زندگی آمیز اور زندگی آموزادب کا نمائندہ نقوش اقبال نمبر2 شمارہ نمبر 123۔۔۔۔دسمبر 1977 مدیر محمد طفیل ترتیب طلوع محمد طفیل اس شمارے میں خطوط ۱ اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط عطیہ صلاح الدین محمود تاریخ ولادت ۲ علامہ اقبال کی تاریخ ولادت ڈاکٹر وحید قریشی ۳ علامہ اقبال کی صحیح تاریخ پیدائش ڈاکٹر اکبر حیدری فکر و فن ۴ اقبال اور آرزائے نایافت مولانا امتیاز علی عرشی ۵ اقبال کے بارے میں (غیر مطبوعہ) پروفیسر رشید احمد صدیقی ۶ اقبال اور شاعری محمد ہادی حسین ۷ اقبال اور میراث اسلام ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ۸ اقبال‘ سوشلزم اور اسلام پروفیسر کرار حسین ۹ اقبال اور اسلامی ثقافت کی روح سید نذیر نیازی ۱۰ اقبال فیض احمد فیض ۱۱ اقبال اور زماں ڈاکٹر عالم خوند میری ۱۲ اقبال کامطالعہ ڈاکٹر محمد اجمل ۱۳ اقبال کی موعودہ تصانیف رفیع الدین ہاشمی ۱۴ اقبال کا تفکر محمد طاہر فاروقی ۱۵ اقبال کی شاعری کا صوتیاتی نظام پروفیسر گوپی چند نارنگ ۱۶ اقبا ل ‘ مذہب اور سائنس ڈاکٹر محمد حسن ۱۷ اقبال کی شاعری میںتمثال کا حصہ ڈاکٹر سید محمد عقیل ۱۸ اقبال مغربی خاور شناسوں کی نظر میں جگن ناتھ آزاد ۱۹ اقبال کا تصور قرآنی پروفیسر محمد منور ۲۰ اقبال کی نظر میں علوم جدیدہ محمد احمد خان ۲۱ اقبال‘ شاعر مشرق سید الطاف علی بریلوی ۲۲ اقبال‘ مخزن اور رومانیت انور سدید ۲۳ اقبال اور رسالہ معارف ڈاکٹر نجم الاسلام ۲۴ بچوں کا اقبال پروفیسر عبدالقوی دسنوی ۲۵ اقبال اور کشور پنجاب ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ۲۶ اقبال شناسی ڈاکٹر ظ انصاری ۲۷ اقبال اور ملت اسلامیہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ۲۸ اقبال‘ ممدوح عالم پروفیسر سلیم اختر اقبال کے حضور ۲۹ اقبال کے حضور خواجہ عبدالوحید ۳۰ اقبال اور حفیظ ابوالاثر حفیظ جالندھری ۳۱ اقبال اورجاوید منزل میاں محمد شفیع (م۔ش) ۳۲ اقبال اور انتخاب کونسل ڈاکٹر سید عبداللہ چغتائی ۳۳ بہ سلسلہ اقبال ایک انٹرویو میاں عبدالعزیز مالواڈہ ۳۴ اقبال میاں عطاء الرحمن ۳۵ اقبال کی شخصیت حکیم یوسف حسن ۳۶ اقبال کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ابو الخیر کشفی مداح و ممدوح ۳۷ نیطشے‘ رومی اور اقبال مولانا عبدالماجد دریابادی ۳۸ اقبال اور گرامی محمد عبداللہ قریشی ۳۹ اقبال اور اکبر الہ آبادی قاضی افضل حق قرشی ۴۰ اقبال اور سید سلیمان ندوی پروفیسر طاہر تونسوی ۴۱ اقبال اور ابوالکلام آزاد قاضی افضل حق قریشی ۴۲ اقبال اور خلیفہ عبدالحکیم پروفیسر محمد عثمان ۴۳ اقبال اور مہر و سالک ڈاکٹر عبدالسلام خورشید قیام و تعلق ۴۴ اقبال کا لاہور حکیم احمد شجاع ۴۵ اقبال اور قیام یورپ کسریٰ منہاس ۴۶ اقبال اور حیدر آباد دکن میر محمود حسین ۴۷ اقبال اور بھوپال سے تعلق پروفیسر عبدالقوی دسنوی ۴۸ اقبال اوربہاول پور بریگیڈیر نذیر علی رحلت (گمشدہ اوراق) ۴۹ اقبال کے استاد میر حسن کا انتقال مولانا غلام رسول مہر ۵۰ اقبال کے استاد آرنلڈ کاانتقال مولانا غلام رسول مہر ۵۱ حضرت اقبا ل رحمتہ اللہ علیہ مولانا غلام رسول مہر محمد طفیل پرنٹر ‘ پبلشر و ایڈیٹر نے نقوش پریس لاہور سے چھپواکر ادارہ فروغ اردو لاہور سے شائع کیا۔ طلوع آپ سو رہے ہیں میں جاگ رہا ہوں ۔ میں کیوں جاگ رہا ہوں؟ کیا اقبال سونے نہیں دیتے؟ کیاشرف النساء سونے نہیں دیتیں؟ یہ سوال ہیں ۔ میں جواب ڈھونڈ رہا ہوں۔ شرف النسا کا قصہ یہ ہے کہ وہ پنجاب کے گورنر کی بیٹی تھیں (بہ عہد شاہ عالم) قرآن اور تلوار ان کا ماٹو تھا وہ سمجھتی تھیں کہ قرآن ہمارا قانون ہے اور تلوار طاقت کی علامت! مرتبہ ملاحظہ ہو! جب تصور کی دنیا میں علامہ اقبال جنت کی طرف نکل گئے تو انہیں سب سے پہلے جو قصر نظر آیا۔ وہ شرف النساء کا محل تھا۔ جو لعل ناب سے بنا ہوا تھا۔ جس کے سامنے آفتاب کی ضو افشانیاں بھی ہیچ تھیں۔ شرف النساء تاریخ کے صفحات میں گم ہو رہی تھیں۔ لیکن اقبال نے اسے دوبارہ زندگی دے گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم بھٹک رہے تھے۔ جی ہا رہے تھے ہمیںراستہ دکھلا دیا۔ منزل مراد تک پہنچا دیا۔ قصہ مختصر ! اقبال جتنے دن بھی جئے۔ دوسروں کے لیے جیے ۔ خدا کی ثنا کے لیے جئے۔ رسولؐ کی مدحت کے لیے جئے! خد ا سے شکوہ بھی کیا تو قوم کے لیے۔ روتے بھی رہے تو قوم کے لیے! ان کے لیے شعر گوئی تو ایک بہانہ تھی ورنہ معاملہ دور تک تھا: در دیدہ معنی نگہاں حضرت اقبال پیغمبری کرد و پیغمبر نتواں گفت محمد طفیل ٭٭٭ اس شمارے میں بہت چکی پیسی دن رات کام کیا۔ آپ کا دن رات چوبیس گھنٹوں کا ہوتا ہے۔ میرا دن رات سات سو بیس منٹوں کا چوبیس گھنٹوں اور سات سو بیس منٹوں میں بڑا فرق ہے۔ یاروںنے سوچ لیا ہو گا کہ خاکسار کی امنگیں ماند پڑ گئیں۔ بادی النظر میں یہ ہے بھی صحیح‘ جب تک کوئی کام سامنے نہ آئے اس وقت تک یقین بھی کیونکر آئے! آپ کو کسی بھی قسم کا یقین دلانا میری افتاد طبع کے خلاف ہے۔ اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ کام کی رفتار میں لڑکھڑاہٹ نہیں آئی۔ صرف کام کے سمندر کا پھیلائو زیادہ ہو گیا ہے۔ اقبال کے سلسلے میں شور زیادہ ہے۔ کام کم ہوا چونکہ آج کل کام کرنے کا یہی انداز ہے۔ اس لیے سوچنا ہو گا کہ کام زیادہ ہو رہا ہے بہرحال اس شور میں میرے بھی دو چار کام سامنے آ رہے ہیں! ایک نمبر ستمبر میں پیش کیا تھا۔ دوسرا نمبر دسمبر میںپیش کر رہا ہوں۔ بیچ میں ایک اور نمبر پیش کیا تھا۔ مگر اس کا ذکر نہ کروں گا۔ دوستی پر حرف آئے گا۔ بہرحال اقبال پر ان دو تین مہینوں میں نقوش نے بھی اٹھارہ سو سے زائد صفحات پیش کر دیے۔ بلاشبہ اتنا کام کسی بھی غیر سرکاری ادارے نے نہیں کیا۔ یعنی اپنا پیٹ کاٹ کر کسی نے نہیں کیا۔ ہمارا کام ابھی ختم نہیں ہوا۔ ابھی ایک جلد اور پیش کریں گے۔ وہ جلد علامہ اقبال کی دستاویزات اور ان کے نوادرات سے متعلق ہو گی۔ انشاء اللہ وہ جلد بھی جلد ہی پیش کر دی جائے گی۔ اطمینان بھی جبھی ہو گا ابھی تو منزل کے قریب پہنچ رہے ہیں ۔ منزل پر پہنچے نہیں! بے شک اتنا کچھ کرنے پر بھی کئی ایک عنوانات کے تحت مزید کام کرنا ہو گا۔ اگر میں وہ سب کچھ چھاپ سکتاجو میری گرہ میں تھا تو بھی بہت کچھ سامنے آ سکتا تھا۔ مگر میں کیا کروں خدائی طاقت میرے پاس نہیں ہے۔ ایک جان کو ہلکان کر سکتاہوں۔ سو اس سے دریغ نہیں کر رہا۔ میں اس شمارے کے مندرجات کے بارے میں زیادہ نہ کہوں گا۔ سوائے ان خطوط کے کہ جو ہم ابتدا میں چھا پ رہے ہیں ان میں پانچ خطوط تو غیر مطبوعہ ہیں ۔ دو خطوط جو مطبوعہ ہیں۔ وہ بھی اپنے اصلی روپ میں پہلی بار سامنے آ رہے ہیں۔ یا پھر دو تین مضمون ایسے ہیں کہ جنہیںنقوش ہی کی فائلوں سے اٹھا کر دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ اپنے قبیلے سے بچھڑے ہوئے تھے۔ نقوش کے صفحات میں ہم نے عبدالرحمن چغتائی کی تصویریں بھی چھاپیں۔ صادقین اور اسلم کمال کی بھی چغتائی کی تصویروں میںاگرجمال ہے تو صادقین کی تصویروں میں جلال ۔ اسلم کمال کی تصویروںمیں ایک اعتدال ! فن تینوں ہی کا اوج کمال پر… ہم اس شمارے میں بھی اسلم کمال کی تصویریں پیش کر رہے ہیں۔ اقبال خرد کی گتھیاں سلجھا چکے تھے۔ انہوںنے اپنے لیے صاحب جنوں ہونے کی دعا مانگی تھی۔ خرد کی گتھیاں تو مجھ سے سلجھ نہ سکیں گی۔ البتہ میرے مولا نے مجھے جنوں کی رفق تو دے ہی ڈالی۔ محمد نقوش ٭٭٭ (۱) تاریخ ولادت ٭٭٭ رسولؐ نمبر تین جلدیں ترتیب پا چکی ہیں۔ یہ نمبر چار جلدوں میں مکمل ہو گا۔ انشاء اللہ یہ نمبر بھی جلد ہی پیش کر دیا جائے گا۔ …اور اس موضوع پر یہ ایک اہم دستاویز ہو گی! ادارہ نقوش لاہور۔ ٭٭٭ ۷۔ مکتوبات علامہ محمد اقبال علامہ اقبال کے یہ ۷ عدد مکتوبات جناب پروفیسر محمد عمر الدین مرحوم کے جمع کردہ ذخیرہ خطوط کا ایک حصہ ہیں۔ ان سات مکتوبات میں سے تین خط تعارفی ہیں کہ جو ڈاکٹر سید ظفر الحسن مرحوم کے واسطے لکھے گئے ۔ باقی چار خطوط میں سے دو پروفیسر محمد عمر الدین کے نام اور دو ڈاکٹر سید ظفر الحسن کے نام ہیں۔ پروفیسر محمد عمر الدین ۱۹۰۲ء میں پیدا ہوئے اورانہوںنے ۱۹۶۴ء میں علی گڑھ ہی میں وفات پائی۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے فلسفہ نفسیات عربی اور فارسی کی اعلیٰ اسناد حاصل کر کے یہ ۱۹۲۸ء میں دہلی کالج دہلی میں نائب پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ دو برس بعد وہ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ اور نفسیات کے فیلو منتخب ہوکر علی گڑھ واپس آئے اور پھر ۱۹۴۸ء کے اوائل میں پروفیسر اور صدر شعبہ فلسفہ و نفسیات مقرر ہو کر تاحیات اسی عہدے پر فائز رہے۔ پروفیسر محمد عمر الدین ایک انوکھے اور عظیم استاد اور انسان تھے۔ اسلامی فلسفے کی تدریس اور مسلم یونی ورسٹی کی سنوار‘ خدمت اور تنظیم ان کی زندگی کے مقاصد تھے۔ امام ابو حامد محمد الغزالی کے فلسفہ اخلاقیات اور مابعد الطبیعیات اور سید احمد خان کے نئے مذہبی طرز فکر پر ان کا کلام بین الاقوامی اور دیرپا شہرت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر سید ظفر الحسن ہمارے برصغیر کے نامور استاد اور فلسفی تھے۔ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ انہوںنے مسلم یونیورسٹی کی اعلیٰ خدمت اور شعبہ فلسفہ و نفسیات کی تشکیل میں صرف کیا۔ Realismپر ان کی کتاب آج تک ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ پروفیسر عمر الدین پہلے پہل ان کے شاگرد ہوئے ۔ پھر ساتھی اور بعد میں نہایت گہرے اور مخلص دوست… ـ''M. Umaruddin Collection'' 1 Mr. Sd. Zafar ul Hasan M.A. has asked me to state my impression of his Dissertation on Spinoza. I have read this critical exposition of the great monist with the greatest interest, and am glad to be able to state that the author has indeed done justice to his subject. Mr. Zafarul Hasan's style is clear and licid and he possesses a firm grasp of philosophical reasoning. To write on Spinoza with a view to bring out the fundamental ideas and tendencies of his thought is not an easy task, but it seems that Mr. Zafar ul Hasan has assimilated all the best writers on Spinoza, and has succeeded in putting the results of his research in a very interesting and scholarly manner. I have no hesitation in saying that Mr. Zafar ul Hasan deserves every encouragement in connection with his study of philosophy. I would strongly recommend that the Aligarh outhorities might send him to Europe for the study of philosophy under the professors of Oxford or Cambridge. Muhammad Iqbal M.A Ph.D Barrister at Law Lahore. 10 May 1915 ٭٭٭ ''M. Umaruddin Collection'' 2 Lahore 18th June 1917 I have no hesitation in recommending the application of Sd. Zafar ul Hasan. In my opinion he is a fit person for the study of Phil. in Europe. I have already expressed my opinion on his Dissertation which gives unmistakable evidence of his capacity for research and his scholorly attainments in mental science. I am sure he will do justice to his selection. I would suggest however that in case it is decided to send him to Europe he should be advised or rather required to make a specia study of Experimental Psychology. As far as I know no Professor of Philosophy in India has yet taken up this branch of Phil, and the time is not far off when we shall have psychological laboratories attached to our colleges. Muhammad Iqbal M.A Ph.D Barrister at Law Lahore. ٭٭٭ ''M. Umaruddin Collection'' 3 Lahore 31th July 1918 Sd. Zafar ul Hasan M.A is a keen ovserver of Indian life and habits of thought. I am quite familiar with his researches in Philosophy and Oriental lit. I have read some of his unpublished lyrical poems in Hindustani which are quite good. He will make a thoroughly competent lecturer in Hindustani and I have no hesitation in recommending him to the notice of the Oxford Universty authorities. Muhammad Iqbal B.A (Contab) M.A Ph.D Barrister at Law (Fellow Pb. University and Member of the Punjab T.B. Committee) ٭٭٭ محمد عمر الدی ذخیرہ خطوط : ۴ ۱۰ ستمبر ۱۹۳۵ء ڈیر ڈاکٹر ظفر الحسن السلام علیکم! آپ کا خط مل گیا ہے۔ میں اپنے علاج کا دوسرا کور س ختم کر کے چند روز ہوئے بھوپال سے لاہور واپس آیا۔ افسوس کہ علالت کے بعد سے لکھنے پڑھنے (کا) کام ایک مدت سے بند ہے۔ میں نے آپ کے خط کا جواب (اپنے) ہادی حسن صاحب کے خط میں دے دیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہوںنے وہ خط آ پ کو نہیں دکھایا حالانکہ میں نے ان سے ایسا کرنے کی درخواست کی تھی۔ بہرحال اب پھر عرض ہے کہ فی الحال اس مضمون کامطالعہ کرنے سے قاصر ہوں۔ امید نہیں کہ حافظ جماعت علی سول نافرمانی کا اعلان کریں لیکن ہمیں معلوم نہیں ان کے ذہن میں کیا ہے۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ بچوں کو دعا محمد اقبال ٭٭٭ ''M. Umaruddin Collection'' 5 22nd Nov 1935 Dear Mr. Umaruddin, Thank you so much for the booklet you have sent me. It is a very interesting account of Ghazalli's Ethical teaching. It is true that the thinker needs a coherent universe of though and is therefore driven to build systems of Ethics and of Metaphysics. Experience, however, shows that the average man needs a discipline-individually as well as collectively. In his own interest as well as in the interests of the group to which he belongs he should not question the authority of this discipline. This I think is the secret of Islam as a people building force. Your thesis is inspiring. I do hope you will do further research work in the same field. Yours Sincerely Muhammad Iqbal ٭٭٭ ''M. Umaruddin Collection'' 6 13th Dec 1935 My dear Dr. Zafar ul Hasan Your disciple, M. Umaruddin M.A, I suppose, sent me, sometime ago, his booklet on Ghazalli. Please tell him to read a book. An early Mystic of Baghdad by Margret Smith Published a few months ago. He must read every word of this book. It will give him a much better understanding of Ghazalli's teaching and of Muhassibi's influence, through Ghazalli, on the jewish & Christian Mysticism of both East and West. Hoping you are well. Yours Sincerely Muhammad Iqbal ٭٭٭ ''M. Umaruddin Collection'' 7 Lahore 8th May 1936 Dear Mr. Umaruddin, Thanks for your papers on Ghazali and Shahabuddin Maqtul. Both are interesting as chapters in the history of Muslim thoughts. I have however, last much of my interest in Muslim Philosophy and Mysticism. To my mind the Fiqb of Islam i.e. the law relating to what is called Muamilat is far more important in the Economic and Cultural history of the world than mere speculation which has been the unconscious cause of splits in Islam. Yours Sincerely Muhammad Iqbal ٭٭٭ کیا آپ ہماری مدد کرسکتے ہیں؟ ادارہ نقوش علامہ اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط نوادرات اور دستاویزات پر مشتمل ایک اورجلد (تیسری جلد) بھی پیش کر رہا ہے۔ علامہ کی تاریخ ولادت ڈاکٹر وحید قریشی علامہ اقبال کی تاریخ ولادت کے سلسلے میں کئی سنہ بیان کیے جاتے ہیں جن کادامن ۱۸۷۳ء سے ۱۸۷۸ء تک پھیلا ہوا ہے۔ معاصرین اور حلقہ احباب کے بیانات کے بعد عام طور پر مصنف کے بیان یہ کو وقیع سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اقبالیات میں یہ دونوں پہلو متنازعہ فیہ ہیں اور ہمیں کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے درایت کے کئی سلسلوں سے ہو کر گزرنا پڑتاہے۔ سب سے پہلے اقبال کے حلقہ احباب اور معاصرین کے بیانات کو لیا جاتا ہے۔ حیات اقبال پر سب سے پہلا مقالہ منشی محمد دین فوق نے لکھا جو حالات اقبال کے نام سے کشمیری میگزین لاہور میں ۱۹۰۹ء میں شائع ہوا۔ میگزین کے حوالے سے اسے نوادر اقبال میں عبدالغفار شکیل نے غیر مدون کلام کے دیباچے کے طور پر شائع کیا۔ شکیل کا یہ مجموعہ ۱۳۷۷(مطابق ۱۹۴۲ئ) سرسید بک ڈپو علی گڑھ سے شائع ہواتھا۔ اس کے بعد انوار اقبال میں بشیر احمد ڈار نے اسے دوبارہ شائع کیا۔ انوار اقبال اقبال اکیڈمی کراچی کی طرف سے مارچ ۱۹۶۷ء مٰں شائع ہوئی۔ اس میں علامہ اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۵ء ۱؎ دیا گیاہے۔ ۱۹۲۲ء میں نواب ذوالفقار علی خا ں نے A Voice From The East شائع کی جس میں ان کا سال ولادت ۱۸۷۶ء ۲؎ کے گردوپیش دیا گیا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ منشی دین محمد فوق نے ۱۹۰۹ء میں جو سال پیدائش قرار دیا تھا۔ اس میں انہوںنے ۱۹۳۰ء تک ترمیم کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ چنانچہ جولائی ۱۹۳۰ء میں مشاہیر کشمیر کی طبع ثانی میں بھی ۱۸۷۵ء ہی کو سال پیدائش قرار دیا ہے ۴؎۔ کشمیری میگزین اور مشاہیر کشمیر میں سال ولادت کے بعد عمر کا تخمینہ بھی دیا گیا ہے ۔ چنانچہ اپریل ۱۹۰۹ء میں انہیں پورے چونتیس (۳۴) برس کا اور ۱۹۲۰ء میں پورے چھپن (۵۶) برس کا قرار دیا ہے۔ چنانچہ اپریل اور جولائی کا فرق منشی صاحب کے لیے کسی شمارمیں نہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حیات اقبال پر لکھنے والے تینوں بزرگوں کے تعلقات علامہ اقبال کے نہایت قریبی تھے ان میں منشی محمد دین فوق کے روابط دوسروں کی نسبت زیادہ گہرے تھے۔ بعد کی زندگی میں البتہ منشی احمد دین اور نواب ذوالفقار علی کے ساتھ نشست زیادہ رہی۔ بہرحال تینوں کے ذرائع معلومات قریبی شمار ہوں گے۔ ۱۹۳۲ء میں نیرنگ خیال کا اقبال نمبر شائع ہوا اس میں بھی منشی صاحب کا مذکورہ بالا مضمون مختصر سوانح حیات کے نام سے کسی قدر ترمیم کے ساتھ شائع ہوا۔ ۱؎ نوادر اقبال ص ۱۷ انوار اقبال ص ۷۹ ۲؎ مذکورہ بالا کتاب طبع ثانی کراچی ۱۹۶۶ء ص ۸ ۳؎ ’’اقبال‘‘ منشی احمد دین ص ۹ ۴؎ مشاہیر کشمیر اس میں پہلی بار منشی صاحب نے علامہ کا سال پیدائش ۱۸۷۶ء قرار دیا ہے ۱؎۔ نیز تاریخ اقوام کشمیر کی جلد دوم میں بھی پچھتر (۷۵) کی بجائے چھہتر (۷۶) کو سال پیدائش ۲؎ شمار کیا گیا ہے۔ یہ قیاس بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ یہ تصحیح علامہ کے ایما سے ہوئی ہے ۳؎۔ مشاہیر کشمیر پہلی بار ۱۹۱۶ء میں شائع ہوئی ۔ اس کا ایک نسخہ علامہ کو بھیجا گیا جس کی رسید انہوںنے ۲۶ جولائی ۱۹۱۶ء کو دی ۴ ؎۔ اس کے علاوہ فوق نے اقبال سے ان کے حالات ایک مرحلے پر طلب کیے تھے۔ جس میں علامہ نے ان سے تعاون نہیں کیا۔ چنانچہ ۱۹ دسمبر ۱۹۲۲ء کے خط میں علامہ نے لکھا: باقی رہے میرے حالات سو ان میں کیا رکھاہے ۵؎۔ جس کا بدیہی مطلب یہ ہے کہ علامہ نے ۱۹۲۲ء تک حالات کے سلسلے میں فوق کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔ ۱۹۳۲ء میں نیرنگ خیال میں نیز تاریخ اقوام کشمیر جلد دوم میں جو تصحیح کی گئی اس کا حال بھی نہیں کھلتا۔ بظاہر یا تو نواب ذوالفقار علی خاں کی تحریر پر بھروسہ کیا گیا ہے یا ملک راج آنند کے اس مقالے سے ماخوذ ہے جو اس نے رائل اکیڈمی کے جنرل میں شائع کیا۔ اور جس کا اردو ترجمہ نیرنگ خیال ہی کے اقبال نمبر میں چھپا تھا۔ ملک راج آنند کا ماخذ نواب ذوالفقار علی خاں ہی کی کتاب ہے فرق صرف یہ ہے کہ ذوالفقار علی خاں نے جس سنہ کو لگ بھگ کے لفظ سے ظاہر کیاتھا اسے حتمی بنا دیا گیا ہے۔ یہ بخوبی ممکن ہے کہ ذوالفقار علی خاں اور منشی احمد دین کے بیانات ہی علامہ اقبال کی مد میںمعتبر شمار ہوئے ہوں۔ اقبال کی زندگی میں جو (Who's Who)شائع ہوئے۔ ان میں بھی سال پیدائش کا مسئلہ طے شدہ نظرنہیںآتا۔ مرتبین چونکہ قریبی ذرائع سے تعلق نہیں رکھتے اس لیے ان کے ذرائع معلومات کی صحت پر شک کیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۲۸ء میں انڈین انسائیکلو پیڈیا کے مرتب پی ڈی چندرا نے ۱۸۷۷ء کو سال پیدائش شمار کیا ہے ۶؎ اس طرح تھامس پیٹر (Thomas Peter)نے ۱۹۳۶ء میں Who's Who in Indiaمیں سال پیدائش ۱۸۷۷ء قرار دیا ہے۷؎۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںکہ علامہ کی زندگی میں جو سنین عیسوی دیے گئے ان میں (۷۶) اور (۷۷) کا فرق پایا جاتا ہے ۔ ۱۹۳۷ء میں غالباً انہیں حوالوں پر Gott Field Simon نے بھی ۱۸۷۷ء سال پیدائش قرار دیا ہے ۸؎۔ علامہ کی حین حیات میں حلقہ احباب سے باہر جو حالات شائع ہوئے ان میں اختلاف رہا ہے ۔ خم خانہ جاوید از لالہ سری رام طبع ۱۹۰۸ء جلد اول میںولادت اقبال ۱۸۷۰ ء ۹؎ اورقنداردو مرتبہ جلال الدین احمد جعفری زینبی میں جو میٹریکولیشن برائے الہ آباد اور پنجاب کا نصاب تھا اور ۲۴۔۱۹۲۳ء کے لگ بھگ شائع ہوا۔ سال پیدائش ۱۸۷۰ء دیا گیا ہے ۱۰؎۔ ۱؎ نیرنگ خیال اقبال نمبر ستمبر اکتوبر ۱۹۳۲ء ص ۲۵ ۲؎ تاریخ اقوام کشمیر جلد دوم ص ۳۲۵ ۳؎ روزگار فقیر ۴؎ انوار اقبال مرتبہ بی اے ڈار صفحہ ۶۲ مکتوب بنام فوق و ایضاً ص ۷۳ ۵ ؎ کتاب مذکور ص ۳۵۹ ۶؎ ایضاً ص ۳۵۹ ۷؎ ایضاً ص ۱۷۳ ۸؎ Date of Birth of Iqbal ص ۵ ۹؎ کتاب مذکور ص ۳۶۹ ۱۰؎ کتاب مذکور ص ۳۳۹ عبارتوں کی مماثلت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جعفری نے حالات زندگی خم خانہ جاوید سے اخذ کیے ہوں۔ خم خانہ جاوید کے مصنف نے معاصرین کے حالات جمع کرنے کے لیے خود شعراء اور ان کے قریبی احباب سے خط و کتابت بھی کی تھی۔ علامہ اقبال کے حلقہ احباب میں سے انہوںنے مقدمہ کتاب میں شیخ عبدالقادر پنڈت کیفی اور نواب ذوالفقار علی خاں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ اغلب یہ ہے کہ علامہ کے حالات انہیں ذرائع سے حاصل کیے ہوں تاہم یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ۱۸۷۷ء کے بارے میں ذریعہ معلومات کیا ہے۔ اسی طرح محافظ محمود شیرانی نے جو علامہ کے قریبی نیاز مندوں میں سے تھے اور محتاط محقق کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں سرمایہ اردو کے نام سے پنجاب یونیورسٹی کے لیے میٹرک کا نصاب ترتیب دیا انہوںنے علامہ کا سن پیدائش ۱۸۷۵ء ۱؎ بیان کیا ہے عین ممکن ہے کہ ان کے مآخذ کشمیری میگزین اور مشاہیر کشمیر ہوں تاہم یہ عجیب بات ہے کہ حافظ صاحب نے نیرنگ خیال میںدرج ترمیمی بیان کو قابل اعتماد نہیںسمجھا او ر اسے اقدام ماخذ کے طور پر ترجیح دی ہے حالانکہ ترمیم شدہ بیان کو مرجع شمار کرنا چاہیے تھا۔ ان معاصر شہادتوں سے قطع نظر اقبال کے اپنے بیانات اور تعلیمی ریکارڈ کودیکھا جائے تو وہاں بھی بہت کچھ تفاوت نظر آتا ہے۔ اقبال ان پکچرز میں علامہ کا مڈل کا سرٹیفکیٹ شائع ہوا ہے مڈل کا امتحان انہوںنے ۱۸۹۱ء میں پاس کیا۔ اس سرٹیفکیٹ کے پشت کی عبارت شائع نہیں ہوئی۔ لیکن اس کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد کے پاس اصل سرٹیفکیٹ موجود ہے اور انہوںنے اس کا عکس بھی چھاپ دیا ہے ۲؎۔ اس سے رجوع کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ طالب علم (یعنی علامہ اقبال) کے فارم داخلہ کے مطابق ۱۸۹۱ء میں ان کی عمر ۱۵ برس تھی اس لحاظ سے سال پیدائش ۱۸۷۶ ء ہوا۔ ۱۸۹۳ء میں علامہ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اور سکاچ مشن کالج میں سیالکوٹ میں ایف اے کے پہلے سال میں داخل ہوئے روزگار فقیر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا داخلہ مئی ۱۸۹۳ء میںہوا ۔ کالج کے ریکارڈ کے مطابق اس وقت علامہ کی عمر اٹھارہ برس کی تھی ۳؎۔ اس لحاظ سے سال پیدائش ۱۸۷۵ء ہونا چاہیے۔ علامہ نے بی اے کا امتحان ۱۸۹۷ء میں پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی کیلنڈر میں اس کا اندراج موجود ہے جہاں علامہ کی اپنی بیان کردہ اطلاع کے مطابق ان کی عمر انیس برس درج ہوئی ہے ۴؎۔ اس اعتبار سے سال پیدائش ۱۸۷۸ء ہونا چاہیے۔ ۱؎ سرمایہ اردو ص ۳۳۷ ۲؎ Allama Iqbal's Date of Birthاعجا زاحمد ص ۲۴ عکس سرٹیفکیٹ ۳؎ روزگار فقیر جلد اول ص ۲۳۳ ۴؎ کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ ص ۳۰۷ علامہ اقبال نے ۱۹۰۷ء میں میونخ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ پیش کیا تو شروع میں اپنے حالات زندگی پر ایک نوٹ بھی لکھا۔ اس کا عکس بھی اقبال ان پکچرز میں شامل ہے۔ عکس میں پیدائش کی تاریخ ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ مرقوم ہے اور قوسین میں ۱۸۷۶ ء کا سن درج ہے ۔ ۱؎ ۔ تقویم کی رو سے ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کے مطابق ہے۔ چنانچہ گرین وائل (Grenvialle)کی شائع کردہ تقویم Muslim and Christian Calandersکی رو سے ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو جمعرات کا دن شمار ہونا چاہیے۔ Wuder Fieldکی تقویم کے مطابق بھی یہ جمعرات کا دن تھا ۔ لیکن خالد ی کی تقویم ہجری و عیسوی کی رو سے ۹ نومبر کو جمعے کا دن پڑتا ہے۔ شیخ اعجاز احمد کے بیان کے مطابق جو روزگار فقیر کی جلد اول میں شامل ہے اور خاندانی روایت پر مبنی ہے علامہ کی تاریخ ولادت جمعے کے روز چار بجے صبح کے قریب ہوئی تھی۔ یہ معمولی فرق اس لیے بھی قابل لحاظ ہے کہ جنتریوں کے حساب اور چاند کے طلوع کے سلسلے میں ایک آدھ دن کا فرق بعید از امکان نہیں۔ دوسرے جمعہ شمار کرنے میں اس لیے بھی قباحت نہیں تھی کہ جمعے کے دن صبح چار بجے ان کی پیدائش بتائی جاتی ہے اور اس طرح بارہ بجے شب کے بعد ان کا شمار اگلے دن ہی میں ہو گا۔ سب سے زیادہ مستند اندراج میونسپل کمیٹی کا ریکارڈ ہو سکتا تھا لیکن محققین میں یہاں بھی اختلاف رہا ہے۔ ریکارڈ میں ۱۸۷۳ء کے تحت نتھو (نور محمد) کے ہاں ایک لڑکے کی پیدائش کا اندراج موجود ہے۔ اسی بنا پر سیرت اقبال از محمد طاہر فاروقی میں علامہ کا سال پیدائش ۲۴ ذی الحج ۱۲۸۹ء مطابق ۱۲ فروری ۱۸۷۳ درج ہوا ہے اور حاشیے میں یہ نوٹ ہے: ’’پیدائش کی یہ تاریخ سیالکوٹ کے رجسٹر پیدائش سے تصدیق شدہ ہے اس کے مقابلے میں ۱۸۷۶ء والی روایت ضعیف نظر آتی ہے‘‘ ۲؎ ذکر اقبال مرتبہ عبدالمجید سالک میں یہی نوٹ درج ہے اور علامہ کی ولادت ۲۶ ذی الحج ۱۲۸۹ء مطابق ۲۲فروری ۱۸۷۳ء شمار ہوئی ہے ۳؎۔ دواور بیان قابل غور ہیں روز گار فقیر کے مصنف نے سال پیدائش پر مفصل بحث کی ہے۔ چنانچہ روزگار فقری جلد اول میں سال پیدائش پر مفصل بحث کر کے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ ۲۲فروری ۱۸۷۳ء سال پیدائش درست نہیں بلکہ ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ درست تاریخ ہے جو ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو پڑتی ہے: ’’میونسپل کمیٹی سیالکوٹ کے رجسٹر پیدائش کا جائزہ لینے پر پایا گیا کہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کے اندراج کیبعد ۱۸۷۷ء تک علامہ کے والد صاحب کے ہاں کسی اور لڑکے کی پیدائش کا اندراج نہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ جب رجسٹر پیدائش میں ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کا اندراج نہیں تو یہ تاریخ پیدائش کیسے درست ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ رجسٹر پیدائش میں عدم اندارج عدم پیدائش کا ثبوت قرار نہیں دیا جاسکتا اس زمانے میں رجسٹر پیدائش میں ہر ایک پیدائش درج کیے جانے کا اتنا اہتمام نہ تھا جو ان دنوں میں ہے۔ ۱؎ اقبال ان پکچرز ۲؎ سیرت اقبال صفحہ ۲۶ طبع ثالث ستمبر ۱۹۴۹ء ۳؎ ذکر اقبال ص ۱۰ لہذا امکان ہے کہ علامہ کی پیدائش درج نہ کرائی گئی ہو‘‘ ۱؎۔ یہ دلیل کہ عام اندراج عدم پیدائش کا ثبوت نہیں اپنی جگہ درست ہے ۔ لیکن یہ بات بھی عجیب ہے کہ علامہ کے والد میونسپل کمیٹی میں ملازم رہے پہلے بچے کا اندراج انہوںنے کرایا اور اندراج کی قانونی حیثیت سے واقف ہونے کے باوجود ۱۸۷۷ء میں پیدائش کا اندراج کرانا ضروری نہیں سمجھا اس موضوع پر سب سے مفصل بحث اقبال درون خانہ کے مصنف خالد نظیر صوفی نے کی ہے اور میونسپل کمیٹی کے ریکارڈ کی دوبارہ چھان بین کر کے بحث کو ایک نئی شکل دی ہے انہوںنے ۱۸۷۰ء سے ۱۸۷۷ء تک کے اندراجات کی باقاعدہ چھان بین کی اور شیخ نور محمد عرف نتھو کے چار بچوں کے اندراج کو ڈھونڈ نکالے ان کی رائے کے مطابق علامہ اقبال نہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو پیدا ہوئے نہ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو بلکہ ان کی صحیح تاریخ پیدائش ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ہے۔ روزگار فقیر کے بیان پر بحث کرتے ہوئے اور میونسپل کمیٹی کے مختلف اندراج کی روشنی میں انہوںنے جو چارٹ دیا ہے اس کے مطابق نمبر شمار ۴۳۳ پر نتھو کی ایک لڑکی کی تاریخ پیدائش ۶ ستمبر ۱۸۷۰ء شمار ۱۴۰ پر ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو ایک لڑکے کی پیدائش اورنمبر شمار ۱۴۰۸ پر ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ کو دوسرے لڑکے کی پیدائش اور نمبر شمار ۹۶۲ پر ۱۴ نومبر ۱۸۷۶ ء کو ایک لڑکی کی پیدائش بیان کی ہے ۲؎۔ ان سلسلہ انداجات کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ہے کہ ۱۸۷۰ء میں پیدا ہونے والی لڑکی علامہ کی بڑی ہمشیرہ طالع بی بی زوجہ غلام محمد تھی۔ دوسرا اندراج یعنی ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کا اصل ان کے ایک بھائی کے بارے میں ہے جو شیر خواری کی عمر میں فوت ہوا اور جسے ان کی دیورانی نے گود لیا تھا۔ سوا دس ماہ بعد ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو جو بچہ پیدا ہوا وہ علامہ اقبال ۳؎ تھے ؤچوتھا اندراج علامہ کی بہن کریم بی بی زوجہ احمد الدین کے بارے میںہے۔ ۴؎۔ اس وقت تک اقبال درون خانہ کے اندراج کے بارے میں شیخ اعجاز احمد کا ایک نوٹ سامنے آ چکا ہے ۵؎۔ جس میں انہوںنے بعض قرائن سے خالد نظیر صوفی کے تعین سال کو رد کیا ہے اس طرح سید عبدالواحد اور بعض دوسرے محققین نے علامہ کی اپنی بیان کردہ تاریخ کو جو انہوںنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں دی ہے یعنی ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ مطابق ۹ نومبر ۱۸۷۶ء صحیح قرار دیا ہے۔ اقبال کے سال ولادت کی بحث سمٹ سمٹا کر تین نکات پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ (الف) اقبال کا سنہ پیدائش ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ ہے۔ (ب) اقبال کا سنہ پیدائش ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء ہے ۔ (ج) اقبال کا سال پیدائش ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ہے۔ ۱؎ روزگار فقیر طبع چہارم مئی ۱۹۶۴ء ص ۲۳۵ ۲؎ اقبال درون خانہ اپریل ۱۹۷۱ء ص ۱۵۵ ۳؎ ایضاً ص ۱۵۶‘۱۵۷ ۴؎ ایضاً ص ۱۵۹ ۵؎ سہ ماہی اقبال جنوری ۱۹۷۳ء ان تینوں اطلاعات پر فرداًفرداً بحث کی جاتی ہے۔ جمعہ ۱۲۹۴ھ؍۱۸۷۷ء کی روایت علامہ نے پی ایچ ڈی کے مقالے کے شرور میں حسب ضابطہ دانشگاہ اپنے مختصر حالات بقید سال پیدائش دیے ہیں اور جس میں دو باتیں قابل غور ہیں: ۱۔ سنہ پیدائش ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ (مطابق ۱۸۷۶ئ) ۲۔ سکول میں داخلے سے قبل علامہ نے چند برس مکتب میں تعلیم پائی۔ ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ کو علامہ نے قوسین میں ۱۸۷۶ء لکھا ہے جو دراصل ۹ نومبر ۱۸۷۷ء ہونا چاہیے تھا۔ بظاہر علامہ اقبال نے سنہ ہجری کو سنہ عیسوی میںبدلنے کے لیی کسی تقویم سے رجوع نہیں کیا تاہم سید عبدالواحد کی یہ دلیل قابل قبول نہیں کہ اس زمانے میں کوئی جنتری موجود نہیں تھی ۱؎۔ حالانکہ خود جرمن زبان میں ایسی جنتریاں شائع ہو چکی تھیں اور علامہ نے اپنے مقالے کے متن میں ہجری سنین کو عیسوی میں بدلنے کے لیے ان سے استفادہ بھی کیا تھا تاہم ظاہر ہے کہ اپنے حالات کے ضمن میں تقویم استعمال کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی اور تخمینے ہی سے صرف سال پیدائش کو منتقل کیا اور دن اور مہینے کو چھوڑ دیا۔ علامہ نے ہجری سنہ کو جس طرح عیسوی میںبدلا ہے اس کے بارے میں دو قیاس ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس مقصد کے لیے انہوںنے تقویم کی بجائے زبانی حساب کو ترجیح دی ہو جس میں ایک سال کا فرق بخوبی ممکن ہے مثلاً ہجری ۱۲۹۴ھ میں ہر صدی کے تین تین عدد شمار کر کے برہ صدیوں کے چھتیس ۳۶ اور چورانوے ۹۴ کو دو تہائی کے برابر شمار کرتے ہوئے اس کی میزان اڑتیس ۳۸ کی گئی ہو۔ اس طرح ۱۲۹۴ھ میں سے اڑتیس منہا کیے تو یہ ۱۲۵۶ برآمد ہوئے۔ اس عدد میں ۶۲۲ جمع کیے تو سنہ ۱۸۷۶ء برآمد ہوا یا پھر دوسرا قیاس یہ ہے کہ انہوںنے مطبع آفتاب پنجاب لاہور کی ۱۸۷۶ کی جنتری استعمال کی ہو جسے دیوان بوٹا سنگھ نے شائع کیا تھا۔ جنتری کے صفحہ ۲۲ پر ۱۲۹۳ ھ کچھ اس طرح مرقوم ہے کہ اسے بآسانی ۱۲۹۴ھ پڑھا جا سکتا ہے۔ پی ایچ ڈی کے مقالہ کے علاوہ ۱۹۳۱ء میں پاسپورٹ میں بھی ۱۸۷۶ء کا اندراج ہے۔ ۱۹۰۵ء کا پاسپورٹ دستیا ب نہیں لیکن گمان غالب یہی ہے کہ اس میں بھی ۱۸۷۶ء ہی ہو گا۔ دوسری اطلاع قابل غور ہے کہ جس کے مطابق علامہ اقبال نے خود اقرار کیا ہے کہ ان کی ابتدائی تعلیم مکتب میں ہوئی۔ علامہ کے اصل جملے یہ ہیں: ۱؎ Date of Iqbal's Birthص ۶ My education began with the study of Arabic and Persian. A few years after I joinded one of the local schools۱؎۔ محمد دین فوق نے ۱۹۰۹ء ‘ ۱۹۳۰ئ‘ اور پھر ۱۹۳۲ء میں فرمایا: ’’ابتدا میں اکثر مسلمان بچوں کی طرح انہوںنے بھی کچھ دنوں مکتب کی ہوا کھائی پھر مدرسہ میں داخل ہوئے اور پانچویں کا امتحان وظیفہ لے کر پاس کیا ۲؎‘‘۔ اس اقتباس میں کچھ دن کا لفظ غیر محتاط طریق بیان ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جو علاہ نے خود بیان کی کہ سکول کے داخلے سے قبل چند برس انہوں نے مکتب میں بسر کیے۔ اس کی مدت ایک دو برس تھی یا زیادہ اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں۔ مولانا غلام رسول مہر کو ڈاکٹر عبداللہ چغتائی اور سید نذیر نیازی کی موجودگی میں علامہ کے استاد زادے اور ہم عمر سید تقی شاہ نے بتایا کہ ابتدا میں علامہ کو دینی تعلیم کے لیے ایک مکتب میں بٹھا دیا گیا تھا ۳؎۔ ذکر اقبال میں بھی مکتب نشینی کا حوالہ آیا ہے۔ لیکن مدت مکتب نشینی نہیں بتائی گئی ۲ ؎ ۔ اقبال اور درون خانہ میں خالدنظیر صوفی نے لکھا ہے کہ علامہ مسجد شوالہ والی میں مکتب مولوی غلام حسن میں تعلیم پاتے رہے مدت مکتب نشینی ایک دو برس قرار دی گئی ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ اسی لیے علامہ سکول میں دیر سے داخل ہوئے۵؎۔ کرم بی بی کے بیان کے مطابق تو علامہ کی ابتدائی مکتبی تعلیم مسجد میں ہوئی تھی ان کا مفصل بیان یہ ہے : ’’اقبال مکتب میں زیر تعلیم رہے یہاں عمر شاہ کے مکتب میں پانچ جماعتیں پڑھیں میں (کرم بی بی) بھی اسی مکتب میں پڑھتی رہی۔ مکتب میں حکیم حسام الدین کی بہو رقیہ کے علاوہ احمداں عمر شاہ اور ان کی بیٹی پڑھا کرتے تھے‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ درون خانہ کے مصنف کو مسجد کے سلسلے میں مغالطہ ہوا ہے نیز یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ علامہ کی مکتبی تعیلم پانچ جماعتوں تک تھی اقبال کا اپنا بیان واضح ہے۔ ''A few years''سے مراد کئی برس ہے۔ اگر مکتبی تعلیم کے بعد علامہ نے پہلی جماعت ہی میں داخلہ لیا ہو تو ان کا اور ان کے ہم جماعتوں کی عمرکا فرق ضرور رہے گا۔ اور اگر چند جماعتیں چھوڑ کر براہ راست اوپر کی کلاس میں داخلہ لیا ہو تو پھر عمر کے فرق کا امکان باقی نہیںرہتا۔ دوسرے قرینے کے لیے کوئی معاصر یا متاخر تائیدی شہادت نہیں ۔ البتہ فوق نے جس انداز میں تذکرہ کیا ہے اس سے جملوں کی دروبست میں اس کا امکان ہو سکتا ہے کہ شاید سیدھے پانچویں جماتعت مینداخل ہوئے ہوں لیکن فوق کا اندازہ تحریر محتاط نہیںہے ورنہ چند برس کو ہو کچھ دن نہ کہتے۔ علامہ کے چوتھی جماعت میں پڑھنے کا ثبوت شیخ آفتاب احمد کے مقابلے میں پایا ۶؎ جاتا ہے۔ بالائی جماعتوں میںداخلہ لینا اور الوقوع ہوتا ہے ۔ اگر علامہ نے براہ راست کسی بالائی جماعت میں داخلہ لیا ہوتا تو وہ اعزہ و احباب اس کا ذکر ضرور کرتے۔ ۱؎ اقبال ان پکچرز ۲؎ نیرنگ خیال اقبال نمبر صفحہ ۲۵ ۳؎ دیباچہ اقبال درون خانہ از مہر ص ۱۸‘۱۹ ۴؎ ذکر اقبال ص ۱۱‘۲۷۳ ۵؎ اقبال درون خانہ ص ۱۶۲۔۱۶۳ ۶؎ نیرنگ خیال اقبا ل نمبر ص ۷۴ مقالہ بعنوان علامہ سر اقبال کے استاد حیات اقبال مطبوعہ تاج کمپنی ص ۱۲‘۱۳ معاصرین و متاخرین کی خاموشیسے شاید یہ نتیجہ نکالنا خلاف واقعہ نہ ہو کہ پانچ برس کی مکتب نشینی کے بعد علامہ نے براہ راست پہلی جماعت میں داخلہ لیا۔ A few yearsکی ترکیب ظاہر کرتی ہے کہ اس کی حدود بخوبی تین برس سے نو برس کے زمانے تک حاوی ہیں۔ اگر محتاط اندازہ بیان اختیار کیا جائے تو ایک یا دو برس یا تین برس کے لیے بھی گنجائش موجود ہے۔ علامہ کے زمانے میں عموماً پانچ برس کی عمر کے طالب علم سکول میں داخلہ لیتے تھے اور مڈل پاس کرتے وقت عام طور پر طالب علم کی عمر تیرہ برس کے قریب ہو جاتی تھی۔ علامہ کے مڈل کے سرٹیفکیٹ میں پندرہ برس درج ہے اگر پہلی جماعت ہی سے داخلہ لیا ہوتاتو سکول میں داخل ہونے کی عمر سات برس کے لگ بھگ ہو گی۔ اس لحاظ سے مکتب نشینی ایک سال ہو گی۔ اور ۱۸۷۳ء کی صورت میں پانچ سال ہو گی۔ اگر مکتب نشینی کی مت دو تین برس سے زیادہ ہوت و اس کے آس پاس چلا جائے گا اور مڈل کے سرٹیفکیٹ کا اندراج غلط ٹھہرے گا۔ اس استدلال کی بنا پر ہم اگر معلوم سے نامعلوم کی طرف سفر کرنا چاہیں اور مڈل کے سرٹیفکیٹ کے اندراج کو قطعی مان لیں تو پھر مکتب نشینی دو تین سال اور پانچ سال تک جاتی ہے۔ اور معاصر بیان کی صورت میں پانچ برس۔ لیکن اگر منطق کا رخ برعکس ہو تو سنین کا دائرہ وسیع ہو جائے گا اور مڈل کی بیان کردہ عمر کا تخمینہ مشکوک ٹھہرے گا۔ ۱۲فروری ۱۸۷۳ء اس سنہ کا ذکر پہلی بار علامہ کی وفات (۲۱ اپریل ۱۹۳۸ئ) کے بعد اخبار انقلاب کے اعلان سے ہوتاہے جو سنہ ان کی زندگی میں بیان ہوئے وہ ۱۸۷۰ئ‘ ۱۸۷۵ء ‘ ۱۸۷۶‘ اور ۱۸۷۷ء ہیں۔ ۷ مئی ۱۹۳۸ء کے اخبار انقلاب میںیہ اطلاع دی گئی ہے کہ علامہ کے برادر بزرگوار کی بیان کردہ تاریخ ولادت اقبال دسمبر ۱۸۷۶ ء درست ہنیں ہے بلکہ وہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ بمطابق ۲۴ ذی الحجہ ۱۲۸۹ھ کو پیدا ہوئے ۱؎۔ اخبار کا ااصل اقتباس جو روزگار فقیر میں درج ہے ذیل میںدیا جاتا ہے: ’’حضرت علامہ اقبال کی مختصر سوانح حیات کی گزشتہ اشاعت میںچھپے تھے ان میں شیخ رعطا محمد صاحب برادر کلان حضرت علامہ مرحوم کے تخمینی بیان کے مطابق مرحوم کی تاریخ پیدائش دسمبر ۱۸۷۶ء بتائی گئی تھی لیکن تحقیقی طور پر یہ معلوم ہو چکا ہے کہ حضرت علامہ مرحوم ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو پیدا ہوئے۔ اسلامی تاریخ ۲۳ و ۲۴ ذی الحج ۱۲۸۹ھ تھی۔ ان تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علامہ مرحوم کی عمر بحساب سنین شمسی ۶۵ برس دو ماہ اور بحساب قمری ۶۷ برس دو ماہ ہوئی ۲؎۔ اخبار انقلاب کی مذکورہ بالا اشاعت کے بعد تاج کمپنی نے حیات اقبال شائع کی جس میں سال پیدائش ۱۸۷۳ء درج ہوا ۳؎ اسی زمانے میں محمد حسین خاں نے کتاب بعنوان اقبال لکھی (اپریل ۱۹۳۹ئ) اس میں بھی تاریخ ولادت ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء درج ہے ۴؎۔ ۱؎ Date of Iqbal's birth از سید عبدالواحد ص ۱ ۲؎ روزگار فقیر جلد اول ص ۲۳۰ (بحوالہ انقلاب) ۳؎ حیات اقبال ص ۱۰ ۴؎ اقبال ص ۹ طاہر فاروقی نے جنوری ۱۹۳۹ء میں سیرت اقبال شائع کی اس کا تیسرا ایڈیشن جو ستمبر ۱۹۴۹ میں شائع ہوا میرے پیش نظر ہے اس میں ذیل کا نوٹ ملتا ہے: ’’الغرض ایسے مردان خدا کے آغوش میں اقبال ۲۴ ذی الحہ ۱۲۸۹ھ مطابق ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کتم عدم سے عالم وجود میں آئے ۱؎‘‘۔ کتاب کے حاشیے میں مندرجہ ذیل نوٹ ملتا ہے: ’’پیدائش کی یہ تاریخ سیالکوٹ کے رجسٹر فوقی و پیدائش سے تصدیق شدہ ہے اس کے مقابلے میں ۱۸۷۶ء والی روایت ضعیف نظر آتی ہے‘‘۔۲؎ ذکر اقبال جون ۱۹۵۵ء میں شائع ہوئی جس میں سالک مرحوم لکھتے ہیں: ’’علامہ کی ولادت ۲۴ ذی الحجہ ۱۲۸۹ھ مطابق ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو ہوئی ۳؎‘‘۔ فت نوٹ کی عبارت یہ ہے: ’’تصدیق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ بحوالہ رجسٹر پیدائش و اموات‘‘۔ یہاں یہ بات زیر بحث نہیں کہ سالک مرحوم نے یا بزم اقبال نے ریکارڈ سے خود تصدیق کرائی تھی یا نہیں۔ صرف اتنا عرض کر دینا کافی ہو گا کہ سیرت اقبال کی عبارت اور فٹ نوٹ اور سالک مرحوم کی عبارت اور فٹ نوٹ میں نسبت قریبہ پائی جاتی ہے۔ مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ بزم نے خود رجسٹر کی مصدقہ نقل حاصل کی تھی جو سالک صاحب کے پیش نظر تھی۔ اگریہ اطلاع صحیح ہے تو مرحوم نے اخذ مطالب میں کس قدر بے احتیاطی سے کام لیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے پیدائش و اموات کے رجسٹر کے اندارج کے مطابق نقل تصدیق کر کے بھیجی ہو گی۔ لیکن (جیسے کہ شیخ اعجا ز احمد صاحب نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے ) جملے کا مفہوم یہ ہو گیا کہ ڈپٹی کمشنر نے نقل کی نہیں تاریخ پیدائش کی تصدیق و توثیق کی ہے ۴؎۔ ۱۸۷۳ء کی تائید میں دو دلیلیں دی جا سکتی ہیں۔ ۱۔ میونسپل کمیٹی کا ریکارڈ مستند معاصر و شہادت ہے اس کے مقابلے میں کوئی دوسری تحری قابل قبول نہیں ۔ ۲۔ ۱۸۷۶ ء اور ۱۸۷۷ء کے سلسلے میں میونسپل کمیٹی کے ریکارڈ میں نور محمد عرف نتھو کی کسی اولاد کی پیدائش کا ذکر نہیں۔ کسی اور بچے کا ہو نیز آج بھی ایسے افراد موجود ہیں جن کی تاریخ پیدائش کا اندراج میونسپل کمیٹی میں نہیںکرایا گیا۔ تردید میں جو دلائل سامنے آئے ہیں ان کا ذکر کسی قدر تفصیل سے کیا جاتا ہے: ۱؎ سیرت اقبال ص ۲۶‘۲۵ ۲؎ ایضاً ص ۲۶ ۳؎ ذکر اقبال ص ۱۰ ۴؎ Allama Iqbal's Date of Birthشیخ اعجاز احمد ص ۵ ۱۔ سید عبدالواحد کا اعتراض یہ ہے کہ برصغری میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے والے طالب علم کی عمر عموماً سولہ برس ہوتی ہے اور زیادہ ذہین طلبہ اس سے کم عمر میں امتحان پاس کر لیتے ہیں۔ اقبا ل کے میٹرک کے امتحان کا سنہ معلوم ہے۔ ۱۸۷۳ء سال پیدائش شما رہو تو اس وقت علامہ کی عمر اکیس ۲۱ برس ہو گی۔ سید عبدالواحد کا خیال یہ ہے کہ ان ایسے ہونہار طالب علم سے یہ بت بعید ہے ۱؎۔ سید عبدالواحد فراموش کر جاتے ہیں کہ اقبال نے سکول کی تعلیم سے چند برس قبل مکتب میں تعلیم پائی تھی۔ ۱۸۹۱ء میں مڈل پاس کرتے وقت اقبال کی عمر پندرہ برس تھی۔ حالانکہ ان کے استدلال کے مطابق علامہ کی عمر اس وقت ۳ ۱ برس اور زیادہ ہونہار کی صورت میں اور بھی کم ہونی چاہیے۔ ۲۔ سید عبدالواحد چوہدری محمد حسین کے حوالے سے لکھتے ہیں: It must be put on record that whenever the question of Iqbal's birth arose his great friend, Chaudhry Muhammad Hussain used to say that it was impossible for him not to believe any information supplied by Iqbal himself. And one would be quite safe in following Chaudhry Muhammad Hussain in this matter. ۲؎ اس استدلال میں منطقی مغالطہ ظاہر ہے۔ ایک ستم ظریف تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اقبال جھوٹ نہیں بول سکتے۔ ان کے بیان کردہ سنہ پیدائش سے اختلا ف اقبال کی توہین ہے۔ اس منطق کو کسی قدر آگے لے جائیں تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کی بیان کردہ تاریخ پیدائش کو غلط کہنے سے ان کا سارافلسفہ او ر عقائد و خیالات باطل ٹھہرتے ہیں ظاہر ہے یہ جذباتی رویہ ہے جس میں منطق کو مضحکہ خیز حدود تک لیجایا گیاہے۔ اقبال کے پاس اپنے سنہ پیدائش کے بارے میں معلومات ناکافی بھی ہو سکتی ہیں۔ اور ان کے ذرائع معلومات ناقص بھی ہو سکتے ہیں اور اس بنا پر معلومات غلط ثابت ہونے پر یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کا فلسفہ صحیح نہیں حقیقت یہ ہے کہ کسی فرد کے وہ بیانات جو چشم دید حقائق کے بارے میں ہوں مستند ہوں گے۔ پیدائش کے وقت نہ شعور بیدار ہوتا ہے نہ کوئی شخص معروضی طور پر اپنی پیدائش کے عمل کو دیکھ سکتا ہے۔ یہ اطلاعات تو ہمیشہ دوسروں سے حاصل ہوتی ہیں اس لیے اقبال کی پیدائش کے بارے میں اس کی اپنی اطلاعات بھی دوسرووں کے بیانات پر مبنی ہوتی ہیں اور ان کے غلط ہونے کا امکان بھی ہے شک و شبہے کا پہلو اس لیے بھی نکلتا ہے کہ علامہ کے مدل کے امتحان دینے کے تخمینے مرے کالج سیالکوٹ میں داخلے کے وقت ان کی عمر بی اے کے امتحان کے وقت فارم داخلے میں اندراج تینوںمیںفرق پایا جاتا ہے۔ اور یہی ان کی اپنی معلومات کے غیر معتبر ہونے کا ایک سبب ہے ۔ ۱؎ Date of birth of Iqbalص۱ ۲؎ Date of Iqbal's birthص۷ ۳۔ اقبال درون خانہ کے مولف نے اپنی تحریر میں فیملی ریکار ڈ کا حوالہ بھی دیا تھا جس کے مطابق انہوںنے علامہ کے دوسرے بہن بھائیوں کی پیدائش اور وفات کے سلسلے میں گھریلو یادداشت کا ذکر کیا تھا(دیکھیے صفحۃ ۱۵۶‘۱۵۷) روزگار فقیر کے مولف اس کی تردید میںلکھتے ہیں: ’’راقم الحروف نے حضرت کے برادر زادہ شیخ اعجاز احمد سے تصدیق کرا لی ہے کہ ان کے ہاں کوئی ایسا فیملی ریکارڈ نہ اب ہے نہ پہلے تھا جس میں حضرت علامہ کی تاریخ پیدائش ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء درج ہو۱؎‘‘۔ یا د رہے کہ یہ استدلال جو ۱۸۷۳ ء کے خلاف دیا گیا ہے باآسانی ۱۸۷۶ء اور ۱۸۷۷ء کے بارے میں بھی دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ان سنین کے بارے میں بھی کوئی مستند اور یقینی معاصر شاہدت نہیںہے ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ والا بیان جو علامہ اقبال نے پی ایچ ڈی کے مقالے کے شروع میں دیا ہے غالباً زبانی روایات پر مبنی تھا۔ چاہے یہ معلومات ان کے والد نے مہیا کی ہوں یا کسی اور بزرگ نے ۔ اس کے مقابلے میں ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کا میونسپل ریکارڈ تحریری صورت میںہے اوراس کی تردید میں یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ یہ اندراج علامہ کے بارے میں نہیں ہے۔ میونسپل ریکارڈ تحریر ی صورت میں ہے اور اس کی تردید میں یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ یہ اندراج علامہ کے بارے میں نہیں ہے ۔ میونسپل ریکارڈ میں بچے کا نام درج نہیں فقط نتھو کے ہاتھ ایک لڑکے کی پیدائش کا ذکرہے۔ اس لیے قطعیت سے اسے اقبال کے ساتھ منسوب کرنا شبہے سے خالی نہیں یہ بات بھی غیر متعلق ہے کہ گھریلو یادداشت سے مراد ضروری نہیں کہ تحریری شہادت ہو یہ یادداشت زبانی روایت کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ ۴۔ اس حوالے میں جس کا ابھی ذکر کیا یگا ہے اطلاع دہندہ کا نا م نتھو درج ہے جس کا محلہ کشمیریاں قوم والد و والدہ کشمیری بیان ہوئی ہے۔ (عکس کے لیے دیکھیے اقبال درون خانہ مقابل صفحۃ ۱۵۵ و روزگار فقیر جلد اول ص ۲۳۳) روزگار فقیر اور اقبا ل درون خانہ کے بیانات یہ ہیں: ’’اس اندراج سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو علامہ کے والد بزرگوار شیخ نور محمد صاحب (جن کا عرف نتوتھا) کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوالیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ لڑکا علامہ اقبال کے علاوہ اور کوئی نہیں یا یہ کہ اندراج علامہ ہی کی پیدائش کے متعلق ہے۔ اس کے برعکس راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق یہ اندراج شیخ نور محمد صاحب کے ہاں ایک اور لڑکے کی پیدائش کے متعلق ہے جو علامہ سے تین چار سال پہلے پیدا ہو کر شیر خواری کی عمر میں فوت ہو گیا۔ میری درخواست پر علامہ کے برادر زادہ شیخ اعجاز احمد نے اپنی ایک پھوپھی صاحبہ سے جو ابھی بفضل تعالیٰ حیات ہیں تصدیق کرائی کی علامہ کی پیدائش سے تین چار سال قبل ان کے والد کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جو شیر خواری کی عمر میں ہی فوت ہو گیاتھا۔ وہ فرماتی ہیں کہ انہوںنے اپنی والدہ صاحبہ سے ایک بار نہیں متعدد بار سنی ۲؎۔ ‘‘ ۱؎ روزگار فقیر جلد اول ص ۲۳۶‘۲۳۷ ۲؎ ایضاً ص ۲۳۱ ’’اعجاز احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ان (بے جی والدہ اقبال) کے جذبہ ایثار کا ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں میاں جی (والدا قبال) کے چھوٹے بھائی غلام محمد کے ہاں لڑکیاں ہی ہوتی تھیں۔ ان کی اہلیہ کو لڑکے کی خواہش تھی۔ اس لیے بہت دلگیر رہتی تھیں۔ دونوں بھائی آپس میں اکٹھے رہتے تھے۔ ایک دفعہ دونوں بھائیوں کی بیویاں امید سے ہوئیں اس مرتبہ بھی بے جی کو اللہ تعالیٰ نے لڑکا عطا کیر اور دیور کی بیوی کے پھر لڑکی پیدا ہوئی۔ ان کے غم و اندوہ کو دیکھتے ہوئے بے جی نے ان سے کہا کہ تم لڑکا لے لو اورلڑکی مجھے دے دو۔ چنانچہ بچوں کا تبادلہ ہو گیا۔ اور بے جی نے لڑکی کو پالنا شروع کر دیا اوران کی دیوروانی ے لڑکے کو کچھ مہینوں کیبعد ایک دن صبح کے وقت دونوں بیدار ہو کر گھر کے کام کاج میں مصروف ہو گئیں بے جی نے لڑکے کے متعلق دریافت کیا تو ان کی دیورانی نے کہا کہ دودھ پی کر سو گیا ہے ۔ جب کافی دیر ہو گئی اور لڑکا بیدار نہ ہوا تو معلوم ہوا کہ فوت ہو چکا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہونٹوں پر دودھ لگا ہوا تھا بے جی نے پھر وہ لڑکی اپنی دیورانی کو دے دی۔ یہ فوت ہونے والا لڑکا وہی تھا جس کی پیدائش کے اندراج رجسٹر میونسپل کمیٹی کو غلطی سے چچا جان کی پیدائش کا اندراج سمجھ لیا گیا۔ چچا جان کی پیدائش اس لڑکے کی پیدائش سے تقریباً پانچ سال بعد ہوئی تھی ۔ ۱؎‘‘ اقبال درون خانہ کے مصنف کو بھی ۲۲ فروری والے اندراج پر اصرار نہیں کہ وہ بھی اسے دوسرے بچے ہی سے متعلق قرار دیتا ہے۔ لیکن تقریباً پانچ سال والے بیان سے اختلاف کرتے ہوئے علامہ کی پیدائش اسی سال کے آخر میں بیان کرتے ہیں۔اقتباس یہ ہے کہ: ’’ یہی وہ تاریخ ہے جو اب تک حضرت علامہ علیہ الرحمہ کی پیدائش کے طور پر مشہور رہی ہے۔ روزگار فقیر کے مصنف نے اس تاریخ کو غلط قرار دیا کہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو پیدا ہونے والا بچہ فو ت ہو گیا تھا۔ یہ واقعی درست ہے۔ دراصل یہ وہ بچہ تھا جسے پیدائش کے فوراً بعد والدہ ماجدہ اقبال نے میان جی کے ایماء پر اپنی دیورانی کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ کیونہ انکے ہان کوئی نرینہ اولاد نہ تھی۔ مشیت ایزدی سے وہ بچہ شیر خواری کی عمر میں ہی انتقال کر گیا۔ اللہ تعالیٰ کو شاعر مشرق کے والدین کا یہ بے لوٹ ایثار بہت پسند آیا اور اسی سال پورے سوا دس ماہ بعد ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو ایک بااقبال فرزند عطا کر کے دلجوئی فرمائی‘‘ ۲؎ خاندان کے افراد کے بیان کے مطابق ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو پیداہونے والا بچہ شیر خواری کی عمر میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ لیکن علامہ کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں خاندان کے دونوں افراد میں اکتلاف ہے۔ ایک کے مطابق اقبال اس لڑے کی پیدائش سے تقریباً پانچ سال بعد پید ا ہوئے۔ دوسرے کے مطابق اسی سال سوا دس ماہ بعد علامہ کی پیدائش ہوئی۔ ان اقتباسات پر کچھ غور طلب سوالات پیداہوتے ہیں: ۱؎ روزگار فقیر جلد دوم ص ۱۳۳‘۱۳۴ اقبال درون خانہ ص ۱۵۷ ۱؎ دونوں بھائی نور محمد اور غلام محمد ایک مکان میں رہے ہیںَ دونوں کے ہا ں اولاد ایک ہی زمانے میں ہوتی تھی۔ ایک کے بچے کا اندراج میونسپل کے ریکارڈ میں ۃے۔ کیا غلام محمد کی صاحبزادی کا اندراج نہیںہوا (اس کی جستجو بھی ضروری ہے) ۔ ۲۔ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو پیدا ہونے والے لڑکے کی پیدائش کا اندراج تو ہوا وفات کا اندراج بھی ہونا چاہیے تھا (ا س ریکارڈ کی تلاش ضروری ہے)۔ ۳۔ تین سال قبال ور پانچ سال قبل کے بیانات کا ذریعہ اقبال کی ایک بہن بیان کی جاتی ہے۔ یہ بیان پچا س برس عد یا اس سے بھی زیادہ مدت کے بعد حافظے کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ اور اتنی مدت کے بعد یادداشت میں تسامح ممکن ہے۔ اسی طرح سوا دس ماہ کے تعین کا ذریعہ بھی معلوم نہیںغالباً میونسپل ریکارڈ کو سامنے رکھ کر مدت کا تعین خود کیا ہے۔ ۴۔ ۲۲ فروری کو جو لڑکا پیدا ہوا تھا اس کا محلہ کشمیریاں ہے۔ اقبال کا آبائی محلہ چوڑی گراں ہے۔ دونوں محلے آس پاس ہیں چنانچہ یہ التباس فقیر وحید الدینکو بھی ہوا ہے حالانکہ انہیںشیخ اعجا ز احمد کا تعاون حاصل تھا(روزگار فقیر جلد اول نمبر ۲۶) اقبال منزل کو چوڑی گراں کی بجائے محلہ کشمیریاں میں ظاہر کیا یگا ہے لیکن کیا محلہ کشمیریاں اور محلہ چوڑی گراں میں ایک ہی زمانے میں ایک سے زائد نتھو موجود تھے یا دونوں محلوں کے قریب قریب ہونے کی وجہ سے محلہ کشمیریاں کا اندراج ہو گیا ہے۔ اعجاز احمد نتھو نام کے دو افراد کا ذکر کرتے ہیں ۱؎۔ ان سوالات کے جواب کے بغیر ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء اور ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کے اندراجات کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ ایک ہی خاندان یا ایک ہی محلے سے متعلق ہیں۔ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء اس سنہ پیدائش کے موید خالد نظیر صوفی ہیں جنہوںنیاقبال درون خانہ اپریل ۱۹۷۱ء میں شائع کی۔ سال پیدائش کا مستقل باب قائم کر کے میونسپل ریکارڈ سے بحث کی ہے اور ۱۸۷۰ء سے لے کر ۱۸۷۷ء کے اندراج کو غور سے دیکھ کر شیخ نور محمد (عرف نتھو) کے چار بچوں کے اندراج ڈھونڈ نکالے ہیں۔ ۱۔ ۶ ستمبر ۱۸۷۰ء ایک لڑکی دختر نتھو محلہ چوڑی گراں قوم کشمیری اطلاع دہندہ رفیق۔ ۲۔ ۲۲فروری ۱۸۷۳ئ ایک لڑکا پسر نتھو محلہ کشمیریاں قوم کشمیری۔ اطلاع کنندہ نتھو۔ ۳۔ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ایک لڑکا پسرنتھو چوڑی گراں قوم مسلمان خیاط۔ اطلاع کنندہ علی محمد ولد غلام محی الدین۔ ۴۔ ۱۴نومبر ۱۸۷۶ء ایک لڑکی دختر نتھو ولد محمد رفیع (محمد رفیق) محلہ کشمیریاں قوم مسلمان کشمیری اطلاع کنندہ نتھو۔ ان چاروں اندراجات میں سے پہلا محترمہ طالع بی بی کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے۔ طالع بی بی زوجہ غلام محمد ہمشیرہ اقبال وفات ۱۳ جولائی ۱۹۰۲ء بہ عمر بتیس برس۔ وفات کا اندراج رجسٹریشن میں موجود ہے۔ اور ریکارڈ میں عمر بتیس برس بیان ہوئی ہے۔ دوسرا اندراج اس لڑکے کے بارے میں ہے جو شیر خواری میں فوت ہوا تھا۔ ۱؎ Allama Iqbal's Date of Birth ص ۱۴ تیسرا علامہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے ریکارڈ میں والد نتھو اور پیشہ خیاط بیان ہواہے۔ چوتھا اندراج کریم بی بی زوجہ احمد الدین کے بارے میں ہے جن کا انتقال یکم جولائی ۱۹۵۸ء ۸۱ یا ۸۲برس کی عمر میں ہوا۔ وفات کے ذیل میں میونسپل ریکارڈ میں عمر ۸۶ برس درج ہے۔ ان اندراجات کے بارے میں کچھ بنیادی سوالات پیدا ہوتے ہیں: ۱۔ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو پیدا ہونے والے لڑکے کی اطلاع علی محمد ولد غلام محی الدین نے دی۔ خالدنظیر صوفی لکھتے ہیں کہ اطلاع کنندہ رشتے میں نور محمد کا پھوپھی زاد بھائی تھا ۱؎۔ شیخ اعجازاحمد کا بیان ہے کہ ان کا اس نام کا کوئی رشتہدار نہیںتھا۔ اصل الفاظ یہ ہیں: The auther states that Ali Muhammad was the son of Sheikh Muhammad's paternal aunt. This is the first time I have heard that my grandfather had a cousin of this name. No person of this name ever visited our house on occasions of marriages and deaths in the family or otherwise. In fact Sheikh Noor Muhammad's father Sheikh Muhammad Rafiq had no sister and no Ali Muhammad is shown in the of this family which I had prepared many years back after making inquiries from my mother and parental aunts۲؎۔ اس بیان سے ظاہرہے کہ علی محمد کی رشتہ داری مشکوک ہے۔ تاہم کئی دوسری باتیں قابل توجہ ہیں: (الف) کیا ضروری ہے کہ اطلاع کنندہ رشتہ دار بھی ہو۔ عام دستو ر کے مطابق بعض اوقات محلے کا چوکیدار یا خاکروب بھی اطلاع کر دیتا ہے یا کبھی کوئی محلے دار بھی اندراج کرا دیتا ہے۔ (ب) شیخ اعجاز احمد کی اپنی تاریخ پیدائش ۱۲ فروری ۱۸۸۹ ء ۳؎ ہے۔ یہ قابل غور ہے کہ جو شخص ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ ء کو نتھو کے فرزند تولد کی اطلاع دیتا ہے اس مرحلے پر اتنی عمر کا ہونا چاہیے کہ اس کی دی ہوئی اطلاع میونسپل کمیٹی کے لیے قابل اعتماد ہو نیز ایسے شخص کی سرکاری یا سماجی حیثیت بھی متعین ہو۔ ۱؎ اقبال درون خانہ ص ۱۵۷ ۲؎ شیخ اعجاز احمد کا نوٹ ص ۸ ۳؎ روزگار فقیر جلد اول ص ۲۰۰ شیخ اعجاز احمد کے لیے بھی عمر کی اس منزل پر ہونا چاہیے جب سن تمیز کو پہنچ کر وہ شادی و غمی کے مجمعوں میں افراد کو فردا ً فردا ً پہچان سکیں۔ یہ جبھی ممکن ہے کہ ان کی عمر اور اطلاع کنندہ کی عمر میں خاصہ فرق ہو۔ قیاساً اطلاع کنندہ کو عمر میں شیخ صاحب کے والد مرحوم سے بڑا ہونا چاہیے تھا۔ اور شیخ اعجاز احمد کے سن تمیز کو پہنچنے تک خاصہ عمر رسیدہ ہونا چاہیے تھا۔ شیخ اعجاز احمد کے والد کا سال پیدائش ۱۸۵۹ء ہے اس اعتبار سے اطلاع کنند کو اس منز تک جب شیخ اعجاز احمد کا شعور بیدار ہو کم از کم ۰ ۷ برس کا ہونا چاہیے۔ جبھی یہ ممکن ہو گا کہ وہ ۱۸۷۳ء میں میونسپل کمیٹی کو اطلاع دینے کے قابل بھی ہو۔ اس کا بھی امکان ہے کہ اطلاع کنندہ علامہ کے ننھیال کا کوئی فرد ہو۔ علامہ کا ننھیال سمبڑیال میں تھا۔ اس اطلاع کنندہ کے علاوہ باقی اطلاع کنندگان کی چھان بین ضرو ر ی ہے۔ میونسپل ریکارڈمیں طالع بی بی زوجہ غلام محمد کی وفات کا اطلاع کنندہ تاج الدین ۱؎ ہے۔ کریم بی بی زوجہ احمد الدین کی وفات کا اطلاع کنندہ افتخار احمد ہے ۲؎۔ ان کا تعین بھی ضروری ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ اطلاع دینے والے کون تھے اور کس خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ خصوصاً علی محمد ولد غلام محی الدین کے بارے میں معلومات اہم ہو سکتی ہیں۔ (ج) اندراج میں نتھو کا پیشہ خیا ط اور باقی اندراجات میں قومیت کشمیری درج ہے۔ وہ نتھو ٹوپیاں والا کہلاتے تھے۔ اس لیے جس اندراج میں انہیں خیاط کہا گیا ہے وہ ان کے اور ان کے بیٹے کے بارے میں نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ شیخ اعجاز احمد فرماتے ہیں: I recall on e Nathu close to our house who was a gold smith and was known as Nathu Zargar. In Sialkot there was a large disticnt community known as Khayyat Bradry. Some of these were residing in muhallah Churigaran. The entry in the register of birth to be that of the Allama evedently recorded the birth or a son to some Nathu of this bradry. Sheikh Noor Muhammad was not known as Nathu Khayyat. He used to make caps. and Kullahs and was known as Nathu Topianwala. In the Register of birth although there is a column of pesha. qaum and mazhab (profession, community, and religion) but in the other five enteries the entry in the column is either the community or community and religion of the person concerned. ۱؎ اقبال درون خانہ ص ۱۵۶ ۲؎ ایضاً ص ۱۵۹ The word Khayyat in the entry in question also evidently refers to the community of this Nathu ۱؎۔ استدلال کی یہ عمارت قائم نہیں رہتی اس کی اساس اس مفروضے پر ہے کہ علامہ کے والد خیاط نہیں کہلاتے تھے۔ سکاچ مشن کالج کے ریکارڈ میںعلامہ کے داخلے کے اندراج میں نور محمد کو ٹیلر کہا گیا ہے۔ بیان کا یہ حصہ البتہ غور طلب ہے کہ کشمیری محلے میں اورعلامہ کے قریب نتھو زرگر بھی رہتا تھا۔ اور محلہ چوڑی گراں میں ایک خیاط برادری بھی تھی جن کا علاہ کے خاندان سے کوئی تعلق نہ تھا نتھو ایک ایسا عرفی نام ہے جو نتھ کی نسبت سے عموماً حیثیت رکھتا ہے اور ایک سے زیادہ نتھو ایک ہی شہر میں اور ایک ہی محلے میں ممکن ہیں۔ چنانچہ شیخ اعجاز احمد نے اپنے بھائی مختار احمد کے حوالے سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ محلہ چوڑی گراں اور محلہ کشمیریاں ساتھ ساتھ واقع ہیں اور ان میں جغرافیائی حد بندی ممکن نہیںخصوصاً جب کہ علامہ کا خاندانی مکان محلہ کشمیریاں کے سرے پر واقع ہے۔ علامہ کے داخلے کے اندراج میں خیاط کی موجودگی اس استدلال کے بنیادی نکتے کی تردید کرتی ہے اور میونسپل اندراج کو غیر متعلق قرار دینے سے حارج ہے ۔ (د) خاندانی روایات کے مطابق علامہ کی پیدائش جمعے کے روز ہوئی۔ لیکن ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو جمعہ نہیںبلکہ پیر تھا۔ اسکے علاوہ علامہ کے برادر بزرگ شیخ عطا محمد کا تخمینی بیان جو اخبار انقلاب کے شمارہ ۷ مئی ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا۔ اس میں علامہ کی پیدائش کا مہینہ دسمبر بیان ہوا ہے۔ اگر ۳ ذیقہدہ ۱۲۹۴ کو صحیح تسلیمم کر لیا جائے تو پھر ان کی تاریخ پیدائش ۹ نومبر ۱۸۷۷ء میں پڑتی ہے۔ اس لحاظ سے دسمبر کی روایت اور جمعے کا دن دونوں کے یکجا ہونے کا امکان نہ ۲۲فروری ۱۸۷۳ء کو ہوتا ہے اور نہ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو او رنہ ۹ نومبر ۱۸۷۷ کو گویا دسمبر اور جمعے کی دونوں خاندانی روایتوں میں سے کوئی بھی ٹھیک ہو سکتی ہے۔ یا پھر علامہ کی تاریخ پیدائش کا کوئی سن ان سنین کے علاوہ قیاس کرنا پڑے گا جس میں دسمبر اور جمعہ یک جا ہو تے ہوں۔ علامہ کے سال پیدائش کے سلسلے میں جن تحڑیری شہادتوںکا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں خود علامہ کے بیان کردہ تخمینہ ہائے عمر میں خاصہ فرق ہے۔ میونسپل کمیٹی کا ریکارڈ بھی کسی آخری نتیجے میں پہنچنے میں معاون نہیں۔ تلا ش و جستجو کا تیسرا وسیلہ ان کے حلقہ احباب کے بیان ہو سکتے ہیں۔ علامہ اقبال کی تقریباً ہم عمر کرم بی بی والدہ محبوب احمد کوچ حکیم حسام الدین مکان نمبر ۳۳۹؍۲۴ کا جو بیان راقم الحروف پروفیسر محمد عثمان اور سید نیازی نے ۲۶ جنوری ۱۹۷۴ء کو لیا تھا ا س کے مطابق علامہ کی پیدائش ۱۸۷۳ء میں بنتی ہے۔ کرم بی بی کے بیان کے ضروری حصے ذیل میںپیش کیے جاتے ہیں: ۱؎ نوٹ اعجاز احمد ۱۔ میں اقبال کی بہن کریم بی بی سے کوئی تین چار ماہ بڑی تھی۔ کریم بی بی کی شادی میری شادی سے دو سال پہلے ہوئی تھی۔ اقبال کی شادی کے وقت میری عمر سترہ برس تھی اور اقبال کی عمر انیس برس تھی۔ ۲۔ ایک دفعہ بہت ہیضہ انفلوئنزا پھیلاتھا۔ میرا سوتیلا بیٹا فیض اس ہیضے کی وبا میں مرا تھا اس کی عمر بائیس بر س کی تھی۔ یہ میری شادی کے دو ماہ بعد پیدا ہوا تھا۔ شادی کے وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی۔ ۳۔ اقبال کی چاربہنیں تھیں بڑی بہن جیونی یہ فضل حق سینڈو کی والدہ تھیں۔ ان کے تعلقات خاوند سے اچھے نہیں تھے۔ یہ میری بڑی بہن بھاگن کی ہم عمر تھی۔ دوسری بہن طالع بی بی تھی تیسری کریم بی بی اور چوتھی زینب۔ زینب کی اپنے خاوند سے ان بن ہو گئی تھی۔ اور خاوند نے دوسری شادی کر لی تھی‘‘۔ اس انٹرویو میں بنیادی واقعہ ہیضہ (انفلوئنزا) کی وبا کا ذکر ہے۔ جو ۱۹۱۸ء کا واقعہ ہے۔ اس میں کرم بی بی کا سوتیلا بیٹا فیض فوت ہوا۔ فیض اس حساب سے ۱۸۹۶ء میں پیدا ہوا تھا۔ کرم بی بی کی شادی کے وقت دو ماہ کا تھا۔ ان کی شادی اندازً ۱۸۹۶ء میں ہوئی ہو گی۔ کرم بی بی سے علاہ کی بہن کریم بی بی چارماہ بڑی تھی۔ کریم بی بی ہمشیرہ اقبال کی شادی سے دو سال یعنی ۱۸۹۴ء کے لگ بھگ ہوئی ہو گی۔ علامہ کی بہنوں کو سلسلہ وار لیا جائے تو بڑ ی بہن جیونی کے بعد طالع بی بی اور طالع بی بی کے بعد کریم بی بی کا نمبر آتا ہے… شادی کے وقت کرم بی بی کی عمر سترہ برس اور اقبال کی انیس گوی اس حساب سے اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۳ء ہوا۔ اور ۱۸۷۴ء اس لیے شمار نہیںکیا گیا کہ کرم بی بی سے اقبال کی بہن کریم بی بی دو چار ماہ بڑی تھی۔ کرم بی بی کا یہ بھی بیان کرتی ہے کہ ان کی عمر اپنی شادی کے وقت اٹھارہ برس تھی کرم بی بی کی شادی ۱۸۹۶ء کے لگ بھگ ہوئی۔ اس لحاظ سے کرم بی بی کی شادی دو سال پہلے یعنی ۱۸۹۴ء میں ہوئی۔ کرم بی بی اپنی شادی کے وقت اٹحارہ برس کی عمر بیان کرتی ہیں۔ اس حساب سے تو ان کی پیدائش ۱۸۷۷ ء کے قریب ہو گی اوراستدال کی ساری کڑیاں گڑبڑ ہو جائیں گی۔ اقبال سے دو برس چھوٹی ہونے کی صورت میں انہیں ۱۸۷۵ء میں پیدا ہونا چاہیے تھا۔ اس اعتبار سے ۱۸۹۶ء میںیعنی اپنی شادی کے وقت وہ اکیس برس کے لگ بھگ ٹھہرتی ہیں۔ اقبال درون خانہ کے مولف کے مطابق ان کی پہلی شادی کے وقت بیگم کے بیان کے مطابق علامہ بیس برس سے کچھ کم تھے ۱؎۔ ان کی شادی ۱۸۹۳ء میں ہوئی ا س کے مطابق اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۳ ء کے آخر میں ہو گا۔ مولانا سید حامد جلالی نے علامہ اقبال اوران کی پہلی بیوی میں اقبال کے والد کا سال پیدائش ۱۸۳۷ء اور پیدائش اقبال کے وقت عمر اکتالیس سال قرار دی ہے۔ اس اعتبار سے اقبا ل کا سال پیدائش ۱۸۷۸ ہونا چاہیے ۲؎۔ علامہ کی پہلی بیوی کے حوالے سے کرنل خواجہ عبدالرشید صاحب نے بیان کیا ہے کہ شادی کے وقت بیگم پندرہ برس کی تھیں اقبال ان سے پانچ برس بڑے تھے اس تخمینے کے مطابق اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۳ء ہوا۔ ۳؎ ۱؎ اقبال درون خانہ ص ۱۶۱ نیز اعجاز احمد ص ۱۱ ۲؎ علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی ص ۱۴‘۱۷‘۱۹ نیز اعجاز احمد ص ۱۱ ۳؎ کرنل عبدالرشید بحوالہ اعجاز احمد ص ۱۵ شیخ اعجا زاحمد کی والدہ بیان کرتی تھیںکہ ان کی شادی کے وقت اقبال پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ اس وقت ان کی عمر دس بارہ برس کی تھی ۱؎ اقبال نے مڈل کا امتحان ۱۸۹۱ء میں پاس کیا تھا۔ اس حساب سے بھائی کی شادی ۱۸۸۸ میں ہونی چاہیے کہ پیدائش کے لحاظ سے ۱۸۷۶ء یا ۱۸۷۸ء شمار ہو گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ علامہ کے بھائی عطا محمد ۱۸۵۹ء میں پیدا ہوئے تھے۔ اس اعتبار سے انتیس برس کی عمر میں ان کی شادی ہوئی ہو گی۔ جو ا س زمانے میں عام رواجکے مطابق دیر کی شادی قرار پائے گی۔ لیکن یہ شادی ان کی پہلی شادی نہیںتھی دوسری شادی تھی۔ پہلی بیوی سے ان کی بیٹی برکت بی بی ایک مدت تک مفلوک الحال کی زندگی بسر کرتی رہی اور باپ کی شفقت اور محبت سے محروم رہی ۲؎۔ جلالی کے بیان میں علامہ کی عمر کا تخمینہ بظاہر صحیح نہیںہوتا۔ کیونکہ اگر علامہ کی پیدائش کے وقد والد کی عمر اکتالیس برس ہے تو والدہ بیالیس برس کے پیٹے تھیں ۔ ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کی دو بہنیں ان سے چھوٹی تھیں۔ سب سے چھوٹی بہن کی پیدائش کے وقت والدہ کی عمر طبعی لحاظ سے اتنی ہونی چاہیے کہ بیٹی کی پیدائش کا امکان رہے۔ معاصرین کے یہ بیانات ہمیں کسی واضح نتیجے تک نہیںلے جاتے۔ ان سے ۱۸۷۳ء ‘ ۱۸۷۷‘ ۱۸۷۸ء کے سین کا اندازہ ہوتاہے۔ اب تک سال پیدائش کے سلسلے میں دلائل کے جو ؤسلسلے قائم کیے گئے ہیں ان میں قطعی بات یہی نظر آتی ہے کہ اقبال نے پانچ برس مکتب میں بسر کیے ۱۸۷۶ ء اور ۱۸۷۷ کے سنین باطل ٹھہرتے ہٰں اور مڈل کے امتحان کے وقت یعنی ۱۸۹۱ء میں انہیں اپنے ہم جماعتوں سے بڑا ہونا چاہیے تھا اس استدلال کی یہ رو ہمیں ۱۸۷۳ء والی تاریخ کے پاس لے جاتی ہے۔ یوں بھی عمروں کے تخمینے محض اندازے سے ہوتے ہیں۔ اور اس کا بہت کچھ انحصار نصف صدی بعد واقعات بیان کرنے والے معاصر شخص کے حافظے پر ہے ورنہ اقبال کی پہلی بیوی اور شیخ اعجاز احمد کی والدہ کے تخمینے میں اتنا فرق نہ ہوتا۔ اس حیاتیاتی عنصر کی بنا پر شیخ اعجاز احمد کی والدہسے اقبال کی پہلی بیوی کی عمر میں بہت چھوٹی تھیں ہم علامہ کی پہلی بیوی کے بیان کو ترجیح دیں گے کہ اس میں حافظے کے قوی ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ تاوقتیکہ یہ ثابت ہو جائے کہ اقبال کی پہلی بیوی کو نسیان کا عارضہ یا کوئی اور مرض تھا جو یادداشت پر اثر انداز ہو سکتا ہو۔ بیانات کے وہ سلسلے جو ۱۸۷۳ء کی طرف جاتے ہیں اس اطلاع کی تائید میں ہیں کہ علامہ اقبال نے مکتبی تعلیم پانچ برس تک حاصل کی اوراسی نسبت سے انہیں اپنے سکول کے ہم جماعتوں میں پانچ برس بڑاہونا چاہیے۔ اگر یہ استدلال صحیح ہے تو ۱۸۹۱ء میں قریباً اقبال سترہ اور اٹھارہ برس کے درمیان ہوں گے۔ ۱۸۹۳ء میں بیس اکیس برس کے اور بی اے میں داخلے کے وقت یعنی ۱۸۹۵ء میں ۲۲ برس کے لگ بھگ ہونا چاہیے۔ ۱۸۹۷ء میں ان کی عمر ۲۵ برس کے قیرب اور ۱۸۹۹ میں ایم اے کرنے پر ستائیس برس کے لگ بھگ شمار ہو گی۔ سرکار ی ملازمت کے لیے حد عمر اور ایم اے کے موقع پر علامہ کی عمر میں فرق اتنا ہے کہ اگر اس تاریخ کا اندراج ان سرٹیفکیٹوں پر ہوتا تو وہ سرکاری ملازمت اور پی سی ایس کے امتحان کے اہل قرار نہیں پا سکتے تھے۔ ۱؎ اعجاز احمد ص ۳‘ سید عبدالواحد ص ۶ ۲؎ علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی ص ۳۲ آج بھی عمر کے سلسلے میں تعلیمی ریکارڈ میں کم عمر لکھانے کا رواج عام ہے۔ لیکن بہرحال سوچ کی ایک رو ہے جس کے راستے میں کئی رکاوٹیں موجود ہیںَ اس لیے ا س قیاس کو ہم یہیں چھوڑتے ہوئے استدلال ایک اور سلسلے کو لیتے ہیں۔ تاریخ پیدائش کی جستجو کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ علامہ کے وال د اور والدہ بہنوں اور بھائیوں کی عمر کا اندازہ کیا جائے۔ اقبال کی والدہ امام بی بی ۹ نومبر ۱۹۱۴ کو فوت ہوئیں۔ وفات کے وقت ان کی عمر اٹھتر ۸ ۷ برس بیان کی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے ان کاسال پیدائش ۱۸۳۶ء قیاس کرنا چاہیے۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد کا انتقال ۱۷ اگست ۱۹۳۰ ء کو ہوا ۔ فقیر کے بیان کے مطابق شیخ نور محمد کی عمر اس وقت ۹۳ برس کی تھی ۱؎۔ شیخ نور محمد کا سال پیدائش ۱۸۳۷ء ہوا۔ گویا بیوی عمعر کے لحاظ سے میاںسے ایک برس بڑی تھیں۔ علامہ کے سب سے بڑے بھائی شیخ عطامحمد کی پیدائش ۱۸۵۹ء میںہوئی۔ پہلے بیٹے کی پیدائش کے وقت علامہ کی والدہ کی عمر ۲۳ برس کے لگ بھگ شمار ہو گی۔ اقبال اگر ۱۸۷۷ء میں پیدا ہوء تواس حساب سے ان کی والدہ کی عمر ۴۱ برس کی ہونی چاہیے۔ دوسری بہن کریم بی بی کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ اندازاً ۴۴ برس کی تھیں سب سے چھوٹی بہن زینب کی پیدائش کے خاندانکے تین برس والے فارمولے کے مطابق قیاس کی جائے تو اس وقت والدہ ۴۷ برس کی قرار دی جا سکتی ہیں۔ اگر تین برس کے فاصل کو اصول تسلیم نہ بھی کیا جائے تو جب بھی ۴۶ برس کی عمر میںبیٹی کی پیدائش نادر الوقوع بات ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو خاندان کے لوگ اس کا کہیں نہ کہیں ذکر ضرور کرتے۔ اس لیے آخری بیٹی کے اس سے بہت پہلے پیدا ہونے کا امکان زیادہ قوی ہے۔ اور اسی نسبت سے علامہ کی پیدائش کا سال بھی پیچھے چلا جائے گا۔ اوریہ ۱۸۷۶ء نہیں بلکہ ۱۸۷۳ء یا اس کے بعد پڑے گا۔ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء اگر اقبال کا سال پیدائش تھا تو یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ ان کی والد ہ کا انتقال ۹ نومبر ۱۹۱۴ ء کو ہوا۔ اس اتفاق یا حادثے کی طرف اقبال نے کہیں اشارہ نہیںکیا۔ کہ ۹ نومبر ان کی پیدائش اور ۹ نومبر ان کی والدہ کی وفات کا دن ہے۔ تاہم یہ کہا جا سکتاہے کہ ان کے ذہن میں ہجری سنین تھے۔ اس لیے ۹ نومبر کی طرف ان کا ذہن ہی نہیں گیا۔ روزگار فقیر میں اقبال کی پہلی بیگم کو علامہ ۳؎ سے تین برس بڑی بتایا گیا ہے ۴؎۔ اقبال کے خسر عطا محمد ۱۸۵۹ء ۵؎ میں پیدا ہوئے تھے۔ اکاون برس کی عمر میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لی تھی اور ۱۹۲۳ء میں انتقال ہوا۔ اقبا ل کے خسر اور ان کے بڑے بھائی دونوں ہم عمر تھے۔ اقبال کی پہلی بیگم ۱۹۴۶ ء ۶؎ میں بہ عمر ستر برس فوت ہوئیں اوراگر شیخ عطامحمد کے خط پر بھروسہ کیا جائے روزگار فقیر جلد اول ۳۲۳ تو اس حساب سے پہلی بیگم کا سال پیدائش یا تو ۱۸۷۶ء یا ۱۸۷۳ء ہو گا۔ اقبال سے تین برس بڑی ہونے کی صورت میں ۱۸۷۳ء کے حساب سے اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۶ ء ہو گا اور دوسرے اندازے کے مطابق ۱۸۷۹ء یا ۱۸۸۷ء تسلیم کرنا پڑے گا۔ ۱؎ روزگار فقیر جلد اول ص ۲۳۹ ۲؎ اقبال درون خانہ ص ۱۵۴ بحوالہ مہتاب بی بی (بیگم عطا محمد) کریم بی بی ‘ زینب بی بی ‘ (ہمشیرگان اقبال) کہ اقبال طالع بی بی سے تین سال چھوٹے تھے۔ کریم بی بی سے تین سال بڑے اور کریم بی بی سے تین سال بڑی تھیںَ لیکن اعجاز احمد اس تین تین سال کے فصل والے فارمولے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ۳؎ روزگار فقیر جلد اول ص ۲۳۳ ۴؎ اقبال کی پہلی بیوی ص ۲۳ ۵؎ ایضاً ص ۲۳ ۶؎ اقبال پہلی بیوی ص ۲۶ علامہ اقبال کی پہلی بیگم کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ بقول جلالی عرب میں پیدا ہوئی تھیں۔ جہاں ان کے والد بزرگوار عطا محمد بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ ظاہر ہے کہ جلالی کا بیان آفتاب اقبال کی اطلاع کے مطابق ہے جو انہیں اپنی والدہ یا نانا سے ملی ہو گی علامہ کے خسر عطا محمد جدہ میں وائس کونسل رہے تھے۔ گویا اقبال کی پہلی بیگم جدے میں پیدا ہوئیں بقول جلالی یہ دس برس عرب میںرہیں اور عربی بے تکان بولتیتھیں علامہ اقبال کی پہلی بیوی ص ۲۲۔ گجرات کے میونسپل ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ عطا محمد کے ہاں ایک لڑکی کٹرہ شال بافاں میں ۲۲ مارچ ۱۸۷۴ء کو پیدا ہوئی اور دوسری ۰ ۲ اپریل ۱۸۷۷ ء کو۔ افراد خاندان سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ عطامحمد کی پانچ لڑکیاں اور ایک لڑکا تھا۔ سب سے بڑی علامہ اقبال کی بیگم کریم بی بی تھیں ان سے چھوٹی بیگم جو فوت ہو چکی ہیں ان کی لڑکی عصمت زندہ ہیں۔ ان سے چھوٹی فاطمہ بیگم (جو زندہ ہیں) تیسری بیٹی بیگم عظمت شاہ ریٹائرڈ ایس پی جو فوت ہو چکی ہیں۔ شہزادہ بیگم جو سجاد حیدر مرحوم کی بیگم تھیں حیات ہیں۔ لڑکا اپنے والدین کی زندگی ہی میں فوت ہو گیا تھا۔ میری والدہ(والدہ وحید قریشی) جو میانوالی میں تعلیم پاتی رہیں شہزادہ بیگم کی تقریباً ہم عمر تھیں۔ والدہ کے بیان کے مطابق ان سے شاید ایک سال بڑی بھی ہوں میری والدہ کی پیدائش ۱۹۰۱ء کے لگ بھگ ہے۔ اسی لحاظ سے شہزادہ بیگم ۱۹۰۰ ء کے لگ بھگ پیدا ہوئی ہوں گی۔ اس ترتیب کے مطابق شہزادہ بیگم سے بیگم شاہ بڑی تھیں ۔ان سے بڑی فاطمہ بیگم فاطمہ گیبم سے بڑی والدہ عصمت اور سب سے بڑی کریم بی بی زوجہ علامہ اقبال اس حساب سے مذکورہ بالا میونسپل اندراج میں ۲۲ مارچ ۱۸۷۴ء والدہ عصمت کا سنہ پیدائش اور ۱۸۷۷ء بیگم خواجہ فیروز الدین کا سال ولادت ٹھہرتا ہے۔ علامہ اقبال کی بیگم کو بہرحال جدے میں ۱۸۷۴ء سے پہلے پیداہونا چاہیے تھا۔ یاد رہے کہ والدہ عصمت کی پیدائش کے وقت اور ملازمتی اندراج کے مطابق عطا محمد کی عمر پندرہ برسکے قریب ہو گی۔ اس لحاظ سے پہل بیٹی کی پیدائش ۱۸۷۴ء سے زیادہ سے زیادہ دو تین سال پیچھے جا سکتی ہے تین برس پہلے پیدا ہونے کی صورت میں ان کا سال پیدائش ۱۸۷۱ء ہو گا اورعلامہ اقبال سے دو برس بڑی ہونے کی صورت میں علامہ کی پیدائش ۱۸۷۳ء شمار ہو گی۔ دلائل کے تین سلسلے جن بنیادی نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان میں ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء ا س لحاظ سے خارج از بحث ٹھہرتی ہے کہ خاندان کے افراد کا اس پر کلی اتفاق ہے کہ یہ تاریخ پیدائش اس بچے کی ہے جو اقبال سے پہلے پید ا ہوا اور شیر خواری ہی میں فوت ہو گیا۔ اس سے ہمیں ایک حد ضرور ملتی ہے کہ ہم اپنے قیاسات کو بائیس فروری ۱۸۷۳ء کے بعد کم از کم نو دس مہینے سے شروع کر دیں۔ ۱۸۷۶ ء اور ۱۸۷۷ء کے حق میں اور خلا ف جو قیاس ہو سکتے ہیں میں ان سے مفصل بحث کی جا چکی ہے۔ اورمیونسپل کمیٹی کے ریکارڈ کے اندراجات کی ناقص صورت اور بعض اندراجات کی عدم موجودگی کے امکانات پر بھی بحث کی جا چکی ہے اس کے علاوہ معاصرین کے بیانات میں جو عدم مطابقت ہے اس کا بھی جائزہ لیا گیاہے معاصر بیانات میں سے بعض ۱۸۷۳ء کے آس پاس لے جاتے ہیں۔ خود علامہ کے بیانات بسلسلہ پیدائش کسی قدر متفاوت ہیں چنانچہ یونیورسٹی کے ریکارڈ سے یہ صورت حال ظاہر ہے کہ اس سے اتنا ضرور معلوم ہوتاہے کہ اقبال ۱۸۷۶ء کو اپنا سال پیدائش تسلیم کرنے لگے تھے۔ اور پی ایچ ڈی کے موقع پر حتمی طور پر ہجری تاریخ ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ دی ہجدری کو عیسوی میں منتقل کرے میں بے احتیاطی ضرور ہوئی ہے لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ انہوںنے جو منظوم تاریخیںکہی ہیں آٓٹھ تاریخوں کے سوا باقی تمام کی تما م ہجری سین میں ہیں۔ اس لیے ان کی بیان کردہ حتمی تاریخ ہی ان کی نظرمیں معتبر تھی جو ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کے برابر ہوتی ہے۔ لیکن جسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے خو د اس حتمی تاریخ اور علامہ کے اپنے بیان میںکہ انہوںنے کئی برس اول مکتبی تعلیم حاصل کی پھر سکول میں داخل ہوئے۔ ہمیں دوبارہ غور پر مجبور کرتی ہے ۔ علامہ کی تقریباً ہم عمر بی بی کرم کے بیان کو میں وقیع جانتا ہوں۔ میاںعمر شاہ کے مکتب میں پانچ جماعتیں پڑھنے کی جو تفصیلات انہوںنے دی ہیں ان کی بنا ؤپر اقبال کے سال پیدائش کو سکول میںان کے ہم جماعتوں سے پانچ سال پیچھے لے جانا پڑے گا۔ تو پھر پیدائش کا سال ۱۸۷۳ء یا اس کے قریب تر چلا جائے گا۔ اس کا قومی امکان ہے کہ اقبال درون خانہ کے مولف کی وہ تاریخ جوانہوںنے میونسپل ریکارڈ میںتلاش کی ہے وہ اقبال کے بارے میںشمار ہو۔ یعنی ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ‘ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء تقویم کے مطابق ۸ ذیقعدہ ۱۲۹۰ھ بروز یک شنبہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ان کی پیدائش کا دن جمعہ نہیں پیر ہوا۔ اس طرح ایک خاندانی روایت غیر صحیح لیکن دوسری درست بیٹھتی ہے۔ دوسری روایت علامہ کے بڑے بھائی کی ہے کہ اقبال دسمبر کے مہینے میں پیداہوئے تھے۔ بھائی کا بیان اس لحاظ سے اہم ہے کہ علامہ کی ولادت کے وقت عطا محمد کی عمر کے لحاظ سے اتنے بڑے تھے کہ چھوٹے بھائی کی ولادت کے دن کو بخوبی یاد رکھ سکیں۔ ہمارے خیال میں علامہ کی پیدائش ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء قرار دینے کے قرائن زیادہ وقیع ہیں۔ علامہ اقبال کی صحیح تاریخ پیدائش …۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ڈاکٹر اکبر حیدر ی کشمیری جنوری ۱۹۷۳ء کا زمانہ تھا جب کہ کمال احمد صدیقی ڈپٹی چیف پروڈیوسر اردو نے دلی سے راقم الحروف کولکھنو کے پتہ پر ایک خط ارسا کیا تھا جس میں موصوف نے علامہ اقبا ل کے سنہ ولادت کے بارے میں دریافت کرنا چاہا تھا۔ راقم نے کمال صاحب کو تحریری طور پر آگاہ کیا تھا کہ اقبال کے سال پیدائش میں شدید اختلاف ہے اور یہ مسئلہ ہنوز تحقیقی طلب ہے۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جو جتنی عظیم شخصیت ہوتی ہے اس کی تاریخ یا سن وفات میں اسی قدر اختلاف ہوتا ہے۔ اقبال بھی اپنے زمانے میں ایک الوالعزم شاعر اور عظیم المرتبت شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی وفات کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔ اب بھی کچھ لوگ زندہ ہیں جنہوںنے انہیںنہ صرف قریب سے دیکھا تھا۔ بلکہ ان کے ہم جماعتی بھی ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ ان کی راہ و رسم اور گھریلو معاملات بھی بڑے استوار تھے ۔ مقام حیرت ہے کہ جس قدر ان کے تاریخ پیدائش میں اختلاف پایا جاتا ہے شاید ہی کوئی دوسرا شخص اس قسم کے اختلافات کا شکار ہوا ہو۔ لوگوں نے انکی تاریخ پیدائش ۱۸۷۰ء سے ۱۸۸۰ء تک تعین کی ہے۔ ذیل میں چند ایسے حوالے سے پیش کیے جاتے ہیں جن میںاختلاف پایا جاتا ہے۔ ۱۸۷۰ء ۱۔ خمخانہ جاوید اقبال ص ۳۶۹ مطبوعہ نو لکشور ۱۹۰۸ء مصنفہ سر رام ’’اقبال کی ولادت ۱۸۷۰ء میں ہوئی‘‘۔ ۲۔ انتخاب زریں ص ۲۴۵ مطبوعہ ۱۹۲۱ء سر سید راس مسعود ’’اقبال ۱۸۷۰ء اگست مطابق ۱۲۸۷ھ میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے‘‘۔ ۳۔ قامو س المشاہیر جلد اول مطبوعہ ۱۹۲۴ء نظامی بدایونی ’’اقبال ۱۸۷۰ء میں پیدا ہوئے‘‘۔ ۱۸۷۲ء ۴۔ آثا ر اقبال ص ۱۷ ادارہ اشاعت اردو حیدر آباد عنوان اقبال کی زندگی مصنفہ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم مرتبہ غلام دستگیر رشید: علامہ سر محمد اقبال ۱۸۷۲ء میں بمقام سیالکوٹ پیدا ہوئے۔ ۱۸۷۳ء ۵۔ روزنامہ انقلاب لاہور مورخہ مئی ۱۹۳۸ء ’’اقبال کی ولادت ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء مطابق ۲۴؍۲۳ ذی الحجہ ۱۲۸۹ھ کو ہوئی۔ ۶۔ تذکرہ شعرائے متغزلیں مطبوعہ نقوش لاہور صفحہ ۵۸۰ ادارہ فروغ اردو لاہور مرتبہ شیخ محمد اسماعی پانی پتی ۱۹۵۶ء ۔ ’’ڈاکٹر اقبال ۲۲فروری ۱۸۷۳ء کو سیالکوٹ میںپیدا ہوئے‘‘۔ ۷۔ کلیات اقبال ص ۳ مطبوعہ نظامی پریس بدایوں ’’اقبال ۱۸۷۳ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے‘‘۔ ۸۔ کلیات اقبال ص ۳ مطبوعہ نسیم بکڈپو لکھنو ’’اقبال ۱۸۷۳ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے‘‘۔ ۹۔ سیرت اقبال ص ۲۵ محمد طاہر فاروقی طبع سوم ۱۹۴۹ء اقبال ۴ ۲ ذی الحجہ ۱۲۸۹ھ مطابق ۲۲ فروری ۱۸۷۳ ء کو کتم عدم سے عالم وجود میں آئے۔ پیدائش کی یہ تاریخ سیالکوٹ کے رجسٹر فوقی و پیدائش سے تصدیق شدہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ۱۸۷۶ء والی روایت ضعیف نظر آتی ہے‘‘۔ ۱۰۔ ذکر اقبال ص ۱۰ عبدالمجید سالک مطبوعہ بزم اقبال لاہور جون ۱۹۵۵ء ’’علامہ کی ولادت ۲۴ ذی الحجہ ۱۲۸۹ء مطابق ۲۲فروری ۱۸۷۳ء کو ہوئی تصدیق شدہ ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ بحوالہ رجسٹر پیدائش و موات۔ ۱۱۔ اردو انسائیکلو پیڈیا صفحہ ۳۹ فیروز سنز لمیٹڈ پاکستان ’’علامہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو سیالکوٹ کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے‘‘۔ ۱۲۔ A history of urdu literature p.357 by Mohd Sidique . ''Borm in Sialkot on 22nd Feb 1873''. ۱۳۔ یادگار اقبال ص ۱۸ مرتبہ سید محمد طفیل بدر امروہوی علم و ادب کا یہ درخشندہ ستارہ ۱۸۷۳ء میں سیالکوٹ میں جلوہ گر ہوا۔ ۱۴۔ Iqbal his art and thought P.3 by S. Abdul Vahid ''Iqbal was born at Sialkot in the Punjab on Feb 22 1873''. ۱۵۔ روزنامہ انقلاب نے علامہ اقبال کی جو تاریخ پیدائش ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء تحریر کی تھی اس کی تائید کالج کے پرنسپل اور وائس پرنسپل نے بھی کی تھی۔ روزگار فقیر کے مصنف نے اسے اپنی کتاب میں صفحہ ۲۳۶ میں ذیل کے الفاظ میں درج کیا ہے: He (Dr. Muhammad Iqbal) was born on 22nd February 1873 at Sialkot, a well known town on the border of the Punjab which adouius Jammun. This is the corret date as announced in the Daily Inqilab Lahore. 7th May 1938 on the authority of the borthers of the deceased. In some other paper 1876 had been given as the year of his birth but the Inqilab was asked to publish in dates found in the records of the family. ۱۸۷۵ء ۱۶۔ اقبال اور ان کا نام اور کام…یاد اقبال مرتبہ چوہدری غلام سرور نگار اللہ نے… اقبال کو ہندوستان میں ۱۸۷۵ء میں پیدا کیا‘‘۔ ۱۷۔ کلیات اقبال (دیباچہ) محمد الرزاق علیگ مطبوعہ ۱۳۴۳ھ؍ ۱۹۲۲ء ’’تقسیم عیسعی کا ایک ہزار آٹھ سو پچھترواں سال تھا کہ مردم خیز خطہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں اقبال کی ولادت ہوئی۔ ۱۸۔ تاریخ ادب اردو صفحہ ۱۸۶ رام بابو سکسینہ مترجم مرزا محمد عسکری ’’سال ولادت ۱۸۷۵ء اور مقام ولادت سیالکوت ملک پنجاب ہے‘‘۔ ۱۸۷۶ء ۱۹۔ اقبال کامل ص ۲ مولوی عبدالسلام ندوی ’’ڈاکٹر صاحب اسی سیالکوٹ میں ۱۸۷۶ء میں پیدا ہوئے‘‘۔ ۲۰۔ گلستان ہزار رنگ ص ۵۱۶ سید بہاء الدین احمد ’’سر شیخ محمد اقبال ۱۸۷۶ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے‘‘۔ ۲۱۔ مراۃ الشعراء جلد دوم ص ۱۷۲ مولوی محمد یحییٰ تنہا ’’اتفاق سے ایک رسالہ میں تاریخ پیدائش ۱۸۷۶ء نظر سے گزری ارو یہ ناقابل معافی کمی پوری ہو گئی۔ اسی طرح ان کے والدکا نام نور محمد معلوم ہو گیا ‘‘۔ ۲۲۔ Iqbal his poetry and messagr P.1. by Sheikh Akhtar Ali 1932 ed. Iqbal was born at sialkot in the year 1876 ۲۳۔ تذکرہ شعرائے پنجاب ص ۵۲ مرتبہ ملک محمد نسیم رضوانی ۱۹۳۷ء ’’اقبال کی ولادت ۱۸۷۶ء میں بمقام سیالکوٹ ہوئی۔ ۲۴۔ پیام اقبال ص ۲۸ عبدالرحمن طارق اقبال اکادمی لاہور ’’اقبال ۱۸۷۶ء میں بمقام سیالکوٹ میں پیدا ہوئے آپ کی عمر بوقت وفات ۶۲ سال کی تھی۔ ۲۵۔ اقبال نمبر ص ۱۴ مطبوعہ انجمن ترقی اردو اکتوبر ۱۹۳۸ء The death of sir Muhammad Iqbal at the age of sixty two means a very serious loss not only to the muslims of India but also to all who are interested in modern progress of Islam Sir E Denism Ross. اس حساب سے بھی اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۶ء ہوتا ہے۔ ۱۸۷۷ء ۲۶۔ نقوش اقبا ل ص ۱۸ سید ابوالحسن ندوی ’’اقبال پنجاب کے شہر سیال کوٹ میں ۱۸۷۷ء میں پیدا ہوئے‘‘۔ علامہ کے سن ولادت کے اختلاف کے بنا پر فقیر سید وحید الدین نے اپنی معرکہ الآرا تصنیف روزگار فقیر میں تاریخ پیدائش ایک بڑی غلط فہمی کا ازالہ کے عنوان سے اقبال کے سال پیدائش پر مفصل بحث کی ہے اور ان کی تحقیق کے مطالبہ روز جمعہ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو پیدا ہوئے تھے۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں: ’’حضرت علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش عام طور پر ۲۳ فروری ۱۸۷۳ء بیان کی جا رہی ہے۔ چنانچہ محکمہ آثار قدیمہ نے ان کی لاہور اور سیالکوٹ کی رہائش گاہوں پر جو کتبے نصب کیے ہیں ان میں سنہ پیدائش ۱۸۷۳ء ہی لکھا ہوا ہے اسی طرح بزم اقبال لاہور نے جو کتاب ذکر اقبال کے نام سے شائع کی ہے اس میں بھی تاریخ پیدائش ۲۴ ذی الحجہ ۱۲۸۹ھ مطابق ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء بیان کی گئی ہے یہ تاریخ پیدائش درست نہیں ایک اور غلط فہمی کی بنا پر مشہور ہو گئی ہے۔ علامہ کی اصل تاریخ پیدائش ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ ہے ‘‘ ۱؎ ۱؎ روزگار فقیر ص ۲۲۹ طبع چہارم ۱۹۶۵ء مصنف روزگار فقیر نے ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ کو اس لیے اقبال کا یوم ولادت قرار دیا ہے کہ اسے خود اقبال نے ۱۹۰۸ء میں اپنے ڈاکٹریٹ تھیسس ایران میں مابعدالطبیعیات کا ارتقاء میں درج کیا تھا چنانچہ لکھتے ہیں۔ ’’میں ۲ زی قعدہ ۱۲۹۴ھ (۱۸۷۶ئ) کو پیدا ہوا ۱؎۔ یہاں قوسین میں سنہ عیسوی ۱۸۷۶ء فقیر وحید الدین نے اپنی طرف سے درج کیا ہے۔ تقویم کے حساب سے ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ ۰ دسمبر ۱۸۷۷ء شمسی سال کے مطابق ہوتا ہے۔ نہ کہ ۱۸۷۶ء فقیر صاحب ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ کے مزید ثبوت کی تائید میں فرماتے ہیں: ’’پھر ۲۳ سال کے بعد ۱۹۳۱ء میں جب انہوں (اقبال) نے انٹرنیشنل پاسپورٹ کے لیے درخواست دی تو اس میں اپنا سنہ پیدائش ۱۸۷۶ء ہی درج کیا ہے‘‘۔ اس کے بعد آگے چل کر فرماتے ہیں: ’’اگست ۱۹۳۰ء میں منشی محمد دین فوق نے ایک کتاب مشاہیر کشمیر شائع کی تھی جس میں علامہ کا سنہ پیدائش ۱۸۷۵ء درج کیا تھا۔ دو سال بعد ۱۹۳۲ء کے آخر رسالہ نیرنگ خیال لاہور نے ایک خصوصی شمارہ اقبال نمبر شائع کیا جس میں منشی محمد دین فوق نے ایک مضمون اقبال کے مختصر سوانح حیات کے عنوان سے لکھااور مشاہیر کشمیر میں بیان کردہ سن پیدائش کی تصحیح کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کا سن پیدائش وہی بیان کیا جو خو د انہوںنے ۱۹۰۸ء اور ۱۹۳۱ء میں بیان کیا یعنی ۱۸۷۶ء فوق صاحب کے حضرت علامہ کے ساتھ گہرے تعلقات تھے ۔ یہ امر قرین قیاس ہے کہ سنہ پیدائش کی تصحیح فوق صاحب نے خود علامہ کی ہدایت اور ایما پر کی ہو ۔ ۲؎ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ مطابق ۱۸۷۶ء نہیں ہو سکتے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے تو خود علامہ نے فوق صاحب کو اپنا سال پیدائش ۱۸۷۶ء بیان کیا پھر بھی غلط ہے ۔ اب یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ علامہ نے فوق صاحب یاد یگر حضرات کی تحریر کردہ سن پیدائش کی تردید یا تائید کیوں نہیں فرمائی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سن پیدائش کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے ہک علامہ کے تعلقات سر سید راس مسعود سے جس قدر گہرے اور استوار تھے اتنے شاید ہی کسی کے آخر تک عمر تک رہے ہوں۔ اقبال نے ان کا نام جاوید اور منیرہ کی گارڈین شپ کے لیے بھی تجویز کیا ھتا جب کبھی وہ بھوپال جایا کرتے تھے انہی کی قیام گاہ پر ہی ٹھہرتے تھے انہی کے حسن توجہ سے اقبال کو نواب صاحب بھوپال اور ہز ہائی نس آغا خان سے وظیفہ بھی ملتا تھا۔ جو رباعی اپنے لوح مزار کے لیے مخصوص کی تھی وہ بھی انہوںنے راس مسعود کی نذر کی تھی۔ جب موصوف نے ۱۹۲۱ء میں انتخاب زریں میںاقبال کا سن پیدائش اگست ۱۸۷۰ء مطابق ۱۲۸۷ھ قرار دیا تو انہوںنے اس کی تردید یا تائید میں ایک لفظ بھی نہیں کہا خاموش رہے۔ اگر نفی یا اثبات میں کچھ کہا ہوتا تو پھر کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں اس کا ذکر ضرور ہوتا۔ اقبال کی زندگی میں جو کتابیں اور مضامین شائع ہوئے اور ان کی ایک اچھی خاصی تعداد ہے۔ ان میں اقبال کا سال ولادت مختلف انداز میں درج ہے۔ ۱؎ روزگار فقیر ص ۲۲۹ ۲؎ ایضاً ص ۲۳۱ یہ سب کتابیں ان کی نظر سے گزری ہوں گی لیکن سن ولادت کے بارے میں وہ ہمیشہ چپ سادھ رہے۔ سیالکوٹ میونسپل کمیٹی کے رجسٹر پیدائش میں مورخہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کا جو اندراج ہے فقیر صاحب اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’اس اندراج سے تو یہ ثابت ہوت اہے کہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو علامہ کے والد بزرگوار شیخ نور محمد ۱؎ کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ لڑکا علامہ کے علاوہ اور کوئی نہیں یا یہ کہ اندراج علامہ ہی کی پیدائش کے متعلق ہے۔ اس کے برعکس راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق یہ اندراج شیخ نور محمد کے ہاں ایک اور لڑکے کی پیدائش کے متعلق ہے جو علامہ سے تین چار سال پہلے پیداہوکر شیر خواری کی عمر میں وفات پا گیا ۲؎‘‘۔ ڈاکٹر وحید قریشی بھی فقیر صاحب کے تتبع میں علامہ کی تاریخ پیدائش ۲ ذیقعدہ ۱۲۹۴ھ بروز جمعہ مطابق ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ مزید انہوںنے یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ: ’’پنجاب یونیورسٹی کے بی ۔ اے کے امتحان کے فارم پر ہر طالب علم کو اپنی عمر کا اندراج کرنا ہوتا تھا۔ علامہ اقبال کا بی اے کا نتیجہ پنجاب یونیورسٹی کلینڈر میں درج ہے۔ علامہ کی عمر بمطابق فار م داخہ ۱۹ برس مرقوم ہے۔ علامہ نے یہ امتحان ۱۸۹۷ء میں پاس کیا۔ ا س حساب سے بھی ان کی پیدائش کا مذکورہ بالا تخمینہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۳؎‘‘۔ ہمارے محترم دوست جناب جگن ناتھ آزاد بھی علامہ کی مفروضہ تاریخ پیدائش روز جمعہ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو تسلیم کرتے ہیں حالانکہ خود اقبال نے بھی یہ سن ولادت کہیں درج نہیں کیا ہے۔ خدا جانے اس تاریخ کا شان نزول کیسے اور کیونکرہوا۔ مولانا عبدالقوی صاحب دسنوی نے بھی اقبال کی تاریخ ولادت پر اپنا زور قلم صرف کیا اور کسی ٹھوس نتیجہ پر نہیں فرماتے ہیں کہ: ’’میں یہ نہیںکہتاکہ علامہ کی پیدائش کی تاریخ ۳ ذیقعدہ ۱۲۹۴ھ صحیح نہیں۔ میں تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اقبال کی تاریخ کے سلسلے میں جو ثبوت فقیر سید وحید الدین صاحب نے اپنی کتاب روزگار فقیر میں فراہم کے ہیں وہ اطمینان بخش نہیں۔ اقبالیات سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس سلسلے میں کوئی فیصلہ دینے سے پہلے کافی غور و خوص کر لینا چاہیے ۴؎‘‘۔ دراصل تعلیمی ریکارڈ کے مطابق علامہ کا سال ولادت ۱۸۷۶ء ہے ۔ یہ تاریخ سرکاری ملازمت کے پیش نظر لکھوائی گئی تھی۔ اس میں اقبال کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ علامہ روز جمعہ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو پیدا ہوئے تھے اس لیے کوئی ٹھوس شہادت فراہم نہیںہوتی ہے۔ ۱؎ المعروف بہ نتھو بڑے مفلس اور لاچار تھے پیشے کے لحاظ سے درزی تھے۔ برقعوں کی ٹوپیاں سینے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ اسی لیے نتھو ٹوپیاں والے کے نام سے مشہو ر تھے۔ ۲؎ روزگار فقیر ص ۲۳۱ ۳؎ کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ ص ۳۰۷۔۳۰۶ مکتبہ ادب جدید مطبوعہ لاہور ۱۹۶۵ء ۴؎ سات تحریریں ص ۴۲ مطبوعہ ۱۹۷۵ء اردو پبلشرز لکھنو نہ معلوم پاکستان کے ماہرین اقبالیات کمپنی کو کیا سوجھی کہ انہوںنے حکومت پاکستان سے اقبال کا یہ مفروضہ ولادت تسلیم کرایا ۱؎۔ حقیقت یہ ہے کہ کہ اقبال ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو سیالکوٹ کے محلہ کشمیریاں کی گلی چوڑیگراں میں پیدا ہوئے۔ اس کا حیرت انگیز انکشاف خود اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے داماد ڈاکٹر نظیر صوفی نے حال ہی میں اخبار جہاں کراچی میں کیا۔ ان کی تحقیق کے مطابق اقبال کی ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کی ولادت کی رپورٹ لکھوانے والے اقبال کے والد شیخ نور محمد کے چچا زاد بھائی علی محمد تھے۔ ڈاکٹر نظیر صوفی اقبال کی مفروضہ تاریخ ولادت ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کی تردید پرزور الفاظ میں یوں کرتے ہیں: ’’یہ حقیقت ہے کہ محلہ کاشمیریاں میں علامہ کے والد گرامی کے علاوہ نتھو نامی کوئی اور شخص کسی وقت بھی موجود نہ تھا۔ اس لیے محلہ کشمیریاں اور اس کی ملحقہ گلیوں می مسمی نتھو نامی بزرگ کے بچوں کی پیدائش کی رپورٹین فی الواقع علامہ کے والد شیخ نور محمد مرحوم کے بچوں ہی کی ہیں۔ خاندانی شجرہ اور میونسپل ریکارڈ کی رو سے ۱۸۷۰ء سے ۱۸۷۶ء تک میاں جی نتھو کے ہاں چار بچے بہ ترتیب ذیل پیدا ہوئے: میونسپل رجسٹر نمبر تاریخ محلہ یا گلی کوائف باپ کا نام ۴۳۳ ۶ ستمبر ۱۸۷۰ء چوڑیگراں لڑکی نتھو ۱۴۰ ۲۲فروری ۱۸۷۳ء کشمیریاں لڑکا نتھو ۱۰۴۸ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء چوڑیگراں لڑکا نتھو ۶۹۲ ۱۶ نومبر ۱۸۷۶ء کشمیریاں لڑکی نتھو ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو پیدا ہونے والے لڑکے کے بعد میاں جی نتھو کے ہا ں جب کوئی نرینہ اولاد ہی نہیں ہوئی تو پھر علامہ کی ولادت ۱۸۷۷ء میں مقرر کرنا چہ معنی ؟۲؎ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شیخ نتھو کے یہاں ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو جو بچہ پیدا ہوا تھا اور جس کی پیدائش کا اندراج میونسپل ریکارڈ میں ہے وہ شیر خواری کی عمر میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ اس بات کو سید وحید الدین نے بھی تسلیم کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’میر ی درخواست پر علامہ کے برادر زادہ شیخ اعجاز احمد نے اپنی پھوپھی صاحبہ سے جو ابھی بفضل الٰہی حیات ہیں تصدیق کرائی ہے کہ علامہ کی پیدائش سے تین چار سال قبل ان کے والد کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہواتھا جو شیر خواری کی عمر میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ وہ فرماتی ہیںکہ یہ بات انہوںنے اپنی والدہ صاحبہ سے ایک بار نہیں متعدد بار سنی ہے یہ امر قابل افسوسہے کہ رجسٹر پیدائش کے اندراج کو (جو علامہ کی پیدائش کے متعلق نہیں) بغیر کافی تحقیق کے ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کر لیا گیا ۳؎۔ ۱؎ حکومت پاکستان نے مورخۃ ۹ فروری ۱۹۷۴ء کو یہ اعلان کیا کہ علامہ ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ مطابق ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ۲؎ بحوالہ تحریر شمارہ ۳۳ ۳؎ روزگار فقیر ص ۲۳۱ ڈاکٹر نذیر صوفی فقیر صاحب کی تائید میں مزید یہ اضافہ بھی فرماتے ہیں کہ: ’’۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو پیدا ہونے والا لڑکا میاں جی نتھو نے پیدا ہوتے ہی اپنی چھوٹی بھاوج زوجہ شیخ غلا م محمد کو جس کی نرینہ اولاد نہ بچتی تھی دے دیا تھا۔ اور وہ لڑکا شیخ غلام محمد کے بچے کی حیثیت سے کچھ عرصہ بعد فوت ہو گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو علامہ کے والدین کی یہ فراخدلی اتنی پسند آئی کہ نعم البدل کے طور پر ۱۰ ماہ کے بعد اسی سال علامہ جیسا اقبال بیٹا عنایت کیا‘‘۔ پاکستان بھی علامہ کی صحیح تاریخ پیدائش سے بخوبی واقف تھا لیکن اس نے سیاسی مصلحت کی بنا پر اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ اس زمانے میں ساسی بحران سے دو چار تھا۔ اس لیے جشن ص سالہ اقبال وسیع پیمانے پر نہیںمنا سکا۔ مجلس ترقی ادب کے اہتمام سے ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کی بنیاد پر جشن صد سالہ کی تقریب وزیر تعلیم جناب عبدالحفیظ پیرزادہ کی صدارت میں ۱۳ فروری ۱۹۷۴ء کو منائی گئی۔ سال ۱۸۷۷ء میں اقبال کی ولادت قرار نہ دینا نہ صرف غلط ہے بلکہ حقائق سے چشم پوشی کرنا ہے۔ صحیح تاریخ ولادت ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ہی ہے۔ اس کے بعد بقول ڈاکٹر نظیر صوفی بے وقت کی راگنی ہے۔ ٭٭٭ (۲) فکر و فن ٭٭٭ اقبال اور آرزوئے نایافت مولانا امتیاز علی خاں عرشی مولانا جلال الدین رومی کا ایک قطعہ ہے: دی شیخ باچرغ ہمی گشت گرد شہر کز دام ودد ملولم و انسانم آرزو ست زیں ہمر ہان سست عناصر دلم گرفت شیر خدا و رستم دستانم آرزو ست گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گفت آں کہ یافت می نشود آنم آرزو ست علامہ اقبال بھی رومی کے اس نایاب انسان کے آرزو مند ہیں لیکن کوشش و جستجو کے باوجود ان دونوں بزرگوں کو یا کم از کم اقبال کو اپنی آرزو کی تکمیل کو کا موقع نہ ملا اس ناکامی کے اسباب وہ وجوہ کیا تھے؟ اس امر کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ان خصوصیتوں اور صنعتوں پر نظر کرنا چاہیے جو اقبال کے خیال میں اس یافت می نشود میں پائی جاتی ہے۔ ورنہ اس عالم آب و گل میں انسانوں کا قحط نہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ اقبال کا انسان حسن و قبیح اشیاء میں عقل و خرد سے کام لینے پر آمادہ ہو گیا تو فطرت الٰہی نے اسے کائنات کی خلافت سپرد کر کے جنت کے میخانہ بے خروش سے دنیا کے گہوارہ جذب و مستی میں حاکمانہ داخلے کی اجازت عطا فرمائی۔ فرشتوں نے اسے ان الفاظ کے ساتھ خدا حافظ کہا: عطا ہوئی ہے روز شب کی بیتابی خبرنہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے لیکن تری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی گراں بہا ہے ترا گریہ سحر کاری اسی سے ہے ترے نخل کہن کی شادابی تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ضمیر کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی انسان نے اس زمین کدوکاوش پر قدم رکھا تو روح ارضی نے استقبال کرتے ہوئے عرض کیا: کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ اس جلوہ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ ایام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ بے تاب نہ ہو معرکہ بیم و رجا دیکھ ہیںتیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں یہ گنبد افلاک ‘ یہ خاموش فضائیں یہ کوہ یہ صحرا‘ یہ سمندر ‘ یہ ہوائیں تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں آئنہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے تعمیر خودی کر اثر آہ رسا دیکھ خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے تو جنس محبت کا خریدار ازل سے تو پیر صنم خانہ اسرار ازل سے محنت کش و خوں ریز و کم آزر ازل سے ہے راکب تقدیر جہاں تیری رضا دیکھ روح ارضی نے اپنے استقبالیے میں انسان کی ان امتیازی صفات کا تذکرہ کیا ہے۔ کہ وہ اسرار کائنات کاکھوج نکالنے میں بیم و رجا کا معرکہ سر کر لے ۔ آئینہ ایام میں اپنی ادائیں دیکھ کر خودی کی تعمیر کرے گا۔ اپنے خون جگر سے نئی دنیا اورانوکھی جنت بسائے گا۔ اور تقدیر جہاں کو اپنے قبضے میں رکھے گا۔ بالفاظ دیگر جس انسان کی اقبال کو تلاش ہے اس میں حقائق کی تلاش کا جذبہ ہونا چاہیے تھا۔ ایسا شدید جذبہ کہ کوئی خوب اور کسی طرح کا لالچ اس کا راستہ روک کر کھڑا نہ ہو سکے۔ اس دنیا میں اپنا حقیقی مقام اور واقعی منصب متعین کرکے اس منصب اور فریضے کی تکمیل میںۃر طرح کی قربانی پیش کرنے کے لیے وہ بیتاب و مضطرب رہے۔ ایسا مضطرب کہ اس اضطراب کے فعلیت میں تبدیل ہو جانے پر خالق و مخلوق کی تقدیر و رضا ایک ہو جائے۔ یا کم از کم ان کو دو کہنا ناممکن نظر آنے لگے۔ اس سے بھی زیادہ مختصر لفظوں میں مطلب ادا کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اقبا ل کے انسان میں مجنونانہ جرات و ہمت اور عاشقانہ شیفتگی کے ساتھ اپنا اوراپنے فرض منصبی کا سچا علم اور اس علم پر قرار واقعی عمل ہونا لازمی ہے۔ انسان کی اس خصوصیت کو اقبال نے کبھی عچق جنون اور قلندریت سے اور کبھی خودی یا ایمان سے تعبیر کیا ہے اور اس صفت کے حامل کو ہمیشہ قلندر فقیر یا مومن کہہ کر پکارا ہے۔ ان کے مومن عاشق فقیر اورقلندر کی صفات مشترکہ اتنے زیادہ اور ممیزہ اتنے کم ہیں کہ انہیں ایک نہ ما ننا ایک طرح کی ناانصافی کے مترادف ہے میں یہاں فرداً فرداً ہر ایک کی صفات پیش کرتا ہوں۔ عشق پہلے عشق و عاشقی کے متعلق اقبال کے ارشادات سنیے: بیا اے عشق اے رمز دل ما بیا اے کشت ما اے حاصل ما کہن گشتند ایں خاکی نہاداں دگر آدم بنا کن از گل ما اس مقدس اور پاک جذبہ کونہ ہر شخص جانتا ہے اور نہ ہر مستی اس کے لائق ہے: ہر کسے از رمز عشق آگاہ نیست ہر کسے شان ایں درگار نیست داند آں کو نیک بخت و محرم است زیر کی ز ابلیس و عشق از آدم است یہی وجہ ہے کہ پست ہمت کمینہ طبیعت اور بد باطن کو یہ نعمت عطا نہیں ہوتی: ندارد کار بادوں ہمتاں عشق تدر و مردہ راشاہیں نگیرد نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے شکار مردہ سزا وار شاہ باز نہیں انسان کی کامیابی کامرانی سر بلندی اوراس کے تمام اعمال کی قوت محرکہ عشق ہے۔ عقل و خرد اور علم و حکمت کے بغیر مردہ زہر ہلاہل اور سراسر گمرہی ہیں: عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دین بتکدہ تصورات صدق خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق معرکہ وجود میں بدروحنین بھی ہے عشق تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا عشق تمام مصطفی عقل تمام بولہب ی جوہر اگر کارفرما نہیں ہے تو ہیں علم و حکمت فقط شیشہ بازی عشق اس ناپید ا کنار کائنات پر محیط اوراس کے قدر زمانی و مکانی کا حاکم ہے۔ اس کی گرفت ورسائی سے دنیا کا کوئی گوشہ باہرنہیں: مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو عشق خوراک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین وآسمان کو بیکراں سمجھا تھا میں یہی نہیں عشق و جنوں یزداں شکار بھی ہیں: در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ! حکمت و فلسفہ بحث و نظر کے ہزاروں دروازوں س کھول سکتے ہیں مگر عمل کا ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے۔ یہ عشق ہی ہے جو جرات و ہمت کے معجزانہ کام انجام دے سکتاہے: بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی صحبت پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سر بکف ایمان و یقین عشق کی اس ثناو صفت کے بعد جو اقبال کے کلام کے چند بکھرے ہوئے کہے جا سکتے ہیں۔ ایمان و یقین کی تعریف ملاحظہ کیجیے: یقین مثل خلیل آتش نشینی یقین اللہ مستی خود گزینی سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار غلامی سے ہے بدتر بے یقینی ایمان و یقین تقدیر عالم کو بدل سکتے ہیں: کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں یقین و ایمان سے جو بلند ہمت اور بے پناہ قوت پید اہوتی ہے اس کی اثر آفرینی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے : ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کار کشا کار ساز نقطہ پر کار حق مرد خدا کا یقیں اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز فقر فقر کی توصیف اقبال نے ان الفاظ میںکی ہے: فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و کلاہ فقر ہے میروں کا میر فقر ہے شاہوں کا شاہ علم کا مقصود ہے پاکی علم و خرد فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ علم فقیہ و حکیم فقر مسیح و کلیم علم ہے جویاے راہ فقر ہے داناے راہ فقر مقام نظر علم مقام خبر فقر میں مستی ثواب علم میںمستی گناہ چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغ خودی ایک سپاہ کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ فقر انسانیت کا معمار ہے قلب ماہیت کرنا اور اس کا کام ہے سطح چمکا دینا نہیں یہ دولت و حکومت کی کارستانیاں ہیں: مرا فقر بہتر ہے سکندری سے یہ آدم گری ہے وہ آئینہ سازی قلندر اقبال نے قلندر کی پہچان بھی بتائی ہے فرماتے ہیں: کہتاہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد جاتا ہے جدھر بندہ حق تو بھی ادھر جا ہنگامے ہیں میرے تیری طاقت سے زیادہ بچتا ہوا بنگاہ قلندر سے گزرجا میں کشتی و ملاح کا محتاج نہ ہوںگا چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تو تو تو اترجا توڑا نہیں جادو مری تکبیر نے تیرا؟ ہے تجھ میں مکر جانے کی جرات تومکر جا مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر قلندر کی بارگاہ کاشان وشکوہ کا شاہوں سے بالاتر ہے: نہ تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے جو بات قلندر کی بارگاہ میں ہے صفات مومن اقبال اس پاکبا ز بندے کی اخلاقی کیفیات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں: جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن ٭٭٭ پر سوز و نظر باز و نکوبین و کم آزار آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند اگر ہو جنگ تو شیران غاب سے بڑھ کر اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاری ٭٭٭ خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دل فریب اس کی نگہ دل نواز نرم دم گفتگو گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا صفات جس شخص کے اندر جمع ہوں گے وہ زمین کا وارث برحق تسلیم ہو کر رہے گا۔ اقبال نے اس کی وراثت پر استدلال بھی قائم کیا ہے: جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی مرے کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک مگرمیرے خیال میںحجت و دلیل سے یہ مسئلہ بلندہے کائنات خود اس کی خودی کو دعوت دے گی کہ: چو موج مست خودی باش و سر طوفاں کش ترا کہ گفت بنشیں و پا بداماں کش؟ بہ قصد صید پلنگ از چمن سرا بر خیز بہ کوہ رخت کشا‘ خیمہ در بیاباں کش بہ مہر و ماہ کمند گلو نشار انداز ستارہ راز فلک گیر و گریباں کش بہرحال مجھے یہاں کہنا یہ ہے کہ اقبال اور رومی نے ان صفات کے انسان کی آرزو کر کے خاکدان بے کیف میں اس کا سراغ نہ پایا تو یہ انسان پستی سے زیادہ ان کے مطمح نظر کی بلندی کانتیجہ تھا۔ کیا ہر انسان یہ کہہ سکتاہے؟ متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی اس کے لیے وقت درکار ہے اتنا طویل کہ جس کی تجدید خود اس عالم نو کے پہلے مرد مومن نے ھبی مناسب نہ جانی بہرحال نا امیدی مومن کی شان سے بعید ہے ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ: ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سینکروں کارواں اوربھی ہیں اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں اگر ہم نے کوشش کر کے اقبال کے نصب العین کی کسی حد تک پیروی کر لی تو اس دنیا میں اپنی اپنے ملک کی اور اپنے ہمسایوں کی دوبارہ سربلندی حاصل کر لینے میں شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ ٭٭٭ کچھ اقبال کے بارے میں تحریر: پروفیسر رشید احمد صدیقی متعارفہ : ڈاکٹر سید معین الرحمن ’’سال اقبال ‘‘ (۱۹۷۷) نے سب سے پہلا اور دل خرا ش ‘ اندوہناک اور سنگین خراج ہم سے رشید احمد صدیقی کی صورت میں لیا۔ اس سال جنوری کے وسط میں رشید احمد صاحب واصل بحق ہوئے۔وہ عمر میں اقبا سے پندرہ برس چھوٹے تھے۔ اقبال تیس برس کے نوجوا ن تھے جب پہلی بار رشید احمد صدیقی صاحب ان کے نا م سے آشنا ہوئے اور پھر اقبال کے جیتے جی اور مابعد تاآخر وہ اقبال کے برابر معترف مداح مبصر و مفسر اور معتقد و مبلغ رہے… اس طرح کوئی ستر برس تک اقبال کی شخصیت تعلیمات اور ان کے فکر و فن کی عظمت کا تذکرہ ان کے ورد زبان رہا۔ اب جس کے خوشگوار اثڑات و احسانات کا اندازہ لگانا بھی آسان نہیں … حقیقت یہ ہے کہ ان ستر برسوں میں علی گڑھ سے ابھرنے والا شعر و ادب کا کوئی آفتاب و ماہتاب ایسا نہیں ہو گا‘ اقبال کو جس کی متاع بنانے میں رشید صاحب کافیض اورتصرف کسی نہ کسی درجے میں شامل نہ رہا ہو! رشید احمد صدیقی نے اقبال پر بہت کچھ کہا اور لکھا۔ اقبال سے متعلق ان کی تحریروں کا مجموعہ ’’اقبال…شخصیت اور شاعری‘‘ کے نام سے بھی چھپ چکا ہے (اقبال اکادمی پاکستان صفحات ۱۴۳ ‘ بمناسبت جشن صد سالہ نمبر ۱۹۷۷) لیکن اقبال پر یہ رشید صاحب کی جمعی اور جملہ تحریروں پر حاوی نہیں ۔ اقبال پر رشید صاحب کی ایسی بہت سی قیمتی تحریریں میرے پاس محفوظ ہیں جو رشید صاحب کے متذکرہ مجموعہ مضامین میں شامل نہیںہیں۔ اقبال پر رشید صاحب کی نگارشات کے ایک جامع مجموعے کی ترتیب و اشاعت میرے پیش نظر ہے جو جلد اقبال دوستوں اور رشید صاحب کے پرستاروں کی نذر ہو گا۔ ’’عزیزا ن علی گڑھ کے نام‘‘ رشید صاحب کا ایک خطبہ ۱۹۷۰ء میں لکھا جانا شروع ہوا۔ ۱۹۷۶ء تک یہ قسط وار ہندوستان کے مختلف اخبارات ورسائل میں شائع ہوتا رہا۔ یہ خطبہ کئی سو صفحات پر مشتمل ہے اور رشید صاحب کے آخری بڑے فکری کارنامے اور یادگار حیثیت سے یہ ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا۔ اس خطبے کے مطبوعہ اجزا میں رشید صاحب نے جہاں تہاں اضافے اور تبدیلیاں بھی کیں اگلے صفحات میں رشید صاحب کی جو نادر تحریر نقوش کے قارئین کی نذر کی جا رہی ہے اسے رشید صاحب نے جنوری ۱۹۷۶ء میں اپنے خطبے کی ایک قسط میں اضافے کے طور پر قلم بند کیا۔ رشید احمد صدیقی کی یہ قلمی تحریر راقم الحروف کے ذاتی ذخیرہ نوادر کی زینت ہے اور پہلی بار سامنے آ رہی ہے۔ (سید معین الرحمن) ٭٭٭ اقبال کے اشعار میں جتنے ’’تازہ بہ تازہ نو بہ نو‘‘ موسیقی کے نمونے ملتے ہیں وہ اردو کے دوسرے شعراء کے کلام میں شاید نہ ملیں اقبال غالباً اس کا التزام بھی رکھتے تھے کہ الفاظ اور فقروں کے انتخاب ان کی ترکیب و ترنم موقع و محل‘ معنی و مفہوم میں اس کے شواہد ملتے ہیں۔ لیکن اس التزام میں آورد کا شائبہ نہ ملے گا۔ آورد آمد معلوم ہو گی جو انشاء پردازی کا کمال سمجھا جاتا ہے ایسا بھی محسوس ہوا ہے جیسے شاعر نہیں خود شعر اس اہتمام کا متقاضی تھا یہ معمولی درجے کے شاعر کے بس کی بات نہیں۔ اس صدی کے شروع میں جب ہمارے بیشتر شعراء شاعری میں تکلفات بے جا کو اتنا شاعری کا نہیں جتنا اپنا کارنامہ سمجھتے تھے اور اسی طرح کے بندھے ٹکے سامعین سے داد حاصل کرتے تھے اقبال کی یہ آواز اور انداز بہت مفید ثابت ہوا۔ موسیقی آواز کی تنظیم ہے۔ اشعارکے دروبست(اوزان) موسیقی کی دین ہے۔ شاعر کے لیے شاعری کے لیے موزوں فریم موسیقی ہی فراہم کرتی ہے۔ موسیقی کو جو تب و تاب اورتاثیر آلات موسیقی سے ملتی ہے اس سے کچھ زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں شاعری سے ملتی ہے۔ موسیقی موزوں اور مقررہ آداز ہے۔ اور آواز کی زبان شاعری۔ موسیقی اور شاعری کا قران اسعدین اور دونوں علیحدہ علیحدہ بھی انسان کے بخشے ہوئے وہ کارنامے ہیں جن کی صرف اقبال نے اپنی مشہور اور مایہ ناز نظم محاورہ مابین خدا اور انسان میں اشارہ کیا ہے۔ طوالت کا مطلق خیال نہ کرتے ہوئے آپ کی یادداشت کو تازہ کرنے کے لیے وہ مختصر نظم پیش کروں گا: تو شب آفریدی چراغ آفریدم سفال آفریدی ایاغ آفریدم بیابان و کہسار و راغ آفریدی خیاباں و گلزار و باغ آفریدم من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم من آنم کہ از زہر نو شینہ سازم! اس نظم میں اقبال نے جو باتیں جس طرح سطح سے جن مراتب اور مواقف کو ملحو ظ رکھ کر کہی ہیں وہ انسان اور شاعر دونوں کیشرف و سعادت کے شایان شان ہیں۔ اس موقع و موضوع پر اگر جدید مکتب فکر اور مسلک شاعری کے کسی شاعر کو کچھ کہنا پڑتا تووہ کس طرح کہتے اور کیا کہتے ظاہرہے کیا کہتے۔ اس سے معلوم ہو گا کہ اعلیٰ شاعری کے لیے کون سی صلاحیتیں مفید اور مبارک ہوتی ہیں۔ ربط و تسلسل کے اعتبار سے اقبال نے یہ غزل کو نظم سے اورنظم کو غزل سے قریب تر کر دیا ہے اس طرح غزل کے خلاف ایک بڑے الزام کو دور کر دیا ہے کہ اس میں خیالات و جذبات کا انتشار ملتا ہے جو میرے نزدیک اتنا الزام نہیںتھا کہ جتنا غلط فہمی۔ اس سے بھی انکار نہیںکیا جا سکتا کہ غلط فہمیاں الزام سے زیادہ سخت جان اور صبر آزما ہوتی ہیں۔ ااس لیے اس منزل سے آسان گزرنا معمولی درجے کے شاعر کی طاقت و توفیق سے باہر ہوتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یا محسو س کرے کہ موسیقی کو اردو شاعری سے اور اردو شاعری کو موسیقی سے ہمکنار کر نے اور دونوں کو ہم ردیف بنانے میں اقبال کا بڑا قیمتی حصہ ہے تو اس سے جھگڑنا نہیںچاہیے۔ اس لیے کہ ہمارے بیشتر اردو شعرا نے بالعموم خانقاہوں ‘ مشاعروں اور نشید و نشاط کی محفلوں کے لیے غزل کا انتخاب کیا جو نسبتاً آسان ہوتا ہے اور جلد مقبول عام ہو جاتاہے۔ اقبال نے زندگی کے سنگین اور صبر آزما حقائق و حوادث کے چیلنج کو قبول کرنے کی دعوت دی اور حوصلہ بخشا۔ اس لیے کہ اقبال نے براہ راست نظم اور غزل دونوں سے اس فنکارانہ مہارت شاعرانہ لمس و لطافت اور عارفانہ بصیرت سے کام لیا جو ان کے وسیع اور بے لاگ مطالعے اور غور وفکر کے علاوہ دوسری گونا گوں خداداد صلاحیتوں کا نتیجہ تھیں۔ اس سے اردو شاعری کے وزن و وقعت میں بڑا مفید مبارک اور مقبول عام اضافہ ہوا۔ غالب نے اردو کو فارسی سے ترکیب دے کر اردوکے حسب و نسب کو بہت اونچا کر دیا لیکن فارسی کو اردو سے اس طرح ممزوج اورہم آہنگ نہ کر سکے کہ جس طرح مفہوم و معنی اور صوت و فضا کے اعتبار سے اقبال نے اپنی فارسی شاعری سے کیا۔ اقبال کی فارسی ایران یا غالب کی فارسی کے مقابلے میں کیسی ہی رہی ہو اقبال کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوںنے اپنی فارسی رنگ و آہنگ کلام سیفارسی کو ہندوستان میں زیادہ استقلال اور قبول عام بخشا۔ کبھی کبھی ایک آوارہ پرند کی مانند یہ خیال بھی آیا ہے کہ علی گڑھ اور اقبا ل کو ہم اپنی علمی و تہذیبی زندگی سے حذف کر کے دیکھیں تو ہماری آپ کی شبیہہ کیا اور کیسی ہو گی۔ شبیہ چاہے جیسی بھی ہو نفس مضمون سے میرے بہک جانے کی مثالوںمیںسے ایک بھی یہ ہے جسے حسب معمول آپ کو متعارف کرنا ہے انیس کی مانند اردو کے پلے کو گراں اور زمین سخت کو آسمان کر دینے میں ہماری نظر بے اختیار اقبال پر بھی پڑتی ہے اور کس اعتماد وافتخار سے پڑتی ہے! میںموسیقی کی میزان و مقام سے واقف نہیں ہوں۔ اگر پہلے سے سن نہ چکا ہوتا کہ موسیقیسیجانور تک متاثر ہوتے ہیں تو شاید اس کا اقرار کر لیتا کہ موسیقی سے کچھزیادہ متاثر نہیں ہوتا۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اکثر اچھے اشعار سن کر ذہن موسیقی کی طرف مائل ہوتا ہے اور اچھی موسیقی سن کر اقبال کے اشعار یاد آنے لگتے ہیں۔ شاعری اور موسیقی کے امتزاج حافظ کے ہاں بھی ملتا ہے اس فرق کے ساتھ کہ حافظ تمام تر غزل کے شاعر ہیں جس میں موسیقی کادخل آسانی سے ہو جاتا ہے۔ موسیقی کی جوہم دمی غزل کو حاصل ہے شاید کسی اور صنف سخن کو نہیں۔ حافظ اپنے بیان کے مطابق شکایت مہر و وفا کے شاعر ہیں۔ حافظ اور اقبال نے موسیقی اور شاعری کو باہم دگر کرنے اوررکھنے کے جیسے نغزد نادر نمونے پیش کیے ہیں وہ فارسی اور اردو کے دوسرے شعراء کے یہاں شاید دستیاب نہ ہوں تصوف کے تصرف نے حافظ کو سازے قریب اور ستیز سے دور رکھا ہے۔ کہیں کہیں زمانے اور زندگی سے پنجہ آزمائی کی بھی آواز سنائی دے جاتی ہے لیکن یہ آواز رسمی یا روایتی ہے۔ اتنی اقبال کی مانند من و گرز و میداں و افراسیاب کی نہیں ہے۔ اقبال اور حافظ دونں نے قلندری کو اپنایا ہے لیکن اقبال کا قلندر جنگ و جہد کا ہے حافظ کا خانقاہ کا… اقبا ل کاحرکی ہے حافظ کا سکونی حافظ کے یہاں ناساز گار حالات کے خلاف برہمی یا بغاوت نہ ملے گی۔ چناں نماند چنین ہم خواہد ماند کا مقام ملے گا۔ اقبال کے یہاں برہم زن کی دعوت ہے۔ حافظ کا دور سیاسی شکست و ریخت سماجی ابتری اور عام درماندگی کا تھا۔ بایں ہمہ ان کی شاعری میں زیریں لہر اتنی دل گرفتگی کی نہیں ہے جتنی دل آسائی و دل افروزی کی۔ اقبال کا یہ نعرہ یہ گھڑی محشر کی تو عرصہ محشر میں ہے تھا۔ قوم اور ملک کو طرح طرح کے آلام و مسائل کا سامن اتھا۔۔ اس لیے اقبال ک شاعری مجبوری و مایوسی کی نہیں ہو سکتی تھی۔ بڑے اور عالمی شاعری کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ کسی حال میں نہ خود مایوس و ملول ہو گا۔ نہ اپنے سامعین کو ہونے دے گا۔ بڑا شاعر باغی بھی نہیں ہوتا۔ مجاہد ہوتا ہے۔ حافظ اپنے کردار ور شاعری دونوں کے اعتبار سے صوفی تھے۔ اقبال اور غالب کے کلام میں جہاں تہاں تصوف کی آواز سنائی دے جاتی ہے۔ لیکن کردار کے اعتبار سے ان میں کوئی بھی صوفی ہ تھا اس یلے ان کا بیشتر کلام تصوف کے رنگ وآہنگ سے خالی ہے۔ التہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اقبال کے ہاں تصوف کا روپ اور رنگ ہمیں ملتا ہے۔ جہاں اس کے بغیر راستہ اور رہبری نہیں مل سکتی۔ دانائے راز ہونے کے لیے آشنائے تصوف ہونا ضروری ہے۔ خیال ہے کہ جب تک کوئی شاعر اقبال اور رومی کے پایے کا نہ ہو اسکو تصوف کی وادی میں قدم نہیں رکھنا چاہیے۔ چنانچہ ماورائیت کے منازل و مراحل تصوف کے سہارے کے بغیر طے کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ ماورائیت کا لحاظ و احترام ہر بڑی شاری مذہب و اخلاق میںکیا گیا ہے۔ خواہ وہ شاعری! یا مذہب و اخلاق کسی عہد قوم اور ملک کا ہو۔ اردو شاعری میںشعرا کی جیسی کثرت ہے اس کے حسب سے صوفی شعرا کی تعداد بہت کم ہے۔ یسا تو نہیں ہے کہ تصوف شاید اسلام کی روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لیے شعراء اس کی طرف کم مائل ہوئے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ تصوف کے تقاضوں کو ہمارے بیشتر شعرا پورا کرنے کا حوصلہ نہ کر سکتے ہوں۔ اقبال اور حافظ دونوں کے کلام میں خدا اور عورت کے بارے میں کوئی نا سز کلمہ یا اشارہ کنایہ نہ ملے گا۔ بڑے شعر و ادب میں خدا او رعوت کا احترام خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے۔ جیسے ان کے ساتھ بیباک ہونا متفقہ طور پر ممنوعات میں قرار دیا گیا ہو۔ اس سے کبھی کبھی اس طرف بھی خیال جاتا ہے کہ کس درجہ کم سواد اور معاشرے کیلیے زہر ناک سا شاعر اور فن کار ہوتا ہے جو خدا اور عورت کو اپنے ہفوات کا ہدف بنائے بغیر نہ اپنی شاعری کو شہرت دے سکتا ہے۔ نہ اپنے ساتھیوں سے داد پا سکتا ہے۔ ایسے شاعر ارو سامعین بھی کیا کریں جو حفظ مراتب ملحوظ رکھنے کی بڑائی کے احساس سے محروم ہوں۔ جہاں اعلیٰ اورعظیم کا تصور ہی مختلف یا معدوم ہو وہاں کون کس سے کیا کہے! اردو شاعری کو ہندوستان ہی نہیں دوسرے بالخصوص مسلم ممالک کے شعر و ادب کی صف اول میں لا کھڑا کرنا اقبال کا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ میرے ذاتی تاثرات تو یہاں تک ہیں کہ اقببال کا ہرکلام غیر معمولی کلام ہوتاہے۔ اقبال سے پہلے بنگالی کو مہارشی ٹیگور نے یہ منزلت بخشی لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ ٹیگور کی شاعری زیادہ تر عبادت منقبت اور معرفت کی شاعری سے ہے جس میں ماورائیت نہیںملتی۔ یہ ذکر مسلک روایات اور جنیسس سے متلعق ہے جس نے ٹیگور مستفید اورتمام عمر نغمہ سرا رہے۔ دراصل یہ کہنے یہ جا رہاتھا کہ اقبال نے نعت گوئی کو میلاد ناموںاورمیلاد خوانوں کی گرفت سے نکال کر کلاسیکی دے دینا معمولی بات نہیں ہے اور کتنی عجیب بات ہے کہ یہ اسلامی ممالک کے شعرا نے س صنف کو یوں نظر انداز کر دیا ۔ ایران اور عرب نے قطع نظر غالباً دوسرے ممالک میں شعر و ادب سے بے گانگی کا نتیجہ یہ ہے۔ کیسے کہاجائے کہ بیشتر مسلم ممالک اقبال کے اس قول سے کہ گر مصطفیٰ نہ رسی تمام بولہبی است سے ناواقف تھے! عشق رسولؐ اقبال کے کلام و پیام اور خود ان کے شعر وجود کی روح ہے۔ عربی فاررسی اور اردو شاعری میں جتنے قابل لحاظ شعرا گزرے ہیں کم و بیش سب نے اپنی اپنی بساط کے مطابق باراہ رسالت میں عقیدت و ارادت کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ نعت ہمارے شعر و ادب کی قابل قدر روایت بن گئی ہے۔ ایسی روایت جو شاعری میں عبارت کے عناصر و عوامل کے ساز و برگ کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔ نعمت کو شاید کسی اور مذہب و ملت میں وہ اہمیت حاصل نہ ہو جو ہمارے شعر و ادب میں ہے۔ نعت کے قدیم کو نعت کے جدید سے قریب لانے اس کو مقصد دینے‘ متحرک کرنے ‘ اور رکھنے کی ابتدا حالی نے کی جسے اقبال نے اس درجے تک پہنچادیا جس سے آگے پہنچانا اب کسی دوسرے ہی اقبال کا کارنامہ ہو گا۔ اور مستقبل بعید تک کسی دوسرے اقبال کا ظہور پانا آسان نہیں معلوم ہوتا۔ اس صدی میں اب تک ہم جن آزمائشوں سے گزرے ہیں اور شاید گزرتے رہںٰ ان سے عہدہ برا ہونے کے لیے اقبال کے کلام سے جو تقویت اور تسکین ملتی رہتی ہے۔ وہ اس صدی کے کسی اور شاعر اور اس کی شاعری میں نہیںملتی یہ کیوں اور کیوں کر؟ اس کا نہایت مختصر لیکن کعبہ آثار اور عرفات اساس جواب عشق رسولؐ ہے جس سے ہمار ی روح روشن اور حوصلے زیاد رہتے ہیں۔ خواہ ہم کہیں اور کسی حال میںہوں۔ اقبا ل نے ہمارے لیے سرور دو عالمؐ کی عظیم جلل اور رحمت عالم ہونے کی بازیافت کی ہے ۔ جو شاعر اس کی شاعری اورہمارے شعائر کو ہمیشہ انفرادی اجتماعی اور سماجی امتیاز سے برگزیدہ بلند ومتفخر رکھے گی۔ ایسی بروقت بازیافت ہماری تاریخ میں مجھے تو اب تک نظر نہ آئی۔ عزیزو! آپ نوجوانوں کی رفعت و رفاہ کے لیے اقبال کے کرب اور کراہ کی آواز جا بجا ان کے کلام میں سنائی دے جاتی ہے۔ مثلاً جہاں انہوں نے ہم کو آپ ک کو سید پاک کی اولاد کہہ کر پکارا ہے اوراپنی نشاندہی آبا مرے لاتی و مناتی سے کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جییس اپنی روح کی گہرائیوں سے ہم کو آپ کو یاد دلا رہے ہوں یا واسطہ دلا رہے ہوں کہ مجھے دیکھو کہ لاتی و مناتی ہونے کے باوجاد آپ کو سید اپک ہونے کی ذمہ داری اور شرف کی یاد دلاتا ہوں اور گڑگڑاتا ہوں کہ آپ نے توجہ نہ کی تو آپ تمام دنیا کے لاتیوں اور مناتیوں کو کس طرح منہ دکھائیں گے۔ سید پاک کی اولاد کو اپنی لاتی و مناتی ہونے کے تصور دکھا کر اقبال ن ییہاں تاثیر کا جو اعجاز دکھایاہے اس کی مثال کہیں کم ملے گی۔ نشیب کی بلندی آبا میرے لاتی ومناتی اور فراز کی پستی تو سید پاک کی ہے اولاد کو اقبا ل نے جس عقیدت اور بلاغت سے واضح کیا ہے وہ انہی کے بس کی بات تھی۔ ٭٭٭ اقبال اور شاعری محمد ہادی حسین عالمی ادب کی تاریخ میں بہت کم بڑے شعرا ایسے ہوئے ہیں جو شاعری کی قدر و قیمت کے بارے میں متضاد جذبات رکھتے تھے۔ اقبال کا شمار ان غیر معمولی شعرا میں ہوتا ہے۔ اسے شاعر ی کا ملکہ اور شاعری کا عشق دونوں بدرجہ اتم فطرت کی طرف سے عطا ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس نے پوری لگن کے ساتھ عنفوان شباب سے لے کر زندگی کے آخری دنوں تک شاعری کی۔ اس کے باوجود اس نے کبھی ذہنی طورپر بخوشی یہ قبو ل نہ کیا کہ وہ صرف شاعری کرنے کے لیے دنیا میں آیا تھا۔ شاعری کا جواز اس کے نزدیک یہ تھا کہ وہ اپنے آپ سے ماورا کسی بڑے مقصد کا وسیلہ ہو۔ اس بڑے مقصد کی پردہ کشائی اقبال کی شاعری کی ایک بنیادی کوشش تھی۔ اور رفتہ رفتہ اس کی شعر گروئی کا واحد مقصد بن کر بجائے خود اس کا جوا ز بن گئی۔ اس طرح وسیلہ اورمقصد دونوں مل کر ایک ہو گئے یعنی شاعری نے اقبال کے لیے ایک مقصود بالذات سرگرمی کی حیثیت حاصل کر لی۔ شاعری برائے شاعری اورشعری برائے زندگی کی باہمی مخالفت اقبا ل کے یہاں نہ نظری اعتبار سے اور نہ عملی اعتبا ر سے پائی جاتی ہے۔ نظری اعتبار سے شاعری اقبا ل کے نزدیک زندگی کی تخلیقی اور ارتقائی قوتوں کا ایک وجدانی اطہار ہے۔ بلکہ ان قوتوں میں سے خود ایک قوت ہے۔ عملی طور پر شاعری اقبال کے لیے زندگی کی شریک کار ہے۔ کیونکہ جس طرح زندگی خودی کے اثبات اور اس کی کارفرمائی کا نام ہے۔ اسی طرح شاعری نہ صرف خودی ککے اظہار کا ایک وسیلہ ہے بلکہ اس کی تشکیل کا ایک واحدذریعہ ہے۔ شاعر جس کی ہستی ہمہ تن سوز و ساز اور تب و تاب ہوتی ہے اپنی خودی کی روح ملت کے جسم میں پھونک کر اسے نئی زندگی عطا کرتا ہے۔ یہ عظیم کارناممہ انجام دینے کی بدولت شاعرایک دانائے راز ایک حکیم نکتہ داں ایک مصلحقوم ایک معلم اخلاق ایک مجدد عصر اور ایک مرد مجاہد‘ ایک سیاسی رہنما غرج ایک جامع کمالات شخص ہوتا ہے۔ اقبال نے کبھی فکری طور پر بھی عملی طور ر ان تمام کرداروں کار وپ دھارا ہے۔ ان مختلف و متنوع اور دوسری سے دور افتادہ اقلیموں کی سیاسی اقبال کی ہمہ گیر شخصیت اور ہمہ کوش ہت کا ایک فطری تقاضا تھی۔ لیکن وہ ان میں سے جس اقلیم میں بھی گیا چاہے فکری طور پر اورچاہے عملی طور پر وہاں سے وہ بنیادی طور پر شاعر ہی رہا۔ چنانچہ اس کی مہم جوئیاں اور کارگزاریاں اس کی کامیابیاں اور ناکامیاں سب کی سب وہی تھیں۔ جن کی ایک شاعر سے توقع کی جا سکتی تھی کہ جہاں تک اس کی شاعری کا تعلق تھا وہ ہر اقلیم سے تجربات و افکار کے پیش نظر بیش بہا نوادر لا کر اس کے گنجینے کو مالا مال کرتا رہاجیسے جیسے وہ یہ عمل انجام دیتا رہا ویسے ویسے اس کی شاعری میںگہرائی اور بلندی اور گہرائی پیدا ہوتی گئی ارو شاعری کی رفعت سے بھی اس کی نگاہ میں بڑھتی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ شاعر کا منصب اس کی نگاہ میںبلند تر ہوتا چلا گیا۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ اقبال کی چشم تصور ان تمام کرداروں کے لباس میں خود ا س کو جلوہ گر دیکھتی تھی۔ اس کی ممدوحہ شخصیتیں چاہے وہ تاریخی تھیں اور چاہے فرضی اوصاف کے مجسم نمونے تھیں جنہیں وہ اپنے آپ میں موجود سمجھتا تھا یا پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اور ان کے کارنامے وہ کارنامے تھے جن کے انجام دینے کا وہ خود آرزو مند تھا خواہ شعوری طورپر خواہ غیر شعوری طور پر۔ چونکہ وہ زندگی کے مختلف فکری و عملی شعبوں میں جو کچھ کرنا چاہتا تھا۔ وہ سب کچھ نہ کر سکا۔ اورچونکہ اس کے تجربوں نے اس پر یہ واضح کر دیا کہ ہر شعبے میں اس کے کمالات او رنقائص اس کی کامیابیا اور ناکامیاں بنیادی طور پر اس کے شاعر ہونے کا نتیجہ تھیں۔ اس لیے اس کی ممدوحہ ہستیوں کے تمام اوصاف کے لیے شاعر کی شخصیت میں مجتمع ہو گئے۔ ایک مثالی شاعر کا جو تصور اس نے اپنے ذہن میںقائم کیا اس کی کسوٹی پر پورا اترنا نہ صرف اس کی شاعری بلکہ اس کی زندگی کا سب سے بڑ ا نصب العین ہو گیا۔ ا س طرح اقبال کی طبیعت میں جو بلند مقصدیت پیدا ہوئی وہ اس کی شاعری کی عظمت کا ایک خاص راز ہے۔ میں نے اوپر جو دعوے کیے ہیں ان سے سیر حاصل بحث اس مختصر سے خاکے میں ممکن نہیں۔ اس لیے میں اسی پراکتفا کروں گاکہ ان دعووں کی تھوڑی سی توضیح اور ان کے ثبوت میں اقبال کے کلام سے چند اسناد پیش کردو ں۔ قیاس چاہتا ہے کہ اقبال نے اپنی اعری کا آغاز اسی طرح کیا ہو گا جس طرح عام شاعر کیا کرتے ہیں یعنی بے مقصد طبع آزمائی سے چونکہ وہ جلتہً شاعر تھا اس لیے شعر گوئی اس کے لیے ایک ایسے حیاتیاتی تقاضے کی تکمیل تھی جو کسی شعوری مقصد کا محتاج نہ تھا۔ داغ کے ماجرانارانہ انداز میں غزل گوئی اسی امر کی غماز ہے اوائل شباب سے لے کر ۱۹۰۵ء تک کی جونظمیںبانگ درا میں شامل ہیں وہ یوںتو اپنی موضوعی ہئیتی اور لفظی جدت طرازیوں کی بناپر اردو شاعری کی فرسودہ روایات کے طلسمی حصار سے باہر نکنے کی کامیاب کوشش کرتی ہیں۔ لیکن ان میں بھی شاعرانہ ابداع و اختراع اور ایک ادائے خاص سے نغمہ سرا ہونے سے ماورا کوئی واضح مقصد کارفرما دکھائی نہیںدیتا۔ چونکہ ان نظموں کے موضوع ایسے اشخاص اشیاء ‘ مظاہر‘ مناظر‘ حالات ‘ واقعات ‘ افکار ‘ جذبات‘ وغیرہ ہیں جو شاعری کی اقلیم کے باہر شاعر کے لیے عملی دلچسپی کے حامل ہیں۔ اس لیے ان نظموں کو ان معنوں میں تو خاص نہیں کہا جا سکتا جن معنوں میں اقبال کی ابتدائی غزلوں کو کہا جا سکتا ہے پھر بھی وہ ان معنوںمیں خالص شاعری ہیں کہ وہ بدیہی طور پر محض شعر گوئی کی خاطر کہی گئی تھیں۔ اگر کوئی خارجی مقصد اقبال کے پیش نظر تھا تو نہ تو اقبال نے اس کا اعلان کیا ہے نہ وہ کسی نظم کے بحیثیت نظم مطالعے سے مترشح ہوتا ہے۔ ان نظموں کے پس پشت جو شاعر ہے وہ ایک حساس رقیق القلب نکتہ رس اور صاحب ذوق بخش ہے جو اپنے اردگرد کی چیزوں سے غیر معمولی طور پر اثر پذیر ہوتا ہے۔ اور جو اپنے تاثرات کو بیان کرنے کی غیر معمولی خواہش اور صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن ان تاثرات کا بیان کرنا بجائے خود اس کا مقصود ہے ان کے بیان سے جو عملی نتائج رونما ہو ں گے ان سے اس کا شعوری یا ارادی طورپر کوئی سروکار نہیں۔ ان ابتدائی نظموں میں سے پانچ (یعنی ہمالہ‘ تصویر درد‘ ترانہ ہندی‘ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘ اورنیا شوالہ) علی الاعلان وطن اور قوم سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہمالہ کوہ ہمالہ کی عظمت و قدامت کی شان میں ایک قصیدہ ہے۔ تصویر درد ہندوستانیوں اور بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی فکری و عملی پس ماندگی کا نوحہ ہے ترانہ ہندی اور ہندوستانی بچوں کا قومی گیت ہندوستان کی تاریخی عظمت کے حضور عقیدت کے نذرانے ہیں۔ لیکن ان سب نظموں میں شاعر کی حیثیت صرف وہی ہے جو اقبال کی اسی دور کی ایک نظم میںجس کا عنوان ’’شاعر‘‘ ہے بیان کی ہے یعنی: شاعر رنگیں نوا ہے دیدہ بینائے قوم مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ (بانگ درا صفحہ ۵۳) ’’تصویر درد ‘‘ میں کچھ اشارات ایسے ملتے ہیں کہ جن سے پتا چلتا ہے کہ اقبال شاعر کو صرف قوم کی آنکھ ہی نہیں سمجھتا بلکہ اس کی زبان اور اس کا دل بھی سمجھتا ہے۔ لیکن ان تینوں حیثیتوں میں شاعر کا کردار صرف انفعالی ہے۔ اس کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ جو کچھ دیکھے اسے اور اس سے جو خیالات و جذبات اس کے دل میںپیداہوں انہیں بیان کر دے۔ البتہ یہ بجا ہے کہ شاعر کی آنکھ دوسروں کی آنکھوں سے زیادہ بینا اس کا دل دوسروں کے دلوں سے زیادہ حساس اور اس کی زبان دوسروں کی زبانوں سے زیادہ گویا ہے چنانچہ اقبال یہ دعوے کرتاہے: مجھے راز دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتاہے عطا ایسا بیاں مجھ کو ہوا رنگیںبیانوںمیں کہ بام عرش کے طائر ہیں میرے میزبانوں میں اثر یہ بھی ہے اک میرے جنون فتنہ ساماں کا مرا آئینہ دل ہے قضا کے راز دانوں میں (بانگ درا صفحہ ۶۴) لیکن بدیہی طور پر یہ دعوعے اقبال نے صرف اس یے کیا ہے کہ اسے ایک شاعر کی حیثیت سے اپنے جذباتی تاثرات بیان کرنے کا جو حق پہنچتا ہے اسے ثابت کرے۔ اس حق سے ماوراء وہ کسی چیز کا مدعی نہیںہے۔ مثلاً وہ یہ نہیں کہتا کہ جن حالات نیاس کے دل میں یہ امید رہی ہو لیکن وہ اس امید کا صریح طور پر اظہار نہیںکرتا۔ دوسرے الفاظ میں وہ ایک خالص شاعر کے کردار پر قانع ہے۔ فعالانہ کردار کی پہلی جھلک ۱۹۰۵ء سے لے کر ۱۹۰۸ء تک کی بعض نظموں میں دکھائی دیتی ہے۔ ’’عبدالقادر کے نام‘‘ مشرق کے شبستان میں احساس کی شمع روشن کرنے کی ایک دعوت ہے۔ اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور سے بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں ایک فریاد ہے مانند سپند اپنی بساط اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں (بانگ درا صفحہ ۱۴۰) اقبال نے ابتدائی دور میں جو دعا کی تھی: زندگی شمع کی صورت ہو خدایامیری اب وہ اس دعا ہی پر قانع نہیں ہے بلکہ اپنی ذاتی جدوجہد سے اپنی زندگی کو ایک شمع ظلمت سوز بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے اسے اس امر کا درد انگیز احساس ہے کہ شاعر کے اختیار میں صرف فریاد فغاں ہے۔ لیکن اسکے دل میں یہ یقین بھی ہے کہ وہ فریاد و فغاں کے ذریعے سے اپنی قوم کی زندگی میںہنگامہ برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کیفیت نفس سے مختلف ایک اور کیفیت نفس جسے اقبال اسی دور کے ایک اور شعر میں یوں ظاہر کرتا ہے: مدیر مخزن سے کوئی اقبال جا کے میراپیام کہہ دے جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیںمذاق سخن نہیں ہے (بانگ درا صفحہ ۱۳۶) اس شعر کے مخاطب مدیر مخزن یعنی شیخ عبدالقدر کے دیباچے میں اس کی شان نزول کا پتا چلتا ہے۔ اقبال قیام انگلستان کے دوران شاعری ترک کرنے کی سوچ رہا تھا۔ شیخ عبدالقادر نے اس کا سبب توبیان نہیں کیا لیکن قیاس چاہتا ہے کہ اقبال انگریزوں کی سرگرمیوں اور ذہنی و مادی ترقیوں کی وجہ سے اس درجہ متاثر ہوا تھاکہ اس کے دل میں کوئی ایسا کام کرنے کی خواہش پیدا ہو رہی تھی۔ جس سے اس کی قوم کے اندر بھی اس قسم کے اوصاف پیدا کرنے میں مدد ملتی۔ جو وقت وہ شاعری میں صرف کر رہا تھا اسے وہ کسی مفید کام میں صرف کرنے کا قصد کر رہاتھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شاعری اس کی نگار میں ایک مفید کام نہ تھی۔ اس کا یہ دعوے کہ: جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے غالباً اس کے اس مشاہدے پر مبنی تھا کہ ایک طرف تو انگریز عملی زندگی کے ہر شعبے میں بام عروج پر تھے اور دوسری طرف انگریزی شاعری میں ایک دور انحطاط سے گزر رہی تھی۔ ٹینی سن برائوننگ اور میتھیو آرنلڈ کی وفات کے بعد صف او ل کاکوئی شاعر اس وقت انگلستان میںموجود نہ تھا۔ لیکن اقبال نے یہ بات نظر انداز کر دی کہ یہ عظی شعراء انگریزی تاریخ کے ایک زریں عہد کی پیداوار بھی تھے۔ اور کسی حد تک اس کے صورت گر بھی۔ یعنی اس زرین عہدمیں انگریز قوم مذاق سخن سے عاری نہ تھی۔ اقبال کے استاد تھامس آرنلڈ نے اسے شاعری کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے جو دلائل پیش کیے ہوں گے قرین قیاس ہے کہ ان میں ایک دلیل عہد وکٹوریہ کے قوم کی قوم ساز شاعروں کی مثال ہو گی۔ بہرحال اقبال نے ترک شاعری کا ارادہ تر کر دیا اوردل میں ٹھان لی کہ : میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہو گی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہو گا (بانگ درا صفحہ ۱۴۲) ’’بانگ درا‘‘ کے تیسرے حصے میں جو ۱۹۰۸ء سے لے کر ۱۹۲۴ء تک کے کلام پر مشتمل ہے۔ اقبال بہ بانگ درا ایک شاعر کی حیثیت سے اپنے رہنمایانہ کردار کا اعلان کرتا ہے ترانہ ملی جو ترانہ ہندی کے مقابل میں ملت اسلامیہ کا ترانہ ہے اس دعوے پر ختم ہوتا ہے کہ: اقبال کا ترانہ باند درا ہے گویا ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا (بانگ درا۔ صفحۃ ۱۵۰) مجموعے کے سرورق پر ’’بانگ درا‘‘ کا عنوان اس دعوے کی ایک اور بھی زیادہ واشگاف صورت ہے تاہم ساتھ ہی ساتھ اقبا ل کو یہ خوف بھی دامن گیر ہے کہ کہیں ملت کے خواب غفلت میں مست ہونے کے باعث اس کی آواز صد ا بصحرا ہو کر نہ رہ جائے۔ ’’شکوہ‘‘ کے آخری بند میںوہ اس خوف کا اظہار یوں کرتاہے: کتنے بیتاب ہیں جوہر مرے آئینے میں کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں داغ جو دینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں (بانگ درا صفحہ ۱۷۰) بہرحال ا س کے باوجود ا س کے دل میں یہ امید بھی ہے کہ چونکہ وہ ایک نئے انداز سے جسے وہ عربی انداز کہتا ہے نغمہ سراہوا ہے۔ اس لیے اس کا نغمہ سرائی ملت کی بیحسی پر غالب آ جائے گی۔ وہ اس امید کا اظہار اس کی آڑزو یا دعا کی صورت میں کرتاہے: چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں یعنی پھر زندہ اسی عہد وفا سے دل ہوں پھر اسی بادہ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری (بانگ درا۔ صفحہ ۱۸۷) ’’رات اور شاعر‘‘ میں پھر مایوسی کا اظہار ہے۔ شاعر رات کو مخاطب کر کے کہتاہے: صفت شمع لحد مردہ ہے محفل میری آہ! اے رات بڑی دور ہے منزل میری عہد حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو اپنے نقصان کا احساس نہیں ہے اس کو ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں (بانگ درا ۔ صفحہ ۱۹۰) اہل محفل سے بیزار ہو کر گوشہ خلوت میں پناہ گزیں ہونے کی خواہش شاعروں کی ایک عام نفسی کیفیت ہے۔ لیکن اقبا ل کی فطری رجائیت اور نشاط عمل اس کے منافی تھی۔ چنانچہ اس کی مثالیں اس کے کلام میں شاذو نادر ہی ملتی ہیں اور جو ملتی ہیں ان میں مایوسی اور سپر اندازی کے بجائے ایک قسم کی جارحانہ تلخ نوائی ہے۔ ’’نصیحت ‘‘ میں اقبال نے اپنی شخصیت اور سیرت کا ایک نہایت صاف گویانہ تجزیہ کیا ہے۔ جس میں اپنی مختلف کارکردگیوں اور صلاحیتوں کو بیان کرکے وہ اپنے آ پ کو میدان عمل میں معرکہ آرا ہونے کی تلقین اس شعر میں کرتا ہے: عاقبت منزل ما وادی خاموشان است حالیا غلغلہ در گنبد افلاک انداز (بانگ درا صفحہ ۱۷۷) ’’شمع اور شاعر‘‘ ایک مکالمہ ہے جس میں شمع کی زبانی شاعر یہ بیان کرتا ہے کہ ایک شاعر کی حیثیت سے اس کے کیافرائض ہیں ان فراض سے وہ کہاںتک عہدہ برا ہوا ہے اور اگر کسی فرض سے عہدہ برا نہیں ہوا تو اسے کیا مزید کام کرنے چاہییں۔ ذیل کے کلیدی اشعار اس طویل نظم کا ایک عمدہ خلاصہ پیش کرتے ہیں: یوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہیں شعلہ ہے مثل چراغ لالہ صحرا ترا سوچ تو دل میں لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے انجمن پیاسی ہے اورپیمانہ بے صہبا ترا ٭٭٭ شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا تیرے پروانے بھی لذت سے بیگانے رہے ٭٭٭ خیر تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے اب نہ وہ میکش رہے باقی نہ میخانے رہے ٭٭٭ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا ٭٭٭ شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی ظلمت شب مین نظر آئی کرن امید کی ٭٭٭ مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر ہوش آیا ہے ٭٭٭ پھریہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز دل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش ٭٭٭ کہہ گئے ہیں شاعری جزو بست از پیغمبری ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش (بانگ درا ۔ صفحہ ۱۸۴تا ۱۹۵) شاعری اور شاعری نوع انسانی کے لیے جو اہمیت رکھتی ہے اس کا مختصر سا بیان ’’شاعر‘‘ میں ملتا ہے: شاعر دل نواز بھی بات کہے اگر کھری ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری شان خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں کرتی ہے اس کی قوم جب اپنا شعار آزری اہل زمیں کو نسخہ زندگی دوام ہے خون جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری گلشن دہر میں اگر جوئے مئے سخن نہ ہو پھول نہ ہو کلی نہ ہو سبزہ نہ ہو چمن نہ ہو (بانگ درا ۔ صفحہ ۲۱۱) ’’دعا‘‘ میں اقبال خدا سے مخاطب ہو کر کہتا ہے: میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے (بانگ درا۔ صفحہ ۲۱۲) شاعر اور شاعری کے بارے میںاقبال کے خیالات و جذبات کا جو تجزیہ ہم نے اوپر کیا ہے وہ صرف بانگ درا پر مبنی ہے ۔ بانگ درا کی اشاعت ۱۹۲۴ء سے پہلے اقبال کی تین منظوم تصانیف شائع ہوئیں۔ یعنی ’’اسرار خودی‘ ‘ ( ۱۹۱۵ئ) ’’رموز بے خودی‘‘ (۱۹۱۸)اور ’’پیام مشرق‘‘ (۱۹۲۳)۔ ان تصانیف میں جو کلام ہے وہ تقریباً اسی زمانے میں کہا گیا ہے جس میں وہ نظمیں کہی گئیں جن پر بانگ درا کا تیسرا حصہ (۱۹۰۸ء سے ۱۹۲۴ء تک ) مشتمل ہے۔ ان تینوں تصانیف میں بھی شعر و شاعر سے متعلق اقبال کے تصور کا ارتقاء کم و بیش انہی خطوط پر ہوا جن کا خاکہ میں اوپر کھینچ آیا ہوں۔ جہاں وہ کلام جس پر بانگ درا مشتمل ہے مختلف مواقع اور موضوعات پر اور مختلف محرکات کے زیر اثر کہا گیا ہے۔ اور وہ کہیں تو بجائے خود مقصود تھا اور کہیں اس کے پس پشت کوئی اورمقصد تھا وہاں ’’اسرار خودی‘‘ اور ’’رموز بے خودی‘‘ مستقل طور پر طویل نظمیں (مثنویاں) ہیں جن میں مضمون ہئیت اور مقصد کی وحدت ہے اور ایک منضبط فلسفہ پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ ’’اسرار خودی‘‘ کی تمہید میں اقبال اس کی شان نزول کچھ یوں بیان کرتاہے کہ جیسے اس مثنوی کا کہنا اس کے لیے مشیت ایزدی کی طرف سے مقدر تھا۔ اور قدرت نے اسے خاص طور پر اس کام کے لیے منتخب کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو خودی کی تعلیم دے کر راہ عمل پر گرم سفر کرے۔ اس ضمن میں فارسی اور اردو شاعری کی رسمی شاعرانہ تعلی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اس کے بیان کا جوش و خروش اس بارے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا تاکہ خود اسے اپنے دعوئوں کی صداقت کا پورا پورا یقین ہے۔ اور یہ یقین حق بجانب بھی ہے بالخصوص جہاں تک خودی کے بارے میں دانائے اسرار ہونے کا تعلق ہے وہاں اقبال عالمی فکر کی تاریخ میںفلسفہ خودی کا سب سے بڑا ترجمان ہے۔ اس سے قطع نظر کہ اس نے اس فلسفے کے عناصر کہیں سے اخذ کیے یا نہیں اور کیے تو کہاں سے کیے نیٹشے سے فشطے سے اور برگساں سے قرآن و سنت سے رومی سے ‘ فکر اسلامی سے یا کسی اور سرچشمے سے ۔ یہ فلسفہ اس کے سارے نظام فکر کا لب لباب ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اس کی شاعری کی روح رواں بھی ہے۔ چنانچہ اسرار خودی کی تمہید میں وہ کہتا ہے کہ: خاک من روشن تر از جام جم است محرم از ناز ادہائے عالم است ٭٭٭ نغمہ ام از زخمہ بے پرواستم من نوائے شاعر فرداستم ٭٭٭ عصر من دانندہ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست ٭٭٭ اے بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد چشم خود بربست و چشم ماکشاد ٭٭٭ ہیچ کس رازے کہ من گویم نگفت مچو فکر من در معنی نہ سفت ٭٭٭ پیر گردوں بامن ایں اسرار گفت از ندیماں راز ہا نتواں نہفت ٭٭٭ برگر فتم پردہ از راز خودی وانمو دم سر اعجاز خودی ٭٭٭ از درون کار گاہ ممکنات برکشیدم سر تقویم حیات ٭٭٭ شاعری زیں مثنوی مقصود نیست بت پرستی بت گری مقصود نیست ٭٭٭ (اسرار و رموز ۔ صفحہ ۳ تا صفحہ ۱۱) اس تمہید میں شاعری کی نسبت اقبال کے جذبات کش مکش کی کیفیت میںدکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ شاعری کی معجزانہ قوتوں کا ستائش گر ہے۔ اور دوسری طرف اسے اتنا ہیچ کارہ خیال کرتا ہے کہ اپنی مثنوی کو اس سے منسوب کرنا گوارا نہیں کرتا۔ ایک طرف تو وہ اسے کاشف اسرار اورگنج معانی کی کلیدکہتا ہے اور دوسری طرف اس پر بت پرستی اور بت گری یعنی محض لفظی صنعت طرازی کی پھبتی کستا ہے۔ اسرار خودی کے اختتام پر دعا ہے اس میں اقبال اپنی ملت کی بے حسی اور اپنی تنہائی کارونا رو کر بارگاہ ایزدی سے کسی ندیم درازدا ں کا طالب ہے: دل بدوش و دیدہ برفرداستم درمیان انجمن تنہا ستم ہر کسے از ظن خود شد یار من از درون من نجست اسرار من درجہاں یارب ندیم من کجاست؟ نخل سینایم کلیم من کجاست؟ ٭٭٭ من مثالہ لالہ صحرا ستم درمیان محفلے تنہا ستم (اسرار و رموز ۔ صفحۃ ۸۸ تا ۹۰) ’’رموز بے خودی‘‘ ’’اسرار خودی ‘‘ کا تتمہ ہے ۔ اس میں اقبال نے اپنے تصور خودی کی تصویر کا دوسرا رخ پیش کیا ہے۔ یعنی فرد کی خودی کے مقابلے میں ملت کی خودی جو فرد کے حق میں بے خودی بن جاتی ہے۔ چنانچہ رموز بیخودی کی ابتدا ملت اسلامیہ کے حضور ایک پیش کش سے ہوتی ہے اس پیشکش میں اقبال اپن فن کو ملت اسلامیہ کی نذر کرنے کا اعلان کرتا ہے: من شہید تیغ ابروئے توام خاکم و آسودہ کوئے توام ٭٭٭ از سخن آئینہ سازم کردہ اند وز سکندر بے نیازم کردہ اند ٭٭٭ مثل گل از ہم شگافم سینہ را پیش تو آدیزم ایں آئینہ را تانگاہے افگنی بر روئے خویش می شوی زنجیری گیسوئے خویش (اسرار و رموز صفحہ ۹۴ تا ۹۵) ’’رموز بے خودی‘ ‘ کے اختتام پر ’’عرض حال مصنف بحضور رحمتہ اللعالمینؐ‘‘ میں اقبال ملت اسلامیہ کی بے حسی اور بے عملی پر اشک فشاں ہو کر یہ بیان کرتاہے کہ اس نے کیونکر اپنے فن کو مسلمانوں کی بیداری کے لیے وقت کردیا ہے: مسلم از سر نبی بیگانہ شد باز ایں بیت الحرم میخانہ شد ٭٭٭ مردہ بود از آب حیواں گفتمش سرے از اسرار قرآں گفتمش ٭٭٭ محفل از شمع نوا افروختم قوم را رمز حیات آموختم (اسرار و رموز ۔ صفحہ ۱۹۴ تا ۱۹۶) لیکن اقبال صرف اپنے فن کے ذریعے خدمت ملی کو کافی نہیں سمجھتا اور رسول اکرمؐ سے ملتجی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے اسے توفیق عمل کرنے کی دعا کریں۔ عرض کن پیش خدائے عز و جل عشق من گردو دہم آغوش عمل (اسرار و رموز ۔ صفحہ ۱۹۶) جس طر ح اردو میں بانگ درا اسی طرح فارسی میں پیام مشرق اقبال کی ایسی شعری تخلیقات کا مجموعہ ہے جو کسی مستقل موضوع یا کسی واحد مقصد سے تعلق نہیں رکھتیں اس لیے بانگ را کی طرح پیام مشرق میں بھی اقبال نے شعر و شاعر کے موضوع پر جو کچھ کہا ہے وہ مختلف مواقع پر اور مختلف کیفیات نفس میں ا س کے خیالات و جذبات کا آئینہ دار ہے۔ پیام مشرق کا آغاز والی افغانستان امان اللہ خاں کے حضور ایک پیش کش سے ہوتا ہے جسے کتاب کی تمہید سمجھنا چاہیے۔ اس پیش کش میں اقبال جرمنی کے شاعر اعظم گوئٹے سے اپنا موازنہ کر کے بیان کرتا ہے کہ پیام مشرق گوئٹے کے مشرقی دیوان کا جواب ہے اور اس کی وضاحت کرتا ہے کہ کس چیز نے اسے یہ جواب دینے پر آمادہ کیا ہے۔ تامر ارمر حیات آموختند آتشے در پیکرم افروختند یک نوائے سینہ تاب آوردہ ام عشق را عہد شباب آوردہ ام ٭٭٭ آشنائے من زمن بیگانہ رفت از خمنستانم تہی پیمانہ رفت من شکوہ خسروی اورا دہم تخت کسریٰ زیر پائے او نہم او حدیث دلبری خواہد زمن رنگ و آب شاعری خواہد زمن کم نظر بیتابی جانم ندید آشکارم دید و پنہانم ندید ٭٭٭ تانہ پنداری سخن دیو انگیست در کمال ایں جنوں فرز انگیست از ہنر سرمایہ دارم کردہ اند در دیار ہند خوارم کردہ اند (پیام مشرق۔ صفحہ ۳ تا ۴) گل نخستیں میں اقبال ایک گزرے ہوئے دور کانام لیوا اور ایک آنے والے دور کاہر اول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے: ہنوز ہم نفسے در چمن نمی بینم بہار می رسد و من گل نخستینم ٭٭٭ دلم بہ دوش و نگاہم بہ عبرت امروز شہید جلوہ فردا و تازہ آئینم (پیام مشرق۔ صفحہ ۹۵) ’’حور و شاعر‘‘ میں اقبال شاعر کو خوب سے خوب تر کی جستجو کرنے والا بیان کرتاہے: چو نظر قرار گیر دبہ نگار خوبروئے تپدآں زماںم دل من پے خوبتر نگارے (پیام مشرق۔ صفحہ ۱۴۷) ’’مئے باقی ‘‘ (غزلیات‘‘ میں اقبال جابجا شاعر اور شاعری اور بالخصوص اپنے اور اپنی شاعری کے بارے میں مزاحتہً یا کنایتہ کچھ کہتا ہے اس ضمن میں چند اشعار درج ذیل ہیں: بملا زمان سلطان خبرے دہم زرازے کہ جہاں تو اں گرفتن بنوائے دلگدازے (صفحہ۱۷۶) بگو اقبال را اے باغباں رخت از چمن نہدد کہ ایں جادو نوا مارا زگل بیگامہ می سازد (صفحہ۱۸۱) نواز حوصلہ دوستاں بلند تر است غزل سر اشدم آنجا کہ ہیچ کس نشیند متاع معرفت مشتری است جنس سخن خوشم ازاں کہ متاع مرا کسے نخرید ز شعر دلکش اقبال می تواں دریافت کہ درس فلسفہ می داد و عاشقی و رزید (صفحہ۱۸۵) صد نالہ شبگیرے صد صبح بلا خیزے صد آہ شرر ریزے یک شعر دلآویزے (صفحہ۱۹۱) نہ شیخ شہر نہ شاعر نہ خرقہ پوش اقبال فقیر راہ نشین است و دل غنی دارد (صفحہ۱۹۵) بیا کہ من زخم پیر روم آوردم مئے سخن کہ جواں تر زیادہ عینی است (صفحہ۱۹۷) نواز پردہ غیب است اے مقام شناس نہ از گلوئے غزل خواں نہ از رگ ساز است (صفحہ۲۱۳) تو جوان خام سوزے سخنم تمام سوزے غزلے کہ می سرایم تبو سازگار باوا (صفحہ۲۱۶) مگذ راز نغمہ شوقم کہ بیابی دردے رمز درویشی و سرمایہ شاہنساہی (صفحہ۲۱۷) بانگ درا (۱۹۲۴ئ) کے بعد اقبال کا کلام مندرجہ ذیل کتابوں کی صورت میں شائع ہوا: ’’زبورعجم‘‘ (۱۹۲۷ئ) ’’جاوید نامہ ‘ ‘ (۱۹۳۲) ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ (۱۹۳۶ئ) ’’مسافر‘‘ (۱۹۳۶) ’’بال جبریل‘‘ (۱۹۳۶) ’’ضرب کلیم‘‘ (۱۹۳۶ئ) ’’ارمغان حجاز ‘‘ (۱۹۳۸ئ) ان کتابوں میں شعر و شاعر کے موضوع پر سیکڑوں اشعار ہیں کہیں منفرد صورت میں اور کہیں مختصر یا طویل نظموں یا عبارتوں کی صورت میں۔ شعر و شاعر سے متعلق نظام فکر کے جو مبادیات ’’اسرار خودی‘‘ ’’رموز بے خودی‘‘ ’’بانگ درا‘‘ اور ’’پیام مشرق‘‘ میں ملتے ہیں انہوںنے ترقی کر کے ان بعد کی کتابوںمیں ایک مستقل نظریے کی صورت اختیار کر لی۔ میں چیدہ چیدہ اشعار اور عبادات کی مدد سے اس نظریے کے موٹے موٹے نقش و نگار ذیل میں پیش کرتا ہوں: مفید ہو گا کہ اگر ہم سب سے پہلے ا شاعر ی کو بحث سے خارج کر دیں جسے اقبال راندہ درگار قرار دیتا ہے۔ جس سے وہ اپنے کلام کو منسوب کرنا پسند نہیں کرتا۔ ’’زبور عجم‘‘ کی ایک طویل نظم ’’گلشن راز جدید‘‘ کی تمہید میں وہ اس غیر مستحسن شاعری کی طرف مختصر سا اشارہ کرتا ہے: نہ پنداری کہ من بے بادہ مستم مثال شاعراں افسانہ بستم نہ بینی خیر ازاں مرد فرد دست کہ برمن تہمت شعر و سخن بست بکوئے دلبراں کارے ندارم دل زارے غم یارے ندارم نہ خاک من غبار راہگذارے نہ در خاکم دل بے اختیارے (زبور عجم صفحہ ۲۰۴) ظاہر ہے کہ ان اشعار میں اس عشق و عاشقی کی غزل گوئی کی مذمت کی گئی ہے جو اس وقت اردو شاعری کاسب سے بڑا سرمایہ تھی۔ اسی شاعری کی تنگ ظرفی کی طرف زبور عجم کی نظم دعا میں اشارہ ہے: سلیم مرا بجوے تنک مایہ ہیچ جولانگہے بوا دی و کوہ و کمر بدہ (زبور عجم صفحہ ۴) ’’جاوید نامہ ‘‘ میں اقبال اردو شاعری کی بے سوزی لفظی عیاشی اور محض معاملات حس و عشق سے دلبستگی کا شکوہ کرتا ہے: اے بسا شاعر کہ از سحر ہنر رہزن قلب است و ابلیس نظر شاعر ہندی خدایش یار باد جان او بے لذت گفتار باد عشق را خنیا گری آموختہ باخلیلاںآزری آموختہ حرف او چادیدہ دبے سوز و درد مرد خوانند اہل درد اورانہ مرد زاں نوائے خوش کہ نشناسد مقام خوشترآں حرفے کہ گوئی درمنام (جاوید نامہ صفحہ ۴۵) ’’بال جبریل ‘‘ میں اقبال حیات افروز اور حیات سوز شاعری کا مقابلہ کرتے ہوئے کہتا ہے: سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات ہو نہ روشن تو سخن مرگ دوام اے ساقی (بال جبریل صفحہ ۱۵) اپنی شاعری کو خالی خولی رنگین بیانی کے الزام سے بچانے کے لیے اقبال کہتا ہے : مرے ہم صفیر اسے بھی اثر بہار سمجھے انہیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ (بال جبریل صفحہ ۲۳) مری نوا میں نہیں ہے ادائے محبوبی کہ بانگ صور سرافیل دل نواز نہیں (بال جبریل۔ صفحہ ۵۹) وہ نہیں چاہتا کہ ا سکی شاعری کو محض شاعری سمجھا جائے: مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرم راز درون مے خانہ (بال جبریل صفحہ ۷۶) سرود و دین و سیاست کتاب و دین و ہنر کو یکجا کر کے اقبال ان کی بابت یہ حکم لگاتا ہے: اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ (ضرب کلیم صفحہ ۹۸) گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر وائے صورت گری و شاعری و ناے و سرود (ضرب کلیم صفحہ ۱۱۲) شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا؟ بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا؟ (ضرب کلیم صفحہ ۱۱۷) اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام حرام میری نگاہوں میں ناے و چنگ و رباب (ضرب کلیم صفحہ ۱۲۵) اب میں چند ایسے اشعار پیش کرتا ہوں جن میں اقبال نے اس شاعر ی کے اوصاف بیان کیے ہیں جسے اس نے اپنا مقصد حیات بنایا اور جو ا س کے نزدیک انسانی سرگرمیوں میں ایک بلند مقام رکھتی ہے۔ ان اشعار میں وہ کہیں تو مستحسن شاعری کی تعریف اور کہیں اپنی شاعرانہ کارگزاریوں کا تذکرہ کرتاہے جس سے بالواسطہ یہ پتا چلتا ہے کہ اس کے نزدیک اچھی شاعری کی پہچان کیا ہے۔ زبرون درگزشتم زدرون خانہ گفتم سخنے نگفتہ راچہ قلندرانہ گفتم (زبور عجم صفحہ ۳) بصدائے دردمندے بہ نوائے دلپذیرے خم زندگی کشادم بجہان تشنہ میرے (زبور عجم صفحہ ۱۳) قافلہ بہار را طائر پیش رس نگر آنکہ بخلوت قفس گفت پیام خویش را (زبور عجم صفحہ ۱۵) ساز تقدیرم و صد نغمہ پنہاں دارم ہر کجا زخمہ اندیشہ رسد تار من است (زبور عجم صفحہ ۲۳) فاختہ کہن صفیر نالہ من شنید و گفت کس نسرود در چمن نغمہ پار ایں چنیں (زبور عجم صفحہ ۲۵) پس از من شعر من خوانند و دریا بندومی گویند جہانے رادگرگوں کردیک مرد خود آگاہے (زبور عجم صفحہ ۱۴۳) فطرت شاعر سراپا جستجو است خالق پروردگار آرزوست شاعر اندر سینہ ملت چو دل ملتے بے شاعرے انبار گل سوز و مستی نقشبند عالمے است شاعری بے سوز و مستی ماتمے است شعر را مقصود اگر آدم گری است شاعری ہم وارث پیغمبری است (جاوید نامہ صفحہ ۴۵) فقیر راہ کو بخشے گئے اسرار سلطانی بہا میری نوا کی دولت پرویز ہے ساقی (بال جبریل صفحہ ۱۶) حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا (بال جبریل صفحہ ۳۹) یہ کون غزلخواں ہے پر سوز و نشاط انگیز اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز (بال جبریل صفحہ ۴۲) وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھاگیا ہے جنوں خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں (بال جبریل صفحہ ۴۳) اگر ہو شوق تو خلوت میں پڑھ زبورعجم فغان نیم شبی بے نوائے راز نہیں (بال جبریل صفحہ ۵۹) مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرم راز درون میخانہ (بال جبریل صفحہ ۷۶) تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا کہہ دالے قلندر نے اسرار کتاب آخر (بال جبریل صفحہ ۷۸) راز حرم سے شاید اقبال باخبر ہے ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ (بال جبریل صفحہ ۸۱) مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں یہی سوز نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے؟ (بال جبریل صفحہ ۸۱) کی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازی گستاخ ہے کرتا ہے فطرت کی حنا بندی خاکی ہے مگر اس کے انداز ہیں افلاکی رومی ہے نہ شامی ہے کاسی نہ سمرقندی سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نے آدم کو سکھاتاہے آداب خداوندی (بال جبریل صفحہ ۱۰۲) مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی دیا ہے میں نے انہیں ذوق آتش آشامی (بال جبریل صفحہ ۱۰۵) ہے یہی میری نماز ہے یہی میرا وضو میری نوائوں میں ہے میرے جگر کا لہو (بال جبریل صفحہ ۱۲۳) فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا؟ حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو (بال جبریل صفحہ ۱۲۵) بال جبریل میں مسجد قرطبہ پر جو نظم ہے (صفحۃ ۱۲۶ تا ۱۳۶) ا س میں اقبال نے فن کے بارے میں اپنا فلسفہ جس میں اس کے فلسفہ شاعری کو سمجھنا چاہیے بڑے واضح اور سیر حاصل طریقے سے بیان کیا ہے۔ میں اپنے الفاظ میں اس کی تشریح کرنے کی بجائے نظم کے چند بنیادی اشعار ذیل میں درج کرتا ہوں: آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات و دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام ٭٭٭ تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل ٭٭٭ تجھ سے ہو آشکار بندہ مومن کا راز اس کے دنوں کی تپش اس کی شبوں کا گداز ٭٭٭ ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کار کشا کار ساز ٭٭٭ کعبہ ارباب فن سطوت دین مبیں تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں ہے تہ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر قلب مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں ٭٭٭ نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر (بال جبریل صفحہ ۱۲۶ تا ۱۳۶) ’’داغ جگر سے اقبا ل کی مراد تخلیق کا وہ ولولہ ہے جو فن کار کو مجبور کرتا ہے کہ اپنی خودی کا نقش فطرت کے مواد پر ثبت کرے جتنی پختہ اس کی خودی ہو گی اتنا ہی پائیدار اس کا ثبت کیاہوا نقش ہو گا۔ داغ جگر کو اقبال عشق کے نام سے بھی موسوم کرتا ہے۔ جس شاعری کا تصور اشعار بالا میں پیش کیا گیا ہے اس کے لیے بہترین نام پیغمبرانہ شاعری ہے۔ البتہ ضروری ہے کہ پیغمبری کے لفظ میں وحی و تنزیل کا جو دینیاتی مفہوم مضمر ہے اس سے اسے مبرا کر لیا جائے۔ پیغمبرانہ شاعری میں پیغمبری کے جو اوصاف پائے جاتے ہیں وہ یہ ہیں۔ ایسی بصیرت جو انسانی تاریخ کے ایک وسیع منظر کو جو ماضی حال اور مستقبل تینوں پر پھیلا ہوتا ہے اپنے احاطے میں لے لیتی ہے ۔ یا ایسی حکمت جو عقل عملی اور فکری نظری دونوں سے زیادہ دور رس اور ژرف نگاہ ہوتی ہے ایسی معرفت جس پر حیات و کائنات کے ایسے اسرار بے نقاب ہوتے ہیں جن تک عام انسانی علم کی رسائی نہیں اور ان سب سے بڑھ کر یقین پیدا کرنے کی ایک زبردست قوت جو تمام شکوک و شہبات پر غالب آ جاتی ہے۔ جب شاعری کے خصوصی اوصاف مثلاً اس کے لفظی و معنوی محاسن اس کی رعنائی و زیبائی اس کی خوش آہنگی اس کی حسی لذت بخشی اور اس کو جذباتی اثر انگیزی پیغمبری کے اوصاف میں شامل ہوجاتے ہیں تو ایک ایسا تخلیقی معجزہ ظہور میں آتا ہے کہ جو جلال و جمال قاہری و دلبری الہام اور ہنر مندی عقل اور وجدان کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ان اوصاف کی حامل تھی وہ شاعری جو اقبال کامقصد حیات تھی اور جو اس کا کارنامہ زندگی ہے۔ ایسی شاعری تخلیق کر کے اس نے وہ سارے کردار ادا کر دیے جن کا وہ مداح تھا اور جن ککے ادا کرنے کا وہ متمنی تھا۔ اگر پاکستان اس کے سیاسی تفکر و تدبر کا نتیجہ ہے تو اتناہی وہ اس کی شاعر ی کا ایک عظیم شاہکار ہے جو شاعری کی سرحدوں سے ماورا جا کر ایک آزاد مملکت اور ایک خود آگاہ ملت کی صورت میں جلوہ گر ہوا ہے۔ وہ اقبال کی شاعری کا ایک ایساجواب ہے جس سے بہتر جواز کسی شاعر کی شاعری کو نصیب نہیں ہوا۔ ٭٭٭ علامہ اقبال اور میراث اسلام ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نعت نویسوں نے ارث کے معنی یوں بیان کیے ہیں: ’’ارث بکسر اول و سکون ثانی و ثاء مثلثہ میراث و اصل و کار قدیم کہ بوراثت بہ دیگرے رسد و بقیہ چیزے و خاکستر ۱؎۔‘‘ مزید وضاحت یہ ہے: ’’میراث (ع) مونث ورثہ ترکہ وہ جائدا د وغیرہ جو متوفی کی ملکیت سے حقدار کو ملے‘‘۔ اور میراث پدر کے معنی حلال مباح اور جائز بتائے گئے ہیں۔ یہاں ورثہ اور ترکہ کی فقہی بحث اور قانونی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ بنیادی طور پر میراث سے افکار و خیالات ‘ حکمت و دانش اور علوم و فنون کا وہ ترکہ ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل اور دوسری سیتیسری اورپھر اسی طرح اگلی نسلوں تک منتقل ہوتا رہتا ہے۔ انفرادی اور شخصی ترکہ اور ورثہ کے مقابلہ میں یہ اجتماعی ورثہ اور ترکہ ہی اس مقالہ کا موضوع ہے ۔ بالخصو ص وہ میراث جو میراث اسلام ہے اور جسے پچھلے چودہ سو سال سے مسلمانوں کی مختلف نسلوں مختلف زمانوں ملکوں اور مختلف وسیلوں سے دین کے ایک برے حصہ میں ایک منفرد ممتاز اور ممیز تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کی حیثیت سے جان اور پہچان گیا ہے اور جس کے مختلف عناصر مسلمانوں کی روز مرہ زندگی ان کے رسم ورواج تہذیب و معاشرت ‘ لباس ‘ تراش خراش‘ وضع قطع ‘ چال ڈھال‘ ان کے دینی عقائد ان کے شخصی قانون اور ان کے مختلف علوم میں انفرادی شخصی ‘ خاندانی ‘ علاقائی ‘ جغرافیائی ‘ نسلی اور لسانی اختلافات کے باوجود ایک مشترک بنیادی اور اساسی عنصر کی حیثیت سے حاصل ہے۔ جس ورثہ یا میراث کا ہم ذکر کیا ہے اسے مجموعی طور پر تہذیبی ورثہ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ورثہ عقائد تجربات‘ تعلیمات‘ روایات‘ رسوم ‘ ایجادات و انکشافات‘ تحقیقات افکار و خیالات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ جو ایک نسل اپنی بیشتر نسل سے پاتی ہے اور آنے والی نسلوں کومنتقل کرتی ہے۔ ۱؎ غیاث اللغات ص ۲۴ مرور ایام سے مختلف ماحول میں اس کے عناصر میں تبدیلی حک و اضافہ تنسیخ و تجدید ہوتی رہتی ہے۔ لیکن اگر کوئی معاشرہ اپنی انفرادیت اور اپنے تشخص کو قائم و برقرار رکھتا ہے تو اس کے اس تہذیبی ورثہ کے بعض عناصر مستقل حیثیت رکھتے ہیں۔ اور انہیں سے اس معاشرہ یا اس قوم کے تہذیبی ورثہ کی پہچان ہوتی ہے ۔ اسلام کا تہذیبی ورثہ یا میراث کیا ہے اور علامہ اقبال کے فکر و فن میں اسے کیا درجہ یا اہمیت حاصل ہے ۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے مختصراً میراث تہذیب کے تاریخی پس منظر پر ایک نظر ڈالنا نامناسب نہ ہو گا تاریخ عالم میں دور قدیم سے آج تک مختلف تہذیبوں کا سراغ ملتا ہے۔ جو بطور ورثہ اگلی تہذیبوں کے لیے سرچشمہ یا منبع کا کام دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر یونان اور روم کی قدیم تہذیبیں جو آج تک تہذیب مغرب اور میراث مغرب کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہیں اور خاص طور پر یہ تہذیبیں مغربی یورپ کے تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کے ارتقاء میں ایک اہم مرحلہ ہیں آج تک یورپ کی علمی زبانوں اور اصطلاحوں پر یونانی اور لاطینی زبان کا اثر ہے۔ اوربیشتر علمی اصطلاحات خالص لاطینی اور یونانی ہیں سولہویں صدی عیسوی میں فتح قسطنطنیہ کے بعد جب یونانی اور لاطینی زبان کا اثر ہے۔ اور بیشتر علمی اصطلاحات خالص لاطینی اور یونانی ہیں سولہویں صدی عیسوی میں فتح قسطنطنیہ کے بعد جب یونانی اور لاطینی فکر و فن کے علمبردار مغربی یورپ پہنچے تو وہ تحریک شروع ہوئی جو نشاۃ الثانیہ کی تحریک ہے۔ میراث اسلام ۱؎ کے مقدمہ میں لکھا ہے: ’’عمومی حیثیت سے یونان اور روما کی میراث ایک قطعی جغرافیائی مرکز سے ماخوذ ہے ۔ از منہ متوسطہ کی میراث بھی مغربی یورپی تہذیب کے نشووارتقاء میںایک خاص مرحلہ کا حکم رکھتی ہے۔ میراث اسرائیل میں وہ افکار و نظریات شامل ہیں جو مغرب کو یہودی قوم اور یہودی مذہب سے حاصل ہوئے لیکن میراث اسلام ان سب سے واضح طور پر الگ ہے‘‘۔ چونکہ مصنف کا مقصد یورپ کی ثقافت کے ان عناصر کو واضح کرنا تھا۔ جو مختلف ماخذوں اور ذریعوں سے بطور میراث حاصل ہوئے تھے اس لیے وہ اسلامی ثقافت یا میراث کے ہمہ جہتی اور ہمہ گیر پہلوئوں سے قطع نظر کرتے ہوئے صرف ان عناصر کی طرف توجہ کرتے ہیں جن میں یورپ نے خاص طور پر مختلف علوم و فنون میں اسلام اور اسلامی میراث سے فیض پایا ہے چنانچہ آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’اسلام کی میراث سے دین اسلام کے اثرات مقصود نہیں ہیں‘ کیونکہ دین نے یورپ پر چنداں اثر نہیں ڈالا‘ بلکہ یہ ان علوم و فنون کی میراث ہے جن کو مسلمانوں قوموں نے مسلمان ملوک وسلاطین کی حفاظت و سرپرستی میں ترقی دی اور جن سے یورپ نے فیض حاصل کیا‘‘۔ ۱؎ میراث اسلام اردو ترجمہ Legacy of Islam مصنفہ سر تامس آرنلڈ و مرتبہ الفریڈ گیام مترجمہ عبدالمجید مسالک مجلس ترقی ادب لاہور طبع اول ۱۹۶۰ء (دیباچہ صفحہ الف) حالانکہ یہ بھی پوری طرح درست نہیں کہ دین نے یورپ پر چنداں اثر نہیں ڈالا۔ جیسا کہ عام طور پر معلوم ہے کہ مارٹن لوتھر ۱؎ جس نے پروٹسٹنٹ Protestentفرقہ کی بنیاد ڈالی اسلامی تعلیمات سے بڑا متاثر تھا۔ بلکہ بعض شہادتوں سے پتا چلتا ہے کہ اس نے مسلمانوں کی درس گاہوں میں تعلیم پائی تھی۔ اور بنیادی طور پر مسلمانوں کے علوم و فنون کو ان کے مذہب یا دین سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جو بات یونان اور روم کی تہذیبی میراث کے بارے میں کہی گئی ہے وہ دنیا کی دوسری عظیم تہذیبوں کے باب میں بھی یکساں طور پر درست ہے مثلاً چین کی قدیم تہذیب جس کی عظمت اورقدامت میں کوئی شبہ نہیں‘ جس نے بنی نوع انسان کو تحریر و شمار کا تصور دیا۔ مصر کی قدیم تہذیب جس کے آثار اور نشانات آج بھی محیر العقول ہیں جس کی تحریروں کاغذ کی ایجاد اور فن تعمیر پر آج بیسویں صدی میںبھی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ بال اور نینوا کے کھنڈروں میں جس تہذیب کے آثار ہیں اور وہ تہذیب جو ہڑپہ او ر موہنجوڈارو کی تہذیب ہے ان سب کے عظیم تہذیب ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ بعض صورتوں میں ان کے اثرات اپنی حدود سے نکل کر دور تک بھی ملتے ہیں مثلاً کمبوڈیا میںانکروٹ کی حیرت میں ڈالنے والی تہذیب کے آثار اور کھنڈرات اپنی اصل اور روایت میں برصغیر پاک و ہند کی قدیم تہذیب سے اپنا رشتہ ظاہر کرتے ہیں اور مصر کی تہذیب کے آثار فنیقوں کے وسیلہ اور واسطہ سے یونان تک پہنچے ہیںتاہم یہ تمام قدیم تہذیبیں اپنی نوعیت میں جغرافیائی حدود میں پابند ہیں۔ اسلامی تہذیبی میراث کی نوعیت اس سے قطعاً مختلف ہے۔ جو شخص دل سے یقین اورزبان سے اقرار کرتا ہے۔ کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ وہ ایک ایسی عالمگیر برادری میں شامل ہو جاتاہے۔ جو جغرافیائی رشتوں نسل ‘ رنگ ‘ زبان ‘ برادری ‘ خاندان قبیلہ سب سے ماورا اور سب سے بالا رشتہ ہے۔ اس رشتے میں منسلک ہو کر اسود و احمر عرب و عجم سب ایک ہوجاتے مسلمانوں کا خدا ایک ہے قرآن ایک ہے اللہ کے ساتھ ان کا عہد ایک ہے اور وہ ایک ہی معبود کے عبد بن کر ایک ہی دین اورایک ہی مسلک اختیار کرتے ہیں۔ قرآن حکیم ان کو ایک ہی حکم دیتاہے۔ کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو اورالگ الگ نہ بکھر جائو۔ اس کے نزدیک زیادہ بڑا بزرگ و برتر وہ ہے جو زیادہ متقی ہے یعنی خوف خدا کرنے والا پرہیز گار اور نیک اللہ کا بندہ اسلام کے اس رشتے میں منسلک ہو جانے کے بہت سے تقاضے ہیں اوراسلام کا حلقہ بگوش ہر بندہ ان تقاضوں کو پورا کرنے کا پابند ہے۔ ۱؎ مارٹن لوتھر ولادت ۱۴۸۲ء وفات ۱۵۴۶ء کلیسا کے اعلیٰ ترین حلقوںاور طبقوں میں ہر طرح کی بے راہ روی کے خلاف مارٹن لوتھر نے ۱۵۱۰ء میں ہی غور کرنا شروع کیا تھا۔ ۱۵۱۷ء میں گناہوں کی معافی ناموں کی تجارت کے خلاف اعلان کے بعد کلیسا سے باضابطہ ٹھن گئی اور ۱۵۲۱ء میں پاپائی حکم سے اسے دین سے خارج کر دیا گیا تو مارٹن لوتھر نے اس حکم نامہ کو برسر عام نذر آتش کر دیا تجدید عیسائیت کے لیے اس نے بہت کچھ لکھا عہد نامہ جدید کو جرمن زبان میںمنتقل کیا اورپوری انجیل کے ترجمہ کی طرف توجہ کی جس سے جرمن زبان کو بڑی تقویت پہنچی مارٹن لوتھر دین کو سیاست سے الگ نہیں سمجھتا تھا۔ اسلام کی وسیع برادری میں خاندانوں کنبوں اور قبیلوں کا اختلاف صرف تعارف اور پہچان کے لیے ہے شرافت اوربزرگی کا معیار صرف تقویٰ ہے قرآن حکیم میں ارشاد ہوا ہے کہ لوگو ہم نے تم کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا اورتمہاری برادریاں اور کنبے بنا دیے کہ آپس میں شناخت رکھو تم میں سب سے زیادہ بزرگ اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے ۳۱؍۴۹۔ بعض تہذیبوں میں نسبی فخر کا جذبہ ایک موثر اورفعالجذبہ تھا قرآن حکیم میں یہود و نصاریٰ کے اس نسبی فخر کو باطل قرار دے کر قرآن حکیم کا ارشاد ہے: ’’اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں کہہ دو کہ پھر وہ کیوں تمہارے گناہوں کی بدولت تم کو سزا دیتا ہے۔ بلکہ تم بھی انہیںانسانوں میںسے ہو جن کو اللہ نے پیدا کیا ہے‘‘ ۱۸؍۵ حسب و نسب نسل اور رشتے کا بکھیڑا صرف چندہ روزہ زندگی تک ہے ارشاد ہے: ’’پھر جب صور پھونکا جائے گا تو ان کے درمیان میں کوئی رشتہ نہ رہے گا اورنہ وہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں گے جن کا (نیکی کا ) پلہ بھاری ہو گا وہ کامیاب ہوں گے اورجن کا ہلکا ہو گا وہ وہی ہیں جنہوں نے اپنے کو برباد کیا۔ وہ ہمیشہ جہنم میںرہیں گے‘‘ (۱۰۳؍۲۳) ایک اور موقع پر ارشاد ہے: ’’تمہارے رشتے اور تمہاری اولاد قیامت کے دن ہرگز تم کو نفع نہیں پہنچائیں گے‘‘ (۳؍۶۰) اس تمہید گزارش کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا تھا کہ اسلامی تہذیب کا بنیادی ورثہ خود دین اسلام ہے اور ہر مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی خطہ میں رہتا ہو کوئی زبان بولتا ہو اس کے مقامی رسوم و رواج چاہے کبھ بھی ہوں اس کا لباس مختلف ہو اس کا رنگ مختلف ہو نسلی اعتبا ر سے وہ کسی گروہ سے تعلق رکھتا ہو اسی ورثہ کامالک ہوتا ہے اور اسی سے پہچانا جاتا ہے اور اس کی تہذیبی زندگی میں بھی اسی ورثہ کے آثار اس کی پیدائش سے موت تک نظر آتے ہیں۔ مثلاً برصغیر پاک و ہند کی تہذیب ہی کو لے لیجیے ایسے عناصر جو دین کے بنیادی رکن نہیں ہیں اس میں بھی ہندو اورمسلمان الگ الگ پہچانے جاتے ہیں ہندو گائے کی پوجا کرتا ہے مسلمان اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتا ہے۔ ہندو گائے کے پیشاب اور گوبر کو پاک اور پوتر جانتا ہے اوراپنی دانست میں ان کو چھڑک کر ناپاک چیزوں کو پاک کر لیتا ہے۔ مسلمان کے یہاں یہ نجس اور ناپاک ہے ہندو مرتاہے تو جلا دیا جاتا ہے مسلمان دفن کیا جاتا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو سے منسوب یہ قول مشہور ہے کہ انہوںنے طنزاً فرمایا کہ مسلمان کلچر کیا ہے؟ ایک خاص قسم کی تاراش کا پاجامہ اور ایک ٹوٹی دار لوٹا اوراس کا ی جواب کہ تو پھر ہندو کلچر بھی کیا ہے ایک خاص طرز کی دھوتی یا دھتیا اور ایک خاص طرز کی بلا ٹونٹی کی لٹیا طنز کی جو حقیقت کچھ ہو اس سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے کلچر کے لباس ظاہری کا فرق بھی ظاہر ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تہذیبی اثاث یا کلچر کیا ہے جسے ہم میراث اسلام سے تعبیر کرتے ہیں اور جس کے علمبردار علامہ اقبال ہیں۔ اس میں سب سے پہلے وہ عقیدہ اور ایمان ہے جس کا تعلق قرآن حکیم سے ہے، خود قرآن حکیم میں ارشاد ہوا ہے: ’’ الم (۱) یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں، راہ بتلانے والی ہے خدا سے ڈرنے والوں کو وہ خدا سے ڈرنے والے لوگ ایسے ہیں جو یقین لاتے ہیں غیب (چھپی ہوئی چیزوں پر) اور قائم کرتے ہیں نماز کو اور جو کچھ دیا ہے ہم نے ان کو اس میں سے خرچ کرتے ہیں (خدا کی راہ میں) اور وہ لوگ ایسے ہیں کہ یقین رکھتے ہیں اس کتاب پر بھی جو آپ کی طرف اتاری گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری جا چکی ہیں اور آخرت پر بھی وہ لوگ یقین رکھتے ہیں بس یہ لوگ ہیں ٹھیک راہ پر جو کہ ان کے پروردگار کی طرف سے ملی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں پورے کامیاب۔‘‘ (۲/۵۔۱) ایک اور مقام پر ہے: ’’ اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو وحی الٰہی کے بغیر اپنے جی سے تصنیف کر لیا جائے بلکہ یہ تو ان تمام تعلیمات کی تصدیق ہے جو پہلے نازل ہو چکی ہیں اور الکتاب کی تفصیل ہے، اس میں ذرا شک نہیں کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔‘‘ (سورہ یونس ۳۷) اور فرمایا: ’’ الٓم، اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ اس کتاب کا نزول رب العالمین کی طر ف سے ہوا ہے۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول ؐ نے از خود گڑھ لیا؟ نہیں، بلکہ یہ تو کتاب برحق ہے۔ آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کی ہوئی، تاکہ آپ اس کے ذریعہ اس قوم کو غلط روش کے انجام بد سے ڈرائیں، جس قوم کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں پہنچا ہے، تاکہ یہ ٹھیک راہ پر چلیں۔‘‘ (الم۔ سجدہ۔ ۱۔۳) اور اگر کوئی اس کو نہ مانے تو: ’’ اور اگر تمہیں اس بات میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی یہ ہماری ہے یا نہیں؟ تو اس کے مثل ایک ہی سورت بنا لاؤ، اپنے سارے ہمنواؤں کو بلا لو، ایک اللہ کے سوا جس جس سے چاہو مدد لے لو، اگر تم سچے ہو، لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور یقینا کبھی نہیں کر سکتے، تو ڈرو، اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر، جو تیار کی گئی ہے۔ منکرین حق کے لئے۔‘‘ (البقرہ۔ ۲۳۔ ۲۴) قرآن حکیم کے باب میں بھی اور بھی آیات پیش کی جا سکتی ہیں کہ یہ اہل ایمان کے لیے ہدایت اور نجات کا وسیلہ ہے۔ شریعت اسلامی کا یہ پہلا رکن ہے اور متفق الیہ ہے یہ روز مرہ زندگی، ان کی تہذیب و کلچر، ان کی معاشرت، ان کی معاشی زندگی ان کی سیاست مدن سب کا واحد سرچشمہ ہے۔ جس بات کی قرآن حکیم میںاجازت ہے، جو جائز ہے وہ جائز ہے اور جس چیز سے منع کیا گیا اور روکا گیا وہ ناجائز ہے، یہ شمع ہدایت، یہ روشنی کا مینار میراث اسلام میں پہلا اور اہم ترین عنصر ہے۔ حجتہ الوداع کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کا آخری طواف کر کے مکہ معظمہ سے رخصت ہوئے تو راہ میں مقام خم پر تمام صحابہ کو جمع کر کے ایک مختصر سا خطبہ دیا فرمایا۔ 1؎ ’’ حمد و ثناء کے بعد اے لوگو! میں بھی بشر ہوں، خدا کا فرشتہ جلد آ جائے اور مجھے قبول کرنا پڑے (یعنی موت) میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑتا ہوں، ایک خدا کی کتاب، جس کے اندر ہدایت اور روشنی ہے خدا کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑو اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں میں اپنے اہل بیت کے بارہ میں تمہیں خدا کو یاد دلاتا ہوں۔‘‘ جب رسول کریم صلی علیہ و آلہ وسلم کی وفات ہوئی تو علامہ شبلی کے الفاظ میں: ’’ عقیدت مندوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ حضور نے اس دنیا کو الوداع کہا، چنانچہ حضرت عمرؓ نے تلوار کھینچ لی کہ جو یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی اس کا سر اڑا دوں گا، لیکن حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے اور انہوں نے تمام صحابہ کے سامنے خطبہ دیا کہ حضور ؐ کا اس جہان سے تشریف لے جانا یقینی تھا اور قرآن مجید کی آیتیں پڑھ کر سنائیں تو لوگوں کی آنکھیں کھلیں اور اس ناگزیر واقعہ کا یقین آیا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عباسؓ2؎ نے فرمایا: ’’ جو شخص اللہ کی کتاب کی پیروی کرے گا وہ نہ تو دنیا میں بے راہ ہو گا اور نہ آخرت میں، اس کے حصہ میں محرومی آئے گی، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ فمن اتبع الخ جو شخص میرے ہدایت نامہ کی پیروی کرے گا وہ نہ تو دنیا میں بھٹکے گا اور نہ آخرت میں بدبختی سے دو چار ہو گا۔‘‘ حضرت ابو ہریرہؓ3؎ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا ’’ قرآن مجید میں پانچ چیزیں ہیں، حلال، حرام، محکم متشابہ اور امثال، پس حلال کو سمجھو، حرام کو حرام قرار دو، محکم (قرآن کا وہ حصہ ہے جس میں عقیدہ اور قانون وغیرہ کی تعلیم دی گئی ہے) پر عمل کرو، اور متشابہ (قرآن کا وہ حصہ جس میں آخرت کی باتیں بیان ہوئی ہیں جیسے جنت، دوزخ، عرش، کرسی وغیرہ) پر ایمان رکھو (اور اس کی کرید میں تم پڑو) اور امثال (قوموں کی تباہی کے عبرت ناک قصے) سے عبرت حاصل کرو۔‘‘ 1؎ سیرۃ النبی حصہ دوم، تالیف علامہ شبلی نعمانی، اضافہ و تکملہ سید سلیمان ندوی طبع دوم ۱۳۴۱ھ مطبع معارف اعظم گڑھ۔ ص ۱۶۵۔ ۱۶۶ 2؎ راہ عمل، جلیل احسن ندوی طبع سوم، لاہور، دسمبر ۱۹۶۶ء ص ۴۶ 3؎ ایضاً علامہ اقبال کے یہاں میراث اسلام میں قرآن حکیم کی بنیادی حیثیت اور اہمیت کے بارے میں ایک واضح نقطہ نظر موجود ہے، جاوید نامہ میں خطاب بہ جاوید (سخنے بہ نژاد نو) کے عنوان میں یہ شعر دیکھئے: سینہ ہا از گرمی قرآں تہی از چنیں مرداں چہ امید بہی زندگی اور حرارت سینہ میں قرآن کی گرمی سے ہے۔ مسلمان کا سینہ اگر اس سوز سے محروم ہو تو پھر بقول علامہ مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے اور اسی عنوان میں یہ شعر بھی ہے۔ صاحب قرآن و بے ذوق طلب العجب، ثم العجب، ثم العجب اور یہ شعر مرد مومن را عزیز راے نکتہ رس چیست جز قرآن و شمشیر و فرس حقیقی علم، علم قرآن ہے اور عصر حاضرہ کا المیہ یہی ہے کہ عالم علم قرآن سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ عالماں از علم قراں بے نیاز صوفیاں و زندہ گرگ دمو دراز اسی سلسلے میں جاوید نامہ میں ایک عنوان بڑا اثر انگیز ہے، یہ ’’ قصر شرف النسائ‘‘ ہے۔ علامہ اقبال جب اپنے سفر افلاک میں پیر رومی کی معیت میں جنت فردوس میں پہنچتے ہیں تو انہیں لعل ناب کا ایک قصر نظر آتا ہے، آگے خود علامہ کی زبان سے سنئے: گفتم ایں کاشانہ از لعل ناب آنکہ می گیرد خراج از آفتاب ایں مقام، ایں منزل ایں کاخ بلند حوریاں بر در گہش احرام بند اے تو وادی سالکاں را جستجوئے صاحب او کیست؟ بامن باز گوئے گفت ایں کاشانہ شرف النساء ست مرغ بامش با ملائک ہمنوا ست قلزم ما ایں چنیں گوہر نزاد ہیچ ما در ایں چنیں دختر نزاد خاک لاہور از مزارش آسماں کس نداند راز او را در جہاں آن سراپا ذوق و شوق و درد د داغ حاکم پنجاب را چشم و چراغ آن فروغ دودہ عبدالصمد فقر او نقشے کہ ماند تا ابد تاز قرآن پاک می سوزد و جرد از تلاوت یک نفس فارغ نبود در کمر تیغ دو رو قرآں بدست تن بدن ہوش و ہواس اللہ مست خلوت و شمشیر و قرآن و نماز اے خوش آں عمرے کہ رفت اندر نیاز برلب او چوں دم آفر رسید سوئے مادر دید دمشتاقانہ دید گفت اگر از راز من داری خبر سوئے ایں شمشیر و ایں قرآں نگر ایں دور قوت حافظ یک دیگر اندر کائنات زندگی را محور اند اندریں عالم کہ میرد ہر نفس دخترت را ایں دو محرم بود و بس وقت رخصت با تو دارم ایں سخن تیغ و قرآں راجد از من مکن دل بہ آں حرفے کہ می گویم بند قبر من بے گنبد و قندیل بہ مومناں را تیغ با قرآن بس است تربت ما را ہمیں ساماں بس است عمر ہا در زیر ایں زریں قباب بر مزارش بود شمشیر و کتاب مرقدش اندر جہان بے ثبات اہل حق را داد پیغام حیات تا مسلماں کرد با خود آنچہ کرد گردش دوراں بساطش در سوزد مرد حق از غیر حق اندیشہ کرد شیر مولا رو بہی را پیشہ کرد از دلش تاب و تب سیماب رفت خود بدانی آنچہ بر پنجاب رفت خالصہ شمشیر و قرآن را ببرد اندراں کشور مسلمانی بمرد اس سے بڑی تقدیر کی ستم ظریفی اور کیا ہو گی کہ پنجاب میں جو مسلم اکثریت کا علامہ تھا اور جس سر زمین میں داتا گنج بخش جیسے روحانی پیشواؤں کا اثر و تصرف کار فرما تھا مسلمان سکھ اقلیت کے زیر حکومت رہے اور وہ سارا دور انتہائی ذلت اور رسوائی کے عالم میں گزارا۔ علامہ کے نزدیک اس کا سبب صرف یہ تھا کہ مسلمانوں نے قرآن اور تلوار کو ترک کر دیا۔ قرآن حکیم کی اس اساسی اہمیت کا اندازہ ایک واقعہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اسے علامہ نے خود بھی بیان کر ہے لیکن یہاں پروفیسر رشید احمد صدیقی مرحوم کی زبانی سنئے1؎ـ: ’’ مرحوم (علامہ اقبالؒ) کو سر سید راس مسعود مرحوم سے بڑی شیفتگی تھی، اسی طرح سر راس کو اقبال سے بڑا شغف تھا۔ لیڈی مسعود کو اقبال مرحوم سے جو عقیدت تھی اور جس طور پر ڈاکٹر صاحب کی صحت و آرام کا موصوفہ خیال رکھتی تھیں اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے بھوپال میں بڑے اصرار کے ساتھ ایک خوش الحان قاری مقرر کر دیا تھا جو ہر صبح آدھ گھنٹے تک لیڈری مسعود کو کلام پاک سناتے، یہ وہ زمانہ تھا جب لیڈی مسعود کی دوسری بچی نادرہ پیدا ہونے والی تھی، مرحوم فرمایا کرتے تھے 1؎ اقبال، شخصیت اور شاعری، پروفیسر رشید احمد صدیقی، اقبال اکیڈیمی، لاہور، طبع اول ۱۹۷۶ء ص ۱۷۔ ۱۸ کہ ایام حمل میں کسی خوشی لہجہ قاری سے اگر ماں کلام پاک سن لیا کرے تو بچہ پر اس کا بہت اچھا اثر پڑے گا، ممکن ہے یہی خیال ہو جس کی بناء پر اقبال نے ارمغان حجاز میں دختران ملت کو یوں خطاب کیا ہے۔‘‘ ز شام ما بروں آور سحر را بہ قرآں باز خواں اہل نظر را تو می دانی کہ سوز قرأت تو دگرگوں کر دتقدیر عمرؓ را مرحوم کا ملازم علی بخش اس پر مامور تھا کہ قاری صاحب آئیں تو لیڈی مسعود کو کلام پاک سننے کے لیے فوراً آمادہ کرے، مرحوم خود بھی خیال رکھتے تھے کہ یہ فریضہ پورا ہوتا رہتا ہے یا نہیں۔ ایک دن مرحوم نے علی بخش کو آواز دی کہ قاری صاحب آئے ہوئے ہیں، لیڈی مسعود کہاں ہیں۔ علی بخش نے قدرے آزدہ اور تلخ ہو کر اپنی زبان میں کہا قرآن کیا سنیں گی وہ لو صبح ہی صبح باغ میں پھول کاٹنے چلی جاتی ہیں، وہاں سے فرصت ملے تو آئیں، میں کیا کروں مرحوم خاموش ہو گئے، فرمایا، صبر، علی بخش صبر، یہ کام بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اسی سلسلے میں ایک واقعہ مولانا محمد علی مرحوم کا بھی بیان کیا ہے کہ مرحوم تحریک خلافت کے سلسلے میں یورپ جا رہے تھے ایک الوداعی صحبت میں کسی نے دریافت کیا کہ راستہ میں دل بہلانے کے لئے کوئی کتاب بھی ساتھ ہے، فرمایا کیوں نہیں۔ سوال کرنے والے نے فرمایا، معاف کیجئے، میں پوچھ سکتا ہوں کہ کس کس قسم کی اور کون کون سی کتابیں، مرحوم نے فرمایا دو کتابیں رکھ لی ہیں اور وہی کافی ہیں، بقول رشید صاحب ’’ حاضرین ان کتابوں کا نام سننے کے لئے سراپا اشتیاق بن گئے، مرحوم نے اپنے خاص انداز میں فرمایا ایک تو کلام پاک ہے اور دوسرا دیوان داغ۔۔۔‘‘ یہ بات محض اتفاقی نہیں کہ علامہ اقبال کو ایک طرف قرآن حکیم کی اہمیت کا جو احساس تھا وہ ان کی نظم و نثر، شاعری، مکاتیب، مقالات، خطبات میں ہر جگہ ملتا ہے اور دوسری طرف وہ داغ کو اپنی استادی کے لئے منتخب رکتے ہیں، اس نکتہ پر رشید صاحب کا یہ تبصرہ دیکھئے: ’’ یہاں کسی طویل نفسیاتی مذاکرہ کو راہ دینا نہیں چاہتا، اصل مقصد دو عظیم المرتبت شخصیتوں کی ذہنی پرواز و پرداخت کی طرف اشارہ کرنا ہے۔1؎‘‘ اقبال اور قرآن حکیم بجائے خود ایسا موضوع ہے جس کے جائزہ کے لئے ایک پورا دفتر درکار ہے۔ یہاں ان کے کلام سے محض نمونہ کے لئے بعض اشعار نقل کئے جاتے ہیں جس سے ایک طرف علامہ کے مطالعہ قرآن، تفہیم قرآن اور تشریحی نقطہ نظر کا اندازہ ہوتا ہے وہاں دوسری طرف اسلامی معاشرہ کے بنیادی رکن کی حیثیت سے قرآن کی اہمیت و افادیت واضح ہوتی ہے اور یہی علامہ کے نزدیک مسلمانوں کے تہذیبی ورثہ کی خشت اول ہے۔ ضرب کلیم اسی قرآں میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر 1؎ ایضاً، ص۱۹ تو معنی و النجم نہ سمجھا تو عجب کیا ہے تیرا مد و جزر ابھی چاند کا محتاج خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام وہ جس کی شان میں آیا ہے علم الاسماء مقام فکر ہے پیمائش زمان و مکان مقام ذکر ہے، سبحان ربی الاعلی میں نے اے میر سپہ تیری سپہہ دیکھی ہے قل ھو اللہ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی آہ اسے مرد مسلماں تجھے کیا یاد نہیں حرف لا تدع مع اللہ الاھا آخر! جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا اتر گیا جو ترے دل میں لا شریک لہ ٭٭٭ بال جبریل محمدؐ بھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا مگر یہ حرف شیریں، ترجماں تیرا ہے یا میرا احکام تیرے حق ہیں، مگر اپنے مفسر تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند نگاہ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں وہی طہٰ عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے مثل کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لا تخف تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر تھا ارنی گو کلیم ؑ، میں ارنی گو نہیں اس کو تقاضا روا، مجھ پر تقاضا حرام جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی میرے کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک تیرا جوہر ہے نوری پاک ہے تو فروغ دیدۂ افلاک ہے تو ترے صید زبوں افرشتہ حوریں کہ شاہین شہ لولاک ہے تو عطا اسلاف کا جذب دروں کر شریک زمرۂ لا یحزنوں کر خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر ٭٭٭ دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لا تذر میں ٭٭٭ اسرار خودی آں کہ براعدا در رحمت کشاد مکہ را پیغام لا نشریب داد تا خدائے کعبہ بنو ازد ترا شرح انی جاعل سازد ترا پنجہ او پنجہ حق می شود ماہ از انگشت او شق می شود نعرہ زد اے قوم کذاب آشر بے خبر از یوم نحش مستمر تو ہم از باب فرائض سر متاب بر خوری از عندہ حسن المآب در کف مسلم مثال خنجر است قاتل فحشا و بغی و منکر است دل ز حتی تنفقوا محکم کند زر فزاید الفت زر کم کند تا جہاں باشد جہاں آرا شوی تاجدار ملک لا یبلیٰ شوی مدعائے علم الاسما ستے سر سبحان الذی اسرا ستے از عصا دست سفیدش محکم است قدرت کامل بعلمش تو ام است خشک سازد ہیبت او نیل را می بردانہ مصر اسرائیل را ماندہ ایم از جادہ۷ تسلیم دوز تو ز آزر من ز ابراہیم ؑ دور قلب را از صبغتہ اللہ رنگ دہ عشق را ناموس و نام و ننگ دہ خیمہ در میدان الا اللہ زدست در جہاں شاہد علی الناس آمدست از ہوس آتش بجاں افروختے تیغ را ہل من مزید آموختی علم مسلم کامل از سوز دل است معنی اسلام ترک افل است حرف اقراء حق بما تعلیم کرد رزق خویش از دست ما تقسیم کرد چوں ز بند اول ابراہیم است درمیان شعلہ ہانیکو نشست آیتے بنماز آیات مبیں تا شود اعناق اعا خاضعین ٭٭٭ رموز بیخودی جانم از صبر و سکوں محروم بود ورد من یا حیی یا قیوم بود اہل حق را رمز توحید از برست در انی الرحمن عبداً مضمر است تا مسلمانیم و اولاد خلیل از ابیکم1؎ گیرا گر خواہی دلیل مرگ را سامان ز قطع آرز دست زندگانی محکم از لا تقنطو است اے کہ در زندان غم باشی اسیر از نبی تعلیم لا تحزن بگیر قوت ایماں حیات افزا ایدت ورد لا خون علیھم بایدت چوں کلیمے سوئے فرعونے ردد قلب او از لاتخف محکم شود جاوید نامہ جاوید نامہ کا ایک عنوان ہے ارض ملک خداست، قرآن حکیم میں بکثرت آیات ایسی عنوان اور مفہوم کو ظاہر کرتی ہیں، 1؎ ملتہ ایکم ابراہیم، سورہ الحج ۲۳/۷۸ چند اشعار پہلے جاوید نامہ سے دیکھئے: حق زمیں را جز متاع ما نگفت ایں متاع بے بہا مفت است مفت دہ خدا یا! نکتہ از من پذیر رزق و گور از دے بگیر او را مگیر صحبتش تاکے تو بو دو او نبود تو وجود و او نمود بے وجود باطن الارض للہ ظاہر است ہر کہ ایں ظاہر نہ بیند کافر است قرآن کریم کا ارشا دہے: وللہ ملک السموات والارض وما فیھن (المائدہ آیت ۱۲۳) آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور سب کا مالک اللہ ہے ہے اور لہ مقالید السموات والارض۔ الشوریٰ آیت ۱۲ آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اس کے پاس ہیں میں نے صرف مثالاً یہ دو حوالے پیش کئے ہیں۔ اللہ کی حاکمیت مطلق کا تصور مسلمانوں کی سیاست اور ان کی حکومت کی اساس اور بنیاد ہے۔ حکومت اور غلبہ بھی اسی کو حاصل ہے۔ پھر ایک مرتبہ قرآن حکیم کی طرف رجوع کیجئے: واللہ غالب علی امرہ سورہ یوسف ۱۲/۲۱ (اور اللہ اپنے کام پر غالب رہنے والا ہے) اور لا یشرک فی حکمہ احداً ۱۸/۳۶ (اللہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا) اور واللہ یحکم لا معقب لحکمہ ۱۳/۴۱ (اللہ حکم دیتا ہے اس کے حکم پر گرفت کرنے والا کوئی نہیں) چنانچہ اسلام کے یہی بنیادی عقائد ہیں جو ایک اسلامی معاشرہ کے قیام کے لئے اساسی حیثیت رکھتے ہیں اور کوئی کلچر ہو ثقافت اس کا ارتقاء اور پھیلاؤ کسی نہ کسی عقیدہ کی اساس پر قائم ہوتا ہے اور قرآن حکیم اس عقیدہ کا رہبر اور رہنما ہے کہ قرآن حکیم میں خود اس کے متعلق ارشاد ہوا ہے۔ الم ذالک الکتب لا ریب فیہ ہدی للمتقین البقرہ۲/۲ الم ۔ (یہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، جو پرہیز گار ہیں ان کے لئے ہدایت ہے) وہ خدا جو اس دنیا کا خالق، اس کائنات کا مالک ہے اسی کی ذات عبادت کے لائق ہے۔ جس طرح دیگر اقوام او رمذاہب میں اپنے اپنے معبودوں کی عبادت، پوجا پاٹ، مدح و ثناء کے لئے مخصوص عمارات تعمیر کی گئیں، اسلام کے نام لیوا اللہ کے بندوں نے بھی خدائے قادر مطلق کی عبادت اور تمجید کے لئے عبادت گاہیں بنائیں،د نیا میں پہلا گھر خدا کا حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کے ساتھ مل کر تعمیر کیا قرآن حکیم میں اس کا ذکر یوں آیا ہے: واذ ابتلیٰ ابراہیم ربہ۔۔۔۔ وانتم مسلمون (سورہ البقر ۱۲۴۔ تا ۱۳۲) ’’ اور جس وقت امتحان کیا (حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا ان کے پروردگار نے چند باتوں میں اور وہ ان کو پورے طور سے بجا لائے (اس وقت) حق تعالیٰ نے (ان سے) فرمایا کہ میں تم کو لوگوں کا مقتدا بناؤں گا انہوں نے عرض کیا اور میری اولاد میں سے بھی کسی کو (نبوت دیجئے) ارشاد ہوا کہ میرا (یہ) عہدہ (نبوت) خلاف ورزی کرنے والوں کو نہ ملے گا، اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے کہ جس وقت ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا معبد اور (مقام) امن مقرر کیا اور مقام ابراہیم ؑ کو (کبھی کبھی) نماز پڑھنے کی جگہ بنا لیا کرو۔ اور ہم نے (حضرت ابراہیم) اور حضرت اسماعیل ؑکی طرف حکم بھیجا کہ میرے (اس) گھر کو خوب پاک صاف رکھا کرو بیرونی اور مقامی لوگوں (کی عبادت) کے واسطے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے واسطے اور جس وقت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! اس کو ایک (آباد) شہر بنا دیجئے امن (و امان) والا اور اس کے بسنے والوں کو پھلوں سے بھی عنایت کیجئے ان کو (کہتا ہوں) جو کہ ان میں سے اللہ تعالیٰ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں، حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اور اس شخص کو بھی جو کہ کافر رہے۔ سو ایسے شخص کو تھوڑے روڈ تو خوب آرام برتاؤں گا پھر اس کو کشاں کشاں عذاب دوزخ میں پہنچاؤں گا اور وہ پہنچنے کی جگہ تو بہت بری ہے، اور جب کہ اٹھا رہے تھے ابراہیم (علیہ السلام) دیواریں خانہ کعبہ کی اور اسماعیل ؑ بھی (اور یہ کہتے جاتے تھے) اے ہمارے پروردگار (یہ خدمت) ہم سے قبول فرما لے، بلا شبہ آپ خوف سننے والے، جاننے والے ہیں اے ہمارے پروردگار! ہم کو اپنا اور زیادہ مطیع بنا لیجئے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک ایسی جماعت (پیدا) کیجئے جو کہ آپ کی مطیع ہو اور (نیز) ہم کو ہمارے حج (وغیرہ) کے احکام بھی بتلا دیجئے اور ہمارے حال پر توجہ رکھیے (اور) فی الحقیقت آپ ہی ہیں توجہ فرمانے والے مہربانی کرنے والے اے ہمارے پروردگار اور اس جماعت کے اندر ان ہی میں کے ایک ایسے پیغمبر بھی مقرر کیجئے جو ان لوگوں کو آپ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کریں اور ان کو (آسمانی) کتاب کی اور خوش فہمی کی تعلیم دیا کریں اور ان کو پاک کر دیں، بلا شبہ آپ ہی ہیں غالب القدرت کامل الانتظام اور ملت ابراہیمی سے تو وہی روگردانی کرے گا جو اپنی ذات ہی سے احمق ہو، اور ہم نے ان (ابراہیم علیہ السلام) کو دنیا میں منتخب کیا اور (اسی کی بدولت) وہ آخرت میں بڑے لائق لوگوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ جبکہ ان کے پروردگار نے فرمایا کہ تم اطاعت اختیار کرو، انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اطاعت اختیار کی رب العالمین کی اور اسی کا حکم کر گئے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بیٹوں اور (اسی طرح) یعقوب علیہ السلام بھی، میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے اس دین کو تمہارے لئے منتخب فرمایا سو بجز اسلام کسے اور کسی حالت پر جان مت دینا۔‘‘ 1؎ 1؎ ترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی طبع تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور تو ملت اسلامیہ کا یہ قبلہ تھا جس کی تعمیر اللہ کی تقدیس و تسبیح کے لئے اس کے ایک نیک بندے اور اس کے بیٹے کے ہاتھوں ہوئی اور دنیا کے بتکدوں میں خدا کا یہ پہلا گھر بنا، وہ جذبہ جو اس تعمیر کا محرک تھا خدا کی مرضی اور منشا کو پورا کرنا تھا، ایک ایسے مرکز کا قیام جو ملت ابراہیمی کی وحدت اور مرکزیت کی علامت بھی ہو اور ان کے جذبات عقیدت و عبودیت کا اظہار بھی اگر ہم تہذیب کے آثار ظاہری کی میراث پر نظر رکھیں تو گویا ابراہیمی ؑ اور اسلامی فن تعمیر کا یہ نقطہ آغاز ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جملہ فنون لطیفہ میں مسلمان فن کاروں میں یہی جذبہ تخلیق فن کا محرک رہا ہے۔ اسلامی فنون کے ایک مغربی نقاد کا یہ قول دیکھئے: Of all elements in Islamic art the most important, undoubtedly, is religion the multitude of small empires and Kingdoms that had adopted Islam felt in spite of racial prides and jealouses first and fore most Muslims and not Arab, Turkish or persian. they all Knew, spoke, and wrote some arabic, the language of the Koran. They all assem beld in the mosque, the religious building that with minor alternations was of the same design throughout the Muslim world. and they all faced Mecca. the center of Islam. symblised by the Kaaba (Qaaba) a pre Muslim sonctuary adopted by Muhammad as the point towards which each Muslim shoul lern in Prayer. in every prayer hall there was a focal or kibla wall, which faced Mecca, with a central niche, the Mihrab. All Muslims shared the basic belief in Muhammad's the Mihrab. All Muslims shared the basic belief in Muhammad's message. The recognition of the all embracing power and absolute message. The recognition of all the all embracing power and abolute superiority of the one God (Allah). The creed of all Muslims reads alike there is no god but God (Allah) and Muhammad is his prohet. in all Muslims of every race and country there is the same feeling of being equal in the face of Allah on the day of Judgement. 1؎ Ernest. G. Grube. The world of Islam. Land marks of the world's Art srevices. Published Paul Hamlyn London. n. d. یہ مصنف نیو یارک کے Metropolitan Museum of Art کے شعبہ اسلامیات کے کیوریٹر ہیں۔ ’’ اسلامی فن کے عناصر میں بلا شبہ سب سے اہم عنصر مذہب ہے، چھوٹی بڑی بکثرت حکومتوں اور سلطنتوں نے اسلام کو قبول کر لیا لیکن اس کثرت کے باوصف اور اس کے باوجود ان کے نسلی فخر و مباہات اور حسد و مقابلہ کے وہ سب کے سب پہلے او رسب سے پہلے صرف مسلمان تھے نہ کہ عرب، ترک یا ایرانی وہ کسی نہ کسی حد تک عربی سے واقف تھے اسے بول سکتے، لکھ سکتے اور پڑھ سکتے تھے کہ یہ قرآن حکیم کی زبان تھی، وہ سب مسجد میں جمع ہوتے تھے۔ ایک معبد یا مذہبی عمارت جس کا ڈیزائن ڈھانچہ نہایت خفیف فرق کے ساری دنیائے اسلام کے لئے ایک تھا اور ان سب کا رخ ایک ہی سمت ہوتا۔ کعبہ جو مرکز اسلام تھا قبل اسلام کی تعمیر شدہ معبد اور جسے مسلمانوں کے پیغمبر محمد ؐ نے (اللہ کے حکم سے) ہر مسلمان کے لئے قبلہ ٹھہرایا کہ وہ اس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرے، ہر مسجد میں ایک مرکزی والان یا کمرہ ہوتا جس کا رخ مکہ کی جانب ہوتا اور یہ دیوار قبلہ ہوتی جو گویا مسجد کا مرکزی نقط ہوتی۔ اور اس میں ایک مرکزی محراب ہوتی۔ دنیائے اسلام میں بسنے والے تمام مسلمانوں کا (حضرت) محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیغام پر ایمان تھا اور وہ ایک قادر مطلق اور حاکم مطلق، ایک خدائے واحد کو ماننے والے تھے، سارے مسلمانوں کا کلمہ ایک ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ساری دنیائے اسلام میں چاہے کسی نسل یا ملک کا مسلمان ہو ان سب میں یہ احساس بھی مشترک ہے کہ ایک روز (جو روز قیامت ہو گا) حساب کا یسا ہو گا جب وہ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے اور سب برابر ہوں گے۔‘‘ یہ بیان نہایت اہم ہے کیونکہ نہ صرف مسلمانوں کے فن تعمیر کے بنیادی عناصر کی اس سے نشان دہی ہوتی ہے بلکہ جیسا کہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے فنون آرائش و زیبائش، خطاطی ، ظروف سازی، قالین بافی غرض ان تمام تخلیقی نمونوں میں جن کو ہم آرٹ سے تعبیر کرتے ہیں اسی بنیادی جذبہ جسے مصنف نے جذبہ مذہب کہا ہے کار فرما ہے اور کوئی تعجب نہیں کہ علامہ اقبال کی بہترین نظموں میں ایک نظم مسجد قرطبہ بھی ہے جو ان کی فکر و فن، ان کے احساسات اور جذبات کی مکمل ترجمان بھی ہے اور اسلامی آرٹ کے نظریہ کی تشریح و توضیح بھی اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ سرسید 1؎ احمد خاں نے اپنے خطبات میں تعمیر کعبہ اور اس کے تاریخی پس منظر کو نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے، اس کے بعض اقتباسات دیکھئے۔ ’’ تاریخ کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں داریں ہی دیواریں بنی تھی اور دروازہ زمین سے ملا ہوا تھا اور اس میں نہ کواڑ چڑھے تھے۔ نہ کنڈی لگی تھی اور بلا شبہ اس زمانہ کی حالت ایسی تھی کہ اس سے زیادہ تعمیر مکان میں گو وہ خدا ہی کا گھر بنایا گیا ہو اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا، اس عمارت کے ایک بیرونی گوشہ پر طواف کے شمار کرنے کو جس سے اس کی ابتداء اور انتہا معلوم ہو سکے، ایک پتھر لگا دیا جو حجر اسود کے نام سے مشہور ہے اور جس کے قیاس کرنے کی وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ پتھر 1؎ سرسید احمد خاں ’’ سر‘‘ خطبات الاحمدیہ فی العرب و السیرت المحمدیہ طبع نفیس اکیڈیمی، کراچی پہلا پاکستانی ایڈیشن، ۱۹۶۴ء آٹھواں خطبہ صفحہ: ۳۵۸تا ۳۹۶ غالباً اسی قسم کا پتھر ہے جیسا کہ ابراہیم ؑ خدا کی عبادت کے لئے کھڑا کر لیا کرتے تھے جس کو مذبح،ق ربانی گاہ یا سلاٹر کہتے ہیں۔ اس چار دیواری کے اندر ایک کنواں کھودا تھا جس کو خزانہ کعبہ کہتے تھے اور جو کچھ نذر و نیاز کعبہ میں آتی تھی وہ اس میں رکھ دیتے تھے تاکہ چوری سے محفوظ رہے۔‘‘ 1؎ کعبہ کی تعمیر میں قدرتی طور پر صدیوں کے انقلابات کے باعث تعمیری تبدیلیوں کا امکان ظاہر ہے۔ سرسید احمد خان نے اپنے خطبہ محولہ بالا میں ان تعمیرات کا کچھ حال بیان کیا ہے اور تاریخ کی کتابوں میں اس کی تفصیل مل سکتی ہے لیکن یہ ہمارے موضوع سے خارج ہے بنیادی طور پر جو بات اہم ہے یہ ہے کہ یہ عمارت ایک مقصد کے لئے تعمیر ہوئی تھی اور یہ مقصد خدائے قادر و قدوس کے حضور بندہ کا نذرانہ عبودیت پیش کرنا تھا اور اس مقصد کے اظہار کے لئے ایک وسیع اور کشادہ عمارت کی ضرورت تھی، خانہ کعبہ میں جو توسیع ہوئی اور آج تک ہو رہی ہے اس سے تعمیر کا یہ مقصد صاف ظاہر ہے۔ آج یہ دنیا میں غالباً سب سے وسیع و عریض مذہبی عمارت ہے اور خانہ کعبہ سے ملحق بڑا صحن جس میں حجاج طواف کرتے ہیں ایک کھلا ہوا صحن ہے۔ مسلمانوں کی مساجد کے برعکس بعض مذاہب میں عبادت خانے بند، محصور اور تیرہ و تار ہوتے ہیں جہاں روشنی اور تاریکی کے امتزاج سے ایک پر اسرار فضا پیدا ہوتی ہے۔ ایسی عبادت گاہوں میں ایسی عمارتوں میں فنکاری اور صناعی کے نادر نمونے تو موجود ہیں لیکن جلال و جمال کی آمیزش مفقود ہے جو اسلامی فن تعمیر کی خصوصیت ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور مغربی مصنف 2؎ کا یہ بیان د یکھئے: ’’ تعمیر کے بیشمار مختلف طریقوں کو ایک ایسے اسلوب کے سانچے میں ڈھالنا جس کی اپنی امتیازی خصوصیتیں قائم ہو جائیں، حقیقت میں دین اسلام کی برکت تھی کیونکہ عربوں نے اپنے اوائل عہد میں جو عمارتیں بنائیں وہ زیادہ تر مسجدیں اور محل تھے اور بعد کی صدیوںمیں بھی زیادہ تر اہم عمارات مثلاً مساجد، مدرسے، خانقاہیں بھی مذہبی حیثیت رکھتی تھیں، مسجد عربوں کی ایک مخصوص عمارت تھی، اگرچہ مختلف مقامات پر اس کی شکل و ہیئت میں فرق ہوتا تھا لیکن اس کے مخصوص خد و خال مشترک تھے، مکہ معظمہ کے حج میں دنیا کے تمام حصوں سے حجاج جمع ہوتے تھے اس لئے مسجد کی ایک معیاری شکل و صورت قائم ہو گئی تھی، ہر عازم حج اپنے طویل سفر کے دوران میں جس شہرمیں سے گزرتا وہاں کی مسجد میں نماز پڑھتا، ان عازمین حج میں سے بعض معمار اور کاریگر ہوتے چنانچہ وہ مسجد کے ڈیزائن کو اپنے ذہن میں جما لیتے۔‘‘ یہی مصنف آگے چل کر لکھتا ہے کہ مدینہ منورہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۶۲۲ ھ میں جو ابتدائی مسجد تعمیر 1؎ سید احمد خان سر خطبات الاحمدیہ فی العرب والسیرت المحمدیہ طبع نفیس اکیڈمی، کراچی، پہلا پاکستانی اڈیشن، ۱۹۶۴ء آٹھواں خطبہ ۳۷۵ تا ۳۷۶ 2؎ مارٹن ایس برگز مقالہ فن تعمیر مشمولہ میراث اسلام مرتبہ سر تامس آرنلڈ والفریڈ گیام، مرتبہ عبدالمجید سالک مجلس ترقی ادب، لاہور، صفحہ ۲۱۹ کی وہ دوسروں کے لئے نمونے کا کام دیتی تھی۔ یہ ایک چوکور احاطہ تھا اور اس کا کچھ حصہ (غالباً شمالی) جہاں آنحضرت ؐ نماز کی امامت فرماتے مسقف تھا، چھت غالباً کھجور کی شاخوں سے پاٹی گئی تھی جن پر گارا لگا دیا گیا تھا اور ستون کھجور کے تنوں کے تھے اسی مصنف کے بقول اس قسم کی ابتدائی اور سادہ سی عمارت میں کسی تعمیری اسلوب کو کہیں سے مستعار لینے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ کوئی مخصوص تعمیری خدو خال مطلوب ہی نہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مسجد ۶۳۹ھ میں کوفہ میں تعمیر کی گئی تھی جس کی چھت سنگ مر مر کے ستونوں پر کھڑی تھی اور یہ ستون حیرہ کے ایرانی بادشاہوں کے ایک محل سے لائے گئے تھے اور اس کا خاکہ بھی مربع تھا لیکن اس کے گردا گرد دیوار کی جگہ خندق کھودی گئی تھی ایک اور مسجد قاہرہ کے مقام فسطاط پر ۶۴۲ھ میں تعمیر ہوئی اس کا خاکہ بھی چوکور تھا اس میں کھلا صحن نہ تھا اور ایک نیا اضافہ کیا گیا تھا یعنی منبر بنا دیا گیا تھا چند سال بعد ایک مقصودہ (چوبی جالی) کا اس میں اضافہ کر دیا گیا۔ مینار اس کے اواخر میں آئے اور محراب کی تعمیر اس کی کچھ مدت کے بعد ہوئی گویا مسجد نبوی کی پہلی تعمیر کو ایک صدی بھی نہیں گزری تھی کہ ’’ مسجد جامع‘‘ کے سارے خد و خال نمایاں ہو چکے تھے اور آج دنیائے اسلام میں ایک سے سے دوسرے سرے تک یہ خصوصیات اور خدو خال موجود ہیں آپ کسی ایسے علاقے میں چلے جائیں جہاں اسلام اور مسلمانوں کے قدم پہنچے ہیں وہاں آپ کو چاہے اور کوئی ان کی امتازی تعمیر ملے یا نہ ملے ایک مسجد ضرور ملے گی، جس کے مینار جس کے گنبد، جس کی محراب اپنی انفرادیت اور خصوصیت کی طرف پہلی نظر میں متوجہ کر لیتی ہے۔ سادہ سے ایک چبوترہ سے مسجد قرطبہ تک مسلمانوں کے فن تعمیر کی اس اساس کے اثرات موجود ہیں، ذیل میں ہم بعض اہم مساجد کا جو مسلمانوں کے فن تعمیر کا نمونہ اور شاہکار ہیں مختصر حال لکھتے ہیں۔ ۱۔ مسجد امیہ، یہ مسجد1؎ دمشق (شام) میں واقع ہے کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر2؎ ۷۰۵ھ اور ۷۱۵ء کے درمیان ہوئی رنگین پتھروں سے مزین ہے اور یہ انداز تسلسل کے ساتھ آخر دور بنو امیہ تک قائم رہا۔ ایک روایت ہے کہ یحییٰ ؑ پیغمبر بھی یہیں مدفون ہیں راقم مقالہ نے جب میں موجود لوگوں سے اس کا پتہ پوچھا اور تصدیق چاہی تو صرف ایک جواب ملا واللہ اعلم اس مسجد کی ایک اہمیت یہ ہے کہ قدیم ترین عربی مساجد میں ہے جو اب تک بعینہ قائم اور باقی ہے۔ اب مسجد کے قریب ایک کاروباری مرکز اور با رونق بازار مسقف بھی ہے جہاں خاص طور پر دمشقی ریشم اور دیبا کے پارچہ جات فروخت ہوتے ہیں۔ ۲۔ قبتہ الصخرا، یروشلم، اسلامی تاریخ میں یہ روایت درست ہے کہ زمانہ قدیم میں بھی اس جگہ عبادت گاہ تھی۔ قبتہ الضحرا کی مینا کاری (Mosaic) مسلمانوں کے فن تعمیر میں پہلی مرتبہ اس فن کے وجود کو ظاہر کرتی ہیں ایک مغربی مصنف کے اس قول سے کہ کسی وقت قبتہ الصخرا کا مقصد کعبہ کے متبادل ایک عبادت گاہ کا قیام تھا۔ 3؎ یہ غلط فہمی نہ ہونا چاہیے کہ اس سے دور 1؎ راقم کو اس مسجد کی زیارت اور اس میں نماز ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی، مسجد سے کسی قدر فاصلہ پر مشہور مسلمان فاتح سلطان صلاح الدین ایوبی کا سادہ اور پر وقار مقبرہ بھی ہے اسی سفر میں اس کا دیدار بھی نصیب ہوا۔ 2؎ بحوالہ Ernest G. Grube 3؎ ایضاً تصویر مقابل ص ۱۶ اسلامی کے کسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے بیت المقدس کی اہمیت مسلمانوں کے لئے مسجد اقصیٰ کی وجہ سے ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی واقعہ معراج کے سلسلے میں آیا ہے۔ پہلے مسلمان اسی سمت نماز ادا کرتے تھے تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تو مسلمانوں کو کعبہ کی سمت منہ کر کے نماز ادا کرنے کا حکم ہوا۔ ۳۔ مسجد قیروان، طونس ساتویں صدی عیسوی کی تعمیر کردہ لیکن اسے دوبارہ ۸۶۶ء میں اور پھر ۸۷۵ء اور ۹۰۲ء میں تعمیر کیا گیا۔ا سلام کے دور اول کے شان دار آثار میں شامل ہے اور شمالی افریقہ میں مسلمانوں کے فن تعمیر کا پہلا بڑا نمونہ ہے، اس کی داغ بیل میں عرب اثرات نمایاں ہیں۔ بعض ستون زمانہ قبل از اسلام کے تعمیراتی کھنڈروں سے حاصل کئے گئے ہیں، اذان کے لئے تعمیر کردہ مینار چوکور یا مربع ہے اور تین منزلوں میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے اوپر ایک گنبد ہے اور یہ اسلامی فن تعمیر کے اس پہلو کے بالکل ابتدائی نمونوں میں شامل ہے۔ ۴۔ مسجد احمد ابن طولون، قاہرہ ۸۷۶ء اور ۸۷۹ء کے درمیان ابن طولون نے تعمیر کرائی یہ طرز تعمیر ابن طولون نے عراق کی بعض عمارات کو دیکھ کر اختیار کیا، اس میں اینٹوں کی چنائی اور پلاستر ہے، دو محرابیں ہیں اس کا مینار سمارا کی مشہور مسجد کی بعینہ نقل ہے یعنی ایک چکر دار مینار ہے دو محرابوں میں سے ایک محراب سیدہ نفیسہ کے نام سے مشہور ہے درمیان میں وسیع کشاہ صحن ہے جس کے بیچ میں وضو کے لئے ایک حوض اور فوارہ ہے۔ ۵۔ جامع مسجد المتوکل سمارا۔ ۸۴۸ء اور ۸۵۲ء کے درمیان تعمیر ہوئی۔ ماہرین1؎ کا بیان ہے کہ مسلمانوں کی تعمیر کردہ مساجد میں یہ سب سے وسیع ہے۔ This is the largest mosque built by the Muslims.دور سے دیکھنے میں اس کی چہار دیواری کسی عظیم شاہی قلعہ کی فصیل معلوم ہوتی ہے۔ اس سے ملحق ایک بلند چکر دار مینار ہے، درمیان میں وسیع و عریض صحن ہے اس مسجد کے فن تعمیر میں دور امیہ ہے ایک واضح فرق تزئین و آرائش میں نظر آتا ہے۔ ۶۔ مسجد قبتہ الاسلام ، دہلی اسے قطب الدین ایبک نے ۱۱۹۳ء اور ۱۲۱۰ء کے درمیان تعمیر کرنا شروع کیا تھا اور برصغیر پاک و ہند میں اسلامی فن تعمیر کا قدیم ترین نمونہ ہے۔ قطب صاحب کی لاٹ کے نام سے جو بلند مینار ہے وہ اسی مسجد کا مینار ہے، اس کی تعمیر میں بعض پرانی عمارتوں سے حاصل شدہ سامان بھی استعمال ہوا ہے جس میں کچھ شکستہ بت اور مجسمے بھی ہیں بعض مورخوں کے بیان کے مطابق یہاں پہلے ایک جین مندر تھا، قطب الدین ایبک نے اس کی تعمیر کا جو ڈول ڈالا تھا اس سے شاید یہ دنیا کی مساجد میں ایک ممتاز مسجد ہوتی، نہایت شاندار بلند محراب دار دروازہ ہے اور اس کے ساتھ ایک پردہ کی دیوار ہے جس میں ایسے ہی چھوٹے محراب دار دروازے بنائے گئے تھے، علامہ اقبال نے اس مسجد کا خاص طور سے ذکر کیا ہے اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ 1؎ ایضاً ص ۱۹ ۷۔ مسجد قرطبہ، اس مسجد کے بارے میں ماہر ین فن کی رائے یہ ہے۔ 1؎ The umayyad mosque caedoba. founded by abd-al-Rahman I A. H. 169 (785 A.D) and enlarged various times during the subsequent three centuries. is still one of the most beautiful religious buildings of Islam. The most important enlargement was that of al-Hakam Ii in 961. he extended the prayer here.... بات دراصل یہ ہے کہ اسپین میں بنو امیہ کی جس شاخ نے اموی حکومت قائم کی اس کے دور میں قرطبہ اسلامی علوم و فنون کا ایک بہت بڑا مرکز بن گیا۔ عبدالرحمن اول نے جس کا دور ۷۵۶ اور ۷۸۸ کے درمیان ہے اس سلطنت کی بنیاد رکھی اور کم و بیش تین سو سال تک اسلامی دنیا میں تہذیب و ثقافت کا یہ سب سے بڑا مرکز تھا اور جیسا کہ مبصرین نے لکھا ہے بلاد اسلامیہ میں شاید بغداد کو ہی اس کی ہمسری کا دعویٰ ہو سکتا ہے ارنسٹ گرب کا بیان ہے۔ 2؎ Spain had been conquered by the arabs early in the 8th century, but it was not before abd-al-Rahman's coming to cordoba that the country archived signifince with in the general development of Muslim art and culture. During the three hundred years rule of the umayyads spain and cordoba became the most important cultural contre of the Muslim world revalled only by Baghdad. مشہور مسجد قرطبہ کے بارے میں یہی مصنف آگے چل کر لکھتا ہے: Althought Cordoba always remained the centre of the Umayyad realm and its real mosque. founded by abd-al-Rehamn I in 785, was constantly enlarged and enriched during the reigns of his suvvessors, a polatial city, Madinat-al-zahra was built by abd-al-Rahman III and 1؎ ایضاً، 2؎ ایضاً، ص ۴۷۔ 3؎ ایضاً enlarged by al-Hakam in the 10th century. it was during the reign of these two men that Cordoba becamd the equal of Baghdad and umayyad poxer reached its greatest height in spain and North africa. the great mosque in cordoba is to this day one of the most remarkable Monuments of Islamic architeture. Designed on the traditional Arab mosque Plan. tit Consisted originally of a large rectangular enclosure of which the larger part was an open court with a covered prayer hall on the south side. this relatively simple building was enlarged four times in the following centuries. Abd-ul- Radham III had a tall minarate added to the mosque around 950. But the most important modification of the building was that of al-Hakam who had several aisles added south of the prayer hall. During the period of al-Mansur both the court and the prayer hall were extended westwards. the Present building is the third largest mosque in existence after the two at samarra. اقبال کی مسجد قرطبہ کے عنوان سے جو نظم بال جبریل 1؎ میں شامل ہے اور جو ان کے شہکاروں میں شمار ہوتی ہے اس کے بارے میں کسی قدر تفصیل سے ہم آگے چل کر لکھنے والے ہیں۔ پہلے اس سلسلے میں علامہ کی بعض اور نظموں کا ذکر ضروری ہے جن کا تعلق ہسپانیہ اور قرطبیہ کی اس تہذیب و ثقافت اور اس کے تاریخی پس منظر سے ہے جس میں اس مسجد کی تعمیر ہوئی ایک نظم کا عنوان ہے۔ 2؎ ’’ عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت سر زمین اندلس میں‘‘ اس پر علامہ نے خود تمہید میں لکھا ہے: یہ اشعار جو عبدالرحمن اول کی تصنیف سے ہیں، تاریخ المصری میں درج ہیں مندرجہ ذیل اردو نظم ان کا آزاد ترجمہ ہے( درخت مذکور مدنیتہ الزہرا میں بویا گیا۔ میری آنکھوں کا نور ہے تو میرے دل کا سرور ہے تو 1؎ بال جبریل، غلام علی اینڈ سنز طبع بستم جنوری ۱۹۷۵ء ص ۹۳ تا ۱۰۱ 2؎ ایضاً ص ۱۰۲ اپنی وادی سے دور ہوں میں میرے لئے نخل طور ہے تو مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا صحراے عرب کی حور ہے تو پردیس میں ناصبور ہوں میں پردیس میں ناصبور ہے تو غربت کی ہوا میں بارو رہو ساقی تیرا نم سحر ہو عالم کا عجیب ہے نظارہ دامان نگہ ہے پارہ پارہ ہمت کو شناوری مبارک پیدا نہیں بحر کا کنارہ! ہے سوز دروں سے زندگانی اٹھتا نہیں خاک سے شرارہ صبح غربت میں اود چمکا ٹوٹا ہوا شام کا ستارہ مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے مومن کا مقام ہر کہیں ہے اصل عربی اشعار جن کا علامہ نے حوالہ دیا ہے۔ درج ذیل ہیں تبدت لنا وسطہ الرمافتح نخلتہ تنات بارض لاغرب عن یلد الخل فقلت شبلیھی می الغرب النوی و طول اکتسابی عن منبی و عن اھلی نشات بارض انت فیھا غربیتیتہ مثلک فی الاقصاء المنتائی مثلی سقتک نموادی المرف فی النشاء الذی یصح ویستمتری المساکین بالوبلی مورخین نے ان اشعار اور اس درخت کے لگانے کی جو شان نزول بیان کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عبدالرحمن اول جسے مورخین عبدالرحمن الداخل کہتے ہیں ہسپانیہ میں بنو امیہ کی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتا تھا اپنے تینتیس سال اور چار ماہ کی مدت میں ایک مضبوط اور مستحکم سلطنت کی بنیاد رکھی، اسی جذبہ کے تحت اس نے اموی خلیفہ ہشام کے محل رصافہ جو تنسرین میں تھا اس کے طرز پر قرطبہ کے پاس ہی رصافہ کی تعمیر کا منصوبہ بنایا، پہلی بار اس نے اسی جگہ کھجور کا ایک درخت لگایا، رصافہ کے ایک برج میں بیٹھ کر وہ کھجوروں کے ان درختوں کو دیکھتااور دور افق پر اس کا تخیل اسے ارض الغرب سے ارض الشرق کی طرف لے جاتا اور غریب الوطنی کے اس عالم میں اس نے یہ شعر کہے۔ قرطبہ کی مشہور مسجد کا نقش اول بھی عبدالرحمن اول نے تیار کیا اور اس کے لئے محل کے قریب ایک مناسب قطعہ نہ میں منتخب یا گیا، نقشہ عبدالرحمن نے خود بنایا تھا اور بنیاد میں پہلی اینٹ بھی اسی نے رکھی تھی اور تعمیر کے دوران دیکھ بھال بھی وہ خود ہی کرتا اس کی تمنا تھی کہ یہ مسجد بھی جامع مسجد دمشق (مسجد بنو امیہ) یا بغداد کی مسجد جامع یا بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ کے نمونے پر تعمیر ہو چنانچہ مسجد کا بنیادی نقشہ تو وہی تھا جو مسجد کے فن تعمیر کی اساس ہے، یعنی کھلا چوکور صحن چاروں طرف احاطہ قبلہ کی سمت رخ لیکن اسلام کے دور اول سے اس کے عہد تک صناعی اور صنعت گری میں جو ترقی ہوئی تھی عبدالرحمن اسے بھی اس مسجد کی تعمیر میں شامل کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں سنگ مر مر اور دوسرے قیمتی اور خوبصورت پتھر جگہ جگہ سے فراہم کئے، چھتوں پر منقش کام کرایا، حسین ستونوں سے اس کی تزئین کی، مسجد میں اس نے انیس بلند و بالا دروازے اور اڑتیس محرابیں قائم کیں، اس کی تعمیر پر اس نے ایک لاکھ دینار سرخ سے زیادہ رقم خرچ کی، اس کے مجوزہ نقشہ میں مسجد کو ایک مرکز کی حیثیت حاصل تھی جس کے چاروں طرف مکاتب و مدارس، ہسپتال اور سرائیں شامل تھیں، وہ اس پورے منصوبے کی تکمیل زندہ نہ رہا لیکن مورخین1؎ کا بیان ہے کہ اسی مسجد میں شامیانہ لگا کر عبدالرحمن اول نے پہلا خطبہ پڑھا اور اسی مسجد میں ۱۷۱ھ یا بقول بعض ۱۷۲ھ میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ عبدالرحمن اول کے عہد میں مسجد کی جو شکل و صورت تھی اس میں چار مرتبہ توسیع و اضافہ ہوا، ۹۵۰ء کے قریب عبدالرحمن ثالث2؎ نے اس میں ایک بلند و بالا مینار کا اضافہ کیا لیکن سب سے اہم اضافہ الحکم ثانی کے دور میں ہوا جس نے جنوبی سمت سات دالانوں کا اضافہ کیا، المنصور کے دور میں صحن اور دالانوں میں مغرب کی جانب اضافہ ہوا، اور اس اضافہ کے بعد یہ عالم اسلام کی تیسری بڑی مسجد ہے دو مسجدیں سمارا میں ہیں جن کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔ شمالی جانب واقع صحن کے چاروں طرف محرابی چھت دار صفیں ہیں، جنوب میں وسیع دالان ہے جس میں نو دالان ہیں۔ اس کی چھت اٹھارہ دو منزلہ محرابوں پر قائم ہے، جو دیار قبلہ کے ساتھ عمودی طور پر واقع ہیں الحکم نے جو دیوار قبلہ بنائی تھی وہ تزئین، تہذیب و آرائش کے اعتبار سے فن کاری اور صناعی کا بہترین نمونہ ہے بالخصوص اس کی محراب نقش و نگا رکے اعتبار سے عدیم المثال ہے، اس کے بارے میں مبصرین فن کی رائے یہ ہے۔ 3؎ With this addition Hispano-Islaimic Art reached it highest achievement only to be matched by the Alhambra in granada three hundred yeard later. The lavish architectural design, the creation of the double and triple-arch arcades the extra-ordinary Nersality in decorating the surfaces of the arches and niches, the mihrab and the Cupola of the 1؎ ضیاء عبدالقوی، تاریخ اندلس، دور بنو امیہ، طبع ایجوکیشنل بک ڈپو۔ حیدر آباد، طبع دوم ۱۹۶۴ء ص ۱۶۳ 2؎ المعروف بہ خلیفتہ المسلمین عبدالرحمن الناصر، قصر الناصر یا مدنیتہ الزہرا 3؎ Ernest. G. Grube محولہ بالا ص ۴۷ Capella del Mihrab with stucco and mosaics, the variety of designs employed and the perfect equilibrium between the richness of detail and tranquility of total effect, is perhaps unparalled in Islamic art. The Plaster and marble decorations in the mosque which can be compared with those of the city of Madinat-al-Zahre are as decliate as lace. the flat patterns, all based on classical motif's are reduced to a brilliant, precise treacery against a dark backgroud. مسجد نبوی مساجد میں پہلا نمونہ ہے جو سادگی اور افادیت کا مجموعہ ہے، اس وقت سے مسجد قرطبہ کی تعمیر تک مسلمانوں کی مساجد کا فن تعمیر مختلف ادوار سے گزرا، اس کے بہت سے اسباب تھے، جب اسلامی سلطنت وسیع ہوئی اور عرب مسلمانوں کو مفتوحہ ممالک میں قدیم تر عمارتوں کے دیکھنے کا موقع ملا تو قدرتی طور پر ان کو بھی اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی تعمیرات میں ویسے ہی شان و شکوہ پیدا کرنے کی کوشش کی اور تعمیر میں جو مختلف ڈیزائن تھے ان کا اثر بھی قدرتی طور پر ہوا۔ بنیادی طور پر مساجد میں کشادہ صحن مسقف دالان اور محراب کی اساس پر گنبد، محرابیں، مینار، جالیاں، کمانچے وغیرہ کا اضافہ ہوا، قیمتی پتھروں سے منبت کاری نقش نگاری اور پچی کاری کو اختیار کیا گیا زمانہ قبل از اسلام میں تعمیرات میں مجسموں اور تصویروں کو بھی آرائش میں استعمال کیا جاتا تھا۔ مسلمان مجسمہ سازی کو بت سازی اور تصویر سازی کو بھی اسی صنف میں شمار کرتے تھے لہٰذا ان کی صناعی میں قدرتی مناظر و مظاہر، پھول، درخت، پیلیں تصویروں اور مجسموں کی جگہ لے لیتی ہیں۔ دوسر اسبب یہ ہوا کہ قدیم غیر اسلامی عبادت گاہوں بالخصوص کلیساؤں میں صدیوں سے فنکاروں نے اپنی فنی صلاحیتوں کو نہ صرف اپنے فنی کمالات کے اظہار کے لئے بلکہ ایک مقدس مذہبی فریضہ سمجھ کر ان تعمیرات میں صرف کیا تھا اور اس طرح یہ کمال فن کا نمونہ بھی بن گئے تھے، سادگی پسند عربوں کے ابتدائی ادوار میں جو خلفائے راشدین کا عہد تھا یہ سادگی عربوں کی بدوی زندگی کے عین مطابق بھی تھی۔ لیکن دمشق اور مغرب میں دار الخلافت منتقل ہوا تو قدرتی طور پر مقامی آثار و افکار کا رد عمل بھی ہوا، مسلمانوں کے لئے مسجد کی تعمیر محض سنت ابراہیمی کی تجدید یا محض نماز پنجگانہ ادا کرنے کے لئے ایک عمارت نہ تھی کیونکہ اس عبادت کے لئے تو جگہ کی بھی کوئی قید نہیں، مسلمان اپنے گھر میں بھی نماز پڑھ سکتا ہے۔ کوہ و صحرا، دشت و دریا، کہیں ہو نماز کا وقت آ جائے تو وہیں وہ بارگاہ خداوندی میں سر بسجود ہو جاتا ہے۔ اسے نہ کسی پروہت کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کسی پنڈت یا برہمن یا پادری کی صرف سمت قبلہ منہ کر کے وہ اسی طرح اس عبادت میں شریک ہو جاتا ہے جس طرح خانہ کعبہ یا مسجد نبویؐ میں نماز ادا کرنے والا ہوتا ہے۔ لیکن ان قدیم عبادت گاہوں کو دیکھ کر مسلمانوں میں قدرتی طور پر یہ جذبہ بیدار ہوا ہو گا کہ ان کی عبادت گاہیں اپنی تمام خصوصیات اور امتیازی علامات کے ساتھ فن تعمیر کا بھی ایسا نمونہ ہوں جو ان عبادت گاہوں پر سبقت لے جائیں جو غیر مسلموں سے منسوب تھیں۔ مارٹن ایس برگز لکھتے ہیں1؎: 1؎ مقالہ فن تعمیر، مشمولہ میراث اسلام مرتبہ سر ٹامس آرنلڈ، والفریڈ گیام اردو ترجمہ عبدالمجید سالک مجلس ترقی ادب لاہور طبع اول سنہ ندارد ص ۲۲۱ و ما بعد ’’ مذکورہ عمارتوں1؎ میں سے ایک بھی ایسی نہیں جس کی ابتدائی ساخت محفوظ رہی ہو بلکہ مسلسل و متواتر تغیرات کی وجہ سے ان کے خاکے بھی بدل جاتے رہے، لیکن اصل شے بنیادی خاکہ ہی ہے کیونکہ ابتدائی مسجد محض ایک عمارت تھی فن تعمیر کا کوئی کارنامہ نہ تھا لیکن اس کے باوجود موسیو فان برسم 2۔ کا خیال یہ ہے کہ مسجد کے اس ابتدائی کو بھی مسیحیوں کے ابتدائی گرجا کی نقل سے منسوب کیا جا سکتا ہے، مثلاً صحن Atriumسے ماخوذ ہے، بڑا ’’ لیوان‘‘ اصل مسقف گرجا ہے، مقصود Chancel کی جالی سے مینار گرجا کے برج سے 3؎ اور محراب Apse سے نقل کئے گئے ہیں لیکن اس قسم کے مفروضات و تخیلات نہ ضروری ہیں نہ موزوں، جب تک عربوں نے اس مذہبی احاطے اور پناہ گاہ کو ’’ تعمیر‘‘ کی صورت نہیں دی، اس کے ماخذ و منبیٰ کا سوال ہی پیدا نہ ہوا تھا۔‘‘ موسیو فان برشم کا یہ خیال ویسا ہے جس کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا ہے کہ ہمارے دوست مستشرقین خاص طور پر اسلام اور مسلمانوں کے باب میں اصل ماخذ اور منبع کی تلاش کو اپنی تحقیق کا مقصد اور موضوع جانتے ہیں مسلمانوں کے عقائد ہوں یا قرآن حکیم کے قصص یا مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت کی امتیازی خصوصیات وہ کہیں نہ کہیں ان کی اصل تلاش کر لیتے ہیں اور خود بعض مسلمان جن کی تعلیم و تربیت ایسے مستشرقین کی مرہون منت ہوتی ہے وہ بھی اسی قسم کے فریب اور احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس بد نصیبی کا بڑا سبب یہ ہے کہ تاریخ اسلام کے مصادر اور منابع، قلمی نسخے اور نایاب کتابیں ان کی دسترس سے باہر ہیں اور اس طرح کی علمی تحقیق کے لئے جس طرح عمریں وقف کر دینے کی ضرورت ہے وہ اس فرصت اور ضروری ذرائع سے محروم ہیں۔ برگز نے کرم کیا ہے کہ کم از کم اس مرحلہ پر اس نے اس قسم کے مفروضات اور تخیلات کو ’’ نہ ضروری نہ موزوں‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ مصنف آگے چل کر لکھتا ہے۔ 4؎ کہ ’’ مدینہ میں پہلی مسجد تعمیر ہونے کے اسی یا نوے سال کے اندر اندر ’’ مسجد جامع‘‘ کے تمام ضروری خد و خال مہیا ہو گئے ایک معمولی اضافہ ’’ لیوانات‘‘ کا تھا (یہ لیوان کی جمع ہے اور لیوان (الایوان کا بگاڑ ہے) یہ صحن کے گردا گرد ڈاٹ دار رداقیں تھیں اور پناہ گزینی اور وضو کی سہولتوں کے لئے بنائی گئی تھیں، یہ مختصر فہرست ان تمام ضروریات پر حاوی ہے جن ک اانتظام ہر زمانے کی مسجد میں کیا گیا ہے۔‘‘ مساجد کے سلسلے میں اسلامی فن تعمیر نے ’’ محض ضرورت‘‘ اور’’ شان و وقار‘‘ کے درمیانی فاصلے کو بہت جلد طے کر لیا۔ یہی مصنف بیان کرتا ہے 5؎ ’’ یہ حیرت انگیز امر ہے کہ تعمیر معاملے میں ’’ محض ضرورت‘‘ اور’’ شان و وقار‘‘ کے درمیان عبوری دور بہت مختصر رہا، اور 1؎ مراد مسجد نبوی مدینہ، سنہ تعمیر ۶۲۲ء اور عراق میں کوفہ کی مسجد تعمیر ۶۳۹ مسجد بہ مقام فسطاط قاہرہ ۶۴۲ء 2؎ بہ حوالہ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام، مقالہ فن تعمیر 3؎ اب یہ نظریہ ترک کر دیا گیا ہے۔ 4؎ محولہ بالا ص ۲۲5؎ ایضاً م ۶۲۲ مسلمانوں نے بڑی سرعت سے اس دور کو طے کر لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صرف بیس سال کے اندر خود مسجد نبوی کی دوبارہ تعمیر ہوئی جس میں آراستہ پتھر کی دیواریں اور پیلپائے نصب کئے گئے اور ساتویں صدی کے آخری سالوں میں اس ان گھڑا؟ سی مسجد کے قریب جو حضرت عمرؓ نے فتح یروشلم ۶۳۶ء کے بعد تعمیر کی تھی قبتہ الصخرہ کی عظیم الشان عمارت بنائی گئی جو اپنی جسامت اور نوعیت کے اعتبار سے مرعوب کن تھی اور جس کی تزئین و آراستگی بھی بے نظیر تھی۔ یہاں سے ہمیں اس شدید بحث و نزاع کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے جو مسلم فن تعمیر کے ماخذوں کے متعلق اب تک جاری ہے۔ قبتہ الصخرہ ایک مکمل سنگین عمارت تھی اور اس کی حیثیت ’’ مشہد‘‘ جس میں ائرین صخرہ کا طواف کرتے تھے یہ وہ مقام تھا جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں آسمانوں پر گئے تھے مزید برآں یہ عمارت مدت تک لاثانی رہی اور دوسرے مقامات پر کم از کم چار صدیوں تک اس امر کی کوشش نہ کی گئی کہ مسجد کے ابتدائی خاکے یعنی مربع ایوان اور کھلے صحن سے کوئی انحراف کیا جائے لہٰذا بعض حلقوں میں یہ فرض کر لیا گیا (اور نہایت بیجا طور پر) کہ قبتہ الصخرہ محض رومی یا بزنطینی نمونے کی عمارت ہے۔ اس میں قدیم بت پرستوں یا مسیحیوں کی تعمیرات کی نقالی کی گئی ہے۔ اس کو شروع سے لے کر آخر تک مسیحی معماروں اور کاریگروں نے بنایا ہے۔ لہٰذا یہ ایک کاملاً غیر ملکی تعمیر ہے اور عرب فن تعمیر کے تسلسل سے بالکل باہر واقع ہوئی ہے۔ اس دعوے میں کسی قدر صداقت بھی ہے اور بظاہر بھی یہ معقول معلوم ہوتا ہے لیکن اس کو زیادہ آگے بڑھانا موزوں مناسب نہ ہو گا۔‘‘ ہمارے اس مصنف کا بیان نہایت احتیاط سے منتخب کئے ہوئے الفاظ پر مشتمل ہے اور بظاہر اس سے اسلامی فن تعمیر سے ہمدردی کا پہلو نکلتا ہے لیکن فاضل مصنف یہ بات بھول جاتا ہے کہ اسلام کے اس ابتدائی دور میں جس میں بڑا زور عرب کے دور جہالت کی رسموں، رواج، عادات و اطوار اخلاق و معاشرت کے خلاف زبردست رد عمل پایا جاتا ہے اور یوں بھی قوموں کی زندگی کے اس دور میں جو ان کی قوت کے اجتماع اور اظہار کا پہلا دور ہوتا ہے اور پوری قوم ’’ فتوحات‘‘ کے دور سے گزرتی ہوئی ہے مغلوب اور غلام قوم یا قوموں کی ’’ تقلید‘‘ یا ’’ نقالی‘‘ کی نہ ضرورت ہوتی ہے اور نہ اس کا موقع ہوتا ہے۔ تقلید اور نقالی تو ہمیشہ دور زوال کی پیداوار ہوتی ہے اور اسلام کے اس دور کو جس میں قبتہ الصخرہ تعمیر ہوا کون دور زوال و انحطاط کہہ سکتا ہے۔ یہ زمانہ تو اسلام کی فتوحات کا تھا۔ خلفائے راشدین کا عہد ۶۳۲ء اور ۶۶۱ء کے درمیان کوئی تیس سال کا مختصر عرصہ ہے لیکن اسی میں اسلامی سلطنت سر زمین عرب سے بڑھ کر شام، عراق، ایران اور افغانستان تک پھیل چکی تھی بلکہ مسلمانوں کے پہلے قدم برصغیر پاک و ہند تک پہنچ چکے تھے۔ قبتہ الصخرہ کی تعمیر خلیفہ عبدالمالک (اموی) نے ۶۹۱ء میں کی گویا رسول اکرم ؐ کی وفات کے صرف ساٹھ سال اور آخر دور خلافت راشدہ کے صرف تیس سال بعد اس لئے یہاں یا کسی اور مسجد یا مسجد سے متعلق کسی عمارت میں محض غیر مسلم کاریگروں کی صناعی یا غیر مسلم یا قبل از اسلام کی تعمیر شدہ عمارتوں کا دخل صرف ایک حد تک ہی تسلیم کیا جا سکتا ہے فن تعمیر کے ماہرین جانتے ہیں کہ کسی عمارت کا بنیادی نقشہ اس عمارت کے استعمال کے مقصد سے متعین ہوتا ہے اور اس کے بعد تزئین و زیبائش بلکہ خود تعمیر کا دار و مدار مقامی طور پر دستیاب ہونے والے تعمیراتی ساز و سامان اور مقامی کاریگروں پر ہوتا ہے اس سلسلے میں ایک اور بیان دیکھئے: ’’ جن پہلی مسجدوں کو فی الحقیقت ’’ تعمیرات‘‘ سے موسوم کیا جا سکتا ہے وہ بصرے (۴۵ھ /۶۶۵ئ) اور کرنے (۵۰ھ/ ۲۶۷۰) کی دوسری مسجدیں تھیں، آخر الذکر کے متعلق الطیری (۲۴۹۲۱۱) لکھتا ہے کہ زیاد ابن ابیہ نے ’’ ایام جاہلیت کے معماروں‘‘ (یعنی غیر مسلموں) کو طلب کیا۔ اس موقع پر ایک شخص جو خسرو کے معماروں میں تھا سامنے آیا اور اس نے بتایا کہ تیس ہاتھ اونچی چھت کو اٹھانے کے لئے جبل اہواز کے پتھروں کے ستون کلام میں لانے چاہئیں، ابن جبیر (طبع و نویہ ص ۲۱۱) جس نے یہ مسجد دیکھی تھی لکھتا ہے‘‘ قبلے کی سمت میں تو پانچ بغل دالان ہیں اور دوسری اطراف میں صرف دو دو ہیں ان کی چھتیں مستولوں کی طرح سیدھے ستونوں پر قائم ہیں، یہ نہایت بلند ہیں اور ان کے اوپر محرابیں نہیں (شکل ۱) ظاہر ہے چھتوں کا یہ طریقہ پدرانہ یعنی ہخامنشی بادشاہوں کے ستون اور ایوانوں سے مشابہ اور بالکل بغداد کی پہلی جامع مسجد کے مانند تھا۔ 