نے اسے مستقبل کو پیدا کیا جو آج ہمارا حال ہے۔ غلامی کیا ہے؟ ذوق حسن و زیبائی سے محرومی جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختی خارا اقبا ل کو اس تاریخی حقیقت سے خبر تھی کہ فرنگی استعمار و استحصال کے دن بہت تھوڑے ہیں: خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے فرنگ رہگذر سیل بے پناہ میں ہے (۳) ملت اسلامیہ کی وحدت کے تصور کے ساتھ ساتھ اقبال کی نگاہ مشرق کی استحصال زدہ اقوام پر بھی تھی۔ اقبال کو خبر تھی کہ ان قوموں کی غلامی و استحصال کا سبب مغرب کا وہ معاشی نظام ہے جسے وہ خدا کے حضور لینن کی زبان سے یوں کہلواتے ہیں: ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات تو قادر وعادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری منتظر روز مکافات آج دنیا کی پس ماندہ و غیر ترقی یافتہ قومیں بڑی سرعت سے اپنے حقوق اور تشخص کی نگہداشت کے لیے متحد ہو رہی ہیں۔ انہیں اپنی تاریخ کی مکمل آگہی حاصل ہے اور وہ یہ جانتی ہیں کہ کس طرح ترقی یافتہ اقوام نے کھلے استحصال او ر لوٹ کھسوٹ کو تجارت کے نام پر روا رکھا تھا اقبال کو اس حقیقت کا ادراک نصف صدی پہلے ہی ہو چکا تھا۔ انہوں نے مشرقی اقوام کو یہ بتایا کہ مغربی اقوام کا یہ استحصال نسل انسانی کی تباہی کے مترادف ہے جب تک سرمایہ دارانہ استحصالی نظام ختم نہیں ہوتا انسانی فکر‘ انسانی تہذیب ‘ دین و مذہب ان سب کے کوئی معنی نہیں ہوں گے۔ امتے بر امتے دیگر چرد دانہ ایں می کارد آں حاصل برد از ضعیفاں نان ربودن حکمت است از تن شاں جاں ربودن حکمت است شیوہ تہذیب نو آدم دری ست پردہ آدم دری سوداگری ست تاتہ و بالا نہ گردد ایں نظام دانش و تہذیب و دین سودائے خام اسی سبب سے اقبال نے مشرقی اقوا م کو قوت و جمعیت کا پیغام دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اسی طور سے یہ قومیں فرنگی سحر سے آزاد ہو سکتی ہیں:ـ اے اسیر رنگ پاک از رنگ شو مومن خود کافر افرنگ شو اہل حق را زندگی از قوت است قوت ہر ملت از جمعیت است رائے بے قوت ہمہ مکر و فسوں قوت بے رائے جہل است و جنوں سرمایہ دارانہ استحصال اور صنعتی طور پر ترقی یافتہ قوموں کی لوٹ کھسوٹ کی طرف واضح اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے پس ماندہ اور غیر ترقی یافتہ قوموں کو جو مغرب کے لے خام مال کی منڈیاں بنی ہوئی ہیں۔ یہ یاد دلایا کہ انہیںیورپ کے تجارتی ہتھکنڈوں کو سمجھ لینا چاہیے اور خود اپنی قوت پر بھروسہ کرنا چاہیے کہ یہی قومی خودی کی بیداری کا سرچشمہ ہے: آنچہ از خاک تو رست اے مرد حر آں فروش و آں بپوش و آں نجور آں نکو بیناں کہ خود را دیدہ اند خود گلیم خویش را بافیدہ اند اے زکار عصر حاضر بے خبر چرب دستی ہائے یورپ دا نگر قالی از ابریشم تو ساختند باز او را پیش تو انداختند وائے آں دریا کہ موجش کم تپید گوہر خو را ز غواصاں خرید آج جب کہ دنیا کی تمام پست اقوام یکجا ہو کر ترقی یافتہ قوموں سے ماضی کے استحصال کا حساب مانگ رہی ہیں اور انہیںمجبور کر رہی ہیں کہ وہ ان کے خام مواد کی قیمت اسی تناسب سے ادا کریں جس تناسب سے وہ اپنے پختہ سامان کی قیمت طلب کرتی ہیں تو پس منظر میں ہمیں اقبال کی بصیرت افروز للکار سنائی دیتی ہے۔ (۴) استحصالی نظام کو اقبال روح اسلام اور روح انسانیت دونوں کے منافی سمجھتے تھے روس کے نظٓم معاشرت کو اقبال استحسان کی نظر سے دیکھتے تھے۔ البتہ اس کی لادینیت کے مخالف تھے لیکن اقبال کا یہ پختہ عقیدہ تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں علم و فن تہذیب و معاشرت دین و مذہب سب کی صورتیں مسخ ہو جاتی ہیں: تاتہہ و بالا نہ گردد ایں نظام دانش و تہذیب و دیں سودائے خام لہٰذا اقبال کی نظر میں کسی بھی اسلامی ریاست میں اس نظام کو جاری رکھنا رضائے الٰہی اور اصول عدل کے منافی ہے۔ اقبال کی ہمہ گیر فکر میں انسانی زندگی کے نئے رابطوں کی طرف جو اشارے ملتے ہیں وہ ایک انقلابی تدبر کانتیجہ ہیں۔ مزدوروں اور کسانوں کے استحصال کے خلاف جوانقلابی آواز اقبال نے بلند کی ہے اس کا حاصل آج ہمیں اپنی زندگی میں نظر آ رہا ہے: خواجہ از خون رگ مزدور ساز و لعل ناب از جفائے وہ خدایان کشت دہقانان خراب انقلاب انقلاب اے انقلاب میر و سلطان نرد باز و کعبتین شان و غل جان محکومان زن بردند و محکومان بہ خواب انقلاب انقلاب اے انقلاب ٭٭٭ پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟ کون لایا کھینچ کر مٹی سے باد ساگار خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نور آفتاب؟ کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب؟ وہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں تیرے آباء کی نہیں تیری نہیں میری نہیں ٭٭٭ (۲) فکر اقبال میں انسان کی حیثیت مرکزی ہے۔ اپنے عہد کے رومانوی رویوں کو اپنانے کے باوجود وہ معاشرت کے نقوش کو انسان کی تصویر ابھارنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انسان دوستی کا یہ رویہ اقبال کو دنیا کے بڑے رومانی شاعروں سے مختص کرتاہے۔ اقبال کا کارنامہ یہ ہے ک انہوں نے اسلامی فکر کے حوالے سے مابعد الطبیعیاتی نظام کی اس طرح تشکیل کی کہ کائنات میں انسان کو اس کی مرکزی حیثیت حاصل ہوئی۔ اسی حوالے سے وہ انسان کی امکانی صلاحیتوں کو اس قدر بیدار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کائنات کو مسخر کر سکے اور یوں معنوں میں خدا کا نائب بن سکے۔ انسانی قوتوں کے مظاہر خواہ وہ ماضی میں ہوں یا حال میں اقبال کے لیے ہمیشہ انسانی عظمتوں کے شواہد بنتے ہیں۔ اقبال انسانی عظمتوں کے گیت گاتے ہیں وہ قوت اور توانائی کے ہر اظہار کو استحسان کی نظر سے دیکھتے ہیں خواہ وہ انسانوں میں ہو یا فطرت کے دیگر مظاہر میں۔ اقبال کی شاعری میں انسانوں کے چھوٹے موٹے دکھ سکھ نظر نہیں آتے۔ ان کی شاعر ی میں وہ انسان نظر آتا ہے جو اپنے اعلیٰ ترین امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے کائناتی ڈرامے میں اپنا رول ادا کر رہا ہو۔ اوپر خدا کی ذات نیچے انسان کی خودی اور اس کے درمیان حیات و کائنات کی ساری جدوجہد۔ یہ ہے اقبال کی شاعری کاوسیع و عریض کینوس۔ اس کینوس پر انسانی زندگی کے چھوٹے موٹے مظاہر آ ہی نہیں سکتے تھے۔ انسان دوستی کا یہی پہلو تھا کہ جس کے باعث اقبال کی شاعری میں انسانی زندگی کے مختلف النوع اور بڑے بڑے مسائل کا حل نظر آتا ہے۔ اقبال کی شاعری کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اس میں انسانی زندگی المیہ کی صورت میںنظر نہیں آتی۔ ان کے یہاں انسانی مقدر انسان کی جدوجہد‘ عمل پیہم اور امکانی قوتوں یعنی خود ی کے اعلیٰ تریں اظہار کا نام ہے۔ یونانی اوریورپی المیاتی ڈراموں میں انسان اپنے مقدر سے نبرد آزما ہوتا ہے اور بالآخر شکست کھاتا ہے۔ لیکن اقبال کا انسان اطاعت اور ضبط نفس کی منزلوں سے گزر کر نیابت الٰہی کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ لہٰذا حیات و کائنات کے ڈرامے میں انسان شکست نہیں کھاتا‘ فاتح بن جاتا ہے۔ انسان کو فاتح کی حیثیت سے پیش کرنے میں اقبال کا مقصد محض یہ نہ تھا کہ وہ مشرق کی پست اقوام ملت اسلامیہ اور برصغیر کے مسلمانوں کی غلامی اور پستی کے دکھوں کا مرہم مہیا کری ں۔ یہ بھی ایک پہلو ہو سکتا ہے مگر بنیادی بات یہ تھی کہ خدا پر اقبال کا ایمان پختہ تھا۔ مشرق کی تمام داستانوں اور کہانیوں میں غیبی قوتوں پر ایمان اور انسانی معاملات میں ان کے عمل دخل کے باعث نیز انسانیت کے بارے میں ایک اعلیٰ تصور کی وجہ سے انسان کبھی شکست نہیں کھاتا۔ تائید غیبی کے باعث اس کی ساری گتھیاں سلجھ جاتی ہیں ہماری داستانوں میں اسم اعظم کی برکت اور خواجہ خضر یا حضرت علیؓ مرتضیٰ کی مدد سے جو غیبی قوتوں کے مظہر ہیں انسان ہر مشکل پر فتح پا لیتا ہے۔ یہی روایت اقبال تک آئی تھی۔ اسے روایت نہ کہیں طرز احساس کہیں خدا پر ایمان اور انسان کے نائب خداہونے پر ایمان اس کا منطقی نتیجہ یہ تھا کہ اقبال کا انسان کائنات کا حاکم اور فطرت کی تسخیر کرنے والا ہے۔ خدا کی وحدانیت کا اسلامی تصور وہ تصور تھا جس سے اقبال کے یہاں کائنات کی وحدت کا تصور پیدا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں تصوف کی روایت بھی ان تک پہنچی تھی۔ اور جرمن فلسفے کا اثر بھی یقینی ہو گا۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ وحدت کائنات کا تصور توحید کے تصور سے ہم آہنگ ہے اور اسی لیے اقبال کے لیے قابل قبول : زمانہ ایک ‘حیات ایک‘ کائنات بھی ایک اسی وحدت اور کائی تصور سے انسانی وحدت کا تصور یپداہوتا ہے۔ اور وحدت تلاش کرنے والی نگاہ مختلف النوع اشیاء میں وحدت تلاش کرتی ہے۔ یوں غور کیجیے تو اقبال کی فکر تجزیاتی نہیںترکیبی ہے۔ اس طرح اقبال نے یورپ کے رومانی شاعروں کی طرح اٹھارویں صدی کی منطقی اور تجزیاتی فکر اور انسانی عقل کی حاکمیت کورد کر دیا ہے۔ لیکن انیسویں صدی کے رومانویوں اور اقبال میں فرق انسان کے تصور سے پیدا ہوتا ہے۔ رومانویوں کے یہاں فطرت سب کچھ ہے۔ اقبال کے یہاں انسان سارے انگریزی رومانوی شاعرں کے یہاں انسان یا تو نظر نہیں آتایا اگر ہے تو وہ فطرت کا تابع ہے۔ اقبال کے یہاں انسان کا مقدر یہ ہے ک ہوہ فطرت کی تسخیر کرے۔ اقبال کی ترکیبی یا توحیدی فکر پوری کائنات کی وحدت کے وسیع دائرے میں انسانی وحدت پر زور دیتی ہے۔ اس وحدت کو ختم کرنے والی قوتیں اقبال کے نزدیک شیطان کی آلہ کار ہیں لا دین سیاس جس کے باعث ایک قوم طاقت کے استعمال سے دوسری جانب قوم پر غالب آ نے کی کوشش کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام معیشت جو لا دین سیاست سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے اور جس کے باعث ایک قوم دوسری قوم کا اور ایک انسان دوسرے انسان کا استحصال کرتا ہے۔ ایسی آزادی فکر جو قومی زندگی میں انتشار کا باعث بنتی ہے ۔ وہ حرص و خوف جو فقر و غنا کی غیر موجودگی سے پیدا ہوتا ہے اور جو کسی قوم کو غلامی اور استحصال کی صورت حال سے دوچا ر کرتا ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ تمام قوتیں شیطانی قوتیں ہیںجو انسانی وحدت کو پارہ پارہ کر دیتی ہیں۔ اقبا ل کے خیال میں اجتماعی وحدت کی طرح انفرادی وحدت بھی ضروری ہے۔ انفرادی وحدت کے معنی یہ ہیں کہ فرد اپنی ذات کی مختلف صلاحیتوں کو ہم آہنگ کر کے ایک وحدت قائم کرے۔ اسی طرح زات کی وہ کلیت قائم ہو سکتی ہے جس کے بغیر زندگی کے اعلیٰ امکانات بروئے کار نہیں آ سکتے۔ عقلیت کے رجحانات کو ترقی کے سبب پچھلے کئی سو برسوں میں فرد اپنی ذات میں ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے۔ عقل کا تجزیاتی رویہ اشیا کو وحدت دینے کے انہیں ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ اقبال کے کلام میں جگہ جگہ ایسے اشارے ملتے ہیں جن میں خرد و جنوں ’’عقل و عشق‘] فکر و ذکر ’’مشاہدات و تجلیات‘‘ وغیرہ کو یکجا کر نے کی تلقین کی گئی ہے۔ البتہ یہ کہ محض عقلی رویوں کے رد کے طور پر انہوں نے جنون کو خرد پر عشق کو عقل پر ذکر کو فکر پر تجلیات کو مشاہدات پر فوقیت دی ہے۔ اکثر جگہ اسی چیز کو ٹھوس علامتوں کے ذریعے بھی واضح کیا ہے۔ مثلا رازی و سینا پر رومی و عطار کو فوقیت دے کر تجزیاتی فکر پر ترکیبی واردات قلبی کو ترجیح دی ہے۔ اقبال کے نزدیک ذات کی کلیت کے بغیر ایسا ہمہ جہتی انسان پیدا نہیں ہو سکتا جو ایک سے زیادہ سطحوں پر زندہ رہے۔ اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کر لا کر زندگی کو تابندگی عطا کر سکے۔ یک سطحی انسان غیر تخلیقی اور بنجر رویوں کا حامل ہوتا ہے اور زندگی میں انتشار و جمود پیدا کرتا ہے۔ اقبال نے فلسفی اور ملا پر اپنے کلام میں جگہ جگہ جو چوٹیں کی ہیں اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ دونوں زندگی کے تخلیقی مقاصد کا ساتھ نہیں دیتے۔ فلسفی اپنی قیل و قال میں اور ملا تقلید کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ لہٰذا دونوں کسی کو اپنے مخصوص حوالوں کے فریم سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اقبا ل کے کلام میں تخلیقی انسان کی علامتیں عاشق مجاہد اور مون کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ دراصل ان تینوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ عاشق زندگی کے جمالی پہلو کی مجاہد اس کے جلالی رخ کی اور مرد مومن کمال زندگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ ایک ہی شخص کو تین مختلف انداز نظر سے دیکھنے کی بات ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ذات کی وحدت کے بغیر جس سے پوری انسانی ذات ایک نقطے پر مرتکز ہو جاتی ہے نہ ایمان مکمل ہو سکتا ہے اور نہ انسان عاشق و مجاہدبن کر سر ہتھیلی پر رکھ کر پھر سکتا ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ عشق ایک قسم کا جہاد ہے اور جہاد عشق۔ اسی لیے تو اقبال نے امام حسینؓ کو امام عاشقان کہا ہے۔ (۳) ہم یہ کہہ چکے ہیں کہ علامہ اقبال کے پاس انسانیت کا اعلیٰ تصور تھا۔ نیز یہ کہ اقبال کی انسان دوستی کا تصور رومانوی انسان دوستی کے تصور سے مختلف تھا جہاں انسان فطرت کے تابع نظر آتا ہے۔ اقبال کی اسلامی فکر میں حقیقت اولیٰ ذات الٰہی ہے اور انسان خدا کے نائب ہونے کے باعث تمام تر مخلوقات سے افضل ہے خدا خالق کائنات ہے اور انسان خالق تہذیب و تمدن۔ انسان کی یہی تخلیقی قوت ہے جو اس کو تمام موجودات پر فضیلت دیتی ہے۔ یہی تخلیقی قوت انسان کی ذات میں وہ چھپا ہوا خزینہ ہے جسے اقبال خودی کا نام دیتے ہیں۔ اقبال کے اپنے کلام کے علاوہ ہمارے عہد میں ان کے تصور خودی کے بارے میں بہت سی تشریحات و تعبیرات کی گئی ہیں۔ ہم یہاں اس کے عملی پہلو کے بارے میں چند اشارے کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک خودی عشق سے مستحکم ہوتی ہے۔ فقر غنا‘ خود اعتمادی‘ جہد و عمل ‘ اور زندگی میں اعلیٰ ترین اقدار کا حصول اور ان کی ترویج خودی کا مختلف النوع اظہار ہے۔ یہ اظہار ہمیشہ مثبت اور تخلیقی ہوتا ہے۔ اس لیے زندگی کے مسلسل فروغ کا باعث بنتا ہے۔ آزادی و حریت عدل و مساوات کی صورت حال بیدار خود ی کی پیدا کردہ صورت حال ہوتی ہے ۔ غلامی و استحصال کی صورت حال خودی کی موت کا پیغام بھی ہے۔ اور اس کا نتیجہ بھی۔ افراد کی خودی کی طرح قوموں کی خودی بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ قوم جو دوسری قوم کی غلامی قبول کر لے اپنی خودی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ یہ خودی جو عشق کے ہاتھوں مستحکم اور تابندہ ہوتی ہے اپنے اظہار میں مثبت ہوتی ہے اوراسی لیے زندگی کو کچھ نہ کچھ دیتی ہے۔ اس سے چھینتی نہیں چونکہ نو آبادیاتی نظام سرمایہ دارانہ نظام جاگیردارانہ نظام ان سب کی بنیاد منفی رویوں پر ہے اس لیے وہ اقبال کے تصور خودی تصور عشق تصور عدل و مساوات سے لگا نہیں کھاتے۔ خودی کی بیداری کا جو پیغام اقبال نے دیا ہے وہ تمام عالم انسانیت کے لیے ہے کسی خاص طبقے یا قوم کے لیے نہیں ہے اور چونکہ خودی انسان کی باطنی یا روحانی قوت ہے اس لیے اس کی بیداری سے تمام عالم انسانیت میں عدل و مساوات اور حریت و آزادی کی صورت حال روحانی بنیادوں پر قائم ہو گی اور یہ محض مساوات و جبریت شکم نہیں ہو گی جس کے اقبال شاکی نظر آتے ہیں: من کی دنیا؟ من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق تن کی دنیا؟ تن کی دنیا سود و سودا مکر و فن کم و بیش یہی صورت اقبال کے تصور عمل کی ہے صالح عمل وہ ہے جو اپنے اظہار میں مثبت ہو۔ ورنہ عمل پر زور تو سرمایہ دارانہ طرز فکر میں بھی بہت ملتاہے۔ سرمایہ دارانہ آمریت انسانی فکر کو مفلوج کر نے کے لیے عمل عمل کی رٹ لگاتی ہے اور اس بنیاد پر ایک جامد یکسانیت کو پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اقبال کے نزدیک عمل کو ہر صورت میں تخلیقی ہونا چاہیے جو جامد یکسانیت یا معاشرتی انتشار پیدا کرنے کے بجائے زندہ وحدت کی تخلیق کر سکے۔ محض اسی صورت میں وہ خودی کا شاہکار عشق کا اظہار اور عدل کا آئینہ دار ہو گا۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھیے کہ توحید کے اس پرستار اور وحدت انسانی کے اس دعویدار کے اپنے نظام فکر کی ہر کڑی اییک دوسرے کے ساتھ پیوست ہو کر خود ایک وحدت میں ڈھل جاتی ہے۔ ورنہ خودی عمل عشق فقر وغیرہ کو الگ الگ سمجھنے کی کوشش میں ہم خود انتشار کا شکار ہوجائیں گے۔ خودی کو استحکام اور عمل کو تحریک دینے والی قوت عشق ہے بقول اقبال: نقطہ نورے کہ نام او خودی ست زیر خاک ما شرار زندگی ست از محبت می شود پایندہ تر زندہ تر سو زندہ تر تابندہ تر از محبت اشتعال جوہرش ارتقائے ممکنات مضمرش ٭٭٭ مرد خدا کا عمل عشق ہے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام خودی کو مستحکم زندہ تابندہ اور پائندہ کرنے والی قوت عشق ہے۔ یہی وہ قوت ہے کہ جو انسانی عمل کو لافانی بنا دیتی ہے۔ انسان کے لامتناہی امکانات کا زندگی بخش اظہار اسی کے دم سے ہے۔ ظاہر ہے کہ عشق کا تصور اقبال کے یہاں تصوف سے آیا۔ فرق یہ ہے کہ صوفیہ کے یہاں عشق بالآخر وصال پر منتج ہوتا ہے۔ اقبال کے یہاں وصال زندگی کی تکمیل ہے جبکہ زندگی نہ ختم ہونے والا لا متناہی سلسلہ۔ لہٰذا اقبا عشق سے پیدا ہونے والی کیفیات پر زور دیتے ہیں عشق کے سوز درون پر آرزو اور جستجو پر جذب و مستی پر۔ عشق انسانی زندگی کی وہ صورت حال ہے جس میں مسلسل جدوجہد‘ پیہم عمل اور کبھی نہ ختم ہونے والی آرزو انسان کو پیہم روا ں دواں رکھتی ہے۔ یہ وہ قوت ہے کہ جو کارگاہ فنا میں بقا کے نقش ابھارتی ہے۔ اقبال کہتے ہیں: عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام عشق دم جبرئیل عشق دل مصطفی عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات اب آپ کے لیے ایسے انسان کا تصور کریں جو اقبال کے ان تصورات کا حامل ہو جس کی خودی بیدار ہو۔ جو عشق کے جذبے سے سرشار ہو جو عمل پیہم اورجہد مسلسل سے زندگی کو نکھار بخشتا ہو۔ ایسا شخص اقبال کی نظرمیں مومن ہے۔ اب اقبال سے مرد مومن کی تعریف سنیے: ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کارکشا کارساز خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دل نواز نرم دم گفتگو گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ اقبال کا یہ بندہ مومن خالق کائنات کے نائب اور خلیفہ ہونے کی حیثیت سے خود تخلیقی صلاحیتوں کا حامل ہے۔ وہ ز مین پر تہذیب و تمدن کا خالق ہے۔ اقبال کے حوالے سے ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ اعلیٰ مفہوم میں تخلیقی صلاحتیوں کا حامل وہی شخص ہو سکتا ہے کہ جو اپنی ذات میں ایک کلیت رکھتا ہو۔ ذات کی کلیت حرص و خوف‘ منافقت اور جھوٹ‘ دنیا طلبی‘ مصلحت اندیشی کے منفی رویوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے۔ ایسا شخص ایمان کی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ اور اس کے لیے وہ مثبت اور تخلیقی عمل کا حامل بھی نہیں ہو سکتا۔ ٹکڑوں میںبٹا ہوا ایک سطحی انسان زندگی کو جمود اور انتشار کے علاوہ اور کچھ نہیںدے سکتا۔ اس کے برعکس مومن نہ صرف یہ کہ اپنی ذات میں وحدت کا حامل ہوتا ہے۔ بلکہ کائنات کو بھی اپنی ذات کا حصہ بنا کر اس وحدت کو برقرار رکھتا ہے: کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق (۴) اب چند اشارے اقبال کے تصور فن کے بارے میں آ پ نے دیکھا کہ اقبال نے مومن کی کیا شناخت بتائی ہے۔ مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق گویا اقبال کے نزدیک مومن اپنی بصارت کو بصیرت میں تبدیل کر سکتا ہے۔ بصارت کو بصیرت بنانا ہی اصل علم ہے جس کی اقبال تلقین کرتے ہیں۔ یہی وہ صورت ہے کہ جس میں باہر کی دنیا سے جمع کیے ہوئے سارے حقائق انسانی تخیل کی روشنی میں خود کو اس طرح مرتب کرتے ہیں کہ ان سے کوئی مفہوم برآمد ہو سکے۔ یہ حقائق اپنے طور پر مردہ ہوتے ہیں انہیں زندگی انسان کی بصیرت اور اس کے تخیل ووجدان سے ملتی ہے: وہ علم کم بصڑی جس میں ہمکنار نہیں تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم پس اقبال کی نظرمیں اصل علم وہ ہے جس میں عقلی مشاہدات کے ساتھ تخی کی آمیزش ہو محض عقل سے جمع کیے ہوئے حقائق اصل علم کا درجہ نہیں رکھتے۔ اصل علم ذات کی اس وحدت و کلیت سے پیدا ہوتا ہے کہ جس میں انسان کی مختلف صلاحیتیں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوں۔ اقبال کے نزدیک تجلیات و مشاہدات عقل اور جذبہ کی ہم آہنگی ذات کی وحدت کے لیے ضروری ہے: سپاہ تازہ بر انگیزم از ولایت عشق کہ در حرم خطرے از ولایت خرد است زمانہ ہیچ نداند حقیقت او را جنوں قباست کہ موزوں بہ قامت خرد است گماں مبر کہ خرد را حساب و میزان نیست نگاہ بندہ مومن قیامت خرد است پس علم کے بارے میں اقبال کا تصور یہ ہے کہ وہ انسانی ذات کی کلیت کا اظہار ہوتا ہے ا ور اس کا اثر پوری انسانی ذات پر ہوتا ہے۔ ایسا علم جس کی بنیاد محض انسانی عقل ہو انسان کی پوری ذات کو متاثر نہیں کر سکتا۔ لہٰذ ا وہ اصل علم نہیں ہے۔ اقبال کے نزدیک علم کی ایک صفت تو یہ ہے کہ علم حاصل کرنے والے کا تجربہ بنے یعنی اس کی پوری ذات کو متاثر کرے۔ دوسری یہ کہ وہ ایک مکمل انسان یا مرد مومن کی بصیرت کا اظہار ہو۔ اور تیسری یہ کہ وہ پوری انسانیت کے فروغ اور اس کی فلاح میں مدد کرے۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اقبال کی نظر میں انسان کا جوتصور یورپ نے دیا ہے وہ پوری انسانیت کی توہین ہے۔ انسان کا اسلامی تصور بلکہ پورے مشرق کا تصور ی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بہترین مخلوق ہے جبکہ یورپی تصور بقول اقبال یہ ہے: درنگاہش آدمی آب و گل است کاروان زندگی بے منزل است یورپ کا یہ انسان جو آب و گل سے بنا ہوا پتلا ہے اور جس کی کوئی منزل نہیں ہے۔ اشیا میں انوار حق اور اسرار حق کو پہچان ہی نہیں سکتا لہٰذا علم کی اصل سے ہمیشہ دور رہتا ہے: علم اشیاء خاک مارا کیمیاست آہ در افرنگ تاثیرش جدا ست عقل و فکرش بے عیار خوب و زشت چشم او بے نم دل او سنگ و خشت دانش افرنگیاں تیغے بدوش ر ہلاک نوع انساں سخت کوش آہ از افرنگ و از آئین او آہ از اندیشہ لا دین او علم حق را ساحری آموختند ساحری نے کافری آموختند عقل اندر حکم دل یزدانی است چوں ز دل آزاد شد شیطانی است ان باتوں کے علاوہ علم کے سلسلے میں اقبال اس بات کے بھی قائل ہیں کہ علم کا تخلیقی و مثبت عمل محض اس وقت ہی ممکن ہے کہ اسے روح و دل کی افزائش کے لیے استعمال کیا جائے جب علم تن پروری کے لیے استعمال ہو گا تو اس سے تخریبی صورتیں برآمد ہوں گی۔ اقبال کا سوال اور پیر رومی کا جواب دیکھیے: چشم بینا سے ہے جاری جوئے خوں علم حاضر ہے دیں زار و زبوں رومی کا جواب: علم را بر تن زنی مارے بود علم را بر دل زنی یارے بود (رومی کا جواب) علم و حکمت کے حصول کے بارے میں اقبال کا خیال یہ ہے کہ وہ ایمان داری کی زندگی اور نان حلال سے ہی حاصل ہو سکتاہے۔ اقبال سوال کرتے ہیں: علم و حکمت کاملے کیونکر سراغ؟ کس طرح ہاتھ آئے سوز و درد و داغ؟ رومی کا جواب یہ ہے: علم و حکمت زاید از نان حلال عشق و رقت آید از نان حلال ان تمام باتوں کے پیش نظر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کی توحیدی فکر کا ترکیبی طریق کار جس وحدت انسانی کو پیش کرتا ہے ا س کا بنیادی عنصر فرد کی وحدت ہے۔ فرد کی یہ وحدت مثبت اور تخلیقی رویوں سے وجود میں آتی ہے۔ عشق‘ فقر‘ غنا‘ عمل صالح‘ جہد مسلسل اور نان حلال کے لیے کاوش و کوشش … یہ وہ رویے ہیں جو انسانی ذات کو کلیت و وحدت عطا کرتے ہیں۔ اور انہیں سے انسانی زندگی کا جوہر اور اس کے عظیم تر امکانات جنہیں اقبال نے خودی کا نام دیا ہے بروئے کار آتے ہیں۔ تمام منفی رویے مثلاً حرص خوف منافقت‘ غرور‘ بے دلی و قنوطیت انسانی ذات کو ٹکڑے کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ معاشرے میں تخریبی قوتوں کا فروغ اور جمود و انتشار کی صورت اختیار کرتا ہے۔ انسانی ذات کی وحدت اور کلیت جس سے معاشرے میں تخلیقی رجحانات جنم لیتے ہیں تہذیب وتمدن کی تخلیق بھی کرتی ہے۔ تمام فنون لطیفہ جو بنیادی طور پر تہذیب کے مختلف عناصر ہیں اسی وحدت کا حاصل ہوتے ہیںَ چونکہ کوئی تخلیقی عمل منفی رویوں سے وجودمیں نہیں آ سکتا۔ اس لیے اقبال کے نزدیک فنون پوری ذات کی وحدت خودی اور عشق کا حاصل اور فطرت پر انسانی روح کی فضیلت کا اظہار ہوتے ہیں۔ اس طرح کائنات خدا کی تخلیق اور فنون نائب خدا کی۔ انسان کا تخلیقی عمل تسخیر فطرت کا عمل ہے جو اقبال کے نزدیک انسانی زندگی کامقصد اولیٰ ہے۔ جس طرح تخلیق کائنات کے ذریعے خدا نے خود کو ظاہر کیا اسی طرح تخلیق فن کے ذریعے انسان اپنے جوہر حیات کو ظاہر کرتاہے اور یوں وجود حق کی شہادت دیتا ہے: ہر چیز ہے محو خود نمائی ہر ذرہ شہید کبریائی بے ذوق نمود زندگی موت تعمیر خودی میں ہے خدائی اسی ذوق نمود کاحاصل وہ فن ہے جس کے بارے میں اقبال کہتے ہیں: رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف و صوت معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود قطرہ خون جگر سل کو بناتا ہے دل خون جگر سے سدا سوز و سرود و سرود نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام و خون جگر کے بغیر یوں اقبال کے خیال میں تخلیق فن میں دوسرا عنصر عشق ہے کہ خون جگر دراصل عشق کی ہی کارفرمائی کا نتیجہ ہے۔ پس اعلیٰ فن کی تخلیق کی بنیاد ذوق خود نمائی یا ذوق نمود (خودی) اور خون جگر (عشق) پر ہے۔ اس بنیاد کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کی نظر میں اعلیٰ فن کی خصوصیت کیا ہے؟ اس سلسلے میں ان کا یہ شعر دیکھیے: نغمہ کجا و من کجا ساز سخں بہانہ ایست سوے قطار می کشم ناقہ بے زمام را اس شعر میں فن کی دو خصوصیات کی طرف اشارہ ہے۔ ایک کا تعلق موضوع سے ہے اوردوسری کا تکنیک ہے۔ گویا ان کی نظر میں فن کا کام زندگی کو سنوارنا اور نکھارنا ہے۔ مرتب اور منظم کرنا ہے ۔یہ وہ مقام ہے جہاں فن کا افادی و مقصدی اور اس کا جمالیاتی پہلو دونوں ایک ہو جاتے ہیں۔ تکنیک کے لحاظ سے فن منتشر اور بے قابو مواد پر قابو پانے اور اسے تنظی دینے کا نام ہے۔ اعلیٰ فن کی ایک اور خصوصیت ان کے نظریہ حیات سے مطابقت رکھتی ہے ۔ اقبال کی نظر میں زندگی ایک تسلسل کا نام ہے جسے کہیں قیام نہیں۔ انسان زندگی سے محض اس وقت ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔ جب وہ اپنی تمام تر قوتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کے ارتقاء کا ساتھ دے۔ قوتوں اور توانائیوں کا یہ شاعر کمزوری اور سے طاقتی کے کسی اظہار کو بہ نظر استحسان نہیں دیکھتا۔ انسان کا کام فطرت کو مسخر کرنا ہے ا س لحاظ سے دیکھیے تو تسخیر کوئی عمل کمزوری اور بے طاقتی کا حامل نہیں ہو سکتا۔ فن کار کے بارے میں اقبال کیا کہتے ہیں خود ان سے سنیے: گرم خون انسان ز داغ آرزو آتش ایں خاک از چراغ آرزو سینہ شاعر تجلی زار حسن خیزد از سینائے او انوار حسن از نگاہش خوب گردد خوب تر فطرت از فسون او محبوب تر بحر و بر پوشیدہ در آب و گلش صد جہان تازہ مضمر در دلش در دماغش نادمیدہ لالہ ہا نا شنیدہ نغمہ ہاھم نالہ ہا فکر او با ماہ و انجم ہم نشیں زشت را نا آشنا خوب آفریں اقبا ل کا فن کا ر اپنی ذات سے ناموجود عالموں کی تخلیق کرتا ہے۔ ’نادمیدہ‘ پھول کہلاتا ہے ناشنیدہ نغمے سناتا ہے۔ وہ اعلیٰ افکار کا حامل بدی سے نا آشنا اور خوبیوں کا خالق ہوتا ہے۔ یوں اقبال شاعر کی تعریف کر کے شاعری کی خصوصیات کی طرف بھی واضح اشارہ کرتے ہیں۔ اقبال کا خیال ہے کہ قومی زوال کی صورت میں اوریہ زوال سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال اور غلامی کی صورت حال سے پیدا ہوتا ہے۔ دانش تہذیب اور دین سب زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں شاعر جو بقول اقبال قوم کا دل یا ا س کی آنکھ ہوتا ہے وہ بھی زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ بقول اقبال: وائے قومے کز اجل گیرد برات شاعرش وا بوسد از ذوق حیات بوسہ او تازگی از گل برد ذوق پرواز از دل بلبل برد سست اعصاب تو از مضمون او زندگانی قیمت مضمون او جوئے برقے نیست در نیان او یک سراب رنگ و بو بستان او زوال آمادہ شاعر کی یہ پہچان بتانے کے بعد اقبال اسے طاقتوں اور توانائیوں کے سر چشموں کی طرف بلاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ا س کے لیے عجم سے عرب کی طرف مراجعت قوت و صحت کا پیغام ہو گی۔ اے میان کیسہ ات نقد سخن برعیار زندگی او را بزن از چمن زار عجم گل چیدہ ای نو بہار ہند و ایراں دیدہ ای اند کے از گرمی صحرا بخور بادہ دیرینہ از خرما بخور مدتے غلطیدہ اندر حریر خوبہ کر پاس درشتے ہم بگیر خویش را بر ریگ سوزاں ہم بزن غوطہ اندر چشمہ زمزم بزن تاشوی در خورد پیکار حیات جسم و جانت سوزد از نار حیات اس مختصڑ سے جائزے میں ہم نے فکر اقبال کے چند پہلوئوں کی طرف مختصر اشارے کیے ہیں۔ ہماری رائے میں اقبال کی توحیدی فکر کے لحاظ سے خدا اور کائنات کے ساتھ انسان کا صحیح راستہ اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب انسان مختلف سطحوں پر وحدت حاصل کر سکے فرد کی سطح پر ‘ قوم کی سطح پر ‘ ملت کی سطح پر اور انسانیت کی سطح پر۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب دنیا میں انسان کن رویے اور انسان کش نظام ختم ہوں جب جمود اور انتشار کی قوتوں کی جگہ تخلیق کی اثباتی قوتیں کارفرما ہوں۔ اس سلسلے میں کلام اقبال کی شہادت آج کے عصری رجحانات سے ہوتی ہے۔ مثبت رجحانات کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے۔ منفی رجحانات کے لیے خود اپنے معاشرے پر نظر ڈالیے۔ کیا مزید کچھ کہنے کی گنجائش ہے ؟ بہرحال اقبال سے سنیے: آہ اس راز سے واقف ہے نہ ملا نہ فقیہہ وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام ٭٭٭ ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو آتی نہیں کچھ کام یہاں عقل خداداد ٭٭٭ اقبال اور تاریخ گوئی کسریٰ منھاس اسلامی تہذیب کے فنون شریفہ میں تاریخ گوئی کو جو مقام حاصل ہے۔ وہ محتاج تعریف نہیں لیکن یہ سوچ کر رنج ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ ہم اپنی تاریخ سے منحرف ہوتے جا رہے ہیں۔ دور حاضر میںہماری تہذیب اپنے پر فخر کرنے کی بجائے ایسا محسوس ہتا ہے کہ اپنے کارناموں پر شرمندہ ہے اسلامی زمانؤے میں اور اس کے بعد اب سے کچھ سال پہلے تک بھی خوش نویسی شہسواری‘ شاعری‘ طب یونانی‘ نجو م اور رمل اور اس قبیل کے دوسرے بہت سے علوم و فنون پرانے گھرانوںمیں ہر شخص کو سکھائے جاتے تھے۔ ان کا شوق عام تھا اور مہذب ہونے کی دلیل سمجھا جاتا تھا۔ انہیںفنون میں تاریخ گوئی بھی شامل تھی۔ عالم یہ تھا کہ حاضر طبع لو گ خواہ وہ شاعر ہوںیا نہ ہوں چلتے پھرتے تاریخیں کہہ لیتے تھے پچھلی نسل تک ایسے لوگ کم یاب نہ تھے اب یہ حال ہے کہ تاریخ گوئی بھی مردہ فنون میں شامل ہو تی جا رہی ہے۔ نہ وہ اہل کمال رہے اورنہ وہ ذوق و شوق باقی ہے۔ مگر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ چھوٹے چھوٹے قصبوں میں ایسے بے شمار لوگ مل جاتے تھے۔ جو نہ عالم ہوتے تھے نہ شاعر مگر اپنی موزونی طبع کے بل بوتے پر حسب فرمائش تاریخ نکال سکتے تھے۔ مثلاً کہیں مسجد تعمیر ہو رہی ہے۔ کسی نے توجہ دلائی کہ حضرت کی اس تاریخ تعمیر کیا ہو سکتی ہے۔ تو انہوںنے بلا تکلف ایک مجموعہ الفاظ جو ان کی زبان سے جاری ہو گیا اور کہا لیجیے یہ ہے تاریخ تعمیر۔ اسی طرح دوسرے مواقع پر بھی موزوں تاریخیں باتوںباتوں میں کہہ دیتے تھے۔ ایسے موقع پر کچھ حیرت بھی نہ ہوت تھی۔ اس لیے کہ یہ ایک عا م بات تھی۔ ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں۔ جنہوںنے فرمائش پر یکے بعد دیگرے بیسیوں تاریخیں نکا ل دیں۔ اور ذرا توقف نہ کیا۔ پرانے استاتذہ کے دواوین تارخوں سے بھرے ہوئے ہیںَ یہ ایک دستور تھا کہ ہر شعری مجموعے کے آخر میں مصنف کی کہی ہوء تاریخیں درج ہوتی تھیں اوراسی طرح چند منتخب تاریخیں دوسرے ہم عصر حضرات کی اس شعری مجموعے کے متعلق بھی دی جاتی تھیںَ اس کے برخلاف موجودہ نسل کی کاوشوں میںخواہ کچھ او رموجود نہ ہو یا نہ ہو۔ کم از کم تاریخیںنہیںہوتیں۔ یہ غالباً ہمارے دور کے عجز کی ایک نمایاں مثال ہے۔ فن تاریخ گوئی ۱؎ اسلامی تہذیب کی ایک نمایاں مثال ہے۔ یوں دیکھا جائے تو دوسری اقوام میں بھی تاریخ گوئی کا شوق پایا جاتا ہے لیکن اسلامی تہذیب مین اس کو جو بلند مقام حاصل ہے اور اس کا جتنا رواج ملتا ہے اس کا جواب نہیں۔ ۱؎ لغت میں تاریخ وقت ظاہر کرنے کے معنی میں آیا ہے اور اصطلاح مورخین و شعراء میں کسی مشہور و معروف واقعہ مثلاً شادی یا ولادت یا تخت نشینی یا وفات یا بنائے عمارت یا اشاعت کتب وغیرہ کے ابتدا کی مت معین کرنے کو کہتے ہیں یہ تعین مدت سنہ ہجری یا سنہ عیسویں یا سنہ موسوی یا سنہ الٰہی یا سنہ مہدوی یا سنہ بکرما جیتی سے کی جاتی ہے۔ اہل عرب حساب دانی کا بڑا شوق رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب کے قدیم ترین دور سے اب تک تاریخ گوئی عربی فارسی اور اردو زبانوں میں جاری و سار ی رہی ہے۔ اوپر اشارہ دیا جا چکا ہے کہ تاریخ گوئی کے لیے شاعری کی بھی کوئی ایسی خاص شرط نہیںہے۔ کسی موزوں مجموعہ الفاظ سے تاریخ نکالنا ممکن ہے۔ خواہ وہ مجموعہ الفاظ نثر کی شکل میں ہو یا نظم کی صورت میں پھر بھی جو تاریخیں شعر کی صورت میں ہوں ان کا زبان زد عام ہونا اور یاد رہ جانا قرین قیاس ہے یہی وجہ ہے کہ تاریخ گوئی شاعری کا ایک شعبہ قرار پائی ہے اور شعرائے ضرورت اور موقع کی مناسبت تاریخیںکہی ہیں۔ عربی سے قطع نظر فارسی اور اردو میں بے شمار تاریخیں کہی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ کسی ایسے شعری مجموعے کا تصور کرنا مشکل ہے جس میں مصنف نے خود اپنی کہی ہوئی تاریخیں شامل نہ کی ہوں یا اس کتاب کی طباعت کے متعلق دوسروں کے قطعات تاریخ درج نہ کیے ہوں۔ اسی لیے اور زیادہ افسوس ہوتا ہے کہ ہماری نسل کے شعراء تاریخ گوئی سے یوں بیگانہ ہوتے جا رہے ہیں او ر ایک قدیم روایت سے اس طرح کٹتے جا رہے ہیں۔ جیسے تاریخ گوئی اسے اسلامی تہذیب کا کوئی تعلق نہ ہو۔ یہ موقع فن تاریخ گوئی کی باریکیاں بیان کرنے کا نہیں ورنہ بتایا جا سکتا ہے کہ تاریخ گوئی اپنی جگہ ایک فن ہے اوراس کے منضبط اصول ہیں۔ تاریخیں بالواسطہ کہی جا سکتی ہیں اور بلا واسطہ بھی تعمیہ تخرجہ صنعت اہمال اعجام تضارب تناصب‘ تحریک‘ تسکین‘ تعریب معکوس‘ مسجع ‘ معمی‘ تکثیر ‘ مجمع الاقسام مجمع الصنائع وغیرہ میں بھی اعلیٰ پایہ کی تاریخیںملتی ہیں۔ ان تمام صنائع و بدائع اور اس قسم کے دوسرے محاسن تاریخ گوئی پر نظر ڈالی جا سکتی ہے لیکن یہ خیا ل دامن گیر ہے کہ ہم اپنے اس اصل موضوع سے ہٹ جائیں گے۔ البتہ یہ کہنا ضروری ہے کہ بعض بڑے نامور شعراء تاریخ گوئی کے میدان میں کوئی بڑاکارنامہ انجام نہ دے سکے۔ غالب کی مثال لے لیجیے۔ یہ بجا کہ غالب سر اامد شعرائے اردو ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ فارسی دانایان ہند میںغالب کا جواب مشکل ہی سے نکلے گا۔ لیکن غالب کی تاریخیں دیکھیے تو اندازہ ہو گا کہ اس فن میں وہ کسی بڑی حیثیت کے مالک نہ تھے ۔ پھر بھی غٓلب ے دیوان اردو ارو کلیات فارسی دونوں میں ان کی کہی ہوئی تاریخیں موجود ہیں۔ غٓلب کے بعد دوسرا بڑا نام اردو شاعری میں اقبال کا ملتاہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ کلام اقبال کے متد اول مجموعوں میںان کی تاریخیں نہیںملتیں لین اس کے یہ معنی نہیں کہ جدت کے شوق میں اقبال اسلامی تہذیب کی اس روایت سے کٹ گئے تھے۔ اس میںکلام نہیں کہ تاریخ گوئی کا فن بیسویں صدی کی پہلی ہی چوتھائی میں انحطاط پذیر ہونا شروع ہو گیا تھا لیکن قدیم رنگ کے شعراء کچھ نہ کچھ ضرور موجو د تھے اور اس لحاظ سے تاریخ گوئی کی روایت بھی باقی تھی۔ بیسویں صدی کے ربع دوم یعنی (۱۹۲۶ء تا ۱۹۵۰ ) اردو شاری کی کایا پلٹ ہو گئی۔ غزل کے مقبلے پر نظم اور وہ بھی جدید اور آزاد نظم مقفیٰ شاعری کے مقابلے میں نظم معریٰ۔ عروض کے مقابلے میں غیر پابند بے وزن شاعری اور اس قسم کی جدتیں شاعری کے لیے نقصان رساں ثابت ہوئیں۔ گنتی کے چند شعرا کے سوا کوئی اچھا شاعر ہی نہ رہا۔ ایسے میں توقع رکھنا کہ تاریخ گوئی زندہ اور قائم رہے گی خوش خیالی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ اس پس منظر میں ہم علامہ اقبال کی شاعری کی طرف بہ نظر تعمق دیکھتے ہیں تو عجیب ہی منظر نگاہوں میں آتا ہے۔ اقبال کو تاریخ گوئی سے ربط خاص تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے مروجہ شعری مجموعوں میں ان کی کہی ہوئی تاریخیں سرے سے موجود نہیں۔ اس کی وجہ کچھ بھی ہو ہمیں اس سے اعتراض نہیں لیکن یہ امر حقیقت ہے کہ شاعری کے ابتدائی دور سے آخر عمر تک علامہ اقبال تاریخ گوئی میںمنہمک رہے ابتدائی دور کی تاریخوں میںوہ تاریخ شامل ہ جو علامہ صاحب نے سر سید احمد خاں کی وفات پر کہی تھی۔ یہ واقعہ ۱۸۹۸ء کا ہے اقبال کے آخری زمانے کی تاریخوں میںایک تاریخ ہے جو انہوںنے اپنی اہلیہ کی وفات پر یعنی ۱۹۳۵ء میں کہی یعنی اپن موت سے دو سال دس ماہ او راٹھائیس دن پہلے اوراس تاریخ کے بعد دوسری تاریخ سر راس مسعود کی دختر نادرہ مسعود کی پیدائش پر اپنی وفات سے ایک سال ایک ماہ اور بیس دن پہلے کہی تھی۔ ان دونوں تاریخوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ علامہ مغفور کو تاریخ گوئی سے ربط رہا ہے اور ضرورت کے وقت وہ تاریخیں کہا کرتے تھے ان کی تاریخوںمیںولادت وفات تاریخی واقعات کتابوں کی اشاعت اور خطابات کی تاریخیں ملتی ہیں۔ جن پر ہم ذیل میںاظہار خیال کرتے ہیں۔ ولادت: سر راس مسعود کی دختر نادرہ مسعود کی ولادت پر یکم مارچ ۱۹۳۷ء راس مسعود جلیل القدر کو جو کہ اصل و نسل میں مجدود ہے یادگار سید والا گہر نور چشم سید محمود ہے راحت جاں و جگر و ختر ملی شکر خالق منت معبود ہے خانداں میں ایک لڑکی کا وجود باعث برکات لا محدود ہے کس قدر برجستہ ہے تاریخ بھی باسعات دختر مسعود ہے ۱۹۳۷ء (روزگار فقیر ص ۱۶۴) پورے مصرعے میں سال ولادت جس برجستگی سے موزوں کیا گیا ہے قابل تعریف ہے۔ جس تاریخ میں تعمیہ داخلی یا خارجی نہ ہو ایسی تاریخ سامدالاعداد کہلاتی ہے۔ نادرہ مسعود ۱؎ کی پیدائش کی یہ تاریخ اسی صنعت میں ہے۔ ۱؎ نادرہ مسعود جسٹس محمود کے فرزند اور سید احمد خان کے نامور پوتے سر راس مسعود کی دختر تھیں ۔ سر راس مسعود اور علامہ اقبال کے تعلقات محتاج تعارف نہیں۔ علامہ ہی نے اس بچی کا نام نادرہ مسعود تجویز کیاتھا۔ لیڈی سر راس مسعود ایک روشن زکیال خاتون تھیں۔ جن کا علامہ صاحب بے حد احترام کرتے تھے۔ سر راس مسعود کے ہاں بھوپال میں ۱۹۳۵ء ۱۹۳۷ء ک یدوران متعدد مرتبہ ریاض منزل اور شیش محل میں ان کا قیام رہا۔ ان کے متعلق ڈاکٹر اقبال فرمایا کرتے تھے۔ سر مسعود کا دماغ انگریز کا اور دل سچے مسلمان کا ہے۔ اور اس کے جواب میں سر راس مسعود فرماتے اقبال غنیمت ہے کہ میرا دماغ مسلمان اور دل انگریز کا نہیں ہے۔ بھوپال سے ڈاکٹر صاحب کو وظیفہ بھی ملتا تھا۔ علامہ (بقیہ حاشیہ صفحہ آئندہ) تعمیرات ذوالفقار گنج بانی ایں خوش بنا سر ذوالفقار سال تعمیرش ز ہاتف خواستند از فلک تاریخ چوں شبنم چکید بر زمیںخلد بریں آراستند ۱۹۲۱ء (سرود رفتہ ۲۱۵) اس تاریخ میںایک نکتہ قابل تصڑیح ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے آراستند میں الف ممدوہ کے دو عدد لیے ہیں۔ صاحب غرائب الحمل کا قول ہے کہ الف ممدودہ کا ایک ہی الف محسوب ہو ۱؎ ۔ اور صاحب ملخص تسلیم کی یہ رائے ہے کہ الف ممدودہ دو الف است ۔ اندریں صورت گرفتن دو عدد می باید۔ اماچہ تو ان کرد کہ بمقابلہ گواہی صد ہزار کاذب قول یک صادق باور نمی شود ۲؎۔ استادان فارس الف ممدودہ کا ایک ہی عد د لیتے ہیں۔ محتشم کاشی نے شہزادہ روم کی آم دپر ایک تاریخ کہی تھی جس میںالف ممدودہ کا ایک ہی عدد لیا ہے۔ تاریخ آں مفار نہ کر دم سوال گفت ماہ عجب رسید بپا بوس آفتاب آفتاب میں الف ممدودہ کاایک عدد لیا ہے لیکن کلیم ہمدانی الف ممدودہ کے دو عدد لینے کے حق میں ہیں: داد ایزد بپا شاہ جہاں خلفے ہمچو نو گل شاداب چوں بدیں مژدہ آفتاب انداخت افسر خویش بر ہوا چو حباب طبع دریافت سال تاریخش زد رقم آفتاب عالم تاب ۱۰۲۹۔۱ ۱۰۲۸ (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) کی علالت کے دوران سر راس مسعود اور ان کی بیگم صاحبہ نے خاطر داری اور خدمت میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا۔ اواخر جولائی ۱۹۳۷ء میں سر راس مسعود کا انتقال ہو گیا۔ تو یکم اگست ۱۹۳۷ء کو لیڈی مسعود کو علامہ مغفور نے جو تعزیت نامہ بھیجا۔ اس کے لفظ لفظ سے وفور رنج و غم کا اظہار ہوتا تھا۔ علامہ نے ان کی وفات پر مرثیہ بھی کہا تھا جس کا پہلا شعر ہے: رہی نہ آہ زمامنے کے ہاتھ سے باقی وہ یادگار کمالات احمد و محمود اقبال کامل ص ۱۴۵ ۱؎ غرائب الجمل ص ۸۵ مولفہ نواب عزیز جنگ دلا۔ ۲؎ ملخص تسلیم ص ۳۷ ا منشی انوار حسین تسلیم سہسوانی کلیم ہمدانی اگر الف ممدودہ کے دو عدد محسوب کرنے کے حق میں نہ ہوتے تو دوسرے شعر میں ایک عدد کے تخرجے کا اشارہ نہ کرتے سند میں الف ممدودہ کے دو عدد اور ایک عدد لینے کی سندیں مورخین اساتذہ کے کلام سے مل جاتی ہیں۔ لیکن ثقہ اساتذہ فن جمل کا اتفاق ہے کہ الف ممدودہ کا ایک ہی عدد محسوب ہو ۔ ڈاکٹر اقبال نے سر ذوالفقار ۱؎ کی ذوالفقار گنج کی جو تاریخ کہی ہے اس میں انہوں نے ان اساتذہ کی پیروی کی ہے جو الف ممدودہ کے دو عدد لینا مستحسن سمجھتے ہیں۔ مسجد داتا گنج بخشؒ لاہور سال بنائے حرم مومناں خواہ ز جبریل و ز ہاتف مجو چشم بہ المسجد الاقصیٰ فگن الذی بارکہ ھم بگو ۳۷۱ ۹۶۹ ۱۳۴۰ء (سرود رفتہ ص ۲۲۲) یہ تاریخ المسجد الاقصیٰ اور الذی بارکہ کے اعداد جمع کرنے سے سال مطلوبہ برآمد ہوتا ہے ۔ یہاں علامہ نے اقصیٰ میں الف خنجری کا ایک عدد لیا ہے۔ جو خلاف جمہور ہے۔ حضرت دلا اپنی مشہور کتاب غرائب الجمل میں لکھتے ہیں کہ اہل جمل کا اسی پر اتفاق ہے کہ لفظ امنو میںچھوٹا الف اس لیے محسوب نہ ہو گا کہ وہ کھڑا زبر ہے ۲؎ ۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ ایسے الف کا ایک عدد شمار کرنا چاہیے۔ صاحب معدن الجواہر کا قول ہے: ’’حر ف ہمزہ در زبان عربی و فارسی و ترکی و ہندی ہر گاہ در صدر کلمہ پیش از الف واقع شود بکتابت در نیابد وعلامتش در عربی ترکی فتحہ راست بصورت الف خردک بالائے الف می نویسند مثل اباو ادم و در فارسی و ہندی خطک کج عرضی کہ آں رامدمی نامند بالائے چنیں الف کہ آنر ا ممدوہ می گوئند۔ می نگار ند مثل آباو آزاد و آمدن و چنین ہمزہ در حساب جمل محسوب نمی شود کہ حرفے نباشد ۳؎‘‘۔ عیسیٰ ‘ موسیٰ ومصطفی اسحق پر الف خنجری کی جو علامت بنائی جاتی ہے اس کا کوئی عدد شمار نہ کیا جائے گا۔ کیونکہ الف خنجری آواز الف کی علامت ہے حرف مستقل نہیں۔ ۱؎ نواب سر ذوالفقار علی خان ڈاکٹر اقبال کے مخلص احباب میں سے تھے۔ انہوںنے لدھیانہ میں مسافروں کے آرام و آسائش کے لیے ۱۹۲۱ء میں ایک سرائے بنوائی تھی۔ جس کا نام انہوں نے ذوالفقار گنج رکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کی تعمیر کی مذکور ہ تاریخ کہی تھی اور یہ تاریخ سرائے کے بڑے دروازے پر کندہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تقسیم ملک کے بعد اس عمارت کی ہئیت کذائی بدل گئی ہو۔ اور جس دروازے پر سنہ تعمیر کندہ تھا وہ بھی مٹ گیا ہو لیکن کتابوں میں ذوالفقات گنج کا نام زندہ رہے گا۔ اور ڈاکٹر اقبال کی یہ تاریخ ہمیشہ اس شاندار عمارت کی یاد تازہ رکھے گی۔ سر ذوالفقار مالیر کوغلہ کے حکمران خاندان کے فرد تھے۔ ڈاکٹر اقبال کے کلام کی ترویج میں انہوں نے انگریزی مضامین لکھے۔ ۱۸۷۳ ء میںپیدا ہوئے اور ۲۶ جون ۱۹۳۳ء کو ڈیرہ دون میںوفات پائی۔ وہ کونسل آف اسٹیٹ کے رکن بھی تھے۔ ۲۔۳؎ غرائب الجمل ص ۸۳ تاریخ گوئی میں مستقل حروف کے عدو لیے جاتے ہیں اور یہی اہل فن کا فیصلہ ہے۔ اس لیے حضرت داتا گنج بخش کی مسجد ۱؎ کی تاریخ میںعلامہ مغفور نے الف خنجری کا جو ایک عدو لیا ہے صحیح نہیں: ٭٭٭ خطابات مہاراجہ سر کشن پرشاد ۲؎ کے مدر المہام ہونے پر صدر اعظم گشت شاد نکتہ سنج ناوک او دشمناں را سینہ سفت سال ایں معنی سروش غیب داں جان سلطان سرکشن پرشاد گفت ۱۳۴۱ھ (شاد اقبال ص ۲۸) علامہ کا مادہ تاریخ بہت صاف اور عمدہ ہے۔ اس سے واقعے کی طرف اشارہ بھی ہے۔ ۱؎ سید علی ہجویریؒ (المتوفی ۴۶۵ھ ۱۰۷۲ء ) ان کا پررونق مزا ر دربار داتا گنج کے نام سے مشہور ہے ۔ اس مزار سے ملحق جو مسجد ہے۔ یہ داتا گنج بخش کی مسجد سے موسوم ہے۔ اس مسجد کی بنیاد داتاگنج بخشؒ نے رکھی۔ اور زمانے کے مطابق اس کی تعمیر ہوئی۔ اس قدیم مسجد کی مرمت بھی گاہے بگاہے ہوتی رہی۔ پہلے گلزار شاہ سادھو کشمیری نے اس کی مرمت کرائی۔ پھر جھنڈ و چوب فروش نے ۱۳۴۰ھ ۱۹۲۱ء میں میاں غلام رسول کٹھ والق نے اس کی توسیع اور تعمیر نو کے لیی روپیہ پانی کی طرح بہایا۔ اس شاندار مسد کے صحن کا رقبہ دو ہزار آٹھ سو مربع فٹ ہے اور مسجد کا دالان وسیع ہے۔ جس کا رقبہ دو ہزر مربع فٹ ہے۔ اوقاف کمیٹی کے سپرد اب داتا گنج بخش کا دربار ہے یہ کمیتی پوری تن دہی سے مزار مقدس اورمسجد کی پوری پوری نگہداشت کر رہی ہے علامہ اقبال کی تاریخ مسجد کے دروازے پر کندہ ہے۔ یہ تاریخ قرآن مجید کے پندرھویں پارہ کی پہلی آیت سے لی گئی ہے۔ اگرچہ آیہ مجیدہ میں اقصا ہے اور بارکہ کی جگہ بارکنا ہے۔ ۲؎ مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد ۲۸ فروری ۱۸۶۴ء کو پیدا ہوئے اور ۹ مئی ۱۹۴۰ء کو سر گباش ہوئے کتب کثیرہ کے مصنف تھے۔ ان کی کتابوں کی فہرست مجلہ عثمانیہ کے مہاراجہ نمبر میں دیکھی جا سکتی ہے ڈاکٹر محی الدین زور مرحوم نے شاد اقبال کے نام سے اقبال اور شاد کی مراسلت ۱۹۴۲ء میں شائع کراد ی تھی۔ یہ کتاب سب رس کتاب گھر حیدر آباد دکن سے مل سکتی ہے دیباچے میں ڈاکٹر زور نے شاد اوراقبا ل کے تعلقات پر ان کے خطوط کی روشنی میںنہایت قابلیت سے بحث کی ہے۔ ارو ان تمام گوشوں کی نشان دہی کی ہے۔ جن کا تعلق شاد اور اقبال کے مخلصانہ دوستاہ مراسم تھیا۔ قطعہ تاریخ جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ مہاراجہ کے منصب جلیلہ صدارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے متعلق ہے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اقبال کو مہاراجہ کے صدر اعظم ہونے کا اتنا یقین ہو گیا کہ مذکورہ قطعہ تاریخ کہہ کر ان کو مبارکباد دی۔ یہ واقعہ ۱۳۴۱ھ ۲۳۔۱۹۲۲ء کا ہے لیکن افسوس کہ شاعر کا خیال پورا نہ ہوا۔ آخر ۱۹۲۷ء میں مہاراجہ مدار المہام دولت آصفیہ ہوئے ڈاکٹر اقبال نے تار کے ذریعہ تہنیت کی۔ جس کا جواب مہاراجہ نے ۴ جنوری ۱۹۲۷ء کو شکریہ کے ساتھ دیا۔ مہاراجہ سے اقبال کا پہلا تعارف مارچ ۱۹۱۰ء حیدر آباد میں ہوا۔ اقبال نے حیدر آباد اور مہاراجہ کی تعریف میں نظمیں بھی لکھیں اور قصیدے بھی کہے۔ دوسری ملاقات جولائی ۱۹۱۳ء میں سر زمین پنجاب میں ہوئی اقبال جب دوسری مرتبہ حیدر آباد گئے تو مہاراجہ مدر المہام ہو چکے تھے یعنی ۱۹۲۹ء میں ۱۵ جنوری ۱۹۲۹ء ٹائون ہال باغ عامہ میں اقبال نے لیکچر دیا اور مہاراجہ کے ہاں مشاعرے میں شرکت بھی کی۔ ایسے مادہ تارٰ شاذ ہی ہاتھ آئے ہیں اسے بقول اقبال سروش غیب دان کی نوازش ہی کہا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭ اشاعت کتب شالامار باغ حسن سعی فوق راصد مرحبا ہست ہر سطر کتابش دل ربا از شر نازش پئے تاریخ او می سزد تصویر باغ جاں فزا ۱۸۵۱+۵۰=۱۹۰۱ (باقیات اقبال ص ۴۸۴) تصویر باغ جانفزا کے عدد (۱۸۵۱ئ)ہوتے ہیں سال مطلوبہ چونکہ (۱۹۰۱ئ) ہے اس لیے سر نازش کہہ کر نو ن کے پچاس عدد مادہ تاریخ میں شامل کر کے تاریخ برآمد کی گئی ہے۔ ایسی تاریخٰں ناقص الاعداد کے ضمن میں آتی ہیں یعنی وہ تاریخ جس میں عد د کم ہوں اور شاعر مصرع اولیٰ میں کسی واضح اشارے سے ان اعداد کو پورے کرنے کی تصریح کر دے۔ ایسی تاریخ میں جو مورخ اقدام کرتا ہے اسے تعمیہ داخلی کے نام سے پکارا جاتا ہے مثلا حضرت داغ دہلوی کی ایک تاریخ ہے: لکھا سر آغاز سے یہ داغ نے سال بالفعل جہاں دار نے مارے دو شیر بالفعل جہاں دار نے مارے دو شیر کے عدد (۱۳۰۸) ہوتے ہیں سر آغاز کہہ کر ایک عدد مادہ تاریخ میں شامل کر ے (۱۳۰۹) مطلوبہ سال برآمد کیا ہے۔ اکثر شعرا اس طرح تدخلہ کیا کرتے ہیں کہ از سر اخلاص یا از دل شاد یا از پائے گریز۔ وغیرہ اس سے بہتر صورت تدخلے کی ایک اور ہوتی ہے۔ مولانا صفی نے بلیغ لکھنوی کی وفات پر جو تاریخ کہی ہے ا س کا انداز معنوی ہے لفظی نہیں۔ تاریخ کہی صفی نے بھر کر اک آہ ہم سب ہیں بلیغ کی جگہ خالی ہے ۱۹۲۸+۶=۱۹۳۴ء ہم سب ہیں بلیغ کی جگہ خالی ہے کے اعداد (۱۹۲۸) ہوتے ہیں۔ واقعہ چونکہ(۱۹۳۴ ٰ) کا ہے اس لیے لفظ (آہ) جس کے چھ عدد ہوتے ہیں داخل مادہ تاریخ کر کے مطلوبہ سال برآمد کیا ہے۔ علامہ اقبال کی یہ تاریخ جو شالامار باغ ۱؎ کی اشاعت کے موقع پر کہی گئی ہے لقمہ داخلی کی صنعت میں ہے: ۱؎ شالامار باغ لاہور کے شاہی باغوں میں سے ہے جو باغبان پورہ لاہور میں واقع ہے۔ ا س باغ کی تاریخ اور کوائف جناب فوق نے اپنی اس کتاب میں نہایت تحقیق سے لکھے ہیں جس کی تاریخ اشاعت علامہ اقبال نے کہی ہے۔ اس کتاب میں شاہی ایوانات محل سرائوں سیر گاہوں وغیرہ کا حال درج ہے کشمیر دہلی پنجاب کے آٹھ اور باغات جو شالامار کے نام سے مشہور ہیں ان کے حالات بھی اس کتاب میں ہیں۔ شالا مار باغ کے مختلف نام اور ان کی وجہ تسمیہ استاد جانی میر عمارت شالامار باغ پر لاگت و سال تعمیر (باقی حاشیہ صفحہ آئندہ) ٭٭٭ کلام فوق جب چھپ گیا مطبع میں یہ مجموعہ اشعار معلوم ہوا مجکو بھی حال نضر فوق شستہ ہے زباں جملہ مضامین ہیں عالی تعریف کے قابل ہے خیال نضر فوق تاریخ کی مجکو جو تمنا ہوئی اقبال ہاتف نے کہا لکھ دے کمال نفر فوق ۱۳۲۷ھ (سرود رفتہ ص ۲۱۶) مطبوعہ دیوان میں کمال نظر فوق چھپ گیا۔ جس سے مادہ تاریخ میں ایک سو عدد کا اضافہ ہو گیا یعنی نظر کہنے سے اس کے عدد ۱۴۲۷ برآمد ہوتے تھے جو سال اشاعت سے ایک سو سال زیادہ تھے۔ تقاریخ گوئی کی جانب آج کل جو بے اعتنائی برتی جا رہی ہے وہ عبرت انگیز ہے۔ اگر کوئی تاریخ سہو کتابت کی بنا پر ایک بار غلط چھپ گئی تو یہ سمجھیے کہ حشر تک وہ یوں ہی غلط چھپتی رہے گی۔ نہ کسی کو اتنا علم ہے اورنہ اتنی دلچسپی کہ ایسے اغلاط کی صحت کی جا سکے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ ظہور پذیر ہوا ہے میرے عزیز دوست مولوی محمد عبداللہ قریشی جو کلام اقبال کے پرستا ر ہیں۔ ایک روز افسوس کرنے لگے کہ مشہور کشمیری شاعر فوق کے دیوان شائع ہوا ہے ا س میں تاریخی مادہ کمال نظر فوق ہے جس سے تاریخ برآمد کی گئی ہے لیکن اس میں سو عدد بڑھ جاتے ہیں۔ راقم الحروف کو بھی اس فن سے گہری دلچسپی ہے۔ میں نے بھی مادہ تاریخ کو جانچا اور غو ر کیا تو غلطی میری سمجھ میں آ گئی اور میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ علامہ مغفور نے نظر نہیں کہا بلکہ نضر کہا ہے ل۔ نظر یہاں معنوی اعتبار سے موزوں نہیں۔ اس تاریخ کے متعلق مولوی عبداللہ قریشی نے مجھ سے ۱۹۵۶ء استفسار کیا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مولانا غلام رسول مہر کی مرتبہ کتاب سرود رفتہ میں بھی یہ قطعہ تاریخ نظر فوق ہی کے ساتھ چھپ گیا ہے لیکن مولانا مہر نے یہ استادی برتی کہ تاریخ برآمد نہ کی۔ صرف قطعہ نقل کر دیا۔ اسی طرح جب حفیظ ہوشیار پوری نے ڈاکٹر اقبال کی تاریخوں پر روزنامہ آفاق (۲۱ اپریل ۱۹۵۱) میں اظہار خیال کیا تو اس تاریخ پر تنقید فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں: (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) … شالامار باغ کے تین تختے (باغ فیض بخش‘ حیات بخش‘ فرغ بخش) انگو ری باغ عنایت باغ مہتابی باغ‘ گلابی باغ‘ شاہی حمام ‘بارہ دری‘ سر د خانہ‘ آبشار کلاں اور میلہ چراغاں کا حال اس کتاب میں ملتا ہے۔ شالامار میں آتش بازی اور چراغاں کا حال اس کتاب میں شرح و بسط سے کیا گیا ہے۔ ایک انگریز کپٹن کرسول نے انڈین آرکیالوجیکل کے ماہ ستمبر ۱۹۲۲ء میں بھی ا س باغ کا ذکر کیا ہے۔ اور جناب فوق کو ان کی اس کتاب کی اشاعت پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ۱۳۲۷ھ میں منشی محمد دین فوق مرحوم کا مجموعہ کلام شائع ہوا اور اس میں علامہ اقبال کا یہ قطعہ تاریخ درج تھا: … … … … … … … … … … … … تاریخ کی مجکو جو تمنا ہوئی اقبال ہاتف نے کہا لکھ دے کمال نظر فوق لیکن یہ مادہ تاریخ درت معلو م نہیں ہوتا۔ علامہ مرحوم کو اعداد و شمار کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ کیونکہ کمال نظر فوق کے اعداد ۱۴۲۷ ہیں حالانکہ ۱۳۲۷ ہونے چاہئیں تھے۔ (روزنامہ آفاق ۲۱ اپریل ۱۹۵۱ئ) حضرت حفیظ ہوشیارپوری ایک تاریخ گو شاعر تھے۔ ان سے اس اعتراض کی توقع نہیں کی جا سکتی افسوس کہ وہ ایک سو عدد کی زیادتی پر غور نہ فرما سکے۔ ورنہ یہ تاریخ ۱۹۵۱ء ہی میں صحیح ہو جاتی۔ نضر بضمنین ‘ فوبی‘ تازگی‘ زیبائی وغیرہ کے معنوں میں آیا ہے چنانچہ فرہنگ انند راج جلد سوم صفحہ (۵۸۲) اورتسہیل العربیہ صفحہ (۸۵۸) دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تاریخ چونکہ ایک دیوان ی تاریخ ہے اس لیے اس میں معنوی طور پر حسن و خوبی و زیبائی کے مفہوم کو زیادہ دخل ہے نظر تنقید ‘ تحقیق‘ اور فلسفیانہ موشگافیوں کے لیے تو موزوں ہو سکتا ہے۔ لیکن شعری مجموعی کے لیے حسن و خوبی و رعنائی ہی درست کہے جا سکتے ہیں۔ اسی لیے علامہ اقبال نے لفظ نضر مادہ تاریخ لکھ کر جناب فوق ۱؎ کشمیری کے دیوان کی تعریف کی ہے۔ ۱؎ منشی محمد الدین فوق فروری ۱۸۸۷ء میں موضع کوٹلی ہزار ائن ضلع سیالکوت میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۹۵ء میں مڈل پاس کر کے سیالکوت میں پٹوار کا کام سیکھا۔ ملازمت کی توقع پر جموں تشریف لے گئے لیکن کسی وجہ سے ۱۸۹۶ء میں پھر لاہور آگئے۔ لاہور میں مشاعرں میںشرکت کرتے اور اپنا کلام سنا کر داد حاصل کرتے بزم قیصری میر ناظم حسین ناظم لکھنوی کی سرپرستی میں مشاعروں کا اہتمام کرتی تھی۔ اسی بزم میں ڈاکٹر اقبال مرحوم بھی شرکت فرماتے تھے۔ ایک انجمن اتحاد بھی تھی۔ جس کی بنیاد حکیم شجاع الدین محمد نے ۱۸۹۰ء میں ڈالی تھی۔ انجمن اتحاد اور بزم قیصری دونوں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی پوری کوشش کرتی تھیں اقبال کا یہ شعر اسی زمانے کی یادگار ہے: نسیم و تشنہ ہی اقبال کچھ اس پر نہیں نازاں مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغ سخن داں کا فوق حضرت داغ کے شاگردوں میں سے تھے کتب کثیرہ کے مولف ان کی کتابوں کی مکمل فہرست نقوش لاہور نمبر کے صفحہ ۹۹۹ سے ۱۰۰۱ تک دیکھی جا سکتی ہے۔ اقبال اور فوق کے تعلقات گہرے تے۔ دونوں کشمیری تھے۔ فوق نے ۱۹۴۵ء میں وفات پائی مذکورہ قطع تاریخ فوق اور اقبال کی مخلصانہ دوستی اور ادب نوازی کی یادگار ہے ۔ مثنوی گوہر یعنی موتیوں کا ہار مرحبا سے ترجمان مثنوی معنوی ہست ہر شعر تو منظور نگاہ انتخاب از پی نظارہ گلدستہ اشعار تو حسن گویائی زروئے خویش بروار و نقاب بہرسال طبع قرآن زبان پہلوی بلبل دل می سراید تلک آیات الکتاب ۱۳۱۷ھ قدیم رواج کی پابندی میں حضرت علامہ نے آیات کے الف ممدودہ کے دو عدد لیے ہیں۔ الف ممدودہ کے دو عدد لینے کی مثالیں ملتی ہیں۔ مولانا صفی فرماتے ہیں کہ ایسے الف کو دو الف سے کتابت کرنا چاہیے جیسے بہار عجم اور صاحب فرہنگ انند راج نے کیا ہے کیونکہ ان دونوں لغات میں الف ممدودہ و الف سے کتابت ہے۔ اس لیے تاریخ میں دو الف سے کتابت کرنے سے اعتراض رفع ہوجاتا ہے۔۔ مولانا صفی کی ایک تاریخ ہے جو انہوںنے میرازا بہادر محمد عبا س رئیس اعظم لکھنو کی وفات پر کہی تھی۔ تاریخی شعر یہ ہے: صفی زبنا پہ تاریخ آنکھ میں آنسو ستارہ ڈوب گیا آسمان ہمت کا ۱۳۲۸ھ اس لیے اگرآیات کی کتابت دو الف اے (اآیات) کر دی جائے تو اعتراض کی پھر کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ ٭٭٭ میرے مخدوم و مکرم نے لکھی ایسی کتاب شاید لیلائے عرفاں کا جسے محمل کہیں ہے مصنف نخل بند گلشن معنی اگر مزرع کشت تمنا کا اسے حاصل کہیں از پئے تاریخ ہاتف نے کہا اقبال کو زیب دیتا ہے اگر مرغوب اہل دل کہیں ۱۳۱۸ھ مرغوب اہل دل مادہ تاریخ ہے جس کے عدد ۱۳۱۸ نکلتے ہیں۔ ٭٭٭ غیرت نظم ثریا ہے یہ نظم دلکش خوبی قول اسی نظم کی شیدائی ہے فکر تاریخ میں میں سر بگریباں جو ہوا کہ دیا دل نے یہ خضر رہ دانائی ہے ۱۹۰۱ء یہ خضر رہ دانائی ہے کے علاہ صاحب نے (۱۹۰۱ئ) عدد شمار کیے ہیں یہاں یہ نکتہ قابل غو ر ہے کہ دانائی کے (۶۶) عدد محسوب ہوئے ہیں اور اگر دانائی کی (ئی) کو ہمزہ اور ی سے کتابت کیا جائے تو یہ ازروئے رسم الخط دو (ی) ہیں۔ ایک شوشے کی صورت میں جو ہمزہ کی آواز دے رہی ہے۔ اور دوسری دائرے کی شکل میں یائے معروف ساکن قاعدہ یہ ہے کہ جن الفاظ کے آخر میں الف یا وائو (معروف خواہ مجہول) ہو جب یائے معروف بڑھائی جائے تو دو ساکنوں یعنی الف خواہ داد مذکرو اور اس (ی) کے درمیان ایک یائے وقایہ جو مکسوراور ہمزہ کی آاوز دیتی ہے لائی جائے گی جیسے آ سے آئی۔ سو سے سوئی (جس میں داد مجہول ہے) سوئی بمعنی سوزن (جد میں وائو معروف ہے) اسی طرح دوئی کوئی روئی سب الفظ لکھے جائیں گے اور یہی قاعدہ گدائی مینائی‘ جدائی‘ کتخدائی اور دانائی وغیرہ پر بھی وارد ہوتا ہے۔ اساتذہ کے ہاں ایسی (ئی) کو بضرورت (ی) بھی کتابت کیاگیا ہے بعض اساتذہ ایسی (ئی) کو بغیر ہمزہ کے (ی) بھی کتابت کرتے ہیں اورایک ہی (ی) کے عدد لیتے ہیں۔ صاحب ام التواریخ نے دانای کے (۶۶) اور (دانائی) کے ۷۶ عدد محسوب کیے ہیں۔ اگر علامہ مغفور کی تاریخ میں دانائی کی کتابت (دانای) کی جائے تو پھر اس پر اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ ٭٭٭ بزم سخن میں اہل بصیرت کا شور ہے یہ نظم ہے کہ چشم فصاحت کا نور ہے میں نے کہا یہ دل سے کہ اسے مایہ ہنر تاریخ سال طبع کا لکھنا ضرور ہے ہاتف نے دی صدا سر اعدا کو کاٹ کر حقایہ نظم موج شراب طہور ہے ۱۹۰۱۔۱=۱۹۰۰ حقایہ نظم موج شراب طہور ہے۔ کے عد د(۱۹۰۱) ہوتے ہیں تاریخٰ شعر کے مصرع اولیٰ میں سر اعداد کو کاٹ کر کے اشارے سے واضح ہو جاتاہے کہ مادہ تاریخ میں سے ایک عددکم کیا جائے تع سال مطلوبہ (۱۹۰۰) برآمد ہوتا ہے۔ علامہ کی یہ تاریخ صنعت تخرجہ یا صنعت تعمیہ خارجی کے ذیل میں آتی ہے۔ تعمیہ لغت میں پنہاں داشتن کے معنی میں اایا ہے اصطلاح شعرا میں کمی و بیشی اعداد سے مراد لی جاتی ہے مثلاً سر دیں را برید بے دینے (دین) کے عدد ۶۴ ہوتے ہیں۔ سر دیں را برید کہہ کر دال کے اعداد کا تخرجہ کیا گیا ہے فن جمل میں دال (د) کے چار عدد شمار کیے جاتے ہیں۔ بعض اس طرح تخرجہ کرتے ہیں دل شاد نہیں رہا۔ شاد کے الف کا تخرجہ اسی طرح جان جب نکلی بہادر کی تو زحمت نے کہا۔ یہاں بہادر کی جان الف ہے اس تخرجے سے ایک عدد کم کیا جا سکتاہے۔ اس کی ایک معنوی صورت بھی ہوتی ہے مثلاً استاد جلیلؒ کا ایک قطعہ تاریخ ہے۔ جس کا تاریخی شعر یہ ہے: بے طلب یافتم ایں مصرع تاریخ جلیل شاہ عثمان بدکن فاتح و منصور آمد ۱۹۶۹۔۴۱=۱۹۲۸ شاہ عثمان بدکن فاتح و منصور آمد کے عدد (۱۹۶۹) ہوتے ہیں پہلے مصرعے میں بے طلب کہہ کر طلب کے ۴۱ اعداد کا تخرجہ کیا ہے اور ۱۹۲۸ء سال برآمد کیا ہے جو مقصود مصنف ہے۔ ٭٭٭ روح فردوس میں رومی کی دعا دیتی ہے آپ نے خوب کیا خوب کہا خوب لکھا درد مندان محبت نے اسے پڑھ کے کہا نقش تسخیر پے طالب و مطلوب لکھا ہاتف غیب کی امداد سے ہم نے اقبال بہر تاریخ اشاعت سخن خوب لکھا ۱۳۱۸ھ سخن خوب سے (۱۳۱۸) عدد حاصل ہوتے ہیں اور یہی سال مطلوب مصنف تھا یہ تاریخی سال تو دو لفظوں سے ظاہر کیا گیا ہے ۔ بعض اوقات ایک ہی لفظ سے مورخین سال مطلوبہ برآمد کرتے ہیں مثلاً آصف الدولہ بادشاہ اودھ کی تاریخ وفات کی تاریخ کسی ایک لفظ غیرب سے نکالی تھی۔ حضرت داغ نے دو لفظوں سے نواب کلب علی خان کے دیوان کی تاریخ شہ نظم ۱۲۹۵ھ کہی تھی علامہ کی یہ تاریخ سالم الاعداد کے ضمن میں آتی ہے کیونکہ اس تاریخ میں تعمیمہ داخلی یا خارجی نہیں۔ ٭٭٭ کتاب مولوی معنوی را شفیقے ماچو در اردو رقم کرد …… …… …… …… سروش دل رقم زد بہر تاریخ خیابانے زبستان عجم کرد ۱۳۱۷ھ (عقد گوہر صفحہ ۲۱۱) ’’خیابانے زبستان عجم‘‘ کے عدد (۱۳۰۷) نکلتے ہیںہو سکتا ہے کہ ’’بستاں‘‘ کو ’’بستانے‘ ‘ کہا گیا ہو۔ اس طرح دس عدد کی جو کمی محسوس کی جار ہی ہے وہ پوری ہو جاتی ہے ۔ عقد گوہر یعنی موتیوں کا ہار پیرزادہ محمد حسین صدیقی جج ہائی کورٹ جموں و کشمیر کی تصنیف ہے۔ علامہ نے اس کتاب کی چھ تاریخیں لکھی ہیں جو اوپر درج کر دی گئی ہیں۔ اگرچہ اس کتاب کی اشاعت کے سال میںاختلاف ہے کہیں ۱۳۱۷ کہیں ۱۳۱۸ کہیں ۱۹۰۰ کہیں ۱۹۰۱ سال اشاعت برآمد ہو رہے ہیں۔ قیاس واثق ہے کہ مصنف نے پہلے ۱۳۱۷‘۱۹۰۰ اس کتاب کی تاریخ کے لیے احباب کو لکھا ہو گا اور بعد میں ۱۳۱۸ اور ۱۹۰۱ کے لیے ۔ احباب نے دونوں سنین کہہ کر بھیج دیے ہوں گے۔ اسی کتاب کے صفحہ (۲۱۲) پر محرم علی چشتی ایڈیٹر اخبار رفیق ہند کے نام سے ایک تاریخ درج ہے اور وہ یہ ہے : مثنوی مولوی روم کے پیر جی صاحب ہوئے ہیں ترجمان بادہ توحید ہے دو آتشہ مست کیف بے نہ ہو کیوں اک جہاں شعر معنی و بیاں کا در کھلا مقصد سر و علن ہوں گے عیاں پہلوی نے دے کے پہلو میں جگہ خوب اردو کی بڑھائی غروشاں طبع کی تاریخ چشتی نے کہی معرفت کے راز ہیں اس میںعیاں ۱۳۱۷ھ (عقد گوہر صفحہ ۲۱۲) اسی طرح منشی ارشاد نبی صاحب قریشی میرٹھی وکیل ریاست بہاول پور نے اس کتاب کی یہ تاریخ کہی: چوں بہ اردو نظم دلکش گفتہ شد زنگ از آئینہ دل رفتہ شد از پے تاریخ او ارشاد گفت مژدہ بالا عقد گوہر سفتہ شد ۱۳۱۸ھ (عقد گوہر صفحہ ۲۱۲) محرم علی چشتی نے ۱۳۱۷ اورارشاد صاحب نے ۱۳۱۸ سال اشاعت برآمد کیا ہے۔ جس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ مصنف نے گوہر عقد کے لیے دونوں سنین کی مختلف وقتوں میںفرمائش کی تھی۔ جس کی احباب نے تعمیل کی۔ عقد گوہر مولوی معنوی کی فارسی مثنوی کا اردو نظم میں ترجمہ ہے جیسا کہ قطعات تاریخ سے واضح ہوتا ہے۔ ٭٭٭ تاریخ فتح سمرنا ۱؎ شاخ ابراہیم رانم مصطفی مہدی آخر زماں ہم مصطفی گوش کن اے بے خبر تاریخ فتح گفت اقبالؒ اسم اعظم مصطفی (باقیات اقبال ۱۲۶ اقبال نامہ ۱۱۰) ۱؎ سمرنا ترکی کا اہم مقام ہے جس پر پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴۔۱۹۱۹) کے بعد یونانیوں نے قبضہ کر لیا اور شہر کی گلیوں میںشہر کے لوگوں اورنہتے سپاہیوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ سمرنا باقاعدہ طورپر یونانی حکومت کا مرکز قرار دیا گیا ۔ یونانی تسلط کی اس خبر نے ترکی کو سراپا احتجاج کر دیا جلسے کیے (بقیہ حاشیہ صفحہ آئندہ) ’’اسم اعظم مصطفی‘‘ کے عدد (۱۳۴۲) اسی صورت میں برآمد ہو سکتے ہیں کہ جب مصطفی کے الف خنجری کا ایک عدد شامل کیا جائے۔ حضرت گرامی نے اس تاریخ کے متعلق فرمایا ہے۔ سبحان ۱؎ اللہ تاریخ فتح کیا دل آویز لکھی ہے۔ وفات مشاہیر کی قبروں کے کتبے مرنے والوں کی وفات کے سا ل کو ظاہر کرتے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے چند تاریخیں ایسی بھی کہی ہیں جن سے مرنے والے کی وفات کا سال ظاہر ہوتا ہے۔ بعض تاریخیںعربی میں ہیں۔ زیادہ فارسی میںاوراردو میں ہیں۔ کچھ تاریخیں قطعات میں موزوں ہیں اور کچھ تاریخوں پر قطعہ تاریخ نہیں کہا گیا۔ فقط سال وفات ایک لفظ یا چند الفاظ میں ظاہرکیا گیا ہے۔ عربی میں ڈاکٹر صاحب کی جو تاریخیں ملتی ہیں۔ ان میں طالب علمی کے زمانے میں سر سید احمد خاں کی وفات پر انہوںنے جو تاریخ کہی تھی وہ بہت مشہور ہے وہ تاریخ یہ ہے : انی متوفیک و رافعک الی و معطہرک ۱۳۱۵ھ (ملفوظات ص ۵۱ ‘ ذکر اقبال ص ۱۹) علی گڑھ کالج کے بانی سرسید احمد خان تھے ۔ یہ کالج کی پھر ترقی کی منازل طے کرنے کے بعد یونیورسٹی ہو گیا۔ مغربی علوم کی ترویج میں سر سید احمد خان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ان کے انتقال پر ہندوستان کے مسلمانوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ اس موت کو قومی اور علمی نقصان سے تعبیر کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب اس زمانے میں ایم اے کے طالب علم تھے۔ انہوں نے بھی اس سانحہ کو شدت رنج و الم سے تعبیر کیا تھا۔ اقبال کے استاد مولوی میر حسن کو بھی اس انتقال سے شدید صدمہ ہوا۔ انہوں نے بھی اس سانحہ الیمہ کی یہ تاریخ کہی جو ایک لفظ میں ہے یعنی غفرلہ (۱۳۱۵) اور ڈاکٹر صاحب کو بھی پیغام بھیجا کہ وہ بھی تاریخ کہیں چنانچہ ان کی مذکورہ تاریخ اپنے محترم استاد کے ارشاد کی تعمیل میں کہی گئی تھی۔ ذکر اقبال کے مصنف کا قول ہے قیام لاہور کے زمانے میں ایک دفعہ اقبال تعطیلات کی وجہ سے سیالکوٹ گئے ہوئے تھے کہ سر سید احمد خاں کے انتقال کی خبر آئی۔ مولانا میر حسن سے سرسید کے تعلقات بہت گہرے تھے۔ انہیں بے حد صدمہ ہوا۔ اقبال ایک شناسا کی دوکان پر بیٹھے تھے۔ تھوڑی دیر فکر کرنے کے بعد سید ذکی شاہ سے کہنے لگے۔ تاریخ وفات ہو گئی جائو ابھی شاہ صاحب کو سنا دو۔ تاریخ وفات تھی انی متوفیک ورافعک الی و مطھرک ذکی شاہ نے یہ تاریخ شاہ صاحب (میر حسن) کو جا کر سنا دی۔ انہوںنے فرمایا بہت خوب ہے۔ میں نے بھی ایک تاریخ نکالی ہے غفرلہ‘‘۔ (ذکر اقبال ص ۱۹)۔ (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ)گئے اور سارے ملک میں ایک وطنی تحریک کی لہر دوڑ گئی۔ یہ تحریک عام طور پر مصطفی کمال پاشا کے نام سے منسوب کی جاتی تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ہی اس کے روح رواں تھے لیکن یونانیوں کے قتل و غارت کا جو سیلاب سمرنا سے شروع ہو ا تھا۔ تیزی سے بڑھ رہا تھا جس سے ہر ترک کے دل میں وطن کی حفاظت کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔ سرفروشوں کی ایک بڑی جماعت مصطفی اتاترک کی سرپرستی میں سر دھڑ کی بازی لگا کر اٹھ کھڑی ہوی آخر سمرنا فتح ہوا جس کی فتح کی مذکورہ تاریخ علامہ اقبال نے کہی ہے ۔ (اقتبس از دولت عثمانیہ جلد دوم ۴۹۔۳۴۸۔ ۲؎ اقبالنامہ ص ۱۱۰ طبع ہونہار بک ڈپو لاہور سیر سید احمد خان کی وفات پر بہت سے مورخین نے اپنے اپنے قطعات تاریخ پیش کیے تھے لیکن مادہ ہائے تاریخ کے انتخاب کے لیے جو کمیٹی تشکیل کی گئی تھی اس نے ڈاکٹر صاحب ہی کی تاریخ کو موزوں تریں قرار دیا ہے اور یہی تاریخ سر سید احمد خاں کی لحد مبارک پر کندہ ہے یہ تاریخ سورہ آل عمران کی ایک آیت کاجزو ہے۔ جس کا ترجمہ اور مفہوم سر سید احمد خان کی زندگی اور تحریک کی پوری عکاسی کرتاہے۔ اور ان کی شخصیت اور ان کے کا م پر پوری پوری روشنی ڈالتا ہے۔ سر سید احمد خان کی وفات ۲۷ مارچ ۱۸۹۷ء کو ہوئی تھی۔ ٭٭٭ کانہ مسیح لکل مراض ۱۳۱۵ھ (باقیات اقبال ص ۴۷۹) پہلی تاریخ انی متوفیک ورافیک الی ومطھرک اس آیہ مجیدہ میں حضرت عیسی علیہ السلام سے خداوند تعالیٰ نے اس خوشنودی کا اظہار کیا ہے جس میں یقین دلایا گیا ہے کہ وہی موت دینے والا ہے ۔وہی درجات بلند کرنے والا اور پاک کرنے والا ہے (الزامات اور بہتان طرازیوں سے) یہ شان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان رفعت و کردار کی پاکیزگی کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ اور ان کے تہمت لگانے والوں کے مقابلہ میں کھلاچیلنج ہے۔ (روزگار فقیر صفحہ ۱۲۸۔۱۲۷) اس مادہ تاریخ پر بعض علماء نے اعتراض کیا ہے کہ اس آیہ مجیدہ کا تعلق حضرت عیسیٰؑ کی ذات والا صفات سے ہے چنانچہ اس اعتراض ۱؎ کو رفع کرنے کے لیے دوسرا مادہ تاریخ ڈاکٹر مرحوم نے تلاش کیا۔ یہ مادہ تاریخ کانہ میدح لکل مراض (۱۳۱۵) اعداد کا حامل ہے اور یہی سال مصنف کو مطلوب ہے۔ ٭٭٭ امیر مینائی ۲؎ لسان صدق فی الآخرین (سرود رفتہ ۔ ص ۲۱۷) عربی میںیہ تاریخ حضرت امیر مینائیؒ کی وفات پر حضرت علامہ نے کہی تھی۔ ۱؎ باقیات اقبال ص ۴۷۹ ۲؎ منشی امیر احمد مینائیؒ کا وطن لکھنو اور مخدوم شاہ میناؒ کے خاندان میں سے تھے ۔ واجد علی شاہ کے درباری شاعر اور نواب یوسف علی خان اور نواب کلب علی خان کے استاد تھے…رام پور میں کئی برس رہے ۔ ریاست بھوپال بھی ان کی قدر دان تھی۔ آخری عمر میں امیر اللغات کی تکمیل (بقیہ حاشیہ صفحہ آئندہ) ’’آخرین ‘‘ میں الف ممدودہ کے دو عدد لیے ہیں اگرچہ یہ متاخرین اساتذہ جمیل کے نزدیک عیب ہے۔ لیکن قدیم رواج علامہ کے اس اقدما پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ قاطع برہان ار دوسرے قدیم لغاات میں الف ممدودہ کی کتابت دو الف ہی سے کی جاتی رہی ہے۔ ٭٭٭ ڈاکٹر ای جی برائون مشہور مستشرق نازش اہل کمال ای جی برائون فیض او در مغرب و مشرق عمیم مغرب اندر ماتم او سینہ چاک از فراق او دل مشرق دو نیم تابہ فردوس بریں ماویٰ گرفت گفت ہاتف ذلک فوز العظیم ۱۹۲۶ء (سرود رفتہ ص ۲۱۹) اس تاریخ میں ذلک کے متعلق یہ نکتہ ملحوظ رکھا جائے کہ علامہ نے ذال (ذ) کے اوپر جو الف خنجری ہے اس کا ایک عدد لیا ہے۔ ا س الف پر اس سے قبل خیال کیا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر ای جی برائون کی وفات ۶جنوری ۱۹۲۶ء کو ہوئی تھی۔ ڈاکٹر اقبال جب ۱۹۰۵ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ولایت گئے اور کیمبرج یونیورسٹی کے ٹرینی کالج میں داخل ہوئے تو خوش قسمتی سے ان کی ملاقات مختلف علمی شعبوں کے پروفیسروں سے ہوئی یہیں ای جی برائون اور اسرار خودی کے مترجم ڈاکٹر رینالڈ نکلسن سے تبادلہ خیالات کا موقع ملا۔ کیمبرج یونیورسٹی میں ان کا تعلق زیادہ تر پروفیسر وارڈ سارلے اور پروفیسر برائون سے رہا۔ (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) کے سلسلے میں حیدر آباد دکن تشریف لے گئے۔ نواب میر محبوب علی خان ان کے قدر دان تھے لیکن افسوس ان کے ارادے پورے نہ ہوئے۔ اور ۱۷ نوبر ۱۹۰۰ء کو وفات پائی اور علم و ادب کا یہ چاند دکن کی سر زمین میں ہمیشہ کے لیے پنہاں ہو گیا۔ اس زمانے کے اساتذہ نے کثرت سے ان کی وفات پر تاریخیں کہیں۔ استاد جلیل کی تاریخ معنوی نقطہ نظر سے اہل علم سے آج بھی خراج تحسین وصول کر رہی ہے۔ جلیل نے سر بزم عزا یہ پوچھا آج وہ کون تھے جنہیں روتے ہیں سارے شیدائی پڑھا جواب میں اٹھ کر یہ ایک نے مصرع امیر کشور معنی امیر مینائی مصرع تاریخ کے اعداد ۱۳۱۹ برآمد ہوتے ہیں۔ پڑھا جواب میں اٹھ کر یہ ایک نے مصرع کہہ کر ایک عدد کا استادانہ تخرجہ کیا ہے جس کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ ان مورخین اساتذہ کی صف میں ڈاکٹر اقبال بھی تھے۔ انہوںنے اگرچہ قطعہ تاریخ نہیں کہا۔ لیکن عربی میں مذکور ہ مادہ تاریخ پیش کر کے امیر پرستی کا ثبوت دیا۔ اقبال حضرت فصیح الملک داغ کے شاگرد تھے۔ امیر مینائی کا مرتبہ ان کے نزدیک استاد سے کم نہیں تھا چنانچہ یہ ان کی تاریخ ہمیشہ یادگار رہے گی اسی طرح اقبا کا یہ شعر بھی امیر و اقبال کے تعلقات اور ان کے کلام کی پسندیدگی پر روشنی ڈالتا ہے: عجیب شے ہے صنم خانہ امیر اقبال میں بت پرست تھا رکھ دی وہیںجبیں میں نے صنم خانہ عشق حضرت امیر مینائی کا دیوان دوم ہے جس کی طرف اشار ہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے تقریباً تین سال یورپ میںطالب علمانہ زندگی بسر کی اس مدت میںبیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ کیمبرج یونیورسٹی سے فلسفہ اخلاق اور میونک یونیورسٹی (جرمنی) سے ایرانی الٰہیات پر ایک مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر جرمنی سے واپس آ کر لندن کے سکول آف پولیٹکل سائنس میں داخلہ لیا چھ ماہ تک لنڈن یونیورسٹی میں پروفیسر آرنلڈ کے قائم مقام کی حیثیت سے عربی کے پروفیسر رہے۔ اسرار خودی ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی۔ اس نظم کا ترجمہ ڈاکٹر نکلسن نے کیا اور میکملن کے اہتمام سے شائع ہوا۔ ڈاکٹر نکلسن نے پیام مشرق میں ایک مبسوط تبصرہ بھی لکھا ہے۔ ڈاکٹر فشر پروفیسر لیزک یونیورسٹی ایڈیٹر اسلامیکا نے بھی پیام مشرق پر مرمنی زبان میں زبردست ترجمہ کیا اور اقبا ل اور گوئٹے کا موازنہ کر کے دنیا کو اقبا ل سے روشناس کرایا۔ مسٹر فارسٹر نے رسالہ ایتھم ۱۹۲۱ء میں اسرار خودی کے انگریزی ترجمہ پر تبصرہ کیا اور اقبال کے کلام پر قومی نقطہ نظر کا اظہار خیال کیا۔ اور ان کی تعلیمات پر بھی چند اشارے کیے ڈاکٹر برائون نے اس انگریزی ترجمے پر رائل ایشاٹک سوسائٹی کے آرگن ۱۹۲۱ء میں تبصرہ لکھا اور اپنی تالیف تاریخ ادبیات فارسی کی چوتھی جلد میں ڈاکٹر صاحب کے علمی کارناموںپر تبصرہ کر کے ان کو یورپ سے روشناس کرایا ان تبصروں سے امریکہ تک ڈاکٹر اقبال متعارف ہو گئے ڈاکٹر نکلسن جنہو نے دیوان شمس تبریز اور کشف المحجوب کا انگریزی میںترجمہ کیا تھا جب انہوںنے اقبا ل کی اسرار خودی کو انگریزی کاجامہ پہنایا تو نکلسن کی شہرت کی وجہ سے یہ ترجمہ اہل علم کے مطالعہ کا مرکز بن گیا۔ ار پھرڈاکٹر برائون کے تبصرے نے اس تصنیف کو اور چار چاند لگا دیے۔ ڈاکٹر اقبال یورپ اور امریکہ میں پوری طرح متعارف ہو چکے تھے اوران کا کلام اہمیت کی نظر سے دیکھا جانے لگا جب ڈاکٹر برائون نے وفات پائی تو اس کا شدید صدمہ ڈاکٹر صاحب کو ہوا۔ اقبال نے قطعہ تاریخ ہی نہیں کہا بلکہ اسد اللہ خوش نویس سے لکھوایا۔ عبدالرحمن صاحب چغتائی نے اس پر نقاشی کرائی اورپھریہ قطعہ تاریخ ڈاکٹر نکلسن کو بطور یادار بھیج دیا۔ ٭٭٭ حضرت سید میر حسن شاہ ما ارسلنک الا رحمتہ اللعا لمین ۱۳۴۸ھ (ذکر اقبال ص ۲۸۹) عربی میں یہ تاریخ ذکر اقبال کے صٖحہ ۲۸۹ پر موجود ہے۔ اس تاریخ کو جب ہم نے جانچا تو معلو م ہوا کہ تاریخ سے وہ عدد برآمد نہیں ہوتے جس کا اظہار مصنف کو مقصود ہے چنانچہ اس کی تشریح ملاحظہ ہو: ما کے ۴۱ ارسلنک کے ۳۶۱ الا کے ۳۲ رحمتہ کے ۶۴۸ للعالمین کے ۲۶۱ مجموعہ: ۱۳۴۳ اس تاریخ میں پانچ عدد کم ہیں ان پانچ اعداد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے (رحمتہ) کے اعداد پر غور کرنا چاہیے۔ رحمت کے عدد ۶۴۸ ہوتے ہیں لیکن اگر (رحمتہ) کی کتابت اس طرح کی جائے اور اس لفظ میں چار حروف (ر۔ح۔م۔ت) کی بجائے پانچ حروف (ر۔ح۔ م۔ت۔ہ) سمجھے جائیں تو یہ مشکل حل ہو سکتی ہ۔ اور رحمت میں ہائے ہوز کو بھی شمار کر نے سے اس کے عدد ۶۵۳ ہو جاتے ہیں اور اس طرح مطلوبہ اعداد پورے ہو سکتے ہیں۔ لیکن تاریخ گوئی کے قواعد اس کی تائید نہیں کر سکتے۔ اس تاریخ میں ایک نکتہ یہ بھی قابل غورہے کہ (رحمتہ) کی تائے مدورہ کے علامہ صاحب نے ۴۰۰ چار سو عدد لیے ہیں تائے عربی رسم الخط کے اعتبار سے دو طرح لکھی جاتی ہے۔ ایک دراز (ت) جس کا عربی میں تائے مبسوطب ہے اور اردو میں لمبی تے۔ دوسری گول جیسے (ۃ) اس کو عربی والے تادے مدور و مربوط کہتے ہیں اردو والے اسے گول تے یا چھوٹی تے کہتے ہیں۔ اکثر اساتذہ فن جمل دراز (ت) اور گول (ۃ) دونوں کے چار سو عدد لیتے ہیں۔ بعض وزارت کے چار سیکڑے اور گول ۃ کے پانچ عدد لیتے ہیں اوریہ اختلاف اساتذہ کے درمیان ایک مدت سے چلا آ رہا ہے تسلیم سہسوانی گول (ۃ) کے پانچ عدد لینے کے حق میں ہیں۔ حضرت جلال اور عزیز جنگ ولا ایسی (ۃ) کے چار سیکڑے لیتے ہیں۔ طالب آملی کی ایک تاریخ ہے کہ خلاستہ الحساب (۸۲۸) اس میں خلاصتہ میں جو تاے مدور ہے اس کے پانچ عدد لیے ہیںَ تاے مدور کے چار سو عدد لینے کی مثال شیر خان کے مصنف مراۃ الخیال کی مشہور تاریخ ہے: ایں چمن زارے کہ مراۃ الخیالش خواندہ اند دارد از حسن معنی یک جہاں حسن کمال صورت تاریخ انجامش تواں بے پردہ دید گر تامل پردہ بر دارد ز مراۃ الخیال (۱۱۰۲ھ) مراۃ الخیال کے عدد (۱۳۱۳) ہوتے ہیں۔ جس سے پردہ کے اعداد (۲۱۱) منہا کرنے سے سال مطلوبہ برآمد ہوتا ہے۔ یہ تاریخ صنعت تخرجہ کی بھی بہترین مثال ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے سید میر حسن ۱؎ شاہ کی تاریخ وفات میں تاے مدور ہ یعنی چھوٹی تے کے چار سو عدد لیے ہیں۔ ٭٭٭ ۱؎ سید میر حسن شاہ علامہ اقبال کے اساتذہ میں سے تھے۔ وہ طلبہ کے مصالح دین اور مصالح دنیا دونوں کو مد نظر رکھتے تھے اقبال کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو علامہ سید میر حسن ایسا بے مثل استاد مل گیا اقبال کا یہ شعر: مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے پہلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہے ورنہ اقبال آج وہ اقبال نہ ہوتے جن کو تمام دنیا نے عزت اور وقعت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ حضرت میر حسن شاہ ادبیات لسانیات ریاضیات اور تفسیر قرآن کے بہت بڑے عالم تھے۔ شروع شروع میں مولانا صاحب نے اقبال کو مولوی غلام حسن کے ہاں دیکھا تھا اور ان کی صورت اور ذہانت سے ایک گونہ متاثر ہوئے تھے۔ انہوں نے خود ڈاکٹر اقبال کے والد میاںنور محمد کو کہا کہ بچے کو ان کے ہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیج دیں۔ پھر اقبال شاہ صاحب کے مکتب میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ اور یہ سلسلہ ایک مدت تک جاری رہا۔ جوں جوں اقبال کی طباعی اور ہونہاری ظاہر ہوتی گئی۔ استاد اور شاگرد کے تعلقات وسیع سے وسیع تر ہوتے گئے شاہ صاحب ہی نے ان کو سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ میں داخل (بقیہ حاشیہ صفحہ آئندہ) نواب میرزا داغ ۱۳۲۲ھ (سرود رفتہ ص ۲۱۷) جب فصیح الملک داغ کی وفات کی خبر لاہور پہنچی اور ایک تعزیتی جلسے کا اہتمام کیا گیا ۔ ڈاکٹر اقبال نے بیٹے بیٹھے فی البدیہہ تاریخ کہی نواب میرزا داغ اس گویائی کی سبھی نے تعریب کی شیخ عبدالقادر مرحوم نے مخزن لاہور میں اس برجستہ اورفی البدیہہ تاریخ کی داد دی۔ پیسہ اخبار میں اس ک اشاعت ہوئی اور داد تحسین دی گئی۔ اقبال مرحوم نے ایسا مادہ تاریخ تلاش کیا جس کا توارد بہت سے شعرا سے ہوا ہے یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ۔ چنانچہ ذیل میں چند تاریخی اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔ جن میں یہی مادہ تاریخ نظم ہوا ہے: کیا شان کرم ہے دیکھ حیرت بلبل کو خدا نے کیا دیا داغ دریاکو گہر فلک کو انجم جنت کو نواب میرزا داغ ۱۳۲۲ھ (حیرت شاہ جہان پوری ٭٭٭ بے کار نہیں تخلص و نام دیتا ہے وفات کا پتا داغ احسن نے جو سال فوت ڈھونڈا پایا نواب میرزا داغ ۱۳۲۲ھ (احسن مارہروی) ٭٭٭ مرگ استاد کی حسن تاریخ داغ نواب میرزا کہیے ۱۳۲۲ھ (حسن بریلوی) ٭٭٭ ہے جو تاریخ کا خیال اسیر داغ نواب میرزا کہیے ۱۳۲۲ھ (علی احمد اسیر بدایونی) ٭٭٭ بہر تاریخ رحلتش احسان داغ نواب میرزا گفتم ۱۳۲۲ھ (احسان علی احسان رام پوری) ٭٭٭ بہر ایں حادثہ ذبیح حزیں داغ نواب میرزا گفت است ۱۳۲۲ھ (ڈاکٹر اسماعیل ذبیح دہلوی) ٭٭٭ (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) کرایا ۔ شاہ صاحب وہاں مدرس تھے۔ اقبال سکول میں عام کورس اورگھر پرمولانا سید میر حسن شاہ سے باقاعدگی کے ساتھ پڑھتے۔ جب مزید تعلیم کے لیے لاہور چلے آئے اور جب کبھی سیالکوٹ جاتے توعلمی مسائل پر اپنے استاد سے ضروری ہدایات کے بعد غور وفکر کرتے رہتے۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور مولوی حکیم نور الدین بھی شاہ صاحب کی بے حد عزت کرتے تھے سکاچ مشن سکول اور اس کے بعد کالج میںشاہ صاحب برابر پرھاتے رہے انگریز پرنسپل ان کا بہت احترام کرتا تھا۔ وعدے کے سچے۔ غریب نواز‘ خدا ترس بزر گ تھے۔ ۱۸ اپریل ۱۸۴۴ء کو پیدا ہوئے اور ۲۵ ستمبر ۱۹۲۹ء کو وفات پائی اور مرے کالج سیالکوٹ میں دفن ہوئے۔ سنیے سال وفات برجستہ داغ نواب میرزا کہیے ۱۳۲۲ھ (خواجہ عشرت لکھنوی) خم خانہ جاوید جلد اول جب ۱۳۲۵ھ میں شائع ہوئی تو اس تذکرہ کے مصنف لالہ سری رام صاحب نے مختلف اساتذہ کو اس کی سال اشاعت کی تاریخ کے لیے لکھا۔ چنانچہ بہت سے اساتذہ وقت نے اس کی تاریخیں لکھیں۔ یہ تاریخیں خم خامہ جاوید کی پہلی جلد کے آخر میں ہیں۔ ظہیر دہلوی‘ انجم لکھنوی‘ جمیل سہسوانی ‘ جلیل مانکپوری‘ فروغ شاگرد کمال لکھنوی نے اس تذکرے کی تاریخ لفظ تذکرہ سے (۱۳۲۵) نکالی ہیں جو مطلوب تھی۔ اس تذکرے کی توصیف میں تقاریظ اورقطعات تاریخ جلد کے آخر میں صفحہ ۱ سے صفحہ ۸۷ تک پھیلی ہوئی ہے۔ اگر نواب میرزا داغ ۱؎ سے دوسرا شعرا کے مادہ تاریخ سے اقبال کا توارد ہوا ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ ٭٭٭ ظہیر دہلوی ۲؎ زبدہ عالم ظہیر دہلوی ۱۳۲۹ھ (سرود رفتہ ص ۲۱۸) اقبال نے یہ تاریخ حضرت ذوق دہلوی کے ارشد تلمیذ اور داغ دہلوی کے استاد بھائی کی وفات پر کہی یہ تاریخ بھی فی البدیہہ کہی گئی ہے۔ چنانچہ ظہیر دہلوی نے جب ۱۹ مارچ ۱۹۱۱ء کو حیدر آبا د دکن میں وفات پائی۔ جب یہ خبر لاہور میں ۲۹ مارچ کو پہنچی تو وجاہت جھنجھانوی مولانا ظفر علی خان۔ منشی محمد دین فق اور دوسرے شاگردان داغ نے ایک تعزیتی جلسہ منعقد کرنے کی تجویز پیش کی یہ جلسہ ۲۳ اپریل ۱۹۱۱ء کو منعقد ہوا۔ جس کی صدارت اقبال مرحوم نے کی۔ اس جلسے میں مولانا ظفر علی خان میر جالب دہلوی ‘ نے تقدیر کے ذریعے حضرت ظہیر کی شاعری پر روشنی ڈالی ڈاکٹر اقبال اس جلسے کے صدر تھے۔ ۱؎ نواب فصیح الملک میرزاد اغ دہلوی اقبال کے استا د محترم تھے۔ اقبال ان کی بے حد عت کرتے تھے۔ چنانچہ اقبال کا ا س شعر سے: نسیم و تشنہ ہی اقبال کچھ اس پر نہیں نازاں مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغ سخن داں کا شاگرد کے دل میں استاد کی عظمت آشکار ا ہے۔ اگرچہ داغ کی وفات پر اقبال نے کوئی قطعہ تاریخ نہیںکہا۔ لیکن حضرت داغ کا جو مرثیہ باند درا میں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت داغ کی وفات پر اثر اقبال کے دل پر کس حد تک تھا۔ اقبال نے یہ مرثیہ بے مثال کہا ہے جس کے لفظ لفظ سے اس رنج و غم کا اظہار ہوتا ہے۔ جو داغ کی وفات سے اقبال کے دل پر ہوا۔ ۲؎ سید ظہیر الدین حسن نام ان کے والد سید جلال الدین حیدر المخاطب بہ صلاح الدولہ اعلیٰ پایہ کے خوش نویس تھے۔ ان کے بھائی انور بھی خوش نویس تھے ظہیر حضرت ذوق کے شاگرد اور شیدا اور قدیم شاعرانہ روایات کی یادگار تھے۔ ریاست جے پور میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے عہدے پر فائز ہرے تھے ریاست کے والی مہاراجہ رام سنگھ کی وفات پر ریاست کو چھوڑ دیا اور آخری عمر میں حیدر آباد دکن چلے گئے اوروہیں انتقال فرمایا دو دیوان اور داستان غدر ان کی یادگار ہیں۔ انہوں نے بیٹھے بیٹھے زبدہ عالم ظہیر دہلوی مادہ تاریخ نکالا جو بہت پسند کیا گیا۔ ٭٭٭ سلطان اسماعیل جان از جہاں شہزادہ اسماعیل رفت آن امیر ابن امیر ابن امیر از فلک آمد بگوش من ندا سال آں مغفور را مغفور گیر ۱۳۲۶ھ (سرود رفتہ ص ۲۲۲) شاہ ابو المعالی صوفیانہ عقائد رکھتے تھے لاہور میں ان کا مزار زیارت گاہ خواص و عوام ہے۔ ۱۰۲۵ھ ۱۶۱۶ء میں وفات پائی عہد جہانگیری میں ان کی خاصی شہر ت تھی ان کے مزار شریف کے قریب سر راہ ایک چار دیواری ہے اس کے اندر کابل کے ایوب شاہی خاندان کی قبریں ہیں۔ ان قبروں میںایک قبر سلطان اسماعیل جان کی ہے ۔ جس کے تعویذ پر اقبال مرحوم کا مذکورہ قطعہ تاریخ کندہ ہے اس کا ذکر مآثر لاہور جلد دوم میں از منشی محمد دین فوق میں بھی ہے۔ ٭٭٭ پیر حیدر شاہ جلال پور شریف ضلع جہلم ہر کہ برخاک مزار پیر حیدر شاہ رفت تربت اورا زمین جلوہ ہائے طور گفت ہاتف از گردوں رسیدہ خاک اور ابوسہ داد گفتمش سال وفات اوبگو مغفور گفت ۱۳۲۶ھ باقیات اقبال ص ۴۸۴ ڈاکٹر اقبال کے والد ماجد شیخ نور محمد ایک صوفی منش آدمی تھے۔ اور سلسلہ قادریہ کا احترام کرتے تھے۔ ڈاکٹر اقبال کے خیالات تصوف کے مخالف نہ تھے وہ سلسلہ قادریہ سے بیعت ۱؎ رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ صوفیائے کرام سے عقیدت رکھتے تھے۔ چنانچہ جب وہ انگلستان روانہ ہوئے تو دہلی میں حضرت نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضری دی اور التجائے مسافر کے عنوان سے جو نظم بانگ درا ۲؎ میںموجود ہے پڑھی جس کا پہلا شعر ہے: فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا بڑی جناب تری فیض عام ہے تیرا آگے چل کر گزارش احوال واقعی اس طرح فرماتے ہیں: چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجکو فلک نشیں صفت مہر ہوں زمانے میں تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجکو ۱؎ اقبال کامل ص ۵۸ حیدر آباد (دکن)۔ ۲ ؎ بانگ درا ص ۹۷ اور ذکر اقبال ص ۴۴۔۴۳ مقام ہم سفروں سے ہو اس قدر آگے کہ سمجھے منزل مقصود کارواں مجکو مری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے کسی سے شکوہ نہ ہو زیر آسماں مجکو دلوں کو چاک کرے مثل شانہ جس کا اثر تری جناب سے ایسی ملے فغاں مجکو اس نظم میں اپنے استاد مولانا میر حسن شاہ صاحب کو اس طرح یاد کرتے ہیں: وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجکو نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجکو دعا یہ کہ خداوند آسمان و زمیں کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجکو مہاراجہ کشن پرشاد کو ایک خط میں لکھتے ہیں بمبئی میں آپ کا قیام کب تک رہے گا۔ دیار پیر سنجر کی زیارت ۱؎ ضرور کیجیے گا۔ اس شعر سے بھی ان کے صوفیانہ مذاق پر روشنی پڑتی ہے: زباں پر صوفی میکش خدا کا نام لایاہے یہی وہ مے ہے جس کو ساقی اسلام لایاہے (شاد اقبال) اسی طرح لاہوراور اس کے مضافات میں جو صوفیا کرام دفن ہیں ان کے مزارات پر وہ حاضری دیا کرتے تھے۔ پیر حیدر شاہ جلال پور شریف سے بھی ان کی دلی عقیدت تھی۔ ان کی وفات پر انہوںنے مادہ تاریخ مغفور نکالا ہے۔ پیر حیدر شاہ نے ۶ جمادی الثانی ۱۳۲۶ھ مطابق ۱۹۰۷ء وفات پائی تھی۔ سلطان اسماعیل جان نے بھی ۱۳۲۶ھ ہجری میںانتقال کیا اقبال نے دونوں کے لیے ایک ہی مادہ تاریخ مغفور تلاش کیا۔ البتہ دونوں کے لیے قطعات تاریخ علیحدہ علیحدہ موزوں کیے ہیں۔ ٭٭٭ شیخ عبدالحق چوں مئے جام شہادت شیخ عبدالحق چشید باد بر خاک مزارش رحمت پروردگار باعزیزاں داغ فرقت داد در عین شباب آستیں ہا ا در رشک غمش سرمایہ دار بندہ حق بودہم خدمت گزار قوم خویش سال تاریخ وفات اور غفراں آشکار ۱۳۳۱ھ (باقیات اقبال ص ۲۲۱) اقبال مرحوم نے چند تاریخیں ایک ہی لفظ سے نکالی ہیں۔ مغفور کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ شیخ عبدالحق کی شہادت کی تاریخ بھی اہنوںنے ایک ہی لفظ غفران سے نکالی ہے ۔ ان تاریخوں سے واقعہ وفات آشکار ہے۔ ایک لفظ سے واقعہ کا صحیح اظہار مشکل سے ہوتا ہے۔ ہم عدو الفاظ کی ڈکشنریوں میں ایسے الفاظ تو مل جاتے ہیں۔ لیکن ان کو واقعے کے صحیح اظہار کے لے انتخاب کرنا آسان نہیںہوتا۔ ۱؎ شاد اقبال ص ۱۲ مثلاً کسی مورخ نے شیخ سعدی شیرازیؒ کی تاریخ وفات لفظ ’’خاص‘‘ سے پیدا کی ہے لیکن خاص کا لفظ ترخیل کے واقعہ کو کسی طرح سے بھی واضح نہیں کر سکتا۔ ایسی تاریخوں سے عدد تو پورے ہو جاتے ہیں ۔ لیکن ان کی معنوی حیثیت ہمیشہ محل نظر رہتی ہے۔ مغفور اور غفران دونوں مادہ ہائے تاریخ اقبال نے مرحوم نے واقعہ کے مطابق تلاش کیے ہیں۔ جن سے واقعہ کا پورا پورا اظہار ہوتا ہے۔ اور ان مادہ ہائے تاریخ کو وفات کے سواا کسی دوسرے سانحے سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ ٭٭٭ نواب وقار الملک نواب وقار الملک و ملت افشاند سوے جناں رکابش بر لوح مزار او نوشتم انجام بخیر با خطابش وقار الملک انجام بخیر ۱۳۳۵ھ (سرود رفتہ ص ۲۲۲) مولوی مشتاق حسین خان بہادر المعروف نواب وقار الملک سر سید احمد خان کے خاص احباب میں سے تھے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے لیے انکی بیش بہا خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گیل ان کے دل میں قومی درد تھا مسلمانوں کی زبوں حالی سے نالاں تھے۔ بڑی نادر و یگانہ شخصیت تھے۔ ۱۴ مارچ ۱۸۴۱ء کو پیداہوئے۔ چھ سال کی عمر میں قرآن مجید ختم کیا۔ دس روپیہ ماہانہ پر مدرس ہوئے انکم ٹیکس کی محرری بھی کی منصفی میں سر شتہ داری کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ نماز وقت مقررہ پر ادا کرتے خواہ ان کے کسی افسر کو یہ طریق ناپسند ہو۔ حیدر آباد دکن میں محکمہ عدالت و کوتوالی کے متعمد بھی رہے۔ وقار الملک اخلاقی جرات میں منفرد تھے۔ ایک دفعہ سر سالار جنگ کی رائے سے نااتفاقی پر انہیںملازمت سے مستعفی ہونا پڑا۔ وقار الملک سرسید کے معتمد تھے۔ کالج کے انتظامات جب ان کے سپرد ہو گئے تو انہوں نے انتظامی معاملات میں سیکرٹری اور ٹرسٹی کو ان کا کھویا ہوا حق دلایا۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے اس بیگانہ روزگار کی جو تاریخ اوپر لکھی ہے وہ اس سے ان کی عقیدت بھی آشکار ہوتی ہے اور عظمت بھی۔ وقار الملک نے ۲۸ جنوری ۱۹۱۷ء مطابق ۱۳۳۵ھ وفات پائی۔ ٭٭٭ جسٹس میاں شاہ دین ہمایوں در گلستاں دہر ہمایوں نکتہ سنج آمد مثال شبنم و چوں بوئے گل رسید می جست عندلیب خوش آہنگ سال فوت علامہ فصیح زہر چار سو شنید ۱۳۳۶ھ (باقیات اقبال ص ۱۲۶ ملفوظات ص ۲۵) جسٹس میاں شاہ دیں ہمایوں کی تاریخ وفات کہنے سے پہلے ڈاکٹر اقبال نے ایک شعر جسٹس ہمایوں کے صاحبزادے میاں بشیر احمد بیرسٹر کو بھیجا ہے جو یہ ہے: دوش برخاک ہمایوں بلبلے نا لید و گفت اندریں ویرانہ باہم آشنائے داشتیم چونکہ یہ شعر تاریخی شعر نہ تھا چنانچہ انہوںنے پھر دو مادہ تاریخ موزوں کیے ایک یہ ہے: چوں سال فوت ہمایوں دل حزیں می جست زہشت خلد ندایم رسید المومن ۱۶۷*۸=۱۳۳۶ہجری اس تاریخ میںتکلف برتا ہے کہ ’’المومن‘‘ جس کے (۱۶۷) عد د ہوتے ہیں ان کو آٹھ ۹۸ سے ضرب دیں تو سال مطلوبہ برآمد ہوتا ہے ہشت بہشت کا اشارہ معنوی اعتبار سے قابل تعریف ہے۔ دوسری تاریخ جس کا اوپر ذکر کیا گیاہے علامہ فصیح زہر چار سو شنید علامہ فصیح کے عدد بحساب جمل(۳۳۴) نکلتے ہیں زہر چار سو کہہ کر مادہ تاریخ علامہ فصیح کو یعنی (۳۳۴) کو ۴ چار سے ضرب دی اور مصرعے میں زہر چار سو کا اشارہ قابل قدرہے۔ اس تاریخ کا اندا ز حضرت امیر مینائی ؒ کے دیوان اول مراۃ الغیب کی اس تاریخ سے لیا گیا ہے جو منشی حبیب حسن وحشی نے کہی تھی۔ یہ آنے لگی چار سو سے صدا نیا ہے کلام جناب امیر ۴۷۴*۴=۱۸۹۶ء جسٹس ۱؎ شاہ دین ہمایوں کی قبر کے کتبہ پر علامہ مغفور کی یہی تاریخ کندہ ہے۔ ٭٭٭ ۱؎ جسٹس ہمایوں سے اقبال کے تعلقات غیر معمولی تھے۔ ہمایوں مرحوم پر اقبال کی نظم مشہورہے جس کا پہلا شعر ہے: اے ہمایوں زندگی تیری سراپا سوز تھی تیری چنگاری چراغ انجمن افروز تھی اور یہ شعر ترک کر دی تھی غزل خوانی مگر اقبال نے یہ غزل لکھی ہمایوں کے سنانے کے لیے ہمایوںنے جب محمڈن نیگ مین ایسوسی ایشن کی بنیاد ڈالی۔ تو اقبال ہمیشہ انکے شریک کار رہے۔ علمی صحبتوں میںایک دوسرے کو داد و تحسین دیتے تھے۔ جب ہمایوں جب ۱۸۹۰ء میں بیرسٹر بن کر ولایت سے واپس آئے تو ان کو علی گڑھ تحریک سے ایک خاص تعلق پیدا ہو گیا۔ اقبال کے دل میں جن چند ہستیوں کی قدر و منزلت تھی ان میں جسٹس شاہ دین ہمایوں کا نام بھی ہے۔ ہمایوں ہائی کورٹ لاہور کے چیف جج تھے۔ ان کا ادبی ذوق پاکیزہ اور بلند تھا۔ انگریزی میں نہایت فصاحت سے تقریر کرتے تھے۔ اونچے اخلاق اور اعلیٰ سیرت کے مالک تھے۔ سر سید کے حامیوں میںان کا درجہ بہت بلند تھا۔ عملی زندگی سے محبت تھی اور ہمہ تن عمل ہونا زندگی کا شعار اولیں سمجھتے تھے۔ اصلا ح ہر قوم اک ہر وقت خیال رہتا تھا۔ ان کے پہلو میںایک مسلمان کا دل دھڑکتا تھا۔ ۲ اپریل ۱۸۶۸ء کو باغبانپورہ لاہور میں پیدا ہوئے اور ۲ جولائی ۱۹۱۸ء کو انتقال فرمایا۔ جذبات ہمایوں کے نام دسے ان کے صاحبزاادے میاں بشیر احمد بیرسٹر مرحوم نے ان کا کلام چھپوا دیا ہے۔ میاں بشیر احمد نے اپنے والد ماجد کی یادگار کے طورپر ہمایوں نام کا رسالہ…(باقی حاشیہ صفحہ آئندہ)۔ سید نادر حسین تحصیلدار سید والا نسب نادر حسین در رہ صدق و صفا جولانگرے چوں جد خود از جہاں مظلوم رفت آں گروہ صادقاں داسرورے گفت ہاتف مصرع سال رحیل کشت سید را پزیرے کافرے ۱۳۳۷ھ (باقیا ت اقبال ص ۴۸۹) چونکہ سید نادر حسین کو کسی سوچی سمجھی سکیم کے تحت شہید کیا گیا تھا۔ اس لیے اپنے مکتوب ۷ فروری ۱۹۱۹ء میں اس مادہ تاریخ کو الہامی قرار دیا ہے۔ اور اپنے تیسرے شعر میں چوں جد خو د از جہاں مظلوم رفت آںگروہ صادقاں را سرورے حضرت امام حسین کی مظلومی اور صداقت کی طرف اشارہ کر کے مادہ تاریخ میںایک سچائی کا اظہار کیا ہے۔ جس کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ سید نادر حسین تحصیل دار کی شہادت ۲۸ جولائی ۱۹۱۸ء کو ہوئی تھی۔ علامہ اس شہادت کے سانحے سے انتہائی متاثرہوئے اور اپنے جذبات کا اظہار قطعہ تاریخ کی شکل میں کیا…رہتی دنیا میں اقبال کا یہ بے نظیر اور موقع و محل کے اعتبار سے بے مثل مادہ تاریخ مورخین جمل سے ہمیشہ خراج تحسین حاصل کرتا رہے گا۔ ٭٭٭ والد اقبال پدرو مرشد اقبال ازیں عالم رفت ما ہمہ راہرواں منزل ما ملک ابد ہاتف از حضرت حق خواست دو تاریخ رحیل آمد آواز ’’اثر رحمت‘‘ و ’’آغوش لحد‘‘ ۱۳۴۹ھ ۱۳۴۹ھ (روزگار فقیر ص ۱۹۸) علامہ اقبال کے اس قطعہ تاریخ میںدو مادے ہیں’’اثر رحمت‘‘ اور’’آغوش لحد‘‘ دونوں سے سال ہجری ۱۳۴۹ برآمد ہوتا ہے ۔ قطعہ تاریخ کے اگرچہ دو ہی شعر ہیں لیکن دونو ںحسب واقعہ اور مفہوم کے اعتبارسے واقعے سے پوری مناسبت رکھتے ہیں۔ ان اشعار میں اقبال نے اپنے والد کی عظمت اور اپنی محبت کو سمو کر رکھ دیا ہے۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد کشمیری خا ندان کے چشم و چراغ تھے ۔ یہ خاندان برہمن تھا۔ اس کی گوت گوتر سپرد تھی۔ سپرد کیا برہمنوں کی گوتر ہے کہ نہیںیہ نکتہ آج کل زیر بحث ہے۔ (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) جنویر ۱۹۲۲ء میں جاری کیا۔ یہ علمی اور ادبی رسالہ افسوس ہے کہ ۱۹۵۷ء میں بند ہو گیا۔ لیکن جن اہل علم کے پاس اس رسالے کی مکمل فائل ہے۔ ان کو اندازہ ہے کہ یہ علمی و ادبی رسالہ کس پایہ کا تھا۔ اقبال کا قطعہ تاریخ جو ہمایوں کی قبر پر تعویز کی صورت میں کندہ ہے دنوں کے غیر معمولی تعلقات کا اشارہ ہمیشہ کرتا رہے گا۔ یہ خاندان کشمیر کے ظالم حکمرانوں کی سخت گیری کے باعث دوسرے کشمیری خاندانوں کی طرح ہجرت کر کے سیالکوٹ آ گیا۔ شیخ محمد رفیق جو اقبال کے دادا تھے پہلے پہل سیالکوٹ میںآئے۔ یہ کشمیری دھسوں کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے دو صاحبزادے تھے شیخ نور محمد(والد اقبال) اور شیخ غلام قادر جو محکمہ انہار میںملازم تھے۔ شیخ نور محمد بڑے دانشمند اور اپنی برادری میں سربرآوردہ شخصیت تھے ۔ علماء و صلحا کی صحبت اٹھائے ہوئے تھے۔ غورو فکر کی عادت ابتدائی عمر سے تھی۔ تصوف کے مشکل مطالب وہ باتوں باتوں میںحل کر دیتے تھے۔ نہایت سنجیدہ مزاج ذی عقل اور متین بزرگ تھے پارچہ دوزی کا پیشہ کرتے تھے۔ اور ڈپٹی وزیر علی بلگرامی کے ہاں ملازم تھے۔ پہلی سنیے کی سنگر مشین سیالکوٹ میں انہی کی وجہ سے متعارف ہوئی تھی۔ تھوڑی مدت کے بعد اس ملازمت کو ترک کر کے برقعوں کی ٹوپیاں سینے لگے تھے یہ ٹوپیاں خوشنما اور خوبصورت ہوتی تھیں جو بے حد مقبول تھیں۔ ان کی شادی امام بی بی (والدہ اقبال) سے ہوئی جو متقی اور پرہیز گار خاتون تھیں۔ ان کی تعریف اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کی آغوش میں اقبا ل ایسا فرزند پروان چڑھا۔ ان کی وفات پر اقبال نے اپنے دوست اکبر الہ آبادی سے قطعہ تاریخ لکھوایا: مادر مخدومہ اقبال رفت سوئے جنت زین جہان بے ثبات گفت اکبر بادل پروردہ غم رحلت مخدومہ تاریخ وفات ۱۳۳۳ھ (روزگار فقیر ص ۱۹۸) والدہ اقبال کی وفات ۷۸ سال کی عمر میں ۹ نومبر ۱۹۱۴ء میںہوئی تھی۔ شیخ نور محمد زیادہ پڑھے لکھے ہوئے نہیں تھے علما اور صوفیا کی صحبتیں میسر آئیں مولانا میر حسن شاہ( استاد اقبال) ان کی بے انتہا عزت کرتے تھے۔ اور ان کے ذوق کی داد دیتے تھے۔ ذکر رسولؐ کی محافل میں بڑے شوق سے شریک ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی گود میں تربیت پانے والا فرزند ہمیشہ عشق رسولؐ کو اپنا سرمایہ حیات سمجھتا رہا۔ مثنوی اسرار خودی میں جذب و معرفت کے نکات پر جب غور کرتے۔ تو بے چین ہو جاتے اوراپنے بیٹے کی طبع رسا کے لیے دعائیں کرتے اور کبھی کبھی زار و قطار رونے لگتے۔ ان آنسوئوں میںشکر اور محبت کے دریا پنہاں ہوتے تھے۔ آخر عمر میںجذب و معرفت کی کیفیت شدید سے شدید ترہو گئی۔ ۱۷اگست ۱۹۳۰ء ۱؎ کو وفات پائی اور سیالکوٹ میں دفن ہوئے۔ اقبال کا کہا ہوا قطعہ تاریخ ان کی قبرپر کندہ ہے۔ والدہ ماجدہ کی وفات پر اگرچہ اقبال نے کوئی مادہ تاریخ موزوں نہیں کیا۔ لیکن والدہ مرحومہ کی یاد میں جو ان کی نظم بانگ درا میں ہے مرثیہ کے بلند مضامین سے مملو ہے۔ ٭٭٭ ۱؎ روزگار فقیر ص ۱۹۵ منشی محبوب عالم ایڈیٹر پیسہ اخبار سحر گاہاں بہ گورستاں رسیدم درآں گورے پر از انوار دیدم ز ہاتف سال تاریخش شنیدم معلی تربت محبوب عالم ۱۳۵۱ھ (سرو د رفتہ ص ۲۲۰) منشی محبو ب عالم مدیر پیسہ اخبار اردو زبان کے نامور ادیبوں میںشمار ہوتے ہیں ۔صف اول کے صحافی جس طرح مولوی عبدالحق کو بابائے اردو کہتے ہیں۔ اسی طرح منشی محبوب عالم کو ’’بابائے صحافت‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ لقب ان کے نام کے ساتھ زیب دیتا ہے۔ کیونکہ وہ اس کے مستحق بھی ہیں کیونکہ بیشتر نامور ادیبوں اور صحافیوں نے ان کے زیر تربیت بہت کچھ سیکھا ہے اورنام پید ا کیا۔ ان کا دفتر اخبار نویسوں کی تربیت گاہ تھی اردو صحافت میں پیسہ اخبار کے خدمات سنہرے حروف میں ہمیشہ لکھے جائیں گے۔ یہ اخبار پہلے فیروز والا سے ۱۸۸۷ء میںشائع ہوا۔ پھر گوجرانوالہ سے اور ۱۸۹۹ء میں لاہور سے نکلنے لگا۔ اس ہفتہ وار اخبار نے اس قدر شہر ت اور تام پیدا کیا کہ انارکلی کے متصل جس محلے سے یہ اخبار نکلتا تھا۔ پیشہ اخبار سٹریٹ کے نام سے یاد کیا جانیلگا۔ ڈاک خانے کا نام بھی پیس اخبار پوسٹ آفس پڑ گیا۔ ایک عظیم الشان بلڈنگ پیسہ اخبار کی آمدنی سے تعمیر کرائی۔ جو آج بھی پیسہ اخبار کانام روشن کیے ہوئے ہے۔ یہ اخبار ہفتہ وار سے روزنامہ بن گیا۔ اس کی قیمت ایک پیسہ تھی اس کے علاوہ دوسرے اخبار اور رسالے بھی مولوی محبوب عالم صاحب نے جاری کیے کافی کتابیں بھی اپنے مطبع سے پیسہ اخبار کے نام سے شائع کیں۔ جو کچھ سال پہلے فٹ پاتھ پر فروخت ہوتی تھیں۔ ایک سفر نامہ بھی لکھا۔ جو آج کل بھی فٹ پاتھ پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر اقبال سے ان کے گہرے تعلقات تھے۔ ڈاکٹر اقبال کی شخصیت اوران کے کلام کو عوام میںروشناس کرانے میں پیسہ اخبار کا بڑا حصہ ہے۔ جب کبھی ڈاکٹر صاحب پر اعتراضات ہوتے تو پیسہ اخبار بطور سپران کا دفاع کرتا۔ ڈاکٹر اقبال کی مذکورہ تاریخ ان ہی کا مخلصانہ تعلقات کا اظہار ہے۔ یہ تاریخ ڈاکٹر اقبال اور منشی محبوب عالم کی یاد ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ اس مادہ تاریخ میں(معلی) کا الف خنجری محسوب نہیں کیا گیا۔ منشی محبوب عالم کی وفات ۲۷ مئی ۱۹۳۳ء کو ہوئی سال ہجری ۱۳۵۱تھا جس کااظہار اقبال نے کیا ۔ ٭٭٭ بیگم میاں احمد یار خان دولتانہ رخت سفر چو مادر ممتاز بست و رفت زیں کارواں سرائے سوئے منزل دوام پرسیدم از سروش ز سال رحیل او گفتہ بگو کہ تربت او آسماں مقام ۱۳۴۲ھ (باقیات ص ۴۹۱) یہ قطعہ تاریخ میاں احمد یار خان دولتانہ کی اہلیہ محترمہ کی وفات پر ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا۔ اس تاریخ میں تربت او آسماں مقام میں آسماں کے (۱۵۲) عدد لیے ہیں اور الف ممدودہ کے قدیم رواج کے مطابق دو عد د لیے ہیں۔ میاں احمد یار خان دولتانہ کو اقبال مرحوم نے مخلصانہ عقیدت تھی۔ میاں صاحب اقبال سے خاص موضوعات پر اشعار کہنے کی فرمائش کرتے تھے۔ اقبال کی تحریروں اور ان کے دستخطوں کو ہمیشہ حفاظت سے رکھتے تھے۔ میاں احمد یار خان کی شادی کتخدائی میاں غیاث الدین کے والد کی وساطت سے ہوئی تھی برات میں نواب ذوالفقار علی خان اور ڈاکٹر اقبال شریک ہوئے تھے۔ کبھی کبھی میاں صاحب اچھا دودھ دینے والی بھینس اور گائے بھی بھیجا کرتے تھے۔ میاں صاحب یونینسٹ پارٹی کے رکن رکین تھے علامہ موصوف ا س پارٹی کے شاکی تھے۔ مگر میاں صاحب کے بے پناہ خلوص و محبت سے ان کی بے انتہا عزت کرتے تھے۔ یہ تاریخ ان ہی مخلصانہ تعلقات کی یادگار ہے۔ بیگم صاحبہ نے ۲۰ جمادی الاول ۱۳۴۲ھ مطابق ۸ جنوری ۱۹۲۴ء روز سہ شنبہ لاہو ر میں انتقال فرمایا ۔ ٭٭٭ لیڈی سر شہاب الدین چو رخت سفر بست سردار بیگم ازیں دار فانی سوے باغ جنت بہ پس ماندگاں تلخ شد زندگانی ہجوم غم و رنج شد سال رحلت سن عیسوی خواستم چوں زہاتف بگفتا بریں تربت پاک رحمت ۱۹۳۵ء (باقیات اقبال ص ۴۹۴) سر شہاب الدین کی رفیقہ حیات سردار بیگم کے انتقال پر دو مادہ تاریخ کہے ہیں ہجوم غم و رنج سے سال ہجری ۱۳۵۳ پید اکیا ہے اور بریں تربتپاک رحمت سے سال عیسوی ۱۹۳۵ء برآمد کیا ہے۔ دونوں تاریخیں لاجواب ہیں۔ چوہدری سر شہاب الدین جلیل القدر را رباب سیاست میں سے تھے۔ ان کی شخصیت بہت ممتاز تھی وکلا میں سر برآوردہ وکیل اور مجلس قانون ساز میںکامیاب صدر مجلس۔ رنگ کالا تھا اور خاصی ڈیل ڈول کے ایک تنو مند بالا قدآدمی تھے علامہ اقبال اور ان کے درمیان بے تکلفی تھی۔ متعدد پھبتیاں اور لطیفے جو اقبال مرحوم نے ان سے متعلق کہے تھے آج بھی اس مخلصانہ یاد کو تازہ کی ہوئے ہیں۔ جب شجاع الملک مہتر چترال لاہور تشریف لائے تو ان دنوںچوہدری صاحب صدر بلدیہ لاہور تھے۔ اقبال نے معارف میں مہتر چترال کو کہا کہ چوہدری شہاب الدین صاحب صدر بلدیہ لاہور یعنی مہتر لاہور ہیں اس نکتے سے حاضرین محظوظ ہو ئے لیکن چوہدری صاحب جل گئے۔ مذکورہ تاریخ سال ہجری و عیسوی اقبال اور چوہدری صاحب کے تعلقات کی یادگارہے۔ ٭٭٭ اہلیہ کی تاریخ وفات اے دریغاز مرگ ہم سفرے دل من در فراق او ہمہ درد ہاتف از غیب داد تسکینیم سخن پاک مصطفی آورد بہر سال رحیل او فرمود بشہادت رسید و منزل کرد ۱۳۴۳ھ (سرود رفتہ ص ۲۱۹) یہ تاریخ سرود رفتہ مرتبہ مولاناغلام رسول مہر اور جناب صادق علی دلاوری کے صفحہ ۲۱۹ پر ہے۔ اور اس طرح چھپی ہے۔ بہ شہادت رسید و منزل کرد بہ شہادت کہنے سے سال مطلوبہ سے پانچ عدد بڑھ جاتے ہٰں اور تاریخ صحیح قرار نہیں پا سکتی۔ اصل میں بشہادت علام مغفور نے کہا تھا کاتب نے بہ شہادت کتابت کر دیا اور غلطی پیدا ہو گئی لیکن اس امر پر افسوس ہے کہ مصرع تاریخ کے عد د تک برآمد کر کے مصرع تاریخ کی نشاندہی نہیں کی گئی ۔ تاریخ کے دوسرے شعر میں حضرت علامہ نے سخن پاک مصطفی آورد کہہ کر حدیث المبطون شہید کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ ان کی اہلیہ کا انتقال بھی زچگی میںہوا تھا۔ علامہ اقبال نے تین شادیاں کیں اور تینوں بیبیاں ان کے حبالہ عقد میں رہیں۔ پہلی شادی والدہ آفتاب سے ہوئی۔ جو گجراب (پنجاب) کی رہنے والی تھیں۔ اور وہ ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد مارچ ۱۹۴۷ء تک زندہ رہیں۔ اسکے بعد والدہ جاوید اقبا ل جو موچی دروازہ لاہور کی رہنے والی تھیں ان سے نکاح کیا۔ ان دونوں بیبیوں کی موجودگی میں تیسری شادی لدھیانہ کی ایک خاتون سے کی۔ لیکن انہوں نے والدہ جاوید سے پہلے انتقال کیا۔ ان کی وفات کی تاریخ ۲ اکتوبر ۱۹۲۴ء ۱؎ ہے اور قبر لدھیانہ میں ہے۔ اپنے ایک خط میں مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھتے ہیں اس عرصہ میں بہت سے آلام و مصائب کا شکار رہا بیوی کا انتقال جس سے اب تک قلب پریشان ہے۔ (شاد اقبال طبع حیدر آباد صفحہ ۱۶۲) مذکورہ تاریخ لدھیانے والی بیگم کی وفات ہے۔ ٭٭٭ والدہ جاوید اقبال راہی سوائے فردوس ہوئی مادر جاوید لالے کا خیاباں ہے مرا سینہ پر داغ ہے موت سے مومن کی نگہ روشن و بیدار اقبال نے تاریخ کہی سرمہ ما زاغ ۱۳۵۴ھ (ذکر اقبال ص ۱۹۵) علامہ مغفو ر کی یہ بیگم والدہ جاوید اقبال سال ہا سال سے جگر وطحال کی بیماری میں مبتلا تھیں۔ لیکن ۱۹۳۵ء میں ان کو معیار ی بخار ہوا۔ جس سے ان کی صحت بے حد کمزور ہو گئی۔ آخر ۲۳ مئی ۱۹۳۵ کو ان کا انتقال ہو گیا اور ان کو بی بی پاک دامناں ایمپرس روڈ لاہور میں ایک اونچے ٹیلے پر دفن کر دیا گیا مذکورہ قطعہ تاریخ ان کی قبر پر کندہ ہے۔ اس مادہ تاریخ سرمہ مازاغ کے متعلق حفیظ ہوشیار پوری مرحوم اپنے مضمون مطبوعہ روزنامہ آفاق (۲۱ اپریل ۱۹۵۱) میں رقم طراز ہیں کہ سرمہ زاغ کا مادہ اقبال کے غور و فکر کا نتیجہ تھا۔ ۱؎ سرود رفتہ کے صفحہ ۲۱۹ پر ۲ اکتوبر درج ہے لیکن باقیات اقبال میں یہ تاریخ ۲۱ اکتوبر ہے (باقیات اقبال ص ۴۹۲) معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ گوئی پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میںسے ہم عدد الفاظ کی فہرست میں انہیں یہ مادہ بھی نظر آیا چنانچہ گلبن تاریخ مصنفہ حکیم میر مہدی حسین الم کے صفحہ (۵۵۸) اور آئینہ تواریخ مصنفہ حافظ الٰہی بخش شائق کے صفحہ ۳۷۰ پر سرمہ بازاغ ۱۳۵۴ کے تحت درج ہے۔ تذکرہ بے نظیر مولفہ سید عبدالوہاب افتخار طبع ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد کے صفحہ ۶۴۔۶۵ پر ایک واقعہ درج ہے یہ تذکرہ فارسی زبان میں ہے۔ ہم اس عبارت کا مفہوم اپنی زبان اردو میں درج کرتے ہیں۔ میر غلام علی آزاد نقل کرتے ہیں کہک جس زمانہ میں سندھ میں تھا ایک شخص کی شادی کی تاریخ مبارک باشد و مبارک باشک نکالی۔ اس کے بعد جب ہندوستان لوٹ کر آیا۔ تو حرمین شریفین کی زیارت کا قصد ۱۱۵۰ھ میں ہوا۔ بندر سورت پہنچا وہاںمیرزا محمد حسین بے خود سے ملاقات ہوئی۔ انہوںنے ایک تقریب کے موقع پر مجھ سے کہا کہ ایک شخص کی شادی کی تاریخ کہی ہے اور وہی مصرع پڑھا زیارت حرمین سے واپسی پر جب حیدر آباد پہنچا تو ایک رات نواب موتمن الدولہ سالار جنگ بہادر کے یہاں جبکہ وہ صوبیدار اورنگ آبا دتھے۔ صحبت شعر و سخن برپا تھی۔ انہوںنے کہاکہ ایک لڑکے مبارک علی نام کی ولادت کی تاریخ کے لیے ایک مصرع کہا ہے اوروہی مصرع تاریخ سنایا۔ میر صاحب میر آزاد بلگرامی نے فرمایا عجیب اتفاق ہے کہ ایک ہی مصرع تین اشخاص کو توارد ہوا ۔ اور تماشا یہ کہ تینوں ایک دوسرے سے بہت دور ایک ملک سندھ میں دوسرا ملک گجرات میں اور تیسرا ملک دکن میں او اس بنا پر مولود کا نام مبارک علی تھا۔ تاریخ توالد اور بھی پر لطف ثابت ہوئی۔ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے کہ نواب میرزا داغ مادہ تاریخ کتنے مورخین کوسوجھا۔ لالہ سر رام آنجہانی کے تذکرے خم خانہ جاوید کی تاریخ اشاعت کتنے مورخین نے لفظ تذکرہ سے برآمد کی۔ مذکورہ مثال جو آزاد بلگرامی کا قول ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی مصرع یا لفظ کا توارد مختلف ممالک کے مورخین کو ہو سکتا ہے اور یہ بات تعجب انگیز نہیں حفیظ ہوشیار پوری مرحوم نے بھی فرمایا ہے کہ یہ مادہ تاریخ آئینہ تواریخ اور گلبن تاریخ میں ہے۔ یہ عرض کر دینا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گاکہ ان ہم عدد الفاظ کی ڈکشنریوں کے علاوہ یہی مادہ تاریخ ام التواریخ مولفہ حسین علی فرحت مطبوعہ میرٹھ کے صفحہ ۳۲۲ پر موجود ہے۔ اس سے پہلے قرآن حکیم کی اس آیتہ مجیدہ مازاغ البصر و ما طغیٰ میں اصل میں یہی وہمنبع ہے جہاں سے سرمہ مازاغ کی ترکیب نے ترتیب پائی۔ اقبال مرحوم کا ماخذ بھی یہی تھا۔ توارد شعری کی مثالیںتو بہت ملتی ہیں لیکن توارد مادہ تاریخ کی مثالیں بھ مل جاتی ہیں جیسا کہ اوپر ہو چکا ہے۔ غالب مرحوم کی طرح اقبال مغفور نے بھی کم تاریخیں کہتے تھے۔ بلکہ ایک خوبصورت انداز میںاس پر طنز بھی کرتے رہے اور تاریخیں بھی حسب فرمائش کہہ کہہ کر احباب کو نوازتے رہے کہتے ہیں: تو گفتی از حیات جاوداں گو بگوش مردہ پیغام جاں گو ولے گویند ایں ناحق شناساں کہ تاریخ وفات این و آں گو یہ مفہوم اپنی جگہ ہے لیکن ان کو تاریخ گوئی سے دل بستگی ضرورتھی۔ ٭٭٭ عالم پناہ مہاراجہ عالمگیر پرشاد ۱۳۳۴ھ مہاراجہ کشن پرشاد شاد کے ہاں فرزند تولد ہوا مذکورہ مادہ تاریخ تہنیت کے طور پر ۶ جون ۱۹۱۴ء کو ایک خط کے ذریعے بھیجا۔ تاریخ سے وابستگی کی ایک اور مثال بھی موجود ہے۔ ایک دفعہ عین السلطنت مہاراجہ کشن پرشاد کو ایک خط میںلکھتے ہیں کہ کشن پرشاد ۸۷۷ اور ذولمنن ۸۷۷ کے عدد برابر ہیں۔ عرش اور کشمیر کو بھی ایک جگہ ہم عدد قراردیتے ہوئے کہتے ہیں: سامنے ایسے گلستاں کے کبھی گر نکلے جیب خجلت سے سر طور نہ باہر نکلے ہے جو ہر لحظہ تجلی گہ مولائے جلیل عرش و کشمیر کے اعداد برابر نکلے ہم نے چھتیس ۳۶ تاریخوں کے مقابلے میں اظہار خیال کیا ہے۔ علامہ مغفور سے چند کیے گئے اعتراضات کے جواب بھی لکھے ہیں۔ جہاں انہوں نے الف ممدودہ کے دو عد د لیے ہیں۔ ان کی نشان دہی کر دی ہے اور جہاں انہو ں نے الف ممدودہ کا ایک عدد محسوب کیا ہے اس کا ذکر بھی کر دیا ہے ۔ الف خنجری کے متعلق بھی حسب ضرورت بحث کر دی ہے اوران مقامات کا تجزیہ کیا ہے جہاں اختلاف ہو سکتا ہے۔ ٭٭٭ اقبال کا نفسیاتی مطالعہ سلیم اختر ’’آپ میرے بارے میں کسی غلط فہمی میں نہ پڑیں اور ایسا ظالمانہ طرز عمل اختیار نہ کریں جیساکہ آپ نے میری توقعات کے خلاف اپنے آخری خط میں اختیار کیا تھا۔ آپ نے ساری باتیں ابھی تک نہیں سنیں۔ آپ میری تکالیف سے واقف نہیں جو ایک بڑی حد تک میرے طریقہ عمل کی تشریح کر دیں گی۔ آپ کے متعلق میرے طرز عمل کی مکمل تشریح کے لیے ایک غیر ضروری طور پر طویل خط درکار ہو گا۔ شاید ایک سے کہیں زیادہ خطوط۔ مزید برآں الفاظ کی حقیقی آواز کا غذ پر ان آوازوں کی نقل سے بہت زیادہ یقین دلانے والی ہوتی ہے۔ کاغذ میں ہمدردی کا احسا س نہیں ہوتا۔ اور ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں جن کا اظہار کاغذ پر نہیں ہونا چاہیے اس لیے میرے منشا کا اندازہ کرنے میں اس قدر عجلت سے کام نہ لیں۔ آپ مجھے الزام دیتی ہیں کہ میںبھاڑے کا ٹٹو اور بے عمل آدمی بن گیا ہوں۔ شاید اس میں صداقت کا عنصر موجود ہو۔ لیکن جب آپ تمام حالات سے باخبر ہو جائیں گی اس وقت اس کے لیے کچھ نہ کچھ وجہ جواز ضرور پائیں گی۔ دوسرے امور میں بھی ابھی تک خواب دیکھنے والا شخص ہوں اور خوبصورت خیالات کا خواب دیکھنے والا… (اقبال بنام عطیہ بیگم) مشرق کے آداب شرافت میں شخصیت پرستی کی بلاوجہ جو اساسی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ اس کے مضر اثرات نے شخصیت نگاری کو بالخصوص اور تنقید کو بالعموم متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے تحریرر میں سیرت بھاری سنہری ملبوسات میں لپٹی خوش رنگ اور خو ش نظر تو معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت کے رنگ و بو سے عاری رہتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایک خاص نوع کے خوف میں تلاش کی جا سکتی ہے۔ یہ خوف ہے حقیقت کا احقائق سے آنکھیں چراتے ہوئے یہ باور کر لینا کہ بس حقیقت کا وجود معدوم ہو گیا ہے یا پھر حقائق کو اپنی سہولت یا ضرورت کے مطابق توڑ موڑ کر حسب منشا نیا پیکر عطا کر کے مطمئن ہو جانا۔ یہ انداز ہمارا قومی نشان بن چکا ہے ہم اس پجاری کی مانند ہیں جو بت کو خدا تو بنا سکتا ہے لیکن اس بت کے روپ میں دیکھنے کی جرات نہیں رکھتا۔ گو غزل یا بعض اور اصناف ادب کی مانند سوانح عمری کی عمر کوئی بہت زیادہ تونہیں بنتی تاہم پون صدی کوئی اتنی اہم بھی نہیںلیکن اردو سوانح عمریوں کا حال یہ ہے کہ اب بھی ہمیں صف اول کی سوانح عمریوں کے لے حالی اور شبلی تک جانا پڑتا ہے۔ حالانکہ ان کی کاوشیں اردو میںاولین حیثیت رکھتی ہیںَ انہیںنقطہ آغاز بنا کر اگر اردو میں سوانح عمریوں کے فن کے ارتقاء کا گراف بنایا جائے تو میرے خیال میں اوپر کی بجائے نیچے کا رخ کرے گا۔ تعداد کے لحاظ سے نہیں بہ لحاظ معیار اس کی وجہ یہ ہے کہ حالی نے سوانح عمری میںشخصیت کی پیش کش کا جو معیار مقرر کیا آنے والے حضرات اس سے روگردانی کی ضرورت نہ سمجھی اس لیے نہیں کہ حالی سے بہت زیادہ عقیدت تھی بلکہ اس لیے کہ حالی کا مقرر کردہ معیار ہماری نام نہاد مشرقیت کو بھاتا ہے۔ حالی نے سرسید کی سوانح عمری لکھتے وقت حیات جاوید میں ان خیالات کا اظہار کیاتھا: ’’ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ کسی شخص کی بائیو گرافی کرٹیکل طریقے سے لکھی جائے۔ اس کی خوبیوں کے ساتھ اس کی برائیاں بھی دکھائی جائیں۔ اور اس کے عالی خیالات کے ساتھ ساتھ اس کی لغزشیں بھی ظاہر کی جائیں۔ چنانچہ اس خیال سے ہم نے جو دو مصنفوںکا حال اب سے پہلے لکھا ہے اس میں جہاں تک معلوم ہو سکیں ان کی اور ان کے کلام کی خوبیاں ظاہر کی ہیں اور ان کے پھوڑوں کو کہیں کہیں ٹھیس نہیں لگنے دی۔ لیکن…ایسی بائیو گرافی چاندی سونے کے ملمع سے زیادہ کچھ وقعت نہیں رکھتی۔ ‘‘ حالی نے ۱۸۹۴ء میں بعض مخصوص حالات اور خصوصی مقاصد کے پیش نظر سونے چاندی کے ملمع کو پسند کرتے ہوئے بھی اسے روا رکھا لیکن ہمارے لکھنے واے آج بھی اس ملمع کاری میں مصروف ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ عظیم شخصیت میں آنکھوں کو چکا چوند کر دینے والی بعض ایسی صفات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہ عوام و خواص میں مقبول و ممتاز ہی نہیں ہوتیں بلکہ یہی تیز روشنی اصل خدوخال اور سیرت نگاہوں سے اوجھل کرنے کا موجب بھی بنتی ہے۔ زریں کارنامے اصل انسا ن کو چھپا دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میںشخصیت آئس برگ کاروپ اختیار کر لیتی ہے۔ جو کہ سطح آب کے مقابلے میں کہیں زیادہ زیر آب ہوتا ہے۔ عوام مداح اور بعد میں آنے والے لوگ صرف سطح سے بلند کرنے والے کارناموں کی روشنی میں اس کا تعارف حاصل کرتے ہیں لیکن اصل انسان کو کون جانے؟ اور پھر کتنے لوگوں میںغوطہ لگا کر آئس برگ کی حقیقت جاننے کی جرات ہوتی ہے۔ عوام کے لے نہ تو ضروری ہے اورنہ ہی ممکن … لیکن شخصیت نگار کے لیے اسی کی حیثیت اساسی ہے اور اس کے لیے ایسا کرنا لازم ہے ورنہ بصورت دیگر سوانحعمری نامکمل اور خام ہی نہیں بلکہ بعض اوقات تو گمراہ کن بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ مشرقی شخصیت پرستی کے برعکس مغرب میں سوانح نگار شخصیت کی نفسی اساس اجاگر کرکے ان عوامل و محرکات پر روشنی ڈالنے کی سعی کرتا ہے جنہوں نے اسے ایک مخصوص سانچے میں ڈھالا ۔ اس ضمن میں نفسیات اور بالخصوص تحلیل نفسی کی امداد سے شخصیت کے تاریک نہاں خانوں کو منور کیاجا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے خطوط ڈائری اور نجی نوعیت کے دیگر مواد کے ذریعے لاشعور کے تہہ خانے میںقدم بہ قدم نیچے اترنے کی سعی کی جاتی ہے۔ فرائیڈ کی شخصیت پیچیدہ نہ تھی بلکہ اس کی تحریروں نے جن نزاعات کو جنم دیا یا ان کی بازگشت بھ سی جا سکتی ہے لیکن جب ڈاکٹر ارسنٹ جونز نے اس کی … حالی کی حیات جاوید ہی کی مانند… مفصل سوانح عمری قلمبند کی تو اس کی شخصیت ے انسانی پہلو اجاگر کرنے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع سے حسول مواد کرتے ہوئے شادی سے پہلے بیوی کے نام لکھے گئے محبت ناموں کو بھی شامل کتاب کر لیا۔ چنانچہ اس کتاب میں فرائید کا ایک عظم نفسیات دان ہی نہیں بلکہ مخصوص نفسی رجحانات کے حامل مرد کے روپ میں بھی نظر آتا ہے۔ یہ تو ایک جامع سوانح عمری کا حال تھا۔ بائرن انگریزی کا عظیم شاعر ہی نہیں بلکہ عظیم نزاعی شخصیت بھی تھا۔ اس کی شادی اور پھر بیوی سے ناچاقی بھی انہیںنزاعات میں سے ایک اور بائرن کی طوفانی زندگی کے سمندر میں ایک لہر کی حیثیت رکھتی تھی۔ لیکن ولسن نائیٹ نے صرف اسی ایک ناچاقی کے اسباب و علل کی چھان بین کے لیے Lord Byron's Marriageمیں جو تحقیقات کیں اور ان سے جو چونکا دینے والے نتائج برآمد کیے ان کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آئس برگ کی حقیقت جاننے کے لیے سوانح نگار کو حقیقت کے یخ پانیوں میںکتنی گہرائی تک غوطہ لگانا پڑتا ہے ۱؎۔ (۲) ہمارے شخصیت نگار کیوں ۱۸۹۴ء سے آگے نہ بڑھ سکے؟ کم از کم اقبا ل کے معاملے میں تو ایسے محسوس ہواتا ہے جیسے چند استثنائی مثالوں سے قطع نظر بیشتر ٹھنڈے پانی سے خوفزدہ ہیںَ اقبال کیونکہ شاعر مشرق مفکر اسلام اور حکیم الامت ہے اس لیے اس کے بارے میں ہرگز ہرگز کوئی ایسی بات نہ لکھی جائے جس سے وہ انسان بلکہ زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ مرد ثابت ہو سکے۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی اقبال پر اہل قلم خامہ فرسائی کرتے رہے تھے لیکن گزشتہ ربع صدی میں تو اقبل سدابہار موضوع کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ چنانچہ اقبالیات اب ایک مستند اصطلاح ہی نہیں بلکہ اس ذیل میں آنے والی کتب بارشترے سے کم نہ ہوں گی۔ لیکن حالت یہ ہے کہ تنقید کے نام پر لکھی گئی بیشتر تحریریں محض تشریحٰ نوعیت کی ہیں اور یوں ان کی حیثیت کالج نوٹس سے زیادہ نہیں۔ (بعض تو واقعی کالج نوٹس ہیں) شاید اسی لیے اقبال کے صاحبزادہ جاوید اقبال ک و لکھنا پڑا۔ ’’جہاں تک تعداد کا تعلق ہے تو جتنا اقبال پر لکھا گیا ہے اتنا اور کسی مسلمان شاعر پرنہیںلکھاگیا تاہم ابھی تک ایسا مواد دستیاب نہیں جس میں اس انسان کی پر پیچ شخصیت اور انسانیت سے انصاف کرتے ہوئے یہ اجاگر کیا گیا ہو کہ اقبال نے کس طرح گہری وابستی سے اپنے گرد و پیش میں پھیلی ہوئی دنیا کی مردنی کے مقابلے میں حیات بخش رد عمل کا اظہار کیا‘‘ ۲؎ اسی ضمن میں جاوید اقبال رقم طراز ہیں: ایک اور وجہ از منہ وسطیٰ کی یادگار مجرد ار پراسرار کے لیے وہ محبت بھی ہے جسے بیشتر محققین کا ہم ترین وصف قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی ان کے اذہان کو مفلوج کرتی ہے اورہم میں حقیقی اور تخلیقی تحقیق کی نشوونما میںرکاوٹ کی موجب بنتی ہے۔ ایسے محققین محض مردہ تحقیق کے اہل ہوتے ہیں۔ اور ان کی تمام کار گزاریوں کا ثمر اقبال ایسے گرم جوش اور بت شکن انسان کو محض ایک سرد اور ڈرائونے بت کے روپ میں پیش کرتا ہے‘‘۳؎ ۱؎ شادی کی بات چلی ہے تو سید حامد جلالی کی تالیف علامہ اقبال اوران کی پہلی بیوی (والدہ آفتاب اقبال) سے ولسن نائیٹ کی کتاب کا موازنہ کرنے پر واضح ہوتا ہے کہ اول الذکر میں سوائے جذباتیت کے اور کچھ بھی نہیں۔ ۳۲؎ Stray Reflections (Introduction) Page XXIV, XXIX مندرجہ بالا اقتباسات میں انسانیت پیچیدگی اور بت شکن ایسے الفاظ جنہیں اقبال کے نفسیاتی مطالعے میں اساسی حیثیت نہ دینے پربھی اہم اشارات یقینا قرار دیا جا سکتا ہے۔ گو اقبا ل کی سوانح حیات پر بعض بہت اچھی اور قابل قدر کتابیں لکھی گئی اور کارآمد معلومات جمع کرنے کے لحاظسے ان کی افادیت بھی مسلم لیکن جہاں تک اقبال کو بحیثیت ایک انسان پیش کرنے کا تعلق ہے میرے خیال میں غالباً عبدالمجید سالک کی ذکر اقبال ایسی واحد سوانح عمری ہے جس میں ایسی کاوش ملتی ہے۔ ان کے بعد پروفیسر محمد عثمان کی حیات اقبال کا ایک جذباتی دور کا نام لیا جا سکتا ہے یا عظیم فیروز آبادی کی اقبال باکمال میں اقبال کی حیات معاشقہ عنوان کے مضمون میں کچھ باتیں آ گئیں جن کی اقبال کے ایک رشتے دار خالد نظیر صوفی نے اقبال درون خانہ میں پرزور الفاظ میں تردید کی ہے۔ میرے خیال میں یہ سعی لاحاصل ہے اقبا ل نے کبوتر اڑائے یا نہیں شراب پی یا نہیں‘ گانا سننے کا شوق تھا یانہیں۔ یہ اور اسی نوع کی دیگر باتوں کی تردید یا تائید کا آک تک کوئی عملی فائدہ نہیں۔ فرض کریں یہ سب کچھ سستانے کے لیے تھا تو اس میں کیا حرج ہے؟ کیا ا س سے اقبال کے فلسفہ خودی کیاہمیت کم ہو جاتی ہے؟ اور اگر اقبال واقعی ایک کامل ولی اور صاحب کرامت پیر تھا تو کیا اس سے اس کی شاعرانہ عظمت کو ضرورت سے زیادہ چار چاند لگ جاتے ہیں؟ غالب نے اپنے عشق شراب نوشی جوئے اور جیل جانے یکا اپنے خطوط میں خود ہی ذکر کیا ہے کیا آج اسے ایک اخلاق باختہ شاعرسمجھتے ہوئے اس پر نفرین کی جاتی ہے؟ سر سید کا زماہ اقبالکے مقابلے میں کئی زیادہ ذہنی گھٹن ‘ روایت پسندی اور تنگ نظری کا زمانہ تھا اور پھر اقبال کے برعکس سرسید کی اصل شہرت یا بدنامی مذہبی سماجی اور تعلیمی میدانو میںایک اصلاح پسند کی تھی لیکن خود انہوں نے بھی اپنے بارے میں کمال بے تکلفی سے کام لیتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ: ’’میری لائف میںسوا اس کے کہ لڑکپن میں خوب کبڈیاں کھیلیں کنکوے اڑائے‘ کبوتر پالے‘ ناچ مجرے دیکھے اور بڑے ہو کر نیچری کافر اور بے دین کہلائے اوررکھا ہی کیا ہے‘‘۔ کیا اس اعتراف سے سرسید مردود ہو گئے؟ اسی طرح مولانا ابو الکلام آزاد نے جب اپنی تردامنی پریوں ناز کیا: ’’اگر کسی کو اول روز سے اپنے زہد و پاکی کی خشک دامنی پرناز ہوتو ہمکو بھی اپنی رندی ‘ وہوسنا کی کی تردامنی کا کوئی شکوہ نہیں جس کو عین اکیس بائیس کی عمر میں کہ جنون شباب کی سرمسیتوں کا اصلی موسم ہوتا ہے دونوں ہاتھو ں سے ا س طرح نچوڑا کہ ایک قطرہ بھی باقی نہ چھوڑا… جو درد پہلے داغ اور پھر زخم بن کر رہا تھا اب ناسور بن کر خانہ دل میں محفوظ ہے‘‘۔ تو کیا ان کے عقیدت مند ان سے متنفر ہو گئے؟ میرا یہ مقصد نہیں کہ اقبال یا اس لحاظ سے کسی بھی عظیم شخصیت پر ضرور ہی کیچڑ اچھالی جائے اور صرف افتراء پردازی اور الزام تراشی سے ہی شخصیت اجاگر ہو سکتی ہے اورہم انہیں صرف گندگی کے حوالے سے ہی انسان تسلیم کر سکتے ہیں۔ ایسا نہیں اور نہ ہی ایسا ہونا چاہیے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ حقائق سے چشم پوشی نہ ہو۔ اس نوع کی باتوں (بلکہ معلومات سے اس وقت فرق پڑتاہے جب ان کی روشنی میں فن کار کی شخصیت میںکوئی نمایاں تغیر یا انقلاب رونما ہوتا ہے۔ یا ان سے ان کے فن کی نئی جہت سامنے آتی ہو یا پھر بعض فن پاروںپر نئے زاویے سے یوں روشنی پڑے کہ ان کے معانی میں وسعت یا مفہوم میں گہرائی پیدا ہوتی ہو۔ اگر شراب نوشی سے فن متاثر نہیں ہوتا تو آج کے ناقد کے لیے اس پر زور دینا بے معنی ہے جبکہ سوانح نگار کے لے یہ ایک عام دلچسپی کی جگہ ثانوی اہمیت والی معلومات ہو گی ہم لو گ خاموشی کی سازش کے ماہر ہیں اس لیے اخفائے کام لینا فطرت ثانیہ ہے جس کے نتیجہ میں اقبال کو شاعری کا کمپیوٹر سمجھ لیا گیاہے۔ ایسا کمپیوٹر جس نے الہام کے بٹن پر انگلی رکھی اور کھٹ سے ایک بلند پایہ نظم (مثلاً مسجد قرطبہ) باہر آ گئی۔ (۳) عطیہ بیگم فیضی اردو ادب میں ایک Legendایسی حیثیت اختیار کر چکی ہیں یہ تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ واقعی شبلی کے لیے فینی بران اوراقبال کے لیے بئیرس تھی لیکن اتنا یقینی ہے کہ اردو کے ان دو عظیم ادیبوں نے عطیہ کی شخصیت سے بہت گہرے اثرات قبول کیے۔چنانچہ شبلی نے قصرمعلی جزیرہ جنجیرہ میںعطیہ کی میزبانی کے بعد یہ کہا: کسی کو یاں خدا کی جستجو ہو گی تو کیوں ہو گی خیال روزہ و فکروضو ہو گی تو کیوں ہو گی جو دو دن بھی بسر کر لے گا اس قصر معلی میں اسے خلد بریں کی آرزو ہو گی تو کیوں ہو گی (۵ اکتوبر ۱۹۰۹ء بمقام جنجیرہ) ٭٭٭ یاد صحبت ہائے رنگیں جو جزیرہ میں رہیں وہ جزیرہ کی زمیںتھی یا کوئی مے خانہ تھا لطف تھا ذوق سخن تھا صحبت احباب تھی مطرب و رود وسرود و ساغر و پیمانہ تھا (۱۷ اکتوبر ۱۹۰۹ء بمقام بمبئی) ٭٭٭ اپنے جداگانہ انداز زیست تعلیم و تربیت اور زمان و ماحول میں اختلافات کے باوجود شبلی اوراقبال میں بعض خصوصیات کا اشتراک بھی ملتا ہے جن کا مطالعہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ مثلاًدونوں نے فارسی ادب و زبان کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اور فارسی کے بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ دونوں کو فلسفے سے گہرا شغف تھا بلکہ عجب اتفاق ہے کہ دونوں نے پروفسیر آرنلڈ سے رہنمائی حاصل کی(اقبال تو خیر آرنلڈ کے شاگرد تھے ہی) دونوں کو مسلمانوں کی گزشتہ عظمت کا ااحساس ہی نہ تھا بلکہ اس کے دوبارہ حصول کے خواہاں بھی تھے۔ ادبی خدمات کے سلسلے میں دونوں انگریزوںسے خطاب یافتہ تھے۔ آخری اور اہم ترین یہ کہ دونوں عطیہ بیگم سے متاثر ہوئے اور ببری طرح سے اس ضمن میں دونوں کیعمروں کا تفاوت بھی قابل غورہے مولانا شبلی (پیدائش مئی ۱۸۵۷ ) ۱۹۰۴ ء میں جب بمبئی گئے تو خاندان فیضی سے تجدید ملاقات ہوئی شبلی اس سے قبل عطیہ کے والد حسن فیضی سے استنبول میں مل چکے تھے۔ گویا اس وقت مولانا کی عمر ۴۹ برس تھی۔ اس سے قبل وہ دو شادیاں کر چکے تھے بلکہ دوسری بیوی (متوفی ۱۹۰۵) کا غم غلط کرنے بمبئی آئے تھے۔ شبلی عمر کے آخری دور میں تھے انتقال ۱۸ نومبر ۱۹۱۴ء جب کہ اقبال کامعاملہ اس کے برعکس تھا۔ اگر ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو اقبال نے تاریخ پیدائش تسلیم کر لیا جائے تو گویا ۲۸ سال کی عمر میں اقبال نے ۱۹۰۵ء میں حصول تعلیم کے لیے عزم یورپ کیا۔ ایک جوانی گزار چکا تھا اور دوسرا جوان تھا۔ شبلی کا متاثر ہونا بلکہ وحیدر قریشی کے الفاظ میں عشق کرنا بجھتے چراغ کی آخری بھڑک تھی۔ اور ادھیڑ عمر شبلی جس جذباتی تموج کا شکار ہوئے اس کا نتیجہ تخلیقی عمل کی تیزی کی صورت میں ظاہر ہوا اور یوں ۱۱ ستمبر ۱۹۰۶ء کو مہدی افادی کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھا ۔ ’’انیس برس بعد غزل لکھنے کا اتفاق ہوا‘‘۔ فرائیڈ نے جنسی ارتقاع Sex Sublimationکا جونظریہ پیش کیاہے اس پر بہت سے اعتراضات کیے گئے ہیں لیکن شبلی ایسی مثالوں کی موجودگی میں اس کی صداقت سے انکار ممکن نہیںرہتا۔ اس جذباتی تموج نے ارتفاع پذیر ہو کر تخلیقات کی صورت میں تسکین ۱؎ پائی ۔ چنانچہ اس وقت کی فارسی غزلیںجب دستہ گل کے نام سے ۱۹۰۸ء میں طبع ہوئیں تو ان غزلوں کا رنگ دیکھ کر حالی نے شبلی کو یوں لکھا: ’’… کوئی کیونکر مان سکتا ہے کہ یہ اس شخص کا کلام ہے جس نے سیرۃ النعمان الفاروق اور سوانح مولانا رو م جیسی مقدس کتابیں لکھیں ۔ غزلیں کاہے کو ہیںشراب دو آتشہ ہیں۔ جس کے نشے میں خمار چشم ساقی ملا ہوا ہے‘‘۔ غالباً حالی نے ایسے اشعار پڑھ کر یہ رائے دی ہو گی: من فدائے بت شوخ کہ بہ ہنگام وصال بہ من آموخت خود آئین ہم آغوشی را شب وصل است حیا گر بہ گزاری چہ شود یک دمم تنگ در آغوش فشاری چہ شود از تو ناید گرہ بند قبا وا کردن اگر ایں عقدہ بہ من باز سپاری چہ شود ۲؎ ۱؎ بقو ل شبلی : پے تواں برد کہ ایں زمزمہ بے چیزے نیست شبلی ایں تازہ نوا ہا کہ چوں مستاں زدہ ام ۲؎ مزید معلومات کے لیے ملاحظہ ہو : شبلی کی حیات معاشقہ ا ز ڈاکٹر وحید قریشی شبلی نے بہت گھٹے ہوئے ماحول میں پرورش پائی تھی۔ وہ تو ان کے مزاج کی عجمیت اور شاعری نے بچالیا ورنہ ملائوں میں گھرا شبلی عطیہ سے متاثر ہونے کی بجائے اسے دیکھ کر لاحول پڑھتا کہ ۲۳برس کی دوشیزہ بلا نقاب نامحرموں میںگھری فلسفے پر گفتگو کرتی ہے۔ شبلی کا دل تو عطیہ ایسی عورت کو مسترد کر سکتا تھا لیکن شاعر کا دل نہیں‘ اس لیے جذباتی ابال تخلیقی ابال بنا۔ اس میں عمر کا کوئی قصور نہیں۔ کشمیری النسل اقبال کا معاملہ جداگانہ تھا کہ رگوں میں پنجابی خون دوڑ رہا تھا۔ لیکن وہ کس قسم کا خون تھا۔ اس کی جذباتی ساخت کیا تھی۔ بحیثیت ایک مرد اس کی پسند و نا پسند کیا تھی ۔ اس ضمن میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ کچھ تو اس لیے کہ ہمارے سوانح نگاروں نے ان امور کو درخود اعتنا نہ سمجھا اور کچھ اس لیے بھی کہ اقبال نے اپنی تحریروں میں دانستہ (یانادانستہ) طور پر ا س نوع کے اشارات سے احتراز کیا۔ کچھ اس لیے بھی کہ اقبال نے اپنی تحریروں میں دانستہ ناقدروں اور پرستاروں کے علاوہ بے تکلف دوست اور مشفق احباب بھی شامل تھے ۔ لیکن سوانحی موا د کے لحاظ سے ان خطوط کی اہمیت برائے نام ہے۔ ان میں فلسفہ‘ تصوف‘ اسلام ‘ خودی ‘ ادب ‘ و فن غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن ان خطوط میں اگر کوئی اصل اقبال کو تلاش کرے تو یہ سعی لا حاصل ہو گی۔ جبکہ غالب نے اپنے خطوط میں خود کو عریاں کر دیا۔ اس لیے غالب کی زندگی اور فن پر ایک سے زائد نفسیاتی خیالات لکھے جا سکتے ہیں جبکہ اقبال کے بارے میں اس جرم کا ارتکاب کرنے کے لیے ڈھنگ کے حواے بھی نہیں ملتے۔ اگر عطیہ بیگم کے خطوط اور ڈائری سے اقتباسات نہ طبع ہوتے تو اقبال اور ان کے ساتھ شبلی کی زندگی کے یہ اہم ترین موڑ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نگاہوں سے اوجھل رہتے۔ شبلی اور اقبال کے ضمن میں البتہ ایک اساسی فرق ملحوظ رکھنا چاہیے۔ شبلی جب عطیہ بیگم سے ملے تو انہوں نے زندگی میں جو کچھ کرنا تھا سب کسی حد تک کر چکے تھے۔ ملک کے علمی و ادبی حلقوں میں ان ی جو شہرت تھی وہ بن چکی تھی اس لیے شبلی پر عطیہ بیگم کے اچھے یا برے اثرات زیادہ دور رس ثابت نہ ہو سکتے تھے۔ جذباتی ابال پید ا ہوا تو فارسی کی تند و تیز غزلوں نے سیفٹی والو کا کام کیا اور اقبا کی بات اور تھی۔ گو اقبال نے یورپ جانے سے پہلے ہی شاعری شروع کر رکھی تھی لیکن ابھی تک اپنے لیے نہ تو کوئی شاعرانہ مسلک اختیار کیا تھا اور نہ ہی کوئی نقطہ نظر واضح کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کے تحت الشعور میں ہو لیکن ابھی تک اقبال ’’اقبال‘ ‘ نہ بنا تھا۔ اس لیے ان کے ان واقعات و حوادث کی بے حد اہمیت ہو جاتی ہے جو کسی نہ کسی طرح سے بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اقبال کے جذبات میں ہلچل پیدا کرنے کے لیے کسی محرک کی صورت اختیار کر سکتے تھے۔ اقبال کو ایک مفکر مصلح اور فلسفی کے روپ میں پیش کرنے والے یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ کبھی وہ بھی جوان ہو گا۔ اور قلب و نظر اور ذہن متنوع اثرات کی آماج گاہ بھی بنے ہوں گے۔ چنانچہ اگر غلطی سے کوئی چونکا دینے والی بات سامنے آ جائے تو ذہن کو گویا ۴۴۰ وولٹ کا جھٹکا لگتا ہے۔ مثلاً اقبال کی یادداشتوں پر مشتمل نوٹ بک Stray Reflections(مرتبہ جاوید اقبال) میںاقبال نے ایک موقع پر یہ بتاتے ہوئے کہ اس کی زندگی میںہیگل ‘ گوئٹے ‘ غالب‘ بیدل اور ورڈر ورتھ کے افکار ونظریات اور شاعری نے کردار ادا کیا۔ اس امر کا بھی اعتراف کیا کہ ورڈز ورتھ نے زمانہ طالب علمی میں مجھے دہریت سے بچایا۔ (ص ۵۴) یہ اعتراف اتنا خطرناک نہیں جتنا بظاہر لفظ دہریت سے معلو م ہوتا ہے ۔ اور اسے اقبال کے افکار و نظریات کے ارتقائی مدارج میں خصوصی اہمیت بھی نہیں دی جا سکتی لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس سے اقبال کے ذہن کے ایک خاص رخ کا اندازہ یقینا لگایا جاسکتا ہے۔ جاوید اقبال نے اس کی توجیح یوں کی ہے: ’’زمانہ طالب علمی کی دہریت اس کے متجسسانہ رویہ اور استفسار پسندی کی غماز ہے۔ وہ ان میں سے نہیں تھا جو دوسروں پر انحصار کرتے ہوئے کسی بھی شے کو تسلیم کر لیتے ہیں‘‘۔ یہ توجیح کچھ غلط نہیں اور مشرقی روایات اور مذہبی عقائد میں پروان چڑھے ذہن کے مغرب کے فلسفے اور سائنس کے تجزیاتی انداز سے پہلی مرتبہ روشناس ہونے پر یقینا اعتقاد کی بنیادوں کو متزلزل پایا ہو گا لیکن میرے خیال میں بات یہیں پر ختم نہیںہو جاتی کیونکہ یہ دہریت اعتقادی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص ذہنی رویے کی بھی غماز ہے اور وہ ہے انتہا پسندانہ رویہ یہ انتہا پسندی ہی تھی جس نے اقبا میں دہریت کو ابھارا اور پھر اس کے رد عمل میں وہ تمام عمر ہر نوع کی بت پرستی کے خلاف جہاد کرتا رہا۔ اقبال نے اسی نوٹ بک میں کسی موقعے پر یہ بھی لکھا ہے: ’’اگر تم اس دنیا کے شور میں اپنی آواز کی سماعت چاہتے ہوتو اپنی روح کو کسی ایک تصور کے تابع فرمان کر دو۔ یہ ایک تصور والے ذہن کا حامل انسان ہی تو ہے جو سیاسی اور سماجی انقلابات برپا کرتا ہے۔ حکومتوں کی تشکیل کرتا اور دنیا کو قوانین دیتا ہے (ص ۱۵۵) اقبال نے جس ایک رخ ذہن کی توصیف کی ہے اسے کسی حد تک اقبال کی اپنی شخصیت کا عکس بھی قراردیا جا سکتا ہے۔ اور اس امر پر تو زور دینے کی ضرورت ہی نہیں کہ انتہا پسندی کا کرداری سانچہ ایک رخے ذہن سے جنم لیتا ہے۔ اقبال کی صورت میںیہ انتہا پسندی فلسفے کے روپ میں جلوہ گر ہوئی اور یک رخے ذہن کو اپنی کارکردگی کے لیے دو نقاط کے درمیان مختصر ترین فاصلہ نہ طے کرنا پڑا۔ اقبال نے مشرقی روایات کے حامل ایک دیندارمسلم گھرانے میں جنم لیا۔ ابتدائی تعلیم سیالکوت میںایف اے پاس کرنے تک یہ اثرات کسی ذہنی مزاحمت کے بغیر عمل پیرا رہے لیکن سیالکوٹ جو اس وقت محض ایک قصبہ تھا سے نکل لاہورایسے بڑے شہر میں ا ٓکر اور گورنمنٹ کالج میں فلسفے کی تعلیم نے ذہن میں بھونچال پیدا کر دیا۔ جس کا علاج ورڈز ورتھ کی فطرت پرستی میں تلاش کیا۔ یہ عارضی دور ہو گا۔ اصل بات یہ ہے کہ فلسفے کی دہریت کا علاج… علاج بالمثل کے مصداق … بھی فلسفے میں تلاش کیا۔ جیسے جیسے اقبال کے فلسفیانہ مطالعے کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا ویسے ویسے ہی وہ فلسفیانہ تضادات کو فلسفے سے ہی دور کرنے میں کامیاب ہوتا گیا۔ شاید اسی لیے وہ نیٹشے کو بھی لفظ دہریہ کے عام مفہوم میں دہریہ تسلیم کرنے کوتیار نہ تھا۔ اس لیے اس نوع کی دہریت خود اس میں بھی چھپی رہی۔ یہی انداز اس کی جذباتی زندگی میں بھی کارفرما نظر آئے گا۔ پہلی شادی سے اقبال خوش نہ تھا۔ یورپ میں عطیہ سے ملاقات ہوئی اور ہم مذاتی اور ہم مشربی کو اس نے جذباتی نا آسودگی کے لیے باعث تسکین بنانے کی سعی کی ہے لیکن بہ وجوہ بات نہ بن سکی۔ ۔ اس کی وجہ اقبال تھا یا عطیہ؟… اس ضمن میں وثوق سے اب کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اتنا یقین ہے کہ علاج بالمثل کے طور پر مزید دو شادیاں ضرور کیں۔ اسی نوٹ بک میں حقیقی شادی کے بارے میں اقبال کی یہ رائے بھی قابل غور ہے: ’’حسن فطرت کے اثرات کا صرف ایک محبوب کی آنکھ میں خود میں انجذاب ممکن ہو سکتا ہے۔ اور اسی میں حقیقی شادی کی اہمیت مضمر ہے‘‘ ۔ ص۱۲۳۔ اقبال نے عام روایتی زندگی میںمیاں بیوی کو دو پہیے قرار دے کر شادی کے چھکڑے میں تبدیل نہ کیا بلکہ اسے حسن فطرت سے ہم آہنگ کر کے اس کے لیے ایک وسیع تناظر ہی مہیا نہ کیا بلکہ فطرت کے حوالے سے اس رشتے کی جڑیں بھی انسانی فطرت میں پیوست کر دیں۔ اس کا حوالہ ایک فلسیفیانہ مقولے کے طور پر نہیں دیا گیا نہ ہی اسے ملفوظات اقبا کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ اس امر کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ایک ناکام شادی اور یورپ میںپربہار ۱؎ زندگی کے بعد اٹھائیس سالہ اقبال شادی کو کیا سمجھتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا (۱۹۱۰ئ) جب اقبال کی جذباتی ناآسودگی عروج پر تھی۔ لیکن شادیاں ہو جانے اور زندگی میں ایک بلند مقام حاصل کر لینے کے بعد اقبال نے شادی کے بارے میں بالکل عملی قسم کا تصور پیش کیا۔ چنانچہ سر راس مسعود کو ایک خط میں یوں لکھا: ’’شادی کابنیادی مقصد صالح توانا اور خوش شکل اولاد پیدا کرنا ہے اور رومان کا اس میں دخل نہ ہونا چاہیے‘‘۔ حسن فطرت کی جگہ حسن اولاد نے کیوں لے لی؟ کیا یہ اعتراف شکست ہے یا اقبال کی نفسیاتی ساخت ہی ایسی تھی؟ اس سوال کے جواب کے لیے آخری وقت ک اقبال سے قطع نظر کر کے یورپ کے قیام کے زمانے کی طرف لوٹنا ہو گا۔ اس لیے کہ وہ تین سال کا عرصہ حیات اقبال کا اہم ترین موڑ ثابت ہو تا ہے ۔ شاعرانہ اور فلسفیانہ لحاظ سے بھی اور جذباتی لحاظ سے بھی۔ ہر چند کہ اقبال نے بعد میں دعویٰ بھی کیا : ’’میری زندگی میں کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں جو اوروں کے لیے سبق آموز ہو سکے‘‘۔۲؎ ۱؎ جب میں انہیں خط لکھوں گا تو انہیں دلوں کی یاد دلائوں گا جبکہ آ پ جرمنی میں تھیں۔ آہ وہ دن جو پھر کبھی نہ آئیں گے ۔ (اقبال از عطیہ بیگم ص ۵۶) ۲؎ مکتوب بنام عشرت رحمانی اقبال نامہ ص ۴۲۶) لیکن حیات اقبال کا جائزہ لینے پر ایک سے زاید واقعات نظر آ جاتے ہیں۔ ’’ابھی اقبال کی عمر بیس برس کی بھی نہ تھی کہ شیخ نور محمد صاحب نے اپنے حسن انتخاب سے ایک عظیم المرتبت خاندان میں ان کی شادی کر دی۔ یہ شادی غالباً ۱۸۹۳ء میں ہوئی۔ اقبال کی یہی پہلی بیوی ہیں جن کے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنی بہو بنا کر ان کے والد محترم شیخ نور محمد صاحب اور ان کی والدہ ماجدہ اپنے گھر لائی تھیں۔ یہی اور صرف یہی بیوی تھیں جو ان کے والدین کے سایہ عاطفت میں رہیں۔ یہ مقدس بیوی سر زمین حجاز میں پیدا ہوئیں اور دس سال تک اپنے والد بزرگوار کے ہمراہ وہیں قیام پذیر رہیں اور بارہا حج کرنے کا شر ف انہیں حاصل ہوا۔ ان کی بیوی اور علامہ کی خوش دامن کی دوسری بان عربی تھی۔ ماں بیٹیاں بے تکان عربی بولتی تھیں۔ قابل باپ نے شریفانہ پردے کی قید کے اندر دینی تعلیم کے زیور سے اپنی بیٹی کو خوب آراستہ کیا تھایہ بیوی صبر و شکر اطاعت گزاری اور سلیقہ شعاری میں اپنا جواب نہ رکھتی تھیں۔ ان کا نام کریم بی بی ۱؎ تھا… علامہ کے لیے انتخاب ان کے والد بزرگ کا تھا جو صاحب بصارت دولت ‘ حشمت‘ نسب‘ شرافت کسی لحاظ سے بھی درست ہو سکتا ہے… اولاد پیدا ہوئی لڑکی کا نام علامہ نے خود معراج بیگم ۲؎ رکھا۔ اور لڑکا پیدا ہوا تو اس کا نام آفتاب اقبال ۲؎ تجویز فرمایا‘‘۔ اقبال کی پہلی شادی ایف کا امتحان دینے کے بعد ہوئی بلکہ بقول سالک: ’’جب بارات سیالکوٹ سے گجرات جانے کے لیے تیار ہوئی تو سہرا باندھا گیا۔ اقبال گھوڑے پر سوار ہو گئے تو پاس ہونے کی خوشی کا تار آیا ۴؎‘‘۔ بالفاظ دیگر یہ ایک کامیاب شادی کا شگون تھا اور دلہن کے بھاگوان ہونے کی نشانی۔ پھر یہ شادی کیوںناکام ثابت ہوئی ۔ اقبال نے شادی سے کچھ ایسے تقاضے وابستہ کر رکھے تھے جن کی تسکین اس شادی سے نہ ہو سکی۔ ہمارے ملک میں شادی ایک طرح کا جبر اورلاٹری کا کھیل بن چکی ہے۔ والدین اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق جو رشتے طے کرتے ہیں ان کی کامیابی کے بارے میں صرف ان کے اندازے ہوتے ہیں۔ خود دولھا دلہن کو بھی یہ علم نہیں ہوتا کہ ہماری کیسے گزرے گی۔ ایک ایف اے کا طالب علم جس نے ابھی تک نہ تو زندگی کے گرم سرد تجربات حاصل کیے تھے نہ تلخ ترش حوادث سے دوچار ہوا۔ ابھی زندگی میں اس کا کوئی مقام بھی متعین نہیں ہوا بلکہ وہ تو خود بھی یہ نہیں جانتا کہ اسے کون سا مقام حاصل کرنا ہے۔ ۱؎ عرضہ حیات ۱۸۹۷ء تا ۱۹۱۴ء ۲؎ پیدائش ۱۸۹۹ء ۳؎ علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیگم یعنی والدہ آفتاب اقبال (مولف سید حامد جلالی) ص ۲۱‘۲۹ ذکر اقبال میں سالک نے بیٹی کا نام مریم لکھا ہے جو کہ غلط معلوم ہوتا ہے۔ ۴؎ ذکر اقبال ص ۱۵ ان حالات میں ایک ناتجربہ کار Teen Agerکا والدین کے حکم کی تعمیل میں دولھا بننا اور ات ہے اور پڑھ لکھ کر یورپ کی آزاد فضا دیکھ کر اس دلہن سے نباہ کرنا قطعی جداگانہ بات ہے شادی کی کامیابی میں کئی پیچیدہ عوامل کارفرما ہوتے ہیں جن میں سے طبیعتوں کی ہم آہنگی کو غالباً سر فہرست قرار دیا جا سکتا ہے اسی سے دونوں میں وہ ذہنی مطابقت پیدا ہوتی ہے کہ شادی دوستی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس یے بیوی کی صورت ‘ سیرت‘ دولت‘ حشمت ‘ نسب اور شرافت کے باوجود بھی شادی ناکام ہو سکتی ہے اورایسی صورت میں دونوں ہی بے قصور ہو سکتے ہیں۔ وجوہات خواہ کچھہی کیوں نہ ہوں یہ واضح ہے کہ اقبال کی پہلی شادی ناکام رہی۔ عطیہ بیگم کے نام ۹ اپریل ۱۹۰۹ء کے مکتوب میں بہت تلخ لہجہ میں اقبال نے اپنی شادی کا ذکر کیا ہے: ’’ہاں میں نے علی گڑھ کی فلسفہ کی پروفیسری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ لاہور گورنمنٹ کالج میں تاریخ کی پروفیسر ی قبول کر نے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ میں کسی قسم کی ملازمت نہیں کرنا چاہتا۔ میرا مقصد یہ ہے کہ میں جلد از جلد اس ملک سے بھاگ کر کہیں چلاجائوں۔ آپ کو اس کی وجہ معلوم ہے میں اپنے بھائی کا ایک قسم کا اخلاقی قرضدار ہوں اوریہی چیز مجھے روک رہی ہے۔ میری زندگی سخت مصیبت بنی ہوئی ہے۔ وہ مجھ پر کوئی بیوی زبردستی منڈھ دینا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنے والد کو لکھ دیا ہے کہ انہیں میری شادی ٹھہرانے کا کوئی حق نہ تھا بالخصوص جب میں نے اس قسم کے تعلق میں پڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ میں ا س کی کفالت کرنے پر بالکل رضامند ہوں لیکن میںاسے اپنے ساتھ رکھ کر اپنی زندگی کو اجیرن بنانے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوں۔ انسان ہونے کی حیثیت سے مجھے بھی مسرت اور خوشی حاصل کرنے کا حق ہے اگر سوسائٹی مجھے حق دینے سے انکار کر دے تو میں دونوں کو کھلم کھلا مقابلہ کروں گا۔ واحد علاج یہ ے کہ میں اس بدبخت ملک کو چھوڑ کر کہیں چلا جائوں یا پھر شراب نوشی میں پناہ لوں جو خود کشی کو آسان بنا دیتی ہے۔ کتابوں سے یہ مردہ بنجر اوراق مجھے مسرت نہیں دے سکتے۔ میری روح میں کافی آگ پنہاں ہے جو انہیں جلا سکتیہے اور تمام سماجی رسوم کو بھی۔ آپ کہیں گی کہ ایک اچھے خدا نے یہ تمام چیزیں پیدا کی ہیں ممکن ہے ایسا ہی ہو۔ مگر اس زندگی کے واقعات ایک مختلف نتیجہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں کسی اچھے ۱؎ خدا کی بجائے کسی قادر مطلق شیطان پر یقین لے آنا زیادہ آسان ہے۔ براہ کرم ان خیالات کے اظہار کے لیے مجھے معاف کیجیے گا۔ میں ہمدردی کا خواستگار نہیں ہوں میں تو صرف اپنی روح کے بوجھ کو اتار دینا چاہتا تھا۔ آپ میرے بارے میں سب کچھ جانتی ہیں اور اسی وجہ سے میں نے اپنے خیالا ت کا اظہار الفاظ کا جامہ پہنانے کی جرات کی ہے۔ آ پ سمجھ گئی ہوں گی کہ میں نے ملازمت سے کیوں انکار کیا ۲؎‘‘۔ ۱؎ اس کے برعکس ۲۰ مئی ۱۹۳۷ء کو ڈاکٹر عباس علی خان کو یہ لکھا انسان جویائے محبت اور اپنے یار حقیقی کی دھن میں لگا رہے باقی تمام عبث اور خیال دنیا کا بے ہودہ فلسفہ ہے۔ ہم اس کو ڈھونڈتے رہیں ۔ جو ہم کو ڈھونڈنا چاہتا ہے اور اس کو ڈھونڈ یں خوب ڈھونڈین اور اتنا ڈھونڈیں کہ اپنے آپ کو پا لیں۔ (اقبال نامہ ص ۲۹۷) ۲؎ اقبا ل از عطیہ بیگم ص ۵۱‘۵۲ یہ خط اقبال کی شدید ترین جذباتی کشمکش کا آئینہ دار ہے۔ اگر اس خط کا تخیلی مطالعہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل امور واضح ہوتے ہیں: ۱۔ اس ملک سے بھاگ کر کہیں چلا جائوں۔ ۲۔ اپنے بھائی کا ایک قسم کا اخلاقی قرضدار ہوں۔ ۳۔ شادی کے ضمن میں اس قسم کے تعلق میں پڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ ۴۔ کسی قادر مطلق شیطان پر یقین لے آنا زیادہ آسان ہے۔ اس خط میں ملک سے فرار کا جو شدید ترین جذبہ موجزن ہے وہ دراصل شادی کی پیدا کردہ جذباتی الجھنوں کی بنا پر ہے۔ گو اقبال نے سب کچھ واضح الفاظ میں تو نہیں لکھا لیکن اس میں جو اشارات ہیں ان سے یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ اقبال نے اس شادی سے انکار کیا تھا یا کم از کم اپنے والدین کو یہ ضرور احساس کرانے کی کوشش کی تھی کہ وہ فی الحال شادی کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے۔ ۱۸۹۳ء میںایک نو خیز نوجوان اپنی نا پسند و پسند کو زیادہ شدید لہجے میں جارحانہ انداز سے اپنے والدین پر نہ ٹھونس سکتا تھا۔ اگر اقبال عام انسانوں کی مانند ہوتے فلسفہ نہ پڑھتے یورپ نہ جااتے تو شاید نباہ ہو جاتا۔لیکن یورپ سے واپسی کے بعد گھٹن کا احساس زیادہ ہو گیا ہو گا۔ یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ضمن میں ان کے بڑے بھائی نے بھی خاصا اہم کردار ادا کیا ہو گا۔ میں اپنے بھائی کے ایک قسم کا اخلاقی قرض دار ہوں اوریہی چیز مجھے روک رہی ہے۔ …کس بات سے روک رہی ہے؟ اقبا ل نے اس کی وضاحت نہ کی لیکن: میں اس کی کفالت کرنے پر بالکل رضامند ہوں لیکن میں اسے سات رکھ کر اپنی زندگی اجیرن بنانے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوں۔ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال غالباً طلاق دینا چاہتے ہوں گے جو بھائی کے اخلاقی جبر کی وجہ سے نہ ہو سکی ۔ لیکن سید حامد جلالی صاحب کی اور ہی رائے ہے ان کے بقول: ’’آفتاب اقبال جس شفقت کے حق دار تھے اپنے مظلوم ماں کا بیٹا ہونے کی وجہ سے اس سے وہ ۱۹۱۲ء ‘ ۱۹۱۳ ء کے بعد جبکہ علامہ اقبا نے شادیوں کا سلسلہ شروع کیا ایک حد تک محروم ہو گئے تو اس میں ان کا کیا قصور۔ حضرت علامہ نے جس طرح بیوی کو بے حق کیا اسی طرح اس کے بیٹے کو بے حق کیا۔ اور اس ظلم ناروا میں ؛ان کا بھائی عطا محمد کا بڑا ہاتھ تھا ۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ آفتاب اقبال کی بجائے ان کا اپنا بٹا جو قریب قریب آفتاب صاحب کا ہم عمر ہے علامہ کی توجہ کا مرکز بن جائے چنانچہ یہی ہوا۔ الغرض عطامحمد صاحب موصوف کا رویہ علامہ کے بیوی بچوں کے ساتھ ہمیشہ نہایت سخت اورمعاندانہ تھا آفتاب اقبال کو زدو کوب کرنا سب و شتم سے پیش آنا ان کا معمول تھا۔ عطا محمد صاحب کا ظلمانہ سلوک والدہ آفتاب اور ان کی اولاد کے لیے سوہان روح بناہوا تھا… سب سے کمزور اور مظلوم آفتاب اقبال اور ان کی والدہ تھیں جو ان صاحب کا خصوصی شکار تھیں۔ بیوی کو شوہر سے بیٹے کو باپ سے جدا رکھنا یہ جناب عطا محمد کا محبوب مشغلہ تھا ۱؎‘‘۔ اقبال کے محولہ بالا خط کے آخری حصہ نفسیاتی لحاظ سے بے حد دلچسپ ہے۔ گو خدا پر شیطان کو ترجیح دینا اس اعصابی تنائو اور ڈہنی پژمردگی کی بناپر ہے جس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ ملک سے فرار چاہتے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ زمانہ طالب علمی کی دہریت کے اعتراف کو ملحوظ رکھ کر اتنا اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال نے خدا کے روایتی تصور کو کبھی بھی دل سے نہ قبول کیا ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں دکھوں اور پریشانیوں کو حکم خد اسمجھ کر سر تسلیم خم کرنے کی تلقین کی جاتی رہی ہے لیکن اقبال نے اسے تسلیم نہ کیا۔ ان کا یہ کہنا کہ: ’’ایک اچھے خدا کے بجائے کسی قادر مطلق شیطان پر یقین لے آنا زیادہ آسان ہے‘‘۔ جہاں اس شدید نفسی کرب کا غماز ہے جس میںمبتلا ہو کر انسان خدا کو گالیاں دینے پر اتر آتا ہے وہاں تقابل کے لیے شیطان کو قادر مطلق قرار دینا بذات خود ایک اہم نفسیاتی اشارہ ہے۔ (۵) اس اشارے سے وابستہ امکانات پر مزید روشنی ڈال کر بات کو اور بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔ اقبال کے ذہنی رجحانات اور مخصوص شخصی میلانا ت کے بارے میں ہمیں کوئی خاص معلومات حاصل نہیں لیکن اتنا ہے کہ بعض امور میں تو اقبال خود اپنے اس مصرعے کی تفسیر معلوم ہوتا ہے: قلب او مومن دماغش کافر است اس خط سے وابستہ جذبات اور تلازمات کے تناظر میں اقبال کے تصور ابلیس کا مطالعہ کریں تو کیا اقبال اس سے مرعوب نظر نہیں آتا۔ جبریل اور ابلیس کے مکالمے میں اقبا ل نے ابلیس کو ہر طرح سے فوقیت دی ہے۔ چنانچہ جبریل کے اس سوال: ہمدم دیرینہ کیسا ہے جہان رنگ و بو کے جواب میں ابلیس کا یہ کہنا: سوز و ساز درد و داغ جستجوئے و آرزو اور پھر یوں طعنی زن ہونا: میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح تو فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو! ۱؎ علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیگم یعنی والدہ آفتاب اقبال مولف سید حامد جلالی ص ۳۹۔۴۱ ان اشعات کے ساتھ ساتھ اگر خدا کے بارے میں کہے گئے اشعار بھی پیش نظر رکھیں تو شکوہ و شکایت سے قطع نظر خدا کی ہمسری : فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوںمیرا یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک کے ساتھ ساتھ تسخیر خدا کا جذبہ بھی ملتا ہے: یزداں بکمند آدر اے ہمت مردانہ یہ اور اسی نوع کے اشعار کے پیچھے کہیں ۱۹۰۹ء کی جذباتی آسودگی اور اس سے وابستہ حسرت و یاس کا شدید رد عمل تو کارفرما نہیں۔ اب بات خد ا والی چلی ہے تو اسو ضمن میں ڈاکٹر محمد اجمل صاحب نے ایک نئے ہی زاویے سے اقبال کی شخصیت کو اپنے ایک مضمون ’’اقبال کے ہاں خدا کا تصور‘‘ میں اجاگر کیا ہے ان کے بقول: اقبال خود عورت ہے اور خدا اس کا مرد۔ اقبال اپنی دلبری اپنے رقص رامش سے خدا کا دل برماتا ہے۔ کبھی اس کی فرقت میں وہ جاں گدا نوحہ و فغاں کرتا ہے کہ شیریں فرہاد کے لیے کیا روئے گی اور کبھی عالم وصل میں اس اختلاط اور اس سرور کا اظہار کرتا ہے کہ عشق میں سرشار ایفرو ڈایٹی بھی کیا کرے گی اور کبھی کبھی ایک غیر مطمئن بیوی کی طرح اپنے شوہر (خدا) سے یوں بھی خطاب کرتا ہے: اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا جب کبھی کائنات اور انسانیت کی ذمہ داری کا ذکر آتاہے اقبال خدا سے تکرار کرتا ہے کہ یہ خدا کا فرض ہے کہ وہ انسانوں کی تقدیر سنوارنے اور اس کا لہجہ ہمیشہ ایک زبان دراز عورت کا ہوتا ہے جونہایت خود پسند خود سر اور خود آراہے۔ کبھی تو وہ خدا کو ہی طعنہ دیتی ہے: چناں خود را نگہداری کہ بہ ایں بے نیازی ہا شہادت بر وجود خود زخون دوستاں خواہی یا کبھی للکار کے انداز میں خدا پر حکم نافذ کرتی ہے: یا جہانے تازہ یا امتحانے تازہ می کند تا چند با ما آں چہ کردی پیش ازیں یا چناں کن یا چنیں خدا کے ساتھ تقریباً ہر مکاملے پر اقبا ل کا رویہ یہی رہا ہے۔ وہی کچھ جو ایک محبوبہ وقتاً فوقتاً اپنے عاشق سے کیا کرتی ہے۔ اقبال خدا سے کہہ ڈالتے ہیں ان کے تنازعے کی نوعیت بھی اسی قسم کی ہوتی ہے: بحضور تو اگر کسے غزل زمین سراید چہ شود اگر نوازی بہ ہمیں کہ دانم اورا ۱؎ ڈاکٹر محمد اجمل مانے ہوئے ماہر نفسیات ہیں لیکن افسوس کہ انہوںنے اپنے استدلال کو مزید وسعت دی ورنہ وہ بآسانی ہماری رہنمائی ان نفسی محرکات تک کر سکتے تھے جو بالآخر ایک خود پسدن خود سر اور خود آراء عورت ایسے لہجے اور انداز پر منتج ہوئے۔ اگر اسی نکتہ نظر ہی سے اقبال کے کلام کو دیکھیں تو اس کے ہاں تسخیر خدا کی جو شدید خواہش ملتی ہے یعنی : یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ کہیں وہ اسی عورت پن کا رد عمل تو نہیں؟… اقبال کے ہاتھ قوت پرستی نے جو ایک قوی رجحان کی صورت اختیار کی تو کیا اسے بھی ایک کیمو فلاج قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کے اشعار تو بہت مقبول ہیں یہاں اس کی نوٹ بک Stray Reflectionsسے کچھ اقتباسات در ج کیے جاتے ہیں جن کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال کے لیے اس کی کتنی اہمیت تھی۔ ۱۔ قوی شخص ماحول ساز ہوتا ہے جبکہ کمزور اس کے مطابق خود کو ڈھالتا ہے۔ ۲۔ قوت نے کذب کو چھوا اور دیکھو وہ صداقت میں منتقل ہو گیا۔ ۳۔ تہذیب… قوی انسان کی ایک سوچ! ۴۔ قوت مجسم مہدی کا انتظارچھوڑ دو۔ جائو اور خود اسے تخلیق کرو۔ ۵۔ مسیحیت میں خدا محبت ہے تو اسلام میں قوت۔ ہم اپنے تاریخی تجربات کی بنا پر تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ قوت کے روپ میں خدا کی پیش کش بہتر ہے۔ ۶۔ صداقت کے مقابلے میں قوت زیادہ ربانی ہے۔ خدا قوت ہے لہٰذا تمہیں بھی اپنے آسمانی باپ کی مثل ہونا چاہیے۔ یہ اور اس نوع کی دیگر آراء اس لحاظ سے اہم ہیں کہ جب اقبال نے ۱۹۱۰ء میں اس نوٹ بک میں اپنی آوارہ سوچ ۲؎ مقید کرنی شروع کر دی تو یہ ایک ہیجان انگیز وقت تھا۔ اس زمانے میں عطیہ بیگم کا نام لکھے گئے خطوط شدید مایوس کن اور پرشیان خیالی اور دنیا اور دنیا والوں سے بیزاری کے غماز ہیں۔ شادی ایک وجہ ہو گی لیکن اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ابھی تک ہمارے ناقدین اور شخصیت نگاروں نے اس نوٹ بک کی نفسیاتی اہمیت کو نہیںسمجھا ہے۔ یہ درست ہے کہ اپنے نام کی مناسبت یہ محض Stray Reflectionsکوئی باضابطہ فلسفیانہ مضامین یا علمی مقالت نہیں مزید برآن یہ بغرض اشاعت نہ تھی اس لیے اقبال نے اپنے مختلف ذہنی کیفیات اور جذباتی مدوجزر کے تحت انتہائی بے تکلفی سے اپنی سوچ کو قلمبند کیا اوریہی بے تکلفی آج ان کی اہمیت کا جوا ز قرار پائی ہے۔ ۱؎ ’’راوی‘‘ صد سالہ خاص نمبر ۲؎ یہ امر باعث دلچسپی ہے کہ اقبال نے اس نوٹ بک کو پہلے Stray Thoughtsکا نام دیا لیکن بعد میں Thoughtsکو Reflectionsسے تبدیل کر دیا۔ اس پریشانی کے دور میں جب کہ اقبال شعر گوئی کا بھی نہ رہا تھا جاوید اقبال کے بقول: ’’۱۹۱۰ ء میں اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں بھی کوئی نظم نہ پڑھی حالانکہ اقبال کی بعض شاہکار نظمیں اس کے سالانہ جلسوں کے لیے لکھی گئی تھیں‘‘۔ گویا اس کے تخلیقی ابال اور جذباتی بھونچا ل دونوں کے لیے اس نوٹ بک نے سیفٹی والو کا کام کیا ہو گا۔ اور اسی لیے میں نے اس نوٹ بک کی نفسیاتی اہمیت کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اسی نکتہ نظر سے قوت کے بارے میں اقبال کے اقوال کا مطالعہ کرنے پر کیا محسوس نہیں ہوتا کہ ایک بے بس اور کمزور شخص اس صفت کے بارے میں سوچ رہا ہے جس سے وہ خود عارضی ہے یا کم از کم خود کو وقتی طور پر عاری محسوس کر رہا ہے۔ خاص طور سے نمبر ۱ اور نمبر ۲ میں کیا وہ اپنی حالت بینا کرتا نہیں محسوس ہوتا؟ اس ضمن میں یہ امر ذہن نشین رہے کہ یہ نوٹ بک اقبال کی پرائیویٹ ڈائری نہ تھی اورنہ ہی یہ آراء کسی طرح کے اعترافات ہیں اس لیے ان میں ظہور پذیر ہونے والی سوچ خالص اعترافات کے برعکس ارتفاع یاتہ ہے ارو اسی اندا ز سے اس کا مطالعہ سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک بات اور… اقبال کی غیر مطبوعہ تحریر ہونے کی بنا پر تو اس نوٹ بک کی قدر ہمیشہ ہی رہے گی۔ لیکن ۱۹۱۰ء میںلکھے جانے کی وجہ سے اس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس ضمن میں اقبال کا یہ بیان بھی قابل غورہے: ’’یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا اپنے ماحول کی پیدا کردہ پژمردگی اورنامحرومی کے باعث اس سال تخلیقی کارکردگی رکی رکی سی رہی۔ اس کا امکان ہے کہ عدم شعر گوئی کی بنا پر وہ ان نوٹس کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس لیے یہ نوٹ بک ۱۹۱۰ء کی اہم کارگزاری قرار دی جا سکتی ہے۔‘‘ (۶) عطیہ بیگم نے اپنی ڈائری میںاقبال سے ملاقاتوں کی جو دلچسپ تفصیلات بیان کی ہیں ان میں بعض ایسے اشارے بھی ہیں جن سے اقبال فہمی میں مدد لی جا سکتی ہے۔ مثلاً ڈائری کی رو سے اقبال کی پہلی ملاقات لندن میںیکم اپریل ۱۹۰۷ء کو ہوئی تھی۔ اس کا احوال یو ں قلمبند کیا گیا ہے: ’’آج مس بیگ نے مجھے خاص طور یہ یہ کہہ کر مدعو کیا کہ ایک ہوشمند پروفیسر کا نام اقبا ہے آپ سے ملنے کی غرض سے کیمبرج میں آ رہے ہیں۔ میں گئی اور اقبال تشریف لائے۔ میں نے انہیں بہت ہی فاضل شخص پایا۔ عربی فارسی سنسکرت سب بخوبی جانتے ہیں۔ بہت ہی ظریف اور باتونی واقع ہوئے ہیں… میںنے پوچھا آپ کس غرض سے لندن آئے ہیں ؟ کہا کہ فلسفے کا مجھے زیادہ شوق ہے یورپ میں جو کچھ میسر ہے اسے حاصل کروں گا۔ جرمنی اورفرانس بھی جائوں گا۔ وہاں بہت کچھ جو یہاں نہیں ہے۔ حافظ کے زیادہ شائق معلوم ہوتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ حافظ کے حافظ تھے۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ جب حافظ کے رنگ میں ہوتا ہوں تواس وقت ان کی سپرٹ مجھ میں آ جاتی ہے اور میں خود تھوڑی دیر کے لیے حافظ بن جاتا ہوں‘‘۔ (ص ۹۷۔۹۸) اس ڈائری کی یہ خصوصیت تو خیر واضح ہی ہے کہ اس میں اقبال کے بارے میں نجمی قسم کی ایسی یادداشتیں اور واقعات محفوظ ہیں جن کی روشنی میں اقبال کی نظر افروز شخصیت کی نہایت ہی دلکش جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں ۔لیکن ایک خصوصیت اس کے علاوہ ہے اور وہ یہ کہ عطیہ بیگم اپنے تیز مشاہدے کی بنا پر پہلی ہی ملاقات میںملنے والے کی شخصیت کے اہم رجحانات دریافت کر سکتی ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی ملاقات میںانہوںنے اقبال کی شخصیت کے ان تین پہلوئوں کو اہم ترین سمجھتے ہوئے بطور خاص ان کے تذکرے کی ضرورت سمجھی: ۱۔ علمی فضیلت ۲۔ ظرافت اور ۳۔ حافظ کاحافظ ہونا علمی فضیلت میں تو خیر شک کی گنجائش نہیں۔ اقبال کی طرافت اس لیے قابل لحا ظ ہے کہ جو شخص ۱۹۰۷ء میں بہت ہی ظریف اور باتونی تھا وہ ۱۹۰۹ء میں شراب نوشی سے خود کشی کرنے کی سوچ رہا تھا۔ باقی رہا حافظ کا حافظ ہونا۔ تو نفسیاتی لحاظ سے یہ ایک اہم نکتہ ہے کیونکہ بعد میں اقبال نے حافظ پر دل کھو ل کر تنقیدکی۔ اتنی کہ قوم کی ناراضگی کی بنا پر اسرار خود ی کے دوسرے ایڈیشن سے حافظ کے بارے میں اشعار حذ ف کرنا پڑے لیکن خطوط میں کسی کا ڈر نہ تھا۔ سواقبال نے ایک سے زائد خطوط میں حافظ پر کڑی تنقید کی ۔ لیکن یہ ۱۹۱۰ء کے بعد کی بات ہو گی کیونکہ اپنی نوٹ بک میں حافظ کے بارے میں یوںلکھا ہے: ’’حافظ نے ترشے ہوئے نگینوں ایسے الفاظ میں بلبل کی شیریں لاشعوری روحانیت پیش کی‘‘۔ لیکن بعد میں بلبل اور اس کی شیریں لاشعوری روحانیت سے کوئی دلچسپی نہ رہی کیونکہ تصوف کی بنا پر اقبال نے حافظ پر شدید اعتراضات کیے۔ سراج الدین پال کے نام ایک مکتوب (۱۴ جولائی ۱۹۱۶ئ) میں ایک انگریزی مصنف کلارک کے حوالے سے یہ بھی لکھا: ’’حافظ نے ترشے ہوئے نگینوں ایسے الفاظ میںبلبل کی شیریں لاشعوری روحانیت پیش کی‘‘۔ لیکن بعد میں بلبل اور ا س کی شیریں لا شعوری روحانیت سے کوئی دلچسپی نہ رہی کیونکہ تصوف کی بنا پر حافظ پر شدید اعتراضات کیے سراج الدین پال کے نام اپنے مکتوب (۱۴ جولائی ۱۹۱۶ء ) میںایک انگریز مصنف کلارک کے حوالے سے بھی یہ لکھا ہے: ’’حافظ کے چچا سعدی (یہ شیخ سعدی نہیں ہیں) نے اس سے کہا کہ تمہارے کلام کے پڑھے والوں پر دیوانگی اور لعنت ہو گی۔ یہ واقعہ لکھ کر حاشیے میں مصنف نوٹ دیتا ہے کہ قسطنطنیہ کے شیعوں کا اب تک یہ عقیدہ ہے کہ حافظ کا کلام پڑھنے والوں پر جنون کا مرض لاحق ہو جاتا ہے ‘‘۔ ۱؎ اس کے برعکس اسی اقبال کا لندن میں یہ عالم تھا کہ بقول عطیہ بیگم فلسفے پر ایک بحث کے دوران اقبال بیچ میں تقابل کی غرض سے حافظ کی طرف اشارہ کرتے رہتے تھے۔ ۱؎ اقبال نامہ مرتبہ شیخ عطا اللہ ص ۳۶) میں نے محسوس کیا کہ اقبال پر فارسی کے کسی دوسرے شاعر کے مقابلے میں حافظ کا رنگ زیادہ چڑھا ہوا ہے اس لے وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ وہ ان کے خیالات کو پیش کر کے دوسرے فلسفیوں کے ساتھ ان کا مقابلہ نہ کرتے ہوں (ص ۲۸) …یہ تضاد کیوں؟ اقبال ان شاعروں میں سے ہے جن کا فکر و شعور ہمیشہ ارتقاء پذیر رہا۔ اسی لیے بعض نظریات و تصورات کے ضمن میں اقبال کے ہاں فکری بعد بھی ملتا ہے جسے بعض ناقدین نے تضاد سے تعبیر کیا ہے۔ اگر حافظ کوئی فلاسفر ہوتا اور ا س نے زندگی کے بارے میں ایک واضح قسم کا نظام فلسفہ ترتیب دیا ہوتا تو کہا جا سکتا تھا کہ اقبال ایک وقت میں اس کے فلسفے سے متاثر رہے اور بعد میں نہ رہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے دراصل حافظ سے اقبال کا تعلق فکری نہیں جذباتی تھا۔ بلکہ اس کا یہ کہنا : ’’میں جب حافظ کے رنگ میں ہوتا ہوں تو اس وقت ان کی روح مجھ میں حلول کر جاتی ہے۔ اور میری شخصیت شاعر کی شخصیت میں گم ہو جاتی ہے اور میں خود حافظ بن جاتا ہوں (اقبال از عطیہ بیگم ص ۲۷) بھی اس امر کا غماز ہے کہ اقبال نے حافظ سے اپنی تطبیق (Identification)کر لی تھی۔ تطبیق ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جو وقتی اور عارضی بھی ہو سکتی ہے اور دیرپا (بلکہ بعض استثنائی مثالوں میں تو دائمی) بھی ہو سکتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ بعض اوقات فرد خود میں کچھ خامیوں یا کوتاہیوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنی شخصیت میں خاص نوع کا نفسی خلا محسوس کرتاہے ۔ بعض اوقات خود میں کمی کا یہ احساس محض وہم بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ایسی صورت ہے جس میں فرد اپنا بعض (خود ساختہ) مفروضوں کی روشنی میں جائزہ لیتے ہوئے خو د کو اور لوگوں سے بعض امور میں کمتر سمجھتا ہے۔ اس کے برعکس ایک دلچسپ کیفیت وہ ہے جس میں فرد خود کو کمتر محسوس نہیں کرتا لیکن دوسرے کی بعض خصوصیات ن کو یوں ؒبھاتی ہیں کہ وہ خود بھی ان ہی کو دیکھنے کا متمنی ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ سب عمومی صورت میں ہوتا ہے۔ اس صورت میں یہ ایک بے ضرر سا نفس وقوعہ ہے اور اسے نمود پذیر انسانی شخصیت کے سفر میں ایک مقام قرار دیا جا سکتا ہے۔ صحت مند شخصیت اور نارمل ذہن رکھنے والے افراداس سے بآسانی عہدہ برا ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثال عام زندگی میں ان قارئین (بالخصوص خواتین) کے روپ میں تلاش کی جا سکتی ہے جو وقتی طور پر دوران مطالعہ ناول کے کسی کردار (بالعموم ہیرو یا ہیروئین) کی ذات سے خود کو یوں ہم آہنگ کر لیتے ہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ ہنستے اور روتے ہیں۔ فلمی اداکاروں کی ادائیں اور فیشن اپنانا بھی اسی ذیل میں آ جاتا ہے۔ یہ تطبیق اپنی واضح اور سیدھی سادی صورت میں ہے۔ بعض اوقات تطبیق کا عمل اتنا واضح نہیں ہوتا چنانچہ حساس افراد یا تخلیق کار حضرات میں تطبیق ایک پیچیدہ اور تہہ در تہہ عمل کے روپ میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ اس ضمن میں خارجی محرکات اور داخلی عوامل کی کارفرمائیاں بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔ ماحول اور معاشرہ ایک خاص ڈھانچے میں ڈھلنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن اپنی پیچیدہ شخصیت فنکارانہ انا اور بالغ شعور کی بنا پر فنکار کے لیے ایسا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ بعض مفاہمت کر لیتے ہیں تو بعض باغی بن کر Non Conformist کا روپ دھار لیتے ہیں۔ جبکہ کچھ اپنی برتر فن کارانہ انا کی بنا پر خود ماحول کو اپنے سانچے میں ڈھالنے کے لیے سعی کناں ہوتے ہیں۔ اقبال ایسے فن کار کے لیے تطبیق ناول کے ہیرو کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کر کے Vicarious مسرت و اندوہ کے حصول کا معاملہ نہ تھا۔ اس لیے جب وہ اس مقصد کے لیے حافظ کا انتخاب کرتا ہے توحافظ شاعری کے نمایاں ترین پہلو… رندی و سرمستی… اور اس کی شخصیت کی اہم ترین خصوصیت… آزادی و قلندری … کو اساس بنا کر ہی اقبال کی تطبیق اور اس کے نفسی مضمرات سمجھے جا سکتے ہیں۔ پنجاب کے گھٹن والے ماحول سے نکل کر جب اقبال یورپ جاتا ہے تو یہ محض دو ممالک کے جغرافیے کا فرق نہ تھا بلکہ دو تہذیبوں اندا ز زیست اور روایات و مسلمات کا ٹکرائو بھی تھا۔ اقبال کی ذہانت اورجمالیاتی حس کی تسکین کے لیے عطیہ بیگم کے علاوہ اس کی جرمن معلمات فرائو دیگے ناست ۱؎ اور فراڈ سینے شال بھی تھیں ۔ اس ضمن میں بنیادی اہمیت کا یہ نکتہ ذہن نشین رہے۔ کہ مردوں کی اکثریت کے لیے عورت کی ذہنی مطابقت اساسی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ وہ جلد سے جلد جسمانی قربت کے مراحل طے کر کے آسودگی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ یہ عام مردوں کی بات ہے لیکن اقبال ایسے فلسفی کا معاملہ اتنا سیدھا اور اقبال ایسے شاعر کا عورت کے بارے میں رویہ اتنا دو ٹوک نہیں ہو سکتا۔ عورت سے ذہنی مطابقت جس نفسی آسودگی کو جنم دیتی ہے اوراس ک مثبت اثرات جس طرح شخصیت کو متاثر کرتے ہیں جسمانی قربت اور اس کی عارضی تسکین اس کے سامنے ہیچ ہے۔ ان معلمات بلکہ خود عطیہ بیگم کے بارے میں بھی اقبال کا رویہ ذہنی رفاقت سے حصول تسکین کا معلوم ہوتاہے۔ اس تسکین کو سہ آتشہ کرنے کے لیے کیا حافظ کا کلام واقعی شراب کا کام نہ کر سکتا تھا۔ عدل وصل سے شخصیت میں ایک لطیف اضطراب اور پر کیف بے کلی سی پیدا ہو تی ہے تو کیا ایسے ہیں… ملنے اور نہ ملنے … کے درمیانی فاصلے کو حافظ سے کامگار نہ بنایا جا سکتا تھا۔ جو شخص شعوری طور پر رندی و سرمستی سے احتراز کر رہا ہو تو کیا اس کے لیے حافظ کی رندی و سرمستی ذہنی ترنگ کا باعث نہیں بن سکتی؟ الغرض حافظ ممنوہ لذات کی علامت بناتو عدم تسکین کے خلجان سے چھٹکارے کا ذریعہ۔ اس سلسلے میں یہ اعتراف کرنے کی جرات رکھتا ہو کہ میرا استدلال ناقص اور اس سے اخذ شدہ نتائج غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس امر پر زور دیے بغیر نہ رہوں گا کہ ہندوستان واپس آ کر حافظ کی مخالفت اور وہ شدید قسم کے اعتراضات بظاہر فلسفیانہ نوعیت کے تھے اور مقصود و قومی فلاح لیکن اس کے پیچھے کوئی مخصوص قسم کی نفسی واردات یقینا ہو گی۔ جو اقبال ۱۹۰۷ء میں اس کی روح میں خود کو حلول ہونے اور خود کو حافظ محسوس کرنے کا دعویٰ کرے وہی بعد میں اسے مسلم قوم کے لیے مضر صحت سمجھے یہ اتنا بڑا انقلاب محض خنک افکار سے وقوع پذیر نہ ہوسکتا تھا۔ اس کے پیچھے آتش جذبات بھی تھی اگر نفسیاتی لحاظ سے دیکھیں تو حافظ کی مخالفت ایک طرح کی Rationalization قرار دی جا ستکی ہے۔ حافظ سے بعض خوشگوار یادیں وابستہ تھیں جن کے تلازمات اب باعث اذیت تھے۔ ۱؎ دو تین ہفتے ہوئے میرے پاس آپ کی دوست لڑکی ناست کا خط آیا تھا میںاس لڑکی کو بے حد پسند کرتا ہوں۔ وہ کس قدر اچھی اورسچی ہے۔ (اقبال اور عطیہ بیگم ص ۵۳) حافظ جس رندی و سرمستی کی علامت تھا اقبال کے لیے وہ اب قابوس بن چکی تھی حافظ جس خود فراموشی کا مظہر تھا اور وہ اب ناقابل برداشت تھی اور اسی لیے باطنی کشمکش سے نجات حاصل کرنے کے لے اقبال جب اپنے خلاف صف آرا ہوا تو اس نے حافظ کو بھی اپنا حریف جانا۔ عطیہ بیگم کی ڈائری ۹ اپریل ۱۹۰۷ء کے مطابق اقبا نے اپنے بارے میں یہ کہا تھا: ’’میں دو شخصیتوں کا مجموعہ ہوں ظاہری ہر اس چیز کی قدر دان ہے جس کی قدر کرنی چاہیے اور جو کارآمداور عملی ہے ۔ دوسری اور باطنی شخصیت خواب دیکھنے والے فلاسفر اور صوفی کی سی ہے‘‘ (ص ۹۷) لندن میں ان پر فلسفہ اور تصوف غالب تھا اور اقبال نے وہاں واقعی جاگتے ہوئے بھی میں سپنے دیکھے جن میں سے ایک کو عطی بیگم نے ان الفاظ میں قلم بند کیا ہے: ’’ہائیڈل برگ ۲۲ اگست ۱۹۰۷ء آ ج علی الصبح ہم سب تیار ہوکر جمع ہوئے تو دیکھا کہ اقبال ندارد ہیں۔ سب ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ گاڑی کا وقت ہوا جا رہا تھا اتنے میںایک خادمہ چلاتی ہوئی آئی اور کہا کہ معلوم نہیں ہیر پروفیسر کو کیا ہو گیا ہے۔ ان کے کمرے میں گئے تو دور سے دیکھا کہ بتی جل رہی ہے اور اقبال ایک ہاتھ پر سر رکھے ہوئے بیٹھے ہیں۔ آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور دو چار کھلی ہوئی کتابیں میز پر پڑی ہیں۔ جب زور زور سے انہیںپکارا تو بھی جواب ندارد۔ آگے بڑھنے کی کسی میں ہمت نہ ہوئی فراہیرن نے آخر کار مجھ سے کہا کہ آپ ہی اندر جا سکتی ہیں۔ خیر میں آہستہ آہستہ گئی پکارا جواب ندارد زور سے آواز دی پھر صدائے برنخواست غور سے دیکھا تو سانس چل رہا تھا۔ مگر خلا میں کچھ دیکھ رہے تھے۔ خیر میں نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں جھنجھوڑا اور اقبا ل اقبال کہہ کر پکارا تو تھوڑی دیر بعد ہوش میں آئے ادھر ادھر دیکھا کہ کہاں ہیں؟ پھر کچھ یاد کر کے کہا میں عالم بالا میںچلا گیا تھا… میں نے اقبال سے کہا کہ یہ کیا شعبدہ بازی تھی؟ انہوں نے جواب دیا میں فلاں فلاں کتابیں رات کو پڑھ رہا تھا کہ اتنے میں خیال میرے جسم سے الگ ہو گیا اور میں عالم بالا میں چلا گیا اور وہاں پہنچ کر بھی میری حالات پریشان تھی۔ کہ اتنے میں آپ نے مجھے نیند سے جگا دیا۔ میں چپ چپ سنتی رہی اور وہ رفتہ رفتہ اپنی اصلی حالت میں آ گئے ‘‘ (ص ۱۰۹۔۱۱۰) یہ ہے خواب دیکھنے والا اقبال۔ لیکن یہ خواب یورپ کی فضائوں میںمنتشر ہو کر رہ گئے۔ البتہ شدید استغراق تخلیقی عمل کے ساتھ ہم آہنگ ہو گیا اور شعر گوئی کی کیفیات پر منتج ہوا۔ ہندوستان واپس آ کر شادی سے وابستہ بے کیفی معاشی الجھنوں اور پختہ سے پختہ تر ہوئے ہوئے قومی شعور نے اقبال کو پھر خواب دیکھنے کی مہلت نہ دی اور یوں رفتہ رفتہ اس کی شخصیت کا دوسرا رخ یعنی عملی پہلو نمایاں سے نمایاں تر ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ اس نے بیمار قوم کو مصاف زیست میں سیرت فولاد پیدا کرنے کی راہیں سمجھانی شروع کیں۔ اب ظاہر ہے کہ اس کی شخصیت کے ان دونوں پہلوئوں کی کشاکش میں حافظ سے والہانہ شیفتگی کی گنجائش نہ نکل سکتی تھی۔ اس لیے اس سارے قضیے میں حافظ بے چارا مفت میں ویلن بن گیا: ہوشیار از حافظ صہبا گسار جامش از زہر اجل سرمایہ دار رہن ساقی خرقہ پرہیز او مے علاج ہول رستا خیز او نیست غیر از بادہ در بازار او از دو جام آشفتہ شد دستار او گوسفند است و نوا آموخت است عشوہ و ناز و ادا آموخت است صنف را نام توانائی دہد ساز او اقوام را اغوا کند ۱؎ (۷) پرائیویٹ عالم جوش جنوں میں ہے روا کیا کیا کچھ کہیے کیا حکم ہے دیوانہ بنوں یا نہ بنوں؟ محمد اقبال ۲؎ بمبئی ۱۰ ستمبر ۱۹۳۱ء اقبال نے یہ معنی خیز شعر اس وقت لکھا جب لندن اور ہائیڈل برگ میں عطیہ بیگم کے ساتھ گزرے لمحات کو تقریباً ربع صدی بیت چکی تھی۔ وہ لمحات کیسے تھے ان کی شاہد عطیہ بیگم کی ڈائری ہے وہ لمحات کس حد تر دور اثر ثابت ہوئے اس کا اندازہ عطیہ بیگم کے نام اقبال کے مکاتیب سے لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن درحقیقت تعلقات کی نوعیت کیا تھی؟ اس کے بار ے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس ضمن میں صرف قیاسات سے ہی کام لیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسے معاملات میںقیاسات بعض اوقات تار عنکبوت سے بھی نازک ثابت ہوتے ہیںَ مثلا ً اس سلسلے میں ایک بنیادی سوال کا پیدا ہونا لازمی ہے کیا اقبال عطیہ سے شادی کے خواہاں تھے لیکن اس کا جواب واضح نہیں ہے۔ چنانچہ پروفیسر محمد عثمان نے عطیہ بیگم کے نام لکھے گئے خطوط کی بنا پر حیات اقبال کا ایک جذباتی دور (ص ۸۹) میںعطیہ کا نام لیے بغیر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اقبال عطیہ بیگم سے شادی کے خواہاں تھے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اقال کے رشتے دار خالد نظیر صوفی نے اس کے جذباتی انداز میں تردید کی ہے: ’’یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کی عطیہ بیگم کو ایک علمی دوست کی حیثیت سے تو پسند کر سکتے تھے لیکن بیوی کے روپ میں وہ ان کے لیے ناقابل قبول تھیں کیونکہ وہ جس قسم کی بیوی کے خواہشمند تھے وہ عطیہ بیگم سے مختلف تھی عطیہ بیگم نے خود اور نواب آف جنجیرہ نے علاوہ اقبا کو یورپ سے واپسی کے فوراً بعد جنجیرہ آنے کی متعدد دعوتیں دیں۔ لیخں انہوںنے بارہا مصروفیت کا عذر کر دیا آخر کیوں؟ ۱؎ اسرار خودی کی دوسری اشاعت میں یہ اشعار حذف کر دیے گئے تھے ۲؎ اقبال از عطیہ بیگم ص ۸۴ صاف ظاہر ہے کہ اقبال کی عطیہ کی دیرینہ خواہش (شادی) کو پورا کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ‘‘ ۱؎ خالد نظیر صوفی کا ان امور میں اندا ز دفاعی ہے۔ اس لیے اسے استدلال قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ عطیہ بیگم کے نام لکھے گئے مکاتیب میںاقبال کی شخصیت کا ایک نیا اور انوکھا روپ نظر آتاہے۔ اس میںاچنبھا تو نہ ہونا چاہیے کہ اقبال بھی انسان تھا۔ لیکن قوم نے چونکہ یہ فراموش کر دیا کہ اقبال اور سب کچھ ہونے کے علاوہ مرد بھی تھا اس لیے ان خطوط کی تیز جذباتیت اور یاس سے دھیمے دھیمے سلگنے کی کیفیت متعجب کرتی ہے۔ جس اقبال نے قوم کویہ تلقین کی : وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا ٭٭٭ ہے یاد مجھے نکتہ سلمان خوش آہنگ دنیا نہیںمردان جفاکش کے لیے تنگ چیتے کا جگر چاہیے شاہیں کا تجسس جی سکتے ہیں بے روشنی دانش و فرہنگ ٭٭٭ ہمت عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول غنچہ شاں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک وہی اقبا ۱۹۰۹ء میں یہ سطریںلکھ رہا تھا: ’’آج کل میں دوسروں سے زیادہ بات چیت نہیں کرتا۔ میری اپنی بدنصیب ذات مصیبت انگیز خیال کی کھان بنی ہوئی ہے۔ جو سانپ کی طرح میری روح کے عمیق اور تاریک سوراخوں سے باہر نکلتے ہیںَ میرا خیال ہے کہ میں سپیرا بن جائوں گا اوربازاروں میں پھرتا پھروں گا۔ اس طرح کہ متجسس لڑکوں کی ایک جماعت میرے پیچھے ہو گی۔ یہ خیال نہ کیجیے گا کہ میں یاس پسند ہوں۔ میں آپ سے کہتا ہوں کہ تکلیف نہایت ہی لذیذ چیز ہے اور میں اپنی بدقسمتی سے لطف اندوز ہوتا ہوں اوران لوگوں پر ہنستا ہوں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ خوش و خرم ہیں۔ آپ دیکھتی ہیں کہ میںاپنی مسرت کس طرح چھپ چھپا کر حاصل کر لیتا ہوں ‘‘ (ص ۵۶) یہ خود ترسی ہے کہ واضح اور دو ٹوک قسم کی۔ ایسی خود ترسی جس میں لذت آزار (Masochism)کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ ۱؎ اقبال درون خانہ ص ۱۴۰ یورپ میں اقبال نے آزادی اور بے فکری کی جو زندگی بسر کی وہ اپنی جگہ پر بذات خود ایک لذت رکھتی تھی اس پر مستزاد ہم ذوق اور ہم خیال خواتین کی صحبت۔ یورپ کی خنک آب و ہوا میں اقبال کا گرم پنجابی خون اور حسن کی رنگ افروز کیفیات کو جذب کرنے والی شاعرانہ آنکھیں عطیہ کی ڈائری کے بعض واقعات سے اقبا کی حسن پرستی ۱؎ کا اندازہ بھی ہو جاتاہے۔ عطیہ نے ایک سے زاید موقع پر اقبا ل کے باتونی ہونے اور بذلہ سنجی کی تعریف کی ہے۔ وہی اقبال یاس پرست کیوں بنا؟ اس کی بنیادی وجہ اس جذباتی گھٹن میں تلاش کی جا سکتی ہے جو بالعموم اس انداز کی زندگی بسر کرنے کے بعد حقائق کو مزید تلخ بنانے کا باعث بنتی ہے۔ اس سے قبل پہلی شادی کی ناپسندیدگی کے شواہد نہیں ملتے۔ لیکن یورپ سے واپسی کے بعد بیوی تمام گزشتہ صحبتوںسے محرومی اور بیتے لمحات کی پژمردگی کی علامت بن کر سامنے آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اقبال کے لیے کچھ معاشی پریشانیاں بھی ہوں گی۔ لیکن مرد ایسی پریشانیو ں سے عہدہ برآ ہو جاتے ہیں۔ البتہ جذباتی الجھنیں زیادہ تکلیف دہ ہوا کرتی ہیں۔ اور ان سب کا ہدف بیوی بنی۔ چنانچہ ۱۹۱۱ء تک یہی عالم تھا : ’’میری بدقسمتی ایک وفادار کتے کی طرح میرا پیچھا کر رہی ہے اور میں نے اس خاتون کو پسند کرنا سیکھ لیا ہے یہ سبب اس کی نہ تھکنے والی وفاداری ہے جو اسے اپنے بدنصیب اور ناشاد بادشاہ سے تھی‘‘ (ص ۷۵) اقبال کا ادب اور فن کے بارے میں ایک مخصوص نظریہ ہے جس کی اس نے فارسی اور اردو کلام میںمختلف انداز میں تشریح و توضیح کی ہے۔ اقبال نے فن سے یہ تقاضے وابستہ کیے: وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ سرافیل ٭٭٭ گر ہنر میںنہیںتعمیر خودی کا جوہر وائے صورت گری و شاعری و نائے و سرود ٭٭٭ نوا پیدا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے کبوتر کے تن ناک میں شاہیں کا جگر پیدا ٭٭٭ ۱؎ ہائیڈل برگ ۳ ستمبر ۱۹۰۷ء اقبال کی ظرافت اور حاضر جوابی بے مثل ہے۔ چونکہ کوچ ہے لہٰذا ہم سب کھڑے کھڑے بات چیت کر رہے تھے۔ فرالاسن ویگے ناست‘ سینے شل اور کائو سینا میرے گرد و پیش تھیں۔ اور اقبال سامنے کھڑے ٹکٹکی لگائے بت بنے دیکھ رہے تھے۔ اس پر فرا پروفسیر شیرر نے کہا کہ اقبال کیا دیکھ رہے ہو تم مبہوت سے نظر آتے ہو۔ اقبال نے برجستہ جواب دیا میں یکایک ہئیت دان کی صورت میں تبدیل ہو گیا ہوں میں ستاروں کے اس جھرمٹ کا مطالعہ کر رہا ہوں‘‘ (ص ۱۹۹ ۱۲۰)۔ مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا ٭٭٭ ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک و دلآویز اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز ٭٭٭ اقبال خاص طور سے غم آگیں شعر و نغمہ سے بچنے کی تلقین کرتا ہے: شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا ٭٭٭ افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز لیکن وہی اقبال ۱۹۱۱ء میں یہ لکھ رہا تھا: ’’لیکن آپ یہ نظمیں لے کر کیا کریں گی۔ یہ تو ایک زخمی دل کی درد بھری چیخیں ہیں۔ ان میں مسرت کی کوئی بھی بات نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے انتساب میں لکھا ہے: خندہ ہے بہر طلسم غنچہ تمہید شکست تو تبسم سے مری کلیوں کو نا محرم سمجھ درد کے پانی سے سرسبزی کشت سخن فطرت شاعر کے آئینے میں جوہر غم سمجھ (ص۷۶) اقبال نے ’’نوائے غم‘‘ بھی عطیہ بیگم کو لکھ کر بھیجی تھی جس کا پہلا اور آخری شعر یہ ہے: زندگانی ہے میری مثل رباب خاموش جس کی ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبریز آغوش جس طرح رفعت شبنم ہے مذاق رم سے میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے (یہ نظم بانگ درا میں شامل ہے) …سوال یہ ہے کہ اقبال اس حالت کو کیوں پہنچا؟ ابتدا میں مندرجہ خط میں جس یاس پرستی اور آزاد پسندی کا ذکر کیا گیا ہے وہ کیفیت اقبال کے لیے عارضی نہ تھی۔ عطیہ کے نام خطوط سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دو تین سال تو اقبال اسی پژمردگی کے عالم میں رہا۔ جذباتی ناآسودگی کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان ذات کے خول میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اوریہی وہ زمانہ ہے جس میں اقبا ل کی تخلیقی صلاحیتیں کند ہو رہی تھیں۔ جس کا اعتراف خود اقبال نے بھی کیا ہے: ’’میرے دل میں اب شاعری کا کوئی ولولہ باقی نہیں رہال مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے میری شاعری کی خوبصورت دیوی کو قتل کر دیا ہے۔ اور مجھ سے میرا سارا تخیل چھین کر مجھے رنڈوا بنا دیا ہے ‘‘ (ص ۷۳) شاعری کے متعلق میں اپنے دل میں کسی قسم کا ولولہ محسوس نہیں کرتا اور آپ ہی اس کے ذمہ دار ہیں‘‘ (ص ۶۹) یہ دونوں اقتباسات ۱۹۱۰ء کے ہی ایک مکتوب سے ہیں۔ جذبات کے بھنور میں گھرا اور ذات کے حصار میں بند اقبال جس اندرونی آگ میں جل رہا تھا اس کی بنا پر وہ کچھ لکھنے پر قادر نہ رہا جو وہ اب تک لکھتا رہاتھا یا زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ لکھنا چاہتا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس دور میں عام جذبات پسند شعراء یا رومانی شاعروں کی مانند اقبال نے بھی جذبات کی آسودگی کے لیے شاعری کو استعمال کرتے ہوئے پرائیویٹ قسم کی نظمیں تحریر کیں۔ یہ نظمیں کس حد تک پرائیویٹ تھیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عہد کا بہت سا کلام تلف کر دیا گیا چنانچہ۱۹۱۱ء میں اقبال نے لکھا: ’’گزشتہ پانچ چھ سال کے دوران میں میری نظمیں زیادہ تر پرائیویٹ نوعیت کی رہی ہیں اور میرا یہ خیا ل ہے کہ پبلک کو ان کے پڑھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان میں سے بعض تو میں نے کلیتا ً تلف کر دیا ہے اس ڈر سے کہ کہیں کوئی انہیں چرا کر نہ لے جائے اور شائع نہ کر دے‘‘(ص۷۶) لیکن جب خود اقبال اس دور سے گزر گیا اور انے جذبات کا ترفع کیا تو ہمعصر پر یوں تنقید کی: عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا ان کے اندیشہ تاریک میں قوموں کے مزار چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند کرتے ہیں روح کے خوابیدہ بدن کو بیدار ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار اس سے بنیاد ی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقبال کے اعصاب پر کوئی عورت سوار تھی؟ اس کا جواب واضح ہے بھی اور نہیں بھی۔ اقبال کی شاعری قومی اورملی موضوعات کے لیے وقف تھی اور فلسفیانہ افکار سے معمور۔ جس کی بنا پر اقبال کی شاعری عورت کے لحاظ سے بنجر نظر آتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقبال نے اپنے افکار کی دنیا سے عور ت کو جلا وطن کر دیا کہ سانپ اور ترغیب کا قصہ ہی ختم ہو جائے۔ شاید اس لیے اقبال کے ہاں عورت نظر نہیں آتی بلکہ اگر کہیں عور ت کا ذکر کیا بھی تو تمسخراڑانے کے انداز میںَ ڈاکٹر محمد اجمل نے بھی عورت کے سلسلے میں یہی کچھ محسوس کیا۔ چنانچہ وہ مقالہ’’اقبال کے ہاں خدا کا تصور‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں: ’’عورت کافی حد تک ان کے کلام میںمفقود ہے جہاں کہیں اتفاقاً موجود ہے وہ مرد کی روحانی تربیت کا فقط ایک ذریعہ ہے اور کچھ نہیں: قومی دانی کہ سوز قرات تو دگرگوں کرد تقدیر امم را گویا اقبال کے جذباتی کلام میں عورت مرد کی روحانی ممکنات کی تکمیل کا فقط ایک وسیلہ ہے عورت اپنی حیا وفا حجاب اور عبادت کی بدولت شاہین صفت مرد کے بے پناہ تجسس میں اس کا ہاتھ بٹا سکتی ہے جس طرح ٹینس کھلیتے ہوئے کوئی کھلاڑی گیند کو پکڑتا ہے وہ بذات خود اس تجسس میں شریک نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ وہ اس کی اہل نہیں۔ عورت کا یہ تصور انفرادیت کے تصور سے ایسا دور ہے کہ ہم عورت اور انفرادیت دو متناقض تصورات کہہ سکتے ہیں۔ لیکن یہ عورت ایسی ہے جو پارسائی کی سند تو حاصل کر سکتی ہے۔ جذبات کو آگ نہیں لگا سکتی۔ وہ جوش اور تندی جو اقبال کے جذبات میں إوجود ہے وہ اس قسم کی عورت پیدا ہی نہیں کر سکتی۔ اس میں نہ دلبری ہے نہ دلربائی نہ حرص و ہوس نہ رنگ و بو نہ رقص و رامش جو یونان کی دیویوں سے منسوب کرتے ہیں اور جو مردوں کے دلوں کو مالا مال کرتے تھے۔ یعنی اقبال کے ہاں آدم تو ہے لیکن حوا نہیں جو سانپ کے فریب می آ کر لغزش کرتی ہے۔ شجر ممنوعہ چکھتی ہے آدم کو چکھواتی ہے اور آدم کی پرسکون زندگی میں گناہ و ثواب کا ایسا ہیجان پیدا کرتی ہے کہ وہ بیچار ا جنت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کیفیت سے جداگانہ نیتجہ برآمد کیا جب کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اقبال آدم کے روپ میں تو پہلے ہی جنت سے محروم ہو چکا تھا وہ جنت سے شجر ممنوعہ کی بناپر نہ نکلا تھا بلکہ حوا سے محرومی کوئی اس کا المیہ قرار دیا جا سکتا ہے اورعطیہ کے نام خطوط میں فردوس گم شدہ کو گزشتہ ایام کی یاد میں تلاش کرنے کی کاوش بھی ہے: (۱) ان دنوں کی یاد دلائوں گا جب کہ آپ جرمنی میں تھیں آہ وہ دن جو پھر کبھی نہ آئیں گے(ص۵۶) (۲) ان دنوں کی خاطر جب آپ مجھ پر اس قدر اعتماد کرتی تھیں او ر میرا لحاظ کرتی تھیں(ص ۷۱) (۳) ان دنوں کی یاد میں … دن جو فطرت میں مردہ ہو چکے ہیں لیکن میرے دل میں زندہ ہے (ص۷۲) دل کی دنیا میں اور کیا کچھ زندہ رہا؟ اس کا بھی کسی حد تک ان خطوط میں منتشر کیفیات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ خود اقبال نے بھی اس کا اعتراف کیا۔ آپ لکھتی ہیں کہ آپ مجھ سے بہت سے سوالات پوچھنا چاہتی ہیں تو پھر آپ پوچھتی کیو ں نہیں اور آپ جانتی ہیں کہ میں آپ سے کوئی بات نہیں چھپایاکرتا اور میرا اعتقاد ہے کہ ایسا کرنا گناہ ہے (ص ۵۵) عطیہ بیگم کے نام ان خطوط کا مطالعہ دو جہات پر کیا جا سکتا ہے۔ ایک تویہ کہ ان سے اقبال اور عطی بیگم کے تعلقات کی نوعیت کا کسی نہ کسی حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اور دوسرے اقبال خود نے اپنے ذاتی میلانات اور شخصیت کے بعض رجحانات پر بھی لکھا۔ خود عطیہ بیگم کے بارے میں لکھتے وقت تو شعاع ستر حجابات میں سے گزرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور اس کی وجہ بھی اقبال نے بیان کر دی ہے: ’’آپ آگاہ نہیںکہ آپ نے میرے ساتھ کیا بھلائی کی ہے یہ سچ ہبھی ہے او ر اسی لیے بہتر بھی ہے آ پ خود بیھ اس سے آگاہ نہیں ہو سکتیں۔ میں اس سے آگاہ ہوں لیکن اسے بیان نہیں کر سکتا۔ لہٰذا اس موضوع کو جانے دیجے۔ میرے لیے کسی ایسی چیز کو بیان کرنا بیکار سا ہو گیا جو ناقابل بیان ہے‘‘۔ (ص ۵۹) حالانکہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اقبال عطیہ بیگم کے دکھ سکھ کے بغیر نہ رہ سکتا تھا جیسا کہ اس خط میںلکھا: ’’مجھے ڈر ہے کہ میں وہ باتیں لکھ رہا ہوں جو صرف گفتگو کے لیے محفوظ رہنی چاہیے تھیں۔ میں اس کے متعلق اور کچھ نہیں لکھوں گا کہ اس لیے کہ مجھے ترغیب ملتی ہے کہ میں اپنے دل کی ساری باتیں کہہ ڈالوں۔ اور بہت سی دوسری باتیںبھی کہوں یہ ضروری نہیں کہ وہ اس نوعیت کی ہوں جنہیں میں کاغذ پر لانانہیں چاہتا‘‘ (ص ۷۱) لیکن جب اقبال نے اپنے بارے میں لکھا تو کیونکہ ناگفتنی کے گفنتی بننے کا خدشہ نہ تھا بلکہ بعض اوقات تو یہ احساس ہوتا ہے کہ گویا یہ سب کچھ عطیہ ہی کو خود سے متعارف کروانے کے لے لکھا جا رہا تھا۔ چنانچہ ایک موقعے پر اقبال نے یوں لکھا: ’’میں اس خیال سے کانپ اٹھتا ہوں کہ آپ میری فطرت سے ناواقف ہیں۔ کاش میں اپنے دل کو اند ر سے دکھا سکتا کہ آپ بہتر طریقے سے میری روح کا مشاہدہ کر سکتیں‘‘۔ (ص ۶۷) اسی لیے اقبال بے تکلفی سے لکھتا ہے اورپھر اپنے بارے میں ایک مخصوص انداز کے اظہار اور اپنے غموں اور دکھوں پر ایک خاص زاویے سے روشنی ڈالنے میں جہاں آسودگی تھی وہاںمخاطب سے داد طلبی اور اس سے وابستہ نفسی محرکات کو کلیتہً نظر انداز نہیںکیا جا سکتا۔ اقبال کے ایک خط میں یہ معنی خیز فقرات توجہ طلب ہیں: گزشتہ رات میں بہشت میں جا پہنچا اور دوزخ کے دروازوں میں سے گزرنے کا اتفاق ہوا۔ میں نے اس جگہ کو خوفناک طریقے پرسرد پایا۔ جب فرشتوںنے مجھے متعجب دیکھا تو انہوں نے کہایہ جگہ اپنی فطرت کے اعتبار سے سردہے لیکن وہ شدت سے گرم ہو جاتی ہے اس لیے کہ ہر ایک شخص اپنے انگارے اپنے ساتھ لاتا ہے۔ اس ملک میں جہاں کوئلے کی کانیں بہت زیادہ ہیں جتنے انگارے جمع کرنے ممکن ہیں میں ان کے جمع کرنے کی تیار میں مصروف ہوں‘‘۔ (ص ۵۵) ان پریشان حالات میں وہ شراب کو ذریعہ خود کشی بنانے کا سوچ رہا تھا۔ انگارے جمع کرنا خاصامعنی خیز ہے ۱؎۔ اقبال نے ان خطوط میں اپنی ذات کے ضمن میں جن امور پر بطور خاص زور دیا ان میں ریاکاری سے نفرت سرفہرست ہے بقول اقبال: ’’میںسیدھی سادی دیانتدارانہ زندگی بسر کرتا ہوں۔ میرا دل اور میری زبان ایک دوسرے کے ساتھ کلیتہً ہم نواہیں لوگ ریاکاری کا احترام کرتے ہیں اور اس کی تعریف بھی۔ اگر ریاکاری سے مجھے شہرت احترام اور تعریف حاصل ہوتی ہے تو میں اسے پسند کروں گا کہ میں ایسی حالت میںمرجائوں جبکہ مجھے جاننے والا اورمیرا ماتم کرنے والا کوئی بھی نہ ہو‘‘ (ص ۶۱) ’’مجھے بے پروا یا ریاکار نہ کہیے۔ کنایتہ بھی نہیں اس یے کہ اس سے میری روح کو تکلیف پہنچتی ہے‘‘۔ (ص ۶۷) ’’مجھ میں خامیاں ضرو ر ہیں لیکن ریاکاری اور بے اعتبنائی مجھ میں نہیں ہے‘‘۔ (ص ۶۶) اقبال نے دو مقامات پر اپنی شخصیت کے بارے میں جو لکھا وہ متناقض معلوم ہوتا ہے۔ اور اگر ایسا نہیں تو بین السطور کچھ اور بھی کہا گیا ہے: ’’بلا شبہ ہر ایک شخص آرام کی جگہ کا صبر کے ساتھ انتظار کر رہا ہے۔ جس میں خود اس جگہ جانے کے لے بیتاب ہوں اس لیے کہ میں اپنے خالق ۲؎ سے ملنا چاہتا ہوں اور اس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ مجھے میری قلبی کیفیت کی معقول تشریح بتائے اور میرا خیال ہے کہ اس کے لیے ایسا کرنا آسان نہ ہو گا میں خود بھی اپنے آ پ کو نہیں سمجھ سکا آ پ کو اس کی شکایت نہ کرنی چاہیے کئی سال ہوئے میں نے یہ شعر کہا تھا: ۱؎ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو دوزخ کا یہ تصور بہت بھایا کیونکہ بعد میں اسے منظوم بھی کیا۔ یہ نظم سیر فلک کے عنوان سے بانگ درا میں شامل ہے: دور جنت سے آنکھ نے دیکھا ایک تاریک خانہ سرد و خموش طالع قیس و گیسوئے لیلیٰ اس کی تاریکیوں سے دوش بدوش خنک ایسا کہ جس سے شرما کر کرہ زمہریر ہو روپوش میں نے پوچھی جو کیفیت اس کی حیرت انگیز تھا جواب سروش یہ مقام خنک جہنم ہے نارے سے نور سے تہی آغوش شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے جن سے لرزاں ہیں مرد عبرت کوش اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں ۲؎ مئی ۱۹۳۷ء تک اقبالکے خیالات اسی نہج پر تھے: (باقی صفحہ آئندہ) اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر واللہ نہیں ہے (ص۶۰) لیکن اس کے بعد ایک اور خط میں یوں لکھا: ’’شاید آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ میں (خود اپنے لیے بھی) ایک راز ہوں لیکن یہ راز ایسا ہے جس کا علم سب کو ہے: وہ راز ہوں کہ زمانہ پہ آشکار ہوں میں (ص۶۶) یہ راز زمانہ پر آشکار تھا یا نہیں تھا اس کے بارے میں تو کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن خطوط سے واضح ہے کہ اقبال نے عطیہ بیگم کو کیا درجہ دے رکھا تھا: ’’آپ کہتی ہیں کہ میرے دل میں آپ کی خواہشات کا احترام نہیں ہے بلاشبہ چیز عجیب و غریب ہے ۔ اس لیے کہ ہمیشہ سے میری یہ عادت رہی ہے کہ میں آپ کی خواہشات کا مطالعہ کروں اور آ پ کو ہر ممکن طریقے سے خوش کروں… میں ہر وہ کام کرنے کے لیے تیار ہوں جس سے آپ خوش ہوں۔ دنیا میری پرسش نہیں کر سکتی نہ میں یہ خواہش رکھتا ہوں کہ میری پرستش کی جائے اس لیے کہ میری فطرت ہی ایسی ہے کہ میں پرستش کا موضوع نہیں بن سکتا۔ میر ے رگ و پے میں تو پرستش کرنے والے کا فطری رجحان اس قدر گہرے طریقے سے پیوست ہو چکا ہے ‘‘ (ص۶۲،۶۱) یہ منہ بولتی سطریں آپ کی اپن وضاحت ہیں: عطیہ نے جنجیرہ آنے کی دعوت دی تو سفر کی دقتیں گنواتے ہوئے لکھا: ’’… اور یہ حقیقی ہفت خواں ہیں جو مجھے رستم کی شہرت دے دیں گے اوراگر میں ان کو عبور کر لوں گا۔ رستم کا انعام بہت بڑا تھا اور مجھے یقینی طور پر معلوم نہیں کہ میرا انعام کیا ہو گا‘‘؟ (ص۵۹) یہ انعام کیا ہو سکتا تھا؟ سوال اہم بھی ہے اور خطرناک بھی! کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا! بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا عجیب قسم کی فرضی کامیڈی کا ٹریجیڈی پر مبنی انجام ہے جس ڈرامہ کی ایکٹنگ ہم آپ جیسے انسان انجام دے رہے ہیں اس کے ڈائریکٹر کی انسان نوازی پر فخر کرنا چاہیے ا س نے اپنے ڈرامہ کی شوٹنگ کے لیے انسان کو مختص فرمایا‘‘۔ (مکتوب بنام ڈاکٹر محمد عباس علی خاں اقبال نامہ ص : ۲۹۷‘‘ ٭٭٭ اقبال اور نئی نسل ملک حسن اختر جب بھی نئی نسل کا ذکر آتا ہے تو ساتھ ہی پرانی نسل کا تصور بھی ابھرتا ہے۔ اس لیے نئی نسل اور پرانی نسل کی اصطلاحوں کو متین کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر بحث کو آگے بڑھانا ممکن نہیں ہے۔ کنسائز آکسفورڈ ڈکشنری میں ایک نسل کا زمانہ ۱؍۳ صدی یا تیس سال کے قریب بتایا گیا ہے۔ جب بچے جوان ہو جاتے ہیں اوراپنی ذمہ داریو ں کو خود سنبھال لیتے ہیں۔ تو وہ پرانی نسل کا حصہ بننے لگتے ہیں ۔ یعنی تیس پینتیس سال کی عمر تک انسان نئی نسل کانمائندہ ہوتا ہے اور اس کے بعد پرانی نسل کا فرد بن جاتا ہے۔ مگر نئی نسل اور پرانی نسل میں امتیاز کرنا یا کوئی لکیر کھینچنا بڑا مشکل ہے کیونکہ ہر لمحہ نئی نسل پرانی نسل میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا مستقبل حال میں اور حال ماضی میں تبدیل ہو رہا ہے اس لیے کہ اگر کسی ایک وقت میں اگر ایک نئی نسل ہوتی تو دوسرے وقت میں وہی نسل پرانی ہو جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا نسلی بعد Generation Gapجس کا اتنا شور مچا ہوا ہے وہ موجود نہں ہے؟ ہم ہر روز اخباروں رسالوں اور ریڈیواورٹیلی وژن اور پرانی نسل میں بعد کا ذکر سنتے رہتے ہیں کوئی بات تو ضرور ہوت گی جس کی وجہ سے نئی اورپرانی نسل میں مخاصمت کا اتنا چرچا کیا جا رہا ہے۔ دراصل نئی اور پرانی نسل دونوں کے ایک ہی وقت میںموجود ہوتی ہیں۔ بلکہ جیسا کہ پہلے بیان ہوا نئی نسل بتدریج پرانی نسل میں تبدیل ہوتی رہتی ہے مگریہ حقیقت ہے کہ نئی نسل پرانی نسل سے اپنے جذباتی اور فکری رویوں میں مختلف ہوتی ہے ۔ نئی نسل کے افراد میں فکر کی کمی اور جذبہ کی فراوانی ہوتی ہے جبکہ بوڑھی یا پرانی نسل میں جذبہ کی کمی اور فکر کی زیادتی ہوتی ہے وہ سوچتے زیادہ مگر عمل کم کرتے ہں اس اصول میں استثنا کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ مگر عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ نئی نسل کے افراد نوجوان ہوتے ہیں اور ان کے جسم پر زیادہ قوت ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے مستقبل سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔ ایک نوجوان کو دولت کی اتنی پروانہیں ہوتی جتنی کہ ایک بوڑھے شخص کو ہوتی ہے۔ نئی نسل عموماً مالی ذمہ داریوں سے آزاد ہوتی ہے اور اسے اپنے آپ پر اعتماد ہوتا ہے ۔ کہ وہ دولت کے بغیر بھی زندگی بسرکر سکتی ہے۔ جبکہ پرانی نسل دولت کو بیساکھی کے طور پر استعمال کرتی ہے دراصل زندگی نے ان کو یہی سبق پڑھایا ہوتا ہے کہ دولت ایک بہت بڑی قدر ہے اور اس سے بہت سے کام بنائے یا بگاڑے جا سکتے ہیں مگر نوجوان دولت کے اس طلسماتی اثر سے آزاد ہوتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ اس جادو کو اپنی قوت بازو سے پیداکر سکتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جہاں پرانی نسل جہیز وغیرہ کا مطالبہ کرتی ہیں وہاں نئی نسل پیسہ کی بجائے محبت کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ ان کے نزدیک انسان دولت سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ بوڑھے پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں جبکہ نوجوان بے خطر آتش نمرود میں کود پڑتے ہیں۔ پرانی نسل عقل کے سہارے چلتی ہے تو نئی نسل جذبہ کی قوت سے انقلاب برپا کر دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی تمام امیدیں نئی نسل سے وابستہ کر دی ہیں چنانچہ وہ دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔ ہم نے نئی اورپرانی نسل کی جو خصوصیات بیان کی ہیں وہ ان نسلوں کے تمام افراد میں نہیں پائی جاتی ہیں بلکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ ذہناً نئی نسل کے کچھ افراد پرانی نسل سے اورپرانی نسل کے نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا نئی اور پرانی نسل کا ذکر کرتے ہوئے عمر سے زیادہ رویے کو اہمیت حاصل ہے اور عمر کا وہ حصہ جہاں نئی اور پرانی نسل کا سنگھم ہوتا ہے۔ بڑا اہم ہے زمانہ ہر لحظہ بدلتا رہتا ہے مگر بعض افراد زمانے کا ساتھ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں تو دوسروں میں یہ اہلیت نہیں ہوتی۔ جب افراد نئی ذمہ داریوں سے آشنا ہوتا ہے تو ان پر بڑا نازک وقت ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم بزم انجم میں اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے: آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں اگر پرانی نسل کے افراد نئے زمانے کے تقاضوں کو نہ سمجھیں اور ان کا ذہنی ارتقا رک جائے تو اس وقت ہی نئی نسل اور پرانی نسل میں بعد پیدا ہوتا ہے مگر ا س کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نئی نسل کے تمام افعال و افکار درست ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نئی نسل زمانے کے تقاضوں کو نظر انداز کر دے اور اپنے آپ کو غیر ضروری مسئلوں میںالجھا دے مثلاً یہ کہ آج کل نئی نسل اپنا نیا پن بالوں کو بڑھا کر کپڑوں کی تراش یا وضع اور پرانی چیزوں سے بیزاری کے ذریعے ظاہر کرتی ہے ۔ اورپرانی نسل ان کے اس انداز پر اعتراض کرتی ہے حالانکہ بالوں کو بڑھانا یا کم کرنا یا پھر لباس کیکی وضع سے نہ کوئی نیا بنتا ہے اور نہ پرانا اور نہ قوموں کی زندگی میں اس کی کوئی اہمیت ہے۔ جب نئی نسل ان چیزوں پر اعتراض کرتی ہے تو اس کا یہ رویہ درست نہیں ہوتا اورنئی نسل نے یہ سمجھا کہ مغربی لباس‘ داڑھی منڈانے عریاں جسم‘ لادینی اور رقص و سرود میں مغرب کی ترقی کا راز مضمر ہے تو یہ رویہ درست نہ تھا۔ علامہ اقبال کے زمانہ کی نئی نسل آج پرانی ہو چکی ہے اور اس کے زیر اثر نئی نسل نے ان چیزوں کو اہم بنا لیاہے۔ آج علامہ اقبال کے اس حقیقت افروز بیان پر دونوں نسلوں کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ: قوت افرنگ نہ از چنگ و رباب نے ز رقص دختران بے حجاب نے ز سحر ساحر ان لالہ روست نے ز عریاں ساق و نے قطع موست محکمی اورنہ از لا دینی است نے فروغش از خط لاطینی است قوت افرنگ از علم و فن است از ہمیں آتش چراغش روشن است حکمت از قطع و برید جامہ نیست مانع علم و ہنر عمامہ نیست علم و فن را اے جوان شوخ و شنگ مغزمی باید نہ ملبوس فرنگ اندریں راہ جز نگاہ مطلوب نیست کہ ایں کلمہ دآں کلمہ مطلوب نیست فکر چالاکے اگر داری بس است طبع درا کے اگر داری بس است ان اشعار میں علامہ اقبا ل نے بتایا ہے کہ انگریزوں کی قوت کا راز چنگ و رباب اور رقص اور رقص و سرود نہیں ہے۔ نہ عریاں ہو کر ناچنے اور بے دینی کی باتیں کرنے میں ہے۔ انگریزوں کی طاقت انگریزی زبان کی وجہ سے بھی نہیں ہے۔ اس نے یہ قوت و حشمت علم و فن کی وجہ سے حاصل کی ہے لہٰذا و ہ نوجوانوں کو کہتے ہیں کہ وہ بھی علم و فن حاصل کریں اپنی فکر کو چالاک بنائیں اور ملبوس کی بجائے مغز کی طرف توجہ دیں۔ عمامہ یا مشرقی لباس علوم و فنون کے حصوں میں رکاوٹ نہیںہیں اور نہ پتلون پہن کر انسان عالم بن جاتا ہے ۔ ہر پرانی چیز کو برا سمجھنا بھی بری بات ہے اور ہر پرانی چیز کو سینے سے لگائے رکھنا بھی اچھی بات نہیں ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ ہمیں اپنے ماضی کی روشنی میں حال کو متعین کرنا چاہیے۔ ہماری تاریخ کے اوراق میں ہمارے لیے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں اور اگر ہم کبھی ان پر نظر ڈالتے رہیں تو داغہائے سینہ کو تازہ رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ماضی میں ہماری ترقی کا راز کیا تھا۔ اس کو سمجھنا ہمارے لیے بے حد ضروری ہے چنانچہ علامہ اقبال نے اپنی نظم خطاب بہ جوانان اسلام میںنوجوانوں کو اس طرف متوجہ کیا ہے۔ کبھی اے نوجواںمسلم تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا اور اس کے بعد وہ بتاتے ہیں کہ تجھے اس قوم نے آغوش محبت میںپالا ہے ۔ جس نے دارا کے سر کا تاج پائوں کے نیچے کچل دیا تھا۔ وہ قوم بڑی عظیم تھی انہوں نے دنیا کو بہت کچھ دیا مگر ان کی قوت کا راز کس چیز میں مضمر تھا۔ وہ امیری میں فقیرانہ زندگی بسر کر تے تھے سادگی ان کا گہنا تھا وہ غیرت مند تھے اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا گناہ سمجھتے تھے۔ وہ جہاں گیر جہاں دار اور جہاں آرا تھے مگر افسوس کہ ہم نے ان کی میراث کو گنوا دیا سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز یہ ہے کہ ہم نے اس علم و فن کو حاصل نہ کیا جس کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے عظمت کے تخت پر جگہ پائی تھی وہ کہتے ہیں: گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا حکومت کا کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی نہیںدنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سے پارا غنی روز سیاہ پر کنعاں را تماشا کن کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را اس نظم میں وہ نوجوانوں کو ماضی کی پہنائیوں میں جھانکنے کا مشورہ دیتے ہیں اور انہیں ایسی سچائیوں سے روشناس کراتے ہیں جن کی اہمیت ہر زمانے میں رہی ہے اور جن کو اپنا کر انسانوں نے ہمیشہ ترقی کی منزل کو پایا ہے اقبال جب ہمیں ماضی کی یاد دلاتے ہیں تو وہ ہمیں یہ نہیں کہتے کہ ہم ان لوگوں کی طرح کھانا کھائیں۔ لباس پہنیں یا اونٹ پر سفر کریں بلکہ وہ تو ان قدروں کو ہمارے سامنے لانا چاہتے ہیں جو ابدی ہیں اور جن کو اپنا کر کسی بھی زمانے میں ترقی کی جا سکتی ہے۔ علامہ اقبال نے یہ نظم اس وقت لکھی تھی جس وقت وہ خود نئی نسل کے سنگھم پر کھڑے تھے۔ ان میں جوش اور جذبہ بھی تھا اور فکر کا آئینہ بھی ہاتھ میں تھا۔ چنانچہ انہوںنے عمل اور فکر دونوں کو نوجوان نسل کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ وہ ماضی کی طرف نوجوانوں کو اس لیے متوجہ کرتے ہیں کہ ان میں سوچنے کی صلاحیت پیدا ہو اور وہ اپنی منزل کا تعین ماضی کی روشنی میں کریں مگر منزل کو پانے کے لیے عمل کی ضرورت ہے اوروہ نوجوانوں میںعمل کی قوت دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں عمل پر بہت زور دیا گیا ہے۔ عمل کے بغیر دنیا میں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ عمل کوپیدا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ عشق ہے لہٰذا علامہ اقبال نے اپنی شاعری میںعشق ک اہمیت کے متعلق بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ وہ علی گڑھ کے طلبہ کو پیام دیتے ہوئے اپنے آ پ کو عشق کا درد مند کہتے ہیں اور ساقی نامہ میں دعا مانگتے ہیں یکہ ان کا یہ جذبہ عشق خدا نوجوانوں میں بھی پیدا کر دے: جوانوں کو سوز جگر بخش دے مرا عشق میری نظر بخش دے مگر جب انہوںنے اپنے زمانے کی نئی نسل میں بے عملی کے آثا ردیکھے تو لہو کے آنسو رونے لگے۔ اس زمانے کے نوجوان افرنگی صوفوں اور ایرانی قالینوں کی آسائش کے قائل تھے یہ چیز ان کی تن آسانی کو ظاہر کرتی ہے۔ آج کے نوجوان بھی ان اشیاء کے رسیا ہیں لہٰذا اس زمانے کی نئی نسل اور اس زمانے کی نئی نسل دونوں کی حالت ایک سی ہے۔ اور اقبال نے جو کچھ اپنے زمانے کے نوجوانوں کے لیے کہا تھا وہ اس زمانے کے نوجوانوں کے لیے بھی اتنا ہی سچا اور ضروری ہے وہ بال جبریل میں اپنی نظم ایک نوجوان کے نام میں کہتے ہیں: ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالین ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی امارت کیا شکوہ خسروی ہو بھی تو کیا حاصل نہ زور حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی اقبا نوجوانوں کو سخت کوش بنانا چاہتے ہیں۔ سخت کوشی ایک ایسی چیز ہے جو جب اورجس قوم کے نوجوانوں میں بھی ہو وہ اس قوم کی طاقت ور اور مضبو ط بنا دے گی چناندہ وہ نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ان تمام چیزوں سے اجتناب کریں جن سے جسم میںنرمی اور خستگی پید ا ہوتی ہے اور وہ سختی برداشت کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ جسم انسانی میں اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت رکھی ہے کہ اسے سخت محنت اور مشقت سے فولاد کی طرح سخت بنایا جا سکتا ہے۔ اور تن آسانی کی فضا میں پروان چڑھا کر ریشم کی طرح نرم و نازک بھی بنایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اقبال مسلم نوجوانوں کو ایک عقاب کی مانند دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو شاہی محلوں کی بجائے پہاڑوں کی چٹانوں میں بسر کرتا ہے۔ اور یہ سخت کوشی اسے تمام پرندوں کا بادشاہ بنا دیتی ہے۔ یہ اس کی قوت اور تیز نگاہی ہی ہے جو اسے تمام پرندوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اور یہ صفات اس نے مشقت اور محنت سے حاصل کی ہیں اقبال مسلم نوجوان سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں : نہیںتیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں عشق جہاں انسان میں عمل کی بے پناہ قوت پیدا کرتا ہے وہاں وہ انسان کو نئی دنیائوں کی تلاش پر بھی اکساتا ہے۔ علامہ اقبال کا تصور عشق تمام تصور عشق سے مختلف ہے ۱؎ مختصر یہ کہ ان کے ہاں عشق کسی عورت کے پیچھے بھاگنے کانام نہیں ہے۔ یہ تو عشق کی ایک گھٹنا صورت ہے۔ عشق کی ارفع و اعلیٰ صورت وہ ہے جب عشق انسان میں اتنی قوت پیدا کر دیتا ہے کہ وہ فرہاد کی طرح پہاڑ کو کاٹنے کی بجائے پورے سلسلہ کوہ کوہی اٹھا کر لے جاتا ہے۔ وہ ستاروں پر کمند ڈالتا ہے اور نئے جہاں دریافت کرتا ہے چنانچہ وہ جاوید سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر علامہ اقبال نئی نسل کو امیرانہ طریق کا شائع نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ رزق حلال کمایا جائے کیونکہ حرام کی کمائی سے خودی کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ خودی دولت اور آسائش سے پروان نہیں چڑھتی امیری کی بجائے غریبی اسے راس آتی ہے۔ وہ شخص جو دولت کے عوض اپنی ذات کا سودا کر لیتا ہے وہ کس قد رگھاٹے میں رہتاہے۔ وہ اپنے بیٹے جاوید سے جو نئی نسل کا نمائندہ ہے کہتے ہیں: مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر امیری اور سیم و زر کی بجائے غیرت اور جسارت انسان کی دولت ہوتی ہے مسلمانوں کا زوال بے زری سے نہیں بلکہ خودی کے گنوانے سے پیدا ہوتا ہے: اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں اگر جہاں میں مرا جوہر آشکارا ہوا قلندری سے ہوا ہے تونگری سے نہیں اور قلندر کی تعریف یہ ہے کہ: مہرو مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر ان کے نزدیک نئی نسل کے نوجوان قوم کا بہت قیمتی سرمایہ ہیں۔ دولت اور سونے چاندی کو اقبال کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ ان کے خیال میں تندرست نوجوان ہی کسی قوم کے مستقبل کو تابناک بنا سکتے ہیں۔ قوم را سرمایہ اے صاحب نظر نیست از نقد و قماش و سیم و زر مال او فرزند ہائے تندرست تر دماغ و سخت کوش و چاق و چست ۱؎ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم کی تصنیف(اطراف اقبال) مگر یہ نوجوان جہاں سخت کوش اور چاک و چست ہو وہاں ان کی جوانی گناہوں سے آلودہ نہیں ہونی چاہیے اور انہیں اعلیٰ کردار کا مالک ہوناچاہیے: حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی خدا کرے جوانی تری رہے بے داغ نئی نسل کی اقبال کے نزدیک بڑی اہمیت ہے اوروہ چاہتے ہیں کہ اس کی تربیت بڑے عمدہ طریق پر ہو کیونکہ اگر نئی نسل کی تربیت درست انداز پر نہ ہو گی تو قوم کا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ کالجوں سکولوں میں دی جانے والی تعلیم سے مطمئن نہیں ہیں کیونکہ وہ نوجوانوں کو الحاد کی وادیوں میں لے جاتی ہے۔ او ریوں ایمان کی روشنی ان سے چھن جاتی ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ اس شعر کو پڑھ کر ہمیں سرسید یاد آ جاتے ہیں جنہوںنے مسلمان قوم کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے انگریزی تعلیم کو ضروری قرار دیا تھا ۔ مگریہ انداز تعلیم آج بھی ہمارے لیے مصیبت بنا ہوا ہے اور ہم انگریزی کے تسلط سے چھٹکارا نہیں پا رہے ہیں۔ جب نوجوان درسگاہوں سے تعلیم حاصل کرکے نکلتے ہیں تو وہ اپنی قوم کے لیے مردہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا اب کہاں سے آئے صدا لا الہ الااللہ اس سلسلے میں وہ اکبر الہ آبادی کے ہمنوا ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ: یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی مصیبت تو یہ تھی کہ بچے راہ مغرب میں سب کچھ لٹٓ کر قو م کے لیے بیکار ہو گئے ہیں مگر کالجوں اور سکولوں کی تعلیم کا توڑ یہ ہے کہ ہم اپنے گھر میں بچوں کی تربیت صحیح انداز پر کریں اور ان کے دل میں ایمان کی شمع روشن کر دیں کہ سکول اور کالج کی تعلیم انہیں کسی طور پر بھی بے راہرو نہ بنا سکے چنانچہ علامہ اقبال جاوید سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: جس گھر کا مگر چراغ ہے تو ہے اس کا مذاق عارفانہ جوہر میں ہو لا الہ تو کیا خوف تعلیم گو فرنگیانہ اور حضرت اسمعیلؑ کی قربانی اور فرمانبرداری کا ذکر کرتے ہوئے گھر کی تربیت کی اہمیت کو اس طرح واضح کرتے ہیں: یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسمعیلؑ کو آداب فرزندی والدین کا فیضان نظر ہو تو بچے مکتب کے اثربد سے محفوظ رہتے ہیں اور گھرمیں ماں کااثر سب سے زیادہ ہوتا ہے لہٰذا مائوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کی تربیت اس انداز سے کریں کہ وہ اعلیٰ کردار کے مالک بن جائیں: سیرت فرزند ہا از امہات جوہر صدق و صفا از امہات جب نوجوانوں کی تربیت کا اہم فریضہ مائوں کے ذمہ ہے اور ان کی وجہ سے بچوں کے سینوں میں قرآن کی شمع روشن رہتی ہے تو پھر ایک طرح سے وہ حافظ رمز اخوت اور قوت قرآن بن جاتی ہیں: حافظ رمز اخوت مادراں قوت قرآن و ملت مادراں اور مائوں کے لیے بہترین نمونہ حضرت فاطمۃ الزہرا کی ذات مبارک ہے جن کی تربیت نے حضرت حسن ؓ اور حضرت حسینؓ جیسے فرزند پیدا کیے۔ وہ فرزند جنہو ں نے اپنے اصولوں اور دین کی حفاظت کے لے جان قربان کر دی اور اقبال کی نظر میں بنائے لا الہ بن گئے رمومت کے اس اعلیٰ فرض کی ادائیگی کی وجہ سے اقبال حضرت فاطمہؓ سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں انہیں قرآن اور رسولؐ کے فرمان کا پاس نہ ہوتا تو وہ ان کی قبرپر سجدوں کی بارش کر دیتے۔ رشتہ آئین حق زنجیر پاست پاس فرمان جناب مصطفے است ورنہ گرد تر بتش گردید مے سجدہ ہا برخاک او پاشید مے چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ نئی نسل میں لڑکیوں کے لیے بہترین نمونہ حضرت فاطمہ کی ذات ہے تاکہ وہ ان کی طرح رمومت کے اعلیٰ معیار قائم کریں اور اپنے آپ کو اس اہم فرض کی ادائیگی کے لیے تیار کریں۔ اب ہمارا اپنا ملک ہے اور ہم آاد ہو چکے ہیں ۔ مگر تعلیم کا اندازپرانا ہی ہے حالانکہ غلاموں کا طریق تعلیم آزادوں سے مختلف ہوتا ہے علامہ اقبا ل نے ایک مختصر سی نظم ہندی کتب کے عنوان سے لکھی ہے اس میں انہوںنے آزادوں اور غلاموں کے تعلیمی نظام کا موازنہ کیا ہے۔ ہم یہاں سے نقل کرتے ہیںتاکہ آزاد قوموں اور غلام قوموں کے فلسفہ تعلیم کا فرق واضح ہو جائے پھر آ پ خود فیصلہ کیجیے گا کہ ہمارا نظام تعلیم غلامی کی یادگار ہے یا اسے آزادی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا گیا ہے۔ اقبال یہاں نام نہ لے علم خودی کا موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات بہتر ہے کہ بیچارے غولوں کی نظر سے پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات آزاد کا ہر لحظہ پیام ابدیت محکوم کا ہر لحظہ مرگ مفاجات آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور محکوم کا اندیشہ گرفتار خرافات محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا ہے بندہ آزاد خود اک زندہ کرامات محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی موسیقی و صورت گری و علم نباتات اگر ہم صر ف علم حاصل کریں اور عشق کے تقاضوں کو فراموش کر دیں تو وہ علم کبھی سود مند ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس سے دولت تو حاصل ہو سکتی ہے مگر زندگی کا سراغ نہیں ملتا۔ زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اورشے زندگی سوز جگر ہے علم ہے سوز دماغ علم دولت بھی ہے قدرت بھی ہے لذت بھی ہے ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ اور اقبال تو نئی نسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ زندگی کی حقیقت کو سمجھے اور اپنے آپ کو تلاش کر لے۔ اپنے آ پ کو پا کر ہی ہم کائنات کے اسرار ورموز کو سمجھ سکتے ہیں چنانچہ اقبال شیخ مکتب سے تقاضا کرتے ہیں کہ علم ہی نہ سکھائے بلکہ دل کی کشادگی کا سامان بھی پیدا کرے مگر افسوس کہ اس کے طریقے دل کے لیے سامان موت ثابت ہو رہے ہیں: شیخ مکتب کے طریقوں سے کشاد دل کہاں کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ چنانچہ وہ طالب علموں سے کہتے ہیں کہ وہ صرف کتاب خواں ہی نہ بنیں بلکہ صاحب کتاب بھی بنیں وہ الفاظ کے چکر سے نکل کر اپنی روح میں طوفان پیدا کریں: خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں اقبال نئی نسل کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ جسمانی طور پر تو ہم آزاد ہو چکے ہیں مگر فکر مندی میں اب بھی گرفتار ہیں اقبال چاہتے تھے کہ نئی نسل انگریزوں کی نقالی کرنے کی بجائے اپنی انفرادیت قائم رکھے آج بھی ہم یورپی تہذیب اور یورپی مصنوعات پر فخر کرتے ہیں۔ ہم ہر چیز کے لیے یورپ کی طرف دیکھتے ہیں اور خود کچھ ایجاد کرنا یا بنانا چاہتے ہیں۔ یہ صروت حال قو م کے لیے بڑی خطرناک ہے۔ ہر قوم کی اپنی عقل اورقوت بازو رپ بھروسہ کرنا چاہیے۔ چین والوں نے اپنے آپ کو پہچانا اور اپنی ذات پر بھروسہ کرنا سیکھا تو وہ دنیا کی ایک بڑی قوت بن گئے مگر ہماری نگاہیں ہر وقت یورپ اور امریکہ کی طرف ہی اٹھتی ہیں اقبال اس نفسیاتی رجحان کو پسند نہیںکرتے چنانچہ انہوںنے جو کچھ آج سے کئی سال ہوئے جاوید سے کہا تھا۔ وہ آج کے نوجوانوں کے لے بھی اتنا ہی سود مند ہے جتنا کہ اس زمانے کی نئی نسل کے لیے تھا۔ بلہک آج ہمیں اس پیغام پر کچھ زیادہ ہی عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوںنے اپنا یہ پیغام اپنے صرف ایک شعر میں کس خوبصورتی سے بیان کر دیا ہے: اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں سفال ہند ہے مینا و جام پیدا کر اقبال یور پ کی طرف صرف اشیاء کی درآمد کے خلاف ہی نہ تھے بلکہ وہ علوم کی درآمد کو بھی ناپسند کرتے تھے۔ علم کا حاصل کرنا بری بات نہیں ہے انہوںنے خود مغربی علو م حاصل کیے تھے مگر ہمارے نوجوان جب مغرب سے تعلیم حاصل کر کے آتے ہیں تو اپنی خود ی کو ختم کر کے خود بھی مغربی بننا چاہتے ہیں۔ وہ نظریات اعتبار سے مغرب کے غلام ہو جاتے ہیں۔ اس سے تو بہتر تھا کہ وہ ایسی تعلیم حاصل ہی نہ کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم یافتہ اور ڈگری یافتہ افراد بے شمار ہیںمگر قوم پھر پستی کے گڑھے میںگری ہوئی ہے۔ ان لوگوں نے الفاظ تو یاد کر لیے ہیں مگر علم کی روح سے نا آشنا ہیں وہ برگساں اور ہیگل کے غلام بن گئے ہیں اقبال کی ایک نظم ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔ تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا زناری برگساںنہ ہوتا ہیگل کا صدف گہر سے خالی ہے اس کا طلسم سب خیالی میں گزشتہ صفحات میں عر ض کر چکا ہوں کہ اقبال نوجوانوں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں چنانچہ وہ جا بجا ان کا ذکر کرتے ہیں۔ ساقی نامہ ان کی بڑی مشہور نطم ہے ا س میں وہ کہتے ہیں: خرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پیروں کا استاد کر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ نظم بلکہ سادی شاعری اور فلسفہ نوجوانوں کے لیے ہے مگر اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ ان کی شاعری بچوںاور بوڑھوں کے لیے نہیں ہے۔ انہوںنے نوجوانوں کوبطور خاص خطاب کر کے بھی شعر کہے ہیں۔ ان اشعار میں انہیں خودی کو بلند کرنے کی دعوت دی گئی ہے تو کہیں ان کی تن آسانی پر آنسو بہائے ہیں کہیں انہیں عشق کے پر لگا کر اڑانے کی خواہش کی ہے تو کہیں ان کی ناا میدی کم نگاہی اور بے یقینی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔کہیں انہیں فرنگ کا احساس اٹھانے کی بجائے وسائل پر بھروسہ کرنے کی تلقین کی ہے۔ وہ نصیحت کرتے ہیں کہ کم کھائو کم سوئو اور کم گفتگو کرو تاکہ تم غور و فکر کر ک یاپنے آپ کو سمجھ سکو کیونکہ منکر حق کا فرہے مگر اپنی ذات کا منکر کافر ہے۔ انہوںنے جاوید نامہ کے آخر میں نظم خطاب بہ جاوید لکھی ہے جس کا ذیلی عنوان سخنے بہ نژاد نو ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ جب وہ جاوید سے خطاب کر رہے ہوتے ہیں تو درحقیقت ان کی مراد نئی نسل ہوتی ہے۔ اس نظم میںوہ کہتے ہیں: نوجواناں تشنہ لب خالی ایاغ شستہ رو تاریک جاں روشن دماغ کم نگاہ و بے یقین و نا امید چشم شاں اندر جہاں چیزے ندید کم خور و کم خواب و کم گفتار باش منکر خود نزد من چوں پرکاش باش منکر حق نزد ملا کافر است منکر خود نزد من کافر تراست در رہ دیں سخت چوں الماس زی دل بہ حق بند و بے وسواس زی آج کل کے نوجوانوں میں بے ادبی کارجحان بڑھ رہا ہے ۔ اقبال ان کو سراپا ادب دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ عشق کا آغاز ادب سے ہوتا ہے بے ادب بے رنگ و بو ہے۔ اس کے سینے میں عشق رسولؐ کی آگ روشن نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ نوجوانوں کو بے ادب دیکھ کر انہیں دن کے وقت بھی رات کی سیاہی نظر آنے لگتی ہے: دیں سراپا سوختن اندر طلب انتہایش عشق و آغازش ادب آبروئے گل ز رنگ و بوئے اوست بے ادب بے رنگ و بربے آبروست نوجوانے را چوبینم بے ادب روز من تاریک می گرد و چوشب آدمیت احترام آدمی باخبر شو از مقام آدمی لیکن ادب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہر غلط بات مانتے چلے جائیں۔ دراصل اقبال ان کو با ادب مگر بے باک بنانا چاہتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ وہ صرف مردمسلماں کی اطاعت کریں اگرچہ ادب سب کا کریں۔ اے ترا بخشد خدا قلب و نظر طاعت مرد مسلمانے نگر ادب دراصل الا اللہ ہے اور کلمہ کا پہلا بندہ لا الہ ہے لا الہ کہنے کے لیے جرات ہمت ار بیباکی کی ضرورت ہے ۔ لا الہ ہی سے نماز او رروزہ حقیقت بنتے ہیں۔ لا الہ کے دو لفظ بڑی قوت کے مالک ہیں جب ان کو اپنے دل و جاں کا حصہ بنا لیا جائے تو تمام باطل قوتوں کے ساتھ نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ جو بھی غلط بات کے وہ الہ بن کر سامنے آتا ہے خواہ وہ ہمارا افسرہویا کوئی بزرگ سب بت ہیں اور لا الہ کی ضرب سے توڑے جا سکتے ہیں اور وہ کہتے ہیں: اے پسر! ذوق نگہ از من بگیر سوختن در لا الہ از من بگیر ایں دو حرف لا الہ گفتار نیست لا الہ جز تیغ بے زنہار نیست زیستن با سوز او قہاری است لا الہ ضرب است و ضرب کاری است کسی بڑے سے بڑے آدمی کا خوف بھی دل میں نہ لانا چاہیے۔ سچائی کی تلاش مسلمان کا سب سے بڑا شیوہ ہے اور ا س کے راستے میں سلطان و امیر بھی حائل ہوں تو ان سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ لا الہ ہمیں یہی سبق دیتا ہے۔ شیوہ اخلاص را الحکم بگیر پاک شو از خوف سلطان و امیر چنانچہ ہم بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم نوجوانوں کو خوفزدہ نہ کریں خوف خودی کو کمزور کرنے والی سب سے بڑی قوت ہے۔ خوف ایمان کی قینچی ہے اورخدا سے دور لے جاتی ہے۔ نوجوانوں کو جرات مند اور نیک خو ہونا چاہیے جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ جرات اور بے باکی کا مطلب بے ادبی نہیں ہے احترام آدمی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور شائستگی سے بھی کلمہ حق کہا جا سکتا ہے۔ اقبال یہ چاہتے ہیں کہ نوجوان اسلام کا دامن سختی سے پکڑیں اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہوں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ صرف ظواہر کو ہی نہیں اپنانا چاہیے بلکہ ان کی رو ح کو حاصل کرنا چاہیے۔ روح چوں رفت از صلوات و از ضیام فرد ناہموار و ملت بے نظام سینہ ہا از گرمئی قرآں تہی از چنیں مرداں چہ امید بہی از خودی مرد مسلماں در گزشت اے خضر دستے کہ آباز سرگزشت وہ نوجوانوں میں خودی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں ہم ان کے فلسفہ خودی اور بے خودی کو بیان نہیںکرنا چاہتے۔ کہ ااس کا بیان ہم ایک الگ مضمون میں کر چکے ہیں۔ اقبال نے خود بھی فلسفہ خودی اور اسرار خودی ارو رموز بے خودی میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انہوںنے خودی کے تین مرحلے بیان کیے ہیں پہلا فرد اوررسول کی اطاعت دوسرا ضبط نفس اور تیسرا نیابت ہے۔ اقبال نوجوانوں کو نیابت الٰہی کے منصب پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں عرض کر چکا ہوں کہ اقبال کا سارا کلام نوجوانو ں کے لیے ہے اور ہو ان کے کلام کو پڑھکر ور اس پر عمل پیرا ہو کر قوم کے مفید فرد بن سکتے ہیں۔ آخری چیز جو اقبال نے نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہی ہے وہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو اپنے اندر اعلیٰ صلاحیتیں پیدا کرنے عشق کا راز سمجھنے اور خودی کی رمز کو جاننے کے لیے پیر رومی کی رفاقت اختیار کرنی چاہیے جن کو اقبال نے اپنا مرشد بنایا ہے اور جن کی رہنمائی میں انہوںنے عالم خواب میں آسمانوں کی سیر کی اور جاوید نامہ کو تخلیق کیا۔ پیر رومی را رفیق راہ ساز تاخدا بخشد ترا سوز و گداز زانگہ رومی مغز را دلوند زپوست پائے او محکم فتد در کوئے دوست انہوں نے خود رومی سے نکات معرفت سیکھے ہیں بلکہ جدید زمانے کی الجھنوں کو رومی کے کلام سے حل کیا ہے ا س کی نمایاں شان بال جبریل میں پیرو مرید والی نظم ہے جس میں وہ خود مرید ہندی کی حیثیت سے سوال کرتے ہیں اور پھر رومی کے کلام سے جواب دیتے ہیں جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ پر اہم مقام پر اقبا کو نوجوان اور طالب علم یاد آ جاتے ہیں۔ چنانچہ یہاں بھی وہ انہیں نہیں بھولتے۔ اور پیر رومی سے کہتے ہیں: آہ مکتب کا جوان گرم خون ساحر افرنگ کا صید زبوں وہ جوان جن سے ساری امیدیں وابستہ ہوں اگر وہ افرنگ کے سحر میں گرفتار ہوں تو بڑے افسوس کا مقام ہے اس کی کیا وجہ ہے پیر رومی جواب دیتے ہیں کہ جب کمزور پروں والا پرندہ اڑے گا تو وہ بلی کا شکار ہو جائے گا۔ مرغ نا رستہ چوں پرآں شود طعمہ ہرگربہ دراں شود پھر طالب علموں اور نوجوانوں کا سب سے اہم مسئلہ علم کا حصول ہے۔ ہم سب علم حاصل کرتے ہیں۔ ایم اے پی ایچ ڈی ڈی لٹ وغیرہ مگرقوم کا قدم آگے نہیں بڑھتا۔ اب بھی ہم اپنا رزق آسمانوں کی بجائے خاک راہ میںہی تلاش کرتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے ۔ پیر رومی جواب دیتے ہیں۔ علم را برتن زنی مارے بود علم را بر دل زنی یارے بود اگر علم اور تن کا ساتھ ہو گا تو وہ سانپ بن جائے گا۔ لیکن اگر علم کو دل کا رفیق بنائو گے تو وہ تمہارا مددگار بن جائے گا۔ ظاہر ہے کہ ہم نے علم کو تن کے سجانے کا ذریعہ بنایا ہے اور اس سے روح کی بالیدگی کا کام نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بڑی بڑی ڈگریوں کے باوجود ذلیل و خوار ہیں اور ہم لا الہ کی قوت پید انہیں ہوئی چونکہ قوم افراد ہی کا مجموعہ ہے ۔ ا س لیے ہم قومی سطح پر بھی پست ہیں اور دوسروں کے دست نگر۔ یہ تو ایک مثال تھی رومی کا کلام دل کو سوز عطا کرنے کا ذریعہ ہے اور اقبال کا فرمان یہ ہے کہ رومی کے کلام کا مطالعہ کیا جائے مگر میرا خیال یہ ہے کہ رومی کے پاس جانے سے پہلے ہمیں اقبال کی صحبت سے فیض حاصل کرنا چاہیے جس کے اندر رومی بھی ہے اور اس سے کچھ زیادہ بھی۔ ٭٭٭ گمشدہ دستاویزات کی بازیافت تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں ٭٭٭ اقبال بحیثیت ممتحن محمد حنیف شاہد یہ بات بہت کم لوگوں کومعلوم ہے کہ اقبا ل پنجاب یونیورسٹی کے ممتحن اور صدر ممتحن کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے انہوںنے اپنے خطوںمیں اس چیز کی طرف چند اشارے کیے ہیں۔ لیکن آج تک کسی اقبالی سوانح نویس او رتذکرہ نگارنے ان کی اس حیثیت اور خدمت کا صراحت سے ذکر نہیں کیا حالانکہ ان کی بحیثیت ممتحن خدمات انہیں ماہر تعلیم ثابت کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اقبال یقینا ایک ماہر تعلیم تھے انہوںنے یونیورسٹی اورئینٹل کالج اسلامیہ کالج گورنمنٹ کالج اور لندن یورنیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ انہوںنے مڈل سے لے کر ایم اے تک کے امتحانات کے پرچے مرتب کیے بلکہ سلیبس بھی انہی کے ہاتھوں مرتب ہوئے۔ اقبال نے اپنی زندگی میں بعض اصول وضع کیے تھے جن پر وہ زندگی بھر عمل پیرا رہے۔ ممتحن ارو ممتحن اعلیٰ ہونے کی حیثیت میں بھی انہیں انہی اصولوں پر کاربند دیکھا گیا ہے۔ وہ ہر قسم کے لالچ اور خوف سے مبرا تھے اور اس سلسلے میں ناجائز سفارش کرنے کی کسی کو جرات ہی نہ ہوتی تھی۔ مگر بالفرض محال کسی نے جرات رندانہ کر بھی لی تو اقبال نے اس سفارش کو قبول نہ کیا۔ مولوی محمد شفیع نے ایک بار ان سے کسی کے لیے سفارش کرنے کے بارے میں لکھا تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا: ’’ آپ کو معلوم کہ میں لوگوں سے سفارش نہیں کرتا۔ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ ایسی سفارشات شاذو نادر ہی کارگر ہوتی ہیں۔ میں تواس سلسلہ میں اپنے گزشتہ گناہوں سے پشیمان ہوں۔ تجربہ نے مجھ پر یہ حقیقت واضح کر دی ہے۔ کہ یہ خودداری کے قطعی منافی ہے۔ اب آپ کے لیے دعا کرنے کو جی چاہتا ہے۔ بلا نتیجہ سفارش کرتے چلا جانا مجھے ذلت انگیز معلوم ہوتا ہے ‘‘ ۱؎ مشہور ادیب ضیاء الدین برنی نے اپنی کتاب ’’کلید اخبار بینی‘‘ لکھی تو اس کا انتساب اقبالؒ کے نام کرنا چاہا اس ضمن میں انہوںنے حضرت علامہ اقبال کی خدمت میں ایک خط تحریر کیا۔ اقبال نے جو اس قسم کے نام و نمود سے اجتناب فرماتے تھے۔ معذرت کی برنی صاحب خواجہ حسن نظامی سے رقعہ لکھوا کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ باتوں باتوں میں انہیں معلوم ہوا کہ اقبال بی اے کے فلسفے کے ممتحن ہیں۔ انہوںنے جسارت کر کے اپنا رول نمبر پیش کر دیا جس پر اقبال خفا ہوگئے اور ملاقات منقطع ہوگئی۔ برنی صاحب نے ا س واقعے سے کبیدہ خاطر ہو کر اقبال کی خدمت میں خط لکھا جس کا انہوں نے مندرجہ ذیل جواب دیا: اقبال نامہ جلد جلد اول صفحہ ۳۰۸‘ ۳۰۹ ’’ میں اس عزت کا نہایت مشکور ہوں جو آپ مجھے دینا چاہتے ہیں مگر افسوس ہے کہ میں اسے قبول کرنے سے قاصر ہوں اور اس وجہ سے کہ مجھے قسم کے نام و نمود سے قطعی اجتناب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے معاف فرمائیں گے۔ تعجب ہے کہ اس واقعہ کو آپ کشیدگی تعلقات سے تعبیر فرماتے ہیں اس واقعہ سے پہلے میرے آپ کے کوئی تعلقات نہیں تھے اورمیں نے اس موقع پر جو کچھ عرض کیا تھا ‘ اس میں اخلاقی اعتبار سے بالکل حق بجانب تھا اس کو آپ بخوبی سمجھتے تھے اور یقینا اب بھی سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی اور معاملہ ہوتا یا اب ہو تو میں ہر طرح سے آپ کی مدد کے لیے حاضر ہوں‘‘۱؎ الحاج جلال الدین اکبر ۲؎ راوی ہیں کہ انہوںنے ۱۹۲۷ء میں بی ۔ اے آنرز پاس کیا ہے ۔ بی اے (آنرز) فارسی کاپرچہ اقبال نے مرتب فرمایا تھا۔ اکبر صاحب انگریزی ادبیات کے طالب علم تھے اور ان کے ایک ہم جماعت حافظ عبدالمجید تھے جو اقبالؒ کے عزیز تھے۔ اقبال نے جب پرچہ جات جانچے تو فرمایا تمہارے ساتھ ایک لڑکا اکبر پڑھتا ہے اس کے پرچے اتنے عمدہ ہیں کہ میں نے آج تک ایسے پرچے نہیں دیکھے حافظ عبدالمجید نے کہا اکبر میرے دوست ہیں اور انگریزی ادبیات کے طالب علم ہیں۔ بی اے کا نتیجہ نکلا تو اکبر اول آئے۔ حافظ صاحب نے کہا ’’اکبر صاحب! اگر آپ ایم اے فارسی میں داخلہ لے لیں تو ہم آپ کی مدد کریں گے۔ ان دنوں Exhibition Prizeتھرڈ ایئر کے طالب علم کو ملتا تھا۔ اور چار سال تک جار ی رہتا تھا۔ اکبر صاحب نے ہامی بھر لی اور ایم اے فارسی میں داخلہ لے لیا۔ ایم اے فارسی میںاول آنے والے طالب علم کو برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سٹیٹ سکالر شپ ملتا تھا۔ حافظ عبدالمجید نے اکبر کو یقین دلایا کہ وہ انہیں سکالر شپ دلوانے میں ہر ممکن مدد کریں گے۔ ۱۹۲۹ء میں اقبال صدر ممتحن اورپیپر سٹرتھے اکبر صاحب نے حافظ صاحب کے ایما اور یقین دہانی پر ایم اے فارسی میںداخلہ لے یا اور ۱۹۲۹ ء میں امتحان میں شریک ہوگئے۔ اکبر صاحب کا بیان ہے کہ پرچہ بہت لمباتھا اور وقت تھوڑا تھا چنانچہ وقت کی کمی کے باعث وہ صرف اسی نمبرکا پرچہ حل کر سکے ۔ پرچے میں غالب اور نظیر ی کی نظموں کا موازنہ کرایا گیا تھا۔ وقت کی کمی کی وجہ سے وہ پریشانی کے عالم میںموازنے کی بجائے فارسی نظموں کا انگریزی میںترجمہ کر آئے امتحان کے بعد اکبر صاحب نے پرچہ حافظ محمود شیرانی کو دکھایا تو انہوںنے استفسار کیا کہ یہ پرچہ کس نے بنایا ہے۔ اکبر صاحب نے جواب میں اقبال ؒ کا نام لیا۔ اکبر صاحب سمجھتے تھے کہ سوال غلط ہونے کی وجہ سے وہ اس پرچے میں پاس نہ ہو سکیں گے۔ ۱؎ انور اقبال مرتبہ بشیر احمد از مطبوعہ اقبال اکادمی کراچی‘ ۱۹۶۷ء صفحہ ۱۴۱ ۲؎ ولادت دسمبر ۱۹۰۴ء از مصنف نقش ارژنگ آپ بہت اچھے شاعر ہیں اور آپ کو پنجاب کا حسرت موہانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ نے اقبال سے زبور عجم سبقاً پڑھی۔ چنانچہ حافظ محمود شیرانی سر عبدالقادر اور جلال الدین اکبر اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ اگر اکبر فیل ہو گئے تو سٹیٹ سکالر شپ ہندو لے جائے گا۔ جب پرچہ دیکھاگیا تو چھبیس نمبر تھے ۔ اب تینوں حضرات کی نظریں اقبال پر جمی ہوئی تھیں۔ آ پ نے جواب دیا: ’’میں جانتا تھا کہ امیدوار کو فارسی بہت اچھی آتی ہے ۔ وہ ایک اچھا شاعر بھی ہے اورہونہار طالب علم بھی لیکن سکالر شپ کا معاملہ اس اکیلے کی ذات سے وابستہ ہے۔ جو مستحق ہے اسے یہ سکالر شپ ملنا چاہیے۔ میرے کچھ اصول ہیں جن پر میں کاربند ہوں اور اپنے افعال کا جواب دہ ہوں۔ اخلاقی اعتبار سے بھی ایسا کرنے سے قاصر ہوں۔ امید ہے آپ مجھے معاف فرمائیں گے۔‘‘ اکبر صاحب کا کہنا ہے کہ صرف دو نمبروں کی کمی کی وجہ سے سٹیٹ سکالر شپ کسی ہندو طالب علم کو مل گیا۔ اس کے بعد وہ ایسے دل برداشتہ ہوئے ک پھر امتحان کا نام ہی نہ لیا۔ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ اقبالؒ نے اپنے ممتحن ہونے کا ذکر اکثر جگہ کیا ہے۔ مولانا حبیب الرحمن شروانی کے نام ایک کط میں تحریر فرماتے ہیں: ’’مڈل کے امتحان کے پرچوں سے فراغت نہ ہوی طبیعت کو یکسوئی کس طرح نصیب ہوتی‘‘۔ ایف اے کے امتحان کے پرچے مضمون تاریخ یونان و روما دیکھ رہا ہوں۔ سامنے بنڈل رکھا ہے اور نتیجہ بھیجنے میںچار دن کا عرصہ باقی رہ گیا ہے ‘‘۔ ۱؎ ایک اور خط میں جو مولانا قادر گرامی کو لکھا گیا ہے اقبال نے پرچوں کی وجہ سے مصروفیت کا ذکر کیا ہے چنانچہ رقم طراز ہیں: ’’میں امتحانوں کے پرچوں میں سخت مصروف رہا۔ اس واسطے جواب نہ لکھ سکا۔ یہ کام ابھی تک جاری ہے اور غالباً پندرہ بیس روز اور جاری رہے گا۔ اوروں کی نسبت میرے کام بھی زیادہ ہوتا ہے کیونکہ دیگر یونیورسٹیوں کے پرچے بھی ہوتے ہیں بہرحال خدا کے فضل و کرم سے اب کام ہو چلا ہے‘‘ ۲؎ ۱۹۶۸ء میں پنجاب یونیورسٹی نے ایم اے (فارسی) کا امتحان دینے کا فیصلہ کیا تو نصاب مرتب کرنے کے علاوہ صدر ممتحن علامہ اقبالؒ مقرر کیے گئے۔ اس امر کا اظہار انہوںنے مولانا گرامی کے نام اپنے مکتوب محررہ ۱۰ جون ۱۹۱۸ء میں فرمایا ہے: ’’پنجاب یونیورسٹی میں اب فارسی کے ایم اے کا امتحان بھی ہوا کرے گا۔ میں اس کے لیے کورس تجویز کر رہا ہوں آپ کا مطبوعہ کلام کچھ ہو تو ا س میںدرج کر وں۔ وہ مثنوی جو آپ نے شائع کی تھی کیا اب بھی کہیں سے مل سکتی ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ اس امتحان میں ایک پرچہ ہندوستان کے فارسی شعراء کا ہو۔ ۱؎ اقبال نامہ جلد اول صفحہ ۸۔۹۔ اس خط پر تاریخ درج نہیں ہے یہ خط بھاٹی دروازہ لاہور سے تحریر کیا گیا ہے اس خط میں جو نظم زیر بحث ہے وہ ۱۰ مارچ ۱۹۰۳ء کے اخبار وطن لاہور میں درج تھی۔ لہٰذا یہ خط بھی اسی زمانے میں لکھا گیا ہو گا۔ ۲؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی (مرتبہ محمد عبداللہ قریشی مطبوعہ اقبال اکادمی کراچی ۱۹۶۹ء صفحہ ۲۱۵۔ اس ضمن میں آپ بھی آ جائیں گے‘‘ ۱؎ اسی طرح مہاراجہ کشن پرشاد شاد کے نام ایک خط میں ممتحں ہونے کا ذکر کرتے ہیں جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال صرف پنجاب یونیورسٹی کے پرچے نہ مرتب کرتے یا جانچتے تھے بلکہ الہ آباد ی یونیورسٹی کے پرچے بھی سیٹ کرتے تھے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ’’… پنجاب اور الہ آباد کی یونیورسٹیوں میں عربی اور فلسفہ میں بی اے اور ایم اے کا ممتحن مقرر کیا گیا اور اب بھی ہوں۔ امسال الہ آباد یونیورسٹی کے ایم اے کے دو پرچے میرے پاس تھے پنجاب میں بی اے کی فارسی کا ایک پرچہ اور ایم اے کے فلسفے کے دو پرچے میرے پاس ہیں‘‘ ۲؎ ایک اور خط میں جو مہاراجہ کشن پرشاد شاد ہی کے نام ۲۱ مئی ۱۹۱۵ء کو تحریر کیا فرماتے ہیں: ’’پنجاب یونیورسٹی بی اے اور ایم اے کے کاغذا ت میرے پاس ہیں۔ آج کل امتحانوں کے دن ہیں اس کام کو ادھورا چھوڑ کر لاہور سے باہر نہیں نکل سکتا۔ مئی کے آخر تک اس کام سے فرصت ہو جائے گی‘‘ ۳؎ دیگر مصروفیات کے علاوہ حضرت علامہ ؒ کے پاس پرچوں کا اس قدر کام تھا کہ بعض اوقات انہیںانکار کرنا پڑتا تھا۔ ا س سلسلے میں مہاراجہ کشن پرشاد شاد کے نام ایک خط میں رقم طراز ہیں: ’’چند روز ہوئے حیدر آبد کے محکمہ تعلیم کی طرف سے ایک خط آیا تھا کہ بیت العلوم دکن کے امتحان تاریخ اسلامی کے لیے پرچہ سوالات تیار کروں۔ پچھلے سال پرچہ بنا دیا تھا مگر امسال الہ آباد پنجاب کی دونوں یونیورسٹیوں کے امتحانات ایم اے کا کام میرے سپرد تھا۔ فرصت نہ تھی مجبوراً انکار کرنا پڑا‘ ‘ ۴؎ امتحانات کے پرچے تیار کرنے کے علاوہ آ پ کو زبانی امتحان لینے کے لیی بھی لاہور سے باہر جانا پڑتا تھا مثلاً الہ آباد‘ حیدر آباد‘ علی گڑھ وغیرہ۔ الہ آباد جانے کے سلسلے میں خان نیاز الدین خاں کے نام اپنے ایک خط محررہ ۹ مارچ ۱۹۱۸ء میں تحریر فرماتے ہیں: ’’چند روز میں ایم اے کا زبانی امتحان لینے کے لیے الہ آباد جانے والا ہوں یہ ممتحنی میں نے محض اس واسطے قبول کر لی کہ مولانا اکبر کی زیارت کا بہانہ ہوجائے گا‘‘۔ ۵؎ ۱؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی صفحہ ۱۴۵ ۲ ؎ شاد اقبال صفحہ ۴ ۴ تا ۴۶ ۳؎ اقبال بنا م شاد (صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول) اکتوبر ۹۷۳ء صفحہ ۱۴۴ ۴؎ شاد اقبال صٖحہ ۳۰ (خط محررہ ۲۳ جنوری ۱۹۱۷ئ) ۵؎ مکاتیب اقبال بنا م نیاز الدین خان صفحہ ۱۳ راقم کی تحقیق کے مطابق اقبا ل نے جو امتحانی پرچے سیٹ کیے ان کی تفصیل پیش کی جاتی ہے اقبال نے ۱۹۰۰ء میں سب سے پہلا پرچہ دسویں جماعت کی فارسی کا مرتب فرمایا۔ اس زمانے میں آپ اورئینٹل کالج میں میکلوڈ عربک بک ریڈر تھے۔ قواعد و ضوابط کے مطابق صدر ممتحن کو نہ صرف پرچہ سیٹ کرنا ہوتا تھا بلکہ پانچ فی صد پرچے بھی دیکھنے پڑتے تھے جو نائب ممتحن جانچ کر صدر ممتحن کو بھیجتے تھے۔ یہ پرچہ دو حصوںپر مشتمل تھا ۔ ا۔ فارسی سے اردو ترجمہ ب۔ گرامر و اردو سے فارسی ترجمہ ۱؎ ۱۹۰۱ ء میں بھی اقبالؒ نے دسویں جماعت کا فارسی پرچہ سیٹ کیا۔ ۲؎ ۱۹۰۳ ء میں پھر اقبالؒ نے انٹرنس کا فارسی پرچہ مرتب کیا ۳؎ ۔ ان دنوں آپ یونیورسٹی اورئنٹیل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے نیز ۱۹۰۳ء میں آپ نے مڈل کا اردو زبان (خوش خطی و ترجمہ) کا پرچہ بھی سیٹ کیا ۴؎ ۱۹۰۴ء میں اقبال ؒ نے مڈل کا اردو پرچہ مولوی عبداللہ ٹونکی پروفیسر اورئنٹل کالج کے ساتھ مل کر بنایا ۵؎۔ ۱۹۰۵ ء میں آپ نے مڈل کا اردو پرچہ مرتب کیا۔ اس وقت آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے ۶؎۔ نیز ۱۹۰۵ء میں آپ نے انٹرنس کے اردو و فارسی کے پرچہ جات سیٹ کیے جبکہ آپ کا تعلق گورنمنٹ کالج سے تھا اور اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے ۷؎ ۲ مارچ ۱۹۱۰ء کو انڈین یونیورسٹیز ایکٹ ۱۹۰۴ء کے تحت چانسلر پنجاب یونیورسٹی نے اقبال کو پنجاب یونیورسٹی کا فیلو نامزد کیا ۹؎۔ سنڈیکیٹ پنجاب یونیورسٹی نے ۱۹۱۱ء کے لیے آپ کو انٹر میڈیٹ کے فلسفہ اور عربی (ب) کے پرچہ جات کے لیے صدر ممتحن مقرر کیا اس وقت آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفسیر تھے ۱۰؎۔ نیز آپ کو ایف ای ایل کے امتحان منعقدہ اپریل ۱۹۱۱ء کاممتحن بھی مقرر کیا گیا۔ اس کا فیصلہ بورڈ آف سٹڈیز ان لا کے اجلاس میں کیا گیا جو سر آرتھر چیف جسٹس کی صدارت میں ۱۱ نو مبر ۱۹۱۰ء بروز ہفتہ بوقت ساڑھے تین بجے منعقد ہوا ۱۱؎۔ ۱؎ پنجاب گزٹ یکم فروری ۱۹۰۰ء حصہ سوم صفحہ ۲۴۹ ۲؎ پنجاب گزٹ ۲۸ فروری ۱۹۰۱ء حصہ سوم صفحہ ۳۶۱ ۳؎ پنجاب گزٹ‘ ۷ اگست ۱۹۰۲ء حصہ سوم صفحہ ۱۰۷۵ ۴؎ پنجاب گزٹ ۷ اگست ۱۹۰۲ء حصہ سوم صٖحہ ۱۰۸۹ ۵ ؎ پنجاب گزٹ ۱۷ ستمبر ۱۹۰۳ء حصہ سوم صفحہ ۱۱۰۱ ۶؎ پنجاب گزٹ ۲۵ اگست حصہ سوم صفحہ ۱۱۷۷ ۷؎ پنجاب گزٹ ۲۵ اگست ۱۹۰۴ء حصہ سوم صفحہ ۱۱۷۸ ۸ ؎ پنجاب گزٹ ۲۱ مئی ۱۹۰۹ء حصہ اول صفحہ ۴۱۵ ۹؎ پنجاب گزٹ ۴ مارچ ۱۹۰۲ء حصہ اول صفحہ ۱۳۰ ۱۰؎ پنجاب گزٹ ۲۰ جنوری ۱۹۱۱ء حصہ سوم صفحہ ۸۹ ۱۱؎ پنجاب گزٹ ۱۹ مئی ۱۹۱۱ء حصہ سوم صفحہ ۵۳۸ ۱۹۱۱ء ہی میں اقبال اورئینٹل اور آرٹس فیکلٹی کے فیلو مقرر کیے گئے۔ اس کا فیصلہ سنڈیکیٹ کے اجلاس میں منعقدہ ۲۶ مئی ۱۹۱۱ء کو کیا گیا ۱؎۔ ۱۹۱۲ء میں آپ انٹرمیڈیٹ کے عربی پرچہ (ب) کے ممتحن مقرر کیے گئے۔ یہ تقرر سنڈیکیٹ کے فیصلہ کی رو سے عمل میں آی ۲؎۔ علاوہ ازیں آپ بی اے فلسفہ (پاس و آنرز) کے ب پرچے کے ممتحن بھی مقرر کیے گئے ۳؎ ۔ یکم اپریل ۱۹۱۲ء کو سنڈیکیٹ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مختلف فیکلٹیوں کے اراکین نامزد کیے گئے ۔ اقبالؒ حسب سابق اورئنٹل اور آرٹس فیکلٹی کے رکن مقرر کیے گئے ۴؎۔ ۱۹۱۳ء میں منعقد ہونے والے انٹرنس کے امتحان میں فارسی پرچہ الف کے اقبال ممتحن مقرر کیے گئے جبکہ فارسی پرچہ ب حاجی سید جلال الدین حیدر ایم اے پروفیسر ایچی سن کالج لاہور نے مرتب کیا۔ نیز اقبالؒ کو بی اے فارسی (پاس و آنرز) کے پرچہ الف کا ممتحن مقرر کیا گیا جبکہ فارسی پرچہ ب ایم محمد کاظم شیرازی معلم فارسی ربورڈ آف ایگزامینرز کلکتہ نے سیٹ کیا ۵؎۔ ۱۹۱۳ء میں لیے جانی وایے بی اے فلسفہ کے پرچہ ب کے ممتحن بھی اقبال مقرر ہوئے۔ فلسفے کا الف پرچہ مسٹر پی پی دتہ پروفسیر اورئنٹل کالج لاہور نے سیٹ کیا۔ نیز اقبالؒ نے ایم اے فلسفہ کا پرچہ مسٹر ایل پی سانڈرز پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور اور پروفیسر مسٹر ایچ ڈی گرس والڈ ایم اے پی ایچ ڈی پروفیسر ایف سی کالج لاہور کے اشتراک سے مرتب کیا ۶؎۔ ۱۹۱۴ء میں اقبال نے انٹرمیڈیٹ کا فارسی الف (پرا و آنرز) پرچہ سیٹ کیا جبکہ ب پرچہ ایم محمد کاظم شیرانی معلم فارسی بورڈ آف ایگزامینرز کلکتہ نے بنایا۔ ۱۹۱۴ء کا ایم اے فلسفہ کا پرچہ تین آدمیوں کے اشتراک سے تیار ہوا یعنی مسٹر ایل پی سانڈرز بی اے پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور شیخ محمد اقبال ایم اے پی اچ ڈی بار ایٹ لا لاہور اور این کے سین ایم اے پروفیسر سینٹ سٹیفن کالج دہلی ۷؎۔ ۱؎ پنجاب گزٹ یکم ستمبر ۱۹۱۱ء حصہ سوم صفحہ ۲۰۱۲ ۲؎ … … … صفحہ ۱۰۲۸ ۳؎ … … … صفحہ ۱۰۲۹ ۴؎ پنجاب گزٹ ۲۱ جون ۱۹۱۲ء حصہ سوم صفحہ ۶۴۹ ۵؎ پنجاب گزٹ ۱۰ جنوری ۱۹۱۳ حصہ سوم صفحہ ۵۵ ۶؎ ایضاً صفحہ ۶۱ ۷؎ پنجاب گزٹ ۱۹ دسمبر ۱۹۱۳ء حصہ سوم صفحہ ۱۵۳۳۔۱۵۳۲ ۱۹۱۵ء میں سنڈیکیٹ پنجاب یونیورسٹی نے بی اے فارسی (پاس و آنرز) کے لیے ممتحن مقرر کیے ان کی تفصیل یہ ہے: پرچہ اے شیخ محمد اقبال ایم اے‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لا‘ لاہور۔ پرچہ بی ایم محمد کاظم شیرازی کلکتہ اسی سال کے امتحان بی اے فلسفہ (آنرز) کے لیے مندرجہ ذیل ممتحن مقرر کیے گئے: ۱۔ ڈاکٹر محمد اقبال (ایلی منٹس آف فلاسفی) ۲۔ مسٹر منوہر لال (سپیشل فلاسفر) ۱؎ ۱۹۱۶ء میں ایم اے فلسفہ کے لیے مندرجہ ذیل اصحاب ممتحن (مشترک) مقرر ہوئے: ۱۔ پروفیسر این کے سین ایم اے سینٹ سٹیفن کالج دہلی۔ ۲۔ ڈاکٹر محمد اقبال ایم اے ‘ پی ایچ ڈی بار ایٹ لا لاہور ۳۔ اکٹر ایچ ڈی گرس والڈ ایم اے پی ایچ ڈی ۲؎ ۱۹۱۷ء میں منعقد ہونے والے امتحان انٹرمیڈیٹ اردو کے لیے دو مشترک ہیڈ ایگزامنر مقرر کیے گئے: ۱۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی بار ایٹ لا‘ لاہور ۲۔ مرزا محمد سعید ایم اے گورنمنٹ کالج لاہور اور بی اے فلاسفی (آنرز) کے لے سپیشل فلاسفر کی حیثیت سے مسٹر منوہر لال ایم اے بار ایٹ لا لاہور اور (جنرل فلاسفی ) ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی بار ایٹ لا لاہور مقرر کیے گئے ۳؎۔ بی اے فارسی کے لیے مندرجہ ذیل اصحاب کا تقرر عمل میں آیا: (الف) (پاس) ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لاہور۔ (ب) (آنرز) ایم محمد کاظم شیرازی معلم فارسی بورڈ آف ایگزامینرز کلکتہ۔ (ج) (پاس و آنرز) ڈاکٹر عظیم الدین احمد پی ایچ ڈی اورئنٹل کالج لاہور ۴؎ جبکہ ایم اے فلاسفی کے لیے مندرجہ ذیل اصحاب مقرر کیے گئے: ۱۔ ڈاکٹر ڈبلیو وی ہیگ ایم اے ۔ پی ایچ ڈی۔ اسلامیہ کالج لاہور ۲۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لاہور۔ ۳۔ پروفیسر این کے سین ایم اے سینٹ سٹیفن کالج دہلی ۵؎ ۱۹۱۸ء کے ایم اے فلاسفی کے امتحان کے لیے حسب ذیل مشترک ممتحن مقرر کیے گئے ۔ ان کا تقرر سنڈیکیٹ پنجاب یونیورسٹی کے اجلاس منعقدہ یکم فروری ۱۹۱۸ء کی رو سے عمل میں آیا: ۱؎ پنجاب گزٹ ۱۸ دسمبر ۱۹۱۴ء حصہ سوم صفحہ ۱۷۶۳ء ۲؎ پنجاب گزٹ ۵ مئی ۱۹۱۶ء حصہ سوم صفحہ ۶۱۰‘۶۱۵ ۳؎ پنجاب گزٹ ۲ مارچ ۱۹۱۷ء حصہ سوم صفحہ ۲۷۸‘۲۷۹ ۴؎ پنجاب گزٹ ۲ مارچ ۱۹۱۷ء حصہ سوم صفحہ ۲۸۰ ۵؎ پنجاب گزٹ ۲۰ ستمبر ۱۹۱۸ء حصہ سوم صفحہ ۱۱۴۹۔ ۱۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لاہور۔ ۲۔ ایس سی رائے ایم اے دیال سنگھ کالج لاہور ۳۔ ڈاکٹر ڈبلیو وی ہیگ ایم اے پی ایچ ڈی اسلامیہ کالج لاہور ۱؎ ۱۹۱۹ ء کے لیے سنڈیکیٹ پنجاب یونیورسٹی نے اپنے اجلاس منعقدہ ۱۴ جون ۱۹۱۸ء میں مندرجہ ذیل اصحاب کا تقرر کیا۔ انٹرمیڈیٹ اردو پرچہ اے شیخ عبدالقادر بی اے بار ایٹ لا لائل پور۔ اردو پرچہ بی ایم غلام بھیک نیرنگ بی اے ایل ایل بی پلیڈر ۔ انبالہ بی اے (فارسی پاس و آنرز) پرچہ اے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لاہور۔ پرچہ بی ڈاکٹر عظیم الدین احمد پی ایچ ڈی اورئنٹل کالج لاہور ۲؎ اور ایم اے فلاسفی کا چھٹا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی بار ایٹ لا لاہور نے بنایا ۳؎ یہ پرچہ جو اب مضمون پر مشتمل تھا۔ ۱۹۲۰ء میں اقبالؒ بی اے فارسی فلسفہ اور ایل ایل بی کے ممتحن مقرر ہوئے جن کی تفصیل درج ذیل ہے: بی اے (فارسی پاس و آنرز) پرچہ اے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لاہور۔ ایم محمد شفیع ایم اے پروفیسر عربی اورئنٹل کالج لاہور ۴؎ بی اے (فلاسفی آنرز) پرچہ اے (جنرل فلاسفی) مسٹر منوہر لال ایم اے بار ایٹ لا لاہور پرچہ بی (سپیشل فلاسفر) ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لاہور۔۵؎ جسٹس شادی لال ایم اے بی سی ایل بار ایٹ لا کی صدارت میں بورڈ آف سٹڈیز ان لا کا جو اجلاس ۶ اکتوبر ۱۹۱۹ء بروز پیر بوقت چار بجے شام منعقد ہوا۔ اس کے فیصلے کی رو سے اقبالؒ ایل ایل بی (برائے ۱۹۲۰ئ) کے دوسرے پرچے کے ممتحن مقرر کیے گئے ۶؎۔ ۱؎ پنجاب گزٹ ۲۰ ستمبر ۱۹۱۸ء حصہ سوم صٖحہ ۱۱۴۹ ۲؎ ؎ پنجاب گزٹ ۲۰ ستمبر ۱۹۱۸ء حصہ سوم صفحہ ۱۲۰۱ تا ۱۲۰۳ ۳؎ پنجاب گزٹ ۲۸ مارچ ۱۹۱۹ء حصہ سوم صفحہ ۴۶۱ ۴؎ پنجاب گزٹ ۱۵ اگست ۱۹۱۹ء حصہ سوم صفحہ ۱۱۱۶۔ ۵؎ پنجاب گزٹ ۱۵ اگست ۱۹۱۹ء حصہ سوم صفحہ ۱۱۱۷ ۶؎ پنجاب گزٹ ۱۳ فرور ی ۱۹۲۰ء حصہ سوم صفحہ ۱۵۹ علاوہ ازیں سنڈیکیٹ کے اجلاس منعقدہ ۶ فروری ۱۹۲۰ء کی مقرر کردہ سپیشل کمیٹی نے جن ممتحن کا تقرر کیا ان میں اقبال کو ایم اے (فلاسفی) برائے ۱۹۲۰ء کا چوتھا پرچہ(فلاسفی آف ریلجن) بنانے کا اختیار دی اگیا ۱؎۔ ۷ نومبر ۱۹۲۱ء بروز پیر بوقت پانچ بجے شام بورڈ آف سٹڈیز کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ایم اصغر علی ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی بار ایٹ لا ڈاکٹر صدر الدین ایم سے ڈی لٹ قاضی فضل حق ایم ۔ اے ‘ ایم محمد دین بی اے ‘ شمس العلماء محمد حسین آزاد اور مولوی محمد شفیع (کنوینر) شریک تھے۔ اجلاس میں ایم اے فارسی (۱۹۲۲ئ) کے لیے ممتحن حضرات کا تقرر عمل میں آیا۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبالؒ دوسرے پرچے کے ممتحن مقرر کیے گئے جبکہ باقی پانچ پرچوں کے لے ایم محمد دین (چیف جج بہاولپور) ایم محمد اسمعیل (ایف سی کالج) قاضی فضل حق (گورنمنٹ کالج ) کے ایم مترا (دیال سنگھ کالج) اور مولوی محمد شفیع (اورئنٹل کالج) مقرر کیے گئے ۲؎۔ ۲۸ نومبر ۱۹۲۱ء کو ساڑھے چھ بجے شا م سینٹ ہال لاہور میں بورڈ آف سٹڈیز ان فلاسفی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مسٹر منوہر لال‘ ایم اے ایل ایل بی ‘ بار ایٹ لاء ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی بار ایٹ لاء ‘ این کے سین ایم اے دیوان چند ایم اے ‘ جی سی چٹر جی ایم اے آئی ای ایس شریک ہوئے بورڈ نے ۱۹۲۲ء کے لیے ایم اے فلاسفی کے لیے پرچے بنانے کے لیے ممتحن مقرر کیے۔ تیسرا (فلاسفی آف ریلجن) اور جھٹا (جواب مضمون) کا پرچہ داکٹر شیخ محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی بار ایٹ لا کے سپرد کیا گیا ۳؎۔ ۲۳ جنوری ۱۹۲۲ء بروز پیر بوقت ساڑے پانچ بجے شام بورڈ آف اورئنٹل سٹڈیز کا اجلاس ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ؒ کی صدارت میں سینٹ ہال لاہور میں منعقد ہوا۔ قاضی فضل حق ایم اے شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد اور مولوی محمد شفیع ایم اے (کنوینر) شریک جلسہ ہوئے اجلاس میں ایم او ایل کے لیے مندرجہ ذیل ممتحن مقرر کیے گئے۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں بورڈ آف اورئنٹل سٹڈیز کے ڈین تھے: پہلا و دوسرا پرچہ مولوی میر حسن‘ مرے کالج سیالکوٹ تیسرا و چوتھا پرچہ مولوی اصغر علی روحی ایم او ایل اسلامیہ کالج لاہور پانچواں و چھٹا پرچہ شمس العلماء مولو ی محمد حسین آزاد ایف سی کالج لاہور ۴؎۔ سنڈیکیٹ کی مقرر کردہ ریوائزنگ کمیٹی نے ۱۹۲۳ء میں منعقد ہونے والے فلسفہ بی اے آنرز او ر ایم اے کے امتحان کے لیے مندرجہ ذیل ممتحن مقرر کیے: ۱؎ پنجاب گزٹ ۲۵ جون ۱۹۲۰ء حصہ سوم صٖحہ ۷۸۷ ۲؎ پنجاب گزٹ ۱۳ جنوری ۱۹۲۲ء حصہ سوم الف صفحہ ۲۲ و ۲۳ ۳؎ پنجاب گزٹ ۱۷ فروری ۱۹۲۲ء حصہ سوم الف صفحہ ۷۱ ۴؎ پنجاب گزٹ ۲۸ اپریل ۱۹۲۲ء حصہ سوم الف صفحہ ۱۱۵‘۱۱۶ بی اے آنرز فلسفہ پرچہ اے منوہر لال ایم اے ‘ ایم ایل سی بار ایٹ لا‘ لاہور پرچہ بی ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لاہور۔ ایم اے فلسفہ چوتھا پرچہ (فلاسفی آف ریلجن) ڈاکٹر گرسوالڈ ایف سی کالج لاہور پانچواں پرچہ (ماڈرن فلاسفرز) ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لائ۔ سپیشل فلاسفر منوہر لال ایم اے بار ایٹ لا ۱؎۔ ایم اے فارسی پہلا پرچہ مولوی محمد الدین فنانس ممبر بہاولپور دوسرا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء تیسرا پرچہ قاضی فضل حق گورنمنٹ کالج لاہور چوتھا پرچہ کے ایم مترا‘ دیال سنگھ کالج لاہور پانچواں پرچہ مولوی محمد اسمعیل ایف سی کالج لاہور چھٹا پرچہ مولوی محمد شفیع اورئنٹل کالج لاہور ۲؎ بی اے فارسی (پاس و آنرز) پرچہ اے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ (پیپر سیٹر) ایم محمد اقبال ایم اے اورئنٹل کالج ‘ لاہور پرچہ بی مولوی محمد شفیع ایم اے اورئنٹل کالج لاہور ۳؎ ایل ایل بی (نیو گروپ) یہ امتحان چھ پرچوں پر مشتمل تھا پہلا پرچہ لالہ مولچند ایم اے ایل ایل بی وکیل ہائی کورٹ لاہور دوسرا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ ۔ تیسرا پرچہ ڈاکٹر ایس سی بغچی بار ایٹ لا کلکتہ چوتھا پرچہ ابن احمد بار ایٹ لا الہ آباد‘ پانچواں پرچہ دیس راج سہنی بار ایٹ لا لاہور اور چھٹا پرچہ لالہ روشن لال وکیل ہائی کورٹ لاہور نے سیٹ کیا ۴؎۔ ۱؎ پنجاب گٹ ۷ جولائی ۱۹۲۲ء حصہ سوم الف صٖحہ ۲۰۶‘۲۰۷ ۲؎ پنجاب گزٹ ۷ جولائی ۱۹۲۲ء حصہ سوم الف صفحہ ۲۰۷ ۳؎ پنجاب گزٹ ۷ جولائی ۱۹۲۲ء حصہ سوم الف صفحہ ۲۰۸ ۴؎ پنجاب گزٹ ۷ جولائی ۱۹۲۲ء حصہ سوم الف صفحہ ۲۱۲ بورڈ آف سٹڈیز ان فلاسفی کی تجویز پر ریوائزنگ کمیٹی نے ۱۹۲۳ء میں منعقد ہونے والے ایم اے فلاسفی کے امتحان کے لیے ڈاکٹر سر محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی بار ایٹ لا لاہور کو پہلے پرچے کا بھی ممتحن مقرر کیا ۱؎۔ ۱۹۲۴ء میں منعقد ہونے والے امتحانات کے لیے مندرجہ ذیل ممتحن مقرر کیے گئے ان کے اسمائے گرامی سامنے پرچوں کی تفصیل بھی درج ہے۔ بی اے فارسی (پاس و آنرز) پرچہ اے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لاہور۔ (پیپر سیٹر) ایم محمد اقبال ایم اے پروفیسر اورئنٹل کالج لاہور پرچہ بی مولوی محمد شفیع ایم اے اورئنٹل کالج لاہور ایم اے فارسی پہلا پرچہ پروفیسر محمد اقبال ایم اے اورئنٹل کالج لاہور دوسرا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لاہور۔ ۲؎ بی اے فلاسفی (آنرز) ایم اے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لاہور نے پہلا پرچہ (ایلی منٹس آف فلاسفی) بنایا نیز ایم اے فلاسفی کے دو پرچے (چوتھا اورپانچواں) سیٹ کیے ۳؎۔ علاوہ ازیں ریوائزنگ کمیٹی نے بورڈ آف سٹڈیز ان فلاسفی کی تجویز آپ کو پہلا پرچہ بنانے کا اختیار بھی دے دیا۔ چنانچہ آپ نے ایم اے فلاسفی کا پہلا پرچہ (اخلاقیات) بھی سیٹ کیا ۴؎۔ ایل ایل بی (نیو گروپ) بورڈ آپ سٹڈیز ان لاء نے جن حضرات کے نام ایل ایل بی کے امتحان منعقدہ ۱۹۲۴ء کے لیے تجویز کیے تھے ان کا ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کانام دوسرے پرچے کے لے چنا گیا تھا۔ ریوائزنگ کمیٹی نے غور و خوص کے بعد آپ کا نام منظور کر لیا چنانچہ آپ نے ایل ایل بی کا دوسراپرچہ بنایا جو زمین لگان محاصل اور کرایہ پر مشتمل تھا ۵؎۔ سنڈیکیٹ پنجاب یونیورسٹی نے اپنے اجلاس منعقدہ ۳۰ مئی ۱۹۲۴ء کو ۱۹۲۵ء کے مختلف ا متحانات کے لے مندرجہ ذیل ممتحن مقرر کیے: ۱؎ پنجاب گزٹ ۴ مئی ۱۹۲۳ء حصہ سوم الف صفحہ ۲۰۲ ۲؎ پنجاب گزٹ ۲۰ جولائی ۱۹۲۳ء حصہ سوم الف صفحہ ۲۵۷ ۳؎ پنجاب گزٹ ۲۰ جولائی ۱۹۲۳ء حصہ سوم الف صفحہ ۲۵۹ ۴؎ پنجاب گزٹ ۲۵ اپریل ۱۹۲۴ء حصہ سوم الف صفحہ ۱۷۲ ۵؎ پنجاب گزٹ ۲۲ فروری ۱۹۲۴ء حصہ سوم الف صفحہ ۶۴ ایم اے فارسی ۱۹۲۵ء دوسرا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لاہور۔ بی ا ے فلاسفی ( آنرز ) پہلا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لاہور۔ ایلی منٹس آف فلاسفی ایم اے فلاسفی چوتھا پرچہ (ماڈرن میٹا فزکس) ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لاہور۔ ۱؎ ایم اے ہسٹری (تاریخ) آٹھواں پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ایل ایل بی دوسرا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء چوتھا پرچہ شیخ عبدالقادر بی اے با ر ایٹ لا ۲؎ ایم اے فلاسفی ریوائزنگ کمیٹی نے جس کا اجلاس ۱۴ مارچ ۱۹۲۵ء بروز اتوار بوقت ساڑھے پانچ بجے شام سینٹ ہال لاہور میں منعقد ہوا غور و خوص کے بعد ایم اے فلاسفی کا پہلا پرچہ بنا نے کا مجاز بھی ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ کو ٹھہرایا چنانچہ آپ نے یہ پرچہ بھی سیٹ یا ۳؎ ریوائزنگ کمیٹی نے اپنے اجلاس منعقدہ ۸ جون ۱۹۲۶ء (بوقت پونے چھ بجے شام) ۱۹۲۶ء کے پرچہ جات بنانے کے لے جو ممتحن مقرر کیے ان میں مندرجہ ذیل پرچہ جات ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کو بنانے کا اختیار دیا۔ ایم اے فلاسفی ۱۹۲۶ء چوتھا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ایم اے فارسی دوسرا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ۴؎ ایل ایل بی تیسرا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ۱؎ پنجاب گزٹ ۱۳ جون ۱۹۲۴ء حصہ سوم الف صفحہ ۲۳۳ ۲؎ پنجاب گزٹ ۹ جنوری ۱۹۲۵ء حصہ سوم الف صفحہ ۱۹‘۲۰ ۳؎ پنجاب گزٹ ۱۷ اپریل ۱۹۲۵ء حصہ سوم الف صفحہ ۲۱۵ ۴؎ پنجاب گزٹ اگست ۱۹۲۵ء حصہ سوم الف صفحہ ۳۶۴‘۳۷۳ بحوالہ سنڈیکیٹ اجلاس منعقدہ ۲۳ اکتوبر ۱۹۲۵ء ۱؎ ایم اے فلاسفی سنڈیکیٹ نے اپنے اجلاس منعقدہ ۱۹ مارچ ۱۹۲۶ء کے فیصلے کے مطابق ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی بار ایٹ لاء لاہور کو ایم ااے فلاسفی کے پہلے پرچے کا ممتحن مقرر کیا ۲؎۔ سنڈیکیٹ کے فیصلے( اجلاس منعقدہ ۸ جون ۱۹۲۶ء ) کے مطابق ریوائزنگ کمیٹی نے ۱۹۲۲۷ء کے مختلف امتحانات کے لیے ممتحن مقرر کیے۔ ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبال مندرجہ ذیل پرچہ جات بنانے کے لیے اہل قرار دیے گئے: بی اے فلاسفی (آنرز) پرچہ اے ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ایم اے فارسی دوسرا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ۳؎ ۷ اکتوبر ۱۹۲۶ء بروز جمعرات بوقت پانج بجے شام بورڈ آف سٹڈیز ان فلاسفی کا اجلاس سینٹ ہال لاہور میں منعقد ہوا جس میں بی اے (آنرز) فلاسفی کے پہلے پرچے کے لیے مندرجہ ذیل اصحاب بطور ممتحن مقرر کیے گئے۔ پہلا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لاہور۔ منوہر لال ایم اے بار ایٹ لا ۴؎ پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام ۱۹۲۸ء میں منعقد ہونے والے مختلف امتحانات کے لیے بورڈ آف سٹڈیز نے مختلف اصحاب بطور ممتحن مقرر کیے تھے۔ ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبال مندرجہ ذیل پرچوں کے ممتحن قرار دیے گئے یہ فیصلہ ریوائزنگ کمیٹی کے اجلاس منعقدہ ۲۶ مئی ۱۹۲۷ء میں کیا گیا تھا۔ ایم اے فارسی دوسرا پرچہ پروفیسر حافظ محمود شیرانی اسلامیہ کالج لاہور ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ۵؎ ایم اے فلاسفی چوتھا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ۱؎ پنجاب گزٹ ۱۸ دسمبر ۱۹۳۵ء حصہ سوم الف صفحہ ۶۶۶ ۲؎ پنجاب گزٹ ۷ مئی ۱۹۲۶ء حصہ سوم ‘ الف ‘ صفحہ ۲۲۴‘۲۲۷ ۳؎ پنجاب گزٹ ۳۰ جولائی ۱۹۲۶ء حصہ سوم الف صفحہ ۲۷۴‘۲۷۷‘۲۸۴ ۴؎ پنجاب گزٹ ۱۷ دسمبر ۱۹۲۶ء حصہ سوم‘ الف صٖحہ ۳۸۹‘۳۹۰۔ ۵؎ پنجاب گزٹ ۱۵ جولائی ۱۹۲۷ء حصہ سوم الف صفحہ ۴۴۴ ایم اے فارسی کے دوسرے پرچہ جات کے ممحن ڈاکٹر محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی اورئنٹل کالج لاہور مولوی محمد شفیع ایم اے اورئنٹل کالج لاہور کے ایم مترایم اے دیال سنگھ کالج لاہور اور قاضی فضل حق ایم اے گورنمنٹ کالج لاہور مقرر کئے گئے ۱؎۔ ایم او ایل (فارسی) نیز ایم او ایل (فارسی) کے امتحان منعقدہ ۱۹۲۸ء کے لیے مندرجہ ذیل اصحاب ممتحن مقرر کیے گئے انہی اصحاب پر مشتمل بورڈ آف سٹڈیز برائے ایم او ایل قرار پایا تھا۔ پہلا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء دوسرا پرچہ پروفیسر محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی اورئنٹل کالج لاہور تیسرا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء چوتھا پرچہ پروفیسر محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی اورئنٹل کالج لاہور پانچواں پرچہ مولوی محمد شفیع ایم اے اورئنٹل کالج لاہور چھٹا پرچہ مولوی محمد شفیع ایم اے اورئنٹل کالج لاہور ۲؎ ایم اے فارسی پہلا پرچہ مولوی محمد شفیع ایم اے اورئنٹل کالج لاہور پروفیسر حافظ محمود شیرانی اسلامیہ کالج لاہور دوسرا پرچہ پروفیسر حافظ محمود شیرانی ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء تیسرا پرچہ قاضی فضل حق ایم اے گورنمنٹ کالج لاہور پروفیسر محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی اورئنٹل کالج لاہور چوتھا پرچہ شمس العلماء پروفیسر ہدایت حسین پریذیڈنسی کالج کلکتہ مولوی محمد شفیع ایم اے اورئنٹل کالج لاہور پانچواں پرچہ محمد اسمعیل ایم اے ایف سی کالج لاہور شمس العلماء پروفیسر ہدایت حسین پریذیڈنسی کالج کلکتہ ۱؎ پنجاب گزٹ ۲۷ جولائی حصہ سوم الف صٖحہ ۴۴۸‘۴۶۰ ۲؎ پنجاب گزٹ ۲۵ مئی حصہ سوم الف صفحہ ۶۲۷ چھٹا پرچہ قاضی فضل حق ایم اے گورنمنٹ کالج لاہور پروفیسر محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی اورئنٹل کالج لاہور ۱؎ ایم اے فلاسفی پہلا پرچہ این کے سین ایم اے رجسٹرار دہلی یونیورسٹی ایم ایس لی سٹیفن کالج دہلی دوسرا پرچہ ڈاکٹر این این گپتا کلکتہ ڈاکٹر سی ایچ رائس ایف سی کالج لاہور پروفیسر ایم ایم شریف مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔ تیسرا پرچہ پروفیسر جی سی چٹر جی گورنمنٹ کالج لاہور چوتھا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء پروفیسر رادھا کرشن کلکتہ یونیورسٹی کلکتہ پانچواں پرچہ پروفیسر ڈبلیو للی ایم اے مرے کالج سیالکوٹ پروفیسر جے اے چاڈوک لکھنو یونیورسٹی لکھنو چھٹاپرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء پروفیسر جے اے چاڈوک ایم اے لکھنو یونیورسٹی لکھنو ۲؎ ایم او ایل سنڈیکیٹ پنجاب یونیورسٹی ایم او ایل (فارسی) برائے ۱۹۲۹ء کے امتحان کے لیے مندرجہ ذیل اصحاب ممتحن مقرر کیے ان کے تقرر کا فیصلہ ۱۲ اپریل ۱۹۲۹ء کے اجلاس میں ہوا۔ پہلا و تیسرا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء ‘ لاہور دوسرا و چوتھا پرچہ ڈاکٹر محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی ‘ اورئنٹل کالج لاہور پانچواں و چھٹا پرچہ مولوی محمد شفیع ایم اے اورئنٹل کالج لاہور ۳؎ ۱؎ پنجاب گزٹ ۲۹ جون ۱۹۲۸ء حصہ سوم الف صفحہ ۶۸۵‘۶۸۶ ۲؎ پنجاب گزٹ ۲۹ جون ۱۹۲۸ء حصہ سوم الف صفحہ ۶۹۲ ۳؎ پنجاب گزٹ ۱۲ جولائی ۱۹۲۹ ء حصہ سوم الف صفحہ ۵۵۷‘۵۵۸ ۱۹۳۰ء میں منعقد ہونے والے مختلف امتحانات کے لیے ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبال ؒ نے مندرجہ ذیل پرچہ جات سیٹ کیے۔ ان پرچوں کی منظوری سنڈیکیٹ کی مقرر کردہ ریوائزنگ کمیٹی نے دی تھی۔ ایم اے فلسفہ چوتھا پرچہ ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی ایم ایل سی بار ایٹ لاء پروفیسر جی سی چٹر جی ایم اے آئی ای ایس گورنمنٹ کالج لاہور چھٹا پرچہ ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبالؒ پروفیسر جی سی چٹر جی ‘ گورنمنٹ کالج لاہور ایم اے فارسی دوسرا پرچہ ڈاکٹر نظام الدین پی ایچ ڈی عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن ڈاکٹر سر محمد اقبال ۱؎ ایم اے فارسی کا پہلا پرچہ مولوی محمد شفیع اور حافظ محمود شیرانی نے مل کر بنایا جبکہ تیسراپرچہ قاضی فضل حق اور ڈاکٹر محمد اقبال اورئنٹل کالج نے چوتھا پرچہ شمس العلماء پروفیسر ہدایت حسین(کلکتہ) مولوی محمد شفیع نے پانچواں پرچہ پروفیسر فدا علی خاں (ڈھاکہ یونیورسٹی ) و پروفیسر ہدایت حسین نے اور چھٹا پرچہ قاضی فضل حق اور ڈاکٹر محمد اقبال اورئنٹل کالج لاہور نے سیٹ کیا۔ ایم او ایل پہلا و تیسرا پرچہ ڈاکٹر سر محمد اقبال دوسرا و چوتھا پرچہ ڈاکٹر محمد اقبال (اورئنٹل کالج لاہور) پانچواں و چھٹا پرچہ مولوی محمد شفیع ۲؎ ۱۹۳۱ء کے امتحانات کے لیے ڈاکٹر سر محمد اقبال نے مندرجہ ذیل پرچے سیٹ کیے: بی اے فلاسفی (آنرز) تیسرا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء پروفیسر جی سی چٹر جی‘ایم اے ‘ آئی سی ایس گورنمنٹ کالج لاہور (انٹرنل) بی اے فلاسفی کے دیگر ممتحن حسب ذیل مقرر ہوئے: ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم (عثمانیہ یورنیورسٹی والے) ‘ این بھاشن (پروفسیر فلاسفی دیال سنگھ کالج) پہلے پرچے کے لیے اور ایم ایم شریف (ریڈر ان فلاسفی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) ۱؎ پنجاب گزٹ ۱۲ جولائی ۱۹۲۹ء حصہ سوم الف صفحہ ۵۸۶ ۲؎ پنجاب گزٹ ۲۳ مئی حصہ سوم الف صفحہ ۲۱۰ دلالہ بہادر مل (پروفیسر ڈی اے وی کالج لاہور) دوسرے پرچے کے لیے ۱؎ ایم اے فلاسفی چوتھا پرچہ ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ پروفیسر جی سی چٹر جی ایم اے چھٹا پرچہ ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ پروفیسر جی سی چٹر جی ایم اے ایم اے فارسی دوسرا پرچہ ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ حافظ محمود شیرانی اورئنٹل کالج لاہور چھٹا پرچہ ڈاکٹر محمد اقبال‘ ایم اے‘ پی ایچ ڈی‘ اورئنٹل کالج ‘ لاہور ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ ایم اے فارسی کے دوسرے پرچے پروفیسر ہدایت حسین (کلکتہ) اور پروفیسر محمد شفیع (پہلا پرچہ) قاضی فضل حق و پروفیسر محمد شفیع (تیسرا پرچہ) پروفیسر ہدایت حسین و قاضی فضل حق (چوتھا پرچہ) ڈاکٹر محمد اقبال (اورئنٹل کالج) اور پروفیسر فدا علی خاں ڈھاکہ یونیورسٹی۔ (پانچواں پرچہ) نے سیٹ کیے ۲؎۔ بی او ایل (فارسی) پہلا پرچہ ایم عبدالعزیز منہاس‘ ایم اے ایم او ایل وکیل گوجرانوالہ دوسرا و تیسرا پرچہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ‘ ایم۔ اے ‘ پی ایچ ڈی‘ بار ایٹ لاء چوتھا پرچہ ضیا محمد ‘ ایم اے ‘ ایم او ایل‘ گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج لائل پور ۳؎۔ ایم او ایل (فارسی) پہلا پرچہ ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبال دوسرا پرچہ مولوی عبدالرحمن پروفیسر عربی و فارسی سینٹ سٹیفن کالج دہلی تیسرا پرچہ قاضی فضل حق گورنمنٹ کالج لاہور چوتھا پرچہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ اورئنٹل کالج لاہور پانچواں و چھٹا پرچہ مولوی محمد شفیع پروفیسر اورئنٹل کالج لاہور ۱؎ پنجاب گزٹ ۲۰ جون ۱۹۳۰ء حصہ سوم الف صفحہ ۲۹۳ ۲؎ پنجاب گزٹ ۲۰ جون ۱۹۳۰ء حصہ سوم صٖحہ ۲۹۳‘۲۹۷‘ ۲۹۸‘ ۲۹۹ ۳؎ پنجاب گزٹ ۲۲ مئی حصہ سوم الف صفحہ ۲۰۳ مذکورہ بالا اصحاب نے بورڈ آف سٹڈیز فار ایم او ایل کے فرائض بھی انجام دیے ۱؎۔ ۱۹۳۲ء میں منعقد ہونے والے مندرجہ ذیل امتحانات کے پرچہ جات ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ نے بنائے۔ بی اے (پاس ) فارسی پرچہ اے ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ پرچہ بی ڈاکٹر حسن مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ۲؎ ایم اے فارسی پہلا پرچہ شمس العلما ء پروفیسر ہدایت حسین پریذیڈنسی کالج کلکتہ پروفیسر محمد شفیع اورئنٹل کالج لاہور دوسرا پرچہ ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ حافظ محمود شیرانی لیکچرار اردو اورئنٹل کالج لاہور قاضی فضل حق گورنمنت کالج لاہور تیسرا پرچہ قاضی فضل حق گورنمنٹ کالج لاہور پروفیسر محمد شفیع اورئنٹل کالج لاہور چوتھا پرچہ شمس العلماء پروفیسر ہدایت حسین پریذیڈنسی کالج کلکتہ قاضی فضل حق گورنمنٹ کالج لاہور پانچواں پرچہ ڈاکٹر محمد اقبال اورئنٹل کالج لاہور پروفیسر فدا علی خاں ڈھاکہ یورنیورسٹی ڈھاکہ چھٹا پرچہ ڈاکٹر محمد اقبال اورئنٹل کالج لاہور ڈاکٹر سر محمد اقبال ؒ ۳؎ بی اے فلاسفی (آنرز) پہلا پرچہ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن پروفیسر اے این بھاشین دیال سنگھ کالج لاہور دوسرا پرچہ ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ پروفیسر جی سی چٹر جی گورنمنٹ کالج لاہور ۱؎ پنجاب گزٹ ۱۹ جون ۱۹۳۱ء حصہ سوم الف صفحہ ۲۸۴‘۲۸۷ ۲؎ پنجاب گزٹ ۲۴ جولائی ۱۹۳۱ء حصہ سوم الف صفحہ ۳۴۱ ۳؎ پنجاب گزٹ ۴ جولائی ۱۹۳۱ء حصہ سوم ‘ الف‘ صفحہ ۳۴۲ تیسرا پرچہ پروفیسر ایم ایم شریف مسلم یونیورسٹی علی گڑھ پروفیسر لالہ بہادر مل ڈی اے وی کالج لاہور۱؎ ایم اے فلاسفی پہلا پرچہ ڈاکٹر گوپال سوامی پروفیسر سائیکالوجی میسور یونیورسٹی پروفیسر جی سی چٹرجی گورنمنٹ کالج لاہور دوسرا پرچہ پروفیسر ایم ایم شریف مسلم یونیورسٹی علی گڑھ پروفیسر محمد اسلم لاہور تیسر ا پرچہ ڈاکٹر ظفر الحسن مسلم یونیورسٹی علی گڑھ احمد حسین‘ گورنمنٹ کالج لاہور چوتھا پرچہ ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ پروفیسر جی سی چٹر جی گورنمنٹ کالج لاہور پانچواں پرچہ اینکے سین رجسٹرار دہلی یونیورسٹی ڈاکٹر ایس کے داس کلکتہ یونیورسٹی چھٹا پرچہ ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ پروفیسر جی سی چٹر جی گورنمنٹ کالج لاہور۲؎ یہ ہے تفصیل ان پرچہ جات کی جو اقبال نے صرف پنجاب یونیورسٹی کے مختلف امتحانات کے لیے سیٹ کیے اس کے علاوہ آپ الہ اباد یونیورسٹی علی گڑھ یونیورسٹی ‘ حیدر آباد دکن یونیورسٹی ‘ ناگپور یونیور سٹی اور دہلی یونیورسٹی کے ممتحن بھی رہے۔ نیز آپ ای اے سی (اکسٹر اسسٹنٹ کمشنر) اور سول سروس کے امتحانات کے ممتحن بھی رہے۔ اب ہم اقبال کے پرچے ھانچے کے طریق کار اور معیار کا ذکر کرتے ہیں۔ عبدالرشید طارق رقم طراز ہیں: ’’ اس سال انہوںنے قادیانی مذہب کے خلاف اپنا پہلا بیان دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پیر کا دن تھا اور مئی کی چھ تاریخ تھی چار کومیرا امتحان ختم ہوا جس سے فراغت حاصل کر کے اک گونہ آزادی اور سرور کااحساس ہو رہا تھا۔ میں نے کھانا کھایا اور ڈاکٹر صاحب کی کوٹھی کی راہ لی۔ شاید بارہ بجنے والے تھا کہ وہاں پہنچا۔ ۱؎ پنجاب گزٹ ۲۴ جولائی ۱۹۳۱ء حصہ سوم الف صفحہ ۳۴۹ ۲؎ پنجاب گزٹ ۲۴ جولائی ۱۹۳۱ء حصہ سوم الف صفحہ ۳۵۰ دل میں پہلے خیال آیاکہ بڑا ناموزوں سا وقت ہے شاید ڈاکٹر صاحب آرام فرما رہے ہوں یا فرمانے والے ہوں اور میں خواہ مخواہ مخل ہوں گا۔ مگر اس بارگاہ میں نا امیدی اور مایوسی مفقود ہے میں نے ذر ا ٹھٹک کر سامنے والے بڑے کمرے کی چق اٹھا کر دیکھا تو ڈاکٹر صاحب کائوچ پر بیٹھے کسی امتحان کے پرچے ملاحظہ فرمارہے تھے۔ میں نے سلا م کیا اور اجازت چاہی انہوں نے عینک میں سے دیکھا اور کہا کہ آئو بھئی طارق مجھے اس سے بے اندازہ خوشی ہوئی۔ میں جا کر دیوار سے لگی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا۔ مزاج پرسی پر کہنے لگے طبیعت اچھی ہے البتہ آواز ویسی ہی ہے۔ بھوپال پھر علاج کے لیے جائوں گا۔ اس اثنا میں وہ پرچے دیکھتے رہے بڑے غور سے ایک ایک لفظ پڑھتے جوابات پرکھتے پھر کہیں جا کر نمبر لگاتے ۱؎۔‘‘ اقبال ۱۹۰۰ء سے لے کر ۱۹۳۸ء تک ممتحن اعلیٰ اور ممتحن کی حیثیت سے مختلف یونیورسٹیوں کی خدمات انجام دیتے رہے۔ اب دیکھنا ی ہے کہ پرچے بنانے اور جانچنے کا انہیں کتنا معاوضہ ملتا تھا۔ خوش قسمتی سے ہمیں اس زمانے کی ادائیگی شرح کی تفصیل دستیاب ہو گئی ہے جو ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہے سینٹ پنجاب یونیورسٹی نے ۸ جون ۱۹۰۳ء کو نظر ثانی شدہ قواعد و شرح ادائیگی برائے تقرر فرائض و ادائیگی کا ایک نمبر ۱۹ ۱۸۸۲ء سیکشن ۲۰ کے تحت اعلان کیا۔ اس اعلان کے مطابق آرٹس و اورئنٹل فیکلٹی کے لیے شرح ادائیگی مندرجہ ذیل قرار پائی : نام امتحان پیپر سیٹنگ (پہلا) پیپر سیٹنگ (دوسرا) پرچہ جانچنے کی شرح پائی ۔ آنے ۔ روپے مڈل ۱۵ ۔ ۶۔۱۔۰ میٹرک ۲۰ ۱۰ ۰۔۴۔۰ ۰۔۶۔۰ انٹرمیڈیٹ ۴۰ ۲۰ ۰۔۱۲۔۰ بی اے ؍ بی او ایل ۶۰ ۳۰ ۰۔۰۔۱ ایم اے ؍ ایم او ایل ۸۰ ۔ ۰۔۰۔۲ ایف ای ایل ۷۵ ۔ ۰۔۸۔۱ ایل ایل بی ۱۰۰ ۔ ۰۔۸۔۲ ۲؎ اقبال کا گوشوارہ آمدنی دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ ۱۹۰۰ء سے لے کر ۱۹۲۰ء تک انہیں مختلف یونیورسٹیوں سے جو آمدنی ہوتی رہی ہے وہ اتنی نہ تھی کہ ان پر ٹیکس لگتا ۔ ۱۹۲۰ء کے بعد وکالت کتابوں کی رائلٹی اور پرچہ جات کی مجموعی آمدنی ٹیکس کے قابل تھی۔ ۱؎ مئے شبانہ از عبدالرشید طارق ماخوذ از ملفوظات اقبال صفحہ ۳۰۲‘۳۰۳ ۲؎ پنجاب گزٹ ۱۱جون ۱۹۰۳ء حصہ اول صفحہ ۵۲۲ تا ۵۲۴ صفدر محمو دلکھتے ہیں: ’’آپ نے محکمہ تعلیم سے استعفا دیا تو اس عرصے میں آپ کی آمدنی وکالت اور تنخواہ کی آمدنی وکالت اور تنخواہ پر مشتمل تھی۔ لیکن آپ کی انکم ٹککس فائل سے اس عرصے کے گوشوارے غائب ہیں۔ ویسے بھی وکالت کا ابھی آغاز ہوا تھا اس لیے ہو سکتا تھا کہ آپ کی آمدنی قابل ٹیکس نہ ہو کیونکہ اسمیدان میں پائوں جمانے کے لیے کافی عرصہ درکار ہوتا ہے۔ تنخواہ سے انکم ٹیکس حکومت خود ہی کاٹ لیتی ہے۔ بہرحال آپ کے فائل میں آمدنی کا سب سے پہلا گوشوارہ انکم ٹیکس سال ۱۸۔۱۹۱۷ء سے متعلق ہے جس میں مالی سال ۱۹۱۷۔۱۶ء کی آمدنی کی تشخیص کی گئی ہے‘‘ ۱؎ لیکن اس گوشوارہ آمدنی سے یہ معلوم نہیںہوتا کہ مختلف یونیورسٹیوں سے پرچوں کی ادائیگی کتنی ہوتی۔ ۲۲۔۱۹۲۱ء کے مالی سال میں پرچوں کی آمدنی سامنے آتی ہے: ’’مالی سال ۲۱۔۱۹۲۲ء سے آپ کو مختلف یونیورسٹیوں سے بہ حیثیت ممتحن کافی آمدنی ہونے لگی۔ یہ وہ واحد ذریعہ آمدنی تھا جو بڑی معقول صورت میں وفات تک جار ی رہا۔ اس مد پر نظر ڈالنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ آمدنی اچھی خاصی تنخواہ کے برابر تھی اور ظاہر ہے کہ پرچے بنانے اور دیکھنے کا کام اس تواتر سے کوئی کاہلآدمی نہیںکر سکتا۔ حتیٰ کہ اس دور میں بھی آپ انتہائی بیمار تھے یا سیاست میں جدوجہد مصروف تھے یا گول میز کانفرنس کے لیے انگلستان گئے تھے یونیورسٹیوں سے معقول آمدنی ہوئی جو ایک لحاظ سے آپ کے عملی مزاج کی غمازی کرتی ہے۔ بہرحال مالی سال ۲۱۔۱۹۲۰ء میںآپ کی کل آمدنی منفی پیشہ وارانہ اخراجات ۸۶۸۹ روپے تھی جس پر آپ کو ۸؍ ۲۷۱ روپے انکم ٹیکس ادا کرنا پڑٓ۔ اس میں سے وکالت کی آمدنی ۸۱۴۶ روپے تھی اور یونیورسٹیوں کی آمدنی ۱۴۶۷ روپے تھی ۲؎‘‘۔ ذیل میں ہم گوشوارہ پیش کرتے ہیں جس سے یہ بات بخوبی واضح ہو جائے گی کہ اقبالؒ کو وکالت سے کتنی آمدنی ہوئی اور انہوں نے بہ حیثیت ممتحن مختلف یونیورسٹیوں سے کتنا روپیہ کمایا۔ ۱؎ صحیفہ (اقبال نمبر حصہ اول) اکتوبر ۱۹۷۳ء صفحہ ۱۴‘۱۵ ۲؎ ایضاً صفحہ ۱۵‘ ۱۶ یونیورسٹیوں سے آمدنی وکالت سے آمدنی تشخیص شدہ آمدنی مالی سال ۱۴۸۹ ۹۸۸۰ ۱۰۰۸۴ ۲۲۔۱۹۲۱ء ۲۰۰۹ ۶۰۶۸ ۷۱۹۲ ۲۳۔۱۹۲۲ء ۲۲۷۶ ۷۲۶۰ ۱۳۶۰۸ ۲۴۔۱۹۲۳ء ۱۸۸۰ ۷۷۹۳ ۱۳۷۰۲ ۲۵۔۱۹۲۴ء ۲۳۱۳ ۴۰۱۶ ۵۳۳۸ ۲۶۔۱۹۲۵ء ۲۱۴۶ ۳۳۷۷ ۱۲۰۶۲ ۲۷۔۱۹۲۶ء ۲۹۷۲ ۲۲۸۶ ۹۳۹۲ ۲۸۔۱۹۲۷ء ۹۶۹ ۱۱۶۵۱ ۱۵۶۷۹ ۲۹۔۱۹۲۸ء ۱۵۶۲ ۸۰۶۲ ۱۳۴۱۰ ۳۰۔۱۹۲۹ء ۱۹۴۸ ۴۹۲۵ ۱۶۸۹۴ ۳۱۔۱۹۳۰ء ۱۴۵۲ ۱۶۰۰ ۳۷۵۶ ۳۲۔۱۹۳۱ء ۲۲۳۰ ۴۸۰ ۴۶۵۷ ۳۳۔۱۹۳۲ء ۱۸۰۰ ۴۱۵ ۴۱۰۶ ۳۴۔۱۹۳۳ ۱۳۷۵ ۔ ۷۸۶۰ ۳۶۔۱۹۳۵ء ۶۶۰ ۔ ۱۶۰۶۵ ۳۷۔۱۹۳۶ء ۹۴۹ ۔ ۸۰۶۲ ۳۸۔۱۹۳۷ئ۲؎ انکم ٹیکس فائل کی روشنی میںعلامہ اقبال کی زندگی پرنگاہ ڈالیں تو درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں جن سے قاری خود نتائج اخذ کر سکتا ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے ۱۷۔۱۹۱۶ء سے لے کر وفات تک کل ۹۸۸۴۶ روپے کمائے اور ۹۸۶۱ روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ اس آمدنی کا تجزیہ درج ذیل ہے: وکالت سے آمدنی کتابوں سے آمدنی یونیورسٹیوںسے آمدنی ۱۰۰۲۷۴ ۶۲۹۶۷ ۳۴۷۳۱ ۱؎ اقبال کا گوشوارہ آمدنی از صفدر محمود (صحیفہ اقبال نمبر ) صفحہ ۱۷ ۲؎ ایضاً صفحہ ۲۱ فائل میں صرف بائیس سال کا حساب موجود ہے جس میں آپ نے صرف انیس برسوں کی وکالت کی اور اس سے تقریباً ایک لاکھ روپے کمائے جنہیں موجودہ حالات میں چھ سات لاکھ روپے سمجھنا چاہیے ۔ اسی طرح کتابوں کی آمدنی اور یونیورسٹیوں کی آمدنی دیکھ کر یہ کہنا کہ آپ اچھے وکیل نہیں تھے صحیح نہیں ہو گا ۱؎۔ علامہ اقبال نے یونیورسٹی امتحانات کے پرچہ جات کے علاوہ سول سروس کے امتحانات کے پرچہ جات بھی مرتب فرمائے۔ حسن اتفاق سے ہمیں پانچ سال کے پرچہ جات مضمون نویسی کی تفصیل دستیاب ہو گئی ہے جو علامہ اقبال نے حیدر آباد سول سروس امتحان کے لیے مرتب فرماتے تھے۔ اس ضمن میں شیخ عطاء اللہ رقم طراز ہیں: ’’میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کے افکار کی نوعیت اور اہمیت کو سمجھنے کے لیے ان کا جاننا بھی سود مند ہے اور اب میں اپنے آپ کو رضامندنہیں کر پاتا کہ عقیدت مندان اقبال کو اقبال کے ذہن و روح کے ان ہنگاموں سے بے خبر رکھا جائے‘‘۔ مضامین حسب ذیل ہیں: ۱۔ مشرق میں جمہوریت کے لیے جدوجہد ۔ اس کی موجودہ کیفیت اور اس کا مستقبل۔ ۲۔ تاریخ بحیثیت ایک علم کے ۳۔ ادبی تنقید اور اس کے مقاصد ۴۔ اجتماعی زندگی میں صاحب فکر افراد کی اہمیت ۵۔ ہندی تہذیب اس کے سیاسی عناصر اور اس کا تاریخی ارتقاء ۶۔ افتراق مذہب و سیاست ۷۔ افغانوں اور مغلوں کی طاقت آزمائی ہندوستان میں ۸۔ عورت اور تمدن جدید ۹۔ صحیح انسانی تہذیب مادی اورروحانی علوم سے متشکل ہوتی ہے۔ ۱۰۔ میر انیس مرحوم ۱۱۔ فارسی ادبیات کا اثر اردو شعراء پر ۱۲۔ قومیت کا تصور زمانہ حاضرہ میں ۱۳۔ ممالک ایشیا سیاسی انقلاب اور اس کا مستقبل ۱۴۔ قدامت پرستی اور حیات اجتماعی کا ارتقاء ۱۵۔ طبعی اور مابعد الطبعی ۱۶۔ تصوف کی چاشنی اردو شعر میں ۱۷۔ تہذیب اقوام کے مادی اور نفسیاتی موثرات ۱؎ اقبال کا گوشوارہ آمدنی از صفدر محمود صحیفہ اقبال نمبر صفحہ ۲۲ ۱۸۔ مشرقی اقوام کو مغربی تہذیب کی تنقید کی ضرورت ہے اس کی تقلید کی ضرورت نہیں۔ ۱۹۔ شخصی امامت سیاسیات میں ۲۰۔ سرمایہ داری کا موجودہ نظام اور اس کے نتائج ۲۱۔ پھانسی کی سزا اڑا دینی چاہیے ۲۲۔ جیل خانوں کی اصلاح ۲۳۔ بولنے والی تصاویر اور ان کا اثر عام تمدن پر ۲۴۔ ہندوستان کے افلاس کے وجوہ ۲۵۔ اردو میں ڈرامہ کیوں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ۲۶۔ اگر سونا کیمیا وی طریق سے بن جائے۔ ۲۷۔ جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیںمذاق سخن نہیں ہے ۲۸۔ غزل ابتدائے شاعری بھی ہے اور انتہائے شاعری بھی۔ ۱؎ ۱؎ اقبال نامہ (حصہ دوم) مرتبہ شیخ عطاء اللہ مطبوعہ شیخ محمد اشرف لاہور ۱۹۵۱ء صفحہ ۱۱‘۱۲ ٭٭٭ گمشدہ اوراق اقبال محمد حنیف شاہد عالمگیر اسلامی کانفرنس مصر جناب گوہرعلی خاں آنریری سیکرٹری انجمن اسلامیہ پکھلی (ہزارہ ) نے مجوزہ عالمگیر اسلامی کانفرنس مصر کے بارے میں بعض نامور مسلمانوں کے ۱۹۰۹ء میں استمزاج کیا تھا کہ مصر میں ایک ایسی عالمگیر اسلامی کانفرنس کا انعقاد اور اس میں مسلمانوں ہند کی شرکت مناسب ہے یا نہیں؟ اس پر نوا ب وقار الملک مولوی مشتاق حسین شمس العلماء مولانا شبلی نعمانی خان بہادر میاں محمد شفیع مولوی محمد عزیز‘ مرزا اور علامہ اقبال نے ایسی کانفرنس کے انعقاد کی مصلحت اورخصوصاً اس میں شرکت سے احتراز کی اصلاح دی تھی اور بعض نے اس کی ضرورت اور شرکت کا مشورہ دیا تھا۔ اکابرین ملت کی یہ گراں قدرآرا اس وقت بوجوہ شائع نہ کی گئیں۔ ۱۹۱۵ء میں انقلا ب عالم کی مناسبت سے جناب گوہر علی خاں نے وہ خطوط شائع کردیے جن میں علامہ اقبا ل کا مندرجہ ذیل خط بھی شامل تھا۱؎۔ لاہور ۲۲ اگست ۱۹۱۰ء مہربان بندہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔ آپ کا نوازش نامہ ملا۔ ۳۱ جولائی ۱۹۰۸ء کے پیسہ اخبار میں جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا تھا اس کے متعلق مجھے کچھ یاد نہیں ہے آپ نے میری نسبت کیا تحریر فرمایا تھا۔ اخبار افغان بھی میری نظر سے نہیں گزرا۔ آپ کی ملامت میری سر آنکھوں پر۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ آپ کا جوش حمیت اسلامی اور خلوص نیت قابل تحسین ہے۔ اور میں اس ملامت کو غیروں کی تعریف سے بہتر تصور کرتا ہوں۔ یہ بات صحیح ہے کہ انگلستان سے واپس آنے کے بعد میں نے زیادہ تر اپنے مشاغل قانونی کی طرف توجہ رکھی ہے اور شاید مجھے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا کیونکہ کوئی شخص جو اپنی زندگی میں ناکام رہے اوروں کے کام نہیں آ سکتا تاہم ان نامساعد حالات میں بھی جو کچھ مجھ سے ہو سکا ہے۔ میں نے دریغ نہیں کیا۔ قومی خدمت کوئی آسان بات نہیں۔ افسوس ہے کہ آپ کو تمام حالات معلوم نہیں۔ کئی لوگوں نے ایسے ہی اعتراضات مجھ پر اور بعض لوگوں پر بھی کیے ہیں لیکن میں نے ان احباب کو معذور تصور کر کے کوئی جواب نہیں دیا۔ ۱؎ روزنامہ پیسہ اخبار ۲۱ جولائی ۱۹۱۵ (جلد ۱۳ نمبر ۸۶۶۲) صفحہ ۳ مصری کانفرنس کے بارے میں یہ عرض ہے کہ یہ تجویز مسلمانان عالم کی قومی اور معاشرتی اصلاح کی غرض سے دو سال پیشتر علامہ عصڑ نسکی ایک روسی اخبار نویس کی تحریک پر دنیائے اسلام کے سامنے پیش کی گئی تھی لیکن اس بحث کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد ٹرکی اور ایران میں انقلاب کے آثارنمایاں ہو گئے اور مسلمانوں کی توجہ اور طرف مبذول ہو گئی۔ ٹرکی کی حالت ابھی تک قابل اطمینان نہیں اور کچھ عجب نہیں کہ کوئی عظیم الشا ن تغیر اس ملک کی پھر ہو۔ ایران بھی انقلاب کے مرحلے سے نہیں گزر سکا۔ مراکو کی حالت سخت مخدوش ہے غرض کہ موجودہ حالات میں اسلامی دنیا پولیٹکل انقلابات سے آزاد نہیں پھرکیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ اس قسم کی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا۔ حال کے مصری اور ٹرکی اخباروں میں جہاں تک مجھے معلوم ہے ا ب اس پر کوئی لکھنے والا بحث نہیں کرتا۔ لیکن جو مقصد اس قسم کی کانفرنس سے پورا ہو وہ مکہ معظمہ کی سالانہ کانفرنس سے ہو سکتاہے افسوس ہے کہ مسلمان اس سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے ۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ وہ وقت قریب ہے کہ جب مسلمان اس رمز سے آگاہ ہوں گے جو فریضہ حج میں مختص ہے۔ عالمگیر اسلامی کانفرنس مصر کے میں مخالف نہیں ہوں بشرطیکہ اسلامی ملکوں کی پالیٹکس اس سے بالکل علیحدہ رہے اوراس کی تجاویز مسلمانوں کی سوشل اور مذہبی اصلاح تک محدود ہوں مجھے اندیشہ ہے کہ دنیا کی گورنمنٹیں ضرور اسے بدظنی کی نگاہ سے دیکھیں گی۔ میں اس قسم کی تجویز کا جس کا مقصد مسلمانوں کی بہتری ہو کس طرح مخالف ہو سکتا ہوں خصوصاً اس لحاظ سے بھی کہ ایسی کانفرنس ی تجویز اس روسی اخبار نویس کی تحریک سے کئی ماہ بیشتر خود میرے ذہن میں آ چکی تھی۔ اور میں نے لنڈن میں اپنے دوست شیخ عبدالقادر صاحب سے اس کا ذکر بھی کیا تھا۔ ایک عام معاشرتی اور تمدنی کانفرنس کے انعقا د سے مسلمانوں کو ضرور فائدہ ہو گا۔ اور قومیت کی ایک نئی روح ان میں پیدا ہو گی لیکن یہ کام مشکل ہے اور ا س کے سرانجام دینے کے لیے انتہا درجہ کے استقلال اورعاقبت اندیشی کی ضرورت ہے۔ عام لوگوں کو یہ تجویز نہایت دلفریب معلوم ہوتی ہے اور منتظموں کے قومی تخیلات اس سے تحریک میں آتے ہیں مگر وہ لوگ اس کی مشکلات سے آگاہ نہیں ہیں اور مسلمانان عالم کی موجودہ حالات کے تمام کوائف سے ان کی واقفیت نہیں ہے۔ بڑا سنبھل کر قدم رکھنا چاہیے اور جب تک ہم کو پورا یقین نہ ہو جائے کسی بدنتیجہ کے پیدا ہونے کا احتمال بھی نہیں ہے تب تک کوئی علی کام کرنا شاید مناسب نہ ہو گا۔ ہندوستان کے مسلمان شاید اور اسلامی ممالک کی حالت کا اندازہ صحیح نہیں لگا سکتے کیونکہ حکومت برطانیہ کے سبب سے جو امن و آزادی اس ملک کے لوگوں کو حاصل ہے وہ اور ممالک کو بھی نصیب نہیں ہے۔ بہرحال ابھی اس کانفرنس کے ہونے کا مجھے چنداں یقیں نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ دیگر اسلامی ممالک کی توجہ اور طرف ہے اور ان کی موجودہ حالت بھی اس کی متقاضی نہیں ہے۔ پان اسلامزم کا خوب بالکل بے معنی ہے اور فارانس کے چند احمق اخباروں کی ہرزہ سرائی کا نتیجہ ہے۔ مسلمانان عالم کسی ملک میں کوئی ایسی تحریک عام طور پر نہیں ہے جس کا منشا یورپ سے پولیٹکل مقابلہ کرنا ہو ایسا خیال ایک ایسی قو م میں پیدا ہو سکتا ہے مسلمانوں کو کلام الٰہی میں امن و صلح کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ پوشیدہ طور پر مشورہ کرنے کی بھی ممانعت ہے۔ اذاتنا جیتم فلاتنا جیتم بالاثم والعدوان ؎۱ آپ کا نیاز مند محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لاء لاہور ۱؎ روزنامہ پیسہ اخبار ۲۱ جولائی ۱۹۱۵ء (جلد ۱۳ نمبر ۸۶۶۲) صفحہ ۳ وائسرائے ہند کی خدمت میں سپاسنامہ علامہ اقبال نومبر ۱۹۱۰ء میں پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔ ہز ایکسیلنسی رائٹ آنریبل چارلس بیرن ہارڈنگ وائسرائے و گورنر جنر ل ہندوستان اور ان کی لیڈی ۳۰ مارچ ۱۹۱۱ء میں پنجاب میں وارد ہوئے اور ۳۱ مارچ ۱۹۱۱ء کو داراصدر لاہور میں قدم رنجہ فرمایا۔ لاہور میں آمد پر ۳ اپریل ۱۹۱۱ء کو ہز ایکسلینسی کا اول ضابطہ دربار قلعہ لاہور میں منعقد کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ یکم اپرل کی شام کو یونیورسٹی ہال لاہور میں ہز ایکسلنسی وائسرائے کی خدمت میں پنجاب میںپنجاب پراونشل مسلم لیگ کی جانب سے اڑتالیس اصحاب پر مشتمل ایک وفد پیش ہوا اورمندرجہ ذیل سپاس نامہ پیش کیا۔ اس وفد میں علامہ اقبا ل بھی شریک تھے آپ نے پنجاب کے دیگر زعما کے ہمراہ جو ایڈریس پیش کیا وہ یہ تھا: بگرامی خدمت: ہز ایکسلنسی دی رائٹ آنریبل چارلس بیرن ہارڈنگ آف پنشرسٹ پی سی جی سی بی جی ایم ایس آئی جی سی ایم جی جی ایم آئی ای جی سو وی رائو آئی ایس او وائسرائے و گورنر جنرل ہندوستان حضور عالی! ہم پراونشل مسلم لیگ پنجاب اور اس کی ۱۹ ڈسٹرکٹ برانچوں کے اراکین و عہدہ داران اس کی اجازت چاہتے ہیں کہ صوبہ ہذا کی اسلامی آبادی کی طرف سے یور ایکسلنسی کے او ل مرتبہ دارلامارۃ پنجاب میں تشریف لانے پر آپ کا نہایت مودبانہ و عقیدت مندانہ خیر مقدم کریں۔ اول وائیکونٹ ہارڈنگ آف لاہور فاتح مد کی و فیروز شہر کے پوتے کے لیے پانچ دریائوں کی سرزمین میں آنا ایسی باتوں سے لبریز ہونا چاہیے کہ جن کی یاد کرنے سے بہت بڑی مسرت کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ ۱۸۴۶ء کا مشہور عہد نامہ جس کے کوئی تین سال بعد اس سارے صوبہ کا الحاق ہو گیا پنجاب کی تاریخ می ایک بہتری کی سمت موڑنے والا موقع تھا۔ اسوقت سے ہمار ے صوبہ نے کوشش اور قومی پیش کش کے تمام میدانوں میں جو ترقی کی ہے وہ فی الحقیقت قابل غور ہی ہے اور اس شائستہ گورنمنٹ کی شکر گزاری کا جس کے ماتحت ہم امن و خوشحالی کی برکات اٹھا رہے ہیں۔ جو بار عظیم ہر پر ہے وہ کبھی ماسوائے ازیں پورے طورپر ادا نہیں کیا جا سکتا کہ ہم اس کی پائیداری و استقلال کی تائید میں ہر ایک قربانی اپنی طرف سے اٹھانے کے لیے ہندوستان کے لیے کلوص کے ساتھ تیار ہیں۔ ہم اس موقعہ سے یہ فائدہ اٹھانے کی جرات کرتے ہیں کہ یور ایکسلنسی کو جو ہندوستان میں ہمارے نہایت مہربان فرماں روا کے نائب ہیں اسلامی جماعت کی تاج برطانیہ کے ساتھ غیر متبدل وفاداری اور جاں نثاری کا یقین دلائیں ہم درحقیقت ایسی شاندار سلطنت کی شہریت پر متفخر ہیں۔ دنیا کی کسی دوسری مسلمان یا غیر مسلم سلطنت سے زیادہ مسلمانوں کو اپنی جان نثار رعایا میں محبسوب کرتی ہے۔ پنجاب کے اہل اسلام نے ہمیشہ اس کو اپنا ایک مقدس فرض سمجھا ہے کہ احکام کو امن و انتظام برقرار رکھنے میں پوری مدد کریں انہوںنے بار بار نہ صرف الفاظ بلکہ افعال و اعمال کے ذریعے سے برٹش مقصد کے ساتھ ساتھ اپنی تمام تر دلی عقیدت کا کافی ثبوت دیا ہے جب گزشتہ چند سال میں ہندوستان کا پولیٹکل مطلع اس صوبہ میں بی سیڈیشن اور بے چینی کے بادلوں سے مکدر ہو رہا تھا۔ مسلمانوں نے کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی اپنی برٹش گورنمنٹ کی مستحکم عقیدت میں پس و پیش نہیں کیا۔ ہز مجسٹی کی رعایا کے دوسرے فرقوں کے ساتھ جو مسلمان بھی گورنمنٹ کے تہ دل سے ا علیٰ پولیٹکل مراعات کے واسطے جو کہ عظیم الشان اصلاحی سکیم کے متعلق (جو حال میں اس ملک میں جاری کی گئی ہے) نگہداشت کے لیے مسلمانان ہندوستان کو علیحدہ قائم مقامی کے وہ قیمتی حقوق امپرئیل اورپراونشل کونسلوں میں عطا فرمائے اورہم یہ دیکھ کر نہایت خوش ہوتے ہیں کہ یور ایکسلنسی کی گورنمنٹ نے حال ہی میں ایک موقعہ پر اس عہد کی تجدید کی ہے کہ جو اس وقت انہیں عطا کیا گیا تھا۔ ہم حضور کو یقین دلاتے ہیں کہ اس فیاضانہ اظہار سے تمام مسلمانان ہندوستان کی بے اندازہ شکر گزاری یور ایکسلنسی کی گورنمنٹ کے لیے ٗحاصل کر لی ہے اور مسلسل انگریزی حکمت عملی اور برٹش کے ناقابل شکست وعدوں کی نمایاں اور مستحکم ثبوت بہم پہنچا دیا ہے۔ جو کہ اس چٹان کو بناتے ہیں کہ جس پر کہ حکومت برطانیہ کے شاندار ایوان کی بنیاد قائم ہے ہم اس موقعہ پر ایک بار پھر اپنی دلی نفرت کا اظہار ان انارکسٹوں کی کارروائیوں پر کرتے ہیں جنہوں نے گزشتہ سلوں میں اہل ہند کی بے عیب نیک نامی پر ایک بدصورت داغ لگا دیا ہے۔ اور بنظر انارکسٹارنہ جرائم کے پھر پھوٹ پڑنے کا جیسا کہ کلکتہ میں حال ہی کے جرائم سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہم اپنا قومی فرض سمجھتے ہیں کہ اس شرمناک تحریک پر اپنی زور دار ناراضگی کا اظہار کریں کہ جس کا نتیجہ خوفناک جرائم ہیںَ اس کے ساتھ ہی ہم اس بہتری پر اظہار مسرت کرتے ہیں کہ جو پولیٹکل مطلع پر نمایاں ہے اوران گاہ بگاہ نمودار ہونے والے جرائم کو محض بعض محدود حلقوں کے دماغی نقص پر محمول کرتے ہیں اور بھروسہ کرتے ہیں کہ گورنمنٹ استقلال اور استحکام سے اس مضبوط اور فیاضانہ پالیسی پر عمل کرے گی جس کی بدولت اس قدر بہتری حاصل ہوئی ہے۔ ہم اس موقعہ پر یور ایکسلنسی کو یقین دلاتے ہیں کہ مسلمانان ہند زمانہ موجودہ کی ضروریات کو بخوبی سمجھتے ہیں اورنہ صرف اپنے آ پ کو حالات موجودہ کے مطابق بنانے بلکہ ان بے انتہا ذرائع سے فائدہ اٹھانے کی حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں جو ایک روشن خیال گورنمنٹ نے اس غرج سے ان کی رسائی میں رکھے ہیں کہ وہ ان مختلف اقوا م میں اپنی جگہ حاصل کر سکیں جو برطانیہ ککلاں کی سلطنت ہند کے وسیع علاقوں میں آباد ہیں اپنے عظیم رہبر سر سید احمد خان مرحوم کے بگل کی آواز سے خبردار ہو کر کہ وہ سالہائے گزشتہ سے یہ بات محسوس کر چکے ہیں کہ ان کی قوم میں از سر نو زندگی پیدا ہونے کا دارومدار ان کے زمانہ حال کے علوم و فنون سیکھنے پر ہے۔ ان کے اس اعتقا د کا اظہار نہایت عجیب طور پر اس جوش اور یگانگت کی بدولت ہوا ہے جس کے ساتھ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہرطبقے کے مسلمانوں نے محمڈن یونیورسٹی کے قیام کی تحریک میں بھروسہ لیا ہے۔ ہمارے اپنے صوبہ میں بعض بڑے بڑے اضلاع کے اندر اسلامیہ ہائی سکولوں اور خاص کر لاہور میں ایک ایم اے تک تعلیم دینے والے آرٹس کالج کے قیام سے اس سنجیدگی کا پورا پورا ثبوت ملتاہے جس کے ساتھ ہماری قوم اپنی تعلیمی ضروریات پورا کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ اس صوبے کے دارالخلافہ میںیور ایکسلنسی کے پہلی مرتبہ نزول اجلال فرمانے کے موقع پر خلوص دل سے خوش آمدید کہتے ہوئے ہم اس وقت نامناسب خیال کرتے ہیں کہ اپنی قو م کی مختلف ضروریات پیش کریں یا ان دقتوں کا ذکر کریں جن کا کام کرتے ہوئے ہمیں مقابلہ کرنا پڑتاہے۔ یور ایکسلنسی کی اجازت سے ہم یہ باتیں کسی اور مناسب موقعہ پر ملتوی کرتے ہیں جبکہ انہیں مناسب ذرائع سے پیش کیا جائے گا۔ اپنی قوم کی طرف سے ہم حضور کی بیگم صاحبہ کا بادب خیر مقدم کرنے کی اجاز ت چاہتے ہیں او ر یقین کرتے ہیں کہ ہز ایکسلنسی کی سرپرستی میں وہ بہت سے فیاضانہ کام جن کی ہز ایکسلنسی صدر ہیں اس ملک کی عورتوں کے لیے عظیم برکتوں کا منبع ثابت ہوتے رہیں گے۔ آخیرمیں ہم ایک بار مسلمانان پنجاب کی طرف سے یور ایکسلنسی کی تشریف آوری لاہور کے موقعہ پر تہہ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ اور صدق دل سے امید کرتے ہیں کہ یور ایکسلنسی کا عہد حکومت ہز مجسٹی کی ہندی رعایا کے لیے بے شمار برکات کا موجب ثابت ہو گا اور اس نا کو جو پہلے ہی سے سلطنت برطانیہ کے تذکروں میں مشہور و معروف ہے اور بھی چار چاند لگانے میں کامیاب ہو گا۱؎۔ ہم ہیں یور ایکسلنسی کے نہایت ادنیٰ اور وفادار خادم لاہور ۳۱ مارچ ۱۹۱۱ء ٭٭٭ اس وفد میں پنجاب بھر کے قریباً تمام سر بر آوردہ بزرگ شامل تھے۔ ان اکابر کے نام پیش کیے جاتے ہیں: ۱۔ نواب فتح علی خاں صدر پنجاب پراونشل مسلم لیگ و نائب صدر آل انڈیا مسلم لیگ۔ ۲۔ خان ذوالفقار علی خان رکن امپیریل کونسل و نائب صدر پنجاب پراونشل مسلم لیگ و نائب صدر آل انڈیا مسلم لیگ۔ ۳۔ ملک عمر حیات خاں رکن امپیریل کونسل و نائب صدر پنجاب پراونشل مسلم لیگ۔ ۴۔ نواب بہرام خاں رکن پنجاب لیجسلیٹو کونسل۔ ۵۔ ملک مبارز خاں رکن پنجاب لیجسلیٹو کونسل و نائب صدر پنجاب پراونشل مسلم لیگ۔ ۶۔ خواجہ یوسف شاہ رکن پنجاب لیجسلیٹو کونسل و نائب صدر پنجاب پراونشل مسلم لیگ۔ ۷۔ سیٹھ آدم جی مامون جی‘ رکن پنجاب لیجسلیٹو کونسل نائب صدر پنجاب پراونشل مسلم لیگ و صدر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ راولپنڈی۔ ۱؎ روزنامہ پیسہ اخبار ۳ اپریل ۱۹۱۱ء صفحہ ۳ ۸۔ سید مہدی شاہ رکن پنجاب لیجسلیٹو کونسل و صدر انجمن اسلامیہ۔ ۹۔ نواب ابراہم علی خاں نائب صر پنجاب پراونشل مسلم لیگ۔ ۱۰۔ خان بہادر سردا ر محمد علی خاں نائب صدر پنجاب پراونشل مسلم لیگ ۱۱۔ خان بہادر احمد شاہ نائب صدر پنجاب پراونشل مسلم لیگ و صدر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ جالندھر ۱۲۔ نواب سیف اللہ خاں صدر مسلم لیگ ۱۳۔ خان بہادر شیخ غلام صادق رکن ایگزیکٹو کمیٹی پنجاب پراونشل مسلم لیگ و نائب صدر انجمن اسلامیہ امرتسر ۱۴۔ میا ں نظام الدین رکن ایگزیکٹو کمیٹی پنجاب پراونشل مسلم لیگ و نائب صدر انجمن حمایت اسلام ۱۵۔ مولوی محبوب عالم جائنٹ سیکرٹری پنجاب پراونشل مسلم لیگ و ایڈیٹر روزنامہ پیسہ اخبار لاہور ۱۶۔ شیخ عبدالعزیز جائنٹ سیکرٹری پنجاب پراونشل مسلم لیگ سیکرٹری انجمن حمایت اسلام لاہور و ایڈیٹر اخبار آبزرور لاہور۔ ۱۷۔ مرزا جلال الدین بیرسٹر ایٹ لاء اسسٹنٹ سیکرٹری پنجاب پراونشل مسلم لیگ و جائنٹ سیکرٹری اسلام کلب لاہور۔ ۱۸۔ خان بہادر شیخ ریاض حسین ملتان۔ ۱۹۔ خان بہادر شیخ الہ بخش رکن ایگزیکٹو کمیٹی پنجاب پراونشل مسلم لیگ۔ ۲۰۔ خان بہادر سید حسن بخش گردیزی ملتان۔ ۲۱۔ خان بہادر شیخ محمد بخش رکن ایگزیکٹو کمیٹی پنجاب پراونشل مسلم لیگ۔ ۲۲۔ شیخ عبدالحق صدر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ ملتان ۲۳۔ مولوی محمد حسن صدر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ لدھیانہ ۲۴۔ شیخ عبدالقادر بیرسٹر ایٹ لاء ایڈیٹر مخزن جائنٹ سیکرٹری اسلام کلب لاہور و ٹر سٹی محمڈن کالج علی گڑھ ۲۵۔ راجہ اکرام اللہ خان صدر انجمن اسلامیہ وزیر آباد۔ ۲۶۔ میاں محمد شاہنواز بیرسٹر ایٹ لاء رکن ایگزیکٹو کمیٹی نجاب پراونشل مسلم لیگ۔ ۲۷۔ میاں احسا ن الحق بیرسٹر ایٹ لا سیکرٹری ڈسٹرکٹ مسلم لیگ جالندھر و ٹرسٹی محمڈن کالج علی گڑھ۔ ۲۸۔ شیخ محمد نقی رکن ایگزیکٹو کمیٹی پنجاب پراونشل مسلم لیگ۔ ۳۰۔ خواجہ گل محمد صدر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ فیروز پور۔ ۳۱۔ آغا محمد باقر خاں صدر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ سیالکوٹ ۳۲۔ چودھری کرم الٰہی صدر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ گوجرانوالہ ۳۳۔ مرزا اعجاز حسین صدر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ انبالہ۔ ۳۴۔ میاں عبدالعزیز بیرسٹر ایٹ لاء سیکرٹری انجمن اسلامیہ ہوشیار پور ۳۵۔ چودھری شہاب الدین رکن ایگزیکٹو کونسل پنجاب پراونشل مسلم لیگ ۳۶۔ میر حبیب اللہ خاں رکن ایگزیکٹو کونسل پنجاب پراونشل مسلم لیگ (امرتسر) ۳۷۔ چودھری سلطان محمد خان بیرسٹر ایٹ لاء سیکرٹری ڈسٹرکٹ مسلم لیگ سیالکوٹ ۳۸۔ خواجہ کمال الدین رکن ایگزیکٹو کمیٹی پنجاب پراونشل مسلم لیگ (لاہور) ۳۹۔ قاضی سراج الدین احمد بیرسٹر ایٹ لاء سیکرٹری ڈسٹرکٹ مسلم لیگ راولپنڈی ۴۰۔ ملک محمد ا مین جاگیردار (اٹک) ۴۱۔ مولوی انشاء اللہ خاں رکن ایگزیکٹو کمیٹی پنجاب پراونشل مسلم لیگ و ایڈیٹر اخبا ر وطن ۴۲۔ مولوی احمد الدین پیڈر رکن ایگزیکٹو کمیٹی پراونشل مسلم لیگ۔ ۴۳۔ مولوی عبدالقادر پلیڈر رکن ایگزیکٹو کمیٹی پنجاب پراونشل مسلم لیگ و سیکرٹری انجمن اسلامیہ قصور ۴۴۔ مولوی عبدالحق پلیڈر و سیکرٹری ڈسٹرکٹ مسلم لیگ گوجرانوالہ ۴۵۔ رشید احمد بیرسٹر ایٹ لاء ۴۶۔ میاں فیض محی الدین رکن ایگزیکٹو کمیٹی پنجاب پراونشل مسلم لیگ و نائب صدر انجمن اسلامیہ بٹالہ۔ ۴۷۔ خان بہادر میاں محمد شفیع بیرسٹر ایٹ لاء رکن پنجاب لیجسلیٹو کونسل جنرل سیکرٹری پنجاب پراونشل مسلم لیگ نائب صدر آل انڈیا مسلم لیگ سنڈ ک محمڈن کالج علی گڑھ چئیرمین اسلامیہ کالج کمیٹی صدر نیگ میز محمڈن ایسوسی ایشن و مربی اسلام کلب لاہور ۱؎۔ ٭٭٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فن شعر کے مبصر کی حیثیت میں علامہ اقبال کا معرکتہ الآرا اور حقیقت افروز مضمون روزنامہ ستارہ صبح کے پہلے شمارے میں (جلد نمبر ۱ نمبر ۱) میں ۸ اگست ۱۹۱۷ء کو شائع ہوا۔ یہ اخبار مولانا ظفر علی خان کی ادارت میں لاہور سے چھپتا تھا۔ ٭٭٭ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد کی عربی شاعری کی نسبت وقتاً فوقتاً جن ناقدانہ خیالات کا اظہار فرمایا ان کی روشنی صفحات تاریخ کے لیے خط پاشان کا حکم رکھتی ہے لیکن دو موقعو پر جو تنقید ات آپ نے ارشاد فرمائیں ان سے مسلمانان ہند کو آج کل کے زمانہ میں بہت بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ۱؎ روزنامہ پیسہ اخبار لاہور ۴ اپریل ۱۹۱۱ء صفحہ ۶ اس لیے کہ ان کا ادب ان کے قومی انحطاط کے دور کا نتیجہ ہے ۔ اور آج کل انہیں ایک نئے ادبی نصب العین کی تلاش ہے۔ شاعری کیسی ہونی چاہیے اور کیسی نہ ہونی چاہیے۔ وہ عقدہ ہے جسے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے وجدان نے اس طرح حل کیا ہے۔ امرا القیس ۱؎ نے اسلام سے چالیس سال پہلے کا زمانہ ایا ہے روایت ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نسبت ایک موقع پر حسب ذیل رائے ظاہر فرمائی: الشعر الشعراء وقاید ھم الی النار یعنی وہ شاعرو ں کا سرتاج تو ہے ہی لیکن جہنم کے مرحلہ میں ان کا سپہ سالار بھی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امر اء القیس کی شاعری میں وہ کون سی باتیں ہیں جنہوں نے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ رائے ظاہر کرائی۔ امراء القیس کے دیوان پرجب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں شراب ارغوانی کے دور عشق و حسن کی ہوش ربا داستانوں اور جاں گداز جذبوں آندھیوں سے اڑی ہوئی پرانی بستیوں کے کھنڈروں کے مرثیوں سنسان ریتلے ویرانوں کے دل ہلا دینے والے منظروں کی تصویریں نظر آتی ہیں اوریہی عرب کے دور جاہلیت کی کل تخیلی کائنات ہے امراء القیس قوت ارادی کو جنبش میںلانے کے بجائے اپنے سامعین کے تخیل پرجادو کے ڈورے ڈالتا ہے۔ اور ان میں بجائے ہوشیاری کے بیخودی کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپن حکیمانہ تنقید میں فنون لطیفہ کے اس اہم اصول کی توضیح فرمای ہے کہ صنائع و بدائع کے محاسن اور انسانی زندگی کے محاسن میں کوئی ضروری نہیں کہ یہ دونوں ایک ہی ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ شاعر بہت اچھا شعر کہے لیکن وہی اچھا شعر پڑھنے والے کو اعلی علیین کی سیر کرانے کے بجائے اسفل السافلین کا تماشا دکھا دے۔ شاعری دراصل ساحری ہے او ر اس شاعر پر حیف ہے جو قومی زندگی کے مشکلات و امتحانات میں دل فریبی کی شان پیدا کرنے کے بجائے وہ فرسودگی اور انحطاط کی صحت اور قوت کی تصویر بنا کر دکھائے اور اس طور پر اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جائے۔ اس کافرض ہے کہ قدرت کی لازوال دولتوں میں سے زندگی اور قوت کا جو حصہ اسے دکھایا گیا ہے اس میں اوروں کو بھی شریک کر ے نہ یہ کہ اٹھائی گیر بن کر جو رہی سہی پونجی ان کے پاس ہے اس کو بھی ہتھیا لے۔ (۲) ایک دفعہ قبیلہ بنو عبس ۲؎ کے مشہور شاعری عنترہ کا یہ شعر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوسنایا گیا: ولقد ابیت علی الطوی واظلہ حتیٰ نال بہ کریم الماکل میں نے بہت سی راتیں محنت و مشقت میں بسر کی ہیں تاکہ میں اکل حلال کے قابل ہو سکوں۔ ۱؎ ملاحظہ ہو تاریخ ادب عربی از احمد حسن زیات شائع کردہ شیخ غلام علی اینڈ سنز ۱۹۶۱ء صفحہ ۱۰۲‘۱۰۳ ۲؎ ملاحظہ ہو تاریخ ادب عربی از احمد حسن زیات شائع کردہ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ۱۹۶۱ء صفحہ ۱۱۸ تا ۱۲۰‘ ۱۲۳ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کی بعثت کا مقصد وحید یہ تھا کہ انسانی زندگی کو شان دار بنائیں اور ا س کی آزمائشوں اور سختیوں کو خوش آئند و مطبوع کر کے دکھائیں اس شعر کو سن کر بے انتہا محظوظ ہوئے اور اپنے صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’کسی عرب کی تعریف نے میرے دل میں اس کا شوق ملاقات نہیں پیدا کیا لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اس شعر کے نگارندہ کے دیکھنے کو میرا دل بے اختیار چاہتا ہے‘‘۔ اللہ اکبر! توحید کا وہ فرزند اعظم صلی اللہ علیہ وسلم جس کے چہرہ مبارک پر ایک نظر ڈال لینا نظارگیوں کے لیے دنیوی برکت اور اخروی نجات کی دو گونہ سرمایہ اندوزی کا ذریعہ تھا خود ایک بت پرست عرب سے ملنے کا شوق ظاہر کرتا ہے۔ کہ اس عرب نے اپنے شعر میں اس کی گوں کی بات کہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عزت عنترہ کو بخشی اس کی وجہ ظاہرہے عنترہ کا شعر ایک صحت بخش زندگی کی جیتی جاگتی بولتی چالتی تصویر ہے۔ حلال کی کمائی میں انسان کو جو سختیاں اٹھائی پڑتی ہیں جوکڑیاںجھیلنی پڑتی ہیں ان ا نقش پردہ خیال پر شاعر نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ کھینچا ہے حضور خواجہ دو جہاں بابی انت و امی نے جو قدر اس شعر کی فرمائی ہے اس سے صنعت کے ایک دوسرے بڑے اصول کی شورح ہوتی ہے۔ کہ صنعت حیات انسانی کی تابع ہے اس پر فوقیت نہیں رکھتی۔ ہر و ہ استعداد جو مبد فیاض نے فطرت انسانی میں ودیعت کی ہے اور ہر وہ توانائی جو انسان کے دل و دماغ کو بخشی ہے ایک مقصد وحید اور ایک غائب الغایات کے لیے وقف ہے یعنی قومی زندگی جو زندگی آفتاب بن کر چمکے قوت سے لبریز ہو جوش سے سرشار ہو‘ ہر انسانی صنعت اس غایت آخریں کی تابع اور مطیع ہونی چاہیے۔ اور ہر شے کی قدر و قیمت کا معیار یہی ہونا چاہیے کہ اس میں ھیات بخشی کی قابلیت کس قدر ہے۔ تمام وہ باتیں جن کی وجہ سے ہم جاگتے جاگتے اونگھتے اونگھنے لگیں اورجو جیتی جاگتی حقیقتیں ہمارے گرد و پیش موجود ہیں (کہ انہیں پر غلبہ پانے کا نام زندگی ہے) ان کی طرف سے آنکھوں پر پٹی باندھ لیں انحطاط اور موت کا پیغام ہیں‘ صنعت گر کو چنبابیگم کے حلقہ عشاق میں داخل نہ ہونا چاہیے۔ مصور فطرت کو اپنی رنگا رنگ نگار آرائیوں کا اعجاز دکھانے کے لیے افیون کی چسکی سے احتراز و اجب ہے۔ یہ پیش پا افتادہ فقرہ جس سے ہمارے کانوں کی آئے دن تک تواضع کی جاتی ہے کہ کمال صنعت اپنی غایت آپ ہے انفرادی و اجتماعی انحطاط کا ایک عیارانہ حیلہ ہے جو اس کے لیے تراشا گیا ہے کہ ہم سے زندگی اور قوت دھوکا دے کر چھین لی جائے۔ غرض یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجدان حقیقی نے عنترہ کے شعر کی خوبیوں کا جو اعتراف کیا اس نے اصل الاصول کی بنیاد ڈال دی کہ صنعت کے ہر کمال کی صحیح شان ارتقاء کیا ہونی چاہیے۔ ٭٭٭ سوامی شردھا نند کا قتل سوامی شردھاند کے قتل کے سلسلے میں ہندو رہنمائوں او ر اخباروں مثلاً تاپ ‘ملاپ وغیرہ نے مسلمانوں پر من حیث القوم او رمذہب اسلام پر حملے کرنا شروع کیے اوراشتعال انگیز تحریر و تفریر کا سلسلہ جا ری کر دیا۔ اس کے خلاف پوری قوت سے احتجاج کرنے کے لیے ۲۲ جنوری ۱۹۲۷ء کو علامہ اقبال کی صدارت میں مسلمانان لاہور کا ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہونا قرار پایا۔ اس جلسہ میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے دیگر بائیس اکابر ملت کے ہمراہ علامہ اقبال نے یہ اعلان جاری فرمایا۔ اس اعلان پر حسب ذیل زعما کے دستخط ثبت تھے: ۱۔ خان سعادت علی خان جنرل سیکرٹری انجمن اسلامیہ لاہور۔ ۲۔ سید محسن شاہ وکیل سیکرٹری انجمن اسلامیہ لاہور۔ ۳۔ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ جنرل سیکرٹری انجمن اشاعت اسلام لاہور۔ ۴۔ ماسٹر فقیر اللہ سیکرٹری احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور۔ ۵۔ مولوی غلام محی الدین وکیل سیکرٹری انجمن حمایت اسلام لاہور ۶۔ پیر تاج الدین جنرل سکرٹری مسلم لیگ۔ ۷۔ فضل الدین تاجر سیکرٹری انجمن اہل حدیث ۸۔ مولانا ظفر علی خاں ایڈیٹر زمیندار ۹۔ مولوی محمد دین ایڈیٹر کشمیری میگزین شیرانوالہ دروازہ لاہور۔ ۱۰ مولوی محبوب عالم ایڈیٹر پیسہ اخبار لاہور ۱۱۔ مولوی سید ممتا زعلی ایڈیٹر تہذیب نسواں ریلوے روڈ لاہور۔ ۱۲۔ منشی دین محمد ایڈیٹر میونسپل گزٹ لاہور ۱۳۔ مولوی مصطفیٰ خاں ایڈیٹر میونسپل گزٹ لاہور ۱۴۔ شیخ عظیم اللہ وکیل ۱۵۔ خواجہ فیروز الدین بیرسٹرا یٹ لاء ۱۶۔ ملک برکت علی وکیل مزنگ روڈ لاہور ۱۷۔ ملک محمد امین وکیل ۱۸۔ شیخ محمد دین جان وکیل ۱۹۔ شیخ نیاز محمد وکیل ۲۰۔ مولوی عبداللہ جمعیت دعوت تبلیغ ۲۱۔ شمس العلماء مولانا سید علی الحائری ۲۲۔ مولانا احمد علی شیرانوالہ دروازہ لاہور اس جلسے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ تمام فرقوں کے مسلمان اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر کفر کے مقابلے میں اسلام کی عزت کی حمایت کے لیے دو ش بدوش شریک ہونے کے لیے تیار تھے ۔ ان میں دیو بندی ‘ حنفی‘ حزب الاحنافی‘ شیعہ ‘ احمدی‘ اہل حدیث ‘ سب شامل تھے۔ ’’بعض آریہ سماج کے اخبارات مثلاً پرتاپ ‘ ملاپ نے مسلمانوں اور ان کے مذہب کے خلاف جو حقارت آمیز و خطرناک پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے۔ اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے مسلمانان لاہور کا ایک جلسہ عام بصدارت جناب ڈاکٹر سر محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لاء لاہور ممبر لیجسلیٹو کونسل بروز شنبہ سنیچر بتاریخ ۲۲ جنوری ۱۹۲۷ء بعد از نماز مغرب باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں ہونا قرار پایا ہے۔ امید ہے کہ ہر طبقہ کے مسلمان اس اہم جلسہ میں شامل ہو کر اپنے قومی فرض سے سبکدوش ہوں گے‘‘۔ ۱؎ ٭٭٭ فرقہ وارانہ تعصب تحریک خلافت اور ترک موالات کی ناکامی کے ساتھ ملک بھر میں فرقہ وارانہ تعصب اور فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ لاہور میں بھی وسیع پیمانے پر ہنگامے ہوئے اور لاتعداد نہتے اور بے گناہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ مظلومین کی امداد کے لیے مسلم ریلیف فنڈ کمیٹی قائم کی گئی۔ مخیر اور اسلامی حمیت رکھنے والے مسلمانوں نے دل کھول کر عطیے دیے۔ ملک محمد حسین کو سرکار کی طرف سے خان بہادر کا خطاب ملنے پر ککے زئی برادری نے انہیں پارٹی دینے کے لیے ایک ہزار روپے کی خطیر رقم جمع کی۔ ملک صاحب کے ایما پر یہ رقم مسل ریلیف فنڈ کمیٹی کو بھیج دی گئی۔ ملک صاحب کے اس قابل تقلید ایثار سے متاثر ہو کر علامہ اقبال نے حسب ذیل مکتوب ۲؎ ایڈیٹر کے نام تحریر فرمایا: بخدمت جناب ایڈیٹر صاحب زمیندار السلام علیکم مسلمانان لاہور کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ آج ککے زئی برادری کی طرف سے مبلغ ایک ہزار روپیہ مسلم ریلیف فنڈ کمیٹی کو عطا کیا گیا ہے۔ یہ روپیہ برادری مذکور نے خان بہادر ملک محمد حسین صاحب پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی لاہور کو حکومت کی طرف سے خطا ب ملنے کے موقع پر ان کی دعوت کے لیے جمع کیا تھا۔ میں اہل لاہور کی طرف سے ملک صاحب موصوف اور ان کی برادری کو اس بلند ہمتی پر مبارکباد دیتا ہوں۔ ۱؎ روزنامہ زمیندار ۲۳ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۶ ۲؎ روزنامہ زمیندار لاہور ۳۱ مئی ۱۹۲۷ء صفحہ ۴ اور ان کا شکریہ اداکرتا ہوں کہ انہوںنے مسلمانان لاہور کی فوری ضروریات کو مقد م سمجھا اور سب نے بالاتفاق یہ فیصلہ کیا کہ یہ رقم خطیر اعانت مجروحین و مظلومین کے لیے دے دی جائے۔ اس روپیہ کو پہلی قسط تصور کرنا چاہیے۔ ملک صاحب کے وارڈ میں الگ چندہ جمع ہو رہا ہے جو عنقریب وصول ہو گا۔ اللہ احسن الجزا ڈاکٹر سر محمد اقبال ٭٭٭ مسلمانان اندور کی اعانت ۱۹۲۷ء میں مسلمانان اندور کی اعانت کے لیے مسلم ریلیف کمیٹی کا قیام عمل میں آیا ملک کے مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر اپنے مظلوم بھائیوں کی امداد کی ۔ یہی نہیں بیرون ملک سے بھی مسلمانوں نے اندور کے مسلمانوں کے لیے رقوم بھیجیں۔ ایسی ہی دورقوم آبادان (ایران) کے ہندی مسلمانوں نے علامہ اقبال کی معرفت ارسال کیں جو انہوں نے حبیب دار خاں جائنٹ سیکرٹری مسلم ریلیف فنڈ کمیٹی اندور کو بھجوا دی۔ مندرجہ ذیل خط ۱؎ علامہ اقبال نے اسی ضمن میں ایڈیٹر زمیندار کے نام ارسال فرمایا جس میں تحریر فرمایا: لاہور ۲۷ اکتوبر ۱۹۲۷ء مکرمی جناب ایڈیٹر صاحب زمیندار السلام علیکم ۔ آبادان (ایران) کے ہندی مسلمانوں نے جو رقوم میری معرفت اندور کے مسلمانوں کی اعانت کے لیے ارسال کی تھیں وہ ان کو پہنچ گئی ہیں اور باقاعدہ رسیدیں مسلم ریلیف کمیٹی اندور کی طرف سے موصول ہو گئی ہیں اور ساتھ ہی ایک خط میں حبیب دار خاں صاحب جائنٹ سیکرٹری ریلیف کمیٹی کی طرف سے موصول ہوا ہے جس میں مندرجہ ذیل اقتباس اپنے اخبار کے سنڈے ایڈیشن میں چھاپ کر ممنون فرمائیں۔ مورخہ ۴ اکتوبر و ۲۰ اکتوبر کو مبلغ تین سو اور ڈھائی سو روپیہ کی دو رجسٹریاں یکے بعد دیگرے موصول ہوئیں… یہ دونوں رجسٹریاں ایسے آڑے وقت پر پہنچی ہیں کہ کمیٹی کو ایک پیسہ بھی مہیا کرنا محال تھا۔ اس امداد غیبی کے پہنچنے پر جو خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے لیکن ان تمام مسرتوں سے زائد جس شے نے د ل کو قوی کیا وہ یہ تھی کہ اب بھی مسلمانوں میں اسلامی حمیت باقی ہے جو کوسوں دور بیٹھے ہوئے اپنے مظلوم بھائیوںکی حالت زار کو فراموش نہیںکرتے۔ خداوند کریم ہمارے آبادان کے بھائیوں کو آباد شاد رکھے اور انہیں جزائے خیر عطا فرمائے‘‘۔ رسیدات منسلک ہذا ہیں۔ ہم جناب سے ملتجی ہیں کہ جناب ہماری جانب سے ایک شکریہ کا خط ان بھائیوں کے نام ضرور تحریرفرمائیں۔ مخلص (سر) محمد اقبال ۱؎ روزنامہ زمیندار ۶ نومبر ۱۹۲۷ء صفحہ ۵ چندہ کے لیے اپیل علامہ اقبال نے سر میاں محمد شفیع‘ شیخ سر عبدالقادر اور خان بہادر شیخ امیر علی‘ خان بہادر شیخ انعام علی اور مولوی فضل دین کے ہمراہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے چوالسیویں سالانہ اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں برادران اسلام کی خدمت میں مندرجہ ذیل اپیل کی: ’’انجمن حمایت اسلام لاہور گزشتہ پینتالیس سال سے مسلمانوں کی دینی ور مذہبی اور قومی خدمات انجام دے رہی ہے۔ اور اس کی ابتدا نہایت عاجزانہ تھی لیکن عاجزوں کے اخلاص کو خدائے قدوس نے شرف قبول بخشا اور جو چیز ۱۸۸۴ء میں ذرہ بے مقدار تھی آج محض خدا کے لطف و کرم سے اسلامی ہند کے ہر گوشہ میں آفتاب بن کر چمک رہی ہے۔ ابتدا میں انجمن کی کل کائنات صرف لڑکیوں کے چند مدارس تھے مگر آج وہ ایک اعلیٰ درجے کے کالج کی ذمہ داری ہے جو ہندوستان بھر کی منتخب درس گاہوں میںشان امتیازی رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ چار ہائی سکول اور دو مڈل سکول ایک مڈل و چھ زنانہ پرائمری سکول کی کفیل ہے جس سے قوم کے ہزاروں بچے مستفید ہو رہے ہیں۔ مردانہ اور زنانہ یتیم خانے انجمن کی خصوصیات میں سے ہیں جن میں اس وقت دو سو یتیم لڑکے اور لڑکیاں پرورش اور تعلیم پا رہی ہیں۔ ان بچوں کے لیے خیاطی اورنجاری کے کارخانے بھی قائم ہیں تاکہ وہ بڑے ہو کر وہ اپن معاش آپ پیدا کر سکیں اور قوم کے لیے بار نہ ہوں۔ یتیم لڑکوں کو امور خانہ داری کی تعلیم دی جاتی ہے اور انہیںسگھڑ او رسلیقہ شعار بنا کر معزز گھرانوں میںبیاہا جاتا ہے۔ تالیف و طبع کا شعبہ ہر حیثیت سے روز افزوں ترقی پر ہے۔ یہ صیغہ اگر ایک طرف مسلمان بچوں کے لیے موزوں نصاب تعلیم مہیاکرتا ہے تو دوسری جانب انجمن کے لیے معقول مالی منفعت کا موجب بھی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے انجمن نے اطبا اوراساتذہ کی جماعتیں بھی کھول دی ہیں جس سے یہ مقصود ہے کہ نونہالان قوم روحانی اور اخلاقی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ دنیاوی اعتبار سے بھی خودداری اور عزت کی زندگی بسر کر سکیں۔ یونانی اور انگریزی شفا خانے انجمن کی سرگرمیوں میں ایک نہایت قمیتی اضاہف ہیں جس سے انجمن کے سٹاف طلبا و طالبات ویتامیٰ کے علاوہ مسلمان پبلک بھی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اشاعت اسلام کے کام میں خاص دلچسپی کام کیا جا رہا ہے۔ انجمن کی روز افزوں ضرورتوں اور سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے سابقہ عمارات بالکل ناکافی ثابت ہوئیں اور اس سلسلہ کو ایک بڑی حد تک وسیع کرنا پڑا۔ ۱۹۱۵ء تک کالج کے لیے صرف ایک دارالاقامہ انجمن کی اپنی عمارت میں تھا۔ ۱۹۲۶ء میںایک لاکھ سترہ ہزار روپیہ کے صرف سے دو ار دارالاقاموں کے لیے اپنی عمارتیں مہیا کی گئیں۔ زنانہ مڈل سکول کے لیے تقریباً تیس ہزار روپے کی لاگت سے ایک اور مکان مہیا کیا گیا۔ گزشتہ دو سالوں میں دو لاکھ پینتیس ہزار روپے کے صرف سے کالج کی زمین اور عمارت کو وسعت دی گئی۔ انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے امسال اسلامیہ کالج سے ملحقہ جماعتوں کے کھولنے کا بھی انتظام کر دیا گیا ہے۔ انجمن کی ضروریات کے ساتھ اس کے اخراجات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ۱۹۲۷ء میں خرچ چھ لاکھ روپیہ اور ۱۹۲۸ء میں بھی اسی قدر رقم صرف ہوئی اور سال آئندہ میں بھی کم و بیش اسی قدر خرچ کا اندازہ کیا گیا ہے۔ خرچ میں روز افزوں اضافہ انجمن کی سرگرم اور کامیاب زندگی کی ایک زبردست دلیل ہے ۔ ادائے فرض میں جو کامیابی انجمن کو نصیب ہوئی ہے وہ اس کے لیے قوم کی اعانت اور دستگیری کی رہین منت ہے۔ اور اس کی ضروریات میں جو اضافہ تقاضائے وقت کے لحاظ سے کیا جارہا ہے اس کی تکمیل بھی قوم کی فیاضی پر موقوف ہے اس لیے ہم نہایت ادب اورپوری قوت کے ساتھ جمیع براداران اسلام کی خدمت میں اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی مرکزی قومی انجمن کے متعلق اپنے فرض کو محسوس کریں اورآئندہ سالانہ اجلاس کے موقعہ پر جو ۱۲ ‘۱۳‘ ۱۴ اپریل ۱۹۲۹ء کو منعقد ہو گا کم از کم دو لاکھ روپیہ فراہم کر دیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ فراہمی سرمایہ اور انجمن کے اغراض و مقاصد کی توسیع و اشاعت کے لیے آپ کا ہر ایک قدم قومی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ اور ہر ایک پیسہ جو آپ کی سعی سے خزانہ انجمن میں داخل ہو گا قوم کے ارتقاء اور مقاصد کی تکمیل کو نزدیک تر کر سکتا ہے۔ ہم امید ہے کرتے ہیں کہ ہماری اپیل خداکے فضل اورآپ کی دستگیری سے انجمن کے لیے ایک بھرپور فصل لائے گی آمین ۱؎‘‘ ٭٭٭ اسوہ حسنہ کی اشاعت کے لیے اپیل علامہ اقبال نے سترہ دیگر اکابرین ملت کے ہمراہ فرزندان اسلام سے اپیل کی کہ جس میں اسوہ حسنہؐ کی پابندی اور پیروی پر زور دیا اور اسے تمام مذہبی اور وطنی مشکلات کا واحد حل قرار دیا۔ دیگر اکابرین ملت میںآغا مرزا محمد خلیل شیرازی (کونصل ایران) مولانا شوکت علی (بمبئی) سیٹھ عبدالمجید حسن (مدراس) حاجی عبدالرزاق ّمدراس مولانا محمد عرفان( بمبئی) سر ابراہیم ہارون جعفر (پونہ) خان بہادر محمد عبدالعزیز بادشاہ (مدراس) ڈاکٹر ذاکر حسین( دہلی ) محمد شفیع دائودی (پٹنہ) حاجی عبدالکریم (مدراس) مولانا غلام رسول مہر (لاہور) نواب حسام الملک محمد علی حسن خاں (لکھنو) حاجی عبدالحکیم (مدراس) حاجی ایم جمال محمد(مدراس) حاجی سیٹھ عبداللہ ہارون (کراچی) مولانا مظہر الحق (پٹنہ) اور مولانا سید حبیب (لاہور) شامل تھے۔ اس وقت ہمارا ملک اور مذہب جن مشکلات میں سے گزر رہا ہے ان کا بہترین حل یہ ہے کہ ہم ان اخلاق و اعمال کی اشاعت کریں جن کانمونہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات سے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اسوہ حسنہؐ نبوی کی اشاعت کی ایک صحیح ترین صورت یہ ہے کہ ۱۲ ربیع الاول کے جلسوں کو بقدر امکان وسعت دی جائے اور منظم کیا جائے۔ سیرت نبویؐ کے عنوان پر ایک مستقل تقریر مرتب کی جائے جس میں آنحضورؐ کی زندگی کے بہت ضروری اور منتخب واقعات ہوں۔ اس تقریر کا ہندوستان کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کردیا جائے اور پھر تمام اسلامی مجالس اور اخبارات کامل اتحاد و اتاق سے اس امر کی پرزور کوشش کریں کہ ۱۲ ربیع الاول کے دن ملک کا ایک ایک گوشہ اس تقریر سے گونج اٹھے۔ یہ چیز یقینا بہت زیادہ قابل مسرت ہے کہ لاہور کے بعض درد مند مسلمان اس تجویز کی تکمیل میں کوشاں ہیں۔ ۱؎ روزنامہ انقلاب ۲۷ مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۳ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ نہایت ہی خلوص اور مستعدی سے ان اصحاب کو اپنے مبارک ارادے کی تکمیل میںمدد کریں۔ ہماری استعدعا ہے کہ ضلعوں اور بڑے بڑے قصبوں میں مقامی جماعتوں سے مشورہ سے سیرت کمیٹیاں قائم کر دی جائیں جن میں ہر ایک مجلس کے مخلص پرجوش اور بااثر نمائندے شامل ہوں۔ یہ کمیٹیاں مقامی طور پر اور مضافات میں اسوہ رسولؐ کی تبلیغ و اشاعت کا بیڑا اٹھائیں اور کوشش کریں کہ حضورؐ کا پیغام حق موثر طریق پر مسلموں اور غیر مسلموں تک پہنچا دیا جائے۔ ہمیں امید ہے کہ تمام مقتدر اسلامی انجمنیں قومی کارکن اور منفرد اخبار نویس ایسی گرم جوشی اور عز م و اخلا ص سے کام کریں گے کہہ اس تقریب میں تمام اسلامی ہندوستان ایک نبیؐ اور ایک امت کی تصویر بن جائے گا اوریو م ولادتؐ کو ملک کے ہر گوشے میں یوم اتحادیوم اخوت] یوم فلاح یوم حریت و استقلال کی حیثیت سے خوش آمدید کہا جائے گا۔ نوٹ: سیرت کمیٹیوں کے قیام کی اطلاع اور فہرست ارکان قاضی عبدالمجید قرشی دفتر اخبار ایمان پٹی لاہور کے نام بھیج دینی چاہیے تاکہ ہر جگہ مجوزہ تقریر سیرت نعتیں و نظمیں اورپروگرام کے اشتہارات بروقت بھیجے جا سکیں۔ مفت تقسیم کرنے والے پیشگی قیمت بھیج کر ہندی اور انگریزی زبان کی تقاریر سیرت بحساب تیس روپیہ فی ہزار ایک روپیہ کی تیس منگوا سکتے ہیں ۱؎‘‘۔ ٭٭٭ اسوہ رسولؐ کی اشاعت کی ضرورت اگست ۱۹۲۹ء میں علامہ اقبال نے بارہ ہندوستانی کونسلوں کے مسلم ممبروں کے ہمراہ جو متحدہ اپیل کی اس کائنا ت میں اسوہ رسولؐ کی اشاعت پر زور دیا ہان مسلمان اراکین کونسل میں حاجی سیٹھ عبداللہ ہارون مولانا محمد شفیع دائودی‘ مولانا عبداللطیف فاروقی(مدراس) ‘ سید مرتضیٰ( ترچنا پلی) ملک محمد فیروز خان نون(لاہور) خان بہادر محمد حیات قریشی (شاہ پور) مولانا محمد اسحق (بہار) مولانا محمد یعقوب (مراد آباد) خان بہادر حافظ ہدایت حسین (کانپور) نواب محمد جمشید علی خاں (باغپت) سید طفیل احمد (علی گڑھ) اور ڈاکٹر شفاعت احمد خاں (الہ آباد) شامل تھے وہ اپیل مندرجہ ذیل ہے۔ بعض سر برآوردہ مسلمانوں کی تحریک کی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت پر ۸ اگست ۱۹۲۹ء کو ایک نظام کے ماتحت جلسے اور مظاہرے کیے جائیں۔ اس تحریک سے مقصود یہ ہے کہ دنیا میں حضورؐ کی سیرت پاک کی اشاعت ہو۔ اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک عالمگیر پیغمبر ہیں۔ آپ کا پیغام کسی ایک ایسے ملک یا قوم کی ملکیت نہیں ہے بلکہ تمام عالم انسانیت کی مشترکہ جائیدا د ہے۔ انسانی زندگی اس وقت جن مشکالت و مصائب میں سے گزر رہی ہے ان کا ایک بہترین حل یہ ہے کہ ہم ان اعمال و اخلاق کی اشاعت کریں جن کا نمونہ آں حضرتؐ نے اپنی ذات سے دنیا کے لیے پیش کیا ہے۔ اس واسطے ہم کہہ سکتے ہیں کہ صرف مسلمانان ہندوستان کو فائدہ نہیںپہنچے گا بلکہ تمام نسل انسانی کی ایک بہت بڑی خدمت انجام پائے گی۔ ۱؎ روزنامہ انقلاب ۴ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۳؎ اسلام کے پیغام حق کی وسعت و صداقت کی سب سے بڑی شہادت آنحضرتؐ کے وہ اعمال و اخلاق ہیں جنہیں انسانیت کی تاریخ میں ایک بلند ترین اور محفوظ ترین جگہ حاصل ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس پر آج بھی مشرق کو فخر ہے اور یہی وہ سرچشمہ ہے جس سے مشرق و مغرب دونوں اپنی تشنگی دور کر سکتے ہیں۔ اس واسطے یہ پیشگوئی کرنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ اگرہم کامل ہم آہنگی کے ساتھ حضورؐ کے احسانات دنیا پر واضح کر دیں تو یہ تقریب بہت جلد دنیا میںایک بین الاقوامی عہد کی حیثیت حاصل کر لے گی۔ خالص اسلامی نقطہ نظر سے بھی یہ تحریک اپنے اندر کچھ کم اہمیت نہیں رکھتی۔ اس سے دنیا میں مسلمانوں کی بین الاقوامی حیثیت نمایاں ہو گی۔ تحریک اتحاد اسلام کو بیش از بیش فائدہ پہنچے گا۔ اور وہ بدگمانیاں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کے متعلق یورپ اور امریکہ میں پھیلی ہوئی ہیں یقینا بہت جلد دور ہو جائیں گی۔ ہمارے راستے میں کئی آسانیاں موجود ہیں۔ حضورؐ کی تاریخی شخصیت اس قدر نمایاں ہے کہ ہر ملک میں لاکھوںانسانوں کا آپ کے آستان احترام پر جمع ہو جانا کچھ مشکل نہیں۔ ٹوکیو سے لے کر نیویارک تک کوئی ملک ایسا نہیں ہے کہ جس میں پیغمبر اسلام کے صد ہا فدائی اور عقیدت مند موجود نہ ہوں۔ پھر مسلمان تاجر طلبا اور مزدور بھی زمین کے چپ چپہ پر موجود ہیں۔ مصر ترکی اور روس کے مسلمانوں کی متحدہ صدائیں بھی ممالک متحدہ میں کافی اثر پیدا کر سکتی ہیں۔ بہرحال اگر ان تمام قوتوں کو مناسب طریق پر حرکت دی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ دنیا چالیس کرو ڑ فرزندان اسلام کے جذبات و احترام سے جو حضورؐ کے متعلق رکھتے ہیں زیادہ دیر تک متاثر نہیں رہ سکتی۔ ان الفاظ کے ساتھ ہم اپنے بھائیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ آئو!ا س تحریک کو وسیع ترین بنیادوں پر شروع کریں۔ ہندوستان اور اسلامی ممالک کو اشتراک عمل کی دعوت دیں۔ حضورؐ کی سیرت کے مشہور اور منتخب واقعات کو مختلف زبانوںمیں ترجمہ کر کے دنیا میں پھیلائیں تاکہ اسلام کا بول بالا ہو۔ نوٹ: ا س تحریک سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب قاضی عبدالمجید قرشی دفتر اخبار ’’ایمان‘‘ پٹی (ضلع لاہور) سے مکاتیب کریں۔ مفت تقسیم کرنے والے پیشگی قیمت بھیج کر اردو ہندی اور انگریزی زبان کی تقاریر سیرت بحساب تیس روپیہ فی ایک ہزار ایک روپیہ کی تیس منگوا سکتے ہیں ۱؎ ۔ ٭٭٭ ۱؎ روزنامہ انقلاب ۸ اگست ۱۹۲۹ء صفحہ ۲ عید میلاد النبیؐ منانے کا اعلان ۲۲ مئی ۱۹۳۵ء کو اکابر اسلام نے نوع انسان کو دعوت اتحاد دیتے ہوئے تمام کائنات میں ۱۲ ربیع الاول ۱۳۵۴ھ کو یوم النبی ؐ منانے کی اپیل کی۔ اس اپیل پر علامہ اقبال کے علاوہ مندرجہ ذیل اکابرین کے دستخط تھے۔ مولانا محمد عبدالظاہر (امام و خطیب مسجد حرم مکہ معظمہ )مولانا عبدالرزاق (امام مسجد حرم مکہ معظمہ) مولانا عبید اللہ سندھی (مکہ معظمہ ) امیر سعید الجزائری(رئیس جمعتہ الخلافہ شام) علامہ عبدالعزیز الثعالبی (قاہرہ) ہز ہائی نس پرنس عمر طوسون پاشا (قاہرہ) ہر ایکسلنسی محمد علی پاشا علویہ(سابق وزیر اوقاف مصر) علامہ عبدالقادر بک حمزہ(مدیر البلاغ مصر) علامہ محمد رشید رضا (صاحب لامنار مصر) ڈاکٹر سید راس مسعود (نواب مسعود یار جنگ علی گڑھ) علامہ سید سلیمان ندوی (لکھنو) آنریبل سر فیروز خان نون (وزیر تعلیم پنجاب لاہور نواب سر عبدالقیوم (وزیر سرحد پشاور) نواب محمد شاہ نواز (والی ریاست ممدوٹ) نواب احمد یار خان دولتانہ (ملتان) ساہو کار سیٹھ جمال محمد (مدراس) لارڈ ہیڈ لے فاروق (لنڈن) سر عمر ہیوبرٹ رینکن (لندن) امیر شکیب ارسلان (جنیوا) آقای برہان الدین کشکی (صاحب اصلاح) عطا محمد الحسینی (صدر افغانستان پارلیمنٹ کابل) ہز ایکسلنسی سید ضیا الدین طبا طبائی (سابق وزیر اعظم ایران) حضرت المجاہد علی ریاض المصلح (بیروت) علامہ صغوۃ یونس الحسینی (بیت المقدس) ۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا مینارہ تیرہ سو سال سے علم و عمل کی دو عظیم الشان چٹانوں پر کھڑا ہے اور وہ زندگی کے ہر طوفانی زمانہ میں تہذیب و تمدن کی ڈگمگاتی ہوئی کشتیوں کے لیے ایک آخری روشنی اورپناہ ثابت ہوا ہے یعنی حضورؐ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ بھی سب کے لیے اور جوکچھ کیا ہے وہ بھی سب کے لیے ہے۔ پیغمبر اسلام ؐ دنیا کی مختلف تہذیبوں اور قوموں کو صحیح اصول کی بنا پر ایک رشتہ مساوات میںپرونے کے لیے تشریف لائے تھے ۔ آپ صرف مذہبی فرقہ بندی ہی کے خلاف نہ تھے بلکہ عالم انسانیت میں بھی ہر قسم کی فرقہ بندی کے خلاف تھے خواہ وہ کسی کے نام سے کی جائیل آپ نے دنای کے سامنے جو تعلیم پیش کی وہ شخصی عملی‘ نسلی یا ہنگامی تعیم نہ تھی بلکہ ایسی ابدی تعلیم تھی جو تمام انسانوں کو اخوت و محبت کے مضبوط رشتوں میںپیوند کر دینے والی تھی۔ آپؐ نے نو ع انسان کو جس دین فطرت کی طرف بلایا ہے وہ کسی خاص جماعت کا نہیں بلکہ رنگ نسل زبان قوم یا وطن پر ہے یہ کہتے ہوئے آززاد ہو جاتے ہیں کہ ہمارا بادشاہ ایک خدا ہے۔ سارا کرہ ارضی ہمارا وطن ہے اور اس کی پشت پر بسنے والے تما م انسان ایک ہی گھرانے کے مختلف افراد ہیں۔ آئو اس پیغمبر ؐ وحدت و محبت کی یاد میں نوع انسان کے لیے سچی اور آزادانہی اخوت کا ایک ایسا عظیم الشان دن پید اکریں۔ جس میں ہم سب اپنے اپنے ہنگامی اختلافات و تعصبات کو بھول جائیں اور خدمت و اخوت انسانی کے خیال کو لے کر محبت و مساوات کے پلیٹ فارم پر جمع ہوں۔ یہ عظیم الشان دن ۱۲ ربیع الاول کا دن ہونا چاہیے یہ دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن ہے ۔ ہم نہایت خلوص و احترام سے تمام بنی نو ع انسان کو اس عید اتحاد میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں اور اپیل کرتے ہیں کہ ۱۲ ربیع الاول کو تمام کائنات کی آبادیوں میںسیرت النبیؐ کے عنوان پر متحدہ جلسے کیے جائیں۔ ایسے جلسے جو پیغمبر اسلامؐ کے پاک نام اور مبارک کام کے شایان شان ہوںاور جن سے نوع انسان میں باہمی ہمدردی محبت اور خدمت کا صحیح جذبہ پیدا ہو۔ اس تقریب پر بعض ممتاز علماء کے قلم سے سیرت نبویؐ کی تقریریں شائع کی جا رہی ہیں۔ یہ تقریریں یوم النبیؐ کے جلسوں میں سنائی جائیں اور ان کے تراجم دنیا کی بڑی بڑی زبانوںمیں شائع کر کے ہر جگہ مفت تقسیم کیے جائیں۔ ہماری دعا ہے کہ خداوند پاک ا س بین الاقوامی عید کونسل انسانی کے لیے باعث برکت بنائے۱؎۔ ٭٭٭ آل انڈیا حشر ڈے ۲۸ اپریل ۱۹۳۵ء کو آغاحشر کاشمیری نے انتقال کیا۔ علمی ادبی اور فلمی حلقوں میں ان کی وفات کو ایک ناقابل تلافی نقصان قرار دیا گیا۔ آغا حشر ہندو مسلم…سب میں یکساں ہر دلعزیز تھے چنانچہ حسب ذیل چوالیس ہندو مسلم اکابر نے ۲۰ جون ۱۹۳۵ء کو آل انڈیا حشر ڈے منانے کی اپیل کی۔ اس اعلان پر علامہ سر محمد اقبال کے دستخط سر فہرست تھے۔ چودھری شہاب الدین صدر پنجاب کونسل علامہ عبداللہ یوسف علی پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور۔ مولانا ظفر علی خاں آف زمیندار‘ خان بہادر نواب احمد یار دولتانہ ایم ایل سی ملتان خان بہادر حاجی رحیم بخش ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لالہ دنی چند بیرسٹر لیڈر کانگرس پارٹی۔ پنڈت کے سنتانم بیرسٹر شفاء الملک حکیم فقیر محمد چشتی‘ ڈاکٹر سیف الدین کچلو بیرسٹر‘ ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین ایم اے ایل ایل ڈی سردار پرتاب سنگھ ایم سے ایل ایل بی ‘ مولوی غلام محی الدین سیکرٹری انجمن حمایت اسلام سید افضال علی حسنی رئیس لاہور یاں عبدالعزیز بیرسٹر سابق صدر بلدیہ۔ مولینا سید حبیب شاہ آف سیاست‘ مولانا غلام رسول ممہر انقلاب مولانا عبدالمجید سالک (انقلاب) سید امتیاج علی تاج۔ عبدالعزیز خان ایڈووکیٹ ۔ چودھری فیروز الدین ایڈووکیٹ۔ ملم محمد اسلم ایم اے کیمبرج فیلو آف رائل سوسائٹی لندن۔ غلام رسول خان بیرسٹر۔ ملک محمد امین خاں بیرسٹر۔ پروفیسر علم الدین سالک اسلامیہ کالج۔ پروفیسر محمد اسلم (اسلامیہ کالج) نیاز علی ایڈووکیٹ محمد طفیل بیرسٹر اختر علی خاں ایڈیٹر زمیندار۔ مظفر حسین شمیم۔ پروفیسر عبداللطیف تپش ایم اے ملتان کالج۔ راغب احسن ایم اے سیکرٹری آل انڈیا مسلم یوتھ لیگ۔ فضل کریم خان ایڈیٹر ٹروتھ۔ خان صاحب فضل الٰہی ڈائریکٹر انفارمیشن بیورو۔ پنڈت جیون لال۔ پنڈت پیارے موہن دتاتریہ وزیر چند ایڈیٹر پرتاب گوری شنکر ساگر ایڈیٹر ملاپ۔ آتما سروپ شرما ایڈیٹر ہندی ملاپ۔ لالہ کرم چند ایڈیٹر پارس نواب زادہ خورشید علی خان خان صاحب ابو الاثر حفیظ جالندھری۔ ہندوستان کی ادبیات کو قومی علی الخصوص اردو اور ہندی ادب کو شیکسپئر ہندآغا حشرکاشمیری کے ۲۸ اپریل ۱۹۳۵ء کو لاہور میں وفات پا جانے سے جو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے اس سے باخبر ہر شخص واقف ہے۔ آغاحشر نہ صرف ایک عدیم النظیر ڈراماٹسٹ اور شاعر ہی تھے بلکہ وہ ایک آتش نفس خطیب اور یگانہ روزگار فاضل بھی تھے۔ آغاحشر غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک اور جامع کمالات انسان تھے۔ ان کی ادبی اور فنی طاقتیں زندگی بھر اردو اور ہندی لٹریچر کی ترقی اور اس کے ذریعہ سوشل اصلاح اور سماجک آزادی اور بہتری کے قومی مقاصد کی تکمیل کے لیے وقف رہیں۔ ۱؎ روزنامہ انقلاب ۲۲ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ چنانچہ اس یگانہ روزگار نے اس مقصد کے لیے اپنی ساری زندگی یک جہتی اور یک سوئی کے ساتھ گزار دی۔ ہندوستان کا قومی ادیب اور آرٹسٹ آغا حشر مرحوم نے اپنی ادبی اور ڈرامائی زندگی کا آغاز بمبئی سے کیا جہاں انہوںنے اپن جوانی کے بہترین بیس سال گزراے بمگئی جدید ہندوستانی ڈرامے کی پیدائش کا مقام ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد آغا حشر بمبئی سے کلکتہ چلے آئے اور اپنی زندگی کا سب سے زیادہ سرگرم حصہ بنگال ہی میں گزار دیا لیکن آغاصاحب کو جس طرح بمبئی اور بنگال سے ادبی اورفنی تعلق اور بنارس سے خاندانی واسطہ تھا۔ اسی طرح ان کو پنجاب سے بھی خاص نسبت اور محبت تھی خدا کو یہ منظور تھا۔ کہ وہ زندگی کے آخری ایام میں گزار دیں اور آخر نیند لاہور ہی میں سوئیں۔ آغا حشر جس طرح مادی لحاظ سے بمبئی بنگال یوپی اور پنجاب سے وابستہ تھے اسی طرح معنوی اعتبار سے وہ ہندو مسلم پارسی اور دیگر اقوام ہند سے گہرے تعلقات اور روابط رکھتے تھے۔ آپ نے اپنی خدادا د ذہانت و فطانت سے ہندو کلچر اور مسلم سوسائٹی کو یکساں فائدہ پہنچایا۔ وہ ملک کی مختلف زبانوں اور تمدنوں سے پوری طرح باخبر تھے۔ انہوں نے پارسیوں بنگالیوں اوریہودیوں کی قومی تاریخ پر بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ وہ عربی فارسی اور اردو کے علاوہ سنسکرت ہند ی بنگلہ گجراتی ‘اورمرہٹی میں بھی بے تکلفی سے تحریر و تقریر پر قادر تھے۔ مختلف ملکوں کے لٹریچر خصوصاً …ڈرامائی لٹریچر پر مرحوم کو خا ص اور کامل عبور حاصل تھا۔ قلب ہندوستان کو مسخر کرنے والا من موہن آغا حشر کاشمیری نے اپنی فطری ذہانت اور علمی قابلیت سے اس طرح کام لیا کہ وہ ایک طرف ریاستی ہندوستان کے راجائوں اور نوابوں کی نگاہوں میں معزز و محترم تھے تو دوسری طرف برطانوی ہندوستان کے عوام اور خواص میں ہر دلعزیز تھے۔ ایک جانب وہ مسلمانوں کے محبوب تھے تو دوسری طرف وہ ہندوئوں اور پارسیوں کے بھی من موہن تھے۔ اگر وہ موج مزم شکریہ یورپ ‘ نعرہ توحید اور صدائے غیب تھے تو دوسری طرف وہ ہندو ئوں اور پارسیوں کے بھی من موہن تھے ۔ کے مصنف تھے تو ساتھ ہی ساتھ سینا بن باس ‘ بھگت سور داس‘ رامائن ‘مدھر مرلی‘ بھیشم پہلا پیار اور دل کی پیاس کے بھی مصنف تھے۔ الغرض آغا حشر کی شخصیت ادب و شعر اور فن تمثیل میں سارے ملک کے اندر اپنی مثال آپ تھی آغا صاحب نے اپنی ساحرانہ او ر معجز نما آرٹ کے زور سے قلب ہندوستان کو مسخر کر لیا تھا۔ انمول ادبی رتن آغا حشر کی موت سے ہندوستان کی حقیقت اپنے روشن ترین ادبی نورتن میں سے ایک انمول نورتن اور اپنے سب سے کامیاب اور باکمال تمیثیل نگار سے محروم ہو گیا ہے بنا بریں ہم تمام ہندوستان قوموں یعنی ہندوئوں مسلمانوں سکھوں پارسیوں یہودیوں اور عیسائیوں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ مادر وطن کے ایک ایسے جلیل القدر فرزند کی توقیر و یادگار کے لیے باہم مل کر شانہ بشانہ کام کریں جو ہندوستان کی مختلف تہذیبوں میں ہم آہنگی اور وحدت پیدا کرنے کے لیے زندہ رہا اور جس کے وطن پر ور دل اور ہمدردانہ اور ساحرانہ آرٹ کی ہمہ گیری نے ملک کی غیر فانی خدمت انجام دی۔ اصلاح و انقلاب کا داعی آغاحشر مغربی تمدن کی اندھی تقلید کے سخت خلاف تھے ۔ وہ مخر ب اخلاق سٹیج اور سکرین کو مشرقی اخلاق و تہذیب اور سوسائٹی کے لیے لعنت اور ہلاکت کا پیغام سمجھتے تھے۔ وہ موجودہ حالات سے بالکل غیر مطمئن تھے۔ وہ سماج اور آرٹسٹ دونوں میں اصلاح اور انقلاب کے آرزو مند تھے۔ چنانچہ انہوںنے اپنی فنی اور ادبی فتوحات کے ذریعہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی راہ کو روشن تر اور نمایاں کر دیا ہے۔ مستقل یادگار کی ضرورت ہمیں امید ہے کہ تمام بڑے شہروں کے باشندے بلا تمیز مذہب و ملت نہ صرف یوم حشر کی کامیابی کے لیے متحدہ طور پر کام کریں گے بلکہ ان کی ایک مستقل یادگار قائم کرنے کے لیے بھی عملی قدم اٹھائیں گے جس سے ملک کی تہذیب آرٹ اور ادب کو پائیدار فائدہ پہنچے گا۔ اور تجارتی اغراض کے باعث اسٹیج اور سکرین سے جو خطرات پیداہو رہے ہیں ان کا سد باب کیا جا سکے ۔ ہندو مسلم اتحاد کا عملی مظاہرہ یہ موقع ہے کہ ہندو مسلم اپنے اتحاد عمل کا عملی مظاہرہ کریں اور یہ ثابت کر دیں کہ باوجود اختلاف رائے میں وہ خالص وطنی معاملات میں باہم مل کر کام کر سکتے ہیں ۱؎۔ ٭٭٭ یوم حادثہ کراچی کے انعقاد کے لیے اپیل جون ۱۹۳۵ء میں دو سو سے زیادہ مسلمانوں کو بلاوجہ اور ناحق تہ تیغ کر دیا گیا جس پر مسلمانان ہند میں غم وغصہ کی ایک لہر دوڑ گئی ملک بھر میں احتجاجی جلسے ہوئے اپیلیں ہوئیں علامہ اقبال نے چوبیس مقتدر رہنمائوں کے ہمراہ ۲۱ جون ۱۹۳۵ء کو یوم حادثہ کراچی منانے کی اپیل کی۔ کراچی میں دو سو یا اس سے بھی زیادہ مسلمان بلاوجہ ہلاک اور زخمی کر دیے گئے اور حکومت کو انصاف کرنے سے انکار ہے۔ تحقیقات کرنے سے انکار ہے۔ وہ محکوم سہی غلام سہی ہندوستانی سہی آدمی تو تھے۔ کیا ان مقتولین مجروحین اور ان کے ورثا کو اتنا بھی حق نہیں ہے کہ اس کی تحقیقات کر لی جائیں کہ کراچی میں جس نے فیر کا حکم دیا اس ن ے صورت حال کے اندازے میں غلطی تو نہیں کی بزدلی سے گھبرا تو نہیں گیا۔ اختیارات کے زعم میں فرعون تو نہیں بن گیا؟ حکومت بمبئی نے صاف اعلان کیا ہے کہ تحقیقت نہیں کی جائے گی۔ اعمال کراچی نے جو کیا ٹھیک کیا۔ اسمبلی کے ہندو اور مسلمانوں ممبروں کا متفقہ مطالبہ کی تحقیقات کی جائے۔ آٹھ کروڑ مسلمانان ہند کی مسلسل فریادیں سب رائیگاں سب صدا بہ صحرا ہندوستانیت کی اسلامیت کی اورانسانیت کی اس سے بڑی کوئی توہین تو نہیں ہو سکتی۔ اگر ہمارے تحمل اور برداشت کا یہی عالم رہا تو اس ہندوستان میں جو ہمارا وطن ہے جہاں ہمیں آزاد ہونا چاہیے حاکم ہونا چاہیے ہماری جانیں جنگلی جانوروں سے زیادہ ارزاں ہو جائیں گی ۔ ۱؎ انقلاب ۱۹ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ اے مسلمانو! خدا کے لیے اٹھو حرکت میں آئو۔ کراچی کے یتیموں اور بیوائوں کو مایوس نہ کرو۔ انصاف حاصل کرو یا اس جھوٹی شہرت کی نقاب کو چاک کر کے پھینک دو کہ برطانیہ انصاف پسند ہے اب حکومت ہند قابل تخاطب نہیں ہے۔ وہ عمال کراچی کی طرف داری کر کے فریق بن چکی ہے۔ حکومت برطانیہ سے براہ راست مطالبہ کرو کہ ایک آزاد کمیشن تحقیقات پر مقرر کیا جائے جرم ثابت ہونے پر مجرموں کوقرار واقعی سزا دی جائے۔ مقتولین کے ورثا کو خون بہا اور مجروحین کو ان کے نقصان کا معاوضہ دلایا جائے۔ آئندہ مجمعوں پر گولیاں چلانے کی ممانعت کر دی جائے۔ ۲۱ جون کا پروگرام بعد نماز جمعہ ہر مسجد میں حادثہ کراچی کی تفصیلا ت بیان کی جائیں۔ شام کو بعد نماز مغرب ہر شہر میں جلسہ عام منعقد کر کے اپنے مطالبات کے متعلق ریزولیوشن پاس کیے جائیں اور حادثہ کراچی پر اپنے جذبات کا قوت کے ساتھ اظہار کیا جائے۔ اس کے بعد پورا جلسہ کچھ فاصلے تک بصورت جلوس منتشر ہو جائے۔ کامل سکوت جلوس کی خصوصیت ہو۔ کوئی کسی سے بات بھی نہ کرے۔ اس اپیل پر علامہ اقبال کے علاوہ مندرجہ ذیل زعما نے دستخط کیے۔ ۱۔ مولانا حسرت موہانی۔ ۲۔ مولانا ابوالمعارف محمد عرفان آنریری سیکرٹری مرکز یہ خلافت ہند ۔ ۳۔ مسٹر یٰسین نوری بیرسٹر رکن مجلس مرکزیہ خلافت ہند۔ ۴۔ مولانا محمد مظہر الدین مالک و ایڈیٹر الامان ۔ ۵۔ مولانا محمد قطب الدین عبدالوالی فرنگی محلی رکن جمعتہ علماء ہند ۔۶۔ مولانا مفتی محمد عنایت اللہ فرنگی محلی جمعیتہ علماء ہند ۔ ۷۔ مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری امیر شریعت پنجاب رکن جمعتہ علماء ہند ۔ ۸۔ مولانا عبدالحامد قادری بدایونی رکن جمعیتہ علماء ہند ۔۹ ۔ آنریبل شیخ مشیر حسین قدوائی بیرسٹر و ممبر کونسل آف سٹیٹ صدر آل انڈیا انڈی پیننڈنٹ لیگ ۱۰۔ شاہ مسعود احمد سابق ممبر لیجسلیٹو کونسل ۔ ۱۱۔ مولوی محمد احمد کاظمی ایڈووکیٹ ممبر لیجسلیٹو کونسل ۔۱۲۔ شیخ عبدالمجید سندھی سابق صدر آل انڈیا خلافت کانفرنس۔۱۳۔ مولانا سید حسین احمد محدث مہاجر مکی ۱۴۔ مولانا ابو القاسم سیف بنارسی صدر آل انڈیا اہل حدیث لیگ ۔ ۱۵۔ سید حسن ریاض۔ ۱۶۔ مولانا سید طفیل احمد۔ ۱۷۔ مولانا حبیب الرحمن صدر مجلس احرار اسلام ہند ۔ ۱۸۔ چودھری افضل حق ایم ایل سی نائب صدر مجلس احرار اسلام ہند ۔۱۹۔ مولانا سید محمد دائود غزنوی جنرل سیکرٹری مجلس احرار اسلام ہند ۔ ۲۰۔ مولانا مظہر علی اظہر ایم ایل سی جنرل سیکرٹری مجلس احرار اسلام ہند ۲۱۔ چوھدھری خلیق الزمان صدر نیشنلسٹ مسلم کانفرنس ۔ ۲۲۔ سید محمد جعفری ایڈیٹر ملت ۲۳۔ مرزا عابد حسین ایڈووکیٹ رکن آل انڈیا شیعہ پولیٹکل کانفرنس ۔۲۴۔ سید ذاکر علی ۱؎ علامہ اقبال کا نام نامی سر فہرست درج تھا۔ ۱؎ انقلاب ۲۰ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۲ ٭٭٭ دوازدہ منزل سے منزل پاکستان تک مختار مومن شیر شاہ سوری کی بنوائی ہوئی عظیم شاہراہ اعظیم گرانڈ ٹرنک روڈ … برعظیم کے سر پر ترچھی مانگ کی طرح کھنچی ہوئی ہے۔ یہ سڑک قدیم نظام مواصلات کا شاہکار ہے۔ مشرقی ہندوستان سے شروع ہو کر سینکڑوں قصبوں‘ شہروں ‘جنگلوں اور دیہاتی علاقوں میں گھومتی لہراتی یہ سڑک پشاور تک چلی جاتی ہے۔ تقریباً آدھا راستہ طے کرنے کے بعد گرانڈ ٹرنغ روڈ الہ آباد شہر کے بیچوں بیچ میں سے گزرتی ہے۔ شہر کا یہ علاقہ بہت گنجان ہے سڑک کے دونوں طرف سیکڑوں دوکانیں مکان اور چھوٹی بڑی عمارتیں ہیں۔ اسی سڑک کے کنارے الہ آباد کوتوالی کی مضبوط دو منزلہ عمارت ہے۔ جس کا بلند و بالا صدر دروازہب سڑک کی طرف کھلتا ہے۔ اس کی دوسری منزل پر برآمدے میں لوہے کی جالی لگی ہوئی ہے۔ اور کئی در نظر آتے ہیں۔ صدر دروازے میں اردو میں دوازدہ منزل لکھا ہے۔ عمارت پرانی وضع کی ہے اس میں کئی دکانیں اورلب سڑک نکالی گئی ہیں۔ اپریل ۱۹۷۷ء میں جب میں نے اسے دیکھا تو ایک طرف تو یونین فارمیسی کا بورڈ لگا ہوا تھا اور دوسری طرف صدر دروازے سے ملحق ٹائروں کی دکان تھی۔ بہت سے ٹائر اوپر نیچے رکھے ہوئے تھے۔ سامنے ٹھیلے والے کھڑے تھے۔ بازاروں میں عموماً گہما گہمی نظر آتی ہے۔ یہاں بھی تھی بظاہر دروازہ منزل اسی قسم کی معمولی سی عمارت دکھائی دیتی تھی جیسی ا س علاقے میں اور بہت سی عمارتیں ہیں۔ لیکن اب سے ۴۷ سال پہلے ایک دن اس کی قسمت جاگ اٹھی تھی اور اسی یادگار دن کے بعد ایک اعتبار سے دوازدہ منزل ہماری تاریخ کی منزل اول بن گئی ۔ ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کی صبح کو شاعر مشرق علامہ اقبال اسی صدر دروازے سے دوازدہ منزل میں داخل ہوئے تھے۔ اور اسی مقام پرانہوںنے آل انڈیا مسلم لیگ کا وہ معرکہ آرا خطبہ صدارت ارشاد فرمایاتھا جس میں پہلی دفعہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تصور پاکستان کا نقش اول ابھرا۔ حال میں جب مجھے الہ آباد جانے کا موقع ملاتو کسی ایسے شخص کی تلاش ہوئی جو ۱۹۳۰ء کے جلسے میں شریک رہا ہو اور دوازدہ منزل کا کچھ حال بھی جانتا ہو۔ میری ملاقات کئی اصحاب سے ہوئی لیکن مفتی فخر الاسلام اور نعیم بخش صاحب سے بہت مدد ملی۔ اول الذکر جلسے میں موجو دتھے اور آخر الذکر دوازدہ منزل کے موجودہ مالک ہیں۔ نعیم بخش صاحب کی عطریات کی دوکان تاج شاہی کے نام سے اسی عمارت میں ہے۔ مسلم لیگ کا جلسہ ان کے دادا شیخ رحیم بخش مرحوم کے زمانے میں ہوا تھا۔ دوازدہ منزل ان کے پردادا شیخ میر و بخش نے بنوائی تھی۔ ان کا تمباکو کا کاروبار تھا اس لیے یہ خاندان تمباکو والوں کا خاندان کہلاتا ہے۔ اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے۔ عمارت کا نام دواز دہ منزل اس لیے رکھا گیا کہ اس کے صحن یا ہال کے چاروں طرف ۱۲ دروازے برآمدے میں کھلتے ہیں لفظ ہال نعیم صاحب استعمال کرتے تھے مگر دراصل یہ ایک کھلا ہوا وسیع صحن ہے جس کے چاروں طرف گیلریاں یا دروازے ہیں۔ ان میں کنگوے دار دروازے ہیں… یہ عمارت تمباکو والوں کی رہائش اور بزنس کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اہل خاندان اوپر کی منزل میں رہتے تھے۔ اور نیچے دوکانیں اور گودوام وغیرہ تھے۔ رحیم بخش مرحوم کا شمار شہر کے پڑھے لکھے باعز ت مسلمانوں میں ہوتا تھا نعیم صاحب کا بیان ہے کہ میرے دادا صوفیوں بزرگوں اور عالموں کی صحبت کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے تھے۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ مسلم لیگ کا جلسہ کہیں ہونے والا تھا لیکن میرے دادا کی کوششوں سے جلسے کا انتظام دوازدہ منزل میں ہوا۔ دوازدہ منزل جس جگہ واقع ہے وہ محلہ یاقوت گنج کہلاتاہے۔ اور یہاں مسلمانوں کی خاصی بڑی آبادی ہے۔ قرب و جوار میں رانی منڈی اٹالہ‘رسول پور‘ بخشی بازار‘ نئی بستی اور دوسرے محلوں میں بھی مسلمان کافی آباد تھے۔ اور اب بھی ہیں۔ اس لیے دواز دہ منزل میں مسلم لیگ کے جلسے کا انعقاد بہت مناسب سمجھا گیا۔ اس کے بعدبھی یہ عمارت مسلمانوں کے اکثر جلسوں او ر مشاعروں وغیرہ کے لیے استعمال ہوتی رہی۔ نعیم صاحب کا بیان ہے کہ اگر فرشی نشست ہو تو ہال یا صحن میں کوئی تین ہزار آدمی سما سکتے ہیں میرے خیال میں کرسیوں پر ہزار بارہ سو سے زیادہ آدمی نہیں آ سکتے۔ اپریل ۱۹۷۷ء کی ایک گرم صبح کو جب میں دوازہ دہ منزل گیا تو عجب سماں نظر آیا وہ صحن جو ۴۷ء برس پہلے فرش فروش سے آراستہ کیا گیا تھا۔ اور جہاں ا س صدی کے عظیم شاعر اور مفکر نے مسلم لیگ کا خطبہ صدارت دیا تھا۔ اجاڑ ساپڑا بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ یہ حصہ کرایے پر ہے اور گودام کے طور پر استعمال ہوتا ہے گیلریوں میں کچھ تھیلے اور بوریاں بکھری پڑی ہیں صحن کے ایک کونے میں اک گائے بندھی ہوئی تھی سست رفتار سے جگالی کر رہی تھی۔ مکھیاں زیادہ تنگ کر تیں تو دم ہلا کر انہیں اڑا دیتی۔ دراصل تقسیم کے بعد تمباکو والوں کا کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ ہندو آڑھتیوں نے مال کا لین دین کم کر دیا بلووں میں الگ دھکا لگا۔ دوازدہ نزل میں کئی کرایے دار رکھنے پڑے نعیم بخش نے تمباکو کے بجائے عطر‘ تیل کی دوکان کھول لی بہر صورت کسی نہ کسی طرح گاڑی چل رہی ہے اور اس خادنان کے فرد آج اس بات پرنازاں ہیں کہ ایک تاریخ ساز ہستی کے قدم ان کے گھر آئے تھے اور ایک نئی تاریخ کا آغاز بھی اسی گھر سے ہوا تھا۔ مفتی فخر الاسلام صاحب کا تعلق دائرہ شاہ اجمل سے ہے۔ یہ وہی دائرہ ہے جہاں پچھلی صدی میں شیخ امام بخش ناسخ رہا کرتے تھے اکھاڑے اور میدان میں اپنا زور دکھایا کرتے تھے۔ اس شعر میں ان کا اشارہ دائرہ شاہ اجمل ہی کی طرف ہے۔ ہر پھر کے دائرے میں ۃی رکھتا ہوں میں قدم آئی کہاں سے گردش پرکار پائوں میں مفتی صاحب وکالت کرتے ہیں پرانے سیاسی کارکن ہیں تقسیم سے پہلے الہ آباد شہری مسلم لیگ کے صدر اور یوپی اسمبلی کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ عرصے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ اب ماشاء اللہ سفید ڈاڑھی بڑھالی ہے پابند صوم و صلوۃ ہیں بے مسالے کا پان کھاتے ہیں مگر مسالے دار گفتگو فرماتے ہیں قوم کادرد دل میں رکھتے ہیں میں ان کے مکان پر ان سے ملنے گیا بڑے اخلاق سے ملے۔ ان کی زبانی ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کا ذکر سنیے کہتے ہیں کہ ان دنوں ایل ایل بی میں پڑھتا تھا معلوم ہوا کہ علامہ اقبال تشریف لائے ہیں اورمسلم لیگ کے کھلے اجلاس کی صدارت کریں گے۔ میں نے سوچا کہ جلسے میں شرکت کرنی چاہیے۔ علامہ مرحوم کو دیکھنے اور ان کی تقریر سننے کا شوق تھا۔ چنانچہ میں اور میرے دوست عبدالحق عباسی جلسے میں گئے۔ عباسی صاحب بھی پرانے لیگی ہیں ۔ کسی زمانے میں خوب تقریر کرتے تھے اب کراچی میں مقیم ہیں۔ مفتی صاحب نے بتایا کہ علامہ اقبال الہ آباد میں نواب سر محمد یوسف کے ہاں مقیم تھے نواب صاحب مرحوم بھی لیگ کے لیڈر تھے ممبر اسمبلی بعد میں کچھ دن یوپی میں وزیر رہے۔ ان کی کوٹھی اب بھی سائوتھ روڈ الہ آباد میں موجود ہے۔ یہ کوٹھی ان دنوں گلزار بنی ہوئی تھی آج کل شکستہ ہو رہی ہے۔ یوپی گورنمنٹ نے اس میں کوئی دفتر قائم کر لیا ہے۔ علامہ اقبال کے علاوہ اسی کوٹھی میں قائد اعظم بھی قیام فرما چکے ہیں۔ مفتی صاحب کہتے تھے کہ علامہ ابال نواب یوسف کی موٹر پر ان کے ساتھ ہی دوازدہ منزل تشریف لائے۔ اس جلسے میں ڈاکٹر سر شفاعت احمد خاں بہت پیش پیش تھے۔ سر شفاعت الہ آباد یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور صدر شعبہ تاریخ تھے۔ بعد میں وائسرائے کی کونسل کے ممبر بھی ہوئے۔ لیگ جب قائد اعظم کی قیادت میں عوامی جماعت بن گئی تو سر شفاعت اس سے ور وہ سر شفاعت سے کھنچ گئی۔ ان حضرات کے علاوہ بیرسٹر محمد حسین جو کونسل آف سٹیٹ کے ممبر تھے اور بیرسٹر منظور جو مسلم لیگ کے جاں نثار ممبر تھے دوازدہ منزل کے جلسے میں ڈائس پر موجود تھے۔ مفتی صاحب کے بیان کے مطابق جلسے میں مشکل سے چار سو یا پانچ سو آدمی موجود تھے۔ عبدالحئی عباسی صاحب کہتے ہیں کہ شاید اس سے بھی کم آدمی رہے ہوں گے ان میں بہت سے اسکول کے لڑکے بھی شامل تھے جو شاید تفریحاً شریک جلسہ ہو گئے۔ مفتی صاحب نے بتایا کہ ہم لوگوں نے علیحدگی میں چپکے سے علامہ اقبال سے عرض کیاکہ آپ ان ٹوڈیوں میں کہاں آ پھنسے؟ علامہ نے فرمایا کہ تم لوگ گھبرائو مت یہ لوت باقی رہنے والے نہیں ہیں قوم باقی رہے گی۔ علامہ کا خطبہ صدارت انگریزی میں تھا۔ انہوں نے جو تجویز پیش کی اس وقت اس کا کوئی خاص رد عمل نہیں ہوا۔ شاید اس موقع پر کسی نے دھیان بھی نہیں دیا۔ کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں چپک سکی کہ دسمبر کی اس تاریخی صبح کو جو الفاظ علامہ کے منہ سے نکل رہے ہیں وہ تاریخ کے دھارے کو موڑنے والے تھے۔ اگلے دن پریس میں بھی کوئی خاص تبصرہ نہیں ہوا۔ بلکہ جلسے کی کارروائی کو مقامی اخبار ’’لیڈر‘‘ نے کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ مفتی فخر الالسلام کے اس بیان کی تائید چودھری خلیق الزمان مرحوم کے بیان سے ہوتی ہے۔ شاہراہ پاکستان کے صفحہ ۵۰۹ میں چوہدری صاحب اقبال کے خطبہ صدارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ایسے کھلے ہوئے اشارے اور تصریح کے بعد بھی مسلم لیگ کے اس اجلا س میں کسی ایک فرد واحد نے بھی اس کا کوئی نوٹس نہ لیا اور نہ کسی نے اپنی تقریر میں اس کی تائید میں کوئی تجویز پیش کی۔ اورہوتی کیسے کیونکہ مسلم لیگ محض زمینداروں تعلقداروں اور خطاب یافتوں کا ایک سود مند گہوارہ تھا۔ شاید وہ جلسہ ہی اس قابل نہ تھا کہ اس میں وہ جواہر پارے بکھیرے جائیں۔ وہ جواہر پارے کیا تھے؟ علامہ اقبال نے اپنے خطبہ صدارت کا آغاز ان الفاظ سے کیا تھا ’’میں کسی پارٹی کو لیڈری کا دعویٰ نہیں کرتا۔ اور کسی لیڈر کی پیروی نہیں کرتا۔ میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسلام اس کے قوانین ‘ سیاست و ثقافت اور تاریخ و ادب کے مطالعے میں صرف کیاہے‘‘۔ ان کا خطبہ صدارت اسی علم و تجربے کی روشنی میں پیش کیا گیا تھا ۔ علامہ نے فرمایا کہ حقیقتاً اس بات میںکوئی مبالغہ نہیں ہے کہ شاید صرف ہندوستان ہی دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں اسلام نے ایک مردم ساز قوت کی حیثیت سے بیش بہا کردار ادا کیا ہے۔ انسان کی نظر کو جغرافیائی حد بندیوں سے آزاد کرانے کے لیے انہوںنے اسلام کو ایک زندہ قوت قرار دیا۔ علامہ اقبال نے فلسفہ و سیاست مغربی نظریوں ذات پات کے بندھنوں اور دوسرے عوامل پر بحث کی ان کے خیال کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ تمام ہندوستانیوں میں صرف مسلمان ہی وہ لوگ ہیں جن پر جدید نظریے کے مطابق ایک قوم ہونے کا اطلاق ممکن ہے مگر یہ بھی فرمایا کہ دوسرے مذہبی گروہوں کے خلاف عناد رکھنا بھی کمینگی اور غیر شریفانہ فعل ہے۔ بلکہ قرآن کی تعلیم کے مطابق ضرورت پڑنے پر ان کے معبدوں کی حفاظت کرنا بھی مسلمانوں کا فرض ہے۔ سرسید کی طرح انہوںنے بھی یہ نتیجہ نکالا کہ یور پی جمہوریت کے اصول کا اطلاق ہندوستان پر ا س وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ یہ حقیقت تسلیم نہ کر لی جائے کہ ہندوستان میں مختلف مذہبی گروہ موجود ہیں اس لیے مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان قائم کیا جائے بالکل منصفانہ ہے۔ اس منطقی نتیجے کو انہوںنے صا ف صاف ان الفاظ میں ادا کیا کہ میری خواہش یہ ہے کہ پنجاب شمالی مغربی صوبہ سند اور بلوچستان کو ایک سٹیٹ میں مدغم کر دیا جاء مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برطانوی حکومت کے امور یا برطانوی حکومت کے باہر شمال مغرب میں ایک ہندوستانی سٹیٹ کا قیام مسلمانوں کم ا کم شمالی ہندوستان کے مسلمانوںکا مقدر ہے… ‘‘ اس تجویز میںپاکستان کا لفظ موجود نہیں مگر پاکستان کی روح موجود ہے۔ یہ لفظ پاکستان تو قرارداد لاہور میںبھی نہیں ہے ہاں علامہ کی پھونکی ہوئی اسی روح نے دس برس بعد مسلمانوں کے جسد سیاست میں داخل ہو کر اسے زندگی اور توانائی بخشی اور ۱۷ سال بعد پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اس لفظ کی ایجاد کا سہرا تو چودھری رحمت علی کے سر ہے۔ الہ آباد کے خطبے میں بنگال کا ذکر نہیں کیا گیا۔ لیکن ۲۱ جون ۱۹۳۷ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کے نا م ایک خط میں علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ شمالی مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو کیوں نہ ایک قوم تسلیم کر لیا جائے جسے ہندوستان اور ہندوستان کے باہر کی دوسری قوموں کی طرح حق خود ارادہ ملنا چاہیے۔ علامہ اقبال نے صرف دو دن الہ آباد میں قیام کیا۔ عبدالحئی عباسی صاحب کہتے ہیں کہ ایک دن سہ پہر کو وہ ظہور احمد بیرسٹر کے ساتھ پیدل اس علاقے میں گھومتے رہے اور بہت سے لوگوں اور دوکانداروں سے مصافحہ کیا اگلے دن جسٹس سر شاہ محمد سلیمان نے انہیں کھانے پر مدعو کیا مگر وہ لاہور واپسی کا پروگرام بنا چکے تھے البتہ انہوںنے ا س خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اکبر الہ آبادی کے مزار پر جا کر فاتحہ پڑھنا چاہتے ہیں۔ مفتی فخر الاسلام انہیںپرانا کالا ڈانڈا لے گئے جہاں یہ وہ مقام اسی گرانڈ ٹرنک روڈ پر دوازدہ منزل سے کوئی ڈھائی میل دور واقع ہے۔ کالا ڈانڈا کے قبرستان میں اکبر الہ آبادی ہمیشہ کی نیند سو رہے ہیں۔ جب علامہ اقبال وہاں تشریف لے گئے تو قبر کی حالت اچھی نہیںتھی۔ مفتی صاحب کہتے ہیں کہ علامہ نے قبر کو دیکھا اور افسوس کے ساتھ کہا اتنے بڑے آدمی کی قبر اور اس کی یہ حالت! راقم الحروف بھی دوازدہ منزل سے اسی گرانڈ ٹرنک روڈ پر چل کر مزار اکبر پر حاضر ہوا کہ ایک اکبر میموریل سوسائٹی بن چکی ہے۔ اس نے قبرپر کتبہ لگوا دیا ہے۔ سوسائٹی کی یوپی گورنمنت نے کچھ گرانٹ بھی دی ہے۔ ایک ہندو وکیل اس کے کرتا دھرتا ہیں۔ ایک اور صاحب جو علامہ کے جلسے میں شریک ہوئے اوران سے بھی ملاقات کی یہ حضرت ریاض اکبر آبادی ہیں اسکول میں فارسی اردو کے استاد تھے۔ اب ریٹائر ہو کر الہ آباد ہی میں گوشہ نشین ہو چکے ہیں کبھی کبھی شعر کہتے ہیں اور اردو کے عاشق ہیں انہوں نے بایا کہ علامہ مرحوم پنجاب میل سے لاہور روانہ ہونے والے تھے۔ ان کی ملاقات ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فار پر ہوئی ریاض اکبر آبادی کا بیان ہے کہ دو چار صاحبان ان (اقبال) کے گرد کھڑے تھے اور میل کا انتظار کر رہے تھے۔ جو لیٹ تھی۔ میں نے علامہ اقبا ل کو سلام کیا اور کہا کہ میںایک معمولی طالب علم ہوں۔ بچوں کو پڑھاتا ہوں۔ ایک سکول کا ملازم ہوں۔ آپ کا ایک شعر میری سمجھ میں نہیں آیا۔ اس کا مطلب پوچھنا چاہتا ہوں… کوئی دوسرا ہوتا تو کہہ دیتا کہ آپ غلط وقت پر آئے ہیں مجھے فرصت نہیں ہے مگر علامہ نے انتہائی اخلاق سے مرا ہاتھ پکڑا اور سامنے فرسٹ کلاس ویٹنگ روم میں چلے گئے۔ ہم دونوں وہاں جا کر بیٹھ گئے ۔ انہوںنے پوچھا کون سا شعر ہے؟ میں نے عرض کیا: اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اک ولادت مہر فنا کی نیند مئے زندگی کی مستی ہے علامہ نے فرمایا میںیہ کہنا چاہتا ہوں کہ قومیں فنا نہیںہوتیں اپنا مقا پیش کر دیتی ہیں۔ اور ان کی حالت پہلے س بہتر ہو جاتی ہے۔ ستارے فنا نہیں ہوتے اپنا قائم مقا م سورج کی شکل میں انہوںنے پیش کر دیا ہے۔ جو روشنی ہمیںستاروں سے برتر ہے… پھر انہوںنے تاتاریوں کی تاریخ پر تبصرہ فرمایا۔ اتنے میں میل ٹرین آ گئی اور وہ رخصت ہو گئے اور میں ان کے پاکیزہ اخلاق کا ایسا گرویدہ ہوا کہ آج تک اس کی یاد تازہ ہے… علامہ اقبال کا دورہ الہ آباد نہایت مختصر سہی مگر سیاسی اعتبار سے بے حد اہم ہے ۔ الہ آباد کا پرانا نام پریاگ ہے برصغیر کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ گنگا اور جمنا اور ہندو دیومالائوں کے مطابق ایک گم شدہ دریا سرسوتی کا سنگم ہونے کی وجہ سے یہ تربینی بھی کہلاتا ہے ہندوئوں کی نظر میں یہ مقام تقدس کا حامل ہے۔ راجہ ہرش کی بہن اسی جگہ ہر سال دان پن کے لیے آتی تھی اور اب بھی کمبھ کے میلے میں لاکھوں آدمی یاترا کرنے ہر سال الہ آباد آتے ہیں۔ یہ شہر موتی لال نہرو اور جواہر لال نہرو کا مولد و مسکن رہ چکا ہے۔ آزادی سے پہے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا صدر دفتر اسی شہر بلکہ نہرو خاندان کے عالی شان مکان سوراج بھون میں واقع تھا… طرفہ تماشا ہے کہ ہندوئوں کے اس مقدس شہر اور کانگرس کے اس گڑھ میں علامہ اقبا نے وہ آواز بلند کی جو صرف چند ہی سال بعد دس کروڑ مسلمانوں کا نعرہ بن گئی۔ اور صرف ۱۷ سال بعد شاعر مشرق کے خواب کی تعبیر پاکستان کی صورت میں نکل آئی۔ گویا تخیل پاکستان علامہ کے ذہن میں پیدا ہوا۔ ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو تیندریائوں کی سرزمین تربیبی میںاس کا ظہور ہوا اور دس سال تک گرانڈ ٹرنک روڈ پر سفر کتا ہوا یہ کاروان تخیل پانچ دریائوں کی سرزمین میں جا پہنچا۔ پھر اسی مسلم لیگ کا جو اجلاس ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور میںمنعقد ہوا اس میں اس تخیل کو برعظیم کے مسلمانوں نے اپنا مقصد حیات بنا لیا۔ اور اس کے سات سال بعد قائد اعظم کی قیادت میں اپنے مقصد کو پا لیا۔ جو سفر دوازدہ منزل سے شروع ہوا تھا اس کی منزل آ گئی۔ ٭٭٭ خطبہ الہ آباد (ایک تاریخ ساز خطبہ) ترجمہ : مختار زمن علامہ اقبا ل کا خطبہ صدارت جو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو بہ مقام الہ آباد میںپڑھا گیا۔ اصل خطبہ انگریزی میں تھا۔ اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے: حضرات! میں آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے ایسے موقع پر آل انڈیامسلم لیگ کی صدارت کا اعزاز بخشا جو ہندوستان میںمسلم سیاسی فکر و عمل کی تاریخ کینازک ترین لمحات ہیں بلاشبہ اس عظیم اجتماع میں ایسے اصحاب موجود ہیں جو میرے مقابلے میں وسیع تر سیاسی تجربہ رکھتے ہیں اور جن کی معاملہ فہمی کا میں بے حد احترام کرتا ہوں لہٰذا یہ بڑی جسار ت ہو گی کہ جن سیاسی فیصلوں کے لیے وہ یہاں جمع ہوئے ہیں ان کے سلسلے میں ان کی رہنمائی کا دعویٰ کروں… میں کسی جماعت کا رہنما نہیںہوں۔ اورنہ ہی کسی رہنما کا پیرو ہوں۔ میںنے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسلام اس کے قوانین و سیاست ‘ اس کی ثقافت و تاریخ اور ادب کے مطالعے میں صرف کیا ہے میرا خیال ہے کہ روح اسلامی سے مسلسل تعلق کے باعث جس کا اظہار وقت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ میرے اندر اسلام کو ایک اہم عالمگیر حقیقت کی حیثیت سے دیکھنے کی بصیرت پیدا ہو گئی ہے۔ لہٰذا یہ فرض کرتے ہوئے کہ ہندوستانی مسلمان اسلامی روح کے شیدائی رہیں گے میں اس بصیرت کی روشنی میںخواہ اس کی قدر وقیمت کچھ بھی ہو آپ کے فیصلوں میں آپ کی رہنمائی کرنے کے بجائے آپ کے دل میں اس بنیادی اصول کا احساس پیدا کرنے کا معمولی سا کام انجام دوں گا جس پر میری رائے میں آپ کے فیصلوں کاعموماً انحصار ہونا چاہیے ۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بطور ایک اخلاقی نصب العین اور سیاسی نظام کے … اوراس اصطلاح سے میرا مطلب ایک ایسا معاشرہ ہے جس کا نظم و ضبط ایک خاص نظام قانون اور مخصوص اخلاقی نصب العین کے ماتحت عمل میں آیا ہو… اسلام ہی مسلمانان ہند کی تاریخ کا اہم ترین جزو ترکیبی رہا ہے ۔ اسلام ہی نے وہ بنیادی جذبات اور وفا کیشی فراہم کی جو بکھرے ہوئے انسانوں اور گروہوں کو بتدریج متحد کرتی ہے اور بالآخر انہیںایک ممیز قوم میں تبدیل کر دیتیہے۔ درحقیقت یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں کہ دنیا بھر میں صرف ہندوستان ہی ایسا ملک ہے جہاں اسلام ایک مردم ساز قوت کی حیثیت سے بہترین صورت میںجلوہ گر ہوا ہے دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان میںبھی اسلامی معاشرہ تقریباً پوری طرح ایک مخصوص اخلاقی نصب العین کی کلچر سے بنا ہے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلم سوسائٹی کاخمیر جس میں ایک مخصوص ہم آہنگی او ر اندرونی اتحاد پایا جاتا ہے ان قوانین اور اداروں کا رہین منت ہے جو اسلامی کلچر سے وابستہ ہیں۔ لیکن مغرب کے سیاسی افکار نے جن خیالات کا پرچار کیا ہے ان کے باعث ہندوستان اور ہندوستان کے باہر مسلمانوں کی موجودہ نسل کا نقطہ نظر بدلتا نظر آ تاہے۔ ہمارے نوجوان ان خیالات سے متاثر ہو کر یہ چاہتے ہیں کہ ان کے ملک میں بھی ایسے ہی خیالات زندہ و متحرک قوت بن جائیں۔ لیکن وہ ان حقائق کی طرف بہ نظر غائر توجہ نہیں دیتے جن کی بنا پر یورپ میں یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ یورپ میں مسیحیت محض ایک رہبانی نظام تھا جو رفتہ رفتہ ایک وسیع کلیسائی ادارے(حکومت) میں تبدیل ہو گیا۔ لوتھر کا احتجاج دراصل اسی کلیسائی نظام حکومت کی طرف تھا۔ وہ کسی دنیاوی (لادینی) نظام کے خلاف نہتھا۔ اس لیے کہ اس قسم کی سیاست کا تعلق مسیحیت سے نہیں تھا اور اس نظام کے خلاف لوتھر کی بغاوت حق بجانب تھی۔ گو میرے خیال میں لوتھر کو اس امر کا احساس نہیں تھا کہ یورپ میں جو صورت حال پیدا ہو گئی تھی ا س کے پیش نظر اس کی بغاوت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ حضرت عیسیٰ کے عالمگیرا خلاقی نظام کی جگہ متعدد اور مختلف النوع قومی نظام پیدا ہو جائیں گے جن کا حلقہ بہت محدود ہو گا۔ اسی لیے لوتھر اور روسو جیسے لوگوں کی تحریکوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وحدت کی جگہ غیر مربوط و منتشر کثرت نے لے لی جس کی وجہ سے انسانیت کی اکائی اقوام میں تقسیم ہو گئی۔ مثلاً ہر علاقے کو ایک الگ سیاسی اکائی تصور یا جانے لگا۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کا تعلق صرف آخرت سے ہے تو مسیحیت کا جو حشر یورپ میں ہوا وہ قدرتی امر تھا۔ حضرت عیسیٰ کے عالمگیر اخلاقی نظام کی جگہ قوتوں کے اخلاقی نظامات نے لے لی نتیجہ یہ ہوا یکہ یورپ اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے مجبور ہو گیا کہ مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں… لیکن اسلام انسان کی وحدت کو مادے اور روح کی متضا د دوء میں تقسیم نہیں کرتا۔ اسلام میں خدا اورکائنات روح اور مادہ کلیسا اور ریاست ایک کل کے مختلف اجزا ہیں۔ انسان کسی نجس دنیا کا باشندہ نہیں ہے جسے کسی ایسی روحانی دنیا کی خاطر ترک کرے جو کہیں اور واقع ہو۔ اسلام کے نزدیک مادہ روح کی وہ شکل ہے جو زمان و مکاں میں ظہور پذیر ہوتا ہے ۔ غالباً مانوی Manichalenفکر کے زیر اثر یورپ نے روح اورمادے کی دوئی کو بلا غور و فکر کے تسلیم کر لیا ہے۔ آج اس کے بہترین مفکر اس ابتدائی غلطی کے کو محسوس کر رہے ہیں لیکن اس کے سیاست دان بالواسطہ دنیا کو مجبور کر رہے ہیں کہ اسی اصول کو بے چون و چرا ناقابل انکار عقیدے کے طورپر تسلیم کر لیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کہ یورپ کی ریاستوں سے عملاً مسیحیت بالکل بے دخل ہو چکی ہے اورمختلف بے ربط سلطنتیں قائم ہو گئی ہیں جن میں انسانی جذبے کے بجائے قومی اغراض کی بالادستی ہے ۔ لیکن یہی بے ربط ریاستیں مسیحیت کے اخلاق و عقائد کو پائوں تلے کچل ڈالنے کے بعد اب ایک وفاقی یورپ کا خواب دیکھ رہی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسیحی کیسا کے ادارے نے انہیں اتحاد بخشا تھا۔ حضرت عیسیٰ کے انسانی اخوت کے عالمگیر تصور کو مضبوط و مستحکم کرنے کے بجائے انہوں نے لوتھر کے زیر اثر اسے برباد کر ردیا لیکن اب پھراس اتحاد کی ضرورت محسوس کیا جا رہا ہے۔ دنیائے اسلام میںکسی لوتھر کا ظہور ممکن نہیںہے اس لے کہ اسلام میں ایسا کوئی کلیسائی نظام موجود نہیں ہے جیسا کہ ا ز منہ وسطیٰ کی مسیحی دنیا میں موجود تھا۔ اور جس کے توڑنے کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ دنیائے اسلام میں ایک عالمگیر نظام سیاست موجود ہے جس کے بنیادی نکات وحی کا نتیجہ ہیں۔ لیکن چونکہ عرصہ دراز سے ہمارے فقہا جدید دنیا سے بے خبر رہے ہیں اس لیے اس نظام کو نئے سرے سے مرتب کر کے مستحکم کرنے کی ضرورت ہے میں نہیں جانتا کہ قومیت کے تصور کا اسلامی دنیا میںآخر کار کیا حشر ہو گا۔ کیا اسلام اسے اپنے اندر جذب کر کے اسی کی اس طرح قلب ماہیت کر دے گا جیسا کہ پہلے بہت سے ایسے تصورات کی کر چکا ہے جو اسلام سے مختلف تھے یا خود اسلام کے اندر کوئی زبردست تغیر رونما ہو جائے گا… اس بارے میں پیش گئی کرنا مشکل ہے۔ لیڈن (Leidon)ہالینڈ کے پروفیسر وینسنک (Wensinck)نے حال ہی میں مجھے لکھا تھا کہ: ’’مجھے ایسا محسوس ہوا ہے کہ اسلام ایک ایسے بحرانی دور میں داخل ہو رہا ہے کہ جس میں مسیحیت کو داخل ہوئے ایک صدی سے زیادہ گزر چکی ہے ۔ سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ پرانے تصورات کو ترک کر دینے ک ساتھ ساتھ مذہب کی بنیاد کو بھی کسی طرح محفوظ رکھا جائے۔ میرے لیے تو یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ اس کا نتیجہ مسیحیت کے حق میں کیا ہو گا چہ جائے کہ اسلام کے بارے میں کوئی پیش گوئی کروں‘‘۔ اس وقت قومیت کے تصور نے مسلمانوں کی نگاہوں کو نسل پرستی سے آلودہ کر رکھا ہے جو اسلام کے انسان پرستی کے تصور میں بری طرح حائل ہو رہا ہے ممکن ہے کہ نسل پرستی کا یہ جذبہ ایسے معیاروں کو آگے بڑھادے جو اسلام کے معیار سے مختلف بلکہ متضاد ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ مجھے ا س علمی بحث کے لیے معاف فرمائیں گے لیکن آل انڈیا مسلم لیگ کے اس جلسے کی صدارت کے لیے آپ نے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے جو اس امر سے مایوس نہیں ہے کہ اسلام اب بھی ایک ایسی قوت ہے جس میں انسان کے تصور کو جغرافیائی حدود سے آزاد کرانے کی سکت موجود ہے…اور جو یہ عقیدہ رکھتا ہے ک مذہب کو افراعدد و اوطان کی زندگی میں بے انتہا اہمیت حاصل ہے اور جسے یقین ہے کہ اسلام بجائے خود تقدیر ہے اسے کسی دوسری تقدیر کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا شخص مجبور ہے کہ حالات کو خود اپنے ہی نقطہ نگاہ سے دیکھے۔ یہ نہ سمجھے ک جس مسئلے کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں وہ محض ایک نظری مسئلہ ہے یہ ایک زندہ اور عملی مسئلہ ہے جس سے اسلام کے دستور حیات اور نظام عمل کے تار و پود متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس مسئلے کے صحیح حل سے ہندوستان میں ایک ممتاز ثقافتی گروہ کی حیثیت سے ہمارے مستقبل پر اثر پڑ سکتا ہے۔ ہماری تاریخ میں اسلام پر ایسا سخت دور کبھی نہ آیا تھا کہ جیسا کہ آج ہے لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے سماج کے بنیادی اصولوںمیں ترمیم کریں یا انہیںبالکل مسترد کر دیں۔ لیکن دوسرے تجربات کرنے سے پہلے واضضح طور پر یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ ان کا نتیجہ کیا ہو گا۔ میں نہیں چاہتا کہ جس انداز میں اس مسئلے کی طرف دیکھ رہا ہوں اس سے یہ خیال پیدا ہوا کہ جن حضرات کی سوچ میری سوچ سے مختلف ہے میں ان سے جھگڑا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا یہ اجتماع مسلمانوں کا اجتماع ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ سب اسلام کے مقاصد اور ا س کی روح سے وفادار رہنے کے خواہشمند ہیںَ اس لیے میرا واحد مقصد ی ہے کہ میں آپ کے سامنے صاف صاف اور ایمانداری کے ساتھ موجودہ صورت حال کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر دوں۔میرے خیال میں صرف یہی طریقہ ہے کہ میں آپ کے سیاسی عمل کی راہوں کو اپنے عقائد کی روشنی سے منور کر سکوں گا۔ اب سوال یہ ہے کہ اصل مسئلہ اوراس کے نتائج کیا ہیں؟ کیا مذہب صرف ایک نجی معاملہ ہے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اخلاقی اور سیاسی حیثیت سے اسلام کا بھی وہی حشر ہو جو یورپ میں مسیحیت کا ہو چکا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ ہم مذہب کو ایک اخلاقی آئیڈیل کی حیثیت سے تو باقی رکھیں لیکن اس کے نظا م سیاست کو رد کر کے قومیتی سیاست کو اپنا لیں جس میں مذہبی رجحان کو کوئی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہندوستان میں یہ سوال خصوصی اہمیت کا حامل ہے ا س لیے کہ یہاں مسلمان اقلیت میں ہیں یہ دعویٰ کہ مذہب محض ایک نجی اور انفراد ی معاملہ ہے ایک یوروپین کی زبان سے تو تعجب خیز معلوم ہوت اہے کیونکہ یورپ میں مسیحیت کا تصور رہبانیت کا نظام تھا۔ جس میں مادی دنیا سے منہ موڑ کر تمام تر رتوجہ روحانی دنیا کی طرف مرکوز کی جاتی ہے اور لازماً اس سے وہی نتیجہ نکلتا ہے جو پہلے بیان کیا گیا ہے لیکن رسول اکرمؐ کے مذہبی واردات کی حیثیت جیساکہ قرآن میں بتایا گیا ہے بالکل مختلف ہے یہ محض حیاتیاتی تجربہ نہیںجس کا تعلق صرف تجربہ کرنے والے کی اندرون ذات سے ہے اور اس کے گرد و پیش پر کوئی رد عمل نہ ہو۔ یہ انفرادی تجربہ اور واردات ایک سماجی نظام کی تخلیق کا باعث تھا۔ اوراس کا فوری نتیجہ ایک خاص نظام سیاست کے بنیادی اصولوں کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جن میں قانونی تصورات مضمر تھے اور جن کے سماجی اہمیت کو محض یہ کہہ کر نظر اندا ز نہیںکیا جا سکتا کہ ان کی بنیاد وحی و الہام ہے اس لیے اسلام کا مذہبی نصب العین اس معاشرتی نظام سے مربوط و منسلک ہے جو خود اسلام کا ہی پیدا کردہ ہے۔ اگر ایک کو مسترد کیا جائے گات تو دوسرا خود بخود مسترد ہو جائے گا۔ اس لیے ایک مسلمان اس بات کا تصور بھی نہیںکر سکتا کہ ایسے قومی خطوط پر نظام سیاست مرتب کیا جائے جن کا مطلب یہ ہو کہ اسلام کے اصول اتحاد کی نفی ہو جائے یہی مسئلہ آج ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے ہے۔ رینان (مشہور فرانسیسی دانشور) کا قول ہے انسان نہ نسل کی قید گوارا کر سکتا ہے نہ مذہب کی نہ دریائوں کے بہائو کی نہ پہاڑی سلسلوں کی صحیح الدماغ لوگوں کا گروہ جن کے دلوں میں گرمی جذبات موجود ہے ایسا اخلاقی شعور پیدا کر لیتے ہیں جسے ہم قوم کے لفظ سے تعبیر کرتے ہں… یہ تریب بالکل ممکن ہے اگرچہ یہ ایک طویل اور مشکل عمل ہے اورا س کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی یکسرن ئی تشکیل کی جائے اور ان کے لیی نئے احساسات و جذبات مہیا کیے جائیں ا۔ اگر کبیر کی تعلیمات یا اکبر کا دین الٰہی اس ملک کے عوام کے ذہنوں پر حاوی ہوجاتا تب تو یہ صورت حال ایک حقیقت بن جاتی ۔ لیکن تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان کے مختلف مذہبوں اور جاتیوں میں ایسا کوئی رجحان موجود نہیں ہے۔ کہ وہ اپنی انفرادیت کو ایک عظیم ہئیت اجتماعیہ میں مدغم کر نے پر تیر ہو جائیں۔ ہر گروہ اپنی الگ اجتماعی حیثیت کو قائم رکھنے پر مصر ہے۔ اس قسم کا اخلاقی شعور جو رینان کے نقطہ نظر کے مطابق قوم کی تخلیق کے جڑ اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی قربانی کا طالب ہے جو ہندوستان کے لوگ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے ہندوستانی قوم کا اتحاد جماعتوں کی نفی میں نہیں بلکہ ان کے باہمی اشتراک اور ہم آہنگی سے حاصل ہو سکتا ہیل اصل تدبر کا تقاجا ہیکہ حقائق کو نظر انداز نہ کیا جائے خواہ وہ کتنے ہی ناخوشگوار کیوںنہ ہوں۔ عملی راہ یہ نہیں ہے کہ ان حالات کے بارے میں معروضات قائم کر یے جائیں جو فی الواقع موجود نہیںبلکہ طریق کار یہ ہونا چہایے کہ حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے حتی الامکان فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے۔ ہندوستان اور ایشیا کی تقدیر کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم ان خطوط پر ہندوستان میں اتحاد و اتفاق کے حصول کی کوشش کریں۔ ہندوستان چھوٹے پیمانے پر ایشیا ہے ہندوستان کے باشندوں کا ایک حصہ مشرق میںبسنے والے اقوام کے ساتھ ثقافتی روابط رکھتا ہے اور دوسرا مغربی ایشیا اور شرق الاوسط کے ساتھ ۔ا گر ہندوستن میں اشتراک و تعاو کے موثر اصول کی راہ نکل آئی تو اس قدم ملک میں امن و آشتی پید ا ہو جائے گی۔ جو اپنے باشندوں کی کسی طبعی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ تاریخی عوامل کے باعث مصائب میں مبتلا رہا ہے ساتھ ساتھ ایشیا کے تمام سیاسی مسائل کا حل بھی ممکن ہو جائے گا یہ امر نہایت تکلیف دہ ہے کہ باہمی تعاون کے حصول کی تمام کوششیں بیکار ثابت ہوئیں ۔ اس ناکامی کا سبب کیا ہے؟ شاید ہم دوسرے کی نیتوں پر شبہ کرتے ہیں اور د میں ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ یا شاید باہمی تعاون کے بلند مقصد کے لیے ہم اتنا ایثار بھی نہیںکر سکتے کہ جو اجارہ داریاں حالات نے ہمارے ہاتھوں میں سونپ دیے ہیں ان سے دست بردار ہو جائیں ہم اپنی انانیت کو قوم پرستی کے پردے میں چھپاتے ہیں۔ بظاہر ہم فر اخ دلی اور حب الوطنی کے دعوے دار ہیں مگر بہ باطن ہم ذات پات اور قبیلہ پرستوں کی مانند تنگ نظر ہیں۔ غالباً ہم یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ہر گروہ کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی تہذیبی روایات کے مطابق ترقی کرے۔ لیکن خواہ ہماری ناکامی کے اسباب کچھ بھی ہوں میں اب بھی پر امید ہوں واقعات کارجحان داخلی ہم آنگی کی سمت میں بڑھتا ہوا نظر آتا ہے ۔ اورجہاں تک میں مسلمانوں کے ذہن کو سمجھ سکا ہوں مجھے یہ اعلان کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے تو ہندوستان ک مسلمان کو اپنے ہندوستانی گھر میں اپنی کلچر اورروایات کے مطابق آزادانہ ترقی کرنے کا حق حاصلہے اور مستقل اور دیرپا فرقہ وارانہ تصفیہ اسی اصول کے مطابق ہو گا تو وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہوگا۔ یہ اصول کہ ہر گروہ اپنے عقائد کے مطابق آزادانہ ترقی کرنے کا حق رکھتا ہے تنگ نظر فرقہ پرستی کے جذبے پر مبنی نہیںہے۔ فرقہ پرستی کی بھی بہت سی قسمیںہیں جو فرقہ دوسرے فرقوں کی بدخواہی کے جذبات رکھتا ہو اس کے نیچ اور ذلیل ہونے میںکوئی شبہ نہیں ہے۔ میں دوسری قوموں کے رسوم قوانین مذہبی اور سماجی اداروں کا بے حد احترام کرتا ہوں اوریہی نہیںبلکہ قرآن کی تعلیم کے مطابق ضرور ت پڑنے پر ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت بھی میرا فرض ہے اس کے باوجود مجھے اس جماعت سے محبت ہے جو میری زندگی اور میرے اطوار و اوضاعع کا سرچشمہ ہے۔ اور جس نے مجھے اپنا مذہب اپنا ادب اپنی فکر اوراپنی ثقافت دے کر میری تشکی اس صورت میں کی ہے کہ جیسا کہ میں ہوں اور اسطور پر میرے ماضی کو ا ز سر نو زندہ کر کے وہ میرے شعور کا ایک زندہ و فععال عنصر بن چکی ہے۔نہرو رپورٹ کے خالق بھی فرقہ پرستی اور اس کے اعلیٰ و ارفع پہلو کو تسلیم کرتے ہیں سندھ کی علیحدگی پر بحث کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں : ’’یہ کہنا کہ قوم پرستی کے وسیع نقطہ نگاہ کے ماتحت کسی فرقہ وارانہ صوبے کا قیام مین نہیںآنا چاہیے ایک طرح سے اس بیان کا متراد ف ہے کہ وسیع ترین بین الاقوامی نقطہ نگاہ کے مطابق علیحدہ قوموں کا وجود بھی مناسب نہیں ان دونوں بیانات میںایک حد تک صداقت موجود ہے ۔ لیکن بین الاقوامی اصول کے بڑے سے بڑے حامی کو بھی اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ قوموں کی خود مختاری کے بغیر کسی بین الاقوامی ریاست کا وجود مشکل ہے اسی طرح مکمل تمدنی آزادی کے بغیر… اور فرقہ پرستی اعلیٰ مقام پر پہنچ کر تمدن ہی کا ایک پہلو بن جاتی ہے۔ ایک ہم آہنگ قوم کی تشکیل مشکل ہے‘‘۔ لہٰذا ہندوستان جیسے ملک میں ایک ہم آہنگ کل کی تشکیل کے لیے ارفع واعلیٰ سطح پر فرقہ پرستی ناگریز ہے۔ یورپ کے ملکوں کی طرح ہندوستانی معاشرے کی اکائیاں علاقائی نہیں ہیں۔ ہندوستان ایک براعظم ہے جس میں مختلف نسلی گروہ مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف مذہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ ان ک اعمال و افعال میں وہ احساس موجودنہیں ہے جو ایک ہی نسل کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہندو بھی کوئی واحد ارو ہم آہنگ جماعت نہیں ہے۔ ہندوستان پر یورپی جمہوریت کا اطلاق مذہبی فرقوں کی موجودگی کو تسلیم کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کایہ مطالبہ کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان قائم کیا جائے بالکل حق بجانب ہے۔ میری رائے میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس (منعقدہ دہلی) کی قراردار کے پیچھے یہی بلند نصب العین کافرما ہے کہ ایک ہم آہنگ کل کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اجزا کی انفرادیت کا گلا گھونٹنے کی بجائے انہیں اس بات کا موقع دیا جائے کہ وہ ان تمام ممکنہ قوتوں کو بروئے کار لا سکیں جو انمیں پوشیدہ ہیں اور مجھے اس بات میں شبہ نہیںہے کہ یہ ایوان پوری سد و مد سے اس قرارداد کے مطالبات کی تائید کرے گا۔ ذاتی طور پر میں ان مطالبات سے ایک قدم بھی آگے جانا چاہتا ہوں جو اس قرارداد میں پیش کیے گئے ہیں میری خواہش ہے کہ پنجاب شمالی مغربی صوبہ سرحد سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ہی ریاست میںمدغم کر دیا جائے۔ مجھے تو ایسا نظر آتاہے کہ کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں سلطنت برطانیہ کے اندر یا اس کے باہر حکومت خود اختیاری اور شمالی مغربی متحدہ مسلم ریاست آخر کا ر مسلمانوں کا مقدر ہے۔ یہ تجویز نہرو کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی تھی مگر کمیٹی نے اس بنا پر مسترد کر دی کہ اگر اس پر عمل درآمد کیا گیا تو اتنی وسیع ریاست وجود میں آجائے گی کہ جس کا انتظام مشکل ہوگا۔ جہاں تک رقبہ کا تعلق ہے یہ بات درست ہے لیکن آبادی کے لحاظ مجوزہ ریاست بعض موجودہ ہندوستانی صوبوں سے چھوٹی ہو گی۔ غالباً قسمت انبالہ اور شاید ایسے اضلاع کو الگ کر دینے سے جہاں غیرمسلموں کی اکثریت ہے اس کی وسعت اور بھی کم ہو جائے گی مسلمانوں کی تعداد میں غلبہ ہو گا وراس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی حدود کے اندر یہ متحد ہ ریاست غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت پوری قوت سے کر سکے گی اس تجویز سے نہ انگریزوں کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے نہ ہندوئوں کو ہندوستان دنیا میںسب سے بڑ ا اسلامی ملک ہے۔ اور اسلام کو ایک تمدنی قوت کی حیثیت سے زندہ رکھنے کے لیے ضرور ی ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکز یت قائم کر سکے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے ان بیشتر جاندار طبقوں کو ایک جگہ مرکوز کرنے سے جنہوںنے برطانیہ کی ناانصافیوں کے باوجود فوج اور پولیس میں شریک ہو کر انگریزوں کی حکومت کوممکن بنایا۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ ایشیا کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ اس سے ان کا احساس ذمہ داری قوی تر اور حب الوطنی کا جذبہ گہرا ہوجائے گا۔ ہندوستان کے جسد سیاسی کے اندر رہتے ہوئے اگرانہیںنشوونما کا پورا موقع دیا گیا تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمان تمام حملوں کے خلاف خواہ وہ رنگینیوں سے کیے جائیں یا خیالات سے یہ ہندوستان کا بہترین دفاع کر سکیں گے۔ پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی ۵۶ فیصد ہے لیکن ہندوستان کی پوری فوج میںان کا تناسب ۵۴ فی صد ہے اور اگر پوری ہندوستانی فوج میں انیس ہزار گورکھو ں کو جو نیپال کی آزاد ریاست سے بھرتی کیے جاتے ہیں نکال دیا جائے تو فوج پنجاب کا تناسب ۶۱ فیصد ہوجائے گا۔ اس اندزے میںوہ ۶ ہزار جنگ جو شامل نہیں ہیں جو شمالی مغربی صوبہ سرحد اور بلوچستان سے بھرتی کیے جاتے ہیں اس سے آپ ان تمام امکانات کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو بیرونی حملوں کے خلاف ہندوستان کے دفاع کے سلسلے میں شمالی مغربی ہندوستان کی مسلم آبادی میںپائے جاتے ہیں۔ رائٹ آنریبل مسٹر سری نواس شاستری کا خیال ہے کہ شمال مغربی سرحد پر خود مختار مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ اس خواہش سے پیدا ہوا ہے کہ ضرورت پیش آئے تو حکومت ہند پر دبائو ڈالا جا سکے۔ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے دل میں ایسا کوئی جذبہ موجود نہیں ہے جس کا وہ ہم پر الزام لگا رہے ہیں۔ مسلمانوںکا مقصد صرف اتنا ہے کہ وہ بھی ترقی کرسکیںجو اس قسم کی وحدانی حکومت میںممکن نہیں ہے۔ جس کا تصور قوم پرست اہندو یا سیاست دانوں کے ذہنمیں ہے اور جس کے تحت پورے ہندوستان میںہندوئوں کا مقصد مذہبی غلبہ پانا ہے۔ علاوہ ازیںہندوئوںکو اس بات کا خوف بھی نہیں ہونا چاہیے کہ خود مختار مسلم ریاستوں کے قیام سے ایک طرح کی مذہبی حکومتوں کو وجود میں لایا جا ئے گا۔ اس سے پہلے میں یہ بتا چکا ہوں کہ اسلام میںمذہب کا مفہوم کیاہے واقعہ یہ ہے کہ اسلام میں کلیسائی نظام موجودنہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسی ریاست ہے جس کا اظہار روسو سے بھی بہت پہلے معاہدہ اجتماعی کی صورت میں ہو چکا تھا۔ اس کے پیچھے ایک اخلاقی نصب العین کارفرما ہے جس کے تحت انسان کو کسی محدود علاق کی زمین سے وابستہ نہیںسجھاجاتا بلکہ انسان ایک روحانی ہستی ہے جو ایک اجتماعی معاشری ترکیب کا زندہ متحرک جزو ہے او ر چند حقوق و فرائض کا برتنے والا ہے۔ مسلم ریاست کے کردار کا اندازہ ٹائمز آف انڈیا کے ا س اداریے سے لگایا جا سکتاہے جو کچھ روز پہلے ہندوستانی بینکوں کی تحقیقاتی کمیٹی کے بارے میں لکھا گیا تھا اخبار لکھتا ہے: ’’ہندوستان میں سود کی شرح کے متعلق قانون بنانا حکومت کا فرض تھا لیکن باوجود یہ کہ اسلام میں سود لینا صریحاً ناجائز ہے مسلم دور میں ہندوستان کی اسلامی ریاستوں نے سود پر پابندیاں عائد نہیںکیں‘‘۔ میں ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کے لیے ہی ایک متحدہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہاہوں۔ ہندوستان کے نقطہ نظر سے اس کا مطلب اندرونی توازن قوت کے باعث امن و سلامتی ہو گا۔ اور اسلام کے لیے یہ ایک موقع فراہم کرے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہو جائے جو عربی شہنشاہیت نے اس پر ڈال دیے تھے۔ اور اپنے قوانین اپنی تعلیم اور اپنے تمدن کو حرکت میں لا کر ان کی اصل روح اور عصر جدید کی روح سے رابطہ قائم کر سکے۔ اس طرح یہ بات واضح ہو گء ہے کہ چونکہ ہندوستان میں آب و ہوا نسلوں زبانوں مذہبوں اور معاشرتوں کے کثیر اختلافات موجود ہیں اس لیے ایسی ریاستوں کا قیام جن کی بنیاد زبان نسل تاریخ اور مذہب کی یکسانیت اور مشترک اقتصادی مفادات پر ہو ہندوستان کے لیے ایک مستحکم آئینی نظام کو حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے۔ سائمن رپورٹ میںوفاق کا جو تصور پیش کیا یگا ہے اس کے ماتحت یہ بھی ضڑوری ہے مرکزی قانون ساز اسمبلی کو عوام کی منتخب کردہ اسمبلی کی حیثیت سے ختم کر دیا جائے اور اسے وفاق کی ریاستوں کے نمائندوں پر مشتمل ایوان کی صورت دی جائے۔ اس کے علاوہ سائمن رپورٹ میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ موجودہ صوبوں کی تقسیم بھی تقریباً انہیں اصولوں کی بنیاد پر از سر نو ہونی چاہیے جن کا میں نے ذکر کیا ہے میں اس نقطہ نظر کی د ل سے تائید کرتا ہوں بلکہ یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ صوبوں کی تقسیم میں دو شرطوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اولاً یہ تقسیم نئے دستور کے اجرا سے پہلے عمل میں آنی چاہیے ثانیاً یہ اس طرح ہونی چاہیے کہ فرقہ وارانہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے طے ہو جائے اگر صوبوں کی تقسیم مناسب طریقے سے کی گئی تو مخلو ط اور جداگانہ انتخاب کا جھگڑا ہندوستان کے آئین نزع سے خارج ہو جائے گا۔ اس بحث و تکرارکا باعث بڑی حد تک صوبوں کی موجودہ تقسیم ہے ہندو کا خیال ہے کہ جداگانہ انتخاب قوم پرستی کی سپرٹ کے خلاف ہے۔ چونکہ اس کے خیال میں قوم کا مفہوم یہ ہے کہ تمام باشندے اس طرح غلط ملط ہوجائیں کہ کوئی مذہبی گروہ اپنی انفرادیت قائم نہ رکھ سکے لیکن درحقیقت صورت حال ایسی نہیں ہے وارنہ ہم چاہتے ہیں کہ ایسی ہو۔ ہندوستان میں مختلف نسلیں اورمذاہب موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی اقتصادی پستی ان پر قرضوں کا بوجھ خصوصاً پنجاب میں اور صوبوں کی موجودہ تقسیم کے مطابق بعض صوبوں میں ان کی ناکافی اکثریت کو مدنظر رکھیے تو آپ پر یہ روشن ہو گا کہ وہ جداگانہ انتخاب کے لیے اس قدر مضطرب کیوں ہیں۔ ایسے ملک اور ان حالات میں علاقہ عوارانہ انتخاب سے تمام مفادات کی مکمل نمائندگی ممکن نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ صرف یہ ہو گا کہ ایک گروہ کا غلبہ قائم ہو جائے گا اور لیکن اگر صوبوں کی تقسیم اس طورپر ہوجائے ک ہر صوبے میں کم و بیش ایسی ملتیںبستی ہوں جنمیںلسانی نسلی تمدنی اور مذہبی اتحاد پایا جاتاہے تو مسلمانوں کو علاقائی حلقہ ہائے انتخاب پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا لیکن جہاں تک مرکزی وفاق کے اختیارات کا تعلق ہے ہندوستان اور انگلستان کے پنڈتوں نے جو دستور تجویز کیے ہیں ان سے اس باریک اختلاف کا پتہ چل جاتاہے جو دونوں کی نیتوں میں پایا جاتا ہے۔ ہندوستان کے پنڈت مرکزی حکومت کے موجودہ اختیارات میں ذرا بھی کمی نہیں چاہتے ان کی صرف یہ خواہش ہے کہ یہ حکومت پوری طرح مرکزی مجلس مقننہ کے سامنے جواب دہ ہو۔ جن میں ان کی اکثریت اس وقت اور بھی زیادہ طاقت ور ہو جائے گی جب ممبروں کی نامزدگی کا طریقہ ختم ہو جائے گا۔ اس کے برعکس انگلستان کے پنڈتوں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اگر جمہوریت کا اطلاق مرکز میں کیا گیاتو یہ ان ک یمفاد کے خلاف ہو گا۔ اور جمہوریت کو زیادہ ترقی ہوئی تو عین ممکن ہے کہ مرکز وہ تمام اختیارات بھی حاصل کر لے جو فی الوقت ان کے ہاتھون میں ہیں اس لیے انہوںنے طے کیا کہ جمہوریت کا تجربہ مرکز کی بجائے صوبوں میںکیاجائے۔ بے شک وہ وفاق کے اصول کو بروئے کار لا رہے ہیں اس کے متعلق تجاویز پیش کر کے بظاہر آغاز کار کر رہے ہیں لیکن مسلم ہندوستان کی نظروں میں جن وجوہات کی بنا ر اس اصول کی قدر و قیمت ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہیں جو انگلستان کے پیش نظر ہے۔ مسلمان وفاقی حکومت کا مطالبہ اس لیے کرتے ہیں کہ یہ خاص طور پر ہندوستان کے سب سے مشکل مسئے یعنی فرقہ وارانہ مسلئے کا حل ہے۔ لیکن وفاقی حکومت کے متعلق شاہی کمیشن کا نقطہ نظر گو اصولاً درست ہے لیکن اس کا مقصد وفاق کی ریاستوں میں خود اختیاری حکومتوں کا قیا م نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت کے نفاذ سے برطانیہ کے لیے جو صورت حال پیدا ہو گئی ہے اس سے کسی طرح فرار حاصل کیا جائے فرقہ وارانہ مسئلے کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے اور اسے جہاں تہاں چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں تک حقیقی وفاق کا تعلق ہے سائمن کمیشن نے وفاق کے اصل اصول کی درحقیقت نفی کر دی ہے۔ نہرو رپورٹ نے یہ بھانپ کر کہ اس طرح پورے ہندوستان پر ہندوئوں کا غلبہ ممکن ہوجائے گا۔ سائمن رپورٹ ایک غیر حقیقی وفاق کے باریک پردے کے پیچھے موجودہ برطانوی اقتدار کو قائم رکھنا چاہتی ہے۔ اس کی وجہ کچھ تو یہ ہے کہ قدرتی طور پر برطانیہ ا س اقتدار کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہتے جو اب تک اسے حاصل رہا ہے۔ اور کچھ اس لے کہ اگر فرقہ وارانہ مسئلے کا فیصلہ نہ ہوا تو پھر اتدر مستقل اپنے قبضے میں رکھنے کا برطانیہ کو اچھا بہانہ مل جائے گا۔ میں ایک آزاد ہندوستان میں وحدانی طرز حکومت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جن اختیارات کو فاضل اختیارات Risiduaryکہا جاتا ہیوہ تو یقینا خود مختار ریاستوں کو ملنے چاہیئں۔ مرکزی وفاقی حکومت کے ہاتھ میں صرف وہ اختیارات ہونے چاہئیں جو وفاق کی ریاستیںواضح طور پر اپنی مرضی سے اس کے سپرد کر دیں میں ہندوستان کے مسلمانوں کو کبھی یہ مشورہ نہیں دوں گا کہ وہ کسی ایسے نظام حکومت پر راضی نہ ہوں خواہ وہ برطانیہ سے آئے یا ہندوستان میں وضع ہو‘ جو حقیقی وفاق کے اصول کی نفی کر دے اور ان کی جداگانہ سیاسی حیثیت کو تسلیم نہ کرے۔ مرکزی نظام حکومت میں تبدیلی کی ضرورت کو اس سے بہت پہلے محسوس کر لیا گیا تھا جب برطانیہ نے ردوبدل کے لیے یہ موثر ذریعہ دریافت کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آخر کار یہ اعلان کیا گیا تھا کہ گول میز کانفرنس میں ہندوستانی والیان ریاست کی شرکت بہت ضروری ہے۔ ہندوستان کے لوگوں بالخصوص اقلیتوں کو اس سے ایک نع کی حیرت ہوئی کہ والیان ریاست نے گول میز کانفرنس میں ڈرامائی طور پر یہ اعلا ن کر دیا کہ وہ کل ہند وفاق میں شامل ہونے کو تیار ہیں۔ ان کے اس اعلان کے بعد ہندو مندوبین نے جو اب تک وحدانی طرز حکومت کے پرزور موید تھے چپکے سے وفاق کی سکیم کو منظور کر لیا۔ مسٹر شاستری نے حال ہی میں سرجان سائمن پر اس لیے سخت نکتہ چینی کی تھی کہ انہوںنے ہندوستان کے لیے وفاقی طرف حکومت کی سکیم کی سفارش کیوں کی۔ لیکن اب شاستری بھی دفعتاً وفاق کا کلمہ پڑھنے لگے۔ اور کانفرنس کے بھرے اجلاس میں انہوںنے اس کا اعلان بھی کر دیا کہ اور اس طرح برطانوی وزیر اعظم کو انہوںنے موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی آخری تقریر میں ایک نہایت برجستہ جملہ چست کریں۔ یہ تمام باتیں برطانیہ کے لیے بھی ایک خاص مفہوم رکھتی ہیں جو وفاق میں والیان ریاست کی شرکت کے خواہاں تھے اور ہندوئوں کے لیے بھی جنہوںنے بلا تامل کل ہندو وفاق کے قیام ک ومنظور کر لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وفاق کی سکیم میں ہندوستانی والیان ریاست کی شرکت ہے جن میں سے صرف چند ہی مسلمان ہیں دو مقصد حاصل ہوتے ہیںَ ایک طرف تو اہم ترین مقصد ہے کہ ہندوستان میں برطانوی اقتدار تقریباً اسی طرح قائم رہے گا۔ جیسے اب ہے اوردوسری طرف کل ہند وفاقی اسمبلی میں اس کے ذریعے ہندوئوں کو بے انتہا اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کی آخری شکل کے بارے میں ہندوئوں اور مسلمانوںمیں جو اختلاف رائے پایا جاتا ہے انگریز والیان ریاست کے ذریعے نہایت چالاکی کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور خود والیان ریاست کو اس سکیم میں اپنی آمرانہ حکومت کاتحفظ نظر آیا ہے۔ اگر مسلمانوں نے خاموشی کے ساتھ ا س قسم کی سکیم کو منظور کر لیا تو ہندوستان میں ان کا سیاسی وجود بہت جلد ختم ہو جائے گا۔ اس طرح ہندوستانی وفاق کی پالیسی میںوالیان ریاست کا غلبہ ہو گا جن کی تعداد وفاقی اسمبلی میں بڑی ہو گی۔ برطانوی سامراج کے مفاد کے معاملات میںوہ ہمیشہ تاج برطانیہ کا ساتھ دیں گے اور جہاں تک ملک کے داخلی نظم و نسق کا تعلق ہے وہ ہندوئوں کے تسلط و اقتدار کو قائم رکھنے اور مضبوط کرنے میں مدد یں گے۔ دوسرے الفاظ میںایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سکیم ہندو ہندوستان اور برطانوی سامراج کے درمیان ایک قسم کی مفاہمت ہے ۔ یعنی یہ کہ اگر تم ہندوستان میں میری موجودگی کو مستقل کو دو تومیں اس کے بدلے میں ایسی ہندو حکومت قائم کرنے دو ں گا جو دوسرے ہندوستانی فرقوں پر دوامی تسلط رکھے گی اس لیے اگر برطانوی ہندوستان کے صوبوں کو یہ حقیقی خودمختار ریاستوں میں تبدیل نہ کیا گیا تو وفاق میں والیان ریاست کی شرکت کا مطلب صرف یہی لیا جا سکتا ہے۔ کہ برطانوی سیاست دانوں نے نہایت چابکدستی سے اپنے اختیارات سے دست بردار ہوئے بغیر تمام جماعتوں کو بہلانے کی کوشش کی ہے… مسلمانو ں کو لفظ ’’وفاق‘‘ سے ہندوئوں کو مرکز میں میں اکثریت دے کر اور برطانوی سامراجوں کو خواہ وہ ٹوری پارٹی کے ہو یا لیبر کے حقیقی اختیارات کی قوت کے ذریعے۔ ہندوستان میں ہندو ریاستوں کی تعداد مسلم ریاستوں سے کہیں زیادہ ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ انہیںمرکزی وفاقی اسمبلی میں ۳۳ فیصد نشستیں حاصل ہوں ایسے ایوان یا ایوانات میں کیونکر پورا کیا جائے گا۔ جو ایسی ریاستوں اور برطانوی ہندوستان دونوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوں گے۔ مجھے امید ہے کہ مسلمان مندوبین وفاقی سکیم کے مفہوم کو جس پر گول میز کانفرنس میں بحث ہوئی تھی خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ابھی مجوزہ کل وفاق مں مسلمانوں کی نیابت کے سوال پر بحث ہونی باقی ہے۔ رائٹر کی ایک مختصر اطلاع میں بتایا گیا ہے کہ عبوری رپورٹ کے مطابق دو ایوان تجویز کیے گئے ہیں۔ ان دونوں میں برطانوی اور ہندو دیسی ریاستوں کے نمائندے شریک ہوں گے لیکن ان کی تعداد کے تناسب پر بعد میں غور کیا جائے گا۔ اور ان عنوانات کے ذیل میں شمار کیا جائے گا جنہیں ابھی تک سب کمیٹی کے ذمے نہیںکیا گیا۔ میری رائے میں تناسب کا سوال نہایت اہم ہے اور اسمبلی کی ہئیت ترکیبی پر بحث کے ساتھ ساتھ ہی اس موضوع پر بھی بحث ہونی چاہیے تھی۔ میرے خیال میں سب سے بہتر طریقہ یہ تھا کہ ابتدا برطانوی ہند کے وفاق سے کی جاتی۔ جو وفاقی سکیم جمہوریت اور استبداد کے ناپاک اتحاد سے پیدا ہو گی اس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو گا کہ برطانوی ہند وحدانی مرکزی حکومت کے لیے تو بے حد مفید ہو سکتی ہے۔ لیکن مسلمانوں کے لیے بے فائد ہ ہے۔ جبتک کہ انہیںگیرارہ میں سے پانچ ہندوستانی صوبوں میں اکثریتی حقوق اور پورے پورے فاضل حقوق اور مرکزی وفاقی اسمبلی میں ایک تہائی نشستیں حاصل نہ ہو جائیں جہاں تک برطانوی ہند کے صوبوں میں خود مختارانہ حقوق کے حصول کا تعلق ہے ہز ہائی نس والی بھوپال سر اکبر حیدری اور مسٹر جناح کا رویہ بالکل حق بجانب ہے چونکہ اب والیان ریاست بھی وفاق میں شامل ہو رہے ہیں ہمیں چاہیے کہ برطانوی ہند کی اسمبلی میں نیابت کے سوال کو اس نئی روشنی میں دیکھیں۔ اب یہ سوال محض برطانوی ہند کی اسمبلی میں مسلمانوں کی شرکت کا نہیں رہا بلکہ یہ مسئلہ کل ہند وفاقی اسبملی میں برطانوی ہند کے مسلمانوں کی نیابت سے متعلق ہے۔ اب ہمارا مطالبہ یہ ہونا چاہیے کہ کل ہند و فاق اسمبلی میں ہمیں ۳۳ فی صد نشستیں حاصل ہوں اور یہ نشستیں وفاق میں شامل ہونے والی مسلم ریاستوں کے علاوہ ہوں گی ہندوستان میں وفاقی نظام کی کامیابی کے سلسلے میں دوسرا مشکل مسئلہ ہندوستان کے دفاع کا مسئلہ ہے۔ شاہی کمیشن نے ہندوستان کی تمام تر کمزوریوں کا ذکر کیا ہے تاکہ فوج کے نظم و نسق کو برطانوی سامراجی انتظامیہ کے ہاتھ میں سونپنے کا جواز پیدا کیا جا ئے کمشنریوں نے کہا ہے کہ: ’’ہندوستان اور برطانیہ کا تعلق اس قسم کا ہے کہ ہندوستان کے دفاع کا مسئلہ نہ اس وقت اور نہ مستقبل قریب میں محض ہندوستانی مسئلہ تصور کیا جا سکتا ہ۔ فوج کے نظم و نسق پر لازماً سلطنت برطانیہ کے ایجنٹوں کا کنٹرول ہونا چاہیے‘‘۔ کیا اس کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ جب تک برطانوی افسروں اور سپاسوں کی مدد کے بغیر دفاع کے معاملات سے نپٹنے کی صلاحیت پیدا نہ ہو جائے۔ برطانوی ہند کے لیے ذمہ دارانہ حکومت کا راستہ بند رہے گا۔ موجودہ صورت یہ ہے کہ آئینی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی ہوئی ہے۔ نہرو رپورٹ میں اس رویے کا اظہار کیا گیا ہے۔ کہ آئندہ جو بھی تبدیلی ہو گی اس میں فوج کا نظم و نسق ایک منتخب شدہ اسمبلی کے اخیتار میں رہے گا۔ اگر وہ رویہ قائم رہتا ہے تو اس بات کی تمام امیدیں نامعلوم مدت تک کے لیے خطرے میں پڑ جائیں گی کہ مرکزی حکومت بہ تدریج اس آخری منزل کی طرف ترقی کرے جو ۲۰ اگست ۱۹۱۷ء کے اعلان میں تجویز کی گئی تھی۔ اپنی دلیل کو مزید مستحکم بنانے کے لیے وہ ممبران کمشن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مختلف مذاہب اور متضاد نسلوں میں جن کی صلاحیتیں جداگانہ قسم کی ہیں مقابلے کی دوڑ ہو رہی ہے۔ اور یہ کہہ کر مسئلے کو ناقابل حل بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہندوستان کے جنگجو نسلی گروہوں اور بقیہ لوگوں کے درمیان جو فرق ہے اس سے خصوصاً یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہندوستان مروجہ اصطلاح اور قدرتی انداز کے مطابق ایک قو م نہیں ہو سکتے۔ مسئلے کے ان پہلوئوں پر زور دینے کا مقصد یہ ہے کہ برطانیہ نہ صرف بیرونی خطرات سے ہندوستان کا بچائو کر سکتا ہے بلکہ اس کے داخلی امن و امان کے لیے بھی وہ ایک غیر جانبدار محافظ بنا رہے۔ بہرکیف وفاق کا جو تصور میرے ذہن میں ہے اس کے مطابق وفاق ہندوستان میںمسئلے کا ایک پہلو باقی رہ جائے گا یعنی خارجی حملوں سے ہندوستان کا تحفظ صوبائی فوجوں کے علاوہ جو بہرحال اندرونی امن قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں ہندوستانی وفاقی کانگریس شمالی مغربی سرحد پر ایک طاقت ور سرحدی فوج تعینات کر سکتی ہے جس میں ہر صوبے کے سپاہی شامل ہوں گے۔ اور جس کی قیادت ہر فرقے کے لائق و تجربہ کار افسر کریں گے۔ مجھے معلوم ہے کہ ہندوستان کے پاس لائق فوجی افسر نہیں ہیں اور اسی عذر کو شاہی کمشنر دولت برطانیہ کے ہاتھوں میں فوجی نظم و نسق سپرد کرنے کے لیے بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ لیکن میں اسی رپورٹ کا ایک اور اقتباس پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتا جو میرے خیال میں کمشنروں کے دعوے کے خلاف بہترین دلیل ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے: ’’اس وقت کوئی ہندوستانی جسے بادشاہ کی طرف سے فوجی کمیشن ملا ہے کپتان سے زیادہ اونچے عہدے پر فائز نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں کپتانوں کی کل تعداد ۳۹ ہے جن میں سے ۲۵ غیر معمولی رجمنٹوں میں تعینات ہیں۔ ان میں سے بعض کی عمر اتنی زیادہ ہے کہ اگر وہ پنشن ماپے سے پہلے ضروری امتحانات پاس بھی کر لیں تو بہت زیادہ اونچے عہدے حاصل نہیں کر سکتے۔ ان میں سے اکثر سینڈھر سٹ نہیں گئے انہیں جنگ عظیم کے دوران کمیشن دیے گئے تھے‘‘۔ اب یہ خواہش کتنی ہی سچی اور صورت حال میں تغیر کی کوشش کتنی ہی مخلصانہ کیوںنہ ہو سیکن Skeenکمیٹی نے جس کے تمام اراکین سوائے چئر مین اور فوجی محکمے کے سیکرٹری کے ہندوستانی تھے نہایت پر زور اور موثر الفاظ میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے: ’’ترقی کا انحصار اس شرط پر ہے کہ ہرمرحلے پر کامیابی حاصل کی جائے اور جنگی لیاقت کو قائم رکھا جائے گو یہ صورت بہرحال تدریجی اورسست رفتار ہو گی۔ ہندوستان کے موجودہ افسروں میں سے جو جونئیر عہدوں پر ہیں اور محدود تجربہ رکھتے ہیں تھوڑے سے عرصے میں اعلیٰ کمان پیدا نہیں کی جا سکتی۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو گا جب تک افسری کے ہندوستانی امیدواروں کی موجودہ مختصر سی تعداد میں اضافہ نہ ہو جائے… اور ہم اس اضافے کے دل سے خواہش مند ہیں… اور جب تک کافی تعداد میں ہندوستانیوں کو افسری کے لائق تجربہ و تربیت حاصل نہ ہوجائے… فوجی نظم و نسق ہندوستانیوں کے ہاتھ میں دینے کی پالیسی کو اس نقطہ انتہا تک پہنچنے کے لیے جب کہ پوری فوج ہندوستانی ہو جائے آگے نہیں لے جایا جا سکتا جب تک کہ کچھ ہندوستانی رجمنٹوں کو ان آزمائشوں سے گزرنے کا موقع نہ ملے۔ جس سے ان کی لیاقت کا اندازہ ہو سکے اور جب تک ہندوستانی افسر کامیاب فوجی ملازمت کے بعد اعلیٰ کمان حاصل کرنے کے قابل نہ ہوجائیں یہ صورت پیدا نہیں ہو سکتی اور ان تمام باتوں کے باوجود بھی مکمل ہندوستانی فوج کے معرض وجود میں آنے میں برسوں لگیں گے؟ اب میں اس سوال کی جرات کرتا ہوں کہ اس صورت حال کا ذمہ دار کون ہے کیااس کی وجہ یہ ہ کہ ہماری جنگجو قوموں میں کوئی فطری کمزوری ہے‘ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ فوجی تربیت کی رفتار سست ہے۔ ہماری جنگجو قوموں کی فوجی صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ فوجی تربیت کی رفتار دوسرے اقسام کی تربیتوں کے مقابلے میں سست ہو سکتی ہے۔ میں ا س مسئلے کا فیصلہ کرنے کے یے عسکری ماہر نہیںہوں۔ لیکن ایک عام آدمی کی حیثیت سے یہ کہہ سکتا ہوںکہ اس دلیل کو جس انداز سے پیش کیا گیا ہے اس سے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ لامتناہی ہو گا۔ اس کا مطلب ہندوستان کی مستقل غلامی ہو گا۔ لہٰذا یہ اور بھی ضروری ہے کہ نہرو رپورٹ کی تجویز کے مطابق سرحدی فوج کا نظم و نسق ایک دفاعی کمیٹی کے سپرد کر دیا جائے جس کے ارکان کے ناموں کا فیصلہ باہمی تصفیہ کے مطابق کیا جائے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ سائمن رپورٹ نے ہندوستان کی بری سرحدوں کو تو غیر معمولی اہمیت دی ہے لیکن بحری پوزیشن کی طرف محض سرسری اشارہ کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہندوستان کو ہمیشہ بری سرحدوں کی طرف سے آنے والے حملوں کا مقابلہ کرنا پڑا ہے۔ لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کے موجودہ آقائوں نے اس ملک پر اس سبب سے قبضہ کر لیا ہے۔ کہ اس کے ساحل غیر محفوظ تھے۔ فی زمانہ ایک خود مختار اور آزاد ہندوستان کو بری سرحدوں سے زیادہ اپنے ساحلوں کی حفاظت ضروری ہو گی۔ مجھے اس بات میں شبہ نہیں ہے کہ مسلم وفاقی ریاستیں اگر قائم ہو گئیں تو ہندوستان کے دفاع کی خاطر وہ غیر جانبدار ہندوستانی بری اور بحری افواج کے قیام پر خوشی سے راضی ہو جائیں گی مغلوں کے دور حکومت میں ہندوستان کی حفاظت کے لیے اس قسم کی غیر جانبدارانہ فوج ایک حقیقت تھی۔ بلکہ اکبر کے زمانے میں ہندوستانی سرحدوں کی حفاظت ایسی فوج کرتی تھی ۔ جس میں افسر ہندو جرنیل تھے۔ مجھے اس بات کا پکا یقین ہے کہ وفاقی ہند کی بنیاد پر ہندوستانی مسلمان سرحد پار سے آنے والے مسلمان حملہ آوروں کے ساتھ مل جائیں گے اتو وہ ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے گی میں نے مختصراًاس طریق کار کی طرف اشارہ کر دیا ہے جس کی روشنی میں میری رائے میں مسلمانان ہندکو ہندوستان کے دو اہم ترین مسائل کو دیکھنا چاہیے مسلمانان ہند کا اہم ترین مطالبہ یہ ہے کہ فرقہ وارانہ مسئل کا مستقل تصفیہ کرنے کے لیے برطانوی ہند کے صوبوں کی از سر نو تشکیل کی جائے۔ لیکن اگر فرقہ وارانہ مسئلے کا علاقائی حل نظر اندازکیا جاتا ہے تو پھر میں نہایت شد ومد سے مسلمانوں کے ان مطالبات کی تائید کروں گا جن پر آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم کانفرنس نے بار بار زور دیا ہے ہندوستان کے مسلمان کبھی ایسی آئینی تبدیلی پر راضی نہیں ہوں گے جس سے پنجاب اور بنگال میں ان کے اکثریتی حقوق پر اثر پڑے جو جداگانہ انتخابات کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے یا مرکزی اسمبلی میں ا ن کی ۳۳فی صد نمائندگی کی ضمانت نہ دی جائے گی مسلمان سیاسی لیڈر دو گڑھوں میں گر چکے ہیں۔ پہلا گڑھا مسترد شدہ میثاق لکھنو تھا جو ہندوستانی قومیت کے غلط تصو ر کی پیداوار تھا۔ اس سے مسلمان ہندوستان میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے تمام مواقع سے محروم ہو گئے دوسرا گڑھا پنجاب کے نا م نہاد دیہاتی باشندوں کے مفاد کے بہانے سے اسلامی اتحاد کی ناعاقبت اندیشانہ قربانی تھی۔ اس کا نتیجہ ایک ایسی تجویز میں ظاہر ہوا ہ۹ے جس نے مسلمانان پنجاب کو اقلیت میں تبدیل کر دیا ہے۔ لیگ کا فرض ہے کہ وہ میثاق اور تجویز دونوں کی مذمت کرے۔ سائمن رپورٹ نے مسلمانوں کے ساتھ بہت ناانصافی کی ہے۔ اس لیے کہ میں پنجاب میں اور بنگال میں مسلمانوں کی آئینی اکثریت کی سفارش نہیں کی گئی ۔ اس طرح یا تو مسلمان میثاق لکھنو کے پابند رہیں گے یا مخلوط انتخاب کی سکیم کو اختیار کریں گے۔ سائمن رپورٹ کے متعلق حکومت ہند کے مراسلے میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ جب سے یہ دستاویز شائع ہوئی ہے مسلم قوم رپورٹ کی دونوں تجاویز میں سے کسی ایک کو بھی پسند کرنے پر راضی نہیں ہوئی۔ مراسلے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی یہ شکایت بجا ہو سکتی ہے کہ پنجاب اور بنگال کی کونسلوں میں آبادی کے تناسب سے ان کی نمائندگی کا حق محض اس لیے چھین لیا گیا ہے کہ دوسرے صوبوں میں مسلم اقلیتوں کو مزید نمائندگی یا پاسنگ Seightage کا حق دے دیا گیا ہے۔ لیکن حکومت ہند کے مراسلے میں سائمن رپورٹ کی اس ناانصافی کی تلافی کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے…اور اہم نکتہ ہے… رپورٹ اس محتاط و متوازن اسکیم کی تائید کرتی ہے جو پنجاب کی حکومت کے سرکاری ممبروں نے تیار کی ہے۔ اور جس کے مطابق مسلمانان پنجاب کو ہندوئوں اور سکھوں پر دو فیصد اکثریت حاصل ہو گی اور پورے ایوان میں ان کا تناسب۴۹ فیصد ہوگا۔ ظاہر ہے کہ پنجاب کے مسلمان پورے ایوان میں قطعی اکثریت سے کم پر مطمئن نہیں ہوں گے۔ بہرحال لارڈ ارون اور ان کی حکومت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اقلیتی فرقوں کے لیے فرقہ وارانہ حلقہ ہائے انتخاب کا جواز اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک رائے دہندگی کا حق اتنا وسیع نہ ہو جائے کہ ووٹوں کی طاقت سے ان کی کل آبادی کی رائے کا صحیح اظہار ہو سکے۔ اور جب تک صوبائی کونسلوں کے مسلمان ممبر دو تہائی کی اکثریت سے بالاتفاق جداگانہ انتخاب سے دست بردار ہونے کو تیار نہ ہوجائیں لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلمانوں کی شکایت کو بجا سمجھنے کے باوجود حکومت ہند کو یہ جرات کیوں نہ ہوئی کہ پنجاب اور بنگال میں وہ مسلمانوں کے لے آئینی اکثریت کی سفارش کرتی مسلمانان ہند کسی ایسی تبدیلی پر بھی راضی نہیں ہوں گے جس کا ماتحت سندھ کو علیحدہ صوبہ نہ بنایا جائے یا شمالی مغربی صوبہ سرحد کو کمتر سیاسی درجہ نہ دیا جائے میرے خیال میں کوئی وجہ نہیں کہ سندھ و بلوچستان سے ملا کرکیوں نہ الگ صوبہ بنا دیا جائے۔ سندھ اور بمبئی پریذیڈنسی میںکوئی چیز مشترک نہیں ۃے۔ شاہی کمیشن کی رائے میں زندگی اور تمدن کے لحاظ سے سندھ ہندوستان کے مقابلے میں میسوپوٹامیا (عراق) اور عرب سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔ یہی مشابہت دیکھ کر عرصہ ہوا کہ مسلمان جغرافیہ داں مسعودی نے لکھا تھا: ’’سندھ ایسا ملک ہے جو بلاد اسلامیہ سے قربت رکھتا ہے‘‘۔ مصر کے متعلق پہلے اموی خلیفہ نے کہا تھا کہ مصر کی پشت افریقہ کی جانب اور چہرہ عرب کی جانب ہے۔ مناسب رد و بدل کے بعد یہی قول سند ھ ی صحیح پوزیشن کے متعلق بھی دہرایا جا سکتا ہے کہ اس کی پشت ہندوستان کی طرف اور چہرہ وسط ایشیا ککی جانب ہے علاوہ ازیں اگر سندھ کے زراعتی مسائل کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بمبئی کی حکومت کو اس سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور اس کے لامحدود تجارتی امکانات کو دیکھتے ہوئے جن کا انحصار اس بات پر ہے کہ کراچی ایک دن لازماً ہندوستان کا دوسرا دارالسلطنت ہو گا تو میرے خیا میں یہ مصلحت کے خلاف ہے کہ ایک ایسی پریذیڈنسی سے اس کا الحاق ہو جس کا رویہ آج بے شک دوستانہ ہے لیکن جو تھوڑے ہی عرصے کے بعد حریفانہ ہو جائے گا۔ ہم سے کہا جاتا ہے کہ بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کے راستے میں کوئی مالی مشکلا ت حائل ہیں۔ اس موضوع پر میں نے کوئی مستند بیان نہیں دیکھا۔ لیکن یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ایسی مشکلات موجود ہیں کوئی وجہ نہیں ہے کہ حکومت ہند ایک ایسے صوبے کو جس کا مستقبل امید افزا ہے اس کی آزادانہ ترقی کی جدوجہد کے لیے مالی امداد کیوں نہیں دے سکتی ۔ جہاں تک شمال مغربی سرحدی صوبے کا تعلق ہے یہ امر تکلیف دہ ہے کہ شاہی کمیشن نے اس سوبے کے باشندوں کو اصلاحات کا حق دیا ہی نہیں… اس کی سفارشات برے Brayکمیٹی کی سفارشات سے بھی پیچھے ہیں اور محض چیف کمشنر کی مطلق العنانی پر پردہ ڈالنے کا ذریعہ ہوں گی۔ افغانوں سے سگریٹ جلانے کا پیدائشی حق محض اس لیے چھین لیا گیا کہ وہ بار ودخائے میں رہتے ہیں۔ شاہی کمشنروں کی یہ استعارو ں والی دلیل کتنی ہی پرلطف کیوں نہ ہو لیکن یہ تشفی بخش نہیں ہے۔ سیاسی اصلاح آگ نہیں روشنی ہے ۔ اور ہر شخص جو خواہ وہ بارود خانے میں رہتا ہو یا کوئلے کی کانوں میں‘ روشنی حاصل کرنے کا حق حاصل ہے افغان بہادر اور ذہین ہیں اور اپنے جائزمقاصد کے لیے وہ تکلیفیں اٹحانا بھی جانتے ہیںَ اس لیے اگر ان کی ترقی کے مواقع میں رکاوٹ ڈالی گئی تو وہ یقینا ناراض ہوں گے ایسے لوگوں کو راضی رکھنا ہندوستان اور انگلستان دونوں کے حق میں بہتر ہو گا۔ حال ہی میں اس بدقسمت صوبے میں جو کچھ ہوا ہے ا س کا باعث یہاں کے باشندوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سادہ سلوک ہے جو بقیہ ہندوستان میں حکومت خود اختیار ی کے اصول کونافذ کرنے کے بعد شروع ہوا۔ مجھے امید ہے کہ برطانوی مدبرین اس صورت حال سے آنکھیں بند کر کے اس کو اس فریب میں مبتلا نہ ہونے دیں گے کہ صوبے میں جو بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ وہ خارجی اثرات کا نتیجہ ہے۔ حکومت ہند کے مراسلے میں شمالی مغربی صوبہ سرحد کے لے جن چند اصلاحات کے نفاذ کی سفارش کی گئی ہے وہ بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ بے شک یہ مراسلہ سائمن کمیشن سے ایک قدم آگے ہے چونکہ اس میں ایک طرح کی نمائندہ کونسل اور ایک نیم منتخب کابینہ کی سفارش کی گئی ہے۔ لیکن حکومت کے مراسلے میں اس اہم مسلم صوبے کو دوسرے ہندوستانی صوبوں کے برابر درجہ نہیں دیا گیا۔ گو واقعہ یہ ہے کہ افغان فطری طور پر ہندوستان کے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں جمہوری اداروں کو برتنے کے زیادہ اہل ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب مجھے گول میز کانفرنس پر کچھ تبصرہ کرنا چاہیے ذاتی طور پر مجھے اس کانفرنس کے نتائج سے زیادہ امید نہیں ہے ۔ خیال یہ تھا کہ فرقہ ورانہ جنگ و جدال کے مقا م سے دور رہ کر بدلی ہوء فضا میں ہوش مندی سے کام لیا جائے اور ہندوستان کے دو سب سے بڑے فرقوں میں حقیقی صلح صفائی کے بعد ہندوستان کی آزادی کی صورت نکل آئے گی لیکن واقعات کا رخ اس کے برعکس ہوا۔ درحقیقت لندن میںفرقہ ورانہ سوال پر بحث میں پہلے سے زیادہ یہ واضح ہو گیا کہ ہندوستان کے بڑے تمدنی فرقوں میں کتنا گہرا اختلاف ہے لیکن وزیر اعظم انگلستان بظاہر اس امر سے انکار کرتے ہیں کہ ہندوستان کا مسئلہ قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے انہوں نے کہا ہے کہ … میری حکومت کے لیے یہ مشکل ہے کہ پارلیمنٹ کے سامنے جداگانہ انتخاب کو برقرار رکھنے کی سفارش پیش کرے اور اس لیے کہ مخلوط انتخاب برطانوی جمہوریت پسندی کے جذبات سے بہت زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔ بظاہر انہیں یہ بات نظر نہیں آتی کہ برطانوی جمہوریت کا ڈھانچا ایسے ملک میں فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتا جہاں بہت سی قومیں آباد ہوں دراصل اس مسئے کو علاقہ واری طور پر حل کرنا چاہیے تھا۔ جداگانہ انتخاب بھی اس کے مقابلے میں گھٹیا حل ہے۔ ہی بھی امید نہیں ہے کہ اقلیتوں کی ذیلی کمیٹی بھی کوئی اطمینان بخش حل پیش کر سکے گی۔ یہ پورا معاملہ برطانوی پارلیمان کے سامنے پیش کرنا پڑے گا اب ہمیں یہی امید رکھنی چاہیے کہ برطانوی قوم کے باریک بیں نمائندے اکثر ہندوستانی سیاست دانوں کے برعکس حالات کی تہہ تک پہنچ جائیں گے۔ اور ہندوستان جیسے ملک میں امن و سلامتی کی اصل بنیاد کو دیکھ لیں گے۔ ایسا دستور بنانا جو اس نظریہ پر مبنی ہو کہ ہندوستان میں ایک قوم بستی ہے یا ہندوستان پر برطانوی جمہوریت کے اصولوں کو نافذ کرنے کی کوشش کرنا دراصل نادانستہ طور پر ہندوستان کو خانہ جنگی کے لیے تیار کرنا ہے جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ہندوستان میں اس وقت تک امن و امان قائم نہیں ہو سکتا جب تک ان تمام قوموں کو جو یہاں بستی ہیں جدید طور پر آزادانہ ترقی کے مواقع ا س طرح فراہم نہ کیے جائیں گے ہک ماضی سے ان کا رشتہ بھی منقطع نہ ہونے پائے ۔ مجھے یہ کہتے ہوئے مسرت حاصل ہوتی ہے کہ ہمارے مسلمان مندوبین کو ہندوستان کے اس مسئلے کے مناسب حل کی اہمیت کا جسے میں بین الاقوامی مسئلہ کہتا ہوں پوری طرح احساس ہے۔ ان کا یہ اصرار بالکل بجا ہے کہ مرکزی حکومت کی ذمہ داری کا مسئلہ طے کرنے سے پہلے فرقہ ورانہ سوال کا تصفیہ ضروری ہے کسی مسلمان سیاست دان کو فرقہ پرستی کے طعن آمیز پروپیگنڈا کا خیال نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ یہ اصطلاح بقول برطانوی وزیر اعظم جمہوری جذبت سے فائدہ اٹھانے کے لیے وضع کی گئی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انگلستان ایک ایسی صورت حال کو تسلیم کرے جو فی الحقیقت ہندوستان میں موجود ہی نہیں ہے۔ اس وقت بہت بڑے بڑے مفاد خطرے میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہماری تعداد سات کروڑ ہے اور ہندوستان کیدوسرے باشندوں کے مقابلے میں ہم میں سب سے زیادہ یکستانیت اورہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں صرف مسلمان باشندوں کو ہی جدید اصطلاح میں ایک قوم کہا جا سکتا ہے۔ باوجویکہ ہندو تقریباً تمام پہلوں سے ہم سے آگے ہیں۔ لیکن انہوں نے ابھی تک وہ یک رنگی حاصل نہیں کی جو ایک قوم بننے کے لیے ضروری ہے۔ اور جو آپ کے لیے اسلام کا ایک تحفہ ہے۔ بیشک وہ بھی ایک قوم بننے کے لیے مضطرب ہیں لیکن قوم کی ترکیب میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ اور جہاں تک ہندوئوں کا سوال ہے ان کے سماجی ڈھانچے کو تو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ مسلمان رہنمائوں اور سیاست دانوں کو مغالطہ آمیزی اور سہل انگاری کی اس دلیل سے بھی متاثر نہیں ہونا چاہیے کہ ترکی ایران اور دوسرے مسلم ممالک بھی قوم پرستی یعنی علاقائی خطوط پرآگے بڑھ رہے ہیں۔ مسلمانان ہند کی صورت حال ان سے مختلف ہے۔ ہندوستان سے باہر اسلامی ممالک کی تقریباً پوری آبادی مسلمان ہے قرآن کی اصطلاح میں ان کی اقلیتیں بھی اہل کتاب میں سے ہیں۔ اہل اسلام اور اہل کتاب کے درمیان کوئی سماجی دیوار حائل نہیں ہے۔ کوئی یہودی عیسائی یا زرتشتی اگر کسی مسلمان کے کھانے کو چھو لے تو وہ نجس نہیں ہو جاتا اور اسلامی شریعت اہل کتاب کے ساتھ مناکحت کی اجازت دیتی ہے۔ درحقیقت اسلام نے جو پہلا قدم انسانیت کے اتحاد کی طرف اٹھایا تھا وہ یہی تھا کہ جن لوگوں کے اخلاقی نصب العین تقریباً یکساں تھے انہیں اتحاد و اتفاق کی دعوت دی قرآن کا ارشاد ہے: یا اھل الکتب تعالو الی کلمتہ سواء بیننا وبینکم عیسائیوں اور مسلمانوں کی جنگوں اور اس کے بعد مختلف صورتوں سے یورپ کی جارحیت کے باعث دنیائے اسلام میں اس آیت کے لا انتہا معنوں میںاس پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا آج اسلامی ملکوں میں یہ مقصد اسلامی قومیت کی شکل میں بتدریج بروئے کار آ رہا ہے۔ مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ۃے کہ ہمارے مندوبین کی کامیابی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کانفرنس کے غیر مسلم مندوبین سے وہ کس حد تک دہلی کی قراردادوںکے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اگریہ مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے تو اس سے ہمارے لیے ایک ایسا جذبہ پیدا ہو گا جو دور رس نتائج کا حامل ہو گا۔ اس وقت وہ لمحہ آ ئے گا جب مسلمانان ہند کو اتحاد و اتفاق کے ساتھ آزادانہ سیاسی قدم اٹھانا پڑے گا۔ اگر آپ اپنے مقاصد اور نصب العین کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو آ پ کو اس اقدام کے لیے تیار رہنا چاہیے ہمارے سربرآوردہ رہنمائوں نے سیاسی مسائل پر کافی غور و خوص کیا ہے۔ اور ان کے غور و فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم کسی حد تک ان قوتوں سے آشنا ہو گئے ہیں جو ہندوستان اور ہندوتان کے باہر کی اقوام کی قسمتوں کی تشکیل کر رہی ہیں لیکن میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آیا اس غور و فکرنے ہمیں اس قابل بنا دیا ہے کہ مستقبل قریب میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہم اس کے مقابلے کے لیے تیار ہوں؟ مجھے صاف الفاظ میں یہ کہنے دیجیے کہ اس وقت مسلمانان ہند دوامراض میں گرفتار ہیں اول تو ان میں قحط الرجال ہے سر میلکم ہیلی اور لارڈ ارون کی وہ تشخیص بالکل صحیح تھی جب انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں کہا تھا کہ یہ قوم رہنما پیدا کرنے سے قاصر رہی رہنما سے میری مراد ایسے لوگوں کی ہے جو خدا کی دین یا اپنے تجربے کی بنا پر اسلام کی روح اور تقدیر کے بارے میں گہر ا ادراک رکھتے ہوں اور اسی کے ساتھ ساتھ جدید تاریخ کے رجحانات سے بھی پور ی طرح واقف ہوں ۔ یہی وہ لوگ ہی جن لوگوں کی قوت عمل کا انحصار ہوتا ہے۔ یہ لوگ وضع نہیں ہوتے بلکہ خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہوتے ہیں۔ دوسرا مرض جو مسلمانوں کو لاحق ہے وہ یہ ہے کہ ان میں اجتماعی عمل کا فقدان رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض افراد اور گروہ الگ الگ راہ پر گامزن ہیں او رقوم کے عام اور اجتماعی افکار و اعمال میں شریک نہیں ہیں۔ ہم سیاست کے میدان میں وہی کچھ کر رہے ہیں جو ہم صدیوں سے مذہب کے میدان میں کرتے چلے آئے ہیں لیکن مذہبی گروہ بندیوں سے ہمارے اتحاد کو اتنا نقصان نہیںپہنچا۔ اس سے کم از کم انتا تو ظاہرہوا ہے کہ ہمیں قوم کی تعمیر و ترکیب کے اصول سے دلچسپی ہے۔ مزید برآں یہ اصول اس قدر وسیع ہے کہ کسی ایک گروہ کی بغاوت اس حد تک نہیں پہنچی کہ وہ جسد اسلامی سے قطعی طور پر منقطع ہو جائے۔ لیکن اس وقت جب لوگوں کی زندگی کے لیے اجتماعی عمل کی ضرورت ہے۔ سیاسی عمل میں اختلاف کا نتیجہ ہلاکت خیز ہو سکتاہے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ ان دونوں امراض کے علاج کی کیا صورت ممکن ہو سکتی ہے؟ پہلے مرض کا مداوا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ جہاں تک دوسرے مرض کا تعلق ہے میرے خیال میں اس کا علاج ممکن ہے اس موضوع پر میرا ایک مخصوص نقطہ نظر ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اس کے اظہار کو اس وقت تک کے لیے ملتوی رکھا جائے جب تک واقعی وہ صورت حال پیدانہ ہو جائے جس کا خطرہ نظر آ رہا ہے۔ اگر ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو پھر ہر نقطہ خیال کے سربرآوردہ مسلمانوں کو ایک جگہ جمع ہونا ضروری ہو گا… اس لیے نہیں کہ وہ قراردادیں پاس کریں بلکہ اس لیے کہ حقیقی مقصد کے حصول کے لیے مسلمانوں کا رویہ متعین کریں اور انہیں راستہ دکھلائیں اس تقریر میں میں نے اس امر کا تذکرہ محض اس لیے کیا ہے کہ تاکہ یہ بات آپ کے ذہن میں رہے اورآپ اس دوران نہایت سنجیدگی سے غور کریں۔ حضرات! میرا خطبہ تمام ہوا۔ آخر میں میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ تاریخ ہند کے موجودہ نازک ور میں مسلمانوں کو تنظیم کامل اور اتحاد عزائم و مقاصد کی ضرورت ہے جو آپ کے حق میں بھی اور عمومی طور پر بھی ہندوستان کے حق میں بھی ضروری ہے۔ ہندوستان کی سیاسی غلامی پورے ایشیا کے لیے لاتعداد مصائب کا سرچشمہ ہے۔ اس نے مشرق کی روح کو کچل ڈالا ہے اور اظہار ذات کی مسرت سے پوری طرح محروم کر دیا ہے۔ جس کی بدولت کسی زمانے میں ایک عظیم اور شاندار تمدن پیدا ہوا تھا۔ ہمیں اس ہندوستان کی خاطر ایک فرض ادا کرنا ہے۔ جہاں جینا اور مرنا ہمارا مقدر ہے۔ ایشیا اور خصوصاً مسلم ایشیاء کی خاطر ہمیں ایک فرض پورا کرنا ہے ۔ ایک ہی ملک میں ۷ کروڑ مسلمانو ں کی موجودگی اسلام کیلیے بلکہ تمام ایشیا کے مسلمانوں سے زیادہ قیمتی اور سرمایہ ہے۔ ہمیں ہندوستان کے مسئلے کو نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے نقطہ نظر سے بھی دیکھنا چاہیے۔ ایشیا اور ہندوستان کے حق میں وفاداری کے ساتھ ہم اس وقت تک اپنا فرض پورا نہین کر سکتے جب تک ہم ایک متعین و مخصوص مقصد کے لیے اجتماعی عزم نہ کریں۔ اگر آپ ہندوستان کی دوسری سیاسی جماعتوںمیں اپناایک سیاسی وجود قائم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے لے اس قس کا بندوبست قطعی ضروری ہے جو سیاسی مصالح ہماری ملی زندگی ے لیے ناگزیر ہیں وہ پہلے ہی ہماری بدنظمی اورانتشار کے باعث الجھ چکے ہیں۔ گو میں فرقہ ورانہ تصفیے سے مایوس نہیں ہوں لیکن میں اپنا ایک احساس بھی آپ سے نہیں چھپا سکتا کہ موجودہ بحران کے حل کے لیے ملت کو مستقبل قریب میں ایک آزادانہ راہ عمل اختیار کرنی پڑے گی اور آزادانہ سیاسی راہ عمل ایسے نازک وقت میں صرف ان لوگوں کے لیی ہی ممکن ہے جو عزم کے مالک ہوں اور جن کی قوت ارادی ایک مقصد پر مرکوز ہو۔ کیا آپ کے لیے ممکن ہے کہ آپ متحدہ عزم کے ذریعے ایک مکمل نامیاتی نظام وضع کر لیں؟ بے شک یہ ممکن ہے آپ فرقہ بندی اور ہوا و ہوس کی قیود ے آزاد ہو جانے انفرادی اور اجتماعی عمل کی قدر و قیمت کو پہچاننے خواہ اس مقصد کی روشنی میںجس کی آپ نمائندگی کر رہے ہیں وہ عمل مادی اغراض ہی سے متعلق کیوں نہ ہو…مادہ سے گز رکر آ پ روحانیت کی طرف جائیے مادہ کثرت ہے روح نور ہے۔ زندگی ہے اور وحدت ہے… مسلمانوں کی تاریخ سے میں نے ایک سبق سیکھا ہے۔ تاریخ کے آڑے وقت میں مسلمانوں کو اسلام نے بچایا ہے ۔ مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی۔ اگر آج آپ اپنی نظریں اسلام پر گاڑ دیں‘ اور اس میںجو حیات آفریں قوت پنہاں اس سے متاثر ہوجائیں تو آپ اپنی پراگندہ قوتوں کو پھر سے اکٹھا کر سکیں گے اپنی کھوئی ہوئی صلابت کردار دوبارہ حاصل کر لیں گے قرآن کریم کی ایک بڑی معنی خیز آیت ہے کہ پوری انسانیت کی موت اور پیدائش بھی فرد واحد کی موت اور پیدائش کی مانند ہے کوئی وجہ نہیں ہے کہ آپ جو انسانیت کے اس ارفع و اعلیٰ تصورکے اولیں باعمل شارح ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں ۔ اسی اصول پر جئیں اور ایک نفس واحدہ کی طرح آگے قدم بڑھائیں۔ میں جب یہ کہتا ہوں کہ ہندوستان میں صورت حال وہ نہیں ہے جو بظاہر نظر آتی ہے تو میرا مقصد کسی کو فریب دینا نہیں ہے۔ لیکن بہرحال اس کا مطلب آپ پر اس وقت روشن ہو جائے گا جب آپ صورت حال کو دیکھنے کے لیے ایک صحیح اجتماعی خودی پیدا کر لیں گے۔ قرآن مجید کے الفاظ میں: علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم (۵:۱۰۵) ٭٭٭ اقبال کا ایک غیر مطبوعہ خط ارشد میر علامہ اقبال کے زیر نظر غیر مطبوعہ خط کے مکتوب الیہ (جسٹس) شیخ دین محمد ہیں جس زمانہ میں یہ خط لکھا گیا تھا دونوں حضرات لاہور ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ کی حیثیت سے وکالت کرتے تھے۔ شیخ دین محمد گوجرانوالہ کے ایک معزز کشمیری خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ ۱۸۸۶ء گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے ۔ والد گرامی کا نام منشی صالح محمد تھا۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم گوجرانوالہ سے حاصل کی ایف سی کالج لاہور سے ایم اے انگریزی ۱۹۰۷ء میں اور ایل ایل بی کا امتحان ۱۹۱۰ء میں پاس کرنے کے بعد راولپنڈی سے بحیثیت وکیل زندگی کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ راولپنڈی میں قیام کے بعد والدہ محترمہ کے حکم پر ۱۹۱۴ء میں راولپنڈی سے گوجرانوالہ منتقل ہوگئے یہاں اس دور میں آپ کے برادر بزرگ شیخ عطا محمد اکابرین شہر اور معروف وکلا میں سے تھے۔ جو وکیل سرکار مقرر ہو کر گجرات تشریف لے جا چکے تھے۔ شیخ دین محمد کا گوجرانوالہ آنے پر جلد ہی مقتدر وکلا میں شمار ہونے لگا۔ اور گوجرانوالہ کے علاوہ دیگر اضلاع میںبھی قتل اور دیگر سنگین اور اہم مقدمات کی پیروی کے لیے جانے لگے۔ اسی دوران آپ نے وکالت کے ساتھ ساتھ شہری سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا۔ پہلی مرتبہ ۱۹۱۵ء میں میونسپل کمیٹی گوجرانوالہ کے رکن منتخب ہوئے۔ یہ اعزاز ۱۹۳۴ء تک برقرار رہا۔ کئی برس بلدیہ گوجرانوالہ کے نائب صدر اور صدر بھی رہے۔ ۱۹۱۹ء میں مارشل لاء میں بغاوت کے الزام میںگرفتا ر ہوئے اور دس ماہ تک پابند سلاسل رہنے کے بعد رہا ہوئے۔ آپ کو ۱۹۲۰ء سے ۱۹۲۸ء تک ضلع مسلم لیگ گوجرانوالہ کے صدر رہنے کا امتیاز بھی حاصل رہا۔ مسلمانوںکے نمائندے کی حیثیت میں کانگرس کے ساتھ لکھنو پیکٹ پر دستخط کرنے والوں میں آپ بھی تھے۔ پاکستان بننے سے قبل دوبار گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے یہ ہی نہیں بلکہ دو مرتبہ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن بھی چنے گئے۔ پنجاب کونسل کے رکن کی حیثیت سے بڑی معرکہ آرا تقاریر بھی کیں جن میں سب سے اہم تقریر وہ تھی جس میں واشگاف الفاظ میں کہا گیا تھا کہ ہندو مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں ان کے مذاہب ان کی روایات ان کے مفادات ان کی تہذیب و ثقافت اور زبانیں بھی مختلف ہیں۔ اس تقریر کے چند اقتباسات انگریزی اخبار ٹریبون کی ۲۰ ستمبر ۱۹۲۹ء کی اشاعت میں بھی شائع ہوئے تھے۔ شیخ دین محمد نے آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس اور کشمیر کی تحریک آزادی میں بھی ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں جن کا اعتراف کشمیری لیڈران کرام وقتاً فوقتاً کرتے رہے۔ ۱۹۳۱ء میں خان بہادر کا خطاب ملا۔ ۱۹۳۳ء میں اسسٹنٹ لیگل ریمبمبرنسفر Assistant Legal Remembrancerاور ۱۹۳۴ء میں لاہور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج کی حیثیت سے تقرر ہوا۔ اسی سال پنجاب یونیورسٹی نے ڈاکٹر آف لاز کی اعزازی ڈگری دی مدتوں پنجاب یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ اورسینٹ کے ممبر بھی رہے۔ ۱۹۳۶ء میں لاہورہائی کورٹ کے مستقل جج ہوئے اور ۱۹۴۶ء تک اس عہدہ جلیلہ پر فائز رہے۔ ۱۹۳۸ء میں مسجد شہید گنج لاہور کا تاریخی اختلافی فیصلہ لکھ کر مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ ۱۹۴۷ء میں بہاولپور کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ اسی سال قائد اعظم نے پنجاب بائونڈری کمیشن کا ممبر نامزد کیا۔ آ پ نے ریڈ کلف کی جانبداری اور بدنیتی کے متعلق قائد اعظم کو بروقت مطلع کیا۔ اور دوسرے مسلمان ممبر جسٹس محمد منیر سے باہمی مشورہ کر کے کمیشن سے استعفا دینے کی پیش کش بھی کی لیکن قائد اعظم نے معلوم نہیں کس بنا پر یہ مناسب نہیںسمجھا۔ پاکستان بننے کے بعد قائد آعظم نے آپ کو ایک خصوصی کمشن کا سربراہ مقرر کیا۔ اکتوبر ۱۹۴۸ء تک یہ خدمت سرانجام دیتے رہے ۱۹۴۸ء کے آخر میں گورنر سندھ مقرر ہوئے۔ ۱۹۵۲ء تک گورنر کی حیثیت سے کئی قابل قدر اور ناقابل فراموش کارنامے سر انجام دیے۔ لیکن بالآخر ۱۹۵۲ء میں اس عہدہ جلیلہ سے مستعفی ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ کو لا کو ڈ یفیکیشن کونسل کا انچارج مقرر کیا گیا۔ اس میکشن کا مقصد مغربی پاکستان میں ون یونٹ کا قیام عمل میں لانا تھا۔ ۱۹۵۶ء میں حکومت پاکستان کے مشیر امور کشمیر مقرر ہوئے۔ جس کا درجہ مرکزی کابینہ کے وزیر کے برابر تھا۔ ۱۹۵۸ء میں مختلف حیثیتوں سے ملکی و ملی خدمات سر انجام دینے کے بعد عملی سیاسیات سے ریٹائر ہو گئے۔ البتہ تادم مرگ انجمن اسلامیہ گوجرانوالہ کے صدر رہے۔ ۳۱ جنوری ۱۹۶۵ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور خاندانی قبرستان پیر گودڑی شریف میں دفن ہوئے۔ شیخ دین محمد کے علامہ اقبال سے تعلقات تقریباً پون صدی کے عرصہ پر محیط ہیں۔ ان دونوں میں چند چیزیں مشترک تھیں۔ دونوں پنجابی کشمیری نژاد تھے۔ ہم پیشہ ہونے کے علاوہ ایک ہی سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ تھے۔ سیاسی طورپر خیالات میں ہم آہنگی تھی۔ دو قومی نظریہ اور جداگانہ انتخاب کے زبردست حامیوں میں سے تھے۔ ہر دو حضرات پہلی مرتبہ ۱۹۲۶ء میں پنجاب کونسل کے ممبر منتخب ہوئے ۔ یہاں ان کے تعلقات میں مزید اضافہ ہوا انجمن حمایت اسلام لاہور کے سرگرم رکن رہے دونوں نے مسلمانان پنجاب کی فلاح و بہبود کے لیے کئی اہم قومی و ملی فریضے سرانجام دیے۔ ہر دو حضرات کو درویشوں اور فقیروں سے بے پناہ عقیدت تھی۔ اور بزرگان دین کے مزارو ں پر حاضری دینا جزو ایمان سمجھتے تھے۔ اسی طرح دونوں کی انگریزی عربی اورفارسی زبانوںپر گہری نظر تھی۔ شیخ صاحب گو شاعر یا صاحب طرز ادیب تو نہ تھے لیکن سخن فہمی اور سخن گستری میں اپنی مثال آپ تھے۔ ذاتی کتب خانہ بیش بہا کتب پر مشتمل تھا۔ جو اپنی زندگی میں ہی لاہور ہائی کورٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ‘ پبلک دار المطالعہ گوجرانوالہ اور کئی دیگر اداروں میںتقسیم کر دیا تھا۔ کتابوں کے علاوہ ذاتی ملکیت میںکئی نادر قلمی نسخے اہم دستاویزات اورمشاہیر برصغیر کے لاتعداد خطوط ہیں جو ان کے صاحبزادگان دیوان محمد سعید صاحب اور شیخ محمد اسلم صاحب ایڈووکیٹ کے پاس ہیں۔ شیخ صاحب نے اعلیٰ و ارفع علمی و ادبی ذوق ہونے کی وجہ سے اپنی پبلک لائف اور سرکاری کلیدی اسامیوں پر فائز رہنے کے زمانے کے اہم ترین کاغذات کو نہایت قرینے اور سلیقے سے مختلف عنوانات کے تحت علیحدہ علیحدہ لفافوں میںمحفوظ رکھا تھا۔ ایک زمانہ میں وہ اپنی یادداشتوں کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ لیکن افسوسہے کہ عمر نے وفا نہ کی اور قوم ایک نادر خزینے سے محروم ہو گئی۔ اقبال شیخ صاحب کے بلند ادبی ذوق سے باخبر تھے۔ چنانچہ وہ آپ کو نہ صرف اپنی ہر نئی شائع ہونے والی کتاب کا نسخہ فراہم کرتے تھے بلکہ کبھی کبھار اپنا تازہ کلا م بھی لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ مقام افسوس ہے کہ علامہ اقبال کے ہاتھ کی لکھی ہوئی یہ تحریریں و پیش کردہ ذاتی کتب دستیاب نہیںہو سکیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال اور شیخ صاحب کے درمیان بے ترکلف خط و کتابت بھی ان کے گہرے مراسم کی مظہر ہے افسوس کہ شیخ دین محمد نے جو خطوط علامہ کو گاہے بگاہے لکھے تھے وہ نہیں مل سکے۔ تاہم علامہ کے شیخ صاحب کے نام لکھے گئے متعدد خطوط میں سے ڈاکٹروحید قریشی صاحب نے دو خطوط سہ ماہی رسالہ صحیفہ لاہور کے اقبال نمبر میں شائع کر دیے تھے۔ اصل خطوط عجائب گھر لاہور کی ملکیت ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون مں ذاتی علم کی بنا پر چھ سات ایسے خطوط کا حوالہ دیا ہے اسی مضمون میں وہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یادہے کہ علامہ کا ایک خط الیکشن کے سلسلہ میں بھی تھا جس میں علامہ نے شیخ صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ وہ جس حلقہ انتخاب میں کھڑے ہوئے ہیں اس کی بجائے دوسرے حلقے سے انتخاب لڑیں تاکہ اس حلقے سے سر فضل حسین انتخاب لڑ سکیں۔ یہ خط اپنے متن کے اعتبار س اہم تھا خدا کرے محفوظ ہو۔ متذکرہ خط جو ڈاکٹر صاحب کے نزدیک نہایت اہم اور فی الواقع تاریخی حیثیت کا حامل ہے اس کے متعلق شیخ محمد اسلم صاحب نے بتایا ہے کہ وہ خط اب بی اے قریشی صاحب کے پاس ہے۔ قریشی صاحب نے اس خط کو لینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جو خاندانی مراسم ہونے کی وجہ سے ان کی درخواست کو رد نہ کیا جا سکا۔ البتہ بقیہ دو تین خط کوشش بسیار کے باوجود تادم تحریر نہیں مل سکے ۔ یہ خط اگرچہ ذاتی نوعیت کے تھے لیکن غیر مطبوعہ ہونے کی وجہ سے کافی اہم تھے۔ زیر نظم خط اقبال کا قلمی اور انگریزی میںتحریر کردہ ہے۔ متن گو مختصڑ ہے لیکن نفس مضمون کے اعتبار سے خاصہ اہم ہے یہ خط علامہ اقبال نے اپنے ذاتی پیڈ کے عام سفید کاغذ پر نہایت عجلت میںلکھا ہے۔ اغلب ہے کہ علامہ نے یہ خط اپنے دولت کدے سے نہیںبھیجا۔ گھر پر وہ عام طور پر خطوط کے لیے اپنے پیڈ کو ہی استعمال کیا کرتے تھے۔ اس خط کا لفافہ بھی محفوظ ہے جو سفید رنگ کا اور عام سائز کا ہے۔ خط کا کاغذ اور لفافہ بھی نصف صدی گزرنے سے زردی مائل ہو چکے ہیں لفافے پر علامہ صاحب نے شیخ صاحب کا ایڈریس اردو میںنہایت خوبصورت انداز میں خط شکستہ میں تحریر کیا ہے۔ لفافہ کی یہ تحریر بادی النظر میں نصف قوس کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس سے بھی علامہ اقبال کی شیں دین محمد سے محبت شفقت اور ان کے لیے دلی احترام کا بخوبی اندازہ لگ جاتا ہے لفافے پر پتہ اس طرح لکھا گیا ہے … لاہور… مخدومی شیخ دین محمد ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور ملاحظہ کریں اس خط کے اختتام پر علامہ نے اپنا پورا نام محمد اقبال (Muhammad Iqbal)انگریزی حروف میں لکھا ہے۔ وگرنہ وہ کئی خطوط میں مختلف پیرائے میں (Mohd Iqbal ia Md Iqbal)بھی لکھتے ہیں۔ یہ خط علامہ نے دستی رقعہ کی صورت میں شیخ صاحب کو گوجرانوالہ ارسال کیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ بہ آسانی لگ سکتا ہے۔ یہ خط ان کے صاحبزادے شیخ محمد اسل کی تحویل میں ہے: Lahore 14 May 1928 My Dear Din Muhammad I want to have a talk with you concerning a very important matter, which effects the community as a whole when are you coming to Lahore? Please let me know when you are coming. I shall be away from Lahore for 17th possibly 18th also. Yours etc Muhammad Iqbal خط کا اردو ترجمہ: لاہور ۱۴ مئی ۱۹۲۸ء مائی ڈیر دین محمد میں آپ سے ایک ایسے اہم مسئلے کے بارے میں گفتگو کرنے کا خواہش مند ہوں جس کا تعلق قوم سے ہے ۔ آ پ لاہور کب تشریف لا رہے ہیں۔ ازراہ کرم اپنی آمد کے بارے میں مطلع فرمائیں میں سترہ اور غالباً اٹھارہ کو بی لاہور سے باہر رہوں گا۔ آپ کا مخلص محمد اقبال اصل خط کا اردو ترجمہ کرتے وقت میں نے عمداً مائی ڈئر کے الفاظ کا ترجمہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ کیونکہ یہ ترکیب اردو زبان میںمروج اور مستعمل ہے۔ مذکورہ خط میں جس اہم مسئلہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کی نوعیت کا اندازہ کرنے کے لیے ہیں اس خاص دور اور اس سے قبل کے سیاسی حالات کے سرسری جائزے کے ساتھ ساتھ دونوں حضرات کے سیاسی نظریات کو بھی پیش نظر رکھنا ہو گا۔ اس سلسلسہ میں یہ حقیقت تو واضح ہے کہ ہر دوا کابر ملت آل انڈیام سلم لیگ سے وابستہ تھے۔ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی ۱۹۲۶ء میں یہ طے پایا تھا کہ لیگ کا آئندہ اجلاس لاہور میں ہو گا لیکن بعد ازاں جب پنجاب کے مسلم لیگی رہنمائوں میںجن میں سر شفیع محمد‘ سر فضل حسین ‘ علامہ اقبال پیش پیش تھے نے دہلی تجاویش کی ڈت کر مخالفت کی۔ کیونکہ ان کے خیال میں وہ فارمولا جسے قائد اعظم محمد علی جناح نے ۱۹۲۶ء کے سالانہ اجلاس میں مسلم اکابرین سے منظور کر لیا تھا ہر لحاظ سے جداگانہ انتخاب کے مسئلہ کے لیے ضرب کاری کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس صورت حال سے لامحلہ قائد اعظم محمد علی جناح کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں ۱۹۲۷ء کے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں منعقدہ لاہور میںپنجاب کے مسلم لیگی لیڈر من مانی کرتے ہوئے یا پنڈال میںہم خیال لوگوں کا اجتماع کر کے دہلی تجاویز کو سبوتاژ نہ کر دیں۔ چنانچہ ان حالات کے پیش نظر محمد علی جناح لیگ کی مجلس عاملہ سے ۱۹۲۷ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کو لاہور کے بجائے کلکتہ میں کرانے میںکامیاب ہو گئے۔ جس پر سر محمد شفیع او ان کے ہمنو بضد ہوئے کہ لیگ کا سالانہ اجلاس طے شدہ پروگرام کے تحت لاہور ہی میں ہونا چاہیے مگر ان کی کوئی شنوائی نہ ہو سکی جس پر آل انڈیا مسل لیگ دو دھڑوں یعنی جناح لیگ اور شفیع لیگ میں بٹ گئی۔ اقبال نے نء صورت حال میں بھی سر شفیع کا ساتھ دیا۔ بلک ہوہ اس لیگ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہونے پر رضامند بھی ہو گئے۔ اگرچہ محمد علی جناح نے اپنے خط محررہ ۶ دسمبر ۱۹۲۷ء میں شیخ دین محمد کو کلکتہ سیشن میں شمولیت کی درخواست کی تھی لیکن شیخ صاحب نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں ہی شرکت کی اور یوں عملاً اقبال و شفیع کا ساتھ دیا۔ ۱۹۱۹ء کے ایکٹ میں بھی ایک شق یہ تھی کہ دس سال کے بعد ایک کمیشن کا تقرر کیا جائے گا جو اس امر کا جائزہ لے گا کہ ہندوستان نے ۱۹۱۹ء کی اصلاحات کے تحت کس قدر ترقی ک یمنازل طے کی ہیں نیز اس وقت یہ بھی دیکھا جائے گا کہ ہندوستان میں ذمہ دار حکومت کس حد تک قائم ہو ۔ پروگرام کے مطابق تو کمشین کی تشکیل ۱۹۲۹ء میں ہونی تھی مگر ہندوستانیوں کے اضطراب کے پیش نظر حکومت برطانیہ نے سر جان سائمن کی سرکردگی میں نومبر ۱۹۲۷ء میں ایک کمیشن بنا دیا۔ تاکہ یہ کمیشن ہندوستان کی آئینی صورت حال کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ آئندہ آئین کے بارے میں بھی سفارشات کرے۔ چونکہ کمیشن میں ہندوستان کو کوئی نمائندگی نہ دی گئی تھی۔ جسے ہندو ستانیوںنے اپنی توہین جانا اور فوری رد عمل میں اس کے متحدہ بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ بائیکاٹ کرنے والو ں میںقائد اعظم محمد علی جناح‘ مولانا محمد علی جوہر‘ کانگریس اور دیگر قابل ذکر سیاسی لیڈر ماسوائے شفیع لیگ تھیں شفیع لیگ نے اس نقطہ نظر سے اختلاف کیا ۔ اس کے سرکردہ ارکان جن میں سر محمد شفیع۔ علامہ اقبال ‘ نواب ذوالفقار علی خاں پیش پیش تھے کمیشن سے تعاون کے حامی تھے۔ ان کے خیال میں مسلمانوںکے مفاد کے لیے ضروری تھا کہ کمیشن کو اپنے موقعف سے آگاہ کیا جائے چنانچہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر سائمن کمیشن کا ہر جگہ بائیکاٹ کیا Go back Simonسائمن واپس جائو کے نعرے لگائے بعض مقامات پر کالی جھڈیوں سے بھی ان کا سواگت ہوا۔ البتہ شفیع لیگ نے کمیشن سے بھرپور تعاون کیا۔ لاہور میں سر محمد شفیع کی سربراہی میں سائمن کمیشن کا خیر مقدم کیا گیا اور جبکہ گوجرانوالہ میں شیخ دین محمد نے بحیثیت ممبر لیجسلیٹو کونسل و صدر مسلم لیگ گوجرانوالہ نہ صرف کمیشن کے ارکان سے ملاقات کی اور انہیں مسلمانوں کے مطمح نظر سے آگاہ کیا بلکہ ارکان کمیشن کے اعزاز میں اپنے شاندار بنگلہ محمد منزل واقع سول لائنز گوجرانوالہ میںشاندار ضیافت کا اہتمام بھی کیا چنانچہ سر جان سائمن چئر مین کمیشن نے لاہور پہنچنے پر شیخ صاحب کو شکریے کا خط بھی لکھا۔ یہ خط بھی تا ہنوز غیر مطبوعہ ہے۔ ا س کا متن من و عن درج ہے: Indian Statutory Commision Dated March, 19th 1928 Dear Mr. Din Muhammad I am writing to thank you very much for your hospitality last night. My colleagues and I greatly enjoyed our evening and gained much from the pleasure of meeting you and your guests. with many thanks and kind regards. yours Sincerely John Simon متذکرہ خط کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے: مورخہ ۱۹ مارچ ۱۹۲۸ء مائی ڈیر دین محمد میں گزشتہ شب آ پ کی مہمان نوزی کے تشکر کے لیے یہ خط تحریر کر رہا ہوں۔ میرے رفقا اور میں نے آ پ کے ہمراہ اس شا م کو نہایت خوشگوار طور پر گزارا اور آپ کی اور آپ کی مہمانان گرامی کی پر لطف صحبت سے بدرجہ غایت مستفیض ہوئے۔ بے حد تشکر اور احترام کے ساتھ آپ کا مخلص جان سائمن اس سیاسی پس منظر اور بالخصوص سائمن کمیشن کے حوالے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ جس اہم مسئلہ کی طرف علامہ نے زیر نظر خط میں اشارہ کیا ہے اس کا براہ راست تعلق سائمن کمشن ہی سے ہے۔ اس کی تائید شیخ محمد اسلم نے اپنے والد محترم کے حوالے سے کرتے ہیں۔ مزید ثبوت کے لیے یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ جو یادداشت سائمن کمیشن کو بھیجی جائے اس میں مکمل صوبائی مختاری پر زور دیا جائے اور اس مطابے میں کسی قیمت پر بھی سرمو لچک پیدا نہ کی جائے شفیع لیگ کے چند ارکان اس خیال سے پوری طرح متفق نہ تھے علامہ کے نزدیک قومی سطح پر یہ مسئلہ بے حد اہم اور نازک تھا۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ اس مسئلہ کو متفقہ طور پر منظور کر لیا جائے چنانچہ اس سلسلہ میں انہوں نے اہل الرائے حضرات سے رابطہ قائم کیا شیخ صاحب کو ارسال کردہ مذکورہ خط بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اسی مسئلہ کی تائید مزید کے لیے اپنی کتاب ذکر اقبال میں مولانا عبدالمجید سالک رقم طراز ہیں شفیع اقبال لیگ کی طرف سے جو یادداشت سائمن کمیشن کو بھیجی تھی اس کا مسودہ مرتب کرنے کے لیے سر محمد شفیع کے مکان پر جو اجلاس مئی ۱۹۲۸ء میں ہوا اس میں علامہ اقبال نے بعض امور کے متعلق جن میں صوبائی خود مختاری کا مسئلہ بھی شامل تھا۔ اپنا اختلاف ظاہر کر دیا۔ یہ مسودہ عارضی سا تھا اور اس سے مقصود یہ تھا کہ لیگ کے دوسرے معزز ممبروں کی رائیں بھی حاصل کر لی جائیں جب کچھ عرصے سے آراء موصول ہو گئین تو ان کے پیش نظر ایک آخری مسودہ تیار کر لیا گیا۔ اسی دوران علامہ کو اپنے درد گردہ نے آن دبوچا تو ا ن سے مشورہ دیا گیا کہ آپ حکیم نابینا صاحب دہلوی سے علاج کرائیے چنانچہ وہ دہلی تشریف لے گئے اور لیگ کی یادداشت کے آخری مسودے کی ترتیب میں شریک نہ ہو سکے۔ جب دہلی سے واپس آئے تو اخباروں میں ان کی یادداشت کا ملخص شائع ہوا۔ جس کے مطالعے کے بعد علامہ بہت بیزار ہوئے چنانچہ انہوںنے ایک بیان جاری کیا جس میںمندرجہ بالا واقعات درج کرنے کے بعد لکھا: لیگ نے مکمل صوبائی خود اختیاری کا مطالبہ نہیںکیا بلکہ ایک وحدانی صوبائی نظام کی تجویز پیش کر دی ہے۔ جس کی روسے قانون امن اور عدل کے محکمے براہ راست گورنر کو سونپ دیے جائیں گے۔ یعنی مجوزہ نظام در پردہ دو عملی ڈایارکی رپ مبنی ہو گا۔ ج وکسی اعتبار سے آئینی ترقی کا مترادف نہ ہو گا۔ چونکہ میں ابھی تک اس رائے پر قائم ہوں۔ جو میں نے مسودہ مرتب کرنے والی مجلس کے پہلے اجلاس میں پیش کی تھی کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا سیکرٹری نہ رہنا چاہے ازراہ کرم میرا استعفا منظور کر لیا جائے۔ اس استعفا سے سر محمد شفیع بے حد پریشان ہوئے۔ انہوںنے فی الفورمسلم لیگ کی یادداشت میں ترمیم کرائی اور صوبائی خود اختیاری کے مطالبے کو اس میں شامل کرنا پڑا۔ چنانچہ اس کے بعد علامہ نے بھی اس یادداشت پر دستخط کر دیے۔ مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہو جاتا ہے کہ مئی ۱۹۲۸ء میں سر محمد شفیع کی قیام گاہ پر سائمن کمیشن کو لیگ کی طرف سے بھیجی جانے والی یادداشت پر غور و خوص کے لیے اجلاس منعقدہ ہوا تھا۔ مذکورہ ماہ میںاس اہم سیاسی مسئلہ کے علاوہ پنجاب میںکوئی دیگر ایسا قابل ذکر سیاسی مسئلہ نہیں تھا۔ جو علامہ اقبال کے لیے اس حد تک تشویش کا باعث ہو سکتا تھا۔ اس لیے بیان کردہ متذکرہ وضاحت سے نہ صرف اس اہم مسلہ کی جس کا زیر نظر خط میں اشارہ ہے۔ نشاندہی ہو جاتی ہے بلکہ یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ علامہ شیخ دین محمد کی اصابت رائے اور سیاسی بصیرت کے دلی طور پر معترف تھے۔ پیش نظر خط کے پہنچنے پرشیخ صاحب علامہ کو ملنے لاہور گئے تھے لیکن اس اہم مسئلہ پر علامہ کے خیال کی تائید کی تھی یا نہیں اس کے متعلق حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ نفس مضمون کے اعتبار سے یہ غیر مطبوعہ خط سیاسی تاریخ میںاہمیت کا حامل ہے اور ایک خاص دور کے سیاسی حالات کا انداز ہ اور تجزیہ کرنے میں بڑا معاون ہے۔ ٭٭٭ ماخذ ۱۔ ذکر اقبال عبدالمجید سالک ۲۔ پاکستان کی نظریاتی بنیادیں ڈاکٹر وحید قریشی ۳۔ گفتار اقبال محمد رفیق افضل ۴۔ مارشل لاء سے مارشل لاء تک نور احمد ۵۔ فادر اینڈ ڈاٹر جہاں آرا شاہنواز Father and Daughter Jahan Ara Shahnawaz ۶۔ تحریک پاکستان احمد شفیع چودھری ۷۔ حصول پاکستان پروفیسر احمد سعید ۸۔ صحیفہ اقبال نمبر و قائد اعظم نمبر ۹۔ سیارہ ڈائجسٹ شمارہ جنوری ۱۹۷۶ء ٭٭٭ علامہ اقبال اور بہاولپور مسعود حسن شہاب علامہ اقبال کو سابق ریاست بہاول پور اور بہاول پور کے امر اسے خاص تعلق رہا ہے ۔ وہ اس ریاست کو اسلامی روایات کی امین اور پنجاب کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز سمجھتے تھے۔ ان کی تمنا یہ بھی تھی کہ یہ ریاست خوب پھلے پھولے تاکہ اسلام کے فروغ کا یہاں زیادہ سے زیادہ سامان ہو سکے۔ یہ اسی تعلق کی خاطر کا نتیجہ تھا کہ امرائے بہاول پور بھی علامہ اقبال کی بے حد قدر کرتے تھے اوراکثر معاملات میں امداد و مشورے کے لیے ان سے رجوع کرتے تھے حکیم یوسف ۱؎ حسن مدیر نیرنگ خیال کی روایت کے مطابق: ’’قیام پاکستان سے پہلے جب ہندوستان پر انگیز حکمران تھا تو اس کا قاعدہ یہ تھا کہ ریاستوں میںوزیر اعظم خود نامزد کیا کرتا تھا۔ نوابوں اور مہاراجوں کو اسامر کی اجازت نہ تھی کہ وہ اپنی مرضی سے کسی کو وزیر اعظم بنا سکتے۔ چنانچہ ریاست بہاول پور میںجسے وزیر اعظم ۲؎ بنا کر بھیجا گیا وہ نواب صاحب کی منشا کے مطابق نہ تھا۔ آپس میں بنتی نہتھی۔ ایکد وسرے کی ضد تھے۔ پہلے تو خود نواب صاحب وائسرائے بہادر کو لکھتے رہے کہ موجودہ وزیر اعظم سے میری جان چھڑائی جائے مگر شنوائی نہ ہوئی۔ مجبور ہو کر نواب صاحب نے سوچا کہ میری اس مشکل کو اگرکوئی حل کروا سکتا ہے تو وہ ڈاکٹر اقبال ہیں۔ چنانچہ نواب صاحب کا آدمی علامہ اقبال کے پاس پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس معاملے کو بہ حیثیت بیرسٹر جانچا۔ ہامی بھر لی چار ہزار روپے نقد کی فیس طے پا لی۔ ڈاکٹر صاحب وائسرائے کے پاس پہنچے ۔ سیکرٹری کو اپنا کارڈ دیا سیکرٹری نے کہا کہ ہر ملاقاتی اپنا نام رجسٹر میں لکھتا ہے۔ رجسٹر اندر جاتا ہے جسے بلانا مقصود ہوتا ہے اسے بلا لیا جاتا ہے لہٰذا آپ بھی کارڈ دینے کی بجائے رجسٹر میں اپنانام لکھ دیں۔ اس پر اقبال نے کہا کہ اگر وائسرائے میرے کارڈ پر مجھ سے ملنا نہ چاہیں تو میں واپس چلا جائوںگا مگر عام لوگوں کی طرح رجسٹرمیں نام نہ لکھوں گا۔ ۱؎ نقوش لاہور (افسانہ نمبر) ۱۹۶۸ء ۲؎ یہ وزیر اعظم غالباً سکندر حیات خاں تھے مقامی روایت کے مطابق نواب صاحب نے انہیں قائد اعظم کے مشورے سے برخاست کر کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ریاست چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ مجبوراً سیکرٹری کو کارڈ ہی اندر لے کر جانا پڑا۔ وائسرائے نے کہا کہ میں ان سے ملوں گا۔ انہیں بٹھایا جائے تھوڑی دیر کے بعد وائسرائے ملاقاتیوں کے کمرے میں آئے پوچھا کیسے آئے؟ آپ نے ریاست بہاولپور میں جسے وزیر اعظم بنا کر بھیجا ہے اسے تبدیل کر دیں اس لیے کہ اس کا برتائو نواب صاحب سے اچھا نہیں ہے۔ صابطے کے مطابق نواب صاحب کو اس وزیر اعظم کو قبول کرنا چاہیے۔ کیا سیاست اسی کا نام ہے کہ آپ ایک فرمانروا کے معمولی سے مطالبے کو ہی نہیں مان سکتے۔ جبکہ نواب صاحب برطانیہ کا وفادار دوست ہے۔ پھر مسلمانوں میںبھی اس کی بڑی اہمیت ہے اگر ایسی چھوٹی سی بات بھی نہ مانی گئی تو بڑا انتشار پھیلے گا۔ آپ کا اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی دوسرا وزیر اعظم بنا دیں۔ وائسرائے کو ایک تو علامہ اقبال کے مرتبہ کا علم تھا دوسرے علامہ نے بات بھی اس ڈھب سے کی تھی کہ وائسرائے کو انکار کرتے ہی نہ بنی‘‘۔ حکیم یوسف حسن صاحب نے متذکرہ واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کسی ذریعہ کا حوالہ نہیں دیا جس کی وجہ سے اس کی صداقت کلیتہً غیر مشتبہ قرار نہیںدی جا سکتی۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ اقبال اور نواب بہاول پور کے درمیان ایک ایسا رشتہ مودت قائم تھا جو انہیںہمیشہ ایک دوسرے کے معاملات میںدلچسپی لینے پر آمادہ رکھتا تھا۔ چنانچہ ۱۹۳۳ء میں کی بات ہے کہ نواب سر صاحق محمد خاں خامش یورپ کے دورے پر جانے والے تھے لندن میں بھی قیام کا ارادہ تھا اور یہ خواہش تھی کہ وہاں کے امراء اور مدبرین سے ملاقات کریں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے اے ڈی پی سید نزیر علی شاہ صاحب کو علامہ اقبال کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ ان سے لندن کے عمائدین کے نام ایک تعارفی خط لکھوا لائیں۔ شاہ صاحب نے جب علامہ اقبال سے نواب صاحب کی اس خواہش کا اظہار کیا تو انہوںنے بخوشی تعارفی خط اپنے ہاتھ سے لکھ کر انہیںدے دیے۔ ان میںسے ایک خط کا عکس یہاں درج کیا جا رہا ہے یہ خط مس فرگوسن کے نام ہے جس میں اظہار مدعا کے بعد یہ لکھا گیا ہے کہ ہز ہائی نس ہندوستان کی عظیم ریاستوں میں سے ایک عظیم ریاست کے فرمانروا ہیں اور خلفائے بغداد کے خانوادے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمانوں میںبے حد عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ علامہ اقبال کے ریاست کے بعض عمائدین سے بھی تعلقات رہے ہیں جن میں گاہے بگاہے مکاتبت کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔یہاں اسی قسم کے ایک خط کا عکس شامل کیا جا رہا ہے۔ یہ خط ریاست کے ہوم منسٹر مولوی غلام حسین صاحب کے نام ہے مولوی نواب صاحب بہاول پور کے اتالیق بھی رہے تھے اور ریاست کی تعلیمی سرگرمیوں میں خصوصی دلچسپی لینے کی وجہ سے ریاست کے باہر بھی اچھی شہرت کے مالک تھے۔ بہاول پور کا جامعہ عباسیہ جوا ب اسلامی یونیورسٹی میں تبدیل ہو چکا ہے آپ کا ہی یادگار تھا۔ آپ کی خواہش تھی کہ اسے جامعہ ازہر کے نمونے پر قائم کیا جائے اور یہاں عام علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم کی تحصیل کا بطور خا ص اہتمام کیا جائے۔ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میںمولوی صاحب کی یہی دلچسپی علامہ اقبال کے ساتھ ان کے تعلقات میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے متذکرہ خط علامہ نے مولوی صاحب کے عید کی مبارکباد کے ٹیلی گرام کے جواب میںلکھا ہے…خط کے آخر کا یہ فقرہ کہ لاہور کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ عالمگیری مسجد تمام و کمال نمازیوں سے لب ریز ہو گئی۔ بہ سے لوگوںنے مسجد سے باہر نماز ادا کی۔ ایسا ہجوم اس سے پہلے دیکھنے میںنہیں آیا تھا۔ اس دور کی یاد تازہ کرتاہے جب ملت اسلامی غیر ملکی سامراج کا جواپنی گردن سے اتارنے کے لیے انگڑائیاں لے رہی تھی اور ہندوستان میں آزادی کی تحریک نے مسلمانوں کو ایک نیا جوش و جذبہ عطا کر دیا تھا۔ علامہ اقبال اس حرارت قومی سے خو ش تھے۔ ان کے نزدیک عالمگیری مسجد میں نماز عید کے موقع پر غیر معمولی اجتماع بھی اس بات کی علامت تھا کہ مسلمان اسلام کی نشا ۃ ثانیہ کے لیے اب اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ان میںدینی جذبہ عود کر آیا ہے مولوی غلام حسین ہوم منسٹر کے بعد ان کے صاحبزادے میجر شمس الدین ریاست کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے تو انہوںنے بھی علامہ سے اپنے خاندانی روابط کو قائم رکھا۔ اور ریاست کے تعلیمی امور میں علامہ سے وقتاً فوقتاً مشورے کرتے رہے۔ ایک دفعہ علمائے مصر کا ایک وفد لاہور پہنچا تو علامہ نے فوراً خط لکھ کر میجر شمس الدین صاحب کو متوجہ کیا کہ وہ اعلیٰ حضرت سے کہہ کر اس وفد کو بہاول پور میں مدعو کریں تاکہ وہ ریاست کے کالج کامعائنہ کر سکے۔ چونکہ میجر شمس الدین جامعہ عباسیہ بہاول پور کی توسیع اور ریاست میں تعلیم عامہ کی بعض نئی تجاویز کو جن میںمکتب اسکیم بھی شامل تھی ترتیب دے رہے تھے اس لیے علامہ اقبال نے ضروری سمجھا کہ ریاستی حکومت مصر ک علماء سے جو ہندوستان کے مسلمانوں کی تعلیمی حالات کا معائنہ کرنے یہاں آیا ہے فائد ہ اٹھائے۔ اس خط کا عکس بھی یہاں درج کیا جاتا ہے۔ علامہ اقببال ان شعرا میںسے نہ تھے جو امرا و رئوسا سے اس لیے تعلقات بڑھاتے ہیں کہ وہ ان کے لیے مالی منفعت کا موجب ثابت ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امرا کی قصیدہ خوانی سے بھی انہوںنے اپنا دامن داغدار نہیںکیا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیںؓ کہ علامہ کی یہ روایت بھی نواب بہاول پور کے ساتھ ان کے تعلقات دلی کی وجہ سے ختم ہو جاتی ہے نواب سر صادق محمد خاں خامس کے والس نواب بہاول خاں جب تخت نشین ہوئے تو علامہ سے اس موقع پر قصیدہ لکھنے اور شریک دربار ہونے کی فرمائش کی جاتی ہے ۔ علامہ دربار میں شرکت سے تو معذور ہوتے ہیں البتہ قصیدہ لکھ کر بھیج دیتے ہیں۔ یہ قصیدہ انہیں دنوں مخزن کے نومبر ۱۹۰۳ء کے شمارے میں سر عبدالقادر کے مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ شائع ہوتا ہے۔ ’’ماہ رواں میںچند روز سر زمین بہاول پور نے ایسے دیکھے ہین کہ جن پر وہ تادیر ناز کرے گی۔ رعایائے بہاول پور کی مخلصانہ دعائیں کامیاب ہوئیں۔ نخل تمنا ہرا ہوا اور شاخ آرزو پھل لائیَ یعنی حضور پر نور رکن الدولہ نصرت جنگ مخلص الدولہ حافظ الملک ہز ہائی نس نواب محمد بہاول خان پنجم عباسی کو ہز ایکسی لینسی وائسرائے و گورنر جنرل بہادر کشور ہند نے خود اپنے ہاتھوں سے مسند سلطنت پر بٹھایا اور زما م اختیار ان کے ہاتھ میںدی۔ اسی خوب کی تقریب میں جو جشن ریاست میںمنایا گیا وہ مدتوں یاد رہے گا۔ زمین بہاول پور ۲۱ نومبر کی شام کو کثرت چراغاں سے رشک آسماں بن رہی تھی۔ اور سارا شہر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ایک سجی ہوئی دلہن ہجوم خلائق ایسا کہ معلوم ہو آبادی گرد و نواح میں کہیں باقی نہیں رہتی ۔ سب کھنچ کر بہاول پور میں آ گئی ہے۔ رئوسائے عالی تبار اور راجگان ذی شان کے علاوہ معزز مہمان جوہر فرقے اور ہر طبقے کے منتخب لوگوں میں سے تھے اور ملک کے ہر گوشے میں آئے ہوئے تھے زینت تقریب کو دوبالا کر رہے تھے۔ انگریزی حکام کی بھی ایک معقول تعداد رونق بخش جلسہ تھی۔ اس مبارک تقریب پر شیخ محمد اقبال ایم اے سے ایک قصیدہ لکھنے کی فرمائش کی گئی تھی اور انہیںمدعو بھی کیا گیا تھا مگر فرض منصبی سے رخصت نہ ملنے کی وجہ سے وہ جانے سے معذور رہے اور قلت فرصت سے قصیدہ بھی بعد میں مکمل ہوا۔ اس لیی ہم اسے ان ناچیز اوراق کے ذریعہ سے بندگان عالی تک پہنچاتے ہیں۔ صاحبان فن دیکھیں گے کہ قصیدہ کی زمین کس قدر مشکل تھی مگراس میں کیسے کیسے شعر طبع خداداد کے زور سے شاعر نے نکالے ہیں اور پرانے اور نئے رنگ کو کس خوبی سے ملا دیا ہے۔ اس قصیدے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں قصیدہ گور شعراء کی عام روش سے ہٹ کر خوشامد یا جلب منفعت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہہ کر حقیقت آشکار کر دی ہے کہ : پاک ہے گرد غرض سے آئینہ اشعار کا جو فلک رفعت میں ہو لایا ہوں میں وہ چن کر زمین قصیدے کے جواز میں علامہ کا یہ شعر بھی قابل غورہے: آستانہ جس کا ہے اس قوم کی امید گاہ تھی کبھی جس قوم کے آگے جبیں گستر زمیں وہ جسے قوم کی امیدوں کا مرکز ٹھہراتے ہیں اسے نصیحت بھی کرتے ہیں۔ قصیدے میں یہ ناصحانہ انداز علامہ کا ہی حصہ ہے فرماتے ہیں: بادشاہوں کی عبادت ہے رعیت پروری ہے اسی اخلاص کے سجدے سے قائم ہر زمیں ہے مروت کے صدف میں گوہر تسخیر دل یہ گہر وہ ہے کرے جس پر فدا کشور زمیں حکمراں مست شراب عیش و عشرت ہو اگر آسماں کی طرح ہوتی ہے ستم پرور زمیں عدل ہو مالی اگر اس کا یہی فردوس ہے ورنہ ہے مٹی کا ڈھیلا خاک کا پیکر زمیں ہے گل و گلزار محنت کے عرق سے سلطنت ہو نہ یہ پانی تو پھر سرسبز ہو کیوں کر زمیں یہ قصیدہ تاریخ نواب بہاول خاں میں بھی درج ہے جو مولوی عزیز الرحمن مرحوم کی تالیف ہے۔ نواب بہاول پور کے متعلق یہ شعر بھی علامہ اقبال کی طرف منسوب ہے: زندہ ہیں تیرے دم سے عرب کی روایتیں اے یادگار سطوت اسلام زندہ باد علامہ اقبال سے نواب بہاول پور کی وابستگی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب ۱۹۳۸ء میں انجمن حمایت اسلام لاہور نے علامہ کی زندگی میں پہلی بار یوم اقبال منایا تو اس کی صدارت سر صادق محمد خاں خامس نے کی اور خطبہ صدارت بھی پڑھا جس میں علامہ کی قومی خدمات کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ ٭٭٭ قصیدہ تہنیت مسند نشینی نواب محمد بہاول خاں پنجم دام اقبالہم (ریختہ کلک گوہر سلک شیخ محمد اقبال ایم ۔ اے) بزم انجم میں ہے گو چھوٹا سا اک اختر زمیں آج رفعت میں ثریا سے بھی ہے اوپر زمیں اوج میں بالا فلک سے مہر سے تنویر میں کیا نصیبہ ہے رہے ہر معرکے میں ور زمیں انتہائے نور سے ہر ذرہ اختر خیز ہے مہر و ماہ و مشتری صیغے ہیں اور مصدر زمیں لے کے پیغام طرب جاتی ہے سوئے آسماں اب نہ ٹھہرے گی کبھی اطلس کے شانوں پر زمیں شوق یک جانے کاہے فیروزہ گردوں کو بھی مول لیتی ہے لٹانے کے لیے گوہر زمیں بسکہ گلشن ریز ہے ہر قطرہ ابر بہار ہے شگفتہ صورت طبع سخن گستر زمیں برگ گل کی رگ میں ہے جنبش رگ جاں کی طرح ہے امیں اعجاز عیسیٰ کہ افسوں گر زمیں خاک پر کھینچیں جو نقشہ مرغ بسم اللہ کا قوت رپواز دیدے حرف قم کہہ کر زمیں صاف آتا ہے نظر صحن چمن میں عکس گل بن گئی آپ اپنے آئینے کی روشن گر زمیں اس قدر نظارہ پرور ہے کہ نرگس کے عوض خاک سے کرتی ہے پیدا چشم اسکندر زمیں امتحاں ہو اس کی وسعت کا جو مقصود چمن خواب میں سبزے کے آئے آسماں بن کر زمیں چاندنی کے پھول پر ہے ماہ کامل کا سماں دن کو ہے اوڑھے ہوئے مہتاب کی چادر زمیں آسماں کہتا ہے ظلمت کا جو ہو دامن میں داغ دھو دے پانی چشمہ خورشید سے لے کر زمیں چومتی ہے دیکھنا جوش عقیدت کا کمال پائے تخت یادگار عم پیغمبر زمیں زینت مسند ہوا عباسیوں کا آفتاب ہو گئی آزاد احسان شہ خاور زمیں یعنی نواب بہاول خاں کرے جس پر فدا بحر موتی آسماں انجم زرد گوہر زمیں جس کے بدخواہوں کی شمع آرزو کے واسطے رکھتی ہے آغوش میں صد موجہ صر صر زمیں جس کی نرم مسند آرائی کے نظارے کو آج دل کے آئینے سے لائی دیدہ جوہر زمیں فیض نقش پا سے جس کے ہے وہ جاں بخشی کا ذوق شمع سے لیتی ہے پروانے کی خاکستر زمیں جس کی راہ آستاں کو حق نے وہ رتبہ دیا کہکشاں اس کو سمجھتا ہے فلک محور زمیں آستانہ جس کا ہے اس قوم کی امید گاہ تھی کبھی جس قوم کے آگے جبیں گستر زمیں جس کے فیض پا سے ہے شفاف مثل آئینہ چشم اعدا میں چھپا کر خاک کا عنصر زمیں جس کے ثانی کو نہ دیکھے مدتوںڈھونڈے اگر ہاتھ میں لے کر چراغ لالہ احمر زمیں وہ سراپا نور اک مطلع خطابیہ پڑھوں جس کے ہر مصرعے کو سمجھے مطلع خاور زمیں اے کہ فیض نقش پا سے تیرے گل برسر زمیں اے کہ تیرے دم قدم سے خسرو خاور زمیں اے کہ تیرے آستاں سے آسماں انجم بہ حبیب اے کہ ہے تیرے کرم سے معدن گوہر زمیں لے کے آئی ہے برائے خطبہ نام سعید چوب نخل طور سے ترشا ہوا منبر زمیں تیری رفعت سے جو یہ حیرت میں ہے ڈوبا ہوا جانتی ہے مہر کو اک مہرہ ششدر زمیں ہے سراپا طور عکس روئے روشن سے ترے ورنہ تھی بے نور مثل دیدہ عبہر زمیں مایہ نازش ہے تو اس خانداں کے واسطے اب تلک رکھتی ہے جس کی داستاں ازبر زمیں ہو ترا عہد مبارک صبح حکمت کی نمود وہ چمک پائے کہ ہو محصود ہر اختر زمیں سامنے آنکھوں کے پھر جائے سماں بغداد کا ہند میں پیدا ہو پھر عباسیوں کی سر زمیں محو کر دے عدل تیرا آسماں کی کجروی کلیات دہر کے حق میں بنے مسطر زمیں صلح ہو ایسی گلے مل جائیںناقوس و اذاں ساتھ مسجد کے رکھے بت خانہ آذر زمیں نام شاہنشاہ اکبر زندہ جاوید ہے ورنہ دامن میں لیے بیٹھی ہے سو قیصر زمیں بادشاہوں کی عبادت ہے رعیت پروری ہے اسی اخلاص کے سجدے سے قائم ہر زمیں ہے مروت کی صدف میں گوہر تسخیر دل یہ گہر وہ ہے کرے جس پر فدا کشور زمیں حکمراں مست شراب عیش و عشرت ہو اگر آسماں کی طرح ہوتی ہے ستم پرور زمیں عدل ہو مالی اگر اس کا یہی فردوس ہے ورنہ ہے مٹی کا ڈھیلا خاک کا پیکر زمیں ہے گل و گلزار محنت کے عرق سے سلطنت ہو نہ یہ پانی تو پھر سر سبز ہو کیوں کر زمیں چاہیے پہرا دماغ عاقبت اندیش کا بے دری میں ہے مثال گنبد اخضر زمیں لا مکاں تک کیوں نہ جائے گی دعا اقبال کی عرش تک پہنچی ہے جس کے شعر کی اڑ کر زمیں خاندان تیرا رہے زبیندہ تاج و سریر جب تلک مثل قمر کھاتی رہے چکر زمیں مسند احباب رفعت سے ثریا بوس ہو خاک رخت خواب ہو اعداد کا اور بستر زمیں تیرے دشمن کو اگر شوق گل و گلزار ہو باغ میں سبزے کی جا پیدا کرے نشتر زمیں ہو اگر پنہاں تری ہیبت سے ڈر کر زیر خاک مانگ لائے شعاع مہر سے خنجر زمیں پاک ہے گرد غرض سے آئینہ اشعار کا جو فلک رفعت میں ہو لایا ہوں وہ چن کر زمیں تھی تو پتھر ہی مگر مدحت سرا کے واسطے ہو گئی ہے گل کی پتی سے بھی نازک تر زمیں ۱؎ ۱؎ ’’باقیات اقبال‘‘ مطبوعہ مجلس اقبال کراچی ۱۹۵۲ء میں بھی یہ قصٰدہ شامل ہے (ادارہ) ٭٭٭ اقبال اور پاکستان ڈاکٹر عبدالسلام خورشید پاکستان کی اساس مسلم قومیت پر رکھی گئی اور مسلم قومیت کے بارے میں اقبال نے ۱۹۱۰ء ہی میں اپنے مقالے ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر میں کہہ دیا تھا کہ قومیت کو اسلامی کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری قومیت کا اصل اصول نہ اشتراک زبان ہے نہ اشتراک وطن نہ اشتراک اغراض اقتصادی اور اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو نسبت انگلستان کو انگریزوں اور جرمن کو جرمنوںسے ہے وہ اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے۔ ۱۹۱۶ ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگرس کے درمیان میثاق لکھنو کے نام سے جو پہلا اور آخری سمجھوتا ہوا۔ اس کا ایک پہلو مسلم قومیت کے تصور کی پیش رفت میں مددگار ہوا ۔ یعنی مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا حق تسلیم کر لیا گیا۔ گویا مسلم قوم کا الگ وجود مان لیا گیا لیکن کچھ پہلو ایسے بھی تھے جن سے اس تصور کو دھچکا لگا۔ کیونکہ جب ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے زیادہ نیابت یا دوسرے لفظوں میں پاسنگ یا ویٹج دیا گیا۔ تو مسلم اقلیتیں بہرحال اقلیتیں رہیں لیکن جب پنجاب اور بنگال کے مسلم اکثریتی صوبوں میں غیر مسلموں کو پاسنگ دیا گیا۔ تو مسلمان اپنی اکثریت کھو بیٹھے۔ کیونکر پورے برعظیم میںایک بھی ایسا صوبہ رہا۔ جسے مسلمان اپنے صوبہ کہہ سکتے میثاق لکھنو کے سات سال بعد ہندو اس بنا پر اس سے لاتعلق ہو گئے کہ اب وہ مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب کا حق دینے کے خلاف تھے۔ اور مسلمان اس لیے منحرف ہو گئے کہ اس کے تحت وہ اپنے اکثریتی صوبوں میں اکثریت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ۔ اس کے بعد فریقین نے از سر نو اپنی پوزیشن پر غور کیا۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ مسلمانوں نے ان باتوں پر خصوصیت سے زور دیا۔ اول جداگانہ انتخاب دوم پنجاب اور بنگال کی مجالس قانون ساز میں مسلم اکثریتی کا تیقین سوم: سرحد اور بلوچستان کی سرزمین بے آئین میں آئینی اصلاحات کا نفاذ چہارم: بمبئی سے سندھ کی علیحدگی ۔ پنجم: صوبائی خود مختاری ششم: براعظیم میں وحدانی طرف حکومت کی جگہ وفاقی نظام حکومت کا قیام مقصود یہ تھا کہپان ایسے مسلم اکثریتی صوبے وجود میںآ جائیں۔ جہاں مسلمان اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر سکیں اور چھ ہندو اکثریتی صوبوں کے ساھت ان کی یہ فیڈریشن ہے اس میں ان دو قوموں کے درمیان طاقت کا توازن قائم ہو جائے۔ جب حضرت علامہ نے کارزار سیات میں قدم رکھا تو وہ اسی موقف پر قائم تھے اور وہ بھی ا س شدت کے ساتھ کہ جب مسلم لیگ ہندوئوں سے مفاہمت کی خاطر ان مطالبات میں لچک پر آمادہ ہو گئی تو علامہ اقبال اس گروہ عاشقاں میں شامل تھے جس نے اصولوں کی خاطر ایک متوازی آل انڈیا مسلم لیگ قائم کر لی ۔ اس کے صدر سر محمد شفیع تھے اور سیکرٹری علامہ اقبال۔ اسی گروہ عاشقاں نے جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کا ایک بڑا گروپ جداگانہ انتخاب کو ترک کرنے پر آمادہ ہے تو آل پارٹیز مسلم کانفرنس کی طرح ڈال دی جس نے مسلمانوں کے چودہ قومی مطالبات کا اعلان کیا۔ یہ وہی مطالبات تھے جو بعدمیں جناح کے چودہ نکات کے نام سے مشہور ہوئے۔ میرے نزدیک خطبہ الہ آباد سے بہت پہلے علامہ اقبال اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ہندو مسلم مسئلے کا واحد حل پاکستان ہ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پنجاب کی مجلس قانون ساز میں کہا کہ متحدہ قومیت کی گفتگو بے سود ہے او رشاید عرصے تک بے سود ہی رہے پچھلے پچاس سال سے یہ الفاظ لوگوں کی زبان پر ہیں یہ چیز ایک مرغی کی طرح کڑکڑاتی تو بہت رہی ہے۔ لیکن انڈا ایک نہیں دیا۔ ایک اور موقع پر کہا میں نہیں جانتا کہ ایک قوم بننا پسندیدہ ہے بھی یا نہیں یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا رد بھی کیا جا سکتا ہے اور جب انہوں نے کونسل میںیہ کہا کہ پنجاب میں پارچہ بافی اور جوتے بنانے کی صنعتوں کو ترقی دی جائے۔ اور انہیں کانپور اور الہ آبادکے خلاف تحفظات فراہم کیے جائیں تو ظاہرہے وہ ایک ایسے ملک کے حوالے سے بات نہیں کر رہے تھے ۔ دسمبر ۱۹۲۸ء میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس ہوئی جس کے محرکین میںعلامہ پیش پیش تھے۔ کانفرنس سے چند دن پہلے انہوں نے مدیران انقلاب مولانا غلام رسول مہر اور مولانا عبدالمجید ساالک کو بلایا اور ان سے کہا کہ مسلم قیادت کے زیادہ تر افراد مسلم اقلیتی صوبوںسے تعلق رکھتے ہیں اوراپنے صوبوں میںپاسنگ حاصل کرنے پر جتنا زور دیتے ہیں اتنا دوسرے مطالبات پر نہیں دیتے ۔ اور پاسنگ کا اصول مان لیا جائے تو پنجاب اوربنگال کے مسلمان اپنی اکثریت کھو بیٹھتے ہیں۔ اندریں حالات میں شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کو آگے چل کر اپنی الگ سیاست چلانی ہو گی۔ اور الگ وطن حاصل کرنا ہو گا۔ اس یے کیوں نہ الگ وطن کے نصب العین کی طرف ابھی سے اشارہ کر دیا جائے ؟ مہر وسالک نے اس سے اتفا ق کیا۔ لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ Feelerکون چھوڑے۔ علامہ اقبال اور مدیران انقلاب مسلم کانفرنس کے بانیوں میںشامل تھے۔ اگر وہ خود پبلک طور پر یہ تجویز پیش کرتے تو اس سے مسلمانوں کی صفوں میں پھوٹ پڑ جاتی۔ چنانچہ یہ فیصلہ ہوا کہ اس تجویز پر کسی اور سے مضامین لکھوائے جائیں اور قرعہ فال مولانا مرتضیٰ احمد خان میکش کے نا م پڑا جو انقلاب میں نیوز ایڈیٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہیں علامہ سے ملایا گیا۔ علامہ نے انہیںلائن دی اور اور مناسب بریفنگ Briefingبھی کی۔ چنانچہ مولانا میکش کے نام سے ۷۔۸اور ۹ دسمبر ۱۹۲۸ء کے انقلاب میں ایک سلسلہ مقالات چھپا۔ پہلے مقالے کا عنوان تھا مسلمانان ند کی یساسی زندگی: فکر و عمل کے انتشار کا دردناک مظاہرہ۔ دوسرے مقالے کا عنوان تھا: مسلمانان ہند کا سیاسی نصب العین: برادران وطن کی روش کا موازنہ۔ تیسرے مقالے کا عنوان تھا: مسلم ہندی کے لیے وطن کی ضرورت: ہندوستان کی سیاسی الجھنوں کا واحد حل۔۔ اس مقالے میں مسائل کے گہرے تجزیے کے بعد لکھا گیا: ان حالات میں یہ اشد ضروری ہے کہ مسلمانان ہند کے لیے بھی ایک ایسا وطن پیدا کیا جائے جسے وہ اپنا ھر سمجھیں ور جہاں رہ کر وہ اپنی تہذیب اپنے افکار اور اپنے تمدن و معاشرت کو اپنی منشا اور خواہش کے مطابق ترقی دے سکیں۔ اس طرح کا وطن پیدا کرنا کوئی نئی نظیر نہیں۔ بلکہ سیاسیات عالم کے دور حاضر میں اس قسم کی متعدد مثالیںبھی مل سکتی ہیں۔ جنگ عظیم نے ہر قوم کے لیے ایک وطن پیدا کیا ہے۔ حق خود ارادیت کی بناپر قائم شدہ نئے اوطان کی مثالیں پیش کرنے کے بعد میکش نے لکھا: ’’مسلمانان ہند کے لیے وطن پیدا کرنے کے واسطے کوئی بہت بڑی جستجو کرنے کی ضڑورت نہیں ہے ۔ صرف صوبہ پنجاب ‘ سرحد‘ سندھ اور بلوچستان کو یک جا تصور کر کے مسلمانان ہند کو ایک نیا بنایا وطن مل سکتا ہے ۔ اس وطن کی تعمیر اس کی آزادی اور ا س کی ترقی و اصلاح مسلمانوں کی سیاسی زندگی کی روح رواں ہو سکتی ہے۔ اور اس سے ان کے خیالات و افکار میں یکسانی و وحدانیت ان کے قلوب میں اطمینان و سکون اور ان کی روحوں کے اندر جوش عمل اور جذبہ فدا کاری پیدا کیا جا سکتا ہے‘‘۔ مقالے میںکہا گیا کہ اس طرح ہندو اور مسلمان دونوں اپنی اپنی جگہ جذبہ وطنیت سے سرشار ہو کر اجنبی اقتدار سے نجات پانے کی سعی کر سکیں گے۔ ان مقالات کی اشاعت کے چند دن بعد آل پارٹیز مسلم کانفرنس ہوئی ظاہرہے کہ حضرت علامہ نے نجی محفلوں میں اس تجویز کاتذکرہ کیاہوگا۔ لیکن ان کے لیے یہ ممکن ہن تھا۔ کہ اس تجویز کو منوانے کے لیے کھلی جدوجہد کرتے کیونکہ دوسروں کے مقابلے میںان کا سیاسی قد کاٹھ بہرکیف کم تھا۔ وہاں سر آغا خاں تھے جن کے سیاسی جاہ و جلال کا کوئی عالم نہیں تھا۔ وہاں محمد علی اور شوکت علی تھے اور حسرت موہانیتھے جنہوں نے تحریک خلافت میں قربانی اور جاں نثاری کا مظاہروں سے سب کا من موہ رکھا تھا۔ پھر وہاں مسلمانوں کا طبق امرا موجود تھا۔ جو سیاست کواپنے گھر کی لونڈی سمجھتا تھا۔ ایسے میں علامہ دوسروں کے ساتھ ساتھ چلنے کے سوا اور کون سی راہ عمل اختیار کر سکتے تھے۔ بہرحال انہیں یہ اطمینان تھا کہ جو قومی مطالبات مرتب ہوئے اور جن پر اجماع امت ہو گیا۔ وہ اس نص بالعین کی طر ف پیش رفت کا پہلا مرحلہ تھا۔ جو اقبال کے ذہن میں موجود تھا۔ اس لیے انہوںنے ا س کی حمایت میںکوئی کسر روانہ رکھی۔ اقبال کے ذہن میں اسلامی مملکت کا تصور نمو پاتا رہا۔ سیاسی زمین تیار کرنے کے پہلو بہ پہلو انہوں نے فکری اور نظریاتی زمین ہموار کرنے کی سعی بھی بڑے حسن و خوبی کے ساتھ فرمائی اور اس کا ثبوت وہ لیکچر فراہم کرتے ہیں جو بعد میں Reconstruction of Religious Thought in Islamکی صورت میں یک جا ہوئے۔ ان خطبات کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے اصول و اقدار کو عصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں پیش کیا جائے۔ اور ایک خطبے میں علامہ نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ اسلامی مملکت کا تصور ایسا روپ لے سکتا ہے کہ وہ جدید تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو چنانچہ انہوںنے ترک مفکرین کے اس اجتہاد سے اتفاق کیا کہ ضروری نہیں کہ خلافت یا امامت کسی فرد کی ذات میں مرتکز ہو ۔ یہ عوام کے چنے ہوئے نمائندوں کی اسمبلی میں بھی مرتکز ہو سکتی ہے۔ دوسرے اجتہاد کے لیے جس اجماع کی ضرورت ہوتی ہے اس کی یہ روایتی مجوزہ صورت آج کے زمانے میں ناممکن ہے کہ مختلف فرقوں اور دبستان ہائے فکر دین کے نمائندوں اور فقہا کو جمع کیا جائے۔ انہوںنے کہا کہ اجماع کے تقاضے عوام کی منتخب شدہ اسمبلی بھی پورے کر سکتی ہے تیسرے انہوںنے اس نظریے کو غلط قرار دیا کہ اتحام عالم اسلامی کے لیے احیائے خلافت ضروری ہے۔ انہوںنے کہا کہ پہلے اسلامی ممالک اپنی آزادی اور استحکام کا بندوبست کریں۔ اس کے بعد ایک لیگ آف مسلم سٹیٹس بنائی جا سکتی ہے اس طرح علامہ نے کوشش کی کہ مسلمانان ہند کے ذہنوں میں جو انتشار فکر موجود تھا اسے دور کیاجائے۔ ۱۸ جولائی ۱۹۳۰ کو ایک خاتون نے بنام مکتوب میں علامہ کو لکھا کہ اگرملک کے ایک حصے میں اسلامی سٹیٹ قائم ہو جائے تو معاشرتی زندگی بہت جلد سنور سکتی ہے۔ اس کے دو مہینے بعد لندن میں ہندوستانی رہنمائوں کی ایک گول میز کانفرنس بلائی گئی۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ آنے والی آئینی اصطلاحات کاایک خاکہ تیار کیاجائے۔ اس زمانے میںبرطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت تھی۔ جس کی ہندو نوازی اور کانگرس نوازی اس حد تک واشگاف ہو چکی تھی کہ مسلمان وزیر اعظم ریمزے میکڈانلڈ کو را م جی مکندامل کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ انہی کی شہ پر ہندویوں نے اپنا رویہ سخت کر لیا اور مسلمان مندوبین کچھ دبائو کی بدولت کچھ احساس کمتری کی وجہ سے اور کچھ حکومت وقت کے ساتھ مطابقت کی روایت کو برقرار رکھنے کی خاطر جداگانہ انتخاب کو چھوڑنے پر راضی ہہو گئے ایسے میں علامہ اقبال کی تشویش قدرتی تھی اور انہوںنے یہ فیصلہ کر لیا کہ مسلم اکثریتی صوبے اپنی الگ سیاسی تنظیم بنائیں۔ نومبر ۱۹۳۰ء کے وسط میںانہوںنے لاہور کے اخباروں ’’انقلاب‘‘ ’’سیاست‘ ‘ اور ’’مسلم آئوٹ لک‘‘ کے ایڈیٹروں کو بلایا۔ ان سے تبادلہ خیالات کیا اور وہاں یہ طے پایا کہ یہ اخبار اپر انڈیا مسلم کانفرنس کے انعقاد کی تجویز اداریوں میں پیش کریں گے۔ اور علامہ اس کے فوراً بعد اس مسئلے پر غور کرنے کے لیے معززین شہر کا ایک جلسہ بلائیں گے۔ چنانچہ اخبارات نے اداریوں میںلکھا کہ پنجاب سرحد سندھ اور بلوچستان کے مسلمان اپنے مخصوص مسائل پر غور کرنے کے لیے ایک کانفرنس بلائیں ۲۳ نومبر کو علامہ نے موعودہ اجلاس بلا لیا۔ جہاں اس تجویز پر صاد کیا گیا کہ اور علامہ کی صدارت میں ایک مجلس استقبالیہ بنائی گئی اور اخباروں میں اس کا عام چرچا شروع ہو گیا۔ انقلاب کے صفحہ اول پر ہر روز کانفرنس کے حق میں ایک چوکھٹا آتا تھا۔ جس کا عنوان تھا: ’’پنجاب‘ سندھ‘ سرحد اور بلوچستان اسلامی ملک ہیں ان میں اسلام کا علم بلند کرو‘‘۔ اس کے بعد حضرت علامہ اور بارہ دوسرے رہنمائوں اور اخبار نویسوں کے مشترکہ دستخطوں سے ایک مفصل اپیل جاری کی گئی جس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے: ’’اس کانفرنس کے طلب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان صوبجات کے مسلمانوں کو حالات حاضرہ اور آج کی سیاسی تحریکات سے آگاہ کیا جائے اور ہماری ہمسایہ اقوام اور ہندوستان کی حاکم قوم کی حکمت عملی سے واقف کر کے ان خطرا ت سے آگاہ کیا جائے۔ جن سے اس وقت ملت مرحومہ دوچار ہے۔ اور اس کے بعدمسلمانان ہند کی اس کثرت سے کو جو صوبجات میں ہے جن کو خدائے حکیم و علیم و خبیر نے یقینا بلا مصلحت نہیں بلکہ کسی ایسی مصلحت کے لیے جو ارباب دانش و بینش پر روز بروز عیاں ہو تی چلی جا رہی ہے یکجا کر رکھا ہے ہندوستان میں اسلام اورمسلمانوں کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہونے کا پیغا م دیا جائے‘‘۔ پر انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد دسمبر ۱۹۳۰ء کے اواخر میں ہونا تھا۔ کہ اتنے میں آل انڈیا مسلم لیگ نے الہ آباد سیشن کی صدارت کے لیے علامہ کو منتخب کر لیا۔ اس پر اپر انڈیا مسلم لیگ کانفرنس کی مجلس استقبالیہ نے فیصلہ کیا کہ یہ کانفرنس جنوری ۳۱ء کے آخر میں ہو۔ اس کانفرنس کے زبردست چرچے کا ایک فائدہ یہ ہواکہ ول میز کانفرنس کے مسلم مندوبین نے ہندوئوں کو مراعات دینے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ لیکن دیسی ریاستوں کے مندوبین نے بیچ بچائو کے بہانے ایک بار پھر مسلم مندوبین کو افسوس ناک لچک پرمجبور کر دیا۔ ایسے میں خطبہ الہ آباد ایسا دھماکہ تھا جس نے پوری گول میز کانفرنس کو ششدر و پریشان کر دیا۔ برعظم کی سیاسی تقسیم کے تصور میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ عبدالحلیم شرر نے اپنے ہفت روزہ مہذب میں ۱۸۹۰ء ہی میں اس طرف اشارہ رک دیا تھا۔ ۱۹۱۳ء میں محمد علی نے اپے ہفت روزہ کامریڈ میں ایک مزاحیہ تحریر چھاپی تی۔ جس میں تقسیم کے ساتھ ساتھ تبادل آبادی کا بھی تذکرہ تھا۔ ۱۹۱۷ء میں سٹاک ہوم کی بین الاقوامی سوشلسٹ کانفرنس میں علی گڑھ کے خیر برادران نے یہی تصورپیش کیا۔ ۱۹۲۰ء میں عبدالقادر بلگرامی نے بدایوں کے رسالہ ذوالقرنین میں گاندھی جی کے نام ایک مکتوب میں تقسیم علاقائی کا منصوبہ بھی دے گیا۔ ۱۹۲۱ء میں آگرہ کے ایک وکیل نادر علی نے ایک کتابچے میں یہی تجویز پیش کی۔ ۱۹۳ء میں حکومت ہند کی شمالی مغربی سرحد کمیٹی میں ڈیرہ اسمعیل خاں کی انجمن اسلام کے صدر سردار گل خاں نے علیحدہ مسلم مملکت کے قیام پرزور دیا۔ ۱۹۲۴ء میں حسرت موہانی نے اپنا منصوبہ تجویز کیا اور ۱۹۲۵ء میں لالہ لاجپت رائے نے آنے والے پاکستان کا پورا نقشہ تیار کر دیا تھا۔ لیکن ان سب کا موقف یہ تھا کہ روز مرہ اختلافات اور فسادات کے پیش نظر ہندو اور مسلمان اکٹحے ہیں رہ سکتے اس لیے ان کے منطقے الگ الگ کر دیے جائیں بہرحال اقبال برعظیم کی پہلی شخصیت تھے جنہوں نے مسلم مملکت کے تخیل کو مثبت اور نظریاتی انداز میںپیش کیا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خطبہ الہ آباد سے چند نمایاں لیکن مختصر اقتباسات کا مطالعہ کر لیا جائے علامہ نے فرمایا: اول : اسلام اخلاقی نصب العین اورایک خاص قسم کے نظام سیاست کا امتزاج ہے… اس نے برعظیم کے مسلمانوں کی زندگی کو گہرے انداز میں متاثر کیاہے اور انہیں ایسے بنیادی احساسات اور وفاداریاں مہیا کی ہیں۔ جن سے بکھرے ہوئے افراد اور گروہ ایک واضح اور معین قوم کی ہیئت اختیار کر لیتے ہیں اور ایک منفرد اخلاقی شعور کے مالک بن جاتے ہیں۔ دوم: اسلام انسان کی وحدت کو روح اور مادے کی ناقابل مصالحت ثنویت یا دوئی میں منقسم نہیں کرتا اسلام میںخدا اور کائنات روح اور مادہ کلیسا اور ریاست باہم مربوط ہیں… اسلام کادینی نصب العین بنیادی طور پر اسلام کے معاشرتی نظام سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں سے ایک کو مسترد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرا بھی مسترد کر دیا گیا ہے۔ اس لیے اگر قومی بنیادوں پر ایک نظام سیاست کی تشکیل کا مطلب یہ ہے کہ یہ اسلامی اصول حمیت کی جگہ لے لے تو یہ بات ایک مسلمان کے لیے ناقابل تصور ہے اور یہی وہ معاملہ ہے جو موجودہ وقت میں مسلمانان ہند سے براہ راست تعلق رکھتا ہے۔ سوم: ہندوستان ایک چھوٹا سا ایشیا ہے۔ اس کی آبادی کے ایک حصے کی ثقافت مشرقی ایشیا کی قوموں سے ملتی جلتی ہے۔ اورایک حصے کی ثقافت وسطی او رمغربی ایشیا کی قوموں سے مماثل ہے اگر ہندوستان میں تعاون کا کوئی موثراصول دریافت کر لیا جائے تو اس سے اس قدیم سر زمین میں امن اور باہمی خیر سگالی کا دور دورہ ہو گا… اور اس سے ایشیا کابھی پورا سیاسی مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ چہارم: جہاں تک میں نے مسلمانوں کے ذہن کا مطالعہ کیا ہے مجھے یہ اعلان کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ اگر مستقبل فرقہ وار تصفیے کی بنیاد کے طور پر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے کہ ہندوستانی مسلمانکو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ہندوستانی اوطان Homelandsمیں اپنی ثقافت اور روایت کے خطوط پر بھرپور اورآزادانہ نشوونما پائے۔ تو وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے سب کچھ بازی پر لگانے کو تیار ہوگا۔ پنجم: آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے قومی مطالبات کی تائید کرتے ہوئے حضرت علامہ نے کہا ذاتی طور پر میں ان مطالبات پر مستزاد یہ کہوں گا کہ میں پنجاب شمال مغربی سرحدی صوبے سند ھ اور بلوچستان کو مدغم کر کے ایک ریاست کی صورت میں دیکھنا پسند کروں گا۔ خود اختیاری حکومت قلمرو برطانیہ کے اندر ہو یا قلمرو برطانیہ کے باہر۔ ایک مضبوط شمال مغربی ہندی مسلم ریاست کی تشکیل مجھے کم از کم شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی آخری منظر نظر آتی ہے۔ یہ تجویز نہرو کمیٹی کے سامنے بھی پیش کی گئی تھی۔ لیکن اسے اس بنا پر مسترد کر دیا گیا کہ یہ اتنی بڑی ریاست ہو گی کہ جس کا نظم و نسق چلانا مشکل ہوجائے گا۔ ششم: اس سرزمین میں ایک ثقافتی قوت کی حیثیت سے اسلام کی بقا کا دارومدار ہے اسے ایک مخصوص علاقے پر مرتکز کرنے پر ہے۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفادات کے پیش نظر ایک مربووط مسلم ریاست قائم کر دی جائے۔ اس سے ہندوستان میں طاقت کا توازن اندرونی امن اور سلامتی کا پیام بر ہو گا۔ اور اسلام کو موقع مل جائے گاکہ وہ اپنے قانون ساز اپنی تعلیم اور اپنی ثقافت کو حرکت میں لے آئے اور انہیں اپنی اصل روح اور زمانہ حال کی روح کے قریب لے آئے۔‘‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علامہ کیا چاہتے تھے … ایک آزاد اور خود مختار اسلامی مملکت یا برعظیم کے سیاسی ڈھانچے کے … اندر رہتے ہوئے شمال مغربی ہند میں ایک مربوط مسلم ریاست میرا جواب یہ ہے کہ علامہ کی دلی آرزو تو یہی تھی کہ ایک درمیانی راستہ تجویز کرنا پڑا اوروہ یہ تھا کہ ہندوستان کے اندر رہنتے ہوئے ایک مربوط مسلم ریاست وجود میںآ جائے۔ اس کی شہادت اول تو انہی اقتباسات سے فراہم ہوتی ہے۔ جو پیش کیے جا چکے ہیں۔ دوسرے ہندوستان کے دفاع کے بارے یں انہوںنے جو کچھ فرمایا وہ بھی اسی سمت کا شاہد ہے۔ اس سلسل میںتین چھوٹے چھوٹے اقتباسات پیش خدمت ہیں: ’’پس ہندوستان کے سیاسی جسم کے اندر نشوونما کا پورا موقع حاصل کر کے شمال مغربی ہند کے مسلمان غیر ملکی یلغار کے خلاف ‘ خواہ وہ یلغار نظریات کی ہو یا سنگینوں کی ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے‘‘۔ داخلی امن کو برقرار رکھنے کی خاطر صوبائی افواج کے علاوہ ہندوستانی وفاقی کانگرس شمال مغربی سرحد پر ایک ایسی مضبوط ہندوستان فوج رکھ سکتی ہے جو تمام صوبوں سے حاصل کردہ یونٹوں پر مشتمل ہو گی۔ اور جس میں افسر وں کے فرائض تمام فرقوں سے لیے ہوئے چابک دست اور تجربہ کار فوجی ادا کریں گے‘‘ ’’مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اگر ایک وفاقی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو مسلمان وفاقی ریاستیں دفا ع ہند کے لیے بہ رضا و رغبت خود غیر جانب دار ہندوستانی بری اور بحری افواج کی تشکیل سے اتفاق کر لیں گی۔ ہندوستان کے دفاع کے لیے اس قسم کی غیر جانب دار فوجی قوت مغل حکومت کے دنوںمیںایک حقیقت تھی بلکہ اکبر کے زمانے میں ہندوستانی سرحد کی حفاظت ایسی فوجیں کرتی تھیں جن میں ہندو جرنیل افسر ہوا کرتے تھے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وفاقی ہند پر مبنی ایک غیر جانبدار فوج کا منصوبہ مسلمانوں میں حب وطن کے احساس کو تیز کر دے گا۔ اور بالآخر کسی ایسے شبے کو ختم کر دے گا کہ بیرونی حملے کی صورت میں ہندوستان مسلمان سرحد پار کے مسلمانوں کے ساتھ مل جائیں گے‘‘۔ ان اقتباست سے ہم یہ نتائج آسانی سے اخذ کر سکتے ہیں: اول: اقبال نے جب شمال مغربی ہندی مسلم سیٹ کے قیام کا مطالبہ کیا تو سٹیٹ کا لفظ ایک فیڈریشن کے یونٹ کے طور پر کیا اوربنگال کا ذکر اس لیے نہ کیا ک وہ پہلے ہی سے مسلم اکثریتی صوبہ تھا۔ اور اس کے آس پاس کوئی ایسا صوبہ موجود نہ تھا جسے اس میں مدغم کیا جا سکتا۔ دوم: اقبال مسلم وفاقی ریاستوں کو جس ہندوستانی وفاقی کانگرس یا فیڈرل حکومت میں شامل دیکھنا چاہتے تھے وہ حقیقت میںفیڈریشن نہیں کنفیڈریشن تھی کیونکہ اقبال اس کے اجزائے ترکیبی کو اتنی آزادی اور خود مختاری دینے کے قائل تھے کہ ہر ریاست اپنی فوج بھی رکھ سکتی ۔ دوسرے بر عظیم کے دفاع کے لیے مشترکہ فوج کا منصوبہ اپنایا۔ تیسر ے یہ کہا کہ فیڈریشن کو صرف وہی اختیارات حاصل ہوں گے جو خود مختار صوبے اسے دیں گے اورباقی ماندہ یا بقیٰ اختیارات صوبوں کے پاس رہیں گے۔ چوتھے وہ فیڈرل نظام چلانے کے لیے ایک ایسی اسمبلی چاہتے تھے۔ جس کے انتخابات براہ راست نہ ہوں۔ سوم: اقبال کا منصوبہ جناح کے چودہ نکات سے ایک منزل آگے تھا اوراس اعتبار سے زیادہ سائنسی حل تھا کہ ہندوئوں اور مسلمانوںدونوں کیلیے یہ گنجائش پیدا کی گئی کہ وہ اپنے اپنے نظریات کی روشنمیں اپنے اپنے منطقوں میں جو نظام چاہیں قائم کر لیں ان میں پر امن بقائے باہمی کی بنیادپر نظریاتی مسابقت کا سلسلہ جاری رہے۔ ایک دوسرے کے معاملات میں کم از کم مداخلت کرسکیں۔ چہارم: بہرحال ایک بات مبہم رہ گئی کہ اگر ہندوستان کے اندر مسلم ریاستیں مطلوب تھیں تو پھر شمال مغربی مسلم ریاست کے بارے میں قلمرو برطانیہ کے اندر یا باہر کے الفاظ کیوں لکھے گئے؟ انگریزوںکو اندر پر تو کوئی خاص اعتراج نہ تھا لیکن باہر کے لفظ سے بدک گئے۔ لندن ٹائمز نے ۲۹ ستمبر ۱۹۱۳ء کے شمارے میں اتحاد اسلامی یا پین اسلامزن کی سازش پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور ایک مشہور ہندو نواز پروفیسر ایڈورڈ تھامپسن نے ۳ اکتوبر کو اسی اخبار میں ایک مراسلہ چھپوایا جس میں اندر یا باہر کے الفاظ کو خط کشیدہ کر کے علامہ سے پوچھا کہ باقی ہندوستان کے لیے کس قسم کی قابل دفاع سرحد رہ جائے گی علامہ نے ۱۲ اکتوبر کے لندن ٹائمز میں اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ میں نے قلمر و برطانیہ کے باہر ایک مسلم ریاست کا مطالبہ نہیں کیا۔ بلکہ محض ایک قیاس پیش یا تھا کہ جو زبردست قوتیں اس وقت ہندوستانی برعظیم کی تقدیر بنا رہی ہیں آنے والے مدہم مستقبل میں اس کا ممکنہ نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔ میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ قلمرو برطانیہ کے اندر یا باہر کے الفاظ میں علامہ نے دیدہ و دانستہ داخل کیے۔ کیونکہ ان کی دلی خواہش یہ تھی کہ ایک مکمل طور پر آزاد اور خود مختار مملکت وجود میں لائی جائے۔ آپ پوچھیں گے کہ اگر علامہ کی خواہش یہی تھی تو انہوں نے ہندوستانی وفاقی کانگرس کے اندر مسلم ریاستوں کا تصور کیوں پیش کیا میرا جواب یہ ہے کہ انہیں بہر صورت باقی مسلم قیادت کے ساتھ قدم ملا کر چلنا تھا۔ کیونکہ اگر وہ بالکل مختلف لائن پیش کرتے تو مسلم قیادت سے ان کا رشتہ کٹ جاتا اور وہ Isolateہو کر رہ جاتے۔ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ خطبہ الہ آباد کا فوری رد عمل کیا ہوا۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ اس وقت لندن میں پہلی گول میز کانفرنس ہو رہی تھی۔ بمبئی کے اخبار انڈین ڈیلی میل کے نامور نامہ نگار مقیم لندن جناب ایف ڈبلیو ولسن نے ۳۱ دسمبر ۱۹۳۰ء کو جو برقیہ بھیجااس میؤں بیان کیا کہ ڈاکٹر اقبال کے خطبہ صدارت پر وزیر اعظم برطانیہ جناب ریمزے میکڈانلڈ بے حد ناراض ہوئے ہیں الہ آباد کے اخبار ’’لیڈر‘‘ کے نامہ نگار لندن نے لکھا ’’فیڈرل حکومت کے تصور اور اس کے حق میں ہندوستانی رہنمائوں کے خیالات و نظریات پر سر محمد اقبال نے جو حملہ کیا ہے اس کے خلاف نہ صرف برطنوی بلکہ ہندوستانی حلقے بھی غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ پائوئئیر اور ٹائمز آف انڈیا جیسے اینگلو انڈین اخباروں نے اقبال کی تجویز کو رجعت پسندانہ اور ناقابل عمل اور نامناسب قرار دیا۔ ہندوئوں کے رد عمل کے بارے میں پوری تصویر ’’انقلاب‘‘ کے ۷ ۱ جنوری کے اداریے میں اقتباس کے ذریعے سامنے آ جاتی ہے کہ شاید ہی کوئی گویا ہندوزبان ہو ۔ جس نے اس خطبے کے خلاف نہایت ناپاک سے ناپاک انداز میں زہر افشانی و زہر ریزی نہ کی ہو۔ اور شاید ہی چند الٹی سیدھی لکیریں لکھنے والا کوئی ہندو ہاتھ ہو جس نے اس خطبے کو اپنی مذموم اور قابل صد نفرین جولانی کا تختہ مشق نہ بنایا ہو…ہندوستان کے شامل ہندوستان کے جنوب ہندوستا ن کے مشرق اور ہندوستان کے مغرب میں جہاں کوئی ہندو بول یا لکھ سکتا ہو اس نے خطبہ الہ آباد کی انتہائی مذمت میں اس درجہ مستعدی سے کام لیا کہ شاید حکومت انگلشیہ سے آزادی حاصل کرنے میں بھی آج تک ایسی مستعدی کا کسی نے اظہار نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ جو ہندو ولایت میں بیٹھے تھے۔ وہ بھی اسی طرح مضطرب ہو کر مخالفت کے میدان میںاتر آئے کہ گویا علامہ اقبا ل کے خطبے نے ا ن کے ہاتھ سے وہ چیز چھین لی ہے جسے وہ خالصتاً اپنی مملکت سمجھتے تھے۔ اس تمام مہم کے دوران میں ہر قسم کی گالیاں دی گئیں۔ بہتان تراشی کی گئی لیکن بدترین سے بدترین دشمن نے بھی یہ نہ کہا کہ اقبال نے علیحدہ اسلامی ریاست کا تخیل انگریزوں کی شہہ پر پیش کیا ہے۔ اور ا س کی وجہ ایک تویہ تھی کہ انگریز اس تجویز کی مخالفت کرتے تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ ہندو برطانوی سامراج کی گود میں بیٹھے تھے۔ اور سامراج سے ان کا گٹھ جو ڑ تھا نہ کہ مسلمانوں کا ۔ اب ہمیں یہ دیکھتنا ہے کہ خطبہ الہ آباد کا خود مسلمانوں میں کیار د عمل ہوا۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ لیگ کے الہ آباد سیشن میں مکمل سناٹا رہا اور اس پر نہ وہاں نہ کسی اور جگہ مسلمان رہنما نے کسی خیال کا اظہار کیا اور اگر کسی نے اقبال کی حمایت کی اور دھڑے سے کی تو وہ چند مسلمان اخبار تھے۔ لاہور میں ’’انقلاب‘‘ اور’’مسلم آئوٹ لک‘‘ اور ’’سیاست‘‘ نے اور لکھنو میں روزنامہ ’’ہمدم‘‘ نے ۔ اس کے بعد علامہ اقبال کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ خاموش ہو جاتے اور پبلک طور پر جناح کے چودہ نکات پر زور دیتے کہ بہ ہر حال وہ منزل کی طرف پہلے قدم کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس کے باوجود اپر انڈیا مسلم کانفرنس کا چرچا تین چار مہینے رہا ہے اور یہ تجویز علامہ کے ذہن میں آخری دم تک رہی ۔ لیکن اس کا تذکرہ بعد میں آئے گا۔ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے اقبال ۱۹۳۱ء کے اواخر میں لندن گئے اور انہوںنے یہ موقف اختیار کیا کہ جب تک مسلمانوں کے قومی مطالبات نہیں مانے جاتے۔ وہ فیڈرل ڈھانچے پر کسی گفتگو کے قائل نہیں ہیں۔ اور جب مسلم مندوبین نے انگریزوں کے دبائو میں آ کر فیڈرل ڈھانچے پر گفتگو کرنے کے لیے رضامندی ظاہر کر دی۔ تو علامہ نے مسلم وفد سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اور کانفرنس چھوڑ کر یورپ کے دورے پر نکل گئے تیسری گول میز کانفرنس دسمبر ۱۹۳۲ء کے اواخر میں ہوئی۔ لندن میں نیشنل لیگ کے ایک استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے مسلمانوں کے قومی مطالبات کی تائید فرمائی لیکن ساتھ ہی کہہ دیا کہ اصل حل مسلم ریاست کے قیام میں مضمر ہے۔ انہوںنے فرمایا کہ یہ تجویز مسلمانان ہند کے قومی مطالبے میں شامل نہیں ہے لیکن میری ذاتی رائے میں یہی ایک ممکن حل ہے اور میں انتظار کر رہاہوں کہ تجربے سے اس تجویز کے جواز میں ثبوت حاصل ہو جائے‘‘۔ اسی سال لاہورمیں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے صدارتی خطبے میں انہوںنے مسلمانوں کے قومی مطالبات کی منظوری پر زور دیا۔ اور اس ک ساتھ ی ایک پنج نکاتی لائحہ عمل پیش کیا۔ جس میں کہا یگا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان صرف ایک تنظیم کے پرچم تلے جمع ہوں اسے مضبوط بنانے کے لیے پچاس لاکھ روپے کا ایک فنڈ جمع کریں۔ ہر جگہ یوتھ لیگیں قائم ہوں جو خاص طور پر دیہات میں بسنے والے کی معاشی حالت کو سدھاریں۔ ہر بڑے شہر میں اسلامی ثقافتی ادارے قائم ہوں اور دینی تعلیم کو محکم بنیادوں پر استوار کیا جائے اور آخری نکتہ یہ تھا کہ علماء فقہا اور وکلا کی ایک اسمبلی بنائی جائے اور حکومت سے اسے آئینی طور پر تسلیم کرایا جائے۔ تاکہ جو بل مسلمانوں کے شخصی قانون کو متاثر کرتے ہوں ان پر اس اسمبلی کی رائے دریافت کی جائے ظاہر ہے اس پروگرام کا مقصد یہی تھا کہ آخری نصب العین کے حصول کے لیے زمین تیار کی جائے۔ اس کے بعد ایک آدھ سال مسلم حقوق کی جنگ میں پیش پیش رہے۔ لیکن ۱۹۳۳ء کے اواخر میں مسلمانوں کے اختلافات نے انہیں دل شکستہ کر دیا۔ ستمبر ۱۹۳ء میں مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام مکوب میں لکھا گزشتہ پانچ چار سال کے تجربے نے مجھے بہت درد مند کر دیا ہے ۔ اس لیے جلسوں میں میرے لیے کوئی کشش باقی نہیں رہی۔ میں کہیں نہیں جا رہا۔ نہ پٹنہ نہ کانپور اور ۱۰ جنوری ۱۹۳۴ء کو ان کی علالت کا آغاز ہو چکا تھا جس میں گلا بیٹھ گیا اور یہ صورت آخری دم تک قائم رہی اوردوسرے عوارض نے بھی انہیں خطابت اور ایک سرگرم سیاسی زندگی کے ناقابل بنا دیا۔ بہرحال وہ بعض اجتماعی سرگرمیوں میں شریک رہے۔ سیاسی مسائل پر بیانات بھی جاری کرتے رہے۔ اتنے میں ۱۹۳۶ء کا سال آیا۔ جو برعظیم کی سیاسی تاریخ میں ا س لیے خصوصی اہمیت کا حامل تھا کہ ۱۹۳۵ء کے آئین حکومت ہند کے تحت صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کی آمد آمد تھی۔ مسلم لیگ نے انتخابی مہم میں حصہ لینا چاہا تو پنجاب میں علامہ کا تعاون حاصل کیا لیکن تنظیم کا وجود عدم وجود برابر ہونے کی وجہسے پنجاب میں مسلم لیگ کو شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندوستان کے باقی صوبوں میں بھی لیگ کی حالت چنداں قابل رشک نہیں تھی۔ بہرحال یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ کانگرس کو بھی مسلمانوں میں کوئی اثر حاصل نہیں۔ کیونکہ پانسو کے قریب مسلم نشستوں میں سے صرف دو نشستیں حاصل کر سکی۔ جس میںپندرہ صوبے سرحد دے تعلق رکھتی تھیں۔ اس دوران پنڈت نہرو نے بڑی گھن گرج کے ساتھ سوشلزم کا نعرہ بلند کیا جس سے مسلمان بھی متاثر ہونے لگے۔ اب علامہ کی سوچ میں ایک بڑی تبدیلی واقع ہوئی وہ پہلے علیحدہ مسلم مملکت کا مطالبہ کرتے تھے تو زیادہ تر اسلامی ثقافتی محرکات کی بنا پر اب معاشی محرکات نے فوقیت حاصل کر لی اور انہوںنے قائد اعظم کو پاکستان کے راستے پر ڈالنے کے لیے نجی اور خفیہ خطوط کا سلسلہ شروع کیا۔ ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کو خط میں صاف صاف لکھا ہے کہ اگر مسلم لیگ کو زند ہ رہنا ہے تو اسے ایک عوامی جماعت بننا ہو گا اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کے افلاس کا مسئلہ حل کیا جائے اقبال نے لکھا: ’’خوشی کی بات یہ ہے کہ اس کا یہ حول موجود ہے کہ اسلام کا قانون نافذ کیا جائے اور جدید تصورات کی روشنی میں اسے مزید نشوونما دی جائے۔ اسلامی قانون کے ایک طویل اور محتاط مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کرنافذ کر دیا جائے تو ہر شخص کے لیے مک از کم قوت لایموت کا حق محفوظ ہو سکتا ہ ۔ لیکن اس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ اور نشوونما اس وقت تک ناممکن ہے جب تک ایک یا ایک سے زیادہ مسلمان مملکتیں وجود میں نہیں آ جاتیں سال ہا سال سے میرا یہ دنیانت دارانہ عقیدہ رہا ہے اور میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ یہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر مسلمانوں کے لیے روٹی کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔ اور ایک پر امن ہندوستان بھی حاصل ہو سکتاہے۔ اگر ہندوستان میں ایسی چیز ناممکن ہے تو اس کا واحد متبادل خانہ جنگی ہے۔ جو حقیقت میں ہندو مسلم فسادات کی صورت میں کچھ عرصے سے جاری ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ہندو مذہب کے سیاسی جسم سے جواہر لال کا سوشلزم دخیل ہوا تو خود ہندوئوں کے اند ربھی خون ریزی ہو گی۔ معاشرتی جمہوریت اور برہمن ازم کے درمیان مسئلہ برہمن ازم اور بدھ ازم کے درمیان مسئلے سے مختلف نہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا سوشلزم کا وہی حشر ہو گا۔ جو ہندوستان میں بدھ ازم کا ہوا تھا۔ لیکن یہ بات میرے ذہن میں واضح ہے کہ اگر ہندو ازم معاشرتی جمہوریت قبو ل کرتا ہے تو وہ ہندو ازم کی حیثیت سے یقینا ختم ہو جائے گا لیکن اگر اسلام کی مناسب صورت میں اور اپنے قانونی اصول کے مطابق معاشرتی جمہوریت قبول کر کے تو ایہ ایک انقلاب نہیں ہو گا۔ بلکہ اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف لوٹنے کے مترادف ہو گا۔ پس جدید مسائل کا حل ہندوئوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے کہیں زیادہ آسان ہے۔ لیکن جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں کہ اسلامی ہند میں ان مسائل کے حل کو ممکن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی از سر نو تقسیم عمل میں لائی جائے۔ اور قطعی اکثریت کی حامل ایک یا ایک سے زیادہ مسلم مملکتیں وجود میں لائی جائیں۔ کیا آپ کا یہ خیال نہیں ہے کہ ایسا مطالبہ کرنے کی گھڑ ی آن پہنچی ہے۔ غالباً آپ جواہر لال نہرو کے ملحدانہ سوشلزم کا یہی بہترین جواب دے سکتے ہیں‘‘۔ ۲۱ جون ۱۹۳۷ء کو علاہ نے ایک اور نجی خفیہ خط میں قائد اعظم کو بتایا کہ پنجاب کے مسلمان پہلے سے تجویز کر رہے ہیں کہ ایک شمال مغربی ہندو مسلم کانفرنس بلائی جائے۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ یہ مرحلہ ا س کے لیے مناسب نہیں لیکن اس بات کی تو یقینا ضرورت ہے کہ آ پ لیگ کے سالانہ اجلاس میں اپنے خطبہ صدارت کے دوران میں یہ اشارہ کردیں کہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کو آخر کار کون سی راہ عمل اختیار کرنی ہو گی۔ اسی خط میں آپ نے لکھا: ’’میرے نزدیک واحد ہندوستانی فیڈریشن کاحامل نیا آئن کاملاً ناقابل قبول ہے۔ اگر ایک پرامن ہندوستان مطلوب ہے اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبے سے بچانا ہے تو اس کی ایک ہی صورت ہے۔ کہ میری تجویز کے مطابق از سر نو بنائے ہوئے مسلم صوبوں پر مشتمل ایک فیڈریشن بنائی جائے۔ آخر شمال مغربی ہند اور بنگال کے مسلمانوں کو کیوںنہ ایسی قومیں سمجھا جائے جنہیں ہندوستان کے اندر اور باہر کی دوسری قوموں کی طرح حق خود ارادیت حاصل ہو ذاتی طور پر میرا خیال یہ ہے کہ اس وقت شمال مغربی ہند اور بنگال کے مسلمانوں کو مسلم اقلیتی صوبے نظر انداز کر دینے چاہئیں۔ یہی وہ بہترین راستہ ہے جو مسلم اکثریتی اور مسلم اقلیتی دونوں قسم کے صوبوں کے مفاد میں ہو‘‘ حضرت علامہ کی توقع یہ تھی کہ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں لکھنو میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن قائد اعظم مسلمانوں کے لیے حق خود ارادیت کا مطالبہ کریں گے۔ لیکن یہ توقع پوری نہ ہوئی۔ کیونکہ قائد اعظم اس کے قائل نہیں ہوئے تھے۔ راقم الحروف کو اچھی طرح یا د ہے کہ جب اگست اور ستمبر ۱۹۳۷ء میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سلسلے میں علامہ سے ملتے رہے تو یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ مسلم طلبہ کا نصب العین کیا ہو؟ انہوںنے ایک ملاقات میں کہا کہ تم نوجوان ہو اور سیاسی جماعتوں پر تکیہ نہ کرو اور اپنا نصب العین خود تجویز کرو۔ دوسری ملاقات میں جب ہم نے اصرار کیا تو وہ نصب العین کے بارے میں یوں مشورہ دیں تو کہنے لگے کہ لیگ کے اکتوبر سیشن کا انتظار کیوںنہیں کر لیتے؟ یہ بات غالباً اس لیے کہی تھی کہ وہ لیگ سیشن سے توقعات باندھے ہوئے تھے۔ جب راقم الحروف نے انہیں یاد دلایا کہ گزشتہ سال ملاقات میں انہوںنے سیاسی جماعتوں پر تکیہ نہ کرنے اور اپنے نصب العین کا فیصلہ خود کرنے کی تلقین کی تھی اور اب لکھنو سیشن کا انتظار کرنے کو کہہ رہے ہیں تو ان کے چہرے پر ایک عجیب دل کش تاثر غالب آیا اور کہنے لگے میں اب بھی یہی کہتا ہوں۔ اس پر میں نے کہا۔ ہمارے لیے نصب العین آپ تجویز کریں۔ چنانچہ وہیں یہ بات طے ہو گئی کہ مسلم طلبہ کانصب العین یہ ہو گا …شمال مغربی ہند میں مسلمانوں کے حق خو د ارادیت کی بنیاد پر ایک ایسی مسلم نیشنل سٹیٹ کا قیام جس میں پنجاب سرحد سندھ بلوچستان اور کشمیر شامل ہوں۔ یہ نصب العین ہماری جماعت کے آئین کا جزو بن گیا۔ بلکہ ہم نے سرحد سندھ اور کشمیر کی شاخوں کا الحاق بھی قبول کر لیا۔ اب سوال یہ باقی رہتا ہے کہ حضرت قائد اعظم نے علامہ کے خطوط سے کیا اثر قبول کیا۔ دبدقسمتی سے علامہ کے نام قائد اعظم کے جوابات نہایت پرا سرار حالات میں ایسے گم ہوئے کہ ان کا سراغ پھر کبھی نہ ملا۔ بہرحال ۱۹۴۳ء میں جب علامہ کے خطوط بنام قائد اعظم کا مجموعہ چھپا تو اس کا پیش لفظ قائد اعظم نے لکھا اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ قائد اعظم پر ان خطوط کا کیا اثر پڑا۔ اس یش لفظ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو: ’’میرے نزدیک یہ خطوط بہت بڑی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں بالخصوص وہ خطوط جن میں انہوںنے اسلامی ہند کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات واضح اور واشگاف انداز میں پیش کیے۔ ان کے خیالات بہت بڑی حد تک میرے خیالات سے ملتے جلتے تھے۔ اور ان کے خیالات نے مجھے بھی ہندوستان کے آئینی مسائل کے مطالعہ اور محتاط غور و فکر کے بعد انہی نتائج پر پہنچایا اور یہی وہ خیالات تھے جنہوں نے مسلمانان ہند کی متحدہ مرض کے مطابق آل انڈیامسلم لیگ کی قرارداد لاہور کی صورت لی جو ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو منظور ہوئی اور جسے عرف عام میں قرارداد پاکستان کہا جاتا ہے‘‘۔ آخر میں بڑے ادب کے ساتھ عرض کروں گا کہ اقبال ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں اسلامی نظریہ حیات کو پنپنے اورپھلنے پھولنے کے پورے مواقع حاصل ہوں لیکن جب وہ اسلام کا نام لیتے تھے تو اس سے مراد تھا اس کا ٹھوس روپ جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو نہ کہ محض نعرہ زنی وہ پاکستان میں ایک ایسی سوشل ڈیمو کریسی چاہتے تھے کہ جو اسلامی قانون کے مطابق ہو اور اس سوشل ڈیمو کریسی کے خدوخال معلوم کرنے ہوں تو ضرب کلیم اور بال جبریل کا مطالعہ ضروری ہے۔ ٭٭٭ علامہ اقبال کے سفر کی روئیداد اور خطبات (مدراس میں ‘ دکن میں‘ علی گڑھ میں) محمد عالم مختار حق یہ تمام تفصیلات روزنامہ انقلاب لاہور سے اکٹھی کی گئی ہیں۔ مہر و سالک علامہ کے خاص نیاز مندوں میں سے تھے اس لیے سفر کی روئیداد انہی کے اخبار انقلاب میں چھپتی رہی۔ اس تحریر میں علامہ اقبال کے جو ہمسفر تھے وہ چوہدری محمد حسین صاحب تھے۔ ویسے ڈاکٹر عبداللہ چغتائی بھی ہمراہ تھے۔ جو علامہ کے دوستوں میں بڑی اہمیت رکھتے تھے۔ وصیت نامہ کے مطابق علامہ نے بچوں کاسرپرست بھی چوہدری صاحب ہی کو بنایا۔ محمد عالم چند اطلاعی خبریں ۱۔ علامہ اقبال کی روانگی مدراس دہلی یکم جنوری علامہ اقبال ۳۱ کی صبح کو لاہور سے دہلی پہنچے اور دو دن مسلم کانفرنس کے معاملات میں مصروف رہے۔ آپ ۲جنوری کی صبح کو دہلی سے مدراس جا رہے تھے اور غالباً ۵ کو وہاں پہنچ جائیں گے۔ چودھری محمد حسین صاحب ایم اے آپ کے ہمراہ جا رہے ہیں (۴ جنوری ۱۹۲۹ئ) ۲ ۔ علامہ اقبال کی روانگی مدراس علامہ اقبال ۲ جنوری کی صبح کو فرنٹئیر میل سے مدراس روانہ ہو گئے۔ چودھری محمد حسین صاحب ایم اے اور مولوی محمد عبداللہ صاحب چغتائی پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور آپ کے ساتھ تھے۔ علامہ موصوف ۹ جنوری تک مدراس میں رہیں گے۔ پھر بنگلور ‘ میسور‘ اور سرنگا پٹم ہوتے ہوئے غالباً ۲۱ تک حیدر آباد میں قیام (مقیم ) رہیں گے اور ۲۰ جنوری کو آ پ لاہور پہنچ جائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ رہے علامہ موصوف کے سفر کے حالات انقلاب میں شائع ہوتے رہیں گے۔ (۵ جنوری ۱۹۲۹ئ)۔ ۳۔ دکن میں علامہ اقبال کا خیر مقدم روزنامہ ’’الکلام‘ ‘ (بنگلور) نے علامہ اقبال کے بنگلور تشریف لے جانے کی خوشی میں اپنا ایک خاص نمبر نکالنے کا اعلان کیا ہے جس کانام ’’اقبال نمبر‘‘ ہو گا۔ اس میں علامہ ممدعوح کی تصویر ہو گی۔ آپ کے سوانح حیات ہوں گے اور آپ کے کارناموں پر تبصرہ کیا جائے گا۔ (۵جنوری ۱۹۲۹ئ) ۴۔ مدراس میں سر محمد اقبال کا شاندار خیر مقدم مدراس ۵ جنوری ۔ علامہ سر اقبال آج مدراس میں وارد ہوئے مسلمانان شہر نے آپ کا شاندار خیر مقدم کیا۔ اور سپاسنامہ پیش کیا ۔ دعوت طعا م شام کو ۸ بجے مسلم فیڈریشن بمبئی کی طرف سے کھانے کی دعوت تھی۔ مسٹر ہدایت حسین صاحب وزیر لوکل سیلف گورنمنٹ کے علاوہ اور دس گیارہ جلیل القدر مسلمان اصحاب مدعو تھے (ناموں کی فہرست کی جلدی کی وجہ سے سیکرٹری صاحب سے نہ لے سکا۔ آج یا کل یہاں مدراس میں بذریعہ ڈاک پہنچ جائے گی)۔ مدراس کی طرف روانگی ۳ جنوری کو دس بجے رات مدراس میل سے سوال ہوئے وہ رات دوسرا دن اور گزشتہ رات گاڑی میں گزری عجیب سفر ہے اور جس حصہ ملک میں سفر کیا وہ بھی کم عجیب نہیں افسوس کہ سفر کے حالات کی اس مختصر نامہ میں گنجائش نہیں نہ میں بمبئی کے متعلق مفصل حالات لکھ سکا ہوں۔ جنوبی ہند کو دیکھ کر او ر یہاں کے لیے علامہ اقبال کے مقاصد سفر کو مدنظر رکھ کر میں اور مستقل سفر نامہ کو ترتیب دینے کی ضرورت محسوس کرنے لگا ہوں۔ مدراس میں پرجوش استقبال آج صبح سا ت بج کر پینتیس منٹ پر جب ہماری گاڑی مدراس سٹیشن پر پہنچی تو استقبال کرنے والے حضرات کا ایک ہجوم سٹیشن پر موجودتھا۔ بیشتر مسلمان تھے اور ترکی ٹوپیاں پہنے ہوئے تھے۔ مدراس کے اکثرعلماء و فضلا اور زعما و رئوسا موجود تھے حضرت علامہ کو گاڑی سے اترنا مشکل ہو گیا۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ پہلے میں دیکھوں اور مصافحہ کروں۔ ایک معزز خاتون کا جوش عقیدت مدراس کے ایک معزز مسلمان گھرانے کی ایک تعلیم یافتہ اور ذوق ادب سے بہرور خاتون جنہوںنے علامہ کے انتظار میں لاہور ہی میں خط لکھے تھے (ان کا نام میں اس خط میں نہیں دیتا نہ ان کے شوق زیارت کے حالات قلم بند کرتا ہوں یہ سفر نامہ کا مضمون ہے) مدراس سے ایک سٹیشن پہلے ہی یعنی باسن برج کے سٹیشن پر اپنے والد معظم کی معیت میں گاڑی میں استقبال کو آ گئی تھیں۔ پرکیف تاثرات لاہور سے بمبئی اور پھر بمبئی سے مدراس تک سات سوچوراسی میل سفر کرنے کے بعد اقصائے ہند میں اقبال کے استقبال کے لیے اتنے مسلمانوں کا اجتماع دیکھ کر مجھے جیسے اقبالی اور مسلمان اقبالی کے دل پر جو کیفیات گزرتی ہوں گی ان کا اندازہ مہر نہ کر سکے گا تو اور کون کرے گا؟ امتحان ضبط جس طرح نگاہ نے اس سفر میں ہر مقا م کے کوائف کا جو اتفاقاً اس کے سامنے آگئے پورا جائزہ لیا ہے جس طرح دل نے ان کوائف سے پیدا شدہ اثرات کو اپنے دل میں جگہ دی ہے اسی طرح قلم بھی بے اختیار ہونا چاہتا ہے۔ کہ جو دیکھا اور جو دل میں اترا اس کا ہر خط اور ہر خال قرطاس پر نقش کر دے۔ مگر چشم دل ابھی اس کی کوئی پیش نہیں جانے دیتے ۔ جب تک ان دونوں کے لیے نئی سے نئی چیز سامنے آ رہی ہے اس وقت تک قلم کو صبر و ضبط سے کا م لینا ہو گا۔ شوق زیارت کا جوش ہاں یہ مدراس سٹیشن کے اجتماع کا ذکر تھا۔ گاڑی سے اترنا مشکل ہو گیا۔ جناب حمید حسن اور سیٹھ جمال صاحب کے صاحبادہ صاحب گاڑی کے اندر ہی تشریف لے آئے اور ڈاکٹر صاحب کو پھولوں کے ہار پہنائے۔ بصد مشکل باہر نکلے اور گاڑی کے اندر ہی سے جناب حمید حسن صاحب نے لوگوں کو بلند آواز سے یقین دلایا کہ سب کو ڈاکٹر صاحب سے ملنے کا موقع ملے گا۔ شام کو علامہ ممدوح نے ایک عظیم الشان جلسے میں مذہب اسلام پر پہلا خطبہ دیا (۸ جنوری ۱۹۲۹ئ) ۵۔ علامہ اقبال میسور میں (انقلاب کا مکتوب خاص) برادرم السلام علیکم۔ آج صبح ۸ بجے ہم بنگلور پہنچے مسلمانان بنگلور نے ڈاکٹر صاحب کا نہایت شاندار استقبال کیا۔ یہاں کی مسلم لائبریری مشہور ہے۔ اراکین کتب خانہ اور انجمن ترقی اردو نے مل کر ڈاکٹر صاحب کو ایڈریس دیا۔ مرز ا محمد اسمعیل دیوان ریاست میسور صدر تھے اور دو تین ہزار آدمیوں کا اجتماع ہو گا۔ شام کو انٹرمیڈیٹ کالج میسور میں جماعت ملیہ اسلامیہ اور دیگر اسلامی انجمنوں نے مدعو کیا۔ مدراس کا پہلا لیکچر ڈاکٹر صاحب نے اس جلسہ میں پڑھا۔ مفصل حالات گزشتہ چار دن کے ارسال نہیں کر سکا۔ فرصت ہی لکھنے کی نہیں ملی۔ ’’ہمسفر‘‘ ۶۔ علامہ سر محمد اقبال کی مراجعت سکندر آباد ۱۹ جنوری آج علامہ سر محمد اقبال بمبئی کے راستے سے روانہ لاہور ہو گئے اور غالباً ۲۲ کی صبح کو بٹھنڈہ میل سے لاہور پہنچ جائیں گے۔ (۲۲ جنوری ۱۹۲۹ئ) ٭٭٭ مدراس میں علامہ اقبال کا پرجوش استقبال انقلاب کا مکتوب خاص مدراس ۵ جنوری مکرمی السلام علیکم ۔ ۲ جنوری کو صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب آپ نے ہمیں دہلی سے فرنٹیر میل پر سوار کرایا۔ ۳ کو بار ہ بجے دوپہر کے قریب ہم کو لامبا بمبئی پہنچ گئے۔ سفر آڑام اور اطمینان سے گزرا ۔ سیٹھ اے ایس اسمعیل کے صاحبزادے سیٹھ ہاشم اسمعیل سٹیشن پر استقبال کو موجود تھے۔ انہوںنے ڈاکٹر صاحب قبلہ کو دعوت دے رکھی تھی کہ جتنا وقت بھی آپ بمبئی ٹھہریں میرے مہمان رہیں دوپہر کا کھانا ہم نے سیٹھ اسمعیل ہاشم صاحب کے ہاں ان کے مکان پر کھایا۔ سیٹھ ہاشم اسمعیل کی اہلیہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم یافتہ خاتون ہیں آپ مشہور سوداگر حاجی یوسف سبحانی کی صاحبزادی ہیں سینئر کیمبرج کرنے کے بعد جرمنی میں د و سال تک علم طب کی تحصیل کر چکی ہیں۔ کھانا کھا چکے تو انہوںنے اپنے خاوند کے ہاتھ اپنی کتاب (Goethes Faust)فائوسٹ تصنیف گوئٹے بھیجی اور کہلایا کہ اس پر ڈاکٹر صاحب اپنے ہاتھ سے کوئی شعر لکھ دیں ڈاکٹر صاحب نے یہ شعر لکھا: کلام و فلسفہ از لوح دل فروشتم ضمیر خویش کشادم بہ نشتر تحقیق لکھتے وقت فرمایا کہ یہ وہ نتیجہ ہے جس پر فائوسٹ کو پہنچنا چاہیے تھا مگر وہ نہ پہنچا۔ چائے کی پرتکلف دعوت ۵ بجے شام موصوف کی طرف سے بوری بندر کے قریب گرینز ہوتل متصل تاج ہوٹل میں چائے کی دعوت کا اہتمام تھا۔ بمبئی کے سرکردہ حضرات مدعو تھے سردار غلام محمد خاں قونصل جنرل افغانستان سر چمن لال ستیل واڈ اور مرزا محمد علی سالسٹر کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مسٹر محمد علی جناح مدعو تھے مگر کسی وجہ سے تشریف نہ لا سکے۔ اسماء اکابر پلیٹ فارم پر جو معززین مدراس تشریف لائے تھے ان میں ذیل کے نام خاص ذکر کے قابل ہیں: مولوی سید ابو ظفر دائودی‘ افضل العلماء عبدالحق ایم اے ‘ ایم جمال محمد صاحب ‘ خان بہادر عبدالعزیز‘ بادشاہ صاحب عبدالعزیز حسین صاحب‘منشی عبدالحکیم صاحب‘ حاجی جلال عبدالکریم صاحب‘ حکیم مخدوم اشرف صاحب‘ جمال محی الدین صاحب‘ سید یوسف صاحب‘ ڈاکٹر جمال الدین صاحب خان بہادر محمد حسین صاحب قیام گاہ کی طرف روانگی جب محمد حسین صاحب عمائد و معززین سے تعار ف کرا چکے تو ڈاکٹر صاحب قبلہ سیٹھ جمال محمد صاحب کے ہمراہ موٹرمیں بوسوٹوہوٹل (جو ہماری قیام گاہ ہے) تشریف لے گئے۔ چند منٹ بعد جناب محمد حسین صاحب کے ساھت ہم بھی وہاں پہنچ گئے کمرہ میں بیٹھے ابھی پندرہ منٹ نہ ہوئے ہوں گے کہ مدراس پریس بیورو کے فوٹو گرافر نے پھر کیمرہ لا سمنے کھڑا کیا ایک بسٹ لیا اور ایک گروپ اور جب تک تصویریں نہ لے چکا خلاصی نہ کی۔ ہوٹل میں چائے سیٹھ جمال محمد صاحب ان کے بیٹے اور ان کے ایک بھتیجے کے ساتھ پی یہ بریک فاسٹ تھا۔ سیٹھ جمال صاحب اس مختصر سی صحبت میں پہلی بات یہ کھلی کہ وہ سیٹھ جمال محمد صاحب جو اپنی بعض قومی ضیافتوں کی وجہ سے پنجاب بلکہ تمام اسلامی ہندوستان میں مسلمانوں کے برلا مشہور ہو رہے ہیں۔ محض سیٹھ ہی نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کے علم و فضل کے مالک ہیں۔ انگریزی خوانوں کی اصطلاح میں کلچرڈ Culturedہیں اور ایک عرصہ سے مسلمانوں کی موجودہ مذہبی تعلمی کمزوریوں نے آپ کی فکر مدادا میں مبتلا رکھا ہے۔ علم و فضل اور درد ملت پرانی مذہبی تعلیم اور عہد حاضر کے علوم و فنون کی تعلیم کو کس طریق پر آمیزش دی جائے کہ ملا عہد حاضر کا تعلیم یافتہ بن جائے اور عہد حاضر کا تعلیم یافتہ ملا نہ سہی مسلمان بن کر دنیا میں رہے۔ یہ آپ کی نیک سرگرمیوں کا سب سے بڑا نصب العین ہے۔ آپ سائنس کے مسائل پر عالمانہ گفتگو کرتے ہیں قرآنی آیات سے بعض ایسے مسائل کا استنباط نہایت خوبی سے کرتے ہیں۔ آپ شاکی ہیں کہ گزشتہ دو صدیوں بلکہ اس سے زیادہ عرصہ سے حضرات علمانے اپنے فرائض تبلیغ و تعلیم میں حالات شناسی سے کام نہیں لیا۔ تاہم وہ اس قدر رمود ملامت بھی نہیں یہ صورت حالات ایک وجہ سے نہیں بیسیوں وجہ سے قوم کو دیکھنی پڑی ہے۔ حال پر توجہ ضروری ہے تاہم گزشتہ گزشتہ تھا۔ اس پر واویلا مفید نہیں ہو سکتا۔ عہد حاضر کے مسلمان علماء و زعما کو قدیم و نو اس طرح ترکیب دینا چاہیے کہ تمام گزشتہ کوتاہیوں کی تلافی ہو جائے اور دنیا پھر اس مسلم کو دیکھ سکے جس کا دنیا میںپیدا کرنا قرآن کا مقصد پیغمبر اسلام کا مقصد تھا اور خدائے دو جہان کا مقصد تھا۔ بین الاقوامی تاجر سیٹھ جمال محمد بین الاقوامی تاجر ہیں اور جاپان‘ آسٹریلیا ‘ امریکہ یورپ کے تمام بڑے بڑے ممالک سے آپ کا سلسلہ تجارت قائم ہے۔ جس ہوٹل (بوسوٹو) میں ہم ٹھہرے ہیں یہ بھی آپ ہی کی ملکیت ہے۔ بمبئی کلکتہ میں تو اس شان کے ہوٹل ہوں تو ہوں لاہور میں توآج تک دیکھے نہیں۔ مدرسہ جمالیہ مسلمان یتیم اور غریبوں کے لیے آپ نے ایک مدرسہ جمالیہ مدت سے جاری کر رکھا ہے۔ اکثر مسلمان طلبا اس میں تعلیم پاتے ہیں۔ زیادہ تر تفاصیل ابھی دستیاب نہیں ہوئیں۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب کل شام اس مدرس کے جلسہ میں عام میں یتیم اور اسلام کے موضوع پر تقریر فرمائیں گے۔ سیٹھ محمد جمال وہ بزرگ ہیں جنہوںنے اسلامی علوم و فنون پر سالانہ لیکچروں کا ادارہ قائم کر رکھا ہے اور یہ لیکچر بھی اسی غرض کو ملحوظ رکھ کر کرائے ہیں کہ مسلمانوں کے قدیم و نو کو کسی طرح اس اصل پرانی ایک حقیقت کی شکل میںدنیائے اسلام کے سامنے رکھ سکیں۔ مسٹر حمید حسن صاحب مسٹر حمید حسن صاحب جواس ادارہ کے سیکرٹری ہیں۔ سیٹھ صاحب کی ان تعلیمی مذہبی سرگرمیوں میں ان کے مخلص کارکن رفیق ہیں۔ آپ ایل ایل بی بھی ہیں۔ مدراس ہائی کورٹ میں فارسی اور اردو کے ترجمان بھی ہیں اور باوجود سرکاری ملازمت میں ہونے کے تعلیمی امور کی خاص دھن رکھتے ہیں۔ ایک حسرت اور لکھتا مگر کام آپڑا۔ ہو سکا تو انشاء اللہ کل لکھوں گا ورنہ پرسوں حسرت یہ ہے کہ مہر و سالک نے دہلی میرے ساتھ دیکھی۔ وہاں کے چپہ چپہ پر عبرت کے آنسو بہائے بمبئی اور مدراس ساتھ کیوں نہ آئے کہ یہاں کی دنیا بھی اکٹھی دیکھتے۔ حضرت علامہ اقبال کاجنوبی ہند میں سفر کرنا خاص معنی رکھتا ہے۔ اسلام کے مقتدر علماء و مشائخ ہندوستان کے اس حصہ میں خاص مقاصد کو لے کر ہمیشہ آتے ہیں۔ اور آئندہ غالباً آتے رہیں گے مگریہ مضمون دوسرا ہے اور مستقل صحبت کا۔ پہلا لکچر: ڈاکٹر صاحب کا پہلا لیکچر آج شا م کو کھلے ہال میں ہو گا۔ ڈاکٹر سبرائن چیف منسٹر مدراس گورنمنٹ (محکمہ ہائے منتقلہ) صدر ہوں گے۔ ’’ہمسفر‘‘ (۱۱جنوری ۱۹۲۹ئ) ٭٭٭ حضرت علامہ کاپہلا لیکچر (انقلاب کا مکتوب خاص) بوسوٹو ہوٹل نمبر ۳۲ مونٹ روڈ مدراس ۵ جنوری ۱۹۲۹ء مکرمی السلام علیکم! ایک خط تین بجے کے قریب ڈاک میں ڈال چکا ہوں۔ دوپہر کا کھانا حاجی سیٹھ جمال محمد کے ساتھ تھا خاطر مدارت کا یہ عالم ہے کہ اب رات ہو چکی ہے ہوٹل واپس آ گئے ہیں مگر مدراس کی سڑکوں پر اب تک قدم رکھنے کا موقع نہیں ملا۔ موٹر کی سروس یہی رہی تو شاید کسی دن رفتار و حرکت ہی سے عاری ہو جائے گی۔ سیٹھ صاحب فقط حاجی ہی نہیں ہیں یورپ اور اکثر بلاد اسلامیہ سفر کر چکے ہیں آج انہوںنے اپنا چمڑا کا کارخانہ بھی دکھایا ہے جہاں سے چمڑا برآمد کے لیے روانہ ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہندوستان میں چمڑے کی تجارت (برآمد) کا مرکز مدراس ہے کل ہندوستان سے زیادہ سے زیادہ دس کروڑ سالانہ کا چمڑا باہر جاتا ہو گا۔ اس میں سے سات آٹھ کروڑ کی برآمد مدراس سے ہوتی ہے۔ ایک قابل قدر مسلمان حاجی صاحب کی اپنی تجارت ایک کروڑ سالانہ سے کم نہیں سنی جاتی۔ کسی کام کے لیے حاجی صاحب موٹر سے اتر کر ہم سے علیحدہ ہوئے تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا اللہ اللہ یہ انسان ایک کروڑ سالانہ کی تجارت کرتا ہے۔ تہمد کرتاپہنتا ہے۔ اور حقیقت مادہ و روح جیسے علمی مسائل پر اردو انگریزی میں گفتگو کرتا ہے۔ اس کو فکر دامن گیر ہے کہ مسلمانوں کی قدیم اورنئی تعلیم کا حقیقی اتصال ہو اور اسلام اپنی اصلی شان میں دنیا پر ظاہر ہو۔ مسلمانوں میں ایسے افراد پیدا کرنے کی ضرورت ہے جب تک یہ Typeنہ پیدا ہو گا نصب العین تک رسائی ناممکن ہے۔ سیر تفریح حاجی صاحب نے فورٹ منرو فورٹ سینٹ جارج پریذیڈنسی کالج ٹائون ہال اور کئی عالی شان عمارات کی سیر کرائی۔ وہ بازار اور محلہ بھی دکھائے جہاں دیسی لوگ آباد ہیں۔ غیر برہمنوں کے درادیدی فن تعمیرات کے مندر اب تک موجود ہیں۔ بیچ یعنی ساحل بحر کی سیر کرائی۔ ہوا کی تندی کی وجہ سے سمندر (خلیج بنگال) کسی قدر طوفانی تھا۔ موجوں کی بلندی کا نظارہ بار بار زبان پر اللہ اللہ اور اللہ اکبر لاتا تھا۔ مدرسہ جمالیہ چار بجے مدرسہ جمالیہ میں دعوت چائے تھی۔ یہ مدرسہ حاجی صاحب کے والد مرحوم نے قائم کیا۔ اس کے ساتھ کئی عمارات آپ نے وقف کر رکھی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک نئی عالی شان عمارت سیٹھ صاحب نے سلسلہ وقت تعمیر کی ہے۔ جمالیہ ہوسٹل مدرسہ سے علیحدہ ہے۔ اس میں مدراس کے کالجوں کے مستحق و موزوں طلبا سیٹھ صاحب کے خرچ پر اقامت گزین ہے۔ سکونت کے علاوہ کھانا بھی سیٹھ صاحب کی طرف سے ملتا ہے۔ ہال میں اسلامی کتب کی ایک لائبریری ہے۔ اس کے سوا سات روپیہ ماہوار کالج فیس کے طور پر طالب علموں کو دیا جاتا ہے۔ مدرسہ جمالیہ گو یونیورسٹی سے ملحق نہیں لیکن حقیقت میں وہی کام دے رہا ہے جو لاہور میں اورئنٹل کالج دیتا ہے۔ بعض ندوہ کے فارغ التحصیل یہاں مدرس ہیں۔ انگریزی حساب وغیرہ کے لیے ہندو مدس بھی ہیں۔ تعلیمی لحاظ سے قدیم و جدید کو امتزاج دینا مسلمانوں کی اس وقت سب سے اہم ضرورت ہے۔ مشکلات کار حاجی صاحب کی تمام مساعی مرکوز ہی اسی ایک نقطہ پر ہیں مگر مشکلات کا ٹھکانہ نہیں۔ جہاں پرانی وضع کے استاد قدیم علوم میں خوب دسترس رکھتے ہیں۔ وہاں نہ صرف وہ علوم جدید سے کم آشنا ہیں بلکہ ان میں انتظامی قابلیت بھی کم ہے ۔ پڑھا لیں گے۔ مگر انتظام نہ کر سکیں گے۔ جدید علوم اور جدید طرز زندگی کے اساتذہ تمام قوتیں انتظام امور پر ہی صرف کر دیتے ہیں اور بس سیٹھ صاحب کی نظر ہر وقت ایسے لوگوں کے معلوم کرنے پر رہتی ہے جو مجمع البحرین ہو اور ا س لحاظ سے ہندوستان کی اکثریونیورسٹیوں کے مشرقی شعبوں کی مساعی سے واقف رہتے ہیں۔ چائے کی دعوت کا انتظام مدرسہ جمالہ میں حاجی صاحب کی طرف سے تھا۔ لڑکے مہذب و شائستہ نظر آتے تھے۔ اور ہر چہرہ سے اسلامیت کی شان ٹپک رہی تھی۔ لکچر پورے پانچ بجے گو کھلے ہال میں لکچر تھا۔ جب وہاں پہنچے تو تمام ہال لوگں سے کھچا کھچ بھراہوا تھا۔ لکچر کا عنوان تھا ’’دینیات اور اسلامیہ اور افکار حاضرہ‘‘ Muslim Theology and Modern Thoughtتھا۔ پریذیڈنٹ صاحب ڈاکٹر سبرائن (چیف منسٹر مدراس ) تشریف لا چکے ہیں تو قرآن کریم کی تلاوت سے جلسہ کا آغاز ہوا۔ حاضرین میں بیشتر مسلما ن تھے۔ مگر ہندو حضرات بھی کم تعداد میں نہ تھے۔ مسٹر عبدالحمید حسن کی تقریر مسٹر عبدالحمید حسن صاحب نے بطور سیکرٹری سوسائٹی مختصر تقریر فرمائی Madras Lectures on Islamکا سلسلہ قائم کرنے کی غرض و غایت سے چند الفاظ میں لوگوں کو روشناس کروایا کہ مختلف ہندوستانی اقوام کو ایک دوسرے کی تہذیب و مذہب سے واقف ہونے کی ضرورت بتلائی اور فرمایا کہ اقبال کا نام بطور شاعر مشرق توآپ کو معلوم ہی تھا ۔ ان کی شاعری نے ہندوستان اور بالخصوص اسلامی ہندوستان میں صحیح زندگی کی جو لہر دوڑائی ہے۔ اس سے آپ لوگ بھی ملک کے اس دور و درا ز گوشہ میں متاثر ہوئے بغیر نہیںرہے مگر آج وہ شاعر کی حیثیت سے آپ کے شہر میں نہیں آئے بلکہ اسلامی مذہب و فلسفہ اسلامی دینیات و فقیہات اور اسلامی تہذیب و تمدن کے پیغامبر بن کر آتے ہیں۔ صاحب صدر کی تقریر صاحب صدر نے نہایت موزوں الفاظ میں ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی اسلامک ایسوسی ایشن کا جس نے اقبال کو مدراس میں بلایا۔ صاحب صدر نے پرائیویٹ سیکرٹری ہز ہائی نس لارڈ گوشن گورنر مدراس کی طرف سے ایک خط پڑھ کر سنایا جس میں لکھا تھا کہ گورنر صاحب بہادر کو افسوس ہے کہ پہلی مصروفیتوں کی وجہ سے آپ جلسہ میں شریک ہو کر محمد اقبال کا لیکچر نہیں سن سکے۔ سر محمد اقبال کا ذکر آپ کئی بار سن چکے ہیں اور لیکچر سن کر آپ کو خوشی ہوتی ہے مگر مصروفیتوں کی وجہ سے معذوری کا اظہار فرماتے ہیں۔ اسلامی اخوت کی اہمیت ڈاکٹر سبرائن نے فرمایا: اس سرزمین میں ہندو اور مسلمان دونوں آباد ہیں ۔ اگر وہ خود اختیاری حکومت حاصل کرنا اور اسے قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ان میں اتحاد ضروری ہے میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ یہ ہندوئوں کا فرض ہے کہ مسلم اقلیت کو اطمینان دلا دیں کہ وہ اس سر زمین میں بھائیوں کی طرح زندگیاں بسر کریں گے۔ (چیرز) میرے لیے یہ باعث عزت ہے کہ میں اگرچہ ہندو ہوں لیکن اسلامی فلسفہ پر لیکچر کی صدارت کے لیے منتخب کیا گیا ہوں۔ میں خوش ہوں کہ ا س صوبے کو مسلمانوں کا زاویہ نگاہ صحیح ہے۔ اسلام نے مشرق کو بلکہ ساری دنیا کو اخوت کا سبق دیا ہے۔ ہم ہندو ذات پات اور قومی امتیازات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمیں بھی اسلامی تہذیب اور اسلامی کلچر سے اخوت کا سبق سیکھنا ہے۔ میں یہاں غیر برہمن کی حیثیت سے تقریر نہیں کر رہا اور نہ اس نقطہ خیال سے ذات پات کے خلاف کہہ رہا ہوں۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کو یکجا کرنے اور تمام ہندوستانی اقوام میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے ہمیں اسلامی اخوت کو دلیل راہ بنانا ہے۔ اس کے بعد علامہ اقبال نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کے اہم حصص کا ترجمہ علیحدہ درج کیا جائے گا انقلاب۔ رپورٹروں کا ہجوم جلسہ کے اختتام پر اخباروں کے نمائندوں نے ڈاکٹر صاحب کے گرد جھرمٹ ڈال دیا۔ بھلا تمام تقریر کو کہاں تک لکھ سکتے تھے۔ اور ایسی فلسفیانہ تقریر کا لکھنا آسان کب تھا۔ اپنے لکھے دو جملوں کی صحت پر بھی اطمینان نہیں ہو سکتا۔ سب نے تقاضا کیا کہ لیکچر ہمیں دیں اور ہم یہیں بیٹھ کر دو گھنٹہ میں اس کی نقل کر لیں گے چونکہ لیکچر کی ایک ہی کاپی تھی۔ اس لیے ڈاکٹر صاحب دے نہ سکے۔ البتہ جو خلاصہ تیار کیا گیا تھا اس کی کاپیاں پہلے سے موجود تھیں۔ وہ ہر ایک کو دے دی گئیں۔ پریس والے اس خلاصہ سے ہرگز مطمئن نہ تھے۔ مگر ایک ہندو عالم جو سٹیج پر تشریف رکھتے تھے اور جنہوں نے تمام لیکچر کو نہایت غور سے سنا اٹھ کر فوراً ڈاکٹر صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ صاحب ان کے تقاضوں کا کچھ خیال نہ کیجیے گا۔ ان رپورٹروں کے ہاتھ میںآ پ کا لیکچر پڑ گیا تو اس کا کچھ بھی نہ رہے گا۔ عجیب و غریب صورت میں مختلف اخباروں میں اس کے بعض حصے چھپ جائیں گے اور پھر آپ پچھتائیں گے۔ رات کی دعوت رات کی دعوت جناب عبدالحمید حسن کے ہاں تھی اور سچ تو یہ ہے کہ بڑی پرتکلف تھی۔ تکلف کی شان جدت اسی مطبوعہ نظام طعام (مینو) سے دیکھ لو جو ہر مہمان کے سامنے میز پر رکھا تھا۔ نظام طعام دعوت اقبال شنبہ ۵ جنوری ۱۹۲۹ئ مقام ۲ کوچہ دانیار نظام طعام:… شیرازی شربت ہندی مرغ و نان مدراسی بریانی ولی یورانی حلوہ گازر زعفرانی پیوسی فواکہات ہندوستانی قلفی المکلف عبدالحمید حسن کیا اس طریق کو پنجاب میں بھی رواج دو گے ؟ کرو نہ کرو مگر کھانوں کے نام ضرور نوٹ کر لو۔ یہ ’’دعوت اقبال ‘‘ ہے جس کے لیے یہ اہتمام ہوئے۔ کھانوں کی فہرست کے سلسلہ میں جو اخیر پر ’’المکلف‘‘ لکھا ہے ایک مہمان کی طرف سے یہ بات بطور لطیفہ منسوب کی گئی ہے کہ جب باقی تمام کھانے آپ کھا چکے تو نوکر کو حکم دیا کہ بھائی اب یہ ’’المکلف‘‘ بھی لائو۔ (باقی کل یا پرسوں) ’’ہمسفر‘‘ (۱۵ جنوری ۱۹۲۹ئ) مذہب اور سیاست کی یکجائی کا تجربہ (علامہ اقبال سے ’’سوراجیہ‘‘ کے نمائندہ کا انٹرویو) مدراس ۷ جنوری ’’سوراجیہ‘‘ کے نمائندہ خصوصی سے ملاقات کے دوران میں علامہ اقبال نے فرمایا: میں اس امر کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کر رہا ہوں کہ ہماری درس گاہوں میں مذہبی تعلیم ہونی چاہیے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ میں بہ حیثیت ایک ہندوستانی کے مذہب کو سوراج پر مقدم خیال کرتا ہوں۔ ذاتی طور پر مجھے ایسے سوراج سے کوئی واسطہ نہ ہو گا‘ جو مذہب سے بے نیاز ہو۔ یورپ میں تعلیم کا خالصتہً دنیوی طریق بڑے تباہی آمیز نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا ملک بھی ان تلخ تجربات سے دو چار ہوا ۔ یہ امر صاف ظاہر ہے کہ باشندگان ایشیا یورپ کے خالص مادی رویہ کو بھی فراموش نہیں کر سکتے۔ ہمارے سامنے یہ مسئلہ درپیش ہے کہ روحانی اور مادی امور کو کس طرح یکجا جمع کیا جائے۔ ترکی کا ناکام تجربہ سب سے پہلے ایشیائی قوم جسے اس مسئلہ کو حل کرنے سے واسطہ پڑا تھا۔ ترک بھی میں کہوں گا کہ ترک روحانیت و مادیت کے مطلوبہ اجتماع کو حاصل کرنے میں ناکام رہے تاہم میں ترکوں کی طر ف سے مایوس نہیں ہوں۔ میرا خیال ہے کہ تاتاری نسل اس تیزی فہم و ادراک اور اس عمق ضمیر سے محروم ہے جو ا س مسئلہ کے حل کے لیے ضروری تھی میں فی الحال اس مسئلہ کے متعلق ایران عرب‘ اور افغانستان کی آئندہ روش پر بھی اظہار خیال نہیں کر سکتا اور اقوام ایشیا کے سامنے پیش ہو رہا ہے۔ ہندوستان پر توقع میرا عقیدہ ہے کہ باشندگان ہند اس کا یہ عظیم کارعظیم کو انجام دینے کے اہل ثابت ہوں گے کیونکہ ان کی مذہب روایات ان کے ادراک کی تیزی اور ان کے جذبات کی شدت اس کام کی اہلیت کا ثبوت دے رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ نوع انسان کی بھلائی کے لیے میں یہاں کے مسلمانوں اور ہندوئوں کی مفاہمت کا متمنی رہتا ہوں اور اسے اشد ضروری خیال کرتا ہوں کہ صرف باشندگان ہند ہی پرانی دنیا کے کھنڈروں پر نئے آدم کے لیے نئی دنیا تعمیر کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کی باتیں کہ مذہب کو بالائے طاق رکھ کر تمام تر توجہ سیاسیات پر دینی چاہیے یورپ کی غلامانہ تقلید کے سوا اور کچھ نہیں جس کی مادہ پرستی یورپ کی روحانیت اور دوسری اقوام کی مادیت کے لیے پیام موت ثابت ہو چکی ہے۔ ترکی کی ناکامی کے وجوہ روحانیت اور مادیت کو ییجا جمع کرنے میں ترکی کی ناکامی کی زبردست وجہ یہ ہے کہ انہوںنے یورپ کی نقالی شروع کر دی۔ اگر وہ اس مسئلہ کا حل اسلام کی وساطت سے ڈھونڈتے تو معاملہ دگرگوں ہوتا کیونکہ میرے نزدیک اسلام تخیل اور حقیقت یعنی روحانیت اور مادیت کے درمیان تطابق پیدا کرنے کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے۔ ترکی کے عامتہ الناس مذہب کے ویسے ہی دلدادہ ہیں جیسے پہلے تھے۔ اس معاملہ میں ترکی کے مسلمان اور ہندوستان کے مسلمان میں کوئی فرق نہیں۔ تعلیم یافتہ ترکوںنے فرانس سے تعلیم حاصل کی اور وہ اس کی تقلید کر رہے ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں ان کی نظریں یورپی تمدن و شائستگی کی گہرائیوں تک نہیںپہنچیں۔ ہندی مسلمان اس حیثیت سے ہندوستان کی تعلیم کا یافتہ مسلمان جس نے انگلستان سے تعلیم حاصل کی ہے ترکوں کی بہ نسبت بہتر ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ آگسٹس اور کومتے کے خیالات سے نیم طور پر تاثر حاصل کرنا مصطفیٰ کمال پاشا کو ڈانواں ڈول چھوڑ دے گا۔ اور اس کے معاشرتی تجربات کا نتیجہ زبردست ارتجاعی عمل کی صورت میں رونما ہو گا اور ایک زبردست انقلاب برپا ہو جائے گا۔ اس میں شک نہیں کہ ایشیا اور افریقہ کے مسلمانوں کو زندہ رہنے کی خاطر دنیائے حاضرہ میں داخل ہونا پڑے گا۔ لیکن اس داخلہ کے وقت صرف وہی لوگ محفوظ رہیں گے جو زمانہ حاضرہ میں انسان کے معاملات کو بنانے اور بگاڑنے والی قوتوں سے باخبر ہوں گے۔ پردہ علامہ موصوف سے سوال کیا گیا کہ پردہ کی تنسیخ کے متعلق ان کے کیا احساسا ت ہیں آ پ نے فرمایا کہ اس معاملہ کے متعلق میں تحقیقی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں نے فقہ اسلامی کے اس مسئلہ کی تفتیش نہیں کی۔ آپ نے مزاحاً کہا کہ مجھے قانون قدرت ایسا معلو م ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے ذرائع کو پوشیدہ رکھنے کاعادی ہے۔ پان اسلامزم سوال کرنے پر علامہ موصوف نے کہا کہ پان اسلامزم کے لفظ کے متعلق یورپ اور ایشیاء میں بڑی غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ جہاں تک مجھے علم ہے یہ لفظ پہلے پہل ایک فرانسیسی اخبار نویس نے گھڑا تھا۔ جس کا مقصد یورپ کے مسلمان اقوام کے اتحاد کے خیالی اندیشہ سے متنبہ کرنا تھا۔ یہ لفظ بھی زرد خطرہ کی طرح کا ہے جو ایسے ہی مقصد کے لیے وضع کیا گیا تھا جہاں تک ان معانی کا تعلق ہے پان اسلامزم کی کوئی تحریک موجود نہیں۔ کیمبرج کے پروفیسر برائون بھی اس لفظ کو بے بنیاد ثابت کر چکے ہیں۔ اگر اس لفظ کے کوئی معنی نہیں تو یہی کہ اخوت انسانی کا دوسرا نام پان اسلامزم ہے۔ لفظ پان اسلامی لغت میں نظر نہیںآتا۔ کیونکہ اسلام اس تجربہ کا نام ہے جو قوم ‘ نسل اور مسلک سے بالا تر ہو کر انسان کو یک جا کرنے کے لیے کیا گیا۔ اخوت انسانی کے حصول کی جدوجہد میں اسلام بدھ مت اور عیسائیت کی بہ نسبت زیادہ کامیاب ثابت ہوا ہے۔ حالانکہ اس کی عمر صرف تیرہ سو سال ہے۔ (۱۹جنوری ۱۹۲۹ئ) ٭٭٭ تہذیب اسلامی اور تخیلات حاضرہ مدراس میں علامہ اقبال کا پہلا عالمانہ لیکچر علامہ سر اقبال نے پہلا لیکچر گزشتہ شنبہ کی شام کو گو کھیل ہال میں دینیات اور تخیلات حاضرہ کے موضوع پر دیا۔ وہان حاضرین و سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ آنریبل ڈاکٹر پی سبرائن صدر تھے۔ مسٹر اے حمید حسن نے ممتاز نائٹ کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ ایسی ممتاز شخصیت کے لیکچر میں وزیر تعلیم کا صدر ہونا نہایت موزوں امر ہے۔ سر اقبال اسلامی شائستگی کے سفری اور بڑے ہی روشن دماغ ماہر علم دینیات ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ علامہ موصوف ہمیںیورپین تمدن اور اسلامی شائستگی کی گم شدہ کڑی کا پتہ دیں گے جس کے معلوم نہ ہونے کے باعث ہم اسلامی تمدن کو صحیح طور پر سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر پی سبرائن نے مقرر کو تقریر کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے دینیات اسلامی سے بڑی دلچسپی ہے کیونکہ ایک ایسی سرزمین میں جہاں ہندو اورمسلمان آبادہیں حکومت خود اختیاری کے حصول کے لیے دونوں قوموں کا اتحاد از بس ضروری ہے۔ ہندوئوں کا فرض ہے کہ مسلمانوں پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ وہ انہیں اپنا وطنی بھائی خیال کرتے ہیں اسلامی خطبات کی صدارت کے لیے ایک ہندو کا انتخاب میرے خیال میں اس ہندو کی اتنی ہی بڑی عزت افزائی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس صوبہ کے مسلمان ہندوئوں سے اتحادکے متمنی ہیں۔ صاحب صدر نے کہا کہ ہندو اسلام سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اسلام دنیا میں اخوب انسانی کا پیغام لے کر آیا ہے۔ اور ہندو قوموں اور فرقوں میں بٹے پڑے ہیں ہندوئوں کو اسلام سے اخوت و اتحاد کا سبق حاصل کرنا چاہیے۔ گورنر مدراس کا ایک پیغام پڑھ کر سنایا گیا جس میں انہوںنے مشغولیت کار کی وجہ سے شامل نہ ہو سکنے پر اظہار افسوس کیا تھا۔ علامہ اقبال کا لیکچر ازاں بعد علامہ اقبال نے خیر مقدم کا شکریہ ادا کیا اور اپنی تقریر پڑھنی شروع کی جو ایک گھنٹہ تک جاری رہی ۔ تقریر میں علمی دریافتوں اور مذہبی تحریکات پر بحث کی گئی۔ آپ نے کہا کہ زمانہ حاضرہ کے حالات سائنس اور سائنس کی غیر محدود پیش قدمی کے باعث یہ ضروری ہے کہ مذہب کی بنیادوں کا امتحان لیا جائے۔ میں نے جہاں تک مذہب اسلام کا تعلق ہے اس کے مذہبی عقائد اور زمانہ حاضرہ کے فلسفیانہ اور سائنٹفک خیالا ت کی روشن میں اس کام کو سرانجام دینے کی کوشش کی ہے۔ شاعرانہ الہام آپ نے فرمایا کہ علم جو شاعرانہ الہام کے ذریعہ سے آتا ہے لازماً انفرادی حیثیت کا ہوتا ہے۔ یہ عل مبہم مجازی اور غیر معین ہوتا ہے۔ مذہب اپنی ترقی یافتہ شکل میں شاعری سے ارفع تر ہو جاتا ہے اورافراد سے نکل کر سوسائٹی میں آ جاتا ہے فلسفہ کی روح رواں آزادانہ تحقیق و تفتیش ہے اور مذہب کی بنیاد اس کے برعکس یقین و ایمان پر رکھی گئی ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایمان و یقین محض احساس ہی کا نام نہیںبلکہ اس سے بلند تر شے کا نام ہے۔ مذہب صداقتوں کے معین نظام کا نام ہے جن پر یقین کرنے اور انہیں اچھی طرح سمجھ لینے سے انسان کی سیرت منقلب ہو جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیداہوتا ہے ہک آیا مذہب پر جس کا لب لباب یقینا اور ایمان نے فلسفہ کے علامنہ طریق تحقیق و استدلال کا اطلاق کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ ا س سوا ل کا جواب اثبات میں ہے ایمان کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے یہ معنی نہیں کہ ہم فلسفہ کو مذہب پر ترجیح دے رہے ہیں مذہب کے ارتقاء میں فلسفہ کو یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ مذہب کو مرکزی حیثیت حاصلہے۔ اس میں دماغی پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ مزید برآں مذہب انسان کی داخلی اور خارجی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اس کی عام صداقتیں مشکوک اور مشتبہ نہیں چھوڑی جا سکتیں اور ماورائے طبیعیات کے کسی عقلی مسئلہ سے بے نیاز رہ سکتی ہے لیکن مذہب ایسا نہیں کر سکتا۔ اسلام میں اساس عقلی کی تلاش اسلام میںاساس عقلیہ کی تلاش خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ہی سے شروع ہو گئی تھی۔ پیغمبر عرب (فداہابی و امی) ہمیشہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ مولا مجھے ایشیا کی آخری ماہیت کا علم عطا فرما۔ بعد کی متصوفانہ اور غیر متصوفانہ تحقیق و تفتیش کا کام صداقت کے ساتھ قلبی عقیدت و شیفتگی اور عمر کی حدود کی روح کا اظہار کرتا ہے۔ یونان کا فلسفہ اسلام کی تاریخ میں اس کے تمدن و شائستگی پر اثر ڈالنے والی طاقت کا کام دیتا رہا ہے۔ لیکن قرآن کے مطالعہ سے یہ حقیقت بے نقاب ہ جاتی ہے کہ یونانی فلسفہ نے جہاں مسلمان اہل غور و فکر کے نقطہ نگاہ کو وسعت دی وہاں ان کے تخیل کو دھندلا بھی کر دیا۔ مسلمانوں نے پہلے پہل قرآن حکیم کا مطالعہ یونانی فلسفہ کی روشنی میں شروع کیا اور اس بات کے سمجھنے میں انہیں کامل دو صدیاں گزر گئیں لیکن قرآن کی روح اس فلسفہ سے بالکل برعکس ہو جاتی ہے یونانی مفکرین کو ماورائے جود و غیر محسوس اشیاء سے شغف تھا۔ لیکن قرآن کی آنکھیں موجود پر لگی ہوئی تھیں۔ اس انکشاف کا نتیجہ ذہنی اور دماغی انقلاب کی صورت میں رونما ہوا۔ جس کی اہمیت کو آج بھی قرار واقعی محسوس نہیںکیا گیا۔ اس انقلاب کے دور کی ممتاز شخصیت غزالی ہے جس نے مذہب کو فلسفیانہ تصوف پر موسس کرنے کی کوشش کی۔ غزالی کے تصوف نے جو کسی قدر حدے سے آگے نکل گیا تھا بودے اور مفروف تعقل کی کمر توڑنے میں وہی کام کیا جو کانٹ نے جرمنی میں کیا تھا۔ دونوںمیںتنا فرق ہے ک ہکانٹ اپنے اصول پر کابند رہنے کی وجہ سے خدا کی ہستی کے امکان کی تصدیق کرنے سے قاصر رہ گیا او ر غزالی اس طرف سے ناامید ہو کر تصوف کی طر ف مائل ہو گیا او راسے مذہب کے اندر ایک نیا اورآزاد پہلو مل گیا اس طریق سے اس نے مذہب کیلیے سائنس سے بے نیاز ہوکر جینے کا حق حاصل کر لیا مقرر نے کہاکہ گزشتہ پانچ سو سال سے اسلام کے اندر مذہبی خیا ل غیر متحرک اور مقیم ہے۔ زمانہ حاضرہ کی تاریخ کا بڑا ہی حیرت انگیز منظر یہ ہے کہ دنیائے اسلام بڑی سرعت سے رفتار سے روحانی طور پر مغرب کی طرف جا رہی ہے۔ اس تحریک میں کوئی نئی بات نہیں کہ کیونکہ یورپ کی دماغی شائستگی محض اسلامی تمدن ہی کے بعض پہلوئوں کے ارتقاء کا نام ہے۔ صرف اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں مسلمان یورپین تمدن کی بیرونی چمک دمک میں ہی الجھ کر نہ رہ جائیں اور اسکے مرکز تک پہنچنے سے قاصر رہیں یورپ ایک مدت سے اس زبردست مسئلے پر غور کر رہا ہے۔ جس کے ساتھ اسلام کے فلاسفروں اور سائنس دانوں کو بڑی دلچسپی تھی۔ معلوم ہوتاہے کہ انسان کا تفکر و ادراک اب وقت اور جگہ کی بنیادی اصطلاحات کی حدود سے آگے نکل رہا ہے۔ آنسٹین کے نظریہ نے کائنات کا جدید منظر انسان کی آنکھوں کے سامنے کھول دیا ہے۔ لہٰذا یہ امر موجب استعجاب نہیں کہ ایشیا اور افریقہ کے مسلمانوں کی جوان نسل اپنے دین کو نئے قالب میں ڈھانے کا مطالبہ کرنے لگی ہے ۔ اسلام کی اس تازہ بیداری کے ساتھ یہ اشد ضروری ہے کہ یورپ کے خیالات کی دیکھ بھال کی جائے اور معلوم کیا جائے کہ اس کے معلوم کردہ نتائج کس حدتک اسلام کے دینی خیال کی نئی تعمیر میں ممد ہو سکتے ہیں۔ اسلام کے سامنے حل طلب مسئلہ اسلام کے سامنے جو حل طلب مسئلہ پیش ہوا ہے۔ وہ مذہب اور تہذیب کی دو قوتوں کے باہمی تصادم اور باہمی تعلق سے پیدا ہوا تھا۔ عیسائیت کو اپنے ابتدائی دور میں اسی مسئلہ کا سامنا ہوا تھا عیسائیت کا حل طلب مسئلہ روحانی زندگی میںآزادانہ تسکین و اطمینان کی تلاش کا مسئل تھا اسلام سے پوری طرح متفق ہے لیکن وہ اس کے ساتھ ہی نئی دنیا کو روشنی دینے کی ضرورت بڑھا دیتا ہے۔ اسلام مادی دنیا کے لیے کوئی اجنبی خیال نہیں بلکہ اس میںکامل طور پر نفوذ حاصل کر لیتا ہے۔ انتہائی تخیل کے ساتھ پراسرار تعلق ہونا موجودہ حاضر کو قائم رکھنے کا باعث ہے اور حاضر موجود ہی کی وساطت سے غیب یعنی تخیل تک رسائی ہو سکتی ہے۔ اسلام کے نزدیک حاضر و موجود اور معراج تخیل یعنی غیب دو متخالف قوتیں نہیں جن میں تطابق پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ معراج تخیل یعنی غیب کی زندگی سے تعلق پیدا کرنے کی صورت یہ نہیں کہ حاضر و موجود سے رشتہ توڑ لیا جائے کیونکہ اس سے تو زندگی کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ اسلام کے نزدیک غیب کی کوشش یہ ہے کہ وہ حاضر و موجود کو اپنے دہڑے پر لائے اور اسے اپنے میں تبدیل کرلے تاکہ سب کچھ روشن ہو جائے اسلام معراج تخیل اور حاضر و موجود کے باہمی تعلق کو تسلیم کر کے مادی دنیا کو بھی لبیک کہتا ہے اور اس پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے قرآن حکیم کے نزدیک انسان ایک خانقانہ حیثیت رکھنے والی طاقت کا نام ہے جس کی روح صعود کرتی رہتی ہے اورو ہ ایک حالت سے نکل کر دوسری حالت کی طرف ترق کر جاتا ہے۔ اسنان کی قسمت میںلکھا ہے کہ وہ کائنات کے عمیق الہامات میں شریک رہے اور کائنات کی قسمت کے ساتھ ہی اپنی قسمت کو ملائے رکھے۔ ان ترقی پذیر تغیرات میں خدا انسان کا ممدو معاون بلکہ رفیق رہتا ہے ۔ اگر انسان روح کی امداد کو محسوس نہیں کرتا تو وہ پتھرکی طرح مردہ ہو جاتا ہے۔ زندگی انسان کی روحانی ترقی کا انحصار حقیقت مطلق کے ساتھ تعلق پیدا کرنے پر ہے ارو یہ تعلق محض علم ہی کے ذریعہ قائم ہو سکتا ہے۔ علم جو اس کے ذریعہ سے محسوسات کا معلوم کرنے اور ادراک کے ذرہعہ سے ان کو سمجھ لینے کا نام ہے۔ سارے قرآن کی روح ٰہی ہے کہ جس نے اپنے پیروئوں کو سائنس کے بانی بنا دیا ہے۔ قرآن حکیم کے نزدیک کائنات کا خاتمہ ہونے والا ہے او ر انسان اپنی مجبوریوںکے باعث محسوسات سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ قرآن نے انسان کی آنکھیں کھول دی ہیں اور اا پر وہ تغیر بے نقاب کر دیاہے جس کو سمجھ لینے اور جس پر قابو پا لینے کے بعد وہ مستقل اور پائیدا ر تہذیب قائم کر سکتا ہے۔ دنیا اور ایشیا کی تمام تہذیبیں اس لیے ناکام رہیں کہ انہوںنے حقیقت کی تلاش اندر سے شروع کی اور اس طریق عمل سے وہ نظریے وضع کرتے چلے گئے۔ اور انہیں طاقت حاصل نہ ہوئی۔ صرف نظریوںپر تمدن کی عمارت کھڑی نہیں کی جا سکتی۔ قرآن اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ انسانی ترقی کی راہ میں تجربات کی منزل اشد ضروری ہے۔ رسول کریمؐ اورابن صیاد قرآن حکیم میں حسیات کے تصور اور لطائف کے علاوہ بھی بعض مذہبی تجربات کا ذکر آیا ہے مثلاً قرآن ضمیر مخفی کا عزم روحانی کا تذکرہ کرتا ہے جو مذہبی تجربات کا منبع ہے۔ مذہبی تجربات کے حقائق دنیا کے دیگر حقائق اور مسلمات کی طرح ہیں اس لیے جہاں تک شرح و توضیح کے ذریعے علم دینے کا تعلق ہے تمام حقائق یکساں حیثیت رکھتے ہیں ۔ انسانی تجربات کے اس پہلو پر اعتراضات کرنے کا یا اس کا معائنہ کرنے میں کوئی بات لغو یا غیر معقول نہیں ہو سکتی۔ پیغمبر اسلامؐ خود سب سے پہلے شخص تھے جنہوںنے روحانی خرق ادت کا معاینہ معترضانہ حیثیت سے کیا۔ یہ بات ابن صیاد کی کہانی سے اخذ کی جا سکتی ہے جس کو بخاری شریف نے روایت کیا ہے مذہبی تجربات لازماً انفرادی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں دوسروں پر ظاہر نہین کیا جا سکتا۔ تصوف کی حالت خیال کی طرح نہیں بلکہ احساس کی طرح ہوتی ہے جسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ناقابل بیان احساس کو ابھی تک انسانی عقل نے چھوا تک نہیں۔ مذہب کے نزدیک تصوف کا حال ایک حقیقت ثابتہ ہے۔ اس لیے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس کے صحیح ہونے کی ضمانت کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جس طرح دماغی اور معاملات کی چیزوں کو پرکھنے کے لیے معیار بھی ہیں جنہیں وہ آئندہ لیکچر میں واضح کریں گے۔ ڈاکٹر پی سبرائن نے جلسہ ختم کرتے ہوئے مقرر کا شکریہ ادا کیا۔ (۲۰جنوری ۱۹۲۹ئ) ٭٭٭ کشف والہام فلسفہ اورمنطق کی کسوٹی پر خدائے واحد کی ہستی پر علمی بحث مدراس میں علامہ اقبال کا دوسرا لیکچر مدراس ۷جنوری علامہ اقبال نے گو کھیل ہال میں اپنا دوسرا لیکچر مذہبی تجربات کے کشف و الہامات کا فلسفیانہ امتحان کے موضوع پر دیا جس کا اقتباس درج ذیل ہے۔ مذہبی تجربہ کے کشف و الہام کے فلسفیانہ امتحان کے یہ معنی ہیں کہ انسانی تجربات کے مختلف طبقات کو اس غرض سے بنظر انتقاد دیکھا جائے کہ آیا ہمارے تجربات انتقاد کی کسوٹی پر پورے اتر کر ان فیصلوں کو جائز اور صحیح قرار دیتے ہیں یا نہیں۔ جو مذہبی تجربات (حال) پر مبنی ہوں خدا کی ہستی کے روایتی دلائل جو نسلاً بعد نسل چلے آتے ہیں خیال کو ایک قائم بالذات ہستی کی تلاش کے لیے متحرک کر دیتے ہیں۔ منطقیانہ ثبوت کی حیثیت سے ان پر بہت سے اعتراضات وارد ہوتے ہیں اور یہ دلائل تجربہ حال کی ایک مہمل اور بے تعلق سی تشریح کرتے ہیں۔ تحقیق کائنات کے متعلق منطقیانہ استدلال اس قانون علت و معلول کی جڑ پر کلہاڑا چلا دیتاہے کہ جس پر متذکرہ صدر دلائل کی بنیاد کھری کی گئی ہے۔ یہ طرز استدلال محض معین و محدود کی نفی کر کے غیر معین اور غیر محدود تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ جو غیر معین و غیر محدود کو فنا کر کے حاصل کیا جائے۔ وہ غیر حقیقی اور بے معنی غیر معین و غیر محدود ہے۔ حقیقی غیر محدود ہستی معین و محدود کو اپنے سے خارج نہیں رکھتی بلکہ اس کی تیعین و تحدید کو برقرار ارکھتے ہوئے اس کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے علت اول کے اصول پر چلنے والی منطق کا استدلال بھی چنداں بہتر نہیں کیونک وہ ہمیں صرف ایک ماہر موجد و مہتمم تک پہنچا کر رہ جاتاہے اور خالق مطلق کا پتہ نہیں دیتا۔ ماورائے طبیعیات میں حقیقت اشیاء کے متعلق جو طریق استدلال اختیار کیا جاتا ہے وہ حاضر و موجود اور غائب یعنی انتہائی تخیل کی درمیانی خلیج کوپر نہیںکرتا۔ بلکہ یہ طریق استدلال تو بذات خود محتاج استدلال ہے کیونکہ یہ مسئلہ زیر بحث ہی کو مسلمہ طور پر تسلیم کر کے آگے چلتا ہے۔ روایتی استدلال کی اہمیت اس وقت ظاہر ہو سکتی ہے کہ ہم یہ دکھا سکیں کہ خیال اور مستی اصل میں ایک ہی شے ہے۔ اس کی صورت صرف یہی ہے کہ ہم قرآن کریم کے دیے ہوئے سراغ پر چل کر خود حال وارد کریں اوراس حال کے امتحان میںاس کی توضیح کریں قرآن کریم بیرونی و داخلی تجربہ کو منتہائے صداقت کی علامات بنا رہا ہے۔ منتہائے صداقت کی جو کیفیت اشارات و علامات کی حیثیت رکھتی ہے اس کے تین درجے ہیں اول مادی دوم روحانی سوم ارادی ۔ یہی تین درجے طبیعیات علم حیات اور علم نفیسیات کے موضوعات ہیں۔ مادی سطح مادہ کے کیا معنی ہیں۔ علم طبیعیات اپنے ابتدائی دور میں مادہ کو ایک ایسی شے سمجھتا تھا جو خلائے محض کو پر کر رہا ہے اور ہمارے قوائے حسی کی غیر معلوم وجہ بن رہا ہے۔ برکلے کی نکتہ چینی اور انگریز سائنس دان اور ماہر علم ریاضی پروفیسر وہائٹ ہیڈ کے اعتراضات نے مادیت کے قدیمی نظریہ کو ناقابل قبول ٹھہرا دیا۔ یہ نظریہ قدرت کے ایک نصب کو خواب اور دوسرے نصف کو محض قیاس بنا کر چھوڑ دیتاتھا۔ اسی طرح علم طبیعیات کو خود اپنی پیدا کی ہوئی بنیاد کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور آخر کار اسے اپنے بنائے ہوئے بت کو توڑنے کی وجہ مل گئی۔ تجرباتی روش نے جو سائنس کی مادیت کے لیے ضروری تھی آخر کار مادہ کے متعلق پہلے خیال کے خلاف ایک بغاوت کر دیا اور اینسٹن نے تو اس خیا ل پر اور بھی ضربیں لگادیں۔ اسی طرح زمانہ حاضرہ کی سائنس برکلے کے اعتراض سے متفق ہو گی جسے پہلے پہل سائنس کی بنیادوں پر حملہ سے تعبیر کیا جاتا ھتا۔ علم ریاضیات کی اساس پر تنقید کرنے سسے یہ مزید انکشاف ہوا کہ کسی خالص پیکر کو محسوس کے متعلق قیاس یا دعویٰ کرنا جو معلو م موضوع سے بے نیاس اور آزاد ہو۔ ناقابل عمل ہے قدرت کی آزادانہ ہستی کا مسئلہ جگہ کے مطلق ہونے کے مسئلہ سے چولی دامن کا ساتھ رکھتا ہے۔ اس موقع پر مقرر نے جگہ کے متعلق یونانی فلسفیوں کے رویہ کا تذکرہ کرتے ہوئے زینو کے وہ دلائل پیش کیے جو اس نے حکرت کی حقیقت کے خلاف دیے ہیں زینو کے بعید از قیاس اور صحیح نظریات پر برگساں اور اس کے خیالات کی بحث کی پھر آپ نے اینسٹن کا وہ نظریہ اضافیت بیان کیا اور کہا یہ زینو کے نظریوں تک پہنچنے کا دوسرا طریق ہے۔ اس بحث کے نتیجہ کے طور پر مقرر نے کہا کہ نظریہ اضافیت کا لب لباب یہ ہے کہ معلوم و موجود کی ہئیت ترکیبی میں خیال کے عنصر کا وجود تسلیم کر لیا جائے۔ آگاہی و علم علامہ اقبال نے اظہار کیا کہ باخبر ہونے کی حالت آگاہی کو زندگی سے انحراف و تجاوز کرنا خیال کیا جا سکتاہے اس کا مقصد و مدعا ی ہے کہ زندگی کے اقدام کا راستہ روشن کرنے کے لیے ایک مشعل مہیا کی جائے۔ آگاہی کو مادہ کی مختلف حالتوں کے مظاہر سے تعبیر کرنا اس کی آزادانہ سرگرمی کا انکار کارنا ہے اور علم کی حقیقت سے انکار کرنا ہے۔ جو آگاہی یعنی باخبر ہونے کی حالت کا اصطلاحی نام ہے۔ پس آگاہی زندگی کے خالص روحانی اصول کے ایک پہلو کا نام ہے لیکن ہم روحانی اصو ل کے ایک پہلو کا نام ہے لیکن ہم خالص روحانی قوت و طاقت کا تصور ہی نہیں کر سکتے مگر اس صورت میں کہ اس کے ساتھ عناصر محسو س کے ایک معین مجموعہ کا تعلق ہو جس کی وساطت سے روحانی قوت اپنا اظہار کر رہی ہو اس لے ہم عناصر محسوس کے اس معین مجموعہ ہی کو روحانی قوت کی آخری آماجگاہ فرض کر لیتے ہیں۔ مادہ کے متعلق نیوٹن کے انکشافا ت اور تاریخ ارقائے قدرت میں ڈارون کے انکشافات کے باعث لوگ زندگی کا تصور بھی مشین کی طرح کرنے لگے ہیں لیکن زمانہ حاضرہ کے علم الحیات نے ثابت کر دیا ہے کہ زندگی پر اس تصور کا اطلاق کرنا ناکافی ہے۔ ایک ایسی کل کا خیا ل ہی جو اپن آپ کو برابر قائم رکھتی ہے اور بار بار پید اکرتی ہے اپنی نفی آپ کر دیتا ہے اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی ایک اساسی اور بنیادی شے ہے اور کیمیاوی اور طبعی مراحل سے مقدم ہے۔ زندگی کو کل کی طرح تصور کرنے کے بعدیہ مانان پڑے گا کہ ادراک و فہم بھی طریق ارتقاء ہی کی پیداوار ہے۔ اسے تسلیم کرنے کے بعد سائنس خود اپنے وضع کردہ تفتیش و تحقیق کے ابتدائی اصول سے متصادم ہو جاتی ہے وقت کے اندر قدرت کے سفر کرنے ی خاصیت تجربہ اور واردات قلبی کا مخصوص پہلو ہے جس پر قرآن نے خاص طور پر زور دیا ہے۔ غالبً حقیقت کے منتہا تک پہنچنے کے لیے یہ بہترین سراغ ہے۔ وقت کا عرفان اس موقع پر مقرر نے قرآن کریم کی بعض آیا ت پڑھ کر سنائیں جن پر ان کی بحث کا انحصار تھا اور آگاہ اور باخبر تجربہ کی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ خودی اپنے آپ کو دو پہلوئوں میں ظاہر کرتی ہے ایک تو عرفان کا پہلو ہے ۔ دوسرا فاعلیت کا پہلو ہے۔ فاعلیت کی صورت میں خود یجگہ کی دنیا سے تعلق بھی رکھتی ہے۔ خودی کا فاعل پہلو اس وقت میںرہتا ہے جسیہم کلاک کا وقت کہتے ہیں۔ عرفانی حالت میں خودی وقت کے حقیقی سمندر میں تیرتی ہے۔ عرفانی حالت میں وقت کی اصل ماہیت معلوم ہو جاتی ہے یعنی ایسا تغیر جو یکے بعد دیگرے نہیں ہوتا اس حالت میں ہم حرکت بھی ہے اور تغیر بھی لیکن یہ حرکت اور تغیر تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک دوسرے میں اس طرح الجھے ہوئے ہیں کہ یکے بعد دیگرے نہیں آ سکتے۔ عرفانی حالت کے نزدیک وقت کی حیثیت صر ف حال ہے جسے فاعل حالت میں آ کر ہم متعدد حالوں کے ایک سلسلہ میں شمار کرنے لگتے ہیں جس طرح کہ تسبیح کے منقے گنے جائیں۔ شخصیت کا حاوی اور مکمل ہونا مقرر نے قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دے کر اس امر کی عرفانی حالت میں پہنچ کر خودی کس طرح جگہ اوروقت کے یہاں اور وہاں اور اب اور تب کے یکے بعد دیگرے آنے والے سلسلہ کو ایک ہی ٹھوس اور لامتناہی فضا میں تبدیل کر دیتی ہے۔ اس سلسلہ میں مقرر نے لفظ تقدیر کے معنوں پر نئی روشنی ڈالی ہے اور کہا کہ تقدیر وقت کو دیکھنے کے طریق کا نام ہے۔ کسی چیز کی تقدیر کے یہ معنی نہیںکہ قسمت باہر بیٹھ کر اسے کام کرنے والے کی طرح توڑ مروڑ رہی ہے۔ بلکہ تقدیر ایسی شے کی داخلی ممکنات کا نام ہے جو بیرونی دبائو کے زیر اثر آنے کے بغیر یکے بعد دیگرے ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ ازاں بعد مقرر کے برگساں کے نظریہ حیات حیوانی کے اختلافات اور آگاہی کی حالت کے متعلق ا س کی تشریح کی بیچارگی کا تذکرہ کیا اور کہا کہ فہم اور ادراک کے متعلق برگساں کا یہ خیال کہ یہ مخصوص سرگرمی کا نام ہے ایک جزئی حیثیت رکھتا ہے مقرر نے کہا کہ خیال عمیق تر حرکت بھ رکھتا ہے اس میںشک نہیںکہ خیال حقیقت کو اعداد و شمار کے ٹکڑوں میں بھی تقسیم کر دیتا ہے۔ اس کا اصل کام تجربہ او رواردات قلبی کے عناصر کو ییجا جمع کرنا ہے۔ اسی حیثیت میں یہ بھی زندگی کی طرح ایک ترکیب و ترتیب رکھتا ہے۔ آگاہی کی واردات قلبی میں خیال اور زندگی ایک دوسرے میں جذب ہو جاتے ہیں اور ایک بن جاتے ہیں۔ برگساں کی تشریح کا نقص اس امر سے بھی ظاہر ہے کہ وہ زندگی کے اضطرار کو اپنی پیدائشی آزادی میں مطلق العنان اور کسی مقصد کی روشنی کے بغیر تصور کرتاہے۔ مقرر نے مقصد و مدعا کے مختلف معانی کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ دماغی زندگی کا طریق عمل سبب اول کے طریق استدلال کی طرح ہے کیونکہ اس زندگی میں قریبی منزل طے کر کے حرکت کی جاتی ہے۔ اور اس طرح پے در پے منازل نئے مقاصد نئے مطامح نظر پیداکیے جاتے ہیں۔ اور جوں جوں زندگی پھلتی پھولتی ہے اس کا پیمانہ قیمت بھی بڑھتا جاتا ہے۔ انا الموجود کی منزل مقرر نے کہا کہ جب ہم اپنے اندر وقت کی ماہیت آخری کو محسو س کرنے لگتے ہیں تو یہ تجربہ ہمری رہنمائی میں اس خیال کی طرف کرتا ہے کہ ایک منتہائے حقیقت بھ ہے جہاں جا کر خیالی زندگی اور مقصد ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ای بن جاتے ہیں۔ ہم اس ایک کے متعلق خودی کی وحدانیت کے سوا اور کچھ نہیںخیال کر سکتے۔برگساں کی غلطی یہ ہے کہ اس نے وقت کو خودی سے پہلے رکھا ہے حالانکہ خودی ہی وقت کو پید ا کرتی ہے ۔ نہ خالص جگہ اورنہ خالص وقت میں یہ صلاحیت ہے کہ موجودا ت و حادثات کی لاانتہا تعداد پر حاوی ہو سکے۔ یہ خودی کی عرفانی حالت ہی ہے جو سب پر حاوی ہے خالص وقت اور جگہ کی فضا میںتیرنا خودی کا کام ہے اور اس حالت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ میں موجود ہوں۔ زندہ وہی ہے جو انا الموجود کا نعرہ لگا سکتا ہو۔ منتہائے حیات کو انانیت سے متصف کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم خدا کو بھی انسان کی صورت میں تصور کرنے لگیں بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم زندگی کو محض لاحاصل آب جاری خیال نہ کریں بلکہ یہ سمجھیں کہ زندگی تعمیری مقاصد کے لیے پیدا ہو ئی ہے اوراس کے سامنے اصول ہے سرگرمی ہے اور نظام ہے ۔ (۲۳ جنوری ۱۹۲۹ئ) ٭٭٭ جنوبی ہند کی اسلامی خبریں(انقلاب کا خاص ہفتہ وار مکتوب) حاجی جمال محمد صاحب جناب حاجی صاحب کا نام نامی سارے ہندوستان کے ارض و طول میں خطبات اسلامیہ مدراس کی وجہ سے خاص طور پر مشہور ہو چکا ہے۔ آپ کے والد بزرگوار جناب مرحوم ساہوکار حاجی جمال محی الدین رائوتھ نہایت مخیر اور فیاض سیٹھ تھے۔ وہ پرانی وضع کے مسلمان تھے علماء کا ان پر بڑا اثر تھا۔ قرآن خوانی اور تفسیر و عقائد کی تعلیم پر بے حد توجہ اور عمل تھا۔ انہوںنے اپنے خاص روپیہ سے مدرسہ جمالیہ آج سے پچیس برس پہلے عربی تعلیم کے لیے قائم کیا۔ اس کے استحکام کے لیے کافی املاک کووقف کر دیا اور اپنے فرزند حاجی جمال محمد صاحب کو اس مدرسہ اوروقف کا متولی مقررفرما دیا۔ سب سے بڑی فیاضی آپ کی جو پبلک کے روبرو جناب حکیم اجمل خاں مرحوم کی وجہ س مشتہر ہوئی وہ ترکی ہلال احمر وفع کو ایک لاکھ روپیہ کا بیش بہا عطیہ تھا۔ اس عطیہ کا سہرا خاص طور پر حاجی جمال محی الدین محمد صاحب ہی کے سر ہے۔ اگر آپ کی کوشش نہ ہوتی تو آپ کے والدبزرگوار اس شریفانہ مقصد کے لیے اتنا بھاری عطیہ نہ دیتے۔ ماپلا شورش کے بعد جب غریب اور مفلس ماپلے مسلمانوں کی حالت نہایت قابل رحم ہو گئی تو اس وقت بھی جناب حاجی جمال محی الدین صاحب کو دینی جو ش آیا اور ان ککی تائید کے لیے انہوںنے پچیس ہزار روپے کا عطیہ عنایت فرمایا۔ اس لائق باپ کے لائق فرند نے بھی اپنے باپ کے قدم بقدم عمل کیا ہے۔ جو خدمت حاجی جمال محمد صاحب نے اسلام کی اور دین اسلام کی خطبات اسلامیہ مدراس قائم کر کے کی ہے اس کی مثال ہندوستان میں نہیںملتی۔ آ نے وہ نہایت عمدہ کام کیا ہے جو علی گڑھ میں پچیس برس پیشتر ہونا چاہیے تھا۔ اگرچہ علی گڑھ میںمہاراجہ الور کا فیاضانہ عطیہ سالانہ مبلغ چھ ہزار روپیہ اسلامی دین اور درس کے لیے موجود ہے لیکن علی گڑھ نے اب تک اس مد میں کوئی عملی کاروائی نہیں کی۔ سیرت نبویؐ پر مولانا سید سلیمان ندوی صاحب کے عالمانہ خطبات اسلام کے تمدنی پہلوئوں پر مولانا محمد ماریا ڈیوک پکھتال کے فصیح لیکچر اور علامہ سر محمد اقبال کی فلسفیانہ تقاریر بعنوان اسلام و تمدن جدید خود علوم عقلی و نقلی کے بہترین نمونہ ہیںَ علامہ اقبال کی تقریروں نے تو خطبات اسلامیہ مدراس کو چار چاند لگا دیے ان تقریروں کی خواہش بنگلور میسور اور حیدر آباد میں بھی ہوئی۔ ان تین مقامات کی تشنگی کسی حد تک بجھی۔ علی گڑھ اب بھی تشنہ ہے۔ مدراس کے خطبات اسلامیہ کا سہرا جناب حاجی جمال محمد صاحب ہی کے سر ہے۔ ۱۹۲۷ء کے اواخر میں جناب مولانا سید سلیمان ندوی صاحب کے اصرار پر ندوۃ العلماء کے لیے حاجی صاحب نے تیس ہزار روپیہ کا چندہ صرف شہر مدراس سے دلوا دیا۔ خو ددس ہزار روپے دیے اور باقی روپیہ فراخ دلی سے دلوا دیا۔ گزشتہ سال کے اواخر میں ڈاکٹر انصاری اور مولانا ابو الکلام آزاد کو مدراس سے خالی ہاتھ جانے نہ دیا۔ دہلی کی جامع ملیہ کے لیے خود اپنی طرف سے اور اپنے فرزند بھائیوں اور عزیزو ں کی طرف سے بائیس ہار روپیہ دیا۔ اور اٹھائیس ہزار روپیہ اور مسلمانوں سے دلوا دیا۔ غرض پچاس ہزار روپیہ کی رقم جامعہ ملیہ کو مل گئی۔ یہ سب جناب حاجی جمال محمد صاحب ہی کی کوشش تھی۔ علامہ اقبال کی رائے آپ کے متعلق علامہ اقبال کے خیالات نہایت قابل تعریف ہیں۔ علامہ ممدوح فرماتے ہیں کہ ایک شخص جو کروڑوں روپیہ کی تجارت کرے نہایت سادہ لباس زیب تن کرے لیکن فلسفہ و سائنس کے دقیق سے دقیق مسائل پر نہایت آسانی کے ساتھ بحث کرے وہ شخص آپ میں اہل مدراس میں موجود ہے۔ ایسا شخص اسلام کی خدمت میںمصروف ہے۔ (۱۴ جولائی ۱۹۲۹ئ) ٭٭٭ حضرت علامہ اقبال دکن میں گورنمنٹ گیسٹ ہائوس حیدر آباد دکن ۱۵جنوری ۱۹۲۹ء برادرم السلام علیکم کئی دن کے بعد آ پ کو خط لکھنے بیٹھا ہوں۔ خیال تھا کہ حالات سفر کی مختصر کیفیت قلم بند کر کے دوسرے تیسرے آپ کو بھیجتا رہوں گا مگر مدراس کے پروگرام ہی نے ناطقہ بندکر دیا ہے۔ تین دن میں پندرہ بیس منٹ کی مسلسل اور پرسکون فرصت بھی نصیب نہ ہوئی۔ سیٹھ حمید حسن صاحب نے جس طرح فراخ دلی سے ایڈریسوں اور دعوتوں کو مختلف افراد اور انجمنوں کی طرف سے قبول کر لیا تھا۔اسی طرح سختی سے ہمیں اوقات کی پابندی پر مجبور رکھا پھر بھی انہیںشکایت رہی کہ کئی افراد اور کئی انجمنیں مجھ سے خفا ہیں کہ میں نے ان دعوتوں کو آپ کے لیے قبول نہ کیا۔ لیکچروں پر اجتماع مدراس میںتینوں لکچروں کے دن عظیم الشان اجتماع دیکھنے میں آیا۔ جنوبی ہند کے برہمن علماء اب تک مذہب و فلسفہ کے مسائل میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ مدراس بنگلور‘ میسور ہر جگہ یہ بات مشاہدہ میں آئی کہ تینوں لیکچروں کے اقتباسات تمام مشہور انگریزی اخبارات یعنی ہندو سوراجیہ‘ مدراس میل‘ جسٹس ‘ ڈیلی ایکسپریس وغیرہ میںشائع ہوئے۔ قریباً ہر اخبار نے ڈاکٹر صاحب کا فوٹو شائع کیا۔ مدراس کے ایک ہندو پروفیسر فلسفہ نے ایک چٹھی ہندو میں چھپی۔ غالباً وہ آپ کو بھیج چکا ہوں سوراجیہ میں ٹرکی کے متعلق جو انٹرویو نکلا اس کی کاپی بھی آپ کو روانہ کی تھی۔ اس انٹرویو کے مضمون پر سوراجیہ نے ایک مقالہ افتتاحیہ مذہب ‘ سیاسیات اور تعلیم کے عنوان سے لکھا غالباً نظر سے گزرا ہو گا۔ سپاس نامے انجمن ترقی اردو مدراس اور ہندی پرچار سبھا کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو جو ایڈریس دیے گئے ہیں۔ ان کی کاپیاں بھیجتا ہوں ڈاکٹر صاحب کی طرف سے جو جواب دونوں انجمنوں کو دیا گیا وہ مدراس اور بنگلور کے بعض اخبارات میں شائع ہو چکا ہے۔ اردو کاپی ہاتھ میں اس وقت نہیں جسٹس میں جو اس تقریر کا ترجمہ شائع ہوا ہے وہ ملفوف ہے۔ خواتین کا سپاسنامہ خواتین مدراس کی طرف سے جو ایڈریس پیش ہوا ہے۔ اس کے حالات بہت دلچسپ ہیں۔ خواتین کے ایڈریس کے جواب میں جو تقریر قبلہ نے فرمائی اس کا نفس مضمون ہر مسلمان خاتون کے کانوں تک پہنچنا چاہیے۔ آج یا کل اس کی کاپی اس تقریر کی بھیجوں گا۔ نہ وقت ملا تو لاہور آ کر دوں گا۔ ماہی خانہ مدراس کا ساحل سیر کی دلفریب جگہ ہے یہاں ایکویریم (ماہی خانہ) خالق برحق و صناع کی حقیقی کی شان خالقیت کا یگانہ مظہر ہے۔ خدا کی بحری مخلوق اپنے حقیقی حسن اور بزنگی میں کبھی آج تک نہ دیکھی تھی۔ تعجب ہے کہ اگر ساحل بحر نے انسان بھی خدائے پاک کی ہستی کے منکر رہیں یہاں تو کوئی کافر کبھی پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ سیٹھ جمال کے لیے ان مچھلیوں کا وجود خالق ارض و سما کی ہستی کا حتمی ثبوت ہے۔ بنگلور میںخیر مقدم ۸ جنوری کی شام کو چل کر ۹جنوری کی صبح کو ہم بنگلور کنٹونمنٹ پہنچے سوا چھ بجے گاڑی پہنتی ہے ۔ مسلمانان بنگلور ہزاروں کی تعداد میں سٹیشن پر ڈاکٹر صاحب کے استقبال کو جمع تھے۔ پھولوں کے ہار اس ملک میں خاص طرز کے بنتے ہیں۔ یہاں معلوم ہوا ہے کہ ہار بنانے میں بھی آرٹ کی ضڑورت ہے۔ بڑے بڑے قیمتی ہار تیار ہوتے ہیں۔ پانچ دس روپیہ عام اچھے ہار کی قیمت ہے۔ ایک نمونہ ساتھ لایا ہوں آپ کو دکھائوں گا۔ بنگلور کنٹونمنٹ سٹیشنپر فخر التجا رحاجی سر اسمعیل سیٹھ اور مودی حاجی عبدالغفور صاحب ڈاکٹر صاحب سے سب سے پہلے ملے عملہ ’’الکلام‘‘ نے اقبال نمبر ’’سٹیشن پر ہی پیش کیا ۔ فخر التجار حاجی سر اسمعیل سیٹھ اور مولوی عبدالغفور صاحب کے ہمراہ موٹر میں سیٹھ صاحب کی کوٹھی (الکس لاج) کو روانہ ہوئے چونکہ لوگوں نے موٹر کے ساتھ دوڑنا شروع کر دیا تھا اس لیے قریباً نصف میل تک موٹر کو بہت آہستہ لے جانا پڑا۔ مسلم لائبریری کا سپاس نامہ دس بجے کے قریب مسلم لائبریری بنگلور کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو ایڈریس دیا گیا۔ امین الملک دیوان مرزا اسمعیل سیٹھ چیف منسٹر میسور تھے جلسہ کی کارروائی ’’الکلام‘‘ میں شائع ہو چکی ہے اور غالبا ً آ پ کی نظر سے گزری ہو۔ شام کو انٹرمیڈیٹ کالج بنگلور کے صحن میں زیر صدارت سبرائن ڈائریکٹر محکمہ تعلیمات میسور عام جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں بنگلور کے ہزاروں تعلیم یافتہ لوگ مسلمان اور غیر مسلمان سب جمع ہوئے اس کی کارروائی بھی بنگلور ٹائمز اور الکلام وغیرہ میں نکل چکی ہے۔ روانگی میسور ۱۰ جنوری کی صبح کو ریاست کی موٹر میں میسور کو روانہ ہوئے۔ رستہ میں سواسمدرم کے مقام پر ریاست میسور کا بجلی پید اکرنے کا کارخانہ دیکھا۔ سو چار بجے کے قریب میسور پہنچ گئے۔ چونکہ ہز ہائی نس مہاراجہ صاحب میسور مدعو فرما چکے تھے اس لیے موٹرسیدھی گورنمنٹ میسور کے گیسٹ ہائوس میں لے گئی۔ عجیب پر فضا مقام ہے ۔ میسور شہر کی سڑکوں کی صفائی اوربجلی کے انتظام کے بھی کیا کہنے بہت کم شہر ہندوستان میں اتنے صاف ستھرے اور پر فضا ہوں گے قدرت بھی اس مقام پر خوب مہربان ہے مگر انسانی حسن انتظام بھی داد کا مستحق ہے۔ رستہ میں سری رمگیٹھم سے چپ چاپ گزر گئے اسی روز شام کو یونیورسٹی میسور نے لیکچر کا انتظام رکھا تھا چنانچہ چھ بجے مسٹر چاندی وائس چانسلر میسور یونیورسٹی کے زیر صدارت جلسہ منعقد ہوا۔ اکثر برہمن فضلا جلسہ میںشریک ہوئے تمام ٹائون ہال حاضرین سے بھرا ہوا تھا۔ سدکاویری اگلے دن صبح نو بجے کے قریب سری رنگھٹم کے دیکھنے کے لیے روانہ ہوئے۔ رستہ میں وہ سدکاویری DAMدیکھی جس کی بنیاد سلطان ٹیپو شہید نے رکھی تھی اب اس کا نام کرشنا راج ساگر رکھا گیا ہے سلطان شہید کا بنیادی پتھر جس پر فارسی ازبان میںایک اہم کتبہ ہے ساگر کے ایک سرے پر نصب کر دیا گیا ہے۔ یہ پتھر کی سد کی تعمیر کی ابتدا میں دو سو چار سو گز کے فاصلہ پر اتفاق ہی سے پتھروں میںپڑا مل گیا تھا۔ مہاراجہ صاحب میسور کی عین دانشمندی ہے کہ انہوںنے اس پتھر کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ بلکہ سدکے اوپر عام گزرگاہ کے قریب اسے نصب کرا دیا ہے۔ کتبہ کا انگریزی ترجمہ بھی مر مر کے ایک ٹکڑے میں کندہ کر کے ساتھ نصب کر دیا گیا ہے۔ کیا اچھا ہوتا اگر مہاراجہ دریائے کاویری کی اس مصنوعی جھیل کا نام بھی سلان شہید کی یادگار کے طور پر سد سلطانی ہی رکھتے کتبہ میں DAMکی جگہ سلطان نے لفظ سد کا استعما ل کیا ہے۔ مگر خیر چونکہ تکمیل اس تعمیر کی مہاراجہ بہادر نے کی ہے اس لیے ان کے نام پر اس کا نام رکھا جانا بھی بہت موزوں و مناسب ہے کرشنا راج ساگر کو دیکھنے کے بعد ہم اس مقام سفر پر پہنچے۔ سری رنگھٹم سری رنگٹھم کو دیکھا اور خوب دیکھا۔ کاش آپ ساتھ ہوتے۔ وہاںکے حالات کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں اس چھوٹے سے مکتوب میں ہی سر ی رنگھٹم کا ذکر بھی مناسب نہ سمجھتا تھا۔ میں اس حدیث کا آپ کو تشنہ رکھوں گا میں نہیںچاہتا کہ یہ داستان کوتاہی کی نظر ہو جائے۔ سری رنگٹھم ایک جزیرہ ہے جو کاویری کی دو شاخوں کے درمیان واقع ہے ایک حصہ میں قلعہ ے میں بھول گیا قلعہ تھا۔ باقی حصہ میں شہر آباد تھا۔ جس کی آبادی سلطان کی شہادت پر چار پانچ سال بعد بھی دو تین لاکھ سے کم نہ تھی یہ ۱۸۰۳ء یا ۱۸۰۴ کا ذکر ہے آج اس ویرانہ میں زائرین گنبد کی تعداد ساکنان سری رنگھٹم سے سال میں سینکڑوں مرتبہ زیادہ ہو جاتی ہے۔ مزار شہید مزار شہید کے تمام کتبے نقل کر کے لا رہا ہوں ’’دریا دولت ‘‘ اور ’’مسجد اعلیٰ‘‘ کی تصویریں نہ لے سکے۔ ’’گنبد ‘‘ کی ایک آدھ تصویریں لیں منتظر رہو مگر تصویروں میںنقشوں اور خاکوں میں مضمونوں اور سفر ناموں میںکیا دیکھو گے۔ خدا توفیق دے تو د س دن کی فرصت نکال خود یہاں پہنچو اور دیکھو۔ میں اصل نفس مضمون کو اس مکتو ب میں چھوئوں گا بھی نہیں اور اگر میرے پہنچنے پر اس کے تذکرہ پر مجھے مجبور کرو گے تو تمام داستان پر ظلم کرو گے۔ تمام دن سری رنگٹھم گزرا ریاست کی طرف سے دریا دولت میں دوپہر کے کھانے کا انتظام تھا۔ چونکہ ۶ بجے مسلمانان میسور کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو ایڈریس دیا جانے والا تھا اس لیے ہم چھ سے پہلے گیسٹ ہائوس میں پہنچ گئے۔ مسلمانان میسور کا سپاسنامہ ٹائون ہال میں زیر صدارت نواب غلام احمد صاحب کلامی جلسہ ہوا۔ تلاوت قرآن مجید کے بعد غلام محمد صاحب عرف علی جان نے اپنے آرچسٹرا کے تمام ساز و سامان کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی دو تین نظمیں رقت انگیز سروں میں سنائیں ۔ جلسہ کا یہ رنگ اور یہ اہتمام بھی نہیںدیکھا۔ تقریروں کی روئیداد آپ الکلام میں پڑ ھ چکے ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ تقریر بھی نہایت اہم تھی میسور یونیورسٹی کے فلسفہ کے پروفیسر صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے بعد تقریر کی جس میں ان کے پہلے دن کے لیکچر کی دل کھول کر داد دی اور کہا کہ اس مضمون پر آج تک کسی نے اس قدر محققانہ نظرنہ ڈالی ہو گی۔ڈاکٹر اقبال کو مسلمان ہزار اپنا کہیں مگر وہ سب کے ہیں ۔ کسی ایک مذہب یا جماعت کی ملکیت نہیں۔ اگر مسلمانوں کو یہ ناز ہے کہ اقبال ان کا ہم مذہب ہے تو ہم ہندوستانیوں کو یہ فخر کم نہیں کہ اقبال ہندوستانی ہے جلسہ نہایت کامیابی سے ختم ہوا۔ بنگلور واپسی جلسہ کی روح رواں میسور کے مشہور رئیس اور تاجر سیٹھ محمد ابا تھے۔ انہوںنے ہی ایڈریس بھی پڑھا۔ صبح نو بجے ڈاکٹر صاحب ہز ہائی نس مہاراجہ صاحب بہادر سے ملاقات فرما چکے تھے۔ مہمان داری کے فرائض سپرنٹنڈنٹ مہمان خانہ کے علاوہ جناب صادق شاہ صاحب اسسٹنٹ سیکرٹری ہز ہائی نس مہاراجہ صاحب سر انجام دیتے رہے۔ ان قابل و با اخلاق اصحاب نے ہر طرح ڈاکٹر صاحب کو آرام و سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کی۔ اگلے دن صبح ڈاکٹر صاحب میسور یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات عملی دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں چند دلچسپ تجربے دیکھے پھر فوٹو بھ اتارے گئے۔ ۱۲ جنوری دوپہر کو ہم موٹر پر واپس بنگلور آ گئے راہ میں چاند پٹم کے مقام پر ایک اور مقام پر مسلمان پھولوں کے ہار لیے کھڑے تھے۔ چاند پٹم میں نواب حیدر علی اورسلطان ٹیپو کے پیروں کے مزار دیکھے۔ ان پر فاتحہ کہی پانچ بجے کے قریب پھر بنگلور میں حاجی سر اسمعیل سیٹھ کی کوٹھی پر پہنچ گئے۔ سر اسمعیل سیٹھ یہ بزرگ بھی یکتائے روزگار ہیں ۔ اسی سال سے اوپر کا سن ہو گا مگر جوانوں میںوہ قوت عمل اور زندگی کا وہ رنگ نہیں جوان میں ہو گا۔ قوم امور میں ان کی سرگرمیاں بیان اور مسلمان رئوساوتجار کے دلوں میں رشک پید کر رہی ہیں۔ تہ گوشہ ہسپتال (پردہ دار زنانہ ہسپتال) کی تعمیر کے لیے لاکھوں روپیہ دے چکے ہی۔ عالی شان مسجدیں بنوا چکے ہیں تعلیم میں لاکھوں روپے دیے ۔ حاجی سر اسمعیل سیٹھ تمام ہندوستان کے مسلمانوں میں سب سے بڑے بین الاقوامی تاجر ہیں۔ کلکتہ بمبئی مدراس ہر جگہ پر بڑی بڑی دکانیں تھیں۔ کاسر گولڈ فیلڈ (سونے کی کان) میں آپ کے ٹھیکے ہیں۔ غرض کروڑوں کے مالک ہیں۔ کروڑوں کی تجارت کرتے ہیں۔ پانچ بچے ہیں مگر کسی کو معلوم نہیں کہ باپ کے پاس کتنا روپیہ ہے اور کہاں کس کس بنک یں ہے۔ اس بڑھاپے میں تمام دفتر کا کام اوقات کی پابندی کے ساتھ خود کرتے ہیں۔ کلرک خزانچی سب خائف رہتے ہیں۔ کاروبار تما م کاروبار انگریزوں سے ہے۔ گھر میںایک انگریز خاتون ہمیری نام عرصہ ۲۶ سال سے ملازم ہے۔ بڑی تعلیم یافتہ ہے اور بااخلاق عورت ہے۔ تمام بڑے بڑے امور کی نگرانی اس کے زمے ہے۔ خود انگریزی بولتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ میں انگریزی لکھنا پڑھنا نہیں جانتا۔ کسی بیماری کی وجہ سے سال میں چند مہینے یورپ بسرکرتے ہیں۔ اب مارچ میں ولایت جانے والے ہیں۔ ایک دعوت سے واپسی پر ڈاکٹر صاحب کو موٹر میں بیٹھے فرمانے لگے کہ ڈاکٹر صاحب میں انگریزی دان نہیںہوں ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا قبلہ آں انگریزی دان تو نہیں مگر انگریز دان ضرور ہیں۔ آپ کو انگریزی جاننے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اس روز شام کی دعوت بنگلور کے ایک اور امیر تاجر محمد علی صاحب کے ہاں تھی۔ تمام عمائد شہر مدعو تھے۔ ۱۳ جنوری کی صبح کو ساڑھے آٹھ بجے بنگلور سے میٹر گنج پر حیدر آباد کو روانہ ہوئے۔ حیدر آباد میں استقبال جناب سید غوث محی الدین صاحب ایڈیٹر الکلام میسور بھی ہمارے ساتھ گئے اوراب حیدر آباد میں ہم یہاں کل ۱۴ جنوری کی صبح کو پہنچے۔ ہمیں سکندر آباد کے سٹیشن پر اترنا تھا۔ فلک نما گزر کر حیدر آباد کے سٹیشن پرگاڑی پہنچی ہی تھی کہ مسلمان بچے قطاروں میں کھڑے صبح ہی صبح چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا گانے سنے گئے۔ جناب اے ایچ انصاری رجسٹرار عثمانی یونیورسٹی سید ہاشمی فرید آبادی سید مطلبی منشی خلیل الرحمن صاحب اور کئی اور اصحاب جن کے نام نامی سے میں آشنا نہ ہو سکا۔ اسی سٹیشن پر استقبال کے لیے موجود تھے۔ گاڑی ہی میں چائے لے آئے۔ نظام گورنمنٹ کے مہمان وہیں ڈاکٹر صاحب کو یہ اطلاع دی گئی کہ آپ اعلیٰ حضرت حضور نظام کی گورنمنٹ کے مہمان ہیں ا س لیے آپ کو گورنمنٹ کے گیسٹ ہائوس مہمان خانہ میں جانا ہو گال سکندر آباد سٹیشن پر پہنچے تو سر اکبر علی حیدری مولانا عبداللہ العمادی‘ خلیفہ عبدالحکیم صاحب سید ابراہیم ندوی اور دیگر اکابر علماء عثمانیہ یونیورسٹی استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ ہار پہنانے کی رسم ہو چکی تو ڈاکٹر صاحب تو سر اکبر حیدری کے ہمراہ ہوئے اور خلیفہ صاحب ہمیں لیے کر گیسٹ ہائوس پہنچ گئے۔ حیدر آباد کے متعلق کیا لکھوں۔ آپ یہاں کئی سال رہ سکتے ہیں۔ بس گیسٹ ہائوس ہے۔ اس میں ہم ہیں سامنے حسین سگر ہے اور سفر کے بعض مشاہدوں کی یاد دل کی کم آب کاویری میں خاموش لہریں پیدا کر رہی ہے۔ حیدر آباد کی شان حیدر آباد کا خطہ بھی عجیب اور اور غنیمت ہے کہ خدا قیامت تک اس آصف جاہی رعب و سطوت کے مدارکو قائم رکھے۔ شہر کی وسعت کئی میلوں تک ہے اب تک موسیٰ ندی اور چار مینار دیکھ سکا ہوں کل شام جامعہ عثمانیہ کے اکابر فضلا مولانا عمادی سید ابراہیم صاحب ندوی ڈاکٹر عبدالحق صاحب ڈاکٹر مظفر الدین صاحب جناب شبیر جوش ملیح آبادی اور دیگر حضرات ڈاکٹر صاحب کے پاس دیر تک بیٹھے رہے یہاں بھی پروگرام وہی صورت اختیار کر تا نظر آتا ہے کہ جو مدراس بنگلور اور میسور میں تھی۔ آج شام پہلا لیکچر ہو گا ۔ کل ڈاکٹر ساحب ہز ایکسیلنسی مہاراجہ سر کشن پرشاد صاحب بالقابہ سے ملے۔ اعلیٰ حضرت کی یاد فرمائی رات نو بجے کے قریب امین جنگ صاحب بہادر کا رقعہ آ گیا کہ اعلیٰ حضرت شہریار دکن نے ۱۸ جنوری ۱۱ بجے صبح آپ کو ملاقات کے لیے یاد فرمایا ہے۔ اس لحاظ سے ہم اب یہاں سے ۱۹ جنوری کی صبح کو روانہ ہو سکیں گے۔ میں دو ایک دوستوں کیساتھ انشاء اللہ کل نو یا دس بجے صبح گولکنڈہ دیکھنے جائوں گا۔ باقی حالات اب انشاء اللہ زبانی عرض ہوں گے ۔ والسلام ’’ہمسفر‘‘ (۲۲جنوری ۱۹۲۹ئ) ٭٭٭ حضر ت علامہ اقبال کے فاضلانہ خطبات اسلامیہ علامہ ممدوح علی گڑھ تشریف لے گئے حضرت علامہ اقبال نے گزشتہ سال مدراس کی انجمن اسلامیہ کی تحریک پر جو چھ خطبات مرتب کرنے کا وعدہ کیا ھا۔ ان میں سے صرف تین خطبے مرتب ہوئے جو اس سال کے آغازمیں مدراس میسور اور حیدر آباد میں علامہ ممدوح نے بہ نفس نفیس سنائے تھے خدا کا شکر ہے کہ اب بقیہ تین خطبے بھی مکمل ہو گئے ہیں۔ حضرت علامہ اقبال نے سر راس مسعود نواب مسعود جنگ بہادر کی درخواست پر تمام خطبے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سنانے منظور فرما لیے۔ حضرت علامہ آپ بتاریخ ۱۷ نومبر فرنٹئر میل سے علی گڑھ جارہے ہیں اورایک ہفتے میں تمام خطبے ختم کر کے ۲۸ نومبر تک لاہور واپس آ جائیں گے۔ امید واثق ہے کہ جنوری کے آغاز میں تین تازہ خطبوں کے ارشاد کے لیے حضرت علامہ مدراس اور حیدر آباد کا سفر کریں گے۔ (۱۹ نومبر ۱۹۲۹ئ) ٭٭٭ حضرت علامہ اقبال علی گڑھ میں طلبا ‘ اساتذہ اور اکابر کی طرف سے شاندار خیرمقدم (نامہ نگار خصوصی کے قلم سے) حضرت اقبال ۱۷ نومبر کی رات کو لاہور سے روانہ ہوئے۔ پروفیسر عبداللہ صاحب چغتائی حضرت ممدوح کے ہمراہ گئے۔ ۱۸ نومبر کو دوپہر علی گڑھ پہنچے۔ سٹیشن پر اساتذہ اکابر اور طلبا صفیں باندھے کھڑے اور پھولوں کے ہار لیے کھڑے تھے۔ حضرت علامہ گاڑی سے اترتے ہی اکابر سے ملے۔ پھر طلبا نے حضرت کے گلے میں ہار ڈالے۔ اتنے ہار ڈالے کہ حضرت کا چہرہ مبارک پھولوں سے چھپ گیا۔ سٹیشن سے حضرت علامہ موٹرمیں بیٹھ کر ڈاکٹر ظفر الحسن کے ساتھ بنگلے پر گئے۔ جو مسلم یونیورسٹی میں فلسفے کے چئرمین ہیں۔ اثنا قیام علی گڑھ میںحضر ت علامہ اسی بنگلے میں مقیم رہیں گے۔ سید راس مسعو د صاحب ضروری کام کے لیے بھوپال چلے گئے ہیں۔ اور ۱۹ نومبر کو آنے اولے ہیں۔ ڈاکٹر ضیاء الدین حضرت علامہ سے ملنے آئے اور اپنی جدید تالیف اسلامی ہیت کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ پروفیسر مراد نے حضرت علامہ کو یونیورسٹی کی سیر کرائی۔ شام کو ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب نے علامہ کے اعزاز میں اساتذہ یونیورسٹی اور بعض دوسرے اکابرکو چائے کی دعوت دی۔ مولانا عبدالعزیز صاحب میمن کے ساتھ علوم مشرقی کی ریسرچ کے متعلق دلچسپ گفتگو ہوتی رہی۔ شام کے وقت خواجہ غلام السیدین کے ہاں دعو ت طعام تھی۔ لکچر سر راس مسعود بھوپال جانے کی وجہ سے ایک روز کے لیے ملتوی ہو گیا۔ (۲۳ نوممبر ۱۹۲۹ئ) ٭٭٭ مسلم یونیورسٹی میںعلامہ اقبال کا پہلا خطبہ عقیدت مندان حضرت علامہ کا اجتماع (نامہ نگار کے خصوصی قلم سے) علی گڑھ ۲۰ نومبر کل صبح ہی سے علامہ اقبال کے شیدائیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جس میں سے ڈاکٹر عطا ء اللہ شاہ اور مولانا بینظیر شاہ صاحب وارثی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر ظفر الحسن نے پھر شام کے چار بجے حضرت علامہ کے اعزاز میں دعوت چائے کا انتظام کیا تھا۔ سید راس مسعود بھی تشریف لائے ۔ آپ نے ۱۸نومبر کو علی گرھ موجود نہ ہونے کے متعلق حضرات علامہ سے معذرت کی ساڑھے ۶ بجے شام کو لیکچر کا وقت تھا۔ اس لیے سٹریچی ہال منتخب کیا گیا تھا۔ حضرت علامہ کے ہال میں پہنچنے سے پیشتر سارا ہال حاضرین سے کھچا کھچ بھرگیا تھا۔ سر راس مسعود ور ڈاکٹر ظفر الحسن حضڑت علامہ کے ساتھ ہال میں پہنچے۔ ڈاکتر صاحب پہلے جلسے کے صدر تھے۔ آ پ نے صدارتی تقریر میں کہا کہ تم سب اقبال اعظم کو جانتے ہو۔ مجھ سے بہتر جانتے ہو۔ میں ان کا کیا تعارف کرائوں۔ میرا تعارف تعریف معروف بالمجہول کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ اس کے بعد سید راس مسعود نے حضرت علامہ کے متعلق چند کلمات کہے۔ جن کا بیشتر حصہ انتہائی ذاتی عقیدت کے جذبات سے لبریز تھا۔ سید راس مسعود نے فرمایا کہ میں دوران سفر یورپ میں ایک موقع پر بیمار ہو کر ہسپتال میں پہنچ گیا۔ تو وہاں میری تسکین کا سامان حضرت علامہ کے وہ ایک ہزار اشعار تھے جو مجھے زبانی یاد تھے۔ اس کے بعد حضرت علامہ اپنا خطبہ پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے ابتدا میں وقت کی ضروریات کے لحاظ سے شریعت اسلامی پر غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے اپنا پہلا خطبہ سنایا جو گزشتہ جنوری میں مدراس میں سنایا جا چکا تھا۔ حاضرین نے ساراخطبہ انتہائی غور و توجہ سے سنا۔ جلسہ ساڑھے چھ بجے سے شروع ہو کر آٹھ بجے تک جاری رہا۔ آخر میں ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب نے حضرت علامہ اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ (۲۳ نومبر ۱۹۲۹ئ) ٭٭٭ اسلام کا فلسفی اقبال علی گڑھ کے علمی مرکز میں علمی مجلسیں علمی صحبتیں اور علمی تذکرے علامہ اقبال علی گڑھ کی علمی دنیا کی توجہات کے مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ہر وقت آپ کے اردگرد شائقین کا جمگھٹا لگا رہتا ہے۔ ۲۰ نومبر کو آپ صاحبزادہ آفتاب احمد خاں کی عیادت کے لیے گئے جو عرصہ سے بعارضہ فالج بیمار ہیںَ صاحبزادہ صاحب علامہ موصوف کودیکھتے ہی ہا ہا ہا ہا کرنے لگے۔ کیونکہ فالج کے باعث ان کی زبان چلنے سے رک گئی ہے۔ علامہ موصوف اس حالت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اورآبدیدہ ہو گئے۔ عیادت کے بعد علامہ موصوف ڈاکٹر ضیاء الدین کے ہاں تشریف لے گئے جہاں دعوت تھی۔ بہت سے مقتدر حضرات اس دعوت میں شریک ہوئے اور علمی گفتگو ہوتی رہی۔ کھانے سے فارغ ہو کر رشید احمد صاحب صدیقی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اورانہیں پہلے کی بہ نسبت صحت یاب پایا۔ یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کی طرف سے علامہ ممدوح کو حوض شناوری کے پاس چمن میں شام کے وقت ایٹ ہوم دیا گیا جس میں وائس چانسلر اوریونیورسٹی کے تمام ارکان موجود تھے۔ شا م کے ۶ بجے تک پر لطف صحبت جمی رہی۔ وہاں سے ڈاکٹر ظفر الحسن کے بنگلے پر سے ہوتے ہوئے یونیورسٹی کے یونین ہال میں تشریف لے آئے۔ اور لیکچر دیا۔ اور کسلمندی کی وجہ سے ڈاکٹر عطا اللہ بٹ کے مکان پر چلے گئے۔ ۳۱ دسمبر کی صبح کو اکثر طلبہ گزشتہ شام کے لیکچر کے بعض نقات کی تشریح کے لیے علامہ موصوف کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے اور دن کا کھانا نواب مسعود جنگ بہادر وائس چانسلر کے ہاں کھایا۔ کھانے کے بعد پروفیسر مراد سے مکالمہ ہوتارہا۔ شام کے وقت سوا چھ بجے پھر لکچر دیا جو ۸ بجے ختم ہوا رات کے گیارہ بجے تک پر لطف صحبت رہی۔ ۲۲ کی صبح کو پھر تشنگان علم اس منبع علوم سے کسب فیضان کرنے کے لے آئے اور دن کا کھانا مسٹر بشیر حسین زیدی کے ہاںتھا۔ شام کی دعوت ڈاکٹر عطا اللہ صاحب بٹ کے ہاں تھی۔ جنہوں نے بڑے تکلفات سے کام لیا۔ لوگ ڈاکٹر صاحب سے شعر سننے کے متمنی تھے آپ نے پسند نہ فرمایا صاحبزادہ حمید بٹ نے یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے پڑھ کر سنائی۔ شام کے وقت مسٹر راس مسعود کے ساتھ یونیورسٹی کی ترقی کے موضوع پر بات چیت ہوتی رہی۔ رات کو علامہ ممدوح نے انانیت انسانی او ر اس کی لم یزالی پر تقریر کی۔ رات کو دیر تک ڈاکٹر ظفر الحسن سے باتیں ہوتی رہیں۔ (۲۷ نومبر ۱۹۲۹ئ) ٭٭٭ علامہ اقبال علی گڑھ یونیورسٹی میں (سپاسنامہ کے جواب میں علامہ اقبال کی تقریر کے بعدمسٹر ہارون کی تقریر) مسٹر ہارون پر وائس چانسلر اور صدر یونین نے ذیل کی تقریر کی: مسٹر وائس چانسلر و ممبران یونیورسٹی یونین۔ اب یہ فرض مجھ پر عائد ہوتا ہے کہ اپنے ممتاز مہمان عزیز ڈاکٹر سر محمداقبال کے لیے لاٹ آف تھینکس (شکریہ) پیش کر کے جلسہ ختم کر دوں۔ مجھے یہ کہنے میں کچھ بھی پس و پیش نہیں ہے کہ یہ ہفتہ اس قدر پر از واقعات رہا ہے کہ ہم نے یا یونیورسٹی نے اب تک نہ دیکھا ہوگا۔ اس ہفت میں سب مختلف طریقہ سے اس امر کا شرف عظیم حاصل کر چکے ہیں کہ ایک ایسے صاحب طبع عالی سے نیاز حاصل ہوا جس کا ذہن نہایت رسا جذبات وسیع اور خیالات رفیع سے معمور ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ وہ ایک زبردست روح کے مال ہیں نعرہ ہائے مسرت آج شام کو جب میں اپنے سپاسنامہ کا خیر مقدم کے جواب میں ڈاکٹرسر محمد اقبال کی تقریر سن رہا تھا تو مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اس تمام تقریر میں نہ صرف ایک پیشگو اور فلاسفر کی آواز سنائی دیتی ہے بلکہ اایک ایسے شخص کی صدا ہے جس کا وسیع دل زبردست رواداری اور ہمدردی سے معمورہے۔ (ہئرہئر) میں بلاردرعایت میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ جو کچھ میں نے ہفتہ میںسنا اور جو کچھ مین ںے اس پر از واقعت ہفتہ کے اس قابل یادگار جلسہ میں جو اواخر ہفتہ میںواقع ہوا سنا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کے لیے ڈاکٹر اقبال سے بہتر اور کوئی خضر طریق نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ مجھے اپنی ذاتی رائے ظاہر کرنے کی اجازت دیں تو میں عرض کروں گا کہ میرے لیے یہ ہفتہ عجیب و غریب گزرا ہے۔ کیونکہ اگرچہ مجھے ہندوستان میں رہتے ہوئے تقریباً بیس سال ہو گزر چکے ہیں مگر آج ہی میں نے محسوس کیا کہ مجھ میں نئی روح جاری و ساری ہو رہی ہے۔ ایسا احساس مجھ کو یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد سے اب تک نہ ہوا تھا۔ جب میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا تو میں بھی آپ جیسے بعض حضرات کی طرح سے ایک ہونہار فلسفی تھی اورمیں بوسانکے اور لارڈ ہالڈین جیسی زبردست ہستیوں کے قدموں میں بیٹھتا تھا۔ لیکن اس زمانے سے میں ترقی معکوس کرتا رہا مگر اس ہفتہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں پھر اسی زمرہ میں شامل ہو گیا ہوں فلسفہ سے جو دلچسپی مجھے تھی وہ پھر پیدا ہو گئی ہے۔ نہ صرف فلسفہ بلکہ فلسفہ کے اس شعبہ سے جو مذہب و فلسفہ میں سلسلہ ارتباط ہے۔ اس زبردست احسان کے لیے میں ڈاکٹر اقبال کا رہین منت ہوں جسے میں تسلیم کرنا چاہتا ہوں اور قبل ازیں کہ میں یہ جلسہ ختم کروں میں اپنے فلسفی ڈاکٹر ظفر الحسن کے قول کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں جنہوںنے فرمایا تھا کہ وہ دن ہمارے لیے ایک مبارک دن ہو گا اگر ہم ڈاکٹر محمد اقبال کو کسی طرح اپنے ہاں چند سال بسر کرنے پر مائل کر سکیں۔ (۱۰دسمبر ۱۹۲۹ئ) ٭٭٭ ہم نے بہت بڑے کینوس پر علامہ اقبا ل کی تصویر بنانی شروع کر دی ہے۔ یہ نمبر تصویر کی چند لائنوں یا چند جھلکیوں پر منحصر ہے۔ باقی تصویر آئندہ نمبروں میں بنائی جائے گی۔ تب سب نمبروں کو ملا کر بتائیے گا کہ اس سے بہتر تصویر کس نے بنائی؟ (ادارہ) ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End