1؎ یہاں سے گویا وہ دور شروع ہو جاتا ہے جس میں تعمیر مسجد محض ایک ضرورت کے لئے سادہ عمارت سے نکل کر اسلام کے غلبہ اور عظمت کا ایک نشان بن کر فن تعمیر کے ایک اعلیٰ معیار تک جا پہنچتی ہے۔ ظاہر ہے محض مسجد کے لئے تزئین و آرائش زیب و زینت اور مرصع کاری کی ضرورت نہیں لیکن اسلام کے غلبہ اور عظمت کے نشان کے طور پر اسے دیگر مذاہب کے معاہدے کمتر درجہ پر رکھنا کس طرح ممکن تھا چنانچہ یہی جذبہ ’’ سادگی‘‘ سے ’’ مرصع کاری‘‘ کی طرف میلان میں کار فرما تھا، اور اس کا اندازہ مختلف ادوار میں مساجد عالم کا جائزہ لینے سے ہو سکتا ہے۔ اس سادہ مسجد نبوی کی جگہ جس کی تعمیر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاک ہاتھوں اور صحابہ کرام کی مدد سے کی تھی آج ایک وسیع و عریض مسجد ہے۔ اس میں قبتہ الصخرہ یا مسجد قرطبہ کی سی زیبائش و آرائش نہیں لیکن اس کی پر شکوہ وسعت، اس کے بلند ستون، اس کے وسیع و عریض دالان، محرابیں اور اس کا مرکز وہ سبز گنبد جس کی زیارت کی تمنا میں عربی اردو اور فارسی شعر و ادب میں نعت گو شعراء کا کلام دلوں کو گرماتا ہے معاہد عالم میں ایک انفرادی حیثیت کا حامل ہے۔ ظاہر ہے یہاں پہنچنے والا جسے فی الحقیقت حضوری حاصل ہو مسجد کے ظاہری نقش اور اس کی گلکاری پر نظر نہیں رکھے گا۔ اس کا ذہن اس حضوری اور قرب میں اسے عہد رسالت میں لے جائے گا جب یہ خطہ ارض رشد و ہدایت کا مرکز نور بنا اور رسول کریم ؐ اور ان کے جاں نثار رفیقوں نے دنیا کو ایک نئی زندگی، نئی تہذیب اور نئے تصورات سے آشنا کرایا۔ حسن اور بڑائی کا ایک نیا معیار قائم کیا اور فن تعمیر کی حد تک اس نظریہ کو قبول کیا کہ فن کو دین سے بیگانہ نہیں رکھا جا سکتا۔ علامہ اقبال کے نزدیک یہی ورثہ ہے جو مسلمانوں کو دین اور فن کے تعلق سے نصیب ہوا ہے۔ ایک موقع پر فرماتے ہیں: سرود و شعر و سیاست کتاب و دین و ہنر گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ ضمیر بندۂ خاکی سے ہے نمود ان کی بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ 1؎ از ادارہ المعارف اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی جلد ۱۵، کراسہ ۱۲ تا ۱۴ فن تعمیر، دسمبر ۱۹۷۴ء فروری ۱۹۷۵ء ص ۶۸۰ اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات نہ کر سکیں تو سراپا افسون و افسانہ ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ ’’ دین و فن‘‘ کے اس رشتے کی خشت اول مسجد ہے کیونکہ ارکان دین میں نماز ایک ایسا رکن ہے جس کی اہمیت پر لکھنے یا کہنے کی ضرورت نہیں، نماز کے لئے قرآن حکیم میں صلوٰۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے لفظی معنی کسی شے کی طرف رخ کرنا، مائل ہونا بڑھنا اور قریب ہونا ہے۔ قرآنی اصطلاح میں صلوٰۃ کا مطلب اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا اور اس سے قرب و حضوری حاصل کرنا ہے، علماء لکھتے ہیں کہ نماز توحید کا لازمی مظہر اور ایمان اس کی دائمی علامت ہے۔ 2؎ اعتقاد کے پہلو سے اگر توحید پورے دین کا سرچشمہ ہے تو عمل کے پہلو سے نماز پورے دین کی عملی بنیاد ہے۔ قرآن حکیم میں جا بجا اس کی تاکید ہے۔ ارشاد ہوا ہے۔ ’’ پس تم یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جما دو، جمے رہو اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا ہے خدا کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی یہی سیدھا سچا دین ہے مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے، اسی خدا کی طرف رجوع کئے رہو اور ڈرتے رہو اس سے اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ۔‘‘ (الروم ۲۰۔ ۳۱) اور سورہ طہٰ (۱۴) میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’ حقیقت یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم میری بندگی کرو اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔‘‘ اور سورہ البقر (۲) میں ہے: ’’ ہدایت ہے ان متقیوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔‘‘ جس طرح نماز دائرہ اسلام میں داخلہ کا ثبوت اور مسلمانوں کی عبادت کا مخصوص طریقہ ہے اسی طرح مسجد اس عبادت کو ادا کرنے کا ایک مرکز ہے، ویسے تو اللہ تعالیٰ نے اس ساری سر زمین کو مومن کے لئے پاک کر دیا ہے اور وہ کہیں بھی ہو قبلہ کی سمت رخ کر کے نماز ادا کر سکتا ہے لیکن نماز کے معاشرتی اور تہذیبی فوائد میں جماعت کا تصور مسجد کے قیام کا ایک اور محرک ہے، مسجد سے جب اذان کی صدا کانوں میں پہنچتی ہے تو لوگ اس فریضہ کو ادا کرنے کے لئے مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ اور جو ایسا نہیں کرتے ان کا حشر قرآن حکیم میں یوں بیان ہوا ہے۔ 3؎: ’’ جس دن ہلچل مچی ہو گی اور یہ لوگ سجدہ ریز ہونے کے لئے ہلائے جائیں گے تو یہ سجدہ نہ کر سکیں گے، ان کی 1؎ دور زوال و نکبت، ذلت اور رسوائی کا یہ کرشمہ دیکھئے کہ یہی لفظ صلواتیں سنانا، گالی دینا کے معنوں میں استعمال ہونے لگا، اسی طرح خلیفہ بہ معنی حجام 2؎ قرآنی تعلیمات محمد یوسف اصلاحی، اسلامک پبلی کیشنز لاہور طبع اول ۱۱۶۸ ء ص ۲۴۳ و بعد 3؎ ایضاً، ص ۲۶۱ آنکھیں جھکی ہوئی وہں گی اور صورتوں پر ذلت چھا رہی ہو گی، یہ وہی لوگ ہیں کہ جب انہیں سجدہ کرنے کے لئے بلایا جاتا تھا تو یہ اچھے خاصے صحیح سالم تھے مگر سجدہ نہ کرتے تھے۔‘‘ (سورہ القلم ۴۲۔۔۔۔ ۴۳) مسجد بنا کر نماز باجماعت ادا کرنے کے سلسلے میں قرآن حکیم کا ارشاد ہے۔ ’’ اور ہم نے موسیٰ ؑ اور ان کے بھائی کو تاکید کی کہ مصر میں اپنی قوم کے لئے کچھ مکانات مہیا رکو اور اپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھہرا لو، اور نماز قائم کرو۔۔۔۔‘‘ علامہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یہ ہے کہ انہوں نے ا س دینی ورثہ کو نظر انداز کر دیا۔ جاوید نامہ میں یہ رقت انگیز نوخہ دیکھئے۔ 1؎ مومن و پیش کساں بستن نطاق مومن و غداری و فقر و نفاق با پیشزے دین و ملت را فروخت ہم متاع خانہ وہم خانہ سوخت لا الٰہ اندر نمازش بود و نیست نازہا اندر نیازش بود و نیست نور در صوم و صلوٰت او نماند جلوۂ در کائنات او نماند آنکہ بود اللہ او را ساز و برگ فتنہ او حب ماں و ترس مرگ رفت از دآں مستی رزوق و سرور دین او اندر کتاب و او بگور صحبتش ہا عصر حاضر در گرفت حرف دیں را از دو پیغمبر گرفت آں زایراں بود ر ایں مہنہ ری نژاد آں ز حج بیگانہ و ایں از جہاد تا جہاد و حج نماند از واجبات رفت جاں از پیکر صوم و صلوٰت روح چوں رفت از صلوٰت و از صیام فرد نا ہموار و ملت بے نظام سینہ ہا از گرمی قرآں تہی از چنیں مرداں چہ امید بہی از خودی مرد مسلماں در گزشت اے خضر دستے کہ آب از سر گزشت سجدۂ کزدے زمیں لرزیدہ است بر مرا دش مہر و مہ گر دیدہ است سنگ اگر گیرر نشان آں سجود در ہو آشفتہ کردد ہم چو دود ایں زماں جنہ سر بزیری ہیچ نیست اندر و جز ضعف پیری ہیچ نیست آں شکوہ ربی الاعلیٰ کجاست ایں گناہ اوست یا تفسیر ماست 1؎ جاوید نامہ طابع غلام علی اینڈ سنز لاہور، طبع ششم ستمبر ۱۹۷۴ء ص ۲۰۰ صاحب قرآن ونے ذوق طلب العجب ثم العجب ثم العجب یہ بات ہم نے کسی قدر تفصیل سے اس لئے لکھی کہ کلچر اور ثقافت کے نام پر ہم نے بہت سے ادارے کھول رکھے ہیں جو فن کے نام پر سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے فن اور دین کے رشتے کی عظمت اور اہمیت کو نظر انداز کر دیا ہے۔ یہ ادارے اقبال کا نام بھی بیچتے ہیں اور اس سال کہ سال صد سالہ تقریبات ولادت اقبال ہے شاید اس کا اشتہار اور اعلان کچھ اور ہو جائے لیکن یہی لوگ اس ورثہ سے انکار کرتے ہیں جو اقبال کے نزدیک ملت اسلامیہ کا ورثہ ہے، یہ مجسموں اور بتوں کو اپنا تہذیبی ورثہ بتاتے ہیں اور رقص و سرود کو ثقافت کا نام دیتے ہیں وہ تو کہتے کہ خیر گزری کہ ہماری مصوری تجریدی آرٹ اور ’’ عریاں حقیقت‘‘ کے اخبار کے بھنور سے نکل کر اب اس فن کو خطاطی اور خاص طور پر آیات قرآنی کی خطاطی پر صرف کر رہی ہے یہ ایک الگ موضوع ہے یہاں تعمیر کے سلسلے میں مساجد کے باب میں علامہ کے بعض خیالات پیش کئے جاتے ہیں۔ علامہ نے خاص طور پر تین مساجد کا ذکر کیا ہے۔ ایک دہلی کی مسجد قوت الاسلام، ایک لاہور کی شاہی مسجد اور ایک مسجد قرطبہ مسجد قوت الاسلام کے بارے میں اردو دائرۃ المعارف اسلامی 1؎ میں یہ بیان ملتا ہے: ’’ دہلی کی پلی یادگار جماعت لال کوٹ کی مسجد قوت الاسلام ۱۱۹۴ء میں شروع کی گئی تھی، اس غرض سے ایک سابق جین مندر کے صحن میں توسیع کی گئی اور دیگر ہندو معاہد کے مسالے سے کام لے کر سلجوقی طرز کی روکار کا اضافہ کیا گیا یہاں آیات قرآنی کی تہ زمین کے طور پر خالص ہندوانہ طرز کی گلکاری نظر آتی ہے۔ اس کے پاس ہی ایک بہت بڑے مینار اور برج کی تعمیر ۱۱۹۹ء میں شروع ہوئی۔ یہ شہرہ آفاق قطب معیار تھا جو سلجوقی مقابر کے میناروں کی طرح چار منزلوں پر مشتمل ہے، منزلیں ایک دوسری پر قائم کی گئی ہیں اور ہر ایک کی شکل کا دوم خیمہ نما اور ناب دار ہے سرے کے جھروکے دور تک آگے کو نکلے ہوئے ہیں جو خوشنما ’’ مقرنسوں‘‘ یا طاقچوں پر قائم ہیں ان پر قرآنی کتبات کے دیدہ زیب حاشیے، اسلامی طرز کی گلکاری اور ہندی طرز کی زیبائش ہے۔ (جم یعنی سلطنت غوریہ کے صدر مقام فیروز کوہ) میں جو افغانستان کے اندرونی علاقے میں واقع ہے۔ ایک بہت بڑا اور خوب صورت مینار دریافت ہوا ہے جسے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قطب مینار کا پیشترو اور نمونہ اول ہے (دیکھئے بذیل فن تعمیر ایران میں)‘‘ ارنسٹ جی گردیے 2؎ Kuwwat-al-Islam Mosque Delhi India, built by Kutab-al-din Aibal in his fortress of Lalkot near Delhi 1193-1210 The mosque is the earliest surving monument of Islamic architecture in India. 1؎ اردا دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۱۵، ص ۸۱۷۔ 2؎ The world of Islam محولہ بالا ص ۵۸ In its combination of Local, pre-Muslim traditions and imported architectural forms, it is typical of the earlist period of Islamic architecure in india. the mosque is built on the ruins of a jani tample, in front of which a screen wall with a large central painted archway and smaller, lateral arches was built. the decoration is mainly carved low relief. یہ بات قابل غور ہے کہ قطب الدین ایبک نے اپنے لئے کوئی محل تعمیر نہیں کیا نہ لال کوٹ کا قلعہ آج باقی ہے۔ نہ اس نے تاج محل جیسی عمارت یادگار چھوڑی، نہ دیوان خاص اور دیوان عام تعمیر کرائے، نہ شیش محل اور موتی محل۔ اس کی یادگار یہی مسجد قوت الاسلام ہے جس کی عظمت اور ہیبت کا اندازہ اس سے لگا ہے کہ علامہ اقبال بیان کرتے ہیں کہ اس مسجد میں نماز ادا کرنے کا انہیں حوصلہ نہ ہوا اور یہ اس لئے کہ اس کی عظمت اور ہیبت نے ان کو مسحور کر دیا۔ اس راز کو علامہ اقبال نے اندلس میں اسلامی یادگاروں کے سلسلے میں یوں بیان کیا ہے۔ ’’ مجھے وہاں کی تین عمارتوں میں ایک خاص فرق نظر آیا، قصر زہرا دیوؤں کا کارنامہ معلوم ہوتا ہے، مسجد قرطبہ مہذب دیوؤں کا مگر الحمراء محض مہذب انسانوں کا۔۔۔‘‘ علامہ اقبالؒ کا مسجد قرطبہ کو مہذب دیوؤں کا کارنامہ بتانے میں ایک گہرے معانی مضمر ہیں، مہذب دیو کا تصور دی ہے جو اقبال کے نزدیک مرد مومن اور انسان کامل کا ہے کہ وہ جلال اور جمال کا مجموعہ ہوتا ہے وہ سیل تندرو بھی ہوتا ہے اور ہونے نغمہ خوان بھی وہ تلوار کی طرح تیز بھی ہوتا ہے اور ریشم کی طرح نرم و نازک بھی دیو اور مہذب کی ترکیب سے یہی تصور پیدا کرنا مقصود ہے۔ تصر زہرا میں صرف جلال اور شان و شکوہ ہے۔ الحمراء میں حسن و نزاکت، فنکارانہ صناعی لیکن مسجد قرطبہ بقول اقبال جلیل بھی ہے اور جمیل بھی بقول علامہ تیرا جلال و جمال، مرد خدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل قصر1؎ الزاہر یا مدینتہ الزہرا کی تعمیر عبدالرحمن ثالث نے کی جو الناصر کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور جس کا دور ۳۰۰ھ سے ۳۵۰ھ تک کا ہے (وفات ۳ رمضان المبارک ۳۵۰ھ مطابق ۱۶ اکتوبر ۱۶۱ئ) اس کی تعمیر کا آغاز ۳۲۵ھ میں ہوا اور اسے قرطبہ سے چار میل کے فاصلے پر جبل العروس کے سامنے تعمیر کیا گیا، مورخین نے لکھا ہے کہ اس کا طول شرقاً غرباً دو ہزار سات سو ذراع تھا۔ 2؎ اور رقبہ نوے لاکھ نوے ہزار ذراع تھا، اسی بناء پر اس کو قصر الزہرا کی بجائے مدینتہ الزہرا یعنی شہر زہرا کہتے تھے، اس 1؎ بحوالہ تاریخ اندلس، عبدالقوی محولہ بالا ص ۴۳ و بعد 2؎ ذراع پیمانہ ایک ہاتھ کے طول کے برابر غیاث اللغات میں لکھا ہے: ’’ ذراع بکسر اول و عین مہملہ بمعنی بازوو ارش وست یعنی از آرنج تا انگشتان و در حیوانات از پارچہ بالا تر ذراع گریندو گز کہ بآں چیز ہا را پیمانند‘‘ میں محل شاہی کے علاوہ شہزادوں اور شاہی خاندان کے دیگر افراد کے محلات و مکانات بھی تھے، خاص رسالہ شاہی، سرکاری ملازمین، پہرہ داروں اور سپاہیوں کے لئے بھی مکانات تھے اور فوج کا ایک حصہ بھی اسی میں مقیم تھا اس کے چاروں طرف کی حد بندی کی دیواروں میں پندہ ہزار دروازے بلند و بالا نصب تھے، سبزہ زاروں اور باغات کی بھی جگہ تھی ایک اور مورخ (ابن حیان) کے بیان کے مطابق قصر الزہرا کی لمبائی چار میل اور چوڑائی ۳ میل تھی اور اس کی تعمیر میں ۲۵ سال کا عرصہ صرف ہوا تھا اور دوران تعمیر دس ہزار مزدور اور معمار چار ہزار اونٹ اور خچر بار برداری کے لئے کام کیا کرتے تھے قصر میں چار ہزار تین سو سولہ برج اور ستون تھے جو مختلف رنگ اور قسم کے پتھروں سے جڑ کر بنائے گئے تھے۔ اس کا ایک حصہ قصر الخلفا یا قبہ کہلاتا تھا جس کی چھت سونے کی تھی، کہا جاتا ہے کہ اس قصر میں ایک فوارہ ایسا تھا جو طشت نما تھا اور پارے سے بھرا رہتا تھا اگر پارہ ہل جاتا تو ایسا محسوس ہوتا کہ سارا محل جنبش میں ہے۔ الزہرا کی تعمیر میں مسجد بھی شامل تھی، مسجد کی بنیادوں کا طول قبلہ سے مصود رہ تک ۳۰ ذراع تھا اور درمیان کی غلام گردش ۱۳ ذراع تھی، چاروں طرف غلام گردشیں یا دیوان الگ تھے جن میں سے ہر ایک کا عرض ۱۲ ذراع تھا، درمیان میں جو صحن کشادہ تھا اس کا طول قبلہ سے لے کر جوف تک ۴۳ ذرا ع تھا اور شرقاً غرباً ۴۱ وزاع، مسجد کا فرش سرخ سنگ کا تھا، مسجد کا منبر ۲۳ شعبان ۳۱۹ھ کو مکمل ہوا اگر یہ تاریخ درست ہے تو گویا مسجد کی تعمیر قصر سے پہلے ہوئی مسجد تیار ہوئی تو الناصر نے مقصورہ میں جا کر دو رکعت نماز پڑھی اور واپس ہو گئے اور مسجد میں پہلی جماعت قاضی ابو عبداللہ محمد بن ابی عیسیٰ نے پڑھائی دوسرے روز الناصر نے نماز جمعہ پڑھائی۔ سطور بالا میں الزہرا قصر الزہرا یا مدینتہ الزہرا کے بارے میں بڑے اختصار سے جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے ہی اس کی عظمت اور جاہ و جلا ل کا اندازہ ہو جاتا ہے عرب مورخین نے اس کی بہت کچھ تفصیل لکھی ہے یہ بات کوئی تعجب کی نہیں کہ علامہ نے اسے دیوؤں کا کارنامہ بتایا ہے اسپانیہ میں مسلمانوں کے زوال اور ان کے آثار کی بربادی پر بڑے اثر انگیز مراثی لکھے ہیں، جزیرہ صقلیہ (سسلی) کے عنوان سے علامہ اقبال نے اس جزیرہ کی جسے وہ تہذیب حجازی کا مزار کہتے ہیں غرناطہ کی سلطنت کی تباہی کا بھی ذکر کیا ہے۔ نارکش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر داغ رویا خون کے آنسو جہاں آباد پر آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کی ابن بدروں کے دل ناشاد نے فریاد کی1؎ ایک عرب شاعر نے مدینتہ الزہرا کے کھنڈرات کو دیکھ کر چند اشعار ہے ان کا ترجمہ یہ ہے 1؎ ابن بدروں کا حوالہ یہاں درست نہیں بجٹ کیلئے دیکھئے ڈاکٹر اختر امام کا مضمون اس عنوان پر مشمولہ علی گڑھ میگزین ۱۹۳۷ء ۱۔ بہت سارے مکان جن کے کھنڈرات کھیل کے میدانوں کے کنارے چمک رہے ہیں اور وہ ویران ہیں اور ان میں کوئی بھی رہنے والا نہیں ہے۔ ۲ ۔ ان پر ہر طرف پرندے نوحہ خوانی کر رہے ہیں اور پرندے کبھی خاموش ہو جاتے ہیں اور کبھی اپنے نوحوں کو دہراتے ہیں۔ ۳۔ میں نے ان میں سے ایک نوحہ خواں پرندے سے خطاب کیا جس کا دل درد سے بھرا تھا۔ ۴۔ میں نے اس سے کہا تو کس چیز کو رو رہا ہے اور تجھے کیا شکایت ہے، اس نے کہا میں اس زمانے کو رو رہا ہوں جو گزر گیا اور واپس نہیں آتا۔ یہ اشعار ابن عربی کے ہیں۔ 1؎ اس عمارت کی ویرانی بقول مورخیں منگل ۲۶ جمادی الآخر ۳۹۹ ھ کی دوپہر سے لے کر بدھ تک قرطبہ کی بربریوں کی فتح سے ہوئی اور الزہرا کو منہدم کر دیا گیا، بلاشبہ فن تعمیر کے نقطہ نظر سے یہ ’’ معجزہ ہنر‘‘ تھا لیکن یہ کیوں ’’ آنی و فانی‘‘ ثابت ہوا۔ علامہ اقبال کی زبان سے اس کا سبب نئے آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر کار جہاں بے ثبات، کار جہاں بے ثبات اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا نقش کہن ہو کہ نو، منزل آخر فنا ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام یہ داستان صرف قصر زہرا یا مدینتہ الزہرا کی ہی نہیں۔ پردہ داری می کند برقصر کسریٰ عنکبوت بوم نوبت می زند بر گنبد افراسیاب بابل اور نینوا کے کھنڈرات ہوں، مصر کے اہرام یا موہنجودارو اور ہڑپہ کے قدیم شہر ان کے زوال اور فنا کا راز یہی ہے کہ ان کی بناء ایسا عمل نہ تھا جو عشق سے صاحب فروغ ہوتا۔ اگلے اشعار میں جو مسجد قرطبہ سے متعلق ہیں علامہ فرماتے ہیں: مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانہ کی رو عشق خود اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام یہ بات نہایت اہم ہے کہ ہمارے یہاں عشق کے ساتھ بیچارگی، مجبوری، پس ماندگی، محرومی، ناکامی کے تصورات وابستہ ہیں، علامہ کے بقول: عشق خود اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام سیل زمانہ کسی کے رو کے رکتا نہیں، بڑے بڑے صاحب جاہ و حشم، سرداران لشکر صاحب تحت و تاج، لشکر و سپاہ، خیمہ و خرگاہ 1؎ ایک بزرگ ابن العربی تھے جن کا انتقال بغداد میں ۴۳۱ھ میں ہوا۔ مشہور محی الدین ابو عبداللہ بن محمد الازلسی وحدت الوجود کے نمائندہ علمبردار فلسفی فصوص الحکم کے مصنف تھے، ان کاانتقال ۶۳۸ ھ میں ہوا۔ بڑے صاحب تدبیر، بڑے دانا اور زیرک جب تک زندہ رہے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کا یہ دبدبہ یہ شان و شوکت یہ کرد فردائمہ اور پائندہ ہے لیکن آنکھ بند ہوتے ہی یہ سارا عمل ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد کمزور اور نا پائیدار ہوتی ہے، اس کا تعلق صرف عصر رواں سے ہوتا ہے اور عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام وجہ یہ ہے کہ ہم ’’ عصر روان‘‘ کا ادراک اپنے حواس ظاہری سے کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں اور اسی کی نسبت سے ہم زمانہ پر حال ماضی اور مستقبل کا اطلاق کرتے ہیں، حالانکہ اس وقت تک حال ماضی ہو چکا ہے اور ادراک میں آنے تک مستقبل حال سے گزر کر ماضی بن چکا ہوتا ہے اس لئے حقیقت میں نہ ماضی ہے نہ مستقبل، نہ حال، علامہ نے مسجد قرطبہ کے آغاز میں زمانہ کی ایسی کیفیت کو یوں ظاہر کیا ہے۔ تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات اور اس سلسلہ روز و شب میں جو کچھ پیش آتا ہے وہ کیا ہے۔ سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات ایک او رموقع پر ارشاد فرمایا ہے: ’’ میں اپنے شب و روز اور ماہ و سال کی قدر و قیمت ان تجربات کے لحاظ سے جانچتا ہوں جو وہ مجھے بخشتے ہیں اور بعض اوقات میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ ایک آن واحد پورے ایک سال سے زیادہ گراں قدر ہے۔ 1؎‘‘ ایسے ہی لمحات میں اس فن کی تخلیق ہوتی ہے جو نقش دوام بن کر جریدہ عالم پر ثبت ہو جاتا ہے۔ ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام اور چونکہ مدینتہ الزہرا یا قصر زہرا ایسے لمحے کی تخلیق نہ تھی اس لئے اسے رنگ ثبات دوام نصیب نہ ہوا۔ الحمراء کو علامہ اقبال نے مہذب انسانوں کا کارنامہ بنایا ہے یعنی حسن و صناعی میں اسے ایک اعلیٰ تہذیبی علامت قرار دیا ہے لیکن وہ اس جلال و عظمت سے محروم ہے جو مسجد قرطبہ کو نصیب ہے، الحمراء کے سلسلے میں ارنسٹ جے گردبے 2؎ کا بیان ہے۔ The lion court of the Alhambre Palace, Granada. Spain. 14th century. The Alhambra Palace, buily by the nasirid kings of spain. is one of the most remarkable creations of Islamic architecture the lion court, in the centre of the Harim area, named after its fountain 1؎ شذرات فکر اقبال، مرتبہ ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال، مترجمہ افتخار احمد صدیقی مجلس ترقی ادب لاہور ، ۱۹۷۳ء ص ۱۶۰ 2؎ The word of Islam محولہ بالا ص ۸۴ Supported by stone figures lions, is surrounded by areades resting on alternating single and double columns of extraordinary elegance and lightness the lion fountain has been said to be of earlier date. forming part of a 12 th century construction on the same site. but it is now generally accepted that it is contemparay with the Nadrid Palace. free standing stone Sculpture in the roung is unusal in Islamic art. قصر الحمراء کے متعلق مغربی اور مشرقی مصنفین نے اس قدر لکھا ہے کہ اس کا سرسری حوالہ بھی اس مقالہ کو طویل بنا دے گا۔ 1؎ اس سے حصہ مرتفع کی لمبائی دو ہزار چار سو تیس فٹ 2؎ اور چوڑائی چھ سو چوہتر فٹ ہے اور تقریباً ۳۵ ایکڑ کے رقبہ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تعمیر ۱۲۳۸ء اور ۱۳۵۸ء کے درمیان مختلف حکمرانوں کے عہد میں ہوئی اندرونی تزئین و آرائش یوسف اول سے منسوب ہے جس کی وفات ۱۳۵۴ء میں ہوئی۔ ۱۴۹۲ء میں اندلس سے مسلمانوں کے اخراج کے بعد اس کی ویرانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس داستان کو جستہ جستہ سید علی بلگرامی کی زبان سے سنئے3؎ـ: ’’ عربوں کی عمارات غرناطہ میں قصر الحمراء میں جسے عرب قلعتہ الحمرا کہتے ہیں اور جس کی تعمیر چودھویں صدی عیسوی میں ہوئی اندلس کے عربی طرز تعمیر کے اعلیٰ درجہ کا نمونہ نظر آتا ہے۔۔۔‘‘ آگے چل کر مصنف ایک مغربی مورخ کی کتاب اوری انٹیال کے اشعار کا یہ ترجمہ پیش کرتے ہیں: کیا جنات نے آراستہ جس قصر شاہی کو بنایا جس کو گھر ہر رنگ کی نغمہ سرائی کا نظر آتا ہے عالم خواب کا سارا طلسماتی وہ الحمرا ہے، الحمرا نہیں جس کا کہیں ہمتا ہزار افسوس تیری بیکسی اور زار حالت پر کہ تو اب منہدم ہوتا چلا ہے حسرتا دردا ترا وہ قلعہ اور کنگورے داراس کی وہ دیواریں جو اب گرتی چلی ہیں ہے سماں جن میں تنزل کا جہاں کانوں میں جادو کی صدائیں شب کو آتی ہیں جہاں شاہد ہے تیری شوکت و عظمت کا ہر ذرا 1؎ مثلاً اس کی ساخت کے بارے میں ایک مستند ماخذ T. Gowry and oweu jones کی دو جلدوں میں تصنیف ہے: Plans, Elecation, Selction and Details of the Alhamara (2 vol) 1848 1845. ترجمہ وقار عظیم نے کیا ہے۔ 2؎ بحوالہ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا۔ جلد اول ۱۹۶۱ء صفحہ ۶۲۲ و بعد 3؎ تمدن عرب، طبع مدراس ۱۰۹۰، ص ۲۶۸ و بعد جہاں چاند اپنی نورانی شعاعوں سے بعد خوبی ترے دیوار و در کو عمدگی سے آپ ہے دھوتا سماں وہ بھی ہے تیرا دیکھنے کے لائق و قابل نہیں الفاظ میں جس کا بیان لطف آ سکتا آگے چل کر ایک اور مصنف کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’ دروازہ البرکہ سے جس وقت قصر اللیوث میں داخل ہوں تو دل کی وہ کیفیت ہوتی ہے جس کا بیان نہیں ہو سکتا، محراب دار غلام گردشیں، ہر قسم کی محرابوں سے بنی ہوئیں اور ان میں پھول بوٹے اور قلم کاریاں جن پر گچ کاری کی جالیاں چڑھی ہوئی ہیں جو کسی وقت میں سونے اور مختلف قسم کی رنگ آمیزیوں سے مرصع تھیں۔ ہر طرف دور تک چلی جاتی ہیں اور آنکھوں کے سامنے ایک جنگل ستونوں کا نظر آتا ہے کہیں علیحدہ اور کہیں دو دو اور مختلف ترکیبوں سے لیکن ہر حالت میں دلپذیر، ان کے بیچ میں شیروں کے حوض کا فوارہ چھٹتا ہوا اور اس کی پھواریں آفتاب کی کرنوں میں چمکتی ہوئی عجب جوبن دکھاتی ہیں۔‘‘ جیسا کہ سید علی بلگرامی نے لکھا ہے الحمراء کے حسن و جمال کی جھلک الفاظ میں دکھانا مشکل ہے۔ رنگین تصاویر سے اس کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے، ہم اس بیان کو الحمراء کی تباہی کی ایک جھلک دکھا کر ختم کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو گا کہ مسلمانوں کے تہذیبی ورثہ کو کس طرح مٹانے کی کوششیں صدیوں سے جاری ہیں، یہ بیان بھی سید علی بلگرامی کے حوالہ 1؎ سے دیکھئے: ’’ کل صناع اور اہل کمال جنہوں نے الحمراء کو دیکھا ہے اندلس کے نصاریٰ کی اس عجیب و غریب وحشیانہ حرکت کو افسوس کے ساتھ بیان کرتے ہیں جو ان سے اس قصر کے برباد کرنے میں سر زد ہوئی، چارلس پنجم نے تو اس کا ایک حصہ اس غرض سے توڑ ہی ڈالا تھا کہ اس کے مصالحے سے ایک دوسری بے ڈھنگی عمارت بنا دے لیکن اور حکومتوں نے بھی اس کو محض ایک پرانا ویرانہ سمجھ لیا جس کی اشیاء دوسرے کاموں میں مستعمل کی جا سکیں۔‘‘ جن حضرات نے لاہور کی ان عمارتوں کو دیکھا ہے جو سکھوں کے دور اقتدار میں مسلمانوں کے تہذیبی آثار کو ڈھا کر ان کے مسالے سے تیار ہوئیں وہ اس کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ راقم ۱۹۴۷ء سے پہلے لاہور میں ایک ایسی عمارت دیکھی جس میں ایک جالی اسی طرح لگائی گئی تھی لیکن لگانے والے اناڑی کاریگروں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ اس میں جن پرندوں کو بنایا گیا تھا ان کے سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ہو گئی تھیں۔ ایسی ہی کچھ کیفیت علامہ اقبال نے قصر الحمراء کے ملبہ سے تعمیر شدہ عمارتوں میں دیکھی ہو گی۔ بلگرامی اس داستان کو مزید حوالوں سے اس طرح مکمل کرتے ہیں۔ ’’ موسیو داوی لٹیر اپنی کتاب اندلس میں لکھتے ہیں،‘‘ وہ پر تکلف چینی کی تختیاں جو قصر کے دالانوں میں نصب قیص چند سال قبل پیس کر چونا بنانے کی غرض سے فروخت کر دی گئیں، مسجد کا کانسی کا دروازہ پرانے تانبے کے نام سے بکا اور وہ بیش بہا لکڑی کے کندہ کئے ہوئے دروازہ جو دار نبی سراج میں لگے ہوئے تھے ایندھن کے 1؎ ایضاً ص ۲۷۱۔ ۲۷۴ کام میں لائے گئے، جو کچھ مال و متاع اس میں سے بک سکتی تھی اس کے فروخت کرنے کے بعد یہ عمارت بطور مجلس کے کام میں لائی گئی اور اس میں فوجی رسد کا کارخانہ بنایا گیا۔ صفائی کی آسانی کی غرض سے تمام نسخی آرائیوں اور گل کاریوں پر چونے کی استر کاری کر دی گئی، یہ انوکھی طرز جو اندلس کے عیسائیوں کو بھی اسی طرح پسند ہے جیسی انگریزوں کو بعض مہذب اقوام میں اس درجہ جاری ہے کہ گویا ان کی روز مرہ کی ضروریات میں شریک ہو گئی ہے۔ یہ سفید سطحیں بعض اشخاص کی آنکھوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں اور کسی قدر اس عامیانہ خیال مساوات کو پورا کرتی ہیں جو روز بروز یورپ میں پھیلتا جاتا ہے۔۔۔ یہ بات جس قدر دکھ سے سید علی بلگرامی نے بیان کی ہے اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علامہ اقبال کو میراث اسلام کی اس تباہی اور بربادی کے مناظر جو دہلی اور لاہور سے صقلیہ اور اندلس تک پھیلے ہوئے ہیں یہ آثار صرف عمارات تک محدود نہیں بلکہ ہماری کتابیں، ہمارے آباؤ و اجداد کے وہ علمی کارنامے ہیں جو ہماری دسترس سے اس لئے باہر کر دئیے گئے ہیں کہ ہم اپنے اس تہذیبی ورثہ سے منقطع ہو جائیں اور اپنی تہذیبی روایات کے تسلسل کو قائم رکھنے کی بجائے اپنا ذہنی رشتہ ان ماخذات سے قائم کریں جو ان روایات کی تکذیب اور تذلیل کرتے ہیں۔ علامہ کے جس فقرے کے حوالے سے ہم مدینتہ الزہرا اور قصر الحمرا کے بارے میں لکھ رہے تھے اس کی تیسری کڑی مسجد قرطبہ ہے۔ اس کا مختصر تعارف ہم اس مقالہ کے آغاز میں کر چکے ہیں ایک مرتبہ پھر ہم بلگرامی کے حوالہ سے اس مسجد کا کچھ حال لکھتے ہیں 1؎ ’’ قرطبہ کی مشہور مسجد کو عبدالرحمن نے ۷۸۰ء میں شروع کیا۔ یہ عمارت جو مسلمانوں کی نظروں میں بعد مکہ معظمہ کے متبرک گنی جاتی ہے اندلس کی عربی یادگاروں میں ایک عمدہ ترین یادگار ہے۔‘‘ شاید بلگرامی کے اس قول سے سب کو اتفاق نہ ہو کہ بعد مکہ معظمہ کے مسجد قرطبہ مسلمانوں کے نزدیک سب سے متبرک گنی جاتی ہے کیونکہ مسجد نبوی جو اسلام کی پہلی مسجد ہے اور جس کی تعمیر خود بانی اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی اور جس کا ذرہ ذرہ سجدہ گاہ قدسیاں ہے اس سے متبرک اور کون سی مسجد ہوگی، یا پھر مسجد اقصیٰ سے بزرگ تر کونسی مسجد ہو گی۔ بیشک جاہ و جلال اور حسن و جمال کا یہ نادر نمونہ اندلسی مسلمانوں کا ایک قابل فخر کارنامہ اور اسلام کے تہذیبی ورثہ کا ایک نادر نمونہ ہے لیکن فن کے اعتبار سے دنیا کے مختلف ممالک میں بعض اور نہایت اہم مساجد موجود ہیں۔ 2؎ خود برصغیر میں دہلی کی جامع مسجد، لاہور کی شاہی مسجد، ٹھٹھہ کی شاہجہانی مسجد ایسے آثار ہیں جو فن تعمیر کا اعلیٰ درجے کا نمونہ ہیں۔ اس عمارت کا کچھ اندازہ بلگرامی کے اس بیان سے ہوتا ہے۔ جو انہوں نے کاند کے حوالہ سے نقل کیا ہے: ’’ یہ عمارت آٹھویں صدی کے آخر میں عبدالرحمان نے بنائی اور یہی اس عمارت کا بانی سمجھاجاتا ہے، اس کا ارادہ 1؎ تمدن عرب محولہ بالا ص ۲۶۲، ۲۶۳ 2؎ ان میں سے بعض کا حال اردو دائرہ المعارف اسلامیہ، جلد ۱۵ میں فن تعمیر کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ (رک) تھا کہ اس مسجد کو بڑے پیمانہ پر مسجد دمشقیہ کا مقابل بنائے اور اس میں وہ عجیب آرائشیں اور گل کاریاں دکھائے جو ہیکل سلیمانی کو بھی جسے رومیوں نے برباد کیا بھلا دیں۔ یہ جامع مسجد عظمت و شان میں تمام مشرقی معاہدے سے بڑھی ہوئی تھی، اس کا میناز زمین سے اکہتر گز بلند تھا۔ اس کا گنبد جس کی چھت کے نیچے ترشی ہوئی لکڑی کا منطقہ تھا ایک ہزار ترانوے مختلف رنگ کے سنگ مرمری ستونوں پر قائم تھا، یہ ستون بساط شطرنج کے لئے مربعوں میں نصب کئے ہوئے تھے اور ایک مربع میں پانچ ستون تھے جس ترتیب سے عمارت کے طول میں انیس گلیاں اور ان کو قطع کرتی ہوئی عرض میں اڑتیس کسی قدر تنگ گلیاں بن گئی تھیں، مسجد کا جنوبی روکار دریائے کاڈل کوئی ور1؎ (ردد الکبیر) کی جانب واقع ہوا تھا،ا ور اس میں انیس دروازے تھے جن پر نہایت باریک کام کی ہوئی کانسی کی پتریاں جڑی ہوئی تھیں، باستثناء بیج کے دروازے کے جس کی پتریاں سونے کی تھیں مشرق و مغرب کی روکار میں بھی اسی قسم کے نو نو دروازے تھے، باوجود ا سکے اندلس کے عیسائیوں نے اس عمارت کی بہت کچھ بے حرمتی کی ہے پھر بھی جامع قرطبہ اس وقت ایک عجیب عمارت ہے، اس کو متبرک بنانے کی غرض سے اس کے اندر ایک بہت بڑی کلیسے کی تعمیر شروع کی گئی ہے۔ دیواروں کی آرائشوں اور کتبوں پر چونے کی استر کاری کر دی گئی ہے۔ فرش مسجد کی پچی کاری کا کام اٹھا لیا گیا ہے، وہ پر تکلف چھتیں کندہ کی ہوئی لکڑی کی فروخت کر دی گئی ہیں، اس قدیم عمارت کی شان کا اندازہ کرنے کے لئے فقط ایک مصلی کا دیکھنا کافی ہے کہ یہی ایک جز عمارت کا اس وقت تک ان کی پردرد اور وحشیانہ دستبرد سے بچا ہوا ہے۔ مسجد کی تعمیر کی تفصیلات اس کا طرز تعمیر، اس کے پر شکوہ ایوان، اس کے ستون اور محرابیں، ایسی ہیں کہ ان کے مٹے اور برباد شدہ آثار بھی اس عظمت اور شوکت کی یاد دلاتے ہیں جو اپنے دور عروج میں اسلامی فن تعمیر کے شاہکار کو حاصل تھی، لیکن اس کی تفصیل ہمیں اپنے موضوع سے بہت 2؎ دور لے جائے گی، اس لئے ہم علامہ اقبال کے یہاں اس مسجد کے حوالے کے ایک اور پہلو کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ یہ مسجد کے بانی عبدالرحمن کے کردار سے متعلق ہے۔‘‘ 1؎ یہ عربی وادی الکبیر ہے، رود الکبیر، جس کا ذکر علامہ نے بھی کیا ہے، عربی واؤ کی جگہ ہسپانوی گ کی مثالیں بکثرت ملتی ہیں مثلاً مردارید MarfaretteالوزیرAlguzazil 2؎ اسلامی فن تعمیر کے متعلق دنیا کی مختلف زبانوں میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، اردو میں اردو دائرہ معارف اسلامیہ (پنجاب یونیورسٹی) میں شامل مقالہ فن۔۔۔۔ تعمیر میں ایک اچھا جائزہ موجود ہے، ایک اور کتاب اسلامی فن تعمیر ہے جو ارنسٹ ٹاڈہیام رچمنڈ کی کتاب سے ترجمہ ہے اور جس میں ۶۳۳ء تا ۱۶۱۵ء اسلامی فن تعمیر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ترجمہ مبارز الدین رفعت، طبع انجمن ترقی اردو ہند علی گڑھ جنوری ۱۹۵۲ء عبدالرحمن کا تعلق بنو امیہ سے تھا، عباسیوں کی خلافت قائم ہوئی تو قدرتی طور پر بنو امیہ پر زوال آیا اور اس خاندان کے اکثر لوگ آلام و مصائب میں مبتلا ہوئے اور بعض قتل ہوئے، عبدالرحمن کے بارے میں مورخین کا بیان ہے کہ وہ دربار امیہ کے ایک ممتاز رکن تھے، اعلیٰ تعلیم و تربیت،فوجی مہارت، سیاسی دور اندیشی اور تدبر کے ساتھ ان کا ذاتی کردار ایک دلیر، جرأت آزما اور بلند ہمت انسان کا تھا چنانچہ جب انہیں یقین ہو گیا کہ ان کی زندگی خطرہ میں ہے عبدالرحمن اپنے بھائی یحییٰ کے ساتھ جان بچا کر فرار ہو گیا اور ایک صبر آزما سفر سے گزر کر افریقہ پہنچا لیکن یہاں بھی آلام و مصائب نے اس کو سکون نہ دیا اور وہ ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلہ میں پناہ کی تلاش میں سرگرداں رہا۔ بالآخر وہ قبیلہ بنو نفوسہ میں پہنچا جو اس کے ننھیالی رشتہ دار تھے اور یہاں اسے کچھ چین نصیب ہوا۔ مورخین لکھتے ہیں۔ 1؎: ’’ یہی وہ علاقہ ہے جہاں کبھی جولین کی عملداری تھی، جہاں سے کبھی مسلمانوں کی فوجیں جولین کے جہازوں پر سوار ہو کر اندلس میں بڑے کارناموں اور معرکوں کا باعث ہوئی تھیں، یہیں پر عبدالرحمن نے بھی افریقہ کی طرف سے بالکل مایوس ہو کر آبنائے کی اس طرف نگاہ دوڑائی اور اپنی قسمت آزمائی کا مرکز اسے ٹھہرایا، اطمینان نصیب ہوا تو امیدوں نے آس بندھائی، حوصلوں نے ہمت بڑھائی اور اب ایک بے یار و مددگار بے گھر و بار بے سرو سامان انسان پھر ایک نئی مملکت پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھنے لگا اور یہ خواب جلد ہی شرمندۂ تعبیر بھی ہو گیا۔‘‘ عبدالرحمن کے معرکوں کی تفصیل اور اندلس میں بنو امیہ کی اس شاخ کی نئی حکومت کی داستان بہت طویل ہے اور تاریخوں میں مذکور ہے مگر ہم اس کے کردار سے متعلق ایک اور واقعہ بیان کر کے اسے مختصر کرتے ہیں۔ 2؎ بیان کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ المنصور کے دربار میں یہ ذکر چھڑا کہ خاندان قریش کا شاہیں لقب کون پا سکتا ہے۔ خلیفہ منصور کو امید تھی کہ لوگوں کے منہ سے اسی کا نام نکلے گا لیکن درباریوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص واقعی اس لقب کا مستحق ہے تو وہ عبدالرحمن بن معاویہ بن ہشام ہے کہ جس نے صحراؤں کی خاک چھانی، ریگ زاروں کی گرد پھانکی، دشت دشت جبل جبل مارا مارا پھرا تنگ دستی اور سخت پریشانی میں دن گزارے مگر اولو العزمی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا، جس کے پاس نہ خزانے تھے، نہ زر و جواہر، نہ مال و دولت نہ جاہ و حشمت، نہ فوج و سپاہ نہ آلات سپاہ گری، نہ دوست احباب نہ اعزا اقربا نہ حامی نہ مددگار مگر پھر بھی وہ ایک خیال، ایک نظریہ، ایک مطمح نظر کا سختی سے پابند رہا اور آخر کار حکومت اندلس پر قابض ہو کر رہا۔ ظاہر ہے اس کردار کا شخص ہی ان صفات کا حامل ہو سکتا ہے جو بندہ مومن ہے اور جس کی تعریف میں مسجد قرطبہ کا یہ بند ہے: تجھ سے ہوا آشکار بندۂ مومن کا راز اس کے دنوں کی تپش اس کی شبوں کا گداز اس کا انتقام بلند، اس کا خیال عظیم اس کا سرور، اس کا شوق اس کا نیاز اس کا ناز 1؎ تاریخ اندلس، محولہ بالا صف ۱۴۵2؎ ایضاً ص ۱۶۱ ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کار کشا، کار ساز خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل اس کی اداد دلفریب اس کی نگہ دل نواز نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز نقطہ پرکار حق مرد خدا کا یقیں اور یہ عالم تمام و ہم و طلسم و مجاز عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا مرد مومن ہی مسجد قرطبہ جیسے عظیم شاہکار کی بنیاد رکھنے کا اہل ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ علامہ نے اس مسجد میں نماز ادا کی لیکن مسجد قوت الاسلام میں نماز ادا کرنے کی ہمت نہ ہوئی اس کا ذکر اس نظم میں دیکھئے جو مسجد قوت الاسلام کے نام سے ضرب کلیم میں موجود ہے۔ ہے مرے سینہ بے نور میں اب کیا باقی لا الٰہ مردہ و افسردہ و بے ذوق نمود چشم فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو کہ ایازی سے دگرگوں ہے مقام محمود کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینہ سے کہ غلامی سے ہوا مثل زجاج اس کا وجود ہے تری شان شان کے شایاں اسی مومن کی نماز جس کی تکبیر میں ہو معرکہ بود و نبود اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت وہ گداز بے تب و تاب دروں میری صلوٰۃ اور درود ہے مری بانگ اذاں میں نہ بلندی و شکوہ کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا وجود اس نظم کا پس منظر پروفیسر حمید احمد خاں نے ملفوظات اقبال 1؎ میں عبدالواحد صاحب کے ایک سوال کے بارے میں جو دراصل قوالی اور وجد و حال سے متعلق تھا علامہ کے جواب میں فراہم کیا ہے، علامہ کے الفاظ یہ ہیں: ’’ فن تعمیر کے سوا فنون لطیفہ میں سے کسی میں بھی اسلامی روح نہیں آئی، اسلامی تعمیرات میں جو کیفیت نظر آتی ہے وہ مجھے اور کہیں نظر نہیں آئی، البتہ پچھلی مرتبہ یورپ سے واپسی پر مصر جانے کا اتفاق پیش آیا، اور وہاں قدیم فرعونوں کے مقابر دیکھنے کا موقع ملا۔ ان قبروں کے ساتھ مدفون بادشاہوں کے بت بھی تھے جن میں قوت اور ہیبت کی ایک شان ایسی تھی جس سے میں بہت متاثر ہوا، قوت کا یہی احساس حضرت عمرؓ کی مسجد اور دلی کی مسجد قوۃ الاسلام بھی پیدا کرتی ہے بہت عرصہ ہوا جب میں نے مسجد قوۃ الاسلام کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا، مگر جو اثر میری طبیعت پر اس وقت ہوا وہ مجھے ابھی تک یاد ہے، شام کی سیاہی پھیل رہی تھی اور مغرب کا وقت قریب تھا، میرا جی چاہا کہ مسجد میں داخل ہو کر نماز ادا کروں لیکن مسجد کی قوت و جلال نے مجھے اس درجہ مرعوب کر دیا کہ مجھے اپنا یہ فعل ایک جسارت سے کم معلوم نہ ہوتا تھا، مسجد کا وقار مجھ پر اس طرح چھا گیا کہ میرے دل میں صرف یہ احساس تھا۔ 1؎ طبع ثانی مرتبہ حمید احمد خاں، ۱۹۴۹ء لاہور ص ۱۷۳ و بعد کہ میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کے قابل نہیں رہا۔‘‘ آگے چل کر علامہ نے نہایت اختصار سے اسلامی فنون کے زوال کا ذکر یوں فرمایا: ’’ اندلس کی بعض عمارتوں میں بھی اسلامی فن تعمیر کی اس خاص کیفیت کی جھلک نظر آتی ہے لیکن جوں جوں قومی زندگی کے قواء شل ہوتے گئے تعمیرات کے اسلامی انداز میں ضعف آتا گیا، وہاں کی تین عمارتوں میں مجھے ایک خاص فرق نظر آیا، قصر زہرا دیووں کا کارنامہ معلوم ہوتا ہے، مسجد قرطبہ مہذب دیوؤں کا مگر الحمراء محض مہذب انسانوں کا۔‘‘ ہم اس کی تفصیل کسی قدر لکھ چکے ہیں، لیکن الحمراء کے سلسلہ میں علامہ کا یہ بیان بھی اس کی ایک کڑی ہے۔ ’’ میں الحمراء کے ایوانوں میں جا بجا گھومتا پھرا، مگر جدھر نظر اٹھتی تھی دیوار پر ’’ ھو الغالب‘‘ لکھا ہوا نظر آتا تھا، میں نے دل میں کہا یہاں تو ہر طرف خدا ہی خدا غالب ہے، کہیں انسان غالب نظر آئے تو بات بھی ہو۔‘‘ اس کے بعد تاج محل پر اظہار خیال فرمایا: ’’ مسجد قوۃ الاسلام کی کیفیت اس میں نظر نہیں آتی، بعد کی عمارتوں کی طرح اس میں بھی قوت کے عنصر کو ضعف آ گیا ہے اور دراصل یہی قوت کا عنصر ہے جو حسن کے لئے توازن قائم کرتا ہے۔‘‘ اور دلی کی جامع مسجد کے متعلق فرمایا: ’’ وہ تو ایک بیگم ہے۔۔‘‘ اس مضمون میں ہم نے وراثت اسلام کے صرف ایک پہلو یعنی فن تعمیر کے اسلامی فکر سے متاثر ہونے کا ذکر کیا ہے جو مساجد کی تعمیر کی صورت میں ظاہر ہوا اور اس میں بھی دنیائے اسلام کی صرف چند مساجد کا حال اور وہ بھی نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے، ہماری تہذیب و ثقافت کے اور پہلو بھی ہیں جن میں وراثت اسلام کے آثار موجود ہیں اور جن کے بارے میں علامہ اقبال کا ایک مخصوص اور واضح نقطہ نظر تھا، اس پہلو سے علامہ اقبال کا کلام نظم و نثر، ان کے مکتوبات ان کے ملفوظات، خطبات سب کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ اس عنصر کی نشان دہی ہو سکے کیوں کہ ملت اسلامیہ کے تشخص کا دار و مدار اسی وراثت اسلام کی بازیافت پر ہے اور تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کا جو خاکہ علامہ نے پیش کیا ہے وہ بھی اس کی دعوت دیتا ہے۔ اقبال، سوشلزم اور اسلام پروفیسر کرار حسین مجھ سے سوال کیا گیا ہے: ’’ علامہ اقبال کی شاعری سوشلزم کا پرچار کرتی ہے اور پاکستان میں ان کی شاعری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خالصتاً اسلامی نظریات کی مظہر ہے، کیا آپ اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں گے؟‘‘ (۱) آؤ، کچھ ادھر ادھر کی باتیں کریں، اس سوال سے متعلق بھی اور غیر متعلق بھی، شاید ہم ’’ ہاں‘‘ یا ’’ نہیں‘‘ میں تو اس کا جواب نہ دے سکیں لیکن اس سوال کے حدود کچھ زیادہ واضح ضرور ہو جائیں گے۔ بجائے ’’ سوشلزم‘‘ کی تعریف کرنے کے اور خالصتاً ’’ اسلامی نظریات‘‘ کی توضیح کرنے کے یہ طریق کار ہمارے لیے زیادہ مفید ہو گا کہ ہم اقبال کے فکری ارتقاء کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ان کی فکری ارتقاء کی پہلی منزل تو یہ تھی کہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور اسی ماحول میں ان کا شعور بیدار ہوا۔ اس زمانے میں اسلامی گھرانوں کی دو خصوصیات بہت نمایاں تھیں۔ مذہب کے اعتبار سے نماز اور تلاوت اور کلچر کے اعتبار سے فارسی کے کلاسیکی شعراء کا کلام جو ایک خاص مابعد الطبیعاتی پس منظر میں زندگی کے دونوں پہلوؤں یعنی غم جاناں اور غم دوراں کی ترجمانی اور ادراک کے لیے ایک خاص طرز احساس کی تربیت کرتا ہے۔ مجھے اس بحث میں یہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں کہ انہوں نے کونسی کتابیں پڑھیں یا کن اساتذہ سے پڑھا۔ یہ بات کافی ہے کہ انہوں نے اسی ماحول میں پرورش پائی اور سنا ہے کہ ان کا گھرانا کسی سلسلہ میں بیعت بھی تھا۔ دوسری منزل مغربی ادبی اور فلسفہ اور علم کی تحصیل کی تھی۔ یہ منزل زمانہ حال کے مشرقی نوجوانوں کے ذہنی نشوونما کی تاریخ میںبہت اہم ہے۔ زمانہ حال سے میری مراد تاریخ کے اس دور سے ہے جو مغربی، سیاسی، معاشی اور ذہنی اثرات کے مشرقی اقوام پر تسلط اور چند بہت گہرے معنی میں استحصال سے شروع ہوتا ہے اس دوراہے پر ہمارا معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ایک راستہ وہ ہے جو قدیم ’’ اسلامی‘‘ علوم کی تحصیل اور زندگی کے قدیم اخلاقی ماحول کی طرف جاتا ہے، اور دوسرا راستہ وہ ہے جو مغرب کے علوم اور ان کے ذہنی اور اخلاقی پس منظر کی طرف جاتا ہے۔ مزید دشواری یہ ہے کہ معاشرہ کی یہ تقسیم دو ٹوک نہیں ہوتی۔ قدیم راستے پر چلنے والے اس دنیا میں جس میں مغرب کے اثرات اور جدید زمانے کی ضروریات غالب عنصر ہیں پرانی روایات اور ماحول قائم نہیں رکھ سکتے اور جدید راستے پر چلنے والے اپنی اصل کا انکار نہیں کر سکتے، نہ ماضی کے بوجھ کو اپنے کندھوں سے اتار کر پھینک سکتے ہیں، یہ معاشرہ کی تقسیم داخلی بن کر ذہن کی تقسیم بن جاتی ہے یہ مسئلہ ان جوانوں کے لیے اور بھی شدید ہو جاتا ہے جہاں سمجھدار لوگوں نے زندگی کا راستہ ہلکا کرنے کے لیے اپنے گھرانوں کو قدیم مذہبی یا ثقافتی اثرات سے پاک کر لیا ہے کیونکہ ایک تو مردہ لاش زندہ جسم سے زیادہ وزنی ہوتی ہے اور دوسرے ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین بھی نکل جاتی ہے۔ بہرحال یہ تضاد اور تصادم جدید مشرقی فکر میں ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور اسی کے متعلق رویہ یا اس کا حل یا اس کی ترکیبی ہیئت ہر مشرقی مفکر کی انفرادیت کی تشکیل کرتی ہے۔ اکثر لوگ تو مغربی زندگی کے ظواہر اور زندگی کے ساز و سامان اور طریقوں ہی سے متاثر ہوتے ہیں اور وہاں کے فکر و فن سے واجبی سی شناسائی رکھتے ہیں، اقبال نے نہ صرف مغربی ممالک میں قیام کے دوران ہی بلکہ اپنی ساری زندگی وہاں کے فلسفہ اور ادب کا بہت گہرا مطالعہ اور وہاں کے حالات کا بہت گہرا مشاہدہ جاری رکھا۔ ہمیں یہ بات بری لگے یا بھلی لیکن آج کی دنیا میں باشعور زندگی گزارنے کے لیے یہ مشق ناگزیر ہے۔ اقبال نے مغرب کو سمجھنے کی کوشش کی، اس نے وہاں کے فلسفیوں کا بھی مطالعہ کیا، ہیگل اور مارکس کا عینی اور مادی جدلیاتی ارتقا، نطشے کے لبرل بورژ وا سوسائٹی اور اس کی قدروں کی تحقیر اور مافوق البشر کا پیغام، برگسوں کا تصور زمان اور اثبات وجدان، کانٹ کی انسانی عقل کی تنقید اور تحدید، غرض ان سب کا مطالعہ کیا اور ان طاقتوں کا مشاہدہ بھی کیا جو ایک طرف علم کے زور پر کائنات کو پے بہ پے تسخیر کر کے انسان کے سامنے لامتناہی مواقع فراہم کر رہی تھیں اور دوسری طرف تمام دنیا کو مادی اور روحانی استحصال کے جال میں گرفتار کر رہی تھیں اور خود زندگی کے روحانی سرچشموں کو خشک کر کے انسانوں کو مشینوں میں تبدیل کرتی جا رہی تھیں ایک طرف وہ اس عالم افگن اور عالم آرا تماشہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور دوسری طرف اس کا یہ احساس شدید تر ہوتا جا رہا تھا کہ خود اس کا گھر جو کسی زمانے میں ساری دنیا کے لیے منارۂ نور تھا اس سیلاب بلا کا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ تیسری منزل اس فکری سفر (میری مراد یورپ سے وطن کی طرف مراجعت نہیں ہے) کی وہ ہے جب یہ مسافر بہت سے سوالات اور مسائل اور شبہات اور مشاہدات سے لدا پھندا اپنے گھر کی طرف لوٹا تاکہ اس ساز و سامان کی تراش خراش کر کے اس کو اپنے گھر کی تعمیر میں صرف کرے۔ اس کی بنیادیں مضبوط کرے اور اس کے دریچوں کو جو بہت دنوں سے بند ہیں ہوا اور روشنی کے رخ پر کھولے تاکہ وہ نہ صرف وقت کے سیلاب کا مقابلہ کر سکے بلکہ اس سیلاب میں منارۂ ہدایت کا فرض انجام دے۔ مثنوی اسرار خودی اور مثنوی رموز بیخودی اقبال کے فکری سفر کے اسی اہم موڑ کی نشان دہی کرتی ہیں۔ ان مثنویوں کے خیالات اور مضامین کا اگر علیحدہ علیحدہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بتانا دشوار نہیں ہو گا کہ اقبال نے اپنی عمارت کے لیے فلاں سامان یا مصالحہ استخراج یا تنقید کے ذریعہ کماں سے حاصل کیا ہے۔ لیکن چونکہ اس سامان کو ترکیب دینے والا شعور اسلامی ہے اس لیے جو عمارت تعمیر ہوئی ہے وہ اقبال کی حد ہے اور اسلامی ہے جس کے متعلق ایک دعوے کے ساتھ اقبال بحضور رحمتہ للعالمین عرض کرتا ہے: گر دلم آئینہ بے جوہرست در سجر فم غیر قرآن مضمرست پردۂ ناموس فکرم چاک کن ایں خیاباں دا ز خادم پاک کن یورپ کی قدیم زبانوں کے علماء ملٹن کی نظم پیراڈائز لوسٹ کے نہ صرف خیالات کے بلکہ تشبیہوں اور تمثیلوں تک کے ماخذ کا کھوج لگا لیتے ہیں لیکن کلی نظم ملٹن کی ہے، تخلیقی شعور سے ترکیب پا کر مختلف اجزاء کا مزاج ایک نئے کل سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ اسلامی روایت اور مغربی جدیدیت کے تضاد کے سلسلہ میں اقبال اور اس کے پیش رو مفکرین مثلاً سرسید احمد خاں میں فرق یہ ہے کہ سرسید احمد خاں نے تو مغربی زندگی کو انسانی تہذیب کا اعلیٰ ترین نمونہ (میں اسوۂ حسنہ کہنے والا تھا) سمجھ کر جہاں کہیں کسی اسلامی عقیدہ اور رسم کو مغربی عقلیت سے ٹکراتے ہوئے دیکھا تو نہایت دیانت داری سے وہیں اس کی کوئی توجیہہ یا تاویل یا معذرت کر دی جس سے ذہن پر مرعوبیت کے نقوش گہرے ہونے کے علاوہ اسلام کی شکل ایک مسخرے کا لبادہ (Fool's Motley) ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اور اقبال نے اسلام کو ایک مربوط فکر کے لباس میں اس دعویٰ کے ساتھ پیش کیا کہ یہ خود زمانہ حاضر کے خیالات اور میلانات اور رحجانات کے لیے معیار تنقید ہے۔ (۲) میں نے اوپر اقبال کے مطالعہ اور مشاہدہ کا ذکر کیا۔ اقبال کی اولیں حیثیت شاعر کی ہے اور فلسفی شاعر وہ ہوتا ہے جس کی مطالعہ اور مشاہدہ سے پرورش یافتہ فکر جذبات سے انگیز ہو کر ناطق تجربہ بن جاتی ہے۔ یہ تجربہ ذہن کا تخلیقی عمل ہے۔ ذہن کے تخلیقی عمل اور تنقیدی عمل میں ذرا فرق ہوتا ہے۔ ذہن کے تنقیدی عمل میں تجزیاتی فکر تخیلی ہمدردی کی مدد سے کسی صورت حالات یا کسی شخصیت یا کسی تحریک کو ممکنہ معروضیت کے ساتھ ادراک کی گرفت میں لانے کی کوشش کرتی ہے۔ تخلیقی عمل میں تنقیدی عنصر پر حسیاتی رد عمل اور تخلیق کی پیدا کی ہوئی ضرورت اور تقاضے غالب رہتے ہیں۔ شاعر اس ماحول سے جو مہیا ہوتا ہے اور جس کو ذہن خود بھی مہیا کرتا ہے وہ اثرات اخذ کر لیتا ہے جو اس کی شخصیت کے مزاج کے مطابق ہوں، ان پہلوؤں کو بالکل نظر انداز کر دیتا ہے جو مزاج کے مطابق نہ ہوں، وہ اثرات جن کے خلاف شعوری طور پر شدید رد عمل کا اظہار کرتا ہے، ان میں اور اس کے مزاج میں کہیں نہ کہیں گہرائیوں میں ایک قدر مشترک ضرور ہوتی ہے۔ من و تو کسی بڑے من کے ہی دو حصے ہوتے ہیں جن میں باہم کلامی کے لیے محبت یا رقابت یا مخاصمت کا رشتہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ تخلیقی عمل بہت ظالم اور خود غرض ہوتا ہے، اس کو خواہ تاریخ ہو یا فطرت ہو، عقیدے ہوں یا مجرد خیالات ہوں، شخصیتیں ہوں یا کوئی واقعہ ہو، مطالعہ ہو یا مشاہدہ ہو ان تمام مختلف اجزاء کو نئی ترکیب دے کر او رپگھلا کر ایک نقش فریادی و انفرادی تیار کرنا ہوتا ہے۔ ان منفی اور مثبت اثرات سے تو ایسے واسطہ ہوتا ہے جو ذہنی شخصیت میں جذب ہو کر تجربہ بن جاتے ہیں باقی پہلوؤں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اقبال کے فن و فکر کے ارتقاء میں بہت سے مشرقی اور مغربی مفکرین اور شعراء کا حصہ ہے اور بہت سے حالات اور تحریکات پر ان کا رد عمل بھی اس ارتقاء میں شامل ہے لیکن یہ حصہ محض ان کی شخصیت کے مزاج اور تخلیقی ضرورت کی حد تک ہے۔ اگر مرید ہندی نے پیر رومی کو اپنے کسی سفر میں رہنما بنایا ہے تو یہ نہیں ہے کہ پیر رومی جہاں چاہتا ہے وہاں مرید کو لے جاتا ہے بلکہ جس مقام پر مرید زندہ رو دبن کر پیر کو لے جانا چاہتا ہے وہاں پہنچا دیتاہے۔ اگر حافظ سے کبھی لے دے ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حافظ سے اقبال نے اپنا دامن چھڑا لیا بلکہ یہ لے دے اس شدت سے ہوتی ہی اس لیے ہے کہ حافظ بری طرح ا س سے چمٹا ہوا ہے اور پیام مشرق اور زبور عجم کی غزلوں کے پردے میں کھڑا ہوا مسکرا رہا ہے اور اقبال زبان حال سے یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ خطا نمودہ ام و چشم آفریں دارم ایسی لے دے تو اقبال اور اس کے اللہ کے مابین بھی ہوتی رہتی ہے۔ مگر نہ اقبال اللہ کا پیچھا چھوڑ سکتے ہیں نہ اللہ اقبال کا۔ بے تو بودن نتواں، با تو نبودن نتواں افلاطون ساری عمر عشق کو عقل پر قربان کرتے رہے، اقبال پیہم کوشش عقل کو عشق پر قربان کرنے کی کرتے رہے لیکن نہ یہ بات ممکن ہوئی، نہ وہ بات ممکن ہوئی۔ یہ بھی ایک عجیب منفی تجربہ ہے کہ اس شخص کے لیے جس پر حسن نسوانی برق بن کر گرنے والا حادثہ ہوا کرتا تھا عورت ایک مسئلہ بن کر رہ گئی۔ غرض ایسے تمام اور بہت سے دیگر اثرات مثبت اور منفی تجربہ بن کر اس فلسفی شاعر کے فکر و فن کے ارتقاء کا حصہ بنتے گئے۔ سرمایہ داری یا سوشلزم یا فاشزم کا سائنٹیفک مطالعہ اقبال کی جبلی دلچسپی سے خارج تھا اور حقیقت بھی یہ ہے کہ کوئی مذہب ہو یا سیاسی اور معاشی تحریک ہو یا کوئی اصلاح یا انقلاب ہو غرض معاشرہ کی کوئی حرکت ہو اس کا اہم پہلو انسانی پہلو ہی ہوتا ہے، یہی اس کی جوہری قدر ہے، اسی سے شاعر کو واسطہ ہے اور انسان کے معنی ہیں فرد کیونکہ فرد ہی ایک محسوس حقیقت Concrete Reality ہے باقی سب عقلی تنزیہات اور اختراعات (Abstractions) ہیں۔ مسولینی سے وہ متاثر ہوئے کیونکہ اس کی شخصیات تمام موانعات پر قابو پا کر اور حالات کی تسخیر کر کے اکثر لحاظ سے خودی کی ایک بلند منزل پر پہنچ گئی تھی وہ اپنے ملک کو ایسی حالت میں لے آیا تھا جو بظاہر گزشتہ عظمت کے خواب کی تعبیر نظر آتی تھی۔ لیکن ابی سینیا پر مسولینی کی فوج کشی کو اقوام مغرب کی غارت گری، مغربی تہذیب کی شرافت کشی اور آبروئے کلیسا کے طلسم کی شکست سے تعبیر کرتے ہیں۔ اشتراکیت کے متعلق علامہ اقبال کے جستہ جستہ اشعار سے جو نتیجہ پیدا ہوتا ہے اس کو مختصراً اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے: (۱) مغربی نظام معاشرت و معیشت کی مخالفت میں علامہ اشتراکیوں کے ہم نوا ہیں۔ سرمایہ داری، ملوکیت اور مغربی جمہوریت سب ان کی نگاہوں میں مذموم ہیں۔ لیکن اشتراکی جدلیاتی مادیت کے تناظر میں اور ا سکے واسطہ سے اس فنا مقدر نظام کی برائیوں کو اس کے ’’ کیوں‘‘ اور ’’کدھر‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ علامہ اقبال اس تمام معاشرے کے اس لیے خلاف ہیں کہ اہل مغرب خود مشرق کے خدا بن بیٹھے ہیں اور خود ان کا خدا اقتدار اور دولت ہے۔ ان کا سارا علم اور دین اور دانش ہوس کی بندگی ہے۔ ان کی جمہوریت بھی ملوکیت کا ایک سوانگ ہے۔ مساوات کا سبق دیتے ہیں اور لہو پیتے ہیں ان کی مدنیت بیکاری مے خواری اور افلاس ہے اور بندۂ مزدور کے اوقات بہت تلخ ہیں۔ (۲) روس کے اشتراکی انقلاب نے مغربی تہذیب کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کر دیا، اور کلیسیا اور مدرسوں میں جو بظاہر عقل کی عیاریاں ہیں اور یہ باطن ہوس کی خونریزیاں ہیں ان کی تار و پود بکھیر دیا۔ یہ بظاہر تخریبی عمل بہت ضروری تھا۔ جس طرح اللہ کے اثبات سے پہلے غیر اللہ کی نفی اور الا سے پہلے لا ضروری ہے شاید سرمایہ داری کے ختم ہونے کے بعد ’’ قل العفو‘‘ میں جو اسرار پنہاں ہیں وہ بتدریج ظاہر ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا فرشوں کو یہی حکم ہے یعنی مشیت ایزدی یہ ہے کہ جس کھیت سے دہقاں کو روزی میسر نہ ہو اس کو جلا دیا جائے۔ کاخ امراء کے در و دیوار ملا دیے جائیں اور اس حرم و دیر کے چراغ بجھا دیے جائیں جہاں سجدوں سے خدا کو اور طواف سے بتوں کو فریب دیا جاتا ہے۔ خالق اور مخلوق کے مابین پیر کلیسا جو ایک رکاوٹ بنا کھڑا ہے اس کو بیج سے ہٹا دیا جائے اور ہر نقش کہن کو مٹا دیا جائے۔ (۳) لیکن مغربی تہذیب کے خدا اور انسان کے خلاف جرم اور گناہ کا علاج یا تدارک اشتراکیت نہیں ہے۔ اس تہذیب کے جام و سبو کو جس کو اشتراکیت اپنی ناداگی سے کارگہ شیشہ سمجھتی ہے (؟) اشتراکیت کا ہاتھ نہیں توڑ سکتا۔ کیوں دونوں معاشروں کی روح مادیت اور ہوس محرک اولیٰ ہے۔ لینن جب دعویٰ کرتا ہے کہ جمہور کی آگ نے پیر کلیسا کی رو اور سلطان کی قبا کو پھونک کر رکھ دیا تو قیصر جواب دیتا ہے کہ ہوس کی کارفرمائی تو بدستور موجود ہے۔ شیریں کا خریدار اگر خسرو نہیں رہا تو کوہکن ہو گیا۔ اشتراکیت کو صرف تن سے کام ہے حالانکہ اخوت کا مقام دل ہے۔ اشتراکیت اور ملوکیت دونوں یزداں اور شناس اور آدم فریب ہیں۔ اگر ملوکیت تن سے جان اور ہاتھ سے روٹی چھینتی ہے تو اشتراکیت علم او ردین اور فن کو ختم کرنے والی ہے۔ ملوکیت کے لیے زندگی خراج ہے۔ اشتراکیت کے لیے زندگی خروج ہے۔ انسان یا آدم ان دونوں پاٹوں کے بیچ میں شیشہ کی طرح پس رہا ہے۔ (۴) ان تمام ہنگاموں سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ خدا اس جہان کہنہ سے اور ان فرسودہ طریقوں سے بیزار ہے۔ مشرق اور مغرب میں لوگوں کے دلوں میں ایک انقلاب کا جذبہ بیدار ہو چکا ہے، یہ جہان پیر جس نے انسان کو ظاہری اور باطنی موت سے ہمکنار کر دیا ہے خود مرنے والا ہے، فرشتوں کے نزدیک اس صورت حالات کا تجزیہ یہ ہے کہ ابھی نقش گر ازل کا نقش ناتمام ہے عقل بے زمام ہے اور عشق بے مقام ہے۔ نئی دنیا پیدا کرنا اسلام کا مقدر ہے۔ اس تہذیب کی شیشہ گری کے طلسم کو توڑنے کے لیے شاعر مشرق کے ہو کی ضرورت ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی فرشتوں کو ہدایت ہے کہ شاعر مشرق کے آداب جنوں سکھا دیے جائیں اور ابلیس بھی آشفتہ سر اور پریشاں روزگار اشتراکی کوچہ گرد سے نہیں ڈرتا بلکہ اس ظالم سے ڈرتا ہے جو اشک سحر گاہی سے وضو کرتا ہے۔ مزوکیت فتنہ، فردا نہیں اسلام ہے یہ ایک ایسے شاعر کا جو انسان کی لامتناہی ترقی کے امکانات پر اور زندگی کے لا تحصیٰ گوناگوں شئون پر یقین رکھتا ہے اور جو اپنی قوم کی ماضی کی عظمت، حال کے استحکام اور مستقبل کے جان آفرین اور جہاں آفرین خواب سے کلی طور پر وابستہ ہے شدید رد عمل ہے ایک ایسے واقعہ کے متعلق جس کی اس نے سائنٹیفک اسٹڈی نہیں کی ہے لیکن تاریخ میں جس کی قیامت خیزی کو اس نے دیکھا اور جس کے متعلق کوئی نہ کوئی رویہ اختیار کرنا آج کی دنیا کے ہر انسان کی شعوری ضرورت ہے۔ (۳) لیکن (اور یہ بہت اہم اور ضروری لیکن ہے) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اقبال سیاست یا طاقت کے زور پر کسی ’’ اسلامی نظام‘‘ کو نافذ اور عائد کرنا چاہتے ہیں دین کو نظام یا نظریہ کے طور پر پیش کرنا ہمارے زمانے کی جدت یا بدعت ہے۔ غلامی کے دور میں یہ درست ہے کہ ہماری نظر محدود تھی اور عمل سست پڑ گیا تھا۔ زندگی کے دونوں شعبوں اجتہاد اور جہاد میں تنگ ظرفی اور سست روی پیدا ہو گئی تھی، لیکن اسلام تھا دین ہی اور دین حق، یہ تو ہمارے دیکھتے دیکھتے اسلام ایک نظام یا نظریہ بنا ہے، جس طرح ہمارے دیکھتے دیکھتے بہت سے نو دولتئے سید بن گئے۔ دین کو زندگی کی صراط اور شرع اور بیج اور نور کہا گیا ہے۔ نظام ایک ڈھانچہ ہوتا ہے جس کو کچھ سیاسی یا معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لئے یا مقاصد حاصل کرنے کے لئے وضع کر لیا جاتا ہے۔ تم کتنے ہی نظاموں کو، اسلام کا سیاسی نظام اور معاشی نظام اور اخلاقی نظام سب کو جوڑ لو لیکن حاصل جمع اسلام نہیں ہو سکتا جس طرح انسان کے مختلف اعضاء کو جوڑنے سے انسان نہیں بنتا، نظریہ ہمیشہ کسی فرد یا جماعت سے منسوب ہوتا ہے اور اس کی حقیقت اضافی ہوتی ہے، دین مطلق اور معروضی حق ہے۔ دین کا عمل شعور کی بہت گہری سطح پر ہوتا ہے، جہاں نظر بنتی ہے، ضمیر ڈھلتے ہیں اور زندگی اپنا چولا بدلتی ہے۔ اس نور اور معیار کی روشنی میں سیاسی اور معاشی مسائل بھی حل کیے جاتے ہیں یہ یک طرفہ راستہ ہے دو طرفہ نہیں۔ نظام اور نظریہ کو دین کی جگہ دینا بے یقینی کی موت ہے، شاید یہ اسلام پر مادیت کی آخری یورش ہے ویسے بھی نظریوں کا زمانہ جو شاید ہیگل سے شروع ہوا تھا ختم ہو رہا ہے اور ’’ نظاموں‘‘ سے دنیا بیزار ہے، وہ چند نہیں جو ا سکے اوپر چڑھے بیٹھے ہوتے ہیں بلکہ وہ اللہ کے بندے افراد جو ان کے نیچے کچلے جاتے ہیں۔ دین یا کلمہ طیبہ کی مثال ایک ایسے درخت کی ہے جو ایمان کے بیج سے پیدا ہوتا ہے۔ زمین میں جڑیں مضبوط ہوتی ہیں، شاخیں آسمان تک پھیل کر زندگی کے ہر شعبہ کو ڈھکتی ہیں اور ہر زمانے کے لوگ اپنی ضرورت کے مطابق اس سے اپنی غذا حاصل کرتے رہتے ہیں اب آپ دیکھئے کہ قرون اول کے بعد مختلف اثرات اور ضروریات کے تحت فقہ کا دور آیا، علم کلام کا دور آیا، حکمت اور فلسفہ کا دور آیا، تصوف کا دور آیا، فرقے بھی بنے، آپس میں تکفیر بازی بھی ہوتی رہی، خلافت بھی رہی، شہنشاہت بھی رہی، طوائف الملوکی بھی رہی، تاتاری فتنے بھی اٹھے، آج مغرب کے چیلنج اور تسلط کا سامنا ہے اور عظیم مسلمان ایمان اور علم کے سرچشمے سے اپنے ظرف اور زمانے کے لحاظ سے شعور اور نظر حاصل کرتے رہے ضمیر کی تربیت کرتے رہے اور اسی روشنی میں اپنے زمانے کو سمجھتے رہے اور مسائل کو حل کرتے رہے۔ حقیقت میں ایک قوم کی تاریخ اس کے اپنے خدا کے ساتھ تعلق اور ماحول کے خلاف رد عمل کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال اس زمانے میں آئے جو ملوکیت کا دور تھا، جمہوریت کا دور تھا، سرمایہ داری کے تمام تباہ کن مضمرات ظاہر ہو چکے تھے، سوشلزم ابھر رہا تھا، مغرب میں نت نئی تبدیلیاں جن کا کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا رونما ہو رہی تھیں۔ انسان اپنے علم و حکمت کے زور پر معجزات دکھا رہا تھا۔ دوسری طرف انسان کا دل مردہ ہوتا جا رہا تھا، زندگی کی کیفیت کم سے کم تر ہوتی جا رہی تھی، اقبال کے الفاظ میں مغرب کا ضمیر مر چکا تھا، مشرق کی خودی دم توڑ چکی تھی۔ اقبال نے کوئی نظام یا نظریہ پیش نہیں کیا۔ عقل کی بجائے عشق پر زور دینے کا مطلب ہی یہ ہو سکتا ہے کہ اپنے اور اپنے خدا پر یقین کے زور سے زندگی کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جگایا جائے اور ان کو حرکت میں لایا جائے۔ انہوں نے اسلام کی ایسی تفسیر پیش کی جس میں افسردگی یا سستی یا بے عملی یا بالفاظ دیگر یہ کہہ لیجئے کہ تقدیر پر شاکر رہنے کی، قناعت کی، ذکر مراقبہ کی، توکل کی، فکر عاقبت کی جو صورتیں مسلم معاشرہ میں عام طور پر رائج تھیں کوئی گنجائش نہ تھی انسان کو تخلیق اقدار اور ندرت عمل کا ایک بلند مقام دیا اور خودی کو اپنی تکمیل کے لیے خدا کے سامنے لا کھڑا کیا۔ کائنات کو بجائے ایک واقعے کے جو ہو چکا ہے تغیر پذیر دہر بتایا جو ہو رہا ہے، اور کار تخلیق میں خدا کو اور انسان کو ایک طرح شریک کار بنا دیا۔ خودی کی تربیت اور حصول دوام کو زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد اور زندگی کی اخلاقی قدروں کو پرکھنے کا معیار قرار دیا اور اسلامی اقدار کو زمانہ کے تمام مرد بر نظاموں کے احتساب کا پیمانہ بنایا، خودی کی تربیت کی منزلیں بتائیں، ملت اسلامیہ کی اساس کو واضح کیا، گویا فرد کو ایک بھرپور اور تخلیقی اور اثباتی زندگی کا راز بتایا، ملت کے استحکام کی بنیاد تلاش کی اور عالم انسانیت کے لیے حریت اور مساوات اور اخوت کا ایک مخصوص، منفرد پیغام بھی اس ملت کے سپرد کیا کیونکہ جب کسی ملت کے پاس بنی نوع انسان کے لیے کوئی زندگی کا پیغام نہیں ہوتا تو وہ ملت لایعنی ہو کر مر جاتی ہے۔ اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے تمام مطالعات، مشاہدات ، تجربات کو شاعرانہ صداقت اور حسن کے ساتھ صرف کیا۔ اب رہا سوال کا وہ حصہ جس میں دریافت کیا گیا ہے کہ کیا اقبال کا کلام خالصتاً اسلامی نظریات کا مظہر ہے تو نظریات کے متعلق تو میں عرض کر چکا ہوں ’’ خالصتہً اسلامی نظریات‘‘ کے متعلق دو باتیں عرض ہیں: ایک تو یہ کہ یہ بات بدیہی ہے کہ اگر اقبال کسی اور زمانے میں پیدا ہوتے یا ان کے تجربات کا دائرہ مختلف ہوتا تو اسلام کی تعبیر بھی اس سے مختلف ہوتی جواب ہے۔ علامہ ا قبال کی اپنی خودی کی تلاش اور اسلام کی حقیقت شناسی ایک ہی عمل کے معروضی اور موضوعی دو پہلو تھے اور مغرب کا چیلنج اس عمل کا نہ صرف ایک زبردست محرک تھا بلکہ ایک موثر عامل بھی تھا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ مجھ میں یہ اہلیت نہیں ہے کہ ’’ خالصتہً اسلامی‘‘ ہونے کے متعلق صحیح یا غلط کا فیصلہ کر سکوں۔ صحیح یا غلط کی کیٹگری (Category) کے علاوہ ایک اور کیٹگری (Category) اہم اور غیر اہم کی بھی ہے، اہمیت ہی میں کسی کلام کے معنی اور اس کی قدر مضمر ہے۔ اہمیت کے لیے صحت کا عنصر بھی ضروری ہے اگر صحت کا عنصر مفقود ہو تو وہ کلام اہم بھی نہیں ہوتا، اور صحت یا حقیقت بس اسی حد تک زندہ ہے جس حد تک وہ اہمیت کا حصہ ہے ورنہ حقیقتیں تو بہت سی ذہن کے بیمار خانے میں پڑی سسکتی رہتی ہیں اور فساد پھیلاتی رہتی ہیں۔ اس میرے اٹھائے ہوئے سوال کا (اہمیت اور عدم اہمیت کا) جواب آپ کا اور میرا اسلامی شعور دے گا۔ اقبال کا سوشلسٹ فکر و فلسفے کے ارتقاء میں کوئی مقام نہیں، اسلامی فکر کے ارتقاء میں وہ ایک بہت اہم شخصیت ہے۔ لیکن سوشلزم سے اس کا شدید جذباتی رد عمل اس حقیقت کی ضرور غمازی کرتا ہے کہ وہ سوشلزم میں ایک زبردست کشش بھی محسوس کرتا ہے، اس کی اہمیت کا بھی اسے اندازہ ہے اور اس سے مدافعت کی کوشش بھی کرتا ہے۔ لیکن خوف سے پیچھے ہٹ کر نہیں بلکہ بصیرت کی روشنی میں جوش عمل اور جذبہ تعمیر کا ایک قدم آگے بڑھا کر۔ ٭٭٭ اقبال اور اسلامی ثقافت کی روح سید نذیر نیازی اقبال نے اسلامی ثقافت پر قلم اٹھایا لیکن صرف اس حد تک کہ اس کی روح کیا ہے۔ اس لیے کہ جس زمانے میں وہ اپنے خطبات ترتیب دے رہے تھے اس سے پہلے اشپنگلر کی کتاب ’’ بلاد مغرب کا زوال‘‘ ان کی نظر سے گزر چکی تھی۔ اشپینگلر کا خیال تھا کہ اسلامی ثقافت کوئی نئی ثقافت نہیں، بلکہ مجوسی ثقافت ہی کی ایک شکل، اقبال اپنی گفتگوؤں میں اگرچہ اشپینگلر اور بعض دوسرے مغربی مفکرین کے ثقافتی نظریوں پر اظہار خیال کرتے لیکن ۱۹۲۷ء سے پہلے اس موضوع پر قلم اٹھانے کی نوبت نہ آئی اور وہ بھی جیسا کہ عرض کر چکا ہوں صرف اس حد تک کہ اسلامی ثقافت کی روح کیا ہے۔ بات یہ ہے کہ اسلام اگرچہ ایک ہمہ گیر صداقت اور عالم گیر دعوت ہے جس کی نظر انسان پر ہے۔ اس کے مسائل نوع انسانی کے مسائل ہیں اور نوع انسانی ہی کی ہدایت کہ انسان اپنی غایت مقصود کو پہنچنے اس کا مقصد لیکن اسلام کو بھی دنیا کی ہر دعوت کی طرح تاریخ کے انقلابات سے گزرنا پڑا جس میں ایک طویل مدت کے بعد رفتہ رفتہ اس پر مشرق کا رنگ چڑھ گیا لہٰذا بادی النظر میں یوں معلوم ہونے لگا جیسے اسلام کی حیثیت بھی ایک مشرقی سامی تحریک کی ہے۔ بقول سعید حلیم پاشا اسلام کہاں ہے؟اسلام ترکی ہے یا ایرانی ایک عربی اسلام ہے، ایک ہندی، ایک افریقی، ایک بربر، علی ہذا القیاس اور اسلام کی کئی شکلیں ہیں اور کئی تعبیریں۔ لیکن حقیقی اسلام کہاں ہے؟ حقیقی اسلام موجود ہے مگر ا سپر نسلی، وطنی اور مقامی رنگ غالب آ گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام پر جو تہیں جم گئی ہیں ہم اسلام کو ان سے پاک و صاف کریں۔ گویا تاریخ کے ایک خاص دور کا لحاظ رکھا جائے تو اس میں اسلام،ا سلامی تعلیمات، اس کی تہذیب و تمدن، روحانی اور اخلاقی زندگی کا یہی منظر ہے جس کو دیکھتے ہوئے اشپینگلر یا بیکر اور ٹائن بی یا دوسرے مغربی مصنفین نے اسلامی ثقافت کے بارے میں مختلف نظریے قائم کئے۔ اقبال کو انہیں نظریوں کے نقد و جرح سے اسلامی ثقافت کی حقیقی روح سے پردہ اٹھانا مقصود تھا۔ اسلامی ثقافت کی روح کیا ہے؟ خطبہ پنجم میں یہ بحث بیس صفحوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اسلوب بیان صاف اور سادہ ہے۔ سلجھا ہوا، ہر پہلو سے واضح بایں ہمہ اقبال نے اپنے خیالات کے اظہار میں حد درجہ ایجاز و اختصار سے کام لیا ہے۔ تفصیل و تشریح کی جگہ ارشادات نے لے لی ہے۔ ارشادات نہایت بلیغ اور پر معنی ہیں جن کے فہم میں قاری کو ہر لحظہ احساس ہوتا ہے کہ ایک حقیقت تو اس کے ذہن میں جاگزین ہو گئی۔ لیکن تقاضا اس کا یہ ہے کہ اس کے غم میں یہ تحقیق و تفحص اور آگے بڑھیں۔ پھر ایک بات یہ ہے اور با اعتبار اس موضو ع کے جس پر اقبال نے قلم اٹھایا نہایت درجہ اہم کہ اقبال نے اس کا آغاز نبوت اور ختم نبوت بالفاظ دیگر رسالت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاتمیت سے کیا۔ یہ ایک استثناء ہے، بجائے خود غور طلب۔ اس لیے کہ اقبال سے پہلے شاید کسی نے مسلمانوں ہوں، یا غیر مسلمان اسلامی ثقافت کی بحث میں نبوت اور ختم نبوت کے حوالے سے قلم نہیں اٹھایا۔ لیکن اقبال کے یہاں نبوت اور ختم نبوت ہی مدار بحث ہے جس میں حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے اس ارشاد کی طرف اشارا کرتے ہوئے جس کا تعلق واقعہ معراج سے ہے کہ حضور رسالت مآب ؐ یادگار الٰہی سے واپس آ گئے تو مجھے یہ مرتبہ حاصل ہوتا تو ہر گز واپس نہ آتا۔ اقبال نے اس بنیادی فرق کی وضاحت نہایت خوبی سے کی ہے۔ جو شعور نبوت اور شعور ولایت میں با اعتبار نفسیات پایا جاتا ہے۔ لیکن جس کے بارے میں مجھ سے یہاں کچھ نہیں کہنا ہے اس لئے کہ آگے چل کر آپ ہی آپ یہ اشارا آپ کی سمجھ میں آ جائے گا۔ اقبال نے قرآن مجید کے اس ارشاد کے پیش نظر کہ نبوت ایک منصب ہے جو اللہ تعالیٰ نے بعض جلیل القدر ہستیوں کو اس لئے عطا کیا کہ نوع انسانی کی رہنمائی فرمائیں۔ زندگی کی اس جدوجہد میں جو بدو انسانیت سے جاری ہے اور جس کی ایک غایت ہے اس کی تعلیم و تربیت سے اسے اس امر کے لئے تیار کریں کہ وہ اس میں خود اپنی ذمہ داری سے کامیابی حاصل کرے۔ لہٰذا انبیاء علیہم السلام نوع انسانی کے لیے ایک دعوت لے کر آئے۔ بقول اقبال وہ فرمانے کی رو میں داخل ہوئے۔ انہوں نے تاریخ کا رخ بدلا۔ علم و عمل کی دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا اور یوں زندگی کا صحیح راستہ متعین کیا۔ چنانچہ یہی وہ فرق ہے جو شعور نبوت یعنی ایک نبی کی دعوت اور شعور ولایت یعنی صوفی کی زندگی میں باعتبار نفسیات اساساً موجود ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کو ہماری ثقافتی زندگی سے براہ راست تعلق ہے۔ صوفی بلکہ یوں کہیے کہ مذہب کو البتہ اسلام ایک استثناہ ہے ایسا کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا نبوت سے نوع انسانی کی ذہنی، اخلاقی،سیاسی اور اجتماعی زندگی کے لئے جو نتائج مرتب ہوئے ان کے یا یوں کہیے اس کے ثقافتی پہلو کے فہم کا ایک طریق یہ کہ ہم دیکھیں انبیاء علیہم السلام کیا چاہتے تھے کس طرح کا انسان پیدا کریں۔ اس کی شخصیت کس طرح کے قالب میں ڈھل جائے۔ دوسرا یہ کہ تہذیب و ثقافت کی اس دنیا پر نظر رکھیں جس کا اظہار ان کی دعوت سے ہوا۔ اقبال کہتے ہیں یہاں یہ بحث نہیں کہ علم و حکمت کے میدان میں مسلمانوں کے کارنامے کیا ہیں۔ یہاں بحث ان تصورات سے ہے جو اسلامی ثقافت کے صورت گر ہیں تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ غور و فکر کا وہ کیا عمل تھا جو اس کی تہ میں کام کرتا رہا۔ یونہی ہم اس روح کا مشاہدہ کر سکتے ہیں جس کا اس طرح اظہار ہوا لیکن یہ جب ہی ممکن ہے جب ہماری نگاہیں اسلام کے اس عظیم تصور کی قدر و قیمت پر ہوں جو عبارت ہے ختم نبوت سے اور دیکھیں کہ اس کے معنی تہذیب و ثقافت کی دنیا کے لیے کیا ہیں۔ دو نتیجے ہیں جو اقبال کے اس نظریہ سے مترتب ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اسلامی ثقافت کا سرچشمہ ہے نبوت۔ لہٰذا اسلامی ثقافت کی روح کے فہم میں ہمیں نبوت سے رجوع کرنا پڑے گا اور نبوت کے فہم میں قرآن مجید سے۔ دوسرا یہ کہ جہاں تک اس راستے کا تعلق ہے جو اسلامی ثقافت نے اس لئے اختیار کیا کہ اس کی روح واقعات اور حوادث کی دنیا میں عملاً جلوہ گر ہو جائے ہمارے لئے رسالت محمدیہ کا فہم ضروری ہے۔ اس کی خاتمیت محاورہ عام میں ختم نبوت کا۔ اول نبوت کو لیجئے کہ جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے ایک ابتداء ہے، ایک انتہا، نبوت ایک منصب ہے۔ اس کے سامنے ایک فریضہ ہے۔ ایک مقصد، یعنی اس ہدایت کا ابلاغ جس کی زندگی کو ضرورت تھی اور جو بہ تقاضائے زندگی نبوت کے ذریعے بمشکل وحی و تنزیل مشہود ہو گئی۔ یہ فریضہ ادا ہوا تو بقول اقبال نبوت اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی۔ اور اس نے خود اپنے خاتمے پر مہر خاتمیت ثبت کر دی جس کے معنی جیسا کہ اقبال نے لکھا ہے یہ ہیں کہ انسان کو جس ہدایت کی ضرورت تھی مل گئی۔ زندگی نے وہ راستہ جس کی اسے تلاش تھی پا لیا۔ انسان بلوغ کو پہنچ گیا۔ لہٰذا بحیثیت ایک ذمہ دار ہستی کے جسے علم و عقل سے بہرہ ملد ہے۔ جسے شعور ذات کی دولت حاصل ہے اس کی شخصیت کی تکمیل اور ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کا جس میں اسے بہمہ وجوہ اظہار ذات کے مواقع میسر آئیں کوئی ذریعہ تھا تو یہی کہ انسان خود اپنے وسائل سے کام لے۔ اپنی زندگی کا بوجھ آپ اٹھائے۔ زندگی ایک جدوجہد ہے جس میں اس کا سب سے بڑا حربہ ہے علم، مگر علم خود حاصل کرنے کی چیز ہے لہٰذا ختم نبوت نے ہمیں ہر ایسے دعوے کی بے چون و چرا پابندی سے آزاد کر دیا جس کا تعلق علم کے کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے۔ علم جب ہی علم ہے کہ اس میں نقد و جرح کا راستہ کھلا چھوڑ دیا جائے۔ انسان کا ذہنی اور اخلاقی نشوونما جب ہی ممکن ہے کہ اپنے عقل و فکر سے کام لے۔ لہٰذا اقبال کہا اور نہایت صحیح کہا کہ اسلام کا ظہور عقل استقرائی کا ظہور ہے۔ بالفاظ دیگر علم کا جو بھی سرچشمہ ہے اس میں خود اپنی کاوش، تحقیق و تخصص تجربے اور امتحان سے آگے بڑھنے کا۔ اقبال کے نزدیک علم کے سرچشمے تین ہیں سائنس تاریخ اور وہ روحانی واردات اور مشاہدات جن کا تعلق انسان کے اندرون ذات اصطلاحاً قلب انسانی سے ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ ہمارے روحانی اور باطنی مشاہدات علم کا ایک ذریعہ تو ہیں لیکن اس طرح جو علم حاصل ہوتا ہے وہ ہمارے لئے تو کیا خود صاحب مشاہدات کے لئے بھی حجت تعلق ہمیں چاہیے اسے بغیر نقد و جرح کے قبول نہ کریں۔ اس میں غلطی اور خطا کا ایسا ہی امکان ہے جیسے علم کی کسی دوسری شکل میں۔ دراصل اسلامی تصوف کے سامنے جو مسئلہ تھا وہ بھی ان واردات اور مشاہدات کی تطہیر و تزکیے کا جن کا مطالعہ علمی نہج پر کیا گیا کہ اس مذہبی نفسیات کا ظہور ہوا جس کے ارتقاء میں خواجہ محمد پارسا اور عراقی کی کاوشیں بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ نفسیات سے تاریخ کی طرف آئیے تو مسعودی، طبری، ابن اسحاق اور ابن خلدون ایسی شخصیتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ا بن خلدون ہی وہ شخص ہے جس کے ہاتھوں تاریخ نے پہلی مرتبہ ایک ضابطہ معلومات یعنی علم کا مرتبہ حاصل کیا۔ یوں اقوام و امم کی زندگی اور ان کے عروج و زوال پر قائم نظریہ کو اٹھایا گیا تو علوم اجتماعیہ سیاسیات، معاشیات، عمرانیات کی داغ بیل پڑی جن کی ابتدا گویا ابن خلدون ہی نے کر دی تھی۔ جہاں تک سائنس کا تعلق ہے مسلمانوں نے اہل یونان کا وہ نظریہ جو انہوں نے کائنات کے بارے میں قائم کر رکھا تھا اور جس کا حاصل یہ ہے کہ کائنات ایک بے حس و حرکت وجود ہے اس میں سکون ہی سکون ہے۔ کسی تغیر یا اضافے کی گنجائش نہیں رد کر دیا۔ یونان کی نظر متناہیت پر تھی۔ کائنات متناہی ہے، محدود ہے۔ مسلمان سائنس دانوں نے اس کے برعکس کائنات کا حرکی نظریہ قائم کیا۔ ان کا نظریہ لا متناہیت پر تھی۔ اقبال نے اس باب میں خواری، بیرونی اور طوسی کی تحقیقات کا بالخصوص ذکر کیا ہے۔ لیکن یونانیت کے خلاف عالم اسلام کے اس رد عمل کی داستان بڑی طویل ہے۔ اقبال نے اشپینگلر کے اس دعوے کے خلاف کہ مسلمانوں میں حرکت کا کوئی تصور نہیں تھا بہ وضاحت بتایا ہے کہ ان کی نظر کون کی بجائے تکوین پر تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں رہی ہے بنتی رہے گی، حیاتیات میں ابن مسکویہ کا نظریہ ارتقاء بالخصوص اہم ہے جاحظ بعض حیاتی مظاہر کا مطالعہ کر چکا تھا۔ طبیعیات کا رخ کیجئے تو قرآن مجید کے اس ارشاد کے ماتحت کہ کائنات اور اس کی ہر شے میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ علمائے اسلام کی نگاہیں محسوس دوسری پر مرتکز ہو گئیں۔ عالم فطرت کا مطالعہ علمی نہج پر ہونے لگا۔ اس کا وجود وہم و گمان نہ رہا بلکہ ایک حقیقت جس کے مطالعے اور مشاہدے میں نہیں بعض بعقل و فکر آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ یہ ہوا تو بقول اقبال سائنس نے اپنی اساس کو پا لیا۔ اس کی ترقی اور نشوونما کا راستہ کھل گیا۔ سائنس مسلمانوں کا عطیہ ہے۔ سائنس اگر سائنس بنی تو مسلمانوں کے ہاتھوں جس کا اب اہل یورپ کو بھی اعتراف ہے گو بیکن بہت پہلے کہہ چکا تھا کہ یہ ہمارا تجربی منہاج، یہ منطق استقرائ، یہ محسوس سے شغف یہ سائنس کی روح، ہم اس سے عربوں ہی کی بدولت آشنا ہوئے۔ سائنس، تاریخ اور واردات باطن پر اس طرح نظر ڈالتے ہوئے اقبال نے یہ نہایت اہم نتیجہ قائم کیا۔ کہ مسلمانوں نے جس پہلو سے بھی علم و حکمت کی دنیا میں قدم بڑھایا ان کا فکر دو باتوں پر مرتکز ہو گیا۔ ایک اس حقیقت پر کہ انسان کی آفرینش ایک ہی سرچشمے سے ہوئی اس کا مبدا ایک ہے لہٰذا وحدت انسانی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے جس سے ان سب تفریقات و امتیازات کے منافی جھاتا ہے جو اخلاقی روحانی، سیاسی، معاشی یا کسی اور اعتبار سے مثلاً نسل و وطن کی بناء پر انسان نے قائم کر رکھی ہیں۔ ثانیاً اس بات پر کہ زمانے کا وجود حقیقی ہے۔ زمانہ حقیقت ہے تو انسان اور کائنات بھی ایک حقیقت ہماری زندگی کے بھی کوئی معنی تاریخ بھی جو ہمیں کسی منزل کی طرف لئے جا رہی ہے اور جس میں ہمیں اپنا مقام خود متعین کرنا ہے ایک حقیقت واقعات اور حوادث تغیر اور انقلاب کی دنیا بھی ایک حقیقت جس پر ہمیں کڑی نظر رکھنی چاہیے ورنہ ہماری زندگی کی ساری کشاکش ہماری عقلی اور فکری کاوشیں ہمارے علمی اجتہادات بیسود ہو کر رہ جائیں گے۔ زندگی ایک زمانی عمل ہے کائنات ایک طبعی عمل، وحدت انسانی کا حصول بھی ایک تدریجی اور محنت طلب عمل جس کار استہ اسلام نے واضح طور پر متعین کر دیا۔ رسالت محمدیہ ؐ کی خاتمیت سے وہ سب رکاوٹیں جو اس میں حائل ہیں دور ہو گئیں۔ اقبال کے نزدیک اسلام میں موروثی بادشاہت کی نفی علی ہذا مذہبی پیشوائی کا رد اور عقل و فکر سے بار ہا خطاب تصور خاتمیت ہی کے مختلف پہلو ہیں۔ اسلام نہیں چاہتا کہ نوع انسانی سہارے لے لے کر زندگی بسر کرے۔ راقم الحروف کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ یہ جو میں نے اس سلسلے میں لیڈنگ اسٹرنگز کے الفاظ استعمال کئے ہیں ان سے مراد ہے امت میں مزید پیغمبروں کا ظہور۔ یہ امر ختم نبوت کے منافی ہے اس ایمان و یقین امید و اعتماد اور اطمینان کے منافی جو رسالت محمدیہ کی خاتمیت سے انسان کو حاصل ہوا اور جس سے زندگی کا صحیح راستہ، صراط مستقیم ہمیشہ کے لئے متعین ہو گیا۔ حضور رسالت مآب ؐ نے اس باب میں تا قیامت ہماری رہنمائی فرما دی ہے۔ لہٰذا دو نتیجے ہیں جو رسالت محمدیہ ؐ کی خاتمیت سے مترتب ہوتے ہیں۔ ایک نوع انسانی کے اتخلاص کا وہ عمل جس نے اسے اخلاقی روحانی سیاسی اجتماعی ہر قسم کے استبداد سے آزاد کر دیا۔ ثانیاً یہی خاتمیت وحدت انسانی کے اس عمل کی ابتداء ہے جس سے مقصود یہ ہے کہ نوع انسانی اصولاً، عملاً، ذہناً، اخلاقاً سیاسی اور اجتماعی اعتبار سے ایک منضبط اور متحد عالمگیر معاشرے کی شکل اختیار کرے۔ دو معاشرے جس کی مثال آپ نے خود اپنی ذات گرامی سے قائم کر دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے تمہارے پاس ایک ایسا پیغمبر آ گیا ہے جس نے تمہارے بوجھ ہلکے کر دئیے۔ وہ زنجیریں کاٹ دیں جن میں تم جکڑے ہوئے تھے۔ لیکن دو اور باتیں ہیں جو اسلامی ثقافت کی روح سے بحث کرتے ہوئے ان خیالات سے جن کا اقبال نے اظہار کیا ہے واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ رسالت محمدیہ ؐ کی خاتمیت کا اشارا اسلامی تعلیمات کی قطعیت کی طرف ہے۔ یہ قطعیت عین تقاضائے زندگی ہے۔ اس یقین و ایمان، اطمینان و اعتماد کا سرچشمہ کہ ہم نے حق و صداقت کو پا لیا۔ باطل سے ہمارا رشتہ کٹ گیا۔ عقل و فکر یا علم و عمل کا کوئی عقہد، ظن و تخمین اور وہم و گمان اب ہمارے راستے میں حائل نہیں۔ یہ قطعیت ہمارے قوائے علم و عمل کے لئے کوئی قدغن لے کر نہیں آئی بلکہ ایک مہمیز ہے علم و عقل اور فکر کی کارفرمائی کے لیے۔ اس سے انتظار اور اضطراب اور بیم و رجا کی وہ خلش ہمیشہ کے لئے مٹ گئی جس میں ہماری آنکھیں مستقبل پر لگیں کوئی سہارا ڈھونڈتی رہتی ہیں۔ ہمارے علم و عمل اور عقل و فکر کی دنیا متزلزل ہو جاتی ہے۔ فرد کی زندگی کو قرار رہتا ہے، نہ معاشرے کو برعکس اس کے یہ قطعیت وہ نفسیاتی قوت ہے جس سے اس قسم کے سب دعوؤں کا تعلق علم کے کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے خاتمہ ہو جاتا ہے۔ ایسی سب گروہ بندیوں اور جماعت سازیوں کا امکان باقی نہیں رہتا جن میں کسی شخص کی ذات سے وابستگی اس لئے ضروری ٹھہرتی ہے کہ حق و صداقت کی دنیا میں ہماری جدوجہد اس کے قول و فعل کی پیروی پر موقوف ہے جس سے نہ صرف حیات فرد اور جماعت کے طبعی اور فطری نشوونما کا عمل رک جاتا ہے بلکہ جس سے انسان ذہناً اور اخلاقاً پھر اسی استبداد کا شکار ہو جاتا ہے جس سے اسلام نے اسے نجات دلائی تھی۔ لہٰذا یہ قطعیت بالفاظ دیگر رسالت محمدیہؐ کی خاتمیت ہمارے لیے امید و اعتماد کا سرچشمہ ہے آزادی اور استخلاص کا منشور غالباً یہی حقیقت تھی جو کسی طرح کار لائل کے ذہن میں آئی تو اسے بے اختیار کہنا پڑا کہ پیغمبر اسلام فی الواقعہ دنیا کے آخری پیغمبر ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ دوسری بات جو واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے یہ کہ اسلام یا اسلامی ثقافت کا مسئلہ انسان کا مسئلہ ہے۔ نوع انسانی کا مسئلہ۔ زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد تاریخ کے کسی خاص عہد یا کسی خاص سر زمین قوم یا نسل سے بے تعلق۔ اس کا ضمیر خالصاً انسانی ہے اور یہی نکتہ ہے جس کی طرف اقبال نے اپنی تحریروں اور تقریروں، گفتگوؤں شاعری اور فلسفیانہ افکار میں بار اشارا کیا ہے۔ اسلام کی نظر مشرق و مغرب پر یکساں ہے۔ للہ المشرق والمغرب اسلام کے سامنے پہلے بھی انسان ہے اور بعد میں بھی انسان اسلامی ثقافت کی روح میں بھی اول و آخر انسان اور انسانیت ہی کار فرما نظر آئے گی۔ لیکن یہ انسان اور انسانیت بالفاظ دیگر اسلامی ثقافت پوری طور پر مشہور ہو گی تو جب ہی کہ اقبال کی طرح ہم بھی قرآن مجید میں غوطہ زن ہوں۔ حضور رحمتہ للعالمین کی ذات گرامی سے براہ راست تعلق پیدا کریں۔ رہا اشپینگلر سو یہاں مجوسی ثقافت کے بارے میں جس کی بناء پر اس نے اسلامی ثقافت کو بھی مجوسیت سے تعبیر کیا اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ مجوسی ثقافت میں خدا کے مقابلے میں کچھ اور بھی ہستیاں ہیں جن کو قدرت اور اختیار حاصل ہے۔ لیکن اسلام نے تو ذات الٰہیہ کے سوا کسی اور ہستی کو جو صفات خداوندی سے منصف ہو تسلیم ہی نہیں کیا۔ مجوسی ثقافت میں انسان نیند کی سی زندگی بسر کرتا ہے محسوس کرتا ہے اس کی ذات یوں کہیے خودی کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہمیشہ کسی ظہور کا منتظر رہتا ہے۔ اشپینگلر نے غلطی سے انتظار کی اس کیفیت کو آمد مہدی کی روایت سے نسبت دیتے ہوئے یہ نتیجہ قائم کیا کہ مسلمان بھی صناف زندگی میں اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ حالانکہ اسلام ایک پیغام بیداری ہے جس نے خودی کی حقیقت پر زور دیا۔ اس کی ایک غایت، ایک نصب العین اور مستقبل ٹھہرایا۔ دنیا ایک رزم گاہ خیر و شر ہی سہی گو اسلام کا نظریہ اس سے مختلف ہے لیکن اس رزم گاہ میں بھی انسان کو نہ کسی کا انتظار ہے نہ اس کے دل میں کوئی اضطراب۔ صراط مستقیم اس کے سامنے ہے۔ وہ اپنی تقدیر کا آپ صورت گر ہے۔ پھر یہ جو اشپینگلر نے کہا ہے کہ مسلمان بندۂ تقدیر ہے تو لفظ تقدیر کا مفہوم اس کے نزدیک وہی ہے جو قسمت کا اور جس کا اشارا زمانے کے سامنے انسان کی بے بسی کی طرف ہے۔ اس لئے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے بہرحال ہونا تھا قیمت کا لکھا پورا ہو کر رہتا ہے۔ اقبال نے اس سلسلے میں زمانے کے بارے میں اسلامی نظریے کا حوالہ دیتے ہوئے جس سے تقدیر کے اس تصور کی جو قسمت کا مرادف ہے نفی ہو جاتی ہے کہا ہے کہ زمانے کی حقیقت ہمیں لازماً اس امر پر مجبور کر دیتی ہے کہ اس کے کسی لمحے کو رائیگاں نہ جانے دیں۔ انسان کو یہ قدرت حاصل ہے کہ ان لامتناہی امکانات کو جو زندگی اپنے ساتھ لے کر آتی ہے اپنی ہمت اور کوشش سے جس حد تک چاہیے حاصل کر لے۔ اقبال نے اس امر پر بھی اظہار افسوس کیا ہے کہ اشپینگلر ایسے فاضل انسان نے عوام میں مروج خیالات کو اپنی تائید میں پیش کیا۔ اسلامی ثقافت کی روح کے بیان میں اقبال کے خیالات کا یہ مختصر سا خاکہ اگرچہ سر تا سر خطبہ پنجم پر مبنی ہے لیکن اس میں کہنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں اقبال کے خیالات کو کماحقہ سمجھیں خواہ ہمیں ان سے اختلاف ہو یا اتفاق اسلامی ثقافت کی حقیقی روح جب بھی ہمارے سامنے ہو گی جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کریں کہ بحیثیت ایک ثقافی تحریک کے جیسا کہ اقبال نے لکھا ہے اسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔ یہ ہو گا تو ہم اس بحث میں خود بھی آگے بڑھ سکیں گے۔ محمد اقبال فیض احمد فیض (انگریزی سے ترجمہ: سجاد باقر رضوی( ’’ کوئی شخص بھی شاعری میں عظمت کا حامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ عظیم فلسفی بھی نہ ہو۔‘‘ یہ قول اس نہایت ذی شعور نقاد کا ہے جو کولرج کے نام سے موسوم ہے۔ خواہ مغرب میں یہ مفروضہ کلیتاً قابل قبول نہ ہو لیکن مشرق میں، بالخصوص مسلمانوں میں عظیم ناموں کی ایک فہرست اس کی شہادت دیتی ہے۔۔۔ جلال الدین رومی (۱۲۰۷ء تا ۱۲۷۳ئ)، مصلح الدین سعدی (وفات ۱۳۱۳ئ) شمس الدین حافظ (وفات۱۳۸۹ئ)، ابن الحسن خسرو (۱۲۵۳ء تا ۱۳۲۵ئ) اسد اللہ خاں غالب (۱۷۹۷ء تا ۱۸۶۹ئ) اقبال (ڈاکٹر، سر، شیخ محمد یا علامہ جیسا کہ انہیں احتراماً پکارا جاتا ہے) بلا حیل و حجت اسی منفرد سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ تاہم ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ عہد وسطیٰ کے پیش روؤں کے برعکس محض یہ نہیں کہ انہوں نے فلسفہ کے مختلف مدرسہ ہائے فکر کا جس میں قدیم و جدید دونوں شامل ہیں بہ نظر غائر مطالعہ کیا تھا بلکہ وہ ایک سے زیادہ زبانوں میں ایسا نثری سرمایہ بھی رکھتے ہیں جس میں منطقی اختصار کے ساتھ انہوں نے حقیقی دنیا کے مسائل کا اپنا حل پیش کیا ہے۔ تمام ’’ شاعران اثبات1؎‘‘ مثلاً ڈانٹے، ملٹن اور گوئٹے کی طرح اقبال بھی محض مجرد فکر کے حامل نہیں ہیں انہیں کی طرح وہ بھی گرد و پیش کی معاشرتی دنیا کے معاملات میں بڑے انہماک سے شامل تھے اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی نسلاً بعد نسل کی معاشرتی، مذہبی اور سیاسی معیارات فکر کے لئے غیر مستند نہیں بلکہ مسلمہ قانون ساز کی حیثیت رکھتے تھے۔ غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے انیسویں صدی کے اواخر اور بیسوی صدی کے اوائل کی دہائیاں شدید ذہنی الجھنوں اور جذباتی اذیتوں کا دور تھیں۔ مغلیہ خاندان کی مسلم حکومت کا زوال ۱۸۵۷ء میں برطانوی حکومت کے خلاف سرکشی کا خونیں انتقام۔۔۔۔ جاگیر داری نظام کے حقوق، اقدار اور روایتوں کا خاتمہ۔ غیر مسلم باشندوں کو قوت و دولت کی بیشتر اعلیٰ حیثیتوں کی تفویض۔۔۔۔ یہ ساری باتیں اجتماعی ذہن کو منتشر کر رہی تھیں۔ تباہ حالی نے انہیں سرحد پار 1؎ V.G. Kibrnan.... Introduction to poems by Iqbal.... John Murry کی دیگر مسلم اقوام کے ساتھ جو خود بھی ایسے حالات سے دو چار تھیں، بھائی چارے کے رشتے میں پیوست کر دیا تھا۔ عثمانی ترکوں کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے عربوں کے ساتھ، شمالی افریقہ میں لیمبیا، مراکش اور ٹیونس کے لوگوں کے ساتھ وہ ایک سکوں بخش و حوصلہ پرور آواز کے منتظر تھے جو انہیں بے اطمینانی کے بنجر پن سے باہر نکالے۔ پچھلے دو رکی رہنما آوازیں، آزاد خیال مصلحین کی دھیمی آوازیں جو انہیں برطانوی حکمرانوں کے بدیشی طور طریق سے مصالحت کرنے پر اکسا رہی تھیں، نیز مذہبی علما کی درشت آوازیں جوانہیں کفار کے دلفریب اطوار کو رد کر کے اجداد کی روایات کی جانب واپس بلا رہی تھیں۔۔۔ یہ دونوں آوازیں نئے دانشور طبقے کے لئے کوئی اپیل نہ رکھتی تھیں۔ شاعر اقبال ان کی نا آسودگی کے سوتوں سے کماحقہ واقف تھے اور مفکر اقبال ان کے اس فکری اور روحانی کرب کی ماہیت کو خوب سمجھتے تھے جو جدیدیت اور روایت کے دیوان کی کلائیوں کو گرفت میں لے کر مختلف سمتوں میں کشاکش سے پیدا کر رہے تھے۔ وہ دونوں سے ذہنی و جذباتی انس رکھتے تھے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے ہندی مسلمانوں، مسلمانان عالم اور خدا انسان اور فطرت کی تکون سے متعلق عصری مسائل کے جوابات تلاش کر لئے۔ اقبال نے مغرب کے بہت سے فلسفیانہ اور سائنسی خیالات کو قابل قدر گردانا اور انہیں ہضم کر لیا۔ مثال کے طور پر ہیگل کا تصور انسان اور تاریخ کے انسانی عمل کا نتیجہ ہونے کا تصور، کانت کا عقل مطلق کے بارے میں استدلال، سرمایہ داری اور طبقاتی استحصال کے خلاف مارکس کا شدید رد عمل، نطشے کا آزاد خیال بورژوا اخلاقیات کا رد اور حصول قوت و اقتدار کا استحسان، وجدانی علم کی صحت کے حق میں برگساں کی بحث، اینسٹائن کا چپار ابعادی زمانی، مکانی تسلسل کا تصور وغیرہ اس کے باوجود ان کا خیال تھا کہ مغرب کے عینی و مادی دونوں قسم کے فلسفے یہاں کے لوگوں کی معاشرتی و نظریاتی صورت حال سے بڑی حد تک مطابقت نہیں رکھتے۔ انہیں یہ محکم یقین تھا کہ مذہب اسلام اور ہماری محترم و پاکیزہ روایات یعنی پیغمبر اسلام ؐ کی عملی زندگی اور ان کے اقوال یہی وہ بنیادیں ہیں جو ان کے پیغام کے لئے سند ہو سکتی ہیں۔ اور انہیں پر اقبال نے اپنی بصیرت کی روشنی ڈالی۔ مسلم ذہن کو آزاد کرانے کی ضرورت، ایک طرف تو تقریباً پانچ سو سال کے معاشرتی و فکری جمود سے پیدا شدہ ہجر پن سے تھی اور دوسری طرف عقل دشمن رجعت پسند متعصب قوتوں کے جبر سے پہلے اقدام کے طور پر قدیم زمانے کے پیغمبروں کی طرح انہوں نے خانہ خدا کو جھوٹے بتوں سے۔۔۔۔ فرسودہ روایت پرستوں، تاریک ضمیر ملا، تارک الدنیا صوفی، مجمع بازوں اور شورش پسندوں سے پاک کرنے کی کوشش کی۔ کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو (بال جبریل) محض اسی طور ’’ خانہ خدا‘‘ زمین پر ا سکے خلیفہ انسان کے شایان شان ہو سکتا ہے۔ اقبال محض معنوی طور پر نہیں لفظی طور پر بھی انسان دوست ہیں۔ ان کے لئے ’’ حقیقت کی کوئی صورت اتنی توانا، اتنی دلکشا اور اتنی حسین نہیں جتنی کہ روح انسانی‘‘ زوال آدم رحمت الٰہی سے محرومی نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ منزل ارتقاء ہے جو اسے اس عمل تخلیق میں جو مسلسل جاری ہے، ہم کار خدا کا درجہ دیتی ہے۔ اس لئے کہ کائنات مکمل نہیں، یہ اب بھی مرحلہ تکمیل میں ہے اور انسان کو اس کام میں ہاتھ بٹانا ہے تاکہ وہ کسی حد تک انتشار میں نظم و ضبط پیدا کر سکے۔ یہ عالم اجسام جتنا خدا کی تخلیق ہے اتنا ہی انسان کی بھی۔ فرق یہ ہے کہ تخلیق خداوندی۔۔۔۔ فطرت یا مادہ۔۔۔۔ مقابلتاً غیر متحرک اور جامد ہے جبکہ انسان کی تخلیقی قوتیں ایسے ارتقائی عمل کی حرکت میں ظاہر ہوتی ہیں جو لازماں بھی ہے اور لامکاں بھی۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں (بال جبریل) تو شب آفریدی چراغ آفریدم سفال آفریدی، ایاغ آفریدم بیابان و کہسار و راغ آفریدی خیابان و گلزار و باغ آفریدم (پیام مشرق) اس کے منطقی نتیجے کے طور پر اقبال نے اسلامی تصور توحید۔۔۔۔ خدا کی وحدت اور اکائی کے تصور۔۔۔۔ کو عالم اجسام اور عالم ارواح کی اکائی کے تصور پر منطبق کیا اور خدا کے ماورائی تصور کی جگہ وجود تصور کو قائم کیا، اور اس طرح دین و دنیا اور روح و مادہ کی ثنویت کو ختم کیا۔ 1؎ ’’ روح اپنے امکانات کو فطرت، مادے اور دنیا میں ظاہر کرتی ہے۔ پس جو کچھ دینوی ہے وہی اپنے وجود کی ماہیت میں دینی بھی ہے۔‘‘ علاوہ ازیں چونکہ مادی قوتوں کی تدریجی تسخیر کے ذریعے انسانی ارتقاء کا عمل مسلسل اور لامتناہی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات کا دائم عنصر محض تغیر و تبدیلی ہے۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں (بانگ درا) یہ اصول داخلی و نظریاتی صورت حال پر اتنا ہی منطبق ہوتا ہے جتنا کہ معاشرتی و مادی صورت حال پر۔۔۔۔ یہاں تک کہ مذہبی احکامات پر بھی ’’ ابدی اصول اگر تغیر کے تمام امکانات کو خارج کر دیں جو کہ قرآن پاک کے 1؎ Modern Islam in India and Pakistan.... W.S. Smith... Ashraf مطابق اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نشانیوں میں سے ہے تو یہ اس شے کو جامد بنانے کے مترادف ہے جو اپنے جوہر کے اعتبار سے حرکی ہے۔ 1؎‘‘ ایسے روایتی صوفی سے جو موجود دنیا کو واہمہ اور انسان کے دنیوی عمل کو کار لا حاصل سمجھ کر اسے رد کر دیتا ہے اقبال کنارہ کش ہو جاتے ہیں مگر وہ متشرع فقیہوں اور ان کی جامد و ساکن عصبیت کو بھی پوری قوت سے رد کر دیتے ہیں۔ اب آخری بات: اس تخلیقی عمل میں خاص عامل انسانی انا یا شخصیت یا ذات۔۔۔۔ یا خودی ہے جس نام سے کہ اقبال اسے پکارتے ہیں۔ تخلیق کے چیلنج سے عہدہ برا ہونے کے لئے، انسانی ذات کے لئے وہ تحفظات ضروری ہیں اول ادراک کے ذریعے عالم اجسام کا علم، دوم وجدانی جذب یا اقبال کی اصطلاح میں عشق۔ انہیں کے ذریعے اعلیٰ تر اقدار اور نصب العین کا حصول ممکن ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ’’ شخصیت کا تصور ہمیں ایک معیار اقدار مہیا کرتا ہے۔۔۔ جو کچھ شخصیت کی توانائی کا باعث بنے وہ خوب ہے اور جو اسے کمزور کرے وہ بد۔۔۔ فن، مذہب اور اخلاقیات کو شخصیت کے اسی تصور کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔ 2؎‘‘ لیکن یہ شخصیت یا ذات خود کو نہ تنہا فروغ دے سکتی ہے اور نہ توانا کر سکتی ہے۔ یہ بحیثیت مجموعی معاشرتی تعلقات کے حوالے سے ہی ممکن ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اقبال کا ’’ مرد کامل‘‘ نطشے کے ’’ سپر مین‘‘ سے مختلف ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ اقبال کے حتمی فیصلے ہر قسم کے قومی تعصبات، استعماری مقبوضات، نسلی امتیازات، معاشرتی استحصال اور ذاتی اغراض کے سراسر خلاف ہیں۔ ان میں سے ہر صورت حال انسانی شخصیت کو مسخ کرتی ہے اور اس کی تذلیل کا باعث بنتی ہے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ اقبال کے بارے میں وافر تنقیدی مواد، ان کی شاعری کی تحسین اور قدری جائزے کے بجائے ان کے پیغام اور تصورات کے مطالعے اور تجزئیے سے متعلق ہے۔ تاہم ان کی جذبہ کی شدت سے بھرپور تھرتھرائی ہوئی شاعری اور اس شاعری کی قائل کرنے والی تاثیر ان کے بیشتر اثر و رسوخ کا باعث ہے ان کے شعری مجموعوں میں ہیئت و مواد، خیال و اسلوب واضح خطوط پر حرکت کرتے نظر آتے ہیں اور سلسلہ تخلیق کے طویل عرصے میں ان کا ارتقاء دلچسپ مطالعے کا موضوع ہے۔ پہلے دور میں جو ۱۹۰۵ء تک ختم ہو جاتا ہے بیشتر نظمیں مظاہر فطرت کے محرکات استعجاب و حیرت سے متعلق ہیں۔۔۔ سحر و غروب آفتاب، پہاڑ و دریا، چاند ستارے اور نوجوانی کی بے سبب اداسیاں۔ مختصر نظموں کے اس داخلی دور کے بعد طویل نظموں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔۔۔۔۔ شدید جذبات پر مشتمل خطیبانہ نظمیں، جن میں زیادہ تر قوی یا بین الاقوامی سیاسی موضوعات پر ہیں۔ یہ تمام نظمیں اردو میں ہیں۔ ۱۹۱۵ء میں اقبال نے اپنی پہلی طویل فلسفیانہ نظم، اسرار خودی، فارسی زبان میں پیش کی۔ اس کے ساتھ ہی فلسفیانہ فکر کا دوسرا دور جو زیادہ تر فارسی منظومات پر مشتمل تھا، شروع ہوا۔ اور آخر میں تیسری دہائی کے اوائل میں ان کے پیغامات اور ان کا تکمیلی 1. Reconstruction of Religions Thought in Islam. Ashraf 2. Iqbal in Introduction to prof Nicnolson's Translation of Secerts of Soul. Ashraf. دور آیا جو تین اردو مجموعوں پر مشتمل تھا، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز جو ان کی موت کے بعد شائع ہوا۔ اس وقت تک ان کی بے چین تلاش کا سفر داخلی تجربوں کے ٹکڑوں، فطرت سے پیدا ہونے والے تحیر، ہندی مسلمانوں اور اسلامی دنیا کی زبوں حالی سے گزر کر بنیادی حقائق۔۔۔ خدا، کائنات اور انسان۔۔۔۔ کے بارے میں پر سکون فکر تک پہنچ گیا۔ شعری بصیرت کے دائرے میں تدریجی پھیلاؤ کے تناسب سے ان کے شعری موضوعات میں کمی ہوتی گئی اسراف، پھیلاؤ سے استحکام کی طرف چلتے ہوئے آخر کار ان کی فکر آخری برسوں کے تصور وحدت تک پہنچ گئی۔ اسی قسم کی تبدیلی اسلوب میں بھی ہوئی۔ تفاصیل کی طوالت کے بجائے ایجاز و اختصار، تزئین اور ایمائیت کے بجائے واضح اور بلا واسطہ بیان، شاندار خطابت کے بجائے سادہ شاعری۔ مثنوی کی سیاسی یا فلسفیانہ طویل نظم یا مسدس کی ہیئت کی جگہ غزل، قطعہ اور رباعی کے ایجاز نے لے لی۔ جذباتی فضا میں تبدیلی محبت کے احساس کے بجائے عشق کے شدید جذبات کی صورت میں ہوئی۔ بالغ ذہن کی ان نظموں میں اقبال نے مشرقی شاعری کی عام تزئینی روایت کو رد کر کے بہت سے طریق کار ایسے وضع کئے جن کے باعث ان کی نظموں کی سختی و درشتی دور ہو گئی مگر معنی کی اعلیٰ سطح قائم رہی۔ اول صوتیات کا نظام و آہنگ اور بہت سی ایسی عروضی ایجادات جو ترجمہ کی صورت میں معدوم ہو جاتی ہیں۔ دوم خیال انگیز اسم معرفہ کا استعمال جوان سے پہلے اردو شاعری میں مروج نہ تھا۔ مثلا ً ’’ ریگ روان کاظمہ‘‘ کوہ دمادند کی برف عراق و حجاز کے ریگزار خون حسین، عظمت روما، جمال قرطبہ، سمرقند و اصفہان کی شان وغیرہ سوم یہ کہ انہوں نے بہت سے غیر معروف الفاظ کا اجراء کیا جو قدیم ہیں مگر منسوخ نہیں، جو غیر مستعمل ہیں مگر مبہم نہیں۔ نیز یہ کہ انہوں نے ان سب کے لئے ایسے آہنگ اور اوزان استعمال کئے جو اردو شاعری میں شاید ہی کبھی آ سکے ہوں۔ اس منزل پر شدید داخلی چھان بین اور مختلف جہتوں میں غور و فکر کے بعد انہیں بالاخر وہ موضوع مل گیا جو اپنی وسعت کے سبب ان کی پوری شعری بصیرت پر چھا گیا اور وہ دہرا موضوع تھا انسان کی عظمت اور اس کی تنہائی۔۔۔ انسان کے خلاف صف آراء مشکلات، ظلم، استحصال، اس کی باطنی خامیاں اور خارج میں ایک دشمن سنگ دل فطرت اور ان سب کا احاطہ کرتی ہوئی اس کی تنہائی یہ ہے وہ چیلنج جس کے بالمقابل المیہ کے ہیرو۔ انسان کی عظمت ہے لامتناہی کشمکش اور وصال خداوندی کے لئے مستقل آشوب اور حصول اس کا مقدر ہے وہ اس شان و شوکت اور اس دکھ درد کا امیدوں اور پریشانیوں کا انسانی زندگی کے آشوب اور اس کے حصول کا نغمہ خواں ہے۔ کبھی ان نغموں میں نرمی و ہمدردی ہوتی ہے تو کبھی شدید غصہ اور جھنجھلاہٹ اور اقبال نے یہ کام خلوص و یقین اور اظہار کی ایسی وسعت و لطافت کی سطح پر کیا جو ان کے عہد میں کوئی نظیر نہیں رکھتی۔ ٭٭٭ ’’ زماں‘‘ ۔۔۔ اقبال کے شاعرانہ عرفان کے آئینے میں ڈاکٹر عالم خوند میری ’’ زمانہ یا وقت‘‘ اقبال کی شاعرانہ فکر کا ایک اہم موضوع ہے۔ اس مختصر سے مضمون میں یہ گنجائش نہیں کہ اس پر سیر حاصل بحث کی جائے۔ راقم الحروف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ موضوع اقبال کی شاعرانہ فکر پر چھایا رہا اور اس کی شاعری کے مختلف ادوار میں اس موضوع کے مختلف پہلو منکشف ہوتے رہے۔ لیکن بنیادی مسئلہ اس کے پیش نظر یہی رہا کہ نفس انسانی اور زمانے کی رفتار کو ہم آہنگ کیا جائے تاکہ انسان کو یہ قدرت حاصل ہو سکے کہ وہ کائناتی زمانے کے جبر سے آزادی حاصل کرے۔ وقت کے مسئلے کو سلجھانے کے لیے اس نے برگسوں سے بھی مدد لی اور دوسرے جدید فلسفوں سے بھی استحداد کیا۔ لیکن اس کا اصلی محرک، وقت کے فلسفے، پر روشنی ڈالنا نہیں تھا بلکہ انسان کے روحانی تجربے اور تاریخ میں ایک ربط قائم کرنا تھا۔ اس ضمن میں یقینا اس نے کئی نکات روشن کیے لیکن اس کا اصل موضوع نفس انسانی ہی رہا۔ اسی لیے ضرورت ہے کہ اقبال کی فکر کے کسی ایک جزو کو دوسرے اجزاء سے علیحدہ نہ کیا جائے اور اس کی فکر کے کسی بھی پہلو پر بحث کرتے ہوئے کل اقبال کو پیش نظر رکھا جائے کیونکہ اقبال کا شاعرانہ جنیئس تدریجی طور پر اپنے آپ منکشف کرتا ہے تضاد کا گمان اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم کسی ایک منزل کو دوسری منزلوں سے الگ کر لیتے ہیں۔ اقبال کی شاعرانہ فکر انسانی تقدیر کے تقریباً تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے اور اسی لیے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں (ہر چند کہ محبت اس کا تقاضا کرتی ہے) کہ اس کی فکر۔۔۔ تمام کی تمام۔۔۔ عصریت کی حامل ہے اور عصری انسان کے مسائل کا حل، اس کے بس میں ہے لیکن اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ جہاں تک وقت یا زماں کے مسئلہ کا تعلق ہے اور اس کا انسانی تقدیر سے ربط ہے اقبال ایشیائی شاعری میں پہلا مفکر شاعر ہے جس نے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کو اپنی شاعرانہ فکر کا موضوع بنایا اور اس طرح بیسویں صدی کی شاعرانہ آواز بن گیا۔ زمانے کا شعور، خصوصاً جہاں تک شاعرانہ فکر میں اس کے اظہار کا تعلق ہے، تکوین (Becoming) اور تغیر کے وجدان کا ایک نتیجہ ہے۔ ریناں نے کہا تھا کہ تکوین اور تغیر کا وجدان انیسویں صدی میں اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گیا تھا۔ بیسویں صدی کا شعور زماں، اسی وجدان کی تکمیل ہے جس نے بالآخر پورے انسانی شعور کو اپنی گرفت میں لے لیا یہاں تک کہ بیسویں صدی کی فکر، جس نے اپنے آپ کو مذہبی مابعد الطبیعیاتی وابستگی سے آزاد کر لیا تھا (یا دوسرے لفظوں میں خالصتہً ایں جہانی یا سیکولر بن گئی تھی) ایک اعتبار سے زماں گرفتار بن گئی۔ 1؎ اسی بات کا یوں بھی اظہار کیا جا سکتا ہے کہ بیسویں صدی کی سیکولر فکر میں زروانیت کا احیاء ہوا۔ تقریباً سارے جبری فلسفوں میں مانی کے قدیم مسلک اور زروانیت کی جھلک نظر آتی ہے، اسی لیے بعض مذہب مائل نقادوں کو جہاں بھی وقت اور زماں کے مسئلے سے سنجیدہ دلچسپی دکھائی دیتی ہے، وہاں انہیں 1؎ اسی حقیقت کا اظہار اقبال نے یوں کیا تھا: خود ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری زروانیت کے گہرے سائے نظر آتے ہیں۔ اس بناء پر یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ بعض نقادوں نے اقبال کی شاعرانہ فکر کا رشتہ زروانیت سے جوڑ دیا۔ اس قسم کی مذہبی احتیاط بے جا تو نہیں لیکن اقبال کی حد تک بے محل ضرور ہے۔ اقبال کا شمار، ان مذہبی مفکر شاعروں میں کیا جانا چاہیے جنہوں نے اپنے گہرے شعور زماں کے وسشیلے سے زماں اور لازماں اور تغیر اور دوام کو ایک اعلیٰ ت رحقیقت کے کشف میں مربوط کرنے کی کوشش کی۔ ان کی شاعرانہ فکر کا اہم اور مرکزی سوال یہ ہے کہ زماں اور لامکاں، ثابت اور سیار کا تضاد، محض اس خرد کی ایجاد تو نہیں جو اضداد سے گھبرا جاتی ہے اور کیایہ تضاد محض ایک لسانی تشکیل تو نہیں جس نے ماورائی حقیقت کی ترسیل میں عجز سے گھبرا کر ایسی اضدادی زبان کی تشکیل کی جو ایک مرتبہ اضاد کی ایجاد کے بعد ان کی ترکیب میں قاصر رہتی ہے۔ غالب کا ذہن بھی اس سوال سے گزرا تھا جب اس نے کہا: جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ بظاہر جہاں تک الفاظ کی ساخت کا سوال ہے غالب کو جواب نہیں ملا لیکن اسی سوال میں ایک جواب پنہاں تھا کہ شاید یہ ہنگامہ کون و مکان اور ذات سرمدی، دونوں ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ ایک کی حقیقت کے اثبات کے لیے، دوسرے کے انکار کی ضرورت نہیں۔ غالب اور اقبال کے وجدان کا سرچشمہ چونکہ ایک ہی ہے اسی لیے ان دونوں میں ٹکراؤ نہیں بلکہ اگر ایک سوال ہے تو دوسرا جواب غالب تکوین کے ہنگامے کے شعور کا ترجمان ہے اور اس کا شاہد تو اقبال تکوین سے گزر کر زمان اور پھر زمان سے بلند ہو کر شکست زماں تک پہنچتا ہے۔ اقبال کی شاعرانہ فکر، تکوین زماں اور شکست زماں کی فکری شعری جدلیت کا اظہار ہے۔ اس مقام پر جملا معترضہ کے طور پر اس حقیقت کی طرف توجہ ضروری ہے کہ اسلامی فکر نے حقیقت مطلق کے اثبات اور عرفان کے لیے کبھی بھی عالم محسوسات اور زمانی مظاہر کا کلیتہً (انکار نہیں کیا اور اس لیے اسلامی منطقین بھی، ارسطو کی منطق سے پوری طرح مطمئن نہیں رہے۔ 1؎ 1؎ اس ضمن میں ابو نصر الفارابی کا ایک بیان اہم ہے۔ ارسطو نے اپنے رسالہ ’’ تعبیرات‘‘ میں ایک اہم بات کہی تھی کہ جہاں تک مستقبل کے امکانی واقعات کا تعلق ہے، ایسے قضا یاد پر قانون تضاد کا اطلاق مشکل ہے کیونکہ جہاں تک مستقبل کا تعلق ہے ارادہ اور تفکر بھی علی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ الفارابل نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ’’ لزوم کی تمام صورتیں ایسی ہیں کہ نقیضین میں سے کسی ایک کا لازماً درست ہونا واجب ہے لیکن امکانات کی صورت یہ ہے کہ نقیضین میں سے کسی ایک کا لازماً واقع ہونا ضروری نہیں کیونکہ ایسے نقیضین میں جو بغیر کسی لزوم کے مادی طور پر ممکن ہیں، درست اور غلط متبادلات کا تعین واقعے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔‘‘ فارابی کی اس تشریح سے صاف ظاہر ہے کہ اس کے پیش نظر، دینیاتی اور ما بعد الطبیعیاتی محرکات ہیں۔ وہ انسانی آزادی کی مابعد الطبیعیاتی ضمانت چاہتا ہے، چونکہ قرآن اس بارے میں واضح ہے یہ بات اہم اور دلچسپ ہے کہ ارسطو کے اسلامی شارحین یہاں تک کہ ابن رشد نے بھی ارسطو کے اس بیان کو اہمیت دی اور اس کی تشریح اس انداز سے کی کہ مستقبل نقیضین کی منطق سے آزاد رہ سکے۔ یہ سوال کہ کس طرح ماضی کو اپنی گرفت میں لیا جا سکتا ہے یا ماضی تک انسان اپنی قدرت کی توسیع کر سکتا ہے۔ نہ صرف اقبال کے اولیں شعری فکری محرکات میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے بلکہ دم آخر تک اس کے شعور پر چھایا رہا اور نام نہاد احیانیت پسند رحجان، اس کی فکر کے اس عنصر سے وابستہ رہا لیکن اقبال کی متجسس فکر، احیائیت پسندی کے آسان حل کو مطلقاً قبول کرنے پر مائل نہ ہو سکی۔ البتہ اس کے اہم محرک نے اس کو ماضی، حال اور مستقبل کے ربط پر غور کرنے کے لیے اکسایا کائناتی زمانے میں وقت کے یہ ادوار بے اصل سہی لیکن زندگی میں وقت، انہیں ادوار سے عبارت ہے اور انہیں ادوار کی حقیقت تاریخ کے شعور کا منبع ہے اگر ان ادوار کو بے معنی اور حقیقت سے کلیتہً غیر متعلق فرض کر لیا جائے تو تاریخ یکسر بے معنی بن جاتی ہے اسی لیے جن تمدنوں نے ان ادوار کو حقیقت اور اس کی ماہیت سے بے تعلق تصور کر لیا وہاں تاریخ کا شعور، اپنے لیے کوئی جگہ حاصل نہ کر سکا۔ ابدیت اور وقت کے تضاد اور ابدیت کے حق میں انسانی ذہن کے کامل اور غیر مشروط اقرار نے ہمیشہ تاریخ کو انسانی زیست کے لیے مہمل بنایا ہے۔ قدیم ہندی تمدن اس کی ایک بین مثال ہے۔ قدیم ہندی فلسفے اور آرٹ کے شعور وقت میں تاریخی زمانے کے لیے کوئی مقام نہیں۔ اجتماعی زندگی میں وقت کے انہیں ادوار کی معنویت، روایت اور تجربے، قدیم اور جدید، تسلسل اور تبدیلی کی کشمکش میں ظاہر ہوتی ہے۔ چاہے ا س کش مکش کا حل، تجربے اور تبدیلی کے انکار ہی کی صورت میں کیوں نہ ڈھونڈا جائے۔ لیکن یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ انسانی شعور میں زمانے کا تناؤ، موجود ضرور ہے۔ اسی لیے احیائیت پسند رحجانات انہیں تمدنوں میں ظاہر ہوتے ہیں جن میں زمانہ کسی نہ کسی طرح حقیقت کا حامل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھرپور شدت پسند اور فعال احیائیت ہمیں ان تمدنی علاقوں میں نظر آتی ہے جہاں یہودیت، عیسائیت اور اسلام کا چلن رہا یا جہاں ان کے گہرے اثرات رہے۔ جہاں ان تمدنوں میں احیائیت ایک بے پناہ جوش عمل کے ساتھ ماضی کو واپس لے آنے کی تمنا کی صورت میں اپنا اثر دکھاتی ہے، وہیں ہندی تمدن میں فعال،ا حیائیت پسندی کی بجائے ماضی میں استغراق اور اس میں ڈوبے رہنے کا رحجان نظر آتا ہے۔ اقبال کی شاعری کے پہلے ہی دور میں ہمیں ایک جوش کے ساتھ ماضی کو واپس لے آنے کا رحجان نمایاں نظر آتا ہے۔ اقبال کے پہلے اردو مجموعے کی پہلی نظم ’’ ہمالہ ‘‘ کا آخری مصرع1؎ ’’ دوڑ پیچھے کی طرف، اے گردش ایام تو‘‘ ماضی سے اس کے بے پناہ لگاؤ اور اس طرح وقت کے بہاؤ کے ساتھ اس کی وجدانی وابستگی کا مظہر ہے۔ شاعر ابھی معصوم ہے اور شاید یہ نہیں جانتا کہ وقت کے بہاؤ میں تکرار نہیں لیکن جو بات اہم ہے وہ ماضی کے احیاء کا طاقتور جذبہ ہے۔ یہاں ہمالہ کی قدامت اور اس کے اضافی دوام کو زمانے کے بہاؤ کے ایک نقیض کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور اس ابتدائی نظم ہی میں نقیضین اور 1؎ یہاں میں اپنے امکانی معترض سے معانی کا خواستگار ہوں کہ میں نے اقبال کی ایک کمزور نظم کا حوالہ دیا لیکن چونکہ بحث اقبال کے شعری وجدان سے ہے اس لیے میری یہ دانستہ غلطی برمحل ہے اور یوں بھی اس دور کی ان بہتر نظموں میں بھی جنہیں عام طور پر قومی نظمیں کہا جاتا ہے۔ یہی جذبہ غالب نظر آتا ہے۔ اضداد کے ساتھ شاعر کی اس وجدانی وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے جو اس کی شاعرانہ زندگی کے مستقبل میں ایک طاقت ور جذبہ بن جانے والی تھی۔ نوجوان اقبال جب پروانہ و شمع جیسے پامال استعاروںکو استعمال کرتا ہے۔ تو انہیں ایک نیا مفہوم عطا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاں وہ شمع کے لیے چھوٹا سا طور کی تشبیہہ استعمال کرتاہے تووہیں پروانے کو کلیم کے نام سے یاد کرتا ہے ۔ طور اور کلیم کی علامتیں شمع و پروانہ کے اضداد کو ایک نیا مفہوم عطا کرتی ہیں۔ اسی طرح ایک نظم میں عقل و دل کا پرانا تضاد ابھر آتا ہے۔ اگر دل عقل کو زمان بستہ قرار دیتا ہے تو اپنے آ پ کو طائر سدرہ آشنا کے نام سے موسوم کرتا ہے یقینا اس قبیل کی نظموں میں شاعر کا نقطہ نظر روایت سے وابستہ ہے لیکن اظہار بیان اور استعاروں کا استعمال اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ وہ ایک نئی اور معتبر بصیرت کے حصول کے لیے بے چین ہے تکوین اورتغیر کے ہنگامے نے ا س کی نظر کو چونکا دیا ہے اور جہاںوہ زندگی کے راز کو سمجھنے کے لیے بے تاب ہے وہیں اضداد کی کشمکش اس کے لیے ایک چیلنج بن جاتی ہے مثلاً: عقدہ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے حسن عشق انگیز ہر شے میں نظر آئے مجھے (آفتاب صبح) اور عقدہ اضداد کی یہی کاوش اس کے لیے سامان لذت بھی ہے۔ : کس قدر لذت کشود عقدہ مشکل میں ہے لطف صد حاصل ہماری سعی بے حاصل میں ہے (آفتاب صبح) شمع و پروانہ‘ ابر کوہسار‘ ماہ نو‘ موج دریا‘ صبح کا ستارہ‘ ابر جیسے استعاروں کا مسلسل استعمال اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ شاعرا یک حقیقی شاعرانہ کرب میں مبتلا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ ایک اعلیٰ نصب العین کی تکمیل قدرتنے اس کے ذمے دی ے اور وہ ابھی اپنے اس مشن سے آگاہ نہیں لیکن اس بات کا شدید احساس ہے کہ عصری انسانی موقف میںکوئی نقص ضرور موجود ہے۔ اور اس وقت انسان کی تاریخی تقدیر کو تخلیق اور تخریب کے کائناتی ڈرامے سے مضبوط کرنا ہے۔ ایک ارتقاء پذیر کائنات کا ابھرتا ہوا عرفان شاعر کو انسانی تقدیر کے بارے میں ایک امید عطا کرنے لگتاہے اس سے پہلے غالب نے بھی کائنات کے اضطراب اور انسان کے وجودی غم میں ایک ربط محسوس کیا تھا لیکن وہ انہیں انسانی زیست کی سطح پر مربوط نہ کر سکا تھا۔ ا س ربط کا قیام اسی وقت ممکن ہے جب شاعرکی بصیرت تکوین کے کائناتی نظام اور تاریخ کے عمل کے اندرونی آہنگ کو دریافت کر لے۔ اقبال نے اپنی فکر کا آغاز روایتی نو فلاطونی مسلک سے کیا ہے لیکن اس کی عصریت نے اس روایتی مسلک میں پنہاں حرکت کو دریافت کر لے۔ پہلے ہی دور کی ایک معنی خیز نظم کنار راوی میںشاعر کائناتی تغیر اور انسانی زیست کو مربوط کرنے میں کامیاب ہوتا ہوا نظرآتا ہے۔ انسان ابدی زیست کے سمندر میں رواں ہے کبھی پیدا کبھی نہاں لیکن موت یا عدم مطلق اس کی آخری تقدیر نہیں ۔ تخریب اور تخلیق کے کائناتی عمل ہی میں انسانی تقریر کا راز پنہاں ہے۔ اقبال کے ابتدائی شاعری ہی میں فطرت ایک زندہ وجود کے طورپر نمایاں ہوتی ہے۔ اس نے شاید ابھی تک اسپنوزا ور گوئٹے کا بغور مطالعہ نہیں کیا تھا۔ لیکن غالب کی طرح اس نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ وجود شر نہیں ہو سکتا ۱؎۔ ۱؎ زیست یا وجود کے بارے میں غالب کے موقف کا اظہار ایک واقعہ سے ہوتا ہے کہ جس کا اظہار حالی نے (باقی اگلے صفحہ پر) وجود کی تغیر پذیری اضطراب ہی نے قدیم حکما کے ایک گروہ کو وجود کے گناہ آلود ہونے کے نظریے تک پہنچایا تھا۔ لیکن اس اہم سوال تک ان کی نظر نہ جا سکی کہ اگرکائناتی اور انسانی وجود وجود مطلق سے بے تعلق نہیں اور اگر کائناتی وجود میںتغیر اورحرکت ہے تو اس حرکت سے سرچشمہ کی تلاش وجود مطلق ہی میں کی جانی چاہیے۔ اسلامی حکماء میں ابن العربی اور شیخ الاشراق نے اس گتھی کو سلجھایا تھا لیکن یہ روایت ایران کے حکیم ملا صدرہ تک پہنچی اور رک گئی۔ اقبال کا یہ ایک کارنامہ ہے کہ اس نے روایت کو پھر زندہ کیا اور اپنے انداز میں ایک حرکت پذیر کائنات میں انسانی موقف کو متعین کرنے کی کوشش کی۔ کائنات اگر تغیر پذیر ہے تو پھر انسانی تقدیر کو بھی تغیر پذیر ہونا چاہیے۔ انسانی تاریخ کی کوئی منزل بھی آخری اور قطعی ؤمنزل نہیں ہو سکتی۔ دوسرے الفاظ میں انسان تبدیلی کے قابل ہے ۔ فکر کی ایک جست نے شاعرکو ایک اہم حقیقت کو منکشف کیا کہ انسانی اجتماع بھی اس قانون تغیر سے مستثنیٰ نہی ہو سکتا۔ اگرآج ایک ملت تباہ حال ہے تو کل یہ ابھر سکتی ہے ۔ لیکن کائنتات میں جہاں صرف اٹل قانون کی حکمرانی ہے ۔ وہیں انسانی عالم میں ارادہ ایک تخلیقی طاقت کا حامل ہو سکتا ہے۔ تاریخ کی سطح پر ارادہ اور زمانہ وقت قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں کائنات میں وقت محض ایک مقدار ہے وہیں انسانی زیست کی سطح پر ایک تخلیقی قوت ۔ اقبال کے اس عرفان وقت کی اندرونی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ روایتی نو فلاطونی نظریہ جمال کی گرفت سے آزادی حاصل کرنے کے دوران اس کی حساس شاعرانہ فکر پر یہ راز کھلا کہ جہاں حسن لا محدود ہے وہیں مظاہر حسن تبدیلی فنا اور تخریب کے دائرہ عمل سے آزاد نہیں۔ زمانہ اپنا ایک تحریری پہلو رکھتاہے ۔ اور حسین بھی عدم کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس کی نظم حقیقت حسن دو اعتبارات سے اہم ہے ایک تو یہ کہ زمانہ کا تخریبی پہلو ا س میں نمایاں ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ اس نظم میں ایک نیا موضوع جو آگے چل کر اقبال کی شاعری میں مستقل نوعیت اختیار کر نے والا تھا۔ ابھرتا ہے یعنی خدا اور انسان کا مکالمہ روہی حسین ہے ۔ حقیقت زوال ہے جس کی تو پھر بقاء کی طرح حاصل کی جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ سوال مستقبل کے بارے میں ایک مضطرابی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ کائنات میں تخریب اور تخلیق کا عمل ایک تکرار کا حامل ہے۔ اور اس لیے کائناتی سطح پر ماضی حال اور مستقبل بے معنی ہیں اور اسی لیے تغیر اور دوام بھی اپنی ایک الگ نوعیت رکھتے ہیں۔ چونکہ وہ قانون جبر کے تابع ہیں اسی لیے وقت ان پر حکمران ہے۔ انسانی عالم میں بقایا دوام کے لیے وقت پر فتح ضروری ہے۔ اگر اقبال اس راز کو نہ پا لیتا‘ تو یقینا اس پر زرو انیت کا الزام بجا ہوتا۔ اقبال کی نظیر کسی منزل پر بھی صرف زمان کی حقیقت تک محدود نہیں رہی۔ شکست زمان کی ضرورت پر بھی اس کی نظر رہی کیونکہ اسی طرح دوام ممکن ہے اپنی ایک اہم نظم طلبہ علی گڑھ کالج کے نام میں جہاں وہ گردش آدم اور گردش جام میں فرق کرتا ہے وہیں ذوق طلب کو موت پر فتح حاصل کرنے کا راز بتاتا ہے: ۱؎ (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) یادگار غالب میں کیا ہے۔ حالی نے ایک بار صوفیہ کرام کے ایک مشہور قول کا ذکر کیا ’’وجودک ذنب‘‘ غالب نے ایک غزل میں اس خیال کی تردید کی: دم از وجودک ذنب زرند بے خبراں چہ ساں عطیہ حق را گناہ ما گویند موت ہے عیش جاوداں ذوق طلب اگر نہ ہو گردش آدمی ہے اور گردش جام اور ہے شمع سحر یہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز غمکدہ نمود میں شرط دوام اور ہے اسی دور کی ایک دوسری نظم کوشش ناتمام میں ارادہ بقا کو وہ زندگی کا راز بتاتاہے: راز حیات پوچھ لے خضر خجستہ کام سے زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے یقینا اس بارے میں شبہ کی گنجائش نہیں کہ اقبال کے اس نئے رجحان پر مغربی ادب اور فکر سے اس کی گہری واقفیت اور رسائی کا اثر تھا۔ جہاں اس نے گوئٹے سے یہ سبق سیکھا کہ زندگی کی عظمت جستجوئے مسلسل میں پنہاں ہے وہیں نطشے نے اسے یہ درس دیا کہ تخلیق تخریب کی متقاضی ہے: وہ جسے خیر اور شر کا خالق بننا ہے یقینا اسے پہلے قاہر بننا ہو گا اور اقدار کی کامل نفی کرنی ہو گی (بقول زرتشت) لیکن یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ اقبال نے یہ سبق پہل مرتبہ مغرب سے حاصل کیا اس نے یہ عرفان جیسا کہ اس بحث کے دوران واضح کیا گیا ہے اپنی شاعرانہ زندگی کے آغاز ہی میں حاصل کر لیاتھا۔ مغرب نے اس عرفان کو اور بھی چمکایا شاید اسی عرفان کے چمک جانے سے وہ رومی کی جانب مائل ہوا جس نے بہت پہلے اس راز کو پا لیا تھا: گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا آؓاداں کنند می ندانی اول آں نبیا درا ویراں کنند مغرب نے اس پر سب سے بڑا احسان یہ کیا کہ اس نے اس اثر کے تحت اپنے تاریخی ضمیر کو دریافت کر لیا۔ اس تاریخی ضمیر کی دریافت کے عمل میں اس نے زمانے یا وقت کی معنویت کا ادراک کیا کہ وقت ہی تقدیر اور تاریخ کے درمیان ایک واسطہ ہے۔ اور تاریخ کا ایک اہم تخلیقی محرک ادراہ ہے۔ قدیم ایشیائی مذہبی شعور میں تکوین کا عمل نقص کی جانب اشارہ کرتا ہے اور اسی لیے حرکت اور تغیر کمال کی ضد بن جاتے ہیں اور چونکہ کمال کی ضد کی ہیں اس لیے تکوین عمل کو زوال کی علامت سمجھا گیا۔ افلاطونی اور نوفلاطونی شعور زیست میں یہ خیال مرکزی اہمیت اختیار کر گیا کہ خود ارسطو نے بھی جس کا شعور تکوین افلاطون کے مقابلے میں حقیقت سے قریب تر تھا۔ زمانے کو زوال اور انحطاط کا پیامبر تصور کیاتھا ۱؎۔ ۱؎ ارسطو ماہیت زماں پر بحث کرتے ہوئے اپنے رسالہ طبیعیات (۲۲۲۶) میں کہتا ہے کہ زمانے میں ہونے کا مطلب زوال اور کہنگی کا شکار ہونا ہے کیونکہ وقت جو کچھ حاصل ہے اسے چھین لیتا ہے تباہی کاپیامبر ہے‘‘۔ تکوین کا عمل یقینا موجود نقص کی جانب اشارہ کرتا ہے لیکن کائناتی اور انسانی سطحوں پر یہی نقص ایک ایسے کمال کی جانب سفر کی علامت ہے جس کی کوئی منزل آخر نہیں ۱؎۔ لطف خرام بذات خود ایک قدر رکھتا ہے اور اسی لیے قطب آسمان قافلہ نجوم کو رشک بھری نظروں سے دیکھتا ہے: کہتا تھا قطب آسماں قافلہ نجوم سے ہمرہو! میں ترس گیا لطف خرام کے لیے اقبال نے اپنے اسی شعور تکوین و تغیر میں شخصیت کے استناد کی کلید تلاش کی اور اس اعتبار سے مستند اور معتبر شخصیت وہ ہے جو اس تغیر مسلسل سے کامل طورپر آگاہ ہو اور اس کی تقدیر کے بدلنے میں وسیلے کے طور پر استعمال کرنے کی طاقت رکھتی ہو۔ اسی دور میں اقبال کے شاعر انہ شعور میں تاریخ سے آگاہی کا ایک نیا عنصر ابھرتا ہے۔ خود شناسی اورتاریخ شناسی میں ایک آہنگ کی دریافت اس شعری دور کی ایک اہم خصوصیت ہے اسی دریافت کا اثر ہے کہ اقبال اپنے آپ کو ایک ایسے تاریخی گروہ سے وابستہ کرنے لگتا ہے جو اس کی نظر میں ایک جغرافیائی علاقے میں انسانوں کا ایک اتفاقی اجتماع نہیں ہے۔ بلکہ جو ایک متعین تاریخی تسلسل رکھتا ہے اور اپنا ایک متعین کردار بھی۔ اس تاریخی شعور نے اس کی شاعرانہ حقیقت کو ایک نیابعد عطا کیا اور اسی لیے المیے کے اس احسا س کو ابھارا جو اب تک اس کی شاعری میں اجاگر ہواتھا۔ المیے کا یہ احساس اس کے نجی دکھوں کا آفریدہ نہیں تھا۔ بلکہ اس گروہ کے تاریخی تسلسل کے انجماد کے ایک ادراک کاایک اثر تھا۔ اس کی تاریخی بصیر ت نے محض روایت کے تسلسل سے اور روایت کے ارتقاء کے مسلسل عمل میں فرق محسوس کیا اس لیے اس احساس الم کا سرچشمہ ماضی میں حرکت اورحال کے جمود کا ادراک اور تقابل ہے۔ اس تقابل نے الم کو کامل یاس میں تبدیل کر دیا ہوتا اگر وہ اس منزل پر اس اعتقاد کاحامل نہوتاکہ انسانی زیست کے تاریخی ڈرامے کا کوئی آخری منظر نہینکیونکہ انسانی تاریخ کا سٹیج ایک ایسی کائنات ہے تغیر جس کے زمانے کا ابدی قانون ہے اسی دور میں اس کے ذہن میں ماضی سے ایک رومانی پیکار شروع ہوتی ہے جس نے اقبال کو ماضی میں مستغرق ہونے سے بچا لیا ۔ ماضی سے اسی پیکار کا شاعرانہ شاہکار اس کی نظم شکوہ ہے۔ اگر اس کا شعور اسی منزل پر رک جاتا تو وہ ایک مہمل حد پر پہنچ کر شاید ماضی کی نذر بھی ہوجاتا۔ خدا سے شکوہ میں انسان کے جبر کا پہلومضمر ہے۔ شکوہ وہی کرتا ہے جس کا عمل خو د آفریدہ نہیں اور جس کا وقت کائناتی وقت سے اپنی نوعیت میںجدا نہیں۔ جواب شکوہ انسانی ارادے کی آزادی کا اعلان ہے اور اس امر کا اظہار ہے کہ حال ماضٰ سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اگر انسانی ارادہ زمانے کے بہائو میں مداخلت کرنے پر قدر ت رکھتا ہو جہاں دینیاتی نقطہ نظر سے یہ نظم خدا کی مشیت کے جواز کا اعتذار نظر آتی ہے۔ وہیں انسانی نقطہ نظر سے اس بات کا اعلان ہے کہ انسانی تقدیر محض مشیت الٰہی کا ایک اٹل اظہار نہیں بلکہ تاریخ کے قوانین کے چوکھٹے میںاپنا ایک الگ وجود بھی رکھتی ہے۔ اس نظم میں اقبال کے شاعرانہ وجدان نے تاریخی عمل میں ایک متحرک انقلابی شخصیت کے کارفرما اصول کو بھی دریافت کیا۔ یہی تصورآگے چل کر فلسفیانہ گہرائی حاصل کر لیتا ہے جس کا ارتقاء خودی کے تصور میں نظر آتاہے۔ ۱ ؎ اقبال اپنے دیگر ہمعصر ارتقائی مفکروں کی طرح قانون ناکارگی (Law of Entity)کو مشتبہ نظروں سے دیکھتا ہے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ خالص مذہبی شعور اس کے ارتقائی نظریوں کو مشتبہ نظروں سے دیکھے گا۔ ایک مکمل شخصیت یا خودی… جواب شکوہ میں ذات محمدؐ … زمانے کے حملے کی مدافعت کرتی ہے۔ موت کو شکست دیتی ہے۔ بقا حاصل کرتی ہے اورپھر انسان کا نصب العین بن جاتی ہے۔ ذات محمدؐ کا نصب العینی تصور‘ ایرانی اور اردو شاعری کی روایت میں نیا نہیں لیکن اقبال نے اس شخصیت کے ساتھ طاقت ور اور جبروت کے عنصرکو وابستہ کیا اور اس شخصیت کو انقلابی ارادے اور عمل کا مظہر بنایا۔ اس شخصیت کے ساتھ وفاداری کا مفہوم یہ ہے کہ وفادار اس انقلابی ارادے کو اپنے نفوس میں ابھاریں جس نے ایک دور میں تاریخ کو بدل دیاتھا ۱؎۔ اقبال کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی شاعری کے اس دور میں اس کے ذہن میں خیالات کی ایک کشمکش تھی۔ اور وہ اپنے لیے ایک منفرد فلسفہ حیات کا جویا تھا۔ مروج ارتقائی نظریوں اور زندگی مرکز فلسفوں نے اس کے ذہن پر ایک گہرا ورفیصلہ کن اثر چھوڑاتھا۔ اگر مقدار حرکت کے دوام (Constancy of Nation)اور بقائے مادہ کے مادی میکانی مفروضات اٹھارویں صدی کی فکر کے محرک اصول تھے تو انیسویں صدی کے اواخر میں انسانی فکر کو ایک مختلف بلکہ متضاد سمت میں حرکت پزیرھتی۔ اور جیسا کہ وھائیٹ ہیڈ نے اشارہ کیا ہے ۲؎۔ اس دورکے نئے تصورات بلوریا تغیر کے اصول سے متاثر تھے۔ توانائی کی تبدیلی اور ارتقاء کے نظریات اسی اصول کا سائنٹفک اظہار تھے۔ ارتقاء کے نظریے نے اقبال کو اپنی طرف متوجہ کیا اور حیات کے اصول میں اس کے لیے کائنات ارو انسانی کی تشریح اور تعبیر نظر آئی۔ برگسوں اور نیطشے کے علاوہ جن سے وہ بہرحال متاثر تھا گوئٹے کی شاعرانہ بصیرت نے بھی جس کی تصنیف فائوسٹ کا غالب شاعرانہ محرک مادے پر زندگی کی اور لفظ پر عمل کی اولیت تھا۔ اقبال کو اپنی طرف مائل کیا ڈلتھائی (Dilthey)نے بجا طور پر گوئٹے کے شاعرانہ فلسفہ کو ارتقائی وجودیت کا نام دیا ہے ۔ اقبال نے یقینا اس جرمن فلسفی کا بھی اثر قبول کیا ہو گا۔ جس نے برگسوں سے کچھ ہی پہلے زندگی کے عمل کو اپنی تاریخی فکر کا نقطہ آغاز بنا یا تھا۔ یورپ کے اس فکری ماحول میں اقبال نے جس کی فلسفیانہ فکر پر اب تک وجود محض کا تصور حاوی تھا۔ اپنی نظر حیات کی جانب موڑ دی اسی حیاتی نقطہ نظر میں اس نے قرآن حکیم کے اسرار کی کلید تلاش کی۔ اسی نقطہ نظر کا اثر تھا کہ اب موت اس کے لیے بھیانک نہیں رہی اس دور کی ایک اوراہم نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ میں اقبال نے یہ محسوس کیا : ۱؎ اشارہ ہے جواب شکوہ کے آخری پانچ بند کی طرف آخری بند اس نئے وجدان کا مکمل اظہار ہے: عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری مرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری ما سوا اللہ کے آگ ہے تکبیر تری تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ۲؎ White Head: Science and the Modern age P.95 مختلف ہر منزل ہستی کی رسم و راہ ہے آخرت بھی زندگی کی ایک جولانگاہ ہے یہی تصور بالآخر خطبات میں ایک واضح فلسفیانہ صورت اختیار کر لیتا ہے۔ جس کی رو سے اس زندگی اور آخرت کا وہ فرق نظام زمان و مکان کی انقلابی تبدیلی میں مضمر ہے۔ حیات بعد الموت ایک مختلف زمانی مکانی نظام ہے۔ جس میں شخصیت ایک مختلف اندازمیں اپنے نشوونما کو جاری رکھتی ہے اور اس طرح ارتقاء شخصیت کے عمل کا تسلسل باقی رہتاہے۔ اسی وجدان نے کمی کے بغیر نشوونما (Growth without Diminution) کے معنی خیز اصول کی جانب اس کی رہنمائی کی ۔ اس نظم سے ظاہر یہ گمان ہوتا ہیکہ اپنی ماں کی موت کے شخصی غم کو شاعرنے فلسفیانہ فکر میں غرق کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگرکسی مرحوم نے اپنی شخصیت کو مستحکم کر لیا ھتا تو پھر اس زندگی کاانجام خاکستر نہیں ہو سکتا۔ اسی بات کو گوئٹے نے ایک ذراسے مختلف انداز میں بیان کیا تھا۔ یہ بات کہ فطرت اس قدر بلند مرتبت روحانی توانائیوں کو فنا ہو جانے کی اجازت دے گی کہ بعید از قیاس ہے۔ فطرت اپنے اثاثے کو اس بیدردی سے لٹاتی نہیں ۱؎۔ اقبال نے بقا کے بارے میں اپنے اس وجدان کو خطبات میں اس تصور کے ذریعے پیش کیا تھا کہ بقا صرف مستحکم شخصیت کا حق ہے۔ اوریہ کہ ہر ایک کی لازمی تقدیر نہیں۔ آخرت ایک بے حادثہ لازماں ابدیت نہیں بلکہ اپنے مختلف زمانی نظام کانام ہے جہاں حیات ایک مختلف ارتقائی قانون کی تابع بنتی ہے۔ موت فرائض کے ختم ہو جانے کا نام نہیں بلکہ ایک نئے نظام حیات میں فرائض کا ایک نیا نظام ابھرتا ہے۔ انسان ایک مفصل اندازمیں اپنی پچھلی زندگی کے نتائج حاصل نہیںکرتا۔ بلکہ ایک بدلے ہوئے انداز میں اپنی فعلیت کا اظہار کرتا ہے یعنی جسمانی موت اندرونی کردار کی تبدیلی سے عبارت ہے۔ زندگی کے اس بہائو اور اس کے پنہاں امکانات کا یہی تصور طویل نظم خضر راہ میں بھرپور اظہار حاصل کر لیتا ہے۔ شاعر خضر سے متنوع سوالوں کا جواب چاہتا ہے۔ اور اس کے سوال زندگی کے اسرار سے شروع ہوتے ہیں۔ اور حال کے انقلابات کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ ان سوالات کا تنوع اس امر کا شاہد ہے کہ اب شاعر نے ایک ہمہ گیر تخلیقی نقطہ نگاہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ جس میں خود آگاہی اور تاریخ شناسی ایک ایسے حیاتی نقطہ نظر کا جزو لازم بن جاتے ہیں جس کی روسے حیات ہر لمحہ ایک ابھی نا آفریدہ عالم کی تخلیق پر انسانی ارادے کو اکساتی ہے ۔ غالب نے جس عندلیب گلشن نا آفریدہ کی تمنا کی تھی اور بالآخر اپنے آ پ کو ایک ایسا وجود فرض کر لیا تھا۔ اقبال کی نظر میں اس کی آفرینش انسانی ارادے سے باہر نہیں ۔ شاعر اپنی عصری دنیا سے بلند ہو کر اور اپنے ماضی کے قید خانے سے آزاد ہو کر مستقبل کا ادراک کرتا ہے۔ جس میں نامعلوم امکانات صرف خوابیدہ نہیں ہیں بلکہ جاگ پڑنے کے لیے انسانی ارادے کو للکارتے ہیں زمانے کے بہائو کا تعمیری تخلیقی پہلو شاعرانہ ادراک پر عیاں ہو جاتا ہے۔۲؎ ۱؎ گوئٹے ماخوذ از Wisdom and Expence Selections by Lud Wig Curtius London P 139 ۲؎ اسی بات کو اقبال نے خواجہ غلام السیدین کے نام ایک خط میں ا س طرح بیان کیا تھا زمانہ ایک بڑی ہی برکت و نعمت ہے۔ (لا تسبو الدھر ان الدھر ہو اللہ) اگر ایک طرف موت اور تباہی لاتا ہے تو دوسری طرف وقت ہی آبادی و شادابی کا منبع ہے۔ یہی اشیاء کے پوشیدہ امکانات کو بروئے کار لاتاہے۔ حالات حاضرہ میں تغیر کا امکان ہی انسان کی سب سیبڑی دولت اورساکھ ہے ۔ اقبالنامہ صفحہ ۳۱۶ لیکن زمانے کا یہ تخلیقی تعمیری پہلو خود سے کارفرما نہیں ہوتا۔ یعنی زمانہ خالق نہیں ہے اقبال نے زمانے کو کبھی بھی اور کسی مقام پر بھی کسی خالق کا رتبہ عطا نہیں کیا اگر کائنات کی تکمیل مشیت الٰہی کی تابع ہے یعنی خودی مطلق کی تو انسانی عالم کی تدریجی ترقی اور فلاح کی ذمہ داری انسانی شخصیت پر جو آزاد ارادے کی مالک ہے۔ عاید ہوتی ہے۔ اس طرح فلسفیانہ سطح پر خودی اور زمانہ مربوط ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس فلسفیانہ موقف سے دوئی لازم نہیں آتی۔ کیونکہ وجودی طور پر خودی مطلق انسان اپنا آزاد وجود نہیں رکھتی۔ اور دوسرے یہ کہ خودی یقینا زمانے پر وجودی اعتبار سے اولیت یا تقد م کی حامل ہے خودی یا شخصیت ہی زمانے کے تخلیقی پہلو کے اظہار کا وسیلہ یا ضامن ہے۔ اقبال نے یقینا یہ سبق قرآن حکیم سے حاصل کیا جس کی رو سے ان اللہ لا یغیر ما بقول حتیٰ یغیر و اما بانفسھم اسرار خودی اسی فلسفیانہ موقف کا شعری اظہار ہے۔ اب وہ اپنے اس مشنیا نصب العین سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ جس کی آہٹ اس نے بہت پہلے سن لی تھی۔ اس نظم کی زمانی تشکیل بڑی معنویت رکھتی ہے۔ نظم کے آغاز پر شاعر محسوس کرتا ہے کہ اس کا اپنے ہمعصروں سے کوئی ربط نہیں اور وہ اصلاً مستقبل کی آواز ہے: نغمہ ام از زخمہ بے پرواستم من نوائے شاعر فرداستم عصر من دانندہ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست نا امید استم زیاران قدیم طور من سوز و کہ می آید کلیم قلزم یاراں چو شبنم بے خروش شبنم من مثل یم طوفاں بدوش نغمہ من از جہانے دیگر است ایں جرس را کاروانے دیگر است لیکن یہ مستقبل عدم محض سے وجود میں آنے والا نہیں بلکہ ایک ایسے ماضی کی دریافت پر اس کی تخلیق منحصر ہے جس کا رشتہ وقت کی رفتا ر سے ٹوٹ گیاتھا اور چونکہ یہ ربط ٹوٹ چکا تھا اس لیے اگر ایک طرف ماضی منجمد ہو گیا تو دوسری طرف ایک ایسا حرکت پذیر حال اس سے ابھر نہ سکا جو ایک نئے مستقبل جو جنم دے سکتا۔ اس نظم میں اقبال کی فکری کوشش یہ ہے کہ ماضی حال اورمستقبل میں ایک تخلیقی ربط کو دریافت کر لیاجائے۔ اقبال نیطشے کی طرح عدمیت پسند (nihilist) نہیں ہے جس کے لے مستقبل کی تخلیق ماضی کی کامل نفی اور ابطال میں پنہاں ہے ۔ استعبادی یا نقیضی (Pavadoxical)زبان میں یوں بھی کہا جا سکتاہے کہ ایسے مستقبل کی تخلیق منجمد ماضی کو اس طرح حرکت دینے یا متحرک کرنے میں پنہاں ہے کہ صدیوں یا قرنوں کا زمانی فرق ہے زمانے کی ایک تخلیقی جست میں طے پا جائے۔ زمانے کی یہ تخلیقی جست دراصل فعال شخصیت یا تخلیقی خودی کی ایک جست ہے۔ فعال شخصیت اور خودی اقبال کی لغت میں مرادف الفاظ ہیں۔ زمانی اعتبار سے خودی ماضی حال اور مستقبل کا احاطہ کرتی ہے۔ اگر ماضی اس کے حاصل کردہ کمالات کا نام ہے تو مستقبل ان امکانات کا جو ان کمالات میں پنہاں ہیں۔ حال دراصل فعلیت ہے جو ان دو زمانی پہلوئوں کو ایک دوسرے سے مربوط کرتی ہے۔ یعنی حال زمانہ تنائو یا Time Tension کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی لیے جہاں ا س کا تعین مشکل ہے وہیں اس کے ادراک پر زمانی ادراک کا دارومدار ہے۔ زندہ اور ارادی وجود جو اپنی وجودی ماہیت میں محدود (Finite)ہے اسی زمانی تنائو سے عبارت ہے۔ تخلیق ارادہ اسی حال کی توسیع میں مصروف رہتا ہے۔ اس طرح کہ یہ ماضی اور مستقبل دونوں پر قدرت حاصل کر سکے ‘ جہاں وجود لا محدود اپنی ماہیت میں اس قدرت کا حامل ہے اور اسی لیے ابدیت کا سرور رکھتا ہے وہیں وجود لامحدود اس قدرت کو حاصل کرنے کی جہد کرتاہے۔ یہ اس کا مجاہد ہ ہے۔ یہ تلوار کی دھار ہے اور حضرت علی ہجویری کی زبان میں ایک دو رکو دور سے جدا کرتاہے۔ جہاں الوقت یف قاطع کہا جاتا ہے۔ وہاں وقت سے مراد لمحہ حال ہے جو صوفیہ کی زبان میں یکے از احوال ہے۔ ایک اعتبار سے حال تسلسل ہے اور صحیح معنوں میں دوران جو زمانے کی ماہیت ہے چونکہ فعال خودی زمانے کے تینوں ادوار کا احاطہ کرتی ہے۔ اسی لیے یہ دوران میں بسر کرتی ہے۔ دوران اعتباری طور پر ابدیت ہے خود ی مطلق کاروان ابد مطلق اور خودی انسان کا دوران بد اضافی ۔ یہی دوران دہر ہے جو فلاسفہ قدیم کی اصطلاح میں صور کو واقعات یا محسوسات سے مربوط کرتا ہے۔ یعنی امکانات اور واقعات کو یا استعدادات اور حاصل شدہ کمالات کو عالم مادی اپنے امکانات سے باخبر نہیں ہوتا۔ اسی لیے اس کی تقدیر علی رشتوں سے جدانہیںرہتی۔ لیکن عالم بشریت کی یہ استعداد ہے کہ وہ اپنے امکانات سے آگاہ ہو جائے اسی یے اس کی تقدیر علی رشتوں سے ماورا ہو سکتی ہے۔ وہ صاحب تقدیر ہے عالم مادی پر زمانہ سوار ہوتا ہے اور انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ زمانے کا راکب بن جائے زمانے کا راکب بننا ہی زمانے کو شکست دینا ہے۔ اقبال نے اسی امر کو مختلف موقعوں پر مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ ان نظموں میں بھی جہاں بظاہر زمانے کی قدرت اور طاقت کا گمان ہوتا ہے نوائے وقت کا پیام بھی یہی ہے۔ در من نگری ہیچم در خود نگری جانم یا از موج بلند تو سر بر زدہ طوفانم ۱؎ وقت کو طوفان خودی کے سمندر سے ابھرتا ہے۔ خودی اس پر قابو نہ پا سکے تو یہ بتا ہی کا پیامبر ہے ورنہ یہ امکانات کے اظہار کا وسیلہ ۔ ترقی پذیر انسانیت ہمیشہ راکب تقدیر رہی ہے۔ راکب تقدیر ہی بندہ حر ہے۔ اسرار خودی کی معرکہ آراء اور الجھن میں ڈال دینے والی منزل ہے وہ جہاں اقبال کی تکمیل خودی کی منزل مستقبل کے انسان یا ایک نئی انسانی نوع کو قرار دیتا ہے۔ اسی منزل پر وقت کا مسئلہ بھی مرکزی اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ نظم کے آغاز پر ہی اقبا ل نے اعلان کیا تھا کہ ارتقاء کی اگلی منزل اعلیٰ تر خودی کا عروج ہے۔ وسعت ایام جولانگاہ او آسماں موجے ز گرد راہ او ۱؎ ؎ اس نظم کی اہمیت اور اس کا آہنگ اس امر کا متقاضی ہے کہ اس پر تفصیلی بحث کی جائے۔ دراصل یہ نظم یا وقت کی ماہیت پر تعمق اورتامل کا نتیجہ ہے۔ وقت مظہر جلال بھی اور مظہر جمال بھی ہے اور نوائے وقت ان دونوں لمحات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس پر تعمق شان کبریائی کو روشن کرتا ہے۔ بھگوت گیتا باب یاز دہم میں سری کرشن کہتے ہیں کہ میں وقت ہوں۔ دنیاپر بربادی لانے والا مجھے طاقت ملی ہے کہ میں دنیا کو تہہ و بالا کر دوں تیرے بغیر یعنی ارجن کے بغیر اورتیرے عمل کے بغیر بھی تیرے مقابل کے شہسوار نذر عدم ہو سکتے ہیں۔ (گیارھیوں فصل شلوک ۳۲) یہ مستقبلی انسان جو نیابت الٰہی کا بوجھ سنبھالنے والاہے راکب تقدیر ہے۔ یہ سوار شہب و وراں ہے جس کا انسانیت بے تابی سے انتظارکر رہی ہے۔ کیونکہ یہی فروغ دیدہ امکاں بھی ہے۔ یہ زمانے میں رہتے ہوئے زمانے پر فتح حاصل کرتا ہے جس کا مطلب عام کائناتی وقت سے آزادی اور دوران خالص کا سرور ہے۔ کائناتی وقت برگسوں اور اقبال دونوں کے نزدیک مکانی ہے اور اسی لیے اقبال آگاہ کرتاہے کہ اصلی وقت یادوراں کو خط سے ممتاز کیا جائے جہاں دوران خالص کا سرور مرد حر کا امتیاز ہے وہیں مکانی زماں کی قید عہد یا محکوم کی نشانی ہے۔ یہ وہی نکتہ ہے جس پر برگسوں نے اپنی کتاب وقت اور آزاد ارادہ میں ذور دیا تھا۔ لیکن فرق یہ ہے کہ برگسوں کے برخلاف اقبال کا یہ بنیادی محرک ہے۔ مرد حر پیغمبرانہ صفات کا حامل ہے اورموسیٰ و محمدؐ کی روایات کا علم بردار ہے۔ اقبال کا یہ محرک کہ نوع انسانی زندہ خدائے حی القیوم سے اسی طرھ آگاہ ہو جائے جس انداز سے موسیٰ ؑ و محمدؐ نے یہ شرف حاصل کیا تھا۔ نمایاں ہوجاتا ہے اوربرگسوں کے خالص سیکولر نقطہ نظر سے اقبال کا راستہ مختلف ہو جاتاہے ۔ وہ جو دوران خالص کے سرور سے آگاہ نہیں اس کے نصیب میں سرچشمہ حیات ابدی کا سرور بھی نہیں۔ وہی اس سرور سے سرشار ہو سکتا ہے جو لی مع اللہ وقت کہنے کی قدرت رکھتا ہے اسی لیے جو روز و شب کا اسیر ہے وہ اس رمز لی رمز اللہ وقت سے بھی آگاہی حاصل نہیں کر سکتا۔ اسرار کے انگریزی مترجم نکلسن نے ایک اہ سوا ل اٹھایا ہے کہ آیا پیغمبر علیہ السلا م کایہ تجربہ(لی معی اللہ وقت) لازمانیت کا تجربہ تھا ۱؎۔ ااس اہ روحانی تجربہ کو اقبال زمان و لازماں کے قدیم تضادات کی زبان میں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ لا زماں محض زبان کی نفی ہے جس سے کسی عال کی ہمیں خبرنہیں ملتی۔ اصلی سوال یہ ہے کہ اس عالم کی سیر زمانے سے کس اندا ز سے باہر ہوتی ہے اگر زمانے سے مراد دوش و فردا کا وقت اورامتیاز ہے تو یقینا ی سیر زمانے سے باہر ہے لیکن اگریہ سیر اس حال میں ہوئی ہے جس کی طرف پچھلے صفحات میں اشارہ کیا گیاہے تو پھر زمان و لازماں کی تضادی اصطلاحوں کا اس تجربہ پر اطلاق نہیں ہوتا۔ اقبال کے نقطہ نظر سے نفس انسانی کائناتیوقت کے سلسلے سے آزادہوکر دوران خالص کا سرور حاصل کرتاہے اور اس شعور سے مستفیض ہوتاہے۔ جس کی خصوصیت اقبال کے نزدیک زماں بغیر تواتر یا تغیر بغیر تواتر ہے ۲؎۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبا ل کے اس مقام پر آزادی کا ایک مابعد الطبیعیاتی روحانی معیار مقرر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور آزادی اور اسیری یا محکومیت کے عمرانی مفاہیم بھی اسی مابعد الطبیعیاتی روحانی معیار سے متعین ہوتے ہیں یہی اسرار و رموز کا اندرونی ربط بھی ہے۔ وہ جس نے اپنے روحانی تجربے میں دوران خالص یا تغیر بغیر تواتر کا سرور حاصل کیا۔ اس نے پہلے اور بعدکے کائناتی وقت سے آزادی حاصل کی اور صحیح معنوں میںبندہ حر بنا۔ یہی دنہ حر زندگی کی دوسری سطحوں میں بھی آزادی کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ سیاسی آزادی اور روحانی آزادی وہ غیر متعلق امور نہیںہیں بلکہ ان میں اندرونی ربط ہے یہاں بھی اقبال بیسویں صدی کی خالص سیکولر فکر سے اپنا راستہ الگ کر لیتا ہے۔ مرد حر زمان حقیقی اور کائناتی وقت میں امتیاز پید اکرتا ہے۔ آزاد عمل جدید دے جدید تر کی تخلیق کا نام ہے (دمبدم نو آفرینی کار حر) جو عبد کے بس کی بات نہیں کیونکہ وہ اسیر ایام ہے ۱؎ اسرار انگریزی ترجمہ نکلسن فٹ نوٹ ص ۲۶ ۲؎ خطبات‘ تیسرا خطبہ لیکن یہاں اس نکتہ سے آگاہی ہی ضروری ہے کہ زمان حقیقی کا شعور دوسرے الفاظ میں شکست زماں پر قدرت کا نتیجہ ہے جہاں زماں سے مراد محض کائناتی وقت ہے۔ اسی حقیقت کو جسے جواب شکوہ میں خطیبانہ اندازمیں بیان کیا گیا تھا۔ اسی کا اظہار یہاں زیادہ گہرے فلسفیانہ اندازمیںکیا گیا ہے۔ تاریخ روایتی معنی میں محض تقدیر ہے جس میں تاریخ کے کردار مکاں سے مقید زماں میں اسیر رہتے ہیں اور تاریخ تقدیر کی تشکیل ہے اگر یہی کردار زمان حقیقی یادوراں سے سرور سے آگاہ ہو جائیں ۔ بات بظاہر مابعد الطبیعیاتی نظر آت ہے لیکن ذرا گہری نظر سے دیکھین تو اس میں ایک اہم حقیقت پوشیدہ ہے سوئی ہوئی قومیں اور افراد عالم مادی اشیاء کی طرح علل ومعلول کے رشتے میں اسیر رہتے ہیں جن پر انکو قابو نہیںرہتا لیکن حقیقی عالم انسان میں رہنے والے جہاں اس علل و معلول کے ربط سے کلیتہً آزاد نہیں ہوتے وہیں ان کا آاد ارادہ خود سلسلہ علل میں ایک علت بن جاتا ہے اور اس طرح علل کے اس سلسلے کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ یہاں تک تو اقبال اور نیطشے متفق ہیں لیکن اقبال ارادے کی آزادی محض پر قانع نہیں وہ اس بات پر بھی مصر ہے کہ یہ آزاد و ارادہ اس دوران خالص کے سرور سے بھی مستفیض ہو جس سے آزادی مطلق عبارت ہے جو خودی مطلق کے لیے مخصوص ہے۔ یہاں اقبال نے دراصل مذہبی روحانی تجربے کی ماہیت یااس کے متن کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے یعنی دوسرے لفظوں میں اعلیٰ ترین روحانی تجربہ محض سلبی انداز میں لازمی نہیںہے بلکہ زمان و لازماں سے بلن دوران خالص یا تغیر بغیر تواترکی سیر ہے دوران خاصل صرف ایک ذات کی کیفیت ہو سکتی ہے۔ اسی لیے اس کا سرور بھی دوسرے اعتبار سے ذات کے تجربے کا سرور ہے۔ فان الدھر ہو اللہ پر استغراق نے اقبال کو زروانیت کی جانب نہیں بھٹکایا بلکہ اس کی اعلیٰ ترین تجربے کی طرف اس کی رہنمائی کی جو تمام عارفوں کا منتہائے نظر رہا ہے۔ لی مع اللہ وقت کی تکرار اسرا ر کو جاوید نامے سے مربوط کرتی ہے جہاں لی مع اللہ کا تجربہ زروان کے لیے ایک چیلنج بن جاتاہے۔ جاوید نامہ میںزروان ایک وجود کی حیثیت سے داخل نہیںہوتا بلکہ اس زماں بستہ و مکاں بستہ عالم کے رمز کے طور پر استعمال ہواہے جہاں جبر کی حکمرانی ہے اور وقت مکاں کی طرح ایک رکاوٹ ہے ۔ اسی عالم فطرت میں جو زمانی مکانی ہے علت کے قانون کی حکمرانی ہے۔ اور انسان دوسری مخلوقات کی طرح غیر شخصی قوانین فطرت کے تحت عمل کرنے پر مجبور ہے۔ یہیں وقت کا جبر نمایاں ہوتا ہے اور وقت ایک قہر بن کر بھی نازل ہوتاہے۔ زرتشتی رمز میں زروان اسی کائناتی وقت کی روح یا اس کا فرشتہ ہے اور اسی لیے کا کا کلام وجود کی اسی سطح پر معنویت رکھتا ہے جہاں زمان و مکاں سے وابستہ ہے اور مادی کائنات کا چوتھا بعد ہے۔ یہ عالم جبر ہے جہاں پیدائش اور نمود دونوں قانون جبر کے تابع ہیں۔ لیکن شعور کی ایسی منزلیںبھی ممکن ہیں جہاں زماں و مکاںسے آزادی حاصل کرتا ہے اور بالآخر مکاں سے اس کا رشتہ ٹوٹ جاتاہے۔ لی مع اللہ وقت کا وقت شعور کی وہ اعلیٰ ترینمنزل ہے جو صرف اس بعدکے لیے مخصوص ہے جو ماں سے کامل طور پر رشتہ توڑ سکتا ہے۔ اور اسی لیے ملائکہ مقربین بھ اس فیض سے محروم رہتے ہیں۔ یہاں وقت کی بجائے مکاں یا محل رکھ دیجیے اور تبد لازم آئے گا۔ اس لمحہ غیر زمانی میں جس میں اس حدیث کا وقت عبارت ہے۔ زرواں کے پر کٹ جاتے ہیں اور اسی لیے زروان کہتا ہے: لی مع اللہ ہر کرا در دل نشست آں جواں مردے طلسم من شکست گر تو خواہی من نباشم درمیاں لی مع اللہ باز خواں از عین جاں یہ منزل تقدیرپر آخری فتح کی منزل ہے۔ اوریہی تقدیر پر فتح اقبال کے نزدیک زروان نو اور یہ زروان نو شرط ہے شعور کے اس انقلاب کے لیے جو انسانی زیست کا منتہا ہے اورذات محمدؐ کا اعلیٰ ترین تجربہ۔ یہ نمو کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ جہاں نزد و دور بے معنی ہو جاتے ہیں اور ابد و زماں کا فرق اضافی ہو جاتاہے۔ کیونکہ ابد زماں کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ طلسم زماں کی شکست میں زماں کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ اقبال کے شاعرانہ وجدان کی یہ منزل اسلام کے عارفانہ حکیمانہ ادب میں ایک منفرد مقام ہے عرفان حقیقت کے اس پہلو پر پچھلے ادب میں بڑے بلیغ اشارے تو مل جاتے ہیں لیکن اتنا جری اظہار کسی نے نہیںکیا تھا۔ اقبال کے اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کہ اس نے اس وجدان کو عالم بشریت کی ہر سطح سے مربوط کرنے کی کوشش کی بحث کی اس منزل پر الجھن میں ڈال دینے والے اس مقام پر غور ضروری ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اقبال کے عرفان وقت کے اس مختصر جائزے کو اطمینان بخش بنانے کے لیے اس الجھن پر مختصر ہی سہی لیکن بحث ضروری ہے۔ اقبال کی شاعرانہ فکر کا جہاں ایک جذبہ یہ ہے کہ انسان حقیقت کا عرفان حاصل کرے وہیں دوسرا اور مساوی حد تک طاقت ور جذبہ یہ ہے کہ نوع انسان زندہ کردار کی حیچیت سے تاریخ کے عمل میں حصہ لے۔ اس نے اپنی فکر میں ان دونوں جذبات کو ہم آہنگ کرنے کی بڑی طاقت ور کوشش بھی کی۔ مشرقی فکر کی تاریخ میںشاید یہ پہلی کوشش تھی۔ مغربی فکر میں یہ دونوں جذبات ملتے ہیں۔ لیکن ان میں تنائو زیادہ ار ہم آہنگی کم نظر آتی ہے۔ مشرقی فکر نے اگر انسانی زیست کے عمودی بعد پر زیادہ توجہ دی تو مغربی فکر نے اور خصوصاً روشن خیالی کے دور میں افقی بعد کو اپن توجہ کا مرکز بنایا ۱؎۔ہیگل نے عظیم الشان انداز میں ان دونوں ابعاد کو اپنے عالمی نقطہ نظر (Weltan Schavung)میں سمونے پر توجہ دی او ر ایک پر عظمت فکری تعمیر کا نمونہ پیش کیا۔ خود فکری کی سطح پر یہ کام ایک عظیم مہم سے کم نہیں لیکن شاعری کے میڈیم مین جہاں جذبہ اور تخیل عقل پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مہم کئی خطرات میں گھر جاتی ہے۔ اقبال نے اسی مہم کو انجام دینا چاہا۔ محمد عربیؐ کی شاندار شخصیت اس کے پیش نظر تھی۔ جنہوں نے ان دونوں ابعاد کواپنی ارضی زیست کے دوران ہم آہنگ کر یلا تھا۔ سیرت نبویؐ کے اسی رخ نے اقبال کے قلب میں ایک عشق رسولؐ کی آگ بھڑکائی اور نتیجتہً خود عشق کے تصور نے ایک نیا مفہوم حاصل کر لیا۔ اقبال کا عشق وہ انقلاب آفریں جذبہ ہے جو حیات محمدیؐ کا طاقتور ترین محرک تھا۔ اقبا ل کی یہ جراتمندانہ ہے کہ وہ اس جذبہ محمدیؐ کو نوع انسان کی میراث بنانے کے لیے بیتاب ہے اور یہی وہ جذبہ ہے جو اسے پیر رومیؒ سے قریب کرتا ہے اور پیچ و تاب رازی کو اس کے یے اجنبی بنا دیتا ہے۔ حالانکہ وہ خود پیچ و تاب کا شاہد رہا ہے۔ اسرار خودی کا ایک اہم شعری جزو اسی جذبہ بیتاب کو متشکل کرنے کی ایک جرات مندانہ کوشش ہے۔ انسا ن کب راکب تقدیر بنے گا۔ یہ سوال اقبال کے لیے محض نظریاتی نہیں بلکہ عملی اہمیت رکھتاہے کیونکہ اسی سوال کے جواب میں اس ملت کے مستقبل کاانحصار ہے جس سے اقبال نے اپنے آ پ کو جذباتی اور ذہنی دونوں سطحوں پرا یک کر لیا تھا۔ جذبہ بے تاب کی بنا پر شاہد اس کے قلب و دماغ میں یہ اندیشہ لرز رہا تھا کہ اس تاریخی ملت نے اپنے جوش حیات (Elan)کو کھو دیا ہے ۱؎ اس موضوع پر راقم الحروف نے اپنے مضمون تقدیر اور شخصیت (اسلام اور عصر جدید دہلی جلد ۴ ۱۹۷۲ئ) میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ اور اس نصب العین کی تکمیل کے لیے جو اس سوال میں پنہاںہے ایک نئی نوع درکار ہے۔ جس نئی نو ع کا اس نے بے چینی سے خواب دیکھا۔ اس کے خدوخال وہی ہیں جو ان لوگوں کے تھے جنہوں نے پیغام محمدؐ کو روئے ارض پر پھیلا دیا تھا۔ اس کا ذہن ارتقاء کے نظریے سے سرشار تھا۔ ار اس نے سوچا کہ ارتقائی عمل جو جدید سے جدید تر کی جانب رواں ہے ایک ایسی نوع انسانی کو پیش کردے گا جو نیابت الٰہی کا فرض انجام دے گی۔ نیطشے کے تخیل نے یقینا اس کو متاثر کیا لیکن اس کا خواب دوسرا ہی تھا۔ وہ شکست زماںکے معجزے کو عصری تاریخ میں کارفرما دیکھنا چاہتا تھا۔ اس طرح کہ تاریخ کے سارے کردار رہنما اور رہرو زمانے کے راکب بن جائیں۔ زیست کے افقی اور عمودی ابعاد فرد کی زدنگی میں تو ایک دوسرے کو چھوتے رہے ہیں لیکن اقبال ی آرزو تھی کہ ایک پوری نع یا ملت ایسی ہو جوان دو ابعاد کے نقطہ اتصال کی زندہ نشانی بن جائے۔ یہ ایک شاعرانہ تصور یا ایک یوٹوپیا تھا۔ اور اقبال کی فلسفیانہ فکر نے بہت جلد اس راز کو پالیا۔ اس نے علانیہ طور پر تو اس کا اظہار نہیںکیا تھا کہ یہ خواب حقیقت نہیں بنے گا۔ لیکن رموز بے خودی کی تصنیف اس امر کا اعتراف تھی کہ اسی تاریخی ملت کو اپنے نصب العین کا محور بنانا ہے۔ اور اسی کے جوش حیات کو ابھارنا ہے۔ اسی لیے رموز کے لہجے میں وہ سرجوشی اور امنگ نہیں جو اسرار کا امتیاز ہے۔ لیکن اسی دوران اس کے نصب العین انسان نے ایک دوسرا پیکر اختیار کر لیا اور اقبال مرد مومن کا شاعر بن گیا۔ شکست زماں اور راکب تقدیر کے نصب العین برقرار رہے اہم فرق یہ ہواکہ اس کی نظر ارتقاء کے حیاتیاتی قانون سے پلٹ گئی اور انفرادی ترقی کا روحانی اصول اس کا راہنما بن گیا۔ اقبال نے فوق الانسان کا خواب تونہیںدیکھا تھا۔ لیکن اس کے مستقبلی انان پر فوق الانسان کا خواب گہرا سا یہ ضرور تھا۔ اقبال کے شعور پر مرد مومن کا عروج اس اہم حقیقت کے عرفان کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ نوع نہیںبلکہ فرد ہی تاریخ میںاعتبار یا استناد حاصل کر سکتا ہے اور وہی سارے آفاق کو اپنے اندر سمو سکتا ہے۔ اسرار خودی کا اقبال شاعر ہے جو عارف بننے کے لیے بے چین ہے لیکن جاویدنامہ بال جبریل‘ زبور عجم‘ اور لالہ طور کا اقبال عارف ہے۔ شعر جس کے عرفان کا اظہار ہے۔ مرد مومن عرفان ذات سے طاقت اور جبروت حاصل کرتا ہے اور زمان و مکان پر کمندآور ہوتا ہے۔ اوریہی مرد مومن اپنے عشق کی طاقت سے سیل وقت کو روک لیتا ہے اور اپنے عمل سے دوام حاصل کرتا ہے۔ یہی مرد مومن اپنے خون جگر سے ان معجزہ ہائے ہنر کی تخلیق کرتاہے جو محدود وسیلہ ہائے اظہار پر جن میںمکاں بھی شامل ہے عشق کی مہر ثبت کرتے اور فنا کے ہنگامے میں دوام کی سند حاصل کرلیتے ہیں۔ اسرار خودی میںمستقبلی انسان کی تمنا نے جو الجھن پیدا کی تھی روحانی سطح پر اگر جاوید نامہ ا س کا حل ہے تو فنی سطح پر مسجد قرطبہ خمکدہ نمود میںشرط دوام اور ہے ۔ کا اظہار اس طرح اقبال زمان زمان اور شوکت زمان دونوں کا احاطہ کر لیتا ہے۔ ٭٭٭ اقبال کا مطالعہ ڈاکٹر محمد اجمل اقبال کے متعلق میرے ذہن میں چند یادیں ہیں۔ سب سے پہلی یاد اس وقت کی ہے جب میںکوئی چھ سات سال کا تھا۔ کہ میرے ماموں زاد بھائی عبدالراشد چشتی مرحوم مجھے اسلامیہ کالج کے ایک جلسے میںلے گئے جس میںعلامہ اقبال نے انگریزی میں ایک لمبی تقریر کی خدا جانے کیا موضوع تھا ارو نہ میں تقریر کا ایک لفظ سمجھا۔ لیکن یہ مجھے یاد ہے کہ مبہوت ہو کر ان کی تقریر سنتا رہا۔ وہ ایک بڑے اچھے سوٹ میں ملبوس تھے۔ اور ان کی تقریر میں ٹھہرائو اور تفکرکا انداز تھا۔ مطلب سمجھ میں نہیں آیا لیکن شخصیت سے میں بہت متاثر ہوا۔ اس کے بعد علامہ نے جب پنجاب اسمبلی کا انتخاب لڑا تو اس سلسلے میں جو جلسے جلوس ہوا کرتے تھے۔ ان میںغالباً شرکت بھیکی لیکن ان کی کامیابی کے موقعے پر جو جلسہ بارود خانے میں ہوا وہ مجھے یاد ہے۔ علامہ ہاروں میں لدے پھندے تقریر کر رہے تھے۔ ور میں صرف اس بات پر خوش تھا کہ علامہ جیت گئے۔ مقابلے کے دوران اکثر میں حیران ہوتا تھا کہ کوئی شخص ایسا بھی ہو سکتا ہے جو علامہ کی مخالفت کرے۔ اوراعلانیہ ان کا مرد مقابل بن جائے۔ میرے بھائی راشد مرحوم مجھے سمجھاتے کہ یہ برادریوں کا معاملہ ہے۔ لیکن ان کی یہ بات میری سمجھ میں بالکل نہیں آئی۔ اس کے بعد گاہے بگاہے علامہ کو میکلوڈ روڈ کے گھر میں دور سے دیکھتا تھا۔ وہ بستر پر بیٹھے حقہ پی رہے ہوتے۔ ان سے ملنے کی خواہش تو بہت تھی لیکن جرات کی کمی تھی بس یونہی جھلک دیکھ کر میںگھر لوٹ آتا۔ اپریل ۱۹۳۸ء میں جب علامہ کا انتقال ہواتو میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کے دوسرے سال میں تھا۔ ہم فلسفے کے شعبے میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے کہ اتنے میں ہمارے استاد جی سی چیٹر جی بہت پریشانی کے عالم میں آتے ہوئے دکھائی دیے اور ہمیں یہ خبر سنائی کہ علامہ اقبال اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ بہت صدمہ ہوا اور ایک ذاتی محرومی کا احسا س بھی کہ میں ان کی زندگی میںان سے نہ مل سکا۔ علامہ کے انتقال کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں مجلس اقبال قائم ہوئی۔ استاد مکرم صوفی غلام مصطفی تبسم اس کے نگران مقرر کیے گئے۔ صوفی صاحب نے حکم دیا کہ میں اقبال پر ایک مقالہ لکھوں۔ اس حکم سے پہلے میں نے اقبال کی چند نظمیں اور غزلیں پڑھ رکھی تھیں۔ گرمی کی چھٹیاں ہوئیں تو میں نے اقبال کی کتابوں کا باقاعدگی سے مطالعہ شروع کیا۔ پہلے تو مثنویاں اسرار خودی‘ رموز بے خودی ‘ جاوید نامہ پڑھیں پھر پیام مشرق اور زبور عجم اور ساتھ ہی ان کے لیکچرز بھی پڑھ ڈالے۔ اقبال کے شعری مجموعے میں نے سارے گنگنا کر پڑھے۔ جب میں اسرار خودی پڑھ رہاتھا تو ایک شعرپر خاصی وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ ایک شدید سرور ایک گہرا کیف دل و دماغ پر چھا گیا شعر یہ تھا: گر خدا داری ز غم آزاد شو از خیال بیش و کم آزاد شو میں نے اس شعر کو بار بار پڑھا اور ہر مرتبہ اس کے نئے معانی آشکار ہوئے میں نے فیصلہ کیا کہ میں اسی موضوع پر مقالہ لکھوں گا۔ چنانچہ میںنے Iqbal's Conception of Godکے عنوان سے ایک مقالہ لکھااور گرمی کی چھٹیوںکے بعد مجلس اقبال کے زیر اہتمام ایک تقریب میں پڑھا۔ اس اجلاس کی صدارت استاذ المکرم قاضی محمد اسلم نے کی اور اس میں فیض صاحب نے بھی شرکت کی۔ مجلس اقبال کی تقاریب میں فیض صاحب امرتسر سے بالاتزام تشریف لایا کرتے تھے۔ بہت گرما گرم بحث رہی۔ بحث خودی اور خدا کے تعلق کے بارے میں تھی۔ وحدت الوجود کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ علامہ نے اپنے لیکچرز میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ حضرت بایزید بسطامیؒ سے ان کے ایک مراید نے کہا پہلے خدا تھا اور کچھ نہیں تھا حضر ت بایزید نے جواباً کہا اب بھی خدا ہی ہے اور کچھ نہیں حضرت بایزیدؒ کے جواب کی تشریح پر بحث ہوتی رہی۔ اس کے بعد بہت مدت تک میری دل چسپی جاوید نامہ سے رہی ژنگ کے زیر اثر میں نے علامہ کے کلام میں علامتوں کا سراغ لگانا شروع کیا۔ سب سے زیادہ دلچسپی مجھے شاہین کے تصور سے تھی۔ شاہیں بحیثیت ایک علامت کے اور یہاں علامت سے مرادمحض یہ نہیں کہ شاہین چند صفات کی نمائندگی کرتا ہے۔ انسان کی فطرت میں علامت سازی ودیعت کی گئی ہے۔ یہ علامتیں جہاں کچھ صفات کی نمائندگی بھی کرتی ہے وہاں وہ ایک قوت کے تغیر کی ذمہ دار بھی ہے۔ علامت ایک وسیلہ ہے جو سفلی قوت کو روحانی قوت میں تبدیل کرتاہے۔ علامت کے تجربے کے بغیر تصعید یا Sublimationناممکن ہے یہ تصور فرائڈ کے تصور سے مختلف ہے۔ فرائد یہ سمجھتا ہے کہ تصعید خود بخود آ جاتی ہے اور ارادی طورپر بالکل نہیں ہو سکتی۔ ارادی طور پر صرف Displacementہو سکتی ہے۔ یعنی جب کسی کی کوئی جبلی آرزوپوری نہیںہوتی تو وہ اسی آرزو کی تسکین کی خاطر کوئی تخلیقی کام کر ڈالے۔ محبت میں مایوسی سے اگر کوئی شخص اس لیے نظم لکھے کہ اس کا اثر محبوب پر پڑے گا تو یہDisplacementہو گی تصعید نہیں ہو تی۔ تصعید تو ایک سرچشمے کو کہتے ہیں۔ جو ہر حالت میں جاری رہے ساکن بھی ہے ار رواں بھی۔ دنیوی تجربات اس پر اثر انداز تو ہوتے ہیں۔ لیکن وہ ان تجربوں کو اپنے سانچوںمیں ڈھالتا ہے اوراپنے نقطہ نظر پر ثابت قدمی سے جم کر ایک نئی دنیا کو بے نقاب کرتاہے۔ علامہ اقبال کا کلام بھی جا بجا علامتوں سے مزین اورمرصع ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ ان کی علامتیں سفلی قوتوں کو روحانی قوتوں میں تبدیل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ان کے تجربے سے شخصیت کی بہت سی خوابیدہ قوتیں بیدار ہوتی ہیں۔ اگر کسی شخص کے خوابوںمیں یا تخیل میں شاہین کا تصوربار بار آئے اور وہ اس تصور پر غورکرے یا کسی تخلیقی عمل میںڈھال دے تو اس میں شاہینی صفات ابھرنے لگیں گی۔ ان کی آبیاری کرنا پھر اس کا اپنا کام ہے۔ اور وہ دنیا میں بھی اپنی رفتار درست رکھے گا۔ بقول مولانا رومؒ: ہر کہ بر افلاک رفتارش بود بر زمیں رفتن چہ وشوارش بود اور: بندہ باش و بر زمیں رو چوں سمند چوں جنازہ نے کہ بر گردن برند اسی طرح ’’سمند‘‘ بھی ایک علامت ہے۔ علامت کا تجربہ کرنے سے یہ مراد ہے کہ ہر علامت کے سیاق و سباق پر غور کر کے اسے سیاق و سباق سے علیحدہ دیکھاجائے مجرد علامت پر غورو فکر کیاجائے اور جو مماثل خیال میں آئیں۔ انہیں اس علامت کے گرد یکجا کیا جائے خیالات اور تصورات کا یہ ایک مرکب بن جاتا ہے وہ تصورات ذاتی ہوں یا اسطوری سب ایک ہی مرکز کے گرد کواکب کی طرح گھومنے لگیں گے۔ اس کو کبے پر غور کرکے اس علامت کو دوبارہ سیاق و سباق کے ساتھ دیکھیے تو نظم کے معانی میں نئے پہلو نظر آئیں گے اور نئے افق روشن ہوں گے۔ یہ عمل Amplificationیعنی پھیلائو کا نتیجہ ہے۔ پھیلائو کے بعد پھر علامت کو سمیٹ کر ایک سمجھ کر ادراک کرنا ایک محض شعری تجربہ نہیںرہ جاتا۔ بلکہ ایک روحانی تجربہ بن جاتا ہے۔ روحانی سطح پر سمت کا ایک بسطی پہلو ہوتا ہے۔ اور ایک قبضی پہلو ہوتا ہے بعض صوفیانہ سلسلو ں میںمریدوںکو جو او ر بتائے جاتے ہیں ۔ اس میں ابتدا استغفار کے ورد سے ہوتی ہے۔ استغفار ایک قبض کی حالت ہے جس میں نفس تو امہ فعال ہوتا ہے۔ اس کے بعد درود شریف پڑھتے ہیں یعنی رو ح کے کواڑ کھل جاتے ہیں اور وہ رحمت کی طلب کرتی ہے یعنی بسط کی طر ف مائل ہوتی ہے۔ اقبال کے اشعار کو روحانی تجربہ بنانے کے لیے یہ ضرورت ہے کہ اس کی علامتوں پر تدبر و تصور کر کے اپنی شخصیت کا جزو بنانے کی کوشش کی جائے۔ اسی طرح علامہ کے ہاں مکالمے کی صنف ہاوی ہے۔ ان کے مکالموں کو سرسری طورپر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ لیکن انہیں اپنی ذاتی ترتیب کے لیے اپنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان مکالموں کے ہر کردار کے ساتھ علیحدہ علیحدہ اپنی ذات کو ہم آہنگ کر کے پھر اپنی شخصیت کے دونوں حصوں کے درمیان مکالمہ کیاجائے تو شخصیت میں زیادہ رونق اور ہما ہمی اور بالآخر سکون پیداہو گا۔ اس مختصر تشریح کے بعد میں پھر شاین کی طرف لوٹتا ہوں اقبال نے اس کے متعلق اپنے خط میں لکھا ہے: شاہین کی تشبیہہ محض شاعرانہ تشبیہہ نہیںہے۔ اس جانور میںاسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ۱۔ خودداراور غیر ت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیںکھاتا۔ ۲۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ ۳۔ بلند پرواز ہے۔ ۴۔ خلوت نشین ہے۔ ۵۔ تیز نگاہ ہے۔ ان کی ایک نظم ’’شاہین ‘‘ ہے اس میں انہوںنے اس علامت کی یوں شرح کی ہے: کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا یہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ بیاباںکی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو ازل سے ہے فطرت میری راہبانہ نہ باد بہاری نہ گلچیں نہ بلبل نہ بیماری نغمہ عاشقانہ خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری جواں مرد کی ضربت غازیانہ حمام و کبوتر کا بھوکا نہیںمیں کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ چھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہیں بناتا نہیںآشیانہ اس نظم کی شرح میں ایک اور علامت بھی نظر آتی ہے۔ اور وہ ہے آشیانہ ۔ آشیانہ شاہین گھر نہیں بناتا۔ یعنی اس کی زندگی مستقل سفر ہے۔ اور یہاں سفر روحانی سفر کی علامت ہے۔ پنشیں و سفر کن درویش روحانی منزلیں طے کرتا ہے۔ لیکن روحانی منزلیں طے کرنے کے لیے ضرورت ہے کہ علامتوں پر تدبر کیاجائے ۔ شاہین صرف آشیانہ ہی نہیں بناتا بلکہ ایک جلالی کیفیت لیے ہوئے ہے نہ باد بہاری‘ نہ گلچیں نہ بلبل‘ بہت ہی زاہدانہ صفات اس میں یکجا ہو گئی ہیں۔ یہ شخصیت کا ایک پہلو ہے۔ اس کے احاطے میں جمالی پہلو نظر نہیں آتا۔ اوروہ پہلو بھی نہیں آتا۔ جو درویش کو بیاباں سے اٹھ کر خیاباں کے رہنے والوں میں روحانی قوت اور تندی پیدا کرنے پر مائل کرتا ہے۔ ہر علامت اپنا ایک کوکبہ Constellationبناتی ہے۔ اس کو کبے پر غور و فکر کرنے سے اس علامت کی توانائی شخصیت میں رچ بس جاتی ہے۔ اسی طرح مکالموں میں بھی ہم کلام ہونے والے کردار د و علامتیں ہیںجو حقیقی مکالمے کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں۔ اور حقیقی مکالمہ خداسے ہوتا ہے۔ اقبال اپنے لیکچرز میں اس حقیقی مکالمے کی نوعیت پر اظہار خیال کرتے ہیں: ہمیں یہ کیونکر معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں دوسرے اذہان بھی ہیں۔ ہم پروفیسر روئس سے اتفاق کر کے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم دوسرے انسانوں کی حقیقت کو یوں تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ہمارے اشاروں کاجواب دیتے ہیں اور اس طرح اپنے ادھورے معانی کو تکمیل دیتے ہیں۔ جواب دینا ہی ثبوت ہے ایک باشعور خودی کی حقیقت کا۔ اور اسی طرح خدا سے بھی مکالمہ ہو سکتا ہے۔ اور قرآن مجید نے بھی یہی کہا ہے کہ : وقال ربکم ادعونی استجب لکم (المومن ۶۰) واذا سالک عبادی عنی فانی قریب (البقرہ ۱۸۶) ٭٭٭ اقبال کی موعودہ تصانیف رفیع الدین ہاشمی علامہ اقبال نے ۱۸۹۹ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کیا حسن اتفاق سے معاً بعدان کے مشفق استاد پروفیسر آرنلڈ نے اورئنٹل کالج لاہور کے قائم مقام پرنسپل کا عہدہ سنبھالا۔ یہ اپریل ۱۸۹۹ء کا واقعہ ہے۔ اس کے چند روز بعد ۱۱مئی کو آرنلڈ کے ہونہار اورعزیز شاگرد شیخ محمد اقبال اسی کالج میں میکلوڈ عریبک ریڈر مقرر ہوئے۔ حصول تعلیم کے بعد یہ ان کی تدریسی زندگی کا آغاز تھا۔ اورئینٹل کالج میں میکلوڈ عریبک ریڈر کے فرائض منصبی میںیہ بات بھی شامل تھی کہ وہ طلبہ کو درس دینے کے علاوہ کالج کی مطبوعات کا اہتمام و انصرام کرے… مزید برآں حسب صلاحیت مختلف علوم و فنون سے متعلق کتابوں کی تالیف و ترجمے کا کام بھی انجام دے اقبال نے اسی منصبی تقاضے کے تحت علم الاقتصاد مرتب کی جو ۱۹۰۳ء میں شائع ہوئی۔ یہ ان کی اولیں تصنیف تھی اور ان کی زندگی میں شائع ہونے والی ان کی واحد نثری کتاب بھی۔ علم الاقتصاد کی اشاعت (۱۹۰۳ء ) سے اقبال کی وفات (۱۹۳۸ئ) تک ۳۵ برسوں میں ان کی دس کتابیں شائع ہوئیں۔ یہ تمام شعری مجموعے ہیں۔ ۱۹۳۸ء کے بعد مختلف اہل قلم نے اقبال کے ذخیرہ نظم و نثر ( باقیات شعر‘ مقالات ومضامین‘ تقاریر و بیانات‘ ملفوظات و فرمودات‘ انگریزی نوٹ بک اور متفرقات) کے دو درجن سے زائد مجموعے مرتب کر کے شائع کیے ہیں۔ اقبالیاتی ادب میں اقبال کے افکار و خیالات پر مشتمل ان موجود و مطبوعہ کتب کے علاوہ ان کی بعض ایسی تصانیف کا ذکر بھی ملتا ہے جن کی ترتیب و تالیف بعض خاص مقاصد کے تحت ان کے پیش نظر تھی مگر: بسے گفتنہیا کہ ناگفتہ ماند کے مصداق یہ کتابیں بوجوہ اقبال کے ذہن سے صفحہ قرطاس پر منتقل نہ ہو سکیں۔ اوریوں وجود میں آنے سے بیشتر ہی معدوم ہو گئیںَ۔ذخیرہ تصنیفات اقبال میں انکی موعودہ (اور معدوم) تالیفات خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ اقبال کی شخصیت کو سمجھنے اور ان کے فلسفہ و فکر کے تمام گوشوں تک رسائی کے لیے ان کی موعودہ تالیفات کا مطالعہ ناگزیر ہے… یہی مطالعہ زیر نظر معروضات کا موضوع ہے۔ مقدمۃ القرآن قرآن حکیم فکر اقبال کی اساس ہے۔ علامہ اقبال بہت ابتداہی سے قرآن حکیم سے عشق کی حد تک گہرا ذہنی اور قلبی تعلق رکھتے تھے۔ تلاوت قرآن سے انہیں خصوصی شغف تھا اور متعدد روایات کے مطابق وہ اس ذوق و شوق اور حضور قلب کے ساتھ تلاوت فرماتے آنکھوں سے بے اختیار آنسو امڈ آتے اور ان پر رقت طاری ہو جاتی۔ آخری زمانے میں گلے کی خرابی کی وجہ سے تلاوت کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا: در نفس سوز جگر نے ماند لطف قرآن سحر نے ماند یہ تعلق محض تلاوت تک محدود نہ تھا وہ عربی زبان کی باریکیوں سے بخوبی واقف تھے۔ اور انہوںنے دقت نظر سے قرآن حکیم کا مطالعہ کیا تھا مولانا گرامی کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہے کہ اس نے قرآن حکیم کا یہ مخفی علم مجھ کو عطا کیا ہے۔ میںنے پندرہ سال تک قرآن پڑھا ہے اور بعض آیات و سورتوں پر مہینوں بلکہ برسوں غور کیا ہے‘‘ ۱؎ قرآن حکیم پر علامہ کی دقیق نظر کا ثبوت وہ مباحث قرآنی ہیں جو ان کے ملفوظات و فرمودات میںملتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو محمد حسین عرشی کا مضمون ’’علامہ اقبال کی صحبت میں ‘‘ … مشمولہ ملفوظات اقبال ص ۳۳۔ ۵۶) ان کے نزدیک قرآن حکیم کائنات کے ہر مسئلے اور زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے حتیٰ کہ: ’’جہاں تک سیاسی مسائل کا تعلق ہے میںآ پ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ میرے پاس کوئی پرائیویٹ سیکرٹری ہے جو میرے لیے ضروری مواد فراہم کرے نہ میرے پاس سیاسی لٹریچر کا کوئی پلندہ ہے جس پرمیں اپنی بحثوں کی اساس قائم کر دوں بلکہ میرے پاس حق و صداقت کی ایک جامع کتاب(قرآن حکیم) ہے جس کی روشنی میں مسلمانوں کے حقوق کی ترجمانی کرنے کی کوشش کروں گا… لہٰذا میں نوجوانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ قرآن پاک کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ کو پیش نظر رکھیں اور اگر ان کو زندہ رہنا ہے تو وہ ان قربانیوں کے لیے تیار رہیں جو ہمیشہ سے زیادہ ان کو آئندہ دینی ہوں گی‘‘۔ ۲؎ قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار ٭٭٭ کر تو مے خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن قرآن حکیم کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآنی مباحث و تعلیمات پر تفہیم قرآن کی خاطر وہ اپنے نقطہ نظر سے کچھ لکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے برسوں کے غور و فکر کے نتائج سے امت مسلمہ بھی مستفیض ہو سکے۔ ۱؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی‘ مرتبہ محمد عبداللہ قریشی کراچی ۱۹۶۹ء ص ۱۲۵ ۲؎ گفتار اقبال مرتبہ محمد رفیق افضل لاہور ۱۹۶۹ء ص ۱۳۶ قرآن حکیم کے بارے میں کچھ لکھنے کا ارادہ بہت ابتدا ہی سے اقبال کے ذہن میں تھا۔ مگر کسر نفسی کے سبب وہ اسے بروئے کار لانے سے گریزاں رہے۔ عجز فہم کے احساس نے ایک عرصے تک انہیں گومگو اورتذبذب میں مبتلا رکھا۔ ایک طرف علمی اور ملی تقاضے کچھ لکھنے پر آمادہ کرتے ہیں لیکن کسر نفسی اورکم علمی روک لیتی ہے۔ اس ذہنی کش مکش کا اظہار مکاتیب میں کئی جگہ ملتا ہے۔ یکم جولائی ۱۹۱۷ء : ’’میں نے پندرہ سال تک قرآن پڑھا ہے بلکہ بعض آیات اور سورتوں پر مہنوں بلکہ برسوں غور کیا ہے …مگر مضمون بڑا نازک ہے اور اس کا لکھنا آسان نہیں ہے۔ بہرحال میں نے یہ قصدکر لیاہے کہ ایک دفعہ اس کو لکھ ڈالوں گا‘‘ ۳؎ ۱۹ نومبر ۱۹۲۹ئ: ’’ میں گزشتہ بیش برس سے قرآن کا بغور مطالعہ کر تا ہوں ہر روز تلاوت کرتا ہوں مگر ابھی یہ نہیں کہہ سکتاکہ اس کے کچھ حصوں کو سمجھ گیا ہوں۔ اگر خدا نے توفیق او ر فرصت دی تو ایک دن کامل تاریخ اس بات کی قلم بند کروں گا کہ دنیائے جدیدہ اس مطمح حیات سے کس طرح ترقی کرتی ہوئی بنی ہے جو قرآن شریف نے ظاہر کیا ہے ‘‘ ۴؎۔ قرآن حکیم پر اپنی مجوزہ کتاب کو انہوںنے مقدمۃ القرآن کانام دیا انگریزی میں اس کے لیے اقبال نے تین مختلف نام استعمال کیے ہیں: 1. An Introduction to the study of Quran. 2. Aids to the study of Quran. 3. An Interpretation of the Holy Quran in the light of Modern Philosophy. جوں جوں وقت گزرتا گیا مقدمتہ القرآن لکھنے کے لیے ان کی خواہش بڑھتی گئی۔ علامہ کی شدید آرزو کا جو بے چینی کی شکل اکتیار کرتی نظر آتی ہے۔ اندازہ ذیل کے چند اقتباسات سے بخوبی لگایا جا سکے گا: ۲۲ جولائی ۱۹۳۰ء اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال نے نہایت دردمندی سے میرا علاج کرایا ہے۔ اس کے علاوہ جب ان کو سر راس مسعود سے معلوم ہوا کہ میں ایک کتاب مقدمتہ القرآن لکھنا چاہتا ہوں۔ ۳؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی ص ۱۲۵۔ ۴؎ گفتار اقبال ص ۱۰۴۔۱۰۵۔ ۵؎ ملفوظات اقبال ص ۲۲۶ ۶؎ عبدالمجید سالک ذکر اقبال ‘ لاہور (۱۹۵۵ئ) ص ۲۱۲ ۷؎ اقبال بھوپال میں از عبدالقوی دسنوی بھوپال ۱۹۶۷ء ص ۱۴ تو اس ارادے کی تکمیل کے لیے انہوںنے تاحیات پانچ سو روپے ماہوار کی لٹریری پنشن عطا فرمائی ۔ آپ کو شاید اس کا علم اخباروں سے ہو گیا ہو گا۔ اب ذرا صحت اچھی ہولے تو انشاء اللہ اس کتاب کو لکھنا شروع کروںگا…کچھ مدت کے لیے مقدمتہ القرآن کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دوں گا۔ باقی اب زندگی میں کوئی دلچسپی مجھ کو نہیں رہی‘‘۔ (مکتوب بنام ڈاکٹر تاثیر ) ۸؎ ۱۸ اکتوبر ۱۹۳۴ء : ’’میں اپنے دل میں ا س بات کی بڑی شدت سے خواہش رکھتا ہوں کہ قرآن حکیم پر اپنے خیالات تفصیل کے ساتھ ایک کتاب میں ظاہر کروں… میں نے اپنے خیالات کا اظہار بڑی تفصیل سے اپنے اشعار میں کر دیا ہے لیکن ابھی میرے دل میں اس سے بھی ایک بڑی چیز ہے جو قرآن حکیم کی شرح کی صورت میں ظاہر کرنے کی آرزو رکھتا ہوں‘‘۔ (خواجہ عبدالوحید سے گفتگو ) ۹؎ ۲۶ اپریل ۱۹۳۵ء : ’’… اور اس طرھ میرے لیے ممکن ہو سکتا ہے کہ میں قرآن کریم پر عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے وہ نوٹ تیار کر لیتا جو عرصہ سے میرے زیر غور ہیں لیکن اب تو نہ معلوم کیوں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میرا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اگر مجھے حیات مستعار کی بقیہ گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر آ جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ قرآن حکیم کے ا ن نوٹوں سے بہتر میں کوئی پیشکش مسلمانان عالم کو نہیں کر سکتا‘‘۔ (مکتوب بنام سر راس مسعود ) ۱۰؎ ۲۳ مئی ۱۹۳۵ئ: ذرا صحت اچھی ہو لے تو لکھنا شروع کر دوں گا۔ چاہتا ہوں کہ کوئی لکھاپڑھا وسیع النظر اور صحیح المشرب فاضل دیو بند میسر آ جائے۔ مجھے حوالہ جات تلاش کر کے دیتا رہے اور لکھتا رہے۔ انگریزی سے واقف ہو تو نہایت ہی اچھی بات ہے میں تنخواہ دینے کو تیار ہوں ایک بار کتاب شروع کی تو انشاء اللہ اسلام کے بارے میں یورپ کی تمام Theories کو توڑ پھوڑ کے رکھ دو ں گا۔ ارادہ ہے کہ قانون کیی تمام کتب بیچ کر فقہ حدیث اور تفاسیر خرید کروں گا۔ (عبدالرشید طارق سے گفتگو ) ۱۱؎ ۸؎ انوار اقبال مرتبہ بشیراحمد ڈار کراچی ۱۹۶۷ء ص ۲۰۵۔۲۰۶ ۹؎ اقبال ریویو۔ کراچی ‘ جنوری ۱۹۶۹ء ص ۵۲ ۱۰؎ اقبال نامہ حصہ اول‘ مرتبہ شیخ عطاء اللہ لاہور (۱۹۴۵ء ) ص ۳۵۷۔۳۵۸۔ ۱۱؎ ملفوظٓت اقبال ص ۲۲۶۔۲۲۷ ۳۰ مئی ۱۹۳۵ئ: چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن کریم کے متعلق اپنے افکار قلم بند کر دوں جو تھوڑی سی ہمت و طاقت مجھ میں باقی ہے۔ اسے اسی خدمت کے لیے وقف کر دینا چاہتا ہوں تاکہ قیامت کے دن آپ کے جد امجد حضور نبی کریمؐ کی زیارت مجھے اس اطیمنان کی خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی جو حضور نے ہم تک پہنچایا کوئی خدمت بجا لا سکا۔ (مکتوب بنام سر راس مسعود ۱۲؎) ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ طویل علالت کے دوران بھی (جس کا آغاز اوائل ۱۹۳۴ء میں ہوا) مقدمتہ القرآن لکھنے کی آرزو اقبال کے دل میں کروٹیں لے رہی تھی۔ مگر انہیں یہ بھی خدشہ تھا کہ مسلسل علالت اتنی مہلت نہیں دے گی افسوس کہ ان کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا حیات مستعار کا وقفہ ختم ہوا اور موعودہ تصنیف کا خیال عمل کی شکل اختیار نہ کر سکا۔ مقدمتہ القرآن کے سلسل میں اقبال کے عزیز دوست سید نذیر نیازی لکھتے ہیں: ’’اس سلسلے میںان کی دو ایک تحریریں ضرور دستیاب ہوئیں… ایک تحریر تو فقہ اسلامی کی بحث میں بعض قرآنی مصطلحات مذکور ہیں دوسری تحریر صرف چند ایک قرآنی مصطلحات پر مشتمل ہے لیکن ان دونوں تحریروں کی حیثیت حواشی کی نہیں حضرت علامہ نے ان تحریروں میں کوئی جملہ بھی رقم نہیں فرمایا۔ صرف چند الفاظ مستفسرانہ انداز میں لکھتے ہیں جس سے کچھ مترشح نہیں ہوتا۔ تو یہی ہے کہ انہوں ے اپنی یادداشت کے لیے چند باتیں بطور اشارت لکھ لی تھیں رہا یہ امر کہ وہ ان باتوں کی تشریح اور تفصیل کس انداز اور کس نہج پر کرتے ہیں اس کافیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۱۳؎۔ بلاشبہ علامہ کے طریق تفسیر کے بارے میں متعین طو رپر ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن انہوں نے اپنی تحریروں میں اور گفتگوئوں کے بارے میں جستہ جستہ جو اطہار خیال کیا ہے اس سے چند امور بہت واضح ہیں: ۱۔ مقدمتہ القرآن لکھنے سے علامہ کی بنیادی غایت خدمت دین تھی ۔ مقصد یہ تھا کہ اس خدمت کے ذریعے وہ روز محشر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور سرخرو ہو سکیںَ ۲۔ موعودہ تصنیف کے ذریعے مسلمہ امت کو قرآن رموز و نکات سے آگاہ کیا جائے تاکہ مسلمانان عالم اس کی روشنی میں اپنے سیاسی او ر معاشی مسائل کو حل کر سکیں۔ ۳۔ مقدمتہ القرآن کے ذریعے یورپ کے ان بے بنیاد اور متعصبانہ اعتراضات کا دندان شکن جواب دیا جائے جو یورپی مستشرقین وقتاً فوقتاً اسلام اورقرآن پر کرتے رہتے ہیں اس طرح اسلام کے بارے میں یورپ کی Theoriesکو توڑ پھوڑ کر مسلمانوں کو مغرب کی ذہنی مرعوبیت سے آزاد کیا جائے۔ ۱۲؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۳۶۱۔۳۶۲ ۱۳؎ مکتوبات اقبال مرتبہ سید نذیر نیازی کراچی ۱۹۵۷ء ص ۳۴۴۔۳۴۵ ۴۔ تفسیر قرآن میں وسعت نظری اور صحیح المشربی سے کام لیا جائے تاکہ اس تنگ نظری ذہنی جمود اورتعصب کا خاتمہ ہو جس نے مسلمانوں کے اندر مختلف فرقوں کی شکل اختیار کر کے ملت کے جسد اجتماعی میں زہر گھول دیا ہے۔ اگر وہ اپنی ان موعودہ تصنیف کی تالیف میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بلاشبہ عصر حاضر میں اقبال جیسے فلسفی اور مفکر کا یہ ایک عظیم کارنامہ ہوتا۔ فقہ کی اسلامی تاریخ ’’آج اسلام کی سب سے بڑی ضرورت فقہ کی جدید تدوین ہے جس میں زندگی کے ان سینکڑوں ہزاروں مسائل کا صحیح اسلامی حل پیش کیا گیا ہے جن کو دنیا کے موجودہ قومی اور بین الاقوامی سیاسی معاشی اورسماجی احوال و ظروف نے پیدا کر دیا ہے‘‘۔ ۱۴؎ علامہ اقبال کے یہ الفاظ ان کی اس کتاب کے پس من؟ظر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو ان کے موعودہ تالیفی منصوبوں میں دوسر ا اہم منصوبہ تھا۔ فقہ کی تدوین جدید اجتہاد کے بغیر ممکن نہیں۔ علامہ کو بخوبی احسا س تھا کہ مغربی علوم و افکار کے روز افزوں اثرات کے پیش نظر مسلم معاشرے کو اجتہاد کی اشد ضرورت ہے۔ مجموعہ خطبات The Reconstruction of Religious Thought in Islamمیںچھٹا خطبہ الاتجہاد فی الاسلام کے موضوع پر ہے۔ مزید برآں یہ بات معنی خیز ہے کہ اردو شعر و ادب کی تاریخ میں اقبال کی شاعری بھی ایک اجتہاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ اقبال کی شاعری کی روح کیاہے؟ تو اس کا جواب ہو گا اجتہاد فکر و عمل … وہ اپنی شاعری میں جمود کے خلاف حرکت اور اس سے بھی آگے بڑھ کر انقلاب کے پر جوش داعی نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں اجتہاد پر یہ زور مسلمان علماء کے اندر صدیوں کے فقہی جمود کے خلاف ایک رد عمل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس رد عمل کا ایک مثبت پہلو اقبال کا یہ احساس ہے کہ عصر حاضر کی مقتضیات و مسائل کی روشنی میں اسلامی فقہ کی از سر نو ترتیب و تشکیل کی ضرورت ہے۔ (یہ ایک لحاظ سے اسلامی فقہ کی مفصل تاریخ بھی ہو گی) ۔ اس کا اظہار مکاتیب میں کئی جگہ ملتا ہے۔ ۲ ستمبر ۱۹۲۵ء : ’’میرا عقیدہ یہ ہے ہک جو شخص اس وقت قرآنی نقطہ نگاہ سے زمانہ حال کے اصول قانون Jurisprudencwپر ایک تنقیدی نظر ڈال کر احکام قرآیہ کی ابدیت ثابت کرتے گا وہی اسلام کا مجدد ہوگا اوربنی نو ع انسان کا سب سے بڑا خادم وہی شخص ہو گا ‘‘ ۱۵؎ (مکتوب بنام صوفی تبسم) ۱۸ مارچ ۱۹۲۶ئ: اس وقت سخت ضرورت اس بات کی ہے کہ فقہ اسلامی کی ایک مفصل تاریخ لکھی جائے ‘‘ ۱۶ (مکتوب بنام سید سلیمان ندوی) ۱۴؎ علامہ اققبال روایت مولانا احمد اکبر آبادی حیات نور دیو بند ۱۹۵۵ء ص ۱۶۵ ۱۵؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۵۰ ۱۶؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۱۴۲ ابتدا میں اس کام کا آغاز اقبا ل نے خود ہی کر دیا۔ مہاراجہ کشن پرشاد کے نام ۱۵ اپریل ۱۹۱۷ ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’فقہ اسلام میں اس وقت ایک مفصل کتاب بزبان انگریزی زیر تصنیف ہے جس کے لیے میں نے مصر و شام سے مسالہ جمع کیا ہے جو انشاء اللہ بشرط زندگی شائع ہو گی او ر مجھے یقین ہے کہ اپنے فن میں ایک بے نظیر کتاب ہو گی ۔ میرا ارادہ ہے کہ اس کتاب کو تفصیلی مسائل کے اعتبار سے ایسا بنائں کہ امام نسفی کی مبسوط ہے جو ساٹھ جلدوں میں لکھی گئی‘‘ ۱۷؎ لیکن یہ زیر تحریر مقالہ عرصہ دراز تک تشنہ تکمیل ہی پڑا رہا۔ ۱۳ اگست ۱۹۲۴ء کو محمد سعید الدین جعفری کے نام لکھتے ہیں: ’’میں ایک مفصل مضمون انگریزی لکھ رہاہوں جس کا عنوان ہے: The Idea of Ijtihad in the Law of Islam امید ہے آپ اسے پڑھ کر خوش ہوں گے ۱۸؎۔ ایک اور خط میں اقبال نے متذکرہ بالا مقالے یا کتاب کا نام Islam As I Understandتجویز کیا ہے۱۹؎۔مگر کچھ یوں اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنی علمی کاوش کے بارے میں شرح ص نہ تھا کہ اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکیں گے لکھتے ہیں: ۲ ستمبر ۱۹۲۵ئ’’کچھ مدت ہوئی میں نے اجتہاد پر ایک مضمون لکھا تھا مگر دوران تحریر میں اس کا احساس ہوا کہ یہ مضمون اس قدر آسان نہیںجیسے کہ میں نے اسے ابتدا میں تصور کیا ھتا۔ موجودہ صورت میں وہ مضمون اس قابل نہیں کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں کیونکہ بہت سی باتیں جن کو مفصل لکھنے کی ضرورت ہے۔ اس مضمون میں نہایت مختصر طور پر اشارۃ بیان کی گئی ہیںَ یہی وجہ ہے کہ میں نے آج تک شائع نہیں کیا‘‘۔ (مکتوب بنام صوفی تبسم) ۲۰؎ ۱۸ مارچ ۱۹۲۶ء : میں ایک رسالہ اجتہاد پر لکھا تھا مگر چونکہ میرا دل بعض امور کے متعلق خودمطمئن نہیں اس واسطے اس کو اب تک شائع نہیں کیا‘‘۔ (مکتوب بنام سید سلیمان ندوی ) ۲۱؎ اس عدم اطمینان کے سبب اقبال نے یہ نازک ذمہ داری کس روشن دماغ عالم کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا یہ کام غلامانہ اندازمیں نہیں بلکہ ناقدانہ انداز میں ۲۲؎ کرنے کا تھا ۔ اقبال کے نزدیک مولانا شبلی مرحوم اس کام کے لیے سب سے زیادہ موزوں شخص تھے مگر وہ انتقال کر چکے تھے۔ اب ان کی نظر دو عالموں پر پڑی ایک استاذ الکل مولانا سید سلیمان ندوی اور دوسرے دینائے اسلام کے جید ترین محدث سید انور شاہ کاشمیری۔ ۱۷؎ شاد اقبال مرتبہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور حیدر آباد دکن ص ۴۶ ۱۸؎ انوار اقبال ص ۲۸۵ ۱۹؎ اقبالنامہ حصہ اول ص ۴۷ ۲۰؎ ایضاً ص ۴۶۔۴۷ ۲۱؎ ایضاً ص ۱۴۳ ۲۲؎ ایضاً ص ۱۴۷ سب سے پہلے ۱۹۲۰ء اور پھر ۱۹۲۲ء میں اقبال نے کوشش کی کہ حضر ت سید انور شاہ کسی صورت میں لاہور چلے آئیں اوریہاں مستقلاً قیام کر کے اسلامی فقہ کی تدوین کا جدید بیڑا اٹھائیں مگر شاہ صاحب کے لاہور آنے کی کوئی صورت پیدا نہ ہو سکی۔ مایوس ہو کر مارچ ۱۹۲۲ء میں اقبال نے سید سلیمان ندوی کو لکھا: ’’موجودہ صورت میں سوائے آپ کے اس کام کو کون کرے گا… آپ سے درخواست ہے کہ اس کام کو مستقل طور پر اپنے ہاتھ میں لیجیے۔ ندوہ کے دیگر ارکان یا فارغ التحصیل طلبہ کو بھی اپنے ساتھ ملائیے تاکہ اقوام اسلام کو فقہ اسلامی کی اصل حقیقت معلوم ہو ‘‘ ۲۳؎ غالباً مولانا سلیمان ندوی کا جواب کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہ تھا۔ اقبال کی درخواست کے باوجود سید سلیمان ندوی اپنے دیگر علمی مشاغل میں مصروفیت کے سبب اس کام کو شروع نہ کر سکے۔ ۱۹۲۶ء میں حسن اتفاق سے سید انور شاہ کاشمیری بعض اختلافات کی بنا پر دیو بند سے مستعفی ہو گئے تو علامہ کو اس بناپر خوشی ہوئی کہ شاید اب لاہور منتقل ہونے پر راضی ہو سکیں اس زمانے میں ایک موقع پر دوران گفتگو فرمایا: اسلام کے لیے جو کام میں شاہ صاحب سے لینا چاہتا ہوں اس کو سوائے شاہ صاحب کے کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا۔ ۲۴؎ اقبال کاخیا ل تھا کہ اس کام میں وہ سید انور شا ہ صاحب کی معاونت کریں گے فرمایا: ’’مجھ کو پورا یقین ہے کہ اس کام کو میں اور شاہ صاحب دونوں مل کر ہی کر سکتے ہیں… سب مسائل میں شاہ صاحب کے سامنے پیش کروں گا اور ان کا صحیح اسلامی حل کیا ہے؟ یہ شاہ صاحب بتلائیں گے۔ اس طرح ہم دونوں کے اشتراک و تعاون سے فقہ جدید کی تدوین عمل میں آجائے گی‘‘۔ ۲۵؎ لیکن اس بار بھی شاہ صاحب کو لاہور بلانے کی کوششیں ناکام رہیں ۱۹۳۳ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اور تدوین فقہ کا کام التوامیں پڑگیا۔ ۱۹۳۴ء میں اقبال کی آخری علالت کا آغازہواجو طویل تر ہوتی گئی۔ اس اثنا میں تدوین فقہ کا خیال برابر دامن گیر رہا مگرصحت کی خرابی کی وجہ سے اجازت نہ دی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا تصنیف موعودہ سے مایوس ہوتے گئے۔ وفات سے چند ماہ پہلے خواجہ غلام السیدین کو لکھا: ’’اسلامی اصول فقہ کے متعلق ایک کتاب لکھنے کا ارادہ تھا لیکن اب یہ امید موہوم معلوم ہوتی ہے ‘‘ ۲۶؎ ۲۳؎ اقبال نامہ حصہ اول صفحۃ ۱۴۳ ۲۴؎ روایت مولانا احمد سعید اکبر آبادی حیات انور دیو بند ۱۹۵۵ء ص ۱۶۵ ۲۵؎؎ ایضاً صفحہ ۱۶۵ ۲۶؎ اقبال نامہ حصہ اول صفحہ ۳۲۰ اگرچہ علامہ اقبال فقہ کے بارے میں موعودہ کتاب نہ لکھ سکے تاہم مکاتیب اور بعض دوسری تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مذکورہ تصنیف کا مقصدیہ تھا کہ : ۱۔ دور حاضر کی بین الاقوامی سیاسی ‘ معاشی‘ اورسماجی صورت حال کے سبب جو بے شمار مسائل پیدا ہوگئے ہیں ان کا صحیح اسلامی حل پیش کیا جائے۔ ۲۔ اسلامی اوقاف سے متعلق قانون اور اسلامی ثقافت زبان مساجد اور قانون شریعت سے متعلق کا حل تلاش کیا جائے۔ ۳؎ اسلامی قانون کی تدوین کے بعد اس کے نفاذ سے نہ صرف مسلمانوں کے معاشی مسائل بلکہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی پیش آمدہ امور و مشکلات سے عہدہ برا ہونے کی تدابیر سوچی جائیں۔ ۴۔ اس طرح ملت اسلامیہ تجدید و احیائے دین کے اس عظیم تر مقصد کی طرف قدم بڑھا سکے جس کے لیے مسلم معاشرے میں وقتاً فوقتاً مختلف اسلامی تحریکیں برپا ہوتی رہی ہیں۔ تصنیف موعودہ کے لیے اقبال کی فکر مندی کا اظہار ان کے خطبے The Principle of Movement in Structure of Islamالہ آباد کے خطبہ صدارت ۱۹۳۰ء اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لیے ان کی پیش کردہ سکیم سے ہوتا ہے جو انہوںنے صاحبزادہ آفتاب احمد خان کے نام ایک خط میں لکھی تھی ۲۷؎۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی مرحوم نے اقبال کے رسالہ اجتہاد کو اسلامی فقہ کی تدوین و تاریخ نامی مجوزہ اورموعودہ تصنیف سے الگ اقبال کی ایک مستقل اورغیر مطبوعہ تصنیف قرار دیا ہے۔ ۲۸؎۔ درحقیقت ’’رسالہ اجتہاد‘‘ اقبال کی ’’اسلامی فقہ کی تاریخ و تدوین‘‘ کا ایک حصہ تھا جو ناکافی اور نامکمہ ہونے کے سبب ان کے خیال میں قابل اشاعت نہ تھا…اسی طرح عبدالسلام ندوی نے اقبال کی بعض نامکمل اور زیر تجویز کتابیں کے عنوان کے تحت اسلامی اصول فقہ کی تجدید رسالہ اجتہاد اور Islam as i understoodکا ذکر تین علیحدہ کتابوں کی حیثیت سے کیا ہے ۲۹؎۔ درحقیقت یہ تین الگ کتابیںنہیں ایک ہی مستقل موعودہ کتاب کے مختلف نام ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا اقبا ل نے اس کتاب کا نام Islam as I Understood تجویز کیا تھا۔ اسی عنوان سے انہوںنے اس کتاب کا خاکہ بھی تیار کیا تھا جسے وفات سے کچھ رعصہ پہلے انہوں نے میاں محمد شفیع(م۔ش) کے حوالے کر دیا۔ یہ خاکہ (جو اب شائع ہو چکا ہے ) ۳۰؎ خاصا غیر واضح ہے۔ کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ اس کا تعلق مجوزہ مقدمتہ القرآن سے ہے یا تدوین فقہ سے… اس خاکے کو دونوں میں سے کسی ایک کتاب کی بنیاد بھی نہیں بنایا جا سکتا اور نہ اس کی بنیاد پر کوئی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ۲۷؎ اقبالنامہ حصہ دوم صفحہ ۲۱۲۔ ۲۲۵ ۲۸؎ اقبالیات کا تنقیدی جائزہ کراچی ۱۹۶۵ء ص ۲۵۔۲۶۔۲۸ ۲۹؎ اقبال کامل اعظم گڑھ۔ ۱۹۶۴ء ص ۱۰۷۔۱۰۹ ۳۰؎ Letters and writings of Iqbalمرتبہ بشیر احمد ڈار کراچی ۱۹۶۷ء ص ۸۶۔۹۵ غالباً اسی وجہ سے مقدمتہ القرآن اور تدوین فقہ ہر دو تالیفی منصوبوں کے بارے میں اقبال نے وقتاً فوقتاً جن خیالات کا اظہار کیا ہے پروفیسر رحیم بخش شاہین نے ان سب کو کتاب موعودہ کے زمرے میں شامل کر لیا ہے ۔ ۳۰؎ اگر علامہ ابال متذکرہ بالا موعودہ کتاب لکھ پاتے تو بلاشبہ یہ اسلامی لٹریچر میں ایک عظیم الشان اضافہ ہوتا اور دور حاضڑ میں اسلام کے قابل عمل Practicableہونے کے بارے میں معترضین کے اعتراضات کا مسکت جواب بھی۔ ٭٭٭ تاریخ تصوف اسرار خودی کی اشاعت ۱۹۱۵ء پرہندوستان کے اہل تصوف نے اقبال کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ مخالفت کی اس گرم بازاری میں ان کے قریبی دوست خواجہ حسن نظٓمی پیش پیش تھے۔ اقبال کو اپنے نقطہ نظر کی صراحت کے لیے بہت سی وضاحتیں کرنی پڑیں تاریخ تصوف کی مجوزہ تصنیف بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اسرار خودی کی اشاعت پر خواجہ حسن نظامی کے مخالفانہ مضامین خاص طور پر اقبال کے متعلق بہت سی غلط فہمیوں کا موجب بنے مثلاً یہ کہ اقبال صوفیائے کرام سے بدظن ہے تصوف کا مخالف ہے اور تحریک تصوف کو مٹا دینا چاہتا ہے۔ یہ الزامات اس تصنیف کے آغاز کے لیے فوری محرک ثابت ہوئے اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لیے اقبال نے تصوف کی تاریخ پر ایک مبسوط مضمون لکھنا شروع کیا جو بعد میں پھیل کر کتاب کی شکل اختیار کر گیا اس کتاب کی تالیف کا عزم صمیم اقبال کی اپنی تحریروں سے واضح ہے: ۱۵جنوری ۱۹۱۶ئ: ’’اگر وقت نے مساعدت کی تو میں تحریک تصوف کی ایک مفصل تاریخ لکھوں گا‘‘ انشاء اللہ (مضمون اسرار خودی اورتصوف ) ۳۱؎ ۲۷ جنوری ۱۹۱۶ئ: ’’علامہ ابن جوزی نے جو کچھ تصوف میں کیا ہے اس کو شائع کردینے کامقصد ہے کہ اس کے ساتھ تصوف کی تاریخ پر ایک مفصل دیباچہ لکھوں گا انشاء اللہ اس کا مصالحہ جمع کر لیا ہے‘‘۔ (مکتوب بنام اکبر الہ آبادی ) ۳۲؎ ۴ جنوری ۱۹۱۶ئ: میں تصوف ی تاری پر ایک مبسوط مضمو ن لکھ رہا ہوں جو ممکن ہے کہ کتاب بن جائے‘‘۔ (مکتوب بنام اکبر الہ آبادی ) ۳۳؎ فروری ۱۹۱۶ئ: ’’میں تصوف اسلامیہ کی تاریخپر ایک مفصل مضمون لکھ رہا ہوں جو عنقریب علامہ ابن جوزی کی کتاب تلبیس ابلیس کے اس حصہ کے ساتھ شائع ہو گا جو انہوںنے وحدت الوجود کے رو میں لکھا ہے‘‘۔ (مضمون اسرار خودی ) ۳۴؎ ۳۰؎ ملاحظہ ہو: اسلامی تعلیم : اقبال نمبر مارچ تا جون ۱۹۷۴ء ۳۱؎ مقالات اقبال مرتبہ سید عبدالواحد معینی لاہور ۱۹۶۳ء ص ۱۶۱ ۳۲؎ اقبال نامہ حصہ دوم ص ۵۰۔ ۳۳؎ ایضاً ص ۵۱۔۵۲ ۳۴؎ مقالات اقبال صفحہ ۱۷۱ ۱۳ فروری ۱۹۱۶: ’’تصوف کی تاریخ لکھ رہا ہوں۔ وہ باب لکھ چکا ہوں یعنی منصور حلاج تک پانچ چار باب اور ہوں گے ۔ اس کے ساتھ علامہ ابن جوزی کی کتاب کا وہ حصہ بھی شائع کر دوں گا جو انہوںنے تصوف پر لکھا ہے‘‘۔ (مکتوب بنام خان محمد نیاز الدین خان) ۳۵؎ ۱۹ مارچ ۱۹۱۶ئ: ’’یہ ضروری ہے کہ تصوف اسلامیہ کی ایک تاریخ لکھی جائے…میں اس پر کچھ لکھنا شروع کیا ہے مگر میری بساط کچھ نہیں۔ یہ کام اصل میں کسی اور کے بس کا ہے‘‘۔ ۳۶؎ (مکتوب بنام شاہ سلیمان پھلواری) گویا ابتدا میں تاریخ تصوف لکھنے کا عزم پختہ تھا اس سلسلے میں انہوںنے چند ابواب لکھے بھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باقی کام معرض التوامیں پڑ گیا۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس زمانے میں انہیں تصوف پر اپنے موقف کی وضاحت میں کئی مضامین لکھنے پڑتے۔ اسرار خودی کی اشاعت پر جو طوفان اٹھا تھا۔ ان مضامین کی اشاعت سے وہ کچھ تھم سا گیا چنانچہ اقبال کو اطمینان ہوا مگر تصوف پر کتاب کی تکمیل موخر ہوتی چلی گئی۔ حتی کہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء کو مولانا اسل جیراج پوری کو لکھا: ’’میں نے ایک تاریخ تصوف لکھنی شروع کی تھی مگر افسوس کہ مسالہ نہ مل سکا اور ایک دو باب لکھ کر رہ گیا ۳۷؎‘‘۔ اس طرح تین سال بعد اقبال ذہنی طور پر تاریخ تصوف کی تکمیل سے دستبردار ہو گئے: ان کا ارادہ تھا کہ موعودہ کتاب میں منصور حلاج کے رسالہ کتاب الطواسین کو بھی دیباچہ میں اسعمال کیا جائے۔ مذکورہ رسالہ مفید حواشی کے ساتھ فرانس میں شائع ہو چکا تھا اور علامہ نے اسے فرانس سے منگوا کر بھیجا تھا۔ ’’تاریخ تصوف‘‘ کے مقاصد تالیف اور کتاب کے مباحث کا نقشہ علامہ اقبال کے ذہن میں کچھ اس طرح تھا: ۱۔ موعودہ کتاب کا بینادی مقصد تصوف کی خیر خواہی تھا اقبال واضح کر دینا چاہتے تھے کہ لوگوں نے تصوف میں جو غیر اسلامی عناصر داخل کر دیے ہیں ان کے متعلق یہ بتایا جائے کہ اس تحریک میں غیر اسلامی عناصر کون کون سے ہیں …تاکہ مغربی محققین کے لیے تصوف کو غیر اسلامی قرار دینے کا جواز پیدانہ ہو سکے۔ ۲۔ اقبال کا اپناتعلق بھی سلسلہ قادریہ سے تھا مگر ان کے خیال میں سلاسل تصوف کی تاریخی تنقید بھی نہایت ضڑوری تھی کیونکہ سلاسل تصوف میں ایک گرد ایسا بھی ہے جس نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر بیعت لے کر دانستہ نادانستہ ایسے مسائل کی تعلیم دی ہے جو مذہب سے تعلق نہیں رکھتے اگر تاریخ تصوف لکھی جاتی تو ایک باب میں مذکورہ گروہ پر تنقید کر کے اسے باطل ثابت کیاجاتا۔ ۳۔ اقبال کے نزدیک تصوف کے بعض عقائد و مسائل ایسے ہیں جو قرآن حکیم کی روشنی میںقطعی غیر اسلامی ہیں۔ ان میں شیخ محی الدین ابن عربی کا مسئلہ قدم ارواح مثلاً وحدت الوجود یا مسئلہ تنزلات ستہ یا دیگر مسائل جن میں سے بعض کا ذکر عبدالکریم جیلی نے اپنی کتاب ۳۵؎ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں مرحوم لاہور (۱۹۵۴ء ) ص ۱۔۲ ۳۶؎ انوار اقبال ص ۱۸۱۔۱۸۲ ۳۷؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۵۴ انسان کامل میں کیا ہے۔ علامہ کے نزدیک ان تینوں مسائل کی تردید انتہائی ضروری تھی۔ کیونکہ ان کے نزدییک یہ مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ ۴۔ اقبال کے نزدیک مروجہ تصوف کے بعض مسائل اخلاقی اعتبار سے لمبی اوام اسلام کے لیے مضر ہیں۔ مسلمانوں کے انحطا ط اور امت مسلمہ کے قویٰ کو مضحمل کرنے میں تصوف کی ان غیراسلامی تعبیرات کو بڑ ا دخل ہے لہٰذا ملت اسلامیہ کی بقا استحکام اور اسکی اجتماعیت کے تحفظ کے لیے بھی تاریخ تصوف لکھنا ضروری ہے … اس اجمال کی کسی قدر تفصیل اقبال کے مندرجہ ذیل چار مضامین: ۱۔ اسرار خودی ’’وکیل‘‘ امرتسر ۱۵ جنوری ۱۹۱۶ء ۲۔ سراسراار خودی ’’وکیل‘‘ امرتسر ۹ فروری ۱۹۱۶ء ۳۔ علم ظاہر و علم باطن ’’وکیل‘‘ امرتسر ۲۸ جون ۱۹۱۶ء ۴۔ تصوف وجودیہ ’’وکیل‘‘ امرتسر ۱۲ دسمبر ۱۹۱۶ء میں دیکھی جا سکتی ہے جو انہوںنے اسرار خودی کی بحث کے سلسلے میں لکھے ۳۸؎۔ ایک اعتبار سے یہ مضامین ان کی موعودہ تصنیف تاریخ تصوف کا لب لباب ہیں۔ ٭٭٭ قلب و دماغ کی سرگزشت اقبال کی ذہنی نشوونما اورارتقا میں ان کا سہ سالہ قیام یورپ (۱۹۰۵ء ۔ ۱۹۰۸ئ) بہت اہمیت رکھتا ہے۔ وہ یور پ سے لوٹے تو ان کے خیالات میں ایک عظیم تغیر واقع ہو چکا تھا۔ مسئلہ قومیت کے بارے میں خصوصاً ان کے نظریات میں غیر معمولی تبدیلی آئی تھی۔ لکھتے ہیں: ’’اس زمانے میں سب سے بڑا دشمن اسلام اور اسلامیوں کا نسلی امتیاز و مملکی قومیت کا خیال ہے۔ پندرہ برس ہوئے جب میں نے پہلے پہل اس کا احسا س کیا۔ ا س وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں انقلاب عظیم برپا کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا۔ یہ ایک طویل داستان ہے کبھی فرصت ہوئی تو اپنے قلب کی تمام سرگزشت قلم بند کروں گا۔ جس کے لیے مجھے یقین ہے کہ بہت لوگوں کو فائدہ پہنچے گا‘‘ ۳۹؎ (مکتوب بنام وحید احمد) ذہنی انقلاب کی اس سرگزشت کو اقبال نے دل و دماغ کی سرگزشت کا نام بھی دیاہے اس سرگزشت کو لکھنے کا ارادہ بعض دوسرے خطوں میں بھی کیا ہے۔ سید سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں: ۳۸؎ نمبر ۱ نمبر ۲ اورنمبر ۴ ’’مقالات اقبال‘‘ (مرتبہ : سید عبدالواحد معینی) اور مضمون نمبر ۳ انوار اقبال (مرتبہ بشیر احمد ڈار) میں شامل ہے۔ ۳۹؎ انوار اقبال ص ۱۷۶ ’’میں اپنے دل و دماغ کی سرگزشت بھی مختصر طور پر لکھنا چاہتا ہوں۔ دریہ سرگشست کلام پر روشنی ڈالنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو خیالات اس وقت میرے کلام اور افکار کے متعلق لوگوں کے دلوں میں ہیں اس تحریر سے ان میں بہت انقلاب پیدا ہو گا ‘‘ ۴۰؎ وحید احمد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’خیالات کا تدریجی انقلاب البتہ سبق آموز ہو سکتا ہے۔ اگر کبھی فرصت ہو گئی تو لکھوں گا۔ فی الحال اس کا وجود محض عزائم کی فہرست میں ہے‘‘۔ ۴۱؎ اقبال کی شاعری میں ان کے ذہنی نشوونما اور فکر و خیال کے ارتقاء ی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ ان کی نوٹ بک Stray Reflectionsمیں بھی ان کے دل و دماغ کی مختلف کیفیات اور تغیرات سے متعلق متعدد شذرات موجود ہیں… اگر اقبال دل و دماغ کی سرگزشت لکھتے تو یہ نشوونما ور ارتقاء زیادہ واضح ہو جاتا اور ان کی شاعری کا سیاق و سبااق بہتر طور پر سمجھنے میں آسانی ہوتی۔ اس کے علاوہ اقبال جیسے عظیم مفکر فلسفی اور شاعر کی یہ خود نوشت ہمارے فکری اور سوانحی ادب میںقابل قدر اضافہ ہوتی۔ ٭٭٭ ایک فرموش شدہ پیغمبر کی کتاب ایک فراموش شدہ پیغمبر کی کتاب کے متعلق سید نذیر نیازی کا بیان ہے: ’’انہوں نے حکم دیا ہے کہ میں ہر روز عہد نامہ عقیق یا اناجیل کا کوئی حصہ ان کو پڑھ کر سنایا کروں یہ مشغلہ کئی روز تک جاری رہا عہد نامہ عتیق پر ان کی تنقید بڑے مزے سے ہوتی ہے اور وہ اس کے انداز بیان اور مطالب کا مقابلہ بار بار قرآن پاک سے کرتے ہیں۔ دراصل ان کا خیال یہ تھا کہ نطشے کی کتاب Also Sparch Zarathustraکی طرح ایک نئی تصنیف What an unknown Prophetکے نام سے مرتب کریں اور اس کے لیے انہیں کسی مناسب ادبی اسلوب کی تلاش تھی۔ ‘‘ ۴۲؎ دوسرا بیان ڈاکٹر تاثیر کا ہے لکھتے ہیں: ’’وفات سے چند ماہ قبل وہ انگریزی میںایک منشور نظم لکھنے کا منصوبہ بنا رہے تھے جسے اگر وہ لکھ پاتے تو عظیم ترین شاہکار نہ سہی ۔ یہ ایک بین الاقوامی چیز ضرور ہوتی۔ وہ اس کانام The Book of a Forgotten Prophetرکھنا چاہتے تھے۔ یہ بائبل کے عہد نامہ قدیم اورنطشے کی Also Spach Zarathustraکے ادبی اسالیب پر ہوتی ‘‘ ۴۳؎ ۴۰؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۱۰۹ ۴۱؎ ایضاً ص ۴۲۶ ۴۲؎ رسالہ اردو اقبال نمبر ص ۳۲۱ ۴۳؎ Aspects of Iqbalلاہور ۱۹۳۸ء ص XI-X ان دو بیانات کے علاوہ اس مجوزہ تصنیف کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ملتی کہ اس کتاب میں کن مباحث و موضوعات پر اظہار خیال کرنا چاہتے تھے اگر وہ اسے لکھتے تو نظم منثور کے اعتبار سے ان کے لیے ایک نیا تجربہ ہوتا۔ حیات مستقلہ اسلامیہ ابھی ’’رموز بے خودی‘‘ زیر تکمیل تھی کہ اقبال کی طبیعت کی روانی اور مضامین کی کثرت کو دیکھتے ہوئے تیسرا حصہ بھی لکھنے کاارادہ کر لیا۔ یہ جولائی ۱۹۱۷ء کی بات ہے۔ اسی زمانے میں مولانا گرامی کو ایک خط میں لکھا: ’’دوسرا حصہ قریب الاختتام ہے مگر اب تیسرا حصہ ذہن میں آ رہا ہے اور مضامین دریا کی طرح امڈتے آ رہے ہیں اور حیران ہو رہا ہوں کہ کس کس کو نوٹ کروں۔ اس حصے کا مضمون ہو گا ’’حیات مستقبلہ اسلامیہ‘‘ یعنی قرآن شریف سے مسلمانوں کی آئندہ تاریخ پر کیا روشنی پڑتی ہے اور جماعت اسلامیہ جس کی تاسیس دعوت ابراہیمی سے شروع ہوئی کیا کیا واقعات و حوادث آئندہ صوبوں میں دیکھنے والی ہے اور بآخر ان سب واقعا ت کا مقصود و غایت کیا ہے ‘‘ ۴۴؎ اتفاق سے رموز بے خودی کی تکمیل اور اشاعت کے بعد بہت دنوںتک شعر گوئی کا سلسلہ رہا مگر مجوزہ تالیف کا خیال برابر اقبال کے دل میں موجود رہا۔ نومبر ۱۹۱۸ء میں اکبر الہ آبادی کے نام ایک خط میں لکھا: ’’بہت عرصہ سے کوئی شعر نہیںلکھا۔ مثنوی کا تیسرا حصہ لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں‘‘ ۴۵؎ اس کے بعد اقبال نے اپنے مکتوب میں دو شعر نقل کیے ہیں جو انہوںنے رموز بے خودی کی تکمیل کے بعد کہے تھے لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر مثنوی کا تیسرا حصہ نہ لکھا جا سکا اور اس خط کے پانچ سال بعد یہ دونوں شعر بھی پیام مشرق کے خردہ میں ڈال دیے گئے‘‘ ۴۶؎ گرامی کے نام یکم جولائی ۱۹۱۷ء کے خط میں جس کا ایک اقتباس اوپر نقل کیا گیا ہے۔ اقبال نے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ قرآن حکیم پر اپنے برسوں کے غور و فکر کے نتائج کو مجوزہ شعری تصنیف حیات مستقلہ اسلامیہ میں بیان کرنا چاہتے ہیں لیکن ابتدائی زمانے کے اس خیال میں انہوں نے ترمیم کر لی تھی۔ بعد میں انہوںنے قرآن حکیم کے متعلق اپنے تاثرات و خیالات مقدمتہ القرآن کے عنوان سے قلم بند کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ۴۳؎ Aspects of Iqbal لاہور ص XI-X ۴۴؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی ص ۱۲۴ ۴۵؎ اقبال نامہ حصہ دوم ص ۷۵ ۴۶؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی ص ۱۲۶ ٭٭٭ فصول الحکم پر تنقید تصوف کے متعلق اقبا ل کی موعودہ تصیف کا ذکر اس سے پہلے گزر چکا ہے … اس کا محرک تصوف میں ان غیر اسلامی عناصر کا وجود تھا جو قرآنی تعلیمات کے خلاف تھے۔ اقبال کے نزدیک ابن عربی کی فصول الحکم بھی اسی ذیل میں آتی ہے۔ ابن عربی شیخ اکبر کے نام سے معروف ہیں وہ بہت متنازعہ فیہ شخصیت تھے۔ ایک گروہ انہیں ولی کامل مانتا ہے۔ اور دوسرے گروہ کے نزدیک وہ ملحد ہیں ان کے متصوفانہ فلسفے کا دارومدار عقیدہ وحدت الوجود پر ہے ابن العربی سے دلچسپی اقبال کو ورثے میں ملی تھی۔ ان کے والد شیخ نور محمد کو ابن عربی کی تصانیف سے غیر معمولی شغف تھا۔ اقبال کے بچپن میں ان کے گھر میں تصانیف ابن عربی کا درس ہوتا تھا۔ گو اقبا ل کو ان مسائل کی سمجھ نہ تھی لیکن وہ اس محفل میںہر روز شریک ہوتے تھے۔ ۴۷؎ بعد میں عربی سیکھی اور براہ راست ابن عربی کو پڑھا اور ان کے افکار میں زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ عابد علی عابد کے بقول انہوںنے ابن عربی سے استفادہ بھی ؤکیا تاہم بحیثیت مجموعی وہ ابن عربی کے نظریات سے متفق نہ تھے ۔ ’’اسرار خودی‘‘ کی بحث کے سلسلے میں سید شاہ سلیمان پھلواری کو لکھا: ’’اس وقت میرا عقیدہ ہے کہ شیخ کی تعلیمات تعلیم قرآن کے مطابق نہیں ہیں اور نہ کسی تاویل و تشریح سے اس کے مطابق ہو سکتی ہیں ‘‘ ۴۸؎ خواجہ حسن نظامی کو ۳۰ دسمبر ۱۹۱۵ء کے خط میں لکھا: ’’میںشیخ کی عظمت و فضیلت کا قائل ہوں اور ان کو اسلام کے بہت بڑے حکماء میں سمجھتا ہوں۔ مجھ کو ان کے اسلام میں کوئی شک نہیں… ان کے عقائد صحیح ہوں یا غلط قرآن کی تاویل پر مبنی ہیں… میرے نزدیک ان کی تعبیر یا تاویل جو کچھ ہے صحیح نہیں ہے۔ گو میں ان کو ایک مخلص مسلمان سمجھتاہوں مگر ان کے عقائد کا پیروکار نہیں ہوں‘‘ ۴۹؎ سراج الدین پال کو ۱۹ جنوری ۱۹۱۶ء کو جو خط لکھا اس میں ابن عربی کے بارے میں اقبال کی رائے کہیں زیادہ سخت ہے: ’’جہاں تک مجھے علم ہے فصوص الحکم میں سوائے الحاد و زندقہ کے اور کچھ نہیں۔ اس پر انشاء اللہ مفصل لکھوں گا‘‘ ۵۰؎ اسی ضمن میں انہیںمعلوم ہوا کہ اودھ کے کسی بزرگ نے ابن عربی کی تردید میںفارسی میں ایک مبسوط کتاب لکھی تھی جو ان کے جانشینوں کے پا س محفوظ ہے ۵۱؎ ۔ انہوںنے کتاب حاصل کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہو سکی۔ ۴۷؎ انوار اقبال ص ۱۷۸ ۴۸؎ انوار اقبال ص ۱۷۸ ۴۹؎ خطوط اقبال مرتبہ رفیع الدین ہاشمی‘ لاہور‘ ۱۹۷۶ء ص ۱۱۷ ۵۰؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۴۴ ۵۱؎ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان مرحوم ص ۴ اسرار خودی پر بحث مباحثے کے ضمن میں اقبال نے اپنے جو ابی اور دفاعی مضامین میں ابن عربی کے افکار پر تنقید کی مگر خاص طور پر وہ فصوص الحکم پر لکھنا چاہتے تھے غالباً اسی سلسلے میں ایک بار سید سلیمان ندوی سے درخواست کی کہ وہ انہیںابن عربی کے مسئلہ زمان و مکان کی تلخیص لکھ کر بھیجیں ۵۲؎۔ یہ موعودہ تصنیف بھی ادارے اور خیال سے آگے نہ بڑھ سکی ۔ اقبا ل کی تحریروں میں فصوص الحکم پر بعض تنقیدی ارشادات کے سواان کی کوئی مستقل تحریر یا تصنیف دستیاب نہیں ۔ ٭٭٭ Songs of Modern David خان محمد نیاز الدین خاں کے نام ۱۳ جولائی ۱۹۲۴ء کے خط میں لکھا: ’’ایک چھوٹی سی کتاب لکھ رہا ہوں جس کا نام غالباً یہ ہو گا Songs of Modern David۵۳؎ موعودہ چھوٹی سی کتاب کے بارے میں مزید کوئی معلومات میسر نہیں ۔ عین ممکن ہے کہ یہ وہی کتاب ہو جو ۱۹۲۷ء میں زبور عجم کے نام سے شائع ہوئی… اگرچہ یہ کچھ زیادہ قرین قیاس نہیں کیونکہ ایک چھوٹی سی کتاب کی تکمیل میں آخر تین سال (۱۹۲۴ء ۔ ۱۹۲۷ئ) کا طویل عرصہ کیونکر صرف ہوا؟ دوسرے یہ کہ فارسی مجموعہ کلام کا انگریزی نام کچھ عجیب سی بات ہے۔ ٭٭٭ تاریخ ادب اردو مہاراجہ کشن پرشاد شاد کے نام اقبال کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے اردو ادب کی تاریخ پر ایک تحقیقی مقالہ لکھنے کی فرمائش کی گئی تھی۔ ۲۳ جنوری ۱۹۱۴ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’سر تھیوڈرماریسن سیکرٹری آف سٹیٹ کی درخواست ہے کہ میں ایک مضمون اردو لٹریچر کی تاریخ پرلکھوں گا۔ یہ مضمون کیمبرج ہسٹری آف انڈیا کا جو لکھی جا رہی ہے ایک باب ہو گا۔ سر تھیوڈر نے مجھے بڑے اصرار سے کہا ہے ار میں یہ سبب ان کی عنایات کے انکار نہیںکر سکتا ‘‘ ۵۴؎ اس مقصد کے لیے انہوںنے شاد سے ان کی تصانیف کی فہرست بھی منگا بھیجی کیونکہ مجوزہ تاریخ میں وہ شاد کا تذکرہ بطور خاص کرنا چاہتے تھے…باقیات اقبال میںمذکورہ تاریخ ادب کاکوئی سراغ نیہںملتا۔ اندازہ ہے کہ سر ماریسن کی فرمائش کے باوجود کسی سبب سے مقالہ نہ لکھ سکے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اقبال اگر تاریخ ادب اردو لکھتے تو ان کا نقطہ نظر کیا ہوتا۔ وہ ادب کو ایک حرکی عمل سمجھتے تھے ان کے خیال میں شاعری کو زندگی کا معاون اور خدمت گار ہونا چاہیے۔ ۵۲؎ اقبالنامہ حصہ اول ص ۱۰۸ ۵۳؎ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں ص ۵۰ ۵۴؎ صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول ۱۹۷۳ء ص ۱۱۲ ان کے نزدیک جدت اور فنی خوبی اچھی شاعری کے لیے ناگزیر ہے تاہم شاعری محض زبان دانی کا اظہار یا مضمون آفرینی نہیں ہے۔ یہ چیزیں تو ادب میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ اصل شے تو وہ مطالب اور مقاصد ہیں جن کا فنکارانہ اظہار و ابلاغ ایک شاعر کا اولین فریضہ ہے ان کے نزدیک: ’’سچا آرٹسٹ وہ ہے جو اپنے کمال کو بنی نو ع انسان کی بہتری کے لیے وقف کر دے…جو اپنی قوم کا نبض شناس ہو اور آرٹ کو قومی امراض کے دفعیہ کا ذریعہ بنائے ‘‘ ۵۵؎ اور: ’’شاعر قوم کی زندگی کی بنیاد کو آباد بھی کر سکتا ہے اور برباد بھی… ملک کے شعرا پر لازم ہے کہ وہ نوجوان قوم کے سچے رہنما بنیں۔ ۵۶؎ اسی نقطہ نظر کے تحت انہوں نے اردو شاعری کو بحیثیت مجموعی ہندوستان کے دور انحطاط کی پیداوار قرار دیا ہے۔انفرادی حیثیت سے وہ بعض شعراء مثلا ً حالی اور حفیظ جالندھری (کے شاہنامہ اسلام) کو ان کی مقصدیت کی وجہ سے سراہتے ہیں… ان کا خیال ہے کہ لٹریچر کو Optimisticہونا چاہیے۔ اقبال کے نظریہ شعر و ادب کی روشنی میں ان کے موعودہ مقالے تاریخ ادب اردو کی نوعیت کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭ پشتو شاعری کا ترجمہ اقبال کے ذاتی ذخیرہ کتب میں جو ان کی وصیت کے مطابق ان کی وفات پر اسلامیہ کالج لاہور کع دیا گیا۔ افغان شاعری کا ایک انتخاب ملتا ہے۔ یہ کتاب لندن سے Selections from the poetry of Afghans کے نام سے ۱۸۶۲ء میں شائع ہوئی تھی۔ کیپٹن ایچ جے ریورٹی کی مرتبہ یہ کتاب کافی عرصے تک اقبال کے زیر مطالعہ رہی۔ افغان شاعری کے جوشیلے اور حیات بخش اسلوب نے انہیں متاثر کیا۔ پشتو زبان سے ناواقفیت کے سبب براہ راست پشتو شاعری تک ان کی رسائی نہ تھی۔ تاہم پشتو کے انگریزی تراجم پڑھ کر انہیں اس کے ترجمے کا خیال پیدا ہوا۔ ۱۳ مارچ ۱۹۱۹ء کو خان محمد نیاز الدین خاں کو لکھا: ’’اافسوس کہ میں پشتو نہیں جانتا ورنہ سرحد کی مارشل شاعری کو اردو یا فارسی لباس پہنانے کی کوشش کرتا‘‘ ۵۷؎ پشتو شعرا میں وہ خوشحال خان خٹک سے نبتاً زیادہ متاثر ہوئے۔ ۱۹۲۸ء میں انہوںنے خوش حال خاں کی شاعری کے نمونوں کے ساتھ ان کی شخصیت اور شاعری پر ایک مضمون لکھا ۵۸؎۔ جس میں انہوںے خٹک کی حب الوطنی آزادی سے محبت اور اس کی شاعری کی سادگی کی تعریف کی۔ ۵۵؎ انوار اقبال ص ۳۵ ۵۶؎ مقالات اقبال ص ۲۱۸ ۵۷؎ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں ص ۱۸ ۵۸؎ مشمولہ Thoughts and Reflections of Iqbal مرتبہ سید عبدالواحد لاہور ۱۹۷۲ء انہوںنے افغان ادیبوں اور نقادوں کو مشورہ دیا کہ وہ اس بہادر شاہ کا مطالعہ کریں اور مناسب حواشی کے ساتھ خوشحال خاں خٹک کا کلیات مرتب کر کے شائع کریں۔ خود اقبال نے خوشحال خاں کے ایک نظم پارے کا ترجمہ خوشحال خاں کی وصیت ۵۹ ؎ کے عنوان سے کیا جس کا ایک شعر: محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند زبان زد عام ہے… اس ایک نظم پارے کے سوا جو براہ راست پشتو سے نہیںبلکہ انگریزی سے ترجمہ کیا گیا اقبال پشتو شاعری کا کوئی اور ترجمہ نہ کرسکے۔ ٭٭٭ ایک کتاب مولانا گرامی کے نام ۲۴ اپریل ۱۹۲۲ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’اردو نثر میں بھی ایک کتاب لکھ رہا ہوں انشاء اللہ شائع ہونے پر آپ کی خدمت میں مرسل ہو گی‘‘ ۶۰؎ محمد عبداللہ قریشی اس ایک کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’اردو نثر میں جو کتاب اقبال لکھنا چاہتے تھے معلوم نہیں کہ وہ کس موضوع پر تھی؟ آیا وہ لکھی بھی گئی یا نہیں؟ ۶۱؎ موعودہ تصنیف کے متعلق اقبال کی تحریروںمیں مزید کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ ٭٭٭ گیتا کا اردو ترجمہ مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد کے نام ۱۱ اکتوبر ۱۹۲۱ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’زمانے نے مساعدت کی توگیتا کے اردو ترجمہ کا قصد ہے ‘‘ ۶۲؎ فارسی کے معروف شاعر فیضی نے بھی گیتا کا فارسی ترجمہ کیا تھا مگر اقبا ل اس سے مطمئن نہ تھے کیونکہ اس نے گیتا کے مضامین اور ا س کے انداز بیان کے ساتھ بالکل انصاف نہیں کیا۔ کیونکہ وہ گیتا کی روح سے نا آشنا رہا… مزید برآں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ گیتا کی اخلاقی تعلیم اور اس کے روحانی پہلو نے اقبال کو متاثر کیا ہو گا… شاد کے نام ایک اور خط میں اقبال نے رامائن کے ترجمے کا بھی ارادہ ظاہر کیا ۶۳؎؎۔ اس سلسلے میں وہ ملا مسیح پانی پتی کا رامائن کا منظوم فارسی ترجمہ دیکھنا چاہتے تھے۔ مگریہ نسخہ کہیں سے نہ مل سکا۔ ۵۹؎ بال جبریل ص ۱۵۴ ۶۰؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی ص ۲۰۳ ۶۱؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی ص ۲۰۴ ۶۲؎ صحیفہ اقبال نمبر حصہ اول دسمبر ۱۹۷۳ء ص ۱۸۲ ۶۳؎ شاد اقبال ص ۷۹ اقبال کی تحریروں میںایسا کوئی اشارہ نہیںملتا جس سے اندازہ ہو سکے کہ اقبال گیتا اور رامائن کے اردو ترجموں سے کیونکر دستبردار ہوگئے ٭٭٭ ’’علم الاقتصاد‘‘ کے سوا اقبال کی تمام تصانیف نظم میں ہیں… اور یہ ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ ان کی بیشتر موعودہ تصانیف نثر میں لکھی جانے والی تھیں ۔ دراصل موعودہ تصانیف کے علمی موضوعات کا تقاضا تھا کہ ان پر نثر میں اظہا رخیال کیا جائے۔ شاعر ی کا قالب تفسیر قرآن یا مسائل فقہ و تصوف کے بیان کے لیے قطعی موزوںنہیں ہے۔ مزید برآں نظم کا ایک مہتم بالشان ذخیرہ یادگار چھوڑنے کے باوجود اقبال نے مطلق شعر و شاعری کو کبھی مستحسن نہیں سمجھا بلکہ نوجوان شعراء کو نثر نگاری کی طرف متوجہ ہونے پر تلقین کی۔ بیشتر موعودہ تصانیف کا اہم ترین محرک ملی انحطاط کا وہ شدید احساس ہے جس نے اقبال کو ساری عمر مضطرب رکھا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے اندر دین کا فہم پیدا کر کے تجدید و احیائے اسلام کی راہ ہموار کی جائے اقبال کی سب سے بڑی آڑزو ان کے بقول یہ تھی کہ میں اپنے ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں پر دین کے اسرار منکشف کر جائوں تاکہ وہ دین کے قریب آ جائیں۔ لہٰذا تفہیم دین کی خاطر شاعری کو ناکافی سمجھتے ہوئے انہوں نے موعودہ تصانیف کے عزائم کا اظہار کیا۔ موعودہ تصانیف کی ترتیب و تکمیل کے لیے زبردست جوش و خروش اوردوستوں کے سامنے بار بار اپنا عزم تازہ کرنے کے باوجود اقبا ل اپنے سارے تالیفی موعودات کو ناتمام ہی چھوڑ گئے۔ یوں تو اس کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں مگر سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ نظم کے برعکس نثر لکھنے کے لیے جس یکسوئی محنت اور استقلال کی ضرورت ہوتی ہے اقبال اس کا اہتمام نہ کر سکے اور اپنے مخصوص افتاد طبع کی بنا پر غالباً ان کے لیے ایسا ممکن بھی نہ تھا۔ ٭٭٭ فکر اقبال محمد طاہر فاروقی علامہ اقبال حکیم الامت اور پیامی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی بھی تھے۔ انہوںنے اسلامی فلسفہ کے علاوہ مغربی حکماء کے نظریات اور فلسفہ کا بھی غائر مطالعہ کیا تھا اس صد ی کے آغاز میں جب وہ جرمنی میں تحقیقات علمی کے کام میں مصروف تھے تو انہوں نے حکمائے مغرب کے فلسفہ کو تحقیقی طور پر جانا اور سمجھا۔ اسی کے ساتھ اپنے تحقیقی مقالے کی تیاری کے سلسلے میں انہوںنے حکمائے اسلام کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ کہ وہ بیک وقت مشرقی و مغربی اور قدیم و جدید فلسفوں اور فلاسفہ کی تحقیقات و نظریات پر ناقدانہ اور ماہرانہ عبور رکھتے تھے۔ اسی کے ساتھ ان کو یورپ کے قیام میں اس کے مواقع بہم پہنچے کہ وہ مغرب کی تمام جدید تحریکوں صنعتی و اقتصادی مسائل اور سیاسی مدوجذر کا قریب سے مطالعہ کریں۔ نیز ان کے اچھے برے عواقب و نتائج سے کامل واقفیت بہم پہنچائیں اور ان کو چھا ن پھٹک کر کھرے اور کھوٹے میں امتیاز کریں ۔ اقبال کی تعلیم و تربیت کی اساس اوربنیاد اسلامی تعلیمات تھیں ابتدا سے ان کو یہ موقع میسر آیا تھا کہ اسلامی تاریخ اور اسلامی قوانین کو تحقیقی نظر سے دیکھیں اور سمجھیں۔ اپنے ذاتی مطالعے سے وہ اسلامیات کے علم و فہم کو برابر جلا دینے میں مصروف رہے۔ چنانچہ ایک مدت سے تقابلی مطالعہ اور موازنہ کے بعد انہوںنے اپنے بنیادی فلسفیانہ تصورات کو نظریاتی شکل دی اور ان کو اپنے اشعار کے ذریعے دنیا کے اور خصوصاً ملت اسلامیہ کے سامنے پیش کیا۔ علامہ اقبال کی اس تمام تحقیق اور کاوش کا نچوڑ مختصر الفاظ میںیوں پیش کیا جا سکتا ہے کہ وہ عالم کی ہدایت اور ملت اسلامیہ کی رہنمائی کے لیے صرف اس لازوال حکمت کو صراط مستقیم قرار دیتے ہیں۔ جو قران حکیم نے پیش کی۔ اور اسی کو سب کے لیے صحیح واحد ضابطہ حیات اورابدی نجات کا ضامن و قائد بتاتے ہیں۔ اسی لیے انہوںنے اپنی فارسی اردو شاعری اور اپنے خطبات و مقالات کے ذریعہ اپنے اسی پیغام کو عام کر نے میں اپنی ساری عمر صرف کی۔ قرآن حکیم او رسیرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غائر مطالعہ اور ان پر غور و خوص نے اقبال کو کامل یقین بخش دیا تھا کہ صرف اسلامی اصول اور اسلامی تعلیمات ہی انسانیت کی دنیوی اور اخروی فلاح و نجات کی ضمانت دیتے ہیں۔ اخلاقی کی پاکیزگی کردار کی سربلندی اور دنیا کی کامیابی صرف اسی طریق پر مضمر ہے۔ جو قرآن حکیم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ نے ہم کو سکھایا اور بتایا ہے۔ چنانچہ انہوںنے تاکیدی طور پر ہمیں بتا دیا کہ یہی ایک راستہ ہے جو صراط مستقیم کہا جا سکتا ہے۔ جو درس حیات بھی ہے اورپیغام عمل بھی۔ راہ نجات بھی ہے اور معراج ارتقاء بھی۔ اقبال نے ہمیں یہ بتایا کہ جتنے اصول قوانین ضابطے اور آئین انسان اپنی عقل و فہم سے بناتا ہے یا بنائے گا۔ ان کا حشر ہم روز دیکھتے ہیں کہ وہ ترمیم و تردید کے محتاج اور قطع و برید کے لائق ہوتے ہیں۔ صرف وحی الٰہی وہ شے ہے جو ایسا اٹل کبھی تبدیل نہ ہو سکنے والا ہر دور میں صادق آنے والا قانون ضابطہ اور آئین عطا کرے جو بنی نوع انسان کی زندگی کے تمام گوشوںاور سارے شعبوں میں رہنمائی کا ضامن ہو۔ اورہر ملک ہردور ہر قوم اور ہر زمانے کے لیے ضابطہ حیات اور آئین زندگی قرار دیا جا سکے۔ ایسا آئین و ضابطہ صر ف قرآن حکیم ہے جس کی عملی تفسیر سنت نبویؐ اور اسوہ رسولؐ میں پائی جاتی ہے فرماتے ہیں: برگ و ساز ما کتاب و حکمت ست ایں دو قوت اعتبار ملت ست کہتے ہیں کہ قرآن حکیم وہ زندہ کتاب ہے جس میں لازوال ازلی و ابدی حکمتوں کے خزانے بھرے ہوئے ہیں جس سے زندگی کی قوت و استحکام حاصل ہوتا ہے۔ جس سے ناپائدار کو پائداری نصیب ہوتی ہے۔ جو نوع انسانی کے لیے خدائے حکیم کا آخری پیغام ہے۔ اور جس کو لانے والے رحمتہ اللعالمینؐ ہیں جن کی رحمت و شفقت کا فیضان اپنے پرائے دوست دشمن سب کے لیے عام ہے۔ارشاد ہے: آں کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت اولا زوال ست و قدیم نسخہ اسرار تکوین حیات بے ثبات از قوتش گیرد ثبات نوع انساں را پیام آخریں حامل او رحمتہ اللعالمیںؐ قرآن حکیم میں بار بار تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہم نے مسلمانوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے پاس صرف انہی میں سے ایک رسولؐ بھیجا جو ان کو آیات قرآنی سناتا ہے ان کاتزکیہ فرماتاہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ (آل عمران ۔ آیت ۱۶۲۔ سورہ جمعہ ۔ آیت ۲) اس دور کے عظیم عالم مفکر اور محقق ڈاکٹر شیخ مصطفی حسنی سباعی لکھتے ہیں کہ قرآن میں حکمت کا ذکر جگہ جگہ کتاب کے ذکر کے بعد آیا ہے۔ یہاں حکتم سے سنت رسولؐ کے علاوہ کچھ اور مراد لینا ممکن نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے منصب نبوی میں تعلیم تاب کے ساتھ تعلیم حکمت کو بھی جمع کیا ہے اور دوسری طرف نبیؐ کی اطاعت اور ان کے اتباع امر کو فرض قرار دیا ہے۔ اب کتاب اللہ کے علاوہ جو شے فرضیت کا مقام حاصل کر سکتی ہے وہ صرف سنت رسولؐ ہے اور یہی دوسرے لفظوں میں الحکمتہ ہے‘‘۔ نیز لکھتے ہیں کہ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ نے جس کتاب کا ذکر کیا ہے اس سے مراد قرآن ہے اور جس حکمت کا ذکر کیا ہے اس کے بارے میں میں نے اپنے دیار کے اہل علم سے یہی سنا ہے وہ سنت ہے۔ (سنت رسولؐ ص ۲۴ و ۲۵) حضرت علامہ اسی لیے انتہائی تاکیدی الفاظ میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور آپ کی محبت میں ڈوب جائو۔ اسی کا نام دین ہے اگر تم سنت نبوی اور اسوہ حسنہ کے علاوہ کوئی اور راہ اختیار کرو گے تو وہ ابولہب کا راستہ ہو گا صرا ط مستقیم نہیں ہو گی۔ بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ اونر سیدی تمام بولہبی ست اس صراط مستقیم پر گامزن ہونے اور اس ازلی و ابدی حکمت کو مضبوطی سے پکڑنے کا صلہ یہ ہو گا کہ محبت رسولؐ اور اتباع نبویؐ کی بدولت تم کو ساری کائنات اور ماورائے کائنات پر تسلط اور غلبہ حاصل ہو جائے گا۔ ہر کہ عشق مصطفیؐ سامان اوست بحر و بر در گوشہ دامان اوست باسورتھ اسمتھ مستشرقین میں نمایاں مقام رکھتا ہے وہ کہتا ہے کہ یہ قول کہ کوئی شخص اپنے گھر والوں کو ہیر و نہیں بن سکتا۔ کم از کم یہ اصول پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وسلم) کے متعلق صحیح نہیں ہے۔ مشہور مورخ گبن لکھتا ہے کہ تمام پیغمبروں میں سے کسی نے اپنے متبعین کا اس قدر سخت امتحان نہیںلیا جس قدر محمدؐ نے ۔ انہوںنے دفعتاً اپنے آپ کو سب سے پہلے ان لوگوں کے سامنے بحیثیت پیغمبر کے پیش کیا جو ان کو بحیثیت انسان کے بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ اپنی بیوی اپنے غلام اپنے بھاء اپنے سب سے زیادہ واقف کار دوست کے سامنے اور سب نے بلا پس و پیش آپ کے دعوے کی صداقت کوتسلیم کر لیا۔ چونکہ وحی خداوندی کی رو سے کتاب اور سنت کی پریوی اور اتباع فرض ہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے قرآن حکیم کی حفاظت کا اور اس میں کسی طرح کی تحریف و تبدیل کے دخل نہ پا سکنے کا ابد الآباد تک کے لیے وعدہ اور دعویٰ فرمایا ہے۔ (آیات قرآنی) اور اسی لیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدسہ اور اسوہ حسنہ کا ایک ایک حرف اور ایک ایک گوشہ ہمارے لیے محفوظ فرما دیا ہے۔ جو رہتی دنیاتک زندگی کے تمام مسائل اورمعاملات میں ساری کائنات کے لیے مشعل راہ رہا ہے۔ باسورتھ اسمتھ لکھتا ہے کہ یہاں سیرت محمدیؐ میں پورے دن کی روشنی ہے۔ جس میں محمدؐ کی زندگی کا ہر پہلو روشن کی طرح نمایاں ہے۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو کتاب و حکمت کی یہ صراط مستقیم دکھانے کے لیے خودی کی اصطلاح وضع کی جس کی تفصیلات کے لیے تو دفتر بھی کفایت نہیںکریں گے۔ مختصراً یوں کہا جا سکتا ہے کہ اقبال خودی سے عرفان نفس خود شناسی معرفت ذات اور خود آگہی مراد لیتے ہیں اور تکمیل خودی کو انسان کے اخلاقی اور روحانی ارتقاء کے لیے لازم قرار دیتے ہیں۔ عرفان خودی جن منازل بلند تک پہنچاتا ہے اس کی تشریح علامہ اقبال کے الفاظ میں یہ ہے: خودی شیر مولا جہاں اس کا صید زمیں اس کی صید آسماں اس کا صید اس سے بھی مختصر الفاظ میں یوں سمجھئے کہ: خودی ہے زندہ تو سلطان جملہ موجودات خودی ایک فلسفیانہ تصور بھی ہے اور عملی نظریہ بھی۔ یہ اصطلاح اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ اقبال سے پہلے کسی نے استعمال نہیں کیں۔ اسلام نے عرفان خودی کی تعلیم دی ہے۔ اور اقبال نے تیرہ سو سال کے بعد اسی سبق کو دہرایا ہے اور یاد دلایا ہے جو شخص اسلام کی اس تعلیم پر چل کر اپنی پوشیدہ قوتوں کو بیدار کرتا ہے اور ان کو کام میں لاتا ہے۔ وہ بے پناہ قوتوں کا مالک بن جاتا ہے۔ سارا زمانہ اس کے سامنے سر خم کردیتا ہے۔ وہ تسخیر کائنات کے اعلیٰ نصب پر پہنچ جاتا ہے۔ اور اس کو غیر معمولی انقلابی اورتخلیقی قوتیں حاصل ہوتی ہیں۔ بقول اقبال: نوری حضوری تیرے سپاہی یہ پیام دے گئی مجھے باد صبح گاہی کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی ٭٭٭ زندگانی ہے صدف قطرہ نیساں ہے خودی وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر نہ کر سکے ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی یہ بھی ممکن ہے تو موت سے بھی مر نہ سکے انسان کے اس اخلاقی اور روحانی ارتقاء اور بلند سے بلند ترین منصب پر پہنچ کر کمال حاصل کرنے کے لیے اقبال تربیت خودی کے تین مرحلے قرار دیتے ہیں: ۱۔ اطاعت جس میں آپ نے احکام خداوندی اور قوانین الٰہی کی پیروی اور پابندی کو مجموعی طور پر کلی لازم و واجب بتایا ہے۔ ۲۔ ضبط نفس۔ یعنی ارکان حیات اور شاہراہ زندگی میںعبادات اخلاقیات معاملات تمام امور میں خدا کے بنائے ہوئے قوانین و ضوابط کی جزئی اور کلی پیروی کی جائے۔ ۳۔ نیابت الٰہی۔ جس کامنشا یہ ہے کہ پہلے دونوں مرحلوں سے انسان کا میاب و کامران گزرے۔ تو اسے خلافت خداوندی اور نیابت الٰہی کا عظیم منصب میسر آ سکتا ہے۔ جو انسان ان مدراج کو کامیابی سے طے کرتاہے وہ احسن التقویم کے خطاب کا سزاوار ہوتاہے۔ اور اس کی شان یہ ہوتی ہے کہ: جس بندہ حق بیں کی خودی ہو گئی بیدار شمشیر کی مانند ہے برندہ و براق اس کی نگہ شوق پہ ہوتی ہے نمودار ہر ذرے میں پوشیدہ ہے جو قوت اشراق ایسے ہی انسان کی توصیف میں اقبال کہتے ہیں: اس کی نفرت بھی عمیق اس کی محبت بھی عمیق قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق انجمن میں بھی میسر رہی خلوت اس کو شمع محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں بات میںسادہ و آزادہ معانی میںدقیق اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا اس کے احوال سے محرم نہیں پیران طریق اور ایسے بندہ حق کی شان یہ ہوتی ہے : ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان ہمسایہ جبریل امیںؑ بندہ خاکی ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان دنیا کی روزمرہ عملی زندگی میں اس منصب عظیم کا مظاہرہ جس طور پر ہوتا ہے اس کے لیے علامہ اقبال نے تین باتوں کو اصل الاصول قرار دیا ہے فرماتے ہیں: یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں یقین محکم اور ایمان کامل حاصل ہو جائیتو انسان وہ بلند حوصلگی عالی ہمتی اور بیباکانہ جرات پیدا ہو جاتیہے کہ وہ غیر اللہ سے خوف نہیںکھاتا۔ اور ساری کائنات پرغالب آ جاتا ہے۔ عمل پیہم سے ہر منزل سر ہو سکتی ہے۔ عمل ہی راز حیات اورسر کائنات ہے۔ بندہ مومن کی بلند ہمتی اور جوش عمل ہر سد سکندری کو دور کر کے تسخیر کائنات کااہم فرض ادا کراتا ہے اسی طرح اس کی رافت و شفقت اور رحمت و محبت اس کو دوسرے افرود و اقوام کے لیے موجب جذب و کشش بناتی ہے کہ سب اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ ہماری ابتدائی تاریخ اس کی شاہد عا دل ہے۔ اقبال کے شعر کی ایک بار پھر تکرار کیجیے تاکہ آپ اس کے معانی و مطالب میں ڈوب جائیں: یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں یقین محکم یا ایمان کامل کی لازوال اور بے پناہ قوت کی بدولت صاحب یقین کو ایسا منصب حاصل ہو جاتا ہے کہ اس کی نظروں میں کائنات کی بڑی سے بڑی طاقت بھی ہیچ ہوجاتی ہے۔ اس کی آزاد بلند حوصلہ عالی ہمت فطرت ماسوا کو تسخیر کر کے اپنا فرماں بردار بنا لیتی ہے۔ اسے کسی دنیوی طاقت کا خوف نہیںہوتا۔ وہ موت تک سے خوف نہیںکھاتا۔ اس لیے کہ وہ اسے بھی اپنی راہ شوق کی ایک منزل سمجھتا ہے۔ سوز دوام اور سیر مدام اس کا شیوہ ہوتاہے اور یقین محکم اس لیے کہ وہ اسے بھی اپنی راہ شوق کی ایک منزل سمجھتا ہے۔ سوز دوام اور سیر مدام اس کا شیوہ ہوتا ہے اور یقین محکم اسے ہمیشہ بلند سے بلند تر مقاصد کی طرف سرگرم عمل رکھتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے بار بار تاکید ی الفاظ میں یہ پیام سنایا ہے: خدائے لم یزل کا دوست قدرت تو زباں تو ہے یقیں پیدا کا اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے دوسری جگہ کہتے ہی: جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا اور زیادہ واضح الفاظ میں کہتے ہیں: ولایت پادشاہی علم اشیاء کی جہانگیری یہ سب کیا ہے؟ فقط اک نکتہ ایماں کی تفسیریں غرض اس نظام کائنات میں زندگی کو کامران و درخشاں بنانے کے لیے سب سے پہلی شرط ایمان کامل اور یقین محکم ہے۔ جب یہ حاصل ہو جائے تو دوسری منزل اور دوسری شرط عمل پیہم ہے۔ قرآن مجید میں جا بجا ایمان کے ساتھ ساتھ عمل کا تاکیدی حکم موجود ہے۔ اسلامی عمل زندگی کے تمام پہلوئوں پر محیط اور حاوی ہے ۔ اس حکم میں ہر قسمی اطاعت عبادت معاملات اور ہر طرح کے دنیوی مسائل و مشاغل شامل ہیں۔ عمل ایک طرف زاد آخرت ہے تو دوسری طرف توشہ دنیا عمل کے بغیر کوئی منزل طے نہیں ہو سکتی۔ کائنات کا ذرہ ذرہ سرگرم عمل ہے تو صاحب یقین اور بندہ مومن کیونکر بے عمل زندہ رہ سکتا ہے۔ عمل راز حیات اور سر کائنات ہے عمل سے ہی افراد بنتے ہیں اور قومیں سنورتی ہیں۔ بندہ مومن عمل پیہم کا پیکر ہوتا ہے۔ اس کی قوت ہمت شجاعت عزم او ر استقلال اپنی مثال نہیں رکھتا۔ اس کی بلند ہمتی اور جوش عمل بڑی سے بڑی سد سکندری کو راہ سے ہٹا سکتا ہے۔ اور اس طرح وہ تسخیر کائنات کے اہم فرض کو ادا کر کے عالم کو اپنا مطیع و فرماں بردار بناتاہے۔ اقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم میں سے ہر فرد اس بلند درجے پر فائز ہو کر ان بے پناہ قوتوں کا مالک بن سکتا ہے۔ آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا دانہ تو کھیتی بھی تو باراں بھی تو حاصل بھی تو کانپتا ہے دل ترا اندیشہ طوفاں سے کیا ناخدا تو بحر تو کشتی بھی تو ساحل بھی تو جوش عمل اور سخت کوشی کو اقبال زندگی کی کامیابی کے لیے لازم سمجھتے ہیں۔ راستے کی پیچیدگی وناہمواری کو وہ مہمیز شوق اور ذریعہ کامرانی جانتے ہیں اور تن آسانی و تساہل کو غیر انسانی اور غیر شریفانہ اوصاف بتاتے ہیں ۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا ہے : اگر خواہی حیات اندر خطر زی دوسری جگہ کہتے ہیں؛ حیات جاوداں اندر ستیز است ایک اور جگہ سخت کوشی کی اہمیت سمجھانے کے لیے فرماتے ہیں: خطر پسند طبیعت کا سازگار نہیں وہ گلستاں کہ جہاں گھات میںنہو صیاد ان خطرات سے گزرنے اور ایسی مشکلات کو سر کرنے کے بعد ہی منزل ملتی ہے: زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی اس مادی زندگی کو کامیابی کی اعلیٰ منزل تک پہنچانے کے لیے علامہ اقبال نے محبت کو تیسری شرط قرار دیا ہے بندہ مومن خدائے بزرگ و برتر کی شان جلای و جمالی دونوں کا مظہر ہوتا ہے۔ کارزار عالم اور عرصہ حیات میں اسے خیر و شر دونوں طرح کی قوتوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس کا یقین اسے راہ راست بتاتاہے۔ اور ا س کا عمل اسے ان منازل حیات سے گزارتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی س کی ذات و صفات میں وہ کشش اور جاذبیت ہوتی ہے کہ دوسرے افراد اور اقوام جن سے اس کا واسط پڑتا ہے۔ بے اختیار اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ اسلام کے قرن اول کی تاریخ اس کی روشن گواہ ہے۔ مومن کی زندگی نے اشداء علی الکفار رحماء بینھم بے بلیغ اور جامع الفاظ سے تعبیر کیا ہے ۔ اقبال اس کی تشریح یوں کرتے ہیں۔ مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا اور مومن کی صفت یہ بیان کرتے ہیں: ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن اسلام نے جس محبت شفقت اخوت کی تعلیم دی ہے۔ وہ نسل اور نسب اور رنگ و مقام کی آلائشوں سے پاک ہ۔ اس کے ماتحت ایسی عالمگی برادری وجود پاتی ہے جس میںاخوت و مساوات اور عدل و انصاف کا مثالی دور دورہ ہوتا ہے۔ جہاں کالے گورے کا امتیاز نہیں ہوتا۔ آقا و غلام کا فرق نہیںہوتا۔ امیر اور غریب ایک دوسرے کو نفرت و حقارت سے نہیں دیکھتے اورپست و بلند سب شانہ بشانہ اس مالک حقیقی کے احکام و فرامین کے آگے سر خم کرتے ہیں: ہوسنے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی تو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا دوسری جگہ فرماتے ہیں: یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میںگم ہو جا نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی اسلامی محبت بنی نوع انسان کو ایک برادری کی لری میں پرو دیتی ہے اور محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں لا کھڑاکرتیہے۔ اسلام نے اسیی ہی عالمگیر برادری کا سبق دیاہے۔ اور قرن او ل میں اس کا مثالی نمونہ بھی پیش کر دیا ہے۔ اقبال نے یہ پیغام اور یہ درس ہمیںیاد دلایاہے اپنے ایک مضمون میں فرماتے ہیں: ’’نبوت محمدیہؐ کی غایب الغایات یہہ ہے کہ ایک ہیئت اجتماعیہ انسانیہ قائم کی جائے۔ جس کی تشکیل اس قانون الٰہی کے تابع ہو جو نبوت محمدیہؐ کو بارگاہ الٰہی سے عطا ہوا تھا۔ یا بالفاظ دیگر یوں کہیے کہ بنی نوع انساںکی اقوام کو باوجود شعوب و قبائل اور الوان واستنہ کے اختلافات کو تسلیم کر لینے کے۔ ان کو ان تمام آلودگیوں سے منزہ کیا جائے۔ جو زمان مکان وطن قوم نسل نسب ملک وغیرہ کے ناموں سے موسوم کی جاتی ہیںَ اور اس طرح اس پیکر خاکی کو وہ ملکوتی تخیل عطا کیا جائے جو اپنے وقت کے ہر لحظے میں ابدیت سے ہم کنار رہتا ہے۔ یہ ہے مقام محمدیؐ یہ ہے نصب العین ملت اسلامیہ کا‘‘۔ اقبال نے اپنی فکر اور اپنے پیغام سے ہم کو اسی نصب العین کے حاصل کرنے کی دعوت دی ہے۔ اور جیسا کہ پہلے بیان ہوا اس نصب العین تک پہنچنے کے لیے یقین محکم عمل پیہم اور محبت اساسی اور کان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہی کے ذریعے خودی کو استحکام حاصل ہوتاہے۔ اور یہی تمام عالم بلکہ ساری کائنات کی تسخیر کو ممکن بناتے ہیں۔ جہاں اگرچہ دگرگوں ہے قم باذن اللہ وہی زمیں وہی گردوں ہے قم باذن اللہ کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے تری رگوں میںوہی خون ہے قم باذن اللہ ٭٭٭ اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ ٭٭٭ اقبا ل کی شاعری کا صوتیاتی نظام پروفیسر گوپی چند نارنگ اقبال کی شاعری اسلوبیاتی مطالعے کے لیے خاص دلچسپ مواد فراہم کرتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اسلوبیتات لسانیا ت کی وہ شاخ ہے جس کاا یک سرا لسانیات سے اور دوسرا ادب سے جڑا ہوا ہے۔ اد ب کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ موضوعی اور جمالیاتی چیز ہے۔ جبکہ لسانیات سماجی سائنس ہے اورہر سائنس معروضی اور تجرباتی ہوتی ہے۔ ادبی تنقید کا معاملہ دوسرا ہے۔ ادبی تنقید موضوعی بھی ہوتی ہے۔ اور معروضی بھی۔ اس لیے کہ تنقید کا تعلق قد ر شناسی (Value Judgement)یا تحسین شناسی سے ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے ذوقیات اور جمالیات سے متلق ہے ادبی تنقید خواہ وہ کتنی ہی معروضیی ہونے کی کوشش کرے۔ سو فیصد معروضی نہیں ہو سکتی چنانچہ جو حضرت اسلوبیات کا بدل سمجھتے ہیں یا اسلوبیات کو تنقید کے مقام پر فائز کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی فیاضی کا ثبوت دیتے ہیںَ ادبی تنقید کا کام قدر شناسی اورسخن فہمی ہے جبکہ یہ نہ اسلوبیات کے کام ہیں اور نہ اسلوبیات سے ان کی توقع کرنی چاہیے۔ البتہ ادبی ذوق یا جمالیاتی احساس جو فیصلے کرتا ہے یا رائے دیتا ہے یا تنقیدی نظر (Critical insight)عطا کرتا ہے اسلوبیات ان کی صحت یا عدم صحت کے لیے ٹھوس تجرباتی بنیادیںفراہم کرسکتی ہے۔ اور اس طرح ادب کے سربستہ اظہار ی رازوں کے بھید کھول سکتی ہے۔ یا تخلیقی عمل کے بعض پراسرار گوشوں پر روشنی ڈال سکتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس بارے میں ایسے ثبوت بھی پیش کر سکتی ہے جنہیں رد نہیںکیا جا سکتا۔ اسلوبیات کے بارے میں یہ بات خاطر نشان رہنی چاہیے کہ اسلوبیاتی مطالعے میں رہنما نظر (Guiding Insight)ادبی اورجمالیاتی ذوق یعنی تنقید ہی سے ملتی ہے۔ لیکن اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ تجرباتی ذہنی رویے کی وجہ سے یا لسانی تجزیے کے دوران ایسے ایسے امور پر نظر پڑتی ہے۔ یا ایسے ایسے نکتے سوجھ جاتے ہیں کہ جن کی مدد سے تنقید کی نئی راہیں سامنے آ جاتی ہیں ۔ تنقید اور اسلوبیات میں ادبی احساس اور سائنسی رویے کے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے سے باہمی لین دین جاری رہتا ہے۔ اور اس طرح اسلوبیات تنقید سے جو کچھ لیتی ہے اسے کئی گنا کر کے تنقید کو لوٹا دیتی ہے۔ ادب کا رشتہ یوں تو تمام انسانی علوم سے ہے۔ ادب انسانیت کی روح اسی لیے ہے کہ اس میں انسان کی تمام ذہنی کاوشوں کی پرچھائیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اور ہر طرح کے اثرات کا عمل دخل جاری رہتا ہے۔ چنانچہ ادبی تنقید میں جمالیاتی اور ادبی معیاروں کی بنیادی اہمیت کے باوصف مختلف علوم سے مدد لی جاتی رہی ہے۔ مثلاً فلسفہ ‘ مذہبیات ‘ نفسیات‘ سیاسیات‘ معاشیات وغیرہ سے ادبی تنقید کے مختلف دبستانوں میں جو مدد لی جاتی ہے۔ اس بارے میں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ لیکن ان اسلوبیات میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ ان میں سے کسی کا موضوع براہ راست اد ب یا ادب کا وسیلہ بیان یعنی زبان نہیں ہے جبکہ اسلوبیات کا موضوع ہی زبان یا اس کا تخلیقی استعمال ہے۔ یعنی وہ لسانی اظہار ی پیکر جس کے ذریعے ادب بطور ادب سے متشکل ہوتاہے۔ اسی لیے ادبی تنقید میں جو مدد اسلوبیات سے مل سکتی ہے وہ کسی دوسرے ضابطہ علم سے نہیں بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ جمالیات کے بعد اسلوبیات ادبی تنقید کا سب سے بڑا حربہ ہے یا یہ کہ اسلوبیات ادبی جمالیات کی سائنس ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ زیر نظر مضمون میں اقبال کی شاعری کے اسلوبیاتی مطالعے سے صرف ایک پہلو یعنی صوتیاتی نظام کو لیاجائے گا۔ اسلوبیاتی مطالعے کی کئی سطحیں اور کئی پہلوہو سکتے ہیں مثلاً کوئی ھبی فن پارہ اظہار اکائی کے طور پر وجود میں آتا ہے۔ یہ اکائی نظموں سے مل کر بنتی یہ۔ جسے اظہار کی نحوی سطح کہہ سکتے ہیں۔ لفظوں یا لفظوں کے قلیل ترین حصوں یعنی صرفیوں (Morphemes)سے مل کر بنتے ہیں۔ جنہیں اظہار کی لفظیاتی یا صرفیاتی سطح کہہ سکتے ہیں اور یہ صرفیے بجائے خود اصوات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ جنہیںاظہار کی صوتیاتی سطح کہ سکتے ہیں۔ اس مضمون میں اظہار کی سب سے بنیادی سطح یعنی صوتیاتی سطح ہی کے بارے میں غور و خوص کیا جائے گا۔ صوت کے ضمن میں یہ بدیہی ہے کہ صوت کے معنی نہیں ہوتے۔ معنی کا عمل اس سے اوپری سطح یعنی صرفیاتی سطح سے شروع ہوجاتا ہے۔ اور کلمے کی نحوی سطح سے گزر کر فن پار ے کی معنیاتی اکائی کے درجے تک پہنچ کا مکمل ہو جتا ہے۔ صوت کی سطح خالص آہنگ کی سطح ہے لیکن اگر اس سے یہ فرض کر لیا جائے کہ آہنگ سے مراد معنی کی کلی نفی ہے تو یہ غلط بھی نہ ہو گا۔ کیونکہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آہنگ سے ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے فضا سازی یا سماں بندی میں مدد ملتی ہے۔ اور یہ فضا سازی کسی بھی معنیاتی تاثر کو ہلکا گہرا یا تیکھا کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اقبال کے ابتدائی دور کی نظم ایک شام دریائے نیکر ہائیڈل برگ کے کنارے پر ملاحظہ ہو: خاموشی ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے نوا فروش خاموش کہسار کے سبز پوش خاموش فطرت بیہوش ہو کر رہ گئی ہے آغوش میں شب کے سو گئی ہے کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکر کا خرام بھی سکوں ہے تاروں کا خموش کارواں ہے یہ قافلہ بے درا رواں ہے خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا قدرت ہے مراقبے میں گویا اے دل! تو بھی خموش ہو جا آغوش میں غم کو لے کے سو جا اس نظم کو پڑھتے ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ اس میں سناٹے اور تنہائی کی کیفیت بعض خاص خاص آوازوں کی تکرار سے بھی ابھاری گئی ہے۔ بادی النظر میں معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ آوازیں س‘ ش‘ خ‘ اور ف کی ہیں جو سات شعروں کی اس مختصر سی نظم میں ۳۵ بار آئی ہیں۔ کسی فن پارے میں خاص خاص آوازوں کا بغیر کسی شعوری اہتمام کے در آنا اتفاقی بھی ہو سکتاہے۔ مثال کے طو ر پرمیر تقی میر کی غزل: دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے یا غالب کی غزل: دل ناداں تجھے ہوا کیاہے آخر اس درد کی دوا کیاہے میںصوتیاتی سطح پر آخر ایسی کون سی بات ہے کہ یہ غزلیں گلوکاروں میں ہمیشہ مقبول رہی ہیںَ اور بعض نے تو ان کے ذریعے اپنی آواز کا ایسا جادو جگایا ہے کہ باید و شاید۔ وجہ ظاہر ہے کہ ان غزلوں میں طویل صوتوں اور غنائی مصوتوں کے دروبست سے موسیقی کا امکان ہاتھ آ گیا ہے۔ جو عام طور پر میسر نہیں آتا۔ ایسی مثالیں تقریباً ہر بڑے شاعر کے یہاں مل جائیں گی۔ لیکن ان کی بنا پر کسی شاعر کے پورے صوتیاتی نظام کے بارے میں حکم نہیںلگایا جا سکتا۔ صوتیاتی آہنگ کا تعلق بہت کچھ شاعر کی افتاد طبع اور اس کے شعری مزاج سے ہے جس کی تشکیل بڑی حد تک غیر شعوری طور پر وہتی ہے۔ مثال کے طور پر میر کی درد و سوز میں ڈوبی ہوئی نرم لے درد مندی اور گھلتے رہنے کی کیفیت ان آوازوں سے متعلق نہیں ہو سکتی جن کے ذریعے غالب اپنی معنی آفرینی فکری تہہ داری یا نفسیاتی ذوف بینی یا اسرار ازل کی گرہ کشائی کا جادو جگاتے ہیں۔ اسی طرح اقبال کا فردیت پر اصرار عمل کی گرم جوشی ‘ جرات مندی‘ آفاق کی وسعتوں میںپرواز کا حوصلہ اور بے پایاں تحرک بھی ایسے صوتیاتی نظام کا تقاضا کرتاہے جو اس کی معیناتی فضا سے پوری طرھ ہم آہنگ ہو۔ اس نظام کی اہمیت اس میں ہے کہ اگر اس میں باطنی ارتباط نہ ہو تو شاعری کی ساری معنیاتی فضا درہم برہم ہو جائے اور وہ رنگ نہ بن سکے جسے ہم شاعر کی آواز یا اس کے شعری مزاج سے تعبیر کرتے ہیں۔ اقبال کے بارے میں یہ بات عام طور پر محسوس کی جاتی ہے کہ ان کی آواز میں ایک ایسا جادو ہے ایسی کشش اورنغمگی ہے جو پوری اردو شاعری میں کہیں اور نہیں ملتی۔ ان کے لہجے میں ایسا شکوہ توانائی بے پایانی اور گونج کی ایسی کیفیت ہے جسے کوئی چیز گنبد افلاک میں ابھرتی اورپھیلتی ہوئی چلی جائے۔ اس میں دلنشینی اور دلآویزی کے ساتھ ساتھ ایک ایسی برش روانی‘ تندی اور چستی ہے جسے سرود کے کسے ہوئے تاروں سے کوئی نغمہ پھوٹ بہا ہو یا کوئی چشمہ پہاڑی ابل رہا ہو۔ آخر اس فطری نغمگی کاصوتیاتی راز کیا ہے یا اس کا تعلق کن خاص آوازوں سے ہے۔ یہ راز اگر ہاتھ آ جائے تو اس سے اقبال کے پورے صوتیاتی نظام کی گرہ کھل سکتی ہے۔ لیکن اس کوشش میں: شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے یا: اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے یا: پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن کے آخری اشعارمیں من کی دنیا تن کی دنیا اور دھن دولت کی دھوپ چھائوں والے اسلوب کو نظر اندازکرنا ہو تا۔ کیونکہ یہ اقبال کے شعری اسلوب کا ایک رخ یا ایک پہلو تو ہے کل اسلوب نہیں۔ چنانچہ پوری شاعری کے صوتیاتی مزاج کے تجزیے کے لیے اقبال کے اس کلام کو سامنے رکھنا چاہیے جس سے اقبال کے شعری مزاج کی پہچان ہوتی ہے۔ یا پھر پورے کلام کا تجزیہ مختلف جگہوں سے یوں کرنا چاہیے کہ اس کی صوتیاتی روح تک ہماری رسائی ہو سکے۔ نامناسب نہ ہو گا کہ اگر سب سے پہلے اقبال کی بعض شاہکار نظموں مثلاً مسجد قرطبہ ‘ ذوق و شوق‘ اور خضر راہ کو لیا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا صوتیاتی سطح پر ان میںکوئی چیز قدر مشترک کا درجہ رکھتی ہے: سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات سلسلہ روز و شب تار حریر و رنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات سلسلہ روز و شب ساز ازل کی فغاں جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم و ممکنات تجھ کو پرکھتاہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ سلسلہ روز و شب صیرفی کائنات تو ہوا اگر کم عیار میں ہوں اگر کم عیار موت ہے تیری برات موت ہے میری برات تیرے روز و شب کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی روجس میں نہ دن ہے نہ رات آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات اول و آخر فنا باطن و ظاہر فنا نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا اس بند کی وہ ایک نوعی آوازیں جو ذہن میں ایک چمک سی پیدا کرتی ہیں اور دیرپا اثر چھوڑتی ہیں وہ درج ذیل ہیں: س ل سل ل ر ز ش ش ح ث س ل س ل ر ز ش ص ل ح س ل س ل ر ز ش ر ح ر ر س ش ہ ذ ذ ص ف س ل س ل ر ز ش س ز ز ل ف غ س س ہ ذ ز ر ر ہ ر ہ س ل س ل ر ز ش ص ر ف ہ ر ر ہ ر ر ہ ر ر ہ ر ر ر ش ر ز ر ح ہ ز ر س ہ ر ف ز ہ ہ ر ہ ث ر ہ ث خ ر ف ظ ر ف ش ہ ہ ز ل خ ر ف= کل ۱۱۸بار اوپر کے گوشوار سے ظاہر ہے کہ ان میں زیادہ تر صفیری آوازیں ہیں یعنی ف س ش ز خ غ ہ (ث ص ز ض ظ یا ح کی آوازیں دی ہیں جو س ز یا ہ کی ہیں جو سب صفیری ہیں) ان کے علاوہ دونوں مصوتی مصمتوں یعنی ل اور ر کو بھی اس میں لے لیا گیا ہے کیونکہ یہ سب کے سب Vocalic یعنی مصوتی مصمتے یا مسلسل مصمتے کہلاتے ہیں، اس لیے کہ ان میں مصوتوں کی طر ح تسلسل کی اور جاری رہنے اور پھیلنے کی کیفیت ہے۔ اس میں بند اگرچہ بندشی آوازوں میں س ت کی تکرار قافیے کی وجہ سے ہوئی ہے اور ب اور ک کا نیز م اور ن کا بھی استعمال ملتا ہے، لیکن ان آوازوں کی تکرار اس پیمانے پر نہیں ملتی جس پیمانے پر صفیری یا مسلسل آوازوں کی تکرار ملتی ہے۔ بندش آوازیں ہوا کی بندش سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان کے مقابلے پر صفیری اور مسلسل آوازوں میں فراوانی او ربے کرانی کا تاثر پیدا کرنے کی کہیں زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہاں اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ اردو مصمتوں میں بندشی آوازوں کی تعداد نصف سے بھی زیادہ ہے۔ ان میں سے آدھے مصمتے سادہ ہیں اور آدھے ہکار۔ سادہ آوازیں اکثر زبانوں میں ملتی ہیں اور بڑی حد تک مشترک ہیں۔ لیکن اردو کا امتیاز ہکار اور معکوسی آوازوں سے پیدا ہوتا ہے جو تعداد میں چودہ ہیں اور ان کے مقابلے میں صفیری اور مسلسل آوازوں میں فراوانی اور بے کرانی کا تاثر پیدا کرنے کی کہیں زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہاں اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ اردو مصمتوں میں بندشی آوازوں کی تعداد نصف سے بھی زیادہ ہے۔ ان میں سے آدھے مصمتے سادہ ہیں اور آدھے ہکار۔ سادہ آوازیں اکثر زبانوں میں ملتی ہیں اور بڑی حد تک مشترک ہیں۔ لیکن اردو کا امتیاز ہکار اور معکوسی آوازوں سے پیدا ہوتاہے جو تعداد میں چودہ ہیں اور ان کے مقابلے میں صفیری اور مسلسل آوازیں تعداد میں صرف نو ہیں۔ اب اس روشنی میں اقبال کے یہاں یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اوپر کے سولہ مصرعوں میں ہکار آوازیں صرف پانچ بار آئیں ہیں جبکہ صفیری اور مسلسل آوازیں ایک سو اٹھارہ بار استعمال ہوئی ہیں! گویا ہکار آوازوں کا چین نہ ہونے کے برابر ہے، اور وہ بھی صرف دو مصرعوں میں: جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ یعنی ہکار آوازیں وہیں آئی ہیں جہاں ان کا استعمال ناگزیر تھا۔ یعنی ضمیر میں یا فعل میں۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ اردو کے افعال اور ضمیروں کا ڈھانچا سر تا سر زمینی ہے۔ اس بند کے نتائج پر یہ سوال بہر حال قائم کیا جا سکتا ہے کہ کہیں اس بند میں ان آوازوں کا وقوع کسی خاص وجہ سے تو نہیں، یا یہ محض اتفاقی تو نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں دھوکا ہو رہا ہو اور اقبال کے کلی صوتیاتی آہنگ سے ان نتائج کا کوئی بڑا تعلق نہ ہو۔ اس کا جواب دینے سے پہلے نظم کے دوسرے بندوں کے نتائج معلوم کر لینے چاہئیں: بند صفیری و مسلسل آوازیں ہکار و معکوسی آوازیں پہلا بند ۱۱۸ ۵ دوسرا بند ۱۰۹ ۲ تیسرا بند ۱۱۸ ۳ چوتھا بند ۱۲۳ ۴ پانچواں بند ۱۱۲ ۳ چھٹا بند ۱۲۳ ۷ ساتواں بند ۱۱۶ ۹ صفیری آوازوں کے استعمال کی یہ صورتیاتی لے آخری بند تک میں ملتی ہے۔ یہاں ان اشعار کے پیش کرنے سے مراد یہی ہے کہ مصرعوں کو پڑھتے ہوئے ان آوازوں پر نظر رکھی جائے جو اس نظم کے صوتیاتی آہنگ میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں اور جن کے در و بست نے اس نظم کو معنیاتی اور صوتیاتی ہم آہنگی کا عجیب و غریب مرقع بنا دیا ہے۔ ذیل میں ایسی تمام آوازوں کے نیچے لکیر کھینچ دی گئی ہے جبکہ ہکار آوازوں کو صرف چھ بار آئی ہیں، دو لکیروں سے ظاہر کیا گیا ہے: وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب! سادہ و پر سوز ہے دختر دہقاں کا گیت کشتی دل کے لیے سیل ہے عہد شباب! آب روان کبیر! تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب علم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی روح امم کی حیات کشمکش انقلاب صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جوہر زماں اپنے عمل کا حساب نقش ہیں سب ناتمام، خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام، خون جگر کے بغیر (۱۱۲:۶) اس پوری نظم کا صوتیاتی تناسب حسب ذیل ہے: تعداد اشعار صفیری و مسلسل آوازیں ہکار و معکوسی آوازیں ۶۴ ۹۳۱ ۳۹ مسلسل آوازیں جو اردو میں ہکار و معکوسی آوازوں سے تعداد میں خاصی کم ہیں (۹: ۱۴) اقبال کے یہاں بیس گنا سے بھی زیادہ استعمال ہوئی ہیں۔ اس تجزیے سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صفیری اور مسلسل آوازوں کی کثرت اور ہکار و معکوسی آوازوں کا انتہائی قلیل ا ستعمال ہی شاید وہ کلید ہے جس سے اقبال کے نہاں خانہ آہنگ تک رسائی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اب اقبال کی بعض دوسری شاہکار نغموں پر بھی نظر ڈالنی ضروری ہے۔ ذوق و شوق کے ابتدائی اشعار ملاحظہ ہوں:ـ قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود دل کے لیے ہزار سود، ایک نگاہ کا زیاں سوخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب کوہ اضم کو دے گیا رنگ رنگ طیلساں گرد سے پاک ہے ہوا، برگ نخیل دھل گئے ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی ان اشعار سے بھی اسی بات کی توثیق ہوتی ہے جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ ہکار آوازیں صرف وہیں آئی ہیں جہاں فعل کی مجبوری ہے یا ایسے حروف ہیں جو اردو کی بنیادی لفظیات کا حصہ ہیں اور جن سے مفر نہیں۔ اس نظم کے باقی حصوں سے بھی اس مفروضے کی تصدیق ہو جاتی ہے جس کا ذکر ہم پہلے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ذوق و شوق تعداد اشعار صفیری و مسلسل ہکار و معکوسی ۳۰ ۴۵۱ ۲۳ یہ دونوں نظمیں بال جبریل سے تھیں۔ نامناسب نہ ہو گا اگر پہلے مجموعے بانگ درا سے خضر راہ کو بھی دیکھ لیا جائے جو ان نظموں سے بارہ تیرہ سال پہلے لکھی گئی تھی۔ اس کا آغاز شاعر اور خضر کے مکالمے سے ہوتا ہے جس کے بعد مختلف عنوانات قائم کر دیے گئے ہیں پہلے ایک بند پر نظر ڈال لی جائے۔ اس کے بعد پورا تجزیہ پیش کیا جائے گا: ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر گوشہ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا خرم سیر تھی نظر حیران کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب! جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب! رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر انجم کم ضو گرفتار طلسم ماہتاب! دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرار ازل چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب دل میں یہ سن کر بپا ہنگامہ محشر ہوا میں شہید جستجو تھا یوں سخن گستر ہوا خضر راہ تعداد اشعار صفیری و مسلسل ہکار و معکوسی ۸۵ ۱۲۱۵ ۸۷ اقبال کی دوسری مشہور نظموں میں طلوع اسلام، لینن خدا کے حضور میں، ابلیس کی مجلس شوریٰ اور شعاع امید میں بھی یہی کیفیت ملتی ہے۔ خضر راہ، مسجد قرطبہ اور ذوق و شوق کی طرح طلوع اسلام بھی ترکیب بند ہے لینن خدا کے حضور میں مسلسل اور شعاع امیدوار ابلیس کی مجلس شوریٰ بندوں میں تقسیم نظمیں ہیں۔ ’’ ساقی نامہ‘‘ البتہ مثنوی ہے جس میں مصرعوں کے ہم قافیہ ہونے کی وجہ سے افعال کا استعمال بڑھ گیا ہے، جس سے ہکار و معکوسی آوازوں کی تعداد پر بھی اثر پڑتا ہے۔ اگرچہ یہ پوری مثنوی کی کیفیت نہیں ہے، تاہم ہکار اور معکوسی آوازیں کہیں قافیہ ردیف کی مجبوری کی وجہ سے تو کہیں بیان کی روانی کو برقرار رکھنے کے لیے در آئی ہیں۔ یوں بھی ’’ پھر‘‘ بھی، مجھ، کچھ، تھا، تھی بنیادی لفظوں کا استعمال مسلسل کلموں میں ناگزیر ہو جاتا ہے یہ آوازیں اقبال کے یہاں غزل کے شعروں میں بھی کہیں ناگزیر طور پر وارد ہوتی ہیں مثال کے طور پر ذیل کے مصرعے ملاحظہ ہوں: گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک تری نگاہ فرد مایہ ہاتھ ہے کوتاہ گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد آدم کو سکھاتا ہے آداب خداوندی مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب اقبال کے یہاں ہکار اور معکوسی آوازوں کے قلیل استعمال کی خصوصیت کو ذہن نشین کرنے کے لیے اقبال کا تقابل کسی ایسے شاعر سے کرنا ضروری ہے جس کا پیرایہ بیان بول چال کی زبان سے قریب ہو اور جس کے یہاں ہکار اور معکوسی آوازوں کا استعمال فطری طور پر ہوا ہو۔ اس سے یہ اندازہ بھی کیا جا سکے گا کہ اردو میں ان آوازوں کے استعمال کا اوسط کیا ہے اور کیا اقبال کے یہاں اس سے واقعی کوئی انحراف ملتا ہے۔ اس سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ ہمارے بڑے شاعروں میں بول چال کی زبان سے قریب ہونے کا شرف میر تقی میر کو حاصل ہے۔ ان کے یہاں سینکڑوں غزلیں ایسی ہیں جن کے ردیف و قوافی میں بھی ہکار و معکوسی آوازیں آزادانہ استعمال ہوئی ہیں: ہم تو اک آدھ گھڑی اٹھ کے جدا بیٹھیں گے۔۔۔ کھا بیٹھیں گے، چھپا بیٹھیں گے میر جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ۔۔۔ سمجھا کچھ، ٹھہرا کچھ بور نقش و نگار سا ہے کچھ۔۔۔ اعتبار سا ہے کچھ، پیار سا ہے کچھ موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا۔۔۔ دفتر نکلا خوش وہ کہ اٹھ گئے ہیں دامان جھٹک جھٹک کر۔۔۔ کھٹک کھٹک کر، مٹک مٹک کر دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا۔۔۔ کوٹا گیا، چھوٹا گیا بھاری پتھر تھا چوم کر چھوڑا۔۔۔ توڑا، تھوڑا میر کے یہاں ایسی غزلیں بھی ہیں جو ڑ پر یا ٹ پر ختم ہوتی ہیں: آشوب دیکھ چشم تری سر رہے ہیں جوڑ۔۔۔ موڑ موڑ، پھوڑ پھوڑ ہوا ہے خواب سونا آہ اس کروٹ سے اس کروٹ۔۔۔ لٹ لٹ، کھٹ کھٹ دل لے ہیں یوں کہ ہر گز ہوتی نہیں ہے آہٹ۔۔۔ نٹ کھٹ، جمگھٹ لیکن اگر صرف ایسی غزلوں کو سامنے رکھا جائے تو نتائج مبالغہ آمیز نکلیں گے۔ کیونکہ اول تو قافیے اور ردیف میں آوازوں کے استعمال کے شعوری ہونے کا امکان رہتا ہے، دوسرے یہ کہ ایک بار جب ایسی آوازیں مطلع کے قافیے ردیف میں آ پڑیں تو باقی اشعار میں ان کا التزام واجب ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اگر صرف ایسی غزلوں کا تجزیہ کیا جائے تو میر کے کلام میں ان آوازوں کے تناسب کی نہایت مبالغہ آمیز تصویر سامنے آئے گی۔ بہتر یہ ہے کہ بعض دوسری غزلوں کو لیا جائے اور ہکار و معکوسی آوازوں کے استعمال کو ردیف و قوانی سے ہٹ کر دیکھا جائے: تعداد و اشعار ہکار و معکوسی آوازیں الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا ۱۵ ۲۴ کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی ۹ ۱۴ چپکے چپکے میر جی تم اٹھ کے پھر کیدھر چلے ۹ ۲۷ ۳۳ ۶۵ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ میر کے یہاں ہکار و معکوسی آوازوں کا تناسب تقریباً دو آواز فی شعر ہے۔ پورے کلیات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ تناسب کچھ زیادہ ہی نکلے گا، اس سے کم ہر گز نہیں۔ اس سلسلے میں کلام غالب کو دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ اختصار کی خاطر ہم نے غالب کی غزلوں کے اتفاقی تجزیے پر اکتفا کیا جس کی تفصیل حاشیے میں درج ہے۔ 1؎ اس تجزیے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ غالب کے اکیانوے 1؎ اگلے صفحہ پر ملاحظہ ہو اشعار ہیں معکوسی اور ہکار آوازیں نواسی بار آئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غالب کے یہاں بھی جنہیں اپنے گذشتہ فارسی اور مستعار ’’ نقش ہائے رنگ رنگ‘‘ پر ناز تھا، ان آوازوں کے استعمال کا تناسب تقریباً ایک آواز فی شعر ہے۔ میر اور غالب کے اس تناظر میں دیکھئے تو ان آوازوں کے استعمال کے سلسلے میں اقبال کی صوتی انفرادیت کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے: میر: ہکار و معکوسی آوازیں فی شعر ۲ غالب: ۱ اقبال: ایک سے کم ان نتائج سے ظاہر ہے کہ میر جن کے ہاں ہکار و معکوسی آوازوں کا استعمال تقریباً فطری ہے ان کی بہ نسبت غالب کے یہاں ان آوازوں کا استعمال آدھا اور اقبال کے یہاں سب سے کم ہے۔ ان نتائج کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شاید اقبال کے یہاں ہکار و معکوسی آوازوں کے استعمال کا تناسب اردو شاعری میں سب سے قلیل ہے۔ اب اس کو صفیری و مسلسل آوازوں کے استعمال سے ملا کر دیکھئے۔ تو حیرت ہوتی ہے کہ عربی فارسی لفظیات کا ذخیرہ جو اقبال کا سرمایہ امتیاز ہے، وہی غالب کے لیے بھی وجہ افتخارتھا لیکن مشترک سرچشمہ لفظیات کے با وصف دونوں کے یہاں اس کے پہلو بہ پہلو ہکارہ معکوسی آوازوں کے استعمال کی کیفیت میں خاصا فرق ہے۔ غالب کے صوتی آہنگ کا تجزیہ کرتے ہوئے پروفیسر مسعود حسین نے ان کے یہاں صفیری آوازوں کے استعمال پر جا بجا طور پر زور دیا ہے ان کا بیان ہے ’’ ان غالب کی فارسی گوئی اور فارسی دانی کا اثر ان کے ریختے پر بھی نمایاں ہے۔ اردو شعر کی زبان کو انہوں نے ذوق کی محاورہ بندی سے نکال کر عجمی لالہ زاروں میں لا کھڑا کیا۔ 2؎‘‘ غالب اور اقبال میں یہ خصوصیت مشترک ہے۔ اقبال کے رموز و علائم میں بڑی تعداد ایسے الفاظ کی ہے جن میں صفیری اور (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) دیوان غالب طبع برلن ص ۳۱۔ ۳۰ تعداد اشعار ۱۳ ہکار و معکوسی آوازیں ۲۱ ۵۳۔۵۲ ۱۱ ۶۵۔ ۶۴ ۵ ۱۰۱۔ ۱۰۰ ۱۴ ۱۲۳۔ ۱۲۲ ۱۷ ۱۶۱۔ ۱۶۰ ۱۵ ۲۰۱۔ ۲۰۰ ۶ ۸۹ 1؎ مسعود حسین خاں ’’ غالب کے اردو کلام کا صوتی آہنگ‘‘ مشمولہ بین الاقوامی غالب سیمینار ۱۹۶۹ء ص ۲۰۷ مسلسل آوازیں نمایاں طور پر استعمال ہوئی ہیں، یا پھر ایسی آوازیں آئی ہیں جو منہ کے اگلے حصوں سے ادا ہوتی ہیں: شاہین، مشرق، شمع و شاعر، شعاع، روشنی، شفق، شعلہ، فقر، فرشتے، فرمان، فقیہہ، خودی و خدا، عقل و عشق، ارض و سما، ذوق و شوق، زمان و مکاں، سوز و ساز، درد و داغ، جستجو و آرزو، شہید جستجو، شکر و شکایت، تسلیم و رضا، ابلیس و آدام، نیسان و صدف، زیست، مسجد، ملا، مدرسہ، صوفی، خانقاہ، کلیسا، مرد مومن، شمشیر و سناں، طاؤس و رباب، نرگس، نالہ بلبل، لالہ صحرا، چراغ لالہ۔ اس خصوصیت کی توثیق ان لفظوں سے بھی ہوتی ہے جہاں اقبال کئی لفظوں کے معنوی سیٹ میں سے ایک کا انتخاب کرتے ہیں، مثلاً وہ شہباز اور عقاب پر شاہین کو ترجیح دیتے ہیں، یا جنت، بہشت اور فردوس میں سے فردوس کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، یا شمس، خورشید اور آفتاب میں سے وہ زیادہ آفتاب کے حق میں ہیں۔ (اگرچہ اس انتخاب میں طویل مصوتوں اور غنائی مصوتوں کا بھی ہاتھ ہے جس کا ذکر آگے چل کر کیا جائے گا) یہاں اس بات کی وضاحت مقصود ہے کہ صفیری اور مسلسل آوازوں کا استعمال مصوتوں کا بھی ہاتھ ہے جس کا ذکر آگے چل کر کیا جائے گا) یہاں اس بات کی وضاحت مقصود ہے کہ صفیری و مسلسل آوازوں کا استعمال تو غالب کے یہاں بھی کثرت سے ہوا ہے، لیکن اقبال کی لے حرکی اور رجائی ہے جبکہ غالب کا تفکر حزنیہ ہے اور اس میں الم ناکی کی کیفیت ہے۔ اس کیفیت کے اظہار میں منہ کے اگلے حصوں سے ادا ہونے والی آوازوں کے بجائے منہ کے پچھلے حصوں سے ادا ہونے والی آوازوں یا پھر مہ موع آوازوں سے مدد ملی ہے۔ مثلاً ذیل کے اجزائے کلام غالب کے پسندیدہ الفاظ ہیں اور ان میں گ، ج، د، غ، ب اور م کی جو نمایاں حیثیت ہے وہ ظاہر ہے: دل و جگر، زخم جگر، جگر داری کا دعویٰ، دعوت مژگاں، نگاہ بے محابا، بت بیداد گر، ستم گرجان، غم گسار، غارت گر جنس و وفا، دود چراغ محفل، داغ دل، درد بے دوا، مرگ تمنا، رگ جان، رگ سنگ، سنگ گراں، بوئے گل، گل نغمہ، موج محیط بے خودی، سیلاب گریہ، سیلاب بلا، حلقہ گرداب، بند غم، ساغر مے خانہ نیرنگ، رنج نو میدی جاوید، تغافل ہائے ساقی، غم آوارگی ہائے صبا۔ غالب اور اقبال کے صوتیاتی آہنگ کا بنیادی فرق مصمتوں سے زیادہ مصوتوں کے استعمال میں کھلتا ہے۔ پروفیسر مسعود حسین نے صحیح ارشاد کیا ہے ’’ غالب کا کمال لفظ اور ترکیب میں ظاہر ہوتا ہے صوتی آہنگ میں نہیں۔ وہ لفظ کی تہ داری اور ترکیب کی پہلو داری سے اکثر اوقات صوتی آہنگ کی کمی کو چھپا لے جاتے ہیں۔ 1؎‘‘ اقبال کے یہاں یہ کیفیت نہیں ان کے یہاں صوتی آہنگ کی کمی کا احساس قطعاً نہیں ہوتا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ ان کے اشعار کو کہیں سے پڑھیے، ان میں عجیب و غریب نغمگی کا احساس ہو گا، گویا لفظوں میں موسیقی سموئی ہے۔ آخر غالب کے صوتی آہنگ کی وہ کون سی کمی ہے جو اقبال کی آواز تک پہنچ کر دور ہو گئی ہے۔ اتنی بات معلوم ہے کہ غالب کا فن معنی آفرینی کا رمزیہ فن ہے۔ ان کا فنی سانچا غزل کا شعر یعنی دو مصرعوں کی محض ذرا سی زمین ہے جس میں وہ جہان معنی آباد کر دیتے ہیں اگرچہ اقبال کی شاعری بھی رمزیہ امکانات رکھتی ہے لیکن ترغیب عمل کی پیغامی شاعری ہونے کی وجہ سے اس کے فنی سانچے وسیع ہیں۔ 1؎ مسعود حسین خاں ’’ غالب کے اردو کلام کا صوتی آہنگ‘‘ مشمولہ بین الاقوامی غالب سیمینار ۱۹۶۹ء ص ۲۰۵ اقبال کی اکثر غزلوں میں بھی نظموں کے تسلسل کا لطف ہے۔ غالب کے یہاں رمزیہ فنی رویے کی وجہ سے نحوی ڈھانچے میں خاصی تخفیف ہو گئی ہے اور افعال تو خاصے نچڑ کر سامنے آتے ہیں۔ اس اختصار و تخفیف کا منفی اثر خاص طور پر طویل مصوتوں اور غنائی مصوتوں پر ہوا ہے۔ اقبال کے یہاں اظہاری وسعت اور ربط بیان کی وجہ سے اکثر فعل اور کلمے کے دیگر لوازم بغیر تخفیف کے نظم ہوئے ہیں، اور ان کی وجہ سے طویل مصوتوں کی فراوانی پیدا ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر کلیات اقبال سے ایک اتفاقی تجزیے کے بیس اشعار میں طویل یا غنائی مصوتے ۳۳۵ بار آئے ہیں۔ یعنی اقبال کے یہاں طویل، غنائی مصوتوں کا اوسط فی شعر ۱۶۲۸ 1؎ ہوا۔ اس اوسط کی توثیق کے لیے اقبال کی دو غزلوں پر بھی نظر ڈالی گئی: کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس لباس مجاز میں سات شعر: ۱۱۷ طویل مصوتے: اوسط ۷ء ۱۶ اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا پانچ شعر: ۱۰۲ طویل مصوتے: اوسط ۴ء ۲۰ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کے یہاں فی شعر کم از کم سولہ طویل مصوتوں کے استعمال کا امکان ہے۔ اس اعتبار سے غالب کا کلام دیکھئے تو مایوسی ہوتی ہے مثال کے طور پر دیوان غالب کے اتفاقی تجزیے سے جو اوسط ہاتھ آتا ہے۔ وہ ۶ء ۱۱ طویل مصوتے فی شعر کا ہے۔ 2؎ ذیل کی غزلوں کی اوسط سے اسے مزید جانچا گیا: نہ گل نغمہ ہوں نہ پردہ اشعار ۹: طویل مصوتے ۸۸ سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے اشعار ۷: طویل مصوتے ۹۸ دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی اشعار ۹/۲۵: طویل مصوتے ۹۹/۲۸۵ اوسط فی شعر ۱۱ گویا غالب کے یہاں طویل مصوتوں کے وقوع کا امکان گیارہ سے بارہ طویل مصوتے فی شعر سے زیادہ کا نہیں۔ غالب کی جس کم آہنگی کا ذکر پروفیسر محمد حسین نے کیا ہے، عین ممکن ہے کہ اس کی ایک وجہ طویل مصوتوں کی کفایت ہو۔ لیکن ابھی اس بارے میں پوری تصویر سامنے نہیں آئی، غالب کے یہاں طویل مصوتوں کی کفایت اور اقبال کے یہاں ان کی فراوانی کا پورا اندازہ، اسی وقت لگایا جا سکتا ہے جب اس بارے میں میر کا اوسط بھی سامنے ہو:ـ 1؎ کلیات اقبال اردو، طبع شیخ غلام علی، لاہور ص ۷۰، ۷۱، ۱۴۰، ۱۴۱، ۲۱۰، ۲۱۱، ۲۸۰، ۳۵۰، ۳۵۱، ۴۲۲، ۴۲۳، ۴۹۰، ۴۹۱، ۵۶۲، ۵۶۳، ۶۳۰، ۶۷۸، ۶۷۹ (طویل/غنانی مصوتے ۲۲+۱۹+ ۲۳ +۱۸ +۱۴+۱۳+۱۶ +۲۰+ ۱۸+۱۹ +۱۹ +۱۷ +۱۳ +۱۳ +۱۷ +۱۶ +۱۶ +۱۴ +۱۶ = کل ۳۳۶ بیس اشعار میں اوسط فی شعر ۱۶۲۸ 2؎ دیوان غالب طبع برلن ۱۱، ۱۰، ۱۱، ۱۴، ۱۰، ۱۰، ۱۲، ۹، ۱۲، ۱۴، ۱۴ کل ۱۱۶ اشعار ۱۰ اوسط ۶ء ۱۱ فی شعر الٹی ہو گئیں سب تدبیریں۔۔۔: اشعار ۱۵: طویل مصوتے ۲۸۲ کچھ کرو فکر ۔۔۔: اشعار ۹: طویل مصوتے ۱۰۱ سختیاں کھینچیں سو کھنچیں۔۔۔ـ: اشعار ۹: طویل مصوتے ۱۴۰ ۳۳ ۵۲۳ اوسط فی شعر۱۶ اب ان تینوں شاعروں کے یہاں طویل مصوتوں کے استعمال کی جو تصویر مرتب ہوئی ہے وہ یوں ہے: میر ۱۶ طویل مصوتے فی شعر غالب ۱۱ اقبال ۱۶ اس تقابلی تجزیے سے یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ طویل مصوتوں کے معاملے میں اقبال غالب سے خاصے آگے ہیں اور میر کے ہم پلہ ہیں۔ اتنی بات واضح ہے کہ جہاں طویل مصوتوں کی فراوانی ہو گی۔ غنائی مصوتوں کی کثرت بھی وہیں ہو گی، کیونکہ اردو کا ایک عام رحجان ہے کہ غنیت صرف طویل مصوتوں ہی کے ساتھ وارد ہوتی ہے۔ نغمگی کے لیے طویل مصوتوں کے ساتھ ساتھ غنائی مصوتوں کی جو اہمیت ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ لیکن محض طویل مصوتوں کی فراوانی بجائے خود کوئی بڑی بات نہیں۔ اقبال کا کمال جس نے ان کے صوتیاتی آہنگ کو اردو شعریات کا عجوبہ بنا دیا ہے دراصل یہ ہے کہ طویل و غنائی مصوتوں کی زمینی کیفیات اقبال کے یہاں زناٹے دار صفیری و سلسلہ دار ’’ مسلسل‘‘ آوازوں کی آسمانی کیفیات کے ساتھ مربوط و ممزوج ہو کر سامنے آتی ہیں۔ اقبال کے یہاں صفیری و مسلسل آوازوں اور طویل و غنائی مصوتوں کا یہ ربط و امتزاج ایک ایسی صوتیاتی سطح پیش کرتا ہے جس کی دوسری نظیر اردو میں نہیں ملتی۔ اصوات کی اس خوش امتزاجی نے اقبال کے صوتیاتی آہنگ کو ایسی دلآویزی، توانائی، شکوہ او رآفاق میں سلسلہ در سلسلہ پھیلنے والی ایسی گونج عطا کی ہے جو اپنے تحرک و تموج اور امنگ و ولولے کے اعتبار سے بجا طور پر یزداں گیر کہی جا سکتی ہے۔ ٭٭٭ اقبال۔ مذہب اور سائنس ڈاکٹر محمدؐ حسن انیسویں صدی میں انسان نے امکانات پر یقین کی شمع روشن کی مشین نے عقل پر اعتماد کرنا سکھایا اور ہیومنزم کی وہ روآ ئی جس نے انسان کے سر پر خالق کائنات کا تاج رکھ دیا دنیا اس کے سامنے سر بسجود تھی فطرت کے صاعقہ بر دوش را ہوار کی باگ اس کی گرفت میں تھی اور زمین سے آسمان تک گویا اس کی نگاہ التفات کے منتظر تھے۔ مساوات، سماجی انصاف اور عام خوش حالی کے خواب دیکھے گئے ایسا لگا کہ مسرت نام کی رنگ برنگی تسلی اب انسانی عقل کی دو انگلیوں کی دسترس میں ہے مگر ان خوابوں نے پرانے سماجی ڈھانچے کو للکارا سماجی انصاف، مساوات اور خوش حالی عام ہو گی تو ترقی کے زینے پر اونچ نیچ باقی نہ رہے گی دولت کی تقسیم کا طریق کار بدلنا ہو گا اور دبے کچلے طبقے ابھر کر امارت و ثروت ہی کے نہیں تہذیب و شائستگی کے اجارہ داروں سے اپنا حق مانگیں گے۔۔ گویا ارمانوں کا وہ طوفان آئے گا جسے اہل ثروت اور صاحب اقتدار طبقے کی زبان میں نراج بلکہ روز حشر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس روز حشر کا لرزہ بیسویں صدی پر طاری ہوا عقلی کی جگہ تشکیک بلکہ عقل سے بیزاری نے لے لی۔ انسان استدلال کے ہتھیار کو کند کر کے جنون اور جذبے کی امان میں جانے لگا اور اب تک کے تہذیبی ڈھانچے کے توازن کو قائم رکھنے کے لئے اس نے ہمدردی، انسان دوستی اور عام خوش حالی کے بجائے قوت و جبروت میں پناہ لینے کی سوچی جو آگ اور خون کی قیمت پر ہی سہی مگر پرانے توازن کو قائم رکھ سکے۔ صنعتی ترقی کا تضاد: یہ بیسویں صدی وہ ہے جب صنعتی انقلاب اپنی برکتیں پھیلا رہا تھا، بازاروں، منڈیوں اور خریداروں کی تلاش میں مشینیں اور ان کے مالک پسماندہ ممالک کو کھوندے ڈال رہے تھے اور اقتصادی سامراج کی اس دوڑ میں محکوم نو آبادیوں کی تہذیب ان کے علم و دانش، ان کے شعر و ادب کا رنگ و آہنگ، لہجہ اور لے بدلے ڈال رہے تھے اور اس سب لوٹ مار کے بعد بھی اقتصادی بحران عفریت کی طرح ان کے پیچھے لگا ہوا تھا جو ان کے سینے پر سوار ہو کر انہیں ہر اس قدر کی نفی کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ جس کی حمایت اور تحفظ کا انہوں نے بیڑا اٹھایا تھا۔ جمہوریت کی بنیاد مساوات پر تھی مگر اب یہی جمہوریت نواز سفید فام اور سیاہ فام، یورپی اور غیر یورپی انسانوں کے درمیان امتیاز اور استبداد کی دیوار اٹھا رہے تھے جمہوریت کی بنیاد آزادی پر تھی اور یہی جمہوریت کے قافلہ سالار کروڑوں انسانوں کے غلام بنانے کے ذمے دار تھے جمہوریت کی بنیاد سماجی انصاف اور پارلیمانی طریق حکومت پر تھی اور یہی جمہوریت کے علمبردار سماجی نا انصافی کو روا رکھنے اور پارلیمانی طریق حکومت سے روگردانی کرنے پر آمادہ تھے۔ گویا بیسویں صدی اس اژدھے کی مانند تھی جو اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے ہر وہ لفظ، ہر وہ اعلیٰ تصور جو تہذیب نے پیدا کیا تھا آج اسی تہذیب کی زد میں تھا یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال پہلی بار یورپ گئے اور فکر کے اس بحران سے دو چار ہوئے۔ محکوم قومیں جب اپنے سے زیادہ ترقی یافتہ اقوام کی زیر نگیں ہوئی ہیں تو انہیں فوجی اور انتظامی استبدادی کا مقابلہ نہیں ہوتا بلکہ تہذیبی اور فکری سطح پر انہیں زندگی اور موت کی لڑائی لڑائی ہوتی ہے۔ ہر لمحہ حکمران قوم ان کے تمام ادرشوں اور اقدار کو للکارتی ہے اور ان کے ماضی ہی نہیں حال کا بھی جواز طلب کرتی ہے ایسی صورتوں میں محکوم اقوام کے دانشوروں کا ایک طبقہ ضرور اپنے ماضی کے نہاں خانوں کی طرف لوٹتا ہے اور اپنی تہذیب کے ہیرے موتی چنتا ہے اور اپنی امتیازی خصوصیات تلاش کرتا ہے تاکہ ان کے بل پر وہ حکمران قوم کے آگے سر اٹھا کر کھڑا ہو سکے اور احساس تفاخر قائم رکھ سکے۔ اقبال کے زمانے تک ہندوستان کے دانشوروں کا ایک طبقہ اس بحران میں مبتلا تھا اور ماضی کے انبار سے ہیرے موتی چن رہا تھا ہندوستان کی عظمت پارینہ کی جستجو میں سب سے زیادہ تابناک پہلو روحانیت کا تھا کہ مذہب کا سرچشمہ یہی سر زمین رہی ہے اس لئے اقبال نے دوسرے متعدد مفکرین کی طرح مذہب کے پیرایہ اظہار کو اپنایا۔ میرے نزدیک یہ بات اہم ہے کہ مذہب اقبال کے لئے پیرایہ اظہار ہے اقبال مذہبی شاعر نہیں ہیں مذہبی پیرایہ اظہار کے شاعر ہیں اس پیرائے میں ان کے دور اور ان کی شخصیت میں اقدار و تصورات کی کش مکش ظاہر ہوتی ہے گو اس پورے عمل کو اقبال مذہب کے لب و لہجے میں ادا کرتے ہیں اس وجہ سے اقبال مذہبی فکر کے سلسلے میں بھی تشکیل جدید کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ محکوموں کی رزم گاہیں: محکوم اقوام کی انانیت مختلف روپ اختیار کرتی ہے ان میں جغرافیائی، تاریخی، مذہبی، لسانی اور دیگر قسم کی مصیبتیں بھی کار فرما ہوتی ہیں کہیں ان کا روپ معتدل ہوتا ہے کہیں انتہا پسندانہ۔ اقبال کے ہاں یہ سبھی یورپ جا بجا ملتے ہیں اقبال نے وطن دوستی سے یہ سفر شروع کیا۔ جغرافیائی اور علاقائی وابستگیوں سے ہوتے ہوئے وہ تصوراتی اور فکری سطح تک آئے جہاں فن کا سابقہ روحانیت اور مذہب سے تھا۔ یہاں گرو نانک، رام تیرتھ، شری کرشن اور متعدد دوسرے ہندوستانی فلسفی اور پیشوا دامن گیر ہوئے۔ پھر ان کی نظر مغربی ایشیاء مشرقی یورپ اور افریقہ کی تاریخ پر بھی پڑی جہاں اسلام اور عیسائیت کے نام پر لڑی جانے والی مسیحی جنگوں کی وجہ سے میدان کار زار گرم رہا تھا۔ اس جنگ و جدل میں ظاہر ہے ان کی ہمدردیاں صلیب کی جگہ ہلال کے ساتھ تھیں۔ وجہ اس کی طرف مذہبی یگانگت نہ تھی۔ بلکہ وہ نفسیاتی تسکین بھی تھی جو آج کے حکمراں اقوام کو ماضی کے آئینے میں پسپا ہوتے دیکھ کے میسر آتی ہے۔ جس طرح عبدالحلیم شرر نے صلیبی جنگوں کے پس منظر میں ناول لکھ کر آج کی شکست کا بدلہ گزرے ہوئے کل کی رزم گاہوں میں لے لیا۔ اسی طرح اقبال کی شاعری نے بھی عظمت پارینہ کے ان افسانوں میں سکون پایا ہو گا۔ اس رزم گاہ کا ایک سبق اور بھی تھا۔ کل کی یہ فاتح اور ترقی یافتہ قومیں آج ذلیل و خوار تھیں۔ اتفاق یہ کہ ان کو ذلیل و خوار کرنے والی طاقت ایک ہی تھی۔ اسی وجہ سے اقبال نے ایک طرف تو ان تمام مفتوح اور محکوم اقوام کے درمیان یگانگت کا ایک رشتہ محسوس کیا اور اردو میں یقینا اور ہندوستانی ادبیات میں غالباً پہلی بار ایشیائی وحدت کا تصور پیش کیا۔ دوسری طر ف مغربی ایشیا کے ملکوں کی باہمی یگانگت نے انہیں اسلام کی طرف کھینچا جسے وہ ایک متحد کرنے والی قوت تصور کرنے لگے۔ ماضی کی صلیبی جنگوں اور حال کی مظلومی اور محکومی نے ایک سوال اقبال کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اقوام کے عروج و زوال کے اسباب کیا ہیں؟ کیا واقعی یہ سب کچھ اتفاقی ہے یا اس کے پیچھے عناصر اور رد عمل کا کوئی مخصوص نظام ہے۔ اس سوال کا جواب سبھی شعبوں کی مدد سے تلاش کرنا تھا اور فلسفی کی حیثیت سے ان تمام شعبوں کے جزوی اور فروعی اختلافات کے باوجود ان کی فکری وحدت سے نتیجے اخ کرنا ان کی فکری ڈسپلن کا حصہ تھا۔ اتفاق سے زمانہ وہ تھا جب سائنس اس سوال کا کسی قدر تسلی بخش حل تلاش کر چکا تھا۔ ڈارون نے اپنے نظریہ ارتقاء کی بنیاد اس سوال کے جواب پر قائم کی تھی۔ نسل انسانی خود اسی ارتقاء کا نتیجہ تھی۔ یہ ارتقاء اتفاقی نہ تھا بلکہ جہد للبقا کی زبردست کشمکش پر مبنی تھا۔ ڈارون نے مختلف حیاتیاتی سلسلوں میں سے بعض کے ارتقا پانے اور بعض کے مٹ جانے کا راز جہد للبقا کو قرار دیا تھا۔ جہد للبقا کی بنیاد زندگی کی وہ تڑپ ہے جو بعض حیاتیاتی سلسلوں کو ماحول سے مطابقت اور تسخیر فطرت پر آمادہ کرتی ہے اور بعض حیاتیاتی سلسلوں میں اس تڑپ نے جگہ پائی اور بعض کے سینے میں یہ چنگاری بجھ گئی۔ یہی تڑپ ارتقاء کی امین اور راہبر بنی اور اس کا فقدان فنا اور موت کہلایا۔ جہد للبقاء کا یہ نظریہ سائنس کے دوسرے نظریوں کی طرح مختلف نظام ہائے فکر کے ہاتھ میں پڑ گیا۔ اور مختلف طبقوں نے اسے مختلف طریقوں سے برتا۔ زمانہ سامراج کا تھا جب ایک سرمایہ دار ملک صنعت منڈی، خام مواد اور سستی محنت پر کام کرنے والے مزدوروں کی تلاش میں پسماندہ ملکوں پر قبضہ کرنے اور انہیں محکوم بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے۔ گویا سرمایہ داری یا صنعتی اجارہ داری کی لوٹ مار بقول لینن اپنے انتہائی اور آخری دور میں داخل ہو چکی تھی۔ اس لئے Impe Rialism کے مفکروں کے ہاتھوں جہد للبقا کا اصول Speciles انواع کے بجائے اقوام پر اور اقوام سے افراد پر بھی نافذ کیا جائے گا گویا اس کا مطلب یہ نکلا کہ بڑی مچھلی کو چھوٹی مچھلیاں نگل لینے کی پوری آزادی ہے کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مناجات، آئین فطرت کے مطابق کمزور اقوام منتج ہونے کے لیے ہیں اور طاقت ور اقوام حکمرانی کے لئے۔ رہا افراد کا معاملہ تو Laisses Faire آزادانہ مقابلہ کی میزان عدل گڑی ہے اور ہر روز جو زندہ رہنے کے اس مقابلہ میں دوسروں کو شکست دے کر اپنے وجود کا ثبوت فراہم کرتاہے صرف وہی زندہ رہنے کا حق رکھتا ہے۔ مشینوں کے اندھیرے: سائنس کے ایک معنی اور بھی تھے جو انیسویں صدی کے آخری اور بیسویں صدی کے شروع میں جانے پہچانے گئے۔ تکنالوجی اور تکنالوجی صرف مشینوں اور کارخانوں کا نظام نہ تھا بلکہ ان سے پیدا ہونے والے مربوط اور مرتب نظام حیات کا نام تھا۔ تکنالوجی صرف ایک مخصوص سماجی تنظیم کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ ایک مخصوص قسم کے معاشرے کو اور ایک مخصوص قسم کے ذہن اور شخصیت رکھنے والے افراد کو جنم د یتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب مشینوں اور کارخانوں کی طرح تکنالوجی کی باگ بھی بڑی حد تک منافع کے اصول پر کام کرنے والے اجارہ داروں کے ہاتھ میں ہو جن کے نزدیک سماجی صورت کے بجائے منافع خوری قدر اول کی حیثیت رکھتی ہو۔ ایسی حالت میں اجارہ داروں کے لئے صنعتی ترقی کی صرف ایک معنویت باقی رہ جاتی ہے اور وہ ہے منافع اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان صنعتی اداروں میں کام کرنے والوں کے لئے کام اپنی دل چسپی، اپنا احساس تفاخر، اپنا پندار کمال اور اپنی سماجی معنویت کھو کر محض وسیلہ روزگار بن جاتا ہے۔ جیسے جیسے یہ نظام بڑھتا اور پھیلتا جاتا ہے یہ بے دلی، بے نمکی اور بے زاری کا احساس کارخانوں میں کام کرنے والوں ہی کو نہیں بلکہ سماج کے ہر پیشے اور ہر صف کے لوگوں تک پھیلتا جاتا ہے، جسے مارکس نے Alienation کا نام دیا تھا۔ شاعر اپنے گیتوں کی سماجی ترسیل سے محروم ہوتا جاتا ہے۔ دانش ور اپنے کو چھپائی کی مشین اور یونیورسٹیوں کے ڈگری بانٹنے والے ادارے کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور زندگی ہر قسم کے معنی سے خالی ہو جاتی ہے، بے روح الفاظ ہر طرف بھٹکتے ہیں۔ اقبال کا یورپ اپنے افکار کے انہیں اندھیروں میں گم تھا۔ سرمائے کا اقتصادی نظام اپنا کا بوس پیدا کر چکا تھا اور صنعتی ترقی اپنے تضادات میں اسیر تھی۔ اقبال اس نئی صورت حال سے دو چار تھے مگر یہ فکرس چیلنج ایشیا کے غلام ملک ہندوستان کے ایک مسلمان شاعر کو در پیش تھا جو فلسفی بھی تھا اور جو قوموں کے عروج اور زوال کا بھی دمعلوم کرنے کے لیے ضمیر کائنات میں غوطہ زن تھا۔ اسی لئے یورپ کے اس اقتصادی اور فکری بحران میں اس شاعر کو اپنے لئے امید کی ایک کرن دکھائی دی۔ شاید اس کا وطن ایشیا کے پاس ہے جو یورپ کے ضمیر میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔ اگر ایشیا کی تقدیس تھی تو روحانیت اور مذہب کے شعبوں میں لہٰذا اچانک ذہن ان ہی میدانوں کی طرف گیا۔ لیکن اگر ان دونوں شعبوں میں اولیت سے ارتقاء کی کلید مل سکتی ہے تو پھر ایشیا غلام ہی کیوں ہوتا اور اس کی پسماندگی ایسی عبرت ناک شکل کیوں اختیار کرتی۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ روحانیت اور مذہب کی تشکیل نو اس اندوز سے ہو جو ان کے فرسودہ اور غلام بنانے والے عناصر کو خارج کر دے اور ان میں ارتقاء کی تڑپ اور زندگی کی توانائی بھر دے۔ یہاں یہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے کہ اقبال اس مہم میں اکیلے نہ تھے۔ اس دور میں ایک طرف جمال الدین افغانی، دوسری طرف آر بندو گھوش اور رابندر ناتھ ٹیگور اپنے اپنے طریقے پر روحانیت او رمذہب کے مختلف عناصر کی تشکیل نو کر کے اس میں ارتقاء کی نئی توانائی کی کلید تلاش کر رہے تھے اقبال نے یہ کام اپنے ڈھنگ سے کیا اور اپنے فلسفیانہ ذہن سے سائنس اور مذہب کے درمیان ایک نیا توازن ڈھونڈ نکالنے کی کوشش کی۔ عینیت پسند فلسفی: ایک نئے توازن کی نوعیت سے بحث کرنے سے قبل اقبال کی شخصیت کی طرف دوبارہ رجوع کرنا ضروری ہے۔ یورپ کے اقتصادی صنعتی اور فکر ی بحران سے جو فلسفی شاعر دو چار ہو اور کیسا فلسفی اور کیسا شاعر تھا۔ فلسفی کی حیثیت سے اس کا رشتہ عینیت پسندوں سے بہت گہرا تھا۔ اس کے ہاتھ میں خیال کا دامن تھا اور یہی خیال اور تصور اس کے نزدیک نت نئے روپ رنگ بدلتے تھے اور ارتقاء کی نئی نئی شکلیں اختیار کرتے تھے۔ ان میں سے ہر تصور ایسا تھا جو ہر قسم کی جامع و مانع تعریف کی سرحدوں سے آگے نکل جاتا تھا اور ان تصورات کی مجرد اور مطلق شکلیں مابعد الطبیعاتی اور روحانی رنگ اختیار کر سکتی تھیں۔ مادہ اگر کچھ تھا تو اس کو اولیت اور برتری حاصل نہ تھی۔ صداقت تصوراتی تھی اور تصورات مادے کی ساری کائنات سجائے ہوئے تھے۔ انہیں تصورات کی بساط پر روحانیت اور مذہب سجائے جا سکتے تھے اور اقبال کا پورا ماضی ان ہی پردوں میں بول سکتا تھا۔ شاعر ایسا جس کے نزدیک شاعری کا لفظ شعور سے مشتق تھا اور شاعری کے ذریعے گویا صرف اپنی تفہیم ہی نہیں بلکہ کائنات کی تفہیم مقصود تھی۔ ان راز ہائے سربستہ کی جستجو جو ضمیر کائنات میں چھپے ہوئے ہیں اور جن پر اسرار اصول و ضوابط کے ماتحت تاریخ کا سفر جاری رہا ہے شاعری ان کے نزدیک محض ان کی اپنی ذات کا سیاق و سباق نہ تھی۔ بلکہ ایک طرف پوری کائنات کے سر گم میں انسانی ذات کا عرفان تھی اور دوسری طرف دور عصر کی مکمل بصیرت اور دانش کا نہ صرف جزو بلکہ اس کی خالق اور صحت گر بھی تھی۔ شاعر کا کام محض اظہار نہ تھا بلکہ اپنے دور کی بصیرت میں تبدیلی پیدا کرنا تھا۔ ’’ مرا ذوق بصیرت عام کر دے‘‘ ان کی آرزو اور ’’ مردی دعا ہے تری آرزو بدل جائے‘‘ ان کی دعا تھی شاعری کا یہ لب و لہجہ اردو شاعری میں سرسید احمد خاں کی علی گڑھ تحریک آواز باز گشت کے نام سے بھی پہچانا جانا ہے جن کے زیر اثر شاعری سماجی اصلاح اور نئی آگہی کا ذریعہ بن گئی لیکن حالی اور شبلی کے ہاں جو شعری آہنگ وکٹورین اصلاح پسندی کے راستے سے آیا تھا اقبال کے ہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ رومانیت کا رنگ و آہنگ ہی نہیں رومانی سرمستی اور انانیت کی سرخوشی سے ہو کر گزر چکا تھا۔ رومانی لے: ہندوستان کے سیاق و سباق میں دیکھئے تو پہلی جنگ عظیم کے بعد کے دور میں ایک عجیب و غریب قسم کی رومانی سرمستی اور انانیت کا رواج ہوا تھا۔ یہ دور وہ ہے جب سجاد یلدرم، نیاز فتح پوری اور پریم چند کے افسانوں میں خلیق دہلوی اور رسالہ ’’ نقاد‘‘ آگرہ کے مضامین میں ادب لطیف کی نثر اور ابو الکلام آزاد کے خطبات میں انانیت کی لے اونچی تھی اور رومانیت کا رنگ چوکھا تھا۔ سیاست کے میدان میں یہ دور گاندھی داد کے عروج کا تھا جس نے پھر مذہب اور رومانیت کا سیاست سے پیوند کرنے کی کوشش کی تھی اور اجتماعی سیاست میں فرد کی اہمیت کی آواز بلند کی تھی۔ اتفاق سے یہی وہ دور ہے جب چورا چوری کی عوامی تحریک کے انقلابی رخ اختیار کرنے پر گاندھی جی نے گویا اسے ’’ اخلاقی‘‘ اسباب کی بنا پر واپس لے کر نوجوان کے ایک گروہ کو انارکزم اور Terrorism کی طرف مائل کر دیا۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے فرد کو ایک عظیم الشان Gatalytic Agent محرک قوت کے رنگ میں دیکھا جو اپنے سے کہیں عظیم تر توانائی کی تحریک سے رکاوٹ کے بند کھول سکتا ہے اور ایک نئے سماج کو بنانے والی بے پناہ قوتوں کا درباز کر سکتا ہے۔ یہی وہ بات تھی جسے انقلابی سیاق و سباق کے ساتھ اس زمانے میں ماؤزے تنگ نے ان الفاظ میں ادا کیا کہ ایک چنگاری جنگل کی آگ کو شروع کر سکتی ہے۔ Aspark Can start apriarie fire قصہ مختصر یہ کہ رومانی آہنگ نے فرد کو ایک نئے رخ سے دیکھا اسے خلاصہ کائنات کا خلعت پہنایا گیا اور وہیں ہر قسم کے اجتماعی شعور اور عمل کا نقطہ آغاز ٹھہرا۔ اب زور ہیئت اجتماعی پر سے فرد پر منتقل ہونے لگا۔ سماج کی اصلاح کا وسیلہ بھی فرد کی انفرادگی زندگی کی اصلاح ہی قرار پائی۔ اس پس منظر میں اقبال کے مرد کامل یا مرد مومن کا جنم ہوا جس کا رشتہ نٹشے اور مولانا روم سے کہیں زیادہ اس دور کے ہندوستانی کے فکری جہت سے ہے۔ اس مرد کامل کی پرچھائیاں پریم چند کے ناولوں میں ملتی ہیں خصوصاً ’’ گوشہ عافیت‘‘ اور’’ چورگان ہستی‘‘ کے کرداروں میں جہاں سور داس اور بلدیو شنکر جیسے ایک فرد کی آواز پورے سماج میں گونجتی سنائی دیتی ہے اس امر کامل کی پرچھائیاں سردار بھگت سنگھ کے ساتھ پھانسی پائی ہیں اور دہشت پسندوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اقبال کے مرد کامل میں بہت کئی نقادوں نے آمریت اور فاشزم کی نشانیاں دیکھی ہیں لیکن دراصل شاعرانہ سطح پر اقبال اس تصور کے ماتحت سائنس اور مذہب کا نیا توازن قائم کرتے ہیں۔ سائنس سے وہ متجسس ذہن ہمہ وقت بے قرار مضطرب وجود اور ایک سر تاپا عمل انسان کا تصور لیتے ہیں جو ان کے نزدیک انسانی ارتقاء کے لئے ناگزیر ہے۔ ڈارون اور اقبال: ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی وہ فلسفیانہ توجیہہ جسے سامراجی دانش ور White Mans Burden سفید فام قوموں کے مقدس بوجھ اور پسماندہ اقوام کے استحصال کے جواز میں استعمال کر رہے تھے۔ اسے اقبال نے محکوم اقوام کے اندر حوصلہ اور تکمیل کا ارمان پیدا کرنے کے لئے برتا۔ یہ حربہ محکوم ہندوستان میں محض دفاعی حربہ نہ تھا بلکہ محکوم ایشیائی قوموں کے اندر جذبہ خود داری اور احساس انانیت کو پیدا کرنے کا وسیلہ تھا جس نے پہلی بار محکوم قوم کے لئے خود اعتمادی کا نور بکھیر دیا۔ قوت اور جبروت کا تذکرہ جب سامراجی اقوام کریں تو اس میں فاشزم کی کھنک ڈھونڈ نکالنا بے جا نہیں لیکن جب مجبور اور محکوم قومیں ان الفاظ کو استعمال کریں تو ان کا مفہوم سماجی انصاف اور جائز انسانی حقوق کے ذیل میں تلاش کرنا چاہیے کیوں کہ ان کی مراد دوسرے ملکوں پر قبضہ جمانا نہیں ہوتا بلکہ اپنے آپ کو دوسروں کے قبضے سے آزاد کرنا ہوتا ہے۔ ضمیر کی تلاش: سائنس سے اقبال نے قوت اور توانائی ، عمل اور جہد مسلسل کے معنی سیکھے لیکن یہ سبھی تصورات ضمیر سے بے نیاز تھے انہیں ضمیر فراہم کرنے کے لئے اقبال نے تہذیب کا سہارا لیا۔ خرد کی بے ضمیری ان کے لئے بھیانک تھی اس لئے اسے اخلاق سے منور کرنے کی ضرورت پیش آئی کہا جا سکتا ہے کہ اقبال نے روحانیت کو رد کر کے مذہبیت کو اختیار کیا اور اس مذہبیت کا دائرہ بھی آخر آخر محض اسلام تک محدود ہو کر رہ گیا۔ روحانیت کا ماورائے مذہب یا فوق مذہبی تصور تصوف میں پنہاں تھا جسے اقبال نے رد کر دیا (گو میکش اکبر آبادی کے نزدیک آخر عمر میں وہ پھر تصوف مائل نظر آنے لگے تھے) تصوف کو رد کرنے کے اسباب کم وبیش وہی تھے جو تھیٹر اور مصوری کے رد کرنے کے تھے یعنی یہاں منصور کے پردے میں خدا بولتا ہے اور خود منصور کی شخصیت گم ہو جاتی ہے اور ہر وہ فن یا تصور جس میں شخصیت کی انفرادیت اور خودی کو گزند پہنچتی ہو اقبال کو پسند نہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اقبال نے روحانیت کے مابعد الطبیعاتی تصور کو مذہب کے حق میں رد کر کے گویا مذہبی ماورائیت پر سائنس کے مرئی پن کی گرتہ لگا دی اور عقیدے کو عمل کے دائرے میں اسیر کر لیا۔ مذہب رسوم و قیود سے عبارت تھا عمل، فرائض اور کارکردگی کا تصور رکھتا تھا تصوف سپردگی تھا تو مذہب ضابطہ بندی اور اقبال کو ضابطہ اور عمل، تصور اور سپردگی سے عزیز تر تھے مگر یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے اقبال کے لئے ایسا مذہب صرف اسلام ہو سکتا تھا۔ کیونکہ اسلام ا ور عیسائیت سیاسی اور تاریخی اسباب سے اقبال کے لئے قابل قبول نہ تھی۔ لہٰذا اسلام ہی کے مذہبی پیرائے کو وہ اپنے لئے منتخب کر سکتے تھے (دوسری بات یہ ہے کہ اقبال کا اسلام روائتی تصور مذہب سے مختلف ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری دائرے میں اسلام کے تصورات کو سمجھتے ہیں یہی کوشش ایک مختلف دور میں سرسید احمد خاں کی تھی اور چوں کہ وہ دور برطانوی حکومت اور مغربی فکر کے استحکام کا دور تھا لہٰذا اجتہاد اور توجیہہ کی کوشش انقلابی جہت سے محروم ہو کر ناکام رہی اس قسم کی کوشش گیتا کے سلسلے میں تلک نے کی تھی اور گیتا کو ایک عملی کتاب کی حیثیت سے تجدید تلک کی اپنی کوششوں سے ہوئی۔ تلک کی گیتا روایتی گیتا سے مختلف تھی یہی کیفیت اقبال کے تصور اسلام کی ہے اقبال نے اپنی فکر کے ذریعے توجیہہ کر کے اسلام کو اپنے نقطہ نظر سے پیش کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ (سید سلیمان ندوی سے ان کی خط و کتابت اور شبیر احمد خاں غوری کے مضامین کی روشنی میں روایتی تصور اور اقبال کے تصور اسلام کا فرق اور بھی واضح ہو گیا ہے) جرم ضعیفی اور آرزو مندیـ: اس بحث سے قطع نظر اقبال بے ضمیر سائنس (یا فرد) پر اخلاق اور مذہب (یا عشق) کیق دغن لگانا چاہتے ہیں کیونکہ اس قدغن کے بغیر قوت عمل بے لگام ہو سکتی ہے اور انسانی ترقی بے سمت و رفتار ہو کر مگری کا شکار بن سکتی ہے انسان کا سینہ آرزو کے نور سے منور نہ ہونا اقبال کے نزدیک جرم ہے اس سب سے بڑے جرم سے کچھ ہی کم جرم یہ ہے کہ اس آرزو مندی پر سماجی بہبودی اور اجتماعی فلاح کی حکمرانی نہ ہو۔ گویا فرد کی تکمیل اجتماعی آہنگ ہی کے ذریعے ممکن ہے اور اس کی بے راہ رویوں پر سماج کی بندش اور روح اجتماعی کی قدغن لازم ہے اس نظام اقدار میں ابلیس سائنس ہے اور فرشتہ مذہب، اقبال ان دونوں کے آمیز سے مرد مومن یا مرد کامل کی تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ فلسفی اقبال تصور پرست اور عینیت پسند تھا اور ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں، قسم کے متعدد مصرعے لکھنے کے باوجود عینیت پرست اقبال کی نظریں سطح کے نیچے ابھرتے ہوئے آج کے کمزور اور کل کے طاقتور عناصر کو پوری طرح نہیں دیکھ پاتیں اس لئے اقبال لینن کو دیکھ سکے مگر اس نظام کو پوری طرح نہ پہچان سکے جو اجتماع کو ہیرو کی سی تاب ناکی عطا کرنے کا منصوبہ رکھتا تھا۔ اقبال نے لینن کو بھی خدا کے حضور میں لے جا کر کھڑا کر دیا اور لینن کی زبان سے وہ بیان صفائی دلا دیا جو ایک طرح خود خالق کائنات کے خلاف فرد جرم کی حیثیت رکھتا ہے، مشرق کے خداوند سفید ان فرنگی مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات دنیا اس طرح ظالموں نے آپس میں بانٹ لی اور اس کرۂ ارض پر اب ترے ان گنت بندوں کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی اس قسم کے شکوہ شکایت سے قطع نظر اقبال کی نظر جھوٹی جمہوریت کے صرف بوژوائی Alternative متبادل نظاموں ہی تک محدود رہی ان کی عینیت پسندی انہیں ان تاریخی قوتوں تک نہ لے جا سکی جو صرف ’’ دہریت اور لا مذہبیت‘‘ یا محض اقتصادی خوش حالی کے لئے نہیں بلکہ ایک بہتر اور بلند تہذیبی اقدار کی تشکیل کے لئے بر سر پیکار تھیں اسی لئے اس جھوٹی جمہوریت کے برخلاف جو یورپ میں مسلک و آئین بن چکی تھی اور نظام اقدار کو مرتب کر رہی تھی اقبال صرف فاشزم اور اسلامی جمہوریت ہی کو متبادل نظام کی حیثیت سے دیکھتے رہے اور اشتراکی نظام سے ہمدردی کے باوجود اس کے تہذیبی منشور اور ملحقات Implication کو انہوں نے گہرائی اور توجہ سے نہیں پرکھا کہ اس میں وہ امید پوشیدہ تھی جس کی تلاش وہ ماورائیت اور مذہب میں کر رہے تھے۔ اقبال نے امید، حوصلہ اور جستجو کی یہ ساری دنیا شاعری کے پردے پر آباد کی شاید اسے شاعری ہی کے پردے میں آباد کیا بھی جا سکتا تھا شاعری ہر حساس شاعر سے اس کی زیست کا جواز طلب کرتی ہے اور کائنات میں اس کی Terms of Reference شرائط وجود کے بارے میں پوچھ گچھ کرتی ہے فلسفے کے علاوہ شاید فنون لطیفہ بالعموم اور شاعری بالخصوص اپنے کو ابدیت سے مخاطب اور ہم کلام پاتی ہے عظیم اور اعلیٰ شاعر کی آواز وطن اور علاقے، زبان اور تہذیب حتیٰ کہ اس کے دور کی سرحدیں پار کرتی ہوئی اگلی نسلوں تک جا پہنچتی ہے اس ابدیت کے پانے کے لئے شاعر اپنے عصری مسائل میں بھی اپنے تجربے اور اظہار سے آفاقیت اور عمومیت پیدا کرتا ہے اس کا بنیادی موضوع بقول عرفی وہ ذرہ ہے جو کائنات کے بے کراں خلا میں عالم سرشاری میں رقص کر رہا ہے اور اپنی آستین پھیلا لینے بھر کی وسعت اور فراخی بھی نہیں پاتا۔ اقبال کی شاعری کا موضوع بھی یہی ذرہ ہے اسی لئے ان کی شاعری کی امیجری صحرا اور میدانوں گلشن اور شاہراہوں سے عبادت ہے بزم اور انجمن کی سجی ہوئی امیجری نہیں یہاں انسانی حسن سے زیادہ فطرت کا حسن تشبیہات اور استعارے فراہم کرتا ہے۔ اقبال شاید ہمارے پہلے شاعر ہیں جنگی شاعری انسانوں کے باہمی رشتوں کے بارے میں ہونے کے بجائے فطرت اور انسانوں کے باہمی رشتے کو معرض بحث میں لاتی ہے اسی لئے اقبال کی شاعری میں بڑے مسائل کی گونج ہے۔ وہ کلاسیکی جہت سے جو انسان کی فطرت سے نبرد آزمائی سے پیدا ہوتی ہے اسی منزل پر تو شب آفریدی چراغ آفریدم، کا آواز بلند ہو سکتا ہے یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک، کا ترانہ لب پر آ سکتا ہے اور ہمت مردانہ کو یزداں پر کمند ڈالنے کا مشورہ دیا جا سکتا ہے۔ اقبال کی شاعری اس اعتبار سے کلاسیکی جہات Classical Dimensions کی شاعری ہے۔ اسی بنا پر جذبے اور عشق پر اتنا زور دینے کے باوجود اس شاعر کی وفاداری عقل و دانش سے زیادہ ہے جذبے اور عشق کے والہانہ پن سے کم۔ اس میں اس نئی آگہی کی چنگاری بار بار جھلک اٹھتی ہے جو فرد کو نئی اجتماعی قوت کی تابناکی بخشتی ہے اور انسان کے لئے لا انتہا امکانات کے دروازے کھولتی ہے۔ اقبال کی شاعری میں تمثال کا مطالعہ ڈاکٹر سید محمد عقیل اس مقالے میں مباحثے کا آغاز، تمثال (Image) کی ٹیکنیکل تعریف سے نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ امیج کی ٹیکنیکل تعریف نہ تو اس موقع پر امیج کے شعری حسن کو سمجھنے میں مدد دے گی اور نہ شعری امیج کی جو تصویر، پڑھنے والوں کے ذہن میں ابھرتی ہے۔ اس کے کینوس کا اندازہ کر سکتی ہے۔ امیج کو چاہے الفاظ سے بنتی ہوئی تصویر، مجاز اور کنائے کا ملغوبہ، استعاروں کی کشیدہ صورت جس میں زندگی کے محسوسات کی بنتی مٹتی تصویریں دیکھی جا سکیں۔ محاکات یا بقول ڈرائڈن (Dryden) شعری حیات کی معراج، جو چاہے کہہ لیا جائے، تاہم اس کے طریقہ استعمال اور ا سکے حسن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سی ڈے لیوس اور ییٹس (Yeats) نے اسے انوکھا پن، بصریت، ذہنی اپچ اور اس ذہنی اڑان سے تعبیر کیا ہے جو تصوف کے راستوں سے یا محسوسات کی بصری جلوہ گری کے ساتھ شعر میں رواں دواں ہو جاتی ہے۔ شعری فن میں تمثال کیا کیا صورتیں اختیار کرتی ہے، انہیں سمجھنے کے لئے ان تمام تجربوں سے گزرنا ہو گا، جنہیں نقادوں نے Gustatory سے لے کر متحرک (Kinaesthetic) تجربوں تک پھیلا رکھا ہے۔ اردو شاعری میں تمثال (Image) کا استعمال نیا نہیں لیکن اس کا ادراک یقینا بیسویں صدی میں نئے ڈھنگ سے کیا گیا ہے۔ میر سے غالب اور آتش تک اس کے استعمال کی صورت دوسری تھی لیکن حالی اور آزاد کے بعد جو ایک نئی ہوا، اردو کے رنگ محل میں داخل ہوئی۔ اس نے تمثال نگاری کو ایک نیا آئینہ دکھایا۔ بے حس اور مفروضات کے روایتی تجربوں سے حسی اور تجرباتی پیکروں کی طرف ذہن اور محسوسات کی باگ ہوڑی گئی جسے انگریزی رومانوی شاعری نے مثالیں فراہم کیں۔ اقبال کے دور عروج تک پہنچتے پہنچتے ان کی صورت صرف اکہری تھی جو فطرت کی سادگی اور زندگی کی اوپری سطح کو ہی چھوتی رہی۔ اور اس لئے اقبال کی ابتدائی شاعری میں یہی اکہری اور اوپری سطح والی تمثالیں ملتی ہیں۔ صرف انیس کی واحد مثال ہے جس نے اپنے مرثیوں میں شعوری طور پر حسی تمثالوں کا تجربہ کیا مگر مرثیوں کے باہر یہ تجربہ لکھنو میں بھی نہ کیا گیا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد زندگی کا جو ایک نیا ڈھانچہ وجود میں آیا اور ہندوستان ایک نئے ذہنی اور سماجی انقلاب سے دو چار ہوا۔ اس نے عام ذہن میں بھی ایک ہلچل مچا دی۔ انگریزی حکومت اور دستور زباں بندی نے اگر ایک طرف علامتوں کی افادیت کو واضح کیا تو دوسری طرف گفتگو کے دوسرے انداز سکھائے۔ اردو شاعری کے اس نئے دور میں اقبال پہلے شاعر ہیں جنہوں نے وقت کے چیلنج کو سب سے پہلے قبول کیا۔ شعری روایتوں کے لئے بھی او رنئے موضوعات کے ساتھ اس نئے انداز بیان کے لئے بھی جس نے اردو شاعری کے قدیم تجربے کو نیا شعوری انداز برتنے کی ترغیب دی۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا، اقبال کی ابتدائی شاعری میں یہ تمثال نگاری اکہری ہے۔ یہ سادگی کے ساتھ اس نبض کو پا لینے میں کوشاں ہے جسے تمثیلی او رکیٹس نے بصری اور حقیقی تمثالوں کی شکل دینے کے لئے اپنی رومانوی بغاوت کے اظہار کے لئے پیش کیا تھا جن کا سلسلہ ورڈز ورتھ بائرن اور سوین برن تک پھیلا ہوا تھا۔ یہی رومانوی شعراء تھے۔ جن کے خیالات، طرز اظہار اور شعری روایتوں کا اکثر اس وقت کے جدید شعراء لے رہے تھے۔ چنانچہ اقبال کے یہاں بانگ درا کی نظموں میں حسب ذیل تمثالیں عام ہیں: پانی کو چھو رہی ہے، جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے، روئے آب نیل چرخ نے بالی چرالی ہے عروس شام کی نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیم خام کی وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا لیکن جیسے ہی دھیرے دھیرے اقبال کی شاعری میں تفکر کا سماں چھانے لگتا ہے۔ یہ بصر کی تمثالیں، حسی، سماعی اور غیر مرئی ہونے لگتی ہیں جنہیں باطن کی آنکھ ہی متشکل کر سکتی ہے اور جنہیں کیٹس کی تمثالوں۔ 1. Beaded Bubbles Winking at the Brim. 2. Where youth grows specctor thin and Dies 3. Unravished Bride of Qauiteness سے لے کر شیلی کے Throns of Life اور Bright hair uplifted from the Head of Some Fierce maenad. کے قریب دیکھا جا سکتا ہے اقبال کی تمثالیں دھیرے دھیرے اسی فکری پس منظر سے ابھرتی ہیں۔ ہے رواں نجم سحر جیسے عبادت خانے سے سب کے پیچھے جائے کوئی عابد شب زندہ دار شراب سرخ سے رنگیں ہوا ہے دامن شام لئے ہے پیر فلک دست رعشہ دار میں جام پروفیسر آئی اے رچرڈس، اپنی کتاب پرنسپلز آف کریٹی سیزم (Panicipales of Cirticism) میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ: ’’ حسی تمثالوں کو ہمیشہ بڑی اہمیت دی گئی ہے لیکن جو چیز تمثال کو متاثر کن بناتی ہے وہ امیج کی حیثیت سے اس کی صفائی نہیں ہے بلکہ اس کے ایک ذہنی واقعہ ہونے کا کردار ہے۔ جو عجیب و غریب طریقہ سے محسوسات سے منسلک ہوتا ہے۔‘‘ اقبال کی ایسی حسی تمثالیں، ان کی نظموں اور مجموعی طور پر ان کی تمام شاعری میں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں۔ ایک آرزو، حقیقت حسن، کنار راوی، ماہ نو، نمود صبح، گورستان شاہی، محبت، ایک شام غرض کہ ایسی تمام نظموں میں انہیں محسوس کیا جا سکتا ہے جو ذہنی واقعے سے دل کے نہاں خانوں تک اترتی چلی جاتی ہیں جیسے جیسے اقبال کی شاعری آگے بڑھی، سادی اور اکہری تمثالیں پیچھے چھوٹتی گئیں اور ان کی جگہ فکر و نظر سے بوجھل، متاثر کن اور حسیات سے تخلیق ہوئی تمثالیں، ان کی جگہ لیتی گئیں۔ فکر کی یہ آمیزش ذہنی واقعات کا پس منظر بن کر انہیں ایک نئے روپ میں جلوہ گر کرتی گئی۔ غیر مرئیت، ترغیب اور دلکشی کے سہارے، جس میں بعد کو تاریخیت شامل ہوتی رہی۔ اقبال کی شاعری اور خاص طور پر ان کی تمثالوں کے رگ و ریشے کی شکل اختیار کرتی گئی۔ ہندوستان کی فضا سیاسی نا آسودگی سے غبار آلود ہونے لگی تھی۔ بیرونی حکومت کا نتیجہ روز بروز سخت ہوتا جاتا تھا اور کھل کر باتیں کرنے کے مواقع محدود تھے۔ اظہاریت اور آزادی کا گلا گھٹ رہا تھا۔ زندگی کی طرف ایک حرکی اور عملی تصور رکھنے والے اقبال۔ ان محدود وسائل کے درمیان عجب کشمکش سے دو چار تھے۔ اس وقت مجرد جمالیات، بے عملی کی مترادف تھی اور یہ بے عملی، اقبال کے خیالات اور ولولوں کے لئے ستم قاتل۔ اس لئے انہوں نے اپنی تمثالوں کو مجرد جمالیات کی بے عملی سے دور رکھا اور ان میں فن کے ہموار راستوں سے وہ تحرک پیدا کیا جو ان کے سامعین کے ذوق جمال کو بھی آسودہ کرے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی اس ذہنی کشمکش کا ساتھ بھی دے سکے جو ہندوستان کی سیاسی فضا کے راستوں سے ہوتی ہوئی مسلمانوں کی بے عملی سے اسلام کی تاریخی حرکت اور عمل کی زندگی کو متشکل کر سکے۔ نتیجے کے طور پر ان کی تمثالوں، تشبیہات اور استعاروں سب میں حرکت اور عمل کا رنگ چڑھتا اترتا نظر آتا ہے۔ وہ نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح یا نمایاں بام گردوں سے جبین جبرئیل میں صورت گل، دست صبا کا نہیں محتاج کرتا ہے مرا جوش جنوں، میری قبا چاک زندگی انساں کی ہے مانند مرغ خوش نوا شاخ پر بیٹھا کوئی دم چہچہایا اڑ گیا وہ حکومت شام صحرا میں غروب آفتاب جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بین خلیل جبرئیل امین خدا کا پیام لانے والے، اقبال کی نظر میں حرکت و عمل کی علامت ہیں اور خلیل اور جمہ پیمبران الٰہی، ایسے با عمل بندے جن کی تمام تر زندگی جدوجہد اور حرکت و عمل کے درمیان گزری۔ غروب آفتاب کو دیکھ کر حضرت ابراہیم کے دل میں جو اپنے پہلے تصور سے ایک نئی تبدیلی آئی اور جس نے انہیں ایمان کی صحیح منزل تک پہنچایا۔ یہ حسی تصویریں، اقبال کے اس ایمانی اور تاریخی بصیرت کو نمایاں کرتی ہیں جسے وہ چشم باطن سے عقیدے کی روایتی سطح تک لا کر پیش کر دیتے تھے۔ حیات انسانی کا طائر جو تھوڑی دیر کے لئے زندگی کی شاخ پر چہچہا کر اڑ جاتا ہے۔ اقبال کی نظر میں زندگی کی بے ثباتی نہیں بلکہ حرکت و عمل اور تسلسل حیات کا مظہر ہے جسے اقبال نے کہیں، نقطہ ذوق پرواز ہے زندگی، اور کہیں گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے اسی شاخ سے پھوٹتے بھی رہے، یا دو قدم پر پھر وہی جو مثل تارسیم ہے، کہہ کر ظاہر کیا ہے۔ ساقی نامہ، کے ابتدائی اشعار ایسی تمثالوں کو بڑی اچھی طرح پیش کرتے ہیں، جن سے ان کی ظاہری حرکت اور عمل کی رونمائی نہیںہوتی بلکہ ان سے اس گہرائی کا پتہ چلتا ہے جس نے راز حیات پا لیا ہے اور جو اپنی حرکت اور اپنے عمل سے ذہن کی اس رندھی ہوئی فضا کو ایک فرحناکی کا احساس دلا سکتی ہے۔ جس طرح مہاتما گوتم بدھ کو نروان حاصل ہو جانے کے بعد، ان پر زندگی کا راز آشکارا ہو جاتا ہے، اسی طرح اقبال، حرکت اور عمل کا راز دریافت کر کے قوموں کے عروج و زوال کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ اور یہی ان کے فلسفہ خودی سے فلسفہ حرکت و عمل تک ان کے ذہن کو رواں کر دیتا ہے۔ اقبال مہاتما نہ تھے مگر ساقی نامہ میں جو ذہنی مسرت کی تصویر بنتی ہے۔ وہ یقینا اس راز کو پا لینے کی تصویر ہے۔ کوئی چاہے تو اسے مغرب میں جو نیا انقلاب سوشلسٹ انقلاب کے نام سے آیا تھا، اس سے بھی ساقی نامہ کی مسرت کو منسلک کر سکتا ہے جسے ذہنی فضا کی تبدیلی سے سیاسی فضا کے بدلنے کے امکانات تک پھیلا یا جا سکتا ہے کچھ بھی ہو لیکن ساقی نامہ کی فضا اور اس کی تمثالیں ایک فرحنا کی کے احساس کی تصویریں ہیں۔ فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور جہاں چھپ گیا پردۂ رنگ میں لہو کی ہے گردش رگ سنگ میں وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی اٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی پلا ساقیا وہ مئے پردہ سوز کہ آتی نہیں فصل گل روز روز میرے خیال میں یہ اسی راز کو پا لینے کی مسرت ہے جسے فصل گل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اقبال کا ذہن جو خضر راہ میں حالات کو ایک نقطہ پر مرکوز کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اسی کو حالات ایک نئے راستے کی طرف گام زن کرتے ہیں۔ اور ان حالات میں یہ بات، بڑی فطری بات تھی۔ سوشلسٹ انقلابی، ایک ذہنی انقلاب بھی تھا اور مادی بھی۔ اقبال مادیت کے حامی نہ تھے، اگرچہ عالم امکان میں بنیادی تبدیلیاں بغیر مادی انقلاب کے ممکن نہیں۔ لیکن اقبال روحانیت کے راستوں سے ذہنی انقلاب کا خیر مقدم کر کے قوموں کو تاریخ اور وقت کی مدد سے عروج و زوال کی منزل سے گزارتے ہیں اور اس بات پر دھیان نہیں دیتے کہ ہر عروج و زوال مادی انقلاب ہی کا مرہون منت ہوتا ہے۔ وقت انسان کے ہاتھ میں سب سے بڑا ہتھیار ہے اور وقت کی مدد سے ہندوستانیوں کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اس جال کو توڑ کر آگے بڑھنا چاہئے جس میں وہ ایک مدت سے اسیر ہیں۔ اس نئے نکتے کی ترسیل کے لئے وہ نئے استعارے نئی تمثالیں اور علامتیں استعمال کرتے ہیں۔ یہاں اس کا موقع نہیں کہ اس پر بحث کی جائے کہ اقبال کا تخاطب مسلم عوام سے تھا یا مسلمانوں کے مرفہ المحال طبقہ سے؟ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کے ذہن میں مرفہ الحال طبقہ ہی تھا اگرچہ باتیں وہ اسلام کے عوامی کردار کی ہی کیا کرتے تھے۔ وہ عوامی انقلاب کو مشروط ذہنی رویے اور طبقاتی نظام کے ساتھ دیکھتے تھے جو مرد مومن کے کردار اور اس کی قوت ایمانی سے آئے گا۔ متحدہ عوامی طاقت جس کے ساتھ اسلام کو فروغ ہوا تھا۔ جو اخوت، اتحاد اور عربوں کے عام مسائل کی شیرازہ بندی کر کے، رومن امپائر اور یہودیوں کی آمریت اور اشرافیہ کے خلاف اس وقت کے ایک غیر طبقاتی نظام کے عملی اور خرکی کردار اور تصور کے ساتھ آگے بڑھا تھا، اقبال شاید اس قوت کو معرض بحث میں نہیں لانا چاہتے تھے۔ وہ اشرافیہ و دانشوروں کی مدد ہی سے یہ ذہنی انقلاب لانا چاہتے تھے جو ان کے خیال میں اسلامی نظریات کی پابندی سے ایک عوامی اسلامی انقلاب بن جائے گا کیونکہ اشرافیہ اور ان کے دانشوروں کا طبقہ ہی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جب یہ طبقہ اسلامی نقطہ نظر کو اپنا کرا بدلتے ہوئے وقت اور تاریخ میں آتی ہوئی تبدیلی کے سر رشتے کو گرفت میں لے لے گا۔ تب مسلمان ایک نئی طاقت بن کر اپنی عظمت رفتہ کو پھر پا سکے گا اور پھر یہ اشرافیہ اور دانشوروں کے ہاتھوں لایا ہوا انقلاب عوامی انقلاب بن جائے گا۔ اقبال اپنی اس طرز فکر میں زیادہ غلط بھی نہ تھے کیونکہ اس وقت ہندوستان سیاست، تمام و کمال بورژ واثری کے ہاتھوں میں تھی۔ ان تمام محسوسات اور کیفیات کا اظہار انہوں نے جب اپنی شاعری میں تمثالوں کے سہارے سے کیا ، تو ان کی ان تصویروں میں ان کے اس ذہنی تجزیے کی باز گشت ملتی ہے جنہیں حقیقتوں کی جھلکیوں کے ساتھ، جذبات کی نیز اور مشت پہل شعاعی کرنوں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے جو کبھی کبھی پیمبرانہ شان سے جلوہ گر ہوتی ہیں او رجن میں اس وقت کی ملکی سیاست کے متحرک ذہن کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ شفق نہیں مغربی افق، پر یہ جوئے خوں ہے یہ جوئے خوں ہے طلوع فردا کا منتظر رہ کہ وش و امروز ہے فسانہ ٭٭٭ نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں ہے سحر کا آسماں، خورشید سے مینا بدوش ٭٭٭ آہ مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا آسماں سے ابر آزاری اٹھا، برسا گیا مغرب کے افق پر جو سرخی شفق نمایاں ہے۔ یعنی مغربی خوشحالی، دراصل وہ ان کی موت کا پیغام ہے۔ بدلتے ہوئے وقت کے جادو کا انتظار کرتے رہنا چاہیے۔ حوکل ایک نئی زندگی، نیا راستہ اور ایک نیا موقع، مشرقیوں کے لیے فراہم کرے گا۔ صبح کا آسمان جو نئے آفتاب کا مینا، اپنے کاندھے پر رکھے چلا آ رہا ہے۔ وہ ہندوستان کے محکوموں کی زندگی میں ایک نئے روز کا آغاز کر رہا ہے۔ اس میں ہندوستانیوں اور خصوصاً مسلمانوں کو فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔ یہ موقع خاموش بیٹھنے کا نہیں۔ ایسی ایسی متعدد خوبصورت مثالیں، اقبال کی ہر اچھی نظم میں موجود ہیں جو ان کی سیاسی فکر و نظر کی تہوں کو کھولتی ہیں۔ جنہیں خضر راہ، مسجد قرطبہ، ذوق و شوق اور ارمغان حجاز کی اچھی نظموں میں اقبال کی استادانہ صلاحیتوں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ چند خوب صورت تمثالیں حسب ذیل اشعار میں ملاحظہ ہوں: دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری ٭٭٭ آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک ٭٭٭ آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا ٭٭٭ جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں ساقی نامہ اور بہت سی دوسری نظمیں اقبال کے تصور خودی کے تحت وجود میں آئی ہیں۔ انسان کی زندگی میں بنیادی بات حصول خودی ہے۔ خودی حاصل کر لینے کے بعد ہی زندگی کے مقاصد اور امکانات میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور حرکت و عمل کا صحیح مصرف ہو سکتا ہے اور انسان کی کامرانیوں کو ابدیت حاصل ہو سکے گی۔ انسان کی کامیابیاں اور کامرانیاں اپنی بلندی تک نہ پہنچ سکتیں اگر خودی کا سبق انہیں از بر نہ ہوتا۔ خودی چونکہ ایک متحرک کیفیت یا جذبہ ہے، اس لئے وہ کسی نہ کسی سمت میں رواں دواں رہتا ہے کہا جاتا ہے کہ خودی کا تصور اقبال کے ذہن میں ایک مجہول قسم کے تصوف کے اثرات سے مسلمانوں کو بچانے کے لئے پیدا ہوا تھا جس نے مسلمانوں کی زندگی کو بے عملی اور مجہولیت کا شکار بنا رکھا تھا۔ اقبال کے کلام میں مولویوں، پیروں اور پیری مریدی کی رسم سے دور کر کے خانقاہوں میں لا بٹھانے کی سازش کر رکھی ہے وحدت الوجود جس کا محور Pantheism ہے، اس نے مسلمانوں سے عملی صلاحیتوں کو سلب کر لیا ہے اور اس طرح مسلمان حادثات زمانہ اور ا س کے بدلتے ہوئے کردار سے بے نیاز ہو کر چند مفروضات، تاویلات، نجات یا وسیلہ نجات کو مقصد حیات بنا کر، زندگی کے اس تیز رو دھارے سے کٹ گئے ہیں جو قوموں کی تقدیریں بدلتے ہیں۔ مسلمانوں نے اسلام کا مقصد صرف نجات کی تلاش کو سمجھ لیا ہے صوفیوں کا یہ تصور کہ زندگی محض دھوکہ ہے فریب ہے، اسلام کے بنیادی تصورات سے مسلمانوں کو بہت دور لے جاتا ہے۔ یہ تصور کہیں اشراقیوں اور جوگیوں کے تصورات سے ہوتا ہوا بدھ مت کے آخری دور کے ٹھہرے ہوئے سماج کے قریب پہنچتا ہے اور اس طرح اسلام کے اس بنیادی تصور سے دور ہو جاتا ہے جس نے لا رہبانیت فی الاسلام کا سبق پڑھایا تھا۔ اقبال نے خودی کو اسی مجہولیت کے خلاف صف آرا کیا۔ ملا اور بہشت ابو العلا معری، پنجاب کے پیرزادوں سے ابلیس کی مجلس شوریٰ، سے جواب خضر، ساقی نامہ اور ضرب کلیم کی نظموں تک کا تجزیہ اقبال کے اس مزاج اور اس کوشش کے سمجھنے میں مدد دے گا۔ خودی کی مدد سے اقبال زندگی میں حرکت پیدا کرنے اسے میدان عمل میں لانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ عمل کے بغیر، انسانیت کی ہمہ جہتی کو بروئے کار نہیں لایا جا سکتا۔ پھر جان اور تسلیم جاں کسی چیز کے تجربے نہیں ہو سکتے انسان ایک لا یعنی اور بے مصرف ذی روح ہو کر رہ جائے گا جو کہ منشائے قدرت کے بھی خلاف ہے اور انسانی ارتقاء کی تاریخ کا انکار بھی۔ خودی کی آگہی انسان کو مقصد اور عمل کے بے کنار سمندر سے آشنا کرتی ہے اور زندگی کی اس درخشندگی کو بروئے کار آنے کا موقع دیتی ہے جو انسان کے بطون میں کہیں سوئی ہوئی پڑی ہے جس کے بغیر، انسان تاریخ وقت، حیات اور کار زار حیات کی حشر سامانیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مندرجہ ذیل تمثالیں خودی کی اس صلاحیت کو متشکل کرتی ہیں۔ زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر سبک اس کے ہاتھوں میں سنگ گراں پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگ رواں اور نہ صرف متشکل کرتی ہیں بلکہ خودی کی اس اندرونی طاقت کا احساس دلاتی ہیں جو دنیا کی ہر مشکل کا حل ہو سکتی ہے اور اس طرح یہ تمثالیں اندرون سے شعر کی بیرونی سطح پر آ کر ایک مکمل حرکی تصویر اس طرح پیش کر دیتی ہیں، جو اقبال کے فلسفہ عمل کو وقت کی موجوں سے ہمکنار کرتی ہیں۔ سفر، اس کا انجام و آغاز ہے یہی اس کی تقویم کا راز ہے ’’ سفر‘‘ پر زور دے کر اس تمثال کو مکمل متحرک امیج بنا کر پیش کیا گیا ہے جو ذہنی تمثال (Mental Image) سے انسانی ہیولیٰ اختیار کر لیتی ہے بقول ایذرا پاؤنڈ: Image is not a Pictorial Representation but at that which presents an Intellectual and Emotional Complex in an Instant of time a Varification of Desparate Ideas. ایذرا پاؤنڈ کا یہ تصور ممکن ہے کہ ہر جگہ مفید ثابت نہ ہو مگر اقبال کے لئے اس تصور میں بڑی جان ہے اور ان کے مندرجہ ذیل اشعار، ایذرا پاؤنڈ کے خیال کی سچی تصویریں پیش کرتے ہیں جن کی تصویریں، اثر انگیزی سے تاریخ، وقت اور ماضی سے مستقبل تک کی جھلکیاں اپنے ساتھ سموئے ہوئے ہیں۔ اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ دریا سے اٹھی لیکن، ساحل سے نہ ٹکرائی ٭٭٭ بھٹکا ہوا راہی میں، بھٹکا ہو راہی تو منزل ہے کہاں تیری، اے لالہ صحرائی ٭٭٭ جہان نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ ٭٭٭ رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے یہ تمثالیں یقینا دانشوری آگہی اور جذبات کا آمیزہ ہیں جس میں ہر طرف کوشش ناتمام کے افسردہ چہرے جھانکتے نظر آتے ہیں۔ اقبال پر اسلام کی عظمت رفتہ کا بڑا اثر تھا۔ اسلام کا ماضی، اپنی کامرانیوں کی داستان کے ساتھ ہمیشہ ان کے پیش نظر رہتا۔ وہ اسلام کو انسانیت کا نجات دہندہ سمجھتے تھے اور اس طرح اس کے نشاۃ الثانیہ کا خواب دیکھا کرتے۔ یہ الگ بحث ہے کہ اپنے اس خیال میں وہ کہاں تک صحیح تھے لیکن اسلام نے اپنے عہد میں جو ایک ٹھہرے ہوئے سماج میں ذہنی اور سماجی انقلاب لا کر عربوں کی زندگی میں ایک شور نشور برپا کیا تھا، اس نے دور ظلمت میں انسانوں کی زندگی میں روشنی کی کرنیں بکھیر دی تھیں۔ غلامی بربریت اور مفلوک الحال عربوں کو جس استحصال سے اسلام نے نجات دلائی تھی۔ اس کا جلوہ متمدن دنیا کو بہت بعد میں نظر آیا۔ سرمایہ پرستی اور اس دور کی مہاجنی تہذیب جس میں یہودیوں اور رومتہ الکبریٰ کی شہنشاہیت کو سربلندی حاصل تھی جس نے انسانوں کو فرقہ بندی نسلی تفاخر، پیدائشی استحقاق اور جنگ زرگری میں گرفتار کر رکھا تھا۔ اس نئے تصور حیات نے اس کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔ انسانی قدروں کا پاس کردار کی استقامت اور تقویٰ یہ وہ معیار تھے جن کی وجہ سے انسان سر بلند ہوتاہے نسلی افتخار، سرمایہ اندوزی اور تخت شاہی کو ٹھوکریں مار کر اسلام عامتہ الناس کے ساتھ آگے بڑھا اور رسول اسلام نے الفقر فخری کہہ کر اس وقت کے سرمایہ دارانہ نظام پر ایسی ضرب کاری لگائی جس کی وجہ سے سرمایہ پرستوں کی صفوں میں انتشار پھیل گیا اور شاہی کی قبا تار تار ہو گئی۔ عامتہ الناس ایک مرکز پر سمٹ آئے جس میں اخوت، ایک رسول پر ایمان اور ایک خدا پر یقین نے جادو کی چھڑی کا کام کیا۔ یہی یقین محکم اقبال کی نظر میں نور ایمان ہے۔ زندگی بھر اقبال اسی اخوت، اسی نور ایمان اور انہیں مردان حق کو تلاش کرتے رہے۔ جسے کچھ لوگوں نے اقبال کی حقیقت اور سچ کی تلاش کے بجائے ان کے احیائے اسلام (Revivalism) کی تحریک سے تعبیر کیا ہے۔ اسی وجہ سے اقبال مردان حق کے گرویدہ نظر آتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی عظمت کی توسیع و تشبیہہ کی یہ نکتہ قابل غور ہے کہ مردان حق کی کوششیں شاہی کی فتوحات سے الگ ہیں۔ مسلمانوں میں شاہی کا تصور، بنی امیہ کے ساتھ آیا۔ اولیٰ الا مرمنکم کو شاہی کے ساتھ خلط ملط کرنا، اسلام کی اسپرٹ سے بے خبری کی دلیل ہے۔ اقبال نے شاہی اور طاقت کے جبری تصور کی تقریباً ہر جگہ نکتہ چینی کی ہے اسکندر و تیمور کی حرکات اور نشہ قوت کو اسی لئے خطرناک بتایا ہے اور حاملان خلق عظیم و صاحبان صدق و یقین کو اس لئے سراہا ہے کہ وہ سلطنت اہل دل کے قائل ہیں شاہی کے قائل نہیں۔ اقبال کی تمام اچھی نظموں میں اسی عظمت رفتہ کی ہاد دل میں چٹکیاں لیتی نظر آتی ہے جس میں ان کے جذبات، تاریخیت اور وقت انقلابی اتار چڑھاؤ کے ساتھ ڈوبتے ابھرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی علامتوں کی شکل میں، کبھی تاریخی کامرانیوں کی صورت میں اور کبھی خوب صورت تمثالوں کی شکل میں جن پر اسلامی روایات محاریات، عظمت رفتہ اور حق الیقین کا سونا چڑھا ہوا ہے۔ اقبال ایسی تمثالوں کی تخلیق میں تقریباً تمام اردو شعراء کو اپنے بہت پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ مسجد قرطبہ، ذوق و شوق اور خضر راہ میں شاعر، ایسی امیجز کی تخلیق میں دنیائے ادب کی شعری بلندیوں کو چھوتا ہوا آتا ہے۔ آب رواں کبیر، تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب تیرے در و بام پر وادی ایمن کا نور تیرا منار بلند جلوہ گہہ جبرئیل پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں خاموش اذانیں ہیں تری، باد سحر میں آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں کیا نہیں اور غزنوی کار گہہ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر، دیر و حرم کے سومنات اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا ان مثالوں میں بصری (Visuae) صوتی و بصری (Audo-Visue) تاریخی، حسی اور جمالیاتی Synaesthetic اور حرکی (Kinetic) غرض کہ تمام طرح کی امیجز دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہیں۔ مسجد قرطبہ میں شاعر ایک خوبصورت بصری اور حسی امیج کے ساتھ نظم کو بلندی سے نیچے اتارتا ہے اگرچہ نظم کا تاثر اس عمل میں اور بلند ہو جاتا ہے۔ وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب لعل بدخشاں کے ڈھیر، چھوڑ گیا آفتاب سادہ پر سوز ہے دختر دہقاں کا گیت کشتی دل کے لیے سیل ہے عہد شباب پہلا شعر سامع کو عربوں کے اس شاندار ماضی میں لے جاتا ہے جہاں انہوں نے سر زمین اندلس پر اپنی تہذیب کے صد ہا نقوش چھوڑے ہیں۔ لعل بدخشاں کے الفاظ ذہن کو اس طرف موڑنے میں بڑی مدد کرتے ہیں۔ اس تہذیب کی طرف بھی اور اس تہذیب کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے اور احترام کے لئے بھی۔ غروب آفتاب کا منظر، غروب عظمت کی تاریخی فضا کو ذہن میں اجاگر کر دیتا ہے۔ سادہ و پر سوز گیت میں عربوں کی سادہ زندگی کا رباب بجتا نظر آتا ہے اور سوز، اس سوز دروں کا مظہر بن جاتاہے جس سے ابتدائی مسلمان سرشار تھے۔ کوئی چاہے تو اسے سوز ایمان تک پھیلا سکتا ہے۔ ان اشعار کو پڑھتے وقت ذہن اکثر ورڈ سورتھ کی مشہور نظم Reoper Solitary کی طرف جاتا ہے اور اس نظم کے ان اشعار کی گونج ذہن کی فضا میں سنائی پڑتی ہے۔ Alone she cuts and binds the Grain and sings a Mealancholy Stain. اور کوئی چاہے تو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب میں اقبال کا وہ پر سوز نغمہ بھی شامل ہے جو اسپین میں مسلمانوں کے زوال کی وجہ سے شاعر کے اشعارمیں ابھرا ہے ۔ جو نظم کا اختتام بھی ہے اور وقت کی طاقت کا محاسبہ بھی۔ وقت جو اقبال کی نظر میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ ٭٭٭ اقبال مغربی خاور شناسوں کی نظر میں جگن ناتھ آزاد اقبال نے مغرب، مغربی علوم و فنون اور مغربی تہذیب کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اسے اقبال کے نقادوں نے اکثر بحث و تمحیص کا موضوع بنایا ہے لیکن یورپ اور امریکا کے مستشرقین نے جو کچھ اقبال کے بارے میں کہا اس پر ابھی پوری طرح سے توجہ نہیں دی گئی حالانکہ یہ موضوع بھی اقبالیات کے تعلق سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ میں اپنے عزیز دوست محمد یوسف ٹینگ کا ممنون ہوں کہ انہوں نے یہ خدمت میرے سپرد کی۔ 1؎ یوں تو اقبال کے فکر و فن نے ایک بڑی تعداد میں مستشرقین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے جن میں آرتھر آربری، ٹامس آرنلڈ، آر اے نکلسن، سورئیل، وہائیٹ ہیڈ، میکٹگرٹ ایچ آر اے گب، گراہم ہیلی، ای جی براؤن، کانٹ ویل اسمتھ، وکٹر کرنین، جے سی روم، ایڈورڈ ٹامسن، وشل بروک ولیمز، الفریڈ گیلام، اومالے، جی ای گرنے بام، رچرڈ سائمنڈس، جے اے ہے وڈ اور رابرٹ وہٹ مور (انگلستان)، اینے میری شمل، حییٹ، الساربش بنیٹڈر، جے، ڈبلیو، فک، برنڈ مینویل ویسچر اور پروفیسر ہیل (جرمنی)، لیوسی کلاد میترے، ہینری ماسے اور ایوا میو رو وچ (فرانس)، آرتھر جیفری، ایساندر بسانی اور ایم نالینو (اٹلی)، یان ماریک (چیکو سلوواکیہ) بابا جان غفور وف، مس ایم ٹی اسٹپینیس، گورڈن پلونوسکایا، این آئی پری گارینا اور این پی اینکی لیپو (روس) ولیم اوڈگلس، مسز لنڈامک، فری لینڈ ایبٹ، شیلا میک ڈونو اور مارگن کینتھ (امریکہ) خاص طور سے قابل ذکر ہیں لیکن میرے نزدیک ٹامس آرنلڈ کا نام سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس نے اقبال کے زمانہ طالب علمی ہی میں اقبال کے جوہر اقبال کو پہچان لیا تھا اور اس کے بارے میں یہ کہا تھا کہ اقبال ایسا طالب علم استاد کو محقق اور محقق کو زیادہ بہتر محقق بنا دیتا ہے یہ اس زمانے کی بات ہے جب اقبال ابھی گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے اور اس وقت تک نہ اقبال خود یورپ پہنچ کر خاور شناسوںکے سامنے آئے تھے اور نہ ہی ان کا کلام یورپ تک پہنچا تھا۔ خاور شناسوں کی مذکورہ فہرست میں تینتالیس مصنفین کے نام ہیں اور ممکن ہے یہ فہرست نا مکمل ہی ہو کیونکہ ایک تو یہاں ناموں کی فہرست پیش کرنا میرا مقصد نہیں۔ دوسرا مجھے اس بات کا دعویٰ بھی نہیں کہ میں ہر اس مغربی خاور شناس کے نام سے آشنا ہوں جس کی تحریروں میں اقبال کا ذکر آیا ہو۔ اس کے ساتھ ہی تصویر کا دوسرا پہلو 1؎ یہ عنوان جموں و کشمیر کلچرل اکیڈمی کی طرف سے دیا گیا اور مقالہ اکیڈیمی کی دعوت پر اقبال سیمینار (جموں) میں ۱۰ مارچ ۱۹۷۷ء کو پڑھا گیا۔ یہ بھی ہے کہ ان تمام کے تمام اہل قلم نے اقبال پر اس خیال سے قلم نہیں اٹھایا کہ وہ اقبال کی شاعری یا فلسفے کا تجزیہ کریں یا اس پر بحث کریں بلکہ بعض نے تو محض سیاسی موضوع پر لکھتے وقت اقبال ہی کے سیاسی بیانات یا تقریروں یا خطوط یا ملاقاتوں ہی کا ذکر کرنا کافی سمجھا ہے مثلاً ایڈورڈ ٹامسن یا رچرڈ سائمنڈس۔ ان اہل قلم میں جنہوں نے اقبال کے کلام اور نثر کا بغور اور بالا ستیعاب مطالعہ کیا ہے اولیت کا حامل نام پروفیسر آر اے نکلسن کا ہے جنہوں نے ۱۹۲۰ء میں اقبال کی مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ دراصل یہی ترجمہ اول اول مغرب میں اقبال کی شہرت کا سنگ بنیاد بنا۔ اس وقت تک اقبال کے کلام کا نہ تو کوئی انگریزی ترجمہ ہوا تھا اور نہ ہی انگریزی میں کوئی قابل ذکر مقالہ یا کتاب اقبال کے متعلق شائع ہوئی تھی۔ نواب مالیر کوٹلہ کے بھائی نواب سر ذوالفقار علی خاں کے ٹی سی ایس آئی کی اقبال کے متعلق کتاب ’’ A Voice from the East‘‘ جس نے اقبال کا مغرب میں مزید تعارف کرایا۔ دو برس بعد ۱۹۲۲ء میں شائع ہوئی۔ نکلسن کا یہ ترجمہ نکلسن کی اقبالیات اور اسلامیات سے غیر معمولی دلچسپی کا آئینہ دار ہے۔ اگرچہ اس میں کہیں کہیں ترجمے کی اغلاط موجود ہیں لیکن اس سے نکلسن کے کام کی عظمت پر حرف نہیں آتا۔ خواجہ غلام السیدین اس ضمن میں نکلسن کی ایک غلطی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:ـ ’’ میں نے علامہ مرحوم کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تھی کہ نکلسن نے ’’ اسرار خودی‘‘ کے ترجمے میں ’’ صورت طفلاں زنے مرکب کنی‘‘ کو غلط پڑھ کر بجائے نے کا ترجمہ Reed کرنے کے ’’ ز‘‘ کو اس کے ساتھ ملا کر ’’ زنے‘‘ پڑھا تھا اور اس کا ترجمہ ’’ Woman‘‘ کیا تھا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی سیدین صاحب لکھتے ہیں: ’’ یہ ہیں ہمارے بہترین مستشرقین!‘‘ نکلسن کی مذکورہ غلطی کے متعلق میں سیدین صاحب سے متفق ہونے کے باوجود ان کی اس طنزیہ رائے میں ان کا ہم خیال نہیں ہوں کہ ’’ یہ ہیں ہمارے بہترین مستشرقین! نکلسن یقینا ہمارے بہترین مستشرقین میں سے ہیں اور اس قسم کے کسی سہو کی نشان دہی کر کے نکلسن کے سارے کام پر پانی پھیر دینا کوئی مستحسن بات نہیں۔ جہاں تک اس ترجمے کا تعلق ہے اس میں اغلاط اور بھی ہیں اور ان اغلاط کی اصلاح خود علامہ اقبال نے کی لیکن ان اغلاط کے باوجود نکلسن کے ترجمے کی اہمیت کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ بڑی بات یہ ہے کہ نکلسن نے اپنی کسی غلطی پر اصرار نہیں کیا اور علامہ اقبال کے تصحیح کردہ ترجمے کی بنا ء پر اپنے ترجمے میں اصلاح کی اور ان تصحیحات کے ساتھ اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۴۰ء میں لاہور سے شائع ہوا۔‘‘ یہاں اس دوسرے ایڈیشن کی داستان کا ذکر ضروری تو نہیں لیکن چونکہ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ یہ میں آرتھر آربری کے الفاظ میں آپ کو سناؤں۔ آرتھر بری ’’Asrar-I- Khudi‘‘ Notes on Iqbal's میں لکھتے ہیں: After Professor R.A. Nicholson's death in 1945, his library was sold to a well known Cambrdge Book seller. As i was looking through the Volumes offered to the Public, I Chanced upon a copy of his translation of Iqbal's Asrar-i-Khudi in the first edition (london, 1920) and was immediately interested to observe that this copy was heavily corrected and annotated, in a hand other than the translator's on Studying the character of the noted, it seemed likely to me that these (and of course the corrections) emanated from no other than sir Mohammad Iqbal himself. This supposition was strengthened when i found a few lines of dedication in a copy of one of his publications which he had sent as a present to prefessor Nicholoson. Probability at last became a certainty when i showed the book to Mr. Javid Iqbal who is at present studying with me in Cambridge he confirmed that the corrections and annotations were indeed in the hand-writing of his revered father. اس کے بعد اقبال کا نیا فارسی مجموعہ کلام شائع ہوا تو رینالڈ اے نکلسن نے ایک طویل مقالے کی صور ت میں اس پر تبصرہ کیا۔ اس مقالے میں پہلے تو نکلسن نے ان الفاظ میں اقبال کی دونوں مثنویوں ’’ اسرار خودی‘‘ اور’’ رموز بیخودی‘‘ کا جائزہ لیا: He regards reality as a process of becoming, not as an eternal state. the templa serana of the absolute find no place in his scheme of things: all in in flux. his universe is an assocition of individuals headed by the most unique individual, i.e God. their life consists in the formation and sultivation of personality. the Perfect man not only absorbs the world of matter by mastering it he absorbs God him self in to his ego by assimilating Divine attributes. Hence the essence of life is love, which in its highest from is the creation of desires and ideals, and the endevour to realise them. Desires are good or bad according as they strengthen or weaken personality, and all values must be determined by this standard. بیان اس امر کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ نکلسن کی یہ تحریر ۱۹۲۴ء کی ہے جب کہ اقبال کی نثری تصنیف۔۔۔۔Reconstruction of Religious Thought in Islam ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی تھی Reconstruction of Religious Thought in Islam میں تو اقبال نے اپنے فلسفے کو ایک مربوط صورت دی ہے لیکن محض اسرار خودی، رموز بیخودی اور پیام مشرق کے مطالعے سے اقبال کے فلسفہ خودی، نظریہ خدا اور اس کے زمان و مکاں کے تصور کو اس غیر مبہم، سلجھے ہوئے اور سریع الفہم انداز بیان میں پیش کر دینا ایک معجزے سے کم نہیں۔ اس کے بعد نیٹشے اور برگسان کے ساتھ اقبال کے ذہنی قرب و بعد کا ذکر کرتے ہوئے نکلسن نے اپنی خلش دل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: The affinities with Neitzsche and Bergson need not be emphasised. it is less clear, howevery, why Iqbal indentifies his ideal society with Mohammas' s Conception of Islam, or why membership of the society should be a previlege reserved for muslims. here the religious enthusiat seems to have knocked out the philosopher-a result which logically wrong but poetically right. ہم میں سے اکثر نکلسن کی اس رائے کے ساتھ متفق ہوں یا نہ ہوں یہ ایک حقیقت ہے کہ نکلسن نے اقبال کے جن خیالات پر کسی قدر اظہار حیرت کیا ہے وہ آج بھی اقبال کے نظام فکر میں اقبال کے اکثر نقادوں اور مداحوں کے لیے ایک امر متنازعہ فیہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبال کے یہ خیالات اکثر مستشرقین کے لیے ہمیشہ ایک سوالیہ علامت کی صورت میں رہے اور کسی نہ کسی طرح مستشرقین اس کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اسی موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے گراہم بیلی A History of urdu Literature (1932)میں لکھتے ہیں: He sings the praises of muslim achievement, for he is not a national but a muslim patriot, one who has imbibed some of the culture of west, but holds himself rather aloof, not so much antagenistic to it as suspicious of its effect on his co-religionists. دراصل گراہم بیلی اس عقدے کے جو خود نکلسن اور گراہم بیلی کے سامنے آیا کھولتے کھولتے رہ گئے ہیں جہاں تک میرا خیال ہے گراہم بیلی کی نظر سے Reconstruction of Religious Thought in Islam نہیں گزری ہو گی یا ممکن ہے چونکہ ان کا مقصد اردو ادب کی تاریخ لکھنا تھا اس لیے انہوں نے اپنا مطالعہ اقبال کے مجموعہ کلام ’’ بانگ درا‘‘ ہی تک محدود رکھنا کافی سمجھا ہو حالانکہ ۱۹۳۲ء سے تین سال قبل۔۔۔۔ Reconstruction of Religious Thought in Islam چھپ چکی تھی۔ اگر گراہم بیلی اس کتاب کا مطالعہ کرتے تو شاید اقبال کی مندرجہ ذیل تحریر میں کہیں نہ کہیں انہیں اپنے سوال کا جواب نہ سہی اس کی ایک جھلک ہی نظر آ جاتی: During the last five hundred years religious thought in Islam has been Practically stationary. there was a time whien European thought recived inspiration form the world of Islam. the most remarkable phenomena of modern history. however. is ther enormous rapidity with wich the world of Islam is spiritually moving towards the west. there is nothing wrong in this movement. for European culture on its intellectual side is only a further development of some of the most important phases of the culture of Islam. Our only fear is that the dazzling exterior of European Culture may arrest our movement and we may fail to reach the true inwardness of the culture. میرے نزدیک اقبال کی اس تحریر میں پروفیسر نکلسن کے اس اعتراض کا جواب بھی موجود ہے جو انہوں نے دبی زبان میں اپنے مذکورہ مقالے میں یہ کہہ کے کیا ہیـ: He Knows Goethe, Byron and Shelly he is as familiar with also sprach zorathustra and l evolution Creatrice as he is with the Quran and the Mathnawi. But with the Humanistic Foundations of European culture he appears to be less intimately acquainted and we feel that his criticism, thought never superficial, is sometimes, lacking in breadth. ویسے اپنے اس اعتراض کا جواب نکلسن کے اسی مقالے میں موجود ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: While Iqbal has been profundly influenced by the western culture, his spirit remains essentially oriental. اس نکتے کی وضاحت خود اقبال کے الفاظ میں دیکھئے۔ اپنے ایک لیکچر Freedom and Immortalityمیں لکھتے ہیں: The tast before the modern muslim is, therefore, immense he has to re-think the whole system of islam without completely breaking with the past.... the only course open to us is to appreach modern knowledge with a respectful but independent attitude and to appreciate the teachings of Islam in the Light of that Knowledge, even thought we may be led to differ from those who have gone before us. فکر اقبال کا یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر مستشرقین نے تو کیا خود ہندوستان اور پاکستان کے اکثر طلبائے اقبالیات نے کام کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی حالانکہ فکر اقبال کا یہی پہلو سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے۔ لیکن دو چار خاور شناس، جنہیںمیں مستشرقین نہیں کہوں گا اور جن کے ناموں کا ڈنکا بھی نکلسن اور آربری کی طرح ہندوستان یا پاکستان میں نہیں بجا، ایسے بھی ہیں جنہوں نے فکر اقبال کے اس پہلو کی طرف کام کرنے کا اشارہ کیا ہے۔ ان میں ایک ہیں جے کلا تو روم جو The Poet of the East کی تمہید میں لکھتے ہیں: Only those who are qualified by a close study of the Quran can say how far Iqbal maintained inviolate the Spirit of the Teachings of the Quran, but there can be no question that he has widened the horizon of Islamic thought and revealed unsuspected resiliency in to it to the pressure of the changes through which the world is passing today. Iqbal has demolished once for all the bizarre structure which the hair-Splitting interperters of the teachings of Islam and the involved system of thought to islam the grendeur of Its simplicity. time alone will show if he has succeeded. but the irresistable appeal of the cry from his heart for directness in the interpretations of the teachings of islam is already producing changes in Muslim outlook which promises to rationalise life in islamic countries. اسی تمہید میں جے سی روم ایک قدم اور آگے جاتے ہیں اور اقبال کے فکری سرچشموں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: How far the stream of Iqbal's thought was influenced by the current of Hindu thought as it was by the currents of Islamic and western thoughts, is difficult to say, but the fearlessness with which he plunged in to unfathomable depths and the consistency with which he upheld the dicatated of reason to suggest that the force of generations of Hindu thought which formed the wrap of his mind, even if covered with Islamic thought, was not extinct. دوسرے خاور شناس اس ضمن میں ہیں ولیم اور ڈگلس جنہوں نے واشنگٹن میں متعدد اجلاس کی صورت میں اقبال کی شاعری اور فلسفے پر بحث مباحثے کے لیے ایک فضا پیدا کی اور جو اقبال کی شاعری اور فکر و فن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: The most remarkable phenomenon of modern history to Iqbal was the new spiritual understanding between the East and the West .... Iqbal was a voice from the East that found a common denominator with the west and helped build the universal community that tolerates all differences in race, in creeds, in language. پروفیسر آرتھر آربری کا ذکر اس مقالے کے شروع میں آ چکا ہے۔ نکلسن کی طرح اقبال پر آرتھر آربری کے کام کا کینواس بھی خاصا وسیع ہے۔ ’’ زبور عجم‘‘ کا انگریزی ترجمہ Persian Psalms’’ پیام مشرق‘‘ کے حصہ رباعیات ’’ لالہ طور‘‘ کا ترجمہ Tulips of Sinai ’’ شکوہ و جواب شکوہ‘‘ Comlaint and Answer’’ رموز بیخودی‘‘ کا ترجمہ Mystries of Selflessness اور ’’ جاوید نامہ‘‘ کا ترجمہ ان کے ایسے کام ہیں جو اقبالیات کے سلسلے میں ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ یہاں یہ کہنے کی اجازت چاہوں گا کہ جس طرح ’’ اسرار خودی‘‘ کے ترجمے میں پروفیسر نکلسن سے بعض اغلاط سر زد ہوئیں اسی طرح آرتھر آربری کے انگریزی ترجمے میں بھی کہیں کہیں اغلاط موجود ہیں جن کا مختصر سا ذکر میں ایک طویل مقالے میں جو چند برس ہوئے ماہ نامہ ’’ شب خون‘‘ الٰہ آباد میں شائع ہوا تھا کر چکا ہوں لیکن جیسا کہ میں نے اس مقالے کا ذکر کیا ہے اس ترجمے کی قدر و قیمت محض چند اغلاط کی بناء پر کسی طرح کم نہیں ہو سکتی۔ اس میں محاسن کا پلڑا کہیں بھاری ہے اور آرتھر آربری کے قلم کی جولانی اور شگفتگی جو اول سے آخر تک جادو جگاتی چلی جاتی ہے ترجمے کے ادب کی ایک بیش بہا متاع ہے۔ اردو اور فارسی غزل کا ترجمہ انگریزی یا کسی بھی زبان میں خاصا مشکل سمجھا گیا ہے۔ اس معاملے میں آرتھر آربری جس کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوئے ہیں وہ ہر اعتبار سے قابل توصیف ہے۔ ترجمے کے آخر میں قرآن اور حدیث کے حوالے اس امر کی دلالت کر رہے ہیں کہ آربری کا عربی زبان اور اسلامیات کا مطالعہ قابل رشک ہے۔ ’’ زبور عجم‘‘ اور’’ جاوید نامہ‘‘ کے ترجموں کی تمہید میں آرتھر آربری نے اقبال کے فکر و فن پر بڑی عالمانہ بحث کی ہے اور ترجمے کے متعلق قاری کو خاصے اہم نکتوں سے روشناس کیا ہے۔ اس تمہید میں آپ نے شیخ محمود احمد، پرنسپل گورنمنٹ کالج میر پور کے انگریزی ترجمہ ’’ جاوید نامہ‘‘ کے ذکر میں کسی بخل سے کام نہیں لیا۔ جہاں تک مطالعہ نظم و نثر اقبال کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوںکہ آرتھر آربری نے اقبال کا ایک ایک لفظ بغور پڑھا ہے یہاں تک کہ جاوید اقبال کی مرتب کی ہوئی اقبال کی ڈائری Stray Reflections تک کا حوالہ بھی انہوں نے دیا ہے۔ مجھے آرتھر آربری کی یہ احتیاط بہت پسند آئی کہ انہوں نے جہاں دوست کو انگریزی میں جہاں دوست ہی لکھا ہے اور غیر محتاط مترجمین اقبال کی طرح جہاں دوست کا لفظی ترجمہ کر کے اسے وشوامتر نہیں لکھ دیا۔ یہ دراصل شیو جی مہاراج کا ذکر ہے۔ شیو جی مہاراج کے ساتھ اقبال کے سوال و جواب اگر اقبال کی شاعری میں ایک میخانہ الہام کی حیثیت رکھتے ہیں تو ان کا انگریزی ترجمہ آرتھر آربری کے فن کی بدولت مئے دو آتشہ کی صورت اختیار کر گیا ہے اس حصے میں آبری سے صرف ایک لغزش ہوئی ہے۔ اقبال جب کہتے ہیں: گفت ’’حجت چیست؟‘‘ گفتم ’’روئے دوست‘‘ تو یہاں ’’ حجت کا لفظ ایک مکمل سوال کی صورت میں آیا ہے یعنی عرفان و ایقان کے حصول کا ذریعہ کیا ہے۔ آربری نے یہاں ’’ حجت‘‘ کا لفظی ترجمہ Proof لکھ دیا ہے۔ لیکن اس قسم کی لغزشیں سمندر میں قطرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتیں۔‘‘ ایسا ندر بسانی عارف اقبال بھی ہیں اور عاشق اقبال بھی۔ ’’ جاوید نامہ‘‘ کا اطالوی زبان میں ترجمہ جو روم سے ۱۹۵۲ء میں شائع ہوا انہی کے قلم کا مرہون منت ہے۔ ویسے ہی جہاں تک اقبالیات کا تعلق ہے بسانی نے زیادہ تر کام ’’ جاوید نامہ‘‘ ہی پر کیا ہے۔ انہوں نے دانتے کی ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ اور’’ جاوید نامہ‘‘ کا ایک تقابلی مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔ عربی بہت اچھی جانتے ہیں اور اقبال پر جب لکھتے ہیں تو اپنی تحریروں کو جا بجا آیات قرآنی سے مزین کرتے ہیں۔ خاور شناسوں میں ولفر ڈکانٹ ویل اسمتھ کا نام بہت بڑا نام ہے۔ ان کی کتاب جس کا پہلا ایڈیشن تقسیم ہند سے قبل Modern Islam in India کے نام سے اور دوسرا ایڈیشن تقسیم ہند کے بعد Modern Islam in India and Pakistan کے نام سے چھپا ایک ایسی کتاب ہے جسے ہندوستان اور پاکستان میں سیاسیات یا سماجیات کا کوئی طالب علم نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس کتاب میں اقبال کے متعلق دو باب ہیں۔ ایک کا عنوان ہے Iqbal the Pregressive اور دوسرے کا ہے Iqbal the Reactionary میں سمجھتا ہوں کانٹ ویل اسمتھ نے اس عمارت کی تعمیر میں خشت اول ہی ٹیڑھی رکھی ہے۔ ایک شخصیت کو دو حصوں میں تقسیم کرنا نفسیاتی تجزیے میں ممکن ہو تو ہو فکری یا فنی اعتبار سے ممکن نہیں۔ دراصل اقبال اتنے بڑے شاعر تھے کہ ہر جماعت اور ہر فرد کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ وہ اقبال کو اپنے نظام فکر کے سلسلے سے وابستہ شاعر و مفکر ثابت کر سکے۔ کانٹ ویل اسمتھ کا شمار ایسے ہی اقبال پسندوں میں ہوتا ہے۔ اسمتھ چونکہ خود سوشلسٹ بلکہ کمیونسٹ ہیں، اور کمیونسٹ بھی ایک وسیع المطالعہ اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اقبال کو سوشلسٹ کہنا آسان نہیں۔ اس لیے انہوں نے جا بجا اس طرح کی لفاظی کا سہارا لیا ہے: ’’ جذباتی اعتبار سے اقبال سوشلسٹ تھے‘‘ ’’ ذہنی اعتبار سے وہ سوشلسٹ نہیں تھے۔‘‘ ’’ وہ تجزیاتی طور پر نہیں جانتے تھے کہ سرمایہ داری میں کیا خرابی ہے۔‘‘ ’’ انہوں نے اشتراکیت کے بارے میں مختلف قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔‘‘ ’’ ان کی تحریروں سے سوشلسٹ قسم کا تاثر جھلکتا ہے۔‘‘ ’’ آخر میں انہوں نے کئی اشتراکیانہ نظمیں کہیں اور انہوں نے مغربی تہذیب کی مخالفت میں کارل مارکس کا نام استعمال کیا۔‘‘ ’’ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ انہیں اس بات کا علم ہی نہ تھا کہ اشتراکیت کیا ہے۔‘‘ یہ ایک طرح سے بے سروپا باتیں ہیں اور ایک ایسے طالب علم کے لیے جو صدق دلی سے اقبال کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے کوئی رہنمائی نہیں کرتیں۔ اقبال کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اشتراکیت کیا ہے اور پھر ان کے کلام کو اشتراکیانہ قرار دے کر اس پر بحث کرنا اقبال کو ان کی شخصیت سے باہر لے جا کر دیکھنے کی کوشش ہے۔ کسی بھی فن کار کا مطالعہ اس کی شخصیت سے باہر جا کر نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر محمد دین تاثیر اس سلسلے میں خلط مبحث سے کام لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ پیام مشرق‘‘ میں اقبال لینن کو قیصر ولیم کی پست سطح پر لے آئے ہیں۔ ان کا اشارہ نظم موسوم بہ ’’ موسیولینن و قیصر ولیم‘‘ کی طرف ہے۔ اس نظم سے یہ اندازہ لگانا کہ قیصر ولیم کو اقبال نے کسی پست سطح پر رکھا ہے خواہ مخواہ کی کھینچا تانی ہے۔ اس نظم میں اقبال نے نہ تو قیصر ولیم کو کسی پست سطح پر دکھایا ہے اور نہ لینن کو قیصر ولیم اور لینن پہلی جنگ عظیم کے دو کردار ہیں۔ ایک کے لیے جنگ زوال کا اور دوسرے کے لیے عروج کا باعث بنی۔ خیر کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ کانٹ ویل اسمتھ نے اپنی مذکورہ کتاب میں ڈاکٹر تاثیر کا یہ فقرہ نقل کیا ہے لیکن اپنی طرف سے اس میں لفظ ’’ جہنم‘‘ کا اضافہ کر دیا ہے اور فقرہ یوں مکمل کیا ہے کہ ’’ اقبال لینن کو جہنم میں قیصر ولیم کی سطح پر لے آئے ہیں ۔‘‘ معلوم نہیں اسمتھ نے یہ لفظ ’’ جہنم‘‘ کہاں سے شامل کیا ہے کیونکہ یہ لفظ نہ تو کہیں اقبال کی نظم میں آیا ہے اور نہ ڈاکٹر تاثیر کی مذکورہ تحریر میں۔ کانٹ ویل اسمتھ کے الفاظ میں ’’ اقبال اقتصادیات اور سماجیات سے بھی نا واقف تھے اور اسی نا واقفیت کی بنا پر وہ ہندوستان اور اسلام میں ان جماعتوں کو نہ پہچان سکے جو دراصل انہی کے مقاصد کی ترجمانی کر رہی تھیں۔ اپنی عملی زندگی میں انہوں نے انہی جماعتوں کی مخالفت کی اور ان جماعتوں کی حمایت کی جو ان کے مقاصد کے خلاف کام کر رہی تھیں۔‘‘ لیکن اقبال پر یہ اعتراض کرتے وقت اسمتھ یہ بات بھول جاتیے ہیں کہ اقبال کے سامنے مسلمانوں کی بہبود کا ایک اپنا تصور تھا۔ پہلے تو اقبال کو کھینچ تان کے سوشلسٹ ثابت کرنا اور پھر ان کے سوشلزم پر اعتراض کرنا اور یہ کہنا کہ وہ سوشلزم کے بارے میں یہ نہیں جانتے تھے۔ اور وہ نہیں جانتے تھے ایک مہمل قسم کی تنقید ہے۔ ہاں اقبال کے بعض اشعار کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبال مغربی یورپ کے جمہوری نظام پر اشتراکی نظام کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اشتراکی نظام کے مقابلے میں اسلام کو بدرجہا بہتر نظام سمجھتے ہیں اس لیے کانٹ ویل اسمتھ اقبال کو سوشلسٹ کہہ کر ان پر سوشلزم سے نا واقف ہونے کا اتہام لگانے کے عوض اگر اقبال کو سوشلسٹ نہیں بلکہ مسلمان تسلیم کریں تو خلط مبحث کر بڑی حد تک خاتمہ ہو جائے گا۔ اس صورت میں کانٹ ویل اسمتھ کے اعتراض کی نوعیت بھی بڑی حد تک بدل جائے گی۔ انہیں اس بات کا تو حق ہو گا کہ اسلام کے مقابلے میں اشتراکی نظام کو بہتر قرار دیں لیکن یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہو گی کہ اقبال تھے تو سوشلسٹ لیکن سوشلزم کی حقیقت سے بے خبر تھے۔ وکٹر کرنین نے اپنی توجہ اقبال کی اردو نظموں ہی پر مرکوز رکھی ہے۔ وکٹر کرنین کی کتاب (Poems of Iqbal) جو اقبال کی بعض منتخب اردو نظموں کے ترجموں پر مشتمل ہے شعری ترجموں کی مقبول ترین کتابوں میں ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ یہ اقبال کے شعوری ارتقاء کی ایک جامع تصور پیش کرتی ہے۔ مترجم نے ان ترجموں میں صرف قافیے کی اسکیم ہی کو برقرار نہیں رکھا بلکہ کوشش یہ کی ہے کہ اصل نظم کے وزن کا آہنگ بھی ترجمے میں برقرار رہے۔ بعض ترجمے جس میں اقبال کی نظم ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کا ترجمہ بھی شامل ہے نہایت عمدہ ترجمے ہیں۔ فرانسیسی خاور شناسوں میں ایوا میو رووچ اور لیوسی کلاد متیرے کا ذکر پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اول الذکر خاتون کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے Recnsturuction of Religious thought in Islam کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا ہے اور اب Development of Metaphysics کے ترجمے میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے محمد مقری کے ساتھ مل کر ’’ پیام مشرق‘‘ کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا ہے اور ثانی الذکر نے فکر اقبال پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا انگریزی ترجمہ مولینا عبدالمجید ڈار بیرسٹر ایٹ لاء لاہور نے Introduction to the Thoughts of Iqbal کے عنوان سے کیا ہے۔ یہ کتاب مندرجہ ذیل آٹھ ابواب His Life and Works, His Philosophy of Personality, the Perfact Man and the Ideal Society. Metaphysics and Philosphy of Religion Iqbal and Oriental Thoughts. The Poet اور The Ghazals پر مشتمل ہے۔ اقبالیات میں ایک گراں بہا اضافہ ہے۔ دراصل یہ کتاب مفکر اقبال کے بارے میں شاعر اقبال پر آخر میں ایک باب ہے جس میں فاضل مصنفہ نے اقبال کی فلسفیانہ شاعری اور غزلیہ شاعری کا تجزیہ کیا ہے۔ مس شیلامیک ڈونو سر جارج ولیم یونیورسٹی مونٹر یال (کینیڈا) میں دینیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں Pakistan and the west ان کی ایک مشہور کتاب ہے۔ انہوں نے میک گل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اسلامیات اور اقبالیات سے انہیں خاصی دلچسپی ہے۔ اقبال کی نظم ’’ مسجد قرطبہ‘‘ پر ان کا مقالہ اقبالیات اور ادبیات میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مقالے میں شیلامیک ڈونو نے اقبال اور ٹی ایس ایلیٹ کی شاعری کا موازنہ کیا ہے۔ ایوا میو رووچ، لیوسی کلاد میترے اور شیلامیک ڈونو کے بعد صنف نازک کی فہرست میں دو بہت ہی اہم نام آتے ہیں۔ ان میں ایک ہیں روسی مصنفہ مس ایم ٹی ٹی سٹینٹس اور دوسری ہیں جرمن مصنفہ اینے میری شمل۔ مس ایم ٹی اسپینٹس نے اپنی کتاب Pakistan: Philosophy and Sociology میں اقبال کا فکری رشتہ شاہ ولی اللہ اور سرسید احمد خان کے ساتھ ملایا ہے۔ اس کتاب کے انگریزی ترجمے میں جو ایک روسی مصنف آرکوس ٹیوک نے کیا ہے ہمیں اقبال اور مغرب کے تعلق سے یہ عبارت نظر آتی ہے: And Iqbal him self did take from the west whatever corresponded most to the basic premises of his philosophical conception, He made it his goal to create a system on modernised Islam, and tried to prove that the philosophy of Islam was not out-dated but merely needed to have its principles expressed in the terminology and ideals of the new timed. from the premise it remained for him to find poin contacts between muslim philosophy and the modern theories of the west. he Interested himself, for instance, in the gnosiolicial ideas of Bergson, Which he found Similar, to those of Rumi the latter in his opinion, had anticipated western philosophers, especially bergson, in his treatment of the relation between intellect and intution.... ... Some Scholors would have it that Iqbal's Philosophp is a sort of Carbon copy of Neitzscheism, prof. E. G. Browm of great beitain has even called it an oriental adaptation of Neitzscheism other scholars thake that diametrically oppsoite view, completely denying any Neitzschean niflurence on the Muslim reformer and seeing nothing in common between them. اس قسم کے خیالات پر میں اپنی کتاب ’’ اقبال اور مغربی مفکرین‘‘ میں اور اپنے طویل مقالے ’’ اقبال کا تصور زمان و مکاں‘‘ میں مفصل بحث کر چکا ہوں۔ اس لیے اس بحث کو یہاں دہرانا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ مختصراً اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ مذکورہ بالا دونوں آراء انتہا پسندانہ ہیں۔ جہاں تک نیٹشے کا تعلق ہے اقبال اور نیٹشے کے افکار میں قرب کی بہ نسبت بعد کہیں زیادہ ہے۔ اقبالیات کے تعلق سے مس سیٹپینٹس کا ایک خاص موضوع ہے اقبال کے نظام فکر میں اخلاقیات کا مقام اس ضمن میں ان کا مقالہ Problems of Ethics in Mohammad Iqbal's Philosophy کیفیت و کمیت دونوں کے اعتبار سے اقبالیات میں بلند مقام کا حامل ہے۔ اب آخر میں اس مستشرق خاتون کا ذکر کروں گ اجس نے اقبال کے متعلق دنیائے ادب میں مقالات ادب اور تقریروں اور مینہ برسا دیا ہے اور وہ ہے Gabriel's Wing کی مصنفہ اینے میری شمل یہ جرمن خاتون جو یونانی یونیورسٹی آف بون میں پروفیسر رہ چکی ہیں آج کل امریکہ میں ہیں اور اقبال کے فکر و فن پر لیکچروں کے سلسلے میں کئی بار ہندوستان اور پاکستان کا سفر کر چکی ہیں۔ اینے میری شمل کی کتاب Gabriel's Wing ’’ بال جبرئیل‘‘ کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ اقبال کے مذہبی افکار کا ایک مطالعہ ہے یہ کتاب Studies in the History of Religious (Supplement to Numens)کے سلسلے کی چھٹی کتاب ہے جو ۱۹۶۳ء میں لیڈن (نیدر لینڈز)میں چھپی۔ چار سو اٹھائیس صفحات کی یہ کتاب مندرجہ ذیل پانچ ابواب پر مشتمل ہے: 1. Mohammad Iqbal (a) The Historical Background. (b) His Life (c) The Aesthtic side of his work. (d) The Religious motives. 11. His Interpreatation of Five Pillars of Faith (a) There is no God but God. (b) Mohammad is the Messenger of God. (c) Prayer (d) Fasting, Zakat, Pilgrimage and Jihad. III. His Iterpreatations of the Essentials of Faith. (a) I belive in God.... And in His angels. (b)..... and in his books. (c) .....and in his messengers. (d) ....and in the Last Day. (e) .... and in the Predestination, that Good and Evil both come from God. IV. Some glimpses of western and eastern influence an Iqbal's thought, and on his relations to mystics and mysticism. v. to sum up. یہ کتاب اول سے آخر تک کلام اقبال اور فکر اقبال کے ساتھ اینے میری شمل کی شدید دل چسپی کی داستان سناتی ہے۔ مصنفہ کا علم و فضل ایک ایک سطر سے نمایاں ہے اور کہیں کہیں انگریزی زبان کی اسقام کے باوجود بحیثیت مجموعی ساری کتاب کی عبارت قاری کو بدرجہ اتم متاثر کرتی ہے۔ کہیں کہیں زبان کی اسقام کی جو بات میں نے کی ہے اس کے متعلق دراصل مس اینے میری شمل کے ان جملوں کے بعد کہ: I apologize for the English style of the present book... I am afraid that inspite of the help of some friends who did their best to beush up the Style, some clumsy phrases of a w kward expressions have not yet been remeved. کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ ویسے بھی میرے لیے اینے میری شمل کی زبان پر تبصرہ کرنا اس لیے مناسب ہے کہ انگریزی نہ ان کی اپنی زبان ہے نہ میری۔ اینے میری شمل شاعری بھی ہیں اس لیے اس کتاب کا انداز بیان اکثر جگہوں پر شاعرانہ ہو گیا ہے۔ یہ اندا زبیان اگرچہ کتاب کی دل کشی میں اضافہ کرتا ہے لیکن تحقیقی اور تنقیدی نثر کے لیے یہ انداز بیان مناسب نہیں۔ یہاں ایک اور بات کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اگرچہ یہ کتاب اقبال کے مذہبی افکار کے متعلق ہے لیکن اقبال کی شاعری پر کام کرنے والوں کے لیے بھی اس میں نہایت مفید نکتے موجود ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر موصوفہ دیباچے میں لکھتی ہیں: ...... Nearly nobody has made until now a simple careful alatutical index of the motifs of symbols, Iqbal uses in his poetry or of the meters he prefers, in short of his poetical technique. ویسے اس کتاب کا جو مقصد ہے وہ مصنفہ کے ان الفاظ میں دیکھئے: The aim of the present book is not to add some more theories to those already existing. it will simply show iqbal's view of the essentials of Islam, i.e. the five pillars of faith, and the creed which is taught to every muslim child. ڈاکٹر شمل علم کا سمندر ہیں اور تاریخ مذاہب عالم پر ان کی گہری نظر ہے۔ یہ دونوں باتیں Gabriels wingمیں جا بجا نظر آتی ہیں اس کے باوجود تحقیق کے مقالے میں ان سے بعض کوتاہیاں سر زد ہوئی ہیں جن کی تصحیح کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں ضروری ہے۔ مثلاً یہ بات اب طے پا چکی ہے کہ شیخ عطامحمد کی مرتبہ کتاب ’’ مکاتیب اقبال‘‘ میں ڈاکٹر لمعہ کے نام اقبال کے جو خطوط درج ہیں وہ سب کے سب جعلی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک بھی خط کے متعلق اس بات کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا کہ واقعی یہ خط اقبال نے ڈاکٹر لمعہ کے نام لکھا ہے۔ میں خود بھی ایک مدت تک ان خطوط کے متعلق غلط فہمی کا شکار رہا ہوں لیکن اب جب کہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ یہ خطوط جعلی ہیں تو اقبال پر کام کرنے والوں کو چاہیے کہ ان خطوط کو قطعاً نظر انداز کر دیں۔ ڈاکٹر موصوفہ صفحہ ۴۶ پر لکھتی ہیں: His introduction to the first edition of Rumuz gives an impression of what he aimed at. اس کے بعد مندرجہ ذیل اقتباس درج ہے: Just as in the individual life, the acqusition of gain, protection against injury. determation for action and appreciation of higher values are all dependent on the gradual development of the ego-cons ciousness, its continuty, enchancement and consolidation. similyarly the secert of the life of nations and people depends on the same process which can be described as the development, presentation and consolidation of the communal ego.... یہ سارا اقتباس کوئی ڈھائی سو الفاظ پر مشتمل نہ جانے ڈاکٹر موصومہ نے اقبال کی کون سی اردو نثری تحریر کا اقتباس اس ترجمے کی صورت میں پیش کیا ہے۔ ’’ رموز بیخودی‘‘ کے دیباچے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تصحیح بھی ضروری ہے۔ لیکن یہ معمولی فروگزاشتیں اینے میری شمل کی کتاب Gabriel's Wings کی اہمیت کو کسی طرح کم نہیں کرتیں بلکہ اس کی حیثیت ایک دلیل راہ کے طور پر برقرار رہتی ہے۔ اینے میری شمل نے ’’ جاوید نامہ‘‘ کا جرمن زبان میں بھی ترجمہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ اقبالیات کے تعلق سے ایک اور نایاب مسودہ بھی ان کے پاس ہے اور وہ ہے ’’ پیام مشرق‘‘ کے بعض حصوں کا جرمن ترجمہ جو ارلینگن یونیورسٹی کے پروفیسر ہیل نے کیا تھا لیکن اس سے قبل کہ اس ترجمے کے چھپنے کی نوبت آتی پروفیسر ہیل کا انتقال ہو گیا۔ میں نہیں کہہ سکتا یہ ترجمہ اس وقت چھپ چکا ہے یا نہیں۔ ٭٭٭ تاریخ کا قرآنی اور تصور علامہ اقبال پروفیسر محمد منور ’’ تاریخ‘‘ کا لغوی معنی ہے تحریر کرنا، قلمبند کرنا، درج کرنا مثلاً اگر یہ کہنا ہو کہ فلاں دن کا لکھا ہوا، تو کہتے ہیں مورخہ ۱۱ ستمبر سنہ فلاں۔۔۔ ایک عرب مورخ کے مرنے پر کسی شاعر نے لکھا تھا: وکان یورخ ذکر الانام وھاھو ذا الیوم قد ارحنا ’’ وہ لوگوں کے احوال قلمبند کیا کرتا تھا، اور دیکھو آج وہ خود بھی قلمبند ہو گیا ہے۔‘‘ آج وہ خود بھی لکھ دیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ آج وہ بھی تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ اس کیفیت کو انگریزی میں لکھتے ہیں ’’ To Become a part of History‘‘ ۔۔۔۔اردو میں کہتے ہیں، قصہ ماضی بننا بقول اکبر الٰہ آبادی: میرے اسلام کو اب قصہ ماضی سمجھو گویا اصطلاحاً تاریخ کا مفہوم بالعموم عہد گزشتہ کی داستان ہے۔ مگر عہد گزشتہ کی وہ داستان جس کا تعلق انسان سے ہے۔ مسٹر ٹائن بی یہاں بھی خصوصی تحدید سے کام لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تاریخ کا نقطہ آغاز وہ دور ہے جب انسان نے ایک مہذب معاشرے کے فرد کی حیثیت اختیار کی (What we call history is the history of man in a civilized society. 1) مسٹر ٹائن بی کا خیال ہے کہ اگر تاریخ سے مرد وہ سارا عرصہ ہو جو نوع انسانی نے اس خاکداں میں بسر کیا تو پھر دور تہذیب اس کل عرصے کا بمشکل دو فیصد بنے گا۔ اس اعتبار سے آغاز تاریخ کو ایک مخصوص علم کی حیثیت سے آغاز تہذیب کے ساتھ وابستہ کرنا کوئی زیادتی نہیں۔ دور قبل از تاریخ کے ضمن میں جو جو کچھ معلومات فراہم ہوں انہیں ’’ علم الانسان‘‘ یا ’’ انسانیات‘‘ Anthro Pology کے شعبے کا حق سمجھا جانا چاہیے۔ علم تاریخ اگر داستان ماضی ہے تو کیا اس کا مصرف فقط وہی ہے جو قصے کہانی کا ہوتا ہے؟ یعنی محض دل بہلاوا؟ ۔۔۔ نہیں ایسی بات نہیں، کم از کم مسلمان مورخین میں سے کسی نے بھی اسے قصہ کہانی نہیں جانا، ہر مسلمان مورخ محویات تاریخ کو زندہ حقائق قرار دیتا ہے اور زندہ افراد کو دعوت دیتا ہے کہ کارن کھول کر یہ داستان سنے اور آنکھیں کھول کر مناظر ماضی کا مشاہدہ 1؎ A Study of History (abridged edition : Vol:1) U.S.A 1971. p.61 کرے، اس طرح اسے عبرت بھی حاصل ہو گی، اس کا حوصلہ بھی بڑے گا اور وہ ایک بہتر انسان بننے کی کوشش میں مصروف رہے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ مسلمان مورخین کا نقطہ نظر سر تا سر قرآن کریم سے متاثر ہے۔ قرآن نے بار بار تلقین کی ہے کہ دنیا میں گھومو پھرو اور پھر دیکھو کہ وہ لوگ جو تم سے قبل ہو گزرے ہیں کس انجام کو پہنچے، ان میں وہ بھی تھے جو تم سے زیادہ قوت و سطوت والے تھے۔ ان میں سے بعض اس لیے برباد ہوئے کہ انہوں نے آئین خداوندی سے منہ موڑ کر دنیا کی عشرتوں ہی کو سب کچھ جان لیا۔ یہ بے اعتدالی انہیں لے ڈوبی بعض اس لیے برباد ہوئے کہ انہیں حرص اور دیگر حیوانی خواہشات نے اندھا کر کے حیوانی سطح پر پہنچا دیا تھا، بعض اس لیے برباد ہوئے کہ انہوں نے خدا کا انکار کر کے اپنے اندر خدائی کے جلوے دیکھنے شروع کیے اور دعوئے خدائی داغ دیا۔ بعض اس لیے برباد ہوئے کہ ذوق مادہ پرستی میں ایک دوسرے کو مالی نقصان پہنچانے کے در پے رہنے لگے، نتیجہ تھا آپا دھاپی سنگدلی، لوٹ کھسوٹ، غارت گری اور ویرانی۔۔۔۔ قرآن کی رو سے ہر صاحب وحی جو وحی لایا اس کی تلقین یہی تھی کہ اولاد آدم کو متوازن حیات میسر آئے۔ وہ زمین ہی سے چپک کر نہ جائے۔ جب انسان محض زمینی ہو کر رہ جائے تو وہ اعلیٰ انسانی اقدار کے احترام سے محروم ہو کر اخلاقی افراتفری کی نذر ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ہر وحی الٰہی کا تقاضا تھا کہ انسان مادے سے بلند تر ہو کر روح کے تقاضے بھی پورے کرے اور ثابت کرے کہ وہ نباتات، جمادات اور حیوانات میں سے نہیں، وہ خدا کا حکم ماننا جانتا ہے اور خدا کے حکم کی روشنی میں اپنے احکام منوانا بھی جانتا ہے۔۔۔ قرآن نے مطالعہ ماضی کے ضمن میں بصیرت اور دانش و حکمت سے کام لینے پر بالا صرار زور دیا ہے۔ تقی الدین مقریزی (متوفی ۸۴۵ھ) اپنی کتاب ’’ الخطط‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ فی الجملہ علم کی دو قسمیں ہیں عقلی او رنقلی، انسان کو چاہیے کہ جب دونوں علوم حسب ضرورت اچھی طرح سیکھ لے تو تمام تر تاریخ کے مطالعہ میں کھو جائے اور اس کی عبرتوں پر غور کرے۔ اللہ تعالیٰ جس کے دل کا پٹ کھول دیتا ہے اور آنکھوں کے پردے ہٹا دیتا ہے اس کو غور و فکر کے نتیجے میں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ دوسرے انسانوں کو جو دولت اور فوجی طاقت پر اکڑتے تھے بالآخر کس بربادی سے دو چار ہونا پڑا؟‘‘ 1؎ وعلی ہذا یہی مصنف یعنی تقی الدین مقریزی اپنی کتاب ’’ العقود الفریدہ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ اللہ تعالیٰ مخلوق کو نسلاً بعد نسل پیا اور پے در پے قبیلوں میں آباد کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کی غرض یہ ہے کہ اگلے لوگ پچھلوں کے لیے اپنے قصے بطور عبرت و نصیحت چھوڑ جائیں اور پچھلے لوگ اگلوں کی یاد تازہ کرتے رہیں اور ان کی خبریں پھیلاتے رہیں تاکہ سمجھ دار لوگ مذموم باتوں سے باز رہیں او ران سے نفرت کریں او ربا ادب حضرات ان اخلاق کی پیروی کریں جو اچھے اور پسندیدہ ہوں‘‘ 2؎ 1؎ الا علان بالتوربیخ، اردو ترجمہ، مرکزی اردو بورڈ، لاہور، ص ۸۶ 2؎ ایضاً، ص۸۸ ایک اور مورخ البدر حسین الاہدل ’’ تحفتہ الزمن فی تاریخ سادات الیمن‘‘ کے شروع میں علم تاریخ سے متعلق اس رائے کا اظہار کرتے ہیں: ’’ یہ بڑا مفید علم ہے، اس کے ذریعے خلف کو سلف کے حالات معلوم ہوتے ہیں اور راست باز لوگ ظالموں سے ممتاز ہو جاتے ہیں، مطالعہ کرنے والے کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ عبرت حاصل کرتا ہے اور گزشتہ لوگوں کی عقل و دانش کی قدر پہچانتا ہے اور بہت سے دلائل کا پتہ لگا لیتا ہے۔ اگر یہ علم نہ ہوتا تو تمام حالات، مختلف حکومتیں، حسب و نسب اور سبھی علل و اسباب نا معلوم رہتے۔ اور جاہلوں اور عقلمندوں کے مابین تمیز ہی باقی نہ رہتی۔ چنانچہ مشہور ہے کہا للہ تعالیٰ نے تورات کی ایک پوری کتاب ایسی اتاری ہے جس میں گزشتہ قوموں کے حالات اور ان کی زندگی کی مدت اور نسب کا بیان ہے۔‘‘ 1؎ ابوعلی احمد بن محمد بن یعقوب الرازی مشکویہ کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے قوموں کے حالات اور بادشاہوں کی سیرت کا غور سے مطالعہ کیا اور شہروں کی خبریں اور تاریخ کی کتابیں پڑھیں تو دیکھا کہ ان سے متعدد ایسے امور کا تجربہ حاصل ہوتا ہے جو بار بار رونما ہوتے ہیں او رجن سے ملتے جلتے واقعات کا ظہور پذیر ہونا کسی بھی وقت متوقع ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی کتاب ’’ تجارب الامم و عواقب الہمم‘‘ تصنیف کی یہ چار جلدوں میں ہے۔2؎۔۔۔۔ ان حوالوں سے ضمناً ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ مسلمان مورخین کے یہاں تاریخ محض سلاطین و حکام کی تاریخ سلطنت و حکومت نہیں وہ قوموں کی کہانی ہے جن میں بادشاہ بھی شامل ہیں وہ قوموں کے اخلاق اور کردار کی کہانی ہے وہ ان کی عقل و دانش اور فضل و کمال کی کہانی ہے نیز وہ ان کے اجتماعی عروج و زوال کی کہانی ہے وہ اسباب جو بار بار پیدا ہو سکتے ہیں اسی لیے ابن خلدون لکھتے ہیں: ’’ فالماضی اشبہہ بالآتی من الماء بالمائ‘‘ 3؎ ’’ پس عہد گذشتہ، عہد آئندہ سے اس قدر مشابہہ ہے کہ پانی پانی سے بھی اس قدر مشابہ نہیں ہوتا۔‘‘ ابن خلدون کے نزدیک بھی تاریخ کی تعریف تقریباً وہی ہے جو دیگر مسلمان مورخین نے بیان کی ہے البتہ وہ اس امر پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ مطالعہ تاریخ گہرے غور و فکر کا تقاضا کرتا ہے تاکہ سچائی تک رسائی حاصل ہو۔ حقائق اشیاء واضح ہوں، پتہ چلے کہ تخلیق اشیاء کا آغاز کیونکر ہوا۔ تاریخ اس عمیق علم کی طالب ہے جس سے واقعات کے علل و اسباب سے آگاہی حاصل ہو۔ ابن خلدون زور دے کر کہتے ہیں کہ ’’ اسی سبب سے تاریخ کی جڑیں فلسفے میں راسخ ہیں اور وہ مستحق ہے کہ اسے فلسفے ہی کا ایک شعبہ قرار دیا جائے۔‘‘ ’’ فھو لذلک اصیل فی الحکمتہ عریق وجد یربان یعد فی علومھا و خلیق‘‘ 4؎ ہیگل کہتا ہے کہ فلسفہ تاریخ یہی ہے کہ تاریخ کا مطالعہ غور و فکر کے ساتھ کیا جائے۔ 5؎ 1؎ وہی حوالہ ص ۸۹ 2؎ ایضاً ص ۹۳ 3؎ مقدمہ، المکتبہ التجاریہ شارع محمد علی مصر، ص ۱۰ 4؎ مقدمہ، ص ۴ 5؎ Philosophy of History p. 8 (Dover Publications) New york. 1956. حق یہ ہے کہ مطالعہ قرآن کی بدولت کائنات اور اہل کائنات کے باب میں ایک مخصوص نظریہ اور رویہ بن جاتا ہے اور ذرا گہری نظر سے دیکھا جائے اور اصول ثابتہ کی روشنی میں بعض نتائج تک پہنچنے کی کوشش کی جائے تو وہ واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن بہت سے علوم کا سرچشمہ ہے جن میں سے تاریخ ایک ہے۔ فقیر سید وحید الدین لکھتے ہیں: ’’ ڈاکٹر صاحب (علامہ اقبال) اپنی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں قیام فرما تھے، اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کی قیام گاہ پر ایک نئے ملاقاتی آئے۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں، اتنے میں انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے ایک سوال کر دیا، کہنے لگے ’’ آپ نے مذہب، اقتصادیات، سیاسیات، تاریخ اور فلسفہ وغیرہ علوم پر جو کتابیں اب تک پڑھی ہیں ان میں سب سے زیادہ بلند پایہ اور حکیمانہ کتاب آپ کی نظر سے کون سی گزری ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب اس سوال کے جواب میں کرسی سے اٹھے اور نو وارد ملاقاتی کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا کہ تم ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اندر چلے گئے، دو تین منٹ میں واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی اس کتاب کو انہوں نے اس شخص کے ہاتھوں میں رکھتے ہوئے فرمایا: قرآن مجید‘‘ 1؎ باقی علوم سے فی الحال تعرض نہیں۔ فی الحال تاریخ سے بحث ہے۔ علامہ کے نزدیک ابن خلدون کی ساری تاریخی بصیرت کا سرچشمہ قرآن ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ابن خلدون علم الاجتماع کا باوا آدم گردانا جاتا ہے، اس کا شمار فلسفہ تاریخ کے اساطین میں ہوتا ہے۔ علامہ کے الفاظ ہیں: ’’ ۔۔۔ لہٰذا اس سے بڑی غلط بیانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ قرآن پاک میں کوئی ایسا خیال موجود نہیں جو فلسفہ تاریخ کا سرچشمہ بن سکے حالانکہ بہ نگاہ حقیقت دیکھا جائے تو ابن خلدون کا مقدمہ سر تا سر اس روح سے معمور ہے جو قرآن کی بدولت اس میں پیدا ہوئی وہ اقوام و امم کے عادات و خصائل پر حکم لگاتا ہے تو اس میں بھی زیادہ تر قرآن پاک ہی سے استفادہ کرتا ہے۔‘‘ 2؎ تقریباً جملہ مورخین اسلام اور اکثر و بیشتر مستشرقین اس امر کے قائل ہیں کہ اسلامی تاریخ کی ابتدائ، پرورش اور ترقی قرآن ہی کے باعث ہوئی ہے۔ حضرت علامہ کا بھی یہی نظریہ ہے، وہ فرماتے ہیں کہ واقعات کی صحت معلوم کرنے کا اصول قرآن کریم نے یہ کہہ کر قائم کر دیا کہ ’’ جب کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو اچھی طرح چھان پھٹک کر لیا کرو۔‘‘ ’’ ان جاء کم فاسق بنبا فتبینوا۔‘‘ (سورہ ۴۹، آیت ۶) فاسق سے مراد بے کردار اور بد عہد شخص ہے۔ ایسا شخص جو اپنے غلط عمل کے باعث مقام اعتماد و اعتبار سے محروم ہو۔ 1؎ روزگار فقیر (نومبر ۱۹۶۳ئ) ص ۹۳، ۹۲ 2؎ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۲۱۳ آگے چل کر علامہ فرماتے ہیں: عالم اسلام میں جس تاریخ کی پرورش جس طرح ہوئی وہ بجائے خود ایک بڑا دلچسپ موضوع ہے۔ یہ قرآن پاک کا بار بار حقائق پر زور دینا اور اس کے ساتھ ساتھ پھر اس امر کی ضرورت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات صحت کے ساتھ متعین ہوں، علیٰ ہذا مسلمانوں کی یہ آرزو کہ اس طرح ان کی آئندہ نسلوں کو اکتساب فیض کے دوامی سرچشمے مل جائیں۔ یہ عوامل تھے جن کے زیر اثر ابن اسحاق، طبری اور مسعودی ایسی ہستیاں پیدا ہوئیں۔ لیکن تاریخ سے دلوں کو گرمانا اور ان میں جوش اور ولولوں کا ابھرنا وہ ابتدائی مرحلہ ہے جس سے رفتہ رفتہ تاریخ کا نشوونما ایک علم کے طور پر ہوتا ہے۔ اس کے علمی مطالعے کے لیے بڑے وسیع اور بڑے گہرے تجربے کے ساتھ بڑی پختہ عقل عملی کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں زندگی اور زمانے کی ماہیت کے بارے میں بعض اساسی تصورات کا نہایت صحیح ادراک۔ 1؎ گویا حضرت علامہ کے نزدیک تاریخ کے مطالعے کے لیے وسیع علم، تجربے اور پختہ عقل عملی کی ضرورت ہے اس لیے کہ تاریخ میں انسانی معاشروں کے جملہ شعبے آ جاتے ہیں۔ تاریخ احاطہ پسند علم ہے جو پوری زندگی کو محیط ہے۔ فکری، عملی، حرفی، صنعتی، تجربی، ادبی، مالی، ملکی، سیاسی، اقتصادی، دینی، نظریاتی، صمنیاتی، الٰہیاتی غرض انسانی حیات کا کوئی شعبہ نہیں جس کی روداد تاریخ نہ کہلائے، مگر یہ ساری ہمہ نوعی، ہمہ رنگی اور ہمہ جہتی کاوشیں الگ الگ کچھ بھی ہوں، کسی بھی درجہ بلند کی مالک ہوں اور کیسے ہی باریک اور لطیف تجزیے کا ہدف کیوں نہ بنین اس وقت تک معافی و مفاہیم سے بخوبی سرمایہ دار نہیں ہوتیں جب تک ان کے باہمی روابط و توافق کی حقیقت واضح نہ ہو۔۔۔ حیات کی کلیت کے حوالے اور تصور کے بغیر تاریخ کا رخ اور مرتبہ ارتقاء سمجھ میں نہیں آ سکتا۔۔۔ ایک نا ملائم سی مثال یہ ہے کہ اگر ہاتھی ایک کل کی حیثیت سے ہماری معلومات میں داخل نہ ہو تو اکیلی سونڈ دکھا کر کوئی ہمیں سونڈ کے کوائف و وظائف لاکھ سمجھاتا رہے، شرح صدر کے ساتھ کچھ پلے نہیں پڑے گا۔۔۔۔ اسی طرح زندگی کی کلیت سے کٹ کر نہ کوئی فلسفیانہ نظریہ سمجھ میں آتا ہے، نہ کوئی سیاسی انقلاب اور نہ کوئی اقتصادی تغیر، حضرت علامہ فرماتے ہیں: ’’ فکری ارتقاء کو انسانی فعلیت کے دیگر پہلوؤں سے منقطع نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ فلسفہ کی کتابیں ہمیں یہ تو بتاتی ہیں کہ مختلف قوموں نے کیا سوچا ہے لیکن ان مختلف معاشرتی اور سیاسی اسباب و عوامل کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات فراہم نہیں کرتیں جن سے فکر انسانی کا کردار متعین ہوا ہو، فلسفے کی جامع تاریخ مرتب کرنا یقینا ایک دشوار کام ہو گا۔۔۔۔ لیوتھر کی تحریک اصلاح کے قیمتی مضمرات کی مکمل وضاحت و صراحت کرنا محض ایک عالم دینیات کے بس کی بات نہیں۔ ہمارا یہ رویہ رہا ہے کہ عظیم تصورات کو انسان کی ذہنی فعلیت کے عمومی دھارے سے الگ کر دیتے ہیں۔ ‘‘ 2؎ 1؎ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۲۱۴۔ ۲۱۳ 2؎ شذرات فکر اقبال (مجلس ترقی ادب لاہور )ص ۱۱۱ اسی ذیل میں حضرت علامہ کا وہ خطبہ صدارت بھی آتا ہے جو انہوں نے ۱۱ جون ۱۹۳۲ء کو بیرون موچی گیٹ لاہور کے ایک جلسہ عام میں ارشاد کیا تھا، یہ پنجاب کے مسلمانوں کا احتجاجی جلسہ تھا جس کا باعث یہ ہوا کہ پنجاب یونیورسٹی کے صدر شعبہ تاریخ پروفیسر بروس نے ہندوؤں کے زیر اثر جن کا پنجاب یونیورسٹی سینٹ پر قبضہ تھا یہ تجویز سینٹ میں پیش کر دی کہ ہندوستانیوں کو فقط ہندوستان کی تاریخ پڑھنی چاہیے لہٰذا اسلامی تاریخ نصاب سے خارج کر دی جائے۔ علامہ کے نزدیک اس ضمن میں محکم استدلال یہی تھا کہ تاریخ کسی ایک علاقے کے باشندوں کی تاریخ نہیں۔ تاریخ تو پورے عالم انسانیت کی اجتماعی دولت اور میراث ہے۔ حضرت علامہ کے الفاظ یہ ہیں: ’’ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اجتماعی حیثیت سے انسانی روح کی ایک حرکت ہے، روح انسانی کا کوئی ماحول نہیں بلکہ تمام عالم اس کا ماحول ہے۔ اگر اسے کسی قوم کی ملکیت سمجھا جائے تو یہ تنگ نظری کا ثبوت ہے۔۔۔ جب میں اٹلی گیا تو مجھے ایک شخص پرنس کیتانی ملا۔ وہ اسلامی تاریخ کا بہت دلدادہ ہے۔ اس نے تاریخ پر اتنی کتابیں لکھی ہیں اور اس قدر روپیہ صرف کیا ہے کہ کوئی اسلامی سلطنت اس کے ترجمے کا بندوبست بھی نہیں کر سکتی، اس نے لاکھوں روپیہ صرف کر کے تاریخی مواد جمع کیا ہے جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو اسلامی تاریخ سے دلچسپی کیوں ہے تو انہوں نے کہا کہ اسلامی تاریخ عورتوں کو مرد بنا دیتی ہے۔ ‘‘ 1؎ ایک شخص اٹلی کا باشندہ ہے، ان علاقوں میں سے کسی کا باشندہ نہیں جن کو اسلامی علاقے کہا جاتا ہے۔ پھر وہ مسلمان بھی نہیں کہ عقیدے کی کشش کے باعث اسے اسلامی تاریخ سے یہ شغف رہا ہو۔ سیدھی سی بات ہے کہ سرحدیں مادی نقوش ہیں۔ اور تاریخ انسانی روح کا ثمرہ بھی ہے۔ سرمایہ بھی اور ترجمانی و تصویر بھی۔ لہٰذا اس کے لیے کوئی سرحد نہیں، مکانی سرحدیں تو رہیں ایک طرف تاریخ کے لیے کوئی زمانی سرحد بھی نہیں۔ زمانے کو ناپ کر اور کاٹ کر ماضی کے مختلف ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، ہم اپنی سہولت کے لیے تعیین زمان ضرور کرتے ہیں تاکہ متعلق دور پیش نظر رہے مگر نہ وہ دور کٹ سکتا ہے اور نہ اس دور کی نسبت سے وہ زمانہ کٹ کے اپنے دھارے سے الگ ہو سکتا ہے۔ حضرت علامہ فرماتے ہیں: زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک دلیل کم نظری قصہ جدید و قدیم حضرت علامہ کے نزدیک زندگی ایک مسلسل ارتقائی حرکت کا نام ہے اور زندگی کے میدان عمل میں انسان کی محنت و کاوش کے باعث اس کے جوہر کھلتے ہیں۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے: یسبح للہ ما فی السموات وما فی الارض۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اللہ کی تسبیح میں مصروف ہے۔ 1؎ گفتار اقبال ادارہ تحقیقات پاکستان دانشگاہ پنجاب لاہور، ص ۱۵۴۔ ۱۵۳ ایک جگہ آتا ہے کہ: ہر شے اللہ کی تسبیح میں مصروف ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔ (سورۂ بنی اسرائیل) ’’ سبح‘‘ سے دوڑنا بھی مقصود ہے، تیرنا بھی، مصروف عمل ہونا بھی، عبادت کرنا بھی۔ اور ظاہر ہے کہ کائنات کی ہر چیز تعمیل حکم الٰہی میں سر گرم عمل ہے۔ جس کی جو ڈیوٹی مقرر ہے وہ ادا ہو رہی ہے۔ ’’ قل کل یعمل علی شاکلتہ‘‘ اور ہر شے اپنی تکمیل کے در پے ہے۔ نئی نئی چیزیں نمودار ہو رہی ہیں۔ پھر خامی کے درجے سے بڑھ کر پختگی کے درجے کو پا رہی ہیں۔ حضرت علامہ نے بزبان ’’ زمانہ‘‘ فرمایا ہے: میری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ وقت کے ساتھ ساتھ عالم امکان میں ہر شے اپنی آخری تقدیر کی تلاش میں ہے۔ لہٰذا اولاد آدم کو بھی ہر لحظہ بڑھتی اور پھیلتی ہوئی کائنات میں اپنی سیادت و سطوت برقرار رکھنے کی خاطر مسلسل جدوجہد کرنا پڑتی ہے، اسے آگاہ اور بیدار رہنا پڑتا ہے۔ زمانہ ہر دم نئے امتحان سے دو چار کرتا ہے اور ہر دم ترقی کی طرف قدم اٹھانے پر اکساتا رہتا ہے۔ حضرت علامہ فرماتے ہیں: ’’ بہرحال اسلامی فکر نے جو راستہ اختیار کیا اس کی انتہا جس پہلو اور جس رنگ میں بھی دیکھئے کائنات کے حرکی تصور پر ہوئی اور پھر جسے ابن مشکویہ کے اس نظریے سے کہ زندگی عبارت ہے ایک ارتقائی حرکت سے، مزید تقویت پہنچی۔ علیٰ ہذا ابن خلدون کے نظریہ تاریخ سے قرآن پاک نے تاریخ کو ’’ ایام اللہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور اسے علم کا ایک سرچشمہ قرار دیا ہے۔۔۔ اس کی ایک اور بنیادی تعلیم یہ ہے کہ اقوام و امم کا محاسبہ انفرادی اور اجتماعی دونوں لحاظ سے کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ انہیں اپنی بد اعمالی کی سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے اور یہ وہ بات ہے جس کے ثبوت میں اس نے بار بار تاریخ سے استناد کیا۔‘‘ 1؎ چند سطور آگے چل کر حضرت علامہ ’’ ولکل قوم اجل‘‘ کی روشنی میں کہتے ہیں کہ اس آیت کو پیش نظر رکھیں تو ’’ اس کی حیثیت ایک مخصوص تعلیم کی ہے جس میں گویا بڑے حکیمانہ انداز میں یہ سمجھایاگیا ہے کہ امم انسانی کا مطالعہ بھی ہمیں بطور اجسام نامیہ علمی نہج پر کرنا چاہیے۔‘‘ ظاہر ہے کہ امم انسانی کی حیثیت اگر اجسام نامیہ کی سی ہے تو اور امم امم سے مربوط چلی آ رہی ہیں تو تاریخ انسانی ترقی کی ایک مسلسل حرکت ہے جس کو ماضی اور حال و استقبال کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ بیج پودے میں شامل ہے۔ بیج اور پودا درخت میں شامل ہے۔۔۔ ایک بچہ جب لڑکپن کی عمر کو پہنچا تو جب بھی وہ اصلاً وہی وجود تھا جس نے جنم لیا تھا اور جب وہ پھرپور جوانی سے سرمایہ دار ہوا تو بھی وہ اصلاً وہی تھا۔ اس میں بچہ بھی شامل تھا اور لڑکا بھی، یہی حال اقوام و ملل کا ہے۔ 1؎ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۱۳۔ ۲۱۲ بلکہ اجتماعاً پوری اولاد آدم کا ہے۔ اور یہ واضح ہے کہ جب ہم تاریخ کہتے ہیں تو مراد آدم کی تاریخ ہوتی ہے اور اگر آدم نہ ہو تو نہ نظر ہے نہ بصر نہ جذبہ نہ احساس، نہ شعور نہ حواس، نہ اشیاء کا علم اور نہ ان کے خواص کا، نہ اشیاء کے ربط باہم سے آگاہی اور نہ خواص کے اختلاط سے واقفیت، نہ رنگ، نہ ڈھنگ، نہ کیف، نہ مستی، نہ فتح، نہ شکست، نہ خوشی، نہ غم، نہ حسن اور نہ عشق۔ مولانا روم نے بجا طور فرمایا تھا: عالم از ما ہست شد نے ما ازو بادہ از ما مست شد نے ما ازو گویا جملہ معیارات کا مالک بھی آدم ہے اور ناقد بھی، تجزیہ بھی وہی کر سکتا ہے اور داد بھی وہی دے سکتا ہے، اس کیفیت کو حضرت علامہ نے شعر ذیل میں پیش کیا ہے: قصور وار غریب الدیار ہوں لیکن ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد دوسری جگہ فرمایا ہے: نمی بینی کہ ما خاکی نہاداں چہ خوش آرا ستیم ایں خاکداں را اور یہ آدم ہی کی کاوش، مشقت، عرق ریزی اور خوں فشانی ہے جس نے دنیا کو آب و رنگ اور کیف و آہنگ عطا کیا۔ شعر ذیل میں اسی فخر کا اظہار ہے مگر درد و سوز کے لہجے میں: مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ حضرت علامہ فرماتے ہیں کہ قرآن پاک میں خدانے تاریخ کو ’’ ایام اللہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے: ’’ فذکر ھم بایام اللہ‘‘ (سورہ ۱۴، آیت۵) اسی طرح یہ ارشاد ہے: ’’ وتلک الایام نداولھا بین الناس‘‘ (سورہ۳، آیت ۱۳۹) دونوں آیات میں واسطہ بنو آدم ہی سے ہے۔۔۔ لب لباب یہ کہ تاریخ کی حیثیت اہل نظر افراد انسانی کے لیے ایک لائحہ عمل، ایک جولانگاہ امکان، اور ایک تازیانہ عبرت کی ہے تاکہ آدمی ہر لحظہ بہتر سے بہتر آدمی بننے کے لیے کوشاں رہے۔ اگر زمان کو ایک زندہ حقیقت کے بطور قبول نہ کیا جائے تو حضرت علامہ کا فلسفہ خودی سر تا سر بے مدار ہو کر رہ جاتا ہے۔۔۔ خود آگاہی، خود نگہداری اور تکمیل خودی یا تکمیل انسانیت، کسی بے نمو جہاں میں اور بے حرکت و ارتقا آفاق میں بے معنی بات ہے۔ حضرت علامہ کو نظریہ خودی پر جو ایمان ہے اس کی روشنی میں پوری کائنات محشر ستان اضطراب دکھائی دیتی ہے۔ فریب نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات ایسے سکون اور بے آرام جہاں میں خود آگاہ افراد آدم کو چین کیونکر نصیب ہو سکتا ہے۔ اس کے مقاصد کی تکمیل ہو تو چین ملے؟ منزل مقصود تک پہنچے تو سکوں یاب ہو؟ لیکن اگر سکون میسر آ گیا تو پھر زندگی میں باقی کیا رہا؟ ہمہ سوز نا تمام ہمہ درد آرزویم بگماں دہم یقیں را کہ شہید جستجویم جیسا کہ شروع میں مقریزی، الابدل اور ابن خلدون کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے قرآن کے نزدیک عہد ماضی کی داستان محض دل لگی کا سامان نہیں بلکہ ایک مدرسہ ہے جس میں صدائے ’’فاعتبروا‘‘ گونجتی رہتی ہے۔ حضرت علامہ کا نظریہ بھی دیگر مسلمان مورخین کی طرح تقریباً یہی ہے۔۔۔ وہ اسرار و رموز شاعرانہ چابکدستی کے ساتھ سمجھاتے ہیں کہ تاریخ محض قصہ کہانی اور افسانہ و داستاں نہیں۔ یہ تو تجھے تجھ سے آگاہ کرتی ہے تیرے خنجر خودی کے لیے فساں کا کام دیتی ہے۔ وہ شمع ہے جو امتوں کے لیے ستارے کا کام دیتی ہے، ماضی کو کھینچ کر سامنے لا بٹھاتی ہے اور ماضی کے حال و استقبال سے رشتہ جوڑ دیتی ہے۔ حضرت علامہؒ کے الفاظ یہ ہیں: چیست تاریخ اے ز خود بیگانہ داستانے قصہ، افسانہ ایں ترا از خویشتن آگہ کند آشنائے کار و مرد رہ کند ہمچو خنجر بر فسانت میزند باز بر روئے جہانت میزند شمع او بخت امم را کوکب است روشن از وے امشب و ہم ویشب است چشم پرکارے کہ بیند رفتہ را پیش تو باز آفریند رفتہ را سر زند از ماضی تو حال تو! خیزد از حال تو استقبال تو مشکن از خواہی حیات لا زوال رشتہ ماضی ز استقبال و حال قرآن نے بار بار تلقین کی ہے کہ اہل ماضی کے احوال سے آگاہی حاصل کرو، دنیا میں گھومو پھرو اور دیکھو کہ وہ لوگ جو تم سے زیادہ قوی تھے جن کے مضبوط جتھے بھی تھے، جن کے پاس ہر طرح کے اسباب زندگی موجود تھے آخر کہاں گئے، ان کے آثار اگر کہیں باقی ہیں تو ان کو بھی دیکھو اور عبرت سمیٹو۔ خطاب بالعموم عوام سے ہے اور ظاہر ہے کہ خواص بھی ان میں شامل ہیں۔۔۔۔ اوپر علامہ اقبال کے جتنے بھی اقتباس گزر چکے ہیں ان میں آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ علامہ نے اقوام، امم اور ملل کا ذکر کیا ہے، یعنی ان کے نزدیک اہمیت سلاطین کو حاصل نہیں، اس لیے کہ تاریخ محض بادشاہوں کی تاریخ نہیں۔ آغاز میں جو اقتباس مسلمان مورخین کے دیے گئے ہیں ان میں بھی قوموں اور جماعتوں وغیرہ کی بات کی گئی ہے وہاں بھی تاریخ کو وابستہ سلاطین نہیں بتایا گیا۔۔۔ مسلمانوں نے بادشاہوں بادشاہی درباروں اور متعلقہ کاروبار کو تاریخ کے گوناگوں پہلوؤں میں سے ایک پہلو جانا ہے اور وہ پہلو بھی ’’ سیاست‘‘ کا حصہ ہے۔ حاوی حصہ سہی۔ علامہ فرماتے ہیں: سکندر رفت و شمشیر و علم رفت خراج شہر و گنج کان و یم رفت امم را از شہاں پائندہ تر داں نمی بینی کہ ایراں ماند و جم رفت تاریخ در حقیقت قوموں کی روداد ہے۔ بقول علامہ تاریخ ایک طرح کا ضخیم گراموفون ہے جس میں قوموں کی صدائیں محفوظ ہیں۔ 1؎ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اکابر خواہ وہ سیاسی اکابر ہوں یا متاعی اور وسائل اکابر ہر اجتماعی زندگی میں موثر عنصر کے مالک ہوتے ہیں۔۔۔ ان کا رویہ زیر دستوں پر اثر ڈالتا ان کے اسلوب ماتحتوں کے لیے غلط اور صحیح کا معیار بننے لگتے ہیں۔ اس لیے کہ آدمی کی عام فطرت خام میں نقالی اور بھیڑ چال کا جوہر بدرجہ فراواں موجود ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قول منسوب ہے کہ: ’’ الناس علیٰ دین ملوکھم‘‘ ’’ لوگ اپنے بادشاہوں کا طریق و اسلوب اختیار کر لیتے ہیں۔‘‘ بادشاہوں کا اثر نیچے کو درجہ بدرجہ پہنچتا ہے اور درجہ بدرجہ اپنے رنگ میں رنگتا ہے۔۔۔۔ پھر اگر اوپر والوں کے لیے یہاں انصاف، انسان دوستی، حیا اور شرافت موجود ہوتی تو نیچے تک نقال عوام کا چلن ویسا ہی ہو جاتا، یعنی اچھائیاں بطور طرز مقبول اپنالی جائیں۔ اور اگر معاملہ برعکس ہوتا تو برعکس۔ اور یہ امر واضح ہے کہ اوپر والے بھی فطرتاً ہر وقت معرض خطر میں رہتے ہیں ان کی جوہری بہیمی خصلتیں بار بار سر نکالتی ہیں اور جب اخلاق کی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے اور ضمیر اور قلب کا تازیانہ تادیب کمزور پڑ جاتا ہے تو آدمی بظاہر تو آدمی ہی رہتا ہے مگر اندر سے بہیم اور حیوان وحشی بن چکا ہوتا ہے۔ وہ تن پروری کو دین جانتا ہے اور تن پروری کے دیگر جملہ عناصر ہوس کا شکار ہو کر بے رحم اور خونخوار وجود کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ ایسے عالم میں بدکاری اوپر سے چلتی ہے۔ آپا دھاپی اوپر سے چلتی ہے اور رفتہ رفتہ سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ افراد انفرادی زندگی کی رو سے بھی اور اجتماعی زندگی کی رو سے بھی توازن سے محروم ہو جاتے ہیں۔ توازن سے محرومی ہی بیماری ہے۔ وہ بیماری جو موت سے ہمکنار کر دیتی ہے۔۔۔ عیاں ہے کہ اس خرابی کا سرچشمہ اوپر ہے جس میں سے سوتے پھوٹ پھوٹ کر نیچے کو آتے ہیں۔ اس درجہ بدرجہ وقار اور اقتدار کو علامہ نے ’’ خواجگی‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ 1؎ شذرات فکر اقبال۔ ص ۱۴۰ خواجہ از خون رگ مزدور سازد لعل ناب از جفائے دہ خدایاں کشت دہقاناں خراب انقلاب انقلاب اے انقلاب ’’ خواجہ ‘‘ سے مراد شاہ بھی ہے۔ وزیر بھی، حاکم بھی، جاگیر دار بھی، صاحب اموال و جاہ بھی، و علیٰ ہذا القیاس قرآن کریم میں آتا ہے: واذ اردنا ان نھلک قریۃ امرنا متر فیھا ففسقوا فیھا فحق علیھا القول فد مزناھا تدمیرا (سورہ ۱۷، آیت ۱۶) جب ہم کسی بستی کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے دولت مندوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ بدکاری پر اتر آئیں۔ وہ بدکاری کرتے ہیں، پھر اللہ کا قول پورا ہو جاتا ہے، لہٰذا ہم اسے تہس نہس کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ابھی اوپر حضرت علامہ کے خطبات میں سے ایک اقتباس درج کیا جا چکا ہے جس میں حضرت علامہ نے مطالعہ قرآن کی روشنی میں یہ استنتاج کیا ہے کہ قوموں کو ان کی بد اعمالی کی سزا انفرادی طور پر بھی ملتی ہے اور اجتماعی طور پر بھی، اور یہیں اس دنیا میں بھی ملتی ہے۔۔۔ قرآن کریم نے کئی قوموں کے عروج اور زوال کے کوائف بیان کیے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کے افراد کی اکثریت بدکار ہوتی ہے تو قوم سزا کی مستوجب ہو جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اکثریت اچھے اور خوش عمل لوگوں پر مشتمل ہو اور ان میں ایک تعداد بد کاروں کی بھی ہو تو قانون فطرت اس قوم کو اجتماعی سزا نہیں دیتا۔ ہاں وہ انفرادی سزا سے نہیں بچتے۔ برا عمل تو خود اپنی ذات میں جانکاہ اور روح فرسا ہوتا ہے جو زندگی کو بھسم کر دیتا ہے، نافرمانی کی سزا اس کے علاوہ علامہ نے فرمایا ہے: فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف ایک بات اور جو قرآن کے مطالعہ سے واضح ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ تاریخ آدم حیوانی جبلتوں اور انسانی روح کے مابین ایک مستقل کشمکش کا نام ہے۔ بقول برگساں ارتقاء زندگی کی اس جدوجہد کا نام ہے جو وہ مادے کے تسلط سے نجات پانے کی خاطر عمل میں لاتی ہے۔ 1؎۔۔۔ مادہ مادے کی طرف کھینچتا ہے اور ظاہر ہے کہ انسانی وجو دمیں ٹھوس اور وزنی حصہ مادے ہی کا ہے اور وہی بالعموم حاوی رہتا ہے۔ روح کی لطافت کو محنت سے تقویت دینا پڑتی ہے، جب وہ وجود کے مادی حصے کو مادے کی نذر ہونے سے بچا سکتی ہے۔۔۔۔ انسان ذرا غافل ہو تو نیچے کو چلا جاتا ہے، جیسے کوئی بارودی ہوائی، جب تک ہوائی میں بارودی تپش موجود رہتی ہے اس کا اوپر کی طرف سفر جاری رہتا ہے۔ اور جب وہ تپش ختم ہو جاتی ہے تو پھر 1؎ Evolution is the efforts of life is free itself of the domination of Matter. ہوائی ہوا میں معلق نہیں رہتی۔ جہاں تک پہنچی ہو وہیں ٹھہر نہیں جاتی، پھر وہ نیچے کو آتی ہے بالکل یہی کیفیت آدم کی ہے اسے ہر دم خود آگاہ اور بیدار رہنا پڑتا ہے، ہر لحظہ روح کی تپش کی نگرانی کرنا پڑتی ہے۔ اگر یہ تپش نہ رہے کہ تو باقی مادی جسم کی حیثیت ملبے سے زیادہ کچھ نہیں رہتی، جبھی تو علامہ دعا کرتے ہیں: مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا مری خاک جگنو بنا کر اڑا تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دل مرتضیٰؓ سوز صدیقؓ دے ایک اور بات جو قرآن کے مطالعے سے واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ روح کی زندگی کی رہبری اور تقویت کے لیے ہر زمانے میں ہر قوم میں اللہ نے پیغمبر ؑ بھیجے جنہوں نے اپنے اپنے محدود دائرے میں اخلاق کی بگڑی ہوئی حالت کو سنوارنے کی کوشش کی۔ جنہوں نے زندگی کی صداقتوں کا اثبات کیا اور ہر باطل کی نفی میں سرگرمی دکھائی اور آدم کو بہتر سے بہتر آدم بنانے کے لیے آئین و دستور دیا۔ حضرت علامہ کے بقول اگر کائنات کی اساس کو مادی کے بجائے روحانی تسلیم کر لیا جائے تو بہت سی الجھنیں دور ہو جاتی ہیں۔ ہر پیغمبر نے اپنے اپنے دور اور اپنے اپنے دائرے میں مثبت قدروں کو اپنانے اور منفی قدروں سے اجتناب کرنے کی تعلیم د ی اور ان میں پیغمبروں کی تعلیم اساساً ایک ہی جیسی تھی۔۔۔ مگر جب کبھی اور جہاں کہیں وحی کا دیا ہوا ضابطہ رد کر دیا گیا یا اس کے نفاذ میں غفلت عمل میں آئی وہاں بربادی رونما ہوئی اور متعلقہ معاشرہ مٹ گیا۔ حضرت علامہ کے یہ دو شعر اوپر گزر چکے ہیں: سرزند از ماضی تو حال تو خیزد از حال تو استقبال تو مشکن ار خواہی حیات لا زوال رشتہ ماضی ز استقبال و حال کہ تیرا حال تیرے ماضی سے پھوٹتا ہے اور حال سے استقبال سر نکالتا ہے۔ اگر تو حیات لا زوال کا خواہاں ہے تو پھر اپنے ماضی کا رشتہ اپنے حال و استقبال سے قطع نہ کر ۔ گویا ہمارا ماضی و حال و استقبال مربوط و مضبوط ہے۔ ہم اپنے ماضی کو ساتھ لے کر آگے کو بڑھ رہے ہیں۔ یوں دیکھیں تو احساس ہو گا کہ ماضی اولاد آدم کا اجتماعی حافظہ ہے۔ جس طرح فرد اچانک حافظے سے محروم ہو جائے تو بے معنی وجود سے زیادہ کچھ نہ رہے۔ یہی حال قوموں کا ہے اگر وہ حافظہ کھو بیٹھیں تو مہمل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ برگساں کے بقول: ’’ حافظہ محض ماضی بعید کی یادوں کو تازہ کرنا نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حافظے سے مراد ماضی کا ہمارے ساتھ ’’ شامل حال‘‘ ہونا ہے اور ہمارے حال کو متاثر کرنا ہے۔‘‘ 1؎ یہاں جارج برنارڈشا کا ایک قول یاد آتا ہے: ’’ تاریخ کا حال سے کیا کام، جبھی تو بچوں کو معاصر تاریخ نہیں پڑھائی جاتی، انہیں تاریخ اسی دور کی پڑھائی جاتی ہے جس کی سوچ سا قحط الرواج ہو چکی ہوتی ہے اور جس کے احوال حقیقی عملی زندگی پر اطلاع پذیر نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر انہیں تاریخ تو (جارج) واشنگٹن کی پڑھائی جاتی ہے اور جھوٹ بولے جاتے ہیں لینن کے بارے میں خود واشنگٹن کے زمانے میں ایسے ہی جھوٹ واشنگٹن کے بارے میں بولے جاتے تھے مگر تاریخ پڑھائئی جاتی تھی کرامویل (Cromwell) کی پندرھویں اور سولہویں صدی میں جون (Joan) کے بارے میں جھوٹ بولے جاتے ہیں۔ ہاں اب اس کے بارے میں سچ بھی بولا جا سکتا ہے۔ مگر بد قسمتی یہ ہے کہ سیاسی احوال و اظراف بدل جانے کے با وصف جھوٹ کا سلسلہ ختم نہیں ہو جاتا۔‘‘ 2؎ سطور بالا میں تاریخ کا بڑا ہی محدود سا نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ گویا معاصر تاریخ کا معنی بھی کسی سیاسی اہمیت کے مالک شخص کی تاریخ ہے اور ماضی کی تاریخ بھی کسی اہم شخص ہی کے گرد گھومتی ہے۔ ہاں ایک بات بڑی حد تک درست ہے وہ یہ کہ معاصر اکابر کے باب میں سچ بولنے کی ذمہ داری کوئی نہیں لیتا۔ ظالم کو عادل، نجیل کو سخی، ہونق کو افلاطون اور بے حس کو درد مند وغیرہ کہا ہی جاتا ہے اور وہ لوگ جو مر جاتے ہیں ان پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔ چھان پھٹک بھی فرمائی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم تاریخ پڑھا یا بتا رہے ہیں لہٰذا سچ کا دامن نہیں چھوڑ سکتے۔ تیسری بات جو ’’ شا‘‘ نے کہی ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی حالات کے بدل جانے کے باوصف جھوٹ کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ یہ بڑی مزے کی بات ہے جس کا معنی یہ ہے کہ معاصر مورخ معاصر اکابر یا حکام کے بارے میں اتنی گمراہ کن حکایات، اطلاعات اور بے بنیاد واقعات خوف یا تملق کے باعث قلمبند کر جاتے ہیں کہ مورخین ما بعد اگر سچ ڈھونڈتے جائیں تو کہاں؟ پاسکل کا بڑا مشہور جملہ ہے کہ اگر قلو پطرہ کی ناک ذرا چھوٹی ہوتی تو دنیا کی ہسٹری اس سے مختلف ہوتی جو آج ہے صحیح کہ قلو پطرہ کے حسن نے سیزر، اینٹونی، آکیٹوین کے مابین مختلف النوع کش مکش کی صورت پیدا کی۔ جنگیں ہوئیں، موتیں ظہور میں آئیں۔ رومن سلطنت کے صوبے ہی نہیں مرکز بھی متاثر ہوا۔ اگر رومن سلطنت کی یہ قوت قلو پطرہ کی ناک پر قربان نہ ہو جاتی تو نہ جانے اس سلطنت کی حدود کیا ہوتیں اور آگے چل کے کیا کیا وسیع اور اہم نتائج برآمد ہوتے۔۔۔ مگر پاسکل نے بھی گویا ’’ شا‘‘ کی طرح 1؎ Masterpices of world philosophy R 768 (Harper and brothers, new york) ed: 1961. 2؎ Prefaces by bernard shaw p. 628 (odhams press, London) 1938. تاریخ کو اشخاص کے تابع کر دیا، بیان تک تو درست ہے کہ معاشروں میں ہلچل افراد پیدا کرتے ہیں۔۔۔۔ انقلاب افراد ہی کے باعث رونما ہوتے ہیں، مگر انقلاب بھی اور شے ہے اور سیاست بھی ۔ تاریخ کا دامن بہت ہی وسیع ہے۔ انقلابات اس دامن کی سلوٹیں ہیں اور سیاست اس کی ایک پٹی یا کنارا بنتی ہے۔۔۔ تاریخ بہر حال صرف حکام اور سلاطین کی تاریخ نہیں، تاریخ پورے معاشرے اور پوری اجتماعی زندگی کی تاریخ ہے اور وہ ایسی زندہ حقیقت ہے کہ سیاسی امور سے تعلق رکھنے والی تحریریں کمیاب بھی ہوں تو بڑا نمایاں فرق نہیں پڑتا۔ تاریخ تو داستانوں میں بھی ملے گی، شعر میں بھی، لطائف میں بھی، تعمیرات میں بھی، تصاویر میں بھی، صنعتوں میں بھی، اوزاروں اور ہتھیاروں میں بھی، برتنوں اور زیوروں میں بھی۔۔۔۔ گوناگوں زندگی اور اس کے گوناگوں مظاہر سب کا مجموعہ تاریخ کہلاتا ہے۔ سیاست اس کا ایک اور فقط ایک حصہ ہے، افراد معاشرہ کی امنگیں اور آرزوئیں، مسائل اور مصائب، محاسن اور مصائب، ولولے اور پریشانیاں یہ سب شاہوں کی پیدائش و وفات اور ان کے سال جلوس و سال انتقال سے مختلف معاملات ہیں۔۔۔ قرآن نے جہاں بھی کسی قوم کے عروج و زوال کی کہانی سنائی ہے وہاں عموماً ان کے اجتماعی کردار اور معاشرتی احوال کو حوالہ بنایا ہے ان کے بادشاہوں کی جانب اشارہ کم کم ہی کیا ہے۔۔۔۔ مسلمان مورخین کا بھی عمومی رویہ یہی رہا۔ انہوں نے تاریخ کو کبھی بادشاہوں کی تاریخ نہ جانا۔ خلیفہ، بادشاہ، حاکم وغیرہ تاریخ کا ایک حصہ ضرور ہیں اس لیے کہ معاشرے کی اجتماعی زندگی میں وہ بھی شامل تو ہیں۔۔۔ تاریخ کا آئینہ بہر حال اجتماعی زندگی ہے اور یہی حضرت علامہ کے پیش نظر ہے۔ ان کا یہ قول پہلے قلمبند کیا جا چکا ہے: ’’ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اجتماعی حیثیت سے انسانی روح کی ایک حرکت ہے۔ روح انسانی کا کوئی ماحول نہیں بلکہ تمام عالم اس کا ماحول ہے۔‘‘ ٭٭٭ علوم جدیدہ اقبال کی نظر میں محمد احمد خان جدید تعلیم کے تین بنیادی رہنما اصول ہیں۔ مشاہدۂ فطرت، استقرائی طرز استدلال اور تجربی طریق تحقیق، ان ہی اصولوں نے علوم جدیدہ یا موجودہ سائنس کو جنم دیا اور ان ہی اصولوں کی مدد سے موجودہ سائنس نے فطرت کی بیشتر قوتوں کو مسخر کر لیا ہے، اور اب وہ ایک قدم آگے بڑھا کے ماہ و پرویں کا شکار کرنا چاہتی ہے۔ اقبال ان تینوں اصولوں کے نہ صرف قائل بلکہ مداح ہیں، اور ان مذکورہ بالا اصول سہ گانہ کی بنیاد پر جو علوم مدون ہوئے ہیں یعنے علوم جدیدہ کے بھی وہ حامی اور موئید ہیں۔ وہ ان علوم کو بجا طور پر ’’ علم اشیائ‘‘ اور’’ حکمت اشیائ‘‘ کا لقب دیتے ہیں اور کہتے ہیں۔ ہر چہ می بینی ز انوار حق است حکمت اشیاز اسرار حق است ہر کہ آیات خدا بیند حراست اصل ایں حکمت نہ حکم ’’انظر‘‘ است علم چوں روشن کن آب و گلش از خدا ترسندہ تر گرد و ولش (پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق) یہ اشیاء جو تمہیں اپنے گرد و پیش پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ کیا ہیں؟ یہ خداوند تعالیٰ کے انوار اور اس کی نشانیاں ہیں۔ یہ آثار کائنات اور مظاہر فطرت ہیں۔ ان کے پیچھے جو حکمت کار فرما ہے، وہ خدا کا پوشیدہ راز ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں پر غور و خوض کرتا، ان کے اسرار و رموز کا کھوج لگاتا اور پھر انہیں فاش کرتا ہے وہی ’’ مرد حر‘‘ ہے کیونکہ اس نے ان آثار کائنات اور مظاہر فطرت کی بو قلمونیوں کے آگے سر نہیں جھکایا بلکہ ان کے اندر کار فرما حکمت کے چہرہ پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس نے اپنے اور اس کائنات کے حقیقی مالک کے حکم ’’ فانظر الیٰ الابل کیف خلقت‘‘ کو سنا اور اس کی تعمیل میں ’’ نظام فطرت کا بغور مطالعہ کیا 1؎‘‘ وہ آثار کائنات اور مظاہر فطرت سے مرعوب ہو کر ان کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوا۔ وہ صرف خالق کائنات اور فاطر سماوات والارض کا بندہ بنا اور اسی بندگی کی تعمیل میں اس نے ان آثار و مظاہر کا سینہ چاک کیا اور انہیں مغلوب و مفتوح کر کے ان کے اسرار و رموز کو فاش کیا اس طرح وہ خالق کائنات کا محکوم، مگر آثار و مظاہر کائنات کا حاکم و فاتح ہے، اسی لئے وہ در حقیقت ’’ عبد حر‘‘ ہے۔ 1؎ علامہ اقبال نے ’’ حکم انظر‘‘ کی تشریح خود ہی کی ہے۔ ’’ حکم انظر تلمیح ہے، آیت قرآنی کی طرف فانظر الی الابل کیف خلقت ‘‘ یعنے ’’ نظام فطرت کا بغور مطالعہ کرو‘‘ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق اشاعت اول ص ۵۷ 2؎ صحیح آیت اس طرح ہے : افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت (سورۂ غاشیہ ۔ ۱۷) (ادارہ) اقبال کی نظر میں یہ ’’ حکمت اشیائ‘‘ کوئی ہنسی، مذاق یا کھیل تماشا نہیں ہے۔ یہ ’’ خیر کثیر‘‘ ہے۔ اس کی بڑی فضیلت و عظمت ہے اور اسی لئے اس کو حاصل کرنا چاہیے۔ فرماتے ہیں: زندگی جہد است و استحقاق نیست جز بعلم انفس و آفاق نیست گفت حکمت را خد اخیر کثیر ہر کجا ایں خیبر را بینی بگیر سید کل صاحب ام الکتاب پروگیہا بر ضمیرش بے حجاب گرچہ عین ذات را بے پردہ دید ’’رب زدنی‘‘ از زبان او چکید (پیام مشرق) زندگی جہد مسلسل اور سعی پیہم کا نام ہے۔ اس میں کامیابی گھر بیٹھے ’’ فلاں ابن فلان‘‘ کا دعویٰ کر کے یا ’’ پدرم سلطان بود‘‘ کا حق جتا کر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ متاع زندگی سے بہرہ ور وہی ہو سکتا ہے جو انفس و آفاق کا علم حاصل کر لے، کیونکہ حقیقی زندگی عبارت ہے علم ’’ انفس و آفاق‘‘ سے۔ اس دنیا میں قابل غور و فکر دو ایسی چیزیں ہیں ایک تو ذہن انسانی یعنے ’’ نفس‘‘ اور دوسرے ذہن انسانی سے باہر جو کچھ ہے یعنے ’’ آفاق‘‘ کامیابی کی کلید ان ہی دو کا علم ہے۔ علم النفس اور علم آفاق یہی دو بنیادی علوم ہیں۔ ’’ علم انفس‘‘ کو ذہن، روح، یا نفس کا علم کہئے یا جدید اصطلاح میں نفسیات (Psychology) یا روحانیات (Spiritualism) کہہ لیجئے۔ علم آفاق کو آثار کائنات مظاہر فطرت کا علم کہنے یا جدید اصطلاح میں’’ سائنس‘‘ قرار دے لیجئے۔ دنیا کے تمام علوم ان ہی دو کی شاخیں ہیں۔ علم کی بنیادی اور فطری تقسیم بھی یہی ہے۔ کلام مجید میں ان ہی بنیادی علوم کا ذکر کیا گیا ہے ارشاد ربانی ہے: سنزیھم ایاتنا فی الافاق و فی انسھم اقبال اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زندگی میں اگر کامیابی حاصل کرنی ہے تو یہ کام ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے نہیں ہو گا۔ اس کے لئے علم حاصل کرنا ہو گا۔ انفس و آفاق کا علم، روح و مادہ کا علم! اور واقفیت حاصل کرنی ہو گی، انسان کے اندرون و بطلان کی اور انسان سے باہر مظاہر فطرت و آثار کائنات کی! پھر وہ کہتے ہیں کہ یہی علم و واقفیت، حکمت ہے اور حکمت کو اللہ تعالیٰ نے ’’ خیر کثیر‘‘ کہا ہے من یوت الحکمۃ فقد اوتی خیراً کثیرا یہ خیر کثیر ہے عظیم بھلائی! بڑی دولت!! اور جس کو یہ حکمت مل جاتی ہے گویا کامیابی کی کلید اس کے ہاتھ آ جاتی ہے، اس لئے اس کو حاصل کرنا چاہیے، چاہے جہاں سے بھی مل جائے۔ اس کی عظمت و فضیلت کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ کائنات کے سردار ’’ صاحب ام الکتاب‘‘ نے دعا مانگی تو یہی کہ ’’ رب زدنی علما‘‘ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ کر یہ صاحب ام الکتاب کون ہیں؟ اللہ کے رسول ہیں حامل قرآن ہیں اور ان کی شان یہ ہے کہ ان کی نظروں کے سامنے سے کائنات اور اشیائے کائنات کے پردے اٹھا دئیے گئے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انہوں نے خالق کائنات اور مالک انفس و آفاق کو بے پردہ بے حجاب دیکھا ہے!اس کے باوجود ان کی زبان سے اگر کسی خواہش کا اظہار ہوتا ہے تو یہی کہ اے میرے رب مجھے علم دیا ور علم دے علوم باطنی (انفس) و ظاہری (آفاق) کے حامل ’’ مدینتہ العلم‘‘ کی زبان سے یہ دعا اس بات کی علامت ہے کہ علم ہی نعمت عظمیٰ ہے!! اقبال نے علم اشیا یا حکمت اشیاء کی فضیلت و عظمت کا صرف ذکر ہی نہیں کیا ہے، بلکہ اس کی اصل حقیقت پر سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ یہ علم اشیا یا حکمت اشیا اصل میں ہے کیا۔ علم اشیاء علم الاسما ستے ہم عصاد ہم یدبیضا ستے یہ علم اشیاء اصل میں وہ علم الاسماء ہے، جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھایا تھا اور فرشتوں کو اس سے محروم رکھا تھا یہ وہی علم اسماء ہے، جس کی وجہ سے حضرت آدم نے فرشتوں کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اقبال نے یہاں ’’ علم الاسمائ‘‘ کے الفاظ سے ایک قرآنی تلمیح کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کلام مجید میں ارشاد ہے۔ واذ قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ قالو اتجعل فیھا من یفسد فیھا یسفک الم ماء و نحن نسبح بحمدک و نقدس لک قال انی اعلم ما لا تعلمون وعلم ادم الاسماء کلھا ثم عرضھم علی الملائکتہ فقال انبونی باسماء ھولا ان کنتم صدقین قالو بسحنک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم قال یادم انبئھم باسماء ہم فلما انباھم باسمائھم قال الم اقل لکم انی اعلم عیب السموات والارض واعلم ما تبدون وما کنتم تکتمون (سورہ بقر آیات ۲۹تا ۳۳) ترجمہ: اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے عرض کیا کہ کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس میں فساد پیدا کرے اور خون بہائے؟ ہم تو آپ کی حمد و ثنا کرتے اور آپ کی تسبیح و تقدیس میں لگے ہی رہتے ہیں۔ فرمایا بے شک میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور اللہ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھا دئیے۔ پھر ان (چیزوں) کو فرشتوں کے سامنے رکھا اور فرمایا اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ انہوں نے عرض کیا آپ کی ذات پاک ہے ہم کو تو بس اتنا ہی معلوم ہے، جتنا آپ نے ہمیں سکھایا۔ بے شک آپ ہی اصل حقیقت جاننے والے اور حکمت والے ہیں پھر اللہ نے کہا اے آدم بتا دو ان کو ان چیزوں کے نام! پھر اس نے ان کو ان چیزوں کے نام بتا دئیے تو اللہ نے فرمایا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی تمام چھپی ہوئی حقیقتوں کو جانتا ہوں میں ان چیزوں کو بھی جانتا ہوں، جنہیں تم ظاہر کرتے ہو اور ان چیزوں سے بھی واقف ہوں، جنہیں تم چھپاتے ہو۔ اقبال نے ’’ علم اشیاع علم الاسما ستے‘‘ کہہ کر اس پورے قرآنی قصہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ علم اشیاء دراصل الفاظ ربانی علم ادم الاسماء کلھا سے ماخوذ ہے۔ علم اشیاء حقیقت میں علم اسماء اشیاء ہے۔ یہاں اسم سے مراد رسمی نام نہیں ہے۔ غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ کسی شے کا نام اس شے کے حقائق و خواص کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ ایک علامت ہے جس کو زبان پر لاتے ہی اس شے کی ظاہری شکل وصورت اس کے باطنی اوصاف و خصائص کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اسماء کا علم عطا فرمایا۔ گویا آدم کو حقائق و خواص اشیاء کا علم دیا گیا۔ انسان کے اندر فطرت نے یہ صلاحیت رکھ دی ہے کہ وہ کائنات کی تمام چیزوں کی خاصیت و ماہیت کو معلوم کر سکتا ہے اور جب وہ اپنی اس فطری صلاحیت رکھ دی ہے کہ وہ کائنات کی تمام چیزوں کی خاصیت و ماہیت کو معلوم کر سکتا ہے اور جب وہ اپنی اس فطری صلاحیت سے کام لے کر اشیاء کا یہ علم ’’ عصا‘‘ یعنے ایک طاقت (Power) بھی ہے اور ’’ ید بیضا‘‘ یعنے آنکھوں کو چکا چوند کر دینے والا ایک معجزہ بھی۔ اس کے ذریعہ وہ اس زمین پر خدا کا نائب (خلیفہ) اور مقربان بارگاہ رب کا مسجود بن جاتا ہے۔ یہ علم کی فضیلت و عظمت بھی ہے اور اس کی ماہیت، حقیقت اور افادیت بھی! اقبال نے علم ا شیاء یا حکمت اشیاء کی عظمت و برتری کے راگ ہی نہیں گائے ہیں، اس کی حقیقت اور افادیت کا صرف اظہار ہی نہیں کیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ مغرب نے گو اسی کے ذریعہ ترقی کی ہے۔ مگر یہ علم و حکمت، اس کے آفریدہ نہیں، عرب کے آوردہ ہیں۔ فرماتے ہیں: علم اشیا داد مغرب را فروغ حکمت او ماستے بندد زو وغ جان ما را لذت احساس نیست خاک رہ جز ریزۂ الماس نیست (پیام مشرق) اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ کی برق رفتار ترقی اسی علم اشیاء کی رہین منت ہے، لیکن خود اس علم کی تدوین و تربیت کا سہرا یورپ کے سر نہیں باندھا جا سکتا۔ یہ تو وہ بیش بہا خزانہ ہے، جس کو ہمارے بزرگوں نے برسوں کی جگہ کاویوں اور عرق ریزیوں کے بعد جمع کیا تھا۔ یہ ہماری بد بختی ہے کہ ہمیں اس کی قدر و قیمت کا احساس نہیں رہا۔ ہم نے جن کو گرد و غبار سمجھ کر اپنے دامن سے جھٹک دیا تھا، وہ اصل میں ذرات خاک نہیں، ریزہ ہائے الماس ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ یہ ’’ علم اشیائ‘‘ یا ’’ حکمت اشیائ‘‘ فرنگی زادہ نہیں’’ مسلم زادہ‘‘ ہے یہ احکام اسلامی کے تتبع کا نتیجہ اور مسلمانوں کا چھوڑا ہوا ورثہ اور ہمارے اسلاف کی متاع گم گشتہ ہے۔ فرماتے ہیں: حکمت اشیا فرنگی زاد نیست اصل او جز لذت ایجاد نیست نیک اگر بینی مسلماں زادہ است ایں گہر از دست ما افتادہ است چوں عرب اندر و پا برکشاد علم و حکمت را بنا دیگر نہاد دانہ آں صحرا نشینشاں کاشتند حاصلش افرنگیاں برو اشتند ایں پری از شیشہ اسلاف ماست باز صیدش کن کہ اواز قاف ماست (مثنوی مسافر) یہ حکمت اشیاء یعنے موجودہ سائنس فرنگیوں کی تخلیق نہیں ہے۔ اس کی جڑ انساں کی طبعی سرشت اور فطری صلاحیت ایجاد و اختراع میں پوشیدہ ہے، اور یہ صلاحیت و ذہانت مسلمانوں میں پائی جاتی تھی کیونکہ اسلام نے انساں کی ظاہری و باطنی صلاحیتوں کو ابھارنے اور نکھارنے کا بطور خاص انتظام کیا ہے۔ اس لئے اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ حکمت اشیاء اسلام کی آفریدہ ہے۔ یہ تو وہ گوہر آبدار ہے جس سے ہمارے اعلاف نے اپنے تحقیقی کارناموں کو چمکایا تھا۔ امتداد زمانہ کے باعث افسوس ہے کہ یہ موتی ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا۔ عربوں نے جب یورپ میں اپنے دست و بازو کی دھاک بٹھا دی اور اس پر اپنی عظمت و فضیلت کا سایہ ڈالا تو انہوں نے یہاں بھی اپنے علم و حکمت کی نشانیاں چھوڑیں۔ علوم جدیدہ کا بیج تو ان ہی صحرا نشینوں نے یہاں بویا تھا۔ اپنی جانفشانی اور کدو کاوش سے اس کی پرورش و پرداخت کی تھی۔ پھر یہ بیج، برگ و بار لایا اور آج اسی کے پھل ہیں، جو فرنگی مزے سے لے کر کھا رہے ہیں۔ یہ حکمت تو در حقیقت ہمارے علمی کوہ قاف کی پری ہے، جس کو ہمارے بزرگوں نے شیشہ ہائے تحقیق میں اتار رکھا تھا، اسی لئے بجا طور پر ہمیں ہی یہ حق پہنچتا ہے کہ اس کو دوبارہ شکار کریں۔ اقبال نے یہ باتیں شعر و شاعری کے رنگین طرز ہی میں نہیں کہی ہیں بلکہ نثر کے سیدھے سادے انداز میں بھی پر زور طریقہ پر بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلام مغربی تہذیب کے تمام عمدہ اصولوں کا سرچشمہ ہے پندرہویں صدی عیسوی میں جب سے کہ یورپ کی ترقی کا آغاز ہوا، یورپ میں علم کا چرچا مسلمانوں ہی کی یونیورسٹیوں سے ہوا تھا ان یونیورسٹیوں میں مختلف ممالک یورپ کے طلبہ آ کر تعلیم حاصل کرتے اور پھر اپنے اپنے حلقوں میں علوم و فنون کی اشاعت کرتے تھے۔۔۔۔ غرض یہ کہ تمام وہ اصول جن پر علوم جدیدہ کی بنیاد ہے مسلمانوں کے فیض کا نتیجہ ہیں۔ 1؎‘‘ اقبال نے مسلمانوں کی ان یونیورسٹیوں کا ذکر کیا ہے، جہاں کے طلبہ آ کر تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اس سے ان کی مراد خصوصاً وہ اسلامی درس گاہیں ہیں، جو اسپین (اندلس) میں قائم تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ نمایاں اور ممتاز حیثیت قرطبہ یونیورسٹی کو حاصل تھی، جس کا ذکر بطور خاص اقبال نے اس طرح کیا ہے۔ ہے زمین قرطبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور ظلمت مغرب میں، جو روشن تھی مثل شمع طور بجھ کے بزم ملت بیضا پریشاں کر گئی اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں کر گئی قبر اس تہذیب کی یہ سر زمین پاک ہے جس سے تاک گلشن یورپ کی رگ نمناک ہے 1؎ مقالات اقبال مرتب سید عبدالواحد معینی مطبوعہ لاہور ۱۹۶۳ء ص ۲۳۹، ۲۴۰ مختصر یہ کہ اقبال علوم جدیدہ کے تینوں ذرائع۔۔۔۔ مشاہدہ فطرت، استقرابی طرز استدلال اور تجربی طریق تحقیق۔۔۔ کو قرآنی تعلیمات سے ماخوذ اور مسلمانوں کو ان اصول سرگانہ کا اولیں بانی سمجھتے ہیں اور اسی لئے وہ یا دعویٰ کرتے ہیںکہ ان اصولوں کی بنیاد پر مدون و مرتب کئے ہوئے، علوم جدیدہ یا جدید سائنس (علم اشیاء یا حکمت اشیائ) دراصل اسلامی احکام کے تتبع کا نتیجہ اور مسلمانوںکا ترکہ و میراث (Legacy) ہے۔ یہ صرف علامہ اقبال ہی کا ادعا نہیں ہے، اس کا اعتراف غیر متعصب مغربی محققین نے بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر گستاولی بان اپنی مشہور تصنیف ’’ تمدن عرب‘‘ میں لکھتا ہے: ’’ عربوں کے اندلس میں دسویں صدی میں ہونے کی بدولت یورپ کے ایک گوشہ میں علوم و ادب کا وہ چرچا باقی رہا۔ جوہر جگہ یہاں تک کہ قسطنطنیہ میں بھی متروک ہو گیا تھا۔ اس زمانہ میں بجز عربی اندلس کے اور کوئی مقام نہ تھا۔ جہاں علوم کا حاصل کرنا، ممکن ہوا اور یہیں وہ خاص اور معدود اشخاص جن کو علم کا شوق تھا، تحصیل کے لئے آتے تھے۔ ایک اختلافی روایت کی رو سے جس کا غلط ہونا اب تک ثابت نہیں ہوا ہے، گربرت نے جو ۲۹۶ میں سلوستر دوم کے نام سے پوپ بن گیا تھا۔ یہیں علم حاصل کیا تھا۔ جس وقت اس نے اپنے علم کو یورپ میں اشاعت دینا چاہا، تو وہ اہل یورپ کو اس قدر خلاف فطرت معلوم ہوا کہ انہوں نے اس پر شیطان کے مسلط ہونے کا الزام لگایا۔ پندرہویں صدی تک کسی ایسے مصنف کا حوالہ نہ دیا جاتا تھا جس نے محض عربوں سے نقل نہ کیا ہو۔ راجر بیکن، پسپا کا لیونار دویل نو کار آتو، ریمانڈ لل ہینٹ ٹامس البرٹ بزرگ، قسنطنیہ کا نفانس وہم، یہ سب یا تو عربوں کے شاگرد تھے، یا ان کی تصنیفات کے نقل کرنے والے تھے۔ موسیوریناں لکھتے ہیں کہ البرٹ بزرگ نے جو کچھ پایا ابن سینا سے پایا اور سینٹ ٹامس کو اس کا سارا فلسفہ ابن رشد سے ملا، ان ہی عربوں کی ترجمہ کی ہوئی کتابوں پر پانچ صدی تک یورپ کے کل دار العلوموں کی تعلیم کا دار و مدار رہا۔ بعض علوم مثلاً طب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عربوں کا تسلط خود ہمارے زمانے تک رہا ہے۔ کیونکہ گزشتہ صدی کے اخیر تک فرانس میں ابن سینا کی تصنیفات پر شرحیں لکھی جاتی تھیں۔ 1؎‘‘ ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’ معرکہ مذہب و سائنس‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ اگر ہم اس مہتمم بالشان علمی تحریک (یعنے مسلمانوں کی علمی تحریک) کی جزئیات سے بحث کریں تو اس کتاب کا حجم حد سے زیادہ بڑھ جائے گا۔ لہٰذا ہم صرف اس اجمال پر اکتفا کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے قدیم علوم و فنون میں بہت کچھ اضافے کئے اور نئے نئے علوم ایجاد کئے۔ انہوں نے حساب کے ہندی طریقہ کو رواج دیا، جس میں تمام رقوم نہایت خوبصورتی کے ساتھ دس اعداد کے ذریعہ سے اس طرح ظاہر کی جاتی ہیں کہ 1؎ تمدن عرب از گستاؤلی بان ۵۱۵ ہر عدد کی اول تو ایک قیمت مطلق مقرر کر دی گئی ہے اور اس کے بعد ایک قیمت اعتباری ہے، جو بلحاظ موقع یا مرتبہ پیدا ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی ہر طرح کے اندازے کے لئے سہل اور سادہ قاعدے بنا دئیے گئے ہیں۔ جبر و مقابلہ یا بالفاظ دیگر ہمہ گیر ریاضی کا وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ سے مقادیر غیر معینہ کی تعین یعنے ان تعلقات کی دریافت ہو سکتی ہے، جو ہر قسم کے مقاویر کے درمیان قائم ہوں، خواہ ان مقاویر کا تعلق علم حساب سے ہو، خواہ علم ہندسہ سے۔ اس طریقہ کا موہوم ساخیال ڈریو فٹس کو پیدا ہوا تھا جسے عربوں نے ترقی دے کر اس حد کمال تک پہنچایا۔ جبر و مقابلہ میں محمد بن موسیٰ نے مساوات درجہ چہارم اور عمر بن ابراہیم نے مساوات درجہ سوم کے حل کرنے کا عمل دریافت کیا۔ عربوں ہی کی مساعی سے علم مثلث نے اپنی موجودہ شکل اختیار کی۔ انہوں نے حبیب مستوی کی بجائے، جس کا اول استعمال ہوتا تھا اوتار کو اس فن میں داخل کیا اور اسے ترقی دے ک رایک مستقل فن کی حیثیت عطا کی۔ موسیٰ نے جس کا ذکر ہم کر آئے ہیں علم مثلث کر دی پر ایک رسالہ لکھا اور البغدادی کا ایک رسالہ ساحت پر موجود ہے، جس میں اس فن کے متعلق یہاں تک داد نکتہ سنجی دی گئی ہے کہ بعض لوگ یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اس موضوع پر اقلیدس کا جو مقالہ گم ہو گیا تھا، البغدادی کا رسالہ اسی کی نقل ہے علم ہیئت میں انہوں نے نہ صرف ستاروں کی فہرستیں تیار کیں بلکہ اس حصہ آسمان کے نقشے بھی تیار کئے، جو ان کے پیش نظر تھا، بڑے بڑے ستاروں کے انہوں نے نام رکھے اور آج تک یہ ستارے انہیں ناموں سے مشہور ہیں۔ جیسا کہ ہم کو معلوم ہو چکا ہے انہوں نے سطح زمین کے ایک درجہ کی پیمائش کر کے اس کی جسامت دریافت کی۔۔۔ طریق الشمس کا اعوجاج معلوم کیا۔ آفتاب و ماہتاب کی صحیح میزانیں شائع کیں۔ سال کی مدت مقرر کی لیپلیس نے البتانی کے رسالہ ’’ علم کواکب‘‘ کا ذکر ادب و احترام کا ساتھ کیا ہے اور حاکم بامر اللہ خلیفہ مصر ۱۰۰۰ء کے دربار کے مشہور ہیئت دان ابن یونس کی ایک عالمانہ تصنیف کے بعض بچے بچائے اجزاء کا بھی حوالہ دیا ہے، جس میں المنصور عباسی کے زمانے سے لے کر اس وقت تک کے مختلف مشاہدات فلکی مثلاً کسوف و خسوف، نقاط اعتدال لیل و نہار، نقاط انقلاب صیفی دشتوی، قیران سیارگان و احتجاب کواکب کے نتائج مندرج ہیں۔ ان صدی نتائج نے نظام عالم کے بڑے بڑے تغیرات پر بہت کچھ روشنی ڈالی ہے۔ اس کے علاوہ ہیئت دانان عرب نے آلات ہیئت کی ترکیب و تکمیل پر بہت سا وقت صرف کیا۔ وقت کا اندازہ لگانے کے لئے مختلف قسم کی پانی اور دھوپ کی گھڑیاں ایجاد کیں اور سب سے پہلے اس مقصد کی تکمیل کے لئے پنڈلم یعنے رقاص ساعت انہیں نے ایجاد کیا۔ عملی علوم میں جن کا دار و مدار تجربہ پر ہے، علم کیمیا کی ایجاد کا سہرا انہیں کے سر ہے۔ انہوں نے اس فن کے بعض نہایت اہم معیار دریافت کئے مثلاً گندھک کا تیزاب، شورے کا تیزاب اور الکحل اس فن سے انہوں نے مطلب میں بھی کام لیا اور سب سے اول ادویات مفردہ و مرکبہ کی قرا بادینیں شائع کیں اور ان میں معدنی نسخہ جات شامل کئے۔ علم جرثقیل میں انہوں نے گرتے ہوئے اجسام کے قوانین دریافت کئے۔ قوت کشش ثقل کی ماہیت سے بھی وہ نابلدانہ تھے۔ جرثقیل کی قوتوں کے مسئلہ کا انہیں اچھی طرح علم تھا۔ توازن مائعات میں جو ترقی انہوں نے کی اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اجسام کے اوزان مخصوص کی میزانیں مرتب کر کے پانی میں اجسام کے ڈوبنے اور تیرنے کے مالہ و ماعلیہ پر انہوں نے مبسوط بحثیں لکھیں۔ فن مناظر و مرایا میں انہوں نے یونانیوں کی اس غلط فہمی کو درست کیا کہ شعاع نور آنکھ سے نکل کر شئے مرئی پر پڑتی ہے۔ اس کے بجائے انہوں نے اس مسئلہ کو رواج دیا کہ شعاع شئے سے چل کر آنکھ میں داخل ہوتی ہے۔ واقعہ انعکاس و انعطاف ضیاکی ماہیت کا انہیں پورا علم تھا۔ ابن حزم سے یہ مشہور تحقیقات منسوب ہے کہ شعاع نور کرۂ ہوا کو یہ شکل قوس قطع کر تی ہے اور اس سے اس نے یہ ثابت کیا کہ ہم آفتاب و ماہتاب کو قبل طلوع و غروب دیکھتے ہیں۔ اس علمی استعداد کا اثر اس ترقی میں صاف نظر آتا ہے، جو صنعت و حرفت کے متعدد فنون میں جلد جلد ہونی شروع ہوئی۔ فن فلاحت (کاشتکاری) میں آبپاشی کے طریقے پہلے سے بہتر ہو گئے۔ کھاد کا استعمال، ہنر اور سلیقہ کے ساتھ کیا جانے لگا۔ چوپایوں کی افزائش نسل کے متعلق قیمتی نکتے معلوم ہو گئے۔ (یہی قوانین کا ضابطہ کاشتکاروں اور مزارعین کے حقوق کے لحاظ سے بہت زیادہ کامل و مکمل ہو گیا جن کھیتوں میں پہلے دھان کی کاشت نہ ہوتی تھی وہاں اب اس کی لہلہاتی فصلیں نظر آنے لگیں۔ جہاں ایکھ اور قہوہ کا نام و نشان نہ تھا وہاں اب ان کی پیداوار بھی ہونے لگی سلطنت میں جا بجا ریشم، روئی اور اون کے کپڑوں کے کارخانے قائم ہو گئے۔ قرطبہ اور مراکو میں چرم سازی و کاغذ سازی کا کام شروع ہو گیا۔ معدنوں پر کام ہونے لگا۔ مختلف دھاتیں ڈھلنے لگیں۔ ٹالیڈو میں ایسے ایسے فولادی خنجر اور تلواریں تیار ہونے لگیں کہ ایک دنیا ان کا لوہا مان گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض دفعہ ہمیں تعجب ہوتا ہے جب ہماری نگاہ ایسے خیالات پر جا پڑتی ہے جن کی نسبت از راہ تفاخر ہم یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ان خیالات کے موجد ہونے کا شرف ہمیں کو حاصل ہے مثلاً ایک مسئلہ ارتقاء ہی کو لیجئے جسے ہم اکتشاف جدید سمجھتے ہیں۔ اس مسئلہ کی تعلیم ان کے مدارس میں دی جاتی تھی اور ہم تو خیر اس کے محدود معنے لیتے ہیں وہ ہم سے بھی ایک قدم آگے بڑھے ہوئے تھے اور غیر عضوی اجسام لینے جمادات تک کو اس کے حیز عمل میں داخل سمجھتے تھے۔ 1؎‘‘ 1؎ ’’ معرکہ مذہب و سائنس‘‘ مصنفہ ڈاکٹر ولیم ڈریپر مترجمہ مولانا ظفر علی خاں ص ۱۶۷ تا ۱۷۱ ’’ انہوں نے (عربوں نے) کرہ ہوا کی بلندی کو ناپا اور یہ بلندی اٹھاون میل قرار دی۔ جھٹ پٹے کی اصلی کیفیت اور ستاروں کے جھلملانے کی صحیح وجہ بیان کی۔ یورپ میں اول، اول، جو رصد گاہ قائم ہوئی وہ مسلمانوں ہی کی بنائی ہوئی تھی۔ 1؎‘‘ ’’ مبادی فن الجبرا کی معلومات کے لئے ہم عربوں کے رہین منت ہیں۔ ریاضی کی اس شاخ کا نام تک انہیں کا رکھا ہوا ہے۔ دار العلوم اسکندریہ سے اس فن کے جو بچے کھچے اجزاء ان تک پہنچے تھے۔ ان میں انہوں نے اس معلومات کو اضافہ کیا، جو ہندوستان سے حاصل کی گئی تھی اور تنسیخ و ترتیب کے بعد اس اصلاح یافتہ مجموعہ کو ایک مستقل فن کی حیثیت سے مدون کیا۔عربوں سے یہ فن اٹلی پہنچا، لیکن اس پر اس قدر کم توجہ کی گئی کہ تین سو سال تک یورپ میں کوئی کتاب اس فن پر نہ لکھی گئی۔ 2؎‘‘ یہ تو تھا ڈاکٹر جان ولیم ڈیپر کا یہ اعتراف کہ علوم جدیدہ کی بنیاد مسلمانوں نے ڈالی۔ ذرا ان سے یہ بھی سن لیجئے کہ یورپ نے ان مسلمانوں سے خوشہ چینی کس طرح کی: ’’ عربوں کے ادب کی طرح جس نے سچی دنیا پر جنوبی فرانس اور سسلی کی راہ سے پیش قدمی کی تھی ان کا سائنس بھی ان دونوں راستوں سے یورپ میں داخل ہوا۔ پاپاؤں کو تو دیس نکالا مل ہی چکا تھا اور وہ بجائے روما کے ادنیاں میں مقیم تھے۔ اس کے علاوہ اعتزال عظیم یعنے پاپائیت کی تفریق کا واقعہ بھی بر سر تائید تھا، لہٰذا اسلامی سائنس کے قدم شمالی اٹلی میں مضبوطی سے جم گئے۔ 3؎‘‘ آگے چل کر یہی مصنف رقمطراز ہے: ’’ شمالی اٹلی میں جب ایک دفعہ سائنس کے قدم مضبوطی سے جم گئے تو بہت جلد کل جزیرہ نما میں اس کا اثر پھیل گیا۔ اس کے پرستش کرنے والوں کی روز افزوں تعداد کا پتہ ان علمی مجلسوں سے چلتا ہے، جو بہ کثرت قائم ہوتی جاتی ہیں، اور جلد جلد ترقی کر رہی ہیں، یہ مجلس ان اسلامی مجالس کا چربہ تھیں، جو بزمانہ سابق غرناطہ و قرطبہ میں موجود رہ چکی تھیں۔ اسلامی تمدن نے جس راستے پر اپنے نقش قدم چھوڑے تھے، اس پر گویا مسافر کی یادگار قائم کرنے کی غرض سے ۱۳۴۵ء میں ٹولوز کی اکاڈمی کی بنا ڈالی گئی، جو آج کے دن تک قائم رہے۔ 4؎‘‘ اقبال نے دعویٰ کیا تھا کہ موجودہ سائنس یا علوم جدیدہ مسلمانوں کی میراث ہے اور یہ بھی کہ یورپ ان عرب مسلمانوں کا شاگرد ہے، جنہوں نے نہ صرف سات سو سال کی طویل مدت تک اسپین کے تخت و تاج کو زینت بخشی بلکہ اس کی درس گاہوں میں درس و تدریس اور تجربہ خانوں میں داد تحقیق بھی دی اور ملک کے گوشے گوشے میں علم کی وہ شمعیں روشن کیں، جن کی ضیا پاشیوں سے 1؎ ایضاً، ص ۲۲۰2؎ ایضاً، ص ۴۱۳ 3؎ ایضاً، ص ۴۰۶4؎ ایضاً، ص ۴۰۷، ۴۰۸ سارا یورپ جگمگا اٹھا یورپی مصنفین کے مندرجہ بالا اعترافات اقبال کے اس دعوے کا بین ثبوت ہیں۔ ان اعتراضات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اقبال نے یہ دعویٰ کسی ’’ عصبیت‘‘ یا ’’جانبداری‘‘ کی وجہ سے نہیں کیا تھا بلکہ یہ دعویٰ ایک حقیقت مبرھن ہے اسی لیے یہ یورپی مصنفین بھی مجبور ہیں کہ اس کا اعتراف کریں ورنہ وہ تاریخ کی عدالت میں کتمان حق کے مجرم قرار پاتے! اگرچہ ان یورپی مصنفین نے اس حقیقت کا اعتراف کیا، تاہم تعصب کا زہر ان کے ذہن و دماغ سے پوری طرح کارج نہ ہو پایا تھا، جبھی تو وہ ان تمام علمی ترقیوں کا سہرا ’’ عربوں‘‘ کے سر باندھتے ہیں اور حتی الامکان’’ مسلمان‘‘ کا لفظ زبان قلم پر لانے سے گریز کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ’’عرب‘‘ نہیں بلکہ ’’ مسلمان‘‘ تھے، جنہوں نے علوم و فنون میں اس قدر ترقی کی تھی۔ جدید انکشافات کئے تھے اور نئی نئی راہیں نکالی تھیں عرب تو وہ تھے جو صحرا میں اونٹ چراتے تھے، اونٹنیوں کا دودھ پیتے تھے اور سو سمار کا گوشت کھاتے تھے۔ باہمی قتل و غارت گری، جن کا شیوہ اور نراج ہی جن کا مزاج تھا! انہیں تہذیب و تمدن، درس و تدریس، تحقیق و تدقیق، ایجادات و اختراعات سے کیا واسطہ تھا!! ہاں جب یہی جاہل بدو عرب مسلمان ہو گئے تو ’’ شیر شہتر‘‘ اور لم ’’ سو سمار‘‘ کے مشاغل خور و نوش کو چھوڑ کر انہوں نے ایران کے تخت کیانی پر قبضہ کیا۔ روم کی سلطنت کے پرخچے اڑا دئیے اور اسپین میں اپنی شان و شوکت کے جھنڈے گاڑ دئیے ا ور ساتھ ہی ساری دنیا میں علم و دانش کی شمعیں روشن کر دیں! یہ عربوں کی اپنی ذاتی، ملکی، یا قومی اپچ اور ذہانت نہ تھی جس کے باعث ان کے ہاتھوں یہ کار ہائے نمایاں انجام پائے، بلکہ یہ براہ راست اسلام کا ظاہری و باطنی فیض تھا اور بالکلیہ اسلامی احکام و تعلیمات کا ہمہ گیر و ہر جہتی اثر تھا، جس نے انہیں صحرا نوردی اور دشت گردی سے نکال کر بحر ظلمات کی موجوں کو قابو میں کرنا سکھایا تھا، اور جس نے انہیں جہل لا علمی اور نادانی کی تنگ و تاریک راہوں سے ہٹا کر درس و تدریس کی مسند زریں اور تحقیق و تدقیق کے مقام بلند پر لا بٹھایا تھا اسی لئے اقبال صرف یہی نہیں کہتے ہیں کہ علوم جدیدہ مسلمانوں کی میراث ہے یا یہ کہ علوم جدیدہ کے اولیں بانی مسلمان ہیں بلکہ وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ جن اصولوں۔۔۔۔ مشاہدہ فطرت، استقرائی طرز استدلال اور تجربی طریق تحقیق۔۔۔ پر چل کر مسلمانوں نے ان علوم کو مدون کرنا شروع کیا تھا یا جن پر آج بھی موجودہ سائنس داں عمل کر رہے ہیں، وہ سب کے سب اسلام کے عطا کردہ ہیں۔ علوم و فنون کے میدان میں جو عظیم الشان کامیابی عربوں نے حاصل کی تھی وہ دراصل ان ہی اسلامی اصولوں کی رہین منت تھی۔ یہ اصول اس علمی و سائنسی جہدو میں عربوں کے لئے رہبر و رہنما اور قوت محرکہ ثابت ہوئے تھے۔ یہی نہیں کہ اقبال علوم جدیدہ کو اسلامی احکام و تعلیمات کے تتبع کا نتیجہ اور مسلمانان سلف کا ترکہ و میراث قرار دیتے ہیں بلکہ موجودہ دور کے مسلمانوں کو ان کے حصول کی نہایت پر اثر انداز میں ترغیب بھی دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں: نائب حق در جہاں آدم شود بر عناصر حکم از محکم شود خویش را بر پشت بادا سوار کن یعنے ایں جمازہ را ما ہار کن دست رنگیں کن ز خون کوہسار جوئے آب گوہر از دریا بر آر صد جہاں دریک فضا پوشیدہ اند مہر بادر ذرہ ہا پوشیدہ اند از شعاعش دیدہ کن نا دیدہ را دانما اسرار نا فہمیدہ را تابش از خورشید عالم تاب گیر برق طاق افروز از سیلاب گیر ثابت و سیارۂ گردوں وطن آں خداوندان اقوام کہن ایں ہمہ اے خواجہ آغوش تواند پیش خیزد حلقہ در گوش تواند جستجو را محکم از تدبیر کن انفس و آفاق را تسخیر کن چشم خود بکشا و در اشیاء نگر نشہ زیر پردۂ صہبا نگر تا نصیب از حکمت اشیا برد ناتواں باج از توانایاں خورد صورت ہستی نہ معنی سادہ نیست ایں کہن ساز از نوا افتادہ نیست برق آہنگ است ہشیارش زنند خویش را چوں زنمہ بر تارش زنند تو کہ مقصود خطاب ’’انظری‘‘ پس چرا ایں راہ چوں کو راں بری چوں صہبا بر صورت گلہا متن غوطہ اندر معنی گلزار زن آنکہ بر اشیا کمند اندا نست است مرکب از برق و حرارت ساخت است اے خرت لنگ از رہ و دشوار زیست غافل از ہنگامہ پیکار زیست ہم ہانت پے بہ منزل بردہ اند لیلی معنی ز محمل بردہ اند تو بصحرا مثل قیس آوارہ خستہ داماندہ بیچارہ علم اسماء اعتبار آدم است حکمت اشیاء حصار آدم است (رموز بے خودی) انسان دنیا میں نیابت الٰہی کا مستحق اسی وقت ہو سکتا ہے، جب وہ عناصر فطرت کو اس انداز سے اپنا محکوم بنا لے کہ قدرت کی یہ طاقتیں اس کی خدمت میں ایک ادنیٰ نوکر کی مانند دست بستہ ہر وقت حاضر اور اس کے اشارۂ چشم وا بروکی منتظر رہیں۔ اے مسلماں تو ہوا کی پشت پر سواری کر یہ تیز رفتار اونٹ کی مانند ہے، اس کی نکیل تو تیرے ہی ہاتھوں میں ہونی چاہیے کوہساروں کے سینے کو اپنی ٹھوکروں سے دو نیم کر کے تو پوشیدہ ذخائر کا پتہ چلا اور دریاؤں و سمندروں کی گہرائیوں میں غوطے لگا کر گوہر آبدار حاصل کر۔ اس فضائے بیکراں میں لا تعداد جہاں پوشیدہ ہیں اور یہ جو حقیر ذرے تجھے نظر آ رہے ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنی آغوش میں سینکڑوں آفتاب و ماہتاب چھپائے ہوئے ہے۔ اے مسلم نوجوان! تو ان آفتابوں اور ماہتابوں کے رخ سے نقاب الٹ دے اور ان کی ضیاء پاشیوں سے دیدۂ بینا کو منور کر دے۔ تو اس جگمگاتے خورشید کی شعاعوں کو شکار کر اور سیلابوں و طوفانوں سے ایسی برقی قوت پیدا کر، جو تیری خواب گاہوں میں روشنی اور تیری کارگاہوں میں زندگی کی گہما گہمی پیدا کر دے گنبد نیلو فری پر بکھرے ہوئے یہ ستارے، فضائے آسمانی میں پھیلے ہوئے یہ سیارے جنہیں تو اپنے چشم ظاہری سے روز طلوع اور غروب ہوتے دیکھ رہا ہے اقوام قدیم کے معبود اور خداوند رہ چکے ہیں، لیکن اے میرے سرور، یہ سب کے سب تیرے خدمت گار، نوکر، چاکر اور غلام ہیں۔ اپنی تگ و دو جدوجہد کو تدبر و تدبیر سے مستحکم و استوار کر انفس و آفاق کو اپنے اندر کی ہر شے کو اور اپنے سے باہر کائنات کی ہر چیز کو مسخر کرے۔ تو ذرا آنکھ کھول کر دیکھ تو سہی کہ قدرت اپنے گہوارہ میں کن کن اسرار و رموز کو لوریاں دے کر سلا رہی ہے اور فطرت نے کائنات کو جو مئے ارغوانی پلا رکھی ہے اس کا نشہ کیسا ہے تاکہ تجھے بھی ’’ حکمت اشیائ‘‘ میں سے اپنا حصہ ملے! تو اگر بیدار اور مستعد ہو کر اس حکمت کا کھوج لگائے گا تو یقینا قدرت تیرے لئے بھی اپنے خزانوں کے منہ کھول دے گی اور یاد رکھ جب ایک چھوٹی قوم بھی اپنی لگاتار محنت و مسلسل جستجو سے حکمت اشیاء کا سراغ لگا لیتی ہے تو اپنی عددی کمتری کے باوجود زور آور قوموں سے خراج وصول کرنے لگتی ہے۔ بات یہ ہے کہ موجودات خواہ وہ کسی شکل و صورت میں ہوں، بے کار ولا یعنی نہیں ہیں۔ ساز ہستی چاہے وہ کتنا ہی فرسودہ کیوں نہ ہو چکا ہو، نغموں سے خالی نہیں رہتا۔ اس دنیا کی کوئی چیز، حقیر و بے مقدار ہو، یا عالی شان و ذی قدر عبث نہیں ربنا ما خلقت ہذا باطلاً۔ بدلیوں کے اندر بجلیاں چھپی ہوئی ہیں اگر عقل و ہوش سے کام لیا جائے تو برق تاباں کو بدلیوں کی اوٹ سے نکالا جا سکتا ہے۔ وہ تو جلوہ گر ہونے کے لئے بے تاب و بے قرار ہے۔ اے مسلماں تو تو انظنو رانی 1؎ الابل کیف خلقت کا مخاطب ہے۔ تجھے تو پوری کائنات اور تمام اشیائے کائنات کی حقیقت و ماہیت پر غور و فکر کرنے اور ان کا بغور مطالعہ و مشاہدہ کرنے کی دعوت دی گئی ہے تو پھر اس راہ تحقیق و تجسس میں تو اندھوں کی طرح ٹامک ٹوئیاں کیوں مار رہا ہے۔ تو باد صبا کی مانند پھولوں کے چہرہ کو صرف چومتا ہوا گذر نہ جا ! تجھے تو گلزار فطرت کے قلب میں گھسنا اور سمندر حقیقت کی تہہ تک پہنچنا ہے۔ سن! اور کان کھول کر سن کہ جس نے اشیاء پر کمند پھینکی وہی میر ہے اور جس نے ان پر قابو پا لیا وہی اس کائنات آب و گل کا والی و حکمراں ہے۔ عناصر قدرت برق و باد آب و خاک سب کے سب پھر اسی کے مطیع فرماں دار بن جاتے ہیں۔ وہ ان کا راکب ہو جاتا ہے اور یہ سب اس کے مرکب! دوسروں نے ان مظاہر فطرت کو اسیر کر لیا۔ اب خشکی و تری ہو اور روشنی پر ان کی حکومت ہے، مگر تو ایک شکست خوردہ پہلوان کی طرح کمر کھوں، اکھاڑا چھوڑ، منہ ڈھانکے گوشہ گمنامی میں پڑا ہوا ہے۔ تو نے ہنگامہ پیکار سے کنارہ کشی اختیار کر لی، میدان چھوڑ بھاگا، مگر دوسرے مردانہ وار منزل کی طرف بڑھتے رہے۔ اپنی ہمت و پامردی کی بدولت انہوں نے بالا مار لیا اور لیلی مقصود کو محمل سے نکال بھی لائے، لیکن افسوس ہے کہ تو قیس کی مانند تھکا ماندہ، نڈھال و بے حال، صحرائے علم و تحقیق میں خاک بسر پھر رہا ہے! ا س سے گانٹھ کے پورے اور عقل کے اندھے کہ تیرے جد اعلیٰ آدم نے فرشتوں پر فضیلت و برتری اس لئے حاصل کی تھی کہ انہوں نے تمام اسماء کا علم حاصل کر لیا تھا۔ وعلم آدم الاسماء کلھا آج بھی کائنات میں تیرا اعزاز و احترام اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب تو اسماء کا علم سیکھے اشیاء کی حقیقت و ماہیت ان کے خواص و کیفیات سے آگاہی حاصل کرے اور پھر انہیں اپنا مطیع و محکوم بنائے۔ خدا نے اس کائنات میں ان گنت اشیاء پیدا کی ہیں وہ بس یونہی نہیں پیدا کر دی گئی ہیں اگر انسان ان کے اسرار و رموز سے واقف ہو کر ان پر قابو پا جائے تو یہ واقفیت و دستہ ہی انسانیت کے لئے حصار امن اور قلعہ عافیت ثابت ہو گی۔!! 1؎ دیکھئے حاشیہ مضمون کی ابتداء میں یہ تھی وہ ترغیب جو اقبال نے براہ راست علوم جدیدہ کے حصول کے لئے مسلمانوں کو دلائی۔ اس کے علاوہ انہوں نے بالواسطہ بھی مگر اتنے ہی پر اثر انداز میں نوجوانوں کو ان کی طرف متوجہ کیا۔ عصر حاضر میں مغرب نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ اس ترقی کی ظاہری چمک دمک سے ہمارے نوجوانوں کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں انہوں نے اسی جگمگاہٹ کو یورپ کی ترقی کا راز سمجھ رکھا ہے اقبال نے نوجوانوں کی آنکھوں کی اس خیرگی کو دور کیا اور مغربی ممالک کی ترقی کے راز پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ وہ کہتے ہیں: قوت مغرب نہ از چنگ و رباب نے ز رقص دختران بے حجاب نے ز سحر ساحران لالہ روست نے ز عریاں ساق نے از قطع موت محکمی او رانہ از لا دینی است نے فروغش از خط لاطینی است قوت افرنگ از علم و فن است از ہمیں آتش چراغش روشن است حکمت از قطع و برید جامہ نیست مانع علم و ہنر عمامہ نیست علم و فن را اے جوان شوخ و شنگ مغزمی باید نہ ملبوس فرنگ اندریں رہ جز نگہ مطلوب نیست ایں کلہ یا آں کلہ مطلوب نیست فکر چالا کے اگر داری بس است طبع درا کے اگر داری بس است یورپ کی طاقت و قوت نہ تو چنگ و رباب سے وابستہ ہے نہ پیانو اور گیتار سے اس کی عظمت و شوکت کا تعلق نہ تو سیمیں بدن بے حجاب لڑکیوں کے رقص سے ہے اور نہ حسین و خوبرو خواتین کے عریاں باہوں اور کٹے ہوئے گیسوؤں سے۔ اس کی ترقی کا سبب بے حیائی عریانی و فحاشی نہیں ہے اس نے مذہب کو خیرباد کہہ کر اور لاطینی رسم الخط کو اپنا کر ترقی نہیں کی ہے۔ افرنگ کے عروج، غلبہ و تسلط کا راز یہ ہے کہ اس نے اشیاء کی حقیقتوں کا سراغ لگایا، مظاہر فطرت اور آثار کائنات کو مسخر کیا۔ مختصر یہ کہ علم و فن کی آتش فروزاں سے اس کی عظمتوں کے چراغ روشن ہیں! لباس کی تراش و خراش کا علم و حکمت سے کوئی علاقہ یا رشتہ نہیں ہے علوم جدیدہ کی تحصیل کے لئے نکٹائی باندھنے اور سوٹ زیب تن کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، اس کے لئے تو صرف ذہن رسا اور فہم سنجیدہ چاہیے موجودہ علوم و فنون ک وہیٹ و حر بوش سے کیا واسطہ؟ ان کے حصول کے لئے تو صرف فکر چالاک و طبع دراک چاہیے اور بس! ٭٭٭ اقبال۔۔۔ شاعر مستقبل سید الطاف علی بریلوی (علیگ) اقبال کو بجا طور پر ایک پیغامبر شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری بعض جذبات کی عکاسی ہی نہیں تھی بلکہ اس کے ذریعہ انہوں نے بنی نوع انسان کو عموماً اور ملت مسلمہ کو خصوصاً ایک ایسا پیغام دیا جو ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں عظیم انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن یہ پیغام دنیا کے لیے نیا نہیں ہے بلکہ وہی پیغام ہے جو اب سے چودہ سو سال پہلے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے تیر و تار سمندر میں ڈوبی ہوئی نوع انسانی کو دیا تھا اور جس کے قبول کرنے والے ’’ وانتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘ کی تفسیر بن کر پوری دنیا پر چھا گئے تھے۔ چونکہ اقبال کا پیغام بعض عالمگیر صداقتوں پر مشتمل ہے اس لیے اس کو کسی مخصوص طبقہ تک محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کو اپنا کر دوسرے بھی وہی ثمرات حاصل کر سکتے ہیں جو کسی ایک طبقہ کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس لیے اقبال کو مسلمانوں کا شاعر کہہ کر اس کے دائرہ اثر کو محدود کرنا سرا سر کوتاہ نظری ہے۔ اس بات کی طرف اپنے ایک مکتوب میں سرتیج بہاد رسپرو نے بھی اشارہ کیا تھا۔ انہوں نے ۱۹۳۸ء میں بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم کو لکھا: ’’ اقبال کے ساتھ میرے خیال میں وہ لوگ بہت نا انصافی کرتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ وہ محض اسلامی شاعر تھا۔ یہ کہنا اس کے دائرہ اثر کو محدود کرنا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس نے اسلامی فلسفہ، اسلامی عظمت اور اسلامی تہذیب پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن کسی نے آج تک ’’ ملٹن‘‘ کی نسبت یہ کہہ کر وہ عیسائی مذہب کا شاعر تھا یا کالیداس کی نسبت یہ کہہ کر وہ ہندو مذہب کا شاعر تھا اس کے اثر کو نہ محدود کیا اور نہ اور مذہب کے آدمیوں نے اس وجہ سے اس کی قدر دانی میں کمی کی اگر وہ اسلامی تاریخ کے بڑے کارناموں کے بارے میں یا اسلامی عظمت کا تذکرہ کرتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ غیر مسلم اس کی قدر نہ کریں۔‘‘ اس حقیقت کو ماننے کے باوجود کہ اقبال کا پیغام پوری نوع بشر کے لیے ہے ان کو بنیادی طور پر ملی شاعر قرار دیا جاتا ہے کہ ان کے پیغام کی بنیاد کلیتہً قرآنی تعلیمات پر ہے۔ اور جب وہ ایک اعلیٰ نصب العین حیات پیش کرتے ہیں تو وہ خالص اسلامی ہوتا ہے۔ ویسے تو اقبال کے مخاطب سب ہی لوگ تھے لیکن چونکہ ان کے زمانہ میں تقریباً پوری ملت جسمانی اور ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اس لیے سن رسیدہ لوگوں سے قدرتی طور پر یہ توقع نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ اس پیغام کو اپنائیں گے جو آزادی کا متقاضی ہے۔ اقبال غلامی کو افراد اور ملت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ غلام، ذوق حسن و زیبائی سے قطعاً محروم ہوتا ہے اس لیے نہ وہ صحیح بات سوچ سکتا ہے اور نہ صحیح عمل کر سکتا ہے۔ کہتے ہیں: غلامی کیا ہے ذوق حسن و زیبائی سے محرومی کہیں زیبا جسے آزاد بندے ہے وہی زیبا دوسری جگہ غلامی کو یقین کی ضد قرار دیا ہے اس لیے جو شخص کسی طرح کی بھی غلامی میں جکڑا ہوا ہو وہ کبھی بھی یقین کی دولت حاصل نہیں کر سکتا اور اس لئے یقین سے حاصل ہونے والے نتائج سے بھی محرومی رہتی ہے ارشاد ہوتا ہے: غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں اقبال کے نزدیک غلامی کی ایک قسم یہ ہے کہ انسان اسیر امتیاز ماہ و تور ہے اس لیے کہ آزادی یگانگت و محبت سے حاصل ہوتی ہے: جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں غلامی ہے اسیر امتیاز ما و تو رہنا ان سب باتوں کو پیش نظر رکھ کر اقبال ضروری سمجھتے تھے کہ سب سے پہلے غلامی کی زنجیریں توڑی جائیں۔ چنانچہ مسلمان کے لیے خصوصیت سے ان کا پیغام یہ تھا کہ اگر تو خود کو مسلمان کہتا ہے تو سب سے پہلے جسمانی اور ذہنی آزادی حاصل کر۔ ان کے نزدیک مسلمان فطرتاً آزاد ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر وہ کسی نوع کی بھی غلامی پر راضی ہو گیا تو پھر وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں۔ فرماتے ہیں: از غلامی فطرت آزاد را رسوا مکن ترا تراشی خواجہ از برہمن کافر تری لیکن آزادی کا جو تصور آجکل عام ہے اس کو اقبال فرد اور قوم دونوں کے لیے مہلک سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ : اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد گو فکر خدا داد سے روشن ہے زمانہ آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد دور حاضر کی بہت سی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اپنے جائز معاملات و ضروریات میں انسان جتنا اس وقت مجبور ہے اتنا تاریخ کے کسی دور میں نہیں ہوا۔ اس کے باوجود فکر و عمل کی آزادی کا ڈھنڈورا سب سے زیادہ اسی زمانہ میں پیٹا جا رہا ہے۔ تہذیب جدید نے انسان کو آزادی تو دی مگر یہ آزادی مذہب، اخلاقی اقدار، سماجی روایات اور ان سب چیزوں سے ہے جو انسان کو تہذیب و شائستگی اور حسن معاشرت کے دائرے میں رکھنے کے لئے ضروری ہیں۔ یہی وہ آزادی ہے جس پر آج کا انسان فخر کر رہا ہے لیکن اقبال نے اس کو بجا طور پر ابلیس کی ایجاد سے تعبیر کیا ہے۔ اپنی نسل کے لوگوں کی ایسی ہی کمزوریوں کی اقبال نے جگہ جگہ نشان دہی کی ہے اور ان ہی کی بناء پر وہ اس نسل سے مایوس تھے۔ جب وہ دیکھتے کہ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ غلامی سے متنفر نہیں ہیں اور نہ اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ اپنی اس حالت سے قطعاً مطمئن ہیں تو وہ پریشان ہو کر یہ کہہ گزرتے تھے: میں بندۂ ناداں ہوں مگر شکر ہے تیرا رکھتا ہوں نہانخانہ لاہوت سے پیوند اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو لاہور سے تاخاک بخارا و سمرقند لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند پھر آگے چل کر کہتے ہیںکہ اس قوم سے کیا امید رکھی جائے جو کسی اچھی بات کو سننے اور نیک مشورے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک لطیف استعارہ کے ذریعہ اس بات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں: پھول بے پروا ہیں، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو کارواں بے حس ہے آواز درا ہو یا نہ ہو ان کے نزدیک قوم بے حسی کی اس منزل سے بھی بہت آگے بڑھ گئی تھی جس پر نہایت درد مندی کے ساتھ انہوں نے یہ تک کہہ دیا: وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا ٭٭٭ اقبال جدید تعلیم کو بھی اپنے زمانہ کے مسلمانوں کی گمراہی کا ایک اہم سبب قرار دیتے تھے۔ یہ خیال عام ہے کہ مسلمانوں میں جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے بعد جو بیداری پیدا ہوئی اور مسلمان نے اس کے بعد سے جو ترقی کی وہ کلیتہً تعلیم جدید کا نتیجہ ہے۔ بعض حضرات تو اس معاملہ میں اتنا مبالغہ کرتے ہیں کہ اگر جنگ آزادی کے بعد ہندی مسلمان جدید تعلیم کو نہ اپناتا تو وہ اب تک من حیث القوم فنا ہو چکا ہوتا لیکن اس سلسلہ میں اپنے ملی شاعر کی رائے بھی سن لیجئے۔ فرماتے ہیں: خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما لے کے آئی ہے مگر تیشہ فرہاد بھی ساتھ تخم دیگر بکف آریم و بکاریم ز نو کآنچہ کشتیم ز خجلت نتواں کرد درو (ملا عرشی) ایک او رمقام پر علوم مغربی، فلسفہ یورپ اور تہذیب جدید کے اثرات کو اس طرح ظاہر کرتے ہیں: قدح خرو فروزے کہ فرنگ داد ما را ہمہ آفتاب لیکن اثر سحر نہ دارد اقبال کے نزدیک ان کی نسل کے لوگوں کی بد بختی یہی نہیں تھی کہ وہ خود بلند نظری، قومی حمیت و غیرت اور حسن اخلاق سے عاری ہو چکے تھے بلکہ ان کی گمراہی یہ بھی تھی کہ وہ جدید تعلیم کے ذریعہ اپنی آئندہ نسلوں کو بھی بگاڑ رہے تھے۔ ماضی کی شاندار روایات سے ان کو بیگانہ رکھا جاتا تھا۔ اسلامی تعلیمات ان کے کانوں تک نہیں پہنچنے دی جاتی تھیں۔ یورپ کی کورانہ تقلید پر ان کو راغب کیا جاتا تھا۔ شکایتہ کہتے ہیں: شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا خاکباری کے اس سبق کے نتائج بھی اقبال کے سامنے آ چکے تھے۔ انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ نوجوانوں میں نہ اعلیٰ اخلاق و کردار رہا ہے، نہ محنت اور کام کرنے کا جذبہ رہا ہے اور نہ ایمانی حرارت و قوت رہی ہے بلکہ وہ تن آسانی، عیش و تعیش اور نمود و نمائش کے دلدادہ ہو گئے ہیں۔ وہ ان حالات کو دیکھ کر خون کے آنسو بہاتے ہیں اور ایک نوجوان کو مخاطب کر کے کہتے ہیں: ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی امارت کیا شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل نہ زور حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی اقبال کی فہم و فراست اور عقابی نظر نے اسی وقت دیکھ لیا تھا کہ دور غلامی کے اثرات مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر نہایت دیر پا ہوں گے۔ وہ خود تو اس چیز کو دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہے لیکن دوسروں نے اچھی طرح مشاہدہ کر لیا کہ ڈیڑھ سو سالہ غلامی نے پاک و ہند کے مسلمانوں کو ایسا منقلب ماہیت کر دیا کہ سیاسی آزادی ملنے کے بعد بھی ان کو ذہنی غلامی سے چھٹکارہ نصیب نہ ہو سکا بلکہ بعض حضرات کے طرز عمل سے تو کچھ ایسا مترشح ہوتا ہے کہ انہیں اپنی گردن سے انگریزوں کا طوق غلامی نکل جانے کا بیحد افسوس ہے۔ چنانچہ وہ ذہنی غلامی کے بندھن کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کر کے اس نقصان (؟) کی تلافی کی پوری کوشش کر رہے ہیں یہ اسی دور غلامی اور مغرب کی ناقص تعلیم کا اثر ہے کہ قوم سے غلامی اور آزادی کے درمیان فرق و امتیاز کرنے کی صلاحیت جاتی رہی اور وہ آزادی جیسی نعمت کی قدر نہ کر سکی۔ غلامی کے دور کی برائیاں نہ صرف اس نسل میں بڑھتی چلی گئیں بلکہ اس نے اپنے خلاف کی بھی کی کہ اس میں ذوق حسن و زیبائی کی تخلیق ہوتی وہ آزادی کی قدر کرنا جانتی اور اپنے اندر وہ خوبیاں اور صلاحیتیں پیدا کرتی جو آزادی کا لازمی نتیجہ ہوتی ہیں۔ اقبال نے آئندہ رونما ہونے والی اس صورت حال کو پہلے ہی محسوس کر لیا تھا۔ چنانچہ ا نہوں نے آئندہ نسلوں کی اصطلاح کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی اور اپنی شاعری کے ذریعہ براہ راست اس کی تربیت کی کوشش کی۔ کبھی انہوں نے جاوید کو مخاطب بنایا۔ کبھی طلبہ علی گڑھ سے خطاب کیا او رکبھی بڈھے بلوچ کا روپ اختیار کر کے اس کے بیٹے کو نصیحت کی۔ اس سلسلہ میں کہیں ان کا لہجہ مربیانہ ہے کہیں دوستانہ، کہیں مشفقانہ ہے اور کہیں ہمدردانہ، کسی موقع پر ضمناً کوئی نصیحت کر دی گئی ہے اور کسی جگہ کلیتہً طلبہ سے ہی خطاب کیا گیا ہے۔ وہ خوشحال خاں کے پردے میں نوجوانوں سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند لیکن واضح رہے کہ اس موقع پر بھی اپنی محبت کو عام نہیں کیا بلکہ اس کو مشروط کر دیا ہے۔ جاوید کے نام لندن سے ایک منظوم پیغام بھیجتے ہیں یہ پیغام جاوید کے توسط سے اور نوجوانوں کو بھی پہنچایا جاتا ہے ارشاد ہوتا ہے: دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر اٹھا نہ شیشہ گزن فرنگ کے احسان سفال ہند سے مینا و جما پیدا کر مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر بڈھے بلوچ سے اپنے بیٹے کو ان الفاظ میں نصیحت کراتے ہیں: ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت ہے ایسی نجارت میں مسلماں کا خسارا اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا تقدیر امم کیا ہے؟ کوئی کہہ نہیں سکتا مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا اخلاص عمل مانگ نیاگان کہن سے شاہاں چہ عجب گر بنو ازند گدا را جس نظم میں نوجوان کی تن آسانی اور عیش کوشی کا ذکر کر کے خون کے آنسو بہائے تھے۔ اسی کے آخری حصہ میں ایک ناصح مشغق بن کر ان کو یہ درس دیتے ہیں: عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں نہ ہو نومید، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے! بشیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر نوجوانوں کو جو خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ان کے حصول کا اہم ذریعہ علم و حکمت کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ علم و حکمت حلال روزی کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اکل حلال اور صدق مقال ہی وہ بنیادیں ہیں جن پر انسان کے اعلیٰ اخلاق و کردار کا عظیم الشان قصر تعمیر ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو سامنے رکھ کر اقبال بھی نان حلال پر زور دیتے ہیں کہتے ہیں: علم و حکمت زاید از نان حلال عشق و رقت آید از نان حلال پھر پیر رومی اور مرید ہندی کے درمیان مکالمہ پیش کر کے علم کے بارے میں کتنے اہم نکتے بیان کر دیتے ہیں۔ اس موقع پر نہایت موثر طریقہ اختیار کیا ہے۔ مرید ہندی جو خود اقبال کی ذات ہے سوالات پیش کرتا ہے اور پیر رومی نہایت مختصر الفاظ میں ان کے جوابات دیتے جاتے ہیں۔ پیر رومی سے مراد مولانا جلال الدین رومی سے ہے جن سے اقبال کو بیحد عقیدت تھی۔ اس سوال و جواب کی ایک خوبی یہ ہے کہ مرید ہندی کا سوال اردو میں ہوتا ہے اور پیر رومی جواب فارسی میں دیتے ہیں۔ مرید کی جانب سے پہلا سوال پیش ہوتا ہے۔ چشم بینا سے ہے جاری جوئے خوں علم حاضر سے ہے دیں زار و زبوں وہی جدید علم جس کو دوسرے لوگ مسلمانوں کی ترقی کا ضامن سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر قوم مسلم اس دولت سے محروم رہتی تو وہ اب تک کبھی کی فنا ہو چکی ہوتی یا کم از کم زوال و انحطاط کے انتہائی نقطہ پر پہنچ جاتی اسی کو اقبال ایک مرید کی حیثیت سے نہایت درد مندی کے ساتھ مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبب قرار دیتے ہیں اور اپنے مرشد سے اصلاح کی تدبیر معلوم کرتے ہیں۔ پیر رومی اس اہم سوال کا جواب ایک شعر میں دے کر مرید کو مطمئن کر دیتے ہیں جواب ملاحظہ ہو: علم را برتن زنی مارے بود علم را بر دل زنی یارے بود دیکھئے میں یہ دو چھوٹے چھوٹے مصرعے ہیں لیکن حقیقتاً ان میں تعلیم کا پورا فلسفہ سما گیا۔ لوگوں نے تعلیم کے متعدد مقاصد بیان کئے ہیں لیکن سچ پوچھئے تو تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ایک اور صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ علم حاصل کر کے انسان خود کو پہچانے۔ اپنی تخلیق کے مقصد کو سمجھے اور اس مقصد کو پورا کرے۔ مقصد تخلیق انسان کا انسان بننا اور اللہ تعالیٰ کا تابعدار بندہ بن کر اس دنیا میں رہنا ہے۔ کم از کم مسلمان کو اپنی زندگی کا یہی مقصد سمجھنا چاہیے اور اسی کو سامنے رکھ کر کام کرنا چاہیے لیکن آج کل ماہرین تعلیم بھی جن میں مسلمان بھی شامل ہیں یہی نعرہ لگا رہے ہیں کہ علم اپنی دنیوی زندگی کو پر آسائش طور پر گزارنے کا ذریعہ ہے لہٰذا حصول تعلیم کے وقت اسی مقصد کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ یہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ آج ہر شخص چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ مسلمانو! اپنے بچوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم دلاؤ تاکہ وہ ڈاکٹر اور انجینئر بن کر خوب دولت سمیٹیں۔ بنگلہ او رکوٹھی بنا کر رہیں اور پر آسائش زندگی بسر کریں۔ اسی تصور اور مقصد کو اس شعر میں ’’ علم را برتن زدن‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہی وہ علم ہے جو پیر رومی کے نزدیک ’’ مار‘‘ بن کر دنیا کو ڈستا ہے۔ چنانچہ ایسے ہی علم کی وجہ سے اس وقت بنی نوع انسان مقصد حیات سے دور ہوتی جا رہی ہے اس حالت کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان علم کو تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کا ذریعہ بنائے اور بجائے تن پروری کے علم کے ذریعہ دل کی صفائی کرے۔ اپنے اخلاق کو سدھارے اور تمام مذموم حرکات سے اپنا دامن بچاتے ہوئے راہ حیات میں گامزن رہے۔ اسی کو مولانا روم ’’ علم را بر دل زدن‘‘ بتا کر اس کو پہلے نظریہ کے توڑ کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ اقبال نے دو نظریے بتا دئیے ہیں اب یہ سننے والے کا کام ہے کہ وہ موازنہ کر کے فیصلہ کرے کہ کون سا نظریہ اس کے لیے مفید ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے بعد مرید ہندی ہی سے متعلق ایک اور مسئلہ اٹھاتا ہے۔ وہ نہایت سادگی کے ساتھ پیر رومی سے استفسار کرتا ہے:ـ پڑھ لیے اس نے علوم مشرق و غرب روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب وہ کہتا ہے کہ حصول علم کے بعد اطمینان قلب نصیب ہونا چاہیے۔ لیکن میں نے مشرقی اور مغربی علوم پڑھے اس کے باوجود بے چینی و بے اطمینانی بد ستور قائم ہے۔ دل کو سکون نصیب نہیں ہوتا۔ آخر اس کا سبب کیا ہے؟ پیر رومی اس کا جواب بھی نہایت مختصر الفاظ میں دیتے ہیں: دست ہر نا اہل بیمارت کند سوئے مادر آ کہ تیمارت کند ان کا کہنا ہے کہ جو علوم تو حاصل کر رہا ہے یا کر چکا ہے وہ تیرے درد کا مداوا ہر گز نہیں کر سکتے۔ ان کی منزل دوسری ہے وہ تیری روح کے درد و کرب کو دور کرنے کی قدرت نہیںرکھتے۔ ایسی صورت میں اگر تو ان میں اپنے درد دل کا مداوا تلاش کرتا ہے تو یہ تیری بے بصری اور کوتاہ اندیشی ہے۔ تجھے چاہیے کہ اغیار کے دروازوں کی چوکھٹیں چومنے کے بجائے تو صرف ایک در کو مضبوطی سے پکڑے۔ اور وہ در اسلامی تعلیمات کا ہے۔ اسی کو قرآن مجید میں حبل اللہ قرار دیا ہے۔ اس کی ایک موٹی سی مثال ہے ’’ اگر کوئی بچہ بیمار ہو جائے تو یہ عقلمندی نہیں سمجھی جائے گی کہ اس کو علاج کے لیے نا اہلوں کے سپرد کر دیا جائے بلکہ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو اس کی مشفق والدہ کے سپرد کر دیا جائے۔‘‘ اسلامی تعلیمات بھی ایک شفیق والدہ کا درجہ رکھتی ہیں لہٰذا اگر تو تعلیم کو مفید و با مقصد بنانا چاہتا ہے تو اپنی تعلیم حاصل کر، ان علوم کا حاصل کرنا تیرے لیے کسی طرح مفید نہیں جو تیرے لیے اجنبی ہیں اور جن کا مقصد محض دنیا کمانا اور اپنی زندگی کو پر آسائش بنانا ہے۔ یہ مناسب جواب پا کر مرید ہندی نے آخر کار یہ سوال کر لیا: آہ مکتب کا جوان گرم خوں ساحر افرنگ کا صید زبوں مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ آخر مغربی تعلیم میں وہ ایسی کونسی بات ہے جو انسان کو ذہنی غلامی میں جکڑ دیتی ہے اور وہ انگریز کا غلام اور صید زبوں بن کر رہ جاتا ہے۔ پیر رومی نے اس کے جواب میں صرف ایک شعر پڑھ دیا:ـ مرغ پر نا رشتہ چوں پراں شود طعمہ ہر گربہ وراں شود اور اس شعر میں ایک معمولی سی مثال پیش کر کے مسئلہ کو آسانی سے حل کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’ یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے ایک ایسے پرندے کو ذہن میں رکھئے جو پرواز سے محروم ہے اس کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر کوئی بھی بلی اسے بہ آسانی اپنا لقمہ بنا لے گی۔‘‘ یہی حال ایک ایسے نوجوان کا ہے جو اپنی روایات، تعلیم، تہذیب اور معاشرت سے بیگانہ ہے اور ذہن کی اس نا پختگی کی حالت میں اس کو علوم مغربی کے سیکھنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کا مغرب زدہ ہونا اور مغرب کی ہر شے سے متاثرہ مرعوب ہونا ایک قدرتی بات ہے۔ تعلیم جدید کی چند کوتاہیوں کی نشان دہی کر کے اقبال مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ نوجوانوں اور آئندہ نسل کے افراد کی اصلاح کے لیے تعلیمی نظام میں تبدیلی کی جانی چاہیے۔ ظاہر ہے ذہن انسانی پر شروع میں جو نقوش مرتسم ہو جاتے ہیں وہ دیر پا ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ابتدائی تعلیم کو مغربی اثرات سے پوری طرح بچایا جائے۔ جب بچہ کے ذہن پر اپنی روایات، اپنی تعلیم، اپنی تہذیب اور اپنی معاشرت کے اثرات اچھی طرح جم جائیں اس وقت اس کو مغربی تعلیم دی جائے۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف کوئی ضرر نہیں ہو گا بلکہ عین ممکن ہے کہ اس کے بعض مفید نتائج برآمد ہوں جیسا کہ خود اقبال کے ساتھ پیش آیا۔ انہوں نے جب اپنی روایات اور تعلیمات کو اچھی طرح اپنے اندر جذب کر لیا اس وقت وہ یورپ گئے اور وہاں تہذیب جدید کے خاص مراکز میں بیٹھ کر بھی مغربی اثرات سے محفوظ رہے بلکہ اس تہذیب کی کمزوریوں سے بخوبی واقف ہو گئے اور اپنی تعلیم اور روایات کی برتری کو زیادہ شدت سے محسوس کرنے لگے۔ ٭٭٭ نوجوانوں کی ذہنی تربیت کے لئے لائحہ عمل بتا کر اقبال دور حاضر کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ مغرب کی کمزوریاں بھی گناتے ہیں اور مسلمانوں کی بے راہ روی کے متعلق بھی گفتگو کرتے ہیں۔ دیکھئے کس قدر واضح الفاظ میں کہہ گئے ہیں: یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری نہ مشرق اس سے بری ہے نہ مغرب اس سے بری جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری ان کی طویل نظم ’’ ساقی نامہ‘‘ میں زندگی کا جو گہرا فلسفہ بیان کیا گیا ہے اس پر غور کیا جائے تو ہر انسان محسوس کرے گا کہ ان کے نزدیک انسان اور حیات انسانی کس قدر اعلیٰ و ارفع ہیں۔ یہ اقبال کی بہترین نظموں میں شمار کی جاتی ہے اور اس میں ان سب مسائل کو نہایت خوبی سے بیان کیا گیا ہے جو انسان کو حیات دنیوی میں پیش آتے ہیں۔ انہوں نے مسائل کے ساتھ ان کے مناسب حل بھی پیش کیے ہیں۔ اردو زبان کے اور بھی کئی شاعروں نے ساقی نامے لکھے ہیں۔ شعرائے متقدمین میں مرزا جان جاناں مظہر کے تلمیذ خاص محمد فقیہہ درو مند کا ساقی نامہ زبان و بیان کے اعتبار سے نہایت بلند پایہ ہے۔ لیکن اس سمیت تمام ساقی ناموں کا آہنگ اور موضوع ایک ہی ہے۔ ہر شاعر ساقی سے یہی درخواست کرتا ہے کہ مجھے تو ایسی شراب پلا جو مست و بیخود کر دے۔ اقبال مستی اور بیخودی کو مقصد تخلیق کے منافی سمجھتے ہیں لہٰذا ان کا آہنگ تمام شعراء سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں: نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی وہ ہمیشہ سے ساقی سے ایسی شراب کے طلبگار رہے جو خود ان کو رزم گاہ حیات میں نبرد آزمائی اور جدوجہد کرنے کے قابل بنا دے اور ان میں وہ صلاحیت پیدا کر دے کہ وہ دوسروں کے اندر زندگی کی حرارت پیدا کر سکیں اور ان کی خودی کو بیدار کر سکیں۔ چنانچہ وہ ساقی نامہ میں اسی قسم کی شراب کے طلبگار ہیں۔ فرماتے ہیں: پلا دے مجھے وہ مئے پردہ سوز کہ آتی نہیں فصل گل روز، روز وہ مئے جس سے روشن ضمیر حیات وہ مئے جس سے ہے مستی کائنات وہ مئے جس میں ہے سوز و ساز ازل وہ مئے جس سے کھلتا ہے راز ازل اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے لڑا دے ممولے کو شہباز سے جب شاعر کو یہ شراب مل گئی تو اب اس نے حقائق سے پردہ اٹھانا شروع کر دیا ۔ اپنے زمانہ کی ناکامیاں اس پر روشن ہونے لگیں اور وہ دوسروں کو ان باتوں سے آگاہ کر کے ایک نئے دور کی نوید سنانے لگا اور ان بدلے ہوئے حالات میں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھانے لگا۔ سب سے پہلے وہ مغرب کی زبوں حالی کا نقشہ کھینچتا ہے۔ کہتا ہے: زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے ساز بدلے گئے ہوا اس طرح فاش راز فرنگ کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ پرانی سیاست گری خوار ہے زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے دل طور سینا و فاراں دو نیم تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم یعنی اہل فرنگ نے جو طلسم قائم کر رکھا تھا وہ اب ٹوٹ رہا ہے اور اس نظام کی کمزوریاں ایک ایک کر کے دنیا پر آشکار ہو رہی ہیں۔ اب دنیا ایک ایسے نظام کی خواہاں ہے جو موجودہ اضطراب و بے چینی کا سد باب کر دے۔ شاعر کا خیال ہے کہ یہ نظام صرف مسلمان کے پاس ہے۔ مگر خود مسلمان یقین کی دولت اور ایمان کی پونجی کو کھو چکا ہے اور اغیار کے طوق کو اپنی گردن میں ڈالنے پر نازاں ہے پاوہ رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور یا تصوف، طریقت، شریعت، حقیقت، مجاز، اور روایت و درایت کی بحثوں میں الجھا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں وہ دوسروں کی کیا رہبری اور مدد کر سکتا ہے۔ ان باتوں کو شاعر کس درد مندی سے بیان کرتا ہے: مسلماں ہے توحید میں گرم جوش مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش تمدن، تصوف، شریعت کلام بتان عجم کے پجاری تمام حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ امت روایات میں کھو گئی بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے شراب کے ایک جرعے سے تو شاعر کو یہ حقائق معلوم ہوئے اور پھر اس نے ان باتوں سے دوسروں کو آگاہ کیا۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ حالات کچھ زیادہ امید افزا نہیں تھے۔ اس کے باوجود شاعر جو نا امیدی کو گناہ عظیم سمجھتا ہے اصلاح حال سے مایوس نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ایک لائحہ عمل تلاش کرتا ہے اور اس کے لیے وہ ساقی سے اسی مئے خرد افروز کا دوسرا جرعہ طلب کرتا ہے اور حالات کو بدلنے کے لیے بعض مثبت طریقے دریافت کرتا ہے۔ شراب کہن پھر پلا ساقیا وہی جام گردش میں لا ساقیا مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا مری خاک جگنو بنا کر اڑا خرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پیروں کا استاد کر ہری شاخ ملت ترے نم سے ہے نفس اس بدن میں ترے دم سے ہے تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دل مرتضیٰ سوز صدیق دے جگر سے وہی تیر پھر پار کر تمنا کو سینوں میں بیدار کر ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر جوانوں کو سوز جگر بخش دے مرا عشق میری نظر بخش دے بتا مجکو اسرار مرگ و حیات کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات مری فطرت آئینہ روزگار غزالان افکار کا مرغزار مرا دل، مری رزم گاہ حیات گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر مرے قافلے میں لٹا دے اسے لٹا دے؟ ٹھکانے لگا دے اے ٭٭٭ طلب کے ساتھ ہی شاعر کو دوسرا جرعہ مل جاتا ہے اور اس جرعہ کے حلق سے نیچے اترتے ہی اس کو وہ تمام طریقے معلوم ہو جاتے ہیں جو اصلاح احوال کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن چونکہ اصلاح حیات انسانی میں کرنا ہے اس لیے سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حیات یا زندگی اصل میں کیا چیز ہے ؟ اور اس کا مقصد کیا ہے؟ یہ وہ مسائل ہیں جن پر حکماء قدیم زمانہ سے غور کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن ان کے غور و فکر اور بحث و تمیحیص کا انداز خالص فلسفیانہ ہے ان مفکرین ا ور فلسفیوں میں پہلا اور قابل ذکر افلاطون ہے اس کے نزدیک زندگی تصور سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس نظریہ کی رو سے زندگی اور موت کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ اس طرح زندگی بے حقیقت بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ نظریہ انسان کو بے عملی اور جمود کے سوا کچھ نہیں سکھاتا۔ دوسری اہم شخصیت ایپی قورس کی ہے، جس کے نزدیک زندگی نام ہے کھانے، پینے اور خوش رہنے کا یہ نظریہ زندگی سے سنجیدگی کا عنصر ختم کر دیتا ہے۔ دور جدید میں چکبست لکھنوی نے زندگی اور موت کی کچھ اور ہی تعبیر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے: زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب موت کیا ہے انہی اجزاء کا پریشاں ہونا ایک اور شعر میں وہ زندگی کو درد سر قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک ایسا نشہ ہے جس کو موت کی ترشی اتارتی ہے۔ فرماتے ہیں: فنا کا ہوش آنا زندگی کا درد سر جانا اجل کیا ہے خمار بادۂ ہستی اتر جانا اقبال ان میں سے کسی ایک نظریہ کو بھی تسلیم نہیں کرتے بلکہ افلاطون کو تو وہ اس کے فلسفہ تصوریت کی بناء پر نہایت سخت و سست الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ کس قدر قطعیت سے کہتے ہیں: راہب دیرینہ افلاطون حکیم از گروہ گو سفندان قدیم گفت سر زندگی در مردن است شمع را صد جلوہ چوں افسردن است بسکہ از ذوق عمل محروم بود آہوئے داماندہ معدوم بود اس فلسفہ کو کلیتہً رد کر کے اقبال زندگی کے بارے میں ایک مثبت قسم کا تصور پیش کرتے ہیں اور اس موضوع پر طرح طرح سے روشنی ڈالتے ہیں۔ خضر راہ میں وہ اس کو سود و زیاں سے برتر اور وقت کی قید سے آزاد بتاتے ہیں اور پھر اس کو کئی طرح سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ہر لفظ سے زندگی جولاں و رقصان دکھائی دیتی ہے اور کسی جگہ بھی یاس یا زندگی سے کراہت محسوس نہیں ہوتی۔ ملاحظہ ہو: برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں، پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب اس زیاں خانہ میں تیرا امتحان ہے زندگی اقبال زندگی کو فنا پذیر قرار نہیں دیتے، بلکہ تسلسل حیات کے قائل نظر آتے ہیں اور اس میں آفاقیت کا تصور قائم کرتے ہیں چنانچہ اس سوال کے جواب میں کہ: بتا مجکو اسرار مرگ و حیات وہ نہایت شرح و بسط سے زندگی کی حقیقت کو اس طرح آشکارا کرتے ہیں: دما دم رواں ہے یم زندگی ہر اک شے سے پیدا رم زندگی اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود کہ شعلے میں پوشیدہ ہے موج دود گراں گرچہ ہے صحبت آب و گل خوش آئی اسے محنت آب و گل یہ ثابت بھی ہے اور سیار بھی عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی فقط ذوق پرواز ہے زندگی سفر زندگی کے لیے برگ و ساز سفر ہے حقیقت حضر ہے مجاز سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات ٭٭٭ حیات و ممات پر اس قدر تفصیل سے بحث کرنے کے بعد وہ ایک اور زاویہ نظر پیش کرتے ہیں۔ اکثر شاعر زندگی کو غم و آلام کی تفسیر قرار دیتے ہیں اور اس کو ایک نا پسندیدہ شے سمجھتے ہیں لیکن اقبال ان باتوں کے قائل نہیں اور ان کے مقابلہ میں زندگی کا متفاولی نظریہ پیش کرتے ہیں وہ کسی صورت میں بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیںکہ زندگی ایک بوجھ اور انسان کے لیے ایک لعنت ہے۔ وہ اسے ہر حالت میں نعمت قرار دیتے ہیں اور اس نعمت کا حق ادا کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ غالب نے زندگی کو سود و زیاں کے پیمانہ سے ناپ کر شکایتہ کہا تھا: زندگی اپنی اسی طور جو گزری غالب ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے فانی زندگی سے او ربھی بیزار نظر آتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی زندگی نام ہے مرمر کے جئے جانے کا اقبال یہ کہہ کر ان دونوں کے نظریات کو ٹھکرا دیتے ہیں: بر تر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی لیکن ان کے نزدیک زندگی میں معنویت خودی سے پیدا ہوتی ہے۔ جب تک انسان کی خودی بیدار نہیں ہوتی اس وقت تک اس میں زندگی کی تڑپ پیدا نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خودی کو نہ صرف بیدار رکھے بلکہ اس میں ہر لمحہ جلا پیدا کرتا رہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کی ’’ خودی‘‘ سے کیامراد ہے؟ ان سے پہلے اس لفظ کو غرور و تکبر کے معنوں میں استعمال کیا جاتا تھا۔ اس لیے وہ خدا شناسی کی خاطر خودی کو ترک کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔ جوش ملیح آبادی نے بھی ایک جگہ اس لفظ کو ان ہی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ کہتے ہیں: رونے میں جو لذت ہے تو آہوں میں مزا ہے اے روح خودی چھوڑ کہ نزدیک خدا ہے لیکن اقبال نے اس لفظ کے مفہوم ہی کو یکسر بدل دیا ہے وہ خودی سے مراد تعین ذات لیتے ہیں ان کا کہینا ہے کہ کائنات میں انسان کو تمام مخلوقات سے کہیں زیادہ اعلیٰ و ارفع مقام حاصل ہے۔ا ور اس مقام کو سمجھنا، اس تک پہنچنا اور اس پر قائم رہنا اس کا نصب العین حیات ہے۔ اس اعلیٰ مقام کا عرفان ہی خودی ہے۔ اگر انسان کو یہ عرفان حاصل ہو جائے تو اس کی قوت عمل خود بخود کام کرنا شروع کرے۔ خودی کی حقیقت خود اقبال کی زبان قلم سے سنیے: خودی کیا ہے راز درون حیات خودی کیا ہے بیداری کائنات خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند سمندر ہے اک بوند پانی میں بند ازل اس کے پیچھے ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے سفر اس کا انجام و آغاز ہے یہی اس کی تقویم کا راز ہے خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے جب انسان کی خودی بیدار ہو گئی تو اس کے لیے ضروری ہوا کہ وہ اس کی پوری طرح نگہبانی کرے۔ اس نگہبانی کا طریقہ بھی خود اقبال سے سن لیجئے کہتے ہیں: خودی کے نگہباں کو ہے زہر ناب وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند رہے جس سے دنیا میں گردن بلند فرو فال محمود سے در گزر خودی کو نگہ رکھ ایازی نہ کر دوسری جگہ فلسفہ خودی کو اس طرح بیان کرتے ہیں: پیکر ہستی ز آثار خودی است ہر چہ می بینی ز اسرار خودی است خویشتن را چوں خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او غیر او پیداست از اثبات او خودی کے شعور کے بعد ضروری ہے کہ روز بروز اس کو مضبوط و مستحکم کیا جائے۔ خودی کے استحکام کی صورت یہ ہے کہ انسان اپنے طبعی ماحول سے مسلسل جنگ کرتا رہے۔ اس طرح اس کی ذہنی اور عقلی قوتیں تیز ہوتی رہتی ہیں اور اس کے سینہ میں خودی کی آگ روز بروز مشتعل ہوتی جاتی ہے۔ زندگانی را بقا از مدعا ست کاروانش را دوا از مدعا ست زندگی در جستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است از تمنا رقص دل در سینہ ہا سینہ ہا از تاب او آئینہ ہا ما ز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم وہ خودی کو اس دنیا کی جدوجہد اور تنگ و دو تک محدود نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ’’وسخر لکم ما فی السموات وما فی الارض‘‘ کی تفسیر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: خودی کی یہ ہے منزل اولیں مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں تری آگ اس خاکداں سے نہیں جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر طلسم زمان و مکاں توڑ کر خودی شیر مولا جہاں اس کا صید زمیں اس کا صید آسماں اس کا صید جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود چونکہ علامہ کو اپنی خودی کا پوری طرح عرفان حاصل ہو گیا تھا اس لیے وہ اس کی لا محدودیت پر یقین رکھتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوئے: چہ کنم کہ فطرت من بہ مقام درنہ سازد دل ناصبور دارم چو صبا بہ لالہ زارے چو نظر قرار گیرد بہ نگار خوب روئے تپدآں زماں دل من پئے خوب تر نگارے ز شرر ستارہ جویم ز ستارہ آفتابے سر منزلے نہ دارم کہ بمیرم از قرارے اقبال کی فراست ایمانی نے یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ اگر خودی پر کوئی پابندی عائد نہ کی گئی تو انسان خود بین اور خود غرض ہو جائے گا اور دوسروں کے مفادات اس کے ہاتھوں پامال ہوں گے۔ اس نتیجہ بد سے بچانے کے لیے انہوں نے بیخودی کا فلسفہ بھی پیش کر دیا۔ انفرادی حیثیت میں انسان خودی کے فلسفہ پر عمل پیرا ہوا اور اجتماعی زندگی میں بے خودی کے فلسفہ کو اپنائے۔ اس طرح معاشرہ میں توازن قائم ہو گا اور اس ملت میں ہٹلر اور مسولینی پیدا نہیں ہو سکیں گے۔ ٭٭٭ یہ وہ تعلیم ہے جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اقبال نے آئندہ نسلوں کو دی۔ اس کو اپنانے سے وہ ثمرات یقینا حاصل ہوں گے جو اقبال کے پیش نظر تھے۔ اس تعلیم کے لیے مخصوص ذہنیت اور مخصوص ماحول درکار ہے۔ نہ غلامانہ ذہنیت میں اس تعلیم کا کوئی اثر ہو سکتا ہے اور نہ غلامی کے ماحول میں یہ تعلیم پروان چڑھ سکتی ہے۔ اس کے لیے ذہنیت کی تبدیلی نہایت ضروری ہے۔ لہٰذا بڑوں کا یہ فرض ہے کہ وہ آئندہ نسل کے ذہنوں کی تطہیر کریں۔ ان کے لیے بہتر سے بہتر ماحول بنائیں۔ پھر اقبال کی تعلیمات کو گھر کے اندر، درسگاہوں میں اور باہر کی دنیا میں عام کریں۔ اقبال کے کلام کا مقصد تحریروں اور تقریروں میں زور پیدا کرنا نہیں ہونا چاہیے۔ نہ اس کلام کو اس کام میں لانا چاہیے کہ کوئی گلوکار یا موسیقار ریڈیو، ٹیلی ویژن یا پردہ سیمیں پر کوئی نظم گا کر اپنے کمال فن کر مظاہرہ کرے اور سننے والوں سے خراج تحسین وصول کرے۔ اقبال کا کلام زندگی کی صحیح اور سچ تصویر ہے اس میں زندگی پوری جولائیوں اور رعنائیوں کے ساتھ جلوہ فگن ہے لہٰذا اس کو بہترین طریقے پر زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھنا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ان جواہر پاروں کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا اور تفریح طبع کا ذریعہ سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے گا۔ اقبال کے اپنے زمانہ میں قوم جسمانی اور ذہنی دونوں قسم کی غلامی میں جکڑی ہوئی تھی۔ گویا نہ ذہنیت درست تھی اور نہ ماحول صحیح تھا۔ جب جسمانی آزادی حاصل ہو گئی تو ذہنی غلامی کی زنجیریں اور مضبوط ہو گئیں۔ لہٰذا ان دونوں حالتوں میں اقبال کے کلام اور ان کی تعلیمات کا کوئی اثر نہ ہوا خود اقبال کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اللہ کی آیتوں میں سے ایک آیت تھے لیکن قوم ان کو وہ ملی جو غلامی پر رضا مند تھی اور کسی نہ کسی درجہ میں اب بھی ہے۔ لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں کہ قوم نے ان کی تعلیم کا خاطر خواہ کا اثر نہ لیا صرف ان کی تعریف کرتے اور یوم مناتے رہے۔ یہ جاننے کی کبھی کوشش نہ کی کہ انہوں نے کیا کہا تھا اور کس لیے کہا تھا۔ آئندہ نسل جو آزادی کی فضا میں پروان چڑھ رہی ہے اگر اس کی مناسب ذہنی تربیت کر دی جائے اور اس کو اقبال کے کلام سے زیادہ سے زیادہ مانوس بنایا جائے تو وہ اس تعلیم سے متاثر بھی ہو گی اور اس کی روشنی میں اپنی عملی زندگی کو بھی سدھارے گی۔ اقبال خود بھی اس نکتہ کو سمجھے تھے اس لیے انہوں نے اپنی بہت سی نظموں میں نوجوانوں ہی سے خطاب کیا ہے اور انہیں سے تمام توقعات قائم کی ہیں۔ مستقبل کے ان نوجوانوں کو ذہن میں رکھ کر انہوں نے نہایت پیغمبرانہ شان سے یہ پیشگوئیاں کی ہیں: آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی اس قدر ہو گی ترنم آفریں باد بہار نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز اس چمن کی ہر کلی درد و آشنا ہو جائے گی پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیمان سجود پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائیگی اور یہ انقلاب عظیم صرف اسی صورت میں رونما ہو گا جب نوجوانوں میں بیداری پیدا ہو یا پیدا کر دی جائے۔ قوم میں صلاحیت موجود ہے لیکن اس صلاحیت کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔ اقبال نے اپنے اس شعر میں ایک شرط کے ساتھ ہی قوم سے بہتری کی توقعات قائم کی تھیں۔ نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی یعنی مٹی کی زرخیزی اسی وقت اچھی پیداوار دے سکے گی جب اس میں کچھ نمی ہو گی۔ ٭٭٭ رومانیت، مخزن اور اقبال انور سدید برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ میں سید احمد خان کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ انہوں نے قومی سطح پرایک خاص نوع کا تحرک پیدا کیا اور فکر و نظر کے بیشتر پرانے اعتبارات پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی۔ انہوں نے مقاومت کی فضا پیدا کرنے کے بجائے اگر روشنی کے اس سیلاب کے ساتھ جو انگریزی علوم و تہذیب کی صورت میں بے محابا آر ہا تھا چلنے کی تلقین کی۔ چنانچہ تہذیب کے پرانے نظام کی شکست و ریخت کے بعد انیسویں صدی کے ربع آخر میں نئے نظام نے اپنی بنیادیں مضبوط کرنا شروع کر دیں۔ بلاشبہ علی گڑھ تحریک کی ٹھوس عقلیت اور جامد اجتماعیت نے زندگی اور ادب دونوضں کو ایک نئے موڑ سے آشنا کیا۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ذہنی انقلاب سے گزرنے کے باوجود برصغیر نے ماضی کی شاندار روایت سے اپنا رشتہ یکسر توڑا نہیں تھا اور مشرق کا روحانی مزاج مزب کی مادیت کو پوری طرح قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوا تھا۔ علی گڑھ تحریک نے فکر، فلسفہ اور سائنس کے نئے گوشوں سے استفادہ کر کے اجتماعی مفاد کا راستہ ہموار کیا۔ چنانچہ اس تحریک کا مزاج حقیقت پسندی کی طرف مائل تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت جلد اس کے خلاف رومانی نوعیت کا رد عمل ظاہر ہونا شروع ہو گیا اور جذبہ و تخیل کی وہ رو جسے علی گڑھ تحریک نے روکنے کی کوشش کی تھی سطح پر ابھرے بغیر نہ رہ سکی۔ جذباتی سطح پر اس رد عمل کا ایک زاویہ اکبر الٰہ آبادی اور اودھ پنچ کی صورت میں ظاہر اور یہ منفی نوعیت کا تھا۔ اس رد عمل کی مثبت صورت کو محمد حسین آزاد، ناصر علی دہلوی اور عبدالحلیم شرر نے ابھارا اور سرسید کے سائنسی اسلوب کے برعکس ان اسالیب کو فروغ دینے کی سعی کی جس میں ادیب کا تخیل جذبے کی جوئے تیز رو کے ساتھ چلتا ہے اور قلم اس کے وجدان سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ علی گڑھ تحریک نے عقلیت پسندی کا یک طرفہ رحجان پروان چڑھایا تھا اور یوں معاشرے کو متعدد مصنوعی قیود کا پابند بنانے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ وہ تخلیقی ابال جو زندگی کو رعنائی اور تنوع عطا کرتا ہے ان پابندیوں میں اخراج کا فطری راستہ نہ پا سکا۔ تخیل کی آزاد پرواز پر خشک فلسفہ غالب آ گیا۔ ہیئت اور لفظ کے جامد ضابطوں نے خیال کی مذمت پر حاکمیت اختیار کر لی اور انسان جو نئی تہذیب کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بننے پر آمادہ نہیں تھا ذہنی طور پر گھٹن کی کیفیت محسوس کرنے لگا آزاد، شرر اور ناصر علی دہلوی نے سرسید کے مقاصد کو تنقید و تعرض کا نشانہ بنائے بغیر فرد کی اس داخلی آواز کو سننے کی کوشش کی اور جب و جنون اور وحی و الہام کی اس کیفیت کو جسے انہوں نے تخلیقی عمل کے وجدانی لمحے میں محسوس کیا تھا مشرق کے روحانی اسلوب نگارش میں پیش کر دیا۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ ان ادبا نے محبوس انسان کی آزادی کا علم تھاما اور اسے فکری اور تخلیقی آزادی عطا کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جذبہ و تخیل کی سر مست پرواز کو ہیئت اور اسلوب کے جامد سانچوں میں قید رکھنا ممکن نہ رہا اور رومانیت کی اس تحریک کو فروغ ملنا شروع ہو گیا جس کا آغاز تو محمد حسین آزاد، عبدالحلیم شرر اور ناصر علی دہلوی نے کیا لیکن جسے پروان رسالہ’’ مخزن‘‘ اور اقبال نے چڑھایا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رومانیت کیا ہے؟ رومانیت کی ابتدا بالعموم ایک ایسے شخص سے ہوتی ہے جس کی ذہانت کو اس کے اپنے عہد نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا نام روسو ہے اور وہ اپنے معاشرے کا اکھڑا ہوا فرد تھا۔ اس کا گرد و پیش اس کے لئے آزار جاں تھا اور وہ اپنے وطن فرانس میں اجنبیت کے شدید ترین احساس سے دو چار ہو چکا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی ذات کے اندھے کنوئیں میں جھونکا اور اسے وہاں ایک ایسی پر رونق اور شاداب دنیا نظر آئی جس کے آگے ظاہر کی دنیا بالکل بے معنی ہو گئی تھی۔ چنانچہ اس نے لکھا کہ: ’’ اپنی ذات سے باہر میرے لئے ہر چیز اجنبی ہے اس دنیا میں میرا کوئی ہمسایہ نہیں۔ کوئی بھائی نہیں۔ مجھ جیسا کوئی دوسرا نہیں۔ میرا گھر کوئی اور سیارہ تھا۔ لیکن میں زمین پر گرا دیا گیا ہوں۔ میرے گرد و پیش میں پھیلی ہوئی دنیا میرے دل کو زخمی اور غم زدہ کر رہی ہے میں زندگی بھر تنہا رہنا چاہتا ہوں امن، سکون اور مسرت تو میرے داخل میں موجود ہے اور میں اپنی انا کے سوا کسی اور شے کا آرزو مند نہیں ہوں۔‘‘ اس عہد کے ایک اور مفکر والٹیر نے کائنات کو روزن زندان سے دیکھا تھا لیکن روسو نے کائنات کو زنداں تصور کیا اور آزادی کا مرجع اس دل کو بنایا جس میں انسان کا آزاد تخیل خارج کے جبر سے آزاد تھا۔ روسو کا خیال تھا کہ علم انسان کو بہتر بنانے کے بجائے ہشیار بنا دیتا ہے اور پھر اسے شرارت پر آمادہ کرتا ہے۔ فلسفے کا غلبہ قوم کو اخلاقی طور پر بیمار بنا دیتا ہے شعور انسان کو محرومی کے آزاد سے دو چار کرتا ہے۔ لہٰذا تخیل کی قوت عقل پر فوقیت رکھتی ہے اس عہد میں روسو کی یہ منفرد آواز کہ ’’ انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر جہاں دیکھو وہ پابہ زنجیر ہے۔‘‘ بلند ہوئی تو اسے رومانیت کا مطلع اول قرار دیا گیا۔ مندرجہ بالا اجمال سے واضح ہوتا ہے کہ رومانیت کا تعلق ظاہر کے بجائے غیر ظاہر، حقیقت کے بجائے غیر حقیقت اور شعور کے بجائے لا شعور سے ہے۔ یہ ایک بے حد پیچیدہ نفسیاتی کیفیت ہے۔ چنانچہ اب تک اس کے متعدد زاویے سامنے آ چکے ہیں لیکن اس کی جامع تعریف مرتب نہیں ہو سکی۔ ایچ ایل لوکس نے اس کے آثار قدیمہ آٹھویں صدی عیسوی میں تلاش کئے اور اسے نئے زبان لینگو ارومانیکا سے مشتق قرار دیا۔ بقول لوکس رومانیت کا لفظ پہلے ایک مخصوص زبان کے لئے استعمال ہوا۔ پھر اس سے مراد ایک خاص قسم کا ادب لیا گیا اور بالآخر رومانیت کو وہ ماورائی عنصر قرار دیا گیا جو اس مخصوص ادب میں جزو خاص کے طور پر مثال تھا۔ چنانچہ اب اس لفظ کا یہ مفہوم ہی بالعموم زیر بحث آتا ہے اور بیشتر اس مزاج کو دریافت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کلاسیکیت کا دوسرا رخ اور جو فرد کو ماورائی دھندلکوں سے روشنی کی کرنیں پکڑنے اور داخلی واردات کو خارج کی زبان میں ادا کرنے پر مائل کرتا ہے۔ رومانیت کی اساسی روح افلاطوں کے نظریات میں موجود ہے۔ چنانچہ جب افلاطون نے انسان کو ایک ایسا پرند قرار دیا جو بے پر ہونے کے باوجود قوت پرواز رکھتا ہے تو وہ در حقیقت انسان کی قوت متخیلہ پر مہر تصدیق ثبت کر رہا تھا۔ بالفاظ دیگر رومانیت اس کیفیت کو پا لینے کا نام ہے جب انسان کا مادی وجود ہمہ تن جذبے میں تحلیل ہو کر جسم کو پر لگا دیتا ہے۔ بلیک نے تخیل کو روحانی عمل کا مخرج تسلیم کیا ہے اور اس امر پر زور دیا ہے کہ تخیل خدا کا وہ عمل ہے جس سے وہ اپنی مخلوق کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہ پیغمبرانہ شان سے لکھتا ہے کہ ’’ تخیل کی دنیا ابدی ہے۔ موت کے بعد سب نامیاتی جسم فطرت کی گود میں پناہ لیتے ہیں۔ تخیل کی دنیا لا محدود، بے کراں اور غیر فانی ہے۔ مادی دنیا فانی محدود اور عارضی ہے۔ ابدی دنیا دوامی حقیقتوں کا مخزن ہے اور فطرت کے ظاہری آئینوں میں ہم انہیں حقیقتوں کو منعکس دیکھتے ہیں۔‘‘ کالرج تخیل کو زندہ طاقت تصور کرتا ہے اور اسے انسانی دانش کا محرک اور محدود ذہن میں لا محدود خالق کی قوت خودی کا عکس قرار دیتا ہے۔ کالرج کے نزدیک شاعر کی اہمیت یہ ہے کہ ’’ شاعر اپنی عینی حالت میں انسان کو پوری روح کو حرکت میں لاتا اور اس روح کی مختلف طاقتوں کو ایک دوسری کی قیمت اور وقعت کے مطابق ترتیب دیتا ہے۔ وہ اتحاد کا آہنگ پھونکتا ہے اور ہر چیز کو دوسری میں جادو کی اس طاقت سے ملاتا ہے جسے مخصوص طور پر میں تخیل کہتا ہوں۔‘‘ بالفاظ دیگر کالرج نے شاعر اور صوفی کے باطنی تجربے میں کوئی حد فاضل قائم نہیں رہنے دیا ور بالآخر اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی ہے کہ شاعری ہی حق تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ بظاہر یہ بہت بڑا دعویٰ ہے لیکن بیشتر رومانی شعراء اس بات پر متفق ہیں کہ شاعری کا جادوئی عنصر تخیل کا کرشمہ ہے اور اس کا تعلق کسی ایسی مافوق الفطرت قوت کے ساتھ قائم ہے جس کا ادراک حواس خمسہ نہیں کر سکتے اور اس مافوق الفطرت کا ادراک رومانیت کا مطمح نظر ہے چنانچہ ایچ ایل لوکس نے رومانیت کو پرستان کے اس شہزادے سے تشبیہہ دی ہے جو حسن خوابیدہ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے رومانیت کے اس زاویے کو ایسی بہشت غفلت سے تعبیر کیا ہے جس کی تہہ میں حقائق کی تلخیوں سے گریز کی خواہش کار فرما ہوئی ہے اور اس لحاظ سے رومانیت بقول گوئٹے مرض کے سوا اور کچھ نہیں۔ چنانچہ لا فانتین نے رومانیت کی جو تعریف وضع کی ہے اس میں بھی یہی رویہ کار فرما نظر آتا ہے۔ لافانتین لکھتا ہے کہ ’’ رومانیت دن کے سہانے خواب ہوتے ہیں۔ ان خوابوں کا تجربہ کرنے والے بھی وہ ہوتے ہیں جن کی مدہوشیاں حکمت کا نشہ لئے ہوئے ہوتی ہیں اور وہ بھی جو احمقوں کی جنت کے باسی ہوتے ہیں۔ مگر یہ خواب بڑے سہانے اور بڑے ہی شیریں ہوتے ہیں۔ اسے سراب کہیے یا فریب خیال۔۔۔۔۔ ہم اسی کی رو میں بہہ جاتے ہیں ہم اپنی بساط کو کچھ زیادہ ہی سمجھنے لگتے ہیں کہ دنیا کی ہر قیمتی شے اور ہر حسین شے ہمارے لئے بنی ہے اور بس ہماری ہے۔‘‘ بنی نوع انسان کے لئے وہ رومانی جو احمقوں کی جنت کے باسی ہیں چنداں اہم نہیں تاہم خوابوں کا تجربہ کرنے والے وہ زیرک لوگ جن کی مدہوشیاں حکمت کا نشہ لئے ہوتی ہیں ارتقائے انسانی میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں اور زندگی کے تحرک کو تیز تر کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔ رومانی فنکار تخیل کی جس فراوانی کو عمل میں لاتا ہے اس نے اسے آزادی فکر وعمل کی ایک وسیع اقلیم پر حکمرانی عطا کر دی ہے رومانی ذہن چونکہ خود نگر اور خود آشنا ہوتا ہے اس لئے اس کی انانیت اور انفرادیت شعوری مرصع کاری سے تحسین حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ رومانی فنکار اس تخلیقی لمحے کا منتظر رہتا ہے جب بقول کالرج روشنیا ور سائے کا اتفاقی امتزاج عمل میں آ جائے اور چاندنی یا غروب آفتاب ایک مانوس منظر میں ڈھل جائے یہی وہ لمحہ ہے جب فنکار محض سہانے خواب نہیں دیکھتا بلکہ فطرت کو عمل تغلیب سے گزرنے کا موقعہ عطا کرتا ہے اور ان لمحات عرفان کو جن کی جاودانی کیفیت اس پر منکشف ہوئی ہے کاغذ پر بکھیر دیتا ہے۔ تاکہ دکھ اور غم سے ماری ہوئی دنیا کے لوگ اپنی گم گشتہ جنت خیال کو پالیں اور زندگی کی حقیقت کو نئی معنویت سے تبدیل کرنے پر آمادہ ہو جائیں پس رومانیت ایک طرز خیال تو ہے لیکن یہ یکسر مرض کی کیفیت نہیں اہم بات یہ ہے کہ رومانیت ہر حسین شے کی طرف دست تصرف نہیں بڑھاتی بلکہ حسن کی تقسیم اور مسرت کے حصول میں دوسروں کو بھی شامل کرتی ہے۔ یہاں اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ رومانیت کا ہر دور محض انفحالی نہیں ہوتا بلکہ یہ بیشتر ادوار میں فعال صورتمیں رونما ہوئی ہے اور اس کے تخلیقی جذبے نے کائنات کا نقشہ بدلنے میں عمدہ خدمات سر انجام دی ہیں چنانچہ رومانیت بنیادی طور پر اس داخلی قوت کا نام ہے جو نامعلوم کو دریافت کرنے اور کسی نئی شے کو تخلیق کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ کلاسیکیت جس محرک قوت کو خارج سے تلاش کرتی ہے رومانیت اس قوت کو انسان کے داخل سے برآمد کرتی ہے۔ چنانچہ یو ٹوپیا کی تخلیق اور عینیت پسندی وغیرہ اہم ترین داخلی رحجانات شمار کئے جاتے ہیں تو ان رحجانات کی تکمیل کے لئے فرد کا رومانی رویہ ہی مثبت کردار سر انجام دیتا ہے۔ اس مختصر سی بحث سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ رومانیت محض احیاء العجائب نہیں بلکہ زندگی کے ایک مخصوص رویے کی عکاس ہے اس میں بے پناہ تخلیقی قوت ہے اور یہ بالعموم جمود اور یکسانیت کے کرخت خول کو توڑ کر فنی اور فکری جست کو عمل میں لاتی ہے۔ رومانیت میں آزاد روی انفرادیت، تحفظ انا، اور بغاوت کا عنصر بھی موجود ہے چنانچہ رومانیت وہ شرار سنگ ہے جو لہو ٹپکانے کی صلاحیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ شیطان پہلا رومانی کردار تصور ہوتا ہے جس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور بقول اقبال دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے رومانی فنکار خوابوں کی دنیا میں ہلکورے تو لیتا ہے لیکن وہ صرف نیم غنودہ افیونی فضا تخلیق نہیں کرتا بلکہ حقیقی دنیا کے ساتھ رابطہ استوار کرتا ہے اور جن صداقتوں کو وجدان کے ذریعے دریافت کرتا ہے ان کا عامتہ الناس پر منکشف بھی کرتا ہے اس زاویے سے رومانی فنکار ایک ایسا صوفی ہے جو آگ لینے کے لئے جاتا ہے تو واپسی پر صحیفہ بھی ساتھ لاتا ہے۔ رومانی تخیل کا جو بیج محمد حسین آزاد نے لاہور میں بویا تھا اسے تحریک کی صورت میں شیخ عبدالقادر نے پروان چڑھایا شیخ عبدالقادر کا رسالہ مخزن اپنے عہد کا ایک ایسا صحیفہ ہے جس نے فکر کی آزادہ روی کی حمایت کی اور اردو زبان کے ادبی سرمایے کو فکری تنوع اور جمالیاتی حسن سے غیر سیاسی انداز میں بڑھانے کی سعی کی۔ یہاں اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ اردو زبان سرسید کے لئے محض ایک ذریعہ ابلاغ تھی اور اس زبان کی تہذیب و آرائش ان کا مقصد اولیٰ نہیں تھا۔ مولانا صلاح الدین احمد نے لکھا ہے کہ ’’ سرسید نے اردو پر زبان رائے زبان کے نقطہ نظر سے چنداں توجہ نہیں کی۔۔۔۔ سرسید کی اپنی نثر خاصی بھدی ہے اور یہ بھدا پن آج کے ترقی یافتہ معیار سے نہیں بلکہ ان کے اپنے زمانے کے اس معیار سے بھی متعین کیا جا سکتا ہے جو نثر جدید کے معمار اعظم غالب نے اپنے اردو مکاتیب کے ذریعے سے قائم کیا تھا۔‘‘ بلا شبہ سید احمد خان کے رفقا میں قدر اول کے ادبا شامل تھے اور انہوں نے متعدد موضوعات پر کتابیں ہی تصنیف نہیں کیں بلکہ اردو نثر کو نئے اسالیب سے بھی آشنا کیا تاہم اس حقیقت کو تسلیم کرنا بھی مناسب ہے کہ سید احمد خان کی طرح ان کے نزدیک بھی اردو زبان خیالات کی ترسیل کا ہی وسیلہ تھی اور اسے جو ترقی نصیب ہوئی وہ ان ادباء کے قومی اور اصلاحی مقاصد کا ثانوی یا اضافی ثمر ہے۔ شیخ عبدالقادر کے پیش نظر اگرچہ کوئی سیاسی مقصد نہیں تھا تاہم انگریزی کی اعلیٰ تعلیم، وسیع مطالعہ اور ہمہ گیر شخصیت قومی زندگی پر اثر اندا زہوئے بغیر نہ رہ سکی اور انہوں نے مخزن کے ذریعے ایک ایسی تحریک کو فروغ دیا جس کا اولیں مقصد تو اردو زبان کی نشوونما اور تہذیب و ترقی تھا لیکن جب اس کے اثر و عمل کا دائرہ پھیلا تو اس نے ہندوستان کی علمی، ادبی اور ثقافتی، زندگی کے بیشتر شعبوں کو متاثر کرنا شروع کر دیا چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ مخزن کی ادبی تحریک اگرچہ رومانی نوعیت کی تھی تاہم اس میں فکر کا زاویہ بھی شامل تھا اور اس نے ملک کے اجتماعی شور کو بھی متاثر کیا۔ مخزن کی رومانی تحریک بظاہر سرسید کی ٹھوس مادیت اور جامد مقصدیت کا رد عمل معلوم ہوتی ہے لیکن اس کی ابتداء میں چند ایک دوسرے عوامل بھی کار فرما نظر آتے ہیں مثال کے طور پر بیسویں صدی کے ربع آخر میں اجتماعیت کو فروغ خاص حاصل ہوا اور کئی ایسی سیاسی اور سماجی تحریکیں رونما ہوئیں جن کے پیش نظر ایک واضح معاشرتی نصب العین تھا اور وہ اس کے حصوں کے لیے اجتماعی جدوجہد کو بروئے کار لانے کی کوشش کر رہی تھیں ان تحریکوں نے فرد کو اہمیت دینے کے بجائے قوم کو اہمیت اور ذاتی انفرادیت کو قومی اجتماعیت میں ضم کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فرد نہ صرف بے چہرہ ہو گیا بلکہ خشک مادیت نے اس کا رشتہ روحانی سرچشموں سے بھی منقطع کر دیا علی گڑھ تحریک کے ادب نے منطق کی سیدھی سپاٹ راہ اختیار کی اور یوں ذات کی جستجو کا جذبہ مدھم پڑھ گیا بیسویں صدی کے اوائل میں جب انگریزی زبان کو تدرین کا مستقل جزو بنا دیا گیا تو ہندوستانی نوجوانوں کو مغرب کے رومانی شعراء سے براہ راست تعارف حاصل ہوا نتیجہ یہ ہوا کہ جستجوئے ذات کی مدھم لہر تیز تر ہو گئی اور فرد نہ صرف اپنی انفرادیت کو تلاش کرنے پر مائل ہو گیا بلکہ اس کے ہاں انائے ذات کا جذبہ بھی قوی صورت اختیار کر گیا۔ اس قسم کی فضا میں رومانیت کا بیج نہ صرف آسانی سے جڑ پکڑتا ہے بلکہ اس کی نشوونما بھی تیزی سے ہوتی ہے چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ اردو ادب میں رومانیت کے فروغ میں متذکرہ اجتماعیت کا بھی اہم حصہ ہے۔ انیسویں صدی کے ربع آخر میں ہندی زبان کو سیاسی سطح پر آلہ کار بنایا گیا اور انگریزی حکومت نے اسے فروغ دینے کی عملی کوشش شروع کر دی۔ اس کا ایک بدیہی نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اپنی جداگانہ حیثیت کا احساس ہندی اور اردو زبان کے وسیلے سے پیدا ہو گیا۔چنانچہ اس احساس کے زیر اثر جو مضبوط تحریکیں شروع ہوئیں ان میں قدیم مذاہب کے احیاء کو بالخصوص اہمیت ملی۔ ان تحریکوں کے فروغ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حقیقت پسندی کی تحریک نے مذہب کی الہامی کیفیت کی نفی کرنا شروع کر دی تھی۔ چنانچہ اس کے خلاف رد عمل بھی احیائے مذہب کی صورت میں رونما ہوا اور اخلاقیات کے اس قلعے کو جسے انگریزی تہذیب نے مسمار کرنا شروع کر دیا تھا نہ صرف دوبارہ مضبوط کیا جانے لگا بلکہ رسوم و رواج کی مثالی و معیاری صورت کی تجدید بھی ہونے لگی۔ ہندوؤں میں آریہ سماج اور سناتن دھرم کی اور مسلمانوں میں دیوبند اور ندوۃ العلماء کی تحریکیں اسی رحجان کی آئینہ دار ہیں۔ پرانی اقدار اور قدیم روایات کے احیاء کے خلاف نوجوان نسل کا رد عمل رومانی تصورات کی صورت میں رونما ہوا جس نے فرد کو روایات کے بتان قدیم کو پاش پاش کرنے، اپنے داخل کی رومانی آواز پر کان دھرنے اور نئے خیالات کی کونپلوں کو افزائش دینے پر آمادہ کیا۔ پس متذکرہ قدامت کے خلاف اس عہد کا عمرانی رد عمل رومانیت کے فروغ میں ایک اہم عامل قوت کے طور پر کام کرنے لگا اور اس نے رومانیت کے فروغ میں بڑی معاونت کی۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے رومانیت کے فروغ کی ایک اہم وجہ سائنسی ارتقاء میں تلاش کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ: ’’ بیسویں صدی میں۔۔۔ علوم کی ترقی نے انسان کے سارے تیقن کو پارہ پارہ کر دیا تھا اور اسے محسوس ہونے لگا کہ وہ مرکز کائنات نہیں رہا۔ اور ماحول کے ساتھ اس کا رشتہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہے جب وہ بنیاد ہی لرزہ بر اندام ہو جس پر معاشرے کی عمارت کھڑی ہے تو انسان قدرتی طور پر متخیلہ کو بروئے کار لاتا ہے تاکہ ایک بہتر اور خوب تر جہان کا نظارہ کر سکے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ یوٹوپیا کا خوب تر جہان تخلیق کرنا رومانیت کا ایک پر اسرار مگر اہم مقصد ہے اور ہندوستانی فرد میں یہ جذبہ حصول آزادی کی جدوجہد نے بدرجہ اتم پیدا کر دیا تھا۔ تاہم سائنسی ارتقا نے انسان کے تیقن کو پارہ پارہ کیا تو اس عمل میں اولیں سطح پر اس کی شخصی انا مجروح ہوئی۔ دوسرے وہ نیابت الٰہی کی بلند مسند سے اتر کر زمین پر گر پڑا تو زمین کے مادی بوجھ نے اس کی روح کو گراں بار کر دیا۔ چنانچہ بے بسی کے اس عالم میں وہ حقائق سے گریز کرنے اور ایک خواب ناک فضا میں سانس لینے پر آمادہ ہو گیا۔ بیسویں صدی میں فرد کی یہ بے بسی کے اس عالم میں وہ حقائق سے گریز کرنے اور ایک خواب ناک فضا میں سانس لینے پر آمادہ ہو گیا۔ بیسویں صدی میں فرد کی یہ بے بسی رومانیت کے فروغ میں خاصی معاون نظر آتی ہے۔ ان سب دلائل کی اساس پر یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر میں ایسی مرتب ہو چکی تھی جس میں رومانیت کا بیج اپنے اکھوے نکال سکتا تھا۔ چنانچہ جب اپریل ۱۹۰۱ء میں مخزن کا اجراء ہوا اور اس نے روش عام سے ہٹ کر جذبہ اور تاثیر کو ملکوتی زبان میں پیش کرنا شروع کیا تو اس عہد کے بیشتر نوجوان ادباء مخزن کی طرف متوجہ ہو گئے۔ چنانچہ ڈاکٹر سید عبداللہ کی اس رائے میں پوری صداقت موجود ہے کہ ’’ مخزن سے اس زمانے کے سب ادیب متاثر ہوئے۔‘‘ اس کے دائرہ اشاعت میں جو ادبا جمع ہوئے ان میں اقبال ابو الکلام آزاد، سید سلیمان ندوی، سجاد حیدر یلدرم، آغا شاعر قزلباش، مرزا محمدسعید، ظفر علی خان، غلام بھیک نیرنگ، خوشی محمد ناظر، لطیف الدین احمد، راشد الخیری، مہدی حسن افادی، تلوک چند محروم، اکبر الٰہ آبادی، احسن لکھنوی طالب بنارسی، سرور جہان آبادی محمد علی جوہر، عزیز مرزا، سید نذیر حسین، سلطان حیدر جوش، خواجہ حسن نظامی، محمد اکرام اور شیخ عبدالقادر کے اسمائے گرامی شامل ہیں ’’ مخزن‘‘ کے مضمون نگاروں کی اس نا مکمل فہرست پر نظر ڈالنے سے ہی یہ احساس قوی ہو جاتا ہے کہ ان میں سے بیشتر ادبا نے اردو زبان کو ایک خاص قسم کی لطافت سے آشنا کیا اور طاقتور متخیلہ کے بل بوتے پر رومانی تصورات کو فروغ دینے کی سعی کی چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر میں رومانیت کے جو نقوش لاہور، دہلی اور علی گڑھ میں بکھری ہوئی حالت میں ملتے تھے انہیں بیسویں صدی کے اوائل میں ’’ مخزن‘‘ نے سمیٹنے کی کوشش کی اور عہد سرسید کی بھدی نثر کو لطیف، شیریں اور نغمہ بار شعریت سے آشنا کر دیا۔ ’’ مخزن‘‘ کی بساط ادب سے جو رومانی ادباء نمایاں ہوئے ان میں اولیت اقبال کوحاصل ہے۔ اقبال کی ابتدائی تربیت عربی اور فارسی کے گہواروں میں ہوئی تھی اور وہ ان نو افلاطونی افکار سے جن کا اظہار فارسی او راردو کے قدیم شعرائے بہ تکرار کیا تھا متاثر تھے۔ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران اقبال مغرب کے رومانی شعراء سے متعارف ہوئے۔ چنانچہ وہ نہ صرف اس شاعری سے متاثر ہوئے بلکہ رومانیت نے ان کے ذہن و قلب پر بھی تسلط جما لیا۔ اقبال اعتراف کرتے ہیں کہ: ’’ ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ بیدل اور غالب نے مجھے یہ سکھایا کہ مغربی شاعری کی اقدار اپنے اندر سمو لینے کے باوجود اپنے جذبے اور اظہار میں مشرقیت کیسے زندہ رکھوں۔ اور ورڈز ورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچا لیا۔‘‘ (شذرات فکر اقبال، ص ۱۰۵) پس اقبال کی رومانیت کا اولیںاظہار اس وقت ہوا جب انہوں نے مشرقی انداز اظہار کو برقرار رکھنے کے باوجود مغربی شاعری کی اقدار کو اپنے اندر سمونے کی کوشش کی۔و رڈز ورتھ کے مطالعے نے انہیں جمال فطرت کو سمجھنے اور پھر انسان پر اس کا مفہوم آشکار کرنے پر آمادہ کیا۔ اقبال کا خیال تھا کہ: ’’ روح ارضی اپنی داخلی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو علامات کے پردوں میں چھپا لیتی ہے اور کائنات ایک عظیم علامت ہے۔‘‘ (شذرات فکر اقبال، ص ۱۳۹) اقبال اپنے آپ کو اس روح ارضی کا مد مقابل شمار کرتے ہیں اور ان مفاہیم کی تعبیر و توجیہہ کو اپنا فرض تصور کرتے ہیں جنہیں فطرت علامتوں میں چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ چنانچہ مخزن کے صفحات پر اقبال ایک ایسے رومانی شاعر کی صورت میں جلوہ گر ہوئے جو خارج کے مشاہدے کو داخل کی باطنی قوت کے ساتھ منسلک کر کے تخیل و وجدان سے کائنات کے پر اسرار خزینوں کا راز آشکار کرنے کی سعی کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کی رومانیت کا اولیں زاویہ حسن ازل کی طلب و جستجو میں ظاہر ہوا۔ یہ حقیقت اس بات سے عیاں ہے کہ اقبال نے فطرت کی تصویر کشی اپنے معاصر شعراء کے انداز میں نہیں کی بلکہ اس نے فطرت کے پر اسرار داخل میں جھانکنے کی کوشش کی اور اس جہان معنی کو دریافت کیا جو ظاہر کے پردے میں چھپا ہوا تھا۔ اقبال نے ابر کوہسار، آفتاب، چاند، شمع، ستارۂ صبح، موج دریا، طفل شیر خوار اور جگنو وغیرہ کو مخاطب کیا اور اپنے اس استعجاب کا اظہار کیا جو رومانیت کی دھندلی روشنی میں ملفوف تھا۔ چنانچہ اقبال کے ہاں اولیں سطح پر سرمستی، کیف دوام، سرخوشی اور شرمساری کی کیفیت پیدا ہوئی اور اس نے حسن و جمال کی پرستش کچھ اس خود فراموشی سے کی کہ فطرت اس کے ساتھ ہم کلام ہو گئی اور وہ شاہد رعنائے فطرت نظر آنے لگا۔ محفل قدرت ہے اک دریائے بے پایاں حسن آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفان حسن حسن کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے مہر کی ضو گستری، شب کی سیہ پوشی میں ہے چشمہ کہسار میں، دریا کی آزادی میں حسن شہر میں، صحرا میں، ویرانے میں، آبادی میں حسن آسمان صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ شام کی ظلمت، شفق کی گل فروشی میں ہے یہ ٭٭٭ حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا واں چاندنی ہے جو کچھ، یاں درد کی کسک ہے ٭٭٭ گھر بنایا ہے سکوت دامن کہسار میں آہ، یہ لذت کہاں موسیقی گفتار میں ہم نشین نرگس شہلا، رفیق گل ہوں میں ہے چمن میرا وطن، ہمسایہ بلبل ہوں میں ٭٭٭ اقبال کے ان اشعار میں جذباتی تموج رومانی ہتزاز کے پہلو بہ پہلو موجزن نظر آتا ہے۔ تاہم انہوں نے اسمعیل میرٹھی، محمد حسین آزاد، حیدر علی، نظم طباطبائی اور سرور جہان آبادی کی طرح فطرت کا خاموش بیانیہ مرتب نہیں کیا بلکہ وہ اس ذی روح فطرت کا مدح خواں ہے جس کا پرتو کائنات کے گرد و پیش میں پھیلا ہوا ہے اور جس میں حسن ازل کی جھلک نظر آتی ہے۔ پھسپایا حسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے وہی ناز آفریں ہے جلوہ پیرا ناز نینوں میں ٭٭٭ جس کی نمود دیکھی چشم ستارہ بیں میں خورشید میں قمر میں ستاروں کی انجمن میں صوفی نے جس کو دل کے ظلمت کدے میں پایا شاعر نے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں جس کی چمک ہے پیدا جس کی مہک ہویدا شبنم کے موتیوں میں پھولوں کے پیرہن میں صحرا کو ہے ہسایا جس نے سکوت بن کر ہنگامہ جس کے دم سے کاشانہ چمن میں مرے میں ہے نمایاں یوں تو جمال تیرا آنکھوں میں ہے سلیمی تیری کمال اس کا ٭٭٭ اہم بات یہ ہے کہ اقبال نے مغرب کے مقبول رومانی شاعروں کی طرح اپنے آپ کو فطرت میں ضم نہیں ہونے دیا بلکہ اس نے اس جمال جہاں آراء سے بلند ہونے کی کوشش بھی کی ہے۔ اقبال کی رومانیت میں تحیر جلوہ کا قیمتی عنصر دامن کش دل ہوتا ہے اور وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ آفرینش کائنات سے قبل روح کو حسن ازل کی حضوری نصیب تھی۔ چنانچہ اقبال نے اسی گم گشتہ شے کو تلاش کرنے کے لئے فرد کو مائل بہ جستجو کیا اور فطرت کی بو قلموں رعنائیوں میں گم ہو جانے کے بجائے اس رومانی اضطراب کا اظہار کیا کہ روح کو لیکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثل جرس حسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بیتاب ہے زندگی اس کی مثال ماہی بے آب ہے ٭٭٭ جلوۂ حسن کہ ہے جس سے تمنا بے تاب پالتا ہے جسے آغوش تمنا میں شباب ابدی بنتا ہے یہ عالم فانی جس سے ایک افسانہ رنگیں ہے جس سے جو سکھاتا ہے ہمیں سر بہ گریباں ہونا منظر عام سے حاضر سے گریزاں ہونا دور ہو جاتی ہے ادراک کی خامی جس سے عقل کرتی ہے تاثر کی غلامی جس سے آہ موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں خاتم دہر میں یا رب وہ رنگیں ہے کہ نہیں اقبال کی اس قسم کی نظموں میں حسن ازل کی جھلکیاں ہی نظر نہیں آتیں بلکہ ان میں عشق حقیقی کی تپش بھی نظر آتی ہے اور وہ ایک ایسے رومانی شاعر کا روپ اختیار کرتاہے جو آفاق کی وسعتوں سے ہم کلام ہے اور مسلک انسانیت استوار کرنے کے لئے زندگی کے دکھ اور کرب پر شبنم کی پھوار بکھیر رہا ہے چنانچہ علی عباس جلال پوری نے لکھا ہے کہ ’’ یہ نظمیں نہ صرف اردو شاعری میں بے مثال ہیں بلکہ انہیں دنیا کے کسی بھی عظیم شاعر کے کلام کے مقابلے میں فخر و اعتماد کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔‘‘ اقبال کی رومانیت کا دوسرا زاویہ ماضی کی عظمتوں کو اجاگر کرتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جمال فطرت سے عظمت ماضی کی طرف مراجعت اقبال کی مریضانہ روش نہیں، بلکہ اقبال کی رومانیت نے ماضی سے جوہر حیات کشید کیا اور سر زمین عرب کے ان شہسواروں کو ذہنی سطح پر زندہ کیا جنہوں نے اپنے تہور اور شجاعت سے اقوام عالم پر فتح و نصرت حاصل کر لی تھی۔ اقبال کے ہاں رومانیت کی یہ صحت مند کروٹ اس وقت ظاہر ہوئی جب انہوں نے ہندوستان کے زنداں سے نجات حاصل کر کے یورپ کی آزاد فضا میں پرواز کی۔ ایران کی ما بعد الطبیعات کا سراغ لگایا اور یورپ کے نامور مفکرین سے تبادلہ خیال کے بعد اسلامی افکار کی دوامی کیفیت کو ایک نئے تناظر میں پیش کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ بانگ درا کی نظموں اور بال جبریل اور ارمغان حجاز کی منظومات میں ایک واضح فرق یہ نظر آتا ہے کہ اولیں دور میں اقبال فطرت کے اسرار معلوم کرنے میں سرگرداں ہے۔ حسن و عشق کے نظریات کی شاعرانہ ترجمانی کی سعی کرتا ہے۔ اور فطرت کو معصومانہ تحیر سے دیکھتا ہے۔ یورپ سے واپسی پر اقبال کی رومانی جس تحیر اور استعجاب کی بیشتر منازل کو عبور کر چکی تھی اور اس کی معصومانہ حیرت پر طغیان فکر غالب آ چکا تھا۔ چنانچہ اس دور میں اقبال نے ماضی کو عروج کی اور حال کو زوال کی علامت بنا کر پیش کیا اور ان دونوں کے تقابلی مطالعے سے ایک ایسی فضا تخلیق کی جس کا جادو قاری کو فوراً اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور وہ زمانہ حال کی بوجھل فضا سے چند لمحوں کے لئے نجات حاصل کر کے ماضی کی پر شکوہ فضا میں آسودگی کا سانس لینے لگتا ہے۔ اقبال کی اس قسم کی نظموں میں ’’ مسجد قرطبہ‘‘ اور’’ ذوق و شوق‘‘ کو بالخصوص اہمیت حاصل ہے۔ اقبال نے مسجد قرطبہ کی عظمت وقت کے Wsatelandسے دریافت کی ہے اس نظم کے اولیں حصے پر افسردگی اور خاموشی اور حزن کی دبیز تہ جمی ہوئی ہے۔ ہر شے متحجر نظر آتی ہے۔ صرف وقت زندہ ہے کہ یہ ساز ازل کی فغاں ہے اور سلسلہ روز و شب سے ماضی کا رشتہ مستقبل کے ساتھ پیوست کرتا ہے۔ اقبال نے زندہ وقت کے اس بے کراں دھندلکے میں ہی قوموں کے عروج و زوال اور نو بہ نو انقلابات کا مشاہدہ کیا اور مرد مومن کی کاوشوں کو عشق کا حاصل قرار دیا کہ یہ لازماں اور لا مکاں ہے اور کار جہاں کی بے ثباتی کے با وصف نقش کہن کو فنا ہونے سے بچا لیتا ہے۔ چنانچہ اقبال نے وقت کے تناظر میں جو خواب دیکھے اور جن تصویروں کا مشاہدہ کیا انہیں نہ صرف حیات ابدی حاصل تھی بلکہ ان میں رومانی اہتزاز کا سامان بھی موجود تھا۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں۔ آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دلنشیں بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے ٭٭٭ آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کے خواب ٭٭٭ وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب سادہ و پر سوز دختر دہقاں کا گیت کشتی دل کے لئے سیل ہے عہد شباب عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں مری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب اقبال کے ان اشعار میں وہ سحر آفرینی موجود ہے جو رومانیت کی جان ہے۔ اس کی ایک اور عہدہ مثال اقبال کی نظم ’’ ذوق و شوق‘‘ ہے۔ اس نظم کا فنی پیکر نظم ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کے تخیلی انداز میں ہی مرتب ہوا ہے تاہم انہوں نے اس نظم میں جو تصویریں تراشی ہیں ان میں طلسمات کی ایک دنیا آباد ہے اور فارسی ان کے مجموعی تاثر میں یوں گم ہو جاتا ہے کہ نظم کا پس منظر اس کی ملی زندگی کا جزو نظر آنے لگتا ہے۔ اقبال کے اس رومانی حیرت کدے کے چند مناظر درج ذیل ہیں۔ قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں گرد سے پاک ہے ہوا برگ نخیل دھل گئے ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کاروں اقبال نے ماضی پرستی کے رومانی زاویے سے صرف سحر آفرینی کی سعی نہیں کی بلکہ ماضی کی اساس پر ایک یوٹوپیا تخلیق کیا اور فرد کو متوجہ کیا کہ وہ اپنے زمانے کو ماضی کی عظمت کی روشنی میں استوار کرنے کی سعی کرے۔ چنانچہ اقبال کی ماضی پرستی مریضانہ عناصر سے یک سر پاک ہے اور یہ فرد کو اس رومانی جست پر آمادہ کرتی ہے جس سے زندگی کو تحرک مل جاتا ہے اور جمود کا رنگ اتر جاتا ہے۔ اقبال کی رومانی شاعری کا تیسرا اہم زاویہ رومانی کرداروں کی تخلیق میں نمایاں ہوا ہے اور اس کاوش میں اقبال ایک ایسے مصلح کے روپ میں ابھرا ہے جو موجود سے مطمئن نہیں اور معاشرے کی جامد قدروں کو اپنے رومانی تصورات سے بدل ڈالنے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ چنانچہ اس کوشش میں اس کے ہاں بغاوت اور سرکشی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ دنیائے نو کی تعمیر کے لئے خالق کائنات کا سامنا کرنے پر بھی آمادہ ہو جاتا ہے اقبال کے اس رومانی تصور کا فکری زاویہ نظریہ خودی میں اور عملی زاویہ مثبت سطح پر مرد مومن اور منفی سطح پر ابلیس کے کرداروں میں موجود ہے۔ اقبال کے اس رومانی تصور کا فکری زاویہ نظریہ خودی میں اور عملی زاویہ مثبت سطح پر مرد مومن اور منفی سطح پر ابلیس کے کرداروں میں موجود ہے۔ علی عباس جلالپوری نے اقبال کے نظریہ خودی کو رومانی خود مرکزیت قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اقبال کی خودی فرد کو داخلی طور پر قوت اور توانائی عطا کرتی ہے۔ تاہم اسے خود مرکزیت کی شہادت قرار دینا اس لئے درست نہیں کہ خودی نرگسیت کی مریضانہ صورت پیدا نہیں کرتی۔ خود مرکزیت فرد کو اپنی ذات کے خول میں اسیر کر ڈالتی ہے جبکہ خودی فرد کو باد بار خارج کی طرف لپکنے اور موجود کو منقلب کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس لحاظ سے اقبال کا نظریہ خودی ان مثبت اوصاف کا حامل ہے۔ جن سے زندگی تخلیقی فعالیت کی طرف جادہ پیما ہو جاتی ہے۔ انسان کی فطری صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں اور ان کی تکمیل و معروج اسے مرد مومن بنانے میں معاونت کرتی ہیں۔ بالفاظ دیگر انسان کامل خودی کا درجہ تکمیل ہے اور یہ نہ صرف یقین محکم اور عمل پیہم کا مجسمہ ہے بلکہ باطل کی قوت کو عزم و ہمت سے سر کرنے کی ہمت مردانہ بھی رکھتا ہے۔ چنانچہ اقبال نے زمانے کی زمام اقتدار اسی مرد مومن کے ہاتھ میں پکڑا دی اور اسے دست قدرت قرار دے کر کہا ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب دکار آفریں، کار کشا، کار ساز مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش میں بندۂ مومن ہوں نہیں دانہ اسپند وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو ہو جس کی رگ و پے میں فقط مستی کردار عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن تیرا جلال و جمال، مرد خدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل ساقی ارباب ذوق، فارس میدان شوق بادہ ہے اس کا حیق تیغ ہے اس کی اصیل عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال عجم کا حسن طبیعت، عرب کا سوز دروں ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دل بے نیاز اقبال کا مرد مومن اس کی فکری رومانیت کا عمدہ ترین مظہر ہے اور اس میں وہ تمام اوصاف موجود ہیں جن سے شخصیت کی تکمیل فطری انداز میں ہوتی ہے اور مادہ روح پر غالب آنے کے بجائے خود روح کے دامن میں سمٹ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس تصور میں زندگی کے ارضی تقاضوں کو پوری کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور یہ روحانی معراج کو پا لینے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ مرد مومن کے برعکس ابلیس کا کردار شر کا مجسمہ اور ہدی کا نمائندہ ہے ابلیس چونکہ زندگی کی ایک اہم ثنویت کو مکمل کرتا ہے اس لئے اقبال اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا۔ اقبال شاید اردو کا اولیں شاعر ہے جس نے ابلیس کے رومانی کردار کو واضح خدو خال میں پیش کیا اور اس کے منفی روپ کو بھی آزادی خیال کا مظہر قرار دے کر اس کی تعریف و تحسین کی۔ یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ بدی کے خلاف انسان کا جذبہ نفرت کہیں ختم نہیں ہوا۔ ابلیس ایک ایسا کردار ہے جس نے احکام خداوندی کی نافرمانی کی اور راندہ درگاہ قرار دیا گیا۔ چنانچہ اس کا تذکرہ لاحول پر پڑھنے پر تو مائل کرتا ہے لیکن اس کے داخلی خواص پر توجہ مبذول کرنے کی دعوت نہیں دیتا۔ اقبال نے شر کو زندگی کی ایک اہم محرک قوت تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ ابلیس اس لحاظ سے تو متسوب ہے کہ وہ بدی کا پیکر ہے اور عامتہ الناس کو گمراہ کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتا۔ تاہم اقبال نے ابلیس کے باطن میں جھانکنے کی کوشش کی اور ابلیس کے کردار کو خالص فلسفیانہ نقطہ نظر سے پرکھنے کی سعی کی۔ ہر چند ابلیس انسانی ڈرامے کا قابل نفرت کردار ہے لیکن اقبال نے اسے متحرک قوت کے طور پر قبول کیا اور اسے آزادی اظہار اور قوت عمل کا مظہر قرار دے دیا۔ پروفیسر تاج محمد خیال لکھتے ہیں کہ: ’’ شیطان جو رسمی مذہب میں بدی کا پتلا ہے اسے اقبال اس حیثیت سے پیش کرتے ہیں کہ اس نے جبر و تحکم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے اور احکام کی بے چون و چراں تعمیل کرنے کے بجائے خود آزادانہ فیصلہ کرنے میں پیش قدمی کی ہے۔ اور اپنے اس اقدام سے وہ زبردست معرکہ چھیڑ دیا جو افراد کے اندرونی رحجانات اور خارجی ماحول کے درمیان ہمیشہ جاری رہے گا۔۔۔۔ اقبال کے وہ مبصرین جو انہیں مروجہ مذہبی نظریات کا نمائندہ سمجھے بیٹھے ہیں شیطان کے بارے میں ان کے نظریات کے اس پہلو سے انصاف برتنے سے قاصر رہے ہیں۔ ایسے حضرات کے نزدیک شیطان محض فتنہ و شر کا علامتی پیکر ہے پس انہیں شیطان کے اندر کوئی قابل ستائش وصف نہیں ملتا۔ درآں حالیکہ اقبال نے شیطان کو جس انداز میں پیش کیا ہے اس اعتبار سے وہ ایک ہیرو معلوم ہوتا ہے جو تمام حرکت اور تمام تغیر کی تخلیق کا مدعی ہے۔‘‘ (اقبال کا نظریہ ابلیس، فلسفہ اقبال، ص ۸۰۔ ۸۲) بالفاظ دیگر یہ کہنا درست ہے کہ اقبال نے ابلیس کے منفی پہلو کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی لیکن اس آزادی عمل کو جس کا اولیں اظہار ابلیس نے کیا اور جس سے جہان آب و گل میں نئی رعنائیاں پیدا ہوئیں اور فرد کو آگے لپکنے اور جمود کو توڑنے کی اہلیت حاصل ہوئی اسے اقبال سراہے بغیر نہ رہ سکا۔ چنانچہ ابلیس کا جبریل سے یہ استفسار کہ گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو بے حد معنی خیز ہے اور زندگی کے ڈرامے میں ابلیس کی اہمیت کو واضح کر دیتا ہے اقبال نے اسے ایک ایسے کردار کے روپ میں پیش کیا ہے جس میں نظریہ خودی کے بیشتر اوصاف موجود ہیں اور جس کے دست تصرف میں جہان رنگ و بو ہے۔ ہے مرے دست تصرف میں جہان رنگ و بو کیا زمیں، کیا مہرومہ، کیا آسمان تو بتو کیا اما مان سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو ٭٭٭ ہے مری جرأت سے مشت خاک میں ذوق نمو میرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تار و پو خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست و پا میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا، جو بہ جو اقبال کا مرد مومن کا تصور ہمہ جہت ہے اور بے حد متاثر کرتا ہے تاہم اگر وہ اس کے ساتھ ابلیس کا کردار پیش نہ کرتے تو مرد مومن کا تصور بھی یک رخا اور اکہرا ہو جاتا اور زندگی کی ثنویت مکمل نہ ہوتی۔ چنانچہ زندگی کے ڈرامے میں خیر و شر اور نیکی اور بدی کا دائرہ مکمل کرنے کے لئے مرد مومن کے ساتھ ابلیس کی تخلیق ضروری تھی اور اقبال کی یہ تخلیق محض لا شعوری نہیں بلکہ انہوں نے اسے اپنے افکار کا اہم نقطہ قرار دیا اور ابلیس کی ضرورت کے بارے میں عطیہ فیضی کو لکھا۔ ’’ ذہنی طور پر ایک ابدی اور قادر مطلق شیطان پر ایمان لانا زیادہ آسان ہے بہ نسبت ایک خدا پر ایمان لانے کے جو چیز محض کا مبدا ہو۔‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال نے شیطان کو ذہنی طور پر قبول کیا اور مرد مومن کے رومانی اوصاف ابھارنے کے لئے اس کردار سے بھی اہم خدمت لی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ جس طرح اقبال کی شاعری میں مسلسل ارتقاء ملتا ہے اسی طرح ان کی رومانیت بھی مختلف ادوار میں مائل بہ ارتقاء رہی۔ چنانچہ یورپ سے واپسی پر جب اقبال نے ملت اسلامیہ کی رہنمائی کا فریضہ قبول کیا اور مسلمانوں کی شوکت رفتہ کی تجدید کے لئے نئے علم الکلام کی ترویج شروع کی تو اقبال کی رومانیت فلسفے کی فکری صورت میں ڈھل گئی۔ بلا شبہ اس دور میں بھی اقبال نے خارج کو داخل سے ہم آہنگ کرنے اور قوم کو اپنی گم شدہ روح ماضٰ تلاش کرنے کی تلقین کی تاہم اس دور میں اقبال پیغمبر ادب کے منصب پر فائز ہو چکے تھے۔ چنانچہ ان کی رومانیت پر فکر کی دبیز تہ نمایاں ہو گئی اس سب کے باوجود ادب میں اقبال کی اس عطاء سے انکار ممکن نہیں کہ انہوں نے ابتداء میں مخزن کی لطیف رومانی تحریک کو چمکانے کے لئے مغربی شعراء کے تراجم کئے اور اردو شاعری کو چند ایسی جاندار نظمیں دیں جن کا مایہ خمیر انگریزی مگر پیکر مشرقی تھا۔ ان نظموں میں اقبال نے اپنے رومانی تصورات کو منفرد انداز میں پیش کیا اور انسان کے داخل اور خارج میں ہم آہنگی پیدا کر دی اور آخری دور میں اقبال کے مثبت رومانی عمل نے فرد کے متزلزل یقین کو ثبات مہیا کر دیا اور اس میں زندہ رہنے اور زندگی کو عمل مسلسل میں تبدیل کرنے کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبال کا یوٹوپیا اس کی زندگی کے دوران گہری دھند میں لپٹا رہا۔ تاہم اس نے حرکت و عمل کی جو فضا پیدا کی تھی اس نے جب مستقبل پر اثرات مرتسم کئے تو یہ دھند چھٹ گئی اور رومانی یوٹوپیا حقیقت میں تبدیل ہو گیا۔ چنانچہ اقبال کا ہ قول خود ان کا حقیقت نما بن گیا کہ ’’ قومیں شعراء کے دلوں میں جنم لیتی ہیں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں پلتی او رمر جاتی ہیں۔‘‘ (شذرات فکر اقبال، ص ۱۴۸) اس لحاظ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ اقبال کی رومانیت انفعالیت کے برعکس فعال ہے اور اس کی تخلیقی لپک نے برصغیر کا تاریخی فکری اور ثقافتی نقشہ بدلنے میں مثبت کردار سر انجام دیا۔ ٭٭٭ رسالہ معارف اور اقبالؒ ڈاکٹر نجم الاسلام (۲) اس مضمون کا پہلا جزو1؎ جون ۱۹۷۷ء کے آغاز میں اشاعت کے لئے پیش کر دیا گیا تھا۔ اور اب ستمبر میں اضافے کی مہلت مل جانے پر مزید چند توضیحات پیش کی جاتی ہیں۔ مضمون کے جزو اول میں معارف کے شماروں کی مدد سے معارف اور اقبال کے روابط کا ایک جائزہ پیش کیا جا چکا ہے، اور اب اقبال کی تحریروں (مکتوبات) کی مدد سے چند توضیحات پیش کی جاتی ہیں تاکہ یہ جائزہ دو طرفہ ہو سکے اور جزو اول میں پیش کردہ معلومات پر مزید روشنی پڑ سکے۔ اقبال نامہ مرتبہ شیخ عطاء اللہ (مطبوعہ مرکنٹائل پریس لاہور، شائع کردہ شیخ محمد اشرف لاہور) میں اقبال کے سب سے زیادہ مکتوبات صاحب معارف (سید سلیمان ندوی) ہی کے نام ہیں جو ص ۷۵ سے ص ۲۰۰ تک درج ہیں اور جن کی تعداد ستر ہے۔ یہ سب یک نومبر ۱۹۱۶ء سے لے کر ۷ اگست ۱۹۳۶ء تک کے ہیں۔ ۱۹۲۶ء تک کے مکتوبات کی تعداد چالیس ہے اور چونکہ جزو اول کا جائزہ ۱۹۲۶ء تک کے معارف کے شماروں پر مشتمل ہے، اس لئے ذیل میں انہی چالیس مکتوبات کے منتخبات کی مدد سے اقبال اور رسالہ معارف کے روابط کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مقصود اقبال اور سید سلیمان ندوی کے عمومی روابط کا جائزہ نہیں بلکہ مدیر معارف کی حیثیت سے ان کے اور اقبال کے باہمی روابط کا مطالعہ ہے۔ جولائی ۱۹۱۶ء میں معارف کا پہلا شمارہ نکلا تھا، اور سید سلیمان ندوی کے نام اقبال کے مکتوبات میں پہلا یکم نومبر ۱۹۱۶ء کا مکتوب ہے۔ غالباً اس سے پہلے خط و کتابت کا رابطہ قائم نہیں ہوا تھا۔ اس کا آغاز معارف کے اجراء کے بعد ہی ہوا اور ممکن ہے کہ معارف ہی اس کا سبب بنا ہوا۔ ۱۲ نومبر ۱۹۱۶ء کے مکتوب میں اقبال نے سید سلیمان ندوی کو ان کی ایک غزل پر داد دی، بالخصوص اس شعر پر ہزار بار مجھے لے گیا ہے مقتل میں وہ ایک قطرۂ خوں جو رگ گلر میں ہے ۱۳ نومبر ۱۹۱۷ء کے مکتوب میں اقبال نے اول تصوف، غلوفی الزہد اور مسئلہ وہود سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور اخبار وکیل امرتسر میں شائع شدہ اپنے دو تین مضامین کا ذکر کیا ہے جن میں ’’ خیر القرون قرنی‘‘ والی حدیث سے متعلق بحث کی تھی اور آخر میں یہ لکھا ہے: ’’ انشاء اللہ معارف کے لئے کچھ نہ کچھ لکھوں گا، میری صحت بالعموم اچھی نہیں رہتی اس وسطے 1؎ یہ مضمون اقبال نمبر جلد اول میں آ چکا ہے۔ بہت کم لکھتا ہوں۔ مثنوی اسرار خودی کا دوسرا حصہ یعنی رموز بیخودی (اسرار حیات ملیہ اسلامیہ ) قریب الاختتام ہے شائع ہونے پر ارسال خدمت کروں گا‘‘ (ص۷۹) ۲۸ اپریل ۱۹۱۸ء کے مکتوب میں معارف سے اپنے لگاؤ کا اظہار ہے اور جواباً صاحب معارف کو لکھتے ہیں کہ ’’ رسالہ صوفی میں میں نے کوئی نظم شائع نہیں کی، کوئی پرانی مطبوعہ نظم انہوں نے شائع کر دی ہو گی ورنہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ میں صوفی کو معارف پر ترجیح دوں۔ معارف ایک ایسا رسالہ ہے جس کے پڑھنے سے حرارت ایمانی میں ترقی ہے میں انشاء اللہ ضرور آپ کے لئے کچھ لکھوں گا یہ وعدہ کچھ عرصہ ہوا میں نے آپ سے کیا تھا اور میں اس وقت تک پورا نہیں کر سکا۔‘‘ (ص ۸۰، ۸۷) اسی مکتوب میں رموز بیخودی کا ذکر ہے جو ریویو کے لئے صاحب معارف کو بھجوائی گئی تھی (’’ رموز بیخودی میں نے ہی آپ کی خدمت میں بھجوائی تھی۔ ریویو کے لئے سراپا سپاس ہوں‘‘ ص۸۰) اور اسرار خودی کا دوسرا ایڈیشن تیار کرنے کی اطلاع بھی ہے (’’ اسرار خودی کا دوسرا ایڈیشن تیار کر رہا ہوں۔ عنقریب آپ کی خدمت میں مرسل ہو گی۔‘‘ ص۸۰) اسی مکتوب میں یہ لکھ کر صاحب معارف کو زبردست خراج تحسین ادا کیا ہے کہ ’’ مولانا شبلی رحمتہ اللہ علیہ کے بعد آپ استاذ الکل ہیں، اقبال آپ کی تنقید سے مستفید ہو گا۔‘‘ (ص ۸۰) رموز بیخودی پر سید سلیمان ندوی کا مفصل تبصرہ اپریل ۱۹۱۸ء کے معارف میں نکلا تھا۔ جن کے خاص خاص نکات مضمون کے جزو اول میں پیش کئے جا چکے ہیں اسے دیکھنے کے بعد اقبال نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۰ مئی ۱۹۱۸ء میں مدیر معارف کو لکھا ہے: ’’ معارف میں بھی آپ کا ریویو (مثنوی رموز بیخودی پر) نظر سے گزرا ہے۔ جس کے لئے سراپا سپاس ہوں آپ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ میرے لئے سرمایہ افتخار ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ صحت الفاظ و محاورات کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا ہے۔ 1؎ ضرور صحیح ہو گا، لیکن اگر آپ ان لغزشوں کی طرف بھی توجہ فرماتے تو میرے لئے آپ کا ریویو زیادہ مفید ہوتا۔ اگر آپ نے غلط الفاظ و محاورات نوٹ کر رکھے ہیں تو مہربانی کر کے ان سے آگاہ کیجئے کہ دوسرے ایڈیشن میں ان کی اصلاح ہو جائے۔ غالباً آپ نے رموز بیخودی کے صفحات پر ہی نوٹ کئے ہوں گے۔ اگر ایسا ہو تو وہ کاپی ارسال فرما دیجئے، میں دوسری کاپی اس کے عوض میں آپ کی خدمت میں بھجوا دوں گا۔ اس تکلیف کو میں ایک احسان تصور کروں گا۔ ‘‘ (ص ۸۱۔ ۸۲) ۲۳ مئی ۱۹۱۸ء کے مکتوب میں اقبال نے سات اشعار کی ایک اردو غزل معارف میں اشاعت کے لئے درج کی ہے 1؎ مدیر معارف نے لکھا تھا کہ ’’ ایک بالغ نظر شخص اس مثنوی میں الفاظ کی صحت یا صحیح فارسی معنی میں ان کے استعمال کی صحت میں شک کر سکتا ہے لیکن اصل یہ ہے کہ اقبال کے شاعرانہ خیالات میں اتنی تیز روانی ہے کہ یہ خس و خاشاک اس کی خوبی و لطافت میں مزاحم نہیں ہو سکتے۔‘‘ اور تمہیداً مدیر معارف کو یہ لکھا ہے کہ ’’ چند اشعار معارف کے لئے ارسال خدمت ہیں ان میں سے جو پسند آئے اسے شائع کیجئے‘‘ (ص ۸۲) مدیر معارف نے ترانہ اقبال کے عنوان سے اس غزل کے سات کے سات اشعار بے کم و کاست جون ۱۹۱۸ء کے معارف میں شائع کئے۔ بعد کو یہ غزل (نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا) عنوان کی تبدیلی (بعنوان ’’ میں اور تو‘‘ ) ایک لفظی ترمیم اور دو اشعار کے اضافے کے ساتھ بانگ درا میں شامل ہوئی جیسا کہ جزو اول میں تصریح کی جا چکی ہے۔ ۸ دسمبر ۱۹۱۸ء کے مکتوب میں اقبال نے پھر یاد دہانی کی ضرورت محسوس کی تاکہ رموز بیخودی کی لغزشوں کی دوسرے ایڈیشن میں تصحیح کر سکیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ رموز بیخودی کی لغزشوں سے آگاہ کرنے کا وعدہ آپ نے کیا تھا، اب تو ایک ماہ سے بہت زیادہ عرصہ ہو گیا، امید کہ توجہ فرمائی جائے گی تاکہ میں دوسرے ایڈیشن میں آپ کے ارشادات سے مستفید ہو سکوں۔‘‘ (ص ۸۴) اسی مکتوب میں مصائب معارف کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ ’’ روس کے مسلمانوں کے متعلق جو مضمون معارف میں شائع ہوا ہے۔ 1؎ اسے علیحدہ رسالے کی صورت میں شائع کرنا چاہیے۔‘‘ (ص ۸۴) ۱۳ اکتوبر ۱۹۱۸ء کے مکتوب میں اقبال نے اسرار خودی کے قوانی، اصول تشبیہہ اور بعض فارسی تراکیب کے متعلق جواباً اپنی طرف سے کچھ صفائی پیش کی ہے اور بعض مبہم اعتراضات کے متعلق وضاحتیں طلب کی ہیں لیکن ان اعتراضات کا کوئی تعلق معارف سے نہیں۔ اسی طرح بعد کے متعدد مکتوبات میں بھی ایسی ہی دبی بحثیں ہیں جو نجی مکتوبات تک محدود ہیں معارف سے ان کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے ان سے صرف نظر کر کے ۲۳ مارچ ۱۹۱۹ء کے مکتوب کی طرف آئیے جس میں معارف میں شائع شدہ ایک مکتوب کے متعلق استفسار ہے جس کا اقتباس معارف بابت مارچ ۱۹۱۹ء کے ایک مضمون بعنوان ہمارے موجودہ نظربندان اسلام 2؎ میں شامل ہو کر چھپا تھا۔ اقبال نے اس مکتوب میں استفسار کیا ہے کہ ’’ معارف میں حضرت مولانا محمود الحسن 3؎ صاحب تبعہ کا ایک خط شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے طرفہ کا ایک مقبول عربی شعر نقل کیا ہے، آپ یہ بتانے کی زحمت گوارا کر سکتے ہیں کہ یہ خط ما بعد مالٹا سے کونسی تاریخ کو لکھا گیا تھا؟ صاحب مضمون نے خط کی تاریخ نہیں بتائی۔‘‘ (ص۹۹، ۱۰۰) ا س سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کس قدر تحقیقی مزاج رکھتے تھے اور عقد نتائج سے پہلے اطلاعات کی درستی اور قطعیت کا اطمینان کر لینے میں کس قدر اہتمام 1؎ یہ مضمون مسلمانان روس کے عنوان سے پانچ قسطوں میں عبدالسلام ندوی کے قلم سے نکلا تھا۔ تیسری قسط ’’ اسلام اور نصرانیت کی کشمکش روس میں‘‘ کے عنوان سے جولائی ۱۹۱۸ء میں نکلی تھی۔ چوتھی اور پانچویں قسطیں بالترتیب اگست اور ستمبر ۱۹۱۸ء کے معارف میں نکلیں۔ آخری قسط میں ۱۸۹۹ء تک کے تعلیمی حالات کا جائزہ ہے اور مسلمانوں کے مدارس میں روسی زبان کی تعلیم کے نفاذ اور اس کے اثرات کا تجزیہ بھی ملتا ہے۔ 2؎ یہ دراصل ’’ نظر بندان اسلام‘‘ کی تیسری قسط تھی جس میں اس وقت کے ممتاز نظر بندوں یعنی بالترتیب مولانا محمود الحسن، مولانا ابو الکلام آزاد، محترم محمد علی و محترم شوکت علی، سید حسرت موہانی اور مولوی محی الدین احمد قصوری کا تذکرہ ہے۔ اس زمانے میں مدیر معارف علی برادران کے نام کے ساتھ بالا لتزام محترم ہی لکھا کرتے تھے جو مسٹر کا اردو مترادف ہے۔ 3؎ مولینا صحیح نام محمود سن سے محمود الحسن لکھنا غلط ہے۔ (ادارہ) کرتے تھے جس کے لئے تعین سنین ضروری ہے۔ ۳ اپریل ۱۹۱۹ء کے مکتوب میں مولانا ابو الکلام آزاد کی رہائی پر اظہار مسرت بادہ نارسا کی ترکیب اور لفظ منیار سے متعلق کچھ تصریحات اور بانگ درا کی ترتیب میں تاخیر کے اسباب پر روشنی ڈالنے کے بعد مولانا گرامی جالندھری کی ایک فارسی غزل پنہانم و پیدانم کیفم بشراب اندر سات اشعار کی نقل کی ہے جو شاعر موصوف نے ڈاک سے اقبال کو ارسال کی تھی، اور لکھا ہے کہ اشعار پسند ہوں تو معارف میں شائع کیجئے 1؎ (ص ۱۰۲) ۲۶ اگست ۱۹۱۹ء کا مکتوب معارف میں تصوف و تناسخ پر ایک مضمون پڑھ کر لکھا ہے اور صراحت کی ہے کہ ’’ یہ ہندوستان ریویو میں بھی دیکھا تھا، خیر علمی اعتبار سے تو اس کی وقعت کچھ بھی نہیں، البتہ ایک بات آپ سے دریافت طلب ہے۔ ہم چو سبزہ بار ہارئیدہ ام کی نسبت آپ نے لکھا ہے کہ یہ مولانا کا شعر ہے۔ مجھے ایک عرصے سے اس میں تامل ہے۔ مثنوی کبھی شروع سے لے کر آخر تک پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا مگر اس قابل اعتبار بزرگ نے قریباً چار سال ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ یہ شعر مولانا کا نہیں ہے اور نہ مثنوی میں ہے، اگر مثنوی کے کسی ایڈیشن میں آپ کی نظر سے یہ شعر گذرا ہو تو مہربانی کر کے ایڈیشن اور صفحے کا حوالہ کر ممنون فرمائیے۔ (ص ۱۰۴) اقبال نامے کے مرتب نے اس سلسلے میں صراحت کی ہے کہ یہ شعر مولانا کی مثنوی میں نہیں مولانا کے کلیات میں ہے۔ معلوم نہیں، سید سلیمان ندوی نے اپنے جوابی مکتوب میں کیا لکھا ہو گا۔ لیکن کلیات (دیوان شمس تبریز) کے نول کشوری اور ایرانی ایڈیشن میں تو یہ شعر مل نہیں سکا اور تلاش کے باوجود مثنوی معنوی (طبع ایران) میں بھی نہیں ملا۔‘‘ ۱۷ ستمبر ۱۹۱۹ء کے مکتوب میں کچھ لکھنے کا وعدہ کیا ہے: ’’ انشاء اللہ معارف کے لئے کچھ نہ کچھ لکھوں گا کئی ماہ کے بعد صرف تین شعر کہے تھے نقیب (رسالہ نقیب بدایوں) کا عرصے سے تقاضا تھا، اس کے لئے بھیج دئیے میں تو اپنے اشعار کو چنداں وقعت نہیں دیتا، لیکن جب ایڈیٹر معارف ان کے لئے تقاضا کرتے ہیں تو شبہ ہوتا ہے کہ شاید ایسا ہی کچھ ہو ۔‘‘ (ص ۱۰۴، ۱۰۵) ۲۷ ستمبر ۱۹۱۹ء کے مکتوب میں چند اشعار اشاعت کے لئے پیش کر کے اقبال نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ یہ اشعار ایک فارسی شعر کی تضمین ہیں اور تحریک خلافت سے اقبال کے اختلاف کے آئینہ دار: بہت آزمایا ہے غیروں کو تو نے مگر آج ہے وقت خویش آزمائی نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا؟ خلافت کی کرنے لگا تو گدائی خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ دہ پادشائی ’’مرا از شکستن چنیں عار ناید کہ از دیگراں خواستن مومیائی‘‘ 1؎ یہ غزل کلام گرامی کے عنوان سے مئی ۱۹۱۹ء کے معارف میں مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کی فارسی غزل بعنوان ’’ سخن حبیب‘‘ کے بعد درج ہے۔ اقبال نے ان اشعار کے سلسلے میں صاحب معارف کو یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ عنوان ان اشعار کا آپ خود تجویز کر لیں اصل فارسی شعر میں دیگراں کی جگہ ناکساں ہے میں نے یہ لفظی تغیر ارادۃ کیا ہے۔‘‘ (ص ۱۰۶، ۱۰۷) اور جیسا کہ اس مضمون کے جزو اول میں آ چکا ہے، یہ اشعار اکتوبر ۱۹۱۹ء کے معارف میں مدیر معارف نے ’’ پولیٹکل گداگری‘‘ کا عنوان دے کر شائع کئے تھے اور غالباً ایک لفظی تغیر (پہلے شعر میں خویش کی جگہ خود) کے بھی وہی ذمے دار ہیں۔ اقبال نے اپنے مکتوب میں ’’ وقت خویش آزمائی‘‘ کی ترکیب استعمال کی تھی مگر معارف میں اس کی جگہ ’’ وقت خود آزمائی‘‘ ہے۔ بانگ درا سے پتا چلتا ہے کہ اقبال نے بعد میں عنوان بدل کر ’’ دریوزہ خلافت‘‘ کیا اور پہلا شعر بھی جس میں خویش آزمائی کی ترکیب تھی، بدل دیا۔ اسی مکتوب مورخہ ۲۷ ستمبر ۱۹۱۹ء میں تحریک خلافت کے بارے میں بعض نازک باتیں بھی ہیں جنہیں وہ اشاعت عام کے لئے موزوں نہیں سمجھتے تھے اور اسی لئے صاحب معارف کو لکھا ہے کہ اس خط کو پرائیویٹ تصور فرمائیے، لیکن اقبال نامے میں یہ خط موجود ہے اور اقبال نامے کے مولف کی نازک تر تشریحات کے ساتھ۔ اقبال نے لکھا ہے: ’’ مدت سے یہ بات میرے دل میں کھٹک رہی تھی۔۔۔ معلوم نہیں آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ واقعات صاف اور نمایاں ہیں مگر ہندوستان کے سادہ لوح مسلمان نہیں سمجھتے اور لندن کے شیعوں کے اشارے پر ناچتے چلے جاتے ہیں۔ افسوس مفصل عرض نہیں کر سکتا کہ زمانہ نازک ہے بہرحال اگر یہ اشعار آپ کو پسند نہ ہوں یا رسالہ معارف کے لئے آپ انہیں موزوں نہ تصور فرمائیں تو واپس بھیج دیجئے۔‘‘ (ص ۱۰۵۔ ۱۰۶) اس ذیل میں اقبال نامے کے مولف نے اپنے حاشیے میں صراحت کی ہے کہ اشارہ ہزہائی نس آغا خاں 1؎ کی طرف ہے مجلس خلافت کی بنیاد اسی طرح پڑی تھی یہ کہ آغا خاں نے منشی مشیر حسین صاحب قدوائی مرحوم کو آمادہ کیا اور انہوں نے مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محلی کو لکھ کر آمادہ کیا۔ (ص ۱۰۶) اسی مکتوب میں صاحب معارف کے ایک مضمون کی تعریف بھی کی ہے جو معارف میں چھپا تھا۔ اقبال نے لکھا ہے کہ ’’ مسئلہ تصویر پر آپ نے خوب لکھا اور اصول تشریعی واضح کر کے کئی اور مسائل کو باکنایہ حل کر دیا۔‘‘ (ص ۱۰۶) ۱۰ اکتوبر ۱۹۱۹ء کے مکتوب میں اپنے ارسال کردہ اشعار پر صاحب معارف کے تجویز کردہ عنوان (پولیٹیکل گداگری) کو یہ لکھ کر گوارا کیا ہے کہ ’’ عنوان جو آپ نے تجویز فرمایا ہے ٹھیک ہے‘‘ (ص ۱۰۷) لیکن جیسا کہ پہلے آ چکا ہے بانگ درا میں اس گنگا جمنی عنوان کی جگہ ’’ دریوزہ خلافت‘‘ درج ہے۔ اسی مکتوب میں صاحب معارف سے ’’ یاجوج ماجوج‘‘ پر کوئی مضمون لکھنے کی فرمائش 1؎ اقبال نے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ غالباً اشارہ جسٹس سید امیر علی کی طرف بھی ہے جو پریوی کاونسلر تھے۔ ان دونوں ممتاز رہنماؤں نے ترکوں کی طرف سے خلافت کے خاتمے کے موقعے پر بھی ۲۴ نومبر ۱۹۲۳ء کو عظمت پاشا کو ایک خط لکھ کر خلافت کو باقی رکھنے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ جس کی تعبیر و تشریح ترک رہنماؤں نے ترک عوام کے سامنے یہ کی تھی کہ حکومت برطانیہ اپنی مصلحتوں سے ایسا چاہتی تھی۔۔۔۔ بھی کی ہے اور اپنے فکر و فن کے بارے میں چند مفید تصریحات بھی کی ہیں۔ ۵ اکتوبر ۱۹۲۱ء کا مکتوب اقبال نے اسرار خودی پر ڈکنسن کے ریویو کے اردو ترجمے کے متعلق لکھا ہے جو ستمبر ۱۹۲۱ء کے معارف میں چھپا تھا۔ اقبال کے مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ مولانا عبدالماجد نے کیا تھا کیونکہ اقبال آخر میں معذرۃً یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’ مولوی عبدالماجد صاحب کا پتا معلوم نہ تھا،ا س واسطے آپ کو زحمت دی گئی۔‘‘ (ص ۱۱۵) اقبال نے اس اردو ترجمے کے سلسلے میں لکھا ہے کہ: ’’ ستمبر کا معارف ابھی نظر سے گزرا ہے اس میں مسٹر ڈکنسن کے ریویو (اسرار خودی) کا ترجمہ آپ نے شائع کیا ہے۔ ترجمہ مذکور کا ایک فقرہ یہ ہے اقبال ان تمام فلسفیوں کے دشمن ہیں جو شئے واجب الوجود کو تسلیم کرتے ہیں، صفحہ ۲۱۴ اگر آپ کے پاس رسالہ نیشن موجود ہو جس میں انگریزی ریویو شائع ہوا تھا، تو میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ مہربانی کر کے ایک آدھ روز کے لئے بھیج دیجئے مجھے ایسا خیال ہے کہ غالباً مذکورہ بالا فقرہ اس ریویو میں نہیں ہے یا اس کی جگہ کچھ اور ہے مقصود یہ معلوم کرنا ہے کہ کہیں ترجمے میں سہو تو نہیں ہو گیا۔‘‘ (ص ۱۱۴) اور اس کے بعد یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ کیا حکمائے صوفیہ اسلام میں سے کسی نے زمان و مکان کی حقیقت پر بھی بحث کی ہے؟ ۱۴ مئی ۱۹۲۲ء کے مکتوب میں جو اقبال نامے میں سہواً خلاف ترتیب تاریخ آتا ہے، اقبال نے اور باتوں کے علاوہ، خلافت کے موضوع پر صاحب معارف کے مضامین کو قابل قدر قرار دیا ہے اس کے بعد اپنی نظم خضر راہ معارف میں شائع کرنے کے سلسلے میں صاحب معارف کی فرمائش کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ’’ نظم خضر راہ جو انجمن کے سالانہ جلسے میں پڑھی تھی ایک علیحدہ کتاب کی صورت میں شائع ہو گئی تھی۔۔۔۔ ساری نظم کا اب چھپنا تو ٹھیک نہیں اور نہ اس قدر گنجائش معارف میں ہو گی، لیکن اگر کوئی بند آپ کو پسند آ جائے تو اسے چھپا دیجئے‘‘ (ص ۱۳۰، ۱۳۱ اور اسی مکتوب میں صاحب معارف کو یہ اطلاع بھی دی ہے کہ گوئٹے کے مغربی دیوان 1؎ کے جواب میں میں نے ایک مجموعہ فارسی اشعار کا لکھا ہے عنقریب شائع ہو گا۔ اس کے دیباچے میں یہ دکھانے کی کوشش کروں گا کہ فارسی لٹریچر نے جرمنی لٹریچر پر کیا اثر کیا ہے (ص ۱۳۱) اقبال کا اشارہ پیام مشرق کی طرف ہے ۔ ۲۹ مئی ۱۹۲۲ء کے مکتوب روسی مسلمان مصلح اور عالم مفتی عالم جان کے حالات معارف میں شائع کرنے پر تحسین ہے اور اس سلسلے میں مزید کلام کے لئے ایک تجویز بھی پیش کی ہے: ’’ میں آپ کو خط لکھنے والا تھا کہ مفتی عالم جان کے حالات معارف میں شائع کئے جائیں مسلم اسٹنڈرڈ لندن نے ان کے کچھ حالات شائع کئے تھے۔ آج کے معارف میں میری آرزو سے بڑھ کر مضمون لکھا گیا، جزاک اللہ معارف کا ایڈیٹر صاحب کشف نہ ہو گا تو اور کون ہو گا حال کے روسی علماء کی بعض تصانیف اسلام کے متعلق 1؎ اقبال نامے میں سہو کتابت سے مشرقی دیوان چھپ گیا ہے۔ اگر دستیاب ہو جائیں تو ان کا ترجمہ ہندوستان میں شائع ہونا چاہیے۔‘‘ (ص۱۱۸) اس کے بعد خضر راہ پر صاحب معارف کے نوٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جوش بیان کے متعلق رائے کو صحیح تسلیم کیا ہے اور بعض بند نظم سے نکال دینے کی اطلاع دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ خضر راہ کے متعلق جو نوٹ آپ نے لکھا اس کا شکریہ قبول فرمائیے۔ جوش بیان کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا صحیح ہے مگر یہ نقص اس نظم کے لئے ضروری تھا (کم از کم میرے خیال میں) جناب خضر کی پختہ کاری، ان کا تجربہ اور واقعات و حوادث عالم پر ان کی نظر، ان سب باتوں کے علاوہ ان کا انداز طبیعت جو سورۂ کہف سے معلوم ہوتا ہے اس بات کا مقتضی تھا کہ جوش اور تخیل کو ان کے ارشادات میں کم دخل ہو۔ اس نظم کے بعض بند میں نے خود نکال دئیے اور محض اس وجہ سے کہ ان کا جوش بیان بہت بڑھا ہوا تھا اورجناب خضر کے انداز طبیعت سے موافقت نہ رکھتا تھا۔ یہ بند اب کسی اور نظم کا حصہ بن جائیں گے۔‘‘ (ص ۱۱۶، ۱۱۹) ۵ جولائی ۱۹۲۲ء کے مکتوب میں پیام مشرق پر مدیر معارف کے نوٹ کا ذکر آتا ہے اور اسی ذیل میں نکلسن کے خط کا بھی ذکر ہے: ’’ پیام مشرق پر جو نوٹ آپ نے لکھا ہے، اس کے لئے سراپا سپاس ہوں، پروفیسر نکلسن کا خط بھی آیا ہے، انہوں نے اسے بہت پسند کیا ہے اور غالباً اس کا ترجمہ بھی کریں گے وہ لکھتے ہیں کہ یہ کتاب جدید اوریجنل خیالات سے مملو ہے اور گوئٹے کے دیوان مغربی کا قابل تحسین جواب ہے مگر میرے لیے آپ کی رائے پروفیسر نکلسن کی رائے سے زیادہ قابل افتخار ہے۔ ‘‘ (ص ۱۱۹۔ ۱۲۰) یکم فروری ۱۹۲۴ء کے مکتوب میں معارف سے اظہار تعلق کے بعد گرامی کے ایک شعر پر اپنی تلقین اشاعت کے لئے نقل کی ہے: ’’ میں نے چند نظمیں فارسی میں لکھی تھیں جو پیام مشرق کی دوسری ایڈیشن1؎ میں شامل کر دی گئیں۔ انہی نظموں میں سے ایک آپ کی خدمت میں ارسال کی گئی، ایک جامعہ ملیہ علی گڑھ کے لئے اور ایک علی گڑھ منتھلی کے لیے بھیجی گئی اور کسی جگہ کوئی نظم میں نے نہیں بھیجی۔ معارف مجھے خاص طور پر محبوب ہے اور بالخصوص آپ کے مضامین کے لیے کہ آپ کی نثر معانی سے معمور ہونے کے علاوہ لٹریری خوبیوں سے بھی مالا مال ہوتی ہے۔ مولینا گرامی کی غزل میں سن چکا ہوں اس کا ایک شعر مجھے خاص طور پر پسند آیا فقر راتر کمانئے ہم ہست اس شعر پر میں نے تضمین بھی کی تھی مگر پیام مشرق میں اس واسطے داخل نہ کی کہ اس کے اشعار کی بندش کچھ بھی پسند نہ آئی۔ اگر آپ کو پسند نہ ہو تو مجھے اشاعت میں کوئی عذر نہیں۔ عرض کرتا ہوں۔ سخنے راندہ کہ جز قرشی بہ سر مسند نبیؐ نہ نشست 1؎ اقبال نامے میں اسی طور سے ہے یعنی ’’ کی دوسری ایڈیشن‘‘ غالباً یہ سہو کتابت ہے کیونکہ دوسرے مقامات پر مثلاً ۲۸ اپریل ۱۹۱۸ء کے مکتوب میں اقبال تو مذکر ہی لکھا ہے اسرار خودی اک دوسرا ایڈیشن تیار کر رہا ہوں (ص ۸۰) درس گیر از گرامی ہمہ درو کہ برید از خود دبا و پیوست رم ترک خلافت عربی گفت آں می گسار بزم ست ماہ را ابر فلک دو نیم کند فقر را تر کمانئے ہم ہست‘‘ (ص ۱۲۶، ۱۲۷) مکتوب مورخہ یکم مئی ۱۹۲۴ء میں انہی روسی میں عالم، مفتی عالم جان کے بارے میں ایک استفسار آتا ہے جن کے حالات معارف میں چھپنے پر اپنے ۲۹ مئی ۱۹۲۲ء کے مکتوب میں تحسین کی تھی اور اب اقبال جاننا چاہتے تھے کہ مفتی عالم جان کی تحریک کی نوعیت کیا تھی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’ کیا روسی مسلمانوں میں بھی ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کے حالات(خیالات) کی اشاعت ہوئی تھی؟ اس کے متعلق آگاہی کی ضرورت ہے۔ مفتی عالم جان جن کا حال میں انتقال ہو گیا ہے ان کی تحریک کی اصل غایت کیا تھی؟ کیا یہ محض تعلیمی تحریک تھی یا اس کا مقصود ایک مذہبی انقلاب بھی تھا؟‘‘ (ص ۱۲۸، ۱۲۹) ۱۹ اگست ۱۹۱۴ء کے مکتوب میں مدیر معارف کو علامہ مشرقی کے تذکرے پر ریویو کے لئے متوجہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پنجاب میں ایک صاحب نے حال ہی میں قرآن کی تفسیر شائع کی ہے جس کا نام تذکرہ ہے کیا آپ کی نظر سے گزری ہے؟ کتاب اس قابل ہے کہ اس کا ریویو مفصل آپ کے قلم سے نکلے (ص ۱۳۶) اور اگلے مکتوب مورخہ ۵ ستمبر ۱۹۲۴ء میں مدیر معارف کو تذکرے کے مصنف کے بارے میں کچھ اطلاعات بہم پہنچائی ہیں اور اپنا خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’ مغربی افکار پر بھی ان کی نہایت سطحی ہے۔ باقی تفسیر قرآن و تاریخ اسلام کے متعلق آپ مجھ سے بہتر اندازہ کر سکتے ہیں ان کی کتاب کے متعلق یہاں عجیب و غریب افواہیں ہیں زبانی عرض کروں گا‘‘ (ص ۱۳۸) زبانی گفتگو کا موقع یوں نکل رہا تھا انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسے میں سید سلیمان ندوی کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی جیسا کہ اسی مکتوب میں اقبال نے لکھا ہے اور وہ چاہتے تھے کہ سید سلیمان ندوی لاہور آئیں اور انہی کے ہاں ٹھہریں۔ ۱۹۲۵ء کوئی مکتوب سید سلیمان ندوی کے نام اقبال نامے میں نہیں ملتا، البتہ ۱۹۲۶ء کے کئی مکتوبات ہیں اور ان میں سے ایک (مورخہ ۷ اپریل) ایسا ہے جس کا معارف سے بھی کچھ تعلق ہے۔ اس مکتوب میں اقبال نے اپنے ایک مضمون کے ترجمے کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ ترجمہ جو آپ نے ارسال کیا ہے افسوس ہے کہ وہ معارف کے قابل نہیں ہے میں نے یہ مضمون ان طلبہ کے لئے لکھا تھا جو اضافیت سے کسی قدر آشنا تھے اس واسطے مختصر لکھا مفصل لکھنے کے لئے نہ وقت تھا نہ ضرورت غالباً ایسے ریڈر کو اس سے کچھ فائدہ نہ پہنچے گا جو فلسفے کے بعض مسائل اور نظریہ اضافیہ سے آشنا نہیں ہے، بہرحال میں نے ایک صاحب سے کہا ہے کہ وہ اس کا اردو ترجمہ معارف کے لئے کر دیں وہ ترجمہ کریں گے پھر میں اسے دیکھ کر آپ کی خدمت میں ارسال کر دوں گا۔ جامعہ کا ترجمہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ قادیانیوں نے بھی ایک ترجمہ اس مضمون کا کیا تھا، مگر وہ بھی غلط تھا۔‘‘ (ص ۱۵۰، ۱۵۱) اس جائزے کو اب یہیں ختم کیا جاتا ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال کے دل میں معارف اور صاحب معارف کے لیے کس قدر جگہ تھی۔ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے اشعار اشاعت کے لیے دیتے تھے اور معارف کے بصیرت افروز مضامین اور تبصروں سے اپنی تخلیقات کے سلسلے میں مفید مشورے اخذ کرتے تھے بلکہ علت کے مسائل اور وقت کی ضرورتوں کی طرف معارف کو متوجہ کرتے رہتے تھے اور اس سلسلے میں معارف میں مفید مضامین یا تبصرے لکھوانے پر بھی انہیں آمادہ کرتے رہتے تھے۔ معارف میں شائع شدہ مفید مضامین پر اپنی رائے بھی کہی مکتوبات میں دی ہے، اس سے بھی ظاہر ہے کہ معارف کا مطالعہ کتنی دل چسپی اور توجہ سے کرتے تھے۔ (۳) مضمون کے جزو اول کی تحریر کے وقت معارف کے ابتدائی دور کے چند شمارے دستیاب نہیں ہو سکے تھے کیونکہ وہ زمانہ ملک میں زبردست سیاسی بحران کا تھا اور ان شماروں کی تلاش میں کہیں آنا جانا کرفیو کے نفاذ کے سبب ممکن نہ تھا۔ اس کمی کو جزو دوم میں اقبال کے مکتوبات نے پورا کر دیا کیونکہ ان شماروں کے ایسے قابل ذکر مندرجات سے متعلق اشارات جن سے معارف اور اقبال کے روابط پر روشنی پڑتی ہے اقبال کے مکتوبات میں موجود ہیں اور جزو دوم میں ان کا ذکر آ گیا ہے۔ ٭٭٭ بچوں کا اقبال عبدالقوی دسنوی: علامہ اقبال اردو کے ان خوش نصیب شاعروں میں ہیں جنہوں نے ادھر شاعری کی ابتداء کی، ادھر شہرت اور مقبولیت ان کے قدم چومنے لگی، اور وہ رفتہ رفتہ عزت، احترام اور ہر دلعزیزی کی اس منزل پر جا پہنچے جہاں اب تک اردو کے کسی دوسرے شاعر کی رسائی نہیں ہو سکی ہے، وہ خدا شناس تھے، کائنات کی حقیقت سے آگاہ تھے، آدم کے راز داں تھے، انسان دوست تھے، عاشق رسول تھے، اسی لیے پیغمبرانہ شان سے شاعری کی اور آدم خاکی کو اس کی عظمتوں سے آگاہ کر کے اسے اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی ترغیب دی، پوری شاعری کا مطالعہ کیجئے تو محسوس ہو گا کہ وہ ایسے انسان کامل کو وجود میں لانا چاہتے تھے جس کے کردار، گفتار، عزائم اور حوصلے کی وجہ سے اسے مرد مومن کا درجہ عطا ہو اور جو دنیا کے بنانے، سنوارنے اور نکھارنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکے، ان کی شاعری کے پیچھے ان کے احساسات تھرتھراتے ہیں، جذبات مچلتے ہیں، افکار جھلکتے ہیں اور وہ سب اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ اقبال ایک ایسی دنیا کی تخلیق کے خواہشمند تھے جو جنت نظری ہو او راس کے باشندے دلفریب ادا، دلنواز نگاہ اور قلیل امیدوں کے ساتھ عظیم مقاصد کے حاصل کرنے میں منہمک ہوں، اقبال کی شاعری کا بڑا حصہ ایسے ہی انسان کی تلاش میں نغمہ سرا ہے۔ اقبال کی شاعری کی انہیں خصوصیا تنے اردو دنیا کے اہل دل، اہل نظر اور صاحب فکر حضرات کو اپنی طرف متوجہ کیا، جنہوں نے ان کی شاعری سے اپنے قلب کو گرمایا، روح کو تڑپایا، نظر کو چمکایا اور ذہن کو صیقل کیا، اقبال کی اسی مقبولیت نے ہزاروں صاحب قلم کو ان کا گرویدہ بنا لیا، چنانچہ انہوں نے ان کی شاعری کی مختلف خصوصیات، مختلف پہلوؤں، مختلف امکانات کو جاننے کی اور مختلف سمتوں کو پہچاننے کی طرح طرح سے کوششیں کیں جن سے اقبال شناسی اور اقبالیئن کو بڑی مدد ملی۔ بے شک آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بتہ حد تک اقبال کو ڈھونڈ لیا ہے جان لیا ہے پہچان لیا ہے اور ان کی عظمتوں کو پا لیا ہے اس سلسلے میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں، ہزاروں مقالات سپرد قلم کئے گئے ہیں اور بھی یہ سلسلہ اور زیادہ زور و شور اور تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہے لیکن اب بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت سے پہلوؤں پر بہت زیادہ کام نہیں ہوا ہے۔ خاص طور سے اقبال کی ابتدائی شاعری کا پوری طرح سے جائزہ لینا ابھی باقی ہے، انہیں میں اقبال کی وہ شاعری بھی ہے جو انہوں نے محض بچوں کے لیے کی تھی اس طرح کی نظمیں اقبال نے بہت زیادہ نہیں کہی ہیں۔ ’’بانگ درا‘‘ کے پہلے حصہ میں کل نو نظمیں ہیں، جن میں ’’ ایک مکڑا اور مکھی‘‘ ’’ ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ ایک گائے اوربکری ’’ ہمدردی‘‘ ،’’ ماں کا خواب‘‘ پرندے کی فریاد، بچے کی دعا، بچوں کے لیے ہیں ایک پرندہ اور جگنو اگرچہ اس پر ’’ بچوں کے لیے‘‘ لکھا ہوا نہیں ہے لیکن بچوں کے لیے ہے اور اسی لیے بچوں کی درسی کتابوں میں اسے درج کیا جاتا رہا ہے۔ ’’ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ بھی بچوں کے لیے ہی ہے۔ بچوں کے حصے میں اقبال سے بس یہی کچھ ملا ہے۔ ان کے علاوہ ’’ عہد طفلی‘‘ بچہ اور شمع اور ’’ طفل شیر خوار‘‘ کے مطالعہ سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال کو بچوں سے یا بچپن سے کس قدر گہرا لگاؤ تھا۔ اور بچپن کا زمانہ کس قدر عزیز تھا۔ ان تمام نظموں کا تعلق اقبال کی شاعری کے پہلے دور سے ہے یعنی یہ ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۵ء کے دوران میں لکھی گئی ہیں۔ اس کے بعد اقبال نے بچوں کی طرف پھر کبھی توجہ نہیں کی البتہ نوجوانوں کی رہنمائی کرتے رہے اور انسان کامل جستجو میں کھو گئے۔ اردو میں بچوں کا ادب توجہ طلب ہے، خاص طور سے شعراء نے اس طرف بہت کم توجہ کی ہے اقبال سے پہلے نظیر اکبر آبادی، مرزا غالب، الطاف حسین حالی، محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد وغیرہ نے اس طرف توجہ کی تھی، پھر اسمعیل میرٹھی نے بچوں کے ادب کے سلسلے میں بڑا نام پیدا کیا۔ اکبر الٰہ آبادی نے بھی بچوں کو یاد رکھا، اقبال کے ہمعصروں میں مولانا محوی صدیقی، مولانا شفیع الدین نیر اور حامد اللہ افسر وغیرہ نے بھی بچوں کے ادب میں کافی اضافہ کیا، اس لیے بچوں کے ادب کے سلسلے میں بھی ان حضرات کا نام برابر لیا جائے گا۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال نے بچوں کو بہت کچھ نہیں دیا، لیکن جتنا کچھ دیا ہے ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کو اگرچہ بچپن کا زمانہ بہت عزیز رہا ہے لیکن حالات نے اس کی طرف توجہ کرنے کا موقع بالکل نہیں دیا۔ ان کی دو تین نظمیں ایسی ملتی ہیں جن میں بچپن کا ذکر نہایت دلچسپی کے ساتھ کیا گیا ہے جن کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کی بچوں اور ان کی نفسیات پر کتنی گہری نظر تھی، اس سلسلے کی پہلی نظم ’’ عہد طفلی1؎‘‘ ہے جو پہلی بار جولائی ۱۹۰۱ء میں مخزن لاہور میں شائع ہوئی تھی اور جسے مولوی عبدالرزاق نے اپنی مرتبہ کلیات اقبال میں شامل کر لیا تھا، اس میں کل پانچ بند یعنی پندرہ شعر تھے۔ بانگ درا میں شائع کرتے وقت علامہ نے اس کے کل دو بند (تیسرا اور چوتھا) یعنی چھ شعر انتخاب کئے تھے اور اس کے بعد بعض مصرعوں میں اصلاح کر دی تھی، ملاحظہ کیجئے: تیسرے بند کا چوتھا مصرعہ پہلے یوں تھا: خالی از مفہوم خود میری زباں لیے (کلیات اقبال، ص ۱۲۳) بانگ درا میں اقبال نے اسے اس طرح کر دیا ہے: حرف بے مطلب تھی خود میری زباں، میرے لیے (بانگ درا ص۸) تیسرے بند کا پانچواں مصرعہ اس طرح تھا: درد اس عالم میں جب کوئی رلاتا تھا مجھے (کلیات اقبال ص ۱۲۳) بانگ درا میں اس طرح ہے: 1؎کلیات اقبال مرتبہ مولوی محمد عبدالرزاق ص ۱۲۲ دور طفلی میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے (بانگ درا ص۸) چوتھے بند کا چھٹا مصرعہ اس طرح تھا: دل مرا جام شراب ذوق استفسار تھا (کلیات اقبال ص ۱۲۳) بانگ درا میں اصلاح کے بعد اس طرح ہے: دل نہ تھا میرا سراپا ذوق استفسار تھا (بانگ درا ص۸) حذف شدہ ابتدائی دو بند یہ ہیں: ہاں اٹھا اے ساحر ایام یہ جادو ذرا ابلتی گردوں نہ ہو محو دم آہو ذرا ہائے پھر آ جا کہیں سے عمر رفتہ تو ذرا لا وہ نظارہ پے جسم تماشا جو ذرا خون رلواتے ہیں ایام جوانی کے مزے لا کہیں سے پھر وہی ایام طفلی کے مزے ہائے وہ عالم کہ عالمگیر تھی اپنی ادا غیرت صد فصل گل تھی اپنے گلشن کی ہوا مکتب طفلی میں غیر از درس آزادی نہ تھا زنگ افکار جہاں سے شیشہ دل تھا صفا مایہ دار صد مسرت اک تبسم تھا مرا گوش دل لگ جائیں جس پر وہ تکلم تھا مرا آخری بند یہ ہے: آہ اے دنیا نمک پاش خراش دل ہے تو جس کے ہر دانے میں سو بجلی ہے وہ حاصل ہے تو جو مسافر سے پرے رہتی ہے وہ منزل ہے تو جس کی لیلیٰ مایہ وحشت ہو وہ محمل ہے تو میرے ہاتھوں کوئی جویائے مے تسکین نہ ہو ایمن از مار زمین گلستاں گلچیں نہ ہو (کلیات اقبال ص ۱۲۲۔ ۱۲۳) پوری نظم کچھ اس طرح ارتقائی منزل طے کرتی ہے۔ پہلے بند میں ’’ ساحر ایام‘‘ سے مخاطب ہو کر’’ عمر رفتہ‘‘ کویاہ کرتے ہیں اور اس نظارہ کی آرزو کرتے ہوئے کہتے ہیں: خون رلواتے ہیں ایام جوانی کے مزے لا کہیں سے پھر وہی ایام طفلی کے مزے دوسرے، تیسرے اور چوتھے بند میں بچپن کیا ہے اور معصوم بچہ کیا ہوتا ہے اس کی نہایت دلکش تصویریں پیش کی گئی ہیں جن میں بچے کی معصومیت، اس کی بھولی بھالی ادائیں، اس کا رونا، اس کا ہنسنا مسکرانا، حیرت زدہ ہونا، بہل جانا وغیرہ کے حسین پیکر تراشے گئے ہیں، ان کے مطالعہ سے قاری کو بچپن کی یاد بھی آتی ہے او ربچے کے لیے پیار کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے، ملاحظہ کیجئے کیسی کیسی تصویریں نگاہوںکے سامنے سے گزر جاتی ہیں: مکتب طفلی میں غیر از درس آزادی نہ تھا وسعت آغوش مادر ایک جہاں میرے لیے تکتے رہنا ہائے وہ پہروں تلک سوئے قمر اور وہ حیرت دروغ مصلحت آمیز پر مایہ دار صد مسرت اک تبسم تھا مرا گوش دل لگ جائیں جس پر وہ تکلم تھا مرا درد اس عالم میں جب کوئی رلاتا تھا مجھے شورش زنجیر در میں لطف آتا تھا مجھے اور آخری بند میں شاعر نے دنیا اور اس کی پریشانیوں کا نہایت غمگین لہجے کے ساتھ اظہار کیا ہے۔ اس نظم کی زبان سادہ اور سلیس ہونے کے بجائے مشکل ہے۔ خیالات میں اگرچہ پیچیدگی نہیں ہے لیکن روانی بھی نہیں ہے ان میں سے بانگ درا کے لیے جو دو بند منتخب ہوئے ہیں وہ یقینا اچھے ہیں ، جن میں ’’ عہد طفلی‘‘ کو مختصر طور سے پیش کرنے میں یقینا کامیابی ہوئی ہے۔ ٭٭٭ دوسری نظم ’’ طفل شیر خوار‘‘ ہے جو ستمبر ۱۹۰۵ء میں مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ ’’ کلیات اقبال1؎‘‘ میں انیس شعر پر مشتمل ہے،بانگ درا میں آٹھ شعر حذف کر دیے گئے ہیں اور گیارہ شعر کا انتخاب کیا گیا ہے، دو شعر میں اصلاح ہے، ملاحظہ کیجئے: اصلاح شدہ اشعار: میں نے چاقو تجھ سے چھینا ہے تو چلاتا ہے تو مہرباں ہوں مگر، مجھے نامہرباناں سمجھا ہے تو (کلیات ص ۴۰) تیرا آئینہ تھا آزاد غیار آرزو آنکھ کھلتے ہی، وصل ہستی سے چمک اٹھا شرار آرزو (کلیات ص۴۱) حذف شدہ اشعار: ایسی چیزوں کو جو سمجھا ہے سامان خوشی کیا کسی دکھ درد کے مکتب کی ابجد ہے یہی درد سے اے نوا سیر حلقہ گرداب درد ہو تو جائے گی تجھے آگاہی اسباب درد اس چمکتی چیز کی خاطر یہ بے تابی ہے کیا اب سیاہی کے گرانے کی تجھے سوجھی ہے کیا 1؎ کلیات اقبال مرتبہ محمد عبدالرزاق ص ۴۰ ہے تجھے کچھ فرش پر اس کو گرانے میں مزا ٹوٹ جائے آئینہ مرا تجھے پروا ہے کیا تالیوں کا ہو کوئی گچھا کہ سونے کی گھڑی مل گئی جو شے تجھے تیرا کھلونا بن گئی جو تیری آنکھوں کے آگے ہو، ہوس انگیز ہے یعنی ہر شے قوسن ادراک کو مہمیز ہے پھوٹتی ہے فصل گل کی جس طرح پہلے کلی منہ پہ ڈالے سبز پتے کی نقاب عارضی یوں تیرے ہنسنے سے دل میں ہے تمنا کی نمود اے گل نشگفتہ صحن چمن زار وجود (کلیات ص ۴۰۔ ۴۱) اس نظم میں شاعر بچے سے سوال کرتے ہوئے اس کی طبیعت کی سادگی اور مزاج کی معصومیت پر روشنی ڈالتا ہے وہ اس سے پوچھتا ہے کہ کیا سبب ہے کہ تجھ سے چاقو چھینتا ہوں تو تو روتا ہے اور اپنے مہربان کو نامہربان متصور کرتا ہے،حالانکہ اس طرح کی چیزیں خطرناک ہوتی ہیں: میں نے چاقو سے چھینا ہے تو چلاتا ہے تو مہرباں ہوں میں مجھے نا مہرباں سمجھا ہے تو بچہ قلم کے لیے جب ضد کرتا ہے تو شاعر کہتا ہیـ: پھر پڑا روئے گا اے نو وارد اقلیم غم چبھ نہ جائے دیکھنا باریک ہے نوک قلم اور کس سادگی سے مشورہ دیتا ہے: آہ کیوں دکھ دینے والی شے سے تجھ کو پیار ہے کھیل اس کاغذ کے ٹکڑے سے یہ بے آزار ہے اس چمکتی چیز کی خاطر یہ بے تابی ہے کیا اب سیاہی کے گرانے کی تجھے سوجھی ہے کیا اور پھر سوال کرتا ہے: گیند ہے تیری کہاں چھینی کی بلی ہے کدھر وہ ذرا سا جانور ٹوٹا ہوا ہے جس کا سر بچہ جب آئینہ لیتا ہے تو شاعر کو اس کے ٹوٹنے کا خوف پیدا ہوتا ہے: ہے تجھے کچھ فرش پر اس کو گرانے میں مزا ٹوٹ جائے آئینہ میرا تجھے پروا ہے کیا ذیل کے اشعار میں بچوں کی فطرت کی کس قدر اچھی ترجمانی ملتی ہے: تالیوں کا ہو کوئی گچھا کہ سونے کی گھڑی مل گئی جو شے تجھے تیرا کھلونا بن گئی جب کسی شے پر بگڑ کر مجھ سے چلاتا ہے تو کیا تماشا ہے ردی کاغذ سے من جاتا ہے تو اور آخری چار شعر میں شاعر بچے کی خصوصیات بتاتے ہوئے اپنے آپ کو اس جیسا بتاتا ہے: آہ اس عادت میں ہم آہنگ ہوں میں بھی ترا تو تلون آشنا میں بھی تلون آشنا عارضی لذت کا شیدائی ہوں چلاتا ہوں میں جلد آ جاتا ہے غصہ جلد من جاتا ہوں میں میری آنکھ کو لبھا لیتا ہے حسن ظاہری کم نہیں کچھ تیری نادانی سے نادانی میری تیری صورت گاہ گریاں گاہ خنداں میں بھی ہوں دیکھنے کو نوجوان ہوں، طفل ناداں میں بھی ہوں اس طرح یہ نظم بچوں کے مزاج کی ترجمانی کرتی ہوئی اپنی سادہ بیانی کے ساتھ تکمیل کو پہنچتی ہے۔ ٭٭٭ اقبال کی ایک اور نظم ’’ بچہ اور شمع1؎‘‘ مخزن لاہور ستمبر ۱۹۰۵ء میں شائع ہوئی تھی جو تین بند پر مشتمل ہے اشعار کی تعداد پندرہ ہے بانگ درا میں ایک شعر کی اصلاح کر دی گئی ہے: محفل قدرت ہے اک دریائے بے پایان حسن دیکھتی ہے آنکھ ہر قطرے میں ہا طوفان حسن بانگ درا میں دوسرا مصرعہ اس طرح تبدیل کر دیا گیا ہے: محفل قدرت ہے اک دریائے بے پایان حسن آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفان حسن پہلا بند تین شعر پر مشتمل ہے جس میں شاعر بچہ سے جو شمع کی روشنی کو گھور کر دیکھتا ہے یوں سوال کرتا ہے: روشنی سے کیا بغلگیری ہے تیرا مدعا یہ کسی دیکھی ہوئی شے کی مگر پہچان ہے دوسرا بند چار شعر پر مشتمل ہے جس میں علامہ اقبال ’’ بچہ اور شمع‘‘ پر نہایت فلسفیانہ انداز سے روشنی ڈالتے ہیں کہ شمع تو صرف ایک شعلہ ہے لیکن تو مجسم نور ہے قدرت نے اسے ظاہر کر دیا ہے اور تجھے (بچہ) پوشیدہ رکھا ہے اور پھر آخری شعر میں زندگی کے راز کو اس طرح فاش کرتے ہیں: زندگانی جس کو کہتے ہیں فراموشی ہے یہ خواب ہے غفلت ہے سرمستی ہے بیہوشی ہے یہ اور آخری بند میں بتاتے ہیں کہ دنیا کی محفل بے پایاں حسن میں ڈوبی ہوئی ہے، ہر جگہ حسن ہی حسن ہے، کوہستان کی ہیبت ناک خاموشی میں، سوچ کی چمک میں، رات کی تاریکی میں، آسمان کی آئینہ پوشی میں، شام کی تاریکی اور شفق کی گل فروشی میں، 1؎ کلیات اقبال مرتبہ مولوی محمد عبدالرزاق ص ۱۳۱ عظمت دیرینہ کے مٹتے ہوئے آثار میں، طفلک نا آشنا کی کوشش گفتار میں، ساکنان گلشن کی ہم آوازی میں، پہاڑوں کے چشمے میں، دریا کی آزادی میں، شہروں میں، ویرانوں میں، لیکن اس کے باوجود روح کو تسکین نہیں ہوتی بلکہ اس کی صورت ماہی بے آب کی ہے۔ روح کو لیکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثل جرس حسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بیتاب ہے زندگی اس کی مثال ماہی بے آب ہے مندرجہ بالا تین نظموں کی روشنی میں یہ بات بہت صاف ہو جاتی ہے کہ علامہ کو بچپن کی زندگی سے کتنا تعلق رہا ہے وہ بچپن کو کن کن زاویوں سے دیکھتے ہیں اور ان سے کیا کیا نتائج اخذ کرتے ہیں جن سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ا س موضوع پر بھی علامہ اقبال کے یہاں فلسفیانہ فکر و نظر کی کار فرمائی تھی۔ یہ تینوں نظمیں علامہ اقبال کی ابتدائی زندگی کی ہی تخلیق کردہ ہیں۔ بچوں کے لیے ایک مکڑا اور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری، ہمدردی، ماں کا خواب، ایک پرندہ اور جگنو، پرندے کی فریاد سات نظمیں ہیں جن میں پہلی چھ نظمیں ماخوذ ہیں۔ یہ نظمیں ہلکی، سادہ اور سلیس زبان میں ہیں، جن میں ایسی کہانیاں پیش کی گئی ہیں جو بچوں کے لیے بہت سبق آموز ہیں۔ ’’ ایک مکڑا اور مکھی1؎‘‘ بتیس اشعار پر مشتمل ہے۔ بانگ درا میں مندرجہ ذیل شعر زیادہ ہے: انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں سچ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا یہ نظم Mary How itt کی The Spider and the Fly سے ماخوذ ہے جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دشمن کی خوشامدانہ بات میںہرگز نہیں آنا چاہئے زبان نہایت رواں اور عام فہم ہے مکڑا اور مکھی کی گفتگو کی مدد سے پوری کہانی تیار کی گئی ہے۔ ٭٭٭ دوسری نظم ’’ ایک پہاڑ اور گلہری2؎‘‘ امریکہ کے مشہور شاعر R.W Emerson کی مشہور نظم The Mountain and the Squirrelسے ماخوذ ہے جس میں کل بارہ اشعار ہیں۔ پہاڑ نہایت تکبر سے گلہری سے کہتا ہے کہ ’’ تو نہایت کم درجہ چیز ہو کر اس قدر غرور میں مبتلا ہے، میری شان کے آگے تیری حقیقت کیا ہے۔‘‘ کہاں پہاڑ کہاں غریب گلہری، جواب میں گلہری نے کہا کہ اگر تو بڑا ہے تو کیا میں درخت پر چڑھنا جانتی ہوں، تو اس صلاحیت سے محروم ہے تو ذرا چھالیا کتر کر بتا، اگر میں تیری طرح بڑی نہیں ہوں تو تو بھی میری طرح چھوٹا نہیں۔ پہلے بند میں پہاڑ کی گفتگو ہوتی ہے دوسرا بند گلہری کے جواب پر مشتمل ہے جو مندرجہ ذیل شعر پر نصیحت کے ساتھ ختم ہوتا ہے اور اپنا ایک ہلکا سا تاثر چھوڑ جاتا ہے۔ 1؎ کلیات اقبال مرتبہ محمد عبدالرزاق ص ۹۱ 2؎ ایضاً ص ۱۰۹ نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں ٭٭٭ ’’ ایک گائے اور بکری1؎‘‘ انیس اشعار پر پھیلی ہوئی نظم ہے جو Jane tatler کی مشہور نظم The cow and the assسے ماخوذ ہے۔ اس نظم کے بارے میں ڈاکٹر اکبر حسین قریشی کا کہنا ہے: ’’ ۔۔۔۔۔ نہ صرف ماخوذ ہے بلکہ اس کا کامیاب ترجمہ بھی ہے۔ جین ٹیلر کے ہاں نظم کا عنوان نظم کے مرکزی خیال کے مطابق صحیح معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ گدھا انسان کی کائنات میں مظلوم ترین مخلوق ہے اور اگر وہ اس کے باوجود انسان میں کوئی خیر کا پہلو دیکھ سکتا ہے تو اس سے شاعر کے انسانی خیر کے عقیدے کا ثبوت ملتا ہے البتہ یہ ضرور کہ اقبال نے نہ صرف نظم کے ماحول کو مقامی رنگ دینے کی کامیاب کوشش کی ہے بلکہ مقامی روایات کا احترام کرتے ہوئے نظم کا عنوان بھی بدل دیا ہے۔ 2؎‘‘ نظم کی ابتداء ایک خوبصورت منظر سے اس طرح ہوتی ہے: ایک چراگاہ ہری بھری تھی کہیں تھی سراپا بہار جس کی زمیں کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں ہر طرف صاف ندیاں تھیں رواں تھے اناروں کے بے شمار درخت اور پیپل کے سایہ دار درخت ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں طائروں کی صدائیں آتی تھیں اسی مقام پر: کسی ندی کے پاس اک بکری چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی جب ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھا پاس اک گائے کو کھڑے پایا پہلے جھک کر اسے سلام کیا پھر سلیقے سے یوں کلام کیا کیوں بڑی بی مزاج کیسے ہیں گائے بولی کہ خیر اچھے ہیں پھر گائے اپنی بھل بری زندگی او رپریشانی کو بیان کرتے ہوئے ’’ آدمی‘‘ کی شکایت کرتی ہے۔ آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے اس سے پالا پڑے خدا نہ کرے دودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے ہوں جو دبلی تو بیچ کھاتا ہے بکری نہایت سمجھ دار اور سوجھ بوجھ والی تھی سنجیدگی سے جواب دیتی ہے: 1؎ کلیات اقبال مرتبہ مولوی محمد عبدالرزاق ص ۹۴ 2؎ سہ ماہی اردو کراچی جنوری ۱۹۶۶ء ص ۶۷ یہ چراکہ یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا یہ ہری گھاس اور یہ سایا ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں یہ کہاں بے زباں غریب کہاں یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں لطف سارے اسی کے دم سے ہیں اس کے دم سے ہے اپنی آبادی قید ہم کو بھلی، کہ آزادی؟ اس نظم کے ذریعہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نیکی کرنے والوں کا احسان ضرور ماننا چاہیے، نظم کی زبان نہایت پاکیزہ، رواں دواں اور سلیس ہے کہانی دو کردار (گائے اور بکری) کے سہارے آگے بڑھتی اور اختتام تک پہنچتی ہے، گفتگو کی ابتداء بکری یہ پوچھتے ہوئے کرتی ہے، ’’کیوں بڑی بی! مزاج کیسے ہیں؟‘‘ اور انتہا گائے کے اس اقرار پر ہوتی ہے۔ گائے سن کر یہ بات شرمائی آدمی کے گلے سے پچتائی دل میں پرکھا بھلا برا اس نے اور کچھ سوچ کر کہا اس نے یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی دل کو لگتی ہے بات بکری کی ٭٭٭ ’’ ہمدردی1؎‘‘ یہ مختصر نظم انگلستان کے مقبول شاعر ’’ ولیم کوپر‘‘ کی نظم سے ماخوذ ہے، جو کل آٹھ اشعار پر مشتمل ہے، جس میں بلبل کی پریشانی دیکھ کر کہ وہ اندھیری رات میں کیسے آشیانے تک پہنچ گئی۔ جگنو اپنی خدمات پیش کرتا ہے: حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری میں راہ میں روشنی کروں گا اور آخری شعر میں وہ کام کی بات اس طرح کہہ جاتا ہے: ہیں لوگ جہاں میں وہی اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے اس طرح اس مختصر نظم کے ذریعہ شاعر بچوں کے دلوں میں دوسروں کے لیے کام آنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب اس لیے ہے کہ جگنو کے ذریعہ جو بات کہی گئی ہے وہ دلوں میں اترتی نظر آتی ہے یہاں بھی زبان نہایت سادہ ہے۔ ٭٭٭ ’’ ماں کا خواب‘‘ کلیات اقبال میں ’’ ماں اور بچہ2؎‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جس میں کل پندرہ اشعار ہیں۔ یہ نظم بھی ماخوذ ہے جس میں ماں خواب میں دیکھتی ہے کہ لڑکوں کی ایک قطار ہے جس میں تمام بچے زمرد کی طرح پوشاک پہنے ہوئے ہیں اور 1؎ کلیات اقبال مرتبہ مولوی محمد عبدالرزاق ص ۹۰ 2؎ ایضاً ص ۹۲ اپنے ہاتھوں میں دیے لیے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ بچوں کی اس قطار میں اس کا اپنا بچہ بھی ہے لیکن وہ سب سے پیچھے ہے اور اس کا ہاتھ کا دیا جل نہیں رہا ہے۔ ماں نے اپنے بچے کو دیکھ کر پہچان لیا اور اس سے شکایت کرتی ہے: مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں! اور اپنی حالت بتاتی ہے: جدائی میں رہتی ہوں میں بیقرار پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار بچے نے ماں کا پیچ و تاب دیکھ کر منہ پھیر لیا اور کہا: رلاتی ہے تجھ کو جدائی مری نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چپ رہا دیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا سمجھتی ہے تو ہو گیا کیا اسے؟ تیرے آنسوؤں نے بجھایا اسے! ہلکی پھلکی زبان میں یہ نظم بھی بچوں کو آسانی سے سمجھ میں آ جانے والی ہے لیکن اس کا موضوع بچوں کے لیے نہیں ہے بلکہ ان ماؤں کے لیے جو اپنے بچوں کے انتقال پر بہت روتی ہیں اور آنسوؤں کا سیلاب بہاتی ہیں اس نظم کے ذریعہ انہیں رونے سے روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ٭٭٭ ’’ پرندے کی فریاد‘‘ کلیات اقبال میں ’’ ایک پرندے1؎ کی فریاد‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جس میں کل بیس اشعار ہیں جو پانچ بند پر منقسم ہیں۔ بانگ درا میں اس سے گیارہ اشعار انتخاب کئے گئے ہیں جن میں بعض اشعار میں معمولی اصلاح کر دی گئی ہے لیکن ایک مصرعہ بہت زیادہ تبدیل ہو گیا ہے، ملاحظہ کیجئے: کلیات اقبالـ: لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد مجھ کو شبنم کا صبح آ کر پھولوں کا منہ دھلانا بانگ درا: لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد مجھ کو شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا اور کلیات اقبال میں درج پہلے شعر کا پہلا مصرعہ اور دوسرے شعر کا دوسرا مصرعہ لے کر ایک نیا شعر بنایا گیا ہے: 1؎ کلیات اقبال مرتبہ مولوی محمد عبدالرزاق ص ۹۲ آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا حذف شدہ اشعار یا مصرعے یہ ہیں: وہ جھاڑیاں چمن کی وہ میرا آشیانہ (پہلے شعر کا دوسرا مصرعہ) وہ ساتھ سب کے اڑنا وہ سیر آسماں کی (دوسرے شعر کا پہلا مصرعہ) پتوضں کا ٹہنیوں پر وہ جھومنا خوشی میں ٹھنڈی ہوا کے پیچھے وہ تالیاں بجانا تڑپا رہی ہے مجھ کو رہ رہ کے یاد اس کی تقدیر میں لکھا تھا پنجرے کا آب و دانا باغوں میں بسنے والے خوشیاں منا رہے ہیں میں دل جلا اکیلا دکھ میں کراہتا ہوں ارمان ہے یہ جی میں اڑ کر چمن کو جاؤں ٹہنی پہ گل کے بیٹھوں آزاد ہو کے گاؤں بیری کی شاخ پر ہو ویسا ہی پھر بسیرا اس اجڑے گھونسلے کو پھر جا کے میں بساؤں چگتا پھروں چمن میں دانے ذرا ذرا سے ساتھی جو ہیں پرانے ان سے ملوں ملاؤں پھروں پھریں ہمارے پھر سیر جو وطن کی اڑتے پھریں خوشی سے کھائیں ہوا چمن کی آزاد جس نے رہ کر دن اپنے ہوں گزارے اس کو بھلا قبر کیا، یہ قید کیا بلا ہے یہ نظم اگرچہ قیدی پرندے کی زباں سے فریاد کی صورت میں ہے اور بظاہر بچوں کے لیے ہے لیکن اس کا مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غلام ہندوستانیوں کو ان کی غلامانہ زندگی کا احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔ عجیب رنج و غم، سوز و گداز، بے بسی اور بے کسی کی کیفیت پائی جاتی ہے: آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی اپنی خوشی سے جانا، اپنی خوشی سے آنا لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم شبنم کا صبح آ کر پھولوں کا منہ دھلانا اس قید کا الٰہی دکھڑا کسے سناؤں ڈر ہے یہی قفس میں میں غم سے مر نہ جاؤں آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے ٭٭٭ اس سلسلے کی آخری نظم ’’ ایک پرندہ1؎ اور جگنو‘‘ ہے جس کے بارے میں کلیات اقبال میں درج ہے: 1؎ کلیات اقبال مرتبہ مولوی محمد عبدالرزاق ص ۱۲۳ ’’ یہ نظم انگلستان کے ایک نازک خیال شاعر ولیم کوپر کی ایک مشہور مقبول نظم ’’ اے نائٹ اینگل اینڈ گلو ورم‘‘ سے ماخوذ ہے۔ بچوں کی اکثر درسی کتابوں میں درج کی جاتی ہے کہ یہاں نقل کا پایہ اصل سے بھی بلند و بالا ہو گیا ہے۔‘‘ اس نظم میں کل بارہ اشعار ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ سر شام ایک ٹہنی پر ایک مرغ بیٹھا گا رہا تھا، اس کی نظر جگنو پر پڑی، وہ اسے اپنی چونچ میں لینے کے لیے فوراً اڑا، تو جگنو نے نہایت سچی اور اچھی بات کہی جس میں حمد کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے: کہا جگنو نے او مرغ نوا ریز نہ کر بیکس پہ منقار ہوس تیز تجھے جس نے چہک گل کو مہک دی اسی اللہ نے مجھ کو چمک دی اور: پروں کو میرے قدرت نے ضیا دی تجھے اس نے صدائے دلربا دی چمک بخشی مجھے آواز تجھ کو دیا ہے سوز مجھ کو ساز تجھ کو اور سوز و ساز ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ان کی ہم آہنگی سے دنیا قائم ہے: ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی یہ نظم زبان کے لحاظ سے آسان نہیں ہے مگر اچھی ہے۔ مولانا غلام رسول مہر اس کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’’ اقبال نے اس نظم میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ دنیا میں سوز و ساز دونوں کے دم اور قدم سے رونق ہے جب تک انسان کو سکھ کے ساتھ دکھ نہ پہنچے وہ زندگی کا راز بخوبی نہیں سمجھ سکتا۔ خوشی اور غم کے پہلو بہ پہلو وارد ہونے ہی سے انسان ترقی کی منزلیں طے کر کے کامیاب زندگی بسر کر سکتا ہے۔ 1؎‘‘ ٭٭٭ ان نظموں کے علاوہ بچوں کے لیے دو نظمیں اور ہیں۔ ایک ’’ بچے کی دعا‘‘ اور دوسری ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ دونوں نظمیں بڑی اہم ہیں اور مشہور و مقبول رہی ہیں۔ ایک زمانہ میں ہر اردو خاندان کے بچوں کی زبان پر یہ نظمیں ہوتی تھیں، مدرسوں میں بچے اسے پڑھائی سے پہلے یا بعد میں گایا کرتے تھے اور دلوں میں ایک عجیب کیفیت پیدا کر دیا کرتے تھے۔ ’’ بچے کی دعا‘‘ دو بند یا چھ شعروں پر مشتمل یہ نظم بچے کے دل میں خدائے بزرگ ترکی عظمت کا احساس پیدا کرتی ہے اور اسی سے سب کچھ مانگتے کے لیے پاکیزہ جذبات پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ بچہ اپنے خدا سے شمع کی طرح زندگی چاہتا ہے تاکہ دنیا کی 1؎ مطالب بانگ درا از غلام رسول مہر ص ۹۲ تاریکی کو دور کر سکے اور اپنے دم سے ہر جگہ اجالا کر سکے۔ اس طرح اس کی زندگی سے اس کے وطن کی زینت میں اضافہ ہو جائے، دوسرے بند میں وہ اپنی زندگی کو پروانے کی صورت میں چاہتا ہے تاکہ علم کی شمع سے پروانہ وار الفت کر سکے اور وطن کے غریبوں کی حمایت اور درد مندوں سے محبت کر سکے، گویا بارگاہ خداوند میں بچہ یہ دعا کرتا ہے کہ اس کی زندگی شمع اور پروانے کی صورت ہو جائے تاکہ وہ دنیا کی وطن کی، درد مندوں اور غریبوں کی خدمت کر سکے۔ا قبال کی یہ پہلی نظم ہے جس کے ذریعہ بچوں کے دلوں میں اس طرح انسانیت کی خدمت کی اچھی آرزوئیں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آخری شعر نہایت خوب ہے میرے خیال میں بچوں کے دلوں میں پہلی آرزو یہی پیدا ہونی چاہیے۔ مرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو ٭٭٭ دوسری نظم ’’ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ فروری ۱۹۰۵ء میں مخزن لاہور میں شائع ہوئی تھی، کلیات اقبال میں یہ نظم ’’ میر اوطن‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے اس میں پانچ بند ہیں۔ بانگ درا میں آخری بند حذف کر دیا گیا ہے۔ بعض مصرعوں میں معمولی اصلاح بھی کر دی گئی ہے ملاحظہ کیجئے: نانک نے جس چمن میں وحدت کا راگ گایا (کلیات اقبال) بانگ درا میں ’’ راگ‘‘ کی جگہ’’ گیت‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ نوح نبی کا ٹھہرا آ کر جہاں سفینا (کلیات اقبال) بانگ درا میں معمولی تبدیلی کر دی گئی ہے: نوح نبی کا آ کر ٹھہرا جہاں سفینا حذف شدہ بند ذیل میں ہے : گو تم کا جو وطن ہے جاپان کا حرم ہے عیسیٰ کا عاشقوں کا چھوٹا یروشلم ہے مدفون جس زمیں میں اسلام کا حشم ہے ہر پھول جس چمن کا فردوس ہے ارم ہے میرا وطن یہی ہے میرا وطن یہی ہے اقبال کی بچوں کے لیے یہ پہلی نظم ہے جس میں وطن سے محبت کا جذبہ بیدار کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے اس کی عظمت سے آگاہ کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ سارے مذاہب کے ماننے والے ہندوستانیوں میں محبت اور یگانگت کا سبق پڑھایا گیا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کا احترام کر سکیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھے ہندوستانیوں کی زندگی گزار سکیں۔ 1؎ کلیات اقبال مرتبہ مولوی محمد عبدالرزاق ص ۶۶ اسی لیے اس نظم میں حضرت نوح، حضرت موسیٰ کلیم اللہ، حضرت عیسیٰ مسیح، حضرت محمدؐ (میر عرب)، خواجہ معین الدین چشتی اور گرو نانک مختلف مذاہب کے پیغمبروں اور بزرگوں کا ذکر ملتا ہے اور مختلف قوموں، تاتاریوں، حجازیوں، یونانیوں، ترکوں کا تذکرہ بھی ہے اور شہروں اور ملکوں میں فارس، سینا، جاپان، یروشلم وغیرہ کے نام بھی آ گئے ہیں۔ نظم کی زبان سادہ، سلیس، شیریں اور دلکش ہے۔ اسی لیے یہ نظم بچوںاور بڑوں میں بھی بہت پسند کی نگاہ سے دیکھی جاتی رہی ہے۔ مندرجہ بالا نظموں کے مطالعہ سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اقبال نے اگرچہ بچوں کے لیے بہت زیادہ نظمیں نہیں کہی ہیں لیکن جتنی بھی ہیں ان کے ذریعہ دلچسپ اندازمیں زندگی کو سمجھنے اور بہتر طریقہ سے اسے برتنے کا سبق دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ وطن پرستی اور انسان دوستی کا احساس بھی جگایا گیا ہے۔ ان نظموں کے مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کو بچپن کی زندگی بہت عزیز تھی اسی لیے وہ بچپن کے زمانہ کو کبھی کبھی یاد کرتے تھے، ۱۹۱۵ء میں ان کی والدہ جب داغ مفارقت دے گئیں تو انہوں نے ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ ایک نہایت پرورد، پر تاثیر عظیم نظم کہی جس میں اپنے بچپن کو یاد کر کے خود بھی مضطرب ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی بے چین کیا ہے، ملاحظہ کیجئے: حیرتی ہوں میں تری تصویر کے اعجاز کا رخ بدل ڈالا ہے جس نے وقت کی پرواز کا رفتہ و حاضر کو گویا پا بہ پا اس نے کیا عہد طفلی سے مجھے پھر آشنا اس نے کیا جب ترے دامن میں پلتی تھی وہ جان ناتواں بات سے اچھی طرح محرم نہ تھی جس کی زباں اور اب چرچے ہیں جس کی شوخی گفتار کے بے بہا موتی ہیں جس کے چشم گوہر بار کے علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم صحبت ماور میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم بے تکلف خندہ زن ہیں فکر سے آزاد ہیں پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ شاعر مشرق علامہ اقبال کو بچپن اور بچوں سے گہری دلچسپی تھی اسی لیے انہوں نے بچوں کے لیے شاعری کی ان کی شاعری کا یہ حصہ اگرچہ محدود ہے اور ان میں یکسانیت پائی جاتی ہے کہ وہ محض نصیحت دینے کے لیے کہی گئی ہیں، ان سے ہٹ کر کھیل کود اور ہنسنے ہنسانے کی باتوں کو موضوع نہیں بنایا گیا ہے لیکن پھر بھی ان کی بڑی اہمیت ہے اس لیے کہ ان نظموںکے مطالعہ سے ہمیں اقبال کے انسان کامل کی تلاش میں آسانی ہوتی ہے۔ وہ بچے کے ذہن کی تعمیر اس طرح کرنا چاہتے تھے جس سے وہ ایک ایسا انسان بن سکے جو خدا آگاہ ہو، حریت پسند ہو، ہمدرد مجسم ہو، غرور و تکبر کی لعنت سے پاک ہو، محسن شناس ہو، غریبوں کا مددگار ہو، کمزوروں کا حامی ہو، وطن پرست ہو، انسان دوست ہو، برائیوں سے پاک ہو اور پیکر عمل ہو۔ ظاہر ہے ان صفات کا حامل بچہ جوان ہو کر ویسا ہی انسان بنے گا جس کے اقبال خواہشمند تھے، اس لیے اردو میں بچوں کے ادب میں ہمیشہ اقبال کی شاعری کے اس حصہ کو اہم مقام دیا جاتا رہے گا۔ ٭٭٭ کشور پنجاب اور اقبال ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ’’ ضرب کلیم‘‘ علامہ اقبال کے آخری دور حیات کا مجموعہ کلام ہے۔ اس مجموعے کا واشگاف لب و لہجہ اس کے عنوان ہی سے آشکار ہے یعنی ’’ اعلان جنگ دور حاضر کے خلاف‘‘ شاعر ملت کی طبیعت آزاد اس مسلک میں کسی مقام کی خوگر اور جگہ کی پابند نہیں تاہم اس مجموعے کی ایک مختصر سی نظم میں اس مرد حق آگاہ نے حضور باری تعالیٰ میں ’’ شکر و شکایت‘‘ کے عنوان سے چند معروضات پیش کی ہیں جو یہ ہیں: میں بندہ ناداں ہوں مگر شکر ہے تیرا رکھتا ہوں نہاں خانہ لاہوت سے پیوند اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو لاہور سے تاخاک بخارا و سمرقند تاثیر ہے یہ میرے نفس کی کہ خزاں میں مرغان سحر خواں مری صحبت میں ہیں خورسند لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند آخری شعر میں اقبال نے جس درد مندی و دل سوزی کے ساتھ ایک تلخ حقیقت کا اظہار کیا ہے، اسے محض شاعرانہ انداز بیاں تو نہ کہا جا سکے گا۔ اس میں انہوں نے اپنے ماحول کے حوالے سے ایک ایسی المناک کیفیت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں سے وہ خود گزرے ان کا ملک گزر رہا تھا، ملت اسلامیہ جس سے دو چار ہوئی اور اب تک ہو رہی ہے۔ اقبال کی فکر بلیغ نے انفس و آفاق تک پروازیں کیں اور ان کا پیام حیات شرق و غرب کے لیے وقف ہو گیا لیکن جس ماحول میں وہ سانس لیتے تھے اس سے ان کا تعلق کبھی منقطع نہیں ہو اتھا۔ ان کی فکر افلاکی ضرور تھی لیکن ان کے پاؤں اپنی دھرتی پر بھی رہتے تھے جس کے بغیر سیر افلاک محض تصوریت ہو کر رہ جاتی (چنانچہ ’’جاوید نامہ‘‘ میں جہاں اقبال نے رومی کی رہنمائی میں افلاک کی سیر کی ہے وہاں وہ ہر جگہ زمینی اور عصری مسائل کو زیر بحث لائے ہیں) اقبال کا ایک آئیڈیل ضرور تھا لیکن یہ آئیڈیل انسانوں ہی کے لئے تھا اور انسانوں کے لئے جو بھی آئیڈیل پیش نظر ہو، اسے حقائق و واقعات سے گزرے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے اقبال کا آئیڈیلزم اپنے گرد و پیش کے احوال سے بیگانہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اقبال کے ماحول کے کئی دائرے ہیں۔ وہ کشمیری نژاد تھے، سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم و تربیت کے بعد لاہور میں ان کے شباب نے آنکھ کھولی اور پھر یہیں ان کے افکار نے تدریجی منزلیں طے کیں اور شرق و غرب کی انسانیت اور ملت اسلامیہ کو پیام حیات دے کر اسی شہر کی خاک میں وہ ابدی نیند سو گئے اور جامعہ عالمگیری کی سیڑھیوں کے پاس ان کی تربت خاموش زائرین عالم کے لئے عزم و ہمت کا ایک استعارہ بن چکی ہے: زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری کہ خاک راہ کو میں نے بتایا راز الوندی سیالکوٹ اور لاہور کے بعد بھر اقبال کے ماحول کا دائرہ ہے جس کے ساتھ ہی شمال مغربی ہند کا وہ حصہ ملک بھی آ جاتا ہے جو ان کے خطبہ الہ آباد (۱۹۳۰ئ) کا اہم موضوع بنا اور جہاں آگے چل کر پاکستان غربی کی تشکیل ہوئی۔ پھر برصغیر ہندوستان کا وہ دائرہ کہ اقبال کے عہد میں انگریزوں کی محکومی کا جوا پہنے ذلت میں مبتلا تھا: معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک بے چارا کسی تاج کا تابندہ نگیں ہے ہند کے بعد ایشیا اور پھر مشرق (ایشیا و افریقہ سمیت) اور پھر مغرب (یورپ و امریکا) کے دائرے پھیلتے گئے ہیں اور فکر اقبال عالم اسلامی اور دنیائے انسانی کے مسائل کا احاطہ کرتی گئی ہے اور ان کا نصب العین وللہ المشرق و المغرب کے تابع ہو جاتا ہے: مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ شب کو سحر کر ان سب دائروں میں مرکزی نقطہ اور محدود لیکن بنیادی دائرہ پنجاب کا ہے جس کی دھرتی پر کھڑے ہو کر اقبال نصب العینیت کا یہ سارا تانا بانا بن رہے تھے اور جس کے بارے میں انہوں نے متذکرۃ الصدر شعر میں بہ حضور باری تعالیٰ شکایت بھی کی ہے۔ اگرچہ ’’ دیس‘‘ کا یہاں تعین پوری طرح نہیں ہوا۔ یہ دیس پنجاب بھی ہو سکتا ہے اور پورا ہند بھی، جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا باہمی رزم آرائیوں کا شکار تھا لیکن فکری محور سے قطع نظر یہ دور اقبال کی عملی سیاست میں شمولیت کا بھی ہے جس میں پنجاب کی صورت حال (بنگال، سرحد، سندھ اور بلوچستان کے مسائل کے ساتھ ساتھ) ان کی خصوصی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی اور آل انڈیا سطح پر مسلم لیگ جن مسائل سے دو چار تھی، وہ رفتہ رفتہ اسی نہج کی طرف آ رہے تھے۔ اقبال ۱۹۲۶ء میں حلقہ لاہور سے صوبائی مسلم لیگ پنجاب کے سیکرٹری اور پھر صدر کی حیثیت سے وہ اس دور کے اہم سیاسی مذاکرات اور مناقشات میں عملاً شریک رہے۔ مثلاً سائمن کمیشن نہرو رپورٹ، جناح مسلم لیگ، شفیع مسلم لیگ، آل پارٹیز مسلم کانفرنس، گول میز کانفرنس، تحریک کشمیر، شہید گنج، کمیونل ایوارڈ اور انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء مسلم لیگ کی تنظیم نو (اقبال کے اصرار و استدعا پر محمد علی جناح کی قیادت میں) یہ سب وہ سیاسی موڑ ہیں جن میں اقبال کے فکر و عمل کا بھی بڑا حصہ ہے۔ اس محاربہ فکر و عمل میں اقبال اپنے گرد و پیش سے بے نیاز نہیں رہ سکتے تھے۔ اس اعتبار سے پنجاب اور پنجابی مسلمان کے حال و مستقبل کے بارے میں ان کے اندیشے اور اضطرابی کیفیات ان کی حقیقت پسندی کا ثبوت پیش کرتی ہیں اور اسی پس منظر میں ان کے اس شکوے شکایت کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جو ان کے دل میں اپنے ماحول کے بارے میں رہ رہ کر پیدا ہوتا ہے۔ اقبال پنجابی مسلمانوں کی صلاحیتوں سے باخبر تھے اور ان کی کمزوریوں کا بھی انہیں احساس تھا۔ اس احساس و ادراک کے ساتھ مستقبل کا جو نقشہ ان کے ذہن میں ابھر رہا تھا وہ خاصا پریشان کن تھا جس کا اظہار انہوں نے بعض موقعوں پر کیا ہے۔ سب سے پہلے انہی بیانات پر ایک نظر ڈالنی مناسب معلوم ہوتی ہے۔ مئی ۱۹۳۰ء میں انہوں نے ’’ مسلم آؤٹ لک‘‘ کو بیان دیتے ہوئے یہ کہا: ’’ پنجاب کے مسلمانوں، خاص طور پر دیہاتی مسلمانوں میں جو ہماری قوم کے لئے دیڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں، جہالت عالم ہے اور کسی قسم کی سیاسی یا اقتصادی بیداری پیدا نہیں ہوئی۔ قوم کی قوتوں کو فرقہ بندی اور ذاتوں کی تقسیم نے علیحدہ منتشر کر رکھا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم سرا سر غیر منظم کے غیر منظم ہیں۔ اب میں اس امر کا قائل ہو گیا ہوں کہ اس صوبے کے مسلمانوں کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اپنی داخلی تنظیم اور اصلاح کی طرف متوجہ ہوں۔۔۔۔‘‘ (گفتار اقبال، صفحہ ۳۷) یہ وہ زمانہ تھا جب آریہ سماجیوں کی دل آزار حرکتوں کی وجہ سے پنجاب میں ہندو مسلم فسادات برپا ہو رہے تھے۔ ہندو منظم طور پر (سکھوں کو ساتھ ملا کر) مسلمانوں کے خلاف صف آرا تھے اور کانگرس اور ہندو مہا سبھا کے رہنما ان کی پشت پر تھے دوسری طرف مسلمان پنجاب میں بھی منتشر اور پرا گندہ تھے، برعظیم میں بھی نفاق و افتراق میں مبتلا تھے۔ تحریک خلاف کا سارا جوش و خروش سرد ہو کر باہمی رزم آرائی کا روپ اختیار کر چکا تھا۔ اس عالم میں مستقبل کے منظر پر خانہ جنگی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا نظر آ رہا تھا۔ مہاراجہ کشن پرشاد کے نام ایک خط (مورخہ ۱۹ مارچ ۱۹۲۳ئ) میں اقبال کا یہ تجزیہ ان کے انہی مشاہدات پر مبنی ہے: ’’ افسوس ہے کہ پنجاب میں ہندو مسلمانوں کی رقابت بلکہ عداوت بہت ترقی پر ہے اگر یہی حالت رہی تو آئندہ تیس سال میں دونوں قوموں کے لیے زندگی مشکل ہو جائے گی۔‘‘ (اقبال نامہ، جلد ۲، ۲۰۴) آئندہ چند برس میں حالات اور بھی پیچیدہ ہو گئے۔ کل ہند سیاست میں پنجاب اور بنگال کی صورت حال اس لحاظ سے بہت نازک تھی کہ یہاں انگریز کی ڈپلومیسی نے ہندو قیادت سے ساز باز کر کے مسلمانوں کی اکثریت کو غیر موثر بنا دیا تھا۔ پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب چھپن فیصد تھا جب کہ جمہوری اداروں میں انہیں انچاس فیصد نمائندگی کا حق دیا گیا تھا۔ کم و بیش یہی حالت بنگال کی تھی۔ اس صریح بے انصافی کے علاوہ مسلمانوں کا داخلی انتشار ان کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا تھا اور پھر سرکاری سرپرستی میں پنجابی مسلمانوں میں شہری اور دیہاتی کی تفریق پیدا کر کے اور بھی ستم ڈھایا جا رہا تھا۔ ملک آزادی کی جدوجہد میں جن دستوری مرحلوں سے گزر رہا تھا ان میں پنجاب کا مسئلہ خصوصیت سے نازک تر ہوتا جا رہا تھا۔ 1؎ اقبال کی نگاہیں جب مستقبل قریب کے نظر پر جاتی تھیں تو ان کے 1؎ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد (۱۹۳۰ئ) کے صدارتی خطبے میں علامہ اقبال نے مسلمانان ہند کے مطالبات پیش کرتے ہوئے یہ کہا کہ: ’’ مسلمانان ہندوستان کسی ایسی آئینہ تبدیلی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے جس کے ماتحت وہ بنگال اور پنجاب میں جداگانہ انتخابات کے ذریعے اپنی اکثریت حاصل نہ کر سکیں، یا مرکزی مجلس میں انہیں ۳۳ فیصد نشستیں نہ مل جائیں۔ اب تک مسلمانوں کے سیاسی رہنما دو گڑھوں میں گر چکے ہیں۔ پہلا گڑھا لکھنو کا مسترد شدہ میثاق ہے جسے قومیت ہند کے غلط (بقیہ نوٹ صفحہ آئندہ) ذہن میں کئی طرح کے خدشات ابھرتے تھے ۱۹۳۶ء میں مولوی عبدالحق کے نام خط میں یہی خدشات ایک تاریخی صداقت بن کر یوں ظاہر ہوتے ہیں: ’’ مسلمانوں کو اپنے تحفظ کے لیے جو لڑائیاں آئندہ لڑنا پڑیں گی ان کا میدان پنجاب ہو گا۔ پنجابیوں کو اس میں بڑی بڑی دقتیں پیش آئیں گی۔ کیونکہ اسلامی زمانے میں یہاں کے مسلمانوں کی مناسب تربیت نہیں کی گئی۔ مگر اس کا کیا علاج کہ آئندہ رزم گاہ یہی سر زمین معلوم ہوتی ہے۔‘‘ (اقبال نامہ جلد ۲، صفحہ ۷۹) ان بیانات کے پس منظر میں اقبال کا اپنے ہم دیار پنجابی مسلمانوں سے تعلق اور پھر ان کی خوبیوں اور خامیوں کا حقیقت افروز (بقیہ نوٹ صفحہ گذشتہ) تصور پر مرتب کیا گیا تھا اور جس کے ماتحت مسلمان ان تمام مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ اس ملک میں کوئی سیاسی طاقت پیدا کر سکیں۔ دوسرا گڑھا پنجاب کی نام نہاد دیہاتی آبادی کی خاطر اسلامی اتحاد و اتفاق کی وہ نا عاقبت اندیشانہ قربانی ہے جس کا اظہار ایک ایسی تجویز میں پڑا ہے جس سے پنجاب کے مسلمان اقلیت میں رہ جاتے ہیں (سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی کے مسلک کی طرف اشارہ ہے) لیگ کا فرض ہے کہ وہ میثاق اور تجویز دونوں کی مذمت کرے۔‘‘ (حرف اقبال ۴۶) میثاق لکھنو (جو کانگرس اور مسلم لیگ کے مابین ۱۹۱۶ء میں ہوا) میں کانگرس نے مسلمانوں کے جداگانہ انتخاب کے حق کو تسلیم کر لیا تھا لیکن اس کی یہ شق مسلمانوں کے لئے بہت خطرناک تھی کہ پنجاب اور بنگال کے مسلم اکثریت کے صوبوں میں مسلمانوں کی نیابت کم کر کے بعض ہندو اکثریت کے صوبوں میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ نیابت دی جائے۔ اس سے ہندوستان کے ان دو بڑے صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت غیر موثر ہو جاتی تھی اور جن صوبوں میں وہ اقلیت میں تھے وہاں پاسنگ کا حق ملنے پر بھی ان کے موثر ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ اس طرح پورے ملک میں مسلمان مجموعی طور پر خسارے میں رہتے تھے کیونکہ کسی صوبے میںبھی ان کی حکومت نہیں بنتی تھی جبکہ ہندوؤں کا اقتدار کئی صوبوں میں قائم ہو جاتا تھا اس اعتبار سے اقبال نے میثاق لکھنو کو ایک ایسا گڑھا کہا ہے جس میں ایک بار گر کو انہوں نے اپنے سیاسی مستقبل کو مخدوش بنا لیا تھا۔ اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ ان صوبوں میں بعض علاقائی جماعتیں اقتصادی عوامل اور دوسرے مفادات کی خاطر مسلمانوں کے اجتماعی قومی مفاد کو پس پشت ڈالنے لگیں۔ سائمن کمیشن نے اپنی یادداشت میں اگرچہ مسلمانوں کی اس شکایت کو حق بجانب قرار دیا تھا کہ ’’انہیں بنگالی اور پنجاب میں متناسب آبادی کے لحاظ سے نمائندگی کا حق کیوں نہیں دیا گیا، محض یہ امر کہ انہیں دوسرے صوبوں میں پاسنگ حاصل ہے اس نقصان کی تلافی نہیں کرتا۔‘‘ لیکن کمیشن نے اس شکایت کا ازالہ کر کے پنجاب اور بنگال میں انہیں آئینی ا کثریت کا حق دینے کی بجائے یہ موقف اختیار کیا کہ ’’ مسلمان یا تو میثاق لکھنو کے پابند رہیں یا مخلوط انتخاب کو اختیار کر لیں۔‘‘ اور بالآخر گول میز کانفرنس کی ناکامی کے بعد جو کمیونل ایوارڈ دیا گیا اس میں پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی آئینہ اکثریت کے حق کو مسترد کر کے جداگانہ انتخاب کے ساتھ انہیں پنجاب میں ۴۹ فیصدی اور بنگال میں ۴۰ فیصدی نیابت دی گئی۔ بے انصافی کی یہی بنیاد تھی جو پنجاب اور بنگال کی غیر منصفانہ تقسیم اور پھر حد بندی میں بد دیانتی کا موجب بنی۔ تجزیہ بڑا معنی خیز ہے اقبال نے اپنی بعض نظموں بھی پنجابی مسلمان کی فطرت کا جائزہ لیا ہے اور ا سکے نفسیاتی پہلوؤں اور تاریخی عوامل پر روشنی ڈالی ہے۔اس سلسلے میں ’’ بال جبریل‘‘ کی یہ نظمیں قابل ذکر ہیں پنجاب کے دہقان سے، پنجاب کے پیرزادوں سے باغی مرید ’’ ضرب کلیم‘‘ کی نظمیں، پنجابی مسلمان، آزادی اور ہندی مکتب بھی اس مطالعے میں شامل کی جا سکتی ہیں، اگرچہ موخر الذکر دو نظموں میں بر عظیم کا احاطہ ہے لیکن جن امور کا تجزیہ کیا گیا ہے (حریت افکار، تازہ شریعت، قرآن کی تاویلات اور پیروںکی کرامات وغیرہ) وہ پنجاب پر زیادہ صادق آتے ہیں ۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں روح ہندوستان کی فریاد کے ساتھ ساتھ پنجابی مسلمانوں کی حالت زار کا نقشہ بھی عبرت آموز ہے۔ ’’ جاوید نامہ‘‘ میں افلاک سے پرے جنت الفردوس کی سیر کرتے ہوئے شاعر ایک قصر رفیع و روشن کے سامنے پہنچتا ہے جس کے دروازے پر حوریں احرام باندھے کھڑی تھیں۔ مرشد رومیؒ شاعر کے استفسار پر بتاتے ہیں کہ یہ محل شرف النساء کا ہے جو حاکم پنجاب نواب عبدالصمد خاں کی دختر نیک تھی۔ اس پاکیزہ سیرت خاتون کو قرآن سے عشق تھا۔ اس کا بیشتر وقت تلاوت کلام پاک میں گزرتا اور اس کی کمر میں تیغ دو دم لٹکتی رہتی۔ خلوت میں قرآن اور شمشیر اس کی زندگی کے دو ایسے رفیق تھے جنہیں اس نے وفات کے بعد بھی اپنے سے جدا نہ کیا۔ جب اس کا وقت رحلت آیا تو اس نے اپنی پیاری امی سے اپنا راز دل بیان کرتے ہوئے کہا: گفت اگر از راز من داری خبر سوئے ایں شمشیر وایں قرآں نگر ایں دو قوت حافظ یک دیگراند کائنات زندگی را محور اند ’’ فانی زندگی میں شمشیر اور قرآن یہی دو میرے محرم حیات تھے۔ اب وقت رخصت ان کو مجھ سے جدا نہ کیا جائے۔ میری التجا ہے کہ میری قبر پر نہ گنبد بنایا جائے نہ قندیل روشن کی جائے، مومنوں کے لئے تیغ اور قرآن کافی ہیں اور میری تربت کے لیے یہی سامان چاہیے۔۔۔‘‘ حیات و کائنات میں تیغ اور قرآن کو ایک دوسرے کا پاسباں قرار دینا کتنا بلیغ استعارہ ہے۔ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا سرچشمہ قرآن اور اس کی حفاظت اور نفاذ شریعت کے لئے قوت (شمشیر) از بس ضروری ہے۔ جب تک یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہے، مسلمان کامیاب و کامران رہے، اور جب ان میں جدائی ہوئی مسلمانوں کی اجتماعی زندگی محکومی و نامرادی کا شکار ہو گئی۔ رومیؒ بتاتے ہیں کہ ایک مدت تک تیغ و قرآن شرف النساء کی تربت پر رہے اور اس جہان بے ثبات میں حق پرستوں کو پیغام حیات دیتے رہے۔ پھر مسلمان غفلت اور عیش کوشی میں مبتلا ہو گئے اور گردش دوراں نے ان کی بساط الٹ دی۔ جو حق پرست تھا، باطل سے ڈرنے لگا۔ اللہ کا شیر روباہ صفت بن گیا تو اس کے دل سے نور حق کی سیمابی کیفیت کافور ہو گئی۔ پھر تم خود جانتے ہو، پنجاب پر کیا کچھ بیت گئی ۔ تیغ اور قرآن سکھ اٹھا لے گئے اور اس سر زمین میں مسلمان مردہ و افسردہ ہو کر رہ گئے: عمر ہا در زیر ایں زریں قباب بر مزارش بود شمشیر و کتاب مرقدس اندر جہان بے ثبات اہل حق را داد پیغام حیات! تا مسلماں کرد با خود آنچہ کرد گردش دوراں بساطش در نورد مرد حق از غیر حق اندیشہ کرد شیر مولا رد بہی را پیشہ کرد از دلش تاب و تب سیماب رفت خود بدانی آنچہ بر پنجاب رفت خالصہ شمشیر و قرآن را ببرد اندراں کشور مسلمانی بمرد سکھ راج میں مسلمانان پنجاب جس اذیت ناک دور سے گزرے اس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ اس سے زیادہ ذلت و رسوائی کسی قوم کی کیا ہو سکتی ہے کہ نہ اس کے دینی شعائر محفوظ ہوں اور نہ ان کی جان و مال اور عزت و ناموس کا کوئی پرسان حال ہو۔ جو قوم صدیوں کی حکمرانی کے بعد نصف صدی تک سکھا شاہی کے درد ناک عذاب میں مبتلا رہی ہو اس کی نفسیاتی کیفیت کا اندازہ کون کر سکتا ہے؟ پنجابی مسلمانوں کی تو اہم پرستی اور پیر پرستی میں علاوہ دوسرے عوامل کے تاریخ کا یہ اندوہناک حادثہ بھی کار فرما ہے جسے اقبال نے رومی کی زبانی استعارۃً جاوید نامہ میں بیان کیا ہے۔ اب ’’ پنجابی مسلمان‘‘ کے عنوان سے ’’ ضرب کلیم‘‘ کی یہ چھوٹی سی نظم (قطعہ) ملاحظہ فرمائیے: مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد پنجابی مسلمان کی فطرت کا یہ کتنا بلیغ اور کیسا بے لاگ تجزیہ ہے جس کی تفصیلات میں جائیں تو یہ داستان کہیں ختم ہونے میں نہ آئے۔ یہ تبصرہ اقبال کے گہرے مشاہدے اور اپنے گرد و پیش کے محدود دائرے (پنجاب) کے تجربات و احساسات کا نچوڑ کہا جا سکتا ہے۔ رواں صدی کی سیاسی، معاشرتی تحریکوں پر ہی نگاہ ڈالی جائے تو پنجابی مسلمان کے کردار کا جو مرقع مذکورہ بالا تین شعروں میں پیش کیا گیا ہے، وہ ہمیں اپنے چاروں طرف پھیلا ہوا نظر آ جائے گا۔ سکھا شاہی دور کے بعد پنجاب میں انگریزوں کی آمد اور برطانوی راج کا قیام بلا شبہ پنجابی مسلمانوں کے لئے ایسے ہی تھا جیسے انہیں دوزخ سے نکال کر اعزاز میں ڈال دیا گیا ہو۔ وہ قدرے مطمئن ہو کر زندگی کے کاروبار میں مصروف ہو گئے۔ انگریزی حکومت کے قیام سے نہ صرف نظم و نسق بحال ہوا۔ بلکہ آبپاشی کے نئے نظام نے یہاں کی زرعی معیشت میں دور رس تبدیلیاں کیں۔ غیر آباد اور بنجر زمینیں (باریں) آباد ہونے لگیں۔ اناج، کپاس، دودھ، دہی، گھی اور خورو نوش کی اشیاء میں فراوانی اور ارزانی ہوئی جس سے پنجاب کے دوسرے باشندوں کے ساتھ مسلمان بھی کسی قدر آسودہ حال ہونے لگے۔ اگرچہ جہالت اورفرسودہ رسم و رواج کی بدولت پنجاب کا عام مسلمان کاشتکار ہندو ساہوکار کا مقروض ہو کر سود در سود اور قرقی و ضبطی کے چکر میں بھی پھنس رہا تھا جو نئے دور میں استحصال کی نئی صورت میں سامنے آیا تھا، تاہم سکھا شاہی لاقانونیت کے سامنے یہ ستم اتنا زیادہ ناقابل برداشت نہیں تھا۔ انگریزوں کو اس لحاظ سے نجات دہندہ سمجھا گیا اور اس آسودگی اور مرفہ الحالی نے پنجابی مسلمانوں کو زمانہ گزشتہ کی ترک، افغان اور مغل حکومتوں کی طرح انگریزی حکومت کا بھی خیر خواہ بنا دیا اور وہ بہ دل و جان اس غیر ملکی حکومت کے قیام و استحکام میں کوشاں ہو گئے۔ ملک کے اندر اور باہر پنجاب کا کڑیل جوان بڑی وفاداری سے انگریزی استعمار کی خاطر اپنا خون بے دریغ بہانے لگا۔ 1؎ پولیس کی خدمات اس کے علاوہ تھیں۔ برطانوی سلطنت میں پنجاب کو بازوئے شمشیر زن کہا جانے لگا۔ سیاسی شعور اور قومی احساس کے معاملے میں پنجاب کے مسلمان جمود کا شکار تھے۔ تو اہم پرستی ان کے رگ و ریشے میں سرایت کر گئی تھی۔ پیروں، فقیروں اور ان کے مزاروں سے عقیدت پنجابی مسلمان کو شرک کی حدود تک بھی لے گئی جس سے پنجاب کے پیرزادوں اور سجادہ نشینوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اوقاف پر قابض ہونے کی وجہ سے یہ طبقہ نئے دور میں جاگیردار بن چکا تھا۔ یہ طبقہ انگریز حکام کو ’’ اولیٰ الامر‘‘ سمجھتا تھا اور برطانوی حکومت اور پنجاب کے محکوم عوام کے درمیان ایجنٹ کے طور پر کام کرنے لگا تھا۔ اسے تاریخ کا سانحہ ہی کہنا چاہیے کہ جن مشائخ عظام اور اولیائے کرام نے اس سر زمین کو کفر و شرک سے پاک کر کے یہاں توحید کا ڈنکا بجایا اور پنے کردار و عمل سے لوگوں کو نیکی و شرافت کا درس دے کر حق پرستی کی راہ پر لگایا انہی کے اخلاف الاماشاء اللہ دنیوی جاہ و منصب کی خاطر حق و باطل میں امتیاز کرنا چھوڑ بیٹھے: میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن! اقبال اپنے گرد و پیش ان مشرکانہ رسوم اورمحکومانہ طور طریقوں کو دیکھتے تھے اور پنجابی مسلمانوں کی سادہ لوحی اور گمرہی پر تاسف کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ زمانہ ساز پیروں اور سجادہ نشینوں کے اس کردار کو ہدف تنقید بنا رہے تھے۔ بال جبریل کی ایک نظم میں ایسے ہی پیران طریقت کے کردار کو بے نقاب کیا گیا ہے: حاضر ہوا میں شیخ مجددؒ کی لحد پر وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار 1؎ اقبال نے الہ آباد کے صدارتی خطبے میں شمال مغربی ہند میں اسلامی ریاست کا تصور پیش کرتے ہوئے اس علاقے کی دفاعی اہمیت اور عساکر ہند میں مسلمانان پنجاب کے تناسب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’ پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی ۵۶ فیصد ہے لیکن ہندوستان کی پوری فوج میں ہمارا ۵۴ فیصد ہے اور اگر عساکر ہند کی کل تعداد میں سیان ۱۹ ہزار گورکھوں کو جو نیپال کی آزاد ریاست سے بھرتی کئے جاتے ہیں نکال دیا جائے تو مسلمانوں کی تعداد ۶۲ فیصدی ہو جائے گی۔‘‘ گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار کی عرض یہ میں نے کہ عطا فقر ہو مجھ کو آنکھیں مری بینا ہیں و لیکن نہیں بیدار! ٭٭٭ آئی یہ صدا سلسلہ فقر ہوا بند ہیں اہل نظر کشور پنجاب سے بیزار عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خطہ کہ جس میں پیدا کلہ فقر سے ہو طرۂ دستار باقی کلہ فقر سے تھا ولولہ حق طرؤں نے چڑھایا نشہ ’’خدمت سرکار‘‘ کشور پنجاب سے اہل نظر کی بے زاری کی داستان کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں جا کر ختم ہو گی، یہ تو الگ بحث ہے لیکن اقبال کی فکر و نظر مستقبل کے جن طوفانوں کو اس سر زمین میں پلتے دیکھ رہی تھی، وہ موجودہ نسلوں کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔ اقبال پنجابی مسلمانوں کی خوبیوں اور صلاحیتوں کو بھی بخوبی جانتے تھے۔ ان کی کشادہ دلی، زندہ دلی، حوصلہ مندی، جفاکشی اور محنت و مشقت کے اوصاف کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اپنے ان اوصاف کا لوہا پنجابی مسلمانوں نے شرق و غرب سب سے منوایا ہے۔ پاکستان کی مختصر تاریخ بھی ان کے ان اوصاف کی شہادت دے رہی ہے۔ ۱۹۶۵ء کے معرکہ حق و باطل میں پنجابی مسلمانوں نے جوانمردی، بہادری اور عزم و استقلال کے جو ابواب اپنے خون سے رقم کیے انہیں تاریخ کیسے فراموش کر سکتی ہے۔ مشرق و مغرب میں برطانوی استعمار کی خاطر خون بہانے والے پہلی بار اپنے وطن کی مقدس سر زمین اور اسلام کی عزت و حرمت پر پروانہ وار نثار ہوئے اور اس شان سے خاک و خون میں لوٹے کہ دوست تو دوست، دشمن بھی کلمہ تحسین پکارنے پر مجبور ہو گئے۔ اقبال نے اپنی قوم کے جیالوں کی جرأت و ہمت کے یہ مناظر تو نہیں دیکھے لیکن وہ ان کی اس فطرت کو پہچانتے ضرور تھے اور اس کی تھوڑی سی جھلک تحریک خلافت، تحریک کشمیر اور شہید گنج میں دیکھ بھی چکے تھے۔ انہیں شکایت تھی تو اس بات کی تھی کہ پنجابی مسلمان جوش تو رکھتا ہے لیکن ہوش سے کام لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ وہ وقتی ہنگاموں سے بہت جلد اثر قبول کر لیتا ہے، نہ اسباب و علل پر غور کرتا ہے اور نہ عواقب و نتائج پر اس کی نظر جاتی ہے۔ ان میں اہل فکر پیدا بھی ہوتے ہیں تو ان کی سوچ انفرادی دائرے سے آگے بڑھ کر اجتماعی سوچ کا نیا رخ اختیار نہیں کرتی جو قیادت کے لئے ضروری ہے۔ شاید اسی لیے اس آسودہ حال اور تماشا دوست انبوہ میں رہتے ہوئے اقبال تنہائی محسوس کرتے رہے۔ تنہائی کا ایہ احساس اکبر کے نام خطوط سے لے کر اپنے دور حیات کے آخری زمانے تک (جب وہ عملاً سیاست میں شریک رہے) انہیں ستاتا رہا۔ پنجابی مسلمانوں کے جذبہ ایثار و قربانی کے وہ معترف تھے لیکن اجتماعی قیادت کے لئے جس اجتماعی سوچ اور انفرادی نظم و ضبط کی ضرورت تھی۔ اس سے وہ پنجابی مسلمانوں کو عاری پاتے تھے۔ غالباً اسی لیے ان کی نظریں قیادت کے لیے بار بار کوہستانوں اور صحراؤں کی طرف اٹھتی تھیں: فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مرد کہستانی! کشور پنجاب کی اہمیت اور پنجابی مسلمانوں کے خصائص کے بارے میں اقبال کے خیالات حقیقت افروز بھی ہیں اور عبرت آموز بھی۔ ملت کے وسیع تناظر میں اقبال کا یہ تجزیہ بظاہر محدود نظر آتا ہے لیکن احیائے ملی کے لحاظ سے بڑا اہم ہے۔ کیونکہ پنجابی مسلمانوں کو اپنی بقا، پاکستان کی سلامتی اور دنیائے اسلام کی سر بلندی کے لئے جو معرکہ روح و بدن در پیش ہے اس سے مفر کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اقبال کی چشم بصیرت آزمائش کے اس مرحلے کو مستقبل کے دھندلکوں میں دیکھ رہی تھی اور ان کو اس سے تشویش تھی۔ موجودہ نسلیں ان خطرات کو اپنے سروں پر منڈلاتے دیکھ رہی ہیں اور اکثر لوگ عواقب سے بے نیاز تماشا دوست بنے نظر آتے ہیں۔ اقبال کو اپنے دیس کے بندوں کی اسی بے حسی کا گلہ تھا جس کا ذکر انہوں نے اپنے بعض اشعار اور خطوط میں کیا ہے۔ ٭٭٭ اقبال شناسی۔۔۔۔ غور و فکر کے چند پہلو (ڈاکٹر) ظ انصاری اے عزیز، ادب علامہ اقبال کا اور ہمارا معاملہ سنو! ہم پچھلی گرمیوں میں مدراس سے کوئی ڈائی کنال کے پہاڑی مقام پر اور پھر وہاں سے کیرالا کے چائے کے باغوں کی طرف چلے۔ کوئی دو سو میل لمبی، ٹوٹی پھوٹی سڑک، جنگلوں میں، پہاڑیوں میں بل کھاتی ہوئی، چھپتی، ابھرتی جا رہی تھی۔ صبح ہم کار سے نکلے تھے، واپسی تک رات ہو گئی۔ شکار ہاتھ نہ آیا۔ کئی غیر شعوری وجہیں تھیں کہ میں راستے بھر اقبال کی شاعری پر بات کرتا گیا اور بالآخر اپنے مشاق شکاری میزبان سے کہا کہ جناب وہ جو اس نے مرد مسلمان کے لیے کہا ہے، وہ خود اسی پر صادق آتا ہے : (ح ۱) جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفاں تو کہیں وہ شبنم ہے، کہیں طوفان۔ جب دل میں آگ لگی ہو، تشنگی ہو ذوق حیات کی، تو وہ شبنم کی منی کی تراوٹ بخشتا ہے اور جب دل دریا ہو، ولولوں کا ہجوم ہو تو ظالم طوفان کی سی یورش کرتا ہے۔ کہنے کو تو میں کہہ گیا مگر تسکین نہ ہوئی۔ سوچا ایک بات آخر میں اور: جب ہم اس اخلاق شاعر کے حضور میں، یاس کے مخاطب ہوتے ہیں تو پوری طرح اس کے شکار ہو جاتے ہیں، کچھ اور انہیں سوجھتا، بس محصور ہیں، مسحور ہیں، جدھر وہ بلائے گا، جائیں گے اور۔۔۔۔ اچانک شکاری میزبان نے منہ پر انگلی رکھی، شی! خاموش! ہم سب ٹھٹک گئے۔ دور پہاڑی ڈھلوان پر دو آنکھیں چمکیں شکاری ٹارچ نے ادھر کا رخ کیا اور روشن لہریں لپک کر سانبھر کی ان آنکھوں سے مل گئیں۔ اب یہاں سے وہاں تک روشنی کی لہر رواں تھی۔ شکاری کی زبردست ٹارچ والی کرن ان دو روشن اور وحشی آنکھوں کے لیے دلنواز اور مقناطیسی رستی بن گئی تھی اور شکار، خود بخود، بلا ارادہ اس دھاگے میں بندھا ہماری طرف گویا پھسل رہا تھا۔ آخر وہ ذرا دیر میں اس جان لیوا قوت کے مرکز کے سامنے بے بس اور مسحور کھڑا ہو گیا۔ میرے میزبان نے بلا تکلف اسے ایک گولی میں شکار کر کے پیچھے کی جیپ میں باندھ لیا۔ خوش خوش گاڑی اسٹارٹ کی تو میں نے کہا: حضرت میرا اور اقبال کا یہی معاملہ ہے۔ وہ ایسے ایسے ساحرانہ کرشموں سے اپنی طرف بلاتا ہے، روشنی کی لہر پر ہم رواں ہوتے ہیں اور اپنے وجود سے بے خبر عجب ایک کیفیت میں مگن ہو کر سامنے پہنچ جاتے ہیں۔ آگے تصریح: ح: حاشیہ ک : کتاب :صفحہ (ح۱) ک ۳ ص ۶۰ اس کی مرضی۔ اور جہاں شعور کا فتنہ بیدار ہوا، وہ سحر ٹوٹا، نظم کی رسی تڑا کر ہم نے رخ بدلا اور اس کی گولی کی زد سے نکل بھاگے میں آج کل اسی عالم میں ہوں۔ ٭٭٭ شعور کے چار سرچشمے شعور کو فتنہ کی بیداری کہنا بھی اقبال نے سکھایا، ورنہ خود یہ شاعر ہماری زبان کا سب سے باشعور اور بیدار فن کار تھا۔ سچ پوچھئے تو بیسویں صدی میں اردو فارسی ادبیات نے اس ایک شاعر کی بیداری کی برکت سے کم از کم ایک صدی کا فاصلہ طے کیا اور وہ عالمی پیمانہ کے مشائل حاضرہ سے دور بدو بات کرنے کے قابل ہوئی۔ اقبال کی جس نظم و نثر کے ہم رسیا ہیں وہ چالیس برس میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کی قدر و قیمت آنکنے کے لیے لازم ہے کہ ہم اس کے اصل سرچشموں پر۔۔۔۔۔ جو دراصل اجزائے ترکیبی (Compliments) بھی ہیں، نظر رکھیں۔ یہ چاروں ایک دوسرے سے گھلے ملے ہیں، میں انہیں سہولت کی خاطر یوں ترتیب دوں گاـ: ۱۔ مسلم پنجاب و کشمیر، ۱۸۵۷ء کے بعد ۲۔ ہندوستان کا تہذیبی رینا ساں اور قومی آزادی کی تحریک ۳۔ جرمنی (بسمارک کے بعد) اور جرمن کلاسیکی فلاسفی ۴۔ یورپ اور مغربی سیاست کے مثبت و منفی نتائج بعد کے دونوں سرچشمے بظاہر ایک خانے ’’ فرنگ‘‘ میں شمار ہو سکتے تھے۔ مگر نہیں، گہرائی میں اتریے تو ان کی اصلیت مختلف ہے اور ان کے اثرات اقبال کے شعور پر بھی مختلف نتیجوں میں ظاہر ہوئے۔ سوال ہو گا کہ : اور اسلام؟ اقبال خود بار بار اعلان کرتے ہیں کہ: ’’ ۔۔۔۔ میں نے اپنی زندگی کا زاید حصہ اسلام اور اسلامی فقہ و سیاست، تہذیب و تمدن اور ادبیات کے مطالعے میں صرف کیا۔۔۔‘‘ (ح۲) ’’ ۔۔۔۔ میرا جو فلسفہ ہے وہ قدیم مسلمان صوفیہ و حکماء کی ہی تعلیمات کا تکملہ ہے بلکہ بالفاظ صحیح تر یوں کہنا چاہیے۔ کہ یہ جدید تجربات کی روشنی میں قدیم متن کی تفسیر ہے۔۔۔‘‘ (۳) (۲) حرف اقبال ص ۷ (۳) رسالہ معارف اکتوبر ۲۲ تو عرض ہے کہ اسلام اور تصوف کے وسیع مطالعے نے، غور و فکر نے اور رروحانی تجربات نے اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں جو اہم حصہ لیا، اسے مسلمانان پنجاب و کشمیر کے مادی حالات اور شعوری تحریکوں میں او رانہی کے ساتھ ہندورینا ساں (نشاۃ ثانیہ) کے بڑے فریم میں اور پھر جرمن مابعد الطبیعیات کے تعلق میں دیکھیں تھی اس کے تار و پود کا پتہ چلتا ہے یوں الگ الگ اشعار اور خطبات و خطوط سے خود فکر اقبال میں اسلام اور تصوف کے بعض پہلو تو روشنی میں ضرور آ جائیں گے، ان کے ارتقاء کا راز نہیں کھلے گا۔ تصوف کا چلن اقبال کو اپنے والد بزرگوار سے ملا (ملاحظہ ہو عطیہ بیگم کا بیان )4؎ مذہبی فرائض کی پابندی اور عقیدت کی شدت کشمیری نو مسلم خاندان سے پائی، اسلام اور تصوف کا بنیادی مطالعہ عربی اور فلسفے کی تعلیم نے مہیا کیا، لیکن پختہ عمر کو پہنچ کر اسلامیات کو اپنی نگاہ کا مرکز بنانا اور تصوف کی تاریخ میں اتر کر ایک مقررہ نہج کو اپنانا، اسے عہد حاضر کے حالات کی روشنی میں جانچنا اور ایک قطعی سمت کی تلقین کرنا۔۔۔۔۔ بلکہ سماجی تقاضوں کی کسوٹی پر اصرار کرنا اسلام اور تصوف کے علمی پہلو سے زیادہ اس کے عملی امکانات اور اثرات پر متوجہ کرتا ہے۔ پروفیسر نکلسن (Repnold a nicholson)نے ’’ اسرار خودی‘‘ کے انگریزی ترجمے کے دیباچے میں لکھا تھا کہ اس مثنوی کی اشاعت نے ہندوستانی مسلمانوں کی نو عمر نسل میں طوفان برپا کر دیا ہے اور اب آگے چل کر دیکھنا ہے کہ جن کا شعور بیدار ہوا ہے وہ کدھر قدم بڑھاتے ہیں۔ مقام خداوندی کا دور سے تصور کر کے کیا ان کی تسلی ہو جائے گی یا وہ اس نئے پیغام کو ایسے مقاصد کے لیے اختیار کریں گے جو خود مصنف (اقبال) کے ذہن میں بھی موجود نہیں۔۔ (۵) گویا پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد اقبال کے پیغام سے برپا ہونے والے طوفان کے متعلق ادبی نہیں، سماجی، سیاسی اندیشے سات سمندر پار تک محسوس کیے جانے لگے تھے اور وہ اس لیے کہ مقامی اور عالمی صورت حال سے ان کا گہرا رشتہ تھا۔ یہ پیغام جس خاک سے اٹھا تھا، بالآخر اسی میں جذب ہونے اور رنگ لانے والا تھا۔ اقبال کی تصانیف میں سب سے پہلے فارسی مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ شائع ہوئی (۱۹۱۵ئ) پھر رموز بے خودی (۱۹۱۸ئ) اور پانچ سال بعد (۱۹۲۳ئ) میں ’’ پیام مشرق‘‘ منظومات تینوں فارسی میں تھیں، تاہم سینہ بہ سینہ اور ترجمہ ہو کر ان کے مفہوم و معنی تعلیم یافتہ حلقوں میں عام ہو چکے تھے، جب ’’ بانگ درا‘‘ نکلی اور گونجی (۱۹۲۴ئ) تب سے اب (۱۹۷۷ئ) تک یکے بعد دیگرے دو نسلیں زندگی کے عملی اور فکری میدان میں اتر چکی ہیں، ایک وہ جس کے ایماء آرزو یا اعمال کے نتیجے میں ہندوستان دو مملکتوں میں تقسیم ہوا اور جس نے پاکستان کی تشکیل کو اقبال کے خواب کی تعبیر سمجھا، دوسری وہ نسل حاضر جو اس تاریخ ساز یا تاریخ شکن واقعے کے ما بعد اثرات کا سامنا کر رہی ہے اور اقبال کے پیغام کو ٹھیک اسی بے مروتی سے جانچنے کی بہتر پوزیشن میں ہے جس بے مروتی سے ہمارے شاعر اعظم نے ہندوستان اور عجم کے تاریخی پس منظر میں اسلام، اسلامی تحریکات، خصوصاً علم الکلام اور تصوف کو جانچا تھا۔ ٭٭٭ (4) ک، ۳، ص ۱۱۔ ۱۰ (5) ک ۱۸ Introduction xxx-xi ارتقائی دائرے کی صورت میں سفر مسلسل اقبال نے شعر اور نثر دونوں میں جتایا ہے کہ وہ مجموعہ اضداد ہیں۔ ’’ زہد اور رندی‘‘ ۱۹۰۵ء سے پہلے کی نظم ہے جس میں ایک مولوی صاحب کی زبانی یہ طعنہ سنا کر اس کے جواب میں صرف اتنا کہا کہ: (۶) (اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے) (۷) کئی سال بعد لندن میں (اپریل ۱۹۰۷ئ) وہ عطیہ بیگم کو جتاتے ہیں کہ: ’’ میں اصل میں دوہری شخصیت کا آدمی ہوں، باہر سے عملی اور کاروباری، اندر سے خواب و خیال کی دنیا میں رہنے والا، فلسفی اور ماورائی۔‘‘ چنانچہ اقبال نے نکتہ چینوں کی راہ آسان کر دی کہ خود انہی کی تحریروں سے اثبات اور نفی کے پہلو ایک ساتھ نکل آتے ہیں اور محض بد نظر یا بد ذوق لوگوں کے قلم سے نہیں، بلکہ وہ جنہوں نے اقبال کے مطالعے میں عمریں تیر کر دیں ان کے ہاں بھی نشانہ خطا کر جاتا ہے۔ یہاں ایک مثال کافی ہو گی۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی: ۵۰ برس تک مشرق و مغرب کے فلسفیانہ نظاموں میں غرق رہنے اور خود اقبال کے سامنے برسوں زانوئے ادب تہہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ: ’’ ۔۔۔۔ میں جو یہ کہتا ہوں کہ اقبال مرحوم وحدۃ الوجود کے قائل تھے، اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں انہیں اپنا ہم عقیدہ ثابت کرنا چاہتا ہوں بلکہ اس لیے کہ ان کی تمام تصانیف وحدۃ الوجود کی تعلیم موجود ہے۔۔‘‘ (۸) پروفیسر خلیفہ عبدالحکیم کو بھی یہ دونوں سعادتیں نصیب تھیں اور وہ اپنی کئی تصانیف (فکر غالب اور متفرق مضامین) میں اقبال کی زبانی کہہ چکے ہیں کہ شیخ اکبر محی الدین ابن العربی (الاندلسی) کی تصنیف (فصوص الحکم) کفر و الحاد سے آلودہ ہے: ’’ ۔۔۔۔۔ اقبال نے اس انداز کی وحدۃ الوجود کو نظری لحاظ سے غلط اور عملی لحاظ سے مضر سمجھا لہٰذا مسلمانوں کے روایتی تصوف کا ایک بڑا عنصر اقبال کے ترقی یافتہ تفکر و تاثر میں سے غائب ہو گیا۔۔۔‘‘ (۹) میکش اکبر آبادی کا عمر بھر کا اوڑھنا بچھونا ہی وحدۃ الوجود کا نظریہ، اس کا پرچار اور اقبال کا کلام رہا ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں: ’’ ۔۔۔۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال اپنے ابتدائی دور میں وحدۃ الوجود کے مخالف تھے جسے ’’ اسرار خودی‘‘ کا زمانہ کہنا موزوں ہو گا۔ اس وقت ان کا خیال تھا کہ تصوف اور خصوصاً وحدۃ الوجود کا عقیدہ نفی خودی کے مترادف ہے اور جب انہیں اپنے خیال کے خلاف واقعہ ہونے کا علم ہو گیا تو انہوں نے صراحت سے وحدۃ الوجود (6) ک ۱ ص ۶۰(7) ک ۳۷ ص ۱۵ (8) ک ۴۲ص ۳۷۴ (9) ک ۲۲ ص ۴۴۰ کی تائید فرمائی۔۔۔۔۔(10)‘‘ اور خود اقبال کیا فرماتے ہیں:؟ ہنگامہ بست از پے دیدار خاکیے نظارہ را بہانہ تماشائے رنگ و بوست (11) اب اسے چاہے وحدۃ الوجود کا ’’ ہمہ اوست‘‘ کہیے یا وحدۃ الشہور کا ’’ ہمہ از دست‘‘ ۔۔۔۔ دونوں کی گنجائش ہے۔ لیکن۔۔۔۔۔ اس صورت حال کے باوجود ہم اقبال کی چالیس برس کی کمائی کو مجموعہ اضداد نہیں کر سکتے۔ وقت کی ترتیب اور مختلف اثرات کی سراغ رسانی اور احتیاط کے ساتھ چن کر دیکھئے تو ان میں مسلسل حرکت، مسلسل جستجو کا عمل دخل نظر آئے گا۔ البتہ یہ حرکت ایک سیدھی سمت میں نہ عمودی (Vertical) نہ افقی (Horizantal) فکر اقبال کی سطحیں بدلتی جاتی ہیں اور ہر بار وہ بلند تر سطح پر نقطہ آغاز کی جانب رخ کرتا ہے اور کمانی کا سا دائرہ بناتا گزرتا ہے غیر شاعرانہ (یا ٹیکنیکل) صورت اس کی کچھ یوں بنتی ہے یعنی نہ تو وہ نقطہ آغاز پر واپس آتا ہے نہ اس سے مخالف سمت میں سفر تمام کرتا ہے ارضی کشش فنکار کو اپنی طرف کھینچتی ہے، ما بعد الطبیعاتی تفکر اور عینی (Idealist) فلسفے اسے نیلگوں فضا کی طرف بلاتے ہیں اور ’’ پس چہ باید کرد؟‘‘ کا سوالی مسلسل مسافرت میں بسر کرتا ہے، اپنے ماضی کو رد کیے بغیر اور مستقبل کی خوش خایلی سے دست بردار ہوئے بغیر وہ اپنے تاریخی دور کی حرکت و حرارت کی نمائندگی کرنے میں دیر تک کہیں نہیں تھمتا۔ کیا عجب، یہی سبب ہو کہ آج مختلف بلکہ متضاد سیاسی، سماجی نظاموں اور متصادم تہذیبی قدروں کے ماحول میں اس کے کلام کو پہلے سے بھی زیادہ سراہا جا رہا ہے۔ ٭٭٭ ’’ گسستن‘‘ اور’’ پیوستن‘‘ ۔۔۔۔ بنیادی مسئلہ ’’ خودی ‘‘ اور’’ بے خودی‘‘ عقل و عشق، جبرئیل و ابلیس، خیر و شر، فنا و بقا، حیات و موت، زمان و مکان کی اصطلاحیں خاص معنوں میں اقبال کے ہاں اس قدر دہرائی گئی ہیں اور انہوں نے اتنے مخصوص پیکر تراش کر رکھ دئیے ہیں (مثلاً مومن و کافر، شاہین و کبوتر، کوہ و دریا، موج و ساحل، لالہ صحرائی، جوئے رواں، فرہاد و پرویز، طائر لاہوتی، مرغک بیچارہ، سنگ و آئینہ، قلندر و فقیہہ شہر وغیرہ) کو عموماً شاعر کو سفید و سیاہ رنگوں میں پہچانا اور انہیں اصطلاحوں اور استعاروں کے کنویس پر شناخت کیا جاتا ہے حالانکہ ذرا غور سے ان اصطلاحوں، ترکیبوں، کنایوں اور استعاروں کے درمیانی رشتے کو ٹٹولیے تو اس کے ذہنی (10) ک ۲۳ ص ۱۲ (11) ک ۸ ص ۱۳۳ رویے کے اصل الفاظ مل جاتے ہیں:’’ گسستن ‘‘ اور’’ پیوستن‘‘ یہ بھی خود اقبال کے ہی پسندیدہ لفظ ہیں۔ مگر کم دہرائے گئے ہیں۔ مثلاً: گسستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک کہ تو ہے نغمہ رومی سے بے نیاز اب تک (۱۲) یا: پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ لیکن ایک مقام تصورات کی پوری عمارت انہی دونوں ستونوں پر کھڑی ہے۔ خواجہ حسن نظامی (مرحوم) کے نام ۳۰ دسمبر ۱۹۱۵ء کا ایک مفصل خط (۱۳) ہے جس میں تصوف اور رہبانیت کے تعلق سے لکھتے ہیں: ’’ حضرت امام ربانی (یعنی شیخ احمد سرہندی، مجدد الف ثانی ۱۶۲۴ء / ۱۰۳۴ھ عہد جہانگیر) نے مکتوبات میں ایک جگہ بحث کی ہے کہ ’’گسستن‘‘ اچھا ہے یا ’’ پیوستن‘‘ میرے نزدیک ’’ گسستن‘‘ عین اسلام ہے اور ’’ پیوستن‘‘ رہبانیت یا ایرانی تصوف ہے، اور اسی کے خلاف میں صدائے احتجاج بلند کرتا ہوں۔ گزشتہ علمائے اسلام نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب آپ نے مجھے ’’ ستر الوصال‘‘ کا خطاب دیا تھا، تو میں نے آپ کو لکھا تھا کہ مجھے ’’ سر الفراق‘‘ کہا جائے۔۔۔۔‘‘ یہاں ’’ سر الفراق‘‘ (جدائی کا رمز یا رمز شناس) کا مفہوم اور بھی صاف ہو جائے اگر ہم ’’جاوید نامہ‘‘ (اشاعت ۱۹۳۲ئ) میں رومی اور اقبال کے پیچھے پیچھے فلک مشتری پر قدم رکھیں اور وہاں دھوئیں میں اٹے ہوئے ایک شعلے کا سامنا ہو تو اس کا تعارف یوں کرایاجائے: گفت رومی، خواجہ اہل فراق آں سراپا سوز و آں خونیں ایاق ٭٭٭ فطرتش بیگانہ ذوق وصال زہد او ترک جمال لا یزال تا گسستن از جمال آساں نبود کار پیش افگند از ترک سجود اور یہ تعارف تمام ہوتا ہے: (12) ک ۳ ص ۱۲۱ ، ک۱ ص ۲۴۸ (13) ک ۱۶ ص ۱۱۶ ’’غرق اندر رزم خیر و شد ہنوز‘‘ (14) سجدے سے انکار کو اس ’’ سراپا سوز‘‘ نے بہانہ بنا لیا اور یوں ’’ گسستن ‘‘ اپنا کر ’’ جمال الٰہی‘‘ کی آغوش سے آزاد ہو گیا۔ یہاں ایک بار پھر اقبال نے ابلیس کو انکار کا رزم خیر و شر کا خود گری اور خود نگری کا سمبل، نہایت شاندار سمبل (Symbol) یا علامت بنا کر پیش کیا اور ایسے الفاظ میں جنہیں وہ خود اپنے لیے بھی پسند کرتے ہیں، مثلاً ’’ پرسوز‘‘ و نظر باز ’’ شعلہ بجاں‘‘ اور’’ ستر الفراق‘‘ اب ان کے شعر ونثر میں سے پسندیدہ یا آئیڈیل (Ideal) شخصیتوں کی ایک فہرست مرتب کیجئے تو اس میں بھی پر سوز’’ اہل فراق‘‘ ہی حاوی نظر آئیں گے: ابن عربی نہیں، سمنانی، ابو الفضل نہیں، مجدد سرہندی، دارا شکوہ نہیں، عالمگیر، ابن رشد نہیں، ابن تیمیہ، عراقی نہیں، رومی، الکندی و فارابی نہیں، واحد محمود اور غزالی، حافظ نہیں، بیدل اور نیٹشے اور شوپن ہائر بالآخر شاہ ولی اللہ اور سرسید احمد خاں۔ وجہ سامنے کی ہے: عمر کے بیشتر مرحلوں میں ان پر ’’ گسستن‘‘ کا نظریہ طاری رہا، وہ اس کی گرفت سے نکلتے، تہذیبی تاریخ کی وسعت انہیں کھینچ لے جاتی، رنگا رنگ مناظر میں گم کر دیتی۔۔۔ وہ دوسری زبان بولنے لگتے۔۔۔۔ اور پھر ’’ سر فراق‘‘ کو زندگی کی جولانی کا رمز اور ’’رزم خیر و شر‘‘ کا تقاضا جان کر اسی کی صدا بلند کرتے: تو نشناسی ہنوز، شوق بمیرد و زوصل (15) چیست حیات دوام، سوختن نا تمام ’’ وصل‘‘ میں شوق کی موت واقع ہوتی ہے۔ یہ مضمون کتنا ہی پامال سہی، اقبال کے ہاں اس کی ایک فلسفیانہ اور ہمہ گیر اہمیت ہے۔ ’’ سوختن ناتمام‘‘ فراق کا اصل نکتہ ہے۔ اقبال کا دل وصل کے لیے نہیں، فراق کو برقرار رکھنے اور اس سے تخلیقی کام لینے کے لیے مچلتا ہے۔ ’’ فراق‘‘ یا دوسرے لفظوں میں ’’ گسستن‘‘ خالص اسلام پر عجمی اثرات سے، اسلامی فلسفے پر نو فلاطونی عمل و دخل سے، تصوف کے روحانی تزکیے پر بدھ مت، مسیحیت اور ہندو رہبانیت (تیاگ) کے غلبے سے، مسلمانان کشمیر و پنجاب کی پیر پرستی سے اور تقدیر پرستانہ خانقاہی بے عملی سے نئے ابھرتے ہوئے ہندوستان میں ہندو سنسکرتی کے احیاء (Revival) سے تحریک آزادی میں جمہوریت کے نعروں کے پس پردہ جارحانہ قوم پرستی (Militirt Natiisgm) سے ہندوستانی نوجوانوں کے ذہن پر مغربی فلسفے اور مغربی تہذیب کے رعب داب سے، مغرب میں جمہوریت اور وطن پرستی کی ریا کاری سے، بظاہر آزادی پسند نظام کے سائے میں پنپنے والے امپریلزم سے، ایشیا اور افریقہ کی، مادی اعتبار سے کمزور قوموں پر سائنسی اور صنعت میں سے ترقی یافتہ قوم پرستانہ تنظیموں کے چھا جانے سے، اشتراکیت کی انقلابی ہل چل میں ’’ لا دینی بد اخلاقی‘‘ سے مغرب کی مادر پدر آزاد فضا (14) ک ۹ ص ۱۵۷ ک ۱۳ ص ۱۸۰ پروفیسر سلیم چشتی کو انہوں نے اپنی تازہ تصنیف ’’زبور عجم‘‘ پر اپنا بقول خود پسندیدہ شعر یہی لکھ کر دیا تھا۔ ظ ۱ میں پلنے والی تجارتی چھین جھپٹ والی ذہنیت سے اور بے لگام (Pernisive) سوسائٹی سے مختصر یہ کہ اندھی تقلید اور رائج صورتحال (Statusquo) کو قابل قبول بنانے والی مردود عقلیت اور منطق سے۔ مگر کیا یہی ’’ گسستن‘‘ کا ذہنی رویہ ان کی ابتداء و انتہا ہے؟ نہیں۔ اس کی ابتداء کا سراظ ہم لگا سکتے ہیں ۰۸ئ۔ ۱۹۰۵ء کا درمیانی زمانہ جب وہ انگلستان اور جرمنی میں شعور کی شدید بیداری کے ساتھ رہے اور گھومتے پھرتے، اور اس کی انتہا ۳۲۔ ۱۹۳۰ء کے دو تین سال جب وہ اسلامی فقہ کی جدید تدوین اور اجتہاد یا تجدید دین کی صدا کو بصحرا یعنی عقائد کی سطح پر اپنے پیغام کو بے اثر دیکھ کر مسئلے کے سیاسی حل کی طرف پوری طرح متوہ ہوئے۔ ۳۰ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس (الہ آباد) کے صدارتی خطبے میں انہوں نے مسلمانان ہند کے لیے ایک ہوم لینڈ (’’ برطانوی سلطنت کے اندر یا باہر رہ کر حکومت خود اختیاری‘‘ ) کی تجویز پیش کی اور صاف لفظوں میں اپنا تصور بیان کیا: ’’ ۔۔۔۔ مجھے تو نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی۔۔۔‘‘ پھر دوسری اور تیسری راؤنڈ ٹیبل کانفرنس (لندن) میں اور آل انڈیا مسلم کانفرنس (۳۲ئ) میں بھی سر الفراق کے مقدمے کی پیروی کرتے رہے، کیوں کہ جس جماعت کو انہوں نے اپنا مخاطب یا ہدف چنا تھا، اب اس کے ذہنی اور تہذیبی رگ و پے کے لیے وہ جداگانہ سیاسی اقتدار اور اس کی تمنا کا انجکشن لازم سمجھنے لگتے تھے۔ (16) گزر اس دور میں ممکن نہیں بے چوب کلیم ٭٭٭ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد اس پہلو سے چار دہائیوں پر پھیلی ہوئی، اقبال کے فکر و فن کی مخلوق کو دیکھئے تو ایک اور ہی عقدہ کھلے گا اکثر بنیادی مسائل میں یہاں تک کہ زبان اور فنی اسلوب کے اختیار و انتخاب میں بھی اقبال کا رویہ ’’ پیوستن‘‘ سے ’’ گسستن‘‘ کی جانب اور پھر بلند تر سطح پر ’’ پیوستن‘‘ کی سمت رجوع کرتا رہا ہے۔ اس خیال کی تصدیق کی خاطر موٹے میکانکی لفظوں کے استعمال پر مجبور ہوں۔ ملاحظہ ہو: وطن (قوم پرستی): پیوستن،گسستن، پیوستن و گسستن کی ملی جلی کیفیت (16) ک ۳۔ (خود اس زمانے کی نظموں اور غزلوں کے مجموعے کا نام ’’ ضرب کلیم‘‘ عصائے موسوی اور اور اس کی ضرب کی نسبت سے اسی ذہن کی نمائندگی کرتا ہے۔ ظ ۱۔ ’’ چوب کلیم‘‘ کا ایک مفہوم ایک ماہر اقبالیات بشیر ڈار نے یوں نکالا ہے: The Only safety molen socity biet in what he could a wiston of broth set on the staff of voice (Iqbal Book so26 age (fa) اسلام تقلیدی رسوم کے ساتھ: پیوستن، گسستن، پیوستن تصوف ہندوستان میں: پیوستن، گسستن، پیوستن مغربی سیاست و تہذیب، پیوستن، گسستن، پیوستن و گسستن کی درمیانی حالت مشرق و مغرب کا باہمی ربط: گسستن، پیوستن، گسستن قوموں کے عروج و زوال کا تصور: پیوستن، گسستن، پیوستن فن و ادب کی جدید اقدار پر: پیوستن، گسستن، پیوستن و گسستن اس عمل کے نشیب و فراز اور اس کے مندرجات کو سمجھنے کے لیے بہتر ہو گا کہ ہم اقبالیات کے ایک اہم مسئلے کو چن لیں اور اسے تنقیدی نظر سے چھان پھٹک لیں۔ فھو ھذا یوروپ میں ’’ عجم‘‘ کی تلاش جیسا کہ اہل نظر پر روشن ہے اسلام ایک سیاسی اور تبلیغی مذہب کی حیثیت سے منظر عام پر آیا اور معاشرتی قانون کے طور پر سیاسی قوت کے سائے میں پنپا۔ اسے تہذیبی ڈائی منشن (Dimension) عطا کیا ان صوف پوشوں نے جو فقہ (شرعی قانون) اور نفقہ (مادی احتیاج) دونوں مصلحتوں سے آزاد تھے۔ اقبال نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہاں شرعی قانون کی پابندی اور صوفیانہ مراقبے، دونوں کا ماحول طاری تھا۔ ان کے والد شیخ نور محمد (اگرچہ درزی کے پیشے سے معاش کماتے اور معمولی علمیت کے ایک خدا ترس آدمی تھے، تاہم ان ) سے بعض اوقات وہ کرامات ظاہر ہو جاتی تھیں، جو بڑے بڑے خدا رسیدہ صوفیہ سے منسوب ہیں۔ مثلاً وہ واقعہ جس کا ذکر گیارہ برس کے اقبال نے عطیہ بیگم سے کیا۔ (17) معجزات پر ایمان اور خوارق عادات پر یقین انہیں گھر سے ملا۔ اقبال اپنے وطن سیالکوٹ سے نکلنے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ (۹۶۔ ۱۸۹۵ئ) لینے تک تصوف کے اس انداز کو، جو کشمیر کے بدھسٹ روا جوں او رپنجاب کے نیم شرعی، نیم علاقائی تہذیبی سائے میں صدیوں پہلے پروان چڑھ چکا تھا، اپنا مذہب اور طریق زندگی شمار کرتے ہوں گے۔ بی اے میں انہوں نے انگریزی اور عربی ادب کے مضامین لیے ایم اے کے لیے (پروفیسر آرنلڈ سے فیض اٹھانے کی خاطر فلسفے کا انتخاب کیا۔ پھر فلسفے کے استاد مقرر ہوئے۔ گویا جب تک فلسفہ اور وہ بھی ایک انگریز مستشرق کے ہاتھوں ان تک نہ پہنچا، وہ انگریزی، فارسی اور عربی ادب کے طالب علم تھے۔ (فارسی کا ذوق ان کے تن من میں مولوی میر حسن نے پہلے ہی بھر دیا تھا) ایک سمت سے انہیں صوفیانہ کلام کی آنچ پہنچی۔ دوسری جانب سے رومانوی شعراء کی ہما ہمی (انگریزی ادبیات کے مطالعے میں رومانوی شعراء کا دور خاص موضوع نصاب تھا ان دنوں (18) تب تک شریعت، طریقت اور رواج عام یا رسوم میں کوئی ناچاتی نہ ہوئی تھی۔ اب اسلامی اور یورپی فلسفے کے مطالعے سے جو ذہن کی کمانیاں کھلیں اس نے انہیں اپنے ارد گرد کی دنیا میں حقیقت کے اصول اور مجازی روپ کی جانب اور ان کے تفرقے پر متوجہ کیا۔ (17) ک، ۳ ص ۱۱ ( ۱۸ ) براؤننگ اور ورڈ سورتھ کے کلام سے ان کا دلی لگاؤ سوانح نگاروں کے بیان کے علاوہ خود اقبال کے حوالوں سے بھی ظاہر ہے۔ پانچ برس انہوں نے لاہور کے درسی اور علمی حلقوں میں جو سر گرم زندگی بسر کی اس دوران ہندو متوسط طبقے میں گونجنے والی سیاسی اور تہذیبی تحریکوں نے انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لیا۔ ۱۹۰۵ء تک نظمیں اور غزلیں (’’ بانگ درا(19)‘‘ حصہ اول ) شاہد ہیں کہ تصوف کے خاندانی پس منظر نے ان کے سینے میں قومی درد اور قومی آزادی کی رومانوی لہر کے لیے جگہ پیدا کر دی تھی۔ پروفیسر آرنلڈ کے وسیع علم اور استادانہ شفقت نے یقینا ان پر مغرب کی عملی برتری کا سکہ بٹھا دیا ہو گا کہ ان کے رخصت ہوتے ہی اقبال نے بھی رخت سفر باندھا اور سال بھر بعد وہ کیمبرج (انگلینڈ) کے مشہور ٹرینٹی کالج پہنچ گئے جہاں سے انہیں ادبیات میں بی اے کرنا تھا۔ یونیورسٹی انگریزوں کی تھی، لیکچر فارسی ادب اور فلسفے کے، استاد جرمن فلسفی ہیگل کے عقیدت مند وہ اقبال جو سر زمین وطن سے رخصت ہوتے وقت (20) حضرت نظام الدینؓ کی درگاہ (دہلی) پر رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں وہ اب ہیگل کی جدلیات سے دو چار ہیں۔ کیمبرج سے ہی ان کا جرمنی سفر شروع ہو گیا۔ یہیں طے کیا کہ بی اے اور بیرسٹری کی سند کے علاوہ ڈاکٹریٹ بھی کی جائے۔ میونخ (جرمن) یونیورسٹی سے کی جائے اور ’’ مسائل تصوف‘‘ پر کی جائے۔ ۸۔ ۱۹۰۵ء کے دوران ہم اقبال کے قالب میں دو روحوں سے ملتے ہیں۔ کم و بیش تیس برس کا تنومند کسرتی بدن یورپی تہذیب کے آزادانہ ماحول میں ہر پہلو سے بھر پور زندگی جینا چاہتا ہے (وہ پری زادوں کی محفلوں میں گاتا بھی ہے، ناچتا بھی ہے، لطیفے اور چٹکلے بھی سناتا ہے، ریجھتا ہے اور رجھاتا بھی ہے (21) لیکن تمام وقت خارو پیرہن رہتا ہے۔ ریسرچ کے لیے جو موضوع اسے سجھایا گیا یا طے پایا اس کا براہ راست سامنا اپنے معتقدات سے ہے (22) تصوف کے عادی عقیدوں سے، جیسے کہ وہ اقبال کے ہم وطن ماحول میں رائج ہیں، جیسے اس کی سرشت میں شامل ہیں اور جو انگریز اور جرمن ذی علم مردوں، عورتوں کے اس دلفریب اور توانا منظر سے میل نہیں کھاتے۔ انگریز کے صاف ستھرے، ضابطہ پسند بلکہ عقلیت، اثباتیت اور افادیت پسند (23) نظریاتی حلقوں میں گفتگو کچھ اور ہے اور برطانوی حکومت ہند بلکہ پورے برطانوی امپریلزم کی پالیسی اور عمل کچھ اور ان کے علاوہ تیسرا۔۔۔۔۔ چکا چوند کر دینے والا تضاد وہ ہے جسے جرمن پروفیسروں نے میونخ، بانڈل برگ اور برلن کے جرمنی نے اقبال کی گیلی مٹی میں بویا۔ کانٹ کی تنقید عقل محض (Critique of pan easoin) ہیگل کے جدلیات (Laleticer) نیتشے کا فوق الانسان (Seperton) اور گوئٹے کا شرق و غرب کی طنابیں کھینچنے والا کلام تب تک صرف نصاب کی کتابوں میں مقیم تھے، اب (19) ک ا۔ حصہ اول (20) ہمیں معلوم ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء چشتی، وحدۃ الوجود کا عقیدہ اور سماع کی محفل گرم رکھتے تھے اور ان کے عقیدت مندوں اور حاضر باشوں میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے نہ اسلامی شعار قبول کیا تھا، نہ اپنے غیر اسلامی نام بدلے تھے۔ حضرت خواجہ کے بعض معاصرین ان کے اس ہمہ گیر حلقے پر سخت نکتہ چینی بھی کیا کرتے تھے۔ (ظ ۱) (21) ملاحظہ ہو سوانحی تفصیلات ک نمبر ۳۷، ۲۰، ۲۶ جن سے ظاہر ہے کہ وہ نو عمری کی شادی سے بھی اتنا ہی پریشان ہے جتنا مشرق و مغرب کے تضاد سے (22) ک۔ ۲۲ (23) ک ۱۶ (Ratoralisan Position Utiltorianisn) وہ تازہ دم اور پر امید، انفرادیت پرست جرمن نسل حاضر کی زندگی کے ورق الٹتے نظر آئے۔ اقبال جرمنی میں سال بھر بھی نہیں ٹھہرے۔ آتے جاتے رہے مگر اس قوم کے مادی اور ذہنی ماحول سے کس درجہ متاثر ہوئے ہوں گے کہ جرمن جیسی زبان تین مہینے میں سیکھ ڈالی اور اس میں ادبی شان کے خط لکھنے لگے۔ (24) ۱۹۰۷ء میں انہوں نے ڈاکٹریٹ کا جو تھیسس میونخ میں پیش کیا، اس کے اہم نکات اقبال کے ماضی اور مستقبل کے درمیان ترچھا موڑ نظر آتے ہیں۔ (25) معاصر جرمنی اور اقبال کے رشتے کو مزید معلومات کی روشنی میں ٹٹولنے کا کام ابھی باقی ہے۔ جرمنی سیاسی حیثیت سے متحد اور انگریز کی منافع خور ذہنیت سے متنفر، صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ، ذہنی اعتبار سے انفرادیت پسند اور خود نگر، ما بعد الطبیعیاتی فلسفے کے رسیا، دانشوروں کا مرکز، شدید جذباتی قوم کا وطن، دوسرے یورپی ممالک کی سامراجی فتوحات کو دیکھ دیکھ کر انگڑائیاں توڑ رہا تھا۔ اور اپنی خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرنے کو بے تاب (26) تھا۔ روشن خیال قسم کے آہنی پنجے (Enligtecene desptism) کا تصور سالہا سال سے جرمن ذہن کو ورغلائے جا رہا تھا، گوئٹے کے فاؤسٹ، نیٹشے کے بے درد اور بر تر ارسٹا کریٹ (شریف زادے) نے اسے اور بھی خوراک مہیا کر دی ۔ مذہبی، رسمی عقائد کا پروردہ پنجابی مسلمان اپنے معاشرے کی پسماندگی اور بے حسی سے دل برداشتہ شاعر، جرمن فلسفے کے ساتھ جوانوں کے اس جانفزا عزم سے بالآخر دو آتشہ نشہ لے چلا۔ وہ اپنے تھی سس میں ان نکات کو نمایاں کرتے ہیں: (ا) اسلامی عقلیت کے ذہنی ماحول نے یونانی فلسفے، تشکیک پسندی، مسیحیت، بدھ مت کی رہبانیت اور رومانوی ثنویت خیر و شر کی تخلیق کے سلسلے میں (Lwchism) کی فضا میں تشکیل پائی۔ (ب) معتزلہ جنہوں نے اسلامی عقائد کو علمی کسوٹی پر رکھنے کی تحریک چلائی، بیشتر ایرانی اور ان کے اکثر نمائندے مذہباً شیعہ تھے (24) ک ۳۷ ص ۹ (25) ک ۱۲ ص ۹ (26) There were indeed men such a weber who affirmed that a return to metapysics was impossible, but the young generation demanded a total system of truth about the world. among writers with philosophical medication this quest led some to religion others to nietzishes irrationalism. still others to a nihilistie rejection of culture as a whole. lakae's moved in a different direction, towards hegel disples of goethe. Nietzsche and fin de sicele poets with mystic leunings they cultivated on mdvidualism that found its legumation in a prefound distate for the world of ordinary man... خدا کی وحدانیت کا جدلیاتی طریقہ معتزلہ نے اختیار کیا، اس کی راہ پر چلیے تو راسخ العقیدہ مسلمان اور معتزلی میں اختلاف پڑتاہے۔ (ج) کسی قوم میں وہی نظریہ جڑ پکڑتا ہے جو خاص اسی قوم کے روایات، مزاج اور حالات سے ابھرتا ہو۔ چنانچہ ایران میں مذہبی فرقہ بندیاں (خصوصاً اسمعیلی تحریک) عرب اقتدار کے خلاف بے چینی کا مظہر تھیں۔ ’’ ان ابتدائی مسمان مرتاضئین کی حیات و فکر کی سامی نوعیت کے ساتھ ساتھ وحدۃ الوجود کا ایک وسیع نظریہ بتدریج وجود میں آ گیا جس پر کم و بیش آریائی رنگ چڑھا ہوا تھا، اس نظریے کا ارتقاء ایران کی سیاسی آزادی کے نشوونما کے متوازی تھا۔‘‘ (د) ’’ دور عباسیہ کے ابتدائی زمانے میں عقلیت کے میلان کے اثر سے مذہبی جوش بتدریج ٹھنڈا ہونے لگا اور دولت کی روز افزوں فراوانی سے اخلاقی احساس دبتا گیا۔ اسلام کے اعلیٰ طبقوں میں مذہبی زندگی سے بے اعتنائی برتی جانے لگی۔‘‘ (ر) تاتاری غلبے کے بعد عجم (ایران و عراق وغیرہ) کے اکثر مفکرین وطن سے بے وطن ہو گئے۔ سولہویں صدی میں کئی ایک ہندوستان چلے آئے جہاں ’’ شہنشاہ اکبر زرتشیت کی مدد سے، خود اپنے لیے اور درباریوں کے لیے، جن پر ایرانیت زیادہ غالب تھی، ایک جدید مذہب کی بنیاد ڈال رہا تھا۔‘‘ (س) فقہ کو ترقی ہوئی، تصوف عام ہوا اور آزادانہ تفکر دب گیا۔ تین سال حصول تعلیم کے لیے کیا ہوتے ہیں کچھ بھی نہیں۔ لیکن ہم تھی سس میں ابھرنے والے نکات کو، جرمنی کے علمی اور پر جوش ماحول اور لندن و کیمبرج کے سیاسی و تہذیبی اثرات کے پس منظر میں دیکھتے ہیں اور ہمعصروں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ: (ا) وہ جب یورپ میں وارد ہوئے تو صوفیانہ عقائد، خصوصاً وحدۃ الوجود اور ’’ ہمہ اوست‘‘ نظریے کے مفکر ابن عربی (۱۲۴۰۔ ۱۱۶۵ئ) کے بڑے معتقد تھے۔ جاتے وقت وہ اس سے بدظں ہو چکے تھے۔ کہیں ابن عربی کا ذکر بھی آیا تو عبدالکریم جیلی کے نظریہ ’’ انسان کامل‘‘ کے تعلق سے۔ (ب) جغرافیائی وطن پرستی کا یروپین (بلکہ امپریلسٹ) روپ دیکھ کر اس سے بیزار ہو گئے تھے، محکوم قوموں کے حق میں نیشنلزم کیسا ہتھیار ہے، یہ نہ دیکھ سکے۔ (ج) حافظ کی شیریں کلامی سے سرشار آئے تھے او رچلتے وقت اسی حافظ کو تقدیر پرست اور مضمحل مسلم معاشرے کے لیے مخدوش قرار دینے لگے۔ (د) بلقان اور وسط ایشیا کی مسلم قوموں کی پسپائی اور یورپین طاقتوں کی باہمی سازشی پیشقدمی نے اسلام کی سیاسی اور ذہنی حالت پر انہیں چونکا دیا۔ (ر) جرمن قوم پرستانہ پالیسی کی ہمدردیاں ترکی سے، اور رقابت برطانوی شہنشاہیت سے! ترکوں کی فوجی تربیت میں جرمنوں کا بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔ ان فوری واقعات کا بھی ان کے ذہن پر شدید اثر ہوا ہو گا۔ روسی مستشرق اے کریمسکی نے اپنی تاریخ ادبیات ایران (مطبوعہ ۱۹۱۲ئ)میں اس تھی سس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ کتاب کے حصہ دوم کا باب تصوف خود اس نظریے سے گہری الفت ظاہر کرتا ہے۔‘‘ ۱۹۰۷ء میں یہ تھی سس پیش کر دیا گیا (27) اور محمد اقبال لندن سے بار ایٹ لاء کیمبرج سے بی اے (لٹریچر) اور میونخ سے پی ایچ ڈی ہو کر، جسم و روح کی نئی لذتوں سے سرشار ۱۹۰۸ء کے وسط میں ہندوستان آ گئے۔ یعنی گوکھرو، بچھے ہوئے سبزہ زار میں برہنہ پا اترے۔ اب ہمیں جرمن قومی ماحول سے اقبال کے دل کے تار ملتے نظر آتے ہیں۔ عطیہ بیگم کو مشورہ دیتے ہیں کہ علم اور حوصلہ چاہو تو بائڈل برگ کو اپنی منزل بناؤ، شیلی اور بائرن کی جگہ نیتشے اور شوپن ہائر لے لیتے ہیں۔ خطوط میں جرمن قوم کے حوصلے اور ذہانت کی داد دیتے ہیں اور کوئی پچیس برس بعد جب اپنے بن ماں کے بچوں کے لیے گورنس کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ جرمن خاتون ہے۔ بیٹی کو جرمن پڑھنے اور جرمن عورتوں کی طرح بہادر بننے پر اکساتے رہتے ہیں۔ (28) جرمنی، گویا ایک پل تھا مشرقی خصائل اور مغرب کے عملی، افادی اپروچ کے درمیان اور اس پل سے گزر کر ہی ماضی کے عادات و خیالات کو ’’ الفراق‘‘ کہنے کی باری آئی۔ (29) یہ تھا ’’ پیوستن‘‘ سے ’’ گسستن‘‘ کی طرف رجوع جو کانٹ کے ذہنی اثرات کے مشاہدے سے فشتے اور نیتشے سے ہمعصر فرانسیسی مفکر برگسان تک پہنچا۔ (30) اور جس نے عادت اور عقلیت دونوں کی وراثت فرد کے تخلیقی ارتقاء کی قربان گاہ پر چڑھادی۔ اقبال کی ہندوستان گیر شہرت خواص سے عوام تک پہنچی ان کے مسدس ’’ شکوہ‘‘ کے ساتھ (۱۹۱۱ئ) جو مسلمانان ہند کی زبوں حالی کا طنز آمیز مرثیہ ہے: شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو انہی دنوں وہ ’’ انجمن کشمیری مسلمانان‘‘ کی سرگرمیوں میں بھی شریک ہوئے۔ ’’ یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے‘‘ اور’’ شمع و شاعر‘‘ خطاب بہ نوجوان اسلام ایسی نظمیں لکھی گئیں جو ادھر شاعر کی زبان سے نکلیں، ادھر زبان زد خاص و عام ہو گئیں۔ ’’ گورستان شاہی‘‘ (۱۹۱۰ئ) ان میں خصوصیت سے قابل غور ہے کہ گولکنڈہ کے شاہی قبرستان کے منظر سے متاثر ہو کر لکھی گئی اور جو ہمارے خیال میں ان کی معرکہ آراء نظم مسجد قرطبہ (۱۹۳۳ئ) کا پیش لفظ یا نقش اول ہے۔ شاعر قوموں اور خاندانوں کے عروج و زوال کا رمز، اور اسی کے ساتھ اپنے علاقے یا گرد و پیش کے مسلمانوں کی پسماندگی اور بے دلی کا مرض تشخیص کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ مان لینے کے بعد کہ: (27) ک ۳۶ ص ۶۳ (28) ک ۲۶ ، ص ۶۳، ۶۱ (29) پہلی جنگ عظیم کے بعد اسی جرمنی میں یو پی کے ذاکر حسین خاں، محمد مجیب اور عابد حسین نے بھی کئی کئی تعلیمی سال بسر کئے لیکن جس قومی آزادی کی تحریک سے کئے تھے اسی میں واپس آئے۔ شعو رکی تیزی اور جذبے کی شدت لے کر آئے، باقی عمر اسی کے ساتھ رابطہ استوار رکھا۔ اقبال کو سمجھنے میں یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے ظ ۱ (30) ک ۲۶ B.R. Dar p. 188. اس زیاں خانے میں کوئی ملت گردوں وقار رہ نہیں سکتی ابد تک بار دوش روزگار وہ ’’ ماتمی‘‘ لہجے پر قناعت نہیں کرتا بلکہ زندگی اور توانائی کا (قبروں کے منظر سے توانائی کا!) ایک نیا پہلو دریافت کرتا ہے: ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور یعنی ا گرچہ اس زیاں خانے میں مسلمان سیاسی اقتدار کا جلوہ دکھا چکے (اور گزر گئے، بج گئے) تاہم ابھی تہذیبی مجلسی زندگی میں انہیں اپنا فنکشن پورا کرنا ہے (اور اس کے لیے حیات تازہ درکار ہے) انہی دنوں وہ ’’ مثنوی اسرار خودی‘‘ لکھ رہے تھے جو ۱۹۱۴ء میں تمام ہوئی اور ۱۹۱۵ء میں منظر عام پر آئی۔ یہاں اقبال نے اپنی ذہنی اور فنی تربیت کے چاروں سرچشموں کا سراغ بھی دیا، ان کے بارے میں اپنا رویہ بھی طے کیا اور آئندہ کے لیے راہ عمل بھی طے کر دی۔ اب وہ محض شاعر نہیں ایک مکمل نظام فکر کے پیامبر بھی ہیں۔ ’’ قوم کی شان جمالی کے ظہور‘‘ کے نقیب لیکن ’’ اسرار خودی‘‘ میں جس خودی کے زندہ کرنے پر زور دیا گیا، جس ’’ خودی‘‘ میں فرد اور ملت کی ’’ حیات تازہ‘‘ کے اسرار بنائے گئے وہ ’’ شان جمالی‘‘ کے بجائے ’’ شان جلالی کا روپ رنگ ابھارتے ہیں۔‘‘ یہیں ٹھہر کر ہم تصوف کے تاریخی رول اور ’’ شان جمالی‘‘ کا۔۔۔۔۔ جو ’’ پیوستن‘‘ کی انتہائی پر اسرار اور کار گر ریشہ دوانی ہے اقبال کے خاص اسی دور کے تصورات کی روشنی میں ایک جائزہ لے لیں: مسیحیت میں خدا محبت ہے تو اسلام میں قوت، ہم اپنے تاریخی تجربات کی بناء پر تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ قوت کے روپ میں خدا کی پیشکش بہتر ہے۔ صداقت کے مقابلے میں قوت زیادہ ربانی (Kinanc) ہے۔ خدا قوت ہے لہٰذا تمہیں بھی اپنے آسمانی باپ کی مثل ہونا چاہیے۔ (31) خودی کی حیات مقاصد پیدا کرنے اور انہیں پروان چڑھانے سے ہے۔ ماز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم (32) خودی، عشق سے (یعنی قوت تسخیر اور مقصد کے لیے سر فروشی کی تمنا سے مستحکم ہوتی ہے اور سوال (یعنی دوسروں کے مادی یا ذہنی سرمائے پر بسر کرنے) سے کمزور ہوتی ہے۔ ’’ خودی‘‘ شخصیت کو مستحکم کرنے سے آدمی کو ارتقاء کی طرف لے جاتی ہے۔ اس طرح خیر و شر کا پیمانہ یا معیار شخصیت (31) ک ۳۱ بحوالہ Stray Reflections (32) ک ۵ 18؎ قرار پاتی ہے، آرٹ، مذہب اور اخلاقیات سب کی جانچ یہی ہے کہ جس بات سے شخصیت کی تعمیر میں مدد ملے، وہ خیر، جو اسے کمزور کرے وہ شر اور قابل رد۔ (33) افلاطون کا فلسفہ جس نے اقوام اسلامیہ کے تصوف اور ادبیات پر عظیم اثر ڈالا، گو سفندی مسلک ہے، قوائے عمل کو کمزور کرتا ہے۔ اس سے خودی کی نفی نکلتی ہے۔ وہ مغلوب قوموں کی ایجاد ہے جو انحطاط کو تہذیب کا نام دے کر خونخوار شیروں کی طاقت سلب کر لیتی ہے۔ آرٹ کو صرف حسن آفرینی نہیں، بلکہ حیات آفرینی کا فریضہ سپرد ہے تاکہ موجود نہیں اس کی تخلیق ہو، فعال جذبات جاگیں، اعصاب میں نرمی کے بجائے درشتی آئے۔ ’’ اسرار خودی‘‘ میں حافظ کی دلفریبی کو نفی خودی سے تعبیر کرتے ہوئے (’’ جامش از زہرا جل سرمایہ دار‘‘ ) یہاں تک کہہ دیا تھا کہ: گو سفنداست و نوا آموخت است عشوۂ و ناز و ادا آموخت است اسی زمانے میں ایک خط میں (34) حافظ کو سمجھنے کے لیے اس زمانے کی مسلم سوسائٹی کے پولیٹیکل حالات اور ذہنی فضا کے مطالعے کا مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’ تصوف کا سب سے پہلا شاعر عراقی ہے جس نے ’’ لمعات‘‘ میں ’’فصوص الحکم‘‘ (محی الدین ابن عربی) کی تعلیموں کو نظم کیا ہے۔۔۔ اور سب سے آخری شاعر حافظ ہے۔ (اگر اسے صوفی سمجھا جائے) یہ حیرت کی بات ہے کہ تصوف کی تمام شاعری مسلمانوں کے پولیٹکل انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوئی۔۔۔۔ جس قوم میں طاقت و توانائی مفقود ہو جائے جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہو گئی تو پھر اس قوم کا نقطہ نگاہ بدل جایا کرتا ہے، ان کے نزدیک ناتوانی ا یک حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے اور ترک دنیا موجب تسکین۔۔۔‘‘ وطن ایک سیاسی تصور کی حیثیت سے قومیت کی بنیاد نہیں بن سکتا، مکان و زمان کی قیود ملت محمدیہ کو محدود نہیں کر سکتیں۔ (یہی بات وہ ’’ ترانہ ملی۔۔۔۔‘‘ مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا۔۔۔ میں لکھ چکے تھے، پھر ’’ رموز بیخودی‘‘ میں اصرار کیا اور سیاسی معنوں میں اصرار کیا کہ قومی (یا ملی) تا حیات کے لیے مرکز محسوس درکار ہوتا ہے اور ملت اسلامیہ کے لیے کعبہ ہی مرکز ہے۔ ’’ ادبیات اسلامیہ‘‘ کو (’’ اسرار خودی‘‘ میں) مشورہ دے چکے تھے کہ تن آسانی کے اثرات سے نکلو اور عرب کا رخ کرو فکر صالح در ادب می بایدت رجعتے سوئے عرب می بایدت از چمن زار عجم گل چیدۂ نو بہار ہند و ایراں دیدۂ (33) ک ۱۸ دیباچہ ۲۲ (34) ک ۱۶، سراج الدین پال کے نام جولائی ۱۹۱۶ء کا خط اند کے از گرمی صحرا بخور بادۂ دیرینہ از خرما بخور یہاں عرب کی طرف رجعت کرنے کا مقصد ’’ چمن زار عجم‘‘ سے منہ پھرانا اور عرب کی گرمی سے مراد ہے قوت، جوش عمل اور کسی بڑے مقصد کے لیے فن کاری۔ تقلید کی طرف واپسی ’’ رموز‘‘ میں دو۔۔۔۔ جو مسلمانوں میں عقلیت کی تحریک اور علم الکلام کی فلسفیانہ بحثوں سے پہلے ہی بدظن تھا، صاف اعلان کرتا ہے کہ انحطاط کے (موجودہ) زمانے میں ’’ اجتہاد سے تقلید بہتر‘‘ ہے، یعنی خیالات اور مسائل کو جوں کا توں دلیل و حجت کے بغیر مان لینا اور ان کی تعمیل کرنا چاہیے: مضمحل گردد چو تقویم حیات ملت از تقلید می گیرد ثبات (35) اسی زمانے کی ظریفانہ غزل کا شعر ہے: اس دور میں سب مٹ جائیں گے، ہاں باقی وہ رہ جائیگا جو قائم اپنی راہ پہ ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہے یہی بات جو تقلید کے حق میں مسلم سے کہی، وہی ایک شیخ کی زبانی برہمن کے لیے نصیحت بنی ہے کہ کفر بھی ’’ سرمایہ جمعیت‘‘ ہوتا ہے، اس لیے: ’’اے امانت دار تہذیب کہن پشت پا بر مسلک آبا مزن‘‘ یعنی اپنے بزرگوں کی رسم کہن پر (خدا نہ کرے کہ اس سے مراد ہو ذات پات والا سماجی نظام) مضبوطی قائم رہو۔ یعنی ایک مقام پر ثابت قدم رہنے اور جماعتی قوت بنائے رکھنے کے لیے لازم ہے کہ اس اختلاف سے پرہیز کیا جائے جو نئے اصلاحی خیالات کے ساتھ سر اٹھاتا ہے۔ اور یہاں پھر اسی پر اصرار ہے کہ: ’’از خیالات عجم باید حذر‘‘ اور (35) ک ۶ با عرب در ساز تا مسلم شوی انہی دنوں (۱۹۱۶ئ)ایک ذاتی خط میں وضاحت کی ہے کہ: ’’ شعرائے عجم میں بیشتر وہ شعراء ہیں جو اپنے فطری میلان کے باعث وجودی فلسفے کی طرف مائل تھے۔۔۔۔ ان شعراء نے نہایت عجیب و غریب اور بظاہر دلفریب طریقوں سے شعائر اسلام کی تردید یا تنسیخ کی ہے اور اسلام کی ہر محمود شے کو ایک طرح سے مذموم بیان کیا ہے۔ اگر اسلام افلاس کو برا کہتا ہے تو حکیم سنائی افلاس کو اعلیٰ درجے کی سعادت قرار دیتا ہے۔ اسلام جہاد فی سبیل اللہ کو حیات کے لیے ضروری تصور کرتا ہے تو شعرائے عجم اس شعار اسلام میں کوئی اور معنی تلاش کرتے ہیں۔۔۔‘‘ پھر ایک فارسی رباعی نقل کر کے۔۔۔۔ جس میں غازی اور شہید عشق کا موازنہ کر کے عشق خدا کے شہید کا مرتبہ بلند تر بیان ہوا ہے۔ اقبال ریمارک کرتے ہیں: ’’ ۔۔۔۔۔ (36) جہاد اسلامی کی تردید میں اس سے زیادہ فلریب اور خوب صورت طریق اختیار نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔ ‘‘ اقبال کے تعلق سے معتبر راوی انہی کی زندگی میں لکھتا ہے کہ: ’’ اسرار خودی‘‘ میں مغربی مفکرین میں سے تین کا اثر نمایاں معلوم ہوتا ہے۔ اساس خودی کا بیان۔۔۔۔ نیتشے سے ماخوذ ہے استحکام خودی، سخت کوشی اور سخت پسندی کا فلسفہ نیتشے کا ہے، لیکن حقیقت وقت اور سیلان حیات کے متعلق جو اشعار یا نظمیں ہیں وہ برگساں سے ماخوذ ہیں۔ برگساں کا اثر اقبال پر اسرار خودی کے بعد بھی قائم رہا۔ برگساں کا یہ فلسفہ توحید کے مقابلے میں دہریت سے زیادہ قریب ہے۔۔۔۔ اقبال نے لا تسبوا الدھر (37) کی حدیث سے مدد لے کر برگساں کی دہریت کو توحید کا ہم رنگ بنانے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔ خیر، یہ پہلو ہمارے اصل موضوع سے کنارے کا ہے، ہمیں تو صرف اسی قدر جتانا مقصود تھا کہ: قوت، اول قوت، آخر دقت (38)، فرد کی قوت، خودی میں جماعت کی قوت وحدت افکار میں، افکار کی قوت تقلید میں، (36) ک ۱۳ ص ۳۶(37) ک ۲۱ ، ص۹۶ اس مقالے میں خلیفہ عبدالحکیم نے لا تسبوا الدھر کو حدیث قدسی لکھ دیا۔ لفظ قدسی یہاں غلط ہے۔ ظ ۱ (38) ’’ شکتی پوجا‘‘ کا یہ جذبہ ۳۲۔ ۳۰ء تک پہنچتے پہنچتے اور شدید ہو جاتا ہے۔ مسولینی کی تحریک پھیلنے اور ہتھیار بند رضا کاروں کی امنگ بڑھنے میں وہ ایک زوال زدہ قوم (آل سیزر) کی نئی زندگی کے آثار دیکھتے ہیں۔ فلسطین کانفرنس میں آئے ہوئے بعض مسلم نوجوانوں میں بھی انہیں مسولینی کے حوالوں کا سا جوش اور قابل داد خلوص نظر آتا ہے۔ اسے وہ امید افزا سمجھتے ہیں۔ پیرس گئے (۳۲ئ) تو سب سے پہلے نپولین کے مزار کی زیارت کی کیا تعجب، جو کشمیر مسلم کانفرنس پر مظالم اور مسجد شہید گنج کے ایجی ٹیشن کا تاثر بھی اس میں شامل ہو۔(ظ ۱) تقلید کی قوت، رجعت سوئے عرب میں نئے عزم اور مقصد کے ساتھ۔ ایک آئینی اور ہم مرکزی میں۔۔۔۔ جسے قوم پرستی کے جغرافیائی اور وطن کی آزادی کے جمہوری عمل سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ خالص مذہبی۔۔۔۔ (واضح رہے کہ غیر عجمی، غیر شیعہ) ہر ایک ’’ بدعت‘‘ سے پاک، دینی عقیدے کی بنیاد پر ملت کا اور ملت کے احیا کا اور اول تا آخر ہم رنگ عقائد میں (Monolithic) جڑی ہوتی طاقتور (بے قیل و قال) تنظیم کا تصور ابھرتا ہے۔ ۱۹۱۰ء کے بعد والی نظموں، خطوں اور ملفوظات سے یہ ہم نہیں کہتے، فلسفہ تاریخ کے عالم اور اقبال کے بڑے مداح ڈاکٹر عابد حسین لکھتے ہیں: ’’ ۔۔۔۔۔ یک آئینی اور یک جہتی۔۔۔ ہم مرکزی اور ہم مقصدی ملت کو متحد کر کے ایک نفس واحد بنا دیتی ہے اور اس میں ایک اجتماعی خودی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے جس کی مجموعی قوت فرد کی خودی کو تقویت پہنچاتی ہے اور وسیع تر، محکم تر بناتی ہے۔۔۔ (۳۹)‘‘ اور پھر شاعر ’’ جہاد‘‘ کا مفہوم واضح کرتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ ناحق اوروں کا ملک غصب کرنے کی غرض سے نہو۔ ’’ رموز‘‘ میں جو ’’ اسرار‘‘ کے دو سال کے اندر لکھی گئی اورنگ زیب عالمگیر کی جرأت و شجاعت (اور قوت) کا ایک واقعہ لکھتے ہوئے، تاریخ ہند پر اپنے نقطہ نظر کا (شاید نا دانستہ یا بے محل) اظہار بھی کر دیا ہے کہ: شاہ عالمگیر گردوں آستاں درمیان کار زار کفر و دیں تر کش ما را خدنگ آخریں تخم الحادے کہ اکبر پرورید باز اندر فطرت دارا دمید حق گزید از ہند عالمگیر را برق تیغش خرمن الحاد سوخت شمع دیں در محفل ما بر فروخت (۴۰) اس سے تین چار سال پیشتر ہی انہوں نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا: ’’ ۔۔۔۔۔اورنگ زیب ایک عالمی سلطنت قائم کرنے کی نیت رکھتا تھا۔۔۔۔ اسے اپنے پیشروؤں کی تاریخ سے اندازہ ہو گیا تھا کہ ہندوستان میں اسلام کی قوت، اہل ملک کا دل ہاتھ میں لینے والی اکبر کی پالیسی کے برخلاف، حاکم قوم کی طاقت پر منحصر ہے۔۔۔۔(۴۱)‘‘ اب خودی کے اسرار اور بے خودی کے رموز ٹھوس پیکروں میں نظر آنے لگتے ہیں، ان سے ’’گسستن‘‘ (39) ک ۲۱ ص ۴۱(40) ک ۶ (41) ک Reflections 1910 اور’’ پیوستن‘‘ کی باہمی نسبت بھی کھلتی ہے۔ خصوصاً جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آٹھ، نو سال (۱۷۔ ۱۹۰۸ئ) پنجاب کی سیاسی معاشی زندگی میں، آیہ سماج کی اصلاحی شدت پسند تحریک، کشمیری مسلمانوں کی ابتدائی جدوجہد میں، بلقان کی جنگوں کے نتیجے میں، ترکوں کی شکست، جرمنی اور ترکی کے حلیف ہونے کے اثرات اور خود ہندوستان میں ایک طرف لوکمانیہ تلک کی گرم مزاجی، قوم پرستانہ سرگرمی اور مہاراشٹر میں اس کے تہذیبی ابال (42) اور دوسری طرف بنگال، اول تقسیم شدہ اور پھر پائے تخت سے محروم ہو کر۔ بپھرے ہوئے بنگال کے سیاسی دھماکے، ٹیگور اسکول کے ساتھ تہذیبی بیداری کی لہر اور شمالی ہند میں دیوناگری اندولن کے ہاتھوں رفتہ رفتہ اردو کی بے دخلی، اور پھر جنگ عظیم کی خون ریزی، سازشوں اور خفیہ معاہدوں کی گرم بازاری۔۔۔۔۔ علاقائی، فرقہ وارانہ قومی اور بین الاقوامی مسائل پر اقبال کی فکر پر کس طرح اثر انداز ہوتی رہی۔ واضح رہے کہ ان کے کلام کے اہم اور موثر مجموعے (اسرار و رموز اور پیام مشرق) تینوں ہی فارسی میں نکلے (اردو مجموعے کی باری دوستوں کے اصرار سے ۱۹۱۴ء میں آئی ) ۲۷۔ ۱۹۲۶ء تک زیادہ تر شاعری فارسی میں کی، نثر انگریزی میں لکھی، ذاتی خطوط اردو میں۔ اقبال فارسی میں لکھنے کا سبب بتاتے ہیں۔ کہ یہ زبان ان کے تصورات کا بار زیادہ آسانی سے اٹھا سکتی تھی اس زبان سے ان کی طبیعت کو فطری نسبت نظر آئی۔ اقبال کے شارحین اور سوانح نگار کہتے ہیں کہ وہ اس زبان کے ذریعے غیر ممالک تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتے تھے۔ ہمیں ان کے فارسی اسلوب کے بارے میں اہل زبان کی رائے معلوم (43) ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ فلسفیانہ نکات اور سیاسی مباحث کو بیان کرنے کے لیے وہ انگریزی نثر کو نسبتاً آسان سمجھتے تھے۔ خیالات کے ایک خاص نہج پر بڑھنے اور پختہ ہونے تک فارسی اور انگریزی کو قابل اعتنا سمجھنا غالباً نہ تو اہل زبان کی لفظی محاوراتی گرفتوں کے اندیشے سے تھا (44)، نہ محض قدرتی عمل تھا، بلکہ وہ نتیجہ تھا اس ’’ اپروچ‘‘ کا جسے وہ رفتہ رفتہ اپنا رہے تھے کہ ملک کے اندر اور باہر اور انٹیلی جنسیا (تعلیم یافتہ) کو مخاطب کیا جائے۔ مسلم عوام اور نچلے درمیانی طبقے میں سے جس قسم کا نوجوان ان خیالات کے سانچوں میں ڈھلتا ہے اس کے لیے خواص کے با اثر حلقے میں گونج پیدا کی جائے۔ اردو شاعری پر بھی فارسی تراکیب کا اتنا بارگراں رکھ دیا ہے کہ وہ اردو سے زیادہ ہندوستانی فارسی معلوم ہوتے ہیں۔ منشاء یہ کہ گفتگو خواص سے ہو، بات عوام میں پسند کی جائے، یا عام ذہنوں تک چھن کر پہنچے۔ وہ اردو لب و لہجہ کی عام پسند ٹرے ڈی شن (Tradition) سے کترا کر (42) لو کمانیتہ ملک نے نہ صرف یہ کہ کانگرس میں انقلابی روس پھونکی، عوامی ایجی ٹیشن کو ہوا دی، بلکہ مذہبی تیوہاروں کو بھی سیاسی بیداری کے کام سے جوڑ دیا۔ ۱۹۱۱ء میں انہوں نے گنپتی کی مورتی بٹھانے اور اس کا جلوس نکالنے کی رسم اس طرح منظم کی کہ مرد ٹھا قومیت کے جذبے ہندو احیا کے تصور اور قومی آزادی کی تحریک تینوں کو ایک ساتھ مدد ملے۔ ظ ۱ (43) ک ۲۶ کئی مصنفین نے لکھا ہے کہ ایرانی ان کی فارسی سے اجنبیت محسوس کرتے ہیں، پیغام کی چاشنی سے محظوظ ہوتے ہیں۔ (44) ک ۱۳، یوپی والوں کے اعتراضات کے جواب میں خطوط بے نیاز ہو کر اپنا اسلوب تراش رہے تھے۔ فکر اور فن دونوں میں اس رویے کا جدید نسل پر جو اثر ہوا۔ اس کا تصور کرتے وقت ہمیں روسی کمیونسٹ دانشور گوردون پولو سنکایا (G. aconokaya) کا یہ تجزیہ بھی ایک نظر دیکھ لینا چاہیے۔ مشرق کی تحریک آزادی ’’ مسلم قوم پرستی کی تحریک‘‘ نے کیسے ان اسلامی خیالات سے غذا حاصل کی، اس پر وہ لکھتی ہیں: ’’ فلسفیانہ ، سماجی اور سیاسی خیالات میں مذہبی جذبات کا دخل صرف مسلم، نیشنلزم کے نظریے کے لیے مخصوص نہیں تھا۔ مشق کے نو آبادیاتی ملکوں کے ابھرتے ہوئے سرمایہ دارانہ (بورژوا ) سماج میں جن سوشل خیالات کا دور دورہ تھا ان کی قوم پرستی (نیشنلزم) میں بھی کسی تک انہی (یعنی مذہبی) رحجانات کا دخل تھا۔ نو آبادیاتی جبر و زیادتی اور زبردستی کے خلاف یہ بھی ایک جوابی کارروائی تھی، وجہ یہ کہ نو آبادیاتی (مشرق) قوموں اور جاتیوں کی نظر میں مذہب ایک علامت تھا۔ (غلامی سے پہلے کی) آزادی کا، وہ اس امکان اور اس ضرورت کی ضمانت تھا کہ یہ قومیں اپنی مرضی سے، اپنے طور پر ترقی کی راہ اختیار کریں۔ البتہ ہندوستان میں، جہاں مسلم نیشنلزم کا نظریہ (Idology) ایک مذہبی اور تہذیبی اقلیت کا اپنا (مخصوص) نظریہ تھا، لازمی بات ہے کہ ابتداء سے ہی اس نے سیاسی علیحدگی اک تخم بو دیا۔۔۔۔۔(45)‘‘ موصوفہ گوردون پولو سنکایا نے اپنے اسی علمی مقالے کے آخر میں جواہر لال نہرو کے جواب میں اقبال کے اس خط کاحوالہ دیا ہے جو اقبالیات میں بڑی شہرت اور اہل علم کے درمیان سخت تنقید کا نشانہ بنا تھا۔ (46) ’’ ۔۔۔۔ نیشنلزم مسلمانوں کے لیے صرف ان ملکوں میں آزادانہ حیثیت رکھتا ہے جہاں مسلم اکثریت ہو۔۔۔۔ کیونکہ مسلم اکثریت والے ممالک میں نیشنلزم اور اسلام عملی طور پر ہمکار (Identical) ہو جاتے ہیں۔ مگر مسلم اقلیت کے ملکوں میں مسلمانوں کا مطالبہ خود اختیار (self fctermination) تہذیبی یک جہتی کی حیثیت سے بالکل منصفانہ ہے۔۔۔۔‘‘ بات صاف ہو جاتی ہے، جس علاقے میں مسلمان غالب اکثریت میں ہوں، وہاں نیشنلزم اور اسلامی عقیدے میں تضاد نہیں (کیوں کہ وہ بالآخر قومی، سیاسی اور تہذیبی آزادی کی تحریک بن جاتا ہے) اور جہاں وہ اقلیت میں ہوں، وہاں نیشنلزم کا جذبہ مذہبی اقلیت کی سیاسی اور تہذیبی تمناؤں سے ٹکرا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہ دبی ہوئی قوموں کی تحریک آزادی کے بارے میں مسلم اقلیت کو الگ سے اپنا رویہ طے کرنا ہو گا۔ مگر ہندوستان کی قومی آزادی کی تحریک نے زبردست پلٹا کھایا۔ جنگ عظیم میں ترکی اور جرمنی کی تباہ کن شکست نے (اور دونوں (45) ک ۲۶ ص ۱۱۴ (46) ک ۲۶، ص ۱۳۵ سے اقبال کی امیدیں وابستہ تھیں ) اور یہاں ہندوستان میں آزادی کے قومی جوش نے وہ حالات پیدا کیے جن میں کانگرس کی پالیسی، گاندھی جی کی قیادت میں، مسلمانوں کے ایک سیاسی مذہبی مسئلے (خلافت) کی غیبی تائید بن گئی۔ اور چار سال (۲۱۰۔ ۱۹۱۹ئ) تک بنی رہی، جب تک کہ خود انقلابی ترکوں نے خلافت اسلامیہ کے فرسودہ پنجر کو ہٹا کر مغربی انداز کی قومی جمہوری حکومت چلانے کا فیصلہ نہ کر لیا۔ حالات کا ایک پہلو اقبال کے ذہنی خلفشار میں ان کی تائید پر تھا، دوسرا پہلو انہیں جھٹلا رہا تھا۔ اگر ان دس برسوں میں (۲۵۔ ۱۹۱۵ئ) ہمیں اقبال کے باطن کی سیر کا کوئی ذریعہ میسر نہ ہوتا تو دو طویل نظمیں ’’ خضر راہ‘‘ (۲۲ئ) اور ’’ طلوع اسلام‘‘ (۲۴ئ) کافی تھیں یہ بتانے کو کہ ’’ زوال امت کے اسباب‘‘ کی جستجو اب انقلاب روس کی ہلچل اور ’’ طوفان مغرب‘‘ کی اتھل پتھل سے ایک نقطے پر پہنچ گئی ہے اور اسے ’’ تطہیر فکر‘‘ کے اگلے مرحلے ’’ تعمیر فکر‘‘ کا فرض ادا کرنا ہے۔ کیونکہ اسلام اقبال کا مخاطب اسلام نئی شان سے طلوع ہو رہا ہے: جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے، ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے ترکوں سے خلافت چھن گئی تو تازہ دم طاقتور قومی حکومت قائم ہو گئی۔ روسی ترکستان میں مسلح بغاوت ناکام ہوئی تو کیا، خود روس نے سامراجی شاطروں سے ناطہ توڑ لیا، ایران و ترکی کے خلاف خفیہ معاہدے چاک کر ڈالے، عربوں نے جا بجا (انگریزوں کی شہ پر) بغاوت کی تو جزیرہ نمائے عرب کو سامراجی سازشوں سے آزاد بھی کرا لیا، ہندوستان میں خلافت تحریک پارہ پارہ ہو گئی تو کیا مسلمانان ہند میں نئی سیاسی اور تہذیبی بیداری بھی پیدا ہو گئی۔ انگریزوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن ہندوستان سیاسی اور ذہنی آزادی کی چوکھٹ پر پہنچ گیا۔ قابل غور ہے یہ بات کہ فارسی اشعار سے مرصع یہ دونوں نظمیں اردو میں نازل ہوئی ہیں۔ ’’ شکوہ‘‘ اور ’’ جواب شکوہ‘‘ کی تکمیل کرنے والی یہ دونوں اہم اور زندہ جاوید نظمیں ان دونوں سے بلند تر سطح پر، انہی سوالات کا جواب ہیں جو شاعر کے باطن سے اور عالمی حالات کے مدو جزر سے بلند ہوا ہے۔ قوت کی تمنا اور باز آفرینی اپنی جگہ مگر شاعر کے لہجے میں تقدیم و تاخیر میں فر ق آ گیا، سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد ہندی مسلمانوں کی زندگی میں ادب، صحافت اور تعلیم کی جانب سے کوئی اتنا زبردست کارنامہ پیش نہیں ہوا، جیسی یہ دونوں نظمیں۔۔۔۔’’ خضر راہ‘‘ اور’’ طلوع اسلام‘‘ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئیں۔ ان میں ’’ ذوق یقیں‘‘ پر اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی پر زور دیا گیا ہے۔ یہی زمانہ ہے (۲۸۔ ۱۹۲۶ئ) کا جب ان کے ذہن پر یہ مسائل منڈلا رہے ہیں: آج اسلام کی سب سے بڑی ضرورت فقہ کی جدید تدوین ہے جس میں زندگی کے ان سینکڑوں ہزاروں مسائل کا صحیح اسلامی حل پیش کیا گیا ہو جن کو دنیا کی موجودہ قومی اور بین الاقوامی، سیاسی، معاشی اور سماجی احوال و ظروف نے پیدا کر دیا ہے۔ (47) پنجاب میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی کشیدگی کے باعث جو شرمناک حالات پیدا ہو رہے ہیں (فرقہ وارانہ فساد کی وبا) ان کا علاج ہونا چاہیے۔ ’’ جب تک ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تصفیہ حقوق نہ ہو گا۔ ملک ایک قدم آگے نہیں بڑھے گا۔‘‘ (48) الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید جس پر انہوں نے چھ علمی لیکچر (ساتواں بعد میں) تیار کیے Reconstruction of leligoul thought in Islam شاعری سے باہر یہی اقبال کا وہ فکری شہپارہ ہے ’’ اسرار خودی‘‘ کے بعد جس کی قدر غیر اردو حلقے میں، بلکہ بین الاقوامی پیمانے پر ہوئی۔ خود شاعر کو اپنے اس کارنامے کی فکری اہمیت پر ناز تھا۔ تقلید و اجتہاد انہی دنوں ’’ فلسفہ عجم (۱۹۰۷ء کا تھی سس) اردو میں ترجمہ کرنے کے لیے جب اقبال سے اجازت طلب کی گئی تو انہوں نے جواب دیا تھا: (49) یہ کتاب۔۔۔۔ اٹھارہ سال پہلے لکھی گئی تھی۔ اس وقت سے نئے امور کا انکشاف ہوا ہے اور خود میرے خیالات میں بھی بہت سا انقلاب آ چکا ہے۔۔۔۔‘‘ لیکن (Reconstruction) میں مدلل خیالات کا نچوڑ دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ یہ انقلاب نہیں ایک ہی سمت میں ارتقاء ہے، نظر کی وسعت اور تجربے کی پختگی ہے، علمی اور تجربی (Emprical) تنقید کی صورت میں تبدیلی ہے، خود یہ نام ’’ تشکیل جدید‘‘ جو اقبال نے ہی اردو ترجمے کے لیے چنا، ان کی ذہنی کیفیت کا آئینہ دار ہے، کیوں کہ وہ اسلامی فقہ کی نئی تدوین ہی نہیں چاہتے، تمام مسائل میں اجتہاد کی صدا بلند کرتے ہیں: ’’ ۔۔۔۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی ہیئت ترکیبی میں وہ کون سا عنصر ہے جو اس کے اندر حرکت و تغیر کو قائم رکھتا ہے۔۔۔۔ اس کا جواب ہے: اجتہاد!‘‘ (50) (47) ک حیات انور ص ۱۶۵ ( 48) ک ۲۰۔ ص ۱۳۷ (49) ک ۱۲ ص ۹ (50) ک ۲۲ ص ۲۲۵، ک ۱۷ معلوم نہیں کس بناء پر یہاں انہوں نے جمود کی عمر پانچسو برس بتائی ہے، دوسرے مقام پر (بال جبریل میں) کہتے ہیں: تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند ’’ پس چہ باید کرد‘‘ میں: از سہ قرن ایں است خوار و زبوں زندہ بے سوز و سرور اندروں اور کہیں دو سو سال لکھا ہے۔ غالباً تین سو سال مجدد الف ثانی کی نسبت سے ہو گا اور دو سو سال ہندوستان کی غلامی کے تعلق سے۔ ظ ۱ ’’ اجتہاد‘‘ کا تقاضا وہ اس بناء پر کرتے ہیں کہ ’’ عالم اسلام میں پچھلے پانچ سو برس سے ’’ جمود طاری ‘‘ ہے ’’ اجتہاد‘‘ اس لیے کہ حالات حاضرہ اس کا تقاضا کرتے ہیں۔‘‘ ان خطبات، خصوصاً چھٹے خطبے (اسلا م میں اجتہاد) کا ماحصل یا منشا ان کے ایک خط سے واضح ہو جاتاہے جو ۱۹۲۵ء میں یعنی خطبے کی تحریر سے سال بھر پہلے، صوفی غلام مصطفی کے نام لکھا تھا: ترکوں نے جو ’’ چرچ‘‘ اور’’ اسٹیٹ‘‘ میں امتیاز کر کے ان کو الگ الگ کر دیا ہے، اس کے نتائج نہایت دور رس ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ افتراق اقوام اسلامیہ کے لیے باعث برکت ہو گا یا شقاوت میرا عقیدہ ہے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نقطہ نگاہ سے زمانہ حال کے Furisprudence(اصول فقہ) پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کرے گا، وہی اسلام کا مجدد ہو گا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم بھی وہی شخص ہو گا۔ تمام ممالک میں اس وقت مسلمان یا تو اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں، یا قوانین اسلامیہ پر غور و فکر کر رہے ہیں۔ ایران میں مجتہدین شیعہ کی تنگ نظری اور قدامت پرستی نے بہاء اللہ کو پیدا کیا جو سرے سے احکام قرآنی کا ہی منکر ہے۔ ہندوستان میں عام حنفی اس بات کے قائل ہیں کہ اجتہاد کے تمام دروازے بند ہیں۔ میری رائے ناقص میں مذہب اسلام اس وقت گویا زمانے کی کسوٹی پر کسا جا رہا ہے اور شاید تاریخ اسلام میں ایسا وقت اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔ مارٹن لوتھر (۱۴۸۳ئ۔ ۱۵۴۶ئ) کو وہ مسیحیت کا دشمن کہہ چکے تھے کہ اس کی پروٹسٹنٹ (Protestant) تحریک، جو یورپ، خصوصاً جرمنی میں تحریک اصلاح (Refosnation) کا انجام اور جرمن کسانوں کی بغاوت کا مذہبی روپ تھی دین اور سلطنت (Church state) کی جدائی پر تمام ہوئی۔ (وہ) تحریک اصلاح دراصل ایک سیاسی تحریک تھی جس سے بحیثیت مجموعی یورپ کے لیے کوئی نتیجہ پیدا ہوا تو یہ کہ مسیحیت کے عالمگیر اخلاق کی جگہ قومی اخلاقیات کے مختلف نظامات نے لے لی۔ لیکن قومی اخلاقیات کا انجام ہم نے جنگ عظیم کی شکل میں دیکھ لیا۔ ( 51) لیکن ریڈیکل ترکوں نے جب یہی راہ اختیار کی تو وہ اسے اسلام دشمنی نہیں کہتے، نتیجے کا انتظار کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام کی فقہ میں تجدید کا اور عموماً تفکر و تجدید کا عمل جمود کا شکار ہے حالانکہ اسلام کی فطرت ہی تغیر طلب ہے۔ (51) ک ۱۷ ص ۲۵۳ آج جو مسئلہ ترکوں کو در پیش ہے کل دوسرے بلاد اسلامیہ کو پیش آنے والا ہے اور اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی قانون میں کیا فی الواقع مزید نشوونما اور ارتقاء کی گنجائش ہے۔ ۔۔۔۔ ذاتی طور پر مجھے یقین ہے کہ اس کا جواب اثبات ہی میں دیا جا سکتا ہے۔ ’’ امام مالک (م۔ ۱۷۹ھ) اور امام شافعی (م۔ ۲۰۴ھ) نے بطور ایک ماخذ قانون امام ابو حنیفہ کے اول قیاس کی تنقید جس بالغ نظری سے کی ہے وہ اس آریائی رحجان کے خلاف ایک بڑی موثر سامی روک تھی جس نے ہمیشہ مجرد کو محسوس پر ترجیح دی، اور جو حادثات سے اتنا لطف اندوز نہیں ہوتا جتنا خیالی سے۔۔۔۔ لہٰذا یہ (حنفی) مذہب اپنی بنیاد اور اساسات میں کاملاً آزاد ہے اور یہی وجہ ہے کہ بمقابلہ دوسرے مذاہب فقہ اس میں کہیں زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ جیسے جیسے حالات ہوں اپنی قوت تخلیق سے کام لیتے ہوئے ان سے مطابقت پیدا کرے۔۔۔۔ (52)‘‘ ان چھیوں (بلکہ ساتوں) طبات کا موضوع اسلامی الٰہیات ہیں لیکن ان میں پنجاب، مسلمانان ہند، ہندوستان میں سماجی و تہذیبی اصلاح کی تحریکیں، ان کے اثرات، ترکی میں خیالات کا نزاع، جرمنی میں ’’ خودی‘‘ کی تازہ لہر اور بے چینی اور یورپ میں سیاسی و سماجی کش مکش، سبھی کے اشارے ملتے ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ: اقبال پرسنل لا کی ابدیت کے خلاف حالات کے مطابق تجدید کے حق میں اور اسلامی شریعت کے اصولوں کو حالات حاضرہ کے مطابق ڈھال کر قانونی حیثیت دینے کی حمایت میں بے چین ہیں اور اس بے چینی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ: مسلمانان ہند کہیں ارد گرد کی اصلاحی تحریکوں اور سیاسی لہروں کے اثر میں دین اسلام کے دائمی اصولوں کو نہ چھوڑ بیٹھیں۔ اسلامی عقیدوں کا قانونی شکل اختیار کرنے میں، نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود ہے جن تک صحیح نمونے صدیوں سے پہنچے ہی نہیں۔ غالباً ڈاکٹر رادھا کرشنن نے انہی خطبات کا مطالعہ کیا ہو گا جو انہوں نے جی بھر کر داد دی ہے (53) کہ اسلام کی اصلی روح کو پیش کر کے اقبال نے مارکسی مادیت اور موجودیت کے حملوں کے بالمقابل مذہب کی مدافعت اور حمایت کی ہے، مگر جس زمانہ میں یہ خطبے تصنیف ہو رہے تھے، مسلم اکثریت (۵۴ فیصدی) کے صوبے پنجاب میں آئے دن فرقہ وارانہ فسادات ہو رہے تھے اقبال ان برسوں میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے ممبر (MLC) بھی تھے اور وہاں سیاسی اور اقتصادی مسائل پر ہنگامہ خیز تقریریں کیا کرتے تھے۔ مگر وہ اپنی تجاویز کے لحاظ سے ہمیشہ اقلیت میں رہے اور انہیں برابر یہ غم رہتا تھا کہ وہ صوبے کے موجودہ سیاسی توازن میں کارگر ثابت نہیں ہو رہے ہیں اور یہ کہ کشمیر میں نوے (90 فیصدی اور پنجاب میں 54 فیصدی) اکثریت آبادی ہونے کے باوجود مسلمان مادی اور مالی حیثیت، تہذیبی منظر اور سیاسی قوت میں ہم وطنوں سے بہت پیچھے، بلکہ بے اثر ہو کر رہ گئے ہیں۔ ذاتی زندگی میں بھی انہیں پے در پے کئی شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ (52) ک ۱۷، ص ۷۳۔ ۲۷۲ (53) ۱۹۵۶ء کے یوم اقبال (دہلی) کی تقریر ک ۴۲، ص ۲۵۲ ۱۹۲۸ء میں مولانا اشرف علی تھانوی کی زبانی مریدوں اور عقیدت مندوں میں یہ خیال پھیلا کہ ایک ایسی اسلامی حکومت قائم ہونی چاہیے جہاں احکام شریعت کی پابندی کی جائے ۱۹۲۹ء میں آل انڈیا کانگرس نے، مسلم فرقہ وارانہ مسئلے کا آخری فیصلہ کیے بغیر (نہرو رپورٹ غرق راوی کر کے) ہندوستان کے لیے مکمل آزادی کا مطالبہ کر دیا۔ ۱۹۳۰ء میں گاندھی جی نے ترک موالات کا ہنگامہ خیز اندولین شروع کر دیا اور اس کے فوراً بعد دسمبر ۱۹۳۰ء میں اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس (الہ آباد) میں ذاتی طور پر تجویز پیش کر دی جو بعد میں تقسیم ہند یا پاکستان کی تجویز کہلائی۔ یعنی اساسی فکر نے پوری طرح عملی صورت اختیا رکرنی چاہی تو سارا وزن ’’ گسستن‘‘ کے حق میں ڈال دیا۔ ٭٭٭ جب ریل گاڑی اسٹیشن کے قریب پہنچ کر پٹڑی بدلتی ہے تو قینچیاں زور زور چقچقاتی ہیں، موجودہ اسلام کو ’’ عجمی‘‘ تصوف کے بدعتی تصورات سے پاک کرنے کی جو کسک ۱۹۰۸ء کے بعد سے اقبال کے سینے میں بیٹھ گئی تھی، وہ بالآخر یہاں تک لانے والی تھی، یہ تین سال انہی سرگرمیوں میں گزرے، دوسری اور تیسری گول میز کانفرنس (لندن) ۳۲۔ ۱۹۳۱ء میں ان کی تقریریں فلسطین کی ’’ موتمر عالم اسلامی‘‘ میں ان کی شرکت (54) آل انڈیا مسلم کانفرنس (دہلی) میں ان کی تاریخی تقریر (55) جس کا خلاصہ آخر میں یہ نکلتا تھا کہ فیصلے کا وقت قریب ہے۔ ’’ ۔۔۔۔ ہمارا نصب العین بالکل معین اور واضح ہے۔ وہ نصب العین یہ ہے کہ آئندہ دستور میں اسلام کے لیے ایسا مقام اور ایسی حیثیت حاصل کریں کہ وہ اس ملک میں اپنی تقدیر کے منشاء کو پورا کرنے کے مواقع پا سکے۔ اس نصب العین کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ قوم کی ترقی پسند طاقتوں کو بیدار کیا جائے اور اس کی خوابیدہ قوتوں کو منظم کیا جائے۔ شعلہ حیات دوسروں سے مستعار نہیں لیا جا سکتا، وہ صرف اپنی روح کے آتشکدے میں روشن کیا جا سکتا ہے۔‘‘ ایک موقع پر لندن جاتے وقت انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہندوستان کے ہر ایک صوبے کو آزاد ڈومی نین بنا دیا جائے جس کا تعلق ہندوستان کی کسی مرکزی حکومت کے بجائے براہ راست لندن میں وزیر ہند سے ہو۔ شاید انہی بیانات اور تجاویز سے برطانیہ کی وزارت خارجہ اور ایک نوجوان طالب علم چودھری رحمت علی کو بھی (جن کا تعلق برطانیہ کی وزارت داخلہ سے بتایا جاتا ہے) شہ ملی اور انہوں نے مستقبل کے ہندوستان کے نقشے میں ان خیالات کا وزن محسوس کر لیا مگر کیا اقبال واقعی یہیں پہنچ کر تھم گئے؟ کیا مسئلے کے قومی اور بین الاقوامی پہلوؤں سے انہوں نے آنکھ بند کر لی تھی؟ ڈاکٹر قاضی عبدالحمید جو یورپ جانے والے جہاز پر ۱۹۳۲ء میں تقریباً دو ہفتے تک اقبال کے ہم سفر اور تخلیے میں حاضر باش تھے، انہوں نے شاعر کی خود کلامی اور ہم کلامی کے چند اہم نکتے ریکارڈ کیے ہیں۔ مثلاً: (54) ک۲، ص ۱۸۸ (55) ک ۲۰، ص ۱۶۳ یہیں انہوں نے مسولینی کے حوالوں کو بطور مثال یاد کیا ہے۔ میں ضرور چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے ایک مرکز ہو اور یہ مرکز ظاہر ہے کہ صرف شمالی ہند کا یہ صوبہ ہو سکتا ہے لیکن اس سے میرا یہ مفہوم نہیں کہ وہ ہندوستان کا ایک جزو ہو کر نہ رہے، میں تو ایک صحیح وفاق کا حد درجہ قائل ہوں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے مسلمان اس ملک کی آزادی کے ضامن ہوں۔۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر مسلمان شمالی ہند میں خود کو آزاد محسوس کریں تو خود کی آزادی کی آئندہ کیوں نہ حفاظت کریں؟۔۔۔۔ ہندو، پنجاب میں مخلوط انتخاب رائج کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمان اس کے اس بناء پر مخالف ہیں کہ انہیں ڈر ہے کہ ان کی تھوڑی سی اکثریت اقلیت میں تبدیل نہ ہو جائے۔ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے صوبے پنجاب کے ساتھ ملحق کر دیے جائیں۔ اس طرح مسلمانوں کی آبادی اس صوبے میں ساٹھ (60) فیصدی ہو جائے گی۔ اور مسلمانوں کے دل سے یہ ڈر نکل جائے گا کہ وہ کبھی اس صوبے میں اقلیت میں تبدیل کر دیے جائیں گے۔۔۔۔ (56) یہ مقالہ خود اقبال کے انتقال کے دو تین مہینے بعد لکھا گیا اور اسی سال شائع ہوا (57) لیکن نجانے کیوں اقبالیات میں اس کے حوالے نظر نہیں آتے۔ اگر ہم اس قسم کی یاد داشتوں کو (مثلاً جواہر لال نہرو سے اقبال کی گفتگو، جس میں جواہر لال کو محب وطن اور مسٹر جناح کو سیاست داں قرار دیا) نظر انداز بھی کر دیں تو اقبال کی زندگی کے دور آخر (۳۸۔ ۱۹۳۳ئ) میں فارسی اردو کا کلام جس ذہنی کیفیت کی گواہی دیتا ہے وہ کچھ یوں ہے: خودی اور بے خودی کے بنیادی فلسفے پر وہ قائم رہے اور اسے بجھی ہوئی قوم کے لیے نئی زندگی کا نسخہ شمار کرتے رہے۔ قوت کے ہر مظہر کی طرف ان کا دل اب بھی کھینچتا ہے لیکن دیکھا کہ قوت ہی جلا د بھی ہو سکتی ہے۔ مسولینی نے آل سیزر میں خودی کی روح تو پھونکی، ان میں جلال و جبروت پیدا کیا مگر اس قوت نے ایبی سینیا میں غارت گری بھی اختیار کر لی (58) کوری تقلید سے اجتہاد کی جانب آئے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ بنیادی عقائد میں کوئی رخنہ نہ پڑے۔ تقلید کو اب وہ محوکمی کا جزو شمار کرتے ہیں۔ (59) زوال، انحطاط اور محکومی کے زمانے میں آزادی فکر خطرناک ہے، لیکن آزادی، عروج اور بیداری کے (56) ک ۲۱ ص ۱۹۷ (57) ۵۱۔ ۱۹۴۸ء میں جب قاضی صاحب (جو بمبئی مسلم لیگ کے رہنماؤں میں سے تھے) یہاں سے روزنامہ مسلم اس واقعے کی اور تفصیلات نکالتے تھے اور دوسرے حاضرین کے نام بھی مجھے سنا چکے ہیں۔ ان کا اندازہ تھا کہ اقبال کیبنٹ مشن (۱۹۴۶ئ) پلان جیسا کوئی حل چاہتے تھے۔ ظ ۱ (58) ک ۳ ، ص ۱۴۵ (59) ک ۳، ص ۲۲ ویں ہو، فلسفہ ہو، فقر ہو، سلطانی ہو ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنا پر تعمیر زمانے میں تحقیقی اور تجدید کے سوا چارہ نہیں۔ (60) انہوں نے شاہ ولی اللہ کو مسلم انڈیا کا آخری مفکر یا مجدد شمار کیا ہے اور ان کی تحریک میں ابن عربی کے ’’ وحدۃ الوجود‘‘ اور’’ مجدد سرہندی‘‘ کے وحدۃ الشہور کا پیوند دیکھا کہ طریقت اور شریعت دونوں سے نباہ لازم ہے۔ (61) مشرق کی بیدای اور عالم اسلام میں آزادی کی لہر کا ہندوستان کی آزادانہ روش سے گہرا رشتہ ہے (62) یورپی تہذیب کو سرمایہ داری اور شہنشاہیت لے ڈوبے گی، لیکن ’’ علم و ہنر‘‘ کی روشنی، جو دراصل اس کی ترقی کی ضامن ہے، مشرقی ممالک کے سوز سینہ سے مل کر نئے انسانی تعلقات کو جنم دے گی۔ (63) ہندوستان، سودیشی تحریک، اپنی روحانیت، سائنسی ترقی اور فرقہ وارانہ اتحا دکی راہ پر چل کر دنیا کی تمام محکوم قوموں کی رہنمائی کرے گا۔ وہ اپنے اس تاریخی رول کے لیے کمر بستہ ہو رہا ہے۔ (64) اسلامی تاریخ میں تصوف محض بے خودی اور بے عملی نہیں، بلکہ فقیہوں کی لفظی حیلہ تراشیوں کے خلاف احتجاج اور آزاد خیالی ہی کی ایک شاخ تھا۔ روح کی تربیت اور بالیدگی میں وہ آج بھی کارگر ہے۔ اشتراکی انقلاب کی کامیابی نے اسلام کے مشن کی کامیابی کو اور نزدیک کر دیا ہے۔ اشتراکیت اسلام کی حریف نہیں، حلیف بنے گی۔ (65) اقبال کا تفکر بالآخر یہاں آ کر اپنا سفر تمام کرتا ہے۔ ٭٭٭ تصوف کا تاریخی رول اقبال ۳۲ء کے بعد کی ایک بے پناہ نظم ’’ ساقی نامہ‘‘ میں کہتے ہیں: (60) ک ۳ ص ۷۵ آہ محکومی و تقلید و زوال تحقیق یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید (61) ک ۴۰، ص ۳۱۲ (62) ک ۱۰، ص ۶۰ (63) ک ۱۰۔ ۹ (64) ک۔ ۱۔ ۹۔ ۸۔ ۳ نظم ’’ شعاع امید‘‘ اشکے چند۔۔۔۔ انچہ از خاک تو رست اے مرد حر آں فروش و آں بپوش و آں بخور (65) ک ۲۰ ص ۱۵۵ تمدن، تصوف، شریعت، کلام بتان عجم کے پجاری تمام وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد محبت میں یکتا، حمیت میں فرد عجم کے خیالات میں کھو گیا یہ سالک مقامات میں کھو گیا 1۔ سوال یہ ہے کہ کیا عجم کے خیالات سے اقبال کی جو مراد ہے کیا وہ تمدن و تصوف، محبت و حمیت کو غارت کرنیوالے صوفی کو راہ سے بے راہ کرنے والے ہیں یا حقیقت اس کے برعکس ہے؟ تمدن کی تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی ٹھوس، معاشرتی قانون یا نظام جو ارتقاء کے کسی ایک تاریخی دور میں ہو۔ اپنی اصلی حالت پر قائم نہیں رہتا، ترقی کے اگلے مرحلے پر اس میں اپنی سر زمین اور اپنے لوگوں کے عادات اور روایات نفوذ کر جاتے ہیں اور باہر کے نظریوں، فلسفوں اور تقاضوں کا دخل ہونے لگتا ہے۔ یعنی تناؤ (Tension) کی جگہ ڈھیل (Relaxation) مذہب، یا اصل عقائد کی چہار دیواری میں یہ (Reehotions) ہی ہیں جنہیں اسلام کے تعلق سے اقبال ’’ بتان عجم‘‘ کہتے ہیں اور یہاں بتان عجم کے پجاری، یوں بھی با معنی ہے کہ ’’تصوف‘‘ جو نجد و حجاز کی سر زمین سے باہر اگا ہوا پودا ہے، وہ سر زمین مختلف بت پرست مذہبوں اور خیالوں کی آماجگاہ رہ چکی تھی، بدھ ازم، ہندو ازم، مسیحیت اور مانویت، اور اقبال کا یہ احساس بے جا نہیں کہ تصوف نے ان تمام عقائد و عادات کو اپنے اندرجذب کیا۔ ہمیں صرف ایک شرط کا اضافہ کرنا ہے: جذب کیا مگر انتخاب کے ساتھ ایسا انتخاب جو اسلام کی تعلیم اخوت و مساوات اور مقامی عوام کے محسوسات سے میل کھاتا تھا۔ بغحوائے قول مشہور: ’’ خذ ما صفا دع ما کدر‘‘ (صاف لے لو، میلا چھوڑ دو) صوفیہ کے ملفوظات میں یہ قول بہت آتا ہے۔ ۲۔ کیا یہ صحیح ہے کہ وحدۃ الوجود کا نظریہ شخصیت اور انفرادیت کو مٹانے والا یا خودی کی نفی کرنے والا ہے؟ سری شنکر نے جو گیتا کی تفسیر کی، جس توحید کو پھیلایا کیا وہ اسلامی توحید کے خیالات سے متاثر نہیں تھی؟ کیا ویدانت کے اس تصور نے ہندو ازم کے بقا اور احیاء کی راہ ہموار نہیں کی؟ اور کیا اسی نظریے سے ’’ کرم یوگ‘‘ یعنی پھل سے بے پروا عمل صادر نہیں ہوا؟ اس کا جواب ہندوستانی فلسفے کے کئی علماء نے اثبات میں دیا ہے، خصوصاً ڈاکٹر تارا چند کی تصنیف کے دو باب: Inimation of lieon on inolian culture. ۳۔ یقینا حافظ کے کلام سے شکتی پوجا (طاقت کی پرستش) نہیں ٹپکتی، لیکن آدمی کے ہنگامی اور دائمی غموں سے مقابلہ کرنے کا ولولہ ضرور پیدا ہوتا ہے۔ ہندوستان میں تغلق، لودھی اور مغل اپنے عروج کے زمانے میں جو ’’ دیوان حافظ‘‘ از بر کیا کرتے تھے، اس سے فال نکالتے تھے تو وجہ محض جبر یا بے عملی یا فنا کی تعلیم نہ رہی ہو گی۔ ۴۔ خدا کی طرف سے مسلمانان ہند کو ان کے زوال اور بد بختی کا جو طعنہ دیا گیا ہے اس کا بنیادی سبب اقبال یہ بھی بتاتے ہیں کہ: وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود اور مسلمانوں میں نو فلاطونی فلسفے اور مسیحی رہبانیت کے وجود کو انہوں نے ’’ عجم‘‘ کی بدعت کہا ہے۔ خود قرآن کو اس ’’ رہبانیتہ‘‘ سے اتنی نفرت نہیں جتنی اقبال کو ہے۔ قرآن اپنے اولین ماننے والوں سے کہتا ہے کہ ’’ نصاریٰ‘‘ تم سے مانوس ہوں گے، محبت سے پیش آئیں گے۔ ان میں ’’ قیتیسین‘‘ اور ’’ رہبانیین‘‘ ہیں۔ وہ غرور نہیں جانتے (66) یہ ابتدائی اسلام کے اس دور کی بات ہے جب دنیا کی لذات سے کنارہ کرنے والے، علائق کا بوجھ سر سے اتارنے والے، مسیحی راہب، دشوار گزار راہوں میں اپنے دین کا پیغام محبت اسی طرح لیے پھرتے تھے جیسے بعد کے صوفی اقبال کے شاہین تھے جنہوں نے قرآن گلے میں ڈال کر شمشیر و فرس کے ذریعے سیاسی اسلام پھیلایا اور یہ مسلم راہب انسانوں کی بے چراغ بستیوں کے ہنس تھے جنہوں نے سیاسی اقتدار سے بے نیاز رہ کر دین کو دل جوڑنے اور بہتر معاشرت پھیلانے کا وسیلہ بنایا۔ شمشیر کو زنگ کھا گیا، درویش کے اکتارے پروندنا (حمد) گونج رہی ہے۔ ۵۔ یہ تو نہیں ہے کہ تصوف، سامی اور آریائی مذاہب میں تصوف کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر ان کی عملی نظر نہ تھی۔ وہی کہتے ہیں کہ: ’’ وحدۃ الوجود کا ارتقاء ایران کی سیاسی آزادی کے نشوونما کے متوازی تھا(67) ‘‘ اور وہی اسے ’’ گو سفندی‘‘ انحطاطی، نفی خودی اور ’’یونانی بیہودگی‘‘ پر تعمیر کی ہوئی عمارات قرار دیتے رہے۔ (68) وجہ اس کی بذات خود تصوف کا نظریہ اور صوفیائے کرام کا عمل نہیں بلکہ اس کے وہ عملی نتائج ہیں جو جاگیردارانہ نظام غلامی کے زمانے میں پنجاب اور کشمیر کے عام خو ش عقیدہ (یا وہم پرست نیم خواندہ) مسلمانوں میں ظاہر ہوئے۔ جہاں ’’ گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن‘‘ اور پیر صاحب بے پیرہن مرید کی کمائی سے ریشم کی قبا پہنتے ہیں، یعنی تصوف ایک عقیدہ اور اخلاقی عمل ہونے کے بجائے ناجائز فائدہ اٹھانے (Exploitotion) کا ایک مستقل اور ٹوڈی ادارہ بن کر رہ گیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:’’ مسلمانان ہند کے دل و دماغ پر عجمی تصوف غالب ہے وہ عرب کے تخیلات کو سمجھنے سے قاصر ہیں(69)‘‘ اسی لیے اقبال عرب کی طرف واپسی، یعنی شریعت کی اولین اور خالص شکل کی مکمل اطاعت (66) سورۂ المائدہ پارہ ششم 82/5 لسجدن اشد الناس عداوۃ للذین اٰمنوا الیہود والذین اشکر ولتجدن اقربھم قردۃ للذین امنو الذین قالو انا نصریٰ ذلک بان منھم تسییمین ورہبانا وانھم لا یستکبرون اور ایمان لانے والوں کے لئے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں) مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن (67) ک ۱۲ ص ۱۳۸ (68) ک ۱۴ مکاتیب اقبال جنوری ۱۶ء (69) ک ۱۴ ص ۵۳ مکاتیب اقبال کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اس (Position) ’’رجعتے سوئے عرب‘‘ کا نتیجہ بھی ان کی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ ۱۹۲۴ء میں جب عبدالعزیز ابن سعود نے ’’ عجم اور عجمیت‘‘ کے علی الرغم مکہ اور مدینہ کی سر زمین میں سیاسی اقتدار سنبھالا اقبال اس صورت حال پر دلی اطمینان کا اظہار کر چکے تو علی الاعلان سلطان کا لقب اختیار کیا، سلاطین کی شان سے رہنے لگے بدعت کی تاریخی نشانیاں، زیارت گاہیں مسمار کر ڈالیں، جس سے ہمسایہ مسلم ملکوں میں نہ صرف تہلکہ مچ گیا، بلکہ اتحاد بین المسلمین کے سارے امکانات ایک زمانے کے لیے ڈوب گئے۔ اس کے برعکس شام، مصر اور عراق، تصوف کے آماجگاہ عرب ممالک، جن کے اسلام پر ’’ عجمیت‘‘ غالب تھی، تب بھی نسبتہً ترقی یافتہ تھے اور آج بھی خود اسلامیات کے علم میں زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ ۶۔ تصوف کے رواجی منظر سے اقبال کے تنفر کا سبب دینی اور تہذیبی ہونے کے علاوہ سیاسی بھی تھا۔ ہندو متوسط طبقے کی روز افزوں ترقی، بیداری، شمال مغربی ہند کی اقلیت ہونے کے باوجود علم و عمل کے ہر ایک شعبے میں آگے بڑھتا ہوا قدم (70) اور اس کے سامنے مسلم مزارع، دستکار اور چھوٹے زمیندار کی بے علمی و پسماندگی، جو اسے سیاسی حقوق کے شعور سے بھی محروم رکھے ہوئے تھی۔ تصوف کی ’’ صلح کل‘‘ کی تعلیمات نے ’’ کفر و دین‘‘ کا امتیاز اٹھا کر انہیں لکیر کا فقیر بنا دیا تھا جہاں انفرادیت یا خودی کے پیغام کی اپیل ہی کمزور تھی دراصل تصوف کے اس ماحول پر حملہ سیاسی خوف و اضطراب کی جوابی کارروائی یا چارہ کار تھا۔ ۷۔ یہ خیال بجائے خود انسانی تہذیب کی تاریخ سے تصدیق حاصل نہیں کر سکا ہے کہ ’’ صوفیانہ خیالات مغلوب قوموں کا حربہ ہوتے ہیں دشمن کو زیر کرنے کے لیے۔ اقبال نے بنی اسرائیل کی قومی زندگی اور حیات تازہ کو تین پہلوؤں سے پیش کیا ہے، ایک میں (خواہ مخواہ) صیہونیت (Rzionism) کی تائید نکلتی ہے۔‘‘ عبرت از احوال اسرائیل گیر کہ انہوں نے اپنے پرکھوں کے دین و ایمان کو آنکھ بند کر کے مضبوطی سے تھام لیا۔ ’’ زندہ قوم از حفظ ناموس کہن‘‘ اور ایک پہلو ’’ نفی خودی‘‘ کے فلسفے (بلکہ یہودی تصوف) کا ہے۔ یہاں (Willduronit) کے تجزیے سے اقبال کی تائید ہوتی ہے۔ (71) مگر بات یہاں تمام نہیں ہوتی۔ اصل نکتہ جس پر اقبال کے پیشرو پروفیسر براؤن اور مولانا شبلی بھی متفق معلوم ہوتے ہیں، یہ ہے کہ تصوف سیاسی زوال اور بے بسی کے زمانے کی پیداوار ہے اور بے ثباتی دنیا کے خیالات کو عام کرتا ہے۔ اقبال نے بھی یورش تاتار اور بغداد کی تباہی کے بعد تصوف کے قبول عام کو کئی بار اچھالا ہے۔ صوفیہ کے جتنے اہم سلسلے ہیں، تقریباً سبھی کی ابتدا اور اشاعت چنگیز خانی حملوں، خصوصاً چنگیز کے پوتے ہولا گو کی یلغار سے بہت (70)ک۲۶ ص ۸۶، ک ۴۴ ص ۳۹۶ (71) ک ۲۶ ص ۵۱ اور Willduant pleasure of philosophy ny 1953. پہلے ہوئی نویں صدی عیسوی میں جلیل القدر صوفی معروف کرخی نے تصوف کو حقائق ربانی کا تعقل کہا تھا، اور جب تعقل کا لفظ فلسفے سے وابستہ ہو کر رہ گیا تو صوفیہ نے اپنی اصطلاحیں الگ کر لیں اور حقیقت اولیٰ کی جستجو کو فرد کے روحانی ریاض اور انسانوں کے باہمی برتاؤ پر منحصر کر دیا۔ عقائد کی پیچیدہ بحثوں کے بالمقابل مذہبی رہنماؤں اور سیاسی سربراہوں کی سخت گیر ہمنوائی کے سامنے صوفیہ کایہ قدم بجائے خود ایک زبردست کارنامہ تھا، صرف ذہنی کارنامہ نہیں، تاریخی اہمیت کا سیاسی کارنامہ بھی۔ صوفیہ کے جو چار خاص سلسلے (چشتی، قادری، نقشبندی اور سہروردی) ہندوستان آئے، وہ چاروں مسلمانوں کے اچھے دنوں میں آئے، جب دور دور کہیں ’’ انحطاط‘‘ کے آثار نہ تھے۔ خود اقبال نے اپنی تصانیف میں جن صوفیہ کے نام لیے ہیں وہ مسلم حکومتوں کے عروج کے زمانے میں اٹھے اور انہی زمانوں میں پنپے، پھیلے اور استوار ہوئے۔ حضرت اویس قرنی اور خواجہ حسن بصری، مالک دینار، ذوالنون مصری، ابراہیم ادہم، رابعہ بصری، سفیان ثوری، ابن سماک، خواجہ بایزید بسطامی (یا بسطامی) جنید بغدادی، یحییٰ بن معاذ رازی، نجم الدین کبریٰ، ابو عبداللہ المغربی، ابو حمزہ خراسانی، ابو بکر شبلی، ابو العباس بن عطا، عبداللہ انصاری، احمد جام ژندہ پیل اور سنائی، سب کے سب جو بعد کے صوفیہ میں سند کا درجہ رکھتے ہیں چنگیز خانی یورش سے پہلے کے ہیں۔ اور پھر ہندوستان میں تصوف کے اولین مبلغ شیخ علی ہجویری جو داتا گنج بخش کے نام سے مرجع خلائق ہوئے، جن کی ’’ کشف المحجوب‘‘ آج بھی تصوف کی بنیادی تصنیف شمار ہوتی ہے، غزنویوں کے دور کے ہیں۔ امام حسن صنعانی، خواجہ معین الدین چشتی اور ان کے پیر عثمان ہارونی پھر چاروں سلسلوں کے بزرگ۔ بدھ بھکشوؤں اور مسیحی راہبوں کی طرح اسلامی اخوت و مساوات کے یہ پیامی بھی نہ صرف یہ کہ مذہبی اور سیاسی اقتدار پسندوں کے دبیل نہیں رہے، بلکہ انہوں نے عام لوگوں کی روحانی تشنگی اور علمی ضروریات کو بھی مد نظر رکھا۔ اپنے ملفوظات سے محفلوں سے عام فہم ادب کی بنیاد ڈالی۔ چشتی صوفیہ نے خصوصاً رواداری اور ہم رنگی کی پالیسی اختیار کر کے مخلوق خدا کے دل موہ لیے۔ کیرتن اور بھجن کو سماع کا رنگ دیا اور سماع میں توحید کا کلمہ پھیلایا۔۔۔۔۔ صدیوں پر پھیلے ہوئے اس عمل کی بڑی تفصیلات ہیں۔ غور طلب امر ہے کہ تصوف، حالانکہ شریعت سے بری الذمہ نہیں کرتا، پھر بھی فقہی حلقوں سے اس کی کبھی نہیں بنی۔ تصوف کو آزادی افکار کے ساتھ یا جسے اقبال ’’ رعنائی افکار‘‘ کہتے ہیں، اس ماحول میں پنپنے کا موقع ملا۔۔۔۔۔ اور اگر یہ کلیے درست ہیں تو پھر یہ بھی درست ہے کہ تصوف کے عقائد اور اعمال پولیٹکل انحطاط کی نہیں، روشن خیالی اور آزادانہ انسانی برتاؤ کی علامت ہیں۔ ’’ ۔۔۔۔ اسلام کے قرون اولیٰ میں یہ ان لوگوں کا نظریہ ہے جو شخصی سلطنت، سرمایہ داری اور جبر و استبداد کے خلاف تھے، اسی لیے عوام ان کے ساتھ رہے کیونکہ وحدۃ الوجود انسان کو انسان کے سامنے پست ہونے سے روکتا ہے اور اونچ نیچ کے خلاف ایک موثر حربہ ہے۔۔۔۔ (72)‘‘ (72) ک ۲۳ ص ۵ رد و قبول کا معاملہ اقبال نے کئی موقعوں پر اندلسی مورخ ابن خلدون کے حوالے دیے ہیں۔ فلسفہ تاریخ کا یہ اندلسی موجد (۱۴۰۶ئ۔ ۱۳۳۲ئ) اپنے ہموطن محی الدین ابن عربی کے بارے میں لکھتا ہے کہ وہ اور اس کے ہم خیال حلول کے بھی قائل تھے اور ان کے اسلاف فرقہ، اسمعیلیہ سے بہت ربط ضبط رکھتے تھے۔گویا اپنے زمانے کی مرکزی حکومت کے خلاف اور آزاد خیالی کی روپوش تحریک سے ان کا تعلق تھا۔ (73) ابن خلدون نے اپنے شہرۂ آفاق مقدمے میں چند نکات ایسے لکھے ہیں کہ اقبال ان سے بے نیاز نہ ہوں گے: منقولات (شرعی علوم) اور معقولات، عجمی سبھی علوم میں عربوں سے بازی لے گئے۔ وجہ یہ کہ علوم کی ترقی کا تعلق شہریت (Visibal civilization) سے ہے۔ عجم قدیم زمانے سے ہی ہنر مند اور شہری خصلت کے تھے، انہوں نے عربی زبان کی مہارت حاصل کی اور علوم شرعیہ میں بڑھ گئے۔ عراق، خراسان اور ماوراء الہند حضریت و شہریت کے مرکز تھے تو وہیں علوم نے بھی ترقی کی۔ اب ان کی بربادی کے بعد مصر سب سے بڑا مرکز ہے تو وہ علمی عروج پر ہے۔ (74) سیاسی غلبہ بھی اسی قبیلے، خاندان یا گھرانے کا ساتھ دے گا جو عصبیت (Chamitinion) میں ممتاز ہو۔ جس میں عصبیت قوی ہو گی، ریاست و امارات بھی اسی کا ساتھ دے گی اور اس پر کوئی غیر قوم حکومت نہیں کر سکتی۔ (75) کسی جماعت کی تعداد اگر کم بھی ہو لیکن اس کی عصبیت قوی اور دینی عقیدہ مضبوط اور متحد ہو تو وہ جماعت اکثریت پر غالب آ جاتی ہے۔ یعنی دینی عقیدہ عصبیت سے مل کر زبردست قوت جزیٹ کرتا ہے۔ (76) ابن خلدون تاریخ کی رفتار میں تخلیقی ارتقاء دیکھتا ہے۔ ساتھ ہی مثالوں سے ثابت کرتا ہے کہ کوئی سلطنت ترقی اور کمال کے عروج کو پہنچنے کے بعد انحطاط کے دور میں قدم رکھتی ہے اور اپنا دامن مرکز کی طرف سمیٹنے لگتی ہے۔ (اسپینگلز کے نظریہ تاریخ میں بھی عروج و زوال کی یہی منطق ملتی ہے) اقبال نے ابتدائے اسلام کی دینی عصبیت کو قوت کا خزانہ اور جرمن جوش نمو کی ’’ انا‘‘ کو اس کی کنجی شمار کر کے جب اپنی مخاطب جماعت کو مالا مال اور سر بلند کرنا چاہا تو انہیں تصوف کے عجمی خیالات ذہنی محاذ پر سب سے بڑی رکاوٹ نظر آئے۔ یہیں سے انہوں نے ’’ گسستن‘‘ پر زور دینا شروع کیا۔ اقبال کے شعور نے ہندو رینا ساں اور برطانوی اقتدار کی آغوش میں آنکھ کھولی تھی۔۔۔۔ دونوں کے غلبے سے وہ (اپنے ممدوح اورنگ زیب کی طرح) تب تک اندیشہ ناک رہے جب تک کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد امم ایشیا یا خاک مشرق اپنے غیر ملکی حاکموں کو للکارنے کے قابل نہ ہو گئی۔۔۔۔۔ اور جب وہ اس قابل ہونے لگی تو انہوں نے اکثریت و اقلیت کے مسئلے کا حل مغربی جمہوریت کے طرز سے ہٹ کر جماعت کی حصار بند خودی اور خود گری میں تلاش کر لیا۔ بال جبریل، جاوید نامہ، پس چہ باید کرد اور ارمغان حجاز آخر کے چاروں مجموعوں میں نسبتہً (73) ک ۴۵ فصل ۱۱ باب ششم (74) ک ۴۵ فصل ۳۶ باب ششم ۱۲۔ ۱۳ ( 76) ک ۴۵ فصل ۵ اطمینان اور اتمام کی فضا حاوی ہے۔ (77) ٭٭٭ ابن خلدون ہندوستان کی تاریخ اور مزاج سے زیادہ واقف نہ تھا۔ ۱۹ ویں صدی کے آخر کا فرانسیسی محقق گستاولی باں، عرب اور ہند دونوں کے تمدن، تاریخ اور تاریخی اتار چڑھاؤ پر یکساں عبور رکھتا ہے۔ (78) اس کا تجزیہ ہے کہ مسلم فاتحین جو ہندوستان میں آئے انہوں نے اپنی زبان، مذہب اور صنعت و حرفت اس ملک میں ہر طرف پھیلائی مگر آنے والوں کی تعداد اول تو کم تھی، پھر ان کی نسلیں پہلے ہی مخلوط ہو چکی تھیں، یہاں آ کر مختلف رشتوں سے ہندی اقوام میں رس بس گئے اور ’’ مفتوحین کے جم غفیر‘‘ میں شامل ہو گئے۔ ہندوستان میں آ کر اسلام کی خالص توحید بھی، بہت سے دیوتاؤں کو ماننے والی اقوام کے لیے موزوں بنتے بنتے بڑی بڑی تبدیلیوں کا شکار ہو گئی۔ اگرچہ مسلمان کئی خصائص میں بالکل ہندوؤں سے علیحدہ ہیں لیکن فی الواقع ہنود ان سے اس قدر متاثر نہیں ہوئے جتنا یہ ہنود سے (79) اقبال کے تہذیبی نظریات کے مطالعے میں کم و بیش انہی کے ہم عصر لی باں کے یہ مشاہدے بڑی اہمیت رکھتے ہیں: ’’ ۔۔۔۔ ہندوستان میں اسلام کے تیزی سے پھیلنے کا بڑا سبب یہ ہے کہ اس مذہب میں اعلیٰ درجے کی مساوات ہے، بچارے ہندو جو ذات پات کی مصیبتوں میں گرفتار تھے، اس موقع کو غنیمت جان کر پیغمبر اسلام کے مذہب میں دھڑا دھڑ داخل ہوئے لیکن اسلامی مذہب اس قدر سادہ تھا کہ وہ ہزاروں دیوتا پوجنے والی قوم کی تسکین نہیں کر سکتا تھا۔ ہندوؤں کو موحد بنانے کی جتنی کوششیں ہوئیں، وہ ناکام رہیں اور صرف اسی قدر اثر انداز ہو سکیں کہ پہلے دیو تاؤں میں ایک اور دیوتا کا اضافہ ہو گیا۔۔۔۔ نیچے طبقے کے لوگ کثرت سے اولیاء اللہ کو بھی اسی طرح مانتے ہیں جیسے برہمنی دیوتاؤں کو۔۔۔۔ (80)‘‘ یہی راز ہے ہندو دھرم کی بقا اور تسلسل کا اور اسے عجمی تصوف کے سالک نے جانا تو وہ مقامات میں ثابت قدم ہو گیا۔ حقیقت یوں نظر آتی ہے کہ یہ معاملہ رد و قبول کا ہے؟ خود اسلام کی مقدس کتاب اور عقائد میں رد اور قبول کے عمل میں 77؎ ممکن ہے اسے عمر، امراض یا خیالات کی تھکن سے تعبیر کیا جائے لیکن مشرق اور آزادی کے الفاظ اور ان کے متعلقات (تلازمے) آخری دور میں بڑھتے جاتے ہیں، تو یہ بے سبب نہیں: ’’در غلامی زادۂ آزاد میر‘‘ امتاں را در جہان بے ثبات نیست ممکن جز بہ کراری حیات (78) و تعجب ہے کہ لی باں کا نام فرانسیسی تاریخ و تہذیب سے متعلق حوالے کی کتابوں میں نہیں ملتا، اور نہ فرانس میں ہے قابل فکر (Orientalist) شمار کیا گیا ظ ۱ (79) ک ۴۶ باب چہارم، فصل اول (80) ک ۶ فصل ہشتم وقت کی رفتار کے ساتھ تناسب بدلتا رہا ہے اول رد پر زور تھا، مدنیت اور استقلال بڑھنے کے ساتھ ساتھ قبول کا مادہ بڑھتا گیا۔ جن ادیان کو اسلام نے رد یا منسوخ کیا تھا، انہی ادیان کی بعض رسموں کو اور انسانی فلاح و بہبود کے چند عقیدوں اور قصوں کو چن کر اپنے ہاں محفوظ کر لیا اور یوں تقلید نے اجتہاد کے لیے جگہ بنائی تو وہ گسستن اور پیوستن کے بیک وقت سلسلہ عمل سے بنائی۔ جب کوئی منتظم باقاعدہ نظریہ، قوم، عقیدہ یا طبقاتی قوت بساط عالم پر اپنی جگہ بنانے کے لیے بڑھتے ہیں تو انہیں وہ Offensive لینا پڑتا ہے، جسے ابن خلدون عصبیت اور اقبال شمشیر و سناں اور ’’ ذوق یقین‘‘ کہتے ہیں۔ ’’ شاہینی‘‘ کا یہ دور اپنی شدت میں ماضی و حال کے ورثے سے بظاہر منکر رہتا ہے باہر کے ہر ایک تصور یا عمل کو جو اس کے (Moisthir) کارل مارکس کے لفظوں میں سے پچھلے (Tension) سے نکل کر زرہ بکتر اتارنے اور ’’ تطمیر‘‘ سے’’ تعمیر‘‘ کی طرف آنے کی ترغیب دیتا ہے۔ تب ماضی کے ملبے سے جواہر پاروں کی تلاش ہوتی ہے، ٹکڑے چنے جاتے ہیں۔ ترقی پذیر تمدن اور نئی خوش حالی کی چھاؤں گھنی ہوتے ہی خود کی جگہ جبہ و دستار اور زرہ کی بجائے خلعت سجنے لگتے ہیں۔ عرب اسلام پر یہ وقت عباسی خلافت کے ساتھ آیا اور نو مسلم البرامکہ نے علم و تہذیب، فلسفہ و منطق، فنون لطیفہ کے دروازے کھول دیے۔ اسلام جیسا سادہ مذہب برگ و ہار لایا۔ عجمی عادات اور ہنر مندی نے، یونانی فلسفے کی موشگافی نے اور ہندی بدھ مت کی بے نفسی نے نئی تہذیب کو پرانے کاسٹیوم سپرو کیے۔ تب یہ مذہب صوفیہ اور اولیاء اللہ کے اخلاقی برتاؤ کے ساتھ دور دراز کی سر زمینوں میں، مقامی رنگوں کو اپنا کر عوام کی اپنی چیز بن سکا، ورنہ اجنبی حاکموں، فوجی غلبے والے حاکموں اور قلاش محکوموں کے درمیان کون سی مساوات تھی جو دلوں کو موہ سکتی (81) خواجہ نظام الدین کے حضور میں محبت کے بھوکے غیر مسلم عقیدت کے مارے آتے تو وہ ان کو نیک کاموں اور انسانی بھلائی کی تلقین کرتے۔ کلمہ پڑھوا کر احکام شرعی نافذ نہیں کرتے تھے۔ منصور حسین حلاج جسے بد عقیدہ شمار کر کے پھانسی دینے کو اقبال ایک زمانے تک برحق سمجھتے رہے۔ (82) اسی حلاج کو نظام الدین اولیاء ولی کا مل شمار کرتے تھے (83) ’’ قبول‘‘ کا یہی عمل تھا جس نے عقلی بحثوں کو آزادی افکار کو اختلاف رائے کے استقبال کو عام کیا۔ اقبال نے اپنے خطبات کی علمی حیثیت پر فخر کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’ اگر مامون الرشید کے زمانے میں یہ کتاب شائع ہوئی ہوتی تو انقلاب برپا ہو جاتا۔۔۔۔‘‘ (81) آب کوثر، شیخ اکرام ص ۸۵، ۳۸۳ مشترکہ بنگال و آسام میں مسلم آبادی کی اکثریت مسلم دور حکومت کے خاتمے کے بعد ہوئئی ہے۔ (82) ک ۱۳، ص ۵۴ خط ۱۹۱۹ء (83) ک ۴۷ ص ۸۰۔ ۳۷۰ ضرور برپا ہوتا کیونکہ یہی وہ دور ہے جب عجم کے اثرات سے روشن خیالی کا دور دورہ ہوا، اخوان الصفا کے رسائل، جو عقائد کو روشنی میں لانے کے لیے منظر عام پر آئے، گوتم بدھ (بو ذاسف کی حیات و تمثیلات کے اقتباسات لیے ہوئے تھے) یونانی فلسفے کو از سر نو دریافت اور ترجمہ کیا جا رہا تھا۔ کتاب حکمت ’’ پنج تنتر‘‘ کے علاوہ نجوم، ریاضی اور طب کی کتابیں سنسکرت سے لاطینی اور یونانی سے، پہلوی قدیم سے عربی میں ترجمہ ہو کر مباحث کا دروازہ کھول رہی تھیں۔ واضح رہے کہ مسیحی راہبوں، دانشوروں، آتش پرست، موبدوں، باز نطینی عالموں اور ہندوستانی ودوانوں، زبان دانوں کی ان عباسی خلفاء کے زمانے میں ریل پیل تھی۔ مغربی ایشیا اور مغرب میں اسلامی تاریخ کے عظیم دانشور خاص اسی زمانے میں ابھرے اور اجتہاد بقول اقبال کے ’’ ذہنی انتشار‘‘ اور غیر اسلامی عقائد تک جا پہنچا یہ اس زمانے کی (Renisinism) کا عروج تھا۔ دار الخلافہ بغداد کی صرف عمارتیں ہی ساسانی طرز پر تعمیر نہیں ہوئیں، وہ ذہن بھی عجمی تصوف کے سائے میں تعمیر ہوئے جو اخذ انجذاب اور اقبول کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ ’’ پیوستن ‘‘ کا عمل تھاسر الوصال محض مذہبی صوفیانہ اصطلاح نہیں، بلکہ صوفیائے کرام کے تہذیبی عمل کا بھی رمز تھا اور اسی عمل کی برکت ہے کہ تین سو سال سے ہند کے میخانے بند ہو جانے اور دو سو برس سیاسی اقتدار سے محروم ہو چکے کے بعد ہندوستانی پائے تخت سے دور دراز کی سر زمینوں میں اسلام اپنی مقامی شکل میں پھیلا اور بعض جگہوں پر آبادی کی وہ اکثریت پا سکا جسے اقبال الگ ایک اسٹیٹ میں صحیح سلامت اور بر سر کار دیکھنا چاہتے ہیں۔ ٭٭٭ حیات ان کے نزدیک رزم خیر و شر ہے، تخلیق آدم اور ابلیس کا انکار دونوں گویا مشیت ایزدی ہیں کہ تضادات کی کشمکش میں انسانی شخصیت ابھرے۔ گوئٹے کی طرح اقبال کے یہاں بھی انکار، سرکشی اور کفر کا مجسمہ، ابلیس کا وجود، یزداں، شیطان اور آم کی تثلیث کی تکمیل کرتا ہے تاکہ آدم خیر و شر کے مسلسل ہنگامے میں خیر کی جانب ارتقاء کی سمت بڑھتا رہے۔ مگر وہ ہندوستان کے نقشے میں رزم خیر و شر کے تصور سے گھبرا کر اہل ایمان کے گرد حصار کھینچنے کی تدبیر بوجھتے ہیں۔ تاکہ ’’ شر‘‘ کے نرغے سے ’’ خیر‘‘ نکل آئے۔ اقبال نے اپنے آخری دور میں انہی منصور حلاج اور سنائی کو عقیدت کے گلدستے نذر کیے۔ (84) جنہیں وہ کبھی رد کر چکے تھے عجب نہیں کہ بے رحم، سیف قاطع زمانے کو ان کی یہ ادا پسند آ گئی ہو اور وہ اپنے ہمسر مجذوبوں کی طرح عقیدت کے گلدستوں میں مہکتے رہیں۔ ٭٭٭ (84) جاوید نامہ مسافر کتابیات۔۔۔۔ جن کے حوالے اور حاشیے اس مضمون میں شریک ہیں بانگ درا ک۱، بال جبریل ک۲، ضرب کلیم ک۳: لاہور ایڈیشن فوٹو آفسٹ ارمغان حجاز ک۴ (فارسی) اشوک پریس نترپ بازار، حیدر آباد اسرار خودی ک۵، رموز بیخودی ک۶: مقبول عام پریس لاہور پیام مشرق ک۷: مکتبہ جامعہ ملیہ اڈیشن، دہلی اڈیشن زبور عجم ک ۸: ۱۹۲۷ء اڈیشن، لاہور اڈیشن جاوید نامہ ک۹: ۱۹۳۸ء کریمی پریس لاہور پس چہ باید کرد ک ۱۰، مسافر ک ۱۱: ۱۹۳۶ء اڈیشن کتاب خانہ طلوع اسلام لاہور فلسفہ عجم (اردو) ک ۱۲ : Development Metaphysics in Persiaنفیس اکیڈمی حیدر آباد اقبالنامہ ک ۱۳ (خطوط) مرتبہ: شیخ عطاء اللہ، ناشر:ـ محمد اشرف، لاہور مکاتیب اقبال ک ۱۴: بزم اقبال، لاہور علامہ اقبا اور سید سلیمان ندوی ک ۱۵: کتاب خانہ نورش لاہور ۱۹۵۶ء خطوط اقبال ک ۱۶: رفیع الدین ہاشمی، خیابان ادب، لاہور ۱۹۷۶ء تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ک ۱۷: بزم اقبال لاہور ۱۹۵۸ء The fcset of self r. Nicholosn ک ۱۸ (اسرار خودی) موج کوثرک ۱۹۔ شیخ محمد اکرام ۱۹۶۳ء فیروز سنز لمیٹڈ لاہور ذکر اقبال ک ۲۰۔ عبدالمجید سالک، بزم اقبال لاہور اقبال نمبر ک ۲۱۔ رسالہ اردو، ۱۹۳۸ء (نیا ایڈیشن ۱۹۴۰ئ) (انجمن ترقی اردو، دہلی) فکر اقبال ک۲۲: خلیفہ عبدالحکیم، بزم اقبال لاہور نقد اقبال ک ۲۳: میکش اکبر آبادی، میوہ کڑہ، آگرہ نقوش اقبال ک ۲۴: مولانا ابو الحسن علی ندوی، ۱۹۷۶ء لکھنو، پی بی ۱۱۹ اقبال اور انسان ک ۲۵۔ اشفاق حسین، ساہتیہ اکیڈمی حیدر آباد، اپریل ۷۴ء Iqbal ک ۲۶ حفیظ ملک، کولمبا یونیورسٹی پریس فکر اقبال ک ۲۷۔ مجموعہ مضامین سمی تار ۱۹۷۴ء آندھرا پردیش اردو اکیڈمی، حیدر آباد اقبال اور مغربی مفکرین ک ۲۸۔ جگن ناتھ آزاد، دسمبر ۱۹۷۵ء حافظ اور اقبال ۲۹۔ یوسف حسین خاں، مئی ۱۹۷۶ء غالب اکیڈمی نئی دہلی دلی سے اقبال تک ک ۳۰۔ ڈاکٹر سید عبداللہ مکتبہ جدید لاہور روزگار فقیر ک۳۱۔ فقیر وحید الدین لاہور ۱۹۶۴ء نقوش (لاہور)ک ۳۱ فقیر وحید الدین لاہور ۱۹۶۴ء اطراف اقبال ک۳۳ ملک حسن اختر، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۲، ۱۹۷۶ء اسرار اقبال ک ۳۴۔ حسین مہدی، عاصم بہاری پبلی کیشنز مراد آباد ۱۹۷۶ء اقبال اور مسٹرک ۳۵۔ عبدالرحمن خاں، گوشہ ادب، لاہور ۱۹۵۶ء ک ۳۶۔ Thefura m akga a. 1909 محمد اقبال کی شاعری روسی متن نتاشا پری کارینا ماسکو ۱۹۷۲ء اقبال کا تصور زمان و مکان، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ادارہ اشاعت اردو حیدر آباد اقبال شناسی ک ۳۹۔ سردار جعفری مکتبہ جامعہ جامعہ نگر نئی دہلی ۱۹۷۷ء رود کوثر ک ۴۰، موج کوثر ک ۴۱: شیخ محمد اکرام، فیروز سنز لمیٹڈ لاہور ۱۹۶۳ء اقبال ک۴۲۔ ڈاکٹر شکیل الرحمن، عصمت پبلی کیشنز، سرینگر ۱۹۷۳ء نذر مالک رام ک ۴۳ مجلس ارمغان مالک نئی دہلی ۱۹۷۱ء ک ۴۴ The Struggle of Pickiston kan university pieces 1965. ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مقدمہ کتاب العبر۔۔۔۔ (تاریخ ابن خلدون) ک ۴۵ تمدن ہند ک ۴۶ گستاؤ لی بان، ترجمہ سید علی بلگرامی امیر خسرو دہلوی ک ۴۷ ممتاز حسین کراچی ۱۹۷۶ء ٭٭٭ ملت اسلامیہ اور اقبال ڈاکٹر فرمان فتح پوری اقبال کو اسلام اور ملت اسلامیہ سے بہت گہری ذہنی و جذباتی وابستگی تھی۔ وہ اسلام اور اس کے دیے ہوئے آئین حیات کو دنیا کے سارے سیاسی مسائل و معاشرتی خلفشار کا واحد حل سمجھتے تھے اور اسی سیاسی عقیدے کی بناء پر وہ ہر لا دینی سیاسی نظام کو خواہ اس کا تعلق مشرق سے ہو یا مغرب سے، انسانی معاشرے کے لیے مہلک خیال کرتے تھے، سرمایہ دارانہ اور غیر سرمایہ دارانہ نظاموں میں ملوکیت، جمہوریت، اشتراکیت اور اشتمالیت سب سے ان کی بیزاری و مایوسی کی بنا یہی تھی کہ ان میں جسم کی بھوک پیاس کا سامان تو بہم پہنچایا گیا ہے لیکن روح کا بھوکا اور تشنہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ اقبال کا عقیدہ یہ ہے کہ کوئی ایسا پیغام حیات یا نظام سیاست جس میں دین و دنیا اور جسم و روح دوں کی بقا و ترقی کی یکساں ضمانت دی گئی ہو، بنی نوع انسان کی طمانیت قلب اور آسودگی ذہن کا وسیلہ نہیں بن سکتا۔ یہ نقطہ نظر ہر چند کہ اقبال کے ذاتی میلان و فکر و وجدان سے بھی ہم آہنگ تھا، تاہم اس کی بنا دلائل و حقائق پر استوار تھی۔ قیام یورپ کے زمانے میں اقبال نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کہ: جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی چنانچہ انہوں نے وسیع مطالعے، گہرے مشاہدے اور ذاتی تجربے کی روشنی میں کہا تھا کہ: مری نگاہ میں ہے یہ سیاست لا دین کیتز اہرمن و دوں نہاد و مردہ ضمیر ہوئی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر متاع غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اس کی تو ہیں ہر اول لشکر کلیسا کے سفیر مغرب کی یہ لادینی سیاست، جس میں کلیسا کو حاکمی سے یا مذہب کو نظام حکومت سے الگ کر لیا گیا تھا کسی نیک نیتی یا فلاح انسانیت کے تصور پر مبنی نہ تھی بلکہ اس کا مقصد جیسا کہ اقبال نے اور اشعار میں بیان کیا ہے۔ سیاست کو ’’ دیو بے زنجیر‘‘ اور ’’ متاع غیر پہ‘‘ غاصبانہ قبضے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ بات یہ تھی کہ پہلے تو اہل مغرب نے کلیسائی نظام یا مذہب کے ذریعے دنیائے انسانیت کو اپنے چنگل میں دبوچے رکھنے کی کوشش کی لیکن کلیسائی نظام کی بنیاد چونکہ رہبانیت پر تھی اس لیے وہ زیادہ عرصے تک حاکمیت کی متحمل نہ رہ سکی۔ بقول اقبال: کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی سماتی کہاں اس فقیری میں میری خصوصیت تھی سلطانی و راہبی میں کہ وہ سربلندی ہے یہ سر بزیری سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑیا چل کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری نتیجتاً سیاست مغرب نے نیا چولا بدلا۔ ایک طرف اس نے مذہب کو سیاست سے الگ کر کے حاکمیت یا ظالم و بربریت کے لیے ایک نیا جواز تلاش کر لیا دوسری طرف عقیدہ وطنیت کی بنیاد پر ایک نئے سیاسی تصور عینی ’’ قومیت‘‘ کو جنم دیا اور پوری اقوام میں قومیت کا تازہ جوش پیدا کر کے انہیں مشرق کے خلاف متحد وصف آراء ہونے پر آمادہ کیا۔ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے خطبہ صدارت میں مغربی سیاست کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ:’’ سر زمین مغرب میں مسیحیت کا وجود محض ایک رہبانی نظام کی حیثیت رکھتا ہے اس سے کلیسا کی ایک وسیع حکومت قائم ہوئی۔ لوتھر کا احتجاج دراصل اسی کلیسائی حکومت کے خلاف تھا۔ اس کو کسی دنیوی نظام سیاست سے کوئی بحث نہیں تھی کیونکہ اس قسم کا کوئی نظام سیاست مسیحیت میں موجود نہیں تھا، خود لوتھر کو بھی اس امر کا احساس نہ تھا جن مخصوص حالات کے ماتحت اس کی تحریک کا آغاز ہوا ہے، اس کا نتیجہ بالآخر یہ ہو گا کہ مسیح علیہ السلام کے عالمگیر نظام اخلاق کی بجائے مغرب میں ہر طرف بے شمار ایسے اخلاقی نظام پیا ہو جائیں گے جو خاص خاص قوموں سے متعلق ہوں گے، لہٰذا ان کا حلقہ اثر بھی محدود رہ جائے گا یہی وجہ ہے کہ جس ذہنی تحریک کا آغاز لوتھر اور روسو کی ذات سے ہوا۔ اس نے مسیحی دنیا کی وحدت کو توڑ کر اسے ایک ایسی غیر مربوط اور منتشر کثرت میں تقسیم کر دیا جس سے اہل مغرب کی نگاہیں اس عالمگیر سطح نظر سے ہٹ کر جو تمام نوع انسان سے متعلق تھا اقوام و ملل کی تنگ حدود میں الجھ گئیں۔ اس نئے تخیل حیات کے لیے انہیں ایک سے زیادہ واقعی اور مرئی اساس مثلاً تصور وطنیت کی ضرورت محسوس ہوئی جس کا اظہا ربالآخر ان سیاسی نظامات کی شکل میں ہوا جنہوں نے جذبہ قومیت کے ماتحت پرورش پائی یعنی جن کی بنیادا س عقیدے پر ہے کہ سیاسی اتحاد و اتفاق کا وجود عقیدہ وطنیت ہی کے تحت ممکن ہو سکتا ہے۔‘‘ 1؎ اقبال نے مغرب کے اس عقیدہ وطنیت و قومیت یا نئے سیاسی تصوف کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کے خیال میں وطنیت کا تصور صرف اس حد تک قابل قبول ہو سکتا ہے کہ افغانی، ایرانی، تورانی، المانوی، فرانسیسی، روسی، مصری اور عراقی وغیرہ ہونے کی حیثیت میں ہر فرد کو اپنے وطن سے محبت ہونی چاہیے اور ضرورت پڑنے پر اس کے لیے قربانیوں سے دریغ نہ کرنا چاہیے لیکن وطنیت یا قومیت کے جوش میں امن پسند اور صلح جو قوموں کی طرف جارحانہ اقدام یا ایک قوم کو دوسری قوم پر حملے کی ترغیب کسی طرح بھی دنیا کو فلاح کا راستہ نہیں دکھا سکی۔ جغرافیائی حدود اور مسلمان کے تحت اقبال نے لکھا ہے کہ ’’ یورپین مصنفین کی تحریروں کے ذریعے مجھے یہ بات ابتداء ہی میں اچھی طرح معلوم ہو گئی تھی کہ یورپ کی ملوکانہ اغراض اس امر کی متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدت دینی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اس سے بہتر اور کوئی حربہ نہیں ہو سکتا کہ اسلامی ممالک میں فرنگی نظریہ وطنیت کی اشاعت کی جائے، چنانچہ ان لوگوں کی یہ تدبیر بر عظیم میںکامیاب بھی ہو گئی اور اس کی انتہا یہ ہے کہ ہندوستان میں اب مسلمانوں کے بعض دینی پیشوا بھی اس کے حامی نظر آتے ہیں۔‘‘ مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:’’ مسیحیت نے یہ تعلیم دی کہ دین انفرادی اور پرائیویٹ ہے جس سے بد بخت یورپ میں یہ بحث پیدا ہوئی کہ دین چونکہ پرائیویٹ عقائد کا نام ہے اس واسطے انسانوں کی اجتماعی زندگی کی ضامن صرف اسٹیٹ ہے، اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ قومی ہے نہ نسلی، نہ انفرادی ہے نہ پرائیویٹ، بلکہ 1؎ خطبات اقبال ص ۲۷ خالصتہً انسانی ہے اور اس کا مقصد باوجود تمام فطری امتیازات کے عالم بشریت کو متحد و منظم کرنا ہے ایسا دستور العمل قوم اور نسل پر نبا نہیں کیا جا سکتا نہ اس کو صرف پرائیویٹ کہہ سکتے ہیں بلکہ اس کو صرف معتقدات پر ہی مبنی کہا جا سکتا ہے صرف یہی ایک طریق ہے جس سے عالم انسانی کی جذباتی زندگی اور اس کے افکار میں یک جہتی اور ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے۔ 2؎‘‘ ان صراحتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال ایک ایسی ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کی تبلیغ کرتے ہیں جو نسل و نسب اور ملک و رنگ کے امتیازات کو مٹا کر تمام کائنات کا احاطہ کر سکتی ہے۔ اسی ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا نام اقبال کے یہاں ملت اسلامیہ ہے اور ان کے نزدیک ملت اسلامیہ کے استکام و دوام ہی پر بنی نوع انسان کی اجتماعی زندگی کی بقا اور امن و سلامتی کا دار و مدار ہے۔ اس لیے اقبال کا مخاطبہ، یا ان کی تبلیغ کا رخ صرف برصغیر کے مسلمانوں تک محدود نہیں رہا بلکہ ساری دنیائے اسلام ان کی مخاطب بن گئی ہے انہوں نے اپنی شاعری اور خطبات و تقاریر میں التزاماً اس بات پر زور دیا کہ صرف اسلامی ممالک بلکہ ساری دنیا کی فلاح اس بات میں ہے کہ مغرب کے تصور وطنیت و قومیت اور لا دینی نظام ہائے سیاست کو ترک کر کے ایک ایسی ہیئت اجتماعیہ کو اپنایا جائے جو ہر قسم کے امتیازات سے بالا رہ کر فلاح انسانیت کی ضامن ہے اور جس کا نام عرف عام میں ملت اسلامیہ ہے۔ اس سے یہ غلط فہمی نہ پیدا ہونا چاہیے کہ اقبال ساری دنیا کو مسلمان بنا لینا چاہتے ہیں یا اسلامی ممالک کو ایک کر کے ایک وسیع اسلامی مملکت کی بنیاد ڈالنا چاہتے ہیں۔اقبال نے ڈاکٹر قاضی عبدالحمید کو بتایا تھا کہ میں بھی پہلے بہت دنوں تک سماجی اتحاد کے لیے وطن کو ایک بنیاد سمجھتا تھا اور خاک وطن کا ہر ذرہ مجھے دیوتا دکھائی دیتا تھا اس وقت میرے خیالات مادیت کی طرف مائل تھے اور وطن کے سوا انسانوں میں اتحاد کے لیے کوئی دوسرا ذریعہ نظر نہ آتا تھا لیکن اب انسانوں کو صرف ازلی و ابدی روحانی بنیادوں پر متحد کرنا چاہتا ہوں اور جب بھی میں اسلام کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میری مراد اس سے یہی روحانی نظام ہے اسلام اور مسلم میرے لیے خاص اصطلاحات ہیں جن کو میرے خیالات کے لیے اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے اسلام میں خلافت راشدہ کے بعد سے اب تک ایک بھی متحدہ اسلامی ریاست قائم نہ ہو سکی اور نہ اس کی کوئی امید دکھائی دیتی ہے البتہ اتحاد اسلامی کا تخیل اس معنی میں ضرور عملی جامہ پہن سکتا ہے کہ تمام اقوام آزاد ہوں اور وہ اسلامی مقاصد کے لئے باہم ایک دوسرے سے تعاون کریں، یہ حکومتیں ایک قسم کی اسلامی قومی حکومتیں ہوں گی مگر ان قومی حکومتوں کی بنیاد اخلاق اور محبت پر استوار ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ مغرب کی قومیت کے برعکس ہیئت اجتماعی کا یہ ایک وسیع نقطہ نظر ہے کہ جس میں نہ صرف مسلمان، بلکہ ساری انسانی برادری جمع ہو سکتی ہے۔ 3؎ چنانچہ اقبال کے یہاں ملت اسلامیہ کے پیغام کے زعم میں کہیں کوئی ایس اپہلو نظر نہیں آتا جس میں غیر مسلموں کے ساتھ کسی تنگ نظری یا تعصب کو روا رکھا گیا ہو یا جس کی بنا پر وطن یا اہل وطن یا دوسرے مذاہب و اقوام کے اکابر کی محبت و عظمت ان کے دل میں کم ہوئی ہو۔ البتہ جس طرح اہل مغرب نے سیاسیات کا رشتہ مذہب یا مذہبی قدروں سے توڑ کر جغرافیائی حدود یعنی وطن سے لا جوڑا تھا اسی طرح اقبال نے سیاسیات کا رشتہ وطن سے توڑ کر روحانی قدروں یعنی مذہب سے جوڑنے کی کوشش کی۔ اس کا بڑا ثبوت بقول عزیز احمد یہ ہے کہ آخر دم تک ان کے 3؎ مضامین اقبال مطبوعہ حیدر آباد دکن ۱۳۶۲ 3؎ اردو (اقبال نمبر) ص ۱۹۸ کلام میں ایسی نظمیں ملتی ہیں جن میں ہندوستان سے بحیثیت غیر سیاسی وطن کے بڑی ہی والہانہ محبت کا پتہ چلتا ہے دوسرے یہ کہ ابنائے وطن میں سے دوسرے فرقوں میں جو لوگ اقبال کی نظروں میں قابل تعظیم تھے، اقبال نے اپنی شاعری کے ہر دور میں ان سے کسی کسی کے متعلق نظمیں لکھیں ہیں۔ 4؎ مختصر یہ کہ دور اول یعنی ۱۹۰۵ء تک کی شاعری کے بعد کچھ تو اس سبب سے کہ انہوں نے مغربی قومیت کے نتائج، یورپ کے تین سالہ قیام میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے تھے، دوسرے اس سبب سے کہ ۱۹۰۶ء اور ۱۹۰۹ء کے درمیان برصغیر کے مسلمانوں میں اپنی ثقافتی اور معاشی حقوق کے تحفظ کا ایک نیا احساس ابھر کر سامنے آیا اور برطانوی حکومت نے جداگانہ انتخاب کے اصول کو تسلیم کر لیا، اقبال نے وطن پرستی پر مبنی مغربی قومیت سے ذہن کو آزاد کر کے روحانی اقدار پر مبنی اسلامیت کو اپنے فکر و فن کا موضوع بنایا اور اس کی تبلیغ و اشاعت کو اپنے پیغام کا جزور قرار دیا۔ چنانچہ ۱۹۰۵ء کے بعد کی شاعری میں ہمالہ اور نیا شوالہ کے طرز کی وطن پرستی پر مبنی نظمیں نظر نہیں آتیں، مختلف قوموں کے اکابر کی مدح میں نظمیں ضرور ملتی ہیں لیکن ان کا تعلق کسی سیاسی تصور سے نہیں بلکہ فرد کی شخصی حیثیت سے ہے۔ البتہ اسلامی ممالک، ان کے اکابر، کارناموں تعمیرات، متبرک مقامات، بلاد عربیہ اور ملت اسلامیہ سے متعلق بہت سے دوسرے موضوعات کا دخل و ذکر روز بروز ان کی شاعری اور ان کے خطبات و مقالات میں بڑھتا گیا ہے۔ تاریخی حیثیت سے اس سلسلے کی پہلی نظم ’’ صقلیہ‘‘ ہے جس میںشاعر نے جزیرہ سسلی کے اس تاریخی اور اسلامی شہر کی عظمت رفتہ پر اشکباری کی ہے۔ یہ نظم یورپ میں ملت اسلامیہ کے ایک تاریخی عہد کا مرثیہ ہے جس میں ضمناً اور کئی تاریخی مقامات کا ذکر بھی آ گیا ہے، صرف چند شعر دیکھئے کہ ان سے اقبال کے جذبات قلب کا کچھ اندازہ ہو سکے گا۔ نالہ کش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر داغ رویا خون کے آنسو جہان آباد پر آسمان نے دولت غرناطہ جب برباد کی ابن بدروں کے دل ناشاد نے فریاد کی غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا درد اپنا مجھ سے کہہ میں بھی سراپا درد ہوں جس کی تو منزل تھا میں اس کارواں کی گرد ہوں رنگ تصویر کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے قصہ ایام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے میں ترا تحفہ سوئے ہندوستان لے جاؤں گا خود یہاں روتا ہوں، اوروں کو وہاں رلواؤں گا اس کے بعد اقبال کے دور سوم کی شاعری کا آغاز ہوتا ہے اور اس کی ابتداء ایک ایسی نظم سے ہوتی ہے جس کا عنوان ’’ بلاد اسلامیہ ‘‘ ہے اور جس میں اقبال نے متعدد اسلامی مراکز کی یاد کو اپنی بے چین روح کی آسودگی کا وسیلہ بنایا ہے۔ دلی، بغداد، حجاز، قرطبہ، قسطنطنیہ اور 4؎ اقبال نئی تشکیل ص ۲۰ مدینہ سب کی عظمتوں کا پر سوز تذکرہ ہے، لیکن ان نظموں میں خراج عقیدت کے سوا کسی فکر انگیز ملی تصور یا بلاد اسلامیہ کے متعلق کسی امید افزا مستقبل کی طرف اشارہ نہیں ملتا۔ البتہ ’’ گورستان شاہی‘‘ کے عنوان سے جو طویل نظم گولکنڈا کے شاہی قلعے اور اس کے کھنڈرات سے متعلق ہے اس میں پہلی بار، ملت اسلامیہ کے سلسلے میں، اقبال کا رجائی نقطہ نظر، اس طور پر ظہور میں آتا ہے: اشکباری کے بہانے ہیں یہ اجڑے بام و در گریہ پیہم سے بینا ہے ہماری چشم تر دہر کو دیتے ہیں موتی دیدۂ گریاں کے ہم آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم ہیں ابھی صد ہا گوہر اس ابر کی آغوش میں برق ابھی باقی ہے اس کے سینہ خاموش میں وادی گل، خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ خواب سے، امید دہقاں کو جگا سکتا ہے یہ ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور پھر یہی رجائی نقطہ نظر پیغام اقبال کا سب سے قوی عنصر بن کر ان کی شاعری کی معرفت، ساری دنیا کے اسلام کو مردانہ و ار زیست کرنے کا حوصلہ دے گیا ہے۔ کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو ٭٭٭ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ٭٭٭ نہ ہو نو مید، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں ٭٭٭ کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے ہے بھروسہ اپنی ملت کے مقدر پر مجھے ٭٭٭ ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش میں بندۂ مومن ہوں نہیں دانہ اسپند ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوق شکرخند ٭٭٭ ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی ٭٭٭ دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی ٭٭٭ عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی ٭٭٭ سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں ٭٭٭ کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ ٭٭٭ خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں جنت تیری پنہاں ہے ترے خون جگر میں اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ اس طرز کے اور نہ جانے کتنے، کتنے بند اور کتنی نظمیں ہیں جن کے ذریعے پوری ملت اسلامیہ کو مسلمانوں کے روشن مستقبل کا یقین دلایا گیا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ مغرب کے لائے لادینی نظام اور انسانیت کشی کا تصور قومیت سے نجات حاصل کرے او رآئین اسلامی کو اپنانے کے بعد ہی ایسا ممکن ہو سکے گا۔ چنانچہ دنیائے اسلام یا اقوام مشرق سے اقبال کے مخاطبے کی کئی سطحیں ہو گئی ہیں ایک سطح پر انہوں نے مختلف اسلامی ممالک کی تمدنی آثار و اقدار کو سراہا ہے، دوسری سطح پر ان کے سیاسی و تمدنی مسائل پر مبصرانہ نگاہ ڈالی ہے، تیسری سطح پر اتحاد اسلامی کا عالم پیغام دیا ہے، گویا ممالک اسلامیہ سے متعلق ان کی نظمیں تین خانوں میں بٹی ہوئی ہیں ان میں اقبال نے کہیں آثار قدیمہ کے حوالے سے گفتگو کی ہے کہیں افراد یعنی اکابر اسلام کی سیرت و کردار کو موضوع سخن بنایا ہے اور کہیں نظریات و تصورات حیات کے وسیلے سے اظہار خیال کیا ہے، البتہ بعض اشعار اور منظومات میں پوری ملت اسلامیہ کو مخاطب کر کے بات کہی گئی ہے اور بعض میں کسی خاص اسلامی ملک یا ملت کو مخاطب کر کے ان کے مخصوص مسائل کی روشنی میں گفتگو کی گئی ہے۔ عمومی یا اجتماعی مخاطبے میں اقبال نے جس خاص پہلو پر نظر رکھی ہے وہ یہ تھا کہ ممالک اسلامیہ یا اقوام مشرق کو مغربی تہذیب و سیاست کی لعنتوں سے پوری طرح آگاہ کیا جائے انہیں یقین دلایا جائے کہ مغربی تہذیب، اپنے ہاتھوں خود اپنا گلا گھونٹ رہی ہے اور بہت جلد اس کا خاتمہ ہو جائے گا، روحانی قدروں اور دینی شعائر کو یکسر نظر انداز کر کے تہذیب کے نام سے مغرب نے ایک ایسی آگ کو جنم دیا ہے جس میں وہ خود بھسم ہونے والا ہے اور وہ دن دور نہیں کہ وہ خود اپنے کیے پر آپ پچھتائے گا۔ چنانچہ سب سے پہلے اقبال نے اہل مشرق پر تہذیب مغرب کی شکست و ریخت اور اس کے زوال آمادہ تمدن کا راز اس طور پر فاش کیا۔ فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے نا پید ضمیر پاک و خیال بلند و ذوق لطیف ٭٭٭ جہان تو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو اسی کی بے تاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ ٭٭٭ یہ عیش فراوان یہ حکومت یہ تجارت دل سینہ بے نور میں محروم تسلی تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے یہ وادی ایمن نہیں شایان تجلی ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب فرنگی شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی ٭٭٭ پانی بھی مسخر ہے ہوا بھی ہے مسخر کیا ہو جو نگاہ فلک پیر بدل جائے دیکھا ہے ملوکیت افرنگ نے جو خواب ممکن ہے کہ اس خواب کی تدبیر بدل جائے طہراں ہو اگر عالم مشرق کا جنیوا شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے ٭٭٭ نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے ٭٭٭ اہل مغرب نے مشینی ایجادات اور مادی ترقیات کے بل بوتے پر، ممالک اسلامیہ کو مرعوب و محکوم تو بنا ہی رکھا تھا، پہلی جنگ کی قتل و غارت گری کے بعد جہاں انہوں نے یورپ کی بعض مشرقی ریاستوں کو مسلمانوں سے زبردستی چھین لیا اور ایران و ترکی و فلسطین کی گردنوں پر چھری رکھ دی وہاں اپنے اعمال و مظالم کو جائز قرار دینے کے لیے انصاف بوزنائی یا بندر بانٹ کے طرز کا ایک نیا ادارہ لیگ آف نیشن کے نام سے جنیوا میں قائم کیا۔ ساری قوموں کو اس کا ممبر بنا کر یہ تاثر دیا گیا کہ دو قوموں کے درمیان اختلاف و جنگ کی صورت پیدا ہوئی تو یہ ادارہ حق و انصاف کی علمبرداری کرے گا لیکن یہ سب دراصل مغربی طاقتوں کا ایک ڈھونگ اور مشرقی قوموں کو نئے انداز سے شکار کرنے کا ایک جال تھا۔ اقبال نے مغرب کی اس چال کو اسی وقت بھانپ لیا اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ وہ جمعیت اقوام یا لیگ آف نیشن کے فریب میں نہ آئیں۔ اس لیے کہ یہ بزم اتحاد بلکہ انجمن رزم ہے جس میں بالکل نئی روشیں اختیار کی جائیں گی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کفن چوروں نے قبروں کی تقسیم کے لیے او رکمزور قوموں کو لقمہ اجل بنانے کے لیے اس انجمن کی تشکیل کی ہے۔ برفتد تا روش رزم دریں بزم کہن درد مندان جہان طرز نو انداختہ اند من ازیں بیش ندانم کہ کفن دز دے چند بہر تقسیم قبور، انجمنے ساختہ اند ٭٭٭ شرح یورپ بے نزاع قیل و قال بزہ را کردست بر گرگان حلال نقش نو اندر جہاں باید نہاد از کفن دزداں چہ امید کشاد در جنیوا چیست غیر از مکر و فن صید تو ایں عیش و آں نخچیر من ان خیالات کے اظہار کے بعد اقبال نے انجمن اقوام کے بارے میں پیش گوئی کے طور پر یہ بھی کہہ دیا کہ: بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبر بد مرے منہ سے نہ نکل جائے تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے و لیکن پیران کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرک افرنگ ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے اس کے ساتھ اس امر کا بھی اظہار کیا کہ ایسی کوئی انجمن جس میں جنس و رنگ اور نسل و وطن کے امتیازات برقرار رکھے جائیں، اقوام میں باہم وحدت پیدا کرنے کا سبب نہیں بن سکتی۔ حقیقی وحدت کے لیے اس قسم کے ادنیٰ امتیازات سے برسی و بلند ایک ایسے محکم اساس کی ضرورت ہے جو اقوام و ملل کے درمیان جنگ و فساد کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر سکے۔ یہ اساس ملت اسلامیہ کی صورت میں پہلے سے موجود ہے اور اس کے ذریعے جمعیت آدم کی کوشش کرنی چاہیے۔ 5؎ اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود اسلام کا مقصود فقط ملت آدم مکے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم غرض کہ اقبال نے مغربی مدنیت کے خطرات سے مشرقی اقوام خصوصاً دنیائے اسلام کو بار بار یقین دلایا کہ مغرب کی پیروی ان کے حق میں کسی طرح مفید نہیں ہو سکتی۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں مغربی تہذیب کے مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے انہوں نے قوی دلائل کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ عصر حاضر کی ذہنی سرگرمیوں سے جو نتائج مرتب ہوئے۔ ان کے زیر اثر انسان کی روح مردہ ہو چکی ہے یعنی وہ اپنے ضمیر اور باطن سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے اس کا وجود خود اپنی ذات سے متصادم ہے۔ سیاسی اعتبار سے افراد سے افراد الجھے ہوئے ہیں۔ اس میں اتنی سکت ہی نہیں کہ اپنی بے رحم انانیت اور نا قابل تسکین جوع زر پر قابو حاصل کر سکے۔ یہ باتیں ہیں جن کے زیر اثر زندگی کے اعلیٰ مراتب کے لیے اس کی جدوجہد بتدریج ختم ہو رہی ہے وہ زندگی سے اکتا چکا ہے، اس کی نظر صرف ان واقعات پر ہے جو اس کی نظروں کے سامنے ہیں باطنی حقائق سے وہ نا آشنا ہے۔ مادیت کی اس باقاعدہ نشوونما نے اس کے 5؎ سیرت اقبال ص ۳۰۷ رگ و پے مفلوج کر دیے ہیں۔ کچھ ایسی ہی حقیقت مشرق کی ہے۔ بہرحال یہ لا دینی اشتراکیت ہو یا وطنیت، دونوں مجبور ہیں کہ وہ اپنے تطابق و توافق کے لیے لوگوں کو بد گمانی، نفرت اور غم و غصہ پر اکسائیں، حالانکہ اس طرح انسان کا باطن مردہ ہو جاتا ہے اور اس قابل نہیں رہتا کہ اپنی روحانی طاقت یا قوت کے منفی سرچشمے تک پہنچ سکے۔ جب تک انسان کو اپنے آغاز و انجام کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی وہ کبھی اس معاشرے پر غالب نہیں آ سکتا جس میں باہمد گر مقابلے اور مسابقت نے ایک بڑی غیر انسانی شکل اختیار کر رکھی ہے اور نہ اس تہذیب و تمدن ہی کو متاثر کر سکتا جس کی روحانی وحدت اس کی مذہبی اور سیاسی قدروں کے اندرونی تصادم سے پارہ پارہ ہو چکی ہے۔ 6؎ چنانچہ اقبال نے بار بار ممالک اسلامیہ کو مغرب کی تقلید سے نجات حاصل کرنے کی تلقین کی ہے۔ نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور ٭٭٭ تقلید سے ناکارہ۰ نہ کر اپنی خودی کو کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ ممالک اسلامیہ سے اجتماعی مخاطبے کی واضح اور مفصل شکل اقبال کی مشہور مثنوی ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ میں بھی ملتی ہے۔ اس میں انہوں نے مسلمانوں کو مغربی تمدن کے خطرات، اور اس کی پیروی کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا ہے ساتھ ہی انہیں شاندار ماضی کی داستان سنا کر ان میں ایک طرح کا جوش ولولہ بھی پیدا کیا ہے لیکن چونکہ اقبا ل کو ملت اسلامیہ اور اقوام مشرق کے مسائل سے طبعاً گہری دلچسپی تھی اس لیے کہ انہوں نے صرف اس عمومی یا اجتماعی مخاطبے کو کافی نہیں سمجھا جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے بلکہ انہوں نے تقریباً ہر اسلامی ملک اور ملت سے انفرادی مخاطبے کو بھی ضروری جانا ہے اور اس کے احوال و آثار کے خاص پس منظر میں خاص انداز سے اس کے کوائف کا جائزہ لیا ہے، ماضی کی عظمت کا احساس دلایا ہے، روشن مستقبل کی بشارت دی ہے اور تقلید و بے عملی کی زندگی پر اظہار تاسف کیا ہے، اس سلسلے کی اردو نظموں میں بلاد عربیہ، شفاخانہ، حجاز، حضور رسالت مآب ؐ، فاطمہؓ بنت عبداللہ، محاصرہ اورنہ، غلام قادر روہیلہ، شبلی و حالی، صدیقؓ، بلالؓ، جنگ یرموک کا ایک واقعہ، مدنیت اسلام، مکہ اور جنیوا امرائے عرب سے سلطان ٹیپو کی وصیت، پیرس کی مسجد، مسجد قوت الاسلام، ابی سینیا، جمعیت اقوام اور مشرق، شام و فلسطین، فلسطینی عرب، محراب گل افغان کے افکار، یورپ اور سوریا، طارق کی دعا، مسجد قرطبہ، ساقی نامہ، دعا، عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا درخت، ہسپانیہ، نادر شاہ افغان، خوشحال خاں کی وصیت، تاتاری کا خواب، ابو العلا معریٰ، ابلیس کی مجلس شوریٰ وغیرہ کے نام آتے ہیں قطعات و غزلیات میں بھی جا بجا ممالک اسلامیہ کے مسائل کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ فارسی میں اسرار و رموز اور جاوید نامہ کے کئی اجزاء ایسے ہیں جن کا تعلق براہ راست اقوام مشرق سے ہے۔ ’’ مسافر‘‘ اور ’’ پس چہ باید کرد 6؎ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ص ۲۹۳۔ ۲۹۰ اے اقوام شرق‘‘ ایسی مثنویاں ہیں جن میں شروع سے آخر تک ممالک اسلامیہ ہی کے مباحث بیان ہوئے ہیں لیکن سارے ممالک کے مباحث و مسائل کے ذکر کی اس جگہ گنجائش نہیں نکل سکتی۔ اس لیے صرف چند اسلامی ممالک ہی کا مختصر تذکرہ اس سلسلے میں کیا جائے گا۔ ’’ فلسطین‘‘ جو ایک مدت سے یورپ کے آہنی پنجوں کا شکار ہے اقبال کی گفتگو اور شاعری کا خاص موضوع رہا ہے، قائد اعظم کو ایک خط میں اقبلا نے لکھا تھا کہ ’’ مسئلہ فلسطین مسلمانوں کے ذہن کو بہت متاثر کر رہا ہے، ذاتی طور پر میں ایسے مقصد کے لیے جیل جانے کے لیے تیار ہوں جو اسلام اور ہندوستان دونوں کو متاثر کر سکتا ہے، مشرق کے دروازے ہی پر ایک مغربی مرکز بہت خطرناک ہے۔ 7؎‘‘ ایک باوزخط میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’’ فلسطین پر یہودیوں کا کوئی حق نہیں، یہودیوں نے تو اس ملک کو رضا مندانہ طور پر عربوں کے فلسطین پر قبضے سے بہت پہلے خیر باد کہہ دیا تھا۔ 8؎ علاوہ ازیں فلسطین کے سلسلے میں جتنی کانفرنسیں برصغیر میں ہوئیں، علامہ اقبال ان میں شریک ہوئے۔ 9؎‘‘ ایک بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ فلسطین میں یہود کے لیے ایک قومی وطن کا قیام تو محض حیلہ ہے، حقیقت یہ ہے برطانوی امپریلزم مسلمانوں کے مقامات مقدسہ میں مستقل انداب اور سیادت کی شکل میں اپنے ایک مقام کی متلاشی ہے۔ 10؎ اقبال نے مندرجہ ذیل اشعار میں یورپ کی اسی انتداب و سیادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طنزاً کہا ہے کہ: اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار ترکان جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار‘‘ یہاں فلسطین کے ساتھ شام و ترکی کا ذکر خاص سبب سے ہے، پہلی جنگ عظیم کا انجام مسلمانوں کے حق میں بہت افسوسناک ہوا۔ طاقتور قوموں کا سارا نزلہ عالم اسلام پر گرا۔ ترکی خلافت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اتحادیوں نے اس کے مقبوضات میں حصہ بانٹ کر لیا، ترکی کا مشرقی حصہ روس کے ہاتھ لگا اور مغرب کے مشرقی صوبے بلقان، ہنگری اور بلغاریہ وغیرہ مکمل طور پر خود مختار قرار دے دیے گئے، ایران اور شامل عملاً فرانس کے قبضے میں چلے گئے، مصر و عراق پر برطانیہ نے اپنا تسلط جما لیا۔ اس طرح عالم اسلام کے حصے بخرے ہو گئے، فلسطین کا مسئلہ ذرا بین الاقوامی نوعیت کا تھا اس لیے اسے تہذیب و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے برطانیہ کے زیر انتداب رکھا گیا۔ 11؎ اقبال نے اسی پس منظر میں فلسطین، شام اور ترکی کا تذکرہ کیا ہے۔ یورپ کے ان ظالمانہ اقدامات کی روشنی میں انہوں نے یہ بھی اسی وقت محسوس کر لیا تھا کہ یہودیوں کا اثر روز بروز مغرب پر بڑھتا جائے گا اور وہ دن قریب ہیں کہ مغربی اقوام سود خوار یہودیوں کے اشارے پر ناچیں گی۔ 7؎ اقبال نامہ حصہ دوم ص ۲۷ 8؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۴۴۶ 9؎ نقوش اقبال ص ۱۹۶ 10؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۴۵۱ 11؎ نقوش اقبال ص ۱۹۷ تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار جن کی روباہی کے آگے ہیچ ہے زور پلنگ خود بخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح دیکھئے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ ہے نزع کے عالم میں یہ تہذیب جواں مرگ شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی چونکہ انگریز فلسطین پر یہودیوں کا استحقاق ثابت کرنے کے لیے یہ کہہ رہے تھے کہ عربوں نے یہودیوں کو فلسطین سے نکالا تھا اس لیے اگر یہودیوں کو یہ دوبارہ دے دیا جائے تو نا مناسب نہ ہو گا۔ اقبال نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ اگر ایسا ہے تو پھر ہسپانیہ اور سسلی کو عربوں کے حوالے کیوں نہ کر دیا جائے کہ اب سے پہلے ان پر مسلمانوں کا قبضہ تھا۔ ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد و رطب کا چنانچہ اقبال نے فلسطینیوں اور عربوں سے صاف کہہ دیا کہ مغربی اقوام سے کسی قسم کے انصاف کی توقع رکھنا عبث ہے کیونکہ مغرب کے مہاجنی نظام میں یہودی مہاجنوں کا بڑا دخل ہے، وہ ہر حال میں ان ہی کا ساتھ دیں گے، اس لیے غافل بیٹھنا مناسب نہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ خدا و خودی کو رہنما بنا کر کھوئے ہوئے فلسطین کو دوبارہ حاصل کیا جائے۔ تری دوا، نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے قبلہ اول کی کشش اقبال کو آخری عمر میں فلسطین بھی لے گئی۔ سید امین الحسینی کی دعوت پر انہوں نے موتمر عالم اسلامی کے اجلاس منعقدہ ۶ دسمبر ۱۹۳۱ء میں برصغیر کے مندوب کی حیثیت سے شرکت کی۔ ۱۲؎ اس میں انہوں نے ممالک عربیہ کے متعلق کہا کہ ’’ میرا ایمان ہے کہا سلام کا مستقبل اہل عرب کی ذات سے وابستہ ہے اور ان کا مستقبل ان کے باہمی اتحاد پر موقوف ہے ان کے لیے مقدر ہو چکا ہے کہ عظیم الشان طاقت بن جائیں۔ اسلام کے علاوہ دنیا کی کوئی طاقت اس الحاد اور مادیت کا مقابلہ کامیابی سے نہیں کر سکتی جو یورپ سے نشر و اشاعت حاصل کر رہا ہے۔ مجھے اسلام کے خارجی دشمنوں سے کوئی خطرہ نہیں۔ میرے خیال میں 12؎ سیاحت اقبال حاشیہ ص ۱۷۲ اگر کوئی خطرہ ہے تو اندرونی دشمنوں سے ہے۔ 13؎ بعد کو سفر فلسطین کے تاثرات یوں بیان کیے کہ ’’ سفر فلسطین میری زندگی کا نہایت دلچسپ واقعہ ثابت ہوا۔ فلسطین کے زمانہ قیام میں متعدد اسلامی ممالک مثلاً مراکش، مصر، یمن، شام ، عراق، فرانس اور جاوا کے نمائندوں سے ملاقات ہوئی۔ شام کے نوجوان عربوں سے مل کر میں خاص طور پر متاثر ہوا۔ ان نوجوانان اسلام میں اس قسم کے خلوص و دیانت کی جھلک پائی جاتی تھی جیسی میں نے اطالیہ کے فاشسٹ نوجوانوں کے علاوہ کسی میں نہیں دیکھی۔ 14؎‘‘ پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان کا ذکر بھی اقبال کے یہاں بکثرت آیا ہے، وہ عبید اللہ سندھی کی طرح یہ نہ چاہتے تھے کہ افغانستان ہندوستان پر حملہ آور ہو یا افغانستان و ہندوستان کے مسلمان مل کر کوئی مشترک ریاست قائم کریں بلکہ افغانوں کو ایک جفاکش اور سخت کوش قوم پا کر وہ ان سے متاثر تھے اور چاہتے تھے کہ ان سے جہالت، تعصب اور بے عملی کو دور کر کے انہیں عہد حاضر کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے اہل بنا دیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اقبال کے کلام خصوصاً فارسی شاعری کو اگر کسی بیرونی ملک نے قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا تھا تو وہ افغانستان تھا۔ ایک بار انہیں شاہی مہمان کی حیثیت سے بلا کر بھی افغانوں نے انہیں خراج تحسین پیش کیا تھا۔ اس قدر افزائی سے اقبال کا متاثر ہونا فطری عمل تھا، چنانچہ انہوں نے اپنی فارسی غزلوں اور نظموں کے پہلے مجموعے ’’ پیام مشرق‘‘ کو امیر افغانستان امان اللہ خاں سے منسوب کیا۔ امان اللہ خاں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ۱۹۱۹ء میں افغانستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلائی تھی۔ 15؎ افغانوں کے بارے میں اقبال کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اس قوم کی خودی ابھی کہساروں میں خوابیدہ ہے اور اس خودی کو مہذب بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘ قسمت خود از جہاں نا یافتہ کوکب تقدیر او نا تافتہ در قہستان حلوتے ور زیدہ ر ستخیز زندگی نا دیدۂ جان تو بر محنت پیہم صبور کوش در تہذیب افغان غیور افغانوں سے کیا چاہتے تھے یا ان کے لیے اقبال کا پیغام کیا تھا؟ اس کا صحیح اندازہ اس نظم سے ہوتا ہے جو ’’ محراب گل افغان کے افکار‘‘ کے نام سے ضرب کلیم میں موجود ہے۔ اقبال کا خیال ہے کہ افغانوں میں ساری خصوصیات شجاعانہ موجود ہیں اگر کمی ہے تو خود شناسی کی اس لیے وہ اسی جانب ان کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔ رومی بدلے شامی بدلے بدلا ہندوستان تو بھی اے فرزند کہستاں اپنی خودی پہچان اپنی خودی پہچان، او غافل افغان اونچی جس کی لہر نہیں ہے کیسا وہ دریا جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں وہ کیسا طوفان 13؎ گفتار اقبال ص ۱۴۴ 14؎ گفتار اقبال ص ۱۴۵ 15؎ اقبال نئی تشکیل ص ۷۲ اپنی خلودی پہچان، او غافل افغان تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان اپنی خودی پہچان، او غافل افغان یہ نظم خاصی طویل ہے اور مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہے، ہر ٹکڑے کی زمین و بحر، دوسرے سے مختلف ہے، گویا اردو میں یہ جدید نظم کا ایک نیا تجربہ ہے۔ اس میں افغانوں کی شجاعت و مردانگی اور تاریخی کارناموں کا ذکر جگہ جگہ آیا ہے، کہیں نادر شاہ و زانی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ: نادر نے لوٹی دلی کی دولت اک ضرب شمشیر، افسانہ کوتاہ افغان باقی، کوہسار باقی الحکم للہ، الملک للہ کہیں افغانوں کے حوالے سے جوانی و قوت کا یہ راز فاش کیا گیا ہے کہ:ـ وہی جوان ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری اگر ہو جنگ، ہے شیران غاب سے بڑھ کر اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاری کہیں اس کے خطرات کا اظہار ہے کہ: نہیں ہنگامہ پیکار کے لائق وہ جواں جو ہوا نالہ مرغان سحر سے مدہوش مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری اور عیار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش ٭٭٭ کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی اے پیر حرم تیری مناجات سحر کیا ممکن نہیں تخلیق خودی خانقہوں سے اس شعلہ نم خوردہ سے لوٹے گا شرر کیا اور کہیں شیر شاہ سوری کے قول کے حوالے سے قبائلی امتیازات کی خواریوں کی طرف اشارہ اور افغانوں کو متحد رہنے کی تلقین اور ان کے کردار کی تحسین ہے: یہ نکتہ خوب کہا شیر شاہ سوری نے کہ امتیاز قبائل تمام تر خواری عزیز ہے انہیں نام وزیری و محمود ابھی یہ خلعت افغانیت سے ہیں عاری ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی کہ ہر قبیلہ ہے اپنے بتوں کا زناری وہی حرم ہے وہ اعتبار لات و منات خدا نصیب کرے تجھ کو ضربت کاری ٭٭٭ فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مرد کہستانی دنیا میں محاسب ہے تہذیب فسوں گر کا ہے اس کی فقیری میں سرمایہ سلطانی بال جبریل کی نظم ’’ خوشحال خاں کی وصیت‘‘ اگرچہ بہت مختصر سی نظم ہے لیکن اقبال نے اس میں بھی افغانوں کے شجاعانہ کریکٹر کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ بڑے جامع انداز میں انہیں خود داری کا درس بھی دے دیا ہے۔ قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم کہ ہو نام افغانیوں کا بلند محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند مغل سے کسی طرح کمتر نہیں قہستاں کا یہ بچہ ارجمند کہوں تجھ سے اے ہمنشیں دل کی بات وہ مدفن ہے خوشحال خاں کو پسند اڑا کر نہ لائے جہاں باد کوہ مغل شہسواروں کی گرد سمند بعض وجوہ کی بنا پر ترکی سے برصغیر کے مسلمانوں کو پہلے جذباتی لگاؤ تھا اور آج بھی یہ کسی نہ کسی شکل میں باقی ہے، برصغیر کی تحریک خلافت جس نے فرنگی ایوان سیاست میں، کسی و قت ایک ہلچل پیدا کر دی تھی وہ بھی ترکی اور اہل ترکی سے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی کا مظہر تھی، اس سے پہلے ذکر آ چکا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں ترکی کو سخت نقصان اٹھانا پڑا اور خلافت کے جس رشتے سے ممالک اسلامیہ بندھے ہوئے تھے اگرچہ وہ بہت کمزور اور برائے نام تھا، انگریزوں نے اسے توڑ دیا، اس کی بحالی کے لئے احتجاج ہوئے، برصغیر سے وفد گئے، نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ شاید اقبال نے پہلے ہی اس قسم کی ناکامی کو بھانپ لیا تھا اسی لیے انہوں نے تحریک خلافت کے مطالبے کو گدائی سے تعبیر کیا۔ البتہ ۱۹۲۲ء میں جب مصطفی کمال پاشا نے ترکی کو انگریزوں کے پنجے سے بزور شمشیر آزاد کرا لیا اور برطانوی افواج کو قسطنطنیہ سے نکلنا پڑا تو اقبال کے جذبات قومی میں وفور مسرت سے طوفان سا آ گیا اور اس کے نتیجے میں ان کی وہ طویل اور مشہور نظم وجود میں آئی جو ’’ طلوع اسلام‘‘ کے نام سے بانگ درا میں شامل ہے نظم کیا ہے انگریزوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی فتوح و کامرانی کا جشن منظوم ہے جس کاآغاز ان اشعار سے دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی عروق مردہ مشرق میں خون زندگی دوڑا سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی اور خاتمہ ان اشعار پر ہوتا ہے: کنا راز زا ہداں بر گیر و بیباکانہ ساغر کش پس از موت ازیں شاخ کہن بانگ ہزار آمد بہ مشتاقاں حدیث خواجہ بدر و حنین آور تصرف ہائے پنہانش بچشم آشکار آمد سر خاک شہید سے برگہائے لالہ می پاشم کہ خونش بانہال ملت ما سازگار آمد بیا تا گل بیفشانیم و مے در ساغر اندازیم فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم ’’ پیام مشرق‘‘ میں بھی ایک اور نظم ’’ خطاب بہ مصطفی کمال پاشا‘‘ کے نام سے فارسی زبان میں ہے اس میں بھی اسے خراج تحسین پیش کیا گیا ہے لیکن مصطفی کمال پاشا سے اقبال نے جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ پوری نہ ہوئیں، اس نے بعض ایسی اصلاحات کی جانب قدم اٹھایا جو مغرب کی تقلید میں تھیں اور اسلامی اقدار پر ان سے ضرب پڑتی تھی، ظاہر ہے کہ دوسرے مسلمانوں کی طرح اقبال بھی ترکی کی طرف سے بد دل ہوئے، اس بد دلی کا اظہار اقبال کے اشعار میں ضمناً کئی جگہ ہوا ہے لیکن تفصیل سے اس کا ذکر جاوید نامہ میں اس مقام پر آیا ہے۔ جہاں فلک عطارد پر اقبال کی ملاقات جمال الدین افغانی اور ترکی کے سعید حلیم پاشا کی ارواح سے ہوئی ہے۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے اس سے اقبال کی ذہنی وابستگی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ انہوں نے ’’ فلسفہ عجم‘‘ کو پی ایچ ڈی کے لیے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔ اپنے پیغام کی اشاعت کے لیے اردو کے بجائے فارسی کو موزوں تر خیال کیا اور اس میں شبہہ نہیں کہ ان کے کلام کا بہترین اور زیادہ حصہ فارسی ہی میں ہے، ان باتوں سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اگرچہ اپنے نظام فکر میں ایرانی تصوف کو اور شاعری میں عجمی لے کو ملک و ملت کے لیے مہلک ٹھہرایا اس کے باوجود اس کی روح کو سکون ایک ایرانی ہی کے سایہ افکار میں میسر آیا یعنی خودی وبیخودی کی ساری ارتقائی منزلیں انہوں نے مولانا روم کی دستگیری میں طے کیں خود کو مرید کہا اور مولانا کو پیر مرشد کے لقب سے یاد کیا اور یہ رشتہ کبھی ٹوٹا نہیں عمر بھر قائم رہا۔ بیسویں صدی کے سیاسی مسائل کے حوالے سے اقبال کو جدید ایران اس وقت متاثر و متحرک کرتا ہے جب ایک مدت کی پستی و نکبت کے بعد رضا شاہ پہلوی کے ہاتھوں وہاں ایک آزاد اور خود مختار حکومت کی بنیاد پڑتی ہے اقبال کو رضا شاہ پہلوی کی اصلاحات و اقدامات سے یک گونہ مسرت ہوئی چنانچہ انہوں نے ’’ جاوید نامہ‘‘ میں ابدالی کی زبان میں رضا شاہ پہلوی کو اقوام مشرق کے لیے نمونہ قرار دیا۔ 16؎ آنچہ بر تقدیر مشرق قادر است عزم و حزم پہلوی و نادر است پہلوی آں وارث تخت قباد ناخن او عقدۂ ایراں کشاد نادر آں سرمایہ درانیاں آں نظام ملت افغانیاں از غم دین وطن زار و زبوں لشکرش از کوہسار آمد بروں 16؎ سیرت اقبال ص ۳۳۳ ہم سپاہی ہم سپہ گر ہم امیر باعد و فولاد و با یاراں حریر لیکن مصطفی کمال پاشا کی طرح جب رضا شاہ پہلوی نے بھی تہذیب فرنگی کی تقلید ہی کو اپنا مطمح نظر ٹھہرایا تو اقبال کو ایران کی طرف سے بھی مایوسی ہوئی، انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ مسلمان اس فرنگی مدنیت کے اسیر ہو رہے ہیں جو خود بہت جلد دم توڑنے والی ہے۔ نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کیوں کر یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور ’’ جاوید نامہ‘‘ کے آخری حصے میں بھی اقبال نے ایران کے بارے میں اس طرح کا اظہار خیال کیا ہے۔ سیر افلاک کے بعد جب اقبال ’’ آں سوئے فلک‘‘ پہنچتے ہیں تو ان کی ملاقات نادرہ شاہ درانی، احمد شاہ ابدلی اور سلطان ٹیپو شہید کی روحوں سے ہوتی ہے۔ نادر شاہ ایران کے بارے میں اقبال سے سوال کرتا ہے کہ: خوش بیا اے نکتہ سنج خاوری اے کہ می زیبد ترا حرف دری محرم رازیم ما را راز گوئے آنچہ می دانی ز ایران باز گوئے اقبال جواب دیتے ہیں کہ ایک مدت کے بعد ایران نے آزادی حاصل کی تھی لیکن افسوس کہ اسلاف کی طرف رجوع کرنے کے بجائے وہ تہذیب جدید کے جال میں پھنس گیا اب صورت یہ ہے کہ وہ غیر کی تقلید اور انداز شاہانہ پر فخر اور اہل عرب و اہل اسلام کی تحقیر کر رہا ہے۔ مغرب کے رقص و سرود اور بتان شوخ و شنگ کے غمزہ و ناز نے اس کو اس طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے کہ وہ اپنی اقدار سے روز بروز غافل اور مغرب سے منسلک ہوتا جا رہا ہے۔ بعد مدت چشم خود برخود کشاد لیکن اندر حلقہ دامے فتاد کشتہ ناز بتان شوخ و شنگ خالق تہذیب و تقلید فرنگ کار آصں وارفتہ ملک و نسب ذکر شاپور است و تحقیر عرب با وطن پیوست و از خود در گزشت دل بہ ستم داد و از حیدر گزشت اقبال نے نادر شاہ کو مزید بتایا کہ ایران شروع ہی سے گم کردہ راہ ہے اس نے یہ کبھی غور نہ کیا کہ جو روش اس نے اختیار کر کھی ہے وہ گمراہ کن ہے دین مجوس ایک فرسودہ نظام تھا جو اپنی خامیوں کے سبب ملک و ملت کے کام نہ آ سکا اور الٹا تباہی کی طرف لے گیا۔ وہ تو خدا کی رحمت ہوئی کہ ایران اس تباہی سے بچ گیا۔ بابل اور رومتہ الکبریٰ جس کا شکار ہو گئے اور خاک عرب نے اس کی ایسی رہنمائی کی کہ وہ نئے ساز و سامان سے آراستہ ہو کر پوری شان و شوکت کے ساتھ پھر منظر عام پر آ گیا۔ ان تفصیلات کو سننے کے لیے ناصر خسرو علوی کی روح تڑپ اٹھتی ہے اور ایک غزل کے ذریعے ایرانیوں کو دیں اور ملت اسلامیہ کی اہمیت و عظمت کا احساس دلاتی ہے۔ دیں گرامی شد بدانا و بناداں خوار شد پیش ناداں دین چو پیش گاو باشد یاسمن سر زمین عرب و حجاز سے اقبال کو جو والہانہ شیفتگی ہے اور آنحضرت کے حوالے سے اس کے فیوض و برکات کا ذکر انہوں نے جس جوش و سرمستی کے ساتھ جگہ جگہ کیا ہے، اس کی روشنی میں اس موضوع پر الگ کچھ لکھنا اور یہ ظاہر کرنا کہ اقبال کو عرب و حجاز کے کوائف و حالات سے بھی گہرا تعلق رہا ہے، کچھ عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اقبال کے جذبہ و احساس کے اصل محرک و سرچشمہ اور ان کے فکر و خیال کے حقیقی منبع و ماخذ یہی مقامات ہیں یہیں کے امی لقب پیغمبر کے عشق میں ان کا سارا کلام ڈوبا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ ان کے فلسفہ کا اصل الاصول بھی اسی پیغمبر کی پیروی و محبت ہے۔ اسرار خودی سے لے کر جاوید نامہ تک اس جادہ خاص سے سر موئی کوئی انحراف نظر نہیں آتا۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کے فکر و فن کا نقطہ آغاز بھی آنحضرت کی محبت ہے اور ارتقاء و انجام کی منزلیں بھی اسی پر ختم ہوتی ہیں۔ اقبال نے بصد ناز و افتخار اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے اور ان کی قوم کے پاس فکر ودانش اور سیرت و اخلاق کا جو سرمایہ بھی ہے وہ بارگاہ رسالتمآبؐ ہی سے ملا ہے۔ از رسالت در جہاں تکوین ما از رسالت دین ما آئین ما از رسالت صد ہزار ما یک است جزو ما از جزو ما لا ینفک است دین فطرت از بنی آموختم در رہ حق مشعلے افروختم ایں گہر از بحر بے پایان اوست ایں کہ یک جانیم از احسان اوست قوم از سرمایہ قوت ازو حفظ سر ملت وحدت ازو خودی کی تربیت و تکمیل کے لیے بھی جہاں اقبال نے آئین فطرت کی پیروی و تقلید پر زور دیا ہے وہاں بھی ان کی مراد اخلاق مصطفویٰ اور اسورۂ رسول ؐکی تقلید و پیروی سے ہے اور جیسا کہ مندرجہ ذیل اشعار سے ظاہر ہے اقبال نے ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے اسی تقلید و پیروی پر عمر بھر نا زکیا ہے۔ نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی تن آسان عرشیوں کو ذکر تسبیح و طواف اولیٰ وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا نگاہ جذب و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآن وہی فرقاں وہی یاسیں وہی طہٰ مولانا سید ابو الحسن ندوی نے علامہ کی شخصیت کے تخلیقی عناصر کا ذکر کرتے ہوئے بہت صحیح لکھا ہے کہ اقبال اسلام اور پیغام کے بارے میں نہایت راسخ الایمان تھے اور رسول اللہ کے ساتھ ان کی محبت، شغف اور ان کا اخلاص انتہا درجے کا تھا۔ ان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسا زندہ جاوید دین ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح و سعادت کے بام عروج تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ علامہ نے ’’اسرار خودی‘‘ میں ملت اسلامیہ کی زندگی کی بنیادوں اور ستونوں کے ذکر کے سلسلے میں نبی کریم ؐ کے ساتھ اپنے روحانی تعلق، دائمی وابستگی اور اپنی فداکارانہ محبت کا بھی ذکر ہے، اس ذکر سے ان کا شعری وجدان جوش مارنے لگتا ہے جس سے محبت و عقیدت کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں جوں جوں زندگی کے دن گزرتے گئے اقبال کی نبی کے ساتھ والہانہ محبت و الفت بڑھتی ہی گئی ہے یہاں تک کہ آخری عمر میں جب بھی ان کی مجلس میں نبی کا ذکر آتا یا مدینہ منورہ کا تذکرہ ہوتا تو اقبال بے قرار ہو جاتے، آنکھیں پر آب ہو جاتیں، یہاں تک کہ آنسو رواں ہو جاتے۔ یہی وہ تعلق روحانی ہے جس کے سبب ملت اسلامیہ کے حوالے سے اقبال نے عرب و حجاز اس کے شہروں اور قریوں آثار اور احوال اور واقعات و امکانات سب کا ذکر بار ہا کیا ہے۔ ان کے فکر و نظر کا شاید ہی کوئی ایسا جزو ہو جس میں عرب بلاد عرب اور میراث عرب کا ذکر نہ آیا ہو۔ کہیں انہوں نے عربوں کو اس شاندار عہد ماضی کی یاد دلائی ہے جبکہ اہل عرب حضور کی زندگی اور ان کے پیغام حیات کی پیروی کی معرفت دوسروں کے لیے ناقابل تسخیر بن گئے تھے اور زمانہ ان کے خلاف سے لرزتا تھا۔ با تو می گویم ز ایام عرب تا بدانی پختہ و خام عرب ریز ریز از ضرب او لات و منات در جہاں آزاد از بند جہات ہر قبائے کہنہ چاک از دست او قیصر و کسریٰ ہلاک از دست او کہیں اس بات پر اظہار افسوس کیا ہے وہی عرب جو کسی وقت دنیا کے رہنما اور حاکم تھے مغرب کی کورانہ تقلید کی بدولت محکوم و مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔ امتے بودی، امم گرویدہ بزم خود را خود ز ہم پاشیدہ آنچہ تو با خویش کردی کسی نکرد روح پاک مصطفی آمد بدرو اے ز افسون فرنگی بے خبر فتنہ ہا در آتین او نگر حکمتش ہر قوم را بے چارہ کرد وحدت اعرابیاں صد پارہ کرد تا عرب در حلقہ دامش فتاد آسماں یک دم اماں او را نداد 17؎ نقوش اقبال ص ۵۱ کہیں عربوں کو دین الٰہیہ کا پاسبان اور ناموس ملت کا پاسبان بنا کر ان میں زندگی کی نئی روح پھونکی گئی ہے اور کہیں ان کے مستقبل کو تابناک ظاہر کر کے ان کے دلوں کو خوف ومایوسی سے نجات دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ عصر خود را بنگر اے صاحب نظر در بدن باز آفریں روح عمر قوت از جمعیت دین مبین دیں ہمہ عزم است و اخلاص و یقیں شارح اسرار او تو بودۂ اولیں معمار او تو بودۂ تابہ فرزندی گرفت او را فرنگ شاہدے گردید بے ناموس و ننگ اے امین دوست تہذیب و دیں آں ید بیضا برآر از آستیں رشتہ سود و زیاں در دست تست آبروئے خاوراں در دست تست مرد صحرا پختہ تر کن خام را بر عیار خود بزم ایام را کہیں عصر حاضر کے عربوں کی غلط اندیشی، تقلیدی روش، بے عملی، بے حسی اور شعائر دینی سے بے نیازی سے بیزار و مایوس ہو کر روح محمد کے حضور میں گریہ و زاری کی ہے۔ شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر اب تو ہی بتا تیرا مسلماں کدھر جائے وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں پوشیدہ جو ہے مجھ میں وہ طوفاں کدھر جائے ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد اس کوہ بیاباں سے حدی خواں کدھر جائے اس راز کو اب فاش کر اے روح محمدؐ آیات الٰہی کا نگہباں کدھر جائے فلسطین، ترکی، ایران، افغانستان اور بلاد عرب و حجاز کے علاوہ اقبال نے شام و مصر، حبشہ و مراکش اور دوسرے اسلامی ممالک کے مسائل سے بھی دلچسپی کا اظہار جا بجا کیا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے انہوں نے فکری اور عملی جو کچھ کیا وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کشمیر کے مسائل جیسے آج پیچیدہ ہیں ویسے پہلے بھی تھے اور اقبال جب تک زندہ رہے، ان مسائل سے پوری دلچسپی لیتے رہے۔ کشمیر کے حالات سے دلچسپی کا ایک فطری سبب یہ بھی تھا کہ اقبال خود بھی کشمیری الاصل تھے لیکن ان کی توجہ کا اصل سبب مسلمانان کشمیر کی وہ خستہ حالی و درماندگی تھی جو ڈوگرا ہندو راجاؤں نے ان پر مسلط کر رکھی تھی۔ چنانچہ کشمیر اور اہل کشمیر سے اظہار ہمدردی اور امداد کے لیے لاہور یا لاہور سے باہر جتنی انجمنیں بنائی گئیں ان سب کو اقبال کی حمایت حاصل رہی۔ لاہور کی ’’انجمن کشمیر مسلماناں‘‘ کے وہ سر گرم رکن تھے اور اس کے اجلاسوں میں کشمیر سے متعلق نظمیں پڑھ کر اہل کشمیر کا دل گرماتے تھے۔ دسمبر ۱۹۰۱ء کے اجلاس میں جو قطعات پڑھے گئے تھے اور جو کشمیری گزٹ لاہور میں بھی شائع ہوئے تھے مظلوم کشمیریوں کے محسوسات کے آئینہ دار ہیں۔ ۱۹۰۸ء میں یورپ سے واپسی کے بعد اقبال انجمن کشمیر کے جنرل سیکرٹری بن گئے۔ کچھ عرصے کے بعد آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس وجود میں آئی تو اس کا پہلا سیکرٹری بھی اقبال ہی کو منتخب کیاگیا۔ ۱۹۲۱ء میں جب ایک مقدمے کی پیروی کے سلسلے میں اقبال سرینگر گئے تو انہیں کشمیری مسلمانوں کے حالات زار کا اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔ کشمیر جنت ارضی اور اس کے بے نظیر دلکش مناظر سے بھی وہ بے حد متاثر ہوئے۔ چنانچہ ’’ پیام مشرق‘‘ کی تین نظمیں کشمیر، غنی کشمیری اور ساقی نامہ اس تاثر کی یادگار ہیں پہلی نظم قا آنی کے انداز میں کشمیر کے قدرتی حسن و جمال کا ایک جاندار مرقع ہے۔ وہ شعر دیکھئے: رخت بہ کاشمر کشا کوہ و تل و دمن نگر سبزہ جہاں جہاں بہ بیں لالہ چمن چمن نگر باد بہار موج موج، مرغ بہار فوج فوج صلصل و سار زوج زوج بر سر نارون نگر ۱۹۳۱ء میں جب اہل کشمیر پر ڈوگرا حکومت کا ظلم و ستم حد سے بڑھ گیا اور اس کے لیے آل انڈیا کشمیری کانفرنس کی جگہ جگہ کمیٹیاں قائم ہوئیں تو اقبال کو لاہور کا رکن منتخب کیا گیا۔ 18؎ کچھ دنوں وہ اس کے صدر بھی رہے اور حکومت کشمیر سے مسلمانوں کے حقوق منوانے کے لیے پوری جدوجہد کی۔ ۱۹۳۲ء میں جب علامہ اقبال کو آل انڈیا کشمیر مسلم اکنفرنس کا صدر منتخب کیا گیا تو انہوں نے تاریخی صدارتی خطبہ دیا اور کشمیر کے تاریخی منظر کا جائزہ لیتے ہوئے ایشیا میں اس کی اہمیت اور اس سے مسلمانوں کے قدیم تعلق پر روشنی ڈالی۔ کشمیر کمیٹی سے الگ ہونے کے بعد بھی اقبال کشمیریوں کے مسائل سے برابر دلچسپی لیتے رہے۔ ۱۹۳۲ء کے ایک بیان میں انہوں نے کہا ’’ اہل کشمیر، ملت اسلامیہ کا جزو لاینفک ہیں، ان کی تقدیر کو اپنی تقدیر نہ سمجھنا تمام ملت کو تباہی و بربادی کے حوالے کرنا ہے۔ 19؎‘‘ کشمیر اور کشمیر کے مسائل پر متعدد منظومات و قطعات اور خطبات و بیانات کے علاوہ کلام اقبال میں اور کئی ایسے مقامات آتے ہیں جہاں اقبال نے کشمیریوں کا تذکرہ چھیڑا ہے۔ ’’ جاوید نامہ‘‘ میں آں سوئے فلک کے سفر میں ان کی ملاقات غنی کشمیری اور سید علی ہمدانی کی روحوں سے ہوتی ہے۔ اقبال نے ان سے پوچھا کہ آخر اہل کشمیر کی حالت اس قدر زار و زبوں کیوں ہے؟ اس کے جواب میں پہلے یہ نغمہ سنائی دیتا ہے کہ: باد صبا اگر بہ جنیوا گزر کنی حرفے زما بہ مجلس اقوام باز گوئے دہقان و کشت و جوئے و خیاباں فروختند قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند 18؎ گفتار اقبال، ص ۱۷۳ 19؎ نقش اقبال، ص ۱۵۱ 20؎ ایضاً ص ۱۵۲ یہ اشارہ اس گٹھ جوڑ کی طرف ہے جس کے ذریعے فرنگیوں نے کشمیر کو پچھتر لاکھ میں گلاب سنگھ ڈوگرا کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا۔ 20؎ اس نغمے کو سننے کے بعد سید علی ہمدانی نے اقبال کے سوال کا جواب دیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ جب تک اہل کشمیر اس راز کو نہ سمجھیں گے کہ جان کی حفاظت جسم کی قربانی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اس وقت تک وہ عزت و وقار کی زندگی نہیں بسر کر سکتے۔ گویا اقبال نے سید علی ہمدانی کی زبان میں کشمیریوں کو غیرت دلائی ہے اور جدوجہد کرنے پر اکسایا ہے۔ ارمغان حجاز میں ’’ ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض‘‘ کے تحت متعدد نظمیں ہیں ان سب میں کشمیریوں کے مسائل پر گفتگو کی گئی ہے اور آزادی و حریت کے لیے اہل کشمیر کا طرح طرح سے حوصلہ بڑھایا گیا ہے۔ اس مختصر سے جائزے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال کو محض کشمیر و برصغیر کے مسلمانوں سے نہیں بلکہ ساری دنیائے اسلام سے کیسی محبت تھی اور عالم اسلام کی خستگی و زبوں حالی پر ان کا دل کس کس طرح سے کڑھتا تھا، ممالک اسلامیہ کی ترقی و خوشحالی پر ان کو کیسی خوشی ہوتی تھی اور ان کو در پیش مشکلات ومصائب پر ان کی روح کس طرح بے چین ہو جاتی تھی۔ مسلمانوں کی کامرانی و فتح مندی کے آثار و امکانات پر ان کا دل کیسا خوش ہوتا تھا اور انہیں شکست و ادبار نے نرغے میں دیکھ کر وہ کیسے بے تاب ہو جاتے تھے غم کے ماروں اور دل شکستوں کو ان کے اسلاف کے کارناموں کی داستان سنا کر کیسے ان میں زندگی کا حوصلہ پیدا کرتے تھے اور روشن مستقبل کا یقین دلا کر ان کے عزائم کو کس طرح بلند رکھتے تھے مادی وسائل سے مایوس ہو کر تائید غیبی کے لیے کس درد مندی کے ساتھ دربار رسالت اور بارگاہ ایزدی میں چھپ چھپ کر روتے، گڑگڑاتے اور دعاو کرتے تھے ایسی صورت میں اگر اقبال کی آواز، برصغیر کے باہر بھی توجہ سے سنی گئی پورے عالم اسلام نے ان کے پیغام کو در خوراعتنا جانا، ان کے خیالات و افکار سے متاثر ہوئے اور اس نتیجے میں ان میں زندگی کے تازہ حوصلوں کے ساتھ باہم اشتراک و اتحاد اور ملت اسلامیہ کے احیاء و فروغ کا نیا شعور و جذبہ پیدا ہوا تو چنداں تعجب کی بات نہیں ہے چنانچہ جو لوگ تاریخی شعور رکھتے تھے اور جنہوں نے بیسویں صدی کے عالم اسلام کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ بھی کیا ہے وہ اس کا اعتراف کریں گے کہ آج بلاد عرب اور ممالک اسلامیہ میں جو سیاسی بیداری و خود شناسی کی لہر نظر آتی ہے اور تیسری دنیا کے نام سے جمعیت اسلام کی جو ایک صورت دکھائی دیتی ہے اس کی تشکیل میں اقبال کی کوشش کا بڑا ہاتھ ہے۔ ٭٭٭ اقبال ممدوح عالم سلیم اختر ’’ وہ شاعر کم عیار نہیں، جہاں منطق ناکام ہوتی ہے وہاں اس کی شاعری ذہن کو جلا بخشتی اور قائل کرتی ہے۔ اس کا شاعرانہ پیغام محض ہندی مسلمانوں کے لیے نہیں ہے بلکہ اس نے عالم اسلام کو مخاطب کیا اس لیے وہ ہندوستانی زبانوں کی بجائے فارسی میں داد سخن وری دیتا ہے اظہار کے لیے فارسی کا انتخاب اس بنا پر خوشگوار ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمان فارسی زبان و ادب سے مانوس ہیں، فارسی زبان فلسفیانہ خیالات کے ابلاغ کے لیے موزوں بھی ہے اور دلکش بھی، اقبال ایک پیغمبر کے روپ میں آتا ہے اور اپنے زمانے کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں سے بھی مخاطب ہوتا ہے: من نوائے شاعر فردا ستم‘‘ (پروفیسر آرے اے نکلسن ۱۹۲۰ئ) ’’ یہ بھی ہمارے شہنشاہانہ طرز حکومت کا اک کرشمہ ہے کہ اقبال جیسا شاعر جس کا نام گزشتہ دس برس سے اس کے ہم وطن مسلمانان ہند میں بچہ بچہ کی زبان پر ہے اس کے کلام کا ترجمہ اس قدر عرصہ کے بعد جا کر ہماری زبان میں ہو سکے۔ ہندوؤں میں جو مرتبہ ٹیگور کو حاصل ہے وہی مسلمانوں میں اقبال کو ہے اور زیادہ صحیح طور پر ہے اس لیے کہ ٹیگور کو بنگال کے باہر اس وقت تک کسی نے نہ پوچھا جب تک وہ یورپ جا کر نوبل پرائز نہ حاصل کر لائے بخلاف اس کے اقبال کی شہرت و ناموری یورپ کی اعانت سے بالکل مستغنی ہے، لاہور و دہلی، علی گڑھ و لکھنو، بھوپال و حیدر آباد سب اس کی وقت نظر و شاعرانہ عظمت کو تسلیم کر چکے ہیں کیا لندن بھی اس فتویٰ پر مہر تصدیق لگائے گا؟‘‘ (ای ایم فارسٹر ۱۹۲۰ئ) ’’ شاعری میں ما بعد الطبیعاتی صداقتوں کے معیار پر اگر آج کے اپنے شعراء کی پرکھ کی جائے تو مجھے صرف ایک ہی ایسا زندہ شاعر نظر آتا ہے جو کم عیار نہ ثابت ہو گا اور یہ بھی طے ہے کہ وہ ہمارے عقیدہ اور نسل کا شاعر بھی نہیں ہے میری مراد محمد اقبال سے ہے آج جبکہ ہمارے مقامی متشاعر اپنے بے تکلف احباب کے حلقے میں بیٹھے کیٹس کے تتیغ میں کتے بلیوں اور ایسے ہی گھریلو موضوعات پر طبع آزمائی کر رہے ہیں تو ایسے ہی لاہور میں ایک ایسی نظم تخلیق کی گئی ہے جس کے بارے میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ اس نے مسلمانوں کی نوجوان نسل میں طوفان برپا کر دیا ہے۔‘‘ (سر ہربرٹ ریڈ ۱۹۲۱ئ) ’’ مغرب کے لیے جو اقبال کے مقصد کو ذہنی گرفت میں لینا چاہتے ہیں ضروری ہے کہ وہ یہ ادراک کریں کہ ا قبال کے کلام میں ویسی ہی مہک ہے جو پیغمبر آمس یا جون اصطباغی پادری میں پائی جاتی ہے، ہم اہل مغرب بعض اوقات خیال کرتے ہیں کہ مشرقی شاعر کو ضرور کسی حد تک نرم گفتار اور جذباتی ہونا چاہیے گو اقبال مبہم اور ذہنی طور پر دھندلا محسوس ہوتا ہے مگر ہمیں اس کی شرائط سے سابقہ پڑے تو احساس ہو گا کہ اقبال کے کلام کا غالب حصہ تند و تیز ہے اس تندی سے ہمیں آشنا ہونا چاہیے کیونکہ اس کی جڑیں سامی پیشینگوئی کی بے لاگ شدت میں پیوست ہیں اگر ایک مغربی عیسائی کی حیثیت سے اپنے آپ سے پوچھوں کہ کسی مقام پر اقبال مجھ سے براہ راست مخاطب ہوتا ہے تو میرا جواب ہو گا کہ میں اسے واضح طور پر اور بے کم و کاست اس وقت سمجھ پاتی ہوں جب وہ مجھے آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ ‘‘ (ڈاکٹر شیلا میکڈونف ۱۹۶۶ئ) ’’ اقبال کے عہد میں نو آبادیاتی نظام کے خلاف انقلابی دانشوروں نے جس جدوجہد کا آغاز کر رکھا تھا اقبال کے انقلابی تصورات اس فضا کے عین مطابق تھے۔ اقبال در حقیقت معاشرے میں واضح طبقاتی نظام کے خلاف عمل پیرا ہونے کی اہمیت اور ضرورت پر زور دے رہا تھا وہ طبقاتی نظام جو اپنی انحطاط پذیر صورت میں شر کی صورت اختیار کر چکا تھا چنانچہ اس عہد کی مخصوص اخلاقیات کی ہم نوائی کے برعکس اقبال نے نافرمانی احتجاج حتیٰ کہ جارحیت کو بھی نو آبادتی نظام کے خلاف عملی جدوجہد میں شامل لوگوں کے لیے اعلیٰ اوصاف قرار دیا ہے۔‘‘ (ماریا سے پینتیس ۱۹۷۷ئ) بیدلے گر رفت اقبالے رسید بیدلاں را نوبت حالے رسید قرن حاضر خاصہ اقبال گشت واحدے کز صد ہزاراں برگزشت ہیکلے گشت از سخن گوئی با گفت کل الصید فی جوف الفرا شاعراں گشتند جیشے تار و مار دیں مبارز کرد کار صد سوار ایں سلامے می فرستم سوئے یار بے ریا تر از نسیم نو بہار (ملک الشعراء بہار۔ ایران) ’’ اقبال۔۔۔۔! اقبال۔۔۔ جس کے سامنے مشرق کی قسمت کا ستارا چمکا جس کا سینہ نور محمدی سے روشن تھا۔ جنت کی ہوائیں جس کے رخساروں کو چومتی تھیں، جس کے لبوں پر حکمت کے ’’ رحیق مختوم‘‘ کی تری تھی نہ جادو نہ شراب نہ منتر اور اشلوک اس کی نظر نے ہند کی نئی نسلوں کے خواب مرتب کیے۔ لب اقبال۔۔۔ معجز بیاں لب اقبال‘‘ (محمد زیتون فلسطینی) ۔۔۔۔ کیا یہ ناقدین اور شعراء سچ بول رہے ہیں؟ ویسے ایک بات تو طے ہے کہ ان ناقدین کی آراء اور مدحیہ اشعار کے بعد ’’ اقبال ممدوح عالم‘‘ کہنا مبالغہ آمیز نہ ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ علامہ ا قبال کیسے ممدوح عالم بنے؟ یہ سوال اس بنا پر اور بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ قومی شاعر ہونے کے باعث اس ملک میں اقبال کا چرچا کم نہیں یہی نہیں بلکہ حکومت کی سرپرستی میں اقبال شناسی کے فروغ میں سرکاری ذرائع ابلاغ بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں ملک کا پریس اور نشر و اشاعت کے دیگر ادارے بھی اس ضمن میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں اس لیے اقبال ممدوح پاکستان تو سمجھ میں آتا ہے لیکن عالمی سطح پر یہ تحسین قابل توجہ بھی ہے اور معنی خیز بھی! اس لیے کہ اقبال پر وقتاً فوقتاًجو اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں ان کی بنا پر اپنی زندگی ہی میں اقبال کو کم نظر مسلمان، محدود اسلامی فلسفے کا حامل، تصوف نا آشنا، حافظ دشمن، فاشسٹ، مارکسسٹ اور بہ یک وقت لینن اور مسولینی کا پجاری قرار دیا جاتا رہا۔ واضح رہے کہ متضاد نوعیت کے یہ الزامات کسی ایک نقاد یامکتبہ فکر کے حامل افراد کی جانب سے نہ لگائے گئے بلکہ مختلف اوقات میں مخصوص مقاصد کے تحت ایسا کیا جاتا رہا اور حسب ضرورت یا مخصوص سیاسی حالات کی بناء پر کبھی یہ الزامات بنے تو کبھی تمغہ امتیاز! اقبال کو جن فکری گناہوں کا مرتکب ٹھہرایا جاتا ہے وہ ایسے سنگین نہیں کہ شاعری کی شریعت میں قابل معافی نہ ہوں یا تجزیہ و تحلیل سے فکری سطح پر ان کے منطقی یا غیر منطقی ہونے کا طے نہ کیا جا سکتا ہو اب منطقی تجزیہ یا فکری تحلیل کی صلاحیت تو ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہوتی اس لیے اپنے سیاق و سباق سے اشعار کو الگ کر کے مخصوص وقتی ضروریات کے تحت ان کے حوالوں پر استوار مضامین کے نتیجہ میں فکر اقبال عجب مجموعہ اضداد نظر آنے لگا اور وزیر، ملا سوشلسٹ، قوم پرست، آزادی نسوں کے حامی اور مخالفین مزدور، طالب علم لیڈر، الغرض سبھی اقبال کے اشعار بطور سند لانے لگے۔ اس کے ساتھ ہی کبھی دبے الفاظ میں اور کبھی واضح طور پر یہ سوال بھی کیا جاتا رہا کہ کیا اقبال کے کلام میں آفاقیت ہے؟ پاکستان بننے کے بعد اقبال کے متذکرہ گناہ تو معاف کر دئیے گئے اور ناقدین نے اپنے اپنے طور ر ان سب کے بارے میں کچھ نہ کچھ جو ازات بھی مہیا کر لیے جن کی روشنی میں اقبال کے بیک وقت رومی، لینن، مارکس، نطشے اور مسولینی سے متاثر ہونے کا معمہ حل کر لیا گیا لیکن آخری سوال بے حد اہم ہے کہ اقبال کی بین الاقوامی تحسین کا اس سوال کے جواب سے براہ راست تعلق ہے۔ عزیز احمد نے اپنے مضمون ’’ اقبال کی آفاقیت کا مسئلہ‘‘ میں اس رائے کا اظہار کیا ہے: ’’ اقبال کا سارا کلام پڑھنے کے بعد ایک سیدھی سادی بات جو ایک حامی کی سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو پہچانے اور ان سے کام لے، خدا اور اس کے رسول سے عشق رکھے۔ اسلامی تعلیمات کی حرکی روح کو سمجھنے اور اس پر عمل کرے تو وہ حقیقت میں خدا کا جانشین بن سکتا ہے اور اپنی تقدیر کا آپ مالک بن سکتا ہے اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ اقبال کے خصوصی اسکالروں کے لئے مختص ہے اس لیے فہم عامہ کا سوال نہیں اٹھانا چاہیے اقبال کی آفاقیت اس مرکزی بات کو شاعرانہ طور پر پیش کرنے ہی میں پنہاں ہے۔ نہ کہ فلسفیانہ نکتہ، آفرینیوں کے حجاب میں اقبال کے کلام کا وہی حصہ میری رائے میں آفاقی ہے جس میں فلسفیانہ نکتہ طرازیاں نہیں کیونکہ اس کلام میں شعریت ہے وہی عام فہم بھی ہے اور اس میں عالمگیر اپیل بھی ہے۔ ‘‘ 1؎ عزیز احمد کے استدلال کی اساس اس منطقی مغالطہ پر استوار ہے کہ انہوں نے کلام اقبال میں معانی(فلسفہ) اور اظہار (شعریت) کو دو الگ الگ چیزیں باو رکر کے اور ایک کو دوسرے سے منقطع کر کے ان کا مطالعہ کیا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور جیسا کہ اقبال نے متعدد خطوط میں بار بار زور دے کر لکھا: ’’ میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا۔۔۔۔۔ فن شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ ہاں بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے ورنہ: نہ بینی ازاں مرد فردوست کہ برمن تہمت شعر و سخن بست3؎‘‘ اقبال جسے اپنے لیے ’’ تہمت‘‘ سمجھتے ہیں عزیز احمد اس پر اقبال کی آفاقیت کی اساس استوار کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اقبال کے بارے میں غیر ملکی ناقدین کے مقالات سے بھی اس استدلال کی عملاً تکذیب ہو جاتی ہے کہ اگر اقبال کے کلام میں آفاقیت نہ ہوتی، اگر ان کے افکار بین الاقوامی سوچ کے معائیر کو نہ چھو سکتے اور اگر ان کے تصورات میں عالمی ذہانت کے لیے نہج بننے کی صلاحیت نہ ہوتی تو آج ہمیں دنیا کے بیشتر ممالک میں اقبال پر کتابیں، مقالات اور تراجم نہ ملتے آخر کیا وجہ ہے کہ امریکا، جاپان، چین، روس، آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، چیکو سلواکیہ سے لے کر ایران، مصر، افغانستان، ترکی، مراکش، انڈونیشیا حتیٰ کہ سری لنکا تک میں نہ صرف اقبال شناس ملتے ہیں بلکہ کلام اقبال کے تراجم بھی دستیاب ہیں۔ اسلامی ملکوں میں تو اقبال پسندی کی وجہ سمجھ میں آ سکتی ہے لیکن غیر اسلامی ممالک اور ان سے بھی بڑھ کر اشتراکی ممالک کی اقبال کے فکر و تصورات میں دلچسپی کا کیا جواز ہے؟ ظاہر ہے کہ اردو سے نابلد یہ تمام ممالک اقبال کے شاعرانہ محاسن اور شعریت کے گرویدہ تو ہونے سے رہے۔ شاید اس لیے کہ اٹلی کے پروفیسر جی تو چی (G tocci) نے اقبال پر اپنی تقریر میں اس امر پر زور دیا کہ ’’ ہم اطالیوں سے متعارف کرانے کے لیے مشرق وسطیٰ و بعید کے اس عظیم اطالوی انسٹی ٹیوٹ میں اس عظیم شاعر کی یاد منائی جائے جس کا مقصد ہمارے ملک کے مہذب لوگوں کو مشرق کی روحانی روایات کی آفاقی اقدار میں شریک کرنا ہے۔‘‘ وہ اس ضمن میں مزید رقم طراز ہے: ’’ لہٰذا ہم اس عظیم شاعر کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کسی طرح پیچھے نہیں رہ سکتے جس کو شاید ہم 1؎ ’’ ماہ نو‘‘ کراچی اپریل ۱۹۶۳ء 2؎ ’’ اقبال نامہ‘‘ ص ۱۹۶ دوسرے لوگوں سے زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور جس کا زور دار پیغام صرف مہذب ذہنوں ہی کے لیے نہیں بلکہ ان سب کے لیے بھی ہے جو ابھی تک انسانیت کی تقدیر سے مایوس نہیں ہوئے ہیں۔‘‘ کے پروفیسر ایس آئی فہد نے اقبال کو ’’ ہمہ گیر شہری‘‘ قرار دیتے ہوئے لکھا : ’’ اقبال ایک ہمہ گیر شہری ہیں آپ کی ہمدردیاں اتنی وسیع ہیں کہ ان میں تمام دنیا کے انسان بلا امتیاز نسل و ملک سما جاتے ہیں آپ عظمت انسانی کے علم بردار ہیں اس لیے اقبال کو مشرق و مغرب میں یکجا عزت حاصل ہے۔‘‘ ان دونوں ناقدین نے جغرافیائی بعد کے باوجود اقبال کی ایک ہی مشترک خصوصیت پر زور دیا ہے اور وہ ہے ان کی عالمگیر انسانیت اس لیے اگر سری لنکا کے تیسا وجے رتن (Tissa wijeyeratne) نے اپنا مضمون ان سطور پر ختم کیا تو وجہ سمجھنی دشوار نہیں: ’’ یہی وہ پیغام تھا جس کی انسان دوستی نے اس کی شاعرانہ کشش کو عالمگیر بنا ڈالا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی محفل سخن گرم ہو، خواہ وہ مسلم پاکستان ہو یا ہندو بنگال، ایران ہو یا روس کوئی اسلامی جمہوریہ چین ہو یا یورپ کی یونیورسٹیوں کے مسیحی طلبہ کا اجتماعی یا بدھ طالب علموں کی کوئی ایسی ہی محفل! ہر جگہ وہ نغمے خاص توجہ سے سنے جائیں گے جنہیں اسلامی احیاء کے داعی محمد اقبال کے قلم نے غیر فانی بنا دیا ہے!‘‘ رہے اقبال کے شاعرانہ محاسن تو ان کے ضمن میں امریکا کی ڈاکٹر شیلا میکڈونف (Sheila Mcdonough) نے جس خیال کا اظہار کیا ہے اس سے اختلاف کی گنجائش نظر نہیں آتی: ’’ ہمیں یہ امر ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ ان کی شعری زبان کی جڑیں اردو اور فارسی شاعری کی قدیم اور شاندار روایات میں پیوست ہیں لہٰذا کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اقبال کی تصویر کاری سے ابھرنے والے تمام ممکنہ کنائے او رمضمرات اس کی سمجھ میں آ گئے ہیں، بالخصوص ان اذہان میں جو اقبال کی مانند مسلمانوں کے ادبی ورثہ سے واقف نہیں۔‘‘ ان چند آراء (اور ’’ اقبال: ممدوح عالم‘‘ میں شامل مقالات کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے) سے یہ بخوبی عیاں ہو جاتا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک نہ صرف یہ کہ اقبال کے نام سے آشنا ملتے ہیں بلکہ بعض ممالک جیسے ایران، مصر، ترکی، برطانیہ، جرمن وغیرہ میں تو اقبال شناسی کی باقاعدہ روایت ملتی ہے کیا یہ تمام ممالک یکساں طرز احساس کے حامل ہیں جو یہ اقبال کے مداح ہیں ظاہر ہے کہ ایسا نہیں بلکہ روس اور امریکا میں تو سیاسی نظام کے باعث فکری سطح پر بعد المشرقین ملتا ہے لیکن اقبال کے معاملہ میں یہ دونوں ہاتھ ملاتے نظر آتے ہیں۔ اقبال شناسی کی بین الاقوامی روایت کے پیش نظر کلام اقبال میں آفاقیت کا مسئلہ اپنے حل کے لیے کسی نظریاتی بحث سے ہٹ کر اب عملی صداقت کا روپ دھار چکا ہے۔ یہ تو آفتاب آمد دلیل آفتاب ایسی بات ہے۔ اس ضمن میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کر دینا چاہیے کہ مختلف ممالک میں اقبال شناسی کے آغاز اور پھ رایک ضابطہ فکری روایت بننے کا باعث ہماری یا دوسری حکومتوی کی سرپرستی نہ تھی۔ یہ درست ہے کہ کبھی کبھار غلطی سے ہمارے سفارت خانوں نے بھی یوم اقبال کا اہتمام کیا ہو گا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نکلسن، آربری، ہربرٹ ریڈ، ای ایم فارسٹر (برطانیہ) این میری شمل (مغربی جرمنی) بوزانی (اٹلی) لوس کلوڈ میتخ (فرانس)، گورڈن پولنکایا، نالیا پری گارینا اور ماریا ستے پین نیتیس (روس) ایسی شخصیات محض ہمارے سفیروں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اقبال کو اپنا موضوع نہ بنا سکتی تھیں۔ (۲) بین الاقوامی سطح پر اقبال کی تحسین کا باعث تلاش کرنے میں خارجی عوامل کے برعکس خود علامہ کے کلام میں تلاش کرنا زیادہ سود مند ثابت ہو گا کہ اس نے ناقدین کو متاثر کرنا تھا (اور کیا بھی!) اقبال نے جب خود کو برصغیر کے روایتی شعراء سے ممتاز کرنا چاہا تو اپنے پیغام کی آفاقیت کی بناء پر یقینا انہیں یہ احساس ہو گا کہ میں ان سب سے الگ ہوں کہ میرا فلسفہ زیست ان سب سے جداگانہ ہے۔ اقبال کو ورثہ میں گل و بلبل کی غزل اور اس کا نام عشق ملا تھا جس میں لکھنوی شعراء نے اپنے ابتذال، ہزل اور مریضانہ ذہنیت سے مزید گل کھلائے۔ ظاہر ہے کہ اقبال کے شاعرانہ مقاصد معاصر شعراء کے فنی نصب العین سے مماثلت نہ رکھتے تھے۔ اقبال نے جس نظام فلسفہ کی تشکیل کی اس کی اساس بعض اہم تصورات پر استوار تھی۔ خودی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جبکہ تصور عشق، عقل و وجدان کی آویزش، مغربی تہذیب سے اظہار بیزاری، سخت کوشی کی تلقین ا ور مرد مومن یہ ہیں وہ تصورات جن سے فلسفہ اقبال میں استحکام پیدا ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ اقبال کے فکری ماخذات کی بنیا دقرآن مجید مشرقی مفکرین اور مغربی فلاسفروں پر استوار ملتی ہے اور اس ترتیب سے ہی اقبال نے ان سے اثرات بھی قبول کیے۔ 1؎ اس ضمن میں فرانسیسی خاتون لوس کلوڈ میتخ (Luce-Claude Maitre) نے اپنی کتاب ’’ فکر اقبال سے تعارف‘‘ میں بڑے پتے کی بات کہی ہے: 1؎ اسے ایک مثال سے یوں سمجھایا جا سکتا ہے کہ اپنے انسان کامل کے نظریہ کی تدوین میں اقبال نے نطشے سے کہیں پہلے آٹھویں صدی ہجری کے مسلم مفکر الجیلی سے اثرات قبول کیے اس حد تک کہ بمبئی کے انگریزی جریدہ Indian Antiquiry (ستمبر ۱۹۰۰ئ) میں اس پر ایک مفصل مقالہ قلم بند کیا ہے، عنوان ہے: ’’ The doctorine of absoulut unity as expounded by abdul karim al. jili‘‘ الجیلی کی معروف تالیف ’’ الانسان الکامل‘‘ ہے اور اقبال نے نکلسن کے نام اپنے ایک مراسلہ میں خود الجیلی کے اثرات کا اعتراف کرتے ہوئے نطشے کے اثر کی تردید کی: ’’ یہ وہ زمانہ ہے جب نہ تو نتشے کے عقائد کا غلغلہ میرے کانوں تک پہنچا تھا نہ اس کی کتابیں میری نظروں سے گزری تھیں۔‘‘ (نیرنگ خیال، اقبال نمبر ۱۹۳۲ئ) ہمارے ناقدین کی اکثریت اقبال کے اس مقالہ کے وجود سے نا آشنا نظر آتی ہے ورنہ اقبال کے انسان کامل پر لکھے گئے مقالات کا رنگ کچھ اور ہی ہوتا۔ ’’ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مسلمان ہو اور وہ قرآن مجید سے اثرات قبول نہ کرے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ فکرا قبال قرآن مجید سے اخذ و قبول کرتا ہے اور نہیں تو کم از کم اس کی وسیع حدود کے لحاظ سے یہ بالکل درست ہے، شاعر قدم قدم پر قرآن مجید سے استفادہ کرتا ہے چنانچہ اس کے کلام میں آیات کے جو بار بار حوالے ملتے ہیں تو اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال ہر ممکن طریق پر پیغمبر اسلام کی متعین کردہ صراط مستقیم سے انحراف نہیں کرنا چاہتا۔ 1؎‘‘ جس بات کو اس فرانسیسی خاتون نے ایک واضح حقیقت کے طور پر لیا ہے اس کے بارے میں ہمارے بیشتر اقبال شناسوں کا رویہ اگر معذرتی نہیں ہوتا تو مناظرے کا تو یقینا ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں مقالہ معرکہ حق و باطل کی صورت اختیا کر لیتا ہے لیکن لوس کلوڈ میتخ بالکل حقیقت پسندانہ ہے ایک غیر مسلم ہونے اور پاکستانی نہ ہونے کے باعث وہ اقبال کی قرآن مجید سے بڑھی ہوئی دلچسپی کو زیادہ معروض انداز میں دیکھنے کی اہل ثابت ہوئی اس حد تک کہ اسے فکر اقبال میں اساسی حیثیت قرار دیتے ہوئے اقبال کے لیے طرۂ امتیاز گردانتی ہے: ’’ اسلام سے باہر فکر اقبال نے مسلم مفکرین سے برائے نام ہی استفادہ کیا ہے جبکہ حلقہ اسلام میں صرف قرآن مجید کی تعلیمات اور رومی کے تصورات نے اسے بطور خاص متاثر کیا۔‘‘ 2؎ ہم قومی سطح پر جس احساس کمتری میں مبتلا ملتے ہیں اس کا مجموعی اظہار مختلف اوقات میں مختلف انداز سے ہوتا رہا ہے اس اجتماعی احساس کمتری، اس کے محرکات اور رد عمل کے متنوع انداز کے تجزیاتی مطالعے کا یہ موقع نہیں لیکن اتنا طے ہے کہ اس کے نتیجہ میں ہم فکری سطح پر مغرب سے بیحد متاثر رہے ہیں۔ ۱۸۵۷ء کی اردو نثر اس کی گواہ ہے جس کی عام مثال تحریر میں بلا ضرورت انگریزی الفاظ کا استعمال تو خاص وہ جسے اقبال نے ’’ اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی‘‘ سے تعبیر کیا تھا جس کے نتیجہ میں ادبی تنقید بالعموم اور غالبیات اور اقبالیات کے ضمن میں بالخصوص ہمارے ناقدین مغربی مفکرین اور دانشوروں کے اسماء آراء اور حوالوں سے دور کی کوڑی لاتے رہے ہیں۔ چنانچہ پر بیشتر مقالات میں نطشے، ہیگل، برگساں، کانٹ ایسے ناموں کی تکرار ضرور ملے گی اس حد تک کہ بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقبال پر مقالہ قلم بند کرنے کا جو ایک فارمولا بن چکا ہے تو یہ جو الجاتی انداز بھی اس کا ایک جزو ہے حالانکہ یہ سامنے کی بات ہے کہ اکثریت نے ان تمام فلاسفروں کی کتابوں کا تفصیلی مطالعہ نہ کیا ہو گا (بلکہ بیشتر صورتوں میں تو مجھے جزوی طور پر بھی شبہ ہے) شاید اس لیے یہ محرم ناقدین آنکھیں بند کر کے اقبال پر ان فلاسفروں کے اثرات ثابت کرنے پر تلے نظر آتے ہیں لیکن ان کے برعکس لوس کلوڈ نے محولہ بالا کتاب میں اقبال پر یونانی فلسفے سے لے کر کانٹ برگساں اور نطشے کے فلسفیانہ اثرات کی خاص تردید کی ہے، مثلاً نطشے کے ضمن میں وہ رقم طراز ہے: بعض ناقدین نے اقبال پر نطشے کے فلسفیانہ اثرات کے بارے میں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی زور دیا ہے اس 1؎ ملا عبدالمجید ڈار کا انگریزی ترجمہ: Introduction to the thought of Iqbal p. 27 2؎ ایضاً ص ۱۰ حد تک کہ گویا اقبال اس کا ایک ادنیٰ شاگرد ہو لیکن یہ انداز نظر غلط ہے اور کوتاہ بینی پر مبنی!1؎ اب نطشے ہی کی بات چلی ہے تو اس ضمن میں ہربرٹ ریڈ کی رائے کا مطالعہ بھی لازم ہے جس نے ۱۹۲۱ء میں نہ صرف اقبال کے تصور انسان کامل کو سراہا بلکہ اقبال کو نطشے پر فوقیت بھی دی: ’’ ۔۔۔۔ نطشے کی اساس اشراف کی جھوٹی معاشرت پر استوار ہے جبکہ میری دانست میں اقبال کا تصور زیادہ پائدار بنیادوں پر مستحکم ہے کہ اس میں سقراط، حضرت مسیح اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں جو مثالی شخصیات لی گئیں انہیں اپنی اصل میں کسی مخصوص سماج کا عطیہ یا پہلے سے متعین شدہ سمجھنے کے برعکس فطرت کی تخلیقی فعلیت کا اظہار قرار دیا گیا ہے۔ ‘‘ 2؎ ہربرٹ ریڈ کا یہ مضمون اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ یہ اسرار خودی کے ۱۹۲۰ء میں ترجمہ کے فوراً بعد لکھے جانے والے مقامات میں آتا ہے ہربرٹ ریڈے پیشتر صرف پروفیسر ڈکنسن اور ای ایم فارسٹر کے مضامین کے حوالے ملتے ہیں ان دونوں کے ترجمے ’’ معارف‘‘ ستمبر ۱۹۲۱ء اور جون ۱۹۲۱ء میں طبع ہوا اس کے بعد یہ نیرنگ خیال (اقبال نمبر ۱۹۳۲ئ) میں بطور ایک مضمون ’’فلسفہ سخت کوشی‘‘ شائع ہوا اور پھر ’’ اقبال نامہ‘‘ میں شامل کیا گیا لیکن ان کے فوراً بعد لکھے جانے والے ہربرٹ کے متذکرہ مضمون سے سب نا آشنا نکلے۔ یہ مضمون ایک تو اس لحاظ سے اہم ہے کہ اسے ہربرٹ نے لکھا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اقبال کی زندگی میں ہی انہیں ہربرٹ ریڈ ایسا نقاد غیر مشروط الفاظ میں خراج تحسین پیش کر رہا تھا یہ امر اس لیے بھی اہم ہے کہ ابھی خود برصغیر کے مسلمانوں میں اقبال کی حیثیت خاص متنازعہ فیہ تھی اور خواجہ حسن نظامی اور اکبر الٰہ آبادی ایسے بزرگوں نے اقبال کے خلاف حافظ اور تصوف کے نام پر باقاعدہ مہم شروع کر رکھی تھی۔ ان سب سے بڑھ کر یہ امر قابل توجہ ہے کہ ہربرٹ ریڈ نے اپنے معاصرین کی مانند ’’ اسرار خودی‘‘ کو شک و شبہ یا خوف کی نگاہ سے نہ دیکھا اور ڈکنسن کی مانند اقبال کو ستارۂ امن کی بجائے خونیں ستارہ قرار دیا بلکہ ہربرٹ ریڈ نے مغربی دنیا کے ان تمام شعراء پر اقبال کو فوقیت دی جو ابھی تک کیٹس کے حلقہ اثر سے ہی آزادانہ ہو سکے اور اس نے ہم سے بڑھ کر اقبال کی شاعری کے ما بعد الطبعی پہلو کو سراہا۔ اس نے اپنے مضمون کے اختتام پرامریکی شاعر والٹ وھٹ مین اور جرمن فلاسفر نطشے پر اقبال کو فوقیت دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’ نطشے اور وھٹ مین کے مقابلے میں اقبال نے اس صداقت کا زیادہ یقینی طور پر احساس کیا ہے۔ وھٹ مین کا ’’ ربانی اوسط‘‘ خاصا جسیم ہے اور بطور ایک تصور اس میں توانائی کی شدت کا فقدان نظر آتا ہے جبکہ نطشے کا فوق البشر سماج کا باغی ہے لہٰذا جبلی طور پر ہمارے لیے اس کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ اقبال کا مرد کامل تو خود ہی ربانی اوسط ہے۔ دوستو! اس کا ربانی اوسط ہی مرد کامل ہے۔ وہ صنم بھی ہے اور صنم پرست بھی۔‘‘ 1؎ ایضاً ص ۳۳ 2؎ New Age as aug. 1921 ہمارے اقبال شناسوں کی اس مقالہ تک رسائی نہ ہو سکی ورنہ آج یہ حوالے کی چیز بن چکا ہوتا۔ (۳) بیرونی ممالک کے اقبال شناسوں کے ضمن میں یہ ملحوظ رہے کہ وہ فارسی کلام (یا اس کے تراجم) کے ذریعے اقبال سے متعارف ہوئے اور نکلسن، آربری اور این میری شمل کی مانند ان میں سے اکثریت مشرقی ادبیات کا پختہ ذوق ہی نہ رکھتی تھی بلکہ انہیں قرآن مجید، تصوف، اسلامی اقدار اور مسلم فلسفے کے اہم دبستانوں سے بھی گہری واقفیت ہے اس لیے جب انہوں نے فکر اقبال کو موضوع بنایا تو ہمارے ناقدین کی اکثریت کے برعکس اقبال کو مغربی دانشوروں کے اقوال کی روشنی میں سمجھنے کے برعکس فکر اسلامی کے تناظر میں پرکھا اور ظاہر ہے کہ یہ انداز نظر درست ہے اس سے قبل لوس کلوڈ کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ ای ایم فارسٹر نے بھی فکر اقبال میں قرآن مجید کی اہمیت تسلیم کی ہے چنانچہ نطشے سے تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے اقبال کے انسان کامل کے تصور کے ضمن میں وہ یوں رقمطراز ہے: ’’ اقبال کی خصوصیت یہ نہیں کہ وہ اس عقیدہ کے معتقد ہیں بلکہ ان کا کمال یہ ہے کہ اس مسئلہ کو قرآن سے ملا دیا ہے اور وہ بھی صرف دو ترمیموں کے ساتھ، نطشے امارت نسلی کا قائل اور وجود باری کا منکر تھا اقبال ان دونوں مسائل میں اس کے مخالف ہیں۔ ‘‘ 1؎ اقبال کے مذہبی شغف کے ضمن میں یہ امر بھی خصوصی توجہ چاہتا ہے کہ مغرب کے ناقدین کی اکثریت نے نہ صرف یہ کہ غیر جذباتی ہوئے بغیر معروض انداز اپنایا بلکہ یہ بھی کہ انہوں نے اسے بطور خاص سراہا بھی ہے اٹلی میں اقبال کا مشہور مداح السیندرو بوزانی اس ضمن میں لکھتا ہے: ’’ ایک ایسی دنیا میں جس نے مذہبی احساسات کو تقریباً فراموش کر دیا ہے اور خدا کو شخصیت کے لوازمات سے بیگانہ کر کے ایک حسن و کیف سے لبریز ہستی کو اشیاء اور تاریخ میں مبدل کر دیا ہے اقبال نے اپنے نغمہ سرمدی سے ہمیں پھر ایک مرد حق کی آواز سے روشناس کیا ہے ایک ایسی آواز جو ہمارے زمانہ کی آوازوں سے کہیں زیادہ دانتے کی آواز کے قریب ہے۔‘‘ 2؎ مذہب سے اقبال کے لگاؤ کا بعض مغربی مصنفین نے مسیحی عقائد کے حوالہ سے مطالعہ کیا اور (ہمارے نقطہ نظر سے ) دلچسپ نتائج برآمد کئے اس ضمن میں امریکا کے دو ڈاکٹروں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ایل ایس ایلسن اور ڈاکٹر شیلا میکڈونف ان میں سے اول الذکر پر ساٹیٹرین پادری اور موخر الذکر نہ صرف ۶۰۔ ۱۹۵۷ء تک کنیرڈ کالج لاہور میں انگریزی ادبیات اور تقابلی مذاہب کی پروفیسر رہیں بلکہ انہوں نے غلام احمد پرویز کے مذہبی تصورات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر Mcgill Institute of Islamic Sutdie سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ان کے مقالہ کا موضوع تھا: G. Perwaz A study in Islamic 1؎ ’’ کلام اقبال بلبل ہندوستان‘‘ مطبوعہ ’’ معارف‘‘ جون ۱۹۲۱ء 2؎ دانتے اور اقبال مطبوعہ ماہ نو اکتوبر ۱۹۵۱ء Modernism ڈاکٹر ایلن نے اقبال کے مذہبی شغف کی اساس پر سائیٹرین چرچ سے وابستہ درس گاہ میں دیکھی ہے ان کے بقول: ’’ اقبال کی تعلیم ایک سکاچ مشن سکول میں ہوئی اس کا مطلب یہ ہے کہ پر سبائٹرین چرچ نے جس کے ساتھ پادری کی حیثیت سے میرا تعلق ہے اقبال کے ذہن کو اوائل عمر میں کچھ نہ کچھ ضرور متاثر کیا ہو گا۔۔۔۔ میرے روحانی بھائیوں نے اقبال کو ابتدائی عمر میں ہی مذہب کی ایک توانا اور صحت مند شکل سے آشنا کر کے ان کی فکر اور نظریہ حیات کو تاب و تواں بخشی‘‘ 1؎ اس تقریر میں ڈاکٹر ایلسن نے فلسفہ اقبال کا خلاصہ بیان کرنے کے بعد کہا: ’’ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ہم مسیحی لوگ اس نقطہ نظر سے مکمل طور پر متفق ہیں۔‘‘ میرے خیال میں فلسفہ اقبال کی تحسین میں ایہ ایک مفرد انداز نظر ہے کہ فلسفہ اقبال کو مسیحی نقطہ نظر سے سمجھ کر اسے سراہا جائے۔ ڈاکٹر ایلن مذہبی شخصیت ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے اقبال کو سمجھنے کی سعی کی اور اسے اپنے مخصوص عقائد کے اعتبار سے کم عیار بھی نہ پایا ڈاکٹر شیلا میکڈونف کا انداز گو خالصاً مذہبی نہیں لیکن مسیحی یقینا ہے اس نے اقبال کے کلام کو اس کے درست تاریخی تناظر میں رکھ کر دیکھا تو یہ نتیجہ برآمد کیا: ’’ اگر میں ایک مغربی عیسائی کی حیثیت سے اپنے آپ سے پوچھوں کہ کس مقام پر اقبال مجھ سے براہ راست مخاطب ہوتا ہے تو میرا جواب ہو گا کہ میں اسے واضح طور پر بے کم و کاست اس وقت سمجھ پاتی ہوں جب وہ مجھے آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ ‘‘ 2؎ اس ضمن میں وہ مزید رقم طراز ہیں: ’’ اقبال کی اصل کوشش یہ نہیں تھی کہ عیسائیوں کو زیادہ دیانت دارانہ اور تعمیری ذاتی محاسبہ پر آمادہ کیا جائے بلکہ یہ کہ مسلمانوں کو جھنجھوڑا جائے تاکہ وہ اطمینان بالذات ایسی بدعادات اور غیر حقیقی آخرت کے بارے میں عقائد ترک کر دیں۔ اس لیے جب اقبال کسی عیسائی پر نشتر زنی کرتے ہیں تو میں ان کے خنجر کی کاٹ کو رگ جاں پر محسوس کرتے ہوئے یہ اندازہ کر سکتی ہوں کہ مسلمانوں پر ان کی ضرب کس قدر کاری ہوتی ہو گی۔ وہ خوابیدہ مسلمان جنہیں انہوں نے اپنی تخلیقی کاوشوں کا مرکز بنا رکھا تھا۔‘‘ یہ انداز ایک دانشور کا ہے جس کی بنیاد اس احساس پر استوار ہے کہ اقبال محض ایک دور یا مسلمانوں کے لیے مخصوص نہ تھا اس کی شاعری میں چیزے دگر بھی ہے جو مشرق کی مانند مغرب کے لیے بھی سود مند ثابت ہو سکتی ہے چنانچہ اٹلی کے پروفیسر جی تو چی کے بقول: ’’ اس اظہار عقیدت میں جو ایک دوست ملک کے عظیم شاعر کو پیش کیا گیا ہے اس عظیم شاعر کو جو حق کی 1؎ تقریر مطبوعہ اقبال ریویو اپریل ۱۹۶۷ء 2؎ The Mosque of cordova: Vision or perish مطبوعہ ’’ اقبال ریویو‘‘ اپریل ۱۹۶۷ء عالمگیر کشش کے تحت ہمارا شاعر بھی بن جاتا ہے یوں ہمیں ان دیرینہ تعلقات کی تجدید کا احساس ہوتا ہے جو ہمیں اس روحانی دنیا سے متحد کرتے ہیں جس کا اقبال نغمہ خواں اور ترجمان تھا۔ میرا مطلب اس اسلامی ثقافت سے ہے جو ہمارے ملک میں اپنی تاریخ اور فکر کے گہرے آثار چھوڑ گئی ہے۔ ‘‘ 1؎ فکر اقبال میں مذہب کی اہمیت کی تفہیم کے یہ تین منفرد زاویے اس بناء پر اہم ہیں کہ ہم مسلمان ہو کر ثواب دارین حاصل کرنے کے لیے اگر ایسی آراء کا اظہار کریں تو اس کی چنداں اہمیت نہ ہو گی کہ ہم اس کے برعکس کہنے کی جرأت ہی نہیں کر سکتے لیکن مغربی ناقدین کا رویہ اس امر کا غما ز ہے کہ اقبال کے ہاں اسلام محض مذہب برائے مذہب کے طور پر نہیں ہوتا نہ کہ مذہب کے اس پہلو کو مغرب بہت پہلے مسترد کر چکا ہے) بلکہ ایک حرکی قوت اور مصاف زیست میں سیرت فولاد پیدا کرنے والی توانائی کا نام ہے شاید اس لیے ’’ اسرار خودی‘‘ کی اشاعت کے بعد اقبال برصغیر کے مسلمانوں کے غیظ و غضب کے شکار بنے جبکہ اس وقت ہربرٹ ریڈ ما بعد الطبیعیات کے معیار پر اقبال کو تمام مغربی شعراء پر فوقیت دے رہا تھا۔ ای ایم فارسٹر نے ۱۹۴۶ء میں ’’ محمد اقبال‘‘ کے نام سے ایک اور مضمون بھی لکھا جس میں وہ کہتا ہے: ’’ اقبال کٹر مسلمان تو تھا مگر وہ کہنہ روایات کا پرستار نہ تھا۔۔۔ اس کے خیالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں مگر وہ انتہا پسند متعصب نہ تھا چنانچہ اس نے ہندوؤں اور عیسائیوں کا ہمیشہ ادب و احترام سے تذکرہ کیا۔ ‘‘ 2؎ جبکہ ہم اپنے روایت پرست ذہن کی روشنی میں اقبال کو محض ایک روایتی اسلامی شاعر کے روپ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں اس لیے کبھی حافظ کا نام لے کر برا بھلا کہا تو کبھی تصوف کے نام پر تکفیر کی! اقبال کا فلسفہ عمل کا فلسفہ ہے، جدوجہد کا فلسفہ ہے اور خارا شگافی کا فلسفہ ہے۔ دیکھا جائے تو گرم ممالک کے ہم طبعاً سست لوگ اس فلسفے کے اہل نہیں اور نہ ہی ہم اس فلسفے کی عملی تحسین کی زندہ تصویر بن سکتے ہیں۔ فرانس نے اپنے انقلاب سے والنٹیئر اور روسو کی تحریروں کی صداقت کی گواہی دی، جرمن قوم نے دنیا کو نطشے کا فوق البشر بن کر دکھا دیا جبکہ روس نے مارکس اور چین ماؤزے تنگ کے افکار کی روشنی میں کایا پلٹ دی لیکن اقبال کے پاکستان میں ہم اس کے فلسفے کی عملی تفسیر پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں در حقیقت ہم فکر اقبال کے حرکی پہلو کی تفہیم کی اہلیت ہی نہیں رکھتے لیکن مغرب اور بالخصوص روس کے اقبال شناسوں نے فکر اقبال کے اس پہلو کو بطور خاص سراہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس ضمن میں انہوں نے مذہب کے مثبت کردار کی اساسی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فکر اقبال میں اس کا مقام بھی متعین کیا ہے چنانچہ روس کی ممتاز مستشرق مادام ایل آر گورڈن پونسکایا (جو روس کے ممتاز علمی ادارہ اکاڈیمی آف سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف دی پیپلز آف ایشیا کی ممتاز رکن بھی ہیں) نے اپنے مقالہ ’’ اقبال کے سماجی نظریات‘‘ میں اس خیال کا اظہار کیا: 1؎ تقریر مطبوعہ اقبال ریویو اپریل ۱۹۶۷ء 2؎ Two Cheers for Democracy ’’ پاکستان میں سماجی فلسفہ کو اب تک جو ترقی حاصل ہوئی ہے اس پر سب سے زیادہ اثر علامہ اقبال کے سماجی افکار اور نظریات کا پڑا ہے۔۔۔۔ اسلام کی جدید تفسیر اور اجتہاد کے حوالے سے ابھرنے والے نئے رحجانات کے سر خیل مجتہداد مفسر علامہ اقبال میں اپنی تصنیف ’’ تشکیل جدید الٰہیات اسلام‘‘ کے واسطے سے علامہ اقبال نے نہ صرف نو آبادتی نظام کے مخالف حریت پسندانہ افکار و نظریات کے فلسفیانہ پس منظر کو متشکل کرنے کی کوشش کی بلکہ انہوں نے اس حوالے سے ایک نیا سماجی فلسفہ بھی پیش کیا یہ سماجی فلسفہ مسلمانوں کے متوسط طبقہ کے سامراج دشمن محسوسات کی غمازی اور عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے اس طبقے کی سرمایہ دارانہ دشمن امنگوں اور آرزوؤں کی ترجمانی بھی کرتا ہے علامہ اقبال کا یہ فلسفہ اس کا بھی مظہر ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی اور اس کرۂ ارض پر بھی اپنی مادی زندگی کے حوالے سے انسانوں کے درمیان مساوات کے زبردست حامی اور علم بردار ہیں۔‘‘ ایک اور روسی مستشرق خاتون ایم ٹی ستے پین پینتس (M.T. Stepan Yants) نے بھی اقبال کے افکار کے انقلابی پہلو کو غیر منقسم ہندوستان کے مخصوص حالات کے تناظر میں رکھ کر جو نتیجہ اخذ کیا اسے اپنے مقالے فلسفہ اقبال میں اخلاقیات کے مسائل میں یوں بیان کیا: ’’ اقبال کے عہد میں نو آبادیاتی نظام کے خلاف انقلابی دانشوروں نے جس جدوجہد کا آغاز کر رکھا تھا اقبال کے یہ انقلابی تصورات اس فضا کے عین مطابق تھے چنانچہ اقبال کے اس تصور نے کہ شر صرف معروضی ہے ان دانشوروں کو بالخصوص متاثر کیا کہ اس کی رو سے وہ تمام سماجی خرابیوں کا منبع خارجی حالات کے شر یعنی جاگیر دارانہ نظام اور نو آبادی سیاست میں تلاش کر سکتے تھے۔‘‘ رو س کی مانند مغرب کا با عمل ذہن بھی اقبال کے فلسفہ جدوجہد کو صحیح معنوں میں پسند کر سکتا تھا۔ چنانچہ اٹلی کے پروفیسر جی تو چی نے اس نقطہ نظر سے اقبال کو سراہا ہے ان کے بقول: ’’ یہ افہام و تفہیم اور امن کا منصوبہ ہے لیکن ذات کی خود سپردگی اور تصوف کے ذریعہ نہیں بلکہ جہد و عمل کے ذریعے، ایسا جہد و عمل جو یقین رکھنے والے کو شرف بخشنے اور ارفع و اعلیٰ بنا دے۔ اقبال ایسا یقین رکھنے والے شخص کو لیونارڈو کے الفاظ میں ایسا آدمی قرار دیتا ہے جو محض کھا پی کر زندگی بسر کرنے کا انتخاب نہیں کرتا یہ تو ایسی جدوجہد کا قائل ہے جو نہ تو اسے اس کے مخالف راستے پر چلنے والوں سے الجھاتی ہے اور نہ ہی دوسرے رستے پر جانے والوں سے بلکہ یہ تو اسے حکم الٰہی کا اہل اور قابل بناتی ہے۔‘‘ اس کے برعکس مشرقی ممالک کے ناقدین نے اقبال کے اس پہلو سے زیادہ شغف کا اظہار نہ کیا بلکہ فلسفہ اقبال کے مابعد الطبیعاتی پہلوؤں کی تشریح و توضیح میں زیادہ دلچسپی ظاہر کی۔ (۴) ’’ اسرار خودی پہلی بار لاہور سے ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی مجھے فوراً ہی پڑھنے کا اتفاق ہوا اور میں اس سے اتنا متاثر ہوا کہ میں نے اقبال سے جن سے ملاقات کا شرف کیمبرج میں حاصل کر چکا تھا اجازت چاہی کہ میں اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کر سکوں۔ میری درخواست بخوشی قبول کر لی گئی۔۔۔۔‘‘ ڈاکٹر نکلسن نے ’’ اسرار خودی‘‘ کے ترجمہ (۱۹۲۰ئ) کی اشاعت کے موقع پر جو دیباچہ قلم بند کیا اس کا آغاز ان سطروں سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نکلسن کو مستشرقین میں جو اہم مقام حاصل تھا اس کی وجہ سے اسرار خودی کا ترجمہ چھپتے ہی لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا اور اس پر مخالفانہ اور موافقانہ تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس سلسلہ میں پروفیسر ڈکنسن، ای ایم فارسٹر اور ہربرٹ ریڈ کے مقالات کا تذکرہ کیا جا چکا ہے۔ مغرب سے اقبال کا اولین تعارف اسرار خودی سے ہوتا ہے اس لحاظ سے نکلسن کے اس ترجمہ کی اہمیت میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا گیا کہ ہر ناقد نے اس ترجمہ پر انحصار کیا اس کے بعد پروفیسر آربری کا نام آتا ہے جنہوں نے جاوید نامہ (۱۹۶۶ئ) رموز بیخودی اور زبور عجم (۱۹۴۸ئ) کے علاوہ شکوہ اور جواب شکوہ اور لالہ طور کے تراجم کے علاوہ پیام مشرق کی رباعیات کے ترجمے بھی کیے ہیں۔ آربری نے اقبال پر جو کچھ لکھا ایک پرستار کی حیثیت سے لکھا چنانچہ جاوید نامہ کے دیباچہ میں اقبال پر لکھتے وقت آربری نے مغرب کا روایتی تجلیلی رویہ اپنانے کے برعکس مشرقیوں ایسی گرم جوشی اور محبت سے کام لیا ہے۔ اقبال گول میز کانفرنس سے واپسی کے بعد جب اٹلی گئے تو مسولینی سے بھی ملاقات کی جس سے متاثر ہو کر انہوں نے ایک نظم بھی لکھی اس طرح سسلی پر ان کی نظم ’’ صقلیہ‘‘ بھی اس سفر کی یادگار ہے لیکن حیات اقبال میں اٹلی کے دانشوروں نے اقبال کے افکار و تصورات کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی جس کی وجہ تراجم بنتے ہیں۔ ۱۹۵۲ء میں جب مشہور اطالوی دانشور پروفیسر الساندرو بوزانی نے جاوید نامہ کا ترجمہ شائع کیا تو اطالوی دانشوروں میں اقبال شناسی کی روایت کا آغاز ہوا۔ بوزانی نے اقبال کے فلسفیانہ افکار کی تشریح و توضیح میں کئی مقالات بھی قلم بند کیے ہیں اب تک وہ پیام مشرق، بانگ درا، زبور عجم، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز کی منتخب منظومات کے اطالوی تراجم طبع کرا چکے ہیں گویا اکیلے بوزانی نے ہی اتنا کام کر لیا ہے کہ اب اٹلی کا ہر پڑھا لکھا شخص کلام اقبال کے مختلف پہلوؤں کو سمجھ سکتا ہے۔ مغربی جرمن کی نامور مستشرق این میری شمل کو مشرقی زبانوں اسلام اور تصوف سے جو والہانہ شغف ہے اسے دیکھتے ہوئے کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا موصوفہ پہلے جنم میں مسلمان ہوں گی اور یہیں لاہور کے کہیں ارد گرد جنم لیا ہو گا۔ عربی، فارسی، ترکی اور اردو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی علاقائی زبانوں جیسے پنجابی اور سندھی پر بھی دستگارہ رکھتی ہیں اس وقت شاید ہی کوئی ایسا مستشرق ہو جو ایک ہی سانس میں اقبال، رومی، حافظ، سچل سرمست اور سلطان باہو کا نام لے سکتا ہو۔ اسلامی ا دبیات اور تصوف کے ساتھ ساتھ اقبال کو مغربی دنیا سے روشناس کرانے میں تنہا ڈاکٹر شمل نے جو کردار ادا کیا وہ تعداد اور معیار کے لحاظ سے بڑے بڑے علمی اداروں پر بھاری ہے۔ ڈاکٹر شمل وہ واحد مستشرق ہیں جنہوں نے یورپین ہوتے ہوئے ’’ جاوید نامہ‘‘ کا ترکی زبان میں منظوم ترجمہ کیا اس طرح جاوید نامہ کے کچ حصے اور مسجد قرطبہ وغیرہ کے منظوم جرمن تراجم بھی قابل ذکر ہیں اس کے علاوہ اردو ادبیات کی تاریخ پر بھی انہوں نے ایک بلند پایہ کتاب تحریر کی ہے: Classical urdu literature from the begining to Iqbal یہ کتاب ۱۹۷۵ء میں طبع ہوئی تھی جو گہری عقیدت ہے اس کا اظہار محض تراجم سے ہی نہیں ہوتا بلکہ انہوں نے فکر اقبال کی تشریح و توضیح پر جوگرانقدر مقالات قلم بند کیے ان میں موضوعات کے تنوع کے ساتھ فکر کی گہرائی بھی ملتی ہے۔ چنانچہ ۱۹۷۵ء میں پاکستان پر جرمن مطبوعات کی کتابیات میں مندرج مقالات میں سے چند کے نام یہ ہیں: (۱) فکر اقبال میں شیطان کی حقیقت (۲) اقبال اور جرمن ادبیات (۳)اقبال اور حلاج (۴) اقبال ممالک خارجہ میں (۵) فکر اقبال پر مغرب کا اثر (۶) جاوید نامہ تاریخ ادیان کی روشنی میں (۷) فکر اقبال میں پیغمبر اسلام کا مقام (۸) اقبال کا نظریہ توحید (۹) اقبال کا تصور دعا (۱۰) زمان و ہدایت کا مسئلہ یہ تعجب خیز سہی مگر یہ حقیقت ہے کہ مغربی دنیا سے کہیں بہت پہلے روس میں اقبال کا نام لیا جا چکا تھا۔ پہلا روسی محقق جس نے اقبال کی طرف توجہ کی ماسکو کا اے ای کریمکی تھا جس کی کتاب ’’ایران، اس کی تاریخ اور ادب‘‘ ۱۹۱۲ء میں شائع ہوئی اس کتاب میں کریمکی نے اس مقالے کا حوالہ دیا ہے جس کی بناء پر علامہ کو میونخ یونیورسٹی سے ۱۹۰۸ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی تھی۔ اس مقالہ کا موضوع ’’ ایران میں ما بعد الطبیعات کا ارتقائ‘‘ تھا۔ کریمکی کے بقول اس مقالے کا مصنف میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا ایک امیدوار اور یورپ سے تعلیم یافتہ ایک مسلمان ہے جس نے تصوف کے موضوع پر نہایت ہمدردی سے قلم اٹھایا ہے۔ لیکن یہ اولین حوالہ بس یہیں رہا اور اس میں اقبال شناسی کی تحریک کی داغ بیل نہ ڈالی جا سکی اس کی وجہ وہاں کے سیاسی حالات میں تلاش کی جا سکتی ہے ۱۹۱۷ء کے انقلاب کے بعد کے حالات او ربالخصوص سٹالن کے دور اقتدار میں اقبال ایسے شاعر سے کسی کو دلچسپی نہ ہو سکتی تھی چنانچہ ۱۹۵۸ء کے روسی انسائیکلو پیڈیا میں اقبال کا نام تک بھی نہیں ملتا لیکن ایک بات ہے کہ اقبال شناسی کی روایت کا آغاز بھی اس برس سے ہوتا ہے کہ اقبال کی ۴۸ معروف نظموں کا تاجک زبان میں ترجمہ شائع ہوا۔ یہ انتخاب وہاں کے مشہور شاعر میر شاکر نے کیا تھا اس نے ان پر ایک دیباچہ بھی تحریر کیا اس کتاب کے کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ ۱۹۶۴ء میں ماسکو سے ’’ بانگ درا‘‘ کے نام سے بانگ درا، اسرار خودی، پیام مشرق، بال جبریل اور ضرب کلیم کی منتخب نظموں کا ترجمہ طبع ہوا۔ یہ تراجم مشہور روسی شعراء نے کیے تھے۔ روس کی مشہور خاتون ایل گورڈن پونسکایا نے اس کتاب پر ایک مفصل مقدمہ لکھا جس میں فکر اقبال کے نمایاں پہلوؤں پر مفصل بحث کی گئی تھی جبکہ اختتامیہ کے طور پر تنالیا پری گارینا نے اقبال کیا سلوب کا لسانی تجزیہ پیش کیا تھا تراجم اور تنقیدی مواد کے لحاظ سے یہ کتاب خاصے کی چیز ہے۔ نتالیا پری گارینا اس وقت روس میں علامہ پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ۱۹۷۲ء میں انہوں نے ’’ محمد اقبال کی شاعری‘‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی یہ کتاب اب دو جلدوں میں چھپ چکی ہے اور اقبال پر حوالہ کی چیز بن چکی ہے اس میں اسرار خودی، بانگ درا اور پیام مشرق کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے حال ہی میں ’’ مطالعہ اقبال‘‘ کے نام سے ان کی نئی کتاب طبع ہوئی ہے۔ اقبال کی درست تاریخ پیدائش کا سب سے پہلے پری گارینا نے ایک چیک سکالر ڈاکٹر جان میرک (Marak) کے حوالہ سے ذکر کیا تھا۔ یہ ۱۹۵۸ء کی بات ہے جبکہ اس کے کہیں بیس برس بعد ہمارے ہاں صحیح تاریخ کا تعین کیا جا سکا۔ پری گارینا کے ساتھ ایک اور خاتون ایم ٹی ستے پین پینتس نے بھی اقبال پر قابل ذکر کام کیا ہے۔ ان کے علاوہ نکولائی انی کیف، غضنفر علی، عبداللہ غفور رؤف، نکولائی گلیدف، الیکسن نحو چیف وغیرہ نے بھی اقبال کے فکر و فن پرگرانقدر مقالات قلم بند کیے ہیں۔ مغرب کے بعد جب مشرق میں اقبال شناسی کی روایت کا جائزہ لیں تو نگاہ سب سے ایران کی طرف جاتی ہے ایران سے زبان و ثقافت کی بناء پر اس خطہ کے عوام سے جو گہرے جذباتی روابط رہے ہیں وہ اتنے قدیم اور واضح ہیں کہ انہیں بطور خاص آشکار کرنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے اقبال نے جب اردو پر فارسی کو ترجیح دی تو اس کا سب سے بڑا سبب بھی یہی تھا کہ اہل ایران اور دیگر فارسی دان حضرات کی صورت میں اقبال اپنے لیے قارئین کا وسیع تر حلقہ پیدا کرنا چاہتے تھے اقبال اس میں کس حد تک کامیاب رہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران میں اقبال کسی ایرانی شاعر کی طرح مقبول ہیں، ناقدین نے ان کے فکر و فن پر گرانقدر مقالات لکھے تو عظیم شعراء نے اقبال کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ان شعراء کے نام بطور خاص لیے جا سکتے ہیں آقائے صادق سرمد، ملک الشعرا بہار، آقائے سعید نفیسی، علامہ دھخدا، آقائے احمد گلچیں معانی، آقائے امیر شفائی نوا، آقائے منوچہر طالقانی، وکتر قاسم رضا، آقائے علی خدائی، آقائے ادیب برومند آقائے عباس فرات، وکتر لطف علی صورتگر۔ ایک زمانہ تھا جب بعض اہل ایران نے اقبال کی فارسی پر اعتراضات کئے تھے لیکن اب حالت اس کے برعکس ہی نہیں بلکہ ایران کے مشہور نقاد آقائے داؤد شیرازی نے تو یہاں تک لکھ دیا: ’’ اقبال سبک و مکتب جدیدی در شعر فارسی تائیس کردہ کہ حقا باید بک اورا‘‘ سبک اقبال نامید و قرن ادبی حاضرہ را باید بنام نامی او مزین ساخت (اقبال نے جدید دور کی فارسی شاعری میں ایک نئے اسلوب بیان کی بنیاد رکھی ہے حق تو یہ ہے کہ اس اسلوب بیان کو ’’ سبک اقبال‘‘ کے نام سے یاد کرنا چاہیے۔ اور آج کے ادبی عہد کو اقبال کے نام سے موسوم کرنا چاہیے۔ ترکی میں اقبال شناسی کی روایت کا سہرا مشہور ترکی شاعر عاکف کے سر بندھتا ہے جس نے علامہ کی زندگی ہی میں ان کے اشعار کے ترکی میں تراجم کیے اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ مصر میں ڈاکٹر عبدالوہاب عزام کو اقبال سے عاکف ہی نے متعارف کرایا۔ وہ ۳۶۔ ۱۹۲۲ء میں مصر میں رہا تھا اور وہاں اس نے عزام کو علامہ کے کلام کی خوبیوں سے روشناس کراتے ہوئے عربی میں ترجمے کی طرف راغب کیا۔ ان دنوں ترکی میں ڈاکٹر علی نہاد تارلان اور ڈاکٹر عبدالقادر قہ خاں نے اقبال شناسی میں خصوصی نام پیدا کیا ہے۔ ڈاکٹر تار لان ۱۹۵۸ء سے کلام اقبال کو ترکی میں منتقل کر رہے ہیں چنانچہ اب تک پیام مشرق اور زبور عجم کی مختلف نظموں کے علاوہ ارمغان حجاز کی فارسی نظموں کے تراجم کر چکے ہیں۔ ’’ ضرب کلیم‘‘ کا بھی ترکی ترجمہ شائع کر چکے ہیں ان تراجم کے علاوہ ڈاکٹر تار لان نے اقبال کے افکار و تصورات کی تشریح میں بعض اہم مقالات بھی لکھے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقادر قرہ خاں نے ترکی زبان میں ’’ ڈاکٹر محمد اقبال‘‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے جس میں اقبال کی سوانح حیات اور فکر و فن کی تشریح کے علاوہ تمام اہم شعری مجموعوں سے منتخب کلام کے تراجم بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر موصوف نے کتاب کا انگریزی میں دیباچہ لکھا ہے یہ کتاب یونیسکو کے زیر اہتمام ۱۹۷۴ء میں استنبول سے نہایت دیدہ زیب انداز میں طبع کی گئی ہے۔ جب ۱۹۳۱ء میں علامہ مصر گئے تو عاکف کی بنا پر ڈاکٹر عبدالوہاب عزام ان کے نام اور کام سے آشنا تھے چنانچہ عزام ان سے ملا اور یوں یہ فکری رابطہ قلبی رابطہ میں تبدیل ہو گیا لیکن جہاں تک عربی تراجم کا تعلق ہے تو یہ پروفیسر حسن الاعظمی تھا جس نے ۱۹۳۷ء میں پہلی مرتبہ اقبال کے افکار کا عربی میں باضابطہ طور پر ترجمہ کیا۔ پروفیسر حسن الاعظمی نے اقبال پر بعض کتابیں مرتب بھی کیں دیگر اقبال شناسوں میں محمد علی علوبہ پاشا اور سید عبدالحمید خطیب اور نابینا شاعر شعلان وغیرہ قابل ذکر ہیں لیکن جو شہرت عزام نے حاصل کی وہ بیمثال ہے اور کیوں نہ ہو عزام نے بھی تو کلام اقبال کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کر دی۔ وہ پاکستان آئے بھی تھے اور کلام اقبال کی تمام جہات سے آگہی کے لیے یہاں رہ کر اردو بھی سیکھی پیام مشرق کا منظوم عربی ترجمہ (۱۹۵۵ئ) خاصے کی چیز سمجھا جاتا ہے اس کے علاوہ ’’ اسرار و رموز‘‘ کا منظوم ترجمہ ۱۹۵۴ء میں قاہرہ سے طبع کیا۔ ان کے علاوہ ۱۹۵۰ء میں ’’ محمد اقبال: سیرۃ و شعر و فلسفہ‘‘ کے نام سے ایک مفصل کتاب لکھی جس میں علامہ کے فلسفیانہ تصورات کے اساسی نکات سے بحث کی گئی ہے۔ ان چند اہم ممالک میں اقبال شناسی کی روایت کے اس تذکرہ کا یہ مطلب نہیں کہ اقبال صرف ان ہی ممالک میں معروف ہیں بلکہ یہ کہنے میں مبالغہ نہ ہو گا کہ آج کی تمام مہذب دنیا اقبال کے نام اور افکار سے واقفیت رکھتی ہے چنانچہ انڈونیشیا، سری لنکا، جاپان، نیدر لینڈ، مراکو، ارجنٹائن کس کس کا نام لیں ہر جگہ اقبال شناس ملتے ہیں اس ضمن میں ایران کے ڈاکٹر احمد علی رجائی نے بڑی خوب صورت بات کہی ہے: ’’ اقبال ایک نو دریافت بر اعظم کی مانند ہیں جس میں کتنی ہی دلآویز اور قابل غور چیزیں ہنوز بحث طلب ہیں۔‘‘ اور اس لیے ایک عالم کے دانشور اس نو دریافت بر اعظم کی کشش اور دلآویزی کے حسن کے کھوج میں نظر آتے ہیں۔ لہٰذا اقبال کو ممدوح عالم قرار دینا نہ تو غلط ہو گا اور نہ ہی اس میں مبالغہ ہے کہ یہ عین حقیقت ہے اور بقول علی صادق سرمد: اگرچہ مرد بمیرد بگردش مہ و سال نمردہ است و نمیرد محمد اقبال جبکہ ملک الشعراء محمد تقوی بہار کے بموجب: عصر حاضر خاصتہ اقبال گشت واحدے کز صد ہزاراں برگزشت شاعراں گشتند جیشے تار و مار دیں مبارز کرد کار صد سوار شعر نمبر، ایک اور موہنی پیشکش میر کے بہتر نشتر مشہور ہوئے۔ اسی طرح دیگر شعراء کے بھی تو کئی نشتر ہیں ان سب کو یکجا کیا جا رہا ہے۔ شاعری کی ابتداء سے لے کر اب تک کے شعراء کا شعروں پر مشتمل ایک خوبصورت مجموعہ! جو سب کے لیے حرز جاں بنا رہے گا۔ (ادارۂ نقوش، لاہور) ٭٭٭ (۳) اقبال کے حضور کیا دیکھا، کیا سنا؟ اقبال کے حضور خواجہ عبدالوحید (۱) ’’ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے مکان کی بیٹھک میں برسوں تک ہر شام وہ لوگ جمع ہو جاتے تھے جن میں سے ایک ایک آسمان ادب کا درخشاں ستارہ تھا۔ حکیم شہباز دین ایک بہت ہی لاغر اور نحیف انسان تھے، مگر ان کے سینے میں ایک ایسا دل تھا جس میں سمندر کی وسعت اور ابر کی فیاضی تھی۔۔۔۔ ان کی زبان کی شیرینی، ان کی منکسر مزاجی اور مہمان نوازی نے ہمارے گھر کو علم و ادب کے ان درخشاں ستاروں کا مرجع بنا دیا۔۔۔۔ ان ارباب علم و ادب کی دید کے شائق دور دور سے ہمارے ہی مکان پر آتے اور ان کی صحبت سے اکتساب شرف کرتے۔ سر عبدالقادر، سر محمد اقبال، سر شہاب الدین، خواجہ رحیم بخش، خواجہ کریم بخش، خواجہ امیر بخش، خلیفہ نظام الدین، شیخ گلاب دین، مولوی احمد دین، مولوی محمد حسن، مفتی عبداللہ ٹونکی اور سید محمد شاہ وکیل ان لوگوں میں سے تھے جو قریب قریب ہر روز شام کو اس بیٹھک میں جمع ہو جاتے۔ ان لوگوں میں کچھ بزرگ تو ایسے ہیں جو بعد میں اس قدر مشہور ہوئے کہ ان کے کمالات کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ مگر ناظرین کی واقفیت کی توسیع کے لیے شاید یہ بتا دینا ضروری ہے کہ مولوی احمد دین سرگزشت الفاظ کے نامور مصنف ہیں۔۔۔۔ خواجہ رحیم بخش، خواجہ کریم بخش، خواجہ امیر بخش، سید محمد شلو وکیل اور خلیفہ نظام الدین اگرچہ اپنی عزلت گزینی کے باعث منظر عام پر نہ آئے مگر وہ اس مجلس کی روح رواں تھے ان کی جرأت تنقید اور جوہر شناسی نے اس زمانے کے نوجوان ادیبوں اور شاعروں کی تربیت میں وہ حصہ لیا جو ان کے اپنے جوہر کمال کے تقاضات ارتقا سے کسی طرح کم نہیں۔ اس زمانے میں سر محمد اقبال جب تک اپنا کلام پہلے ان بزرگوں کو سنا نہ لیتے تھے اسے کسی مجلس عام میں نہ پڑھتے تھے۔‘‘ (خون بہا، از حکیم احمد شجاع، طبع دوم لاہور ۱۹۵۱ء ص ۸۳۔ ۱۸۲) مذکورہ بالا اقتباس میں نے اس لیے درج کیا ہے کہ میں اپنا خاندانی پس منظر بیان کر سکوں۔ خواجہ کریم بخش میرے والد بزرگوار تھے خواجہ رحیم بخش اور خواجہ امیر بخش میرے حقیقی اور مولوی احمد دین میرے رشتے کے چچا تھے۔ 1؎ حکیم احمد شجاع مرحوم نے حکیم شہباز دین کے مکان (واقع بازار حکیماں) کی علمی صحبتوں کی تفصیل بیان کی ہے۔ بعد میں یہ محفل حکیم امین الدین کے مکان پر، جو حکیم شہباز دین کے مکان کے عین سامنے تھا، جمنے لگی۔ جب حکیم امین الدین سرکاری وکیل ہو کر لاہور سے باہر چلے گئے تو یہ محفل ’’ للی لاج‘‘ (Lily Loudge) میں منتقل ہو گئی۔ بازار حکیماں سے بازار سید میٹھا کو جو راستہ جاتا ہے اور جواب تحصیل بازار کہلاتا ہے اس کے مشرقی سرے سے ذرا پہلے دائیں ہاتھ کو ایک محلہ تھا جسے ’’ تھڑیاں بھابھڑیاں‘‘ کہتے تھے۔ اس محلے کی بیشتر آبادی جنییوں کی تھی۔ ’’ للی لاج‘‘ اسی محلے میں واقع تھا۔ یہ مکان تین بھائیوں خواجہ کریم بخش، خواجہ رحیم بخش اور خواجہ امیر بخش کی مشترکہ ملکیت تھا۔ ۱۹۰۵ء سے لے کر ۱۹۱۸ء تک یہ مکان لاہور کا سب سے اہم تہذیبی اور ادبی و علمی مرکز تھا۔ ۱۹۱۸ء میں یہ محفل اس لیے منتشر ہو گئی کہ والد مرحوم سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو کر وسط ہند کی ایک ریاست ’’ دھار‘‘ میں چلے گئے اور عم محترم خواجہ رحیم بخش بھی بسلسلہ ملازمت مشرقی پنجاب میں رہنے لگے میرے دوسرے چچا خواجہ امیر بخش کا انتقال ۱۹۱۴ء میں ہو چکا تھا۔ ۱۹۴۷ء میں تھڑیاں بھابھڑیاں کے تمام مکانات فسادات میں نذر آتش ہو گئے۔ ۱۹۶۰ء میں میں نے اس علاقے کو دیکھا تو ہر طرف جھونپڑیاں ہی جھونپڑیاں تھیں۔ للی لاج میں تقریباً وہ سب اہل علم جمع ہوتے تھے جن کا ذکر حکیم احمد شجاع کے مذکورہ اقتباس میں ہے۔ ان کے علاوہ بھی بعض حضرات تشریف لاتے تھے۔ مثلاً مولانا ظفر علی خاں اور مولوی انشاء اللہ خاں مدیر اخبار ’’ وطن‘‘ اسی مکان کی ایک محفل میں مولانا ظفر علی خاں نے حیدر آباد دکن سے تشریف لانے کے بعد لاہور سے اخبار ’’ زمیندار‘‘ شائع کرنے کا پہلی بار اعلان کیا تھا۔ وہ ان کی جوانی کا زمانہ تھا۔ وہ بڑے جوش و خرو ش سے اپنی زندگی کے آئندہ عزائم کا اعلان کرتے رہے۔ مولوی انشاء اللہ خاں دہلی دروازے کے باہر اپنی بنائی ہوئی عمارت ’’ وطن بلڈنگ‘‘ میں رہا کرتے تھے جو مزار شاہ محمد غوث کے سامنے سڑک کی دوسری جانب واقع ہے۔ ان محفلوں میں شریک ہونے والے ایک اور بزرگ بھی مجھے یاد ہیں ان کا نام بابو وہاب الدین تھا وہ کسی سرکاری دفتر میں ملازم تھے اور اعلیٰ درجے کا علمی مذاق رکھتے تھے۔ ان محفلوں میں شرکت کرنے والے بیشتر بزرگ شہر کے اسی حصے میں رہتے تھے۔ سر شہاب الدین کا مکان بازار جج عبداللطیف میں تھا جو بازار حکیماں کی مغربی جانب واقع ہے۔ مولوی احمد دین لوہاری منڈی کی ایک گلی میں قیام رکھتے تھے۔ علامہ اقبال جو اس زمانے میں یورپ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے واپس آ چکے تھے۔ ۱۹۰۸ء سے ان محفلوں میں شرکت فرمانے لگے تھے۔ وہ اس زمانے میں انار کلی بازار میں ایک عمارت کے بالائی حصے میں رہتے تھے۔ سوائے علامہ اقبال کے باقی سب لوگوں کے مکانات للی لاج کے گرد ونواح میں تھے۔ میری پیدائش موجودہ صدی کے آغاز کے دو دن بعد کی ہے یعنی ۳ جنوری ۱۹۰۱ء بچپن کی بہت سی باتیں میرے حافظے میں محفوظ ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ للی لاج میں میرے بزرگوں اور ان کے دوستوں کی محفلیں آدھی آدھی رات تک گرم رہتی تھیں۔ اور ان محفلوں میں علامہ اقبال، سر عبدالقادر اور سر شہاب الدین وغیرہ آیا کرتے تھے۔ میں نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے آپ کو اس علمی و ادبی ماحول میں دیکھا۔ ہمارے بزرگوں نے بچوں کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ جب تک چاہیں ان محفلوں میں موجود رہیں۔ ہم بچے اکثر دیر تک ان محفلوں میں بیٹھے رہتے تھے۔ اگرچہ اپنے بزرگوں کی بہت کم باتیں میری سمجھ میں آتی تھیں۔ پھر بھی یہ باتیں سننے سے مجھے بے حد خوشی ہوتی تھی۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ مجھے بہت کم عمری میں لکھنے پڑھنے کا شوق ہو گیا اور اہل علم حضرات کی صحبتوں سے مستفید ہونے کا سلیقہ آ گیا۔ بچپن سے لے کر اٹھارہ برس کی عمر تک میں ان محفلوں کا عینی شاہد رہا ہوں۔ ابتداء میں محض تماشائی تھا، لیکن جوں جوں عمر بڑھتی گئی اور شعور پختہ ہوتا گیا۔ میں شرکائے محفل کی گفتگو سے مستفید بھی ہونے لگا۔ اس زمانے کی محفلوں میں نشست فرش پر ہوتی تھی۔ کرسیاں یا صوفے شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے تھے۔ دستور یہ تھا کہ پہلے زمین پر بوریا بچھایا جاتا۔ اس پر دری پھیلائی جاتی اور اس کے اوپر چاندنی سب سے اوپر قالین بچھایا جاتا۔ سہارے کے لیے دیواروں کے ساتھ گاؤ تکیے لگا دیے جاتے تھے۔سردیوں کے دنوں میں کمرے کے وسط میںلوہے کی ایک بڑی انگیٹھی رکھ دی جاتی تھی جس میں کوئلے دہکتے تھے۔ فرش پر بیٹھنے کے لیے پتلون کا استعمال بہت تکلیف دہ ہے، اس لیے بیشتر بزرگ ہمارے ہاں کی محفلوں میں پاجامہ یا شلوار پہن کر آتے تھے اوپر ایک کوٹ ہوتا تھا جو سوٹ کے کوٹ سے قدرے لمبا ہوتا تھا۔ بعض بزرگ فراک کوٹ پہنتے تھے۔ حضرت علامہ بھی اکثر شلوار اور کوٹ ہی میں ملبوس ہوتے تھے۔ سر پر پگڑی باندھتے تھے جو اکثر پنجابی لنگی ہوتی تھی۔ آپ کالر اور ٹائی کا استعمال بھی کرتے تھے۔ کالر ہمیشہ اکہرا ہوتا تھا جس کے اوپر ٹائی پوری نظر آتی تھی۔ کالر کی دونوں نوکیں نیچے کی طرف مڑی ہوتی تھیں تاکہ نیچے دیکھنے میں گردن کو تکلیف نہ ہو۔ آج کل حضرت علامہ کی بعض ایسی تصویریں نظر آتی ہیں جن میں وہ ڈبل کالر پہنے ہوئے ہیں۔ لیکن میں نے اس زمانے میں انہیں کبھی ڈبل کالر پہنے ہوئے نہیں دیکھا۔ حضرت علامہ ہاتھ میں چھڑی ضرور رکھتے تھے۔ للی لاج کی محفلوں کی عام خصوصیت یہ تھی کہ ان میں علمی و ادبی باتوں کے علاوہ ملکی و ملی مسائل پر بھی گفتگو ہوتی تھی۔ انجمن حمایت اسلام کا بھی خاصا ذکر رہتا تھا کیونکہ ان محفلوں میں شرکت کرنے والے بیشتر بزرگ انجمن کے بانیوں میں سے تھے۔ انجمن کے بہت سے معاملات پر تبادلہ خیال ہوتا تھا اور سالانہ جلسوں کے پروگرام مرتب کیے جاتے تھے۔ ان تمام معاملات میں علامہ اقبال بھی رائے دیتے تھے اور ان کی رائے کو خاص اہمیت دی جاتی تھی۔ علامہ اقبال جب کوئی نظم یا غزل لکھتے تھے تو سب سے پہلے انہیں محفلوں میں سناتے تھے۔ میں نے بار ہا ان کا کلام ان کی زبان سے سنا ہے۔ بعض ایسی نظمیں جو انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں سنانے کے لیے لکھی جاتی تھیں وہ بطور خاص ان محفلوں میں سنائی جاتی تھیں۔ شرکائے محفل ان نظموں پر اظہار خیال کرتے تو علامہ اقبال اسے نہایت توجہ سے سنتے۔ اس سلسلے میں اگر انہیں کوئی مشورہ دیا جاتا تھا۔ اور وہ ان کے نزدیک درست ہوتا تو وہ اسے نہایت فراخدلی سے قبول کر لیتے تھے اور اگر کوئی مشورہ ناقابل قبول ہوتا تو قبول نہ کرنے کی وجہ بیان فرما دیتے تھے ۔ مجھے ان محفلوں میں علامہ اقبال کی زبان سے ’’ شکوہ‘‘ جواب شکوہ اور دوسیر کئی نظمیں سننے کا اتفاق ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنا کلام ترنم سے پڑھتے تھے، ان کی آواز میں ایسا سوز تھا کہ سننے والوں پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور وہ ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے۔ ایک روز شرکائے محفل میں سب سے پہلے پہنچنے والے بزرگ علامہ اقبال تھے۔ جب وہ تشریف لائے تو کمرے میں میرے سوا کوئی اور نہیں تھا۔ انہوں نے بیٹھتے ہی مجھ سے پنجابی میں کہا: ’’ حقہ لاؤ‘‘ میں نے ملازم سے حقہ تازہ کرایا اور خود حضرت علامہ کے سامنے لے جا کر رکھا۔ ایسا پہلے بھی کئی بار ہو چکا تھا۔ میں ہمیشہ خاموشی سے حکم کی تعمیل کرتا تھا لیکن اس مرتبہ نہ جانے کیا سوجھی کہ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا:’’ ڈاکٹر صاحب! آپ حقہ چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟‘‘ وہ یہ بات سن کر مسکرائے اور پھر فرمایا:’’ یار! شراب چھوڑ دی تو اب حقہ بھی چھوڑ دوں۔‘‘ انہوں نے یہ بات پنجابی میں فرمائی تھی۔ پنجابی میں عموماً بات شروع کرنے سے پہلے ’’ یار‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ صرف برابر کے، ہم عمر یا بے تکلف دوستوں ہی کے لیے نہیں بلکہ از رہ شفقت چھوٹوں کو مخاطب کرتے وقت بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ واقعہ لازماً ۱۹۱۸ء سے پہلے کا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے للی لاج کی محفلیں ۱۹۱۸ء میں ختم ہو گئی تھیں۔ اگر یہ واقعہ اسی سال کا ہو تو علامہ اقبال اس کے بیس برس بعد تک زندہ رہے۔ ان بیس برسوں میں مجھے ان کو بہت قریب سے د یکھنے کے مواقع ملے، لیکن میں نے کبھی دیکھا نہ سنا کہ انہوں نے شراب پی ہو۔ ہاں حقے سے انہیں ہمیشہ شغف رہا۔ حقہ ہر وقت ان کے سامنے تازہ رہتا تھا اور وہ حقہ پی کر تازہ دم ہو جاتے تھے۔ اسی زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ انجمن حمایت اسلام کے ایک جلسے میں علامہ اقبال نے ایک نظم پڑھی۔ جب انہوں نے یہ شعر سنایا: کوئی آج مسلم خستہ جاں کو یہ جا کے میرا پیام دے کہ وطن ہے دشمن آبرو تو اماں ہے ملک حجاز میں تو لوگ مولوی انشاء اللہ خاں ایڈیٹر اخبار ’’ وطن‘‘ کی طرف دیکھ دیکھ کر تالیاں بجانے لگے۔ مولوی صاحب اس وقت اسٹیج پر بیٹھے تھے۔ حاضرین جلسہ کی شوخی، طبع سے ان کی جو حالت ہوئی۔ اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کا اخبار ’’ وطن‘‘ کو ’’ دشمن آبرو‘‘ سمجھنا اچھا خاصا لطیفہ تھا۔ اس لطیفے کا ذکر مدتوں علی لاج کی محفلوں میں بھی رہا۔ مولوی صاحب کو چھیڑنے کے لیے ان کے دوست یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔ اس وقت مجھے شادی کی ایک تقریب یاد آ رہی ہے جس میں علامہ اقبال نے شرکت کی تھی۔۱۹۰۸ء تک میرے دو بڑے بھائیوں خواجہ عبدالمجید (مولف جامع اللغات) اور خواجہ عبدالحمید کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ اب میرے چچا زاد بھائی خواجہ فیروز الدین 2؎ کی باری تھی۔ ان کے لیے رشتے کی تلاش ہوئی تو علامہ اقبال نے اپنی خواہر نسبتی (والدۂ آفتاب اقبال کی بہن) کا رشتہ تجویزکیا۔ علامہ کے خسر خان بہادر ڈاکٹر شیخ عطا محمد مرحوم سے ہمارے بزرگوں نے سلسلہ جنبانی کی۔ شیخ صاحب اول تو ہمارے خاندان سے اچھی طرح واقف تھے دوسرے انہوں نے یہ دیکھا کہ لڑکے کے بارے میں ان کے داماد (علامہ اقبال) کی رائے بہت اچھی ہے۔ انہوں نے یہ رشتہ منظور کر لیا۔ ڈاکٹر شیخ عطا محمد کا قیام گجرات میں تھا جو لاہور سے بہتر (۷۲) میل کے فاصلے پر ہے۔ ۱۹۱۰ء کے لگ بھگ شادی ہوئی برات دھوم دھام کے ساتھ لاہور سے گجرات گئی۔ برات کا استقبال کرنے والوں میں حضرت علامہ بھی تھے۔ برات کے ساتھ، اس زمانے کے رواج کے مطابق پانی پت کی ایک مشہور طوائف بھی تھی اس نے رقص و سرود کی محفل گرم کی۔ برات جب ڈاکٹر شیخ عطا محمد کے گھر پر پہنچی تو رات کا وقت تھا، اس موقع پر آتش بازی کا زبردست مظاہرہ ہوا۔ اس شادی کے سلسلے میں ہم نے دو روز گجرات میں قیام کی۔ اس دوران میں اپنے ہم عمر دو لڑکوں سے میری دوستی ہو گئی۔ ان میں سے ایک علامہ اقبال کے فرزند آفتاب 3؎ اقبال تھے، اور دوسرے ان کے بھتیجے شیخ اعجاز 4؎ احمد تھے۔ یہ دونوں کبھی کبھی لاہور آتے تھے کبھی الگ الگ اور کبھی اکٹھے۔ ان کا قیام علامہ اقبال کے انار کلی والے مکان میں ہوتا تھا اور میں ان سے ملنے کے لیے وہاں جایا کرتا تھا۔ ایسے موقعوں پر ڈاکٹر علامہ اقبال گھر پر ہی موجود ہوتے تھے لیکن ان سے سوائے علیک سلیک کے کوئی بات نہیں ہوتی تھی۔ ۱۹۱۶ء میں میں نے اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ دروازہ لاہور سے انٹرنس کا امتحان پاس کیا اور کالج میں داخلہ لینے کا مرحلہ آیا۔ میرے بڑے بھائیوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم پائی تھی۔ اس لیے میں نے بھی اسی کالج میں داخلہ لینے کا ارادہ کیا۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ میں نے انٹرنس کے امتحان میں سیکنڈ ڈویژن حاصل کی تھی اور گورنمنٹ کالج میں داخلہ فرسٹ ڈویژن والوں کو ملتا تھا۔ اس زمانے میں علامہ اقبال گورنمنٹ کالج میں پڑھاتے تو نہیں تھے، لیکن کالج کے پرنسپل کرنل جے اے اسٹیفنسن (J.A. Stephenson) سے ان کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ مجھے ان تعلقات کا علم تھا اور میں جانتا تھا کہ علامہ کی سفارش سے مجھے کالج میں داخلہ مل سکتا ہے۔ میں نے اپنا مسئلہ علامہ کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے بغیرکسی تامل کے پرنسپل کے نام ایک سفارشی خط لکھ دیا۔ داخلے کے لیے جب انٹرویو ہوا تو میں نے علامہ کا خطبہ پیش کر دیا۔ پرنسپل نے خط دیکھ کر مجھ سے کوئی سوال نہ کیا، اور فوراً داخلہ دے دیا۔ (۲) ۱۹۱۸ء میں جب للی لاج کی محفلیں ختم ہو گئیں تو اس کے بعد میں حصول تعلیم اور پھر فکر روزگار میں منہمک رہااس کے ساتھ علمی و ادبی مشاغل بھی جاری رہے۔ اور اہل علم اور علمی اداروں سے میری وابستگی کی صورتیں پیدا ہوتی رہیں۔ اس دوران میں علامہ اقبال سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ مئی ۱۹۳۵ء سے پہلے جتنی ملاقاتیں ہوئیں وہ ان کی میکلوڈ روڈ والی قیام گاہ پر ہوئیں یا مختلف جلسوں اور تقریروں میں کچھ ملاقاتیں مولوی احمد دین مرحوم کے مکان پر بھی ہوئیں۔ للی لاج کا مجلسی مرکز ختم ہوا تو ان محفلوں میں شریک ہونے والے بزرگ مولوی احمد دین مرحوم کے مکان پر جو بازار حکیماں میں تھا، بیٹھنے لگے تھے۔ مولوی صاحب مرحوم اس زمانے میں لوہاری منڈی سے نقل مکانی کر کے بازار حکیماں کے ایک مکان میں قیام فرما تھے۔ ۱۹۴۲ء میں حضرت مولانا احمد علی صاحبؒ جو بعد میں لاہوری کہلائے، ہجرت کا کٹھن زمانہ ملک سے باہر گزار کر ہندوستان واپس آئے۔ انہوں نے شیرانوالہ دروازے کے متصل ایک پرانی مسجد میں قرآن حکیم کا درس دینا شروع کیا۔ اس میں ایک جماعت کالجوں کے طلبہ کی تھی۔ میں اس جماعت میں شریک ہو کر حضرت مولانا کے فرمودات سے مستفید ہونے لگا۔ اس جماعت کے چند اہل ذوق نوجوانوں سے میرے دوستانہ مراسم قائم ہو گئے۔ یہ مراسم آئندہ زندگی میں بہت کام آئے اور ہم دوستوں نے ایک دوسرے کے تعاون سے علمی و ادبی مشاغل اور علمی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ میرے اس زمانے کے ساتھیوں میں سے جو آج بھی بفضلہ حیات ہیں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ (دائرۃ المعارف اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی) اور ڈاکٹر محمد عبدالقوی لقمان خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ہم لوگ وقتاً فوقتاً حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ہماری کوشش یہ ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ علمی و ادبی مسائل پر حضرت علامہ کے خیالات سے مستفید ہوں۔ ہم کوئی موضوع چھیڑ دیتے اور پھر ان کی گفتگو سے فیض یاب ہوتے رہتے۔ اس زمانے میں حضرت علامہ میکلوڈ روڈ والے مکان میں قیام پذیر تھے۔ ۱۹۳۵ء میں جب حضرت علامہ میو روڈ پر ’’ جاوید منزل‘‘ میں منتقل ہو گئے تو ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ۱۹۳۴ء کے اواخر میں میں نے بھی میو روڈ سے کچھ فاصلے پر محلہ محمد نگر میں مکان بنا لیا تھا۔ میرا ان کے ہاں جانے کا طریق یہ تھا کہ بالعموم ایسے وقت جاتا جب کوئی اور ان کے پاس نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عام ملاقاتی سیاست حاضرہ پر گفتگو کرتے تھے، اور میں یہ چاہتا تھا کہ ایسے مسائل پر ان کی آراء سے استفادہ کروں جو زندگی کے بنیادی حقائق سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرے نزدیک علامہ سے مقامی سیاست پر گفتگو کرنا، ان کا قیمتی وقت ضائع کرنے کے مترادف تھا۔ میرا معمول یہ تھا کہ صبح دفتر جاتے ہوئے یا رات کو گھر واپس آتے ہوئے جاوید منزل کے سامنے گزرتا تو علی بخش سے پوچھتا کہ اس وقت ڈاکٹر صاحب کے پاس کوئی ہے یا نہیں۔ اگر علی بخش کا جواب نفی میں ہوتا تو میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہو جاتا۔ علیک سلیک کے بعد میں کسی مذہبی، علمی یا ادبی مسئلے سے متعلق کوئی سوال کرتا وہ فی الفور جواب دینا شروع کر دیتے۔ ان کی وسعت معلومات کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات مجھے یہ محسوس ہوتا جیسے انہیں پہلے سے میرے سوال کا علم تھا، اور وہ اس کا جواب دینے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ وہ جب گفتگو کرتے تھے تو میرے سامنے علوم و فنون کے بے شمار رازوں سے پردے اٹھنے لگتے۔ بعض لوگ حضرت علامہ سے بحث بھی کرتے تھے، لیکن میں اس روش کو نامناسب سمجھتا تھا۔ میری رائے یہ تھی کہ مختلف مسائل پر ہمیں علامہ کے نقطہ نظر سے واقفیت حاصل کرنی چاہیے، اپنی رائے یا نقطہ نظر پیش کر کے ان کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت علامہ سے ملاقات کرنے کے لیے کسی خاص اہتمام کی ضرورت نہ تھی۔ پہلے سے وقت مقرر کرنا پڑتا تھا نہ ملاقاتیوں کے لیے وقت کی کوئی حد مقرر تھی۔ جب بھی جس کا جی چاہتا، ملنے کے لیے چلا آتا۔ اور جب تک وہ چاہتا حضرت علامہ کی صحبت سے مستفید ہوتا رہتا۔ ان کے ہاں ہر طبقے اورحیثیت کے لوگ آتے تھے۔ وزیروں، بڑے سرکاری عہدیداروں، امیروں، رئیسوں اور جاگیر داروں کے دوش بدوش معمولی سماجی حیثیت کے لوگ بھی کثرت سے آتے تھے۔ اہل علم، صحافی، ادیب، و شاعراور مصور بھی حاضری دیتے تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو اور سکھ بھی آتے تھے۔ میں نے بار ہا دیکھا کہ شہر اور بیرون شہر کے ان پڑھ اور سیدھے سادے لوگ آ جاتے اور گھنٹوں آپ کی خدمت میں بیٹھے رہتے۔ آپ ان کی باتیں نہایت توجہ اور ہمدردی سے سنتے، اور ان کی ہر بات کا جواب بڑی محبت سے دیتے۔ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ جہاں ان کے ہاں بڑے لوگوں کے گرم جوشانہ استقبال کا کوئی اہتمام نہ تھا، وہیں غریبوں اور عام آدمیوں کے لیے آپ تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی۔ آپ ہر شخص سے اس کا تعلق خواہ کسی مذہب یا طبقے سے ہو۔ نہایت محبت اور اخلاص سے ملتے تھے۔ ان کی طبیعت میں بے حد سادگی تھی، اور سادگی کا عالم یہ تھا کہ صرف بنیان پہنے اور تہمد باندھے بیٹھے ہیں اور بڑے سے بڑے آدمی ان سے ملنے کے لیے چلے آ رہے ہیں۔ کسی کے لیے کوئی خاص اہتمام کرنا یا اپنے کسی معمول کو ترک کرنا، ان کی عادت میں داخل نہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی ان میں خود داری بھی بے انتہا تھی۔ وہ وزیروں یا بڑے سرکاری عہدیداروں سے اسی طرح ملتے تھے جس طرح وہ عام لوگوں سے ملا کرتے تھے۔ ہاں مجاہدین اسلام میں سے اگر کسی بڑی شخصیت سے ملاقات ہوتی تو وہ سراپا انکسار بن جاتے تھے غازی حسین رؤف سے ان کی ملاقاتوں کے مناظر مجھے خوب اچھی طرح یاد ہیں حضرت علامہ، غازی صاحب سے نہایت عزت اور احترام سے پیش آتے تھے۔ ایک مرتبہ میں حضرت علامہ کی خدمت میں موجود تھا کہ ملک فیروز خاں نون جو اس وقت پنجاب کے وزیر تھے، ملنے کے لئے آئے۔ حضرت علامہ نے انہیں دیکھا اور اپنی جگہ سے جنبش کیے بغیر صرف اتنا کہا:’’ آئیے ملک صاحب‘‘ اور پھر پہلے سے موجود حاضرین سے جو گفتگو کر رہے تھے اسے جاری رکھا۔ ملک صاحب دروازے کے پاس رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئے۔ ان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ آگے بڑھ کر حضرت علامہ سے ہاتھ ملاتے۔ ملک صاحب خاصی دیر تک اپنی جگہ پر بڑے ادب سے بیٹھے رہے، اور پھر حضرت علامہ کی خیریت معلوم کرنے کے بعد رخصت ہو گئے۔ حضرت علامہ نے ان کے رخصت ہونے پر بھی کسی تپاک کا اظہار نہ کیا۔ وزیروں امیروں کے ساتھ ان کا یہی معمول تھا۔ اگر کبھی کسی پر مہربان ہوتے تو علی بخش سے کہتے :’’ جاؤ، صاحب کو باہر تک چھوڑ آؤ۔‘‘ اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ خود کسی کو اپنے مکان کے دروازے تک چھوڑ گئے ہوں۔ حضرت علامہ عام طور پر پنجابی میں گفتگو کرتے تھے اس لیے کہ جو لوگ ان سے ملنے کے لیے آتے تھے وہ زیادہ تر پنجابی ہوتے تھے۔ ہاں جب ایسے لوگ ملنے کے لیے آتے تھے جن کی مادری زبان پنجابی نہیں ہوتی تھی تو ان سے وہ اردو یا انگریزی میں گفتگو کرتے۔ کبھی کبھار وہ پنجابی گفتگو کے دوران اپنے مافی الضمیر کی وضاحت کے لیے انگریزی کا سہارا بھی لیتے تھے۔ لیکن عام طور پر وہ اپنے ہموطنوں سے انگریزی میں بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ زبان کے سلسلے میں حضرت علامہ کا یہ خیال تھا کہ پنجابی اور اردو کے ہوتے ہوئے آپس میں کسی اور زبان میں گفتگو کرنا مناسب نہیں ہے۔ اگر کوئی ہم وطن مسلسل انگریزی میں گفتگو کرتا تو وہ اسے ناپسند کرتے تھے۔ ایک مرتبہ دو کشمیری نوجوان حضرت علامہ سے ملنے کے لئے آئے۔ وہ دونوں انگریزی میں گفتگو کرنے لگے۔ کچھ دیر تو علامہ نے انہیں برداشت کیا اور پھر اردو میں بات کرنے کے لئے کہا انہوں نے جواب دیا: ہم اردو نہیں جانتے۔ اس پر حضرت علامہ نے پوچھا:’’ کیا آپ کو کشمیری زبان آتی ہے؟‘‘ اس کا جواب بھی ان دونوں نے نفی میں دیا۔ اس پر حضرت علامہ کو سخت غصہ آیا، اور انہوں نے علی بخش سے کہا:’’ ان دونوں کو باہر چھوڑ آؤ۔‘‘ علامہ کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ کوئی شخص اپنی زبان سے ناواقفیت کا اظہار کرے۔ اوپر میں نے علامہ اقبال کے ہاں ہر طبقے کے لوگوں کی آمد و رفت کا ذکر کیا ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو ایک خاص مقصد کے تحت آتے تھے، ان کا کام یہ تھا کہ یہاں کی ’’ خبریں‘‘ دوسروں تک پہنچائیں۔ وہ بات بات پر بڑی نیاز مندی کا اظہار کرتے تھے حضرت علامہ خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ اس نیاز مندی کے پس پردہ کیا مقصد پنہاں ہے۔ وہ ان ’’ مخبروں‘‘ پر کبھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے کہ انہیں معلوم ہے کہ وہ کس کے فرستادہ ہیں اور کیوں آئے ہیں، وہ انہیں کبھی اپنے ہاں آنے سے منع نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ ’’ مخبروں‘‘ کے روزگار کا معاملہ تھا اور حضرت علامہ کسی کو بیروزگاری کا شکار ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ایسے اخبار نویس بھی آتے تھے جو علامہ کے پاس بیٹھ کر عقیدت کا اظہار کرتے تھے، اور بعد میں فرضی ناموں سے ان کے خلاف اخباروں میں زہر اگلتے تھے۔ اس قسم کے دو صحافیوں کو علامہ اقبال نے ’’ مخلص منافق‘‘ کا معنی خیز نام دے رکھا تھا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ اس قسم کے لوگ علامہ کی وفات کے بعد ان کے ثنا خواں بن گئے۔ کئی ایک نے ایسے مضامین اور کتابیں لکھ ڈالیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے گویا انہوں نے علامہ ہی کی گود میں پرورش پائی تھی۔ ایسے ہی ایک صاحب کا واقعہ ہے کہ ان سے ایک دن اس زمانے کی سیاست کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی۔ میں نے ان سے ایک بات کہی، جس پر انہوں نے پوچھا کہ یہ بات میں نے کسی سے سنی ہے۔ میں نے حضرت علامہ کا نام لیا۔ اس پر وہ ’’ مداح اقبال‘‘ فرمانے لگے۔’’ لیجئے! اقبال بھی کوئی آدمی ہے۔‘‘ علامہ کی خدمت میں حاضر ہونے والوں میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جو اپنی ذاتی اغراض کے لئے آتے تھے۔ ملازمت کے لئے سفارش نامہ حاصل کرنے کے لیے یا کسی اور قسم کے کام کے لیے۔ حضرت علامہ ایسے کاموں کے لیے عموماً انکار نہیں کرتے تھے خصوصاً مستحق لوگوں کی سفارش وہ ضرور کرتے تھے لیکن غیر مستحق لوگوں کو انکار کر دیتے تھے۔ بعض لوگ ایسے بھی آتے تھے جن کا مقصد محض وقت گزاری ہوتا تھا، اور وہ فضول باتوں سے حضرت علامہ کا وقت ضائع کرتے تھے۔ حضرت علامہ کو خدا نے صبر و تحمل کی صفات سے نوازا تھا، لہٰذا وہ اس قسم کے لوگوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے اور جہاں تک ممکن ہوتا اپنے دلی انقباض کو ظاہر نہ ہونے دیتے۔ اس لیے کہ وہ کسی کی دل آزادی کرنا نہیں چاہتے تھے۔ بزم اقبال کی سب سے بڑی خصوصیت اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر خیر تھا۔ کوئی مسئلہ ہو، کوئی بات ہو، حضرت علامہ اسے اسلام کے نقطہ نظر سے دیکھتے۔ ان کا اسلام کا مطالعہ بے حد وسیع تھا۔ اور وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ہر معاملے میں اسلامی نقطہ نظر کی توضیح کرتے تھے۔ ہاں نازک فقہی مسائل کے بارے میں وہ رائے زنی نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ علمائے دین کی رائے کو ترجیح دیتے تھے، اور اس قسم کے معاملات میں علمائے کرام سے مشورہ بھی کرتے تھے۔ بار ہا ایسا ہوا کہ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ فلاں مسئلہ مولوی احمد علی صاحب سے دریافت کیجئے یا فلاں ففہی نکتے کے بارے میں مولانا غلام مرشد صاحب کی رائے معلوم کیجئے۔ اس نوعیت کا ایک واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے چودھری محمد حسین مرحوم کوئی بہت بڑے زمیندار نہیں تھے، تاہم ان کے پاس اچھی خاصی موروثی زمین تھی۔ عام زمینداروں کی طرح وہ بھی اسلام کے ’’قانون وراثت پر عمل کرنے کے حق میں نہیں تھے، ان کا خیال تھا کہ اسلامی قانون صرف منقولہ جائیداد پر نافذ ہو سکتا ہے، غیر منقولہ پر نہیں‘‘ چودھری صاحب پڑھے لکھے اور ذہین آدمی تھے۔ اس لیے وہ اپنے موقف کی تائید میں دلیلیں بھی پیش کرتے تھے۔ اس مسئلے پر وہ حضرت علامہ سے بھی گفتگو کرتے رہتے تھے جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ حضرت علامہ سے اپنے موقف کی تائید کرانا چاہتے تھے۔ اس مسئلے پر وہ حضرت علامہ سے بھی گفتگو کرتے رہتے جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ حضرت علامہ سے اپنے موقف کی تائید کرانا چاہتے تھے۔ حضرت علامہ نے مجھ سے فرمایا کہ میں یہ مسئلہ مولانا احمد علی صاحبؒ کے سامنے پیش کر کے ان کی رائے دریافت کروں۔ میں نے ارشاد کی تعمیل کی مولانا احمد علی صاحبؒ کے جواب سے حضرت علامہ مطمئن ہو گئے اور چودھری صاحب کو بھی آئندہ کے لئے خاموش ہو جانا پڑا۔ حضرت علامہ کو قرآن شریف کے مطالب پر حیرت ناک حد تک عبور تھا، اور ہر صحیح العقیدہ مسلمان کی طرح ان کا خیال تھا کہ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جسے حل کرنے میں کلام اللہ ہماری رہنمائی نہ کرتا ہو۔ انسانی تہذیب پر قرآنی تعلیمات کے گہرے اثرات کا ذکر وہ اکثر کرتے تھے، اور انسانیت کے تمام دکھوں کا علاج انہیں کتاب اللہ کی تعلیمات پر عمل کرنے ہی میں نظر آتا تھا۔ قرآن مجید کے ترجمے کو وہ نہایت ذمہ داری کا کام سمجھتے تھے، وہ فرماتے تھے کہ ہر شخص اس بار گراں کو اٹھانے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ ایک مرتبہ اس موضوع پر گفتگو کے دوران آپ نے فرمایا:’’ آج میرے پاس ایک شیعہ دوست بیٹھے تھے۔ انہوں نے دوران گفتگو اچانک مجھ سے یہ سوال کیا: ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کے نزدیک تاریخ کا سب سے بڑا مظلوم کون ہے؟ وہ متوقع تھے کہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا نام نامی لوں گا۔ لیکن ان کی توقع کے خلاف میں نے جواب دیا: ’’قرآن‘‘ وہ متعجب ہو کر پوچھنے لگے: کیوں؟ میں نے کہا اس لیے کہ آج کل قرآن کا ترجمہ وہ لوگ کرتے ہیں جو عربی نہیں جانتے۔‘‘ حضرت علامہ کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے بے حد عقیدت تھی۔ آنحضرت ؐ کا ذکر مبارک چھڑتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو اامڈ آتے اور پھر دیر تک وہ آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتے رہتے، مگر کامیاب نہ ہوتے، اور پھر ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلتا۔ میں نے یہ منظر بار ہا دیکھا ہے بعض اوقات ان کی حالت کا گہرا مطالعہ کرنے کے لیے میں نے ارادۃً آنحضرت ؐ کا ذکر خیر چھیڑا اور ان کی وہی کیفیت ہوئی۔‘‘ (۳) ۱۹۲۸ء میں میں نے ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر عبدالقوی لقمان اور بعض دوسرے دوستوں کے ساتھ مل کر ’’ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوںمیں اسلامی تمدن اور تاریخ سے دلچسپی پیدا کی جائے۔ اس ادارے کی سرگرمیوں سے حضرت علامہ بھی دلچسپی لیتے رہتے تھے اور اس کے بعض کاموں میں انہوں نے عملی تعاون بھی کیا جن کا ذکر آئندہ آئے گا۔ ۱۹۲۸ء ہی میں انڈین اورینٹل کانفرنس کا پانچواں سالانہ جلسہ لاہور میں منعقد ہوا۔ ۲۰ نومبر کو اس کے شعبہ عربی و فارسی کا اجلاس ہوا جس کی صدارت علامہ اقبال نے فرمائی۔ میں نے اس اجلاس میں ایک مقالہ پڑھا جس کا عنوان The Scientific Spirit in the Quran 5؎ تھا۔ جس وقت میں یہ مقالہ پڑھنے کے لیے اسٹیج پر پہنچا تو میرا سارا جسم کانپ رہا تھا۔اس لیے کہ اس مجمع اہل علم و نظر میں سب سے کم عمر اور کم علم شخص میں ہی تھا۔ اہل علم کے اتنے بڑے مجمع کے سامنے لب کشائی کرنے کا میرا یہ پہلا موقع تھا۔ اور پھر مسند صدارت پر جو ہستی جلوہ افروز تھی، اس کے سامنے مذکورہ موضوع پر کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف تھا۔ مقالہ شروع کرنے سے پہلے حضرت علامہ نے آہستہ سے مجھ سے کہا’’ ذرا اختصار سے کام لیجئے گا۔‘‘ یہ سن کر میں اور بد حواس ہو گیا۔ بہرحال مقالہ پڑھنا شروع کیا تو تھوڑی دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ حاضرین اس عاجز کی باتوں کو توجہ اور غور سے سن رہے ہیں۔ حضرت علامہ بھی شروع سے آخر تک متوجہ رہے۔ مقالہ ختم ہوا تو اس وقت بھی میرا سارا جسم کانپ رہا تھا۔ بہرحال میں دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اسٹیج سے اتر کر اپنی جگہ پر آ بیٹھا۔ میرے بیٹھتے ہی ایک صاحب پچھلی نشستوں سے اٹھ کر میرے پاس آئے، اور انہوں نے نہایت آہستہ سے میرے کان میں فرمایا:’’ I Congratulae you‘‘ میں ان صاحب سے واقف نہیں تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے سربراہ ڈاکٹر زبیر صدیقی تھے۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ میرے مقالے کو عام طور پر پسند کیا گیا۔ حضرت علامہ نے بھی جلسے کے اختتام پر میری حوصلہ افزائی کے لیے کچھ تعریفی کلمات کہے۔ اس زمانے میں پنجاب یونیورسٹی کے بعض اساتذہ سے میرے تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ ان میں ڈاکٹر مولوی محمد شفیع، پروفیسر محمد اقبال، حافظ محمود شیرانی اور پروفیسر سید طلحہٰ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ سب بزرگ میرے حال پر بہت توجہ فرماتے تھے اور علمی مشاغل کے سلسلے میں میری حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے۔ یہ حضرات، علامہ اقبال سے بہت قریب تھے، علامہ نے ان کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ علوم اسلامیہ کی ترویج و تحقیق کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جائے۔ انڈین اورینٹل کانفرنس منعقدہ ۱۹۲۸ء کو دیکھ کر حضرت علامہ کے ذہن میں یہ خیال آیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اسی پیمانے پر اور اسی انداز سے علوم اسلامیہ کو علمی تحقیق کا موضوع بنایا جائے۔ پروفیسر محمد اقبال اور ان کے ساتھیوں نے علامہ اقبال کی رہنمائی میں خاصی تگ و دو کے بعد ۱۹۳۱ء میں ادارۂ معارف اسلامیہ قائم کر دیا۔ اس سلسلے میں میں نے بھی مذکورہ بزرگوں کے ساتھ بساط بھر کوشش کی ادارے کی مجلس عاملہ کے صدر سر شیخ عبدالقادر اور معتمد و خازن پروفیسر محمد اقبال تھے۔ اراکین مجلس عاملہ میں ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین، پروفیسر مولوی محمد شفیع، حافظ محمود شیرانی، ملک عبدالقیوم اور راقم الحروف شامل تھے۔ اس ادارے سے علامہ اقبال کا گو کوئی تنظیمی تعلق نہیں تھا لیکن اس کے روح و رواں وہی تھے اور تمام کام انہیں کے مشوروں سے طے پاتے تھے سر شیخ عبدالقادر کی تجویز پر مجھے ادارے کا جائنٹ سیکرٹری بھی مقرر کیا گیا ادارے کے کاموں کے سلسلے میں مجھے حضرت علامہ سے اکثر ملنا پڑتا تھا اس لیے ان کے ہاں میرا آنا بہت بڑھ گیا۔ حضرت علامہ کو اس ادارے سے بڑی امیدیں تھیں او ران کی خواہش تھی کہ یہ عالم اسلام کا ایک معیاری تحقیقی ادارہ بن جائے اس کے لیے انہوں نے اپنے ذاتی اثر و رسوخ سے حیدر آباد دکن کی حکومت سے سالانہ مالی امداد بھی منظور کرائی تھی۔ میں ادارے کے کاموں کے سلسلے میں جب بھی حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو وہ نہایت توجہ سے میری بات سنتے اور مناسب ہدایات دیتے۔ (۴) ۱۹۳۲ء میں میں نے اور میرے دوستوں نے یوم اقبال منانے کا فیصلہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ ایک طرف تو علامہ اقبال کی ادبی و قومی خدمات کا اعتراف کیا جائے، اور دوسری طرف قوم کو یہ احساس دلایا جائے کہ علامہ اقبال سے جو خدا کے فضل سے ہمارے درمیان موجود ہیں زیادہ سے زیادہ فائدہ اسی طرح اٹھایا جا سکتا ہے کہ ان کی تعلیمات کو عام کیا جائے، اور اس مقصد سے وابستگی پیدا کی جائے جسے موصوف عزیز رکھتے ہیں۔ گویا یہ تقریب اجتماعی سطح پر اقبال فہمی اور اقبال شناسی کی پہلی کوشش تھی۔ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام یوم اقبال کی تقریب ۶ ستمبر ۱۹۳۲ء کو منعقد ہوئی۔ اس سلسلے میں میں نے حضرت علامہ سے ملاقات کی، اگرچہ وہ اپنی درویش طبعی کی وجہ سے اس قسم کی تقریبات کے قائل نہیں تھے، لیکن تقریب کے اصل مقصد سے آگاہ ہونے کے بعد انہوں نے اس میں شرکت کی ہامی بھر لی۔ اس موقع پر مذکورہ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے یونیورسٹی ہال میں ایک جلسہ عام منعقد کیا گیا۔ جلسے کی دو نشستیں ہوئیں اور ان میں اقبال کے فکر و فن پر مقالے پڑھے گئے شام کو لاہور کے مشہور لورینگ ہوٹل میں استقبالیہ دیا گیا۔ یہ اجتماع بہت با رونق اور کامیاب رہا۔ اس میں لاہور کے تمام قابل ذکر اہل علم اور معززین نے شرکت کی۔ اس اجتماع میں علامہ اقبال کی خود داری کا ایک بے نظیر مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ لورینگ کا ہال مہمانوں سے بھر چکا تھا، لیکن ابھی کچھ لوگوں کا انتظار تھا، اس لیے میں ہال کے دروازے پر ان کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ اچانک جسٹس آغا حیدر تشریف لائے وہ اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے جج تھے اور علامہ اقبال ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے تھے آغا صاحب نے آتے ہی مجھ سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کہاں بیٹھے ہیں۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اس میز کی طرف اشارہ کیا جہاں حضرت علامہ ہال کے ایک کونے میں بیٹھے تھے۔ آغا صاحب کے ہال میں داخل ہوتے ہی سب لوگ اٹھ کر کھڑے ہو گئے، اس لیے کہ مجمع میں وکیلوں اور بیرسٹروں کی خاصی تعداد تھی لیکن آغا صاحب نے کسی کی طرف نہ دیکھا اور پورا ہال قطع کرتے ہوئے اس میز تک پہنچ گئے جہاں علامہ اقبال تشریف رکھتے تھے۔ جاتے ہی انہوں نے با آواز بلند کہا:’’ ڈاکٹر صاحب! السلام علیکم‘‘ میز کے گرد بیٹھے ہوئے سب لوگ یکلخت اٹھ کھڑے ہوئے، لیکن علامہ اقبال اپنی جگہ پر بیٹھے رہے ۔انہوں نے سر اٹھا کر آغا صاحب کی طرف دیکھا اور انتہائی شان سے استغنا سے فرمایا:’’ آئیے آغا صاحب‘‘ آغا صاحب مودبانہ بیٹھ گئے، انہیں حضرت علامہ سے ہاتھ ملانے کی بھی ہمت نہ ہوئی۔ بعض لوگوں نے انٹر کالجیٹ مسلم برادر ہڈ کی طرف سے ۹ جنوری ۱۹۳۸ ء کو منائے جانے والے یوم اقبال کو پہلا یوم اقبال کہا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ڈاکٹر تاثیر مرحوم جو میرے بہت ہی مخلص دوست تھے اور اپنے علمی و ادبی مشاغل میں جن کی رفاقت مجھے ہمیشہ میسر رہتی تھی انہوں نے بھی قیام پاکستان کے بعد اخبار ’’ سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ میں ایک مضمون بعنوان ’’ پہلا یوم اقبال‘‘ لکھا، جس میں ۱۹۳۸ء والے یوم اقبال کو پہلا یوم اقبال بتایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ۱۹۳۲ء میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے یوم اقبال منایا تھا اس کو خود ڈاکٹر تاثیر کا عملی تعاون حاصل تھا۔ انہوں نے اجلاس عام میں ایک مقالہ پڑھا تھا۔ میں نے اس سلسلے میں مولانا عبدالمجید سالک کے فرزند ارجمند ڈاکٹر عبدالسلام خورشیدسلمہ کو توجہ دلائی تو انہوں نے روزنامہ ’’ کوہستان‘‘ لاہور بابت۲۱ اپریل ۱۹۶۲ء میں ایک مقالہ بعنوان ’’ پہلا یوم اقبال‘‘ شائع کرایا۔ اس میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے یوم اقبال کی پوری کارروائی درج کی گئی تھی جو انہوں نے روزنامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور کے ۷ ستمبر ۱۹۳۲ء کے شمارے سے اخذ کی تھی۔ فروری ۱۹۳۳ء میں علامہ اقبال تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کرنے کے بعد واپس آئے تو ایک مرتبہ پھر ہم دوستوں نے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے انہیں ایک استقبالیہ دیا۔ اس مرتبہ یکم مارچ ۱۹۳۳ء کو ٹاؤن ہال لاہور کے باہر گول باغ میں اجتماع ہوا جس میں معززین لاہور کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے مولانا عبدالمجید سالک مرحوم نے استقبالیہ تقریر کی جس میں ان کی حالیہ خدمات پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔ یہ درخواست بھی کی گئی کہ وہ اپنے سفر کے تجربات و مشاہدات کی تفصیل سے حاضرین کو مستفید فرمائیں حضرت علامہ نے اس موقع پر ایک مختصر سی تقریر کی اور وقت کی کمی کی وجہ سے طویل تقریر نہ کرنے کی معذرت کی کیونکہ انہیں کسی اور اہم تقریب میں جانا تھا تاہم انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کسی اور صحبت میں اپنے سفر کے حالات سنائیں گے۔ اس تقریب کی روداد ۴ مارچ ۱۹۳۳ء کے روزنامہ ’’انقلاب‘‘ میں شائع ہوئی تھی جسے حال ہی میں ’’ گفتار اقبال‘‘ مرتبہ محمد رفیق افضل میں شائع کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی تقریر میں ’’ ایک اہم تقریب‘‘ میں جانے کا ذکر کرتے ہوئے تقریب کی نوعیت کے بارے میں تو کچھ نہ بتایا لیکن یہ کہہ کر حاضرین کا اشتیاق بڑھا دیا کہ ’’ اس وقت ہمیں ایک نہایت اہم مسئلے پر غور کرنے کے لئے جانا ہے جس کی اہمیت آپ حضرات پر کل تک واضح ہو جائے گی۔‘‘ دوسرے روز معلوم ہوا کہ لالہ کشن لال کے صاحبزادے کنہیا لال گابا مسلمان ہو گئے جن لوگوں کی موجودگی میں انہوں نے اسلام قبول کیا ان میں علامہ اقبال بھی شامل تھے۔ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے استقبالیے سے اٹھ کر وہ وہیں گئے تھے۔ (۵) ۱۹۳۲ء میں ڈاکٹر انصاری مرحوم کی دعوت پر جنگ بلقان کے ہیرو اور مشہور ترکی رہنما رؤف بے6؎ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں توسیعی خطبات دینے کے لئے فرانس سے ہندوستان تشریف لائے۔ انہوں نے چھ خطبات ارشاد فرمائے جن میں سے دو کی صدارت علامہ اقبال نے کی۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ غازی حسین رؤف بے ہندوستان آ رہے ہیں تو میں نے سوچا کیوں نہ انہیں لاہور آنے کی بھی دعوت دی جائے۔ اپنے احباب سے مشورے کے بعد میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اپنے خیال کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور میری گزارش پر غازی صاحب موصوف کے نام ایک خط لکھ کر انہیں لاہور آنے کی دعوت دی۔ جب چند روز تک غازی صاحب کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو میں ۲۷ فروری ۱۹۳۳ء کو حضرت علامہ کی خدمت میں ایک عریضہ بھیجا جس میں دریافت کیا گیا تھا کہ غازی صاحب کا جواب آ گیا ہے کہ نہیں۔ میرے عریضے کے نیچے جو سادہ جگہ رہ گئی تھی اسی پر حضرت علامہ نے ذیل کا جواب تحریر فرما دیا: جناب خواجہ صاحب۔ ابھی تک جواب نہیں (آیا) مگر امید ہے کہ آج شام تک آ جائے گا اور اگر انہوں نے تار کی جگہ خط لکھا تو کل صبح جواب ملے گا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر انصاری کا تار ابھی آیا ہے کہ دہلی آ کر رؤف پاشا کے لیکچر کی صدارت کر دیں۔ ۴، ۶، ۸ مارچ کو ہوں گے۔ میں ایک لیکچر کی صدارت کے لئے جاؤں گا مگر واپس آنے کی جاب آنے کے بعد تاریخ مقرر کر سکوں گا۔ آپ آج شام کو پھر دریافت کر لیں تو شاید کوئی مستقبل جواب دے سکوں۔ محمد اقبال یہ خط ’’ انوار اقبال‘‘ مرتبہ بشیر احمد ڈار میں شامل ہے۔ اس سے پہلے اس کا عکس رسالہ ’’ ماہ نو‘‘ کراچی بابت اپریل ۱۹۵۵ء میں شائع ہوا تھا۔ اصل خط مجھ سے ممتاز حسن مرحوم نے لے لیا تھا، اور یہ ان کے ذخیرہ نوادر میں موجود ہے۔ علامہ کے مکتوب گرامی میں لیکچروں کی جو تاریخیں ہیں وہ بعد میں تبدیل کر دی گئی تھیں۔ حضرت علامہ نے ۱۸، ۲۰ مارچ کے لیکچروں کی صدارت کی تھی۔ اسی دوران میں میں نے ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم سے خط و کتابت کی، اور غازی حسین بے رؤف کو اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے لاہور آنے کی دعوت بھیجی۔ آخر کار یہ طے پایا کہ وہ جامعہ ملیہ کے توسیعی خطبات سے فارغ ہونے کے بعد لاہور تشریف لائیں گے۔ چنانچہ غازی صاحب لاہور تشریف لائے اور انہوں نے مذکورہ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام پنجاب یونیورسٹی ہال میں ایک جلسہ عام میں تقریر کی اس جلسے کی صدارت علامہ اقبال نے فرمائی۔ جلسے کے بعد علامہ اقبال نے مجھ سے فرمایا کہ کسی اچھے ہوٹل میں غازی صاحب کو استقبالیہ بھی دیا جانا چاہیے جو ہر اعتبار سے ان کے شایان شان ہو۔ میںنے انسٹی ٹیوٹ ہی کی طرف سے لاہور کے مشہور ہوٹل اسٹفل (Stiffle) میں استقبالیے کا انتظام کیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۳۳ء کو یہ یادگار تقریب منعقد ہوئی جس میں لاہور کے ممتاز شہریوں نے شرکت کی۔ علامہ اقبال کے علاوہ جو لوگ اس میں شریک ہوئے ان میں نواب سر محمد شاہنواز خاں آف ممدوث، سر فیروز خاں نون، سر شیخ عبدالقادر، جسٹس آغا حیدر، علامہ عبداللہ یوسف علی، میاں امیر الدین، خلیفہ شجاع الدین، ڈاکٹر برکت علی قریشی اور خواجہ فیروز الدین شامل تھے۔ اس استقبالیے کا دعوت نامہ جو میں نے بہ حیثیت سیکرٹری اسلامک ری سرچ انسٹی ٹیوٹ جاری کیا تھا۔ اس پر مذکورہ حضرات کے اسمائے گرامی بطور میزبان درج تھے۔ یہ دعوت نامہ میرے دوست محمد شریف پنی صاحب کے پاس محفوظ ہے جس کا فوٹو اسٹیٹ انہوں نے حال ہی میں مجھے بھیجا ہے۔ غازی حسین رؤف بے کی لاہور میں آمد، قیام اور واپسی پر خاصی رقم صرف ہوئی۔ جلسہ عام اور استقبالیے کے اخراجات بھی کچھ کم نہ تھے اسلامک ری سرچ انسٹی ٹیوٹ کے وسائل ایسے نہ تھے کہ ان تمام اخراجات کا بار اٹھایا جاتا۔ رقم کی فراہمی کے لیے حضرت علامہ نے میری بہت مدد کی۔ نہ صرف یہ کہ لاہور کے بعض رؤسا سے رقم دلوائی بلکہ اپنی جیب خاص سے بھی گراں قدر عطیہ دیا۔ (۶) ۱۹۳۴ء میں علامہ اقبال نے زمین کا وہ ٹکڑا خریدا جس پر جاوید منزل تعمیر ہوئی۔ اس زمین کی خریداری کے سلسلے میں علامہ اقبال کو جس تلخ تجربے سے دو چار ہونا پڑا وہ نہایت ہی افسوسناک ہے اگرچہ اس واقعے کا تعلق میری ذات سے نہیں ہے، اور میں صرف انہیں واقعات کو قلم بند کر دہا ہوں جن سے کسی نہ کسی طرح میرا تعلق رہا ہے۔ تاہم ایک عینی شاہد کی حیثیت سے اس واقعے کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ جہاں مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت علامہ اقبال سے دلی عقیدت رکھتی تھی وہیں بعض لوگ ایسے بھی تھے جو ان کے در پے آزار تھے۔ جس زمانے میں علامہ اقبال نے اپنا ذاتی مکان بنانے کا ارادہ کیا۔ ان کے دوستوں نے انہیں بتایا کہ میو روڈ پر زمین کا ایک سرکاری ٹکڑا محل وقوع کے اعتبار سے بہت موزوں ہے اور حکومت اسے نیلام کے ذریعے فروخت کرنا چاہتی ہے۔ نیلام کے روز علامہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ موقع پر تشریف لائے۔ سرکاری افسروں نے زمین کی قیمت کا اندازہ پندرہ ہزار روپے لگایاتھا، اور عام خیال یہ تھا کہ علامہ اقبال کے مقابلے پر کوئی دوسرا شخص بولی نہیں دے گا، اور پندرہ ہزار روپے میں یہ زمین انہیں مل جائے گی۔ جب نیلام شروع ہوا تو لاہور کے ایک مسلمان رئیس علامہ کے مقابلے پر آ کر بولی دینے لگے علامہ جس رقم کی بولی دیتے وہ رئیس اس پر اضافہ کر دیتے حضرت علامہ کو اس پر غصہ آ گیا اور انہوں نے پچیس ہزار روپے کی بولی دی۔ یہاں رئیس مذکور خاموش ہو گئے اس طرح ایک مسلمان کی وجہ سے علامہ کو دس ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ ۱۹۳۴ء ہی میں انجمن خدام الدین لاہور نے پندرہ روزہ انگریزی اخبار ’’ اسلام‘‘ جاری کیا جس کا پہلا شمارہ ۷ جون کو شائع ہوا انجمن کے بانی حضرت مولانا احمد علیؒ کے ارشاد پر اس کی ادارتی ذمہ داریاں نے سنبھالیں۔ 7؎ اس اخبار سے حضرت علامہ بے حد دلچسپی لیتے تھے۔ وہ اسے باقاعدگی سے پڑھتے تھے اور اپنے مشوروں سے نوازتے تھے۔ میں جو اداریے اور شذرات لکھتا تھا، اکثر چھپنے سے پہلے حضرت علامہ کو سنا دیتا تھا وہ جو ترمیم و اصلاح تجویز فرماتے میں اس کے مطابق اپنی تحریروں میں تبدیلی کر دیتا تھا۔ بارہا ایسا ہوا کہ انہوں نے اداریے کے لیے موضوع کا تعین فرمایا اور میں نے ان کے ارشا دکی تعمیل کی۔ اس سلسلے میں ایک عجیب صورت حال کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ چودھری محمد حسین حکومت پنجاب کے پریس ایڈوائزر تھے وہ علامہ اقبال کے مستقل حاضر باشوں اور قریبی احباب میں سے تھے میں جب کبھی اخبار ’’ اسلام‘‘ کے سلسلے میں مشورہ رکنے کے لئے جاتا تو چودھری صاحب عموماً موجود ہوتے تھے وہ گفتگو میں حصہ لیتے نہ کوئی مشورہ دیتے تھے لیکن جو باتیں ہوتی تھیں انہیں بہت غور سے سنتے تھے ان کی موجودگی میں بار ہا حضرت علامہ نے کسی خاص مسئلے پر اداریہ لکھنے کی ہدایت فرمائی۔ کبھی کبھی وہ حکومت کی کسی پالیسی کے خلاف لکھنے کے لیے بھی فرماتے تھے۔ چودھری صاحب اس وقت تو کچھ نہ کہتے لیکن جب اداریہ شائع ہو جاتا تو حکومت کی طرف سے خط آ جاتا کہ ایڈیٹر ’’ اسلام‘‘ پریس ایڈوائزر سے ملے۔ چودھری صاحب کے علم میں تھا کہ میں سرکاری ملازم ہوں اور اخبار پر بہ حیثیت ایڈیٹر ایک دوسرے شخص کا نام طبع ہوتا ہے۔ اس کے باوجود میں ہی ان سے ان کے دفتر میں جا کر ملتا۔ چودھری صاحب فرماتے ’’ دیکھئے آپ نے اپنے اخبار میں فلاں بات حکومت کے خلاف لکھی ہے آئندہ ایسا نہ ہو‘‘ جواب میں ’’ بہت اچھا‘‘ کہہ کر چلا آتا چودھری صاحب یہ ظاہر کرتے تھے کہ جب وہ علامہ اقبال کی صحبت میں ہوتے ہیں تو وہ اپنی سرکاری حیثیت کو بھول جاتے ہیں اور جب پریس ایڈوائزر کی کسی پر بیٹھتے ہیں تو انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ علامہ اقبال کے ہاں انہوں نے کیا دیکھا اور کیا سنا تھا چودھری صاحب گویا اس طرح یہ ثابت کرتے تھے کہ وہ بیک وقت حکومت اور علامہ اقبال دونوں کے وفادار ہیں اور ان متضاد وفاداریوں کو نبھانا خوب جانتے تھے۔ ’’ اسلام‘‘ کے سلسلے میں علامہ اقبال صرف مشوروں ہی سے نہیں نوازتے تھے بلکہ قلمی اور علمی تعاون بھی فرماتے تھے۔ مئی ۱۹۳۵ء میں جب انہوں نے قادیانیوں کے خلاف ایک بیان جاری کیا تو اخبار ’’ اسٹیٹسمین‘‘ دہلی نے ایک اداریے میں اس بیان پر تنقید کی اس پر علامہ اقبال نے اخبار مذکور کے ایڈیٹر کے نام ایک خط لکھا، اور ا سکی نقل مجھے عنایت فرمائی تاکہ میں اسے ’’ اسلام‘‘ میں شائع کر دوں۔ میں نے اس خط کو ’’ اسلام‘‘ کے دوسرے شمارے (بابت ۲۲ جون ۱۹۳۵ئ) میں شائع کیا اور اس پر ایک ادارتی شذرہ بھی لکھا۔ ’’ اسلام‘‘ کے اسی شمارے میں میں نے علامہ اقبال کا ایک اور بیان بھی شائع کیا، جو میرے علم کے مطابق اب تک ان کی تحریروں کے کسی مجموعے میں شامل نہیں ہوا۔ اس بیان کی شان نزول یہ ہے کہ علامہ اقبال کے مئی ۳۵ء کے بیان پر مرزا بشیر الدین محمود نے اپنے ایک خطبے میں تنقید کرتے ہوئے علامہ اقبال سے ایک غلط بات منسوب کی قادیابی اخبار ’’ سن رائز‘‘ میں مرزا محمود کا جو خطبہ شائع ہوا، اس میں علامہ اقبال کے بارے میں یہ کہا گیا تھا: He has a grievnace against the Goverment when he says the British have not been even as wise as were the romans in the day of jears for the romans after all crucified jesus this is nothing but aproving the action of the romans when they capitulated their own authority and made over jeasus to the jew having been influnced by the tantled elamour of the huter. میں نے حضرت علامہ سے اس بیان کے بارے میں خصوصاً Approving the action of Romans کے الفاظ کے بارے میں ان کے تاثرات معلوم کرنا چاہے تو انہوں نے مرزا بشیر الدین محمود کے اس بیان کو ’’ قادیانیوں کی غلط بیانیوں کے فن کا مخصوص نمونہ‘‘ قرار دیتے ہوئے ایک تردیدی بیان مجھے لکھوایا جو میں نے ’’ اسلام‘‘ میں شائع کیا۔ اسی دوران میں علامہ کے مئی ۱۹۳۵ء والے بیان کے جواب میں پنڈت جواہر لال نہرو نے ’’ ماڈرن ریویو‘‘ کلکتہ میں پے در پے تین مضمون لکھے ان مضامین میں بعض غلط فہمیوں کے پھیلنے کا اندیشہ تھا جن کے سد باب کے لئے ضروری ہو گیا کہ حضرت علامہ قادیانیوں کے مسئلے پر تفصیل سے اظہار خیال فرمائیں دسمبر ۱۹۳۵ء کے آخری اور جنوری ۱۹۳۶ء کے ابتدائی چند دنوں میں انہوں نے ایک مفصل مضمون لکھا۔ اس کا مسودہ انہوں نے میرے حوالے کیا کہ میں اسے ٹائپ کرا دوں میں نے مضمون کی اہمیت کے پیش نظر اسے کسی اور سے ٹائپ کرانا مناسب نہ سمجھا اور خود ہی ٹائپ کیا ٹائپ شدہ مسودہ لے کر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے اسی وقت اس کا مطالعہ کرنا شروع کیا اور ساتھ ہی ساتھ ترمیم و اصلاح بھی فرمانے لگے۔ اس کام کے لئے انہوں نے میرا قلم استعمال کیا میں اس زمانے میں سبز رنگ کی روشنائی استعمال کرتا تھا۔ چنانچہ اس مضمون کی ساری کاٹ چھانٹ اسی رنگ میں ہوئی ہے علامہ نے مسودے کے ہر صفحے پر ترمیم و اصلاح کی اور متعدد عبارتیں حاشیے پر اضافہ کیں کہیں کہیں پورا صفحہ قلمزد کر کے نئی عبارت اسی صفحے کی پشت پر تحریر فرمائی جب یہ کام مکمل ہو گیا تو پھر اس کی اشاعت کا سوال پیدا ہوا میں نے تجویز پیش کی کہ اس مضمون کو ’’ اسلام‘‘ میں شائع کیا جائے حضرت علامہ نے میری اس تجویز کو منظور فرمایا اور اس مسودے کے آخر میں یہ الفاظ اضافہ کر دیے: I authorise anjuman khadam ud din to publish the above in the form of a pamphelt for free circulation. اس عبارت کے نیچے انہوں نے دستخط کیے اور ۷ جنوری ۱۹۳۶ء کی تاریخ ثبت کر دی۔ اخبار ’’اسلام ‘‘ کے ۲۲ جنوری ۱۹۳۶ء کے شمارے میں یہ مضمون ’’ اسلام اینڈ احمد ازم‘‘ کے عنوان کے تحت شائع کیا گیا۔ اس کے آخری پروفوں کی تصحیح خود حضرت علامہ نے کی۔ اخبار ’’ اسلام‘‘ ۲۰x ۳۰ /۴ کے سائز پر چھپتا تھا، لیکن جس شمارے میں یہ مضمون چھپا، اس کا سائز ۲۰x۳۰/۱۶ یعنی عام کتابی سائز تھا۔ سر ورق پر اخبار نام جلی طور پر درج تھا۔ اس مضمون کو مطبوعہ صورت میں رکھ کر حضرت علامہ بہت خوش ہوئے۔ لیکن چودھری محمد حسین صاحب نے کہا کہ ٹائیٹل پر اخبار کا نام جلی طور پر درج ہونے کی وجہ سے مضمون کی حیثیت ثانوی ہو گئی ہے۔ علامہ نے اس خیال سے اتفاق کیا، اور مجھے اس کے لیے الگ سر ورق چھپوانا پڑا۔ بعد میں یہ پمفلٹ انجمن خدام الدین کی طرف سے بار ہا شائع ہوا۔ اس مضمون کا مسودہ تاریخی حیثیت رکھتا تھا، اس لیے میں نے اسے اپنے پاس محفوظ کر لیا۔ متعدد احباب اسے دیکھنے کے لیے جاتے رہے۔ آخری مرتبہ مشہور احراری رہنما قاضی احسان احمد شجاع آبادی اسے لے گئے اور دو تین سال اپنے پاس رکھنے کے بعد میری عدم موجودگی میں میرے مکان پر چھوڑ گئے۔ ۱۹۵۰ء کے لگ بھگ اخبار ’’ الفضل‘‘ (ربوہ) میں ایک سلسلہ مضامین شائع ہوا جس میں یہ ثابت کرنے کی سعی لا حاصل کی گئی کہ یہ مضمون علامہ اقبال کا لکھا ہوا نہیں ہے، بلکہ کسی دوسرے نے لکھ کر ان کے نام سے شائع کر دیا تھا۔ میں اس زمانے میں کراچی کے پندرہ روزہ انگریزی اخبار ’’ الاسلام‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ میں نے اس اخبار میں یہ ایک مضمون لکھا جس میں یہ بتایا کہ مضمون کا اصل مسودہ جس پر حضرت علامہ کے قلم سے اصلاحیں اور اضافے ہیں، میرے پاس محفوظ ہے۔ میں نے اپنے مضمون کے ساتھ مذکورہ مسودے کے آخری صفحے کا عکس بھی شائع کر دیا جس پر علامہ اقبال کے دستخط تھے۔ اس مسودے کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر میں نے اسے اقبال اکیڈمی کے حوالے کر دیا اور اب یہ اقبال اکیڈمی کے دیگر نوادر کے ساتھ نیشنل میوزیم کراچی میں محفوظ ہے اور اسے وہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ ۳۶۔ ۱۹۳۵ء میں تحریک شان المسلمین کے قیام کے سلسلے میں مجھے حضرت علامہ کی خدمت میں حاضری کے مواقع ملتے رہے۔ اس تحریک کا ذکر آگے آئے گا۔ اسی زمانے میں مسجد شہید گنج کا قضیہ رونما ہوا۔ اس ضمن میں جو واقعات پیش آئے، وہ عام مسلمانوں کی طرح حضرت علامہ کے لیے ہمی دل قلق کا باعث تھے۔ وہ ان دنوں بہت بے چین رہتے تھے اور ہر وقت اپنے دلی اضطراب کا اظہار فرماتے رہتے تھے۔ اس مسجد کو حاصل کرنے کے لیے جب مسلمانوں کی تمام قانونی چارہ جوئیاں ناکام ہو گئیں اور ہائی کورٹ نے بھی ان کے خلاف فیصلہ دے دیا تو لاہور کے بعض لوگوں نے یہ تجویز پیش کی کہ پریوی کونسل میں اپیل کرنی چاہیے۔ اس تجویز کے حامی افراد نے علامہ اقبال کی تائید حاصل کرنے کے لئے ’’ جاوید منزل‘‘ میں ایک مشاورتی مجلس منعقد کی ۔ پریوی کونسل میں اپیل دائر کرنے کے لیے تقریباً تیس ہزار روپوں کی ضرورت تھی۔ شرکائے مجلس کا خیال تھا کہ یہ رقم عام مسلمانوں سے حاصل کی جائے اور اس مقصد کے لیے سر بر آوردہ مسلمان بازاروں میں گھوم پھر کر دکانداروں سے چندہ جمع کریں۔ علامہ اقبال کو اس تجویز سے اتفاق نہیں تھا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ پریوی کونسل میں اپیل دائر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اپیل نا منظور ہو جائے گی۔ اور ا س طرح غریب مسلمانوں کا روپیہ ضائع ہو جائے گا۔ حاضرین میں سے بعض لوگ مصر ہوئے کہ وہ چندے کے لیے اپیل ضرور کریں گے۔ اس پر حضرت علامہ ناراضگی کے عالم میں مجلس سے اٹھ کر گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ حضرت علامہ کے اٹھ جانے کے بعد بھی اجلاس جاری رہا۔ اور یہ فیصلہ ہوا کہ چندے کے لئے اپیل کی جائے۔ اور اس غرض سے ایک اشتہار شائع کیا جائے جس میں مسلمانوں سے تیس ہزار روپیہ فراہم کرنے کے لئے کہا جائے۔ اگلے روز اخباروں میں ایک خبر شائع ہوئی جس کا مضمون اس قسم کا تھا:علامہ اقبال کے مکان پر منعقدہ جلسے میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسجد شہید گنج کی بازیابی کے لیے پریوی کونسل میں اپیل کی جائے۔ اس کام پر تیس ہزار روپے صرف ہوں گے۔ اس لیے مسلمان دل کھول کر چندہ دیں۔ چند روز کے بعد عید آ رہی تھی۔ اپیل کرنے والے حضرت کو یقین کامل تھا کہ عید کے دن لاہور کی بادشاہی مسجد ہی میں مطلوبہ رقم بآسانی جمع ہو جائے گی۔ مذکورہ خبر کی اشاعت کے دوسرے روز اخبارات میں حضرت علامہ کی طرف سے یہ بیان شائع ہوا کہ پچھلے روز کی خبر میں صحیح واقعات درج نہیں ہوئے۔ حضرت علامہ نے فرمایا:’’ اجلاس میرے مکان پر ضرور ہوا لیکن میں اس تجویز کے خلاف تھا۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو مزید زیر بار کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ جب حاضرین مجلس نے میری رائے سے اختلاف کیا تو میں وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر کے اندر چلا گیا۔ اجلاس میری عدم موجودگی میں بھی ہوا لہٰذا میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ یہ امر قابل ذکر ہے کہ تیس ہزار روپے جمع کرنے کے لیے جو اپیل جاری کی گئی تھی وہ نواب صاحب ممدوٹ، نواب مظفر خاں، خان سعادت علی خاں اور خان بہادر حاجی رحیم بخش کی طرف سے تھی۔ ان میں سے ہر بزرگ تیس ہزار روپے با آسانی اپنی جیب سے دے سکتا تھا، لیکن یہ ’’محبان قوم‘‘ چاہتے تھے کہ نیک نامی تو ان کی ہو، اور روپیہ قوم کی جیبوں سے نکلے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مسجدشہید گنج کو گرانے کا فیصلہ گورنر پنجاب کی اگزیکٹو کونسل نے کیا تھا۔ نواب مظفر خاں جو پنجاب پراونشل سروس سے ریٹائر ہونے کے بعد گورنر کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن ہو گئے تھے اس وقت اجلاس میں موجود تھے جب مذکورہ فیصلہ کیا گیا تھا، ظاہر ہے کہ نواب صاحب موصوف نے مسجد کو گرانے کی تجویز کی تائید یا مخالفت کی ہو گی۔ یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کا موقف کیا تھا۔ بہرحال عید آ گئی اور شاہی مسجد میں خطیب نے چندے کی اپیل بہت زور شور سے کی۔ اس وقت منبر کے قریب نواب مظفر خاں کے سوا تمام اپیل کنندگان موجود تھے۔ خطیب صاحب کی اپیل سے پہلے متعینہ اشخاص صندوقچیاں لے کر مسجد میں پھیل گئے تاکہ نمازیوں سے چندہ وصول کیا جا سکے۔ میں منبر کے قریب ہی بیٹھا تھا۔ جونہی خطیب صاحب منبر سے ہٹے، میں وہاں پہنچ گیا اور مائیک کے سامنے کھڑا ہو گیا سب لوگ سمجھے کہ میں خطیب صاحب کی تائید میں کچھ کہوں گا۔ اس لیے کسی نے میرے منبر پر جانے پر اعتراض نہ کیا۔ میں نے جو تقریر کی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ گورنر کی ایگزیکٹو کونسل نے جب مسجد شہید گنج کو گرانے کا فیصلہ کیا تھا تو چندے کی اپیل کرنے والے بزرگوں میں سے ایک یعنی نواب مظفر خاں صاحب اس وقت اجلاس میں موجود تھے انہوں نے یا تو مسجد کو گرانے کے حق میں ووٹ دیا ہو گا یا اس کے خلاف۔ لہٰذا چندہ وصول کرنے سے پہلے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ انہوں نے اس موقع پر کیا موقف اختیار کیا تھا۔ اگر انہوں نے مسجد کے گرانے کے خلاف رائے دی تھی تو چشم ما روشن دل ما شاد، مسلمانوں کو خوب دل کھول کر چندہ دینا چاہیے۔ اور اگر انہوں نے اس وقت مسجد کو گرانے کے حق میں رائے دی تھی تو اب ان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ پریوی کونسل میں اپیل دائر کرنے کے لئے چندہ طلب کریں۔ لہٰذا جب تک اصل حقیقت سامنے نہ آ جائے کوئی مسلمان چندہ نہ دے۔ میری اس تقریر سے مسجد میں کھلبلی مچ گئی۔ خاں سعادت علی خاں اور خان بہادر حاجی رحیم بخش صاحب جو موقع پر موجود تھے، اور سالہا سال سے مجھے اچھی طرح جانتے تھے، انہوں نے میری تردید میں کچھ نہ کہا۔ نتیجہ یہ نہ ہوا کہ لوگوں نے چندہ جمع کرنے والوں کو بٹھا دیا اور صندوقچیاں ان سے چھین لیں۔ اس دن جو رقم جمع ہوئی وہ ایک سو دس روپے کے قریب تھی۔ میں نے چونکہ عید کے دن، اور وہ بھی شاہی مسجد میں تقریر کی تھی، اس لیے شہر میں اس کا چرچا ہوا۔ حضرت علامہ کو جب اس واقعے کی تفصیل معلوم ہوئی تو انہوں نے دلی مسرت کا اظہار کیا، اور بوقت ملاقات میری ’’ جرأت‘‘ کی داد دی۔ میں نے دراصل بالواسطہ انہیں کے موقف کی تائید کی تھی۔ (۷) مجھے اوائل عمر ہی سے روزنامچہ لکھنے کی عادت ہے ۔ لیکن عدم فرصت کی وجہ سے اس عادت میں باقاعدگی پیدا نہیں ہو سکی۔ کبھی تو برسوں باقاعدگی کے ساتھ روزنامچہ لکھا۔ اور کبھی ہفتوں، مہینوں اور برسوں تک اس طرف توجہ ہی نہ کی۔ کبھی باقاعدگی کا یہ عالم ہوتا تھا کہ میں ریل گاڑی میں بیٹھ کر روزنامچے کے صفحات سیاہ کرتا رہتا تھا اور کبھی بے قاعدگی کا یہ حال ہوتا تھا کہ بہت سی اہم شخصیتوں سے ملاقاتوں کی ’’ روداد، اور بہت سے علمی و ادبی اجتماعات کی تفصیل لکھنے کا موقع ہی نہ ملتا تھا۔‘‘ روزنامچہ لکھنے سے میرا مقصد یہ تھا کہ اپنے ان احساسات و تجربات کو قلم بند کروں جو آئندہ زندگی میں میرے کام آ سکیں۔ برصغیر خصوصاً لاہور کی علمی، تہذیبی او رسیاسی زندگی کو جس طرح میں نے دیکھا، جن تحریکات میں حصہ لیا، اور جن شخصیات سے ملنے کے مواقع حاصل ہوئے، ان سب کا ذکر میرے روزنامچے میں ہے۔ افسوس یہ ہے کہ میرے بہت سے قیمتی کاغذات کے ساتھ روزنامچے کا بڑا حصہ بھی ضائع ہو گیا۔ اب جو اوراق میرے پاس رہ گئے ہیں وہ ۱۹۲۹ء سے ۱۹۳۷ء تک کے اندراجات پر مشتمل ہیں۔ لیکن یہ مسلسل نہیں ہیں، ان میں بھی درمیان کے اوراق کہیں کہیں سے ضائع ہو گئے ہیں۔ اس صورت حال کی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد مجھے اپنے شہر لاہور کی سکونت ترک کر کے پہلے ڈنڈوت (جہلم) اور پھر کراچی آنا پڑا۔ گزشتہ اٹھائیس برس سے کراچی میں ہوں۔ اس دوران میں متعدد رہائش گاہیں تبدیل کرنی پڑیں۔ لاہور میں جو کاغذات چھوڑ آیا تھا، وہ نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو گئے، اور جو کاغذات ساتھ تھے، ان کا بھی ایک حصہ بار بار کی نقل مکانی کی وجہ سے محفوظ نہ رہ سکا۔ میں نے اپنے روزنامچے کے باقی ماندہ حصے کی ورق گردانی کرتا ہوں تو اس میں متعدد مقامات پر حضرت علامہ کا ذکر ملتا ہے۔ کہیں ملاقاتوں کا حال تفصیل سے بیان کیا ہے اور ان کے ارشادات کو بھی قلم بند کیا ہے، اور کہیں ملاقاتوں کا اجمالی ذکر ہے۔ میری عام طور پر یہ عادت تھی کہ حضرت علامہ سے ملاقات کے بعد ان کے فرمودات انہیں کے الفاظ میں روزنامچے میں درج کر لیتا تھا۔ افسوس کہ اس قسم کے اندراجات کا بڑا حصہ روزنامچے کے باقی ماندہ اوراق میں نہیں۔ بہرحال علامہ سے متعلق روزنامچے میں جو کچھ موجود ہے اسے میں ذیل میں درج کرتا ہوں۔ اسے میں نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ تحریک شبان المسلمین سے متعلق ہے اور دوسرے حصے میں عام ملاقاتوں کا حال ہے۔ پہلے حصے میں مذکورہ تحریک سے متعلق تمام اندراجات یک جا کر دیے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس تحریک میں کن کن لوگوں نے حصہ لیا، اور اس سلسلے میں جو کام ہوا، اس کی نوعیت کیا تھی۔ (۸) تحریک شبان المسلمین کے پس منظر کے طور پر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ بیسویں صدی کے ربع اول میں اسلامیان ہند نے بڑی بڑی تحریکیں چلائیں، جن کا تعلق براہ راست برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے سے تھا۔ تحریک خلاف کے بعد مسلمانان ہند پریاس و قنوطیت کا عالم چھا گیا۔ اس کے باوجود مختلف مقامات کے حساس مسلمانوں میں اعلاً کلمتہ الحق کے لیے جذبہ عمل بیدار ہوا۔ ۱۹۳۵ء کے لگ بھگ مختلف طبقوں کے مسلمانوں میں احیاء اسلام کے لیے سوچ بچار شروع ہو گئی۔ علی گڑھ میں ڈاکٹر سید ظفر الحسن صدر شعبہ فلسفہ مسلم یونیورسٹی اور مشرقی پنجاب میں میر غلام بھیک نیرنگ جیسے لوگ اس موضوع پر غور و فکر کر رہے تھے۔ اسی زمانے میں لاہور کے چند افراد بھی اس طرف متوجہ ہوئے۔ ان سب لوگوں کی نظر رہنمائی کے لیے ایک ہی شخصیت پر تھی اسی زمانے میں لاہور کے چند افراد بھی اس طرف متوجہ ہوئے۔ ان سب لوگوں کی نظر رہنمائی کے لیے ایک ہی شخصیت پر تھی اور وہ شخصیت علامہ اقبال کی تھی۔ چنانچہ اس معاملے سے دل چسپی رکھنے والے افراد حضرت علامہ سے علیحدہ علیحدہ زبانی یا تحریری طور پر تبادلہ خیالات کر رہے تھے۔ لاہور میں جن لوگوں نے حضرت علامہ سے ایک تحریک کا آغاز کرنے کے لیے گفت و شنید کی، ان میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ اس تحریک کا نام ’’ شبان المسلمین‘‘ رکھا گیا۔ اب آپ اس تحریک سے متعلق میرے روزنامچے کے اندراجات ملاحظہ فرمائیے۔ بعض مقامات پر میں نے ضروری حواشی لکھ دئیے ہیں تاکہ کوئی امر غیر واضح نہ رہے۔ روزنامچے کی اصل تحریر میں میں نے کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی، کہیں کہیں بعض الفاظ اضافہ کیے ہیں، ایسے تمام الفاظ قلابیں میں ہیں۔ ۱۲ جنوری ۱۹۳۵ء تعلیم یافتہ نوجوان مسلمانوں کو ایک منظم سلسلے میں منسلک کرنے کی غرض سے میں نے حال ہی میں علامہ سر محمد اقبال کو آمادہ کیا اور الحمد للہ کہ وہ آمادہ ہو گئے۔ اب اس سلسلے میں مختلف نوجوانوں سے تبادلہ خیالات کیا جا رہا ہے۔ ایک معقول تعداد کے ہم خیال ہو جانے کے بعد ابتدائی اجتماعی منعقد کیا جائیگا تاکہ جماعت کی تنظیم و تشکیل کی جا سکے۔ خوش نصیب ہوں گے وہ نوجوان جو حضرت علامہ ایسے مفکر اسلام کے زیر ہدایت دین کی خدمت کرنے کا موقع پائیں گے۔ ۲۸ فروری ۱۹۳۵ء کل رات صوفی (غلام مصطفی تبسم) صاحب8؎ کے ہاں اس غرض سے مجلس مشاورت منعقد ہوئی کہ سر محمد اقبال کے تجویز کردہ نظام ’’ شبان المسلمین‘‘ پر غور کیا جائے۔ دراصل یہ اسکیم جو ہمارے زیر غور ہے۔ میر غلام بھیک نیرنگ اور ڈاکٹر ظفر الحسن کی تجویز کی ہوئی 9؎ ہے۔ جس کا مقصد ہندوستان میں مسلمانوں کا عروج اقبال ہے۔ افسوس ہے کہ ان دونوں کی طرف سے آئے ہوئے کاغذات ڈاکٹر صاحب 10؎ کے پاس ہیں اور وہ بھوپال گئے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس مسئلے پر صحی طو رپر غور نہیں ہو سکتا۔ ۲۶ مارچ ۱۹۳۵ء ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے ہاں پانچ چھ روز ہوئے میر غلام بھیک نیرنگ اور ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب کے مرسلہ مسودات دیکھنے اور ان کے اقتباسات لینے کا موقع ملا۔ اب میں نے اپنا ایک مسودہ تیار کر لیا ہے اور آج صوفی (تبسم) صاحب کے ہاں تین چار احباب جمع ہو کر اس پر غور کریں گے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سے تبادلہ خیالات ہو گا اور پھر مزید کارروائی کی جائے گی۔ ۲۹ مارچ ۱۹۳۵ء ۲۶ تاریخ کو صوفی (تبسم) صاحب کے ہاں اجتماع ہوا، اور جمعیتہ شبان المسلمین ہند کے اصول اساسی کا مسودہ جو میں نے تیار کیا تھا زیر غور آیا اور چند ترامیم کے بعد منظور ہو گیا۔ ۵ اپریل ۱۹۳۵ء کل حسب الارشاد علامہ سر محمد اقبال ایک مضمون مجوزہ جمعیتہ شبان المسلمین (کے بارے میں) تیار کیا گیا۔ 11؎ اور دفتر جاتے ہوئے حضرت علامہ کو دکھایا۔ انہوں نے پسند فرمایا ۔ دفتر میں 12؎ مسٹر محمد افضل بھٹی صاحب سے اس مضمون کی چار نقلیں کرائیں۔ اب ان پر لوگوں کے دستخط کرائے جائیں گے پھر دستخط کرنے والوں کا اجلاس ہو گا جس میں جمعیتہ کا رسمی طور پر قیام (عمل میں آئے گا) اور امیر کا انتخاب ہو گا اور اس کے بعد قیام و انتخاب کا اعلان کر دیا جائے گا۔ ۱۲ اپریل ۱۹۳۵ء گزشتہ رات صوفی تبسم صاحب کی طرف گیا جہاں خور صوفی صاحب اور شیخ حسام الدین صاحب 13؎ سے مجوزہ جمعیتہ شبان المسلمین کے متعلق تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ ۲۸ اپریل ۱۹۳۵ء آج شام جب سید(عبداللہ) صاحب ۱۴؎ کے ہاں سے اپنے گھر آ رہا تھا تو علامہ سر محمد اقبال کے مکان کے عین سامنے ان کا ملازم علی بخش ملا۔ جس سے معلوم ہوا کہ (لاہور سے) باہر در اصحاب ڈاکٹر صاحب کے پاس آئے تھے اور میرا اپنا دریافت فرما کر میری تلاش میں میرے دفتر 15؎ کی طرف چلے گئے تھے۔ جب گھر پہنچا تو ایک لفافہ ملا جس میں ایک رقعہ خود حضرت علامہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا 16؎ اور دوسرا ان نودارو حضرات کا جس سے معلوم ہوا کہ علی گڑھ سے ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب نے دو صاحبوں کو لاہور اس غرض سے بھیجا ہے کہ وہ ہم لوگوں سے مجوزہ جمعیتہ شبان المسلمین کے متعلق تفصیلی طور پر تبادلہ خیالات کریں، ان صاحبوں نے لکھا تھا کہ مغرب کے وقت میں مع اپنے دوستوں کے ڈاکٹر صاحب کے مکان پر ان سے ملاقات کروں۔ میں جس وقت گھر پہنچا۔ دو بچے علیل تھے، میں نے ملازم کو سائیکل دے کر بھیجا تاکہ وہ ڈاکٹر عبدالغنی صاحب 17؎ کو بلا لائے۔ لیکن انہیں آنے میں دیر ہو گئی۔ ادھر مغرب کا وقت ہو گیا۔ میں بہت پریشان ہوا کہ نہ ڈاکٹر (عبدالغنی) صاحب آئے اور نہ ہی میں ان لوگوں تک پہنچ سکا۔ بالآخر دیر تک انتظار کرنے کے بعد میں سر محمد اقبال کی طرف روانہ ہو گیا۔ وہاں علی گڑھ کے احباب کے علاوہ (چراغ حسن) حسرت صاحب بھی بیٹھے تھے موخر الذکر تو جلد اٹھ کر چلے گئے اور ہم لوگ گفتگو کرنے لگے۔ رات کے ساڑھے نو بجے تک بہت سی باتیں ہوئیں۔ اور پھر طے پایا کہ وہ دونوں صاحبان اگلے روز تین بجے (سہ پہر) میرے مکان پر آئیں اور میرے دوستوں سے تبادلہ خیالات کریں، جس کے بعد ہم سب لوگ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ ساڑھے نو بجے رات وہ لوگ اٹھے اور میں ان کے ساتھ میکلوڈ روڈ پر میڈیکل کالج کے ہوسٹل تک گیا۔ ۲۹ اپریل ۱۹۳۵ء تین بجے صوفی (تبسم) صاحب اور شیخ حسام الدین (میرے مکان پر) تشریف لائے۔ ساڑھے تین بجے ابو الخیر (عبداللہ) صاحب اور (محمد شریف) پنی صاحب آ گئے۔ پھر علی گڑھ والے اصحاب تشریف لائے۔ساڑھے پانچ بجے تک اجتماع رہا۔ مجوزہ جمعیتہ شبان المسلمین کے متعلق طویل گفتگو ہوئی۔ اور ہر معاملے میں ہم سب لوگوں کی رائے متفق ہوئی۔ ساڑھے پانچ بجے مہمان رخصت ہوئے۔ 18؎ علی گڑھ سے جو بزرگوار تشریف لائے تھے ان میں سے ایک محمد محمود احمد صاحب 19؎ مسلم یونیورسٹی میں فلاسفی کے لیکچرار ہیں اور دوسرے برہان احمد 20؎ (فاروقی) صاحب وہاں ری سرچ اسکالر ہیں اول الذکر بہت ذہین اور سمجھدار ہیں۔ ان کی گفتگو دلپذیر اور پسندیدہ ہے۔ دوسرے صاحب بہت کم بات کرتے تھے اگرچہ بات کرنا چاہتے ضرور تھے۔ ان لوگوں کا خلوص، ان کا جوش دیکھ کر حیرت ہوتی تھی، ان کا علی گڑھ سے لاہور آن ہی ان کے خلوص اور جوش کا زبردست ثبوت تھا۔ ۲۵ مئی ۱۹۳۵ء نماز جمعہ سے فارغ ہو کر انٹر کالجیٹ مسلم برادر ہڈ کے ارکان کے ساتھ مجوزہ جمعیتہ شبان المسلمین کے متعلق گفتگو کی اور ان میں سے چار حضرات کے دستخط حاصل کئے۔ ۳۰ مئی ۱۹۳۵ء کل پانچ بجے کے بعد پروفیسر منیر الدین صاحب 21؎ تشریف لائے۔ میں نے ان کو اور راجہ حسن اختر صاحب 22؎ کو مجوزہ جمعیتہ شبان المسلمین کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے بلایا تھا، لیکن چونکہ موخر الذکر تشریف نہ لائے اس لیے پروفیسر صاحب سے اسلامیہ کالج کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی۔ سات بجے وہ تشریف لے گئے اور میں بھی گھر سے باہر نکلا۔ رات واپسی پر معلوم ہوا کہ راجہ صاحب میرے جانے کے بعد میرے ہاں تشریف لائے تھے اور ان کے ہمراہ کوئی اور صاحب بھی تھے۔ ۱۷ اگست ۱۹۳۵ء جمعیتہ شبان المسلمین ہند کے قیام اک مسئلہ آج تک حل نہ ہو سکا۔ اب میں اس فکر میں ہوں کہ اگر سر دست علامہ سر محمد اقبال کے زیر قیادت تعلیم یافتہ طبقے کی تنظیم شروع نہ ہو سکے تو فی الفور کسی عالم دین کے زیر قیادت مذہب سے شغف رکھنے والوں ہی کو منظم کر دیا جائے میں نے کچھ مدت گزری، حضرت مولانا احمد علی صاحب سے اس کا تذکرہ کیا تھا اور انہوں نے اس تجویز کو پسند بھی فرمایا تھا اب مولوی (خدا بخش) ارمان صاحب چاہتے ہیں کہ منشی نو راحمد صاحب کے خسر مولوی سردار محمد صاحب اور ان کے رفقاء سے گفت و شنید کی جائے تاکہ اس سلسلے میں کوئی موثر قدم اٹھایا جا سکے۔ ۱۹ اگست ۱۹۳۵ء پرسوں سردار محمد خان صاحب سے تبادلہ خیالات ہوا اور اسی روز (محمد شریف) پنی صاحب اور ابو الخیر (عبداللہ) صاحب سے گفتگو ہوئی۔ احباب کا خیال تھا کہ سر محمد اقبال کے زیر قیادت جماعت کا قیام فی الفور شروع کر دیا جائے۔ا دھر آج صبح سردار محمد اور (مولوی خدا بخش) ارمان صاحب کی معیت میں حضرت مولانا (احمد علی صاحب) سے تبادلہ خیالات کیا اور جلد از جلد دوسرا سلسلہ قائم کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا گیا۔ اس سلسلے میں تجویز ہوئی کہ حضرت مولانا احمد علی صاحب کی طرف سے ایک دو آدمی مولانا حسین احمد صاحب مدنی کی خدمت میں حاضر ہو کر تجویز پیش کریں اور درخواست کریں کہ وہ اس سلسلے کی امارت قبول فرما لیں اور صوبہ دار نائب امیر مقرر فرما دیں۔ دوسری طرف آئندہ چہار شنبہ کے روز میرے مکان پر اجتماع ہو گا اور حضرت علامہ سر محمد اقبال کے عقیدت مندوں کو اپنی تنظیم پر آمادہ کیا جائے گا اور کوشش کی جائے گی کہ حضرت علامہ کی بھوپال سے واپسی تک تمام کام تیار ہو جائے۔ ۲۱۔ اگست ۱۹۳۵ء آج ہمارے ہاں مجوزہ جمعیتہ شبان المسلمین کے ہمدردوں کا جلسہ ہوا جس میں جمعیتہ کی بنیاد رکھ دی گئی۔ نیز ارکان نے تحریری طور پر اطاعت امیر کا عہد کیا اور جمعیتہ کی امارت کے لیے علامہ سر محمد اقبال کا اسم گرامی تجویز ہوا۔ پرویزنل سیکرٹری کا کام ثاقب 23؎ صاحب کے سپرد ہوا۔ اور خرانچی (بدر الدین) 24؎ بدر صاحب مقرر ہوئے۔ آج ہمارے ہاں کا اجلاس بہت کامیاب رہا۔ غیر معمولی رونق تھی۔ نذیر نیازی صاحب نے گفتگو کو بہت پر لطف بنا دیا۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر عبدالغنی بھٹی، ڈاکٹر عبدالحمید ملک 25؎ ، ثاقب صاحب، افضل صاحب، (بدر الدین) بدر صاحب، (عبدالرشید) طارق صاحب 26، ابو الخیر 27؎ (عبداللہ) صاحب، (محمد شریف) پنی صاحب 28؎، خواجہ غلام دستگیر صاحب 29؎، (اور مولوی خدا بخش) ارمان 30؎ صاحب بھی تھے۔ ۲۲۔ اگست ۱۹۳۵ء علامہ سر محمد اقبال کے دل میں اسلام کا جو درد موجود ہے اور اسلام کو دنیا میں با اقبال و سر بلند دیکھنے کا جو جذبہ ان کے قلب میں موجزن ہے، اس کے بروئے کار آنے کی شدید ضرورت ہے اور اس کی صورت یہی ہے کہ ان کے گرد فدائیوں کا ایک ایسا گروہ جمع کر دیا جائے جو صدق دل کے ساتھ اپنے آپ کو ان کے سپرد کر دینے پر آمادہ ہو۔ اس صورت میں ایک طرف خود حضرت علامہ کے دل و دماغ میں ایک ایسی حرکت پیدا ہو گی جو قوم سے کام لے سکے گی۔ اور دوسری طرف وہ جماعت آپ سے وابستہ ہو چکی وہ گی جس میں زبردست قوت عمل بروئے کار آئے گی۔ خدا کرے میرا یہ خواب سچا ثابت ہو اور انوجوانان اسلام کثیر تعداد میں ایک فعال جماعت کی صورت میں منظم ہو جائیں۔ اگر اس بارے میں میری کوششیں کامیاب ہو جائیں تو یہ میرے لیے بڑی ہی خوش نصیبی کا باعث ہو گا۔ یکم ستمبر ۱۹۳۵ء آج جمعیتہ شبان المسلمین کا اجلاس میرے مکان پر ہوا اور رکنیت کے مطبوعہ فارم 31؎ حاضرین میں تقسیم ہوئے۔ قرار پایا کہ کل ایک وفد حضرت علامہ کی خدمت میں پیش ہو کر اس جماعت کی طرف سے چند معروضات پیش کرے اور کوشش کی جائے کہ جلد از جلد کام شروع ہو جائے۔ آج کے اجلاس میں راجہ حسن اختر صاحب بھی شریک ہوئے اور اجلاس کے اختتام کے بعد وہ دیر تک بیٹھے رہے۔ ۲۔ ستمبر ۱۹۳۵ء آج دفتر (اخبار)’’ اسلام‘‘ کو جاتے ہوئے میں علامہ سر محمد اقبال سے ملا اور انہیں مطبوعہ فارم (برائے رکنیت جمعیتہ شبان المسلمین) دکھایا آپ نے فرمایا کہ یہ فارم ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب کو علی گڑھ بھیجا جائے۔ ۳۔ ستمبر ۱۹۳۵ء کل چھ بجے شام پانچ نوجوانوں کے ہمراہ سر محمد اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بعد میں تی اور دوست جن میں راجہ حسن اختر شامل تھے، آ گئے قریباً آٹھ بجے تک یہ اجتماع قائم رہا۔ ڈاکٹر صاحب قبلہ نے دوران گفتگو علم و حکمت کے دریا بہا دیے۔ الہام اور عقل، تقدیر اور اہل نبوت اور تصوف ایسے بہت سے موضوع زیر بحث آئے۔ کاش کہ ایسے مواقع پر ان کے تمام الفاظ نقل کر لیے جایا کریں۔ ۲۲۔ ستمبر ۱۹۳۵ء ماہ ستمبر کے شروع میں جمعیتہ شبان المسلمین کے کام کی بنیاد رکھ دی گئی تھی اور ثاقب صاحب اس کے عارضی ناظم منتخب ہوئے تھے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ ۱۴ مارچ ۱۹۳۶ء آج میرے مکان پر معتقدین اقبال کا اجتماع ہوا، جس میں راجہ حسن اختر صاحب اور پروفیسر منیر الدین کے علاوہ ثاقب صاحب، (محمد شریف) پنی صاحب، ابو الخیر (عبداللہ) صاحب، ڈاکٹر (عبدالغنی) بھٹی صاحب بھی شریک ہوئے اور ظاہر ہوا کہ لوگ اصل تجویز دوبارہ جمعیتہ شبان المسلمین پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار نہیں، وہ سب محض اس بات کے حامی تھے کہ ایک دار المطالعہ قائم کیا جائے جہاں اقبال کی کتابوں کا مطالعہ اور ان کی تعلیمات کی نشر و اشاعت ہوا کرے۔ چنانچہ اس پر اجلاس ختم ہو گیا۔ 32؎ (۹) اب علامہ اقبال سے متعلق روزنامچے کے عام اندراجات ملاحظہ فرمائیے۔ ان پر بھی میں نے ضروری توضیحی حواشی لکھ دیے ہیں۔ ۸۔ اکتوبر ۱۹۳۴ء آج رات آٹھ بجے کے قرین ریلوے اسٹیشن سے گھر 33؎ آتے ہوئے جب میں علامہ اقبال کی کوٹھی کے سامنے سے گزر رہا تھا تو خیال آیا کہ حضرت علامہ سے ملاقات کر لوں۔ چنانچہ وہاں پہنچ کر کوٹھی کے احاطے میں داخؒ ہوا اور دیکھا کہ آپ سامنے برآمدے میں چارپائی پر لیٹے ہوئے ایک چھوٹی کتاب دیکھ رہے ہیں۔ سوائے ایک ملازم کے جو آپ کے پاؤں دبا 34؎ رہا تھا اور کوئی آپ کے پاس نہ تھا۔ میں پونے نو بجے شب سے پونے گیارہ بجے شب تک آپ کے پاس بیٹھا رہا۔ بڑی ہی پر لطف صحبت رہی۔ بے شمار باتیں آپ نے مختلف موضوعات پر فرمائیں اور اس تمام مدت میں ان کے اور میرے علاوہ اور کوئی شخص وہاں نہ آیا۔ جو لطف اور خوشی میں نے ان دو گھنٹوں میں حاصل کی، وہ میری زندگی کا ایک بے بہا سرمایہ ہے۔ یقینا یہ دو گھنٹے میری زندگی کے بہترین اوقات میں سے تھے۔ جی چاہتا ہے کہ وہ تمام باتیں جو حضرت علامہ نے میرے سامنے ارشاد فرمائیں، لفظ بلفظ یہاں دہراوؤں، لیکن آپ کے ملفوظات کی کثرت مانع ہو رہی ہے۔ ایک بہت بڑی خوشخبری آپ نے یہ سنائی کہ ’’ میں اپنے دل میں اس بات کی بڑی زبردست خواہش رکھتا ہوں کہ قرآن حکیم پر اپنے خیالات تفصیل سے ایک کتاب میں ظاہر کروں۔‘‘ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ میں نے اپنے خیالات کا اظہار بڑی تفصیل سے اپنے اشعار میں کر دیا ہے، لیکن ابھی میرے دل میں اس سے بھی ایک بڑی چیز ہے جو قرآن حکیم کی شرح کی صورت میں ظاہر کرنے کی آرزو رکھتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد آپ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ اس کام کو ایک ہی صورت میں یکسوئی کے ساتھ کر سکتے ہیں کہ کم از کم پانچ چھ سال کے لیے ان کو افکار روزگار سے فرصت مل جائے ۔35؎ افسوس کہ دنیائے اسلام کے اس عدیم النظیر فلسفی اور حکیم کے لیے مسلمان قوم فراغت کا سامان مہیا نہ کر سکی۔ مسلمان قوم کی بے سر و سامانی کا اس سے بڑھ کر بین ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ دوران گفتگو میں حضرت علامہ نے مسلمانان ہند کے متعلق فرمایا کہ:’’ میرا مدت العمر کا مطالعہ اور مشاہدہ مجھے یقین دلا چکا ہے کہ یہ لوگ بالکل بیکار ہو گئے ہیں بالخصوص ہندوستان کے جدید تعلیم یافتہ مسلمان 36؎‘‘ آپ کا خیال تھا کہ اگر کبھی کام آ سکتے ہیں تو غریب مزدوری پیشہ یا دکاندار جن کے لیے ان کے دل میں محبت اور احترام ہے اور جن سے مل کر انہیں حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کا گروہ ان کے نزدیک مستحق التفات نہیں، یہاں تک کہ اگر وہ ’’ ڈکٹیٹر ‘‘ بن جائیں تو وہ اس گروہ کو ختم کر دیں۔ ایک موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اسلام کا مستقبل دوسرے مسلمانوں پر منحصر ہے نہ کہ ہندی مسلمانوں پر۔ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کا ذکر آ گیا تو آپ نے فرمایا کہ چودھری صاحب اور سر فضل حسین صاحب کے ذریعے حکومت برطانیہ نے پراونشل آٹا نومی کی روح نکال لی۔ موخر الذکر کے متعلق آپ نے فرمایا کہ ان کا وجود ہمیشہ مسلمانوں کے لیے باعث مضرت رہا ہے اور وقت آ رہا ہے کہ ان کی مزعومہ اسلام دوستی اور مسلم نوازی کے بے حقیقت راز سے پردہ اٹھ جائے۔ 37؎ کرنسی آفس کے مسلمانوں کو نماز جمعہ کی اجازت نہ ملنے کا معاملہ میں نے آپ کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان کے چند نمائندوں کو میرے پاس لائیں تو میں انہیں مناسب مشورہ دوں گا۔ 38؎ ایک موقع پر جاپان کا ذکر آ گیا تو آپ نے فرمایا کہ جاپان میں تبدیلی مذہب دنوں یا ہفتوں کا کام ہے نہ کہ یورپین ممالک کی طرح صدیوں کا۔ آپ کا خیال تھا کہ اگر اسلام کا چرچا جاپان میں شروع ہو گیا تو چند ہفتوں میں پوری جاپانی قوم مسلمان ہو جائے گی۔ اس کی وجہ زیادہ تر سیاسی ہے۔ جاپان کے لیے مسلمان ہو جانے میں یہ فائدہ ہو گا کہ روس کے خلاف اسے چین اور ترکستان کی اسلامی قوت کی امداد و حمایت حاصل ہو جائے گی۔ 39؎ ۱۴۔ اکتوبر ۱۹۳۴ء گذشتہ شب میں سیر کرتا ہوا پھر حضرت علامہ کے دولت کدے پر جا نکلا۔ اس وقت آپ کے پاس (ملک لال دین) قیصر 40؎ صاحب، استاد عشق41؎ لہر اور ایک حکیم صاحب 42؎ بیٹھے تھے۔ وہ لوگ دس بجے کے بعد چلے گئے اور میں حضرت علامہ کے ارشادات عالیہ سننے کے بعد اکیلا رہ گیا۔ قریباً ایک گھنٹے تک بہت ہی پر لطف صحبت رہی۔ دوران گفتگو یہ مسئلہ چھڑ گیا کہ یورپ والے جن باتوں کا صدیوں تک تجربہ کرتے رہے اب ان سے متنفر ہو چکے ہیں۔ یورپ کے ایشیائی مقلدین انہیں چیزوں کے پیچھے لگے ہیں۔ مثلاً عورتوں کی بے مقصد آزادی۔ اس پر حضرت علامہ نے فرمایا: I Have no Faith in Women یعنی مجھے عورتوں پہ کوئی اعتماد نہیں۔ 43؎۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ عورتیں اپنے مخصوص مشاغل (مثلاً خانہ داری) میں بھی بہت بلند ذہنیت کا ثبوت نہیں دیتیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ عورت کو دماغ کمزور ملا ہے اس لیے کہ اس کی تخلیقی قوت اس کے رحم سے تعلق رکھتی ہے۔ مرد و دماغ سے تخلیق کا کام لیتا ہے، اور عورت رحم سے۔ جن عورتوں کا رحم اپنا طبعی کام کرتا ہے یعنی جو بچے جنتی ہیں وہ زیادہ ذہین اور سمجھدار ہوتی ہیں بمقابلہ ان عورتوں کے جنہوں نے کبھی بچہ نہیںجنا۔ ۳۰ نومبر ۱۹۳۴ء گذشتہ یک شنبہ کے روز میں تین چار دوستوں کے ہمراہ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ہم لوگ قریباً دو گھنٹے آپ کی خدمت میں حاضر رہے۔ علامہ محترم نے سیاسیات، اقتصادیات، تصوف، شریعت سبھی طرح کے مسائل پر حکمت و معرفت کے دریا بہائے۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ایک قوم یا فرد کو حالات کی نامساعدت اور بخت کی ناموافقت سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ افلاس اور فقر سے بھی انسان بے شمار فائدے حاصل کر سکتا ہے۔ ایک مفلس آدمی جس کے پاس چھن جانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، حق و صداقت کی راہ میں وہ دلیری دکھا سکتا ہے جو ایک صاحب مال و زر نہیں دکھا سکتا۔ پھر آپ نے فرمایا:’’ میں ملکی سیاسیات میں فرقہ وارانہ مناقشات میں حصہ لینے کے لیے شامل نہیں ہوا تھا، بلکہ محض اس لیے کہ ہندوستان کے آئندہ سیاسی نظام میں مسلمانوں کی حیثیت واضح و متعین کر دوں اور یہ ظاہر کر دوں کہ اس ملک کے سیاسی ارتقاء میں حصہ لیتے ہوئے مسلمانوں کو دوسری قوموں میں مدغم نہ ہو جانا چاہیے۔ آپ نے واضح طور پر یہ بھی فرمایا کہ:’’ میں نے گول میز کانفرنس میں اس کے سوا اور کسی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔‘‘ تعلیم کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں نے دنیا کمانے کے لیے دنیوی تعلیم حاصل کرنا چاہی لیکن تو دنیا حاصل کر سکے اور نہ دین سنبھال سکے۔ یہی حال آج مسلم خواتین کا ہے جو دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں اپنا دین کھو رہی ہیں۔‘‘ ۲۱ مارچ ۱۹۳۵ء تین چار روز ہوئے دفتر جاتے ہوئے سر محمد اقبال بالقابہ سے ملنے گیا۔ وہ جب سے بھوپال سے آئے تھے۔ ان سے ملنے کا موقع نہ ملا تھا۔ اس روز ان کے پاس چودھری محمد حسین ایم اے بھی بیٹھے تھے۔ وہ (چودھری صاحب) ہمیشہ اس بات کے شاکی رہتے ہیں کہ مسلمان اپنی حالت کو بہتر بناتے لیکن چاہتے یہ ہیں کہ سیاسی کام کرنے والے اپنا کام چھوڑ کر ان کی رائے کے مطابق کام کرنا شروع کر دیں۔ جو لوگ سیاسی کام نہیں کرتے، ان سے وہ کوئی کام نہیں لینا چاہتے۔ ۳۰ مارچ ۱۹۳۵ء پنجاب لائبریری ایسوسی ایشن کے جلسے۔۔۔۔ سے فارغ ہو کر سر محمد اقبال کی طرف گیا، لیکن وہاں (عبدالمجید) سالک صاحب تشریف فرما تھے، اس لیے اس وقت کو نامناسب سمجھ کر گھر واپس آ گیا۔ ۳۱ مارچ ۱۹۳۵ء ۔۔۔۔۔ میں اور برادر م نذیر 44؎ (احمد) سر محمد اقبال کے ہاں گئے۔ وہاں تقریباً ایک گھنٹہ صرف ہوا۔۔۔۔۔ یکم اپریل ۱۹۳۵ء کل میں نے حضرت علامہ سے ادب لطیف کی تعریف پوچھی تو آپ نے ادب اور آرٹ پر اظہار خیال فرمایا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ آرٹ کے متعلق دو نظرئیے ہیں۔ اول یہ کہ آرٹ کا مقصد محض حسن کا احساس پیدا کرنا ہے۔ دوم یہ کہ آرٹ انسانی زندگی کو بہتر بناتا ہے۔ ان کا ذاتی خیال یہ ہے کہ آرٹ زندگی کے ماتحت ہے۔ ہر چیز کو انسانی زندگی کے لیے وقف ہونا چاہیے اور اس لیے ہر وہ آرٹ جو انسانی زندگی کے لیے مفید ہو جائز ہے اور وہ آرٹ جو زندگی کے لیے مضر ہو ناجائز ہے۔ وہ آرٹ جو انسان کی ہمت کو پست اور اس کے جذبات عالیہ کو مردہ کرنے والا ہو قابل نفرت ہے اور اس کی ترویج حکومت کی طرف سے ممنوع قرار دینی چاہیے۔ اس کے بعد حکومت کے فرائض پر اظہار خیال ہوا اور حضرت علامہ نے فرمایا کہ ’’ حکومت کا سب سے بڑا فرض افراد کے اخلاق کی حفاظت ہے لیکن اس سب سے بڑے فرض کو جدید دنیا تسلیم ہی نہیں کرتی حکومتیں محض سیاسیات سے تعلق رکھتی ہیں اور افراد کے اخلاق کو درست کرنا اپنے فرائض میں داخل نہیں سمجھتیں۔‘‘ پھر اسلام اور تہذیب حاضرہ کا ذکر ہوا۔ فرمانے لگے کہ اسلام تہذیب حاضرہ کی تمام ضروری اور اصولی چیزوں کا دشمن ہے، اس لیے مسلمانوں کو اسے تباہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ ان چیزوں کو جزو اسلام بنا لیا جائے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ دنیا اب اسلام کی طرف آ رہی ہے آج اگر تہذیب مغربی تباہ ہو جائے تو اسلام کا بول بالا ہونے کا امکان ہے۔ جونہی تہذیب مغربی کا خاتمہ ہو مسلمانوں کو اسلام کا علم بلند کر دینا چاہیے۔ آرٹ کے مضر اثرات کے متعلق آپ نے یہ بھی فرمایا کہ بعض قسم کا آرٹ قوموں کو ہمشیہ کی نیند سلا دیتا ہے، چنانچہ ہندوؤں کی تباہی میں ان کی موسیقی کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔ ۷۔ اپریل ۱۹۳۵ء رات اسٹیشن سے واپس آ کر علامہ سر محمد اقبال کی طرف گیا۔ برادرم نذیر (احمد) بھی ساتھ تھے قریب پون گھنٹہ (ہم لوگ) وہاں بیٹھے۔ ۲۹۔ اپریل ۱۹۳۵ء پرسوں رات حضرت علامہ نے بہت پرجوش باتیں کیں۔ میں جب بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں تو جی چاہتا ہے کہ ان کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ ضبط تحریر میں لے آؤں لیکن یہ اس وقت تو ممکن نہیں ہوتا اور گھر آ کر سب باتیں محفوظ کر لینا میرے بس کی بات نہیں۔ اس روز آپ نے دوران گفتگو فرمایا:Chracter is a Kind of energy. The more it is dissipated the weaker if becomes(سیرت ایک قسم کی قوت ہے جتنا اسے بے کار صرف کیا جاتا ہے، یہ کمزور ہو جاتی ہے) حضرت علامہ کی رائے میں دنیائے اسلام کی فلاح سلطنت برطانیہ کی تباہی پر منحصر ہے۔ ۱۲ مئی ۱۹۳۵ء آج صوفی (تبسم) صاحب (بدر الدین) بدر صاحب اور (عبدالرشید) طارق صاحب، پروفیسر منیر الدین کی طرف جاتے ہوئے میرے ہاں آئے۔ انہوں نے فرمایا کہ علامہ اقبال کا وہ بیان جو احمدیوں کے متعلق حال ہی میں شائع ہوا ہے، پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا جائے۔ 45؎ میں نے وہ بیان پڑھا اور کہا کہ میرے خیال میں یہ بہت مختصر ہے۔ ۱۸ مئی ۱۹۳۵ء سنا ہے آج ڈاکٹر سر محمد اقبال اپنے نئے مکان میں نقل مکانی کرنے والے ہیں۔ ۲۴ مئی ۱۹۳۵ء گزشتہ شام چھ بجے میں اور عزیزم خواجہ عبدالرشید 46؎ ایک دوست کے ہمراہ حضرت علامہ کی طرف اس غرض سے گئے کہ ان سے آئندہ اتوار کے روز ملاقات کے لیے وقت لیا جائے۔ 47؎ جب ہم لوگ ان کی کوٹھی کے احاطے میں داخل ہوئے تو علی بخش سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ (والدہ جاوید اقبال) کا ساڑھے پانچ بجے شام انتقال ہو چکا ہے۔ 48؎ انا اللہ وانا الیہ راجعون اس وقت حضرت علامہ کے پاس صرف صوفی تبسم صاحب اور رشید طارق صاحب بیٹھے تھے۔ ہم لوگ بھی خاموش بیٹھ گئے۔ رات کے سوا دس بجے جنازہ اٹھایا گیا، اور بارہ بجے تدفین سے فراغت ہوئی۔ ۲۵ مئی ۱۹۳۵ء کل صبح دفتر جانے سے پہلے جاوید منزل تعزیت کے لیے گیا۔ ۱۵ جون ۱۹۳۵ء کل شام کو (محمد شریف) پنی صاحب کے ہمراہ سیر کے لیے نکلا۔ (ہم) علامہ سر محمد اقبال کے مکان ( کے سامنے) سے گزر رہے تھے کہ وہاں سے راجہ حسن اختر صاحب نے آواز دی ان کے پاس ٹھہر گئے۔ تھوڑی دیر میں حضرت علامہ باہر تشریف لے آئے۔ اس کے بعد حضرات (عبدالمجید) سالک و (چراغ حسن) حسرت آ نکلے۔ پھر مولوی غلام محی الدین خاں قصوری تشریف لے آئے۔ اور پھر حضرت علامہ محمود شیرانی مع پروفیسر (محمد فضل الدین) قریشی و مولوی عبداللہ چغتائی آ گئے۔ رات کے نو بجے تک بڑی پر لطف صحبت رہی۔ حضرت علامہ کے پاس جتنا عرصہ ہم لوگ ٹھہرے، بہت دلچسپ گفتگو ہوئی۔ زیادہ تر قادیانیوں کا ذکر رہا۔ آپ نے فرمایا مرزا صاحب وحی و الہام اور مہدی و مسیح میں تمیز نہیں کر سکے۔ شیطان کا ذکر آ گیا تو آپ نے توضیح فرمائی کہ ابلیس اور شیطان مختلف شخصیتیں ہیں۔ (قرآن میں) ابلیس بصیغہ واحد مذکور ہے اور شیطان کی جمع شیاطین بھی استعمال ہوتی ہے۔ ابلیس خارجی چیز ہے، شیطان داخلی، ابلیس Willکا نام ہے شیطان قوت گمراہی کا۔ (حضرت علامہ نے از رہ ظرافت چراغ حسن) حسرت صاحب کو مشورہ دیا کہ فوراً (روزنامہ) احسان میں موٹے موٹے الفاظ میں اعلان کر دیں کہ سترہ روز کے بعد قادیان تباہ ہو جائے گا۔ اور ہر روز اس اعلان کو شائع کرتے رہیں۔ سترہ روز گزر جانے پر اعتراض ہو تو کہہ دیا جائے کہ ’’ یوم‘‘ قرآنی اصطلاح ہے نہ کہ چوبیس گھنٹے کا وقفہ ۱۶ جون ۱۹۳۵ء کل دفتر میں (عبدالحمید) عارف صاحب 49؎ نے مجھے ایک رسالہ دیا جو دراصل مرزا بشیر الدین محمود کا وہ خطبہ ہے جو انہوں نے علامہ اقبال کے حالیہ بیانات کے خلاف دیا تھا۔ آج میں گھر سے دفتر اسلام جاتے ہوئے راستے میں حضرت علامہ سے ملا تاکہ وہ رسالہ آپ کو دکھاؤں۔ وہاں جو ٹھہرا تو ساڑھے بارہ بج گئے حضرت علامہ نے گفتگو کے دوران میں مجھ سے پوچھا کہ تمہارا پرچہ (’’ اسلام‘‘ ) آئندہ کب چھپے گا۔ میں نے عرض کیا کہ اس کا دوسرا شمارہ پریس جا رہا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ مرزا صاحب کے جواب میں میرا ایک بیان اس میں شائع کر دو۔ چنانچہ آپ نے یہ بیان مجھے لکھوایا۔ پھر خاصی دیر تک اس میں کانٹ چھانٹ ہوئی۔ اس دوران میں چودھری (محمد حسین) صاحب اور (نذیر) نیازی صاحب بھی آ گئے تھے، ان سے بھی مشورہ ہوتا رہا۔ اس بیان کے علاوہ حضرت علامہ نے مجھے اپنی اس چٹھی کی ایک نقل بھی دی جو حال ہی میں اسٹیٹسمین میں شائع ہوئی تھی تاکہ اسے بھی ’’ اسلام‘‘ میں بطور مضمون شائع کر دیا جائے۔ ساڑھے بجے وہاں سے اٹھ کر گھر آیا۔ ۱۷ جون ۱۹۳۵ء آج صبح سر محمد اقبال صاحب کو ان کے وہ مضامین دکھانے گیا جو ’’ اسلام‘‘ کے دوسرے پرچے میں شائع ہو رہے ہیں۔ ان سے مجوزہ کانفرنس 50؎ کا ذکر چھڑ گیا۔ ان کا خیال تھا کہ ایسی کانفرنس بہت اہم چیز ہے اور جو ادارہ بھی اس کو اپنے ہاتھ میں نے وہ بہت کچھ اہمیت اور ہر دلعزیزی حاصل کر سکتا ہے میں نے حضرت مولانا (احمد علی صاحبؒ) سے اس کا ذکر کیا، وہ اس کام کو انجمن (خدام الدین) کی طرف سے اپنے ہاتھ میں لینے پر آمادہ تھے، بشرطیکہ وہ یعنی حضرت علامہ اس کام میں ان کا ہاتھ بٹا سکیں۔ ۴ جولائی ۱۹۳۵ء کل رات علامہ اقبال کے ہاں گیا تو وہاں پیر تاج الدین صاحب مع اپنے دو ساتھیوں کے بیٹھے تھے اور بہت بیہودہ گفتگو میں محو تھے۔ مجھے ان کے پاس بیٹھنا بہت ہی ناگوار معلوم ہوتا تھا۔ تھوڑی دیر میں وہ حضرات چلے گئے تو حضرت علامہ کے اور میرے درمیان باتیں شروع ہوئیں۔ کچھ دیر کے بعد چودھری محمد حسین صاحب تشریف لے آئے۔ حضرت علامہ کی تمام گفتگو بڑے دقیق فلسفیانہ موضوعات پر تھی۔ آپ نے نبوت پر عمومی اور نبوت محمدیہ پر خصوصی طور پر روشنی ڈالی۔ حضرت علامہ کا پختہ خیال ہے کہ نبوت محمدیہ کی معنوی حیثیت کو ابھی تک انسان نہیں سمجھا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بزرگان سلف بھی اس کی کنہ کو نہیں پہنچے وہ مدعی تھے کہ خود ان کو اس حقیقت کے سمجھنے کی توفیق حاصل ہوئی اور اس موضوع پر وہ تفصیل سے ا پنی مجوزہ کتاب ’’ تمہید القرآن‘‘ میں روشنی ڈالیں گے۔ ۱۶ جولائی ۱۹۳۵ء کل شام میں دفتر (اخبار)’’ اسلام‘‘ سے آتا ہوا حضرت علامہ سر محمد اقبال کے پاس اتفاقاً اس خیال سے ٹھہر گیا کہ مسلمان سنسر کی کارروائی دکھاؤں۔ 51؎ خواجہ عبدالحمید پروفیسر فلسفہ ان کے پاس بیٹھے تھے۔ حضرت علامہ خلاف معمول 52؎ باقاعدہ کپڑے پہنے ہوئے تھے یعنی شلوار، قمیض، پاؤں میں گرگابی اور پاس ہی ایک کرسی پر کوٹ اور ٹوپی بھی تھی۔ میں نے پوچھا آج کہیں باہر جانا ہوا تھا۔ فرمانے لگے ابھی بھوپال جا رہا ہوں۔ میں نے زبان دل سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اتفاقاً ملاقات ہو گئی ورنہ ڈیڑھ ماہ کے لیے افسوس کا سامان بن جاتا۔ آپ اوائل ستمبر میں واپس تشریف لائیں گے۔ ۲۹ اگست ۱۹۳۵ء آج معلوم ہوا ہے کہ حضرت علامہ سر محمد اقبال کل بھوپال سے تشریف لائیں گے۔ ۳۰ اگست ۱۹۳۵ء آج صبح ریلوے اسٹیشن پر گیا تاکہ سر محمد اقبال سے جو بھوپال سے تشریف لا رہے تھے، مل سکوں گاڑی میرے پلیٹ فارم پر پہنچنے سے پہلے آ چکی تھی اور حضرت علامہ اس وقت سیڑھیوں کی طرف سے (نیچے اتر کر) آ رہے تھے۔ اسٹیشن سے ان کے ساتھ جاوید منزل پہنچا، اور دس بجے تک ٹھہرا۔ اس اثناء میں انہوں نے اپنی غیر موجودگی میں آئی ہوئی ڈاک دیکھی اور کچھ مختصر گفتگو مختلف مسائل حاضرہ پر کی۔ ۴ دسمبر ۱۹۳۵ء آج حضرت استاذہ المحترم مولانا احمد علی صاحب کے فرزند اکبر مولوی حافظ حبیب اللہ صاحب کے ہمراہ حضرت علامہ کی خدمت میں طویل مدت کے بعد حاضر ہوا۔ گھنٹے سوا گھنٹے تک باتیں ہوتی رہیں اور زیادہ تر موضوع گفتگو تصوف رہا۔ ۱۹ دسمبر ۱۹۳۵ء آج پھر حافظ حبیب 53؎ اللہ کی معیت میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ باتوں باتوں میں جہاد پر گفتگو چھڑ گئی۔ میں نے پوچھا کہ جہاد دفاعی ہونا چاہیے یا جارحانہ، فرمایا کہ عام طور پر تو دفاعی ہے لیکن بوقت ضرورت جارحانہ بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی قوم بد اخلاقی میں اس قدر بڑھ جائے کہ اس دنیا میں نسل انسانی کی تباہی کا امکان ہو تو مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ بزور شمشیر اس قوم کو بد اخلاقی سے روکیں۔ چنانچہ سلطان ٹیپو نے مالا بار کے وحشی باشندوں کو حکم دیا کہ بجائے برہنہ رہنے کے کپڑے پہننا شروع کر دیں ورنہ بزور شمشیر انہیں کپڑے پہننے پر مجبور کیا جائے گا۔ اس لیے کہ ان کی برہنگی کا اثر ہمسایہ قوموں پر ہو گا اور ان میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مسلمانوں کو ’’ امر بالمعروف‘‘ اور’’ نہی عن المنکر‘‘ کا حکم دیا گیا اس سے ظاہر ہے کہ اشاعت حق کے پیچھے طاقت کی حمایت ہونی چاہیے ورنہ بغیر طاقت کے ’’ امر و نہی‘‘ کیسے ممکن ہے۔ اگر مسلمان ’’ امر و نہی‘‘ کے فرائض ادا کرنا چاہتے ہیں تو ان کے بازوؤں میں طاقت ہونا ضروری ہے۔ 54؎ ۱۹ جنوری ۱۹۳۶ء گزشتہ دو ہفتے سے میں اس کوشش میں تھا کہ حضرت علامہ کا وہ انگریزی بیان جو پنڈت جواہر لال نہرو کے مضامین مطبوعہ ’’ ماڈرن ریویو‘‘ کے لیے لکھا گیا تھا، انجمن خدام الدین کی طرف سے شائع ہو۔ الحمد للہ یہ کوشش کامیاب ہوئی او ربیان Islam and Ahmadism (اسلام اور احمدیت) کے عنوان سے ’’ اسلام‘‘ کے پرچے بابت ۲۲ جنوری ۱۹۳۶ء میں چھوٹی تقطیع کے باون صفحات پر شائع ہو گیا ہے۔ اس شمارے میں تمام تر وہی مضمون چھپا ہے، دوسری کوئی چیز نہیں اس مضمون میں احمدیت کے متعلق بہت سے اہم حقائق واضح کئے گئے ہیں بلا مبالغہ یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ آج تک احمدیت پر جو کچھ لکھا گیا ہے، اس کے مقابلے میں اس مضمون سے احمدیت پر بڑی زبردست ضرب لگی ہے اس مضمون کی اشاعت نے واقعی احمدیوں کو بوکھلا دیا ہے۔ گزشتہ شب میں اور برادرم نذیر (احمد) حضرت علامہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک وفد آ گیا جس میں سید محمد علی جعفری، خان صاحب، شیخ عبدالعزیز، خان عبدالرحمن خاں، شیخ اکبر علی ارسطو شامل تھے۔ جعفری صاحب نے تخلیہ کی خواہش ظاہر کی جس پر ہم دونوں وہاں سے رخصت ہو آئے۔ ۳۱ جنوری ۱۹۳۶ء علامہ سر محمد اقبال کا مضمون گزشتہ ہفتے پمفلٹ کی صورت میں چھپوایا گیا۔ اس لیے کہ چودھری محمد حسین صاحب مصر تھے کہ اسے ایسی صورت میں ضرور شائع کرایا جائے۔ اس مزید اشاعت کا بار انجمن (خدام الدین) پر نہیں ڈالا گیا بلکہ خود مجھ پر یا میرے بعض مخلصین پر پڑے گا۔ ۱۰ فروری ۱۹۳۶ء کل اسٹیشن کو جاتے ہوئے حضرت علامہ سر اقبال کی طرف چلا گیا۔ وہاں مس میو کی تصنیف The Face of Mother India پڑی تھی جس کا داخلہ ہندوستان میں ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ ۱۲ فروری ۱۹۳۶ء آج صبح ڈاکٹر سر محمد اقبال کے ہاں ٹھہرا تو ساڑھے نو وہیں بج گئے ۔ (اخبار) ’’ اسلام‘‘ کے آئندہ پرچے کے شذرات ان کو سنائے اور ان کی تجویز کردہ ترمیمات ان میں کیں۔ ۱۴ ۔اپریل ۱۹۳۶ء ۔۔۔۔ کل ڈاکٹر نظام الدین 55؎ اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب اور ان کے رفیق عبدالغنی صاحب کو جہانگیر، آصف جاہ اور نور جہاں کے مقابر دکھانے لے گیا۔ شام کے قریب (قاضی احمد میاں) اختر صاحب (جونا گڑھی) کو لے کر سر محمد اقبال کے ہاں گیا۔ اول الذکر حضرات ان سے ۱۰ اپریل کی صبح کوٹ تھے۔ ۱۲ جون ۱۹۳۶ء پرسوں صبح دفتر (اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب 56؎) کے ریفرشمنٹ روم میں شیخ محمد دین صاحب شرقپوری 57؎ نے مجھ سے کہا کہ پنجاب پی ڈبلیو ڈی کے سیکرٹریٹ کے ایک عیسائی سپرنٹنڈنٹ مسٹر جے اراٹون (J. Arratoon) مائل بہ اسلام ہیں ان سے ملیے۔ بعد میں دو آدمی مولانا مظہر علی اظہر 58۔ کی چٹھی لے کر میرے پاس آ گئے جس میں انہوں نے تحریر فرمایا تھا کہ آج ہی مسٹر اراٹون سے ملنا چاہیے۔ مبادا غلط قسم کے حضرات ان تک پہنچ جائیں۔ میں نے اسی وقت ایک رقعہ مسٹر اراٹون کے نام ان حضرات کے ہاتھ بھیجا جس میں ان کو دعوت دی کہ وہ (مسٹر اراٹون) کل ساڑھے پانچ بجے سہ پہر میرے مکان پر چائے نوش فرمائیں۔ انہوں نے میری دعوت قبول فرما لی۔ اور کل وہ میرے دفتر کے دو تین مسلمان رفقا کے ہمراہ چائے نوشی کے لیے تشریف لے آئے۔ میرے چند دوست بھی مدعو تھے۔ اراٹون صاحب فوراً مشرف با سلام ہونے پر آمادہ ہو گئے۔ چنانچہ اسی وقت ہم سب لوگ انہیں ہمراہ لے کر حضرت علامہ اقبال کی خدمت میں جاوید منزل حاضر ہوئے۔ وہاں راجہ حسن اختر صاحب اور سید نذیر نیازی صاحب موجود تھے۔ حضرت علامہ سے ہم لوگوں نے اپنی حاضری کا باعث بیان کیا۔ حضرت مولانا عبدالحنان صاحب 59؎ کو وہیں بلا لیا گیا اور انہوں نے اراٹون صاحب کو مشرف بہ اسلام کر لیا۔ الحمد للہ علیٰ ذلک 60؎ شام کے بعد ہم لوگوں نے اس واقعے کی اطلاع مسلمان اخباروں میں اشاعت کے لیے پہنچا دی۔ اراٹون صاحب کا اسلامی نام ’’ جمیل‘‘ رکھا گیا آج وہ نماز جمعہ شاہی مسجد میں ادا فرمائیں گے۔ ۷ جولائی ۱۹۳۶ء جس وقت میں صوفی (تبسم) صاحب کی طرف سے واپس آ رہا تھا، برادرم مولوی سردار محمد مع سیکرٹری جمعیتہ المسلمین میرے ہاں سے ہو کر واپس جا رہے تھے، لیکن (میرے مکان کے) قریب ہی مجھے مل گئے۔ وہ چاہتے تھے کہ علماء کے درمیان آج کل جو اشتہار بازی ہو رہی ہے اس کے سلسلے میں علامہس ر محمد اقبال سے کوئی بیان لیں میں نے اس معاملے میں مدد دینے سے معذری کا اظہار کیا۔ بعد میں جب میر محمد جان صاحب کے ہاں گیا تو برادرم سردار محمد صاحب اپنے مکان میں بیٹھے تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ مجھ سے علیحدہ ہو کر وہ اسی وقت حضرت علامہ کی طرف چلے گئے اور مطلوبہ بیان حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ رات کو معلوم ہوا کہ (محمد حسین) عرشی صاحب (امرتسری) بھی اس وقت وہاں موجود تھے۔ ۲۷ اکتوبر ۱۹۳۶ء گزشتہ شنبہ کے روز حضرت علامہ کی ایک نظم 61؎ روزنامہ ’’ احسان‘‘ 62؎ کے سالنامے میں شائع ہوئی جو مجھے بہت ہی پسند آئی فرماتے ہیں: جلوۂ حق گرچہ باشد یک نفس قسمت مردان آزاد است و بس مرد آزادے چو آید در سجود در طوافش گرم رو چرخ کبود با غلاماں از جلالش بے خبر از جمالش لا زوالش بے خبر در بدن داری اگر سوز حیات ہست معراج مسلماں در صلوۃ در نداری خون گرم اندر بدن سجدۂ تو نیست جز رسم کہن عید آزاداں شکوہ ملک و دیں عید محکوماں ہجوم مومنین (احرار)کانفرنس کے سلسلے میں ایبٹ آباد کے ہمارے دوست اکبر کیانی 63؎ بھی آئے ہوئے تھے۔ وہ تاحال یہیں ہیں۔ ان کے اور ساتھی تو واپس جا چکے ہیں، لیکن ایک دوست مسٹر محمد حسین عطا 64؎ سیکرٹری انجمن نوجوانان اسلام ایبٹ آباد یہیں ہیں اکثر میری طرف آتے رہتے ہیں۔ کل ان کے ہمراہ سر محمد اقبال کی طرف گیا، اور کامل ساڑھے چار ماہ کے بعد گیا۔ یعنی ۱۱ جون ۳۶ء کو جبکہ مسٹر اراٹون کے ہمراہ ان کے مشرف بہ اسلام ہونے کے سلسلے میں گیا تھا۔ رات بڑی دیر تک بہت پر لطف اور پر از معلومات باتیں سنتے رہے۔ ۴۔ نومبر ۱۹۳۶ء حضرت علامہ کی مثنوی ’’ پس چہ باید اے اقوام شرق‘‘ شائع ہو گئی ہے۔ میں نے اسلام کے آئندہ پرچے کے لیے اس پر ریویو لکھا ہے جس میں قریباً چالیس اشعار نقل کیے ہیں۔ قادیانیوں کے اردو رسالے ’’ ریویو آف ریلجینز‘‘ میں حضرت علامہ کی کتاب ’’ ضرب کلیم‘‘ پر پچھلے دنوں ریویو کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ یہ کتاب بال جبریل سے بھی گری ہوئی ہے۔‘‘ میں نے وہ پرچہ (چراغ حسن) حسرت صاحب کو دیا انہوں نے ’’ مطاتبات‘‘ میں اس تنقید کا خوب مذاق اڑایا۔ (عبدالرشید) طارق صاحب نے ’’ ریویو آف ریلیجنز‘‘ کے جواب میں ایک مضمون لکھا جسے لے کر وہ میرے پاس آئے تاکہ میں اسے اپنے پندرہ روزہ انگریزی پرچے ’’ اسلام‘‘ میں شائع کر دوں۔ ۱۱۔ نومبر ۱۹۳۶ء ’’ اسلام‘‘ کے تازہ شمارے ز بابت ۷ نومبر ۱۹۳۶ء میں مثنوی’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ پر میرا تبصرہ شائع ہو گیا ہے۔ ۹ فروری ۱۹۳۷ء کل چار بجے کے قریب گھر سے نکلا اور بہت مدت کے بعد علامہ سر محمد اقبال کے ہاں گیا۔۔۔۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ان کے پا س بیٹھا رہا۔ ۲۶ ۔ اپریل ۱۹۳۷ء مغرب سے پہلے علامہ سر محمد اقبال کا ملازم علی بخش اپنے سات ایک نوجوان کو لایا جو مشرف با سلام ہونا چاہتا تھا۔ اس کے اپنے بیان کے مطابق وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھا جو پنجاب یونیورسٹی کا ایم اے (تاریخ) اور بنارس یونیورسٹی کا بی ٹی ہے۔ لیکن میں اس کے طرز گفتگو سے قطعاً متاثر نہ ہو سکا۔ بہرحال میں اسے اپنے ہمراہ ڈاکٹر صاحب کے مکان پر لے گیا اور یہ طے کیا کہ کل صبح نو بجے وہ وہیں آ جاتے اور ڈاکٹر صاحب اسے لاتن والی مسجد میں پہنچا دیں جہاں اسے مسلمان بنا لیا جائے اور اس کی رہائش کا بندوبست بھی ہو جائے۔ ۵۔ مئی ۱۹۳۷ء ۔۔۔۔۔ چھ بجے تک گھر پر رہا۔ پھر برادرم(عبدالعزیز) صدیقی صاحب 65؎ کی طرف گیا اور انہیں عزیزم یوسف (حسن) اور صدیقی صاحب کے والد بزرگوار کو ہمراہ لے کر حضرت علامہ سر محمد اقبال کی طرف گیا۔ (ہم لوگ وہاں) ساڑھے آٹھ بجے شب تک بیٹھے رہے۔ (۱۰) روزنامچے کا آخری اندراج ۵ مئی ۱۹۳۷ء کا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد بھی حضرت علامہ سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ا فسوس کہ ان ملاقاتوں سے متعلق تحریری یادداشتیں موجود نہیں ہیں، جو کچھ مجھے یاد تھا۔ وہ میں نے اس مضمون میں درج کر دیا ہے۔ لیکن حافظے کا معاملہ عجیب ہے، جب انسان اپنی یادوں کو قلم بند کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو بہت سی باتیں ذہن میں نہیں آتیں۔ لیکن جب انہیں قلم بند کرنے کا ارادہ نہیں ہوتا تو بے شمار واقعات خود بخود یاد آتے رہتے ہیں پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی کوئی پرانا کاغذ یا خط مل جائے تو اس سے متعلق بھولے ہوئے واقعات یاد آ جاتے ہیں میرے پاس اپنے جو پرانے کاغذات باقی رہ گئے ہیں، اگر میں انہیں دیکھوں تو علامہ اقبال سے متعلق اور بھی کئی باتیں لکھ سکتا ہوں لیکن موجودہ حالات میں میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے اگر حالات نے اجازت دی تو میں اپنے پرانے کاغذات کا جائزہ لے کر مزید کچھ لکھوں گا، خصوصاً تحریک شبان المسلمین کے بارے میں جس سے متعلق کاغذات، مجھے یقین ہے کہ ضائع نہیں ہوئے، دوسرے کاغذات کے انبار میں دب گئے ہیں۔ برادرم سید نذیر نیازی نے اپنی گراں قدر کتاب ’’ اقبال کے حضور میں‘‘ حضرت علامہ سے میری دو ملاقاتوں کا حال درج کیا ہے اسے پڑھ کر ان ملاقاتوں کا سارا منظر میری آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ میں ان ملاقاتوں کا حال سید صاحب موصوف ہی کے الفاظ میں درج کرتا ہوں۔ ۱۴ فروری ۱۹۳۸ء ۔۔۔۔۔ حسن اتفاق سے ٹھیک اسی وقت غلام رسول خاں تشریف لے آئے، پھر پروفیسر یوسف سلیم چشتی اور پھر خواجہ عبدالوحید (حاشیہ از سید نذیر نیازی) اس زمانے میں سیکرٹری اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ مجلہ ’’ اسلام‘‘ کے مدیر اعزازی اور انجمن خدام الدین کے رکن رکین آج کل کراچی میں مقیم ہیں شہید گنج کا ذکر چھڑ گیا۔و زارت پنجاب یونینسٹ پارٹی اور انجمن حمایت اسلام کے متعلق سرسری سی باتیں ہوتی رہیں۔ البتہ ایک مرتبہ حضرت علامہ نے خواجہ صاحب سے مستفسرانہ فرمایا’’ آپ کی یہ قرار داد کہ جن لوگوں نے یہ مسجد گرائی ہے وہی مسلمانوں کے ہمدرد بن کر اپیل کے در پے ہیں، بہت خوب ہے مگر خواجہ صاحب! آپ ان اشخاص یا شخص کا نام کیوں نہیں لے دیتے جنہوں نے یا جس نے ایسا کیا۔ کیوں نہ مسلمان یہ جان لیں کہ ان کے یہ ہمدرد اور بہی خواہ کون ہیں؟‘‘ لیکن خواجہ صاحب خاموش رہے۔ انہوں نے حضرت علامہ کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا جیسے سب کو معلوم ہے کہ مسجد کیوں اور کس کے ایماء پر گرائی گئی قرار داد پر سید نذیر نیازی صاحب کا حاشیہ: یہ قرار داد شاید انجمن خدام الدین نے منظور کی تھی۔ لوگ اس قدر برگشتہ خاطر تھے کہ اس زمانے میں یونینسٹ پارٹی کے بعض حد درجہ ذی اثر اور مقتدر حضرات کا نام علانیہ لیا جا رہا تھا۔ ان پر یہ الزام تھا کہ مسجد کا انہدام انہیں کی رضا مندی سے ہوا) ۔۔۔۔۔ شام ہو چکی تھی خواجہ صاحب نے صحت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا:’’ چار برس تو کسی نہ کسی طرح گزر گئے۔ اب پانچوں برس ہے۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔‘‘ حضرت علامہ نے یہ الفاظ کچھ اس طرح ادا کیے جیسے انہیں اپنی صحت سے مایوسی ہے۔ یوں محفل پر ایک افسردگی سی چھا گئی۔ خواجہ صاحب نے کچھ کلمات دعا کے طور پر فرمائے اور اجازت لے کر چلے گئے۔ (اقبال کے حضور، ص ۹۔ ۱۸۶) ۲۰ مارچ ۱۹۳۸ء ۔۔۔۔ علی بخش۔۔۔۔ کمرے میں داخل ہوا۔ کہنے لگا خواجہ وحید صاحب آئے ہیں۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’ باہر کیوں ٹھہرے ہیں، اندر آ جائیں‘‘ ۔۔۔۔۔ خواجہ صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ سلام عرض کیا خیریت مزاج پوچھی اور ہمارے پاس رکھی ہوئی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔۔ حضرت علامہ نے فرمایا ’’ خواجہ صاحب ! کہیے شہر میں کیا ہو رہا ہے؟ آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ خواجہ صاحب نے کہا:’’ شہر میں تو بڑی زندگی ہے۔ مگر یونینسٹ پارٹی نے بڑا فتنہ پیدا کر رکھا ہے۔ اس پارٹی کی حالت تو ناقابل اصلاح ہے لیکن اس سلسلے میں ہماری سب سے بڑی مشکل ہے ہمارا سیاسی اور دینی انحطاط جدید تعلیم نے مسلمانوں کے دلوں کو خراب ہی نہیں، ماؤف کر رکھا ہے۔ میں نے ایک مجلس قائم کی ہے (یہ گویا حضرت علامہ کے اس سوال کا جواب تھا کہ آپ کیا کر رہے ہیں) یہ مجلس کلچرل ہو گی‘‘ مجلس ثقافت اسلامیہ ’’ آج شام کو اس کا جلوس ہے۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا:’’ یہ کوششیں بڑی مبارک ہیں جاری رکھیے‘‘ ۔۔۔۔ خواجہ صاحب نے چند منٹ اور حضرت علامہ سے باتیں کیں، یہی کہ ثقافت اسلامیہ کی تجدید کے لیے انہیں کیا کرنا چاہیے اور پھر تشریف لے گئے۔ (اقبال کے حضور، ص ۷۸۔ ۳۷۷) (۱۱) علامہ اقبال کے آخری دنوں میں میں ان کی صحت کا حال معلوم کرنے کے لئے ہر روز’’ جاوید منزل‘‘ جاتا تھا۔ لیکن میری کوشش یہ ہوتی تھی کہ میں ان کے سامنے نہ جاؤں۔ اس لیے کہ میں سامنے جاتا تھا تو وہ باتیں کرتے تھے، اور باتیں کرنے سے انہیں بے انتہا تکلیف ہوتی تھی۔ میرا معمول یہ تھا کہ میں علی بخش یا رحمان (یہ بھی علامہ کا وفادار ملازم تھا جس کو پنجابی میں ’’ رحماں‘‘ کہا جاتا تھا) سے علامہ کی خیریت معلوم کر لیتا اور پھر ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھ جاتا۔ یہ ڈرائنگ روم علامہ کے سونے کے کمرے سے متصل تھا۔ وہ اپنے پلنگ پر آرام فرماتے رہتے تھے میں ڈرائنگ روم میں ایسے صوفے پر بیٹھ جاتا جہاں سے میں تو انہیں دیکھ سکتا تھا، وہ مجھے نہ دیکھ سکتے تھے۔ میں بعض اوقات گھنٹوں اسی طرح بیٹھا رہتا اور ان کی صحت یابی کے لئے دعائیں مانگتا رہتا۔ میں اس عرصے میں حضرت علامہ کو زیادہ سے زیادہ دیکھتے رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ کیونکہ ایک دھڑکا سا لگا رہتا تھا کہ خدا جانے کیا ہو! حضرت علامہ کی وفات سے ایک ہفتہ پہلے کا ذکر ہے کہ میں ان کے سونے کے کمرے کے باہر علی بخش سے علامہ کی کیفیت دریافت کر رہا تھا کہ حضرت علامہ نے کمرے سے باہر کی طرف دیکھا، ان کی نظر کمزور ہو چکی تھی، اس لیے وہ مجھ پہچان نہ سکے، لیکن یہ اندازہ ہو گیا کہ باہر کوئی موجود ہے۔ رحمان جو ان کے پاؤں دبا رہا تھا اس نے انہوں نے سے پوچھا’’ باہر کون کھڑا ہے؟‘‘ اس نے جواب میں میرا نام لیا۔ آپ نے فوراً فرمایا’’ انہیں اندر بلاؤ‘‘ میں حاضر خدمت ہوا اور سلام عرض کر کے بیٹھ گیا۔ مزاج پرسی کے بعد میں نے پوچھا کہ آج کل علاج انگریزی ہے یا یونانی فرمانے لگے۔ I have lost all faith in allypothy. اس کے بعد ارشاد ہوا: There can be no science of medicine. for there is no science of life. پھر فرمایا: How can you have a science of something the reality of which you cannot know. میں زیادہ گفتگو نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن میں نے محسوس کیا کہ حضرت علامہ گفتگو کرنے کی طرف راغب ہیں۔ آپ تمدن اسلام اور بعض دوسرے موضوعات کے بارے میں گفتگو فرماتے رہے۔ لہجے میں بڑا جوش تھا۔ اس وقت آپ کو شدید درد تھا درد کی شدت سے آپ بستر پر الٹے لیٹ لیٹ جاتے تھے اور پھر گفتگو کا سلسلہ شروع کر دیتے تھے میں دل ہی دل میں افسوس کر رہا تھا کہ کیوں اندر آیا۔ نہ میں حاضر خدمت ہوتا نہ آپ کو زحمت گفتگو ہوتی۔ یہ میری حضرت علامہ سے آخری ملاقات تھی۔ اس آخری ملاقات کے بعد بھی میں نے انہیں ایک بار دیکھا تھا۔ ان کی وفات سے ایک روز پہلے کا ذکر ہے کہ میں ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے جاوید منزل گیا۔ میں سامنے ہو کر زحمت گفتگو نہیں دینا چاہتا تھا، اور دیکھے بغیر رہنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ شاید فطرت اندر ہی اندر یہ احساس دلا رہی تھی کہ آج اس یگانہ دہر کی زندگی کا آخری دن ہے۔ اس کے بعد یہ صورت دیکھنی نصیب نہ ہو گی۔ میں درمیانی کمرے میں جس میں آپ کا بڑا فوٹو آویزاں رہتا تھا، بیٹھ گیا۔ آپ چائے پی رہے تھے اور میں اپنی جگہ سے آپ کو دیکھ رہا تھا۔ اسی عالم میں بعد حسرت و یاس میں کچھ دیر کے بعد رخصت ہوا۔ اس روز میں نے حضرت علامہ کی صورت کی آخری جھلک دیکھی۔ دوسرے روز علی الصباح ایک دوست یہ روح فرسا خبر لائے کہ علامہ محترم نے اس دنیائے آب و گل سے عالم جاوید کی جانب سفر اختیار کیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ علامہ اقبال چار برس تک بیمار رہے اور آخری تین مہینے تو انہوں نے بستر پر ہی گزارے۔ لیکن اس دوران میں انہوں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے یہ معلوم ہو کہ وہ موت سے خوفزدہ ہیں۔ ان کی موت ایک بہت بڑا قومی سانحہ تھی اور اس کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی۔ ہر شخص بچشم نم جاوید منزل کی طرف روانہ ہوا۔ شہر کے تمام تعلیمی و کاروباری ادارے، دفاتر اور بازار بند ہو گئے۔ شام کو پانچ بجے جنازہ اٹھایا گیا۔ جنازے کے ساتھ سوگواروں کا ایک سمندر موجیں مارتا نظر آ رہا تھا۔ سوگواروں میں ہر طرح کے لوگ تھے، وزیر بھی تھے، اعلیٰ عہدیدار بھی، اور عام لوگ بھی غیر مسلموں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ غیر مسلموں میں سے بعض کے نام جو اس وقت یاد آ رہے ہیں، یہ ہیں: جے ڈی، پینی چیف سیکرٹری حکومت پنجاب، کرنل آر ٹی لارنس پرائیویٹ سیکرٹری گورنر پنجاب، سر سندر سنگھ مجیٹھیہ، سر منوہر لال، سر جیمس ایڈیشن قائم مقام چیف جسٹس پنجاب، سردار سردل سنگھ کولیشر، رائے بہادر رام جوایا کپور۔ پھولوں اور چادروں سے ڈھکے ہوئے جنازے کو تقریباً دو درجن سوگواروں نے اٹھا رکھا تھا۔ لمبے لمبے بانس بھی جنازے کے ساتھ باندھ دئیے گئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے قومی شاعر کو کندھا دے سکیں۔ جنازے کا جلوس جاوید منزل سے نکلا اور میو روڈ، برانڈر رتھ سر کلر، بازار دہلی دروازہ، کشمیری بازار اور ڈبی بازار سے ہوتا ہوا ساڑھے سات بجے شام بادشاہی مسجد پہنچا جہاں نماز جنازہ ادا کرنے والوں کی تعدا دپچاس ہزار سے کم نہ تھی۔ حواشی 1؎ مولوی احمد دین اردو کے ممتاز صحافی اور ادیب تھے۔ لاہور کے نامور وکلاء میں سے تھے۔ علامہ اقبال کے انتہائی قریبی دوست تھے دو درجن سے زیادہ کتابوں کے موقف و مترجم ہیں۔ جن میں سے ’’سرگزشت الفاظ‘‘ اپنے موضوع پر بے مثال کتاب ہے اور علمی حلقوں میں خاص شہرت رکھتی ہے۔ علامہ ا قبال کی شاعری پر پہلی جامع کتاب بھی انہوں نے لکھی جو پہلی مرتبہ ۱۹۲۳ء میں شائع ہوئی تھی۔ مولوی صاحب کا انتقال ۹ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو ہوا۔ 2؎ خواجہ فیروز الدین مرحوم میرے چچا خان بہادر خواجہ رحیم بخش کے صاحبزادے تھے۔ وہ اس زمانے میں علی گڑھ میں زیر تعلیم تھے۔ ۱۹۱۴ء میں وہ انگلستان چلے گئے اور ۱۹۱۷ء میں وہاں سے بیرسٹری کی سند لے کر واپس آئے اور لاہور میں وکالت کرنے لگے۔ قیام پاکستان سے قبل وہ لاہور کے نامور قانون دانوں میں شمار ہوتے تھے۔ ۱۹۱۹ء میں رولٹ ایکٹ کے نفاذ پر پنجاب میں مارشل لاء لگا تو لاہور میں سب سے پہلے جو سرکردہ لوگ سیاسی سرگرمیوں کی بناء پر گرفتار ہوئے ان میں خواجہ صاحب موصوف بھی شامل تھے۔ مشہور موسیقار خورشید انور انہیں خواجہ فیروز الدین کے صاحبزادے ہیں۔ حکیم احمد شجاع نے ’’ خوں بہا‘‘ میں خواجہ صاحب کی طالب علمی کے زمانے کے حالات تفصیل سے لکھے ہیں۔ 3؎ آفتاب اقبال صاحب بعد میں بیرسٹری کی سند لے کر آئے اور آج کل کراچی میں مقیم ہیں۔ ان کا شمار پاکستان کے ممتاز وکلاء میں ہوتا ہے۔ 4؎ شیخ صاحب اعلیٰ سرکاری مناصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ آج کل کراچی میں ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 5؎ مولانا سید سلیمان ندویؒ نے اس مقالے کا اردو ترجمہ کرایا اور اپنے مشہور رسالے ’’ معارف‘‘ بابت جنوری و فروری ۱۹۳۰ء میں دو قسطوں میں شائع کیا۔ 6؎ غازی حسین رؤف بے دور حاضر کے عظیم ترین ترک مجاہدین میں سے تھے جنگ عظیم اول میں ان کے زیر کمان بحیرۂ روم میں ترکی جہاز ’’حمیدیہ‘‘ نے تہلکہ مچا رکھا تھا۔ انقلاب ترکیہ کے بعد وہ جموریہ ترکیہ کے پہلے وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ بعد میں مصطفی کمال پاشا سے اختلاف کی بنا پر انہیں وطن چھوڑنا پڑا۔ اس کے باوجود انہوں نے ہندوستان میں مصطفی کمال پاشا کے خلاف ایک لفظ بھی زبان سے نہ نکالا۔ 7؎ ’’ اسلام‘‘ کا پہلا شمارہ ۷ جون ۱۹۳۵ء کو اور آخری شمارہ ۷ مارچ ۱۹۴۰ء کو شائع ہوا۔ اس دوران میں یہ اخبار بلا ناغہ شائع ہوتا رہا۔ اس کی تریب وادارت کا تمام کام میرے ذمے تھا۔ چونکہ اس میں انگریزی حکومت پر شدید نکتہ چینی ہوتی تھی اور میں سرکاری ملازم تھا، اس لیے بہ حیثیت مدیر مستول اس پر خواجہ محمد رشید وائیں صاحب کا نام لکھا جاتا تھا۔ خواجہ صاحب موصوف لاہور کی مشہور آسٹریلیا فیملی کے سربراہ تھے اور ہمیشہ دینی تحریکات میں بڑے جوش و خروش سے حصہ لیتے رہے ہیں۔ اخبار کے بند ہونے کا قصہ یوں ہے کہ میں نے اخبار کے صفحہ اول پر ایک مضمون ’’ ممالک مشرقی میں مغربی حکومتوں کے مظالم‘‘ کے عنوان سے لکھا جس میں مختلف انگریزی کتابوں کے اقتباسات جمع کر دیے تھے اور اپنی طرف سے کوئی اظہار رائے نہ کیا تھا۔ وہ کتابیں جن سے اقتباسات جمع کئے گئے تھے عام طور پر بازار اور لائبریویوں میں موجود تھیں۔ اس کے باوجود حکومت پنجاب نے پانچسو روپے کی ضمانت طلب کر لی۔ انجمن خدام الدین نے اس حکم کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جو چیف جسٹس نے رد کر دی۔ اس پر انجمن نے اخبار بند کر دیا اس لیے کہ اگر ضمانت داخل کی جاتی تو اس کے ضبط ہو جانے کااحتمال تھا۔ انجمن کی طرف سے اس مقدمے کی پیروی ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین مرحوم نے کی تھی۔ 8؎ صوفی غلام مصطفی تبسم میرے پرانے دوست ہیں، وہ تقریباً تیس پینتیس برس تک علمی و دینی کاموں میں میرے شریک کار رہے ہیں۔ ان کے ہاں اکثر احباب کا اجتماع ہوتا تھا۔ وہ اس زمانے میں داتا گنج بخشؒ کے مزار کے عقب میں رہتے تھے۔ 9؎ جس زمانے میں میرے احباب نے اس مسئلے پر سوچ بچار شروع کی، ہم میں سے کوئی بھی ان حضرات کی تجویز سے واقف نہ تھا۔ جب پہلی مرتبہ حضرت علامہ سے اس بارے میں گفتگو ہوتی تو انہوں نے فرمایا کہ میر غلام بھیک نیرنگ اور ڈاکٹر سید ظفر الحسن بھی ان خطوط پر سوچ رہے ہیں اور انہوں نے اپنے خیالات تحریر میں بھی پیش کیے ہیں۔ آپ لوگ ان سے خط و کتابت کر کے ان دونوں کی تجاویز حاصل کریں۔ چنانچہ میں نے دونوں بزرگوں سے خط و کتابت شروع کر دی، جس کا کچھ ذکر آئندہ سطور میں آئے گا۔ 10؎ اس زمانے میں ہم لوگ عام طور پر حضرت علامہ کے لیے ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ 11؎افسوس ہے کہ اس مضمون کی نقل تا حال مجھے اپنے کاغذات میں نہیں ملی۔ میں نے جمعیتہ شبان المسلمین سے متعلق تمام کاغذات ایک فائل میں رکھ دیے تھے، اگر یہ فائل کبھی مل گئی تو جمعیتہ سے متعلق مزید تفصیلات پیش کر سکوں گا۔ 12؎ بھٹی صاحب دفتر اکوئٹنٹ جنرل پنجاب میں میرے ساتھ کام کرتے تھے۔ 13؎ شیخ حسام الدین صاحب مجلس احرار کے ممتاز رہنما تھے۔ ان کا اور صوفی تبسم صاحب دونوں کا وطن امرتسر تھا۔ اس بناء پر دونوں میں گہرے تعلقات تھے۔ مرحوم شیخ صاحب میرے حال پر بھی بہت مہربان تھے۔ 14؎ ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب میرے ان احباب خاص ہیں، جن کے ساتھ مل کر میں نے ربع صدی تک بے شمار دینی، سیاسی اور علمی کاموں میں حصہ لیا۔ ۱۹۲۸ء میں جب لاہور میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں آیا تو وہ پیش پیش تھے۔ بلکہ اگر ان کو اس کا محرک اول قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اس انسٹی ٹیوٹ نے کم و بیش بیس برس کام کیا اور جب قیام پاکستان کے بعد میں نے لاہور چھوڑا تو اس کا کام ختم ہو گیا 15؎ دفتر سے مراد اکونٹنٹ جنرل پنجاب کا دفتر ہے جہاں میں نے ۱۹۲۴ء سے ۱۹۴۷ء تک ملازمت کی۔ 16؎ علامہ اقبال نے مندرجہ ذیل خط میرے نام لکھا تھا: My Dear Khawaja Wahid. These gentlemen came from Aligarh to take about the matter about which you wrote sayyed zafar Hasan of Aligarh. Perhaps you and your friends would like to have a talk with them. if so please come to my place any time in the evening. you can bring your friends who are in sympathy with you. Yours Muhammad Iqbal, اس خط کی پیشانی پر تاریخ صرف 26th درج ہے، مہینہ اپریل اور سنہ (۱۹۳۵ئ) درج نہیں کیا گیا۔ اصل خط ممتاز حسن مرحوم کے ذخیرہ نوادر میں محفوظ ہے۔ اس کی نقل بشیر احمد ڈار کی مرتبہ کتاب Letters and writings of Iqbal میں شامل ہے۔ 17؎ ڈاکٹر عبدالغنی ایم بی بی ایس مرحوم میرے بڑے اچھے دوستوں میں سے تھے اور میرے مکان کے قریب ہی ان کا مکان تھا۔ ان کا مطب فلیمنگ روڈ پر تھا۔ 18؎ ۲۸ اپریل کو علامہ اقبال کے مکان پر طے ہوا تھا کہ ہم لوگ آپس میں تبادلہ خیال کرنے کے بعد، حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ لیکن ۲۹ اپریل کی مجلس مشاورت کے بعد اس پر عمل نہ ہوا۔ بعد میں علی گڑھ کے اصحاب کے ساتھ حضرت علامہ سے ایک ملاقات ہوئی تھی۔ افسوس کہ اس کی تفصیل روزنامچے میں نہیں ہے۔ 19؎ پروفیسر محمد محمود احمد کا انتقال ہو چکا ہے۔ وہ آخری زمانے میں کراچی یونیورسٹی میں صدر شعبہ فلسفہ تھے۔ 20؎ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی قیام پاکستان کے بعد ایم اے او کالج لاہور میں کئی برس تک استاد رہے۔ بعد میں کراچی آ گئے اور کم و بیش ایک برس تک اسلامک سنٹر نارتھ ناظم آباد سے منسلک رہے۔ فاروقی صاحب آج کل لاہور میں ہیں اور اپنے علمی و تحقیقی کاموں میں مصروف ہیں۔ 21؎ پروفیسر منیر الدین (ایم ایس سی) اسلامیہ کالج لاہور میں کیمسٹری کے استاد تھے اور احیاء اسلام کی تحریکوں میں بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ 22؎ راجہ حسن اختر صاحب پراونشل سروس سے متعلق تھے۔ بڑے اچھے اسلامی خیالات رکھتے تھے، اور عمر بھر قومی و ملی کاموں میں مصروف رہے۔ آخر عمر میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد، سیاست میں عملی حصہ لینے لگے تھے۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل اقبال اکیڈمی کی گورننگ کونسل کے رکن نامزد ہو گئے تھے اور اس سلسلے میں کبھی کبھی کراچی آتے رہتے تھے۔ یہیں ان سے میری آخری ملاقات ہوئی۔ 23؎ ان کا پورا نام نجم الثاقب تھا۔ اس زمانے میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں طالب علم تھے۔ میرے بہت مخلص اور مستعد شریک کار تھے دوسری جنگ عظیم میں غالباً برما کے محاذ پر راہی ملک بقا ہوئے۔ مرحوم پنجاب کی مشہور ماہر تعلیم محترمہ خدیجہ بیگم کے چھوٹے بھائی تھے۔ 24؎ بدر الدین بدر صاحب ایک مخلص نوجوان تھے اور اس زمانے میں رپن پریس لاہور میں کام کرتے تھے۔ 25؎ ڈاکٹر عبدالحمید ملک (میو ہسپتال لاہور) پاکستان کے مشہور معالج ان کی تمام عمر خدمت دین و ملت میں صرف ہوئی ہے انتہا درجے کے صالح اور مخیر مسلمان ہیں میرے ساتھ انہوں نے ہر نیک کام میں اشتراک کیا ہے۔ 26؎عبدالرشید طارق صاحب اس زمانے میں طالب علم تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ وزارت اطلاعات حکومت پاکستان میں افسر اطلاعات ہو گئے تھے۔ 27؎ مولانا ابو الخیر عبداللہ صاحب، اسلامیہ کالج سول لائن میں لیکچرر تھے۔ کچھ عرصہ ہوا انتقال ہو چکا ہے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کے اردو مخطوطات کی توضیحی فہرست مرتب کی تھی جو ہنوز غیر مطبوعہ ہے اور یونیورسٹی لائبریری میں محفوظ ہے۔ 28؎ محمد شریف پنی صاحب ( بی اے ایل ایل بی) علمی و تاریخی مسائل سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں انہوں نے پنی قوم کی تاریخ لکھی ہے، نیز پروفیسر حتیٰ کہ تاریخ ملت عربی کا اردو میں ترجمہ کیا ہے یہ دونوں کتابیں غیر مطبوعہ ہیں پنی صاحب آج کل راولپنڈی میں ہیں۔ 29؎ خواجہ غلام دستگیر صاحب، دفتر اکونٹنٹ جنرل پنجاب میں اسسٹنٹ اکونٹس آفیسر کے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد انجمن حمایت اسلام لاہور کے آنریری فنانسل سیکرٹری ہو گئے تھے۔ 30؎ مولوی خدا بخش مرحوم، جن کا انتقال ۶۳ء یا ۶۴ء میں ہوا، اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ دروازہ لاہور میں اورینٹل ٹیچر تھے۔ وہ اس زمانے میں بچوں کا ایک ہفتہ وار اخبار ’’ نونہال‘‘ بھی ایڈٹ کرتے تھے اور گاہے گاہے قومی و اخلاقی نظمیں لکھتے تھے۔ ان کا تخلص ارمان تھا۔ عمر بھر دین و وطن کی ہر چھوٹی بڑی تحریک میں حصہ لیتے رہے۔ تحریک ہجرت سے لے کر تحریک جہاد کشمیر تک سبھی میں زبردست قربانیاں دیتے رہے۔ میرے بہت ہی قریبی دوست تھے۔ 31؎ ایک مطبوعہ فارم اب بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ اس کا مضمون حسب ذیل ہے: (۱) ہندوستان میں مسلمانوں کے عروج و اقبال کے حصول کے لیے جو جماعت قائم کی گئی ہے، میں اس کا رکن بننے کے لیے تیار ہوں اور اس بات کا عہد کرتا ہوں کہ امیر کی اطاعت قرآن و سنت کے مطابق بہر حال اور ہر وقت بال چون و چرا کروں گا۔ (۲) میں متمنی ہوں کہ ا س جماعت کی امارت علامہ سر محمد اقبال مدظلہ کے دست مبارک میں ہو۔ نام۔۔۔۔۔ پتہ۔۔۔۔۔دستخط 32؎ ایک بڑی ہی خوش آئندہ تحریک کا یہ الم ناک انجام ہم لوگوں کے کمزور ارادوں کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ شاید ایسے ہی حالات کے پیش نظر علامہ اقبال نے یہ شعر کہا تھا: دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا یہ اک مرد تن آساں تھا، تن آسانوں کے کام آیا 33؎ میں اس زمانے میں مزار داتا گنج بخشؒ سے ذرا آگے بڑھ کر ایک نئی آبادی میں رہتا تھا جو بعد میں ’’ بلال گنج‘‘ کے نام سے موسوم ہوئی۔ حضرت علامہ اس زمانے میں میکلوڈ روڈ والے مکان میں رہتے تھے۔ 34؎ اس زمانے میں حضرت علامہ کی صحت بگڑ چکی تھی، اور اکثر کوئی ملازم آپ کا جسم دبایا کرتا تھا۔ 35؎ حضرت علامہ عمر بھر روپیہ جمع نہ کر سکے۔ اب انہیں اس بات کی فکر لاحق ہو چکی تھی کہ دو چھوٹے بچوں کے لیے زندگی کا کچھ سر و سامان مہیا کریں۔ اس میں سب سے پہلی ضرورت سر چھپانے کے لیے مکان کی تھی اس کے لیے وہ جدوجہد کر رہے تھے، او رہائی کورٹ میں وکالت کا کام چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ علامہ اقبال کے الفاظ اسی صورت حال کی غمازی کر رہے ہیں۔ 36؎ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے بارے میں حضرت علامہ کی رائے اچھی نہیں تھی۔ مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دوسرے موقع پر انہوں نے فرمایا تھا:’’ ہمارے تعلیم یافتہ بات سن کر یاد نہیں رکھ سکتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب انہیں کوئی پیغام دے کر بھیجا جائے تو وہ کبھی پیغام من و عن نہیں پہنچاتے بلکہ اس میں کچھ نہ کچھ کمی یا بیشی کر دیتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد آپ نے فرمایا:’’ میں نے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ آدمی کو جب بھی کہیں پیغام دے کر بھیجا، اس نے اس میں یا تو کچھ حذف کر دیا یا کچھ اپنی طرف سے بڑھادیا۔‘‘ حضرت علامہ نے مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم کے نام ایک خط لکھا تھا ’’ مسلمانوں کا مغرب زدہ طبقہ سخت پست فطرت ہے۔‘‘ ان الفاظ سے بھی جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے بارے میں حضرت علامہ کی رائے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ 37؎ سر فضل حسین مرحوم پنجاب میں مسلم لیگ ہاؤس کے خلاف ہندو، مسلمان اور سکھ زمینداروں کی تنظیم’’ یونینسٹ پارٹی‘‘ کے بانی اور زمینداروں کے مفاد کے زبردست حامی تھے۔ اس پارٹی نے حصول پاکستان کی راہ میں بڑی رکاوٹیں پیدا کیں۔ 38؎ کرنسی آفس اس زمانے میں وہی کام کرتا تھا جو بعد میں ریزرو بینک آف انڈیا، اور اب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سپرد ہے۔ اس زمانے میں اس دفتر کے سربراہ یعنی کرنسی آفیسر ایک سخت متعصب ہندو مسٹر کالی چرن تھے جو مسلمان عملے کو طرح طرح سے پریشان کرنے کے عادی تھے۔ وہ مسلمان عملے کو ظہر کی نماز اور نماز جمعہ ادا کرنے سے روکا کرتے تھے بعد میں ان کے خلاف شکایت وائسرائے کی مجلس منتظمہ کے فنانس ممبر کو پہنچائی گئی جس کے نتیجے میں تحقیقات کے بعد ان کا تبادلہ لاہور سے کسی دوسری جگہ کر دیا گیا۔ 39؎ علامہ اقبال مرحوم کا یہ خیال تھا کہ کسی بڑی آزاد قوم کا حلقہ بگوش اسلام ہو جانا دنیا میں اسلام کے لیے موجب احیاء ہو گا۔ اس لئے ان کی یہ آرزو تھی کہ جاپانی یا جرمن ایسی قوم مسلمان ہو جائے۔ ان کی یہ آرزو عین منشائے ایزدی کے مطابق تھی، اس لیے کہ قرآن میں کہہ دیا گیا ہے کہ اگر مسلمان اسلام کے لیے جدوجہد کرنے سے احترازکریں گے تو اللہ تعالیٰ کوئی اور قوم کھڑی کر دے گا جو اللہ کی راہ میں مارنے اور مرنے سے گریز نہ کرے گی۔ ہم عصر مسلمان ملکوں اور قوموں کے متعلق بھی حضرت علامہ کی رائے بالعموم اچھی نہ تھی، اس لیے کہ بیشتر ممالک یا تو مغربی استعمار کے پنجے میں پھنسے ہوئے تھے یا مغربی تمدن کے مقلد ہو چکے تھے ان کا یہ خیال بھی تھا کہ جب مسلمان قومیں مغربی اقوام کی غلامی سے آزاد نہ ہوں احیائے اسلام کا کام نہیں ہو سکتا۔ عمر کے آخری حصے میں وہ کھلم کھلا مغرب کے خلاف مسلمانوں کو بغاوت پر آمادہ کرنے لگے تھے جیسا کہ ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کے صفحات سے عیاں ہے۔ 40؎ ملک لال دین قیصر لاہور کے مشہور سیاسی کارکن اور پنجابی زبان کے کہنہ مشق شاعر تھے۔ اکثر قومی تحریکوں میں حصہ لیتے رہے۔ لاہور کی ککے زئی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ 41؎ استاد عشق لہر پنجابی زبان کے مشہور و معروف شاعر تھے۔ ان کا انتقال ۱۹۴۸ء میں ہوا۔ 42؎ ان حکیم صاحب سے میں واقف نہ تھا اور نہ اس موقع پر ان سے تعارف ہوا۔ 43؎ اس سے مراد محض یہ تھی کہ قومی زندگی میں قیادت عورتوں کے بس کی چیز نہیں۔ ورنہ حیات اجتماعی میں عورتوں کے مقام کے متعلق ان کے خیالات عالیہ ان کے کلام میں بکثرت ملتے ہیں۔ انہوں نے جا بجا عورت کے فرائض اصلیہ کی طرف توجہ دلائی ہے اور ان فرائض میں ان کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت عورت کے ’’ فریضہ امومت‘‘ کی ہے۔ عورت کو اولاد سے محروم کر دینے کو وہ تہذیب حاضرہ کے بدترین نتائج میں شماع کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک موقع پر آپ نے اس تہذیب کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے مرد بے کار، زن تہی آغوش 44؎ نذیر احمد مرحوم میرے بچپن کے دوست تھے جو میری تمام سماجی سرگرمیوں میں دست راست تھے۔ 45؎ یہ بیان بعد میں Islam and Qadianism کے نام سے پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوا یہ Islam and Ahmadism کے نام سے شائع ہونے والے پمفلٹ سے مختلف ہے۔ 46؎ لفٹننٹ کرنل ڈاکٹر خواجہ عبدالرشید، میرے برادر بزرگ خواجہ عبدالحمید کے صاحبزادے ہیں اس زمانے میں وہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے طالب علم تھے وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آج کل لاہور میں مقیم ہیں اور دیال سنگھ لائبریری کے چیئرمین ہیں۔ 47؎ حضرت علامہ سے ملاقات کے لئے وقت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ البتہ جب کسی خاص مقصد کے لیے ملاقات کرنی ہوتی تھی تو پہلے سے وقت لے لیا جاتا تھا تاکہ حضرت علامہ وہ وقت کسی اور کو نہ دے دیں اور متعلقہ معاملے پر اطمینان اور یکسوئی سے گفتگو کی جا سکے۔ 48؎ والدہ جاوید اقبال کا انتقال ۲۳ مئی ۱۹۳۵ء کو ہوا۔ 49؎ عبدالحمید عارف دفتر اکونٹنٹ جنرل پنجاب میں ملازم تھے مولانا عبدالمجید سالک کے بھائی تھے مذہباً قادیانی اور عادتاً بحث مباحثے کے بہت شائع تھے۔ 50؎ ’’ اسلام‘‘ کے دوسرے شمارے (بابت ۲۲ جون ۱۹۳۵ئ) میں میں نے ایک ادارتی شذرے میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ دنیائے اسلام کے تمام علماء کی ایک کانفرنس لاہور میں منعقد کی جائے جس میں واضح اور متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا جائے کہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں۔ 51؎ اس واقعے سے متعلق میرے روزنامچے میں اسی تاریخ میں یہ اندراج ملتا ہے ’’ کل اسلام‘‘ کا چوتھا پریس بھیجنے کے لئے تیار تھا لیکن شذرات سنسر سے منظوری کرانے کے لئے بھیجنے پڑے اس لیے کہ ان میں مسجد شہید گنج کا ذکر تھا آج کل سکھوں اور مسلمانوں کی کشیدگی کو روکنے کے لئے اخبارات کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ کوئی منظر مسجد کے متعلق بغیر سنسر کو دکھائے شائع نہ کریں۔ سنسر مسلمان ہے اور ہر مسلم سرکاری عہدیدار کی طرح ڈر پوک، سنسر کی غرض مسلم سکھ کشیدگی کو دور کرنا ہے لیکن میرے شذرے میں سکھوں کے متعلق تمام الفاظ رہ گئے اور حکومت کے متعلق تمام الفاظ حذف کر دیے گئے۔ 52؎ خلاف معمول اس لیے کہ گرمیوں کے موسم میں بالعموم حضرت علامہ تہمد اور بنیان میں ملبوس رہنے کے عادی تھے۔ 53؎ محترم حافظ حبیب اللہ صاحب بعد میں ہجرت فرما کر مدینہ منورہ میں مقیم ہو گئے تھے۔ پھر مکہ مکرمہ میں قیام فرمایا اور وہیں داعی اجل کو لبیک کہا۔ 54؎ حضرت علامہ کی تمام تصانیف میں ’’ جہاد‘‘ پر زور دیا گیا ہے، اور جہاد کے لیے طاقت مہیا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ ایک مقام پر آپ نے یہ بھی فرمایا دیا ہے: عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد 55؎ ڈاکٹر نظام الدین، ڈاکٹر محمد حمید اللہ اور قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی ادارۂ معارف اسلامیہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور تشریف لائے تھے اور ان کا قیام میرے ہاں تھا۔ 56؎ اس دفتر کا مسلمان عملہ ہر طرح کے دینی ا ور سماجی کاموں میں بڑی دلچسپی لیتا تھا۔ انجمن حمایت اسلام کے کارکنوں کو اچھی خاصی تعداد اس دفتر کے ملازموں پر مشتمل تھی خصوصاً انجمن کے فنانشل سیکرٹری کا عہدہ اسی دفتر کے لوگوں کے پاس رہا۔ منشی نظام الدین صاحب، حاجی محمد حفیظ صاحب، خان بہادر عبدالرحمن صاحب، خواجہ غلام دستگیر صاحب، یہ سب لوگ اسی دفتر کے ملازم تھے اور عمر بھر انجمن کی خدمت کرتے رہے۔ 57؎ شیخ دین محمد صاحب شرقپوری بہت مخلص، دیندار اور محنتی نوجوان اور میرے دفتر کے ساتھیوں میں سے تھے۔ اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ 58؎ مولانا مظہر علی اظہر بزرگان مجلس احرار میں سے تھے۔ تمام عمر اسلاما ور مسلمانوں کی خدمت میں صرف کی۔ قید و بند کے خطرے نے کبھی انہیں اعلان حق سے نہیں روکا۔ مجھے دینی کاموں کے سلسلے میں ہمیشہ ان کا تعاون حاصل رہا۔ 59 ؎ حضرت مولانا عبدالحنان صاحب اس زمانے میں آسٹریلیا مسجد نزد لاہور ریلوے سٹیشن میں خطیب تھے۔ آپ ہمیشہ تبلیغی کاموں میں اور جہاد آزادی میں پیش پیش رہے اور ہر قسم کی قربانیاں خندہ پیشانی سے دیتے رہے۔ 60؎ اس وقت مسٹر اراٹون کی طرف سے ان کے مشرب با سلام ہونے کا ایک اعلان تیار کیا گیا تھا جس پر تمام حاضرین نے بطور شہادت دستخط ثبت کیے تھے۔ حضرت علامہ بھی دستخط کنندگان میں شامل تھے۔ یہ کاغذ اقبال اکیڈیمی کے ذخیرہ نوادر میں محفوظ ہے۔ 61؎ یہ نظم بعد میں ایک بند کی صورت میں ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ میں شامل کی گئی ہے۔ 62؎ روزنامہ ’’ احسان‘‘ حضرت علامہ کی توجہات کا ہمیشہ مرکز رہا۔ آپ کے بیشتر بیانات اسی اخبار میں شائع ہوئے۔ ان میں دو بیان بہت اہم ہیں۔ ایک تو مسجد شہید گنج کے بارے میں جس کی تفصیل اس مضمون میں پیش کی جا چکی ہے۔ دوسرا بیان حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے متعلق تھا۔ مولانا مدنی نے دہلی کے ایک عام جلسے میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ :’’ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔‘‘ اس پر مسلم لیگی اخباروں نے ایک ہنگامہ بپا کر دیا ۔ جس طریق سے اس خبر کو اچھالا گیا، اس سے متاثر ہو کر حضرت علامہ نے ایک مختصر مگر بہت ہی زور دار نظم ارقام فرمائی، جس کا اخبارات میں بہت چرچا ہوا۔ اس پر مسلم لیگیوں اور مولانا مدنیؒ کے طرفداروں میں زبردست مباحثہ ہوا۔ بالآخر حضرت علامہ کا ایک بیان روزنامہ ’’ احسان‘‘ میں شائع ہوا جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ چونکہ مولانا نے واضح طور پر فرمایا دیا ہے کہ انہوں نے ’’ اوطان‘‘ والا جملہ خبر کے طور پر کہا تھا نہ کہ اپنی رائے کے طور پر اس پر میرے اور ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں رہا۔ آخر میں حضرت علامہ نے مولانا کے شاگردوں سے فرمایا کہ ’’ مولانا کی عقیدت میں میں ان سے پیچھے نہیں ہوں۔‘‘ اس صورت حال کے باوجود آج تک اس قصے کو اچھالا جا رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ’’ ارمغان حجاز‘‘ حضرت علامہ کی زندگی میں شائع ہوتی تو یہ نظم اس میں شامل نہ کی جاتی۔ 63؎ محمد اکبر خاں، پاکستان کے مشہور انشورنس ایجنٹ جو کئی بین الاقوامی اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ آج کل امریکہ میں مقیم ہیں۔ 64؎ یہ ایبٹ آباد کے بڑے سرگرم سیاسی نوجوان تھے۔ بعد میں انہوں نے راولپنڈی سازش کیس کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔ 65؎ عبدالعزیز صدیقی مرحوم ریلوے میں اسسٹنٹ ٹریفک سپرنٹنڈنٹ تھے۔ ٭٭٭ علامہ اقبالؒ مصنف: میاں عطاء الرحمن مرحوم تعارف: صالحتہ الکبریٰ عرشی یوں تو علامہ اقبال کے کلام کی تفسیر و توضیح اور اس کی ترویج و اشاعت کی خاطر پاکستان و ہندوستان کے مختلف رسائل میں مضامین کی بھر مار ہے اور ان موضوعات پر مستقل کتابوں کا بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کی زندگی کے نشیب و فراز اور ان کی حیات کے شب و روز سے۔۔۔۔ جو رنگ و نور سے روشن و تابندہ ہیں۔ لوگ بے پروا ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ چند ہی سال ایسے باقی ہیں جن میں وہ ہستیاں ہمارے درمیان موجود ہیں جنہیں علامہ اقبال سے شرف ملاقات حاصل رہا ہے۔ ابھی ایسی آنکھیں باقی ہیں جنہوں نے اس عظیم شاعر کو دیکھا ہے اور ابھی وہ لب و گوش قوت سماعت اور طاقت گویائی رکھتے ہیں۔ جنہوں نے اس محبوب اور محترم شخصیت سے گفت و شنید کا لطف اٹھایا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے تمام بزرگوں سے پر زور درخواست کی جائے کہ وہ علامہ اقبال کی حیات کی ایسی بے شمار کڑیوں کو ملانے میں مدد دیں جو ان کی زنجیر ایام سے غائب ہیں۔ یہ لوگ نہ رہیں گے تو پھر ہمارے سارے ذرائع کمزور اور سارے وسیلے ایک حد تک یقین کی اس بلندی سے نیچے اتر آئیں گے۔ جن پر وہ آج ہیں۔ اس لیے علامہ اقبال پر کام کرنے والے افراد اور ان کے ساتھ ہی ساتھ اداروں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ زیر بحث کام میں عملی دلچسپی لیں۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ شخصیت پر لکھنے والوں کو خصوصیت سے گفتنی اور ناگفتنی کی رسمی اور مذموم قید کو توڑ کر لکھنا چاہیے اور درج گزٹ ہر وہ بات ہونا چاہیے۔ جو اس شخصیت کو یا اس کے کارناموں کو سمجھنے میں کسی نہج سے بھی کار آمد اور مفید ہو سکتی ہے۔ اس موقع پر حضرت یزداں میں چپ نہ رہنے والے بندۂ گستاخ کی مثال جرأت پیدا کرنے میں ضرور مددگار ثابت ہو گی۔ چاہے وہ خود اسی زہر ہلال کو قند نہ کہہ سکنے والے سے متعلق ہی کیوں نہ ہو۔ ہم سب کو چاہیے کہ ان اصحاب کو اس اہم کام کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اگر یہ حضرات لکھنے پر آمادہ نہ ہوں تو ان سے باقاعدہ ملاقاتیں کی جائیں اور سوالات کے ذریعے وہ سب کچھ معلوم کرنے کی سعی کی جائے جس کے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ ان کے سینوں میں ایک راز کی صورت ان کے ساتھ ہی دفن ہو جائے گا۔ اسی جذبے کے تحت ایک بے حد دلچسپ اور بیش قیمت تاثراتی تحریر علامہ اقبال کے ایک شاگرد اور میرے والد (مولانا امتیاز علی عرشی صاحب)کے ایک عزیز اور قریبی دوست میاں عطاء الرحمن مرحوم کی پیش کی جاتی ہے جو لاہور کے مشہور صاحب علم و ثروت خانوادے (میاں سر محمد شفیع باغبانپورہ) کے ایک فرد تھے۔ انہوں نے جیسا کہ خود انہوں نے لکھا ہے علامہ اقبال کو اس عالم میں دیکھا جس میں کم لوگوں نے دیکھا ہو گا۔ میاں صاحب کی یہ تحریر رام پور رضا انٹر کالج کی طرف سے منعقد کئے گئے یوم اقبال کی ایک نشست (منعقدہ سنہ ۱۹۴۵ئ) میں پڑھی گئی تھی جس کی صدارت مشہور ماہر تعلیم ڈاکٹر ذاکر حسین خاں مرحوم نے کی تھی۔ اس جلسے کی دوسری اور تیسری نشست جس میں کلام اقبال سے متعلقہ تفسیری تصاویر کی نمائش بھی شامل تھی رشید احمد صدیقی مرحوم اور غلام السیدین مرحوم کے زیر صدارت ہوئی تھی یہ تصاویر رام پور کے دو مصوروں عظمت اللہ خاں اور اویاما مرحوم کی کاوشوں کا نتیجہ تھیں۔ میاں صاحب مرحوم کے اس مضمون کی نقل میرے پاس محفوظ تھی۔ جس کے محفوظ رہنے میں علامہ اقبال اور خود میاں عطاء الرحمن دونوں سے عقیدت اور محبت کو دخل رہا ہے۔ امید ہے کہ میاں صاحب کی یہ تحریر ذوق و شوق کے ساتھ پڑھی جائے گی اور علامہ اقبال کی شخصیت کا مطالعہ کرنے والوں کے لئے کچھ اور پر کشش ہو گی۔ مضمون نگار (میاں عطاء الرحمن مرحوم) کے بارے میں یہ بھی عرض کر دوں کہ وہ سالہا سال رام پور میں مقیم رہے اور ریاست کے محکمہ فنانس کے علاوہ بھی بہت سے محکموں کے منتظم رہے اور آخر میں ہزلیٹ ہائی نس نواب رام پور کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی وہ بڑے خوش مزاج زندہ دل اور پر خلوص آدمی تھے۔ انہیں ادب سے نہ صرف لگاؤ تھا بلکہ دخل بھی تھا۔ ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ لاہور سے شائع بھی ہوا تھا۔ تقسیم سے پہلے وہ واپس لاہور چلے گئے تھے اور وہیں انتقال کیا۔ مضمون اور مضمون نگا رکے تعارف کی رسم کے بعد مجھے رخصت کی اجازت دیجئے اور اصل تحریر ملاحظہ فرمائیے۔ ’’ مجھے کالج چھوڑے ہوئے آج بیس برس سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔ گو ایسا اتفاق کبھی کبھار ہوتا ہے لیکن جب بھی مجھے کسی ایسے مجمع میں شمولیت کا موقع ملتا ہے جیسا آج ہے تو شاید گرد و نواح کی فضا کے اثر سے میرے جسم میں خون ایک نئی طرح سے حرکت کرنے لگتا ہے اور میں اپنے دماغ میں اس قسم کے محسوسات گردش کرتے ہوئے پاتا ہوں۔ جو کبھی ہوا کرتے تھے۔ جب آتش جوان تھا۔‘‘ علامہ اقبال کے فکر و فلسفے پر بیشمار چیزیں شائع ہو چکی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ لیکن ان کے کسی شاگرد نے بحیثیت شاگرد کے اپنے محسوسات بیان نہیں کئے اور مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ میں نے مہینوں مسلسل ان کے قدموں میں بیٹھ کر ان سے انگریزی کی وہ نظمیں پڑھیں جو اس زبان میں اپنی نوع کی بہترین تخلیقات خیال کی جاتی ہیں اور اس مطالعے میں وہ لطف حاصل کیا ہے جو مشرق کے سب سے بڑے شاعر کی زبان سے مغرب کے سب سے بڑا شعراء کا کلام پڑھنے سے حاصل ہو سکتا ہے۔ اقبال کی یاد میں غالباً ان موقعوں کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ جب پہلے پہلے میں نے انہیں دیکھا۔ میاں شاہنواز بیرسٹر ایٹ لاء مرحوم سے ہمیشہ ان کے خاص تعلقات رہے۔ ان دونوں کی آپس میں بے انتہا بے تکلفی تھی۔ اور آخر تک بھی یہ دونوں جب بھی ملتے گفتگو کا وہی پرانا رنگ شروع ہو جاتا۔ میرے چچا میاں سر محمد شفیع مرحوم اور میاں شاہنواز ان دنوں لاہور ہائی کورٹ کے پہلو میں ایک ہی احاطے کی دو کوٹھیوں میں رہتے تھے۔ غالباً سنہ ۱۹۰۴ء یا ۱۹۰۵ء کا ذکر ہے جب میری عمر بھی تیرہ چودہ برس کی تھی۔ چچا سر شفیع کے یہاں میرا آنا جانا اکثر ہوتا تھا۔ کیوں کہ وہاں میرے دو ہم عمر رفیق رہتے تھے مجھے خواب کی طرح لیکن صاف یاد ہے کہ جس کمرے میں ہم لڑکے بیٹھا کرتے تھے۔ اس کے برابر والے کمرے میں ان زندہ دل جوانوں کی بے تکلفانہ محفل جما کرتی تھی۔ ہمیں اس میں شمولیت کی اجازت تو ہو ہی نہ سکتی تھی۔ لیکن ہم دروازوں کے روزنوں میں سے اور کسی کھلے دروازے کے باہر دیوار سے لگ کر ان کی باتیں سنا کرتے تھے اور جہاں اندر سے کسی بزرگ کے نکلنے کی آہٹ ہوتی بھاگ کر چھپ جایا کرتے تھے۔ اقبال ان دنوں محفل کے روح رواں تھے۔ اور ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ حد درجے کے رند مشرب ہیں ان کی آواز سب سے زیادہ بلند ہوتی اور باتوں میں کھلا مذاق جس کے لئے پنجابی زبان خاص طور پر موزوں ہے۔ اسی زمانہ میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے انجمن کی پرانی شیرانوالہ دروازہ والی عمارت میں ہوا کرتے تھے اور چونکہ ان جلسوں میں اکثر اوقات دلچسپی کا کافی سامان ہوا کرتا تھا ہم بھی کئی کئی دنوں کا پروگرام ہونے کے باوجود جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا۔ شمولیت سے ناغہ نہیں کرتے تھے۔ خصوصاً ان دنوں میں جب اس وقت کے نوجوان شعر باز جن میں سے خان احمد حسین خاں اور اقبال خاص طور پر ممتاز تھے۔ اپنا کلام سنانے والے ہوں مجھے یاد ہے کہ اقبال ایک خوش وضع جوان کی صورت ہلکی پھلکی سی عینک لگائے، گلے کا بٹن کھلا ہوا۔ شلوار پہنے اسٹیج پر آیا کرتے تھے اور ان کے آتے ہی وہ ہنگامہ جو چندہ جمع کرنے اور خشک و بے لذت تقریر کرنے والوں کی وجہ سے تمام ہال میں برپا رہا کرتا تھا۔ تالیوں میں تبدیل ہو جاتا اور پھر وہ نغمے فضا میں گونجنے لگتے جن کے سننے کی آرزو میں ہم بھیڑ بھاڑ میں دھکے کھاتے ہوئے داخل ہو کر صبح سے چاروں طرف کے دباؤ کے جھونکے برداشت کئے ہوئے بیٹھے ہوتے تھے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ہماری سمجھ میں آتا تھا یا نہیں کہ شاعر ان نکتہ سنج کیا کہہ رہے ہیں۔ بہرحال اقبال کے دل کش ترنم میں وہ مزا آ جاتا تھا جو شاید کسی محفل رقص و سرود میں بھی نہ آتا۔ اور ان کے اشعار کی داد اس بے تکلف دل سے نکلے ہوئے جوش کے ساتھ دی جاتی جو پنجاب والوں ہی کا حصہ ہے ان جلسوں میں ہندوں کی اسلامی دنیا کے بڑے آدمی شرکت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ مولوی نذیر احمد، شبلی نعمانی اور حالی جیسی ہستیوں کو پہلے پہلے میں نے وہیں دیکھا یا سنا۔ مولانا حالی بہت ضعیف تھے اور آواز اتنی نہ تھی کہ تمام حاضرین سن سکتے۔ لاؤڈ سپیکر کا زمانہ نہ تھا۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ مولانا حالی اپنی نظم کے ایک دو اشعار پڑھ کر بیٹھ گئے اور مسودہ اقبال کو دے دیا۔ جو انہوں نے اپنے مخصوص طرز میں سنایا اور نظم پڑھنے سے قبل ایک فی البدیہہ رباعی کہی جس کے قافیے ردیف نام حالی کلام حالی تھے الفاظ مجھے یاد نہیں۔ 1؎ اس کے بعد اقبال ولایت چلے گئے اور کئی سال تک سوائے اس کے کہ اقبال کی کوئی نئی غزل مخزن میں نکلی اور ہم نے جھٹ اپنی بیاض میں نقل کر کے اسے یاد کرنا اور گانا شروع کر دیا۔ ان کا سامنا نہ ہو گا ولایت سے واپس آنے کے بعد ان کے تغزل کے رنگ میں فرق آتا گیا اور اس میں کم از کم اس وقت تک ہمارے لئے وہ رندانہ کیف نہ رہا جو ان کی ولایت سے بھیجی ہوئی اس مشہور غزل کے مقطع میں ہے۔ نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانا ابھی وہی کیفیت ہے اس کی کہیں سر رہ گذار بیٹھا ستم کش انتظار ہو گا اقبال کے ولایت سے واپس آ جانے کے بعد غالباً ۱۹۰۹ء یا ۱۹۱۰ء میں جب میں اسکول سے کالج میں پہنچ چکا تھا۔ انجمن حمایت اسلام کا جلسہ ہوا۔ جلسے سے پہلے یہ خبر اڑائی گئی تھی کہ اقبال اپنی کوئی خاص نظم پڑھنے والے ہیں بس پھر کیا تھا وقت سے دو گھنٹے پہلے کالج سے بھاگ لیے اور ابھی چونکہ پنڈال اچھی طرح بھرا نہ تھا۔ عین ڈائس کے کنارے جس کے اوپر بڑے لوگوں کے لئے کرسیاں بچھی تھیں۔ پاؤں نیچے لٹکا کر جم گئے کالج کے چار یا پانچ نوجوان کہیں تہیہ کر کے بیٹھ جائیں تو انہیں کوئی رعب یا دھمکی دے کر اٹھا تو لے۔ خصوصاً ایسے پبلک جلسے میں جس میں اقبال نئی نظم پڑھنے والے ہوں۔ دو چار قانون اور حفظ امن کے چوکیدار آئے اور ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ لیکن یہاں ’’ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ والا تہیہ کر کے بیٹھے تھے کسی سے مذاق، کسی پر پھبتیاں، کسی سے کامل خاموشی بلا حرکت کی سیاسی پالیسی برتی گئی اور نتیجہ یہ ہو ا کہ جب وقت کم رہ گیا اور جگہ کی قلت پیدا ہوئی تو ایک ہی ہلے میں ڈائس کے چاروں طرف کے کنارے پاؤں لٹکائے ہوئے نوجوانوں سے بھر گئے اور کسی سینے پر کپڑے کا پھول لگا کر اکڑنے والے کی دال نہ گلی۔ غرض یہ کہ اقبال ڈائس پر آئے۔ چاروں طرف سے اللہ اکبر کا فلک شگاف نعرہ بلند ہوا۔ اور حسب معمول ڈائس پر تھوڑی بہت کھسر پھسر کے بعد وہ اپنی نظم پڑھنے کو کھڑے ہوئے۔ باوجود سامعین کے بے حد اصرار کے اقبال نے نظم کو ترنم سے پڑھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ترنم سے پڑھنا نظم کے مضمون سے مناسبت نہیں رکھتا معلوم ہوا کہ نظم کا عنوان ’’ شکوہ‘‘ ہے۔ اقبال پہلا بند پڑھنے لگے: کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں 1؎ وہ رباعی یہ ہے: مشہور زمانے میں ہے نام حالی معمور مئے حق سے ہے جام حالی میں کشور شعر کا نبی ہوں گویا نازل ہے مرے لب پہ کلام حالی (صالحہ) نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو ہزاروں کے مجمع پر سناٹا چھا گیا۔ کیا مجال کہ کسی کے سانس لینے کی آواز تک سنائی دے جائے۔ دوسرا بند شروع ہوا: ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم ساز خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم اے خدا شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے جوں اقبال نظم پڑھتے جاتے تھے۔ سامعین کا جوش بڑھتا جاتا تھا۔ اور ہر بند کے بعد تالیوں اور نعروں کا ایک طوفان برپا ہو جاتا تھا۔ جس کے خاموش ہونے تک اقبال کو بار بار رکنا پڑتا تھا۔ اسی ہنگامہ پرور شان کے ساتھ یہ نظم شروع سے آخر تک پڑھی گئی اور نئے اسلامیہ کالج لاہور کے میدان میں آج تک انجمن حمایت اسلام کے یا دوسرے جتنے بھی جلسے ہوئے ان میں مجھے یاد نہیں کہ کسی میں اس قدر جوش و خروش کا اظہار کیا گیا ہو۔ جس قدر اس قابل یادگار موقع پر ہوا۔ شکوے کے شائع ہونے کے بعد چاروں طرف سے جوابوں کی بوچھاڑ شروع ہوئی۔ کھلے خطوط میں اخباری مضامین میں نثر میں، نظم میں، درجنوں پمفلٹ شائع ہوئے۔ کچھ مولویوں نے اقبال کو برا بھلا کہا۔ لیکن اقبال بالکل خاموش رہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ان کی نظم شمع و شاعر نکلی، لیکن یہ قدرے مشکل زبان میں لکھی گئی تھی اور مقصد اور خیالات زیادہ تر سیاسی ہیں۔ سوائے اعلیٰ تعلیم یافتہ اسلامی پبلک کے اس کا لطف کوئی نہیں اٹھا سکتا۔ ا سلئے گو اس کی شہرت بہت ہوئی لیکن عام نہیں۔ اس سے بھی چند ماہ یا شاید ایک سال بعد جنگ بلقان کے دوران میں خبر ملی کہ اقبال نے خود شکوے کا جواب لکھا ہے۔ جو عنقریب کسی جلسے میں پڑھا جائے گا اس پر جوش امید ہر طرف پھیل گیا۔ اور شاید اسی سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے مولانا ظفر علی خاں ’’ زمیندار‘‘ والوں نے لاہور موچی دروازے کے باہر باغ میں ایک عظیم الشان جلسہ کا اہتمام کیا اور مشتہر ہوا کہ اس میں اقبال کی نظم ہو گی۔ شائقین کا ایک جم غفیر باغ کے پنڈال میں جمع ہوا۔ میں خود اس جلسے میں موجود تھا اقبال نے نظم اسی طرح داد کی بوچھاڑ میں پڑھی ایک ایک شعر نیلام کیا گیا اور ایک گراں قدر رقم بلقان فنڈ کے لیے جمع ہو گئی۔ یہ نظم کئی لحاظ سے شکوے کی نسبت بہت زیادہ بلند ہے اور اس میں پہلے مسلمانوں کو یہ بتا کر ان کا شعار اسلامی نہیں رہا، وہی سبق دیا گیا ہے جو اقبال کی طرف سے اہل اسلام کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ یعنی یہ کہ زمانہ گذشتہ کی یاد میں رونے دھونے سے کچھ حاصل نہیں۔ اسلام فنا نہیں ہو سکتا اگر کوشش کرو تو سب کچھ ممکن ہے اور اللہ تعالیٰ کوشش کرنے والوں ہی کے ساتھ ہے چند بند سن لیجئے تاکہ اقبال کے درد قومی کے خلوص کا اندازہ ہو سکے۔ اللہ سے شکوے کے بعد دیکھئے جواب کسی طرح شروع ہوتا ہے: دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے قدسی الاصل ہے رفعت پہ نظر رکھتی ہے خاک سے اٹھتی ہے گردوں پہ گذر رکھتی ہے عشچق تھا فتنہ گرو سر کش و چالاک مرا آسماں چیرا گیا نالہ بیباک مرا آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا اشک بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا آسماں گیر ہوا نعرۂ مستانہ ترا کس قدر شوخ زباں ہے دل دیوانہ ترا شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تو نے ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں راہ دکھلائیں کسے رہ رو منزل ہی نہیں تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں یہاں تک تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اقبال کے شکوے کا جواب تھا۔ اب پیغام سنئیے: دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی گل بر انداز ہے خون شہدا کی لال رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی مثل بو قید ہے غنچہ میں پریشاں ہو جا رخت بر دوش ہوائے چمنستاں ہو جا ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا نغمہ موج سے ہنگامہ طوفاں ہو جا قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے انجمن کے جلسوں میں بعض اوقات حاضرین اور منتظمین کے درمیان بڑی دلچسپ نوک جھونک ہوا کرتی تھی۔ منتظمین میں عام طور پر اردو کے ان دنوں غالباً سب سے زیادہ مقبول اخبار ’’پیسہ اخبار‘‘ کے ایڈیٹر مولوی محبوب عالم صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی عبدالعزیز پیش پیش ہوا کرتے تھے۔ لڑکے خوش طبعی سے انہیں پیسہ اور دھیلا کہا کرتے تھے۔ گو اس سے کسی قسم کی تحقیر مقصود نہ تھی لیکن عبدالعزیز صاحب خصوصاً چونکہ انجمن کے جلسوں میں چندہ جمع کرنے کے لئے سب سے زیادہ پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے اس معاملے میں ان کی اور حاضرین کے درمیان خصوصیت تھی۔ ہوتا یہ تھا کہ جہاں کسی پسندیدہ شاعر کی نظر یا اچھے مقرر کی تقریر کا وقت آیا عبدالعزیز صاحب ڈائس پر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ آپ فلاں صاحب کی نظم سننے کے لیے بے چین ہیں وہ موجود ہیں اور سنانے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن چندے کی رقم مثلاً ساڑھے چار ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے پانچسوا ور دلوائیے تو نظم شروع ہو گی۔ ورنہ جب تک پانچ ہزار روپے نہ ہوں گے آپ کو انتظار کرنا پڑے گا۔ اس پر لوگ جلدی جلدی دوڑتے اور رقم پوری کر دی جاتی۔ تو نظم شروع ہوتی اس کا جواب حاضرین کو موقع مل جاتا تھا تو اس طرح دیا جاتا تھا کہ ڈاکٹر اقبال کی اگر کسی جلسے میں کوئی نظم نہیں ہوئی اور حاضرین میں موجود ہیں تو ایک صاحب کھڑے ہو گئے اور کہا کہ آج تو چندہ دیتے دیتے تھک گئے ہیں۔ آپ نے ہماری دلچسپی کا کوئی سامان مہیا نہیں کیا۔ لہٰذا علامہ اقبال سے ان کے چند غیر مطبوعہ اشعار سنوا دیجئے اور اگر یہ نہیں ہو سکتا تو چندہ بھی نہیں ہو گا۔ تمام حاضرین تہیہ کر کے بیٹھ جاتے کوئی ایک پیسہ نہیں دیتا۔ چنانچہ منتظمین مجبور ہو جاتے اور علامہ کی منت سماجت کر کے اشعار پڑھاتے ایک ایسا موقع یاد ہے کہ اقبال مسکرا اٹھے اور ایک فی البدیہہ رباعی مزاحیہ شان میں پڑھی۔ ٹھیک الفاظ مجھے یاد نہیں کچھ اس طرح تھے پلندہ باقی بہت ہے چندہ باقی اور ابھی تو رہتا ہے بندہ باقی وغیرہ1؎ اور یہ سنا کر بیٹھ گئے حاضرین نے پہلے تو خوب تالیاں بجا کر داد دی اس کے بعد ایک صاحب اٹھے اور کہنے لگے کہ اس رباعی کا بہت بہت شکریہ لیکن شوق پورا نہیں ہوا حسرت رہی جاتی ہے۔ چنانچہ علامہ پھر اٹھے اور پھر چند اشعار سنا کر چندے کی گاڑی کو دوبارہ چلتا کر دیا۔ ٹھیک تاریخیں یاد نہیں لیکن ۱۹۱۲ء یا ۱۹۱۳ء کا ذکر ہے جب میں لاہور گورنمنٹ کالج میں بی اے میں پڑھتا تھا اقبال کئی مرتبہ اس کالج میں پڑھانے پر مامور ہوئے لیکن ہمیشہ فلسفے کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ اس مرتبہ شاید پرنسپل کی غیر موجودگی یا کسی اور وجہ سے ہماری جماعت کو انگریزی نظم کا سبق دینا ان کے فرائض میں شامل ہو گیا اور ہماری بے حد خوش قسمتی تھی کہ ہم نے انگریزی زبان کے بہترین شعراء کی چند بہترین نظمیں ان سے پڑھیں۔ ان میں جہاں تک مجھے یاد ہے ملٹن کی Penseroso LLegeso اور Lyaidas اور کیٹں کی Isabella ڈرائڈن کی Mac Hecknoe اور غالباً کولرج کی Ancient Mariner شامل تھیں Greyselegy کے علاوہ شیلے کی Adonis جس کا میں خاص طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں کیونکہ بلا مبالغہ یہ انگریزی زبان کی چند سب سے بلند نظموں میں سے ایک ہے۔ شیلے کاتخیل ہمارے مشرقی شعراء کی طرح گہرا اور پر معنی ہوتا ہے اور جس طرح ہمارے شعراء ایک ہی شعر میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں اسی طرح شیلے کے ایک بند میں خیالات کا ہجوم ہوتا ہے جن کو علیحدہ علیحدہ کر کے پوری طرح سمجھنے کے لئے قدرے محنت درکار ہوتی ہے۔ اس خاص نظم کے متعلق میں ذرا تفصیل سے کام لینا چاہتا ہوں۔ کیونکہ اس کے بغیر استاد کی استادانہ حیثیت کی حقیقت کا اظہار نہیں ہو سکے گا۔ آپ کے معلمین تو جانتے ہوں گے لیکن آپ میں سے شاید ہی کوئی طالب علم ایسا ہو جسے یہ معلوم ہو کہ یہ نظم شیلے نے اپنے دلی دوست اور مشہور شاعر کیٹس (Keets) کے مرثیے کے طور پر لکھی تھی جس کا صرف چوبیس 1؎ افسوس یہ ہے کہ اس رباعی کا سراغ نہیں مل سکا۔ اگر کسی صاحب کے علم میں ہو تو ازراہ کرم نقوش میں شائع کرا دیں۔ برس کی عمر میں نقادوں کے نہایت بے رحمی سے اس کی بعض نظموں پر اعتراض کرنے کے صدمے سے انتقال ہو گیا تھا۔ یہ تمام نظم صبح معنوں میں درد و غم کے اثرات سے معمور ہے اور ہر مصرعے میں ایک زخم خوردہ دل کے خون کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہاں تک کہ عجیب بات ہے نظم کے آخری تین چار بندوں میں اس انتہائی مایوسی اور شدت غم کے ذکر کے ساتھ جو کیٹس کی جدائی سے شیلے پر چھا گیا تھا۔ شیلے کی اپنی موت کا جو اس نظم لکھنے سے تین چار سال بعد واقع ہوئی ہو بہو نظارہ موجود ہے۔ گویا یہ ایک قسم کی پیش گوئی تھی کہ میری موت اس طرح واقع ہونے والی ہے۔ اول تو لکھنے والا شیلے دوسرے اس کی وہ نظم جو انتہائی جذبے کی حالت میں لکھی گئی اور تیسرے پڑھانے والا ڈاکٹر محمد اقبال جو خود گہرے تخیل کا بادشاہ ہے اس مجموعے نے شاگردوں کی جماعت کے ان افراد پر جو حساس دل رکھتے تھے وہ اثر کیا کہ تمام عمر فراموش نہیں ہو سکتا۔ اس نظم کے پچپن بند ہیں اور ڈاکٹر صاحب پنتالیس منٹ کے کالج کے ایک گھنٹے میں نو، نو مصرعے کا ایک بند ہی روزانہ پڑھاتے تھے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کو پڑھانے میں اور جماعت کو پڑھنے میں کتنا لطف حاصل ہوتا ہو گا۔ جب شیلے کے خیالات کو علامہ اقبال جیسا آدمی سمجھانے کی غرض سے واضح کرے اور خیال کے ساتھ مقالے یا موازنے کے طور پر اپنے اور اردو شعراء کے خیالات بھی پیش کرے تو سامعین کی خوش قسمتی کا کون اندازہ کر سکتا ہے ایک دریا تھا جو بہتا چلا آتا تھا علامہ کے منہ سے پھول جھڑتے تھے اور دل یہی چاہتا تھا کہ وہ اسی طرح پڑھاتے جائیں اور ہم دن بھر خاموش بیٹھ کر سنا کریں۔ کالج کا ایک گھنٹہ جو عام طور پر طالب علم کے لئے محنت سے چھٹکارے کی مسرت انگیز خبر لیے ہوئے آتا ہے۔ اس گھنٹے کے ختم ہونے سے دل پر چوٹ کی شکل میں لگتا تھا اور بادل نخواستہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلے جاتے تھے۔ میں چاہتا ہوں کہ شیلے کی (Adonais) سے مثال کے طور پر ایک چیز پیش کردوں جس سے آپ کو مندرجہ بالا گھنٹوں کی کیفیت کا اندازہ ہو سکے۔ اس کے دوسرے بند کی آخری سطور میں شیلے کہتا ہے کہ ان کی قبر پر اگے ہوئے پھولوں کی طرح جو دفن شدہ انسان کی بے ثباتی اور نفرت انگیز صورت پر ہنستے ہیں۔ کیٹس نے اپنی آنے والی ہولناک موت کو اپنے آخری نغموں سے اس طرح سجا کر چھپا رکھا تھا کہ وہ نظر نہیں آتی تھی۔ کسی قبر پر اگے ہوئے پھولوں کو دیکھ کر شیلے کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ایک تو وہ پھول انسان کی بے ثباتی پر ہنستے ہیں دوسرے وہ انسانی لاش کے ڈراؤنے پن کو اپنے حسن سے چھپا دیتے ہیں اس کے مقابلے میں مرزا غالب فرماتے ہیں: سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہو گئیں ان میں قبر کے پھولوں کو دیکھ کر غالب کے دل میں یہ خیالات پیدا ہوئے کہ یہ پھول ان دلفریب صورتوں کا ایک حصہ ہیں جو اس خاک میں دفن ہیں اور جنہیں ان کے حسن کی طاقت نمو نے مٹی کے باہر ظاہر کر دیا ہے۔ علامہ اقبال کا انگریزی تلفظ کچھ اچھا نہ تھا شیلے کو شیی کہتے تھے۔ اور اردو فارسی بھی حد درجہ پنچایت لئے ہوئے لہجے میں بولتے تھے یعنی قاف کو کاف ہی کہتے تھے اور حقہ کو حکہ اسی بناء پر مولانا نیاز فتح پوری نے اپنی مشہور ڈائری میں اقبال کی صورت و شکل اور طرز گفتگو کو نہایت غیر شاعرانہ بیان کیا ہے لباس کی طرف توجہ نہیں کی یہاں تک کہ کالج ہائی کورٹ میں انگریزی سوٹ پہن کر جاتے تھے۔ تو وہ بھی ڈھیلا ڈھالا بغیر استری کے، ٹائی ٹیڑھی ہے تو ٹیڑھی ہی سہی۔ عام طور پر بندھی بندھائی بو چپکا لیا کرتے تھے۔ بوٹ میلے ہیں تو کچھ پروا نہیں۔ بالوں کی مانگ نہیں نکالتے تھے پیچھے کو برش کر لیا کرتے تھے۔ پہلے ہمیشہ ترکی ٹوپی پہنا کرتے تھے بعد میں بالدار سیاہ ٹوپی اختیار کر لی۔ باوجود اس کے کہ ہماری اس سال کی بی اے کی جماعت جو شروع سنٹرل ماڈل اسکول سے ہی اپنی شرارت پسندی کے لئے مشہور چلی آتی تھی اور خصوصاً برائے تلفظ والے پروفیسر کا تو ناک میں دم کر دیا کرتی تھی ان کے گھنٹے میں اس قدر خاموش ہو کر بیٹھ جاتی تھی کہ ایک تنکا بھی زمین پر گرے اور اس کی آواز سنائی دے جائے مجھے یاد نہیں کہ اقبال نے کبھی کسی لڑکے کو کسی قصور پر سزا دی ہو بلکہ دھمکی تک بھی کبھی نہیں دی۔ حیرت کی بات ہے کہ مجھے اب علم ہوا ہے کہ ان کی داہنی آنکھ بیکار تھی۔ جماعت میں ہمیشہ ان سے قریب بیٹھتا تھا لیکن میں نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ وہ صرف ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں میں نے علامہ اقبال کو سگریٹ یا سگار پیتے کبھی نہیں دیکھا۔ گو سنا ہے کہ حقے کے بہت شوقین تھے کالج میں تو بغل میں ایک آدھ کتاب یا کلاس کا رجسٹر لیے، سر جھکائے کبھی کچھ گنگاتے ہوئے ادھر ادھر دکھائی دیتے تھے۔ کسی سے بات چیت نہ کرتے تھے۔ ان دنوں کالج میں ایک سوسائٹی بزم سخن کے نام سے تھی جس کے جلسے عام طور پر پندرہویں دن یا مہینے میں ایک بار ہوا کرتے تھے لیکن زندہ دل پروفیسر شیخ نور الٰہی صاحب اس کے مستقل صدر تھے۔ ہر جلسے میں اپنے کالج کے علاوہ دوسرے کالجوں کے اتنے طالب علم جمع ہو جایا کرتے تھے جتنے کمرے میں سما سکتے۔ اس بزم میں کالج کے لڑکے اپنا منظوم کلام جو زیادہ تر غزلیات پر مشتمل ہوتا۔ سنایا کرتے تھے بعض اوقات طرح مقرر کر دی جاتی تھی جس پر سب مشق سخن کرتے تھے اور چونکہ ہمارے صدر میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ زندہ دل تھے وہ مبتذل قسم کی عریانی کے سوا ہر قسم کی بات کہہ لینے دیا کرتے تھے، آج کل کی طرح اس وقت شعراء میں اتنی عریاں پسندی بھی نہ تھی۔ لیکن مذاق اور پھبتیوں میں کالج کے کسی نہ کسی رنگ میں ممتاز طالب علموں اور پروفیسروں تک کو شعر میں باندھ لیا جاتا تھا۔ جس سے جلسے کی دل چسپی روز افزوں تھی۔ خدا جانے اب تک وہ بزم قائم ہے یا نہیں بہرحال اس وقت بہت کوشش کی گئی لیکن صدر بننا تو درکنار علامہ اقبال کبھی اس کے ایک جلسہ میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ البتہ کالج ڈے (College Day) کے موقعے پر ہر سال کسی بھلے آدمی نے بہترین اردو نظم کے لئے ایک مستقل انعام مقرر کر رکھا تھا۔ اس مقابلے میں جو لڑکے نظمیں بھیجتے تھے ان کے جج علامہ اقبال ہی ہوا کرتے تھے یہاں تک کہ جب وہ کالج میں پڑھاتے بھی نہ تھے تو یہ نظمیں فیصلے کے لئے انہیں کے پاس بھیج دی جایا کرتی تھیں بعد میں وہ نظمیں جو اول دوم اور سوم درجے پر رہتیں کالج ڈے پر تمام لڑکوں کے سامنے ان کے مصنف پڑھ کر سناتے اور انعام حاصل کرتے تھے۔ ویسے عام طور پر بھی علامہا قبال نوجوانوں کے شعر کہنے کے خلاف تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان کی پروفیسری کے دنوں میں جب وہ ہمیں پڑھاتے تھے ہم ان کی کلاس کے دو تین لڑکے اپنی اپنی غزلیں لے کر ایک دن اکٹھے ان کے پاس گئے اور عرض کیا کہ ہم آپ کے شاگرد ہیں اور شعر کہنے کا شوق رکھتے ہیں اگر کبھی کبھی آپ ہماری ناچیز کوشش دیکھ کر تھوڑی بہت اصلاح فرما دیا کریں تو بڑی عنایت ہو گی فرمایا کہ بھائی میں کبھی کبھی کے اشعار پر اصلاح نہیں دیا کرتا جو تمہارے دماغ میں آئے لکھو۔ لیکن اگر میری نصیحت مانو تو شعر کہنا چھوڑ دو یہ مشغلہ اچھا نہیں۔ اقبال کے ملنے والے عام طور پر کہتے ہیں کہ اپنے گھر میں بہ فراغت بیٹھے ہوئے بھی جب کبھی بات چیت کے دوران اچھے اشعار پڑھے جاتے تو ان کے آنسو نکل آتے تھے اور یہ تو مشہور ہے کہ شعر کہتے وقت اکثر زار و قطار رویا کرتے تھے اور یہ بھی کہ ان سے عندالطلب شعر نہیں کہلوائے جا سکتے تھے جب تک ان پر وہ خاص کیفیت طاری نہ ہو اور طاری ہو تو بیسیوں اشعار ایک وقت میں کہہ جاتے تھے اس سے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہے حالانکہ وہ پڑھاتے وقت کتاب کے مصنفوں ہی سے سروکار رکھتے تھے ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ سبق چھوڑ کر گویا جماعت سے باتیں کرنے لگے جو نظم وہ پڑھا رہے تھے اس میں ایک مصرع کے یہ معنی تھے کہ شاعر کے لئے زبان کے الفاظ اظہار خیالات کو کافی نہیں ہوتے اقبال کتاب کی طرف سے نگاہ اٹھا کر جماعت سے مخاطب ہو گئے اور فرمایا کہ آپ لوگ اندازہ نہیں کر سکتے کہ شاعر کے دماغ میں جس وقت آمد ہوتی ہے تو اس کی کیا حالت ہوتی ہے۔ خیالات ایک طوفان کی طرح امنڈے چلے آتے ہیں اس کو ہر خیال کے لئے پہلے الفاظ تلاش کرنا پڑتے ہیں پھر عروض اور قافیہ ردیف کے مرحلوں کو طے کرنا پڑتا ہے اس کے بعد ایک شعر بنتا ہے اس وقت تک درجنوں ایسے خیالات بھول کر ضائع ہو جاتے ہیں جو اگر شعر میں آ جاتے تو اس مخصوص شعر سے شاید کہیں بہتر ہوتے شاعر بعض اوقات سخت بے چین ہوتا ہے اور تڑپتا ہے کہ اظہار خیال کے لئے اسے الفاظ نہیں ملتے یا ملتے ہیں تو اس خاص بحر یا قافیے یا ردیف میں ادا نہیں ہو سکتے۔ جس میں نظم یا غزل لکھی جا رہی ہے۔ ٭٭٭ علامہ اقبالؒ کی شخصیت کے چند پہلو حکیم محمد یوسف حسن ایڈیٹر نیرنگ خیال ابتدائیہ اتفاق کی بات ہے کہ چودھویں صدی کے نامور فلسفی کے زمانہ میں ہم بھی زندہ تھے اور ان کی بارگاہ میں کبھی کبھی ادب سے جا کر ایک طرف بیٹھ بھی جاتے تھے یہ قریباً دور سے ایک نظر دیکھنے کی جرأت ہی کہی جا سکتی ہے۔ اکثر دوسرے ہی لوگ علامہ سے سرگرم گفتگو ہوتے تھے اور ہم جیسے لوگ صرف سامعین میں ہی شمار ہوتے تھے۔ کبھی ضرورت پر ہم بھی عرض حال کرتے ورنہ ادب سے خاموش بیٹھے رہنا ہی اپنا حصہ تھا، یہ سب کچھ اس وقت کی بات ہے جب ہم نیرنگ خیال شان و شکوہ سے نکالتے تھے اور ہماری یہ انتہائی خوش بختی تھی کہ نیرنگ خیال کے پہلے ہی پرچہ کی اشاعت پر اعلیٰ حضور نے چند سطور میں نیرنگ خیال کے طلوع ہونے کا تذکرہ فرمایا یہ مختصر سی تحریر کتنی جامع کتنی پر مغز اور کتنی با برکت تھی کہ انہی چند حروف نے نیرنگ خیال کی بنیادیں مستحکم کر دیں اور ہمارے حوصلوں اور ارادوں کو پر پرواز بخشے۔ چار سال بعد جب ۱۹۲۸ء میں ہم نے پہلا سالنامہ شائع کیا تو دوبارہ اعلیٰ حضرت نے چند سطور سے ہمارا حوصلہ بڑھایا تھا۔ اور پھر ۱۹۳۲ء میں نیرنگ خیال کی سوچیں ایک عظیم اور عالمگیر ’’ اقبال نمبر‘‘ کی اشاعت کے لیے جمع کرنی شروع کر دیں۔ یہ اللہ کا کرم خاص تھا کہ اس تن ناتواں اور ذرائع محدود کے مالک نے نیرنگ خیال کا جو اقبال نمبر شائع کیا اسے کئی خصوصی مراتب حاصل ہوئے نیرنگ خیال کا اقبال نمبر ۱۹۳۲ء کے زمانہ میں اپنی واحدیت اور یکتائی کا دعویٰ دار ثابت ہوا اور اس عہد جدید میں برصغیر ہندوستان میں کوئی بھی اقبال نمبر بھی شائع نہ ہوا تھا نہ دنیا کے کسی اور خط میں اور کیا یہ فضل و کرم الٰہی کا ظہور نہیں کہ اولیت کے ساتھ اسے نیرنگ خیال کے اقبال نمبر کے عظیم ہونے کا بھی حق حاصل ہوا آج تک سو اخباروں اور رسالوں کے اقبال نمبر شائع ہو چکے ہیں اور ہر ایک کی مساعی اور کوششیں قابل تعریف و توصیف ہیں۔ لیکن جو عظمت نیرنگ خیال نمبر کے اقبال نمبر کو حاصل ہوئی اس تک اور کوئی نہ پہنچ سکا بڑے بڑے علمائے فلسفہ اور شعر و سخن کے ماہرین جب بھی اقبال کے متعلق کچھ کہنا چاہتے تھے تو وہ اکثر نیرنگ خیال کے اقبال نمبر کے مضامین کے حوالوں سے ہی اظہار خیال فرماتے تھے۔ یہ کامیابی صرف اس عقیدت کی وجہ سے ہمیں حاصل ہوئی جو علامہ اقبال کی نظر کیمیا نظر کے صلہ میں ہماری جھولی آن پڑی تھی۔ اقبال پر لکھنے والے اب چند نہیں چند سو بلکہ چند ہزار اہل قلم ہیں۔ جنہوں نے شعر و فن، فلسفہ و دانش، دین و ملت اور تہذیب و تاریخ کی روشنی میں اقبال کے کلام کو پرکھا اور اس کی خوبیوں اور خصوصیات کو بے نقاب کیا۔ اس سلسلہ میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور رہتی دنیا تک لوگ برابر مختلف زاویوں سے اظہار خیال کرتے رہیں گے۔ میں نے اپنے اس مضمون میں دانشوروں سے پہلو بچاتے ہوئے ان کے عقیدت مندوں میں قریب سے کھڑے ہو کر جو کچھ دیکھا اس میں سے چند حقائق کے موتی یکجا کر دئیے ہیں کہ ایسی باتیں انسانی زندگی کے اہم ترین جواہر پارے ہوتے ہیں اور ایسی معمولی باتوں کی طرف شاذ و نادر ہی توجہ دی جاتی ہے اور اگر توجہ دی جاتی ہے وہ ایک وقتی باہمی بات چیت کا موضوع ہوتی ہے اور جس کا کوئی ذکر بعد میں مستقل ریکارڈ کی صورت حاصل نہیں کر سکتا۔ میں نے کوشش کر کے کچھ باتیں ایک جگہ فراہم کر دی ہیں تاکہ ایک مضمون کی شکل میں جمع کر کے محفوظ کر دوں۔ ۷۷/۴/۲۷ (عمر ۸۷ سال) نیاز مند خاکسار حکیم محمد یوسف حسن، ایڈیٹر نیرنگ خیال، راولپنڈی ٭٭٭ علامہ اقبال اور نکاح خوانی علامہ اقبال کے چند احباب ایسے بھی تھے جن کے ہاں وہ خود کبھی کبھی تشریف لے جاتے تھے ان میں نواب ذوالفقاری خاں کا خاص مقام تھا۔ ان کا گھر ان چند لوگوں میں سے تھا۔ جہاں اقبال خود جاتے تھے۔ ایک اور بزرگ گھرانہ میاں نظام الدین مرحوم کا گھر تھا۔ جہاں اقبال التزام کے ساتھ سال میں ایک دو مرتبہ ضرور جاتے تھے ۱۹۳۶ء کا واقعہ ہے جب علامہ اقبال نے تاثیر کا نکاح پڑھا تھا اور اس مقصد کے لئے علامہ موصوف میاں نظام الدین صاحب کے مکان بازار بارود خانہ تشریف لائے تھے۔ جب پروفیسر تاثیر صاحب کیمبرج یونیورسٹی (انگلستان) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری انگریزی زبان میں حاصل کر کے عازم وطن ہوئے۔ تو کیمبرج کی ہی تعلیم یافتہ ایک انگریز خاتون جو گریجویٹ تھیں آپ کے ساتھ نکاح پر رضا مند ہو گئیں اور وہ بھی آپ کے ہمراہ لاہور روانہ ہو گئی تھیں۔ ان دنوں پروفیسر تاثیر صاحب کے علم و فن کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ پروفیسر تاثیر پہلے ہندوستانی یا ایشیائی تھے جنہوں نے انگریزی زبان میں کیمبرج سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی اس زمانہ میں یہ بڑا اعزاز تھا۔ اب تاثیر صاحب اور ان کے اعزہ کو یہ مسئلہ پیش آ گیا تھا اس انگلش خاتون کو کون صاحب مسلمان کریں جو اس کا نکاح بھی تاثیر صاحب سے پڑھ دیں۔ گویا اس وقت انگریزی دان عالم دین کی ضرورت پڑ گئی تھی حضرت علامہ اقبال کو جب اس الجھن کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ وہ خود ہی اس تقریب میں شامل ہو کر خاتون کو مسلمان بھی کریں گے اور خود ہی اس کا نکاح بھی پڑھیں گے۔ چنانچہ ۱۹۳۶ء کے اس مبارک دن، میاں نظام الدین صاحب کے مکان واقعہ بارود خانہ (بازار والے مکان میں) چند احباب اس تقریب سعید کے موقع پر جمع ہوئے تھے کہ حضرت علامہ اقبال بھی ایک موٹر سے اترے۔ آپ نے مکمل کلاہ دار پگڑی سر پر رکھی ہوئی تھی۔ پاؤں میں پشاوری طلائی جوتی تھی۔سلوار کرتہ پہنے کندھوں اور جسم پر پھولدار چادر ڈالے آپ ایک کٹر ملا دکھائی دے رہے تھے۔ حضرت علامہ اقبال نے شستہ انگریزی زبان میں انگریزی خاتون سے بات چیت شروع کی۔ سب سے پہلے انہیں خدا کے احکام سنائے قرآن مجید کی بعض آیتوں کا ترجمہ انگریزی زبان میں سنایا اس طرح سے جب لڑکی نے اسلام کی وحدت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا دل سے اقرار کر لیا اور قرآن مجید کو ایک الہامی کتاب تسلیم کر لیا تو علامہ نے خاتون کے مسلمان ہو جانے کا اعلان کیا اور اس کے بعد علامہ اقبال نے خطبہ نکاح پڑھا۔ میاں بیوی میں ایجاب و قبول ہوا اور یہ کام بھی بخیر و خوبی سر انجام پایا۔ سب طرف سے مبارک سلامت کے نعرے بلند ہوئے تاثیر اور دلہن کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے حاضرین کی تواضع مٹھائیوں اور مشروبوں سے ہوئی۔ ٭٭٭ اقبال کی فارسی میں شعر گوئی کی ابتداء کیسے ہوئی! سر عبدالقادر نے بانگ درا کے دیباچے میں یہ حقیقت واضح فرمائی تھی کہ علامہ اقبال کی اردو شاعری سے جو فائدہ ملت اسلامیہ اور مملکت پاک و ہند کو پہنچا ہے وہ اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن جو کثیر فوائد علامہ کی فارسی شاعری سے دنیائے اسلام اور علمائے عالم، مستشرقین اور محققین علم و فن کو حاصل ہوئے وہ لا مثال ہیں اور ا س کا سلسلہ دائمی ہے اور صدیوں قرنوں تک جاری رہے گا۔ اگر علامہ اقبال یہ قدم نہ اٹھاتے تو ان کی مساعی محدود ہو کر رہ جاتی۔ سر عبدالقادر لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ علامہ اقبال کسی دوست کے ہاں مدعو تھے اور وہاں ان سے فارسی غزل کی فرمائش کی گئی انہوں نے جواب میں فرمایا کہ انہوں نے کبھی ایک آدھ شعر سے زیادہ شعر فارسی میں نہیں کہا مگر اتفاق دیکھئے اس معمولی سے واقعہ نے ان پر ایسا اثر کیا کہ وہ دعوت سے واپس آ کر بستر پر لیٹے ہوئے باقی وقت فارسی میں اشعار کہتے رہے اور صبح اٹھتے ہی مجھے ملے تو دو تازہ فارسی غزلیں تیار تھیں جو انہوں نے زبانی سنائیں ان غزلوں کے لکھنے سے انہیں اپنی فارسی گوئی کی قوت کا احساس ہوا اس لئے یورپ سے واپس آنے پر گو کبھی کبھی اردو میں بھی شعر کہتے تھے مگر زیادہ وقت فارسی زبان میں لکھنے پر صرف کرتے تھے اور ان کی طبیعت کا رخ فارسی کی طرف ہو گیا تھا (اور جب راستہ یہاں تک صاف ہو گیا تو اصل کام جو ڈاکٹر صاحب کا عظیم الشان کام یا کارنامہ بننے والا تھا یعنی مثنوی اسرار خودی اور رموز بیخودی کی تصنیف کی طرف متوجہ ہو گئے) اسرار خودی اور رموز بیخودی سے اقبال کا نام اقصائے عالم میں مشہور ہوا۔ ہندوستان کا علم دوست طبقہ بھی جو فارسی کا گرویدہ تھا۔ ایران، ترکی، انگلستان اور جرمنی ممالک کے علمائے وقت فارسی زبان سے بہرہ مند تھے جس طرح یورپ میں فرانسیسی سارے یورپ کی علمی زبان ہے اسی طرح فارسی ہندوستان، افغانستان، ایران، ترکی اور عربوں کے علاوہ دنیا بھر کے علمائے فلسفہ کی زبان تھی وہ اس زبان کو سمجھتے تھے اس لئے فارسی میں علامہ کے فلسفہ و شعراء نے انقلاب عظیم پیدا کرنے کا کام کیا۔ اس سلسلہ میں اقبال کی تینوں کتابیں اسرار خودی، رموز بیخودی اور پیام مشرق ایک سے ایک بڑھ کر ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فارسی نے دنیائے اسلام پردہ اثر کیا ہے جو اردو زبان سے کبھی پورا نہ ہو سکتا تھا۔ ٭٭٭ فی البدیہہ نظم، شعر گوئی اور ترنم!!! (سر عبدالقادر اور حکیم یوسف حسن کی تصریحات) جہاں تک فی البدیہہ نظم یا غزل کہہ دینے کی متعدد حکائتیں موجود ہیں خود ہمارے ساتھ اس ضمن میں دو واقعات پیش آئے تھے۔ جن کا تذکرہ کر دینے سے علامہ کے مزاج اور اطوار کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً جب ہم نیرنگ خیال کا شہرۂ آفاق اقبال نمبر مرتب کر رہے تھے جو دنیائے اقبال میں پہلی پیشکش کی حیثیت رکھتا تھا اور جس سے قبل اقطاع عالم پر کوئی اقبال نمبر جلوہ افروز نہ ہوا تھا اور کس قدر عزت یا اہمیت علامہ کی نظر میں ہماری ہو سکتی تھی؟ ان دنوں ہم دو تین بار فوٹو گرافر کی معیت میں آپ کی کوٹھی پر حاضر ہوئے تھے۔ تصویریں بھی کھینچی گئی تھیں۔ جو صرف علامہ اقبال کے مختلف پوز تھے ان تصویروں میں ہم عقیدت مندوں کی کسی تصویر کا سوال ہی نہ تھا نہ ہونا چاہیے تھا۔ مگر جب ہم نے علامہ حضور سے عرض کیا کہ حضور اقبال نمبر کے لئے آپ اپنا تازہ کلام بھی عطا فرمائیں تو آپ نے فرمایا کہ جب اقبال نمبر شائع ہو رہا ہو تو مجھے اس میں اس طرح اپنا کلام نہیں چھپوانا چاہیے اور صاف انکار کر دیا تھا۔! ایسے وقت پر انکار کر دینا یہ علامہ اقبال کا ہی حصہ ہے۔و رنہ ہر بڑے سے بڑا شاعر اپنی بیاضوں سمیت ایڈیٹر صاحب کے دولت کدہ پر پہنچا ہوتا اور اپنے متعلق شائع ہونے والے نمبر کو شعروں، غزلوں اور نمبروں سے بھر دیتا۔ اقبال کی شعر گوئی کے متعلق عبدالقادر لکھتے ہیں:ـ ’’ شیخ محمد اقبال طالب علمی سے فارغ ہو کر وہیں گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر ہو گئے تھے اب دن رات علمی صحبتوں اور مشاغل علمی میں بسر ہونے لگے۔ طبیعت زوروں پر تھی۔ شعر کہنے کی طرف جس وقت مائل ہوتے تو غضب کی آمد ہوتی تھی۔ ایک ایک نشست میں بے شمار شعر ہو جاتے تھے وہ اپنی دھن میں شعر کہتے جاتے اور دوست احباب کاغذ پنسل لیے لکھتے جاتے تھے موزوں الفاظ کا ایک دریا بہتا یا ایک چشمہ ابلتا معلوم ہوتا تھا اپنے اشعار سریلی آواز میں ترنم سے پڑھتے تھے خود وجد کرتے اور دوسروں کو وجد میں لاتے تھے۔ حافظہ ایسا پایا تھا کہ ایک دن کے تمام اشعار دوسرے دن برابر سنا دیتے تھے اور کچھ فراموش نہ ہوتا تھا۔‘‘ عبدالقادر مدیر ’’ مخزن‘‘ نے شیخ محمد اقبال کی شعر گوئی کی جو مختصر سی کیفیت بیان کی ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں شعر و سخن کے لئے ایک دریا یا سمندر موجزن تھا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ کبھی ایک دن رات میں وہ اتنے شعر کہتے تھے کہ کاغذوں کے انبار لگ جاتے اور کبھی آپ مہینوں شعر گوئی کی طرف مائل ہی نہ ہوتے تھے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اشعار کسی جذبہ کے تحت ہوتے تھے اور اس جذبہ کے تحت وہ الہامی شاعری کی طرح فر فر لکھتے جاتے تھے اور جب یہ جذبہ رکا پڑا ہو تو آپ مہینوں شعر نہ کہتے تھے۔ اقبال اور حمایت اسلام: یہ فخر صرف انجمن حمایت اسلام لاہور کو حاصل تھا کہ وہ ا نجمن کے ہر سالانہ اجلاس میں بڑے التزام سے اپنی نظم پڑھا کرتے تھے اور جسے سننے والوں کی تعداد دس ہزار اشخاص سے متجاوز ہوتی تھی اقبال کی اس نظم کا اتنا چرچا تھا کہ لوگ سال سال بھر سے اس کے انتظار میں ہوتے تھے۔ اقبال کی نظمیں اور ترنم: شیخ عبدالقادر لکھتے ہیں کہ ’’ اول اول جو نظمیں پڑھی جاتی تھیں وہ تحت اللفظ پڑھی جاتی تھیں اس طرز میں بھی ایک لطف تھا۔ مگر بعض دوستوں نے ایک مرتبہ جلسہ عام میں شیخ محمد اقبال سے بہ اصرار کہا کہ وہ نظم ترنم سے پڑھیں۔ ان کی آواز قدرتاً بلند اور خوش آئند تھی جب اقبال نے اپنا کلام ترنم سے پڑھا تو ایسا سماں بندھا کہ سکوت کا عالم چھا گیا۔ لوگ جھومنے لگے جب حمایت اسلام کے جلسہ میں اقبال نظم پڑھتے تو دس بارہ ہزار عوام کا اجتماع ہو جاتا تھا۔ جب تک نظم پڑھی جاتی لوگ دم بخود بیٹھے رہتے تھے۔‘‘ عبدالقادر نے شیخ اقبال کے ترنم کا مختصر اور مبہم سا تذکرہ فرمایا ہے چونکہ اقبال کا کلام اتنا بلند پایہ اور موثر تھا کہ وہ کسی ترنم کا محتاج نہ تھا یہ بھی صحیح ہے مگر میں بھی اس ترنم کا شیدائی اور ان مجلسوں میں بیٹھنے کا خوش قسمت سامع ہوں۔ کوئی مجھ سے پوچھے تو میں صرف اگر ترنم کی بات کروں تو یقین کیجئے کہ آپ کو ان کی آواز کا طلسم میں کسی طرح بیان نہیں کر سکتا۔ وہ کوئی روحانی یا آسمانی یا ملکوتی آواز تھی جو ہم سنتے تھے۔ ترنم کے لئے ایک طرزبیان بھی ہوتی ہے ہم حیران ہیں کہ اتنی رسیلی موثر آواز کے لئے انہیں کسی طرز بیان داد کی ضرورت نہ تھی نہ وہ کسی گانے والے ماہر کی طرح گاتے تھے نہ ان کے چہرہ سے کوئی رنگ و سلوٹ یا جدوجہد کا اظہار ہوتا تھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ ملکوتی آواز تھی اور بلا جبر و اکلا اور کوشش کے ظاہر ہوتی اور سننے والے کو مدہوش بنا دیتی تھی بلکہ محو حیرت۔ مجھے ساغر، سیماب، حفیظ جالندھری اور رفعت سلطان سے اور دہلی لکھنو، حیدر آباد، کلکتہ اور بہت دور دور شاعروں کا کلام سننے کا اتفاق ہوا ہے اور ان میں بڑے بڑے نامی گرامی شاعر تھے جو اپنے طلسمی ترنم سے حاضرین کو والہ و شیدا بنا لیتے تھے مگر جو قوت اور اثر میں نے اقبال کے ترنم میں دیکھا ہے وہ کچھ اور چیز تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ انسانی نہیں ملکوتی آواز ہے۔ میں نے جامع مسجد میں ہزاروں آدمیوں کو زمین پر تڑپتے لوٹتے دیکھا ہے جو دیوانوں اور مدہوشوں کی طرح گریہ و زاری میں مبتلا تھے ایسا اثر کسی انسانی ترنم سے ظاہر نہیں ہو سکتا۔ آپ اس کو مبالغہ نہ سمجھیں یہ ایک حقیقت ہے۔ فی البدیہہ نظم: ایک دن میں نے علامہ سے گذارش کی ’’ نیرنگ خیال کے لیے کوئی نظم دیجئے‘‘ انہوں نے فرمایا ’’ نئی چیز کوئی نہیں ہے۔‘‘ میں نے یاد دلایا کہ جب میں پچھلی مرتبہ حاضر ہوا تھا تو آپ نے حاضرین کو ایک شعر سنایا تھا: یہ پنڈت یہ بنیے، یہ ملا یہ لالے یہ سب پیٹ ہیں اور ہم تر نوالے کہنے لگے ’’ اور کوئی شعر نہیں ہوا۔ وہی ایک ہے‘‘ پھر تھوڑی دیر بعد فرمایا’’ اچھا لکھو‘‘ یہ مکتب یہ اسکول یہ پاٹھ شالے یہ تکیے یہ مندر یہ گرجے شوالے یہ پنڈت یہ بنیے یہ ملا یہ لالے یہ سب پیٹ ہیں اور ہم تر نوالے غریبوں کا دنیا میں اللہ والی وطن کیا ہے اک نوع سرمایہ داری بڑے سیٹھ ہیں قوم کے یہ بھکاری یہ دیکھو وہ چلی آ رہی ہے سواری نئے جال لائے پرانے شکاری غریبوں کا دنیا میں اللہ والی (نیرنگ خیال، سالنامہ ۱۹۲۸ئ) جب فی البدیہہ اتنے اشعار لکھوا چکے تو فرمانے لگے ’’ اگر یہ شعر کام آ سکیں تو چھاپ دیجئے مگر مجھے اس کی نقل دیتے جائیے۔‘‘ اقبال کی پبلک میں روشناسی: ابھی ڈاکٹر اقبال دنیائے ادب میں روشناس نہ ہوئے تھے اور چند ایک گھریلو کالجی مشاعروں میں ہی انہوں نے اپنا کلام سنایا تھا اور ان دنوں آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جناب عبدالقادر نے مخزن کے نام سے ایک اردو ماہنامے کا آغاز فرمایا یہ ۱۹۰۱ء کا واقعہ ہے۔ شیخ عبدالقادر مخزن کے پہلے شمارہ کے لئے اقبال صاحب کے پاس پہنچے اور ان کا کلام طلب فرمایا۔ اقبال نے معذرت کی کہ کوئی چیز تیار نہیں ہے۔ عبدالقادر نے اصرار کیا اور کہا کہ وہ نظم جو آپ نے ہمالہ کے عنوان سے پڑھی تھی وہ ہی دے دیجئے اقبال کا خیال تھا کہ ابھی اس میں مزید اصلاحیں کریں۔ اس لئے وہ ٹالنا چاہتے تھے مگر ایڈیٹر صاحب زبردستی ہمالہ والی نظم لے آئے جو مخزن کے پہلے شمارہ کی زینت بنی۔ اس طرح پہلی بار اقبال کی شاعری پبلک سے روشناس ہو گئی۔ ترجمان حقیقت: عبدالقادر نے بانگ درا کے دیباچہ میں اس با ت کا بھی تذکرہ فرمایا ہے کہ بعض رسائل اور اخبارات اس عہد میں ڈاکٹر صاحب کو ترجمان حقیقت کے نام سے یاد کرتے تھے ان کی تصنیفات کے خاص مقاصد کی تحت یہ بات ثابت ہوتی ہے وہ اس کے مستحق تھے کہ انہیں اس لقب سے ملقب کیا جائے اور اس میں کوئی مبالغہ نہ تھا۔ علامہ اقبال کے کلام میں بعض اشعار اور مصرعے ایسے تھے کہ ان پر ایک ایک وسیع مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ ان کے کلام میں جگہ بہ جگہ یہ بلندی اور ہمہ گیری پائی جاتی ہے۔ ٭٭٭ پیشوائے قوم کی گتھی! شفاخانہ حجاز!! مجھے مہینے میں ایک دو بار علامہ اقبال کی خدمت میں حاضری کی سعادت ضرور حاصل ہوتی تھی۔ کبھی تاثیر و چغتائی اور عبداللہ چغتائی بھی ہمرکاب ہوتے تھے۔ ایک دن علامہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ مولانا ظفر علی خان بے حد گھبرائے ہوئے آئے۔ علامہ نے پوچھا’’ خیر باشد؟‘‘ ’’ خیریت کہاں ہے!‘‘ ’’ کیوں؟‘‘ ’’ حکومت انگلشیہ نے ایک سرکلر لیٹر تمام اخبارات کے نام بھجوایا ہے کہ حکومت اپنی طرف سے اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے پانچ لاکھ کی رقم کا عطیہ دے گی اور پانچ لاکھ روپے تمام مسلمان اس فنڈ کے لئے جمع کریں۔ دس لاکھ روپے کے سرمایہ سے حجاز میں ہسپتال بنوائے جائیں گے کیونکہ حج کے موقعہ پر حاجیوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔‘‘ ’’ پھر؟‘‘ مولانا تو پہلے ہی پریشان اور مضطرب دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے گلہ گیر آواز میں جواب دیا کہ یہ انگریزوں کی چال ہے سیاست ہے قوموں کا دل موہنے کی افسوں گری ہے وہ مسلمانوں کو اس طریقہ سے دھوکہ دینا چاہتے ہیں یہ فرنگی جہاں بھی رفاہی ادارے بنواتے ہیں۔ ہسپتال قائم کرتے ہیں وہاں انہی ترکیبوں سے اپنے پاؤں جماتے ہیں پھر آہستہ آہستہ اپنا اثر و رسوخ پھیلا کر قبضہ کر لیتے ہیں اس لئے اب حجاز بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے گیا۔ یہاں تک پہنچ کر علامہ کی حالت بہت متاثر ہو گئی ان پر رقت طاری ہو گئی اور مجھے خطرہ پیدا ہو گیا کہ مولانا ظفر علی اب روئے کہ روئے!! علامہ نے فرمایا’’ مولانا آپ کے شبہات میں وزن ہے اور معاملہ بیشک سنجیدہ ہے مگر آپ پریشان نہ ہوں کچھ تدبیر ہو ہی جائے گی! آپ شام کے قریب اپنا چپراسی بھیج کر کچھ اشعار منگوا لیجئے گا میں چند شعر لکھ دوں گا وہ اپنے اخبار میں چھاپ دیجئے۔ پھر نہ کوئی چندہ دے گا نہ اس تحریتک کی کوئی قدر و اہمیت ان کے دل میں پیدا ہو گی۔ نہ ہسپتال بنیں گے اور نہ فرنگی کی چال کامیاب ہو گی!‘‘ چنانچہ علامہ نے شفاخانہ حجاز کے نام سے ایک نظم لکھی جو روزنامہ زمیندار میں دوسرے دن صبح کے شمارے میں شائع ہو گئی۔ نظم کے چھپنے کی دیر تھی کہ تمام ملک میں آگ لگ گئی۔ سوئی ہوئی قوم بیدار ہو گئی اس نے وہ خطرات بخوبی محسوس کر لئے جو حجاز میں فرنگی ہسپتالوں سے وجود میں آ سکتے تھے۔ نظم ملاحظہ ہو: شفاخانہ حجاز اک پیشوائے 1؎ قوم نے اقبال سے کہا کھلنے کو جدہ میں ہے شفاخانہ حجاز ہوتا ہے تیری خاک کا ہر ذرہ بیقرار سنتا ہے تو کسی سے جو افسانہ حجاز دست جنوں کو اپنے بڑھا جیب کی طرف مشہور تو جہاں میں ہے دیوانہ حجاز دار الشفا حوالئی بطحا میں چاہیے نبض مریض پنجہ عیسیٰ میں چاہیے 1؎ پیشوائے قوم سے علامہ کی مراد مولانا ظفر علی خاں مدیر روزنامہ زمیندار لاہور ہے۔ میں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز میں تلمخابہ اجل میں جو عاشق کو مل گیا پایا نہ خضر نے مئے عمر دراز میں اوروں کو دیں حضور یہ پیغام زندگی میں موت ڈھونڈتا ہوں زمین حجاز میں آئے ہیں آپ لے کے شفا کا پیام کیا رکھتے ہیں اہل درد مسیحا سے کام کیا شعر و ادب کی تاریخ میں شاید یہ پہلا اور آخری واقعہ ہے جسے میں پیش کر رہا ہوں جس میں وہ فرنگی حکومت جس پر سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا جو ایک بہت بڑی با جبروت حکومت تھی! مگر ایک شاعر کے درد بھرے دل سے جو اشعار نکلے تھے ان میں وہ قوت ہے جو جنگی جہازوں، توپوں اور حلقہ شکن آلات حرب سے کہیں بہت زیادہ با اثر ہے وہ اجل کی تلخی کو خضر کے آب حیات پر ترجیح دیتی ہے۔ جو قوم حجاز میں شہادت حاصل کرنے کی آرزو مند ہو اس کی نظر میں متاع حیات کی کیا قیمت ہو سکتی ہے؟ میں اس مضمون کے تاثرات میں ڈوبا ہوا برابر آنسوؤں کی تار باندھے بیٹھا ہوں۔ اس کو کہتے ہیں شعر اور اس کو کہتے اثر اور یہ ہیں علامہ اقبال! ٭٭٭ علامہ اقبال کی شعر خوانی شاہی مسجد کے جلسہ میں طرابلس پر اٹلی کے حملہ کے خلاف تقریریں مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی علامہ اقبال کے کلام کی تاثیر کا کچھ مزید رنگ دیکھنے کی اگر آپ کے دل میں حسرت یا تڑپ ہے تو لیجئے اس سلسلہ میں ایک واقعہ پیش کرتا ہوں خاکسار بھی اس کا شاہد ہے یعنی چشم دید گراہ! اس زمانے میں شاہی مسجد لاہور میں مسلمانان لاہور نے ایک جلسہ عام کیا تھا۔ جس میں زندہ دلان پنجاب جمع ہوئے تھے۔ شاہی قلعہ اور بارہ دری کے سامنے اورنگ زیب کی عظیم جامع مسجد شاہی مسجد میں ہزاروں مسلمان جمع ہوئے۔ اس جلسہ میں مسلمانوں کے کئی لیڈر بلکہ سبھی لیڈر موجود تھے۔ سر شفیع، سر فضل حسین، میاں نظام الدین، مولوی محبوب عالم، میاں عبدالعزیز وغیرہ وغیرہ اول چند ریزولیشن پڑھے گئے اس کے بعد علامہ اقبال سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنا کلام سنائیں ہجوم میں پندرہ بیس ہزار مسلمان ہوں گے جوش کا یہ عالم تھا کہ جذبات پر قابو رکھنا محال ہو رہا تھا۔ آئے دن یورپین حکومتیں اسلامی ریاستوں کو اجاڑنے اور ان پر قبضہ جمانے کے لئے کسی نہ کسی ملک پر چڑھائی کر دیتی تھیں ان دنوں طرابلس اور اٹلی والوں کے درمیان جنگ ہو رہی تھی۔ ان ہی ایام میں علامہ اقبال نے جنگ طرابلس پر ایک نظم لکھی تھی اور اب آپ ہی کے منہ سے سنی جانے والی تھی۔ نظم پڑھنے سے پہلے سر شفیع، میاں فضل حسین اور مولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر وزنامہ پیسہ اخبار نے بڑی آتشیں تقریریں کیں جس میں اٹلی کے خلاف مسلمانوں نے اپنے غیض و غضب کا اظہار کیا تھا۔ جب علامہ نے نظم سنانی شروع کی تو مجمع پر ایک عجیب قسم کا سکوت طاری ہو گیا اس وقت فرش پر ایک سوئی بھی گرتی تو آواز آتی۔ اس بات کو کسی دوسرے موقعہ کے لئے اٹھا رکھتا ہوں کہ علامہ کے کلام کے علاوہ آپ کی آواز میں کیسی تاثیر تھی! اور دلسوز آواز میں پڑھنے والوں میں آپ کا کیا مقام تھا؟! اب ملاحظہ ہو علامہ اقبال کی نظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں: حضور رسالت مآبؐ میں گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامہ زمانہ ہوا جہاں سے باندھ کے رخت سفر روانہ ہوا قیود شام و سحر میں بسر تو کی لیکن نظام کہنہ عالم سے آشنا نہ ہوا فرشتے بزم رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو حضور آیہ رحمت میں لے گئے مجھ کو (۲) کہا حضور نے اے عندلیب باغ حجاز! کلی کلی ہے تری گرمی نوا سے گداز ہمیشہ سر خوش جام ولا ہے دل تیرا فتادگی ہے تری غیرت سجود نیاز اڑا جو پستی دنیا سے تو سوئے گردوں سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعت پرواز نکل کے باغ جہاں سے بزنگ بو آیا ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا (۳) حضور دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں وفا کی جس میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی گھر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی جھلکتی ہے تری امت کی ابرد اس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں علامہ نے جب پوری وحدوزی اور سرمشاری سے یہ شعر پڑھا: مکر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی تو لوگوں کا تجسس بڑھا۔س وال پیدا ہوا بھلاد : کیا چیز ہو گی جو جنت میں بھی نہیں ملتی۔۔۔ اس کے بعد جب علامہ نے یہ شعر پڑھا: جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں تو مجمع بے قابو ہو گیا، چیخ و پکار، نالہ و بکا آہ و فغاں سے مسجد کی دیواریں لرزنے لگیں۔ اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے فضا گونجنے لگی۔ لوگ پاگلوں اور دیوانوں کی طرح کپڑے پھاڑنے لگے۔ کوٹ اتار کر پھینک دئیے پگڑیاں اور ٹوپیاں فضا میں اچھال دیں۔ زمین پر اس طرح لٹنے اور تڑپنے لگے جیسے کسی نے ان کو ذبح کر ڈالا ہے۔میں نے اپنی زندگی میں کسی موت کے سانحہ پر یا کسی بھی موقعہ پر ایسا دلخراش منظر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا تھا جلسہ خود بخود برخاست ہو گیا۔ لیڈران عظام جلد از جلد سٹیج سے کھسک گئے۔ عوام کا بے پناہ ہجوم مسجد سے باہر کی طرف لپکا جا رہا تھا۔ جلسہ خود بخود برخاست ہو گیا۔ لیڈران عظام جلد از جلد سٹیج سے کھسک گئے۔ عوام کا بے پناہ ہجوم مسجد سے باہر کی طرف لپکا جا رہا تھا۔ اس کا رخ قلعہ کی طرف ہو گا یا شہر کی طرف؟؟ اس واقعہ کے دوسرے یا تیسرے دن میں علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حاضرین میں سے کسی نے علامہ اقبال کے شاہی مسجد میں پڑھی جانے والی نظم کا ذکر چھیڑ دیا اور کہا حضور اس دن خیریت ہی گذر گئی ورنہ پبلک کے جوش کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہو گیا تھا کہ کوئی ہنگامہ شدید نہ ہو جائے؟! اس پر علامہ نے فرمایا اچھا ہی ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے جذبات کو قابو میں کر لیا ورنہ کسی بھی ایک شعر سے آگ لگائی جا سکتی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ابھی میری قوم تیار نہیں ہے اس سلسلہ میں وہ فوٹو بھی پیش کر رہا ہوں جو اس موقعہ پر مشہور ناول و افسانہ نگار میاں ایم ایم اسلم نے لیا تھا جسے اس حقیقی واقعہ نگاری کا ایک جزو سمجھنا چاہیے۔ یہ فوٹو بے حد اہم دستاویز ہے۔ ٭٭٭ حکومت انگلشیہ کے ریاستوں سے خصوصی تعلقات قیام پاکستان سے قبل جب سلطنت انگلشیہ کو ہندوستان پر واحد حاکمانہ اختیارات تھے۔ تو ملک کے مختلف صوبوں ریاستوں اور قوموں سے مختلف قسم کے تعلقات بھی ہوتے تھے اور انگریزی کی دانشمندی ہمیں جگہ بہ جگہ ان خصوصی معاہدوں میں نظر آتی تھی جہاں انگریز بہادر ریاستوں کو اس انداز میں اپنا غلام بنائے رکھتا تھا جس سے خود مختار ریاست کی حکمرانی میں انگریز کا عمل دخل بخوبی قائم و دائم رہتا تھا۔ چنانچہ بعض والیان ریاست سے یہ معاہدہ کچھ اس شکل میں تھا کہ ریاست کے وزیراعظم کی تقرری وائسرائے ہند کے حکم نامہ کے ماتحت ہوا کرے گی اور وہ جس شخص کو چاہیں گے ریاست کا وزیراعظم مقرر کریں گے۔ اس طرح سے نامزد ہونے والا وزیراعظم بظاہر ریاست کے نواب کے ماتحت ہوتا تھا۔ لیکن در پردہ وہ وائسرائے ہند کے تمام احکام کے مطابق ریاست کا نظم و نسق چلاتا تھا اور وزیر اعظم کے بالقہ میں نواب ایک کٹھ پتلی رہ جاتا تھا۔ چنانچہ ریاست بہاولپور میں جو بھی وزیراعظم بنا کر بھیجا جاتا تھا وہ وائسرائے بہادر کے حکم کے ماتحت متعین ہو کر بہاولپور جاتا، اور ریاست پر انگریزی حکمرانی کا ذریعہ کار بنتا تھا۔ جس زمانہ کا میں ذکر کر رہا ہوں ان دنوں ریاست بہاولپور میں جو صاحب وائسرائے ہند کی طرف سے نامزد وزیر اعظم تھے ان کی او رنواب صاحب بہالپور میں بنتی نہ تھی وہ ایک دوسرے کی ضد تھے پہلے تو خود نواب صاحب وائسرائے بہادر کو شکایتیں لکھتے رہے کہ موجودہ وزیراعظم سے میری جان چھڑائی جائے مگر شنوائی نہ ہوئی مجبور ہو کر نواب صاحب کو ڈاکٹر سر محمد اقبال کو جو بیرسٹر بھی تھے اس مقصد کے لیے اپنا وکیل بنانا پڑا۔ ان کے بعض رفقا نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ ممکن ہے کہ سر محمد اقبال کی وکالت سے ان کی مقصد براری ہو جائے۔ چنانچہ نواب صاحب کا ایک آدمی علامہ کے پاس پہنچا اور صورت حال بیان کی۔ ڈاکٹر صاحب نے معاملہ کو بہ حیثیت بیرسٹر جانچا ہامی بھر لی اور چار ہزار فیس مقدمہ کی طے پائی۔ چنانچہ علامہ لاہور سے دہلی روانہ ہوئے اور اسٹیشن سے سیدھے وائسرائے بہادر کے دفتر میں جا پہنچے اور سیکرٹری کو اپنا کارڈ دیا۔ سیکرٹری نے کہا کہ قاعدہ یہ ہے کہ ہر ملاقاتی اپنا نام رجسٹر میں لکھتا ہے اس کے بعد رجسٹر اندر بھجوایا جاتا ہے جسے بلانا مقصود ہوتا ہے اسے بلا لیا جاتا ہے لہٰذا آپ بھی کارڈ دینے کی بجائے رجسٹر میں اپنا نام لکھیں۔ اس پر اقبال نے کہا’’ اگر وائسرائے میرے کارڈ پر ملنا نہ چاہیں گے تو میں واپس چلا جاؤں گا مگر عام لوگوں کی طرح رجسٹر میں نام نہ لکھوں گا۔‘‘ مجبوراً سیکرٹری کو کارڈ لے کر اندر جانا پڑا وائسرائے نے کہا میں ان سے ملوں گا انہیں بٹھایا جائے۔ تھوڑی دیر کے بعد وائسرائے ملاقاتیوں کے کمرے میں آئے ملاقات ہوئی وائسرائے نے آمد کا سبب پوچھا’’ کیسے آنا ہوا؟‘‘ علامہ اقبال نے کہا کہ وہ بہ حیثیت ایڈووکیٹ ریاست بہاولپور کے نواب صاحب کی طرف سے پیش ہوئے ہیں۔ ریاست کا وزیر اعظم آپ کے حکم سے ریاست میں متعین تو ہے مگر نواب صاحب اور وزیر اعظم میں تعلقات خوشگوار نہیں ہیں جس سے نواب صاحب کو بھی تکلیف ہے اور کاروبار سلطنت میں بھی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ وائسرائے بہادر نے فرمایا مگر یہ سب کچھ ضابطہ کے مطابق ہے اور نواب صاحب کو اسے پسند کرنا چاہیے۔ علامہا قبال نے کہا کہ معاملہ تو بالکل معمولی ہے حکمران کی سیاست کا منتہا یہ ہونا چاہیے کہ وائسرائے اور ریاست کے درمیان تعلقات انتہائی خوش گوار ہوں۔ ان تعلقات کی سلامتی اور ترقی سے حکومت انگلشیہ اور حکومت بہاولپور کے تعلقات میں روز افزوں اضافہ ہو گا مگر وزیر اعظم کی در اندازی اور نا قبولیت سے اس عظیم مقصد کو نقصان پہنچے گا آپ کو اپنی پالیسی کی مرکزی قوت بحال رکھنے کے لئے ایسے فروعی معاملات پر وزیر اعظم کی حمایت ترک کر دینی چاہیے اگر آپ اس وزیراعظم کو وہاں سے تبدیل فرما دیں اور کوئی دوسرا شخص ریاست میں وزیر اعظم مقرر کر دیں جو نواب صاحب کو بھی پسند ہو تو اس سے حکومت انگلشیہ کے وقار کو کوئی ضعف نہیں پہنچتا بلکہ استحکام ملتا ہے اس قسم کی باتیں ہوتی رہیں اور وائسرائے بہادر نے وعدہ فرما لیا کہ وہ وزیراعظم بہاولپور کی تبدیلی کے احکام جاری کر دیں گے۔ وائسرائے کو ایک تو علامہ اقبال کے مرتبے کا علم تھا دوسرے علامہ نے بات بھی کچھ اس ڈھب سے کی تھی کہ وائسرائے کو انکار کرتے نہ بنی۔ جب یہ بات طے ہو گئی تو وائسرائے نے کہا کہ ’’ آپ پرسوں میرے ساتھ ڈنر کھائیں۔‘‘ علامہ نے فرمایا’’ مجھے تو آج واپس جانا ہے۔‘‘ ’’ اچھا تو کل سہی‘‘ ’’ مگر میں تو آج ہی واپس جاؤں گا کل تک نہیں ٹھہر سکتا۔‘‘ وائسرائے نے کہا’’ میری خواہش تھی کہ آپ کے ساتھ کھانا کھانے کی بھی خوشی حاصل کرتا۔‘‘ ’’ اگر یہ خواہش ہے تو کھانا آج بھی کھا سکتے ہیں۔‘‘ ملاحظہ فرمایا آپ نے جو وائسرائے کی بات کو رد کرنے یا اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی ہمت رکھتے تھے ورنہ کسی بڑے سے بڑے افسر یا لیڈر یا والئی ریاست کو مجال نہ تھی کہ وہ وائسرائے کے حکم کے خلاف زبان بھی کھول سکتا۔ چنانچہ وائسرائے بہادر نے علامہ کو دوسرے کمرہ میں جگہ دی اور وہیں دوپہر کے بعد علامہ کے ساتھ وائسرائے نے ڈنر کھایا اور علامہ اسی شب لاہور واپس چلے آئے۔ حسن کارکردگی مگر حرص و لالچ سے پاک: نواب بہاولپور اور وائسرائے کے درمیان جو صورت پیدا ہو گئی تھی اس میں علامہ اقبال نے جس خوبصورتی سے کامیابی حاصل کی تھی وہ آپ کے سامنے آ چکی ہے۔ اب اتفاق سے میں اس دن بھی علامہ موصوف کے پاس موجود تھا۔ چودھری محمد حسین (ایم اے) جو پریس برانچ لاہور کے سپرنٹنڈنٹ تھے۔ وہ بھی موجود تھے کہ تار چپراسی سائیکل پر آیا اور اس نے علامہ کے نام کا تا ردیا تو چودھری محمد حسین نے دستخط کر کے تار لے لیا۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا’’ پڑھئے کس کا تار ہے؟‘‘ چودھری صاحب نے فرمایا’’ تار نواب صاحب بہاولپور کی طرف سے آیا ہے انہوں نے آپ کا شکریہ ادا کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ ملاقات کے لئے بہاولپور آئیے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب ایک آدھ منٹ خاموش رہے پھر آپ نے کہا ’’ کیا نواب صاحب نے مجھے اپنا ملازم سمجھ لیا ہے؟‘‘ چودھری صاحب نے پوچھا’’ کیا جواب دوں نواب صاحب کو۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا’’ لکھ دیجئے فرصت نہیں‘‘ اس تار کا پس منظر کسی دوسرے موقعہ پر چودھری صاحب نے مجھے سنایا تھا جس میں ریاست بہاولپور کی وکالت کرنا۔ دہلی جانا وائسرائے سے ملاقات کرنا ریاست کے وزیر اعظم کے جھمیلہ کر دور کرانا خود اسی دن ڈنر وائسرائے کے ساتھ کھانا سب کا تذکرہ تھا اور جسے میں اسی مضمون کے سلسلہ میں ان حقائق و واقعات میں شامل کرنے کے قابل ہوا جو سچے وقائع سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر علامہ اقبال بہاولپور تشریف لے جاتے تو یہ وزیر اعظم کی تبدیلی میں جو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ علامہ موصوف کو ضرور دس پندرہ ہزار انعام ریاست کی طرف سے دیا جاتا تھا مگر اس مرد خود آگاہ کو کون ان باتوں پر آمادہ کر سکتا یا تحریک کر سکتا تھا وہ مقدمہ کے چار ہزار تولے سکتے تھے مگر انعام کے حرص و لالچ میں بہاولپور کا سفر کر کے نواب صاحب کے سامنے گپیں ہانکنے والے اور خوشامدی کا روپ نہ دھار سکتے تھے۔ انہوں نے صاف جواب دلوا دیا کہ انہیں فرصت ہی نہیں کہ وہ بہاولپور حاضری دیں۔ ٭٭٭ چوالیس سال پہلے کا واقعہ نیرنگ خیال میں اقبال اور نیاز فتح پوری پر تنقید محمد طفیل ایڈیٹر نقوش کی تلاش و جستجو چوالیس سال پہلے کی بات ہے کہ اردو کے نامور ادیب حضرت نیاز فتح پوری کی عادت تھی کہ وہ چڑھتے سورج کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ڈاکٹر اقبال کے بارے میں پوری دیدہ دلیری سے لکھا تھا۔ اور اس پر نیرنگ خیال لاہور کو سختی سے نوٹس لینا پڑا تھا۔ یہ گذرے زمانے کی باتیں ہیں اب اس کا وقت نہیں ہے کہ ہم ان باتوں کو دہرائیں میں صرف چند سطریں اس اداریہ کے آخری پیرے سے نقل کرتا ہوں۔ ’’ ہم نے حضرت نیاز کی زہریلی تحریر کے ان جملوں کو نقل کر کے رسالہ کو ناپاک نہیں کیا۔ جو ان کے صحیفہ میں شائع ہوئے تھے۔ ہم یو پی کے سخن فہم اصحاب کو عموماً اور لکھنو کے اہل الائے حضرات کو خصوصاً توجہ دلاتے ہیں کہ وہ حضرات فتح پوری کی اس سفہیانہ تحریر پر سختی سے نوٹس لیں اور پوری کوشش کریں کہ امت مرحومہ کے سر بر آوردہ اور واجب التعظیم بزرگوں کی اس درجہ توہین پردہ اظہار ندامت کریں اور اگر وہ اس پر تیار نہ ہوں تو اطبائے لکھنو ان کے سر پر ’’ جو جن1؎‘‘ مسلط ہے اس کے نکالنے کا انتظام فرمائیں۔‘‘ نیرنگ خیال جنوری ۱۹۳۰ء اس پر محترم محمد طفیل مدیر نقوش اپنی کتاب مکرم میں تبصرہ فرماتے ہیں۔ ’’ یہ ہے ایڈیٹر کی قابلیت یا اس کا مقام گفتگو کہ وہ نازک مرحلوں سے بھی سرخرو گذرے۔ ورنہ اس جھگڑے میں اہل زبان کا ناراض ہو جانا لازمی امر تھا۔ (ایسے مواقع پر اکثر معقولیت اور نا معقولیت کو بھی دھیان میں نہیں رکھا جاتا) مگر حکیم صاحب نے اس معاملہ کو پوری ہوشمندی سے سنبھالا۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے سنا تھا کہ اس معاملہ میں اہل اردو بھی حکیم صاحب کے ہمنوا تھے اور نیاز صاحب کے رویے کو ناپسند کر رہے تھے اسے کہتے ہیں تلخ نوائی میں شیریں کلامی۔‘‘ یہ ایک ایسا عجیب موقعہ تھا جب علامہ اقبال کے حضور میں ان کے حمایتی خوب اچھل اچھل باتیں بناتے۔ اجی حضرت ہم یہ کر دیں گے۔ اور وہ کر دیں گے ان کے چھکے چھڑا دیں گے چنانچہ میں نے (ایڈیٹر نقوش نے) حکیم صاحب سے پوچھ ہی لیا۔ ’’ آپ نے اس وقت علامہ اقبال کی وکالت تو خوب کی تھی علامہ بھی خوش ہوئے تھے یا نہیں؟‘‘ (حکیم صاحب) کہنے لگے’’ وہ ان چیزوں سے بالا تھے۔ میں نے جب ادب سے وہ پرچہ علامہ کی خدمت میں پیش کیا تھا تو وہ نوٹ پڑھ کر صرف مسکرا دئیے تھے زبان سے کچھ نہ کہا تھا مجھ میں بھی ہمت نہ تھی کہ پوچھ لیتا۔ کیسا رہا یہ اداریہ؟‘‘ محمد طفیل نے پوچھا’’ آپ کے علامہ سے تعلقات کیسے تھے؟‘‘ 1؎ ان دنوں حضرت نیاز فتح پوری ایک رسالہ جن بھی شائع کرتے تھے۔ ’’ آج لوگ یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ ہمارے علامہ سے بڑے تعلقات تھے۔ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ ہر آدمی یہ کہہ رہا ہے کہ علامہ میرے دوست تھے۔ مجھ سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ مگر میں اس ضمن میں یہ کہوں گا کہ میں تو ان کے ہاں حاضری پر ہی فخر کیا کرتا تھا۔ میری نہ ان سے دوستی تھی نہ وہ مجھ سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ علامہ کی مجھ پر یہی مہربانی بہت تھی کہ انہوں نے مجھے اپنے ہاں بیٹھنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ لذت بیداری مجھے اسی چوکھٹ سے ملی تھی ورنہ میں اس سے آشنا ہی نہ تھا۔‘‘ یہ سب فیض علامہ کی دور سے فیض بخشی تھی۔ ورنہ من آنم کہ من دانم! ٭٭٭ شاعر کا مقام ہندوستان کے ایک نواب (شاید نواب جوناگڑھ) لاہور آئے۔ انہوں نے سر عبدالقادر کے ہاں قیام فرمایا تھا۔ نواب صاحب نے سر عبدالقادر سے کہا۔’’ میں دو کاموں کے لئے آیا ہوں۔ ایک تو میں لاہور دیکھنا چاہتا ہوں دوسرے اقبال سے ان کا کلام سننا چاہتا ہوں۔‘‘ دنیا خوب جانتی ہے کہ سر اقبال اور سر عبدالقادر میں گہرے دوستانہ روابط تھے۔ عبدالقادر نے کہا’’ لاہور کی سیر تو میں بہ خوبی کرا دوں گا مگر علامہ اقبال سے کلام سنوانا میرے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘ اور پھر کچھ سوچ کر کہنے لگے: ’’ ہاں میں صرف یہ کر سکتا ہوں کہ آپ کی خاطر دعوت کروں جس میں علامہ کو بھی مدعو کروں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسی صورت از خود پیداہو جائے کہ علامہ اپنا کلام سنا دیں۔ ورنہ فرمائش کی جرأت نہ تو مجھ میں ہے اور نہ کسی اور میں!‘‘ اللہ اللہ یہ ہے شاعر کا مقام! برخلاف اس کے متحدہ ہندوستان کی آبادی پچاس کروڑ سے اوپر تھی اور اگر مبالغہ سے گریز کیا جائے تو ہندوستان میں اردو ہندی بنگالی شاعروں کی تعداد ایک لاکھ سے کم نہ ہو گی۔ خصوصاً اردو ان طبقوں میں شعر کہنے اور لکھنے کا بہت شوق تھا۔ اور اس سے بھی زیادہ انہیں اپنا کلام سنانے کا ذوق تھا۔ اگر ان کی ا چکنوں کی تلاشی لی جائے تو شاید ہی کوئی شخص ہو گا جس کی جیب میں اس کے کلام کی بیاض نہ ہو۔ بعد میں یہ عادت کچھ اس حد تک ناپسند ہو گئی کہ خود یوپی والے بھی اسے ناپسند کرنے لگے چنانچہ شاہد احمد دہلوی مدیر ماہنامہ ’’ ساقی‘‘ نے شاعروں کے اس ریلے سے بچنے کے لئے ان کی اس سیلاب طبع پر بند باندھنے کے لئے کچھ اس طرح کی شرائط لگا رکھی تھیں مثلاً: دہلی میں ایک لائبریری کے دفتر میں جہاں ادباء اور شعراء کا ہجوم جمع ہو جاتا تھا۔ حاجت مند تشریف لاتے اور کتابوں سے استفادہ کرتے۔ لیکن لائبریری کے اوقات ختم ہو جانے کے بعد بھی یہ مقام ادیبوں اور شاعروں کا اڈا بنا رہتا اور رات گئے تک یہ پر لطف مجلس مختلف مضامین پر تبادلہ خیال کرتی اور کبھی شعر و سخن سے بھی دل بہلایا جاتا تھا۔ مگر مجلس کو شاعرں کے ہنگاموں سے پاک رکھنے کے لئے شاہد احمد صاحب نے یہ قاعدہ کلیہ ناقد کر رکھاتھا جو شاعر اپنا کلام سنانا چاہے اسے تمام حاضر ادباء کی تواضع چائے سے کرنی ہو گی۔ اول وہ چائے پلائے اس کا بل ادا کرے اس کے بعد شعر سنائے۔ اگر کوئی شاعر ترنم کے ساتھ اپنا کلام سنائے گا تو اسے چائے کے ساتھ نمکین اور شیریں مٹھائیوں سے بھی حاضرین کی تواضع کرنی ہو گی۔ شاہد صاحب کہتے تھے کہ ’’ اگر میں یہ سختی نہ کرتا تو ساری رات شاعروں کا کلام ہی سننا پڑتا۔‘‘ ٭٭٭ میری زندگی کا ایک مقصد یہ بھی رہا ہے کہ تنقیدی جرح سے بچتے ہوئے علامہ اقبال کے متعلق واقعات و حقائق کو فراہم کرتا رہوں اور سمیٹتا رہوں تاکہ ہم علامہ کی زندگی کی گہرائیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوں۔ یہ مضمون بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو میں نقوش کے اقبال نمبر کے لئے ترتیب دے رہا ہوں۔ اس سلسلہ میں حجاب امتیاز علی کا ایک مضمون پیش کر رہا ہوں یہ اس عہد کی بات ہے جب علامہ اقبال نے مدراس کا سفر اختیار کیا تھا اور وہاں جا کر خطبات مدراس پڑھے 1؎ تھے۔ ان دنوں محترمہ مس حجاب اسمعیل تھیں جو مدراس کے کانونٹ سکول میں پڑھتی تھیں اور ان کے والد محمد اسمعیل مدراس کے ایک نامور مسلمان رئیس تھے۔ اس کے بعد وہ بیگم امتیاز علی تاج ہو گئیں۔ زیر غور مضمون انہوں نے ۱۹۶۹ء میں اپنی بچپن کی یادوں ۱۹۲۹ ء سے لکھا تھا۔ اور آج میں ۱۹۷۷ء میں اسے نقوش کے اقبال نمبر میں منسلک کر رہا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں: شاعر مشرق سے میری ملاقات شاعر مشرق علامہ اقبال سے میری ملاقات کو اتنا عرصہ گزر چکا ہے کہ اب اس کی تفصیلات میرے ذہن میں وضاحت سے محفوظ نہیں، وقت کی گرد نے انہیں دھندلا دیا ہے۔ تاہم چند باتیں آج بھی روز روشن کی طرح میری یادوںکو درخشاں کر رہی ہیں۔ یہ خوشگوار یادیں میرے بچپن کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایک دفعہ ممتاز حسن صاحب نے بھی فرمایا تھا کہ میں علامہ صاحب سے اپنے بچپن کی ملاقات کے سلسلے میں کچھ لکھوں۔ مگر اس کا مجھے موقع نہ ملا۔ مسلم ایجوکیشنل ایسوسی ایشن نے علامہ اقبال کو پنجاب سے جنوبی ہند، چند اہم لیکچرز دینے کے لئے کالے کوسوں بلایا تھا۔ اس وقت میری عمر چھوٹی تھی۔ جب میرے والد سید محمد اسمعیل مرحوم نے یہ مژدہ مجھے سنایا کہ علامہ صاحب آ رہے ہیں تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی، اس لیے کہ میرا تمام بچپن ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ اور’’ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ گاتے گذرا تھا اور میں یہ ترانہ چھ سات سال کی عمر ہی میں بہت خوشی اور ولولے سے گایا کرتی تھی اور اپنے لکھنے پڑھنے کے کمرے میں بلیک بورڈ پر یہ ترانہ لکھا بھی کرتی تھی۔ اب قومی ترانے کے اس عظیم شاعر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا سنہرا موقع نصیب ہو رہا تھا۔ غرض کچھ نہ پوچھیے شوق ملاقات نے مجھے کس درجے بیتاب کر دیا تھا۔ میں نے اپنے والد سے کہہ دیا تھا کہ میں علامہ کے دور قیام میں تمام وقت ان کے ساتھ رہوں گی۔ میرے والد نے مجھے سمجھایا کہ وہ ایک مقصدی سفر پر آ رہے ہیں۔ ان کا قیام بہت مختصر اور مصروف ہو گا۔ دعوتی رقعے میرے نام بھی آ رہے ہیں۔ میں تمہیں بھی ساتھ لے جانے کی کوشش کروں گا۔ اس کے باوجود 1؎ ۱۹۲۹ء میں یہ مضامین مدراس میں پڑھے تھے۔ میں بضد ہوئی اور جس دن علامہ مدراس پہنچ رہے تھے میں اپنے والد کے ساتھ مدراس سے ایک اسٹیشن دور ان کے استقبال کے لیے جا پہنچی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ مدراس کے اسٹیشن پر علامہ صاحب کے استقبال کے لئے لوگوں کا ہجوم ہو گا۔ اسٹیشن جانے سے پہلے مجھے خیال آیا کہ علامہ کے لئے کوئی تحفہ بھی لے جانا چاہیے۔ بہت سوچا کوئی چیز سمجھ میں نہ آئی۔ آخر اپنی ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی ہوئی ’’ یوڈی کلون‘‘ کی چھڑکاؤ کی ایک کٹ گلاس کی خوبصورت صراحی لے لی تاکہ علامہ کو تحفہ دوں۔ مگر جب میرے والد نے اسے دیکھا تو کہا بھلا انہیں اس صراحی سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ وہ ایک سنجیدہ علمی آدمی ہیں۔ کوئی تحفہ دینا ہی تھا تو پہلے سے سوچ لیا ہوتا۔ میں بہت مایوس ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارا ملک (جو سچ پوچھئے تو ہمارا نہیں بلکہ برٹش حکومت کا تھا) انگریزیت میں رچا بسا تھا۔ تعلیم، معاشرت، زمین، آسمان سبھی کچھ انگریزی تھا۔ جب میں شاعر مشرق کے استقبال کے لئے اپنے والد ماجد کے ساتھ مدراس سے ایک اسٹیشن پہلے ’’ بیسن برج‘‘ پہنچی تو میرا انگریزی لباس تھا اور جنوبی ہند میں یہ کوئی نئی چیز نہ تھی۔ سبھی یہ لباس پہنتے تھے میرے والد بھی انگریزی سوٹ میں تھے۔ پلیٹ فارم پر ابھی ٹرین نہ آئی تھی اور میں شوق اور ولولے کے ساتھ اپنی تصوراتی دنیا میں غرق تھی۔ خیال تھا صبح کا وقت ہے علامہ صاحب ایک اعلیٰ درجے کے ہلکے رنگ کے سوٹ میں ملبوس ہوں گے۔ نکٹائی بھی میچ کر کے لگا رکھی ہو گی انگلیوں میں موٹا سا سگار سلگ رہا ہو گا۔ ٹرین پلیٹ فارم پر آ کر رکی۔ میں اور میرے والد اور والد کے چند اور دوست جو وہاں مل گئے تھے فرسٹ کلاس کے ڈبوں میں جھانک جھانک کر دیکھتے رہے مگر خلاف توقع علامہ صاحب سیکنڈ کلاس میںتھے اس وقت مجھے انتہائی حیرت ہوئی کہ اتنا عظیم آدمی اور سیکنڈ کلاس میں سفر! میں نے اپنے والد سے سرگوشی میں کہا کہ اگر کوئی انجمن مجھے سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ بھیج کر بلواتی یا میں علامہ اقبال ہوتی تو صاف انکار کر دیتی۔ میرے والد نے کہا کہ بڑے لوگ چھوٹی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے مگر مجھے ذہنی دھچکا لگ چکا تھا۔ ٹرین کھڑی ہو گئی اور مدراس سے ایک اسٹیشن دور ہونے کے باوجود بہت لوگ استقبال کے لئے پھولوں کے ہار لئے موجود تھے مگر میں اس ہجوم کو نظر انداز کرتے ہوئے شوق دید میں کمپارٹمنٹ میں چلی گئی۔ استقبال کرنے والے میزبانوں میں شہر کے کئی معززین ایسے تھے جو میرے والد کو جانتے تھے۔ انہوں نے میرے والد کا تعارف علامہ سے کروایا۔ شاعر مشرق نے کھڑے ہو کر ہاتھ ملائے اور رسمی باتیں کرنے لگے۔ میں ورطہ حیرت میں غوطہ زن ایک کونے میں کھڑی انہیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی، یعنی اپنے بچپن کے گیتوں کے ہیرو کو! کیا یہی علامہ اقبال ہیں جنہوں نے ’’ چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا‘‘ لکھا ہے۔ وہ نہ اعلیٰ درجے کے ہلکے رنگ کے سوٹ میں ملبوس تھے نہ ان کی انگلیوں میں موٹا سا سگار جل رہا تھا۔ انہوں نے پنجابی شلوار پہن رکھی تھی اور کرتے پر واسکٹ اور پاؤں میں دیسی جوتی جیسی کہانیوں کی کتابوں میں میں نے جادو گروں کو پہنے ہوئے دیکھا تھا۔ بڑی حیرت ہوئی میرے تصورات کی جنت پارہ پارہ ہو گئی وہ خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے کے الف لیلویٰ بغداد کا ایک کردار نکلے۔ بات یہ تھی کہ میں نے پنجابی لباس کبھی دیکھا نہیں تھا۔ آنکھیں عادی نہ تھیں۔ اس لیے قبول کرنے میں کچھ دقت ہو رہی تھی اور تو اور انگلیوں میں موٹے مصری سگار کی بجائے حقہ اور اس پر چلم رکھی تھی، ذہن کو دھچکے پر دھچکے لگ رہے تھے۔ میں انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھی کہ اچانک میرے والد نے نہ جانے کیا کہہ کر میرا تعارف کرایا۔ یہ بھی کہا کہ ان کے قومی ترانے میری گھٹی میں پڑے ہیں میں حیران اور ذرا شرمندہ سی ہو رہی تھی کہ اب ان سے کیا بات کروں۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ مجھے ملنے کے لئے کھڑے ہو گئے تھے اور شفقت سے مسکراتے ہوئے مجھے بغور دیکھ رہے تھے۔ (کیا معلوم میرا انگریزی لباس ان کو اتنا ہی عجیب لگ رہا تھا جتنا مجھے ان کا پنجابی لباس عجوبہ معلوم ہو چکا تھا!) پھر مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ بٹھاتے ہی ایک سگریٹ کا ڈبہ کھول کر مجھے سگریٹ پیش کیا۔ اس پر میرے والد کے ایک دوست نے جو مسلم لیگ کے ممبر تھے اور علامہ کے استقبال کے لئے آئے تھے مسکرا کر کہا۔’’ سگریٹ؟ ابھی تو یہ سینیٹ تھامس کانونٹ میں پڑھتی ہیں۔‘‘ میرے والد بھی ہنسنے لگے تھے اور میں گھبرا کر خاموش ہو گئی تھی۔ کانونٹ کا نام سن کر علامہ میری طرف متوجہ ہو گئے مسکرا کر فرمانے لگے ’’ بتائیے کانونٹ میں عیسائیت کا آپ نے اب تک کتنا اثر قبول کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا’’ بہت تھوڑا سا‘‘ اس پر علامہ صاحب ہنس پڑے ٹرین چلنے لگی اب میں نے بھی علامہ صاحب سے کچھ سوالات شروع کئے جن کی تفصیل اس وقت مجھے یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ اتنے دلنشیں ترانے مثلاً ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ کیسے لکھ لیتے ہیں؟ اس پر شاعر مشرق نے بے حد شگفتگی سے فرمایا۔ ’’ اب میں مان گیا کہ عیسائیوں کے کانونٹ کا آپ نے ذرا بھی اثر قبول نہیں کیا، جبھی تو آپ کا ’’ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ پر ایمان ہے۔ آپ کے عقائد آپ کے طرز و ادا اور آپ کی باتوں کو سن کر میں ایک تجویز پیش کرتا ہوں کہ آپ کا نام ’’ شیریں‘‘ ہونا چاہیے تھا۔‘‘ پھر میرے والد کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور پوچھا!’’ کیوں سید صاحب! آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہے؟‘‘ گفتگو یہاں تک پہنچی تھی کہ مدراس کا لمبا چوڑا پر شور اسٹیشن آ گیا مجھے بہت صدمہ ہوا کیونکہ ابھی میری ملاقات تشنہ معلوم ہو رہی تھی اور ان سے دوبارہ ملنے کی مجھے امید نہ تھی۔ لوگ ان کے استقبال کے لیے چونٹیوں کی طرح اوپر چڑھ آئے اور علامہ کو پھولوں کے ہاروں سے لاد دیا۔ علامہ نے بہت سے ہار میرے گلے میں ڈال دئیے۔ بعض لوگوں کو دھوکا ہوا کہ میں بھی ان کے ساتھ آئی ہوں اور مہمان ہوں۔ میرے والد نے علامہ کو خدا حافظ کہا اور جانے کے لئے مڑے مگر عین وقت پر میں نے علامہ سے پوچھ ہی لیا کہ میں دوبارہ کب ملوں۔ اس پر انہوں نے مسکرا کر کہا جس وقت آپ کا دل چاہے۔ یہ سن کر میرے والد قریب آ گئے۔ انہوں نے علامہ سے کہا کہ آج سوا بجے بساٹو ہوٹل (ڈیان جیلیز ہوٹل) میں آپ کا استقبالیہ لنچ ہے میں اور حجاب بھی موجود ہوں گے یہ کہہ کر وہ علامہ سے ہاتھ ملا کر مڑ گئے مجھے اس لنچ کی خبر نہ تھی نہ میرے والد نے ذکر کیا تھا۔ بہت ہی خوش خوش گھر پہنچی۔ اب مجھے شاعر مشرق کا لباس اور دیسی جوتیاں بری نہ لگتی تھیں کیونکہ ان کی گفتگو بہت شائستہ اور دلچسپ تھی۔ سوا بجے میں اپنے والد کے ساتھ لنچ کے لیے بساٹو پہنچی جو شہر کا سب سے بڑا ہوٹل سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں اس کا نام ڈیان جیلیز تھا۔ ظاہر ہے کہ لنچ بہت بڑا تھا۔ بے شمار مسلم لیگی شہر کے رؤسا اور بہت سے لیڈر اور خدا جانے کون کون شریک تھا۔ لنچ سے پہلے استقبالی کمرے میں مہمانوں کا ہجوم تھا مجھے موقع ہی نہ ملا کہ میں علامہ اقبال کے قریب جاتی۔ لیکن اتفاق کی بات کہ ان کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ انہوں نے وہیں سے ہاتھ ہلا کر مجھے سلام کیا اس وقت میں نے دیکھا کہ وہ لباس تبدیل کر چکے تھے اب وہ ایک نیلگوں رنگ کے سوٹ اور کالی ٹوپی میں ملبوس تھے۔ یہ دیکھ کر میں بہت خوش ہوئی کہ وہ نارمل لباس بھی پہنتے ہیں۔ میرے والد تو دوستوں سے بات چیت میں لگے ہوئے تھے اور میں ایک کونے میں کھڑی سوچ رہی تھی کہ نہ معلوم مجھے علامہ سے کچھ باتیں کرنے کا موقع ملے گا بھی یا نہیں۔ مجھے ابھی کئی باتیں ان سے کرنا تھیں۔ ایک ارادہ یہ تھا ان سے کہوں کہ انگریزی کی مشہور نظم ’’ ہوم سویٹ ہوم، وئیر از نو پلیس لائک ہوم‘‘ جیسی ایک نظم وہ ضرور لکھیں اور اس پر یہ بھی ضرور لکھیں کہ یہ حجاب اسمعیل کی فرمائش پر لکھی گئی ہے۔ (اس زمانے میں میں مس حجاب اسمعیل کہلاتی تھی) کمرہ طعام میں داخل ہوئے تو لمبی لمبی میزوں پر شراب کے گلاسوں کے پاس مہمانوں کی نشست کے لئے ان کے نام لکھے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ اب مجھے شاعر مشرق سے بات کرنے کا موقع ہرگز نہ ملے گا ظاہر ہے مہمان خصوصی کے دائیں بائیں سر محمد عثمان یا سر سی، حکیم جیسے بزرگ بیٹھیں گے اور نہ جانے میری نشست کا کارڈ شراب کے کس جام کے سائے تلے ہو گا؟ مہمان کارڈ دیکھ دیکھ کر اپنی نشستوں پر بیٹھنے لگے تو مجھے تشویش سی ہوئی کہ جانے میرا کیا حشر ہو اور کہاں بٹھائی جاؤں۔ مگر میرے تعجب اور شاید کئی اور لوگوں کے تعجب کی انتہا نہ رہی جب علامہ صاحب نے خود اپنے سیدھے ہاتھ کی طرف کی کرسی کھینچتے ہوئے میری طرف دیکھ کر فرمایا ’’ کیا مضائقہ ہے اگر آپ یہاں تشریف رکھیں؟‘‘ مجھے معلوم تھا کہ میرے یہاں بیٹھنے سے نشستوں کی ترتیب میں بے ترتیبی ہو جائے گی، اس لئے میںذرا تامل کر رہی تھی کہ سیٹھ حمید حسن صاحب جو منتظمین میں سے تھے مجھے کہنے لگے ’’ چلیے چلیے، علامہ صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔‘‘ اس خلاف توقع عزت افزائی پر مجھے دلی خوشی ہوئی۔ کھانا شروع ہوا علامہ صاحب میزبانوں اور دوسرے مہمانوں سے مصروف گفتگو تھے اور موقع دیکھ کر میں بھی ان سے باتیں کر رہی تھی میرے اور علامہ صاحب کے آگے رکھے ہوئے گلاسوں میں مختلف قسم کی شراب بیروں نے ڈالنی شروع کی تو ایک بیرے سے میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’ میرے لئے لیمونیڈ لے آؤ‘‘ تھوڑی دیر علامہ صاحب چپ رہے پھر بولے ’’ آپ صرف لیمونیڈ پئیں گی؟‘‘ میں نے کہا’’ ہاں میں شراب نہیں پیتی آپ پی لیتے ہیں؟‘‘ ہنس کر کہنے لگے ’’بالکل نہیں آپ کو شاید معلوم نہیں میں نے اپنے قیام انگلستان کے دوران بھی کبھی شراب کا ایک قطرہ نہیں چکھا۔‘‘ یہ فقرہ سن کر آس پاس جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔ شام کو لالی حال میں علامہ کی تقریر تھی جس میں میں بھی شریک تھی اور اس کے بعد بھی ان کی وہاں ہونے والی ساری تقاریر میں باقاعدگی سے شریک ہوتی رہی۔ اس کے بعد ایک اور ملاقات میں جو علامہ صاحب کے ہوٹل کے کمرے میں ہوئی جہاں ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتا تھا، انہوں نے میرے پوچھنے پر اپنے کچھ حالات بیان کئے جن کی تفصیل مجھے یاد نہیں۔ شمس العلماء مولوی سید ممتاز علی مرحوم ’’ تہذیب نسواں‘‘ اور ’’ پھول‘‘ کا بھی انہوں نے ذکر کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک لطیفہ بھی سنایا کہ ’’ تہذیب نسواں‘‘ کی ایک تہذیبی بہن نے مجھے خط لکھ کر کوئی سوال کیا اور خواہش ظاہر کی کہ میں اس کا جواب ’’ محفل تہذیب‘‘ کے ذریعے انہیں دوں میں یہ بھی کرتا مگر مجبوری یہ تھی کہ ان کے سوال کی نوعیت کچھ ایسی تھی جس کا جواب میں نہ جانتا تھا جاتے ہوئے انہوں نے کہا’’ مجھے آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ آپ ایک جوشیلی اور پر خلوص مسلمان بچی ہیں۔‘‘ ٭٭٭ کاروبار، لین دین میں انسان کی پرکھ ہوتی ہے یہ ایک مسلمہ اصول ہے اور ہر بڑے آدمی کے حالات سے یہ بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ کسی شخص کی عادت اور خصلت کی حقیقت پہچاننے کے لئے اس کے میل جول کاروبار میں لین دین کا بغور مطالعہ کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے علامہ کے حالات زندگی اور عادات و خصائل کا اس پہلو سے بھی مکمل جائزہ لیا ہے۔ علامہ سادہ مزاج انسان تھے اور لہو و لعب یا بھڑکیلے لباس اور چھچھوری عادات سے پاک تھے۔ انہوں نے اپنی عمر میں ہی اپنی تصنیفات کی طبع و اشاعت کے تمام کاموں کو ایک مکمل ضابطہ کے تحت منظم رکھا۔ علامہ کی یہی خوبیاں تھیں کہ تیس چالیس سال میں ان کی دھاک بیٹھ گئی اور آج بھی ان کا تمام نظام اسی منصوبہ کے تحت جاری ہے۔ علامہ کی سالانہ رائلٹی کا اندازہ پچاس ہزار روپے ہو گا اور وہ اپنے خاندان کے اخراجات کفایت شعاری اور سلیقہ شعاری سے پورے کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا تھا اور باعزت شرفا کی طرح زندگی بسر کی تھی۔ علامہ نے اپنے بچوں کی تعلیم کا خاطر خواہ انتظام فرمایا تھا۔ آج کل بھی ان کی آمدنی جو طبع و اشاعت سے ہوتی ہے اس میں سے ان کے لڑکے جاوید کو بھی حصہ ملتا ہے اور جاوید کی شادی شدہ ہمشیرہ کو بھی اور جاوید کی اولاد کو بھی۔ علامہ کی کتابوں کی طبع و اشاعت کا کام ایک مثالی کامیاب ادارہ سمجھا جاتا ہے جس کے پلہ کا کوئی ادارہ ملک بھر میں موجود ہی نہیں جو اپنی مثالی کامیابی سے منفرد سمجھا جاتا ہو اس لئے ہمیں جو کچھ اس سلسلہ میں معلوم ہو سکا وہ مجھے کر دیا ہے تاہم بہت کچھ ابھی تشنہ ہے۔ ٭٭٭ علامہ کی تصنیفات کی نشر و اشاعت شاعروں کا کلام ہی کیا اور اس کی طبع و اشاعت ہی کیا۔ عمر بھر میں شاید کسی شاعر کا ایک دیوان چھپا ہو اور ان کی الماری کی زینت بنا رہتا ہو یار و اغیار کو تحفتہً نذر ہوتا رہتا تھا۔ چند خوش قسمت شاعر ایسے بھی تھے جن کے ایک کی جگہ دو تین بار دیوان چھپوا لئے ہوں اور بس۔ شاعروں کی ایک تیسری جماعت اور بھی ہے جو عوام کی بے رخی اور بے قدری سے بہت پژمردہ اور پریشاں حال تھی مگر ان کا اثر و رسوخ آڑے آیا۔ ان لوگوں نے سرکاری افسروں مثلاً تحصیلداروں، اسسٹنٹ کمشنروں، افسر مال اور انکم ٹیکس کے افسروں کی پناہ لی اور ان کی سفارش سے طویل جدوجہد کے بعد اپنے دیوان فروخت کرا لئے۔ یہ داستان الم انگیز ہے ہمارے ادب و شعر کی کسمپرسی سے ہمارے حوصلے پست ہو جاتے ہیں اور ہمیں شاعری کی اس یتیمی پر نالہ غم لکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ جب حالات اس قدر افسردہ ہوں تو پھر کس حکیم نے نسخہ میں لکھا ہے کہ ہم شعر کہتے رہیں؟ اور انہیں اپنے محدود ذرائع کے باوجود چھپوائیں اور پھر مفت دوست و احباب کی نظر کرتے رہیں۔ اس صورت حال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا چاہیے۔ اللہ کا شکر ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری ان الجھنوں اور مصائب سے پاک اور بلند تھی اور سارے ہندوستان کی ادبی نشر و اشاعت، علامہ کے انتظام و انصرام اور ان کی ہر دلعزیزی کی لا مثال کامیابی کی منفردمثال قرار دی جا سکتی ہے۔ آپ کی معلومات کے اضافہ و تکمیل کے لیے لکھتا ہوں کہ علامہ کے ہاں کتابوں کی نشر و اشاعت کا انتظام یوں تھا: کتاب کا مسودہ تیار ہو جانے پر بہترین کا تب کو بلوایا جاتا جو علامہ کی کتاب کی کتابت کرنا بھی عبادت سمجھتا تھا اسے زیادہ سے زیادہ اجرت دی جاتی تھی۔ کتاب تیار ہو جانے پر کتاب کسی پریس کو بھجوا دی جاتی اور کوئی کاغذی دکاندار مطلوبہ کاغذپریس کو بھجوا دیتا تھا۔ جب کتاب چھپ کر تیار ہو جاتی تو لاہور کے دو چار بڑے تاجر ان کتب کو اطلاع دی جاتی اور وہ علامہ کی کوٹھی پر جمع ہو جاتے۔ انہیں بتلایا جاتا کہ مثلاً بانگ درا کی پانچ ہزار جلدیں چھپ کر تیار ہیں۔ جس کی قیمت بیس ہزار روپے ہے پانچ ہزار روپے کمیشن کاٹ کر پندرہ ہزار روپے نقد یک مشت یہ رقم تاجر کتب کو ادا کرنی ہے کون تاجر اس کے لئے تیار ہے؟ جو دو چار تاجر ان کتب آئے ہوتے وہ آپس میں کوئی بات کر کے کسی ایک کو اجازت دیتے اور وہ پوری رقم کا چک علامہ کی خدمت میں پیش کر دیتا۔ پورے پندرہ ہزار روپے کا اور علامہ سے ایک رقعہ پریس کے نام دے دیتے کہ کتاب کی پانچ ہزار جلدیں حامل رقعہ کو دے دی جائیں۔ یہ تھا سیدھا سادا اصول یا قاعدہ جو علامہ اقبال کے ہاں کتابوں کی تیاری پر زیر عمل رہتا تھا۔ یعنی علامہ کتاب خود لکھواتے اور چھپواتے تھے اور کمیشن کاٹ کر پوری قیمت یک مشت پیشگی وصول کر لیتے تھے اور یہ اصول ان کی ہر شعری تصنیف پر ان کی زندگی میں اور بعد بھی جاری رہا۔ علامہ اقبال کے ہاں سے جس قدر کتابیں خود علامہ اقبال نے لکھی ہیں اور شائع کی ہیں ان کا بھی تذکرہ ببلو گرافی آف اقبال نامی کتاب میں موجود ہے بلکہ دنیا بھر میں جس قدر مضامین، خاص نمبر اور مجموعے اقبال کے متعلق شائع ہوئے ہیں سب کا تذکرہ اس کتاب میں موجود ہے۔ اقبال کی شاعری کی تصنیفات اردو اور فارسی میں ہیں۔ اردو میں چار کتابیں بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز ہیں اور جو کتابیں فارسی زبان میں چھپی ہیں وہ کل چھ ہیں اسرار و رموز، پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ، پس چہ باید کرد اور ارمغان حجاز موخر اذکر کتاب ہر دو زبانوں میں ہے۔ ان کتابوں کے ۱۹۶۵ء تک جو اعداد و شمار ببلو گرانی میں چھپے ہیں وہ حسب ذیل ہیں: بانگ درا ۱۹۲۴ء میں پہلا ایڈیشن اور ۱۹۶۵ء تک کل ۱۷ ایڈیشن شائع ہوئے۔ اکثر ایڈیشن ۵ ہزار کے اور کچھ دس ہزار کے بھی شائع ہوئے ۔ ارمغان حجاز پہلا ایڈیشن ۱۹۳۸ء میں اور ۱۹۶۵ء تک پانچ ایڈیشن شائع ہوئے۔ بال جبریل پہلا ایڈیشن ۱۹۳۵ء میں اور ۱۹۶۵ء تک دس ایڈیشن بال جبریل کے اور شائع ہو چکے تھے جاوید نامہ ۱۹۳۲ء میں پہلا ایڈیشن شائع ہوا اور ۱۹۶۵ء تک جاوید نامہ کے چار ایڈیشن شائع ہوئے۔ پیام مشرق ۱۹۲۳ء میں پہلا ایڈیشن شائع ہوا اور ۱۹۶۵ء تک پیام مشرق کے آٹھ ایڈیشن اور شائع ہوئے۔ زبور عجم ۱۹۲۷ء میں پہلا ایڈیشن شائع ہوا اور ۱۹۶۵ء تک اس کے پانچ ایڈیشن شائع ہوئے۔ ضرب کلیم ۱۹۳۶ء میں پہلا ایڈیشن شائع ہوا اور ۱۹۶۵ء تک آٹھ ایڈیشن شائع ہوئے۔ اسرار و رموز کا پہلا ایڈیشن معلوم نہیں کب چھپا مگر دوسرا ایڈیشن ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا اور کل نو ایڈیشن شائع ہوئے۔ مگر ہمارے ۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۶ء تک کتابوں کا کوئی حساب نہیں۔ اب علامہ کی تمام شعری اردو کتابوں کو ایک ہی جلد میں مجلد کر دیا گیا ہے۔ اس قسم کی پہلی جلد فروری ۱۹۷۳ء میں پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوئی تھی۔ دوسری بار یہی مجموعہ پانچ ہزار کا ۱۹۷۵ء میں شائع ہوا تھا۔ قیمت اردو ایڈیشن کی پچیس روپے غیر مجلد اور مجلد پینتیس روپے ہے۔ گویا یہ پانچ ہزار کا ایک ایڈیشن ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کا بغیر جلد کے ہے۔ ایسا ہی فارسی مکمل ایڈیشن جو دو ہزار کی تعداد میں شائع ہوا تھا۔ یہ دو ہزار کا ایڈیشن بغیر جلد کے نوے ہزار روپے کا تھا اس فارسی ایڈیشن بغیر جلد کی قیمت ۴۵ روپے اور مجلد ۵۵ روپے ہے۔ پاک و ہند میں اور کوئی کتاب اتنی مقبول و معروف نہیں جتنی علامہ اقبال کی کتابیں ہیں۔ ٭٭٭ جاوید منزل م۔ ش جب میں نے پہلی مرتبہ جاوید منزل میں علامہ اقبالؒ کو دیکھا تو وہ بنیان اور سوتی دھوتی میں ملبوس ڈرائنگ روم سے ملحقہ کمرے میں ایک سادہ سی چارپائی پر گاؤ تکیہ سے سہارا لیے آرام سے لیٹے تھے۔ ان کی چارپائی کمرے کی مغربی دیوار سے ذرا ہٹ کر بچھی تھی۔ سرہانے کی طرف ایک الماری تھی۔ چارپائی کی پائنتی ملحقہ ڈرائنگ روم کی دیوار سے ذرا ہٹ کر تھی۔ چارپائی سے ذرا فاصلے پر علامہ کا تاریخی حقہ کھڑا تھا۔ جس کی نے ذرا ہاتھ لگانے سے ان کے لبوں تک پہنچ سکتی تھی۔ فرش پر سرخ رنگ کا قالین بچھا تھا۔ چارپائی کے نیچے ایک ضخیم کتاب تھی جسے چارپائی پر بیٹھے ذرا جھکنے سے اٹھایا جا سکتا تھا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ لغات کی کتاب تھی جس سے حضرت علامہ کبھی کبھی استفادہ فرمایا کرتے تھے۔ چارپائی کے ساتھ کھردرے سے کپڑے کی گرگابی کا جوڑا تھا جو پاؤں میں نقرس کی تکلیف کی وجہ سے حضرت علامہ کے استعمال کے لئے مناسب حال تھا۔ اس کمرے کے ساتھ ہی غسل خانہ تھا۔ جو حضرت علامہؒ کے استعمال کے لئے مخصوص تھا۔ اس غسل خانے کا دوسرا دروازہ زنان خانے کی طرف ایک ڈیوڑھی کی طرف کھلتا تھا۔ صفائی کرنے پر مامور خاتون غسل خناے میں صفائی کے لئے آنے جانے کے لئے ڈیوڑھی والا دروازہ استعمال کرتی تھی۔ حضرت علامہؒ کے کمرے میں مراد آبادی اگالدان حقہ کے بعد دوسری قابل توجہ شے تھی۔ چارپائی سے ذرا ہٹ کر بید کی دو کرسیاں تھیں جن میں سے ایک پر بیٹھ کر میں نے چند منٹوں کے لیے اپنے دور کے ایک عظیم الشان انسان کی زیارت کی۔ ان چند منٹوں میں حضرت علامہؒ نے ایک بار تالی بجا کر علی بخش کو طلب کیا اور میری سراپا نیاز مندی کے خیال سے انہیں ارشاد فرمایا کہ میں جب ان سے دوبارہ ملنے آؤں تو بلا توقف آنے دیا جاؤں۔ میں ان دنوں ایف سی کالج میں انگریزی میں ایم اے کا طالب علم تھا۔ ’’ بال جبریل‘‘ زیور طباعت سے آراستہ ہو کر بازار میں آ چکی تھی میں نے اپنے کالج کے رسالہ ’’ فولیو‘‘ کے اردو حقہ میں ’’ بال جبریل‘‘ پر ایک مضمون لکھا تھا جو حضرت علامہؒ کی نظر سے گزر چکا تھا۔ مضمون تو بالکل معمولی سا تھا۔ لیکن میں نے اس مضمون کی ایک ایک سطر میں اپنی عقیدت کی خوشبو بسا دی تھی۔ اس سے پہلے اپنے کالج کی ایک دقیع لٹریری سوسائٹی ففٹین (Fifteen) جس کے صدر ڈاکٹر ایف ایم ویلٹی تھے کی ایک میٹنگ میں اقبالؒ پر انگریزی میں ایک مضمون بھی پڑھا تھا۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ آیا انہیں میرے اس مضمون پڑھنے جانے کا علم تھا یا کہ نہیں۔ لیکن میں ان دنوں اقبالؒ کے عشق میں دیوانگی کی منزل میں تھا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ میں اس دیوانگی میں ان کے پاؤں میں لوٹ پوٹ رہوں۔ اقبالؒ جس کی نگاہیں لامسکان تک پرواز کرتی تھیں میرے دل کی اس کیفیت سے آگاہ ہو چکے تھے۔ لہٰذا انہوں نے ایک طرح سے مجھے اپنی خدمت بابرکت میں حاضر ہونے کا اذن عام دے دیا تھا۔ لاہور ریلوے سٹیشن سے شاہو کی گڑھی کی طرف جائیں تو سٹیشن سے چار پانچ فرلانگ کے فاصلے پر بائیں ہاتھ کو وہ کوٹھی واقعہ ہے جو جاوید منزل کے نام سے موسوم ہے اور جو زندگی کے آخری چند سالوں میں علامہ اقبال کا مسکن بنی رہی یہ کوٹھی جو چھ کنال زمین پر مشتمل ہے، حضرت علامہؒ نے نیلام میں ریلوے سے ۳۶ ہزار روپے میں خریدی تھی۔ اس کی تعمیر کا کام (میری اطلاع کے مطابق ٹھیکے پر) حضرت علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطاء اللہ مرحوم کی زیر نگرانی تکمیل پذیر ہوا۔ حضرت علامہؒ نے یہ کوٹھی اپنے خلف الرشید جاوید اقبال کے نام ہبہ کر دی تھی اور وہ خود اس میں بطور کرایہ دار مقیم تھے۔ وہ ہر ماہ کرایہ کوٹھی کے مالک جاوید اقبالؒ کے اکاؤنٹ میں پیشگی جمع کرایا کرتے تھے یہ عجیب اتفاق ہے کہ ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو جب اقبال کا وصال ہوا تو اس سے اگلے روز یعنی ۲۲ اپریل کو ان کی طرف سے پیشگی کرایہ کی رقم واجب الاد تھی۔ مردانہ میں یہ کوٹھی جو آج کل کے معیار کے مطابق بالکل معمولی کوٹھی شمار ہو سکتی ہے ایک ڈرائنگ روم، ایک سٹور روم، ایک ڈائننگ روم، ایک ڈیوڑھی، پورچ، ایک مردانہ بیڈ روم اور ایک گیسٹ روم بمع غسل خانہا ور زناں خانہ کے تین کمروں پر مشتمل تھی۔ صحن میں دائیں طرف باورچی خانہ اور بائیں طرف منشی روم تھا۔ ڈائننگ روم میں الماریوں میں حضرت علامہ کا کتب خانہ تھا۔ چونکہ وکالت سے کئی سال سے دستبردار ہو چکے تھے اس لیے ان کے کتب خانہ میں قانون کی کوئی کتاب موجود نہ تھی۔ ان کا کتب خانہ زیادہ طور پر انگریزی کتابوں پر مشتمل تھا جو فلسفہ اور تاریخ کے مضامین سے متعلق تھیں۔ ڈرائنگ روم میں سامنے کی دیوار پر حضرت علامہ کی ایک بڑی تصویر آویزاں تھی۔ اس تصویر کو دیکھ کر عتاب کا تصور آنکھوں میں ابھرنے لگتا تھا۔ اس تصویر میں ان کے دل آویز چہرے پر سیاہ گھنی مونچھیں عجب بہار دیتی تھیں۔ انہیں اپنی یہ تصویر پسند تھی سرجوگندر سنگھ کے ایک بھائی (شیر گل) نے جن کی شادی پر ایک ہنگرین خاتون سے ہوئی تھی اور جو علامہ اقبالؒ کے بے تکلف دوستوں میں شامل تھے، اپنے کیمرے سے ان کی ایک درجن کے قریب مختلف پوزوں میں تصاویر کھینچی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ان تصاویر کا البم راجہ حسن اختر کو عطا فرما دیا تھا۔ ۱۹۳۸ء میں جب نے حضرت علامہ کی زندگی میں ہندوستان گیر پیمانے پر یوم اقبال منانے کا فیصلہ کیا تو راجہ صاحب نے مجھے وہ البم عطا فرمایا تاکہ میں ان میں اس تقریب کے لئے شائع کرنے کے خیال سے بعض تصاویر کا انتخاب کروں میں نے ایک ایسی تصویر بھی منتخب کی جس میں حضرت علامہ گردن جھکائے محو تفکر ہیں۔ جب میں نے اپنے انتخاب کا ذکر کرتے ہوئے انہیں یہ تصویر دکھائی تو انہوں نے اس کو دیکھ کر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اس تصویر سے تھکن کے آثار نمایاں ہیں (اس تصویر کا ان دنوں رسائل میں بہت روج ہے) انہوں نے ڈرائنگ روم کی دیوار پر ٹنگی ہوئی متذکرہ تصویر کو پسند فرمایا اور کہا اس میں شباب اور بے خوفی کی جھلک نمایاں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تیسری بیگم (والدہ جاوید اقبال) کا میکلوڈ روڈ سے جاوید منزل میں تبدیلی کے فوراً بعد انتقال ہو گیا۔ جاوید اور منیرہ کی دیکھ بھال کا کام ڈاکٹر صاحب کے ایک بھتیجے امتیاز اور ان کی بیوی کے سپرد تھا۔ لیکن جب امتیاز اور بیوی نے جاوید کو منزل خیر باد کہی تو ڈاکٹر صاحب نے علی گڑھ میں اپنے دوست رشید احمد صدیقی سے خط و کتابت شروع کی تاکہ ان کی کوششوں سے ایک جرمن خاتون کو جو علی گڑھ میں اپنی بہن کے پاس مقیم تھیں جاوید اور منیرہ کے لئے بطور گورنس خدمات حاصل کی جا سکیں۔ چنانچہ اس شریف جرمن خاتون کے جاوید منزل میں آ جانے کے بعد ڈاکٹر صاحب کی گھریلو محاذ پر پریشانیوں کا خاتمہ ہو گیا اس نیک خاتون نے منیرہ کو اس شفقت اور محبت سے نوازا جو ایک ماں کا خاصہ ہو سکتا ہے آج بھی یہ خاتون مس ڈراؤنٹ وئیر صحت کے ساتھ جرمن میں موجود ہیں اور سال میں کم از کم ایک مرتبہ پاکستان تشریف لاتی ہیں اب تو خدا کے فضل سے منیرہ (بیگم میاں صلاح الدین صاحب) بھی دادی بن چکی ہیں یہ جرمن خاتون اپنی منہ بولی منیرہ ان کے بیٹے یوسف صلاح الدین اور ابن یوسف کو دیکھ دیکھ کر نہال ہو جاتی ہیں۔ حضرت علامہ کی دو بہنیں بھی زندہ تھیں جو کبھی کبھی اپنے بھائی کے گھر آ کر قیام پذیر ہوا کرتی تھیں۔ حضرت علامہ کے ملازمین میں علی بخش کے علاوہ رحمان اور ایک باورچی شامل تھے۔ زناں خانہ میں ایک ’’ مائی‘‘ کام کرتی تھیں ڈاکٹر جمعیت سنگھ فیملی ڈاکٹر تھے وہ گاہے گاہے حضرت علامہ کی صحت کے متعلق دریافت کرنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ علالت کے آخری ایام میں شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی باقاعدگی سے شام کو جاوید منزل آنے لگے تھے۔ حکیم صاحب کی تجویز کردہ یونانی ادویات حضرت علامہؒ رغبت سے کھایا کرتے تھے۔ ان کے ملنے والوں میں ہر مذہب و ملت کے لوگ شامل تھے وہ گورنمنٹ پنجاب کی پریس برانچ کے انچارج تھے ضلع سیالکوٹ کے موضع بھاڑنگ کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور سے عربی میں ایم اے کیا تھا تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے کچھ دنوں کے لیے روزنامہ ’’ زمیندار‘‘ میں کام کیا تھا لیکن اخبار کے مالی حالات سے پریشان ہو کر وہ ’’ زمیندار‘‘ سے الگ ہو گئے تھے اور نواب سر ذوالفقار علی خاں کے بچوں کے اتالیق بن گئے تھے نواب صاحب فیروز پور روڈ پر ’’ زر افشاں‘‘ نامی کوٹھی میں رہتے تھے علامہ اقبال کی نواب صاحب سے دوستی تھی اور گاہ گاہ ’’ زر افشاں‘‘ میں احباب کی مجلس جما کرتی تھی، جس میں حضرت علامہ شرکت فرمایا کرتے تھے ان کی چودھری محمد حسین سے یہیں ملاقات ہوئی اور آہستہ آہستہ دونوں میں مستقل تعلقات خلوص نیت کی بناء پر قائم ہو گئے چودھری محمد حسین کو محکمہ اطلاعات میں ڈاکٹر صاحب نے ہی ملازمت دلوائی تھی چودھری محمد حسین قلعہ گوجر سنگھ میں رہتے تھے ان کا حضرت علامہ کی زندگی کے آخری دن تک یہ معمول رہا کہ شام کو دفتر سے فارغ ہو کر جاوید منزل آتے اور بعض اوقات رات ڈھلنے تک یہیں رہتے تھے میں اپنے علم کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ چودھری صاحب مرحوم حضرت علامہؒ کے معتمد ترین دوست تھے۔ اگرچہ چودھری صاحب کی زندگی نے وفا کی ہوتی تو وہ حضرت علامہ کے سوانح حیات پر مستند ترین کتاب رقم کرنے کی پوزیشن میں ہوتے۔ ان کے پاس بین الاقوامی شہرت کے مالک لوگ بھی بغرض ملاقات آیا کرتے تھے۔ ۱۹۳۶ء میں جب قائد اعظمؒ پہلی مرتبہ لاہور تشریف لائے تو انہوں نے جاوید منزل میں بھی حاضری دی۔ ایک موقع پر پنڈت جواہر لال نہرو میاں افتخار الدین کے ہمراہ نے بھی علامہ ا قبالؒ پر کال کیا گرمیوں کی ایک صبح کو سرتیج بہادر سپرو نے اپنے داماد پنڈت چاند نرائن جو ان دنوں میں ای اے سی تھے، ان کی خدمت میں حاضر ہوئے آکسفورڈ کے وائس چانسلر جن کا نام لارڈ لوہیئن تھا ان سے ایک دن ملنے کے لئے آئے سر سکندر حیات خاں کو بھی میں نے اکتوبر ۱۹۳۷ء میں ان کے سامنے ادب و احترام کا مرقع بنے بیٹھے دیکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کسی شخص کی آمد پر خواہ اس کا قومی یا بین الاقوامی عکس کتنا ہی برا کیوں نہ ہو تکلیف کو یاس تک پھینکنے نہ دیتے تھے۔ ان کی چارپائی کے پاس رکھی ہوئی بید کی کرسیوں پر ہی میں نے بڑے سے بڑے آدمی کو فروکش ہوتے دیکھا۔ وہ گرمیوں میں عموماً تہ بند بلکہ سوتی دھوتی اور بنیان میں ملبوس ہوتے تھے سردیوں میں قمیض پر دھسا اوڑھ لیا کرتے تھے سردیوں میں ان کا لحاف ویسا ہی ہوتا تھا جیسا کہ متوسط درجے کے لوگوں کے گھروں میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اگرچہ کم خور تھے، لیکن خوش خور تھے۔ دوستوں کو کھلا کر خوش ہوتے تھے۔ صبح کو وہ چائے کی ایک یا دو پیالیاں ایک آدھ بسکٹ کے ساتھ نوش جاں کیا کرتے تھے۔ دوپہر کو لنچ میں گوشت (جس میں سبزی ہوتی تھی) روٹی اور ایک میٹھی ڈش شامل ہوتی تھی۔ موسم کے مطابق پھل بھی رغبت سے کھاتے تھے۔ خربوزہ میں مٹھا س کی کمی کو چینی کی ملاوٹ سے دور کیا کرتے تھے۔ آم کے موسم میں میٹھا آم ان کا مرغوب پھل ہوتا تھا۔ آم کھانے کے بعد برف کا ٹھنڈا پانی پیا کرتے تھے رات کو صرف تیتر کا شوربا نوش جان کرتے تھے جب چارپائی پر بیٹھے بیٹھے یا لیٹے لیٹے تھک جایا کرتے تھے تو عموماً حقہ سے شغف فرماتے تھے۔ میں نے انہیں کبھی سگریٹ پیتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ کم خوری کے ساتھ کم خوابی کے بھی عادی تھے۔ جوانی کے دنوں میں (چودھری محمد حسین مرحوم کی روایت کے مطابق) وہ بارہ بجے شب سے پہلے نیند نہیں کرتے تھے اور تہجد کے وقت زندگی کے آخری دن تک نیند سے بیدار ہونے کی ریت کے ہمیشہ پابند رہے صبح خیزی ان کی روحانی تربیت کا ایک بہت اہم عنصر تھی۔ حجامت کا کام نیلا گنبد کے ایک راجہ مسٹر رشید کے سپرد تھا۔ وہ روزانہ نیلا گنبد سے سائیکل پر سوار جاوید منزل پہنچتے تھے اور حضرت علامہ کی شیو بنا کر سائیکل پر واپس جایا کرتے تھے رشید صاحب غالباً ایک درجن بچوں کے باپ تھے۔ حضرت علامہ ان سے عموماً اس موضوع پر مذاقیہ انداز میں باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک موقع پر ایک دن انہوں نے رشید صاحب سے ناصحانہ انداز میں فرمایا کہ انہیں اپنی بیوی بچوں کی صحت کا خیال رکھنا چاہیے۔ رشید صاحب ہفتے میں ایک مرتبہ حضرت علامہ کی مونچھوں اور سر کے بالوں پر خضاب بھی لگایا کرتے تھے۔ حضرت علامہ کے سر کے بال گھنے تھے اور پیچھے کی طرف کنگھی کرتے تھے۔ بچا کھچا خضاب علی بخش کے کام آتا تھا۔ گھر میں کام کرنے والی بھنگن جن کے پاؤں میں چاندی کے موٹے موٹے کڑے ہوتے تھے۔ جب صفائی کے لئے جاوید منزل آتی تو اپنے بیٹے کو جو جاوید کا ہم عمر تھا اپنے ساتھ لے آتی۔ جب تک وہ کام میں مصروف رہتی یہ بچہ جاوید منزل کے صحن میں ادھر ادھر کھیلتا رہتا۔ گرمیوں کے موسم میں ایک دن ڈاکٹر صاحب برآمدے میں آرام کرسی ڈال کر آرام کر رہے تھے تو کی نگاہ دفعتہ بھنگن کے بچے پر پڑی اسے چند لحظے دیکھنے کے بعد گہری آواز میں فرمانے لگے: میں جب بھی اس بچے کو دیکھتا ہوں تو میرا دل اضطراب سے پارے کی طرح تڑپ اٹھتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ سماج کی زنجیروں کی وجہ سے یہ بچہ زندگی میں صرف خاکروب بن سکے گا۔ حالانکہ اس میں اور جاوید میں جہاں تک انسان ہونے کا تعلق ہے کوئی فرق نہیں۔ اگر جاوید ذہانت میں اس لڑکے سے بھی کم ہوا تو محض اس وجہ سے کہ وہ میرا بیٹا ہے اس پر ترقی کے راستے کھلے رہیں گے۔ اگرچہ گلے میں خرابی کے باعث، جس کی بنا پر ان کی آواز بیٹھ گئی تھی انہوں نے وکالت ترک کر دی تھی۔ لیکن اپنے ساتھ منشی جناب حکیم طاہر الدین (موجد دل روز) سے بد ستور وابستگی رکھے ہوئے تھے منشی طاہر الدین جو لاہور سٹور کے لیے اپنی دوائی ’’ دل روز‘‘ کی بے پناہ مقبولیت کے باعث امیر کبیر بن گئے تھے اور ڈاکٹر صاحب سے بھی بڑھ کر اچھرہ میں اپنی کوٹھی ’’ دل روز ولا‘‘ میں مقیم تھے۔ جاوید منزل کے ایک لحاظ سے فنانشل اڈوائزر تھے۔ انکم ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس وغیرہ کے جھمیلے ان کے سپرد تھے۔ حضرت علامہ نے جن چار آدمیوں کو اپنی موت کے بعد اپنی اولاد کا ولی مقرر کیا تھا ان میں منشی طاہر الدین شامل تھے۔ منشی صاحب مرحوم ایک نہایت متدین انسان تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے بعد وہ باقاعدگی سے جاوید منزل تشریف لاتے تھے لیکن چودھری محمد حسین کی طرح انہوں نے کبھی علامہ اقبالؒ کے انتقال کے بعد جاوید منزل سے کبھی پانی کا گلاس بھی نہ پیا۔ اگرچہ بظاہر علامہ ا قبال اس مکان اور ان مکینوں کے درمیان زندگی بسر کرتے تھے لیکن روحانی اور ذہنی طور پر وہ کسی اور ہی دنیا میں بستے تھے ان کی عقیدت و محبت کا مرکز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرمی تھی، ان کے غور و فکر کا ماخذ قرآن کریم تھا۔ وہ ایک درویش اللہ مست تھے جو کچھ ان کے دل میں ہوتا تھا وہی ان کی زبان پر ہوتا تھا۔ انہوں نے کبھی منافقت اور مداہنت سے کام نہ لیا۔ ہر وقت ملت اسلامیہ اور امت محمدیہ کے متعلق سوچتے رہتے تھے۔ انہیں اسلام کے عاطی رول پر پورا ایمان و ایقان تھا۔ انہیں غم اور ڈر چھو تک نہ گیا تھا حتیٰ کہ موت بھی ان کے لیے کوئی معمہ نہ رہی تھی ان کی زندگی کے آخری چوبیس گھنٹوں میں مسلسل ان کی چارپائی کے قریب موجود رہا۔ ۲۱ اپریل کی شب کو جب کہ انہیں متلی کی شکایت تھی اور ان کے شانوں کے درمیان شدت کا درد تھا تو ڈاکٹر عبدالقیوم نے جو جاوید1؎ منزل میں موجود تھے، نیند آور ٹیکہ لگانے کا مشورہ دیا، جس پر حضرت علامہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔ جب متلی اور درد کی شدت میں اضافہ ہوا تو میں نے ان سے ٹیکہ لگوانے کے لیے عرض کی۔ اس پر انہوں نے سر کو گاؤ تکیہ سے اٹھاتے ہوئے قدرے غصے کے لہجے میں فرمایا کہ یہ مارفیا کا ٹیکہ ہے جس سے بیہوشی طاری کرنا مقصود ہے۔ میں بیہوشی میں مرنا نہیں چاہتا۔ میں موت کا ہوش میں سامنا کرنا چاہتا ہوں چنانچہ ۲۱ اپریل کو فجر کی اذان کے فوراً بعد انہوں نے جبکہ اللہ ان کے لبوں پر تھا اپنی جان جان آفریں کو سونپ دی۔ میں نے اس وقت ان کے چہرے پر جو کیفیت دیکھی وہ قرآن عظیم کی اس آیت کی تفسیر معلوم ہوتی تھی: یا یتھا النفس المطمئنتہ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیہ فادخلی فی عبادی واددخلی جنتی۔ 1؎ اب جاوید منزل کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ حفیظ کا اقبال حفیظ جالندھری ۲۱ اپریل (۱۹۴۷ئ) کی رات آفتاب ہمیں اندھیروں میں چھوڑ گیا تھا۔ کسی دوسری دنیا پر طلوع ہو چکا ہو گا۔ اس وقت ہمارے آسمان پر بے شمار ستارے رقص و سرود کی محفل جمائے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ سماں ہماری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور کیوں نہیں بن سکتا؟ اسی بے میں یہ حوف لکھ رہا ہوں شاید آفتاب میرے قلب پر اتر آیا ہے! عامی نگاہیں ستاروں کے رقص و سرود سے مسحود نور و سرور تو حاصل کرتی ہیں انہیں ننھا منا بھی کہتی ہیں، چمکارتی پچکجارتی ہیں مگر میرا یقین یہ ہے کہ ہماری ان ملفلانہ باتوں پر ستارے مسکراتے ہیں۔ اب کے تبسمی اشارے کہہ رہے، اے خاکی نگاہو! تم لاکھ چاہو ہماری بڑائی کا تصور تم سے ممکن نہیں۔ ٹھیک ہے تمہارے لیے ہم ننھے منے ہی بہتر ہیں۔ میں کہتا ہوں: بجا ہے، اے میری تنہا رات کی بہارو ستارو، اے حسین مہ پارو! ہم بیچارے انسان ضعیف البنیان تمہاری بلندی کی وجہ سے تمہاری اصل حقیقت سمجھنے سے ابھی تک عاجز ہی سہی لیکن یہ تو ہم بھی جان چکے ہیں کہ تم کسی نہ کسی آفتاب کی روشنی لیتے ہو۔ ہم پوچھتے ہیں فقط یہ کہ تمہاری روشنی سلانے کے لیے کیوں ہے، جگانے کے لیے کیوں نہیں؟ تمہارا رقص و سرود نیند کی لوریاں کیوں دیتا ہے، آفتاب نے تو بیداری عطا کی تھی! برسوں گزر گئے ہماری دنیائے شعر و حکمت کا آفتاب عالمتاب ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ ہاں برسوں گزر گئے اور ہماری دنیائے شعر و حکمت ابھی تک رات ہی کی عملداری ہے۔ بظاہر ہمارے آسمان شعر و حکمت پر بھی بے شمار ستارے ہیں۔ یہ سب کہتے ہیں کہ ہمیں تم کو سرور عطا کرتے ہیں۔ ان میں بہت سوں کا دعویٰ ہے کہ اب اقبال کی روشنی فقط ہم ہی ہیں۔ ٭٭٭ یہ جاننے کی تو مجھے قطعاً پروا نہیں کہ میں ذرہ ہوں یا ستارہ۔ اتنا جانتا ہوں کہ روشنی کی جو چند کرنیں مجھ تک میرے ظرف کو ملحوظ رکھتے ہوئے آتی ہیں وہ ’’ بنات النقش‘‘ سے نہیں براہ راست اسی نیر اعظم سے میں نے اخذ کی ہیں جس کا نام اقبال ہے۔ سب سے پہلے گزارش لازمی یہ ہے کہ اقبال کے رخصت ہو جانے کے بعد بہت سے ایسے لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ علامہ ا قبال کے بے تکلف دوست تھے اور ایک دو نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ خیال ہم دیتے تھے، شعر اقبال کہہ دیتا تھا۔ مجھے اعتراف کرنا ہے کہ میں نہ تو اقبال کے حلقہ احباب میں شامل تھا اور نہ مجھے مریدان خاص الخاص میں شمار ہونے کا کسی بھی رنگ ڈھنگ سے دعویٰ ہے البتہ میں باریاب تھا اور وہ مجھ پر مہربان تھے اس مہر و کرم کا سبب میرا نیاز مندانہ خاموش انداز تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ میں حضرت مولانا گرامی کا شاگرد تھا اور گرامی مرحوم اور علامہ اقبال میں نہ محض گہری دوستی تھی بلکہ ایک اور رشتہ بھی تھا۔ اقبال اپنے فارسی کلام کی زبان اور محاورے کے بارے میں حضرت گرامی سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ اس خط و کتابت کا بہت سا حصہ میری نظر سے گزرتا تھا، جو گرامی اور اقبال میں ہوا کرتی تھی بلکہ میں لاہور آ کر گرامی کے خطوط بھی پہنچایا کرتا۔ بسا اوقات جوابات بھی لے جایا کرتا تھا۔ گرامی اور اقبال کی دوستی کا دور بے شمار لطائف و ظرائف او رنکات کا حامل ہے۔ ان شاء اللہ میں صفحہ قرطاس پر لے آؤں گا۔ یہاں تو محض وہ تاثرات بیان کرنا ہیں جو بعض یادگار واقعات میری ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیونکہ نقوش کے طفیل یہی چاہتے ہیں۔ سب سے پہلے میری طغلی کا لطیفہ ہے میں آٹھ نو برس کا لڑکا تھا۔ جب میں نے پہلے پہل ایک نظم ’’ نیا شوالہ‘‘ سنی پڑھی اور یاد کر لی پھر اپنے ایک ہم مکتب برہمن زادے کو سنانے لگا: تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے ’’ صنم‘‘ کا لفظ’’ بت‘‘ کے معنوں میں مولود شریف کی تقریبوں میں وعظ کرنے والے واعظوں سے سن رکھا تھا لیکن صنم کدوں کی ترکیب ان دنوں میری سمجھ سے بالا تھی۔ جالندھر کی دو آبی پنجابی زبان میں ’’ کدوں‘‘ کے معنی ہیں’’ کب‘‘ اور اس کو ماضی کے لیے استعمال کریں تو کہیں گے:’’ کدوں دے‘‘ یہ واقعہ میرے بیتے ہوئے ابتدائی دنوں کا ہے ان دنوں اس شعر کا جو مفہوم میرے ذہن میں تھا ایک لطیفے سے کم نہیں۔ سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے میں اپنے برہمن زاد ہمجولی کو شعر سناتا اور معنی بھی بیان کرتا جاتا، کہ اے برہمن! اگر تو برا نہ مانے تو میں ایک سچی بات کہہ دوں۔۔۔۔ دیکھنا برا نہ ماننا سچی بات یہ ہے کہ تیرے ناز نخرے جو تو اپنے گلی کوچے میں دکھاتا پھرتا ہے، سب بت ہیں جو مدت ہوئی پرانے (آؤٹ آف ڈیٹ) ہو چکے ہیں ان کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ مزا یہ کہ وہ برہمن زادے شرما جاتے اور چھیڑ چھاڑ چلتی رہتی۔۔۔۔ وہ زمانہ گزر گیا اور میں خود شاعری فرمانے لگا لیکن بچپن کی اس شرارتی جہالت کے مزے تو اب تک لیتا ہوں ہر برہمن کو تیرے بت ہو گئے پرانے کہنے والا مجھے بھی یہی کہنے کا حوصلہ دے رہا ہے۔ علامہ اقبال کو پہلی مرتبہ میں نے ایک بہت بڑے مشاعرے میں دیکھا جہاں میں خود بھی شعر پڑھنے کے لیے جالندھر سے بلایا گیا تھا۔ الحمد للہ میں اس روز کی عمومی ذلت سے شعر نہ پڑھنے کے سبب بچ گیا تھا۔ میری عمر سولہ برس سے زیادہ نہ تھی۔ مجھے پنجابی کا بھی، اردو کا بھی اچھا شاعر بتایا جاتا تھا۔۔۔۔۔ کہاں؟ جالندھر میں اردگرد کی بستیوں اور کپور تھلہ نکوہ وغیرہ میں بھی۔۔۔۔ جس مشاعرے کا میں ذکر کرنے والا ہوں وہ مشاعرہ اولین جنگ عالمگیر کے آخری دور میں پنجاب پبلسٹی کمیٹی کی طرف سے منعقد ہوا تھا ڈیڑھ دو ہزار شاعر اور ساٹھ ستر ہزار سننے والے شمالی ہندوستان کے سب سے بڑے اور وسیع (بریڈلا) ہال لاہور میں جمع تھے۔ فضا کچھ ایسی تھی کہ جس شاعر نے بھی سٹیج پر آ کر لوگوں کے چشم و گوش پر حملہ آور ہونے کی جرأت کی لاہور کے کالجی جوانوں کی بپھری ہوئی موج نے شاعر کو پسپا ہو جانے پر مجبور کر دیا۔ بعض شاعر لوگ بڑے دعوے سے ’’ منم منم‘‘ کرتے ہوئے اٹھے لیکن داد میں بڑی ندامت ملی بعض خود بیٹھ گئے اور بعض بٹھا دئیے گئے۔ میں تو خیر تھا ہی ’’ نو مشقا‘‘ یہ حال دیکھ کر بڑے بڑے گھاگ بغلیں جھانکتے دیکھے گئے، اسٹیج پر جانے سے انکار کرنے لگے۔ پولیس بلائی گئی۔ سامنے فرشی بنچوں پر اور گیلریوں میں ٹھنسے ہوئے ہندو، مسلمان، سکھ کالجی نوجوانوں پر ڈنڈا برسا۔ لیکن شاعروں کی فوج کو شکست کے سوا اور کچھ نصیب نہ ہوا۔۔۔۔۔ نوجوان طالبان علم نے ہر شاعر کے چہرے پر انڈا یعنی صفر برسا دیا۔ پولیس ایکشن کے سبب پوری نے کے ساتھ بجتی ہوئی تالیاں اور اجتماعی سیٹیاں تو ذرا چپ سادھ گئیں۔ لیکن ستر ہزار بھنچے ہوئے دانتوں اور نیم وا ہونٹوں سے ایسی شہوں شوں کی صدائے بانوا سے اس وسیع ہال کی فضا ایسی بھر گئی جیسے آبشار گر رہے ہوں یا بہشتیوں نے بیک وقت پانی کی بھری ہوئی لاکھوں مشکوں کے منہ کھول دیے ہوں۔ جس شاعر نے بھی سر اٹھانے کی جسارت کی اس پر ہزاروں گھڑوں پانی پڑنے لگا۔ واضح رہے کہ یہ مشاعرہ امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں قتل عام اور اوڈوائر کے نافذ کردہ مارشل لاء سے پہلے کا واقعہ ہے۔ مشاعرے کے آغاز میں تھیٹر کے گویوں کی ایک پارٹی سے ہارمونیم اور طلبہ پیٹنے کے ساتھ۔ یا رب رہے سلامت فرمانروا ہمارا گوایا گیا۔ (مشہور بدنام) سر مائیکل اوڈوائر صوبہ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر صدارت فرما رہے تھے۔ حکیم احمد شجاع صاحب سرکاری اخبار ’’ حق‘‘ کے اڈیٹر اور مشہور و معروف شاعر و صاحب قلم مشاعرے میں شاعروں کو سٹیج پر بلانے اور سامعین کو مختلف طریق سے خاموش کرانے کی ناکامی کا شکار تھے۔ آخر نواب سراج الدین سائل جیسے خوش قامت اور خوش الحان کولایا اور لہرایا گیا۔ لیکن ان کی وجاہت کام نہ آئی۔ گھمبیر سروں کی سائل نے انگریزوں کو اپنا ان داتا کہہ کر لوگوں کو اور بھی بھڑکا دیا تھا۔ ان کے سر پر کی لوہاروی کلاہ شوں شوں کے ساتھ تالیوں، کاغذ کے بنے ہوئے پٹاخوں کی دھمک سے اور سیٹیوں کے بے زبان طوفان سے اتر گئی۔ بات یہ تھی کہ اس جنگ عالمگیر میں اس برصغیر کے اندر بسنے والوں کو فقط انگریزوں کی شکست ہی منظور نہ تھی بلکہ علانیہ انگریز کے خلاف نعرے لگانا شعار بن چکا تھا۔ معاشرے کی یہ مضحکہ خیز حالت تھی کہ ڈاکٹر اقبال کے نام کا اعلان کیا گیا لیجئے ڈاکٹر اقبال اپنا کلام سنائیں گے! میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ تمام زبانیں، تمام شور و شر، تمام تالیاں، تمام سیٹیاں یکایک چپ سادھ گئیں۔ وہ جو فرش پر جوتوں کی پھٹ پھٹ تھی۔ وہ جو بنچوں پر پنسلوں کی کھٹ کھٹ کھٹاک تھی، سب دم بخود پانی کی سب مشکوں کے منہ بند۔ یہ تھا علامہ ا قبال کا میری آنکھوں سے پہلی مرتبہ کا دیدار۔۔۔۔ ایک مضبوط، وجیہہ، ادھیڑ عمر کا فرد ، ترکی ٹوپی اوڑھے وقار کے ساتھ اسٹیج پر آیا۔ اس نے فارسی زبان میں ایک نظم ترنم کے ساتھ سنائی۔ یہ تھا اس کا حوصلہ اور اعتماد ذات اس وقت جب سترہ ہزار میں زیادہ سامعین سکھ پنجابی کے رسیا، ہندو ہندی کے طالب اردو تک کے دشمن وہاں فارسی کی نظم! یہ نظم سب نے سنی، فارسی نہ جاننے والے بے شمار تھے۔ جاننے والے چند سینکڑوں سے زیادہ نہ ہوں گے۔ لیکن اقبال جب وہ نظم سنا کر بیٹھا تو تحسین کی تالیوں سے ہال ہی نہیں زمین و آسماں مسحور ہو گئے۔ آج مجھے یہ معلوم ہوا کہ ہم سب جو ہجوم اندر ہجوم شاعر ہیں ان میں اصل شاعر کون ہے! الحمد للہ! اتنی فارسی تو میں بھی جانتا تھا، جس نے مجھے بتایا اور میں سمجھ گیا کہ اقبال کیا ہے کیوں سب سے بلند ہے۔ دوسری مرتبہ اقبال کو میں نے (امرتسر) مسلم لیگ کے اس جلسے میں شعر سناتے سنا، جہاں مولانا محمد علی اور شوکت علی قید سے رہا ہو کر امرتسر آئے تھے۔ یہ وہ پر آشوب دور تھا جب غلاموں نے آزادی کی پہلی کروٹ لی تھی۔ جلیانوالہ باغ کا واقعہ ہو چکا تھا۔ کانگریس اور مسلم لیگ نے اتحاد کر لیا تھا۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے ہنگامہ خیز اجلاس ہو رہے تھے۔ میں جلیانوالہ باغ کے واقعہ سے دو دن پہلے جالندھر کے ایک پراونشل کانگریس کے جلسے میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو کے اصرار و ایماء پر ایک نظم سنانے کے جرم میں قید کاٹ چکا تھا اور اب باغی شاعر بن رہا تھا۔ مسلم لیگ کا اجلاس اس تھیٹر ہال میں تھا جو امرتسر کے مسلم ہائی سکول کے عین قریب تھا اور جہاں میں کبھی کبھی جالندھر سے بھاگ بھاگ کر تھیٹر دیکھنے جایا کرتا تھا۔ آدج اسی ہال میں جالندھر سے اپنے چند دوستوں کے ساتھ امرتسر میں وارد اور دور گیلری میں ٹھنسا ہوا جلسے کا نگران! علامہ نے چند شعر زاغ و زغن اور بازو عقاب کے امتیاز کے لیے پڑھے، عنوان تھا:’’ فلسفہ اسیری‘‘ مترنم آواز آج تک میرے کانوں میں گونجتی ہے۔۔۔۔ سریلا۔۔۔۔۔ دل میں اتر جانے والا ترنم۔ جلسہ ختم ہوا اقبال بہت سے آدمیوں کے جھرمٹ میں جلسہ گاہ سے نکل رہے تھے ہجوم میں گھس پل کر میں نے ان کا محض ہاتھ ہی نہیں پکڑ لیا بلکہ لپٹ بھی گیا۔۔۔۔ جیسے بچھڑا ہوا بیٹا اپنے باپ کو لپٹا لے۔ علامہ کچھ بولے نہیں۔ میری صورت دیکھتے اور مسکراتے رہے میں واقعی وارفتہس ا تھا ان کے ارد گرد کا ہجوم اور میں پتلا دبلا سوکھا ساکھا کم حیثیت سا لڑکا۔۔۔۔۔ میری اس حرکت سے ڈاکٹر صاحب کے پیچھے چلنے والا ایک سیلاب رک گیا۔ مجھے اس وقت ہوش آیا، جب بازو سے پکڑ کر کسی نے مجھے دھکیل دیا۔ آواز آئی: اوئے ہن بس وی کر (یعنی اب ختم بھی کر) دیکھا تو ایک کالا بجھنگ دیو۔ طرے دار پگڑی باندھے میرے اور علامہ کے درمیان حائل ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ چودھری شہاب الدین (مرحوم) تھے جو ان دنوں علامہ کے مریدان خاص میں گنے جاتے تھے۔ (میں نے کچھ مدت بعد ان کو علامہ کے خلاف بھی دیکھا) اور میں نے یہ بھی جان لیا کہ وہ شاعر بھی تھے۔ میری قسمت میں یہ بھی لکھا تھا کہ پہلی مرتبہ اقبال کے قرب سے ان کے ہاتھوں دھکیلا جاؤں اور دوسری مرتبہ اپنی تصنیف کردہ ’’ سوز و ساز‘‘ اردو شعر کی وہ کتاب جس کو پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی نے اپنی تشکیل میں پہلی مرتبہ نثر کی کتابوں کے ہوتے ہوئے اول درجہ کا انعام تجویز کیا تھا۔ اس کا انعام چودھری صاحب بھی نصفا نصف بٹور لیں۔ کیوں کہ انہوں نے مسدس حالی کا پنجابی ترجمہ کیا تھا اور لاہور کی میونسپل کمیٹی کے صدر اعظم بھی تھے۔۔۔۔ جی ہاں۔۔۔۔! میں نے اس دور میں حضرت گرامی کی جوتیاں سیدھی کرنی شروع کی تھیں۔ گھر سے بھاگ جانے دوڑ دوڑ جانے کے زمانے میں لاہور پنجاب لائبریری میں مطالعہ کے مزے لینے آتا رہتا۔ گرامی صاحب مجھے اقبال کے نام خطوط دے دیتے، میں پہنچا دیتا۔ لیکن خود اپنی شعر و شاعری کا تذکرہ زبان پر کبھی نہ لاتا۔ مجھے ہمیشہ اپنی اس جرأت والہانہ اور چودھری صاحب کے دخل در معقولات کا دل ہی دل میں شکوہ بھی تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو بھی میری وہ بے ہنگم عقیدت اور طرز آداب اور چودھری صاحب کا جواب با صواب یاد تھا مجھے دیکھتے ہی فرما دیتے، آؤ حفیظ جی آؤ بیٹھو۔ یہاں چودھری صاحب نہیں ہیں او رپھر چھوٹا سا قہقہہ لگا دیا کرتے۔ میری اولین شاعرانہ جسارت ملاقات ۱۹۲۱ء میں ہوئی، جب میری عمر ۲۱ برس تھی۔ جالندھر سے ایک رسالہ ’’ اعجاز‘‘ نامی نکالنے کا ارادہ کیا۔ ملک الشعراء گرامی اس رسالے کے سرپرست تھے۔ پہلے نمبر کے لیے مجھے علامہ اقبال کے اشعار کی تمنا تھی۔ حضرت گرامی نے ایک چٹھی دی میں لاہور پہنچا۔ عصر کے بعد کا وقت تھا۔ آپ انار کلی کے بالا خانہ میں متمکن تھے۔ سیڑھیاں چڑھ کر برآمدے میں داخل ہوا تو علامہ کا خاص خادم علی بخش خندہ پیشانی سے پیش آیا۔ گرامی صاحب کے چٹھی رساں کو دیکھ کر علی بخش ہمیشہ پھول کی طرح کھل جایا کرتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب دوسرے کمرے میں آرام کرسی پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ میں ڈاکٹر صاحب کو مولانا گرامی کا خط دیا، جب تک وہ پڑھتے رہے میں کھڑا ان کے چہرے کا اتار چڑھاؤ دیکھتا رہا۔ اس خط میں حضرت گرامی نے میری تعریف کے پل باندھ رکھے تھے۔ مجھے آسمان ادب پر چمکنے والا روشن ستارہ بتایا تھا اور ڈاکٹر صاحب کو مجھ پر ہمیشہ مہربان رہنے کی تاکید کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے کرسی کی طرف اشارہ کیا: ’’ حفیظ جی! بیٹھ جاؤ، علی بخشا چا لیا‘‘ چائے کی یہ اولین پیالی تھی جسے میں حجاب آداب کے سبب خالی بھی نہ کر سکا پہلے آپ نے مجھ سے گرامی صاحب کی صحت، ان کے لاہور آنے کے ارادے پوچھے پھر دوبارہ خط پر نظر ڈالی اور میری تعلیم دریافت کی۔ میں ندامت کے کنویں میں گر گیا۔ میرے منہ سے نکلا:’’ ساتویں جماعت‘‘ پاس کہنا بھول گیا ادبی رسالے کا ایڈیٹر بننے کو حکیم الامت اور اس دنیا میں سے بڑے عالم اور شاعر اقبال سے اشعار طلب کرتے وقت اپنی حیثیت علم بیان کرنے کے دوران اسکول سے بھگوڑے کا جو حال ہو سکتا ہے اس کا اندازہ فرما سکیں تو فرمائیے۔ علامہ کی نگاہوں میں حقارت کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔ فرمایا، مطالعہ جاری رکھو۔ پھر پوچھا: تم فارسی میں شعر کہتے ہو یااردو میں؟ میں نے عرض کیا: اردو میں فرمایا: بہت اچھی بات ہے ایک بات یاد رکھو اپنے اشعار میں رونے دھونے کی تبلیغ سے باز رہنا۔ رونا رلانا بہت ہو چکا ہے لوگوں کو ہمت اور حوصلہ درکار ہے۔ اب میں نے اپنے رسالے ’’ اعجاز‘‘ کے لیے علامہ سے اشعار کی درخواست کی۔ آپ نے بکمال مہربانی مجھے پانچ شعر فارسی کے لکھوائے جن میں سے دو مجھے ا س تحریر کے وقت بھی یاد ہیں: از خاک سمرقندے تر سم کہ دگر خیزد آشوب ہلا کوئے، ہنگامہ چنگیزے ٭٭٭ حرف نہ گفتہ شما برلب کودکاں رسید از من بے زباں بگو پروگیان ساز را گرامی صاحب کا نام لے کر رسالے کے لیے کبھی کبھی قلمی امداد کی میری درخواست کے جواب میں جو کچھ کہا میرے سینے پر فرمایا: ’’ جس طرح کوئی زمین بہت زیادہ کاشت ہوتی رہنے سے بنجر ہو جاتی ہے، اس کو کچھ عرصے کے لیے بغیر کاشت چھوڑ دینا چاہیے تاکہ زمین کی خدا داد صلاحیت اپنا مقام حاصل کرے۔‘‘ آج کل میرا یہی حال ہے بہت کم لکھتا ہوں آہ! آج میں علامہ کے اس عذر کو خود اپنی ذات پر مسلط دیکھتا ہی نہیں بلکہ ا س عذر پر خود بخود آنسو بھی بہاتا ہوں۔ مختصر یہ کہ نماز مغرب سے پہلے آپ نے مجھے گرامی صاحب کے نام ایک خط دیا۔میں سلام کر کے رخصت ہو گیا۔ یہ ملاقات مجھے اس طرح یاد ہے جیسے کل کی بات ہو رسالہ تو پانچ ماہ بعد بند ہو گیا، میں کشمیر چل دیا، پلٹا تو میں نے ایک مکان فروخت کر دیا۔ جس کی پاداش میں میرے والد صاحب نے جوتوں سے میرا دماغ پختہ کیا اور گھر سے نکال دیا کہ جاؤ شاعری ہی کرو۔ میں جالندھر چھوڑ کر لاہور آ گیا۔ یہ ۱۹۲۲ء کا واقعہ ہے لاہور میں میری شعر و شاعری نے ہنگامے برپا کر دیے لیکن حاضری کا شوق مجھے شیخ عبدالقادر اور ڈاکٹر کے پاس لے جاتا رہا۔ اور یہی میرے لیے زاد سفر تھا یعنی سرمایہ حیات علامہ کے پاس اکثر احباب خاص ہی جمع ہوتے تھے لیکن کبھی کبھار مجھے تنہائی کی حضوری بھی نصیب ہو جاتی رہی۔ علامہ حقہ پیتے جاتے، دریائے فکر و نظر بہتا رہتا اقبال جس کو بھی جوہر قابل سمجھتے اسی طرح اس کی ذہنی پرورش فرماتے تھے۔ میں ان سے کوئی سوال شاذ ہی کرتا، خاموش بیٹھا سنتا رہتا اور جو کچھ اور جتنا کچھ میری سمجھ میں آتا اسے اپنے ذہن میں محفوظ رکھتا۔ آپ نے دو ایک مرتبہ نہ جانے کیوں مجھ سے شعر سنانے کی فرمائش کی لیکن مجھ سے یہ حماقت سر زد نہ ہو سکی۔ سچ ہے میں ان دنوں پنجاب ہی کا نہیں پورے نیم بر اعظم کا ’’ گاماں پہلوان سخن‘‘ تھا۔ لیکن اقبال کے سامنے شاعر بننا اور شعر سنانا مجھے تو بیہودگی ہی نظر آتی تھی۔ ایک مرتبہ میں سالک صاحب مرتضیٰ میکش اور ایک اور شاعر دوست، جن کا نام لینا اب مناسب نہیں علامہ کے ہاں جا بیٹھے۔علامہ نے ہم سب سے شعر سنانے کی فرمائش کی میں اور سالک صاحب تو کنی کاٹ گئے مگر ہمارے ساتھی نے لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے ایک کالی سی جبیی بیاض نکالی ایک غزل جو حضرت علامہ ہی کی غزل کے جواب میں کہی گئی تھی، سنانی شروع کر دی میں سالک اور میکش ہکے بکے ایک دوست کا منہ تکنے لگے۔ مگر اس شیر نے پوری غزل کے ہر شعر کو مکرر سہ کرر بھی پڑھا اور داد بھی طلب فرمائی۔ علامہ خوب خوب فرماتے اور حقہ پیتے رہے۔ آخر شاعر صاحب نے مقطع کے بعد مطلع پھر سنا ڈالا اور کالی کتاب جیب میں ڈالی، تو ان کو تخلص سے مخاطب کرتے ہوئے علامہ نے کہا: ’’ صاحب! آپ نے تو بڑے زور کی غزل لکھی ہے۔ اہل زبان سنیں گے تو بہت داد دیں گے، کہیں گے کہ آپ نے میر قوافی غزل ارشاد کی ہے۔‘‘ ہم اپنے دوست کی حماقت پر پانی پانی ہو رہے تھے۔ اب وہاں سے جو پلٹے تو راہ میں سالک صاحب اور میکش نے ان کے لتے لینے چاہے لیکن و ہ صاحب بحث پر اتر آئے۔ میں نے علامہ کی موجودگی میں انجمن حمایت اسلام کے بڑے بڑے عظیم الشان جلسوں میں شعر تو سنائے ہیں، چندہ بھی جمع کرایا ہے لیکن ان کے در و دولت پر جا کر شعر تو کیا شاعری کے متعلق کچھ پوچھنے کی بھی جسارت نہ ہو سکی۔ ان کو شعر سنانے کے چند ہی واقعے میری زندگی کی یادگار ہیں۔ پہلی صورت یہ ہوئی کہ میں نے ایک نظم ’’ تین نغمے‘‘ (ٹیگور ، اقبال اور حفیظ) لکھی تھی سب سے پہلے فارمن کرسچین کالج کے ایک بہت بڑے جلسے میں سنائی بعد ازاں یہ نظم ہر جگہ سنی جانے لگی تھی۔ سر راس مسعود (مرحوم) نے جو علامہ کے والا و شیدا تھے علی گڑھ اور کانپور کی اردو کانفرنسوں میں اور عظیم مشاعروں اور جلسوں میں مجھ سے یہ نظم سن سن کر اس کی نقل بھی مجھ سے لے رکھی تھی۔ ایک دن میں اپنے ٹھکانے پر ماڈل ٹاؤن میں تھا کہ سر راس مسعود جو کسی کام کے لیے لاہور آئے تھے، موٹر کار میں میرے غریب خانے پر آپہنچے میں اس وقت ’’ سوز و ساز‘‘ کی کتابت پر نظر کر رہا تھا۔ کھڑے کھڑے مجھ سے کہا نظم ’’ تین نغمے‘‘ لو اور میرے ساتھ موٹر میں سوار ہو جاؤ۔ میں نے کہا حضرت! ذرا میرے غریب خانے کو زینت بخشئے۔ جواب ملا: نہیں، آج تمہیں گرفتار کرنے ہی کو آیا ہوں میں نے تعمیل ارشاد کی سمجھا مجھے سر شفیع کے ہاں لے جائیں گے۔ کتابت شدہ نظم لپیٹی اور ساتھ ہو لیا۔ لاہور پہنچے، دیکھا وہ سیدھے میکلوڈ روڈ، علامہ کے مکان میں داخل ہو رہے ہیں۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اب حجت اور حیلہ بے معنی تھا۔ سہما ہوا برآمدے میں داخل ہوا۔ علی بخش نے کرسیاں آگے بڑھائیں، سر راس مسعود بیٹھ گئے میں کھڑا رہا سر راس مسعود نے علامہ سے کہا: ’’ لیجئے آپ کے ایک بڑے مجرم کو پکڑ لایا ہوں‘‘ میں نے ڈاکٹر صاحب کو سلام کیا وہ ہنسے، فرمایا: آؤ جی، حفیظ جی! ایہہ تاں بہت برے ہتھ پھسے او(یہ تو بہت برے ہاتھ پھنس گئے ہو) جواب دئیے بغیر میں گم صم بیٹھ گیا۔ خلاف معمول آج خود ہی اپنے حقے کی نے میری طرف پھیر دی۔ بھلا سر راس کو تاب کہاں۔ اقبال! تم میرے بیٹے کا مزاج خراب کر دو گے۔ پھر میری طرف مخاطب ہوئے ’’ پہلے وہ نظم سناؤ، تمہارے جرم کی سزا مل جائے تو حقہ بھی گڑ گڑا لینا۔‘‘ سید سر راس مسعود کی طرف سے یہ انتہائی قدر افزائی تھی لیکن میرے حواس غائب تھے میں نے عرض کیا:’’ مجھ سے ڈاکٹر صاحب کے سامنے شعر پڑھا نہیں جاتا۔‘‘ سید راس مسعود نے کہا:’’منہ میری طرف کر لو۔ سمجھ لو تم علی گڑھ میں ہو۔ جس طرح وہاں سب کو تڑپاتے اور مجھے رلاتے رہے ہو۔ ہمارا اقبال بھی تو جان لے۔‘‘ یہ مرگ مفاجات کی صورت تھی۔ نظم سنانی ہی پڑی۔ مجھے یاد ہے میں نے خود بھی اس سے پہلے کبھی ایسا لطف اس نظم سے نہیں لیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب حقہ پیتے رہے، نظم سنتے رہے۔ بعض شعروں کو دوبارہ بھی پڑحوایا۔ جب تک میں ٹیگور کی خواب آور شاعری کا حسن اور اس کا اثر اپنی ذات پر بیان کرتا رہا۔ وہ بار بار بہت خوب کہتے رہے۔ پھر جہاں میں نے اقبال کی شاعری کو ایک تلاطم خیز دریا کہا اور ٹیگو رکی پر بہار نہر باندی کو چھوڑ کر اس دریا کے کنارے کنارے ڈگمگاتے ہوئے چلنے کے شعر سنائے تو علامہ میری طرف حیرت اور غور سے دیکھنے لگے۔ جب یہ شعر آیا کہ: درد کی چیخیں اٹھیں میرے شکستہ ساز سے آب دیدہ ہو گیا دریا مری آواز سے تو مکرر پڑھنے کی فرمائش کی میں نے دیکھا سید راس مسعود ہی کی نہیں علامہ اقبال کی آنکھیں بھی پرنم تھیں۔ یہ شعر کئی مرتبہ پڑھنے کے بعد میں نے یہ شعر سنایا: میرا نغمہ نغمہ دریا سے کم آواز تھا ہاں مگر ہم رنگ و ہم آہنگ و ہم آواز تھا تو ڈاکٹر صاحب کے منہ سے بے اختیار نکلا: ’’ ہم رنگ بھی، ہم آہنگ بھی۔۔۔۔۔ بلند آواز، بلند آواز، بہت شیریں‘‘ نظم ختم ہوئی تو سر راس مسعود نے مجھے بغل گیر کر لیا۔ میرا ماتھا چوما کہا دیکھا اقبال، میرا بیٹا، اللہ نے حالی کا بدل ہمیں عنایت کر دیا ہے۔ آج یہ الفاظ لکھتے ہوئے اے کاش سر راس مسعود ہی میرے تلخ آنسوؤں کو دیکھ سکتے! مجھے اس تقریب سعید پر ناز کیوں نہ ہو، میں عمر بھر اس کو بھول نہیں سکتا۔ ہاں میں بھول نہیں سکتا کہ ایک نظم تو کم از کم میں نے زندگی میں ایسی بھی لکھی ہے جس کو اقبال نے فقط سنا ہی نہیں، پسند کیا بلکہ متاثر بھی ہوئے اور بقول تاثیر اپنی ایک نظم میں میری بندش کے الفاظ بھی استعمال فرمائے۔ (تن تیرا نہ من) نظم ہو چکی۔ میں نے حقہ کو ہاتھ نہیں لگایا۔ چائے البتہ آج دو بسکٹوں کے ساتھ خوشی شکم رسید کر ڈالی۔ حضرت نے کہا یہ پہلی نظم ہے جس میں کسی ہندوستانی شاعر نے میرے کلام کی روح بیان کی ہے پھر مجھ سے اس کی نقل طلب کی۔ میں نے اسی وقت بیٹھ کر نقل کر دی۔ بعد ازاں ایک دن آیا کہ علامہ نے مجھے جالندھر سے علی بخش کو بھیج کر طلب فرمایا۔ میں حاضر ہوا تو آپ درد گردہ میں مبتلا تھے اور بہت ہی بیمار مجھے دیکھتے ہی کراتے ہوئے بولے: ’’ آ گئے حفیظ جی، بیٹھ جاؤ‘‘ میں بیٹھ تو گیا ’’ یہ درد گردہ شاید جان لے کے رہے‘‘ پھر کہا:’’ حفیظ! تم میرا مرثیہ لکھنا‘‘ یہ سن کر میری چیخیں نکل گئیں۔ عرض کیا: میری اور مجھ ایسے ہزاروں کی جانیں خدا آپ کی عمر میں جوڑ دے گا۔ یہ آپ کیا فرماتے ہیں آپ کو آرام آ جائے گا۔ وہ بہت رنجور تھے پہلے تو خاموش رہے پھر فرمایا: کوئی نعت سناؤ میں نے ’’ میرا سلام لے جا‘‘ سنائی علامہ زار زار روتے رہے۔ ہر بند کو دو دو مرتبہ سنتے اور روتے پھر کہا: شاہنامہ میں سے ولادت رسول ؐ کے اشعار سناؤ۔ میں نے سنائے اب ان کو ذرا سکون سا ہوا۔ فرمایا: میرے لیے دعا کرو۔ اور بھی چند واقعات ہیں جو میں نے اپنی زیر ترتیب کتاب ’’ میرا اقبال، میرا گرمی‘‘ میں وضاحت سے درج کر دیے ہیں۔ کتاب میری زندگی میں شائع ہوتی ہے یا نہیں یہ کون جانتا ہے بہرحال میرے لیے اقبال سے دوری بھی حضوری ہے۔ ٭٭٭ علامہ اقبال کے انتخاب کونسل ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی علامہ اقبال نے ۲۰ جولائی ۱۹۲۶ء کو پنجاب کونسل کے آئندہ انتخاب کے امیدوار ہونے کا اعلان روزنامہ ’’ زمیندار‘‘ ۲۰ جولائی ۱۹۲۶ء کے ذریعہ ایک مراسلہ میں آپ نے اس طرح کیا تھا جس کا اختصار یہ ہے: ’’ میرے تمام احباب اور اکثر معززین و باشندگان شہر کو ایک مدت سے معلوم ہے کہ پنجاب کونسل کے آئندہ انتخابات میں حلقہ لاہور کی طرف سے بطور امیدوار کھڑا ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں۔۔۔۔ میں میاں عبدالعزیز بیرسٹر ایٹ لاء کا بے حد ممنون ہوں کہ وہ میرے حق میں لاہور کی طرف سے امیدوار بننے کا ارادہ ترک فرما چکے ہیں اور اس کی نسبت ’’زمیندار‘‘ میں ان کا اعلان بھی شائع ہو گیا ہے۔ اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنی امیدواری کا باقاعدہ اعلان کر دوں۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ مجھے۔۔۔۔ توفیق دے۔‘‘ اس کے بعد لاہور میں تقریباً بیس جلسے مختلف انجمنوں نے مختلف مقامات پر کر کے لوگوں سے درخواست کی کہ علامہ اقبال کو بلا مقابلہ منتخب کیا جائے بلکہ اس طرح ملک محمد حسین، چیئرمین لاہور میونسپلٹی کمیٹی بھی ان کے حق میں دستبردار ہو گئے مگر ملک محمد دین نے ڈاکٹر صاحب کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ غرضیکہ یہ ایک مختصر سی ابتد اہے کہ کس طرح یہ ہنگامہ انتخاب کونسل شروع ہوا، جس کے روح رواں علامہ اقبال خود تھے۔ اس طرح ہم نے بہت محسوس کیا کہ چاہئے تھا کہ علامہ اقبال بغیر کسی ہنگامہ انتخاب کے ہی متفقہ طور پر منتخب قرار دے دئیے جائیں مگر علامہ کو آخر کار ا س ہنگامہ میں باقاعدہ حصہ لینا پڑا اور یہ ہنگامہ لاہور کی تاریخ میں مسلمانوں میں ایک خاص امتیاز رکھتا ہے اور علامہ کو بہت بڑی فتح اللہ کے حکم سے ہوئی۔ اس ہنگامہ میں میرے خیال میں اول میٹنگ بطور ملاقات جو اقبال کی موجودگی میں ہوئی وہ رنگ محل علاقہ میں مشن ہائی سکول کے شمال میں منی شنکر کی عمارت میں ہوئی جس میں اس وقت استاد الہ بخش آرٹسٹ بھی رہتے تھے یہ اکٹھ یا میٹنگ دراصل شیخ حسن الدین وکیل کی وجہ سے ہوئی تھی اگرچہ مصطفیٰ حیرت اور اس کے رفقاء بھی شامل تھے۔ اس میں شام کے وقت چند حضرات نے حصہ لیا اور علامہ کو ہر طرح تسلی دی گئی کہ آپ مطمئن رہیں ہم سب کام کریں گے چونکہ اس میٹنگ کا کوئی باقاعدہ اعلان نہیں ہوا تھا اور ویسے ایک طرح سب نے یہ اظہار کیا کہ ہم ہر طرح مل کر کام کریں گے علامہ نے وہاں سے فارغ ہو کر ہمارے ہمراہ کوچہ بکوچہ فضل الدین کی حویلی اور کوچہ پیر گیلانیاں سے ہوتے موچی دروازہ کی طرف راہ لی تھی مگر جب ہم محلہ سادھواں گذر رہے تھے تو علامہ نے کسی اپنے دوست کا نام لیا تو پاس سے کسی نے کہا کہ وہ آج کل تفسیر قرآن لکھ رہے ہیں علامہ نے کہا کہ قرآن بڑا مظلوم ہے ہر ایک اسی پر سوار ہو جاتا ہے کیونکہ وہ شخص جس کا آپ نے نام لیا تھا تمام عمر برٹش کے محکمہ خفیہ پولیس میں رہا تھا۔ ہم سب علامہ کے ان الفاظ سے ہنس پڑے۔ اس کے بعد لاہور کے کونہ کونہ میں خود بخود علامہ اقبال کے حق میں جلسے باقاعدہ شروع ہو گئے چنانچہ باقاعدہ اعلان کر کے پہلا جلسہ حکیم محمد شریف کے مکان پر ہوا جس میں خصوصیت بازار لکڑ ہارا، چوک نواب صاحب کوچہ چہل بیبیاں، کوچہ شیعاں وغیرہ کے ملحق علاقہ کے لوگوں نے حصہ لیا اور سب نے بالا تفاق علامہ کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا اس کے بعد دوسرا جلسہ حکیم مظفر حسین کے مکان پر ہوا، جس میں خاص کر پتھراں والی حویلی، قاضی خانہ، گوجر گلی، نور گلی و مغل حویلی، لاکھو، کوچہ کشمیریاں، کڑی چراغ شاہ، کوچہ تار کشاں، چٹہ محل وغیرہ کے ووٹر شامل تھے اس کے علاوہ تکیہ سادھواں، پیر گیلانیاں، چوہٹہ مفتی باقر، محلہ چہل بیبیاں وغیرہ کے ووٹر موجود تھے اسی طرح ایک رات ایک جلسہ ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین صاحب کے مکان پر واقع کوچہ تیر گراں میں ہوا تھا جس میں نور محلہ، ڈھل محلہ، پتھراں والی حویلی، بازار سادہ کاراں، کوچہ موتی پاندہ وغیرہ کے ووٹر تمام کے تمام موجود تھے اور اس جلسہ میں راقم بھی خود موجود تھا۔ اور اس جلسہ میں خاص کر ارائیں لوگوں نے جو ان محلوں میں رہتے تھے حصہ لیا تھا۔ اس جلسہ کے بعد ضرورت محسوس ہوئی کہ اب جلسوں کا پروگرام دوسرے علاقوں مثلاً شاہ عالمی دروازہ اور بھاٹی دروازہ میں ہونے چاہئیں۔ ایک جلسہ اس قسم کا بھی ہوا جس کا عنوان ہی یہ تھا کہ علامہ اقبال کو بلا مقابلہ منتخب کر لیا جائے جو ۲ اکتوبر شب کو ۹ بجے ہوا مگر اس میں خاص کر ملک محمد حسین صاحب صدر بلدیہ لاہور کا شکریہ ادا کیا گیا اور اس تمام جلسہ کی کارروائی پر بڑے بڑے تمام اشخاص کے دستخط تھے اور سب نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ علامہ کے حق میں دست بردار ہو گئے ہیں۔ مگر سب سے اہم جلسہ بھاٹی دروازہ کے رہنے والوں نے اونچی مسجد کے قریب قدیم مکان خان بہادر ڈاکٹر محمد حسین کے متصل کیا، رات کا وقت تھا۔ جس میں خاص کر اس علاقہ کے خواجہ فیروز الدین بیرسٹر نے تقریر کی تھی اور لوگوں کو علامہ اقبال کی اصل ذات سے اس طرح روشناس کیا کہ ہم پر احسان ہے کہ آپ نے ممبری کونسل کے لیے ضرورۃً اس دفعہ اپنے آپ کو وقف کر دیا ہے ویسے خواجہ فیروز الدین علامہ اقبال کے عزیز بھی ہوتے تھے کیونکہ دونوں آپس میں ہم زلف تھے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس جلسہ کا اثر لوگوں پر بہت ہوا اور خود علامہ نے بھی آخیر نہایت مندریل ذیل موثر تقریر کی تھی۔ یعنی علامہ ممدوح نے حکیمانہ انداز میں بیان فرمایا: ’’ میںانگریزی اور اردوو اور فارسی میں برنگ نثر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہوں یہ ویسے ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ طبائع نثر کی نسبت شعر سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں لہٰذا میں نے مسلمانوں کو زندگی کے صحیح مفہوم سے آشنا کرنے اور اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کے لیے اور ’’ نا امیدی یا بزدلی اور کم ہمتی سے باز رکھنے کے لئے نظم کا ذریعہ استعمال کیا میں نے پچیس سال تک اپنے بھائیوں کی حتی المقدور ذہنی خدمت کی ہے اب میں ان کی بطرز خاص عملی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں اسلامیان ہند پر عجیب دور گزر رہا ہے عنقریب ایک شاہی مجلس تحقیقات اصلاحات جسے رائل کمشن کہتے ہیں یہ تحقیق کرے گی کہ آیا ہندوستان مزید رعایات اور اصلاحات کا مستحق ہے یا نہیں ہے ضرورت ہے کہ مسلمان بھی اس باب میں پوری توجہ سے کام لیں اور اپنے حقوق کا تحفظ کریں۔ ممبر کا سب سے بڑا وصف یہ ہونا چاہیے کہ ذاتی اور قومی منفعت کی غور و فکر کے وقت اپنے شخصی مفار کو مقاصد قوم پر قربان کر دے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں کبھی بھی اپنے مفاد کو قوم کی اصلاح کے مقابلہ میں ترجیح نہیں دوں گا اور رب العزت سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس کی توفیق بخشے کہ میں آپ کی خدمت کر سکوں میں اغراض ملی کے مقابلہ میں ذاتی خواہشوں پر مرمٹنے کو موت سے بر تر خیال کرتا ہوں۔۔۔۔۔ ‘‘ یہ جلسہ دیر تک رہا اور رات کے گیارہ بھی بج گئے تھے کیونکہ اقبال ہمراہ تھے اور وہ وہاں سے پیدل شرکاء جلسہ کے ہمراہ واپس آئے راستہ میں حیات گھی والا اور مہدی جو آج ایک اعلیٰ و کالج گنپت روڈ پر مالک ہے جس کے پاس بگل بھی تھا سب گاتے ہوئے وہاں سے واپس آئے عموماً بلند آواز سے تمام راستہ میں یہ شعر سب مل کر پڑھتے اور شور ہوتا۔ آ گئی فوج اقبال کر دو راستے خالی دوسرے روز میں جب علامہ کے ہاں گیا اور میں نے میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں دیکھا کہ ’’ لالا قیصر‘‘ (ملک لال دین قیصر) آپ کے پاس بیٹھا ہے اور وہ ایک طرح یہ رپورٹ پیش کر رہا تھا کہ ہماری یہ کوشش تھی کہ ملک محمد دین علامہ اقبال کے حق میں دستبردار ہو جائے مگر نہ معلوم اسے کون بہکاتا ہے وہ نہیں مانتا مگر لالا قیصر نے کہا کہ میں اس امر کا ضرور پتہ لگاؤں گا اور ورنہ ہم محمد دین کو بہت بھاری شکست دیں گے مگر اس کے اگلے روز میں نے دیکھا کہ آرائیں برادری نے علامہ اقبال کے خلاف چھوٹے چھوٹے چند اشتہار بھی جو واقعی بے معنی تھے چھاپے ہیں۔ اتفاق سے میں نے یہ اشتہار پیر گیلانیاں محلہ میں مولوی فضل الدین وکیل کی حویلی کی پچھلی دیوار پر اونچے لگے ہوئے دیکھے تھے اور میں نے ان بے حقیقت اشتہاروں کو پڑھنے کی کوشش اس وجہ سے نہیں کی کہ اول تو وہ بہت بلند اوپر دیوار پر چسپاں تھے اور وہ زیادہ تر علامہ کے جلسہ سے متعلق لغو تھے مگر وہ اشتہار اوپر بلندی پر لگے ہونے کی وجہ سے غالباً آج بھی وہاں چسپاں ہیں کیونکہ تھوڑا عرصہ ہوا میں نے ان کو سر راہ دیکھا ضرور تھا۔ جب میں نے ان کا ذکر محفل اقبال میں کیا تو سب نے یہی کہا کہ یہ بے معنی ہیں اگر کوئی با معنی اور معقول بات ہوتی تو ہم اس کا جواب بھی دیتے۔ اس کے بعد کئی جلسے اور جلوس لاہور میں علامہ کی حمایت میں ہوئے اور سب نے نہایت موثر طریق سے علامہ کی تائید رکنیت ممبری کونسل کی تھی، میں ان دنوں اسلامیہ کالج لاہور ریلوے روڈ پر وہاں ٹریننگ کلاس میں پڑھاتا تھا۔ اگرچہ اس سے پیشتر کالج کے طلباء و اساتذہ کئی جلسوں اور جلوسوں میں شامل ہو کر تمام کیفیت خود مشاہدہ کر چکے تھے مگر ابھی تک خالصاً اسلامیہ کالج کا جلوس نہیں نکلا تھا چنانچہ ان ایام میں ایک جمعہ کے روز جو کالج میں چھٹی کا روز تھا طے پا گیا کہ کل کالج کے طلباء کا ایک خاص جلوس نکلے گا اس کے لئے کسی طرح امرتسر ڈاکٹر سیف الدین کچلو کی بھی شامل ہونے کے لئے دعوت دے دی تھی اور کالج کے ہر دو ہوسٹلوں کے طلباء کو لازماً جلوس میں شامل ہونے کے لئے تاکید کر دی گئی تھی۔ چنانچہ جمعہ کی نماز کے بعد قریبا ً تین بجے سے طلبا اور دیگر لوگ بھی موچہ دروازہ کے باہر باغ میں جمع ہونے شروع ہو گئے تھے ادھر اس جلسہ میں شرکت کے لئے ڈاکٹر سیف الدین کچلو بھی امرتسر سے تشریف لے آئے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کو خاص دعوت شرکت جلسہ طلباء دی گئی تھی جلسہ کے آغاز میں سب سے اول ڈاکٹر کچلو نے مندرجہ ذیل تقریر کی: فرمایا کہ حضرت علامہ کی محبت مجھے اس جلسے میں کھینچ لائی ہے۔ علامہ ممدوح میرے محترم اور عزیز دوست ہیں آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے کلام سے مردہ قوم میں زندگی کی ایک نئی قوت پیدا کر دی ہے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اپنے اس محسن عظیم کی قدر کرنا نہیں جانتے۔ اگر آپ جناب ڈاکٹر صاحب کی قابلیت کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو آپ میرے ساتھ یورپ چلیں ممالک اسلامیہ کا چکر کاٹیں آپ پر ڈاکٹر صاحب کے کمالات منکشف ہو جائیں گے میں سپاہی ہوں خوشامد میرا شیوہ نہیں میں حلیفہ عرض کرتا ہوں کہ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب انتخاب کونسل کے لئے ادھر ادھر گھوم رہے ہیں اور انتخاب کے جلسوں میں شرکت کی زحمت گوارا کر رہے ہیں چاہئے تو یہ تھا کہ ہم ڈاکٹر صاحب سے درخواست پر دستخط کراتے اور پھر بلا مقابلہ آپ کو ہار پہنا کر کونسل ہال میں چھوڑ آتے میں سخت شرم اور رنج کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ کیسی بد قسمت ہے وہ قوم جس کے بعض افراد اقبال جیسی شخصیت کے مقابلہ میں کھڑے ہونے سے بھی باز نہیں آئے قوم کو چاہئے تھا کہ وہ ڈاکٹر صاحب سے درخواست کرتی ہاتھ جوڑتی منت کرتی اور ان کو ان کے دولت کدہ کے باہر نکال کر رہنمائی کی باگ ان کے سپرد کرتی اور بڑے اطمینان سے آپ کو کونسل میں بھیجتی۔ دوستو! اس وقت زمانہ بہت نازک ہے سخت ضرور ہے کہ اس ہنگامہ میں ڈاکٹر صاحب جیسے قابل اور فاضل بزرگ میدان عمل میں گامزن ہو جائیں۔ اس جلسہ میں ڈاکٹر کچلو کی تقریر کے بعد بعض افراد نے ڈاکٹر اقبال سے بھی تقریر کی توقع کی تھی مگر شیخ حسن دین وکیل نے جناب صدر کا شکریہ ادا کیا اور جلسہ کے اختتام پر ایک مہتمم بالشان جلوس اسلامیہ کالج کے طلباء کا مرتب ہوگیا چونکہ دوسرے اصحاب بھی کافی تعداد میں اس وقت جمع تھے اس لئے اس جلو میں سب سے آگے اہل بھاٹی دروازہ اور دیگر شہری بھی جلوس کے آگے آگے تھے اور خاص کر بھاٹی دروازہ کے سید احمد شاہ آگے تھے اور موچی دروازہ سے جلوس سیدھا چوہٹہ مفتی باقر کی طرف روانہ ہوا اتفاق سے اسلامیہ کالج کے تمام لڑکے علامہ اقبال کے اشعار لکھ کر ہمراہ لائے تھے اور بعض ویسے ہی اپنی یاد سے پڑھتے تھے مگر میں نے دیکھا کہ اسلامیہ کالج کے طالب علم خصوصیت سے مندرجہ ذیل اشعار ’’ جواب شکوہ‘‘ نظم کے پڑھتے تھے شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلماں موجود وضع میں ہو نصاری تو تمدن میں ہنود یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو مجھے خوب یاد ہے کہ اقبال چیمہ اور دیگر طلباء ان کے ساتھی مل کر بلند آواز سے یہ اشعار پڑھتے اور ہر ایک کے دل پر ایک دہشت اور خوف سا طاری ہو جاتا تھا۔ جب یہ تمام جلوس کمیدان کی حویلی کے قریب آیا جہاں علامہ اقبال کا مد مقابل ملک محمد دین رہتا تھا وہاں ان طلباء نے نہایت جوش سے اور بلند آواز سے ان اشعار کو کئی بار بلکہ بار بار دہرایا اس مجمع میں ایک ہیبت طاری نظر آتی تھی۔ میں نے ہی انتظام کیا تھا کہ اسلامیہ کالج کے طلباء ہی تمام دفتری کام جو بھی اس انتخاب علامہ اقبال میں ضروری ہوا انجام دیں اور یہ کام برابر خواجہ سلیم کے مکان پر ہوتا رہا تھا مگر اس جمعہ کے روز وہ دفتر بھی بند تھا اور اس جلوس میں اس روز مغرب کے وقت نماز مغرب کے لئے لوگ مسجد وزیر خاں میں داخل ہو گئے بلکہ ایک طرح تمام جلوس ہی شامل نماز مغرب تھا اس واقعہ کو قاضی عبدالرحمن نے جس نے اس روز مغرب کی جماعت کی امامت بھی کی تھی خود بھی سیارہ ڈائجسٹ ۱۹۷۱ء کے ص ۱۹۔ ۳۰ میں لکھا ہے کیونکہ میں نے ہی قاضی عبدالرحمن کو مسجد وزیر خان کے صحن میں جماعت کرانے کے لئے اشارہ کیا تھا اور مغرب کی نماز مسجد کے ایوان کے اندر ختم ہو گئی تھی۔ قاضی عبدالرحمن لکھتے ہیں: ’’ چونکہ مسجد کے مسقف حصہ میں نماز مغرب ادا ہو چکی تھی۔۔۔۔ اتنے میں استاذی ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے مجھے بازو سے پکڑ کر زبردستی مصلے پر کھڑا کر دیا اتنے بڑے مجمع کے سامنے مجھے ایسے ناچیز طالب علم کو امامت کے لئے کھڑا کر دینا مجھ پر بہت ہی بڑی زیادتی تھی لیکن اپنے محترم استاد کے حکم کا نہ ماننا بھی کچھ کم بد بختی کا موجب تھا۔۔۔۔ میں کانپ رہا تھا کہ استاذہ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے میرے کام میں کہا آج حضرت علامہ اقبال نے تیری اقتدا میں نماز ادا کی تیرے لئے کیا یہ کوئی کم فخر کا مقام ہے۔ ’’شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم‘‘ مجھے جو مشرت ہوئی اسے میں فراموش نہیں کر سکتا۔‘‘ نماز مغرب کے بعد پھر اسی طرح جلوس پرانی کوتوالی اور کشمیری بازار کی طرف چل پڑا اور آخر یہ جلوس ڈبی بازار پر جا کر ختم ہو گیا۔ جہاں علامہ نے بھی مندرجہ الفاظ مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمائے تھے: ’’ معززین رضا کاران اور حاضرین کا ممنون و مشکور ہوں اور خاص کر دہلی دروازہ اور بیرون دہلی دروازہ کے احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور تمام حضرات کا شکر گزار ہوں جنہوں نے جلسہ اور جلوس میں شرکت کی ہے اور خاص کر اسلامیہ کالج کے طلباء جنہوں نے اس تمام جلوس اور جلسہ کو رونق بخشی ہے۔‘‘ میں نے اپنے اس مضمون میں اوپر بیان کیا ہے کہ لالہ قیصر اور علامہ اقبال کو میں نے گفتگو کرتے اور انتخاب پر تبصرہ بھی کرتے دیکھا مگر سب سے اہم امر یہ تھا کہ علامہ اقبال کی عام طور پر مخالفت کون کر رہا تھا چنانچہ کٹرہ حکیم سید ولی شاہ چوہٹہ مفتی باقر میں بھی ایک جلسہ اس انتخاب کونسل کے ضمن میں بڑی شان سے ہوا جس میں لالہ قیصر نے پنجابی زبان میں ایک نظم جو دراصل ہجو اس شخص کی تھی جو مخالفت علامہ کی محمد دین کے ذریعہ کرا رہا تھا۔ میں یہاں اس ہجو پنجابی نظم کے اشعار کو تو نہیں پیش کرتا ہوں مگر یہ ضرور عرض کر دوں کہ اس شخص کو ایک ’’ پٹواری‘‘ کے بطور پٹواری اس گاؤں کا پیش کیا گیا ہے جس کا نام ایک بازاری عورت کے نام پر ہے اور اسے اس گاؤں کا ’’پٹواری انکاری‘‘ کا نام دیا گیا ہے مگر اس کے آخیر شعر سے واضح ہے کہ انشاء اللہ فتح ہماری ہو گی کیونکہ اس پٹواری کا تمام زور مقام ’’ اٹاری‘‘ ہے یعنے کچھ نہیں ہے۔ غرضیکہ کٹرہ حکیم سید ولی شاہ کے اس جلسہ میں شیخ عظیم اللہ نے بڑی موثر تقریر کی تھی اور سب مقررین نے افسوس ظاہر کیا تھا کہ ملک محمد دین علامہ اقبال کا مقابلہ کر رہے ہیں اور علامہ کو خدمت اسلام کا موقع نہیں دیتے۔ اس جلسہ کے بعد لاہور کی بعض با اثر برادریوں نے بھی اپنے اپنے ہاں الگ الگ جلسے کر کے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم متفقہ طور پر علامہ اقبال کو ووٹ دیں گے ان میں سے ایک بہت بڑا جلسہ رات کے وقت مرحوم چشتی کریم بخش کے مکان پر کوچہ لوہاراں موچی دروازہ میں ہوا جس میں طے پایا کہ برادری متفقہ طور پر ووٹ علامہ اقبال کو دے گی غرضیکہ سب جدوجہد کے بعد ایک جلوس ۱۹ نومبر ۱۹۲۶ء کو بھی دن کے ۸، ۹ بجے کے درمیان نکلا اور نیلا گنبد کی مسجد پر آ کر ختم ہوا اس جلوس میں کم و بیش تیس ہزار مسلمان شامل تھے غرضیکہ اس طرح ۲۳، ۲۴ نومبر کے دو دن پولنگ ہونا تھا۔ ایک دن تو شہر کے لئے اور دوسرا چھاؤنی کے لئے وقف تھا اور شہر بھر میں کئی پولنگ سٹیشن تھے میں خود قلعہ گوجر سنگھ کے سٹیشن پر متعین تھا جہاں علامہ اقبال نے بھی اپنا ووٹ ڈالا تھا اور اسے میں نے انجام دیا تھا۔ چنانچہ پولنگ کا نتیجہ جو نکلا تو اس سے واضح ہو گیا کہ علامہ اقبال ملک محمد دین کے مقابلہ میں یہ انتخابی کو نسل تین ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جیت گئے اس خبر سے تمام لاہور میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور فلک بوس نعرے لگائے گئے اور ہر طرف سے لگائے گئے۔ چنانچہ خود علامہ اقبال نے اس روز ایک جلوس کی شکل میں تمام شہر لاہور کا شکریہ ادا کیا اور ہم نے دیکھا کہ تمام مہذب لوگ علامہ اقبال کے ہمراہ اس خوشی میں شامل تھے اور خاص کر ڈبی بازار میں تو ان تمام مہذب لوگوں نے اس خوشی میں جس میں اقبال بھی بذات خود شامل تھے سب نے مل کر ڈبی بازار میں بھنگڑا ڈالا اس کے بعد ویسے بھی موچی دروازہ کے باہر وہاں کے لوگوں نے بطور خوشی اور کامیابی علامہ کا ایک جلسہ کیا جس میں علامہ نے بھی شرکت کی تھی اور لاہور کی تاریخ میں یہ بڑا قابل یاد واقع تھا مگر اس فتح کی خوشی میں کئی جلسوں اور دعوتوں کے علاوہ وہ دعوت جو حاجی دین محمد کاتب نے آپ کے اعزاز میں اپنے مکان پر کی تھی جس میں علامہ اقبال نے بھی شرکت کی تھی سب سے بازی لے گئی تھی اسی روز ان کے یعنے حاجی دین محمد کاتب کے ہاں پلاؤ نہایت ہی لذیذ تیار ہوا تھا اور علامہ نے اسے اس تعبیر کیا تھا کہ ’’ آج پلاؤ کی شہادت کا دن ہے۔‘‘ میں معذرت کرتا ہوں کہ تمام تفصیلات تمام جلسوں اور تمام اشخاص کا ذکر اس مختصر کیفیت معرکہ انتخاب میں پیش نہیں کیا جا سکا۔ ورنہ یہ تمام ایک بہت طویل بیان ہے۔ ٭٭٭ اقبال کے ساتھ ساتھ ابو الخیر کشفی اپنے بچپن کو جب یاد کرنے بیٹھتا ہوں تو دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کر نہیں رہ جائیں، بلکہ مناظر ویسے کھلتے چلے جاتے ہیں جیسے کپڑے والے کی دکان پر کپڑوں کے تھان۔۔۔۔ اور وہ بھی زنانے کپڑوں کے تھان، رنگ برنگے، طرح طرح کے گل بوٹے۔۔۔۔ ویسے کپڑے جو نانا میاں کی چھوٹی سی پھلواری کے پھولوں یا بچپن کے آسمان کی یاد دلاتے ہیں۔۔۔۔ سدن حلوائی کی دکان پر رنگ برنگی مٹھائیاں، برف کے کھلونے، بارش کے بعد کچی مٹی کی خوشبو سے لے کر ماں کے پسینے کی جاوداں بو تک۔ ان یادوں میں آوازیں بھی شامل ہیں۔ باجی (امی) دمہ کی مریض تھیں۔ سردیوں کی صبح رات کے شدید دورے کے بعد اپنی چارپائی آنگن میں بچھا لیتیں۔ سفید چادر بچھی ہوئی اور اس پر گاؤ تکیہ کے سہارے باجی لیٹی ہوئی یا بیٹھی ہوئی۔ میں ان کی پیٹھ سہلاتا، حمیرا آہستہ آہستہ سر میں تیل جذب کرتی اور باجی کے ہونٹوں پر سرگوشی کے انداز میں مسدس کے بول ابھرتے۔ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا اور آہستہ آہستہ ان کی پر سوز آواز بلند ہوتی جاتی اور آنکھوں کی نمی آنسو بن کر رخساروں کا رخ کرتی اور پھر مسدس کے بندوں کی جگہ جواب شکوہ کے بند، باجی کے ہونٹوں سے نکل کر ہمارے وجود کو اپنے دائرے میں لے لیتے: قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے اور جواب شکوہ کا آخری بند جس کا ٹیپ کا شعر ہے۔ کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں جواب شکوہ میں بہت سے لفظ مشکل تھے، خیالات کا ذکر ہی کیا۔ مگر باجی کی آواز تو جیسے غنچہ کی کشود تھی۔ مدتوں بعد جاپان میں جب نارنگی کے ایک باغ میں گیا تو یوں محسوس ہوا جیسے خوشبو کے سمندر میں تیر رہا ہوں اور گہری گہری سانس لینے کا عمل مجھے اندر سے بدل رہا ہے۔ اس سہ پہر کو بچپن کی وہ ہجیں یاد آ گئیں جب باجی جواب شکوہ کے بند پڑھتی تھیں۔ ۱۹۷۲ء کی اس سہ پہر میں سوچنے لگا کہ آخر اس سہ پہر کا میرے بچپن کی ان صحبتوں سے کیا رشتہ ہے اور آخر اقبال کے اس مصرع کی صورت میں مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ مثل بو فید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا اقبال کے شعر اس وقت کیا سمجھ میں آتے (اور اب کون سے آ جاتے ہیں) مگر یہ ضرور محسوس ہوتا تھا کہ یہ شعر بدلنے کی خواہش دل میں پیدا کر رہے ہیں۔ اپنے آپ کو بدلنے کی خواہش بادل بن کر کسی کھیت پر برس جاؤں، یا جگنو بن کر رات کو چمکتا رہوں۔ شاید انہیں خواہشات کا یہ نتیجہ تھا کہ کانپور میں برسات کی راتوں میں جب جگنو چمکتے ہوئے ہمارے صحن میں آ جاتے تو میں نے کبھی جگنو کو کپڑے یا رومال میں پکڑنے کی کوشش دوسرے بچوں کی طرح نہیں کی جگنو تو اڑتے ہوئے ہی اچھے لگتے تھے۔ آزاد فضا میں آزاد اڑان (ہمدردی کا اشارہ جگنو) اور باجی مسدس اور جواب شکوہ کے بند پڑھتے ہوئے ضیق النفس پر غالب آجائیں۔ گہرے گہرے سانس لینے لگتیں۔ ادب کی Healing power یعنی مرہم صفتی اور مسیحائی کا یہ سبق باجی نے مجھے بچپن میں عملی طور پر دیا تھا۔ ادب کی مسیحائی پر میرا یقین آج بہت پختہ ہے، مگر سوچتا ہوں کہ باجی نہ ہوتیں تو مجھے یہ سبق کون دیتا اور اگر حالی اور اقبال نہ ہوتے تو یہ تجربہ باجی کی اور میری زندگی میں کیسے آتا؟ عمو جان (حضرت ثاقب کانپوری مدظلہ۔۔۔۔ اللہ انہیں سلامت رکھے) فجر کی نماز پڑھاتے ہوئے سورۂ رحمن کی تلاوت کرتے۔ عمو جان بہت خوش آواز نہیں ہیں مگر ان کی آواز ’’مستقیم‘‘ اور بلند آہنگ ہے۔۔۔۔ اس کا راستہ اور سفر بہت سیدھا ہے۔ دل سے دل تک ان کے دل سے یہ آواز ان کے ہونٹوں تک آتی ہے اور ہونٹوں سے سننے والے کے دل تک سفر کرتی ہے۔ عمو جان نماز پڑھا کر کمرے میں آتے (ہمارا مردان خانہ مسجد سے ملحق ہے) تو تھوڑی دیر کے لیے پلنگ پر لیٹ جاتے اور اقبال کے یہ شعر اپنے مخصوص ترنم میں چھیڑ دیتے (آواز اگر ساز معانی بن جائے تو چھیڑ دیتے کے علاوہ اور کیا لکھوں) نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا میں ہلاک جادوئے سامری، تو قتیل شیوۂ آذرہ میں نوائے سوختہ در گلو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بو میں حکایت غم آرزو، تو حدیث ماتم دلبری سے لے کر کرم اے شہ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنہیں دماغ سکندری تک عمو جان سے ہر دن سنتے سنتے یہ شعر مجھے یاد ہو گئے۔ آج میری ساڑھے تین سال کی بچی ثاقبہ کبھی شاعروں کی لے میں اور کبھی قوالی کی دھن میں اقبال کی وہ مشہور غزل الاپتی رہتی ہے۔ ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں ۔۔۔۔ اقبال کے بو تو بدل گئے ہیں مگر عمو جان اور اقبال ہم دونوں کے درمیان قدر مشترک ہیں۔ ثاقبہ عارفانہ انداز میں مسکرا کر کہتی ہے کہ:’’ اچھا تو دادا کا نام ثاقب میرے نام پر رکھا گیا ہے۔۔۔۔‘‘ اور میں سوچتا ہوں کہ جس طرح میں نے اقبال کے ساتھ ساتھ سفر کیا ہے کیا میری بیٹی بھی اس ہم سفری کی لذتوں اور سعادتوں سے بہرہ یاب ہو سکے گی؟ زندگی اور زمانے کے احوال و کوائف بہت بدل گئے ہیں۔ کل میرے باپ کی آواز میری رہنما تھی اور انہوں نے میرے ذوق اور شوق نغمہ کی انگلی پکڑ کر اسے اقبال کے حضور پہنچا دیا تھا، اور آج میں صبح سے رات تک مبتلائے معاش ہوں۔ ہم سب یاجوج ماجوج ہیں جو دن بھر اپنی زندگی کے زنداں کی دیواروں کو چاٹتے رہتے ہیں اور شام کو وہ دیواریں ویسی ہی ہوتی ہیں جیسی صبح کو تھیں۔۔۔۔ میری بچی کو میری آواز کی رہنمائی نہیں ملی۔۔۔۔۔۔ آج ’’ کرم اے شبہ عرب و عجم‘‘ کے نغموں کی جگہ فضا میں ’’ تن تن تارا تارا‘‘ کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ مگر اس محشر صوت و صدا میں نہ جانے کہاں سے اقبال کی آواز میری بچی کے کانوں تک آ گئی۔ ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کی املے گا نماز میں شاید اسے بھی ’’ شاعری جزو یست از پیغمبری‘‘ کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ میں تو اقبال کے سلسلہ میں یہی یقین رکھتا ہوں۔ ہاں تو ذکر تھا ’’ نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا۔۔۔۔۔‘‘ کا ان اشعار کی موسیقی نے پہلی بار مجھے شاعری کے گہرے تجربے سے روشناس کیا۔ یہ تجزیہ تو میں آج کر سکتا ہوں، اس وقت ان اشعار سے اسی طرح پیار تھا جیسے مور کے پروں سے جنہیں ہم لوگ اپنے قاعدۃ بغدادی کے اوراق کے درمیان رکھتے تھے۔ ایک رنگ دوسرے رنگ میں گم ہوتا ہوا، گھلتا ہوا، اپنی انفرادیت کو دوسرے رنگ سے ہم آغوش کر کے ایک Pahern کو جنم دیتا ہوا۔ اقبال کے ان اشعار کے الفاظ بھی ایسے ہی معلوم ہوتے۔۔۔۔ شاید یہی وہ تجربہ ہے جس نے مجھے ایک کار رائیگاں سے بچا لیا۔۔۔۔۔ اور وہ ہے یہ مسئلہ کہ اقبال بڑے شاعر تھے یا بڑے فلسفی۔۔۔۔ مجھے تو اقبال کی آواز اور الفاظ کے حسن نے اسی طرح اپنے دائرہ میں لے لیا تھا جیسے بچہ کو آغوش مادر نرمیوں کی نئی دنیا تک پہنچا دیتی ہے۔۔۔۔ یہ اشعار ظاہر ہے کہ سمجھ میں نہیں آ سکتے تھے۔ اشعار کا ’’ میں‘‘ تو میں خود ہی بن گیا تھا مگر ’’ تو‘‘ بدلتا رہا۔۔۔۔ کبھی کسی دوست کو ’’ تو‘‘ سمجھ لیتا، کبھی کسی ایسے ساتھی کو جس سے لڑائی ہو جاتی، اور کبھی کبھی اپنے مولوی صاحب کو جو مجھے اردو اور فارسی پڑھاتے تھے شاید ’’ حرم‘‘ اور دین کے الفاظ کی وجہ سے۔۔۔۔ ان اشعار میں صرف آخری شعر کچھ کچھ سمجھ میں آتا تھا۔ کرم اے شہ عرب و عجم اور یہ شعر کچھ یوں زندگی میں داخل ہوا کہ قرآن شریف کا آموختہ یاد نہ ہوتا اور باجی آ کر پوچھتیں آموختہ یاد ہو گیا، تو میں دھیرے سے یہ شعر دہراتا، اثبات میں گردن ہلاتا اور آموختہ پڑھنے لگتا، اور قرآن حکیم کے الفاظ ہونٹوں پر رواں ہو جاتے۔۔۔۔ آج سوچتا ہوں تو بلا تمثیل یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ حضرت اسماعیل کے ننھے منے پیروں کی ضرب سے زمزم اسی طرح جاری ہوا ہو گا۔ اسی طرح نماز میں سلام پھیرنے کے بعد درود شریف پڑھ کر شہ عرب و عجم کو آواز دیتا اور پھر دعا مانگتا کہ ’’ عموجان! ربڑ کا وہ زرافہ لا دیں جو سوا روپے کا ملتا ہے۔ اللہ میاں! وہ بڑا والا جس میں پھونک بھڑتے ہیں۔۔۔۔‘‘ اور آج چالیس اکتالیس سال بعد بچپن کی زندگی کے بہت سے نقش بھی مدھم ہو گئے یہ شعر ہر بحران میں خود بخود ہونٹوں کی سطح پر کشتی عافیت بن کر تیرنے لگتا ہے اور میرا وجود اس کشتی میں سمٹ کر اپنے آپ کو محفوظ بنا لیتا ہے۔ اقبال کے ان اشعار نے شاعری کے بارے میں میری فکر کو اس مرحلہ اور رخ تک پہنچا دیا ہے کہ شاعری کا حسن اس کے معانی سے الگ اپنا وجود رکھتا ہے(اس مرحلہ پر اس بحث کو آگے نہیں بڑھاؤں گا) ۲ بچپن کے بے شمار خوب صورت خوابوں اور جزیروں میں رہنے والے بچے بھی پانچ چھ سال کی عمر میں موت کی ماہیت سے متعارف ہو جاتے ہیں۔ شاید میں اپنی بات کہہ نہیں پاتا۔ مراد یہ ہے کہ موت اچانک ان کے وجود کی انگلی میں گلاب کے کانٹے کی طرح کی چبھ جاتی ہے۔۔۔ خاندان کا کوئی بزرگ اچانک ہمیشہ کے لئے غائب ہو گیا۔ یہ لوگ اسے کہاں لئے جا رہے ہیں۔ ہونٹوں پر یہ کلمہ طیبہ کیوں جاری ہے؟ میری راوی کی موت میرے لیے اس تجربے کا دیباچہ تھی۔ ایک چھوٹا سا کھٹولا تھا جس پر میں لیٹتا تھا۔ میرے پائنتیں اور دوائین پر کچھ جگہ خالی رہتی۔۔۔۔ دادی بی بی رات کو کسی وقت عبادت سے فارغ ہو کر آتیں اور ادوائین پر آ کر لیٹ جاتیں۔ صبح جب میں اٹھتا تو انہیں جانماز پر مصروف عبادت پاتا۔ سیدھا ان کی جانماز کی طرف بڑھتا۔ اس کا داہنا کونا ابھرا ابھرا سا نظر آتا۔ جانماز کا وہ کونا پلٹتا تو اس کے نیچے سے جلیبی، برفی یا کسی اور مٹھائی کا دو نامل جاتا۔۔۔۔ کبھی منہ دھو کر اور کبھی یونہی مٹھائی کھا لیتا۔ دادی بی بی نے خود تو کبھی کچھ نہ کہا، مگر میرا خیال یہ تھا کہ یہ مٹھائی اللہ میاں ان کی جانماز کے کونے میں میرے لیے رکھ دیتا ہے۔۔۔۔ اور ایک دن دادی بی بی چپ چاپ چلی گئیں۔ ۔۔۔۔ ان کی قبر ہماری مسجد کے چھوٹے سے قبرستان ہی میں ہے جہاں کوئی سات آٹھ قبریں ہیں۔ میں نے گرمیوں کی دوپہروں میں ان کی قبر کھود کر انہیں باہر نکالنے کی کوشش بھی کی۔ پھر جنون نے یہ شکل اختیارت کی کہ جو خوبصورت بوڑھی عورت ملتی اس سے کہتا کہ دادی بی بی کی جانماز کو سنبھال لے۔۔۔۔ ایسی مہربان بزرگ خاتون کہاں ملتی؟ اور اس ناکامی کے عالم میں یہ خیال آیا کہ دادی بی بی کی جگہ اگر کوئی لے سکتا ہے تو ڈاکٹر اقبال، وہ جب آ کر دادی بی بی کی جانماز پر نماز پڑھیں گے اور کہیں گے: ’’کرم اے شہ عرب و عجم‘‘ تو مٹھائی کا دونا فوراً آجائے گا۔ میں اپنے ان خیالات میں بھلا کسے شریک کرتا۔ عمو جان سے جو لوگ ملنے آتے تھے ان میں مولانا حامد حسن قادری، ڈاکٹر عندلیب شادانی، ڈاکٹر ذاکر حسین، جگر صاحب، جوش ملیح آبادی جیسے لوگ بھی شامل تھے۔ میں ان بزرگوں کی محفل میں بیٹھتا تو اقبال کا نام کسی نہ کسی طور پر ضرور آ جاتا۔۔۔ ایسی ہی ایک محفل میں ہمارے ایک بہت بڑے شاعر نے اقبال کی برائی کی۔۔۔۔ اور اس دن سے آج تک میں نے اس شاعر کو معاف نہیں کیا ہے۔۔۔۔ انہیں محفلوں میں کبھی کبھی اقبال کی بیماری کا تذکرہ ہوتا۔ ہاں ان محفلوں میں میرے استاد محمد سعید خاں صاحب رزمی ضرور شریک ہوتے تھے۔ وہ میرے اتالیق تھے اور آج میں جو کچھ ہوں اس کے لیے اپنے والد اور والدہ کے بعد انہیں کا احسان مند ہوں۔ ایک دن زنان خانے سے مردان خانے میں آیا تو سب لوگ خاموش اور ملول تھے۔۔۔ عمو جان تو زار و قطار رو رہے تھے اور ایک شعر پڑھ رہے تھے: قافلے میں غیر فریاد ذرا کچھ بھی نہیں اک متاع دیدۂ تر کے سوا کچھ بھی نہیں مولوی رزمی صاحب کا پورا جسم ہل رہا تھا۔ وہ بھی رو رہے تھے عمو جان کے رونے سے دل بے قرار ہو گیا، مگر مولوی صاحب کے رونے سے کچھ خوشی بھی ہوتی کیونکہ ایک دن پہلے انہوں نے میری ٹھکائی کی تھی۔ پھر اپنے کمینہ پن پر شرم آئی۔ میں مولوی صاحب ہی کے پاس بیٹھ گیا اور ان سے پوچھا:’’ کیا بات ہے؟‘‘ مولوی صاحب نے بتایاکہ ڈاکٹر اقبال کا انتقال ہو گیا۔۔۔۔ اور یہ سنتے ہی رونے والوں میں میں بھی شامل ہو گیا۔۔۔ میں اپنے آپ کو مجرم سمجھنے لگا۔ نہ جانے کیوں میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اگر میں نے دادی بی بی کی جانماز پر ڈاکٹر اقبال کو بٹھانے کے بارے میں نہ سوچا ہوتا تو ان کا انتقال نہ ہوتا۔ اقبال کے انتقال نے موت کے بارے میں میرے تجربہ میں ایک اور جہت (Dimension) پیدا کر دی۔ دادی بی بی تو میرے ساتھ سوتی تھیں ان کی جانماز کے کونے سے مجھے مٹھائی ملتی تھی۔ اقبال کو تو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا، تو میں ان کی موت پر کیوں رو رہا تھا؟ شاید غیر واضح طور پر مجھے اپنے سوال کا جواب اپنی ہی ذات سے مل گیا تھا۔ اقبال کی آواز تو میری دعا کا حصہ تھی اور دوسری طرف میری ماں کا علاج کرتی تھی۔ یوں کانپور سے بہت دور لاہور میں سفر آخرت پر روانہ ہونے والا آدمی ہمارے گھر انے کا فرد بھی تھا اور ہمارے ماحول کا ایک حصہ بھی۔۔۔۔ اور آج سوچتا ہوں تو یہ بات بھی ذہن میں ابھرتی ہے کہ اقبال کا یہ شعر ’’کرم اے شہ عرب و عجم‘‘ گویا حضور آیہ رحمت ہمارے لیے تعارف نامہ تھا۔ اور جب اقبال اس دنیا سے رخصت ہوئے تو میں نے اپنی زندگی کے چھ سال پورے کیے تھے اور ابھی اسکول میں میرا داخلہ نہیں ہوا تھا۔ ۳ ۱۹۴۰ء میں حلیم مسلم ہائی اسکول میں میرا داخلہ چھٹی جماعت میں ہوا۔ اسکول میں داخلہ لینے سے پہلے گھر پر مولوی سعید رزمی صاحب فارسی اور ابتدائی عربی کی تعلیم دے چکے تھے۔ فارسی سے طبیعت کو خاصی مناسبت تھی۔ سات آٹھ سال کی عمر میں بڑے سے بڑے مجمع میں بلا کسی تکلف کے فارسی میں تقریر کر سکتا تھا۔ اس کی شہادت کانپور کے بہت سے رہنے والے دیں گے اور استاذ مکرم پروفیسر اویس احمد ادیب میری کتاب ’’ ہمارے عہد کا ادب اور ادیب‘‘ کے تعارف میں یہ سب کچھ تحریر بھی کر چکے ہیں۔ اسکول میں داخلہ سے پہلے اردو کی ابتدائی کتابوں میں نہیں بلکہ بانگ درا میں بچوں کے لیے اقبال کی نظمیں ’’ ایک مکڑا اور مکھی‘‘ بچے کی دعا، ہمدردی وغیرہ پڑھ چکا تھا۔ مولوی سعید رزمی صاحب اکثر اقبال کی فارسی نظمیں اور غزلیں اپنے مخصوص ترنم میں پڑھا کرتے تھے دوپہر کے کھانے کے بعد بنیان اور تہبند میں ملبوس پلنگ پر لیٹے الاپ رہے ہیں: ناقہ سیار من آہوئے تاتار من تیز ترک گامزن، منزل ما دور نیست عجب بات یہ کہ عمو جان یہ نظم رات کو اپنے بستر پر لیٹ کر پڑھتے رہتے۔ آسمان پر محفل انجم آراستہ، اور عمو جان کے ہونٹوں پر حدی خوانی۔۔۔۔ میں آج بھی تاروں بھری رات ہی کو اس نظم سے لطف اندوز ہو سکتا ہوں او رپھر نہ جانے کیوں اقبال کی نظم کے بولوں میں سعدی کے بول بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ سارباں آہستہ راں۔۔۔ میں ’’ منزل ما‘‘ اور’’ آرام جانم‘‘ کے سفر کی اس وحدت سے لطف اندوز ہوتا ہوں، مگر اس وحدت کے راز کو اب تک نہیں پا سکا ہوں۔ بات کر رہا تھا ۱۹۴۰ء میں اسکول میں داخلے کی۔ آج جب میں اپنی بچیوں کو اسکول چھوڑنے جاتا ہوں تو وہ قطار میں لگ کر اپنے کمروں میں جانے سے پہلے ’’ بچے کی دعا‘‘ پڑھتی ہیں اور پھر پاکستان کا قومی ترانہ۔۔۔ آج بیشتر بچوں کی زندگی میں اقبال اپنی اور ان کی دعا کے ساتھ داخل ہوتے ہیں: لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری میرے بچپن میں اقبال اپنے ’’ ترانہ ملی‘‘ کے ساتھ مسلمان بچوں کی زندگی میں داخل ہوتے تھے۔ حلیم مسلم اسکول میں صبح کا آغاز تلاوت قرآن پاک اور ترانہ ملی سے ہوتا تھا۔ اس وقت جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں کتنے ہی میرے ذہن کی سطح پر ابھر رہے ہیں۔ یہ جمات ششم ب کی قطار ہے۔ مرتضیٰ، شفیع، سلیم، نسیم، ابو الخیر اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ قطار میں کھڑے ہیں اور خوش نوا ساتھیوں کی ٹولی ترانہ ملی پیش کر رہی ہے۔ چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا یہ سعادت ہر دن کسی نئی جماعت میں ملتی تھی، یوں ترانہ ملی میں فاعلانہ شرکت باری باری سے سب کے حصہ میں آ جاتی۔ اقبال اسکول میں داخلہ سے پہلے میری زندگی میں جس طرح شامل ہوئے اس کی کہانی اختصار سے آپ کے لیے پیش کر چکا ہوں۔ اسکول میں اقبال کی شاعری کی ایک اور سمت واضح طور پر سامنے آئی۔ وہ سمت جو اجتماعی میل جول کے بغیر ابھر نہیں سکتی۔ ہم جب ترانہ ملی پڑھتے تو یوں محسوس ہوتا کہ ہمارے جذبات کا اظہار اقبال نے کیا ہے اور اقبال ایک شاعر نہیں بلکہ ہماری زبان ہے۔ جب آدمی کسی کا اظہار بن جائے تو اس سے بڑھ کر قرب کی اور کون سی منزل ہو سکتی ہے۔ ۱۹۴۰ء میں مسلمانان برصغیر نے پاکستان کو اپنی منزل قرار دیا۔۔۔۔ شہر اقبال لاہور میں جو قرار داد منظور کی گئی اسے اپنوں سے زیادہ غیروں نے پاکستان کا نام دے دیا۔۔۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چودھری رحمت علی مسلمانوں کے خوابوں کے اس دیس کو یہ نام دے چکے تھے۔۔۔۔ اور مسلمان انیسویں صدی کے آخر ہی سے برعظیم میں الگ مملکت کے قیام کی تجاویز پیش کر رہے تھے۔ یوپی نے پاکستان کے مطالبے کو دوسرے صوبوں سے پہلے اور زیاد ہ شدت کے ساتھ اپنا لیا۔ کانپور میں مسلم لیگ کا ہر جلسہ اقبال کے ترانہ ملی سے شروع ہوتا۔ ہم لوگ طالب علموں کے جلوس نکالتے۔ ’’ بٹ کے رہے گا ہندوستان۔۔۔۔ بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کے نعرے ہونٹوں پر سجائے جب ہندو علاقوں سے گزرتے تو ساتھیوں کی کوئی ٹولی ترانہ ملی شروع کر دیتی۔ خاص طور پر یہ دو شعر: تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا ہمارا ایک ساتھی سلیمان یہ شعر جلسوں اور جلوسوں میں بڑے والہانہ انداز میں پڑھتا تھا۔۔۔۔ اس کی آواز کا جلال۔۔۔۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے بپھری ہوئی موجیں لال قلعہ کی فصیل سے ٹکرا رہی ہیں۔۔۔۔ سلیمان کا تعلق پنجاب کے کسی شہر سے تھا، غالباً چنیوٹ سے۔۔۔۔ مجھے اس بات کے نہ معلوم ہونے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے، کیونکہ ہم فرزند زمین نہیں تھے، فرزند اسلام تھے۔ ’’ ترانہ ملی‘‘ کے ذکر سے ایک اور کردار ذہن میں ابھر رہا ہے۔۔۔ ’’ عرب صاحب‘‘ ۔۔۔۔ آج ان کا نام بھی یاد نہیں اور اس پر ضرور شرمندگی ہے۔ بہرحال ہم انہیں عرب صاحب ہی کہتے تھے۔ وہ معلم کے طور پر کانپور آتے اور ہر سال حاجیوں کو اپنے ساتھ حج کرانے لے جاتے۔ ان کا قیام ہمارے مردان خانے ہی میں تھا۔ کھپریل کے نیچے وہ گرمیوں کی دوپہروں میں، جب ہمارے بڑے کمروں میں محو خواب ہوتے، ہمیں قہوہ پلاتے۔ جب پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو عرب صاحب نے پیشہ معلمی کو خدا حافظ کہا اور خود بخود مسلم لیگ کے کارکن بن گئے۔ وہ حدی خوانی کے لہجہ میں کبھی سڑک پر، کبھی کسی دکان کے سامنے، کبھی مسجد میں ترانہ ملی چھیڑ دیتے۔ چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا اور عرب صاحب کی زبان سے یہ بولی سن کر ان کی صداقت پر ایمان پختہ تر ہو جاتا اور عرب ان اشعار کا رشتہ ’’ انما المومنون اخوۃ‘‘ سے جوڑتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیشتر سرکاری اسکولوں اور ہندو مسلمانوں کے مشترک اسکولوں اور بہت سے ہندو اسکولوں میں اقبال کا ترانہ ہندی پڑھا جاتا تھا۔ کانگریس کے جلسوں میں بھی یہ ترانہ سنا جاتا۔ ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا ہمارے استادوں نے خاص طور پر عظیم الحق جنیدی صاحب، پروفیسر اویس احمد ادیب صاحب اور پروفیسر نواب علی قریشی مرحوم نے اسکول کے اس زمانے ہی میں ہمیں یہ نکتہ بتا دیا کہ یہ اقبال کا فکری تضاد نہیں بلکہ ان کا ذہنی ارتقاء ہے۔ آٹھویں جماعت کے طالب علم اس حقیقت سے باخبر تھے کہ اقبال نے تنگنائے قومیت سے آگے بڑھ کر نوع انساں قوم ہے میری، وطن میرا جہاں کے نصب العین کو اپنا لیا۔ اس نصب العین کو عمل کے قالب میں ڈھالنے کے لیے انہوں نے مسلمانوں کو ان کی روایات اور تعلیمات کی بنا پر منتخب کیا۔۔۔۔ مسلمان ان کے پیغام کے ’’مخاطب اول‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں۔۔۔ اور آج میں اپنے طالب علموں سے یہی کہتا ہوں کہ اقبال کا انتخاب جذباتی نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ اور منطقی ہے۔ انہوں نے اس قوم کو چنا جو انسانیت کی تمیز و تفریق کی قابل نہیں، آزادی کی ترجمان اور مساوات کی نقیب ہے۔۔۔۔ بد قسمتی سے یہ بات ابھی تک اقبال کے نکتہ چینوں کی سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کو ’’ امتہ وسطاً‘‘ قرار دیا ہے۔ اس کے معانی درمیانی راستے پر چلنے والی امت کے نہیں ہیں بلکہ اس کا مفہوم ہے ’’ ایسی قوم جو دنیا کی ہر قوم سے یکساں فاصلے پر ہو ‘‘ (Eqi. Distant nation) دیکھنے کی بات یہ بھی تو ہے کہ اقبال نے اس قوم کو پیغام کیا دیا ہے؟۔۔۔ انہوں نے ’’ معمار حرم‘‘ کو’’ تعمیر حرم‘‘ کا پیغام نہیں دیا ہے بلکہ معمار حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز یہ وہ قوم ہے کہ رسول جس پر شاہد ہیں اور جو خود عالم انسانیت پر شاہد ہے۔ گزشتہ سال ہندوستان میں اقبال کے بارے میں ایک سمپوزیم ہوا جس میں کسی غیر مسلم عالم نے ترانہ ہندی کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ترانہ ہندی ایک اجتماعی لے کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور انفرادی Note کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔۔۔۔۔ میں نے وہ مقالہ خود نہیں پڑھا ہے اس کے بارے میں یہ نکتہ ڈاکٹر محمد حسن صاحب نے سنایا تھا۔ ترانہ ہندی کے بارے میں ان خطوط پر گفتگو اور بڑھائی جا سکتی ہے۔ ترانہ ہندی ۱۹۰۵ء سے پہلے لکھا گیا جب مسلم لیگ قائم نہیں ہوئی تھی اور مسلم قوم ایک دوراہے پر کھڑی تھی۔ ایک طرف وہ اپنا تشخص برقرار رکھنا چاہتی تھی اور دوسری طرف وہ ملکی سیاست کے دھارے میں برادران وطن کے ساتھ شرکت چاہتی تھی تاکہ کھوئی ہوئی آزادی دوبارہ حاصل ہو سکے۔ اپنی انفرادیت سے محروم قوم کو اس کے تشخص کی طرف متوجہ کرنا سرسید احمد خاں کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ اقبال کو سرسید احمد خان اعظم سے جو گہری عقیدت تھی اس کا اندازہ اس تاریخ سے پوری طرح ہو سکتا ہے جو انہوں نے سرسید کے انتقال پر قرآن حکیم سے نکالی تھی: انی متوفیک ورافعک الی و مطھرک (آل عمران: آیت۵۵) اقبال اور سر راس مسعود کی ذاتی دوستی اور شخصی تعلقات کے پس منظر میں بھی یہ عقیدت نظر آتی ہے۔ سرسید کے کارناموں میں سے ایک کارنامہ وہ بھی ہے جس کا کسی نے ذکر نہیں کیا۔۔۔۔ وہ ہے سید صاحب کا اقبال کے خواب میں آ کر ان سے یہ کہنا کہ اپنی تکلیف حضور نبی کریم ؐ کی خدمت میں پیش کرو۔۔۔۔۔ یہ ۳ اپریل ۱۹۳۶ ء کی بات ہے۔ ابن رسول ؐ کے اشارہ پر اقبال نے رسول ؐ کی شان میں جو اشعار پیش کیے انہیں میں مسنون درود و صلوٰۃ کے بعد اپنا وظیفہ قرار دیتا ہوں۔ اے توؐ ما بیچارگاں را ساز و برگ وار ہاں ایں قوم را از ترس مرگ در جہان ذکر و فکر انس و جاں تو صلوٰت صبح، تو بانگ اذاں اے مقام و منزل ہر راہرو جذب تو اندر دل ہر راہرو بات ہو رہی تھی مسلم قوم کے تشخص، انفرادیت اور اس ہیئت اجتماعیہ کی جس کی خاطر انیسویں صدی کے نصف آخر میں علی گڑھ تحریک نے جنم دیا۔۔۔۔ اقبال اسی تحریک کا حصہ اور اسی تحریک کے فیصلہ کن مرحلہ کے ذہنی راہنما ہیں۔۔۔۔ ان کے ترانہ ہندی میں بھی مسلم قومیت کی لہر، محض موج زیر آب نہیں ہے بلکہ سطح پر اس کا ارتعاش محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اے آب رود گنگا! وہ دن ہے یاد تجھ کو؟ اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا اور ترانہ ہندی کے آخری شعر میں صرف انفرادی لے نہیں ہے بلکہ تنہائی کا شدید احساس ہے اور یہ صرف ایک فرد کا احساس تنہائی نہیں بلکہ ایک قوم کا احساس تنہائی ہے۔ اقبال کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں معلوم کیا کسی کو درد نہاں ہمارا میں ایک زندہ نامیاتی وجود کی طرح اپنے ٹکڑے نہیں کر سکتا۔۔۔۔ آج جب میں گزرے ہوئے کل کو یاد کر رہا ہوں۔ تو آج بار بار مجھے تنگ کر رہا ہے کیونکہ یہ ’’ آج‘‘ وقت تناظر ہی نہیں مقام تناظر بھی ہے۔ چلیے ایک بار آپ سے پھر معذرت کر لوں۔ ذکر تھا غیر مسلم اسکولوں میں اقبال کے ترانہ ہندی کا، اور مسلم اسکولوں، جلسوں، جلوسوں میں اقبال کے ترانہ ملی کا۔۔۔۔ لیجئے پھر سال اور ماضی قریب کی بات آ گئی۔۔۔۔ اپنے قومی ترانہ کا احترام سر آنکھوں پر ’’پاک سر زمین شاد باد‘‘ یہ بول میرے قومی تشخص کا ایک حصہ ہیں، لیکن جب پاکستان کے قومی ترانہ کی بحث چل رہی تھی تو میں انجمن ترقی اردو پاکستان کے ترجمانی قومی زبان کا مدیر تھا اور بابائے اردو کے ارشاد کے مطابق میں نے ایک اداریہ میں یہ خیال پیش کیا تھا کہ اقبال کے ترانہ ملی کو پاکستان کا قومی ترانہ ہونا چاہیے کیونکہ آزادی کی جدوجہد میں یہی ترانہ حدی کے مرادف تھا جس کے سہارے کاروان آگے بڑھتا رہا۔ شاید: ’’چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا‘‘ اس مصرع کی وجہ سے اسے قومی ترانہ بنایا گیا۔ سوال حکومت پاکستان کی سخن فہمی کا نہ تھا۔ بلکہ اندیشہ یہ تھا کہ کہیں بعض حلقے اور خاص طور پر ہمارا پڑوسی ملک اسے توسیع پسندی کے ثبوت کے طور پر نہ پیش کرے۔۔۔۔۔ یوں آفاقیت پر سیاست کے ہاتھوں ایسی تہمت کس سے اٹھتی، کس طرح اٹھتی۔ اقبال کے ترانہ ملی کے علاوہ ان کی نظم ’’ وطنیت‘‘ مسلم لیگ کے تقریباً ہر جلسہ میں پڑھی جاتی یا مقرر اس نظم کے اشعار اپنی تقریروں میں پیش کرتے۔ یہ صورت حال ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۷ء تک رہی۔ بالخصوص ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں تو اقبال جیسے ہر جگہ اور ہر جلسہ میں ہمارے ساتھ شریک تھے۔ میں اکثر سوچتا کیسا زندہ ہے وہ آدمی جو مر کر یوں زندہ ہے اور پھر وہ آدمی اپنی زندگی کا راز خود ہی بتا دیتا۔ ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے ٭٭٭ فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے پاکستان کا تصور ’’ قومیت اسلام‘‘ سے عبارت تھا، اور علمائے دیو بند نے قومیت کا پیوند وطن کے ساتھ لگایا۔ ان حضرات نے اس پر غور نہیں کیا کہ ’’ وطن‘‘ ایک سیاسی نظریہ بن چکا تھا اور محض حب وطن تک محدود نہ تھا۔۔۔۔ پھر وطنیت اپنی تنگی کی بناء پر اسلام کی ضد تھی۔ اس مسئلہ پر اقبال اور مولانا حسین احمد مدنی مرحوم کی باہمی بحث سے تو ہم سب واقف ہی ہیں اور پھر اقبال کے وہ مشہور شعر: سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است حقیقت وہ تھی جو اقبال بیان کر رہے تھے اور جسے مسلم قوم نے قائد اعظم کی قیادت میں اپنی منزل قرار دے لیا تھا، اور علمائے عصر کی ایک جماعت اصطلاحی مباحث میں مبتلا تھی۔ اقبال نے ۱۹۰۸ء کے بعد ہی اپنی نظم ’’ وطنیت‘‘ میں اس مسئلہ کو جس طرح پیش کر دیا تھا وہ ۱۹۴۰ء میں اور آج بھی حرف تازہ کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ اس دلیل کی بنیاد اسلام کی وہ آفاقیت ہے جو وقت پر خندہ زن ہے۔ ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے ٭٭٭ گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے اور کسی دوسری نظم کا یہ معروف شعر: اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ پاکستان کی اس تحریک کے دوران میں نے ۱۹۴۵ء میں ہائی اسکول پاس کیا۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن اس سے پہلے قائم ہو گئی تھی۔ اسے مسلم لیگ کا بازوئے شمشیر زن کہنا درست ہو گا۔ اس فیڈریشن کی تاسیس و قیام میں ملت اسلامیہ کے وہ فرزند شریک تھے جنہیں اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی تھی، جن کا شباب بے داغ اور ضرب کاری تھی۔ کانپور میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے حقیقی بانی اور روح و رواں سید مظفر حسن کاظمی مرحوم تھے۔۔۔۔ میں ان کے چھوٹے بھائی کی طرح تھا۔ حسنین کاظمی اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کم عمر کارکنوں میں بہت نمایاں تھے اور تقریر کے سلسلہ میں عمر کی قید اور تفریق سے قطع نظر فیڈریشن کے جلسوں کے لیے ہماری موجودگی ضروری سمجھی جاتی۔۔۔۔ ہم دونوں اپنی تقریروں کو اقبال کے اشعار سے سجاتے اور پر مایہ بناتے، بلکہ اقبال کے اشعار ہمارے قول کی اساس اور تاثیر ٹھہرتے۔۔۔۔۔ اقبال کے سلسلہ میں اس زمانے میں یہ خیال میرے ذہن میں آیا کہ وہ شاعر تو تھے ہی، مگر وہ تو جیسے بانسری ہیں اور ان کی شاعری آواز دوست ہے۔ وہ دوست ؐ جو چودہ سو سال پہلے زندگی کا عیار تھا اور آج بھی زندگی کا عیار ہے۔۔۔ اسی کی نسبت سے زندگی کو استحکام اور اعتبار حاصل ہوتا ہے۔ ۱۹۴۶ء میں باجی بہت شدید بیمار تھیں۔۔۔ ایک شام ان کی حالت نازک تھی اور دوسری طرف ایک جلسہ میں مجھے تقریر کرنی تھی۔ حسنین نے کہا بھی کہ تم گھر پر ٹھہرو۔ میں جلسہ کو سنبھال لوں گا۔۔۔۔ مگر باجی میرے کرب کو دیکھ رہی تھیں۔ کون جانے کہ یہ کرب ان کا اپنا تھا۔ انہوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں جلسہ میں ضرور جاؤں۔ میں سپرد ڈال دی اور جلسہ میں جا کر تقریر کی۔۔۔ اس شام میری تقریر اقبال کے ان دو شعروں کی تفسیر تھی: شعلہ بن کے پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو خوف باطل کیا ہے کہ ہے غارت گر باطل بھی تو بے خبر! تو جوہر آئینہ ایام ہے تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے خاشاک غیر اللہ اور باطل۔۔۔۔۔ انگریزی سامراج اور ہندو سرمایہ دار کے اشارے ہیں اور مسلمان ایک طرف تاریخ کا جوہر اور اس کی بصیرت ہے تو دوسری طرف خود آئینہ ہے جس میں گردش ایام اپنے خدو خال کو دیکھتی ہے۔۔۔۔ اور اگر جوہر آئینہ دھندلا جائے تو کوئی اپنے یا دوسروں کے عکس کو کیسے دیکھے گا۔ مسلمان کی زندگی اگر ایمان کی معراج بن جائے تو وہ خدا کا پیغام بر نہیں رہتا بلکہ خود پیغام بن کر جاوداں ہو جاتا ہے محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اسی حقیقت کا اظہار مکمل ہے وہ ذات جو قرآن ناطق تھی۔۔۔۔ یہی ذات اقدس اس نکتہ تک ہمیں پہنچاتی ہے کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآں جب میں جلسہ سے واپس آیا تو باجی اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو چکی تھیں۔۔۔۔ ان کی آنکھیں بند تھیں لیکن ان کے ہونٹوں پر آسودگی جاگ رہی تھی۔۔۔۔ یہ مرحلہ بہت سخت تھا۔ جب بیٹے کے جذبات نے اسے ملامت کرنی شروع کی کہ آخر قومی مفادات کے ساتھ ذاتی تقاضے بھی ہیں تو باجی نے آہستہ سے کانوں میں کہا:’’ لعل میاں! بری بات ہے۔ مسلمان یوں نہیں سوچتا‘‘ ۔۔۔۔ اور جب باجی کی موت کے بارے میں سوچنے لگا تو اقبال کی آواز نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے اسی لمحے سے اقبال کی آواز اور اس کا لہجہ میرے لئے ’’ مرشد کامل‘‘ ہے۔ ہر آواز جو میرے زخموں کے لیے مرہم بنتی ہے اقبال کی آواز کے حوالے سے میں اسے دیکھتا اورسنتا ہوں۔ قرآن حکیم، اسوۂ حسنہ نبویؐ اور صحابہ کرام کی سیرت کے ساتھ ساتھ اس آواز نے میرے راستوں کو اجالا ہے۔۔۔۔۔ یہ آواز اکثر قرآنی حقائق اور حیات طیبہ کی روشنی کو مجھ پر منکشف کرتی رہی ہے۔ ۱۹۴۰ء میں مئی کی ایک صبح میں نے اپنی ماں کی قبر پر ہار سنگھار کے وہ پھول نچھار کئے جن سے کبھی وی اپنا روپ رنگا کرتی تھیں۔ پھر میں نے اپنے سوئے ہوئے بھائی بہنوں کے ماتھوں پر بوسہ دیا، اپنے بوڑھے سوئے ہوئے باپ کا ہاتھ تھام کر انہیں خدا حافظ کہا اور اپنے آزاد وطن کا رخ کیا۔ اس صبح ان شعروں میں سے کوئی شعر یاد نہیں آ رہا تھا جن کا رشتہ نقل وطن سے اتنا قوی ہے کہ آپ کے ذہن میں وہ شعر آ گئے ہوں گے۔ ہم نے جب وادی غربت میں قدم رکھا تھا دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو (وحید کڑوی) بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے (حفیظ جونپوری) میں اس صبح احساس غریب الوطنی میں مبتلا نہیں تھا بلکہ اس سے نجات پا رہا تھا۔ میں تو اپنے ’’وطن‘‘ میں غریب الوطن تھا اور ایسی سر زمین میرے لیے ارض موعودہ کا درجہ رکھتی تھی جس کو دیکھے بغیر میں جس کے ذرہ ذرہ سے جنم جنم سے آشنا تھا۔ میرا یہ عمل میرے ارادہ کے تابع تھا۔۔۔۔ کوئی مجھ سے لمحہ لمحہ یہی کہہ رہا تھا: ہے ترک وطن سنت محبوب الٰہیؐ دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی میں جذبات سے بیگانہ نہیں تھا۔ اس گواہی کی خاطر میں رشتہ و پیوند سے اپنا دامن چھڑا رہا تھا۔ میں اپنے آپ سے کہہ رہا تھا: یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند بتان وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ میرے پرکھوں کی قبریں، میرے گلی گوچے، میرا آشنا آشنا آسمان، میری زمین کی خوشبو، مردان خانے میں بچھا ہوا میرا پلنگ، زنان خانے کے دروازے کی وہ کنڈی جسے بجا کر ہمیں اندر بلایا جاتا تھا۔۔۔۔۔یہ اور ان جیسی بہت سی چیزیں میرا روک رہی تھیں (میں نے جان کر اپنے باپ اور بھائی بہنوں کا ذکر نہیں کیا ہے) لیکن سنت محبوب الٰہی کے اتباع کی خواہش اور اقبال کی آواز اور ان سب پر غالب آ گئی۔ اب میں لہجوں کو اسی لہجہ کے حوالہ سے پہچانتا اور دریافت کرتا ہوں۔۔۔۔ اقبال کے ساتھ ہمارے شاعروں کا رشتہ خاصا قوی ہے۔ اقبال پر نظمیں لکھی گئی ہیں۔ اقبال نے فکری طور پر ہمارے شاعروں کو بہت متاثر بھی کیا ہے لیکن یہ عجب بات ہے کہ ایک طرف اقبال کے بیشتر نقادوں کا تعلق اس کے ساتھ ضابطہ کا تعلق ہے (Formal) اور دوسری طرف اقبال ہمارے شاعروں کے لیے ایک علامت نہیں بن سکا ہے۔ مجاز کی شاعری ان کی زندگی کا آئینہ ہے۔ مگر اس آئینے میں ان کی ذات کے علاوہ دوسری تعمیری قوتیں نظر آتی ہیں اور علامت بن جاتی ہیں اقبال ان میں سے ایک ہے۔ 1؎ مجاز لوگوں کو اپنا مقطع سناتے اور پھر معانی پوچھتے۔۔۔۔ مجاز کو حسرت ہی رہی کہ کوئی تو اس شعر کو سمجھنے والا ملتا: کھل گئی تھی صاف گردوں کی حقیقت اے مجاز خیریت گزری کہ شاہیں زیر رام آ ہی گیا مجاز نے یہ شعر اقبال کی وفات پر لکھا تھا اور یوں اقبال کی محبوب اصطلاح کو مجاز نے ان کی ذات کے لیے ایک علامت بنا دیا۔ شاعری میرا ذریعہ اظہار نہیں ہے۔ لیکن جب زندگی نے مجھ سے شعر کہلوائے تو اقبال ایک علامت کے طور پر میری شاعری میں اپنی ہزار اداؤں کے ساتھ در آیا۔۔۔۔۔۔ جیسا میں نے عرض کیا کہ اب میں لہجوں کو اسی لہجہ کے حوالے سے دریافت کرتا ہوں جسے اقبال کہتے ہیں۔۔۔۔ بات صرف ’’ لہجہ‘‘ تک محدود نہیں بلکہ اشیاء اور افراد تک پھیلی ہوئی ہے۔۔۔۔ میں نے اپنے آدھے وجود کو دفن کرنے کے بعد جب اس کا تذکرہ کیا تو اقبال اشارہ بن کر تذکرہ میں شامل ہو گئے۔ اقبال کی نظموں کی طرح صاحب تمکیں اور دشت جنوں خیز کے امکاں کی طرح تھی اور جب مجھے اپنا آدھا وجود اس تیرہ خاکداں میں پھر مل گیا تو میں نے پہلے اسے لہجہ کے طور پر دریافت کیا تھا۔ پھر فرد کے طور پر اس کی معرفت حاصل کی: وسعت میں، محبت میں، لطافت میں، نمی میں اقبال کی آواز ترے دل کی طرح ہے غم کیسے چھپاتے ہیں، بتاید ہے کسی نے لہجہ کا سکوں ’’مرشد کامل‘‘ کی طرح ہے ۴ ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۷ء تک کی جو باتیں میں نے لکھی ہیں وہ ہماری زندگی کا صرف ایک رخ ہیں۔ مسلم لیگ اور تحریک پاکستان ہر پہلو پہ حاوی تھیں۔ لیکن ادب ہمارا رومان تھا ہم اپنی خالی شامیں اور راتیں ادب کے مطالعے میں گزارتے۔ فیض راشد اختر الامان 1؎ انیس کے لئے ملاحظہ ہو اس کے جنوں کی داستاں (یہ مضمون مجاز ایک آہنگ میں شامل ہے) نظم میں منٹو، کرشن چندر، عصمت اور بیدی افسانہ میں ہمارے لئے نئے نام نہ تھے۔۔۔۔ حسرت، اصغر، فانی، جگر، یگانہ اور فراق کے اشعار ہمیں نئی دنیا میں لے جاتے جہاں ہم اپنے آپ کو اور اپنے دل میں چھپی ہوئی آوازوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے۔۔۔ فراق کی فضا بندی ہمیں اپنی گرفت میں لے لیتی، خاص طور پر ان شاموں میں جو ہم حلیم مسلم کالج کے لان میں گزارتے اور جب سبزہ زار پر بیٹھ کر ہم افق پر اندھیرے اجالے کی ہم آغوشی کا سماں دیکھتے۔۔۔۔ میں نے اس دور کی ادبی فضا کو اپنے مضمون ’’ فیض، نقش فریادی، وقت، میں اور ہم‘‘ (مطبوعہ افکار فیض نمبر) میں تفصیل سے گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے، اس لیے یہاں اتنے ہی اشارے کو کافی سمجھتا ہوں۔ اقبال قومی زندگی کے معرکوں ہی میں ہمارے لئے بانگ درا نہ تھے بلکہ ادب کے ذریعہ اپنی ذات کی دریافت کے عمل میں بھی ہمارے رفیق تھے۔۔۔۔ اقبال کی شاعری کا کچھ حصہ ہم خاصی حد تک سمجھنے لگے تھے اور کچھ حصہ ایسا تھا جس کو پوری طرح نہ سمجھنے کے باوجود یہ بات قطعیت کے ساتھ کہہ سکتے تھے کہ یہ سب کچھ اردو شاعری کے لیے اقبال کی دین اور عطیہ ہے، بالخصوص بال جبریل کی غزلیں اور نظمیں (مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، ساقی نامہ) اقبال صرف ہماری جلوت اور قومی اسٹیج کا شاعر نہ تھا، وہ حلقہ یاراں اور ہماری خلوتوں کا شاعر بھی تھا۔۔۔۔ ایسا شاعر جس کی شاعری، حقیقی زندگی کی مکیوں کی تلافی کرتی ہے اور خود ایک دنیا بن جاتی ہے۔۔۔۔ ایسی پہلی نظم جو ایک صنعتی شہر میں رہنے والے نو عمر لڑکے کی زندگی کا خواب اور ضمیمہ بن گئی۔ ’’ ایک آرزو‘‘ تھی۔۔۔۔۔ دو آبے کا شہر کانپور جسے ہندوستان کا مانچسٹر کہا جاتا تھا۔ ۔۔۔۔ کارخانے اتنے تھے کہ گرمیوں کی راتوں کو ہم سفید چادریں بستر پر بچھاتے صبح ان پر کوئلے کے ذرے یا سیاہی نظر آتی۔۔۔۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہم اپنے نانہال فتح پور میں گزارتے تھے۔ وہاں گلیاں خاک آلود تھیں اور بجلی اس وقت تک نہیں آئی تھی۔ ۔۔۔۔ کانپور جیسے روشن شہر میں رہنے والے لڑکے کو فتح پور کی راتوں میں اندھیرے سے ڈر لگتا۔ کم سے کم لفظوں میں یوں کہہ لوں کہ فتح پور بھی کانپور کی تلافی یا ضمیمہ نہ تھا۔ کوئی پہاڑی مقام اس وقت تک نہیں دیکھا تھا مگر پہاڑوں کی تصویریں عمو جان کی کتابوں میں بڑے شوق سے دیکھتا تھا۔ کبھی کبھی وہ نینی تال اور مسوری کی باتیں کرتے۔ بتاتے کہ وہاں تو بادل کبھی کبھار کمروں میں گھس کر برس جاتے ہیں۔۔۔۔۔ ’’ ایک آرزو‘‘ میں شاید دامن کوہ نے دامن دل کو تھام لیا۔۔۔۔۔۔۔ملوں کی آواز کی جگہ چشمے کے باجے کی آواز خود ہی تخلیق کر لیتا۔ پھر سوچتا کہ کوئی اکیلے کہاں تک اور کب تک رہ سکتا ہے؟۔۔۔۔ اس کا جواب نظم میں موجود تھا: راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو آج بھی اس نظم میں خلوت گزینی کی خواہش اور معاشرہ سے ربط کی آرزو کا امتزاج مجھے بہت Haunt کرتا ہے۔ ہر درد مند دل کو، رونا مرا رلا دے اور میں سمجھتا ہوں کہ دامن کوہ میں جھونپڑے میں رہنے کی یہ آرزو، معاشرے سے بھاگنے کی آرزو نہیں بلکہ اپنے آپ کو پا لینے کی آرزو ہے۔ یہ ایک محلہ اور طریق کار ( process) ہے یہی ’’ رونا‘‘ اگے چل کر دعائے نیم شبی اور گریہ سحر گاہی کے قالب میں ڈھل گیا اور شاعر کی اپنی ذات وہ آئینہ بن گیا جس میں معاشرہ اپنے آپ کو دیکھنے لگے۔ اقبال کی نظموں نے مجھے فطرت کو نئے انداز سے دیکھنے کی تربیت دی ہے۔ میں نے اپنی نظر سے فطر ت کو دیکھنے سے پہلے اقبال کی نظروں سے دیکھا ہے۔ فطرت کی ’’ تجسیم‘‘ کے حسن کے خزانے کے دروازے کو کلام اقبال کے ’’ سم سم‘‘ نے میرے لیے وا کر دیا۔ سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو ملشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے تجسیم کے ساتھ ساتھ اقبال کے ہاں مناظر فطرت میں بھی ڈرامائی عنصر ملتا ہے۔ ڈرامائی عنصر کی وجہ ہر جگہ انسان کی موجودگی ہے اقبال نے آگے چل کر مصور (خاص طور پر مشرقی مصور) سے کہا تھا: فطرت کو دکھایا بھی ہے دیکھا بھی ہے تو نے آئینہ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی مجھے آئینہ فطرت میں انسان کا عکس بہت پسند تھا۔ ’’ انسان اور بزم قدرت‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔۔۔۔ اسی طرح ’’ چاند‘‘ میں چاند اور انسان کا مقابلہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ پھر چاند پر آدمی کی فوقیت۔۔۔ یقین کیجئے کہ میں نے چاندنی راتوں میں اس زمانے میں اکثر چاند سے مخاطب ہو کر اقبال کا یہ شعر پڑھا ہے: جو مری ہستی کا مقصد ہے مجھے معلوم ہے یہ چمک وہ ہے جبیں جس سے تری محروم ہے اپنی ذات کی سطح پر اقبال کی شاعری کی دریافت اور لذتوں کی حکایت کا ابھی آغاز ہوا ہے اور مناسب یہی ہے کہ اس داستان کو سمیٹ لوں ورنہ محمد طفیل صاحب بھی اس بحر بیکراں کے لئے نقوش کو سفینہ نہ بنا سکیں گے۔ آخر میں ایک آدھ بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ اقبال کی نظموں سے تنظیم کی اہمیت اور ماہیت کا پتہ چلا کلیم الدین احمد نے اسی زمانے میں اردو نظموں پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ آپ ان نظموں سے بیچ بیچ میں شعر حذف کرتے جائیے ان کی معنویت میں فرق نہ آئے گا۔ اقبال کی نظموں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ طویل نظموں کا بیچ اقبال نے جدید اردو شاعری کی زمین میں بویا ہے۔ ان نظموں سے یہ حقیقت بھی سامنے آ جاتی ہے کہ ریاضی کا یہ اصول بڑے ادب اور شاعری کے جسم پر چھوٹے لباس کی طرح ہے کہ ’’ کل اپنے اجزاء کے برابر ہوتا ہے‘‘ ۔۔۔۔۔ یہاں تو کل اپنے اجزا سے بڑا ہوتا ہے۔ مسجد قرطبہ کی ترتیب ایک اہم جزو ہے پہلے سلسلہ روز و شب کی داستاں اور پھر جیسے کائنات میں ہر چیز ٹھہر گئی، اور ہر طرف خامشی چھا گئی اور صرف ایک آواز سنائی دے رہی ہے۔ اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا (مسجد قرطبہ کا یہ بند کم تر درجہ کے شاعر کی نہایت اعلیٰ نظم بھی ہو سکتا ہے) اور پھر اس ’’ صوقی سناٹے‘‘ کے بطن سے زندگی اور وجود کی یہ آواز ابھرتی ہے: ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام پھر مرد خدا کا عمل مسجد قرطبہ بن جاتا ہے یا مسجد قرطبہ مرد خدا کا عمل بن جاتی ہے اور نظم ہی ایک تخلیقی مرحلہ سے دوسرے مرحلے کی طر ف بڑھتی ہے۔ ہر مرحلہ، تخلیق کائنات کے مرحلوں کی یاد دلاتا ہے۔۔۔ پھر اس نظم کے مصرعوں میں لفظ یوں پیوست ہو گئے ہیں جیسے کسی عمارت میں سنگ و خشت جمائے جائیں۔۔۔۔ ہر مصرع میں چھ سات لفظ۔۔۔۔۔ پھر ہر مصرع اپنازوج اپنے دامن میں رکھتا ہے۔۔۔ ان سب اجزاء کا تجزیہ جتنا چاہیے کر لیجئے۔ مسجد قرطبہ ان سب کے مجموعہ سے بڑی ہے۔ اس جز کو اپنی گرفت میں کون لے گا جسے آپ چاہیں تو تنظیم کہہ لیں اور چاہیں تو اقبال کہہ لیں۔ اب میں اپنی یادوں کے جال کو سمیٹ رہا ہوں۔ اقبال نے فکری طور پر مجھے جو کچھ دیا ہے اس کی کہانی پر کبھی پیش کروں گا۔ صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اقبال کے طفیل میں نے اپنے فکر کے ایوان کے دریچے کبھی بند نہیں کئے۔ اقبال کا شعر ہے: چاہیے خانہ دل کی کوئی منزل خالی شاید آ جائے کہیں سے کوئی مہمان عزیز اقبال کے ہاں رل کی اصطلاح فکر کا بھی احاطہ کر لیتی ہے۔ قرآن حکیم اور حدیث نبویؐ کے اتباع میں اقبال بھی دل کو مرکز احساسات کے ساتھ ساتھ مرکز فکر بھی جانتے ہیں۔ یہ تو دانش نورانی کا سرچشمہ ہے۔ دل کی آنکھوں کے وا ہونے کا تصور تو اوروں کے ہاں بھی ملتا ہے۔ مگر اقبال تو اسے زندگی کے مترادف سمجھتے ہیں۔۔۔۔ بات ہو رہی تھی خانہ دل کے مہمان عزیز کی۔۔۔۔ میں ہر نئے اور خوب صورت خیال کو مہمان عزیز جانتا ہوں اور اسے خانہ دل کی خالی منزل میں ٹھہرا دیتا ہوں، اور سپر خانہ دل میں توسیع ہوتی رہتی ہے اور نئی منزلیں بڑھتی جاتی ہیں۔۔۔۔ یوں خانہ دل میں کلمہ طیبہ کی شجرۂ صفتی ہے۔۔۔۔ نئی شاخیں۔۔۔۔ نئی فضائیں۔۔۔۔۔ نئی بلندیاں۔ ٭٭٭ (۴) مداح و ممدوح نیٹشے، رومی و اقبال عبدالماجد دریا بادی نیٹشے کی ڈالی ہوئی گرہوں کے سلجھانے پر آئیے، تو بات شیطان کی آنت بن کر رہے جتنی سلجھائیے اتنی اور الجھتی جائے۔ خلاصہ در خلاصہ دو لفظ یہ سن لیجئے کہ جرمنی کے یہ فلسفی صاحب خالق اور مخلوق دونوں سے کچھ روٹے ہوئے پہلے ہی سے تھے۔ شوپن ہائر کی پڑھائی نے اور مردم بیزار کر دیا اور ڈارون صاحب کے نظریہ ارتقاء نے اس کڑوے کریلے کو نیم چڑھا کر چھوڑا۔ مذہب کے جکڑ بند سے بیزاری اور خیال و عقیدہ کی آزادی پہلے ہی سے تھی اب بالکل بے قید ہو کر دعوے یہ کر دئیے کہ مذہب خصوصاً مسیحی مذہب کی قائم کی ہوئی روحانی و اخلاقی قدریں نری ایک ڈھکوسلا ۔ یہ انکسار یہ فروتنی، یہ علم یہ قناعت، یہ توکل یہ صبر، یہ سب بچوں کے بہلانے کے کھلونے ہیں ان میں نہ حقیقت نہ مغز، انہیں اختیار کر کے جیتے جی مر رہنا ہے اور اب چاہے کوئی فرد و شخص ہو یا جماعت امت اگر اسے عزت و آبرو، لطف و آسائش کے ساتھ زندگی کے دن پورے کرنا ہیں تو عقیدہ و عمل کی ان خوش خیالیوں کو آگ لگائیے، حشر و نشر، جنت و دوزخ کے چکر میں نہ پڑئیے۔ گردن اٹھا کر سینہ تان کر چلئے، اپنے کو ’’ ذرۂ بے مقدار‘‘ نہ کہئے نہ سمجھئے۔ آپ حاکم خود مختار ہیں۔ اپنا نصب العین، حکومت، حاکمیت، غلبہ، تسلط و اقتدار کو بنائیے۔ بالا دستی کو اپنا شعار رکھئے جو کمزور راہ میں حائل نظر آئے اسے کچل دیجئے، اوروں کو گرائیے اپنے کو بڑھائیے۔ رحم و خدا ترسی کے نام پر اپنا دل نہ پگھلائیے۔ حالات کا مقابلہ کلہ بر کلہ کیجئے، اسے روندئیے، اسے پئیے، خدا ودا کے وہم میں نہ پڑئیے۔ انسان خاک نژاد میں رکھا گیا ہے۔ جنی آتش زاد بن کر کچھ دکھائیے۔ بشریت کا دور گزر گیا۔ اب زمانہ فوق البشر بن کر ٹھسے سے رہنے کا ہے۔ نیٹشے کی اس تعلیم کا اثر وقت کی سیاست پر جو پڑ کر رہا اور ملک پر جو نشہ پندار تفوق کا اس سے سوار ہوا۔ اس کا درد ہولناک، خون بار تماشا دوست دشمن سب نے جرمنی کی دونوں جنگوں میں دیکھ لیا۔ اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۸ء ہے۔ ان کی جب اعلیٰ تعلیم کا وقت آیا تو نیٹشے کی شہرت کا آفتاب چمکا ہوا تھا۔ لاہور، انگلستان، جرمنی سب کہیں کی تعلیم میں نیٹشے کی شخصیت اثر انداز رہی جہاں تک نیٹشے کے پر شکوہ الفاظ اور رعب افگن اصطلاحات کا تعلق ہے اقبال کا دامن نیٹشائی جاہ و جلال سے خاصا متاثر رہا۔ ’’ شاہین‘‘ شاہین زادہ ’’ عقاب‘‘ کی تلمیحیں کلام اقبال میں بار بار ملتی ہیں۔ یہ سب اسی سر پھرے فلسفی ہی کا فیض ہے اور مخالف طریقوں کو گو سفندی سے تعبیر کرنا یہ بھی اس کی اپچ کی تقلید ہے۔ لیکن بس اقبال کی خوشہ چینی اس جرمن حکیم سے اسی حد پر ختم ہو جاتی ہے۔ اس لئے جن ناقدوں نے بعض ظاہری الفاظ اور سطحی مشابہت سے دھوکا کھا کر اقبال کو نیٹشے کا طفیلی کسی معنی میں بھی قرار دیا ہے۔ انہوں نے اقبال پر بھی ظلم کیا ہے اور خود اپنے ذوق سلیم پر بھی۔ اقبال کی نظر آفاقی تھی۔ ان کے اصول اخلاق میں کائنات کی گہرائی روحانیت کی ہم وسعتی تھی، وہ بھلا مادی حد بندیوں کے اندر کیسے محصور رہ سکتے تھے۔ ان کے ہاں بلا کا توازن تھا۔ نیٹشے کو جیسا انہوں نے پہچانا ہے، کم ہی کسی نے پہچانا ہو گا۔ وہ اس کی گرمی گفتار کے قائل ہیں۔ اسے مانتے ہیں کہ اس نے مغرب کی مصنوعی تہذیب و تمدن پر اپنی شمشیر قلم سے خوب خوب چرکے لگائے ہیں۔ حرف او بیباک و افکارش عظیم غریباں از تیغ گفتارش دونیم لیکن اس کے باوجود اس کا مرتبہ وہ ایک مجذوب اور وہ بھی مجذوب فرنگ سے آگے نہیں بڑھاتے۔ وائے مجذوبے کہ زاد اندر فرنگ! اپنے فارسی کلام میں ذکر اس کا بار بار لائے ہیں۔ لیکن یہ کہاں تک ذکر خیر ہے اس کا اندازہ بس اس ایک مصرع سے لگا لیجئے۔ قلب او مومن دماغش کافرست اسی کو کہتے ہیں دریا کو کوزہ میں بند کرنا اور پوری نظم کا جو ہر ایک مصرعہ میں سمو دینا۔ متن کی شرح بھی خود ہی ایک حاشیہ میں یہ کر دی ہے کہ ’’ اس کا دماغ اس واسطے کافر ہے کہ وہ خدا کا منکر ہے گو بعض اخلاقی نتائج اسلام کے بہت قریب ہیں۔‘‘ اقبال مسلک گو سفندی سے بے شک بیزار ہیں اور اس کی ہجو کھل کر اپنی مثنوی اسرار خودی میں کی ہے۔ لیکن اس سے مراد ان کی صرف بعض فرقوں اور مذہبوں کی اس تعلیم سے ہے جو انسان کو ناکارہ بنا دیتی ہے اور بجائے سخت کوشی، جدوجہد اور ہمت عمل کے اسے پیام مجہولیت کا دیتی رہتی ہے۔ اس مسلک کو انہوں نے منسوب یونان کے حکیم افلاطون سے کیا ہے اور ان کی تشخیص ہے کہ مسلمان صوفیوں، شاعروں و اعظوں کے ایک گروہ نے یہ سبق وہیں سے لیا ہے، اور ا س کی مصوری انہوں نے یوں کی ہے کہ ایک جنگل میں بھیڑ بکریاں رہا کرتی تھیں اور مزے سے خوب اپنے گھاس چرا کرتیں کہ اتفاق سے شیروں کا بھی اس صحرا میں گزر ہو گیا اور قدرۃً انہوں نے اپنی شیری دکھائی اور بھیڑ بکریوں کی ہڈیاں چبانی شروع کر دیں۔ ان کا صفایا ہونے لگا اور ان کے سارے قبیلے میں کھلبلی مچ گئی۔ اتنا دم ان میں کہاں تھا کہ شیر سے مقابلہ کو کھلے بندوں سوچ بھی سکیں۔ آخر ان میں سے ایک بوڑھی بکری بڑی کائیاں نکلی اس نے بڑے سوچ بچار سے کام لے کر یہ بات دماغ سے اتاری کہ گوسفندی میں شیری پیدا کرنا تو دائرہ امکان سے باہر ہے۔ البتہ مسلسل وعظ و تلقین کے بعد شیر کو بھیڑ بنایا جا سکتا ہے اور جن کو شیشہ میں اتارا جا سکتا ہے اپنے کو بگلا بھگت بنا خوب پرچار اپنی درویشی اور بے آزادی کا کیا۔ یہاں تک کہ خود شیر بھی اس کے حلقہ عقیدت میں آ آ کر بیٹھنے لگا۔ اب اس نے اپنے وعظ کی باگ یوں موڑی۔ اے کہ می نازی بہ ذبح گو سفند ذبح کن خود را کہ باشی ارجمند دوسروں کو مارنے اور ان کی جان لینے میں کیا رکھا ہے، اپنے کو مار کر رکھو اور سعادت کے بام عروج پر پہنچو۔ شیر خود ہی اپنی سخت کوشی سے تھک چکا تھا اور ہر وقت کی دوڑ دھوپ سے عاجز آ چکا تھا۔ افسوں کارگر ہو گیا اور اس نے بھی گھاس کھانا شروع کر دی۔ از علف آں تیزی، دنداں نماند ہیبت چشم شرر افشاں نماند شیر بیدار از فسون میش خفت انحطاط خویش را تہذیب گفت شیر اس دام میں آ گیا، شیری چھوڑ بکری بن گیا۔ گھاس کھا کھا کر نہ دانتوں کی وہ کاٹ رہی، نہ چیڑ پھاڑ اور نہ پنجوں میں وہ کس بل۔ انسان اسی طرح دنیا کی آرائشوں اور آلائشوں میں مبتلا اور یہاں کی وقتی لذتوں پر فریفتہ ہوا۔ اپنا منصب انسانیت بھلا بیٹھا اور لذتی مشغلوں کو مقصود زندگی بنا اپنے لئے ایک نظام زندگی، تکلف، تصنع، تعیش سے بھرا ہوا گھڑ لیا اور اپنا دل سمجھانے یا اپنے نفس کو فریب دینے کو اس مجموعہ کا نام تہذیب و تمدن رکھ لیا۔ اقبال کی تلقین ہے کہ انسان تو دنیا میں اپنے خالق کا نائب بن کر آیا ہے۔ اس کا کام تکوینی و تشریعی ہر حیثیت سے اس کی نیابت کرنا ہے اور علم اور عشق دونوں کی راہ سے اس کی معرفت حاصل کرنا ہے اور اس کے قانون کو نافذ کرنا ہے۔ نیٹشے کے فوق البشر سے دور، اور بہت دور، اقبال کا مطمح نظر ایسا مرد کامل ہے جو جسمانی، دماغی، اخلاقی، روحانی اعلیٰ قوتوں سے مسلح ہوا اور اپاہج، کام چور، بد ہمت نہ ہو۔ صاحب عزم و عزیمت ہو اور اپنے فرائض کی ادائی میں چاق و بیدار، مستعدد متحرک ہو۔ خود دکھ اٹھائے دوسروں کو سکھ پہنچائے۔ خود بھوکا رہے دوسروں کو کھلائے۔ خواہشوں کا غلام نہ ہو، ان پر حاکم ہو۔ اقبال اپنے بعض فلسفیانہ مقالوں میں جدھر بھی چلے گئے ہوں لیکن ان کے ضخیم دفتر شاعری میں ایسے مرد کامل کے لیے مذہب کی زبان میں اصطلاح مرد مومن کی ہے۔ فارسی میں اسی کو انہوں نے۔ اسے سوار اشہب دوراں بیا کہہ کر پکارا اور بلایا ہے اور اردو میں تو بار بار جان و دل اس کے صدقے گئے ہیں۔ نمونہ کے طور پر صرف ایک مقام ملاحظہ ہو۔ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان ہمسایہ جبریل امین بندۂ خاکی ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان فطرت کے سرود ازلی اس کے شب و روز آہنگ میں یکتا صفت سورۂ رحمان اقبال نے طلب علم میں استفادہ اپنے انگلستان اور جرمنی کے بھی استادوں سے نہیں مشرق اور ہندوستان کے بھی خدا معلوم کن کن زندہ و مرحوم بزرگوں، عالموں، فاضلوں، شاعروں سے کیا (اور کون نہیں کرتا) چنانچہ بہتوں کے نام صراحت کے ساتھ ان کی نظم و نثر دونوں میں مل جاتے ہیں۔ لیکن اصل اور پختہ عقیدت انہیں ان ساری باکمال ہستیوں میں صرف ایک شخصیت سے رہی ہے اس کو وہ اپنا مرشد روشن ضمیر مانتے ہیں۔ انہیں کی روحانیت کا سہارا ہے کہ وہ فرش خاک سے اڑ کر عالم بالا تک پہنچتے ہیں اور انہیں کا دامن پکڑ کے آسمان کی سیر کر ڈالتے ہیں۔ ہر سوال کا جواب انہیں سے پاتے ہیں اور ہر گرہ انہیں کے ناخن حکمت و معرفت سے کھلواتے ہیں۔ا ن کے مناقب جہاں کہیں لکھے ہیں منقبت نگاری کا حق ادا کر گئے ہیں اور نظر ایسا آتا ہے کہ محبت و عقیدت کے جذبات کے دہارے بے اختیار سینے سے ابلے پڑتے ہیں۔ ایک جگہ یہ انداز ہے پیر رومی مرشد روشن ضمیر کاروان عشق و مستی را امیر اور دوسری جگہ کا اندازاس سے والہانہ طلعتش رخشندہ مثل آفتاب شیب او فرخندہ چوں عہد شباب فکر اور وشن ز نور سرمدی در سراپا یش سرور سرمدی برلب او بر پنہان وجود بندہائے حرف و صورت از خود کشود اس طرح جہاں جہاں بھی ذکر لاتے ہیں۔ اگر انہیں سب اکٹھا کر دیا جائے تو عجب نہیں کہ خود ایک مقالہ تیارہو جائے اور لیجئے خود لاہوتی نے نواز، اس آسمانی بانسری والے کے نغمے اگر زیر و بم کے ساتھ چھڑ گئے تو رات تمام ہو جائے اور وہ لذیذ حکایت ختم ہونے ہی میں نہ آئے! ٭٭٭ گرامی اور اقبال محمد عبداللہ قریشی ’’ گرامی جہانگیری بہار کا آخری پھول ہے جو ذرا دیر کے بعد شاخ سے پھوٹا افسوس! آج خان خاناں نہ ہوئے کہ ان کو معلوم ہوتا خاک پنجاب شیراز اور نیشا پور سے کسی طرح کم نہیں۔‘‘ 1؎ مندرجہ بالا الفاظ علامہ اقبال نے اپنے ۹ فرور ی ۱۹۲۲ء کے مکتوب میں اس شخصیت کے بارے میں کہے تھے، جو ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی (۱۸۵۷ئ) سے چند سال قبل پنج شنبہ کو چار بجے صبح جالندھر میں کتم عدم سے عالم وجود میں آئی۔ تزک محبوبیہ2؎ کے مصنف نے نام عبدالقادر اور وطن بلگرام لکھا ہے مگر یہ دونوں باتیں درست نہیں۔ گرامی اپنے نام اور تخلص کے بارے میں خود کہتے ہیں: غلام قادرم فرخندہ نامم گرامی غوث الاعظمؒ را غلامم جالندھر میں پیدا ہونے کی سند بھی ان کے کلام سے مل جاتی ہے: نظم دل کش بخواں بہ طرز دگر مولدتست شہر جالندھر ذرہ اش بر ستارہ چشمک ریز خاک جالندھر است مردم خیز مولانا گرامی کے والد کا نام شیخ سکندر بخش تھا۔ جنہیں لوگ کندا کندا کہتے تھے۔ وہ ککے زئی برادری سے تعلق رکھتے اور نیل کی رنگائی کا کام کرتے تھے۔ عام رواج کے مطابق گرامی کو محلے کی مسجد میں قرآن مجید پڑھا کر خلیفہ ابراہیم کے مکتب میں داخل کیا گیا جو بستی دانشمنداں (جالندھر)میں واقع تھا۔ وہاں فارسی کی متد اول درسی کتابیں گلستاں، بوستاں اور سکندر نامہ وغیرہ پڑھیں۔ خلیفہ 1؎مکاتیب اقبال بنام گرامی ص ۱۹۵ 2؎ تزک محبوبیہ از غلام صمدانی خاں گوہر، جلد دوم، ص ۱۴۷ ابراہیم ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ انہوں نے شعر و شاعری کی طرف گرامی کا فطری شوق دیکھ کر ابتداء ہی میں انتہا کا اندازہ لگا لیا تھا۔ گرامی کا اپنا بیان ہے: ’’ خلیفہ ابراہیم از اولیاء اللہ و اہل راز بودہ و گرامی را کہ ہشت سال بیشتر عمر نداشت بہ لقب ’’ ملک الشعرائ‘‘ خطاب کردہ مثل ایں کہ در ہماں ابتداء کار انتہائے مقام گرامی را مشاہدہ می کرد۔‘‘ 3؎ تحصیل علم کا مزید شوق گرامی کو کشاں کشاں لاہور لے آیا۔ چودہ سال کی عمر میں اورینٹل کالج لاہور میں داخل ہو کر فارسی کے امتحانات منشی عالم اور منشی فاضل پاس کئے۔ پھر وکالت کا امتحان دیا اور اس میں بھی کامیابی حاصل کی۔ مگر وکالت کو پیشہ نہیں بنایا۔ تعلیم سے فارغ ہو کر گرامی نے معلمی کا مشغلہ اختیار کیا۔ کچھ عرصہ امرتسر کے ایم اے او ہائی سکول میں فارسی پڑھائی۔ پھر کپور تھلہ اور لدھیانہ کے مدرسوں میں ملازمت کی۔ لدھیانہ میں وار برٹن صاحب سپرنٹنڈنٹ بھی ان سے فارسی بول چال سیکھتے رہے انہوں نے گرامی کو پولیس میں سارجنٹ بھرتی کرا دیا۔ لیکن گرامی جلد ہی اس سے پیچھا چھڑا کر قسمت آزمائی کے لئے کبھی لاہور، کبھی رام پور اور کبھی مالیر کوٹلہ پھرتے پھراتے رہے۔ لاہور میں چار سال آپ نواب فتح علی خاں قزلباش کے اتالیق رہے۔ اب آپ کے دل میں حیدر آباد دکن جانے کا خیال پیدا ہوا۔ آپ نے میجر سید حسن بلگرامی کو وسیلہ بنا کر ان کے بڑے بھائی نواب عماد الملک سید حسین بلگرامی تک رسائی حاصل کی۔ موصوف حضور نظام کے اتالیق تھے اور علماء و ادبا کی سرپرستی کے لئے بہت مشہور تھے، مولوی سید احمد دہلوی فرہنگ آصفیہ والے، مولانا شبلی نعمانی، مولوی عبدالحلیم شرر، نواب میرزا داغ دہلوی اور مولانا ظفر علی خاں وغیرہ سب انہی کے ذریعے وہاں پہنچے تھے، میجر سید حسن بلگرامی نے سفارشی خط لکھنے سے پہلے مولوی محمد حسین آزاد سے بلگرامی کے بارے میں رائے دریافت کی، مولانا آزاد نے یکم ستمبر ۱۸۸۸ء کو اپنے مکتوب میں میجر سید حسن بلگرامی کو لکھا: ’’ گرامی کو میں خوب جانتا ہوں۔ یونیورسٹی پنجاب میں پڑھتا رہا ہے۔ وہاں سے نکل کر بھی کئی سال مجھ سے ملتا رہا۔ بارہ برس کا مسلسل مشاق ہے اور جس رنگ میں وہ لکھتا ہے اس میں آج اول درجے کا شاعر ہے۔ اس کی طبیعت خیال بند ہے۔ جلال اسیر، قاسم مشہدی، ظہوری وغیرہ ہند میں اسی طرز میں کہتے تھے افسوس کہ سخندان فارس مشتہر نہیں ہوا جو میرے اس مختصر فقرے کا مفصل مزا آ جاتا۔ 4؎‘‘ بہرحال جیسے ہی گرامی حیدر آباد پہنچے وہاں بظاہر ان کے اعزاز میں لیکن در پردہ امتحان کے لئے ایک مشاعرہ ترتیب دیا گیا۔ جس میں دیگر شعراء کے ساتھ گرامی نے بھی ایک قصیدہ پڑھا۔ قصیدہ پسند کیا گیا اور گرامی کو سید غلام حسنین قدر بلگرامی مرحوم کی جگہ شاعر بہ خاص مقرر کر دیا گیا۔ چند سال بعد ’’ ملک الشعرائ‘‘ کا خطاب بھی عطا کیا گیا۔ ’’ گرامی بہ حضور آید‘‘ (۱۳۰۷ھ) اسی موقع پر انہوں نے 3؎ ماہنامہ، کراچی دسمبر ۱۹۵۸ء ص ۲۹، 4؎ مکتوبات آزاد مطبوعہ گیلانی پریس لاہور (۱۹۲۷ئ) ص ۳۶ تاریخ کہی تھی مولانا گرامی صحیح معنی میں ’’ شاعر خاص‘‘ تھے۔ بلکہ فنانی الشعر ہونے کے معاملے میں تو اپنے پیش رو قدر بلگرامی سے بھی بہت بڑھے ہوئے تھے۔ ان کو قدر کی نسبت اپنے جوہر دکھانے کے بھی زیادہ مواقع ملے۔ گرامی ۹۰۔ ۱۸۸۹ء سے ۱۷۔ ۱۹۱۶ء تک حیدر آباد میں رہے5؎ اور خوب ٹھاٹھ سے رہے۔ انہوں نے وہیں کی طرز بود و ماند اختیار کر لی تھی۔ حیدر آبادی وضع کی شیروانی اور آڑا پاجامہ پہنتے، سر پر ململ کی دس گز لمبی عنابی یا پیازی رنگ کی دستار باندھتے، بھری بھری ڈاڑھی پر حنا لگاتے اور درمیان سے مانگ نکالتے تھے۔ گرامی نے میر محبوب علی خاں اور میر عثمان علی خاں دونوں کا زمانہ دیکھا اور ہر عہد میں محبوب و مقبول رہے۔ کئی دفعہ انعام و اکرام بھی حاصل کئے۔ ایک دفعہ گرامی نے نہایت زور دار غزل پڑھی، جس کے چند شعر یہ ہیں: آن پری گر از چمن گرم عتاب آید بروں بلبل از گل، گل زبو، بو از گلاب آید بروں یار گر آید بروں ناخوردہ مے از میکدہ مست از مستی و مستی از شراب آید بروں گنج ہا، بے رنج ہا ناید بدست اے بو الہوس نافہ خوں ہا می خورد تا مشکناب آید بروں تو بچشمم آمدی من گریہ سر کردم، بلے آفتاب آید بہ چشم از دیدہ آب آید بروں اے گرمی در جواب صائب آتش بیاں اینک از کلکم جواب لا جواب آید بروں نظام دکن نے گرامی کی قادر الکلامی اور بلند پروازی سے خوش ہو کر دو سیر پختہ سونا سرکاری خزانے سے انعام دیے جانے کا حکم صادر فرمایا۔ ایک دفعہ نظام نے سر دربار گرامی کو اپنا کلام سنانے کا حکم دیا، مولانا نے سات شعر سنا کر تسلیمات پیش کیں۔ دربار کا دستو ریہی تھا کہ سات شعر سنا کر ہٹ جاؤ۔ اگر حضور مزید فرمائش کریں تو اور سناؤ ورنہ نہیں۔ نظام نے کہا’’ اور سناؤ‘‘ گرامی نے سات شعر اور سنائے اور تسلیم کی حکم ہوا’’ اور سناؤ‘‘ اس پر مولانا نے ایک لمبا قصیدہ پڑھ کر ختم کیا حضور نے پھر یہی فرمایا کہ اور سناؤ اس پر مولانا نے بے ساختہ پنجابی میں کہا: ’’ چھڈ یار ہن میں تھک گیاں‘‘ 5؎ پہلے بازار عیسیٰ میاں میں اور پھر رام کوٹ ریذیڈنسی میں باوجود اس منصب و اعزاز کے ان کا ہاتھ جیسے کھلنا چاہیے تھا، ویسے نہ کھلا، وہی تنگی ترشی رہی کیوں کہ جو کچھ انہیں ملتا تھا وہ وضع داری نبھانے میں صرف ہو جاتا تھا۔ ایک قصیدے میں فرماتے ہیں۔ شاعر خاص شہنشاہم و لیکن مفلسم انہ حرف غریب انہ شئی عجاب ایک قطعہ میں اپنی تنگ دستی کی شکایت یوں کرتے ہیں: اے شہنشاہ آفتاب ضمیر چہ دہم شرح بے پروبا لی طبع من پست شد چوہمت من از تہی دستی دکہن سالی چہ ترا دو ز فکر من کہ مرا کیسہ و کاسہ ہر دو شد حالی شاعر شاہم و چنیں مفلس نقل ہر محفلم ز نقالی ہر کجاویدہ ام فلک زدہ را کار او شاعری و زمالی باگرامی دو کم دو صد بہ ہند قدر را بودہ چار صد عالی گرامی کی شادی ہوشیار پور کے شیخ قمر الدین کی دختر نوراں بھری سے ہوئی جو بعد میں اقبال بیگم ترک کہلائی۔ شادی کے بعد گرامی نے جالندھر چھوڑ کر ہوشیار پورہی کو مستقر بنا لیا۔ خود کہا کرتے تھے کہ لوگ تو جورو بیاہ کر لاتے ہیں، گرامی کو جورو بیاہ لے گئی۔ گرامی کو اقبال بیگم سے محبت ہی نہیں عشق تھا مگر اس سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ حسرت سے فرمایا کرتے تھے کہ ’’ نخل بے ثمر ہوں۔‘‘ ایک مثنوی بھی ’’ نالہ گرامی در حسرت جوانی‘‘ کے عنوان سے لکھی جو دیوان گرامی میں موجود ہے۔ گرامی دکن سے ذیابیطس کا مرض لے کر پنجاب آئے اور آخر دم تک ہوشیار پور میں رہے۔ وہیں آپ نے ایک شاندار حویلی تعمیر کرائی جس کی پیشانی پر یہ سجع کندہ تھا: ’’سر جلوۂ اقبال گرامی منزل‘‘ گرامی کی موجودگی سے فائدہ اٹھا کر ہوشیار پور کے چند پڑھے لکھے بامذاق نوجوانوں نے ’’بزم گرامی‘‘ کے نام سے ایک مجلس قائم کی جس کی سرپرستی میں مشاعرے ہوتے تھے اور گرامی بھی اپنا کلام سناتے تھے۔ آخر ۲۶ مئی کی رات گزر کر ۲۷ مئی ۱۹۲۷ء کو بروز پنج شنبہ تین بجے صبح داعی اجل کو لبیک کہا اور ہوشیار پور کے قبرستان کندن شاہ بخاری میں دفن کئے گئے۔ یہ قبرستان شہر کے متصل اس سڑک پر واقع ہے جہاں سے آٹھ میل آگے کوہ شوالک میں بمقام سیلزن حضرت شاہ نور جمالؒ کا مزار ہے، جو حضرت شیخ فرید الدین گنج شکرؒ کے خلیفہ مجاز تھے۔ مولانا کے شاگرد رشید اور جانشین مولوی عزیز الدین عظامی نے تاریخ کہی: صبوحی برکف آمد ساتی موت بامیدے گرامی در پذیرد گرامی بے خود افتاد و عظامی بگغتا غالب پنجاب میرو ۱۳۴۵ھ اور بھی کئی شاعروں نے تاریخیں کہیں اور مرثیے لکھے مگر علامہ اقبال نے اپنے رنج و غم اور دلی جذبات کا اظہار مندرجہ ذیل اشعار میں کیا: آہ! مولانا گرامی از جہاں بر بست رخت آنکہ زد فکر بلندش آسماں را پشت پای معنی مستور او در لفظ زیگنش نگر مثل حوری بے حجاب اندر بہشت دلکشای از نو ای جاں فزای او عجم را زندگی جام جمشید از شراب ناب او گیتی نمای یاد ایامے کہ با او گفتگو ہا داشتیم اے خوشا حرفے کہ گوید آشنا با آشناہی بر مزارش پست تر کن پردہ ہای ساز را تا نہ گردد و خواب او آشفتہ از شور نوای مولانا گرامی سے علامہ اقبال کی پہلی ملاقات کب اور کیونکر ہوئی؟ اس کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ اجلاس میں باہم شناسائی ہوئی۔ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کے نام علامہ اقبال کے ۱۹۰۳ء کے ایک خط میں مولانا گرامی کا ذکر پہلی بار اس طرح آیا ہے: ’’ مولانا گرامی میرے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں۔ پوچھتے ہیں کس کو خط لکھ رہے ہو؟ میں کہتا ہوں حبیب کو تو آپ فرماتے ہیں میرا بھی سلام لکھ دو۔ آخر شعر ہیں نا!‘‘ اس کے بعد خود مولانا گرامی کے نام اقبال کا ایک خط ۱۱ مارچ ۱۹۱۰ء کا لکھا ہوا ملتا، جو یوں بے تکلفی کا اظہار کرتا ہے: ’’ بابا گرامی! سلام۔ خط لکھے ہوئے کئی دن گزر گئے۔ حیدری صاحب کے متعلق استفسار کیا تھا۔ جواب ندارد۔ دو خطوں کے جواب آپ کے ذمے ہیں۔ آپ کس عالم غفلت میں قیام پذیر یا تشریف فرمائیں۔ جواب لکھئے اور جلد۔ اشعار کے متعلق جو کچھ میں نے پوچھا ہے، اس کا جواب دیجئے۔۔۔۔ آپ رخصت پر کب آتے ہیں؟ پنجاب میں کئی لوگ چشم براہ ہیں اور بالخصوص اقبال۔‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی طبیعت اور مذاق سے اچھی طرح واقف ہو چکے تھے۔ یوں تو گرامی دکن سے کئی بار پنجاب آئے اور اقبال سے ملے لیکن مارچ ۱۹۱۰ء میں جب اقبال حیدر آباد گئے تو یہ ربط ضبط اور بھی بڑھ گیا۔ ہوشیار پور میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے بعد تو جب بھی لاہور آتے، اقبال کے سوا کسی اور کے ہاں قیام نہ کرتے۔ فرمایا کرتے تھے کہ: ’’ اقبال کے جذبہ محبت ہی نے گرامی کو حیدر آباد سے کھینچا ہے۔ ورنہ بہشت سے نکل کر دوزخ میں کون آتا؟‘‘ اقبال کا خادم علی بخش6؎ بھی ہوشیار پور ہی کا رہنے والا تھا۔ اقبال کبھی کبھی اسے بھیج کر گرامی کو لاہور بلا لیتے اور دنوں نہیں بلکہ ہفتوں با صرار اپنے ہاں مہمان ٹھہراتے، ان کی ناز برداریاں کرتے، ان کے آرام و آسائش کا ہر طرح خیال رکھتے، وقت بے وقت جس چیز کی گرامی کو طلب ہوتی، مہیا کرتے۔ شب و روز ان سے علمی گفتگو ہوتی، اشعا رکی باریکیوں پر بحث کی جاتی، اقبال ان کا کلام سن کر محظوظ ہوتے۔اپنا کلام سنا کر ان کی نکتہ آفرینیوں سے فائدہ اٹھاتے، بعض اوقات شعری الجھنیں پیش کر کے اشکال کے حل میں ان سے رہنمائی حاصل کرتے۔ یہ سلسلہ آخر دم تک قائم رہا۔ انہی صحبتوں کو یاد کر کے اقبال کہتے ہیں: یاد ایامے کہ با او گفتگو ہا داشتیم اے خوشا حرفے کہ گوید آشنا با آشنای بقول مولانا غلام رسول مہر ’’ خود گرامی نے اقبال کی فکری معجز نمائیوں سے مسحور ہو کر مذاکرات (اور مشوروں) کا حق ایسے انداز میں ادا کیا گویا خود اپنی بقائے شہرت کو بھی انہی مذاکرات پو موقف ومبنی قرار دے لیا۔ گرامی فطرۃً کاہل اور حرکت سے بدرجہ غایت نفور تھے۔ جہاں بیٹھ جاتے وہاں سے ان کے لئے اٹھنا تو خیر خارج از بحث ہی تھا ہی انہیں اٹھانا بھی بہت مشکل تھا تاہم ماحول میں خفیف سی بھی ناسازگاری محسوس کرتے تو چند لمحے بھی وہاں گزارنے ان کے لئے ہزاروں مشقتوں کے مقابلے میں زیادہ ناخوشگوار ہو جاتے۔ بہ ایں ہمہ جب وہ اقبال کے پاس پہنچ جاتے تو انہیں اٹھانے کے لئے عزیزوں کو بھی عجیب و غریب تدابیریں اختیار کرنی پڑتیں۔ حضرت اقبال کی زبان مبارک سے مولانا گرامی کے جو واقعات بار ہا سنے انہیں بیان کیا جائے تو ایک کتاب تیار ہو جائے۔ 7؎‘‘ ایک مرتبہ مولانا گرامی کو حضرت اقبال کے پاس آئے ہوئے خاصا عرصہ گذر گیا۔ یہاں تک کہ بلانے کی غرض سے بیگم گرامی کو اپنی شدید علالت کا تار دینا پڑا۔ تار کا مضمون سن کر مولانا بہت پریشان ہوئے اور کاہ کہ مجھے ابھی اسٹیشن پر پہنچا دیا جائے۔ علامہ اقبال کو یقین تھا کہ علالت کا ذکر محض ا سلئے کیا گیا ہے کہ مولانا فوراً چلے آئیں۔ چنانچہ انہوں نے تسلی دی کہ تشویش کی ضرورت نہیں۔ بیگم بحمد اللہ بالکل خیریت سے ہیں اور ہم ابھی جوابی تار بھیج کر ان کی خیریت کی اطلاع منگا لیتے ہیں۔ لیکن مولانا جانے پر مصر رہے۔ سردی کا موسم تھا۔ رات کے نو دس بج رہے تھے اور کوئی ٹرین اس وقت جالندھر کی طرف جانے والی نہ تھی۔ آخر اقبال نے کہہ دیا کہ بہتر، ابھی آپ کو بھجوا دیتے ہیں۔ ساتھ ہی کہا ایک رباعی کہی تھی، تین مصرعے تو ہو گئے، چوتھا حسب دل خواہ نہیں ہو سکا۔ مولانا گرامی نے فرمایا ذرا مجھے بھی سنائیے۔ تین مصرعے سنتے ہی وہ حسب عادت فکر میں منہمک ہو گئے اور تار سے جو تشویش پیدا ہوئی تھی وہ بظاہر بھول گئے۔ کسی قدر غور و فکر کے ایک مصرع سنایا۔ علامہ نے اس میں کوئی نقص نکال دیا اور کہا کہ اس کا فلاں حصہ مزید توجہ کا محتاج ہے، غرض اسی طرح گھنٹے بھر میں چند مصرعے کہے مگر اقبال نے ناپسند کر دئیے اور اوپر کی منزل میں جا کر سو گئے۔ رات کے تین بجے علی بخش (اقبال کے خادم) نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ مولانا یاد فرماتے ہیں۔ حضرت علامہ آئے تو مولانا نے کہا میں نے مصرع کہہ لیا تھا سو چا کہ صبح کا انتظار کون کرے، ابھی سنا دیا جائے۔ حضرت علامہ فرماتے تھے کہ مصرع بڑا ہی نادر تھا۔ میں نے اسے بہت سراہا۔ 6؎ جنوری ۱۹۶۹ء کے پہلے ہفتے میں علی بخش کا انتقال ہو گیا۔7؎ مکاتیب اقبال بنام گرام گرامی ص ۶ بولے۔ اب میرا جی سنگترے کھانے کو چاہتا ہے۔ علامہ نے علی بخش کو بھیج کر رات کے تین بجے کسی میوہ فروش کو اٹھایا اور سنگترے منگائے، چائے تیار کی اور یہ چیزیں مولانا کے سامنے پیش کیں تو خوش ہئے۔ اس اثناء میں تار کا واقعہ یاد سے بالکل محو ہو چکا تھا۔ جناب عبدالعزیز کمال صاحب اپنے مضمون ’’ اقبال اور بابا گرامی ‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ مولانا گرامی حضرت علامہ سے عمر میں بڑے تھے۔ ان کے اقبال سے انتہائی بے تکلفانہ تعلقات اور غیر رسمی نوعیت کے روابط سے کم از کم اتنا تو ضرور واضح ہو جاتا ہے کہ یہ دونوں ہستیاں کس قسم کے مذاق اور طبائع کی مالک تھیں۔ ان مراسم سے صاف طور پر گرامی کی بزرگانہ شفقت، آزادہ روی، صوفی منشی اور جوہر شناسی کی خصوصیات عیاں ہوتی ہیں اور اقبال کی نیاز کیشی، بزرگوں سے عقیدت، ان کی جا و بے جا دلداری اور دوستانہ تعلقات میں سلامت روی کی صفات کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ دونوں بے تکلف دوست اپنی عمروں کے محسوس تفاوت کے باوجود جب کبھی آپس میں مل بیٹھتے تھے تو ایک دوسرے کو اپنی ذاتی خوبیوں اور صلاحیتوں کے لئے بطور آئینہ استعمال کرتے تھے۔ دونوں ہی کو اس عمل سے فائدہ ہوا ایک نے دوسرے کو ایک لحاظ سے متاثر کیا تو دوسرے نے پہلے کی دوسری سمت میں رہنمائی کی۔ اس اثر پذیری اور اثر اندازی کی مثالیں دونوں کے کلام میں موجود ہیں۔ اقبال چونکہ زیادہ ہمہ گیر و ہمہ دان واقع ہوئے تھے، اس لئے وہ گرامی پر کچھ زیادہ ہی اثر انداز ہوئے۔ گرامی کے تاثرات ان کے دیوان کی اکثر غزلوں اور ان کی رباعیات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ 8؎‘‘ اقبال کے اپنے خطوں کے مطالعہ سے یہ بات تو یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے گرامی کی اکثر تنقیدوں سے فائدہ اٹھایا۔ ان کے اشاروں اور کنایوں کو سمجھا اور ان سے روشنی حاصل کی کئی اشعار میں ترمیم کی اور بعض کو قلمزد کر دیا۔ لیکن اکثر ترمیموں سے اتفاق نہیں کیا۔ بے شک گرامی ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ کلاسیکی شاعری میں ان کی ذات سند مانی جاتی تھی۔ وہ زبان اور محاورے کے بادشاہ تھے۔ زیادہ تو زبان کی صفائی کا خیال رکھتے تھے لیکن اقبال کی حیثیت ایک شاعر سے کہیں زیادہ داعی کی تھی۔ خالی لفظوں اور محاروں سے ان کا مطلب واضح نہیں ہوتا تھا۔ ان کے سوچنے کا انداز مختلف اور پیام کی سطح بلند تھی۔ وہ جس اسلوب سے اپنی بات دوسروں کے ذہن نشین کرانا چاہتے تھے، وہ بڑی جانکاہی چاہتا تھا یہی وجہ ہے کہ اقبال بار بار گرامی کی طرف رجوع کرتے اور بہ اصرار دعوت انتقاد دیتے تھے تاکہ بیان و اسلاب میں کوئی خامی رہ گئی ہو تو اس کا علم ہو جائے اور اصلاح کی جا سکے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ مہربانی کر کے غزل کے تمام اشعار پر اعتراض لکھئے تاکہ میں پورے طور پر مستفید ہو سکوں۔ آپ نے صرف ایک شعر کی تعریف کر دی اور باقی اشعار چھوڑ گئے۔ میں چاہتا ہوں کہ ان پر اعتراض کیجئے آپ کے کسی شعر میں اگر کوئی بات مجھے کھٹکے تو میں بلا تکلف عرض کر دیا کرتا ہوں۔ آپ کیوں ایسا نہیں کرتے؟ مجھے تعریف سے اس قدر خوشی 8؎ الحمراء لاہور نومبر ۱۹۵۱ء جلد ۱ نمبر ۳ ص ۱۱۰ نہیں ہوتی جس قدر اعتراض سے، کیونکہ اعتراض کی تنقید سے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘ 9؎ چونکہ افہام و تفہیم کا یہ سلسلہ محض دوستانہ تھا، اس لئے کبھی اقبال اپنے اختلاف کا اظہار بھی کر دیتے تھے۔ اقبال نے چند شعر ’’ بوئے گل‘‘ پر لکھے جو پیام مشرق میں موجود ہیں۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ جنت کی ایک حور دنیا کا نظارہ کرنے کے لئے پھول کی صورت میں نمودار ہوئی اور آخر پژ مردہ ہو گئی۔ لوگ جس کو نکہت کہتے ہیں وہ اس حور کی آہ ہے جس کو اس نے دنیا میں اپنی یادگار چھوڑا ہے۔ آخری شعر یہ تھا: زنداینے کہ بند ز پایش کشادہ اند آہے گذاشت است کہ بونام دادہ اند مولوی اسلم جیراج پوری نے اعتراض کیا کہ ’’ گذاشت است‘‘ ذوق سلیم کو کھٹکتا ہے۔ اقبال کو بھی ان کے ایراد میں کچھ نہ کچھ صداقت معلوم ہوئی۔ انہوں نے گرامی کو لکھا: ’’ اس شعر پر تنقیدی نظر ڈالیے اور نتیجے سے آگاہ کیجئے۔ مولوی سلیمان ندوی اور عبدالماجد (دریا بادی) سے بھی استصواب کیا ہے بہرحال گرامی کی رائے سب پر مقدم ہے۔ اس شعر کا مطلع ہونا ضروری ہے کہ بند کا آخری شعر ہے یوں بھی ہو سکتا ہے: زاں نازنیں کہ بندز پایش کشادہ اند آہے ست یادگار کہ بو نام دادہ اند10؎‘‘ گرامی نے کوئی ترمیم تجویز کی، جس پر اقبال نے انہیں پھر لکھا: ’’ آپ کی ترمیم سے زبان کے اعتبار سے شعر بہت ستھرا ہو گیا ہے مگر افسوس کہ اس سے وہ مطلب ظاہر نہیں ہوتا جو میں ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ وہ نازنین خود تو رخصت ہو گئی ہے مگر دنیا میں اپنی آہ چھوڑ گئی ہے، جس کو لوگ خوشبو کہتے ہیں۔ آپ کے شعر سے مترشح ہوتا ہے۔‘‘ وقت بند کشادن اہے سرواد لہٰذا معانی کے اعتبار سے میں اپنے ہی مطلع کو ترجیح دیتا ہوں، جس کو آپ نے پسند فرمایا ہے لیکن ’’ سرد ادن آہ‘‘ کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ’’ پیام مشرق‘‘ میں ایک اور نظم ’’ جہان عمل‘‘ کے عنوان سے ہے۔ ۲۰ نومبر ۱۹۱۸ء کو اقبال نے اس کے چند اشعار گرامی کو بھیجے۔ ان میں ایک شعر یوں تھا: حرف رازے کہ بروں از حد صوت است ہنوز از لب جام چکیدست و کلام است ایں جا 9؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی ص ۷۲ 10؎ مکتوب اقبال بنام گرامی ۲۱ اکتوبر ۱۹۲۳ء اس کا پہلا مصرع اقبال کو کھٹکتا تھا۔ گرامی نے اسے یوں تبدیل کرنے کا مشورہ دیا: حرف آں راز کہ بیگانہ ز صوت است ہنوز اور لکھا کہ ’’ راز کو حرف اور صوت کا لباس پہنا دو تو وہ کلام ہو جاتا ہے اور کلام کی تعریف بھی یہ ہے کہ وہ حرف اور صوت سے مرکب ہو۔‘‘ مگر اقبال کی اس سے تسلی نہ ہوئی۔ انہوں نے جواب میں لکھا: ’’ بیگانہ صوت است ہنوز‘‘ خوب ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ’’ بیگانہ صوت‘‘ راز کی صفت میں واقع ہوا ہے، حرف کی صفت میں واقع ہونا چاہیے تھا۔ مجھے اپنا مصرع ابھی تک کھٹکتا ہے۔ طبیعت حاضر ہو تو پھر غور کروں گا۔ اس جگر کاوی کا اندازہ عام لوگ نہیں لگا سکتے ان کے سامنے شعر بنا بنایا آتا ہے۔ وہ اس روحانی اور لطیف کرب سے آشنا نہیں ہو سکتے جس نے الفاظ کی ترتیب پیدا کی ہے۔ جہاں اچھا شعر دیکھو، سمجھ لو کہ کوئی نہ کوئی مسیح مصلوب ہوا ہے۔ اچھے خیال کا پیدا کرنا اوروں کے لئے کفارہ ہوتا ہے۔11؎ بعض نے علامہ اقبال کو مولانا گرامی کا شاگرد قرار دیا ہے مگر یہ بات کسی طرح درست نہیں۔ ۱۹۲۵ء میں رسالہ شمع آگرہ کے ایڈیٹر حسن عابد جعفری صاحب نے مولانا گرامی کی ایک فارسی غزل پر تعارفی نوٹ میں لکھ دیا کہ علامہ اقبال کو گرامی سے نسبت تلمذ حاصل ہے۔ اس پر مرحوم نے اسی وقت ایڈیٹر کو خط لکھا کہ وہ گرامی کے شاگرد نہیں۔ یہ خط بھی ’’ شمع‘‘ میں شائع ہوا اور غلط فہمی کے تمام امکانات رفع ہو گئے۔ اقبال اور گرامی کے تعلقات محض دوستانہ تھے، استادی شاگردی کے نہ تھے۔ ورنہ گرامی اپنے خط میں خان نیاز الدین خاں کو یہ نہ لکھتے: ’’ حضرت ڈاکٹر صاحب کا لاجواب شعر ہے اور سنگلاخ زمین میں ہے۔ گرامی کا فکر سال خوردہ اس زمین میں ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مجدد ہیں، فلاسفر ہیں، ادب آموز ہند ہیں۔ گرامی ان کا سا دماغ کہاں سے لائے۔ دو تین شعر لکھتا ہوں، ڈاکٹر صاحب کی خدمت عالی میں بھیج دیجئے۔ ان کی داد سمیٹئے۔ دوسروں کی داد عین بے داد‘‘ 12؎ ٭٭٭ 11؎ مکتوب اقبال بنام گرامی ۲ دسمبر ۱۹۱۸ء 12؎ مکاتیب اقبال بنام گرامی ص ۸۱ خطوط اکبر بنام اقبال قاضی افضل حق قرشی اکبر الہ آبادی (۱۸۴۶۔ ۱۹۲۱ئ) اور اقبال (۱۸۷۷۔ ۱۹۳۸ئ) معاصر تھے۔ دونوں کے مابین عمروں کے محسوس تفاوت کے باوجود روابط نہایت دوستانہ او رمخلصانہ تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے کو پہچانا، قدر کی نگاہ سے دیکھا اور ایک دوسرے کی شخصیت اور فکر و فن سے متاثر بھی ہوئے۔ اکبر اور اقبال کی خط و کتابت بھی رہی۔ اقبال نے اکبر کے نام جو خطوط لکھے ان میں سے سولہ خطوط شیخ عطاء اللہ کے مرتب کردہ مجموعہ خطوط اقبال نامہ حصہ دوم میں شامل ہیں۔ اقبال کے یہ خطوط اس اعتبار سے اہم ہیں کہ ان میں انہوں نے اکبر کو اس نگاہ سے دیکھا ہے۔ 1؎ ’’ جس نگاہ سے کوئی مرید اپنے پیر کو دیکھے۔‘‘ اور آرزوئے ملاقات کے ساتھ ’’ اپنے 2؎ دل کو چیر کر‘‘ سامنے رکھ دینے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے۔ وہ اکبر کو ’’ اپنا3؎ پیر و مرشد‘‘ اور’’ مرشد 4؎ معنوی‘‘ تصویر کرتے اور جب کبھی موقع ملتا تو 5؎ دل کا دکھڑا اکبر کے پاس روتے۔ اقبال دعا گو نظر آتے ہیں کہ ’’ اللہ تعالیٰ6؎ آپ کو عمر خضر عطا فرمائے‘‘ اس لئے کہ ’’ ابھی تو مسلمانوں کو اور ان کے لٹریچر کو آپ کی سخت ضرورت ہے۔‘‘ اور جب ۹ ستمبر ۱۹۲۱ء کو اکبر کا انتقال ہو گیا تو اقبال نے اپنے مرشد معنوی کو یوں خراج عقیدت پیش کیا: ’’ ہندوستان 7؎ اور بالخصوص مسلمانوں میں مرحوم کی شخصیت قریباً ہر حیثیت سے بے نظیر تھی اسلامی ادیبوں میں تو شاید آج تک ایسی نکتہ رس ہستی پیدا نہیں ہوئی اور مجھے یقین ہے کہ تمام ایشیاء میں کسی قوم کے ادبیات کو اکبر نصیب نہیں ہوا۔ فطرت ایسی ہستیاں پیدا کرنے میں بڑی بخیل ہے۔ زمانہ سینکڑوں سالی گردش کھاتا رہتا ہے، جب آ کے ایک اکبر اسے ہاتھ آتا ہے۔‘‘ 1؎ شیخ عطاء اللہ، اقبال نامہ حصہ دوم(لاہور: شیخ محمد اشرف، ۱۹۵۱ئ) ص ۳۳۔ ۳۵ 2؎ ایضاً، ص ۳۵ 3؎ ایضاً، ص ۴۰ 4؎ سید عشرت حسین، حیات اکبر (کراچی۔ بزم اکبر۔ س۔ ن) ص ۱۶۳ 5؎ شیخ عطاء اللہ، اقبال نامہ حصہ دوم (لاہور۔ شیخ محمد اشرف ۱۹۵۱ئ) ص ۴۸ 6؎ ایضاً، ص ۶۸ 7؎ سید عشرت حسین، حیات اکبر (کراچی، بزم اکبر، س۔ ن) ص ۱۶۴ کاش اس انسان کا معنوی فیض اس بد قسمت ملک اور ا سکی بد قسمت قوم کے لئے کچھ عرصہ اور جاری رہتا۔ اقبال اکبر کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو ’’ پر معنی1؎ اور مفید‘‘ جانتے اور ان کی خواہش تھی کہ ’’ ان کو جمع کر لینا چاہیے تاکہ آئندہ نسلیں ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔‘‘ ایک خط میں لکھتے ہیں۔ ’’ بڑی3؎ ضرورت ہے کہ ایک منشی کاغذ اور قلم دوات لے کر آپ کے پاس ہر وقت بیٹھے اور جو بات آپ فرمائیں اسے نوٹ کر لے۔ اگر میں الہ آباد میں قیام کر سکتا تو آپ کے لئے وہ کام کرتا جیسا باسویل Boswel نے ڈاکٹر جانسن Dr. Johnson کے لئے کیا تھا۔‘‘ اکبر نے اقبال کے نام جو خطوط لکھے ان میں سے صرف دو خط معلوم تھے۔ دونوں خط چراغ حسن حسرت کے مرتب کردہ مجموعہ مضامین ’’ اقبال نامہ‘‘ میں شامل ہیں۔ اکبر اور اقبال کے روابط کے سلسلے میں خطوط اکبر کی یہ گم شدہ کڑی نہایت اہم ہے۔ اقبال نے ان خطوط کو حرز جان بنا کر رکھا تھا۔ اکبر ہی کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ آپ 3؎ کے خطوط جو میرے پاس سب محفوظ ہیں، بار بار پڑھا کرتا ہوں اور تنہائی میں یہی خاموش کاغذ میرے ندیم ہوتے ہیں‘‘ ایک اور خط میں لکھتے ہیں۔ ’’ آپ4؎ کے خطوط سے مجھے نہایت فائدہ ہوتا ہے اور مزید غور و فکر کی راہ کھلتی ہے۔ اسی واسطے میں ان خطوط کو محفوظ رکھتا ہوں کہ یہ تحریریں نہایت بیش قیمت ہیں اور بہت لوگوں کو ان سے فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔‘‘ اکبر کی وفات کے بعد جب مختلف اصحاب نے دہلی، لکھنو اور لاہور سے مکاتیب اکبر کے مجموعے شائع کئے، اس وقت اقبال بھی خطوط کے اس مجموعے کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے جو اکبر نے انہیں وقتاً فوقتاً لکھے تھے۔ مرزا سلطان احمد اپنے مرتبہ مکاتیب اکبر کے دیباچے میں تحریر کرتے ہیں: ’’ سنا8؎ گیا ہے کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال بھی یہ آرزو رکھتے ہیں کہ حضرت اکبر کے جو خطوط ان کے نام کے ہیں ان کا ایک انتخاب مع مقدمہ کے شائع کیا جائے۔ اگر ڈاکٹر صاحب ایسا کر سکیں تو وہ ادبی دنیا پر ایک بڑا احسا ن کریں گے۔ جیسا کہ ’’ مکاتیب اکبر‘‘ خطوط اکبر دو مختلف مجموعے اس سے پہلے دہلی و لکھنو میں شائع ہو چکے ہیں۔‘‘ 1؎ سید عشرت حسین، حیات اکبر (کراچی، بزم اکبر، س۔ ن) ص ۱۲۹ 2؎ ایضاً 3؎ شیخ عطاء اللہ، اقبال نامہ حصہ دوم (لاہور۔ شیخ محمد اشرف، ۱۹۵۱ئ) ص ۳۸ 4؎ ایضاً، ص ۴۴ 5؎ مرزا سلطان احمد، مکاتیب اکبر (لاہور۔ مرغوب ایجنسی، س۔ ن) ص ۴۰ لیکن اب ان خطوط کے متعلق کچھ خبر نہیں کہ وہ ضائع ہو چکے یا محفوظ ہیں۔ آئندہ صفحات میں ہم اکبر کے اقبال کے نام پانچ خط درج کر رہے ہیں۔ دو تو وہی ’’ اقبال نامہ‘‘ والے ہیں اور تین مزید۔ یہ تین خط اقبال کی وفات کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور کے مجلہ ’’ راوی‘‘ کے اقبال نمبر میں شائع ہوئے تھے۔ ان خطوط سے اس خیال کی تردید بھی ہوتی ہے کہ ’’ اکبر1؎ نے اپنے ہم عصروں سے بعض کی طرف اپنے کلام میں اشارے بھی کئے ہیں لیکن اس میں اقبال کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا۔‘‘ (۱) الہ آباد2؎ ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۱ء جیبی و مکرمی سلمہٰ اللہ تعالیٰ۔ زعفران عطیہ جناب پہنچی۔ تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ خانہ احسان آباد آپ نے تکلف فرمایا۔ میرا منشا یہ تھا کہ کسی معتبر تاجر کو آپ یا آپ کے کوئی دوست لکھ دیں کہ عمدہ زعفران کا ویلیو پے ایبل پارسل مجھ کو بھیج دے۔ خیر اس بات کی خوشی ہوئی کہ میرے روحانی دوست نے مجھ کو تحفہ عنایت فرمایا۔ اس خیال میں بڑی لذت ہے۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ میرے اسلامی بھائی نے تحفہ بھیجا۔ یہ ایک شرعی اصطلاح ہے اور ان روزوں بڑے جھگڑے کی بات ہے۔ خدا قوم میں اخوت اسلامیہ پیدا کر دے۔ ایک صحابی سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم مبارک مرقد میں اتارا گیا اور ہم لوگوں نے اپنے دلوں کو الگ الگ پایا۔ آپ کی نظم سوز میں نے پڑھی۔ ماشاء اللہ چشم بد دور میر منشی گورنمنٹ رضا حسین خاں صاحب تشریف فرما تھے۔ سید عابد حسین صاحب بی اے ایک نہایت ذہین اور وسیع الخیال نوجوان بھی تھے۔ بعض اور بزرگوار بھی تھے سب نے نہایت تعریف کی منشی صاحب نے تو نقل مانگی ہے لیکن مجھ پر بہت اثر ہوا۔ وہ اثر باعث سکون خاطر ہے میں افسوس کیا کرتا تھا اور صرف ایک آپ کے ہونے سے وہ افسوس کم نہیں ہوا کہ قوم کیوں بے بصیرت ہو گئی ہے اگر جان کو قوت نہیں پہنچا سکتی۔ تو تدبیر ہلاکت کی کیوں مدید ہے۔ دعاؤں میں آیا ہے (اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ اللھم ارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ اللھم ارنا حقائق الاشیاء کماھی) یا اللہ مجھ کو امر حق حق کی طرح دکھا۔ اور توفیق دے کہ اس کا اتباع کروں۔ یا اللہ مجھ کو باطل کو باطل دکھا۔ اور توفیق دے کہ اس سے اجتناب کروں۔ اللہ مجھ کو اشیاء کی حقیقت دکھا۔ جس طور پر کہ وہ واقع میں ہیں۔ مجھ کو افسوس تھا اور ہے کہ با اثر اور لائق مسلمان یہ دعا کیوں نہیں کرتے۔ یا اس میں اثر کیوں نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چشم بصیرت عطا فرمائی ہے کہ اس عمر میں بلا تجربہ دنیا آپ کے دل کی نظر کم سے کم اخلاقی 1؎ عبدالقادر سروری ’’ اکبر و اقبال‘‘ علی گڑھ میگزین ۳۴: ۳ (۱۹۵۰ئ) ص ۸۶ 2؎ چراغ حسن حسرت اقبالنامہ (لاہور: تاج کمپنی س۔ ن) ص ۸۱۔ ۸۷ حقائق کی طرف ہے۔ کافروں کی مسلم آئینی کا بھی نظارہ کر کس قدر بلیغ و صحیح و لبریز معنی ہے۔ اگرچہ یہ لطیف و خوبصورت و بلیغ ترکیب الفاظ آپ کی علمی قابلیت اور خاص شاعرانہ سلیقے کا نتیجہ ہے۔ لیکن یہ خیال مرتب و با وقعت ہو کر کس کے دماغ کو نصیب ہے۔ گرم گفتاری اور خود داری کے قوانی بھی حقائق کے مضامین سے مزین ہیں۔ شکست رشتہ، تسبیح اور پختہ زناری آپ کا حصہ ہے۔ الغرض جملہ اشعار لاجواب ہیں میری مدح سے بجز اس کے کہ آپ خوش ہوں اور کچھ ہونا نہیں ہے۔ اگرچہ یہ بھی بہت ہے لیکن کبھی آپ سے ملاقات ہو اور زبانی گفتگو ان اشعار کے معانی پر ہو تو گوناگوں فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ جو آئندہ طریق عمل کے لئے کار آمد ہوں میں ہنوز اچھا نہیں ہوا۔ اچھا تو مدت سے نہیں ہوں لیکن ابھی معمولی حالت نے بھی غور نہیں کیا۔ نشست و برخاست میں تکلف ہے۔ تاہم بہت افاقہ ہے۔ خواجہ حسن نظامی صاحب تشریف فرما تھے۔ کل دہلی گئے۔ آپ کا ذکر خیر فرماتے تھے۔ بلکہ جاپان کے عزم کا بیان بھی فریاما، سبحان اللہ اپنا ایک شعر یاد آیا۔ کسی نے اعتراض کیا تھا کہ راہ سلوک عبث ہے۔ خدا نہیں ملتا۔ میں نے کہا جست وجوہی میں وہ لذت ہے کہ اللہ اللہ کیوں میں پوچھوں وہ دلا رام ملے گا کہ نہیں میری ایک غزل کا یہ شعر ہے پس اشاعت اسلام کے لئے اٹھنا برائے خود جانفزا اور روح نواز ہے۔ اگر کوئی بے سامانی پر خردہ گیری کرے تو اس کے لئے عرفی کہہ گئے ہیں۔ دانم نہ رسد ذرہ بہ خورشید و لیکن شوق طیراں می کشد ارباب ہمم را اور یہ بھی خوب کہا گیا ہے۔ مباش اے راہ نور و عشق فارغ از طپیدان ہا کہ در آخر بجائے می رسد از خود رمیدن ہا یا ایھا الذین امنو تقوا اللہ وابتغوا الیہ الوسیلۃ وجاھدوا فی سبیلہ لعلم تفلحون (سورہ المائدہ) نہیں معلوم مفسرین نے اس کی کیا شرح لکھی ہے۔ اردو میں تو یہ معنی لکھے ہیں: مسلمانو اللہ سے ڈرتے اور (نیز) اس تک پہنچنے کے ذریعے کی جستجو کرتے رہو۔ آپ کیا کر سکتے ہیں۔ جو خدا کا حکم ہے کیجئے گا خدا ہماری اور آپ کی اور سب برادران مسلمان کی عاقبت بخیر کرے۔ مکرر آپ کی شکر گزاری کرتا ہوں اب لکھا نہیں جاتا۔ تھک گیا۔ مہینوں کے بعد اتنا لکھا ہے۔ دعاگوئے شما۔ اکبر اٹلی وٹر کی کے متعلق بہت لٹریچر رکیک پیدا ہو گیا ہے۔ا عتدال شرط ہے۔ الٰہ آباد۔ ۳ مارچ ۱۹۱۲ء عزیزی و حبیبی و مکرمی سلمہہ اللہ تعالیٰ۔ میں آج تک آپ کے الطاف نامے کا جواب نہ لکھ سکا۔ ترددات اور نادر ستے مزاج چونکہ مکان کے بعض گوشے خالی پڑے ہیں۔ ایک طرف جہاں کچھ اسباب رکھا تھا۔ احاطہ والوں ہی میں سے کسی بد دیانت نے تمام بکس اور الماریاں توڑ ڈالیں۔ کچھ اسباب بھی چوری گیا ہو گا۔ کچھ پتہ نہ چل سکا لیکن لوہے کا صندوق نہ کھل سکا۔ میرے تو کوئی کپڑے بھی اتار کر لے جائے۔ تو وہیں تک اثر پہنچے گا۔ جہاں تک سردی معلوم ہو۔ لیکن ہاشم کی ماں کے زیورات جو ہاشم بیچارے کو ملے ہیں۔ ان کا محافظ ہوں۔ اس کے متعلق تردد میں رہا اور ہوں۔ پھر ایک قدیم و معتبر ملازم نہایت ہوشیار اور خیر اندیش کم عمر مر گیا۔ پھر ہاشم علیل ہو گئے۔ ان کو قے آنے کا عارضہ ہے۔ کبھی کبھی عود کر آتا ہے کچھ خدمت گار ہیں۔ لیکن خیر طلب اور سچا ہمدرد کوئی عزیز نہیں ہے۔ ہاشم کے سبب سے میں قید میں ہوں۔ شاید دو ایک سال میں وہ اپنی پوزیشن کو بخوبی سمجھ سکیں۔ خرچ اور الوؤں اور مذاق میں وہ بے امتیاز ہیں۔ روائتیں سنتے ہیں۔ اپنے بھائی جان کے وقت کی جب میری تنخواہ بارہ سو یا اس سے سوا تھی۔ پھر خطرناک شوق رفل چلانے کا منکہ طول گشتمے از نفس فرشتگاں جور و جفائے عالمے میکشم از برائے تو جب ہاشم کی ماں زندہ تھیں تو میں جانتا ہی نہ تھا کہ ہاشم کہاں ہیں نہ گھر کے انتظام سے کچھ مطلب تھا۔ یہ ارادہ تھا کہ آنکھ پر آپریشن ہو جائے تو سیاحت میں زندگی بسر کروں۔ جہاں تک صحت اور کیسہ مدد دے۔ یہ خدا کی مرضی تھی کہ سات برس بعد آپریشن میں کامیابی ہوئی۔ تو منتظمہ مکان و مالکہ عشرت منزل چل بسیں۔ انہیں کے رشتہ دار زیادہ اس شہر میں تھے اور ہیں۔ میں نہ کمیٹی کا مشتاق ہوں نہ بڑے لوگوں کا اب تو شکستہ حالی کیا ہمیشہ دل کے لئے شکستہ حالی اچھی رہی ہے آب رواں املی کا درخت، قمری کی آواز، جنگل کا سماں، مسجد کا صحن بہت زیادہ دلکش ہے نصیب نہیں ہوتا ہاں آپ سے ملنے کا بہت آرزو مند ہوں۔ امانت عشق کی بعد اپنے کیا جانیں ملے کس کو نہیں معلوم جائے کس کے سر پر درد سر اپنا مدت کا پرانا شعر ہے۔ دیکھا کہ وہ بار غم جو میرے دل پر مستولی تھا آپ کے اٹھا لیا۔ وہی درد تھا۔ وہی سمجھ اور بصیرت تھی جس نے آپ کے قلم سے قوم فروشی کی طعن تر شوا دی۔ یوں تو ہر شخص کے خیالات علیحدہ ہوتے ہیں۔ اور آپ تو ماشاء اللہ ابھی کم عمر ہیں۔ آپ کو بہت کچھ کرنا ہے سوسائٹی اچھی ہو یا بری خواہ مخواہ اس کا ممبر ہو کر حتیٰ الوسع زندگی کو شیریں کرنا ہے۔ میں سیر ہو چکا ہوں۔ صورت و معنی میں ہر طرف تبدیلی پاتا ہوں۔ کہیں صورت باقی ہے تو معنی ندارد کہیں کچھ نا صاف معنی ہیں تو صورت مکروہ۔ نہایت کم ہے کہ صورت و معنی کا وہی نبوی سانچہ ہو۔ یقینا زمانہ بدلتا رہتا ہے۔ با زمانہ بساز صحیح ہے لیکن بے ضرورت با زمانہ بساز کیوں۔ کم از کم یہ مجھ میں یہ قابلیت نہ رہی کہ موجودہ سوسائٹی میں خوش رہ سکوں میرے اشارات بڑی تفصیل چاہتے ہیں آپ کبھی ملیں تو یقینا بڑی روحانی مسرت ہو گی لیکن آپ کو بھی بہت سی باتوں پر توجہ ہو جائے گی حسن نظامی کی تحریر سے آپ کی مشغولی طاعت و قرآن خوانی کا ذکر دریافت کر کے خوش ہوا۔ وکذالک جعلنا کم امۃ وسطا لئکو نو شھداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا پس آپ شہداء علی الناس میں داکل ہیں۔ یا انشاء اللہ داخل ہو جائیں گے۔ میرے حق میں بھی دعا فرماتے رہئے۔ یہ سبب تبخیر و قبض کے چار دن سے نماز فجر وقت پر نہیں پڑھ سکتا۔ شعر گوئی میں دل نہیں لگتا۔ میرے ظریفانہ اشعار سے کبھی بہت زندہ دلی اور شوخی کا قیاس ہو سکتا ہے لیکن عادتاً وہ بھی ایک اسلوب ادائے خیال ہے۔ ورنہ بے حد افسردہ رہتا ہوں او رنہ بھی افسردہ ہوں۔ تو ایک حیرت سی رہتی ہے اب اعتراض کس پر کروں۔ وہ زمانہ گزر گیا رات یہ اشعار ذہن میں آئے۔ کامیابی ہجر ملت ہو تو ناکامی بھلی لطف دشمن ہی سے شہرت ہو تو گمنامی بھلی بے وفا سمجھیں تہیں اہل حرم اس سے بچو دیر والے کج ادا کہہ دیں یہ بدنامی بھلی وغیرہ وغیرہ لیکن لطف دشمن اور کامیابی ضروری مطلب ہے جب قوم تھی تو سب کہہ سکتے تھے خیر جو کچھ ہو اب آپ کے سپرد چارج ہے ہم تو آپ کی ملاقات کی مسرت کو مول لینے پر مستعد ہیں۔ آپ کا مصرعہ در گرہ ہنگامہ داری چوں سپند ہم کو ہمیشہ یاد رہتا ہے بیدل نے کہا ہے: ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیر سرود سمن در آ تو ز غنچہ کم نہ دمیدۂ در دل کشابہ چمن در آ لیکن آپ کا مصرع بلیغ تر ہے۔ آپ نہ مانیں تو میں توضیح کر دوں گا۔ حسن نظامی نے برمہ کتھا خوب لکھا تھا وہ تو عالم بے خودی ہے۔ لیکن گرہ اور سپند ہوش میں بھی لذیذ ہیں۔ اب تھک گیا پھر کبھی اپریل ہی میں ہاشم کا امتحان ہے میں نہیں جانتا کس طرح آ سکوں گا گو قابلیت سفر ہو بھی بہر کیف لاہور وغیرہ کے سفر کا ارادہ تو ہے۔ خدا اگر پورا کرے:ـ دعا گوئے شما۔ اکبر (۳) الٰہ آباد1؎ ۸ اکتوبر ۱۲ء حبیبی و مکرمی! خدا آپ کو ترقیات ظاہری و باطنی عطا فرمائے۔ اپنی خیریت سے مطلع فرما کر مطمئن کیجئے۔ حصہ دوم کی ایک کاپی ارسال خدمت کرتا ہوں۔ خرافات کے سوا اور کیا ہے۔ لیکن ضرور تھا کہ آپ کے سامنے پیش کر دوں۔ جب لوگوں نے بیحد اصرار کیا۔ تو میں نے مسودات بلا ترتیب ایک کاتب کو دے دئیے۔ کاتب صاحب نے جیسا چاہا مرتب کر دیا۔ میں بہت کم دیکھ سکا۔ کچھ علالت کچھ طبیعت کا انتشاد بعض عمدہ نظمیں رہ گئیں بعدطبع یہ حال معلوم ہوا پھر کیا ہو سکتا تھا ہمارے شہر کا یہ حال ہو رہا ہے۔ گئے وہ دن کہ جنوں تھا مجھے پری کے لئے حواس باختہ ہوں اب تو ممبری کے لئے حقیقت میں بڑا نازک وقت ہے۔ ادھر ہے پستی حالت ادھر ہے تاریکی کدھر کا رخ میں کروں اپنی بہتری کے لئے اس حصے میں جہاں آپ کے اشعار کی مدح2؎ مندرج ہے۔ اس کا ایک مختصر عنوان تھا۔ نقل کرنے میں رہ گیا۔ لیکن آپ مستغنی عن المدح ہیں۔ ہمہ عالم گواہ عظمت اوست دعا گوے شما اکبر حسین (۴) الٰہ آباد ۹ جنوری ۱۳ء حبیبی و مکرمی زاد لطفہ الحمد للہ زندہ ہوں مجھے ملنے کو زحمت اٹھا کر آپ کا تشریف لانا نہایت باعث انبساط قلب ہوا خدا جزائے خیر دے اور ظاہری و باطنی ترقیات روز افزوں عطا فرمائے۔ 1؎ راوی، لاہور ۳۲: ۸۰۷ (مئی و جون ۱۹۳۸ئ) ص ۳۸۔ ۳۹ 2؎ مدحیہ اشعار یہ ہیں: اس نظم کا نقطہ نقطہ ہے منبع نور ہر حرف سے ہے تجلی حق کا ظہور اوج ملکوت کا ہے عالم ہر لفظ ہر بیت اقبال کی ہے بیت المعمور کلیات اکبر الٰہ آبادی حصہ دوم (الٰہ آباد: سید عشرت حسین ۱۹۳۶ئ) ص ۷۴۰ بہت افسوس ہوا کہ آپ کی تواضع و تکریم کا موقع نہ ملا لیکن اس سے زیادہ اس بات کا کہ مبادلہ خیالات کا موقع بہت کم ملا۔ آنریبل نواب عبدالمجید خاں صاحب رئیس اعظم جونپور کل تشریف لائے تھے وہ آپ کے صوفیانہ بلند خیالی کی نسبت بہت کچھ استفسار فرماتے رہے۔ اڈیٹر ادیب سے معلوم ہوا کہ کسی بات پر حضرات پنجاب کانفرنس سے علیحدہ ہو کر چلے گئے۔ خدا جانے کیا بات تھی جو کچھ بھی ہو یہ سب ایک تماشا ہے سالے کہ نکوست از بہارش پیداست اس وقت اسی مختصر پر کفائت کرتا ہوں۔ اپنی خیر و عافیت لکھئے دعا گو شما اکبر حسین (۵) 1؎ مکرمی سلمہ اللہ تعالیٰ معلوم نہیں آپ کہاں ہیں کیسے ہیں۔ میں سخت پریشانیوں اور ترددات میں ہوں بلحاظ اپنی پرائیویٹ لائف کے بھی اور بلحاظ پبلک تعلقات کے بھی تفصیل مشکل ہے خلاصہ یہ کہ قیام الٰہ آباد نا مناسب اور تکلیف دہ ہے لیکن کیا کروں کہاں جاؤں؟ جو حالات پیش آئے اور پیش آتے جاتے ہیں۔ مفرح اور امید افزا نہیں ہیں۔ خصوصاً ہم ایسوں کے لئے کہ زندگی ختم کر چکے ہیں۔ اب تو گویا مقدمہ نزع ہے۔ صحت بھی ایسی خراب ہے کہ جرأت سفر مشکل ہے۔ خدام بہت لیکن ہمدرد و مزاج شناس مفقود دیکھئے آپ سب کب ملاقات ہوتی ہے؟ خوشدلی نہیں ہے انقباض رہتا ہے۔ مدت سے اشعار نہیں کہہ سکا طبیعت ہی حاضر نہیں۔ مرحوم ہاشم کے ساتھ لٹریری۔ دنیا کی ساری آئندہ امیدیں ختم ہو گئیں۔ تین دن ہوئے بے ساختہ یہ اشعار ذہن میں آئے داد کے قابل ذرا بھی نہیں۔ صرف مری طبیعت کی مایوسی اور حزن کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ناصحا آخر میں دل کی پاسداری کیا کروں یہ تو بتلا کر کے ترک آہ و زاری کیا کروں وہ چمن ہی جل گیا جس میں لگائے تھے شجر اب تجھے پا کر میں اے باد بہاری کیا کروں جان ہی کا جسم میں رہنا ہے مجھ کو ناگوار دوستوں سے ادعائے دوست داری کیا کروں شکل ہاشم سامنے ہے ہر نظر ہے برق دل ایسی صورت میں علاج بیقراری کیا کروں بزم عشق میں بٹھانا تھا جسے وہ اٹھ گیا اب میں اے فردا تری امیدواری کیا کروں خدمت احباب کا تو خود مرے دل میں ہے ذوق ہو نہیں سکتی مگر خدمت گزاری کیا کروں صفحہ ہستی سے ہو محو اپنا نقش زندگی جب یہ مضمون پیش ہے مضموں نگاری کیا کروں کہتے ہیں احباب کر دنیا میں اکبر کوئی کام 1؎ اس خط پر تاریخ مندرج نہیں۔ اس میں اکبر کے صاحبزادے ہاشم کی وفات کا ذکر ہے۔ ہاشم کی وفات ۵ جون ۱۹۱۳ء کو ہوئی۔ اس لئے یہ خط اس تاریخ کے بعد ہی لکھا گیا ہو گا۔ حسرت و حیرت مگر مجھ پر ہے طاری کیا کروں اپنی خیریت اور حالات سے مطلع فرمائیے۔ امید ہے کہ امر طاعت کی طرف آپ کی توجہ ہو گی۔ روحانیت میں توآپ ڈوبے ہوئے ہیں۔ اکبر حسین ٭٭٭ کتابیات کتب: ۱۔ حسرت، چراغ حسن۔ اقبال نامہ، لاہور۔ تاج کمپنی، س۔ ن ۲۔ سلطان احمد، مرزا۔ مکاتیب اکبر، لاہور۔ مرغوب ایجنسی، س۔ ن ۳۔ عشرت حسین، حیات اکبر، کراچی، بزم اکبر۔ س۔ ن ۴۔ عطاء اللہ، شیخ۔ اقبال نامہ حصہ دوم، لاہور شیخ محمد اشرف: ۱۹۵۱ء رسائل: ۱۔ راوی ، لاہور۔ ۳۲: ۸۰۷ مئی ۔ جون ۱۹۳۸ء ۲۔ علی گڑھ میگزین۔ ۳۴: ۳، ۱۹۵۰ء ٭٭٭ علامہ اقبال اور سید سلیمان ندوی طاہر تونسوی ’’ آج سید سلیمان ندوی ہماری علمی زندگی کے سب سے اونچے زینے پر ہیں۔ وہ عالم ہی نہیں امیر العماء ہیں۔ مصنف ہی نہیں رئیس المصنفین ہیں۔ ان کا وجود علم و فضل کا ایک دریا ہے جس سے سینکڑوں نہریں نکلی ہیں اور ہزاروں سوکھی کھیتیاں سیراب ہوئی ہیں۔ ‘‘ (اقبال) ’’ اقبال صرف شاعر نہ تھے وہ حکیم تھا، وہ حیم نہیں جو ارسطو کی گاڑی کے قلی ہوں یا یورپ کے نئے فلاسفروں کے خوشہ چیں۔ بلکہ وہ حکیم جو اسرار کلام الٰہی کے محرم اور رموز شریعت کے آشنا تھے۔ وہ نئے فلسفہ کے ہر راز سے آشنا ہو کر اسلام کے راز کو اپنے رنگ میں کھول کر دکھاتا تھا، یعنی بادۂ انگور بچوڑ کر کوثر و تسنیم کا پیالہ تیار کرتا تھا۔‘‘ (سید سلیمان ندوی) یہ دو الگ الگ اقتباس ہیں جو عصر حاضر کی نابغہ روزگار شخصیتوں نے ایک دوسرے کے بارے میں ارشاد فرمائے ہیں۔ پہلا اقتباس شاعر مشرق حضرت علامہ کا ہے جو انہوں نے علوم اسلام کی جوئے شیر کے فرہاد سید سلیمان ندوی کے بارے میں کہے ہیں۔ دوسرا اقتباس علامہ شبلی کے جانشین اور ان کے بعد استاذ کل سید سلیمان ندوی کا ہے جو انہوں نے دین کامل کے علم بردار اور فلسفہ اسلام کے ترجمان حضرت اقبال کے بارے میں ارشاد فرمائے تھے۔ ملت اسلامیہ کے یہ دونوں عظیم رہنما آج ہم میں نہیں ہیں مگر انہوں نے تحریروں کی شکل میں جو یادگاریں چھوڑی ہیں وہ انہیں کبھی مرنے نہ دیں گی۔ ان اقتباسات سے جہاں ایک طرف ان کے علمی مرتبے کا پتہ چلتا ہے وہاں اس بات سے بھی آگاہی ہوتی ہے کہ یہ دونوںحضرات باہمی تعلقات کی کس نہج پر تھے اور ایک دوسرے کے بارے میں کن خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ اس بات کا ابھی تک علم نہیں ہو سکا کہ ان دونوں شخصیتوں کی ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی اور باہمی ربط کا سلسلہ کیسے شروع ہوا۔ ممکن ہے کہ دونوں حضرات کی شناسائی بہت پہلے کی ہو بہرحال ان کے رابطے کا پتہ علامہ اقبال کے خط بنام سید سلیمان ندوی سے لگتا ہے جو انہوں نے یکم نومبر ۱۹۱۶ء کو لکھا۔ اسی طرح ۱۹۱۶ء میں ہی سید سلیمان ندوی نے رسالہ معارف کا اجراء کیا۔ علامہ اقبال کے پہلے خط سے البتہ پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں حضرات کے تعلقات کلافی عرصے سے تھے اور وہ ایک دوسرے کے منصب اور مرتبے سے پورے طور پر آگاہ تھے۔ خاص طور پر حضرت علامہ اقبال، سید سلیمان ندوی کو ملت اسلامیہ کی مشعل راہ سمجھتے تھے تبھی انہوں نے اپنے اس مختصر خط میں انہیں لکھا: ’’ اورینٹل کالج لاہور میں ہیڈ پرشین کی جگہ خالی ہوتی ہے۔ اس کی تنخواہ ایک سو بیس روپیہ ماہوار ہے۔ میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ اس جگہ کو اپنے لیے پسند فرماتے ہیں اگر ایسا ہو تو آپ کے لیے سعی کی جائے۔ آپ کا لاہور میں رہنا پنجاب والوں کے لیے بے حد مفید ہو گا۔ ‘‘ 1؎ اس خط میں بھی اور دیگر خطوط میں حضرت علامہ نے انہیں مخدومی کے لفظ سے خطاب کیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ سید سلیمان ندوی کا کتنا احترام کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ سید سلیمان ندوی صاحب اس پوسٹ کے لیے راضی نہ ہوئے اور پنجاب میں مستقل طور پر رہائش پذیر نہ ہوئے۔ اور علامہ اقبال کی یہ خواہش صرف خواہش ہی رہی جس کا انہیں بے حد افسوس بھی ہوا۔ اس کا اظہار انہوں نے اپنے ۱۲ نومبر ۱۹۱۶ء کے خط میں کیا تھا: ’’ مجھے یہ معلوم ہوتا تھا کہ آپ ملازمت کوئی قبول نہ کریں گے۔ لیکن سنڈیکیٹ کے بعض ممبروں کی تعمیل ارشاد میں آپ کو لکھنا ضرور تھا کسی قدر خود غرضی کا شائبہ بھی میرے خط میں تھا اور وہ یہ کہ میں چاہتا تھا کہ جس طرح پنجاب والوں کو صوبہ متحدہ کے علماء و فصحا سے اس سے پیشتر فائدہ پہنچا ہے اب بھی وہ سلسلہ آپ کے یہاں رہنے سے بدستور جاری رہے۔‘‘ 2؎ گویا حضرت علامہ اقبال اسلام کی ترویج و ترقی کے لئے علماء و فصحا کو پنجاب میں لانا چاہتے تھے تاکہ یہ خطہ اسلام کی دولت سے مالا مال ہو جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مولانا شبلی کو بھی مستقل طور پر پنجاب میں سکونت پذیر ہونے کی دعوت دی تھی اس کا ذکر انہوں نے محولہ بالا خط میں کیا ہے۔ چونکہ حضرت علامہ اسلام کی بالا دستی چاہتے تھے اس لیے وہ ہر اس شخصیت کو قدر اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اسلام کے فروغ کے لیے کوشاں ہوتی تھی۔ اور ظاہر ہے کہ سید سلیمان ندوی اس سلسلے میں پیش پیش تھے۔ چنانچہ حضرت علامہ نے انہیں اپنے خط میں لکھا کہ: ’’ علوم کی جوئے شیر کا فرہاد آج ہندوستان میں سوائے سید سلیمان ندوی کے اور کون ہے۔‘‘ (۴ ستمبر ۱۹۳۳ئ) اور دوسرے خط میں یوں رقمطراز ہیں: ’’ آپ کا وجود ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے از بس ضروری ہے اور مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا ہے تاکہ وہ دیر تک آپ کے علوم سے مستفیض ہوتے رہیں۔ ‘‘ ( ۲ اگست ۱۹۳۳ئ) 1؎ اقبال نامہ مرتبہ شیخ عطاء اللہ ص ۷۵ 2؎ ایضاً، ص ۷۶ ایک اور خط میں انہیں قلندر کہتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’ آپ قلندر ہیں مگر وہ قلندر جس کی نسبت اقبال نے یہ کہا ہے قلندراں کہ براہ تو سخت می کوشند ز شاہ باج ستانند و خرقہ می پوشند‘‘ (۵ ستمبر ۱۹۲۴ئ) ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علامہ اقبال سید سلیمان ندوی کے وجود کو ملت اسلامیہ کے لیے کتنا اہم سمجھتے تھے۔ اسلامی مسائل کے بارے میں اپنے خطوط میں اکثر و بیشتر ان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ ’’ روایت باری کے متعلق جو استفسار میں نے آپ سے کیا تھا اس کا مقصود فلسفیانہ تحقیقات نہ تھی۔ خیال تھا کہ شاید اس بحث میں کوئی بات ایسی نکل آئے جس سے آئن سٹائن کے انقلاب انگیز نظریہ نور پر کچھ روشنی پڑ سکے۔۔۔۔‘‘ (۱۲ مئی ۱۹۲۴ئ) ’’ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ زمان کے متعلق امام رازی کے خیالات کا خلاصہ قلمبند فرما کر مجھے ارسال فرما دیں۔ میں اس کا ترجمہ نہیں چاہتا صرف خلاصہ چاہتا ہوں جس کے لکھنے میں غالباً آپ کا بہت سا وقت ضائع نہ ہو گا۔۔۔۔‘‘ (۱۸ مارچ ۱۹۲۸ئ) اس کے علاوہ بے شمار اسلام کے مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں علامہ اقبال نے سید سلیمان ندوی سے استفسار کیا اور ان کی رائے اور مشورے کو صائب سمجھا۔ اس سلسلے میں وہ کتابوں کے بارے میں بھی ان سے مشورہ لیا کرتے تھے: ’’ حضرت ابن عربی کے خیالات و افکار بھیجنے کا جو وعدہ آپ نے فرمایا اس کے لئے بیحد شکر گزار ہوں۔۔۔۔‘‘ (۱۷ ستمبر ۱۹۳۳ئ) ’’ میں نے سنا ہے کہ شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب بدور البازغہ چھپ گئی ہے۔ مہربانی کر کے اس کا ایک نسخہ وی پی مجھے ارسال فرمائیے۔ اگر آپ کے ہاں نہیں ہے تو مہربانی کر کے جہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے وہاں سے منگوا دیجئے۔۔۔۔‘‘ (۲ اگست ۱۹۳۶ئ) اس کے ساتھ ساتھ حضرت علامہ انہیں خود بھی تصنیف و تالیف کے سلسلے میں مشورے دیتے تھے کیونکہ وہ یہ سمجھتے کہ ان کے سوا اس کام کو کوئی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا۔ چنانچہ انہیں لکھتے ہیں: ’’ دار المصنفین کی طرف سے ہندوستان کے حکمائے اسلام پر ایک کتاب نکلنی چاہیے اس کی سخت ضرور ہے عام طور پر یورپ میں سمجھا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی کوئی فلسفیانہ روایات نہیں ہیں۔‘‘ (۴ ستمبر ۱۹۳۳ئ) ایک اور خط میں یوں رقمطراز ہیں: ’’ اس وقت سخت ضرورت اس بات کی ہے کہ فقہ اسلامی کی ایک مفصل تاریخ لکھی جائے۔ اس مبحث پر مصر میں ایک چھوٹی سی کتاب شائع ہوئی ہے جو میری نظر سے گزری ہے۔ مگر افسوس ہے کہ بہت مختصر ہے اور جن مسائل پر بحث کی ضرورت ہے مصنف نے ان کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اگر مولانا شبلی زندہ ہوتے تو میں ان سے ایسی کتاب لکھنے کی درخواست کرتا۔ موجودہ صورت میں سوائے آپ کے اس کام کو کون کرے گا۔۔۔۔‘‘ (۱۸ مارچ ۱۹۲۶ئ) اس طرح جب ۱۹۳۳ء میں شاہ افغانستان کی طرف سے دعوت نامہ آیا اور اس میں سید سلیمان ندوی کا نام بھی شامل تھا تو حضرت علامہ نے بڑی خوشی محسوس کی اور اس سفر کے بارے میں انہیں بہت سے خطوط لکھے اور ضروری مشورے دیے اور اس سفر میں ڈاکٹر سید سلیمان ندوی سے بیحد متاثر ہوئے۔ افغانستان سے واپسی پر ہندوستان میں اس وفد پر بہت سے اعتراضات لگائے گئے تو ڈاکٹر اقبال نے دو بیانات دیے جن پر سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے بھی دستخط تھے۔ سید سلیمان ندوی نے سیر افغانستان کے نام سے معارف میں اپنا یہ سفر نامہ لکھنا شروع کیا تو حضرت علامہ نے انہیں ایک خط میں لکھا: ’’ آپ کا سفر نامہ افغانستان خوب ہے لوگوں نے بہت پسند کیا۔۔۔۔‘‘ (۶ ستمبر ۱۹۴۳ئ) اس طرح ادبی مباحث میں بھی حضرت علامہ سید سلیمان ندوی کی رائے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ چنانچہ جب معارف اپریل ۱۹۱۸ء میں رموز بیخودی پر سید سلیمان ندوی کا تبصرہ پڑھا تو انہیں لکھا: ’’ معارف میں ابھی آپ کا ریویو (مثنوی رموز بے خودی) نظر سے گزرا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ میرے لیے سرمایہ افتخار ہے۔۔۔۔۔ صحت الفاظ ومحاورات کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا ہے ضرور صحیح ہو گا لیکن اگر آپ ان لغزشوں کی طرف بھی توجہ فرماتے تو میرے لیے آپ کا ریویو زیادہ مفید ہوتا۔۔۔‘‘ (۱۰مئی ۱۹۱۸ئ) ’’ خضر راہ کے متعلق جو نوٹ آپ نے معارف میں لکھا ہے اس کا شکریہ قبول فرمائیے۔۔۔‘‘ (۲۹ مئی ۱۹۲۲ئ) ’’ پیام مشرق پر جو نوٹ آپ نے معارف میں لکھا ہے اس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔۔۔۔‘‘ (۵ جولائی ۱۹۲۲ئ) چنانچہ سید سلیمان ندوی حضرت علامہ اقبال کی جن تحریروں پر اظہار خیال کرتے تھے اور تنقید فرماتے تھے۔ علامہ اقبال کو بڑی مسرت ہوتی تھی اور اس سلسلے میں وہ انہیں اکثر لکھتے تھے کہ ان کی خامیوں کے بارے میں آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔ اس کا اظہار حضرت علامہ نے اپنے خطوط میں جا بجا کیا ہے: ’’ جس توجہ سے آپ نے تنقیدی خطوط لکھنے کی زحمت گوارا فرمائی ہے اس کے لیے نہایت شکر گزار ہوں۔۔۔۔‘‘ (۲۳ اکتوبر ۱۹۱۸ئ) ’’ ہاں ترجمہ کی داد دیتا ہوں۔ لٹریری اغراض کے لیے یہ ترجمہ نہایت عمدہ ہے۔ میرے خیال میں اس سے بہتر الفاظ نہ مل سکیں گے۔۔۔۔‘‘ (۲ دسمبر ۱۹۱۸ئ) ۱۹۱۶ء میں سید سلیمان ندوی نے معارف کا اجراء کیا تو قلمی معاونت کے لیے علامہ اقبال کو بھی آمادہ کیا۔ چنانچہ حضرت علامہ کی نظمیں اور غزلیں معارف کے مختلف پرچوں کی زینت بنیں۔ معارف کے بارے میں رائے دیتے ہوئے حضرت علامہ نے انہیں تحریر فرمایا: ’’ معارف مجھے خاص طور پر محبوب ہے اور بالخصوص آپ کے مضامین کے لیے کہ آپ کی نثر معانی سے معمور ہونے کے علاوہ لٹریری خوبیوں سے بھی مالا مال ہوتی ہے۔۔۔‘‘ (یکم فروری ۱۹۲۴ئ) سید سلیمان ندوی نے اپنی تصنیفات بھیجیں تو علامہ صاحب نے ان پر نہ صرف تبصرہ فرمایا بلکہ سید سلیمان ندوی کو خراج تحسین پیش کیا۔ ’’ عمر خیام‘‘ کے بارے میں تحریر فرمایا: ’’ عمر خیام پر آپ نے جو کچھ لکھ دیا ہے اس پر اب کوئی مشرقی یا مغربی عالم اضافہ نہ کر سکے گا۔ الحمد للہ اس بحث کا خاتمہ آپ کی تصنیف پر ہوا۔۔۔۔‘‘ (۹ دسمبر ۱۹۳۳ئ) سیرۃ عائشہ کے برے میں لکھا: ’’ سیرۃ عائشہ کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ یہ ہدیہ سلیمانی نہیں سرمہ سلیمانی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے میرے علم میں بہت مفید اضافہ ہوا۔۔۔۔‘‘ (۲۳ دسمبر ۱۹۲۰ئ) اس طرح سید سلیمان ندوی کی دوسری تحریروں کے بارے میں لکھا: ’’ سنت پر آپ کا مضمون ضرور دیکھوں گا اور اس سے اپنی تحریر میں فائدہ بھی اٹھاؤں گا۔۔۔‘‘ (۲۸ ستمبر ۱۹۲۹ئ) زمیندار میں تذکرہ پر ریویو حضرت علامہ اقبال کی نظر سے گزرا مگر انہیں پسند نہ آیا اس لیے کہ وہ تو سید سلیمان ندوی کے تبصروں کے معیار کو مدنظر رکھتے تھے۔ چنانچہ اس کے بارے میں تحریر فرمایا: ’’ زمیندار میں تذکرہ پر ایک ریویو مفصل شائع ہوا ہے مگر سید سلیمان ندوی کی اسٹائل اور وسعت نظر اس کو حاصل نہیں۔۔۔۔‘‘ (۵ ستمبر ۱۹۲۴ئ) معارف ماہ جون ۱۹۲۴ء کے شذرات میں سید سلیمان ندوی نے پیام مشرق کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کی اطلاع بھی انہیں خود علامہ صاحب نے اپنے ایک خط میں دی تھی: ’’ فی الحال میں ایک مغربی شاعر کے دیوان کا جواب لکھ رہا ہوں جس کا قریباً نصف حصہ لکھا جا چکا ہے۔ کچھ نظمیں فارسی میں ہوں گی کچھ اردو میں۔۔۔۔۔‘‘ (۱۰ اکتوبر ۱۹۱۹ئ) اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ معارف کی حضرت علامہ کی نظر میں کیا وقعت تھی: ’’ وہ اسے بڑی دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ چنانچہ ایک خط میں سید صاحب کو تحریر فرمایا کہ معارف ایک ایسا رسالہ ہے جس کے پڑھنے سے حرارت ایمانی میں ترقی ہوتی ہے۔‘‘ 1؎ علامہ اقبال کے خطوط اور ان کی تحریروں سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سید سلیمان ندوی ان کی نظر میں کیا تھے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ کچھ غلط باتیں علامہ صاحب سے منسوب کر دی گئیں۔ ان کی شکایت بھی علامہ صاحب نے سید صاحب سے کی۔ مثال کے طور پر یہ واقعہ دیکھئے: ’’ مولانا ابو الکلام کا تذکرہ جب چھپا تو اس کے دیباچے میں مولوی فضل الدین احمد ’’ الہلال‘‘ کے پریس مینجر نے یہ لکھ دیا کہ اقبال کی مثنویاں تحریک الہلال کی آواز باز گشت ہیں۔ اس پر علامہ نے احتجاج کیا اور داد خواہی کے لیے سید صاحب کو مخاطب کیا اور اپنے ایک خط میں لکھا کہ ’’ بہرحال اس کا کچھ افسوس نہیں کہ انہوں نے ایسا لکھا مقصود اسلامی حقائق کی اشاعت ہے نہ نام آوری۔ البتہ اس بات سے مجھے رنج ہوا کہ ان کے خیال میں اقبال تحریک اسلامی سے مسلمان نہ تھا۔ تحریک الہلال نے اسے مسلمان کیا۔‘‘ 2؎ بہرحال حضرت علامہ سید صاحب کی اسلامی خدمات اور ان کے علمی مدارج کے بڑے معترف تھے تبھی انہوں نے اس بات کا اظہار اپنے ایک خط میں کیا کہ: ’’ اگر میری نظر اس قدر وسیع ہوتی جس قدر آپ کی ہے تو مجھے یقین ہے کہ میں اسلام کی کچھ خدمت کر سکتا۔‘‘ (۲۴ اپریل ۱۹۲۶ئ) یہی نہیں بلکہ وہ سید صاحب سے ملاقات کے خواہ رہتے تھے تاکہ علمی بحث و تمحیص سے علم کی پیاس بجھائی جا سکے چنانچہ اس سلسلے میں انہیں تحریر فرمایا: ’’ کاش چند روز کے لیے آپ سے ملاقات ہوتی اور آپ کی صحبت سے مستفید ہونے کا موقع ملتا۔‘‘ (۱۸ مارچ ۱۹۲۶ئ) حضرت علامہ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے سید سلیمان ندوی کو ملت اسلامیہ کی ترویج و بقا کے لیے بہت بڑا ستون گردانتے تھے چنانچہ ان کی بیماری اور علالت کی وجہ سے وہ خود بھی خاصے متردد رہے۔ نہ صرف سید صاحب بلکہ دوسرے احباب کو بھی اس سلسلے میں خطوط لکھے۔ ۲۸ نومبر ۱۹۳۵ء کو مسعود عالم ندوی کو لکھا: مولینا سید سلیمان ندوی کی علالت کی خبریں بہت متردد کر رہی ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو صحت عاجل مرحمت فرمائے۔ میری طرف سے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر استفسار حالات کیجئے۔ اس وقت علمائے ہند میں وہ نہایت قابل احترام ہستی ہیں خدا تعالیٰ ان کو دیر تک زندہ رکھے۔ 1؎ مولانا سید سلیمان ندوی از سید صباح الدین عبدالرحمن نقوش شخصیات نمبر 2؎ مولانا سید سلیمان ندوی اور اقبال از ڈاکٹر محمد معز الدین فکر و نظر نومبر ۱۹۷۵ء ص ۴۱۹۔ ۴۱۸ ایک دوسرے خط میں سید سلیمان ندوی کے صحت یاب ہو جانے پر بڑی خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے ۵ فروری ۱۹۳۶ء کو مسعود عالم ندوی کو لکھا: ’’ اخباروں میں مولانا سید سلیمان ندوی کی صحت کی خبریں پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ خدا تعالیٰ ان کو دیر تک سلامت رکھے ان کا وجود اس ملک میں غنیمت ہے۔‘‘ اس طرح اپنے ۲ اگست ۱۹۳۶ء کے خط میں سید سلیمان ندوی کی صحت یابی پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ یہ تو حضرت علامہ اقبال کے جذبات و احساسات تھے جو وہ سید صاحب کے بارے میں رکھتے تھے اور جن کا اظہار انہوں نے اپنی تحریروں میں اور اپنے خطوں میں کیا ہے اور جنہیں اوپر کے صفحات میںتفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سید صاحب کی نظر میں حضرت علامہ کیا تھے اور ان کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں بھی انہوں نے اپنی تحریروں میں کن خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مضمون کے شروع کے اقتباس سے جیسا کہ واضح ہوتا ہے سید صاحب علامہ اقبال کو ایسا دانائے راز سمجھتے تھے جو اسرار کلام الٰہی کا محرم بھی ہے اور رموز شریعت کا آشنا بھی۔ سید صباح الدین عبدالرحمن لکھتے ہیں کہ: ’’ اپنے معاصرین اہل علم میں ڈاکٹر اقبال سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔ نجی مجلسوں میں کہا کرتے تھے کہ عالم اسلام میں ایک عرصہ کے بعد ڈاکٹر اقبال جیسا مفکر اعظم پیدا ہوا ہے۔ ان کو موحد خالص، رسول کا شیدائی، دین کامل کا علمبردار، فلسفہ اسلام کا ترجمان اور تجدید ملت کا طلب گار کہا کرتے تھے۔۔۔۔۔1؎‘‘ معارف کے شذرات میں اکثر و بیشتر حضرت علامہ کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ ۱۹۲۷ء میں جب سید صاحب لاہور تشریف لائے تو ڈاکٹر اقبال سے بھی ملاقات ہوئی۔ چنانچہ اس ملاقات کا ذکر انہوں نے بڑے فخر کے ساتھ کیا اور لکھا کہ: ’’ ڈاکٹر اقبال ان تمام صحبتوں میں شمع محفل تھے۔ انہوں نے تو شمع و شاعر لکھا ۔ لیکن میں نے تو لاہور میں خود شاعر کو شمع دیکھا اور قدر شناسوں کو اس کا پروانہ پایا۔۔۔۔‘‘ 2؎ اسی طرح معارف جولائی ۱۹۱۶ء کے شذرات میں کلام اکبر پر بات کرتے ہوئے حضرت علامہ کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ ولی دکنی سے لے کر امیر و داغ و جلال کے زمانہ تک ہماری شاعری جس تنگ و محدود شاہراہ پر چل رہی تھی اہل محفل کا دل اس سے اتنا اکتا گیا تھا کہ اگر نئے راستے پیدا نہ ہوتے تو اردو شاعری فنا ہو چکی ہوتی۔ مولانا شبلی کی تاریخی شاعری، مولانا حالی کا پند و موعظت، مولوی اسماعیل میرٹھی کی اخلاقی کہانیاں، ڈاکٹر اقبال کا فلسفہ، میر اکبر حسین کی پر معنی اور لطیف ظرافت اردو شاعری کی جدید تاریخ کے شاندار ابواب ہیں۔‘‘ 3؎ 1؎ اخلاق و سیرت کے کچھ جلوے از سید صباح الدین عبدالرحمن معارف سلیمان نمبر ص ۶۴ مئی ۱۹۵۵ء 2؎ شذرات از سید سلیمان ندوی معارف مئی ۱۹۲۷ء 3؎ ایضاً جولائی ۱۹۱۶ء ص ۵۳ اس طرح ایک اور مقام پر اقبال کی عظمت کا یوں اعتراف کرتے ہیں: ’’ ٹیگور کی عزت ماد رہند کی عزت ہے۔ اس کا اعزاز کل ملک کے لیے موجب افتخار ہے او راس کی مسرت عین ہم سب کی مسرت ہے۔۔۔ لیکن جس وقت تک اس سر زمین پر ٹیگور، اکبر اور اقبال کا دم قائم ہے کون اس کے فخر کی گردن کو جھکا سکتا ہے۔‘‘ 1؎ اس سے یہ اندازہ بھی لگتا ہے کہ سید صاحب علامہ صاحب سے کتنے متاثر تھے۔ اس کا اظہار انہوں نے کئی جگہ پر کیا ہے۔ آل انڈیا ریڈیو سے ایک پروگرام نشر ہوتا تھا جس کا عنوان تھا ’’ جن سے میں متاثر ہوا‘‘ اس عنوان کے تحت اہل دانش تقریریں کیا کرتے تھے۔ سید سلیمان ندوی نے بھی اس میں حصہ لیا اور کہا: ’’ ۱۹۱۲ء میں جب مولانا شبلی نے نئی اردو شاعری کی طرح ڈالی تو دل نے اس میں بھی استاد کی پیروی کا حق ادا کرنا چاہا۔ متعدد نظمیں اس رنگ میں لکھیں جن کا خاتمہ استاد کے ماتم پر ہوا، جو نوحہ استاد کے نام سے ۱۹۱۵ء میں پونا میں چھپا جہاں میں ان دنوں دکن کالج میں فارسی کا لیکچرر تھا۔ میں نے جب یہ نوحہ لکھا تو اکبر الٰہ آبادی، ڈاکٹر اقبال، عزیز لکھنوی، مولانا شیروانی وغیرہ اور استاد مرحوم کے اکثر دوستوں اور قدر دانوں کے پاس اس تحفہ کو بھیجا۔ سب نے تعریفیں کیں اور دل بڑھایا۔‘‘ 2؎ اس طرح سید سلیمان ندوی نے علامہا قبال کی کتب رموز بیخودی، پیام مشرق اور ان کی نظم خضر راہ پر معارف میںجو ریویو تحریر کیے خود اقبال نے اپنے خطوط میں ان کی داد دی اور سید صاحب سے بار بار اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ان کے کلام اور تحریروں کے بارے میں اپنے گرانقدر تنقیدی خیالات سے آگاہ کرتے رہا کریں اور خامیوں کی نشان دہی بھی کر دیا کریں۔ اس سے مجھے فائدہ ہو گا۔ اس کے علاوہ بھی دیگر تحریروں اور تبصروں میں سید سلیمان ندوی نے حضرت علامہ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ علم المعیشت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ سال رواں کی زندہ کتابوں میں پروفیسر محمد الیاس برنی کی علم المعیشت ہے۔ مصنف نے پولیٹکل اکانومی کا ترجمہ علم المعیشت کیا ہے۔ ہندوستان میں سب سے پہلے اس علم پر غالباً ۱۸۶۹ء میں دلی کالج کے ایک ہندو ماسٹر نے ایک کتاب لکھی تھی۔ پھر یہی کتاب کسی قدر تکمیل کے بعد سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ کی طرف سے شائع ہوئی۔ اس وقت اس علم کا نام ’’ انتظام مدن‘‘ قرار پایا۔ اس کے چند سال بعد میو کالج اجمیر کے ایک مسلمان پروفیسر نے ایک انگریزی کتاب کا کفایت شعاری کے نام سے خلاصہ کیا۔ ڈاکٹر اقبال نے مصر کی تقلید میں اس کو علم الاقتصاد کے نام سے ملک میں روشناس کرایا۔‘‘ 3؎ 1؎ شذرات از سید سلیمان ندوی معارف اگست ۱۹۲۱ء ص ۸۳۔ ۸۲2؎ جن سے میں متاثر ہوا، از سید سلیمان ندوی معارف جولائی ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۰۔ 3؎ مطبوعات جدیدہ از سید سلیمان ندوی معارف اپریل ۱۹۱۷ء ص ۵۴ یاد رہے کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے نام سے علامہ اقبال کی اپنی کتاب شائع ہو چکی ہے۔ اسی طرح سید سلیمان ندوی نے ’’ اقبال کا علم کلام‘‘ کے عنوان سے ایک طویل تنقیدی مقالہ تحریر کیا اور اس میں علامہ اقبال کی شاعری کے حوالے سے تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔ کابل کے وفد میں سر راس مسعود اور علامہ اقبال کے ساتھ سید سلیمان ندوی بھی شریک سفر تھے۔ چنانچہ سید صاحب نے اپنے سفر نامے، سیر افغانستان میں علامہ اقبال کا جگہ جگہ بڑے احترام سے تذکرہ کیا ہے۔ ۱۹۳۳ء میں جب سید سلیمان ندوی لاہور میں ادارہ معارف اسلامیہ کے جلسہ کے موقعے پر تشریف لائے تو انہوں نے ایک طویل مقالہ بعنوان ’’ لاہور کا ایک مہندس خاندان جس نے تاج محل اور لال قلعہ بنایا‘‘ پڑھا۔ اس جلسے کی صدارت حضرت علامہ اقبال نے کی تھی۔ اپریل ۱۹۳۸ء میں جب حضرت علامہ کا انتقال ہوا تو اس عظیم سانحے پر ’’ ماتم اقبال‘‘ کے نام سے مئی ۱۹۳۸ء کے معارف میں گہرے رنج و غم کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے اقبال کو خراج عقیدت پیش کیا۔ سید صاحب نے لکھا کہ: ’’ مولانا شبلی مرحوم نے اقبال کو اسی وقت پہچان لیا تھا جب ہنوز ان کی شاعری کے مرغ شہرت نے بال و پر پیدا نہیں کئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ حالی اور آزاد کی جو کرسیاں خالی ہوں گی ان میں سے ایک اقبال کی نشست سے پر ہو جائے گی۔ افسوس کہ آج اڑتیس برس کے بعد وہ کرسی خالی ہو گئی اور اب اس کے بھرنے کی کوئی صورت نہیں۔‘‘ آگے چل کر وہ حضرت علامہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اقبال: ہندوستان کا فخر اقبال۔۔۔۔ اسلامی دنیا کا ہیرو اقبال۔۔۔ فضل و کمال کا پیکر اقبال۔۔۔۔ حکمت و معرفت کا مجسمہ اقبال کاروان ملت کا رہنما اقبال۔۔۔۔۔ رخصت۔۔۔۔ رخصت۔۔۔ رخصت۔۔۔۔ الوداع۔۔۔۔۔۔ الوداع‘‘ اسی طرح علامہ اقبال کی رحلت پر ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کو ایک مکتوب میں لکھا: ’’ میری اور آپ کی ملاقات مرحوم ڈاکٹر اقبال کے ذریعے ہوئی۔ اس لیے آپ کے اور میرے خطوں کے تبادلہ میں اس سانحہ عظیم کا ذکر ضروری ہے۔ مرحوم کی وفات پر چند رسمی غمگین لفظوں کا اظہار ناکافی ہے۔ یہ وہ غم ہے جس کے لیے الفاظ کافی نہیں۔۔۔۔۔‘‘ 1؎ یہ وہ تفصیل تھی جس کی بناء پر علامہ اقبال نے سید سلیمان ندوی کو مولانا شبلی کے بعد استاذ الکل کہا اور علوم اسلام کی جوئے شیر کا فرہاد لکھا۔ اور سید سلیمان ندوی نے حضرت علامہ کو اسرار کلام الٰہی کا محرم اور رموز شریعت کا آشنا قرار دیا تھا۔ ٭٭٭ 1؎ علامہ اقبال اور سید سلیمان ندوی از ڈاکٹر عبداللہ چغتائی اقبال اپریل ۱۹۵۶ء ص ۱۲۷ خلیفہ عبدالحکیم اور علامہ اقبال پروفیسر محمد عثمان خلیفہ عبدالحکیم کو اقبال سے تین نسبتیں خاص ہیں: پہلی شخصی اور خاندانی، دوسری شارح اور مفسر کی، اور تیسری کو میں نسبت جانشینی کہوں گا۔ اقبال سیالکوٹ کے کشمیری تھے اور پنجاب میں آباد کشمیریوں میں جو حسن و جمال اور رنگ و روپ کی روایتی دلکشی پائی جاتی ہے، اقبال کو بدرجہ کمال نصیب تھی۔ خلیفہ عبدالحکیم کے معاملے میں بھی، جو کشمیری الاصل تھے، فطرت نے کسی بخل سے کام نہ لیا تھا۔ ان کی جوانیا ور پھر بڑھاپا (جو در حقیقت ان پر کبھی نہ آیا تھا) دیکھنے والوں کو متاثر کرتا تھا۔ اقبال نے فلسفے میں ایم اے، پی ایچ ڈی کیا۔ خلیفہ نے بھی یہ علمی مراحل اعزاز کے ساتھ طے کئے۔ اقبال کا لاکھوں بلکہ کروڑوں میں بھی یہ امتیاز تھا کہ وہ ایک طرف عربی، فارسی، اردو اور کسی حد تک ہندی اور سنسکرت پر عبور رکھتے تھے تو دوسری طرف انگریزی اور جرمن اور انگریزی پر بھی دسترس تھی اور بات فقط زبان دانی کی نہ تھی۔ اقبال کو مشرق و مغرب کے بہترین افکار اور ان کی ثقافتوں کی روح تک براہ راست رسائی حاصل تھی، ایسی رسائی جو صدیوں میں کسی آدم زاد کو نصیب ہوئی تھی۔ خلیفہ عبدالحکیم کو بھی ان سب زبانوں پر عبور تھا اور مشرق و مغرب کے افکار عالیہ اور روح ثقافت تک ان کی رسائی بھی براہ راست تھی۔ اقبال سب علوم شرق و غرب پڑھ چکنے کے باوجود مشرقیر ہے اور زندگی کے ساتھ ان کا ایمان اسلام کی اساس پر اور بھی پختہ اور گہرا ہوتا گیا اور وہ اسلام کے بے مثل مبقر اور درد مند مبلغ بن گئے۔ یہ درد مندی اور بصیرت خلیفہ عبدالحکیم کے حصے میں بھی آئی۔ اسلام کے ساتھ وابستگی اور شیفتگی دونوں میں قدر مشترک ہے۔ اس ضمن میں رومی کا ذکر بے محل نہ ہو گا۔ اقبال کی بصیرت کا سرچشمہ بھی قرآن تھا اور خلیفہ عبدالحکیم کا بھی، لیکن مسلم اکابرین میں دونوں رومی کی شخصیت اور افکار سے بہ طور خاص متاثر ہوئے۔ رومی سے اقبال کی عقیدت تو عالم آشکارا ہے لیکن ارباب علم جانتے ہیں کہ رومی پر ایک کتاب 1؎ خلیفہ مرحوم کے قلم سے نکلی یعنی Metaphysics of Roomi جس کا اردو ترجمہ ’’ فکر رومی‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ الغرض خاندانی پس منظر، مقاصد حیات، شکل و شباہت، علمی اعزازات، ایمانیات اور جذبات و احساسات کے اعتبار سے خلیفہ عبدالحکیم جس قدر اقبال کے قریب تھے، کوئی دوسرا نہ تھا۔ ہاں اگر کوئی استثناء اب ممکن ہے تو وہ فقط ڈاکٹر جاوید اقبال کی ہے کہ باپ کی اگر ہو بہو تصویر نہیں تاہم کوئی شخص انہیں دیکھ کر معاً اقبال کو ذہن میں لائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ 1 ؎ مرحوم میاں بشیر احمد مدیر ہمایوں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:’’ جن دنوں میں ترکی میں اپنے ملک کا سفیر تھا تو ایک روز ترکی کے وزیر خارجہ نے مجھے اپنے ہاں دعوت پر بلایا۔ دعوت کے بعد وہ مجھے اپنے کتب خانے میں لے گئے اور ایک الماری کے سامنے کھڑے ہو کر کہنے لگے ‘‘ آپ کو معلوم ہے مولانا رومی پر بہترین کتاب کس ملک کے مصنف کی لکھی ہوئی ہے۔ میں نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا تو وہ بڑے فخر سے بولے پاکستان کے خلیفہ عبدالحکیم کی اس پر مجھے جو خوشی ہوئی اس کا اندازہ کرنا آسان نہیں۔ قریب قریب یہی حال خلیفہ مرحوم کا تھا۔ انہیں دیکھتے ہی اقبال کا خیال آتا تھا۔ اقبال پر بڑے بڑوں نے لکھا ہے۔ انگریزوں نے، جرمنوں نے، روسیوں اور فرانسیسیوں نے، ہندوؤں اور سکھوں نے، عربوں اور ترکوں نے۔ ان میں نکلسن بھی ہے اور آربری بھی۔ الیگزینڈر بوسانی بھی ہے اور ڈاکٹر اینی میری شمل بھی۔ اس میدان میں ڈاکٹر یوسف حسین خان بھی اترے اور مولوی عبدالسلام ندوی بھی۔ لیکن اقبال کی شرح و تفسیر کا جو حق عبدالحکیم نے ادا کیا، کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ خلیفہ عبدالحکیم نے فکر اقبال کے دیباچہ میں یوسف حسین کی ’’ روح اقبال‘‘ اور عبدالسلام ندوی کی ’’ اقبال کامل‘‘ کو بہت سراہا ہے لیکن خدا لگتی یہ ہے کہ اقبال کے ہمہ جہت فکر کی جو کامل سچی تصویر’’ فکر اقبال‘‘ میں ملتی ہے وہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔ چونکہ خلیفہ کو ان سب علوم اور قلبی واردات سے گہرا تعلق تھا جو کلام اقبال کا پس منظر مہیا کرتے ہیں لہٰذا یہ قدرتی امر تھا کہ وہ اقبال کے بہترین شارح اور مفسر ثابت ہوں۔ ’’ فکر اقبال‘‘ اپنی جامعیت، اپنے مصنف کے عمق نظر اور اقبال کے ساتھ اپنی دیانت اور وفا کے باعث اور اپنے سلیس و دلنشیں اسلوب نگارش کی بدولت اقبال پر لاجواب کتاب ہے۔ یوں تو اس کا ایک ایک باب قابل توجہ اور لائق داد ہے لیکن میں یہاں فقط دو ابواب کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ان میں سے ایک کا تعلق اشتراکیت سے ہے اور دوسرے کا اسلام سے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں اور کچھ عرصے سے جس کی مدت آپ دس بارہ برس متعین کر سکتے ہیں، ہمارے یہاں اشتراکیت یا سوشلزم بڑا نزاعی مسئلہ ہے۔ خوش قسمتی سے جب ’’ فکر اقبال‘‘ لکھی گئی تو ہماری علمی و ادبی فضا اس تنازعے سے مکدر نہ ہوئی تھی۔ پھر خلیفہ عبدالحکیم کا ذہن فکری تعصبات سے پاک تھا۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اس باب میں مرحوم نے جو کچھ لکھا ہے، وہ نہ صرف اقبال کے موقف کی نہایت بے لاگ اور صحیح ترجمانی ہے بلکہ اس سوال پر باہم دست و گریباں ہونے والوں کو میرا مشورہ ہے کہ اس جھگڑے میں وہ خلیفہ مرحوم کا حکم مان لیں۔ یوں تو اس سوال کو خلیفہ نے ایک بلیغ فقرے میں حل کر دیا ہے اور اصولاً وہی فقرہ یہاں درج کر دینا کافی ہونا چاہیے تھا تاہم وضاحت کے خیال سے دو تین اقتباسات مزید پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے خلیفہ فکر اقبال کے صفحہ ۲۵۲ پر لکھتے ہیں: ’’ جس قسم کا انقلاب روس میں ہوا اس سے ملتا جلتا انقلاب اقبال ملت اسلامیہ میں بھی دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس کا محرک اسلام ہونا چاہیے نہ کہ الحاد، تاکہ ’’ لا‘‘ کے بعد آسانی سے ’’ الا‘‘ کی طرف قدم اٹھ سکے بلکہ توحید ہی اس تمام انقلاب کی محرک ہو۔‘‘ اس فقرے کی وضاحت مطلوب ہو تو ہمیں ’’ فکر اقبال‘‘ کے صفحہ ۲۵۰ پر توجہ دینی ہو گی یہ قدرے طویل اقتباس ہے مگر اس کے لیے کسی معذرت کی ضرورت نہیں خلیفہ مرحوم اپنے رواں اسلوب میں لکھتے ہیں: ’’ علامہ کے نزدیک اشتراکیت نے قدیم لغو طریقوں اور اداروں کی تخریب کا کام بہت کامیابی سے کیا ہے جس مذہب کی اس نے تنسیخ کی ہے۔ وہ قابل تنسیخ ہی تھا۔ اس نے سلطانی اور امیری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کیا او ربہت اچھا کیا۔ کیونکہ ان طریقوں نے مل کر انسانوں کا درجہ حیوانوں سے بھی نیچے گرا دیا تھا۔ لیکن روٹی، کپڑے اور رہائش کی آسودگی انسان کا مقصود حیات نہیں۔ انسانی ارتقاء کے مدارج لا متناہی ہیں۔ اشتراکیت نے کچھ تعمیری کام کیا اور کچھ تخریبی۔ اس کا ایک پہلو سلبی ہے اور دوسرا ایجابی۔ اس نے جن اداروں کا قلع قمع کیا اور جن عقائد کو باطل قرار دیا، وہ انسان کی روحانی ترقی میں بھی سد راہ تھے۔ لیکن اشتراکیت چونکہ مغرب کی مادی جدوجہد کی پیداوار تھی اور طبعی سائنس کے اس نظریے سے پیدا ہوئی تھی کہ مادی فطرت کے علاوہ ہستی کی اور کوئی حقیقت نہیں، اس لیے وہ تاریخی حادثے کا شکار ہو گئی اور مادی زندگی میں عادلانہ معیشت کو الحاد کے ساتھ وابستہ کر دیا حالانکہ اس تمام انقلاب کا مادیت کے فلسفہ الحاد کے ساتھ کوئی لازمی رابطہ نہیں۔ اقبال کا عقیدہ تھا کہ یہ تمام انقلاب اسلام کے ساتھ وابستہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ یہ معاشی تنظیم اسلام کے منشاء کے عین مطابق ہے۔ فرماتے تھے کہ اگر خدا اور روح انسانی کے متعلق جو صحیح عقائد ہیں، وہ اشتراکیت میں شامل کر دیے جائیں تو وہ اسلام بن جاتی ہے۔‘‘ ذرا آگے چل کر خلیفہ مرحوم کا قلم اس بحث کو سمیٹتے ہوئے جب نتیجہ اخذ کرتا ہے تو انداز بیان میں صراحت و ایجاز کی ساری رعنائیاں سمٹ آتی ہیں۔ اقبال کے اجتہاد ازیں موقف کو اپنی جچی تلی رائے میں شق کرتے ہوئے خلیفہ مرحوم نے لکھا ہے: ’’ اقبال نے مغربی تہذیب کی کہیں کم ہی تعریف کی ہے اگرچہ اس میں بھی خیر و شر دونوں طرف کے پہلو موجود ہیں لیکن اشتراکیت کے ذکر میں تعریف کا پہلو ندمت پر کسی قدر بھاری ہی معلوم ہوتا ہے جو معاشرت و معیشت کے متعلق اقبال کے اپنے عقائد کی غمازی کرتا ہے۔ عام مغربی تہذیب کے ساتھ اس کو اسلام کا اتصال مشکل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن زاویہ نگاہ کی ذرا سی تبدیلی سے اشتراکیت اسلام بن سکتی ہے یا اسلام اشتراکی ہو سکتا ہے۔‘‘ اور اب اس ضمن میں ’’ فکر اقبال‘‘ کا آخری اقتباس جو میری نظر میں حرف آخر بھی ہے ملکیت زمین کے سوال کو زیر بحث لاتے ہوئے خلیفہ رقمطراز ہیں: ’’ اشتراکیت کی تعلیم کا ایک بڑا اہم جزو مسئلہ ملکیت زمین ہے۔ اس بارے میں ہر قسم کے سوشلسٹ بھی کمیونسٹوں کے ہم خیال ہیں کہ یہ سرمایہ داری اور محنت کشوں سے ناجائز فائدہ حاصل کرنے کی بد ترین صورت ہے جس کے جواز کا از روئے انصاف کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ اقبال جسے مسلم سوشلسٹ کہنا چاہیے، ہر قسم کی سوشلزم اور کمیونزم سے اس مسئلے پر اتفاق رائے رکھتا ہے کہ زمین خدا کی پیدا کی ہوئی ہے اور اس کی حیثیت ہوا اور پانی کی سی ہے جس پر کسی کی کوئی شخصی ملکیت نہیں۔‘‘ (فکر اقبال ۲۴۶، ۲۴۷) اوپر کی سطروں سے دو اہم نتیجے بلا خوف تردید حاصل ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ خلیفہ مرحوم سوشلزم اور کمیونزم کو ایک چیز نہیں سمجھتے اور ان کے باہمی فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ خلیفہ کے نزدیک اقبال کو ’’ مسلم سوشلسٹ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭ اسلام کے متعلق باب کا پورا عنوان یوں ہے: ’’ اسلام اقبال کی نظر میں‘‘ ظاہر ہے اقبال کی نظر سے اسلام پر بات کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ مرحلہ کٹھن بھی ہے اور بہت نازک بھی۔ لیکن اس فرض سے جس طرح خلیفہ عہدہ برآ ہوئے ہیں وہ انہی کا حصہ ہے۔ توحید، تصور باری تعالیٰ، رسالت اور ختم نبوت، انسانی انا اور اس کی بقا، قرآن، حریث، فقہ، تصوف، صوفی و ملا، جنت و دوزخ، قصہ آدم کے مضمرات اور اسلام کا مستقبل ایسے پہلو ہیں جن پر خلیفہ مرحوم نے بے تکان مگر بڑی صحت اور ذمہ داری کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ یہ مضمون پڑھنے سے اقبال کی نظر و بصیرت کا ایک واضح تصور ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور ہم اس اقبال کو جاننے سمجھنے لگتے ہیں جس کے فکر رسا اور ذہنی جدت پسندی کے بے شمار پہلو اس کے شاعرانہ اسلوب کی گریز پائی کے باعث ہماری گرفت میں نہیں آتے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’’ اسلام کا مقصد زندگی کو کسی ایک صورت میں جامد کرنا نہ تھا بلکہ اسے لامتناہی انقلاب و ارتقاء کا راستہ بتانا تھا۔ نبوت کا ایک انداز ختم ہو گیا لیکن ارتقائے حیات ختم نہیں ہوا۔ اسلام کے دین کامل ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اس نے انسانی زندگی کی کوئی آخری صورت متعین کر دی ہے بلکہ اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے یہ تلقین کی کہ کوئی صورت قابل پرستش نہیں: صورت نہ پرستم من‘‘ (فکر اقبال، ص ۱۲۴) اقبال کا فلسفہ جوش و کردار اور تصور جنت و دوزخ کو بیان کرتے ہوئے خلیفہ رقمطراز ہیں: ’’ اقبال کا عقیدہ یہ ہے کہ جہاں حرکت و ارتقاء اور مسلسل خلاقی نہیں، وہاں زندگی کا فقدان ہے۔ جنت اگر جزائے اعمال حسنہ ہو تو وہ اس کیفیت نفس کا نام ہونا چاہیے جہاں عرفان خودی، استحکام خودی اور عشق خلاق ترقی یافتہ صورتوں میں پایا جائے۔ دوزخ خودی کے سوخت ہو جانے کا نام ہے۔ اس لیے نار دوزخ کی ماہیت کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں واضح کیاکہ وہ ایک آگ ہے جس کے شعلے کسی خارجی ایندھن سے نہیں بلکہ قلب انسانی میں سے بلند ہوتے ہیں۔‘‘ (ایضاً ۲۲۵) بقائے روح کی نسبت علامہ کے موقف کی صراحت کتنے سلیس مگر بلیغ انداز میں کی گئی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ بقائے روح کی نسبت علامہ اقبال کا خیال تھا کہ یہ بقا غیر مشروط نہیں۔ جسمانی موت کے بعد روح کا باقی رہنا یا نہ رہنا یا اس کا کسی ایک مخصوص حالت میں رہنا انسان کی خودی پر موقوف ہے۔ اگر کسی شخص نے صحیح علم و عمل سے اپنی خودی کو استوار نہیں کیا تو اس کا امکان ہے کہ وہ فنا ہو جائے اور اگر اچھی زندگی سے اس نے اپنی روح کو قوی بنا لیا ہے تو وہ باقی رہے گی۔ (ایضاً ۱۲۵۔ ۱۲۶)‘‘ بقائے روح سے بھی شاید نازک اور اختلاف کو اشتعال دلانے والا مسئلہ نجات اخروی کا ہے۔ خلیفہ اس پل صراط سے بھی با سلامت اور سر خرو گزرے ہیں۔ یہاں ان کی سبک خرامی داد کی طالب ہے فرماتے ہیں: ’’ اسلام سے قبل مختلف ادیان نے جنت اور نجات کو اپنے لیے مخصوص کر لیا تھا اور ہر گروہ میں یہ عقیدہ راسخ ہو گیا تھا کہ وہ گروہ اپنے مخصوص عقائد کی وجہ سے خد اکی مخصوص اور منتخب قوم ہے اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں کی وہی اجارہ دار ہے۔ ادیان کی تاریخ میں سب سے پہلے قرآن کریم نے اس اجارہ داری کوتوڑا اور واضح الفاظ میں اس خیال باطل کا قلع قمع کیا کہ اجر و نجات کسی ایک ملت کا اجارہ ہیں، خواہ اس کے اعمال کچھ ہی ہوں۔‘‘ اس باب میں متعدد مقامات ایسے ہیں کہ وہ خیال اقبال اور اسلوب حکیم کے بہترین نمونے ہیں تاہم ان سب کو یہاں زیر بحث لانا ممکن نہیں البتہ اس حصہ مضمون کو ختم کرنے سے پہلے ایک اقتباس اور پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں حیات انسانی کی غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے خلیفہ لکھتے ہیں: ’’ مقصود حیات اور غلیت دین انسان کی خودی کو بیدار کرنا ہے اور اس کے جذبہ عشق میں اضافہ کرنا ہے۔ دنیا ہو یا آخرت، یہ عالم ہو یا وہ عالم، ہر جگہ، ہر حالت اور ہر مقام پر جذبہ عشق اور شوق ارتقاء کا پایا جانا لازمی ہے۔‘‘ (فکر اقبال ۱۲۲) یہ چند پارے ہمیں یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ مفسر اقبال کی حیثیت سے خلیفہ مرحوم کا کیا مقام ہے۔ اسلام اور اقبال کے بارے میں جس اعتماد اور استحقاق کے ساتھ خلیفہ گفتگو کرتے ہیں، وہ اعتماد اور رنگ استحقاق آپ کو کہیں نہیں ملے گا۔ ٭٭٭ اب میں نسبت جانشینی کی طرف آتا ہوں۔ اقبال ۱۹۳۸ء میں وفات پا گئے۔ وفات سے چند سال پہلے کے زمانے میں دو دو بڑے نصب العینوں کی خاطر جدوجہد کرتے رہے تھے ان کا ایک مشن اسلامی فکر کی تشکیل نو اور فروغ تھا اور دوسرا مشن برعظیم کی تقسیم کو قابل قبول اور قابل عمل بنانا تھا تاکہ اور نہیں تو شمال مغربی ہند کے مسلمان ہر قسم کی غلامی سے آزاد ہو کر اپنی زندگی اور اسلام کے مستقبل کو سنوار سکیں۔ سب جانتے ہیں کہ دوسرے مشن کو تکمیل تک پہنچانے کا عظیم کارنامہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے سر انجام دیا لیکن اس طرف بہت کم لوگوں کی نگاہ جاتی ہے کہ اقبال کے پہلے مشن کا کیا ہوا؟ کیا وہ روایت آگے بڑھی یا اقبال پر ہی اس کا خاتمہ ہو گیا؟ اگر آگے چلی تو کس کس نے اسے آگے بڑھایا؟ اگر وہ آگے نہیں بڑھی تو ایسا کیونکر ہوا؟ میں کسی اور مضمون میں اس رائے کا اظہار کر چکا ہوں کہ گزشتہ سو ڈیڑھ سو برس میں ہم نے اسلام کو بہ زبان انگریزی پیش کرنے کی جو کامیاب کوششیں کی ہیں، ان میں تین نہایت ممتاز ہیں۔ ان میں پہلی جسٹس امیر علی کی تصنیف ’’ دی سپرٹ آف اسلام‘‘ ہے۔ اس کے بعد یہ امتیاز علامہ اقبال کے انگریزی خطبات کو حاصل ہوتا ہے اور اس نہایت مختصر فہرست کی تیسری اور تا حال آخری کتاب خلیفہ عبدالحکیم کی ’’ دی اسلامک آئیڈیالوجی‘‘ ہے۔ اقبال کے بعد اقبال کی سی کشاہد نگاہ، عمیق بصیرت اور عصری تقاضوں کو سمجھنے کی صلاحیت کا جیسا وافر ثبوت خلیفہ عبدالحکیم نے دیا ہے ان کے کسی ہم عصر نے نہیں دیا۔ یتیم پوتے کی وراثت سے لے کر ضبط تولید تک اور خواتین کی سیاست میں شرکت سے لے کر طلاق و خلع کے مسائل تک میں جو اسلوب نگاہ خلیفہ نے اختیار کیا، میرے نزدیک وہ اقبال فکر کا Extensionتھا۔ تفصیل کا یہ موقع نہیں، کیونکہ یہ مضمون پہلے ہی اپنے معین وقت سے تجاوز کر رہا ہے، تاہم میں یہ کہے بغیر مضمون ختم نہیں کر سکتا کہ تخلیق پاکستان کے فوری بعد کے زمانے میں قدامت پسندی اور تنگ کسریٰ نے جو آندھیاں اٹھائیں، ان کی تندی اور تیزی کے سامنے اگر کوئی مرد خدا سلامت روی اور بصیرت کا چراغ جلائے رہا تو وہ خلیفہ عبدالحکیم تھے۔ ان پر رکیک حملے کئے گئے۔ ان کے خلاف الزام تراشے گئے۔ ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ مگر انہوں نے ان اوچھی مخالفتوں کو خاطر میں لائے بغیر اپنے کام کو جاری رکھا اور اپنے بعد ایک بہت بڑا نہ سہی ایک مختصر مگر ہمت نہ ہارنے والا مدرسہ فکر چھوڑ گئے۔ یہ مدرسہ فکر ہمارے درمیان زیادہ موثر اور کارگر کیوں ثابت نہ ہوا؟ یہ الگ بحث ہے مگر جہاں تک خلیفہ مرحوم کا تعلق ہے، انہوں نے زندگی کے آخری لمحے تک اپنا مشن خاموشی اور وقار کے ساتھ جاری رکھا۔ا ور اس راہ میں بہت عظیم کارنامہ انجام دیا جس کا مفصل تنقیدی جائزہ لینا ابھی ہمارے ذمے ہے۔ مختصر یہ کہ اگر خلیفہ کی حکمت رومی، تشبیہات رومی، فکر اقبال، اسلامی نظریہ حیات اور ان کے مقالات کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا درست ہو گا کہ خلیفہ محض خلیفہ حکیم نہیں، حکیم الامت کے خلیفہ حقیقی بھی ہیں۔ ٭٭٭ سالک، مہر اور اقبال ڈاکٹر عبدالسلام خورشید عبدالمجید سالک ابھی چودہ سال کے تھے کہ شعر و شاعری کے ذوق نے جنم لیا۔ بٹالہ اور پٹھان کوٹ کے مشاعروں میں غزلیں پڑھیں۔ زمانے کے رواج کے مطابق استاد کی تلاش ہوئی۔ پہلے مولانا حالی کی خدمت میں تلمذ کے لئے لکھا۔ا نہوں نے ضعیفی کا عذر پیش کیا اور مشورہ دیا کہ حضرت علامہ اقبال کی شاگردی اختیار کی جائے۔ سالک نے انہیں خط لکھا۔ تو یہ جواب آیا: ہر شخص کو طبیعت آسمان سے ملتی ہے اور زبان زمین1؎ سے اگر آپ کی طبیعت شعر گوئی کے لئے موزوں ہے تو آپ خود بخود اس پر مجبور ہوں گے۔ رہا زبان کا مسئلہ، تو میں اس کے لئے موزوں استاد نہیں ہو سکتا۔ مثل مشہور ہے کہ شاعری ایک بے پیرا فن ہے لوگ اس مثل کو شاعری کی تحقیر کے لئے استعمال کیا کرتے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک یہ حقیقت ہے کہ شاعری میں کسی پیر استاد کی ضرورت نہیں۔ آپ کے کلام سے ہونہاری ٹپکتی ہے۔ اگر آپ کا یہ شوق قائم رہا تو آپ کسی دن بہت اچھے شاعر ہوں گے۔ اگر آپ شاگردی پر مصر ہی ہوں تو داغ صاحب کے شاگردوں میں سے دو کا نام لکھتا ہوں۔ ان سے رجوع کیجئے۔۔۔۔ سید محمد احسن مارہروی، مارہرہ ضلع ایٹہ اور منشی حیات بخش رصا مصاحب دربار رام پور آپ مفید الشعراء رسالہ تذکیر و تانیث (جلال) اور تحفتہ العروض ضرور دیکھ لیجئے۔ سالک نے حضرت رسا رامپوری کی شاگردی اختیار کی ۔ لیکن یہ سلسلہ ڈیڑھ سال سے زیادہ نہ چل سکا۔ کیونکہ رسا نے کہا کہ میں تو صرف غزل کی حد تک اصلاح دے سکتا تھا۔ اور آپ جن اصناف میں فکر سخن کر رہے ہیں۔ ان میں اصلاح دینا میرا منصب نہیں۔ اس کے بعد سالک نے کسی کی شاگردی اختیار نہ کی۔ گویا حضرت علامہ کا یہ ارشاد قبول کر لیا کہ شاعری میں کسی پیر استاد کی ضرورت نہیں۔ ۱۹۱۲ء میں سالک لاہور آ گئے۔ اس وقت ان کی عمر اٹھارہ انیس سال کی تھی۔ وہ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو ان دنوں انار کلی بازار کے اس بالا خانے میں رہتے تھے۔ جہاں بعد میں شوکت مارکیٹ تعمیر ہوئی۔ پہلی ملاقات کا حال یوں بیان کرتے ہیں ایک دن بے حد قاتل و توقف کے بعد جرأت کر کے حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہو ہی گیا۔ اگرچہ میری طفلانہ باتوں سے اور وقت بے وقت حاضر ہو کر باعث تعویق بننے سے حضرت کو ضرور کوفت ہوتی ہو گی۔ لیکن کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی اس کوفت کا احساس نہیں ہونے دیا۔ اور ادبی مسائل میں ہمیشہ نہایت مشفقانہ رہنمائی فرماتے رہے۔ اس دور کا ذکر کریت ہوئے سالک رقمطراز ہیں میں اکثر حاضر ہوتا اور ڈاکٹر صاحب کی باتوں سے مستفیض ہوتا۔ اس وقت ان کی عمر چالیس برس سے کچھ کم تھی لیکن نوجوانی کی رنگ رلیاں ترک کر چکے تھے اور اسلامیات کے وسیع مطالعہ اور قرآن حکیم پر تدبر و تفکر میں مصروف تھے۔ چونکہ اہل دل کی آغوش میں پرورش پائی تھی اس لئے طبیعت میں سوز و گداز تھا۔ میں نے بار ہا دیکھا کہ جوانی کے دور میں جب کبھی دوران گفتگو میں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی رافت و رحمت کا ذکر آ جاتا تو ڈاکٹر صاحب زاد و قطار رونا شروع کر دیتے اور دیر تک طبیعت نہ سنبھل پاتی۔ ۱۹۱۴ء میں سالک کو لاہور چھوڑنا پڑا۔ پٹھان کوٹ گئے۔ وہاں سے ماہ نامہ ’’ فانوس5؎ خیال‘‘ جاری کیا۔ ایک دفعہ کسی اخبار میں اقبال کی ایک نظم آئی جو ’’ فانوس خیال‘‘ میں نقل کر لی۔ چند روز بعد علامہ کی طرف سے ایک رجسٹرڈ نوٹس آ گیا۔ کہ میں نے آپ کو اپنا کلام اشاعت کے لئے نہیں دیا۔ پھر آپ نے میری نظم کیوں شائع کی؟ سالک پریشان ہوئے۔ اپنے والد سے تذکرہ کیا۔ ان کے ایک دوست محمد فاضل سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور علامہ کے بے تکلف دوست بھی تھے۔ انہوں نے سنا تو کہا، تم فکر نہ کرو، اقبال کے دفاع میں قانون کا فتور ہے۔ اس دفعہ لاہور جاؤں گا۔ تو اس فتور کا علاج کر دوں گا۔ ’’ فانوس خیال‘‘ میں خسارہ ہوا تو اسے بند کر کے سالک ۱۹۱۵ء کے اواخر میں پھر لاہور آ گئے اور اس وقت سے 6؎ سے ۱۹۳۸ء تک تیئس سال کی مدت میں کوئی ہفتہ بھی ایسا نہ گذرا کہ وہ ایک دو دفعہ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر نہ ہوئے ہوں۔ سوائے ایک سال کی اس اسیری کے جس کا تذکرہ بعد میں آئے گا۔ علامہ مشاعروں سے نفور تھے۔ لیکن لاہور کی بزم اردو کے مشاعروں میں ان کے تمام معزز احباب شامل ہوتے تھے۔ اس لئے مجبوراً وہ بھی آ جاتے تھے۔ ۱۹۱۷ء کا ذکر ہے برکت علی اسلامیہ ہال میں مشاعرہ تھا میاں شاہ دین ہمایوں صدر تھے۔ اقبال بھی تشریف فرما تھے۔ سالک نے لاہور میں پہلی مرتبہ اس مشاعرے میں ایک غزل پڑھی جس کا پہلا شعر تھا: وہ ہے حیرت فزائے چشم معنی سب نظاروں میں تڑپ بجلی میں اس کی اضطراب اس کا ستاروں میں دو شعروں پر انہیں داد کی توقع زیادہ تھی اور وہ شعر پڑھ کر بار بار علامہ کی طرف دیکھتے تھے۔ لیکن علامہ تھے کہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ شعر یہ تھے: مدد اے اضطراب شوق تو جان تمنا ہے نکل اے صبر تیرا کام کیا ہے بے قراروں میں یہ کس کا نام لے کر جان دی بیمار الفت نے یہ کس ظالم کا چرچا رہ گیا تیمار داروں میں لیکن اس کے بعد جب یہ اشعار پڑھے تو علامہ کو بھی حرکت ہوئی اور انہوں نے بے حد حوصلہ افزائی فرمائی۔ ذرا سی چھیڑ بھی کافی ہے مضر اب محبت کی کہ نغمے مضطرب ہیں بربط ہستی کے تاروں میں کہاں کا شغل مے اب دور ہے خوننا بہ غم کا وہی قسمت میں تھی جو پی سکے اگلی بہاروں میں میسر اب مجھی کو آبلہ پائی نہیں ورنہ خلش اب تک وہی ہے دہن صحرا کے خاروں میں انہی دنوں رائے بہادر پنڈت شیو نارائن شمیم نے مس ایلا ویلر ول کا کس کی ایک انگریزی نظم Solitude ترجمے کے لئے بھیجی۔ سالک نے اس کا منظوم ترجمہ علامہ کی خدمت میں اصلاح کے لئے پیش کر دیا۔ علامہ نے دو تین جگہ اصلاح فرما دی۔ سالک اس اک ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اصلاح کے بعد میں نے گذارش کی کہ ۱۹۰۸ء میں آپ ہی کے مشورے کے مطابق میں نے کتابیں پڑھیں اور رسا صاحب سے اصلاح بھی لی اور آج براہ راست بھی ایک نظم آپ سے درست کرا لی۔ کیا اب بھی میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں آپ سے شرف تلمذ رکھتا ہوں؟ اس پر بہت ہنسے اور فرمانے لگے۔ آپ کا جس طرح جی چاہے، سمجھ لیجئے۔ لیکن میں تو سرے سے شعر میں استادی شاگردی کے انسٹی ٹیوشن ہی کا قائل نہیں۔ یوں جو کچھ مجھے آتا ہے کسی دوست کو بتانے میں مجھے کوئی تامل بھی نہیں۔‘‘ ۱۹۱۸ء کا ذکر ہے۔ سید امتیاز علی تاج نے ’’ کہکشاں‘‘ کے نام سے ایک نہایت دقیع علمی و ادبی ماہ نامہ جاری کیا۔ سالک ایک تو ’’ تہذیب النسواں‘‘ اور’’ پھول‘‘ کی ادارت کرتے تھے۔ دوسرے تاج کے ساتھ ان کی دوستی بھی بہت گہری تھی۔ ایسے میں ’’ کہکشاں‘‘ کی ادارت بھی دونوں مل کر کرتے تھے۔ سالک کو اقبال سے اتنا پیار تھا کہ جہاں کسی رسالے میں ان کا کلام دیکھتے یا انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ان کا کلام سنتے اسے نقل کر کے محفوظ کر لیتے۔ یہ مجموعہ کلام میرے پاس موجود ہے۔ ۱۹۱۸ء میں اس عادت سے مجبور ہو کر انہوں نے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں وہ تین چار چھوٹی چھوٹی نظمیں نقل کر لیں۔ جو علامہ نے پڑھیں سالک نے ان میں سے ایک نظم ’’ کہکشاں‘‘ چھاپ دی اور لکھ دیا کہ ہم آئندہ بھی حضرت کا کلام درج کرتے رہیں گے۔ جب علامہ اقبال نے رسالہ دیکھا تو ان کی قانونی رگ حمیت پھڑک اٹھی۔ انہوں نے کھٹ سے امتیاز علی تاج کے نام ایک قانونی نوٹس میں لکھا کہ میں نے آپ کو اپنا کوئی کلام شائع کرنے کے لئے نہیں دیا۔ پھر آپ کس بناء پر اپنے ناظرین سے میرا کلام شائع کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں؟ آپ جلد سے جلد اس خلاف قانون حرکت کی تلافی کیجئے ورنہ میں مجبوراً چارہ جوئی کروں گا۔ اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے سالک رقمطراز ہیں ’’ تاج صاحب نے وہ نوٹس مجھے دکھایا۔ میں شام کو حضرت علامہ کی خدمت میں پہنچا۔ آپ نے مجھ سے کسی قسم کے تکدر کا اظہار نہیں کیا۔ آخر میں نے خود ہی ذکر چھیڑا۔ تو آپ نے شکایت کی کہ ’’ کہکشاں نے بلا اجازت میرا کلام شائع کیا ہے میں نے گذارش کی کہ اگر آج کوئی روزانہ اخبار لاہور میں ہوتا (حکومت کے تشدد کی وجہ سے اس وقت لاہور میں کوئی روزانہ اخبار موجود نہیں تھا۔ خورشید) اور وہ انجمن کے اجلاس کی روداد شائع کرتا تو یہ نظمیں لازماً اس روداد میں شائع ہوجاتیں کیونکہ ہزار ہا آدمیوں کے مجمع میں سنائی جا چکی تھیں اور رپورٹروں کو ترتیب روداد سے کوئی روک نہیں سکتا۔ آپ غالباً اس روزانہ اخبار کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرتے تو پھر اس غریب ماہ نامے پر عتاب کی وجہ؟ اور اگر آپ اجازت پر مصر ہوں تو میں نہایت ادب سے عرض کرتا ہوں کہ میرے پاس آپ کی تین غیر مطبوعہ نظمیں اور موجود ہیں اور میں انہیں کہکشاں میں درج کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر تکدر کا بادل یک دم چھٹ گیا اور آپ نے خوشی اجازت دے دی۔‘‘ حضرت علامہ سے تعلقات بڑھتے چلے گئے۔ انہی کے ہاں 10؎ مولانا غلام قادر گرامی سے تعارف ہوا۔ جو اس دور کے عظیم فارسی شاعر تھے۔ گرامی سالک سے بہت محبت کرتے تھے۔ اول، ادبی صلاحیت کی بناء پر۔ دوم: اس لئے کہ گرامی بھی ککے زئی برادری سے تعلق رکھتے تھے اور سالک بھی اور اس برادری کی کیفیت یہ ہے کہ ہر شخص کا دوسرے شخص کے ساتھ دور و نزدیک کا کوئی نہ کوئی رشتہ نکل آتا ہے۔ گرامی غیر حاضر مزادج آدمی تھے۔ اس لئے کبھی سالک اقبال کے ہاں جاتے تو گرامی اقبال سے ان کا تازہ تعارف کراتے کہ ’’ ڈاکٹر یہ سالک صاحب ہیں۔ اردو فارسی نظم و نثر خوب لکھتے ہیں۔ کیوں نہ ہوں۔ گرامی کے ہم قوم ہیں اور خطہ یونان پنجاب یعنی بٹالہ کے رہنے والے ہیں۔‘‘ سالک لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب یہ سن کر بہت ہنستے اور مولانا کے بہرے پن سے فائزہ اٹھا کر مجھ سے کہتے۔ سالک صاحب یہ آپ کا ککے زئی بزرگ بالکل کھوسٹ ہو گیا۔ مجھ سے آپ کا تعارف کرا رہا ہے۔ ذرا دیکھئے تو سہی۔11؎ سالک جب حاضر ہوتے، کسی ادبی یا سیاسی مسئلے پر گفتگو چھیڑ دیتے اور اقبال اس مسئلے پر وسیع اور اچھوتی معلومات مہیا کر دیتے۔ بعض اوقات ہلکی سی بحث بھی ہو جاتی۔ مثلاً ایک آدھ مرتبہ خواجہ حافظ شیرازی کی شاعری پر بحث ہوئی۔ حضرت علامہ ان کی شاعری کو حسین، لیکن بے حد مہلک قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ مسلمانوں کو اس قسم کے ہلاکت آموز ادب نے سخت نقصان پہنچایا ہے۔ سالک جواب میں ایسے اشعار پڑھ کر سناتے۔ خیز دو کاسہ زر آب طرب ناک انداز پیش ازانے کہ شود کاسہ سر خاک انداز عاقبت منزل ما وادی خاموشانست حالیا غلغلہ در گنبد افلاک انداز اس پر اقبال کہتے کہ یہ عمل کا سبق نہیں۔ زندگی کے حقائق سے غفلت کا درس ہے۔ شراب پی کر بے خود ہو جانے کی نصیحت ہے سالک لکھتے ہیں:’’ جب متین گفتگو نہ ہوتی لطائف کی پھلجھڑیاں چھوٹتیں۔عین سامنے کے چوبارے میں ڈاکٹر کتن خاں دندان ساز رہتے تھے۔ ان پر پھبتیاں کسی جاتیں اور ان کے نہایت دلچسپ و دلآویز قصے سنائے جاتے۔‘‘ 12؎ حضرت علامہ نے ’’ اسرار خودی‘‘ کا مسودہ اشاعت سے پہلے سالک کو دکھایا۔ اس پر جو کچھ ہوا۔ وہ سالک ہی کی زبانی سنیے: میں نے مودبانہ دو گذارشیں کیں۔ ایک یہ کہ سید علی امام کے نام اس کا تعنون نہ بھیجئے۔ خود داری کا اتنا عظیم الشان فلسفہ پیش کرنا اور ایک دنیا دار بڑے آدمی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانا کچھ ان مل بے جوڑ سی بات معلوم ہوتی ہے۔ دوسرے، خواجہ حافظ کے خلاف جو اشعار لکھے گئے ہیں۔ وہ نکال دیجئے، لیکن میری کوئی بات نہ مانی گئی۔ آخر اس کے بعد کے ایڈیشنوں میں یہ دونوں چیزیں نکال دی گئیں۔ میں نے پوچھا کہ حضرت جب میں نے عرض کیا تھا تو آپ نے قبول نہ کیا۔ اور اب خود بخود ہی میرے مشورے پر عمل کر لیا۔ اس کی کیا لم ہے؟ کہنے لگے۔ ان دونوں چیزوں کی اشاعت کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو چکا ہے۔ اس لئے اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا مقصد تھا۔ ۱۹۲۲ء کے اواخر کا ذکر ہے۔ سالک ’’ زمیندار‘‘ میں ایک باغیانہ اداریہ لکھنے کی پاداش میں 13؎ میں ایک سال کی قید گذارنے کے بعد لاہور پہنچے اور علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت علامہ میکلوڈ روڈ پر بھات سینما اور رتن سینما کے درمیان ایک بوسیدہ سی کوٹھی میں منتقل ہو چکے تھے۔ سالک بتاتے ہیں داخل ہوا ہی تھا کہ علامہ اپنے معمول کے خلاف اٹھ کر لپکے اور مجھے سینے سے لگا لیا۔ اس کے بعد بیٹھ کر باتیں کرنے لگے مجھ سے جیل کی زندگی کی تفصیلات دریافت کیں اور یہ سن کر کہ وہاں صبح سے شام تک ایک ضبط و نظم کی شدید پابندی کرنی پڑتی ہے فرمایا الدنیا سبحن المومن و جنتہ الکافر کا غالباً یہی مطلب ہے جس طرح ہر کام مقررہ وقت پر انجام دیتا ہے۔ محنت مشقت میں مصروف رہتا ہے اور روکھی سوکھی کھا کر اور موٹا جھوٹا پہن کر خدا کا شکر کرتا ہے اور ہمیشہ نیک نامی کے ساتھ جیل سے نجات پانے کی دعائیں کرتا ہے۔ اس طرح مومن دنیا میں پابندی، محنت، سادگی، فرض شناسی کی زندگی بسر کرتا ہے۔ تعیش سے مجتنب رہتا ہے اور آبرو کے ساتھ اس تیرہ خاکداں سے رخصت ہو کر اپنے پیدا کرنے والے کے دربار میں حاضر ہونے کا خواہاں رہتا ہے۔ کافر کی حالت اس سے بالکل مختلف ہے۔ کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے اسی قسم کی بصیرت افروز باتیں ہوتی رہیں۔ پھر میں نے عرض کیا حضرت! کیا لاہور میں اس سے بہتر کوٹھی نہ ملتی تھی؟ یہ تو بہت ہی پرانی ہے ہنس کر فرمانے لگے جی ہاں یہ تو میری دعاؤں ہی کے سہارے کھڑی ہے ورنہ اس میں قائم رہنے کی کوئی بات باقی نہیں۔ 14؎ یکم جنوری ۱۹۲۳ء کو حکومت نے حضرت علامہ کو ’’ سر‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ یہ چیز سالک کے لئے حیران کن تھی اور نتیجہ ان اشعار کی صورت میں نکلا: سر ہو گئے اقبال لو مدرسہ علم ہوا قصر حکومت افسوس کہ علامہ سے ’’سر‘‘ ہو گئے اقبال پہلے تو مسلمانوں کے سر ہوتے تھے اکثر تنگ آ کے اب انگریزوں کے سر ہو گئے اقبال پہلے تو سر ملت بیضا کے وہ تھے تاج اب اور سنو تاج کے سر ہو گئے اقبال کہتا تھا یہ کل ٹھنڈی سڑک پر کوئی گستاخ سرکار کی دہلیز پہ سر ہو گئے اقبال ٭٭٭ کیا کہنے ہیں اس شیوۂ تسلیم و رضا کے سرکار ہوئی تیغ تو سر ہو گئے اقبال سر ہو گیا ترکوں کی شجاعت سے سمرنا سرکار کی تدبیر سے سر ہو گئے اقبال سودائے غم عشق سے سالک تو ہوا قید اور خوبی قسمت ہے کہ ’’سر‘‘ ہو گئے اقبال اس کے بعد سالک نے اپنے مستقل مزاحیہ کالم’’ افکار و حوادث‘‘ میں اس مسئلے پر یہ سطور لکھیں: ’’ جناب میاں محمد شفیع کو سر کا خطاب ملا تو کسی قومی اخبار نے ایک لفظ تک بھی نہ لکھا۔ لیکن حضرت علامہ اقبال کے سر ہو جانے پر تمام دنیائے ادب و سیاست میں تہلکہ مچ رہا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ بالکل ظاہر ہے کہ میاں محمد شفیع کو قوم اپنا نہیں سمجھتی۔ وہ نہ کبھی پہلے قوم کی رائے کی پروا کرتے تھے نہ اب کرتے ہیں۔ ان کا دائرہ عمل ہی دوسرا ہے لیکن اقبال۔۔۔۔۔ ہمارا اقبال۔۔۔۔قوم کی آنکھوں کا تارا اقبال اگر ہم سے چھن جائے اور حکومت ایک دو حرفی لفظ دکھا کر موہ لے تو یقینا ماتم کا مقام ہے۔‘‘ ٭٭٭ اقبال سر کے دو حرفی اعزاز پر قناعت کر گئے۔ حالانکہ ہم انہیں کسی عظیم الشان اسلامی سلطنت کی وزارت عظمیٰ پر فائز دیکھنا چاہتے تھے اور یہ امر کچھ دشوار نہیں ہے۔ تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں تلاج تنگی داماں بھی ہے ٭٭٭ اگر اقبال سر بنا دئیے گئے تو ان کے سرکاری دوستوں کو مبارک ہو۔ جناب سر ذوالفقار علی خان اس پر جتنی خوشی منائیں، کم ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ مسلمان اقبال کے اس سرکاری سر کو پسند نہیں کرتے۔ وہ تو اقبال کے اس سر کے شیدا ہیں۔ جس میں اسلام کے عشق کا سودا ہے۔16؎ سالک لکھتے ہیں کہ ’’ وہ اشعار زبان زد عام ہو گئے لیکن وہ ایک نوری جذبہ تھا۔ اشعار چھپ جانے کے بعد راقم پر ندامت کا غلبہ ہوا اور چند ہفتے علامہ کی خدمت میں حاضری کی جرأت نہ کر سکا لیکن جب آخر ڈرتے ڈرتے حاضر ہوا۔ تو علامہ کے طرز تپاک اور محبت آمیز سلوک میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ بلکہ وہ شاکی تھے کہ اتنی مدت تک طعنے کیوں نہ آئے۔‘‘ جیل سے لوٹنے کے بعد سالک کو مولانا غلام رسول مہر کی رفاقت نصیب ہوئی۔ 17؎ کیونکہ دونوں ’’ زمیندار‘‘ میں کام کرتے تھے سالک لکھتے ہیں۔ ’’ ہم دونوں حضرت علامہ کے عاشق تھے۔ وہ مجھ سے زیادہ اور میں ان سے زیادہ اب ہم دونوں اکٹھے حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔۔۔‘‘ 18؎ دونوں اقبال کی تعلیمات کی نشرو اشاعت کے لئے مخلصانہ جوش رکھتے تھے۔ اس لئے ’’ زمیندار‘‘ میں علامہ کی تصانیف کے متعلق اطلاعات اور ان پر تنقیدی و تقریظی مقالات اکثر شائع ہوتے رہتے تھے۔ خود حضرت علامہ بھی بے حد شفقت فرماتے تھے اور کبھی کبھی ’’ زمیندار‘‘ کو اپنے غیر مطبوعہ کلام سے بھی مشرف فرماتے رہتے تھے۔ ۱۹۲۶ء میں اقبال مجلس قانون ساز کے رکن چنے گئے۔ تو فیروز پور کے اسی 19؎ اے سی ڈاکٹر تصدق حسین خالد کی تحریک پر فیروز پور کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ علامہ کو بلا کر جلوس نکالا جائے۔ تیسرے پہر مشاعرے کی صدارت کرائی جائے اور اس کے بعد استقبالیہ دیا جائے۔ علامہ نے کہا جلوس میرے ذوق کے خلاف ہے مشاعرے کی صدارت سالک کریں گے۔ البتہ استقبالیہ میں شامل ہو جاؤں گا۔ چنانچہ مشاعرہ سالک کی صدارت میں ہوا وہ استقبالیہ میں آئے۔ تقریر کر دی لیکن اصرار کے باوجود کلام سنانے سے انکار کر دیا کہ شعر سننے سنانے کی چیز نہیں۔ تنہائی میں بیٹھ کر پڑھنے کی چیز ہے۔ فیروز پور کے معززین نے سالک سے سفارش کے لئے کہا انہوں نے منت سماجت کی تو اقبال نے یہ دو شعر سنا دئیے: دریں صحرا گزار افتاد و شاید کاروانے را پس از مدت شندم نالہ ہائے سارہانے را اگریک یوسف از زندان فرنے بروں آید جفارت می تواں برون متاع فاروانے را 20؎ اقبال نے ایک مرتبہ مجلس قانون ساز میں سالک کا تذکرہ کیا بات یہ ہوئی کہ سالک نے دار الاشاعت پنجاب کے لئے ’’ امداد باہمی‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں ساہو کاروں کے ظلم اور کاشتکاروں کی مظلومی کے بارے میں مستند حقائق درج کئے۔ سر گوکل چند نارنگ کے غلط معلومات کی بناء پر کونسل میں کہا کہ یہ کتاب شعبہ اطلاعات نے چھاپی ہے اور اس کے بعض مضامین پر ازالہ حیثیت عرفی اور دفعہ ۱۵۳ کے ماتحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبال نے اصل صورت حال بتائی اور سالک سے کہا کہ وہ اس پر مضمون بھی لکھیں۔ چنانچہ سالک نے ’’ پیسہ اخبار‘‘ میں مضمون لکھا۔ کیونکہ ’’ زمیندار‘‘ سے تعلق ٹوٹ چکا تھا۔ مہرو سالک ’’ زمیندار‘‘ سے انقطاع تعلق سے چند مہینے پہلے چھٹی پر چلے 21؎ گئے تھے۔ ایک دفعہ دونوں کو حضرت علامہ نے بطور خاص بلا بھیجا۔ وہاں مولانا ظفر علی خان اور مولانا عبدالقادر قصوری بھی موجود تھے۔ مولانا عبدالقادر قصوری نے دونوں سے کہا کہ چھٹی منسوخ کر کے لوٹ آئیں کیونکہ مولانا محمد علی جوہر حجاز سے واپس آ چکے ہیں۔ ظفر علی خان کو دورہ کرنا ہے اور آپ ہی کو ابن سعود پر حملوں کا جواب دینا ہو گا۔ مہرو سالک نے تامل کیا۔ تو علامہ اقبال بھی اسرار میں شامل ہو گئے۔ چنانچہ دونوں نے از سر نو کام پر آمادگی ظاہر کر دی اور بڑے دھڑلے سے مضامین لکھے۔ جب مہرو سالک نے ’’ زمیندار‘‘ سے 22؎مکمل انقطاع تعلق کر لیا تو انہوں نے احباب سے ایک ایک سو روپیہ چندہ تا حین حیات لے کر چار ساڑھے چار ہزار روپے جمع کئے اور نیا اخبار جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے میں علامہ اقبال کی تائید و حمایت اور اخلاقی امداد شامل حال تھی۔ سالک لکھتے ہیں ’’ ہمارے حوصلے بلند ہو گئے۔ شام کے وقت علامہ اقبال کے ہاں بیٹھے تھے کہ اخبار کا نام ’’ انقلاب‘‘ تجویز ہوا اور علامہ نے اس کے پہلے پرچے کے صفحہ اول کے لئے نظم لکھی۔ جس میں سرمایہ دار و مردود کی کشمکش کا ذکر بھی کیا۔ جو حقیقت میں انقلاب کے اجراء کا باعث ہوئی تھی۔ خواجہ از خون رگ مزدور ساز و لعل ناب از جفائے دہ خدایاں کشت دہقانان خراب انقلاب! انقلاب اے انقلاب‘‘ یہاں سے اس دور کا آغاز ہوتا ہے۔ جب سال ہا سال تک مہرو سالک اور علامہ اقبال 23؎ کے درمیان علمی اور ادبی رشتوں کے پہلو بہ پہلو گہرا سیاسی تال میل بھی جاری رہا۔ ۱۹۳۶ء سے ۱۹۳۸ء تک سیاسی دائرے میں جزوی اختلاف رہا۔ لیکن دوستانہ مراسم برقرار رہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اپریل ۱۹۳۷ء سے ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء تک کے گیارہ سالوں میں اقبال کی علمی، ادبی اور سیاسی سرگرمیوں او ربیانات کا جو ریکارڈ ’’ انقلاب‘‘ کے فائلوں میں محفوظ ہے۔ اس کا مطالعہ کئے بغیر اقبال کے سوانح قلمبند کرنا نا ممکن ہے اور اقبال کے سیاسی نظریات کو سمجھنے کے لئے بھی ان فائلوں سے استفادہ ناگزیر ہے۔ سیاسی تال میل کے سلسلے میں سیاسی پس منظر کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کرنا ضروری ہے۔ ۲۰ مارچ ۱۹۳۷ء کو (قائد اعظم) محمد علی جناح نے ہندوستان بھر کے تیس مسلمان رہنماؤں کا ایک اجلاس دہلی میں بلایا۔ جہاں ’’ تجاویز دہلی‘‘ مرتب ہوئیں۔ جن میں کہا گیا کہ اگر سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے جدا صوبے کی حیثیت دے دی جائے۔ سرحد اور بلوچستان میں دوسرے صوبوں کے برابر آئینہ اصلاحات نافذ کر دی جائیں۔ مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نیابت دے دی جائے پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی نیابت آبادی کے تناسب سے مقرر کی جائے۔ اقلیتی صوبوں میں ان کا پاسنگ برقرار رکھا جائے تو مسلمان مرکزی اور صوبائی مجالس قانون ساز کے لئے مخلوط انتخاب قبول کرنے پر تیار ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ۱۹۱۶ء کے میثاق لکھنو میں کانگر س نے مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخاب کے حق پر صاد کر دیا تھا سر محمد شفیع، علامہ اقبال اور پنجاب کے بعض دوسرے مسلمان رہنما مخلوط انتخاب کوکسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اس لئے پنجاب صوبہ مسلم لیگ نے تجاویز دہلی کو مسترد کر دیا۔ اس زمانے میں حکومت برطانیہ نے سر جان سائمن کی صدارت میں ایک کمشن مقرر کیا تاکہ وہ برعظیم کے مختلف سیاسی عناصر سے تبادلہ خیالات کر کے اور حالات کا جائزہ لے کر یہ بتائے کہ آیا مزید آئینی اصلاحات کے لئے جواز موجود ہے یا نہیں اور موجود ہے تو ان اصلاحات کا نقشہ کیا ہو۔ محمد علی جناح اور ان کے ساتھی اس کمشن کا مقاطعہ کرنے کے حامی تھے۔ کیونکہ اس میں ہندوستانیوں کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا۔ دوسری طرف سر محمد شفیع اور علامہ اقبال کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ اگر کمشن کو مسلمانوں کے موقف سے آگاہ نہ کیا گیا تو مسلمان گھاٹے میں رہیں گے۔ گویا اب کشمکش کے دو سبب سامنے آ گئے ایک تجاویز دہلی، دوسرا سائمن کمشن کا مسئلہ اس پر مسلم لیگ دو متوازی جماعتوں میں بٹ گئی ۔ جناب محمد علی جناح او ران کے ساتھیوں نے اپنی سالانہ کانفرنس دسمبر ۲۷ ء میں کلکتہ میں منعقد کی جس میں محمد علی، شوکت علی، ظفر علی خان، سیف الدین کچلو، ابو الکلام آزاد اور مولوی فضل الحق شامل تھے اور سر محمد شفیع نے آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں بلایا۔ جس کے نمایاں شرکاء میں حضرت علامہ اقبال، سر ذوالفقار علی خان اور مولانا حسرت موہانی شامل تھے۔ اب دو آل انڈیا مسلم لیگیں وجود میں آ چکی تھیں۔ ایک کو عرف عام میں جناح لیگ کہا جاتا تھا دوسری کو شفیع لیگ، جناح لیگ کے صدر محمد علی جناح تھے اور سیکرٹری ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور شفیع لیگ کے صدر سر محمد شفیع تھے اور سیکرٹری علامہ اقبال دونوں مسلم لیگوں کے درمیان خاص طور پر جداگانہ انتخاب کے مسئلے پر چپقلش چلتی رہی۔ اس دور میں ’’ انقلاب‘‘ نے شفیع لیگ سے مکمل تعاون کیا اور مدیران ’’ انقلاب‘‘ اور علامہ اقبال یک جان و دو قالب رہے۔ اگست ۱۹۲۸ء میں نہرو رپورٹ کا مسئلہ اٹھا، اس کا پس منظر یہ ہے کہ حکومت برطانیہ کے ارباب چیلنج کرتے تھے کہ اگر برعظیم کے ہندو اور مسلمان اصلاحات کے لئے کوئی متفقہ سکیم بنائیں۔ تو اس پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اس پر کانگرس نے بمبئی میں ایک آل پارٹیز کانفرنس کر کے نیا آئین تجویز کرنے کے لئے پنڈت موتی لال نہرو (مسزا اندرا گاندھی کے دادا) کی صدارت میں دس ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کر دی۔ جس میں سر علی امام اور شعیب قریشی مسلمانوں کی نمائندگی کرتے تھے۔ اگست ۱۹۲۸ء میں اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ جو تاریخ میں نہرو رپورٹ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں مخلوط انتخاب تو قبول کر لیا گیا لیکن باقی تجاویز دہلی مسترد کر دی گئیں۔ ظاہر ہے یہ بہت بڑی دھاندلی تھی اس پر سر محمد شفیع اور حضرت علامہ اور ان کے دوسرے ساتھیوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اگر مسلمان رہنما تجاویز دہلی میں جداگانہ انتخاب کو ترک کرنے کی ہامی نہ بھرتے تو نہرو رپورٹ والوں کو دھاندلی کا موقعہ نہ ملتا۔ ڈاکٹر عاشق بٹالوی لکھتے ہیں:’’روزنامہ انقلاب کو لاہور سے جاری ہوئے مشکل ڈیڑھ سال گذرا تھا۔ لیکن اس پروپیگنڈے میں انقلاب پیش پیش تھا۔ اور آئندہ نہرو رپورٹ کو ختم کرنے اور مسلمانوں میں جداگانہ حقوق کا شعور پیدا کرنے میں جس شدت، تواتر اور تسلسل سے انقلاب نے زور دار مقالے لکھے۔ اس کی نظیر ہندوستان کا اور کوئی اردو اخبار پیش نہیں کر سکا۔‘‘ 24؎ اس دور میں بھی علامہ اقبال اور مہرو سالک کے درمیان نہایت گہرا تعاون جاری رہا۔ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے کو خدشہ تھا کہ کہیں جناح لیگ، نہرو رپورٹ پر مہر تصدیق ثبت نہ کر دے۔ اس لئے سر محمد شفیع اور حضرت علامہ کی سعی و کوشش سے سر آغا خان کی صدارت میں دسمبر ۲۸ میں دہلی کے مقام پر ایک آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس میں مجالس قانون ساز کے تمام مسلم ارکان ہر صوبے کے مسلمان نمائندے آل انڈیا خلافت کمیٹی اور جمعیت العلمائے ہند کے نمائندے اور شفیع لیگ اور جناح لے گکے نمائندے مدعو کئے گئے۔ ان میں صرف جناح لیگ نے عدم تعاون کیا۔ اس کانفرنس میں نہرو رپورٹ کو مسترد کیا گیا اور مسلمانوں کے قومی مطالبات مرتب کئے گئے۔ جو بعد میں جناح کے چودہ نکات کے نام سے مشہور ہوئے اب صورت یہ ہوئی کہ ایک آدھ سال آل پارٹیز مسلم کانفرنس کا طوطی بولتا رہا اور جناح لیگ نظروں سے اوجھل ہو گئی اس کانفرنس میں مہرو سالک بھی شریک ہوئے اور اس میں بھی علامہ ا قبال کے ساتھ ان کے اشتراک میں کوئی کسر باقی نہ رہی۔ دونوں مسلم لیگوں کے درمیان اتحاد کی سعی ہوئی تو علامہ اقبال کو منانے کے لئے مہرو سالک کی مدد لی گئی۔ یہ کہانی سالک کی زبانی ملاحظہ ہو۔ ’’ کوئی ساڑھے تین مہینے گذرے ہوں گے کہ ایک دن ڈاکٹر سیف الدین کچلو میرے اور مہر صاحب کے پاس آئے اور حسب عادت نہایت محبت اور بے تکلفی سے باتیں کرنے لگے۔ آپ نے کہا۔ ارے بدمعاشو! تم لیڈروں کو لڑا کر تماشا دیکھتے ہو؟‘‘ یہ دو لیگیں کیو بنا رکھی ہیں؟ ہم نے جواب دیا اس لئے کہ مسٹر جناح کو آپ جیسے سیکرٹری مل جائیں۔ تھوڑی سی بچ خچ کے بعد قرار پایا کہ دونوں لیگوں کو جمع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ مسٹر محمد علی جناح مسلمانوں کی مصلحت کو خوب جانتے تھے انہوں نے ہندوؤں کے سامنے اتمام حجت کر دیا اور پھر غصے میں بمبئی چلے گئے۔ پھر خیال آیا ہو گا کہ دو لیگوں کا قائم رہنا خالص حماقت ہے۔ خصوصاً جب کہ آل پارٹیز مسلم کانفرنس ملک بھر میں گونج اور گرج رہی ہے اور مسلم لیگ کا کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ انہوں نے مقصود اتحاد سے ڈاکٹر کچلو کو بھیجا اور وہ سب سے پہلے ہمیں ملے۔ اس لئے کہ ڈاکٹر اقبال سے کوئی نتیجہ خیز گفتگو کرنے کے لئے ہمیں ساتھ لینا ضروری تھا۔ جب ڈاکٹر کچلو ہمارے ساتھ ڈاکٹر اقبال کے ہاں پہنچے۔تو پہلے طعن تشنیع اور طنز و استہزاء کی باتیں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد قرار پایا کہ دونوں مسلم لیگوں کی کونسلوں کے اجلاس ایک ہی تاریخ پر دہلی میں منعقد ہوں اور پھر ایک مشترک اجلاس کر کے دونوں لیگوں کو ایک دوسری میں مدغم کر دیا جائے۔ چنانچہ کچھ مدت بعد یہ ادغام عمل میں آ گیا۔ سر محمد شفیع جناح صاحب کے حق میں دستبردار ہو کر عہدۂ صدارت سے مستعفیٰ ہو گئے۔ اور مسلم لیگ پھر ایک ہو گئی۔ 25؎ ۱۹۳۰ء کا سال مسلم سیاست میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ لندن میں پہلی گول میز کانفرنس ہو رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ مسلمان مندوبین ہندو مندوبین اور انگریزوں کے دباؤ میں آ کر ایسی مراعات دینے پر آمادہ ہو رہے ہیں۔ جو مسلم مفادات کے منافی ہیں۔ یہ تاثر بھی موجود تھا کہ مسلم قیادت مسلم اقلیتی صوبوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے اور وہ زیادہ زور اس بات پر دے رہے ہیں کہ ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلم اقلیتوں کو آبادی کے تناسب سے زیادہ نیابت (پاسنگ یا ویٹیج) ملے خواہ اس اصول پر عمل سے پنجاب کے مسلمانوں کی اکثریت اقلیت میں بدل جائے۔ یہ تاثر بھی تھا کہ بمبئی سے سندھ کی علیحدگی اور سرحد و بلوچستان میں اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ متاثر ہو رہا ہے۔ اقبال کی سوچ یہ تھی کہ مسلم اکثریتی صوبوں کے مسائل مسلم اقلیتی صوبوں سے مختلف ہیں۔ اس لئے انہیں اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے خود تدبیر کرنی چاہئے۔ ان کے ذہن میں یہ تجویز ابھری کہ ایک اپر انڈیا مسلم کانفرنس لاہور میں منعقد کی جائے۔ جس میں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کے نمائندے شامل ہوں۔ انہوں نے سالک اور مہر کو بلایا۔ ان کے ساتھ اس تجویز پر تبادلہ خیالات کیا اور آپس میں یہ طے پا گیا کہ ’’ انقلاب‘‘ ایک اداریے میں یہ تجویز پیش کرے گا۔ اور علامہ اقبال اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے مسلمان رہنماؤں کا ایک اجلاس بلا کر مجلس استقبالیہ کی تشکیل عمل میں لائیں گے۔ چنانچہ ’’ انقلاب‘‘ نے ۲۱ نومبر ۱۹۳۰ء کے شمارے میں مطلوب اداریہ چھاپ دیا۔ اس کے اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر اقبال نے برکت علی اسلامیہ ہال میں لاہور کے نمایاں مسلمان رہنماؤں کا ایک اجلاس بلایا۔ جہاں اس تجویز پر صاد کیا گیا اور ایک مجلس استقبالیہ بنائی گئی۔ جس کے صدر علامہ اقبال، سیکرٹری مجید ملک (ایڈیٹر مسلم آؤٹ لک) اور خزانچی نواب سعادت علی خان منتخب ہوئے۔ ’’ زمیندار‘‘ اس تجویز کا مخالف تھا۔ ’’ انقلاب‘‘ حمایت میں پیش پیش تھا۔ ’’ سیاست ‘‘ اور’’ مسلم آؤٹ لک‘‘ بھی اس تجویز کے حامی تھے۔ مجلس استقبالیہ میں قدرتی طور پر مہرو سالک بھی شریک تھے۔ اس تجویز کا خوب چرچا ہوا۔ ان دنوں ’’انقلاب‘‘ کے صفحہ اول پر ایک دو کالمی چوکھٹے میں مسلسل کانفرنس کا اعلان شائع ہوتا رہا۔ جس کا عنوان تھا’’ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان مسلمان ملک ہیں۔ ان میں اسلام کا جھنڈا بلند رکھو۔‘‘ اتنے میں علامہ اقبال کو آل انڈیا مسلم لیگ کے الہ آباد سیشن کا صدر چن لیا گیا اور انہوں نے ۳۰ دسمبر ۱۹۳۰ء کو وہ تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا۔ جس میں شمال مغربی ہند میں الگ مسلمان مملکت کی تجویز کو نظریاتی رنگ دیا گیا۔یکم جنوری ۳۱ء کے شمارے میں اس کے پورے متن کا ترجمہ چھاپا گیا۔ اس کے حق میں اداریے آئے۔ ہندو اخبارات نے اقبال پر مسلسل کیچڑ اچھالا اور مدیران انقلاب نے جواب میں ایک درجن کے قریب اداریے چھاپے۔ اپر انڈیا مسلم کانفرنس کا چرچا اس کے بعد بھی جاری رہا۔ لیکن چند در چند وجوہ کی بناء پر یہ کانفرنس نہ ہو سکی۔ بہرحال مسلم اکثریتی صوبوں کی علیحدہ سیاسی تنظیم کا تصور اقبال کے ذہن میں مسلسل موجود رہا۔ راقم الحروف کو یاد ہے کہ ۱۹۳۷ء میں والد مرحوم مولانا سالک نے تذکرہ کیا کہ بعض حلقوں میں یہ تجویز پیش ہو رہی ہے کہ مسلم اکثریتی صوبوں کے مخصوص مسائل کو حل کرنے کے لئے الگ سیاسی تنظیم وجود میں لائی جائے۔ میں نے کہا کہ یہ سر سکندر حیات کا منصوبہ ہے اور میں نے اس کی مخالفت کی۔ لیکن جب ۱۹۴۳ء میں ’’ خطوط اقبال بنام جناح‘‘ شائع ہوئے۔ تو اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ اقبال کی تجویز تھی۔ ۱۹۳۶ء کے آخر تک مہرو سالک اور اقبال کے سیاسی خیالات میں مکمل یکسائی قائم رہی اس کے بعد 26؎ایک جزوی اختلاف پیدا ہوا۔ مدیران انقلاب کے نزدیک یونینسٹ پارٹی کا وجود ضروری تھا۔ علامہ اقبال کے نزدیک غیر ضروری تھا۔ بہرحال جہاں تک آل انڈیا سیاست میں مسلمانوں کے موقف کا تعلق تھا۔ اس پر روایتی یگانگت فکر برقرار رہی اور مدیران انقلاب نے ۱۹۳۸ء سے ایک مرتبہ پھر ’’ پاکستان‘‘ کی حمایت میں مقالات کی اشاعت کا سلسلہ جاری کر دیا۔ اب آئیے !ہم سیاست سے الگ ہو کر اقبال سے مہرو سالک کے تعلقات کی دوسری کڑیوں کا تذکرہ کریں۔ باہمی تعلقات اتنے گہرے تھے کہ جب پنجاب کے مشہور سیاست دان میاں فضل حسین کو اقبال سے شکایت ہوتی۔ تو مہرو سالک سے تذکرہ کرتے۔ 27؎ ۱۹۳۱ء میں اقبال نے دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔ تو مولانا غلام رسول مہر ساتھ ہو لئے۔ سالک لکھتے ہیں ’’ یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا کہ اول علامہ کے لئے ایک مخلص رفیق سفر اور ہم خیال دوست کی ہمراہی موجب آسائش ہو گی۔ دوم مہر صاحب اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کی وجہ سے پرائیویٹ طور پر علامہ اقبال اور دوسرے ارکان کانفرنس کے لئے موجب تقویت رہیں گے۔ سوم۔ وہ روزنامہ اقنالب کے لیے گول میز کانفرنس کی روداد قلمبند کر کے بھیجا کریں گے۔ اس سفر کے سلسلے میں مندرجہ ذیل امور خاص طور پر قابل ذکر ہیں: اول: مہر صاحب نے اس سفر کے حالات انقلاب کے لئے مسلسل لکھے اور اس طرح علامہ اقبال کی جملہ سرگرمیوں کا ریکارڈ محفوظ ہو گیا۔ دوم: دونوں نے واپسی پر فلسطین میں موتمر عالم اسلامی میں شرکت فرمائی اور دونوں ا سکی مجلس تنفیذیہ کے رکن منتخب ہوئے۔ مختلف اسلامی ملکوں کے اکابر سے ملے۔ اور مفتی اعظم امین الحسینی پر تو دونوں بہت ہی شیفتہ تھے۔ اقبال کے دورۂ فلسطین کے سلسلے میں سالک لکھتے ہیں۔ مہر صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے اٹلی اور فلسطین میں کچھ آثار معائنہ فرمائے۔ مثلاً پوپے کے کھنڈر اور روما کے مشہور گرجے دیکھے۔ لیکن چونکہ ان کو زیادہ چلنے پھرنے کی عادت نہیں تھی۔ اس لیے بہت جلد تھک جاتے تھے اور فلسطین میں تو یہ کیفیت تھی کہ ایک دو آثار دیکھنے کے بعد بالکل ہی لیٹ گئے۔ جب مرہ صاحب ان سے کہتے کہ چلئے فلاں مقبرہ یا ہیکل یا گرجا دیکھ آئیں۔ت وہ کہتے اجی مہر صاحب آپ دیکھ آئیے۔ میں کیا جاؤںگا۔ ایک دو کھنڈر دیکھ لئے ہیں۔ باقی بھی ایسے ہی ہوں گے۔‘‘ علامہ اقبال دسمبر ۳۱ء کے اواخر میں وطن کو لوٹے۔ سالک رقمطرا زہیں: 29؎ ڈاکٹر صاحب کے چلے جانے سے ہم بہت اداس ہو رہے تھے۔ ان کی واپسی پر پرانی صحبتیں تازہ ہو گئیں میں، مہر صاحب اور چودھری محمد حسین مرحوم رات کے بارہ بارہ بجے تک ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر رہنے لگے۔ اس قسم کے اوقات تھے۔ جب ڈاکٹر صاحب بلا فرمائش خود بخود موج میں آ کر اپنا غیر مطبوعہ کلام ہمیں سنایا کرتے تھے اور جہاں تک میرے علم میں ہے۔ یہ خصوصیات تمام احباب میں صرف ہم تینوں ہی کو حاصل تھی۔۔۔۔ ہم دونوں نے حضرت کی صحبت میں جو کچھ حاصل کیا۔ اس کا اندازہ کرنا دشوار ہے۔ شعر و ادب، تاریخ، فلسفہ اور مذہب کے جو غوامض و اسرار حل ہوئے۔ مختلف مسائل ملکی کے متعلق جو مکالمات ہمارے درمیان ہوئے۔ مجلسی اور دوستانہ تعلقات کی جو منزلیں طے ہو گئیں۔ ان کے متعلق صد ہا واقعات ہیں جو تشنہ بیان ہیں اور انشاء اللہ کسی موقعہ پر ضرور بیان کئے جائیں گے۔ 31؎ تعلقات میں گہرائی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرحلے پر سالک، مہر، چودھری محمد حسین اور اقبال نے فیصلہ کیا کہ چاروں ایک دوسرے کے قریب کوٹھیاں بنائیں۔ اس کا تذکرہ سالک نے ان الفاظ میں کیا۔ ’’ مہر صاحب ابھی دوسری گول میز کانفرنس کے لیے ڈاکٹر اقبال کے ہمراہ روانہ نہیں ہوئے تھے۔ کہ ہم دونوں نے لاہور میں مکان بنانے کا ارادہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب بھی چاہتے تھے کہ لاہور میں اپنا گھر بنا لیں۔ لہٰذا یہ فیصلہ ہوا کہ شہر کے مضافات میں کوئی ایسا قطعہ زمین تلاش کیا جائے۔ جس پر اقبال، سالک، مہر اور چودھری محمد حسین چاروں اپنی کوٹھیاں تعمیر کر لیں او ریہ چار یاری، قلبی اور روحانی قرب کے ساتھ ہی ساتھ جسمانی قرب سے بھی بہرہ ور ہو جائے، ایک دن چودھری محمد حسین تلاش اراضی کے سلسلے میں اچھرہ پہنچے۔ اچھرہ اڈے کے سامنے ایک کھلا میدان نظر آیا۔ یہ زمین ڈیڑھ سو روپے کنال کے حساب سے مل سکتی تھی لیکن چاروں طرف ویرانہ تھا۔ گرد و غبار کے بگولے اٹھتے تھے اور ہر جانب وحشت پھیلا دیتے تھے ڈاکٹر صاحب سے اس قطعہ کا ذکر آیا تو انہوں نے اس کو ناپسند فرمایا۔ اس کے بعد یک جا مکانات بنانے کا پروگرام ختم ہو گیا۔ ‘‘ 32؎ حضرت علامہ اقبال سالک کے مزاحیہ کالم ’’ افکار و حوادث‘‘ کو بہت پسند کرتے تھے۔ کہتے تھے ان میں ایک ہی عیب ہے کہ وہ بہت کم ہوتے ہیں۔ طبیعت تشنہ رہ جاتی ہے۔ بلکہ ایک دفعہ بڑے اصرار سے فرمایا کہ دو کالم افکار روزانہ لکھا کیجئے۔ بڑی مشکل سے سمجھایا کہ مزاح و تفنن کالملح فی الطعام ہی اچھا معلوم ہوتا ہے اور اس کے علاوہ مجھے اخبار میں اور بھی بہت کچھ لکھنا پڑتا ہے دو کالم کے افکار کیونکر لکھ سکتا ہوں۔ 33؎ ۱۹۳۷ء کے آخر میں آل انڈیا ریڈیو کے لاہور سٹیشن کا قیام عمل میں آیا۔۔۔۔ ایک دن لاہور ریڈیو کے سٹیشن ڈائریکٹر رشید احمد صاحب اور جگل کشور (اب شیخ احمد سلمان) میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ریڈیو سٹیشن کے افتتاح کے موقعہ پر اگر علامہ اقبال بھی تقریر فشر کریں تو ہمارے لئے نہایت فخر کا مقام ہو گا۔ اس لئے آپ علامہ کو آمادہ کر لیجئے۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب کی صحت بہت خراب ہے۔ گلا بھی بیٹھا ہوا ہے اور اس کے علاوہ انہیں اس قسم کی رسمی چیزیں ہمیشہ سے ناپسند ہیں۔ کہنے لگے کوشش تو کیجئے ڈاکٹر صاحب کے کہنے سے مان جائیں گے۔ خیر ہم شام کے وقت ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ حسب معمول بستر پر بیٹھے تھے اس وقت تک بینائی میں بھی فرق آ گیا تھا۔ علی بخش نے بتایا سالک صاحب آئے ہیں شگفتہ ہو کر فرمایا اچھا اچھا میرے پاس کرسی رکھ دو۔ میں نے علیک سلیک کے بعد رشید احمد اور جنگل کا تعارف کرایا۔ غالباً ایک دو اور دوست بھی موجود تھے۔ میں نے پہلے تو کسی قدر لطیفہ بازی کر کے ڈاکٹر صاحب کو ہنسایا۔ اس کے بعد حرف مطلب زبان پر لایا۔ کہنے لگے میں ریڈیو کو سخت ناپسند کرتا ہوں میں نے کہا یہاں ہم آپ سے کوئی ریڈیو سیٹ پسند کرانے نہیں آئے ہیں۔ آپ کی مختصر سی تقریر چاہیے اگرچہ بیماری کی وجہ سے مزاج خاصی حد تک چڑچڑا ہو گیا تھا لیکن مسکرا کر کہنے لگے۔ آپ دیکھتے ہیں میں نہ تقریر لکھ سکتا ہوں۔ نہ پڑھ سکتا ہوں نہ کہیں جا سکتا ہوں رشید احمد نے کہا جناب کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہم مائیکرو فون یہاں لے آئیں گے۔ اس کے ساتھ ہی میں نے کہہ دیا آپ کو لکھنے پڑھنے کی ضرورت بھی نہیں۔ میں ہی لکھ دوں گا اور میں ہی پڑھ دوں گا جب تینوں عذر بیکار ہو گئے تو تنگ آ کر کہا سالک صاحب آپ زبردست ہیں۔ اچھا جو جی میں آئے کر لیجئے میں نے ریڈیو والے دوستوں کو اشارہ کر دیا کہ بس اب ذکر کو یہیں بند کر دو۔ ورنہ انکار کا کوئی اور شاخسانہ نکل آئے گا اس کے بعد میں نے ادھر ادھر کی باتیں چھیڑ دیں اور کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ہم اٹھ کے چلے آئے۔ تیسرے دن میں نے ڈاکٹر صاحب کے لئے سات منٹ کی ایک تقریر لکھی اور ان کے پاس لے گیا تاکہ وہ اسے سن کر منظور دے دیں ڈاکٹر صاحب نے تقریر پسند کی اور کہا کہ اس میں ایک فقرہ ہسپانیہ کی خانہ جنگی کے متعلق بڑھا دیجئے میں نے وہیں وہ فقرہ لکھ کر شامل کر دیا۔ افتتاح میں چند روز باقی تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے تاکید کی کہ میری یہ تقریر آپ ہی پڑھیے گا کوئی دوسرا شخص نہ پڑھے چنانچہ وقت مقررہ پر یہ تقریر میں نے ہی فشر کر دی اور دوسرے دن اخباروں میں شائع ہو گئی۔ 34؎ ایک واقعے کا ذکر پروفیسر حمید احمد خان نے یوں کہا ہے:۔۔۔۔ انہی باتوں میں سوا پانچ بج گئے۔ علی بخش نے آ کر مہر صاحب اور سالک صاحب کے آنے کی اطلاع دی دونوں صاحب تھوڑی دیر میں اندر داخل ہوئے اور ہمارے قریب ہی دو کرسیوں پر بیٹھ گئے ان دنوں تھوڑا ہی عرصہ پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس لکھنو میں (اکتوبر ۳۷ئ) ہوا تھا او رپنجاب کی یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگ کے باہمی میثاق کے چرچے تھے مدیران ’’ انقلاب‘‘ کے آتے ہی گفتگو کا رخ سیاست کی طرف پھر گیا۔ اسی اثناء میں افطار کا وقت قریب آ گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے گھنٹی بجا کر اپنے ملازم رحما کو طلب کیا اور اس سے کہا کہ افطار کے لئے سنگترے، کھجوریں، کچھ نمکین اور میٹھی چیزیں، جو کچھ ہو سکے، سب لے آئے۔ سالک صاحب: افوہ! یہ سب کچھ منگوانے کی کیا ضرورت ہے۔ کھجوریں کافی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب: (ایک ایسی شوخی سے، جس میں طفلانہ معصومیت کا انداز جھلکتا تھا) سب کچھ کہہ کر ذرا رعب تو جما دیں۔ کچھ نہ کچھ تو لائے گا۔ رحما نے ڈاکٹر صاحب کی ہدایات کی لفظ بہ لفظ پابندی ضروری نہ سمجھی اور قریب قریب سالک صاحب کی خواہش کی پاسداری پر اکتفا کیا۔ والد مرحوم مولانا سالک نے ایک بات مجھے بھی بتائی کہ علامہ اقبال کوئی بات خفیہ نہیں رکھ سکتے۔ ایک بار سالک نے انہیں ایک 35؎ نہایت اہم اور کانفیڈنشل سیاسی خبر سنائی اور انہیں تاکید کی کہ اسے صیغہ راز میں رکھیں۔ تین چار دن بعد سالک ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو علامہ نے بڑے پر اسرار انداز میں کہا سالک صاحب ! ایک نہایت اہم اور کانفیڈنشل سیاسی خبر ہے لیکن پہلے وعدہ کیجئے کہ صیغہ راز میں رہے گی اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیں گے۔ سالک نے وعدہ کیا۔ تو حضرت علامہ نے وہی خبر سنا دی جو تین دن پہلے خود سالک نے سنائی تھی! مہرو سالک اور اقبال کے درمیان کچھ خط و کتابت بھی رہی۔ مہر سے زیادہ۔ سالک سے کم۔ ایک آدھ خط ’’ مہر و سالک‘‘ کے نام ایک ’’ مہرین‘‘ کے نام جس سے مہرو سالک دونوں مراد تھے۔ اور چند مرتبہ ’’ مدیر انقلاب‘‘ کے نام ظاہر ہے اس سے بھی دونوں مراد تھے ان میں سے بعض محض مراسلات کی حیثیت رکھتے تھے کیونکہ بغرض اشاعت بھیجے گئے تھے۔ یہ سارے خط جناب بشیر احمد ڈار نے ’’ انوار اقبال‘‘ میں جمع کر دئیے ہیں۔ ایسے خط بھی شامل ہیں جن میں سیاسی مسائل کا تذکرہ ہے اور ایسے بھی ہیں جن میں کوئی کتاب طلب کی گئی۔ یا کسی علمی مسئلے پر 36؎ مشورہ دیا گیا۔ جناب بشیر احمد ڈار نے ان خطوط پر حواشی بھی تحریر کئے ہیں۔ لیکن ایک خط حاشیے کے بغیر رہ گیا۔ حالانکہ اس کا ہماری سیاسی جدوجہد سے تعلق ہے اور اس میں جو حاشیہ دیا گیا۔ وہ غیر صحیح ہے پہلے خط ملاحظہ فرمائیے: ڈیر مہرو سالک! کل برکت علی محمڈن ہال میں مجوزہ کانفرنس کے متعلق جلسہ ہے۔ اگر تجویز متفقہ طور پر قرار پا گئی۔ تو استقبالیہ کمیٹی وہیں بن جائے گی۔ آپ اس جلسہ میں ضرور تشریف لا دیں اور وقت پر (یعنی پورے گیارہ بجے صبح)تشریف لا ویں۔ خلیفہ شجاع الدین صاحب کی طرف سے آپ کو اطلاع بھی پہنچے گی۔ والسلام اوروں کو بھی ساتھ لائیے۔ محمد اقبال ۲۲ نومبر ۳۰ء (۳۷) جناب بشیر احمد ڈار کے حاشیے سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اس کا کوئی تعلق خطبہ الٰہ آباد سے تھا۔ جو نادر ست ہے۔ جیسا کہ میں اس مقالے میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ مسلم اکثریتی صوبوں کے مسائل کو مسلم اقلیتی صوبوں سے مختلف قرار دیتے ہوئے اقبال اور مہرو سالک کے درمیان باہمہ تبادلہ خیالات کے بعد یہ فیصلہ ہوا تھا کہ شمال مغربی ہند کے مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کے مسائل پر غور کرنے اور کوئی راہ عمل معین کرنے کے لیے اپر انڈیا مسلم کانفرنس منعقد کی جائے۔ اقبال کے مشورے پر سب سے پہلے ’’ انقلاب‘‘ نے ایک اداریے میں یہ تجویز باقاعدہ طور پر پیش کر دی اس کے بعد پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق حضرت علامہ نے عمائد شہر کا ایک جلسہ بلایا یہ خط اس جلسے کے بارے میں ہے۔ چنانچہ اس میں مجلس استقبالیہ بنائی گئی۔ ۱۰ جولائی ۱۹۳۱ء کو حضرت علامہ نے مولانا مہر کو مشورہ دیا کہ ’’ آج کے مسلم آؤٹ لک کے صفحہ ۹ پر نارتھ انڈیا مسلم سٹیٹ پر (پنجاب ہائی کورٹ کے)جج پلوڈن کے خیالات ہیں جو نہایت دلچسپ ہیں۔ ان کا ترجمہ کر کے ’’ انقلاب‘‘ میں شائع کیجئے۔ تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے انگلستان گئے۔ تو دوسرے خطوط کے علاوہ ایک خط میں مہر صاحب کو یہ بھی لکھا کہ عطیہ بیگم نے انہیں مسلمان عورتوں کی تعلیم کے بارے میں اپنے مضامین کے جو تراشے دو سال قبل بھیجے تھے۔ وہ موصوفہ کو واپس کر دیں۔ وہاں سے واپسی پر ۱۶ جون ۳۳ء کو مہرو سالک کے نام یہ خط لکھا: جناب مہرین ایک ضروری مشورہ آپ دونوں سے مطلوب ہے، اس لیے آج معمول سے سویرے لاہور تشریف لائیے اور دفتر جانے سے پہلے مجھ سے ملتے جائیے کیونکہ آپ سے مشورہ کرنے کے بعد ان تاروں کا جواب دیا جائے گا۔ جو شملے سے آئے ہیں۔ والسلام محمد اقبال 38؎ ’’ لاہور تشریف لائیے‘‘ سے مطلب یہ نہیں تھا کہ دونوں لاہور سے باہر تھے اس وقت تک دونوں مسلم ٹاؤن میں اپنی نو ساختہ کوٹھیوں میں منتقل ہو چکے تھے اور مسلم ٹاؤن ایک بیرونی بستی قرار دی جاتی تھی۔ اور لاہور کی بلدیاتی حدود سے باہر تھی۔ ’’ انقلاب‘‘ میں سالک کے مستقبل کالم افکار و حوادث میں علمی مباحث ہوتے رہتے تھے اور بعض اوقات حضرت علامہ بھی ان میں حصہ لیتے تھے۔ ۲۴ ستمبر ۱۹۲۷ء کے ’’ انقلاب‘‘ میں جناب اصغر حسین خان، نظیر لدھیانوی کی ایک نظم ’’ نذر اقبال‘‘ چھپی۔ جس کے اس شعر کے بارے میں مدیر ’’ انقلاب‘‘ نے ایک حاشیہ لکھا۔ شعر یہ تھا اے کہ سینا ذرۂ از تاب تو نعرۂ ازنی زنم بر باب تو اور حاشیہ یہ تھا: ’’ ادنی میں رائے متحرک ہے خدا جانے نظیر صاحب نے ساکن کیوں باندھی؟‘‘ ۲۸ ستمبر ۲۷ء کے شمارے میں حضرت نظیر اور حضرت علامہ کی آراء چھاپی گئیں۔ حضرت نظیر نے جواب میں غیاث اللغات کا یہ حوالہ پیش کیا: ’’ لفظ ارنی در فارسی بہ سکوں رائے مہملہ نیز آمدہ۔ چنانچہ در مخزن الاسرار نظامی گفتہ: موسے ازیں جام تہی دید دست شیشہ بہ کہ پایہ ارنی شکست‘‘ حضرت علامہ کا یہ مکتوب چھپا: ’’ ڈیر سالک! ٹیک چند باہر نے ابطال ضرورت میں رب ارنی پر مفصل بحث کی ہے۔ افسوس اس وقت ابطال ضرورت کا کوئی نسخہ میرے پاس موجود نہیں۔ بہرحال یہ صحیح ہے کہ اساتذہ عجم نے رب ارنی کی رائے ثانی کو بہ سکون بھی استعمال کیا ہے۔ سالک لاہوری، سالک یزدی کا شعر ملاحظہ فرمائیں۔ مرغ ارنی گوز شوق لن ترانی پر زند پیش موسیٰ خار خار خار وادی ایمن گل است اصغر حسین صاحب کے شعر میں کوئی غلطی نہیں۔ والسلام محمد اقبال‘‘ اس پر سالک نے لکھا: ’’ حضرت علامہ اگر محض سالک یزدی کی سند پر ہی اکتفا کرتے تو کوئی بات نہ تھی لیکن اب کہ حضرت نے خود اپنی رائے بھی قائم فرما دی ہے کہ اصغر حسین صاحب کے شعر میں کوئی غلطی نہیں تو ہمارے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اس کے فیصلے پر سر تسلیم خم کر دیں۔‘‘ 39؎ ٭٭٭ حوالے 1؎ سرگزشت، ص ۲۱۔ 2؎ ذکر اقبال، ص ۲۶۔ اس مکتوب کا اصل متن والد مرحوم کے پاس محفوظ نہیں تھا۔ انہوں نے تین چار مقامات پر اس کا تذکرہ کیا لیکن مجھے مستند ترین متن وہ نظر آیا جو ’’ذکر اقبال‘‘ میں واوین کے ساتھ دیا۔ 3؎ سرگزشت، ص ۲۲۔ 4؎ اقبال نامہ مرتبہ حسرت، ص ۳۴۔ 5؎ یاران کہن، ص ۳۱۔6؎ ایضاً، ص ۳۲۔ 7؎ ایضاً، ص ۳۲۔ 8؎ اقبال نامہ مرتبہ حسرت، ص ۳۵۔ ۳۴۔ 9؎ ایضاً، ص ۳۶۔ ۳۵۔ 10؎ ایضاً، ص ۳۷۔ ۳۶۔ 11؎ سرگزشت، ص ۵۳۔ 12؎ ایضاً، ص ۷۳۔ ۷۲۔ 13؎ ایضاً، ص ۷۴۔ ۷۳۔ 14؎ ذکر اقبال، ص ۱۱۴۔ ۱۱۳۔ 15؎ زمیندار ۴ جنوری ۱۹۲۳ء ص۴ ۔ 16؎ زمیندار ۸ جنوری ۱۹۲۳ء ص ۳۔ 17؎ ذکر اقبال، ص ۱۱۷۔ 18؎ اقبال نامہ (حسرت) ص ۳۹۔ 19؎ ذکر اقبال، ص ۱۲۱۔20؎ ایضاً، ص ۳۵۔ ۳۴۔ 21؎ ایضاً، ص ۱۴۷۔ 22؎ سرگزشت۔ ص ۲۲۲۔ 23؎ ایضاً، ص ۲۳۴۔ 24؎ اقبال کے آخری دو سال، ص ۲۱۹۔ 25؎ سرگزشت، ص ۶۱۔ ۲۶۰۔26؎ خطوط اقبال بنام جناح (بزہان انگریزی)، ص۲۱۔ 27؎ سرگزشت، ص ۹۶۔ ۲۹۴۔ 28؎ سرگزشت ص ۵۔ ۳۰۳۔ ذکر اقبال، ص ۱۵۸۔ 29؎ سرگزشت، ص ۳۰۵۔ 30؎ ایضاً، ص ۳۱۸۔ 31؎اقبال نامہ (حسرت) میں سالک کا مقالہ ص ۴۰۔ ۳۹ (32) سرگزشت، ص ۳۰۸ ۔ (33) ایضاً، ص ۲۰۴۔ (34) ایضاً، ص ۲۱۔ ۴۱۹ (35) ملفوظات اقبال، ص ۸۰۔ ۱۷۹ (36) انوار اقبال، ص ۱۰۸۔ ۸۸ (37) ایضاً، ص ۹۵۔ ۹۴ (38) ایضاً، ص ۱۰۷۔ ۱۰۶۔ (39) آئینہ اقبال ص ۸۷ ٭٭٭ کتابیات ۱۔ عبدالمجید سالک: سرگزشت: لاہور، ۱۹۵۵ پہلا ایڈیشن ۲۔ عبدالمجید سالک: یاران کہن: لاہور، ۱۹۵۵۔ پہلا ایڈیشن ۳۔ عبدالمجید سالک: ذکر اقبال: لاہور ۱۹۵۵ء ۴۔ چراغ حسن حسرت: اقبال نامہ: لاہور، تاریخ اشاعت نا معلوم غالباً ۱۹۳۹ء ۵۔ محمد رفیق افضل: گفتار اقبال: لاہور ۱۹۶۹ء ۶۔ رفیق الدین ہاشمی: خطوط اقبال: لاہور ۱۹۷۶ء ۷۔ شیخ عطاء اللہ: اقبال نامہ یعنی مجموعہ مکاتیب اقبال: حصہ اول، علی گڑھ، ۱۹۴۵ء ۸۔ شیخ عطاء اللہ: اقبال نامہ یعنی مجموعہ مکاتیب اقبال: حصہ دوم: لاہور ۱۹۵۱ء ۹۔ ’’ زمیندار‘‘ : ۱۹۲۳ء کا فائل: ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، کلب روڈ، لاہور ۱۰۔ ’’ انقلاب‘‘ ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۸ء تک کے فائل: ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان اور لاہور میوزیم میں مجموعہ عبدالسلام خورشید ۱۱۔ محمود نظامی: ملفوظات اقبال (مختلف افراد کے مقالات کا مجموعہ) لاہور ۱۹۴۹ء ۱۲۔ عاشق حسین بٹالوی: اقبال کے آخری دو سال: کراچی، ۱۹۶۱ء ۱۳۔ Letters of Iqbal to Jinnah: Lahore, 1943 ۱۴۔ بشیر احمد ڈار: انوار اقبال: کراچی، ۱۹۶۷ء ۱۵۔ محمد عبداللہ قریشی: آئینہ اقبال: لاہور، ۱۹۶۷ء ٭٭٭ اقبال اور ابو الکلام قاضی افضل حق قرشی ’’ یہ دونوں بزرگ ایک ہی زمانے میں ایک ہی ملک میں اور ایک ہی ماحول میں بانداز بے التفاتی یا بزنگ تعافل ایک دوسرے کو دور سے دیکھتے رہے۔۔۔۔ اور ایک دوسرے کے بارے میں دوسروں کی زبانی باتیں سنتے رہے۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ ایک دوسرے کو پہچانتے بھی تھے یا نہیں۔ اس میں مجھے شبہ ہے۔ اس انداز تغافل کو کس چیز پر محمول کیا جائے؟ رنگ نا آشنائی؟ معاصرانہ چشمک؟ یا اختلاف مزاج و مشرب ومسلک؟۔۔۔‘‘ بزرگوں کے معاملات ہیں، ناموروں کی باتیں ہیں، بڑوں کے مسائل ہیں، ایک خورد، ایک ذرۂ حقیر، خاک پا، ان جھگڑوں کی وجہ بیان کرے تو قصہ دار و رسن نہ سہی، سنگ خلائق کا نشانہ بننا تو لازمی ہے۔ کیا کہا جائے اور کیا کیا جائے! علامہ اقبال نے مسائل و مشکلات کے بارے میں صد ہا اہل علم و فضل سے مشورہ کیا۔۔۔۔ اس فہرست میں اصاغر بھی ہیں اور اکابر بھی علمائے دین بھی ہیں اور فضلائے جدید بھی۔۔۔۔ مگر فہرست سے جو نام غائب ہے وہ ابو الکلام کا ہے۔۔۔۔ مجھے معلوم نہیں کبھی دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوں (ممکن ہے ملے ہوں) خط و کتابت بھی شاید ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ امام الہند نے تذکرہ سے لے کر غبا رخاطر تک اپنی نثر کو فارسی اردو کے متعدد شعراء کے شعروں سے مزین کیا ہے لیکن اگر نہیں کیا تو علامہ اقبال کے شعروں سے نہیں کیا۔ داغ تک کے اشعار ہیں مگر اقبال کے نہیں! یہ رنگ نا آشنائی ہے تو عجیب رنگ ہے معاصرانہ چشمک ہے تو عجیب چشمک ہے۔ یہ اختلاف مزاج ہے تو عجیب اختلاف مزاج ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے وجود ہی کا انکار کر دے۔ 1؎ یہ ہیں الفاظ اردو کے نامور ادیب اور نقاد جناب ڈاکٹر سید عبداللہ کے مجھے سید صاحب کے ان محسوسات سے بصد عجز و نیاز اختلاف ہے۔ اقبال (۱۸۷۳ء ۔ ۱۹۳۸ئ) اور ابو الکلام (۱۸۸۸ئ۔ ۱۹۵۸ئ) اس صدی کے دو عبقری تھے جنہوں نے برعظیم پاک و ہند کی علمی، ادبی، مذہبی اور سیاسی زندگی کو سب سے زیادہ متاثر کیا، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے مطابق: ’’ ابو الکلام اور اقبال اس دور کے دماغ تھے۔‘‘ ان دونوں کا پیغام ایک ہی تھا بقول ڈاکٹر سید عابد حسین: ’’ اور3؎ وہ یہ ہے کہ دین کی کنجی سے دنیا کا دروازہ کھولو اور اسلام کے اسم اعظم سے آفاق کی تسخیر کرو۔‘‘ 1؎ ڈاکٹر سید عبداللہ، مسائل اقبال (لاہور۔ اردو اکیڈمی، ۱۹۷۴ئ) ص ۲۲۱ 2؎ حضرت علامہ اقبال اور مولانا ابو الکلام آزاد ادیبوں او رنقادوں کی نظر میں ’’ چٹان‘‘ ۲۰۔ ۱۷ (۷۴ اپریل ۱۹۶۷ئ) ص ۱۹ 3؎ عبداللہ بٹ ’’ پیش لفظ‘‘ اپنی کتاب ’’ مقالات ابو الکلام‘‘ میں (لاہور: قومی کتب خانہ، ۱۹۴۳ئ) ص: ۹ اور دونوں کے مابین تعلقات دوستانہ تھے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ان کے تعلقات کی ابتداء کب ہوئی البتہ دونوں کی پہلی ملاقات اپریل ۱۹۰۵ء میں لاہور میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں ہوئی۔ مولانا آزاد اس اجلاس میں بحیثیت ایڈیٹر ’’ لسان الصدق 1؎‘‘ مدعو تھے۔ عبدالرزاق ملیح آبادی، مولانا کی زبانی لکھتے ہیں : ’’ اس2؎ زمانے میں ڈاکٹر اقبال کی شاعری کو مخزن نے نیا نیا ملک کے سامنے پیش کیا تھا لیکن بہت جلد ہی لوگوں میں غیر معمولی شہرت ہو گئی تھی۔ انجمن میں ان کی نظم خوانی خاص طور پر شوق و ذوق سے سنی جاتی تھی۔ ان سے بھی پہلی مرتبہ اس سفر میں ملاقات ہوئی۔‘‘ مولانا آزاد نے ۱۳ جولائی ۱۹۱۲ء کو کلکتہ سے ہفت روزہ ’’ الہلال‘‘ جاری کیا۔ اس ہفت روزہ نے ملک بھر کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی مولانا عبدالماجد دریا بادی کے مطابق: ’’ الہلال3؎ نکلتے ہی ابو الکلام مسلم طور پر مولانا ہو گئے اور شہرت کے پروں سے اڑنے لگے۔ الہلال کی مانگ گھر گھر ہونے لگی۔‘‘ اصل میں ’’ الہلال‘‘ ایک تحریک تھی۔ اسلامیان ہند کی بیداری کی تحریک، اس نے تھوڑی ہی مدت میں علمی، ادبی، مذہبی اور سیاسی دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ عوام تو عوام خواص بھی چونک اٹھے اور انہیں یہ بات تسلیم کرنی پڑی کہ ہم سب اپنے اصلی کام بھولے ہوئے تھے ’’ الہلال‘‘ نے ہمیں یاد دلایا۔ ملک کے مختلف گوشوں سے اس کے لئے ہمدردی اور محبت کے جذبات اٹھے اقبال نے بھی ’’ تحریک الہلال‘‘ سے دلچسپی اور ہمدردی کا عملاً اظہار کیا۔ چنانچہ انہوں نے ’’الہلال‘‘ کے لئے دس خریدار مہیا کئے ۹ اکتوبر ۱۹۱۲ء کی اشاعت میں ’’ الہلال کی توسیع اشاعت‘‘ کے عنوان سے مولانا آزاد لکھتے ہیں: ’’ الہلال 4؎ کی توسیع اشاعت کے لئے ابتداء سے بغیر کسی تحریک اور طلب کے جو احباب سعی فرما رہے ہیں، دفتر ان کا شکر گزار ہے۔ ایسے حضرات تو بکثرت ہیں جنہوں نے ایک ایک یا دو دو خریدار بہم پہنچائے، مگر جن احباب نے خاص طور پر اس بارے میں سعی کی ہے ان کے اسمائے گرامی شکریے کے ساتھ درج ذیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل یہ ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کو مخلص اور بغیر منت و طلب احسان کرنے والے احباب عطا فرمائے۔‘‘ اس فہرست میں سب سے زیادہ یعنی بارہ خریدار دہلی کے ایک 5؎ صاحب نے مہیا کئے مگر اپنا نام ظاہر نہ کیا اور دس دس خریدار اور اقبال اور مولانا سید الحق بغدادی نائب پروفیسر عربی محمڈن کالج علی گڑھ نے مہیا کئے۔ 1؎ ماہنامہ ’’ لسان الصدق‘‘ کلکتہ سے ۲۰ نومبر ۱۹۰۳ء کو جاری ہوا اور ڈیڑھ برس جاری رہا۔ 2؎ عبدالرزاق ملیح آبادی ابو الکلام کی کہانی، خود ان کی زبانی (لاہور) مکتبہ چٹان ۱۹۶۰ء ص ۳۲۳ 3؎ عبدالماجد دریا باری ’’ چند یادیں‘‘ الجمعیتہ ۴ دسمبر ہ۱۹۵۸ء ص ۴۳ 4؎ الہلال: ۱۳، ص ۱۔ 5؎ مولانا غلام رسول مہر کے مطابق یہ صاحب حکیم اجمل خان تھے (مکتوب بنام فیض لدھیانوی مورخہ ۲۷ مئی ۱۹۷۱) اقبال کی نظم ’’ جواب شکوہ‘‘ ۳۰ نومبر ۱۹۱۲ء کو جلسہ امداد و عجز و عین بلقان منعقدہ باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں پڑھی گئی۔ الہلال کی ۲۶ فروری ۱۹۱۳ء کی اشاعت میں ریاست رام پور کے ہوم سیکرٹری صاحبزادہ مصطفی خان شرر کی ایک طویل نظم ’’ جواب شکوہ کا اقبال‘‘ کے عنوان سے اس کی تائید میں چھپی۔ یہ الہلال کے دو صفحات پر محیط تھی۔ اس کا آخری بند یہ ہے: آج1؎ اگر حال زبوں ہے تو الم بے جا ہے قلب اقبال ہرا ہے تو اچنبھا کیا ہے دیکھئے باغ اجڑتا ہے کبھی پھلتا ہے تنگ دل ہیں تو کریں صبر یہی اچھا ہے جب بہار آتی ہے کلیوں کی چٹک کہتی ہے کب ہمیشہ خلش تنگ دلی رہتی ہے ۱۸ ستمبر ۱۹۱۳ء کو ’’ الہلال‘‘ سے پریس ایکٹ کے تحت دو ہزار روپے کی ضمانت طلب ہوئی جو ۱۶ نومبر ۱۹۱۴ء کو ضبط کر لی گئی اور ’’ الہلال‘‘ کے نمبر بابت ۱۴ اکتوبر ۲۱ اکتوبر ۱۹۱۴ء بھی ضبط ہوئے۔۔۔۔ مولانا ان دنوں کلکتہ سے باہر تھے۔ جب انہیں دفتر کی طرف سے اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے بذریعہ تار ہدایت کی کہ: ’’ جو نمبر چھپ رہا ہے اس کو فوراً شائع کر دو اور ایک مختصر نوٹ میں ضبطی کی اطلاع کے ساتھ یہ اعلان کر دو کہ ہم اپنی ذات سے آخر وقت تک الہلال کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور انشاء اللہ العزیز رکھیں گے۔‘‘ چنانچہ ’’ الہلال‘‘ کا ۱۸ نومبر ۱۹۱۴ء کا شمارہ شائع ہوا مگر ساتھ ہی دس ہزار روپے کی نئی ضمانت مانگ لی گئی۔ ضمانت داخل نہ کرائی گئی اور اس طرح ’’ الہلال‘‘ بند ہو گیا۔ پانچ ماہ بعد مولانا نے البلاغ پریس سے ہفتہ وار البلاغ جاری کیا۔ البلاغ کا پہلا شمارہ ۱۲ نومبر ۱۹۱۵ء کو چھپا اس کے صفحہ اول پر اقبال کی یہ نظم چھپی: محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے تصدق جس پہ حیرت خانہ سینا و فارابی فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی میسر جس سے آنکھوں کو ہے اب تک اشک عنابی مرے دل نے یہ اک دن اس کی نربت سے شکایت کی نہیں ہنگامہ عالم میں اب سامان بے تابی تغیر آ گیا ایسا مزاج اہل عالم میں کہ رخصت ہو گئی دنیا سے کیفیت وہ سیمابی فغان نیم و شب شاعر کی بار گوش ہوتی ہے نہ ہو جب چشم محفل آشنائے لطف بے خوابی 1؎ الہلال ۲: ۸ ص ۱۳۲۔ ۱۴۳ کسی کا شعلہ فریاد ہو ظلمت ربا کیوں کر گراں ہے شب پرستوں پر سحر کی آسماں تابی صدا تربت سے آئی، شکوۃ اہل جہاں کم کن ’’توا را تلخ ترمی زن چو ذوق نغمہ کم یابی صدی را تیز ترمی خواں چو محمل را گراں بینی‘‘ البلاغ میں اس نظم کا عنوان عرفی کے شعر کا مصرعہ اولیٰ تھا۔ بانگ درا میں یہ ’’ عرفی‘‘ کے عنوان سے چھپی۔ بانگ درا میں اسے شامل کرتے وقت چند اشعار میں ترامیم کی گئیں جو یہ ہیں: البلاغ: میسر جس سے آنکھوں کو ہے اب تک اشک عنابی بانگ درا: میسر جس سے ہیں آنکھوں کو اب تک اشک عنابی البلاغ: تغیر آ گیا ایسا مزاج اہل عالم میں بانگ درا: مزاج اہل عالم میں تغیر آ گیا ایسا البلاغ: صدا تربت سے آئی شکوہ اہل جہاں کم کن بانگ درا: صدا تربت سے آئی شکوہ اہل جہاں کم گو یہ حقیقت ہے کہ الہلال اور البلاغ کے صفحہ اول پر کبھی کوئی نظم شائع نہیں ہوئی۔ صرف اقبال کی نظم کو یہ مستثنیٰ مقام حاصل ہوا۔ شبلی سے مولانا آزاد کے گہرے تعلقات تھے۔ ان کی متعدد نظمیں الہلال میں چھپیں مگر پہلا صفحہ اقبال کے سوا کسی کو نہ ملا۔ اس نظم میں مولانا آزاد کو جو پیغام دیا گیا۔ وہ محتاج تشریح نہیں۔ حکومت نے محسوس کیا کہ محض پریس ایکٹ کے استعمال سے مولانا آزاد کی سرگرمیاں رک نہیں سکتیں سو اس بار قانون تحفظ ہند کی دفعہ ۳ کے تحت انہیں کہا گیا کہ چار دن کے اندر اندر کلکتہ کا قیام ترک کر دیں اور حدود بنگال سے نکل جائیں۔ بعد میں یہ مدت ایک ہفتہ تک بڑھا دی گئی۔ اس سے پہلے حکومت پنجاب، دہلی، یوپی اور بمبئی اسی قانون کے تحت مولانا کا داخلہ اپنے صوبوں میں بند کر چکی تھیں۔ چنانچہ مولانا رانچی (بہار) چلے گئے جہاں پانچ ماہ بعد نظر بند کر دئیے گئے اس طرح ساڑھے چار مہینے بعد البلاغ بند ہو گیا۔ مولانا آزاد رانچی میں نظر بند تھے کہ اقبال کی مثنوی ’’ رموز بے خودی‘‘ چھپی اقبال نے اس کا ایک نسخہ مولانا آزاد کو بھیجا اور انہوں نے ایک خط میں اسے بہت پسند کیا اقبال سید سلیمان ندوی کے نام ۲۸ اپریل ۱۹۱۸ء کے خط میں لکھتے ہیں:ـ ’’ والا نامہ ابھی ملا ہے، رموز بے خودی میں نے ہی آپ کی خدمت میں بھجوائی تھی۔ ریویو کے لیے سراپا سپاس ہوں آج مولانا ابو الکلام کا خط آیا ہے انہوں نے ابھی میری اس ناچیز کوشش کو بہت پسند فرمایا ہے۔۔۔1؎‘‘ 1؎ شیخ عطاء اللہ۔ اقبال نامہ حصہ اول (لاہور۔ شیخ محمد اشرف، ص۔ ن) ص ۸۰ مولانا آزاد کا تذکرہ ۱۹۱۹ء میں ان کے زمانہ اسارت ہی میں چھپا۔ فضل الدین احمد مرزا نے مقدمہ میں ’’ مذہبی انقلاب‘‘ کے زیر عنوان ’’ الہلال‘‘ کے اثرات کے بارے میں لکھا: ’’ مثال کے طور پر میں صرف چند محترم ناموں کا ذکر کروں گا۔ طبقہ علماء میں سے حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی کا یہ قول خود مولانا ابو الکلام نے ایک مرتبہ مجھ سے نقل کیا تھا کہ ’’ ہم سب اصل کام بھولے ہوئے تھے۔ الہلال نے یاد دلایا۔۔۔۔۔‘‘ تعلیم یافتہ جماعت میں فدائے قوم مسٹر محمد علی اور مسٹر شوکت علی خاں اور ہمارے قومی شاعر ڈاکٹر اقبال کا ذکر کر دینا کافی ہے۔ ان دونوں اسلام پرستوں کو مذہب کی راہ اسی نے دکھلائی اور بتدریج اپنے رنگ میں یک قلم رنگ دیا۔۔۔۔ ڈاکٹر اقبال کا مذہبی عقائد میں پچھلا حال جو کچھ سنا ہے، اس کے مقابلے میں اب ان کی فارسی مثنویاں دیکھتے ہیں تو سخت حیرت ہوتی ہے۔’’ اسرار خودی‘‘ اور ’’ رموز بے خودی‘‘ فی الحقیقت ’’ الہلال‘‘ ہی کی صدائے باز گشت ہیں۔ 1؎‘‘ اقبال نے سید سلیمان ندوی کے نام ۱۰ نومبر ۱۹۱۹ء کے خط میں جہاں تذکرہ، مولانا آزاد اور تحریک الہلال کے بارے میں اپنے تاثرات لکھے وہاں فضل الدین احمد مرزا کی مندرجہ بالا تحریر پر خفگی کا اظہار کیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ مولانا ابو الکلام آزاد کا تذکرہ آپ کی نظر سے گزرا ہو گا۔ بہت دلچسپ کتاب ہے، مگر دیباچے میں مولوی فضل الدین احمد لکھتے ہیں کہ ’’اقبال کی مثنویاں تحریک الہلال ہی کی آواز باز گشت ہیں۔‘‘ شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ جو خیالات میں نے ان مثنویوں میں ظاہر کئے ہیں، ان کو برابر ۱۹۰۷ء سے ظاہر کر رہا ہوں۔ اس کے شواہد میری مطبوعہ تحریریں، نظم و نثر، انگریزی و اردو میں موجود ہیں جو غالباً مولوی صاحب کے پیش نظر نہ تھیں۔ بہرحال اس کا کچھ افسوس نہیں کہ انہوں نے ایسا لکھا۔ مقصود اسلامی حقائق کی اشاعت ہے نہ نام آوری البتہ اس بات سے مجھے رنج ہوا کہ ان کے خیال میں اقبال تحریک الہلال سے پہلے مسلمان نہ تھا۔ تحریک الہلال نے اسے مسلمان کیا۔ ان کی عبارت سے ایسا خیال مترشح ہوتا ہے۔ ممکن ہے ان کا یہ مقصود نہ ہو۔ میرے دل میں مولانا ابو الکلام کی بڑی عزت ہے اور ان کی تحریک سے ہمدردی۔ مگر کسی تحریک کی وقعت بڑھانے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اوروں کی دلآویزی کی جائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ اقبال کے جو مذہبی خیالات اس سے پہلے سنے گئے ان میں اور مثنویوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔‘‘ معلوم نہیں انہوں نے کیا سنا تھا اور سنی سنائی بات پر اعتبار کر کے ایک ایسا جملہ لکھا، جس کے کئی معنی ہو سکتے ہوں کسی طرح ان لوگوں کے شایان شان نہیں جو اصلاح کے علمبردار ہوں۔ مجھے معلوم نہیں مولوی فضل الدین صاحب کہاں ہیں ورنہ یہ موخر الذکر شکایت براہ راست ان سے کرتا۔ اگر آپ سے ان کی ملاقات ہو تو میری شکایت ان تک پہنچائیے۔ 2؎‘‘ 1؎ فضل الدین احمد مرزا ’’ مقدمہ‘‘ تذکرہ ابو الکلام آزاد (کلکتہ و البلاغ پریس، ۱۹۱۹ئ) ص رز 2؎ شیخ عطاء اللہ، اقبال نامہ حصہ اول (لاہور۔ شیخ محمد اشرف، سن۔ ن) ص ۱۱۔ ۱۱۱ تذکرہ مولانا کی رائے اور مرضی کے خلاف فضل الدین احمد مرزا نے شائع کر دیا تھا۔ مولانا پورا چھاپنا چاہتے تھے، فضل الدین احمد نے مختلف اجزاء روک لیے اور مولانا کے بیان کے مطابق دوسری جلد کا مسودہ بھی انہیں کے پاس تھا۔ مولانا کی رہائی سے پیشتر موصوف پنجاب آ گئے، پھر ان کا انتقال ہو گیا۔ مسودہ تلاش کے باوجود نہ مل سکا۔ مولانا آزا،د مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام ۲۶ نومبر ۱۹۱۹ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’ ۔۔۔۔ تذکرہ کوئی ایسی چیز نہ تھی جو خصوصیت کے ساتھ شائع کی جاتی۔ ایک صاحب نے بطور خود شائع کر دیا۔ بوجودہ اس کی اشاعت میرے لیے خوش آئند نہ ہوئی۔ 1؎‘‘ معلوم نہیں سید سلیمان ندوی اقبال کی شکایت فضل الدین احمد مرزا تک پہنچا سکے یا نہیں البتہ مولانا آزاد کو ضرور پہنچائی۔ اس پر مولانا آزاد نے سید سلیمان ندوی کو ۲ جنوری ۱۹۲۰ء کو لکھا: ’’ ۔۔۔۔ ڈاکٹر اقبال کا شکوہ بے جا نہیں۔ یہ نہایت ہی لغو اور سبک بات ہے کہ فلاں نے فلاں بات فلاں کے اثر سے لکھی اور فلاں کے خیال میں یوں تبدیلی ہوئی لیکن لوگوں کا پیمانہ نظر یہی باتیں ہیں تو کیا کیا جائے دراصل اس کم بخت تذکرے کی ساری باتیں میرے لئے تکلیف دہ ہوئیں۔ مسٹر فضل الدین نے یہ مقدمہ لکھ کر نظر ثانی کے لئے بھیجا تھا۔ میں نے واپس نہیں بھیجا، اس لیے کہ وہ موجودہ حالت میں کتاب کا پہلا حصہ شائع کرنا چاہتے تھے اور میں مصر تھا کہ ایک ہی مرتبہ میں پوری کتاب شائع کر دی جائے۔ صرف اتنا ٹکڑا حد درجہ ضمنی مطولات و عدم انضباط کی وجہ سے نہایت مکروہ ہو گیا۔ خیال کیا کہ مقدمہ کا واپس نہ کرنا اشاعت میں روک ہو گا۔ لیکن انہوں نے بجنسہ چھاپ کر جلد باندھ کر یکایک ایک نسخہ بھیج دیا اور ان ساری باتوں کو وہ مزاح سمجھتے رہے۔ علاوہ ڈاکٹر اقبال وغیرہ والے ٹکڑے کے پورا مقدمہ طرز تحریر و استدلال وغیرہ کے لحاظ سے بھی بالکل لغو ہے۔ 2؎‘‘ مولانا یکم جنوری ۱۹۲۰ء کو رہا ہوئے تو اقبال کو اس کی خوشی ہوئی اور انہیں خط بھی لکھا سید سلیمان ندوی کے نام ایک 3؎ خط میں لکھتے ہیں: ’’ ۔۔۔۔ الحمد للہ کہ مولانا آزاد کو آزادی ملی۔ کیف باطن میں بالخصوص آج کل ’’ صحو‘‘ ہی کی ضرورت ہے۔ نبی کریم نے صحابہ کی تربیت اسی حال میں کی تھی۔ ’’ سکر‘‘ کی حالت عمل کی دشوار گزار منزل کو طے کر لینے کے بعد ہو تو مفید ہے۔ باقی حالات میں اس کا روح پر ایسا ہی اثر ہے جیسا جسم پر افیون کا۔ مولانا آزاد اب کہاں ہیں۔ پتہ لکھئے کہ ان کی خدمت میں عریضہ لکھوں۔۔۔۔۔۔4؎‘‘ 1؎ غلام رسول مہر، تبرکات آزاد (لاہور۔ شیخ غلام علی ۱۹۵۹ئ) ص ۱۰۱،2؎ ایضاً، ص ۱۵۶ 3؎ اقبال نامہ میں اس خط کی تاریخ ۳ اپریل ۱۹۱۹ء درج ہے، جو درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ مولانا آزاد یکم جنوری ۱۹۲۰ء کو رہ اہوئے تھے۔ 4؎ شیخ عطاء اللہ اقبال نامہ حصہ اول (لاہور۔ شیخ محمد اشرف، س۔ ن) ص ۱۰۰۔ ۱۰۱ اقبال مولانا آزاد سے بھی مسائل و مشکلات میں مشورہ کرتے تھے اور ان کی رائے کو وقیع جانتے تھے۔ سید سلیمان ندوی کے نام ۱۸ اگست ۱۹۲۴ء کے خط میں رقم طراز ہیں: ’’ حال میں امریکا کی مشہور یونیورسٹی (کولمبیا) نے ایک کتاب شائع کی ہے، جس کا نام ’’ مسلمانوں کے نظریات متعلقہ مالیات‘‘ ہے۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ اجماع امت نص قرآنی کو منسوخ کر سکتا ہے، یعنی یہ کہ مثلاً مدت شیر خوارگی جو نص صریح کی رو سے دو سال ہے، کم یا زیادہ ہو سکتی ہے یا حصص شرعی میراث میں کمی بیشی کر سکتا ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ بعض حنفاً اور معتزلیوں کے نزدیک اجماع یہ اختیار رکھتا ہے مگر اس نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔ آپ سے یہ امر دریافت طلب ہے کہ آیا مسلمانوں کے فقہی لٹریچر میں کوئی ایسا حوالہ موجود ہے؟ امر دیگر یہ ہے کہ آپ کی ذاتی رائے اس بارے میں کیا ہے؟ میں نے مولوی ابو الکلام صاحب کی خدمت میں بھی عریضہ لکھا ہے۔ 1؎‘‘ اقبال نہ صرف خود مسائل و مشکلات میں مولانا آزاد سے مشورہ کرتے، بلکہ دوسروں کو بھی ان سے رجوع کرنے کا کہتے۔ سید محمد سعید الدین جعفری کے نام ایک خط میں ’’ اسلام کا مطالعہ زمانہ حال کی روشنی میں‘‘ کے سلسلے میں لکھتے ہیں: ’’ میری رائے میں بحیثیت مجموعی زمانہ حال کے مسلمانوں کو امام ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ان کی کتب زیادہ تر عربی میں ہیں مگر شاہ صاحب موصوف کی حجتہ اللہ البالغہ کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ حکماء میں ابن رشد اس قابل ہے کہ اسے دوبارہ دیکھا جائے۔ علیٰ ہذا القیاس غزالی اور رومی علیہ الرحمتہ مفسرین میں معتزلی نقطہ خیال سے زمخشری، اشعری نقطہ، خیال سے رازی اور زبان و محاورہ کے اعتبار سے بیضاوی۔۔۔۔ چند مفسرین کے نام میں اوپر لکھ چکا ہوں۔ میری رائے میں سید سلیمان ندوی اور مولانا ابو الکلام اس بارے میں بہتر مشورہ دے سکیں گے۔ 2؎‘‘ سید سلیمان ندوی کے نام ۷ اگست ۱۹۳۶ء کے خط میں مولانا آزاد کا ذکر ہے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’ الحمد للہ کہ اب قادیانی فتنہ پنجاب میں رفتہ رفتہ کم ہو رہا ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی دو تین بیان چھپوائے ہیں۔ مگر حال کے روشن خیال علماء کو ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔۔۔۔3؎‘‘ افسوس کہ فریقین کی خط و کتابت محفوظ نہیں جس کی وجہ سے ان بزرگوں کے تعلقات کی تفصیلات نامعلوم ہیں البتہ یہ بات تو یقینی ہے کہ 1؎ شیخ عطاء اللہ، اقبال نامہ حصہ اول (لاہور۔ شیخ محمد اشرف، س۔ ن) ص ۱۳۲۔ ۱۳۳ 2؎ رفیع الدین ہاشمی، خطوط اقبال (لاہور، مکتبہ خیابان ادب، ۱۹۷۶ئ) ص ۱۶۳۔ ۱۶۷ 3؎ شیخ عطاء اللہ۔ اقبال نامہ حصہ اول (لاہور شیخ محمد اشرف، س۔ن ) ص۱۹۹ انہوں نے ایک دوسرے کے وجود کا انکار نہیں کیا۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ ’’ امام الہند نے تذکرہ سے لے کر غبار خاطر تک اپنی نثر کو فارسی اردو کے متعدد شعراء کے شعروں سے مزین کیا ہے۔ لیکن اگر نہیں کیا تو علامہ اقبال کے شعروں سے نہیں کیا۔‘‘ میرے خیال میں یہ رائے درست نہیں۔ مولانا نے غبا رخاطر میں ۱۸ مارچ ۱۹۴۳ء کے مکتوب میں اقبال کا یہ شعر استعمال کیا ہے: تا تو بیدار شوی، نالہ کشیدم ورنہ عشق کاریست کہ بے آہ و فغاں نیز کنند ویسے بھی زیادہ تر وہی اشعار انسان کے ذہن میں محفوظ رہتے ہیں جو ابتدائی دور میں نظر سے گذر چکے ہوں۔ ۱۹۰۵ء کی پہلی ملاقات کے علاوہ اقبال اور ابو الکلام کی اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ چند ایک کی تفصیلات یہ ہیں: ۱۹ فروری ۱۹۱۴ئ1؎ کو مولانا آزاد انجمن ہلال احمر قسطنطنیہ کے وفد کے ساتھ لاہور آئے اور اقبال سے ملاقات بھی ہوئی۔ یہ وفد مسلمانان ہند کا شکریہ ادا کرنے کے لئے ہندوستان آیا تھا۔ ریلوے سٹیشن پر وفد کا پرجوش استقبال کیا گیا۔ شام چار بجے باغ بیرون موچی دروازہ میں جلسہ عام منعقد ہوا۔ اراکین وفد اور مولانا آزاد جب جلسہ گاہ میں آئے تو حاضرین جلسہ کی طرف سے ان کے گلے میں ہار ڈالے گئے اور بے شمار پھول برسائے گئے۔ اس کے بعد حاجی شمس الدین سیکرٹری انجمن حمایت اسلام لاہور نے نواب ذوالفقار علی خان رئیس مالیر کوئلہ و سابق وزیر اعظم ریاست پٹیالہ کے صدر جلسہ بنائے جانے کی تجویز پیش کی جو اقبال کی تائید سے با اتفاق رائے حاضرین منظور ہوئی۔ نواب ذوالفقار علی خان نے افتتاحی تقریر کی۔ ان کے بعد ڈاکٹر عدنان بے اور عمر کمال بے نے ترکی میں تقاریر کیں جن کا ترجمہ علامہ توفیق بے ایڈیٹر رسالہ ’’ سبیل الرشاد‘‘ قسطنطنیہ نے فارسی میں سنایا۔ ان کے بعد چودھری غلام حیدر خاں پرسنل اسسٹنٹ ایڈیٹر زمیندار اور حاجی شمس الدین نے تقاریر کیں۔ مولانا آزاد وفد کے ہمراہ اسی شام واپس چلے گئے کہ دوسرے دن دہلی میں بھی جلسہ ہو رہا تھا۔ اقبال اور نواب ذوالفقار علی خاں نے مولانا آزاد پر زور دیا کہ مزید ایک روز لاہور میں قیام فرمائیں۔ ایک ملاقات کے راوی ڈاکٹر شیر بہادر خان ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ ایک دفعہ مولانا لاہور تشریف لائے اور حسب معمول میاں عبدالعزیز بار ایٹ لاء کی کوٹھی پر فرو کش ہوئے۔ ان کے ہاں خواص کی ایک مجلس عصر کے قریب منعقد ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ علامہ اقبال بھی وہاں موجود تھے۔ اس محفل میں میں اور میرا ایک دوست بھی جا پہنچے۔ مولانا نے وقت کے کسی مسئلہ پر (وہ مسئلہ اب ٹھیک یاد نہیں) فرش پر بیٹھے بیٹھے تقریر کی۔ جب تقریر کر چکے تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ علامہ اقبال سے مخاطب ہوئے اور استفسار کیا۔ ’’ کیوں علامہ صاحب آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘ علامہ مرحوم نے فرمایا مولانا مجھے آپ سے کلی اتفاق ہے۔2؎‘‘ ایک اور ملاقات کے راوی مولانا غلام رسول مہر ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔ 1؎ شمشیر قلم ۲۷ فروری ۱۹۱۴ء ص ۳۰2؎ چٹان ابو الکلام نمبر ۱۵ فروری ۱۹۶۵ء ص ۱۷ ’’ ایک اور ملاقات میرے سامنے نواب سر ذوالفقار علی خان مرحوم کی دعوت طعام پر ہوئی تھی۔ حضرت علامہ نے بطور خاص فرمایا تھا کہ ہمیں مولانا آزاد کے پاس بٹھایا جائے تاکہ ان سے باتیں کر سکیں۔ میں نے اس کا انتظام کیا اور کھانے کے دوران میں دونوں بزرگ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے تک باتیں کرتے رہے۔ 1؎‘‘ یہ تو تھی اقبال اور ابو الکلام کی خط و کتابت اور ملاقاتوں کی داستان جس سے زندگی میں ان کے تعلقات پر روشنی پڑتی تھی۔ ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو اقبال کا انتقال ہو گیا۔ مولانا آزاد کو ا س کا شدید صدمہ ہوا۔ مولانا نے ایک بیان میں اظہار افسوس کرتے ہوئے اقبال کو یوں خراج تحسین پیش کیا۔ ’’ یہ قصور کس قدر المناک ہے کہ اقبال اب ہم میں نہیں۔ جدید ہندوستان اردو کا اس سے بڑا شاعر پیدا نہیں کر سکتا۔ اس کی فارسی شاعری کا بھی جدید فارسی ادب میں اپنا ایک مقام ہے۔ یہ تنہا ہندوستان ہی کا نہیں بلکہ پورے مشرق کا نقصان ہے۔ ذاتی طور پر میں ایک پرانے دوست سے محروم ہو گیا ہوں۔ 2؎‘‘ ۲۵ اپریل ۱۹۳۸ء کو مولوی محی الدین احمد قصوری کے نام ایک خط میں بھی اس سانحہ پر ان الفاظ میں اظہار افسوس فرمایا: ’’ اقبال کی موت سے نہایت قلق ہوا۔۔۔۔ بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔ ‘‘ 3؎ ٭٭٭ کتابیات الف:ـ کتب : (۱) اردو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام جلد اول حصہ دوم لاہور پنجاب یونیورسٹی ، ۱۹۶۲ء (۲) آزاد، ابو الکلام، تذکرہ کلکتہ، البلاغ پریس، ۱۹۱۹ء (۳) آزاد، ابو الکلام، غبار خاطر، دلی، ساہیتہ اکادمی، ۱۹۶۷ء (۴) آزاد، ابو الکلام انڈیا ونس فریڈم (انگریزی) کلکتہ لانگ مین ۱۹۶۴ء (۵) اقبال، محمد اقبال سر۔ بانگ درا لاہور۔ شیخ غلام علی ۱۹۵۸ء (۶) اقبال، محمد اقبال سر، زبور عجم۔ لاہور، شیخ غلام علی، ۱۹۶۰ (۷) عبداللہ انور بیگ، دی پوئٹ آف دی ایسٹ لاہور۔ اسلامک پبلیکیشنز، ۱۹۵۶ء (۸) عبداللہ، سید۔ مسائل اقبال۔ لاہور۔ اردو اکیڈمی، ۱۹۷۴ء (۹) عطاء اللہ شیخ۔ اقبال نامہ، حصہ اول لاہور۔ شیخ محمد اشرف (س۔ ن) (۱۰) ملیح آبادی عبدالرزاق، ابو الکلام کی کہانی خود ان کی زبانی لاہور۔ مکتبہ چٹان ۱۹۶۰ء (۱۱) مہر، غلام رسول۔ تبرکات آزاد لاہور۔ شیخ غلام علی، ۱۹۵۹ء (۱۲) ہاشمی، رفیع الدین خطوط اقبال۔ لاہور، مکتبہ خیابان ادب ۱۹۷۶ء ب: رسائل و اخبار : (۱) البلاغ۔ کلکتہ ۱۹۱۵ء (۲) الہلال۔ کلکتہ ۱۹۱۲۔ ۱۹۱۴ ئ(۳) الجمعیتہ۔ دہلی ۱۹۵۸ء (۴) چٹان۔ لاہور ۱۹۶۷ (۵) شمشیر قلم۔ لاہور ۱۹۱۴ء 1؎ مکتوب مولانا غلام رسول مہر بنام فیض لدھیانوی مورخہ ۲۷ مئی ۱۹۷۱ء 2؎ عبداللہ انور بیگ۔ دی پوئٹ آف دی ویسٹ (انگریزی) (لاہور اسلامک پبلیکیشنز ۱۹۵۶ئ) ص ۵۶ 3؎ غلام رسول مہر۔ تبرکات آزاد (لاہور۔ شیخ غلام علی، ۱۹۵۹ئ) ص ۱۶ ایک اور تاریخی پیشکش غالب کا کلام بخط غالب پیش کرنے کا سہرا ادارۂ نقوش کے سر ہے اب ناخدائے سخن میر تقی میر کا کلام جو میر نمبر کے نام سے ادارہ نقوش پیش کر رہا ہے۔ اس کی بھی تاریخی اہمیت ہے۔ تاریخی اہمیت یوں کہ اس نمبر میں میر کا بہت سا غیر مطبوعہ کلام پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارۂ نقوش، لاہور) ٭٭٭ (۵) قیام و تعلق اقبال کا قیام لاہور حکیم احمد شجاع (میں اس یادداشت میں حکیم الامت شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال کا ذکر محض ’’ اقبال‘‘ کے نام سے کروں گا۔ ان کی بلند مرتبت شخصیت علامہ، ڈاکٹر، سر اور اسی قسم کے دوسرے القاب سے بالاتر ہے اور ان کا محبوب نام ہی عزت و عظمت کے مدارج اعلیٰ کے مترادف ہے) جہاں تک لاہور میں اقبال کے قیام کا تعلق ہے اس شہر کے پانچ مقام بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک تو گورنمنٹ کالج کے کواڈرینگل کا کمرہ نمبر ۱ جس میں اقبال ۱۸۹۵ء سے ۱۸۹۹ء تک کالج کے ایک طالب علم کی حیثیت سیر ہے۔ دوسرا بھاٹی دروازے کے اندر محلہ جلوٹیاں کے بالمقابل ایک کرائے کا بالا خانہ جس میں وہ ۱۹۰۰ء سے ۱۹۰۵ء تک رہے۔ تیسرا انار کلی میں سر محمد شفیع بیرسٹر ایٹ لاء کا پرانا بالا خانہ جس میں وہ انگلستان سے واپس آ کر ۱۹۰۸ء سے ۱۹۲۲ء تک رہے اور چوتھا میکلوڈ روڈ پر ایک بنگلہ جس میں وہ ۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۵ء تک رہے اور پانچواں میو روڈ پر ان کا ذاتی مکان ’’ جاوید منزل‘‘ جس میں وہ ۱۹۳۵ء سے اپنے سال وفات ۱۹۳۸ء تک رہے۔ جن جگہوں کا اوپر ذکر آیا ہے یہ محض اقبال کی اقامت گاہیں تھیں جن میں وہ برائے نام رہتے تھے اور زیادہ تر انہیں ایک ’’ رین بسیرا‘‘ ہی سمجھتے تھے۔ ۱۸۹۵ء سے ۱۹۲۲ء تک ان کی ہر شام جب وہ طالب علمی کے زمانے میں تحصیل علم کی مصروفیتوں سے فارغ ہوتے اور اس کے بعد کے زمانے میں جب انہیں ایک وکیل کی حیثیت سے مقدموں کی تیاری اور ان کی پیروی سے فرصت ہو جاتی تو بازار حکیماں میں حکیم شہباز دین کی بیٹھک میں گزرتی رہی اور ۱۹۲۲ء سے ۱۹۳۳ء تک وہی وقت جو ۱۹۲۲ء تک حکیم شہباز دین کی بیٹھک میں گزرتا تھا نواب سر ذوالفقار علی خاں کے دولت کدے ’’زرفشاں‘‘ میں گزرنے لگا۔ اس نقل مکان کی وجہ کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔ ۱۹۳۳ء سے ۱۹۳۸ء تک جب انہوں نے میکلوڈ روڈ پر اور بعد میں جاوید منزل میں سکونت اختیار کی تو کچھ تو اپنی علالت کے باعث اور کچھ ایسی مصروفیات کے باعث جن کی نوعیت ان کی پہلی مصروفیتوں سے مختلف ہو گئی تھی وہ زیادہ تر خانہ نشین ہی رہے۔ جب تک اقبال گورنمنٹ کالج کے کواڈرینگل میں رہے ان کے ساتھ مل بیٹھنے والوں میں کچھ تو طلبہ تھے جو اس زمانے میں لاہور کے مختلف کالجوں میں پڑھتے تھے اور کچھ وہ لوگ جو بازار حکیماں کے مشاعروں میں ان کا کلام سن کر ان پر جان چھڑکنے لگے تھے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو جن کی یاد اب شاید ہی کسی کے ذہن میں محفوظ ہو۔ اس یادداشت کے پڑھنے والوں سے متعارف کر دیا جائے۔ لاہور آنے ے بعد جن طلبہ کو اقبال کی صحبت نصیب ہوئی ان میں نور الٰہی اور محمد عمر پیش پیش تھے۔ یہ دونوں فورمین کرسچین کالج لاہور میں پڑھتے تھے اور نیلے گنبد کے قریب یو انگ ہوسٹل میں رہتے تھے۔ ان دونوں کی دوستی ضرب المثل تھی اور ان کی یگانگت کا یہ عالم رہا کہ جب تک زندہ رہے ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑا۔ یہاں تک کہ ان کی ہر تصنیف ان دونوں کے اشتراک ہی سے شائع ہوئی اور اگر کبھی کسی کو ایک خط لکھا تو اس پر بھی دونوں نے دستخط کیے۔ نور الٰہی شیخ فضل الٰہی بیرسٹر ایٹ لاء کے چھوٹے بھائی تھے اور کرکٹ کے مشہور کھلاڑی۔ محمد عمر شعر و شاعری کا ذوق رکھنے کے علاوہ تھیٹر کے تماشوں کے بہت شائق تھے۔ ان دونوں دوستوں نے آگے چل کر ’’ ناٹک ساگر‘‘ کے نام سے ایک بڑی ضخیم اور مفید کتاب لکھی جس میں تھیٹر اور اس کے متعلقات اور ان لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے اسٹیج کے لیے ڈرامے لکھے اور اس صنف ادب میں اپنے اپنے زمانے میں شہرت حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہو کر یہ دونوں دوست ریاست جموں و کشمیر میں ملازم ہو گئے اور اپنی عمر وہیں گزار دی۔ اقبال کے ان دو دوستوں کے علاوہ گورنمنٹ کالج کے تین طلبہ شیخ عبدالغفور، شیخ عبدالرشید اور خواجہ عبدالمجید بھی اقبال کے شعر و سخن کے شیدائیوں میں سے تھے۔ اسے اتفاق سے کہیے یا نیرنگی تقاریر کہ شعر و سخن کے یہ تینوں دلدادہ جب تعلیم سے فارغ ہوئے تو پولیس کے عہدے پر فائز ہوئے یہ عہدہ اس زمانے میں زیادہ تر انگریز افسروں ہی کے لیے مخصوص تھا اور اس ملک کا کوئی خوش قسمت ہی اس بام عروج تک پہنچتا تھا۔ خواجہ عبدالمجید اردو زبان کی اس ضخیم اور مفید لغت کے مصنف ہیں جو ’’ جامع اللغات‘‘ کے نام سے شائع ہوئی اور اردو ادب کا ایک قیمتی سرمایہ ہے شیخ عبدالغفور نے اقبال کے کلام کو پہلے تو جمع کرنے میں اور پھر اسے مرتب کرنے میں اس مستعدی اور لیاقت سے کام لیا کہ میں نے اقبال کو خود اس امر کا اعتراف کرتے سنا کہ اگر عبدالغفور اتنی محنت نہ کرتا تو بانگ درا کبھی مرتب نہ ہو سکتی۔ اقبال کی طالب علمی کے زمانے میں ان کے اور دوستوں میں ان ہی دوستوں کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ انہوں نے ان کا ابتدائی کلام بڑی کوشش اور محنت سے جمع کیا او راسے بڑے التزام سے مرتب کیا۔ یہ مجموعہ آگے چل کر بڑے کام آیا اور اقبال نے اسی کو پیش نظر رکھ کر ’’ بانگ درا‘‘ کا مسودہ مرتب کیا۔ جب اقبال اپنی طالب علمی کا زمانہ گزار کر اورینٹل کالج میں میکلوڈ عریبک ریڈر مقرر ہوئے اور بھاٹی دروازے کے اندر رہنے لگے تو ان کی فرصت کا زیادہ تر وقت حکیم شہباز دین کی بیٹھک میں گزرنے لگا۔ بھارٹی دروازے کے اندر موتی بٹے سے لے کر تحصیل کی پرانی کچہری تک ایک بازار ہے جسے بازار حکیماں کہتے ہیں۔ اسی میں میرے بھائی حکیم شہباز دین کا مکان تھا ۔ یہ مکان لاہور کی ادبی زندگی میں بڑی اہم اور نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ جب تک وہ زندہ رہے اس مکان میں ہر روز شام کو لاہور کے ادیبوں، شاعروں، عالموں اور سیاست دانوں کا ایک جمگھٹا رہتا تھا۔ موجودہ زمانے کی اصطلاح کے مطابق یہ ایک قسم کا ’’ لٹریری کلب‘‘ تھا۔ اس میں جو لوگ باقاعدہ ہر شام کو جمع ہو جاتے تھے ان میں مولوی احمد دین، شیخ گلاب دین، مولانا عبدالحکیم کلانوری، مفتی محمد عبداللہ ٹونکی، مولانا محمد حسن جالندھری، مولانا اصغر علی روحی، فقیر سید شہاب الدین، سید محمد شاہ وکیل، سر عبدالقادر، سر شہاب الدین، خواجہ کریم بخش، خواجہ رحیم بخش، خواجہ امیر بخش، خلیفہ نظام الدین، منشی احمد حسیں خاں اور ماسٹر مولانا بخش کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ اس محفل احباب میں کبھی کبھی سر محمد شاہ دین، سر محمد شفیع، فقیر سید افتخار الدین، سرسید مراتب علی اور مرزا سلطان احمد بھی آ بیٹھتے تھے۔ اب پنجاب کے دار الحکومت میں اردو شاعری کا اچھا خاصا چرچا ہو چلا تھا۔ ۱۸۹۵ ء میں میرے والد حکیم شجاع الدین نے اردو زبان کی روز افزوں ہر دلعزیزی سے متاثر ہو کر ایک اردو بزم مشاعرہ کی بنیاد ڈالی۔ وہ اپنے زمانے کے مشہور طبیب، فلسفی اور شاعر تھے۔ ’’ داغ ہجراں‘‘ کے نام سے ان کی غزلیات کا دیوان اور ’’ خزینہ حزینہ‘‘ کے نام سے ان کے لکھے ہوئے مرثیوں کا مجموعہ ان کی ادبی کاوشوں کی یادگار ہیں۔ ان تصنیفات کے علاوہ انہوں نے طب کے علمی اور عملی پہلوؤں پر بہت سی کتابیں لکھیں جن سے اس زمانے کے طبیبوں نے بہت فیض پایا۔ یہاں زیادہ تر ان کے وہ شاگرد دن بھر موجود رہتے تھے جن کو طب، شعر اور فلسفہ میں ان کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی تھی۔ ’’ شور محشر‘‘ اسی بزم مشاعرہ کا آرگن تھا۔ یہ مشاعرہ ہر ہفتے میرے بھائی حکیم امین الدین کے وسیع مکان میں منعقد ہوتا تھا اور جو کلام وہاں پڑھا جاتا تھا ماہانہ ’’ شور محشر‘‘ میں شائع ہوتا تھا۔ اس رسالے کے ایڈیٹر پنجاب کے مشہور طبیب ڈاکٹر محمد حسین خاں کے بیٹے خان احمد حسین خاں تھے۔ ان کا نام ایک ناولسٹ، ادیب اور شاعر کی حیثیت سے محتاج تعارف نہیں۔ اقبال بھی جو اس زمانے میں گورنمنٹ کالج میں پڑھتے تھے۔ ہر ہفتے اس مشاعرے میں اپنی غزل سناتے تھے۔ اسی مشاعرے کی محفل میں انہوں نے وہ غزل پڑھی جس کا شعر اب تک پرانے لوگوں کی زبان پر جاری ہے۔ موتی سمجھ کے شان کریمی ن چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے اسی غزل کے مقطع سے اقبال کی طبیعت کا وہ رحجان صاف ظاہر ہو جاتا ہے جس نے آخر انہیں ان لوگوں کی پیروی سے بے نیاز کر دیا جن کو محض زبان دانی کا دعویٰ تھا اور جن کے اشعار کا تار و پود لکھنو اور دلی کے محاوروں کے تانے بانے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اقبال لکھنو سے نہ دلی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خم زلف کمال کے مرزا ارشد گورگانی دلی سکول کے پیرو تھے ار میر ناظم حسین ناظم لکھنو کی زبان کے دلدادہ دونوں کی ٹولیاں جب اس بزم مشاعرہ میں اپنا اپنا رنگ جمانے کے لیے غزل سرا ہوئیں تو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے انیس اور دبیر کے اکھاڑوں کا نقشہ کھنچ جاتا۔ اس بزم مشاعرہ کی مقبولیت اس روئیداد سے ظاہر ہے جو ’’ شور محشر‘‘ کے پہلے شمارے میں اس بزم کے پہلے مشاعرے کے متعلق چھپی۔ ’’ ۳۰ نومبر ۱۸۹۵ء کو پہلا جلسہ معاشرہ کا جناب حکیم امین الدین بیرسٹر ایٹ لاء کے عالی شان مکان پر شام کے چھ بجے ہوا۔ اس جلسے میں علاوہ مفصلہ ذیل اصحاب کے قریباً تین سو شائقین کی بھیڑ بھاڑ تھی۔‘‘ اس بزم مشاعرہ کی اہمیت اسی بات سے ظاہر ہے کہ اس میں جناب امیر احمد صاحب امیر استاد جناب نواب صاحب بہادر والی ریاست رام پور جو اس زمانے میں لاہور تشریف لائے ہوئے تھے نہ صرف شریک ہی ہوئے بلکہ مصرعہ طرح پر ایک غزل لکھی اور خود پڑھی۔ اس پھر اس بزم مشاعرہ کا کوکب اقبال ملاحظہ ہو کہ اس کے دوسرے ہی مشاعرے میں اقبال نے اپنی غزل پڑھی۔ ’’ شور محشر‘‘ کی روئیداد بابت دسمبر ۱۸۹۵ میں ان کی غزل پر ان کا نام اس طرح درج ہے: جناب شیخ محمد اقبال صاحب اقبال تلمیذ فصیح الملک حضرت داغ دہلوی اور اس غزل کے مقطع میں انہوں نے خود داغ کی شاگردی پر فخرکا اظہار کیا ہے : نسیم و تشنہ ہی اقبال کچھ نازاں نہیں اس پر مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغ سخنداں کا اسی زمانے سے اقبال کا ہمارے گھر آنا جانا شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ ۱۹۲۲ء تک جاری رہا میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جن کے کان ایام طفولیت ہی میں اقبال کی آواز سے آشنا ہوئے اور جب میں نے ہوش سنبھالا تو ایک عرصے تک ان بزرگوں کی صحبت کی سعادت سے بہرہ اندوز رہا جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ اسی زمانے میں اقبال نے وہ نظمیں لکھیں جن سے انہیں قبولیت عام اور شہرت دوام نصیب ہوئی۔ انہیں صحبتوں میں اس اقبال کی تعمیر ہوئی جس کے تصورات نے عالم اسلام کو ایک حیات نو کا پیغام دیا۔ میرے والد کی وفات کے بعد میرے بھائی حکیم امین الدین اور میرے دوسرے بھائی حکیم شہباز دین نے اس بزم مشاعرہ کو جاری رکھنے کی بہت کوشش کی مگر جو بات ایک دفعہ بگڑ چکی تھی نہ بنی اور جذب صادق کی وہ کشش جو بزرگوں کی شفقت میں تھی نوجوانوں کی ہمت کو نصیب نہ ہوئی لیکن ایک بات ضرور ہوئی کہ وہ صاحبان ذوق جنہیں اس بزم مشاعرہ میں شریک ہو کر ایک دوسرے کی صحبت سے لطف اندوز ہونے کی کچھ عادت سی ہو گئی تھی اب ہر روز شام کے وقت حکیم شہباز دین کے مکان پر جمع ہو جاتے تھے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ ان ارباب علم و ادب کی دید کے شائق دور دور سے آتے اور ان کی صحبت سے اکتساب شرف کرتے۔ حکیم شہباز دین جو کماتے اپنے احباب کی خاطر مدارات پر صرف کر دیتے تھے۔ ان کی زبان کی شیرینی ان کی منکسر مزاجی اور مہمان نوازی نے ان کی خاک آستاں کو علم و ادب کے درخشاں ستاروں کا آسمان بنا دیا تھا۔ حکیم امین الدین اپنے زمانے میں نہ صرف ایک کامیاب وکیل کی حیثیت سے مشہور تھے بلکہ اپنے اس علم و فضل کے باعث بڑی شہرت رکھتے تھے۔ ان کی ذکاوت اور طلاقت مشہور تھی انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں جب وہ تقریر کرنے کے لیے آتے تو ان کی تقریر کو سننے کے لیے لوگ دور دور سے آتے اور مسلمانوں کی عظمت گزشتہ کے تاریخی واقعات کے آئینے میں اپنی آئندہ نسلوں کے شاندار مستقبل کی جھلک دیکھ کر اپنے دل میں ایک نئی زندگی کی حرارت محسوس کرنے لگتے۔ ان کی آواز میں خدا داد و جذب و اثر تھا اور ان کی تحریر میں ان کی وسعت نظر کا عکس۔ ان کے تبحر علمی کی یہ کیفیت تھی کہ ان کے کتب خانے میں عربی، فارسی، اردو اور انگریزی کی سینکڑوں ایسی کتابیں موجود تھیں جن پر ان کے قلم کے لکھے ہوئے حواشی ان کی معلومات کی وسعت اور ان کی تنقید کی گہرائی کی دلیل روشن تھی۔ انہوں نے قانون پر بھی کئی کتابیں لکھیں اور اسلامی تاریخ پر بھی بے شمار مضامین تحریر کئے لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ جو حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی عظمت کو عہد حاضر کے زاویوں سے پرکھنے پر مبنی تھا افسوس کہ پایہ تکمیل کونہ پہنچ سکا۔ اور وہ اس آرزوئے ناتمام کو دل ہی میں لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ بازار حکیماں کی جس محفل کا ذکر اوپر آ چکا ہے اس کی رونق حکیم امین ا لدین ہی کے دم قدم سے تھی جب وہ نہ رہے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس محفل کی روح بھی قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔ ۱۸۹۵ء میں جب اقبال لاہور آئے تو ان کی عمر کوئی اٹھارہ برس کی ہو گی اس میں کچھ شک نہیں کہ اقبال اپنی ابتدائی تعلیم کے زمانے میں مولانا سید میر حسن صاحب کے فیض تربیت سے بہرہ اندوز ہوتے رہے۔ لیکن جن بزرگوں کی صحبت کا شرف اقبال کو لاہور میں ایک مدت تک حاصل رہا اور جن کے علم و فضل سے انہوں نے مدت تک استفادہ کیا ان کا ذکر بھی کسی قدر تفصیل کے ساتھ کر دینا مناسب ہے۔ شمس العلماء مولانا عبدالحکیم کلانوری اورینٹل کالج لاہور میں ۱۸۷۲ء سے ۱۹۱۶ء تک صدر مدرس فارسی کے عہدے پر فائز رہے۔ ان کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے وہ بہت وجیہہ انسان تھے اور ان کی گفتگو کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی اچھی طرح سوچ سمجھ کر بات کر رہا ہو۔ شام کے وقت اکثر حکیم شہباز دین کی بیٹھک میں آ بیٹھتے تھے۔ جب وہ آتے تو اقبال زیادہ تر انہیں سے مخاطب ہوتے اور شعر و شاعری کے ادبی محاسن پر گفتگو کرتے۔ انہوں نے قواعد فارسی کے علاوہ عروض، صنائع و بدائع اور املا کے خصائص پر کئی رسالے لکھے ہیں جن سے فارسی ادب کے طلبہ کو اکتساب علم میں بڑی مدد ملی ہے۔ ان کے مکان پر ان کے شاگردوں کا جمگھٹا رہتا تھا اور جب بازار میں چلتے تھے تو اس وقت بھی ان کے شاگرد ان کے ساتھ ساتھ چلتے اور شعر و سخن کی گتھیاں سلجھانے میں ان کی رہنمائی کے طالب نظر آتے۔ سر پر بہت بڑا عمامہ ہوتا اور بدن پر ایک ڈھیلا چغہ۔ ہاتھ میں عصا کی وضع کی لکڑی رکھتے تھے۔ آخر کار اورینٹل کالج میں چوالیس برس تک استادی کے فرائض انجام دینے کے بعد ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ اردو، فارسی اور عربی میں ان کی کئی تصنیفات مشہور تھیں۔ شمس العلماء مفتی محمد عبداللہ ٹونکی ۱۸۸۳ء میں اورینٹل کالج میں عربی کے مدرس مقرر ہوئے اور ۱۸۸۷ ء میں مولانا فیض الحسن کے انتقال کے بعد عربی کے صدر مدرس کے عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ ہمارے مکان کے دیوار بہ دیوار رہتے تھے۔ ان کے صاحبزادے مفتی انوار الحق بھوپال میں ایک مدت تک ناظم تعلیمات رہے۔ مفتی محمد عبداللہ ٹونکی فقہ اسلامی کے بہت بڑے عالم تھے۔ اسلامی قانون اور شرعی تنازعات میں ان کا فتویٰ ناقابل تردید سند مقصود ہوتا تھا۔ وہ بہت کم بولتے تھے لیکن جو کچھ ان کی زبان سے نکلتا تھا برہان قاطع کا حکم رکھتا تھا۔ یہ بھی ہر شام حکیم شہباز دین کی بیٹھک میں آ بیٹھتے تھے۔ اس مجلس میں بیٹھنے والوں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کا پیشہ وکالت تھا اور کچھ ایسے بھی جن کو قرآنی احکام کی حکمتوں کو سمجھنے کا شوق تھا۔ اس باب میں مفتی محمد عبداللہ ٹونکی کی رہنمائی ان لوگوں کے بڑے کام آئی۔ مفتی محمد عبداللہ بہت دبلے پتلے انسان تھے۔ پان ہر وقت چباتے رہتے تھے۔ اور جب بات کرتے تو منہ پر رومال رکھ کر بات کرتے تھے۔ اقبال اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اس ناتواں جسم میں علم و فضل کا اتنا ذخیرہ ہے کہ کوزے میں دریا بند ہونے کی مثل ان پر صادق آتی ہے۔ ۳۴ سال تک اورینٹل کالج میں مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے بعد ملازمت سے سبکدوش ہو گئے اور لاہور کو جسے وہ اپنا دوسرا وطن کہا کرتے تھے داغ مفارقت دے گئے۔ شرع محمدی پر چار جلدوں میں ان کی کتاب اردو زبان کا ایک قابل قدر سرمایہ ہے کئی مسائل پر ان کے فتاوی رسالوں کی صورت میں شائع ہوئے، اور تشنگان رموز و نکات شرع اسلامیہ نے ان سے بڑا فیض پایا۔ لاہور سے جا کر کچھ عرصہ دار العلوم ندوہ میں کام کیا۔ اس کے بعد مدرسہ عالیہ کلکتہ کے صدر مدرس مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۰ء میں رحلت فرمائی۔ ان کی وفات سے عربی زبان ایک فاضل اجل اور اسلامی شریعت ایک بے نظیر نکتہ داں کی ذات سے محروم ہو گئی۔ شیخ سر عبدالقادر جو شروع شروع میں بھاٹی دروازے کے اندر موتی ٹبے میں رہتے تھے۔ اپنے علمی اور ادبی کارناموں کے علاوہ ان اعزازات کے باعث جو انہیں سرکار دربار میں حاصل ہوئے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ ۱۸۷۴ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۹۴ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کر کے ۱۸۹۵ء میں وہ مسلمانوں کے پہلے انگریزی اخبار ’’پنجاب آبزرور‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔ انگریزی زبان میں ان کی قابلیت کی یہ پہلی سند تھی جو انہیں بن مانگے ملی۔ ۱۸۹۶ء میں جب سرسید احمد خاں نے لاہور میں ایم اے او کالج علی گڑھ کو پنجاب میں متعارف کرنے کے سلسلے میں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد کی اور اس میں کالج کے پرنسپل سر تھوڈور بیک نے انگریزی میں تقریر کی تو شیخ عبدالقادر نے ان کی تقریر کے ختم ہوتے ہی اس کا ترجمہ ایسی شستہ اردو میں کیا کہ اور لوگ تو کیا خود سر سید احمد خاں بھی حیران ہو گئے۔ اس دن سے وہ انہیں مولوی عبدالقادر کہنے لگے۔ اردو زبان کی ترویج کی دھن ان کے دل میں ایسی سمائی کہ وہ روز و شب اسی کوشش میں مصروف رہے کہ پنجاب کو اردو زبان کا مرکز بنا دیں اور علم و ادب کی جو بساط دلی اور لکھنو میں الٹ چکی تھی اسے ایک نیا رنگ و روپ دے کر لاہور میں سجا دیں۔ انہوں نے ۱۹۰۱ء میں رسالہ ’’ مخزن‘‘ جاری کیا۔ اس رسالے کے سر ورق پر ہندوستان کا ایک نقشہ ہوتا تھا جس میں تین مختلف نشانوں سے ان مقامات کی نشان دہی متصور تھی جن میں یا تو اردو بولی جاتی ہے یا اردو سمجھی جاتی ہے اور یا جن کے رہنے والوں کی مادری زبان اردو ہے یہ رسالہ بہت مقبول ہوا اور اردو کے بے جان قالب میں نئے نئے ادیبوں اور شاعروں کے رشحات فکر و قلم سے زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ اور شائقین ادب کے دل میں اس دور کی یاد تازہ ہو گئی جب سرسید احمد ، ڈپٹی نذیر احمد، نواب محسن الملک، سید احمد خاں دہلوی، مولانا شبلی، مولانا حالی، مولوی چراغ علی، سید علی بلگرامی، عبدالحلیم شرر، پنڈت رتن ناتھ سرشار اور ان کے دوسرے نامور معاصر ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ دہلی کے بعد گیسوئے اردو کی مشاطگی میں سرگرم رہے تھے۔ مخزن نے ایک ایسی محفل سجائی کہ اس میں اس زمانے کے تمام ممتاز ادیب مل بیٹھے۔ سر محمد اقبال، چوہدری خوشی محمد ناظر، مرزا اعجاز حسین، میر غلام بھیک نیرنگ، عبدالرشید چشتی، مولوی ظفر علی خاں، شیخ محمد اکرام اور تلوک چند محروم اس محفل کے مستقل رکن تھے۔ یہ محفل کوئی محفل مشاعرہ نہ تھی بلکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک نئے رنگ کی محفل تھی۔ اس میں شعر و شاعری کے علاوہ نثر کی سحر طرازیاں بھی اپنے پورے جوبن پر نظر آتی تھیں۔ اس محفل میں مخزن کا رسالہ ترتیب پاتا اور جو کچھ اس محفل میں پڑھا جاتا ہر مہینے مخزن میں شائع ہو کر تشنگان ادب کی پیاس بجھاتا۔ جب تک شیخ عبدالقادر لاہور میں رہے اس محفل کا رنگ جما رہا۔ شیخ عبدالقادر ۱۹۰۴ء میں انگلستان چلے گئے اور بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے ۱۹۰۶ء میں واپس آئے۔ اقبال بھی اسی زمانے میں انگلستان میں تھے۔ میں نے ان دونوں بزرگوں کی زبان سے سنا ہے کہ قیام انگلستان میں انہیں ہمیشہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے امکانات پر غور و فکر کرنے میں مصروف رکھا۔ اقبال کے دل پر شیخ عبدالقادر کی شخصیت کے جو تاثرات تھے اس خط سے ظاہر ہیں جو انہوں نے ان کے نام ایک نظم کی صورت میں لکھا اور ان الفاظ میں انہیں دعوت عمل دی۔ اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں اس چمن کو سبق آئین نو کا دے کر قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں دیکھ یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بے کار قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں شمع کی طرح جئیں بزم گہہ عالم میں خود جلیں دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں آگے چل کر ان دونوں بزرگوں نے مسلمانوں کے فکر و عمل کی تنظیم میں جو کار ہائے نمایاں انجام دیے وہ ان تصورات کے آئینہ دار ہیں جن کی جھلک اس نظم کے اشعار میں نظر آتی ہے ۔ جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں شیخ عبدالقادر اپنی زندگی میں بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ ۱۹۲۱ء میں وہ ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے ۔ ۱۹۲۲ء میں مجلس قانون ساز پنجاب کے صدر بنے۔ ۱۹۲۵ء میں حکومت پنجاب کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۶ء میں مجلس اقوام متحدہ میں ہندوستان کے نمائندے مقرر ہو کر جنیوا گئے۔ ۱۹۲۸ء میں پنجاب ایگزیکٹو کونسل کے رکن بنے اور پھر سرکار برطانیہ کی ملازمت سے سبکدوش ہو کر ۱۹۴۲ء میں بہاولپور ہائی کورٹ کے چیف جج مقرر ہوئے۔ ۱۹۴۵ء میں اس ملازمت سے سبکدوش ہو کر لاہور میں مقیم ہو گئے۔ زبان اردو کی ترویج میں جو انہماک سر عبدالقادر کو تھا وہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب ۱۹۴۸ء میں پنجاب یونیورسٹی نے ایم اے (اردو) کی جماعتوں کا سلسلہ شروع کیا تو انہوں نے اورینٹل کالج میں اعزازی پروفیسر کی حیثیت سے ایم اے (اردو) کی جماعت کو پڑھانا شروع کر دیا اور اس طرح کشت زار اردو کو اپنے ابر کرم سے سیراب کیا۔ اس زمانے میں انہوں نے اپنی پیرانہ سالی کے باوجود درس و تدریس کے باب میں وہ سرگرمی دکھائی کہ جواں سال اساتذہ کے لیے ایک مثال بن گئے۔ ۹ فروری ۱۹۵۰ء کو ایک مصروف اور کامیاب زندگی کے شب و روز گزار کر سر عبدالقادر نے رحلت فرمائی۔ میں اپنے تجربے سے کہہ سکتا ہوں کہ جو جگہ انہوں نے خالی چھوڑی وہ پھر کبھی پر نہ ہوئی۔ سر شہاب الدین پنجاب کے ان نامور اور فقید المثال فرزندوں میں سے ہیں جو ایک پسماندہ علاقے میں ہوش سنبھالنے کے باوجود کامیابی اور ترقی کے ان مدارج اعلیٰ تک پہنچے جہاں پہنچنا ہر انسان کے بس میں نہیں۔ ایک نہایت ہی با عمل زندگی اور شب و روز کی محنت مشقت کے جتنے انعامات ہو سکتے ہیں انہوں نے حاصل کیے۔ ۱۹۰۰ء میں بی اے کا امتحان پاس کر کے پولیس کے محکمے میں ملازم ہو گئے۔ پھر اس ملازمت سے دستبردار ہو کر کچھ دنوں تک اسلامیہ کالج لاہور میں پڑھاتے رہے۔ ۱۹۱۰ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۱۲ء میں ’’ پنجاب کریمنل لاء جنرل‘‘ ایک قانونی رسالہ شائع کرنا شروع کیا۔ اس رسالے کی کامیابی سے حوصلہ پا کر ’’ انڈین سٹیچوئٹس اینڈ کیسز‘‘ ایک ہمہ گیر قانونی مجموعہ مرتب کرنے لگے۔ لاہور کی شہری اور پنجاب کی سیاسی زندگی میں عمر بھر ایک نمایاں حصہ لیتے رہے۔ ایک مدت تک کارپوریشن آف دی سٹی آف لاہور کے میئر رہے اور بائیس برس تک پنجاب کی مجلس قانون ساز کی صدارت پر فائز رہے۔ سر شہاب الدین پنجابی زبان کے بڑے حامی اور بڑے مشہور شاعر تھے۔ مسدس حالی کا پنجابی زبان میں ایسا ترجمہ کیا کہ یہ ترجمہ ان کی اپنی ہی تصنیف معلوم ہوتا ہے انہوں نے مجلس قانون ساز پنجاب کی صدارت کے فرائض ایسی خوبی سے انجام دیے کہ پھر ان جیسا صدر اس مجلس کو کبھی میسر نہ آیا۔ یہ بھی ہر شام کو حکیم شہباز دین کی بیٹھک میں آتے تھے اقبال اور ان کے بے تکلفانہ مراسم پر بے شمار لطائف شاہد ہیں۔ اپنی محنت اور مشقت سے بہت دولت کمائی۔ اور اس دولت کا بیشتر حصہ یا تو خدا کی راہ میں صرف کیا اور یا اپنے دور و نزدیک کے رشتہ داروں کو دیا۔ نادر اور بیش قیمت کتابیں جمع کرنے کے شوق نے ان کی ذاتی لائبریری کو بے نظیر کتب خانہ بنا دیا تھا۔ یہ کتب خانہ خاندان کی وصیت کے مطابق پنجاب یونیورسٹی لائبریری کا ایک بے بہا سرمایہ ہے۔ اسی وصیت کے مطابق وفات سے پہلے ہی وہ اپنی قیمتی جو شاہدرہ ریلوے سٹیشن کے سامنے واقع ہے انجمن حمایت اسلام کو دے گئے تھے۔ عمر بھر ان کا دولت کدہ سیاسی تحریکوں کا اکھاڑہ بنا رہا۔ جس میں ہر سیاست فروش نے زور آزمائی کی۔ سر شہاب الدین نے کبھی اس پہلو ان کی پیٹھ ٹھونکی کبھی اس پہلو ان کو پٹخنی دی۔ سیاست کے فن میں ایسے ماہر تھے کہ جیت ہمیشہ انہی کی رہتی تھی۔ بڑے بلند قامت اور رعب داب والے انسان تھے۔ آواز میں ایسا جلال تھا کہ جب ٹیلی فون پر بات کرتے تو ٹیلی فون کے تار رعشہ بر اندام ہو جاتے۔ مجلس قانون ساز میں ان کی آواز کسی مائیکرو فون کی محتاج نہ تھی۔ قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ پارلیمنٹری پریکٹس کی کتابوں کے صفحوں کے صفحے از بر تھے۔ ان کی قانون دانی سے مجلس قانون ساز کا ہر رکن مرعوب رہتا تھا اور ان کی نکتہ وری کا لوہا سبھی مانتے تھے۔ میں نے اپنے بچپن سے ان کے دم واپسیں تک ان کا ساتھ نہ چھوڑا اور سچ بات تو یہ ہے کہ اس رفاقت سے بڑا فیض پایا۔ سر شہاب الدین بجائے خود ایک محفل تھے اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو یہ محفل بھی سونی ہو گئی۔ مولوی احمد دین وکیل جن کا نام ان لوگوں میں آتا ہے جو حکیم شہباز دین کی بیٹھک میں ہر شام کو جمع ہوتے تھے اپنے زمانے کے دیوانی قانون کے ماہر تھے او ربڑے پائے کے ادیب ۔ الفاظ کی تاریخ میں انہوں نے ’’ سرگزشت الفاظ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جو اس مضمون پر ایک لاثانی تصنیف ہے اور اپنے مصنف کی عرق ریزی اور ژرف نگاہی پر شاہد۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ جو اب شاید کسی کی یاد میں محفوظ نہیں یہ ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اقبال کو ان کے اصلی روپ میں دیکھا اور ان کی شاعری کو ا س کے اصلی رنگ میں سمجھا اور ’’ اقبال‘‘ کے عنوانس ے ایک ضخیم کتاب لکھی اور اس میں اقبال کے وہ تمام اشعار جمع کیے جو بکھرے ہوئے موتیوں کی طرح ابھی کسی لڑی میں نہ پروئے گئے تھے اور پھر ان اشعار کی اس طرز پر تشریح کی جس طرز پر ’’ مائنڈ اینڈ آرٹ آف شیکسپیئر‘‘ لکھی گئی تھی۔ یہ کتاب لاہور کے ایک نامور ناشر شیخ مبارک علی نے چھاپی۔ لیکن ابھی یہ کتاب شائع ہوئی تھی کہ اقبال کو اپنے کلام کے مجموعے کو شائع کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ یہی وہ مجموعہ ہے جس نے بعد میں ’’ بانگ درا‘‘ کی شکل اختیار کی۔ مولوی احمد دین نے اس خیال سے کہ ان کی کتاب کی اشاعت سے بانگ درا کی اشاعت کو نقصان پہنچے گا۔ اپنی کتاب خود ہی تلف کر دی اور ا سطرح دنیائے ادب ایک بڑی مفید تحقیقی یادداشت سے محروم ہو گئی۔ مولوی احمد دین کی تحریر کا اسلوب اپنے استاد مولانا محمد حسین آزاد کا ہو بہو خاکہ تھا اور بڑے بڑے نقاد ان ادب کو بھی شاگرد کی تحریر میں استاد ہی کی تحریر کا عکس نظر آتا تھا۔ خواجہ رحیم بخش، خواجہ کریم بخش اور خواجہ امیر بخش تینوں بھائی اپنی عزلت گزینی کے باعث منظر عام پر نہیں آئے۔ مگر وہ اس محفل کے روح و رواں تھے جو حکیم شہباز دین کی بیٹھک میں ہر شام کو جمتی تھی۔ ان کی جرأت تنقید اور جوہر شناسی نے اس زمانے کے نوجوان ادیبوں اور شاعروں کی تربیت میں بڑا حصہ لیا۔ جب تک اقبال اپنا کلام ان بزرگوں کو نہ سنا لیتے تھے اسے کسی مجلس عام میں نہ پڑھتے تھے۔ نالہ یتیم، ہلال عید، تصویر درد، اور شمع و شاعر کی سی مشہور و معروف نظمیں اقبال نے پہلے انہیں لوگوں کے سامنے پڑھیں اور پھر ان سے داد سخن پا کر انہیں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں پڑھ کر جہان اسلام سے خراج تحسین و عقیدت وصول کیا۔ خواجہ فیروز الدین بیرسٹر ایٹ لاء جو اقبال کے ہم زلف تھے اور جنہوں نے آگے چل کر ایک کامیاب وکیل کی حیثیت سے بڑا نام پایا انہی خواجہ رحیم بخش کے بیٹے تھے اور خواجہ عبدالمجید ’’ جامع اللغات‘‘ جیسی جامع اور ضخیم لغت کے مصنف خواجہ کریم بخش کے صاحبزادے۔ اس لغت کی گیرائی اور ا سکے موقف کی وسعت نظر دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ رموز ادب کا دلدادہ اپنی سرکاری ملازمت کی مصروفیتوں کے باوجود عمر برھ کس انہماک سے اس عظیم الشان تالیف کی تکمیل کے در پے رہا جو آج اردو ادب کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فیض بھی اسی صحبت کا ہے جس کے جوار عاطفت میں ان دونوں نوجوانوں نے پرورش پائی۔ شیخ گلاب دین وکیل سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور اس لیے اقبال کے ہم وطن تھے۔ اردو زبان میں بڑی مہارت رکھتے تھے قانون شہادت اور قانون رواج کا انہی نے اردو میں ترجمہ کیا۔ ۱۹۰۰ء میں جب اقبال کالج کی تعلیم سے فارغ ہو کر اورینٹل کالج لاہور میں میکلوڈ عربک ریڈر مقرر ہوئے اور پھر کچھ مدت کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور کے اسسٹنٹ پروفیسر ہوئے تو شیخ گلاب دین ہی نے اپنے محلے کے قریب محلہ جلوٹیاں کے سامنے ایک بالا خانہ ان کی اقامت کے لیے تجویز کیا اور وہ ۱۹۰۰ء سے ۱۹۰۵ء تک اسی مکان میں رہے۔ مولوی محمد حسن جن کا وطن مالوف جالندھر ہے پنجاب کے قریب قریب ہر شریف گھرانے کی نظر میں قابل احترام اور محبوب بزرگ تھے ان کی باتیں درس اخلاق ہوتی تھیں اور ان کی سیرت محاسن اسلامی کا آئینہ تھی۔ اس مجلس میں جو اسلامی رنگ نظر آتا تھا وہ انہی کے اوصاف و اطوار کا پرتو تھا۔ شریعت کی عظمت اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقلید کی اہمیت کے جو غیر فانی نقوش اقبال کے دل پر نقش ہوئے وہ اسی بزرگ کی صحبت کا اثر تھے ۔ پسندیدہ افعال کی حوصلہ افزائی میں ہمیشہ پیش پیش رہتے اور نا پسندیدہ افعال سے بیزاری کے اظہار میں اس قدر بے باک تھے کہ اس امر میں کسی کے مرتبے، منصب یا ذاتی وجاہت کا لحاظ نہ کرتے۔جو بات منہ سے نکل جاتی پتھر کی لکیر ہوتی، جس کو نہ وہ خود مٹاتے اور نہ کسی کو اجازت دیتے کہ اسے مٹائے۔ انہوں نے ایک عرصے تک ایک استاد کی حیثیت سے ملازمت کی تھی اور اگرچہ اب مدت سے پنشن پا چکے تھے۔ لیکن جس محفل میں بھی بیٹھتے اپنے آپ کو استاد اور دوسروں کو اپنا شاگرد سمجھتے اور کسی کی کوئی غلطی یا کوتاہی برداشت نہ کرتے۔ آواز میں رقت تھی، کمر میں خم تھا۔ مگر ارادے کے دھنی اور اپنی رائے کے اظہار کے معاملے میں چٹان سے زیادہ استوار تھے۔ اس مجلس میں صاحبان علم و فضل کی کوئی کمی نہ تھی اور اقبال بسا اوقات کسی مضمون پر بحث کرتے ہوئے سب ہی سے الجھ جاتے تھے مگر مولوی محمد حسن کی بزرگی کا پاس انہیں ہر وقت ملحوظ رہتا تھا۔ غرض انہی بزرگوں کی صحبت میں اقبال نے ۱۸۹۵ء سے ۱۹۲۲ء تک کا زمانہ گزارا ۔ اس زمانے میں صرف وہ تین برس شامل نہیں جو ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک اقبال نے انگلستان اور جرمنی میں بسر کیے۔ اقبال ۱۹۰۸ء میں انگلستان سے واپس آئے او روکالت شروع کی۔ اس زمانے میں وہ بھاٹی دروازے سے اٹھ کر موہن لال روڈ پر جو آج کل اردو بازار سے موسوم ہے اس باغ کے عقب میں جو بھاٹی دروازے کے درمیان واقع ہے لالہ چونی لال مونگا کے مکان میں رہنے لگے۔ مگر اس مکان میں وہ کچھ زیادہ دیر تک نہ رہے منشی طاہر الدین کے مشورے سے انہوں نے ۱۹۰۸ء کے ماہ اکتوبر میں انار کلی میں وہ بالا خانہ کرائے پر لے لیا جس میں پہلے سر محمد شفیع وکالت کرتے تھے۔ اس مکان میں وہ ۱۹۲۲ء تک رہے۔ اس نقل مکان سے یہ مطلب نہیں کہ ان کا بھاٹی دروازے سے کوئی تعلق نہ رہا بلکہ شاید یہ کہنا بجا ہو گا کہ حکیم شہباز دین کی بیٹھک کی کشش ان کے دل میں پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی۔ وہ اس تمام عرصے میں ہر روز شام کو بلاناغہ اپنے کام سے فارغ ہو کر اس بیٹھک میں آ بیٹھتے اور جیسا کہ میں نیا وپر لکھا ہے ان کے دم قدم سے یہ محفل رات گئے تک گرم رہتی۔ وہ تمام نظمیں جو انہوں نے اس زمانے میں لکھیں اور ان میں ’’ اسرار خودی‘‘ کو بہت اہمیت حاصل ہے وہ اپنی پرانی عادت کے مطابق اسی بیٹھک میں بیٹھ کر اپنے احباب کو سنایا کرتے تھے اور کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ وہ اپنی کوئی نظم خلیفہ نظام الدین کو جن کی آواز بہت دلکش اور پر سوز تھی پڑھنے کے لیے دیا کرتے تھے اور ان کی زبان سے اپنے اشعار سن کر خوش ہوا کرتے تھے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ادھر ۱۹۲۲ء میں حکیم امین الدین کی وفات کے بعد بازار حکیماں کی یہ پرانی محفل اجڑی اور ادھر اقبال اسی برس انار کلی کے مکان کو چھوڑ کر میکلوڈ روڈ پر ایک بنگلے میں رہنے لگے اور ان کی محفل جو کبھی بازار حکیماں میں جمتی تھی کوئینز روڈ پر نواب سر ذوالفقار علی خاں کے دولت کدے ’’ زرفشاں‘‘ میں جمنے لگی۔ اس محفل کا رنگ حکیم شہباز دین کی بیٹھک کے رنگ سے بالکل مختلف تھا۔ وہ ایک فقیر بے نوا کا تکیہ تھا جس کے فرش خاک پر محض ایک دری بچھی رہتی تھی یہاں اطالوی پتھر کے فرش پر دبیز اور خوبصورت ایرانی قالین تھے وہاں ان خاک نشینوں کی خاطر مدارات قہوے کی ایک پیالی سے ہوتی تھی جس کا دور بار بار چلتا تھا اور جس پر کل دو آنے کے پیسے صرف ہوتے تھے اور اس کی صورت یہ تھی کہ حکیم شہباز دین کی نشست کے قریب ایک سمادر رکھا رہتا تھا جس کے پانی کو گھنٹوں تک ابلتا رکھنے کے لیے دو پیسے کے کوئلے کافی ہوتے تھے۔ دو پیسے کی سبز چائے، دو پیسے کی الائچی، بادیان خطائی اور دار چینی، او ردو پیسے کی مصری اس محفل کا سرمایہ نشاط تھا۔ یہاں خوبصورت چینی کے ظروف اور چاندی کی رکابیوں میں طرح کی نعمتوں سے مہمانوں کی تواضع ہوتی تھی وہاں چھت سے لٹکا ہوا ایک دستی پنکھا گرمی کی شدت کو کچھ اور ہوا دیتا تھا۔ جسے سیالکوٹ کا رہنے والا حکیم شہباز دین کا ملازم غلام مصطفی ہلاتے ہلاتے کبھی کبھی اونگھ جاتا تھا لیکن جب اقبال کے شعر کی پر سوز لے اس کے کان میں پڑتی تو وہ چونک اٹھتا اور زور زور سے پنکھا ہلانے لگتا۔ اقبال کے قدیم ملازم علی بخش کا نام اب اتنا مشہور ہو گیا ہے کہ محتاج تعارف نہیں لیکن غلام مصطفیٰ بھی اقبال کے اب بے شمار غریب شیدائیوں میں سے ایک تھا جو پانچ روپے ماہوار تنخواہ پر حکیم شہباز دین کی ملازمت میں محض اس لیے خوشحال تھا کہ اسے ہر شام ان کی بیٹھک میں اقبال کی زیارت نصیب ہو جاتی تھی۔ وہ اقبال کو خوش کرنے کے لیے بار بار حقہ بھرتا رہتا اور اس کی چلم کی آگ کو پھونکوں سے سلگاتا رہتا۔ شاید اس لیے کہ وہ اس بہانے سے اقبال کو ذرا قریب سے نظر بھر کر دیکھتا رہے۔ یہاں بجلی کے پنکھے تھے اور برآمدوں میں خس کے پردے جن کی عطر بیزیوں سے اس محفل کی فضا معطر رہتی تھی نواب سر ذوالفقار علی خاں کا دیرینہ ملازم نتھو اجلی وردی پہنے کمر پر سنہری پیٹی باندھے جب چاندی کا حقہ بھر کر لاتا تو نواب سر ذوالفقار علی خاں خود اٹھ کر دروازے تک جاتے اور نتھو کے ہاتھ سے حقہ لے کر اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے سنبھالتے ہوئے لاتے اور اقبال کی نشست کے سامنے رکھ دیتے۔ حکیم شہباز دین کی بیٹھک میں جو لوگ بیٹھتے تھے ان کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ اس محفل میں اقبال کے سوا سب لوگ نئے تھے۔ ہاں میں سائے کی طرح اقبال کے ساتھ ساتھ ضرور رہتا تھا۔ نواب سر ذوالفقار علی خاں کے احباب میں شیخ اصغر علی اور مرزا جلال الدین کو خاص قرب حاصل تھا۔ ان کے علاوہ اس محفل میں جو لوگ قریب قریب ہر شام آ بیٹھتے تھے ان میں امرتسر کے ایک مشہور سوداگر چودھری غلام رسول کٹھ والے کے بڑے بیٹے چوہدری دین محمد اور لاہور کے ایک صاحب ثروت ٹھیکیدار چودھری محمد بخش کے بیٹے چودھری فتح محمد بھی تھے۔ کبھی کبھی حضرت گرامی جب جالندھر سے لاہور آتے تو اکثر نواب سر ذوالفقار علی خاں کے دولت کدے پر ہی مقیم ہوتے اور جب تک وہاں رہتے اس محفل کی رونق اور بڑھ جاتی۔ سردار سر جوگندر سنگھ جو نواب سر ذوالفقار علی خاں کے ساتھ ریاست پٹیالہ میں وزارت کے منصب پر فائز رہے وہ اور ان کے چھوٹے بھائی سردار امراؤ سنگھ بھی جو انگریزی زبان کے ایک مشہور شاعر تھے جب لاہور آتے تو ہر شام کو اس محفل میں ضرور شریک ہوتے۔ اقبال کے ایک اور شیدائی سید بڈھے شاہ جو امرت سر کے سادات کے ایک مشہور خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور وہاں آنریری مجسٹریٹ بھی تھے۔ ہفتے میں دو تین مرتبہ ضرور لاہور آتے اور اقبال کے فیض صحبت سے بہرہ اندوز ہوتے۔ شیخ اصغر علی لاہور کے قانون گو شیخوں کے ایک ممتاز خاندان کے ایک نامور رکن تھے۔ یہ ان ہونہار مسلمانوں میں سے تھے جنہوں نے پہلے پہل انگلستان میں رہ کر انڈین سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور ترقی کرتے کرتے پنجاب کی فنانشل کمشنری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس زمانے میں ان کا بنگلہ نواب سر ذوالفقار علی خاں کے دولت کدے ’’ زرفشاں‘‘ سے ملحق تھا۔ وہ بہت کم گفتار اور متین بزرگ تھے۔ لوگوں سے بہت کم ملتے جلتے تھے۔ ان کا سرمایہ نشاط بس یہی محفل تھی۔ مرزا جلال الدین لاہور کے ایک مشہور مغل خاندان کے ایک نامور بزرگ مرزا اعظم بیگ کے قریبی عزیزوں میں سے تھے وہ بھی ان باہمت مسلمان امیرزادوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی تعلیم کی تکمیل انگلستان میں کی اور بیرسٹری کے امتحان میں کامیاب ہو کر جب وطن کو واپس آئے تو وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور بڑا نام پایا۔ ان کو اوائل عمر ہی سے شعر و ادب سے لگاؤ تھا اور اس محفل مشاعرہ کی روح و رواں سمجھے جاتے تھے جو ان کے انگلستان جانے سے پہلے مرزا اعظم کے صاحبزادے مرزا اسلم بیگ کے دولتکدے پر میر ناظر حسین ناظم کی سرپرستی میں منعقد ہوتا تھا۔ جس زمانے کا میں ذکر کر رہا ہوں نواب سر ذوالفقار علی خاں کے قانونی مشیر ہونے کی حیثیت سے ویسے تو ’’ زرفشاں‘‘ میں ان کا آنا جانا قریب قریب ہر روز ہوتا ہی تھا لیکن جب سے اقبال نے یہاں آنا شروع کیا مرزا جلال الدین اس شمع شعر کے پروانے بن گئے اور سر شام ہی سے اس محفل میں آ بیٹھتے اور جب تک اقبال بیٹھے رہتے وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ان کی باتیں سنتے رہتے۔ اس محفل میں کبھی کبھی نواب سر ذوالفقار علی خاں کے کچھ انگریز دوست بھی آ نکلتے تھے۔ اور یہ سن کر کہ اقبال ایشیا کا ایک عظیم المرتبت مفکر اور شاعر اس مجلس میں موجود ہے اکثر آرزو مند ہوتے کہ ان کے اشعار کا انگریزی ترجمہ انہیں بھی سنایا جائے ۔ ان لوگوں کا یہی اصرار نواب سر ذوالفقار علی خاں کی مشہور تصنیف ’’ اے وائس فرام دی ایسٹ‘‘ کی تصنیف کا محرک ہوا جو انہوں نے اس زمانے میں اقبال کے افکار کو یورپ سے متعارف کرنے کی غرض سے لکھی۔ اقبال اس مجلس میں زیادہ تر اپنا اردو کلام بھی پڑھتے تھے۔ لیکن جب حضرت گرامی آ جاتے تو وہ زیادہ تر انہی سے مخاطب ہوتے اور انہیں اپنا فارسی کلام سناتے۔ گرامی کا مرتبہ فارسی زبان دانی میں اس قدر بلند تھا اور اقبال ان کے معیار سخن طرازی کی عظمت کے اس قدر قائل تھے کہ وہ اپنا ہر شعر پڑھ کر ذرا سی دیر کے لیے رک جاتے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ شاید گرامی کی ژرف نگاہی کو اس میں کسی اصلاح کی ضرورت نظر آتی ہو۔ اب بھاٹی دروازے سے اقبال کی آمد و رفت کا سلسلہ قریب قریب منقطع ہو گیا مگر وہ شیخ گلاب دین سے ملنے کے لیے اور مولوی احمد دین وکیل کی مزاج پرسی کے لیے جو اس عرصے میں مسلسل بیمار رہے، کبھی کبھی بھاٹی دروازے کی طرف آ نکلتے اور اس طرح چند لمحوں کے لیے بازار حکیماں کی پرانی محفل کی یاد تازہ ہو جاتی۔ ہاں فقیر نجم الدین (فقیر سید وحید الدین مصنف ’’ روزگار فقیر‘‘ کے والد) جو ابھی تک سلسلہ ملازمت سے منسلک تھے۔ جب کبھی چھٹیوں میں لاہور آتے تو وہ خود جا کر ہر روز انہیں اپنے مکان لال حویلی میں لے آتے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ اقبال ان کے ساتھ گھنٹوں بیٹھے رہتے۔ کبھی ان سے دلربا اپنے دلپسند راگ سنتے اور کبھی تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں مسلمانان عالم نے جو عروج یا زوال کی منزلیں طے کی تھیں، ان کے اسباب پر اپنے خیالات ظاہر فرماتے اور پھر عالم اسلامی کے مستقبل پر ان امید افزا توقعات سے سننے والوں کا دل گرما دیتے جن کی جھلک ان کے اشعار میں جگہ جگہ نظر آتی ہے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ فقیر سید نجم الدین کے اصرار پر اپنا تازہ کلام سناتے۔ ان کی آواز میں ایسا درد اور سوز تھا کہ سننے والے جن میں سے اکثر اگرچہ ان کے اشعار کے معنی کی تہہ کو نہ پہنچ سکتے مگر ان کی زبان سے ان کے اشعار سن کر بے تاب ہو جاتے۔ اس زمانے میں اقبال کی شاعری مقبول خاص و عام ہو چکی تھی اور ان کا نام ایک ایسا طلسم بن گیا تھا کہ جو شعر بھی ان کے نام سے منسوب ہوتا یا شائع ہوتا، لوگ اس کے الفاظ سے نہ صرف متاثر ہی ہوتے بلکہ اس کے مطالب کی گہرائیوں پر غور و فکر کرنے لگ جاتے۔ یہ حقیقت ہے کہ اب اقبال کا انداز فکر اور اسلوب بیان ملک بھر کے تعلیم یافتہ طبقوں کے دل پر عموماً اور مسلمان نوجوانوں کے دل پر خصوصاً ایسا حاوی ہو گیا تھا کہ وہ اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے اسلام کے مستقبل کو اسی آئینے میں دیکھنے لگے تھے اور ملک کا ہر برناؤ پیر ان کی تصنیفات کو حرز جان سمجھ کر اپنے سینے سے لگائے پھرتا تھا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مشرق کے اس عظیم الشان شاعر کی تصانیف کی اشاعت کی تعیین کر دی جائے کہ اس سے ان کی شاعری کے دور ارتقاء کی تاریخ مرتب ہو سکتی ہے۔ اگرچہ اقبال کی بعض نظمیں جو’’ بانگ درا‘‘ میں شائع ہوئیں، ان کی شاعری کے دور ارتقاء کی ابتدائی منازل کی نشان دہی کرتی ہیں مگر ایک مجموعہ کی شکل میں وہ ۱۹۲۴ء ہی میں زیور طبع سے آراستہ ہوئیں۔ اس سے پہلے ان کی کتابیں ’’ اسرار خودی‘‘ ۱۹۱۲ء میں ’’ رموز خودی‘‘ ۱۹۱۸ء اور ’’ پیام مشرق‘‘ ۱۹۲۲ء میں شائع ہو چکی تھیں۔ ان کی دوسری کتابیں ’’ زبور عجم‘‘ ۱۹۲۷ء میں، ’’ جاوید نامہ‘‘ ۱۹۳۲ء میں ’’ بال جبریل ‘‘ ۱۹۳۵ء اور ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ ۱۹۳۶ء میں ’’ ضرب کلیم‘‘ بھی ۱۹۳۶ء میں اور ’’ ارمغان حجاز‘‘ ان کے انتقال کے بعد ۱۹۳۸ء میں شائع ہوئیں۔ بلا شبہ اکبر الٰہ آبادی کے اشعار نے در پردہ ہندوستان کے رہنے والوں کی آنکھوں پر سے وہ پردہ اٹھا دیا جو مغربی تعلیم اور تہذیب نے ان پر ڈال رکھا تھا لیکن اقبال کے ان غیر مبہم نظریات نے جو ان کے اشعار کے افق پر درخشاں ستاروں کی طرح ابھر ابھر کر ایک نئی صبح زندگی کا پیغام دیتے ہیں مغربی تہذیب کا وہ قلعہ مسمار کر دیا جو مغربی تعلیم کی بنیادوں پر طلبہ کے ذہن میں استوار ہوا تھا۔ اقبال کو ۱۹۳۴ء میں کچھ تو دوستوں کے کہنے سننے اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ درد گردہ کے پرانے مرض کے علاوہ کئی اور چھوٹے چھوٹے عوارض کے باعث ان کی صحت روز بروز گرتی چلی جا رہی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ اپنے بچوں جاوید، منیرہ اور ان کی والدہ کے لیے کسی مستقل جائے سکونت کا سامان ہو جائے تو اچھا ہے۔ انہوں نے پہلے تو فیروز روڈ کے اس حصے پر جواب کوئینز روڈ کہلاتا ہے اور نواب سر ذوالفقار علی خان کے دولت کدے کے قریب زمین کا ایک ٹکڑا جو لالہ دھنپت رائے وکیل کی کوٹھی کے وسیع احاطے میں خالی پڑا تھا خریدنے کا فیصلہ کیا۔ لالہ دھنپت رائے ایک مشہور وکیل اور پنجاب نیشنل بینک کے مینجنگ ڈائریکٹر ہونے کے علاوہ شعر و سخن کا ذوق بھی رکھتے تھے اور اقبال کا کلام سننے کا ان کو اس وقت ہی سے شوق ہو گیا تھا جب انہوں نے ۱۸۹۵ء کے دسمبر میں بازار حکیماں کے مشاعرے میں اپنی پہلی غزل پڑھی تھی۔ ’’ شور محشر‘‘ کی اس اشاعت میں جس میں اس مشاعرے کی روئداد چھپی تھی۔ لالہ دھنپت رائے کا نام بھی موجود ہے۔ حقیقت میں ان کا یہی ذوق سخن اس بات کا محرک ہوا کہ انہوں نے اقبال کو اس زمین کے ٹکڑے کی بارہا پیشکش کی۔ لیکن اقبال حسب تقاضائے طبیعت اس بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر سکے۔ آخر کار میو روڈ پر جواب انہی کے نام کی مناسبت سے ’’ اقبال روڈ‘‘ کہلاتی ہے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا اور اس پر جاوید منزل کی تعمیر ہوئی اور اقبال ۱۹۳۵ء میں میکلوڈ روڈ سے اٹھ کر جاوید منزل میں آ گئے۔ جب تک وہ میکلوڈ روڈ پر ایک کرائے کی کوٹھی میں رہے، اس کا فرنیچر وہی رہا جو انارکلی کے مکان اور موہن لال کی کوٹھی میں تھا۔ جب وہ جاوید منزل میں آئے تو اس کی آرائش کے لیے نیا فرنیچر خرید کیا۔ میں نے اقبال کے ان احباب کے نام گنوا دئیے ہیں جو ۱۸۹۵ء سے ۱۹۲۲ء تک بازار حکیماں کی بیٹھک میں ان کے شریک صحبت رہے اور پھر ان کے ہم جلیسوں کا بھی ذکر کر دیا ہے جنہیں نواب سر ذوالفقار علی خاں کے دولت کدے ’’ زرفشاں‘‘ میں ان کی صحبت کا شرف حاصل رہا۔ لیکن جب اقبال کے دل میں ملک کے سیاسی معاملات پر غور و فکر کرنے کا خیال پیدا ہوا اور یہ انہماک روز بروز بڑھتا چلا گیا تو ان احباب کی نوعیت بھی بدل گئی۔ اب تک اقبال کے جو دوست تھے وہ ان کی ذات کے شیدا اور ان کے شعر کے دلدادہ تھے۔ انہیں اقبال کے سیاسی تصورات بلکہ میں اگر یہ بھی کہوں تو حقیقت سے دور نہ ہو گا کہ انہیں ان کے فلسفیانہ نظریات سے بھی کوئی لگاؤ نہ تھا، اس زمانے کے آخری حصے میں جب وہ میکلوڈ روڈ پر رہتے تھے اور اس زمانے میں جب وہ میو روڈ پر رہنے لگے ان کے ہاں ان کے انہی احباب کا جمگھٹا رہتا تھا جنہیں ملک کی سیاسیات میں دخل تھا اور جو یا تو اقبال کے سرمایہ فکر و نظر سے استفادہ کرنا چاہتے تھے اور ان کے نام کی عظمت کو سیاست کی بساط پر اپنی چالیں چلنے اور اپنے مہرے بڑھانے کا آلہ کار بنانا چاہتے تھے۔ اب اقبال کی مجلسیں شعر و سخن کی دلکشی سے عاری ہو چکی تھیں اور ان کی روز افزوں علالت طبع نے اقبال سے ان کے چہرے کی شگفتگی اور ان کی گفتگو کی حلاوت چھین لی تھی۔ ان کے چہرے پر اکثر فکر و تردد کے آثار نظر آتے تھے اور کبھی کبھی ان آثار میں اس درد و کرب کی گہری لکیریں بھی دکھائی دینے لگتی تھیں جنہیں وہ اپنے صبر و ضبط سے اپنے ہم نشینوں پر ظاہر کرنا نہ چاہتے تھے ان کی آواز میں جو کسی زمانے میں اپنے پر سوز ترنم کے باعث سننے والوں کی سماعت کے لیے اپنے دامن میں سامان صد ہزار سرور و نشاط لیے رہتی تھی اب کسی قدر کرخت ہو چلی تھی اور بحث الصوت کی وجہ سے اس کی روانی اور آتش بیانی میں بھی فرق آ گیا تھا۔ ہاں! ان کے پرانے اور نئے نیاز مندوں میں کچھ ایسے لوگ ضرور تھے جو اب بھی محض اقبال کی ذات سے وابستہ تھے۔ نہ تو انہیں ان کے شعر و سخن سے کچھ ایسا لگاؤ تھا او رنہ ان کے سیاسی تصورات سے۔ وہ تو اس اقبال کی مجلس میں بیٹھنے اور ان کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرنے ہی کو اپنی زندگی کا مال اور اپنی قلبی مسرت کا سرمایہ سمجھتے تھے اور فقط ان کی ہاں میں ہاں ملانے اور جو کچھ بھی وہ کہیں اسے بلا حیل و حجت سنتے رہنا ان کے نزدیک ان کی اس عقیدت کا جو انہیں اقبال سے تھی ایک حقیر نذرانہ تھا۔ ایسے لوگوں میں چودھری محمد حسین، خواجہ عبدالرحیم، راجہ حسن اختر، سید بشیر حیدر، میاں محمد شفیع، سید نذیر نیازی، مرزا جلال الدین، مرزا احمد یار خاں دولتانہ، حکیم محمد حسن قرشی، مولانا عبدالمجید سالک اور مولانا غلام رسول مہر کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس شمع علم و فضل کے انہی پروانوں میں سے یہ نیاز مند بھی تھا۔ مگر میرے قلب کی کیفیت اس زمانے میں اقبال کی مجلس میں بیٹھ کر ہمیشہ کچھ دگرگوں سی ہو جاتی تھی کیونکہ ان سب لوگوں میں صرف ایک میں ہی تھا جس نے اقبال کے شباب کا طلوع اور اس کا عروج دیکھا تھا۔ باقی سب لوگ ان کی زندگی کے اس دور میں ان سے متعارف ہوئے جب ان کے تصورات کا آفتاب تو نصف النہار پر تھا مگر ان کی جوانی کی دھوپ ڈھل چکی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اقبال کو اپنی تاریخ پیدائش کے متعلق کچھ ایسا صحیح علم نہ تھا جب وہ ایک طویل بیماری کے باعث بہت ضعیف ہو گئے اور اس وقت ان کا یہ اندازہ تھا کہ ان کی عمر ساٹھ برس سے تجاوز کر چکی ہے تو ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا کہ اب میں زیادہ دیر تک زندہ رہنا نہیں چاہتا۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میری عمر ۶۳ برس سے زاید نہ ہو جائے اس لیے کہ حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جہاں تک یقینی طور پر معلوم ہو سکا ہے ۶۳ برس کی تھی۔ پھر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے بڑی دھیمی اور پر سوز آواز میں اپنا یہ شعر پڑھا: روز محشر اعتبار ماست او در جہاں ہم پردہ دار ماست او پھر ان کی آواز بھرا گئی اور سسکیاں بھر کر رونے لگے۔ مولانا عبدالمجید سالک نے بھی اپنی کتاب ’’ ذکر اقبال‘‘ میں ان کی ولادت ۲۴ ذوالحج ۱۲۸۹ھ مطابق ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء لکھی ہے۔ اس حساب سے اقبال کی عمر ان کی وفات کے وقت ۶۵ برس کی ہوتی ہے۔ اس تاریخ کا ماخذ غالباً اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کا بیان ہے۔ اگر یہ تاریخ صحیح ہوتی تو اقبال کی حسرت دل ہی دل میں رہ جاتی اور ۶۳ برس کی عمر سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کی آرزو بر نہ آتی۔ لیکن خدا فقیر سید وحید الدین کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے اپنی کتاب ’’ روزگار فقیر‘‘ میں بڑی تحقیق کے بعد اقبال کی پیدائش کی تاریخ ۹ نومبر۱۸۷۷ء لکھی ہے۔ اس حساب سے اقبال کی عمر ۶۱ برس کی ہوتی ہے۔ او رظاہر ہے کہ اس تاریخ پر اعتبار کیا جائے تو اقبال کی آرزو پوری ہو گئی اور وہ ۶۳ برس کی عمر سے پہلے ہی واصل بحق ہو گئے۔ دور ہا باید کہ تایک مرد حق پیدا شور با یزید اندر خراسان یا اویس اندر قرن اور یقینا اقبال وہ مرد حق تھا جو قرن ہا قرن کے بعد پیدا ہوا اور اب شاید دور پر دور گزر جائیں تو بطن گیتی ایسا مرد حق پیدا نہ کر سکے گی اور گردش لیل و نہار اس نہاں خانہ ہستی کے ہزار در ہزار اسرار فاش کرتی چلی جائے مگر وہ دانائے راز پھر پیدا نہ ہو گا جو ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو عالم اسلام کو ایک حیات نو کا پیغام دے کر خود موت کی آغوش میں سو گیا۔ اقبال نے اپنی علالت کے زمانے میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر کے ایک رباعی کہی تھی: سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سر آمد روزگار ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید اس رباعی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کے ذہن میں اس امکان کا ایک ذرا سا شابہ ضرور موجود تھا کہ شاید آئندہ کسی زمانے میں پردگی ہائے پارینہ روزگار کا کوئی دانائے راز پھر پیدا ہو جائے مگر میں جو اپنے بچپن سے ان کی وفات کے وقت تک سائے کی طرح ان کے ساتھ ساتھ رہا ہوں اور رموز فطرت کے اس راز دان کی قدرت فکر و نظر سے خوب واقف ہوں کہہ سکتا ہوں کہ اس باب میں انہیں کا یہ شعر ایک قول فیصل ہے: حفظ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا راز داں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا ٭٭٭ اقبال اور قیام یورپ کسریٰ منہاس ۲۹1؎ دسمبر ۱۸۷۳ء کو اقبال پنجاب کے قدیم شہر سیالکوٹ میں شیخ نور محمد صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جب سن تمیز کو پہنچے تو مکتب میں بٹھائے گئے۔ مولانا غلام حسن کے مکتب میں معارف دین کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ پھر علامہ سید میر حسن کے سپرد ہوئے جہاں انہوں نے عربی و فارسی ادب سے استفادہ کیا اور شفیق استاد کی رہنمائی میں زبردست استعداد بہم پہنچائی اور ادب کے مشکل ترین مقامات از بر کیے۔ استاد اور شاگرد میں والہانہ محبت و عقیدت تھی اور یہ تعلقات عدۃ العمر2؎ تک قائم رہے۔ ۱۸۹۱ء میں سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ کے امیدوار کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی سے انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اسی سال گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور ۱۸۹۷ء میں بی اے سیکنڈ ڈویژن میں کیا ۔ ۱۸۹۸ء میں لاء سکول میں داخلہ لیا، ۱۸۹۹ء میں ایم اے فلسفہ میں کامیابی حاصل کی۔ یکم جنوری ۱۹۰۱ء سے ۳۱ اگست ۱۹۰۵ء تک اسلامیہ کالج لاہور، اورینٹل کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور میں علی الترتیب تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور ہی سے یورپ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے انہوں نے تعلیمی رخصت لی اور یکم ستمبر ۱۹۰۵ء کو لاہور سے روانہ ہوئے چنانچہ فرماتے ہیں: چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو ۲ ستمبر ۱۹۰۵ء کو دہلی پہنچے اور آستانہ حضرت نظام الدین اولیاؒ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ اقبال کی جو دعائیہ نظم ’’ التجائے مسافر‘‘ کے عنوان سے بانگ درا میں ہے اس سے ان کی عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔۳ ستمبر کو دہلی سے روانہ ہوئے۔ ۴ ستمبر بمبئی اور ۷ ستمبر کو بحری جہاز کے ذریعے ۲۴ ستمبر کو لندن پہنچے۔ اقبال نے لاہور سے دہلی، دہلی سے بمبئی اور بمبئی سے لندن پہنچنے کی روئداد اپنے دو خطوں میں بیان کی ہے۔ یہ دونوں خط کتب کثیرہ کے مصنف اور صحافی مولوی انشاء اللہ خاں (۱۸۷۰ئ۔ ۱۹۲۸ئ) کے نام ہیں جو دلچسپ معلومات سے مملو ہیں۔ یہ دونوں خط ہفت روزہ ’’ وطن‘‘ میں شائع ہوئے تھے۔ پہلا خط ۱۲ ستمبر کو اور دوسرا خط ۲۵ نومبر ۱۹۰۵ء کو لکھا گیا جو ہفتہ وار اخبار وطن مورخہ ۶ اکتوبر ۱۹۰۵ء اور ۲۲ دسمبر ۱۹۰۵ء میں علی الترتیب شائع ہوئے۔ ان دونوں خطوں کا متن ’’مقالات اقبال‘‘ 1؎ ’’ اقبال درون خانہ‘‘ کے مصنف نے اقبال کی تاریخ ولادت ۲۳ فروری ۱۸۷۳ء اور ۹ نومبر ۱۸۷۷ء سے اختلاف کیا ہے اور اپنے دعوے کے ثبوت میں محققانہ دلائل دئیے ہیں۔ یہ بحث کتاب مذکور میں صفحہ ۱۵۳ سے ۱۶۳ تک پھیلی ہوئی ہے۔ 2؎ ذکر اقبال ص ۱۱ مرتبہ سید عبدالواحد معینی سے من و عن ذیل میں درج ہے: (۱) مخدوم و مکرم مولوی صاحب السلام علیکم آپ سے رخصت ہو کر اسلامی شان و شوکت کے اس قبرستان میں پہنچا، جسے دہلی کہتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن پر خواجہ سید حسن نظامی اور شیخ نذر محمد صاحب اسسٹنٹ مدارس موجود تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے شیخ صاحب موصوف کے مکان پر قیام کیا۔ ازاں بعد حضرت محبوب الٰہیؒ کے مزار پر حاضر ہوا اور تمام دن وہیں بسر کیا۔ اللہ اللہ حضرت محبوب الٰہی کا مزار بھی عجیب جگہ ہے بس یہ سمجھ لیجئے کہ دہلی کی پرانی سوسائٹی حضرت کے قدموں میں مدفون ہے خواجہ حسن نظامی کیسے خوش قسمت ہیں کہ ایسی خاموش اور عبرت انگیز جگہ میں قیام رکھتے ہیں۔ شام کے قریب ہم اس قبرستان سے رخصت ہونے کو تھے کہ میر نیرنگ نے خواجہ صاحب سے کہا کہ ذرا غالب مرحوم کے مزار کی زیارت بھی ہو جائے کہ شاعروں کا حج یہی ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب موصوف ہم کو قبرستان کے ایک ویرانے گوشے میں لے گئے جہاں وہ گنج معانی مدفون ہے جس پر دہلی کی خاک ہمیشہ ناز کرے گی حسن اتفاق سے اس وقت ہمارے ساتھ ایک نہایت خوش آواز لڑکا ولایت نام تھا اس ظالم نے مزار کے قریب بیٹھ کر دل سے تری نگاہ جگر میں اتر گئی کچھ ایسی خوش الحانی سے گائی کہ سب کی طبیعتیں متاثر ہو گئیں۔ بالخصوص اس نے جب یہ شعر پڑھا۔ وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھیے! بس اب کہ لذت خواب سحر گئی تو مجھ سے ضبط نہ ہو سکا آنکھیں پر نم ہو گئیں او ربے اختیار لوح مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدہ سے رخصت ہوا۔ یہ سماں اب تک ذہن میں ہے اور جب کبھی یاد آتا ہے تو دل کو تڑپا جاتا ہے۔ اگرچہ دہلی کے کھنڈر مسافر کے دامن دل کو کھینچتے ہیں مگر میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ہر مقام کی سیر سے عبرت اندوز ہوتا۔ شہنشاہ ہمایوں کے مقبرے میں فاتحہ پڑھا دارا شکوہ کے مزار کی خاموشی کے کانوں سے ’’ ہو الموجود‘‘ کی آواز سنی اور دہلی کی عبرتناک سر زمین سے ایک ایسا اخلاقی اثر لے کر رخصت ہوا جو صفحہ دل سے کبھی نہ مٹے گا۔ ۳ ستمبر کی صبح کو میر نیرنگ اور شیخ محمد اکرام اور باقی دوستوں سے دہلی میں رخصت ہو کر بمبئی کو روانہ ہوا اور ۴ کو خدا خدا کر کے اپنے سفر کی پہلی منزل میں پہنچا۔ ریلوے اسٹیشن پر تمام ہوٹلوں کے ٹکٹ ملتے ہیں مگر میں نے ٹامس کک کی ہدایت سے انگلش ہوٹل میں قیام کیا اور تجربہ سے معلوم کیا کہ یہ ہوٹل ہندوستانی طلبہ کے لیے جو ولایت جا رہے ہوں نہایت موزوں ہے۔ ریلوے اسٹیشن یہاں سے قریب ہے۔ گھاٹ یہاں سے قریب ہے۔ ٹامس کک کا دفتر یہاں سے قریب، غرضیکہ ہر قسم کا آرام ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شہر کے باقی تمام ہوٹلوں کی نسبت ارزاں ہے۔ صرف تین روپے یومیہ دو اور ہر قسم کا آرام حاصل کر لو۔ یہاں کا منتظم ایک پارسی پیر مرد ہے جس کی شکل سے اس قدر تقدس ظاہر ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کو ایران کے پرانے خثور (نبی) یاد آ جاتے ہیں۔ دکان داری نے اسے ایسا عجز سکھا دیا ہے کہ ہمارے بعض علماء میں باوجود عبادت اور مرشد کامل کی صحبت میں بیٹھنے کے بھی انکسار پیدا نہیں ہوتا۔ کار لائل نے کیا خوب کہا ہے کہ: ’’ محنت ہی بہت بڑی عبادت ہے۔‘‘ میرے دل پر اس پیر مرد کی صورت کچھ ایسا اثر کرتی تھی کہ بعض اوقات اسے دیکھ کر میری آنکھیں پرنم ہو جاتی تھیں۔ لیکن جب اس کی وقعت میرے دل میں اندازہ سے زیادہ ہو گئی تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا، جس کا بیان بعض وجوہ سے ضروری ہے۔ میں ایک شام نیچے کی منزل میں کرسی پر بیٹھا تھا کہ پارسی پیر مرد کمرے سے باہر نکلا۔ اس کی بغل میں شراب کی بوتل تھی۔ جب اس نے مجھے بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس کو چھپانے کی کوشش کی اور میں نے دور سے تاڑ کر آواز دی کہ سیٹھ صاحب ! ہم سے کیوں چھپاتے ہو۔ خوشی سے اس کا شوق کرو۔ ذرا مسکرایا اور کچھ پتے ہوئے بھی تھا، بولا: سراب سوق پینے سے بھی گم دور ہو جائے 1؎ میں نے سن کر کہا، واہ رے بڈھے خدا تیری عمر دراز کرے اور تیری پرانی شاخ سے بہت سا میوۂ نورس پیدا ہو کر بمبئی کھیت باڑی میں بکتا پھرے۔ اس ہوٹل میں ایک یونانی بھی آ کر مقیم ہوا جو ٹوٹی پھوٹی سی انگریزی بولتا تھا۔ میں نے ایک روز اس سے پوچھا، تم کہاں سے آئے ہو؟ بولا چین سے آیا ہوں، اب ٹرانسوال جاؤں گا۔ میں نے پوچھا: تم چین میں کیا کام کرتے تھے؟ کہنے لگا: سوداگری کرتا تھا۔ لیکن چینی لوگ ہماری چیزیں نہیں خریدتے میں نے سن کر اس سے کہا کہ ہندیوں سے تو یہ افیمی ہی عقلمند نکلے کہ اپنے ملک کی صنعت کا خیال رکھتے ہیں۔ شاباش افیمیو! شاباش! نیند سے بیدار ہو جاؤ۔ ابھی تم آنکھیں مل رہے ہو کہ اس سے دیگر قوموں کو اپنی اپنی فکر پڑ گئی۔ ہاں ہم ہندوستانیوں سے یہ توقع نہ رکھو کہ ایشیا کی تجارتی عظمت از سر نو قائم کرنے میں تمہاری مدد کر سکیں گے۔ ہم متفق ہو کر کام کرنا نہیں جانتے۔ ہمارے ملک میں محبت اور مروت کی بو باقی نہیں ہی۔ ہم اس کو پکا مسلمان سمجھتے ہیں جو ہندوؤں کے خون کا پیاسا ہو۔ اور اس کو پکا ہندو خیال کرتے ہیں جو مسلمان کی جان کا دشم ہو۔ ہم کتاب کے کیڑے ہیں اور مغربی دماغوں کے خیالات ہماری خوراک ہیں۔ کاش خلیج بنگالہ کی موجیں ہمیں غرق کر ڈالیں۔ مولوی صاحب میں بے اختیار ہوں لکھنے تھے سفر کے حالات اور بیٹھ گیا وعظ کرنے کیا کروں اس سوال کے متعلق تاثرات کا ہجوم میرے دل میں اس قدر ہے کہ بسا اوقات مجھے مجنوں سا کر دیا اور کر رہا ہے۔ ایک شب میں کھانے کے کمرے میں تھا کہ دو جنٹلمین میرے سامنے آ بیٹھے، شکل سے معلوم ہوتا تھا کہ یورپین ہیں۔ فرانسیسی میں باتیں کرتے تھے۔ آخر جب کھانا کھا کر اٹھے تو ایک نے کرسی کے نیچے سے اپنی ترکی ٹوپی نکال کر پہنی، جب سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ کوئی ترک ہے۔ میری طبیعت بہت متاثر ہوئی او رمجھے یہ فکرپیدا ہوئی کہ کسی طرح ان سے ملاقات ہو۔ دوسرے روز میں نے خواہ مخواہ باتیں شروع کیں۔ یورپ کی اکثر زبانیں سوائے انگریزی کے جانتا تھا۔ میں نے پوچھا، فارسی جانتے ہو۔ بولا: بہت کم پھر میں نے 1؎ پارسی بڈھے نے مصرع میں شراب، شوق اور غم کی مٹی پلید کی ہے۔ فارسی میں اس سے گفتگو شروع کی لیکن وہ سمجھتا نہ تھا آخر مجبوری ٹوٹی پھوٹی عربی میں اس سے باتیں کیں۔ یہ نوجوان ترک ینگ ٹرک پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اور سلطان عبدالحمید کا سخت مخالف ہے۔ باتوں باتوں میں مجھے معلوم ہوا کہ شاعر بھی ہے میں نے درخواست کی اپنے شعر سناؤ۔ کہنے لگا میں کمال بے (ترکی کا سب سے مشہور زندہ شاعر) کا شاگرد ہوں اور اکثر پولیٹیکل معاملات پر لکھتا ہوں۔ کمال بے کے جو اشعار اس نے سنائے سب کے سب عمدہ تھے لیکن جو شعر اپنے سنائے وہ سب کے سب سلطان کی ہجو میں تھے۔ ان میں سے ایک شعر یہاں درج کرتا ہوں: ظلم و جورن تو سفوجہ بر ملتے محو ایلیور آدمیت ملک و ملت دشمن عبدالحمید یعنی کبیر ظلم و جور نے تمام قوم کو مٹا دیا ہے عبدالحمید آدمیت او رملک و قوم سب کا دشمن ہے۔ ان مضمون پر اس سے بہت گفتگو ہوئی اور میں نے اس سے بتایا کہ ینگ پارٹی کو انگلستان کی تاریخ سے فائدہ اٹھانا چاہیے، کیونکہ جس طریق سے رعایا انگلستان نے بتدریج اپنے بادشاہوں سے پولیٹیکل حقوق حاصل کیے وہ طریق سب سے عمدہ ہے۔ بڑے بڑے عظیم الشان انقلابوں کا بغیر کشت و خون ہو جانا کچھ خاک انگلستان ہی کا حصہ ہے۔ ایک روز سر شام میں اور یہ ترک جنٹلمین بمبئی کا اسلامیہ مدرسہ دیکھنے چلے گئے وہاں اسکول کی گراؤنڈ میں مسلمان طلباء کرکٹ کھیل رہے تھے۔ ہم نے ان میں سے ایک کو بلایا اور اسکول کے متعلق بہت سی باتیں اس سے دریافت کیں۔ میں نے اس طالب علم سے پوچھا کہ انجمن اس سکول کو کالج کیوں نہیں بنا دیتی، کیا فنڈ نہیں ہے یا کوئی اور وجہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ فنڈ تو موجود ہے۔ اگر ضرورت ہو تو ایک آن میں موجود ہو سکتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہاں بڑے بڑے مقول سوداگر موجود ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ مسلمان طلباء پڑھنے کے لیے نہیں آتے۔ یہ جواب سن کر میں بہت خوش ہوا۔ میرا خیال تھا کہ بمبئی جیسے شہر میں مسلمانوں کا کالج ضرور ہو گا کیونکہ یہاں کے مسلمان تمول میں کسی اور قوم سے پیچھے نہیں ہیں لیکن یہاں آ کر معلوم ہا کہ تمول کے ساتھ ان میں عقل بھی ہے ہم پنجابیوں کی طرح احمق نہیں ہیں ہر چیز کو تجارتی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور نفع و نقصان پر ہر پہلو سے غور کر لیتے ہیں۔ غرض کہ بمبئی (خدا اسے آبادرکھے) عجب شہر ہے، بازار کشادہ، ہر طرف پختہ سر بہ فلک عمارتیں ہیں کہ دیکھنے والے کی نگاہ ان سے خیرہ ہوتی ہے بازاروں میں گاڑیوں کی آمد و رفت اس قدر ہے کہ پیدل چلنا محال ہو جاتا ہے۔ یہاں ہر چیز مل سکتی ہے یورپ و امریکا کے کارخانوں کی کوئی چیز طلب کرو فوراً آ ملے گی۔ ہاں البتہ ایک چیز ایسی ہے جو اس شہر میں نہیں مل سکتی یعنی فراغت۔ یہاں پارسیوں کی آبادی نوے ہزار کے قریب ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام شہر ہی پارسیوں کا ہے۔ اس قوم کی صلاحیت نہایت قابل تعریف ہے اور ان کی دولت و عظمت بے اندازہ، مگر اس قوم کے لیے کسی اچھی فیوچر (Future) کی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ عام طور پر سب کے سب دولت کمانے کی فکر میں ہیں او رکسی چیز پر اقتصادی پہلو کے سوا کسی اور پہلو سے نگاہ ہی نہیں ڈال سکتے۔ علاوہ اس کے نہ کوئی ان کی زبان ہے نہ ان کا لٹریچر ہے۔ اور طرۂ یہ کہ فارسی کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ افسوس یہ لوگ فارسی لٹریچر سے غافل ہیں۔ ورنہ ان کو معلوم ہوتا کہ ایرانی لٹریچر میں عربیت کو فی الحقیقت کوئی دخل نہیں ہے بلکہ وشتی رنگ اس کے رگ و ریشے میں ہے اور اسی پر اس کے حسن کا دار و مدار ہے میں نے اسکول کے پارسی لڑکوں اور لڑکیوں کو بازار میں پھرتے دیکھا۔ چستی کی مورتیں تھیں۔ مگر تعجب ہے کہ ان کی خوب صورت آنکھیں اسی فیصدی کے حساب سے عینک پوش تھیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ عینک پوشی پارسیوں کا قومی فیشن ہوتا جاتا تھا۔ معلوم نہیں کہ ان کے قومی ریفارمر اس طرف توجہ کیوں نہیں کرتے۔ اس شہر کی تعلیمی حالت عام طور پر نہایت عمدہ معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے ہوٹل کا حجام ہندوستان کی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات جانتا تھا۔ گجراتی اخبار ہر روز پڑھتا تھا اور جاپان اور روس کی لڑائی سے پورا با خبر تھا۔ نورو جی واہ بھائی کا نام بڑی عزت سے لیتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا، نورو جی انگلستان میں کیا کرتا ہے حجور کالوں کے لیے لڑتا ہے۔ ہوٹل کے نیچے مسلمان دکاندار ہیں۔ میں نے ایک روز ان سے پوچھا تم اردو پڑھ سکتے ہو؟ کہنے لگے: نہیں سمجھ سکتے ہیں پڑھنا نہیں جانتے۔ میں نے پوچھا کہ جب مولوی تمہارا نکاح پڑھاتا ہے تو کون سی زبان بولتا ہے؟ مسکرا کر بولا اردو یہاں پر ہر کوئی اردو سمجھ سکتا ہے اور ٹوٹی پھوٹی بول سکتا ہے ہمارے ہوٹل کا سیٹھ (وہی بوتل والا پیر مرد) کبھی ہندوستان نہیں گیا مگر اردو خاصی بولتا ہے۔ میں بمبئی یعنی باب لندن کی کیفیت دیکھ کر حیران ہوں۔ خدا جانے لندن کیا ہو گا؟ جس کا دروازہ ایسا عظیم الشان ہے۔ اچھا دیدہ خواہد شد ۷ ستمبر کو ۲ بجے وکٹوریہ ڈاک (گھاٹ) پر پہنچے جہاں مختلف کمپنیوں کے جہاز کھڑے ہیں۔ اللہ اکبر! یہاں کی دنیا نرالی ہے کئی طرح کے جہاز اور سینکڑوں کشتیاں ڈاک میں کھڑی ہیں اور مسافر سے کہہ رہی ہیں کہ سمندر کی وسعت سے نہ ڈر خدا نے چاہا تو ہم تجھے صحیح و سلامت منزل مقصود پر پہنچا دیں گے۔ خیر! طبی معائنہ کے بعد میں اپنے جہاز پر سوار ہوا لالہ دھنپت رام وکیل لاہور اور ان کے ایک دوست ڈاکٹر صاحب اس روز حسن اتفاق سے بمبئی میں تھے میں ان کا نہایت سپاس گزار ہوں کہ دونوں صاحب مجھے رخصت کرنے کے لئے ڈاک پر تشریف لائے۔ بہت سے اور لوگ بھی جہاز پر سوار ہوئے ان کے دوستوں اور رشتہ داروں کا ایک ہجوم ڈاک پر تھا۔ کوئی ۳ بجے جہاز نے حرکت کی اور ہم اپنے دوستوں کو سلام کہتے اور رومال ہلاتے ہوئے سمندر پر چلے گئے۔ یہاں تک کہ موجیں ادھر سے ادھر آ آ کر ہمارے جہاز کو چومنے لگیں فرانسیسی قوم کا مذاق اس جہاز کی عمدگی اور نفاست سے ظاہر ہے۔ ہر روز صبح کو کئی آدمی جہاز کی صفائی میں مصروف رہتے ہیں اور ایسی خوبی سے صفائی کرتے ہیں کہ ایک تنکا تک جہاز پر نہیں رہنے دیتے۔ ملازموں میں مصر کے چند حبشی بھی ہیں جو مسلمان ہیں اور عربی بولتے ہیں جہاز کے فرانسیسی افسر نہایت خوش خلق ہیں اور ان کے تکلفات کو دیکھ کر لکھنو یاد آ جاتا ہے۔ ایک روز افسر تختہ جہاز پر کھڑا تھا کہ ایک حسین عورت کا ادھر سے گزر ہوا۔ اتفاق سے یا غالباً ارادۃً یہ عورت اس افسر کے شانے پر ہاتھ رکھتی ہوئی گزری۔ ہمارے نوجوان افسر نے اس توجہ کے جواب میں ایک ادا سے جنبش کی کہ ہمارے ملک کے حسین بھی اس کی نقل نہیں اتار سکتے۔ کھانے کا انتظام بھی نہایت قابل تعریف ہے میز بھی فرانسیسی تکلف کی گواہی دے رہا ہے۔ مگر اس جہاز پر ہم ہندوستانیوں کے لیے ایک بڑی دقت یہ ہے کہ جہاز کے تقریباً سب مسافر فرانسیسی بولتے ہیں۔ انگریزی کوئی نہیں جانتا۔ جہاز کے تمام ملازم فرانسیسی بولتے ہیں اور بعض اوقات ان کو اپنا مطلب سمجھانے میں بڑی دقت ہوتی ہے۔ اگرچہ فرانسیسی جہازوں میں ہر طرح کی آسائش ہے تاہم میری رائے یہی ہے کہ ہم لوگوں کو انگریزی کمپنیوں کے جہازوں میں سفر کرنا چاہیے۔ ان کے مسافر سب کے سب انگریزی دان ہوتے ہیں اور علاوہ اس کے مسافروں کی کثرت کی وجہ سے جہاز پر بڑی رونق ہوتی ہے ہمارے اس جہاز میں ساٹھ سے زیادہ مسافر نہیں ہیں۔ ہم لوگ رات کو اپنے اپنے کمروں میں سوتے ہیں اور صبح سے شام تختہ جہاز پر کرسیاں بچھا کر بیٹھے رہتے ہیں۔ کوئی پڑھتا ہے کوئی باتیں کرتا ہے کوئی پھرتا ہے۔ کیبن میں جہاز کی جنبش کی وجہ سے طبیعت بہت گھبراتی ہے مگر تختہ جہاز پر بہت آرام رہتا ہے۔ میرے تمام ساتھی دوسرے ہی روز مرض بحری میں مبتلا ہو گئے۔ مگر الحمد للہ میں محفوظ رہا۔ مجھ سے اکثروں نے دریافت کیا کہ کیا تم نے پہلے بھی بحری سفر کیا ہے؟ جب میں نے جواب دیا کہ نہیں تو وہ حیران ہوئے اور کہا کہ تم بڑے مضبوط آدمی ہو۔ بمبئی سے ذرا آگے نکل کر سمندر کی حالت کسی قدر متلاطم تھی۔ خواجہ خضر صاحب کچھ خفا سے معلوم ہوتے تھے۔ اتنی اونچی اونچی موجیں آتی تھیں کہ خدا کی پناہ۔ دیکھ کر دہشت آتی تھی ایک شب ہم کھانا کھا کر تختہ جہاز پر آ بیٹھے کچھ عرصہ کے بعد سمندر کی سرد ہوا نے ہم سب کو سلا دیا۔ مگر دفعتہ ایک خوفناک موج نے اچھل کر ہم پر حملہ کیا اور تمام مسافروں کے کپڑے بھیگ گئے عورتیں بچے اور مرد نیچے بھاگ کر اپنے اپنے کمروں میں جا سوئے۔ اور ہم تھوڑی دیر کے لیے جہاز کے ملازموں اور افسروں کے تمسخر کا باعث بنے رہے۔ راستے میں ایک آدھ بارش بھی ہوئی جس سے سمندر کا تلاطم نسبتاً بڑھ گیا اور طبیعت اس نظارے کی یکسانیت سے اکتانے لگی۔ سمندر کا پانی بالکل سیاہ معلوم ہوتا ہے اور موجیں جو زور سے اٹھتی ہیں ان کو سفید جھاگ چاندی کی ایک کلغی سے پہنا دیتی ہے اور دور دور تک ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کسی نے سطح سمندر پر روئی کے گالے بکھیر ڈالے ہیں یہ نظارہ نہایت دلفریب ہے اگر اس میں موجوں کی دہشت ناک کشاکش کی آمیزش نہ ہو۔ ان کی قوت سے جہاز ایک معمولی کشتی کی طرح جنبش کرتا ہے۔ آسمان اوپر تلے ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ مگر آنکھیں چونکہ اس نظارہ سے کسی قدر مانوس ہو گئی ہیں اور نیز جہاز والوں کے چہروں کا اطمینان یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک معمولی بات ہے اس واسطے ہم کو بھی خوف کا احساس نہیں ہوتا۔ یورپین لڑکے لڑکیاں تختہ جہاز پر دوڑے پھرتے ہیں اور محسوس نہیں کرتے کہ جہاز میں ہیں۔ ہمارا ہم سفر ایک پادری ہے جو جنوبی ہندوستان سے آیا ہے اور اب اٹلی جا رہا ہے گزشتہ رات مجھ سے کسی نے کہا کہ یہ فرانسیسی پادری بہت سی زبانیں جانتا ہے اور روسی زبان خوب بولتا ہے۔ میں اس کے پاس کھڑا ہوا اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد پوچھا کہ کونٹ ٹالسٹائی کی نسبت تمہارا کیا خیال ہے؟ اس نے میرے سوال پر نہایت حیرانی ظاہر کی اور پوچھا کہ کونٹ ٹالسٹائی کون ہے؟ مجھے یہ دیکھ کر نہایت تعجب ہوا کہ اگر یہ شخص روسی زبان جانتا ہے اور کونٹ کے مشہور نام سے واقف نہیں ہے۔ میں یہ لکھنا بھول گیا کہ جہاز پر دیا سلائی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تختہ جہاز کے ایک طرف کمرے کی دیوار پر پیتل کی ایک انگیٹھی سی لگا رکھی ہے جس میں چند لکڑیاں آگ لگا کر رکھ دیتے ہیں۔ جن لوگوں کو سگریٹ یا سگار سوزی کرنا ہو اس انگیٹھی سے ایک لکڑی اٹھا لیں۔ جہاز کے سفر میں دل پر سب سے زیادہ اثر ڈالنے والی چیز سمندر کا نظارہ ہے۔ باری تعالیٰ کی قوت لا متناہی کا جو اثر سمندر دیکھ کر ہوتا ہے شاید ہی کسی دوسری چیز سے ہوتا ہو حج بیت اللہ میں جو تمدنی اور روحانی فوائد ہیں ان سے قطع نظر کر کے ایک بڑا اخلاقی فائدہ سمنہ رکی ہیبت ناک موجوں اور اس کی خوفناک وسعت کا دیکھنا ہے جس سے مغرور انسان کو اپنے ہیچ محض ہونے کا پورا پورا یقین ہو جاتا ہے۔ شارع اسلام کی ہر بات قربان ہو جانے کے قابل ہے۔ بابی انت وافی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج ۱۲ ستمبر کی صبح ہے۔ میں بہت سویرے اٹھا تھا۔ جہاز کے جاروب کش ابھی تختے صاف کر رہے ہیں۔ چراغوں کی روشنی دھیمی پڑ گئی ہے۔ آفتاب چشمہ آب میں سے اٹھتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور سمندر اس وقت ایسا ہی ہے جیسا ہمارا دریائے راوی شاید صبح کے پر تاثیر نظارے نے اس کو سمجھا دیا ہے کہ سکون قلب بھی ایک نایاب شے ہے۔ ہر وقت کی الجھن اور بے تابی اچھی نہیں۔ طلوع آفتاب کا نظارہ ایک درد مند دل کے لیے تلاوت کا حکم رکھتا ہے۔ یہی آفتاب ہے جس کے طلوع و غروب کو میدان میں ہم نے کئی دفعہ دیکھا ہے مگر یہاں سمندر میں اس کی کیفیت ایسی ہے کہ: نظارہ ز جنبیدن مژگاں گلہ دارد حقیقت میں جن لوگوں نے آفتاب پرستی کو اپنا مذہب قرار دے رکھا ہے۔ میں ان کو قابل معذوری سمجھتا ہوں۔ ناسخ مرحوم کیا خوب فرما گئے ہیں: ہے جی میں آفتاب پرستوں سے پوچھتے تصویر کس کی ہے ورق آفتاب میں کوئٹے کے ڈپٹی کمشنر صاحب جو اٹھارہ ماہ کی رخصت لے کر ولایت جا رہے ہیں او روہ پادری صاحب ٹالسٹائی کے نام سے ناواقف معلوم ہوتے تھے۔ اس وقت جہاز کی اوپر کی چھت پر کھڑے اس نظارے کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ یہ پادری صاحب بڑے مزے کے آدمی ہیں۔ ان میں ایک خاص ہنر ہے اور وہ یہ کہ ہر کسی کو باتوں میں لگا لیتے ہیں۔ انگریزی بولتے ہیں مگر بہت شکستہ اور مجھ کو جب بلاتے ہیں تو ٹالسٹائی کے نام سے کل مجھ سے پوچھتے تھے تم ہندوستان کا ٹالسٹائی بننا چاہتے ہو؟ میں نے جواب دیا: ٹالسٹائی بن جانا آسان نہیں ہے۔ زمین سورج کے گرد لاکھوں چکر لگاتی ہے تب کہیں جا کے ایک ٹالسٹائی پیدا ہوتا ہے۔ کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر صاحب بڑے باخبر آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ کل رات ان سے ہندوستان کے پولیٹکل معاملات پر بہت دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ عربی اور فارسی جانتے ہیں سر ولیم میور کی تصانیف کے متعلق گفتگو ہوئی تو کہنے لگے: کاش یہ شخص ذرا کم متعصب ہوتا۔ عمر خیام کے بڑے مداح ہیں۔ مگر میں نے ان سے کہا کہ اہل یورپ نے ابھی سحابی نجفی کی۔ عیات کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ عمر خیام کو کبھی کے فراموش کر گئے ہوتے۔ اب ساحل قریب آتا جاتا ہے اور چند گھنٹوں میں ہمارا جہاز عدن جا پہنچے گا۔ ساحل عرب کے تصور نے جو ذوق و شوق اس وقت دل میں پیدا کر دیا ہے اس کی داستان کیا عرض کروں بس دل یہی چاہتا ہے کہ زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کروں۔ اللہ رے خاک مدینہ کی آبرو خورشید بھی گیا تو ادھر سر کے بل گیا اے عرب کی مقدس سر زمین تجھ کو مبارک ہو، تو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے معماروں نے رد کر دیا تھا۔ مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا افسوں پڑھ دیا کہ موجود ہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی۔ باغ کے مالک نے اپنے ملازموں کو مالیوں کے پاس پھل کا حصہ لینے بھیجا۔ لیکن مالیوں نے ہمیشہ ملازموں کو مار پیٹ کے باغ سے باہر نکال دیا اور مالک کے حقوق کی کچھ پروا نہ کی۔ مگر اے پاک سر زمین! تو وہ جگہ ہے جہاں سے باغ کے مالک نے خود ظہور کیا تاکہ گستاخ مالیوں کو باغ سے نکال کر پھولوں کو ان نامسعود پنجوں سے آزاد کرے تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقش قدم دیکھے ہیں اور تیری کھجوروں کے سایے نے ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازت آفتاب سے محفوظ رکھا ہے۔ کاش میرے بد کردار جسم کی خاک تیرے ریت کے ذروں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اڑتی پھرے اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو۔ کاش میں تیرے صحراؤں میں لٹ جاؤں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دھوپ میں جلتا ہوا اور پاؤں کے آبلوں کی پروا نہ کرتا ہوا اس پاک سر زمین میں جا پہنچوں جہاںکی گلیوں میں بلال کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی۔ از عدن مورخہ ۱۲ ستمبر راقم محمد اقبال (اخبار ’’ وطن ‘‘ لاہور نمبر ۳۹، جلد۵ مورخہ ۶ اکتوبر ۱۹۰۵ئ) (۲) مولوی صاحب، مخدوم و مکرم السلام علیکم میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ سویز پہنچ کر دوسرا خط لکھوں گا۔ مگر چونکہ عدن سے سویز تک حالات بہت مختصر تھے۔ اس واسطے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ لندن پہنچ کر مفصل واقعات عرض کروں گا میرے پاس ایک کاغذ تھا جس پر میں نوٹ لیتا جاتا تھا مگر افسوس ہے کہ منزل مقصود پر پہنچ کر وہ کاغذ کہیں کھو گیا یہی وجہ میرے اب تک خاموش رہنے کی تھی۔ شیخ عبدالقادر صاحب کی معرفت آپ کی شکایت پہنچی۔ کل ایک پرائیویٹ خط میں نے آپ کو لکھا تھا۔ دونوں خط آپ کو ایک ہی وقت ملیں گے۔ عدن میں قدیم ایرانی بادشاہوں کے بنائے ہوئے تالاب ہیں اور یہ اس طرح بنائے گئے ہیں کہ ایک دفعہ بارش کا تمام پانی ہر جگہ سے ڈھل کر ان میں جا گرتا ہے۔ چونکہ ملک خشک ہے ا س واسطے ایسی تعمیر کی سخت ضرورت تھی۔ میں بوجہ گرمی اور نیز قرنطینہ کے عدن کی سیر نہ کر سکا۔ انجینئری کے اس حیرت ناک کرشمے کی دید سے محروم رہا۔ جب ہم سویز پہنچے تو مسلمان دکانداروں کی ایک کثیر تعداد ہمارے جہاز پر آ موجود ہوئی اور ایک قسم کا بازار تختہ جہاز پر لگ گیا۔ ان لوگوں کی فطرت میں میلان تجارت مرکوز ہے اور کیوں نہ ہو۔ ان ہی کے آباؤ اجداد تھے جن کے ہاتھوں میں یورپ اور ایشیا کی تجارت تھی۔ سلیمان اعظم ان ہی میں کا ایک شہنشاہ تھا جس کی وسعت تجارت نے اقوام یورپ کو ڈرا کر ان کو ہندوستان کی ایک نئی راہ دریافت کرنے کی تحریک کی تھی۔ کوئی پھل بیچتا ہے کوئی پوسٹ کارڈ دکھاتا ہے۔ کوئی مصر کے پرانے بت بیچتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ ذرا سا بت اٹھارہ ہزار برس کا ہے جو ابھی کھنڈر کھودنے پر ملا ہے غرضیکہ یہ لوگ گاہکوں کو قید کر لینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔ ان ہی لوگوں میں ایک شعبدہ باز بھی ہے کہ ایک مرغی کا بچہ ہاتھ میں لیے ہے اور کسی نامعلوم ترکیب سے ایک کے دو بنا کر دکھاتا ہے۔ ایک نوجوان مصری دکاندار سے میں نے سگریٹ خریدنے چاہے اور باتوں باتوں میں میں نے اس سے کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ مگر چونکہ میرے سر پر انگریزی ٹوپی تھی۔ اس نے ماننے میں تامل کیا اور مجھ سے کہا کہ تم ہیٹ کیوں پہنتے ہو؟ تعجب ہے کہ یہ شخص ٹوٹی پھوٹی اردو بولتا تھا۔ جب وہ میرے اسلام کا قائل ہو کر یہ جملہ بولا’’ تم بھی مسلم ہی بھی مسلم‘‘ تو مجھے بڑی مسرت ہوئی۔ میں نے اسے جواب دیا کہ ہیٹ پہننے سے کیا اسلام تشریف لے جاتا ہے؟ کہنے لگا اگر مسلمان کی ڈاڑھی منڈی ہو تو اس کو ٹرکی یعنی طربوش ضرور پہننا چاہیے ورنہ پھر اسلام کی علامت کیا ہو گی؟ میں نے دل میں کہا: کاش ہمارے ہندوستان میں بھی یہ مسئلہ مروج ہو جاتا تاکہ ہمارے دوست موسمی علماء کے حملوں سے مامون و معنون ہو جاتے۔ خیر آخر یہ شخص میرے اسلام کا قائل ہوا اور چونکہ حافظ قرآن تھا اس واسطے میں نے چند آیات قرآن شریف کی پڑھیں تو نہایت خوش ہوا اور میرے ہاتھ چومنے لگا۔ باقی تمام دکانداروں کو مجھ سے ملایا اور وہ لوگ میرے گرد حلقہ باندھ کر ماشاء اللہ ماشاء اللہ کہنے لگے اور میری غرض سفر معلوم کر کے دعائیں دینے لگے۔ یا یوں کہیے کہ دو چار منٹ کے لیے وہ تجارت کی پستی سے ابھر کر اسلامی اخوت کی بلندی پر جا پہنچے۔ تھوڑی دیر کے بعد مصری نوجوانوں کا ایک نہایت متحد گروہ جہاز کی سیر کے لیے آیا۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ان کے چہرے اس قدر مانوس معلوم ہوتے تھے کہ مجھے ایک سیکنڈ کے لئے علی گڑھ کالج کے ڈیپوٹیشن کا شبہ ہوا۔ یہ لوگ جہاز کے ایک کنارے پر کھڑے باتیں کرنے لگے اور میں بھی دخل در معقولات ان میں جا گھسا۔ دیر تک باتیں ہوتی رہیں ان میں سے ایک نوجوان ایسی خوبصورت عربی بولتا تھا کہ جیسے حریری کا کوئی مقام پڑھ رہا ہو۔ آخر مسلمانوں کے اس گروہ کو چھوڑ کر ہمارا جہاز رخصت ہوا اور آہستہ آہستہ سویز کنال میں جا داخل ہوا۔ یہ کنال جسے ایک فرانسیسی انجینئر نے تعمیر کیا تھا دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے۔ عرب اور افریقہ کی جدائی ہے۔ مشرق و مغرب کا اتحاد ہے دنیا کی روحانی زندگی پر مہاتما بدھ نے بھی ا س قد ر اثر نہیں کیا جس قدر اس مغربی دماغ نے زمانہ حال کی تجارت پر اثر کیا ہے۔ کسی شاعر کا قلم اور کسی سنگ تراش کا ہنر اس شخص کے تخیل کی داد نہیں دے سکتا جس نے ا قوام عالم میں اس تجارتی تغیر کی بنیاد رکھی، جس نے حال کی دنیا کی تہذیب و تمدن کو اور سے کچھ اور کر دیا بعض بعض جگہ تو کنال تنگ ہے۔ دو جہاز مشکل سے اس میں سے گزر سکتے ہیں اور کسی کسی جگہ ایسی بھی ہے کہ اگر کوئی غنیم چاہے کہ رات میں اسے مٹی سے پر کر دے تو آسانی سے کر سکتا ہے سینکڑوں آدمی ہر وقت کام کرتے رہتے ہیں جب ٹھیک رہتی ہے اور اس کا ہمیشہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ دونوں جانب سے جو ریگ ہوا سے اڑ کر اس میں گرتی رہتی ہے اس کا انتظام ہوتا رہے کنارے پر جو مزدور کام کرتے ہیں بعض نہایت شریر ہیں جب ہمارا جہاز آہستہ آہستہ جا رہا تھا اور جہاز کی چند انگریز بی بیاں کھڑی ساحل کی سیر کر رہی تھیں تو ان میں سے ایک مزدور از سر تاپا برہنہ ہو کر ناچنے لگا۔ یہ بیچاری دوڑ کر اپنے اپنے کمروں میں چلی گئیں۔ جہاز سے گزرتے ہوئے ایک اور دلچسپ نظارہ بھی دیکھنے میں آیا اور وہ یہ کہ ہم نے ایک مصری جہاز گزرتے ہوئے دیکھا جو بالکل ہمارے ہی پاس سے گزرا اس پر تمام سپاہی ترکی ٹوپیاں پہنے ہوئے تھے اور نہایت خوش الحانی سے عربی غزل گاتے جاتے تھے یہ نظارہ ایسا پر اثر تھا کہ اس کی کیفیت اب تک دل پر باقی ہے۔ ابھی ہم پورٹ سعید نہ پہنچے تھے کہ ایک بارود سے بھرے ہوئے جہاز کے پھٹ جاتے اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر غرق ہو جانے کی خبر آئی۔ تھوڑی دیر میں اس کے ٹکڑے کنال سے گزرتے ہوئے دکھائی دیے۔ جان و مال کا بے اندازہ نقصان ہوا اور تھوڑی دیر کے لیے ہماری طبیعت اس مصیبت سے بہت متاثر رہی۔ پورٹ سعید پہنچ کر پھر مسلمان تاجروں کی دکانیں تختہ جہاز پر لگ گئیں۔ میں ایک کشتی میں بیٹھ کر مع پارسی ہم سفر کے بندرگاہ کی سیر کو چلا گیا۔ پورٹ سعید جہازوں کو کوئلہ مہیا کرنے والے بندرگاہوں میں سے بڑا ہے اور سعید پاشا کے نام سے موسوم ہے جس نے سویز کنال بنانے کی اجازت دی تھی۔ عمارت کا نظارہ نہایت ہی خوبصورت ہے۔ شہر چھوٹی موٹی بمبئی ہے جس کے متعلق خیال ہے کہ یہ کبھی دنیا کے تجارتی مرکزوں میں سے ایک ہو گا۔ مدرسہ دیکھا مسجدوں کی سیر کی اسلامی گورنر کا مکان دیکھا موجد سویز کنال کا مجسمہ دیکھا غرضیکہ خوب سیر کی یہاں کے مدرسہ میں عربی اور فرانسیسی پڑھاتے ہیں جس حصہ میں انگریز آباد ہیں وہ حصہ خصوصیت سے خوب صورت اور پاکیزہ ہے لیکن افسوس ہے کہ جہاں مسلمان آباد ہیں وہ جگہ بہت میلی ہے۔ یہودی، فرانسیسی، انگریز، یونانی، مسلمان غرضیکہ دنیا کی تمام اقوام یہاں آباد ہیں۔ سب کے محلے جدا جدا ہیں ہوٹل بھی جدا جدا ہیں اور چرچ بھی شہر کی سیر کر کے پورٹ آفس میں آیا۔ ملازم تقریباً سب مسلمان ہیں او رخوب انگریزی اور عربی بولتے ہیں۔ اس عمارت میں داخل ہو کر میں نے ’’ نوٹس بورڈ‘‘ سے کئی نئے عربی الفاظ سیکھے، جن کو ایک کاغذ پر میں نے نوٹ کر لیا۔ لیکن افسوس ہے کہ بعد میں وہ کاغذ بھی کھو گیا کچھ ٹکٹ پوسٹ آفس سے خرید کیے اور خطوں پر لگا کر ڈاک میں ڈالے۔ تعجب ہے کہ ان میں سے کسی خط کی رسید نہیں آئی آخر اپنے مسلمان راہنما کو جو اکثر زبانیں جانتا تھا کچھ انعام دے کر جہاز کو لوٹا۔ یہاں جو پہنچا تو ایک اور نظارہ دیکھنے میں آیا۔ تختہ جہاز پر تین اطالین عورتیں اور دو مرد وائلن بجا رہے تھے اور خوب رقص و سرود ہو رہا تھا۔ ان عورتوں میں ایک لڑکی جس کی عمر تیرہ چودہ سال کی ہو گی نہایت حسین تھی۔ مجھے دیانتداری کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ اس کے حسن نے تھوڑی دیر کے لیے مجھ پر سخت اثر کیا۔ لیکن جب اس نے ایک چھوٹی سی تھالی میں مسافروں سے انعام مانگنا شروع کیا تو وہ تمام اثر زائل ہو گیا۔ کیونکہ میری نگاہ میں وہ حسن جس پر استغنا کا غازہ نہ ہو بدصورتی سے بھی بدتر ہو جاتا ہے القصہ فردوس گوش اور کسی قدر جنگ نگاہ کے حظوظ اٹھا کر ہم روانہ ہوئے اور ہمارا جہاز بحر روم میں داخل ہو گیا۔ یہاں بہت سے جزیرے رستے میں ملتے ہیں جن میں سے بعض کسی نہ کسی بات کے لیے مشہور ہیں لیکن ان کے نظارے کی کیفیت ذہن سے اتر گئی۔ یہ جتنے سطور لکھے ہیں حافظہ سے لکھے ہیں۔ اگر میرے نوٹ ضائع نہ ہو جائے تو امید ہے کہ آپ کے ناظرین کو زیادہ کامیابی کے ساتھ خوش کر سکتا۔ بحر روم کے ابتدائی حصے میں سمندر کا نظارہ بہت دلچسپ تھا اور ہوا میں ایسا اثر تھا کہ غیر موزں طبع آدمی موزوں ہو جائے۔ میری طبیعت قدرتاً شعر پر مائل ہو گئی اور میں نے چند اشعا رکی غزل لکھی جو حاضر ہے: مثال پر تو مے طوف جام کرتے ہیں یہی نماز ادا صبح و شام کرتے ہیں خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم تری شجر حجر1؎ بھی خدا سے کلام کرتے ہیں نیا جہاں کوئی اے شمع! ڈھونڈ لے کہ یہاں ستم کش تپش ناتمام کرتے ہیں عجب تماشا ہے، مجھ کافر محبت کا صنم بھی سن کے جسے رام رام کرتے ہیں ہوا جہاں کی ہے پیکار آفریں کیسی کہاں عدم کے مسافر قیام کرتے ہیں نظارہ لالے کا تڑپا گیا مرے جی کو بہار میں اسے آتش بجام کرتے ہیں 1؎ مقالات کے صفحہ ۸۰ پر یہ لفظ ’’ ہجر‘‘ لکھا ہے غالباً کاتب کی غلطی ہے بانگ درا میں ’’ حجر‘‘ ہے۔ رہین لذت ہستی نہ ہو کہ مثل شرر یہ راہ ایک نفس میں تمام کرتے ہیں بھلی ہے ہم نفسو اس چمن میں خاموشی کہ خوش نواؤں کو پابند دام کرتے ہیں غرض نشاط ہے، شغل شراب سے جن کی حلال چیز کو گویا حرام کرتے ہیں الٰہی سحر ہے پیران خرقہ پوش میں کیا کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہیں میں ان کی محفل عشرت سے کانپ جاتا ہوں جو گھر کو پھونک کے دنیا میں نام کرتے ہیں جہاں کو ہوتی ہے عبرت ہماری پستی سے نظام دہر میں ہم کچھ تو کام کرتے ہیں بھلا نبھے گی تری ہم سے کیونکر اے واعظ کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں ہرے رہو وطن مازنی کے میدانو جہاز پر سے تمہیں ہم سلام کرتے ہیں جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبال بلا کے دیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں (مازنی اٹلی کے محسنین کا گروہ تھا۔ یہ شعر اس وقت لکھا گیا جب کہ اس ملک کا ساحل نظر کے سامنے تھا) مارسیلز تک پہنچنے میں چھ روز صرف ہوئے کچھ تو اس وجہ سے کہ سمندر کا آخری حصہ بہت متلاطم تھا اور کچھ اس خیال سے کہ اصلی راستے میں طوفان کا اندیشہ ہو گا۔ ہمارا کپتان جہاز کو ایک اور راستہ سے لے گیا جو معمولی رستے سے کسی قدر لمبا تھا۔ ۲۳ کی صبح کو مارسیلز یعنی فرانس کی ایک مشہور تاریخی بندرگاہ پر پہنچے اور چونکہ آٹھ دس گھنٹے کا وقفہ مل گیا تھا اس واسطے بندرگاہ کی خوب سیر کی مارسیلز کا فوٹر ڈام گرجا نہایت اونچی جگہ پر تعمیر ہوا ہے اور اس کی عمارت کو دیکھ کر دل پر یہ بات منقوش ہو جاتی ہے کہ دنیا میں مذہبی تاثیر ہی حقیقت میں تمام علوم و فنون کی محرک ہوئی ہے۔ مارسیلز سے گاڑی پر سوار ہوئے اور فرانس کی سیر بھی ’’ حسن رہگذرے‘‘ کے طریق پر ہو گئی۔ کھیتیاں جو گاڑی کے ادھر ادھر آ جاتی ہیں ان سے فرانسیسی لوگوں کا نفیس مذاق مترشح ہوتا ہے۔ ایک رات گاڑی میں گئی اور دوسری شام ہی لوگ برٹش چینل کو کراس کر کے ڈودر اور ڈودر سے لندن پہنچے۔ شیخ عبدالقادر کی باریک نگہ نے باوجود میرے انگریزی لباس کے مجھے دور سے پہچان لیا اور دوڑ کر بغل گیر ہو گئے۔ مکان پر پہنچ کر رات بھر آرام کیا۔ دوسری صبح سے ’’ کام‘‘ شروع ہوا۔ یعنی ان تمام فرائض کا مجموعہ جن کی انجام دہی نے مجھے وطن سے جدا کیا تھا اور میری نگاہ میں ایسا ہی مقدس ہے جیسے عبادت۔ والسلام از کیمبرج ۲۵ نومبر ۱۹۰۵ء آپ کا اقبال1؎ (اخبار ’’ وطن‘‘ لاہور ۴۹ جلد ۵ مورخہ ۲۲ دسمبر ۱۹۰۵ئ) مذکورہ دونوں خط اقبال نے جو اپنے دوست مولوی انشاء اللہ خاں مدیر ہفت روزہ ’’ وطن‘‘ لاہور کو لکھے تھے۔ ان کا مکمل متن اس لئے 1؎ مقالات اقبال مطبوعہ اشرف پریس ص ۶۳ سے ص ۸۳ تک۔ پیش کیا گیا ہے تاکہ یہ معلوم کرنے میں آسانی ہو کہ جب اقبال مولانا غلام حسن اور علامہ سید میر حسن صاحبان سے استفادہ علمی کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یورپ تشریف لے گئے تو ان کے جذبات کیا تھے؟ ان خطوط کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اولیائے کرام کے مزاروں پر حاضری دینا اور ان کے توسط سے دعا مانگنے کو فریضہ دینی سمجھتے تھے۔ قومی تشخص کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھنے کے متمنی تھے۔ نوجوانوں میں تعلیم کا شوق ابھارنے کی سعی کرتے تھے۔ فارسی لٹریچر سے غفلت کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ موسیقی کے دلدادہ اور حسن پرست تھے۔ ٹالسٹائی 1؎، مہاتما بدھ2؎ اور مازئی3؎ کے افکار کا احترام کرتے تھے اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے۔ مناظر فطرت کے تماشائی اور شیدائی تھے۔ طنز و مزاح سے بضرورت کام لیتے تھے، باری تعالیٰ کی قوت لا متناہی کا درس دیتے تھے۔ حج بیت اللہ کو روحانی فیوض سمجھتے تھے شارع اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات پر جان و دل چھڑکتے تھے۔ سر زمین حجاز سے عشق تھا اور عرب کی زمین کو مقدس سمجھتے تھے اور اس خطے میں رہنے والوں پر رشک کرتے تھے اور خواہش کرتے تھے کہ ان کے جسم کی خاک اس سر زمین کے ذروں میں مل کر اس کے بیابانوں میں منتشر حالت میں اڑتی رہے۔ اور یہی ان کی تاریک زندگی کے دنوں کا آخر کفارہ بن جائے۔ یہ تاثرات اپنے دل میں لیے ہوئے اقبال سر زمین انگلستان میں ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ء کو وارد ہوئے اور ان کا کہا ہوا یہ مصرع کتنا صحیح ثابت ہوا: توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو ۲۵ ستمبر کو اقبال نے ٹرینی کالج یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ان کی متعلمانہ زندگی یورپ میں شروع ہو گئی۔ یہاں ای جی براؤن اور اسرار خودی کے مترجم ڈاکٹر نکلسن4؎ سے ملاقات ہوئی اور ان سے تبادلہ خیالات کے مواقع میسر آئے۔ کیمبرج یونیورسٹی میں پروفیسر براؤن5؎ 1؎ کاؤنٹ ٹالسٹائی ایک مصلح قوم تھا۔ انجیل کا یونانی زبان سے روسی میں ترجمہ کیا۔ جاگیردار تھا۔ لیکن اپنی زمین کاشتکاروں میں تقسیم کر دی۔ ملوکیت کا دشمن، صف اول کا ناول نگار، اشتراکیت کا دلدادہ، ۱۸۲۸ء میں پیدا ہوا اور ۱۹۱۰ء میں وفات پائی۔ اقبال نے پیام مشرق میں صحبت رفتگاں کے عنوان سے چند شخصیات کو مخاطب کیا ہے ان میں یہ بھی ہیں۔ 2؎ مہاتما گوتم بدھ (۵۶۰۔۴۸۸) بدھ مت کے بانی کپل دستو کے راجہ سدھارتھ کے فرزند زدان حاصل کرنے کے لیے آل اولاد سے کنارہ کشی کر کے ریاضتیں کیں۔ بھوکا پیاسا رہ کر عبادت میں مستغرق رہے۔ پٹنہ میں ایک بڑ کے درخت کے نیچے حقیقت سے روشناس ہوئے اور رفاہ عام میں اس کی تبلیغ کی۔ مہاراجہ اشوک نے جب بدھ مت اختیاز کیا تو یہ مذہب دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ پٹنہ اور سارناتھ میں ان کے مجسمے آج بھی بدھ دھرم کے پیروؤں کے لیے مقام زیارت ہیں۔ 3؎ مازنی (۱۸۰۵ء سے ۱۸۷۲ء تک) اٹلی کا مشہور سیاسی رہنما جمہوری اقدار کو استوار کرنے کے لیے طرح طرح کے مصائب میں مبتلا ہوا۔ جلا وطنی تک کی صعوبتیں برداشت کیں۔ وہ ادب کا مرد میدان تھا لیکن سیاست کے خار زار میں زندگی بھر الجھا رہا، جس سے ادب کو بے پناہ نقصان ہوا۔ البتہ سیاست میں کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ 4؎ ڈاکٹر نکلسن نے اقبال کی مشہور تصنیف اسرار خودی کا ترجمہ انگریزی زبان میں شائع کیا۔ جس سے علامہ اقبال کا تعارف ایک مشرقی عظیم فلسفی شاعر کی حیثیت سے یورپ میں ہوا۔ مشہور نقاد ایم فارسٹر اور پروفیسر ڈکنسن نے اس پر محققانہ تبصرے کیے۔ اور وارڈ سارلے سے ان کا تعلق زیارہ رہا۔ میک ٹیگرٹ1؎ جو فلسفے میں ہیگل کا متبع تھا اور فلسفے میں بین الاقوامی شہرت رکھتا تھا، سے گاہے گاہے استفادہ کیا۔ تقریباً تین سال علامہ اقبال نے یورپ میں طالب علم کی حیثیت سے گزارے۔ اس مدت میں کیمبرج سے بی اے کی ڈگری فلسفہ اخلاق میں بیرسٹری کا امتحان اور میونک یونیورسٹی جرمنی سے ۱۹۰۷ء میںThe Development of Metaphysics in Persian پر ایک مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۰۸ء میں جرمنی سے لندن واپس آ گئے اور اسکول آف پولیٹیکل سائنس میں داخل ہوئے اور تقریباً چھ ماہ لندن یونیورسٹی میں پروفیسر آرنلڈ 2؎ کے قائم مقام پروفیسر کے طور پر عربی کے پروفیسر رہے۔ اس دوران تقریر و خطابت کا مشغلہ جاری 3؎ رہا اور اسلامیات کے موضوع پر چھ لیکچر بھی دیے عام تقریروں کے علاوہ اسلام کے نظریات کو خصوصیت سے روشناس کراتے رہے اور اہل علم کی ایک کثیر جماعت کو متاثر کیا۔ علامہ اقبال کے پی ایچ ڈی کے مقابلے کی اشاعت کے بعد یورپ میں ان کی فلسفہ دانی کی دھوم مچ گئی۔ یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں قبل اسلامی فلسفہ ایران کے تحت ایرانی ثنویت، زرتشت، مانی و مزدک دوسرے حصے میں ایران کے نو فلاطونی ارسطالیتین، ابن مسکویہ (انتہائی علت کے باوجود اور انتہائی حقیقت علم) وحدت سے کثرت کیونکر پیدا ہوتی ہے۔ روح کیا ہے ابن سینا کے نظام فکر پر خیالات تیسرے حصے میں عقلیت کا عروج و زوال کے تحت فلسفہ عقلیت ہم عصری تحریکات فکر عقلیت کے خلاف رد عمل چوتھے حصے میں تصوریت اور حقیقت کے مابین تنازع پر تنقید کرتے ہوئے جوہر ماہیت، علم کی ماہیت، عدم کی ماہیت سے بحث کی ہے۔ پانچویں حصے میں تصوف پر اظہار خیال کیا ہے۔ تصوف کا ماخذ اور قرآن سے اس کا جواز، صوفیانہ مابعد الطبیعیات کے پہلو کے تحت حقیقت بطور شاعر الذات ارادے کے، حقیقت بطور جمال کے، حقیقت بطور نور یا فکر کے، حقیقت بطور نور کے، اس میں ایرانی ثنویت کی طرف رجعت، وجودیات، کونیات، نفسیات نیز حقیقت بہ حیثیت فکر کے۔۔۔۔ الجلیلی مذکورہ عنوانات کے تحت علامہ اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے اس کتاب کا اردو ترجمہ فلسفہ عجم کے نام سے میر حسن الدین نے ۱۹۲۷ء میں علامہ اقبال کی اجازت سے کیا تھا لیکن یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۳۶ء میں طبع ہوئی اور اس کے بعد متعدد ایڈیشن چھپے۔ علامہ نے اس کتاب کے دیباچے میں چند نکات قاری کے سامنے پیش 1؎ مشہور فلسفی ہیگل کا شاگرد جو جرمنی کا نامور فلسفی تھا۔ ٹیگرٹ کا ہیگل کے متعلق یہ خیال ہے کہ ’’ وہ خدا کا منکر تھا‘‘ حالانکہ اس کے دوسرے اجتہاد بھائی نے ان کو ’’ خدا پرست‘‘ کہا ہے۔ 2؎ پروفیسر سر ٹامس آرنلڈ اقبال کے مربی اساتذہ میں سے تھے جنہوں نے اقبال کی طبیعت کی مناسبت سے انہیں توجہ سے پڑھایا۔ علمی جستجو اور تلاش کے جدید طریقوں سے روشناس کرایا۔ شاگرد میں بھی اعلیٰ علمی ذوق پیدا کرنے کی پوری کوشش کی۔ انہوں نے اقبال کی غیر معمولی قابلیت کا صحیح اندازہ لگایا اور جس کے نتائج میں انہوں نے اپنی زندگی میں دیکھ لیے۔ گورنمنٹ کالج لاہور اور لندن یونیورسٹی دونوں میں اقبال کے معاون رہے۔ اقبال کی تحریروں کو وہ بے حد پسند کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے کہا: اقبال اگرچہ میرے شاگرد ہیں لیکن میں ان کی تحریرات سے بہت کچھ سیکھتا ہوں اور وہ ان کو خوش قسمت خیال کرتے تھے جن کے پاس ان کی تحریریں محفوظ ہیں۔ کچھ مسودے جو اقبال کے ہاتھ کے لکھے ہوئے تھے پروفیسر آرنلڈ نے محفوظ بھی کر لیے تھے۔ 3؎ اقبال کامل ص ۱۲ کیے ہیں جو اسی اردو ایڈیشن سے لیے گئے ہیں یہ تمہید اگرچہ مختصر ہے لیکن مختصر مفید کا حکم رکھتی ہے۔ چند ضروری نکتے یہ ہیں: ’’ مابعد الطبعی تفکر کا شوق ایرانیوں کی سیرت کے نمایاں خط و خال میں سے ہے۔ میرے خیال میں ایرانی ذہن تفصیلات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسی میں اس منتظمہ کا فقدان ہے جو عام واقعات کے مشاہدے سے اساسی اصول کی تفسیر کر کے ایک نظام تصورات کو بتدریج تشکیل دیتی ہے۔ دقیق النظر برہمن کی طرح ایک ایرانی بھی اشیاء کی باطنی وحدت کا تعقل کر لیتا ہے اول الذکر اس وحدت کو انسانی تجربے کے تمام پہلوؤں میں منکشف کرنے کی کوشش کرتا ہے اور مادہ میں اس کے پوشیدہ وجود کی مختلف پیراؤں میں توضیح کرنا چاہتا ہے اور آخر الذکر خالص کلیت سے مطمئن نظر آتا ہے اور اس کلیت کے باطنی مظروف کی تحقیق و تفتیش کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ایرانیوں کا تتلی کاسا بے تاب تخیل گویا ایک نیم مستی کے عالم میں ایک پھول سے دوسرے پھول کی طرف اڑتا پھرتا ہے اور وسعت چمن پر بہ حیثیت مجموعی نظر ڈالنے کے ناقابل نظر آتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کے گہرے سے گہرے افکار اور جذبات غیر مربوط اشعار (غزل) میں ظاہر ہوتے ہیں جو اس کی فنی لطافت کا آئینہ ہیں۔ ایک ہندی بھی ایک ایرانی کی طرح علم کے ایک اعلیٰ ماخذ کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن وہ ایک تجربے سے دوسرے تجربے کی طرف خاموشی کے ساتھ بڑھتا اور بے رحمی سے ان تجارب کا تجزیہ کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ کلیت ان تجارب سے منکشف ہو جائے جو ان کی تہہ میں پوشیدہ ہے ایرانی کو مابعد الطبیعیات کا بہ حیثیت ایک نظام فکر کے شعور خفی ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف ایک برہمن اس بات کو پوری طرح محسوس کرتا ہے کہ اس نظریہ کو ایک مدلل نظام کی صورت میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ان دونوں اقوام کے ذہنی اختلاف کا نتیجہ ظاہر ہے۔ اسلامی تصوف کے متعلم کو جسے اصول وحدت کی ایک جامع و محیط تشریح سے واقف ہونے کی خواہش ہو۔ اندلسی فلسفی ابن عربی کی ضخیم مجلدات دیکھنی چاہئیں۔‘‘ بہرحال اس زبردست آریائی خاندان کی مختلف شاخوں کی عقلی جدوجہد کے نتائج میں ایک حیرت انگیز مشابہت پائی جاتی ہے۔ تمام تصوری فلسفے کا نتیجہ ہندوستان میں بدھ، ایران میں بہاء اللہ اور مغرب میں شوپن ہو رہے جس کا نظام فلسفہ ہیگل کی زبان میں آزاد مشرقی کلیت اور مغربی جبریت کا امتزاج ہے۔ لیکن ایران کی تاریخ فکر ایک ایسے واقعے کو پیش کرتی ہے جو اسی کے لیے مخصوص ہے۔ ایران میں غالباً اسلامی اثرات کی وجہ سے اسلامی تفکر مذہب کے ساتھ غیر منفک طور پر متحد ہو گیا تھا اور ایسے مفکرین جو نئے انتظامات فکر کے بانی تھے ہمیشہ نئی مذہبی تحریکات کے بھی بانی رہے ہیں۔ بہرحال عربوں کے حملے کے بعد سے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے نو فلاطونی ارسالیئین نے فلسفہ خالص کو مذہب سے الگ کر دیا تھا لیکن یہ انفعال وجدانی محض ایک عارضی حادثہ تھی۔ یونانی فلسفہ جو ایران کی سر زمین کے لیے ایک بدیسی پودا تھا بالآخر ایرانی تفکر کا جزو لاینفک بن گیااور مابعد کے مفکرین جن میں ناقدین اور یونانی حکمت کے حامی بھی شامل تھے۔ ارسطو اور افلاطون کی زبان بولنے لگ گئے تھے اور ساتھ ہی ساتھ وہ قدیم مذہبی خیالات سے بھی بہت متاثر تھے۔ اس واقعہ کو ذہن نشین کر لینا بہت ضروری ہے تاکہ بعد اسلامی ایرانی تفکر کو پوری طرح سمجھنے میں مدد ملے۔ اس تحقیقات کا مقصد جیسا کہ ظاہر ہو جائے گا۔ ایرانی ما بعد الطبیعات کی آئندہ تاریخ کے لئے بنیاد تیار کرنا ہے ایسے تبصرے میں جس کا نقطہ نظر خالص تاریخی ہے ایسے تفکر کی امید رکھنی چاہیے جس میں جدت و اپچ ہو۔ تاہم حسب ذیل دو امور کی طرف آپ کی توجہ معطف کرانے کی جسارت کرتا ہوں: (۱) میں نے ایرانی تفکر کے منطقی تسلسل کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے اور اس کو میں نے فلسفہ جدید کی زبان میں پیش کیا ہے۔ (ب) تصوف کے موضوع پر میں نے زیادہ سائنٹفک طریقے سے بحث کی ہے اور ان ذہنی حالات و شرائط کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے جو اس قسم کے واقعہ کو معرض ظہور میں لے آتے ہیں لہٰذا اس خیال کے برخلاف جو عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے میں نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ تصوف ان مختلف عقلی و اخلاقی قوتوں کے باہمی عمل و اثر کا لازمی نتیجہ ہے جو ایک خوابیدہ روح کو بیدار کر کے زندگی کے اعلیٰ ترین نصب العین کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ چونکہ میں ژند سے ناواقف ہوں اس لیے زرتشت کے متعلق میری معلومات بالواسطہ ہیں۔ کتاب ہذا کے حصہ دوم کے لیے میں نے فارسی و عربی کے اصلی مسودوں اور ان مطبوعہ تصانیف کا مطالعہ کیا ہے جو اس تحقیق سے متعلق تھیں۔ (اقتباس از فلسفہ عجم از صفحہ ۱۳ تا ۱۶) جب اس کتاب کے ترجمے کی اجازت میر حسن الدین صاحب نے علامہ اقبال سے چاہی تھی تو علامہ موصوف نے ترجمہ کرنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ ان کو لکھا:’’ یہ کتاب اس سے اٹھارہ سال پہلے لکھی گئی تھی۔ اس وقت سے نئے امور کا انکشاف ہوا ہے اور خود میرے خیالات میں بھی بہت سا انقلاب آچکا ہے۔ جرمن زبان میں غزالی، طوسی وغیرہ پر علیحدہ کتابیں لکھی گئی ہیں جو میری تحریر کے وقت موجود نہ تھیں۔ میرے خیال میں اب اس کتاب کا صرف تھوڑا سا حصہ باقی ہے۔ جو تنقید کی زد سے بچ سکے۔‘‘ (فلسفہ عجم ص ۹) اقبال نے یورپ کا سفر سیر و تفریح یا تجارت کی غرض سے نہیں کیا تھا بلکہ ان کے اس سفر کی غرض و غایت اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا تھا۔ تحصیل علم کے ساتھ ساتھ انہوں نے مغرب کی زندگی کو مشرق کی زندگی سے مختلف پایا۔ مادیت کا دور دورہ تھا۔ روحانیت کا چراغ ٹمٹما رہا ہے۔ خدا اور بندے کے رابطہ کو گہری نظر سے دیکھا اور اس فضا میں اس امر کا تجزیہ بھی کیا چونکہ پہلو میں بیدار دل اور نظر محققانہ رکھتے تھے اس لیے مغرب کی کورانہ تقلید میں دوسروں کی طرح بہہ نہیں گئے بلکہ اس سمندر میں غوطہ زن بھی ہوئے اور ابھر کر بھی دکھایا۔ دماغ کی تربیت بھی کی نظر کو فردوس نظر بھی بنایا۔ اہل فرنگ کی زیر کی کو مشرقی بصیرت سے جانچا۔ مغربی تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کے معیار کو بھی پرکھتے رہے اور مشرقی اعلیٰ اقدار سے موازنہ بھی کرتے رہے۔ مختلف مجالس و محافل میں شریک ہوتے رہے۔ ہنگامہ آرائیوں کے ٹھاٹ بھی دیکھے۔ لیکن جب وہاں سے لوٹے تو کچھ سبق بھی وہاں سے لیتے آئے۔ انگلستان اور جرمنی میں ان متعلمانہ زندگی کے متعلق مرحومہ عطیہ فیضی کی کتاب ’’ اقبال‘‘ از حد معاون ثابت ہوتی ہے چونکہ یہ ایک معاصرانہ اور مستند ماخذ ہے جس کے آئینے میں اقبال کی سرگرمیاں دیکھی جا سکتی ہیں ان کے ذاتی خصائص صوفیانہ اور استغراقی کیفیات، ان کے استاد اور استانیاں جن سے انہوں نے فیض حاصل کیا۔ ان کا نظریہ فن؟ بذؒہ سنجی، طنز و ظرافت، مجلسیں اور دعوتیں؟ فلسفیانہ موشگافیاں! وطنیت اور شاعری سے متعلق ان کے جذبات غرضیکہ عطیہ فیضی نے اس ضمن میں جو اشارے کیے ہیں ان سے کار آمد نتائج اخذ ہو سکتے ہیں۔ ذیل میں ان ماخذ کی روشنی میں استفادہ کیا جاتا ہے جو ڈائری کی شکل میں ہیں: لندن۔ پہلی اپریل ۱۹۰۷ء آج مس بیک نے مجھے خاص طور سے یہ کہہ کر مدعو کیا کہ ایک ہوشمند پروفیسر جن کا نام اقبال ہے آپ سے ملنے کی غرض سے کیمبرج سے آر ہے ہیں۔ میں گنی اور اقبال تشریف لائے۔ میں نے انہیں بہت ہی فاضل پایا۔ عربی، فارسی، سنسکرت سب بخوبی جانتے ہیں بہت ہی ظریف اور باتونی ہیں میں نے پوچھا آپ کس غرض سے لندن آئے ہیں؟ کہا کہ فلسفہ کا مجھے بہت زیادہ شوق ہے یورپ میں جو کچھ میسر ہے حاصل کروں گا۔ جرمنی اور فرانس بھی جاؤں گا وہاں بہت کچھ ہے جو یہاں پر نہیں ہے حافظ کے زیادہ شائق معلوم ہوتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ حافظ کے حافظ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ جب حافظ کے رنگ میں ہوتا ہوں، اس وقت ان کی اسپرٹ مجھ میں آ جاتی ہے اور میں خود تھوڑی دیر کے لیے حافظ بن جاتا ہوں۔‘‘ مجھے حافظ کا کلام یاد تھا اسے سناتی رہی۔ انہوں نے فرمایا:’’ میں ایران میں رہ چکا ہوں۔ بابا فغانی ضرور پڑھیں۔ ہندوستان میں ان کے اشعار کو کوئی نہیں جانتا کہ بابا فغانی کتنے بلند پایہ شاعر ہیں۔‘‘ آج اقبال نے مجھے فراس کاٹی (Frascati) میں رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ کھانوں کی فہرست اور پھولوں کی سجاوٹ کو دیکھ کر میں دنگ رہ گئی۔ ہر رنگ اور ہر قسم کے کھانے بے حد لطیف اور لذیذ تھے۔ یہ سب کھانے انہی کی فرمائش سے تیار کئے گئے تھے۔ جب ان کی تعریف میں میں نے چند جملے کہے تو انہوں نے کہا:’’ میں دو شخصیتوں کا مجموعہ ہوں۔ ظاہری شخصیت ہر اس چیز کی قدر دان ہے جس کی قدر کرنی چاہیے اور جو کار آمد اور عملی ہے۔ دوسری باطنی شخصیت خواب دیکھنے والے فلاسفر اور صوفی کی سی ہے۔‘‘ لندن ۱۵ اپریل ۱۹۰۷ء آج اقبال کے لیے میں نے ایک پارٹی ترتیب دی جس میں مس سلوسٹر اور مس لیوسی جیسی مشہور خواتین بھی شریک تھیں جنہوں نے علم ادب اور فلسفہ کے امتحانات پاس کیے تھے اور ایم مینڈل اور ہیر میٹھ روز جیسے وایولن اور پیانو کے ماہر بھی شریک تھے۔ اقبال کی ظرافت کا کیا پوچھنا؟ ہر ایک کی ہجو میں اشعار کہتے اور ایک غزل لکھ کر مجھے اس وقت دی ان خواتین نے بھی خوب ہی عالمانہ اور ظریفانہ جواب دیے وہ بھی علم کی مخزن تھیں سوال و جواب اس قدر جلد ہوتے تھے کہ ان کا قلم بند کرنا دشوار نہیں بلکہ نا ممکن تھا۔ میں نے اقبال سے کہا کہ یہ سب باتیں لکھ دیں تو جواب دیا کہ ’’ کیا فائدہ؟ مناسب موقع پر جو کچھ کہا گیا وہ سب سن لیا، بس یہی کافی ہے ان باتوں کو قلم بند کرنے کی مطلق ضرورت نہیں۔‘‘ لندن ۲۲ اپریل ۱۹۰۸ء آج اقبال مجھے لینے کے لئے آئے۔ میں ان کے اور عبدالقادر صاحب کے ہمراہ کیمبرج گئی۔ ماشاء اللہ ان دونوں کی فصاحت و بلاغت کا کیا کہنا سارے راستہ ظریفانہ اور عالمانہ باتیں ہوتی رہیں۔ ۱۲ بجے سید علی بلگرامی صاحب کے مکان پر پہنچے۔ دن بھر وہاں مشاہیر آتے جاتے رہے۔ وقت لطف سے کٹ گیا مگر اقبال کی سنجیدہ اور شوخی کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ بظاہر قدرے خاموش اور سست مگر جہاں نے کچھ کہا بجلی کی تڑپ سے اس پر ایک نہ ایک فقرہ کس دیتے۔ میں نے طے کر لیا تھا کہ ان کا کلام لکھ لیا کروں گی۔ مگر انہوں نے روک دیا، یہ کہہ کر کہ باتیں وقتی ہوا کرتی ہیں۔ کیمرج پہلی جون ۱۹۰۷ء آج ندی کے کنارے درخت کے سایہ میں بہت بڑی پکنک پارٹی جمع ہوئی۔ پروفیسر آرنلڈ نے زندگی اور موت کے مسائل پر بہت کچھ باتیں کیں۔ آخر میں اقبال نے ایک بات کہی جس کے بعد بحث ختم ہو گئی۔ انہوں نے فرمایا:’’ زندگی موت کی شروعات ہے اور موت زندگی کی‘‘ یہ جملہ کہتے وقت ایک قسم کی تمسخرانہ مسکراہٹ ان کے چہرے سے نمایاں تھی۔ ۱۹ جون ۱۹۰۷ء پروفیسر آرنلڈ نے مجھے اور اقبال کو رات کے کھانے پر بلایا اثنائے گفتگو میں پروفیسر آرنلڈ نے کہا’’ مجھے ابھی معلوم ہوا ہے کہ جرمنی کے ایک مقام میں نایاب مخطوطات دریافت ہوئے ہیں اور ضرورت ہے کہ معلوم کیا جائے کہ وہ کیا ہیں؟ اقبال میں تمہیں وہاں بھیجنے کا خیال کر رہا ہوں اس لیے تم ہی اس کام کے لیے نہایت موزوں ہو۔ اقبال نے جواب دیا:’’ میں آپ کا شاگرد ہوں اور آپ میرے استاد ہیں شاگرد اپنے استاد کے سامنے کیا کر سکتا ہے؟‘‘ پروفیسر آرنلڈ نے کہا کہ ’’بعض اوقات شاگرد استاد سے بڑھ جاتا ہے اس کے علاوہ شاگرد کو اپنے استاد کا کہنا ماننا چاہیے۔‘‘ اقبال نے جواب دیا استاد کا علم شاگرد سے زیادہ ہوتا ہے اور اگر آپ کا یہی فیصلہ ہے تو میں آپ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں۔‘‘ اقبال نہایت شائستہ اور مہذب تھے اور ہمیشہ با موقع بات کرتے اور معقول لندن ۲۰ جون ۱۹۰۷ء آج شام کو اقبال چندعربی اور جرمن فلاسفروں کی کتابیں لائے اور سب میں سے تھوڑا تھوڑا سنایا۔ میں دیکھتی ہوں کہ اقبال جرمن فلاسفروں کی کتابوں سے زیادہ رغبت رکھتے ہیں۔ فارسی شعراء میں زیادہ تر حافظ کا کلام سناتے رہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ’’ اس طرح سنانے او ربحث کرنے سے میرے خیالات پختہ ہو جاتے ہیں۔‘‘ لندن ۲۲ جون ۱۹۰۷ء آج پونے تین بجے سے میرے یہاں مہمان آنا شروع ہو گئے۔ ہندوستان امارت پسند اور دلدادہ فیشن ڈاکٹر انصاری نے خوب گانا سنایا۔ سہنا کی پوتیوں مولا اور رمولا نے بھی گانا گایا۔ اور باجا بجایا اقبال کی طبیعت بظاہر اس قسم کے مجمعوں سے سست اور اچاٹ ہو جاتی ہے۔ مگر دراصل ایسا نہیں ہے ذرا موقع ملا تو انہوں نے اپنے ہجو کے برجستہ اشعار ہر ایک کی شان میں سنائے۔ جن سے ان کی باریک بینی کا کمال ظاہر ہوتا تھا۔ ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ گئے ۔ میں نے لکھنے کے لیے پنسل کاغذ نکالا۔ مگر عادت کے مطابق انہوں نے یہ کہہ کر روک دیا کہ ’’ یہ باتیں فقط وقتی ہوتی ہیں دوسرے یہ کہ کسی کو خیال نہ ہونا چاہیے کہ یہاں ایسے شوقین ا ور گہری دلچسپی رکھنے والے شاہد موجود ہیں۔‘‘ لندن ۲۷ جون ۱۹۰۷ء اقبال آئے اور مجھے اپنے مکان پر لے گئے جو ایک جرمن خاتون مس شولی کے زیر انتظام تھا بہت عمدہ اور نئے نئے قسم کے کھانے پکائے تھے یہ بہت ہوشیار خاتون ہے اقبال کا علمی مقالہ مکمل ہو چکا ہے۔ انہوں نے شروع سے اخیر تک اپنی تخلیقات کا خزانہ سنایا۔ میری رائے پوچھی تو میں نے چند باتیں کہیں جنہیں انہوں نے قلم بند کر لیا۔ اس کے بعد ہم امپیریل انسٹی ٹیوٹ کے سالانہ جلسے میں گئے جہاں شہزادیاں بھی آئی تھیں اقبال نے حسب عادت خوب فقرے کسے۔ جو سنتا ہنس پڑتا۔ الغرض جب واپس ہونے لگے تو کہا: مسرت بخش تضیع اوقات سوسائٹی میں اقبال کے بارے میں یہ شہرہ تھا کہ وہ لندن میں سب سے نیز طبیعت رکھنے والے ہندوستانی ہیں۔ ۲۹ جون ۱۹۰۷ء آج لیڈی ایلیٹ کے فیشن ایبل ’’ ایٹ ہوم‘‘ میں مس سروجنی داس بھی آئی تھیں۔ یہ میری ہم سفر تھیں بہت مالدار غضب کے کپڑے اور زیور پہنے ہوئے حد سے زیادہ بناؤ سنگار کیے ہوئے اپنے کو بہت کچھ سمجھ رہی تھیں۔ جب اقبال اور میں کمرے داخل ہوئے تو مجھے بالکل نظر انداز کرتے ہوئے ان کے پاس جھپٹ کر پہنچی اور کہا’’ او مسٹر اقبال!‘ میں صرف آپ سے ملنے کے لیے آئی ہوں۔‘ ‘ اقبال نے فوراً جواب دیا:’’ اگر یہ میری عزت افزائی ہے تو پھر میں اس کمرے سے زندہ نہ نکل سکوں گا۔‘‘ لندن ۴ جولائی ۱۹۰۷ء اقبال پونے تین بجے مجھے لینے کے لیے آئے اور میں ان کے ہمراہ ان کے یہاں گئی چائے وہیں پی اور کھانا بھی وہیں کھایا جسے مس شولی نے پکایا تھا۔ اقبال کی تاریخ تیار ہو چکی ہے اور انہوں نے شروع سے آخر تک سنائی۔ جب میں نے ایک دو ریمارک کیے تو کہا کہ ’’ ہر شخص ایک چیز کو اپنے ہی خیال کے مطابق دیکھتا ہے مگر میں دنیا کی تاریخ کو اس طرح دیکھتا ہوں۔‘‘ ماشاء اللہ کیا حافظہ ہے اقبال علم کا مخزن ہے۔ انہوں نے تاریخ نئے زاویہ سے لکھی ہے۔ لندن ۱۳، ۱۴، ۱۵ جولائی ۱۹۰۷ء اقبال نے یہ طے کیا ہے کہ ہم روزانہ ان کے مکان پر دو گھنٹے کے لیے ۵ سے ۷ تک جائیں۔ ہیر شکان جوا بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر جرمنی سے آئے ہیں۔ بہت ہوشیار اور دلچسپ آدمی ہیں وہ اور اقبال فلسفہ اور شاعری کے سبق پڑھتے اور پھر ان پر بحث کرتے۔ یہ سبق برابر روزانہ چلتے تھے اور اس قدر دلچسپ ہوتے تھے کہ بیان سے باہر ہے میں نے معلوم کیا کہ اقبال اپنے افکار عالیہ میں جرمن فلسفہ اور شاعری کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ تاریخ سے بھی لگاؤ ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ’’اگر علم کو پختہ کرنا ہو تو جرمنی جاؤ‘‘ میں نے کہا کہ ’’ اس طرح پڑھنے اور بحث کرنے سے ایک نئی دنیا سامنے آ جاتی ہے۔‘‘ اقبال نے جواب دیا کہ ’’ در حقیقت اس طرح سکھانے سے میں خود سیکھتا ہوں۔‘‘ لندن ۱۶ جولائی ۱۹۰۷ء آج اقبال نے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ’’ پولیٹیکل اکانومی‘‘ کا نسخہ مجھے دیا۔ کتنے مہربان ہیں او روہ علمی مقالہ بھی مجھے بخشا جس کے لکھنے پر انہیں بی اے کی ڈگری عطا ہوئی عام طور سے یہ بات مشہور ہے کہ اقبال بہت ہی فاضل اور تیز فہم اسکالر (طالب علم) ہیں۔ اس مقالہ کا ترجمہ جرمن زبان میں ہو رہا ہے۔ لندن ۲۳ جولائی ۱۹۰۷ء آج ایک علمی مذاکرہ ہوا، جس میں اقبال کی نظمیں گائی گئیں۔ ایک بہت ہوشیار طالب علم پر میشور لال نے ’’ مخزن‘‘ کے مضامین اور خطوط سنائے، جن میں یہ لکھا تھا کہ اقبال نے قومی نظمیں کہہ کر دنیا میں ایک نئی روشنی پھیلائی ہے تمام شمالی ہندوستان میں گویا جوش کا زلزلہ پیدا ہو گیا ہے۔ گلی کوچوں اور شاہراہوں میں ان کی نظمیں پڑھی جاتی ہیں۔ ان کی نظمیں خاص کیفیت اور اثر پیدا کرتی ہیں اور ساری قوم وجد میں آ گئی ہے۔ میں نے وہ خط پیش کیا جسے اقبال نے جرمنی سے جرمن زبان میں لکھا تھا۔ اسے سن کر سب نے واہ واہ کی۔ ومبلڈن ۲ اگست ۱۹۰۷ء میں اور اقبال پہلے انتظام کر کے پروفیسر آرنلڈ کے یہاں و مبلڈن گئے۔ میاں بیوی دونوں فرشتہ ہیں اور ایک مقدس جنت میں رہتے ہیں ان کی نو سالہ لڑکی بھی ماں باپ کی طرح ذہین ہے اور ایک چمکتی ہوئی تتری کی طرح ادھر سے ادھر پھرکتی پھرتی ہے۔ پروفیسر آرنلڈ کو اقبال سے بے حد محبت ہے اور وہ ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ میں ان کا پروفیسر تھا اور اقبال میرے خاص شاگرد تھے۔ مگر ان کی عقل اور سمجھ اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ میں پڑھاتے پڑھاتے خود سیکھتا چلا جاتا تھا۔ اقبال بہت بلند پایہ قابلیت رکھنے والے شخص ہیں۔ رفتہ رفتہ تمام دنیا ان کی قدر کرنے لگے گی۔‘‘ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’ آپ خوش نصیب ہیں کہ انہوں نے آپ کو ایسا معقول خط لکھا میں چاہتا ہوں کہ اس چٹھی کو میں اپنے مجموعہ میں شامل کر لوں اس لیے کیا آپ ازراہ مہربانی خط مجھے عنایت کر دیں گی۔‘‘ ایک بزرگ سمجھ کر اور موقع کی نزاکت کا خیال کر کے میں نے چپ چاپ اقبال کا خط ان کو دے دیا۔ لندن ۶ اگست ۱۹۰۷ء آج اقبال کا خط آیا جس میں مجھے تین ہفتہ کے لیے اپنا مہمان بنانے کی دعوت دی ہے۔ وہ مجھے ہائیڈ لبرگ، میونک اور لیپزگ کی لائبریریاں اور عجائب گھر دکھانا چاہتے ہیں انہوں نے ان سب کی فہرستیں جمع کر لی ہیں۔ باقی وہاں چل کر دکھائیں گے میں نے جواب میں لکھا کہ ۱۹ تاریخ کو یہاں سے چلوں گی اور ان کی ہدایت کے مطابق کاغذات بھی ہمراہ لاؤں گی۔ ہائیڈ لبرگ ۱۹،۲۰ اگست ۱۹۰۷ء ہم ۱۹ ویں تاریخ کو پانچ چھ اشخاص کی ٹولی میں لندن سے نکلے اور ۲۰ اگست کو ٹھیک پانچ بجے ہائیڈ لبرگ کے خوبصورت شہر میں پہنچ گئے۔ وہاں کی یونیورسٹی کے بہت سے لوگ استقبال کے لئے آئے اور ان سب میں نمایاں اقبال تھے۔ جنہیں ہیر پروفیسر اقبال کہہ کر پکارا جاتا ہے اقبال نے بے حد ممنونیت اور خوشی کا اظہار کیا اور سب کا تعارف کرایا سارا قافلہ چل کر مکان پر پہنچا اقبال نے مجھے اور دو پروفیسر لڑکیوں کو جن کے نام ویگے ناست اور سینے شل ہیں لے کر گروپ کے آگے آگے چلے۔ اقبال ہر موقع پر پیشوائی کے فرائض ادا کرتے ہیں۔ میرے آنے سے بیحد خوش ہوئے اور کہا کہ جو کام مجھے کرنے ہیں وہ اب بالکل مکمل ہو جائیں گے ہم سب یونیورسٹی کے باغ میں جا کر بیٹھے اور بہت مزیدار کافی پی اور دوسری لذید چیزیں بھی کھائیں میں اقبال کو اس قدر بے تکلف دیکھ کر حیران ہو گئی۔ پکانے میں خود شریک ہوتے اور گھر کے ہر کام میں بھی حصہ لیتے۔ وہاں کی فضا ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ ایک باقاعدہ منظم اور مہذب گھر معلوم ہوتا ہے۔ جس میں طالب علم اور پروفیسر ہر شعبہ میں سیکھتے اور سکھاتے ہیں البتہ ہیر پروفیسر اقبال نہایت ذہین شمار کیے جاتے ہیں مگر یہ دونوں جوان اور بے حد خوب صورت لڑکیاں ویگے ناست اور سینے شل ان کو برابر سبق دیتی ہیں اور اقبال ان ہی سے جرمن اور دقیق مضامین سیکھتے ہیں۔ پڑھنے پڑھانے کے اوقات صبح سے رات تک ہیں۔ اسی میں استاد کشتی رانی میں شریک، پیدل سیر میں شریک رہتے ہیں۔ دریا کے کنارے بیٹھ کر کلاسیکل موسیقی کا دور چلتا ہے خود فراہیرن جو تقریباً سو پروفیسروں اور طالب علموں کو یونیورسٹی ہوٹل میں رکھتی ہیں اور جن کی عمر ۷۰ سال سے اوپر ہے۔ سب سے ذہین اور کمال کی موسیقی دان ہیں۔ اقبال ہر کام میں ایک بچے میں کی طرح شریک رہتے ہیں اور دانشمندانہ طریقہ سے دلچسپی لیتے ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اوقات کے پابند نہیں ہیں اور ان کے لیے ٹھہرنا پڑتا ہے مگر سب لوگ اس بات سے واقف اور اس کے باوجود اقبال کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں یہاں پر میں نے ان میں ایک غیر معمولی بات دیکھی یعنی طبیعت کی سادگی اور تحمل۔ ہائیڈ لبرگ ۲۱ اگست ۱۹۰۷ء یہاں اساتذہ کو کھانے پینے اور قیام کرنے کا کچھ دینا نہیں پڑتا وہ مفت رہتے ہیں۔ انہیں اور بھی بے شمار مراعات حاصل ہیں آج دن بھر کے سبقوں کے بعد اقبال فرالدین پروفیسر ویگے ناست اور سینے شل کوندی کے کنارے قہوہ خانہ میں لے گئے۔ فرانسیسی، یونانی اور جرمن فلسفہ پر بحث شروع کی۔ یہ لڑکیاں تینوں زبانیں بہت اچھی طرح جانتی ہیں اس وقت میں نے دیکھا کہ اقبال نہایت منکسر المزاجی سے ایک ایک لفظ بغیر ان کی باتیں سننے اور اپنے خیالات میں اس قدر غرق رہے تھے اور جب جانے کا وقت آیا تو اس وقت محسوس ہوا، گویا کہ وہ خواب سے اٹھے ہیں برعکس اس کے لندن میں بڑے خود رائے تھے مگر یہاں بات بات پر ان کی منکسر المزاجی ظاہر ہوتی ہے تھوڑی دیر میں سب آ کر شریک ہو گئے اور ہم ندی کنارے اس پار جا کر اونچی چڑھائی چڑھے، جس کی کوئی ایک ہزار کے قریب سیڑھیاں ہوں گی اور سینے شل نے آپرا موسیقی شروع کر دی اور یوں گاتے بجاتے اوپر پہنچے سب سے کہا گیا کہ اس کی تاریخ بتاؤ۔ اقبال کی تاریخ درست نکلی وادی نیکر کا سب سے اچھا نظارہ یہاں نمایاں ہے۔ لہٰذا شلوس فلاں سال میں فلاں نے بنایا اقبال کورس (Chorus) میں بھی شریک ہوئے۔ مگر آواز ندارد بالکل بے سرے تھے۔ مگر شریک ضرور ہوتے۔ ہائیڈ لبرگ ۲۲ اگست ۱۹۰۷ء آج علی الصبح ہم سب تیار ہو کر جمع ہوئے، دیکھا تو اقبال ندارد سب ادھر ادھر دیکھنے لگے گاڑی کا وقت ہوا جا رہا تھا اتنے میں ایک خادمہ چلاتی ہوئی آئی اور کہا معلوم نہیں ہیر پروفیسر کو کیا ہو گیا ہے۔ خیران کے کمرے میں گئے دور سے دیکھا کہ بتی جل رہی ہے اور اقبال ایک ہاتھ سر پر رکھے ہوئے بیٹھے ہیں، آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور چار کھلی ہوئی کتابیں میز پر پڑی ہیں۔ جب زور سے انہیں پکارا تو بھی جواب ندارد آگے بڑھنے کی کسی کی ہمت نہ ہوئی فرابیون نے آخر کار مجھ سے کہا کہ ’’ آپ ہی اندر جا سکتی ہیں۔‘‘ خیر میں آہستہ آہستہ گئی دیکھا تو سانس چل رہا ہے مگر خلاء میں کچھ دیکھ رہے ہیں خیر میں نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں جھنھوڑا اور اقبال، اقبال کہہ کر پکارا تو تھوڑی دیر کے بعد وہ ہوش میں آئے۔ ادھر ادھر دیکھا کہ کہاں ہیں پھر کچھ یاد کر کے کہا ’’میں عالم بالا میں چلا گیا تھا‘‘ میں نے کہا: آپ کے لئے ٹرین ٹھہر نہیں سکتی ذرا جلدی آئیے ؟ خیر بہت مسکراتے ہوئے باہر آئے اور ہم سب روانہ ہوئے اور کوئی ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد نائن باٹم پہنچے وہاں سے تین چار میل کی چڑھائی چڑھ کر پہاڑ کی چوٹی پر گئے، جہاں ایک ہوٹل واقع ہے میں نے اقبال سے کہا’’ یہ کیا شعبدہ بازی ہے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ فلاں فلاں کتابیں رات کو پڑھ رہا تھا اتنے میں خیال میرے جسم سے الگ ہو گیا اور وہاں پہنچ کر بھی میری حالت پریشان تھی کہ اتنے میں آپ نے مجھے نیند سے جگا دیا۔ میں چپ چاپ سنتی رہی اور وہ رفتہ رفتہ اپنی اصلی حالت پر آ گئے اور ہنسی مذاق کرنے لگے اور کھانے اور گانے دونوں میں شریک ہوئے۔ یکایک فرا ویگے ناست نے گانا شروع کیا:’’ گجرا بیچن والی ناداں، یہ تیرا نخرا‘‘ جس میں سب نے ساتھ دیا۔ اقبال کی آواز نکل نہیں رہی تھی مگر ان میں کلاسیکل موسیقی سمجھنے اور اس کی قدر کرنے کا مادہ ضرور تھا۔ یہ گانا میں نے سکھایا تھا جب ہم سب نے پہاڑوں پر بہت سے پھول جمع کر کے مکٹ بنا کر سروں پر پہنا اس وقت سب سے پہلے پھولوں کا مکٹ اقبال کے سر پر رکھا گیا اور کہا گیا’’ ہم آپ کو معلوم اور نا معلوم دنیا کی بادشاہت کا تاج پہناتے ہیں۔‘‘ اس پر خوب مذاق رہا۔ ہائیڈ لبرگ ۲۲ اگست ۱۹۰۷ء آج ہمارا قافلہ پونے تین بجے روانہ ہو گیا اور ہم سات بجے اپنے مکان پر پہنچ گئے یہ سیر سپاٹے سیکھنے کی غرض سے کئے جاتے ہیں اور قافلہ سالار ہمیشہ اقبال ہوا کرتے تھے وہ مختلف مقامات کا تاریخی حال بیان کرتے چلے جاتے ہیں اور ان کی بھویں دوسرے پروفیسر درست کر دیتے ہیں جب تاریخ بیان ختم ہو جاتا ہے تو اپرا او زد موسیقی کا دور چلتا ہے۔ تمام باتیں قاعدے سے ہوتی ہیں اس کے بعد بجلی کی گاڑی پر بیٹھ کر جھٹ پٹ ایک پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ گئے جس کا نام ہے کونگ اسٹال (یعنی بادشاہ کا قدمچہ) اقبال اس پر بیٹھے اور انہوں نے کچھ اشعار ہر ایک کی شان میں کہے ہندوستانی بہت ہنسے جرمن اور دوسرے لوگ سوال کرنے لگے تو ان کے جواب میں اقبال نے کہا ’’ میں آپ کو آسمانی زبان میں حکم دیتا ہوں کہ میجک سرکل بنائیں اور ہمیں فرشتوں کا نغمہ سنائیں۔‘‘ اس حکم کی تعمیل فوراً ہوئی اور کسی آپرا کا ایک حصہ ہم سب نے ایکٹ کر کے گایا اور بجایا۔ اس کے بعد کوہ لوف گئے جو تین میل دور تھا۔ یہ سارا علامہ کسی زمانہ میں ایک بادشاہ کے باغات میں شامل تھا جن میں وہ چہل قدمی کیا کرتا تھا ان باغات کو بارہ دریوں سے سجایا گیا تھا۔ گرد و پیش کے منظر کا کیا پوچھنا۔ اقبال کی ظرافت کا کیا ٹھکانا۔ ہر کام میں طالب علموں کی طرح شریک ہیں مگر اپنی با وقار شخصیت کی وجہ سے سب سے نمایاں ہیں اور ان کی مرضی کے خلاف کوئی کچھ نہ کرتا۔ مگر وہ کسی کو ناراض نہ کرتے بلکہ شوق سے ہر کام میں شرکت کرتے۔ واپسی کے وقت ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر دو تین کی صف بنا کر دوڑتے ہوئے سات بجے آئے۔ کل کے لیے مقرر ہوا کہ سوال و جواب ہوں گے۔ ہائیڈل برگ ۲۵ اگست ۱۹۰۷ء آج شام کی سمت میں ٹرین میں چل کر ایک گھنٹہ میں اس جگہ پہنچے جہاں کسی بادشاہ نے اپنے ’’ باغ فردوس‘‘ میں ہر ملک کے لیے عبادت گاہیں بنائی تھیں ایک مسجد بھی تعمیر کی تھی یہاں یونانی مجسمے ہیں اور اپالو دیوتا کا معبد بھی موجود ہے آبشار، تالاب اور پھل دار درخت بھی ہیں ۔ جہاں طرح طرح کے پرندے نغمہ سرائی کرتے ہیں آخر ایک جگہ گئے جو مسجد نما عمارت تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کو اسلام سے زیادہ دلچسپی تھی اور اسی لیے اس نے ایک خوب صورت مسجد بھی تعمیر کی تھی۔ اس میں عربی میں اللہ کے نام لکھے ہوئے تھے اور کچھ سورتیں بھی کندہ تھیں جنہیں اقبال نے پڑھ کر سنایا اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ اس کی یوں بیان کی:’’ ایک مسلمان حور تھی اس نے بادشاہ سے کہا کہ اچھا میں تمہاری بیگم ہوں اگر تم مسلمان ہو جاؤ گے اور ایک مسجد بناؤ گے جہاں ہمارا نکا ح ہو گا۔ اس لیے فوراًیہ مسجد تعمیر کرائی گئی اور یہیں گویا ان کا نکاح پڑھوایا گیا!‘‘ سب یہ کہانی سن کر حیران ہو گئے کسی کو بھی یہ حال معلوم نہ تھا ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے مگر کہتے بھی تو کیا کہتے پھر اقبال نے کہا:’’ مجھے بہت سے اندرونی حالات معلوم ہو جاتے ہیں جو آپ کو معلوم نہیں ہو سکتے۔‘‘ اس طرح ہر وقت ہر لحظہ دھونس جماتے لوگ اگر سمجھتے بھی تو منہ پر کچھ نہ کہتے۔ اس لیے کہ اقبال سے سب کو محبت تھی اور سب ان کی عزت کرتے تھے ہم لوگوں کا دم مارے ہنسی کے گھٹ جاتا مگر ان کے چہرے پر ذرا تبدیلی پیدا نہ ہوتی۔ ہائیڈ لبرگ ۲۶ اگست ۱۹۰۷ء فراہیون نے کہا کہ فلاں گاؤں میں جو پہاڑ کی چوٹی پر ہے۔ آپ سب چلیے اور دیہاتی ناچ دیکھئے جو سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے ہم کوئی سو آدمی تھے ہنستے کودتے، گاتے، کھاتے ٹرین میں سوار ہوئے جرمن لوگ بھی کیسے بے تکلف اور ذہین ہوتے ہیں واللہ چوٹی پر پہنچے جہاں پرانے کھنڈرات کو ایک میوے کے باغ میں تبدیل کر دیا گیا تھا وہاں ہم سب نے توڑ توڑ کر انگور، بیر، ناشپاتی اور امرود کھائے اطراف و جوانب کے کسان رنگ برنگ کا خوب صورت لباس پہنے ہوئے آئے اور مروجہ دیہاتی ناچ ناچے۔ بعض کی آواز ایسی تھی کہ وادی گونج جاتی ہم سب نے اپنے اپنے تاثرات تحریر کیے میں نے ہندوستان کے دیہاتی ناچوں اور موسیقی پر کچھ لکھا اور کچھ اسکیچ بنائے جب مکان پر آئے تو فرابیون نے کہا کہ سناؤ اور اپنی اپنی تصویریں دکھاؤ اقبال کی طرف بھی دیکھا حاضر جواب تو تھے ہی فوراً کہا کہ ’’ چونکہ میں جج ہوں اس لیے میں اگر لکھتا تو ظاہر ہے کہ میں حکم نہیں بن سکتا تھا اس لیے دوسروں کو موقع دیا میرا مضمون سب سے زیادہ پسند کیا گیا یہ ان کی مہمان نوازی تھی۔ تصویر کشی میں دوسروں کو اچھا بتایا۔ مگر سب نے واقعی کمال کر دکھایا۔ واہ واہ آفرین سے اقبال جیسے شخص کو بھی صفائی سے شال میں لپیٹ لیا ہے مگر اس میں شک نہیں کہ وہ ہر بات میں کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں۔‘‘ ہائیڈل برگ ۲۷ اگست ۱۹۰۷ء صبح آٹھ بجے کے قریب ہم سب نکلے اور چھ گھنٹے میں میونک پہنچ گئے۔ ہمارے فلسفی رہنما نے یہ انتظام کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’ میونک موسیقی اور شاعری کا مجسم تخیل ہے‘‘ اور حقیقت بھی یہی ہے ایک ہوٹل میں گئے اور کھانا کھا کے فوراً چلے اقبال قدم قدم پر دلچسپ واقعات اور مشاہیر کے کارنامے بیان کرتے چلے جاتے تھے آخر محل اور انگریزی باغات میں پہنچے وہاں کتابیں نکالیں اور کہا ہر سال تین مہینے میں آپ کے پاس آ کر رہوں گا اور علم النفس، تاریخ، اخلاقیات، فلسفہ اخلاق، شاعری اور فلسفہ ما بعد الطبیعات کے بارے میں جرمنوں نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ سب پڑھاؤں گا جن کتابوں کے نام بتائے ان کے بارے میں کہا’’ ان کا مطالعہ کرنا اور تنقید لکھنا، تصوف کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔‘‘ اس طرح شام تک دو ڈھائی گھنٹے تک ہم باغ میں فلسفیانہ سبق پڑھتے رہے۔ میونک ۲۸ اگست ۱۹۰۷ء آج بہت سویرے نکل گئے قدیم و جدید قومی میوزیم، محلات، باغات، پکچر گیلریاں، گیلری اسکول، شہنشاہ لڈوک ثانی کی گیلری آف بیوٹیز کو دیکھا۔ اقبال بظاہر سست دکھائی دیتے تھے۔ مگر جب ان مقامات پر گئے تو انہیں اس قدر پرجوش اور زندگی سے بھرپور پایا کہ میں حیرت سے ان کو دیکھتی تھی اور ان کی باتیں سنتی تھیں۔ البتہ انہیں کلاسیکل موسیقی میں دخل نہیں ہے مگر وہ اس کے قدر دان بہت ہیں۔ ’’ جزیرہ مست‘‘ کی جو تصویر وھنڈ نے بنائی ہے اس کے سامنے کھڑے ہو کر اقبال نے کہا:ـ’’ شہر میونک ہی جزیرہ مسرت ہے جو خوبصورت تصور کے دریا میں ڈوبا ہوا ہے۔ شام کو ہیر پروفیسر رین کے مکان پر گئے۔ ان کی بیش بہت قابل اور بہت زیادہ حسین، اقبال کی پروفیسر رہ چکی ہیں۔ اس نے اقبال کو جرمن زبان اور دقیق کتابیں پڑھائی ہیں۔ فوراً ہی مذاکرۃ علمی شروع ہو گیا۔ فرلاین اقبال کا امتحان بہت دلچسپ طریقے سے لے رہی تھیں اقبال جواب دیتے تھے اور فرالاین کہتی تھی کہ یوں نہیں یوں میں حیرت کے عالم میں مستغرق تھی اور دل میں کہتی تھی کہ کتنی قابل اور لائق نازنین ہے کہ اقبال جیسے شخص کو بھی ٹوکتی ہے ان کے سوال و جواب سے بہت لطف آیا۔ اس کے بعد اس نے پیانو بجایا کیا کہنا ہر فن میں کامل و اکمل سوال و جواب میں تین گھنٹے لگ گئے گفتگو دماغ و قلب کو بہت کچھ منور کرنے والی تھی میں نے دیکھا کہ وہ اقبال کی اچھی خبر لیتی ہے۔ اقبال اس کے سامنے بالکل بے زبان او رمنکسر المزاج بنے رہتے ہیں۔ فرالائن نے کہا:’’ اقبال نے تین مہینے میں جتنی جلد جرمن زبان سیکھی ہے اتنی جلد کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘ اقبال نے جواب دیا اگر یہ تیز اور میٹھی چھڑی میری استاد نہ ہوتی تو ناممکن تھا کہ میں کچھ سیکھتا۔ انہوں نے اپنی کتاب جرمن میں لکھی ہے جس کی وجہ سے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی۔‘‘ میونک ہائیڈ لبرگ ۲۹ اگست ۱۹۰۷ء آض بہت سویرے اقبال کی رہنمائی میں ایک لمبی ڈرائیور کی شہر کا گرد و پیش خوبصورت ہے لائبریری میں ٹھہر کر انہوں نے چند قدیم عربی مخطوطات دکھائے اور کہا کہ ’’ مجھے یہاں عربی کا علم حاصل ہوا ہے۔‘‘ پھر اسٹیشن پر گئے اور پیارے ہائیڈ لبرگ پہنچ گئے۔ سب استقبال کے لیے پھولوں کے ہار ہندوستانی وضع میں گوندھے ہوئے لائے اور مکان کو چلتے چلتے سوالات پوچھتے رہے کہ اقبال نے کیا کیا دکھایا اور کیا کیا سنایا کیونکہ انہیں تاریخ بہت زیادہ یاد ہے اور میونک پسند بھی بہت ہے سینے شل نے کہا کہ ’’ آپ لوگوں کی خوش نصیبی ہے جس سے ہم سب بھی بہت خوش ہیں۔‘‘ وہ میرے لیے گلاب لائی تھیں یہ دیکھ کر اقبال نے کہا ’’ گلاب کا پھول گلاب ہی دیتا ہے۔‘‘ بڑے حاضر جواب ہیں۔ ہائیڈ لبرگ ۱، ۲ ستمبر ۱۹۰۷ء آج ہم میڈم شیرر کی رہنمائی میں دودن کے سیر سپاٹے کے لئے آئیر باغ گئے یہاں ایک نیچر ہسٹر میوزیم ہے اور اسلحہ کا بھی عجائب خانہ ہے ہر قسم کے پرندے مسالے بھر کر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی تاریخ بھی درج تھی اور یہ بھی دکھایا گیا تھا کہ ان کی زندگی کیسے گزرتی ہے۔ اسلحہ کے برتنے کے طریقے کھیلوں کے ذریعے دکھائے گئے تھے۔ یہ بہت کاریگری اور ہنر کا کام ہے اس میں اقبال نے بالکل کمال کر دیا معلوم نہیں تھا کہ ان چیزوں میں بھی ان کو دخل ہے کس قدر نیا اور دلچسپ طریقہ ہے تعلیم دینے کا یہ سب باتیں یہاں کی تعلیم میں شامل ہیں یہی غالباً سبب ہے کہ اقبال جرمنی اور جرمن لوگوں کے دلدادہ اور شیدا ہیں۔ ہائیڈ لبرگ ۳ ستمبر ۱۹۰۷ء اقبال کی ظرافت اور حاضر جوابی بے مثل ہے چونکہ کوچ ہے لہٰذا ہم سب کھڑے کھڑے بات چیت کر رہے تھے۔ فرالائن، ویگے ناست، سینے شل اور کارڈینا میرے گرد و پیش تھیں۔ اقبال سامنے کھڑے ٹکٹکی لگائے بت بنے دیکھ رہے تھے۔ اس پر فرا پروفیسر شیرر نے کہا ’’ اقبال دیکھ رہے ہو‘‘ تم مبہوت سے نظر آتے ہو اقبال نے برجستہ جواب دیا’’ میں یکایک ہیئت دان کی صورت میں تبدیل ہو گیا ہوں، میں ستاروں کے جھرمٹ کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ ‘‘ رات کھانے پر ایک لڑکی کو دیکھ کر مجھ سے کہتے ہیں: اس کے عارض پر سنہری بال ہیں ہو طلائی استرہ اس کے لیے ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ تمامو قت اسی قسم کے اشعار کہتے رہے۔ اقبال کس قدر ہمہ گیر اور ہر خوبی سے معمور ہے۔ ہائیڈل برگ ۴ ستمبر ۱۹۰۷ء آج صبح چھ گھنٹے پھلوں کے مشہور و معروف باغ میں گزارے ہر ایک نے کھانا الگ الگ تیار کیا تھا سب ایک جگہ رکھا گیا چکھا گیا اور جانچا گیا۔ نقائص اور خوبیاں ہر ایک کے متعلق بیان کی گئیں اس میں اقبال کا تیار کردہ کھانا بھی موجود تھا جو ہندوستانی طرز کا تھا۔ بہت لطف رہا۔ خدا حافظ کہنے کی رسمیں ادا ہو رہی تھیں جب جانے لگی تو سب کے سب ایک صف میں کھڑے ہو گئے۔ مجھے سامنے کھڑا کیا اور بینڈ کے ساتھ یہ گانا سنایا اقبال رہنمائی کرتے اور الفاظ ادا کرتے اور پھر باقی لوگ انہیں گاتے یہ گانا طیب نے انشا کیا ہے۔ وہوا ہذا: آخر کار ہندوستان کے نہایت درخشاں ہیرے کو خدا حافظ کہنے کا وقت آ گیا! وہ تارہ جو یہاں چمکتا تھا اور رقصاں رہتا تھا اور دور و نزدیک کے مجمعوں کو روشن کرتا تھا جو امن اور شانتی کے جھنڈے کی طرح خبر گیری کرتے ہوئے ہر جگہ برہم مزاجوں کو سکون دیتا تھا ہم ایک بڑی آہ سے آراستہ ہو کر آئے ہیں جو دور و نزدیک اور ہر بلندی تک جاتی ہے ہاں تم جنہیں ان اشعار میں مخاطب کیا گیا ہے ہماری بہترین دعائیں اور برکتیں اپنے ساتھ لیتی جاؤ! ہماری بہترین خواہشات تمہارے ساتھ رہیں گی دریاؤں، سمندروں اور جھیلوں کو عبور کرتے وقت شان و شوکت اور کامیابی کے ساتھ واپس لوٹو تمہارے دوست بہت بڑی تعداد میں منتظر ہیں لہٰذا اس وقت تک کے لیے کہتے ہیں خدا حافظ، الوداع، خدا خیر کرے ہم پھر ملیں عطیہ فیضی کی ڈائری اقبال کے قیام یورپ کے متعلق مستند روایات کی حامل ہے۔ اس سے ان کی ان تمام سرگرمیوں پر اجمالاً روشنی پڑتی ہے جن سے اقبال وہاں اکثر دو چار رہے۔ پروفیسر صاحبان ان سے کتنی والہانہ محبت کرتے تھے۔ اس کا پتہ بھی عطیہ کی ڈائری سے مل جاتا ہے۔ پروفیسر ویگے ناست اور سینے شل جو فلسفہ پڑھانے میں اقبال کی استاد تھیں۔ ان دونوں لڑکیوں کے متعلق عطیہ نے لکھا ہے کہ ’’ یہ دونوں نہایت نو عمر اور نہایت حسین خواتین ہیں۔‘‘ اسی طرح فرالائن رین جن کی رہنمائی میں اقبال نے The Development of Metahysics in Persian کا مقالہ پی ایچ ڈی کے لیے لکھا۔ عطیہ کا خیال ہے کہ ’’ یہ بڑی قابل پروفیسر ہیں انہوں ہی نے اقبال کو تین ماہ میں جرمن زبان سکھلائی گفتگو میں اقبال کو ٹوکتی بھی ہیں۔‘‘ اقبال نے اس خاتون پروفیسر کو ’’ تیز دھار میٹھی چھری‘‘ کہا ہے اس ڈائری سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اقبال بے سرے بھی تھے اور انہیں کلاسیکل موسیقی میں دخل نہیں تھا ۔ حاضر جوابی میں بے مثل اور طنز و مزاح کے تیر برساتے تھے۔ بحث و مباحثہ میں بعض اوقات ایک ہی فقرے میں ایسی بات کہہ جاتے تھے کہ بحث پھر وہیں ختم ہو جاتی تھی جیسا کہ پروفیسر آرنلڈ کے موت و حیات کے فلسفے کی بحث میں انہوں نے کہا:’’ زندگی موت کی شروعات ہے اور موت زندگی کی‘‘ فطرت کے تماشائی اور شیدائی تھے اقبال جرمن لوگوں کے دلدادہ، میونک کو ’’ موسیقی اور شاعری کا مجسم تخیل‘‘ کہتے تھے۔ جرمن زبان کی کتابوں کا مطالعہ کرنا اور ان پر تنقید لکھنے کے حق میں تھے۔ اقبال نے جرمنی کے شاعر المانوی گوئٹے کے دیوان کے جواب میں ’’ پیام مشرق‘‘ پیش کی اس سے بھی جرمنی زبان سے ان کی شیفتگی ظاہر ہوتی ہے۔ جرمنی کے ایک دریا نیکر پر ان کی نظم ’’ایک شام‘‘ کے عنوان سے بانگ درا میں موجود ہے جس کا پہلا شعر ہے: خاموش ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خاموش ہر شجر کی اور یہ اشعار: کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکر کا خرام بھی سکوں ہے تاروں کا خموش کارواں ہے یہ قافلہ بے درا رواں ہے اے دل! تو بھی خموش ہو جا آغوش میں غم کو لے کے سو جا یورپ میں حصول تعلیم کے دوران ایک اہم واقعہ بھی پیش آیا جس کا ذکر شیخ عبدالقادر بار ایٹ لاء نے بانگ درا کے دیباچے میں کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ اقبال نے ترک شاعری کا مضمم ارادہ کر لیا کہ شاعری تصنیع اوقات ہے عمر کو کسی بہتر اور مفید کام کے لیے صرف رکنا چاہیے۔ سر عبدالقادر نے انہیں سمجھایا کہ تمہاری شاعری متشاعروں کی شاعری نہیں ہے بلکہ اس میں پیغام ہے اور اس سے ایک درماندہ قوم کو زندگی مل سکتی ہے۔ تم میں اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں کہ جن میں اسلام اور ملک و قوم کی فلاح ہے۔ لیکن پھر بھی اقبال فیصلہ نہ کر سکے آخر پروفیسر آرنلڈ کو حکم بنایا گیا جنہوں نے اقبال کے ترک شاعری کے خیال کو ناجائز قرار دیا اور شعر کہنے کی تلقین کی پروفیسر آرنلڈ کا ادب پر احسان ہے کہ ان کے فیصلے کے آگے اقبال نے سر تسلیم خم کیا اور آج اقبال کا زندہ پیغام ہمارے سامنے ہے۔ ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک اقبال یورپ میں رہے۔ اس زمانہ میں انہیں شعر و سخن کی خدمت کرنے کا موقع نہ ملا۔ پھر بھی بانگ درا کے مطالعہ سے اس زمانے میں انہوں نے جو چند نظمیں کہی ہیں وہ شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حسن و عشق، عاشق ہرجائی، فراق، کی گود میں بلی دیکھ کر، وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن میں سطحی خیالات نہیں بلکہ گہرائی اور گیرائی پائی جاتی ہے جب اقبال ہندوستان میں تھے تو ان کی زبان پر تھا: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا اور: چشتی نے جس چمن میں پیغام حق سنایا نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے لیکن جب اقبال یورپ سے لوٹے اور مغربی تعلیم کے سمندر میں غوطہ لگا کر ابھرے تو موتی ہی موتی لائے۔ اسلام کی ابدیت اور وسعت کا اندازہ کیا۔ مغربی فلسفہ کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ سخت کوشی اور جفا کوشی کی بجائے قوم کو تن آسانی، لذت طلبی میں گرفتار دیکھا۔ ملک میں پست ہمتی کا دور دورہ ہے۔ جوانوں میں خواہشیں اول تو پیدا ہی نہیں ہوتیں اور اگر ہوتی ہیں تو مر جاتی ہیں مغربی تہذیب ممالک اسلامیہ کو کبھی نجات نہیں دے سکتی اور نہ ہی ان کے مسائل حیات حل کر سکتی ہے۔ مغربی تہذیب اسلامی ممالک کی نسل کشی کے درپے ہے ان کو اپنے ہی سانچے میں ڈھالنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ روحانی ارتقاء اور اخلاقی پاکیزگی جو مشرق کا طرۂ امتیاز ہے مفقود ہوتی جا رہی ہیں، نوجوانوں کے جذبات سلائے جا رہے ہیں اور ان کی معنوی روح کو کچلا جا رہا ہے خالص مشرقی اقدار کو بدلنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ مغربی نظام تعلیم کی ایک ایسی سازش ہے کہ جس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ چنانچہ اقبال نے ہر اس مصیبت کا تجزیہ کیا جو قوم پر مسلط ہے اور اپنا پیغام قوم تک پہنچایا اور اسلام کی صحیح سپرٹ سمجھنے پر زور دیا اور کہا: اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف ٭٭٭ علامہ اقبالؒ کی داستان دکن میر محمود حسین ٹیپو سلطان شہید کے روضے پر دو ڈھائی گھنٹے مراقبہ کرنے کے بعد علامہ اقبالؒ گنبد سلطانی سے باہر نکلے۔ شدت گریہ سے آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور سوج گئی تھیں، کچھ دیر صحن گنبد میں بنگلور اور میسور کے عمائدین کے ساتھ تشریف فرما رہے۔ میسور کے درباری موسیقار علی جان مرحوم نے ساز پر نہایت دلگداز انداز میں کلام اقبال سنایا تو پھر اشکباری کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ حاضرین پر بھی رقت طاری ہو گئی علی جان صاحب یہ کیفیت دیکھ کر گھبرا گئے اور گاتے گاتے رک گئے۔ علامہ نے بڑے اضطراب کے عالم میں کہا:’’ کیوں رک گئے؟‘‘ خدا کے لیے جاری رکھو علی جان گاتے اور علامہ آنسو بہاتے رہے۔ گانا ختم ہوا تو میسور کے مشہور و معروف قومی کارکن محمد ابا سیٹھ نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے روضہ سلطان شہید میں اتنی دیر مراقبہ فرمایا ہے، ہمیں بھی بتائیے کہ آپ کو وہاں سے کیا فیض حاصل ہوا اور کیا پیغام ملا۔ علامہ نے جواب دیا کہ وہاں میرا ایک لمحہ بھی بیکار نہیں گزرا ایک پیغام یہ ملا ہے: در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست ہم چو مرداں جاں سپردن زندگیست یہ شعر اسی عالم میں مرتب ہوا۔ میسور سے واپسی کے بعد علامہ نے اس پر اور چار شعر اضافہ کیے اور یہ قطعہ بنایا: آتشی در دل و گر بر کردہ ام داستانی از دکن آوردہ ام در کنارم خنجر آئینہ فام می کشم اور ابتدریج از نیام نکتہ گویم ز سلطان شہیدؒ زاں کہ ترسم تلخ گرد دروز عید پیشتر رفتم کہ بو سم خاک او تا شنیدم از مزار پاک او در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست ہمچو مرداں جاں سپردن زندگیست یعنی میں دکن سے ایک داستان لایا ہوں جس نے میرے دل میں ایک نئی حرارت پیدا کر دی ہے میرے پہلو میں آئینے کا سا ایک چمکدار خنجر ہے، جسے میں دھیرے دھیرے نیام سے نکال رہا ہوں۔ سلطان شہید کے بارے میں ان سے پایا ہوا ایک نکتہ بیان کئے دیتا ہوں، مجھے ڈر ہے کہیں عید کی مسرتوں میں تلخی کا رنگ نہ بھر جائے میں ان کے مزار کو بوسہ دینے کے لیے وہاں تک گیا تو ان کے مزار پاک سے ندا آئی کہ زندگی دنیا میں مردوں کی طرح جینے کا نام ہے۔ ایسا نہ ہو سکے تو مردانہ وار جان قربان کر دینا حیات جاودانی ہے ۔ یہ قطعہ علامہ اقبالؒ کے کسی مطبوعہ مجموعہ کلام میں شامل نہیں، نہ مکاتیب اقبالؒ میں اس کا ذکر ملتا ہے، البتہ تاریخ سلطنت خدا داد کے مصنف محمود خاں محمود بنگلوری نے اپنی اس شہرۂ آفاق تصنیف میں اس کا ذکر کیا ہے اور شہاب یزدانی بنگلوری نے اپنے گلدستے میں اسے شامل کیا ہے جو چند سال قبل بارگاہ ٹیپو کے نام سے بنگلور سے شائع ہوا تھا۔ ماہنامہ ’’ برہان‘‘ دہلی کی اشاعت برائے دسمبر ۱۹۶۰ء میں عابد رضا بیدار صاحب، رضا لائبریری رام پور نے ’’ جوئے کہستان کی موج رواں‘‘ اقبال کے کچھ غیر مرتب نوادر کے عنوان سے علامہ اقبال کے کچھ غیر مطبوعہ مکاتیب پیش کیے ہیں۔ ان میں سے ایک مکتوب میں یہ قطعہ بھی درج ہے بیدار صاحب کا قیاس ہے کہ یہ قطعہ ۱۹۲۰ء کا ہے حالانکہ علامہ اقبال ۱۹۲۹ء جنوری میں میسور تشریف لائے تھے اور یہ قطعہ یہاں سے واپسی کے بعد ہی کہا تھا۔ بظاہر یہ قطعہ تو ’’ جاوید نامہ‘‘ کا ایک ٹکڑا معلوم ہوتا ہے جس میں آپ نے ٹیپو سلطان کا تفصیلی ذکر فرمایا ہے۔ لیکن یہ اس میں بھی شامل نہیں ہے اسے اس مثنوی میں بڑی خوبی کے ساتھ کھپایا جا سکتا تھا۔ خدا جانے علامہ نے اسے کیوں اس میں شامل نہیں کیا۔ بنگلور کے محمد جمیل صاحب نے غالباً اسی قطعے کے بارے میں آپ کو لکھا تھا تو آپ نے ۴ اگست ۱۹۲۹ء کو جواب میں لکھا تھا: ’’ سلطان شہید پر میری نظم اس کتاب کا حصہ ہو گی جسے میں اپنی زندگی کا ماحصل بنانا چاہتا ہوں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے آپ کو کافی انتظار کرنا پڑے گا۔ میں نے اس کا ایک حصہ کچھ عرصہ ہوا مرتب کیا تھا، لیکن پھر ضروری مشاغل کی بناء پر اس کو نامکمل چھوڑ دینا پڑا‘‘ 1؎ اس قطعہ میں علامہ اقبال نے ٹیپو سلطان کی شہادت کے واقعے کو داستان دکن کے عنوان سے تعبیر کیا ہے اور ا س میں اس جانباز اور سر فروش مجاہد اسلام کی ساری تفصیل حیات کا خلاصہ اور جوہر پیش کر دیا ہے شہادت سے کچھ دیر پہلے کسی نے رائے دی تھی کہ آپ انگریزوں سے مصالحت کر لیں، تو ٹیپو سلطان نے فوراً جواب دیا تھا گیڈر کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی اچھی ہے۔ سلطان کے اسی قول کو اس عظیم فن کار شاعر نے اس قطعے کے آخری شعر میں شاعرانہ کمال کے ساتھ بیان کیا ہے اور ایجاز و بلاغت اور اثر انگیزی کے جوہر دکھائے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے اس مشہور شعر میں داستان حرم کا ذکر کیا ہے اور یہاں بھی اپنی اعجاز بیانی اور سحر کاری کا کمال دکھایا ہے: عجیب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسمعیل ؑ حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت حسین ؑ کی قربانیوں کا شاید اس سے زیادہ بلیغ اور موثر بیان نہیں ہو سکتا۔ ان دونوں عظیما لشان واقعات کو آپ نے ابتداء اور انتہا قرار دے کر داستان حرم کا حسین اور موزوں ترین عنوان قائم کر دیا۔ گویا للہیت اور قربانی کی کہانی کا پلاٹ حضرت اسماعیل کے واقعے سے شروع ہوتا ہے اور حضرت حسین ؑ کی شہادت اسے نقطہ کمال پر پہنچاتی ہے۔ لیکن یہ کہانی وہاں پہنچ کر ختم نہیں ہو جاتی، قربانی اور جاں نثاری کا سلسلہ امت مسلمہ میں جاری رہتا ہے۔ للہیت خودی کی 1؎ اقبال نامہ دوم ص ۹۲ بناء ہے۔ شہادت اورجانبازی اس کی معراج، چنانچہ تاریخ اسلام میں اس سلسلے کی ایک اور کڑی نظر آتی ہے۔ ٹیپو سلطان کی شخصیت اور شہادت سے بھی علامہ اقبال اسی طرح متاثر ہو جاتے ہیں اور ان کو داستان دکن کے عنوان کے تحت بیان کرتے ہیں۔ آج سے سینتیس سال قبل ۱۹۲۹ء کے اوائل میں علامہ اقبال نے اپنی تشریف آوری اور صحیح معنوں میں قدوم میمنت لزوم سے ریاست میسور کو رونق بخشی تھی، اس طویل سفر کی زحمت گوارا کرنے کا مقصد بنگلور اور میسور شہروں کی سیر نہیں تھا بلکہ دراصل آپ سلطان شہید کے روضے کی زیارت کرنا چاہتے تھے جس کی خواہش مدت سے آپ کے دل میں موجزن تھی۔ آپ اولیاء کرام اور شہدائے عظام کے معتقد تھے اور ان کے مقبروں کی زیارت کو تشریف لے جاتے تھے۔ آپ مسلمانوں کی اجڑی ہوئی سلطنتوں کے کھنڈر دیکھنے جاتے، ان کی عظمت و شان کو یاد کر کے آنسو بہاتے اور سبق آموزی کرتے تھے جس مرد مجاہد کے حالات اور واقعات سے آپ متاثر ہوئے تھے، جس کے کردار کے آپ مداح اور معتقد تھے اور جسے آپ خودی کا ایک آئیڈیل اور مظہر جانتے تھے اس کی خاک پاک کو بچشم خود ملاحظہ کرنا چاہتے تھے اور اس خطے کی بہ نفس نفیس سیر کرنا چاہتے تھے۔ جہاں جہاں سپاری اور جانبازی کا یہ خونیں ڈراما کھیلا گیا تھا۔ ۱۹۲۸ء کے آخری ہفتے میں لکچروں کے سلسلے میں مدراس تشریف لانا ہوا تو آپ نے اس موقع سے یہ فائدہ بھی اٹھایا۔ اس زمانے میں معسکر بنگلور کا علاقہ جہاں انگریز افواج کی چھاؤنی تھی برطانوی ریذیڈنٹ کے ماتحت اور اس کا تعلق براہ راست مدراس کے گورنر سے ہوتا تھا۔ اس علاقے کے مخیر اور علم دوست رئیس اعظم فخر التجار حاجی سر محمد اسماعیل سیٹھ کو خبر ملی تو آپ بذات خود مدراس تشریف لے گئے اور علامہ اقبال کو بنگلور آنے کی دعوت دے آئے۔ علامہ اقبال مدراس سے بذریعہ ٹرین ۹ جنوری ۱۹۲۹ء کو بنگلور تشریف لائے، بنگلور کنٹونمنٹ کے ریلوے اسٹیشن پر ہزاروں معتقدین اور شائقین آپ کو خوش آمدید کہنے کے لئے حاضر تھے جن میں حاجی اسماعیل سیٹھ، امین الملک سر مرزا اسماعیل وزیر اعظم ریاست میسور، بنگلور کے مشہور و معروف اخبار ’’ الکلام‘‘ کے مدیر کلیم الملک سید غوث محی الدین اور تاریخ سلطنت خدا داد کے مصنف محمود خاں محمود بنگلوری قابل ذکر ہیں ’’ اقبال کامل‘‘ میں صفحہ ۲۴ پر مولانا عبدالسلام ندوی نے لکھا ہے کہ علامہ اقبال بنگلور پہنچے تو شمالی ہند کے ہزاروں آدمی ان کی زیارت کے لیے اسٹیشن پر پہنچے تھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ندوی صاحب نے یہ جملہ منشی محمد الدین فوق کے مضمون ’’ ڈاکٹر شیخ سر محمد اقبال‘‘ سے نقل کر لیا ہے جو نیرنگ خیال لاہور کے ’’ اقبال نمبر‘‘ ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا تھا یہ اس کی نقل ہے تو صاف ظاہر ہے کہ غلط نقل ہے منشی صاحب نے تو لکھا تھا کہ ڈاکٹر صاحب بنگلور کے اسٹیشن پر پہنچے تو ہزار ہا آدمی ہند کے اس نامور عالم کو دیکھنے کے لیے اسٹیشن پر موجود تھے۔ ندوی صاحب کے بیان سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو اصحاب ہزاروں کی تعداد میں علامہ اقبال کے خیر مقدم کے لیے بنگلور کے ریلوے اسٹیشن پر جمع ہوئے تھے وہ شمالی ہند کے تھے اور بنگلور کے باشندے کم آئے تھے یاسرے سے غائب ہی تھے۔ انہوں نے علامہ کی تشریف آوری کو کوئی اہمیت نہ دی، شمالی ہند کے ہزاروں آدمیوں کا جمع ہونا غلط محض ہے، یہ بنگلور ہی کے عوام تھے جو اس شاعر مشرق کا استقبال کرنے کے لیے بڑے جوش اور عقیدت سے بڑی تعداد میں جمع ہوئے تھے، بنگلور اور میسور کے مسلمانوں نے علامہ اقبال کی تشریف آوری پر جس دلی مسرت اور جوش عقیدت کا اظہار کیا تھا وہ آج تک یاد ہے۔ خود علامہ اقبال اس سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ بنگلور کے استقبالی مجمع میں ہندو عہدہ دار اور علماء بھی کافی تعداد میں موجود تھے۔ ریلوے اسٹیشن پر حاجی سر اسماعیل سیٹھ کے بنگلے تک راستہ کو جھنڈیوں سے آراستہ کیا گیا تھا، جابجا مسلمانوں نے آپ کی خدمت میں پھولوں کے ہار پیش کیے اور تکبیر کے نعرے لگائے، اسٹیشن ہی پر سید غوث محی الدین صاحب نے ’’ الکلام‘‘ کا خاص نمبر ’’ اقبال نمبر‘‘ علامہ کی خدمت میں پیش کیا یہ نمبر چوبیس صفحات پر مشتمل تھا، سر ورق پر علامہ کی تصویر اور خیر مقدم شائع ہوا تھا، باقی صفحات پر بنگلور کے شعراء کا طرحی کلام چھپا تھا، سید صاحب نے پہلے سے تیار کر کے علامہ کے اعزاز میں یہ خاص نمبر نکالا تھا شعراء کو طبع آزمائی کے لیے طرح یہ دی تھی: مسلم خوابیدہ اٹھ ہنگامہ آراء تو بھی ہو وزیراعظم سر مرزا اسماعیل بہت خوش ہوئے اور سید صاحب سے درخواست کی کہ علامہ جب تک ریاست میں رہیں ان کی رفاقت کریں، مرزا صاحب نے علامہ سے یہ درخواست بھی کی کہ آپ سرکاری مہمان بننا قبول فرمائیں لیکن حاجی اسماعیل سیٹھ نے نہ مانا اور کہہ دیا کہ آپ کو میں نے دعوت دے کر بلایا ہے۔ بنگلور میں آپ میرے ہی مہمان رہیں گے بنگلور سے باہر آپ سرکاری مہمان بن کر جائیں تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا علامہ کے ساتھ حکومت پنجاب کے افسر اطلاعات چودھری محمد حسین اور دکن کالج پونا کے پروفیسر عبداللہ چغتائی بھی تشریف لائے تھے۔ بنگلور کے مختصر سے قیام میں علامہ کے اعزاز میں دو جلسے ہوئے۔ ایک مسلم لائبریری معسکر بنگلور کے زیر اہتمام ہوا جس کی صدارت صدر ادارہ محمود شریف صاحب نے کی، یہاں علامہ کی خدمت میں ایک سپاسنامہ پیش کیا گیا اس کا جواب دیتے ہوئے علامہ نے اسلامی کتب خانوں پر کچھ روشنی ڈالی اور اس کتب خانے کو ترقی دینے پر زور دیا یہ جلسہ مہاتما گاندھی روڈ پر واقع اپراہا وز میں ہوا۔ یہاں سے علامہ کتب خانے کی عمارت پر تشریف لے گئے اور کتابوں کا معائنہ فرمایا، پھر کتاب آراء میں تحریر فرمایا: ’’ جنوبی ہندوستان کے مسلمان نوجوانوں اور خصوصاً بنگلور کے مسلمانوں میں اسلامی کلچر کی اشاعت کا پورا احساس پیدا ہو چکا ہے جس کو میں تمام ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے فال نیک تصور کرتا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ بنگلور کی مسلم لائبریری نے اس احساس کے پیدا کرنے میں بڑا حصہ لیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل قریب میں اس لائبریری کے اثر کا دائرہ اور بھی وسیع ہو جائے گا، اراکین کتب خانہ کو چاہیے کہ تاریخ میسور کی قلمی کتابوں کی طرف بالخصوص توجہ فرمائیں۔‘‘ دوسرا جلسہ گورنمنٹ آرٹس اینڈ سائنس کالج کے میدان میں ہوا۔ یہ عام اور پبلک جلسہ تھا اس کی صدارت ڈائریکٹر تعلیمات پروفیسر ین یس ستباراؤ نے کی جو انگلستان میں آپ کے ساتھی رہ چکے تھے۔ اس جلسے میں ہر طبقے کے ہندو مسلمان بہت بڑی تعداد میں جمع ہوئے تھے یہاں علامہ نے ایک پر مغز فلسفیانہ تقریر فرمائی۔ بنگلور میں علامہ اقبال نے حیدر علی خاں بہادرا اور ٹیپو سلطان شہیدؒ کا محل، قلعہ اور ان کا لگایا ہوا لال باغ، صدر انجمن مسلمانان ریاست میسور،ز نانہ اور مردانہ یتیم خانے وغیرہ مختلف مقامات اور ادارے دیکھے سلطانی آثار کا تعارف محمود بنگلوری کرائے جاتے تھے بنگلور کے مسلم قائدین نے درخواست کی کہ آپ مسلمانوں سے بھی خطاب کریں مگر کم فرصتی کے باعث آپ نے معذرت کر دی۔ ۱۱ جنوری کی صبح علامہ اقبال بنگلور سے سرکاری کاروں میں اپنے رفقاء اور مقامی احباب کے ساتھ ’’ سوا سمندر‘‘ روانہ ہوئے اور وہاں بجلی گھر دیکھا، یہ مقام بگلور سے اسی میل کے فاصلہ پر واقع ہے اور یہاں مصنوعی آبشارے پن بجلی تیار کرنے کا مشہور و معروف کارخانہ ہے جس سے ریاست بھر میں بجلی کی روشنی اور قوت فراہم کی گئی ہے۔ پھر وہاں سے بارہ بجے کے قریب سری رنگ پٹن پہنچے، گنبد سلطانی میں عمائدین میسور، شاہی محل کے عہدہ دار اور سرکاری افسر استقبال کو حاضر تھے۔ ملاقاتوں کے بعد آپ روضہ سلطانی میں بڑے اشتیاق اور ادب کے ساتھ آنسو بہاتے ہوئے داخل ہوئے اور اندر سے دروازہ بند کر لیا دو ڈھائی گھنٹے تک اندر مراقبہ کرتے رہے باہر نکلے تو کثرت گریہ سے آنکھیں سر ہو رہی تھیں، روضے سے ملحق صحن میں کچھ دیر مجلس احباب میں بیٹھے علی جان صاحب سے ساز پر کلام سنتے رہے۔ خود روتے اور دوسروں کو رلاتے رہے، عجیب سماں بندھا ہوا تھا، علی جان صاحب درباری موسیقار تھے اور راج محل کی طرف سے ان کو آپ کی خدمت میں بھیجا گیا تھا، خود بھی اچھے شاعر تھے اور اساتذہ کا کلام بڑی خوبی کے ساتھ سناتے تھے۔ علامہ آپ کی سرود سازی سے بہت متاثر ہوئے۔ محمد ابا سیٹھ صاحب سے جو گفتگو اس محفل میں ہوئی اس کا بیان ابتداء مضمون ہی میں ہو چکا ہے، میسور کے علم دوست، علم پرور، منصف مزاج اور بے تعصب مہاراجہ آنجہانی کرشنا راج وڈیر نے اپنے مصاحب خاص صدیق الملک صادق زین العابدین شاہ کو آپ کے استقبال کے لیے سرنگا پٹم بھیجا تھا اور ان کے زیر اہتمام اپنی طرف سے ٹیپو سلطان شہید کے مشہور قصر ’’ دریا دولت باغ‘‘ میں ضیافت طعام کا انتظام کرایا تھا صادق شاہ صاحب کے ساتھ علامہ اور رفقاء وغیرہ گنبد سے وہاں پہنچے، کھانے سے فراغت کے بعد علامہ نے متعدد آثار سلطانی کی سیر کی جیسے مسجد اعلیٰ قلعہ وہ مقام جہاں سلطانؒ کی شہادت واقع ہوئی، دہلی دروازہ، قید خانہ، میر صادق کی مفروضہ قبر، لنگڑے غلام علی کا مقبرہ وغیرہ محمود بنگلوری ہر مقام کا تعارف کراتے اور تاریخی واقعات بیان کرتے جاتے تھے ’’ دریا دولت‘‘ کی دیواروں پر وفادار جاں نثار سید غفار شہیدؒ کی تصویر دیکھ رہے تھے تو کسی نے بتایا کہ رفیق سفر سید غوث محی الدین صاحب مدیر ’’ الکلام‘‘ بنگلور، انہیں کے پوتے یا پڑپوتے ہوتے ہیں تو علامہ نے فرط عقیدت سے انہیں گلے سے لگا لیا اور فرمایا:’’ سید صاحب! آپ اس نامور شہید کی یادگار ہیں، ان کے ہاتھ میں تلوار تھی، اب آپ کے ہاتھ میں قلم ہے۔ آپ قلم سے وہی کام لیجئے۔‘‘ سید صاحب نے اپنی ایک نظم میں یہ روایت یوں بیان کی ہے: سنا اقبال نے جب اس مجاہد کا میں پوتا ہوں تھیں حاصل فوج سلطانی میں جن کو خاص توقیریں مسرت سے لپٹ کر آپ نے مجھ سے یہ فرمایا قلم سے کام لو سید، ہیں اب بے کار شمشیریں سید غفار افواج سلطانی کے سپہ سالار تھے اور سلطان سے پہلے شہید ہوئے تھے غدار لنگڑے غلام علی کی قبر پر آپ نے اس کی تاریخ وفات کا یہ شعر سنا تو پھڑک اٹھے: ہیچ می دانی چہ دید از دست او اہل شہید آں چہ اولاد محمد دید از دست یزید روضہ سلطانی پر علامہ اقبال نے ایک کتنے کی یہ رباعی بھی پڑھی اور بہت متاثر ہوئے تھے: آن سید شہداء عرب سبط نبیؐ لخت جگر فاطمہؓ و جان علیؓ از فاطمہؓ و حیدر دکنی ٹیپو سلطان شہیداں شدہ از جان و دلی سلطان کی والدہ کا نام بھی فاطمہ تھا، ان دونوں کی باہمی مناسبت سے علامہ بہت محظوظ ہوئے سری رنگ پٹن کی سیر کرتے ہوئے ایک مقام پر علامہ نے فرمایا: ’’ مغل دور کے بعد مسلمانوں کو ایک موقع اور نشاۃ ثانیہ کاملاً تھا مگر افسوس ہے کہ غداروں نے ان کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔‘‘ محمود بنگلوری کی تاریخ دانی سے علامہ اقبال بہت متاثر اور محظوظ ہوئے۔ اس وقت محمود صاحب شعر کم کہتے لیکن اخباروں اور رسالوں میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے تھے۔ آپ کی صرف ایک کتاب ’’ سلطان شہید‘‘ ایک سال قبل شائع ہوئی تھی اور اس وقت آپ ’’ تاریخ سلطنت خدا داد‘‘ کی تصنیف میں مشغول تھے، علامہ اقبالؒ نے آپ کی اس تصنیف اور دوسری کتاب کے مسودے دیکھے اور بہت پسند فرمایا، محمود بنگلوری کو رائے دی کہ وہ مضمون نگاری اور شاعری چھوڑ دیں اور چند سال تک انہماک سے کام لے کر سلطنت خداد کی ایک مکمل تاریخ پیش کر دی۔ مسلم لائبریری بنگلور میں علامہ اقبال نے کتاب الرائے میں لکھا تھا کہ ’’ وہاں تاریخ میسور کی قلمی کتابیں جمع کرنے کی طرف توجہ کی جائے۔‘‘ سریزنگ پٹن میں بھی آپ کو اس کا خیال لگا رہا اور آپ نے عمائدین میسور سے یہ بھی خواہش ظاہر کی کہ سلطنت خدا داد کی تاریخ اور ثقافت پر چند مستند اور معتبر مخطوطات آپ کے لیے فراہم کیے جائیں تاکہ آپ سلطان شہید پر نظم کہنے میں ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔ سر یرنگ پٹن سے علامہ اقبال عصر کے وقت میسور پہنچے اور گورنمنٹ گیسٹ ہاؤس میں مہاراجا صاحب کے مہمان کی حیثیت سے فروکش ہوئے شہر میسور میں آپ کے اعزاز میں دو عام جلسے ہوئے ایک جلسہ یونیورسٹی میں ہوا جہاں فلسفے کے مشہور پروفیسر واڈیا کی صدارت میں آپ نے ایک بلند پایہ فلسفیانہ تقریر فرمائی جلسہ گاہ پروفیسروں اور طلبہ سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ پروفیسر واڈیا نے اپنی صدارتی تقریر میں علامہ کی بہت توصیف و تعریف کی اور کہا کہ تقریر میری فہم سے بالا رہی۔ جلسہ شروع ہونے سے قبل ڈاکٹر گوپال سوامی نے جو نفسیات کے مشہور پروفیسر اور ماہر تھے آپ سے ملاقات کی دونوں میں نفسیات پر کچھ دیر بڑی دلچسپ گفتگو ہوتی رہی، گوپال سوامی نے اپنے نفسیاتی آلے کے عمل کا جلسہ گاہ میں یوں مظاہرہ کیا کہ علامہ کی نبض پر اس کا تار باندھ دیا اور آپ سے کہا کہ ایک سے دس تک آپ کسی عدد کو اپنے ذہن میں رکھیں میں وہ عدو بتا دوں گا۔ علامہ نے چھ کا عدد اپنے ذہن میں معین کر لیا گوپال سوامی ایک دو گننے لگے چھے پر پہنچے تو آلے کا کانٹا زور سے حرکت کرنے لگا یہ نبض کی روانی کا اثر تھا آپ نے کہہ دیا کہ علامہ کے ذہن میں چھے کا عدد ہے جسے سن کر علامہ کی نبض کی رفتار میں کچھ فرق آ گیا۔ علامہ نے بھی اسے مان لیا اور بتایا کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں مثنوی رومی کی پہلی حکایت میں طبیب الٰہی بھی نبض ہی کے ذریعے کنیزک کے مرض کا راز دریافت کر لیتا ہے اور بو علی سینا نے قابوس بن دشمگیر کے مرض کی تشخیص بھی اسی طرح کی تھی،سات سو اور ہزار سال قبل بھی اس اصول سے کام لیا گیا۔ ڈاکٹر گوپال سوامی نے جلسے کے اختام پر اقبال کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر اقبال کو مسلمان لاکھ اپنائیں وہ ہم سب کے ہیں وہ کسی ایک جماعت یا مذہب کی ملکیت نہیں ہو سکتے۔ اگر مسلمانوں کو نا ز ہے کہ ڈاکٹر ان کے ہیں تو ہم کو بھی فخر ہے کہ وہ ہندوستانی ہیں اس موقع پر یونیورسٹی کے مسلمان طلبہ نے علامہ کے ساتھ ایک گروپ فوٹو لیا جسے میں نے مخزن مہاراجہ کالج میسور کی ۱۹۶۲ء کی اشاعت میں پیش کیا ہے۔ دوسرا جلسہ ٹاؤن ہال میسور میں مسلمانان شہر میسور کی طرف سے منعقد ہواجس میں مسلمانوں کی جانب سے علامہ کی خدمت میں ایک سپاسنامہ پیش کیا گیا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے آپ نے ریاست میسور، اس کے منصف مزاج مہاراجا اور اس کے وزیر اعظم کی تعریف کی اور مسلمانوں کو وفادار اور پر امن رہنے کی تاکید کی، اس جلسے کا آغاز میرے والد مرحوم مولانا ابو المظفرمرحوم نے تلاوت قرآن قرآن مجید سے کیا جس کے بعد علی جان صاحب نے اپنے بینڈ کے ساز پر یہ نعت شریف نہایت موثر انداز میں سنائی: اے باد صبا پیغام مرا کملی والے سے جا کہیو علامہ اقبال نے دوبارہ پڑھوا کر سماعت فرمائی۔ جلسے کے اختتام پر علی جان صاحب نے اسی طرح ترانہ قومی ’’ چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا‘‘ سنایا۔ اس جلسے سے کچھ دیر قبل مہاراجا صاحب میسور نے علامہ کو راج محل میں دعوت دی اور آپ کو چاندی کے فریم میں لگی ہوئی اپنی ایک تصویر کا تحفہ بھی پیش کیا تھا۔ علامہ اقبال راج محل سے سیدھے اس جلسے میں پہنچے تھے اپنی تقریر میں آپ نے مہاراجا صاحب کے حسن خلق کی بہت تعریف فرمائی۔ شہر میسور میں علامہ نے مسلمانوں کا یتیم خانہ دیکھا اور شام کے وقت کرشنا راج ساگربند کی سیر بھی کی۔ اس وقت برندادن باغ کی تشکیل نہیں ہوئی تھی تاہم اس مقام کی سیر سے آپ بہت محظوظ اور مسرور ہوئے۔ یہ بند دراصل سد محی کے نام سے ٹیپو سلطان شہیدؒ نے بنانا شروع کیا تھا اور شہادت سے لگ بھگ سال بھر قبل اس کا سنگ بنیاد خود اپنے ہاتھوں سے رکھا تھا۔ ایک فارسی کتبہ آج بھی وہاں نصب ہے، علامہ ا قبال نے اس کا بڑے غور سے مطالعہ فرمایا اور سلطان شہید کی تعریف میں دیر تک رطب اللسان رہے۔ میسور سے علامہ اقبال اور رفقاء سفر سرکاری کاروں ہی کے ذریعے بنگلور واپس تشریف لے گئے اور وہاں سے ٹرین کے ذریعہ حیدر آباد روانہ ہوئے بنگلور سے سید غوث محی الدین صاحب کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ ان کو آپ کچھ دن اور اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے اس لیے وزیراعظم حیدر آباد سر اکبر حیدر ی کو تار دے کر آپ کو مدعو کرایا تھا۔ اس طرح علامہ اقبال کا چار دن کا سفر میسور تکمیل کو پہنچا۔ شہر میسور میں جو اپنی خوشنمائی اور خوبصورت کے لیے مشہور ہے علامہ اقبال نے معاشی حالت پر بھی نظر ڈالی اور یہ شعر کہا: کیا خوب صفائی شہر کی ہے اور پارک بھی بنتے جاتے ہیں گو پیٹ میں اپنے خاک نہیں پر تازہ ہوا تو کھاتے ہیں مسلمانان میسور کے جلسے سے علامہ بہت متاثر ہوئے، حاضرین بڑے ادب اور عقیدت کے ساتھ خاموش بیٹھے ہوئے تھے گویا گوش بر آواز تھے۔ علامہ نے فرمایا کہ: ’’ ایسا جلسہ میں نے کہیں نہیں دیکھا، یہاں ٹیپو سلطان کے آداب و اخلاق کا اثر ابھی باقی ہے۔‘‘ علامہ ہر شخص سے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے تھے، نماز کے پابند تھے، صبح صادق سے پہلے بیدار ہو جاتے اور ٹہلتے ٹہلتے مثنوی رومی کی ابیات گنگناتے تھے، دن بھر ملاقاتوں میں قوم و ملت اور دین و مذہب کے موضوعات پر بڑی پر مغز گفتگو کرتے رہتے تھے۔ سفر میسور اور زیارت روضہ سلطانی کا آپ کی شاعری اور فکر و خیال پر قابل لحاظ اثر ہوا اور دوسری طرف آپ کی تشریف آوری کا ریاست میسور کے مسلمانوں کی علمی زندگی پر کافی اثر پڑا میں بھی اس جلسے میں موجود تھا جس میں میسور کے مسلمانوں نے آپ کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا تھا۔ علامہ اقبال کے سفر میسور کا محرک دراصل روضہ سلطانی کی زیارت کی خواہش تھا۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں: پیشتر رفتم کہ بوسم خاک او تا شنیدم از مزار پاک او اس کے سوا آپ کے کلام میں میسور سے متعلق اور کسی چیز کا ذکر نہیں ملتا۔ سفر میسور نے ایک طرف آپ کے افکار اور شاعری کو متاثر کیا اور دوسری طرف یہاں کی ثقافت پر گہرے نقوش چھوڑے، آپ کا شاہکار ’’ جاوید نامہ‘‘ اسی سفر کا مرہون منت ہے۔ فتوحات مکیہ، رسالہ غفران اور طربیہ خداوندی کا سا ایک معراج نامہ لکھنے کا خیال اس سے پہلے بھی آپ کے ذہن میں موجود تھا لیکن سفر میسور کے بعد ہی آپ نے اسے عملی جامہ پہنایا اور دو سال کی مدت میں اسے تکمیل کو پہنچایا یہاں آپ نے سلطان شہیدؒ کے دار الخلافہ سری رنگ پٹن کے آثار کو بہ چشم خود دیکھا اور اس تمثیل کے لیے آپ کو سلطان شہید کا عظیم الشان کردار مل گیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سفر میسور سے قبل آپ سلطان شہید اور ان کے حالات سے واقف نہیں تھے، تاہم: شنیدہ کے بود مانند دیدہ ’’ جاوید نامہ‘‘ کی قدر و قیمت اور وقعت خود علامہ کی نظر میں کیا تھی اور اس کی تحریر و تکمیل کب ہوئی، خود علامہ کی زبان سے سن لیجئے، لکھتے ہیں: ’’ سلطان شہیدؒ پر میری نظم اس کتاب کا حصہ ہو گی جسے میں اپنی زندگی کا ماحصل بنانا چاہتا ہوں۔‘‘ 1؎ ’’ آخری نظم ’’ جاوید نامہ‘‘ جس کے دو ہزار شعر ہوں گے ابھی ختم نہیں ہوئی ممکن ہے مارچ تک ختم ہو جائے یہ ایک قسم کی ’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ ہے اور مثنوی مولانا روم کی طرز پر لکھی گئی ہے اس کا دیباچہ بہت دلچسپ ہو گا 1؎ اقبال نامہ دوم ص ۹۲ مکتوب مورخہ ۴ اگست ۱۹۲۹ء اور اس میں غالباً ہندو ایران بلکہ تمام دنیائے اسلام کے لئے نئی باتیں ہوں گی۔‘‘ 1؎ ’’ کتاب ’’ جاوید نامہ‘‘ جو میں لکھ رہا تھا ختم ہو گئی ہے، آج کل کاتب کے حوالے کر دی جائے گی۔ 2؎‘‘ اس مثنوی کو علامہ اقبال مصور بنانے کے خواہشمند تھے اور اس کا ترجمہ بھی کروانا چاہتے تھے، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’ اہم کام یہ ہے کہ ’’ جاوید نامہ‘‘ کا تمام و کمال ترجمہ کیا جائے۔ مترجم کا اس سے یورپ میں شہرت حاصل کر لینا یقینی امر ہے۔ اگر وہ ترجمے میں کامیاب ہو جائے اور اگر اس ترجمے کو کوئی عمدہ مصور بھی بنا دے تو یورپ اور ایشیا میں مقبول تر ہو گا۔ اس کتاب میں بعض بالکل نئے تخیلات ہیں اور مصور کے لیے عمدہ مسالہ ہے۔ ‘‘ 3؎ ’’ میرے خیال میں میری کتابوں میں صرف جاوید نامہ ایک ایسی کتاب ہے جس پر مصور طبع آزمائی کرے تو دنیا میں نام پیدا کر سکتا ہے مگر اس کے لیے پوری مہارت فن کے علاوہ الہام الٰہی اور صرف کثیر کی ضرورت ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جب یہ چیز ایسی شان کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گی تو دنیا یقینی طور پر اس کو کاظمی سکول کے نام سے موسوم کرے گی۔ آپ محض مصوری میں اضافہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ دنیائے اسلام میں بحیثیت مصور اقبال ایک زبردست خدمت انجام دے رہے ہیں جو کہ قدرت شاید آپ ہی سے لینا چاہتی ہے، پوری مہارت فن کے بعد اگر آپ نے ’’ جاوید نامہ‘‘ پر خامہ فرسائی کی تو ہمیشہ زندہ رہیں گے۔‘‘4؎ مگر علامہ اقبال کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ ان بیانات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آپ ’’جاوید نامہ‘‘ کو اپنی زندگی کا ماحصل قرار دیتے تھے اور اس کے جن کرداروں اور احوال کا تصور آپ کے ذہن میں موجود تھا اس کی ترجمانی تصویروں میں کرنے کا شوق بھی آپ کے دل میں جاگزین تھا۔ بہر طور ’’ جاوید نامہ‘‘ ایک کامیاب اور بے نظیر شاعرانہ اور تمثیلی معراج نامہ ہے جس میں سیاحت علوی اور مشاہدات و تجلیات روحانی کا سادہ اور موثر بیان ہے اس میں علامہ اقبال نے اپنی ہنر مندی اور پرکاری کے جوہر دکھائے ہیں معراج نبویؐ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں شامل ہے۔ اس کا تفصیلی بیان قرآن مجید اور حدیث شریف میں موجود ہے۔ اس کے بعد صوفیہ نے اپنے روحانی معراج نامے پیش کیے جو عموماً کشف و الہام اور واردات قلبی پر مبنی ہیں، ساتھ ہی ساتھ اسلامی شعراء نے بھی تمثیلی معراج نامے لکھے جن کی فقط ادبی حیثیت ہو سکتی ہے۔ صوفیہ میں حضرت ابن عربی کا معراج نامہ ’’ فتوحات مکیہ‘‘ کے متعدد ضخیم دفتروں پر مشتمل ہے، سیاحت علوی میں ایک عالم دین اور ایک فلسفی آپ کی رفاقت اور رہنمائی کرتے ہیں اور ابن عربی ان کی زبان سے مختلف اور متنوع موضوعات پر اظہار خیال 1؎ اقبال نامہ اول صفحہ ۲۱۶ مکتوب مورخہ ۲۰ جنوری ۱۹۳۱ء 2؎ اقبال نامہ دوم صفحہ ۳۸۸ 3؎ اقبال نامہ اول صفحہ ۳۰۰ مکتوب مورخہ ۳۱ مارچ ۱۹۳۳ء 4؎ اقبال نامہ اول صفحہ ۳۰۴ مکتوبات مورخہ ۲۵ جون ۱۹۳۵ء و ۸ اپریل ۱۹۳۸ء کرتے ہیں۔ اسی طرح عربی کے مشہور نابینا شاعر ابو العلاء المعری نے ’’ رسالہ غفران‘‘ میں اپنا ادبی معراج نامہ پیش کیا جو عام طور پر ’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ یا ’’ طربیہ خداوندی‘‘ کے نام سے مشہور ہے اس میں اس نے عیسائی اقوام کی اخلاقی کمزوریوں پر روشنی ڈالی اور سیاسیات یورپ کا مرقع کھینچ کر رکھ دیا اس کے اس کارنامے نے یورپ میں ایک بیداری سی پیدا کر دی اور عوام و خواص کے دل و دماغ میں ایک ہیجان برپا کر ڈالا۔ اس کا نتیجہ کچھ ہی سال بعد نشاۃ ثانیہ کی شکل میں ظاہر ہوا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ڈانٹے کا یہ کارنامہ ’’ فتوحات مکیہ‘‘ اور’’ رسالہ غفران‘‘ مرہون منت ہے۔ مغربی نقادوں نے خود اس کا کھلا اعتراف کیا ہے ان تینوں معراج ناموں کے پیش نظر علامہ اقبال نے ’’ جاوید نامہ‘‘ لکھا اگرچہ آپ کا یہ کارنامہ بڑی حد تک ڈانٹے کے کارنامے کا جواب ہے۔ ’’ جاوید نامہ‘‘ دینی، ادبی، تاریخی، سماجی، قومی اور فلسفیانہ وغیرہ تمام حیثیتوں کا مالک ہے، دوسرے معراج ناموں کے مقابلے میں ’’ جاوید نامہ‘‘ صاف سادہ اور واضح ہے اس میں کوئی معما یا اغلاق نہیں، اس میں جن مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے ان کا تعلق عہد حاضر سے ہے اور اس میں کوئی ایسا فلسفہ پیش نہیں کیا گیا جس کا ترجمہ عملاً نہیں کیا جا سکتا۔ علامہ اقبال مولوی رومی یا پیر رومی کی رہنمائی میں اچھے افلاک اور فردوس بریں کی سیر کرتے ہیں، مرشد رومی متعدد احوال آپ کو دکھاتے ہیں اور مختلف شخصیتوں کی روحوں سے آپ کو ملاتے ہیں جو مکالمے ان سب سے ہوتے ہیں ان کے ذریعہ اہم اور مفید دینی، تاریخی اور ملی مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں، گوتم، زرتشت، طالسطائی، ابوجہل، فرعون، کچنر، مہدی سوڈانی، منصور حلاج، ابلیس، نٹشے، شرف النسائ، سید علی ہمدانی، بھرتری ہری، نادر ، ابدالی، ناصر خسرو وغیرہ اس تمثیل کے کردار ہیں لیکن پیر رومی کے بعد سب سے زیادہ ابیات ٹیپو سلطان اور ان سے متعلق موضوعات پر ہیں ٹیپو سلطان کی روح سے ملاقات گویا اس ڈراما کے پلاٹ کا نقطہ کمال ہے۔ آپ کی باری سب اکابر کے بعد آخر میں آتی ہے اور آپ سے ملاقات کے بعد صرف حوران بہشتی سے کچھ گفتگو ہوتی ہے پھر حضور میں حاضر ہوتے ہیں تو ندائے جمال سے سرفراز ہوتے ہیں یہ سب جنت سے رخصت کے موقع پر ہوتا ہے علامہ اقبال نے دریائے کادیری کو زندہ رود کے نام سے یاد کیا ہے اور اس کے مقابلے میں اپنے لیے بھی اس مثنوی میں زندہ رود ہی کا لقب اختیار کیا ہے، سلطان شہیدؒ کی زبان سے دریائے کاویری کے نام پیغام دلاتے ہیں تو فرماتے ہیں: در جہاں تو زندہ رود او زندہ رود خوشترک آید سرود اندر سرود دنیا میں دریائے کاویری بھی ایک جیتا جاگتا دریا ہے اور علامہ اقبال بھی علم و دانش کا زندہ جاوید دریا ہیں۔ دونوں کا سرود مل جائے تو خوب ہو گا۔ یہ حقیقت بھی اس امر کا ایک ثبوت ہے کہ ’’ جاوید نامہ‘‘ جو آپ کا شاہکار ہے اور جسے آپ اپنی زندگی کا ماحصل بنانا چاہتے تھے اس کا خاکہ آپ کے ذہن میں سفر میسوری ہی میں مرتب ہوا تھا۔ پانچ افلاک سے گزر کر فلک زحل پر پہنچتے ہیں تو بنگال کے میر جعفر اور میسور کے میر صادق کی روحیں دکھائی دیتی ہیں اس منظر میں ان غداروں کو علامہ اقبال جس حالت زبوں میں پیش کرتے ہیں اس سے بہتر ترجمانی ان کی غداری اور اس کے نتائج کی نہیں ہو سکتی، ان کی روحوں کو دوزخ نے بھی قبول نہیں کیا۔ وہ دونوں ایک خونین قلزم میں گرفتار عذاب ہیں، دو طاغوت کہن ہیں جن کے کرتوت نے ایک قوم کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ جعفر از بنگال و صادق از دکن تنگ آدم ننگ دیں ننگ وطن اس خونیں قلزم میں ایک چھوٹی سی کشتی میں دونوں سوار ہیں اور نہایت ہی مایوس اور پریشان ہیں: زرد رو، عریاں بدن، آشفتہ موی روح ہندان کو دیکھتی اور فریاد کرتی ہے کہ انہوں نے مجھے تباہ کر کے رکھ دیا جو ملت بھی تباہ و غارت ہوئی ہے اس کی بربادی کا ذمہ دار کوئی جعفر یا کوئی صادق ہی ہوا ہے۔ آج بھی ایسے غدار موجود ہیں۔ ملتے را ہر کجا غارت گری ست اصل او از صادقی یا جعفری ست الاماں از روح صادق الاماں الاماں از جعفران ایں زماں میر جعفر اور میر صادق اپنی زبوں حالی کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ افسوس ہمیں نہ عدم قبول کرتا ہے نہ وجود، دوزخ نے بھی ہمیں قبول کرنے سے انکار کر دیا، اس نے کہہ دیا کہ ان دو کافروں سے میرا شعلہ پاک ہی رہے تو اچھا ہے، میرے لیے دوسرا خس و خاشاک بہتر ہے، ان کی پریشاں حالی اور حد سے گزری ہوئی مایوسی کا عجب عالم ہے۔ گفت دوزخ را خس و خاشاک بہ شعلہ من زیں دو کافر پاک بہ ہم کو موت نے بھی کوئی سہارا نہ دیا اس نے کہہ دیا کہ موت سے غدار کی روح کو آرام نہیں ملتا۔ ایں چنیں کاری نمی آید زمرگ جان غداری نیا ساید زمرگ معلوم ہوتا ہے ان کا ذکر آپ یوں شروع کرتے ہیں: ’’ یہ وہ ارواح رذیلہ ہیں جنہوں نے ملک اور ملت سے غداری کی اور جن کو دوزخ نے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔‘‘ یہاں سے گزر کر علامہ آنسوی افلاک جا پہنچتے ہیں اور فردوس بریں کے کاخ سلاطین اور نادر اور ابدالی کے بعد سلطان شہید کی روح سے ملاقات کرتے ہیں۔ یہاں بھی آپ نے منظر نگاری اور کردار نگاری کے جوہر دکھائے ہیں قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ خود بھی اس ماحول میں موجود ہے۔ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور اپنے کانوں سے سن رہا ہے۔ پہلے پیررومی سلطان شہیدؒ کا یوں تعارف کراتے ہیں، ان پانچ ابیات میں علامہ اقبال نے سلطان شہید کی جو مدح سرائی کی ہے اس کے مقابلے میں تعریف و توصیف کے ضخیم دفاتر ہیچ نظر آتے ہیں۔ آن شہیدان محبت را امام آبروے ہند و چین و روم و شام تابش از خورشید و مہ تابندہ تر خاک قبرش از من و تو زندہ تر عشق رازی بود بر صحرا نہاد تو ندانی جاں چہ مشتاقانہ داد از نگاہ خواجہ بدر و حنین قصر سلطاں وارث جذب حسین ؑ رفت سلطاں زیں سر ای ہفت روز نوبت او در دکن باقی ہنوز عشق الٰہی کے شہیدوں کا وہ امام جو ہند و چین و روم و شام کی آبرو ہے اس کی چمک مہر و ماہ سے بڑھی ہوئی ہے اور اس کی قبر کی خاک میں مجھ سے اور تجھ سے زیادہ زندگی ہے۔ اس نے عشق الٰہی کے راز کا افشا کر دیا۔ تو نہیں جانتا کتنے شوق سے اس نے جان قربان کی اور جام شہادت نوش کیا۔ نادر، ابدالی اور سلطان شہید تینوں کا مشترکہ تعارف پیر رومی اس طرح کراتے ہیں۔ یہ بیت ایجاز و جامعیت کا ایک بلند پایہ نمونہ ہے۔ خسروان شرق اندر انجمن سطوت ایران و افغان و دکن کاخ سلاطین کی کافی تعریف کی گئی ہے پھر بھی کہا گیا ہے کہ اس کی تعریف کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا، زبان اور فکر ا س سے قاصر ہیں۔ حرف و صوتم خام و فکرم ناتمام کی تواں گفتن حدیث آں مقام ٹیپو سلطان ہندوستان اور دکن کی یاد بڑے درد ناک انداز میں کرتے ہیں اقبال کے فکر و سخن کی تعریف کرتے ہیں اور دریائے کاویری کے نام اپنے پیغام میں موت و حیات اور شہادت کا فلسفہ ایسے موثر پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک ایک حرف دل میں اتر جاتا ہے ان سارے مکالموں اور مباحث کا مقصد فقط تعلیم و تفہیم ہے، سلطان پوچھتے ہیں: زائر شہر و دیارم بودہ ای چشم خود را بر مزارم سودہ ای ای شناسائی حدود کائنات در دکن دیدی ز آثار حیات آپ نے میرے شہر اور علامہ سلطنت کی سیر کی ہے میرے مزار پر آنسو بہائے ہیں اے دور بین اور دور اندیش مفکر، دکن میں آپ نے کچھ آثار حیات بھی دیکھے ہیں؟ علامہ اقبال جواب دیتے ہیں کہ میں نے دکن میں اشکوں سے تخم ریزی کی ہے اب وہاں لالے کی پیداوار ہو گی کاویری ندی جو اپنے دائمی سفر پر لگی ہوئی ہے اس کے بہاؤ میں ایک نیا ہی شور پیدا ہو گیا ہے۔ سلطان شہید علامہ اقبال کے فکر و شعر کی تعریف کرتے ہیں: ای ترا دادند حرف دل فروز از تپ اشک تو می سوزم ہنوز آپ کو قدرت نے دلوں کو جلا دینے والا سخن عطا فرمایا ہے۔ آپ کے آنسوؤں کی حرارت مجھے اب تک جلا رہی ہے، میں مولائے کل کے حضور میں حاضر تھا جہاں کسی کو لب کشائی کی جرأت نہیں ہو سکتی، لیکن: سوختم از گرمی اشعار تو بزبانم رفت از افکار تو مجھ کو ضبط کا یارانہ رہا، آپ کے اشعار نے مجھ میں اتنی حرارت پیدا کر دی تھی کہ آپ کے افکار میری زبان پر آ ہی گئے، تو مجھ سے وہاں دریافت کیا گیا کہ یہ کس کا کلام ہے۔ جس میں زندگی کے ایسے ہنگامے پوشیدہ ہیں خیر میرا یہ پیغام کاویری تک پہنچا دینا وہ بھی زندہ رود ہے آپ بھی زندہ رود ہیں دونوں کے سر دو مل جائیں تو بہت خوب ہو گا۔ رود کاویری کے نام سلطان شہید کا پیغام اکتالیس اشعار پر مشتمل ہے۔ میرا یہ کہنا بے جا نہیں کہ یہ ساری مثنوی کا جوہر اور بہترین حصہ ہے۔ اس میں علامہ اقبال نے موت و حیات کا فلسفہ نہایت اختصار کے ساتھ اپنے خاص انداز میں بیان کیا ہے، پہلے سلطان شہید کاویری کی تعریف کرتے ہیں اور اسے اپنی یاد دلاتے ہیں جو نہایت ہی درد انگیز ہے: ای مرا خوش تر زجیحون و فرات ای دکن را آب تو آب حیات اے کاویری جو مجھے جیحوں اور فرات سے عزیز تر ہے تیرا پانی دکن کے لیے آب حیات ہے۔ میرا شہر تیرے آغوش ہی میں تو آباد تھا، تو جانتی ہے کہ یہ پیغام کس کا ہے؟ آں کہ می کردی طواف سطوتش بودہ ای آئینہ دار دولتش یہ اس تاجدار کا پیغام ہے جس کی شوکت و عظمت کا تو طواف کرتی تھی اور جس کی دولت و سلطنت کی تو آئینہ دار تھی۔ جس کی تدبیر سے صحرا بہشت زار بن گئے تھے، جس نے اپنے خون سے اپنا نقش بنایا تھا، جس کا مزار سینکڑوں، ہزاروں آرزوؤں ارمانوں کا مرجع ہے جس کی شہادت نے تیری موجوں میں اضطراب پیدا کر رکھا ہے: آں کہ گفتارش ہمہ کردار بود مشرق اندر خواب و او بیدار بود وہ جس کی گفتار سرا سر اس کا کردار تھی جس کے قول و فعل میں کوئی تفاوت نہیں تھا جو اس وقت ہشیار اور بیدار تھا جب سارا مشرق محو خواب غفلت تھا۔ اس کے بعد موت و حیات کا فلسفہ یوں بیان کیا جاتا ہے: ای من و تو موجی از رود حیات ہر نفس دیگر شود ایں کائنات زندگی دریا ہے تو میں اور تو دونوں اس کی موجیں ہیں، سن لے کہ ہر لمحہ یہ کائنات دگرگوں ہوتی رہتی ہے: زندگانی انقلاب ہر دمی ہست زانکہ او اندر سراغ عالمی ست دنیا کی زندگی میں ہر دم ایک انقلاب آتا ہے کیونکہ وہ عالم آخرت یا عالم حقیقت کی طرف سفر کر رہی ہے۔ کاروان و ناقہ و دشت و نخیل ہر چہ بینی نالد از درد رحیل دنیا کی ہر چیز اور ہر مخلوق فنا ہونے والی ہے اور سب غم رحلت میں گرفتار ہیں۔ گلشن میں پھول کچھ دیر کا مہمان ہوتا ہے، غنچہ در آغوش اور نعش گل بدوش ہے۔ وجود کی تعمیر و تشکیل، خس و خاشاک سے ہوئی ہے۔ وجود میں آنے کی سزا حسرت ہے۔ عدم سے وجود میں آنا ہی برا ہے مگر یہ کسی کے امکان میں نہیں مگر تخلیق پانے کے بعد خود فراموش نہ ہو جانا چاہیے بلکہ شرار کی طرح خرمن کی تلاش میں نکلنا چاہیے۔ خو دمیں حرارت ہے تو سورج کی طرح آسمان کی وسعتوں میں پہنچنا چاہیے پھر ساکنان ارض ہی کو نہیں بلکہ ماہیان تہ آب کو بھی حرارت سے نوازنا چاہیے۔ تیر کھانے کے لائق کسی کا سینہ ہے تو دنیا میں شاہین کی طرح بنے اور شاہین ہی کی طرح مرے، یاد رہے جو کچھ ہے عرض حیات ہی ہے طول حیات کچھ نہیں۔ زندگی را چیست رسم و دین و کیش یک دم شیری بہ از صد سال میش زندگی کا مذہب اور دین یہی ہے کہ شیر کی طرح ایک لمحہ جینا بھیڑ کی طرح سو سال جینے سے بہتر ہے۔ یہ ٹیپو سلطان شہیدؒ کا آخری قول ہے جسے علامہ اقبال نے اس خوبی سے نظم کیا ہے۔ موت کیا ہے ایک نیرنج، ایک طلسم، ایک سیمیا، بندہ حق موت کی طرف اسی طرح لپکتا ہے جس طرح شیر آہو پر یا شاہین کبوتر پر جھپٹتا ہے۔ موت بس اس کے سینکڑوں مقامات میں سے ایک مقام ہے۔ موت کے ڈر سے غلام کو زندگی حرام ہوتی ہے کیونکہ وہ ہر لمحہ موت کے خوف سے مرتا رہتا ہے۔ لیکن مرد آزاد کی شان ہی اور ہوتی ہے موت اسے ایک اور ہی زندگی عطا کرتی ہے وہ خود اندیش ہوتا ہے مرگ اندیش نہیں، اس کی موت بس ایک آن کی ہوتی ہے۔ از خود اندیش است مرگ اندیش نیست مرگ آزاداں ز آنی بیش نیست وہ موت جو خاک میں پہنچاتی ہے دام و دو کی موت ہوتی ہے مرد مومن کی موت تو اسے خاک سے اٹھاتی اور انتہائے راہ شوق کے بلند ترین مقام تک پہنچا دیتی ہے۔ گرچہ ہر مرگ ست بر مومن شکر مرگ پور مرتضیٰؓ چیزے دگر مومن کے لیے تو ہر قسم کی موت شہد و شکر ہوتی ہے لیکن شہید کربلا کی موت ایک اور ہی چیز ہے جس کا مقام ہے: آخریں تکبیر در جنگاہ شوق جنگ اور جنگ میں بڑا فرق ہے۔ دنیوی بادشاہوں کی جنگ کا مقصد غارت گری ہوتا ہے، لیکن مومن کی جنگ اعلاء کلمتہ الحق کے لیے ہوتی ہے، یہ سنت پیغمبری ہے۔ جنگ شاہان جہاں غارت گری ست جنگ مومن سنت پیغمبریؐ ست مومن باطل کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرتا ہے، بہ رضا و رغبت اس دنیا کو ترک کر کے کوئے دوست میں پہنچ جاتا ہے۔ جنگ مومن چیست؟ ہجرت سوئے دوست ترک عالم اخبار کوئے دوست اس حقیقت سے صرف شہید واقف ہوتا ہے جو اپنی جان کی قیمت دے کر یہ جنس خریدتا ہے۔ کس نداند جز شہید ایں نکتہ را کو بخون خود خرید ایں نکتہ را اس کے بعد علامہ اقبال نے سلطان شہیدؒ کے موضوع پر اردو میں بھی ایک نظم کہی ہے جو ’’ ٹیپو سلطان کی وصیت‘‘ کے عنوان سے ’’ ضرب کلیم‘‘ میں شامل ہے اس میں بھی وہی راہ شوق کا ولولہ انگیز بیان ہے۔ گو ’’ جاوید نامہ‘‘ کے اشعار کے مقابلے میں یہ نظم بالکل پھیکی معلوم ہوتی ہے تاہم اردو میں اس موضوع پر علامہ کی واحد نظم ہے اور اپنی جگہ بے شک و شبہ نہایت دلکش اور پر لطف ہے۔ ملاحظہ ہو:ـ تو رہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول لیلیٰ بھی ہمنشیں ہو تو محمل نہ کر قبول اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں محفل گداز گرمی محفل نہ کر قبول صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل ؑ نے جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول علامہ اقبال سفر میسور کے بعد سلطان شہید کی شخصیت اور عظمت سے اتنے متاثر رہے کہ اس کا اندازہ اس مکتوب کے ایک ایک لفظ سے بھی ہو سکتا ہے جو آپ نے کسی میجر صاحب کے جواب میں لکھا تھا، انہوں نے ایک فوجی اسکول کو آپ کے نام سے موسوم کرنے کی اجازت مانگی تھی، آپ نے جواب دیا: ’’ ایک معمولی شاعر کے نام سے فوجی اسکول کو موسوم کرنا زیادہ موزوں نہیں معلوم ہوتا، میں تجویز کرتا ہوں کہ آپ اس فوجی سکول کا نام ٹیپو فوجی اسکول رکھیں، ٹیپو ہندوستان کا آخری مسلمان سپاہی تھا جس کو ہندوستان کے مسلمانوں نے جلد فراموش کر دینے میں بڑی نا انصافی سے کام لیا ہے جنوبی ہندوستان میں جیسا کہ خود میں نے مشاہدہ کیا ہے اس عالی مرتبت مسلمان سپاہی کی قبر زندگی رکھتی ہے بہ نسبت ہم جیسے لوگوں کے جو بظاہر زندہ ہیں یا اپنے آپ کو زندہ ظاہر کر کے لوگوں کو دھوکا دیتے رہے ہیں۔‘‘ 1؎ اسلامی علوم و فنون قدیم ریاست میسور میں عہد عادل شاہی میں سرا اورڈوڈ بالا پور یا بالا پور کلاں کی راہ سے پہنچے، عہد سلطنت خدا داد میں یہاں ان کا بازار گرم ہوا۔ مخطوطات کی پیداوار یہاں کافی ہوئی لیکن زوال سلطنت کے بعد سیاسی انتشار نے انہیں مختلف مقامات میں بکھیر دیا ان کی قدر و قیمت کماحقہ نہ ہو سکی اور دست برد زمانہ سے انہیں بچانے کا اہتمام نہ کیا جا سکا، علامہ اقبال کی تشریف آوری نے میسور بنگلور میں ان کی اہمیت اور قدر و قیمت کا شدید احساس پیدا کر دیا اور اس کی تعمیل بھی ہونے لگی آپ سلطان شہیدؒ کی ایک مستند قلمی تاریخ اور ان کی دستی تحریروں کے متلاشی تھے تاکہ ’’ جاوید نامہ‘‘ لکھنے میں ان سے مدد لیتے بنگلور، میسور اور سری رنگ پٹن میں آپ نے بار بار یہ خواہش ظاہر کی اور لاہور واپسی کے بعد بھی اس بارے میں یہاں کے شناساؤں سے سلسلہ جنبائی کرتے رہے۔ مکاتیب میں تحریر فرمایا ہے: ’’ مجھے اس اطلاع سے بے حد مسرت ہوئی کہ میرا سفر میسور مسلم نوجوانوں میں تاریخ تحقیق کے شوق و ذوق کا باعث ہوا، سیٹھ ابا نے مجھے ٹیپو سلطان کی تاریخ سے متعلق ایک قلمی مسودہ جو ایک شخص کے پاس ہے۔ جو ہمیں سلطان کے مقبرے پر ملا تھا۔ ارسال فرمانے کا وعدہ فرمایا تھا، مجھے امید ہے کہ وہ اس کوشش میں کامیاب ہوں گے۔ ان تک میرا سلام شوق پہنچا دیجئے اور ان سے کہیے کہ اسلام کی خدمت کے لیے ان کے ذوق و شوق نے میرے دل پر ایک ایسا اثر پیدا کیا ہے جو کبھی محو نہ ہو گا۔‘‘ 2؎ سلطان شہیدؒ کے کسی روزنامچے کا مجھے علم نہیں، لیکن اگر واقعی کوئی روزنامچہ موجود ہو تو اس کا ایک نسخہ نہایت شوق سے حاصل کروں گا اگر آپ کے پاس موجود ہو تو کچھ دیر کے لیے مستعار مرحمت فرمائیے۔ 3؎ ’’ سلطان شہیدؒ کے روزنامچے کے لیے جو سلسلہ جنبانی آپ نے شروع کی ہے اس کے لیے سراپا 1؎ اقبال نامہ دوم ص ۲۴۶، منقول از سیرت اقبال 2؎ اقبال نامہ دوم صفحہ ۸۸ مکتوب مورخہ ۱۸ فروری ۱۹۲۹ء 3؎ اقبال نامہ دوم ص ۹۲ مکتوب مورخہ ۴ اگست ۱۹۲۹ء سپاس ہوں، اگر آپ ایک نسخہ بھجوا سکیں تو میرے لیے یہ ایک گنج گراں بہا ہو گا۔ اس روزنامچے سے امید ہے کہ سلطان سے متعلق مجوزہ نظم میں مجھے سلطان شہیدؒ کی صحیح صحیح حالت پیش کرنے میں بہت امداد ملے گی۔ ازراہ کرم مطلع فرمائیے کہ وہ مالک کتاب قیمت چاہتے ہیں تو کیا؟ میں بخوشی مناسب قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں۔ اگر وہ آپ کو کتاب کی نقل لینے دیں تو خوش خط نقل لے لیجئے۔‘‘ 1؎ چنانچہ علامہ کی تحریک و تشویق سے بنگلور میں آپ کے ایک پر خلوص معتقد محمد جمیل صاحب جن سے آپ کی باقاعدہ خط و کتابت رہی اور جو خود صاحب علم اور بڑے علم دوست تھے اور میسور میں مشہور و معروف قومی قائد محمد ابا سیٹھ صاح مخطوطات جمع کرنے لگے سیٹھ صاحب نے میسور میں اس کی بڑی پر زور تحریک چلائی اور تھوڑی ہی مدت میں سینکڑوں قیمتی مخطوطات مسلم کلب میں جمع فرما دیے جو اس دور میں شہر میسور کے مسلمانوں کا ایک اہم ثقافتی مرکز تھا، یہ کلب ختم ہوا تو مخطوطات انجمن رفاہ المسلمین کے حوالے کر دیے گئے۔ مولوی عبدالحق مرحوم میسور تشریف لائے تو انہوں نے ان میں سے چند مخطوطات انتخاب کر لیے جو شاید آج کل انجمن ترقی اردو علی گڑھ کی مخطوطہ لائبریری میں موجود ہیں باقی مخطوطات کچھ مدت کے بعد انجمن اتحاد اور اسلام کے کتب خانے میں پہنچا دیے گئے پانچ سال قبل ان میں سے بہت سے اہم مخطوطات انتخاب کر کے ہم نے جامعہ میسور کے اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ اردو و فارسی و عربی میں محفوظ کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ مخطوطات جمع کرنے کی اور بھی انفرادی کوششیں اسی زمانے سے شروع ہوئیں اور آج مختلف شوقین اصحاب کے ذاتی کتب خانوں میں قیمتی مخطوطات کے ذخیرے موجود ہیں۔ اسی طرح علامہ اقبال کی تحریک و ترغیب نے مسلم لائبریری بنگلور کے ارباب انتظام کے سمند شوق کے حق میں مہمیز کا کام دیا انہوں نے اس ارادے کو اور زیادہ استحکام بخشا اور جمع کتب کی کوشش کو تیز تر کر دیا، یہ کتب خانہ ریاست بھر میں اردو، فارسی اور عربی کا سب سے بڑا اور مایہ ناز کتب خانہ ہے جہاں آٹھ ہزار کے لگ بھگ کتابیں موجود ہیں۔ خاص خوبی یہ ہے کہ ریاست میسور کی ارود، فارسی اور عربی مطبوعات یہاں کافی تعداد میں محفوظ ہیں چندنادر اور نہایت قیمتی مخطوطات بھی ہیں اس پہلو پر علامہ اقبالؒ نے خاص توجہ دلائی تھی یہاں کی کتاب آراء میں آپ نے جو رائے لکھی تھی اس میں اس امر پر بہت زور دیا تھا۔ خدا مغفرت کرے محمود خاں صاحب محمود بنگلوری نے بزم ادب، مہاراجا کالج میسور کے بھرے جلسے میں بتایا تھا کہ علامہ اقبال کے فیض سے وہ مورخ اور مصنف بنے تھے اس وقت آپ نے صرف ایک چھوٹی سی کتاب لکھی تھی جو سلطان شہیدؒ کے نام سے شائع بھی ہو چکی تھی وہ اخبارات اور رسائل کے لیے آرٹیکل لکھا کرتے تھے کچھ شعر گوئی کا شوق تھا۔ علامہ اقبال نے آپ کو شاعری اور آرٹیکل نگاری سے روکا اور ٹیپو سلطان کی تاریخ پر وقف ہو جانے کا شوق دلایا چنانچہ آپ کی اس ترغیب و تحریص سے متاثر ہو کر مرحوم نے اپنی ساری عمر اسی پر صرف کر دی اور اس کے بعد اپنی گیارہ تصانیف پیش کیں جن میں سے تاریخ سلطنت خدا داد اور تاریخ جنوبی ہند سب سے زیادہ مشہور و معروف ہیں ہندو پاک میں آپ کی تخلیقات کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کو بڑا قبول عام نصیب ہے۔ ریاست میسور میں علامہ اقبال کا کلام زبان زد خاص و عام رہا ہے۔ اردو اور فارسی کے نصاب میں آپ کے مختلف 1؎۔ اقبال نامہ دوم ص ۹۳۔ مکتوب مورخہ ۴ نومبر ۱۹۳۹ء مجموعے شامل ہیں۔ مختلف اور متعدد مقامات پر ہر سال یوم اقبال بڑے شوق اور عقیدت سے منایا جاتا ہے۔ اقبالیات میں بہت دلچسپی لی جاتی ہے۔ بڑی اچھی تقریریں ہوتی ہیں مقالے، مضامین اور قصائد بھی لکھے جاتے ہیں اور جامعہ میسور کی پروفیسر اردو ڈاکٹر حبیب النساء بیگم نے تصوف اقبال کے نام سے ایک مستقل تصنیف پیش کی ہے جسے ملک بھر میں پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا گیا ہے۔ ٭٭٭ اقبال اور نواب بہاولپور بریگیڈیر سید نذیر علی علامہ اقبالؒ کے حضور دو چار مرتبہ میری بار یابیاں بڑی ہی معنی خیز تو ہوئی ہیں۔ لیکن ان باریابیوں کو قربت کا شرف حاصل ہونا سمجھ لیا جائے صحیح نہیں۔ علامہ کے حضور حاضر ہو سکوں میری انتہائی آرزو تھی اپنی اس آرزو کے پورا ہونے کے لئے میں سالہا سال سے علامہ کے ارشاد خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے پر عمل پیرا رہتا چلا آیا ہوں حکیم الامت کے اس ارشاد پر عمل کرنے کا نتیجہ اس طرح ہوا کہ باری تعالیٰ نے میری مسلسل آرزو سے جھنجھلا کر ملکہ قصر میں سے فرمایا ہو گا علامہ اقبال کے حضور نذیر کی باریابی کا جلد کوئی انتظام کر کے بواپسی رپورٹ پیش کریں۔ چنانچہ باری تعالیٰ کے اس فرمان کا نتیجہ دوسرے ہی دن سید بشیر حیدر مرحوم اے ڈی ایم حضرت علامہ کے دوست میرے رشتہ دار نے لاہور سے مجھے بذریعہ ڈاک اطلاع دی کہ حکیم الامت ڈیر نواب صاحب تشریف لا کر امیر بہاولپور سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں تعجب کی بات یہ ہے کہ امیر بہاولپور کو انہی ایام میں خود بھی علامہ کی ملاقات کا بے حد اشتیاق تھا۔ موصوف چاہتے تھے کہ جارج ششم کی تاجپوشی کے جلسہ کے لنڈن جانے سے پہلے حکیم الامت سے مل کر ملت اسلامیہ کے متعلق راہنمائی حاصل کر لیں۔ دانائے راز حضرت علامہ اقبال امیر بہاولپور کے اس شوق سے پوری طرح واقف تھے اس عجلت اس اشتیاق کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ چند مہینوں کے بعد حکیم الامت اللہ تعالیٰ کو پیارے ہونے والے تھے چنانچہ ۱۹۰۴ء میں جب میری عمر آٹھ نو سال کی تھی میں اپنے آبائی وطن سیالکوٹ کے مکان کی چھت سے کشمیر کے سفید عمامہ پوش پہاڑوں کو دیکھ کر ان کی متانت اور غم زدگی سے متاثر ہوا کرتا تھا۔ علامہ اقبال کے بزرگ کشمیری برہمن تھے جس زاویہ نگاہ سے حکیم الامت سیالکوٹ کے اس ماحول سے تاثر لیتے ہوں گے وہ اقبال کے تاثیر کی ایسی بنیاد ہے کہ جس پر بانگ درا، خودی، بے خودی اور جاید نامہ جیسے صحیفوں ہی کی بنیادیں عالمگیر طور پر اٹھائی جا سکتی ہیں۔ مجھے حد آرزو تھی کہ میں اقبال کی سرکار میں حاضر ہو کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں کہ علامہ اقبال کی فکر: ’’ناز شہاں نمی کشم زخم کرم غمے خورم‘‘ عملی طور پر کس حد تک جاندار ہے۔ جو بندہ یا بندہ جب میں امیر بہاولپور کا پیغام لے کر جاوید منزل پہنچا تو میں نے دیکھا کہ میری سالہا سال کی یہ آرزو اللہ تعالیٰ نے اس طرح پوری کر دی کہ حکیم الامت ایک بنیائن اور تہبند باندھے پلنگ پر لیٹے تھے۔ پاس ایک کرسی پر نذیر نیازی بیٹھے ایک ایسا خوشبودار سیب چھیل رہے تھے کہ مجھے رہ رہ کے باغ عدن کا سیب یاد آ رہا تھا۔ نیازی صاحب نے چھیل کاٹ سیب کی کاشیں پلیٹ میں رکھ پلیٹ میرے حوالے کر دی۔ نیازی صاحب بھی میرے رشتہ دار ہیں اگرچہ اکیلا شخص کوئی چیز کھاتا اچھا نہیں لگتا لیکن اس سیب کی خوشبو، ذائقہ اس قدر بھلا تھا کہ کاشیں پلیٹ سے اچھل آناً فاناً میرے منہ میں پڑ گھلتی چلی جا رہی تھیں۔ علامہ کا مجھے نذیر نذیر فرما کر خطاب کرنا: ’’جہاں تواں گرفتن ز صدائے دلنوازے‘‘ والی ہی بات تھی مری اس باریابی پر علامہ ؒ نے دو واقعات بیان فرمائے تھے جو حرف بحرف درج ذیل ہیں۔ ۱۔ علامہ نے فرمایا بشیر نے آج صبح کہلا بھیجا تھا کہ تم امیر بہاولپور کے ساتھ لاہور نہیں آ رہے۔ اچھا ہوا تم آ گئے ہو میں نے عرض کیا امیر بہاولپور کو چند وجوہات کی بنا پر لاہور کی روانگی میں تاخیر ہونے کی وجہ چند دن اور لگنے ہیں اس لئے موصوف نے مجھے بھیجا ہے کہ میں تاخیر کے لئے ہز ہائی نس کی طرف سے معذرت کر لوں۔ ۲۔ دوسرا واقعہ جو علامہ نے فرمایا اسے سن کر میرا دل بری طرح کڑھا تھا۔ آپ نے فرمایا بہاولپور کے ایک بڑے زمیندار کبھی کبھی مجھ سے قانونی مشورہ لینے کے لئے لاتے رہتے ہیں کل صبح آئے تو حسب دستور انہوں نے کسی معاملہ میں مشورہ لینے کے لئے کہا میں (علامہ) نے کہا بہتر ہو گا رات کھانے پر تشریف لے آئیں کھانے پر باتیں کر لی جائیں گی ساتھ ہی انہوں نے کہا بہاولپور کے ایک وزیر میرے دوست ہیں اگر اجازت ہو تو ان کو بھی ساتھ لیتا آؤں۔ علامہ فرماتے ہیں میں نے کہا میرے تو ان کے ساتھ مراسم ہیں لیکن آپ کے دوست ہیں تشریف لے آئیں۔ دراصل یہ سارا پروگرام حضرات نے امیر بہاولپور کو ایکسپلائٹ کرنے کے لئے بنایا تھا چنانچہ بعد میں وزیر صاحب نے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں کامیابی نہ ہو سکی۔ وزیر بھی عجیب مخلوق ہوتے ہیں برمکی ہو کہ بیرم خان یا بسمارک ان کی کامیابی کا سارا راز اس میں ہوتا ہے کہ ان کے بغیر مشورہ بادشاہ کچھ نہ کر سکے۔ ان وزیروں کے چیلے چانٹے جنہیں یہ وزیر صاحبان خاصا معاوجہ دیتے رہتے ہیں، بادشاہ کی چھوٹی چھوٹی بات اپنے مربی وزیر کو پہنچاتے رہتے ہیں یعنی یہ حضرت زمیندار صاحب اور وزیر صاحب بھنک پا کر لاہور پہنچ قریب کی یہ شطرنج بچھا دیتے تھے کہ سرکار کا انہیں پھر اعتماد حاصل ہو جائے حکیم الامت اور امیر بہاولپور کی ملاقات دنیا داری کے معاملات والی بات نہ تھی اس سعادت سے فیض پانا میری صرف بڑی خوش قسمتی ہی نہ تھی میری بڑی بے لوث آرزو کا ثمر بھی تھا۔ یہاں دیانتدارانہ طور پر مجھے یہ بات بھی عرض کر دینی چاہئے کہ امیر بہاولپور کے مصاحبوں میں سے بندہ ہی کم ہنر اور کم عقل سمجھا جاتا تھا لیکن یہ قسمت کی بات ہو تو ہو کہ مجھے بھی بطور ایلچی قائد اعظمؒ، مولانا ابو الکلام آزاد، پنڈت نہرو، لیڈی لوئی ماؤنٹین سے شرف باریابی حاصل ہوتا رہا ہے۔ ہر ریاست کی خوشحالی کے لئے تین کام سر انجام دینے ضروری ہوتے ہیں۔ یعنی دینی، دفاعی اور زرعی مرحوم امیر بہاولپور نے یہ تینوں فرائض بخوبی انجام دئیے ہیں۔ امیر کی حسن کار گذاری کا انعام تھا کہ علامہ اقبالؒ نے امیر بہاولپور کو پہلی ملاقات میں مخاطب فرما کر فی البدیہہ فرمایا تھا: زندہ ہیں تیرے دم سے عرب کی روایتیں اے یادگار سطوت اسلام زندہ باد علامہ کی اس قدر شناسی کا تقاضا ہے کہ امیر بہاولپور کا مختصر تعارف پیش کر دیا جائے۔ رعایا کی طرف سے امیر کو غیر سرکاری طور پر خطاب ’’ شرم حضور اتا‘‘ دے رکھا تھا۔ کم گو تھے کھاتے کم اور کام زیادہ کرتے تھے۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کو حنفی عقیدہ کا پیرو دیکھنا چاہتے تھے۔ آباد کار پنجابیوں، اردو مادری زبان والے مہاجروں اور قدیم زمانہ کے بہاولپوریوں کی زبان میں زبان سے کم دل سے زیادہ بات کرتے تھے برطانوی عہد میں ایک مسلمان والئے ریاست کو بڑی احتیاط سے اپنی ریاست کو قائم کر کے رکھنا تھا موصوف نے والہانہ نہیں دانشمندانہ طور پر اس فریضہ کو انجام دیا تھا۔ قصیدہ خوانی نہیں کر رہا ہوں میری بجائے چالیس سال تک اگر مولانا مہر امیر بینظیر کے مصاحب ہوتے تو آپ کی خوبیوں کے کئی دفتر لکھ ڈالتے۔ امیر موصوف شعر و سخن کے قدر دان تو تھے لیکن سودائی نہ تھے رقص و سرود اور شراب سے کوئی واسطہ نہ تھا اسلحہ کے فراہم کرنے اور اسلحہ سازی کے سلسلہ میں خود مستری بن کر انتھک محنت کرتے تھے۔ دونوں عالمگیر جنگوں میں انگریز کی کم اور اسلام کی خدمت زیادہ انجام دی ہے۔ امیر بہاولپور کے متعلق یہ ساری باتیں حکیم الامت کے علم میں تھیں۔ امیر بہاولپور پیدائشی حکمران ہونے کی وجہ مصاحبوں کا محتاج نہ تھا۔ ’’رعیت چو بیخ است و سلطاں درخت درخت اے پسر باشد از بیک سخت‘‘ سعدی کے اصول پر عمل فرماتے تھے تین سال کی عمر میں حج کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ دس سال کی عمر تھی کہ پہلی جنگ عالمگیر کے دوران لنڈن میں والیان ریاست ہائے ہند کے نمائندہ کی حیثیت سے سرکاری طور پر خدمات انجام دی تھیں۔ اس امیر بہاولپور کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ خود ادب کرتا تھا اور اوروں سے ادب کراتا تھا۔ امیر نے ۱۹۲۴ء میں عنان حکومت سنبھالی تھی اور ۱۹۴۶ء میں اپنی ریاست قوم کے حوالے کر دی تھی اگرچہ اس وقت ایسا کرنا بڑا خطرناک تھا کیونکہ اس وقت برصغیر پر انگریز کا تسلط تھا۔ حکیم الامت ایسے لوگوں کی بڑی قدر فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ مجھے اس عباسی فرمانروا سے اس لئے قلبی لگاؤ ہے کہ ایک تو اس کے دل میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا بے پایان شوق ہے اور دوسرے مجھے اپنی صحت سے اب یہ اندازہ ہو چکا ہے ’’ کیا یار بھروسہ چراغ سحری کا‘‘ اور فرمایا میں وفات سے پہلے اس عباسی فرمانروا کے نام تفسیر قرآن کریم جس کے لکھنے کا میرا ارادہ ہے میری آرزو ہے امیر صادق محمد خان عباسی کے نام معنون کر دوں اور ساتھ ہی بالمشافہ طور پر چند نہایت ہی ضروری باتوں کا ذکر امیر بہاولپور سے کر دوں علامہ کا انداز گفتگو بچوں کی سی معصومیت کا حامل تکلفات بیجا سے پاک اس قدر گھٹن سے فارغ تھا جیسے کوئی برخوردار اپنے ابا کے قرب سے تو گھبراتا ہو گا لیکن اپنی ماں کے قرب کو بہشت سمجھتا ہے۔ ایک گھنٹہ بھر حاضر رہنے کے بعد یہ عرض کر کے کہ امیر بہاولپور جناب سے ملاقات کرنے کے لئے تین چار دن تک لاہور پہنچنے والے ہیں اب مجھے اجازت دی جائے کل حاضر ہوں گا۔ ’’ بے آب و رنگ و خال و خد’’ کمرہ‘‘ پنڈ دی کڑی‘‘ کی طرح تعین و پر وقار دانائے راز کے خلوت کدہ میں گزاری ایک گھڑی بکنگھم پیلس کے کارو نشینی رقص کے طمطراق سے تقریباًا تنی ہی اعلیٰ اور ارفع تھی جس طرح جھلمل جھلمل کرتے چراغ بندی کے چراغوں سے چاند۔ حکیم الامت کی ملاقات کے بعد چند ہی دنوں کے بعد امیر بہاولپور کے ساتھ میں لنڈن پہنچ چکا تھا۔ تاجپوشی کے سلسلہ میں بیشمار دعوتیں دی جا رہی تھیں سب سے بڑی کارونیشن ہال یعنی رقص بسلسلہ تاجپوشی تھی اس دعوت میں دنیا بھر کے نامور مرد و زن مدعو تھے۔ ان کے لباس زیورات جواہرات دیکھ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ باوجود اس جاہ و جم کے جارج ششم بیچارا اداس اداس کیوں ہے برعکس اس کے لاہور کے ایک چھوٹے سے مکان جاوید منزل کی عزت عظمت میرے دل میں اس قدر کیوں ہے جارج بیچارا ہٹلر مسولینی کے غم میں غلطاں لیکن علامہ اقبال ایک بنائین تہبند پہنے پلنگ پر لیٹا باری تعالیٰ سے سرگوشیاں کرنے میں مصروف پس از سی سال ایں معنی محقق شد بہ خاقانی کہ یکدم با خدا بوان بہ از فلک سلیمانی لنڈن کی اس برات میں مصر کے فاروق بھی تھے نازی جرمنی کے رنٹر اف اور اطالیہ کے وزیر خارجہ کاؤنٹ گرانڈی بھی تھا۔ ان دونوں کو ضرورت سے کچھ زیادہ ہی پاٹے خان بنا دیکھ مجھے معلوم کرنا پڑا تھا کہ یہ حضرات کون ہیں؟ دوسری عالمگیر جنگ کی تیاریاں تاجپوشی کے شادیانے محبت کی حد نفرت کی انتہا الاماں۔ الاماں! بلا مبالغہ کسی پاکستانی کا علامہ اقبالؒ یا قائد اعظمؒ کی خدمت میں باریاب ہونا بہت بڑی خوش نصیبی ہے۔ دوسرے دن جب میں پھر حاضر خدمت ہوا تو موصوف نے ایک تازہ واقعہ سنایا جو حرف بحرف درج ذیل ہے: آپ نے فرمایا برطانوی حکومت فی زمانہ اپنی نو آبادیت میں اپنا وائسری مقرر کرنے سے پہلے وائسریٰ کے منصب کے امیدوار کو نو آبادی کے حالات کے جائزہ کرنے کے لئے بھیج دیتی ہے۔ پچھلے دنوں کا واقعہ ہے کہ اس سلسلہ میں ہندوستان کا آئندہ ہونے والا وائسرائے لارڈ لودین لاہور آیا ہواتھا پنجاب کے لاٹ صاحب کے ہاں مہمان تھا۔ آپ نے فرمایا لارڈ موصوف نے مجھے گورنمنٹ ہاؤس سے ایک خط لکھا جس کا لب لباب تھا کہ انہیں بہت سے مسائل سمجھنے ہیں لہٰذا آج شام کی چائے میرے ساتھ پی لینی منظور فرمائیں۔ علامہ نے فرمایا میں نے واپسی لکھ بھیجا کہ میں صاحب فراش ہوں ورنہ تو مجھے آپ سے ملنے کی خود بڑی تمنا تھی۔ چائے کی دعوت کا شکریہ معذرت خواہ ہوں کہ حاضر نہیں ہو سکوں گا۔۔۔۔ علامہ نے فرمایا جونہی میرا خط لارڈ موصوف کو موصول ہوا لارڈ لودین نے استدعاً لکھ بھیجا کہ اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو اجازت دیجئے میں خود حاضر ہو جاؤں۔ اس کا جواب علامہ نے ساتھ میں لکھ بھیجا آپ کا گھر ہے جس وقت چاہیں تشریف لے آئیں۔ ’’مسند کیقبادر در تہ بوریہ طلب‘‘ خلاف تہذیب بات نہ ہوتی تو میں ہمت کر کے حکیم الامتؒ سے پوچھ لیتا کہ لارڈ لودیں اور حضور کے درمیان کیا کیا باتیں ہوئی تھیں۔۔۔۔ بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آیا کہ بطور یادگار کوئی اچھی سی بات میں حکیم الامت سے عرض کر کے پوچھ لوں۔ لہٰذا میں نے راہنمائی حاصل کرنے کے لئے عرض کیا حضور درود شریف پڑھنے کے متعلق علمائے کرام بڑی تاکید فرماتے ہیں اس میں کیا حکمت ہے؟ بامعنی سوال تھا لطف اندوز ہوئے مسکرائے اور فرمایا درود شریف کی عبارت حرف بحرف قرآن کریم کی عبارت تو نہیں۔ لیکن جن بزرگوں نے درود شریف ترتیب دیا ہے ان کا مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے افسوس ہے کہ اس جواب سے میری تشفی نہیں ہو سکی۔ خدا کرے کوئی جید عالم اس مضمون پر مزید روشنی ڈال سکیں۔ کافی وقت ہو چکا تھا رخصت لی اور چلا آیا۔ تیسرے دن بجائے صبح حاضر ہونے کے میں جاوید منزل سہ پہر کو حاضر ہوا تھا۔ اس دفعہ گہری شام کے دوران جاوید منزل میں وہ نظارہ دیکھا کہ بطور شکرانہ ’’ سبحان ربی اعلیٰ‘‘ ’’ سبحان ربی العظیم‘‘ آج تک پڑھتا ہی پڑھتا چلا جا رہا ہوں۔ باتوں باتوں میں کافی وقت گزر چکا تھا اس وقت میں ہی اکیلا حاضر خدمت تھا علی بخش (علامہؒ کے ملازم) نے باہر سے آکر عرض کیا ’’ جی وہ آ گئے ہیں‘‘ لیٹے ہی لیٹے فرمایا: آنے دو آنے والے سیاسی دنیا کے اڑھائی قلندر دہلیز کے پاس پہنچ ہاتھ جوڑ سر جھکا کھڑے ہو گئے۔ لمحہ بھر بیٹھنے کے بعد ’’ حجاب پاس وضع‘‘ کا صدقہ میں اٹھ کر چلا آیا۔ ورنہ جی چاہتا تھا کہ کیا کیا اور کس کس طرح گفتگو ہوتی ہے۔ سن لوں علامہ نے فرمانا نہیں تھا کہ نذیر تم چلے جاؤ۔ کمرے میں کرسی ایک ہی تھی حضرت علامہ نے لیٹے ہی لیٹے اس بے نیازی لیکن اپنایت سے ان آنے والوں: پنڈت نہرو، میاں افتخار اور ایک خاتون کا بزرگانہ شفقت سے نوازا کہ میرے دل میں خواجہ فریدؒ کے اقوال: ہیوں او کلاش تے رنداساں پی خودی اے ہند سندھ اسال تڑپنے لہرانے لگ گئے اور اس وقت کے اس ماحول کے متعلق میرا خیال ہے کہ علامہ کی روح نہرو کی روح کو مخاطب کر کے یہ کہہ رہی ہو گی: اے امانت دار تہذیب کہن پشت پا بر مسلک آبا مزن اللہ، اللہ! ایک فرمانروائے ریاست علامہ سے ملنے کے لئے بہاولپور سے لاہور آ رہا ہے ایک ہونے والا وائسریٰ ملاقات کے لئے جاوید منزل حاضر ہوتا ہے پنڈت نہرو جو احباب ادب بملاحظہ ہوشیار حاضر خدمت ہیں۔ ’’اب اور چاہیے کیا دیدہ یقین کے لئے‘‘ (شوق بہاولپوری) شام کی گاڑی سے امیر بہاولپور لاہور پہنچ چکے تھے۔ بہاولپور ہاؤس میں قیام تھا۔ پہنچتے ہی دستی لکھا دعوت نامہ مجھے علامہ کی خدمت میں پہنچا دینے کے لئے دیا اور مصاحبوں اور ملازموں کو کل پانچ بجے سہ پہر حضرت علامہ اقبال کے بہاولپور ہاؤس تشریف لانے کا اعلان فرمایا چائے کے انتظام کے لئے ہدایات دیں۔ اسی رات کی گاڑی سے بہاولپور واپس جانا تھا۔ حکومت محکمہ خبر رسانی کو پتہ تک نہ چلا غالباً مذاکرات سید جمال الدین افغانی کی روح بدن والے ہوں گے۔ دوسرے دن ٹھیک پانچ بجے حکیم الامت کی تشریف آوری بہاولپور ہاؤس میں ہوئی۔ کوئی دو گھنٹہ بھر تک کا تخلیہ رہا بڑی ہی راز دار باتیں ہوں گی۔ کیونکہ امیر بہاولپور نے ہم مصاحبوں کو غیر معمولی طور پر ان باتوں کے شمہ بھر سے بھی محروم رکھا۔ حکیم الامت کو گاڑی تک سوار کرانے تک حضرت علامہ نے بچوں کی سی خوشی کے انداز میں بار بار یہی ایک بات فرمائی۔ اوئے نذیر۔ اج بہت اچھیاں اچھیاں گلاں ہویاں نے۔ الف لام میم حروف مقطعات سے معمولی سی دلچسپی رکھنے والے مسلمان ایک نقطے سے اللہ تعالیٰ کی ساری کتاب سمجھ لیتے ہیں ورنہ اندازہ ہے کہ وفات سے آٹھ ماہ پہلے او ٹہلر گردی سے ڈیڑھ سال پہلے علامہ ا قبالؒ امیر بہاولپور کو بتلا گئے ہوں گے کہ دس سال کے بعد انشاء اللہ پاکستان اور اس پچاس سال بعد اسلامک کامن ویلتھ کی شکل میں سید جمال الدین افغانی کی آرزو اللہ تعالیٰ پوری فرما دیں گے۔ علامہ کے حضور باریاب ہونے۔ ارشادات سننے سے ماخوذ میرے یہ قیافے اندازے تقریباً تیر بہدف ہی ہیں۔ اس سلسلہ میں تعجب انگیز بات یہ ہے کہ علامہ سے تو ملنے کی اس کے بعد مہلت نہ ملی اور امیر بہاولپور نے اس بات کو کسی ایسے صندوق میں بند کر رکھا تھا کہ اس صندوق کی کسی غیر کے ہاتھ اگر چابی آ جائے تو صندوق تو کھل جائے لیکن وہ جوہر جس کی تلاش ہے نہ ملے۔ اس اہم ترین باریابی سے پہلے چار دفعہ پہلے بھی موقعہ نصیب ہو چکا ہوا ہے۔ سب سے پہلے انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسہ میں جس کی صدارت امیر بہاولپور کر رہے تھے اور جس جلسہ میں خطبہ استقبالیہ حکیم الامت نے ارشاد فرمایا تھا۔۔۔۔ شاعر کائنات علامہ اقبالؒ کا خطبہ استقبالیہ ارشاد فرمانا امیر بہاولپور کی کسی غیر معمولی نیکی ہی کا صلہ ہو تو ہو ورنہ یہ فیض یہ سعادت کسی اور کے نصیب میں نہیں دیکھا سنا۔۔۔۔ اس خوش نصیبی پر ہم امیر مرحوم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور حضرت علامہ اقبالؒ کی اس قدر دانی کی وجہ ہم اہل بہاولپور اقبال زندہ باد کو تا قیامت دل سے دعا دیتے رہیں گے۔ اس باریابی سے غالباً ایک سال پہلے یا بعد ہمیں سید شیر حیدر صاحب کے ہمراہ علامہ کے میکلوڈ روڈ ووالے مکان پر باریاب ہوا تھا۔ ایک جلد جاوید نامہ کی ساتھ لیتا گیا تھا تاکہ آٹو گراف کے لیے عرض کر سکوں۔ تقریباً نصف گھنٹہ رسمی باتوں میں صرف ہوا تھا چلنے سے پہلے جاوید نامہ پیش کر کے آٹو گراف فرما دینے کی درخواست کی جناب نے دستخط ثبت فرما دئیے جس کی فوٹو سٹیٹ کاپی اور جس کے متعلق ایک انگریز شاعر کے ریمارکس کی فوٹو اسٹیٹ نقلیں شامل مضمون ہذا ہیں۔ چوتھی باریابی یاد نہیں کس سال ہوئی تھی۔ مجھے علامہ کا ایک دستی خط لنڈن میں کسی دوست کے نام لاہور سے بھجوایا گیا تھا یا لاہور ہی میں دلوایا گیا تھا تقریباً نصف صدی کا واقعہ یاد نہیں رہا۔ افسوس ہے مکتوب الیہ تک انتہائی کوشش کے باوجود رسائی نہ ہو سکی۔ لہٰذا وہ خط اقبال کی امانت ضمانت سنٹرل لائبریری بہاولپور کی زینت بنا دیا گیا ہوا ہے۔ اقبالؒ عجیب بات ہے بہترین مسلمان ہونے کے باوجود پنڈت بھی تھے گرنتھی بھی تھے، پادری بھی تھے یعنی انسان کو جس جس ذریعہ سے نفع حلال حاصل ہو وہ حکیم الامت کا پسندیدہ موضوع تھا۔ اصل چیز جس سے ہمیں حضرت علامہ اقبال فیض پہنچا سکے ہیں۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عشق تھا۔ یہی چیز علامہ رحمتہ اللہ علیہ نے امیر بہاولپور میں دیکھی تھی اور اس کی قدر فرماتے تھے۔ ٭٭٭ عبدالعزیز مالواڈہ ایک انٹرویو، بہ سلسلہ اقبال ۲۵ اپریل ۱۹۶۷ء کو اقبالیات کے سلسلے میں میاں عبدالعزیز صاحب بار ایٹ لاء بیرون یکی دروازہ لاہور سے ایک اہم ملاقات کی گئی۔ یہ گفتگو ٹیپ ریکارڈ کی صورت میں محفوظ کر لی گئی۔ جسے پیش کیا جا رہا ہے۔ مندرجہ ذیل اصحاب نے اس گفتگو میں حصہ لیا: ۱۔ مسٹر ممتاز حسن مینجنگ ڈائریکٹر نیشنل بینک آف پاکستان ۲۔پروفیسر حمید احمد خان وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ۳۔ مولوی ظفر اقبال، ریٹائرڈ رجسٹرار محکمہ تعلیم پنجاب ۴۔ چوہدری محمد شفیع کنبوہ ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ دفتر اکونٹنٹ جنرل پنجاب ۵۔ میاں عبدالمجید خلف الرشید میاں عبدالعزیز صاحب بار ایٹ لاء گفتگو کی ابتداء مسٹر ممتاز حسن صاحب نے کی اور اس کی تکمیل چوہدری محمد شفیع کنبوہ کے حصہ میں آئی۔ ٭٭٭ بسم اللہ الرحمن الرحیم ممتاز حسن۔ قبلہ! میں آپ سے آج استفادہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے اور اقبال مرحوم کے تعلقات اور آپ کی ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی؟ اور اس کے بعد آپ کو ایک دوسرے سے ملنے کے کیا کیا مواقع ملتے رہے اور آپ نے خاص طور پر ان میں کونسی چیز دیکھی۔ جس سے آپ کی اور ان کی دوستی بڑھی اور آخر وقت تک قائم رہی؟ میاں عبدالعزیز۔ میں عرض کرتا ہوں کہ مجھے پہلی مرتبہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے ۱۹۰۲ء کے اجلاس میں ان کی نظم سن کر خواہش پیدا ہوئی کہ ان سے ملاقات کرنی چاہیے لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ تاہم ان سے بھاٹی دروازہ جہاں وہ رہتے تھے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ممتاز صاحب۔ آپ کو یاد ہے وہ نظم کونسی تھی؟ میاں صاحب۔ نظم یاد نہیں ممتاز صاحب۔ ’’ فریاد امت‘‘ تو نہیں تھی؟ فریاد امت، نالہ یتیم وہ تو پہلے کی چیز ہے۔ نالہ یتیم تو میرے خیال میں ۱۸۹۹ء کی ہے۔ میاں صاحب۔ نہیں وہ نہیں! اچھا میں آپ سے عرض کر دوں گا جب مجھے یاد آ جائے گی۔ ممتاز صاحب۔ اچھا لمبی نظم تھی کہ چھوٹی؟ میاں صاحب۔ اچھی لمبی تھی۔ ہاں ہاں یاد آ گئی۔ غالباً نظم یہ تھی نہیں محنت کش تاب شنیدن داستاں میری خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری تو اس کے بعد مجھے پہلی مرتبہ فقیر سید نجم الدین کے مکان پر ملنے کا موقع ملا۔ پھر اسلامیہ ہائی سکول ہوشیار پور کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں وہ ہوشیار پور تشریف لے آئے۔ لاہور سے میاں محمد شفیع، مولوی شاہ دین صاحب جج چیف کورٹ ڈاکٹر اقبال اور بہت سے دوسرے بزرگ بھی آئے تھے۔ سکول کا سنگ بنیاد نواب مشتاق حسین صاحب نے رکھا یہ واقعہ دسمبر ۱۹۰۸ء کا ہے۔ اس وقت میرے اور ان کے زیادہ تعلقات ہوئے اور زیادہ تعلقات اس لئے ہو گئے کہ مولانا غلام قادر صاحب گرامی میرے بڑے مہربان تھے اور میں نے ہوشیار پور میں ڈاکٹر اقبال کی تشریف آوری کے سلسلے میں ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ یہاں ڈاکٹر اقبال سے میری بے تکلفی ہو گئی۔ پھر جب بھی لاہور آتا ڈاکٹر صاحب سے ملا کرتا تھا۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب ۱۹۰۸ء میں لندن سے واپس آئے تھے تو انار کلی میں چھوٹے لال کا جہاں مکان تھا۔ شیخ نصیر الدین صاحب بڑے بزرگ اور نیک آدمی تھے۔ ان کی اپنی بڑی دکان تھی۔ اس مکان کے اوپر اقبال صاحب رہتے تھے۔ میں ان کو وہاں اکثر ملنے کو جایا کرتا تھا۔ میرے اور ان کے تعلقات بڑھتے گئے۔ پھر کسی مقدمے کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب ہوشیار پور تشریف لائے۔ اس موقع پر میں نے گرامی صاحب اور چند دوسرے دوستوں کو چائے کی دعوت پر مدعو کیا۔ شام کو جب کچہری سے واپس آئے پہلے تو مختلف قسم کی باتیں ہوتی رہیں۔ پھر مشاعرہ شروع ہو گیا۔ ممتاز صاحب۔ جی میاں صاحب۔ ایک شعر گرامی صاحب کہیں اور اس کے جواب میں ایک شعر اقبال صاحب اردو میں۔ گرامی کے اشعار فارسی میں ہوتے تھے اور اقبال صاحب کے اردو میں، اس وقت تک اقبال فارسی میں شعر نہیں کہتے تھے۔ ممتاز صاحب۔ درست، اپنے سناتے تھے۔ میاں صاحب۔ وہ شعر اپنے ہی سناتے تھے جو پہلے ہی سے کہے ہوئے تھے۔ آخر میں مجھے ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ بھئی سنو! میں چاہتا ہوں کہ میں بھی فارسی میں شعر کہنے شروع کر دوں۔ ممتاز صاحب۔ اچھا میاں صاحب۔ چنانچہ گرامی صاحب سے کہا کہ اگر وہ شعر کہہ کر بھیج دیا کریں تو وہ ان کو درست کر کے بھیج دیا کریں گے۔ آخر یہ طے ہوا کہ آئندہ ڈاکٹر صاحب فارسی میں کہہ کر میرے پاس بھیج دیا کریں گے اور میں اس کلام کو گرامی صاحب کی اصلاح کے بعد ان کو واپس کر دیا کروں گا۔ اس سے بھی ہمارے دوستانہ تعلقات زیادہ بڑھ گئے۔ اس طرح تین مرتبہ اقبال کے فارسی کلام پر گرامی صاحب نے جو اصلاح دی میں نے وہ ڈاکٹر صاحب کو لاہور واپس کر دی۔ پہلی دفعہ جو شعر انہوں نے لکھ کر بھیجے تھے وہ یاد نہیں البتہ گرامی صاحب نے کہا تھا۔ بھئی! یہ فارسی میں بھی خوب کہے گا۔ دوسری دفعہ کہنے لگے بہت عمدہ تیسری دفعہ انہوں نے کہا کہ آپ ان کو لکھیں کہ اب میرے پاس وہ اپنا کلام نہ بھیجیں خود ہی نظر ثانی کر لیا کریں۔ ممتاز صاحب۔ کیا یہ مشورہ سخن تھا! میاں صاحب۔ ہاں جی ہاں مشورہ سخن، مشورہ سخن تھا۔ ممتاز صاحب۔ کوئی خاص استادی اور شاگردی تو نہیں کہیں گے آپ۔ میاں صاحب۔ نہیں، نہیں ، نہیں مولوی ظفر اقبال۔ جب گرامی صاحب لاہور آتے تھے تو ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ کہا ہوتا تھا۔ وہ ان کو سنا دیتے تھے۔ ممتاز صاحب۔ بالکل ٹھیک ہے میاں صاحب۔ اور آپس میں ان کے بڑے چونچلے بھی ہوتے تھے۔ بڑے ادبی چونچلے بھی بلکہ مسخرہ پن بھی اخرافات بھی ممتاز صاحب۔ اگر آپ کو خرافات والے یاد ہوں تو سنا دیں میاں صاحب۔ نہ نہ، میں خرافات والے شعر نہیں سناؤں گا۔ ممتاز صاحب۔ کوئی ادبی مسخرہ پن آپ کو یاد ہو، تو وہ ہی سنا دیجئے میاں صاحب۔ نہیں! بہرحال میرے اور ان کے تعلقات بڑھتے گئے۔ جو وہ شعر فارسی کے درستی کے لئے بھیجتے تھے۔ وہ میں درست کروا کر بھیج دیا کرتا تھا۔ انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اب آئندہ کو مت بھیجو۔ غالباً ۱۹۱۱ء کی بات ہے کہ میں ہوشیار پور سے چیف کورٹ میں مقدمات کے سلسلے میں آیا کرتا تھا۔ اس وقت چیف کورٹ ہائی کورٹ تھا۔ ہائی کورٹ تو ۱۹۲۱ء میں بنا تھا۔ ممتاز صاحب۔ جی نہیں یہ تو ۱۹۱۹ء میں بنا تھا۔ میاں صاحب۔ میں اور ڈاکٹر صاحب چیف کورٹ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ باتیں کر رہے تھے وہ اڑھائی بجے ہوں گے تو وہ مجھے کہنے لگے کہ بھئی! تم نے مقدمہ کر لیا۔ میں نے کہا ہاں کہنے لگے چلو مکان پر چائے وغیرہ اسی جگہ پئیں۔ چنانچہ ہم دونوں اس انارکلی والے مکان جوشیخ نصیر الدین کیمسٹ کی دکان کے اوپر تھا۔ گئے کہنے لگے ’’ بھائی! میں نے ایک نظم لکھی ہے جو سنانا چاہتا ہوں‘‘ انہوں نے جو نظم سنائی وہ شکوہ تھی مجھے کہنے لگے کہ بھئی! میں سوچ رہا ہوں کہ اس کا نام کیا رکھوں۔ میں نے کہا آپ تو اس کا نام خود ہی تجویز کر دیا ہوا ہے کہنے لگے کیا؟ میں نے کہا’’ شکوہ‘‘ کہنے لگے ’’ بہت خوب، اس کا نام شکوہ رکھوں گا۔‘‘ چنانچہ اس وقت سے اس کا نام شکوہ رکھا گیا۔ خیر اس کے بعد ہمارے تعلقات اور بڑھ گئے۔ حتیٰ کہ میں ہوشیار پور سے ۱۹۱۹ء میں لاہور آ گیا۔ ہائی کورٹ کے بننے سے پہلے تو بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ مسلمانوں نے کونسل خلافت کے انتخاب کا خلافت کمیٹی اور انڈین کانگریس کا مقابلہ تھا۔ میں ۱۹۲۲ء میں کھڑا ہوا تھا۔ مجھے حکم دیا کہ درخواست واپس لے لو۔ درخواست واپس لے لی۔ ۱۹۲۴ء میں مجھے ہدایت کی گئی کہ الیکشن فائٹ لڑو۔ اس وقت میں نے الیکشن فائٹ کرنا شروع کر دیا۔ اس جگہ پر مجھے چشتی محرم علی صاحب جو ایک ہوشیار آدمی تھے لیکن ضدی بھی۔ ان کا میرے ساتھ مقابلہ ہوا۔ اور بھی دو تین امیدوار تھے۔ ملک محمد حسین، خواجہ دل محمد، چشتی صاحب کو ملا کر ہم چار امیدوار تھے۔ مقابلے میں تینوں کے جتنے ووٹ ہوئے میرے ووٹ ان کے مقابلے میں ۳۴۵۶ زیادہ تھے۔ ۱۹۲۷ء میں جب میں ہائی کورٹ میں آ گیا تھا۔ ہم روزانہ ملتے تھے۔ ڈاکٹر اقبال نے مجھے کہا کہ ’’ بھائی! نئے انتخابات آ رہے ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے!‘‘ میں نے کہا’’ آپ کیوں پوچھتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا’’ میرا خیال تھا کہ اگر آپ کھڑے نہ ہوں تو میں انتخاب کے لئے کھڑا ہو جاؤں‘‘ ۔۔۔ بہت اچھامیں نے کہا’’ آپ یقین مانیے کہ میں بالکل کھڑا نہیں ہوں گا۔ بشرطیکہ آپ کھڑے ہوں اور میں آپ کا ساتھ دوں گا۔ ‘‘ چنانچہ ان کا مقابلہ ملک محمد دین (خان بہادر) سے ہوا۔ ملک محمد دین میرے پاس آئے۔ وہ بیرسٹر بھی تھے اور ارائیں بھی اور کہا ’’ میں تمہاری برادری سے ہوں‘‘ میں نے کہا ’’ یہاں برادری کا سوال نہیں، سوال یہ ہے کہ اہل کون ہے! قابل کون ہے؟ میں آپ کے مقابلے میں ڈاکٹر اقبال کو بدرجہا بہتر سمجھتا ہوں۔ مجھ سے ملک صاحب لڑ بھی پڑے لیکن میں نے ڈاکٹر اقبال کا ساتھ نہ چھوڑا اور ان کو کامیاب کرایا۔‘‘ چوہدری محمد شفیع۔ ڈاکٹر صاحب کو کامیاب کرانے میں ارائیں برادری نے بہت کام کیا تھا۔ میاں صاحب۔ اس میں کوئی شک نہیں ممتاز صاحب۔ بہت خوب میاں صاحب۔ تین سال کے بعد میں نے ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ اس دفعہ بھی کھڑا ہونا ہے کہ نہیں اس دفعہ بھی آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ کہنے لگے ’’ میں تو تنگ آ گیا ہوں۔ کوئی سنتا ہی نہیں نہ کوئی مانتا ہے۔ ہماری اکثریت نہیں۔ میرا ارادہ بالکل چھوڑ دینے کا ہے۔ تم کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ جب میں نے ارادہ ظاہر کیا تو پھر ملک محمد دین میرے پاس آئے۔ شکایت کرنے لگے کہ پہلے تو تم نے اقبال سے وعدہ کر لیا تھا۔ اب مجھے ایک دفعہ ہو لینے دو۔ چنانچہ میں نے کہا کہ میں تمہارا مقابلہ نہیں کرتا۔ اور وہ منتخب ہو گئے۔ پھر انہوں نے سرکار کی طرف داری کی مسجد شہید گنج کے معاملے میں پرتاپ سنگھ ڈپٹی کمشنر لاہور سے مل کر اندرونی طور پر بہت کچھ کہا۔ اس طرح وہ ’’ خان بہادر‘‘ ہو گئے۔ چونکہ ڈاکٹر اقبال میرے پاس آیا کرتے تھے اور میں ان کے ہاں جایا کرتا تھا۔ اکثر باتیں ہوا کرتی تھیں پھر ایک وقت آیا جب ۱۹۳۶ء سے پہلے قائد اعظم انگلستان میں پریکٹس کرنے لگے۔ چار سال کے بعد واپس آ گئے۔ تو انہوں نے ارادہ کیا کہ مسلمانوں میں کچھ ریفارم کی جائے اور مسلم لیگ کو چلانا چاہیے۔ قائد اعظم نے ۱۹۳۶ء میں مجھے لکھا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ سارے صوبہ جات میں مسلم لیگ کی حالت کیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ کو فروغ ہو اور اس کے ذریعے ہم کامیابی حاصل کریں اور یہ بھی لکھا کہ ایک جلسہ لاہور میں کیا جائے۔ مجھے خیال آ رہا ہے کہ یہی کمرہ ہے جس میں آپ بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے جواب میں لکھا۔ بسم اللہ! مجھے خوشی ہو گی۔ چنانچہ ۲۹ اپریل ۱۹۳۶ء کو ایک میٹنگ ہوئی ڈاکٹر اقبال۔ لیاقت علی اور غالباً ملک برکت علی اور بھی کئی صاحبان آئے تھے۔ میرا خیال ہے خواجہ ناظم الدین بھی شریک تھے اور ایک حق صاحب تھے (مولوی فضل حق) وہ بھی تھے۔ چنانچہ اسی گول کمرہ میں جو انگیٹھی کے سامنے ہے اسی جگہ قائد اعظم بیٹھے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ دوسری طرف میں بیٹھا ہوا تھا۔ لیاقت علی سامنے دروازے ساتھ ڈاکٹر اقبال میرا خیال ہے کہ یہیں بیٹھے ہوئے تھے اور بھی بہت سے صاحبان تھے۔ چنانچہ دو اجلاس ہوئے اور طے پایا کہ مسلم لیگ کو اس صوبے میں فروغ دیا جائے۔ ۱۲ مئی ۱۹۳۶ء کو قائد اعظم نہیں آئے تھے۔ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جس کے چیئرمین ڈاکٹر اقبال تھے اور ڈپٹی چیئرمین مجھے چنا گیا ملک برکت علی بھی تھے۔ یہ ۱۹۳۶ء کی بات ہے اس کے بعد ۱۹۳۸ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ممتاز صاحب۔ اچھا یہ بتائیے کہ ڈاکٹر اقبال کے ساتھ آپ کا جو اتنا گہرا تعلق تھا ان کی کونسی خاص بات آپ کو پسند آئی۔ میاں صاحب۔ خاص بات ان کی صاف گوئی میں ان کی صاف گوئی کو پسند کرتا تھا۔ اگر کسی میں کوئی عیب ہے تو انہوں نے نہایت خوبصورتی سے بیان کیا۔ ’’ کہ میں تم سے اس سے اتفاق نہیں کرتا۔‘‘ ممتاز صاحب۔ اچھا آپ کے اور ان کے ساتھ ۱۹۰۲ء سے ۱۹۳۸ء تک یعنی ۳۵، ۳۶ سال کے دوران کبھی رنجش بھی ہوئی یا نہیں۔ میاں صاحب۔ قطعاً نہیں، کبھی نہیں، بالکل نہیں۔ ممتاز صاحب۔ اچھا بتائیے کہ آپ نے ان کو پڑھتے ہوئے بھی کبھی دیکھا۔ اپنا مطالعہ جو کرتے تھے۔ میاں صاحب۔ باہر جاتے تھے کبھی کرتے تھے کبھی نہیں لیکن اکثر ۵ یا ۷ سال بلکہ ۱۰ یا ۱۱ تک مطالعہ کرتے تھے۔ اسی جگہ کرتے تھے پھر میکلوڈ روڈ پر جہاں لکشمی انشورنس کمپنی کے پاس رہا کرتے تھے۔ ممتاز صاحب۔ جس کو از سر نو بنایا گیا ہے جس میں خاکسار کا بھی حصہ ہے۔ میاں صاحب۔ اچھا بلکہ ایک اور بات یہاں جو مکان میو روڈ پر انہوں نے بنوایا تھا۔ ۱۹۳۱ء یا ۱۹۳۲ء میں ۱۹۳۳ء یا ۱۹۳۴ء میں۔ مولوی ظفر اقبال۔ ایک دن اس جگہ باہر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بندو آیا۔ ہاتھ جوڑ کر چلا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ساتھیوں سے کہا۔ پتہ ہے یہ کون ہے۔ پھر خود ہی فرمایا۔ یہ مالک مکان ہے اس کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ کوئی مسلمان بھی پیشگی کرایہ دے سکتا ہے۔ چونکہ میں اسے ہر مہینے پیشگی کرایہ دے دیتا ہوں۔ یہ اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ یہ (دھرماتما) ہے اور ہر روز صبح سویرے آ کر مجھے پر نام کرتا ہے۔ ممتاز صاحب۔ مجھے ڈاکٹر صاحب نے خود کہا کہ میرا مالک مکان ایک دفعہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ آپ بڑے آدمی ہیں۔ دیکھئے میں (اقبال) نے کہا کہ لالہ جی! جو میں لکھتا ہوں اس میں سے تو آپ نے خاک بھی نہیں دیکھا۔ تو آپ کیسے کہتے ہیں کہ میں بڑا آدمی ہوں کہنے لگے میرے پاس بہت سے کرایہ دار ہیں۔ لیکن آپ ہیں کہ جس سے کرایہ پہلی تاریخ کو باقاعدہ بلاناغہ اور کسی وقت بھی مل جاتا ہے۔ مولوی ظفر اقبال۔ میں ایک بات عرض کروں میں بھول نہ جاؤں۔ ممتاز صاحب۔ ارشاد مولوی ظفر اقبال۔ اس مکان کی تعمیر کے دوران ڈاکٹر صاحب ایک دفعہ بھی اس مکان کو دیکھنے کے لئے نہیں گئے۔ اس وقت دیکھا جب منتقل ہونے لگے۔ میاں صاحب۔ بلکہ یہاں ایک اور بات جو میو روڈ پر انہوں نے بنوایا تھا۔ مجھے کہنے لگے کہ میرے ساتھ چلو میں تمہیں ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔ نقشہ مکان ان کے پاس تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ ۱۵ دن کے اندر اند ریہ نقشہ پاس ہو جائے۔ میں نے کہا انشاء اللہ میں نے بلڈنگ انسپکٹر کو بلایا کہ اس کو سب کمیٹی میں پیش کرو۔ چونکہ میں اس سب کمیٹی کا چیئرمین تھا۔ چنانچہ ۲۰ دن کے اندر نقشہ پاس کرا دیا میں ایک اور بات بتاتا ہوں جو بڑی عجیب بات ہے۔ ممتاز صاحب۔ ارشاد میاں صاحب۔ ایک دفعہ عجیب بات ہوئی۔ ۱۹۳۲ء میں سنٹرل اسمبلی میں کھڑا ہونا چاہتا تھا۔ لائل پور کا علاقہ منتخب کیا معلوم ہوا کہ سید مراتب علی کا لڑکا امجد علی بھی اسی جگہ سے کھڑا ہونے کا ارادہ کر رہا ہے۔ ایک دن لاہور گیا تو ڈاکٹر صاحب مجھے کہنے لگے کہ بھائی بات یہ ہے کہ اگر تم چھوڑ دو تو امجد علی سے ہمیں ۵، ۷ ہزار روپیہ انجمن کے لئے مل جائے گا۔ میں نے کہا وہ کس طرح؟ وہ کہنے لگے کہ تم امجد علی کو چھوڑ دو اور مقابلہ نہ کرو۔ وہ کسی سے لڑے یا نہ لڑے۔ کامیاب ہو یا نہ ہو۔ میں تو روپیہ لوں گا نہیں وہ جتنا دینا چاہتا ہے انجمن کو بطور عطیہ دے دے۔ لیکن یہ بندوبست آپ کر لیں کہ وہ روپیہ ادا کرے۔ آخر ۵ ہزار طے ہو گیا۔ میں نے کہا بہت اچھا میں نے کھڑے ہونے کا ارادہ چھوڑ دیا۔ مگر وہ مکر گیا نہ دودے نہ میں نے ان سے مانگا۔ پھر وہ کہنے لگا (امجد علی) کہ کچھ چھوڑ دو۔ میں نے اقبال سے کہا کہ اب بتائیے؟ کیونکہ وہ انتخاب میں ہار گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں حافظ محمد عبداللہ کھڑے ہو گئے تھے اور وہ ہو گئے اور وہ قانونی سقم کی وجہ سے رہ گیا تھا۔ انہوں نے نہ روپیہ دیا میں نے کتنی مرتبہ کہا بھئی! وہ روپیہ دلواؤ کہنے لگے (اقبال) بھئی میں کیا کروں! ممتاز صاحب۔ میں عرض کروں آپ نے انتخاب چھوڑ کیوں دیا؟ میاں صاحب۔ مجھے کامیابی سے انتخاب لڑنے کی امید تھی۔ میری برادری کے بہت سے افراد اور دوسرے لوگ بھی میرے ساتھ تھے۔ مسلم لیگ اور میری قومی خدمات بھی تھیں اس لئے مجھے نامزد کیا تھا۔ اس وقت ڈھاکا کے نواب صاحب سلیم اللہ تھے۔ انہوں نے ۱۹۰۶ء میں ڈھاکا میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس منعقد کیا۔ میں اس اجلاس میں موجود تھا۔ ۱۹۰۹ء میں جب کراچی میں یہ اجلاس ہوا تو میں وہاں بھی موجود تھا۔ اس جگہ ایک قرار داد پاس ہوئی کہ مسلم لیگ بنائی جائے اور گورنمنٹ سے درخواست کی جائے کہ مسلمانوں کی تعلیم کے لئے ان کو وظیفے زیادہ تعداد میں دئیے جائیں اور ان کی تعلیم میں زیادہ امداد کی جائے۔ ممتاز صاحب۔ بہت خوب میاں صاحب۔ چنانچہ ریزولیوشن پاس ہوا ڈائریکٹر آف ایجوکیشن انگریز تھا۔ سر محمد شفیع، مولوی شاہ دین اور بھی صاحبان موجود تھے۔ ڈائریکٹر تعلیم نے مخالفت کی کہ گورنمنٹ کسی سے خاص رعایت کرنا نہیں چاہتی جو کسی کا استحقاق ہو گا۔ اس کے مطابق دیا جائے گا۔ میں مولوی شاہ دین کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے کہا کہ آپ اس کا مہربانی کر کے جواب دیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک مدلل تقریر کی کہ ہمیں کیا ضرورت تھی کہ ریزولیوشن پیش کرتے۔ اگر ہماری حالت گری ہوئی نہ ہوتی۔ ہم گورنمنٹ کی رعایا ہیں۔ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ ہماری حالت کے پیش نظر ہماری اعانت کرے۔ بے شک میں مانتا ہوں کہ لیاقت کا خیال ہونا چاہیے اس پر زور تقریر سے ڈائریکٹر تعلیم متاثر ہوئے اور حکومت کی امداد کے سوال میں مسلمانوں کے حق کو تسلیم کیا۔ مولوی شاہ دین جب ۱۹۱۸ء میں جج بنے تو اس وقت ان کا انتقال ہو گیا ورنہ ہائی کورٹ کے وہ چیف جج ہوتے اس طرح شادی لال کو موقع مل گیا۔ ممتاز صاحب۔ میرے والد صاحب کی دوستی مولوی شاہ دین صاحب سے تھی اور انہیں کے کہنے پر وہ ایگزیکٹو برانچ کو چھوڑ کر جوڈیشنل میں آئے تھے۔ والد صاحب نے شادی لال کو بھی دیکھا لیکن وہ یہ کہتے تھے کہ ہائی کورٹ اور چیف کورٹ میں دو ہی آدمی تھے جو آؤٹ سٹنڈنگ قابلیت (غیر معمولی) رکھتے تھے۔ جتنے فیصلے میں نے پڑھے ہیں۔ تو ان کے ساتھ کا کوئی نہیں پچھلی صدی میں سرمیری ڈیٹھ پلوؤن (Sir Merrydeath Rouden) اور بیسویں صدی میں مولوی شاہ دین تھے۔ پروفیسر حمید احمد خان۔ پاکستان بننے کے بعد جب پہلی دفعہ قائد اعظم صاحب لاہور میں تشریف لائے تو اس وقت کیا ہوا۔ میاں صاحب۔ پارٹی کے آخر میں سب کو ملنے کے لئے ہر ایک پاس تشریف لے گئے۔ جب اس جگہ آئے جہاں میں تھا۔ تو وہاں سر مراتب علی، ملک برکت علی اور ایک اور صاحب بھی تھے۔ ہم بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہیلو عبدالعزیز How are You? قائد اعظم نے کہا۔ چونکہ مجھے ان کا بڑا ادب اور لحاظ تھا۔ وہاں تو مجھے ان کا اور بھی زیادہ ادب کرنا تھا۔ کیونکہ انہوں نے ہی ’’ پاکستان‘‘ لے کر دیا تھا۔ میں نے کہا ’’ اب اچھا ہوں لیکن عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا آپ کی زندگی کا بڑا خیال ہے۔ لیکن آپ مجھے بہت کمزور نظر آتے ہیں۔ مہربانی کر کے اپنی صحت کا فکر کیا کریں۔ اور جو آدمی اپنی گورنمنٹ میں لیں وہ بڑے با اعتبار ایمان دار اور لائق آدمی ہوں انہوں نے فرمایا: What am i todo?‘‘ یہ ان کے الفاظ ہیں۔ I have to do all work, what am i to do with these spurious coins in my pocket مجھے بڑا افسوس ہوا میں نے کہا۔ Never mind. But be careful first about your health first, because the first thing is health. قائد اعظم نے فرمایا: ’’ Alright, thank you‘‘ ممتاز صاحب۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ وہ بڑا آدمی تھا۔ میں نے بھی اس کو قریب سے دیکھا ہے۔ جب وہ کہتے تھے۔ نو (No) No, He mxent No, and, when he said yes he meant yes, he will strict to his no and he will strict to his yos. میاں صاحب۔ انگلستان میں مجھے جب ان سے ملنے کا موقع ملا۔ دسمبر ۱۸۹۵ء میں تو وہ ایک سوسائٹی کے کامی روم کے ممبر تھے۔ میں بھی ممبر تھا۔ ممتاز صاحب۔ اقبال بھی اس کا ممبر تھا۔ میاں صاحب۔ وہ شاید اس کے ممبر نہیں تھے۔ میرے خیال میں نہیں۔ ممکن ہے ہوں۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ خیر بہرحال قائد اعظم نے لندن میں ایک انجمن اسلامیہ بنائی ہوئی تھی۔ مگر وہ برائے نام تھی کیونکہ مسلمان ۵/۱۰ بہت ہی تھوڑے تھے۔ اس وقت زیادہ سے زیادہ ہندوستانی ۲۰۰ ہوں گے، اب تو ۲۰ ہزار سے بھی زیادہ ہوں گے۔ ممتاز صاحب۔ اب تو ایک لاکھ سے زیادہ پاکستان کے آدمی انگلستان میں ہیں۔ میاں صاحب۔ مجھے میرے چھوٹے بھائی کے انتقال کا بڑا افسوس ہے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ بڑے لائق آدمی تھے۔ ممتاز صاحب۔ میری بھی ان سے نیاز مندی تھی۔ وہ آرڈی نینس کے معاملے میں بڑے آدمی تھے۔ ہم نے پلینگ و لینگ کے معاملے میں ان سے استفادہ بھی کیا۔ بہرحال گورنمنٹ کا فیصلہ تھا۔ بیکار ہو گیا۔ میاں صاحب۔ انہوں نے تین نوٹ گورنمنٹ کو لکھ کر بھیجے تھے کہ تم واہ فیکٹری میں بیکار روپیہ صرف کر رہے ہو۔ ممتاز صاحب۔ مجھے یہ معلوم ہے اور یہ لکھا تھا کہ اس جگہ جو افسر مسٹر بوتھ (Mr. Booth) اور مسٹر میسن (Mr. Masson) یہ دونوں غلط آدمی تھے۔ آٹھ آٹھ دس دس ہزار روپیہ تنخواہ ملتی تھی۔ گرمیوں کے چار مہینے انگلستان میں گزارے تھے۔ تنخواہ وہیں دی جاتی تھی اور آنے جانے کا خرچ بھی دیا جاتا تھا۔ اس کے متعلق بڑے بڑے نوٹ ڈاکٹر حفیظ نے لکھا۔ چونکہ یہ انگریز اپنا (Out of date) سامان خرید کر دیتے۔ ڈاکٹر حفیظ یہ برداشت نہ کر سکتے تھے۔ میاں صاحب۔ ڈاکٹر حفیظ بڑے قابل آدمی تھے۔ اس لئے واہ واہ اور راولپنڈی چھوڑ کر لاہور چلے آئے تھے۔ میں نے اس کے لئے بڑی کوشش کی آخر کار لاہور میں تین پونے تین سال کے قریب ہوا کہ وہ فوت ہو گئے۔ عبدالحفیظ۔ انگلستان میں ۱۹۰۴ء میں گئے اور جا کے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہ علی گڑھ سے بی اے میں ناکام ہو کر ہو گئے تھے۔ برمنگھم میں ان دنوں سید علی بلگرامی صاحب رہتے تھے ان سے مشورے کے بعد کیمسٹ اینڈ مٹیل یعنی دھاتوں وغیرہ کی (Study) کیلئے برمنگھم میں داخل ہوئے۔ یہیں سے بی ایس سی پاس کیا اور وظیفہ لیا۔ پھر ایم ایس سی میں بھی وظیفہ لیا۔ انہوں نے ڈی ایس سی کے واسطے (Thesis) لکھا جو کتابی شکل میں شائع ہوا۔ افسوس کتاب مجھ سے گم ہو گئی۔ جب انگلینڈ والوں کو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر حفیظ آزاد خیال آدمی ہیں۔ تو انہوں نے یہ پخ لگائی۔ ۱۔ کہ ہم ایم ایس سی کے حاصل کرنے کے پانچ سال بعد تک ڈی ایس سی کی ڈگری نہیں دیتے۔ ۲؎ اور کہ وہ آدمی ۳۲ سال کا نہ ہو جائے ہم اس کو ڈگری نہیں دیتے۔ چونکہ ان میں یہ دونوں باتیں نہیں تھیں۔ اس لئے مجھے لکھا کہ اب میں کیا کروں؟ میں نے لکھا کہ واپس آ جاؤ۔ وہ بھی بڑا ضدی تھا وہ آیا تو پاسپورٹ ریٹرن ٹکٹ لے کر۔ سب سامان وہیں انگلینڈ چھوڑ آیا۔ راستے میں ان کو ڈاکٹر ضیاء الدین (علی گڑھ یونیورسٹی والے) مل گئے۔ سر ضیاء الدین اس کے بڑے دوست تھے۔ چونکہ جب وہ علی گڑھ میں تھا۔ ان دونوں میں دوستی تھی۔ ضیاء الدین نے کہا کہ میں یہ معاملہ علی گڑھ یونیورسٹی میں پیش کرتا ہوں۔ کیمسٹری میں (Chair in Chemistry) کی آسامی (Create) کر لیں اور ڈاکٹر حفیظ یہ میں تم کو بھجواتا ہوں جرمنی میں (Explosincs) کی کیمسٹری کی ڈی ایس سی کی ڈگری حاصل کر لیں۔ اس کے واسطے آپ چیٹر کری ایٹ (Creat) کرائیں۔ بعد میں ڈاکٹر حفیظ بلا اطلاع اور یک لخت آ گئے اور ڈاکٹر ضیاء الدین بھی ان کے سامنے آ گئے۔ ان دنوں والد صاحب نہیں چاہتے تھے کہ وہ دوبارہ واپس جائیں۔ مجھ سے ڈاکٹر حفیظ نے کہا کہ کیا کیا جائے؟ انہوں نے (ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب) نے کہا کہ وقار الملک جناب مشتاق حسین صاحب سے ملاقات کی جائے۔ چنانچہ ڈاکٹر ضیاء الدین میں اور حفیظ تین اور ایک دو صاحبان دہلی میں جمع ہوئے اور اس جگہ ڈاکٹر ضیاء الدین نے کہا کہ (حفیظ) کو کم از کم ڈیڑھ سال کے لئے جرمنی جانے دیجئے۔ میں نے واپس آ کر والد صاحب سے کہا کہ ضرور بھیج دیں میری والدہ بھی نہیں چاہتی تھیں اور والد صاحب بھی نہیں چاہتے تھے۔ لیکن میں نے ان سے کہا جانے دیجئے وہ گئے وہاں تین سال لگ گئے تو ۱۹۱۲ء میں میں نے لکھا کہ آپ ڈیڑھ سال کے لئے گئے تھے اب تین سال ہو گئے ہیں براہ مہربانی اب واپس آ جائیں مجھے انہوں نے لکھا کہ واپسی کا ریٹرن پیسج (Return Passage) روپیہ بھیج دیں۔ میں نے اسی وقت تار کے ذریرے روپیہ بھیج دیا وہ پھر بھی نہ آئے۔ ایک مہینے کے بعد پھر میں نے ان کو لھا وہ کہنے لگے کہ جو روپیہ ان کے پاس تھا وہ خرچ ہو گیا (یہ جولائی ۱۹۱۲ء کی بات ہے) میں معافی چاہتا ہوں مجھے پھر روپیہ بھیج دو۔ چنانچہ میں نے ان کو پھر روپیہ بھیج دیا لیکن وہ پھر بھی نہ آئے۔ ایک مہینہ گزر گیا۔ ڈیڑھ مہینہ گزر گیا پھر میں نے جرمنی میں لکھا۔ معلوم ہوا کہ وہ وہاں سے چلے گئے ہیں۔ان کا کوئی پتہ نہیں آنر ۱۹۱۴ء میں ان کا خط آیا جو شکاگو (Shicago) سے لکھا ہوا تھا۔ اس پر مارچ ۱۹۱۴ء کی تاریخ تھی اور پتہ وغیرہ کچھ نہیں تھا۔ اس میں معذرت کی ہوئی تھی۔ کہ والد صاحب سے میری معافی کروا دو۔ میں معافی چاہتا ہوں۔ مجھے امریکہ اشد ضرورت کے لئے آنا پڑا۔ ان کے ساتھ مسٹر ہردیال اور دوسرے (سروجنی نیڈو کا بھائی) ان کے آپس میں بڑے تعلقات ہو گئے تھے۔ یہ سارے اس پارٹی میں تھے۔ اسی سلسلہ میں یہ امریکا گئے۔ اس جگہ کا پتہ بھی نہ لکھا۔ میں کوشش کرتا رہا لیکن کہیں سے کوئی پتہ نہ چلا۔ آٹھ نو سال تک مجھے کوئی پتہ نہ ملا۔ ادھر جنگ شروع ہو گئی تو وہ لکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ میں پھر ۲۲/۱۹۲۳ء میں لاہور آ گیا۔ میں اسی کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ باہر سے میرے آدمی نے کہا کہ ان کے بھائی کا خط آیا ہے او رآنے والا یہ خط خود آ کر دے گا میں ننگے پاؤں بھاگا ہوا گیا اور ان کو بلا لایا۔ میں نے خط کھول کر دیکھا اس میں معذرت کی ہوئی تھی کہ مجھے افسوس ہے کہ یہ خط افغانستان سے لکھ رہا ہوں۔ مجھے شاہ امان نے فرانس بھیجا تھا کہ جا کے کیمسٹری کا سامان اور کیمیکلز کی مشینری خرید کروں اور وہ مجھے اس جگہ مقرر کرنا چاہتے ہیں۔ میں فرانس جا رہا ہوں ہندوستان میں وہ آ نہیں سکتے تھے اس لیے براہ روس امان اللہ خان کے پاس افغانستان پہنچے تھے پر انہوں نے ہی فرانس بھیجا۔ یہ اس وقت آئے تھے جب ظاہر شاہ کے والد نادر شاہ صاحب پھر سفیر ہو کر فرانس چلے گئے تھے۔ امان اللہ کا کوئی وزیر ان کو افغانستان میں رکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے نادر شاہ کو فرانس بھیجا گیا تھا ادھر کچھ گڑ بڑ ہو گئی۔ مشینیں لی ہوئیں۔ بعد میں افغانستان نے روپیہ نہ بھیجا۔ بھائی صاحب نے ان کو وہاں چھوڑا اور وہاں سے جرمنی چلے گئے اور پھر ٹرکی آ گئے۔ ممتاز صاحب۔ وہ پاکستان بننے کے بعد آئے تھے۔ میاں صاحب۔ جی ہاں وہ پاکستان بننے کے بعد آئے تھے۔ بہت کوشش کی تھی پہلے میں نے ڈائریکٹر جنرل پولیس سی آئی ڈی سرچارلس کلیوونڈ (Sir Charles Cleavend) کو خط لکھا۔ ایک سیشن جج تھے ان سے لکھوا کر ان کو شملہ ملاقات کے لیے گیا۔ وہ کہنے لگے (You Cannat get him) بعد میں انٹیرم گورنمنٹ ہند بنی۔ جس میں نواب لیاقت علی صاحب، راجہ غضنفر علی صاحب کے ذریعے ۱۹۴۶ء میں میں نے اس وقت کوشش کی پٹیل ہوم منسٹر بنے تھے۔ بھائی صاحب ان دنوں ٹرکی میں تھے۔ میں نے پٹیل کو چھٹی لکھی۔ درخواست کی کہ اب تو پابندی نہیں رہی۔ اس لئے آپ اجازت دے دیجئے یہ ستمبر ۱۹۴۶ء کی بات ہے۔ اس نے مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ میں بہت حیران تھا لیکن میرے دوست رائے زادہ بھگت رام جالندھر کے مشہور وکیل تھے۔ ان کا چھوٹا بھائی ہنس راج بھی بیرسٹر تھا۔ گرمیوں میں ہم ڈلہوزی میں رہا کرتے تھے اور وہ بھی ڈلہوزی میں رہا کرتے تھے۔ ستمبر ۱۹۴۶ء میں اس نے دہلی جانا تھا۔ کیونکہ وہ سنٹرل پارلیمنٹ کا ممبر تھا (ایم پی اے) میں نے اس سے کہا کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ پٹیل نے انٹریم گورنمنٹ کا مسٹر ہو کر بھی درخواست کا جواب نہ دیا۔ مجھے اس نے کہا کہ کہاں ہے وہ درخواست؟ درخواست کی نقل میرے پاس تھی میں نے اسے کہا کہ یہ نقل تم لے جاؤ اور پٹیل کو ملو اور اس سے کہو کہ اس کا جواب تو دیں۔ ہاں یا نہ چنانچہ وہ عرضی لے گیا جب وہ وہاں گیا اور پٹیل سے ملنے کے لئے ان کی کوٹھی پر گیا۔ تو پٹیل کی لڑکی نے کہا کہ آج وہ کسی میٹنگ میں مصروف ہیں کل صبح آٹھ بجے آئیے۔ میں وقت لے رکھوں گی۔ اگلے روز وہ گئے اور میرا نام بھی بتایا۔ اس نے کہا کونسی درخواست ہے اس نے وہی درخواست سامنے رکھ دی اور اس نے کہا (Alright) I do you want to burst a bomb at me. مذاق میں کہا (Yes) ہاں اس پر مسٹر پٹیل نے (Allowed) لکھ دیا۔ یعنی واپسی کی اجازت دے دی اس پر مسٹر ہنس راج نے کہا کہ اس پر تو دستخط نہیں۔ اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں دوسری پر تو دستخط ہیں وہ اس کے ساتھ شامل ہو جائے گی۔ اس نے مجھے اسی وقت ٹیلی گرام کی ہنس راج نے کہا ’’ اجازت مل گئی‘‘ میں نے بھائی کو لکھ دیا انہوں نے ڈیڑھ دو ماہ بعد اطلاع دی کہ ابھی تک کچھ خبر نہیں ہے۔ اس کے بعد میں نے کوشش کی کہ اس کو اجازت نامہ (Permission) بھجوا دیا۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ لڑکی والے اسے نہیں دیتے تھے۔ انہوں نے یہ کاغذ دبا رکھے تھے آخر کار انہوں نے فروری ۱۹۴۷ء میں کوشش کی کہ اب مجھے جانے دو۔ تو انہوں نے (ترکوں) نے کہا کہ تم نے دو فیکٹریاں قائم کی ہیں۔ آپ ہمارے پاس رہیں جا کر پھر آ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں وعدہ نہیں کرتا میں وہاں جا کر اور حالات دیکھ کر آپ کو بتا دو نگا۔ مولوی ظفر اقبال۔ یہ جب سنٹرل یورپ میں تھے کہتے تھے (حفیظ) میرے پاس شیشی میں زہر قاتل ہر وقت موجود رہتا تھا۔ میں گرفتار نہیں ہونا چاہتا تھا اگر میں گرفتار ہو جاؤں تو میں اسے پی جاؤں گا۔ میاں صاحب ۔ مجھے انہوں نے نہیں بتایا مولوی ظفر اقبال۔ مجھ سے انہوں نے براہ راست بات کی تھی پھر ان کی بیوی کو پتہ چل گیا کہنے لگی کہ یہ کیا شیشی میں رکھا ہوا ہے؟ کہنے لگے کہ اس خیال سے کہ کہیں ضرورت پڑے تو خود کشی کر لوں۔ تو وہ کہنے لگی کہ تمہارا اللہ پر صحیح ایمان نہیں۔ کہنے لگے کہ میری بیوی نے مجھے صحیح معنوں میں مسلمان کیا۔ میں نے پھر اس کے سامنے اس شیشی کو توڑ دیا۔ ممتاز صاحب۔ اس کی اہلیہ جرمن تھی۔ میاں صاحب۔ نہیں وہ آسٹرین تھی۔ اب بھی ہیں میرے پاس دوسرے تیسرے دن آتی ہیں منٹگمری روڈ پر پتھروں والی کوٹھی کہلاتی ہے میں نے بھائی صاحب کو کہا کہ آپ اس میں رہیں۔ چونکہ ان کی اہلیہ یورپین ہے وہ وہاں رہنا پسند کریں گی۔ پہلے دو تین سال وہ یکی دروازہ میں میرے ہی ساتھ رہے۔ ممتاز صاحب۔ کیا ان کے بچے بھی ہیں؟ میاں صاحب۔ دو۔ ایک لڑکا ایک لڑکی مولوی ظفر اقبال۔ میرا لڑکا ان کے داماد کی بہت تعریف کرتا تھا کہ ان کی ٹکر کا کوئی پاکستان میں انجینئر نہیں ہے۔ ممتاز صاحب۔ ان کا پورا نام کیا ہے۔ عارف میاں صاحب۔ نہیں جی صدر الدین مراد خان۔۔۔۔ عارف ان کے لڑکے کا نام ہے۔ پروفیسر حمید احمد خاں۔ ترکوں کی تو وہ بہت عزت کرتے تھے۔ یونیورسٹی میں ایک میٹنگ میں سب آئے ہوئے تھے جلال بایار وغیرہ سب بیٹھے سب کو چھوڑ کر ان کو خاص طور پر ملے۔ وہ ترکوں کو بہت پسند کرتے تھے انور پاشا کے تو وہ بہت دلدادہ تھے۔ وہ کہتا تھا اسے چاہے ہزار بار کہیں کہ تم مصطفی کمال اور انور کا مقابلہ نہیں کرتے وہ کہتے تھے کہ انور پاشا کی دیندار طبیعت تھی او ربہت تھی۔ اسلام کا بہت پکا تھا۔ کہتے تھے کہ جب انور مدینے گیا اور میں مدینے گیا تو پتہ چلا کہ انور گھوڑے پر سوار نہیں ہوتا تھا۔ وہ پیدل چلا کرتا تھا کبھی اس دکان پر بیٹھ گیا کبھی اس دکان پر بیٹھ گیا انور مدینے میں کبھی گھوڑے پر سوار نہیں ہوا۔ ممتاز صاحب۔ اس کی لائف تونہیں لکھی گئی انور کی لائف تحقیق کر کے ضرور لکھنی چاہیے۔ میاں صاحب۔ کمال وغیرہ کی انور سے مخالفت تھی۔ کیونکہ انور دیندار تھا اور وہ دین سے بے پہرہ تھے۔ ممتاز صاحب۔ مصطفی کمال کو خاص طور پر بے دین ہونا ہی چاہیے۔ جب آدمی دیندار ہو جائے۔ تو اسے بہت سنبھل کر چلنا پڑتا ہے۔ میں اس کو بہت فضول آدمی سمجھتا تھا۔ مجھے کوئی ۵ سال ہوئے استنبول گیا۔ وہاں ایک چیز دیکھی جس سے مصطفی کی دل میں عزت پیدا ہوئی اور اس کے بعد مجھے اس کی کچھ عزت اور پیدا ہو گئی۔ اس سے پہلے کچھ بھی اس کو نہیں سمجھتا تھا۔ بات یہ تھی کہ میں نے وہاں بہت سی تصویریں دیکھیں ایک تصویر میں وہ بلیک بورڈ پر چاک سے لکھ کر پڑھا رہے تھے۔ تو وہ خود دیکھ رہا ہے۔ یہ فوٹو میں نے دیکھی ہے ۔ تعلیم سے اسے بہت دلچسپی تھی وہ بہت بڑا آدمی تھا۔ لیکن میں نے اس کی سب چیزیں معاف کر دیں۔ محمد شفیع چوہدری۔ مدت ہوئی کہ انو رپاشا کا ایک خط شائع ہوا تھا اپنی بیوی کے نام کیا آپ کو کچھ یاد ہے؟ میاں صاحب ۔ مجھے یاد نہیں شیخ صاحب۔ میرے پاس یہ خط ہے ۱۹۲۸ئ۔ ۱۹۲۹ء میں چھپا تھا۔ زمیندار کا وہ اخبار میرے پاس ہے۔ میاں صاحب۔ کیا آپ مجھے اس کی نقل عنایت کریں گے۔ شیخ صاحب۔ انشاء اللہ ضرور دوں گا۔ اس کے آخری الفاظ یہ ہیں۔ اچھا پیاری صبیحہ عالم خیال میں میں تمہیں گلے لگاتا ہوں اور رخصت ہوتا ہوں۔ یہ اس کے مرنے کے تین چار روز پہلے یعنی اپنی شہادت سے پہلے سے یہ خط اس نے اپنی بیوی کے نام عالم خیال میں لکھا تھا۔ مولوی ظفر اقبال۔ میں حجاز میں گیا تھا۔ مجھے ایک بڈھا مسجد نبوی میں مل گیا وہ کہنے لگا کہ میں چھوٹا سا ہوتا تھا۔ بیگم بھوپال حج کے لئے آئیں۔ ممتاز صاحب۔ سلطان جہاں بیگم مولوی ظفر اقبال۔ جی ہاں! اس نے کہا وہ پردہ کرتی تھیں۔ مسجد نبوی میں آپ ؐ کے روضے کے اندر گیا۔ تو اس نے مجھے کچھ باتیں بتائیں جو میں نے نوٹ کر رکھی ہیں۔ اس نے کہا کہ انور بڑا کمال کا آدمی تھا۔ ترک بڑے کمال کے آدمی تھے۔ ہمارے زمانے میں بھی کچھ ترک آ گئے تھے۔ یہاں ایک ترک بیٹھا ہوا تھا۔ کوئی چھلانگ لگا کر گزرا۔ تو اس کا پاؤں اس کے کندھے سے چھو گیا۔ تو ترک نے نظر اٹھا کر دیکھا تک نہیں۔ ہمارا خیمہ عرفات میں تھا۔ مجھے کسی نے آ کر بتایا کہ ایک ترک وہاں مر رہا ہے۔ وہ گرمی برداشت نہیں کر سکتے۔ میں نے دیکھا خیمہ میں بالکل بے ہوش تھا۔ آخر چار پانچ منٹ کے بعد مر گیا۔ محمد شفیع چوہدری۔ میاں صاحب! آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ کبھی آپ نے یا ڈاکٹر اقبال نے غازی علم الدین شہید کے مقدمے میں کوئی حصہ لیا یا دلچسپی کا اظہار کیا۔ میاں صاحب۔ اس مقدمے میں ڈاکٹر اقبال یا میں نے کوئی حصہ نہیںلیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ راج پال کے قتل کے بعد جب علم دین موقع پر گرفتار ہو گیا اور تو اس کے بعد اس کے رشتہ داران اور لاہور کے اور صاحبان سائیں مہر صوبہ (جو لاہور کے ایک با خدا بزرگ تھے) جو کہ میرے بھی بزرگ تھے کو لے ک رمیرے پاس میرے دکان پر آئے۔ اس کی پیروی کے متعلق سفارش کرنے آئے مجھے اس وقت یہ معلوم تھا کہ علم دین قتل سے انکار نہیں کرتا۔ وہ اقبالی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ اس کے رشتہ دار اس کو قتل سے انکار کرنے کے بیان کرنے کے لئے کوشش کر رہے تھے۔ اس لئے میں نے ان سے کہا چونکہ یہ موقع پر گرفتار ہو گیا ہے اور وہ چاقو بھی پاس ہی پکڑا گیا ہے۔ اس لئے اس کے قتل کے وقت اس کا موجود ہونا یا نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکے گا۔ اس لئے اصل واقعہ جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے کہ میں نے راج پال سے جا کر پوچھا کہ یہ توہین آمیز کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ تم نے کیوں تحریر کی ہے۔ تو اس پر راج پال نے سخت توہین آمیز الفاظ رسول کریم ؐ کی شان میں کہے میں نے کہا اگر وہ اس کا کلام ہے۔ تو اس کو اس پر پابند رہنا چاہیے اور یہ اشتعال کم از کم اس کو ۳۰۲ کے جرم کی حد تک نہیں لے جاتا پھانسی کی سزا نہیں ہو گی۔ البتہ یہ ہے کہ چھ سات سال قید ممکنہ ہو جائے۔ میں نے کہا اگر آپ اس بات پر قائم ہیں تو میں پیروی صفت کرنے کو تیار ہوں۔ ورنہ مجھے معاف ہی رکھا جائے۔ شیخ صاحب۔ تو پھر کون کون سے وکیل ان کی پیروی کے لئے مقرر ہوئے تھے۔ میاں صاحب۔ شہر کے دو تین وکیل مقرر ہوئے تھے۔ مجھے نام یاد نہیں میرے پاس کہیں ان کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ جب مجسٹریٹ نے ان کو سیشن سپرد کر دیا۔ علم دین نے مجسٹریٹ کے سامنے قتل سے انکار کر دیا۔ ان کے پھسلانے پر سیشن کورٹ نے اس کو پھانسی کی سزا کا حکم دیا۔ مجھے یہ معلوم ہے کہ وہ ڈاکٹر اقبال کے پاس بھی گئے تھے۔ ڈاکٹر اقبال نے ان کو یہی کہا تھا۔ اس کو جھوٹ بولنے کے لئے کیوں مجبور کر رہے ہو۔ اپیل کے وقت وہ میرے پاس نہیں بلکہ وہ قائداعظم کے پاس گئے۔ انہوں نے بھی اسی قسم کی رائے دی کہ کچھ بننے کی امید نہیں۔ لیکن اگر تم کہتے ہو تو میں اپیل میں پیش ہو جاؤں گا۔ چنانچہ وہ پیش ہوئے۔ اپیل نامنظور ہوئی۔ علم دین کو یہاں سے حکومت چوری چوری میانوالی سے لے گئی اور میانوالی جا کر جیل کے اندر ہی اس کو پھانسی دی گئی۔ کچھ دنوں کے بعد ایک ڈیپوٹیشن گورنر سر جعفرے ڈی مونٹ میرنسی (Sir Geofry De. Mentmorency) کے پاس جانے کے لئے لاہور کے چند بزرگان نے تیار کیا۔ اس میں صرف یہ درخواست کرنی تھی کہ اس کی لاش کو ہمیں لاہور لانے کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ اس دفعہ سر محمد شفیع، ڈاکٹر سر محمد اقبال ملک برکت علی، خلیفہ شجاع الدین اور ایک اور صاحب اور میں گورنر کے ساتھ وقت مقرر کر کے اس کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سر میاں محمد شفیع لیڈر تھے۔ انہوں نے خاصی لمبی تقریر علم دین کی لاش کو لاہور لانے کے لئے اجازت کے متعلق کی مگر گورنر صاحب نے کچھ ہاں نہ کی۔ میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور میں نے گورنر صاحب سے عوض کیا کہ کیا کہ چند لفظ میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ سرہنری کریک چیف سیکرٹری بھی وہاں موجود تھے۔ میں نے گورنر صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ علم دین نے اگر قتل کیا تھا تو اس کو قانون کے مطابق آخری حد تک سزا دی گئی۔ بلکہ یہاں تک کہ اس کو میانوالی جیل میں لے جا کر بجائے لاہور کے پھانسی دی گئی اور وہیں اس کی لاش دفن کر دی گئی۔ قانوناً جو علم دین کو سزا ملنا تھی وہ تو مل چکی۔ مجھے کوئی قانون ایسا معلوم نہیں ہوتا۔ جس سے اس کی لاش کو گورنمنٹ اپنے قبضے میں رکھے اور اس کو واپس نہ کرے۔ اگر مجھے کوئی ایسا قانون دکھایا جائے۔ جس کے ذریعے سے اس کی لاش کو گورنمنٹ رکھ سکتی ہے۔ تو پھر میں اس کا جواب عرض کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ اندیشہ فساد کا ہے اس پر میں نے کہا’’ ہم جو شہر والے اس بات کی ذمہ داری لیتے ہیں کہ اگر کوئی فساد ہو تو ہم کو گرفتار کیا جائے اور لاش جب لاہور لائی جائے تو وہ ہمارے سپرد کر دی جائے اور پولیس مداخلت نہ کرے۔ البتہ پولیس جہاں کہیں آپ مناسب سمجھیں حفظ امن کے طور پر اس کو متعین کر دیں۔ میں نے اچھے زور دار الفاظ دار سے عرض کیا۔ دو تین منٹ کے بعد گورنر صاحب نے فرمایا۔ اس سارے وفد کے آنے کی ضرورت نہیں۔ دو دن کا وقفہ دیا اور کہا کہ اس دن فلاں وقت ڈاکٹر سر محمد اقبال اور میں تم دونوں آ جاؤ اس وقت ہم نے جو دریافت کرنا ہو گا کر لیں گے۔ چنانچہ اس دن ہم دونوں گئے اس دن بھی باتیں ہوتی رہیں اس وقت بھی اس کے سیکرٹری سر ہنری کریک (Sir henry Craike) موجود تھے۔ چنانچہ ہم گئے اس دن انہوں نے جواب کچھ نہیں دیا، انہوں نے کہا جاؤ ہم نے سن لیا ہے۔ اس دن بھی ہم نے ان کو اطمینان دلایا کہ شہر والے کسی قسم کا فساد نہیں کریں گے۔ اگر خدانخواستہ کوئی فساد ہوا تو ہم تیار ہیں ہمیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ لیکن پولیس ہمارے انتظام میں دخل نہ دے۔ البتہ پولیس کو جا بجا کھڑا کرو تاکہ فساد نہ ہو، ہم چلے آئے چند ایک دنوں کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ شاہ جی آغا مراتب علی شاہ کو۔‘‘ چوہدری محمد شفیع۔ یہ شاہ جی آغا مراتب علی شاہ صاحب کون تھے۔ میاں صاحب۔ یہ اس وقت آنریری مجسٹریٹ تھے۔ چوہدری محمد شفیع۔ وہ حسنی صاحب کے خاندان سے تھے۔ میاں صاحب۔ وہ ان کے خسر تھے۔ ان کی ڈیوٹی لگائی گئی اور ہدایات بھی دیں چنانچہ جب وہ گئے بعد میں جیسا کہ معلوم ہوا کہ ہدایات یہ تھیں کہ لاش کو نکال کر صندوق میں بند کرا کے ان کے حوالے کی جائے اور اس دن ریلوے والوں کو یہ حکم تھا انجن کے ساتھ صرف ویگن ہو جس میں تابوت بھی رکھا ہو اور شاہ جی آغا مراتب علی شاہ بھی ہوں۔ چوہدری محمد شفیع۔ گویا اس زمانے میں آنریری مجسٹریٹوں سے اس قسم کی ڈیوٹیاں لی جاتی تھیں۔ میاں صاحب۔ یہ تو تھا ہی۔ اس کو چھوڑ کر اس سے بھی بڑھ کر اور بدتر ڈیوٹیاں لی جاتی تھیں۔ چنانچہ دوسرے دن چیف سیکرٹری صاحب نے گورنر ہاؤس سے اطلاع دی کہ آپ کے ڈیپوٹیشن کے ممبران صبح ۷ بجے ۲ دسمبر کا واقعہ تھا، پونچھ ہاؤس لاہور سے آ کر اس لاش کو لینے اور رسید اس کی دیں۔ ہم نے سر محمد شفیع کو بھی اطلاع دے رہے ہیں۔ آپ باقی سب ممبران کو اطلاع دے دیں۔ چنانچہ میں نے سر محمد شفیع صاحب سے ٹیلی فون کر کے پتہ کر لیا۔ ان کو اطلاع مل چکی تھی۔ میں نے سب کو اطلاع دی۔ اس کے بعد میں نے اس کے چند رشتہ داروں کو بلا کر کہا کہ صبح کو ہم کر لاش ملے گی۔ بڑے لمبے لمبے بانس لے کر آؤ۔ لوگ بڑے کوشاں تھے۔ اس بات پر کہ وہ سب جنازے کو کندھا دیں۔ ہم نے لمبے لمبے بانس منگوا کر چارپائی کے ساتھ باندھ دئیے اور علی الصبح ۶ بجے پونچھ ہاؤس پہنچ گئے۔ ابھی اندھیرا ہی تھا اسی جگہ لاش ہمیں شاہ جی آغا مراتب علی شاہ نے دی اور ہم سب کے دستخط لے لئے۔ اس میں یہ تھا کہ ہم ذمہ دار ہیں۔ اس وقت یہاں کے بلکہ قرب و جوار کے لوگوں نے ٹیلی فون پر اور لاریوں اور لاؤڈ سپیکروں پر سب کو اطلاع کر دی تھی۔ شیخ صاحب۔ یہ جنازہ آپ کی زندگی میں سب سے بڑا جنازہ ہوا ہو گا۔ میاں صاحب۔ برا عظیم الشان اور اس وقت مسلمان پر امن بھی رہے۔ بڑے پر امن رہے۔ شفیع صاحب۔حکومت کی طرف سے شکریہ بھی ادا کیا گیا ہو گا۔ میاں صاحب۔ وہ تو اسی وقت کر دیا تھا۔ سر ہنری کریک نے کہا تھا (Well done) شفیع صاحب۔ غازی علم الدین شہید کے واقعات اچھی طرح سے بیان کر دئیے ہیں۔ ایک بات ابھی وضاحت طلب ہے۔ وہ یہ کہ میں نے سنا ہے کہ علم الدین کے لواحقین ڈاکٹر صاحب کے پاس بھی گئے تھے۔ میاں صاحب۔ مجھے یاد ہیں میں ساتھ نہیں گیا تھا۔ ڈاکٹر اقبال کے پاس چند لوگ گئے۔ قانونی امداد طلب کرنے کے لئے اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ ’’ اس نے بڑا نیک کام کیا ہے اس کے متعلق اس سے جھوٹ بلوا کر کیوں اس کی نیکی برباد کرتے ہو تم اس کو جھوٹ نہ بلواؤ۔ اگر وہ شہید ہو بھی گیا تو کوئی بات نہیں۔‘‘ شفیع صاحب۔ سرسید کی وفات کے متعلق کوئی نظمیں بھی کہی گئی تھیں؟ کوئی آپ کو یاد نہیں۔ میاں صاحب۔ سرسید کی وفات ۱۸۹۸ء مارچ کے آخر میں ہوئی ان کی وفات کے بعد ایجوکیشنل کانفرنس دسمبر ۱۹۰۲ء میں لاہور میں ہوئی۔ اس میں چوہدری خوشی محمد ناظر صاحب گورنر جموں اینڈ کشمیر بھی شامل ہوئے۔ انہوں نے ایک نظم پڑھی تھی۔ بڑی موثر رقت آمیز اور لوگ اس کو سن کر رو پڑے تھے۔ اس کے دو تین شعر یاد ہیں شاید الفاظ میں غلطی رہ جائے شعر یہ ہیں۔ کل خواب گراں جو مجھ کو آئی اک صورت پاک دی دکھائی چہرے سے برس رہے تھے انوار اور بشرے پہ شکوہ پادشائی فرمایا مجھ کو گلے لگا کر اے کشتہ جنجر جدائی اس پود کو تم منڈھے چڑھانا پود جو میں نے ہے لگانا اسی قسم کے بیت تھے میں نے اس نظم کے حاصل کرنے میں بہت کوشش کی مگر مجھے حاصل نہیں ہوئی۔ میاں صاحب۔ شفیع صاحب آپ نے ڈاکٹر اقبال کے حالات کے متعلق کئی سوالات کئے ۔ آپ بھی ان کے ملنے والوں میں سے ہیں۔ آپ بھی ان کا کوئی واقعہ بیان کر دیں جو یہاں درج ہو جائے آپ اکثر جاتے آتے رہتے تھے۔ چوہدری شفیع صاحب۔ جناب عالیٰ! میاں صاحب بات یہ ہے کہ میں ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں وقتاًفوقتاً جایا کرتا تھا اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مجھے والد صاحب مرحوم منشی اللہ بخش اکوؤنٹنٹ جنرل کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ اور انجمن حمایت اسلام کے پرانے کارکنوں میں سے تھے۔ جب میں چھوٹا تھا۔ اس وقت میری عمر ۱۰۔ ۱۱ سال کے درمیان تھی۔ یہ واقعہ ۱۹۱۸۔ ۱۹۱۹ء کے درمیان کا ہے۔ ایک دفعہ وہ مجھے ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے۔ ان دنوں ڈاکٹر صاحب انار کلی والے مکان میں رہا کرتے تھے۔ میرے والد صاحب نے مجھے ان کی خدمت میں پیش کر کے کہا کہ یہ میرا لڑکا ہے۔ اس کو بہت کچھ آتا ہے۔ حالانکہ میں اس وقت چھٹی جماعت میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ اچھا بھائی! اگر تمہیں کچھ آتا ہے تو سناؤ؟ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کا ترانہ ہمیں از بر یاد کروایا گیا تھا۔ چنانچہ میں نے سنایا چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا ڈاکٹر صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے تھپکی دی۔ اس کے بعد وقت گزرتا گیا۔ میرے والد صاحب فوت ہو گئے اور میں بھی اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر میں ملازم ہو گیا۔ اس ملازمت کے دوران میں مختلف قابل آدمیوں کی خدمت میں وقتاً فوقتاً بیٹھتا رہا ہوں۔ مثلاً مولوی ظفر علی خان، راجہ نریندر ناتھ، ڈاکٹر گوکل چند نارنگ، مولانا ابو الکلام آزاد اور سر عبدالقادر ایسے آدمیوں کی صحبتیں۔ جہاں کہیں کوئی لائق آدمی سمجھتا تھا جا بیٹھتا تھا اور مجھے پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ اور اسلامیات کا بھی کچھ شوق پیدا ہو گیا۔ چنانچہ میں نے انہیں بزرگوں کی صحبت کے طفیل ۱۹۴۲ء علامہ فیضی کی ایک مشہور و معروف نظم بھگوت گیتا کو ایڈٹ کیا اور چھپوائی، اس سے کسی قدر میں علمی ادبی حلقوں میں مقبول ہو گیا۔ آپ نے جو ڈاکٹر اقبال کے متعلق کہا ہے۔ کہ کوئی ان کا واقعہ سناؤں۔ تو اس ضمن میں ایک واقعہ سنانا ہوں۔ کئی واقعات وقتاً فوقتاً اخبارات میں چھپتے رہے ہیں۔ غالباً ۱۹۳۲ء ۔ ۱۹۳۳ء کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ چھ دوستوں کی معیت میں علامہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دوستوں نے حسب معمول علامہ صاحب سے شکوہ کیا کہ حضور اب مسلمانوں کا کیا بنے گا؟ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا’’ تمہیں کیا فکر ہے اللہ مالک ہے پھر یک دم پوری توجہ کے ساتھ بول اٹھے۔‘‘ آپ نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ زمیندار ایک دفعہ جس زمین میں گندم بوتا ہے اس زمین کے ٹکڑے کو خالی چھوڑ دیتا ہے صرف اس لئے کہ آئندہ سال وہ ٹکڑا زیادہ طاقتور فصل پیدا کر سکے۔ اسی طرح بعض زمینیں مردم خیز بھی ہوتی ہیں کبھی اس میں بڑے بڑے نامور لوگ پیدا ہوتے ہیں اور پھر خاموشی طاری ہو جاتی ہے بھئی! یہ قانون قدرت ہے۔ عربستان، افغانستان اور ایران نے کیسے کیسے شاہسوار پیدا کئے۔ مگر اب کیوں نہیں پیدا ہو رہے؟ صرف اس لئے کہ منشاء کے ایزدی مطابق یہ زمینیں آرام کر رہی ہیں! ب اور ’’ اوڑا‘‘ لگی ہوئی ہے۔ دعا کرو کہ کوئی اللہ کا بندو پیدا ہو اور ہم لوگوں کی نجات کا موجب بنے یہ فقرہ کستے ہوئے علامہ صاحب آبدیدہ ہو گئے۔ اس وقت ان کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا۔ نہایت سرخ آنسو ضبط کرنے کی لاکھ کوشش کرتے مگر وہ ٹپک ہی جاتے تھے معلوم نہیں لوگ کیسے کہتے ہیں کہ ان کا چہرہ اس وقت زرد ہو جایا کرتا تھا۔ مجھے تو یہی اہم واقعہ یاد ہے کاش کہ! اگر وہ ۱۹۴۷ء میں زندہ ہوتے تو میرا خیال کہتا ہے ان کے خواب کی تعبیر قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ ہوتے۔ میاں صاحب۔ شکریہ شفیع صاحب۔ میاں صاحب قبلہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے صاحبزادے میاں عبدالمجید صاحب سے بھی ایک دو سوال کر لیں۔ کیونکہ آخر یہ بھی تو تمام مجلسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ میاں صاحب۔ ہاں بیشک، آپ ان سے سوال کیجئے جو کچھ ان کو علم ہو گا وہ بتائیں گے۔ شفیع صاحب۔ میاں مجید! آپ اگر اپنی یادداشت سے کام لے کر کچھ تھوڑا بہت حال بیان کریں کہ آپ کی بھی کبھی ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی؟ اگر ہوئی تو کیسے ہوئی؟ میاں مجید صاحب۔ ۱۹۲۲ء ۔ ۱۹۲۷ء میں والد صاحب نے اپنی جگہ چھوڑ کر ڈاکٹر صاحب کو اسمبلی کے لئے ممبر بننے کے لئے کہا۔ اس اثناء میں میاں صاحب نے مجھے کہا کہ ان کے پاس جا کر ان کا کام کروں تو جب میں وہاں جاتا تو جو عجیب بات مجھے نظر آئی وہ یہ تھی کہ ان کی چارپائی جو ہال میں بچھی ہوئی تھی۔ اس کے تکیے کے اوپر اکثر قرآن مجید ہوتا تھا اور ساتھ ہی چند کاغذ فل سکیپ رکھے ہوئے تھے۔ تو میں نے بہت دفعہ نوٹ کیا اور میرا دل للچایا کئی دفعہ انہوں نے شعر پر شعر لکھے اور صفحہ بھر گیا اور پانچ چھ صفحے لکھ کر پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دئیے۔ دل چاہتا تھا اے کاش! میں یہاں رہوں تو یہ تمام کاغذ جوڑ کر رکھ لیا کروں جس کو آپ نے ناپسند کیا ہے شاید یہ شعر قوم کے لئے بھی مفید ہوں۔ شفیع صاحب۔ میاں مجید!اس کے بعد آپ کو کون سی نظم پسند آئی۔ میاں مجید صاحب۔ میں بہت چھوٹا تھا ہوشیار پور سے آیا، لاہور شیرانوالہ گیٹ اسلامیہ ہائی سکول میں جلسہ ہو رہا تھا۔ وہاں ڈاکٹر صاحب نے نالہ یتیم پڑھ کر سنائی۔ بڑے ترنم سے پڑھا کرتے تھے۔ جو چیزد ل کو ستار ہی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اس طرح روتے تھے کہ جسے پھبھاں بھی کہتے ہیں ’’ مار مار کر رونا‘‘ اس وقت سب رو رہے تھے اور میں بھی رو رہا تھا۔ شفیع صاحب۔ میاں مجید! اس کے بعد کبھی آپ کی اقبال سے زندگی میں کوئی اور ملاقات ہوئی یا ان کے جنازے میں ہی شریک ہوئے؟ میاں مجید صاحب۔ ہاں! جنازے کے وقت تو مجھے یاد ہے اچھی طرح سے میں ان کی کوٹھی ہی سے جنازے کے ساتھ ساتھ تھا۔ سارا راستہ ساتھ رہا اور کندھا دیا آگے پیچھے بڑا ہجوم تھا آخر دہلی دروازہ میں داخل ہوئے تنگ بازار تھا چلتے چلتے ہم پانی والے تالاب کے پاس پہنچے مسجد میاں کریم بخش کے قریب حاجی جو یکی دروازے کے ایک مشہور کارکن تھے اور ہم مسجد کے اوپر مینار پر چڑھ گئے اور اس کے اوپر بیٹھ گئے۔ مگر خلقت کبھی ادھر جا رہی تھی۔ کبھی ادھر بڑی بد نظمی تھی تو اس پر حاجی اسلم یکی دروازہ والے نے زور سے آواز دی ’’ او اقبال! تو اس قوم کے لیے میرا تھا جس قوم کو تیرا جنازہ اٹھانے کا بھی سلیقہ نہیں۔‘‘ شفیع صاحب۔ گویا حاجی صاحب نے اقبال کی زندگی کا نچوڑ پیش کر دیا تھا۔ اس لئے کہ اپنی زندگی میں یہ بات ڈاکٹر صاحب نے کہہ دی تھی۔ مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے محبت کا جنوں باقی نہیں ہے صفیں کج، دل پریشاں، سجدہ بے ذوق کہ جذب اندوں باقی نہیں ہے میاں صاحب۔ زندہ باد بہت بہت شکریہ ! شفیع صاحب۔ اس میں میاں صاحب، جناب ممتاز حسن صاحب، حمید احمد خان صاحب مولوی ظفر اقبال صاحب و دیگر حضرات کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اس پیرانہ سالی میں اپنے افکار عالیہ سے ہمیں مستفیض کیا اور آپ جیسے بزرگوں کا سایہ ہمارے اوپر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم رہے۔ میاں صاحب۔ جناب آپ نے مجھے عزت دی کہ ڈاکٹر اقبال کی باتیں جو میرے علم میں تھیں آپ کے روبرو بیان کروں۔ یہ میری عزت افزائی ہے نہ کہ آپ کی۔ شفیع صاحب۔ بہت بہت شکریہ اب ہمیں اجازت دیجئے۔ اچھا جناب خدا حافظ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو ۹۵ سال کی عمر عطا کی ہے۔ اس عمر میں بھی آپ بے شمار نوجوانوں سے بھی زیادہ مستعد نظر آتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ ہم سب پر ہمیشہ کے لئے رکھے اور میں ایک بار پھر آپ کی مہمان نوازی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ (۲۵ اپریل ۱۹۶۷ئ) ٭٭٭ اقبال کا بھوپال سے تعلق پروفیسر عبدالقوی دسنوی سر زمین بھوپال کی یہ خصوصیت ہے کہ یہاں ہر زمانے اور ہر دور میں ملک کے باکمالوں کی قدر ہوتی رہی ہے شاید اس سر زمین کی مردم شناسی اور قدر افزائی ہی کی وجہ سے اہل علم حضرات کی آمد کا سلسلہ یہاں جاری رہا۔ چنانچہ سید ظہیر الدین دہلوی، مرزا شاغل دہلوی، اسلم جیرا جپوری، ذاکر حسین، ثاقب لکھنوی، احسن اللہ خاں ثاقب بدایونی، احمد علی شوق قدوائی، کلب احمد، مانی جائسی، مضطر خیر آبادی، ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری، افتخار عالم مارہروی، عبدالرزاق البرامکہ، سر راس مسعود، امین زبیری، نیاز فتح پوری، جگر مراد آبادی، علامہ سید سلیمان ندوی اور علامہ محوی صدیقی لکھنوی ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں جن کا قیام مختلف وقتوں میں یہاں رہا ۔ ان میں زیادہ تر لوگ بغرض ملازمت یہاں آئے تھے۔ البتہ جگر مراد آبادی اور ثاقب وغیرہ کا تعلق ملازمت کی وجہ سے نہ تھا۔۔۔۔ بلکہ نواب صاحب یا یہاں کے لوگوں کی کشش تھی جو بار بار انہیں یہاں کھینچ لاتی تھی۔ ان میں سے چند نے تو بھوپال کو اپنا وطن ثانی بھی بنا لیا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کا تعلق بھوپال سے کچھ اور تھا۔ وہ نواب صاحب کے قدر داں اور ان کے سیاسی شعور کے مداح تھے۔ دراصل نواب صاحب ہندوستانی سیاست سے بڑی دلچسپی رکھتے تھے اور اس کی پیچیدگیوں سے باخبر رہتے تھے۔ ویسے بیرون بھوپال سیاست سے ہٹ کر سماجی اور تعلیمی کارناموں سے بھی گہرا تعلق رکھتے تھے۔ انہیں سیاسی، سماجی اور تعلیمی کاموں کے لگاؤ کی وجہ سے دیدہ ور لوگوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اس طرح ہندوستان میں ان کے مداحوں کا حلقہ وسیع تھا۔ علامہ اقبال بھی نواب صاحب کے قدر دانوں میں سے تھے۔ یہ پتہ نہ چل سکا کہ نواب صاحب سے ان کا تعلق کب پیدا ہوا اور کونسی چیز اس تعلق کا باعث بنی البتہ علامہ اقبال کے ایک خط بنام غلام بھیک نیرنگ مرحوم سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۹۲۷ء سے قبل ہی وہ نواب صاحب سے تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک چندے کے سلسلے میں نواب صاحب سے مدد کا یقین رکھتے تھے۔ اس لئے میر سید غلام بھیک نیرنگ کو لکھتے ہیں: ’’ لاہور ۲۳ جنوری ۱۹۲۷ء اگر1؎ کچھ کمی چندے میں رہ گئی تو والی بھوپال سے مدد کی التجا بہتر ہو گا۔۔۔۔‘‘ اسی تعلق کی بناء پر وہ اکثر بھوپال بھی تشریف لاتے تھے اور نواب صاحب کی سیاسی سوجھ بوجھ کی وجہ سے ان سے مشورے بھی 1؎ اقبال نامہ حصہ اول صفحہ ۲۰۹ لیا کرتے تھے۔ دراصل ہندوستانی سیاست کا رنگ دیکھ کر علامہ ا قبال آہستہ آہستہ سیاست میں دخیل ہو گئے تھے اور پھر رفتہ رفتہ ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی بھی اختیار کر لی تھی چنانچہ سیاست سے ان کا اس قدر گہرا لگاؤ ہو گیا تھا کہ جب دوسری گول میز کانفرنس ستمبر ۱۹۳۱ء میں منعقد ہوئی تو اس میں علامہ اقبال بھی شریک ہوئے اس کانفرنس میں ان کے ساتھ غلام رسول مہر بھی تھے۔۔۔ غلام رسول مہر سیاسی شعور رکھنے کے علاوہ اس کانفرنس میں علاہ کے ساتھ اس لئے بھی ہوئے تھے کہ ان کی وجہ سے انہیں مدد ملے گی۔ نواب حمید اللہ خاں اپنے سیاسی افکار کی وجہ سے اس زمانے میں بڑی نمایاں حیثیت کے مالک تھے۔ اس لئے علامہ اقبال نے کانفرنس میں شریک ہونے سے پہلے نواب صاحب سے ملنا مناسب سمجھا۔ چنانچہ ۷ مئی ۱۹۳۱ء کو نذیر نیازی صاحب کو اسی سلسلے میں تحریر کرتے ہیں: ’’ میں1؎ پرسوں بھوپال جا رہا ہوں۔ دو چار روز وہاں قیام رہے گا۔ اگر قومی سرمایہ مسلمان جمع کر سکیں تو میرا اندازہ ہے کہ مسلمانوں میں ہندوؤں کی نسبت زیادہ مادہ قربانی اور اپنے حقوق کے لئے ایجی ٹیشن کرنے کی عبادت و ہمت موجود ہے۔‘‘ علامہ اقبال سیاسی گفتگو کے سلسلے میں تشریف لا رہے تھے تاکہ نواب صاحب سے کانفرنس کے سلسلے میں تبادلہ خیال ہو جائے چنانچہ نذیر نیازی لکھتے ہیں کہ ’’ حضرت علامہ (اقبال) بھوپال جا رہے تھے اور تقریب وہی سیاسی گفت و شنید2؎‘‘ علامہ اقبال کا قیام بھوپال میں زیادہ نہیں رہا وہ ۹ مئی کو بھوپال کے لئے روانہ ہوئے تھے اور ۱۴ مئی کی صبح کو لاہور واپس پہنچ گئے تھے۔ ان کے ۱۴ مئی ۳۱ء کے مکتوب بنام مولوی محمد صالح صاحب اس سفر کا مختصراً حال معلوم ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ میں ابھی صبح بھوپال سے واپس آیا، ریاست بھوپال میں بھی نواب صاحب بھوپال کی دعوت پر اسی مطلب کے واسطے گیا تھا کہ مسلمانوں کے سیاسی اختلافات رفع کرنے کی کوشش کر کے ان کو ایک مرکز پر متحد کیا جائے، معاملہ امید افزا ہے مگر افسوس ہے کہ چونکہ ہر روز قریب دو بجے رات تک کام کرنا اور جاگنا پڑا میں وہیں بیمار ہو گیا۔ آج صبح واپس آیا ہوں۔3؎‘‘ جناب اقبال حسین خان صاحب جو اس زمانہ میں بی اے کرنے کے بعد نواب صاحب کے ساتھ رہتے تھے بیان کرتے ہیں علامہ اقبال، نواب صاحب سے بات چیت کرنے کے بعد جب کمرے سے باہر آئے تو تھکے ہوئے تھے اور ان کے چہرے کے نقوش سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کسی اہم مسئلہ پر گفتگو ہوئی ہے۔ 1؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۶۸ 2؎ ایضاً 3؎ اقبال نامہ حصہ دوم صفحہ ۳۸۸ اس سفر میں علامہ کا قیام ’’ راحت منزل‘‘ میں تھا، جہاں کھانے کے کمرے میں علامہ اقبال سے ان کی تھوڑی بات چیت ہوئی۔ علامہ اقبال نے دریافت کیا کہ کیا آپ شعر و شاعری سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اقبال حسین خاں صاحب نے جواب دیا کہ شعر و شاعری سے زیادہ تعلق تو نہیں ہے البتہ گاہے گاہے شعر کہہ لیتا ہوں۔ چنانچہ علامہ نے سنانے کی فرمائش کی۔ جب خان صاحب نے اپنی غزل سنائی تو علامہ نے پسند فرمایا، البتہ مطلع میں اصلاح کر دی۔ اصلاح شدہ شعر خان صاحب کو اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اپنا مطلع نکال دیا اور اب تو انہیں اپنا شعر بھی یاد نہیں ۔ پوری غزل حسب ذیل ہے: نگاہ ہے پردہ سوز میری نقاب کیسا حجاب کیسا تمہاری ان پردہ بندیوں کا ملا ہے تم کو جواب کیسا نکل گئیں کیوں یہ بہکی باتیں قدم مرے کیسے لڑکھڑائے نسیم کوچہ سے کس کے آئی مہک رہا ہے گلاب کیسا کسی کی مست انکھڑیوں میں زاہد جھلک تلطف کی میں نے پائی تجھے مبارک تری نصیحت مری خطا کا حساب کیسا تلاش میں ان کی کھو گیا میں تو دل میں میرے سما گئے وہ پھر اب کہو تو بلاؤں کس کو پکاروں کس کو خطاب کیسا ہر ایک ذرہ دمک رہا ہے ہر اک فضا میں ہے دلربائی یہ سارے کون و مکاں پہ چھایا ہے تیرا رنگیں شباب کیسا کبھی ازل میں کسی نے چھیڑا تھا میرے تار نفس کو ہمدم مگر ابھی تک فضا میں ہر سو یہ بج رہا ہے باب کیسا وہ تم کو اقبال خواب میں جب گلے سے اپنے لگا گئے ہیں وہ خواب ہے زندگی کا حاصل بھلا بتاؤ وہ خواب کیسا مئی ۱۹۳۱ء کے سفر بھوپال کے بعد جولائی ۱۹۳۱ء میں علامہ اقبال کا دوبارہ بھوپال آنا ہوا۔ اس سفر کے بارے میں وہ غلام رسول مہر کو ۱۰ جولائی ۱۹۳۱ء کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ ۱۷ یا ۱۸ جولائی کو بھوپال جانا ممکن ہو گیا ہے مغل پورہ کالج انکوائری ۲۰ سے شروع ہو گی اور مجھے گواہی دینا ہے۔ جو ۲۰ اور ۲۴ کے درمیان ہو گی۔ کل کمشنر لاہور کا خط اس مضمون کا آیا ہے۔ والسلام شاید۲۱ کو بھوپال جاسکیں گے۔1؎‘‘ 1؎ انوار اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار ص ۹۶ اس دوران میں علامہ اقبال کا شملہ جانا ہو گیا جہاں سے وہ ۲۳ جولائی کو رقمطراز ہیں: ’’ السلام علیکم۔ مجھ کو بھی شعیب1؎ صاحب کا تار آیا تھا جس کا جواب میں نے ان کو دے دیا تھا انشاء اللہ ۲۷ تک لاہور پہنچ جاؤں گا۔ وہاں سے ان کو تار دے دوں گا، ۲۶ کو یہاں کشمیر کے معاملات کے متعلق مشورت ہو گی۔ لاہور سے انشاء اللہ بھوپال چلیں گے۔ والسلام2؎‘‘ بشیر احمد ڈار، علامہ اقبال کے بھوپال جانے کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ ۱۹۳۱ء میں آزادی کشمیر کی تحریک پہلی دفعہ منظم ہو کر عوامی تحریک بنی تھی۔ مہاراجہ ہری سنگھ والی کشمیر نے نواب بھوپال کی وساطت سے کوشش کی کہ کوئی سمجھوتہ ہو جائے اس غرض کے لئے نواب بھوپال نے اقبال کو بھوپال بلایا اور ایک مرتبہ دہلی بلایا لیکن بدقسمتی سے یہ گفتگوئے مصالحت کا سیاب نہ ہو سکی 3؎‘‘ نواب حمید اللہ خاں کی دعوت پر ۲۹ فروری ۱۹۳۲ء کو علامہ دہلی جانے کے لئے تیار تھے لیکن اچانک جاوید اقبال کی علالت کی وجہ سے پروگرام ملتوی کرنا پڑا۔ چنانچہ علامہ اس کی اطلاع غلام رسول مہر کو اسی دن اس طرح دیتے ہیںـ: ’’ میں تو آج دہلی جانے کے لئے تیار ہو گیا تھا، مگر جاوید کا بخار بدستور ہے۔ رات بھی اسے ایک سو پانچ ہو گیا تھا، آج ڈاکٹر صاحب نے دیکھا ہے ان کو شبہ ہے کہ بخار میعادی ہے پختہ پتہ کل صبح کے معائنہ سے ہو گا۔ اس تشویش کی حالت میں میرے لئے سفر مشکل ہے۔ ڈاکٹر نے بھی یہی مشورہ دیا ہے آپ میری طرف سے ہزہائی نس کی خدمت میں معذرت کریں کہ میں ان کے حکم کی تعمیل میں سفر کے لیے تیار تھا مگر مذکورہ بالا ناگہانی افتاد کی وجہ سے رک گیا زیادہ کیا عرض کروں بہت مشوش ہوں۔ والسلام 4؎‘‘ چنانچہ غلام رسول مہر لکھتے ہیں: ’’ اس مکتوب میں ہزہائی نس سے مراد اعلیٰ حضرت نواب حمید اللہ خاں بہادر والی بھوپال ہیں، بہت کم اصحاب کو معلوم ہو گا کہ کشمیر میں مسلمانوں نے جو تحریک شروع کر رکھی تھی اس میں ایک موقع پر مہاراجہ ہری سنگھ والی کشمیر کی خواہش کے مطابق اعلیٰ حضرت نواب حمید اللہ خاں والی بھوپال مصالحت کرا دینے پر آمادہ ہوئے تھے۔ اس ضمن میں اعلیٰ حضرت ممدوح نے علامہ مرحوم کی وساطت سے گفتگو شروع کی تھی چنانچہ حضرت مرحوم دو مرتبہ بھوپال تشریف لے گئے ۔ ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت دہلی آئے تو حضرت علامہ کو اسی گفتگو کے لئے دہلی بلا لیا۔ حضرت علامہ عزیزی جاوید کی علالت کے باعث جا نہ سکے اور میں نے دہلی پہنچ کر پیام معذرت اعلیٰ حضرت کی خدمت میں پیش کای۔ 5؎‘‘ ٭٭٭ 1؎ شعیب قریشی جو نواب بھوپال کے سیکرٹری تھے۔ 2؎ انوار اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار ص ۹۷ 3؎ انوار اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار ص ۹۶ حاشیہ 4؎ نقوش مکاتیب نمبر مرتب محمد طفیل (حصہ اول) ص ۳۱۲5؎ ایضاً ٭٭٭ بھوپال کا دوسرا سفر (۱۷ جولائی ۱۹۳۵ء سے ۲۸ اگست ۱۹۳۵ء تک) علامہ اقبال دوسری مرتبہ بغرض علاج ۱۷ جولائی ۱۹۳۵ء کو بھوپال تشریف لائے۔ اپنی آمد کے سلسلے میں وہ سر راس مسعود کو ۲۴ جون ۱۹۳۵ء کو لاہور سے لکھتے ہیں: ’’ آپ کا خط مل گیا اور اعلیٰ حضرت کا والا نامہ بھی موصول ہو گیا ہے جسے میں نے سادہ اور خوبصورت فریم میں لگوا دیا ہے۔۔۔ میں انشاء اللہ وسط جولائی تک بھوپال پہنچوں گا۔ جاوید کو ہمراہ لانا ہو گا۔ علی بخش بھی ہمراہ ہو گا۔ شعیب صاحب کو بھی اپنے آنے کی اطلاع دے دوں گا۔ مگر یہ تو بتلائیے کہ میرا ایڈریس بھوپال میں کیا ہو گا تاکہ میں گھر میں وہ ایڈریس چھوڑ جاؤں۔ اس طرح بچی منیرہ کی خیریت مجھے روز ملتی رہے گی۔ جس جگہ مجھے ٹھہرنا ہو گا اس جگہ کا پتہ لکھ دیجئے زیادہ کیا عرض کروں سوائے اس کے کہ آپ سے ملنے کے واسطے تڑپ رہا ہوں۔ 1؎‘‘ ۱۱ جولائی کو نذیر نیازی صاحب کو اطلاع دیتے ہیں: ’’ میں دو چار روز تک بھوپال جاؤں گا اور قریباً ڈیڑھ ماہ وہاں ٹھہروں گا۔ شاید اب تک چلا جاتا مگر بارش نہیں ہوئی۔ برسات شروع ہو جائے تو جاؤں۔2؎‘‘ عبدالمجید سالک ’’ ذکر اقبال‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’ ۱۵ جولائی کو علامہ نے پھر بھوپال کا سفر اختیار کیا تاکہ برقی علاج جاری رہے۔ 3؎‘‘ نذیر نیازی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ ۱۶ (جولائی ۱۹۳۵ئ) کی صبح کو حضرت علامہ (فرنٹیر میل) دہلی تشریف لائے ہیں اسٹیشن پر موجود تھا۔ شام کو بھوپال روانہ ہو گئے۔‘‘ ۱۷ جولائی کو علامہ اقبال بھوپال پہنچے اور برقی علاج پھر شروع ہوا۔ ۱۹ جولائی کو علامہ سید سلیمان ندوی کو آگاہ کرتے ہیں کہ ’’ میں گلے کے برقی علاج کے لیے کچھ مدت کے لئے بھوپال میں مقیم ہوں۔‘‘ یکم اگست کو اپنی صحت کی بہتری کا اظہار نذیر نیازی صاحب کے خط میں کیا۔ یہ خط شیش محل سے لکھا ہوا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ جلد ہی وہ ریاض منزل چھوڑ کر شیش محل میں منتقل ہو گئے تھے۔ ’’ میری صحت ترقی کر رہی ہے الحمد للہ اگر آپ لاہور سے واپس آ گئے تو اطلاع دیں۔ 4؎‘‘ علامہ اقبال ۱۰ اگست کو بھوپال سے اپنی صحت کی بہتری کے بارے میں پھر اطلاع دیتے ہیں: 1؎ اقبال نامہ حصہ اول ص ۳۶۵ 2؎ مکتوبات اقبال نذیر نیازی 3؎ ذکر اقبال ص ۱۹۶ 4؎ مکتوبات اقبال ص ۲۸۰ ’’ صحت خوب ترقی کر گئی ہے۔ آواز میں بھی فرق ہے۔ امید ہے اب کے علاج سے فائدہ ہو گا۔ شاید ایک دفعہ اور بھوپال آنا پڑے گا۔ یعنی اس ہفتہ بعد۔۔۔۔ میں غالباً ۲۶ یا ۲۸ اگست کو یہاں سے روانہ ہوں گا۔ 1؎‘‘ ’’ ۔۔۔۔ میں انشاء اللہ ۲۸ اگست کی شام کو یہاں سے روانہ ہو کر ۲۹ کی صبح کو دہلی پہنچوں گا، روانگی سے پہلے اطلاع دوں گا۔ 6؎‘‘ ۲۴ تاریخ کو دوبارہ اسی تاریخ کی روانگی کی اطلاع دیتے ہیں: ’’ آپ کا خط ابھی ملا، الحمد للہ کہ خیریت ہے میں ۲۸ اگست کی شام کو سات بجے یہاں سے روانہ ہو کر ۲۹ کی صبح آٹھ بجے دہلی پہنچوں گا۔ دن بھر ریلوے اسٹیشن پر قیام رہے گا۔ رات کی گاڑی میں وہاں سے روانہ ہو کر ۳۰ کی صبح انشاء اللہ لاہور پہنچوں گا۔ 3؎‘‘ پروگرام کے مطابق ۲۹ اگست کو صبح کے وقت علامہ اقبال دہلی پہنچ گئے۔ دن بھر وہاں قیام رہا اور رات کو لاہور کے لئے روانہ ہو گئے اور ۳۰ اگست کی صبح کو لاہور پہنچ گئے۔ عبدالمجید سالک علامہ کی صحت کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ بھوپال سے واپسی پر علامہ بتایا کرتے تھے کہ آواز میں خفیف سی ترقی ہے اگرچہ پانچ چھ مزید کورس علاج کے پورے ہو گئے تو آواز کھل جائے گی۔ 4؎‘‘ لیکن نذیر نیازی لکھتے ہیں کہ: ’’ بھوپال سے واپسی کے بعد حضرت علامہ کی صحت ایک خاص نقطے پر آ کر رک گئی، ہنگامی تکالیف کا تو انہیں زیادہ خیال نہیں تھا۔ کبھی کبھی ڈاکٹر جمعیت سنگھ صاحب تشریف لے آتے اور ان کے دل اور پھیپھڑوں کے معائنے سے اپنا اطمینان کر جاتے لیکن بجلی کے علاج اور حکیم صاحب کی دواؤں کے باوجود مرض کا استیصال نہ ہوا، اس طرح صحت اور بیماری کے درمیان جو کشمکش مدت سے رونما تھی۔ اس کا نتیجہ کبھی کبھی ایک خراب رد عمل کی صورت میں ظاہر ہونے لگتا۔ بھوپال سے واپس آ کر انہیں ایک حد تک کمزوری کا احساس ہو رہا تھا۔ 5؎‘‘ شیش محل میں علامہ کے اس پہلی مرتبہ قیام میں ان کے صاحبزادے جاوید اقبال جو ان دنوں بہت چھوٹے تھے ان کے ساتھ تھے۔ جن کو پڑھانے کے لئے سر راس مسعود صاحب نے بھوپال کے علی حسین صاحب سے درخواست کی تھی چنانچہ علامہ کا جب تک اس بار بھوپال میں قیام رہا وہ برابر شیر محل جا کر جاوید اقبال کو پڑھاتے رہے وہ بیان کرتے ہیں۔ ’’ جولائی ۳۵ء میں دوسری مرتبہ جب ڈاکٹر اقبال بغرض علاج بھوپال تشریف لائے تو سر راس مسعود مرحوم کے اصرار کے 1؎ مکتوبات اقبال ص ۲۸۳۔ 2؎ مکتوبات اقبال ص ۲۸۶3؎ مکتوبات اقبال ص ۲۸۶۔ 4؎ ذکر اقبال۔ 5؎ اقبال۔ انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی ص ۳۱۱ باوجود دو ایک دن سر راس مسعود کے ساتھ ریاض منزل میں قیام کے بعد صدر منزل سے متصل شیش محل میں منتقل ہو گئے۔ غالباً اس کی وجہ گوشہ تنہائی اور شہر کے ادیب اور صحافیوں سے آزادانہ ملاقات کے علاوہ حمیدیہ ہسپتال کی قربت اور ڈاکٹر عبدالباسط اکسرے انچارج کی دن رات میں بآسانی بار بار دیکھ بھال مقصود تھی جو شیش محل کے سامنے رہتے تھے۔‘‘ اس مرتبہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ علی بخش ان کے نجی ملازم کے علاوہ ان کے صاحبزادے جاوید اقبال بھی تھے۔ سر راس مسعود کے یہاں ہر جمعہ کو (تعطیل) صبح ۸ بجے سے ۱۲ بجے دن تک بھوپال کے معزز اصحاب، ادیبوں اور صحافیوں کی ایک بے تکلف بیٹھک ہوتی تھی اور علم و ادب اور جدید سائنسی معلومات پر آزادنہ تبادلہ خیال ہوتا تھا۔ جب میں حسب معمول جمعہ کے روز پہنچا تو ڈاکٹر اقبال تشریف رکھتے تھے سر راس نے ڈاکٹر صاحب سے میرا یہ کہہ کر تعارف کرایا کہ: ’’ اس لڑکے نے میرے زمانے میں علی گڑھ سے بی اے کیا ہے اور حافظ بھی ہے۔‘‘ دوسرے اصحاب سے تعارف کے بعد سر راس اور ڈاکٹر صاحب اوپر چلے گئے واپسی پر سر راس نے مجھ سے بلا کر فرمایا کہ: ’’ تم جاوید کو پڑھا دیا کرو۔‘‘ لہٰذا تیسرے روز سے ہی شیش محل میں جاوید کو آٹھویں درجہ کا کورس حساب الجبرا، جیومیٹری اور جغرافیہ پڑھانا شروع کر دیا۔ شیش محل میں ڈاکٹر صاحب ۹ بجے سے ۱۱ بجے تک اور شام کو ۷ بجے تک عام لوگوں سے ملتے تھے۔ ایک روزمجھے بلا کر فرمایا کہ ’’ تم حافظ ہو اس لئے اگر تم کو جو مضامین میں نوٹ کر دوں ان کو کلام پاک میں تلاش کر کے نشانی رکھ دیا کرو تو اس سے مجھے لکھنے میں بڑی آسانی ہو گی۔‘‘ لہٰذا تعمیل ارشاد میں مضامین متعلقہ کی آیتوں پر ان کے اپنے ترجمہ معہ تفسیر کلام پاک میں فلیگ لگا دیا کرتا تھا۔ ایک روز علی بخش سے میں نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کے قلمی نشانشات کلام پاک میں لگے ہوئے ہیں تو پھر مجھ سے یہ کام کیوں لیا گیا ہے۔ علی بخش نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب حتیٰ الامکان بلا وضو کلام پاک کو ہاتھ لگانا پسند نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ لکھنے کے کام میں حرج نہیں ہو گا۔ ایک روز جاوید میاں نے بانگ درا کی ایک کاپی جس کی اوپری جلد پر زریں حرفوں سے ڈاکٹر صاحب کا نام لکھا ہوا تھا۔ مجھے لا کر دی میں نے کتاب لے تو لی لیکن بعد میں خیال آیا کہ ایسا نہ ہو کہ ڈاکٹر صاحب کی بلا اجازت دی گئی ہو لہٰذا میں نے جاوید میاں کو کتاب واپس کر کے کہا کہ ڈاکٹر صاحب سے اس پر میرا نام لکھوا دیجئے۔ دوسرے روز علی بخش نے یہ کتاب مجھے واپس لا کر دی جس پر میرا نام ڈاکٹر صاحب کے دستخط کے ساتھ تھا۔ افسوس کہ یہ نایاب یادگار گم ہو گئی۔ روانگی سے قبل ہی جناب ممنون حسن خاں صاحب نے جو اس زمانہ میں سر راس مسعود کے پرسنل سیکرٹری تھے اور میرے پڑوسی اور کرم فرما ہیں ایک روز ایک بند لفافہ مجھے لا کر دیا جس میں منجانب ڈاکٹر صاحب سر راس نے سو روپے کا نوٹ بطور معاوضہ ٹیوشن مجھے بھیجا تھا میں نے سر راس سے جا کر کہا کہ دنیا ڈاکٹر اقبال کی خدمت کو ترستی ہے کیا مجھے اتنا موقع بھی نہیں دیا جائے گا کہ میں چند دن کے لیے ہی ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادے جاوید کو پڑھانے کا فخر حاصل کروں۔ سر راس نے فرمایا کہ ’’ ڈاکٹر صاحب سے اس مسئلے پر میں خود گفتگو کر چکا ہوں یہ ان کا خلوص اور عطیہ ہے اور اس کو قبول کرنا ہی تمہارے لئے فخر ہے‘‘ لہٰذا میں خاموش ہو گیا علی حسن صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب ڈاکٹر صاحب کلام پاک کی آیتوں پر نشانی رکھوا رہے تھے اس وقت وہ کسی اردو رسالہ دہلی اور کسی انگریزی رسالہ کے لئے مضمون لکھ رہے تھے ان کی یہ آرزو یہ تھی کہ کلام پاک کی تفسیر ایک ایسے رنگ میں لکھیں جو علم جدید اور سائنس کی روشنی میں دنیا کے لئے قابل قبول ہو۔ ٭٭٭ بھوپال کا تیسرا سفر (۲ مارچ ۱۹۳۶ء سے ۷ یا ۸ اپریل ۱۹۳۶ء تک) علامہ اقبال تیسری مرتبہ علاج کی غرض سے ۶ مارچ ۱۹۳۶ء کی صبح کو بھوپال پہنچے اور پچھلی بار کی طرح قیام شیش محل میں رہا۔ علاج کے علاوہ اس سفر میں ان کی دوسری دلچسپی طلوع اسلام سے نظر آتی ہے۔ اسی زمانہ میں یہ رسالہ دہلی سے جاری ہوا تھا، اس کا نام علامہ اقبال کی نظم ’’ طلوع اسلام‘‘ کی نسبت سے رکھا گیا تھا۔ اس کا پہلا شمارہ اکتوبر ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد دو شمارے ۱۹۳۶ء میں دہلی سے نکلے علامہ چاہتے تھے کہ کسی طرح سے اس رسالہ کو نواب صاحب بھوپال سے مدد مل جائے چنانچہ وہ نذیر نیازی صاحب کو ۸ مارچ ۱۹۳۶ء کو ایک خط میں اسی سلسلے میں لکھتے ہیں: ’’ امید ہے کہ یہ خط آپ کو دہلی میں مل جائے گا۔ آپ ایک عرضداشت اعلیٰ حضرت کے نام رسالہ ’’ طلوع اسلام‘‘ کی مدد کے لئے لکھئے اور تینوں رسالے بھی ان کے نام ارسال کر دیجئے۔ عرضداشت میں رسالے کے اغراض و مقاصد اور اس کا نصب العین عمدہ الفاظ میں بیان کیجئے۔ نیز یہ بھی لکھیے کہ اس وقت سارے ہندوستان میں علمی اداروں اور رسالوں کی حوصلہ افزائی کرنے والی سوائے اعلیٰ حضرت کی ذات والاصفات کے اور کون ہے یہ عرضداشت میرے نام ارسال کیجئے تاکہ میں اس پر اپنی سفارش لکھ کر سید راس مسعود کے پاس بھیج دوں۔ 1؎‘‘ جب یہ خط نذیر نیازی صاحب کو ملا تو ان کا بیان ہے کہ ’’ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اعلیٰ حضرت سے کس بناء پر ’’ طلوع اسلام‘‘ کی امداد کے لئے درخواست کروں۔ عرضداشت کا مضمون بھی ذہن میں نہیں آتا تھا۔ احباب سے ذکر کیا انہوں نے کہا یہ دربار داری کے معاملات ہیں تم ان سے عہدہ برآ نہیں ہو سکے۔ ویسے حضرت علامہ کے ارشاد کی تعمیل ضروری ہے۔‘‘ بہرحال جوں توں کر کے ایک عرضداشت مرتب کی لیکن گھر بار چونکہ علامہ اقبال کے ایماء پر لاہور منتقل ہو رہا تھا لہٰذا اس کی ترسیل میں غیر معمولی تاخیر ہو گئی۔ حضرت علامہ نے مجھے خاموش پایا تو میرے مرحوم دوست سید سلامت اللہ کو ۲۸ مارچ ۱۹۳۶ء کو خط لکھتے ہیں ’’ معلوم نہیں نیازی صاحب لاہور پہنچے یا نہ پہنچے میں نے جو خط ان کو لکھا تھا اس کا کوئی جواب انہوں نے نہیں دیا۔ 1؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۳۲۷ میں نے ان کو لکھا تھا کہ ’’ طلوع اسلام‘‘ کی مدد کے لئے ایک عرضداشت اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال کے نام لکھ کر میرے نام فوراً ارسال کر دیں۔ عرضداشت کا مضمون بھی میں نے اس خط میں لکھ کر دیا تھا وہ اب تک خاموش ہیں اگر انہوں نے تساہل کیا تو معاملہ دوسرے سال پر پڑ جائے گا اس وقت بجٹ تیار ہو رہا ہے اگر وہ فوراً عرضداشت بھیج دیں تو کام اسی سال ہو جائے گا۔ جہاں کہیں بھی ہوں ان کو تاکید کر دیں کہ عرضداشت مذکورہ عمدہ کاغذ پر خوش خط لکھ کر فوراً ارسال کر دیں عرضداشت میں اعلیٰ حضرت کو ایڈریس کیا جائے اور میرے پاس بھیجا جائے تاکہ میں اس پر اپنی سفارش لکھ سکوں۔ 1؎‘‘ نذیر نیازی صاحب نے حسب ارشاد علامہ کو عرضداشت بھیج دی جس کی رسید ۳۱ مارچ کو علامہ نے دی۔ ’’ آپ کی عرضداشت پہنچ گئی ہے۔ میں انشاء اللہ ۹ اپریل کی شام کو ساڑھے سات بجے لاہور پہنچوں گا۔ 2؎‘‘ جناب نذیر نیازی علامہ اقبال کے بھوپال کے اس آخری سفر میں ایک خواب کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’ حضرت علامہ فرماتے ہیں میں بھوپال ہی میں مقیم تھا جب ایک روز خواب میں دیکھا جیسے سرسید احمد خاں مرحوم کہہ رہے ہیں کہ تم اپنی بیماری کا ذکر حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کیوں نہیں کرتے۔ آنکھ کھلی تو یہ شعر زبان پر تھا۔ باپرستان شب دارم ستیز باز روغن در چراغ من بریز پھر جب چند اشعار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عرض احوال میں ہوئے۔ رفتہ رفتہ ہندوستان اور بیرونی ہند کے سیاسی اور اجتماعی حوادث نے حضرت علامہ کو اس قدر متاثر کیا کہ ان اشعار نے ایک مثنوی کی شکل اختیار کر لی۔3؎‘‘ ۹ اپریل ۱۹۳۶ء کو علامہ اقبال لاہور واپس آئے یہی ان کا بھوپال کا آخری سفر تھا۔ پروفیسر محمد زبیر صدیقی صدر شعبہ عربی حمیدیہ کالج (بھوپال) کا بیان ہے کہ علامہ نے جب شیش محل میں آ کر قیام کیا تو وہ آٹھویں جماعت میں تعلیم پا رہے تھے، علامہ کو جو سرکاری موٹر کار ملی تھی اس کے ڈرائیور جسیم حیدر تھے وہ زبیر صاحب کے ملاقاتی تھے چنانچہ اسکول سے واپسی پر وہ اکثر اس موثر میں بیٹھ جاتے تھے۔ اتفاق سے ایک روز ڈاکٹر صاحب مکان سے باہر آئے۔ غالباً وہ شملہ کی طرف جا رہے تھے انہیں دیکھ کر جسیم حیدر سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں جسیم حیدر نے بتایا کہ قاضی صاحب کے پوتا ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے زبیر صاحب کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور دریافت کیا کہ وہ کیا پڑھتے ہیں انہوں نے بتایا کہ عربی پڑھتے ہیں تو علامہ نے عربی کی گردان 1؎ مکتوبات اقبال ص ۳۲۸ 2؎ مکتوبات اقبال ص ۳۲۹ 3؎ اقبال مرتبہ انجمن ترقی اردو ہند ص ۳۱۳ پوچھی اور مختلف قسم کے سوالات کئے زبیر صاحب کا بیان ہے کہ اس ملاقات کے بعد علامہ سے اس طرح ملنے کا موقع ملتا رہا۔ حکیم قمر الحسن صاحب چیف ایڈیٹر روزنامہ ندیم بھوپال فرماتے ہیں کہ جس زمانہ میں علامہ اقبال کا قیام شیش محل میں تھا وہ حکیم اولاد حسین کے ساتھ علامہ سے ملنے گئے حکیم اولاد حسین، حکیم قمر الحسن صاحب کے رشتے کے بھائی اور بہنوئی بھی تھے وہ پانی کے علاج میں کافی تجربہ کار تھے۔ علامہ اقبال ان سے طبی مشورہ چاہتے تھے چنانچہ کچھ دیر تک تو علاج کے سلسلے میں گفتگو ہوتی رہی اس کے بعد حکیم اولاد حسین صاحب نے قمر الحسن صاحب کا تعارف کرایا اس وقت قمر الحسن صاحب کی عمر مشکل سے ۲۲ سال کی ہو گی۔ علامہ نے ان سے مختلف سوالات کئے اور دریافت کیا کہ ’’ کیا لکھتے ہو؟‘‘ اس زمانے میں حکیم قمر الحسن صاحب افسانے اور انشائے لطیف لکھا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نئی پود ٹیگور کی انشائے لطیف سے متاثر تھی۔ چنانچہ جب انہیں معلوم ہوا کہ حکیم صاحب کو افسانے اور انشائے لطیف کا شوق ہے تو فرمایا کہ انشائے لطیف بے مقصد چیز ہے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی صحت مند اور تعمیری ادب پیش کریں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ طلبہ کو چاہیے کہ پہلے علم حاصل کریں اس لئے کہ بغیر اچھے علم کے اچھا ادب تخلیق نہیں ہوتا۔ شمس العلماء علامہ سید میر حسن سیالکوٹی کا انتقال مولانا غلام رسول مہر تمام ہندوستان میں یہ خبر نہایت رنج و قلق کے ساتھ سنی جائے گی کہ ۲۵ ستمبر ۱۹۲۹ء مطابق ۲۱ ربیع الثانی ۱۳۴۸ ھ کو ادیب اریب، فاضل اجل حضرت قبلہ سید میر حسن صاحب سیالکوٹ نے دار فانی سے رحلت کی۔ ۲۵ ستمبر کی صبح کو یہ اندوہناک خبر تار کے ذریعہ علامہ اقبال مدظلہ اللہ کو پہنچی۔ آپ پہلی ٹرین سے سیالکوٹ روانہ ہو گئے تاکہ نماز جنازہ میں شریک ہو سکیں۔ مولانا میر حسن کی وفات کا صدمہ نہ صرف ان کے اعزہ و اقارب اور ہزار ہا تلامذہ بلکہ تمام قوم کو ہو گا، جو ایک گراں مایہ ہستی سے تہی دامن ہو گئی ہے۔ علم و حکمت کے آفتاب مطلع اقوام پر ہر روز طلوع نہیں ہوتے۔ نہ بیک وقت اتنے طلوع ہوتے ہیں کہ ایک کا غروب علوم کی روشنی کے مدھم پڑ جانے کا باعث نہ ہو۔ علامہ مرحوم کے شاگردوں سے معلوم ہوا کہ آپ اپنا تاریخی نام ’’ رونق بخش‘‘ بتایا کرتے تھے۔ اگر یہ صحیح ہے تو آپ کی پیدائش کا سن ۱۲۵۸ ھ تھا اور اس اعتبار سے آپ نے تقریباً نوے سال کی عمر پائی۔ آپ کا مکان شہر سیالکوٹ میں میر حسام الدین طبیب کی گلی میں تھا۔ قرآن مجید کے حافظ تھے اور قرآن آپ نے والد سے حفظ کیا تھا۔ جس زمانہ میں آپ حافظ قرآن ہوئے، ہندوستان میں طباعت کا رواج نہ ہوا تھا۔ اس لئے آپ نے قلمی نسخہ سے قرآن پاک حفظ کیا۔ تحصیل علوم سیالکوٹ ہی میں کی۔ سیالکوٹ قدیم الایام سے علم و حکمت کا ’’ مدینہ‘‘ رہا ہے۔ اسی مردم خیز خاک سے ملا جمال کشمیری پیدا ہوئے۔ جن سے حضرت مجدد الف ثانیؒ کو شرف تلمذ حاصل تھا۔ مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی جو شہنشاہ شاہجہان کے استاد تھے تمام دنیا جانتی ہے کہ اب اس گئے گزرے زمانہ میں مولانا میر حسن مرحوم کے طفیل اسی خاک سے علامہ سر اقبال جیسی ہستی پیدا ہو چکی ہے۔ سکاچ مشن سکول میں مدرسی: مولوی میر حسن صاحب نے نہایت قلیل مشاہرہ پر سکاچ مشن سکول میں ملازمت شروع کی اور تادم آخر مشن کی ملازمت نہ چھوڑی۔ اس دوران میں اعلیٰ مشاہرہ کی سرکاری ملازمتیں بھی پیش کی گئیں۔ لیکن ہمیشہ اس بناء پر انکار کیا کہ مشن نے اس وقت مجھے ملازم رکھا جب مجھے کوئی نہ جانتا تھا۔ اب مشن کو چھوڑنا آئین مروت شناسی کے خلاف ہے۔ شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد مرحوم کے گورنمنٹ کالج لاہور سے سبکدوش ہونے پر غالباً انہی کے ایماء سے مولوی صاحب کے گورنمنٹ کالج لاہور میں تقرر کے لئے سلسلہ جنبانی ہوئی ہو گی۔ مگر آپ نے مذکورہ بالا عذر کی بناء پر قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مشن نے بھی آپ کی کماحقہ قدر کی۔ کم و بیش ستر سال کی تدریس کے بعد غالباً اواخر ستمبر ۱۹۲۸ء میں فقدان قوت بینائی کی وجہ سے آپ نے کالج جانا ترک کیا۔ مشن نے ازراہ قدر دانی پنشن مقرر کر دی۔ فارسی، عربی، اردو کے علم و ادب میں مہارت کامل رکھتے تھے۔ کالج میں بھی یہی زبانیں پڑھاتے تھے۔ کالج کے ارباب اختیار کو ہمیشہ آپ کا اس قدر احتشام و احترام ملحوظ رہا کہ کالج کے ٹائم ٹیبل کی تیاری کے وقت ہمیشہ ان کا ٹائم ٹیبل پہلے بنتا اور پھر اوقات دوسرے اساتذہ میں تقسیم ہوتے۔ مشہور ہے کہ مرحوم نے کئی کتابیں تصنیف کیں۔ جو ان کے طبعی انکسار کے باعث آج تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہو سکیں۔ شمس العلماء کا خطاب: غالباً ۱۹۲۳ء میں گورنمنٹ نے آپ کو شمس العلماء کا خطاب دیا۔ خطاب کی شان نزول بھی عجیب ہے۔ سر ایڈورڈ میکلیگن سابق گورنر پنجاب نے ایک دفعہ علامہ سر محمد اقبال کو ملاقات کے لئے یاد فرمایا باتوں میں دریافت کیا کہ امسال حکومت کا ارادہ کسی مولوی صاحب کو شمس العلماء کا خطاب دینے کا ہے اور آپ کی رائے میں کس کو دیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے استاد کا نام پیش کیا۔ سر ایڈورڈ مولوی صاحب کو نہیں جانتے تھے۔ پوچھا مولوی صاحب کی کوئی تصنیف؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ہاں ان کی تصنیف ہے۔ گورنر نے نام پوچھا علامہ نے اپنی طرف اشارہ کر کے جواب دیا۔ ’’ اقبال‘‘ مولانا میر حسن قبلہ سرسید مرحوم کے مخلص ترین احباب میں سے تھے بلکہ آپ کو سید صاحب کی تعلیمی تحریک کے کامیاب موئدین میں سے کہنا چاہیے۔ علمی ادبی اعتبار سے آپ سرسید کے نورتنوں میں سے تھے۔ اپنے قدیم ہمدموں یعنی مولانا حالی، مولوی نذیر احمد، مولوی ذکاء اللہ، مولانا شبلی کا تذکرہ اکثر آپ کی زبان پر رہتا ۔ یوں کہیے کہ آپ اس سرسیدی سلسلہ کی آخری کڑی تھے۔ آپ کے اخلاق: آپ کی زندگی کے ایسے حالات جو آپ کے اخلاق اور پختگی سیرت کے آئینہ دار ہیں، آپ کے تلامذہ کو اس قدر یاد ہیں کہ ایک دفتر لکھا جا سکتا ہے۔ اپنی ہمشیرہ کے ساتھ آپ نے عہد و پیمان کیا کہ جو ہم دونوں میں سے پہلے مرے دوسرا اس کی قبر پر تازیست ہر روز خود صبح پہنچ کر فاتحہ خوانی کرے۔ ہمشیرہ پہلے وفاق پا گئیں۔ اس لیے جب تک آپ میں چلنے پھرنے کی سکت رہی۔ قبر پر باقاعدہ پہنچتے رہے۔ وقت کی پابندی اور پابندی عہد آپ شدت کے ساتھ کرتے۔ خود اعتمادی حد سے زیادہ تھی۔ دوسرے خدمت لینے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ شاگردوں سے معمولی سے معمولی کام کرانا گوارا نہ تھا۔ کالج میں درس دینے کے علاوہ گھر پر بھی مفت تعلیم دیتے۔ بلکہ بعض شاگردوں کو کالج آتے جاتے راستے میں بھی پڑھاتے۔ آپ کے تلامذہ: تمام مذاہب کے لوگ آپ کے شاگرد تھے اور بے حد تعظیم سے پیش آتے ڈاکٹر سر محمد اقبال قبلہ، لالہ کز رسین چیف جج جموں، پروفیسر برکت علی مرحوم آپ کے مشہور شاگردوں میں ہیں۔ مولوی ظفر اقبال ایم اے پروفیسر ٹریننگ کالج لاہور، پروفیسر احمد دین اظہر ماہر صوتیات او ردیگر سینکڑوں حضرات ایسے ہیں جن کو مرحوم سے نسبت تلمذ ہے اور اب اچھے اچھے منصبوں پر فائز ہیں۔ مولانا کے یہ تلامذہ جب کبھی بھی سیالکوٹ جاتے کبھی مولانا مرحوم سے ملے بغیر واپس نہ آتے۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے ولایت جاتے وقت دہلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے مزار مبارک پر خواجہ رحمتہ اللہ علیہ کو مخاطب کر کے جو نظم بہ عنوان التجائے مسافر لکھی تھی، اس کے مفصلہ ذیل آخری اشعار میں مولانا مرحوم کی طرف ہی اشارہ تھا: وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی رہے گا مثل حرم جس کا آستانی مجکو دعا یہ کر کہ خداوند آسمان و زمیں کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجکو روزنامہ انقلاب لاہور ۲۷ ستمبر ۱۹۲۹ء پروفیسر آرنلڈ کا انتقال مولانا غلام رسول مہر اسلامی ہند کے تعلیم یافتہ حلقوں میں یہ خبر بہت رنج و اندوہ سے سنی جائے گی کہ پروفیسر سر ٹامس آرنلڈ کا انتقال ہو گیا۔ پروفیسر صاحب آنجہانی ۱۹ اپریل ۱۸۶۴ء میں پیدا ہوئے آپ نے سٹی آف لندن سکول اور میگڈلین کالج کیمبرج میں تعلیم پائی۔ آپ کچھ مدت تک گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے پروفیسر اور پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ علوم شرقیہ کے ڈین رہے۔ آپ نے اس سال تک ایم اے او کالج علی گڑھ میں اسلام اور مسلمانوں کی جو شاندار خدمات انجام دیں ان کے لئے مسلمانوں کا بچہ بچہ آپ کا ممنون احسان ہے اور ہندوستان میں صد ہا ایسے تعلیم یافتہ مسلمان ہوں گے جنہیں اپنے قابل اور شفیق استاد کی رحلت کی خبر سے دلی صدمہ پہنچے گا۔ پروفیسر آرنلڈ علوم مغربیہ کے فاضل اجل ہونے کے علاوہ السنہ مشرقیہ اور اسلامیات میں بے انتہا شغف رکھتے تھے۔ مسلمانوں کے متعلق آپ کا نقطہ نگاہ ہمیشہ ہمدردانہ رہا۔ آپ ۱۹۱۷ء سے ۱۹۲۰ء تک انگلستان میں وزیر ہند کے مشیر تعلیم رہے اور اس کے بعد انگلستان جانے والے ہندوستانی طلبہ کی امداد و رہنمائی کا فرض ہمدردی و سرگرمی سے انجام دیتے رہے۔ غرض آپ کے انتقال سے ہندوستانی اور علی الخصوص مسلمان طلبہ کا ایک بہت بڑا ہمدرد اٹھ گیا ۔ ہمیں آپ کے متعلقین سے دلی ہمدردی ہے۔ روزنامہ انقلاب لاہور۔ ۲۰ جون ۱۹۳۰ء ٭٭٭ حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ مولانا غلام رسول مہر نذر اشک بے قرار از من پذیر گریہ بے اختیار از من پذیر حضرت علامہ اقبال اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے۔ بقا صرف اللہ کی ذات کے لئے ہے کل من علیھا فان ویبقی رجد ربک ذواجلال والاکرام ڈاکٹر کئی مہینوں سے محسوس کرا رہے تھے کہ اب اس وجود مقدس و محترم سے دنیوی مفارقت کا وقت قریب آ پہنچا ہے جس کی فیض بار صحبت میں ہم بیس برس تک علم و حکمت کے موتیوں سے دامن بھرتے رہے اور جس کی معیت کا ایک ایک ثانیہ اس دنیا کی دوسری صحبتوں کے دنوں نہیں بلکہ مہینوں اور برسوں سے بھی زیادہ بیش بہا تھا۔ لیکن دل اس مفارقت کو اتنی جلدی ممکن الوقوع سمجھنے کے لئے تیار نہ تھا اس تابندہ چہرے پر جسمانی تکالیف کے ہجوم میں بھی امید کی ایسی روشنی نظر آتی تھی کہ ہم یہ تصور ہی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ اتنی جلدی آنکھوں سے ہمیشہ کے لئے اوجھل ہو جانے والا ہے جس زبان نے پچاس برس تک نہ محض مسلمانوں کو بلکہ ساری دنیا کو اجتماعی زندگی کا حیات افروز پیغام دیا۔ وہ زبان بیماری کے دوران میں بھی اسی طرح حقائق کے گوہر برساتی تھی جس طرح صحت و تندرستی کے بہترین دور میں برساتی رہتی تھی۔ اس وجہ سے خیال نہیں ہوتا تھا کہ اس کے بند ہو جانے کا وقت اتنا قریب آ گیا ہے لیکن جو کچھ پیش آنے والا تھا اس تیزی کے ساتھ پیش آ گیا کہ کل اس وجود مقدس کے آخری سفر کی منزل بھی طے ہو چکی اور اب ہزاروں آرزوؤں اور تمناؤں کے ماتم کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ یہ ماتم تادم مرگ ساتھ رہے گا۔ عالمگیر شخصیت حضرت علامہ اقبال کسی ایک دور، ایک ملک اور ایک قوم کی شخصیت نہ تھے بلکہ وہ عالمگیر شخصیت کے مالک تھے دنیا کا بڑا حصہ محض انہیں ایک نادر روزگار شاعر کی حیثیت میں جانتا ہے لیکن جن خوش نصیبوں کو اس دریائے فیض کے کنارے پر اپنی زندگیاں گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی وہی جانتے ہیں کہ شاعری کا بہتر سے بہتر تصور بھی قائم کر لیا جائے تو حضرت علامہ کی ذات گرامی پر اس کا اطلاق اس شخصیت عظمیٰ کی وسعت زمان و مکان کے اعتبار سے کس درجہ نارسا تھا۔ ’’ سول‘‘ نے لکھا ہے کہ جب تک اردو اور فارسی کا ایک ایک لفظ بھی دنیا میں بولا جاتا رہے گا اس وقت تک حضرت علامہ کی ذات گرامی کی یاد بہ حیثیت شاعر تازہ رہے گی۔ یہ خیال بلا شبہ درست ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ دنیا میں جب تک علم و حکمت باقی رہیں گے۔ جب تک انسانیت کی تحسین و اصلاح کا سلسلہ جاری رہے گا اس وقت تک اس حکیم یگانہ اور اس مصلح اعظم کی یاد تازہ رہے گی اس لئے کہ عالم انسانیت کی اصلاح و افلاح کے سمندر میں جتنا بڑا تہیج و تحرک حضرت علامہ کی ذات گرامی نے پیدا کیا اتنے بڑے تہیج کی مثال صدیوں میں بھی نہیں ملتی۔ سب سے بڑا مسلمان اور سب سے بڑا ہندوستانی حضرت علامہ مرحوم ہندوستان کی ایک غریب قوم کے فرد تھے وہ اس دور میں پیدا ہوئے جب کہ یہ قوم اجتماعی زندگی کے تمام دائروں میں تباہ حال تھی اس میں اوپر اٹھنے، ابھرنے اور اس آسمان کے نیچے عزت مندانہ مقام تلاش کرنے کی ہمت اور سکت موجود نہ تھی۔ اس دور میں کئی بزرگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے اپنے خیال اور مذاق کے مطابق اس قوم کی دستگیری اور رہنمائی کی کوششیں کیں۔ کسی نے تعلیم کو سنبھالا۔ کسی نے سیاسی خدمت کا دائرہ اختیار کیا۔ کسی نے مذہبی احیاء کو اپنا وظیفہ قرار دے لیا۔ ان سب کی کوششیں مشکور ہیں ان سب کی ہستیاں واجب الاحترام ہیں۔ لیکن حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا دائرہ خدمت سب سے زیادہ وسیع او رسب سے بڑھ کر اہم تھا۔ انہوں نے قومی زندگی کے حقیقی سرچشمہ میں بے پناہ تحرک پیدا کیا۔ دلوں کو سچی تڑپ بخشی۔ زندگی کے جذبات کو استقلال و استحکام دیا۔ دماغوں میں بلندی ورفعت کی طلب پیدا کی اور قوم کے مزاج، مذاق اور فطرت کو بدل کر اس مقام پر پہنچا دیا جہاں سے عزت مندانہ زندگی کی سرحد شروع ہوتی ہے مسٹر جناح نے جو یہ کہا ہے کہ حضرت علامہ مرحوم کی عظیم الشان خدمات ملک و ملت اتنی بیشمار ہیں کہ انہیں بلا تکلف بڑے سے بڑے ہندوستانی کی خدمات کے مقابلے میں لایا جا سکتا ہے۔ تو یہ در حقیقت اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ علامہ مرحوم دور حاضر کے سب سے بڑے مسلمان تھے اور وہ زمانہ دور نہیں جبکہ اس حقیقت کا بھی عام طور پر اعتراف کیا جائے گا کہ وہ سب سے بڑے ہندوستانی بھی تھے۔ ’’ چشم خود بہ بست و چشم ما کشاد‘‘ ان کا پیغام زندگی رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔ وہ ان چند افراد میں سے تھے جن کی قدر و منزلت ان کی زندگی میں بھی کافی ہوئی۔ وہ عمر بھر زیادہ تر گوشہ نشین رہے اور بہت کم پبلک میں آئے۔ لیکن دنیا کی بڑی بڑی شخصیتیں ان کے زاویہ عزلت میں جا کر فیض یاب ہونا اپنا سب سے بڑا شرف سمجھتی رہیں۔ ان کی بیماری کی اطلاعات بالاہتمام رد کی گئیں اور ان کی موت دفعتہ ہوئی۔ موت سے صرف بارہ چودہ گھنٹے بعد انہیں آغوش خاک میں سلا دیا گیا۔ لیکن ان کے جنازے میں ساٹھ ستر ہزار آدمی شریک ہوئے اور ان میں دنیوی وجاہت کے بڑے بڑے پیکر شامل تھے۔ یہ سب کچھ اسی بات کا ثبوت ہے کہ ان کی قدر و منزلت کے شعور و احساس سے کوئی قلب بھی خالی نہ تھا لیکن ان کی عظمت و رفعت اور جلامت قدر کا حقیقی دور اب شروع ہوا ہے وہ زندگی میں مجاہدانہ عزائم و مقاصد کے سب سے بڑے داعی تھے۔ لیکن ان کی فطرت سراپا محبت تھی دنیا کے عظیم الشان انسانوں میں سے وہ اس قلیل الافراد گروہ مقدس کے ایک فرد تھے جنہوں نے حتیٰ الامکان کسی کی خفیف سی دلآزاری بھی گوارا نہ کی۔ وہ کسی کے بھی رقیب نہ بنے۔ لیکن ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی جو ان کی عظمت و جلالت کو دیکھ کر انہیں اپنا رقیب سمجھتے تھے۔ اب رقابت کے اس وہم کے لئے بھی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اب وقت آیا ہے کہ دنیا اقبال کو اس کے حقیقی رنگ میں دیکھے۔ اب وقت آیا ہے کہ اس کے حقیقی کام کے تمام جوہر آشکارا ہوں۔ اب اس نادر روزگار شخصیت کی عظمت کے صحیح اندازوں کا دور شروع ہوا ہے۔ ’’فقیر راہ نشین است و دل غنی دارد‘‘ وہ شہرت سے ہمیشہ بے نیاز رہے۔ اگرچہ شہرت ان سے کبھی بھی بے نیاز نہ ہوئی۔ وہ جاہ و منزلت سے ہمیشہ بے پروا ہی نہیں بلکہ نفور رہے۔ ان کی فطرت و طبیعت درویشانہ تھی۔ یہ جو ان کے کلام میں بار بار نظر آتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو فقیر اور’’ درویش‘‘ اور ’’ قلندر‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں تو یہ کوئی شاعرانہ تخیل آرائی نہ تھی بلکہ ان کی فطرت کے صحیح احساس کا اظہار تھا۔ جو لوگ ان کی صحبت سے صر ف ایک دو مرتبہ مستفید ہوئے وہ بھی اپنے ایمانوں کی تازگی کے معترف آئے اور بار بار ان صحبتوں کو زندگی کے بہترین اوقات میں شمار کرتے ہوئے پائے گئے۔ ہم کیا عرض کریں جن کے بیس برس کے لیل و نہار کا بڑا حصہ اس جلیل القدر ہستی کے فیض پر ور سایہ میں گزرا اور جہیں خلوت و جلوت دونوں میں سے بڑے سے بڑا حصہ ملا لیکن تشنگی ہنوز باقی ہے اور زیادہ نہ ملنے کی حسرت تادم مرگ باقی رہے گی۔ دہرا ماتم دنیا کے لئے ایک رنج و قلق ہے کہ اقبال جیسی شخصیت ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئی۔ ہمارے لئے اس عام رنج و قلق پر یہ زہرہ گداز رنج و قلقل بھی مستزاد ہے کہ ایک سراپا محبت و شفقت بزرگ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ جس کی صحبت میں خدا جانے کتنی مرتبہ ٹوٹے ہوئے ارادوں کی از سر نو درستی کا سامان ہوا اور زندیگ کی منزل میں جو قابل ذکر قدم اٹھے اسی کی ہدایت و رہنمائی میں اٹھے۔ وہ جب تک زندہ تھا دل کو لو لگی رہتی تھی کہ وہاں جانا ہے لیکن اب۔۔۔۔۔؟؟؟ آج پہلو میں دل نہیں بلکہ یاس و حسرت کا ایک ٹکڑا ہے جو ابھی تک اپنی سوگواری کی وسعت کا صحیح اندازہ بھی نہیں کر سکا بار بار سوال پیدا ہوتا ہے۔ جس کے آوازے سے لذت گیر اب تک گوش ہے وہ جرس کیا اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے در و دیوار سے اس سوا ل کا صرف ایک جواب ملتا ہے۔ رو لے اب دل کھول کر اے دیدۂ خوننا بہ بار اب احباب کے گلے مل کر رو لینے کے سوا اور کیا باقی ہے؟ حضرت علامہ اقبال اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ بقا صرف اللہ کی ذات کو ہے۔ کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔ (انقلاب ۲۴ اپریل۱۹۳۸ئ) (عطیہ: محمد عالم مختار حق) اعتذار: ہم نے آخری مرحلے پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ علامہ کے چند خطوط بھی اسی شمارہ میں چھاپ دئیے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابتداء میں خطوط کے ۱۹ صفحات زائد ہیں۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End