اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید علمی و تحقیقی مضامین جلد چہارم حصہ اول مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقالات سرسید سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کو حاصل ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے اور اپنے پیچھے نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مضامین جہاں ادبی لحاظ سے وقیع ہیں، وہاں وہ پر از معلومات بھی ہیں۔ ان کے مطالعے سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مذہبی مسائل اور تاریخ عقدے حل ہوتے ہیں اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں اور سیاسی و معاشرتی لحاظ سے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ نیز بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی ان میں موجود ہیں سرسید کے ان ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا ہدف رہے ہیں ان مضامین میں علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی، مزاح بھی ہے اور طنز بھی، درد بھی ہے اور سوز بھی، دلچسپی بھی ہے اور دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے اور سرزنش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اور ہر قسم کے خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے، وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اور کہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات و رسائل کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام کے لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اور نا مکمل، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ گزر گیا مگر کسی کے دل میں ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا اور کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا آخر کار مجلس ترقی ادب لاہور کو ان بکھرے ہوئے بیش بہا جواہرات کو جمع کرنے کا خیال آیا مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں پرونے کے لیے مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا انتخاب کیا جنہوں نے پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میں دور و نزدیک کے سفر کیے فراہمی مواد کے لیے ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا، مگر چونکہ ان کی طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری باحسن طریق پوری کی چنانچہ عرصہ دراز کی اس محنت و کاوش کے ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں’’ مقالات سرسید‘‘ کی مختلف جلدوں کی شکل میں فخر و اطمینان کے جذبات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ دنیا کب بنی اور کتنی مدت میں اورمذہب اسلام سے اس کی مطابقت (تہذیب الاخلاق ‘ یکم ذی قعدہ ۱۳۱۱ھ ‘ جلد اول ‘ نمبر ۲‘ (دو ر سوم) صفحہ ۲۰) چہ شبہا نشستم دریں دیر گم کہ حیرت گرفت آستینم کہ قم خدا کے کارخانوں کو خدا ہی جانے بندہ کیا جان سکتاہے ‘ مگرجہاں تک کہ موجودات عالم کے آثار سے اس کا پتا لگ سکتا ہے ‘ اسی قدر جان سکتا ہے۔ وما اوتیتم من العلم الا قلیلا محققین علوم جدیدہ کا اس نظام شمسی کی نسبت جس میں ہم رہتے ہیں‘ یقین ہے کہ ابتدا میںآفتاب ایک بھڑکتا ہوا شعلہ تھا۔ اس کی حرکت بہت ہی تیز تھی۔ مرور دھور میں اس کی حرارت کم ہوتی گئی اوروہ سکڑتا اور چھوٹا ہوتا گیا اور اس سبب سے اس کے مادے میںگاڑھا پن آ گیا اور حرکت کی تیزی کے سب اس میں سے چند ٹکڑے ٹوٹ کر دور دور چلے گئے اور اسی کے گرد چکر کھانے لگے۔ اس وقت تک ظاہر ہوا ہے کہ آفتاب میں سے گیارہ ٹکڑے ٹوٹے ہیں جن سے ہمارا نظام شمسی بنا ہے اور جو کواکب سیار کہلاتے ہیں اور آفتاب کے گرد پھرتے ہیں ‘ جن کے نام یہ ہیں:عطارد ‘ زہرہ ‘ زمین ‘ مریخ ‘ وسطہ‘جولس ‘ سریس ‘ پالس‘ مشتری‘ زحل ‘ جرجیس۔ جو ٹکڑے ٹوٹ کر دور چلے گئے تھے اور ان میں مادہ بھی زیادہ تھا۔ ان میں سے پھر ٹکڑے ٹوٹے اور انہیں کے گرد پھرنے لگے۔ چنانچہ جرجیس سے چھ ٹکڑے ٹوٹے جو اس کے گرد پھرتے ہیں اور اس کے قمر کہلاتے ہیں ۔ اور زحل کے سات ٹکڑے ٹوٹے جو اس کے گر د پھرتے ہیں اور اسکے قمر کہلاتے ہیں اورایک بطور حلقہ ا س کے گر د بن گیا ہے اور مشتری کے چار ٹکڑے ٹوٹے جو اس کے گرد پھرتے ہیں اور اس کے قمر کہلاتے ہیں اورزمین سے ایک ٹکڑا ٹوٹا جو اس کے گر دپھرتا ہے اور اس کا قمر کہلاتا ہے۔ زمین جس پر کہ ہم بستے ہیں اس کی حالت دریافت کرنے پر کسی قدر انسان کو قابو تھا چنانچہ زمین کو کھود کر اس کے طبقات کا حال دریافت کیا ہے او ر ہر ایک طبقے کے بہ لحاظ ان کی حالتوں کے جدا جد ا نام رکھے ہیں جیسے کہ نقشہ مشمولہ سے ظاہرہوتا ہے۔ کل طبقات جو کہ معلوم ہوئے ہیں ان کی موٹائی ایک لاکھ تیس ہزار فیٹ یا پچیس میل ہے۔ اوریہ ایک سو ساٹھواں حصہ اس فاصلے کا ہے جو سطح زمین سے مرکز زمین تک ہے یعنی کل موٹائی زمین کی سطح زمین سے اس کے مرکز تک دو کروڑ آٹھ لاکھ فٹ ہے جس میں سے ایک لاکھ تیس ہزار فٹ ان طبقات کی موٹائی ہے ۔ جو معلوم ہوئے ہیں اور اس بھڑکتے ہوئے شعلے کے نصف قطر کی موٹائی جس پر مذکورہ بالا طبقات بنے ہیں‘ دو کروڑ چھ لاکھ ستر ہزار فٹ ہے۔ طبقات معلومہ چار سلسلوں میں تقسیم کیے گئے ہیں ۔ پہلے سلسلے میں تین طبقے ہیں۔ اول طبقے کا نام ’’لارنشین‘‘ ہے اور یہ سب طبقوں سے زیادہ قدیم طبقہ ہے اور اس کی موٹائی تیس ہزار فٹ ہے۔ دوسرے طبقے کا نام ’’کیمبرین‘‘ ہے اور اس طبقے کی موٹائی اٹھارہ ہزار فٹ ہے۔ تیسرے طبقے کا نام ’’سلورین‘‘ ہے اور اس طبقے کی موٹائی بائیس ہزار فٹ ہے۔ اگلے علماء جیالوجی کو ان طبقوں کا حال اچھی طرح معلوم نہ تھا اس لیے قدیم علماء نے ان طبقوں کا کچھ نام نہیں رکھا‘ مگر علما ء متاخرین نے جب ان کو اس کا کچھ زیادہ حال معلوم ہوا تا انہو ںنے ان تینوںطبقوں کا مجموعی نام طبقہ ابتدائی یا ’’پلیز واک ایپک‘‘ رکھا او ر ہم ان طبقوں کا نام طبقہ ابتدائی تحقیقات جدید قرار دیتے ہیں۔ سب سے نیچے کے طبقے ’’لارنشین‘‘ میں خفیف الحیات جانداروں کے نشان معلوم ہوتے ہیں جن کو ’’اوزین کیناڈنس‘‘ کہا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا جاندار شے تھی جو گھونگے کی قسم کی تھی اورجو ایک سخت خول کے اندر رہتی تھی اور بعد کو وہ سب پتھر ہو گئی۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان قدیم بناوٹوں میں بسبب کثرت حرارت اوردبائو کے ایسے تھوئے نگینے دار بن گئے ہیں کہ ان جانوروں کے پتھر شدہ خولوں اور تھوئوں میںپرتوں کا کچھ نشان نہیں پایا جاتا۔ ’’کمیبرین‘‘ کے اور ’’سلورین‘‘ طبقے کے نیچے کے حصے میں جانداروں کے نشان کثر ت سے ملتے ہیں خصوصاً ’’سی ویڈ‘‘ جو ایک ادنیٰ قسم کے سمندری سوار کی مانند ہے اوراس کے بالائی حصے میں بہت سی جاندار چیزیں پائی جاتی ہیں جیسے کہ ’’کرس ٹی سیا‘ ‘ جو گھونگے سے بھی ادنیٰ چیز ہے اورچند قسم کے گھونگے اورچند قسم کی مچھلیاں۔ ان میں سے اس قسم کا گھونگا جس کو ’’لنگولا‘‘ کہتے ہیں اور جو ’’سلورین‘‘ طبقے میں پایا جاتا ہے ویسا ہی اب بھی بغیر کچھ زیادہ تبدیلی کے موجود ہے ’’سلورین‘‘ طبقے میں وہی امور اثر کرتے تھے جو اب بھی اثر کر رہے ہیں اور موجودہ حالتیں اس میں بھی تھیں۔ مینہ برستے تھے ہوائیں چلتی تھیں‘ دریا بہتے تھے‘ موجیں چٹانوںسے ٹکر کھاتی تھیں‘ گھونگے زندہ رہتے تھے اورمر بھی جاتے تھے‘ کیکڑے اور ریت کے کیڑ ے کناروں پر جو موج کے چلے جانے کے بعد خشک ہو جاتے تھے رینگتے تھے۔ اسی طرح سے جیسا کہ آج کل حال ہے ۔ دوسرا سلسلہ ان تین طبقوں کا ہے جو متققدمین علماء جیالوجی کو معلوم ہوا تھا اور اس لیے انہیں نے ان تینوں طبقوں کا مجموعی نام پریمری‘ یعنی طبقہ ابتدائی رکھ دیا تھا‘ کیونکہ اس سے پہلے طبقو ں کا حال ان کو معلوم نہیں ہوا تھا‘ کیونکہ اس سے پہلے طبقوں کا حال ان کو معلوم نہیں ہوا تھا‘ مگر ہم اس طبقے کا نام طبقہ ابتدائی تحقیقات قدیم قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں تین طبقے ہیں: اول: ’’ڈوونین‘‘ یعنی پرانے سرخ ریتلے پتھر کا طبقہ۔ دوم: ’’کاربونی فرس‘‘ یعنی جس طبقے میں پتھر کا کوئلہ ہے۔ سوم: ’’پرمیین ‘‘ یعنی نئے سرخ ریتلے پتھر کا طبقہ۔ ان تینوں مجموعی طبقوں کی موٹائی قریباً چالیس ہزار فیٹ کے ہے اس میں ’’فرن‘‘ کے جنگل اور مچھلیاں بہت کثرت سے تھیں جو ’’ڈوونین‘‘ اور ’’پرمیین‘‘ طبقوںکے پرتوں میں پائے جاتے ہیں۔ ’’فرن‘‘ متعد د صورت کے درخت ہوتے تھے جن کے تنے بہت موٹے ہو جاتے تھے اور ان کے پتے بھی موٹے موٹے ہوتے تھے اور انہیں درختوں کی ٹہنی اور تنے جو پتھر کی طرح ہو گئے ہیں وہی پتھر کا کوئلہ کہلاتا ہے۔ تیسرا سلسلہ جو علماء قدیم کے نزدیک دوسرا ہے وہ ہے جس میں ٹریاسک ‘ یعنی ایک قسم کی پتھر شدہ ہڈیاں اورجورا یعنی ایک قسم کا پتھر اور ’’کری ٹی شس‘‘ یعنی کھویا موجو د ہے اور ا سکی موٹائی پندرہ ہزار فٹ ہے اور اس طبقہ میں رینگنے والے جانور پائے جاتے ہیں اور جو نباتات ان طبقوں میںپائی جاتی ہیں وہ ’’فرن‘‘ یا ’’سی ویڈ‘‘ کے سوا ہے جو پہلے طبقے میں تھے‘ بلکہ بیج والے درخت ہیں جن پر موٹا چھلکا نہیں ہے اور اس طبقے میں ’’پلے سی اوسارس‘‘ اور ’’اک تھائی اوسارس‘‘ اور بڑے بڑے بدشکل پانی کے جانور پائے جاتے ہیں۔ زمین کے بڑے جانور کے جیسے کہ ’’ڈنو ساری‘ ‘ میدانوں میں تھے‘ اور ایک عجیب جانور ’’ٹروڈیک ٹائیلس‘‘ مگر کی صورت گوشت خوار اور اڑنے والا جانور تھا اور مگروں اور کچھوئوں کے ہم نسل تھے سمندر اور زمین پر کثرت سے موجود تھے۔ چند علامتیں شیر خوار جانوروں اورپرند جانوروں کی پائی جاتی ہیں۔ چوتھا سلسلہ وہ ہے جس کو قدیم علماء نے ’’ٹرشیری‘‘ قرار دیا تھا‘ یعنی تیسرا سلسلہ جس کا اوپر کا حصہ ’’اوسین‘‘ کے نام سے نامزد کیا جاتا ہے اورنیچے کا حصہ ’’پلے اوسین‘‘ کے نام سے۔ اس طبقے میں شیر خوار جانور اور ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جانور بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں اور آج کل جو نسلیں حیوانات اورنباتات کی ہیں وہ بہت کثرت سے پیدا ہوتی تھیں اور ایسے درخت پائے گئے ہیں جن کے بیج گٹھلی میں ہیں اوراس طبقے کی موٹائی تین ہزار فٹ ہے۔ علماء قدیم کی تحقیقات کے مطابق تیسرے طبقے کے بعد کا اور علماء جدید کی تحقیقات کے مطابق چوتھے طبقے کے بعد کا جو طبقہ ہے وہ ’’کوارٹرنی‘‘ کہلاتا ہے۔ اوریہ وہ زمین کا طبقہ ہے جو آج کل کی بناوٹ کا سب سے بالائی طبقہ ہے اورجس میں انسان اور جانوروں کی نسلوں کا وجود پایا جاتا ہے ۔ جو آج کل موجودہیں یا اس سے بیشتر کسی زمانے میں معدوم ہو چکی ہیں۔ علم جیالوجی میںہر ایک طبقے کی بناوٹ کا علیحدہ علیحدہ زمانہ قائم کیا ہے ۔ اس کی رو سے زمین کے کل طبقات جو اس بھڑکنے والے شعلے کے اوپر بنے ہیں جو زمین کے بیچ میں ہے ‘ بیس کروڑ برس کے عرصے میں بنے ہیں‘ اور ا س حساب سے آج سے بیس کروڑ برس پہلے دنیا کا وجود پایا جاتا ہے۔ اس کی تعداد کہ وہ آفتاب کا بھڑکتا ہو ا شعلہ جس سے ٹوٹ کر زمین بنی ہے‘ کب سے تھا‘ خدا کے سوا کسی کومعلوم نہیں۔ انسان کے وجود کا پتا ادنیٰ حالت میں ’’ٹرشیری‘‘ زمانے میں پایا جاتا ہے اور ڈھائی لاکھ برس سے اس کی عمدہ حالت کے نشان پائے جاتے ہیں۔ اور اس کی بنائی ہوئی چیزیںپتھراور ہڈی وغیرہ کی ملی ہیں۔ ہندو دنیا کی پیدائش کی مدت کو اپنے مذہب میں داخل سمجھتے ہیں اور اس کی ابتدا کو برہما کی پیدائش سے مانتے ہیں۔ اورسمجھتے ہیں کہ برہما کا ہر ایک دن نئی دنیا کے پیدا ہونے کا نیا دن ہوتا ہے۔ انہوں نے مدت کا حساب کرنے کو کلب قرار دیے ہیں اور ہر کلب کا زمانہ ساٹھ ہزار آٹھ سو پینتالیس برس اورکئی دن کا ہوتاہے ۔ اور اکھتر کلب کے چار جگ ہوتے ہیں۔ ان چاروں جگوں کی مدت تینتالیس لاکھ بیس ہزار برس کی ہے۔ اس کے بعد ایک من پیدا ہوتا ہے جو برہما کا فرزند کہلاتا ہے اورجب چودہ من اس طرح پر گزر جاتے ہیں تو برہما کا ایک دن ہوتا ہے یعنی چھ کروڑ چار لاکھ اسی ہزار برس کا۔ اس زمانے میں برہما کی عمر کا اکیاون واں دن ہے۔ یعنی برہما کی عمر کے پچا س دن گزر چکے ہیں جس میں چھ من ہو چکے اور ساتویں من میں سے ستائیس کلب گزر گئے اور اٹھائیسویں کلب میں سے تین جگ اورچوتھے جگ میں سے چار ہزار آٹھ نواسی برس ۔ پس آخر ۱۸۹۳ء کو دنیا کی عمر تین ارب دو کروڑ تہتر لاکھ چھاسی ہزار سات سو چھبیس بر س کی تھی۔ پس چودہ من پورا ہونے میں سات من جس کے برسوں کی تعداد تین کروڑ دو لاکھ چالیس ہزار سال ہوتی ہے اور تینتالیس کلب جن کی مدت چھبیس لاکھ سولہ ہزار تین سو پینتیس ہوتی ہے اوراکھترویں کلب میں سے پچپن ہزار نو سو چھپن برس باقی ہیں جس کا مجموعہ تین کروڑ انتیس لاکھ بارہ ہزار دو سو اکیانوے ہوتا ہے۔ جب یہ مد ت ختم ہو جاوے گی تو پرلو ہو گی اوراسی وقت برہما کا باون واں دن شروع ہو جاوے گا اور پھر دنیا رچ ہو جاوے گی اور چونکہ برہما کی عمر کی انتہا کچھ معلوم نہیں ہے‘ اس لیے معلوم نہیں ہے کہ کوئی ایسا زمانہ بھی آوے گا کہ دنیا نہ رہے اور سب چیزیں فنا ہو جاوے۔ اہل کتاب‘ یعنی یہودیوں اور عیسائیوں نے دنیا کی عمر کو بہت ہی گھٹا دیا ہے ۔ ان کے مذہب کی بنیاد توریت کے بیان پر ہے اور توریت سے جو مدت نکلتی ہے وہی دنیا کی پیدائش کی مدت قرار دیتے ہیں ‘ مگر توریت کے مختلف نسخے ہیں۔ یونانی ‘ سامری ‘ اورعبری‘ ان میں بھی آپس میں کچھ کچھ اختلاف ہے اور اس سبب سے دنیا کے پیدا ہونے کی مدت میں اختلاف نکلتا ہے۔ یونانی توریت سے دنیا کے پیدا ہونے کی مدت سات ہزار چار سو ستاسی برس معلو م ہوتی ہے اورسامری توریت کی رو سے چھ ہزار چار سو آٹھ اور عبری توریت کی رو سے چھ ہزار ایک سو اٹھارہ برس‘ مگر انگریزی مورخوں نے اس سے بھی کم کیا ہے اور آج تک دنیا کی عمر پانچ ہزار آٹھ سو ستانوے برس کی قرار دی ہے ۔ علمائے اسلام نے دنیا کے پیدا ہونے کا وہ زمانہ اختیار کر لیا ہے جو یونانی توریت سے نکلتا ہے‘ مگر یہ ان کی محض غلطی ہے۔ قرآن مجید یا کسی معتبر حدیث میں بیان نہیں ہوا ہے کہ دنیا کو پیدا ہوئے کتنی مدت ہو چکی ہے اور اس لیے کوئی مدت دنیا کے موجود ہونے کی جو علوم جدیدہ سے تحقیق ہو وہ مذہب اسلام کے برخلاف نہیں۔ اس امر کی نسبت جو بحث علی بن احمد بن سعید بن حزم نے اپنی کتاب ’’الملل و النحل‘‘ میں کی ہے ہم اس کو اس مقام پر لکھتے ہیں: قال واما اختلاف الناس فی التاریخ فان الیہود یقولون الدنیا اربعۃ الاف سنۃ والنصاریٰ یقولون الدنیا خمسۃ الاف سنۃ واما نحن فلا نقطع علیٰ علم عدد معروف عندنا ومن ادعیٰ فی ذالک سبعۃ الاف سنۃ او اکثر واقل فقد کذب وقال مالم یات قط عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیہ لفظہ تصح بل صح عنہ علیہ السلم خلافہ بل یقطع علی ان الدنیا امداً لا یعلمہ الا اللہ عزوجل۔ قال تعالیٰ ماشہدتم خلق السموات والارض ولا خلق انسھم ۔ وقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما انتم فی الامم قبلکم الا کالشعرۃ البیضاء فی الثور الاسود او الشعرۃ السوداء فی الثور الا بیض ہذا عنہ علیہ السلام ثابت وہو علیہ السلام لا یقول الا عین الحق وقال تعالیٰ و عاداً و ثموداً و اصحاب الرس وقرونا بین ذالک کثیرا وھو علیہ السلام لا یسا مع لشئی من الباطل لا باعیاء ولا بغیرہ فہذہ نسبۃ من تدبرھا و عرف مقدار عدد اہل الاسلام و نسبۃ ما با یدیھم من معمور الارض فانہ الا کثر علم ان للدنیا عدداً لا یحصیہ الا الخالق تعالیٰ۔ (جلد اول ‘ صفحہ دوم ‘ ورق ۸۳) (ترجمہ) ’’باقی رہا لوگوں کا اختلاف تاریخ میں تو یہودیوں کا قول ہے کہ دنیا چار ہزار برس کی ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ پانچ ہزار برس کی ہے‘ لیکن ہم لوگ کسی خاص عددپر یقین نہیں رکھتے اور جو شخص سات ہزار یا اس سے کم اور زیادہ کا دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا ہے اور ایسی بات کہتا ہے جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لفظ بھی منقول نہیں‘ بلکہ آنحضرت سے اس کے خلاف ثابت ہے‘ بلکہ ہمارا یقین ہے کہ دنیا کی مدت کو بجز خدا کے اور کوئی نہیں جانتا۔ خدا نے کہا تم آسمان اورزمین کی پیدائش کے وقت موجود نہ تھے ‘ بلکہ اپنی پیدائش کے وقت بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کق قول ہے کہ تمہاری مثال اگلی امتوں کے مقابل میں ایسی ہے جیسے سیاہ بیل کے جسم میں ایک سفید بال یا سفید بیل کے جسم میں ایک سیاہ بال ۔ یہ حدیث آنحضرت سے ثابت ہے اور آنحضرت کا ارشاد بجز حق کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ اور خدا نے کہا کہ عاد اور ثمود اور اصحاب الرس اور ان کے درمیان بہت سے قرن تھے اور آنحضرت کسی ایسی چیز کے متعلق مسامحہ نہیں فرما سکتے جو غلط ہو‘ نہ بسبب قاصر البیانی کے اور نہ اور کسی سبب کے‘ پس یہ ایک ایسی نسبت ہے کہ جو شخص اس پر غور کرے اور مسلمانوں کی گنتی کو جانے اور یہ جانے کہ ان کے قبضے میں کس قدر زمین کی آبادی ہے ’’کیونکہ زیادہ تر انہی کے ہاتھ میں ہے) تو وہ جان لے گا کہ دنیا کی گنتی کو بجز خدا کے کوئی شخص نہیں شمار کر سکتا‘‘۔ علامہ ابن حزم نے جو بات لکھی ہے کہ دنیا کی کتنی ہی عمر تحقیق ہو اسلام کے کچھ مخالف نہیں ہے‘ اس کو ہم تسلیم کرتے ہیں مگر دراصل اس بات کو بیان کرنا ہے کہ قرآن مجید میں جو چھ دن میں دنیا و مافیھا کا بننا بیان ہوا ہے اس کا کیا مطلب ہے اور جب تک اس کامطلب نہ بیان کیا جاوے قرآن مجید و تحقیقات علوم جدیدہ میں مطابقت کا ہونا نہیں کہا جا سکتا اور اس امر کو انشاء اللہ تعالیٰ ہم دوسرے آرٹیکل میں بیان کریں گے۔ ٭٭٭ کیا دنیا و مافیھا چھ دن میں بن گئی ہے؟ (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۳ (دو ر سوم) یکم ذی الحجہ ۱۳۱۱ھ) اس آرٹیکل میں خدا کی قدرت سے ہم کو کچھ بحث کرنی منظور نہیں ہے‘ ہم یقین کرتے ہیں کہ خدا میں ایسی قدرت ہے کہ اگر وہ چاہتا تو چھ دن تو درکنار ایک آن میں اس سے بھی بڑ ی دنیا بنا دیتا‘ مگر بحث یہ ہے کہ دنیا میںجو علامتیں پائی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے کس طرح پر دنیا کو بنایا ہے ‘ ان سے دنیا کا چھ دن میں بننا پایا جاتا ہے یا نہیں۔ علوم جدیدہ کی تحقیقات سے جو موجودات عالم اور ان کی بناوٹ کے لحاظ سے کی گئی ہے یہ ثابت ہوا ہے کہ لاکھوں کروڑوں برس میں دنیا بنی ہے ۔ ابتدا میں‘ جس کا زمانہ مقرر کرنا انسان کی طاقت سے باہر ہے اجزائے صغار دی مقراطیسی‘ یعنی اجزائے صغار لا یتجزیٰ پھیلے ہوئے تھے ۔ انہیں کے آپس میں ملنے سے اور ایک دوسرے سے جڑنے سے رفتہ رفتہ کروڑوں برس میں زمین ‘ چاند ‘ سورج‘ ستارے‘ بنے ‘ سمندر دریا‘ درخت ‘ چرند ‘ پرند ‘انسان موجود ہو گئے۔پھر کیونکر یقین آوے کہ چھ دن میں سب کچھ بن گیا۔ اسی چیز کو جسے ہم نے اجزائے صغار لا یتجزیٰ سے تعبیر کیاہے یونانی حکماء مادے سے یا ہیولیٰ سے تعبیر کرتے ہیں اور صوفیہ کرام لاہوت سے اور اہل شرع عماء یا دخان یا ماء سے ‘ بات ایک ہی ہے صرف نامو ں کا فرق ہے‘ مگر اس کا کچھ ہی نام رکھو چھ دن مین دنیا و مافیہا کا بن جانا توثابت نہیں ہوتا۔ تفسیر کبیر میں ایک روایت لکھی ہے کہ جس کا مطلب اسی کے قریب قریب پایا جاتا ہے اس میں لکھا ہے کہ : ذکر صاحب الاثر انہ کان عرش اللہ علی الماء قبل خلق السموات والارض فاحدث اللہ فی ذالک الماء سخونہ فارتفع زبدو دخان اما الزبد فبقی علیٰ وجہ الما فخلق اللہ منہ الیبوسۃ واحدث منہ الارض واما الدخان فارتفع وعلا فخلق اللہ منہ السموات و اعلم ان ہذہ القصۃ غیر موجودۃ فی القرآن فان دل علیہ دلیل صحیح قبل والا فلا ۔ (تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ ۴۹۹) (ترجمہ) ’’راویوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آسمان و زمین کے پیدا ہونے سے پہلے خدا کا عرش پانی پر تھا۔ پھر خدا نے پانی میں گرمی پیدا کی ‘ اس میں جھاگ اوردھواں پیدا ہو گیا۔ جھاگ تو پانی پر رہ گئے ان میں خشکی آئی اور زمین پیدا ہو گئی اور دھواں اوپر چلا گیا اور اس سے آسمانوں کو پیدا کیا‘ مگر یہ قصہ قرآن میں نہیں ہے ‘ پھر اگر اس پر کوئی دلیل ہو تو قبول کیا جاوے اور نہیں تو نہیں‘‘۔ پھر یہ بھی لکھا ہے : فاللہ سبحانہ وتعالیٰ خلق الاجزاء التی لایتجزیٰ فقبل ان خلق فیھا کیفیۃ الضوع کانت مظلمۃ عدیمۃ النور ثم لمار کبھا وجعلھا سموات و کواکب و شمسا و قمرا واحدث صفۃ الضوء فیھا فحینئذ صارت مستنیرۃ فثبت ان تلک الاجزاء حین قصداللہ تعالیٰ ان یخلق منھا السموات والشمس والقمر کانت مظلمۃ فصح تسمیتھا بالدخان لامعنی للدخان الاجزاء متفرقہ غیر متواصلۃ عدیمۃ النور ۔ فھذا ما خطر بالبال فی تفسیر الدخان۔ واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔ (تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ ۴۹۹۔ ۵۰۰) (ترجمہ) ’’پھر یہ بھی لکھا ہے کہ جب خدا نے اجزائے لا یتجزیٰ پیدا کیے تو اس سے پہلے کہ ان میں نور پیدا کرے وہ بے نور تھے۔ پھر جب ان کو ملایا اوران سے آسمان اور ستارے‘ چاند سورج بنے تو ان میںنور پیدا کیا اور وہ چمکنے لگے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ اجزاء جبکہ خدا نے ان سے آسمان اور سورج چاند بنانا چاہا بے نور تھے تو اس پر دخان‘ یعنی دھوئیں کا اطلا ق صحیح ہوتا ہے‘ اس لیے کہ دخان کے اس کے سوا اور کچھ معنی نہیں ہیں کہ اجزائے متفرق غیر متصل بے نور ہوں‘‘۔ مگر یہ سب چیزیں اورسب انقلابات تو دو دن میں یا چھ دن میں نہ ہوئے ہوں گے۔ ہم بھی قبول کرتے ہیں کہ یہ انقلابات نہ دو دن میں ہوئے نہ چھ دن میں‘ بلکہ بے شمار زمانہ ایسا ہونے میں لگا ہے جس کی شہادتیں تحقیقات علوم جدیدہ سے ہوتی ہیں‘ مگر یہ خیال کہ مسلمانوں کے مذہب میں بھی خدا نے دنیا کاچھ دن میں پیدا کرنا بتایا ہے صحیح نہیں ہے اورجو لوگ اس باب میں قرآن مجید پر استدلال کرتے ہیں وہ سیاق کلام اور طرز ہدایت کو جو اس میں اختیار کی گئی ہے نہیں سمجھتے۔ اصل بات یہ ہے کہ توریت کے پہلے باب میں بیان ہوا ہے کہ اول خدا نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے۔ زمین ویران تھی اور اس پر اندھیرا تھا اور خدا کی روح پانی پر تھی۔ پھر خدانے نور کو کہا کہ ہو‘ وہ ہو گیا۔ اورپھر نور اور اندھیرے میں ادلا بدلا کر دیا اور نور کا نام خدا نے دن رکھا اور اندھیرے کا نام رات‘ اور یہ پہلا دن ہوا۔ پھر خدا نے پانیوں میںپھیلائو کیا اور آسمان بنایا اور یہ دوسرا دن ہوا۔ پھر پانیوں کو اکٹھا کیا اور خشکی نکل آئی اور خشکی کا نام زمین اور پانیوں کے اکٹھا ہونے کا نام سمندر رکھا اورزمین پر گھاس اور درخت اگائے اوریہ تیسرا دن ہوا۔ پھر خدا نے آسمانوں میں چاند اورسورج اور ستارے بنائے اور یہ چوتھا دن ہوا۔ پھر دریا کی مچھلیاں اور چرند پرند پیدا کیے اور یہ پانچواں دن تھا۔ پھر خدا نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا اور یہ چھٹا دن تھا اورساتویں دن خدا نے اپنے کام سے آرام کیا۔ قرآن مجید میں بھی چند آیتیں ہیں جن کا مطلب یہی یا اس کے قریب ہے ان کو ہم اس مقام پر لکھتے ہیں : ان ربک اللہ الذی خلق السموات والارض فی ستۃ ایام ثم استویٰ علی العرش ۔ (۷۔ الارعراف ۵۲ و ۱۰ یونس ۳) (ترجمہ) ’’بے شک تمہارا پروردگار اللہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو چھ دن میں‘ پھر قرار پکڑا عرش پر۔ ھو الذی خلق السموات والارض فی ستۃ ایام و کان عرسہ علی الماء (۱۱۔ہود ۹) (ترجمہ) ’’وہ وہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو چھ دن میں اور تھا اس کا عرش پانی پر۔ الذی خلق السموات والارض وما بینھما فی ستۃ ایام ثم استویٰ علی العرش۔ (۲۵ ۔ الفرقان ۶۰) (ترجمہ) ’’ جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں میں ہے چھ دن میں پھر قرار پکڑا عرش پر۔ اللہ الذی خلق السموات والارض وما بینھما فی ستۃ ایام ثم استویٰ علی العرش۔ (۳۲ السجدہ ۳) (ترجمہ) ’’اللہ وہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں میں ہے چھ دن میں ‘ پھر قرار پکڑا عرش پر۔ (ولقد خلقنا السموات والارض وما بینھما فی ستۃ ایام وما مسنا من لغوب۔ (۵۰۔ ق ۔ ۳۷) (ترجمہ) ’’اور بے شک ہم نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ کہ ان دونو ںمیں ہے چھ دن میں اورنہیں چھوا ہم کو تھکاوٹ نے ۔ ھو الذی خلق السموات والارض فی ستۃ ایام ثم استویٰ علی العرش۔ (۵۷۔الحدید۔۴) (ترجمہ) ’’وہ وہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانو ں کو اور زمین کو چھ دن میں ‘ پھر قرار پکڑا عرش پر۔ قل انکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین و تجعلون لہ اندادا ذالک رب العالمین۔ وجعل فیھا رواسی من فوقھا وبارک فیھا و قدر فیھا اقواتھا فی اربعۃ ایام سواء للسائلین۔ ثم استویٰ الی السماء وہی دخان فقال لھا وللارض ائتیا طوعاً و کرھاً قالتا اتینا طائعین فقضاھن سبع سموات فی یومین واوحی فی کل سماء امرھا و زینا السماء الدنیا بمصا بیح و حفظا ذالک تقدیر العزیز العلیم۔ (۴۱۔ فصلت۔ ۸ لغایت ۱۱) (ترجمہ) ’’کہہ دے اے پیغمبر ! کیا تم انکار کرتے ہو اس کا جس نے پیدا کیا زمین کو دو دن میں اور ٹھہراتے ہو اس کے لیے شریک وہ ہے پروردگار عالموں کا اور بنایا اس نے زمین میں پہاڑوں کو اس کے اوپر اور برکت دی اس میں اور مقدر کی اس میں روزی اس کے رہنے والوں کی چار دن میں۔ ٹھیک (جواب ہے) پوچھنے والوں کے لیے ‘ پھر متوجہ ہوا آسمان کی طرف اور وہ دھواں تھا۔ پھر کہا اس کو اور زمین کو کہ آئو خواہ یا نا خواہ‘ کہا ان دونوں نے کہ آئے ہم دونوں خوشی سے ۔ پھر کیے ہم نے سات آسمان دو دن میں اور ڈال دیا ہر آسمان میں اس کا کام اور زینت دی ہم نے دنیا کے آسمان کو ستاروں اور محافظت ۔ کی یہ ہے اندازہ عزت والے علم والے کا۔ ان آیتوں پر علماء اسلام نے بلا لحاظ سیاق قرآن مجید کے یہودیوں اور عیسائیوں کی تقلید کر کے یہ سمجھا کہ قرآن مجید میں بھی دنیا اور مافیھا کا چھ دن میں بننا بتایا گیا ہے۔ حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے۔ اگرچہ علوم جدیدہ سے موجودات عالم کی تحقیقات بہت کچھ ترقی کر گئی ہے‘ لیکن اس سے پہلے بھی جس قدر تحقیقات موجودات کی تھی اس سے بھی لوگوں نے خیال کیا تھا کہ چھ دن میں دنیا اور مافیھا کا بننا غیر ممکن ہے اور ان کو ضرور پڑا کہ لفظ یوم کی جو قرآن مجید میں ہے تاویل کریں ۔ اول تو انہوں نے سورۃ فصلت کی آیتوں میں جن میں ظاہر پایا جاتاہے کہ دنیا اور مافیھا کے بننے میںا ٓٹھ دن لگے تھے ان آیتوں کی تطبیق کی جن میں صرف چھ دن میں دنیا کا بننا بیان ہوا ہے: چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے: وھھنا سوالات (السوال الاول) انہ تعالیٰ ذکر انہ اصلح ہذہ الانواع الثلاثۃ فی اربعۃ ایام آخرو ذکر انہ خلق السموات فی یومین فیکون المجموع ثمانیۃ ایام لکنہ ذکر فی سایر الایات انہ خلق السموات والارض فی ستۃ ایام فلزم التناقض واعلم ان العلماء اقواتھا فی اربعۃ ایام مع الیومین الاولین وھذا کقول القائل سرت من البصرۃ الی بغداد فی عشرۃ ایام وسرت الی الکوفۃ فی خمسۃ عشر یوما یرید کلا المسافتین ویقول الرجل للرجل اعطیتک الفافی شھر والوفا فی شھرین فید خل الالف فی الالوف والشھر فی الشھرین۔ (تفسیر کبیر ‘ جلد پنجم ۔ صفحہ ۴۹۹) (ترجمہ ) ’’یہاں چند سوالات ہیں (پہلا سوال) خدا نے بیان کیا کہ اس نے دنیا کو دو دن میں پیدا کیا اوریہ کہ ان تینوں قسموں کو دوسرے چار دنوں میں پیدا کیا اور یہ کہ اس نے آسمانوں کو دو دن میں پیدا کیا تو اس کا مجموعہ آٹھ دن ہوئے‘ لیکن خود خدا نے اورآیتوںمیںبیان کیا ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میںپیدا کیا۔ اس سے تناقض لازم آتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ علماء نے اس کا طرح اس جواب دیا ہے کہ مراد خدا کی اس قول سے ’’وقدفیھا اقوا تھا فی اربعۃ ایام‘‘ یہ ہے کہ پہلے دو دنوں کے ساتھ ملا کر اور اس کی مثال یہ ہے جیسے قائل کہے کہ میں بصرہ سے بغداد گیا دس دن میں اور کوفہ کو پندرہ دن میں‘ تو مطلب یہ ہو گا کہ دونوں کی مسافت ملا کر اورایک شخص دوسرے سے کہتا ہے کہ میں نے تجھ کو ایک ہزار ایک مہینے میں دیے اورکئی ہزار دو مہنے میں ‘ تو وہ ہزار بھی انہی ہزاروں میں داخل ہو گا اوروہ مہینہ دونوں مہینے میں‘‘۔ بعد اس کے عالموں نے خیال کیا کہ یوم کی مدت کو کس طرح بڑھایا جائے۔ انہوںنے قرآن مجید میں ایک جگہ دیکھا کہ آخرت کے دن کی نسبت کہا گیا ہے کہ وہ اس دنیا کے ہزا ر برس کے برابر ہو گا اور اس جگہ بھی انہوںنے یوم کے معنی ہزار برس کے لیے اور بعوض چھ دن کے چھ ہزار برس قرار دیے‘ اگرچہ اور عالموںنے کہا کہ اس طرح پر معنی لینے صحیح نہیں ہیں‘ لیکن اگر لیے بھی جاتے تو اس سے کیا ہوتا کیونکہ دنیا تو لاکھوں کروڑوں برس میں بنی ہے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے: الایام عبارۃ عن حرکات الشمس فی السموات فقبل السموات لا ایام فکیف قال اللہ خلقھا فی ستۃ ایام۔ الجواب یعنی فی مدۃ ہذہ المدۃ (ثم قال) ومن الناس من قال فی ستۃ ایام من ایام الاخرۃ وکل یوم الف سنۃ وھو بعید لان التعریف لا بدو ان یکون بامر معلوم لا بامر مجھول (تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ ۳۷) (ترجمہ) ’’ایام عبارت ہے آفتاب کی حرکت سے آسمانوںمیں ‘ تو آسمان کے قبل کے ایام کہاں تھے‘ پس کیونکر خدانے کہا کہ خدا نے ان کو چھ دن میں پیدا کیا؟ جواب یہ ہے کہ اس مدت کی مقدار میں… اور بعض آدمیوں نے کہا کہ آخرت کے چھ دن میں پیدا کیا او ر آخرت کا ہر دن ہزار برس ہے‘ لیکن یہ مطلب بعید ہے‘ کیونکہ تعریف ایسے امر کے ساتھ ہونی چاہیے جو معلوم ہو مجہول نہ ہو۔ جب چھ دن کو چھ ہزار برکرنے سے بھی اس مدت میں دنیا کا بننا نہ ہو سکا تو علماء اسلام نے یوم سے دوسری مراد اختیار کی اور ہر یوم سے یا ایک زمانہ یا ایک خاص قسم کی حالت مراد لی۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے: وقد ذکرنا ان قولہ تعالیٰ فی ستۃ ایام اشارۃ الیٰ ستۃ احوال فی نظر الناظرین و ذالک لان السموات والارض وما بینھما ثلاثۃ اشیاء ولکل واحد منھا ذات و صفۃ فنظر الیٰ خلقہ ذات السموات حالۃ ونظر الی خلقہ صفاتھا اخری و نظرا الی ذات الارض والیٰ صفاتھا کذالک و نظرا الیٰ ذوات ما بینھما والیٰ صفاتھ کذالک فھی سستۃ اشیاء فی سستۃ احوال وانما ذکر الایام لان الانسان اذا نظر الی الخلق راہ فعلا والفعل ظرفہ الزمان والایام اشھر الازمنۃ والا فقبل السموات لم یکن لیل ولا نھا ر و ھذا مثل ما یقوم القائل۔ ان یوما ولدت فیہ کان یوما مبارکا وقد یجوز ان یکون ذالک قد ولد لیلا ولا یخرج عن مرادہ لان المراد ہو الزمان الذی ہو ظرف ولادتہ۔ (تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ ۲۱۶) (ترجمہ) ’ ’اور ہم نے بیان کیا کہ خدا کا یہ قوم ’’چھ دن میں‘‘ اشارہ ہے چھ حالات کی طرف دیکھنے والوں کی نگاہ میں اور یہ اس لیے کہ آسمان اور زمین اور جو کچھ دونوں کے بیچ میں ہے‘ تین چیزیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے لیے ذات و صفت ہے تو آسمانوں کی ذات کی پیدائش کے لحاظ سے ایک حالت ہے اور ان کی صفات کی پیدائش کے لحاظ سے دوسری حالت ہے اور زمین کی ذات کی پیدائش کے لحاظ سے ایک حالت ہے اور اس کی صفات کی پیدائش کے لحاظ سے دوسری حالت ہے اور جو کچھ زمین اور آسمان کے بیچ میں ہے اس کی ذات کے لحاظ سے ایک حالت ہے اور صفات کے لحاظ سے دوسری حالت ہے تو یہ چھ چیزیں ہیں چھ حالت میں اور ایام کا اس واسطے ذکر کیا کہ انسان جب آفرینش کا خیال ذہن میں لاتا ہے تو اس کو ایک فعل سمجھتا ہے اور فعل کا ظرف زمانہ ہے اور زمانے کے حصوں میں سے زیادہ مشہور ایام ہیں۔ ورنہ آسمانوں کے پہلے نہ دن تھے نہ رات اور اس کی مثال اس طرح ہے جیسے قائل کہے کہ جس دن میں پیدا ہوا وہ مبارک دن تھا‘ حالانکہ ممکن ہے کہ وہ رات کے وقت پیدا ہوا ہو اور یہ امر اس کی مراد سے خارج نہ ہو گا‘ کیونکہ اس کی مراد زمانہ ہے جو ا س کی ولادت کا ظرف ہے۔ اور ایک دوسرے مقام پر تفسیر کبیر میں لکھا ہے: فی ستۃ ایام اشارۃ الیٰ ستۃ اطوار والذی یدل علیہ و یقررہ ہو ان المراد من ایام لا یمکن ان یکون ہو المفھوم فی وضع اللغۃ لان الیوم عبارۃ فی اللغۃ عن زمان مکث الشمس فق الارض من الطلوع الی الغروب و قبل خلق السموات لم یکن شمس ولاقمر لکن الیوم یطلق و یراد بہ الوقت یقال یوم یولد للملک ابن یکون سرور عظم ویوم یموت فلان یکون حزن شدید وان اتفقت الولادۃ اوالموت لیلا ولا یتعین ذالک ویدخل فی مراد القائل لانہ اراد بالیوم مجرد الحین والوقت اذا علمت الحال من اضافۃ الیو الی الافعال فافھم ما عند اطلاق الیوم فی قولہ ستۃ ایام ۔ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۲۵)۔ (ترجمہ) ’’چھ دن سے اشارہ چھ حالت کی طرف ہے اور اس کی جو دلیل ہے اورجو اس کو ثابت کرتی ہے یہ ہے کہ ایام سے وہ معنی تو مراد نہیں ہو سکتے جو لغت میں ہیں‘ کیونکہ ایام کے معنی لغت میں آفتاب کا زمین پر ٹھہرنا ہے ‘ طلوع سے غروب تک اور آسمانوں کی پیدائش کے قبل نہ سورج تھا نہ چاند‘ بلکہ دن بولا جاتا ہے اور اس سے وقت مراد لیا جاتا ہے۔ محاورہ ہے کہ جس دن بادشاہ کے لڑکا پیدا ہو گا اس دن بڑی خوشی ہو گی اور جس دن فلاں شخص مر جائے گا نہایت ماتم ہو گا‘ اگرچہ ولادت یا موت رات کو واقع ہو اور قائل کی مراد میں دن کا لفظ داخل نہیں ہوتا‘ کیونکہ اس نے دن محض وقت مراد لیا ہے تو جب تم نے ایام کے لفظ کی اضافت کا حال افعال کے ساتھ معلوم کر لیا تو یہی اطلاق چھ دن کی عبادت میں سمجھو‘‘۔ مگر اس بات کے قرار دینے کے لیے کہ یوم سے ایک زمانہ طویل یا انقلاب اطوار مراد ہے کوئی دلیل عقلی و نقلی موجود نہیں ہے۔ اس زمانے کے بعض عیسائی عالموں نے توریت میں جو ایک دن بیان کیا گیا ہے اس سے یہی ایک زمانہ طویل مراد لیا ہے‘ مگر اور عالموں نے اس کی بہت ہنسی اڑائی ہے اورکہا ہے کہ جب توریب میں صاف لکھا ہے کہ خدا نے نور کو دن اور اندھیرے کو رات کہا جو پہلا دن تھا پھر اس طرح سے مفصل بیان ہونے کے بعد اس کو زمانہ طویل قرار دینا کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔ ہم کو توریت سے کچھ غرض نہیں ہے کہ اس میں کیا لکھا ہے‘ بلکہ ہم کو یہ بیان کرنا ہے کہ قرآ ن مجید میں جو یوم کا لفظ آیا ہے اس سے وہی یوم مراد ہے جس کو ہم ازروئے لغت عرب کے دن کہتے ہیں‘ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا نے یہ نہیں کہا کہ انہیں چھ دن میںدنیا بن گئی ہے۔ اس امر کے سمجھانے کو ہمیں سیاق قرآن مجید کو سمجھانا چاہیے اور اس کے بعد بتانا چاہیے کہ ان آیتوں میں جو قرآن مجید میں ہیں دنیا و مافیہا کا چھ دن میں بننا بطور بیان حقیقت واقعہ نہیں کہا گیا ہے‘ بلکہ نقلاً علی ٰ اعتقاد الیہود بیان ہوا ہے۔ سیاق کلام قرآن مجید اس ہدایت پر مبنی ہے کہ خدا کے وجود ‘ خدا کی وحدانیت اور خدا کی قدرت کو تسلیم کیا جاسے اور اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کی جاوے۔ پس جو خیالات یا رسمیں اور عادتین زمانہ جاہلیت یا اہل کتاب کی مخالف اس مقصد کے نہ تھیں گو کہ وہ کیسی ہی ہوں ان سے قرآن مجید میں کچھ تعرض نہیں کیا گیا‘ بلکہ ان کو بطور حجت الزامی بیان کر کے ان لوگوں کو وجود باری اور اس کی وحدانیت اور اس کی قدرت کاملہ کے ثبوت میں بیان کر کے اس کی عبادت کی ہدایت کی ہے۔ اہل کتاب کا یا ان لوگوں کاا جو اہل کتاب کے پیرو تھے یا ان کے اقوال کو صحیح مانتے تھے خیال یہ تھا کہ خدا نے چھ دن میں دنیا و مافیھا کو بنایا ہے اور ان کا یہ اعتقاد بے انتہا قدرت کاملہ ذات باری کو تسلیم کرتا تھا۔ پس مطابق اس سیاق کے جس پر قرآن مجید نازل ہوا ہے اس سے تعرض کرنے کی کچھ ضرورت نہیں تھی‘ بلکہ اس کو بطور حجت الزامی قرار دے کر ان کو خدائے قادر مطلق کی طرف یا اس کی عبادت پر متوجہ کرنا زیادہ تر مفید تھا۔ پس جو کچھ کہ ان آیتوں میںبیان ہوا ہے وہ مسلمان اہل کتاب میں سے ہے جس کو بطور حجت الزامی قرآن مجید میں استعمال کیا گیا ہے نہ بطور بیان حقیقت واقعہ کے۔ ہم اس امر کو خود قرآن مجید کی آیتوں کے سیاق سے ثابت کریں گے لیکن ہمارے اس دعوے کے قریب قریب تفسیر کبیر میں بھی بحث کی گئی ہے اورمناسب ہے کہ اول ہم اس بحث کواس مقام پر لکھیں۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے: فان قیل من استدل بشیئی علیٰ اثبات شئی فذالک الشئی المستدل بہ یجب ان یکون مسلما عند الخصم حتی یصح الاستدلال بہ وکونہ تعالیٰ خالقا للارض فی یومین امر لا یمکن اثباتہ بالعقل المحض وانما یمکن اثباتہ بالسمع و وحی الانبیاء والکفار کانوا منازعین فی الوحی والنبوۃ فلا یعقل تقدی ہڈاہ المقدمۃ علیھم واذا متنع تقریر ہذہ المقدمۃ علیھم امتنع الاستدلال بھا علیٰ فساد مذاھبھم۔ ثم قال اول التوراۃ مشتمل علیٰ ھذا المعنی فکان ذالک فی غایۃ الشھرۃ بین اہل الکتاب فکفار مکۃ کانوا یعتقدون فی اہل الکتاب انھم اصحاب العلوم والحقائق والظاہر انھم کانو ا قد سمعوا من اہل الکتاب ہذہ المعانی واعتقدو ا فی کونھا حقۃ واذا کان الا مر کذالک فحینئذ یحسن ان یقام لھم ان الا لہ الموصوف بالقدرۃ علیٰ خلق ہذہ الاشیاء العظیمۃ فی ھذہ المدۃ الصغیرۃ کیف یلیق بالعقل جعل الخشب المنجور و الحجر المنحوت شریکالہ فی المعبودیۃ والالھیۃ فظھر بما قررنا ان ہڈا الاستدلال قوی حسن۔ (تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ ۸۹۴) (ترجمہ ) ’’اگر یہ اعتراض کیاجائے کہ جو شخص کسی بات پر استدلال کرے تو ضرور ہے ک جس بات سے استدلال کیا گیا ہو وہ مخالف کے نزدیک مسلم ہو تاکہ ا س کا استدلال کرنا صحیح ہو اور خدا کا زمین کو دو دن میںپیدا کرنا ایسا امر نہیں جس کا اثبات محض عقل سے ہو سکے‘ البتہ اس کا اثات نقلیات اور وحی سے ہو سکتا ہے ‘ لیکن کفار وحی و نبوت کو نہیں مانتے تھے تو اس مقدمے کو ان کے سامنے بیان کرنا معقول نہ ہو گا اور جب اس مقدمے کو ان کے سامنے پیش نہیں کر سکتے تو ا سسے ان کے مذاہب کے بطلان پر کیونکر استدلال ہو سکتا ہے؟ اس کے بعد امام رازی نے لکھاہے کہ توریت کے شروع میں یہ مضمون ہے اور اس وجہ سے وہ اہل کتاب میں شہرت تمام رکھتا تھا اورمکہ کے کافر اہل کتاب کی نسبت یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ وہ صاحب علم اورواقف حقائق ہیں اور ظاہر یہ ہے کہ ان لوگوں نے اہل کتاب سے یہ مضمون سنا ہو گا اور اس کے حق ہونے کا ان کو اعتقاد ہو گا۔ اور جب واقعہ یوں ہے تو ان کو خطاب کر کے یہ کہنا معقول ہو گا کہ خدا جس کہ یہ قدرت ہے ک ایسی بڑی چیزوں کو کتنی قلیل مدت میں پیدا کر دے‘ اس کے ساتھ تراشی ہوئی لکڑی اور پتھر کو معبودیت اور خدائی میں شریک قرار دینا‘ کیونکر عقل کے نزدیک مناسب ہو سکتا ہے۔ تو اس تقریر سے ظاہر ہوا کہ یہ استدلال مضبوط اور معقول ہے۔ انتہیٰ۔ زمانہ رسالت سے پہلے عرب میں یہودی آباد تھے اور ایک قسم کا اختیار اور اقتدار رکھتے تھے اور یمن اور دیگر مقامات عرب میں عیسائی مذہب بہت پھیل گیا تھا اورعیسائی وحدانیت میں تثلیٹ مانتے تھے اور خدا کا شریک بنا لیا تھا اور دونوں فرقے اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے اس کو چھ دن میں خدا نے پیدا کیا ہے اور ساتویں دن آرام کیاہے جس کا یہ مطلب ہے کہ کام کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ خدا نے دنیا و مافیھا کے پید ا ہونے کے لیے کوئی قانون بنا لیا ہو اور اس قانون قدرت کے مطابق کتنے ہی دنوں میں دنیا پیدا ہوئی ہو مگر یہ اعتقاد کہ دنیا و مافیھا کو چھ دن میں پیدا کیا ہے ‘ ا س مقصد کے منافی نہ تھا جس کی ہدایت مقصود تھی ‘ اس لیے اس اعتقاد یہودیوں اور عیسائیوں کو بطور حجت الزامی قرار دے کر خدانے فرمایا ربکم الذی خلق السموات والارض فی ستۃ ایام۔ لفظ ’’کم‘‘ جو سورۃ اعراف اور سورۃ یونس میں آیاہے اس کے مخاطب سوائے یہودیوں اور عیسائویں کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا‘ کیونکہ جو چیز مشاہدے میں نہیں آ سکتی اور صرف اعتقادپر مبنی ہے وہ کسی ایسے شخص کے سامنے جو اس کا اعتقاد نہ رکھتا ہو بطور حجت کے پیش نہیں ہو سکتی۔ چھ دن میں دنیا و مافیہا کا پیدا ہونا صرف اعتقاد پر مبنی تھا۔ اس لیے ’’کم‘‘ کے لفظ کے مخاطب بجز ان کے جن کا وہ اعتقاد تھا اورکوئی ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ جب یہ اصول مستحکم اور محقق قرار پا گیا تو ہم کو لازم ہے کہ انہی دونوں آیتوں کو ان آیتوں کی تفسیر قرار دیں جن میں کسی قدر اجمال ہے مثلاً سورۃ ہود اور سورۃ حدید میں ہے : ہو الذی خلق السموات والارض فی ستۃ ایام ہو کے لفظ کی تفسیر ہم کہیں گے یعنی ربکم الذی۔ سورۃ فرقان میں ہے : الذی خلق السموات والارض وما بینھما فی ستۃ ایام اس کی تفسیر میں بھی کہیں گے ربکم الذی۔ سورۃ سجدہ میں ہے : اللہ الذی خلق السموات والارض وما بینھما فی ستۃ ایام اس کی تفسیر میں کہیں گے ربکم الذی۔ سورہ فصلت میں ہے : قل انکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین اس کی تفسیر میں کہیں گے : قل انکم لتکفرون بربکم الذی خلق الارض فی یومین۔ اب باقی رہی سورۃ ’’ق‘‘ کی جہاں خدانے فرمایا ہے: ولقد خلقنا السموات والارض وما بینھما فی ستۃ ایام وما مسنا من لغوب کہا جا سکتا ہے کہ اس آیت میں خدا نے خلق کرنا آسمان اور زمین کا چھ دن میں اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ مگر اس سورۃ کا سیا ق کلام دوسری طرح پر ہے۔ اس سے پہلی آیتوں میں خدا نے فرمایا ہے۔ کہ کیا انہو ں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے اوپر کیونکر آسمان بنایا ہے اور زمین کو پھیلایا ہے اورہم نے آسمان سے پانی اتار ہے ۔ پس بلحاظ اس سیاق کے اس آیت میں بھی فرمایا کہ ہاں ہم نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے چھ دن میں اورہم کو کچھ ماندگی نہیں ہوئی۔ مگر جبکہ دو امر تحقیق ہو چکے ہیں‘ ایک یہ کہ چھ دن میں آسمان و زمین پید اکرنے کی حجت انہی کے مقابل ہو سکتی تھی جو ان کے چھ دن میں پیدا ہونے کا یقین رکھتے تھے اور دوسرے یہ کہ تمام مذکورہ بالا آیتوں سے ثابت ہو چکا ہے کہ چھ دن میں زمین و آسمان کا پیدا ہونا علی اعتقاد اہل الکتاب من الیھود والنصاریٰ بیان ہوا ہے تو انہیں آیتوں سے ا س آیت کی تفسیر بھی کی جاوے گی اور اس کی تفسیر میں کہا جاوے گا ولقد خلقنا السموات والارض فی ستۃ ایام (کماتزعمون) وما مسنا من لغوب (کماز عمتم) غرضیکہ جہاں جہاں قرآن مجید میں دنیا و مافیہا کی نسبت چھ دن میں بننا کہا گیا ہے وہ اہل کتاب کے اعتقاد کو بطور حجت الزامی بمقابلہ اہل کتاب بیان کیا ہے ۔ پس علوم جدیدہ کی تحقیقات سے دنیا و مافیھا کا بننا کتنی ہی مدت میں قرار پاوے‘ قرآن مجید یا مذہب اسلام پر اس سے کچھ اعتراض وارد نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ قرآن مجید میں ان کے بننے کی کوئی مدت واقعی بیان نہیں ہوئی۔ ھذا ما الھمنی ربی۔ ٭٭٭ انسان کی پیدائش قرآن مجید کی رو سے الحمد للہ الذی خلق الانسان من تراب ثم من ماء مھین دافق ثم من نطفۃ ثم من علق فخلق العلق مضغۃ فخلق المضغۃ عظاما فکسا العظام لحماثم اخرج من بطن امہ طفلا لیبلغ اشدہ ومنھم من یتوفی و منھم من یرد الیٰ ارذل السر والصلوۃ والسلام علنیٰ رسولہ محمد خیر البشر وآلہ واصحابہ اجمعین جب کہ ہم تمام موجودات عالم پر بقدر طاقت بشیر نظر ڈالتے ہٰں تو یہ دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو قانون قدرت بنایا ہے اور اس قانون کے مطابق جو چیزیں پیدا کی ہیں وہ ایسی مناسبت سے پیدا ہوئی ہیں کہ ایک دوسری سے اوردوسری تیسری سے اور تیسری چوتھی سے اور علی ہذا القیاس نہایت مشابہ ہوتی ہیں۔ پہلی چیز سے دوسری چیز کسی قدر ترقی یافتہ ہوتی ہے مگر وہ ترقی یافتہ ایسی خفیف ہوتی ہے جس سے وہ مشابہت جو پہلی کو دوسری سے ہوتی ہے بدستور باقی رہتی ہے اور جو تفاوت یا ترقی اس دوسری چیزمیں ہوئی ہے وہ نہایت غور و فکر سے محسوس ہوتی ہے۔ اس قانون قدرت نے ایک ایسا سلسلہ پیدائش کا کر دیا ہے کہ اگر تمام مخلوقات کو سلسلہ وار جمع کیا جاوے تو وہ ایک ایسی زنجیر کے مشابہ ہو گی جس کی ایک کڑی دوسری کڑی سے ملی ہوئی ہو اوران کڑیوں میں بتدریج ایسا فرق ہوتا جاوے کہ پہلی کڑی دوسری کڑی سے اور دوسری تیسری سے اور تیسری چوتھی کے مشابہ ہو ‘ لیکن بیچ کی کڑیوں کو چھوڑ دیا جاوے‘ مثلاً پہلی کو دسویں یا بیسویں یا پچاسویں سے وعلیٰ ہذ ا القیاس مقابلہ کیا جاوے تو معلوم ہو کہ دونوں میں تو بہت ہی کچھ فرق ہے‘ وہ اور ہی نوع ہے اور یہ اور ہی نوع‘ بلکہ دو مختلف جنسیں ہیں۔ ا س تناسب پیدائش نے بہت بڑے بڑے لائق اور عالم حکیموں کو دھوکے میںڈال دیا ہے اوروہ یہ سمجھتے ہیں کہ انقلاب ایک ہی چیز کو دوسری چیز مشابہ میں بدلتا جاتا ہے‘ مثلاً وہ حیوان جو بندر کہلاتاہے اور جس کی مختلف قسمیں ہیں اور ایک دوسرے سے ترقی یافتہ ہے‘ رفتہ رفتہ ترقی پاتے پاتے اس صورت میں آ گیا ہے جس کو اب ہم انسان کہتے ہیں اوریہ تھیوری حکیم ڈارون کی ہے جو ایک بے مثل حکیم اپنے زمانے میں گزراہے۔ مگر انہوں نے قانون قدرت کے کاموں میں جس مناسبت کا ہونا لازمی ہے اس پر لحاظ نہیں کیا۔ قانون قدرت نہایت منتظم ہیں اور اسی سلسلہ انتظام میں یہ بات بھی لازمی ہے کہ وہ سلسلہ ایسے انتظام سے ہو کہ اس کی پہلی کڑی دوسری سے اور دوسری کڑی تیسری سے باہم مناسب سے ہوں‘ جیسے مورتیوں کی لڑی جس میں ایسے انتظام سے چھوٹے اور بڑے موتی پروئے گئے ہوں کہ پہلا دوسرے سے اور دوسرا تیسرے سے اور علی ہذ ا القیاس مناسبت سے پروئے جاویں۔ ان کو شبہ اس بات پر ہوا ہے کہ ایک نوع سے دوسری نوع کی ترکیب سے ایک تیسری نوع پیدا ہو جاتی ہے‘ جیسے خچریا بعض بیرونی اثروں سے بعض حیوانات میں انقلاب پیدا ہو جاتاہے اور اسی وجہ سے ان کی رائے انقلاب کی طرف مائل ہوئی ہے مگر یہ امر خیال سے رہ گیا کہ اس قسم کے انقلاب کے لیے اول ان دونوں نوعوں کا مستقل موجود ہونا اسی شئی کا اور اس مادے کا جو ذریعہ انقلاب اس شئی میں ہو ا مستقل اور جداگانہ موجود ہونا ضرور ہے تاکہ شئی ثالث وجود پذیر ہو معہذا اس شیئی ثالث پر انقلاب شیئی ثانی کا اطلاق نہیں ہو سکتا ہے بلکہ وہ ایک نیا نتیجہ ہے‘ دو شیئی میں غرضیکہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ وہ حیوان جس کو بند کہتے ہیں مرور دھور میں ترقی کرتے کرتے اس صورت میں آ گیا ہے جس کو انسان کہتے ہیں بلکہ قانون قدرت کا سلسلہ انتظام ایسی مناسبت سے واقع ہواہے کہ اس نے ابتدا ہی سے مخلوق کو اییس مناسبت سے پیدا کیا ہے کہ اعلیٰ ادنیٰ سے موتیوں کی لڑی کے مثل مناسبت و مشابہت رکھتی ہے اور اس کے لیے ضرور ہے کہ انسان سے نیچے ایک ایسی مخلوق ہو جو اس مخلوق سے جو انسان کے نیچے ہے مشابہ ہو۔ وعلی ھذا القیاس۔ تمام حیوانات کی پیدائش ابتدا میں مٹی کے خمیر سے معلوم ہوتی ہے اور اس کی ابتدا میں کوئی حیوان جن میں انسان بھی داخل ہے‘ توالد سے پیدا نہیں ہوا‘ بلکہ ہر ایک کو تولید ہوئی ہے اس کے بعد قانون قدرت اس طرح پر جاری ہوا کہ ان متولا حیوانات مٰں سے جن میں نطفے کا مادہ نہیں تھا ان کی تولید بغیر جوڑ کے ہونی جاری رہی جیسے کہ اب تک حشرات الارض کی ہوتی ہے اور جن حیوانوں میںنطفے کا مادہ تھا ان کا جوڑا اول تولید سے پیدا ہوا اور اس کے بعد توالد سے ۔ قرآن مجید بھی اسی پر ناطق ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے : خلقک من تراب ثم من نطفۃ فانا خلقنا کم من تراب ثم من نطفۃ ولقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین ثم جعلناہ نطفۃ فی قرار مکین۔ بدء الخلق من طین ثم جعل نسلہ من سلالۃ من ماء مھین۔ ولقد خلقنا الانسان من صلصال من حماء مسنون۔ واذ قال ربک لکملئکۃ انی خالق بشرا من حماء مسنون۔ وخلق الانسان من صلصال کالفخار۔ واللہ خلقکم من تراب ثم من نطفۃ ثم جعلکم ازواجاً ان تمام آیتوں میں خطاب بلفظ جمع ہے جس میں مذکر اور مونث دونوں مخاطب ہیں اور اس سے ظاہرہوتاہے کہ مرد میں سے عورت پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ مرد اور عورت دونوں ابتدا میں مٹی سے پیدا ہوئے اور بعد خلق ان کا جوڑا ہوا جیسا کہ اس اخیر آیت میں فرمایا ہے: ثم جعلکم ازواجا اور جب توالد نطفے سے جاری ہوا تو نطفے ہی سے زوجین پیدا ہو گئے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے: وانہ خلق الزوجین الذکر والانثی من نطفۃ اذا تمنی۔ خلق الانسان من نطفۃ فاذا ہوا خصیم مبین اولم یر الانسان انا خلقناء من نطفۃ فاذا ہو خصیم ۔ انا خلقنا انسان من نطفۃ امشاج نبتلیہ فجالناہ سمیعا بصیرا۔ من ای شیئی خلقہ خلقہ من نطفۃ خلقہ فقدرہ۔ الم یک نطفۃ منن منی یمنیٰ ۔ ثم کان علقۃ فخلق فسویٰ ۔ فلینظر الانسان مما خلق من مار دافق یخرج من بین الصلب والترائب۔ الم تخلقکم من ماء مھین فجعلناء فی قرار مکین الیٰ قدر معلوم۔ اس کے بعد یہ بحث پیش آتی ہ کہ خدا تعالیٰ نے اس طرح پر صرف ایک ہی جوڑا انسان کا پیدا کیا تھا یا بہت سے جوڑے پیدا کیے تھے جن سے مختلف رنگ و روپ صورت و شکل کی قومیں پیدا ہوئیں۔ اس باب میں لوگوں کی مختلف رائیں ہیں۔ وہ اس سبب سے کہ قوموں کے ڈھانچے ان کی ہڈیوں کے جوڑ بند مختلف طرح پر پائے ہیں۔ اس سبب سے خیا ل کرتے ہیں کہ متعدد جوڑوں کی نسلیں ہیں۔ مگر جب ہم تمام دنیا کی قوموں کے جذبات نفسانی یکساں پاتے ہیں تو تعدد کا خیال دور ہوتا ہے اور اس اختلاف کو امور خارجیہ کی تاثیرات‘ مثلاً ملک کی آب وہوا۔ ‘ اس کے موسم کے اختلاف‘ آفتاب کی شعاعوں کی استقامت اور انحراف اور ملکی ضروریات کے اسباب سے منسوب کرتے ہیں۔ قانون قدرت بھی ہم کو اسی امر کے مطابق معلوم ہوتا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قانون قدرت کوئی فضول اور بے فائدہ غیر ضروری کام نہیں کرتا۔ جبکہ اس نے تولید کے بعد یہ قانون قائم کیا تھا کہ انسان کی نسل توالد سے بڑھے تو متعدد جوڑوں کی تولید کی ضرورت نہ تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو قانون قدرت فضول اور غیر ضروری کام کرتا جو وہ ہرگز نہیں کرتا۔ یہ خیال کہ ایک جوڑا دنیا کے معمور کرنے کو کیونکر کافی ہو اہوا گا۔ اس غلط خیال سے پیدا ہوتا ہے کہ دنیا صرف چھ سات ہزار برس کی بڑھیا ہے۔ مگر جب ہم قدرت کے کاموں کو دیکھتے ہیں تو اس کے امتداد کے زمانے کا قیاس ہیں نہیں ہو سکتا۔ پہاڑوں کی بناوٹ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قدرت نے ان کو کس طرح بنایا ہے ۔ مگر جب سوچتے ہیں کہ کتنی مدت میں بنے ہوں گے تو عقل حیران ہوتی ہے۔ آتشیں پہاڑوں کے لاووں کی تہوں کا کناروں پر کف چھوڑ جانے والے دریائوں کی پیڑیوں کا شمار ان کی قدامت کے اندازے سے عاجز کر دیتا ہے۔ زمین کے اندر کی کانیں اور بالتخصیص زمین کے اندر نہایت بڑے برے عالیشان درختوں کا دبا ہوا ہونا‘ پھر ان کے انقلابات کو جن کو اب ہم پتھر کا کوئلہ کہتے ہیں‘ ایک بے شمار درازئی زمانہ کا ہم کو ثبوت دیتے ہیں۔ سبحانہ ما اعظم شانہ اذا اراد اللہ شیئا ان یقول لہ کن فیکون ۔ فاراداللہ ان یکون ہذا العالم بھذ ا الشان فکان واراتہ فھذا العالم قائم علیٰ منوال قانونہ الیٰ اجل و لا یعلم احد اجلہ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بعض قومیں مدت دراز سے ایک ملک سے دوسرے ملک میں چلی گئی ہیں اوران کے ڈھانچوں میں کچھ تفاوت نہیں ہوا۔ اول تو مطلق تفاوت کا نہ ہونا تسلیم نہیں ہو سکتا‘ دوسرے مدت دراز کا اطلاق صرف ایک دھوکا ہے‘ کیونکہ جس کو زمانہ دراز سے تعبیر کیا جاتاہے وہ قانون قدرت کے زمانے کے سامنے کچھ حیققت ہی نہیں رکھتا۔ اب یہ بات غور طلب ہے کہ قرآن مجید میں جس طرح نطفے سے انسان کا پیدا ہونا بیان ہوا ہے وہ قانون قدرت یعنی اسی طریقے سے جس طرح فی الحقیقت مطابق تحقیقات علم فزیالوجی (علم و ظائف الاعضا) کے پیدائش ہوتی ہے‘ موافق ہے یا نہیں۔ قبل اس کے کہ ہم اس کی نسبت کچھ کہیں ان ایتوں کو نقل کرتے ہیںجن سے یہ بحث متعلق ہے اور وہ آیتیں یہ ہیں: ۱۔ اکفر ت بالذی خلقک من تراب ثم من نطفۃ ثم سواک رجلا۔ (سورۃ الکھف ۱۸۔۳۵) ۲۔ فانا خلقنا کم من تراب ثم من نطفۃ ثم من علقۃ۔ ثم من مضغۃ مخلقۃ وغیر مخلقۃ لنبین لکم ونقر فی الارحام مانشاء الیٰ اجل مسمی ۔ ثم نخر جکم طفلا ثم لتبلغوا اشد کم و منکم من یرد الیٰ ارذل العمر ۔ (سورۃ الحج ۲۲۔۵) ۳۔ ہو الذی خلقکم من تراب ثم من نطفۃ ثم من علقۃ ثم یخر جکم طفلا ثم لتبلغوا اشدکم ثم لتکونو ا شیو خاومنکم من یتوفی من قبل۔ (سورۃ مومن ۴۰۔۶۹) ۴۔ الم یک نطفۃ من منی یمنیٰ ثم کان علقۃ فخلق فسویٰ۔ (سورہ قیامۃ ۷۵۔۳۷۔۳۸) ۵۔ فلینظر الانسان مم خلق ۔ خلق من ماء دافق بخرج من بین الصلب والترائب۔ (سورۃ طارق ۸۶۔۵ لغایت ۷) ۶۔ ولقد خلقنا الانسان من طین ثم جعلناء نطفۃ فی قرار مکین ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنہا العلقۃ مضغۃ فخلقنا المضغۃ عظاما فکسونا العظام م لحما۔ (سورۃ المومن ۱۲۔ ۱۲ لغایت ۱۴) ۷۔ وبدء خلق الانسان من طین ۔ ثم جعل نسلہ من سلالۃ من ماء مھین ثم سواہ ونفخ فیہ من روحہ وجعل لکم السمع والابصار والافئدۃ قلیلا ما تشکرون۔ (سورۃ سجدہ ۳۲۔ ۶و۷) ان آیتوں سے معلوم ہوتا ے کہ انسان اپنی پیدائش میں اول نطفہ ہوتا ہے اور نطفہ مرد ہی میں پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ مرد کے پانی کو نطفہ کہتے ہیں جیسا کہ قاموس وغیرہ لغت کی کتابوں میں لکھا ہے۔ اس کے بعد وہ علقہ ہوتا ہے۔ علقہ کہتے ہیں جونک کو جو پانی میں رہتی ہے۔ پس خود مرد ہی کے نطفے میں متعدد نہایت باریک کیڑے جونک کے مشابہ پیدا ہوتے ہیں جس کو یونانی میں سپرمی توزدا کہتے ہیں اور حضال کے ایشیائی مترجموں نے حونیات ان کا ترجمہ کیاہے۔ پس ہی کیڑا جب ان قوانین قدرت کے موافق عورت کے رحم میں جاتا ہے تو بچہ بن جاتا ہے‘ لڑکا یا لڑکی جس قسم کا وہ کیڑا ہو۔ کما قال اللہ تعالیٰ عز و جل خلق الانسان من علق اور یہ بالکلیہ علم فزیالوجی کے مطابق ہے۔ یہاں تک نوبت پہنچنے کے بعد خدا فرماتا ہے: فخلقنا النطفۃ مضغۃ فخلقنا المضغۃ عظا ما فکسونا العظام لحما اس آیت میں اور اس کی مثل جو آیتیں ہیں ان میں جو حرف (فی) ہے اس سے ترتیب مراد نہیں ہے۔ بلکہ جو حال ان ’’حونیات‘‘ پر بعد کو گزرتا ہے اس کا مجموعی بیان ہے کہ وہ مضغہ کی صورت میں ہو جاتاہے اس میں ہڈیاں پیداہو جاتی ہیں ہڈیوں پر گوشت چڑھ جاتاہے۔ جن لوگوں نے سمجھاہے کہ حرف فی) سے ترتیب مراد ہے انہو ں نے غلطی کی ہے ‘ کیونکہ بموجب مذہب فراء کے (فی) مطلق ترتیب کے لیے نہیں ہے اورقطع نظر اس کے (فی) کا زائد ہونا سب مانتے ہیں۔پس ان آیتوں میں (فی) زائد ہے یا حسب مذہب فراء (فی) سے ترتیب مراد نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ حونیات منوبہ وہ کیڑے جو مرد کے نطفے میں خوردبین سے نظر آتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس آیت پر بحث رہ جاتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: فلینظر الانسان مم خلق من ماء دافق یخرج من بین الصلب والترائب اس پر جو بحث ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ ماء دافق سے اگر نطفہ یا منی مراد لیا جاوے تو اس کا اخراج بین الصلب و الترائب یعنی پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نہیں ہوتا بلکہ بنتا ہے اثنین میں اوروہی اس کا منبع ہے اوروہیں سے اس کا خروج ہوتا ہے اور اسی سبب سے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیت زمانہ حال کی تشریح محققہ بدن انسانی کے مطابق نہیں ہے۔ مگر یہ خیال کہ یہ آیت قانون قدر ت کے مطابق نہیں ہے غلط ہے ۔ منشاء اس غلطی کا دو امر ہیں۔ ایک یہ کہ ان لوگوں نے اس بات پر خیال نہیں کیا کہ تمام آیتوں میں خدا تعالیٰ نے انسان کے پیدا ہونے میں لفظ نطفہ یا منی کا استعمال کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱ ۔ ابو ذکریا یحیٰ بن زیاد فراء لغت و نحو اور فقہ کا زبردست امام گزرا ہے۔ مشہور نجومی ابوالعباس احمد بن یحیی ثعلب کہتا ہے کہ اگر فراء نہ ہوتا تو علم لغت کبھی مدون نہیں ہوتا اور عربیت ساقط ہو جاتی۔ مامون الرشید ا سکی بے حد تکریم و تعظیم کرتا تھا اور اپنے دونوں بیٹوں کا اس کو اتالیق مقرر کیا تھا ۲۰۷ھ میں بعمر ۶۳ سال حج کے لیے آتے ہوئے مکے کے قریب وفات پائی ۔ (قضاء الارب من ذکر علماء النحو الادب صفحہ ۴۰) (محمد اسماعیل پانی پتی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں ماء دافق سے اور ایک آیت مں ماء مھین سے کیوں تعبیر کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ ہر اہ بجائے نطفہ ومنی کے ماء دافق یا ماء مھن استعمال کیا ہے تو خروج سے خروج قریب مراد ہے جو نطفہ یا منی کے خروج میں ہوتی ہے یا کوئی اور خروج جو اس سے بعید تر ہو‘ کیونکہ ماء مادہ توالد کی وہ حالت ہے جو نطفہ یا منی بننے سے پہلے ہوتی ہے اور اس سے پایا جاتا ہے کہ لفظ خروج سے ا س مادے کا خروج بعید مراد ہے نہ خروج قریب یعنی لفظ یخرج سے وہ خروج مراد نہیں ہے جو انثین سے ہوتا ہے‘ بلکہ ا س کے ابتدائی مخرج سے جب کہ ا س پر ماء کا اطلاق ہوتا ہے خروج سے مراد ہے اور کچھ شبہ نہیں کہ مخرج اس ماء کا بین الصلب و الترائب ہے۔ اس کے ثبوت کے لیے ہم کو علم فزیالوجی پر اور علم تشریح بدن انسانی پر جو اس زمانے میں محققہ ہے غور کرنا چاہیے علم تشریح سے ثابت ہے کہ دل جو ایک صنوبری شکل پر ہے اس کے چار حصے ہیں۔ دو دائیںطرف ایک اوپر اور ایک نیچے ۔ اور دو بائیں طرف ایک اوپر اور ایک نیچے۔ ہم اس آرٹیکل میں دائیں طرف کے حصوں کو طبقہ یمین اعلیٰ و طبقہ یمین اسفل سے اور بائیں طرف کے حصوں کو طبقہ یسار اعلیٰ او ر طبقہ یسار اسفل سے تعبیر کریں گے۔ اب فزیالوجی پر غور کرنا چاہیے۔ غذ اجب جینے کے بعد لعاب دہن میں مل کرمعدے میں جاتی ہے تو معدے میں ایک لعاب نکلتاہے جو غذا کو گلاتا ہے ۔ اور اسی کے ساتھ معدے میں ایک حرکت پیدا ہوتی ہے اور اس حرکت سے وہ لعاب غذا میں مل ملاکر تمام غذا کو مثل ایک لبدڑہ کے مہیری کی مانند بنا دیتاہے ۔ اسی کا نام کیلوس ہے جس کا نام اگلے زمانے میں خود یونانیوں نے یا مترجموں کی غلطی سے کیموس کہا گیا ہے۔ مہیری یا لبدڑے کی صورت میں جتنی غذا بنتی جاتی ہے اتنی ہی انتڑیوں میںاترتی جاتی ہے اور اترنے کے ساتھ پتے اورلبلبے سے ایک قسم کا لعاب اس میں شامل ہوتا جاتا ہے۔ اور انتڑیوں میں بھی ایک قسم کا لعاب ہے وہ بھی ملتا جاتا ہے۔ انتڑیوں کے اندر سے تو وہ مہیری یا لبدڑا شدہ غذا خارج ہونے کو نیچے اترتی جاتی ہے‘ مگر انتڑیوں کے اوپر کی طرف نہایت باریک باریک رگیں ہیں وہ اس میں سے اس رقیق مادے کو جو گویا ان تمام تر کیبوں سے مثل جوہر کے پیدا ہوا ہے اور جو آخر کار خون بن جاوے گا چوس لیتی ہیں۔ یہ رقیق مادہ دسفید مثل دودھ کے ہوتا ہے اور ا س کا صحیح نام کیلوس ہے جس کو اگلے زمانے میں خود یونانیو ںنے یا غلطی سے مترجموں نے کیموس کہا تھا۔ یہی رقیق مادہ جس کا صحیح نام ہم نے کیلوس بتایا ہے ایک جگہ جمع ہوتا جاتاہے اور وہ سفید ہوتا ہے ۔ اسی مادے پرخدانے ماء مھین او ر ماء دافق اطلاق کیا ہے ۔ بعد اس کے یہی مادہ ایک رستے سے جو ریڑھ کی ہڈی کے قریب واقع ہے شریان اعظم کے نیچے سے گزرتا ہوا گردن اورہنسلی کے نیچے جو رگیں ہیں جن کو ورید کہتے ہیں مل جاتا ہے اور ان وریدی رگوں کے خون میں مل کر دل کے طبقہ اعلیٰ میں پہنچتا ہے اور وہاں سے طبقہ یمین اسفل میں اترتا ہے‘ وہاں سے صاف ہونے کو پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے۔ وہاں صاف ہو کر پھر دل کے طبقہ بسار اعلیٰ میں آتا ہے اور پھر طبقہ یسار اسفل میں اترتا ہے اور وہاںسے شریانوں کے ذریعے سے تما م جسم میں پہنچتا ہے اور ہر ایک حصہ اس کا جس جس عضو کے لیے مخصوص ہے وہاں پہنچتا ہے اور جو حصہ منے ہونے کو ہے وہ انثین میں چلا جاتا ہے۔ پس اس لعاب کو جو وریدی رگوںمیں ملتا ہے اورابھی منی نہیں ہوا‘ بلکہ صرف ماء ہے قرآن مجید میں ماء دافق سے تعبیر کیا ہے ۔ دافق کا لفظ اس لیے بولا ہے کہ اس ’’ماء ‘‘ کو اور قسموںسے امتیاز ہو جاوے اورکچھ شک نہیں ہے کہ اس ماء دافق کا اصلی مخرج مابین الصلب والترائب ہے۔ پس جن علما ء نے ماء دافق کے خاص منی تیار شدہ مراد لی ہے یہ ان کی غلطی ہے اور انہوں نے لفظ ماء پر جو بعوض لفظ منی یا نطفہ کے بولا گیا ہے التفات نہیں کیا۔ علاوہ اس کے عوا م کا یہ خیال تھا کہ خون سے جو پشت کی رگوں میں پھیلتا ہے اس سے منی یا نطفہ پیدا ہوتا ہے اور اسی سبب سے ا ن کو خیال تھا کہ نطفہ پشت سے آتا ہے۔ تشریح مذکورہ بالا سے کسی قدر اس خیال کی اصلیت پائی جاتی ہے۔ پس اس خیال پر اگر ہم نطفے کا خارج ہونا ہی مجاز مجن بین الصلب و الترائب کہیں تو کچھ تعجب اور خلاف قانون قدرت نہیں ہے۔ اسی خیال پر سعدی نے لکھا ہے : زصلب آورہ نطفہ در شکم زیر افگند قطرہ سوئے یم ازیں قطرہ لولوئے لالا کند وزاں صورت سروبالا کند عرب جاہلیت کا بھی یہی خیال تھا چنانچہ سموال بن عادیا شاعر زمانہ جاہلیت کا یہ شعر ہے۔ علونا الیٰ خیر الظھور و حطنا لوقت ولیٰ خیر البطون نزول ٭٭٭ ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت پر انسان کی ترقی (تہذیب الاخلاق جلد دوم نمبر ۱۱ (دور سوم) بابت یکم شعبان ۱۳۱۳ھ) کائنات پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو اس میں مختلف قسم کی چیزوں کو پاتے ہیں جن کو ہم تین قسم پر تقسیم کرتے ہیں۔ حجر‘ شجر ‘ حیوان۔ ان تینوں قسموں میں اسباب داخلی‘ یعنی طبیعی اوراسباب خارجی سے تغیر اور تبدیل ہوتا ہوا پاتے ہیں۔ اشجار کو دیکھتے ہیں کہ پہلے وہ ایک چھوٹے سے دانے کی صورت میں ہوتے ہیں پھر اس میں سے ایک نہایت ضعیف نکوا نکلتا ہے پھر وہ بڑا ہوتا جاتا ہے۔ٹہنیاں اور پتے نکلتے آتے ہیں۔ پھر پھول کھلتے ہیں اور انواع و اقسام کے پھل لگتے ہیں اوراس اعلیٰ درجے پر ترقی کر جاتا ہے جس درجے تک بالطبع وہ درخت ترقی کر سکتا ہے۔ پھر اس سے زیادہ ترقی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح حیوانات کو ان کے نطفے کی حالت سے جوان ہونے تک دیکھتے ہیں کہ برابر ترقی کرتا جاتا ہے۔ پہلے نطفہ تھا پھر مضغہ ہوا‘ پھر سانس لینے لگ‘ پھر ایک کامل صورت ہوئی پھر زیادہ قوت آئی‘ اپنی جگہ سے باہر نکلا‘ قد بڑھتا گیا‘ ہاتھ پائو ں میں طاقت آنے لگی‘ پھر بیٹھنے لگا‘ چلنے پھرنے لگا‘ گال جو نہایت صاف تھے ان پر ڈاڑھی نکلی۔ کسی کی لمبی کسی کی چھوٹی کسی کی چگی اور کسی کے دوتین بال ۔ وہ سیاہ تھی پھر سفید ہو گئی۔ غرضیکہ جس حد تک وہ بالطبع ترقی کر سکتا تھا ترقی کر گیا پھر اس سے زیادہ ترقی نہیں کر سکتا۔ حجر کا حال اس سے کسی قدر مختلف ہے۔ اس میں کوئی علامت طبعی ترقی کی نہیں پائی جاتی۔ اس میں جس قدر ترقی ہوئی ہ وہ خارجی امور سے ہوتی ہے۔ اشجار کی جدا جدا نوعیں ہیں‘ مثلاً ایک ساق والے درخت جیسے کھجور مع اس کے اقسام کے۔ تاڑ مع اس کے اقسام کے۔ اس قسم کے تمام درخت جو دنیا میں پائے جاتے ہیں اگر ایک جگہ جمع کر کے بترتیب رکھے جاویں تو پہلا دوسرے کے اور دوسرا تیسرے کے اور تیسرا چوتھے کے ایسے مماثل ہوں گے کہ ایک دوسرے سے ممیز نہیں ہونے کے‘ مگر جب پہلے کو پانچویں سے یا دسویں سے ملا کر دیکھا جاوے تو ایک دوسرے سے بخوبی ممیز ہوں گے۔ نارنگی ‘رنگترا‘ میٹھا‘ کھٹا‘ چکوترہ‘ لیموں کے درخت آپس میں نہایت مماثل ہیں‘ ان میں نامحسوس تفاوت ہے اور ایک کا پیوند دوسرے میں لگ جاتا ہے ‘ مگر یہ کبھی نہیں ہوتا کہ نارنگی کا درخت چکوترہ ہو جاوے۔ اسی حالت کو ہم مماثلت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی طرح حیوانات کی بھی جدا جدا نوعیںہیں مثلاًکتا اوربھیڑیا‘ شیر تیندوا‘ بگھرا‘ چیتا ایک نوع ہیں۔ گھوڑا گدھا ایک ہی نوع میںداخل ہیں۔ کبوتر‘ فاختہ‘ ٹوٹرو سب ایک نوع کے ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اسی نوع کا نر اسی قسم کی مادہ سے ملے اور ایک تیسری قسم کا حیوان انہی کی مماثل پیدا ہو جاوے۔ مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ شیر کتا اور کتا شیر ہو جاوے۔ اگر اس نوع کے تمام حیوانات ایک جگہ جمع کیے جاویں او ر بترتیب رکھے جاویں تو پہلا دوسرے سے اوردوسرا تیسرے سے اور تیسرا چوتھے سے اور چوتھا پانچویں سے ایسے مماثل ہوں گے جن میں تمیز کرنی مشکل ہو گی‘ لیکن جب کہ پانچویں یا دسویںسے مقابلہ کیا جاوے تو دونوں میں فرق بین معلوم ہو گا۔ انسان کو ہم اسی نوع کے حیوانات میں داخل کرتے ہیں جس نوع میںبند داخل ہیں‘ اگر تمام قسم کے بندروں کو جن کی بے انتہا قسمیں معلوم ہوئی ہیںَ ایک جگہ جمع کیا جاوے تو ان کی بھی یہی حالت ہو گی کہ پہلے کو دوسرے سے اور دوسرے کو تیسرے سے اور تیسرے کو چوتھے سے اور چوتھے کو پانچویں سے ایسی ہی مماثلت ہو گی جن میںتمیز کرنا مشکل ہے‘ مگر جب پہلے کو پانچویں سے یا دسویں سے یا پچاسویں سے مقابلہ کیا جاوے تو دونوں میںتفاوت علانیہ ظاہر ہو جاوے گا۔ وہ بندر جو اب پائے جاتے ہیں اور جن کو اور ان اوتان اور البیشیکوس کہتے ہیں بہت سی چیزوں میں انسان کے مماثل ہیں اور مسٹر ڈارون جن کی نسبت کہتے ہیں کہ چند پیچ کی کڑیاں ناپید ہو گئی ہیں یا دستیاب نہیں ہوئیں‘ اگر دستیاب ہو جائیں توبجز مماثلت کے اورکوئی نیا امر ان سے ثابت نہیں ہو سکتا۔ ہم خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسان بھی انہی نوع حیوان میں سے ہیں جن نوع میںبندر داخل ہیں‘ مگر انسان اس تنوع کا کوئی جانور نہیں۔ اس وقت میرے دل نے کہا کہ کیا اسی سے اشرف المخلوقات کہلاتا ہے؟ یہ امر کہ یہ مماثلت کیونکر پیدا ہوئی اس کی نسبت کوئی ایسی دلیل جو بطور برہان کے یا اولیات کے ہو ہمارے پاس نہیں ہے ‘ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماد ہ جو سالمات ‘ یعنی اجزائے لایتجزیٰ کی صورت میں موجود تھا‘ ان سالمات کے ایک مقدار کے باہم ملنے سے تمام اشیائے کائنات ظہور میںآئی ہیں۔ وہی اجزاء جب ایک معین مقدار سے اور ایک مخصوص ہئیت سے آپس میں ملے تو ایک شیئی کی موجود ہو گی اور ان کی دوسری وضع اور ہئیت سے ملنے میں دوسری شئیی پیدا ہو گی جس مقدار سالمات کے ملنے سے وہ چیزیںپیدا ہوتی ہیں جب اس مقدار سے زیادہ یا کم سالمات آپس میںملے تو ایک شئی کا ظہور ہوا۔ چونکہ قدرت نے تمام چیزوں کو ایک سلسلے سے پیدا کیا ہے ایک کی کڑی دوسری سے ملی ہوئی ہے اورتمام ضروریات ہر ایک مخلوق کی جو اس کے لیے ضروری تھیں اس کی فطرت میں رکھ دی ہیں‘ اس لیے تمام مخلوق کا مماثلت پر پیدا ہونا تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ ہم اس کے دعویدار نہیں کہ تمام اشجار اور حیوانات مع اپنی تمام انواع و اقسام کے دفعۃً واحدۃً ایک ساتھ پیدا ہو گئے ہیں‘بلکہ ہم کو معلوم نہیں کہ کس قدر زمانے میں یہ مسئلہ مماثلت ظہور میں آیا ہے‘ مگر ہم اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اس سلسلہ مماثلت میںجو سب سے اول ہے وہ پہلے وجود میں آیا ہے اور اس کے بعد دوسرا اور اس کے بعد تیسرا اور علی ہذ القیاس۔ یہی مماثلت ہم تمام دنیا کے انسانوں میں بھی پاتے ہیں۔ اگر تمام دنیا کی مختلف قومیں جو افریقہ اور امریکہ اور ایشیا اور جزائر اور جبال میں ہیں‘ ایک جگہ جمع کی جاویں اور بترتیب بٹھائی جاویں یا ان کے چہروں کی تصویریں بنا کر بترتیب رکھی جاویں تو پہلا دوسرے سے اور دوسرا تیسرے سے اور تیسرا چوتھے سے اور چوتھا پانچویں سے ایسا ہی مماثل ہو گا کہ ایک دوسرے میں بہت ہی غیر محسوس فرق ہو گا‘ مگر جب پہلے کو پانچویں اور دسویں سے مقابلہ کیا جاوے تو فرق بین ظاہر ہو گا۔ ہم اس انقلاب جسمی اور ذہنی سے جو مختلف ملک اور مختلف قوم کے لوگوں میں پاتے ہیں یا جو ایک ملک کے مرد اور عورت دوسرے ملک کے مرد اور عورت کے ملنے سے ان کی اولاد سے ظاہر ہوتا ہے اور ان اسباب کے موثر ہونے سے جو جسمانی اور ذہنی امور پر مختلف ملکوں کے موسم سے ہوتا ہے ۔ انکار نہیں کرتے اور ہم اس بات کو بھی نہ مذہباً اورنہ علماً ضروری سمجھتے ہیں کہ تمام دننیا کی مختلف قومیں ایک ہی آدم کی نسل سے ہیں اس لیے مسئلہ مماثلت جو ہم نے اختیار کیا ہے کچھ تزلزل لازم نہیں آتا۔ اس زمانے میں کہا جاتا ہے کہ ابتدا ء میں ہر ایک نوع حیوان کے پیدا کرنے کے لیے نیچر نے ایک ہی شئیی جاندا ر پیدا کی تھی جو دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ پھر ان ضروریات کے سبب جو اس کو لاحق ہوتی گئیں اور موثرات خارجی کے سبب ایک ممتد زمانے مین اس نے ترقی کی اور اس کی جسمانی اور ذہنی حالت نے ایک ترقی یافتہ حالت پیدا کی۔رفتہ رفتہ وہ اعلیٰ درجے پر پہنچ گئی۔ مثلاً حیوانات میں سے جس نوع میںبندرکو داخل کیا وہ ترقی کر گئی اور پھر وہ ترقی کرتے کرتے انسان کی حالت میں پہنچ گئی‘ اسی طرح پر اس مسئلے کے قائم کرنے کا سبب طبیعت کا رہ رجحان ہے جو کثرت کو وحدت کی رجوع کرتاہے اور نیچر کو ترقی کی طرف مائل قرار دیتا ہے اورپھر نیچر کے باقاعدہ اثرات سے اس کو مترفع کرنا چاہتا ہے۔ اس مسئلے کے لیے برہان لمی یا اولیات کے دلائل ہونے کی نسبت زیادہ تر قیاسی اور خیالی دلیلیں ہیں۔ اس مسئلے کو ہم انقلاب کے مسئلے سے تعبیر کرتے ہیں اور اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ پہلی قسم کا بندر اور اس کی نسل رفتہ رفتہ ایک ممتد زمانے میں دوسری قسم کی ہو گئی اور اسی طرح دوسری قسم تیسری قسم کی اور اخیر قسم کا جو بندر تھا رفتہ رفتہ ترقی پا کر ایک ممتد زمانے میں انسان یا آدم بن گیا۔ اگر ہم اس مسئلے کو بھی مان لیں تو ہمارے اصول مذہبی میں جو ہم قرآن مجید سے پاتے ہیں کچھ نقصان نہیں کیونکہ قرآن مجید میںوہ حیوان مخاطب ہے جو انسان کی صورت میں آیا تھاگو کہ وہ کسی طرح پر آیا ہو۔ اب ہم کو بیان کرنا ہے کہ انسان نے ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت پر کیونکر ترقی کی۔ قدرت نے بہت سے حیوانات میں ایک حد تک تربیت کا مادہ رکھا ہے جس سے جسمانی اور ذہنی حالت کو ترقی ہوتی ہے۔ اسی طرح انسان میں بھی ترقی کا ایک مادہ ہے جس سے اس کی ذہنی قوت روز بروز ترقی پاتی جاتی ہے اور ی بات کہ اس کی ترقی کی حد کہاں تک ہے ابھی تک تحقیق نہیں ہوئی اور معلوم نہیں کہ کہاں تک اس کی ترقی کی حد ہو گی‘ اس لیے کہ انسان کی ذہنی قوت برابر ترقی کرتی چلی جاوے مگر اس بات کو ہم تسلیم کرتے ہیں اور تسلیم کرنا بھی چاہیے کہ وہ حیوان جب انسان کی صورت میں آیا تھا تو اس میں ایک بے انتہا ذہنی ترقی کا مادہ موجود تھا اور اسکی ترزی تربیت پر منحصر تھی جو بلاشبہ ایک ممتد زمانے میں حاصل ہو سکتی ہے۔ تربیت سے اس مقام پر ہماری مراد ان معلومات کے حاصل کرنے سے ہے جو ایک نسل سے آئندہ آنے والی نسل کو پہنچی ہیں۔ اس پچھلی نسل کے پاس اگلی نسل کی معلومات کا ذخیرہ موجود ہوتاہے اور یہ پچھلی نسل کے اس ذخیرے میں کچھ ترقی دیتی ہے اور یہ ترقی یافتہ ذخیرہ اس سے آگے آنے والی نسل کو پہنچتا ہے اور وہ اس میں کچھ ترقی دیتی ہے اور یہ ترقی یافتہ گنجینہ اس سے آگے آنے والی نسل کو پہنچتا ہے اور علی ھذ القیاس اور اسی طرح آئندہ نسلیں ترقی پاتی جاتی ہیں اور اسی طرح تمام علوم نے جو اب ترقی یافتہ ہیں رفتہ رفتہ پائی ہے۔ انسان ابتدا میں نہایت ادنیٰ حالت میں تھا مگر ترقی کا مادہ جو خدا نے اس قسم کے حیوان یا اس قسم کے بندر یا آدم کو دیا تھا اس میںموجود تھا اور ا سکی نسل میں بھی موجود ہے (اگر امور خارجہ اس کے مخالف نہ ہوں) پھر رفتہ رفتہ اسی تربیت سے جس کا ہم نے ذکر کیا ترقی ہوتی گئی‘ یہاں تک کہ وہ اس درجہ ترقی پر پہنچا ہے جس پر وہ آج ہے اور معلوم نہیں کہ ابھی کس حد تک ترقی کرنی باقی ہے۔ اس پر قیاس ہو سکتا ہے کہ آدم سے کس قدر طویل زمانہ گزرنے کے بعد حضرت نوح کو کشتی بنانے کا فن آیا ہو گا۔ توریت میں تو ۱۶۵۷ برس کا زمانہ قرار دیا ہے‘ وہ ایک ہنسی کی بات ہے۔ ٭٭٭ علوم طبیعیہ کی تحقیقات جدید (تہذیب الاخلاق ‘ جلد دوم ‘ نمبر ۸ (دور سوم) بابت یکم جمادی الاول ۱۳۱۳ھ) ہم کو معلوم ہوا ہے کہ جو بڑے عالم علوم طبیعیہ کے ان امور کے دریافت کرنے میں مصروف ہیں جو اب تک ناتحقیق ہیں انہوںنے نسبت روح کے مندرجہ ذیل امور دریافت کیے ہیں اور علم طبیعیات کے قواعد سے ان کو ثابت کیا ہے۔ (۱) انسان میں روح ہے اور وہ غیر مادی ہے۔ (۲) انسان کے مرنے کے بعد روح قائم رہتی ہے فنا نہیں ہوجاتی۔ (۳) روح جو بعد مرنے انسان کے باقی رہتی ہے وہ اپنے تئیں جانتی ہے جس طرح کہ انسان اپنی زندگی میں اپنے تئیں جانتا ہے۔ (۴) وہ ان افعال سے جو انسان نے اپنی زندگی میں کیے ہیں‘ متاثر ہوتی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ بات کہاں تک سچ ہے اور کس قسم کی دلائل طبیعی اس کی اثبات میں دریافت ہوئی ہیں‘ جو تحریرات کہ اس کی نسبت ہوئی ہیں ان کے حاصل کرنے کی ہم کوشش کر رہے ہیں ‘ اگر وہ دستیاب ہو گئیں تو ہم اس کو چھاپیں گے ۔ اگر یہ تحقیقات صحیح اور اس کی دلیلیں ثبوت کے لیے کافی ہیں تو نہایت خوشی کی بات ہے ‘ کیونکہ ہم نے متعدد جگہ اپنی تحقیقات میں دلائل سے ثابت کیا ہے کہ انسان میں سوائے اس کے مادے کے روح ہے اوروہ کاسب اور مکتسب ہے اور بعد ممات قائم رہتی ہے اور افعال انسانی سے جو اثر اس نے اکتساب کیا ہے اس سے متاثر ہوتی ہے۔ اگر دلائل عقلیہ اور تحقیقات علوم طبیعیہ کا نتیجہ متحد ہو جاوے تو نہایت عمدہ بات ہے‘ مگر دلائل ثبوت و بقائے روح کا ثبوت جو اعمال مشاہدہ سے متعلق ہے وہ قابل تسلی نہیں ہے۔ اگر ہم قبول کر لیں کہ بعض لوگ ایسے ہیں کہ مردوں کی روح کو بلا لیتے ہیں اور دکھا دیتے ہیں اور ان سے باتیں بھی ہو جاتی ہیں‘ مگر یہ افعال ثبوت و بقائے روح کے لیے کافی نہیں ہیں۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ انسان میں ایسی قوت مقناطیسی ہے کہ دوسرے انسان یا انسانوں کے خیال پر موثر ہوتی ہے اور وہ ان کو ایسے امور دکھلا سکتے ہیں جن کا حقیقتہً کچھ وجود نہیں ہے۔ مگر وہ ان کو موجود سمجھتے ہیں اور دیکھتے ہیں اور کبھی اشیاء موجود ہ کو ایک منقلب صورت پر دکھلا دیتے ہیں جیسے کہ مسحرہ فرعون نے لاٹھیوں اور رسیوں کو سانپوں کی صورت میں لوگوں کو دکھلا دیا تھا۔ پس اگر کسی نے ایک دھندلی سی شبیہہ دکھلا دی اور دیکھنے والوں نے یہ خیال بھی کیا کہ فلاں شخص یا فلاں عورت کی روح ہے اور اس سے باتیں بھی کر لیںتو اس بات کا یقین کیونکر ہو کہ درحقیقت وہ ان شخصوں کی روح تھی یا صرف قوت مقناطیسی کے سبب سے اس شخص نے لوگوں کے خیال میں ایسا اثر ڈالا تھا کہ ان کو خیال میں ایک دھندلی سی صورت دکھائی دی اور انہوں نے تصور کر لیا کہ یہ فلاں شخص کی روح ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ ایک بزرگ درویش تھے اور ان سے بعض لوگ درخواست کرتے تھے کہ ہم فلاں شخص مثلاً باپ دادا یا ماں یا فلاں درست سے جو مر گیا ہے ملنا چاہتے ہیں۔ درویش صاحب اس کو کہتے ہیں کہ آنکھ بند کر اور اس پر توجہ کرتے تھے‘ اس کو غنودگی آ جاتی تھی اور ااس حالت میں وہ ان سے مل لیتا تھا جن سے وہ ملنا چاہتا تھا۔ پس کیونکر تصفیہ ہو کر درحقیقت وہ ان سے ملاتھا یا صرف اس کا خیال ہی خیال تھا۔ ہم اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ خواب میں ہم نے ایک بزرگ کو دیکھا جو مرے ہوئے تھے اور ان بزرگ نے ہم سے ایک بات کہی‘مگر جب ہم اٹھے تو ہم بھول گئے کہ کیا کہا تھا۔ جو بزرگ کہ ان کے سجادہ نشین تھے ان سے ہم نے عرض کیا اورچاہا کہ وہ بتائیں کہ کیا بات انہوں نے کہی تھی۔ اس وقت تو انہوں نے جواب نہیں دیا‘ مگر دو تین دن بعد ایک رقعہ لکھ کر بھیجا کہ یہ بات تم سے کہی تھی۔ میں خود ان کی خدمت میں حاضر ہوا اورپوچھا کہ آپ کو کیونکر معلوم ہوئی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے ان بزرگ کی روح سے پوچھ لیا اور میں ا س شبہے میں پڑ گیا کہ شاید ان بزر گ نے خواب میں مجھ سے یہ بات کہی تھی۔ ٭٭٭ الارض لیست بساکنۃ (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۴ (دور سوم) یکم محرم ۱۳۱۲ھ) علماء قدیم نے ان آیات سے کہ: الم نجعل الارض مہداً والجبال اوتادا وجعلنا فی الارض رواسی ان تصید بکم اور مثل اس کے اور آیتوں سے یہ سمجھا ہے کہ زمین ساکن ہے امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں اور ابن رشد نے تلخیص المقال میں ان آیتوں پر نہایت عجیب بحثیں کی ہیں ۔ اول ہم ان کو ملخصاً لکھتے ہیں۔ پھر جو کچھ ہم کو لکھنا ہے لکھیں گے۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ جب کشتی پانی پر چھوڑی جاوے تو وہ ڈگمگاتی اور ڈولتی رہے گی ۔ جب اس پر بوجھ رکھ دیں تو پانی پر ٹھہر جاوے گی۔ اسی طرح جب خدا نے زمین کو پانی پر پیدا کیا تو وہ ڈولتی تھی اور ڈگمگاتی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اس پو بوجھل پہاڑ پیدا کیے تو ان کے بوجھ کے سبب پانی پر ٹھہر گئی۔ اب امام صاحب فرماتے ہیں کہ اس پر تین اعتراض ہوتے ہیں۔ اول اعتراض یہ ہے کہ اس دلیل کے ساتھ یا تو یہ مانا جاوے کہ زمین اور پانی دونوں بالطبع ثقیل ہیں یا نہیں ہیں اور ان اجسام کی حرکت بالطبع ہے یا بالطبع نہیں ہے‘ بلکہ خدا ان کو ہلاتا رہتاہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ زمین پانی سے زیادہ ثقیل ہے اور جو پانی سے زیادہ ثقیل ہے وہ پانی میں ڈوب جاوے گی۔ اور تیرتی نہ رہے گی اور جب وہ تیرتی نہ رہی تو اس کی نسبت یہ کہنا کہ وہ ڈولتی اور ڈگمگاتی رہتی تھی صحیح نہیں ہو سکتا۔ زمین کو کشتی سے مثال دینا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ کشتی لکڑی کی ہوتی ہے وہ پانی پر تیرتی رہتی ہے ڈولتی ڈگمگاتی ہے بوجھ ڈالنے سے ٹھہر جا سکتی ہے۔ مگر زمین جو خود بوجھل ہے پانی پر تیر نہیں سکتی۔ اور اگر یہ مانا جاوے کہ زمین اور پانی کے لیے کوئی طبیعت نہیں ہے‘ بلکہ خدا نے اس کو ایسا کر رکھا ہے تو اس صورت میں زمین کے ٹھہرے رہنے کی وجہ یہ ہو گی کہ خدا نے اس میں ٹھہرنا پیدا کر دیا ہے اور اس کے ڈگمگانے اور ڈولنے کی علت یہ ہو گی کہ خدا نے اس میں ڈگمگانا پیدا کر دیا ہے۔ تو اس وقت یہ کہنا غلط ہو جاوے گا کہ زمین ڈگماگانے والی تھی اور خدا نے اس میں پہاڑ پیدا کر کے اسے ٹھہر ا دیا‘ کیونکہ یہ تو جب صحیح ہوتا کہ ہم نے زمین کی طبیعت میں ڈگمگانا مانا ہوتا‘ حالانکہ ہم نے یہ مانا ہے کہ زمین کی طبیعت ایسی نہیں ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ زمین پر پہاڑوں کا بوجھ ڈالنا اس لیے کہ وہ ڈگمگائے نہیں اس وقت سمجھ میں آتا ہے کہ پانی بھی ایک ہی جگہ ٹھہرا ہوا ہے۔ اگر یہ کہا جاوے کہ پانی کی طبیعت ہی میں ایسا ہے تو زمین کی نسبت کیوں نہ کہا جاوے کہ اس کی طبیعت میں بھی پانی کے اوپر ٹھہرا رہنا ہے‘ پھر یہ بات کہ بسبب پہاڑوں کے بوجھ ڈالنے کے وہ ٹھہری رہی غلط ہو جاتی ہے۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ زمین ایک بہت بڑا جسم ہے اگر وہ پانی کے اوپر ڈگمگاتی بھی رہے تو لوگوں کو نہیں معلوم ہو سکتا اور بھونچالوں کے سبب کسی خاص ٹکڑے میں حرکتم معلوم ہونی اس کے برخلاف دلیل نہیں ہو سکتی‘ کیونکہ وہ حرکت ایسی ہے جیسے کہ انسان کے جسم میںسے کوئی عضو پھڑکنے لگے۔ اس کے بعد امام صاحب فرماتے ہیں کہ اس جگہ یہ بحثیں نہایت باریک اورگہری بحثیں ہیں‘ لیکن ہمارے نزدیک یہ بات ہے کہ یقینی دلیلوںسے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ زمین گول ہے اور یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ پہاڑ جو زمین پر ہیں ان سے اس کی گولائی میں کھردرا پن پیدا ہو گیا ہے۔ اب ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ کھردرا پن نہ ہوتا اور زمین صرف گول ہی ہوتی تو ایک ادنیٰ حرکت سے وہ لڑھکتی رہتی‘ لیکن جب اس پر پہاڑ پید ا کیے اور کھردرا پن اس میں ہو گیا تو ہر ایک پہاڑ بالطبع مرکز عالم کی طرف بسبب اپنے بوجھل ہونے کے نہایت قوت سے رجوع کرتاہے اور اس لیے وہ بمنزلہ میخ کے ہو گئے ہیں اور کرہ زمین کو ڈگمگانے اور ڈولنے سے روکے ہوئے ہیں اور مستدیر حرکت بھی نہیں کرنے دیتے۔ ابن رشد فرماتے ہیں کہ زمین پر پہاڑوں کے پیدا کرنے سے ا ن منفعت کی طرف اشارہ کیا ہے جو پہاڑوں کے سبب سے زمین پر ٹھہر ے رہنے سے ہوا ہے‘ کیونکہ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو پانی اور ہوا کے سبب سے زمین ڈگمگا تی اور ڈولتی رہتی اورجہاں ہے وہاں سے ہٹ جاتی۔ یہ تحقیق ہے ہمارے علمائے اسلام کی جو سر سے پائوں تک غلط ہے‘ مگر وہ بھی معذور ہیں‘ اس لیے کہ اس زمانے میں علوم کو ترقی نہیں ہوئی تھی اور جہاں تک کہ ان کی معلومات تھی اسی کے مطابق انہوں نے ان آیتوں کی تفسیر کی۔ ہمارا قول ہمیشہ سے یہ ہے کہ قرآن مجید کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ جو اس مقصد ہے وہ ہر زمانے اور ہر درجہ علم میں یکساں حاصل ہوتا ہے۔ ان صنائع کے بیان کرنے سے خدا کی قدرت اور اس کی عظمت پر متنبہ کرنا ہے‘ پس گو کہ اس زمانے کے علماء نے ان آیتوں کی تفسیر صحیح طور سے بیان نہیں کی ‘ مگر جو مقصود‘ یعنی خدا کی قدرت اور عظمت کا لوگوں کو جتانا تھا وہ اس سے بھی حاصل تھا۔ اب کہ علوم کی ترقی ہوئی اور کائنات کا حال معلوم ہوا اگر ان آیتوں کی تفسیر ان علوم محققہ کے مطابق کی جاوے تو بھی وہی مقصود‘ یعنی خدا کی قدرت اور عظمت کا ظاہر ہونا بدستور حاصل ہوتا ہے۔ علماء قدیم کا یہ خیال غلط ہے کہ زمین پانی کے اوپر ہے یا پانی کے اوپر تیر رہی ہے۔ اس وقت تک ان بزرگوں کو امریکا کا حال معلوم ہی نہیں ہوا تھا اوروہ نہیں جانتے تھے کہ جیسے ہماری زمین اور ہمارے دریا ہیں اورہمارے پہاڑ ہیں‘ ہمارے پائوں تلے بھی ویسی ہی زمین ویسے ہی دریا اور ویسے ہی پہاڑ ہیں اور تعجب یہ ہے کہ جس طرح ہمارے پائوں زمین پر اور سر آسمان کی طرف ہے اسی طرح وہاں کے لوگوں کے بھی پائوں زمین پر اور سر آسمان کی طرف ہیں۔ اوتاد اور رواسی کے معنی یا مراد بھی انہوں نے ٹھیک نہیں سمجھے۔ انہوںنے سمجھا ہے کہ جس طرح میخیں ٹھونک کر کسی چیز کو باندھ دیتے ہیں او ر وہ ٹھہر جاتی ہے یا بوجھ ڈالنے سے کشتی ڈگمگاتی نہیں اسی طرح پہاڑون سے زمین ٹھہر گئی ہے‘ گو مقصود متحد ہو مگر یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ اوتاد جمع وتد کی ہے ۔ وتد کہتے ہیں لکڑی کی اس چیز کو جو زمین یا دیوار میںگڑی ہوئی ہو جس کو ہماری زبان میں میخ کہتے ہیں (وتد مازرفی الارض اوالحائط من الخشبۃ) خدا نے فرمایا کہ میں نے پہاڑوں کو مثل میخوں کے زمین پر پیدا کیا ہے جو اس میں گڑے ہوئے ہیں۔ پس صرف تشبیہ ان کی زمین میں گڑے ہوئے ہیں میں ہے نہ اور کسی میں۔ راسیہ یا رواسی صفت کے الفاظ ہیں اوراس کے معنی ثابتہ کے ہیں‘ یعنی وہ صفت ہے اس چیز کی جو ایک جگہ مستقر ہو۔ مفسرین نے جب دیکھا کہ خدا نے پہاڑوں کو اوتاد کہا ہے تو انہوں نے رواسی کا موصوف بھی پہاڑوں کو قرار دیا اور کہا کہ رواسی ای جبالا راسیۃ ثابتۃ حالانکہ رواسی صفت ہو سکتی ہے ہر ایک چیز کی جو زمین میںمستقر ہے۔ مثلاً ہر قسم کی کانوں کی اور مادیات کی جو زمین میں ہیں‘ پہاڑوں کے ساتھ کچھ خصوصیت نہیں ہے۔ زمین ٹھہری ہوئی نہیں ہے ۔ بلکہ اپنے محور پر اورنیز آفتاب کے گرد ‘ بلکہ کسی قدر جنوباً اور شمالاً بھی حرکت کرتی ہے ۔ خدا نے اس پر پہاڑوں کے پیدا ہونے اور رواسیات کے پیدا کرنے کا یہ مقصد بیان نہیں کیا کہ اس کی حرکت جاتی رہے‘ بلکہ تمید بکم کا یہ مطلب ہے کہ اور کروں سے منجذب نہ ہو جائے۔ زمین اور تما م کواکب جو اس فضا میں دکھائی دیتے ہیں وہ سب کرات معلقہ ہیں اور ہر ایک کرہ بلکہ ہر ایک ذرہ مارے کا ہر ایک کرے اورہر ایک ذرے کو کھینچتاہے۔ کشش کی قوت ہر ایک کرے اور ہر ایک ذرے کو کھینچتی ہے۔ بلحاظ اس کی جسامت کے اور بلحاظ اس قسم کے مادے کے جو اس کرے میں ہے اور بلحاظ اس فاصلے کے جو ایک کرے کو دوسرے کرے سے ہے پس خدانے فرمایا کہ میں نے زمین پر پہاڑ پیداکیے جو مثل میخوں کے اس پر گڑے ہوئے ہیں اور اس میں رواسیات پیدا کیے جواس میں مستقر ہیں تاکہ اس میں ایسی قوت پید اہو جاوے کہ اور کروں کی طرف کھینچ کر تم کو نہ لے جاوے اوریہی مطلب لفظ تمیذبکم کا ہے ۔ پس کوئی تبدیلی قرآن کے لفظوں میں یا اس کے مقصود میں نہیں ہے جو کچھ نقص تھا ہمارے علم میں تھا۔ خدا کا کلام ویسا ہی سچا ہے جیسا کہ اس وقت تھا جبکہ ہمارا علم ترقی یافتہ نہ تھا۔ اور اب بھی ویسا ہی ہے جبکہ ہمارا علم ترقی یافتہ ہو گیا ہے اورہم یقین کرتے ہیں کہ اگر بالفرض ہمارا علم ترقی یافتہ ہو جاوے اور جو کچھ اب ہم نے دریافت کیا ہے وہ غلط ثابت ہو جب بھی قرآ ن مجید ایسا ہی سچا ثابت ہو گا جیسا کہ اب سچا ثابت ہواہے۔ بعض ناسمجھ یہ بحث کرتے ہیں کہ جو تفسیر آیت کی اور ان تمیدبکم کی تم نے بیا ن کی ہے بدوان عرب اور صحابہ و تابعین و طبع تابعین بھی ان آیتوں کی یہی تفسیر سمجھتے تھے یا نہیں‘ کیونکہ ان کو جذب مادی کا بھی خیال نہ تھا‘ بلکہ اس زمانے کے فلاسفر بھی اس کو نہیں جانتے تھے۔ پس یہ تفسیر ایسی ہے جس کو علماء متقدمین تو درکنار صحابہ و تابعین بھی نہیں جانتے تھے۔مگر ایسی حجت کا پیش کرنا اصل بات کو نہ سمجھنے کا باعث ہے۔ قرآن مجید کو تو ان آیتوں سے خدا کی عظمت اور قدرت اور عجیب صنعت کا جتلانا اورجو نتیجہ اس صنعت سے حاصل ہوا جس کو ان تمیدبم کے الفاظ سے بتلایا‘ بتلانا مقصود تھا اس کو بدوان عرب اور صحابہ و تابعین اور تبع تابعین سب سمجھتے تھے اور اس بات کا بتلانا کہ وہ نتیجہ کیونکر حاصل ہوا مقصود نہ تھا‘ کیونکہ اس کا جاننا علوم طبیعیات کے جاننے پر منحصر تھا۔ اب اس بات پر بحث کی جانی ہے کہ وہ نتیجہ کیونکر حاصل ہوا اور سبب حاصل ہونے کے اس نتیجے کا کیا ہے ۔ اس پر یہ سوال کرنا کہ بدوان عرب بھی اس سبب کو جانتے تھے محض نادانی اور کج بحثی ہے‘ کیونکہ ظاہر ہے کہ وہ نہیں جانتے تھے اورنہ اس کا جاننا ان کو ضرور تھا نہ قرآن مجید کا مقصود اس کا بتلانا تھا مگر چونکہ ہمارا اعتقاد ہے کہ قرآن مجید اس کا کلام ہے جو دنیا و مافیھا کا بنانے والا ہے تو اس کا کلام حقیقت واقعی صنعت مصنوعات کے برخلاف نہیں ہو سکتا ۔ اب کہ نیچرل سائنس اور علوم طبیعیات کی ترقی ہوئی ہے اورزمین اپنے مقر پر موجود رہنے کے سبب علت معلوم ہو گئی تو ان تمیدبکم کا سبب معلوم ہوا اور قرآن مجید کے لفظوں کو حقیقت واقعی صنعت مصنوعات کے مطابق پایا اور اسی کے مطابق بیان کیا۔ اس کی نسبت یہ سوال کہ یہی سبب بدوان عرب و صحابہ و تابعین و تبع تابعین نے بھی سمجھا تھا‘ محض نادانی اور بے سمجھی کا سوال ہے اور ایسے بے جا سوال کا بجز اس کے اور کچھ جواب نہیں ہے: گر تو قرآن بدیں نمط دانی ببری رونق مسلمانی ٭٭٭ سورج کی گردشن زمین کے گرد قرآن مجید سے ثابت نہیں (از ’’آخر ی مضامین سرسید‘‘) لوگوںکا یہ خیال کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نمرود کے سامنے یہ حجت پیش کرنی کہ : ان اللہ یاتی بالشمس من المشرق فات بھا من المغرب اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ آفتاب زمین کے گرد پھرتاہے۔ بزرگان قدیم کیا عرب عربا اورکیا صحابہ کرام اورکیا علمائے اسلام اسی پر یقین کرتے تھے۔ پس یہ کہنا کہ آفتاب ساکن ہے اور زمین اپنے محور پر بوم ملیلیۃ کی حرکت کرتی تھی جس کے سبب دن رات اور طلوع و غروب ہوتا ہے قرآن مجید کے برخلاف ہے۔ مگر ہمار ے نزدیک ایسا کہنا خود قرآن مجید کا مطلب اور اس کا طرز کلام نہ سمجھنے پر مبنی ہے ۔ قرآن مجیدمیں صرف یہ بیان ہے کہ حضرت ابراہیم نے کہا کہ خدا سورج کو مشرق سے لاتا ہے‘ پرھ اگر تجھ میں طاقت ہے تو اس کومغرب سے لا اوریہ نہیں بتایا کہ کس طرح پر خدا سورج کو مشرق سے لاتا ہے۔ خود اس کی حرکت سے یا اور کسی چیز مثلاً زمین کی حرکت سے؟ پس یہ کہنا کہ یہ آیت سورج کی گردش کی قطعی دلیل ہے محض غلط ہے۔ اس بات پر عرب عربا‘ یا صحابہ کرام یا علمائے اسلام یا تمام انسانوں کا یقین کرنا کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب کو جاتا ہے مشاہدے پر مبنی ہے‘ کیونکہ وہ اس طرح پر دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ بیان کرنی پیغمبر کاکا م نہیں تھا اور نہ ان لوگوں کے لیے ضرور تھا جو اسی طرح پر سورج کا نکلنا اور غروب ہونا دیکھتے تھے بلکہ یہ کام علمائے علم ہئیت کا تھا اوران علماء نے سورج کا زمین کے گرد پھرنا جیسا کہ وہ دیکھتے تھے ۔ بغیر تجربے کے اور بغیر تحقیقات کافی کے غلطی سے قرار دیا تھا اور یہ امر تمام قدما کے دل میں خواہ وہ عرب عربا ہوں یا صحابہ کرام اور علمائے اسلام مستقر ہو گیا تھا‘ مگر اب تحقیقات علوم جدیدہ سے اس امر کی غلطی ثابت ہوئی ہے۔ اصل مقصود اس آیت کا خدا کی کامل قدرت اور خدا کی بے انتہا عظمت کا ثابت کرنا ہے‘ نہ سورج کے اس طرح پر دکھائی دینے کے سبب کا پس اگر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور علمائے اسلام نے اس کا سبب غلط سمجھا‘ خواہ اپنے اجتہاد سے خواہ مشاہدے سے‘ جیسا کہ ان کو دکھائی دیتا تھا‘ تو ان کی بزرگی اور تقدس میں کوئی نقص لازم نہیں آتا‘ کیونکہ وہ خدا کے بندے اور خدا کی عبادت کرنے والے تھے ‘ نہ علم ہئیت کے دقیق مسائل کو حل کرنے والے اور جو مقصود اس آیت کا تھا اس غلط فہمی سے اس میں کچھ نقصان نہیں آتا ہے اور ہمارے نزدیک یہی بڑا معجزہ قرآن مجید کا ہے کہ جاہل اور عالم دونوں برابر ہدایت کرتا ہے جو ہدایت کہ قرآن مجید کا مقصود ہے۔ سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن مجید کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان امور سے جو لوگوں کے دل میں منقش تھے یا ان رسول سے جو ایام جاہلیت میں مروج تھیں‘ بشرطیکہ مخالف اس مقصد کے نہ ہوں جس کے لیے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے کچھ بحث یا تعرض نہیں آیا تھا اور اسی لیے اسی طرح ان کو چھو ڑ دیا جس طرح پر کہ وہ تھے اور قرآن مجید میں بطور نقل یا بطور مسلمان ان لوگوں کے جن کو فہمائش کی جاتی ہے اور جس پر حضت الزامی کی بنا قائم ہوتی ہے بیان کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ ان امور کی حقیقت بھی اس طرح پر ہے کہ جس طرح پر وہ نقل کی گئی ہے۔ اس قسم کے امور سے بحث نہ کرنا نہایت مفید ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر ان امور سے بحث بھی کی جاوے تو لوگ ایک نئی بحث اور فکر میں پڑ جاویں گے اور جس امر کی ہدایت اصلی مقصود ہے وہ ضائع ہو جاوے گی ۔ مثلا ً اسی مقام پر جو حضرت ابراہم علیہ السلام نے اپنی حجت میں بیان کیا ہے : ان اللہ یا تی بالشمس من المشرق فات بھا من المغرب اگر اس کے عوض وہ اس طرح بیان کرتے کہ ان اللہ یدور الارض من المغرب الی المشرق فلما دو الارض من المشرق الی المغرب تو کوئی شخص ان کا مطلب نہ سمجھتا‘ بلکہ سب لوگ حیران ہو جاتے کہ زمین کے پھرنے کے کیا معنی ہیں اور اگر زمین پھرتی ہے تو ہم ٹیڑھے کیوں نہیں ہو جاتے اور اس کا پھرنا ہم کو معلوم کیوں نہیں ہو تا اور جب ہم اس کے نیچے جاتے ہیں تو گر کیوں نہیںپڑتے۔ اول تو یہ سب امور جب تک کہ علم رفتہ رفتہ اعلیٰ ترقی پر نہ پہنچے معلوم بھی نہیں ہو سکتے اورپھر ان کا سمجھانا نہایت ہی مشکل پڑتا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ اب بھی ان امور کے سمجھنے میں ان کی عقل عاجز ہے۔ پس قرآن اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ان جھگڑوںمیں پڑان اس مقصود کا برباد کر دینا تھا جس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے اور اس لیے ضرور تھا کہ جو مسلمان اور رسومات ایسی ہیں جن سے اس اصلی مقصود و ہدایت میں کچھ نقصان لازم نہیں آتا ان کو نہ چھیرا جاوے اورخلق موجودات کے باریک باریک نکتوںکے سمجھانے پر متوجہ ہونا جس کو ترقی علم اپنے وقت پر بخوبی سمجھا سکتی تھی محض غیر ضروری تھا۔ ہم بھی کبھی اسی رنگ میں تھے ہمارے پاس جناب فرخندہ علی صاحب نے مقام حیدر آباد سے ایک تحریر بھیجی ہے جو اس تحریر کا جواب ہے جو جناب شمس العلماء محمود گیلانی نے اس باب میں تحریر فرمائی ہے کہ قرآن مجید کی بعض آیتوں سے زمین کا متحرک ہونا پایا جاتا ہے۔ جناب سید فرخندہ علی صاحب قرآن مجید کی بعض آیات کے استدلال سے زمین کا ساکن ہونا اور آفتاب کا زمین کے گرد متحرک ہونا ثابت فرماتے ہیں۔ اس پر کہتے ہیں کہ ہم بھی کبھ اس رنگ میں تھے بہت مدت ہوئی کہ ہم نے ایک رسالہ لکھا تھا جس کا نام ہے ’’قوم متین فی ابطال حرکت زمین‘‘ اور فخر کرتے تھے کہ نہایت خوبی سے ہم نے حرکت زمین کا ابطال کیا ہے مگر جب غور کیا تو سمجھتے کہ : خود غلط بود آنچہ ما پند اشتیم اس وقت ہم کو ان دونوں بزرگوں کے دلائل پر جرح و قدح منظور نہیں ہے‘ بلکہ صرف ہم کو یہ کہنا ہے کہ قرآن مجید سے نہ زمین کا متحرک ہونا ثابت ہو سکتا ہے نہ زمین کا ساکن ہونا اسی طرح نہ آفتاب کا متحرک ہونا ثابت ہو سکتا ہے اورنہ ساکن ہونا اورنہ قرآن مجید کو اس مسئلہ دقیق ریاضی سے بحث کرنی مقصود تھی ‘ کیونکہ ترقی علوم خود اس امر کا تصفیہ کرنے والی تھی اور قرآن مجید کا مقصد اس سے زیادہ اعلیٰ اور افضل تھا اور ہرگز مصلحت نہ تھی کہ خدا ایسے باریک مسئلے کو ان بدوئوں اونٹوں کے چرانے والوں کے سامنے یا ان عالموں کے سامنے جن کے علم و تجربہ نے کافی ترقی نہیں کی تھی بیان کر کے لوگوں کو پریشانی مٰں ڈالتا اور تعلیم اخلاق کو جو اصلی مقصد مذہب کا تھا‘ اس دقیق مسائل میں ڈال کر برباد کر دیتا‘ باایں ہمہ ہمارایقین کامل ہے کہ ورک آف گاڈ اور ورڈ آف گاڈ کبھی مختلف نہیں ہو سکتے گو ہم نے اپنے نفس علم سے کبھی ورڈ کے معنی غلط سمجھے ہوںَ ایک دوست نے ہم سے کہا کہ سورج کی گردش اس کے محور پر قرآن مجید سے ثابت ہے اوریہ آیت پڑھی والشمس تجری لمستقرلھا ذالک تقدیر العزیز العلیم پس لفظ مستقرلھا سے اس کی حرکت محوری ثابت ہے کہ اپنی جگہ پر بھی ہے اور حرکت بھی کرتا ہے ۔ ہم نے کہا کہ آپ کی جودت ذہن خدا مبار ک کرے مگر خدا کو ان مسائل علم ہئیت سے بحث نہیں ہے۔ وہ ان امور کو اسی طرح بیا ن کرتا ہے جس طرح کہ لوگ ان کو دیکھتے ہیں اور اگر آپ کو بھی یہ مسئلہ حرکت شمس کا اپنے محور کے گرد علوم جدیدہ سے معلوم نہ ہوتا تو آپ بھی یہ معنی جو فرماتے ہیں نہ فرماتے۔ ٭٭٭ الیوم فی اول التورات (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۹ (دور سوم) بابت یکم جمادی الثانی ۱۳۱۲ھ) مولانا مولوی عنایت رسول صاحب چڑیا کوٹی ‘ جو علوم عربیہ میں ایک بڑے عالم ہیں اور اسی کے ساتھ عبرانی اور سریانی زبانوںکے جاننے میں بے نظیر ہیں اور توریت کے مطالب کو اسی طرح پر جانتے ہیں جیسے کہ یہودیوں کا کوئی بڑا ربی جانتا ہو۔ وہ اپنے ایک عنایت نامے میں یوم کے لفظ کی جو توریت میں آیا ہے ‘ اس طرح پر تشریح فرماتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ پہلی آیت جو توریت کی ہے جس میں بیان ہے کہ ابتدا میں پیدا کیا خدا نے آسمانوں کو اور زمین کو‘ یہ آیت بطور بسم اللہ کے ہے‘ یعنی اس آیت سے دنیا کے پیدا کرنے کا بیان شروع نہیں ہوا ہے‘ بلکہ خد انے اپنی قدرت کو بیان کیا ہے۔ (واضح ہو کہ ربی شمعون بن یوحا یہودی عالم کا بھی یہی مذہب ہے اور وہ کہتا ہے کہ براشیث کے لفظ سے ہمیشہ ابتداء اضافی مراد ہوتی ہے) اس کے بعد مولانا فرماتے ہیں کہ بلاشبہ توریت اور رقرآن میں لکھا ہے کہ آسمان اورزمین چھ دن میں بنے‘ توریت کا بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بیان مرکبات عنصریہ کی تکوین کا ہے نہ کہ کل عالم اجسام کا۔ دوسری آیت سے بیان خلقت شروع ہوا ہے جس میں یہ بیان ہے کہ ’’زمین متلاشی اور گم تھی اور پانی پر ظلمت چھائی ہوئی تھی اور تند بادپانی پر چلتی تھی‘‘۔ وہ فرماتے ہیں کہ عبرانی میں یہاں لفظ رووح واقع ہے جس کے معنی روح و ریح دونوں کے ٓٓآئے ہیں ۔ اونقلوس نے جو قدیم مترجم ہے اس کا ترجمہ گلڈی زبان میں روحاً ‘ یعنی ہواکے کیا ہے ۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ اسپرٹ آف گاڈ یعنی روح اللہ کے ہوا ہے۔ پس تراجم جو انگریزی میںہوئے ہوں گے وہ روح اللہ سے بھرے ہوں گے۔ عربی تراجم میں بھی روح اللہ ثبت ہے۔ کوئی قدیم ترجمہ عربی میرے پاس نہیںہے۔ اصل کے سامنے تراجم کی کوئی واعت نہیں۔ یہاں رووح کے ساتھ لفظ الوھیم بھی ہے جس کے معنی سخت ہوا کے پیدا ہوئے جیسا ’’ایش الوہیم‘‘ بجلی کو کہتے ہیں۔ الغرض اس وقت مٹی کے اجزاء پانی کے ساتھ گھلے ملے تھے اور سطح پانی پر سخت ہوا چل رہی تھی۔ اسی میں تین عناصر کا پتا لگتا ہے کہ موجو د تھے اورپانی پر ظلمت تھی۔ یعنی کوئی جاندا ر اس میں نہ تھا۔ تیسری آیت میں ہے کہ ’’خد انے حکم دیا کہ آگ ہو اور وہ ہو گئی‘‘ یہاں لفظ ’’ادر‘‘ہے اوریہ لفظ عبرانی میں تین معنی میں مستعمل ہے اول نور یہ شایع اور مشتہرہے دوم نار‘ سوم وجود‘ خواہ زندگی مجازاً۔ مطلب آیت یہ ہے کہ ہوا اور پانی کی رگڑ سے گرمی پیدا ہوئی تب بحکم ربانی نار وجود پذیر ہوئی ۔ اب چار عناصر جو مزاج حاصل ہونے کے لیے ضرور ہیں تیار ہوئے۔ چوتھی آیت میں ہے کہ ’’خدانے آگ کو پسند کیا اور خدا نے آگ کو عناصر ظلمانی سے علیحدہ کر دیا ‘‘ یعنی اس کا مکان خلا میں جدا کر دیا۔ پانچویں آیت میں ہے کہ’’تب خدا نے وجود کو دن کہا اور عدم کو رات ۔ واضح ہو کہ نور و ظمت عبرانی میں وجود اور عدم پر مجازاً بولا جاتا ہے۔ بخوف تطویل سند چھوڑ دیتا ہوں وعلیٰ ہذ االقیاس۔ شام و صبح۔ شام مع صبح ایک دن ہوا (یعنی انتہا عدم سے انتہا وجود تک) واضح ہو کہ دن کا اطلاق عبری اور عربی دونوں زبانوں میں واقعہ اور حادثہ پر بھی آتا ہے‘ یوم بدر و یوم الطوفان کو لحاظ کرنا چاہیے‘ لہٰذا اس فقرے کے یہ معنی بھی ہوئے کہ انتہائے عدم سے انتہائے وجود تک ایک حادثہ ہوا۔ یوم کا اطلاق عبرانی میں مثل عربی کے مطلق زمانہ پر بھی آیا ہے۔ چھٹی آیت سے آٹھویںآیت تک طبقات ہوا ے انفصال کا بیان ہے۔ ان آیات میں بھی مذکور ہے کہ خدا نے حکم دیا ک ’’پانی فاصل ہوجاوے کہ وہ فارق ہو دوپانیوں میں‘ ایک وہ پانی جو اس فاصل کے نیچے ہو ‘ اورایک وہ جو اوپر ہو‘‘ چنانچہ یہ دونوں قسم کے پانی موجود ہیں ایک کرہ زمہریر میں ایک سمندر میں۔ عرف میں طبقات ہوا کو جو فاصل امیاہ ہیں سماء کہتے ہیں۔ حکماء کے افلاک سے عوام خبر نہیں رکھتے۔ اسی مدت کو تریت میںدوسرا دن خواہ دوسرا حادثہ بیان کیا ہے۔ نویں آیت سے تیرھویں آیت تک زمین کے مکشوف ہونے اورنباتات کے وجود ہونے کا بیان ہے اور بخور کے مجتمع ہونے کا ان آیات میں اور دوسری آیات کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین اس ہئیت کذائی کے ساتھ دو دن میں حاصل ہوئی۔ گوزمین کے اجزاء کے جمع کرنے کا بیان نہیں ہے‘ لیکن چونکہ پہلی آیت میں آسمان یعنی طبقات ہوا اور زمین کی پیدائش کا ذکر ایک دوسری نمط پر ہوا ہے اور آغاز تکوین پہلے دن سے ‘ تو قیاس سے معلوم ہوتا ہے ہ پہلے ہی دن میں اس کے اجزاء جمع کیے گئے تھے‘ اس لیے قرآن میں ہے کہ خلق الارض فی یومین۔ یہ دونوں دن انہیں چھ دن میں سے ہیں۔ چودھویں آیت سے انیسویں آیت تک کسی چیز کی پیدائش کا بیان نہیں ‘ بلکہ کواکب کے زمین پر تسلط کاذکر ہے۔ چودھویں آیت میں خدانے تجویز کی کہ کواکب اسماء اس رات دن کو بدلا کریں‘ اس رات و دن سے مراد وہی وجود و عدم ہے جو اوپر گزرا۔ رات و دن پر حرف عہد خارجی داخل ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کواکب تاثیر کرتے رہیں اور ہوں وہ آیات (یعنی جیسا ارباب تنجیم ارضاع فلکی سے استنباط احکام کرتے ہیں) اور اوقات اورایام سنین کے لیے۔ پندرھویں آیت میں ہے کہ کواکب سماء زمین پر موجودپہنچاتے رہیں( یعنی تاثیر کرتے رہیں) یہ آیت گزشتہ آیت کی تفسیر ہے ۔ سولھویں آیت میں ہے تب خدا نے دو بڑے کواکب یعنی ان میں سے برے کو سلطان یوم بنایا اوران میں سے چھوٹے کو سلطان لیل اور کواکب کو‘ یعنی مطابق تجویز گزشتہ کر دیا۔ مجمین شمس کو نہاری اور قمر کو لیلی کہتے ہیں۔ آیت سترہ میں ہے خدا نے ان کو ‘ یعنی شمس و قمر و کواکب کو آسمان میں زمین پر وجود پہنچانے کے لیے ( یعنی تاثیر کرنے کے لیے ) مقرر کیا اور رات و دن پر حکومت کرنے کے لیے یعنی وجود و عدم میں تفرقے کے لیے۔ یہ چوتھا دن ہوا‘ الغرض اس وقت میں تسلط کواکب اور ان کے اوضاغ کی آیات حوادث ہونے کا بیان ہے کہ یہ بھی ایک حادثہ ہے۔ اس قدر ربہ شلو موبرجی بھی تسلیم کرتا ہے کہ چوتھا دن ان کی پیدائش کا نہیں ہے۔ یہ پہلے پیدا ہو چکے تھے۔ سورۃ یونس میں نازل ہے‘ ہو الذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا وقدرہ منازل لتعلموا عدد السنین والحساب ما خلق اللہ ذالک الا بالحق بفصل الا یات لقم یعلمون (ترجمہ) اسی نے شمس کو ضیاء اورقمر کو نور بنایا اور ان میں سے ہر ایک کے لیے منزلیں ٹھہرا دیا (یعنی ان کی مدارات) تاکہ تم شمار سنین و حساب سمجھو خدا نے اسے ٹھیک بنایا ہو۔ ہر ایک ان میں سے واقف کاروں سے مفصل نشانیاں بیان کرتاہے۔ سورہ رعد میں ہے : سخر الشمس والقمر کل یجری لاجل مسمیٰ۔ یدبر الامر یفصل الایات لعکم بلقاء ربکم توقنون (ترجمہ) شمس و قمر کو مزور بنا دیا۔ ہر ایک مدت معینہ میں دورہ کرتا ہے‘ حکومت کرتاہے نشانیاںبیان کرتا ہے کہ شاید تم خدا کی ملاقات کا یقین کرو۔ سورہ بنی اسرائیل میں ہے : وجعلنا اللیل والنھار (سری اللیل والنھار) آیتین فمحونا آیۃ اللیل وجعلنا آیۃ النھار مبصرۃ لتبتغوا فضلا من ربکم ولتعلموا عدد السنین و الحساب چونکہ تاثیرات نیرین زیادہ ہیں اس لیے کہا ہے لتبتغو ا فضلا من ربکم ابر و باد و مہ و خورشید و فلک در کاراند تا توانائے بکف آری و بغفلت نخوری سورہ انعام میں ہے : والشمس والقمر حسبانا ذالک تقدیر العزیز العلیم وھو الذی جعل لکم النجوم لمتھتدو ا بھا فی ظلمات البرو البحر کہاں تک لکھوں پانچویں دن جانور ان آبی و طیور کی پیدائش کا بیان ہے اور چھٹے دن بڑے جانوروں کی خلقت کاذکر ہے‘ لیکن مقدار ان ایام کی کچھ مذکور نہیں۔ چونکہ حسب بیان گزشتہ پیدائش آسمان ‘ یعنی طبقات ہوا کی پہلے دن میں ہوئی اور دوسرے دن میں ان کی ترتیب کا بیان ہے اس لیے قرآن مجید میں مذکورہے: ثم استویٰ الی السماء وھی دخان فقضاھن سبع سموات فی یومین سبع سموات سے یہاں مقصود طبقات ہوا ہیں۔ چونکہ آسمان عوام الناس میں یہ نیلی چھت معروف ے جو طبقات ہوا بشکل دخان ہیں اس لیے تعین کے لیے ’’وہی دخان‘‘ کہا تاکہ ذہن حکماء کے آسمان کی طرف نہ بہکے۔ چونکہ ان چھ دن میں جمادات کے وجود کا کچھ ذکر نہیں ہے اور حضرت سلیمان نے کہا ہے کہ کوئی نئی چیز شمس کے نیچے نہیں ہے‘ اس لیے جمادات بھی انہی چھ چن میں پیدا ہوئے ہوں گے ‘ چونکہ معادن کا مزاج دیر میں حاصل ہوتا ہے اور نباتات یوم ثالث میں پیدا ہوتے تو قیاس ہوتا ہے کہ جمادات یوم رابع میں وجود پذیر ہوئے ہوں گے‘ اس لیے موالید ثلاثہ کا حصول چار دن میں ٹھہرتا ہے ۔ اس لیے خدا قرآن میں کہتا ہے : قدر فیھا اقواتھا فی اربعۃ ایام واضح ہو کہ چھ دن پیدائش آسمان و زمین و مافیھا کے یہود و نصافیٰ میںمشہور ہیں لیکن مقدار ان کی مجھول ہے ۔ انتہی کلامہ۔ علماء اسلام نے بھی جہاں جہاں قرآن مجید میں دنیا و مافیھا کے چھ یوم میں پیدا کرنے کا ذکر آیا ہے یوم کی مدت کے بڑھانے پر کوشش کی ہے۔ کسی نے تو ایام سے ایام آخرۃ مراد لیے ہیں جن کے ہر ایک دن کی مقدار ہزار برس کے برابر خیال کی ہے اور کسی نے ستۃ ایام سے ستۃ احوال مراد لیے ہیں اور کسی نے ستۃ اطوار اور کیس نے مجرد الحین و الوقت ‘مگر ہمارا یقین ہے کہ اسباب میں جو کچھ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے وہ نقلاً علی اعتقاد یہود ہے نہ بطور بیان حقیقت واقعہ کے تو ہم کو اس بحث میںپڑنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ فعلیھم ما علیھم مگر ہم کو اس سے بحث کرنی ہے کہ عربی زبان میں اور قرآن مجید میںیوم ایام یا الیوم کا لفظ کن کن معنوںمیں مستعمل ہوا ہے۔ یوم کے معنی لغۃً و شرعاً یوم زمانے کی اس مقدار کو کہتے ہیں جو آفتاب کے طلو ع ہونے سے اس کے غروب ہونے تک ہوتی ہے ۔ لسان العرب میں لکھا ہے : الیوم معروف مقدارہ من طلوع الشمس الیٰ غروبھا والجمع ایام (لسان العرب جلد ۱۶ صفحہ ۱۳۷) یعنی یوم کو سب لو گ جانتے ہیں اور اس کی مقدار ہے سورج کے نکلنے سے سورج کے غروب ہونے تک اور اس کی جمع آتی ہے ایام۔ قرآن مجید میں بھی اسی طرح دن کا اطلاق آیا ہے ۔ یعنی دن کو الگ بیان کیا ہے اور رات کو الگ جس سے ثابت ہوتاہے کہ دن کا اطلاق اس اجالے پر ہوتاہے جو سورج کے نکلنے سے پھر نکلنے تک ہوتا ہے۔ خدائے تعالیٰ نے سورۃ الحاقہ میں فرمایا ہے قوم عاد پر عذاب نازل ہونے میں کہ: واما عادفا ہلکوا بریح صر صر عاتیۃ سخرھا علیھم سبع لیال و ثمانیۃ ایام (سورۃ الحاقہ ۶۹ آیت ۶۔۷) قوم عاد پھر وہ ہلاک کیے گئے حد سے زیادہ جھکڑ والی آندھی سے کہ خدا نے اس کو ان پر سات راتیں اور آٹھ دن تک بھیجا تھا۔ اسی طرح خدائے تعالیٰ نے سورۃ القصص میں رات اور دن کو علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ: قل ارئیتم ان جعل اللہ علیکم اللیل سرمدا الیٰ یوم القیامۃ من الہ غیر اللہ یاتیکم بضیاء افلا تسمعون۔ قل ارئیتم ان جعل اللہ علیک النھار سرمدا الیٰ یوم القیامۃ من الہ غیر اللہ یاتیکم بلیل تسکنون فیہ افلا تبصرون۔ (سورۃ القصص ۲۸۔ آیت ۷۱۔۷۲) (ترجمہ) کہدے اے پیغمبر! کیا سمجھتے تم اگر اللہ کر دے تم پر رات کو ہمیشہ رہنے والی قیامت کے دن تک تو کون خدا ہے سوائے اللہ کے کہ روشنی تمہارے پاس لاوے۔ پھر کیا تم نہیں سنتے کہہ دے اے پیغمبر! کیا سمجھ تم اگر اللہ کر دے تم پر دن کو ہمیشہ رہنے والا قیامت کے دن تک تو کون خداہے سوائے اللہ کہ لاوے تمہارے پاس رات کو کہ آرام پکڑو اس میں۔ پھر کیا تم یہ نہیں دیکھتے ؟ پھر فرمایا: ومن رحمتہ جعل لکم اللیل والنھار لتسکنوا فیہ ولتبتغوا من فضلہ ولعلکم تشکرون۔ (سورۃ القصص آیت ۷۳) (ترجمہ) اپنی مہربانی سے بنائے تمہارے لیے رات اور دن تاکہ تم آرام پکڑو اس میں (یعنی رات میں ) اور تاکہ معاش کی تلاش کرو اس کے فضل سے (یعنی دن میں ) اور تاکہ تم شکر کرو مگر کبھی یوم کا اطلاق مجموع دن اور رات پر بھی ہونا ہے کبھی صرف وقت پر۔ لغات قرآن میں لکھا ہے کہ : الیوم بیاض النھار و یطلق علیٰ نفس الزمان ایضا فیشتمل اللیل والنھار۔ (لغات قرآن ورق ۱۵۵) یعنی یوم دن کا اجالا ہے اور وقت پر بھی بولا جاتا ہے پھر رات اور دن دونوں اس میں شامل ہوتے ہیں قرآن مجید میں بھی حضرت ذکریا کے قصے میں خدا نے فرمایا ہے کہ ذکریا نے کہا: قال رب اجعل لی آیۃ قال آیتک الا تکلم الناس ثلثۃ ایام الا رمزا واذکر ربک کثیرا وسبح بالعشی والابکار ۔ (سورۃ آل عمران) ’’اے میرے پروردگار! مقرر کر میرے لیے کوئی نشانی ۔ خدا نے کہاتیری نشانی یہ ہے کہ نہ بولے گا تو (امور دنیا میں) لوگوں سے تین دن تک مگر اشارے سے اور یاد کر اپنے پروردگا ر کو اورپاکی سے یاد کر اس کو شام کو اور صبح کو‘‘۔ اس آیت اورخصوصاً اخیر آیت میں شام اور صبح کے ذکر سے معلوم ہوتاہے کہ ثلثۃ ایام میں رات اور دن دونوں داخل ہیں۔ سب سے بڑی دلیل ثلثہ ایام میں رات اور دن دونوں کے داخل ہونے کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسی واقعے کو سورۃ مریم میں اس طرح بیان فرمایاہے: قال رب اجعل لی آیۃ قال آیتک الا تکلم الناس ثلث لیال سویا (سورۃ مریم آیت ۱۱) ’’حضرت ذکریا نے کہا کہ اے میرے پروردگار! مقرر کر میرے لیے کوئی نشانی ۔ خدا نے کہا کہ تیری نشانی یہ ہے کہ نہ بولے گا تو (دنیاوی امور میں) لوگوں سے پوری تین راتیں‘‘۔ پس تو پہلی آیت میں اس مدت کو دن سے تعبیر کرنا اور اس آیت میں رات سے‘ پورا ثبوت ہے کہ اس بات کا ہے کہ اس مدت میں دن اور رات دونوں شامل ہیں۔ اسی طرح کبھی لیل کے لفظ میں رات اور دن دونوں داخل ہوتے ہیں جیسے کہ حضرت ذکریا کے قصے کی دونوں آیتوں سے ثابت ہوتا ہے ۔ علاوہ اس کے خدا نے حضرت موسیٰ کے قصے میں فرمایا ہے کہ وواعدنا موسیٰ ثلثین لیلۃ واتممناھا بعشر فتم میقات ربہ اربعین لیلۃ (سورۃ الاعراف ۷ آیت ۱۳۸) ’’’ہم نے وعدہ کیا موسیٰ سے تیس راتوں کا اور پورا کیا ہم نے اس کو دس سے پھر پوری ہوئی معیاد اس کے پروردگارکی چالیس راتیں‘‘۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ لیل میں دن بھی داخل ہیں اور اس طرح کا استعمال ضدین پر تغلیباً ہوتا ہے‘ جیسا کہ مشرقین اور مغربین مشرق اور مغرب پر اور ظہرین ظہر اور عصر کی نماز پر اور مغربین اور عشائین مغر ب اور عشا کی نماز پر بولا جاتاہے۔ اب ہم مذکورہ بالا معنوں میں سے جن جن معنوں میں یوم کا استعمال قرآن مجید میں ہوا ہے اس کو جدا جدا بیا ن کرتے ہیں۔ یوم بمعنی معروف (سورۃ طہ آیت ۶۱) قال موعد کم یوم الزینۃ وان یحشر الناس ضحیٰ یعنی حضرت موسیٰ نے فرعون سے کہا کہ میعاد تمہارے جشن کا دن ہے اوریہ کہ اکٹھا کیے جاویں آدمی دن چڑھے۔ (سورۃ ہود آیت ۷۹) قال ہذا یوم عصیب یعنی جب حضرت لو ط کے پاس دو شخص یا دو فرشتے آئے تو وہ تنگ دل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ آج یہ دن مجھ پر سخت ہے۔ (سورۃ القمر آیت ۱۹) انا ارسلنا علیھم ریحا صرصرا فی یوم نحس مستمر یعنی خدا نے قوم عاد کی نسبت فرمایا کہ ہم نے ان پر بھیجی جھکڑ کی آندھی نحس دن میں برابر چلنے والی۔ (سورۃ البقر آیت ۲۶۱) قال کم لبثت قال لبثت یوما او بعض یوم یعنی خدا نے پوچھا (اس شخص سے ) کہ تو نے کتنی دیر کی۔ اس نے کہا کہ میں نے دیر کی ایک دن یا ایک دن سے کچھ کم۔ (سورۃ التوبہ آیت ۱۰۹) من اول یوم احق ان تقوم فیہ یعنی مسجد قباء کی نسبت خدا ن فرمایا کہ البتہ یہ مسجد ہے کہ بنیاد رکھی گئی ہے پرہیز گاری پر پہلے دن سے اور ٹھیک ہے کہ کھڑا ہو تو اس میں۔ (سورۃ البقر آیت ۱۶۱) قال لبثت یوما او بعض یوم یعنی کہنے والے نے کہا کہ میں ٹھہرا ایک دن یا ایک دن سے کچھ کم (سورۃ الکھف آیت ۱۸ و سورۃ المومنون آیت ۱۱۵) قالوا لبثنا یوما او بعض یوم یعنی اصحاب کہف جب اٹھے تو آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے دیر کی ایک دن یا ایک دن سے کچھ کم اور دوسری آیت میں کافروں کا قول ہے کہ ہ نے دنیا میں دیر کی‘ یعنی رہے ایک دن یا ایک دن سے بھی کم۔ (سورۃ الشعراء آیت ۳۸) فجمع السحرۃ لمیقات یوم معلوم یعنی فرعون کے جادوگر جمع ہوئے معین دن کو۔ (سورۃ ابراھیم آیت ۲۱) مثل الذین کفرو بربھم اعمالھم کرما دن اشدت بہ الریح فی یوم عاصف یعنی مثال ان لوگوں کے اعمال کی جو اپنے پروردگار سے منکر ہوئے ریت کی مانند ہے اس پر سخت آندھی چلی ہو سخت جھکڑ والے دن میں۔ (سورۃ الشعراء آیت ۱۵۵) قال ہذہ ناقۃ لہا شرب ولکم شرب یوم معلوم یعنی حضرت صالح نے کہا اپنی قوم سے کہ یہ اونٹنی ہے اس کے لیے پانی پینا ہے اورتمہارے لیے پانی پینا ہے دن معین میں۔ (سورۃ البلد آیات ۱۴) او اطعام فی یوم ذی مسغبۃ یا کھانا کھلانا بھوک کے دن میں۔ (سورۃ انعام آیت ۱۴۲) واتوا حقہ یوم حصادہ یعنی کھائو باغوں کے پھل اوردو حق اس کے کاٹنے کا۔ (سورۃ اعراف آیت ۷) یوم سبتھم یوم لا یسبتون یعنی یہودیوں کے سبت کے دن مچھلیاں بہت آتی تھیں اور جس دن کہ یہودیوں کا سبت نہ ہوتا تھا ا س دن کم آتی تھیں۔ (سورۃ توبہ آیت ۳) یوم الحج الاکسر یعنی حج اکبر کے دن (سورۃ مریم آیت ۱۵ و ۳۴) یوم ولدت ویوم اموت یعنی حضرت عیسیٰ کا قول ہے کہ جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا۔ یوم ولد ویوم یموت یعنی حضرت یحییٰ جس دن پیدا ہوئے اورجس دن مریں گے۔ (سورۃ توبہ آیت ۲۵) ویوم حنین یعنی خدا نے فرمایا کہ اللہ نے تمہاری مدد کی بہت جگہ اور حنین (کی لڑائی) کے دن۔ (سورۃ النحل آیت ۸۲) یوم ظعنکم ویوم اقامتکم یعنی خدا نے بنائے تمہارے لیے‘ چارپایوں کی کھالوں سے گھر کہ ان کو ہلکا جانتے ہو اپنے سفر کے دن اور اپنے قیام کے دن۔ (سورۃ طہ آیت ۱۰۴) ان لبثتم الا یوما یعنی کافروں کا پیشوا قیامت کے دن کہے گا کہ تم نہیں ٹھہرتے تھے‘ یعنی دنیا میں مگر ایک دن۔ (سورۃ البقر آیت ۲۵۰) قالو الا طاقۃ لنا الیوم بجالوت و جنودہ ان لوگوں سے کہا کہ ہم کو آج کے دن جالوت اور اس کے لشکر سے لڑنے کی طاقت نہیں۔ (سورۃ المائدہ آیت ۴) الیوم یئس الذین کفروا من دینکم یعنی آج کے دن ناامید ہو گئے کافر تمہارے دین سے۔ (سورہ المائدہ آیت ۵) الیوم اکملت لکم دینکم یعنی آج کے دن کامل کر دیا میں نے تمہارے لیے تمہارا دین۔ (سورۃ المائدہ آیت ۷) الیوم احل لکم الطیبات یعنی آج کے دن حلال کی گئیں تمہارے لیے پاک چیزیں۔ (سورۃ الانفال آیت ۵۰) وقال لا غالب لکم الیوم من الناس یعنی اورکہا نہیں غالب تم پر آج کے دن کوئی آدمیوں میں سے۔ (سورۃ ہود آیت ۴۵) قال لا عاصم الیوم من امر اللہ یعنی کہا حضرت نوح نے کہ نہیں بچانے والا آج خدا کے حکم سے ۔ (سورۃ یوسف آیت ۵۴) قال انک الیوم لدینا مکین امین یعنی مصر کے بادشاہ نے حضرت یوسف سے کہا کہ بے شک تو آج کے دن ہمارے نزدیک قدر والا امانت دار ہے۔ (سورۃ یوسف آیت ۹۲) قال لاتثریب علیکم الیوم یعنی حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ آ ج کے دن تم پر کچھ ملامت نہیں ہے۔ (سورۃ مریم آیت ۲۷) انی نذرت للرحمن صوما فلن اکلم الیوم انسیا یعنی مریم نے کہا کہ شک میں نے نذر کیا ہے اللہ کے لیے روزہ پھر نہیں بات کرنے کی میں آج کے دن کسی آدمی سے۔ (سورۃ طہ آیت ۶۷) وقد افلح الیوم من استعلیٰ یعنی سحرہ فرعون نے کہا کہ بے شک کامیاب ہو گا آج کے دن وہ شخص جو غالب آیا۔ (سورۃ مومن آیت ۳۰) لکم الملک الیوم ظاہرین فی الارض یعنی فرعون کے لوگوں میں سے ایمان والے شخص نے کہا ’’اے میری قوم تمہارے لیے بادشاہی ہے آج کے دن غالب ہو زمین پر‘‘۔ (سورۃ القلم آیت ۲۴) ان لا ید خلنھا الیوم علیکم مسکین یعنی داخل نہ ہووے اس باغ میں آج کے دن تمہارے پاس کوئی فقیر۔ (سورۃ یونس آیت ۹۲) فالیوم ننجیک ببدنک یعنی خدا نے فرعون سے اس کے دوبتے وقت پھر کہا کہ آج کے دن اونچی جگہ یعنی کرارے پر ڈال دیں گے تجھ کو تیرے بدن سمیت۔ (سورۃ مریم آیت ۳۹) لکن الظا لمون الیوم فی ضلال مبین یعنی ظالم آج کے دن ہیں گمراہی ظاہر میں۔ یوم بمعنی وقت یوم کے معنی عربی زبان میں مطلق وقت کے بھی آتے ہیں ‘ یعنی ساعت کے بلکہ لحظہ و لمحہ کے خواہ دن کی ہویا رات کی‘ جیسے ہم اپنی زبان میں کہیں کہ جس دن فلاں شخص آوے گا تو مجھے بڑی خوشی ہو گی۔ دن سے مراد اس وقت سے ہے جب وہ آوے‘ خواہ رات ہو یا دن اور آنے کا وقت صرف ایک لمحہ ہوتا ہے اور اس لیے جس دن کے معنی ہوتے ہیں جس دم کے ‘ بعینہ یہی محاورہ عربی زبان میںہے۔ لسان العرب میں لکھا ہے: وقد یراد بالیوم الوقت مطلقاومنہ الحدیث تلک ایام الھرج ای وقتہ ولا یختص بالنھار دون اللیل (لسان العرب) یعنی کبھی یوم سے مطلق وقت مراد لی جاتی ہے۔ یہی معنی ہیں اس حدیث میں ‘ یہ فتنہ کے ایام ہیں‘ یعنی یہ وقت فتنہ و آشوب کا ہے اورکچھ رات کے سوا دن سے مخصوص نہیں۔ وقالو انا الیوم افعل کذالا یریدون یوما بعینہ ولکنھم یریدون الوقت الحاضر حکاہ سیبویہ ومنہ قولہ عزوجل الیوم اکملت لکم دینکم (لسان العرب جلد ۱۶ صفحہ ۱۳۷) یعنی کہتے ہیں میں آج کے دن ایسا کروں گا‘ یہاں دن سے بعینہ دن مراد نہیں ہے‘ بلکہ وقت موجودہ مرا دہے ۔ سیبویہ نے ایسا ہی لکھا ہے اور اسی معنی میں ہے خدا کا قول’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا‘‘۔ قرآن مجید میں قیامت یا حالات قیامت میں لفظ یوم کا بمعنی وقت مطلق استعمال ہوا ہے ۔ یوم معروف یا یوم طویل کے معنوں میںنہیں ہوا۔ وقت مطلق کو ہم اپنی زبان میں د م سے تعبیر کرتے ہیں مثلاً یوم تقوم الساعۃ (روم آیت ۱۱) کا ٹھیک ترجمہ ہم کریں گے‘ جس دم آکھڑی ہو گی وہ گھڑی۔ یہاں یوم کے معنی لحظہ یا لمحہ کے ہیں جس میں کچھ امتداد نہیں ہے اور اس لیے اس کا ٹھیک ترجمہ ہماری زبان میں دم کا لفظ ہے۔ مفسرین نے بھی یہی معنی بیان کیے ہیں ۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں ھذا یوم لا ینطقون (سورۃ مرسلات آیت ۳۸ ) کی تفسیر میں جو حالات قیامت کے متعلق آیت ہے لکھاہے : قال الفراء اراد بقولہ یوم لا ینطقون تلک الساعۃ وذالک القدر من الوقت الذی لا ینطقون فیہ کما یقوم آتیک یوم بقدم فیلان و المعنی ساعۃ یقدم ولیس المراد بالیوم کلہ لان القدوم انما یکون فی ساعۃ یسیرۃ ولا یمتد فی کل الیوم۔ (تفسیر کبیر الجزء السادس صفحہ ۴۴۴) (ترجمہ) ’’فراء کا قول ہے کہ اس آیت میں یوم سے ساعت مراد ہے اور وہ اتنا ہی وقت ہے جس میں نہ بول سکیں گے ‘ جیسے کہتے ہیں میں تیرے پاس آئوں گا جس دن فلاں شخص آئے گا یعنی جس دم۔ یہاں دن سے ساراد ن مراد نہیں ہے‘ کیونکہ آنا صرف ایک ذرا سی ساعت میں ہوتا ہے۔ سارے دن کا امتداد اس میں شامل نہیں ہے‘‘۔ سورۃ الحجر اور سورۃ ص میں خدا نے شیطان کی نسبت فرمایا ہے: وان علیک اللعنۃ الی یوم الدین قال رب فانظر نی الیٰ یوم یبعثون۔ قال فانک من المنظرین الیٰ یوم الوقت المعلوم ۔ (سورۃ الحجر آیت ۳۵۔۳۶۔ ۳۷۔۳۸) (سورۃ ص آیت ۷۹۔۸۰۔۸۱۔۸۲) (ترجمہ) ’’تجھ پر لعنت ہے قیامت کے دن تک۔ شیطان نے کہا اے خدا! مجھے یوم قیامت تک مہلت دے۔ خدا نے فرمایا تجھے قیامت تک مہلت ہے۔ اس کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں: قولہ فانظر نی متعلق بما تقدم و التقدیر اذا جعلتنی رجیما ملعونا الیٰ یوم الدین فانظرنی فطلب الا بقاء من اللہ تعالیٰ عند الیاس من الاخرۃ الیٰ وقت قیام القیامۃ لان قولہ الیٰ یوم یبعشرن المراد منہ یوم البعث و النشور وہو یوم القامۃ۔ (تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ ۹۸) یعنی ’’فانظرنی پہلی آیت سے متعلق ہے اورمطلب مقدریہ کہ جب تو نے مجھے قیامت تک رجیم و ملعون کر دیا تو مجھے مہلت دے۔ اس نے آخر ت سے مایوس ہو کر وقت قیامت تک اپنے باقی رہنے کی خدا سے درخواست کی‘ کیونکہ یوم یبعثون سے یوم بعث و نشور ‘ یعنی یوم قیامت مراد ہے‘‘۔ خدا تعالیٰ نے سورۃ الحجر کی مذکورہ بالا آیت میں اور سورۃ ص میں شیطان کے اسی قصے میں یوم القیامۃ کو بیان کیا ہے الوقت المعلوم سے جیسے کہ مذکورہ بالا آیت میں ہے اور سورۃ واقعہ میں یوم القیامۃ کو بیان کیاہے یوم معلوم سے ‘جہاں فرمایا ہے : لمجموعون الیٰ میقات یوم معلوم (سورۃ واقعہ آیت ۵۰) یہ صاف دلیل ہے کہ جہاں قرآن مجید میں یوم القیامۃ آیا ہے یوم کو حالات قیامت کی طرف مضاف کیا ہے وہاں یوم معروف یا یوم طویل مراد نہیں ‘ بلکہ قیامت مراد ہے جس کے معنی یہ ہوتے ہیں جس دم واقعات قیامت ہوں گے۔ یوم القیامۃ تو قرآن مجید میں بہت جگہ آیا ہے اور مشہور و معروف لفظ ہے‘ لیکن اس کے سوا یوم کا لفظ اور لفظ کی طرف یا کسی ایسے لفظ کی طرف جس سے حالات قیامت ظاہر ہوتے ہیں یا اور کسی طرح پر ان حالات کے ساتھ واقعات ہوا ہے اور اس سے بھی یوم قیامت مراد ہے۔ ان کو ہم اس مقام پر لکھتے ہیں اس مقصد سے کہ ان مقامات میں بھی یوم سے یوم معروف یا یوم طویل مراد نہیں ہے‘ بلکہ وقت مراد ہے جبکہ قیامت قائم ہو۔ الفاظ جو یوم القیامۃ کے مترادف آئے ہیں یوم الاخر یہ بھی بہت جگہ ہے اورمشہور و معروف لفظ ہے بمعنی یوم القیامۃ یوم ینفع الصادقین صدقھم یوم البعث سورۃ مائدہ آیت ۱۱۹‘ سورۃ روم آیت ۵۶۔ سورۃ اعراف آیت ۱۳۔ سورۃ نور آیت ۱۰۲ سورۃ صافات آیت ۱۴۴ یوم یبعثون سورۃ صافات آیت ۲۲۱۔ سورۃ ذاریات آیت ۱۲ وغیرہ یوم الدین سورۃ صافات آیت ۲۲۱۔ سورۃ ذاریات آیت ۱۲ ۔ سورۃ المعارج آیت ۲۶۔ سورۃ المدثر آیت ۴۷ وغیرہ۔ یوم الوعید سورۃ ق آیت ۱۹ یوم الخلود سورۃ ق آیت ۳۳ یوم التغابن سورۃ تغابن آیت ۹ یوم الفصل سورۃ مرسلات آیت ۱۳ ‘ ۱۴‘ ۳۸ وغیرہ یوم لاینطقون سورۃ مرسلات آیت ۲۵ یوم لا بیع فیہ ولا خلۃ ولا شفاعۃ سورۃ بقر آیت ۲۵۵‘ سورۃ ابراہیم آیت ۳۶ یوم مجموع لہ الناس سورۃ ہود آیت ۱۰۵ یوم الجمع سورۃ تغابن آیت ۹ یوم مشھود سورۃ ہود آیت ۱۰۵ یوم لا مردلہ من اللہ سورۃ روم آیت ۴۲۔ سورۃ شوریٰ آیت ۴۶ یوم عسر سورۃ قمر آیت ۸ یوم عسیر سورۃ المدثر آیت ۹ یوم یلقونہ سورۃ توبہ آیت ۷۸ یوم عظیم سورۃ شعراء آیت ۱۸۹۔ سورۃ انعام آیت ۱۱۵ وغیرہ یوم الحساب سورۃ ص آیت ۱۵۔ سورۃ المومن آیت ۲۸ یوم الوقت المعلوم سورۃ ص آیت ۸۲ یوم یوعدون سورۃ المعارج آیت ۴۴ یوم الحق یوم کبیر سورۃ النباء آیت ۳۹ یوم الیم یوم محیط سورۃ ہود آیت ۳۔۲۸۔۸۵ یوم لا تستاخرون عنہ ساعۃ ولا تستقدمون سورۃ السبا آیت ۲۹ یوم معلوم سورۃ الواقعہ یوم لا ریب فیہ سورۃ آل عمران آیت ۷‘ ۲۴ یوم تشخص فیہ الابصار سورۃ الحجر آیت ۴۳ یوم الموعود سورۃ البروج آیت ۲ یوم تجدکل نفس ما عملت سورۃ آل عمران آیت ۲۸ یوم تبیض وجوہ و تسود وجوہ سورۃ آل عمران آیت ۱۰۲ یوم التقی الجمعان سورۃ آل عمران آیت ۱۴۹۔ سورۃ انفال آیت ۴۲ یوم یجمع اللہ الرسل سورۃ المائدہ آیت ۱۰۸ یوم ینفخ فی الصور سورۃ انعام آیت ۷۳ یوم یاتی بعض آیات ربک سورۃ نعام آیت ۱۵۹ یوم یاتی تاویلہ سورۃ اعراف ۵۱ یوم الفرقان سورۃ انفال آیت ۴۲ یوم یحمیٰ علیھا فی نارجھنم سورۃ توبہ آیت ۳۵ یوم خلق السموات والارض سورۃ توبہ آیت ۳۶ یوم یاتیھم لیس مصروفا عنھم سورۃ ہود آیت ۱۱ یوم یاتی لاتکلم نفس الا باذنہ سورۃ ہود آیت ۱۰۷ یوم یقول الحساب سورۃ ابراہیم آیت ۴۲ یوم یاتیھم الحساب سورۃ ابراہیم آیت ۴۴ یوم تبدل الارض غیر الارض سورۃ ابراہیم آیت ۴۹ یوم تاتی کل نفس تجادل عن نفسھا سورۃ نحل آیت ۱۱۲ یوم یدعو کم فتستجیبون سورۃ الا سریٰ آیت ۵۴ یوم یدعو ا کل اناس بامامھم سورۃ الاسریٰ آیت ۷۳ یوم یبعث حیا سورۃ مریم آیت ۱۵۔۳۴ یوم الحسرۃ سورۃ مریم آیت ۴۰ یوم نظوی السماء سورۃ انبیا آیت ۱۰۴ یوم نحشر المتقین الی الرحمن سورۃ مریم آیت ۸۸ یوم ترونھا نذھل کل مرضعۃ سورۃ الحج آیت ۲ یوم تشھد علیھم السنتھم و ابدیھم وارجلھم سورۃ النور آیت ۴۴ یوم یرون الملئکۃ سورۃ فرقان آیت ۲۴ یوم لا ینفع مال ولا بنون سورۃ الشعراء آیت ۸۵ یوم یغاشھم العذاب سورۃ عنکبوت آیت ۵۵ یوم الفتح سورۃ سجدہ آیت ۲۹ یوم تقلب وجوھھم سورۃ احزاب آیت ۶۶ یوم التلاق سورۃ مومن آیت ۲۵ یوم الازفۃ سورہ مومن آیت ۱۸ یوم التناد سورہ مومن آیت ۳۴ یوم تولون مدبرین سورہ مومن آیت ۳۵ یوم لا ینفع الظالمین سور ہ مومن آیت ۵۵ یوم تاتی السماء بد خان سورہ دخان آیت ۹ یوم نبطش البطشۃ الکبریٰ سورہ دخان ۱۵ یوم لا یغنی مولی عن مولی شئی سورہ دخان آیت ۴۱ یوم یرون ما یوعدون سورہ احقاف آیت ۳۴ یوم نقول لجھنم سورۃ ق آیت ۲۹ یوم بنادی المنادی سورۃ ق آیت ۴۰ یوم یسمعون الصیحۃ بالحق سورۃ ق آیت ۴۱ یوم تشقق الارض عنھم سورۃ ق آیت ۴۳ یوم ہم علی النار یفتنون سورۃ الذاریات آیت ۱۳ یوم تمور السماء سورۃ الطور آیت ۱۳ یوم لا یغنی عنھم کیدھم شیئا سورۃ الطور آیت ۴۶ یو یدع الداع الی شیئی نکر سورۃ قمر آیت ۶ یوم یسحبون فی النار سورۃ قمر آیت ۴۸ یو م تری المومنین والمومنات سورۃ الجدید آیت ۱۲ یوم یقول المنافقون والمنافقات سورۃ الحدید آیت ۱۳ یوم یبعثھم اللہ جمیعا سورۃ مجادلہ آیت ۷‘ ۱۹ یوم یکشف عن ساق سورۃ القلم آیت ۴۲ یوم تکون السماء کالمھل سورۃ المعارج آیت ۱۳ یوم یخرجون من الاجداث سورۃ المزمل آیت ۱۴ یوم ترجف الارض والجبال سورۃ المزمل آیت ۱۴ یوم یقوم الروح والملائکۃ سورۃ النباء آیت ۴۱ یوم ینظر المرء ماقدمت سورۃ النباء آیت ۴۱ یوم ترجف الراجفۃ سورۃ النازعات آیت ۶ یوم یتذکر الانسان ماسعیٰ سورۃ النازعات آیت ۳۵ یوم یرونھا لم یلبثوا سورۃ النازعات آیت ۴۶ یوم یفرا لمرئمن اخیہ سورۃ عبس آیت ۳۴ یوم لا تملک نفس لنفس شیئا سورۃ الانفطار آیت ۱۹ یوم یقوم الناس لرب العالمین سورۃ المطففین آیت ۶ یوم یکون الناس کالفراش المبثوث سورۃ القارعہ آیت ۳ یوم نحشرھم جمیعا سورۃ انعام آیت ۲۲ یوم یقول کن فیکون سورۃ انعام ۷۲ یوم یحشرھم سورۃ یونس آیت ۴۶ یوم نبعث من کل امۃ شہیدا سورۃ النحل آیت ۸۶ یوم تیسر الجبال و تری الارض بارزہ سورۃ کہف آیت ۴۵ یوم یقوم نادوا شرکائی الذین زعمتم سورۃ کہف یوم ببعث حیا سورۃ مریم آیت ۱۵ یوم ابعث حیا سورۃ مریم آیت ۲۴ یوم یرجعون الیہ سورۃ النور آیت ۶۴ یوم تشقق السماء سورۃ الفرقان آیت ۲۷ یوم یعض الظالم علیٰ بدیہ سورۃ الفرقان آیت ۲۹ یوم بنادیھم سورۃ قصص آیت ۶۲۔۶۵ یوم تقوم الساعۃ سورۃ الروم آیت ۱۱ یوم یقوم الشھاد سورہ مومن ۵۴ یوم بعرض الذین کفروا علی النار سورۃ احقاف آیت ۱۹۔۳۳ واتقوا یوما سورۃ البقر آیت ۴۵ یوم تقلب فیہ القلوب والابصار سورۃ النور آیت ۳۷ کان یوما علی الکافرین عسیرا سورۃ الفرقان آیت ۲۸ یوما لا یجزی والدعن ولدہ سورۃ لقمان آیت ۳۲ یوما من العذاب سورۃ مومن آیت ۵۲ یوما بجعل الوالدان شیبا مزمل آیت ۱۷ یوما کان شرہ مستطیرا سورۃ الانسان آیت ۷ یوما عبوسا قمطر یرا سورۃ الانسان ۱۰ یوما ثقیلا سورۃ الانسان ۲۷ الیوم تجزون عذاب الھون سورۃ انعام آیت ۹۳ ان الخزی الیوم والسوء علی الکافرین سورۃ النحل آیت ۲۹ فھو ولیھم الیوم ولھم عذاب الیم سورۃ النحل آیت ۶۵ کفیٰ بنفسک الیوم علیک حسیبا سورۃ الاسریٰ آیت ۱۵ لکن الظالمون الیوم فی ضلال مبین سورۃ مریم آیت ۳۹ وکذالک الیوم تنسیٰ سورۃ طہ آیت ۱۲۶ لا تجرئو الیوم انکم منالا تنصرون سورۃ مومنون آیت ۶۷ انی جزیتھم الیوم بما صبروا سورۃ مومنون آیت ۱۱۳ لا تدعوا الیوم ثبورا واحدا سورۃ الفرقان آیت ۱۵ ان اصحب الجنۃ الیوم فی شغل فاکھون سورۃ یس آیت ۵۹ اصلوھا الیوم بما کنتم تکفرون سورۃ یس آیت ۶۴ الیوم نختم علیٰ افواھھم سورۃ یس آیت ۶۴ بل ہم الیوم مستسلمون سورۃ صافات آیت ۲۶ لمن الملک الیوم سورۃ مومن آیت ۱۶ الیوم تجزی کل نفس بما کسبت سورۃ مومن آیت ۱۷ لا ظلم الیوم سورۃ مومن آیت ۱۷ ولن ینفعکم الیوم سورۃ الزخرف آیت ۶۸ الیوم تجزون سورۃ الجائیہ آیت ۲۷ بشراکم الیوم سورۃ الحدید آیت ۱۲ لا تعتذروا الیوم سورۃ التحریم آیت ۷ فلیس لھم الیوم سورۃ الحاقہ آیت ۳۵ فالیوم ننساھم سورۃ اعراف آیت ۴۹ فالیوم لا یملک بعضکم لبعض سورۃ سبا آیت ۴۱ فالیوم لا تظلم نفس شیئا سورۃ یس آیت ۵۴ فالیوم لا یخرجون منھا سورۃ الجاثیہ آیت ۳۴ فالیوم لا یوخذمنکم فدیۃ سورۃ الحدید ۱۴ فالیوم الذین آمنوا من الکفار یضحکون سورۃ المطففین آیت ۳۴ ھذا یومکم الذی کنتم توعدون سورۃ انبیاء آیت ۱۰۳ لقاء یومکم ھذا سورۃ انعام آیت ۱۳۰ ننساھم کمانسوا لقاء یومھم ہذا سورۃ اعراف آیت ۴۹ فویل الذین کفرو ا من یومھم الذی یوعدون سورۃ الذاریات آیت ۶۰ یومھم بارزون لا یخفی علی اللہ منھم شیئی سورۃ مومن آیت ۱۶ یومھم الذی یوعدون سورۃ الزخرف آیت ۴۳ یلاقوا یومھم الذی فیہ یصعقون سورۃ الطور آیت ۴۵ یوم الظلہ سورۃ شعراء آیت ۱۸۹ اب ہم کو باقی رہا بیان ان آیتو ں کا جن میں یوم مقدار پچاس ہزار برس یا ایک ہزار برس کی بیان ہوئی ہے: سال سائل بعذاب واقع للکافرین لیس لہ دافع من اللہ ذی المعارج تعرج الملائکۃ والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین سنۃ (سورۃ المعارج آیت ۱‘۲) ’’پوچھا ایک پوچھنے والے نے کافروں کے لیے ہونے والے عذاب سے جس کو کوئی روکنے والا بڑے درجوں والے اللہ سے نہیں ہے۔ چڑھتے ہیں فرشتے اور روح اس کے پاس دن میں جس کی مقدار ہے پچاس ہزار برس۔ تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے: ذی المعارج ذی المصاعد وھی الدرجات التی بصعدفیھا الکلم الطیب والعمل الصالح او یترقی فیھا المومنون سلوکھم او فی دار ثوابھم۔ تعرج الملائکۃ والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ۔ استیناف لبیان ار تفاع تلک المعارج و بعد مدتھا علی التمثیل و التخیل و المغنی انہ لوقدر قطعھا فی زمان لکان فی زمان یقدر بخمسین الف سنۃ من سنی الدنیا۔ وقیل فی یوم متعلق بواقع والمراد بہ یوم القیامۃ واستطالتہ اما تشدتہ علی الکفار اولکثرۃ مافیہ من الحالات والمحلسبات (تفسیر بیضاوی جلد دوم صفحہ ۳۸۶) (ترجمہ) ذی المعارج کے معنی ہیں مصاعہ (چڑھنے کے مقامات) والا اور وہ درجے ہیں جہاں پاکیزہ باتیں اور نیک عمل چڑھتے ہیں یا مسلمان اپنے طریق عمل با مقام ثواب میں وہاں ترقی کرتے ہیں۔ تعرج الملائکۃ الخ یہ ایک جدا بیان ہے ان مدارج کی بلندی اور ان کی درازی مسافت کا بطور تمثیل و تخیل کے اور معنی یہ کہ اس مسافت کا طے کرنا بلحاظ وقت کے اندازے کے کیا جائے تو دنیا کے برسو کے حساب سے پچاس ہزار برس کا عرصہ خیال میں آئے گا۔ اور اگر فی یوم کو واقع سے متعلق کریں تو ا س سے قیامت کا زمانہ مراد ہو گا اور اس کی درازی یا تو اس لیے ہے کہ اس کی شدت کفار پر ہو گی یا ا س لیے کہ اس دن سے حسابات و حالات پیش آئیں گے‘‘۔ اور تفسیر کشاف کا مصنف لکھتا ہے: وقال صاحب الکاشف ذی المعارج ذی المصاعد جمع معرج ثم وصف المصاعد و بعد مدتھا فی العلووالارتفاع۔ فقال تعرج الملائکۃ والروح الیہ الی عرشہ و حیث تھبط منہ او امرہ فی یوم کان مقدار کمقدار مدۃ خمسین الف سنۃ ممایعد الناس۔ وقد جعل فی یوم من صلۃ واقع ای بقع فی یوم طویل مقدارہ خمسون الف سنۃ من سنیکم وھو یوم القیامۃ اما ان یکون استطالۃ لہ لشدتہ علی الکفار واما لانہ علی الحقیقۃ کذالک (تفسیر کشاف جلد ثانی صفحہ ۱۵۲۶ مطبوعہ کلکتہ) (ترجمہ) ’’معارج معرج (چڑھنے کا مقام) کی جمع ہے۔ ذی المعارج کے معنی ہیں درجوں والا۔ پھر ان درجوں کا اور ان کی درازی مسافت کا بلحاظ بلندی بیان کیا ہے کہ تعرج الملائکۃ الخ یعنی اس کے عرش تک یا وہاں تک جہاں سے اس کے حکم نازل ہوتے ہیں ایک دن میں جس کی مقدار عرصہ پچاس ہزار سال کی مقدار کی مانند ہے آدمیو ں کے شمارسے۔ اور کبھی فی یوم کو واقع کے متعلق کیا جاتاہے‘ یعنی عذاب کا وقوع ایک طویل دن میں ہو گا جس کی مقدار تمہارے برسوں سے پچاس ہزار برس ہے اور وہ یوم قیامت ہے۔ یا تو اس کی درازی کفار پر اس دن کی شدت سے ہو گی یا درحقیقت اتنی ہی ہو گی‘‘۔ تعرج المائکۃ والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسینالف سنۃ (سورۃ معارج آیت ۴) تفسیر کبیر میں اس آیت کی تفسیر اس طرح لکھی ہے: ویحتمل ان یکون المراد منہ استطالۃ ذالک الیوم لشدتہ علی الکفار و تحتمل ان یکون المراد تقدیر مدتہ وعلی ہذا فلیس المراد تقدیر العذاب بھذا المقدار بل المراد التنبیہ علی طول مدت العذاب۔ واعلم ان ہذا الطول انما یکون فی حق الکافر اما فی حق المومن فلا۔ والالیل علیہ آلایۃ والخبر۔ اما آلایۃ فقولہ تعالی اصحاب الجنۃ یومئذ خیر مستقرا واحسن مقیلا۔ واتفقوا علی ان ذالک ھو الجنۃ۔ واما الخبر فماروی عن ابی سعید الخدری انہ قال قیل لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماطول ھذا الیوم فقال والذی نفسی بیدہ انہ لیخفف عن المومن حتی یکون علیہ اخف من صلاۃ مکتوبۃ یصلیھا فی الدنیا۔ (ترجمہ) ’’احتما ل ہے کہ اس سے اس یوم کی درازی مراد ہو بسبب شدت اس دن کے جو کفار پر ہو گی اور احتما ل ہے کہ یوم کی مدت کا اندازہ مراد ہو اور اس طور پر ا س مقدار سے عذاب کا اندازہ مراد نہ ہو گا۔ بلکہ مدت عذاب کی درازی پر تنبیہہ کرنا مقصود ہو گا۔ اور سمجھو کہ یہ درازی کافر کے حق میں ہو گی نہ کہ مومن کے حق میں۔ اس پر دلیل ہے ایک آیت اور ایک حدیث ۔ آیت تو یہ ہے جس کا مطلب ہے جنت والے اس دن اچھے مقام پر اور عمدہ آرام گاہ میں ہوں گے۔ سب متفق ہیں کہ اس سے جنت مراد ہے اور حدیث یہ ہے کہ جو ابی سعید الخدری سے روایت کی گئی ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت سے پوچھا گیا کہ اس دن کی درازی کس قدر ہو گی‘ آنحضرت نے فرمایا کہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ وہ اس دن کو مسلمان پر اس قدر ہلکا کر دے گا کہ فرض نماز جو وہ دنیا میں پڑھتا ہے اس سے بھی کم دیر اس کو معلو م ہو گی‘‘۔ القول الثانی ہو ان ہذہ المدۃ واقعۃ فی الآخرۃ لکن علی سبیل التقدیر لا علی سبیل التحقیق والمعنی انہ لو اشتغل بذالک القضاء والحکومۃ اعقل الخلق واذ کاھم لبقی فیہ حمسین الف سنۃ ثم انہ تعالی یتمم ذالک القضاء والحکومۃ فی مقدار نصف یوم من ایام الدنیا (تفسیر کبیر الجزء السادس صفحہ ۳۵۰) ’’دوسرا قول یہ ہے کہ یہ مدت آخرت میں واقع ہو گی ‘ مگر بطور فرض کے لیے نہ کہ حقیقت میں اور معنی یہ کہ دنیا کا سب سے زیادہ دانشمند اور ذہین آدمی امور قیامت کو فیصلہ کرنے لگے تو پچاس ہزار برس ان میں مشغول رہے پھر خدا ان معاملات کو دنیا کے آدھے دن میں طے کر دے گا۔ مدارک التنزیل میں اس آیت کی تفسیر اس طرح ہے کہ : ذی المعارج ای مصاعد السماء للملائکۃ جمع معرج وھو موضع العروج ثم و صف المصاعد وبعد مدتھا فی العلو والرتفاع فقال تعرج الملائکۃ و الروح ای جبریل علیہ السلام خصہ بالذکر بعد العموم لفضلہ و شرفہ او خلقھم حفظۃ علی الملائکۃ۔ کما ان الملائکۃ حفظۃ علینا او ارواح المومنین عند الموت الیہ الی عرشہ ومھبط امرہ یف یوم من صلۃ تعرج کان مقدارہ خمسین الف سنۃ من سنی الدنیا او صعدفیہ غیرا لملائکۃ او من صلۃ واقع ای یقع فی یوم طویل مقدارہ خمسون الف سنہ من سنیکم وھو یوم القیامۃ فاما ان یکون استطالۃ لہ لشدتہ علی الکفار اولا نہ علی الحقیقۃ کذالک فقد قیل فیہ خمسون موطنا کل موطن الف سنۃ وما قدر ذالک علی المومن الاکمابین الظھرو العصر۔ (تفسیر مدارک التنزیل مطبوعہ افضل المطابع صفحہ ۲۹۲) (ترجمہ) ’’معارج معرج کی جمع ہے اور اس سے آسمان میں فرشتوں کے چڑھنے کے مقامات مراد ہیں۔ پھر ان مقامات کی بلندی اور مسافت کا بیان کیا ہے کہ تعرج الملائکۃ الخ روح سے یا تو جبریل مراد ہے جس کی فضیلت کے سبب سے عام فرشتوں کے بعد خاص طور پر اس کا ذکر کیا ہے یا اس سے مراد ہیں وہ جو فرشتوں پر نگہبان ہیں جیسے فرشتے ہم پر یاموت کے وقت پر اہل ایمان کی روحیں مراد ہیں الپہ سے مراد ہے اس کے عرش تک یا وہاں تک جہاں سے اس کا حم نازل ہوتا ہے کہ فرشتوں کے سوا اگر کوئی اور چڑھے تو دنیا کے حساب سے پچاس ہزار برس میں وہاں پہنچے اور اگر فی یوم واقع سے متعلق ہو تو یہ معنی ہیں کہ عذاب ایک یوم طویل میں واقع ہو گا جس کی مقدار تمہارے برسوں سے پچاس ہزار سال کے برابر ہے اور وہ یوم قیامت ہے۔پھر یا تو اس کی درازی کفار پر اس کی شدت کی وجہ سے ہو گی یا حقیقت میں ایسی ہی ہو گی اور کہتے ہیں کہ قیامت میں پچاس مقامات ہیں۔ ہر مقام میں ہزار برس لگیں گے اور یہ تمام عرصہ مسلمان کو اتنا وقت معلوم ہو گا جتنا کہ ظہر اور عصر کے درمیان ہے۔ ذی المعارج کی نسبت اور عروج ملائکہ اور روح کی نسبت جو کچھ ان تفسیروں میں لکھاہے ان سے اس مقام پر ہم کچھ بحث نہیں کرتے‘ کیونکہ جو امر اس مقام پر ہم کو بیان کرنا ہے اس سے وہ بحث خارج ہے اگر خدا کو منظور ہے تو تفسیر میں اس سے بحث ہو گی۔ ا س وقت ہم صرف مدت یوم سے بحث ہے۔ تفسیر بیضاوی میں اس دن ک پچاس ہزار برس کی مقدار ہونے کی نسبت دو امر لکھے ہیں‘ اول یہ کہ دن کی مقدار پچاس ہزار برس کہنا بطور تمثیل او ر تخیل کے ہے جس سے معارج کے ارتفاع کا خیال پیداہو۔ پس اس صورت میں پچاس ہزار برس سے اس دن کی طوالت مراد نہ ہو گی۔ دوسرے یہ کہ اگر طوالت دن سے متعلق کی جاوے تو طوالت سے کافروں پر اس دن کی شدت مراد ہو گی یا اس دن میں جو بہت سے حالات اور حسابات ہوں گے اس سے مراد ہو گی (انتہیٰ)۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ہم سخت مصیبت کے دن کی نسبت کہتے ہیں کہ ایک ایک گھڑی ہزار ہزار برس کے برابر گزرتی ہے۔ اس پچھلے قول کی تصدیق میں امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں‘ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ‘ ایک آیت قرآن مجید کی اور ایک حدیث ابی سعید الخدری کی بیان کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بسبب شدائد کے کافروں کے لیے وہ دن یا وہ وقت پچاس ہزار دنوں کے برابر ہو گا اور مسلمانوں کے لیے فرض نماز پڑھنے میں جتنی دیر لگتی ہے اس سے بھی کم ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خمسین الف سے اس دن کی طوالت مراد نہیں ہے۔ تفسیر کبیر اور تفسیر مدار ک اور تفسیر کشف میں جو یہ لکھا ہے کہ احتمال ہے کہ پچاس ہزار برس سے اس دن کی طوالت مراد ہو ‘ سو یہ صرف احتمال ہی احتمال ہے ۔ کوئی سند اس کی بیان نہیں کی اور برخلاف اس کے شدائد مراد ہونے کی نسبت حدیث بھی بیان کی ہے۔ ہماری یہ دلیل ہے کہ جبکہ تمام قرآ ن مجید میں یوم کا لفظ بیان حالات قیامت میں وقت کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے تو اس آیت میں کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس سے وقت قیامت مراد نہ لیا جاوے اور خمسین الف سے شدائد اور وقت کی ‘ بلکہ یوم سے یوم معروف اور اس کی طوالت پچاس ہزار برس کی سمجھی جاوے (فتدبر) دوسری آیت سورۃ سجدہ کی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے : ید برالا مرمن السماء الی الارض ثم یعرج الیہ فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ مما تعدون (سورۃ سجدہ آیت ۴) (ترجمہ) ’’تدبیر کرتا ہے آسمان سے زمین کے کام کی پھر وہ چڑھ جاتا ہے اس کے پاس دن میں جس کی مقدار ہے ایک ہزار برس‘‘۔ تفسیر کبیر میں امام فخر الدین رازی نے اس کی تفسیر اس طرح پر لکھی ہے : قال الامام الفخر الرازی ثم یعرج الیہ معناہ واللہ اعلم ان امرہ ینزل من السماء علیٰ عبادہ و تعرج الیہ اعمالھم الصالحۃ الصادرۃ علیٰ موافقۃ ذالک الا مرفان العمل اثر الا مروقولہ تعالیٰ فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ مما تعدون ذالک اشارۃ الیٰ امتداد نفاذ الامر وذالک لان من نفذ امرہ غایۃ النفاذ فی یوم او یومین وانقطع لا یکون مثل من ینفذ امرہ فی سنین متطاولۃ فقولہ تعالیٰ فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ یعنی یدبر الامر فی زمان یوم منہ الف سنۃ فکم یکون شھر منہ وکم تکون سنۃ منہ و کم یکون دھر منہ وعلیٰ ھذا الوجہ لافرق بسین ہذا وبین قولہ مقدارہ خمسین الف سنۃ لان ذالک اذا کانت اشارۃ الیٰ دوام نفاذ الامر فسواء یعبر بالا لف اوبالخمسین الفالا یتفاوت۔ (تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ ۲۱۹) (ترجمہ) ’’ثم یعرج الیہ۔ اس کے معنی ہیں (واللہ اعلم) یہ کہ خدا کے بندوں پر اس کا حکم آسمان سینازل ہوتا ہے اوراس حکم کے موافق بندوں کے نیک عمل اس کے پاس آجاتے ہیں‘ کیونکہ عمل نتیجہ ہے حکم کا فی یوم کان الخ یہ اشارہ ہے حکم کے مدت جاری رہنے کا‘ کیونکہ جس کا حکم انتہا درجہ تک دو دن جاری رہ کر منقطع ہو جاتا ہے‘ وہ اس کی مانند نہیں جس کے حکم سالہائے دراز جاری رہتا ہے‘ پس خدا کے اس قول سے مراد یہ ہے کہ وہکام کی تدبیر ایسے زمانے میں کرتا ہے جس کا ایک دن ہزار سال کا ہے۔ خیال کرو اس حساب سے مہینہ کتنا ہو گا اور سال کتنا اورزمانہ کتنا‘ اس طریق پر کوئی فریق نہیں ہے۔ اس کے ا س قول میں اورپچاس ہزار برس والے قول میں ‘ کیونکہ جب حکم کے ہمیشہ جاری رہنے کا اشارہ ہو گا تو اس کوہزار برس سے تعبیر کیا جائے یا پچاس ہزار برس سے برابر ہے اورکچھ فرق نہیں ہے‘‘۔ تفسیر بیضاوی میں اس کی تفسیر اس طرح ہے: یدبر الا مرمن السماء الی الارض یدبر الامر الدنیا باسباب سماویۃ کالملائکۃ و غیرھا نازلۃ آثار ھا الی الارض۔ ثم یعرج الیہ ثم یصعد الیہ و یثبت فی علمہ موجود ا فی یوم کان مقدار ہ الف سنۃ مما تعدون فی برھۃ من الزمان متطاولۃ یعنی بذالک استطالۃ ما بین التدبیر و الوقوع۔(تفسیر بیضاوی جلد ثانی صفحہ ۱۷۰) (ترجمہ) وہ امور دنیا کی تدبیر آسمانی اسباب سے مثل فرشتوں وغیر ہ کے کرتا ہے جن کے نتائج زمین پر ظاہر ہوتے ہیں۔ ثم یعرج الیہ‘ پھر وہ نتائج اس کے پاس جاتے ہیں اور اس کے علم میں موجود رہتے ہیں۔ فی یوم الخ یعنی زمانے کے دراز حصے میں اور اس سے تدبیر اور وقوع کی درمیانی مدت کی درازی مراد ہے۔ تفسیر کشاف کا مصنف لکھتا ہے: وقال صاحب الکشاف یدبر الامر المامور بہ من الطاعات والاعمال الصالحۃ ینزلہ مدبرا من السماء الی الارض ثم لا یعمل بہ ولا یصعد الیہ ذالک المامور بہ خالصا کما یریدہ و یرتضیہ الا فی مدۃ متطاولۃ لقلۃ عمال اللہ والخلص من عبادہ وقلۃ الاعمال الصاعدۃ لانہ لا یوصف بالصعود الا الخالص ودل علیہ قولہ علیٰ اثرہ قلیلاً ما تشکرون وقیل یدبر امر الدنیا من السماء الی الارض الیٰ ان تقوم الساعۃ ثم یعرج الیہ ذالک الا مرکلہ ای یصیر الیہ لیحکم فیہ فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ و ہو یوم القیامۃ۔ (تفسیر کشاف جلد ثانی صفحہ ۱۱۱۲) (ترجمہ) وہ تدبیر کرتا ہے ایسے امور کی جن کا حکم دیا گیا ہے مثلا عبادات اور نیک کاموں کے اور تدبیر کر کے ان کو آسمان سے زمین پر نازل کرتا ہے۔ پھر ان کے موافق عمل نہیں ہوتا اور وہ اعمال عرصہ دراز میں اس کے ارادہ اور مرضی کے موافق اس کے پاس پہنچتے ہیں۔ کیونکہ اس کے بندوں میں خالص عمل کرنے والوں کی اور ترقی یافتہ اعمال کی کمی ہے‘ اس لیے کہ عمل خالص کے سوا کوئی عمل ترقی نہیں پاتا۔ اس پر گواہ ہے خود اس کا قول جو اس کے بعد ہے کہ بہت تھوڑے شکر بجا لاتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے امو رکا انتظام کرتا ہے‘ یہاں تک کہ قیامت آ کھڑی ہو گی۔ پھر وہ امور سب کے سب اس کے پاس پہنچ جائیں گے‘ تاکہ وہ ان کا فیصلہ کرے ایسے دن جس کی مقدار ہزار بر س ہے اور وہ یوم قیامت ہے ‘‘۔ تفسیر مدارک التنزیل کا مصنف لکھتا ہے: یدبر الامر ای امر الدنیا من السماء الی الارض الیٰ ان تقوم الساعۃ ثم یعرج ذالک الامر کلہ ای یصیر الیہ لیحکم فیہ فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ وھو یوم القیامۃ مما تعدوان من ایام الدنیا‘‘ (تفسیر مدارک التنزیل جلد ثانی صفحہ ۱۱۶) (ترجمہ) ’’وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے امور کی تدبیر کرتا ہے‘ یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی‘ پھر وہ سب امور فیصلے کے لیے اس کے پاس پہنچ جائیں گے ایسے دن جس کی مقدار ہزار برس ہے اور وہ یوم قیامت ہے ایام دنیا کے حساب سے‘‘۔ ان تفسیروں کا حاصل یہ ہے کہ جو کچھ امام فخرالدین رازی نے لکھا ہے اس کے مطابق ہزار برس دواما جاری رہنا تدبیر کا مرا دہے نہ دن کی طوالت ہزار برس کی۔ قاضی بیضاوی نے جو کچھ لکھا ہے اس سے زمانہ دراز مرادہے نہ دن کی معین طوالت۔ تفسیر کشاف و مدارک میں فی یوم کان مقدار الف سنۃ سے صرف یوم قیامت تک تدبیر کا جاری رہنا مراد لیا ہے اور اس دن کی طوالت معین کا کچھ ذکر نہیں کیا پس اس آیت سے بھی یوم قیامت کا ہزار برس کا طویل ہو نا یا کسی زمانہ معین تک طویل ہونا پایا نہیں جاتا۔ تیسری آیت سورۃ حج کی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے: ویستعجلونک بالعذاب ولن یخلف اللہ وعدہ ان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون۔ (سورۃ حج آیت ۴۶) ’’جلدی چاہتے ہیں تجھ سے عذاب کو اور ہرگز اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا اوربے شک ایک دن تیرے پروردگار کے نزدیک جن دنوںسے تم گنتے ہو ہزار برس کی مانند ہے‘‘۔ صاحب تفسیر کبیر نے اس کی تفسیر اس طرح پر کی ہے: اعلم انہ تعالیٰ لما حکی من عظم ماہم علیہ من التکذیب انھم یستھزئون باستعجال العذاب فقال ویستعجلونک بالعذاب و فی ذالک دلالۃ علی انہ علیہ السلام کان یخوفھم بالعذاب ان استمروا علی کفر ہم فقال تعالی ولن یخلف اللہ وعدہ لان الوعد بالعذاب اذا کان فی الاخرۃ دون الدنیا فاستعجالہ یکون کالخلف ثم بین ان العاقل لا ینبغی ان یستعجل عذاب الآخرۃ فقال وان یوما عند ربک یعنی فیما ینالھم من العذاب و شدتہ کالف سنۃ مما تعدون وھو اولی الوجوہ۔ (تفسیر کبیر الجزء الرابع صفحہ ۵۷۰) ’’جب خد انے جھٹلانے پر ان کی آمادگی بیان کر دی کہ وہ جلدی عذاب چاہنے سے ہنسی کرتے ہیں تو فرمایا کہ وہ تجھ سے جلدی چاہتے ہیں عذاب کو اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ ان کو عذاب سے ڈراتے تھے اگر وہ اپنے کفر پر اصرار کرتے رہیں۔ پھر فرمایا کہ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا‘ اس لیے کہ جب عذاب کا وعدہ آخرت میں تھا نہ کہ دنیا میں تو اس کا جلدی چاہنا وعدہ خلافی کی مانند ہے ‘ پھر بیان کیا کہ عذاب آخر ت کا جلدی چاہنا دانا آدمی کا کام نہیں ہے۔پھر فرمایا کہ بے شک ایک دن تیرے رب کے نزدیک بلحاظ عذاب اور اس کی شدت کے جو ان پر واقع ہو گی ہزار برس کے برابر تمہارے حساب سے۔ تفسیر بیضاوی میں اس آیت کی تفسیر اس طرح ہے: ویستعجلونک بالعذاب المتوعد بہ ولن یخلف اللہ وعدہ لامتناع الخلف فی خبرہ فیصیبھم ما اوعدھم بہ ولو بعد حین لکنہ تعالی صبور لا یعجل بالعقربۃ و ان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون بیان لتناہی صبرہ و تانیہ حتی استقصر المدد الطوال اولتمادی عذاب و طول ایامہہ حقیقۃ او من حیث ان ایام الشدائد مستطالۃ۔ (تفسیر بیضاوی جلد ثانی صفحہ ۵۴) (ترجمہ) ’’اور وہ تجھ سے جلدی چاہتے ہیں عذاب کو جس کا وعدہ ہو چکا ہے ‘ اور خدا ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا‘ اس لیے کہ وہ جھوٹی خبر نہیں دیتا۔ پھر جس کا وعدہ کیا ہے ان کو پہنچے گی اگرچہ بعد ایک مدت کے ہو‘ لیکن خدا بردبار ہے سزا میں جلدی نہیںکرتا۔ وان یوم عند ربک الخ یہ بیان ہے اس کے صبر کی انتہا اور ڈھیل کا‘ یہاں تک کہ لمبی مدتوں کو کم سمجھا یا بیان ہے اس عذاب کی مدت اور اس کے دنوں کی درازی کا حقیقت میں اس لحاظ سے مصیبت کے دن دراز ہوتے ہیں‘‘۔تفسیر کشاف میں اس آیت کے معنی اس طرح بیان کیے گئے ہیں: وقیل معناء کیف یستعجلون بعذاب من یوم واحد من ایام عذابہ فی طول الف سنۃ من سنیکم لان ایام الشدائد مستطالۃ او کان ذالک الیوم الواحد لشدۃ عذابہ کالف سنۃ من سنی العذاب۔ (تفسیر کشاف جلد ثانی صفحہ ۹۱۰)۔ (ترجمہ) ’’تم کیونکر ایسے کا عذاب جلدی چاہتے ہو جس کے ایام عذاب میں سے ایک دن تمہارے برسوں سے ہزار برس کی برابر دراز ہے‘ اس لیے کہ مصیبت کے ایام دراز ہوتے ہیں یا وہ ایک ہی دن اس کے عذاب کی شدت کے سبب سے سالہائے عذاب میں سے ہزار سال کی برابر ہو گا‘‘۔ تفسیر مدارک التنزیل کا مصنف اس آیت کی تفسیر اس طرح کرتا ہے: ویستعجلونک بالعذاب ولن یخلف اللہ وعدہ وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون۔ ای کیف یستعجلون بعذاب من یوم واحد من ایام عذابہ فی طول الف سنۃ من سنیکم لان ایام الشدائد طوال۔ (تفسیر مدارک التنزیل جلد ثانی صفحہ ۳۰) (ترجمہ) ’’تم ایسے کا عذاب کس طرح جلدی چاہتے ہو جس کے عذاب کے دنوں میں سے ایک دن تمہار ے برسو ں میں سے ہزار برس کے برابر ہے‘ کیونکہ تکلیفوں کے دن تو لمبے ہواہی کرتے ہیں ‘‘۔ اس آیت کی نسبت بھی جو کچھ ان تفسیروں میں لکھاہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام فخر الدین رازی ہزار برس کو عذاب اور اس کی شدت سے جو کافروں پر واقع ہو گی تعبیر کرتے ہیں نہ طوالت یوم سے۔ قاضی بیضاوی لکھتے ہیں کہ ان یوما عند ربک کالف سنۃ بیان ہے علم خدا کا تاخیر عذاب میں یا مصیبت کے دن ہونے کا نہ فی الحقیقت دن کے اس قدر دراز ہونے کا۔ اور یہ احتمال جو انہوں نے لکھا ہے کہ اس سے دن کی درازی معین بھی مراد ہو سکتی ہے یہ صر ف احتمال ہی احتمال لکھا ہے اور کوئی سند اس کی نہیں لکھی۔ تفسیر مدارک اور تفسیر کشاف میں ہزار برس سے شدید عذاب الٰہی مراد لی ہے نہ یوم طوالت معینہ ۔ ان مفسروں نے حرف کاف پر جو الف آیا ہے اس پر خیال نہیں کیا۔ کالف سنۃ کہنا خدا کا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے ان کی کوئی معین طوالت مراد نہیں ہے۔ ان آیتوں میں جو ہم نے بعوض طول یوم شد ت عذاب کی تفسیر کو اختیار کیا ہے اس کا اشارہ ہم کو قرآن مجید کی ایک اور آیت سے بھی ملتا ہے جہاں خدانے فرمایا ہے: ویوم تشقق الارض بالغمام ونزل الملائکۃ تنزیلا الملک یومئذن الحق للرحمن و کان یوما علی الکافرین عسیرا۔ (سورۃ فرقان آیت ۲۸) ’’جس دن پھٹ جاوے گا آسمان بادلوں کی (مانند) اور اتارے جاویں گے فرشتے ایک طرح کے اوتارنے سے‘ اس دن کی بادشاہت برحق خدا کے لیے ہو گی اوریہ دن کافروں کے لیے سخت ہو گا‘‘۔ پس قیامت کے دن کا سخت و شدید ہونا کافروں کے لیے بیان ہوا ہے نہ اس کا لمبا ہونا ۔ تشقق السماء بالغمام کی تفسیر میں علماء مفسرین نے بیان کیا ہے کہ آسمان کے اوپر سے بادل اتریں گے اور اس سبب سے آسمان پھٹ جاوے گا۔ ہمارے نزدیک بادلوں کا آسمان پر سے اترنا اور اس سبب سے آسمان کا پھٹنا صحیح نہیں ہے‘ بلکہ صاف معنی یہ ہیں کہ غمام پر الف لام بعوض مضاف محذوف کے آیا ہے اور لفظ مثل مضاف محذوف ہے۔ تقدیر آیت کی یہ ہے کہ ویوم تشقق السماء بمثل السحاب ‘ یعنی جس دن آسمان مانند بادلوں کے پھٹ جاویں گے۔ ایام جمع یوم (سورۃ القر آیت ۱۸۰ و ۱۸۱) فعدۃ من ایام اخر یعنی جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ ان دنوں کو گن کر اور دنوں میں روزے رکھ لے۔ (سورۃ البقر آیت ۱۹۲ و سورۃ المائدہ آیت ۹۱) من لم یجد فصیام ثلثۃ ایام یعنی حج تمتع میں جو کچھ میسر ہو قربانی کرے اور جس شخص کو نہ ملے تو روزے ہیں تین دن کے حج میں۔ (سورۃ البقر آیت ۱۹۹ و سورۃ الحج آیت ۳۵) واذکرواللہ فی ایام معدودات یعنی یاد کرو اللہ کو گنے ہوئے دنوں میں۔ (سورۃ آل عمران آیت ۳۶) الا تکلم الناس ثلثۃ ایام الازمرا یعنی حضرت ذکریا سے خدا نے کہا نہیں کلام کرے تو آدمیوں سے تین دن۔ سورہ اعراف آیت ۵۲ و سورۃ یونس آیت ۳ و سورۃ ہود آیت ۹ و سورۃ فرقان آیت ۶۰ و سورۃ سجدہ آیت ۳ و سورۃ ق آیت ۳۷ و سورۃ الحدید آیت ۴ ۔ خلق السموات والارض فی ستۃ ایام یعنی بے شک تمہارا پروردگار وہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں۔ (سورۃ ہود آیت ۶۷) تمتعوا فی دار کم ثلثۃ ایام یعنی حضرت صالح نے کہا فائدہ اٹھاتے رہو تم اپنے گھر میں تین دن ۔ (سورۃ فصلت آیت ۹)اربعۃ ایام یعنی چار دن۔ (سورۃ فصلت آیت ۱۵) فارسلنا علیھم ریحا صرصرا فی ایام نحسات یعنی ہم نے قوم عاد پر بھیجی آندھی جھکڑ والی نحس دنوں میں ۔ (سورۃ الحاقہ آیت ۷) سخرھا علیھم سبع لیال و ثمانیۃ ایام یعنی قوم عاد پر آندھی جھکڑ والی سات راتیں اور آٹھ دن تک۔ (سورۃ الحاقہ آیت ۲۴) کلوا و اشربوا ھنیئا بما اسلفتم فی الایام الخالیۃ یعنی کھائو اورپیو مگن ہو کر بسبب اس کے جو کر چکے ہو گزرے ہوئے دنوں میں (یعنی دنیا میں)۔ (سورۃ البقر آیت ۷۴ و سورۃ آل عمران آیت ۲۳) وقالو الن تحسنا النار الا ایاماً معدودۃ یعنی یہودیوں نے کہا کہ ہم کو ہرگز نہ چھوئے گی آگ مگر گنے ہوئے دن۔ (سورۃ سبا آیت ۳۴) سیروا فیھا لیا لی وایاما آمنین یعنی چلو ان قربوں میں راتوں کو اور دنوں کو امن سے الایام فی معنی الوقائع اہل عرب ایام سے وقائع مراد لیتے ہیں ‘ چنانچہ کہتے ہیں: العرب تقول الایام فی معنی الوقائع یقال ہو عالم بایام العرب یرید وقائعھا وانشہ وقائع فی مضر تسعۃ وفی و ایل کانت العاشرۃ (ترجمہ) ’’چنانچہ کہتے ہیں کہ وہ ایام عرب کا جاننے والا ہے‘ یعنی واقعات عرب کا۔ ایک شاعر کا قول ہے کہ مضر ہیں تو واقعات ہیں اور وائل میں دسواں واقعہ ہوا‘‘۔ فقال تسعۃ وکان ینبغی این یقوم تسع لان الوقیعۃ انثی ولکنہ ذہب الی الایام شاعر نے تسعۃ کہا ہے ‘ حالانکہ تسع کہنا چاہیے تھا‘ کیونکہ وقیعہ (وقائع کا واحد )مونث ہے‘ لیکن اس نے ایام مراد لی ہے۔ وقال شمر جائت الایام بمعنی الوقائع والنعم ’’شمر نے کہا ہے کہ ایام واقعات اور نعمتوں کے معنی میں بھی برتا گیا ہے‘‘ واما قول عمرو بن کلثوم وایام لناغر طوال۔ فانہ یرید بایام الوقائع التی نصرو ا فیھا علیٰ اعدائھم (لسان العرب) ’’اور عمرو بن کلثوم کا یہ قو ل ہے کہ ہمارے ایام روشن اور دراز ہیں۔ اس میں اس نے ایام سے واقعات مراد لی ہے جن میں وہ اپنے دشمنوں پر کامیاب ہوئے‘‘۔ قرآن مجید میں بھی ایام کا لفظ وقائع کے معنوں میں آیا ہے جہاں خدا سے سورۃ آل عمران میں فرمایا ہے: تلک الایام نداولہا بین الناس (سورۃ آل عمران آیت ۱۳۴) یعنی واقعات اور حادثات کو باری باری سے ہم بدلتے رہتے ہیں۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے۔ فقول تلک الایام اشارۃ الیٰ جمیع ایام الوقائع العخبیبۃ (جلد ۲ صفحہ ۲۶۶) یعنی خدا کا قول تلک الایام اشارہ ہے تمام عجیب واقعات کے دونوںکی طرف۔ اور اسی طرح سورۃ یونس میں خدا نے فرمایا ہے: فھل ینتظرون الامثل ایام الذین خلوا من قبلھم (سورۃ یونس آیت ۱۰۲) پھر وہ انتظار نہیں کرتے‘ مگر ایسے حوادث اور واقعات کے جیسے ان کے پہلو پر گزر چکے ہیں۔ صاحب تفسیر بیضاوی نے اس آیت کی تفسیر میںلکھا ہے: مثل وقائعھم ونزول باس اللہ بھم اذلا یستحقون غیرہ من قولھم ایام العرب لوقائعھا۔ (تفسیر بیضاوی جلد اول صفحہ ۳۶۸) ’’مانند ان واقعات کے اور ان رپ قہر الٰہ نازل ہونے کے‘ اس لیے کہ وہ اس کے سوا اور بات کے مستحق نہیں ہیں۔ یہ معنی اس لیے لیے گئے ہیں کہ عرب کے لوگ ایام العرب سے واقعات عرب مراد لیتے ہیں‘‘۔ تفسیر کشاف کے مصنف نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ایام الذین خلوا من قبلھم) وقائع اللہ فیھم کما یقال ایام العرب لوقائعھا (تفسیر کشاف جلد اول صفحہ ۶۰۰) یعنی اس آیت میں ایام سے وہ واقعات مراد ہیں جو خدا کی طرف سے ان پر گزرے جیساکہ ایام العرب سے واقعات عرب مراد لی جاتی ہے ۔ اسی طرح مدارک التنزیل میں بھی ایام اللہ سے وقائع اللہ مراد لی گئی ہے ‘ یعنی وہ حوادث جو خدا نے پہلے لوگوں پر نازل کیے اوریہ معنی بھی اسی قول سے لیے گئے ہیں کہ ایام العرب سے وقائع عرب مراد لی جاتی ہے ۔ (فھل ینتظرون الامثل ایام الذین خلوا من قبلھم ‘ یعنی وقائع اللہ فیھم کما یقال ایام العرب لوقائعھا) (مدارک التنزیل جلد اول صفحہ ۲۷۹) یوم بمعنی وقائع سورۃ مومن میں ایک آیت ہے جس کی تفسیر میں مفسرین نے یوم کے معنی ایام اور ایام کے معنی وقائع کے لیے ہیں۔ وہ آیت یہ ہے : وقال الذی آمن یا قوم انی اخاف علیکم مثل یوم الاحزاب داب قوم نوح عاد و ثمود و الذین من بعدھم ۔ (سورۃ مومن آیت ۳۱) (ترجمہ) جو ایمان لایاتھا اس نے کہا ’’اے میری قوم! مجھ کو ڈر ہے تم پر ویسے ہی عذات کا جیسا کہ اگلی قوموںپر ہوا مثل صورت حال قوم نوح‘ عاد اور ثمور کے اور جو ان کے بعد ہوئے‘‘۔ صاحب کشاف نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: مثل یوم الاحزاب۔ مثلا ایامھم لانہ لما اضافہ الی الاحزاب وفسرھم بقوم نوح و عاد و ثمود ولم یلبس ان کل حزب منھم کان لہ یوم ومارانتصر علی الواحد من الجمع لان المضاف الیہ اغنی عن ذالک کقولہ کلوا فی بعض بطنکم تعفوا۔ (تفسیر کشاف جلد ثانی صفحہ (۱۲۷۹)۔ (ترجمہ) ’’مانند یوم احزاب کے یعنی مانند ان ایام کے ‘ اس لیے جب قوم کو احزاب کی طرف مضاف کیا اور حزاب کی تفسیر قوم نوح و عاد و ثمود سے کر دی اورکچھ شک نہیں کہ ان میں سے ہر گروہ کے لیے ہلاکت کا ایک خاص یوم ہے‘ اس لیے بجائے جمع کے یوم کو واحد رکھا‘ کیونکہ مضاف الیہ کی تفسیر کے سبب سے مضاف کی جمع لانے کی حاجت نہیں رہی‘ جیسا کہ شاعر کا قول ہے ’’اپنے پیٹ کے تھوڑے سے حصے میں کھائو اور حرام سے بچے رہو‘‘ یہاں کم مضاف الیہ ضمیر جمع مخاطب ہے اور بطن واحد۔ تفسیر بیضاوی میں یوم الاحزاب کی تفسیر اس طرح کی ہے: یاقوم انی اخاف علیکم مثل یوم الاحزاب مثل ایام الامم الماضیہ یعنی وقائعھم وجمع الاحزاب مع التفسیر اغنی عن جمع الیوم۔ (تفسیر بیضاوی جلد ثانی صفحہ ۲۵۶) (ترجمہ) ’’یوم احزاب کی مانند یعنی اگلی قوموں کے ایام یا ان کے وقائع کی مانند اور احزاب کے جمع لانے اور اس کی تفسیر کر دینے کے سبب یوم کی جمع لانے کی حاجت باقی نہیں رہی۔ ایام اللہ بمعنی النعم والنقم لسان العرب میں لکھا ہے: قولہ عزوجل و ذکرھم بایام اللہ المعنی ذکر ھم بنعم اللہ التی انعم فیھا علیھم و بنقم اللہ التی انتقم فیھا من نوح و عاد و ثمود وقال الفراء معناہ خوفھم بما نزل بعاد و ثمود و غیرھم من العذاب و بالعفو عن آخرین وھو فی المعنی کقولک خذ ھم بالشدۃ واللین وقال مجا ہد فی قولہ لا یرجون ایام اللہ قال نعمہ ورعی عن ابی بن کعب عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی قولہ و ذکر ھم بایام اللہ قال ایامہ نعمہ ۔ (لسان العرب جلد ۱۶ صفحہ ۱۳۷) (ترجمہ) ’’خدا کے اس قول کے معنی کہ ان کو ایام اللہ یاد دلا یہ ہیں کہ ان کو وہ نعمتیں یا د دلا جو خدا نے ان کو نازل کیں یا خدا کے وہ عذاب یاددلا جن سے خدا۔ نوح اور عاد اور ثمو د کے قبیلوں سے انتقام لیا اور فراء کا قول ہے کہ اس کے معنی ہیں ان کو ڈرا اس عذاب سے جو عاد اور ثمود وغیرہ پر نازل ہوا اوردیگر قبائل سے درگزر کی اور اس قول کا مطلب ایسا ہی ہے جیسا کہ تو کہے ’’ان کو سختی و نرمی سے پکڑ‘‘ اور مجاہد نے کہا اس آیت میں (لا یرجون ایام اللہ) ایام اللہ کے معنی خدا کی نعمتیں ہیں اور ابی بن کعب نے آنحضرتؐ سے روایت کی ہے کہ آیت ’’وذکرھم بایام اللہ‘‘ میں آنحضرتؐ نے ایام اللہ کے معنی فرمائے ہیں اللہ کی نعمتیں‘‘۔ صاحب قاموس نے ایام اللہ کے معنی خدا کی نعمتیں لکھے ہیں: ایام اللہ نعمہ قاموس جلد دوم (وایام اللہ تعالیٰ نعمہ) وبہ فسر مجاہد قولہ تعالیٰ لا یرجون ایام اللہ و روی ذالک عن ابی بن کعب مرفوعا فی تفسیر قولہ تعالیٰ و ذکرھم بایام اللہ ۔ (تاج العروس) (ترجمہ) قاموس جلد دوم میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایام سے اس کی نعمتیں مراد ہیں ۔ تاج العروس میں ہے کہ ایام اللہ کے معنی ہیں خدا کی نعمتیں اورمجاہد نے لایرجون ایام اللہ کی تفسیر میں یہی معنی لیے ہیں اوریہی معنی ’’وذکرھم بایام اللہ‘‘ کی تفسیر میں ابی بن کعب کی روایت سے منقول ہیں۔ قرآن مجید میں بھی ایام اللہ کے یہی معنی آئے ہیں جہاں خدا نے فرمایا ہے : قل للذین آمنوا یغفرو للذین لایرجون ایام اللہ لیجزی قوما بما کانو یکسبون (سورم الجاثیہ آیت ۱۳) یعنی کہہ دے ایمان والوں سے کہ درگزر کریں ان سے جو توقع نہیں رکھتے خدا کی نعمتوں کی (یا نہیں ڈرتے خدا کے عذاب سے) تاکہ سزا دے خدا ان میں سے ایک گروہ کو بعوض ان کرتوتوں کے جو وہ کرتے تھے۔ تفسیر کشاف اوربیضاوی اور مدارک میں اس کی تفسیر اس طرح پر لکھی ہے : لا یتوقعون وقائعہ تعالیٰ باعدائہ من قولھم ایام العرب لوقائعھم بیضاوی جلد دوم صفحہ ۲۹۲‘ کشاد جلد دوم صفحہ ۱۲۴۶‘ مدارک جلد دوم صفحہ ۲۰۹‘ یعنی وہ جو توقع نہیں رکھتے خدا کے ان سلوکوں کی جو اس نے اپنے دشمنوں کے ساتھ کیے‘ اس لیے کہ ایام العرب سے وقائع عرب مراد لی جاتی ہے۔ اور دوسری جگہ سورۃ ابراہیم میں فرمایا ہے : وذکرھم بایام اللہ (سورۃ ابراھیم آیت ۵۰) ان کو یاد دلا خدا کی نعمتیںیا سزائیں۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے : انہ یعبر عن الایام بالوقائع العظیمۃ التی وقعت فیھا یقال فلان عالم بایام العرب و یرید وقائعھا کما قال اللہ تعالیٰ تلک الایام نداولھا بین الناس اذا عرفت ہذا فالمعنی عظھم بالترغیب و الترھیب والوعدو الوعید فالترغیب والوعد ان یذکر ھم ما انعم اللہ علیھم وعلیٰ من قبلھم وممن آمن بالرسل فی سایر ما سلف من الایام والترھیب والوعیدان یذکرھم باس اللہ وعذابہ وانتقامہ ممن کذب الرسل ممن سلف من الامم فیما سلف من الایام مثل ما نزل بعاد و ثمود و غیرھم من العذاب لیر غبوا فی الوعد فیصدقوا و یحذرو امن الوعید فیسترکوا التکذیب واعلم ان ایام اللہ فی حق موسیٰ علیہ السلام منھا ما کان ایام المحنۃ والبلاء وھی الایام التی کانت بنو اسرائیل فیھا تحت قھر فرعون ومنھا ما کان ایام الروحۃ والنعماء مثل انزال المن والسلو و انفلاق البحر و تظلیل الغمام۔ (تفسیر کبیر جلد رابع صفحہ ۴۶ و ۴۷) (ترجمہ) ’’ایام سے وہ عظیم واقعات مراد لیے جاتے ہیں جو ان میں ہوئے ‘ چنانچہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص ایام عرب کا ماہر ے یعنی واقعات عرب کا اور جیسے خدا نے فرمایا یہ ایام (واقعات) ہیں جن کو ہم لوگو ں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں ۔ جب تو نے ایام کے معنی سمجھ لیے تو اب اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ان کو ترغیب و ترھیب سے ‘ وعدہ و وعید سے نصیحت کر۔ ترغیب اور وعدہ تو یہکہ ان کو یاد دلا کہ خدا نے ان پر اور ان سے پہلوں پر جو زمانہ ہائے سابق میں پیغمبروں پر ایمان لائے کیا کیا نعمتیں نازل کیں اور ترھیب اور وعید یہ کہ ان کو خدا کا قہر اورعذاب او وہ انتقال یاد دلا جو اس نے زمانہ سابق میں ان امتوں سے لیا جنھوں نے پیغمبروں کی تکذیب کی مانند اس عذاب کے جو عاد و ثمود وغیرہ قوموں پر نازل ہوا تاکہ وعدہ کی طرف اپنی رغبت ظاہر کریں‘ پھر تصدیق کریں اور وعید سے خوف کریں ‘ پھر تکذیب کو چھوڑ دیں‘ اور موسیٰ کے حق میں ایا م اللہ ایک تو محنت و تکلیف کے وہ ایام ہیں جب کہ بنی اسرائیل فرعون کے محکوم تھے اور ایک راحت و نعمت کے ایام جیسے من و سلویٰ کا نازل کرنا اور سمندر کا پھٹنا اور بادل کا سایہ کرنا‘‘۔ اور تفسیر بیضاوی میںلکھا ہے: وذکر ھم بایام اللہ بوقائعہ التی وقعت علی الامم الدارجۃ وایام العرب حروبھا وقیل بنھمائمہ وبلائہ۔ (تفسیر بیضاوی جلد اول صفحہ ۴۱۸) ’’ان کو ایام اللہ یاد دلا ‘ یعنی وہ حوادث و وقائع جو خدا کی طرف سے گزشتہ قوموں پر گزر چکے ہیں اور ایام العرب سے عرب کی لڑائیں مراد ہیں اور ایام اللہ سے خدا کی نعمتیں اور اس کے عذاب بھی مراد ی گی ہے‘‘۔ اور تفسیر کشاف میں لکھا ہے : وذکرھم بایام اللہ و انذرھم بوقائعہ التی وقعت علی الامم قبلھم قوم نوح و عاد و ثمود و منہ ایام العرب حروبھا وملاحمھا کیوم ذی قار و یوم الفجار ویوم قضۃ وغیرھا وھو اظاہر۔ وعن ابن عباس نعماء وبلائہ فانہ ظلل علیھم الغمام وانذل علیھم المن و السلویٰ۔ وفلق لھم البحر واما بلائوہ فاھلاک القرون (تفسیر کشاف جلد اول صفحہ ۶۹۸) (ترجمہ ) ’’ان کو ایام اللہ یاد دلا‘ یعنی ان کو ڈر ا ان سختیوں سے جو خدا کی طرف سے پہلی قوموں پر نازل ہوئیں‘ جیسے نوح‘ عاد اور ثمود کی قومیں۔ ایسا ہی ایام العرب عرب کی جنگوں اورشورشوں کو کہتے ہیں جیسے یوم ذی قار‘ یوم الفجار اور یوم قضہ وغیرہ اور یہ مطلب ظاہر ہے اورابن عباس سے ایام اللہ کے معنی خدا کی نعمت اور سختی منقول ہوئے ہیں۔ اس کی نعمت تو یہ ہے کہ ان پر بادل کا سایہ ڈالا‘ ان پر من و سلویٰ نازل کیا اور ان کے لیے سمندر کو شگافتہ کیا اور اس کی سختی قوموںکا ہلاک کرنا‘‘۔ تفسیر مدارک میں لکھا ہے : وذکرھم بایام اللہ وانذرھم بوقائعہ التی وقعت علی الامم قبلھم قوم نوح و عاد و ثمود منہ ایام العرب لحروبھا وملاحمھا او بایام الانعام حیث ظلل علیھم الغمام وانزل علیھم المن و السلویٰ وفلق لھم البحر۔ (تفسیر مدارک التنزیل جلد اول صفحہ ۳۲۴) (ترجمہ) ’’ان کو خدا کے دن یاد دلا‘ یعنی ان حوادث سے ڈار جو ان سے پہلے نوح ‘ عاد اور ثمود وغیرہ کی قوموں پر خدا کی طرف سے نازل ہو چکے ہیں ۔ ایسے ہی ایام العرب سے عرب کی لڑائیاں اور شورشیں مراد لی جاتی ہیں۔ بامعنی یہ ہیں کہ ان کو انعام کے دن یاد دلا جب کہ خدا نے ان پر بادل کا سایہ ڈالا اور ان پر من و سلویٰ نازل کیا اورسمندر کو ان کے لیے چیرا‘‘۔ غرض کہ تمام آیات قرآنی سے جن میں یوم یا ایام کا ذکر ہے بجز اس کے کہ اس سے زمانہ طویل یا یوم کی طوالت معین مراد ہو نہیں پایا جاتا اور اس لیے ہم یوم کے لفظ سے جو قرآن مجید میں آیا ہے نہ زمانہ طویل مراد لے سکتے ہیں نہ یوم کی طوالت معین ۔ علاوہ اس کے زمانہ قیامت پر دن کا ‘ خواہ وہ صغیر ہو یا طویل یا اطول اطلاق ہی نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ بروقت قیامت تمام عالم درھم برھم ہو جائے گا زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو جاوے گی۔ آسمان پھٹ جاویں گے۔ سورج لپٹ جاوے گا۔ ستارے دھندلے پڑ جاویں گے۔ موجود ہ نظام شمسی باقی نہ رہے گا اور اسی کے ساتھ جس کو دن کہتے ہیں وہ بھی معدوم ہو جاوے گا‘ ہاں زمانہ یا وقت باقی رہے گا‘ پس یوم سے ‘ جو حالات کے متعلق قیامت کے ساتھ بولا گیا ہے‘ بجز وقت کے اور کوئی معنی لیے ہی نہیں جا سکتے۔ خدا نے فرمایا ہے: ان یوم الفصل کان میقاتا یوم ینفخ فی الصور اور جبکہ تمام قرآن مجید میں یوم سے زمانہ طویل معین مراد نہیں ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم ستۃ ایام میں یوم سے کوئی زمانہ طویل معین مراد لیں اور یہودیوں یا عیسائیوں کی تقلید کریں ۔ علاوہ اس کے علماء یہود نے یوم کے لفظ سے جو توریت میںہے کچھ ہی معنی قرار دیے ہوں مگر اس میں کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ عموماً تمام یہودی معمولی چھ دن میں آسمان و زمین و مافیہا کا پیدا ہونا یقین کرتے تھے‘ پس انہی کے اعتقادکو قرآن مجید میں نقل کر کے خدائے قادر مطلق کی عبادت پر حجت قائم کی گئی ہے۔ عیسائی علماء توریت میں جو یوم کا لفظ ہے اس کو ایک طویل زمانہ کے معنی لینے سے یہ مطلب حاصل کرناچاہتے ہیں کہ توریت کا بیان جو آفرینش عالم کی نسبت سے ہے وہ نیچرل سائنس اور علوم جدیدہ کے مطابق ہو جاوے‘ مگر یہ امر ناممکن ہے۔ اگر توریت میں جو یوم کا لفط آیا ہے اس کے معنی کتنے ہی لمبے زمانے کے لیے جاویں ‘ مگر جو کچھ بیان خلق عالم کی نسبت اس میں ہے اس کو نیچرل سائنس کے مطابق کرنا نہایت مشکل ہے ‘ مگر جبکہ قرآن مجید میں کوئی اشارہ یوم کی طوالت معین کا نہیں ہے اور آسمان و زمین و مافیہا کا پیدا کرنا علی اعتقاد الیہود والنصاریٰ ان پر بطور حجت قائم کرنے کے بیان کیا گیا ہے تو ہم کو کچھ ضرور نہیں ہے کہ یہود و نصاریٰ کی تقلید کر کے قرآن مجید میں جو یوم کا لفظ آیا ہے اس کو کھینچنے تاننے لگیں۔ ٭٭٭ خضر کیا درحقیقت کوئی شخص تھے یا صرف فرضی نام ہے (تہذیب الاخلاق جلد دوم نمبر ۱۱(دور سوم) بابت یکم شعبان ۱۳۱۳ھ) حضرت موسیٰ کا قصہ جن کے ساتھی کو لوگوں نے خضر قرار دیاہے قرآن مجید میں اس طرح پر آیا ہے۔ جب حضرت موسیٰ جوان اور قوی ہو گئے تو وہ ایسے وقت میں شہر میں آئے کہ شہر والوں کو کچھ خبر نہ تھی۔ انہوںنے شہر میں دو آدمیوں کو لڑتے دیکھا‘ ایک تو ان کی قوم کا تھا اور ایک ان کی دشمن قوم ‘ یعنی قبطی قوم کا۔ ان کی قوم کے آدمی نے موسیٰ سے دشمن پر مدد چاہی۔ موسیٰ نے اس کو ایک گھونسا مارا اور وہ مر گیا۔ پھر موسیٰ نے اس شہر میں ڈرتے ہوئے کہ دیکھیے کیا ہوتا ہے صبح کہ یکایک وہ شخص جس کی مدد کی تھی اس کو پھر مدد کے لیے پکارتا ہے۔ موسیٰ نے اس کو کہا کہ بے شک تو بڑا جھگڑالو ہے۔ پھر جب موسیٰ نے چاہا کہ اس کو جو دونوں کا دشمن تھا یعنی قبطی قوم کا تھا پکڑے اس نے کہا اے موسیٰ کیا تم مجھ کو بھی مارڈالنا چاہتے ہو جیسا کہ کل تم نے ایک جان کو مار ڈالا ہے؟ اتنے میں ایک شخص شہر کے پرلے کنارے سے دوڑتا ہوا آیا اور کہا ’’اے موسیٰ سرداروں نے مشورہ کیا ہے کہ تجھ کو مار ڈالیں تو یہاں سے نکل جا‘‘ پھر موسیٰ وہاں سے نکل گئے ۔ (سورہ قصص)۔ موسیٰ نے اپنے ساتھی جوان سے کہا کہ میں چلاہی جائوں گا جب تک دو سمندروں کے ملنے کی جگہ تک پہنچوں یا مدت تک چلا ہی جائوں ۔ پھر جب وہ وہاں پہنچے جہاں دونوں سمندر ملتے تھے تو اپنی مچھلی کو بھول گئے اور مچھلی سمندر میں اپنی راہ چل دی۔ جب وہ آگے چلے تو موسیٰ نے اپنے ساتھی جوان سے کہا کہ ہمارے لیے صبح کا کھانا لا۔ ہم کو ہمارے اس سفر سے تکلیف ملی ے۔ اس جوان نے کہا کہ تم نے دیکھا ہے کہ جب ہم اس چٹان تک پہنچے تو ہم مچھلی کو بالکل بھول گئے تھے اوراس قصے کا ذکر کرنا شیطان ہی نے مجھ کو بھلا دیا ہے اوروہ عجیب طرح سے سمندر میں چلی گئی۔ موسیٰ نے کہا : ذالک ای غداء نا ای ماکنا نبغ من غداء نا یعنی وہ صبح کا کھانا ہ جس کو ہم چاہتے تھے پھر دونوں الٹے پائوں اپنے پائوں کے نشانات ڈھونڈتے ہوئے پھرے۔ پھر انھوںنے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جس پر ہم نے اپنی رحمت کی تھی اور ہم نے ہی اپنے پاس ا س کو علم سکھایا تھا ۔ موسیٰ نے اس سے کہا کہ کیا میں تمہاری پیروی کروں اس پر کہ جو کچھ تم کو بھلائی سکھائی گئی ہے مجھ کو بھی سکھا دو؟ اس شخص نے کہا میرے ساتھ تم صبر نہ کر سکو گے اور جو بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی ہے اس پر تم کیونکر صبر کرو گے۔ موسیٰ نے کہا کہ خدا چاہے تو مجھ کو صابر پاوے گا اور میں تیرے حکم کی نافرمانی نہیں کرنے کا۔ اس شخص نے کہا کہ اگر تم میری پیروی کرتے ہو تو تم مجھ س کوئی بات نہ پوچھنا جب تک کہ میں ہی تم سے اس کا کچھ ذکر نہ کروں۔ پھر و ہ دونوں چلے۔ پھر جب ایک کشتی میں سوار ہوئے تو اس شخص نے کشتی میں شگاف کر دیا۔ موسیٰ نے کہاکہ تم نے کشتی میں اس لیے شگاف کر دیا کہ کشتی میںجو ہیں ان کو ڈبو دو‘ یہ تو تم بڑی مصیبت لائے ہو۔ اس شخص نے کہا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے۔ موسیٰ نے کہا کہ میری بھول میں مجھ سے مواخذہ نہ کر اور مجھ پر میرے کام میں دشواری مت ڈال۔ پھر وہ دونوں چلے اور جب ایک غلام‘یعنی جوان سے جملے تو اس شخص نے غلام کو مار ڈالا۔ موسیٰ نے کہا کہ تم نے ایک بے گناہ جان کو بغیر جان کے بدلے کے مار ڈالا‘ یہ تو تم نے بری بات کی۔ اس شخص نے کہا کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے موسیٰ نے کہا کہ اگر اب سے میں کچھ تم سے پوچھوں تو تم مجھ کو اپنے ساتھ نہ رکھنا‘ بے شک تم میرے عذر کی برداشت کی ہے۔ پھر وہ دونوں چلے جب ایک گائوں والوں کے پاس پہنچے تو ان سے کھانا مانگا۔ گائوں والوں نے کھانا دینے سے انکار کر دیا۔ اس گائوں میں ان دونوں نے ایک دیوار کو پایا کہ گرنے کو ہے‘ پھر اس شخص نے اس کو درست کر دیا۔ موسیٰ نے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو تو اس پر مزدوری لیتے۔ اس شخصنے کہا کہ اب مجھ میں اور تم میں جدائی ہے۔ میں تم کو بتا دیتا ہوں بھید اس بات کا جس پر تم صبر نہ کر سکے۔ کشتی تو غریب آدمیوں کی تھی دریا میںاس سے کام کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اس کو عیب دار بنا دوں۔ ان کے درپے ایک بادشاہ ہے کہ ہر کشتی کو چھین لیتا ہے اوروہ غلام اس کے ماں باپ ایمان دار ہیں ‘ پھر ہم ڈریکہ وہ زیادتی اور نافرمانی کر کے ان دونوں کو نہ پیس ڈالے۔ پھر ہم نے چاہا کہ ان کا خدا ان کو اچھا اور زیادہ رحم دل اور نعم البدل دے گا اور دیوار اس شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اوراس کے نیچے ان کے لیے ایک خزانہ تھا اوران دونوں کا باپ نیک آدمی تھا۔ پھر تیرے پروردگارنے چاہا کہ وہ دونوں جوان ہو جاویں اور تیرے پروردگار کی رحمت سے اپنا خزانہ نکال لیں اور میں نے یہ کام اپنی خواہش سے نہیں کیا۔ یہ بھید ہے ان باتوں کا جن پر تو صبر نہ کر سکا۔ (سورۃ کہف) جو قصہ کہ سورہ قصص میں بیان ہوا ہے وہی بعینہ توریت میں اور عہد جدید میں ہے توریت میں لکھا ہے: وواقع شد درآں روز ہا کہ موسیٰ بزرگ شدہ بنزد برادرانش بیرون آمد و ببار ہائے ایشاں نگریست و مرد مصری را دید کہ مرد عبرانی برادرانش رامی زد و بایں طرف وآن طرف نگاہ کردہ چونکہ کسی را ندید مصری راکشت و اورادرریگ پنہاں کرد وروز دیگر بیروں آمد و اینک درمرد عبرانی منازعت می کردند و بظالم گفت کہ رفیق خود را چرا می زنی و اوجواب گفت ’’کیست کہ ترا سرور یا حاکم برما نصب گزاردہ است۔ آیا قصد کشتن مرا چنانکہ مصری را کشتی داری؟‘‘ پس موسیٰ ترسیدہ با خود گفت کہ بتحقیق ایں قصہ معلوم شد و فرعون ایں قصہ را کہ شنید خواست کہ موسیٰ را بکشد اما موسیٰ از حضور فرعون فرار کرد و در ولایت مدیان ساکن شد ‘‘۔ (سفر خروج باب دوم ورس ۱۱ تا ۵) اعمال حواریین میں لکھا ہے: ’’اور موسیٰ نے مصریوں کی ساری حکمت میں تربیت پائی اورقول و فعل میں بڑا لائق تھا۔ جب وہ پورے چالیس برس کا ہوا تو اس کے دل میںخیال آیا کہ اپنے بائیوں بنی اسرائیل سے ملاقات کرے اور ایک کو ان میں سے ظلم اٹھاتے دیکھ کر اس نے مدد کی اور اس مصری کو جان س مار کے مظلوم کا بدلہ لیا اور اس نے گمان کیا کہ میرے بھائی سمجھیں کے خدا میرے وسیلے سے انہیں بچا ئے گا۔ لیکن وہ نہ سمجھے۔ پھر دوسرے دن ان سے جس وقت وہ لڑ رہے تھے ملاقات ہوئی اور چاہا کہ انہیں ملا دے اور بولا کہ اے مردو! تم بھائی ہو کر کیوں ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہو؟ لیکن اس نے جو اپنے پڑوسی پر ظلم کرتا تھا اس کو دور کر کے کہا’’کس نے تجھے ہم پر حاکم اور قاضی مقرر کیا ہے؟ کیا جس طرح تو نے مصری کو قتل کیا مجھ کو قتل کیا چاہتاہے؟‘‘ موسیٰ اس کہنے پر بھاگا اور مدین ملک میں جا رہا‘‘۔ (اعمال حواریان باب ۷ ورس ۲۲ لغایت ۲۹) سب سے پہلے اس بات پر غور کرنی ہے کہ موسیٰ کہاں رہتے تھے اور کس شہر سے آئے جہاںانہوںنے مصری کو قتل کیا ۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ اکثر لوگوں کا یہ قول ہے ک جس میں حضرت موسیٰ نے قبطی کو قتل کیا تھا وہ وہ شہر تھا جہاں فرعون رہتا تھا اور وہ مصر سے دور فرسخ دور ہے اور ضحا ک کا قول ہے کہ وہ شہر عین شمس تھا۔ (جلد پنجم صفحہ ۱۰۶) مگر یہ بات جاننی چاہیے کہ جس شہر میں فرعون مصر کا دارالخلافہ تھا اس کانام رعمسیس ہے اور اس سے تھوڑی دور ایک اور شہر تھا اس کا نام تھاھیلیو پولس (یعنی مدینۃ الشمس) ا سشہر میں ایک بہت بڑی یونیورسٹی تھی اورتمام علوم کی اس میں تعلیم ہوتی تھی اور حضرت موسیٰ نے نہایت اعلیٰ درجے کے علوم تک اس یونی ورسٹی میں تعلیم پائی تھی۔ ا سکا مختصرذکر اعمال حواریین میں بھی ہے جس کو ہم نے ابھی نقل کیا ہے ۔ علاوہ اس کے ڈاکٹر ولیم اسمتھ نے قدیم کتابوں سے ڈکشنری آف بائبل میں اس کا مفصل حال لکھا ہے جس کا بعینہ ترجمہ ہم لکھتے ہیں۔ ا س میں لکھا ہے کہ ’’اس وقت سے بہت برسوں تک موسیٰ کو باشندہ مصر خیال کرنا ضرور ہے۔ توریت میں اس زمانے کا کچھ ذکر نہیں ہے۔ مگر عہد جدید سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ تعلیم یافتہ تھے اور انہوں نے مصریوں کی ساری حکمت میںتربیت پائی اور قول اور فعل میں برے لائق تھے (اعمال ‘ باب ۷آیت ۲۲) مفصلہ ذیل مختصر احوال یہودی اور مصری روایات کا ہے کہ اس مقدس مصنف کے (ا س زمانے کے) جو حالات معلو م نہیں ہیں‘ معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیم ھیلیو پولس میں ہوئی تھی (تصنیفات اسٹریبو سے مقابلہ کرو باب ۱۷ فقرہ اول) اور وہاں بطور مقدس قوھن کے جہاں کہ ان کا مصری نام اوسارسف یاٹسی تھن تھا پرورش پائی۔ حسب رائے منیتھو (جو قدیم مورخ ہے) لفظ اوسارسف مشتق ہے اوسائی رس سے جو ایک مصری معبود کا نام تھا اواوسارسف کے معنی یہ ہیں کہ جس کو اوسائی رس بچایا ہو۔ حضرت موسیٰ کو کل سلسلہ یونانی کالڈی اور اسیرین لٹریچر کا پڑھایا گیا تھا۔ مصریوں سے انہوں نے میتھی میٹکس سیکھا‘ تاکہ ان کا ذہن بلا تعصب صدق کے قبول کرنے کے قابل ہو ۔ انہوں نے کشتیاں اور تعمیر کے اوزار اور نیز آلات حرب اور پانی کی کلیں اور حرف جو تصویروں کی صورت میں لکھے جاتے تھے اورزمین کی قسموں کو ایجاد کیا۔ انہوںنے ارفیوس کو تعلیم دی اور اس وجہ سے یونانی حضرت موسیٰ کو موسیس کہنے لگے اور مصری ہرمیز (ہرمس) کہنے لگے۔ انہوںنے علم صرف و نحو یہودیوں کو سکھایا اوروہاں سے وہ علم فتیشیا اور یونان میں پہنچا۔ حضرت موسیٰ کو ایک مہم پر جو بخلاف حبشیوں کے تھی بھیجا گیا تھا اور انہوں نے اس ملک کے سانپوں کو اس طرح معدوم کیا کہ ملک بھر میں کھانچے بھر بھر کے پرند مار خور جانور چھڑوا دیے اور شہر ہرموپولیس بطور یادگار اپنی فتح کے آباد کیا۔ پھر وہ شہر سبا کی طرف جو ایتھوپیا کا دارالخلافت تھا روانہ ہوئے اور اس شہر کا نام اپنی متنبیٰ کرنے والی ماں مسمی مرہس کے نام پر مہر و رکھا او ر اسی جگہ حضرت موسی ٰ نے ان کو دفن کیا۔ بادشاہ ایتھوپیا کی بیٹی مسمی تھاریس کو ان سے تعشق ہو گیا تھا اور حضرت موسیٰ مع اس لڑکی کے بطور اپنی بی بی کے خوش وخرم مصر کو واپس آئے‘‘۔ (ڈکشنری آف دی بائبل مصنفہ ڈاکٹر ولیم اسمتھ جلد ۲ صفحہ ۴۲۵ و ۴۲۶) حال میں جو احمد آفندی نجیب نے قدیم مصر کی تاریخ لکھی ہے اس میں بھی اس شہر کا ذکر کیا ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’عین الشمس کا قدیم نام ’’ان‘‘ ہے اور یہ مصریوں کا قدیم شہر تھا اور وہاں ان کے دیوتا ’’رع‘‘ (آفتاب) کا مندر تھا اور اس شہر میں ایک یونی ورسٹی تھی جس کی شہرت کے سبب سے سولون جو یونان کا مقنن تھا اور افلاطون اور فیثا غورث علم کی تحصیل کے لیے اس یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے اور رعمسیس ثالث کے زمانے میں جو بیسویںشاہی خاندان کا بادشاہ تھا ایک مندر میں بارہ ہزار طالب علم تعلیم پاتے تھے‘‘ ۔ (الاثر الجلیل لقد ماء وادی النیل صفحہ ۳۴) اس بیان سے ثابت ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ مدینۃ الشمس یا عین الشمس میں رہتے تھے اور وہاں سے شہر رعمسیس میںآئے اور اسی شہر میں اس شخص کو گھونسا مار کر مار ڈالا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے ۔ قرآن مجید میں جو یہ لفظ ہیں کہ ’’از قال موسیٰ لفتاہ‘ ‘ یعنی موسیٰ نے اپنے ساتھی جوان سے کہا‘ قرآن مجید سے تو معلوم نہیں ہو سکتا کہ یہ کون شخص تھا‘ صرف اتنا قیاس ہو سکتا ہے کہ جس شخص نے موسیٰ کو آن کر خبر دی تھی کہ تمہارے مار ڈالنے پر مشورہ ہوا ہے وہی حضرت موسیٰ کے ساتھ ہو لیا جبکہ وہ رعمسیس سے نکل گئے مگر تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ وہ شخص یوشع تھے یا یوشع کے بھائی۔ اور یہ بات ممکن ہے کیونکہ حضر ت موسیٰ رعمسیس سے نکلے ہیں تو یوشع کی عمر بموجب توریت کے بائیس برس کی تھی اورفقال اور عمر ابن عبید کا قول ہے کہ وہ شخص حضرت موسیٰ کا غلام تھا۔ قرآن مجید میںجو یہ لفظ ہیں : لا ابرح حتیٰ ابلغ مجمع البحرین یعنی جب تک دو سمندروں کے ملنے کی جگہ تک پہنچوں پس یہ بات دریافت کرنی ہے کہ مجمع البحرین سے کونسی جگہ مراد ہے۔ تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ بحر فارس اور بحر روم جس مقام پر آپس میں ملے تھے وہ مقام مجمع البحرین ہے‘ مگر یہ صریح غلطی ہے اس واسطے کہ بحر فارس اور بحر روم نہ کسی جگہ آپس میں ملے ہیں اورنہ مل سکتے تھے۔ ریڈ سی‘ یعنی بحر قلزم کی دو شاخیں نکلی ہیں ۔ ایک شرقی ہے اور ایک غربی پھر وہ دونوں شاخیں آپس میں ملی ہیں۔ اس زمانے میں شرقی شاخ کو گلف آف اکابہ یعنی خلیج عقبہ اور غربی شاخ کو گلف آف سویز یاخلیج سویس کہتے ہیں۔ جہاں یہ دونوں شاخیں باہم ملی ہیں اس مقام کو مجمع البحرین کہا گیا ہے ۔ ان دونوں شاخوں کے بیچ میں بہت سے پہاڑ ہیں اور اس زمانے میں جنلگ ہو گا اور عام طور پر وہ رستہ چلتا نہ ہو گا۔ اس کا ثبوت قرآن مجید کے ان لفظوں سے نکلتا ہے: فارتدا علیٰ آثار ہما قصصا یعنی جب حضرت موسیٰ اور ان کا ساتھی جوان مجمع البحرین سے چلے اور معلوم ہوا کہ مچھلی نہیں ہے تو پھر وہ اپنے پائوں کے نشانات ڈھونڈتے ہوئے واپس آئے۔ اس سے صاف ظاہر پایا جاتا ہے کہ عام رستہ نہیں تھا‘ بلکہ جنگل تھا جس کے سبب ان کو اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہوئے واپس آنا پڑا۔ حضرت موسیٰ رعمسیس سے بھاگے ہیں تو اس خیال سے کہ تعاقب کر کے لوگ پکڑ نہ لیں اروعام رستہ اختیار نہیں کر سکتے تھے اس لیے انہوں نے جنگل کا اجنبی رستہ اختیار کیا اوروہ اس بات کو جانتے تھے کہ جب مجمع البحرین پہنچ جائیں گے تو وہاں سے مدین کا رستہ جہاں ان کو جانا منظور تھا آسانی سے مل جائے گا۔ اسی لیے انہوںنے کہا : لا ابرح حتیٰ ابلغ مجمع البحرین صوبہ مدین ریڈ سی یعنی بحر قلزم کی مشرقی شاخ ( خلیج عقبہ) کے دونوں طرف واقعہ ہے جہاں کہ مدیانی قوم رہتی ہے اور خاص شہر مدین خلیج عقبہ کے مشرقی کنارے پر واقع تھا ۔ ان تمام حالا ت سے جو جغرافیہ سے معلوم ہوتے ہیں بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ ریڈ سی کی ایک شاخ کے جنگل کے کنارے ہو کر وہاں پہنچے جہاں دونوں شاخیں ریڈ سی کی ملتی ہیں اور جس کو مجمع البحرین کہا ہے اوروہاں سے مدین کو چلے گئے ۔ مچھلی کی نسبت بہت سی دورازکار رواتیں کتب تفاسیر وغیر ہ میں لکھی ہیں۔ اصلی حقیقت صرف اتنی ہی معلوم ہوئی ہے کہ حضرت موسیٰ کے پاس کوئی کھانے کا سامان موجود نہیں تھا۔ وہ سراسیمگی کی حالت میں شہر سے بھاگے تھے ۔ جب وہ مجمع البحرین پر پہنچے تو انہوں نے ایک مچھلی پکڑی اور ااس کو ایک چٹان پر رکھ دیا کیونکہ قرآن مجید میںاس بات کا کہ موسیٰ اپنے ساتھ مچھلی لے کر چلے تھے اور وہ مری ہوئی یا بھنی ہوئی تھی کچھ اشارہ نہیں ہے ۔ مگر تھوڑی دیر میں وہ مچھلی تڑپ کر پھر دریا میں جا پڑی۔ جب موسیٰ وہاں سے چے تو ان کا خیال تھا کہ وہ مچھلی ہو گی۔ انہوں نے اپنے ساتھی جوان سے کہا کہ ہمارا کھانا لائو۔ اس جوان نے کہا کہ مچھلی تو پھر دریا میں چلی گئی ہے ۔ اور اس کا ذکر کرنا میں تم سے بھول گیا ۔ چونکہ جنگل میں اور کچھ کھانے کا سامان نہیں تھا اس لیے حضرت موسیٰ مجمع البحرین کو واپس ہوئے تاکہ پھر کوئی مچھلی کھانے کے لیے وہاں سے پکڑیں۔ مچھلی کے دریا میںچلے جانے کی نسبت قرآن مجید میں لفظ ہٰں اتخذ سبیلہ فی البحر سربا۔ سرب کے معنی چلنے ک ہیں۔ مفسرین نے جو اسکے معنی مطابق ان حدیثوں کے جن میں یہ قصہ بیان ہوا ہے اورجن کو ہم بیان کریں گے‘ اس طرح بیان کیے ہیں کہ مچھلی جب پانی میں گئی تھی تو پانی دونوں طرف ہٹ گیا اور پانی میں طلق یا سرنگ کی صورت بن گئی ۔ یہ بیان روایات یہود پر مبنی ہے جن کا کوئی اشارہ قرآن مجید سے نہیں پایا جاتا۔ تفسیر کبیر میں اس آیت کے اتخذسبیلہ فی البحر سربا یہ معنی لکھے ہیں کہ سرب فی الحبر سربا یعنی وہ مچھلی سمندر میں چلی گئی اور الفاظ ’’اتخذسبیلہ‘‘ کو ’’سرب‘‘ کے قائم مقام سے بیان کیا ہے جس کا نتیجہ وہی ہے جو ہم نے بیان کیا۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ کے ساتھی جوان نے جب مچھلی کے سمندر میں چلے جانے کا ذکر کیا تو یوں کہا ’’اتخذسبیلہ فی البحر عجبا‘‘ یعنی مچھلی سمندر میںعجیب طرح سے چلی گئی۔ ’’عجبا‘‘کے لفظ سے یہ سمجھنا کہ اس مچھلی نے کوئی عجیب طرح سے سمندر میں رستہ بنایا تھا کسی طرح درست نہیں ہے صاف بات یہ ہے کہ مچھلی کو سمندر میں سے نکال کر چٹان پر ڈال دیا تھا اور یہ سمجھتے تھے کہ و ہ مر گئی‘ مگر اس میں جان باقی تھی اوروہ تڑپ کر سمندر میں جا پڑی۔ اسی با ت کو موسیٰ کے ساتھی جوان نے عجیب بات سمجھ کر کہا کہ ’’اتخذ سبیلہ فی البحر عجبا‘‘۔ اسی قسم کا واقعہ خود مجھ پر گزر ا ہے۔ میں نہر سویز کی سیر کرنے کو کشتی پر بیٹھ گیا۔ ایک ملاح نے نہر میں سے مچھلی پکڑی اور اس کو کشتی میں ڈال دیا ۔ دو ایک دفعہ تڑپ کر وہ سست ہو گئی‘ ہم سب نے جانا کہ وہ مر گئی۔ ہم سب نہر کی سیر دیکھتے جاتے تھے اور اس مچھلی کا کچھ خیال نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ مچھلی زور سے تڑپی اور پھر نہر میں جا پڑی اور ہم سب دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے ۔ ایسے واقعات عام طور پر واقع ہوتے ہیں اور اسی طرح حضرت موسیٰ کو بھی بطور ایک عام واقعے کے پیش آیا۔ چند اور لفظ اس قصے کے ہیں جن پر بحث کرنی ہے‘ یعنی جب حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی جوان سے مچھلی کا پھر دریا میں جانا سنا تو کہا ’’ذالک ما کنا نبغ‘‘ چونکہ مفسرین ان روایات یہود سے جو بعض حدیثوں میںبھی مذکور ہیں یہ سمجھا تھا کہ موسیٰ کو خبر دی گئی تھی کہ جہاں تم مچھلی کو بھول جائو گے وہاں تم کو خضر ملیں گے‘ اس لیے انہوں نے ذالک کا مشار الیہ مچھلی کا چلا جانا قرار دیا اور اس کے معنی یہ سمجھے کہ مچھلی کا چلا جانا وہ امر ہے جس کو ہم چاہتے تھے‘ مگر وذالک ماکنا نبغ ‘ کے معنی صاف ہیں۔ حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی جوان سے کہا کہ آتنا غدانا ‘ یعنی ہمارا صبح کا کھانا لا۔ اس نے کہا کہ مچھلی تو دریا میں چلی گئی ہے یعنی صبح کا کھانا جو تم مانگتے ہو نہیں رہاموسیٰ نے کہا کہ ذالک ای غداء نا ای ماکنا نبغ من غداء نا ‘ یعنی صبح کا کھانا یہ ہے کہ اس کا مشار الیہ ایک امر ذہنی‘ بلکہ خیالی کو قرار دینا جس کا ذکر نہ صراحۃً نہ کنایۃ ً قرآن مجید میں موجودہے صحیح نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید میں آیا ہے فوجداعبدا من عبددنا آتیناہ رحمۃ من عندنا و علمنا ہ من لدنا علما یعنی جب حضرت موسیٰ اور ان کا ساتھی جو ان پھر کو مجمع البحرین پر پہنچے تو انہوں نے ایک بندے کو خدا کے بندوں میں سے پایا جس کو ہم نے اپنی رحمت دی تھی اورہم نے اس کو اپنے پاس سے علم سکھایا تھا۔ مفسرین اور محدثین کہتے ہیں کہ عبد سے خضر مراد ہیں۔ حضرت موسیٰ کو خضر سے ملنے کی یہ وجہ بیان ہوئی ہے کہ حضرت موسیٰ نے ان کی قوم سے پوچھا کہ سب سے زیادہ کون اعلم ہے۔ موسیٰ نے کہا کہ میں سب سے زیادہ اعلم ہوں۔ ا س پر خدا خفا ہوا اور خدانے وحی بھیجی کہ میرا ایک بندہ مجمع البحرین میں تجھ سے زیادہ اعلم ہے۔ مگر اس کا قرآن مجیدمیں کہیں ذکر نہیںہے کہ اور کس قدر عجیب بات ہے کہ اس واقعے کا نہ قرآن مجیدمیںذکر ہے اورنہ کہیں خضر کا نام آیا ہے البتہ یہودیوں میں خضر کا نام اور ان کے قصے تھے۔ قرآن مجید میں صرف اس قدر پایا جاتا ہے کہ جب حضر ت موسیٰ لوٹ کر پھر مجمع البحرین پر آئے تو وہاں ایک اور شخص ان کو ملا۔ ظاہر ہے کہ جس رستے سے حضر ت موسیٰ نے مدین جانے کا ارادہ کیا تھا وہ نہایت اجنی پہاڑوں اور جنگل کا رستہ تھا جس کو طے کرنا بغیر کسی ایسے شخص کے جو رستے سے واقف ہو‘ نہایت دشوار تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جو ملا وہ رستے کا اور اس کے نواح کے حالات سے واقف کار تھا‘ اس لیے حضرت موسیٰ نے اس سے کہا کہ کیامیں تیری پیروی کروں‘ بشرطیکہ جو بھلائی تجھ کو سکھائی گئی ہے وہ مجھ کو بھی سکھا دے‘ یعنی رستہ بتاتا ہوا لے چلے۔ واضح ہو کہ اب اس مقام سے قرآن مجید میں صرف انہی دو شخصوں کا ذکر ہے‘ اس جوان کا جو پہلے سے حضرت موسیٰ کے ساتھ تھا‘ کچھ ذکر نہیں آیا۔ یا تو وہ ساتھ نہیں رہا یا آئندہ کے حالات میں اس کے ذکر کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوئی۔ یہ شخص ملا صاحب موسیٰ کہلاتا ہے۔ اس کی نسبت علمائے متقدمین نے بہت اختلاف کیا ہے۔ اکثر تو یہ کہتے ہیں کہ یہ خضر پیغمبر تھے جو اب تک جیتے ہیں اور جیتے رہیں گے اور قیامت کے بورئے سمیٹیں گے‘ مگر لوگوں کو دکھائی نہیں دیتے کبھی کسی بھولے بسرے کو راہ بتا دیتے ہیں اورکبھی کسی کو علم لدنی سکھا دیتے ہیں۔ جو لوگ صاحب موسیٰ کو نبی بتاتے ہیں وہ اس آیت پر استدلال کرتے ہیں: آتیناہ رحمۃ من عندنا وعلمناہ من لدنا علما یعنی جس پر ہم نے اپنی رحمت کی تھی اور ہم ہی نے اپنے پاس سے علم سکھایا تھا۔ مگر تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ نبوت بلاشک رحمت ہے‘ مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر رحمت نبوت ہو۔ اور تفسیر کبیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ علمناء مر لدنا کے الفاظ بھی نبوت ثابت نہیں ہوتی‘ کیونکہ علوم ضروریہ ابتدا میں خدا ہی سے ملتے ہیں۔ پس یہ دلیل ثبوت کی نہیں ہے۔ اور تفسیر کبیر میں یہ بھی لکھا ہیکہ یہ الفاظ جو قرآن میں ہیں‘ وما فعلتہ عن امری ان الفا ظ سے نبوت پر استدلال کرنا نہایت ضعیف ہے۔ اس کا نہایت ضعیف ہونا ظاہر ہے‘ اس لیے کہ یہ کہنا کہ میں نے خدا کی مرضی سے یہ کام کیاہے یا اپنی مرضی و خواہش سے نہیں کیا‘ عام محاورہ بول چال کا ہے‘ ا س سے اس شخص کا نبی اور پیغمبر ہونا ثابت نہی ہو سکتا۔ بخاری کی تین حدیثوں میں جن میں ایک عبداللہ بن محمد المسندی سے اور ایک ابراہم سن موسیٰ سے اور ایک قتیبہ بن سعید سے مروی ہے ان حدیثوںمیںاس شخص کا نام جو حضرت عیسیٰ سے مجمع البحرین پر ملا خضر لکھا ہے‘ مگر وہ ان وجوہ سے جو آگے بیان ہوں گی قابل تسلیم نہیں ہے۔ بخاری میں متعددجگہ حضرت موسیٰ کے قصے کا ذکر ہے مگر چار حدیثیں بہت بڑ ی ہیں جن میں قریباً یہ تمام قصہ مذکورہے۔ پہلی حدیث میں عبداللہ بن المسندی‘ سفیان‘ عمرو‘ سعید ابن جبیر‘ ابن عباس‘ ابی بن کعب راوی ہیں۔ دوسری حدیث میں علی بن عبداللہ‘ سفیان‘ عمرو بن دینار‘ سعید ابن جبیر‘ ابن عباسس ‘ ابی بن کعب راو ی ہیں۔ تیسری حدیث میں ابراہیم بن موسیٰ ‘ ہشام ابن یوسف ‘ابن جریح‘ یعلی بن مسلم‘ عمرو بن دینار‘ سعید بن جبیر‘ ابن عباس‘ ابن ابی کعب راوی ہیں۔ چوتھی حدیث میں قتیبہ بن سعید‘ سفیان بن عیینہ‘ عمرو ابن دینار‘ سعید بن جبیر ‘ ابن عباس ‘ابی بن کعب راوی ہیں۔ ان چاروں حدیثوں میں ابی بن کعب اخیر راوی ہیں اور عمرو بن دینار‘ سعید ابن جبیر‘ ابن عباس چاروں حدیثوں کے راوی ہیں اور سفیان صرف پہلی اور دوسری اور چوتھی حدیث میں اور چاروں حدیثوں میںابن عباس نے ابی بن کعب سے روایت کی ہے۔ مگر ان حدیثوں میں جو تفاوت الفاظ اور طرز بیان اوربعض جگہ مضمون میں ہے اس کو بیان کرنا مناسب ہے۔ پہلی حدیث میں ہے ’’موسیٰ نبی‘‘ دوسری میں ہے صرف ’’موسیٰ‘‘ تیسری میں ہے ’’موسیٰ رسول اللہ‘‘ چوتھی میں ہے صرف ’’موسیٰ‘‘۔ پہلی اور دوسری حدیث میں ہے قال موسیٰ النبی خطیباً فی بنی اسرائیل فسئل ای الناس اعلم فقال انا اور چوتھی حدیث میں بجائے ’’فسئل‘‘ کے ’’فقیل لہ‘‘ ہے۔ اور تیسری حدیث میں ہے : ذکر الناس یوما حتیٰ اذا فاضت العیون و رقت القلوب ولی فادرکہ رجل فقالا ای رسول اللہ ھل فی الارض احد اعلم منک قال لا یعنی پہلی اور دوسری حدیث میں ہے کہ ’’حضرت موسیٰ وعظ کرنے کو بنی اسرائیل میں کھڑے ہوئے‘ پوچھا گیا کہ کون شخص سب سے زیادہ عالم ہے حضرت موسی ٰ نے کہا کہ میں ہوں۔ اور چوتھی حدیث میں بجائے ’’فسئل‘‘ کے ’’فقیل لہ‘‘ ہے یعنی موسیٰ سے کہا گیا۔ اور تیسری حدیث میں ہے کہ ’’ایک دن حضرت موسیٰ نے لوگوں کو نصیحت کی یہاں تک کہ لوگ روئے اور ان کے دل نرما گئے۔ جب وعظ کہہ کر چلے تو ایک شخص ملا اور اس نے کہا کہ اے رسول خدا! دنیا میں تم سے زیادہ کوئی عالم ہے ؟ حضرت موسیٰ نے کہا ’’نہیں‘‘۔ پہلی حدیث میں ہے : فاوحیٰ اللہ الیہ ان عبدا من عبادی بمجمع البحرین ین اعل منک اور دوسری حدیث میں ہے : قال لہ بل لی عبد بمجع عبد البحرین اعلم منک اور تیسری حدیث میں ہے : قیل بلیٰ قال ای رب و این قال بمجمع البحرین چوتھی حدیث میں ہے : واوحیٰ الیہ بلیٰ عبد من عبادی بمجمع البحرین ہو ا علم منک یعنی پہلی حدیث میں ہے کہ خدا نے موسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ مجمع البحرین میں ایک میرا بندہ تجھ سے زیادہ عالم ہے۔ اور دوسری حدیث میں ہے کہ خدا نے موسیٰ سے کہا کہ نہیں بلکہ میرا ایک بندہ مجمع البحرین میں تجھ سے زیادہ عالم ہے۔ اور تیسری حدیث میں ہے کہ کہا گیا ’’ہاں‘‘ موسیٰ نے کہا ’’اے خدا کہاں؟‘‘ خدا نے کہا مجمع البحرین میں۔ اور چوتھی حدیث میں ہے کہ خدا نے موسیٰ کو وحی بھیجی کہ ہاں میرا ایک بندہ مجمع البحرین میں تجھ سے زیادہ عالم ہے۔ پہلی حدیث میں ہے : قال یا رب و کیف بہ دوسری حدیث میں ہے : قال ای رب ومن لی بہ وربما قال سفیان ای رب فکیف لی بہ تیسری حدیث میں ہے: قال ای رب اجعل لی علما اعلم ذالک منہ چوتھی حدیث میں ہے: قال ای رب کیف السبیل الیہ یعنی پہلی حدیث میںہے کہ موسیٰ نے کہا ’’اے خدامیں کیونکر اس تک پہنچوں گا‘‘۔ اور دوسری حدیث میں ہے کہ موسیٰ نے کہا ’’اے خدا کون مجھے اس تک پہنچائے گا‘‘ اور کبھی سفیان نے کہا ’’اے خدا میں کیوں کر اس تک پہنچوں گا‘‘۔ اور تیسری حدیث میں ہے کہ موسیٰ نے کہا ’’اے خدا مجھے کوئی نشانی بتا جس سے میں اس کو پہچانوں‘‘۔ اور چوتھی حدیث میںہے کہ موسیٰ نے کہا ’’ا ے خدا میں کیونکر اس تک رستہ پائوں‘‘۔ پہلی حدیث میں ہے : فقیل لہ احمل حوتافی مکتل فاذا فقدتہ فھو ثم دوسری حدیث میں ہے : قال تاخذ ہوتا فتجعلہ فی مکتل حیث ما فقدت الحوت فھو ثم وربما قال فھو ثمہ تیسری حدیث میں ہے : فقال لی عمرو قال حیث یفار قک الحوت وقال لی یعلی قال خذنونا مینتا حیث ینفخ فیہ الروح چوتھی حدیث میں ہے : قال تاخذ حوتا فی مکتل فحیث ما فقدت الحوت فاتبعہ یعنی پہلی حدیث میں ہے کہ موسیٰ سے کہا گیا کہ زنبیل میں ایک مچھلی اٹھا لے‘ جہاں وہ کم ہو وہ اسی جگہ ہو گا۔ اور دوسری حدیث میں ہے کہ خدا نے کہا کہ ایک مچھلی لے اور زنبیل میں رکھ‘ جہاں مچھلی کم ہو جائے وہ اسی جگہ ہو گا۔ اور تیسری حدیث میں ہے کہ عمرو بن دینار نے مجھ سے کہا کہ خدا نے کہا جہاں مچھلی تجھ سے جدا ہو اور یعلی نے مجھ سے کہا کہ خدا نے کہا کہ ایک مردہ مچھلی جہاں اس میں جان پڑ جائے۔ اور چوتھی حدیث میں ہے کہ خدا نے کہا زنبیل میں ایک مچھلی رکھ لے جہاں مچھلی گم ہو جائے اس کے پیچھے پیچھے چلا جائیو۔ پہلی حدیث میں ہے : وحمل حوتا فی مکتل حتیٰ کانا عند الصخرۃ وضعا رئوسھما فناما فانسل الحوت من المکتل فاتخذ سبیلہ فی البحر سربا۔ دوسری حدیث میں ہے : فاخذ حوتا فی مکتل ثم انطلق ہووفتاہ یوشع بن نون حتیٰ اذا اتیا الصخرۃ وضعارئو سھما فرقد موسیٰ و اضطرب الحوت فخرج فسقط فی البحر فاتخذ سبیلہ فی البحر سربا تیسری حدیث میں ہے : فاخذ حوتا فجعلہ فی مکتل فقال لفتاہ لا اکلفک الا ان تخبر نی بحیث یفار قک الحوت … فبینما ہو فی ظل صخرۃ فی مکان ثریان اذ تضرب الحوت… حتیٰ دخل البحر چوتھی حدیث میں ہے: قال فخرج موسیٰ ومعہ فتاہ یوشع بن نون و معھما الحوت حتی انتھیا الی الصخر ۃ فنزلا عندھا قال فوضع موسیٰ راسہ فنام قال سفیان وفی حدیث غیر عمر و قال و فی اصل الصخرۃ عین یقال لہ الحیاۃ لا یصیب من مائھا شیئی الا حیء فاصاب الحوت من ماء تلک العین قال فتحرک وانسل من المکتل فدخل البحر یعنی پہلی حدیث میں ہے کہ موسیٰ نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی‘ یہاں تک کہ دونوں ایک چٹان کے پاس پہنچے اور دونوں اس پر سر رکھ کر سو گئے۔ مچھلی زنبیل سے نکل پڑی اور اس نے سمندر میں رستہ لیا۔ اور دوسری حدیث میں ہے کہ ’’موسیٰ نے زنبیل میں مچھلی لی اور پھر وہ اور ان کا جوان ساتھی یوشع بن نون دونوں چلے اور ایک چٹان کے پاس پہنچے ۔ دونوں نے اس پر اپن اسر رکھا اور موسیٰ سو گئے اور مچھلی تڑپ کر نکل پڑی اورسمندر میں جا پڑی اور اس نے سمندر میں اپنارستہ لیا۔ اور تیسری حدیث میں ہے کہ ’’موسیٰ نے مچھلی لی اور اس کو زنبیل میں رکھا پھر اپنے جوان ساتھ سے کہا کہ میں تم کو اس کے سوا تکلیف نہیں دیتا کہ جہاں مچھلی تم سے جدا ہو مجھے خبر کر دینا… اسی اثنا میں موسیٰ ایک چٹان کی پناہ میں تر زمین پر تھے کہ مچھلی تڑپی … یہاں تک کہ وہ سمندر میں چلی گئی۔ اور چوتھی حدیث میں ہے کہ ’’راوی نے کہا کہ موسیٰ چلے اور ان کے ساتھ یوشع بن نون تھے اور دونوں کے ساتھ مچھلی تھی یہاںتک کہ ایک چٹان کے پاس پہنچے اور اس کے قریب اتر پڑے۔ راوی نے کہا ہے کہ موسیٰ نے اپنا سر (اس پر) رکھا اورسو گئے۔ سفیان کہتے ہیں کہ عمرو بن دینار کی روایت کے سوا اور روایت میںہے کہ چٹان کی جڑ میں ایک چشمہ تھا جس کو چشمہ آب حیات کہتے ہیں ۔ اس کا پانی جس کو لگتاتھا وہ زندہ ہو جاتا تھا ۔ اس مچھلی کو بھی وہ پانی لگا اور اس میں جنبش پیدا ہوئی اور زنبیل سے نکل کر سمندر میں چلی گئی‘‘۔ پہلی حدیث میں ہے: فلما انتھیا الی الصخرۃ اذا رجل مسجی بثوب اوقال مسجی بثوبہ دوسری حدیث میں ہے : حتی انتھیا الی الصخرۃ فاذا رجل مسجی بثوب تیسری حدیث میں ہے: فرجعا فوجدا خضرا قال لی عثمان بن ابی سلیمان طنفسۃ خضراء علی کبد البحر قال سعید ابن جبیر مسجی بثوبہ چوتھی حدیث میںہے: قال فلما انتھیا الی اصخرۃ اذا ھما برجل مسجی بثوب یعنی پہلی حدیث میںہے کہ ’’جب دونوں چٹان کے پاس پہنچے تو یکایک ایک شخص پر نظر پڑا جو ایک کپڑا اوڑھے ہوئے تھا۔ اور دوسری حدیث میں ہے کہ ’’جب دونوں چٹان کے پاس پہنچے تو ناگاہ ایک شخص ملا جو کپڑا اوڑھے ہوئے تھا‘‘۔ اور تیسری حدیث میں ہے کہ ’’جب دونوں الٹے پھرے تو انہوںنے خضر کو پایا ۔ عثمان بن ابی سلیمان نے مجھ سے کہا سمندر کے بیچ میں ایک سبز و صلچہ پر سعید بن جبیر نے کہا کپڑ ا اوڑھے ہوئے ‘‘۔ اور چوتھی حدیث میں ہے کہ ’’راوی نے کہا جب دونوں چٹان کے پا س پہنچے تو یکایک دونوں نے ایک شخص کو دیکھا کپڑا اوڑھے ہوئے‘‘۔ پہلی اور تیسری اور چوتھی حدیث میں اس شخص کا نام جو حضرت موسی ٰ کو مجمع البحرین پر ملا خضر لکھا ہے ار دوسری حدیث میں اس کا نام نہیں ہے ۔بلکہ رجل مسجی بثوب لکھا ہے یعنی ایک شخص ملا جو چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ یہ تفاوت الفاظ اور طرز بیان اور زیادتی و کمی مضامین کو بطور نمونہ کے ہم نے دکھایا ہے اور اسی طرح کا ان حدیثوں میں جو موسیٰ کے قصے سے متعلق ہیں بہت جگہ تفاوت الفاظ اور طرز بیان اورمضامین کا ہے۔ اس سے ہم کو یہ ثابت کرنا ہے کہ ان حدیثوں میں جو الفاظ ہیں وہ وہ نہیں ہیں جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے ہیں‘ بلکہ یہ الفاظ اخیر راویوں کے ہیں جنھوں نے ان حدیثوں کو مثل دیگر احادیث طوال کے بالعنی روایت کیا ہے اور اس لیے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ تصور نہیں ہو سکتے۔ دوسرے یہ امر قابل غور ہے کہ رسول خدا صلعم نے فرمایا تھا کہ حدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج (بخاری کتاب الانبیائ) یعنی بنی اسرائیل جو روایتیں بیان کرتے ہیں ان کے بیان کرنے میں کچھ حرج نہیں ہے‘ اس بنا پر صحابہ او ر تابعین یہودیوں کی روایت کو بیان کرتے تھے ۔ اخیر راویوں نے یہ خیال کر کے کہ پہلے راوی نے آنحضرت سے سنا ہو گا ا ن کو آنحضرت کی طرف مستند کر دیا۔ پس جس قدر یہودیوں کے قصے حدیثوں میں پائے جاتے ہیں ان کی نسبت یقین نہیں ہو سکتا کہ درحقیقت وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مستند ہیں گو کہ وہ حدیثوں میں مستند کیے گئے ہوں اس لیے ضرو ر ہے کہ ان قصوں کا جس قدر ذکر قرآن مجید میںہے‘ انہیں پر ہم منحصر رہیں اور حدیثوںمیں جو قصے ہیں ا ن کو بنظر درایت دیکھیں اور جانچیں اور جہاں تک ان میں کوئی نقص نہ پایا جاوے اور قرآن مجید سے اسکی تائید ہوتی ہو ان کو تسلیم کریں اور جن میں ازروئے درایت کے کچھ نقص پائیں ان کو متروک کریں۔ قرآن مجید میں یہ قصہ دو سورتوںمیںآیا ہے ۔ سورۃ قصص میں صرف وہاں تک بیان ہوا ہے جہاں تک کہ حضرت موسیٰ ایک شخص کو قتل کر کے شہرسے بھاگے تھے۔ اس کے بعد بھاگنے کی حالت میں جو واقعات پیش آئے ان کا بیان سورہ کہف میں آیا ہے اور کوئی اس سے انکار نہیںکر سکتا ۔ کہ وہ ایک ہی قصہ ہے اور حضرت موسیٰ ہی کا قصہ ہے جو آدھا ایک سورۃ میں اور آدھا دوسری سورۃ میں آیاہے۔ جس وقت تک کہ حضرت موسیٰ اس شہر سے بھاگے ہیں جس میں انہوں نے ایک قبطی کو مار ڈالا تھا۔ اس وقت تک وہ نبی یا پیغمبر یا رسول نہیں ہوئے تھے‘ کیونکہ ان کو رسالت اس کے بہت بعد ہوئی تھی جبکہ وہ فرعون کی ہدایت اور بنی اسرائیل کو آزاد کرنے پر مامور ہوئے اور یہ ایک تاریخی واقعہ ہے‘ مگر بخاری کی مذکورہ بالا حدیثوں میں ان کو نبی اور رسول اللہ کر کے تعبیر کیا گیا ہے اورلکھا ہے کہ خدا نے ان پر وحی بھیجی تھی کہ مجمع البحرین میں جو میرا بندہ ہے وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے اور ان تما م حدیثوں میں پایا جاتاہے کہ اس واقعے کی بابت خدا برابر ان پر ہدایتیں بھیجتا رہتا تھا۔ پس یہ امر جو خلاف تاریخ محققہ و مشبتہ ہے مطابق اصول حدیث کے تسلیم نہیں ہو سکتا۔ بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ اس چٹان کے نیچے جس پر مچھلی رکھی تھی آب حیات کا چشمہ تھا اس کا پانی جس کو لگتا تھا وہ زندہ ہو جاتا تھا۔ اس مری مچھلی کو بھی وہ پانی لگا اور وہ زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی ۔ یہ بیان نہ قرآن مجید سے مطابقت رکھتاہے نہ عقل سے اور اس لیے مطابق اصول حدیث تسلیم نہیں ہو سکتا اورنہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمودہ قرار پا سکتا ہے ۔ اسی طرح خضر کا سمندر کے بیچ میں ایک سبز و صلچہ بچھائے بیٹھا ہونا جو بخاری کی حدیث میں ہے قابل تسلیم نہیں ہے اور نہ یہ بات تسلیم ہو سکتی ہے کہ جس سوکھی گھا س پر وہ بیٹھتے تھے وہ ہری ہو جاتی تھی۔ انہی قصوں کی مناسبت سے اس شخص کا نام خضر رکھ دیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے کے مقدس لوگوں میں ایک عام رواج تھا کہ لوگوں کو نصیحت کرنے اور ان کے دل میں خدا کا ڈر بٹھانے اور اس کی قدرت کی شان جتانے کے لیے اس قسم کے قصے بنا لیتے تھے اور بزرگوں کے واقعی اور سچے حالات میں ایسی باتیں ملا دیتے تھے جن سے خدا کی قدرت عظیم ظاہر ہوتی تھی اور وہ لوگوں کے دلوں پر زیادہ موثر ہوتے تھے۔ اسی قسم کے بہت سے قصے نہایت قدیم زمانے کے لیٹن زبان میں موجود ہیں۔ حکایات لقمان بھی اسی قسم کی کتاب ہے۔ حضرت مولانا روم کی مثنوی بھی اسی قسم کے قصوں سے مملو ہے ۔ اسی طرح یہودیوں کے عالموں اورواعظوں نے حضرت موسیٰ کے شہر سے نکلنے اور مدین تک پہنچنے کے سفر میں جو واقعات پیش آئے اس میں بھی اعجوبہ باتیں ملا دیں اور اس سفر میں ایک فرضی شخص خضر کا ملنا شامل کیا جس کو ایک نہایت ہی بزرگ شخص اورمقدس خدا رسیدہ صاحب کشف و کرامات قرار دیا۔ وہ قصہ یہودیوں میں مشہور تھا‘ اسی قصے کو بطور قصہ ہائے یہود صحابہ و تابعین نے بیان کیا ہو گا۔ اور اخیر راویوں نے اس خیال سے کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلعم سے سنا ہو گا ان قصوں کو حدیثوں میں شامل کر دیا اور مفسروں نے اپنی تفسیروں میں داخل کیا‘ مگر قرآن مجید میں جہاں تک اس قصے کا بیان ہے وہ سیدھا اور صاف ہے اور ان باتوں میں سے جو ان روایتوں اور تفسیروں میںبیان ہوئی ہیں ایک حرف بھی قرآن مجید میں شامل نہیںہے۔ آج تک علماء یہ بھی نہیں بتا سکے کہ خضر کون تھے اور کس کے بیٹے تھے۔ دار قطنی کی روایت یہ ہے کہ وہ حضرت آدم کے بیٹے ہیں۔ یہ روایت ابن عباس سے ہے اور اس روایت میں مقاتل اور ضحاک بھی راوی ہیں۔ اصابہ میں لکھا ہے کہ مقاتل کی روایت تولینے کے قابل نہیں ہے اور ضحاک نے ابن عباس سے کوئی روایت نہیں سنی۔ ابو حاتم سجستانی ان کو قابیل کا بیٹا قرار دیتے ہیں او ر بعضو ں نے کہا ہے کہ ان کا نام خضرون ہے او ر بعضوںنے کہا عامر اوربعضوں نے کہا کہ نام بلیا ہے اور وہ بیٹے ہیں ملکان کے جو نوح کی اولاد میںسے تھے اوربعضوں نے کہا ہے کہ ان کا نام معمر ہے اور وہ بیٹے ہیں مالک بن عبداللہ بن نصر بن اذد کے اور بعضوں نے کہا کہ وہ عمائیل بن نور بن عیص بن اسحاق کے بیٹے ہیں اوربعضوں نے کہا کہ وہ موسیٰ کے بھائی ہارون کے نواسے ہیں اوربعضوں نے کہا کہ ان کا نام ارمیا بن خلفیا ہے اور بعضوںنے کہا کہ وہ فرعون کے نواسے ہیں اور بعضوں نے کہا کہ وہ فرعون کے بیٹے ہیں اوربعضوں نے کہا کہ وہ الیسع ہیں اور انہیں کو خضر کہتے ہیں اوربعضوںنے کہا کہ وہ فارسی النسل ہیں اوربعضوںنے کہا کہ وہ ان میں سے کسی شخص کی اولاد میں ہیں جو حضرت ابراہیم پر ایمان لائے تھے اور بعضوں نے کہا کہ ان کا بات تو ایک فارسی تھا اوران کی ماں رومی تھی اور بعضوںنے کہا کہ ان کا باپ رومی تھا اور ماں فارسی تھی اور بعضوںنے کہا کہ وہ فرشتے تھے جو آدمی کی صورت بن جاتے تھے۔ یہ تما م اختلاف جو نسب سے علاقہ رکھتے ہیں علامہ ابن حجر نے اصابہ میںبیان کیے ہیں۔ او ر اصابہ میں سہیلی کی کتاب التعریب و الاعلام سے لکھا ہے کہ خضر کا نام عامیل بن سماطین بن ارما بن خلفا بن عیصو بن اسحاق ہے اور ان کے باپ بادشاہ تھے اور ماں فارسی تھی جس کا نام الہاء تھا اور وہ ایک جنگل میں پیدا ہوئے اور ایک شخص کے بکری تھی جو ان کو آن کر دودھ پلا جاتی تھی پھر اس شخص نے ان کو اٹھا لیا اور پرورش کی۔ ایسی حالت اور خصوصاً جبکہ بعضوںنے ان کو فرشتہ قرار دیا ہو جو آدمی کی صورت بن جاتے تھے‘ کیونکر ایک واقعی شخص اورنہ صرف شخص‘ بلکہ نبی و رسول قرار دیا جا سکتا ہے اوکچھ شبہ نہیں رہتا کہ یہ پرانے قصوں میںکا ایک فرضی نام ہے اور اس کو حضرت موسیٰ کے اصلی واقعات کے ساتھ شامل کر دیا ہے۔ اب ہم کو تین واقعات کی نسبت جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے بیان کرنا باقی ہے ایک کشتی کا چیرنا‘ ایک دیوار کا درست کرنا اور ایک غلام کا قتل کرنا۔ یہ شخص جو حضرت موسیٰ سے ملا کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ اس نواح کے حالات سے واقف تھا اور اسی سبب سے‘ یعنی رستہ بنانے کی غرض سے حضرت موسیٰ نے ا س سے کہا تھا کہ کیا میں تمہاری پیروی کروں۔ موسیٰ نے اس سے کہا تھا کہ جو کچھ میںکروں جب تک کہ میں تم سے نہ کہوں مجھ سے نہ پوچھنا کہ یہ کام تم نے کیوں کیا۔ وہ شخص جانتا تھا ک موسیٰ اس نواح کے حال سے واقف نہیں ہیں میں جو کچھ کروں گا وہ پوچھیں گے کہ یہ کیوں کیا اور شاید اس کا بتلانا مجھ کو منظور نہ ہو۔ کشتی کے ناقص کر دینے کی جو وجہ اس شخص نے بتلائی وہ نہایت صاف ہے۔ وہ جانتا تھا کہ وہاں کا بادشاہ ظالم ہے لوگوں کی کشتیاں چھین لیتا ہے یا بیکار میں پکڑ لیتا ہے۔ اس نے اس کشتی کو اس لیے ناقص کر دیا کہ وہ چھینی یا پکڑی نہ جاوے۔ دیوار کو اس نے اس لیے درست کر دیا ککہ اس کو پہلے سے معلوم ہو گا کہ اس کے نیچے یتیموں کے باپ کا رکھا ہوا مال ہے اور اس کو ان یتیموں کے مال کے محفوظ رہنا منظور ہو گا۔ تفسیر کبیر میں بعض کا قول لکھا ہے کہ اس دیوار کے نیچے خزانہ نہ تھا‘ یہ قول صحیح ہو یا غلط مگر جن عمدہ باتوں کا اس پر لکھا ہوا ہونا بیان کیا ہے وہ دلچسپ ہیں‘ ا س لیے ہم ان کو لکھتے ہیں۔ اس تختی پر لکھا ہو ا تھا ’’تعجب ہے کہ جو شخص مقدر پر یقین رکھتا ہو اور پھر غمگین رہے‘‘۔ ’’تعجب ہے کہ جو شخص رزق مقدر پر یقین رکھتا ہو اور پھر رنج میں پڑے‘‘۔ ’’تعجب ہے کہ جو شخص موت پر یقین رکھتا ہو اور پھر خو ش رہے‘‘۔ ’’تعجب ہے کہ جو شخص حساب اعمال پر یقین رکھتا ہو اور پھر غفلت میںپڑا رہے‘‘۔ ’’تعجب ہے کہ جو شخص دنیا کے انقلاب پر یقین رکھتا ہو اورپھر اس پر مطمئن رہے‘‘۔ اخیر کو اس میں لکھا تھا ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘۔ غلام کا مار ڈالنا البتہ زیادہ غور کرنے کے لائق ہے‘ مگر تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ غلام کا اطلاق بچے پر نہیں ہوتا‘ بلکہ جوان پر بھی ہوتا ہے اور اس میں یہ قول لکھا ہے کہ جس کو غلام کہا ہے وہ بالغ ‘ یعنی جوان تھا اور ڈاکہ ڈالا کرتا تھا اور برے برے کام کرتا تھا۔ پس صاف ظاہر ہے کہ وہ شخص اس کے افعال سے واقف تھا اور وہ واجب القتل تھا‘ اتفاقاً ا سکو مل گیا اور اس نے مار ڈالا اور موسیٰ سے کہا کہ اس کے ماں باپ نیک ہیں خدا ان کو نعم البدل دے گا۔ مفسرین نے تو یہاں تک سلسلہ پہنچا دیا ہے کہ پھر اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی اور ایک بیٹے سے بیاہی گئی۔ اس سے بیٹی ہی پیدا ہوئی ۔ پس ان تمام واقعات میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو عجیب ہو اور عام حالات انسانی کے مطابق نہ ہو تی ہو۔ ٭٭٭ اصحاب کہف اور ان کی حقیقت یہ نہایت دلچسپ ‘ اہم اور فاضلانہ مضمون سرسید نے اصحاب کہف کے متعلق لکھا تھا جس میں بڑی چھان بین اور تحقیق کے بعداصحاب کہف کی حقیقت بیان کی ہے۔ تفسیروں میں اصحاب کہف کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے سرسید نے ان تمام تفسیروں کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ مضمون لکھا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ سرسید نے اس علمی اور تحقیقی مقالے کا عنوان’’ ترقیم فی قصہ اصحاب الکہف و الرقیم ‘‘ رکھا تھا اور اس کو علیحدہ چھپوا کر شائع کیا تھا ۔ (شیخ اسماعیل پانی پتی)۔ الحمد للہ الذی وافق کلامہ بصنعہ وطابق صنعہ بکلامہ فکلامہ مطھر لجالہ وصنابعہ مشبۃ لکمالہ لا تبدل لکلمات اللہ کمالا تبدیل لصنایع اللہ والصلوۃ والسلام علیٰ رسولہ محمدن المصطفی خاتم النبیین الذی قال کما یوحیٰ الیہ انا بشر مثلکم یوحیٰ الی انما لاھکم الہ واحدو علیٰ الہ الذین ہم ثقل من الثقلین کما قال علیہ الصلواۃ والسلام انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی وعلیٰ اصحابہ اجمعین۔ منجملہ ان قصوںکے جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے ایک قصہ اصحاب الکہف و الرقیم کا ہے ۔ یہ قصہ آنحضرت صلعم کی بعثت کے قبل ایشیا میں اور روم کے عیسائیوں میں اور عرب جاہلیت میں مشہور تھا اور جیسا کہ ہم اس قسم کے قصوں کا دستور ہے بہت ہی بے اصل اور عجیب و غریب باتیں اس میںچامل ہو گئی تھیں۔ خداوند تعالیٰ نے اس قصے کا ذکر قرآن مجید میں فرمایا اور بتایا کہ اصلی و صحیح قصہ کیا ہے ۔ مگر مفسرین و مورخین نے بعوض اس قصے سے علیحدہ کرتے قرآ ن مجید کی تفسیروں اور ان تاریخوں میں جو زمانہ اسلام میں لکھی گئی تھیں اس طرح شامل کر دیا کہ گویا وہ کہانیاں اسلام ہی کی ہیں‘ حالانکہ اسلام اس قسم کی بیہودہ کہانیوںسے بری ہے۔ اس امر پر خیال کر کے میں نے چاہا کہ قصہ اصحاب الکہف و الرقیم کو صاف طور پر ‘ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے بیان کروں اور بے اصل کہانیاں جو اس میں شامل ہو گئی ہیں ‘ ان کو اسل قصے سے علیحدہ کروں۔ للہ الحمد کہ یہ کام پورا ہوا اور اس رسالے کا نام ترقیم فی قصۃ اصحاب الکہف و الرقیم رکھا۔ میںنے اس قصے کو اول صاف اور سیدھے طور پر بغیر تعرض قرآن مجید کے بیان کیا ہے اور جن کتابوں سے اس کو اخذ کیا ہے بعینہ ان کی اصلی عبارت حاشیے میں لکھ دی ہے ۔ اس کے بعد قرآن مجید کی ان آیات کی تفسیر بیا ن کی ہے جو قصہ اصحاب الکہف سے متعلق ہیں اور دکھایا ہے ہ بے اصل کہانیاں جو مشہور ہیں انہیں کی تردید قرآن مجید سے ہوتی ہے۔ جو کہ مسلمانوں کو بہت کم معلوم ہے کہ عیسائی مورخ اس قصے کی نسبت کیا خیا ل کرتے ہیں اور کیار ائے رکھتے ہیں‘ اس لیے اس کے اخیر میں ایک انگریزی کتاب سے اس قصے کا ترجمہ اس کے مضامین سے بلا کسی قسم کے تعرض کے شامل کر دیا ہے۔ اس کے شامل کرنے سے صرف مقصدیہ ہے کہ عیسائی مورخوں کے خیالات جو اس قصے کی نسبت ہیں معلوم ہو جاویں اور کھل جاو ے کہ جو روایتیں ہمارے علماء نے اپنی کتابوں او رتفسیرون میں لکھی ہیں وہ سب عیسائیوں کی روایتیں ہیں نہ کہ اسلام کی۔ اس رسالے کے لکھنے کے وقت مندرجہ ذیل کتابیں میر ے مطالعے میں تھیں جن سے اس قصے کو اخذ کیا ہے اور صحیح روایتوں کو غلط روایتوں سے تمیز کیا ہے۔ تفصیل کتب مذکورہ یہ ہے (۱) تفسیر مدارک (۲) تفسیر معالم التنزیل (۳) تفسیر کبیر (۴) تفسیر بیضاوی (۵) تفسیر کشاف (۶) صحیح بخاری (۷) تاریخ طبری کبیر (۸) مختصر الدول ابو الفرج مالطیہائی (۹) آثار الباقیہ عن قرون الخالیہ لابی ریحان بیرونی (۱۰) ترجمہ فارسی سیرت محمد بن اسحق (۱۱) آثار البلاد و اخبار العباد لامام ذکریا قزوینی (۱۲) تاریخ کامل ابن اثیر (۱۳) معجم البلدان یاقوت حموی (۱۴) تاریخ اسماعیل ابو الفدا (۱۵) مروج الذھب مسعودی (۱۶) عجائب المخلوقات عربی (۱۷) کیورس متھس آف دی میڈل ایجز مولفہ ایس بارنگ گولڈ بزبان انگریزی۔ اصحاب الکہف والرقیم اصحاب کہف اور اصحاب رقیم ایک ہی گروہ کا لقب ہے اصحاب کہف تو ان کو اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ایک ظالم بت پرست بادشاہ کے ظلم سے ایک پہاڑ کی کھوہ میں جا چھپے تھے۔ عربی زبان میں پہاڑ کی کھوہ کو کہف کہتے ہیںُ‘ اس لیے ان کا لقب اصحاب کہف ہو گیاہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رقیم ۱ اس شہر کا نام ہے جس مین اصحاب کہف رہتے تھے۔ بعضوں کا قول ہے کہ پہاڑ کی کھوہ کا نام ہے جس میں اصحاب کہف چھپے تھے۔ بعضے کہتے ہیں کہ ان کے کتے کا نام ہے جو ان کے ساتھ تھا اس لیے ان کو اصحاب الرقیم کہنے لگے‘ مگر ان میں سے کوئی بات اعتبار کے قابل نہیں ہے عربی کتابں میں ان کے کتے کا نام قطمیر لکھا ہے اور انگریزی کتابوں میں کراٹیمر اور یہ نام ملتے جلتے ہیں‘ صرف ایک زبان دوسری زبان میں منتقل ہو نے میں جو فرق لہجے اور تلفظ میں ہو جاتاہے وہی کراٹیمر اور قطمیر میں ہو گیا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ویقرب البلقاء من اطراف الشام موضع یقال لہ الرقیم یزعم بعضھم ان بہ اہل الکہف والصحیح انھم ببلاد الروم (معجم البلدان یاقوت حموی) قیل الرقیم اسم القریۃ اللتی کانوا فیھا و قیل انہ اسم الجبل الذی فیہ الکہف (معجم البلدان یاقوت حموی) قال امیۃ بن الصلت۔ ولیس بھا الا الرقیم مجاورا۔ وصید ھم والقوم فی الکہف ھمد۔ ۲۔ الرقیم الکتاب مرقو مکتوب من الرقم قال سعید عن ابن عباس الرقیم اللوح من الرصاص کتب عاملھم اسمائھم ای اسماء اصحاب الکہف ثم طرحہ فی خزانتہ (بخاری) الرقیم ہو لوح رصاص کتب فیہ انسابھم واسمائھم ودینھم مما حربو ا(معجم البلدان یاقوت حموی) ثم ان رجلین مومنین بی فیت الملک دقیانوس یکتمان ایمانھما اسم احد ھما تید روس والاخر روبابس ایتمرا ان یکتبا شان الفنیۃ وانما بھم واسمائھم وخبر ھم فی لوحین من رصاص یجعلا ھا فی تابوت من نحاس و یجعل التابوت فی البنیان وقالا لعل اللہ یظھر علیٰ لھولاء الفتیۃ قوما مومنین قبل یوم القیامۃ فیعلم من عنھم حین یقرا ھذاالکتاب خبر ھم ففعلا وبنیا علیہ ۔ (تفسیر معالم التنزیل ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صحیح بات جیسے کہ محمد اسماعیل بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخار ی میں ابن عباس کی روایت سے لکھی ہے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کا حال اور نام ایک زمانے میں جست کے پترے پر کندہ کر کر اور بعض روایتوں کے مطابق پتھر پر کھود کر رکھا گیا تھا۔ رقیم کے معنی عربی زبان میں لکھے ہوئے ہیں اوراس سبب سے انہیں لوگوں کا لقب اصحاب الرقیم بھی ہو گیا ہے۔ اس بات میں نہایت اختلاف ہے اور آج تک تحقیق نہیں ہوا کہ یہ لوگ تعداد میں کتن تھے۔ غالب ۲ رائے یہ ہے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا جو ان کے ساتھ تھا۔ ان کے ناموںمیں بھی اختلاف ہے مگر وہ اختلاف زیادہ تر ایک زبان سے دوسری زبان میںمنتقل ہونے اور الفاظ کے تلفظ کے اختلاف سے علاقہ رکھتاہے اورکاتبوں نے زیادہ تر تحریف کر دیا ہے بہرحال ہم اس مقام پر ان کے ناموں کو جس طرح کہ مختلف کتابوں میں لکھے ہیں لکھتے ہیں: تفسیر معالم التنزیل اور اس میںان کی تعداد ۹ لکھی ہے مکسلمینا‘ فخشلمینا‘ یملیخا‘ مرطونس‘ کشطونس‘ دیرونس‘ بطیوس‘ دیموس‘ قالوس‘ کلبھم قطمیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ الرقیم ہو الکتاب الذی کان القوم الذین منھم کان الفتیۃ کتبوہ فی لوح یذکرخبرھم و قصصھم ثم جعلوہ علیٰ باب الکہف الذی آووا الیہ او نقروہ فی الجبل الذی آووا الیہ او کتبوہ فی لوح و جعلوہ فی صندوق خلفوہ عند ھم اذا وی الفتیۃ ال الکہف۔ (تاریخ طبری) ۲۔ وعن علی رضی اللہ عنہ ہ سبعۃ و ثامنھم کلبھم (بیضاوی) وکان عدد الفتیۃ فیما ذکر عن ابن عباس سبعۃ و ثامنھم کلبھم۔ (تاریخ طبری) ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تفسیر بیضاوی و کشاف و تفسیر کبیر و تفسیر مدارک یملیخا‘ مکشلینیا‘ مشلینیا ‘ مرنوش‘ دیر نوش‘ شاذنوش ‘ والراعی‘ کلبھم قطمیر تاریخ کامل لابن اثیر مکسلمینا‘ تملیخا‘ مرطوس ‘ نیرونس‘ کسطومس‘ دینموس‘ ریطوفس‘ فالوس‘ فحسلمینا‘ کلبہم قطمیر معجم البلدان یا قومت حموی یملیخا‘ مکسملینا‘ مشلینیا‘ مرطونس‘ دیریوس‘ سراپیون‘ افستیطیوس‘ کلبھم قطمیر تاریخ طبری مکسملینا‘ مخسملینا‘ یمنیخ یا یملیخا‘ مرطوس‘ کسوطونس‘ بیرونس‘ وسمونس‘ بطونس قالوس تاریخ احمد بن ابی یعقوب المعروف بالیعقوبی مکسلمینا‘ مراطوس ‘ شاہ نونیوش‘ بطرنوش ‘ ذولس ‘ یوانس‘ کینفرطو‘ نیوطو‘ ملیخا الراعی‘ کلبھم قطمیر کیور س میتھس مولفہ بارنگ گولڈ میکنی مین‘ مالکس ‘ مارشین ‘ ڈائیونی سس جان‘ سیراپین‘ کانسٹین ٹاین‘ کلبھم کراٹیم یا کراٹیمر شہر جس میں اصحاب کہف رہتے تھے اکثر مورخین و مفسرین کا قول ہے جو ہر طرح پر صحیح معلوم ہوتا ہے کہ جس شہر میں اصحاب کہف رہتے تھے اس کا نام افسوس تھا یاقوت حموی نے اپنی کتاب معجم البلدان میں اس کا اعراب کو بھی ضبط کیا ہے۔ مسٹر بارنگ گولڈ نے اپنی کتاب کیورس میتھس میں اس شہر کا نام ایفی سس لکھا ہے اوریقین ہوتا ہے کہ عربی تاریخوں میں یہی نام معتر ہو کر افسوس ہو گیا ہے۔ لانگ مین گرین کمپنی نے ۱۸۷۷ء میں بمقام لندن قدیم رومیوں کے زمانے کا نقشہ جغرافیہ چھاپا ہے جس میں شہروں کے وہی قدیم نام ہیں جو اس زمانے میں تھے۔ اس میں جو نقشہ ایشیا مینیر کا ہے اس میں ایفی سس شہر کا نام ۳۷ درجہ ۵۷ دقیقہ عرض شمالی اور ۲۷ درجہ ۲۱ دقیقہ طول شرقی پر عین دریائے ایجین کے کنارے پر ثبت ہے۔ اس کے قریب پہاڑ بھی واقع ہیں اور کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ اسی جگہ ایفی سس شہر تھا جس میں اصحاب کہف رہتے تھے۔ بعضوں۲ نے لکھا ہے کہ اصحاب کہف کے شہر کا نام رقیم تھا اور بعضوں نے کہا کہ اس پہاڑ کی کھوہ کا نام تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ افسوس بضم الھمزۃ و سکون الفاء والسینان مہملتان والووساکنۃ بلد بثغور طرطوس یقال انہ بلد اصحاب الکہف (معجم البدان یاقوت حموی) افسوس مدینۃ مشہورۃ بارض الروم وہی مدینۃ دقیانوس الجبار ہرب منہ اصحاب الکہگ و بین الکھف والمدینۃ مقدار فرسخین۔ (آثار البلاد قزوینی و عجائب المخلوقات ذکریا قزوینی) ۲۔ قیل الرقیم اسم القریۃ اللتی کانوا فیھا و قیل انہ اسم الجبل الذی فیہ الکھف۔ (معجم البلدان یاقوت حموی) ۳۔ ویقرب البلقاء من اطرا ف الشام موضع یقال لہ الرقیم یزعم بعضھم ان بہ اہل الکھف والصحیح انھم ببلاد الروم ۔ (معجم البلدان یاقوت حموی)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں اصحاب کہف جا کر رہتے تھے مگر یہ صحیح نہیں ہے یاقوت حموی نے بھی لکھا ہے کہ صحیح یہی ہے ہ اہل روم کی سلطنت میں جو شہر افسوس تھا وہی شہر اصحاب کہف کا تھا۔ محمد بن محمود القزوینی۱ نے اپنی کتاب آثا ر البلاد و اخبار العباد میں افسوس ہی کو اصحاب کہف کا شہر قرار دیا ہے ۔ شاید لوگوں نے اس خیال سے کہ اصحاب کہف کے نام جست کی تختی پر کھود کر شہر میں رکھے گئے تھے اس شہر کو اور بعضوںنے اس خیال سے کہ اس پہاڑ پر جس میں وہ کھوہ تھی ان کے نام کندہ ہوئے تھے اس پہاڑ کو یا اس کھوہ کو رقیم کے نام سے موسوم کر دیا ہو۔ اصحاب کہف کس زمانے اورکس بادشاہ کے عہد میں تھے ابو الفرج مالطہیائی ۲ عیسائی مورخ نے ‘ جس کی نسبت کہا جاتاہے کہ آخر کو مسلمان ہو گیا تھا‘ اپنی کتاب مختصر الدول میں لکھا ہے کہ اصحاب کہف ذوقیوس قیصر کے عہد میں تھے جو عیسائیوں کو نہایت دشمن تھا اور ان کو قتل کرتا تھا تاریخ طبری میں اس بادشاہ کا نام دقینوس لکھا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ افسوس مدینۃ مشہورۃ بارض الروم وہی مدینۃ دقیانوس الجبار الذی ہرب منہ اصحاب الکہف وبین الکھف والمدینۃ مقدار فرسخین والکھف مستقبل بنات النعش لا تدخلہ الشمس۔ (آثار البلاد قزوینی) ۲۔ وفی زمان ذوقیوس کان الفتیۃ السبعۃ اصحاب الکھف الذین ہربوا منہ واختفوا فی مغارۃ فوق الکھف ورفع خیرھم الیہ فامران یسد باب المغارۃ علیھم فالقی اللہ علیھم سباتا الی یوم انبعاثھم من رقادھم ۔ (مختصر الدول ابو الفرج) ۳۔ وکان لھم فی تلک الزمان ملک یقام لہ دقینوس یعبد الاصنام ۔ (تاریخ طبری)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ کامل ابن اثیر میں اس کا نام دقیوس لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ بعض آدی اس کا نام دقیانوس کہتے ہیں۔ ابو الفدا اسماعیل نے اپنی تاریخ میں بھی یہی نام بیان کیے ہیں اورلکھا ہے کہ وہ ۵۳۹ اسکندری میں بادشاہ ہوا تھا اور ۵۴۰ میں مر گیا ۔ ابو ریحان بیرونی۔ اپنی کتاب آثار الباقیہ عن قرون الخالیہ میں اس بادشاہ کا نام داقیائوس لکھا ہے اور مسٹر بارنگ گولڈ نے اپنی کتاب کیورس میتھس میں اس بادشاہ کا نام دی سس لکھا ہے۔ اسی مصنف نے لکھا ہے کہ روم میں ویکٹورم کے عجائب خانے میں گچ سے اصحاب کہف کی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔ ان تصویروں میں سے بعضوںنے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ ۲۵۰ ء میں دی سس بادشاہ کے عہد میں مارے گئے تھے۔ عموما ً مسلمان مورخ اورمفسرین اس بادشاہ کا نام جس کے عہد میں اصحاب کہف تھے‘ دقیانوس لکھتے ہیں اورظاہرا معلوم ہوتا ہے کہ تمام اختلافات ایک زبان کے ناموں کو دوسری زبان میںتلفظ کرنے سے پیدا ہوا۔ ہیں اور سب کے ملانے سے یقین ہوتا ہے کہ وہ رومی بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ کان اصحاب الکھف ایام ملک اسمہ دقیوس ویقال دقیانوس وکانوا بمدینۃ من الروم اسمہا افسوس وملکھم یعبد الاصنام۔ (تاریخ کامل لابن اثیر) ۲۔ دقیوس ویقال دقیانوس من کتب ابی عیسی سنۃ واحدۃ وکان الملک الذی قبلہ یعنی غور دقیانوس قد تنصر فخرج علیہ دقیوس وقتلہ و اعاد عبادۃ الاصنام و دین الصایبین تتبع النصارے یقتلھم ومنہ ہرب الفتیۃ اصحاب الکھف وکانوا سبعۃ وناموا واللہ اعلم بما لبثوا کما اخبرہ اللہ تعالیٰ وکان ہلاک دقیانوس فی منتصف سنۃ اربعین و خمسماۃ (تاریخ ابو الفدا) ۳ ۔ من ملوک الروم ۔ داقیائوس صاحب اصحاب الکھف ۔ (آثار الباقیۃ ابوریحان بیرونی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو زمانہ کہ اصحاب کہف کا ابوالفدا نے بیان کیا ہ وہ قریباً صحیح و درست معلوم ہوتا ہے ۔ اسکندر تین سو چھتیس برس قبل حضرت مسیح علیہ السلام کے تخت پر بیٹھا تھا اور اصحاب کہف پانسو چالیس سنہ سکندری میں تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ۲۰۴ء میں تھے۔ مسٹر بارنگ گولڈ نے ان کا تخمینہ انداز سے ۲۵۰ ء قرا ر دیا ہے۔ معہذا جو بادشاہ کہ زمانہ سکند ر سے دقیوس تک گزرے ان کے زمانہ سلطنت میں بھی کسی قدر اختلاف ہے اور یہ بھی ایک سبب ہے کہ اصحاب کہف کے زمانے میں کسی قدر اختلاف پیدا ہوتاہے‘ مگر عام طور پر خیال کرنے سے جو زمانہ قرار دیا گیا ہے قریباً صحیح معلوم ہوتا ہے۔ بعض رویتوں۱ میں بیان ہوا ہے کہ اصحاب کہف حضرت عیسیٰ کے زمانے سے بہت بیشتر تھے اور حضرت عیسیٰ نے ان کی خبر دی تھی اوربعد حضرت عیسیٰ کے زمانہ فترت میں ‘ یعنی جبکہ کوئی پیغمبر نہ تھا وہ زندہ ہوتے تھے یا اپنی نیند سے جو اخ الموت تھی اٹھے تھے‘ مگر اس کی صحت کا انجیلوں یا حواریوں کے ناموں یا کسی معتبر یا مظنون طریقے سے کوئی ثبوت نہیں پایا جاتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ وکان بعضھم بزعم ان امرھم و مصیرھم الی الکھف کان قبل المسیح وان المسیح اخبر قومہ خبر ھم فان اللہ سبحانہ انبعثھم من رقدتہم بعد مارفع المسیح فی القارۃ بینہ وبین محمد صلعم (طبری) فاما الذی علیہ علما الاسلام فعلی ان امرھم کان بعد المسیح (تاریخ طبری) وزعم بعضہم انھم وکانوا قبل المسیح وان المسیح اعلم قومہ بھم وان اللہ بعشہم من رقد تہم بعد رفع المسیح والاول اصح (تاریخ کامل بن اثیر) حکی و ھب ابن منبہ ان سلیمان ابن دائود عم لما قبض ارتد ملک الروم الیٰ عبادۃ الاصنام ودقیانوس احد قوادہ رجع ایضامعہ ومن خالفہ عذبہ بالقتل والحرق والصلب۔ (آثار البلاد قزوینی)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اصحاب کہف کا مذہب کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ اصحاب کہف عیسائی اور حضرت عیسیٰ کی امت تھے۔ تمام کتابوںاور مختلف روایتوں سے یہی امر ثابت ہوتا ہے اور خود ان کا واقعہ کہ ایک ظالم اور بت پرست بادشاہ کے خوف سے جو عیسائیوں کو قتل کرتا تھا‘ جان اور ایان بچا کر بھاگے تھے ان کے عیسائی ہونے کا کافی ثبو ت ہے۱۔ البتہ جیسا ان کا تقدس اور خدا پرستی تاریخوں اور تفسیروں میں لکھی ہے اور جس کی نسبت قرآن مجید سے بھی اشارہ پایا جاتاہے اس کی نسبت شبہ ہو سکتا ہے کہ اگر وہ صلیب کو اور حضرت عیسیٰ کی تصویر کو پوجتے تھے اور کم سے کم یہ کہ تثلیث کے قائل تھے تو کیونکر ان کو خدا پرست اور موحد مسلمان یا مومن خیال کیا جا سکتا ہے‘ مگر ان میں سے کسی بات کا ثبوت نہیںہے ۔ اس زمانے کے عیسائوں میں عقائد مذہبی بہت کم قرار پائے تھے اور مجھ کو عیسائی مذہب کی اکلز یا سٹیکل ہسٹری پر غور کرنے سے نہایت شبہ ہے کہ جو عقائد بعد عیسائی ہو جانے کے قسطنطین کے رومی اور یونانی چرچ میں قائم ہو گئے وہی عقاید عام طور پر اس زمانے کے تمام عیسائیوں کے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ حد ثنا ابن حمید قال ثنا سلمۃ عن ابن اسحاق عن عبداللہ ابن نجیح عن مجاھد قال لقد حدثث انہ کان علی بعضہم من حداثۃ اسنا نہم وضع الورق وکانوا من قوم یعبدون الاوثان من الروم فہد ا ھم اللہ الاسلام وکانت شریعتھم شریعۃ عیسیٰ فی قول جماعۃ من سلف علماء نا۔ (طبری) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دقیوس ہی کے زمانے کے قریب جس زمانے میں اصحاب کہف کا ہونا تسلیم کیا گیا ہے‘ ایک فرقہ تھا جس کا ابو الفرج۱ عیسائی مالطہیاری نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے ۔کہ وہ اقانیم ثلاثہ باپ اور بیٹے اور روح قدس کو نہیں تسلیم کرتا تھا ‘ بلکہ وجود اور کلمہ اور حیات کو اقانیم ثلاثہ جانتاتھا اور کہتا تھا کہ ان اقانیم سے کوئی زیادتی ذات باری پر نہیں ہوتی‘ بلکہ یہ صفات اعتباری ہیں‘ کوئی شے ان کا مسمی وجود فی الخارج نہیں ہے اور کہتا تھا کہ ذات باری موجود ہے لا بوجود اور حکیم ہے لابحکمۃ اور حی ہے لابحیوۃ۱۔ انبیذ و قلیس کا بھی یہی مذہب تھا‘ اس کے بعد مصنف مذکور لکھتا ہے کہ اسی مذہب کو ایک گروہ مسلمانوں نے جو صفات کے نفی کرنے والے ہیں (یعنی صفات باری سے کچھ زیادتی ذات باری نہیں سمجھتے ) اختیار کیا ہے۔ اسی ۲ زمانے کے قریب ایک فرقہ فولی الشمیشاطی کا پیرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ غالوس فی ھذا الزمان ظھر فی مدینۃ بورنطیاقسیس اسمہ سا بیلیوس وقال ان الاقانیم الثلاثۃ ھی الوجود و الحکمۃ ولاحیوۃ لیست معان زائدۃ علی ذات اللہ تعالیٰ بل ہی صفات اعتباریۃ لا مسمی لشی منھا فی الخارج اذا لباری تعالیٰ موجود لا بوجود و حکیم لا بحکمۃ وحی لا بحیوۃ اقول ھذا مذہب انبیذ وقلیس بعینہ فی الصفات وقد انتحلہ فرقہۃ من علما الاسلامیۃ ایضانفات الصفات۔ (مختصر الدول ابی الفرج) ۲۔ غالوث الثانی فی ھذا الزمان ظھر من المبتدعۃ فولی الشمیشاطی وکان یقول ان جمیع معلومات اللہ تعالیٰ ارادیۃ ولیس لہ معلول ذاتیۃ ولذلک لم یلد ولم یولد ولھذا لم یکن المسیح کلمۃ اللہ ولا ایضاولد من عذراء کما ورد فی ظاہر المذہب وانما ظھر لہ الکمالات بالاجتہاد فکل من تعاصی ریاضۃ نال درجۃ۔ (مختصر الدول ابی الفرج) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھا جو کہتا تھا کہ تمام معلولات باری تعالیٰ کے ارادے ہیں اور ا س کا کوئی معلول ذاتی نہیں ہے اور اسی لیے وہ لم یلد ولم یولد ہے اوراس لیے مسیح نہ کلمۃ اللہ ہے اورنہ جس طرح کہ ظاہر مذہب عیسائی میں ہے ‘ وہ کنواری سے پیدا ہوا ہے۔ پس جبکہ اس زمانے کے عقائد و مذہب کا یہ حال تھا تو ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ اصھاب کہف تثلیث کے قائل تھے‘ بلکہ مسلمانوں کو جو قرآن مجید کو برحق سمجھتے ہیں اس بات کے یقین کرنے کے لیے کہ اصحاب کہف عیسائی اور موحد‘ خدا کو واحد اور حضرت عیسیٰ کو پیغمبر برحق مانتے تھے۔ ثبوت کافی ہے فھم کانو ا مومنین مسمین موحدین قائلین بان لاالہ الا اللہ عیسیٰ رسول اللہ اصحاب کہف کا قصہ یعنی جو واقعات ان پر گزرے مذکورہ بالا حالات سے ظاہر ہے کہ اصحاب کہف تاریخی اشخاص ہیں فرضی قرار دیے ہوئے نہیں ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جو سیدھے سادھے واقعی حالات ان پر گزرے تھے ان میں بہت لغو اور بیہودہ اور خلاف قیاس باتیں اور عجائبات شامل کر لیے گئے ہیں اوریہ ایک معمولی بات ہے کہ نیک اور بزرگ لوگوں پر جو ظلم اور سختی ظالموں کے ہاتھ سے گزر جاتی ہے بعد کو ان کی نسبت بہت سی زائد اور عجیب باتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ اسی طرح اصحاب کہف پر جو حالات اور واقعات گزرے ان کو بطور تعجب انگیز کہانی کے بنا لیا جاتاہے۔ اوربے سروپا اور محض بیہودہ روایتیں مشہور ہو گئی ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ان روایتوں میں سے جو قابل طمانیت ہیں ان پر لحاظ کر کے صحیح قصہ اصحاب کہف کا اول بیان کریں اور پھر قرآن مجید کی آیتوں سے تطبیق دے کر دکھلاویں کہ کس قدر قصہ اس میں کا قرآن مجید میںبیان ہوا ہے۔ اور مفسرین کو جو اس قصے کے بیان کرنے میں اور آیتوں کی تفسیر میں دھوکا ہواہے حتی المقدور اس کو ظاہر کریں۔ ابوالفرج۱ مسیحی نے اپنی تاریخ مختصر دول میں اور اسماعیل ۲ ابوالفدا نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ غورذیانوس رومی قیصر عیسائی ہو گیاتھا اور عیسائیوں پر مہربانی کرتا تھا اس پر دقیوس نے جس کو دقیانوس بھی کہتے ہیں اور جو بت پرستی اور عیسائیوں کا دشمن تھا چڑھائی کی اور ۵۳۹ سکندری میں اس کو مار ڈالا اور خود بادشاہ ہوا اورعیسائیوں کو قتل کرنا یا بت پرستی پر مجبور کرنا شروع کیا۔ اسی کے عہد ۳ میں اصحاب کہف عیسوی مذہب پر تھے ان کے عیسائی ہو جانے کی مختلف کہانیاں مشہور ہیں جن کی نسبت ہم کو بحث کرنا محض فضول معلوم ہوتا ہے۔ وہ کسی طرح عیسائی ہوئے ہوں ا س امر کا مسلم ہونا کہ وہ عیسائی تھے ان کے اصلی واقعات کے بتانے کو کافی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ذوقیوس قیصر ملک سنۃ واحدۃ ویبغضہ قیلیبیوس قیصر المحسن الی النصاری اعداھم وشدد علیھم جدا فکفر کثیرون من المومنین ۔ (مختصر الدول ابی الفرج)۔ ۲۔ دقیوس وقیل دقیانوس من کتاب ابی عیسی سنۃ واحدۃ وکان الملک الذی قبلہ (غور ذیانوس قد تنصر فخرج علیہ دقیوس وقتلہ وعاد عبادۃ الاصنام ودین الصایبین وتتبع النصارے یقتلہم ومنہ ہرب الفتیۃ اصحاب الکھف وکانو اسعۃ وناموا واللہ اعلم بما لبثو ا لما اخبر اللہ تعالیٰ وکان ہلاک دقیوس فی منتصف سنۃ اربعین وخمسماۃ ۔ (تاریخ ابو الفدا) ۳۔ کانوا اصحاب الکھف من قوم یعبدون الاوثان من الروم فھد اہم اللہ للاسلام وکان شریعتہم شریعۃ عیسیٰ فی قول جماعۃ من سلف علماء نا۔ (طبری)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمام روایتیں اور تاریخیں ا س بات پر متفق ہیں کہ اس ظالم بادشاہ نے ان لوگوں کو جو تعداد میں اس وقت چھ تھے بلایا اور مذہب عیسوی چھوڑنے اور بت پرستی کرنے کو کہا ‘ مگر ان سب نے انکار کیا۔ اس پر بادشاہ نے ان کو مہلت دی اور اس مہلت میں وہ شہرسے بھاگے اور ایک چرواہا مع کتے کے ان کے ساتھ ہو لیا اور سب ایک پہاڑ کی کھوہ میں جو شہر افسوس سے کچھ فاصلے پر تھے جا کر چھپ رہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ فاحضرھم (الفتیۃ الذین آمنوا) الملک وقالی لھم لکم المھل ثلثۃ ایام وانی شاخص فی ھذہ الایام من البلد فان وجدتکم فی الیوم الرابع عند رجوعی مخالفین لطاعتی عذبتکم عذاب من خالفنی (آثار البلاد قزوینی) فبیناھم (ای الفتیۃ) علیٰ مثل ذلک وقد دخلوا فی مصلی لھم ادرکہم الشرط فرفعو امرھم الی دقیانوس فقال لھم مامنعکم ان تشہدا لذبح لا لھتنا اللتی تعبد فی الارض اختار واما ان تذبحوا آلھتنا واما ان اقتلکم فقال لکسکمینا وھو اکرمھم سنا ان لنا الھا ملا السموات والارض عظمۃ لن ندعو من دونہ الھا ابدا واما الطواغیت فلن تعبدھا ابدا فاصنع بناما بدالک قال دقیانوس وما یمنعنی ان اعجل ذلک (ای المعقوبۃ) لکم الا انی اراکم شبابا حدیثا اسنانم فلا احب ان اھلم حتے اجعل لکم اجلا تذکرون فیہ وتراجعون فاخرجوا من عندہ وانطلق دقیانوس الی مدینۃ سوامدینتہم قریبا منھم لبعض امور (تفسیر معالم التنزیل)فلما قال ذالک (ای قصد الھرب قبل رجوع دقیانوس الی المدینۃ) بعضھم لبعض غداکل فتی منھم الی بیت ابیہ فاخذنفقۃ فتصدق منھاثم انطلقوا بما بقی معہم واتبعہ کلب کان لھم حتی اتواذلک الکھف قال ابن عباسؓ ہربوا (ای الفتیۃ لبالاء من دقیانوس وکانو ا سبعۃ فمروا براع معہ کلب فتبعہم علیٰ دینہم وتبعہ کلبہ فخر جوا من البلدالی الکھف وھو قریب من البلد (معالم التنزیل )۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک روایتوں میں چنداں اختلاف نہیں ہے ۔ لیکن اس کے بد واقعات میں اختلاف شروع ہو تا ہے یعنی پہاڑ کی کھوہ میں چھپنے کے بعد انہوں۱ نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو شہر بھیجا کہ چپکے سے کھانا خرید لاوے۔ اکثر مورخین اور اہل تفاسیر نے لکھا ہے کہ وہ لوگ پہاڑ کی کھوہ میں جا کر سورہے اور زمانہ درا ز تین سو یا تین سو نو برس سونے کے بعد جب اٹھے تو انہوںنے ایک شخص کو کھانا خریدنے کو شہر میں بھیجا۔ بعض مورخین نے پہلی دفعہ اسی دن جب ہو کھوہ میں گئے ایک شخص کو کھانا خریدنے کو بھیجا اورپھر دوسری دفعہ کئی سو برس سو کر اٹھنے کے بعد ایک شخص کا بھیجنا لکھا ہے جو محض غلط ہے اور صرف بنایا ہوا قصہ ہے ۔ ان پر پہاڑ کی کھوہ میں سوتے ہوئے کے خیال سے یہ قصہ گھڑ لیا گیا ہے مگر اصلیت اس کی جیسے کہ محققانہ نظر سے پائی جاتی ہے‘ صرف اس قدر ہے : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ویملیخا ہر روز از غار بیروں آمدے و پنہاں در شہر شدے واز بہر اصحاب طعام خریدے و بایشاں بردے یک روز از بہر طعام بشہر آمدہ بود کہ آوازہ بشہر فاش شدہ است کہ دقیانوس بالشکر بطلب یملیخا واصحاب وے میرود۔ یملیخا زود طعامیکہ می بایست بخرید وبر گرفت وبغار باز آمد پیش اصحاب و حکامت بایشاں بگفت کہ دقیانوس ولشکر برنشستند وبطلب مابیروں آمدند ۔ ایشاں چوں ایں بشنیدند دست برطعام وبطلب ما بیروں آمد ند ایشاں چوں بشنیدند دست بر طعام نہادند و بدعا و تضرع درآمدند واز خدائے درخواستند کہ ایشاں را از چشم دقیانوس لشکر وی محجوب گرداند۔ خدائے تعالیٰ دعائے ایشاں مستجاب گدانید و دیدہ ایشاں درخواب کرد وآں ہر اس و رس از دل ایشاں بر گرفت۔ پس دقیانوس و لشکر او ہمہ بر نشستند و ہمہ کوہ و صحرا بطلب ایشاں بگر دیدند و ایشاں رانیا فتند۔ بعد اذاں بدر غار فرو آمدند و حق تعالیٰ ایشاں را از چشم لشکر باز پوشیدہ و ایشاں را ندیدند و بیروں آمدند۔ دقیانوس را گفت اے بادشاہ ہمہ جا بگردیدیم و ایشاں را نیافتم۔ دقیانوس گفت ’’ضرور ایشاں دریں غار باشند‘ اکنوں دریں غار بسنگ و گچ برآرید‘‘ ۱۲۔ (منقول از ترجمہ فارسی سیرت ابن اسحاق) ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ وہ لوگ رات کے وقت شہر سے بھاگے تھے ۔ جیسے کہ قزوینی نے لکھا ہے کہ انہوںنے رات کو بھاگنے کا قصد کیا‘ جب رات کا اندھیرا ہو گیا تو ہر ایک شخص اپنے گھر سے کچھ مال لے کر چل کھڑا ہوا۔ صبح ہوتے وقت وہ لوگ پہاڑ کی کھوہ میں پہنچے جیسا کہ قزوینی نے لکھا ہے پس وہ کھوہ میں گئے۔ رات کے جاگے‘ رستہ چلے‘ تھکے ہوئے تھے‘ کھوہ میں جہاں بالکل اندھیرا تھا سو رہے۔ کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ دو تین پہر سونے کے بعد وہ اٹھے اور آپس میں پوچھنے لگے کہ ہ کتنی دیر سوئے۔ کسی نے کہا دن بھر‘ کسی نے کہا کچھ کم‘ کیونکہ کھوہ کے اندھیرے میں وہ دن کا اندازہ ٹھیک ٹھیک نہیں کر سکتے تھے۔ جب وہ اٹھے تو انہوں نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو کھانا لانے کو بھیجا۔ قزوینی نے صاف لکھا ہے کہ جس دن وہ کھوہ میں گئے اسی دن انہوں نے کھانا لینے کو بھیجا تھا۔ تفسیر معالم التنزیل۱ میں بھی محمد بن اسحاق کی روایت سے لکھا ہیکہ جب وہ کھوہ میں گئے تو تملیخا ان کے لیے شہر سے کھانا خرید لایا کرتا تھا اورچند روز تک جس کی تعداد نہیں بیان کی مگر معلوم ہوتا ہے کہ دو تین روز تک یعنی دقیانوس کے دوبارہ شہر میں آنے تک اسی طرح خرید کر لاتا رہا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ فلما کان الیوم الثالث اجتمع الفتیۃ وقالوا انما یومنا ہذاا ولیلۃ وعزمو اعلی الھرب فی تلک اللیلۃ فلما جنھم اللیل حمل کل واحد شیئا من مال ابیہ فخرجو امن المدینۃ یمشون فمرو برای غنم لبعض آبائھم فعرفہم فقال ماشانکم یاسادتی فظہرو امرھم للراعی ودعوہ الی التوحید فاجابہم فاخذوہ معہم فتبع الراعی کلبہم فسارو الیلتہم واصبحوا علی باب الکھف دخلوا فیہ (آثار البلاد قزوینی ) والکھف مستقبل بنات النعش لا تدخل الشمس فیہ ۔ (عجائب المخلوقات ذکریا قزوینی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ بادشاہ جو ان کو مہلت دے کر شہر سے باہر چلا گیا تھا پھر شہر میں آیا جیسا کہ قروینی نے بالتصریح بیان کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ وقالوا بعد دخول الکھف للراعی خذشئیا من الورق وانطلق الی المدینۃ واشترلنا طعاما فان القوم لا علم لھم لخروجک معنا فاخدالدا ہم و مضی نحوا لمدینۃ فلما انتھے الی السوق و اشتری بعض حوائجہ سمع قائلا یقول ان راعی فلان ایضا تبعھم فلما سمع ذالک فزع وترک استتمام ما اراد شرائہ وخرج من المدینۃ مباد راحتی وافی اصحابہ فاخبرھم بما کان من امر۔ (آثار البلاد قزوینی)۔ ۲۔ فجعلو ا (ای بعد دخول الکھف ) نفقتھم الی فتی منھم یقال لہ یملیخا فکانت ببتاع لھم ارزاقہم من المدینۃ وکان من اجملہم واجلد ھم وکان اذا دخل المدینۃ یضع ثیابا کانت علیہ حسانا ویاخذ ثیابا کثیاب المساکین الذین یستطعمون فیھا ثم یاخذ ورقۃ فینطلق الی المدینۃ فیشتری لھم طعاما وشراباً و یتجسس لھم الخبر ھل ذکر ہو وا صحابہ بشئی ثم یرجع الی اصحابہ فلبثوا بذلک مالبثوا (تفسیر معالم التنزیل ) ۱۲ ۳۔ فلما رجع الملک اخبر وہ بھربھم فخرج یفقو آثار ھم حتی انتہی الی باب الکھف ووقف علی امرھم فقال یکفیہم من العذاب ان ماتوا جوعا فاھلک اللہ دقیانوس وانزل علی باب الکھف سخرۃ ۔ (آثار الباقیہ قزوینی)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کو معلوم ہوا کہ وہ لوگ شہر سے بھاگ گئے ہیں۔ اس نے ان کی تلاش شروع کی اور پہاڑ کی کھوہ میں ان کا پتا لگا اور اس نے پہاڑ کی کھوہ کا منہ بند کروا دیا‘ تاکہ اسی میں بھوکے پیاسے مررہیں۔ تفسیر معالم التنزیل ۱ میں محمد بن اسحاق کی روایت میں بھی بالتصریح یہ امر مذکور ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ پہاڑ کی کھوہ کا منہ بند ہونے کے بعد وہ وہیں بند ہو گئے اور وہیں مر کر رہ گئے ۔ اگرچہ بعض مورخوں اور مفسروں نے لکھا ہے کہ کھوہ میں پڑے سوت ہیں ۔یعنی مرے نہیں ہیں اور معالم التنزیل ۲ میں لکھا ہے کہ خدا نے ان کی روحوں کو وفات دی جس طرح سونے میں روحوں کو وفات دیتاہے‘ مگر اگلے بیان سے اور ان روایتوں سے جو بیان ہوں گی صاف ثابت ہوگا کہ درحقیقت وہ مر گئے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۴۔ فامر دقیانوس بالکھف (ای بعد العلم بان الفتیۃ ہربوا واختلفوا فے الکھف) ان یسد علیھم وقال دعوھم کلہم فی الکھف یموتون جوعا وعطشا ویکون لھم کھفھم الذی اختا ر وہ قبرالھم ۔ (تفسیر معالم التنزیل) ۵۔ وقد تو فی اللہ ارواحہم (ای اذا سد دقیانوس باب الکھف) وفاۃ النوم ولکبہم باسط ذراعیہ بباب الکہف فغشیہم ما غشیھم ینقلبون ذات الیمین وذات الشمال ۔ (تفسیر معالم التنزیل )۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اکثر مورخین اور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس واقعے پر ایک زمانہ گزرنے کے بعد اس کھوہ کا منہ کھولا گیا اور اصحاب کہف کا ا س کھوہ میں ہونا معلوم ہوا اور شہر میں ا س کا چرچا ہو گیا اور بادشاہ اور شہر کے تمام لوگ اس کھوہ میں ان کو دیکھنے کو گئے۔ ابوالفرج۲ مسیحی کی تاریخ کے بموجب یہ زمانہ ساوذوسیوس قیصر الصغیر کی سلطنت کا تھا اوراصحاب کہف کے کھوہ میں جا چھپنے کے دو سو چالیس برس بعد وہ ظاہر ہوئے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ قال وھب فیبر وا بعد ماسدوا علیہم باب الکھف زمانا بعد زمان ثم ان راعیا ادرکہ الطر عند الکھف فقال لو فتحت باب ھذا ا لکھف وادخلت غنمی الیہ من المطر فاسلم من المطر فلم یزل یعالجہ حتی فتح ورداللہ ارواحھم من الغدحین اصبحوا (معالم التنزیل وھکذا فی کتاب آخر) وفی عہد یندوسس القی اللہ فی نفس رجل من اہل ذالک البلد الذی فیہ الکھف وکان ام ذالک الرجل اولیاس ان یھدم ذالک البنیان الذی علی فم الکھف فیبنی بہ خطیرۃ لغنمہ فاستا جرغلامین فجعلا ینزعان تلک الحجارۃ ویبنیان تلک الخطیرۃ حتی نزعا علی فم الکھف ورفتحا باب الکھف۔ (تفسیر معالم التنزیل)۔ ۲۔ وفی ہذا الزمان (ای فی عہد ساوذوسیوس قیصر الملک) انبعث اصحاب الکھف من رقد تہم اللتی رقدوا علی عھد ذوقیوم الملک بعد ماتین واربعین نۃ بالتقریب فخرج ثاوذوسیوس الملک مع اساقفہ وقسیسین وبطارقہ فنظر الیہم وکلمو ہم فلما انصرفو ا من عندھم ماتوا فی مواضعہم۔ (مختصرالدول لا بی الفرج)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابو الفدا اسماعیل بھی اسی بادشاہ کے زمانے میں اصحاب کہف کا متنبہ ہونا لکھتا ہے۔ یہ بادشاہ ۷۳۵ سکندری میں بادشاہ ہوا تھا اور ۷۵۵ سکندری میں فوت ہوا۔ اس سبب سے کہ بموب ابوالفدا کے دقیوس جس کے زمانے میں اصحاب کہف تھے ۵۴۰ سکندری میں تھا زمانہ ظاہر ہونے اصحاب کہف کا دو سو برس کے قریب ہوتا ہے‘ نہ دو سو پچاس برس جیسا کہ ابوالفرج نے بیان کیا ہے۔ تاریخ ۲ یعقوبی میں اس بادشاہ کا نام دسیوس لکھا ہے اور صاف لکھا ہے کہ اس زمانے میں اصحاب کہف جو مر گئے تھے ‘ زمانہ طویل کے بعد ظاہر ہوئے۔ ا س میں مطلق اس بات کا اشارہ نہیں ہے کہ وہ سوتے تھے اور اس زمانے میںجاگے یا مرے ہوئے تھے اور زندہ ہوئے‘ بلکہ صاف لکھا ہے کہ ظاہر ہوئے ‘ یعنی اس کھوہ میں ان کا ہونا معلوم ہوا۔ علاوہ اس کے جتنی روایتیں ہیں سب سے یہی امر ماخوذ ہوتا ہے کہ درحقیقت اصحاب کہف جب معلوم ہوئے تو وہ مرے ہوئے تھے اور مرے ہوئے رہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ثاوذوسیوس الثانی من کتاب ابی عیسی ملک عشرین سنۃ وفی ایام غزت فارس الروم و فی ایام ثاوذوسیوس المذکور البتھ اصحاب الکھف وکان موت ثاوذوسیوس المذکور فی منتصف سنۃ خمس و خمسین۔ (تاریخ ابو الفدا)۔ ۲۔ وفی ایامہ (ای فی ایام دسیوس الملک) ظھر اصحاب الکھف بعد ان کانوا ماتوا بعد دھر طویل ۔ (تاریخ یعقوبی)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض تفسیر کی کتابوں میں جیسے تفسیر کبیر و مدارک و بیضاوی ہیں تو لکھا ہے کہ جب بادشاہ اور لوگ ان کو دیکھنے اوران سے ملنے کو گئے تو وہ زندہ ملے بادشاہ کو دعا بھی دی پھر فی الفور مر گئے۔ اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا زندہ ملنا اوربادشاہ کو دعاد ینا سب ایک کہانی ہے ورنہ درحقیقت وہ مرے ہوئے تھے اور طبری اور کامل ابن اثیر اگرچہ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ زندہ ہوئے مگر جو روایتیں بیان کی ہیں ان سے صا ف پایا جاتا ہے کہ کسی شخص نے جو ان کے دیکھنے کو گئے تھے ان کو زندہ نہیں دیکھا۔ طبری ۲ کی ایک روایت میں ہے کہ وہ زندہ ہو گئے تھے مگر جب لوگ ان کے دیکھنے کو کہف کے قریب پہنچے تو خدا نے ان کو پھر مردہ کر دیا یا پھر سلادیا اورلوگ اندر جانے سے ڈر گئے اور اندر نہ جا سکے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ثم قال الفتیۃ للملک نستودعک اللہ ونعیذک بہ من شرالجن والانس ثم رجعوا الی مضاجعہم وتوفی اللہ انفسہم (مدارک التنزیل وھکذا فی البیضاوی) وقیل ان الملک وقومہ لماراوا اصحاب الکھف ووقفو ا علی احوالہم عاد القوم الی کھفہم فاما تھم اللہ ۔ (تفسیر کبیر) ۲۔ قال واین اصحابک قال فی الکھف قال فانطلقوا معہ حتی اتواباب (الکھف) فقال دعونی ادخل علی اصحابی قبلکم فلما را وہ دنا منھم فضرب اللہ علیٰ اذنہ وعلیٰ آذنھم فجعلو ا کلما دخل رجل ارعب فلم یدخلوا الیھم ۔ (طبری وھکذا فی الکامل لا بن الاثیر)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری روایت میں طبری نے لکھا ہے کہ بادشاہ اور لوگ کھوہ میں گئے تو دیکھا کہ صرف ان کے جسم ہیں جو کسی طرح بگڑے نہ تھے‘ مگر ان میں ارواح نہ تھیں۔ کامل۲ ابن اثیر میں ایک اوربات زیادہ لکھی ہے کہ وہ زندہ تو ہو گئے تھے ‘ مگر انہوں نے دعا مانگی کہ خدا ا ن کو مار ڈالے اورجو لوگ ان کو دیکھنے آئے ہیں ان میں سے کوئی ان کو نہ دیکھے‘ پس وہ فی الفور مر گئے۔ اوریہ تمام روایتیں اس بات کی مثبت ہیںکہ وہ زندہ نہ تھے اورنہ کسی نے ان کو زندہ دیکھا۔ اصل یہ ہے کہ جب لاشیں ایسے مقام پر ہوتی ہیں جہاں ہوا کا صدمہ نہیں پہنچتا اورلاشیں اسی طرح رکھے رکھے راکھ ہو جاتی ہیں تو وہ سورا خ میں سے ایسی ہی معلوم ہوتی ہیں کہ گویا پورے مجسم اجسام بلا کسی نقص کے رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح لوگوں نے ا ن کو دیکھا اورجانا کہ پوری مجسم بلا کسی نقصان کے لاشیں رکھی ہیں یا وہ لوگ سو رہے ہیں۔ ۱۸۴۷عیسویں یا ۱۸۴۸ عیسویں میں دہلی میں اسی قسم کا ایک واقعہ گزرا تھا۔ جہاں حضرت نظام الدین کی درگا ہ ہے وہاں بہت پرانا قبرستان ہے۔ ایک اونچی جگہ پر ایک چبوترہ تھا اور اس کے اوپر تین قبروں کے نشان تھے۔اتفاق سے اس چبوترے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ فقال الفتی دعونی ادخل الی اصحابی فلما ابصرھم ضرب اللہ علی اذنہ وعلی اذنھم فلما استبطوہ دخل الملک ودخل الناس معہ فاذا اجساد لا یظھر منھا شیئی غیرانھا لا روح فیھا۔ (طبری) ۲۔ فسبقہم الی اصحابہ فاخبرھم الخبر فعلموا حیئند مقدار لبثہم فی الکھف وبکوا فرحاو دعوا اللہ ان یمیتہم ولا یراھم احد ممن جاء ھم فما تو ابساعتھم ۔ (کامل لا بن اثیر)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک طرف کی دیوار میں سے کچھ پتھر گر پڑے اورچھید ہو گیا کہ اندر سے قبر دکھائی دینے لگی۔ لوگوںنے اس چھید میں سے جھانکا تو ان کو معلوم ہوا کہ قبر بہت بڑی مثل ایک مربع کوٹھڑی کے ہے اورتین لاشیں بالکل سفید کفن پہنے ہوئے مجسم بلا کسی نقصان کے ان میں رکھی ہوئی ہیں۔ ا س کا چرچا ہوا اور بہت سے آدمی ان کو دیکھنے گئے‘ اور سب نے یہی بات بیان کی۔ میرے مخدوم دوست مولوی امام بخش صاحب صہبائی مرحوم کو اس قسم کی باتوں کے دریافت کرنے کا بہت شوق تھا۔ وہ خود ان لاشوں کودیکھنے گئے ۔ اول انہوںنے جھانک کر دیکھا تو ان کو بھی اسی طرح مجسم اور مسلم لاشیں معلوم ہوئیں۔ ان کو تعجب ہوا۔ انہوں نے دیوار کے دو ایک پتھر اور نکال ڈالے اور اند ر گھسے۔ ایک عجیب بات تو یہ دیکھی کہ قبر ایک مربع کوٹھڑی کے برابر بنی ہوئی تھی اورتین لاشیں اس میں رکھی ہوئی تھیں ۔ مگر سب بوسیدہ اور راکھ کے طور پر ہو گئی تھیں‘ لیکن جو کہ ہوا کا صدمہ کچھ نہ تھا تو جہاں ان کے ہاتھ رکھے ہوئے تھے وہیں ان کی راکھ تھی اور جہاں سر رکھا تھا وہیں سر کی راکھ تھی‘ جہاں پائوں رکھا تھا وہیں پائوں کی راکھ تھی اور وب کے نشان معلوم ہوتے تھے۔ وہ لاشیں کاٹھ کے تخت پر رکھی گئی تھیں وہ تخت بھی بوسیدہ ہو کر اور گل کر زمین کے برابر ہو گیا تھا‘ مگراس کے نشان بھی راکھ میں جدا محسوس ہوتے تھے۔ انہوںنے انگلی سے چھوا تو معلوم ہوا کہ بالکل راکھ ہے اورہڈیوں اور راکھ کے سوا اور کچھ نہیں ہے‘ مگر جب سوراخ میں سے دیکھا جاتا تھا تو وہ تمام نقش جو راکھ میں قائم تھے بالکل مجسم اور مسلم لاشیں معلوم ہوتی تھیں۔ تم خیال کرو کہ اگر ہم ایک تصویر کو ایک صندوق میں رکھ دیں اور ایسی حکمت کریں کہ کسی قدر شعاع آفتاب کی اس میں پہنچے اور اس کے پہلو میں ایک چھید کر کے اس کو دیکھیں تو وہ تصویر بالکل مجسم معلوم ہو گی۔ پس اس طرح سے اس قسم کی پرانی لاشیں جو کسی پہاڑ کے نل میں سے دیکھی جاتی ہیں تو وہ مسلم معلوم ہوتی ہیں۔ اسی طرح اصحاب کہف کی لاشوں کو دیکھنے والوں کو وہ لاشیں مجسم معلوم ہوئی ہوں گی۔ کیورس میتھس کے مصنف نے لکھا ہے کہ اصحاب کہف کی ہڈیاں ایک بڑے پتھر کے بکس میں بند کر کے مارسلیس کو بھیجی گئیں جو اب بھی سائنٹ ویکٹر کے گرجا میں دکھائی جاتی ہیں۔ اس کی تصدیق تاریخ طبری سے بھی ہوتی ہے ۔ اس میں لکھا ہے کہ فتادہ نے روایت کی ہے کہ جب ابن عباس حبیب بن مسلمہ کے ساتھ جہاد پر گئے تو وہ کہف پر گزرے اور اس میں کچھ ہڈیاں تھیں۔ ایک شخص نے کہا کہ یہ اصحاب کہف کی ہڈیاں ہیں۔ ابن عباس نے کہا کہ ان کی ہڈیاں تو تین سو برس سے زیادہ ہوا کہ یہاں نہیںرہیں۔ بہرحال جب اس ظالم بادشاہ نے اس کھوہ کا منہ بند کروا دیا تو یہ بیچارے اس میں بند ہو گئے اور مر گئے۔ ایک زمانہ دراز کے بعد خواہ وہ زمانے دو سو برس کا ہو یا ڈھائی سو برس کا یا تین سو برس یا تین سو نو برس کا ‘ کسی شخص نے اس کھوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ قال قتادۃ و غزا ابن عباس مع حبیب ابن سلمۃ فمروا بالکھف فاذا فیہ عظام فقال رجل ہذہ عظام اصحاب الکھف فقال ابن عباس لقد ذھبت عظامھم منذ اکثر من ثلثاتہ سنۃ۔ (طبری)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے منہ کو کھولا جیسا کہ اکثر روایتوں میں بیان ہوا ہے۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ ان لوگوں کے پاس جو کھوہ میں گئے تھے اس زمانے کے سکے روپے موجود تھے اور جس شخص نے اس کا منہ کھولا تھا اس نے وہ روپے پائے ہوں گے اور جب بازار میں لے گیا لوگوںنے چرچا کیا ہو گا کہ اس نے خزانہ پایا ہے۔ حاکم تک اس کو پکڑ کر لے گئے ہوں گے اور اس نے تمام قصہ پہاڑ کی کھوہ میں لاشوںکے ہونے کا اور وہاں سے روپیہ ملنے کا بیان کیا ہو گا۔ اس پر وہاں کے حاکم اور شہر کے لوگ ان کے دیکھنے کو آئے اور جانا کہ یہ ان کی لاشیں ہیں جو دقیوس قیصر کے ظلم سے بھاگے تھے۔ روایوں ۲ اور لوگوں نے اس اصلی واقعے کو اس طرح پر بنا لیا کہ اصحاب کہف کئی سو برس بعد سونے سے اٹھے یا مردہ سے زندہ ہو گئے اور انہیں میں کا ایک شخص روپیہ لے کر بازار میں آیا اور چرچاہوا اور سب لوگ پہاڑ کی کھوہ پر گئے پھر کسی نے کہا وہ زندہ تھے ایک آدھ بات کہہ کر مر گئے ‘ کسی نے کہا کہ مسلم بغیر کسی نقصان کے لاشیں تھیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ فلما کانت السنۃ التی اراد اللہ فیھا احیا الفتیۃ انطلق رجل من اہل المدینۃ واقام بذالک المکان یرعیٰ غنمہ فارادان یتخذ لغنمہ خطیرۃ فامر اعوانہ بتتحیۃ الصخرۃ التی کانت علی باب الکھف۔ (آثار البلاد قزوینی) ۲۔ ثم قالو ا (ای الفتیۃ بعد بعثہم عن الموت او ایقاضہم من النوم الطویل) لیملیخا انطلق الی المدینۃ فتسمع ما یقال لنا بھا وما الذی یذکر عند دقیانوس وتلطف ولا یشعرون بک احد و اتبع لنا طعاما فاتنا بہ وذدنا علی الطعام الذی جئتنا بہ فقد ا صبحنا جیا عا۔ (تفسیر معالم التنزیل )۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ان میں اروح نہ تھیں ۔ ایسے واقعات میں اس قسم کی افواہیں اڑا کرتی ہیں اور رفتہ رفتہ روایتیں بن جاتی ہیں اور کتابو ں میں لکھی جاتی ہیں اورمذہبی لگائو سے لوگ ان کو مقدس سمجھتے ہیں اور معجزہ اورکرامات قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں جس قدر اس قصے کابیان ہوا ہے وہ بالکل سیدھا اور صاف ہے۔ بلکہ خدانے اس قصے کو اسی مقصد سے بیان کیا ہے کہ جو غلط باتیں اور عجائبات اس قصے کے ساتھ مشہور تھے ان کی غلطی ظاہر ہو یا ان کی تکذیب کی جاوے۔اور بتا دیا جاوے کہ اصل واقعہ کیا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ مفسرین نے جن کے کان انہی پرانی افواہی روایتوں سے بھرے ہوئے تھے اور عیسائی بھی اور ان کے سو ا عرب اور ایشیا کے لوگ بھی اس قصے کو عجائبات یا کرامت اور معجزات کے طور پر بیا ن کرتے تھے‘ قرآن مجید کی آیتوں کی بھی وہی تفسیر کی جس سے خود خدا انکار کرتا تھا ۔ فمثلھم کمثل الذی فسر القول بما لا یرضی قائلہ۔ تمام مفسرین کی سوائے معتزلہ کے یہ عادت ہے کہ اپنی تفسیروں میں محض بے سند اور افواہی روایتوں کو بلا تحقیق لکھتے چلے جاتے ہیں اور ذرا بھی تحقیق کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ۔ علاوہ اس کے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ جہاں تک ہو سکے ہر ایک سیدھی سیدھی بات کو بھی ایک حیرت انگیز طریقے پر اورعجائبات و کرامات کے نمونے پر بیان کریں۔ اسی عادت کے موافق اصحاب کہف کے قصے میں بھی عجیب و غریب باتیں ملا دی ہیں‘ مگر قرآن مجید ان سب کو غلط بتاتا ہے۔ اب ہم کو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی ان آیتوں کو جو اصحاب کہف کے قصے کے متعلق ہیں تفسیر لکھیں اور دکھلائیں کہ قرآن مجید میں ان کاقصہ کس قدر اور کس طرح بیان ہوا ہے اور مفسرین ان آیتوں کی تفسیر میں کیسے دھوکے میں پڑ گئے ہیں۔ واللہ المستعان تفسیر الآیات من القرآن العظیم فی قصۃ اصحب الکہف و الرقیم سب سے اول اس امر کا تصفیہ کرنا چاہیے کہ اصحاف کہف و رقیم کا ایک ہی گروہ پر اطلاق ہوا ہے یا دو مختلف گروھوں پر ‘ یعنی جن لوگوں پر اصحاب کہف کا اطلاق ہوا ہے انہیں پر رقم‘ یعنی اصحاب رقیم کا اطلاق ہوا ہے یا اصحاب کہف ایک جدا گروہ تھا اور اصحاب رقیم جدا گروہ۔ جو کچھ بحث ہو سکتی ہے وہ رقیم کے لفظ پر ہو سکتی ہے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے‘جیسا کہ تفسیر بیضاوی اور اور کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ اصحاف الرقی ایک جدا گروہ تھے اور وہ تین شخص تھے۔ کہیں جاتے تھے کہ رستہ میں مینہ آیا‘ ایک پہاڑ کے غار میں ہو بیٹھے اوپر سے پہاڑ گر ا اورغار کا منہ بند ہو گیا۔ ان لوگوںنے خدا کے سامنے عاجزی کی اور اس مصیبت سے نکلنے کی دعا مانگی۔ کچھ عرصے کے بعد جو پتھر پہاڑ کا اوپر سے پھسل کر گرا تھا اور جس نے غار کا منہ بند کر دیا تھا‘ وہ نیچے کو پھسل گیا اور غار کا منہ کھل گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ قیل اصحاب الرقیم قوم اخرون کانوا ثلثۃ خرجوا یرتادون لا ہلہم فاخذتہم السماء فاووا الی الکھف فانحطت صخرۃ وسدت بابہ فقال احدھم اذکرو اایکم عمل حنۃ لعل اللہ تعالیٰ یرحمنا ببرکتہ (فحدث کل احد منہم بعملہ) ففرح اللہ عنھم فخرجوا وقد رفع ذلک نعمان بن بشیر۔ (بیضاوی)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قصہ ۱ امام محمد اسماعیل بخاری نے بھی اپنی کتاب صحیح بخاری میں بیان کیا ہے‘ مگر کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ اس مقام پر لفظ رقیم سے ان لوگوں کے قصے کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ اول تو اس لیے کہ اس گروہ پر اصحاب الرقیم کا اطلاق نہیں ہوا‘ دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ۔ اس مقام پر دو گروہ کے قصے نہیں بیان کیے‘ بلکہ صرف ایک گروہ کا قصہ بیان کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اصحاب کہف و رقیم ایک ہی گروہ کا لقب تھا۔ ظاہرا معلوم ہوتاہے کہ جہاں خدا نے اصحاب کہف کی تعداد میں لوگوں کا اختلاف بیان کیا ہے کہ کوئی تو کہتا ہے کہ وہ تین شخص تھے کوئی کہتا ہے پانچ تھے‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ باب اذا اشتری شئیا لغیرہ بغیرا ذنہ فرضی حدثنا یعقوب ابن ابراہیم حدثنا ابو عاصم انا ابن جریج اخبرنی موسیٰ ابن عقبۃ عن فانع عن ابن عمر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خرج ثلثۃ نفریمشون فاصبابہم مطر قد د خلوا فی غار فی جبل فامحطت علیھم صخرۃ قال فقال بعضہم لبعضادعوا اللہ با فضل عمل عملتموہ فقال احد کذا والثانی کذا والثالث کذا فکشف عنھم (بخاری) باب من استا جرا جیرا فترک اجرہ حدثنا ابو الیمان انا شعیب عن الزھری ثنی سال بن عبداللہ ان عبداللہ ابن عمر قال سمعت رسول اللہ صلعم انطلق ثلثۃ رھط ممن کان قبلکم حتی اووالمبیت الی غار فدخلوہ فاتحدرت صخرۃ من الجبل فسدت علیھم الغار فقالوا انہ لا ینجیکم من ہذہ الصخرۃ الا ان تدعو ا اللہ بصالح اعمالکم فقال الرجل منھم کذا و الثانی کذا ووالثالث کذا فانفرجت الصخرۃ فخر جوا یمشون۔ (بخاری) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی کہتا ہے کہ سات تھے۔ پس بعض لوگوں نے تین کی تعداد پر خیال کر کے رقیم کے لفظ سے اس گروہ کا اشارہ سمجھا جن کی تعداد تین تھی اور وہ بھی پہاڑ کے غار مین اوپر سے پتھر گرنے کے سبب بند ہو گئے تھے۔ مگر جیسا کہ ہم نے بیان کیا نہ کوئی وجہ پائی جاتی ہے اور نہ اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ ان لوگوں پر اصحاب الرقیم کا اطلاق ہو ا ہو‘ البتہ قسطلانی شرح صحیح بخاری میں شہاب الدین احمد بن محمد الخطیب نے اصحاب الغار کاان پر اطلاق کیا ہے۔ مگر اصحاب الرقیم کا کسی نے اطلاق نہیں کیا۔ بیضاوی اورنیز اور مورخوںاور مفسروں نے رقیم کے معنوںمیں اختلاف کیا ہے ۔بعضوں نے کہا کہ جس پہاڑ میں اصحاب کہف چھپے تھے ا س کا نام ہے‘ کسی نے کہاکہ جس جنگل میں وہ پہاڑ تھا اس جنگل کا نام ہے‘ بعضوں نے کہا کہ جہاں وہ پہاڑ تھا اس شہر کا نام ہے‘ مگر یہ سب اقوال قابل اعتبار نہیں ہیں۔ اس لیے کہ جغرافیہ اس ملک کا جہاں وہ پہاڑ تھا ان اقوال میں کسی کی مساعدت نہیں کرتا۔ بعضوں کا قول ہے کہ رقیم ان کے کتے کا نام تھا اور اس کی سند میں امیہ بن ابی الصلت شاعر جاہلی کا شعر لایا جاتا ہے جس میں اس نے کہا ہے : ولیس بھا الاالرقیم مجاورا مگر اس قول پر بھی طمانیت نہیں ہو سکتی‘ کیونکہ جس طرح رقیم کی نسبت مختلف باتیں مشہور تھیں یہ بھی مشہور ہو گا کہ رقیم ان کے کتے کا نام تھا۔ اسی کو شاعر نے اپنے شعر میں نظم کر دیا۔ رقیم کے معنی ازروئے لغت کے لکھے ہوئے ہیں۔ صحیح بخاری میں بھی رقیم کی تفسیر میںلکھا ہے کہ: الرقیم الکتاب مرقوم مکتوب من الرقم بخاری ۱ نے بھی سعید بن جبیر کا قول نقل کیا ہے کہ انہوںنے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رقیم جست کی تختی تھی جس پر اصحاب کہف کا حال اور ان کے نام لکھے گئے تھے ‘ اسی وجہ سے ان کو اصحاب الرقیم بھی کہتے ہیں۔ پانچویں صدی عیسویں کے اخیر میں یا چھٹی صدی کے شرو ع میں یعنی آنحضرت صلعم سے پہلے ایشیا مینیر کے بشپ نے اس قصے کو بطور عیسائی مذہب کے متبرک قصے کے تحریر کیا تھا۔ پر ہر صورت سے اصحاب کہف پر اصحاب الرقیم کا اطلاق صحیح و درست ہوتا ہے اور رقیم عطف تفسیری ہے اصحاب کہف کی۔ وھو الصحیح عندنا۔ تمام ۲ مفسرین قصہ اصحاب کہف کی شان نزول میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ قال سعید ابن عباس الرقیم اللوح من الرصاص کتب عاملہم اسمائھم (ای اسماء اصحاب الکھف) ثم طرحہ فی خزانۃ۔ (بخاری)۔ ۲۔ روایت محمد بن اسحاق ثم ان قریشا بعثوہ (ای نضر ابن الحارث) وبعثو معہ ابن ابی معیط الی احبار الیہود بالمدینۃ وقالو الھما سلوھم عن محمد و صفتہ و اخبروھم بقولہ فانہم اہل الکتاب الاول و عندھم من العلم ما لیس عندنا من علم الانبیاء فخر جا حتی قدما الی المدینۃ فسالا احبار الیہود عن احوال محمد فقال احبار الیہود سلوۃ عن ثلثۃ۔ عن فتیۃ ذھبوا فی الدھر الاول ماکان من امرھم فان حدیثہم عجیب۔ وعن رجل طواف قد بلغ مشارق الارض ومغاربھا ماکان نباہ وسلوہ عن الروح ما ھو فان اخبرکم فھو نبی والا فھو مفتون فلما قدم النضر وصاحبہ مکۃ قالا قدجئنا کم یفضل ما بیننا وبین محمد و اخبرو ابما قالہ الیہود تجائوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسالوہ فقال (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لکھتے ہیں کہ نصر بن الحارث اور عتبہ بن ابی معیط مدینہ کے یہودیوںکے احبار ‘یعنی علماء کے پاس گئے اور آں حضرت صلعم کے حالات ان سے کہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ تم ان سے تین سوال کرو اگر وہ جواب دیں تو نبی ہیں اور نہیں تو نہیں۔ (۱) ایک یہ کہ چند جوان جو اگلے زمانے میں گزرے ہیں ان کا کیا حال ہے۔ (۲) ایک یہ کہ اس شخص کی جو بڑا پھرنے والا تھا اور زمین کے مشرق اور مغرب تک جا پہنچا تھا اس کے حالات کیا ہیں۔ (۳) ایک یہ کہ روح کیا ہے؟ پہلے سوال کے جواب میں اصحاب کہف کا قصہ نازل ہوا‘ مگر ہمارے نزدیک نہ اس تمہید کی جو سوالات کرنے کے باب میں بیان ہوئی‘ کوئی سند ہے اور نہ اس بات کی طرف کہ اصحاف کہف کے قصے کی نسبت کسی نے سوال کیا تھا کوئی اشارہ ہے۔ ذوالقرنین کا حال اور روح کی ماہیت بلاشبہ لوگوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی تھی اور قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ ہے جہاں فرمایا ہے : یسئلونک عن ذی القرنین۔ یسئلونک عن الروح۔ مگر اصحاب کہف کے قصے میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس سے پایا جاوے کہ وہ قصہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (گزشتہ صفحے کا باقی حاشیہ) رسول اللہ صلعم اخبرکم بما سالتم عنہ غداولم یستئن فانصرفوا عنہ و مکث رسول اللہ صلعم فیما یذکرون خمسۃ عشر لیلۃ حتی ارجف اہل مکۃ بہ وقالوا اوعدنا محمد غدا و الیوم خمس عشرۃ لیلۃ فشق علیہ ذالک ثم جائہ جبریل من عنداللہ بسورۃ اصحاب الکھف وفیھا مساتبۃ اللہ ایاہ علی حزنہ علیہم وفیھا خبر اولئک الفتیۃ و خیر الرجل الطواف ۔ (تفسیر کبیر) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی نے پوچھا تھا۔ معہذا نبی ہونے کی شناخت ان سوالوں کے جواب پر منحصر کرنا کیسی ایک لغو اور بے ہودہ بات ہے۔ اس روایت میں ایک صریح غلطی یہ ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ یہودیوں کا یا یہودی مذہب کا قصہ نہیں ہے‘ بلکہ عیسائی مذہب کے لوگوں کا قصہ ہے ۔ پس اس کی نسبت علماء یہود سے پوچھنا یا علماء یہود کا اس کی نسبت سوال بتانا اور اس کے جواب پر آں حضرت کا نبی ہونا منحصر کرنا کیسا غلط ہے۔ علاوہ اس کے یہ قصہ کچھ بہت پرانا نہیں ‘ آنحضرت صلعم کے زمانے سے تھوڑے زمانے پہلے کا ہے جیسے کہ آئندہ معلوم ہو گا۔ معہذا یہ قصہ عرب جاہلیت کو بھی معلوم تھا جیسے کہ امیہ بن ابی الصلت جاہلی کے شعر سے پایا جاتا ہے اوروہ یہ ہے : ولیس بہا الا الرقیم مجاورا وصیدھم والقوم فی الکھف ہمد پس ایسے قصے کو پوچھنا اور اس پر نبی ہونے کو منحصر کرنا کسی طرح سمجھنے کے قابل نہیں ہے۔ علاوہ اس کے خود قرآن مجید سے پایا جاتاہے کہ قبل اس کے کہ خدا تعالیٰ اس قصے کی حقیقت بتا دے آں حضرت صلعم اس قصے کو مع ان عجائبات کے جو لوگوں نے اس میں شامل کر دیے تھے سن چکے تھے اور متعجب ہوئے تھے۔ خدا نے کہا۱ اے محمد کیا تو نے سمجھا ہے کہ اصحاب کہف و رقیم میری عجیب نشانیوں میں سے تھے اور جب تک کہ آنحضرت نے وہ قصہ مع ان عجائبات کے جو لوگوں نے اس میں شامل کر لیے تھے نہ سن لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ام حسبت ان اصحاب الکھف والرقیم کانوا من ایتنا عجبا۔ (سورۃ کہف) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو خدا کا یہ فرمانا کہ کیا تو نے اس کو عجیب سمجھا ہے ‘ صحیح نہیں ہو سکتا‘ بے جانی ہوئی چیز پر نہیں کہا جا سکتا کہ کیا تو نے اس کو عجیب سمجھا ہے۔ یہ کہانی کہ قریش نے احبار یہود کے کہنے سے آنحضرت صلعم سے تین سوال کیے تھے اور آپ نے فرمایا کہ میں کل اس کا جواب دوں گا‘ مگر انشاء اللہ تعالیٰ نہ کہا اورپندرہ روز تک نہ جبریل آئے اور نہ وحی لائے اور قریش ایسی ویسی باتیں بنانے لگے اورآنحضرت صلعم ملول و متفکر ہوئے ‘ محض غلط اورساختہ کہانی ہے اور حدیث کی کسی معتبر کتاب میں یہ روایت نہیں ہے ۔ لوگوں کی عادت ہے کہ جہاں قرآن مجید کی کسی آیت میں اس قسم کا کوئی لفظ دیکھا جس پر کوئی قصہ مبنی ہو سکتا ہے‘ اس کی مناسبت سے ایک قصہ روایت کرنے لگے اور ہمارے مفسرین نے ان روایتوں کو اپنی تفسیروں میں نقل کرنا شروع کیا۔ اسی سورۃ میں یہ آیت ہے کہ ’’اور ۱ تو کبھی نہ کہنا کسی چیز کے لیے کہ میں اس کو کل کروں گا بغیر انشاء اللہ کہے اور یا د کر اپنے پروردگار کو جب تو بھول جاوے‘‘۔ اس آیت سے لوگوں نے یہ قصہ بنایا کہ قریش ۲ نے یہ قصہ پوچھا تھا اور آپ نے وعدہ کیا تھا کہ میں کل جواب دوں گا‘ مگر ان شاء اللہ نہیں کہا تھا۔ اس پر خدا روٹھ گیا اور دو ہفتے تک وحی نہیں بھیجی ۔ نعوذ باللہ من ھذہ الشطحیات۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ولا تقولن لشئی انی فاعل ذالک غدا الا ان یشاء اللہ واذکر ربک اذا نیست وقل عسیٰ ان یھدینی ربی لا قرب من ھذا رشدا۔ (سورۃ کھف) ۲۔ وذالک ان اھل مکۃ سالوہ عن الروح و عن اصحاب الکھف وعن ذی القرنین فقال اخبرکم غداولم یقل انشاء اللہ فلبث الوحی ایام ثم نزلت ہذہ الایۃ ۔ (معالم التنزیل )۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اول تو غداً کے معنی کل کے یعنی دوسرے دن کے قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ غد اور غدا کا استعمال زمانہ مستقبل غیر معین و غیر محدود پر ہوتا ہے۔ خدا نے سورۃ لقمان۱ میں فرمایا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا۔ پس خدا کے لفظ سے جس کا ترجمہ کل اور (فردا) ہے دوسرا دن مراد نہیں ہے۔بلکہ اس سے زمانہ مستقبل ‘ یعنی آنے والا زمانہ مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ آئندہ وہ کیا کرے گا۔ زمانہ جاہلیت میں بھی غد کے لفظ کا اس معنی میں استعمال ہوتا تھا جیسے کہ ابن معاویۃ المعروف بالنابغۃ الذیبانی جاہلی شاعر نے کہا ہے : لامر حباً بغد ولا اھلابہ ان کان تفریق الاحبۃ فی غد پس اس آیت میں جو لفظ غداً کا ہے اس کے معنی دوسرے دن کے نہیں ہیں۔ خدا نے فرمایا کہ جب تم آئندہ زمانہ میں کسی کام کے کرنے کو کہو تو اس کے ساتھ ان شاء اللہ کہہ لیا کرو۔ لوگوں نے اس خیال سے کہ یہ آیت سورۃ کہف کی آیتوں میں شامل ہے اور غدا کا لفظ اس میں آیا ہے اور لوگوں کا ذی القرنین کی نسبت اور روح کی نسبت بھی سوال کرنا قرآن مجید میں مذکور ہے ‘ ایک روایت جس کی کوئی سند نہیں ہے بنا کھڑی کی اور ہمارے مفسروں نے اپنی تفسیروں میں نقل کرنا شروع کر دیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ان اللہ عندہ علم الساعۃ عینزل الغیث ویعلم ما فی الارحام وما تدری نفس ماذا تکسب غدا (سورۃ لقمان) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا تعالیٰ نے اس مقام پر اصحاب کہف کے قصے کو اخیر تک بیان نہیں کیا بلکہ صرف اس قدر بیان کیا ہے کہ جہاں تک اس بات سے علاقہ رکھتا ہے۔ جس سے اس قصے کا عجیب و غریب اور مافوق الطبیعت ہونا لوگوں نے بیان کیا ہے۔ باقی قصے کو چھوڑ دیا ہ‘ کیونکہ اس کے بیا ن کی ضرورت نہ تھی‘ اس لیے جس مقام پر اس قصے کو چھوڑا اپنے پیغمبر کو نصیحت کی ہے کہ جو کام آئندہ کو کرنا ہو بغیر ان شاء اللہ کہے مت کہو کہ میں کروں گا اور اگر انشاء اللہ کہنا بھول جاوے تو اس سکو یاد کر لے یعنی یاد آنے پر کہہ لے۔ یہ جملہ اس مقام پر اس لیے فرمایا کہ خدا نے قصے کو ناتمام چھوڑ کر اپنے پیغمبر کو فرمایا کہ یہ کہہ دے۱ کہ ہدایت کرے مجھ کو میرا پروردگار اس سے بھی قریب زیادہ ٹھیک بات کی‘ یعنی جو قصہ باقی رہ گیا ہے ااس کو بھی تحقیق طور پر بتا دینے کی اور اسی کے بعد فرما دیا کہ خدا کو معلوم ہے کہ وہ کہف میں کتنی مدت رہے غرض کہ جو شان نزول مفسرین نے بتائی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ قاضی عبدالجبار معتزلی نے بھی اس شان نزول پر اعتراض کیا ہے اوریہ شان نزول صحیح نہیں ہے۔ وھو الحق۔ اب اس قصے کی شان نزول جو خود قرآن مجید سے بدلالت النص پائی جاتی ہے ہم بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلعم نے کافروں سے یہ قصہ جس طرح کہ ان میں مشہور تھا سنا اور اس پر نہایت متعجب ہوئے تھے۔ خدا تعالیٰ نے اس تعجب کے دور کرنے کو فرمایا کہ اے محمد کیاتو نے سمجھا ہے کہ اصحاب کہف اور رقیم میری عجیب نشانیوں میںتھے‘ یعنی وہ کچھ عجیب نہ تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ قل عسیٰ ان یھدینی ربی لا قرب من ھذا رشدا۔ (سورۃ کھف) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علماء ۲ مفسرین نے بھی یہ معنی اختیار کیے ہیں مگر باوجود عجیب ہونے کے نفی کرنے کے اس کا عجیب ہونا قائم رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس لیے عجیب نہیںہے کہ خدا کی تمام نشانیاں عجیب ہیں یا یہ کہ خدا کی مخلوقات‘ مثلاً آسمان اور زمین وغیرہ اس قصے سے بھی اعجب ‘ یعنی عجیب تر ہیں۔ مگر ان دونوں دلیلوں میں غلطی ہے۔ بیشک خداکی تمام مخلوقات اور اس کے تمام کام فی نفسہ عجیب ہیں‘ مگر جو روز مرزہ دیکھنے و برتنے میں آتے ہیں ان کا عجیب ہونا نہیں سمجھا ناتا‘ بلکہ اسی کا عجیب ہونا سمجھا جاتاہے جو معمولی باتوں میں بڑھ کر ہو پس یہ کہنا کہ قصہ اصحاب کہف عجیب تو ہے‘ مگر جو کہ تمام کام خدا کے عجیب ہی ہیں اس لیے اس قصے کو بالتخصیص عجیب مت سمجھو‘ بالکل غلط اور خلاف مقصود آیت کے ہے‘ کیونکہ آیت میں اس کے عجیب ہونے کی نفی سے یہ مراد ہے کہ وہ ایک معمولی واقعہ ہے جو انسانوں پر گزرا ہے‘ اس میں تعجب کرنے کی کوئی بات نہیں ۔ دوسرا استدلال کہ اور کام خدا کے اس سے بھی زیادہ تر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ام حسبت ان اصحاب الکھف والرقیم کا نوا من ایاتنا عجبا۔ (سورہ کھف)۔ ۲۔ یعنی اظننت یا محمد ان اصحاب الکھف والرقیم کانوا من آیاتنا عجبا ای ہم عجب من آیاتنا وقیل معنا انھم لیسوا یا عجب من آیاتنا فان ماخلقت من السموات والارض وما فیھن من العجائب عجب منھم۔ (معالم التنزیل)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عجیب ہیں اس لیے گو کہ وہ قصہ عجیب ہے مگر اس کو عجیب نہ سمجھو اور بھی زیادہ مہمل اور بے معنی ہے۔ آیت میں اس کے عجیب ہونے کی نفی کی گی ہے۔ اس میںلفظ عجبا ہے اگر اعجبا کا لفظ ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ نفی زیادہ تر عجیب ہونے کے متعلق ہوتی اور قصے کا فی نفسہ عجیب ہونا باقی رہتا‘ مگر جبکہ عجیب ہونے کی ہی نفی ہے تو بجز اس کے کہ وہ ایک عام واقعہ ہو جو دنیا میں ہوتے ہوں اور کوئی صفت تعجب اس میں باقی نہیں رہتی۔ بلاشبہ خدا تعالیٰ کی تمام نشانیاں اور ا س کی تمام مخلوقات آسمان و زمین‘ انسان و حیوان چیونٹیاں اور بھنگے سب عجیب ہیں‘ لیکن باعتبار نفس خلقت کے فی نفسہ عجیب ہونا دوسری چیزہے۔ جو امور کہ موافق عادت کے ہوتے ہیں] گو وہ فی نفسہ عجیب ہوں مگر عادت کے موافق ہونے پر ان سے کوئی متعجب نہیں ہوتا۔ تعجب جب ہی ہوتا ے جب کوئی چیز خلاف عادت وقوع میں آوے۔ پس یہ آیت جو تعجب کی نفی پر دلالت کرتی ہے وہ اسی تعجب کی نفی کرتی ہے جو کسی امر کے خلاف عادت ظہور میں آنے سے ہوتا ہے ۔ حاصل یہ کہ اصحاب کہف میں کوئی بات تعجب کرنے کے لائق نہیں ہے۔ ان پر کوئی واقعہ خلاف عادت جس سے تعجب ہو‘ جیسا کہ لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے نہیں گزرا۔ وہ مثل اور انسانوں کے انسان تھے اورجیسے واقعات انسانوںپر گزرتے ہیں ویسے ہی ان پر بھی گزرے تھے‘ کوئی امر خلاف عادت ہو تعجب انگیز ہو نہیں ہوا۔ اب یہ امر قابل غور ہے کہ قرآن مجید میں اس قصے کو دو ٹکڑے کر کے بیان کیا ہے ۔ پہلی دفعہ بہت ہی مختصر طور پر اس کو کہہ دیا ہے اور صرف وہ خاص مقام بیان کیاہے جس کے سبب وہ قصہ عجیب ہو جاتا ہے اور پہلی آیت میں اس کے عجیب ہونے کی نفی کی تھی اور اس کے ساتھ کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو قصے کے واقعی ہونے پر اشار ہ کرتا ہو۔ برخلا ف اس کے جہاں پر قصہ شروع کیا ہے اس کی ابتدا میں فرمایا ۱ ہے کہ ہم بیان کرتے ہیں تجھ سے ان کا ٹھیک واقعی قصہ۔ پس پہلے بیان کی نسبت جو خدا تعالیٰ نے اس کا بیا ن کرنا اپنی طرف نسبت نہیں کیا اوردوسرے بیان کو حق بتایا اور اپنی طرف نسبت کیا اور اس کے لیے کوئی وجہ ہونی چاہیے۔ تفسیر کبیر۲ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالٰ نے پہلے ان کے قصے کا ایک ٹکڑا بیان کیا پھر کہا کہ ہم بیا کرتے ہیں تجھ پر ان کا ٹھیک‘ یعنی سچا قصہ‘ مگر صاحب تفسیر کبیر نے بھی کوئی وجہ نہیں بیان کی کہ ان دونوں بیانوں میں کیوں اس طرح تفریق کی ہے‘ مگر یہ لفظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ پہلے جس قدر بیا ن ہوا وہ قصہ نہیں ہے جس کے بتانے کا خدا نے ارادہ کیاتھا‘ بلکہ پہلے وہ بیان کیا ہے جو لوگو ںمیں مشہور تھا اور جس سے وہ قصہ عجیب ہو گیا تھا اورپھر واقعی قصہ بیان کیا ہے جس میں وہ امر تعجب انگیز نہیں ہے اوردونوں کے مقابلہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس امر کو لوگوں نے باعث تعجب اس قصے میں قرار دے رکھا تھا وہ واقعی نہیں ہے۔ لوگوں نے جس طرح اس قصے کو تعجب انگیز بنا لیا تھا‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ نحن نقص علیک نباھم بالحق۔ (سورۃ کھف) ۲۔ اعلم انہ تعالیٰ ذکر من قبل جملۃ من و اقعتہم ثم قال نحن علیک نباھم بالحق اے علی وجۃ الصدق۔ (تفسیر کبیر)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا نے اس کا اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’جب وہ چند جوان کہف میں آئے تو انہوںنے کہا ک اے ہمارے پروردگار ہم کو اپنے پاس سے رحمت دے اور تیار کر دے ہمارے لیے ہمارے کاموں میںبھلائی پھر ہم نے مارا ان کے کانوں پر کہف میں گنے ہوئے برسوں تک پھر ہم نے ان کو اٹھایا‘ تاکہ ہم جان لیں کہ ان دو گروہوں میں سے کون سا گروہ خوب یاد رکھنے والا ہے ان کے رہنے کی مدت کو‘‘۔ لوگوںنے جو اس قصے میں تعجب انگیز بات بنا لی تھی وہ یہ تھی کہ جب وہ کہف میں گئے تو بعض ۲ روایتوں میںہے کہ وہ سور ہے‘ بعض میں ہے کہ ان پر غشی چھا گئی۔ محمد بن اسحاق کا قول تفسیر معالم التنزیل میں نقل کیا ہے کہ خدانے ان کی روحوں کو وفا ت دی جیسے کہ سونے میں روحوں کو وفات دیتا ہے ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ وہ مر گئے ۔ پس خدا کو ایسا لفظ فرمانا تھا جو لوگوں کے ان سب خیالات پر حاوی ہو‘ اس لیے فرمایا ’’فضربنا علی اذانہم‘‘ یعنی ان کے کانوں کو ایسا کر دیا جس سے وہ نہ سن سکیں اور کانوں کی ایسی حالت سو جانے ‘ غش آ جانے سے ‘ مر جانے سے ہر حالت میں ہوتی ہے‘ پس ان لوگوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ اذا وی الفتیۃ الی الکھف فقالوا ربنا اتنا من لدنک رحمۃ وھئی لنامن امرنا رشدا۔ فضربنا علیٰ اذانہم فی الکھف سنین عددا۔ ثم بعثنا لنعلم ای الحزبین احصے بما لبثوا امدا ۔ (سورۃ کھف) ۲۔ فضربنا قال المفسرون معناء انمناھم (تفسیر کبیر) فبینما ہم علی ذالک اذ ضرب اللہ علی اذنم النوم فی الکھف (تفسیر معالم التنزیل) ۳۔ قد تو فی ارواحہم وفاۃ النوم ۔ (معالم التنزیل) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے خیالات پر جامع ہونے کو اس سے بہت کوئی لفظ نہ تھا۔ پھر فرمایا : سنین عدداثم بعثناھم لوگ کہتے تھے کہ ان کی یہ حالت تین سو برس تین سو نو برس اور بعض تاریخوں کے حساب سے دو سو برس یا دو سو چالیس برس تک رہی۔ ان اختلافات مدت کے لیے کوئی لفظ سنین عددا سے زیادہ جامع نہیں ہو سکتا تھا۔ پھر لفظ بعثنا بھی ایسا ہی جامع ہے کہ جو لوگ ان کو سوتا ہوا سمجھتے تھے تو سونے سے اٹھنے پر بھی بعث کے لفظ کا اطلاق ہو سکتاتھا‘ غش سے افاقہ ہونے پر بھی اطلاق ہو سکتا تھا اور مردہ ہوکر زندہ ہونے پر بھی اس کا اطلاق ہو سکتا تھا اوریہ لفظ لوگوںکے تمام خیالات کے جامع تھے۔ ضرب علی الاذن اور بعث کو خدانے اس مقام پر اپنی طرف سے منسوب کیاہے اور کہا ہے : فضربنا علی اذانھم فی الکھف سنین عددا ثم بعثناھم اس کاسبب ی ہے کہ وہ لوگ بھی جنہوں نے اس قصے کو عجیب بنایا تھا اوروہی روایتیں چلی آتی تھین وہ بھی ان کا سلانا یا غش میں ڈالنا یا مردہ کر دینا اور پھر اٹھا یا جلانا خدا ہی طرف منسوب کرتے تھے ۔ اس لیے اس مقام پر بھی خدا نے اس کو اپنی طرف منسوب شدہ بتایا۔ پس جو عجیب چیز اس قصے میں بنائی گئی تھی وہ اصحاب ہف کا اس قدر مدت دراز تک سوتے رہنا یا غش میں پڑے رہنا یا مر ے ہوئے ہو کر پھر زندہ ہو جانا جبکہ خدا تعالیٰ نے پہلی آیت میں اس قصے کے عجیب ہونے کی نفی کی تھی تو اس سے ان کے اس قدر مدت تک سوتے رہنے یا غش میں پڑے رہنے یا مردہ رہ کر زندہ ہونے کی نفی لازم آتی ہے۔ اس کی تائید خود قرآن مجید کی اگلی آیتوں میں ہوتی ہے جہاں سے خدا تعالیٰ نے خود ان کا واقعہ اور سچا قصہ بیان کرنا شروع کیا ہے اور جس میں ان کے اس قدر زمانہ دراز تک سوتے رہنے یا غش میں پڑے رہنے یا مردہ رہنے کا مطلق ذکر نہیں کیا ۔ نتیجہ اس بحث کا یہ ہے کہ جو لوگوں میں مشہور تھا کہ اصحاف کہف اس قدر مدت دراز تک سو کر یا غش میں پڑے رہ کر اٹھے یا مردہ رہ کر زندہ ہوئے صحیح نہیں تھا۔ اب خدا تعالیٰ صحیح قصہ اصحاب کہف کا بتالاتا ہے اور فرماتا ہے کہ ’’ہم بیان۱ کرتے ہیں تجھ سے ان کا سچا قصہ‘ ہاں وہ چند جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اورہم نے ان کو زیادہ ہدایت کی تھی اور مضبوط کر دیا تھا ان کے دلوں کو جبکہ وہ کھڑے ہوئے (یعنی جابر اور بت پرست بادشاہ کے سامنے جو بت پرستی پر ان کو مجبور کرتا تھا) انہوںنے کہا کہ ہمارا پروردگار آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے‘ ہم اس کے سوا کسی اور کو خدا نہیں پکارتے اور جب ہم نے ایسا کہا (یعنی کسی دوسر ے کو خدا کہا) تو ہم نے بیہودہ بات کہی‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے آپس میں کہا کہ ’’ہماری ۲ اس قوم نے اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ نحن نقص علیک نباھم بالحق انہم فتیۃ امنوا بربھم وزدنا ھم ہدی وربطنا علی قلوبہم اذ قاموا فقالو ا ربنا رب السموات والارض لن ندعوا من دونہ الھالقد قلنا اذا شططا۔ (سورۃ کھف)۔ ۲۔ ھولاء قومنا اتخذوا من دونہ الھۃ لولا یاتون علیہم بسلطن بین۔ فمن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا۔ واذا اعتزلتموھم وما یعبدون الا اللہ ووا الی الکھف ینشرلکم ربکم من رحمتہ ویہیئی لکم من امر کم مرفقا۔ (سورۃ کھف)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے سوا خدا ٹھہرائے ہیں کیوں نہیںلاتے ان کے خدا ہونے پر صاف دلیل پھر کون شخص زیادہ ظالم ہے اس سے جس ن بہتان باندھا خدا پر جھوٹ اور جب تم ان سے الگ ہو جائو اور اس سے جس کی وہ عبادت کرتے ہیں اللہ کے سوا تو چل رہو کہف میں تاکہ وسیع کر دیوے تمہارے لیے تمہارا پروردگار اپنی رحمت کو اور تیار کرے تمہارے لیے تمہارے کاموں میں آرام کا ذریعہ‘‘۔ اب خدا تعالیٰ اس کہف کا حال بتاتا ہے جس میں اصحب کہف جا کر رہے تھے کہ ’’تو ۱ دیکھے آفتاب کو جب وہ طلوع کرے تو وہ ان کے کہف سے دائیں جانب کو مائل ہو گا اورجب غروب کرے تو ان کو کاٹتا ہوا بائیں طرف کو جائے گا اور وہ کہف کی کشادگی میں ہیں‘‘۔ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کہف کا منہ جانب شمال تھا اور لوگوں نے بھی ا کے منہ کو جانب بنات النعش کہا ہے جو آسمان پر جانب شمال چند کواکب ہیں۔ پس اب تم اپنا منہ شمال کی طرف کو تو مشرقہ تمہارے دائیں ہاتھ کو ہو گی ارو مغرب بائیں ہاتھ کو او رسورج جو مشرق سے نکلے گا تمہارے پر ہوتا ہوا‘ یعنی تم کو یا تمہارے مقام سکونت کو کاٹتا ہوا تمہارے بائیں ہاتھ کی طرف غرب کو چلا جاوے گا۔ یہ حال خدانے بیان کیا‘ تاکہ سمجھ میں آوے کہ اس کہف یعنی پہاڑ کی کھوہ میں بالکل اندھیرا تھا اور سورج کی روشنی کسی طرح نہیں جا سکتی تھی۔ پہاڑ میں جو اس قسم کی کھوہ ہوتی ہے وہ دور تک لمبی اور تنگ چلی جاتی ہے اور کسی مقام پر چوڑی ہو جاتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ وتری الشمس اذا طلعت تزاور عن کھفہم ذات الیمین واذا غربت تقرضہم ذات الشمال وھم فی فجوۃ منہ ۔ (سورۃ کھف)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی چوڑی جگہ پر خدا نے فرمایا ہے کہ وھم فی فجوۃ منہ یعنی اصحاب کہف اس کھوہ کی چوڑی جگہ میں تھے۔ اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ یہ ۱ ہے اللہ کی نشانیوںمیں سے جس کو خدا ہدایت کرے وہی ہدایت پانے والا ہے اورجس کو گمراہ کرے پرھ تو اس کا کوئی دوست راہ بتانے والا نہیں پاوے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ خدا تعالیٰ نے اصحاب کہف کو یا اس پہاڑ ک کھوہ کو یا اصحاب کہف کے وہا ں جا کر رہنے کو اللہ کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے تو یہ محض غلطی ہو گی۔کیونکہ اس کے آگے جو الفاظ ہیں کہ من یھد اللہ فہو المھتد و من یضلل فلن تجدلہ سبیلا وہ صاف بتاتے ہیں کہ اصحاب کہف جو اپنے ایمان پر اور خدا پرستی پر مستحکم رہے اور خدا نے نہایت سختی اور جبر میں بھی جو بت پرست بادشاہ کی طرف سے بتوں کو نہ پوجنے پر ہوتے ھتے ان کے دلوں کو مضبوط رکھا اس کی نسبت خدا نے فرمایا: ذالک من آیات اللہ اب خدا تعالیٰ اصحاب کہف کی حالت بیان کرتا ہے کہ تو ان کو۲ (یعنی اگر دیکھے تو) گمان کرے کہ وہ جاگتے ہیں‘ حالانکہ وہ سوتے ہیں اورہم کو ان کو دائیں کروٹ اور بائیں کروٹ پر بدل دیتے ہیں اور ان کا کتا کھوہ کے دھانے پر ہاتھ پھیلائے ہوئے بیٹھا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ذالک من آیات اللہ من یھد اللہ فھوا لمھتد ومن یضلل فلن نجدلہ ولیا مرشدا۔ (سورۃ کھف) ۲۔ وتحسبہم ایقاظا وھم رقود ونقلبہم ذات الیمین وذات الشمال وکلبھم باسط ذراعیہ بالوصید ۔ (سورۃ کہف) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا تعالیٰ نے اس سے پہلے اصحاب کہف کا پہاڑ کی کھوہ میں جانا بیان کیا ہے‘ اس کے بعد اس کھوہ کی حالت بیان کی ہے اور اب اصحب کہف کی حالت بیان فرمائی ہے۔ پس یہ حالت اسی وقت کی ہے جب کہ اصحاب کہف کوھہ میںگئے تھے نہ زمانہ موجود کی یا اس کے کسی زمانہ ممتد کے بعد کی۔ تحسبھم ایقاظا کی نسبت مفسروں نے بہت سی بے اصل باتیں لکھی ہیں الا قرآن مجید سے جو اس کی وجہ پائی جاتی ہے وہ صرف خدا کا یہ فرمانا ہے کہ نقلبھم ذات الیمین و ذات الشمال اور یہی بات سچ ہے ۔ وہ پتھریلی کھوہ میں جا کر سوئے تھے اور اس کے سبب سے گھڑی گھڑی کروٹیں بدلتے ہوں گے اور ان کی اس تکلیف کو خدا نے اس طرح پر ظاہر فرمایا ہے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ اس وحشت اور خوفناک حالت کو جس میں اصحاب کہف پہاڑ کی کھوہ میں جا کر چھپنے سے مبتلا ہو ئے تھے بتاتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر تو ان ۱ کو دیکھتا تو ان سے الٹا بھاگتا اور تجھ پر ان سے رعب چھا جاتا مفسرین نے اس آیت کی نسبت بھی بہت سی افواہیں اور بے سند روایتیں لکھی ہیں اوران کی اس حالت کو زمانہ ممتد بعد کی حالت قرار دیا ہے ۔ حالانکہ جس طرح خدا تعالیٰ نے اصحاب کھف کی اس وقت کی حالت کو جب وہ پہاڑ کی کھوہ میں گئے تھے بیان کیا ہے اسی طرح اسی وقت ان کی وحشت انگیز حالت کو ظاہر فرمایا ہے۔ قرآن مجید کا سیاق کلام یہی ہے کہ جب کسی گزشتہ واقعے پر متنبہ کرنا یا توجہ دلانا چاہتا ہے تو گزشتہ واقعے کو موجود قرار دے کر خطاب کے لفظوں سے مخاطب کرتا ہے۔جیسے کہ الم ترکیف فعل ربک باصحب الفیل۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ لواطلعت علیھم لو لیت مھم فرارا ولملئت منھم رعبا۔ (سورۃ کہف) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہاڑ کی کھوہ فی نفسہ ایک وحشت ناک جگہ ہوتی ہے ۔ ۱۸۷۰ء میں جبکہ میں لندن میں تھا تو ایک دوستے سے ملنے برسٹل گیا جو ایک خوبصورت شہر ہے۔ اس کے قریب سمندر کی کھاڑی کے کنارے پر ایک چھوٹا سا پہاڑ کا ٹیبہ ہے اس میں ایک کھوہ ہے جس میں کسی اگلے زمانے میںکوئی ہرمٹ یعنی عیسائی درویش رہتا تھا۔ میں اس کھوہ کو دیکھنے گیا۔غالباً وہ کچھ بہت بڑ ی نہ تھی۔کئی سو فٹ لمبی ہو گی مگر ایسی تنگ و تاریک تھی کہ کوئی چیز ‘ یہاں تک کہ پاس کا آدمی بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ جو شخص اس کے دکھانے کو ہمارے ساتھ تھا مہربانی سے روشنی لایا کہ ہم روشنی کے ذریعے سے اس میں جاویں۔ قریبا نصف راستہ ہم نے طے کیا ہو گا کہ اس زور سے اور عجیب نفرت انگیز آواز سے ہوا آنی شروع ہوئی جس نے ہم کوپریشان کر دیا اور جو روشنی ہمارے ساتھ تھی وہ بھی گل ہو گئی۔ ہم آگے نہ گئے اورواپس چلے آئے۔ معلوم ہوا کہ اس کھوہ میں سمندر کی جانب کوئی سوراخ یا موکھا ہے اس میں سے یہ شدید ہوا آتی ہے۔ جو شخص ہمارے ساتھ تھا اس نے بیان کیا کہ تھوڑی دو ر آگے قریباً دو ڈھائی گز چوڑی ایک جگہ ہے اس میں ہرمٹ رہتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسی قسم کی جگہ پر سورۃ کہف میں خدا تعالیٰ نے وھم فی فجوۃ منہ کا اطلاق کیا ہے۔ یہاں تک کہ صرف اس قدر بات قرآن مجید سے پائی گئی ہے کہ اصحاب کہف اس بت پرست بادشاہ کے خوف سے بھاگے اور پریشانی کی حالت میں ایک وحشت انگیز جگہ میں جو پہاڑ کی تنگ و تاریک کھوہ تھی جا کر چھپے اور وہاں سو رہے ۔ پھر خدا نے ان کو جگایا یعنی وہ جاگے۔ چنانچہ خداوند تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور اسی طرح ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ وہ آپس میں پوچھیں۔ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ تم کتنا سوئے‘ انہو ںنے کہا کہ ایک دن سوئے یا ایک دن سے کچھ کم۔ وہ بولے کہ تمہارا پروردگا ر جانتا ہے کہ تم کتنا سوئے‘‘۔ پہاڑ کی کھوہ جس میں وہ جا کر چھپے تھے نہایت اندھیری تھی ۔ سورج کی روشنی اس میں نہیں پہنچتی تھی۔ یہ ایک معمولی بات تھی کہ جب وہ سو کر اتھے تو پوچھا کہ کس قدر سوئے اس اندھیری کھوہ میں؟ کسی نے کہا دن بھر یا کچھ کم سوئے جو کہ وہ لوگ بسبب اندھیرے کے ٹھیک انداز نہیں کر سکتے تھے انہوں نے کہا کہ خدا معلوم کتنا سوئے۔ یہ ان کا سونا اور جاگنا پہاڑ کی کھوہ میں جانے کے بعد ایک معمولی زمانے تک سو کر جاگنا تھا اور کوئی عجیب بات اس میں نہ تھی اورنہ قرآن مجید میں اس مقام پر یعنی اس قصے میں جس کی نسبت خدا نے کہا : نحن نقص علیک نباھم بالحق کوئی اشارہ اس بات کا ہے کہ ان کا سوتے رہنا زمانہ طویل غیر عادی اور غیر قیاسی اور غیر طبیعی تک ہوا تھا‘ بلکہ تمام سیاق سے پایا جاتاہے کہ وہ کھوہ میں چھپے ‘ وہاں سو رہے اورمعمولی قاعدے پر اٹھے ۔ آپس میں پوچھنے لگے کہ کتنا سوئے۔ بعض مفسرین نے استدلال کیا ہے کہ ہرگاہ ان کے اٹھنے کی علت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ آپس میں سوال کریں کہ کتنا سوئے تو زمانہ نوم میں ضرور کوئی ندرت ہو گی اور اس میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ وکذالک بعثنا ہم لیتساء لوابینھم قال قائل منھم کم لبثتم قالو ا لبثنا یوما او بعض یوم قالوا ربکم۔ اعلم بما لبثتم ۔ (سورہ کہف) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ندرت کو نوم زمانہ طویل قرار دیا ہے ۔ مگر یہ ان کی محض غلطی ہے ۔ ایک امر کے بعد دوسرے امر کو جو اس سے متصل واقع ہوا ہو لام کے ساتھ بیان کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسرا امر اس کی علت ہو‘ قرآن مجید کا سیاق کلام یہ ہے کہ ایک واقعے کے بعد جو دوسرا واقعہ ہوتا ہے اس کو لام کے ساتھ بیان کیاجاتا ہے جس سے محض تعقیب مراد ہے نہ علت۔ چنانچہ قرآن مجید میں بہت جگہ جس پر لام آیا ہے وہ ہرگزا پنے ماقبل کی علت نہیں ہے‘ اسی سورۃ میں خدا نے فرمایا ہے : ثم بعثناھم لنعلم ای الحزبین احسیٰ لما لبثوا پس خد ا کا علم ان کے زمانہ قوم کی نسبت ان کے اٹھنے کا ملول نہ تھا۔ اس کے سوا اور بہت سے مقام قرآن مجید میں اس سے زیادہ صاف طور پر آئے ہیںجہاں خدانے فرمایا ہے: وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الالنعلم من یتبع الرسول اور جہاں فرمایا ہے: وما کان لہ علیھم من سلطان الا لنعلم من یئومن بالاخرۃ اور جہاں فرمایا ہے: فالتقطہ آل فرعون لیکونلھم عدوا وحزنا پس جبکہ ان کے جگانے کی علت ان کا باہم سوال کرنا نہ تھا جو دلیل ندرت زمانہ نوم کی ان مفسرین نے سمجھی تھی گو وہ کیسی ہی لغو او ر مہمل تھی ‘ مگر وہ باطل ہو جاتی ہے۔ یہ امر بھی انسانوںمیں بہت واقع ہوتا ہے کہ سو کر اٹھنے کے بعد وہ پوچھتے ہیںکہ کتنا سوئے اور کوئی نہیںسمجھ سکتا کہ ان کے جاگنے کی علت سونے کی مدت کا سوال کرنا تھی۔ اصل یہ ہے کہ تمام مفسرین اور روایت گھڑنے والوں کو اس وجہ سے غلطی پڑی ہے کہ ابتدا میں یعنی جس مقام پر خدا نے لوگوںکی غلط افواہ اور غلط تعجب کا ذکر کرتے وقت ان کا قول نقل کیا تھا کہ : فضربنا علیٰ اذانہم فی الکہف سنین عدداً ثم بعثناھم اور سنین عددا سے زمانہ ممتد مقصود تھا اسی پر انہوںنے سمجھ لیا کہ کئی سو برس سونے کے بعد اٹھے ہوں گے‘ حالانکہ اس واقعی اور صحیح قصے میں خدا تعالیٰ نے ان کا سونا اور پھر جاگنا مسلسل طور پر کھوہ میں جانے کے بعد بیان کیا ہے۔ شروع قصہ میں خود خدا تعالٰ نے قصے کے عجیب ہونے کی نفی کر دی تھی ۔ اور اس کا عجیب ہونا صرف مد ت دراز تک سوئے رہنے سے تھا۔ اس صحیح اور واقعی قصے میں خدا تعالیٰ نے ان کا زمانہ دراز تک سوئے رہنے کا ذکر نہیں فرمایا۔ پس اس مقام پر بھی اس غلط شہرت کو داخل کرنا صریح غلطی ہے۔ جب وہ اٹھے تو انہوں نے کہا کہ بھیجو ۱ اپنے میں سے ایک کو اپنے پاس سے چاندی کا یہ سکہ د کر شہر کو تاکہ دیکھے کہ کون سا اچھا کھانا ملتا ہے اور اس میںسے تمھارے لیے کھانا لاوے اور جلدی آوے اورکسی کو تمہاری خبر نہ کرے۔ بیشک اگر وہ تم پر چڑھ آویں گے تو پتھر مار مار کر مار ڈالیں گے یا تم کو اپنے مذہب میںپھیر لیں گے اور اس وقت تم کبھی فلاح نہیں پانے کیل۔ اس کی تصریح قرآن مجید میں نہیں کہ وہ صرف ایک ہی دفعہ کھانا لینے گیا یا اسی طرح متعدد دنوں تک کھانا لایا کرتا تھا‘ مگر تفسیر میں محمد بن اسحاق کی روایت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ فابعثوا احدکم بورقکم ھذہ الی المدینۃ فلینظر ایھا زا کی طعاما فلیاتکم برزق منہ و لیتلطف ولا یشعرن بکم احدا انھم ان یظھرو ا علیکم یرجموکم او یعیدوکم فی ملتہم ولن تفلحو ا اذا ابدا ۔ (سورۃ کھف) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لکھی ہے کہ فلبثوا بذلک مالبثوا یعنی وہ اسی طرح کرتے تھے جب تک کہ وہ کرتے رہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک عرصے تک وہ اسی طرح اپنا کھانا شہر سے منگاتے رہے۔ اس ۱ کے بعد خدا فرماتا ہے کہ اس طرح ہم نے لوگوں کو ان کی خبر کر دی‘ گر اس کے بعد خدا نے یہ نہ بتایا کہ ان لوگوں نے ان کی خبر پا کر ان کے ساتھ کیا کیا‘ مگر یہ فرمایا ’’تاکہ وہ جان لیں کہ بے شک وعدہ اللہ کا سچا ہے اور بے شک قیامت آنے والی ہے اس میں کچھ شک نہیں‘‘۔ اس مقام پر جو بحث ہے وہ یہ ہے کہ یعلموا میں جو ضمیر ہے اس کا مرجع کون ہیں۔ عموماً مفسرین عام لوگوں کی طرف جن کو ان کی خبر ہو گئی تھی اس کا مرجع بیان کرتے ہیں‘ مگر لوگوں کو ان کی خبر ہو جانے سے کہ وہ پہاڑ کی کھوہ میں چھپے ہوئے ہیں اور ان وعد اللہ حق و ان الساعۃ لا ریب فیھا سے کیا تعلق ہے؟ اگر کہا جاوے کہ انکی خبر ملنے کا واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ وہ ایک مدت دراز تک سو کر اٹھتے تھے تو اول تو ان کے مدت دراز تک سوتے رہنے کی نفی ہو چکی اور اگر بالفرض تسلیم کیا جاوے تو بھی ایک مدت تک گو کہ وہ کتنی ہی دراز ہو‘ سو کر اٹھنے سے اس بات کا کہ وعد اللہ حق وان الساعۃ لاریب فیھا کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ اور اگر بالفرض وہ اس کھوہ میں مر گئے ہوں جیسے کہ بعض مورخین کا قول ہے اور تین سو برس بعد پھر زندہ ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ وکذالک اعثرنا علیھم لیعلموا ان وعداللہ حق و ان الساعۃ لا ریب فیھا۔ (سورۃ کہف) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوں او ر ان کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد لوگوں کو خبر ہوئی ہو تو بھی ان کا دوبارہ زندہ ہونا کسی نے نہیں دیکھا‘ تو پھر کیونکر ان لوگوں کو جنھوں نے ان کی خبر سنی تھی قیامت یعنی حشر اجساد پر یقین ہو سکتا تھا؟ کچھ شبہ نہیں ہے کہ ضمیر یعلموا کی خوسد اصحاب کہف کی طرف راجع ہے کہ جب ان کو معلوم ہو ا کہ لوگوں کو ان کی خبر ہو گئی تو ان کو یقین ہوا کہ اب وہ مارے جاویں گے ۔ پس خدا کا یہ فرمانا کہ لیعلموا ان وعد اللہ حق و ان الساعۃ لا ریب فیھا اشارہ ہے اس بات کا کہ وہ مارے گئے کیونکہ اس بات کا جاننا کہ وعداللہ حق جیسا کہ موت سے ہوتا ہے اورطرح پر نہیں ہو سکتا۔ قال اللہ تعالیٰ والذین آمنوا و عملو الصلحت سند خلھم جنات تجری من تحتھا الانھار خلدین فیھا ابدا وعد اللہ حقا و من اصدق من اللہ قیلا پس جن مورخین کا یہ قول ہے کہ جب اس بت پرست بادشاہ کو ان کے پہاڑ کے کھوہ میں چھپے ہونے کی خبر ہوئی تو اس نے ا س کھوہ کا منہ بند کراد یا‘ تاکہ وہ بھوکے اور پیاسے اس میں مر جاویں اور وہ کھوہ ان کے لیے بمنزلہ قبر کے ہو جاوے‘ چنانچہ وہیں مر گئے‘ بہت صحیح و درست معلوم ہوتا ہے اور قرآن مجید سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا واقعے کے کئی سو برس بعد پہاڑ کی کھوہ کا منہ جو بند کر دیا گیا تھا کھل گیا اوراس کھوہ میں ان کی لاشیں جو صرف ہڈیاں باتی تھیںمعلوم ہوئیں اور ضرور کھوہ کے اندر بموجب قاعدہ علم مناظر کے پوری لاشیں دکھائی دیتی ہوں گی۔ اس وقت لوگوں نے ان کی زیارت کی اورجیسے کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ ’’اس ۱ وقت آپس میں ان کے باب میں جھگڑا کرنے لگے۔ پھر انہوںنے کہا کہ ا ن کے اوپر کوئی مکان ‘ یعنی مقبرہ بنا دو‘ ان کا خدا ان کے حال کو بخوبی جانتا ہے‘‘۔ ان لوگوںنے جو ان کے کہنے والوں کے کام پر غلطہ رکھتے تھے یعنی حاکم یا پادری انہوںنے کہا کہ ان کو قرار دیں گے مسجد ‘ یعنی عبادت گاہ‘ چنانچہ بعض انگریزی کتابوں مٰں جن میں یہ قصہ بیان ہوا ہے لکھا ہے کہ ان کی ہڈیاں ایک بڑے پتھر کے صندوق میں بند کر کے مارسیلس کو بھیجی گئیں اور سینٹ وکٹر کے گرجا میں موجود ہیں۔ اس بات میں کہ اصحاب کہف کے آدمی تھے‘ لوگ مختلف تھے۔ چنانچہ خدا فرماتا ہے ۲ کہ کہیں گے (یعنی جب ان سے پوچھو) کہ تین تھے ‘ ان میں سے چوتھا ان کا کتا تھا اورکہیں گے پانچ تھے اور ان میں سے چھٹا ا ن کا کتا تھا۔ بن نشانہ دیکھے پتھر مارتے ہیں اور کہیں گے سات تھے اور ان میں آٹھواں ان کا کتا تھا تو کہدے اے پیغمبر کہ میرا پروردگار خوب جانتا ہے ان کی تعداد کو ان کو نہیں جانتے‘ مگر تھوڑے‘ پھر تو ان سے ان کے باب میں جھگڑا مت کر سوائے ظاہر ی بات چیت کے اور نہ ان کے باب میں ان میں سے کسی ایک سے پوچھ گچھ اور تو کبھی نہ کہنا کسی چیز کے لیے کہ میں اس کوکل کروں گا بغیر خدا چاہے کہے اور یاد کرے اپنے پروردگار کو جب تو بھول جاوے اور کہہ دے کہ شاید ہدایت کرے مجھ کو میرا پروردگار اس سے بھی قریب زیادہ ٹھیک بات کی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ اذ یتینا زعون بینھم امر ھم فقالوا بنو ا علیھم بنیانا ربھم اعلم بھم قال الذین غلبو علیٰ امرھم لنتخذن علیھم مسجدا ۔ (سورۃ کھف) ۲۔ سیقولون ثلثۃ رابعھم کلبہم و یقولون خمسۃ سادسہم کلبہم رجما بالغیب ویقولون سبعۃ وثامنہم کلبہم قل ربی اعلم بعد تہم ما یعلمھم الا قیل فلا تما رفیھم الامراء ظاہرا ولا تستفت فیھم منہم احدا ولا تقولن لشئی انی فاعل ذلک غدا الا ان یشاء اللہ واذکر ربک اذا نیست وقل عسیٰ ان بھدینی ربی لا قرب من ھذا رشدا۔ (سورۃ کھف) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد کی آیت میں جو لفظ ولبثوا کا ہے اس کا عطف یقولن پر ہے جو اس کی پہلی آیت میں ہے۔ یعنی کہیں گے کہ وہ ۱ رہے پہاڑ کی کھوہ میں تین سو برس اور انہوں نے زیادہ کیے (یعنی اس پر) نو برس تو کہہ د ے کہ خدا خو ب جانتا ہے کہ کتنی مدت وہ ہے اس کے لیے ہے آسمانوں اور زمین میں چھپی ہوئی باتوں کا جاننا۔ خوب دیکھنے والا ہے اس کا ‘ یعنی غیب کا اور خوب سننے والا ہے اس کے سوا ان کے لیے کوئی دوست نہیں ہے اور وہ شریک نہیں کرتا اپنے حکم میں کسی کو۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ اصحاب کھف کسی مدت تک پہاڑ کی کھوہ میں رہے اور اس کہنے سے لازم آتا ہے کہ وہ کسی مدت کے بعد پہاڑ کی کھوہ میں سے نکلے‘ مگر کوئی مورخ اس بات کو نہیں کہتا کہ وہ کسی زمانے میں پہاڑ کی کھوہ میں سے زندہ نکل کر کہیں رہے ہوں اورنہ کسی روایت میں ایسا بیان ہوا ہے۔ پس جس مدت کا اس آیت میں ذکر ہے کہ اس سے وہی مدت مراد ہے جو ان کے پہار کی کھوہ میں جانے اور ان کی ہڈیوں کو ا س میں سے نکالنے میں گزرا۔ بیشک اس زمانے کی مدت ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں ہے‘ لیکن جہاں تک کہ تاریخ سے معلوم ہو سکتا تھا‘ اس کو ہم بیان کر چکے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ولبثوا فی کھفہم ثلثما سنین واذدا دوا تسعا قل اللہ اعلم بما لبثوا لہ غیب السموات والارض ابصربہ واسمع مالھم من دونہ من ولی ولا بشرک فی حکمہ احدا۔ (سورۃ کھف) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے صحیح قصہ اصحاب کہف کا۔ بعض لوگوں کا جہاں کہیں پرانی لاشیں برآمد ہوئی ہیں‘ شبہ پڑا ہے کہ یہ لاشیں اصحاب کہف کی ہیں ۔ معجم البلدان میں یاقوت حموی نے ایک قصہ لکھا ہے کہ واثق اباللہ نے محمد بن موسیٰ نجومی کوروم میں بھیجا کہ وہ اصحاب کہف کو دیکھے اور وہ روم کے ایک شہر میں گیا۔ وہاں ایک چھوٹا سا پہاڑ تھا کہ اس کا گھیر نیچے سے ہزار گز سے کچھ کم تھا اور زمین سے ملی ہوئی اس میں ایک سرنگ تھی۔ وہ اس میں گیا اور وہ تین سو قدم نیچے چلا گیا وہاں پہنچ کر اس کو ایک مکان ملا جو ستونوں پر بنایا ہوا تھا اور ستون بھی پہاڑ ہی میں سے کھودے ہوئے تھے اور اس میں کئی کوٹھڑیاں تھیں۔ ایک کوٹھڑی کے کرسی آدمی کے قد کے برابر اونچی تھی۔ اوراس پر ایک پتھر کا دروازہ بنا تھا ۔ وہاں ایک آدمی متعین تھا‘ وہ ان لاشوں کے دیکھنے اورتلاش کرنے کو منع کرتا تھا اور ڈراتا تھا کہ کچھ آفت لگ جائے گی۔ منجم نے اس کے منع کرنے کو نہ مانا اورنہایت مشکل اور دقت سے اس کے اوپر چڑھا ۔ وہاں سے اس نے لاشیں دیکھیں جو صبر اور مر اور کافور سے لیپ لیے ہوئے رکھی تھیں۔ ایک اور قصہ ہے کہ بلقا میں بہ اطراف دمشق ایک جگہ عثمان کے قریب ہے‘ لوگ کہتے ہیں کہ وہ جگہ اصحاب کہف والرقیم کی ہے۔ اور ایک اوریہ قصہ ہے کہ اندلس کے جنگل میں ایک جگہ ہے جس کو جنان الورد کہتے ہیں اور اسی کو اصحاب کہف والرقیم کی جگہ بتاتے ہیں اور وہاں لاشیں ہیں کہ وہ بگڑتی نہیں۔ ایک اور قصہ ہے کہ علی بن یحییٰ اٹلی کے ملک میں ایک جگہ گیا۔ اس نے غار دیکھا اور اس کے اندر تیرہ لاشیں تھیں اور یہ خیال کیا کہ سات لاشیں تو اصحاب کہف کی ہیں اور باقی لاشیں اہل روم نے اپنے بزرگوں کی صبر اور دوا میں مل کر رکھ دی ہیں۔ عبادہ بن صلت سے ایک روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے پہلے سال خلافت میںاس کو روم میں بھیجا۔ قریب قسطنطنیہ کے اس نے ایک سرخ رنگ کا پہاڑ دیکھا اور لوگوںنے کہا کہ اس میں اصحاب الکھف ہیں۔ وہاں ایک گرجا تھا‘ گرجا کے لوگوں نے ایک سرنگ بتائی جو پہاڑ میںتھی۔ وہ مجھ کو وہاں لے گئے اوروہاں ایک لوہے کا دروازہ لگا ہوا تھا ‘ وہ کھولا تو ہم ایک بڑے مکان میںپہنچے ۔ اس میں تیرہ لاشیں چت رکھی ہوئی تھیں گویا کہ وہ سوتے ہیں۔ ہم نے ان کا منہ کھول کر دیکھا تو وہ بالکل تروتازہ تھا جیسا کہ آدمیوں کا۔ ایک شخص کے منہ پر تلوار کا زخم تھا‘ معلوم ہوتا تھا کہ گویا ابھی زخم لگا ہے۔ میں نے ان لوگوںسے ان کا حال پوچھا تو انہوںنے کہا کہ ہم اپنی کتابوں میں پاتے ہیں کہ یہ لاشیں حضرت عیسیٰ کے مبعوث ہونے سے چار سو سال پہلے سے ہیں اور یہ سب ایک وقت میں انبیاء معبوث ہوئے تھے‘ اس کے سوا اور ہم کچھ نہیں جانتے۔ ۱۸۸۶ء میں جب ایک انگریزی کمیشن افغانی اور روسی سرحد مقرر کرنے کو ترکمانوں کے ملک میں گیا تو ا سوقت ایک شخص نے پہاڑ کا جس کا نام اس نے کوہ رقیم لیا ہے‘ اس طرح پر خیال کیا ہے: ’’کوہ رقیم جس میں سا ت شخص خوابیدہ ہیں‘ یہ زیادرت مسلمانوںکی ہے اور ہمارے کیمپ سے چار میل جنوب و غرب کو وادی حراق میں ہے۔ کیمپ کے مسلمان اس کی طرف چلے اور میں بھی گھوڑے پر سوار مع صوبے دار محمد حسین خاں صاحب دوسری پلٹن سکھ کے گیا۔ اہل اسلام کا مقام اس کو اس لیے متبرک مانتے ہیں کہ اصحاب کہف کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ اس پہاڑ کو‘ جس میں یہ زیارت واقع ہے‘ یہاں کے باشندے چار شنبہ بھی بولتے ہٰں اور اس کے نواح میں پہلے کسی زمانے میں ایک آبادی قشلان نام کی تھی جس میں اسی ہزار باشندے بستے تھے۔ شاید کسی مقام پر شہر فسوس بھی ہو گا جس کا ذکر قصہ اصحاب کہف میں کیا جاتاہے کہ ایک شخص منجملہ ان سات شخصوں کے شہر فسوس میں گیا‘ تاکہ روٹی خرید لاوے‘ لیکن اس کا صحیح پتا مشکل ہے ۔بعض کہتے ہیں کہ یہ مقام (التیمور) میں تھا اور جو جنوبی جانب پہاڑوںمیں ہے اور جہاں اب تک ایک قطعہ موجود ہے۔ فی الحال اس قطعے کی سیر ممکن نہیں‘ کیونکہ برف بہت ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ مقام مچکو میں تھا جو چار شنبہ سے مشرق کی جانب سات میل کے فاصلے پر ہے ۔ واقعی مچکو ایک آباد جگہ تھی اور بڑا موضع تھا جس کو ترکمانوں نے غارت کر کے اجاڑ دیا ہے۔ یہ مقام درمیان مروچک اور اندخوی کے ہے۔ کوہ رقیم پر اس وقت بیس خاندان سیدوں کے آباد ہیں اورایک موضع خاص سادات کا غار کے منہ پر واقع ہے۔ آگے بڑھ کر ایک اور موضع ڈھائی سو خاندان کی آبادی کا ہے۔ یہ پہاڑ اک تنگ وادی میں ہے ار جس میں مجاورین تردد کرتے ہیں وہ ان کو معاف ہے۔ علاوہ اس کے جو لوگ زائرین یہاں آتے ہیں وہ مجاورین کی خدمت کرتے ہیں۔ یہاں ایک چھوٹی سی مسجد ہے اور غار کے منہ پر ایک محراب دار دروازہ بیس فٹ بلند ہوا ہے اور اس پر ایک چوب بطور نشان استادہ ہو کر کپڑا اس میں لگا ہوا اڑتاہے۔ اس غار کے چاروں طرف ایک وسیع قبرستان ہے۔ جو شخص مرتاہے یہیں لا کر دفن ہوتاہے اور اسی وجہ سے یہ پہاڑ پر ہے۔ غار کے منہ سے دس بارہ گز کے فاصلے پر ایک طرف تہ خانہ ہے۔ تہ خانے میں دور چل کر ایک دروازہ مٹی سے چھپا ہوا ہے۔ سیدوں نے کہا کہ یہ سیدھا راستہ مکہ کا ہے مگر قدرت اس کو کھولنے نہیں دیتی ۔ جب مٹی ہٹاتے ہیں تو اور مٹی یہاںگر جاتی ہے۔ دھنی کی طرف ایک تاریک حجرے میں ایک زینہ لگا ہے اور اس میں تختے بچھے ہیں اوریہاں سے راستہ خفتگان کا بند کر دیا ہے۔ سیدوں نے بہت کچھ کرامات اصحاب کہف کی بیان کیں اورکہا کہ اصحاب موصوفین اب بھی غار کے اندر سوتے ہیں اورکچھ تبرکات بھی دکھلائے اور سب سے بڑا مشاہدہ ہوا ہے کہ انہوں نے شمع اندر بڑھا کر کہا دیکھو یہ سوتے ہیں۔ ایک سفید چادر گوٹ کی نظر آئی‘‘۔ نامہ نگار کہتا ہے کہ میں نے کہا کہ ہم کو یہ بھی دکھلا دو کہ اس چادر کے نیچے کیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ یہ نہ ہو گا‘ کیونکہ ہم خود واقف نہیں کہ اس کے نیچے کیا ہے اور کہنے لگے کہ بزمانہ ماسبق ایک شخص نے کپڑا اٹھا کر دیکھنا چاہاتھا فوراً اندھا ہو گیا تھا اور کہا کہ اگر تمہیں شک ہے تو ادھر دیکھو اوریہ کہہ کر شمع ایک طرف پھیر دی۔ دیوار کے ساتھ کتے کی ٹانگیں نظر آئیں۔ گمان تھا کہ کتا سوتا ہے۔ واللہ اعلم کیا اسرار ہے۔ اس قسم کی لاشوں کا برآمد ہونا اگر وہ درحقیقت اور فی الواقع برآمد ہوں تو کچھ تعجب کی بات نہیں ہے۔ مصر میں ہزاروں برس کا دستور تھا کہ لاشوں کو ممی بنا کر رکھتے تھے‘ چنانچہ بہت سی موزیم میں وہ لاشیں جو برآمد ہوئی ہیں موجو د ہیں۔ ایشیا میں بھی قدیم زمانے میں ممی بنانے کا کسی قدررواج ہو ا تھا اور اس سبب سے بعض ایشیا کے مقاموں سے ایسی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ علاوہ اس کے بعض ملکوں اور پہاڑوں میں بسبب تاثیرات ملکی اور برف کے اسی طرح کی افتادہ لاشیں بھی نکل آتی ہیں اور لوگ ان کو اصحاب کہف کی لاشیں سمجھ جاتے ہیں۔ علاو ہ اس کے ان مقاموں کے خادم روپیہ کمانے کے لیے بہت کچھ فریب کیا کرتے ہیں اورچھوٹی روایتیں بیان کرتے ہیں ۔ جس زمانے میں کہ سید احمد صاحب سکھوں سے لڑ کر شہید ہوئے‘ ان کی لاش میدان جنگ میں دستیاب نہیں ہوئی۔ غالباً اس وجہ سے کہ مغلوبین تو کافی طرح پر تلاش نہ کر سکے اور جو غالب ہوئے تھے وہ یقینا پہچان نہیں سکتے تھے۔ پس ان کے مریدوں کو موقع ملااور انہوںنے کہا کہ وہ زندہ ہیں اور پہاڑ کی کھوہ میںخدا کی عبادت اور نماز میں مشغو ل ہیں اورانہوںنے کھوہ میں ایک لکڑی پر عمامہ رکھ کر اور جبہ کرتا پہنا دیا تھا اوردو ر سے لوگوں کو دکھا دیتے تھے کہ وہ بیٹھے نماز میں مشغول ہیں۔ ہزاروں لوگ اب بھی بعض بزرگوں کی نسبت یقین رکھتے ہیںکہ وہ سینکڑوں برس سے پوشیدہ ہیں اور وقت مقررہ پر تشریف لاویں گے۔ یہودی چند بزرگوں کو زندہ جانتے ہیں‘ مسلمان و عیسائی حضرت عیسیٰ کے زندہ ہونے کے اور پھر دنیا میں تشریف لانے کا یقین کرتے ہیں۔ بلکہ وقت ظہور تک ‘ جو قیامت کے قریب ہو گا زندہ ہونے کے قائل اور اس قسم کے خیالات و اعتقادات ایسی باتوں پر جو لوگ بنا لیتے ہیں زیادہ یقین کر لینے کے باعث ہوتے ہیں فقط۔ ٭٭٭ سات سونے والے یعنی اصحاب کہف ترجمہ کتاب کیورس میتھس آف دی میڈل ایجز مولفہ ایس۔ بارنگ گولڈ ایم ۔اے یہ قصہ جس پر ہم اس مضمون میں بحث کرتے ہیں پچھلے زمانے کے عجیب اور حیرت انگیز قصوں میںسے ہے۔ جیکس دی وارین نے اس کو اپنی کتاب میں جس کا نام لیجندا اریاہے اس طرح بیان کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ہم اس ترجمے کے حاشیے پر اہل اسلام کی تحریرات میں جو روایتیں ہیں ‘ نقل کرتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ وہ روایتیں عیسائیوں کی روایتوں سے کس قدر مطابق ہیں اور صاف اس بات کی دلیل ہے کہ جو افواہی روایتیں عیسائیوں میں مشہور تھیں انہی کو مسلمان مورخوں اور مفسروں نے اپنی کتابوںمیں مندرج کر دیاہے ۔ ۱۲ (مترجم) قال محمد بن اسحاق مرج اہلل الانجیل و عظمت فیہم الخطایا وطغت فیہم الملوک حتے عبدا ا لاصنام وذبحو اللطواغیت وقتل من خالفہ وکان ینزل قری الروم ولا یترک قریۃ نذلھا احدا الافتنہ حتے یعبد الاصنام و یذبح للطواغیث او قتلہ حتی نزل مدینۃ ااصحاف الکھف وھی افسوس فلما کبر علی اہل الایمان فاستحقوا منہ وھربوا فی کل وجہ وکان دقیانوس حین قدمھا امر ان تتبع اہل الایمان فیجمعوا لہ واتخذ شرطا من الکفار من اھلہا ان یتبعوا اہل الایمنا فی اماکنھم فیخر جونھم الی دقیانوس فیخیرھم بین القتل وبین عبادۃ الاوثان وا لذبح للطواغیت فمنھم من یرغب فی الحیوۃ ومنھم من یابی ان یعبد غیر اللہ فیقتل فلما رای ذالک اہل الشدۃ فی الایمان باللہ جعلوا یسلمون انفسہم للعذاب والقتل فیقتلون ویقطعون ثم یربط ما قطع من اجسا مہم علی سورۃ المدینۃ من نواحیھا وعلیٰ کل باب من ابوابھا حتی عظمت الفتیۃ ۔ (معالم التنزیل) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سات سونے والے افی سس کے باشندے تھے ۔بادشاہ ڈی سیس جس نے نصاری پر بہت ظلم کیا تھا جب وہاں پہنچا تو ا سنے یہ حکم جاری کیا کہ ایک معبد اصنام کی پرستش کے لیے بنایا جاوے اور سب لوگ اس کے سامنے بتوں پر قربانی کریں۔ نصاری تلاش کروا کر بلائے گئے اور حکم سنایا گیا کہ وہ موت یا پرستش اصنام ان میں سے جسے چاہیں اختیار کریں ۔ اس حکم سے شہر میں ایک آفت برپا تھی ‘ نہ دوست دوست کا ساتھی رہا نہ باپ بیٹے کہ نہ بیٹا باپ کا۔ اس ۱ زمانے میں افی سس میں سات عیسائی تھے جن کے نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ فلما رای الفتیۃ ذلک حزنوا حزنا شدید ا فقاموا واشتغلوا بالصلوۃ والصیام والصدقۃ والتسبیح والدعا وکانوا من اشرف الروم وکانوا ثمانیۃ نفربکو او تضرعوا الی اللہ فلما رفع امرھم الی دقیانوس قال اما ان تذبحو لا لھتنا واما ان اقتلکم فقال مکسلمینا وھو اکبرھم سنا ان لنا الھا ملاء السموات والارض عظمۃ لن ندعوامن دونہ الھا ابدالہ الحمد والتکبیر والتسبیح من انفسنا خالصا ابدا وایاہ نسال النجاۃ والخیر واما الطواغیت فلن نعبدھا ابدا ساصنع مابدالک وقال اصحاب مکسلمینا (معالم التنزیل) قال دقیانوس وما یمنینی ان اعجل لکم الا انی اراکم سبا با حدیثا اسنا لکم فلا احب ان اھلکم حتی اجعل لکم اجلا تذکرون فیہ و تراجعون عقولکم (تفسیر معالم التنزیل) فلما رای الفتیۃ خروجہ بادروا قدومہ وخافوا اذا قدم مدینۃ ان یذکر بہم فائتمروا بینھم ان یاخذ کل رجل منھم تفقتہ ان یذکر بہم فائتمروا بینھم ان یاخذکل رجل منھم نفقتہ من بیت ابیہ فیتصدقوا منہا ویتذودا مما بقی ثم ینطلقوا الی کھف قریب من المدینۃ فی جبل یقال لہ مخلوس میمکثون فیہ ویعبدون اللہ حتی اذا جاء دقیانوس اتواہ فقاموا بین یدیہ فیصنع بہم ماشاء فلما قال ذلک بعضہم لبعض غدا کل فتی منھم الی بیت ابیہ فاخذنفقۃ فتصد ق منھا ثم انطلقوا بما بقی منھم۔ (تفسیر معالم التنزیل) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میک سی مین‘ مالکس‘ مارسین‘ ڈایونی سس‘ جان سراپین‘ کانسٹن ٹین تھے ۔انہوںنے بتوں پر قربانی کرنے سے انکار کیا اور اپنے مکان میںروزہ کرتے رہے۔ ڈی سس کے سامنے ان پر یہ الزام لگایا گیا اور انہوں نے اپنے عیسائی ہونے کا اقرار کیا۔ بادشاہ نے کچھ مہلت دی ‘ تاکہ وہ جو طریقہ آئندہ اختیار کریں اس پر بخوبی غور کر لیں۔ اس مہلت کو انہوں نے غنیمت سمجھ کر اپنا تمام مال و اسباب غربا کر دے دیا اور خود یہ ارادہ کر کے گئے کہ سیلین پہاڑ کے غار میںچھپ کر رہیں۔ ان میں سے ایک شخص مالکس نامی طبیب کا بھیس بدل کر شہر میں کھانا خریدنے کو گیا۔ دی سیس نے جو کچھ کے لیے افی سیس سے چلا گیا تھا واپس آ کر یہ حکم دیا کہ وہ ساتوں شخص تلاش کیے جاویں۔ مالکس ڈرتا ہوا شہر سے بھاگا اور اپنے اصحاب سے بادشاہ کے غصے کا سب حال بیان کیا ۔ سب بہت ڈرے۔ مالکس نے ان سے روٹی کھانے کو کہا‘ تاکہ ان میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ وجعلو ا نفقتہم الی فتی منہم یقال لہ یملیخا فکان یبتاع لھم ارزاقہم من المدینۃ ثم قدم دقیانوس المدینۃ فامر عظماء اہلھا فذبحوا للطو اغیت ففزع من ذلک اہل الایمان وکان یملیخا بالمدینۃ یشتری لاصحابہ طعامہم ترجع الی اصحابہ وھو یبکی ومعہ طعام قلیل و اخبرھم ان الجبار قددخل المدینۃ وانہم قد ذکروا والتمسوا مع عظماء المدینۃ ففزعوا ووقعوا سجودا یدعون الی اللہ ویتضرعون ویتعوذون من الفتنۃ ثم ان یملیخا قال لھم یا اخواتاہ ارفعوا رئوسکم واطعموا وتوکلو ا علی ربکم فرفعو رئوسہم واینھم تفیض من الدمع مطعمو ا وذلک عند غروب الشمس ثم جلسوا یتحدثون ویتدارسون ویذکر بعضھم بعضا فبینما ہم علیٰ ذال اذضرب اللہ علیٰ اذانھم النوم فی الکہف۔ (معالم التنزیل) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ طاقت آوے اور مصیبت میں ہراساں نہ ہو کھانے سے فارغ ہو کر وہ رو رو کر باتیں کرتے رہے تھے کہ خدا کے حکم سے ان پر خواب طاری ہوئے۔ شہر میں کفار نے ان کو جا بجا تلاش کیا‘ مگر کہیں پتا نہ ملا۔ ڈی سیس اس سے اور بھی زیادہ برافروختہ ہوا اور ان کے والدین کو بلا کر یہ کہا کہ وہ ان کا پتا اورنشان نہ بتائیں گے تو سب مار ڈالے جائیں گے۔ انہوںنے جواب دیاکہ وہ ساتوں جوان اپنامال و اسباب غربا کو تقسیم کر کے چلے گئے ‘ ہم کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں ‘ ڈی سیس نے اس خیال سے کہ ممکن ہے کہ وہ غار میں چھپ رہے ہوں اس کا منہ پتھروں سے بند کرا دیا‘ تاکہ وہ بھوکے مر جاویں۔ تین سو ساٹھ برس اسی طرح گزر گئے۔ تھیوڈوسیس کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ فقدم دقیانوس فالتمسہم فلم یجدھم ثم ارسل الی ابائھم فاتی بھم فسالہم عنہم فقال اخبرونی عن ابناھکم المردۃ الذین عصو نی فقالوا اما نحن فلن نعصیک فلم تقتلنا بقوم مردۃ قد ذھبوا باموالنا فاھلکو ا فی السواق المدینۃ ثم انطلقوا وارتفعا الی جبل یدعی مخلوس فلما قالوالہ ذلک خلی سبیلھم وجعلوا الا یدری ما یصنع بالفتیۃ فالقی اللہ فی انفسہ ان بامر بالکہف فیسد علیھم وقال دعوھم کما ہم فی الکہف یموتون جوعا و عطشا ویکون کھفھم الذی اختاروا قبرا لھم۔ (معالم التنزیل) ۲۔ قال وھب فعبروا بعد ما سدوا علیھم باب الکھف زمانا بعد زمان ثم ان راعیا ادرکہ لمطر عند الکہف فقال لو فتحت باب ہذا الکھف وادخلت غنمی الیہ من المطر فلم یزل یعالجہ حتی فتح ورداللہ علیھم ارواحھم من الغدحین اصبحوا۔ وقال محمد ابن اسحاق ملک اہل تلک البلاد رجل صالح یقال لہ یندوسیس فلما ملک بقی فی ملکہ (باقی حاشیہ اگلے صفحے پر) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیسویں سال میں بعض ملحدوں نے مسئلہ انبعاث موتی کا انکار کیا۔اتفاقاً ایک شخص سیلین کے پہاڑ کے پاس اصطبل بنواتا تھا‘ غار کے منہ پر پتھروں کا ڈھیر دیکھ کر سب پتھر تعمیر کے لیے اٹھو ا لیتے ہیں۔ اس وقت ان ساتوں کی آنکھ کھلی ۔ یہ سمجھ کر کہ ایک ہی شب خواب میں گزری ہے۔ مالکس نے پوچھا کہ ڈی سیس نے ان کی نسبت آخری حکم کیا دیا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ ہم کو یہاں تک تنگ کرے گا کہ ہم مجبور ہو کر بتوں کو پوجیں ۔ میک سی مین نے کہا کہ خدا جانتا ہے کہ ہم کبھی نہیں کریں گے۔ پھر اپنے ساتھیوں کی طرف مخاطب ہوا اور مالکس سے کہا کہ جس طرح ہو وہ شہر جا کر اس امر کی خبر لاوے اور کچھ کھانے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (گزشتہ صفحے کا باقی حاشیہ) ثمانیا وستین سئۃ فنخرب الناس فی ملکہ فکانوا احزابا منھم من یومن باللہ ویعلم ان الساعۃ حق و منھم من یکذب بھا فکبر ذلک علی الملک الصالح فبکی و تضرع الی اللہ وحزن حزنا شدیدا۔ لمارای اھل الباطل یزیدون و یظہرون علی اہل الحق ویقولون لاحیوۃ الا الحیوۃ الدنیا وانما ببعث الارواح ولم یبعث الا جساد فجعل یندو سیس یرسل الی من یظن فیھم خیرا وانھم ائمۃ فی الخلق فجعلوا یکذبون بالشاعۃحتے کادوان یحولو ا الناس عن الحق وملۃ الحوارین فالقی اللہ فی نفس رجل من اہل ذلک البلد الذی فیہ الکھف وکان اسم ذلک الرجل اولباس ان یھدم ذلک البنیان الصذی علی فم الکھف فیبنی بہ حظیرۃ لغنمہ فاستاجر غلامین فجعلا ینزعان تلک الحجارۃ ویبنان تلک الحظیرۃ حتی نزعاما علی فم الکہف وفتحا باب الکہف وحجبہم اللہ عن الناس بالرعت فلما فتح اللہ باب الکھف اذن اللہ ذو القدرۃ والسلطان محی الموتی للفتیۃ ان یجلسوا بین ظہر ای الکہف فجلسوا فرحین مسفرۃ وجوھہم طیبۃ انفسہم فسلم بعضہم علی بعض کانما استیقضوا من ساعتہم اللتی کانوا یستیقظون فیھا اذا اصبحوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے واسطے بھی لاوے۔ مالکس پانچ سکے لے کر غار میں سے نکلا۔ یہ پتھر دیکھ کر حیران ہوا‘ پھر شہر کی طرف چلا‘ شہر کے قریب پہنچ کر دروازے پر صلیب لگی ہوئی دیکھی‘ اور بھی زیادہ متحیر ہوا‘ دوسرے دروازے پر گیا وہاں بھی یہ متبرک نشان موجود تھا۔ اسی طرح شہر کے دروازے پر یہی دیکھا۔ اس کو یقین ہوا کہ شاید خواب کا کچھ اثر اب تک باقی ہے۔ آنکھیں ملتا ہوا شہر میں داخل ہوا اور ایک نان بائی کی دکان کی طرف بڑھا۔ لوگوں کی زبان سے خدا کا نام سن کر اور بھی حیران ہوا کہا کہ کل اس نام کے لینے کی ایک کو بھی جرات نہ تھی آج عیسیٰ کا نام ورد زبان ہے‘ یہ کیا ماجرا ہے ؟ شبہ ہوا کہ شاید یہ اور کوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ من لیلتہم چم قاموا الی الصلوۃ فصلوا کالذین کانوا یفعلون لا یری فی وجوھہم ولا الونہم شئیا ینکرونہ کھیتہم حین رقدوا وھم یرون ان ملک دقیانوس فی طلمبھم فلما قضوا صلواتہم قالو ا لیملیخا صاحب نفقاتہم اتینا ما الذی قال الناس فی شاننا عشیۃ امس عند ہذا الجبار وہم یظنون انہم وقد و ا کبعض ماکانوا یرقدون۔ وقد تخیل الیھم قدناموا اطول مما کانوا ینامون حتی یتساء لوا بینھم فقال بیضھم لبعض کم لبثتم نیا ما قالوا لبثنا یوما او بعض یوم ثم قالوا ربکم اعلم بما لبثتم وکل ذلک فی انسہم یسیر فقال لھم یملیخا التمستم فی المدینۃ وھو یریدان یوتی بکم الیوم فتذبحون للطواغیت او یقتلکم فما شاء بعد ذلک فعل فقال لہم مکسلمینا یا اخوتا ء اعلموا انکم ملا قوا اللہ فلا تکفروا بعد ایمانکم اذا دعا کم عدو اللہ ثم قالوا لیملیخا انطلق الی المدینۃ فتسمع ما یقال لنا بھا وما الذی یذکر عند دقیانوس وتلطف ولا یشعرن بک احدا وابتغ لنا طعاما فاتنا بہ وزدنا علی الطعام الذی جئنابہ فقد اصبحنا جیاعا ففعل یملیخا کما کان یفعل ووضع ثیابہ واخذا لثیاب اللتی کان یتنکر فیہا واخذ ورقۃ من لفقتھم اللتی ضربت بطالع دقیانوس فکانت کخفاف الربع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہر ہو ۔ ایک راہ چلنے سے شہر کا نا م پوچھا۔ سن کر کہ یہ شہر افی سنس ہے سخت حیران ہوا۔ نان بائی کی دکان پر جا کر روپیہ رکھا۔ سکے کو دیکھ کر طباخ نے پوچھا کہ تجھ کو کہیں سے خزانہ ملا ہے ؟ نان بائی آپس میں باتیں کرنے لگے یہ سمجھا کہ انہوں نے مجھ کو پہچان لیا ہے اور بادشاہ کے سامنے لے جانے کو ہیں۔ بولا کہ خدا کے واسطے مجھے چھوڑ دو‘ میں روٹی اور روپے سے باز آیا۔ کسی طرح جان بچے لیکن دکان دار نے اس کو پکڑ کر یہ کہا کہ تم کون ہو ‘ اس سے غرض نہیں ‘ جو تم کو خزانہ ملا ہے وہ ہم کو بھی بتائو کہ ہم تمہارے شریک ہوں] اس وقت ہم تم کو چھپا دیں گے۔ مالکس خوف کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والربع اول ماینتح من ولدالضان فی الربیع فانطلق یملیخا خارجا فلما مربباب الکہف رای الحجارۃ منزوعۃ عن باب الکہف فعجب منھا ثم مرولم یبال بھا حتی اتی باب المدینۃ مستخفیا یعیدعن الطریق تخوفا ان یراہ احدا من اھلھا فیعرفہ ولا یشعر ان دقیانوس واھلہ قد ھلکو ا قبل ذلک بثلثماۃ سنہ فلما اتی یملیخا باب المدینۃ رفع بصرہ فرای فوق ظھر الباب علامۃ یکون لا ہل الایمان اذکان امرالایمان ظاہرا فیھا فلما رآھا عجب وجعل ینظر الیھا مستخفیا وجعل ینظر یمینا وشمالا ثم ترک ذلک الباب فتول الی باب اخرمن ابوابہا فرای مثل ذلک فجعل یخیل الیہ ان المدینۃ لیست بالتی کان یعرف ورای ناسا کثیرا محدثین لم یکن تراھم قبل ذلک فجعل یمشی و یتعجب ویخیل الیہ انہ حیران ثم رجع الی الباب الذی اتی منہ فجعل یتعجب بینہ وبین نفسہ یخفون ہذہ العلامۃ ویستخفون بھا واما النوم فانھا ظاہرۃ یعلے نایم ثم یری انہ لیس بنائم فاخذ کساہ فجعلہ علی راسہ ثم دخل المدینۃ فجعل یمشی بین ظھری سو قھا فیسمع ناسا یحلفون باسم عیسی ابن مریم فزادہ فرقا ورای انہ ان فقام سندا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مارے کچھ جواب نہ دے سکا۔ ا س کے گلے میں رسی ڈال کر بازار میں سڑک پر کھینچتے پھرے۔ شہر میں بھی یہ خبر مشہور ہوئی ہر طرف لو گ جمع ہو گئے۔ کسی نے اس کو نہ پہچانا۔ وہ اپنی لاعلمی بیان کر تا رہا۔ سب کے چہروں پر نظر دوڑائی مگر کوئی ایسا نظر نہ پڑ ا کہ جس سے کچھ بھی پہلا تعارف ہو۔ سینٹ مارٹن بشپ اور اینتی پیٹر کے حاکم شہر نے یہ حال سن کر جوان کو اور طباخ کو بلایا اور جوان کو پوچھا کہ یہ خزانہ کہاں سے ملا ہے؟ اس نے کہ خزانہ تو کہیں سے نہیں ملا یہ چند سکے میری تھیلی میں تھے ۔ پھر اس سے دریافت کیا کہ کہاں سے آئے‘ اس نے ہا کہ میں افی سیس کا باشندہ تھا اگر یہ شہر افی سس ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظھرہ الی جدار من جدار المدینۃ وقال فی نفسہ واللہ ما ادری ما ھذا ما عشیۃ امس فلیس علیٰ ظہر الارض یذکر عیسی ابن مریم الاقتل واما الغداۃ یذکر اسم عیسیٰ ولا یخاف احداثم قال فی نفسہ لعل ہذہ لیست بالمدینۃ اللتی اعرف واللہ ما اعرف مدینۃ قریب مدینتنا فقام کالحیر ان ثم لقی فتی فقل لہ ما اسم ہذہ المدینۃ یافتی قال اسمھا افسوس فقال فی نفسہ لعل بی منسیا اوامرا ذھب عقلی واللہ یحق لی ان اسرع الخروج منھا قبل ان اخزی فیھا او یصیبتی بشر فاھلک ثم انہ افاق فقال واللہ لو عجلت الخروج من المدینۃ قبل ان بفطن لی لکان اکیس بی فدنا من الذین یبیعون الطعام فاخرج لو رقۃ اللتی کانت معہ فاعطاھا رجلا منھم فقال یعنی بھذاہ الورقۃ طعاما فاخذھا الرجل فنظر الی ضرب الورق و نقشھا فعجب منھا ثم طرحھا الی رجل اخرمن اصحابہ فنظر الیھا فجعلوا یتطارخونھا بینھم لبعض ان ھذا اصاب کنزا جنیا فی الارض منذزمان ودھر طویل فلما اھم یملیخا یتشاورون لاجلہ فرق فر قاشدید اوجعل یرتعد ویظن انہم قدفطنو ا بہ وعرفوہ وانہم انما یریدون ان یذھبوا بھم الی ملکہم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے۔ گورنر نے کہاکہ تمہارے ماں با پ اور اقارب اگر یہا ں رہتے ہوں تو بلائو۔ جوان نے ان کے نام بتائے اور کہا کہ یقینا وہ یہاں رہتے ہیں‘ مگر شہر میں ان ناموں کا کوئی نہیں تھا۔گورنر نے چلا کر کہا کہ تم یہ کیونکر کہہ سکتے ہو کہ یہ تمہارے ماں باپ کا روپیہ ہے ؟ یہ بادشاہ ڈی سیس کے عہد کا سکہ ہے جس کو تین سو پچھتر برس گزرے اور سکہ حالی کے بالک مشابہ نہیں۔ کیا تم افی سس کے حکماء اور بوڑھے لوگوں کو بناتے ہو؟ یہ خوب سمجھ لو کہ اگر تم اس کا پتا نہ بتائو گے تو تم کو تمام قانونی سختیاں برداشت کرنی پڑیں گی۔مالکس نے عرض یا کہ خدا کے واسطے آپ پہلے مجھ کو ان چند سوالوں کے جواب دیں‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دقیانوس وجعل انا س آخرو ن یا تو نہ فیتعرفون بہ فلا یعرفونہ فقال لھم وھو شدید الفرق منھم افضلوا علی قد اخذتم ورقی فامسکوھا واما طعامکم فلا حاجۃ لی بہ فقالوا من انت یافتی وماشانک واللہ لقد وجدت کنزا منکنوزا لا ولین وانت ترید ان تخفیہ فانطلق معنا وارنا وشار کنافیہ بحق علیک ما وجدت فانک ان لم تفعل نات بک الی السلطان فنسلمک الیہ فیقتلک فلما سمع قولھم قال فی نفسہ قد و قعت فی کل شئی کنت احذر منہ فقالوا یافتی انک واللہ لا تستطیع ان تکتم ما وجدت فجعل یملیخا لا یدری ما یقول لھم وما یرجع الیھم وفرق حتی ما اخبر الیھم شئیا فلما راوہ لا یتلکلم اخذ و اکساہ قطر حوہ فی عنقہ ثم جعلوا یقودونہ فی سکک المدینۃ حتی سمع بہ من فیھا فسالوا عنہ الخبر فقیل لھم اخذ ر جل و عندہ کنز فاجتمع الیہ اہل المدینۃ صغیر ھم و کبیر ھم فجعلوا ینظرون الیہ ویقولون واللہ ما ھذا الفتی اہل ہذہ المدینۃ ومارا یناہ فیھا قط وما نعرفہ قط فجعل یملیخا لا یدری ما یقول لھم فلما اجتمع علیہ فرق فکست فلم یتکلم وکان مستیقنا ان اباہ و اخوتہ بالمدینۃ وان حسبہ من اہل المدینۃ من عظماء اھلہا و انہم سیاتونہ اذا سمعوا بہ فبینما ہو قائم کالحیر ان ینتظر متی یاتیہ بعض اہلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت میں کچھ کہہ سکوں گا ۔ بادشاہ ڈی سس کہاں چلا گیا ہے؟ بشپ نے جواب دیا کہ میرے بچے اس نام کا اب کوئی بادشاہ نہیں ہے‘ جس کا یہ نام تھا ا سکو مرے ہوئے ایک عرصہ گزرا۔ مالکس نے کہا کہ جو بات سنتا ہوں اس سے اور شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔ سیلین پہاڑ تک میرے ہمراہ چلو تاکہ میں اپنے ساتھیوں کو دکھائوں۔ کل ہی ڈی سس کے ظلم سے بھاگ کر ہم نے پہاڑ میں پناہ لی تھی۔ ایک انبوہ کثیر اس کے ساتھ چلا۔ اول مالکس غار میں اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اورپھر بشپ۔ وہاںانہوںنے ان بزرگوں کو غار میں بیٹھا ہوا دیکھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیخلصہ من ایدیھم اذا احتفظوہ و انطلقو ا بہ الی راس المدینۃ ومد بریھا الذین یدبرون امرھا و ھما رجلان صالحان اسم احدھما اریوس واسم الاخر طنطیوس فلما انطق بہ الیھما ظن یملیخا انہ ینطلق بہ الی دقیانوس الجبار فجعل یلتفت بمینا و شمالا وجعل الناس یسخرون منہ کما یسخر من المجنون و جعل یلیخا یبکی ثم رفع راسہ الی السماء فقال فی نفسہ اللھم الہ السماء والہ الارض افرغ الیوم علی صبرا و اولج معی معرفہ روحامنک یویدنی بہ عند ھذا الجبار وجعل یبکی و یقول فی نفسہ فرق بینی و بین اخوتی یالیتہ یعلمون ما لقیت ولو انہم یعلمون فیااتونی فیقوم جمیعا بین یدی ہذا الجبار فاذا کناتو اثقنا لنکو نن معالا نفر باللہ ولا نشرک بہ شئیا فرق بینی وبینہم فلن برونی وانی اراھم ابداوکنا تو اثقنا اصبحنا بینی وبینہم فلن یرونی وانی اراھم ابداوکنا تواثقنا اصبحنا ان لا تفترق فی حیوۃ ولا موت ابدا یحدث بہ نفسہ یملیخا بما اخبرنا اصحابہ حین رجع الیھم حتی انتھوا الی الرجلین الصالحون اریوس وطیطوس فلمار ای یملیخا انہ لا یذھب بہ الی دقیانوس افاق و ذھب عنہ البکاء فاخذ ا ریوس وطیطوس الورق فنظر الیھا وعجبامنھا ثم قال لہ احدھما ابن الکنز الذی وجدت یافتی فقال یملیخا ما وجدت کنزا ولکن ہذا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بشاش چہر ہ مثل گلاب کے تروتازہ دیکھ کر سب گر پڑے اور خدا کو سجدہ کیا۔ گورنر اسی روز یہ خبر تھیوڈوسس کو بھیجی وہ فوراً افی سس کو روانہ ہوا۔ تمام اکابر شہر ا س سے ملے اور اسے غار کی طرف لے گئے۔ بادشاہ کو دیکھ کر ان مقدسین کے چہرے مثل آفتاب کے روشن ہوئے۔ بادشاہ نے خدا کا شکر ادا کیا اور ان سے بغلگیر ہو کر کہا کہ میں نے تم کو کیا دیکھا‘ گویا مسیح کو لزارس کو شفا بخشتے ہوئے دیکھ لیا۔ میک سی مین نے جواب دیا کہ ہم ایماناً یہ بات کہتے ہیں اورآپ یقین کیجیے کہ خدا نے ہم کو محشر سے پہلے اس واسطے اٹھایا ہے تاکہ تم اس امر کو برحق سمجھو کہ قیامت کو مردے ضرور اٹھائیں گے ورق ابای ونقش ھذۃ المدینۃ وضربھا ولکن واللہ ما ادری ماشانی وما افقال لکم فقال احدھما فمن انت فقال یملیخا اما انافکنت اری انی من اہل ہذہ المدینۃ فقالوا ومن ابوک ومن یعرفک فیھا فانباھم باسم ابیہ فلم یجدوا احدا یعرفہ فقال لہ احدھما انت رجل کذاب لاتنبئنا بالحق قلم یدر یملیخا ما یقول لھم غیرانہ نکس بصرہ الی الارض فقال بعض من خولہ ہذا رجل مجنون وقال بعضہم لیس بمجنون ولکنہ یحمق نفسہ عمدالکی ینفلت منکم فقال لہ احدھما و نظر الیہ نظر ا شدیدا انا نرسلک ونصد قک بان ہذا قال ابیک ونقش ھذا لاورق و ضربھا اکثر من ثلثماۃ سنہ وانما انت غلام شاب اتظن انک تافکنا و تسخربنا و نحن شمط کما تری وحولک سراق اہل المدینۃ وو لاۃ امرھا و خزائن ہذہ لبلدۃ بایدینا ولیس عندنا من ہذا الضرب درھم ولا دینا روا نی لا ظن سامربک فتعذب عذابا شدیدا ثم اوثقک حتی تعرف بھذا الکنز الذی وجدتہ فلما قال ذالک قال لھم یملیخا انبئونی عن شئی اسالکم عنہ فان فعلتم صدقتکم عما عندی قالو اسل لا نکتمک شئیا قال لھم ما فعل الملک دقیانوس قالو الا نعرف الیوم علیٰ وجہ الارض ملک یسمی لہ دقیانوس قالا ولم یکن فقال یملیخا انی اذا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ جیسا بچہ ماں کے رحم میں رہتاہے اور کچھ ایذا نہیں پاتا اسی طرح ہم بھی خواب میں رہے اور کوئی تکلیف نہ اٹھائی۔ یہ کہہ کر انہوںنے سر جھکایا اور جاں بحق تسلیم کی۔ بادشاہ اٹھ کر ان پر جھکااور بغلگیر ہو کر رویا حکم دیا کہ سنہری حروف بنوا کران میںیہ لاشیں بطور یادگار زمانہ رکھی جاویں‘ مگر اسی شب کو ان بزرگوں کو خواب میں دیکھا کہ کہتے ہیں ’’ہم اب تک زمین میں سوتے تھے اب بھی زمین ہی میں سونے دو جب تک کہ خدا دوبارہ نہ اٹھاوے‘‘۔ یہ دلچسپ قصہ اس طرح پر بیان کیا گیا ہے ۔ ہم تک شاید یہ مشرق سے پہنچا ہے ۔ جیکو بس سروجین سس میوپوٹیمیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لحیران وما ھو یصدقنی احد من النااس بما اقول لقد کنا فتیۃ علی دین واحد وھو الاسلام وان الملک اکر ھا علی عبادۃ الاوثان والذبح للطواغیت فھربنا منہ عشیۃ امن فنمنا فانھینا خرجنک لا شتری لھم طعاما وتجس الاخبار فاذا انا کما ترون فانطلقوا معی الی الکہف الذی فی جبلی ینجلوس واراکم اصحابی فلما سمع اریوس ما یقول یملیخا قال یقول لعل ہذہ آیۃ من آیات اللہ جعلھا اللہ لکم علی یدی ھذا الفتی فانطلقوا بنا معنہ یرنا اصحابہ فانطلق معہ اریوس وطیطوس وانطلق معہم اہل امدینۃ کبیر ہم و صغیر ہم نحو اصحاب الکھف لینظروا الیہم ولاما ر ای الفتیۃ اصحاب الکھف یملیخا قد احتبس عنہم بطعامہم وشرابہم عن قدر الذی کان یاتی بہ ظنوا نہ قد اخذفذھب بہ الی ملکہم دقیانوس فبینما ھم یظنون ذالک ویتخوفو لہ اذا سمعوا الا صوات وخابۃ الخیل مصعدۃ نحو ھم فظنوا انھم رسل الجبار دقیانوس بعث الیھم لیوتی بہم فقاموا الی الصلوۃ وسلم بعضہم علی بعض واوصی بعضہم بعضا وقالوا الصلوۃ وسلم بعضہم علی بعض واوصی بعضہم بعضا وقالوا انطلقوا ابنانات اخانا یملیخا فانہ الان بین یدی الجبار ینتظر متی ناتیہ فبیئما ھم یقولو ن ذلک وھم جلوس بین ظھری الکھف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی پانچویں یا چھٹی صدی کے بشپ نے اس کو سب سے پہلے قلم بند کیا ہے۔ گریگری آف ٹورس شایدسب سے اول اس کو یورپ میں لایا ہے ۔ ڈایونی سیس آف انیٹاک نے نویں صدی میں یہ قصہ شامی زبان میں کہاہے۔ فوتیس باشندہ قسطنطنیہ نے بھی اس کو لکھا ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ یہ قصہ قرآن شریف میں بھی ہے۔ میٹا فرلس ٹس بھی اس کا حوالہ دیتا ہے۔ دسویںصدی میں یوٹی کیس نے اس کو اپنے عربی قصوں میں درج کیا ہے۔ کاپتک اور میرو نایٹ کی کتابوں میں بھی اس کا پتا ملتا ہے۔ بعض پرانے مورخین نے بھی ا س کو اپنی کتاب میں درج کیا ہے جیسے کہ پالس ڈیا کونس اور ناسی فورس وغیرہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لم یرو الا اریوس و اصحابہ وقوفا علی باب الکھف و سبقہم یملیخا فہ خل علیھم وھو یبکی فلما راوہ یبکی بکو ا معہ ثم سالوہ عین شانہ فاخبرھم و قص علیھم القصۃ والنباء کلہ فعرفو ا عند ذالک انھم کانوا نیاما بامراللہ ذالک الزمان کلہ بامر اللہ وانما او قظو الیکونو ا آیۃ للناس وتصدیقا للبعث ولیعلموا ان الساعۃ اتیۃ لا ریب فیہا ثم دخل علی اثر یملیخا اریوس فرای تابو تامن نحاس مختوما بخاتم من فضۃ فقام بباب الکھف ثم دعا رجل من عظماء اہل المدینۃ ففتح التابوت عندھم فوجد و ا فیہ لوحین من رصاص مکتوبا فیہما ان مکسلمینا و فحشلمینا و یملیخا و مرطونس و کشطونس و یبرونس و دیموس و بطیوس و قالوس و الکلب اسمہ قطمیر کانو افتیۃ ہربوا من ملکہم دقیانوس الجبار مخافۃ ان یفتنھم عن دینھم فد خلوا ہذا الکھف فلما اخبر بمکانہم امر بالکھف فسید علیھم بالحجارۃ وانا کتبنا شانھم و خبرھم لیعلم من بعد ھم ان اثر علیھم فلما قرائوہ عجبوا وحمد وا اللہ الذی اراھم آیۃ البعث فیہم ثم رفعا اصواتہم بحمد اللہ و تسبیحہ ثم دخلوا علی الفتیۃ الی الکھف فوجدوھم جلوسابین ظھر بینہ شرقی فی وجوہھم لم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سونے والوں کی نسبت ولیم آف مامس بری ایک عجیب قصہ بیان کرتا ہے ۔ اس کا بیان ہے کہ بادشاہ ایڈورڈ ملقب بہ مقدس ایسٹر کے جلسے کے دن ویسٹ منسٹر کے محل میں تاج شاہی پہنے ہوئے بیٹھا تھا۔ پادری اور رئوسا شہر سب جمع تھے ۔ اثناء دعوت میںبادشاہ گوشت اور شراب چھوڑ کر خدائی باتوں کا دھیان کرنے لگا اور اسی میں دیر تک محو رہا۔ یکایک اس زور سے ہنسا کہ سب حیران رہ گئے۔ کھانے کے بعد جب کپڑے اتارنے کے لیے خواب گاہ میں گیا تو چند رئیس بھی پیچھے پیچھے گئے۔ ارل ہیرلڈ جو ا س کا جانشین ہوا اور ایک ایبٹ اور ایک بشپ جو اس کے ساتھ تھے انہوں نے اس سے اس ہنسی کا سبب پوچھا۔ بادشاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تبل ثیابھم فخر اریوس واصحابہ سجودا وحمد اللہ الذی اراھم آیۃ من آیاتہ ثم کلم بعضھم ببعضنا وابناھم الفتیۃ عن الذی لقوا من ملکہم دقیانوس ثم ان اریوس واصحابہ بعثوا برید ا الی ملکہم الصالح یندو سیس ان عجل لعلک تنظر الی آیۃ من آیات اللہ جعلہا اللہ علی ملکلک وجعلہا آیۃ للعالمین لتکون لہم نوروضیاء و تصدیقا للبعث فجعل علی فتیۃ بعثہم اللہ عزو جل و قد کان توفاھم نذ اکثر من ثلثماۃ سنۃ فلما اتی الملک الخبر قام فرجع الیہ عقلہ و ذہب غمہ فقال احمدک اللہ رب السموات والارض واعبدک واسبح لک تطولت علی ورحمتنی فلم تطا النور الذی کنت جعلۃ لا بای وللعبد الصالح قسطینطینوس الملک فلما نبابہ اہل المدینۃ رکبوا الیہ ساروامیہ حتی اتوا مدینۃ افسوس فتلقاھم اہل المدینۃ وسارو امعہ حتی صعدا نحوا الکھف فلما رای الفتیۃ یندو سیس فرحوا بہ وخرواسجد اعلی وجوھہم وقام یندو سیس قدامہم ثم اعنقہم وبکی وھم جلوس بین یدیہ علی الارض یسبحون اللہ ویحمد و نہ ثم قال الفتیۃ لینہ وسیس نستو دعک اللہ والسلام علیک و رحمۃ اللہ وبرکاتہ وحفظ اللہ ملکک و نعیذک باللہ من شرالا نس والجن فبینما ہم الملک قائم اذرجعوا الی مضاجعہم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے جواب دیا کہ میں نے ایک عجیب بات دیکھی ہے۔۔ میری ہنسی بے وجہ نہ تھی ۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم کو بتائیے ۔ تھوڑی دیر سوچ کر کہا کہ میںنے دیکھا کہ افی سیس کے سات سونے والوں نے (جو دھنی کروٹ پر دو سو برس سے سیلین پہاڑ کی غار میں سو رہے ہیں) آج دفعۃ بائیں کروٹ لی ہے۔ یہ خدا کی مہربانی ہے کہ میں نے ان کو کروٹ بدلتے ہوئے دیکھا‘ اس سبب سے ہنس پڑا۔ ارل ہیرلڈ وغیرہ کو یہ سن کر تعجب ہوا تو بادشاہ نے ا ن سے پورا حال بیان کیا اور ہر ایک کا حلیہ اور صورت اور جسم بھی بتایا جس کا کسی نے اب تک کچھ حال نہیں لکھا تھا‘ بلکہ بادشاہ نے یہ قصہ اس طور پر بیان کیا گویا وہ ہمیشہ ان میں رہا ہے۔ ارل ہیرلڈ نے یہ بات سن کر تین شخصوں کو (ایک نائٹ ایک منشی ایک پادری) بادشاہ ایڈورڈ کی طرف سے تحائف اور خط د ے کر قسطنطنیہ کے بادشاہ کے پاس بھیجا۔ بادشاہ قسطنطنیہ نے ان قاصدوں کو خط دے کر افی سس کے بشپ کے پا س بھیجا کہ وہ ان تینوں انگریزوں کو اس غار میں جانے دے‘ اتفاق سے ایسا ہی معلوم ہوا کہ جیسا کہ بادشاہ نے دیکھا تھا‘ کیونکہ افی سس کے باشندوں نے یہ بیان کیا کہ انہوں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ یہ سات سونے والے ہمیشہ دھنی کروٹ پر سوتے تھے‘ لیکن جس وقت یہ تینوں انگریز غار میں گئے تو ان کو بائیں کروٹ پر سوتے پایا۔ اس کروٹ بدلنے سے عیسائیوں کو ان مصائب سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فماتوا وتو فی اللہ تعالیٰ انفسہم وقام الملک الیہم فجعل ثیابہم علیھم وامران یجعل کل رجل منہم فی تابوت من ذہب فلما امسی و نام اتوہ فی المنام فقالوا لہ انالم نخلق من ذہب ولا من فضۃ ولکنا خلقنا من تراب والی التراب نصیر فاترکنا علی التراب کما کنا فی التراب فی الکھف حتی بعثنا اللہ منہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگاہ کرنا تھا جو ان پر مسلمان ترکوں اور تاتاریوں کے حملہ سے نازل ہوں گی‘ کیونکہ جب کوئی مصیبت نازل ہونے کو ہوتی ہے اس وقت یہ سونے والے کروٹ بدلتے ہیں۔ سات سونے والوں پر ایک نظم کاڈری نے بھی لکھی ہے جس کو ایم ایف ارمیچل نے اپنی رپورٹ امنسٹر دی لی انسٹرکشن پبلک میں بیان کیا ہے ۔ ایک جرمن کی نظم اس مضمون پر ہے جس میں ۹۳۵ شعر ہیں۔ ایم کیرا جان نے تیرھویں صدی میں چھاپی ہے اوراسپین کے ایک شاعر نامی آگسٹن موریٹو نے ایک ڈرامہ اسی پر لکھا ہے جس کا لاس سیٹی ڈرمین ٹیز نام ہے جس کا کہ کامیدیس نیودس اسکوجی ڈاس دیلاس مجوریس ان جینی اوس کی انیسویں جلد میں حوالہ ہے اور ڈاکٹر نیل نے بھی اسی مضمون پر ایک نظم لکھی ہے۔ قرآن میں یہ قصہ کسی قدر زیادہ ہے۔ ا س میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ان سونے والوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی پیشن گوئی کی ہے۔ ان کے ساتھ ایک کتا بھی ہے جس کا نام کراٹیم یا کراٹیمر ہے اور اس کتے پر خاص اللہ تعالیٰ کا یہ بھی احسان ہے کہ یہ بھی اور دس جانوروں کیساتھ بہشت میں جاوے گا۔ دوسرے بہشت میں جانے والے جانور یہ ہیں: یونس کی مچھلی‘ حضرت سلیمان کی چیونٹی‘ حضرت اسماعیل کا برہ‘ حضرت ابراھیم کا گوسالہ ‘ ملکہ سبا کا گدھا ‘ حضرت صالح کا ناقہ‘ حضرت موسیٰ کا بیل‘ بلقیس کا ہدہد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری ‘ یعنی براق۔ایسے زمانے میں جب لوگ مقدسی کی یادگاروں کو سونے اور جواہرات سے بھی بیش بہا سمجھتے تھے تو ان سونے والوں کی یہ خواہش کرنی کہ ان کو زمین ہی میں رہنے دو‘ شاید کسی قدر بیجا تھی اور یہ خواہش پوری بھی نہ ہوئی کیونکہ ‘ ان کی ہڈیاں ایک بڑے پتھر کے بکس میں بند کر کے مارسیلس کو بھیجی گئی تھیں جو اب بھی سینٹ وکٹر کے گرجا میں دکھائی جاتی ہیں۔ روم میں ویکٹوریم کے عجائب گھر میں ان کی گندھک اور پلسٹر سے جوڑی ہوئی تصویریں موجود ہیں۔ ہر ایک کے سامنے اس کا نام اور چند صفات بھی کندہ ہیں۔ کانسٹینٹین اور جان کے پا س دو عصا ہیں۔ میک سی مین کے پاس ایک گرہ دار عصا ہے۔ مالکس اور مارسین کے پاس دو تیر ہیں سیراپین کے سامنے جلتی ہوئی مشعل اورڈایونی سس کے سامنے ایک بڑی میخ ہے جس کو کہ ہوریس اور ایس پالی نس نے بیان کیا ہے کہ ایذا رسانی کے واسطے کام میں لائی جاتی تھی۔ ان سات شخصوں کو نوجوان امرد کندہ کیا ہے واقع میں پرانے شہیدوں کے قصے میں بھی ان کا لڑکا کہا گیا ہے۔ اس بلسٹر کی بنی ہوئی تصویروں میں سے بعضوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ ساتوں ۲۵۰ء میں ڈی سیس کے عہد میں مارے گئے تھے اور مذکورہ بالا غار میں دفن کیے گئے ہیں اورتھیوڈسیس کے عہد میں ان کی ہڈیاں ۴۷۵ء میں برآم دہوئیں تو اس وقت سے یہ قصہ مشہور ہوا۔ میرے خیال کے موافق غالباً یہ صحیح ہے ۔ ان سونے والوں کا قصہ اورسات کی تعداد بہت پرانی ہے اور حضرت عیسیٰ سے پہلے کی ہے۔ مثل اور پرانے قصوں کے اس کو بھی عیسائیوں نے اخذ کر کے مذہبی بنا لیا ہے۔ پلینی ایک واقعہ نگار شاعر مسمی ای پی مینی ڈیز کے قصسے میں لکھتا ہے کہ وہ بھیڑیں چراتا ہوا گرمی کے موسم میں دق ہو گیا اور نیند نے بھی ستایا تو ایک غار میں جا کر سو رہا ۔ ستاون برس کے بعد خواب سے بیدار ہوا۔ تمام دنیا بدلی ہوئی نظر آئی‘ اس کا بھائی جو اس وقت بچہ تھا‘ اب بالکل بوڑھا سفید تھا۔ ای لی مینی ڈیز کو وہ لوگ جو پیری اینڈر کو مستثنیٰ کرتے ہیں‘ سات عقلاء میں سے شما رکرتے ہیں۔ یہ سولن کے عہد میں تھا‘ دو سو نواسی برس کی عمر میں جب مرا تو لوگ ا سکو اوتار ماننے لگے اور خاص کر ایتھینس کے باشندے اس کی بہت عزت کرتے ہیں اس قصے کا ماخذ ایک بہت پرانا قصہ ہے جس میں ایندی مین چرواہے کا حال ہے کہ وہ ہمیشہ سے سوتا ہے اور جو پیڑ ‘ یعنی عطارد نے اس کو دوامی جوانی اور خوبصورتی عطا کی ہے۔ عرب کے پرانے قصوں کے موافق سینت جارج بھی تین دفعہ قبر سے اٹھا اور تینوں دفعہ مارا گیا۔ اسکیندی نیوین کے قصوں میں بھی ہم یہی حال سی گرڈ کا دیکھتے ہیں کہ وہ خواب راحت میں اس امر کا منتظر ہے کہ کوئی پکارے تو آ کر لڑے۔ شارلی مین بھی ہیس میںتاج پہنے ہوئے اپنے تخت پر بیٹھا ہے ۔ تلوار پا س رکھے ہے‘ دجال کے وقت کا منتظر ہے ‘ کہ اس وقت اٹھ کر ولیوں کے خون کا بدلہ لے۔ اوجیر ڈی ڈین بھی اسی طرح ای ویلون کی خواب گاہ سے بیدار ہو کر حق کا بدلہ لینے اٹھے گا۔ افسوس کہ وہ شیلس وگ ہولسٹین کی لڑائی میں ظاہر ہو چکا ہے۔ بچپن کی ایک بات پر جب غور کرتا ہوں تو حیرت انگیز دہشت معلوم ہوتی ہے مگر مچھ کو خوب یاد ہے کہ اس مقام پر کیف ہاسر برگ تھورنگیا میں مجھ سے یہ کہا گیا تھا کہ یہاں فریڈرک باربروسا اور اس کے چھ نائٹس سوتے ہیں‘ اتفاق سے ایک چرواہا بھی غار کی راہ سے پہاڑ میں جا پہنچا۔ دیکھتا کیا ہے کہ ہال میںایک پتھر کی میز رکھی ہے ۔ بادشاہ میز ک سامنے بیٹھا ہے سرخ ڈاڑھی پتھروں کے ٹکڑوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس چرواہے کی آہٹ سے فریڈرک خواب سے بیدار ہو گیا۔ پوچھا کہ کیا کوے پہاڑوں پر اڑ رہے ہیں؟ چرواہے نے کہا ہاں حضور اڑتے ہیں۔ تب بولا ایک صدی تک اور سونا چاہیے۔ جب اس کی داڑھی تین دفعہ پتھر کے گرد لپٹ جاوے گی تو اس وقت وہ اور اس کے نائٹس نیند سے بیدا ر ہو ں گے اورجرمنی کو غلامی کی حالت سے نکال کر یورپ کی اعلیٰ درجے کی سلطنت بناویں گے۔ سوئٹزرلینڈ میں بھی روٹلی میں تین ٹیلس ہیں‘ صرف اس کے منتظر ہیں کہ ملک کی سخت ضرورت کے وقت بیدار ہوں ۔ ایک چرواہا ان کے آرام میں بھی مخل ہوا۔ تیسرے ٹیل کی آنکھ کھل گئی پوچھا کہ کیا وقت ہے؟ لڑکے نے جواب دیا کہ دوپہر۔ ٹیل یہ کہہ کر کہ ابھی وقت نہیں آیا پھر سو رہا۔ اسکاٹ لینڈ میں بھی ایل ڈون کی پہاڑیوں کے نیچے تامس ارسیلڈون بھی سو رہا ہے۔ فرنچ کے مقتولین جو پی لرمو پر مارے گئے تھے سو رہے ہیں موقع کے منتظر ہیں کہ اٹھ کر بدلہ لیں۔ جب قسطنطنیہ پر ترک قابض ہوئے تو ایک پادری سیکریمنٹ کے بعض رسمیات سینٹ صوفیہ کے گرجا کے نقوی منبر پر ادا کر رہا تھا ۔ اس شخص نے خدا سے دعا کی کہ یا الٰہی اس متبرک جگہ کی عزت رکھنا! اسی وقت دیوار شک ہو گئی پادری سیکریمنٹ لے کر دیوار میں چلا گیا۔ وہاں سے سر جھکائے حضرت عیسیٰ کے سامنے سو رہا ہے۔ اس وقت کا منتظر ہے کہ ترک قسطنطنیہ سے نکالے جاویں اور سینٹ صوفیہ بے حرمتی سے بچے۔ شمالی امریکہ میں بھی ایک شخص رپ وان ونکل بیس برس تک کیٹس کل کے پہاڑ میں سوتا رہا۔ غرناطہ کا بادشاہ ابو عبداللہ بھی الحمرا کے قلعے کے پاس ایک پہاڑ میںجادو میں جکڑا ہوا پڑا ہے۔ عرب میں حضرت الیاس بھی خروج دجال کے منتظر ہیں۔ آئر لینڈ میں برین برویم بھی سو رہا ہے۔ اس بات کا منتظر ہے کہ فی نین میں ہنگامہ ایسا برپا ہو کہ جس میں لوگوں سے عملی کارروائی کی امید ہو سکے تو وہ آ کر ملک کی مدد کرے۔ ویلس میں بھی آرتھر کی نیند کے قصے لوگوں کی زبان پر ہیں۔ سرویا میں بھی نیزلبرز ہے جو ترکوں کی لڑائی میں کاسووا کے مقام پر مار ا گیا تھا‘ اس کے بھی دوبارہ ظاہر ہونے کی لوگ امیدیں کرتے ہیں۔ فلوڈین کی لڑائی کے بعد ایک صدی تکلوگ اسی امید میں رہے کہ جیمس چہارم پھر واپس آئے گا۔ پرتگال میں سی بیس ٹین کی نسبت لوگوں کا یہ یقین ہے کہ یہ جوان دلیر بادشاہ جس نے موروکو پر حملہ کر کے اپنے ملک کو تباہ کیاتھا‘ کہیں سو رہا ہے‘ جب موقع آئے گا تو وہ بیدار ہو کر اپنے ملک کو بچائے گا۔ نپولین بونا پارٹ کی نسبت بھی فرانس کے کسانوں کا یہی یقین ہے ک وہ بھی کہیں سو رہا ہے۔ ایس ہپولای ٹس کا بیان ہے کہ سینٹ جان ولی بھی افی سس میں سو رہا ہے۔ سر جان سینڈی وائل اس کے حالات اس طرح درج کرتا ہے: پیتھماس سے لوگ افی سم کو گئے یہ ایک عمدہ شہر سمندر کے قریب ہے۔ یہاں سینٹ جان نے وفات پائی اور ائیٹر کے پہاڑ کے نیچے ایک قبر میں مدفون ہوا۔ وہاں ایک خوبصورت گرجا ہے۔ ہمیشہ اس پر عیسائی قابض رہے ہیں۔ سینٹ جان کی قبر میں اور کوئی چیز سوائے من و سلویٰ کے جس کو طعام الملائک کہتے ہیں نہیں ہے۔ اس کے جسم کو خدانے بہشت میں اٹھا لیا ہے۔ یہ تمام جگہ اور شہر ترکوں کے قبضے میں ہیں۔ تم کو سمجھنا چاہیے کہ سینٹ جان نے اپنی زندگی ہی میں اپنی قبر بنوائی اور جب ہی اس میں لیٹ رہا۔ اس روایت کے موافق بعضوں کا مقولہ ہے کہ وہ مرا نہیں بلکہ خواب راحت میں ہے‘ قیامت کو اٹھے گا۔ دراصل وہاں کوئی عجیب چیز ہے لوگوںنے بارہا قبر کی مٹی کو ہلتے ہوئے دیکھاہے۔ شاید نیچے کوئی ہلنے والی چیز ہو۔ سینٹ جان کے قصے کو افی سس سے جو تعلق ہے وہ شاید اس خیال سے لوگوں نے وہاں کے سات شہیدوں کو سا ت سونے والے سمجھے ہیں۔ آیس لینڈ کے قصوں میں ہے کہ فیڈ منگر شمالی ناروے کا باشندہ اتفاق سے ایک غار میں جا کر سو رہا تیس برس تک سوتا رہا تیر و کمان پا س پڑے رہے کسی پرندے اور درندے نے اس کو نہ چھیڑا۔ فی الحقیقت بعض لوگوں کے حالات میں درج ہے کہ وہ واقع میں ایک عرصہ درا ز تک سوتے رہے لیکن اس موقع پر میں کسی کو بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔کیونکہ قصہ موجودہ کا ماخذ کوئی سچا واقعہ نہیں ہے‘ بلکہ اس کو عیسائیوں نے کفار کے قصص سے اخذ کر کے مذہبی قرار دے دیا ہے سات کا عدد جو اکثر قصوں میں آتا ہے اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ باربروسا ہر سات سال بعد اپنی نشست بدلتا ہے‘ شارلی مین بھی اتنے ہی عرصے کے بعد کرسی سے اٹھتا ہے‘ اولجر دینسک بھی ہر سال سات کے بعد اپنا عصا فرش پر مارتا ہے سویڈن میں اولاف ریڈیپرڈ بھی اسی عرصہ کے بعد آنکھ کھولتا ہے۔ میرے یقین کے موافق جس قالب میں یہ دلچسپ قصہ ڈھالا گیا ہے وہ یہ ہے کہ سرما میں ہر سات ماہ تک زمین آرام کرتی ہے۔ جرمن اور سکینڈنیوین کے کفاروں کے قصے میں یہ موجود ہے کہ ہیرور سخت ضروریات کے وقت فادر لینڈ کی حمایت کے واسطے اٹھیں گے۔ عیسائیوں کے اس مذہبی قصے کے موافق بھی یہ جوان شہدا مذہبی الحاد کے وقت اٹھتے ہیں‘ تاکہ مسئلہ انبعاث موتیٰ پر ایک حقانی شہادت ہو۔ اگر کفاروں کے قصہ میں کوئی جلال اور ظلمت ہے تو اس عیسائی قصے میںیہ خوبی ہے کہ یہ ایک عمدہ مذہبی مسئلہ بتاتا ہے اواگون کے قصے پر بھی اس کو اس وجہ سے ایک فضیلت ہے۔ہاف مین نے اس کو ایک دلچسپ قصے کے طور پر لکھا ہے اور ٹراینس نے اس کو منظوم کیا ہے۔ ٭٭٭ ازواج مطہرات رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم (سرسید کا سب سے آخری مضمون) سرسید کا یہ وہ لاجواب ‘ بے نظیر اور قابل قدر مضمون ہے جس کو لکھتے لکھتے درمیان میں چھوڑ کر سرسید نے وفات پائی۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ بیویاں کرنے پر اوربعض ازواج مطہرات پر جو اعتراض یورپین مصنفین اور عیسائی پادری کرتے ہیں اس مضمون میں ان سب کا شافی اور تسلی بخش جواب سرسید نے دیا ہے ۔ اگر یہ مضمون مکمل ہو جاتا تو مذہبی دنیا میںبہت ہی عجیب مضمون ہوتا‘ مگر افسوس کہ مضمون کے مکمل ہونے سے پہلے مصنف نے داعی اجل کو لبیک کہا اور ان کے انتقال کے بعد اسی نامکمل حالت میں یہ مضمون ’’علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ ‘‘ علی گڑھ میں چھپا۔ اس مضمون پر سرسید کو خود بھی بڑا ناز تھا۔ چنانچہ اپنے ایک پرائیویٹ خط میں شمس العلماء مولانا میر حسن صاحب کو لکھتے ہیں: ’’ان دنوںمیں ایک بہت نازک اور بڑے امر پر رسالہ لکھ رہا ہوں‘ یعنی ازواج مطہرات رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ یہ رسالہ چھپے گا تو مجھے امید ہے کہ کسی کے دل میں کوئی شبہ باقی نہیں رہنے کا‘‘۔ خاکسار سید احمد ۱۱ مارچ ۱۸۹۸ء (مکتوبا ت سرسید صفحہ ۳۰۷) افسوس کہ اس خط کے لکھنے کے صرف ۱۶ دن بعد ۲۷ مارچ ۱۸۹۸ء کو سرسید کا انتقال ہو گیا۔ اور دنیا ایک نہایت قیمتی مضمون سے محروم ہو گئی۔ اس مضمون میں سرسید نے حضرت خدیجہؓ ‘ حضرت سودہؓ، حضرت حفصہؓ، حضر ت ام حبیبہؓ، حضرت ام سلمہؓ ، حضرت زینبؓ ام المساکین اور حضرت زینبؓ بن جحش کے حالات لکھے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت ماریہ قبطیہؓ کا حال لکھنے والے تھے کہ پیغام اجل آ گیا اور دراصل ان دونوں کے حالات مضمون کا بہت ضروری اور اہم جز و تھا‘ کیونکہ ان ہی دونوں پر سب سے زیادہ اعتراضات کیے جاتے ہیں‘ مگر اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس مضمون کو سرسید کی آخری علمی اورمذہبی یادگار کے طور پر اسی ناتمام حالت میں چھاپ دیا جائے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے حالات اور جو مختلف روایتیں ان کی نسبت ہیں‘ وہ کتب سیر و تواریخ میں مندرج ہیں ۔ ہم بہت سی روایتوں کی نسبت بتا سکتے ہیں کہ محض غلط اورنامعتبر ہیں ‘ مگر تین امر ایسے ہیں جن کے تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہو سکتا: اول : یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کثیر الازواج تھے۔ دوم: یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ ازواج طاہرات اور ایک یا دو سرایا تھیں اور حضرت خدیجہ سب سے پہلی زوجہ مطہرہ تھیں اور جب تک وہ زندہ رہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسری کو اپنی زوجیت میںداخل نہیں کیا۔ سوم: یہ کہ بعد وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نو بیویاں زندہ تھیں۔ صرف حضرت عائشہ ؓ ایسی تھیں جن کا پہلے پہل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد ہوا تھا‘ باقی ایسی تھیں کہ جنہوںنے پہلے اور شوہر کر لیے تھے اوران شوہروں کی وفات کے بعدبحالت بیوہ ہونے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد کیا تھا۔ ان گیارہ ازواج مطہرات کے اور ان دو سرایا کے نام حسب تفصیل ذیل ہیں: (۱) خدیجہؓ بنت خویلد (۲) سودہؓ بنت زمعہ (۳) عائشہؓ بنت ابوبکرؓ (۴) حفصہؓ بنت عمرؓ (۵)زینبؓ بنت خزیمہ ام المساکین (۶) زینبؓ بنت جحش (۷) ام حبیبہؓ بنت ابی سفیان (۸)ام سلمہؓ بنت ابی امیہ (۹) میمونہؓ بنت الحارث (۱۰) صفیہؓ بنت حئی ابن اخطب (۱۱) جویریہؓ بنت حارث ۔ سرایا: (۱) ماریہؓ قبطیہ (۲) ریحانہؓ بنت شمعون ‘ مگر ہمارے رائے میں ریحانہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقاربت نہیں کی۔ ان کے سوائے جو اور روایتیں ہیں اور جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی سے عقد کرنا اور کسی کو بغیر مقاربت کے چھوڑ دینا یا کسی سے خطبہ‘ یعنی منگنی وغیرہ کرنا بیان ہوا ہے‘ ان میں سیایک روایت بھی اس قابل نہیں ہے کہ اس پر پورا اعتماد کیا جائے‘ کیونکہ ان روایتوں کی صحت ثابت نہیں ہوتی۔ اہل سیر تمام روایتوں کا خواہ وہ صحیح و ثابت ہوں یا نہ ہوں اپنی کتاب میں جمع کر دینا چاہتے ہیں اور اس بات کی تنقیح کہ ان میں سیکون سی صحیح و ثابت ہے ‘ پڑھنے والے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ پس معترضین کی بڑی غلطی ہے کہ اس قسم کی روایتوں کو اپنے اعتراضوں کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ مخالفین مذہب کا اعتراض دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت ازواج پر ہے۔ اس اعتراض کا یہودیوں یا عیسائیوں اوربت پرست قوموں کی طرف سے ہونا تعجب انگیز ہے‘ کیونکہ توریت یا صحف انبیاء یا انجیل میں تعدد ازدواج کا امتناع نہیں پایا جاتا او ر بت پرست قوموں میں تعدد ازدواج کا رواج ہے ۔ پھر کیا سبب ہے کہ وہ لوگ تعدد ازدواج پر معترض ہوں۔ مگر یہ ایک جواب الزامی ہے۔ جو ہماری نگاہ میں چنداں وقعت نہیں رکھتا‘ اس لیے ضرور ہے کہ ہم حقیقت امر کے بیان کرنے پر متوجہ ہوں۔ کثرت یا تعداد ازدواج پر یا طلاق کے جائز ہونے پر جو لوگ عقلی یا اخلاقی یا تمدنی لحاظ سے اعتراض کرتے ہیں ان سے بہت زیادہ اعتراض اس پر ہوتے ہیں‘ جب ایک زوجہ کے سوا دوسری زوجہ کرنے کا امتناع ہو اور بجز زنا کے اورکسی حالت میں طلاق دینا جائز نہ ہو ۔ پس اس پر مخالف یا موافق کا قلم فرسائی کرنا محض بے سود ہے‘ بلکہ عقلاً اور انصافاً عمدہ طریق یہ ہے کہ ہر ایک پہلو پر ااور جو نقصان عقلی اور تمدنی دونوں صورتوں میں واقع ہوتے ہیں ان پر غور کر کے درجہ توسط اختیار کیا جائے‘ تاکہ جہاں تک ممکن ہو ان دونوں صورتوں میں جو عقلی اور اخلاقی اور تمدنی نقصان ہیں ان میں کمی واقع ہو ۔ ہمارے نزدیک مذہب اسلام میں ایک متوسط درجہ اختیار کیا ہے اور کچھ شبہ نہیں کہ اس سے ان تمام نقصانوں میں اور بالخصوص اخلاقی نقصان میں بہت کچھ کمی ہو گئی ہے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ انبیاء علیہم السلام بھی بشر تھے۔ خود قرآن مجید میں ہے کہ خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ تو یہ کہہ : انا بشر مثلکم یوحیٰ الی انما لاھکم الہ واحد مگر انبیاء میںایسے اوصاف ہوتے ہیں جو اعلیٰ ترین بشر میں ہونے چاہئیں اور وہ اوصاف تین قسم پر منقسم ہو سکتے ہیں: اول : ذات خاص انبیاء علیہم السلام میں مثل صداقت نیکی ‘ تمکین وقار‘ خلق وغیرہ جس سے انسان اپنی قوم یا سوسائٹی میں معزز ‘ مکرم ‘ محترم گنا جاتا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا ہے کہ : فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم ولو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک دوم: انبیا ء ایسے افعال میں مبتلا نہ ہوں جو ان کی قوم یا سوسائٹی میں معیوب اور باعث ذلت و حقار ت ہوں‘ کیونکہ ایسے افعال سے وہ خود اس لائق نہیں رہتے کہ قوم ان کی عزت کرے اور ان کو ناصح مشفق سمجھے۔ سوم: جن امور کو انبیاء معصیت اور گناہ بتاتے ہیں اور لوگوں کو ان سے ڈراتے ہیں خود ان امور میں مبتلا نہ ہوئے ہوں۔ جو قول ہو وہی فعل ہو‘ ظاہر و باطن دونوں یکساں ہوں‘ ورنہ وہ اس قابل نہیں رہتے کہ لوگوں کو ان کی نصیحت کریں جن میں وہ خود مبتلا ہوں۔ پس انبیاء کے معصوم ہونے کے یہی معنی ہیں کہ وہ ان تینوں نقصانوں سے بری ہوتے ہیں۔ کثرت ازدواج ایسا امر نہیں ہے کہ جس خاص امر کے لیے انبیاء مبعوث ہوتے ہیں اس کے مخالف یا ا س میں خلل انداز ہو‘ البتہ اس کو کسی حد تک محدود کرنا تمدنی لحاظ سے مفید ہے جیسا کہ مذہب اسلام نے کیا۔ عرب جاہلیت کی سوسائٹی میں اور یہودیوں میںکثرت ازدواج کوئی امر معیوب نہ تھا اور جب تک کہ حکم تحدید ازدواج صادر نہیں ہوا اس وقت تک کثرت ازدواج کے لیے کوئی امر مانع نہ تھا اور جس معاہدے سے ایک عورت سے معاملہ زنا شوئی جائز رکھا جاتا تھا‘ کوئی وجہ نہ تھی کہ عورتوں سے بھی اسی قسم کے معاہدے کے معاملے میں زنا شوئی جائز ہو‘ البتہ عورتیں جو اس معاہدے کے لیے محل تھیں اس قسم کا معاہدہ دوسرے سے نہیں کر سکتی تھیں۔ پس کثرت ازدواج جب تک کہ تحدید ازدواج کا حکم نہ ہو ایسا کوئی فعل نہیں ہے جس کے سبب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا انبیاء سابقین پر نکتہ چینی کی جاوے۔ دلائل عقلی اور نیز قرآن مجید کے تمام احکام سے ثابت ہوتا ہے کہ جس قدر احکام ہوتے ہیں کسی امر کے امتناع یا کسی امر کے جواز کے وہ آئندہ زمانے سے‘ یعنی اس حکم کے صادر ہونے کے زمانہ ما بعد سے علاقہ رکھتے ہیں نہ اس حکم کے قبل کے زمانے سے۔پس جس جس کے پاس متعدد ازواج تھیں اس پر کوئی نکتہ چینی نہیں ہو سکتی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کسی عورت کو اپنی زوجیت میں نہ لانا ان کے تقدس کو جو بسبب نبی اور صاحب کتاب ہونے کے تھا کچھ زیادہ نہیں کر دیتا‘ کیونکہ اس کا اصلی سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کو تمام یہودی نعوذ باللہ اولاد جائز نہیں سمجھتے تھے ‘ پس ان کے ساتھ کسی یہودن کا عقد ہونا ممکن نہ تھا اور یہودی دوسری قوم کی عورت سے عقد نہیں کرتے تھے۔ معہذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ابتدائی عمر کا زمانہ مہاجرت میںگزرا اور اخیر زمانہ کچھ بہت طویل نہ تھا‘ کیونکہ صرف تینتیس برس کی عمر میں آ پ نے وفات پائی اور اس وقت تک صرف ستر آدمی آپ پر ایمان لائے تھے۔ عرب جاہلیت میں باپ کی دوسری جورو کو اور دو حقیقی بہنوں کو ایک ساتھ زوجیت میں لانے کا عام دستور تھا۔ علاوہ ان کے بجز بیٹے کی جورو یا متنبیٰ کی جورو اور چند قریبی رشتہ داروں کے کچھ تمیز اس بات کی نہ تھی کہ کون سی رشتہ دار عورتیں ایسی ہیں جو زوجیت میں نہیں آ سکتیں۔ مگر خدا نے مسلمانوں کو بتایا کہ جن عورتوں کو تمہارے باپ نے زوجیت میں داخل کیا ہو ان کو تم اپنی زوجیت میں نہ لائو۔ اس کے بعد بتلایا کہ تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اورتمہارے بھائی کی بیٹیاں ‘ یعنی بھتیجیاں اورتمہاری بہن کی بیٹیاں‘ یعنی بھانجیاں اور تمہاری دودھ پلائیاں کہ تمہاری مائوں کی مانند ہیں اور تمہاری دودھ شریک جو مثل بہنوں کے ہیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں‘ یعنی ساسیں اور وہ لڑکیاں جو تمہاری حورویں اپنے ساتھ لاویں جن سے تم نے مقاربت کی ہو اور تمہارے صلبی بیٹوں کی جورویں اوردو بہنوں کو ایک ساتھ زوجیت میںداخل کرنا تم پر حرام ہے۔ ان دونوں مقاموں میں جن سے عورتوں کو زوجیت میں لانے سے منع کیا گیا ہے ۔ الفاظ الا ما قد سلف کے آئے ہیں۔ جس کے معنی صاف یہ ہیں کہ اس حکم سے پہلے جو ہوا سو ہوا‘ چنانچہ آیت مذکور یہ ہے : ولا تنکحوا مانکح ابائوکم من النساء الا ما قد سلف انہ کان فاحشۃ ومقتا وساء سبیلا حرمت علیکم امھاتکم وبناتکم واخواتکم وعماتک وخالاتکم وبنات الاخ و بنات الاخت و امھاتکم التی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعۃ وامھات نسائکم وربائبکم التی فی حجور کم من نسائکم التی دخلتم بہن فان لم تکونوا دخلتھم بھن فلا جناح علیکم و حلائل ابناء کم الذین من اصلابکم وان تجمعوا بین الاختین الا ما قد سلف ان اللہ کان غفور ارحیما۔ (سورۃ نساء آیت ۲۶و۲۷) الفاظ الا ما قد سلف سے یہ مراد ہے ہ جن لوگوں نے قبل نزول اس آیت کے ان محرمات میں سے جن کا ذکر اس آیت میں ہے کسی کو زوجیت میں داخل کرلیا تھا اور وہ امر گزر بھی گیا اور اب موجود نہیں ہے تو اس پر کچھ مواخذہ نہیں ہے‘ لیکن اس آیت کے گزرنے کے بعد اگر ا ن محرمات میں سے کوئی عورت کسی کی زوجیت میںموجود ہے تو اس کی تفریق لازم ہے‘ کیونکہ وہ الاماقد سلف میں داخل نہیں ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں کوئی ایسی عورت نہیں تھی جو ان محرمات میں سے ہو۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو اس بات پر رہنے نہیں دیا کہ اس کے باپ کی جورو اس کی زوجیت میں رہے‘ اگرچہ زمانہ جاہلیت میں اس نے اپنے باپ کی جورو کو اپنی زوجیت میں لیا ہو اور براء سے ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ھودہ کو ایک شخص کے پاس روانہ کیا‘ جس نے اپنے باپ کی جورو کو اپنی جورو بنا لیا تھا‘ تاکہ اس کو قتل کر ڈالے اور اس کا مال چھین لے۔ رسول خد ا صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں جو عورتیں آ سکتی تھیں خدا نے قرآن مجید میں ان کو اس طرح بتایا ہے: (۱) وہ بیویاںجن کا مہر دیا جاوے‘ یعنی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آویں۔ (۲) چچا کی بیٹیاں‘ پھوپھی کی بیٹیاں‘ ماموں کی بیٹیاں‘ خالہ کی بیٹیاں (جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی)۔ (۴) کوئی مسلمان عورت اگر اپنا نفس پیغمبر کو ہبہ کر دے‘ یعنی بے مہر نکاح میں آنا چاہے اور پیغمبر اس سے نکاح کرنا چاہیں مگر یہ حکم سوائے مسلمانوں کے خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے واسطے ہے اور وہ آیت یہ ہے : یایھا النبی انا احللنالک ازواجک التی اتیت اجورھن وما ملکت یمینک مما افاء اللہ علیک وبنات عمک و بنات عماتک وبنا خالک و بنات خالاتک التی ھاجرون معک وامراۃ مومنۃ ان وہبت نفسھا للنبی ان اراد النبی ان یستنکحھا خالصۃ لک من دون المومنین۔ (سورۃ احزاب آیۃ ۴۹) ان دونوں آیتوں میں جو حکم مسلمانوں کے لیے ہے اور جو حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے اس میں بجز اس حکم کے جو نمبر ۴ میں بیان ہوا ہے اور کسی میں کچھ فرق نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت رشتہ داروں سے نکاح کرنے میں یہ قید زیادہ لگی ہوئی ہے کہ جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی ہو‘ حالانکہ مسلمانوں کو رشتہ دار عورتوں سے نکاح کرنے میں یہ قید نہیں ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی ہے جنہوں نے اپنا نفس آپ کو ہبہ کر دیا ہو‘ یعنی بے مہر نکاح کیا ہو اور ایسی اجازت اور کسی مسلمان کو نہیں دی گئی ‘ مگر یہ امر کچھ ایسا مہتم بالشان نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی امر بدگمانی کا جیسا کہ مخالفین مذہب اسلام خیال کرتے ہیں ‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت پیدا ہوتا ہے‘ کیونکہ خود عورت کا درخواست کرنا کہ میں بغیر کسی مہر کے نکاح میں آنا چاہتی ہوں‘ ان تمام بدگمانیوں کو رفع کرتا ہے جو مخالفین مذہب اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کرتے ہیں۔ مگر عام مسلمانوں کو بھی ایسی اجازت دینا آئندہ کے بہت سے تنازعات کا باعث تھا۔ جب کوئی عورت اپنے مہر کا دعویٰ کرتی تو شوہر کو اس عذر کا موقع ملتا ہے کہ اس نے اپنا نفس مجھ پر ہبہ کر دیا ہے‘ یعنی بلا مہر میرے ساتھ نکاح کیا ہے‘ اس لیے نہایت ضرور تھا کہ اس بات کی تصریح کی جاوے کہ یہ حکم خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ مخالفین مذہب کہتے ہیں کہ سورۃ نساء کے ابتدا میں جو آیت ہے اس سے مسلمانوں کو چار جوروئوں سے زیادہ کرنے کی اجازت نہیں ہے‘ یہاں تک کہ جن لوگوں کے پاس چا ر جوروئوں سے زیادہ تھیں تو اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ چار سے جو زیادہ ہیں ان کو علیحدہ کر دو چنانچہ ابودائود اور ابن ماجہ میں ہے کہ قیس بن حارث جب مسلمان ہوا تو اس کے پاس آٹھ جورووئیں تھیں جب اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ نے اس کو حکم دیا کہ ان میں سے چار کو رکھو اور ابن ماجہ اور ترمذی میں ہے کہ جب غیلان الثقفی مسلمان ہوا تو اس کے پاس دس عورتیںتھیں اور وہ سب کی سب اس کے ساتھ مسلمان ہو گئی تھیں‘ مگرا ٓنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حکم دیا کہ ان میں سے چار کو چن لو ‘ یعنی باقی کو چھوڑ دو‘ مگر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چار سے زیادہ اپنی ازواج مطہرات رکھیں‘ یہاں تک کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو نو بیویاں زندہ موجود تھیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان عورتوں سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میںآ چکی تھیں دوسروں کو نکاح کرنے سے منع کر دیا تھا اوروہ آیت یہ ہے : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ابو دائود جلد اول صفحہ ۳۰۳۔ ۲و ۳۔ ابن ماجہ صفحہ ۳۴۷۔ ۴۔ ترمذی صفحہ ۱۹۰۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا یعنی اے مسلمانو! پیغمبر خدا کی جوروئوں سے اس کے بعد کبھی نکاح مت کرو۔ بعد کا لفظ جو اس آیت میں آیا ہے اس کی نسبت مفسروں نے لکھا ہے کہ من بعدہ سے مراد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے‘ حالانکہ آیت میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے کہ بعد سے بعد وفات مرا دہو اور اگر بعد سے بعد وفات مراد لی جاوے تو یہ معنی ہوں گے کہ زمانہ حیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کی ازواج سے جن کوآپ نے چھوڑ دیا ہو نکاح جائز ہو گا۔ پس کیسی مہمل بات ہے کہ جو فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ناجائز ہو ہو آپ کی حیات میں جائز قرا ر دیا جائے۔ پس من بعدہ کے معنی ہیں بعدا زواجہ ‘ یعنی بعد اس کے کہ وہ عورت زوجیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ا ٓ چکی ہو اس سے کسی مسلمان کو نکاح جائز نہیں۔ پس سبب یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی زوجہ کو اپنی زوجیت سے خارج نہیں کر سکتے تھے ۔ (اور یہ کہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی زوجہ کو طلاق دی تھی کسی طرح ثابت نہیں جس کو ہم بیان کریں گے) مگر مسلمانوں کی عورتوں سے یہ حکم متعلق نہ تھا ‘ اس لیے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انپی تمام ازواج کو قائم رکھا اور جن مسلمانوں کے پاس چار عورتوں سے زیادہ نکاح میں تھیں ان کی نسبت فرمایا کہ چار کو رہنے دو اور ان سے زیادہ ہوں ان کو چھوڑ دو۔ کوئی معترض یہ کہہ سکتا ہے کہ کیوں ایسا حکم نازل ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں جو عورت آ گئی ہو ا س سے پھرکوئی شخص نکاح نہیں کر سکتا ‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ من بعدہ ای من بعد وفاتہ او فراقہ۔ تفسیر بیضاوی جلد دوم چھاپہ لکھنو صفحہ ۱۸۵۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ حکم نہایت عمدہ ہے اگر اس کا امتناع نہ ہوتا۔ تو اسلام میں نہایت فتور واقع ہوتا۔ یہ عورتیں اپنے نئے خاوند کے سبب اور ان کے مطلب کے موافق سینکڑوں حدیثیں اور روایتین رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیان کرتیں جن میں ایک فتنہ عظی اسلام میں برپا ہو تا اور اسلام باعث فتور اور اس کے احکام میں اختلال کا سبب ہوتا اس لیے یہ حکم نہایت ضروری تھا کہ جو عورتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آ چکی ہیں وہ دوسروں سے نکاح نہ کرنے پاویں۔ ان تمام اعتراضوں سے مخالفین مذہب اسلام کا یہ مقصد ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے کا الزام لگائیں مگر جو احکام آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت قرآن مجید میں ہیں ان کے جاننے کے بعد کون شخص اس الز ام کو صحیح مان سکتا ہے؟ سورۃ احزاب میں یہ آیت ہے : لا یحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بھن من ازواج ولوا عجبک حسنھن یعنی جس قدر ازواج موجود ہیں اس کے بعد تیرے لیے عورتیں حلال نہیں ہیں اورنہ یہ بات تیرے لیے حلال ہے کہ ان کی جگہ ار جورئوں کو بدل لے گو ہ تجھ کو ان کا حسن اچھا معلوم ہو۔ پس جو شخص کہ خواہش نفسانی کے پورا کرنے کا آرزو مند ہو وہ اپنی قیدیں اپنے ساتھ لگا سکتا ہے کہ نہ تو وہ کسی عورت کو اپنی زوجیت میں لا سکے اور جو جوروئیں موجود ہیں نہ ان کے بدلے میں اور جورو لا سکے۔ پس کیسا غلط خیال ہے جو معترضیں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت خیال کرتے ہیں۔ بعض مفسرین نے ولا ان تبدل کے لفظ سے جو اس آیت میں ہے یہ سمجھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنی ازواج کو طلاق دینا جائز نہیں رہا تھا‘ کیونکہ تبدل ازواج اسی طرح پر ہو سکتا ہے کہ ایک کو زوجیت سے خارج کیا جائے اور دوسری کو اس کی جگہ لیا جائے اوریہ امر بغیر اس کے کہ ایک کو طلاق دی جائے نہیں ہو سکتا۔ پس گویا اس آیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ازواج میں سے کسی زوجہ کو طلاق دینا جائز نہیں رہا تھا جو نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے کے بالکل خلاف ہے۔ اگر یہ قوم مفسرین کا صحیح ہو تو اس بات کا سبب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے باوصف محدود ہو جانے تعداد ازواج کے کیوں چار سے زیادہ ازواج اپنے پاس رہنے دیں‘ بہت عمدگی سے واضح ہو جاتا ہے۔ معترض کہہ سکتا ہے کہ تم نے جو یہ بات قرار دی ہے کہ لا ان تبدل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو طلاق دینا منع ہو گیا تھا یہ غلط ہے‘ اس لیے کہ سورۃ طلاق میں صاف لکھا ہے کہ : یایھا النبی اذا طلقتم النساء الخ اور اس آیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو طلاق دینے کی صاف اجازت پائی جاتی ہے‘ مگر یہ اعتراض صحیح نہیںہے کیونکہ تمام قرآن مجید میں جہاںپیغمبر کو یایھا النبی کرکے خطاب کیا ہے اس کے بعد صیغہ واحد حاضر کا آیا ہے جیسے کہ یایھا النبی حسبک اللہ اور یایھا النبی جاھد الکفار و المنافقین مگر صرف سورۃ طلا ق کی آیت میں یہ سباق بدل دیا ہے اور اس میں یایھا النبی کے بعد کہا ہے اذا طلقتم جمع کے صیغے میں‘ اس تبدیل سیاق پر غور کرنا ضرورہے۔ اس تبدیل سیاق کی وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم مخاطب نہیں ہیں‘ بلکہ مسلمان مخاطب ہیں اورتقدیر آیت کی یہ ہے کہ یایھا النبی قل للمومنین اذا طلقتم النساء الخ اور جو کہ مسلمان مخاطب تھے اس لیے صیغی جمع کا آیا ہے۔ بخاری میں عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی جورو کو اس ناپاکی کے ز مانے میں جو ہر مہینے عورتوں کو ہوتی ہے طلاق دے دی تھی‘ اس کی نسبت حضرت عمرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا اس میں یہ آیت سورہ طلاق کی نازل ہوئی اور بعض روایتوں میں ہے کہ عمر بن سعید اور عتبہ بن غزوان نے بھی ایسا ہی کیاتھا۔ پس اس آیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنی ازواج کو طلاق دینے کا اختیار ثابت نہیں ہوتا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت حفصہ ؓ کو جو حضرت عمرؓ کی بیٹی تھیں مذکورہ بالا حالت میں طلاق دے دی تھی ‘ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ہے یہ کہنا ان کا اس لیے غلط ہے کہ اگر حفصہؓ کی طلاق کے سبب یہ آیت خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت نازل ہوتی تو طلقتم صیغہ جمع کا نہیں آ سکتا تھا۔ ظاہرا یہ معلوم ہوتا ہیکہ جس روایت میں حضرت حفصہؓ کا طلاق دینا بیان ہوا ہے ۔ ا س میں راوی کو غلطی ہوئی ہے‘ کیونکہ حضرت عمرؓ نے اس کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا تھا ‘ مگر راوی نے یہ سمجھا کہ حضرت عمرؓ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے حفصہؓ کو طلاق دے دی ہے‘ حالانکہ عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی جورو کو طلاق دے دی تھی نہ پیغمبر خدا نے حفصہؓ کو جو حضرت عمرؓ کی بیٹی تھیں۔ اور سورۃ تحریم میں یہ آیت ہے : عسیٰ ربہ ان طلقکن ان یبدلہ ازواجا خیراً منکن مسلمت مومنت قنتت تئبت عبدات ئحت ثیبت وابکارا یعنی اگر پیغمبر تم کو طلاق دے دے تو قریب ہے خدا اسکے بدلے میں ایسی بیویاں دے جو تم سے بہتر ہوں اورج و مسلمان ہوں ارو جو ایمان والیاں دعا کرنے والیاں‘ توبہ کرنے والیاں ‘ عبادت کرنے والیاں‘ روزہ رکھنے والیاں اور بیاہی اوربن بیاہی ہوں۔ اس آیت کو یہ قرار دینا کہ اس آیت میں پایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو طلاق دینے کی اجازت تھی محض غلط ہے ‘ کیونکہ یہ آیت حکم پر کسی طرح دلالت نہیں کرتی ‘ بلکہ اس شرط اور تعلیق ہے اور اس سے مقصود خوف دلانا اور قدرت ظاہر کرنا ہے نہ یہ جتانا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ازواج کو طلاق دے سکتے ہیں یا ان کو طلاق دینی چاہیے۔ چنانچہ تفسیر کبیر اور لباب التاویل میں صاف لکھا ہے کہ : ہذا من باب الاخبار عن القدرۃ لا عن الکون لانہ قال ان طلقکن وقد علم انہ لا یطلقھن فاخبرعن قدرۃ انہ ان طلقھن ابدلہ ازواجا خیرا منھن تخویفاً لھن یعنی اس آیت میں خدا نے اپنی قدرت کی خبر دی ہے ‘ نہ کسی امر کے واقع ہونے کی‘ کیونکہ اس نے فرمایا کہ اگر وہ تم کو طلاق دے دے اوریہ تو پہلے سے معلوم تھا کہ پیغمبر اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دینے کے اس سے معلوم ہوا کہ خدا نے محض اپنی قدرت جتائی ہے کہ اگر پیغمبر اپنی بیویوں کو طلاق دے دین تو خدا ان بیویوں سے بہتر عورتیں ان کے بدلے میں دے گا اور یہ اصل میں ان کو خوف دلانے اور ڈرانے کے طور پر کہا ہے۔ پس یہ آیت کسی طرح اس لائق نہیں ہے کہ اس سے اس امر پر استدلال کیا جاوے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو طلاق دینے کی اجازت تھی۔ جب یہ آیت نازل ہوئی اور اس کا چرچا لوگوں میں پھیلا تو لوگوں نے یہ غلط خیال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی کل ازواج کو طلاق دے دی ہے۔ حضرت عمرؓ نے جب پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے کسی کو بھی طلاق نہیں دی۔ حضرت عمرؓ نے آپ سے اجازت لے کر مسجد کے دروازے پر بلند آواز سے کہا کہ یہ خبر غلط ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کسی بیوی کو طلا ق نہیں دی۔ سورۃ احزاب میں یہ آیت ہے: یایھا النبی قل لازواحک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزیمتھا فتعالین امتعکن و اسرحکن سراحا جمیلا وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدار الاخرۃ فان اللہ اعد اللمحسنات منکن اجرا عظیما یعنی اے پیغمبر تم اپنی بیویوں سے کہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی کو پسند کرتی ہو تو آئو میں تم کو کچھ دے دلا کر اچھی طرح رخصت کردوں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو اور آخرت کو پسند کرتی ہو تو اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ خدا نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے بڑا ثواب ٹھہرایا ہے۔ یہ آیت‘ آیت تخیر کہلاتی ہے‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواج کو اختیار دیا گیا تھا کہ چاہیں وہ دنیا کو اختیار کریں چاہیں دین کو‘ مگر یہ آیت اس آیت سے پہلے نازل ہوئی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو طلاق دینے کا امتناع ہوا ہے اور جن کو ہم پہلے لکھ آئے ہیں اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے۔ اس آیت میں بھی مہر کا ذکر ہے اور سورۃ احزاب کی آیت قد علمنا ما فرضنا علیہم فی ازواجھم میں بھی لفظ ما سے مہر مراد ہے جس سے ثابت ہے کہ آیات سورۃ احزاب سے پہلے ازواج کے لیے مہر مقرر ہو چکا تھا اور جس آیت میںمہر مقرر ہونے کا ذکر ہے وہ سورۃ نساء کی آیت ہے پس صاف پایا جاتاہے کہ سورۃ نساء کی آیت قبل آیات سورۃ احزاب نازل ہو چکی تھی‘ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بعد نزول آیت سورہ نساء کو بھی عورتوں سے نکاح کیا۔ حضرت زینتؓ بن جحش سے جن کا ذکر خود سورۃ احزاب میں ہے ۵ ہجری میں نکاح ہوا ہے اور اس کے بعد بھی ۷ ہجری تک نکاح ہوتا رہا۔ پس کیا وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بعد نزول آیت سورہ نساء کے جس میں چار ازواج کرنے کا حکم ہے اور عورتوں سے نکاح کیا مگر ا س دلیل میں یہ غلطی ہے کہ معترض نے یہ سمجھا ہے کہ ازواج مہر کا تقرر اسی وقت ہوا تھا جبکہ تحدید ازواج کے مہر کا تقرر اسی وقت ہواتھا جبکہ تحدید ازواج کا حکم سورۃ نساء میں نازل ہوا ہے ‘ حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ عرب جاہلیت میں بہت سی باتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت کی باقی تھیں اورعرب جاہلیت میں بھی زوجہ کے لیے مہر مقرر کرنا یا اس کو دینے کا عام رواج تھا۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نکاح حضرت خدیجہ کے ساتھ ۲۸ برس قبل ہجرت ہوا تھا۔ یعنی اس وقت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم مبعوث بھی نہیں ہو ئے تھے‘ اس وقت بھی مہر مقررہوا اورسونے کے ساڑھے سات اوقیہ کے برابر مہر دیا گیا ۔ نبوت کے بعد زمانہ تحدید ازوا ج کا حکم نازل ہوا ہے ۔ پس سورۃ نساء اور سورۃ احزاب کی آیتوں میں مہر کے ذکر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ جب تحدید ازواج کا حکم نازل ہوا ہے اسی کے ساتھ مہز کے مقرر کرنے کا بھی حکم ہو ا تھا۔ بلکہ نہایت قرین قیاس ہے کہ آیت سورۃ نساء درباب تحدید ازواج مسلمانان اور نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اور آیت سورۃ احزاب لا یحل لک النساء قریب قریب زمانے میں نازل ہوئی ہیں۔ ایک میں مسلمانوں کے لیے ازواج کی تحدید ہے اور دوسری میں پیغمبر کی نسبت آئندہ کسی عورت سے نکاح کرنے کا امتناع ہے۔ ہم نے کہا ہے کہ قرین قیاس ہے کہ وہ دونوں آیتیں قریب قریب نازل ہوئی ہیں‘ اس کا سبب یہ ہے کہ زمانہ نزول آیت کا تحقیق ہونا نہایت مشکل امر ہے‘ قرینہ اور قیاس سے اس کا زمانہ قرا ر دیا جاتاہے۔ مفسرین اور اہل سیر نے جو زمانے نزول آیت کے قرار دیے ہیں یا شان نزول بیان کی ہیں ان میں اکثر مطلق قابل اعتبار نہیں ہیں۔ اس لیے کہ اس کی اسناد کافی نہیں ہیں۔ سورۃ احزاب میں ایک خاص حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے تھا کہ اگر کوئی عورت بلامہر نکاح کرنے کی درخواست کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں تو بلا مہر نکا کر سکتے ہیں اس اجازت کی نسبت خدا نے کہا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے مقرر کیا ہے مسلمانوں پر ان کی ازواج میں‘ یعنی مہر کا دینا لیکن ہم نے جو یہ کہہ دیا کہ بلا مہر نکاح کرنے کا حکم خاص تمہارے لیے ہے‘ اس لیے کہہ دینا کہ تم کو اس میں کچھ تردد‘ یعنی دل میں کچھ دھکڑپھکڑ نہ رہے۔ تفسیر ابن عباس میں لفظ جرح کی تفسیر میںماتم لکھا ہے۔ وہ بالکل ٹھیک ہے لفظ جرح سے اس مقام پر سہولت اور آسانی مراد لینا ٹھیک نہیں ہے۔ لفظ فرض اور فریضہ کے معنی ہیں مقرر کرنے کے فقہاء نے جو الفاظ فرض واجب‘ سنت ‘ مستحب واسطے تفریق و تقسی احکام شرعی کے بطور اصطلاح اختیار کیے ہیں‘ ان معنوں میں فرض کا لفظ قراان مجید میں نہیں آیا۔ پس جن لوگوں نے فرضنا و فریضہ کے لفظ سے وہ معنی سمجھے ہیں جو فقہاء نے اپنی اصطلاح میں قرار دیے ہیں تو ان سمجھنے والوں نے ان کے معنی سمجھنے میں غلطی کی ہے اور ہرگاہ مہر کا تقرر ابراہیمی شریعت کا باقی ماندہ حکم تھا جیسے حج اور غسل جنابت وغیرہ۔ تو خدا کا یہ کہنا کہ قد علمنا مافرضنا علیھم فی ازواجھم بالکل ٹھیک اور صحیح تھا۔ سورۃ احزاب میں ایک اور آیت ہے‘ جس میں خدانے اپنے رسول کو کہاہے کہ اپنی ازواج میں سے جو چاہے علیحدہ رکھے اور جس کو چاہے اپنے پاس رکھے اور جس کو چاہے علیحدہ رکھا ہے اگر اس کو اپنے پاس بلانا چاہے تو کچھ گناہ نہیں کرتے۔ اور وہ آیت ہے کہ : ترجی من تشاء منھن و تووی الیک من تشاء ومن ابتغیت ممن عزلت فلا جناح علیک اس آیت سے اکثر مفسرین نے سمجھا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے پہلے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر باری باری سے اپنی ازواج کے پاس رہنا واجب تھا اور اس آیت سے باری باری اپنی ازواج کے پاس رہنا واجب نہیں رہا۔ اس میں شک نہیں کہ جب متعدد ازواج ہوں تو بلاشبہ شوہر کو لازم ہے کہ باری باری ان کے پاس رہے مگر ہم کو قرآن مجید میں کوئی آیت نہیں ملی جس سے بالتصریح باری باری سے رہنا واجب قرار دیا ہو۔ سورۃ نساء کی آیت میں جو یہ الفاظ ہیںکہ فان خفتم ان لا تعدلو لفظ لا تعدلو سے ازواج میں عدل کرنا واجب ٹھہرایا ہے اور باری باری سے ازواج کے پاس رہنا بھی عدل میں داخل کیا ہے‘ مگر یہ صرف ایک ایسا حکم ہے کہ آیت کے الفاظ سے استنباط کیا ہے ‘ مگر نص نہیں ہے۔ تعدد ازدواج میں ازواج کی حالت بلحاظ طبیعت انسانی یکساںنہیں رہتی۔ انسان کو بیماریاں غیر متوقع لاحق ہوتی ہیں جن سے عورتیں بھی مستثنیٰ نہیں ہیں۔ علاوہ اس کے خود عورتوں کی طبعی حالت یکساں نہیں رہتی۔ پس ایسی حالت میں باری کا انتظام نہیں ہو سکتا۔ اسی واسطے خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اجازت دی ہے کہ ازواج میں سے جس کو چاہو علیحدہ رکھو اور جس کو چاہو اپنے ساتھ اور جس کو علیحدہ رکھا ہے اس کو پھر اپنے پاس بلا لو۔ پس یہ کوئی ایسا امر نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ا س کے سبب سے کوئی نکتہ چینی کی جاوے‘ کیونکہ یہ حکم طبیعت انسانی کے موافق ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اور تمام انسانوںسے یکساں متعلق ہو سکتا ہے۔ اب ہم ازواج مطہرات کا مختصر تاریخی حال بیان کرتے ہیں اور جو نکتہ چینی ہر ایک کی نسبت کی گئی ہے اس کی تحقیق کرتے ہیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضرت خدیجہؓ کے باپ کا نام خویلد ہے اوروہ قوم قریش میںسے تھیں۔ ان کی ماں کا نام فاطمہ بنت زائدہ ہے۔ نوفل ان کا چچا تھا اور نوفل کا بیٹا ورقہ ان کا چچا زادبھائی تھا اور حضرت خدیجہ سنہ ۶۸ قبل ہجری پیدا ہوئیں۔ پہلے حضرت خدیجہ کا نکاح ابوھالہ بن زرارہ سے ہواتھا اور اس سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ ایک کانام ہند اور دوسرے کا نام ہالہ تھا۔ جب ابو ھالہ مر گیا تو خدیجہ نے عتیق بن عائذ سے نکا ح کیا جو قریش کے بنی مخزوم سے تھا اور اس سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ہند تھا۔ حضرت خدیجہ کا باپ بہت امیر تھا اور ان کے ہاں تجارت ہوتی تھی۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت خدیجہ کا مال تجارت لے کر بصرے میں گئے اور اس مال کو بہت نفع سے فروخت کیا اورواپس آ کر اس میں سے بہت زیادہ نفع ان کو دیا جو اور لوگ دیتے تھے۔ جبکہ عتیق بن عائذ دوسرا شوہر بھی مر گیا تو حضرت خدیجہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنہ ۲۸ قبل ہجری میں نکاح کیا۔ یہ بات سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کچھ دولت مند نہیں تھے مگر ایک نہایت اعلیٰ خاندان قریش میں سے تھے اور ان کی امانت‘ دیانت اور سچائی عام طور سے لوگوں میں مشہور تھی اور ان کا لقب امین عرب ہوگیا تھا۔ اس سبب سے حضرت خدیجہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نکاح کرنے کا خیال ہوا۔ نکاح کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر ۲۸ سال کی اور حضرت خدیجہ کی عمر ۴۰ سال کی تھی۔ بعد نکاح کے ان سے چار لڑکیاں زینب‘ رقیہ‘ ام کلثوم‘ اور فاطمہ پیدا ہوئیں اور لڑکوں کی تعداد میں اختلاف ہے مگر اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ کل لڑکوں نے صغر سنی میں وفات پائی اور حضرت خدیجہ نے سنہ ۳ قبل ہجری میں جبکہ ۶۵ سال کی عمر تھی‘ مکے میں انتقال کیا۔ اس بات پر سب کو اتفاق ہے کہ جب تک حضرت خدیجہ زندہ رہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیںکیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دوسری عورت سے حضرت خدیجہ کی زندگی میں نکاح نہ کرنے کا کوئی سبب ہو‘ مگر یہ بات اس وقت تک موافق رسم دیسائی مذہب کے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم دوسرا نکاح نہ کر سکتے تھے محض غلط ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ورقہ بن نوفل شام میں جا کر بذات خود عیسائی ہو گیا تھا‘ مگر یہ بات کہ خویلد حضرت خدیجہ کا باپ اور حضرت خدیجہ اور ان کے خاندان کے ارو لوگ بھی عیسائی ہو گئے تھے کسی روایت سے ثابت نہیں ہے۔ معہذا انجیلوں سے جو اس وقت موجود ہیں تعداد ازدواج کا امتناع کسی طرح پایا نہیں جاتا۔ پس یہ کہنا کہ مذہب عیسوی کے سبب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم دوسری شادی نہیں کر سکتے تھے‘ محض غلط ہے۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنھا حضرت سودہ کے باپ کا نام زمعہ اور ماں کا نام بنت قیس تھا ۔ ان کا پہلانکاح سکران بن عمر سے ہوا تھا۔ اور اس سے ایک لڑکا عبدالرحمان پیدا ہوا۔ حضرت سودہ اور ان کا شوہر سکران بن عمر دونوں مسلمان ہو گئے تھے اور جبکہ دوسری دفعہ مسلمان ہجرت کر کے حبش کو چلے گئے تھے حضرت سودہ بھی مع اپنے شوہر کے مکے سے حبش ہجرت کر گئی تھیں ۔ جب وہ حبش س واپس آئیں تو مکے میں ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا ۔ پھر سنہ ۳ ہجری میں جبکہ حضرت خدیجہ انتقال کر چکی تھیں حضرت سودہ کا نکاح آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہوا۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر ۵۰ سال کی تھی۔ مگر حضرت سودہ کی عمر اس وقت کیا تھی؟ کسی کتاب سے معلوم نہی ہوتی۔ بعد وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ان کی وفات سنہ ۲۳ ہجری میں ہوئی۔ یہ خیال نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت سودہ سے کسی خواہش نفسانی کے سبب سے نکاح کیا ہو جیساکہ معترضین کہتے ہیں‘ بلکہ حضرت سودہ قدیم الایمان تھیں اور کفار مکہ سے تکلیفیں اٹھائی تھیں اور حبشہ کی ہجرت پر مجبور ہوئی تھیں‘ آخر الامر جب واپس آئیں تو ان کے شوہر نے انتقال کیا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ان کو زوجیت میں لانا مقتضائے انسانیت اور تفقد ان کے حال پر تھا‘ نہ مقتضائے خواہش نفسانی۔ سودہ بہت بڑھیا اور از کار رفتہ ہو گئی تھیں ان کو خوف ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کو طلاق نہ دے دیں ۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کہا کہ آپ مجھ کو اپنی زوجیت میں رہنے دیں جو حقوق میری زوجیت کے ہیں وہ میں حضرت عائشہ کو دے دیتی ہوں۔ سورہ نساء میں جو آیت ہے وان مراء خافت من بعلھا نشوزا اواعراضا فلا جناح علیھما ان یصلحا بینھما صلحا و الصلح خیر یعنی اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے علیحدگی اور بے پروائی کا اندیشہ ہو تو ان دونوں پر کچھ گناہ نہیں ہے کہ وہ آپ میں صلح کر لیں اور صلح بہتر ہے۔ اس آیت کو بعض راوی کہتے ہیں کہ حضرت سودہ کی شان میںاتری ہے جبکہ ان کو خوف تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کو طلا ق دے دیں گے اور بعض راوی کہتے ہیں کہ یہ آیت کسی خاص واقعے پر نازل نہیں ہوئی‘ بلکہ بطور عام احکام کے نازل ہوئی ہے لیکن حضرت سودہ نے بموجب اسی آیت کے کہہ دیا تھا کہ میں اپنا حق زوجیت حضرت عائشہ کو دے دیتی ہوں۔ بہرحال یہ آیت خواہ حضرت سودہ کی شان میں اتری ہو یا بطور حکم عام کے ہماری رائے میں کچھ زیادہ بحث کے لائق نہیں ہے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا حضرت حفصہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ ان کی ماں کانام زینب بنت مظعون تھا جنھوں نے بعد اسلام قبول کرنے کے ہجرت کی تھی۔ حضرت حفصہ کے پہلے شوہر کا نام خنیس ابن حذافہ تھا۔ جنھوں نے حضرت حفصہ کے ساتھ ہجرت ی تھی اور جن کا انتقال بعد غزوہ بدر کے ہوا۔ خنیس کے انتقال کے بعد ان کا نکاح سنہ ۳ ہجری میں رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہوا۔ اس وقت ان کی عمر ۲۱ سال تھی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر ۵۶ سال کی تھی۔ ان کا انتقال ۴۵ ہجری میں بعد وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہوا اور اس وقت ان کی عمر ۶۳ سال کی تھی۔ اس حساب سے معلوم ہوتاہے کہ ان کی ولادت ۱۸ سال قبل ہجری میںہوئی تھی۔ بعض روایتوںمیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضر ت حفصہ کو طلاق رجعی دے دی تھی‘ مگر ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا طلاق دینا ثابت نہیں ہے۔ اس کا ذکر سوائے ابن ماجہ کے غالبا اورکسی حدیث کی معتبر کتاب میں نہیں ہے۔ قطع نظر اس کے کہ ابن ماجہ کی جو حدیث ہے اس میں سملہ بن کہیل ایک شیعہ مذہب کا راوی ہے جس کی روایت حضرت عمر کی بیٹی کی نسبت اعتماد کے لائق نہیں ہے۔ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ جس روایت میںحضرت حفصہ کا طلاق دینا بیان ہوا ہے اس میں راوی کو غلطی ہوئی ہے‘ اس لیے کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی جورو کو طلاق دی تھی اور حضرت عمر نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مسئلے کی نسبت پوچھا تھا۔ اس سبب سے راوی کو شبہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عمرؓ کی بیٹی حضرت حفصہ کو طلاق دے دی۔ غرضیکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حضرت حفصہ کو طلاق دینا ثابت نہیں ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ حضرت حفصہ نے کوئی بھید آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کیوں کھول دیا تھا ۔ اس کی نسبت جو کچھ ہم کو کہنا ہے وہ ماریہ قبطیہ کے حال میں بیان کریں گے۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حضرت ام حبیبہ کا اصلی نام رملہ تھا۔ ان کے باپ کا نام ابوسفیان اور ماں کا نام صفیہ تھا۔ ماں اور باپ دونوں طرف سے وہ خاندان بنی امیہ سے تھیں ۔ ان کا پہلا شوہر عبید اللہ بن جحش تھا جو پہلے مسلمان ہو گیاتھا اور جب ملک حبش کو دوسری بار لوگ ہجرت کرنے لگے تو وہ بھی اپنی بی بی ام حبیبہ کے ساتھ ملک حبش کو چلا گیا تھا۔ وہا ں جا کر عبیداللہ تو عیسائی ہو گیا۔ مگر حضرت ام حبیبہ مذہب اسلام پر قائم رہیں۔ جب عبیداللہ مر گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نجاشی کو بطور ولی کے قرر دے کر کہلا بھیجا کہ ان کا نکاح ام حبیبہ سے کر دے۔ چنانچہ ۷ ہجری میں بمقام حبش میں ام حبیبہ کا نکاح ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے نجاشی نے مہر ادا کیا۔ اس وقت ام حبیبہ کی عمر ۳۷ سال کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر ۶۰ سال کی تھی۔ بعد نکاح کے حضرت ام حبیبہ ملک حبش سے آئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس رہیں۔ بعد وفات رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کی وفات ۴۴ ہجری میں ہوئی جبکہ ان کی عمر ۷۴ سال کی ہو چکی تھی۔ ان کی نسبت کوئی نکتہ چینی قابل التفات نہیں ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا حضرت ام سلمہ جن کا اصلی نام ہند تھا‘ ان کی ماں کا نام عاتکہ ہے جو قبیلہ بنو کنانہ میں سے تھیں‘ مگر یہ عاتکہ عبدالمطلب کی بیٹی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پھوپھی نہیں تھیں‘ بلکہ ان کے باپ کا نام عامر تھا۔ حضرت ام سلمہ کے با پ ابوامیہ تھے جن کا نام حذیفہ تھا اورعرب کے مشہور فیاض اور شہسوار لوگوں میں خیال کیے جاتے تھے۔ حضرت ام سلمہؓ کے پہلے شوہر ابوسلمہ بن عبدالاسد مخزومی تھے۔ وہ اور ان کے شوہر دونوں مسلمان ہو کر ملک حبش کو ہجرت کر گئے تھے۔وہاں ان کی ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام زینب تھا۔ اس کے بعد ایک اور لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام درہ تھا۔ اور دو لڑکے سلمہ اور عمر بھی اسی نکاح سے پیدا ہوئے تھے۔ ابو سلمہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ جب انہوںنے ۴ ہجری میں وفات پائی تو حضرت ام سلمہ کا نکاح رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا۔ اس وقت ان کی عمر ۲۶ سال کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر ۵۷ سال کی تھی ۔ انہوں نے ۶۲ ہجری میں بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وفات پائی اور ان کی عمر ۸۴ سال کی ہوئی۔ اس حساب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ولادت ۲۲ قبل ہجری میں ہوئی تھی ۔ حضرت ام سلمہ کی نسبت کوئی نکتہ چینی قابل توجہ نہیں ہے۔ حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا حضرت زینبؓ جو بسبب اپنی فیاضی کے ایام جاہلیت میں ام المساکین کے لقب سے مشہور تھیں قبیلہ بنو ہلال سے تھیں۔ ان کے با پ کا نامہ خزیمہ بن حرث اور ماں کا نام ہند بنت عوف تھا۔ ان کا پہلا شوہر عبداللہ بن جحش تھا جس کے مرنے کے بعد ان کا نکاح ۳ ہجری میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا۔ اس وقت ان کی عمر ۲۹ سال کی تھی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر ۵۶ سال کی ‘ مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس صرف آٹھ مہینے رہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی ہی میں ۴ ہجری میں انتقال کر گئیں۔ ان کی عمر اس وقت ۳۰ سال کی تھی جس سے معلوم ہوتاتھا کہ ان کی ولادت ۲۶ قبل ہجری میںہوئی تھی۔ بعض روایتوں میںہے کہ حضرت زینب ام المساکین نے اپنا نفس آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ہبہ کر دیا تھا‘ مگر وہ روایتیں کسی طرح قابل اعتبار نہیں ہیں۔ کیونکہ جن ازواج مطہرات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نکاح ہوا اور ان کا مہر ادا کیا گیا ان میں یہ بھی داخل ہیں اور اس امر پر محدثین کا اتفاق ہے۔ حضرت زینب بن جحش رضی اللہ عنہا زینبؓ جحش کی بیٹی تھیں اور ان کی ماں کا نامی امیمہ تھا۔ اور امیمہ عبدالمطلب کی بیٹی اور عبداللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے والد کی بہن تھیں۔ اس رشتے سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پھوپھی کی بیٹی تھیں ۔ ان کی عمر پچاس برس کی ہوئی اور ۰ ۲ ہجری میںانہوںنے وفات پائی اس حساب سے ان کی ولادت ۳۰ قبل ہجری میںہوتی ہے۔ پہلی دفعہ ان کا نکاح زید بن حارچہ سے ۳ ہجری کے اخیر یا ۴ ہجری کے شروع میں ہوا۔ جب زید نے ان کو طلاق دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ۵ ہجری میں ان سے نکاح کیا اس وقت ان کی عمر ۳۵ سال اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر ۵۸ سال کی تھی۔ چھ برس یعنی وقت وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک آپ کی زوجیت میں رہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد انتقال کیا۔ ان کے پہلے شوہر زید کے باپ کا نام حارثہ اور ان کے داد ا کا نام شراحبیل اور انکی ماں کا نام سعدیٰ بنت ثعلبہ تھا جو بنی معن قبیلہ بنی طے سے تھیں۔ ایام جاہلیت میں سعدی ان کی ماں ان کو لے کر کہیںجاتی تھی۔ رستے میں بنوقین نے ان پر حملہ کیا اور زید کو پکڑ کر عکاظ کے بازار میں بیچنے کو لائے۔ اس وقت زید کی عمر آٹھ برس کی تھی۔ حکیم بن حزام نے اپنی پھوپھی خدیجہ بن خویلد کے لیے جو سب سے پہلی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زوجہ تھیں‘ چار سو درھم پر خرید لیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے زید کو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دے دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کو آزاد کر دیا۔ اتفاقا زید کا باپ اور چچا مکے میں آئے اور زید کو دیکھ کر پہچان لیا اور یہ بات چاہی کہ زید کا فدیہ دے کر ان کو اپنے ساتھ لے جاویں‘ مگر زید آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں رہنا پسند کیا۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عرب کی رسم کے موافق زید کا اپنا متنبیٰ یعنی منہ بولا بیٹا کر لیا۔ بعد اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے زید کا نکاح ام ایمن سے جن کی گود سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنا بچپن بسر کیا تھا کر دیا‘ اور ان سے اسامہ پیدا ہوئے‘ ام ایمن کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بڑے اصرار پر زید کا نکاح زینب بن جحش سے کر دیا۔ زینب ایک عالی خاندان عورت تھیں ان کو یہ پسند نہیںتھا کہ ایک شخص جو درحقیقت غلام ہے گو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کو آزاد کر کے متنبیٰ کر لیا ہے‘ اس سے نکاح کریں‘ لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نکاح کرنے پر اصرار کیا اور اس بات پر بھی ایک آیت نازل ہوئی کہ مسلمان مر د اور عورت کو یہ نہیں ہیکہ جب اللہ اور اس کے رسول نے کوئی بات مقرر کر دی ہو تو پھر اس امر میں ان کو اختیار ہے اور جس نے خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ایک بڑی گمراہی میں مبتلا ہوا۔ چنانچہ وہ آیت ہے: وما کان لمومن ولا مومنۃ اذ قضی اللہ ورسولہ امر ا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلا لا مبینا تو اس وقت زینت زید سے نکاح کرنے پر راضی ہو گئیں۔ پس یہ بات بخوبی ظاہر ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار سے زینب نے زید سے نکاح کرنا قبول کیا تھا۔ اگر خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو زینب کا نکاح کرنا منظور ہوتا تو اس قدر اصرار زید کے ساتھ نکاح کرنے میں کیوں فرماتے۔ بعد نکاح کے زینب اور زید میں موافقت نہیں ہوئی۔ زینب اپنے شوہر کو نہایت حقیر سمجھتی تھی اور اس سے بدزبانی کرتی تھی اور جو کچھ وہ کہتا تھا اس کو نہیںمانتی تھی اور ایسا ہونا کوئی عجیب بات نہ تھی‘ کیونکہ جو حالت زید کی تھی اور جو حالت زینب کی تھی وہ اس بات کی مقتضی تھی کہ زینب ضرور اپنے شوہر کو حقیر اور بے وقعت سمجھے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زید زینب کی باتوں سے تنگ ہو گیا اور طلاق دینے کا ارادہ کیا اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے زکر کیا تو آپ نے زید کو سمجھایا اور طلاق دینے سے منع کیا۔ چنانچہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: واذ تقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ امسک علیک زوجک واتق اللہ وتخفی فی نفسک مااللہ مبدیہ و تخشی الناس ۔ واللہ احق ان تخشاہ یعنی خدانے پیغمبر کو یاد دلایا کہ جب تو زید پر خدا نے احسان کیا اور جس پر تو نے احسان کیا‘ کہتا تھا کہ اپن جورو کو اپنے پاس رہنے دے اور خدا سے ڈرا اور چھپاتا تھا اپنے دل میں اس بات کو جس کو خدا ظاہر کرنے والا ہے اور ڈرتاتھا لوگوں سے ‘ خدا بہت لائق ہے کہ اس سے ڈرے۔ مخالفین اسلام کہتے ہیں کہ اس آیس میں امسک کا لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صرف دنیادار ی کے طور پر بیان کیاتھا‘ مگر ان کے دل میں یہ بات تھی کہ کسی طرح زید طلاق دے دیں تو آپ اس سے نکاح کر لیں‘ مگر ہم کو یہ بات معلوم نہیں ہوئی کہ کس طرح ان لوگوں کو یہ بات معلوم ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دل میں یہ تھا کہ زید اپنی بیوی کو طلاق دے مگر ظاہر داری سے کہا کہ امسک علیک زوجک پس یہ ایک جھوٹا اتہام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر لگایا گیا ہے۔ اس آیت میں جو یہ لفظ ہیں : وتخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ اس کو خدا نے کچھ تشریح نہیں کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کیا اپنے دل میں چھپا رکھا تھا ا س پر مفسرین اور اہل سیر میں سے کسی نے کسی امر کا چھپانا اور کسی نے کسی امر کا چھپانا بیان کیاہے اور وہ متعدد اقوال ایک دوسرے سے روایت کیے ۔ متعدد روایتیں کتب تفاسیر اور سیر میں مندرج ہوئیں جو محجض ایک شخص کی رائے ہونے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں۔ ان میں ایسی روایتیں بھی ہیں جس سے مخالفین اسلام نے سند پکڑی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نکتہ چینی کی ہے‘ مگر ایسی روایتوں سے جو محض بے اصل ہیں اور راویوں کی رائے ہوئے کے سوائے اورکچھ وقعت نہیں رکھتیں ‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نکتہ چینی نہیں ہو سکتی۔ ہاں بلاشبہ ان راویوں سے قطع نظر کر کے قرآن مجید کے الفاظ اور سیاق پر غور کرنا چاہیے اور جو امر کہ ازروئے عقل انسانی بلا لحاظ معتقدات مذہبی قرار پائے اس کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اگر اس وقت کوئی امر نکتہ چینی کے قابل ہو تو اس پر نکتہ چینی کی جاوے‘ مگر اس امر کو کہ فلاں مفسر نے یہ کہا ہے اور فلاں کتاب میں یہ لکھا ہے ‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر بنیاد نکتہ چینی قرار دینا تو محض لغو اور ناواجب ہے۔ اس اخفا کی نسبت بعض لوگوںنے کہا کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خبر کر دی تھی کہ زید زینب کو طلاق دے گا اور زینب تیری زوجیت میں آ جائے گی ‘ مگر جب زید نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ذکر کیا کہ میں زینب کو طلاق دینا چاہتا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کو طلاق دینے سے منع کیا ‘ حالانکہ ان کو خدا نے اطلاع کر دی تھی‘ کہ زید زینب کو طلاق دے ا ور وہ تیری زوجیت میں آئے گی۔پس اسی بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دل میں چھپایا اور اس کی نسبت وتخفی فی نفسک میں اشارہ ہے۔ اسی امر کو اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے اور اس پر بہت کچھ لکھا ہے‘ مگر ان مفسروں کا اس بات کو تسلیم کرنا کہ خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وحی سے مطلع کر دیاتھا کہ زید زینب کو طلاق دے گا اور زینب تمہاری زوجیت میں آئے گی او ر تخفی فی نفسک سے اسی کا اخفا مراد لینا محض بے اصل ہے اور قرآ ن مجید یا قرینہ مقام سے یہ امر نہیں نکلتا اورنہ کبھی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا کہ اس باب میں مجھ کو وحی ہوئی ہے۔ پس یہ ایک غلطی ا س شخص کی ہے جس نے او ل اپنی رائے سے تخفی کا یہ مطلب قرار دیا ہے اور کتب تفاسیر اور سیر میں بطور روایت کے مندرج ہوا ہے۔ بعض لوگوںنے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اتفاقاً زینب کو سر ننگی یا نہاتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور اس پر فریفتہ ہو گئے تھے اور تخففی فی نفسک سے اسی فریفتگی کی طرف اشار ہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ چند حقیقی امر اورواقعی حالات بیان کر یں ‘ تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مراد تخفی فی نفسک سے اوپر بیان ہوئی ہے وہ کسی طرح سے صحیح ہو سکتی ہے یا نہیں؟ زینب بیٹی تھی جحش کی اور اس کی ماں کا نام امیمہ تھا اور امیمہ بیٹی تھیں عبدالمطلب کی اور بہن تھیں عبداللہ ‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے والد کی۔ پس زینبؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بہن تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ابتدائی عمر سے زینبؓ سے بخوبی واقف تھے اور ہزاروں دفعہ دیکھ چکے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی زینب کا زید سے نکاح کرنے کا باعث ہوئے تھے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دفعۃ ان کو دیکھنا اور ان پر فریفتہ ہو جانا کیسی لغو اور مہمل بات ہے۔ کوئی ذی عقل تو اس کو قبول نہیں کر سکتا۔ اس سے ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا بیان کیسا لغو اور ناواجب ہے اورگو کہ کسی تفسیر اور کسی سیر کی کتاب میں لکھا ہو ہرگز قابل قبول نہیں ہے اوریہ روایت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم زینب کو ننگا دیکھ کر فریفتہ ہو گئے تھے محض جھوٹی ہے او ر غلط ہے اور کسی حدیث معتبر کتاب میں نہیں ہے۔ ان تمام واقعات سے یہ بات معلو م ہوتی ہے کہ زید نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے زینب کے طلا ق دینے کا ذکر کیا اور باوصف سمجھانے کے زید نہ مانا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ضرور اس بات کی فکر ہوئی کہ زید کے طلاق دینے کے بعد زینبؓ کا کیا حال ہو گا اوراس وجہ سے ضرور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ خیال ہوا کہ اگر زید طلاق دے دے تو بجز اس کے کچھ علاج نہیں کہ آپ خود ا س سے نکاح کر لیں‘ کیونکہ اول تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم زینبؓ کا زید سے جو غلام تھا‘ نکاح کرنے کا باعث ہوئے تھے وار زید کے طلا ق دینے کے بعد کوئی شخص زینبؓ کو اس وجہ سے کہ وہ ایک غلام کی جورو تھیں اس کی عزت اور وقار سے نہیں رکھ سکتا تھا جس عزت اور وقار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان کا رہنا چاہتے تھے ‘مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو لوگوں کا ڈر تھا کہ عرب میں متنبیٰ کی جورو سے نکاح کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ پس اسی طرف خدا نے اشارہ کیا ہے : تخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ یعنی جس بات کو تو دل میں چھپاتا تھا خدا اس کو ظاہر کرنے والا تھا اور پھر فرمایا : تخشی الناس واللہ احق ان تخشاہ یعنی لوگوں سے ڈرتا تھا حالانکہ خدا ہی سے ڈرنا چاہیے تھا۔ بعد اس کے زید نے زینبؓ کو طلا ق دی اور عدت کے دن گزر گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے زینبؓ سے نکاح کر لیا جس کا ذکر اس آیت میں ہے: فلما قضیٰ زید منھا وطراً زوجنا کھالکیلا لایکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیائھم اذا قضو امنھن وطرا وکان امر اللہ مفعولا یعنی جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کر لی‘ یعنی اس کو طلاق دے دی اور عدت بھی پوری ہو گی تو ہم نے اس کو تیری زوجیت میں دیا‘ تاکہ مسلمانوں کو اپنے لے پالک بیٹوں کی جوروئوں کے ساتھ نکاح کرنے میں کچھ تردد نہ ہو جبکہ وہ بیبیاں عدت کے دن پورے کر لیں اورخدا کا حکم تو شدنی ہے۔ عدت کے دن گزرنے کے بعد نکاح کرنا تو آیت مذکورہ کے الفاظ قضی زید منھا وطرا سے ثابت ہوتا ہے۔ اس آیت میں جو لفظ زوجنا کھا ہے اس پر لوگوں نے قیاس دوڑایا کہ نکاح کی نسبت جو خدا نے اپنے ساتھ کی ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ خود خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا زینب کے ساتھ نکاح کر دیا اور ب کہ خدا آسمانوں پر رہتا ہے تو وہ نکا ح خدا نے آسمانوں پر کیا ہو گا اور خد ا اور جبریل اس کے گواہ ہوں گے۔ ا س قیاس پر اور بہت سی غلط اور جھوٹی باتیں زیادہ ہوتی گئیں اور ان کو ایک دوسرے سے روایت کیا ہے اور بطور ایک روایت کے کتب تفاسیر میں و سیر میں مندرج ہوئیں اور مخالفین اسلام نے ان کو بنیاد نکتہ چینی قرار دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرنکتہ چینی شروع کی ‘ مگر جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ ایسی مہمل روایتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نکتہ چینی کی بنیاد نہیں ہو سکتیں۔ تمام روایتوں میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نکاح کا ولیمہ نہایت عمدہ طور سے دیا تھا اوریہ دلیل اس بات کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسب دستور بعد طلاق زید کے زینبؓ سے نکاح کیا تھا۔ پس لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیر نکاح کے زینبؓ سے مقاربت کر لی تھی وہ سراسر غلط فہمی ہے اور غالباً یہ خیال ان کے دل مٰں زوجنا کھا سے پیدا ہوا ہے جس سے آسمانوں پر نکاح ہو جانے کا خیال سمجھا گیا ہے‘ مگر یہ دونوں خیال محض غلط ہیں‘ اس لیے کہ خدا تعالیٰ نے ہزاروں جگہ قرآن مجید میں بندوں کے افعال کو بسبب علۃ العلل ہونے کے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اور اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ فعل بندوں نے نہیں کیے۔ کسی کو متنبیٰ کر لینے یعنی منہ بولا بیٹا بنا لینے سے درحقیقت وہ صلبی بیٹا نہیں ہو جاتا اورنہ متنبیٰ کر لینے والا حقیقی باپ ہو جاتا ہے۔ پس جو حکم کہ صلبی بیتے کی زوجہ سے متعلق ہے وہ ا س کی زوجہ کے متعلق نہیں ہو سکتا۔ یہ رسم جو خلاف واقعی حالت میں عرب جاہلیت میں جاری تھی اس کا معدوم کرنا نہایت مناسب اور ضرور تھا‘ جیسا کہ خدا نے فرمایا ہے : لکیلا یکون علی المومنین حرج فی ازواج اعیائھم اذا قضوا منھن وطرا اور اس امر کے صاف طور پر ظاہر ہو جانے کے لیے خدا نے فرمایا : ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین یعنی محمدتم میں سے کسی شخص کے باپ نہیں ہیں‘ مگر وہ خدا کے رسول اور انبیاء کے خاتم ہیں‘ یعنی ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہونے کا۔ عرب جاہلیت میں یہ بھی دستور تھا کہ متبنیٰ کو اس کا بیٹا کہہ کر پکارتے تھے جس نے اس کو متبنیٰ کیاہوا اور اس سے شبہ پڑتا تھا کہ وہ اس کا صلبی بیٹا ہے۔ اس بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع کر دیا کہ جو درحقیقت کسی کا صلبی بیٹا نہیں ہے اس کو اس کابیٹا کہہ کر مت پکارو بلکہ ا س کا بیٹا کہہ کر پکارو جس کا در حقیقت وہ صلبی بیٹا ہے اور جس آیت میں حکم ہے وہ یہ ہے : وما جعل ادعیائکم ابنائکم ذالکم قولکم بافواھکم واللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل ادعو ھم لابائھم ہو اقسط عند اللہ فان لم تعلموا آبائھم فاخوانکم فی الدین وموالیکم یعنی خدا نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے صلبی بیٹا نہیں بنایا‘ یہ تمہار ا کہنا ہی کہنا ہے اور خدا سچی بات کہتا ہے اور وہ سیدھا راستہ بتاتا ہے۔ ان کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو ۔ خدا کے نزدیک یہی بہت ٹھیک ہے ۔ پھر اگر تم ان کے باپوں کو نہیں جانتے تو وہ تمہارے دینی بھائی اورتمہارے موالی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ منہ بولا بیٹا کہنے سے وہ بمنزلہ صلبی بیٹے کے نہیں ہو جاتا اور اسی لیے اس کی زوجہ سے جب وہ اس کو طلاق دے دے نکا ح جائز ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج میں سے جو وہ بھی بمنزلہ منہ بولی ماں کے ہیں کیوں نکاح حرام ہوا؟ مگر اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ بہ سبب اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کو محرمات میں داخل کر دیا ہے اور جس کی وجہ اصلی ہم اوپر بیان کر چکے ہیں اوربہ سبب ان کے محرمات میں داخل ہونے کے ان پر امہات کا لفظ بولا گیا ہے نہ یہ کہ امہات کہنے سے حرا م ہونے سے کچھ تعلق نہیں ہے‘ اس لیے کہ وہ محرمات میں تھیں اس لیے محرمات کا لفظ بولا گیا ہے۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید علمی و تحقیقی مضامین جلد چہارم حصہ دوئم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مذہب انسان کا امر طبیعی ہے (تہذیب الاخلاق بابت ۱۲۹۶ھ ۔ صفحہ ۵۳ تا ۵۹) انسان ہو یا حیوان جب ان میں کوئی ایسی چیز دیکھی جاتی ہے جو سب میں ہو تو کہتے ہیں کہ وہ اس میں امر طبیعی ہے۔ سانپ کا لہراتا ہوا‘ بچھو کا ڈنک مارتا ہوا چلنا‘ تمام سانپوں اور تمام بچھوئوں میں دیکھا جاتاہے اوراس لیے کہتے ہیں کہ یہ ان کا امر طبیعی ہے ۔ تمام انسانوں کا سیدھا قد دیکھتے ہیں دو پائوں پر چلتاہے ہوا پاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس کا یہ امر طبیعی ہے۔ اسی طرح اگر یہ بات ثابت ہو کہ تمام انسان کچھ نہ کچھ مذہب بھی رکھتے تھے تو ضرو ر تسلیم کرنا پڑے گا کہ مذہب بھی انسان کا طبیعی ہے ۔ انسان کے حالات کی اس وقت تک جس قدر تحقیقات ہوئی ہیں اس سے پایا گیا ہے کہ جس جس جگہ اور جس جس زمانے میں انسان تھا وہ کچھ نہ کچھ مذہب بھی رکھتا تھا۔ وہ وحشی قومیں جو اب دنیا سے نیست و نابود ہو گئیں اور جن کی نشانیاں زمین میں دبی ہوئی نکلتی ہیں اور جیالوجی ان کے وجود کا ایک زمانہ بعید قرار دیتی ہے‘ وہ صاف شہادت دیتی ہیں کہ وہ بھی کچھ مذہب رکھتی تھیں۔ جن وحشیقوموں کو ہم نے پایا ہے اور جو اب بھی امریکا کے جنگلوںمیں اور افریقہ کے کناروں اور اوشینیا کے جزائر میں پائی جاتی ہیں وہ بھی کچھ نہ کچھ مذہب رکھتی ہیں جس کو انہوںنے اپنے باپ داد ا سے پایا ہے۔ جو قومیں قدیم زمانے میں شائستہ تھیں اور جن کے حالات کتبوں اور سکوں اور تاریخ کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں ان کے مذہب کا تو تاریخانہ ثبوت موجود ہے پس ان تمام دلیلوں سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام انسان کچھ نہ کچھ مذہب رکھتے تھے۔ انسان کی خلقت خدا نے ایسی بنائی ہے کہ وہ جن چیزوں کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے او رسمجھتاہے اس سے ایک نتیجہ (گو وہ حیرت ہی ہو) نکالتا ہے۔ اس پر ایک خیال صحیح غلط اپنے دل میں قائم کرتا ہے ۔ انسان نے اپنے چاروں طرف ان چیروں کو پایا جو اس سے بہت زیادہ مضبوط اور قوی اور اعلیٰ تھیں۔ آسمان اور زمین‘ چاند اور سورج‘ ستاروں پہاڑوں‘ دریائوں‘ ہوائوں کو ا س نے دیکھا اور سب کو نہایت قوی اور اپنی خلقت سے اعلیٰ پایا۔ اس نے نہایت عجیب عجیب اور خوفناک چیزیں جیسے بجلی ‘ مینہ‘ طوفان‘ بھونچال‘ آتشیں پہاڑ دیکھیں اور متعجب ہوا۔ ان تمام باتوں نے اس کے دل پر ایک بڑی قوت کے وجود کا اثر ڈالا اوراس نے اس کو تسلیم کیا۔ اسی اصول پر خدا تعالیٰ نے بھی فطرت انسانی کے مطابق انسان کو تلقین کیا ہے اور قرآن مجید میں جا بجا اپنے عجائبات قدرت کو بتلا کر دکھلا کر سمجھا کر اپنے وجود پر استدلال کیا ہے پس اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک اعلیٰ قوت کے موجود ہونے کا خیال جس کو کچھ ہی تعبیر کرو انسان میں ایک امر طبیعی ہے۔ یہ بھی ایک لازمی امر ہے کہ اس اعلیٰ قوت کے قرار دینے میں اختلاف واقع ہو کوئی تو انہی موجودات اور مخلوقات میں سے کسی کو وہ اعلیٰ قوت سمجھے اور کوئی کسی خیالی وجود کو جس کا نقشہ خود اس نے اپنے خیال میں بنایا ہو وہ اعلیٰ قوت قرار دے اور کوئی ایسی لامعلوم اور بیچون و بیچگون قوت کو جو ان سب کی علۃ العلل ہو وہ اعلیٰ قوت سمجھے ۔ کوئی ہر ایک عجیب چیز میں خواہ وہ حیوان ہو یا نباتات یا عناصر یا معادن یا ایسے شخس میں جو پاک اورمقدس قرار پایا ہو اس اعلیٰ قوت کا ظہور قرار دے۔ یہی سب خیالات ہیں سے معبود برحق یا باطل قرار پاتے ہیں۔ کوئی شخص چاند اور سورج اور ستاروں کو اور کوئی دریائوں اور سمندروں اور پہاڑوں کو ‘ کوئی کسی درخت کو اور کوئی کسی قسم کی نباتات کو‘ کوئی کسی جانور کومعبود ‘ یعنی وہ قوت اعلیٰ یا اس قوت اعلیٰ کا مظہر تصور کرتا ہے اور کوئی ان خیالی قوتوں کو جن کا نقشہ خود ان کے خیال نے بنایا ہے اور جن کو دیوتا اور دیوی قرار دیا ہے معبود سمجھتا ہے اورکوئی ان شخصوں کی جن کو مقدس اور پاک قرار دیا تھا ان کے مرنے کے بعد ان کی روحوں کو اور کوئی اس لامعلوم بیچون و بیچگون قوت کو جس کو تمام کائنات کی علۃ العلل سمجھتا ہے معبود قرار دیتا ہے۔ یہی خیال رفتہ رفتہ مذہب بن جاتاہے۔ کیونکہ انسان بالطبع جلب منفعت اور دفع مضرت پر ملیل ہے اورجب اس اعلیٰ قوت کے وجود کا یقین اس کے دل میں ہوا تو اس کو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی ایسی بات کی جاوے جس سے وہ اعلیٰ قوت راضی رہے اور ناراض نہہو‘ اس سے فائدہ پہنچے اور اس کی ناراضی کی مضرت سے محفوظی ہو۔ اسی خیال پر پرستش اور عبادت اس شے کی جس کو اس نے وہ اعلیٰ قوت قرا ر دی ہے یا اس شے کی جس میں اس نے اس اعلیٰ قوت کا ظہور سمجھا ہے قائم ہو جاتی ہے۔ یہ بھی انسان کا ایک طبیعی امر ہے کہ صرف خیالی چیز سے نہ اس کو محبت ہوتی ہے نہ اس کی طرف توجہ ہوتی ہے‘ نہ دل رجوع کرتا ہے‘ گو کہ کچھ دیر آنکھ بند کر کے اس خیالی شے کا تصور باندھے‘ مگر جب آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ کچھ نہ تھا۔ پوری توجہ جب ہی ہوتی ہے جبکہ اس خیالی شے کا کوئی نشان اصلی یا فرضی اس کے سامنے موجو د ہو اور وہ اس کو آنکھ سے دیکھ سکتا ہو‘ ہاتھ سے چھو سکتا ہو ۔ یہ امر در حقیقت بت پرستی کی جڑ ہے۔ اسی بنا پر انسانوںنے ان خیالی قوتوں کی مورتیں اس نقشے کے مطابق جو ان کے خیال نے کھینچا تھا‘ یا اس طریقے پر جس سے ان کا خیال ظاہر ہوتا ہو بنا لیں۔ کسی کو بڑے سر کا‘ کسی کو بڑے پیٹ کا‘ کسی کے سینکڑوں سر‘ کسی کے بہت سے بھجا‘ کسی کو نہایت ہیبت ناک‘ کسی کو قاتل خونخوار‘ کسی کو نہایت خوبصور ت دلہن‘ کسی کو نہایتکالی بدھیئت ڈائن بنا لیا۔ مرے ہوئے بزرگوں کے بت بھی اسی خیال سے بنائے جاتے ہیں مگر یہ خال انسان کے لیے ایک ایسا امر طبیعی ہے کہ وہ لوگ بھی جو اس لامعلوم اور بیچون و بیچگون قوت کے پوجنے والے تھے ‘ جنھوں نے اس کو علۃ العلل جمیع کائنات کا خیال کر کے پوجنا شروع کیا تھا اور جس کا نام یہووہ اور اللہ رکھا تھا وہ بھی کسی مادی شئی کے نشان قائم کرنے سے بچ نہ سکے‘ نہ حضرت ابراہیم اس سے بچے‘ جن کا نصب کیا ہوا پتھر اب تک مسلمانوں کے مذہب میں بھی یمین الرحمن کہلاتا ہے اور حضرت اسحاق و یعقوب بچے جو بن گھڑ ا پتھر کھڑ ا کر کے اس پر تیل ڈالتے تھے‘ نہ حضرت موسیٰ اورنہ حضرت دائود و سلیمان بچ سکے جنھوں نے بارہ پتھر بارہ قوموں کے کھڑے کر کے خدا کی عبادت کے لیے ان پر تیل ڈالا اور خیمہ عبادت و تابوت سکینہ اور بیت المقدس بنایا۔ آنحضرت صلعم نے بھی اگرچہ کھول کھول کر بتا دیا کہ یہ جو کچھ ہے اسی بے نشان کا نشان ہے مگر کوئی خاص سمت اور خاص گھر اس بے نشان کے لیے نہیں ہے۔ تاہم اس رسم کو موقوف نہیں کیا جس کے سبب ہم مسلمانوںمیں بیت الحرام قائم ہے اور ہم سب اسی کی طرف منہ پھیرتے ہیں اورسجدہ کرتے ہیں‘ مگر صرف اتنا فرق ہے اور یہی فرق خدا پرستی اور بت پرستی میں تمیز کرتا ہے کہ ان انبیاء علیہم السلام نے جو کچھ کیا وہ بن گھڑا پتھر کھڑا کیا‘ خواہ گھر بنایا‘ وہ صرف خدائے واحد ذوالجلال ہی کے نام پر بنایا جس کو وہ یہودہ اور اللہ کہتے تھے اور اوروں نے جو کچھ کیا وہ غیر اللہ کے لیے کیا ج کے وہ خود مقر ہیں اور خدا کی نشانی ان کو نہیں کہتے ‘ بلکہ دیوتائوں اور دیوتائوں کی اور اور شخص کی جن کو خدا نہیں کہتے نشانی بتاتے ہیں اور غیر خدا کی پرستش کرتے ہیں اور اسی لیے بت پرست کہلاتے ہیں او ر انبیاء کے پیرو خدا پرست‘ اور کالا پتھر اورسیاہ لباس کا گھر‘ ان کی خدا پرستی میں کچھ نقص نہیں لاتا۔ اگر زمانہ مہلت دیتا تو شاید یہ بھی نہ رہتا‘ کیونکہ جو اصول قرار دیے تھے وہ لاتعین کی طرف راجع تھے۔ یہ بھی انسان کا امر طبعی ہے کہ تمام دنیا کے انسانوں میں اصول پرستش و عبادت ایک سے ہوں ‘ گو کہ وہ عبادت مختلف طریقوں میں کی جاتی ہو۔ جب اس قوت اعلیٰ یعنی معبود سے امید منفعت اور خود حضرت انسان کے دل میں پیدا ہوا تو جلب منفعت اور دفع مضرت کے جو طبیعی امور ہیں وہی انسان سے ظہور میں آتے ہیں یعنی اس کے سامنے عاجزی کرنا اس کے سامنے گڑگڑانا اس کی بے انتہا خوشامد اور تعریف کرنا‘ اپنے تئیں اس کا غلام اور اس کا مال قرار دینا‘ اسی کا اختیار اپنے پر تسلیم کرنا اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جانا‘ اس کے قدموں پر گر پڑنا‘ اس کے سامنے زمین پر ناک رگڑنا سر رگڑنا ‘ اپنے تئیں تقصیر وار قرار دے کر تقصیر کا معا ف کروانا‘ اس کو روپے کی‘ عمدہ عمدہ کھانوں اور مٹھائیوں کی نذر دے کر خوش ہونا‘ یہاں تک کہ خود اپنی جان کو ا س پر قربان کرنا‘ اپنی جان کے بدلے جانور کی قربانی سے اس کو راضی رکھنا‘ یہ سب امور انسان کے امور طبیعی ہیں جو خوف و رجاء کی حالت میں اس سے ظہور میں آتے ہیں۔ پس ہر قوم میں اور ہروقت میں معبود کی عبادت کے یہی اصول رہے ہیں اور آج تک یہی قائم ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ جس طرح کسی قوم میں عاجزی و تابعداری ظاہر کرنے کا ہے کسی میں کوئی‘ کسی میں کوئی‘ اسی طرح معبود کی عبادت کا طریقہ بھی مختلف دکھائی دیتاہے مگر درحقیقت کچھ اختلاف نہیں ہے یہی طریقہ جبکہ خدا کے سوا غیر کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ کفر و شرک و بت پرستی قرار پاتا ہے اور جب خاص خدا کاساتھ کیا جاتاہے‘ گو کہ ایک بن گھڑا پتھر ہی کھڑا کر کے یا اینٹ مٹی کا گھر بنا کر کیا جاتا ہو وہ خدا پرستی کا طریقہ ہوتا ہے۔ انسانوں کے گروہوں میں ایسے شخص کا بھی جس کو پیغمبر یا ہادی یا رسول یا اوتار یا رفارمر یا مصلح کہتے ہیں پیدا ہونا انسانی طبیعت کا لازمہ ہے ۔ انسانوں کے گروہ پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ان میں مختلف عقل و مختلف نوع کے لوگ پاتے ہیں اور ایک دوسرے سے قوی و ضعیف و اعلیٰ و ادنیٰ ہونے میں درجہ بدرجہ تفاوت رکھتے ہین۔ کسی کی عقل و دماغ کو کسی خاص کام کے زیادہ تر مناسب پاتے ہیں اور کسی کی عقل و دماغ کو کسی دوسرے کام کے اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کسی کی طبیعت ان مسائل اور اصول کے قائم کرنے میںزیادہ مناسب ہوتی ہے جس کو ہم نے مذہب قرار دیا ہے ۔ پس وہ یہ نسبت اوروں کے اس بات کو زیادہ خوبی و عمدگی سے سمجھتا ہے کہ وہ کون سی بیچون و بیچگون قوت ہے جس کو معبود قرار دیا جاوے اور وہ کونسے عمدہ طریقے اس کی پرستش یا عبادت کے ہیں جو اختیار کیے جاویں۔ پس وہ اس کام پر کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنی نصیحتوں اور وعظوں سے لوگوں کو ہدایت کرتاہے اور وہی اس قوم کے حق میں پیغمبر یا رسول یا مصلح یا ہادی یا رفارمر ہوتاہے اس کا ثبوت دوسری دلیل میں اس طرح پر ہوتا ہے کہ جس طرح ہم نے جہاں اور جس زمانے میں انسان کو پایا ہے اور اسی کے ساتھ مذہب کو بھی پایا ہے اور اسی طرح مذہب کے ساتھ اس کے کسی نہ کسی پیشوا کا ہونا بھی پایا ہے اور جبکہ ہم کو ہر گروہ انسانوں میں اس پیشو ا کا وجاود ملا ہے تو ہم درستی سے کہہ سکتے ہیں کہ انسانی گروہوں میں ایسے شخص کا ہونا بھی انسانی طبیعت کا لازمہ ہے۔ بانی اسلام نے بھی جو درحقیقت سب سے بڑا انسان کے نیچر کا واعظ ہے‘ یہی ہم کو بتایا ہے کہ تما م انسانوں کے گروہوں میںپیشوا ہوئے ہیں ‘ جہاں کہ اس نے فرمایا ہے کہ: وان من امۃ الاخلافیھا نذیر اور دوسری جگہ فرمایا کہ : لکل قوم ہاد اور پھر ایک جگہ فرمایا کہ ’’جتنے لوگ دوزخ میں ڈالے جاویںگے ان سے اس کے موکل پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی شخص بری باتوں سے ڈرانے والا یعنی پیغمبر نہیں آیا تھا سب کہیں گے کہ ہاں آیا تھا ان پیغمبروں کو بھی برحق کتاب دی گئی تھی۔ خدا نے فرمایا ہے : کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللہ النبیین مبشرین و منذرین و انزل معھم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ یعنی سب آدمی ایک گروہ تھے‘ پھر بھیجا اللہ نے نبیوں کو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اور ان کے ساتھ برحق کتا ب اتاری تاکہ لوگوںمیں اس بات میں ج میں وہ مختلف ہو گئے ہیں حکم دیں۔ پس یہ خیال کرنا کہ صرف دنیا کے ایک ذرا سے ٹکڑے میں جو دنیا کے ساتھ ایسی نسبت رکھتا ہے جیسے کہ عدد کے ساتھ صفر‘ پیغمبر آئے تھے اور صرف فلسطین اور جزیرہ عرب ہی کو انہوںنے خدائی روشنی سے منور کیا تھا اورتمام براعظم افریقہ اور امریکہ و یورپ اور اوشینیا اور ایک بہت بڑا حصہ ایشیا کا‘ سب گمراہی کے اندھیرے میں پڑے ہوئے تھے اور خدا نے صرف ایک مٹھی بھر آدمیوں بنی اسرائیل کو اور چند عرب کی قوموں کو جن میں نبی آئے بہشت میں جانے کے لیے بنایا تھا اور باقی تمام دنیا کو دوزخ میںجانے کے لیے ‘ ایسا بیہودہ خیال ہے جس کو نیچر اور بانی اسلام خدا اور قرآن سب غلط اور جھوٹا بتاتے ہیں۔ ان ہادیوں اور پیشوائوں کے حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کا دین واحد تھا اوراس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سچے دین کا وعظ کرنا گویا ان کا امر طبیعی تھا ۔ سچے دین سے میں نے اس لامعلوم بیچون بیچگون قوت پر یقین کرنے سے مراد لی ہے جو تمام کائنات کی علۃ العلل اور وحدہ لا شریک لہ ہے ۔ اس امر کے ثبوت کے لیے ہم کو تمام دنیا کے ان مذاہب پر جب کا حال ہم کو معلوم ہے اور جو اب موجود ہیں یا موجود تھے غور کرنا چاہیے۔ سب مذہبوں میں گو بعد میں ان میں کیسی ہی بت پرستی اور عجائب پرستی داخل ہو گئی ہو اور گو کروڑوں دیوتا اور دیویاں انہوں نے ٹھہرا لی ہوں اس جونی سروپ نر نکار وحدہ لا شریک لہ پر یقین ہونا پایا جاتا ہے یونانی جو بیشمار دیوتا اور دیویاں مانتے تھے اور اب ہمارے زمانے میں ہندو ہر ایک عجیب چیز کو پوجتے ہیں اورہزاروں دیوتا اور دیویاں مانتے ہیں ۔ ان کے مذہب کی بھی جڑ میں اس علۃ العلل ازلی و ابدی وحدہ لا شریک لہ کا وجود پایا جاتا ہے۔ مصریوں سے زیادہ کودنیا میں کوئی قوم بت پرست و عجائب پرست نہ ہو گی۔ دیوتائوں کی مورتیوں کو ‘ دیویوں کی مورتیوں کو‘ مرے ہوئے آدمیوںکے بتوں کو تمام جانوروں کو پوجتے تھے‘ مگر ان کے مذہب کی جڑ بھی وہی وحدہ لا شریک لہ کے یقین پر مبنی تھی۔ جس وقت کہ ہم یہ پاتے ہیں کہ مصریوں کے سب سے بڑے مندر پر یہ فقرہ کندہ تھا اور کیا عجب ہے کہ ان کی کسی مقدس کتاب میں سے ہو کہ: ’’میں وہ شئی ہوں جو ہمیشہ سے تھا اور اب بھی ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔ کسی فنا ہونے والی شئے نے اس پردے کو نہیںجانا جس میں میں چھپا ہوا ہوں‘‘۔ جو اس وقت بھی اس قابل ہے کہ مسلمانوں کی مسجدوں کے دروازے پر کندہ کیا جاوے تو اس بات کا کیا عمدہ ثبوت ہم کو ملتا ہے کہ تمام مذہبوں میں اس وحدہ لا شریک لہ کا اعتقاد اعلانیہ موجود تھا‘ گو زمانے کے گزرنے سے اور خارجی باتیں اور غلط خیالات کے مذہب میں ملنے سے وہ کیسا ہی پوشیدہ اورنامعلوم قریب معدوم کے ہو گیا ہو۔ عیسائی جو اس زمانے میں تثلیث کے قائل ہیں‘ اگر انہی چاروں انجیلوں پر جو موجود ہیں اروجو ان کے مذہب کی بنیاد ہیں غور کریں تو ان کے ہر ہر صفحے پر توحید ذات باری کا نقش ملتا ہے۔ انہی انجیلوں میںایک سو کئی آیتیں ہیں جو توحید ذات باری ثابت کرتی ہیں اور ایک حرف بھی ان انجیلوں کا تثلیث کی طرف اشارہ نہیں کرتا ۔ ان سب باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ توحید زات باری پر یقین کرنا تمام ہادیان دی کا امر طبیعی تھا۔ انسان کے نیچر کے سب سے بڑ ے واعظ بانی اسلام نے بھی ہم کو یہی ہدایت کی ہے کہ تمام ہادیان دین کا دین ایک ہی تھا‘ صرف شریعت جو انسان کے حالات کی تبدیل سے تبدیل ہوتی تھی جدا جدا تھی۔ سورۃ شوری میں فرمایا ہے : شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک و ماوصینا بہ ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوافیہ سورۃ مائدہ میں فرمایا : لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھا جا پس قرآن بھی اسی کی گواہی دیتا ہے جس کی گواہی نیچر نے دی ہے ۔ قرآن مجید نے تمام بت پرستوں کو بھی مشرک فی ذات اللہ نہیں ٹھہرایا جہاں فرمایا ہے کہ: والذین اتخذوا من دونہ اولیاء مانعبدھم الا لیقر بونا الی اللہ زلفا بلکہ صرف بسبب شرک فی صفات اللہ فی عبادت اللہ کے ان کو مشرک کہا ہے۔ان میں اگر نقص تھا تو یہی تھا کہ توحید کامل نہ تھی۔ خاتم النبیین نے اس توحید کی تکمیل کر دی اور بتا دیا کہ ذات و صفات و عبادت تینوں کی توحید سے توحید کامل ہوتی ہے۔ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مندرجہ ذیل امور انسان کے امور طبیعی ہیں: اول: انسانوں کو کسی معبود‘ یعنی اعلیٰ قوت کے وجود کا خیا ل پیدا ہونا۔ دوم : معبود قرار دینے میں اختلاف کا ہونا‘ یعنی مختلف چیزوں کو معبود‘ یعنی وہ قوت اعلیٰ سمجھنا یا اس وقت اعلیٰ کا اس میں ظہور تصور کرنا۔ سوم: اس معبود کی پرستش یعنی رضامند رکھنے اور ناراضی کے خوف سے بچنے کا خیال پیدا ہونا۔ چہارم: محسوس شئی کے ذریعے سے اس خیالی قوت اعلیٰ کا پرستش کرنا جس کو معبود قرار دیا ہے۔ پنجم : تمام انسانوں میں پرستش کے اصول کا متحد ہونا ‘ گو کہ ا س کے طریقے مختلف ہوں۔ ششم : انسانی گروہ میں ایسے شخص کا پیدا ہونا جو پیغمبر یا رسول یا رفارمر یا مصلح کہلاتا ہے۔ ہفتم: تمام دنیا کے ہادیوں‘ یعنی پیغمبروں کا ایک ہی مذہب‘ یعنی توحید ذات باری کا ہونا۔ پس جو لوگ کہ پیغمبروں کی راہ پر ہیں وہ ضرور نجات پاویں گے‘ خواہ وہ پیغمبر چین کا ہو یا ماچین کا‘ عرب کا ہو یا فلسطین کا ‘ امریکہ کا ہو یا افریقہ کا‘ ہندوستان کا ہو یا فارستان کا‘ مہذب لوگوں کا ہو یا وحشیوں کا۔ قرآن مجید میں خدا نے فرمایا ہے: ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذالک لمن یشاء لمن یشاء کا فرمانا صرف سیاق قرآنی ہے جس سے خداکی عظمت اور قدرت کا ہر بات میں اظہار مقصود ہے‘ ورنہ اگر اس سے مضمون مخالف مراد لیا جاوے تو وعدہ مغفرت مشتبہ ہو جاتا ہے۔ ٭٭٭ التناسخ (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۷ (دور سوم) یکم ربیع الثانی ۱۳۱۲ھ صفحہ ۱۲۳) روح کے ایک جسم سے تعلق چھوڑ کر دوسرے جسم سے تعلق کر لینے کو تناسخ کہتے ہیں ۔ جو لوگ تناسخ کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ جس طرح جونک اپنی دم کو ایک جگہ جما لیتی ہے پھر جب تک اپنے منہ کو دوسری جگہ نہ جما لے دم کو نہیں ہٹاتی اور جگہ نہیں چھوڑتی اسی طرح روح جس جسم سے اس کو تعلق ہو گیا ہے جب تک وہ دوسرے جسم سے تعلق نہیں کر لیتی پہلے جسم سے تعلق نہیں چھوڑتی اور جس جسم سے اس نے تعلق چھوڑا ہے وہی اس جسم کی موت ہے۔ اس سے لازم آتا ہے ک وہ ایسے جسم سے تعلق کرتی ہے کہ اس سے پہلے کسی اور روح نے اس جسم سے تعلق نہ کر لیا ہو ورنہ ایک جسم میں دو اور تین سے بھی زائد روحوں کا تعلق ہونا لازم آوے گا اور یہ منافی اس جگہ کے ہے جس کی بنا پر تناسخ کے ماننے والوں نے تناسخ کو مانا ہے ۔ جو لوگ تناسخ کے قائل ہیں وہ ہر جاندار جسم میں روح مانتے ہیں اور اس لے ان کے دو فرقے ہو گئے ہیں۔ ایک فرقہ وہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ جب روح ایک جسم سے مفارقت کرتی ہے تو دوسرے جسم میں چلی جاتی ہے گو کہ وہ جسم اس جسم کی نوع نہ ہو جس سے اس نے مفارقت کی ہے‘ یعنی یہ بات ممکن ہے کہ گدھے کی روح جب وہ مرنے لگے انسان کی جون میں چلی آوے اور انسان کی روح جب وہ مرنے لگے گدھے کی جون میں چلی جاوے۔ احمد بن حابط اور احمد بن بایوس جو اس کا شاگرد تھا اور ابو مسلم خراسانی اور محمد ابن ذکریا رازی طبیب قرامطہ کا یہی مذہب تھا اور ظاہراً یہی مذہب ہندوئوں کا بھی ہے ‘ مگر رازی نے اپنی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ جب جانور مار ڈالتے ہیں تو ان کی روح انسان کی جون میں چلی جاتی ہے۔ دوسرا فرقہ یہ کہتاہے کہ ایک قسم کے جانوروں کی روح دوسری قسم کے جانوروں میں نہیںجاتی ‘ بلکہ ہر قسم کے جانوروں میں جاتی ہے‘ یعنی انسان کی انسان میں گدھے کی گدھے میں شیر کی شیر میں وعلی ہذا القیاس۔ پس اگر تناسخ کو مانا جاوے تو ایک جسم کی روح کا دوسرے جسم سے اس وقت تعلق ہو گا جبکہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں یا انڈے کے اندر یا سڑے ہوئے مادے میں ہو جس سے حشرات الارض پیدا ہوتے ہیں اور کسی اورروح نے اس سے تعلق نہ کر لیا ہو۔ یہودی اور عیسائی اور جمہور مسلمان تناسخ کے منکر ہیں اور مسلمان تو ان لوگوں کو جو تناسخ کے قائل ہیں کافر قرار دیتے ہیں بہرحال جو لوگ تناسخ کے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان پر بار ثبوت ہے تاکہ وہ اپنے اس دعوے کو ثابت کریں۔ اس دعوے کے اثبات کے لیے دو قسم کی دلیلیں ہو سکتی ہیں‘ عقلی و نقلی۔ نقلی دلیلیں تو محض بے کار ہیں۔ اس لیے کہ وہ دوسرے مذاہب والوں پر حجت نہیں ہو سکتیں بلکہ خود اسی مذہب کے پیرو بھی ان نقلی دلیلوں پر بحث کر سکتے ہیں کہ آیا ان سے وہ دعوی ٰثابت ہوتا ہے یا نہیں جیسے کہ خود مسلمانوں نے احمد بن حابط اور احمد بن بایوس اورابو مسلم خراسانی اور محمد بن ذکریا اور قرامطہ کی ان دلیلوں کو رد کیا ہ جن کو انہوں نے بطور نقلی دلیل کے بیان کیا ہے ۔ باقی رہی عقلی دلیل‘ اگر دلیل عقلی یقنی سے تناسخ ثابت ہو تو بلاشبہ اس کو ماننا پڑے گا۔ دلیل عقلی دوچیزوں پر مبنی ہے ایک محسوسات محققہ پر ‘ مثلاً زید ہمارے سامنے کھڑا ہے تو ہم کو یقین ہے کہ زیدموجو د ہے۔ دوسری عقلیات پر جو اولیات پر مبنی ہوں۔ اولیات سے ایسے امور مراد ہیں جن میں غور و فکر کی حاجت نہ ہو‘ جیسے ہمارا یہ کہنا کہ دس زیادہ ہیں تین سے یا یہ کہ ہونا اورنہ ہونا یاحادث و قدیم یا موجود و معدوم یو واجب و ممتنع ایک جگہ اور ایک چیز میں جمع نہیںہو سکتے۔ پس تناسخ کے اثبات کے لیے کوئی حسی دلیل تو موجود نہیں ہے‘ بلکہ انسان کے یا حیوان کے کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو کوئی حسی دلیل اس بات پر نہیں ہوتی کہ اس میں کسی دوسرے کی روح آ گئی ہے اورہ وہ پیدا ہونے پر یا چھٹپنے میں یا بڑا ہو کر یا مرتے وقت یہ نہیں کہتا اورنہ بتاتا ہے اور نہ یقین دلا سکتا ہے کہ اس میں دوسرے جسم کی روح آئی تھی اور نہ دیکھنے والے کسی حالت میں جان سکتے ہیں کہ اس میں دوسرے جسم کی روح تشریف فرما ہوئی ہے ۔ عقلیات اولیات میں سے بھی کوئی دلیل اس بات پر کہ اس آدمی کے یا گدھے کے بچے میں دوسرے جسم کی روح آئی ہے موجود نہیں ہے۔ پس دلائل عقلی سے تناسخ کا ثابت ہونا غیر ممکن ہے۔ جو لوگ تناسخ کے قائل ہیں ان کی اول دلیل یہ ہے کہ روح بے تعلق مادے کے نہیں رہتی ۔ اول تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ روح بے تعلق مادے کے نہیں رہتی۔ دوسرے یہ کہ کبھی روح مادے سے علیحدہ بھی تھی یا نہیں۔ اگر تھی تو یہ قول کہ روح بے تعلق مادے کے کبھی نہیں تھی تو مادے میں تھی۔ اس صورت میں وہ خواص مادہ سے ایک خاصہ ہوتی ہے اور سرے سے روح کا وجودہی باطل ہو جاتا ہے۔ اوریہ قول کہ ایک جسم سے دوسرے جسم میںآ جاتی ہے معہذا کسیجاندار کے مر جانے سے اس کا مادہ کسی حالت میں معدوم نہیں ہوتا ۔ پس روح کو اس مادے کے چھوڑ دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ دوسری دلیل ان کی یہ ہے کہ روح غیر متناہی ہے اور عالم بھی غیر متناہی ہے اور اس لیے ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اس سے زیادہ کوئی پوچ دلیل نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ عالم اور روح کے غیر متناہی ہونے سے روح کا ایک جسم سے دوسرے جسم میںجانا لازم نہیں آتا اور بالفرض اگر روح بھی غیر متناہی ہے تو روح کو ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر یہ کہا جاتا کہ روح متناہی ہے اور عالم غیر متناہی تو روح کے ایک جسم سے دوسرے جسم میں جانے کے لیے کوئی وجہ ہو سکتی ہے‘ مگر ان لوگوں کو یہ ثابت کرنا کہ روح متناہی تھی ان کے اصول کے موافق ناممکن ہے ۔ تیسری دلیل ان کی ثواب اور عذاب پر اور انسانوں کے مختلف طبائع پیدا ہونے پر مبنی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ انسانوں کی طبائع مختلف ہیں۔ کوئی سلیم الطبع ہے اور کوئی اس کے برخلاف‘ کوئی امراض میں مبتلا ہے اور کوئی صحیح و تندرست و خوش حال‘ کوئی مفلس ہے اورنہایت مصیبت میں بسر کرتا ہے اورکوئی ممتول ہے اور عیش و آرام سے زندگی کاٹتاہے اور انسانوں کو بلا کسی وجہ کے ایسی مختلف حالت میں پیدا کرنا خدا تعالیٰ کے عدل کے برخلاف ہے۔کیونکہ اگر اس نے بلا کسی وجہ کے ایسی مختلف حالت میں پیدا کیاہوتو خدا عادل نہیں رہتا‘ اس لیے وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا نے اولاً انسانوں کو ایک حال میں پیدا کیا تھا اور ان کو افعال کا اختیار دیا تھا‘ مگر جب اس نے اچھے یا برے کام کیے تو اس کے افعال کی جزا یا سزا میں اس کی روح کوادوسری جون میں تبدیل کر دیا‘ تاکہ وہ اپنے افعال کی جزا یا سزا پاوے اور دوسری جون میں جیسے وہ افعال کرتا ہے نیک یا بد ان کی جزا یا سزا میں تیسری جون میںبدل دیتاہے اچھی میں یا بری میں‘ تاکہ ان افعال کی جزا یا سزا پاوے‘ ہھکذا ثم ہکذا۔ اس بیان سے ان لوگوں کا مذہب جو یہ کہتے ہیں کہ انسان کی روح حیوان میں اور حیوان کی روح انسان کی جون میں آتی ہے بالکل باطل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ نے تمام حیوانوںکو اسی خصلت پر پیدا کیا ہے جو ان کو دی ہے۔ نہ کوئی افعال نیک کر سکتے ہیں جو ان کے نیچر میں نہیں ہے اور اس لیے وہ کسی جزا یا سزا کے پانے کے قابل نہیں ہیں۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ کسی حیوان کی روح بعوض ثواب اعمال کے کسی انسان کی جون میں آسکے اور اگر کسی انسان کی روح کسی حیوان میں چلی گئی تو ممکن نہیں کہ اس سے وہی افعال صادر نہ ہوں جو اس حیوان کے لیے مخصوص ہیں اور اس لیے وہ کبھی حیوانی جون سے چھٹکارا نہیں پا سکتی اورپھر انسان کی جون میں نہیں آ سکتی نقل مشہور ہے کہ ایک راجا کے دارالسلطنت کے قریب ایک بہت بڑا تالاب تھا۔ جب وہ راجا مراتو برہمنوں نے اس کے بیٹے سے کہا کہ مہاراج نے مچھلی کی جون میں جنم لیا ہے اور اسی تالاب میں وہ مچھلی رہتی ہے‘ پھر جب تک کہ وہ دوسری جون میں نہ جاویں اس تالاب کی مچھلی کوئی نہ ماریل۔ راجا نے حکم دے دیا کہ تالاب کی مچھلی کوئی نہ مارے۔ ایک شخص نے پنڈت جی سے پوچھا کہ اچھے اور برے کاموں کے لحاظ سے جون بدلی جاتی ہے۔ مچھلیاں تو سب ایک ہی سا کام کرتی ہیں‘ نہ بھلا کریں نہ برا کریں‘ پھر مہاراج مچھلی کی جون سے دوسری جون میں کیونکر جاویں گے۔ مگر پنڈت جی کی شاستر نے اس کا کچھ جواب نہ دیا۔ اب باقی رہی یہ بات کہ انسان کی روح دوسرے انسان کی جون میں جاتی ہے اور بلحاظ اعمال کے مختلف حالتیں انسان کی پیدا ہوتی ہیں تو اول ہم یہ پوچھیں گے کہ جو حالتیں انسان کی بلحاظ طبع سلیم اور غیر سلیم ہونے کی ہوتی ہیں اورجس طرح انسان کو مختلف امراض لاحق ہوتے ہیں اورجس طرح کہ کوئی رنج و مصیبت میں کوئی عیش و آرام میںرہتا ہے وہی تمام حالتیں حیوانات پر بھی گزرتی ہیں اور جو نیچر حیوانات کے ازروئے خلقت کے یں وہ ہمیشہ یکساں رہتے ہیں۔ شیر ہمیشہ انسان کو پھاڑتا ہے ۔ بلی ہمیشہ چوہے کو کھاتی ہے ۔ حیوانات کے ان افعال میں جو ازروئے خلقت کے ان میں ہیں کچھ تغیر و تبدل نہیںہوتی۔ نہ وہ کچھ ثواب کما سکتے ہیں نہ عذاب‘ پھر حیوانات کے حالات میں کیوں تغیر واقع ہوتا ہے؟ علاوہ اس کے انسان ہو یا حیوان اس سے جو افعال صادر ہوتے ہیں وہ بمقتضائے اس ترکیب جسمانی کے صادر ہوتے ہیں جس کو صورت نوعی کہتے ہیں۔اور کسی طرح تبدیل نہیں ہوسکتی۔ قرآن مجید بھی اسی کی گواہی دیتا ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے : لا تبدیل لخلق اللہ پس بالفرض اگر کسی انسان کی روح کسی دوسرے انسان میں آ بھی گئی ہو تو اس سے کچھ فائدہ نہیں ‘ کیونہ اس سے وہی افعال صادر ہوں گے جو مقتضاء اس کی ترکیب اعضاء کے ہیں اور جو افعال کہ انسان سے بمقتضاء اس کے نیچر یعنی ترکیب اعضا کے صادر ہوتے ہیں اور جن کے تبدیل پر ان کو قدرت نہیں رکھی گئی اس پر گناہ اور ثواب مرتب نہیں ہوتا‘ جیسا کہ خدا نے فرمایا ہے: ولا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا مثلاً عنین محض سے نہ ارتکاب زنا واقع ہوتاہے اور نہ زنا کرنے سے اس کو کچھ ثواب ملتا ہے۔ پس یہ ایک محض غلط خیا ل ہے کہ انسان کا تغیر حال اس کی پہلی جون کے اعمال کے سبب ہوتاہے۔ خدا کا عدل اس کی تمام مخلوقات پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے۔ اس نے اپنی تمام مخلوقات میں بلحاظ ان حاجتوں اور ضرورتوں کے جو ان میں پیدا کی ہیں سامان مہیا کر دیے ہیں۔ اگر کوئی شخص ایک ادنیٰ سے ادنیٰ پیشے کو غور کرے یا ایک بڑے سے بڑے جسم مخلوق پر غور کرے یا انسان پر جس کو اشرف المخلوقات کہتے ہیں غور کرے تو کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں چیز کی اس میں ضرورت تھی اور اس میں پیدا نہیں کیگئی۔ تغیر حالات انسان کے ہوں یا حیوان کے وہ اس نیچر کے تابع ہیں جس پر خدا نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے۔ان تغیرات کے سبب خدا کو عادل یا غیر عادت تصور کرنا محض نادانی اور نیچر کے انتظام سے محض تجاہل ہے۔ اب ہم مذہبی طور سے اس مسئلے پر بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں تناسخ سے صاف انکار کیا گیا ہے۔ سورہ مومنون میں خدا نے انسان کے مرنے کے وقت کی حالت کو اس طرح فرمایا ہے : حتیٰ اذا جاء احدھم الموت قال رب ارجعون لعلی اعمل صالحاً فیما ترکت کلا انھا کلمۃ ہوقائلھا ومن ورائھم برزخ الیٰ یوم یبعثون۔ (آیت ۱۱۱) ’’جبکہ ان میں سے کسی کی موت آوے تو کہے اے میرے پروردگار ! مجھ کو لوٹا دے (دنیا میں) تو کہ میں دنیا میں جس کو میں نے چھوڑا ہے نیک کام کروں۔ (اس کا جواب ملے گا) ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے۔ وہی اس کا کہنے والا ہے اور ان کے سامنے برزخ ہے اس دن تک نہ اٹھائے جاویں گے‘‘۔ شاہ عبدالقادر صاحب نے اپنے ترجمہ قرآن کے فائد ے میں لکھا ہے کہ ’’معلوم ہوا جو لوگ کہتے ہیں آدمی مر کر پھر آتا ہے سب غلط ہے‘ قیامت کواٹھیں گے ‘ اس سے پہلے ہرگز نہیں‘‘۔ جب آدمی مرنے لگتاہے اور اس کو یقین ہوتاہے کہ موت آ گئی اب نہیں بچنے کا اور اپنے اعمال بد اس کو یاد آتے ہیں اور وہ کہتا ہے کہ اگر بچ جائوں اور دنیا میں پھر جائوں تو اعمال نیک کروں گا‘ مگر خدا کہتا ہے کہ اب ہرگز دنیا میں جانا نہیں ہونے کا‘ بلکہ تیرے آگے برزخ ہے۔ تفسیر ابن عباس میں برزخ کی تفسیر قبر سے کی ہے‘ یعنی اب قبر میں جانا ہے‘ مگر برزخ دراصل روح کی وہ حالت ہے جو بعد مفارقت کے جسم سے حشر و نشر تک رہتی ہے۔ اس کے آگے خدا نے فرمایا ہے کہ: فاذا نفخ فی الصور فلا انساب بینھم یومئذ ولا یستائلون فمن ثقلت موازینہ فاولئک ھم المفلحون ومن خفت موازینہ فاولئک الذین خسروا فی جھنم خالدون ۔ (آیت ۱۱۲ لغایت ۱۱۴) ’’پھر جب صور پھونکا جاوے گا تو اس دن اس میں باہم کچھ قرابت نہ ہو گی اور نہ ایک دوسرے کو پوچھے گا ۔ پھر جس کا پلہ بھاری ہو ا تو وہی ہیں فلاح پانے والے اورجس کا پلہ ہلکا ہوا پھر وہی لوگ وہ ہیں جنھوں نے اپنا آپ نقصان کیا ہمیشہ جہنم میں رہیں گے‘‘۔ پس یہ آیت صاف تناسخ کو باطل کرتی ہے۔ علاوہ اس کے نہایت کثرت سے قرآن مجید میں متعلق حشر کے آیتیں ہیں جیسے کہ : ویوم یحشرھم (انعام ۱۲۸) ان ربک ہو یحشرھم انہ علیم حکیم (الحجر ۱۵) ولئن متم او قتلتم لا الی اللہ تحشرون (آل عمران ۱۵۲) ہو الذی الیہ تحشرون (انعام ۷۱) ونحشرھم یوم القیامۃ (الا سریٰ ۹۹) اور یہ سب آیتیں اس بات پر دال ہیں کہ بعد مرگ قیامت میں حشر ہو گا۔ علاوہ ان آیتوں کے بہت سی آیتیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جز ا و سزا کا فیسلہ قیامت کے دن ہو گا جیسے کہ خدا نے فرمایا ہے: ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ فلا تظلم نفس شیئا وان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا و کفیٰ بنا حاسبین۔ (سورۃ انبیاء آیت ۴۸) ’’اور ہم رکھیں گے ترازو عدل کی قیامت کے دن ‘ پھر کسی شخص پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جاوے گا او ر اگر اس کے عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہوں گے تو لائے جاویں گے اور ہم پورا حساب کرنے والے ہیں‘‘۔ پس تناسخ پر یقین کرنا اوریہ سمجھنا کہ بسبب اعمال نیک یا بد کے انسان کی روح نکل کر دوسرے جسم اچھے یا برے میں چلی جاتی ہے اور اسی دنیا کو اس کے اعمال نیک اور اعمال بد کی سزا دی جاتی ہے برخلاف ان تمام آیتوں کے ‘ بلکہ برخلاف تمام قرآن مجید کے ہے اور اسی لیے علماء ان تمام لوگوں کو جو تناسخ پر اعتقاد رکھتے ہیں کافر بتاتے ہیں۔ اگلے زمانے کے چند مسلمانوں نے جن کے نام ہم نے اوپر بیان کیے ہیں قرآن مجید کے دو مقاموں سے تناسخ کے ہونے پر نہایت نادانی سے استدلال کیا تھا اور وہ دو مقام یہ ہیں: پہلا مقام وہ ہے جہاں سورہ انفطار میں خدانے فرمایا ہے : یا ایھا الانسان ما غرک بربک الکریم لذی خلقک فسوا ک فعدلک فی ای صورۃ ماشاء رکبک (آیت ۶۔۷۔۸) ’’ا ے انسان ! کس چیز نے تجھ کو غرور میں ڈالا اپنے پروردگار بزرگوار سے جس نے پیدا کیا تجھ کو پھر سڈول کیا تجھ کو اور معتدل کیا تجھ کو ‘ جس صورت میں چاہا ترکیب دیا تجھ کو‘‘۔ جو شخص جس کو ذرا بھی عقل ہے ’’فی ای صورۃ‘‘ سے تناسخ کا ثابت ہونا خیال بھی نہیں کر سکتا۔ ان لفظوں میں کوئی بھی اشارہ تناسخ کی طرف نہیں ہے اور خصوصاً جبکہ اور تمام آیتیں تناسخ کے برخلاف ہوں تو ان مجمل لفظوں سے تناسخ سمجھنا کس قدر بعید از عقل ہے۔ ہم خود انسانوں کو دیکھتے ہیں کہ ایک کی صورت دوسرے کی صورت سے نہیں ملتی نہ خوبصورتوں کی خوبصورتوںسے ملتی ہے‘ نہ بدصورتوں کی بد صورتوں سے ملتی ہے۔ ہر ایک کا خال خط ‘ آنکھ ‘ ناک ‘ چہرہ ‘ ہاتھ ‘ پائوں ‘ باوجود ایک نوع ہونے کے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اوراسی سبب سے ایک دوسرے سے پہچانا جاتا ہے۔ زبان کے مختلف ہونے اور رنگ کے مختلف ہونے کو خدا نے اپنی نشانیوں میں سے ایک بیان کیا ہے جہاں فرمایا ہے : ومن آیاتہ خلق السموات والارض واختلاف السنتکم والوانکم (سورہ الروم آیت ۲۱) باایں ہمہ سب سے اوپر فسواک فعد لک کا مضمون صادق آتا ہے ۔ پس خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ: فی ای صورۃ ماشاء وکیک ان لفظوں سے اورتناسخ سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔ دوسرا مقام وہ ہے جہاں سورۃ الشوریٰ میں فرمایاہے: فاطر السموات والارض جعل لکم من انفسکم ازواجا ومن الانعام ازواجا یذروکم فیہ (سورہ ۴۲ آیت ۹) ’’خدا پیدا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا ۔ پیدا کیا تمہارے لیے تم سا ہی جوڑا اور چوپایوں سے جوڑا‘ پھیلاتا ہے تم کو اس میں (یعنی جوڑا پیدا کرنے میں )۔ اس آیت کا مطلب صرف ا س قدر ہے کہ انسان کے لیے بھی اسی کی مثل ایک جوڑا پیدا کیا ہے اور حیوانوں کے لیے بھی جورا پیدا کیا ہے (یعنی انہیں کی مثل) پھر کوئی شخص نہیں سمجھ سکتا کہ اس آیت سے تناسخ کو کچھ بھی تعلق ہے۔ اس زمانے میں بھی بعض اہل اسلام تناسخ کو صحیح ماننے پر مائل ہیں۔ جو استدلال کہ ان کو اختلاف حالات پر ہے اس کا جواب ہم اوپر دے چکے ہیں مگر علاوہ اس کے وہ قرآن مجید کی بھی دو آیتوں پر استدلال کرتے ہیں۔ پہلی آیت یہ ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے: ولقد علمتم الذین اعتدوا منکم فی السبت فقلنالھم کونوا قردۃ خاسئین فجعلنا ہا نکالا لما بین یدیھا وما خلفھا وموعظۃ للمتقین ۔ (سورہ بقرہ آیت ۶۱و۶۲) ’’بے شک تم نے جان لیا ہے کہ ان لوگوں کو جنھوں نے تم میں سے زیادتی کی سبت ‘ یعنی شنبے کے دن میں پھر ہم نے ان کو کہا کہ ہو جائو بندر پھٹکارے پھر کیا ہم نے اس واقعے ‘ یعنی بندر ہو جانے کو عبرت ان لوگوں کے لیے جو ان کے سامنے‘ یعنی اس زمانے میں تھے اوران کے لیے ان کے بعد آویںاور نصیحت پرہیز گاروں کے لیے ‘‘۔ اور اسی کی مثل یہ آیت ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے: فلما عتوا عمانہوا عنہ قلنالھم کونوا قردۃ خاسئین (سورۃ اعراف آیت ۱۶۶) ’’پھر جب انہوںنے تکبر کیا اس چیز سے جس سے ہم نے ان کو منع کیا تھا ہم نے کہا ان کو کہ ہو جائو بندر پھٹکارے‘‘۔ دوسری آیت جس پر وہ استدلال کرتے ہیں یہ ہیں جہاں خدا نے فرمایا ہے: قل ھل انبکم بشرمن ذالک مثوبۃ عنداللہ من لعنہ اللہ وغضب علیہ وجعل منھم القردۃ والخنازیر وعبدا لطاغوت اولئک شرمکانا واضل عن سواء السبیل (سورہ مائدہ آیت ۶۵) ’’کہہ دے اے پیغمبر! کیا کہ میں تم کو خبر دوںاس سے بھی بدتر کی جزا میں اللہ کے نزدیک جس کو لعنت کی اللہ نے اور اس پر غصہ ہوا اور کر دیے ان میں سے بندر اور سور اور شیطان کے پوجنے والے‘ یہ لوگ بدتر ہیں باعتبار مکان کے اور زیادہ گمراہ ہیں سیدھے راستے سے‘‘۔ ان آیتوں میں جو یہ لفظ ہیں : وقلنا لھم کونوا قردۃ خاسئین۔ وجعل منھم القردۃ والخنازیر ان لفظوں سے وہ تناسخ پر استدلال کرتے ہیں‘ مگر وہ صریح غلطی میں ہیں۔ کیونکہ جب تمام قرآن مجید میں تناسخ کے برخلاف کثرت سے آیتیں موجود ہیں تو ان آیتوں کو تناسخ پر محمول کرنا محض غلطی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ یہ آیتیں کسی طرح تناسخ پر محمول نہیں ہو سکتیں۔ ہم اس بحث کو چھوڑ دیتے ہیں جس سے ان الفاظ کا بطور کنایہ اور استعارہ ہونا ثابت ہوتا ہے‘ بلکہ ہم اس کے لفطی معنی لے کر بتاتے ہیں کہ کسی طرح ان لفظوں سے تناسخ پر استدلال نہیں ہو سکتا۔ تناسخ بعد مرنے کے ایک جسم کی روح کا دوسرے جسم سے متعلق ہونا ہے۔ یہاں خدا نے فرمایا ہے کہ ’’کونو اقردۃ‘‘ کہ ہو جائو بندر‘ یعنی اسی حیات میں جس میں کہ ہو بندر ہو جائو جس کا نتیجہ مسخ ہو جانا ہے نہ تناسخ۔ اسی طرح دوسری جگہ فرمایا ہے : وجعل منھم القردۃ والخنازیر یعنی کر دیا ان کو بندر ا ور سور‘ یعنی ان کی حیات موجود ہی میں بندر اور سور کر دیا۔ پس اس سے بھی اگر نکلتا ہے تو مسخ ہونا نکلتا ہے نہ تناسخ۔ چنانچہ سورہ بقرہ میں بندر ہو جانے کے بعد فرمایا ہ کہ ہم نے اس واقعے کو ان کے لیے جو لوگ موجو د تھے اورجو بعد کو آنے والے تھے عبرت کیا ہے۔ اگر ان کا تناسخ بندروں میں ہوتا۔ یعنی ان کی روحیں مرنے پر بندروں کی جون میں چلی گئی ہوتیں تو اس سے موجودہ اور آئندہ لوگوں کو عبرت اور پرہیز گاروں کو نصیحت کیا ہو سکتی تھی‘ کیونکہ کوئی بھی یہ نہیں جان سکتا تھا کہ ان کی روحیں کہاں گئیں۔ ہم نے بنظر رفع حجت سے یہ لفظی معنی لیے ہیں‘ حالانکہ ان آیتوں میں لفظی معنی مراد نہیں ہیں۔ یہ آیتیں بنی اسرائیل کے حق میں وارد ہوئی ہیں جو سبت کے دن حیلے اور فریب سے مچھلیاں پکڑتے تھے اور وہ دو چار آدمی نہیں تھے بلکہ بہت سے تھے اورمدت تک جیتے رہے اور آدمی کے آدمی رہے نہ بندرہوئے نہ سور اورکوئی اشارہ ان میںایسا نہیں ہے کہ جب وہ مریں گے تو بندر اور سور کی جون میںاٹھیں گے‘ بلکہ لفظ کونوا اورجعل منھم اس کے برخلاف ہے تو ان آیتوں سے تناسخ پر استدلال کرنا عجائبات خیالات سے ہے۔ ہمارے دوست جن کو یہ شبہ ہوا ہے وہ ایک حدیث روضۃ الاحباب پر استدلال کرتے ہیں۔ میں نے تو حدیث کو نہیں دیکھا‘ مگر وہ لکھتے ہیں کہ روضۃ الاحباب میں مندرج ہے کہ فرمایا سرور کائنات نے : نقلت من اصلاب طیبۃ الیٰ ارحام طاہرۃ قطع نظر اس کے کہ اس میں جس بے بنیاد حدیثیں قابل التفات نہیں ہیں‘ معہذا خود اس میں جس کو حدیث کہا گیا ہے یہ لفظ ہیں کہ ونقلت من اصلاب طیبۃ تناسخ میں نقل روح اصلاب سے نہیں ہوتا‘ بلکہ جسم مردہ سے ہوتا ہے۔ اس پر تناسخ سے استدلال کرنا اس سے بھی زیادہ عجیب تر ہے جو کونا اقردۃ اور جعل منھم القردۃ والخنازیر سے تھا۔ آخر کا ر ہمارے دوست نے اس شعر پر جس کو وہ مولانا روم کی طرف نسبت کرتے ہیں استدلال کیا ہے وہ شعر یہ ہے : ہمچو سبزہ بارھا روئیدہ ام ہفصد و ہفتاد قالب دیدہ ام او ل تو بہت لوگوں نے کہا ہے کہ یہ شعر مولانا روم کا نہیں ہے اور میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ قدیم نسخے پر جو مثنوی کے ہیں ان میں یہ شعر نہیں ہے۔ اگرچہ ممکن تھا کہ میں سوفیہ کے مذاق پر اس کے معنی بتاتا اور اپنے دوست کو سمجھاتا کہ اس سے تناسخ مراد نہیں ہے‘ مگر میں اس قسم کے اشعار کے درپے ہونا ایک لغو اور مہمل بات سمجھتا ہوں اور بے فائدہ اوقات کا ضائع کرنا بلکہ میں اسی طریقے کو بہتر سمجھتا ہوں جس پر مولانا محمد اسماعیل شہید نے اس قسم کے شعروں کا جواب دیا تھا۔ ایک دفعہ مولانا سے حافظ کے اس شعر کے معنی پوچھے: آں تلخ وش کہ صوفی ام الخبائش خواند اشھی لنا واحلیٰ من قبلۃ العذاری اس نے کہا کہ شراب کو ام الخبائث تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے پس صوفی سے یہاں کیا مطلب ہے ؟ مولانا نے جواب دیا کہ میاں ایک شاعر کا شعر ہے کچھ قرآن و حدیث تو نہیں ہے جس کی صحت کی فکر میں پڑے ہو‘ جان لو اور سمجھ لو کہ بیجا کہاہے۔ واضح ہو کہ ایک دوست نے اپنے شبہات جو اس کے دل میں تناسخ کے باب میں تھے ہم کو لکھے تھے اور یہ درخواست کی تھی کہ تناسخ کے باب میں ایک آرٹیکل تہذیب الاخلاق میں چھاپا جاوے اور بعض آرٹیکل بھی بعض دوستوں کی فرمائش سے تہذیب الاخلاق میں لکھے گئے ہیں اس سے ظاہر ہوتاہے کہ لوگوں کو اس زمانے میں کس قسم کے امور میں شبہات اور ترددات پڑے ہیں اور تہذیب الاخلاق میں کس قسم کے مضامین کا شائع ہونا قوم کے لیے مفیدہے۔ ٭٭٭ مسمریزم و ھو علم السیمیا (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۵ (دور سوم) یکم صفر ۱۳۱۲ھ صفحہ ۷۶ تا ۸۰) کہا جاتاہے کہ اس علم یا فن کو مسمی مسمیر ایک شخص نے جو فرانس کا رہنے والا تھا ‘ ۱۷۷۶ء میں دریافت کیا تھا‘ مگر معلوم ہوتا ہے کہ ایشیاء میں بہت پہلے یہ فن دریافت ہو چکا تھا۔ مسمریزم جس کا نام اب ’’انیمل میگنی ٹزم‘ ‘ قرار دیا گی اہے وہی ہے جس کو ایشیا کے حکماء علم سیمیا کہتے تھے۔ دونوں کے متحد واقعات اور ایک سے حالات ہیں۔ ڈکشنری آف یونیورسل انفارمیشن میں مسمریزم کی نسبت لکھا ہے کہ وہ ایک اثر ہے جو شخص عامل سے نکلتا ہے اور شخص معمول پر پڑتاہے اور اس کی وجہ سے عجیب نتیجے اس شخص معمول کے جسم پر اور خیالات پر پیدا ہوتے ہیں اورعامل کو معمول کے جسم اور خیالات پر پوری قدرت حاصل ہوتی ہے۔ انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ مسمریزم ایک فن ہے جس کے ذریعے سے کسی آدمی کے دماغ اور رگوں پر ایسی عجیب اورخلاف معمول حالت طاری کر دی جاتی ہے کہ عامل کو معمول شخص کی حرکات پر پوری قدرت حاصل ہوتی ہے اور اس کی روح سے براہ راست گفتگو وغیرہ کر سکتاہے ۔ کشف الظنون میں لکھا ہے کہ : (العلم السیمیا) اعلم انہ قد یطلق ھذا الاسم علیٰ ما ہو غیر الحقیقی من السحر و ھو المشھور و حاصلہ احداث مثالات خیالیۃ فی الجولا وجودلھا فی الحس و قدیطلق علی ایجاد صور ہا فی الحس فحینئذ یظھر بعض الصور فی جوہر الھواء فتزول سریعۃ لسرعۃ تغیر جو ہر الھواء ولا مجال لحفظ ما یقبل من الصورۃ فی زمان طویل لر طوبۃ فیکون سریع القبول وسریع الزوال واما کیفیۃ احداث تلک الصور وعللھا فامر خفی لا اطلاع الا لاھلہ ولیس المراد وصفہ و تحقیقہ ھھنا بل المقصود الکشف و ازالۃ الالتباس عن امثالہ حاصلہ ان یرکب الساحر اشیاء من الخواص اوالا دھان او المایعات اوکلمات خاصۃ توجب بعض تخیلات خاصۃ کادراک الحس ببعض الماکول و المشروب وامثالہ وفی ھذا الباب حکایات کثیرۃ عن ابن سینا و السھروردی المقتول۔ (کشف الظنون جلد سوم صفحہ ۶۴۶۔۶۴۷) ’’(ترجمہ) علم سیمیا جس پر اطلاق ہوتا ہے وہ حقیقی جادو کے سوا ہے (یعنی جادو میں تو امر جس کے لیے جادو کیا جاتا ہے فی الحقیقت ہو بھی جاتا ہے اورسیمیامیں وہ امر حقیقت میں نہیں ہو جاتا‘ بلکہ صرف خیال میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہو گیا) اور سیمیا کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہوا میں اشکال خیالی پیدا ہو جاتی ہے جن کو لوگ دیکھتے ہیں‘ مگر ان کا وجود دیکھنے والوں کی حس میں نہیں ہوتا اور کبھی دیکھنے والوں کی حس میں صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور وہ ہوا میں ان صورتوں کو دیکھتے ہیں پھر وہ جلدی سے غائب ہو جاتی ہیں اور اس طرح صورتوں کے پیدا ہونے کی وجہ ان کے سوا جو ایسا کرتے ہیں کسی کو معلوم نہیں ہے۔ اس باب میں ابن سینا اور سہروردی مقتول کی بہت سی نقلیں ہیں۔‘‘ مگر ہماری رائے میں پہلی صورت کا وقوع کہ اشکال خیالی ہوا میں پیدا ہوں اور دیکھنے والوں کی حس میں وہ نہ ہوں ازروئے اصول مسمریزم کے غیر ممکن ہے۔ اخوان الصفا کے رسالے لکھنے والے تو جادو ‘ طلسمات‘ گنڈے تعویز‘ جھاڑ پھونک سب کے قائل ہیں اوران کی تحریر سے ثابت ہے کہ وہ اس اثر کے بھی قائل ہیں جس کو سیمیا یا مسمریزم یا انیمل میگنی ٹزم کہا جا تاہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ: واما ہذہ الرقی والنش والعزائم وما یشاکلھا فانما ہی آثا لطیفۃ روحانیۃ من النفس الناطقۃ توثرفی النفس البھیمیۃ و فی الحیوان فمنھا ما یحر کھا و یزعجھا ومنھا ما یقمعھا ومنھا ما یعمل فیھا تاثیرات قویۃ واعمالا مختلفۃ فیہ اصابۃ بالعین وربما شجہ وربما صرعہ فقدر ائینا کثیرا من یصرع الانسان یف اقل من ساعۃ اذا جلس بین یدیہ وانما ذالک اثر لطیف یبدر من نفس فیعمل فی نفس اخری کما یبدر الشرر من النار فیقع فی الاجر ام فیحرقھا الا ان الذی یبدر من النفس روحانی لطیف لانہ یخرج من النفس اللطیفۃ ویعمل فی لطیفۃ مثلہ والذی یخرج من النار ہو اکثف منہ علیٰ قدر کثافۃ النار ویعمل فی الاجرام الکشیفۃ ویکون سببا ہذا الاثر۔ (اخوان الصفا جلد چہارم صفحہ ۳۰۷) ’’(ترجمہ) تعویز ‘ جھاڑا پھونکی اور اس کی مانند جو کچھ ہے یہ نہایت لطیف روحانی اثر نفس ناطقہ کے ہیں جو دوسرے کے نفس بہیمیہ اورحیوان میںاثر کرتے ہیں اور ان میں تاثیر قوی اور مختلف اعما ل پیداکرتے ہیں اورہم نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے کہ اگر انسان ان کے سامنے بیٹھے تو ایک ساعت میں اس کو بے ہوش کر کے گرا دیتے ہیں اور اس کا ایک سبب اثر لطیف نفس کا ہے جو دوسرے نفس میں اثر کرتاہے جیسے آگ کا شعلہ دوسری چیز میں پہنچ کر اس کو جلا دیتا ہے (انتہی ملخصا و مقصراً)۔ اس بیان سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ یہ فن ۱۷۷۶ء میں مسمیر نے دریافت کیا تھا بلکہ اس سے بہت پہلے ابن سینا اور شہاب الدین سہروردی مقتول کو بھی معلوم تھا جس کو سلطان صلاح الدین نے ۵۸۶ھ میں قتل کیا۔ بلکہ اگر ہم اس سے بھی اوپر خیال کریں تو یقین کر سکتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کے وقت میں کھنہ فرعون کو بھی معلوم تھا۔ اس بات میںکہ اس کے آثار کیونکر ظاہر ہوتے ہیں اختلاف ہے ۔ بعضوں کا یہ یقین ہے کہ انسان میں مثل مقناطیس کے ایک قوت ہے او روہ معمول کے نروس سسٹم پر‘ یعنی اعصاب دماغی و بدنی پر اثر کرتی ہے اورمعمول کے خیال اور بدن میں افعال عجیبہ جس طرح کے کہ عامل چاہتا ہے پیدا کرتی ہے۔ بعضوں کا یہ خیال ہے کہ عامل میں سے کوئی قوت خارج نہیں ہوتی‘ بلکہ خود معمول ہی کی قوت متخیلہ سے وہ آثار و افعال اس میں پیدا ہو جاتے ہیں مگریہ خیال صحیح نہیں ۔ پہلی رائے صحیح معلوم ہوتی ہے اور تمام مشاہدات سے جو اس فن کے عاملوں سے مشاہدہ ہوئے ہیں اس کی صحت پائی جاتی ہے۔ بہت لوگ ہیں جواس فن کو لغو و مہمل سمجھتے ہیں اور اس کے قائل نہیں ہیں اوربہت ایسے ہیں کہ جو اس پر نہایت یقین رکھتے ہیں اور جو کچھ عجائبات اس کی نسبت کہی جاویں سب کو سچ سمجھتے ہیں‘ مگر اس پر بہت لوگوں کو اتفاق ہوجاتاہے کہ اس عمل کا اثر انسان کے نروس سسٹم پر ضرور ہو تا ہے اور جو افعال نروس سسٹم کے موثر ہونے سے ظاہر ہوسکتے ہیں وہ ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ قوت مقناطیسی ہر ایک انسان ‘ بلکہ حیوان میں بھی پائی جاتی ہے۔ بعض انسانوں میں یہ قوت قدرتی بہت ہی قوی ہوتی ہے اور بعضوں میں اس سے کم اور بعضوںمیں اور کم اور بعضوں میں نہایت کم ۔ وہ تفاوت انسانوںمیں ایسا ہی ہے جیسے کہ اورقویٰ میں ہے۔ خاص اس قوت مقناطیسی کے قوی کرنے کی اور اس کے عمل میں لانے کی مشق بڑھانے کے لیے خاص خاص طریقے ایجاد ہوئے ہیں اورہر ایک انسان جس میں یہ قوت متعدبہ ہو اس کو قوی کر سکتا ہے مگر زہد و تقویٰ و مجاہدہ و ریاضت جو خالصاً للہ اور بلا خیال کسی امر کے اختیار کیا جاتاہے اس کا لازمہ اس قوت کے قوی ہو جانے کا بھی ہوتاہے‘ گو کہ اس کو اس قوت کے قوی ہو جانے کا خیا بھی نہ ہو۔ درویشوں کے نفوس زاکیہ جو لوگوں کے دلوں پر اثر کرتے ہیں وہ اسی قوت کے قوی ہو جانے سے موثر ہوتے ہیں۔ جبکہ یہ قوت بہت قوی ہو جاتی ہے تو خود اپنے آپ پر اس کا اثر ہوتا ہے اور جو خیال اس کے دل میں آتا ہے اس کو وہ خود مشاہدہ کرتا ہے اورجس میں قدرتی بہ قوت قوی ہوتی ہے اس کا اثر خود اس پر بھی بہت قوی ہوتا ہے۔ ہم نے خود جو واقعات مسمریزم کے دیکھے ہیں اور بعض جو قدیم کتابوں میں لکھے ہیں ان کا ذکر کرتے ہیں۔ چند سال ہوئے کہ پروفیسر بشل جو اس فن میں بہت مشاق تھا ہندوستان آیاتھا اور بنارس میں اس نے تین جلسے اس فن کی تاثیرات کے دکھانے کو کیے تھے۔ پہلی شب میں بنارس کے ناچ گھر میں جو ایک بہت وسیع کمرا ہے جلسہ ہوا تھا۔ کمرے میں روشنی معمول سے زیادہ نہ تھی اور بہت کثرت سے ہندوستانی اور انگریز اور لیڈیاں جمع تھیں۔ پروفیسر بشل نے اول ایک مختصر لیکچر دیا جس میں بیان کیا کہ نہ یہ جادو ہے نہ کرامات نہ معجزہ ‘ بلکہ انسان میں ایک قوت مقناطیسی ہے جو دوسرے ‘ یعنی معمول پر اثر کرتی ہے۔ اس کے بعد اس نے حاضرین سے درخواست کی کہ جن صاحبوں کو معمول ہونا منظور ہو وہ اٹھ کر میرے پاس آجاویں۔ چنانچہ بارہ چودہ آدمی اٹھ کر گئے جن میں دو یا تین فوجی گورے او ر ایک نہایت معزز جنرل فوج جس کا نام مجھ کو یاد نہیں رہا اور چند ہندوستانی شامل تھے پروفیسرنے ان کو کرسیوں پر بٹھا دیا اس طرح کہ ان کی پیٹھ مجمعے کی طرف تھی اورہر ایک کے ہاتھ پر چمکدار پیسہ یا اور کوئی چیز رکھ دی اور ان سے درخواست کی کہ آپ دلی توجہ سے اس کو دیکھتے رہیں اور اسی طرف خیال رکھیں اور دوسری طرف نہ توجہ کریں نہ خیال بھٹکاویں۔ پروفیسر بشل ان کے سامنے ٹہلتا تھا اور ان کو گھورتا جاتا تھا اور اپنی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتا تھا اور شاید پھونکتا بھی جاتاتھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے ہر ایک کا پپوٹا اٹھا کر ان کی آنکھ کو دیکھا۔ چند آدموں کی نسبت جن میںوہ گورے اور جنرل اورہندوستانی بھی شامل تھے کہا کہ یہ معمول ہو گئے ہیںان کو علیحدہ کرسیوں پربٹھا دیا او ر باقیوں کو کہا کہ یہ معمول نہیںہوئے دیر میں ہو سکتے ہیں‘ مگر اس قدر دیر ہونے پر لوگوں کو تکلیف ہو گی ۔ جو لوگ معمول ہوئے تھے وہ اس کی مرضی کے تابع تھے اور جو وہ کہتا تھا کرتے تھے اس میں سے چند باتیں قابل ذکر ہیں۔ ۱۔ اس نے ایک گورے کو کھڑا کیا‘ اس کا ہاتھ اوپر اٹھایا اور کہا خشک ہو جا‘ اس کا ہاتھ ویسے کا ویسا ہی رہ گیا اورکسی طرح نیچا نہیں ہو سکتا تھا اورہاتھ کے جوڑوں میں بھی کچھ حرکت نہ تھی۔ جب اس نے کہا کہ درست ہو جا‘ ہاتھ بدستور سابق ہو گیا۔ اس گورے نے ہاتھ نیچا کر لیا اور سب جوڑ معمولی طور پر حرکت کرتے تھے۔ ۲۔ پھر اس نے ایک کو کھڑ ا کیا اور اس کے پائوں پر ہاتھ لگا کر کہا کہ یہاں سے نہ ہلے نہ اٹھے۔ اس کا پائوں زمین پر ایسا جم گیا کہ کسی طرح وہاں سے ہٹ نہیں سکتا تھا جب تک کہ اس نے اجازت نہیں دی۔ ۳۔ پھر اس نے ایک کو کھڑا کیا اور کن پٹی پر انگلی رکھ کر کہا کہ تم سب کچھ بھول گئے ہو ‘ ااس کو کوئی چیز یاد نہ تھی نہ اس کو اپنا نام یا دتھا‘ نہ اپنا عہدہ ‘ نہ وہ پلٹن جس سے وہ تعلق رکھتا تھا۔ پروفیسر نے غلط نام لے کر کہا کہ تیرا نام یہ ہے وہ گورا وہی اپنا غلط نام بتاتا تھا۔ اسی غلط مسکن اور غلط پلٹن‘ غرض کہ جو پروفیسر کہتا تھا وہی وہ کہتا تھا‘ جب تک کہ اس نے اس کے دماغ کو درست نہیں کیا۔ ۴۔ اس نے جنرل کو بھی متعدد دفعہ دق کیا تھا‘ اخیر کو جنرل کو کھڑ ا کیا اور کہا کہ تمہارے کوٹ میں آ گ لگ گئی۔ جنرل بے تاب ہو کر پہلے ہاتھوں سے کوٹ کو ملنے لگا‘ گویا آگ بجھاتا ہے‘ اخیر جلدی سے کوٹ اتار کر پھینک دیا۔ پھر پروفیسر نے کہا کچھ نہیں‘ کوٹ اٹھا لو اور پہن لو۔ ۵۔ یہ جنرل کوٹ پہن کر کرسی پر جا بیٹھا‘ مگر ایسا دق ہو گیاتھا کہ چپکے سیکرسی پر سے اٹھ کر بھاگ چلا۔ کمرے سے باہربرانڈ ے تک گیا تھا کہ پروفیسر نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو ٹیڑھا کر کے اس کی طرف کیا۔ وہ جنزل اس طرح پر کھنچا چلا آیا کہ گویا اس میں رسیاں بندھی تھیں اوران سے کھنچا چلا آیا۔ اسی قسم کے اورمتعدد تجربے اس نے دکھائے۔ دوسرا جلسہ مہاراجا وزیا نگرام کی کوٹھی پر ہوا۔ ایک سہ دری تھی اور ا س کے آگے چبوترہ تھا اور سب لوگوں کی نشست چبوترے پر تھی۔ آدمی کثرت سے تھے۔ سہ دری میں اور چبوترے پر روسنی کثرت سے تھی۔ جب پروفیسر بشل آ گیا تو اس نے مکان کو جو صرف سہ دری اور کھلا ہو ا چبوترہ تھا اور کثرت سے روشنی ہونے کو ناپسند کیا۔ روشنی کسی قدر کم کی گئی ‘ مگر لوگوں میں محض خاموشی اور سکوت نہ ہوا اورلوگوں کی کھس پس سے بلاشبہ دھیان بٹتا تھا۔ پروفیسر نے چند آدمی اپنے سامنے بٹھائے اور ہر چند کوشش کی‘ گر ایک بھی معمول نہ ہوا۔ پرفیسر نے کہا نہ مکان تھیک ہے نہ روشنی درست ہے اورنہ کھس پس بند ہوتی ہے‘ عمل ہونا غیر ممکن ہے۔ پس مجلس برخاست ہو گئی۔ تیسرا جلسہ مہاراجہ بنارس کی کوٹھی ٹکسال والی میں ہوا ایک وسیع کمرے میں ۔ اس میں معمولی روشنی او ر بخوبی خاموشی تھی۔بعد معمولی کارروائی کے چند شخص معمول ہوئے اس جلسے کے چند امر قابل ذکر ہیں۔ ۱۔ پروفیسر نے ایک کرسی الٹ دی اور ایک شخص سے جو معمول ہوچکا تھا اور وہ ایک گورا تھا اس کو کہا کہ گھوڑا موجود ہے‘ اس پر سوار ہو۔ وہ اچک کر اس پر جا بیٹھا اورگھوڑے کی طرح ہانکنے لگا۔ اس نے غالباً اس کو گھوڑ ا سمجھا‘ مگر اور یدکھنیوالے سب اس کو الٹی ہوئی کرسی دیکھتے تھے۔ ۲۔ ایک لکڑی ہاتھ میں رکھنے کی ڈال دی اور اسی گورے کو جو گھوڑے پر چڑھا تھا کہا کہ سانپ ہے‘ سانپ کو مارو۔ گورے نے ایک لکڑی سے اس کو مارنا شروع کر دیا غالباً وہ اس کو سانپ سمجھا‘ مگر ہم سب کو وہ لکڑی ہی دکھائی دیتی تھی ۔ ۳۔ پروفیسر نے ایک ہندوستانی آدمی کو جو معمول ہو گیا تھا چت لٹایا اورہاتھوں سے اشارہ کیا۔ وہ بے ہوش ہو گیا او ر اس کا سارا بدن مثل لکڑی کے سخت ہو گیا۔ پروفیسر نے دوکرسیاں آمنے سامنے بقدر اس شخص کے قد کے فاصلے کے رکھیں اور دو آدموں نے اس شخص کی لاش کو اٹھایا اس کا سر ایک کرسی پر اور پائوں کی ایڑیاں دوسری کرسی پر رکھ دیں اور اس کی لاش مثل لکڑی کے سیدھی تنی رہی اور وہ بالکل بے ہوش تھا۔ اس کے بعد پروفیسر نے ایک بابو بنگالی کو جو وہاں موجود تھا اور غالباً وہ منجملہ ان لوگوں کے نہٰں تھا جو معمول ہوئے تھے‘ کہا کہ اس شخص پر یبٹھ جائو۔ وہ بیٹھ گیا مگر اس کی لاش میں کچھ خم نہیں ہوا۔ مثل لکڑی کے کرسیوں پر تنی ہوئی تھی۔ اس وقت مہاراجہ صاحب بنارس نے پروفیسر سے کہا کہ دیکھو یہ شخص مر جاوے گا‘ اس کو تکلیف ہو گی۔ پروفیسر نے کہا کہ اس کو کچھ تکلیف نہیں ہے‘ یہ کہہ کر اس نے منہ کے سامنے ہاتھ نچائے‘ اس شخص نے آنکھیں کھول دیں‘ مگر اس کا سارا جسم بدستور لکڑی کی مانند کرسیوں پر تنا ہوا تھا۔ پروفیسرنے اس سے پوچھا کہ تمہیں کچھ تکلیف ہے؟ اس نے کہا کچھ نہیں۔ اس سے پوچھا کہ تمہارے بدن کو کیا ہوا؟ اس نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول کے حال میں جو نہایت مشہو ر درویش ہیں اور آزاد طبیعت کے تھے اور کملاء روزگارسے گنے جاتے تھے‘ یہ چند نقلیں کتاب طبقات الاطباء میں لکھی ہیں: ۱۔ شیخ شہاب الدین مع اپنے چند دوستوں یا مریدوں یا شاگردوں کے ایک پٹپٹر میدان میں چلے گئے کہ یکایک شہاب الدین نے کہا کہ اچھا ہے مشق اور یہ جگہ۔ لوگوںنے اسی میدان میں دیکھا کہ نہایت عمدہ مکانا ت بنے ہوئے ہیں اور گویا ایک بڑا شہر ہے جس میں ہر قسم کے بڑے بڑے مکانات سفید و طلاکار موجود ہیں۔ خوبصورت عورتیں پھر رہی ہیں گانا ہو رہا ہے‘ باغ ہیں اور نہریں جاری ہیں۔ لوگ دیکھ کر متعجب ہو گئے کہ وہاں تو صرف میدان ہی تھا۔ پھر وہ سب غائب ہو گیا اور جس وقت ان لوگوں نے اس کو دیکھا تھا تو ایک خفیف سی غفلت کی نیند سی ان پر ہو گئی تھی۔ ۲۔ شیخ شہاب الدین اپنے دوستوں کے ساتھ سفر میں جاتے تھے‘ رستے میں ایک ریوڑ بھیڑوں کا ملا جس کے ساتھ ایک ترکمان بھیڑ والا بھی تھا۔ شہاب الدین کے ساتھیوںنے اس سے ایک بھیڑ خریدی اور لے کر چلے۔ اس عرصے میں دوسرا رترکمان چلاتا ہوا آیا کہ یہ بھیڑ پھیر دو اور دوسری لے لو‘ یہ اس کی قیمت نہیں ہے۔ غرض کہ وہ چلاتا ہوا پیچھے دوڑا۔ شیخ نے اپنے ساتھیوںسے کہا کہ تم بھیڑ لے کر چلو میں اس سے سمجھ لوں گا اور شیخ ٹھہر گئے اور ترکمان آ پہنچا اورغصے میں آ کر شیخ کابایاںبازو پکڑ کر کھینچا۔ شیخ کا بازو کندھے سے اکھڑ کر اس ترکمان کے ہاتھ میں رہ گیا اوراس نے دیکھا کہ خون بہہ رہا ہے۔ ترکمان متحیر ہو گیا اور شیخ کے بازو کو جو اکھڑ کر اس ک ہاتھ میںرہ گیا تھا پھینک کر چل دیا شیخ اس کو اٹھا لائے مگر درحقیقت شیخ کا بازو نہ تھا بلکہ ایک کپرا تھا جو ترکمان کے ہاتھ میں آ گیا تھا‘ مگر ترکمان نے یہی جانا کہ شیخ کا بازو اکھڑ آیا اور اس کے ہاتھ میں ہے اورخون جاری ہے۔ ۳۔ ۵۷۹ھ میں شہاب الدین حلب میںپہنچے‘ نہایت زدہ حالت اور خراب کپڑے پہنے ہوئے۔ وہاں کے مدرسے کے مدرس نے جب جانا کہ یہ فقری زدہ حال نہایت عالم شخص ہے تو اپنے بیٹے کے ہاتھ اس کے پاس کچھ کپڑے بھیجے۔ شہاب الدین نے اپنی جھولی میں سے مرغی کے اندے کے برابر کوئی چیز نکالی جو نہایت سرخ پکھراج معلوم ہوتی تھی اورکہا کہ اس کو بازار میں لے جائو اور دیکھو کہ کیا قیمت ملتی ہے۔ مگر میری بے اجازت بیچ نہ دینا۔ بازار میں اس کی قیمت پچیس تیس ہزار درھم تک پہنچی۔ مدرس کا بیٹا۔ اس کو لے کر شہاب الدین کے پاس آیا تاکہ بیچنے کی اجازت لے۔ شہاب الدین نے اس کو لے کر پتھر سے کچل ڈالا۔ حقیقت میں وہ پکھراج نہ تھا بلکہ کوئی اور چیز تھی جو پکھراج معلوم ہوتی تھی۔ وھذہ حکایات من عجائبات النفس فان شئت اقبلھا وان شئت ردھا ٭٭٭ جادو (تہذیب الاخلاق ‘ جلد دوم‘ نمبر ۱ (دور سوم) بابت یکم شوال ۱۳۱۲ھ) جن چیزوں پر تمام دنیا کے لوگ یکساں اعتقاد رکھتے ہیں انہیں میں سے جادو بھی ہے۔ اگلے زمانے کی دنیا کا کوئی چپہ ایسانہیں معلوم ہوتا جہاں کے لوگ جادو کے سچ ہونے پر یقین نہ رکھتے ہوں۔ یورپ جو اب دنیا میں سب سے زیادہ سویلائزڈ ہے وہ بھی اگلے زمانے میں جادو پر پورا پورا یقین رکھتاتھا۔ روم میںجادوگر عورتوں کو ج کو ہندوستان میں ڈائن کہتے ہیں مقدمے قائم ہوتے تھے اور ان کو سز ا دی جاتی تھی۔ پوپ انوسنٹ کے حکم نے جو ۱۴۸۴ء میں نافذ ہوا جادوگری کے متعلق اس عام خیال کو خوب مستحکم کر دیا اور یورپ کے ہر ملک میں تفتیش کنندہ مقرر ہوئے جن کا کام تھا کہ جادوگروں کا پتا لگائیں اور قتل کرائیں۔ انگلستان اور اسکاٹ لینڈ میں یہ حماقت یور پ کے دیگر ممالک کی نسبت کسی قدر دیر میں شروع ہوئی‘ مگر جس وقت شروع ہو گئی یہاں بھی دیگر ممالک کی نسبت کچھ کم ظلم نہیں ہوا۔ ملکہ الزبتھ کے قانون مجریہ ۱۵۶۲ء نے انگلستان میں اول مرتبہ جادوگری کو ایذا رسانی میں کیا جاوے یا نہ کیا جاوے۔ کچھ عرصہ بعد اس غلط خیال نے انگلستان کے ہر حصے میں اس قدر بربادی پھیلائی کہ ایک زمیندا ر کے چھکڑے کے دروازے میں اڑ جانے اور بدشوق لڑکے کے بہانے سے قے کرنے سے جو مدرسے جانے سے بچنے کے واسطے یہ مکر کھاتا تھا بیچاری جادوگرنیاں جلائی جانے لگیں لانگ پارلیمنٹ کے عہد مٰں علاوہ اس تعداد کے جو عوام کے ہاتھ سے قتل ہوئے تین ہزار آدمی اس جرم میں سرکاری حکم سے قتل ہوئے۔ آخر کار ۱۷۱۶ء میں مسز ہکس اور اس کی نو برس کی لڑکی کو جادوگری کے الزا م میں پھانسی ملنے کے بعد انگلستان سے ان مجرموں کو بحکم گورنمنٹ سزا ملنا موقوف ہوا‘ اگرچہ عوام کے ہاتھ میں وہ پھر بھی تکلیف اٹھاتے رہے اوریورپ کے دیگر ممالک میں اس کے بعد بھی گورنمنٹ کے حکم سے سزائیں ملتی رہیں اورسب سے پچھلی سزا جو اس جرم میں دی گئی وہ ۱۷۹۳ء میں تھی۔ ڈاکٹر سپرنجر کا اندازہ ہے کہ عیسائیوں کے عہد میں نوے لاکھ آدمی جادوگری کے جرم میںقتل ہوئے ہیں۔ عہد وسطیٰ میں ایک بھی ایسا شخص نہ تھا جس کو جادو کے صحیح ہونے میں کلام ہو اور سولھویں صدی کے وسط تک کسی کو جرات نہ ہوئی کہ ان زیادتیوں کے برخلاف جو اس غلط خیال کی وجہ سے سرزد ہو رہی تھیں اپنی صدا بلند کرے۔ یورپ میں پہلا شخص جس نے ۱۵۶۳ء میں اس کارروائی کو برا کہا جرمنی کا رہنے والا مسمی جیویر تھا۔ اس کے بعد انگلستان میں ۱۵۸۴ء میں ریجلنڈ سکاٹ نے اس غلط خیال کی لغویت ثابت کی مگر پھر بھی یہ خیال عرصہ دراز تک لوگوں پر مستولی رہا اور تمام دنیا میں جہلاء اب تک اس پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کو بھی بدبختی سے جادو کے برحق ہونے کا یقین رہا ہے اور اکثر علماء نے قرآن مجید کی آیتوں اور بعض حدیثوں کے غلط معنی سمجھ کر یہ بات قرار دی کہ قرآن مجید سے اور حدیثوںسے بھی جادو کا برحق ہونا ثابت ہوتا ہے‘ حالانکہ یہ خیال محض غلط تھا۔ ہم نے یکم محرم ۱۳۰۷ء کے تہذیب الاخلاق میں ایک بڑا مضمون لکھا ہے جس میں ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید کی جن آیتوںسے سحر کا برحق ہونا سمجھا جاتا ہے وہ صحیح نہیں بلکہ وہ آیتیں سحر کے برحق ہونے پر دلالت نہیں کرتیں۔ اسی پرچے میں نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی صاحب نے ایک نہایت عمدہ آرٹیکل لکھا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ لوگوں کا جو یہ خیال ہے کہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی سحرہوا تھا یہ محض غلط خیال ہے۔ اگلے زمانے میں اگرچہ لوگوں کو سحر کایقین تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ جادو سے آدمی گدھا اور گدھا آدمی بن سکتا ہے مگراسی زمانے میں جو لوگ زیادہ سمجھدا رتھے انہوں نے جادو کے برحق ہونے سے اقرار کیا ہے۔ منجملہ ان کے ایک حضرت امام ابو حنیفہ میں جنھوں نے فرمایا کہ سحر کی کچھ اصلیت نہیں ہے اور معتزلہ کل سحر کے برحق ہونے کے قائل نہیں ہیں اور شافعیوں میںسے ابو جعفر اور حنفیوں میں سے ابوبکر رازی اور ظاہر یوں میں سے ابن حزم بھی سحر کے برحق ہونے کو نہیں مانتے ۔ چنانچہ اس کی تفصیل بخاری کی شرح میںمندرج ہے جس کو ہم اس مقام پر نقل کرتے ہیں۔ بخاری کی شرح میں ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ : ہذا باب فی بیان السحرا وانہ ثابت مھقق ولھذا اکثر البخاری فی الاستدلال علیہ بالایات الدال علیہ والحدیث الصحیح واکثر الامم من العرب والروم والھند و العجم بانہ ثابت و حقیق موجود ولہ تاثیر ولا استحال فی العقل فی ان اللہ تعالیٰ بخرق العاد عند النطق بکلا م ملفق او ترکیب اجسا م و نحوہ علیٰ وجہ لا یعرہ کل احد۔ واما تعریف السحر فھو امر خارق للعاد صادر عن نفس شریرہ لا یتعذر معارضتہ وانکر قوم حقیقتہ واضافو ما یقع منہ الیٰ خیالت من الشافعی وابی بکر الرازی من الحنفیٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰۃ وابن حزم الظاہری۔ (صفحہ ۲۰۰ جلددھم عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری مطبوعہ قسطنطنیہ) (ترجمہ) یہ باب جادو کے بیان میں ہے اور جادو ثابت اور محقق ہے‘ اس لیے امام بخاری نے ان آیتوں سے جادو پردلالت کرتی ہیں اور صحیح حدیثوں سے جادو پر استدلال کیا ہے۔ عرب ‘ روم ‘ہند اور عجم کی اکثر قومیں جادو کو صحیح سمجھتی ہیں اور اس کے وجود اور تاثیر کی قائل ہیں اور عقل کے نزدیک یہ محال نہیں ہے کہ چند کلموں کوجوڑ کر بولنے یا چند جسموںکو باہم ملانے سے خدا اپنی عادت جاریہ کو توڑ ڈالے ایسی طرح پر کہ دوسرا اس کو نہ پہچانے اور جادو کی تعریف یہ ہے کہ وہ ایک امر خارق عادت ہے جو نفس شریر سے صادر ہوتاہے۔ اس کا یہ معارضہ محال نہیںہے اور بہت سے لوگ جادو کی حقیقت سے منکر ہیں اور جو حصہ اس کا وقوع میں آتاہے اس کو خیالات باطلہ کی طرف منسوب کرتے ہیں جن کی کوئی واقعی حقیقت نہیں ہے۔ شافعیوں میںسے ابو جعفر استر آبادی اور حنفیوں میںسے ابو بکر رازی اور ظاہریوںمیںسے ابن حزم کی بھی یہی رائے ہے۔ دوسرے مقام پر یہ لکھاہے: وذکر اوزیر ابو المظفر یحییٰ بن محمد بن ہبیرۃفیکتابہ الاشر اف علیٰ مذاہب الاشراف اجمعوا علیٰ ان السحر لہ حقیقۃ الا ابا حنیفۃ فانہ قال لا حقیقۃلہ وقال القرطی وعندناانالسحر حق ولہ حقیقۃ یخلق اللہ تعالیٰ عندہ ماشاء خلافا للمعتزلۃ وابی اسحق الا سفر ائنی من الشافعیۃحدیث قالوا انہ تمویہ و تخیل …وقال الرازی فی تفسیرہ عن المعتزلۃانھم انکروا وجود السحر قالوربما کفروا من اعتقدو جودہقال واما اہل السنۃ فقد جوزوا ان یقدر الساحر ان یطیر فیالھواء وانیقلب الانسان حما ر او الحمار انسان الاانھم قالوا انااللہ یخلقالاشیاء المعینۃ فاما ان یکون الموثر فی ذالک ہو الفلک والنجوم فلا خلافا للفلاسفۃ ۔(۵۰۹ و ۵۱۰ صفحات جلد پنجم ۔ عمدۃ القاری مطبوعہ قسطنطنیہ) (ترجمہ) وزیر ابو المظفر یححیٰ بن محمدبن ھبیرہ نے اپنی کتاب ’’الاشراف علیٰ مذہب الاشراف ‘‘ میںلکھا ہے کہ اس بات پر کا اتفاق ہیکہ جادو کی کوئی حقیقت ہے‘ مگر امام ابو حنیفہ قائل نہیںہیں۔ قرطبی کہتا ہے کہ ہمارے نزدیک جادو حق ہے اور اس کی ایک حقیقت ہے۔ اللہ جو چاہے پیدا کر سکتاہے۔ مگر معتزلہ اور ابو اسحاق اسفرائنی شافعی اسی کے قائل نہیںہیں اور کہتے ہیں کہ جادو دھوکے اور تخیل کا نام ہے…امام رازی نے اپنی تفسیر میںلکھا ہے کہ معتزلہ وجود سحرکاانکارکرتے ہیں اور اکثر وجود سحرکے ماننے والے کو کافر کہتے ہیں‘ لیکن اہل سنت کے نزدیک یہ جائزہے کہ جادوگر ہوا میںپروازکرے اور انسان کو گدھا اورگدھے کو انسان بنا دے ‘ مگروہ کہتے ہیں کہ جادوگو کے چند منتر اورمعین کے پڑھنے کے وقت خدا اشیاء کو پیدا کرتاہے۔ پھر اگر آسمان اور تاروںکی تاثیر ان نتائج کے ظہور میں آنے کے لیے مانی جائے تو فلاسفہ کے ساتھ اختلاف باقی نہیں رہتا‘‘۔ ٭٭٭ سحر جادو برحق ہے اورکرنے والا کافر ہے (تہذیب الاخلاق جلد ۷ نمبر ۱‘ بابت محرم الحرام ۱۲۹۳ھ صفحۃ ۲ تا ۱۱) اس مثل کے دوسرے جملے سے تو ہم کو بحث نہیں ہاںپہلے جملے سے بحث ہے۔ کیا سچ مچ یہ بات برحق ہے کہ جادو برحق ہے؟ آئو اس کی تحقیق کریں اور دیکھیں کہ ٹھیٹ اسلام کی رو سے کیابات ہے۔ لوگ کہتے ہیںکہ جناب سرور انبیاء پیغمبر خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجادو کر دیاتھا۔ خدا فرماتاہے کہ کافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے تھے کہ اس پر تو جادو کر دیا ہے ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے سورہ اسریٰ (بنی اسرائیل ) میں فرمایا ہے کہ کافر آپس میںکہتے تھے کہ تم جو محمدکی پیرویکرتے ہو تو اس سے زیادہ اور کچھ نہیںہے کہ ایک آدمی کی جس پر جادو کر دیاگیا ہے پیروی کرتے ہو۔ اذ یقول الظالمونان تتبعون الارجلا مسحورا (آیت ۴۷) ہاں فرعون بھی موسیٰ سے کہتا تھا کہ تم پر جادو کر دیا ہے ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اسی سورہ میں فرمایا ہے کہ جب حضرت موسیٰ خدا تعالیٰ کی قدرت کی نو نشانیوں سمیت فرعون کے پاس آئے تو فرعون نے کہا کہ اجی موسیٰ میں تو سمجھتا ہوں کہ تم پر جادوکر دیا ہے۔ فقال لہ فرعون انی لا ظنک یا موسیٰ مسحورا (آیت ۱۰۱) ایک اور جگہ بھی خدا فرماتا ہے کہ کافر آنحضرت صلعم کو کہا کرتے تھے کہ ان پر تو جادو رکر دیا ہے‘ چنانچہ سورہ فرقان میں فرمایا ہے کہ تم جو محمد کی پیروی کرتے ہو تو ا س سے زیادہ نہیں کہ ایک ایسے آدمی کی پیروی کرتے ہو جس پر جادو کردیا گیا ہے۔ وقال الظالمون ان تتبعون الا رجلا مسحورا۔ (آیت ۸) پس قرآن سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کافر ہو جو یہ کہے کہ پیغمبر پر جادو کر دیا گیا تھا۔ مگر اس زمانے کا باوا آدم ہی نرالا ہے‘ اب بڑے بڑے عالم یہ کہتے ہیں کہ جو یہ نہ کہے اس پر یقین نہ کرے کہ آں حضرت صلعم پر جادو کر دیا تھا تو وہ کافر ہے۔ زمانہ الٹ گیا ہے‘ سچ با ت ہے ۔ والدھر بالناس قلب اگر ہم یہ کہیں کہ نعوذ باللہ اگر جناب پیغمبر خدا صلعم کی ذات مبارک پر باوصف اس قدر تقدس و طہارت و نوری ہونے کے جادو ہو جاتا تھا تو ہم اس بات پر کیونکر یقین کریں کہ کون سی بات انہوںنے جادو ہونے کی حالت میں فرمائی ہے اور کون سی جادو اتری ہوئی حالت میں فرمائی ہے تو ہمارے زمانے کے عالم فرماتے ہیں کہ یہ دوسرا کفر ہے ‘ مگر کچھ ہی ہو ہم تو یقین نہیں کرتے کہ آں حضرت صلعم پر جادو ہوا تھا۔ اہل سنت و جماعت کا تو (جن کا ہم بھی دم بھرتے ہیں) یہ اعتقاد ہے کہ جادو برحق ہے اور جادو کے زورسے آدمی ہوا میں بھی اڑ سکتاہے اور جادو کے زور سے آدمی گدھے کی صورت اور گدھا آدمی کی صورت بن جاتا ہے۔ پچھلی دونوں باتوں میں سے پہلی بات تو یقینی غلط ہے اور پچھلی سچ ہونے میں شبہ پڑتا ہے کیونکہ اگر یہ سچ نہ ہوتا تو کوئی بھی جادو کو نہ مانتا۔ بہرحال جب وہ ہماری یہ باتیں سنتے ہیں تو ہم کو دور دور کرتے ہیں۔ بعضے مہذب و نیک آدمی یوں فرماتے ہ یں کہ قد اعتزل عنا جس کی تاویل ہم یوں کرتے ہیں کہ ای عن صراط المعوج۔ وہ سنی مسلمان جن کو لوگ معتزلی کہتے ہیں وہ تو جادو کے منکر ہیں اور پیغمبر خدا صلعم پر جادو ہونے سے تو نہایت سخت انکار کرتے ہیں۔ جب ان سے کہتے ہیں کہ میاں بہت سی حدیثیں اور روایتیں سحر کے برحق ہونے میں آئی ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ جو دلیلیں سحر کے غلط ہونے میں ہیں وہ تو یقینی ہیں اور روایت احاد ظنی ہے اور اس لائق نہیں ہے کہ یقینی کا معارضہ کر سکے۔ خیر یہ تو ایک تمہید ھتی‘ ہم تو اس بات کی تفتیش میں ہیں کہ ٹھیٹ مذہب اسلام میں جادو کی کچھ اصل ہے یا نہیں۔ سحر کے معنی جس کو ہم اپنی زبان میں جادو کہتے ہیں عربی لغت کی کتابوں میں یہ لکھے ہیں کہ جو واقعہ کسی لطیف و دقیق امر سے ہوا ہو اور اس کے ہونے کا سبب پوشیدہ ہو وہ سحر ہے۔ ا ن لغوی معنوں پر خیا ل کر کر بعض عالموں نے سحر کی آٹھ قسمیں بیان کی ہیں۔ اول: بذریعہ تسخیر کواکب کے۔ اس قسم کے جادوگرو ں میں سے بعضے تو یہ سمجھتے تھے کہ افلاک و کواکب فی نفسہ واجب الوجود ہیں اور اس دنیامیںجو کچھ ہوتاہے یہی کرتے ہیں اور بعضے کہتے تھے کہ وہ فی نفسہ تو واجب الوجود نہیں ہیں‘ مگر مبدہ اول سے جو تغیرات عالم میں ہوتے ہیں یہ کواکب و افلاک ان کا واسطہ ہیں اور فاعل تام کو منفعل تام سے ملا دیتے ہیں اوریہ بات یقینی ہے کہ جب فاعل تامنفعل تام سے مل جاوے گا تو بالضرور فعل تام ظاہر ہو گا اور بعضوں کا یہ قول ہے کہ افلاک و کواکب اگرچہ مخلوق ہیں‘ مگر ا ن میں جان اور عقل و سمجھ ہے اور ان کو اس عالم میں نیک و بد کرنے کا بالکل اختیار ہے ۔ پس ان تینوں عقیدوں کے جادوگر بذریعہ اعمال و پڑھنٹ کے کواکب کی تسخیر میں مشغول رہتے تھے ‘ تاکہ کواکب کو جو مدبر عالم ہیں اپنا تابع کر لیں اور جس کسی کو قتل کرنا چاہیں تو کہہ دیں کہ اقتل یا مریخ اور مریخ فی الفور اس کو مار ڈالے اور اسی طرح کسی کا بھلا کرنا چاہیں بھلا کر دیں اور جس پر سے آفت و سختی ٹالنی چاہیں ٹال دیں اور جس پر ڈالنی چاہیں ڈال دیں اور جس کو جس مرض میں چاہیں متلا کر دیں پھر وہ کسی طبیب کے علاج سے اچھا نہ ہو سکے اور اسی میں رینگ رینگ کر مر جاوے۔ مگر اس مقام پر اتنی بات سمجھنی چاہیے کہ نجوم و جاد و میں جو بذریعہ تسخیر کواکب ہوتا ہے فرق ہے۔ منجم تو صرف یہ بتلاتا ہے کہ فلاں شخص کے طالع میں فلاں کوکب تھا اور اب جو کواکب اور راس و ذنب فلاں فلاں مقام پر آئے ہیں تو اب اس پر فلاں آفت آوے گی یا یہ راحت پہنچے گی یا اس وقت پر فلاں کام کرنا حسب مقصود ہو گا یا سفر اچھا ہو گا۔ پس نجومی گویا آئندہ کی باتوں کی بلحاظ تاثیرات کواکب خبر دیتا ہے۔ مگر کوئی امر نسبت تسخیر کواکب نہیں کرتا اورنہیں بتلاتا۔ ا س لیے وہ صرف منجم ہے اور جادوگر نہیں‘ جب کہ وہ اس آفت ے دفع ہونے کو کوئی عمل کرے یا پاٹ کرے یا پڑھنت پڑھے تو وہ بھی بذریعہ تسخیر کواکب کے منجم کے سوا ایک جادوگر بھی ہے جیسا کہ ہندو پنڈتوں جودشیوں کا اکثر دستو رہے۔ دوسری قسم جاد و کی وہ باتیں قرار دی ہیں جو خیال اور وہم اور نفس انسانی کے ذریعے سے ظہور میں آتی ہیں یعنی اس قسم کا جادوگر اپنے نفس انسانی میں اور قوت واہمہ و خیال میں بذریعہ مشق اور ورزش اور مجاہدات کے ایسی طاقت بہم پہنچا لیتا ہے کہ دوسرے شخص پر طرح طرح کے اثر ڈال سکتا ہے۔ اور اس دوسرے شخص کے واہمے کو ایسا مغلوب کر دیتاہے کہ جو چیز درحقیقت موجود نہیں ہے وہ ا کو فی الواقع موجود معلوم ہوتی ہے اور یہ بات ہر شخص کو اور ہر قوم و مذہب کے آدمی کو بقدر قوت و طاقت اس کے نفس انسانی کے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس قسم کے سحر سے ساحر صحیح و تندرست آدمیوں کو بیمار اوربیماروں کو صحیح و تندرست کر سکتا ہے بھلے چنگے پر خواب مقناطیسی مستولی کر سکتا ہے۔ تیسری قسم جادو کی وہ باتیں قرار دی ہیں جن کا ہونا باستعانت ارواح خیال کیا گیا ہے۔ اس قسم کے ساحر یقین کرتے ہیں کہ علاوہ مخلوقات موجودہ محسوسہ کے زمین پر ارواحین بھی ہیں اور وہ جواہر قائمہ بالذات ہیں‘ نہ تو وہ متحیر ہیں ارو نہ کسی متحیز میں حلول کی ہوئی ہیں اوروہ اپنے افعا ل پر قادر ہیں اور عالم و مدرک الجزئیات ہیں اور انسان میں حلول کر کر نفس انسانی یا نفس حیوانی میں مل سکتی ہیں۔ اسی قسم کی ارواحوں میں وہ لوگ جن و پری کی بھی شامل کرتے ہیں اور ان میں سے جو نیک‘ یعنی بے شر ہیں ان کو مسلمان اورجو شریر ہیں ان کو کافر ٹھہراتے ہیں مگر معتزلی جن کے وجود کے بھی قائل نہیں ہیں۔ اسی قسم کی ارواحون میںوہ بعض انسانوں کی ناپاک ارواحوں کو بھی شامل کرتے ہیں اور بھوت پلیت کو بھی انہی میں سمجھتے ہیں۔ وہ یہ بھی یقین کرتے ہیں کہ یہ ارواحیں اشکال مختلفہ میںبھی بلا حلول کسی دوسرے جسم کے ظاہر ہو سکتی ہیں اورلوگوں کو خوبصورت یا ہیبت ناک شکلوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ پس اس قسم کے ساحر بذریعہ اعمال اور پڑھنٹ اور خوشبو جلانے کے ان کی تسخیر کرتے ہیں۔ یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ مسلمان عامل بھی اسی قسم میں داخل ہیں‘ صرف اتنا فرق ہے کہ وہ بعوض سفلی ارواحوں کے علوی ارواحوں کو مسخر کرتے ہیں اور اسی سبب سے ان کے منتروں اور پڑھنتوں میں بڑے بڑے فرشتوں جبرئیل اور میکائیل و اسرافیل و عزرائیل کے نام ہوتے ہیں اور اپنے تئیں علوی عامل اور دوسروں کو سفلی عامل قرار دیتے ہیں لیکن اگر سچ پوچھو نہ کالی بھلی نہ سفید۔ چوتھی قسم کی وہقرار دی ہے جو خیال یا نظر یا جس کی غلطی سے ایک امر دوسری حالت پر جو کہ اس کی اصلی حالت سے عجیب تر ہے دکھائی دیتا ہے جیسے کہ بھان متی گولیوں کے اڑانے یا ایک بٹے سے دوسرے بٹے میں نکالنے یا ایک گولی سے دوسری گولی بنانے میں کرتی ہے یا بنیٹی شعلے کو چکر کر دکھاتا ہے یا تھیٹر کے کمرے میں پردوں کے لگانے سے دریا و سمندر و جہاز و پہاڑ و کوسوں کا جنگل دکھائی دیتا ہے وعلی ہذا القیاس۔ پانچویں قسم سحر کی وہ امور قرار دیے ہیں جو بذریعہ صنائع و اعمال ہندسیہ و جرثقیل کے ظاہر ہوتے ہیں جیسے کہ ایک ہزار آدمی ہزاروں من بوجھ کھینچ لیتا ہے یا گھڑ اپنے آپ چلتی ہے وقت پر بجتی ہے‘ اس میںسے چڑیا نکلتی ہے جے بجے ہوں سے دفعہ نہایت خوش آوازی سے بولتی ہے ۔ پر پھیلاتی ہے اور پھر جھٹ اپنے گھونسلے میں جا بیٹھتی ہے۔ انگریزی کھلونوں میں طرح طرح کے عجائبات ہوتے ہیں ۔ چڑیاں اڑتی ہیں‘ چہچہاتی ہیں‘ ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی پر جا بیٹھتی ہیں پانی بہتاہے چڑیاں اس میں سے پانی پیتی ہیں باجے والے باجا بجاتے ہیں‘ آنکھیں اور گردن ہلاتے ہیں‘ ناچنے والے تال و سم پر ناچتے ہیں‘ لڑنے والے لڑتے ہیں‘ دونوں طرف سے سوار نکلتے ہیں‘ ایک دوسرے کو مارتا ہے‘ بگل والا بگل بجاتا ہے اور طرح طرح کے کرتب دکھاتا ہے جس سے برے بڑے شخصوں کی عقل حیران ہو جاتی ہے اورہمارے زمانے کے مولوی صاحب قبلہ تو خوب غور کرنے و کان لگا کر سننے کے بعد یہ فرماتے ہیںکہ واللہ فیہ دود لیکن بعض عالموں کی یہ بھی رائے ہے کہ ایسی بات ک وسحر میں داخل کرنا نہیں چاہیے‘ کیونکہ اس کے اسباب معلوم ہیں‘ مگر میں دست بستہ ان کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ جناب جن کو آپ اب تک سحر سمجھ رہے ہیں ان میں سے بھی بہت سوں کے اسباب معلوم ہو گئے ہیں چھٹی قسم سحر کی وہ امور قرار دیتے ہیں جو بذریعہ خواص ادویہ کے ظہور میں آتے ہیں مگر اگلے زمانے میں یہ باتیں بہت کم معلوم تھیں جب سے کہ علم کیمیا ‘ یعنی کیمسٹری کو ترقی ہوئی ہے اس وقت سے تو بہت ہی عجیب عجیب باتیںظاہر ہوئی ہیں۔ سچ ہے اگر جناب مولوی صاحب دو ہوائوں میں سے پانی بہتا ہوا دیکھیں جس سے وضو بھی کر سکیں‘ روزہ بھی کھو ل سکیں اورضرورت ہو تو نہا بھی سکیں تو وہ بیچارے اس کو جادو نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔ ساتویں قسم سحر کی وہ باتیں ہیں جن کا ظہور میں لانا بذریعہ تاثیر اسماء کے بیان کیا جاتا ہے اورہر قسم کے ساحر خیال کرتے ہیں کہ بہت سے الفاظ اور اسماء کے لیے موکل ہیں اور ان اسماء کو طریقہ مخصوصہ و تعداد معینہ اور پرہیز مقرر ہ سے پڑھنے اور ان کی ذکاۃ دینے سے وہ موکل ان کے تابع ہو جاتے ہیں اور وہ ایسے زبردست ہیں کہ بھوت پلیت ‘دیو ‘ جن ‘ پری اور آسمان و زمین اور جو کچھ کہ ان میں ہے سب ان کے تابع ہیں۔پس جب وہ موکل اس ساحر کو جس کو عامل بھی کہتے ہیں تابع ہو گئے تو وہ سب چیزوں پر قادر ہو گیا ۔ جنوں کوشیشے میں بند وہ کرلیتا ہے۔ بیماروں کووہ اچھا کر دیتا ہے ۔ درندہ جانوروں کو وہ فرماں بردار بنا لیتا ہے‘ کنوئیں میں سے پینے کو پانی ابال دیتا ہے پھر کوئی ’’یابدھو‘‘ کا عمل جانتا ہے اور کوئی ’’یاھو‘‘ کا اورجس کو اسم اعظم معلوم ہو گیا پھر اس کا تو کچھ پوچھنا ہی نہیں۔ جو لوگ قرآن مجید کی آیتوں کو بطور عمل کے پڑھتے ہیں ۔ اور کسی میں وسعت رزق کی اور کسی میں کشود کار کی اور کسی میں شفا ء امراض کی تاثیر سمجھتے ہیں وہ بھی قریب قریب انہی کے ہیں۔ قرآن مجید کی کسی آیت یا سورۃ میں اس قسم کی تاثیر نہیں ہے نہ قرآن مجید کوئی عملیات کی کتاب ہے نہ ان کاموں کے لیے نازل ہوا ہے کہ لوگ اس سے نصیحت پکڑیں اور جو احکام اس میں ہیں اس پر عمل کریں۔ آٹھویں قسم سحر کی لگائی بجھائی ہے کہ ادھر کی با ت ادھر جا کہی اور ادھر کی ادھر۔ دو ایک باتیں اپنی طرف سے ملا لیں‘ دوست کو دشمن کر دیا اوردشمن کو دوست۔ آپس میں دوستوں کے رنج ڈلوا دیا جورو خصم کو چھڑوا دیا۔ بھائی بھائیوں میں ‘ باپ بیٹوں میں رنج کروا دیا۔ بلاشبہ اس زمانے کے لوگوں میںیہ ایک نہایت چلتا ہوا عمل ہے جس کے ہم بھی قائل ہیں۔ یہ تامام اقسام بلحاظ لغوی معنی سحر میں داخل کیے گئے ہیں۔ ورنہ قسم چہارم و پنجم و ششم و ہشتم میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جس پر اطلاق سحر کا بمعنی عرفی ہو سکے۔ قسم دوم پر سحر کا اطلاق بمعنی لغوی یا مجازاً بمعنی عرفی ہو سکتا ہے کیونکہ اس زمانے میں ہر قسم کی باتوں رپ بھی سحر کا اطلاق ہوتا تھا۔ ورنہ درحقیقت وہ بھی سحر نہیں ہے بلکہ ایک فعل منجملہ افعال قوائے انسانی کے ہے جیسے کہ قسم ششم بذریعہ خواص ادویہ کے ہے‘ قرآن مجید میں صرف اسی قسم کے افعال پر اطلاق سحر بطور عرف عام ہوا ہے۔ البتہ قسم اول و سوم و ہفتم اگر سچ ہو تو سحر بمعنی عرفی ہے‘ کیونکہ عرف عام میں جادو اسی کو کہتے ہیں جس سے بلاتعلق کسی مادے کے صرف بذریعہ تسخیر کواکب یا ارواح اسماء کے اور بغیر کیس وسیلے قدرتی کے بطریق خرق عادت‘ بلکہ برخلاف نیچر‘ یعنی برخلاف قانون قدرت کے کوئی امر ظہور پذیر ہو اور فی الواقع ایسا ہی ہو جاوے جیسا کہ ظہور میں آوے۔ مثلاً ہم قلم کو کہیں کہ گھوڑا ہو جا وہ سچ مچ کا گھوڑا ہو جاوے۔ اگر آدمی کسی کو گدھا بنانا چاہے تو درحقیقت وہ گدھا بن جاوے گو قانون قدرت کیسا ہی ا سکے برخلا ف ہو پس ہم کو سحر کے برحق ہونے سے انکار کرتے ہیں اور اس کو بے اصل بتلاتے ہیں تو انہی تین قسم کے سحروں کو بے اصل و جھوٹ بتلاتے ہیں اور عر ف عا م میں انہین تینوں قسموں پر حقیقتہً اطلاق سحر کا ہوتا ہے اور قسم ثانی پر صرف مجازاً اور باقی قسموں کو عرف عام میں کوئی شخص سحر نہیں کہتا۔ پس ا س آرٹیکل میں ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان اقسام ثلثہ سحر کی اصلیت اور واقعیت کا ثبوت قرآن مجید میں نہیں ہے‘ بلکہ ان پر یقین رکھنا ٹھیٹ مذہب اسلام کے برخلافہیاور جو کہ یہی تین قسمیں اگر سچ ہوتیں تو حقیقۃً سحر ہوتیں۔ مگر جو کہ وہ بے اصل ہیں اس لیے ہم سحر کے منکر ہیں۔ قرآن مجید میں بہت جگہ لفظ سحر و ساحر و مسحور آیا ہے اور اکثر جگہ کفار کی زبان سے وہ لفط نقل کیا گیا ہے ۔ کہ کفار انبیا علیہم السلام کے کاموں کو جادو اور ان کو جادوگر اور ان کی پند و نصیحت کی باتوں کو ایسے شخص کی باتیں جس پر جادو کر دیا گیا ہو اور وہ لغو اور بے سروپا باتیں بکا کرے کہا کرتے تھے۔ پس اس طرح پر کفار کا قول نقل کرنے سے سحر کا حق ہونا لازم نہیں آتا۔ مثلاً ہم کہیں گے کہ کیمیا گر یہ کہتے ہیں یا یہ کرتے ہیں تو اس کہنے سے یہ لازم نہیں آتا ہے‘ بلکہ اس سے صرف اتنا مطلب ثابت ہوتا ہے کہ ایسے اشخاص کا وجود ہے جو اپنے تئیں کیمیا گر کہتے ہیں اوروہ ایک کام کرتے ہیں جس کو کیمیا بنانا کہتے ہیں اوریہ کچھ ضرور نہیں کہ فی الواقع وہ کام بھی ایسا ہے جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔ زمانہ نزول قرآن مجید میں ایسے لوگ موجود تھے جو ساحر کہلاتے تھے تو وہ ایسے افعال بھی کرتے تھے جن کو وہ سحر سمجھتے تھے پس قرآن مجید میں سحر و ساحر کا ذکر ہونے سے ایسے اشخاص اور ان کے افعال کا وجود ثابت ہوتا ہے نہ سحر کے برحق ہونے کا۔ ہاں بعض مقام ایسے ہیں جہاں بعض واقعات کا سحرسے وقوع میں آنا مذکور ہوا ہے اسی کے بیان پر ہم کو متوجہ ہونا چاہیے اوردیکھنا چاہیے کہ وہ واقعات کس قسم کے ہیں۔ اگر وہ ایسے ہیں جن کا ظہور بذریعہ تاثیر قوت نفس انسانی ہوا ہے تو درحقیقت وہ سحر نہیں ہے بلکہ بطور عرف عام یا غلط عام جیسا کہ کفار سمجھتے ہیں اس پر اطلاق لفظ سحر کا ہوا ہے اور اگر وہ اور قسم کے واقعات سہ گانہ سحر سے علاقہ رکھتے ہیحں جن سے ہم منکر ہیں تو ہم کو اس کی توجیہ بیان کرنی یا تاویل کرنی ضرور ہو گی۔ مگر ہمارے نزدیک قرآن مجید میں تاویل جائز نہیں ہے بقول شخصے: باب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را اس لیے ہم نہایت استحکام سے کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں کوئی واقعہ ایسا مذکور نہیں ہے جو اقسام ہ گانہ سحر مذکورہ بالا سے علاقہ رکھتا ہو۔ بڑے سے بڑا قصہ سحر کا جو قرآن مجید میں مذکور ہے وہ قصہ موسیٰ و فرعون کے ساحروں کا ہے۔ گر اس میں کچھ بھی اشارہ ان اقسام ثلثہ سحر کی نسبت نہیں ہے جن کے برحق ہونے کو ہم ناحق سمجھتے ہیں اس قصے میں جو کچھ بیان ہے وہ نفس انسانی کی قوت کا ظہور ہے اور اس وجہ سے کہ اس زمانے کے کافر اس کو بھی سحر سمجھتے تھے قرآن مجید میں ان پر لفظ سحر کا اطلاق ہوا ہے‘ ورنہ درحقیقت وہ امور جو فرعون کے ساحروں نے کیے اورجو امر کہ حضرت موسیٰ نے کیا وہ ظہور قوت نفس انسانی کا تھا‘ مگر جو کہ انبیاء علیہم السلام میں ازروئے خلقت کے وہ قوت اقوی ہوتی ہے اس لیے حضرت موسیٰ علیہم السلام سحرہ فرعون پر غالب آئے گو فرعون نے یہی کہا کہ : انہ لکبیر کم الذی علمکم السحر یعنی موسیٰ تمہارا گرو ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے۔ نفس انسانی میں ایک ایسی قوت برقی اور مقناطیسی موجود ہے جو خود اس پر اور اس کے خیال پر اور دوسروں پر اور دوسروں کے خیال پر اثر کرتی ہے ۔ اس کے اثر متعدد طرح پر ہوتے ہیں‘ ان میں سے یہ بھی ہے ہ شے غیر موجود حقیقۃً موجود معلوم ہوتی ہے۔ خواب میں بھی آدمی تمام چیزوں کو جو اس نے خواب میں دیکھی ہیں حقیقۃ موجود سمجھتا ہے حالانکہ کوئی چیز موجود نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ وہ کبھی اپنے تئیں ہوا میں اڑتا ہوا جانتا ہے اورکبھی جہاز میں اور کبھی ریل میں اور کبھی گھوڑے پر اور کبھی پیدل کوسوں کا سفر کرتا ہوا دیکھتا ہے اور حقیقت میں وہ پلنگ پر چادر اوڑھے پڑا ہوتا ہے۔ زیادہ تعجب ہے کہ خواب میں ا س کو دن ہوتا ہے رات ہوتی ہے سو برس کا زمانہ خواب میں گزر جاتاہے‘ مگر اس کوسوئے ہوئے دو گھڑی سے زیادہ نہیں ہوتا۔ جاگتے میں بھی کبھ اس کا ایسا حال ہوتا ہے کہ شے غیر موجود کو علانیہ موجود دیکھتا ہے۔ بزرگ و مقدس لوگ نہایت شوق و استغراق سے جب عید کا چاند تلاش کرتے ہیں تو کبھی ان کی آنکھوں کے سامنے چاند کی چمک پھر جاتی ہے اور بعضی دفعہ آنکھوں کے سامنے تھوڑی دیر کے لیے ہلال کی سورت جم جاتی ہے حالانکہ درحقیقت وہ موجود نہیں ہوتی اور یہ دونوں باتیں اس امر کی دلیل ہیں کہ خود اپنے آپ پر اس قوت کا اثر پڑتاہے ۔ بعض مجنون آدمی ان لوگوں کو جن کا ان کے دل میں خیال پک گیا ہے اپنے سامنے کھڑا و بیٹھا و باتیں کرتا دیکھتے ہیں۔ اور مثل شخص موجود کے اس سے سوال وجواب کرتے ہیں اور اس کے سوالات اور اس کی باتیں ان کو سنائی دیتی ہیں حالانکہ کوئی شے موجود نہیں ہوتی اوریہ اثر اسی قوت نفس انسانی کا ہے جو بسبب وقوع امورات غیر طبعی کے ایک طرف مائل ہو گئی ہے۔ دوسروں پر نفس انسانی کا اثر پڑنا تو ایسا بدیھی ہے کہ جب چاہو اس کا تجربہ ہو سکتا ہے۔ یہ قوت مشق اور مجاہدے سے قوی‘ بلکہ تمام اقویٰ ہو جاتیہے اور بعضوں میںفطری قوی ہوتی ہے اور تمام ان خیالات ان کو مرئی ہوتے ہیں ‘ یہاں تک کہ جس مرے ہوئے شخص کا وہ خیال کرتے ہیں اس کی صورت خیالی جس کو وہ مردے کی روح سے تعبیر کرتے ہیں اسی زرق برق کے لباس سے جوہوہ مردہ پہنتا تھا ان کے سامنے مرئی ہوتی ہے۔ اس قوت نفسانی کا اثر دوسرے شخص کے چھونے سے دم ڈالنے سے‘ پھونک دینے سے‘ نگاہ سے گھورنے سے توجہ ڈالنے اورمنتقل ہوتا ہے اور علمی اصطلاح میں اثر ڈالنے والے کو عامل اور جس پر اثر ڈالا گیا ہو اس کو معمول کہتے ہیں ۔ اس قوت کا ایسا قوی اثر ہے کہ معمول کا تمام ارادہ اور خیال بالکل عامل کے تابع ہو جاتا ہے۔ عامل جس غیر موجود چیز کو کہتا ہے کہ ہے معمول اپنے خیال میں اس کو واقعی موجود سمجھتا ہے۔ اور اس پر وہی حالت طاری ہو جاتی ہے ۔ جو در صورت واقعی موجود ہونے اس شے کے ہوتی ہے اور جس موجود شے کو عامل کہتاہے کہ نہیں ‘ معمول اس کو یقینا جانتا ہے کہ نہیںہے‘ یہاں تک کہ اگر عامل معمول کی کسی قوت کو کہتا ہے کہ نہیں ہے تو معمول ایسا ہی ہو جاتا ہے کہ گویا درحقیقت وہ قوت اس میں نہیں ہے ۔ جن مردہ شخصوں کا موجود ہونا عامل بیان کرتا ہے معمول ان شخصوں کو اسی طرح حاضر و موجود دیکھتا ہے اور کہا جاتاہے کہ وہ ان کی ارواحوں کی پیکر ہیں۔ پس جو قصہ موسیٰ و سحر فرعون کا قرآن مجید میں مذکور ہے وہ اسی قوت نفس انسانی کا ظہور ہے‘ نہ وقوع کسی امر خلا ف قانون قدرت کا چنانچہ الفاظ قرآن مجید سے اسی امر کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ سورہ طہ میں خدا نے بیان کیاہے کہ : قال القہا یا موسیٰ فالقاھا فاذا ھی حیۃ تسعیٰ قال خذھا ولا تخف سنعیدھا سیرتہا الاولیٰ۔ سورہ طہ آیت ۲۰۔۲۲ جب حضر ت موسیٰ آگ کے پاس پہنچے تو ان کو پکارا گیا اور ایک خدا کی عبادت کا حکم ملا اور وحی سے القا ہوا کہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے موسیٰ نے کہا کہ میری لاٹھی ہے جس کو ٹیک لیتا ہوں اور اس سے بھیڑوںکو ہنکاتا ہوں اور وہ کام میں بھی آتی ہے پھر وحی سے القا ہوا کہ اے موسیٰ اس کو پھینک دے (یہاں قرینہ کلام مقتضی ہے کہ پھینک دینے کا نتیجہ بھی القا ہوا مگر جو کہ نتیجہ آگے مذکورہواس اس لیے بلحاظ بلاغت کلام اس جگہ بیان نہیں کیا) پھر موسیٰ نے اس کو پھینک دیا تو وہ یک بیک چلتا ہوا سانپ تھا‘ پھر وحی سے القا ہوا کہ اس کو پکڑ لے اور مت ڈر ہ پھر پہلے ہی سا کر دیں گے۔ سورہ نمل میں خدا نے بیان کیا ہے کہ جب موسیٰ آگ کے پاس پہنچے تو ان کو پکارا گیاکہ جو کچھ آگ میں اور آگ کے گرد ہے اس کو ہم نے برکت دی ہے ۔ پاک اللہ تمام عالموں کا پروردگار ہے۔ اے موسیٰ بے شک میں خدا ہوں سب پر غالب حکمت والا۔ اس کے بعد وحی سے موسیٰ کو القا ہوا کہ : والق عصاک فلماراھا تہتز کانھا جان ولیٰ مدبرا ولم یعقب یا موسیٰ لا تخفف انی لا یخاف لدی المرسلون سورہ نمل آیت ۱۰ اپنی لاٹھی پھینک دے (یہاں قرینہ کلام مقتضی ہے کہ موسی نے لاٹھی پھینک دی اور وہ سانپ دکھائی دی ) پھر انہوں نے اس کودیکھا کہ سانپ کی طرح ہلتی ہے تو پیٹھ پھیر کر پیچھے ہٹے اورپھر پلٹ کر رخ نہ کیا۔ القا ہوا کہ اے موسیٰ مت ڈر میرے پاس پیغمبر نہیں ڈرا کرتے۔ پس ان دونوں آیتوں کے لفظوں پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ لاتھی حضرت موسیٰ کو سانپ دکھائی دی اور درحقیقت وہ لاٹھی ہی تھی اور کلمہ سنعیدھا سیرتہا الا ولیٰ اور کلمہ کانھا جان سے اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔علاوہ اس کے جو آیتیں آئندہ مذکور ہوں گی ان میں بہت صفائی سے بیان ہوا ہے کہ وہ لاٹھی سانپ معلوم ہوتی تھی۔ یہ کیفیت جو یہاں سے حضرت موسیٰ پر طاری ہوئی یہ اسی قوت نفس انسانی کا ظہور تھا جس کا اثر ان پر ہوا تھا اور اس کے بعد جو واقعات ہوئے وہ وہ ہیں جن میں قوت انسانی کا اثر دوسروں پر ہوا تھا۔ جب حضرت موسیٰ کو معلوم ہو گیا کہ ان کی قوت نفس انسانی سے لاٹھی دکھلائی دیتی ہے تو وہ اس کو بطور خدا کے قدرت کے ایک نشانی لے کر فرعون کے پاس آئے ۔ فرعون نے کہا کہ اگر تم کوئی نشانی لائے ہو تو لائو اگر سچے ہو تو موسیٰ نے اپنی لکڑی ڈال دی تو یکایک وہ لکڑی صاف اژدھا تھی۔ فالقی عصاء فاذا ہی ثعبان مبین۔ سورہ اعراف آیت ۱۰۴ و سورۃ شعرا آیت ۳۱ مفسرین نے اور نیز صاحب تفسیر کبیر نے ان آیتوں کی تفسیر میں وہی قصے اورنکات دور ازکار لکھے ہیں جیسی کہ عادت مفسرین کیہے اور روایات بے سند اقوال بے سروپا بھر دیے ہیں مگر ایک جملہ صاحب تفسیر کبیر نے لکھا ہے وہ غور کے قابل ہے ۔ آیت سورہ شعرا کی تفسیر مٰں امام صاحب نے لکھا ہے کہ: اعلم ان قولہ اولو جئتک بشئی مبین یدل علی ان اللہ تعالیٰ قبل ان القی العصا عرفہ بانہ یصیرھا ثمبا ناولولا ذلک لما قال ما قال فلما القی عصاہ ظہر ماوعدہ اللہ بہ فصار ثعبانا مبینا والسرادانہ تبین للناظرین انہ ثعبان بحر کاتہ وبساترا لعلامات۔ تفسیر کبیر مطبوعہ مصر جلد ۵ صفحہ ۵۲ خدا کا جو یہ قول ہے کہ حضرت موسی ٰ نے فرعون سے کہا کہ اگر میں تجھ کو علانیہ کوئی بات دکھائوں جب بھی تو مجھے قید کرے گا تو یہ کہنا اس بات پر دلیل ہے کہ لاٹھی کے ڈلنے سے پہلے خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو بتلا دیا تھا کہ وہ اژدھا ہو جاوے گی‘ کیونکہ اگر یہ نہ ہوتا تو جو بات حضرت موسی ٰ نے کہی وہ نہ کہتے پھر جب حضرت موسیٰ نے لاٹھی پھینکی تو وہ چیز ظاہر ہوئی جس کا وعدہ اللہ نے کیا تھا۔ پھر وہ لاٹھی علانیہ اژدھا ہو گئی اورعلانیہ اژدھا ہو جانے سے مراد یہ ہے کہ وہ لاٹھی دیکھنے والوں کو ہلنے سے اور اور تمام نشانیوں سے اژدھا معلوم ہوئی ۔ لفظ تبین للناس یعنی دیکھنے والوں کو اژدھا معلوم ہوئی قابل غور ہے۔ جو صاف اسی قوت نفس انسانی کی تاثیر پر دلالت کرتا ہے ۔بھلا یہ لفظ تو ایک مفسر کے ہیں جن کی نسبت جو چاہے انکار کرے‘ مگر اگلی آیتوں میں خدا نے ایسے ہی لفظ فرمائے ہیں جن سے وہی بات ثابت ہوتی ہے جو ہم کہتے ہیں۔ اس بیان تک دو باتیں معلوم ہو گئیں‘ ایک یہ کہ حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس بھیجنے سے پہلے خدا نے ان کو بتلا دیا تھا کہ اگر تو لاٹھی پھینک کر کہے گا کہ سانپ ہے تو وہ سانپ یا اژدھا دکھائی دے گی۔ دوسرے یہ کہ جب حضرت موسیٰ فرعون کے پاس آئے اور خدا کا پیغام پہنچایا تو فرعون نے اس کی تصدیق کے لیے نشانی چاہی ہمارا قول ہے کہ معجزہ دلیل صحت نبوت نہیں ہے‘ مگر بلاشبہ وہ حجب الزامی مسکت للخصم ہے نہ مفید یقین۔ پس حضرت موسیٰ نے بطور حجت الزامی کے بھی نشانی اس کو دکھائی کہ لاٹھی ڈالی اور اژدھا کر دکھایا۔ اس پر فرعون نے اپنے ملک کے بڑے برے عالموں اور ساحروں اور امیروں کو جمع کیا اوروہ سمجھ گئے کہ کس وجہ سے موسیٰ کی لکڑی سانپ یا اژدھا ہو کر دکھلائی دی اور انہوںنے کہاکہ ہم بھی ایسا کرتوت کر سکتے ہیں‘ چنانچہ اس مباحثے کے لیے ایک دن مقرر ہوا اورسب لوگ جمع ہوئے۔ اس اکھاڑے میں جو کچھ ہوا اس کا ذکر کئی جگہ قرآن مجید میں آیا ہے ۔ سورہ یونس میں مذکور ہے کہ : فلما جاء السحرۃ قال لہم موسیٰ القواما انتم مملقون فلما القواقال موسیٰ ما جئتم بہ السحران اللہ سیبطلہ ان اللہ یصلح عمل المفسدین۔ سورہ یونس آیت ۸۰ و ۸۱ جب فرعون کے ساحر آ گئے تو حضرت موسیٰ نے ان سے کہا کہ ڈالو تم کیا ڈالتے ہو جب انہوں نے ڈال دیاتو موسیٰ نے کہا جو کچھ تو نے کیا یہ جادو ہے اللہ ابھی اس کو جھوٹا کر دے گا‘ بے شک اللہ تعالیٰ مفسدوں کے کام کو نہیں سنوارتا۔ اور سورہ شعرا میں فرمایا ہے کہ : قال لھم موسیٰ القواما انتم ملقون فالقوا حبالھم و عصیھم و قالوا بعزۃ فرعون ان النحن الغالبون فالقیٰ موسیٰ عصاہ فاذا ھی تلقف مایافکون۔ سورہ شعرا آیت ۴۲۔۴۴ موسیٰ نے فرعون کے ساحروں سے کہا کہ ڈالو تم کیا ڈالتے ہو پھر انہوںنے اپنی رسیاں اور اپنی لاٹھیاں دال دیں ( جو سانپ و اژدھے ہو گئیں) اور پکار اٹھے کہ فرعون ی جے ہم ہی موسیٰ پر غالب ہیں (موسیٰ نے تو صرف ایک لاٹھی ڈال کر سانپ یا اژدھا بنایا تھا اور فرعون کے ساتھیوں نے متعدد لاٹھیاں اور رسیاں ڈال کر ان کو سانپ اور اژدھا بنا دیا اسی لیے انہوں نے فرعون کی جے پکارے کہ ہم موسیٰ پر غالب ہوئے)پھر جب موسیٰ نے بھی لاٹھی ڈالی تو وہ یکایک ان کو نگلنے لگی جن سب کو فرعونوں کے ساحروں نے دھوکا سے بنایا تھا۔ ایک لامذہب اس مقام پر یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر حضرت موسیٰ نے اپنی لاٹھی پہلے ڈال کر سانپ بنایا ہوتا تو کیا عجب ہے کہ ساحرہ فرعون اپنی لاٹھیوں اور رسیوں کو اس طرح پر ڈالتے کہ موسیٰ کے سانپ کو نگل جاتیں مگر یاد رہے کہ ہم ایسے اعمال کو حجت الزامی قرار دیتے ہیں نہ برھان لمی تو لامذہب کے اس قول سے ہماری تحقیق پر یا سچائی مذہب پر کوئی جرح واقع نہیںہوتی۔ اور سورہ اعراف میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ : قالو یا موسیٰ اما ان تلقی واما ان نکون نحن الملقین قال القوا فلما القوا سحرو ا اعین الناس واستر ہبو ھم وجائوا بسحر عظیم و اوحینا الیٰ موسیٰ ان الق عصاک فاذا ھی تلقف مایافکون سورہ اعراف آیت ۱۱۰۔۱۱۴ سحرہ فرعون نے کہا اے موسیٰ یا تم ڈالو یا ہم ڈالیں۔ موسیٰ نے کہا ڈالو پھر جب انہوںنے ڈالا تو جادو کر دیا لوگوں کی آنکھوں پر اور ڈرا دیا ان کو اور بڑاجادو کیا اور القا کیا ہم نے موسیٰ کو ڈال دے اپنی لاٹھی‘ پھر یکایک وہ نگلنے لگی جو دھوکا انہوںنے بنایاتھا۔ سحرو ا اعین الناس کا لفظ جو ا س آیت میں ہے اس کا ٹھیک ترجمہ ہماری زبان میں ڈھٹ بندی کرنا ہے ۔ اور سورہ طہ میں خدا تعالیٰ نے یوں فرمایا کہ : قالو یا موسیٰ اما ان تلقی واما ان نکون اول من القیٰ قال بل القوا فاذا حبالھم و عصیہم یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعیٰ فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسیٰ قلنا لا تخفف انک انت الاعلیٰ والق ما فی یمینک تلقف ما صنعوا انما صنعوا کید ساحر ولا یفلح الساحر حیث اتیٰ سورہ طہ آیت ۶۸۔۷۲ سحرہ فرعون نے کہا کہ ا ے موسیٰ یا تو تم ڈالو نہیں تو ہم پہلے ڈالتے ہیں۔ موسیٰ نے کہا ہاںتم ڈالو‘ پھر یکایک ان کی رسیوں اور ان کی لاٹھیوں کی طرف موسیٰ نے خیال کیا کہ ان کے جادو کے سبب سے چلتی ہیں‘ پھر موسیٰ کو جی میں ڈر سا ہو ا تو ہم نے القا کیا کہ مت ڈر تو ہی ان پر غالب ہے اور ڈال جو تیرے دائیں ہاتھ میں ہے‘ تاکہ نگل جاوے جو کچھ کہ انہوں نے بنایا ہے‘ جو کچھ انہوںنے بنایا ہے وہ جادوگروں کا مکر ہے اور جادوگروں کو فلاح نہیں ہے جہا ں جاوے۔ سورہ اعراف کی آیت میں جس پر باقی آیتیں محمول ہیں ایک جملہ آیا ہے کہ سحرو اعین لا نہ یفسر بعضہا بعضا الناس یعنی ڈھٹ بندی کر دی پس یہ جملہ صاف اس بات پر دلالت کرتاہے کہ درحقیقت وہ لاٹھیاں یا رسیاں سانپ و اژدھے نہیں ہو گئی تھیں بلکہ بہ سبب تاثیر قوت نفس انسانی کے جو ساحروں نے کسب سے حاصل کی تھیں وہ رسیاں و اٹھیاں لوگوں کو سانپ و اژدھا معلوم ہوتی تھیں‘ حضرت موسیٰ نے جو کچھ کیا وہ بھی مقتضائے قوت نفس انسانی تھا۔ مگر وہ قوت حضرت موسیٰ میں فطرتی اور اقویٰ تھی۔ اس مقام پر ہم چند باتوں میں بحث کریں گے اول امر مانحن فیہ سے یعنی اس سے کہ حقیقتہ جادو کوئی چیز نہیںہے ۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ : ثم قال تعالیٰ فلما القوا سحروااعین الناس واحتج بہ القائلون بان السحر محض التمویہ قال القاضی لو کان السحر حقا لکانوا قد سحروا قلوبھم لا اعینھم فثبت ان المراد انھم تخیلوا احوالا عجیبۃ مع ان الامن فی الحقیقۃ ما کان علی وفق ما خیلوہ تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۶۸۲ سورہ اعراف پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب سحرہ فرعون نے اپنی رسیاں و لاٹھیاں ڈال دیں تو انہوں نے لوگوں پر ڈھٹ بندی کر دی۔ اس لفظ ڈھٹ بندی پر کہنے والوں نے دلیل پکڑی ہے کہ سحر صرف دھوکا ہے۔ قاضی کا قول ہے کہ اگر جادو برحق ہوتا تو وہ لوگوں کے دلوں پر جادو کر تے نہ ڈھٹ بندی کرتے ۔ پس ثابت ہوا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے لوگوں کے خیال میں عجیب عجیب باتیں ڈالی تھیں۔ باایں ہمہ حقیقت میں وہ باتیں ایسی نہ تھیں جیسی کہ لوگوں کے خیال میں پڑی تھیں یعنی وہ لاٹھیاں اور رسیاں درحقیقت سانپ اور اژدھے نہیں بنی تھیں‘ بلکہ صرف لوگوں کے خیا ل میں ایسی معلوم ہوتی تھیں اوریہ بات اسی تاثیر قوت نفس انسانی کے سبب سے تھی حقیقہ کوئی جادو نہ تھا۔ دوسری بحث یہ ہے کہ اگر حضرت موسیٰ کو بھی وہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ دکھائی دیں اور ان کو خوف ہوا تو ان پر بھی سحرہ فرعون کے کرتب کی‘ خواہ وہ جادو ہو یا ڈھٹ بندی یا تاثیر قوت نفس انسانی سحرہ فرعون اثر ہوا جس سے حضرت موسیٰ کی نبوت پر بٹا لگتاہے۔ مگر ہم ا س بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت موسیٰ کو وہ رسیاں و لاٹھیاں سانپ دکھلائی دی تھیں اوراس سبب سے وہ ڈر گئے تھے ۔ اگلے علماء نے بھی ا س بات سے انکار کیا ہے مگر جو تفسیر کی ہے وہ ٹھیک نہیں ارو شاہ ولی اللہ صاحب کے ترجمے میں بھی علانیہ چوک کی ہے۔ مولوی رفیع الدین صاحب نے اس کی کچھ درستی کی ہیـ‘ مگر یہ خوبی نہیں ہوئی اور شاہ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ہم پہلے اگلے علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں‘ پھر اپنی سمجھ بیان کریں گے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ: وروی عن ابن عباس رضی اللہ عنھما انہ خیل الی موسیٰ علیہ السلام ان حبالہم وعصیھم حیات مثل عصاء موسیٰ فاوحی اللہ عز و جل الیہ ان الق عصاک قال المحققون ان ہذا غیر جائزلانہ علیہ السلام لما کان نبیا من عنداللہ تعالیٰ کان علی ثقۃ ویقین من القوم لم یغالبوہ وھو عالم بان ما اتوابہ علیٰ وجہ المعارضۃ فہو من باب الحر والباطل ومع ہذا الجزم فانہ یمتنع حصول الخوف فان قیل الیس انہ تعالیٰ قال فاوجس فی نفس خیفۃ موسیٰ قلنا لیس فی الایۃ ان ہذا لخیفۃ انما حصلت لاجل ھذاا السبب بل لعلہ علیہ السلام خاف من وقوع التاخیر فی ظہور حجۃ موسیٰ علیہ السلام علی سحرھم تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۲۸۳ سورہ اعراف ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ موسیٰ کے خیال تک پہنچا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں سانپ ہیں موسیٰ کی لاٹھی کی مانند‘ پھر وحی بھیجی اللہ نے کہ ڈال دے اپنی لاٹھی ۔ اس پر محققوں کا قول ہے کہ ایسا ہونا ناجائز ہے۔ اس لیے کہ ہر گاہ حضرت موسیٰ خدا کی طرف سے پیغمبر تھے تو وہ پکے تھے اور ان کو یقین تھا کہ فرعون والے ان پر غالب نہ ہوں گے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ لوگ جو کچھ مقابلے میں لاویں گے وہ جادو اور جھوٹ ہو گا اور اس یقین کے ساتھ ان کو خو ف ہونا ناممکن ہے۔ اگر کہا جاوے کہ کیا خدانے نہیں کہا کہ موسیٰ کے جی میں ڈر ہوا تو ہم کہیں گے کہ اس آیت میں یہ نہیں ہے کہ وہ ڈر ان کو اس سبب سے ہوا تھا بلکہ شاید حضرت موسیٰ کو ساحروں کے سحر سے ان کی دلیل کے پیچھے پڑ جانے سے خوف ہوا ہو۔ تفسیر کبیر میں دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ صاف لکھا ہے کہ : فاما ماروی عن وھب انہم سحروا اعین الناس وعین موسیٰ علیہ السلام حتیٰ تخیل ذلک مستد لا بقولہ تعالیٰ فلما القوا سحروا اعین الناس و بقولہ تعالیٰ یخیل الیہ من سحرھم انہا تسعیٰ فہذا غیر جائز لان ذلک الوقت وقت اظہار المعجزۃ والا دلۃ واذالۃ الشبہۃ فلو صار بحیث لا یمیز الموجود عن الخیال الفاسد لم یتمکن من اظہار المعجزۃ و جینئذ یفسد المقصود فاذن المراد شاہد ان موسیٰ لو لا علمہ بانہ لا حقیقۃ لذالک الشئی لظن فیہا انہا تسعی۔ تفسیر کبیر جلد ۴ صفحہ ۴۵۴ ابن وھب سے جو روایت کی گئی ہے کہ سحرہ فرعون نے لوگوں کی آنکھوں پر اورموسیٰ کی آنکھ پر جادو کر دیا تھا اور خدا کے ا س قول کو دلیل پکڑا ہے کہ جب انہوں نے اپنی رسیاں او ر لاٹھیاں ڈالیں اور جادو کر دیا لوگوں کی آنکھوں پر اور خدا کے اس قول پر دلیل کی ہے کہ خیال گیا موسیٰ کا اس کی طرف ان کے جادو سے کہ وہ چلتی ہیں سو یہ بات ناجائز ہے‘ اس لیے کہ یہ وقت تھا وقت معجزہ دکھلانے کا اوردلیل قائم کرنے کا اورشبہ دور کرنے کا پھر اگر موسیٰ ایسے ہو گئے تھے کہ موجود چیز میں اور خیال فاسد میں تمیز نہیں کر سکتے تھے تو معجزہ دکھلانے پر بھی قادر نہ ہوتے اور ایسے وقت میں مقصد خراب ہوجاتا۔ پس اب یہاں یہ مراد ہے ہ حضرت موسیٰ نے ایسی چیز دیکھی کہ اگر نہ جانتے ہوتے کہ اس چیز کی کچھ حقیقت نہیں ہے تو اس کو خیال کرتے کہ وہ چلتی ہیں۔ پس یہ قول ہیں اگلے عالموں کے اور گو تفسیر کیسی ہی ہو مگر ان کے نزدیک یہ بات محقق ہے کہ سحرہ فرعون کے سحر کا اثر حضرت موسیٰ پر نہیں ہوا اور نہ انہوں نے ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کو چلتا جانا اورنہ اس سبب سے ان کو کچھ ڈر ہوا۔ ہمارا بھی یہی قول اور یہی مذہب ہے۔ مگر سمجھ میں اوربیان میں کسی قدر فرق ہے۔ خود جملے سحرو ا اعین الناس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ اس سے مستثنیٰ تھے‘ اس لیے کہ اس مقام پر حضرت موسیٰ ایک شخص بمقابل سحرہ فرعون کے تھے اور اس لیے ہر بات میں جو ان سے متعلق ہو قابل ذکر خاص کے تھی‘ مگر جب ان کا ذکر نہیں کیا تو عام طرح پر کہنے میں وہ شامل نہیں ہو سکتے‘ مثلاً کلوا اللوا دو پہلوان لڑ رہے ہوں اور کوئی دیکھنے والا کہے کہ کلوا نے ایسا دائوں کیا کہ سب ہنس پڑے۔ اس کلام کے سیاق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قائل نے جو لفظ سب کہا ہے اس میں کلوا کو بھی داخل کرنا مقصود نہ تھا‘ بلکہ سب دیکھنے والوں کا شامل کرنا مقصود تھا‘ اسی طرح خدا کے اس کلام میں کہ لوگوں کی آنکھوںپر جادو کر دیا حضرت موسیٰ داخل نہیں ہو سکتے۔ دوسری جگہ جو خدا نے فرمایا ہے کہ: یخیل الیہ من سحرھم انہا تسعیٰ اس کا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب نے یہ کیا ہے ’’نمودار شد پیش موسیٰ بسبب سحر ایشاں یخیل کے لفظ کا ترجمہ ’’نمودار شد‘‘ صریح غلط ہے۔ مولوی رفیع الدین صاحب نے ترجمہ کیا ہے کہ ’’خیال بندھا تھا طرف اس کے جادو ن کے سے ‘‘ یہ پرانی اردو ایسی ہے کہ جس کا مطلب بخوبی سمجھنا ذرا مشکل ہے۔ مولوی عبدالقادر صاحب نے ترجمہ کیا ہے کہ ’’اس کے خیال میں آئے ہیں ان کے جادو سے‘‘ کچھ شبہ نہیں کہ یہ ترجمہ بھی پہلے اردو ترجمے کا بھائی ہے اوران تینوں ترجموں کو یہ خیال ہے کہ حضرت موسیٰ پر سحرہ فرعون کے جادو کا اثر ہوا تھا۔ مگر قرآن مجید کا مطلب صاف ہے کہ اگرچہ حضرت موسیٰ کو وہ رسیاں اور لاٹھیاں چلتی ہوئی نہیں معلوم ہوئیں‘ مگر انہوںنے خیال کیا کہ ان کے سحر کے سبب سے لوگوں کو چلتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ اسی خیا ل پر وہ ڈر گئے‘ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ میں بھی تو یہی کروں گا کہ اپنی لاٹھی کواژدھا دکھلائوں گا۔ پس مجھ میں اور ان میں فرق کیا ہو گا۔لوگ بو ل اٹھیں گے کہ دونوں برابر جھوٹے ‘ مگر اللہ نے القا کیا کہ تو بڑھ کر رہے گا‘ تیری لاٹھی سب کو نگلے گی۔ پس اسی تقویت پر موسیٰ نے جوں ہی اپنا لٹھ ڈالا وہ اژدھا سحرہ فرعون کے سانپوں سپولیوں کو نگلتا ہوا دکھلائی دیا اور موسیٰ کی جیت ہو گئی۔ جادوگر قدموں پر آ گرے‘ فرعون بول اٹھا کہ یہ بڑا جادوگر ہے۔ پ یہ تمام واقعہ ہے حضرت موسیٰ و سحرہ فرعون کا اوراس واقعے کو ان اقسام ثلثہ سحر سے جن سے ہم نے انکار کیا ہے اور جادو کو برحق نہیں مانا کچھ تعلق نہیں ہے۔ دوسرا قصہ قرآن مجید میں ہاروت اور ماروت کے سحر کا ہے سورۃ بقر میں خدا تعالیٰ یہودیوں کی بد اعتقادیاں اور خرابیاں بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ : ولما جاء ھم رسول من نبذ فریق من الذین اوتو الکتاب کتاب اللہ وراء ظہورھم کانہم لا یعلمون واتبعو اما تتلو ا الشیاطین علیٰ ملک سلیمان وماکفر سلیمان ولکن الشیاطین کفروا یعلمون الناس السحر و ما انزل عی الملکین ببابل ہاروت وماروت وما یعلمان من احد حتی فلا تکفر فیتعلمون منہما ما یفرقون بہ بین المرء وزوجہ وما ھم بضارین بہ من احد الا باذن الہ ویتعلمون ما یضرھم ولا ینفعہم ولقد علموا المن اشتراہ مالہ فی الاخرۃ من خلاق ولبئس ماشروا بہ انفسہم لو کانوا یعلمون۔ سورۃ بقرہ آیت ۹۵ و ۹۶۔ جب خدا ان کے پاس خدا کی طرف سے کوئی پیمبر آیا سچ بتاتا ہوا اس چیز کو ‘ یعنی تورات کو جو ان کے پاس ہے تو جن کو وہ کتاب ملی ہے انہی کے ایک گروہ نے خدا کی کتاب کواپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا ہے کہ گویا جانتے ہی نہیں اورا س چیز کی پیروی جس کو شیطان ‘ یعنی کافر لوگ حضرت سلیمان کے عہد سلطنت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان نے کفر نہیں کیا‘ مگر شیطانوں یعنی کافروں نے کفر کیا کہ لوگوں کو سحر سکھلاتے اور اس گروہ نے اس چیز کی پیروی کی جس کو وہ اپنے زعم میں سمجھتے تھے کہ دو فرشتوں پر جن کا نام ہاروت و ماروت ہے اتاری گئی ہے ‘ حالانکہ وہ دونوں نہیں سکھاتے کسی کو یہاں تک کہ کہتے ہیں ہم تو فتنہ ہیںپھر مت کافر فنو اور پھر سیکھتے ان دونوں سے وہ چیز جس سے جدائی ڈالیں جورو خصم میں‘ حالانکہ وہ کسی کو اپنے جادو سے کچھ نقصان پہنچانے والے نہیں ‘ مگر خدا کے حکم سے اوروہ لوگ سیکھتے وہ چیز جو ان کو ضرر پہنچاتی نہ ان کو نفع دیتی اور بیشک یہ بات انہوںنے جان لی ہے جو کوئی اس کو خریدے اس کو آخرت میں کچھ فائدہ نہیں اور بے شک برا ہے وہ جو انہوںنے اپنی جانوں کے بدلے بیچا اگر وہ جانتے ہوتے۔ ظاہرا ان آیتوں میں کچھ مشکلات نہیں ہیں اورہم نے ترجمے میں بھی ان آیتوں کے مطلب کو کسی قدر صاف کر دیا ہے‘ مگر مفسرین نے ان آیتوں کی تفسیر میں عجیب عجیب لغو اور بے سروپا قصے بیان کیے ہیں جو سب کے سب محض بے اصل ہیں ۔ ہم ان لغو اور مہمل قصوں کا تو ذکر نہیں کرتے مگر چند اقوال جو قابل لحاظ ہیں نقل کرتے ہیں۔ مفسرین کو ا س مقام پر یہ مشکلیں پیش آئیں ہیں کہ ہاروت و ماروت تو دو فرشتے تھے پھر اگر وہ سحر سکھلاتے تھے تو کافر تھے‘ مگر فرشتے کافر نہیںہو سکتے۔ دوسرے یہ کہ خدا نے کہا ہے کہ یہودیوںنے توریت کو پس پشت ڈال کر اس چیز کی پیروی کی جو ہاروت و ماروت پر اتاری گئی تھی اوریہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ فرشتوں پر سحر کی تعلیم جو کفر و باطل ہے نازل کرے۔ ان مشکلوں کے دور کرنے کو بعض عالموں نے کہا ہے کہ وہ فرشتے نہ تھے چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ : قراء الحسن ملکین بکسر اللام وھو مروی ایضا عن الضحاک وابن عباس ثم اختلفوا فقال الحسن کانا علجین اتلفین بباطل یعلمان الناس السحر و قیل کانا رجلن صالحین من الملوک۔ تفسیر کبیر جلد ۱ صفحہ ۴۵۴ سورہ بقر حسن ملکین لام کے زیر سے پڑھتے تھے جس کے معنی بادشاہ کے ہیں اور ضحاک سیابن عباس سے بھی لام کے زیر ہی سے پڑھنا روایت کیا گیا ہے پھر ان میں اس بات کا اختلاف ہوا کہ وہ کون تھے ‘ حسن کا قول ہے کہ وہ دونوں بابل میں عجم کے کافروں میں سے تھے بغیر ختنے کیے ہوئے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ دونوں بادشاہوں میں سے صالح آدمی تھے۔ دوسری مشکل کے حل کرنے کو بعض عالموں نے اس آیت میں معطوف الیہ کو ادل بدل کر دیا ہے اور کہا ہے کہ : ان موضعہ جو عطہفا علی ملک سلیمان و تقدیرہ ماتتلوا الشیاطین افتراء علی ملک سلیمان وعلی ماانزل علی الملکین وھو اختیار ابی مسلم رحمۃ اللہ علیہ وانکر فی الملکین ان یکون السحر نازلا علیھما۔ تفسیر کبیر جلد ۱ صفحہ ۱۵۳ سورہ بقر۔ وما انزل کا عطف ہے ملک سلیمان پر اوراسکے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ پڑھتے تھے شیطان تہمت کر کر ملک سلیمان پر اور اس پر جو اتارا گیا تھا دو فرشتوں پر ۔ اس بات کو ابو مسلم نے اختیار کیا ہے اور اس بات سے کہ دو فرشتوں پر جادو نازل ہوا تھا انکار کیا ہے ۔ پھر خدا بخشے ابو مسلم نے اس آیت کی تفسیر میں دوسری راہ اختیار کی ہے جو اکثر مفسرین کے قول کے برخلاف ہے اور کہا ہے کہ : ثم انہ رحمۃ اللہ سلک فی تفسیر الایۃ نھجا آخر یخالف قول اکثر المفسرین فقال کما ان الشیاطین نسبوا السحرالی ملک سلیمان مع ان ملک سلیمان کان مبراء عنہ فکذلک نسبوا ما انزل علی الملکین الی السحر مع ان المنزل علیہما کان مبراء عن السحر و ذلک لان المنزل علیہما کان ہوا لشرع والذین والدعاء الی الخیر وانما کانا یعلمان الناس ذلک مع قولھما انما نحن فتنۃ فلا تکفر تو کیدا لبعثہم علی القبول والتمسک و کانت طائفۃ تتمسک و اخری تخالف وتعدل عن ذلک ویتعلمون منہما ای من الکفر والفتنۃ مقدار ما یفرقون بہ بین المرء و زوجہ فہذا تقدیر مذہب ابی مسلم ۔ تفسیر کبیر جلد ۱ صفحہ ۴۵۳ سورہ بقر۔ جس طرح شیاطین نے سلیمان کی بادشاہت کی طرف جادو کو منسوب کیاتھا حالانکہ سلیمان کی بادشاہت جادو سے پاک تھی‘ اسی طرح انہوں نے ان دونوں فرشتوں پر جو نازل ہو ا تھا اس کو بھی جادو کی طرف نسبت کیا تھا‘ حالانکہ جو کچھ ان فرشتوں پر اترا تھا جادو ہونے سے پاک تھا‘ اس لیے کہ جو کچھ ان پر اتر ا تھا وہ شرع اور دین اور نیک کاموں کی ہدایت کرتا تھا اور ان کا یہ کہہ کر کہ ہم فتنے ہیں تم کافر مت بنو لوگوں کو سکھانا قبول کرنے اور ماننے پر مبعوث ہونے کی دلیل ہے۔ ایک گروہ تھا کہ اس کو مانتا تھا اوردوسرا گروہ جو مخالفت کرتا تھا اور اس بات سے ٹل جاتا تھ ااور سیکھتا تھا ان میں سے یعنی کفر و فتنے میں سے اس قدر جس سے جدائی ڈال دے خصم جورو میں ۔ یہ بیان ہے مذہب ابی مسلم کا۔ بعض عالموں نے اور ہی معنی کہے وہ بولے کہ لفظ ما دونوں جگہ ناگیہ ہے اور وما انزل علی الملکین کا عطف ما کفر سلیمان پر ہے۔ گویا خدا نے کہا ہے کہ: ان یکون ما بمعنی الجحد ویکون معطوفا علی قولہ تعالیٰ وما کفر سلیمان کانہ قال لم یکفر سلیمان ولم ینزل علی الملکین سحر لان السحرۃ کانت تضیف السحرالی سلیمان و تزعم انہ مما انزل علی الملکین ببابل ہاروت و ماروت فرد اللہ علیھم فی القولین وقولہ ما یعلمان من احد جحد نفیا اے لا یعلمان احد بل ینہیان عنہ اشد النھی واما قولہ تعالیٰ حتیٰ یقولا انما نحن فتنۃ اے ابتلاء وامتحان فلا تکفر وھو کقولک ماامرت فلانا بکذا حتی قلت لہ ان فعلت کذا فلک کذا اے ما امرۃ بہ بل حذرۃ عنہ۔ تفسیر کبیر جلد ا ۔ صفحہ ۴۵۳ نہیں کافرہوا سلیمان اورنہیں اتارا فرشتوں پر جادو‘ کیونکہ ساحر جادو کو حضرت سلیمان کی طرف لگاتے تھے وہ گمان کرتے تھے کہ جادو وہ چیز ہے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر اتارا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ںے ان کی ان دونوں باتوں کو مردود کر دیا اور یہ جو آیت میں ہے کہ ما یعلمان من احد بھی ما بمعنی نفی کے ہیں‘ یعنی وہ دونوں نہیں سکھاتے تھے کسی کو‘ بلکہ اس کے سیکھنے سے منع کرتے تھے نہایت درجے کا منع کرنا اور جو خدا نے کہا ہے کہ حتی یقولا انما نحن فتنۃ اس کا مطلب ہے کہ وہ کہتے تھے کہ ہم بلا اور امتحان ہیں ‘ پھر کافر مت بنو۔یہ ایسی بات ہے جیسی کہ تم کہو کہ میں نے حکم نہیں دیا اس شخص کو ایسا کرنے کا‘ یہاں تک کہ میںنے اس کو کہا کہ اگر تو ایسا کرے گا تو تیرا حال یہ ہو گا۔ پس اس کا یہی مطلب ہوا کہ میںنے ان کو حکم نہیں دیا‘ بلکہ منع کیا اور ڈرایا۔ یہ ہیں تقریریں پچھلے عالموں کی ان آیتوں کی تفسیر میں اور ان تقریروں میں جو کچھ پن یا پکا پن ہے وہ سوچنے والے اور غور کرنے والے شخص پر ظاہر ہے ۔ ہمارا مقصد ان کے نقل کرنے سے صرف یہ ہے کہ اگلے عالموں میں بھی ہاروت و ماروت کے فرشتے ہونے سے اس بات سے کہ خدا کی طرف سے ان پر جادو کا علم نازل ہوا تھا انکار کیا ہے۔ ہماری سمجھ میں اس آیت کے معنی ایسے صاف اور آسان اور روشن ہیں کہ چٹیل میدان اور خشک پہاڑ کی گھاٹیوں میں اونٹ لے جانے والوں کو بھی جن کے سمجھانے کو قرآن اترا تھا کچھ شبہ نہیں تھا۔ ہاروت و ماروت قرآن مجید میں غیر منصرف آئے ہیں اور جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں لفظ عجمی ہیں‘ دو شخصوں کے نام ہیں جو اس زمانے کے لوگوں کے نزدیک نہایت صالح تھے اور ان کی نیکی یا اعمال کے سبب اس زمانے کے لوگ بطور مدح ان کو فرشتہ کہتے تھے جس طرح کہ زلیخا کی سہیلیوں نے حضرت یوسف کو دیکھ کر کہا تھا کہ: وما ھذا بشرا ان ہذا لا ملک کریم اس زمانے کے لوگ اسی طرح ان کے متعقد ہوں گے جیسے مسلمان حضرت شیخ محمد گوالیری کے اعمال کے معتقد ہیں۔ بہرحال خدا نے یہودیوں کی نسبت فرمایا کہ انہوںنے توریت کو پیٹھ پیچھے پھینکا اوراس چیز کی پیروی کی جس کو سلیمان کے وقت میں کافر پڑھا کرتے تھے اور وہ یہی اعمال سحرہ وغیر ہ تھے اور انہوںنے اس چیز کی پیروی کی جس کو وہ اپنے زعم باطل میں سمجھتے تھے کہ بابل میں ہاروت و ماروت پر جو ان کے زعم میں مثل فرشتوں کے تھے اتاری گئی ہے‘ حالانکہ یہ کام اور یہ زعم ان کا غلط تھا۔ پس اس جگہ پر قرآن مجید میں جو لفظ ملکین اور ماانزل کا آیا ہے وہ حکایۃ ان لوگوں کے خیا ل کے مطابق آیا ہے جو اس کو ایسا سمجھ کر اس کی پروی کرتے تھے نہ حقیقتہ اور اس لیے یہ سمجھنا کہ درحقیقت وہ فرشتے تھے اور درحقیقت کوئی چیز خدا نے ان پر نازل کی تھی صریح غلطی ہے۔ اب پھر ہم اپنے مطلب کی طرف رجوع کرتے ہیں اس آیت سے اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ ہاروت و ماروت لوگوں کو عموماً سحر یا جورو خصم میں مفارقت دلوا دینے کا عمل لوگوں کو سکھلاتے تھے اور یہ بات ہمارے مخالف نہیں جیسا کہ کیمیا گر کیمیا کے بہت سے نسخے بتاتے ہیں مگر یہ کہ وہ سحر برحق تھا یا موثر فی الحقیقت تھا ثابت نہیں ہوتا‘ بلکہ اس کے برخلاف ثابت ہوتا ہے اور اس کی تین دلیلیں بھی انہیں آیتوں میں موجود ہیں۔ اول یہ کہ وہ خود ہاروت و ماروت سیکھنے والوں سے کہتے تھے کہ یہ نہایت خراب کام ہے تم مت سیکھو۔ یہ بات کچھ تعجب کی نہیں ہے ۔ اس زمانے میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کوئی برا کام جانتے ہیں مگر جب کو ئی ان سے سیکھنا چاہتا ہے تو کہتے ہیں کہ خرا ب کام ہے کیوں سیکھتے ہو‘ مگر جب سیکھنے والا اصرار کرتا ہے تو سکھا دیتے ہیں۔ پس یہ کلام ہاروت و ماروت ایک عام مجراء طبعی کے موافق تھا جس سے بے حقیقت ہونا سحر کا مترشح ہوتاہے۔ دوسرے یہ کہ خود خدا نے فرمایا ہے کہ وہ کیس کو بسبب اپنے سحر کے کچھ نقصان پہنچانے والے نہ تھے اوریہ کہنا نص صریح اس بات پر ہے کہ سحر کچھ اثر ایسا نہیں تھا اور یہی معنی سحر کے باطل ہونے کے ہیں۔ آگے جو خدا نے فرمایا کہ الاباذن اللہ اس کے یہ معنی سمجھنا کہ ان کا سحر خدا کے حکم پر اثر کرتا تھا محض غلطی و ناسمجھی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عامل یا جادوگر کسی کام کے لیے عمل یا جادو پڑھتا ہے اور وہ کا م اس کی خواہش کے مطابق ہو جاتا ہے اور شبہ پڑتا ہے کہ عمل یا جادو کے اثر سے ہوا ہے۔ اس شبہے کے مٹانے کو خدانے فرمایا الا باذن اللہ یعنی ایسی حالت میں جو کام ہو جاتا ہے وہ خدا کے حکم سے ہو جاتا ہے۔ کچھ جادو یا عمل کے سبب سے نہیں ہوتا۔ تیسرے یہ کہ آخر میں انہی آیتوں کے خدا نے فرمایا ہے کہ جو کچھ وہ سیکھتے ہیں وہ ان کو کچھ نفع نہیں دیتے پس اس سے زیادہ اورکیا ثبوت ہو گا کہ جادو میں کچھ اثر نہیں ہے اور یہی امر جادو کا باطل ہونا ہے ۔ پس کچھ شبہ نہیں کہ قرآن کی رو سے جادو باطل ہے۔ ٭٭٭ سویلزیشن یعنی شائستگی اور تہذیب سویلزیشن انگریزی لفظ ہے جو مشتق ہے۔ سوس یا سوئٹیس سے جس کے معنی ہیں شہری یا شہر کے اور اصل میں یہ لفظ مشتق ہوا تھا کوٹس سے جس کے معنی ہیں مجمع یا اتفاق کے اور وجہ اس اشتقاق کی یہ ہے کہ شہروں کی بنیاد ابتدا اس طرح پر قائم ہوئی تھی کہ بہت سے آدمیوں نے ایک مقام پر ایسے عہد و پیمان کے ساتھ مل جل کر رہنا اختیار کیا جو ان کے باہم خود بخود اس نظر سے قائم ہو گئے ہیں کہ ان باشندوں کے وہ قدرتی اور باہمی حقوق محفوظ رہیں جو ان کی جان و مال کی حفاظت اور ذاتی آزادی کے متعلق تھے۔ سویلزیشن یعنی شائستگی کے لفظ کو عام اصطلاح میں ایسا لفظ سمجھنا چاہیے کہ جس سے اعلیٰ ترقی یافتہ اور شائستہ قوموں کی حالت ان قوموں کے مقابلہ میں جن کو وحشی یا نصف وحشی سمجھا جاتاہے سمجھ میں آ سکے۔ پس اس معنی کے اعتبار سے ہم یورپ کی اعلیٰ قوموں کو شائستہ اورتربیت یافتہ کہتے ہیں اور چینیوں و تاتاریوں کو اس سے کم شائستہ خیا ل کرتے ہیں۔ اور شمالی امریکہ کے اصلی باشندوں اور آسٹریلیا والوں اور کافروں یعنی جنوبی افریقہ والوں اور قطبی حصہ کے رہنے والوں اور جنوبی امریہ کے مختلف جنگلی قوموں کو نہایت کم شائستہ جانتے ہیں۔ سویلزیشن یعنی شائستگی کے لفظ کی اس قدر تمید کے بعد اب ہم کو اول اس امر پر بحث کرنا چاہیے کہ وہ قدرتی اور ملکی اور مذہبی اسباب کون سے ہیں جو انسان کی شائستگی کی ترقی کے موافق یا مخالف ہیں۔ لیکن اس امر پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ مناسب ہو گا کہ شائستگی کی کچھ کچھ عام کیفیت اس مضمون کے پڑھنے والوں کے ذہن نشین کر دی جائے ۔ چنانچہ اسی غرض سے ہم یورپ کی موجودہ حالت کو ایک سرسری طور سے بیان کرتے ہیں اور یہ حالات اس زمانہ سے متعلق ہیں جو ہمارے زمانے کے قریب تک ختم ہوتا ہے اورجس میں وہ زمانہ شامل ہے جس کا آغاز دنیا کی قدیم دارالسلطنت یعنی روم کے زوال سے شروع ہوا اور انتہا اس کی اس وقت شمار ہوتی ہے جب کہ ۱۴۵۲ء میں چھاپہ کا فن ایجاد ہوا۔ رو م کی سلطنت جس وقت تہ و بالا ہونے کو تھی اسی وقت عیسائی مذہب کو نشوونما حاصل ہوا۔ پس جو بیہودہ عیاشی کی باتیں کفار کے مذہب میں رائج تھیں اور ان کی جو اصلاح عیسائی مذہب کے ذریعہ سے ہوئی اور جو نئی کیفیت اس مذہب کی بدولت اس وقت کے لوگوں کے عادات و اطوار میں پیدا ہوئی اور علاوہ اس کے یونانیوں اور رومیوں کے علم و فضل اور شائستگی و تربیت کے اثر سے جو تبدیلیا دنیا کے عام حالات میں واقع ہوئیں اور علی ہذا القیاس اور اسی قسم کے امور پر ان لوگوں کو اپنی توجہ مصروف کرنی چاہیے جو شائستگی کی تحقیق کے درپے ہیں۔ ایسے چار سو برس کے انقلابوں کے بعد جن کے تدارک میں روم کی سلطنت کی تمام عقل اوردانائی صرف ہو گئی آخر کار وہ سلطنت بالکل تباہ ہو گئی ارو یورپ پر چاروں طرف سے وحشی قوموں نے حملہ کیا یعنی ہنر کی قوم اور داندلس اور وزی گاتھس اور لمبارڈس کی قوموں نے یورش کی اور ان کے آپس میں بھی برابر جنگ و جدل رہی کبھی کوئی قوم غالب آئی اور کبھی مغلوب ہوئی۔ انجام ان کا دو سو برس کی خون ریز اور سخت جنگ کا یہ ہا کہ مذکورہ بالا نصف وحشی فتح مندوں میں ملک تقسیم ہو گیا ارو اس وقت رومیوں کے قوانین اور طور و طریق اور رسم ورواج کی جگہ یورپ کے ان نئے فتح مندوں کے رسم و رواج قائم ہو گئے۔ خاص عیسائی مذہب بھی وحشیوں کے رسم و رواج کے مقابلہ میں مغلوب ہو گیا اور لوگوں مٰں سے جس قدر رومیوں کی شائستگی اٹھتی گئی اسی قدر بیہودہ خیالات جہالت سے مستحکم اور شائع ہوتے گئے اور جب شمالی قومیں اور گوشہ شمال و مشرق کی قومی رومی سلطنت کے قدیم صوبوں میں آ کر آباد ہوئیں اس ے چار سو برس آئندہ میں ہمیشہ شائستگی کو زوال ہوتا گیا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ بالکل مٹ گئی۔ جو زمانہ چھٹی صدی کے آخر میں شروع ہو کر چودھویں صدی کے آغاز تک ختم ہو گیا ہے اس سے جو تاریک زمانہ کا خطاب منسوب کیا گیا ہے وہ اس زمانہ کے حال کے بالکل مناسب ہے۔ اس دراز اور بے رونق زمانہ میں انگلستان کے بادشاہ الفریڈ اعظم اور فرانس کے شہنشاہ شارلی مین نے اپنی اپنی قلم رو میں علم اور ہنر کو دوبارہ شگفتہ ار قائم کرنے میں کوشش کی لیکن وہ دونوں ا س میں بہت کم کامیاب ہوئے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بالکل نہیں ہوئے۔ اہل عرب کی قوت اور شان و شوکت کی بنیاد ان کے پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بے نظیر فہم و فراست اور عجیب و غریب عقل و دانائی سے بہت خوبی کے ساتھ قائم ہوئی اور اس علم و ہنر کے حق میں جس کی قدر یورپ سے اٹھ گئی تھی البتہ اہل عرب بڑے مربی بنے۔ ا س کے بعد یورپ کے عیسائی مجاہدین نے مشرق میں جانے سے بہت سی نئی باتیں حاصل کیں چنانچہ مقام قسطنطنیہ جو ان علوم و فنون اور شائستگی کا خزانہ مشہور تھا جو رومیوں کے زوال سلطنت کے بعد باقی رہی تھی وہ ا ن مجاہدین کے حق میں ایک بڑی زرخیز کان ہو گیا لیکن بایں ہمہ جو کچھ علم اور معلومات وہ ولگ یور پ میں اپنے ہمراہ لائے تھے اس کے سبب سے لوگوں کے طور و طریق میں بہت تھوڑی تبدیلی واقع ہوئی لیکن بعد میں اس کے سبب سے خصوصاً اس تبدیلی میں زیادہ ترقی ہوئی کہ ہر سلطنت میں جو بڑے بڑے امیر اور جاگیر دار اس شرط سے اپنی جاگیروں پر قابض ہوتے تھے کہ بادشاہ کی اطاعت اور فرماں برداری کرتے ہیں۔ وہ دستور بالکل جاتا رہا تھا۔ ا سی طرح وہ ہزارہا چھوٹے چھوٹے جاگیردار بھی گویا غلامی سے آزاد ہو گئے تھے جو برے بڑے جاگیرداروں کے تحت میں اسی شرط سے سے بسر کرتے تھے۔ مجلسیں جو سلطنت کی کارروائی کے واسطے مقرر ہوئیں ان کے ممبر منتخب کرنے کا استحقان شہروں اور ضلع کے لوگو ں کو عطا ہوا۔ تجارت کوبھی رونق ہوئی اور آبادی بھی بہت بڑھ گئی اور جابجا شہر بکثرت آباد ہوگئے۔ داد رسائی کے طریقوں میں بھی بہت سی اصلاح واقع ہوئی اور علی ہذ القیاس ان خوبیوں کی ترقی سے جو معاشرت سے علاقہ رکھتی ہیں ۔ علوم و فنون کو بی ترقی ہوئی چنانچہ ۱۳۰۲ء بحری قطب نما ایجاد ہوا۔ جس کے سبب سے جہاز رانی کا شوق ا س نظر سے لوگوں میں پیدا ہو گیا کہ دنیا کے ملکوں کی چھان بین کریں اور شوق کے سبب سے وہ دلاوری اور محبت بھی لوگوں میں ظاہر ہوئی جو مذکورہ بالا سفر کے واسطے درکار تھی اوراس کانتیجہ یہ ہوا کہ تجارت کو نہایت وسعت حاصل ہوئی اور دنیا کی قوموں میں باہم آمدورفت کا سلسلہ قائم ہو گیا۔ چھاپہ کے فن کے ایجاد ہونے سے خیالات کا اطہار سہل اور عمدہ طریقہ پیدا ہو گیا۔ اور ا س کی بدولت علم بہت خوبی کے ساتھ شائع ہوا اور درحقیقت اس پہلی فتح سے جو انسان کی جودت طبع نے حاصل کی یعنی چھاپہ خانہ کا فن ایجاد کیا شائستگی کی واقعی ترقی کی تاریخ کو قائم کر سکتے ہیں اور اگرچہ اس کے بعد بھی ہزارہا قسم کے مواقع شائستگی کی ترقی میں پیش آئے لیکن وہ سلسلہ ہرگزر درہم برہم نہ ہوا اور اب تک ہمیشہ اس کا میلان اسی جانب کو ہے جس پر آخر کار انسان کی ترقی انتہا مرتبے تک پہنچے گی۔ ان ذریعوں کا بیان جن سے شائستگی کو ترقی ہوتی ہے پہلے ہم نے یہ بات بیان کی تھی کہ عمل شائستگی کا یہ حال ہے مگر ہم ان ذریعوں کو لکھتے ہیں جن سے شائستگی کو ترقی حاصل ہوتی ہے چناں چنہ ان ذریعوں میں سے پہلا ذریعہ آدمی کی ذات ہے اس لیے کہ اس کے اعضاء اور قویٰ بہ نسبت اور ذی روح مخلوقات کے افضل اور عمدہ ہیں۔ اور اس کو صرف یہی فضیلت نہیں ہے بلکہ جو کام وہ اپنی عقل کی معاونت سے کر سکتا ہے اور اپنے ایسے ہاتھوں میں لے سکتاہے جو اس کے بڑے مطیع کار پردازہیں ان کی وجہ سے اس کو بہت بڑی فضیلت حاصل ہے اور ان دونوں ذریعوں کی بدولت وہ اور مخلوقات میں سے اپنے آپ کو نہایت راحت و آڑام کی زندگی میں رکھ سکتا ہے اور گویا اپنی ذات کو ایک مصنوعی وجود بنا سکتا ہے اور جو مربہ اس کی قدرتی حیات کا ہے اس کی نسبت وہ اس کو بہت زیادہ آسائش دے سکتا ہے اور وہی اس بات کے لائق ہے کہ اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں کو شگفتہ کرے اور ترقی دے۔ آدمی کی ایک بہت بڑی صفت ی ہے کہ اس کو اپنے ہم جنسوں کی صحبت کی طرف میلان طبع ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ گوہر متنفس اپنی حیات اور قوت کے لحاظ سے ایک جداگانہ اور معین لحاظ سے باہر نہیں نکل سکتا۔ مگر وہ تمام اوصاف جو نو ع انسانی کے ساتھ مخصوص ہیں ہمیشہ انسانوں کی ایک جماعت ہی میں متحقق ہوتے ہیں۔ ایک متنفس ان سب اوصاف کا مظہر نہیں ہوتا۔ پس آدمی کو اپنی ترقی اور کامل شائستگی کے واسطے بہت سے مستحکم ذریعے حاصل ہیں اور ان کی اولاد اپنے آباء و اجداد کی محنتوں اور تجربوں سے بہت کچھ مستفید ہوتی ہے نظر بریں یہ بات بری کسی تامل کے تسلیم کی جاتی ہے کہ شائستگی اور انسان کی عقل کی وسعت کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ مگر باوصف اس فضیلت کے مطلقاً جو انسان کو بہ نسبت اور مخلوقات کے حاصل ہے جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ تما م دنیا کی تمام قومیں اور ولایتیں ترقی اور شائستگی کے مراتب میں مختلف الاحوال ہیں تو خواہ مخواہ اس اختلاف کی وجہ دریافت کرنی ضروری معلوم ہوتی ہے اورخیال آتا ہے کہ بعض قومیں اب تک نصف وحشت دلدل اور دقت میںکیوں پھنسی ہوئی ہیں اور بعض قومیں باوجود ہمت شکن اسباب کے کیوں ایسے عمدہ کام کر رہی ہیں اور کس طرح ایسی قوی مزاحمتوں کی مدافعت پر قادر ہو گئیں۔ اب علاوہ آدمی کے اعضا اور قویٰ کے جس خطہ میں وہ بستا ہے وہ خطہ بھی اس کے لی ایک ایسا ذریعہ ہوتا ہے جس کے سبب سے یا اس کی عقل کے مدارج کو ترقی حاصل ہوتی ہے یا اس کی مزاحمت کے اسباب پیدا ہوتے ہیں مگر اس بڑے ذریعہ کی تحقیق کامل طورپر اس صورت سے ہو سکتی ہے کہ اس کو مندرجہ ذیل پانچ قسموں پر تقسیم کیا جاوے: اول: وہ قدرتی اسباب جو شائستگی کے لیے نہایت مناسب ہیں۔ دوم: اس بات کی ضرورت کہ قوموں کے باہم آمدو رفت ہونی چاہیے۔ سوم: مذہبی امور کا شائستگی کی نسبت اثر۔ چہارم: وہ تعلقات جو حکومتوں کو اسباب شائستگی کے ساتھ ہیں۔ پنجم : صلاحیت مختلف قوموں کی شائستگی قبول کرنے کے واسطے۔ اول: ان متعدد قدرتی اسبابوں کا ذکر جو شائستگی کے حق میں مفید ہیں اول: ان میں سے ملکوں کی تقسیم اور حالت کی کیفیت بیا ن کی جاتی ہے ۔ بادی النظر میں بلاشبہ ایسا معلوم ہوتاہے کہ جن زرخیز خطون میں کھانے پینے کی بہت سی چیزیں خود رو میسر آتی ہیں وہاں بہت لوگ آباد ہو جاتے ہیں اور ان کو اعلیٰ درجے کی شائستگی حاصل کرنے کے واسطے بہت سی آسانیاں ہوتی ہیں مگر حقیقت میں عموماً ایسا نہیں ہے۔ دیکھو جنوبی ایشیا اور وہ جزیرے کیسے زرخیر ہیں جن میں آفتاب کی حدت حد سے زیادہ ہوتی ہے مگر باوصف ایسی قدرتی بخششوں کے کاہلی اور جہالت اور جوروستم وہاں حد سے بڑھ کر ہے چناں چہ افریقہ اور جنوبی امریکہ میں اس امر کی تصدیق کے واسطے بہت سی نظیریں موجود ہی ایسے ملکوں کے آدمیوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے پاس ضروریات زندگی کثرت سے مہیا دیکھتے ہیں تو وہ اپنی اوقات ایسی بسر کرتے ہیں جیسے کہ دنیا میں ارو خود رو نباتات ہے جیسے وہ جنگلی درخت ہے جو خود پیدا ہوتے ہیں اور خشک ہو جاتے ہیں البتہ دریائے نیل کی مٹی باوجود کہ زرخیز ہے مگر اس نے مصریوں کے دربار کی شان و شوکت اور جاہ و حشمت بھی خوب دیکھی ہے ۔ ایسی ہی میسوپوٹیمیا یعنی شام کے میدانوں کی کیفیت ہے کہ ان میں دریائے فرات اور دجلہ سے آب پاشی ہوتی ہے لیکن کسی زمانے میں وہ بری بڑی سلطنتوں کے موقع تھے اور انہیں میں شہر بابل اور نینوا اورپالمیرا واقع تھے اورہم کو یہ بھی بات یاد آتی ہے کہ قدیم ایران کی سلطنت بھی کیسی کچھ قوی تھی اور علی ہذ القیاس دریائے گنگ کے زرخیز میدانوںمیں ہندوستان کی کیسی کیسی عجیب و غریب پیداوار ہے اور علاوہ ان کے چین اپنی خوش خلقی اور اپنے علم و ہنر کے سبب سے کیسی مشہور ہے پھر ان مثالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی ملک کی زرخیزی اور خوبی اگر اس کی شائستگی کے واسطے کوئی لازمی سبب نہیں ہے تو اس کی شائستگی کے مزاحم بھی نہیں ہے۔ حقیقت میں اگر کسی زمین کی قسم اور خاصیت اس کی ترقی اور شائستگی کی مانع نہ ہوجیسے کہ تاتار اور افریقہ اور عرب کے ریگستانی بیابان ہیں یا کسی ملک میں ایسے جانور کم یاب نہ ہوں (جیسا کہ کولمبس کے دریافت کرنے سے پہلے نئی دنیا کا حال تھا) جن کے ذریعے سے تجارت وغیر ہ ہوتی ہے تو وہاں کے آدمی یقینا اپنی حالت کو ترقی دے سکتے ہیں اوران کی تعداد بڑھ سکتی ہے چناں چہ اسی طرح سے شمالی یورپ کو مثل شمالی امریکہ کے جنگلوں سے پاک و صاف کیا۔ اور پھر اس میں سے زراعت کی گئی۔ یورپ کی سرد ولایتیں باوجودے کہ ان میں نہایت سخت سردی ہے ایسی ہیں کہ ہر قسم کی تحقیقات اور طرح طرح کے فنون اور صدہا صنعتیں بہ نسبت جنوبی ملکوںکے ان میں زیادہ ظہور میں آئیں اور عقل و ہمت اور استقلال بہ خوبی اس سے ثابت ہے اور معلوم ہوتاہے کہ ان کے مقابلے میں جنوبی ملکوں کو یہ باتیں حاصل نہ تھیں۔ گرم ولایتوں کی یہ خاصیت ہے کہ ان کے باشندے اوصاف مذکورہ بالا میں دلی جوش و خروش نہیں رکھتے ۔ اور ان کو حد سے زیادہ شوق کسی چیز کا پیدا نہیں ہوتا۔ دوم: مختلف قوموں کے باہم آمدو رفت کی ضرورت جو قومیں درمیان میںبڑے بڑے قطعات کے حائل ہونے سے باہم مل نہیں سکتیں یا کسی بڑے قطعے کے وسط میں آباد ہیں اوران کو باہم آمدورفت کرنے کا کوئی ذریعہ بجز اسکے میسر نہیں کہ قافلوں سے مل کر سفر کریں اور ایسی قومیں ایشیا کے بالائی حصے میں اور افریقہ کے وسط میں اکثر رہتی ہیں چنانچہ وہ ایک دوسرے سے آپس کے ان خیالات کو ظاہر نہیں کر سکتیں جن کو ان دونوں کے معاملات میں دخل ہے اور اس عقلی روشنی کے حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ جو دونوں کے باہم مقابل ہونے سے حاصل ہو سکتی ہے اورجس کے بغیر کوئی قوم شائستگی کی حالت پر نہیں پہنچ سکتی پس ایسی قومیں یقینا ایک حالت معینہ پر پہنچ کررہ جاتی ہیں اور ان کی حالت کو شائستگی نہیں ہو سکتی مثلاً جیسے وہ لوگ ہیں جن کی گزران صرف مویشیوں کے دودھ پر ہے اور جو چرواہوں کی طرح اپنی اوقات بسر کرتے ہیں جب تک وہ اپنی اس حالت کو ترک نہ کریں ہرگز ممکن نہیں ہے کہ ان کی عقل و دانش کو ترقی نصیب ہو۔ جیسے ہتھیا والے اور تاتاری تھے اور جیسے کہ بدو اور افریقہ کے وہ مسلمان جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں یا جیسے جالوتی ہیں جو ہمیشہ نصف وحشی معلوم ہوتے ہیں یا جو لوگ تبت اور بھوٹان میں اور کوہ کاف اور کوہ اماس اوکوہ اٹلاس میں ہمیشہ بہ منزلہ مجوسیوں کے رہ کر ایک وحشیانہ حالت میں رہتے ہیں اور جو لوگ افریقہ کے وسط میں اور دونوں امریکہ کی وسیع ولایتوںمیں رہتے ہیں ان کا حال تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید وہ اپنی اس وحشیانہ حالت سے کبھی نجات نہ پاویں گے معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ہر ایک قوم کی شائستگی کے واسطے دوسری قوم کے باہم اس کی آمدورفت نہایت ضرور ہے چنانچہ بحر قلزم کے کناروں اور جزائر متعلقہ یونان اور قسطنطنیہ میں جو آمدو رفت ہے یا یورپ و ایشیا و افریقہ اور جزائر فرنگستان کے باہم جو آمدو رفت ہے اس کے سبب سے ان جملہ مقامت میں نہایت درجے کی شائستگی پھیلی ہوئی ہے اور دریائے راہن اور مین اورشلیت اور دریائے ایلب کے ذریعے سے جو چیزیں انسان اپنی محنت سے پیدا کرتا ہے وہ سب ایک ملک سے دوسرے ملک میںجاتی ہیں بلکہ ان کے ساتھ ہر قوم کے خیالات او روضع و اطوار اور نئی نئی باتوں کا اثر بھی ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچتا ہے اوران سبب سے نئے نئے شوق اور نئی نئی خواہشیں اور ضرورتیں قائم ہوتی ہیں اسی طرح جنوبی ہندوستان کے کناروں پر شائستگی رونق پذیر ہے مگر شمالی حصے اس کے اب تک اپنی قدیمی حالت میں پڑے ہوئے ہیں اور وہاں کے لوگوں کی طبیعتیں ہنوز جنگ جوئی اور خون خواری کی جانب مائل ہیں۔ جیسے مونگولیا نسل کی قومیں تھیں جو کسی زمانے میں ہندوستان میں مل جل کر مہذب بن گئیں جن پر ان کو فتح نصیب ہوئی تھی پس گو کسی ملک کی شائستگی کسی وحشی قوم کے حملوں سے معدوم ہو جاوے جیسے کہ متوسط زمانوں میں یورپ کا حال ہوا تھا۔ مگر انجام کار اس ملک کی خاک سے وہی اثر پیدا ہوتا ہے چنانچہ فی زماناً اگر اہل یورپ کسی غیر مہذب قوم میں بھی جا بسیں تو ان کے واسطے وہی نعمتیں موجو د ہو جاتی ہیں جو ان کو یورپ میں حاصل ہیں۔ جو قومیں جہاز ران ہیں ہم یقین کرتے ہیں کہ ان میں شائستگی قبول کرنے یا دوسری قوم کو شائستہ بنانے کی صلاحیت بہ نسبت اوروں کے زیادہ ہے چناں چہ جزائر ٹائر اور فنیشیا اور کارتھیج اوریونان کے قدیم باشندوں سے لے کر ونیشیا اورجنیوا کی وہ قومیں جو متوسط زبانوں میں گزری ہیں اور زمانہ حال کے انگریز اور ہالینڈ کے باشندے اور فرانس اور امریکہ کے انگریز ارو ہالینڈ کے بااشندے اور فرانس اور امریکہ کے انگریز سب شائستگی پھیلانے کے واسطے نہایت عمدہ عمدہ ذریعہ ہوئے ہیں۔ سوم: شائستگی پر مذہب کا اثر قوموں کی تاریخ کے شروع زمانے سے دیوتائوں کی پرستش کا مذہب قائم تھا جن کے اعتقادات کی اصلیت ابتداء میں نیشا اور مصر کے کاہنوں سے قائم ہوئی اور انہیں لوگو ں نے اس کو یونانیون میں پہنچایا اور اس زمانہ سے پہلے جس میں یہ اعتقاد یونانیوں سے آدمیوں کو پہنچا تھا۔ یونانیوں نے اس کو بڑی رونق دی تھی پھر رومیوںنے نہایت کثر ت سے اپنے دیوتا قرار دیے چنانچہ جس قدر ان میں برائیاں زیادہ ہوئیں اسی قدر ان کے دیوتائون کی تعداد زیاد ہ ہوئی۔ دیوتوں کی پرستش کا مذہب ایک طول و طعیل قصہ ہے۔ جو شاعری اور ولولوں سے بھرا ہواہے۔ اور وہ ایک ایسی چیز ہے جس سے جو انسان کے دلی خیالات اور ارادوں اور ان عجائب چیزوں سے مرکب ہے ۔ جو خدا کی شان سے متعلق ہیں۔ اسی مذہب کی بدولت ان شاعروں کی طبیعت میں خیا ل بندی کا ولولہ پیدا ہوا اور ایسی قوت حاصل ہوئی جس کے سبب سے انہوں نے ایک خیالی دنیا ائم کی اور اسی قوت کے ذریعہ سے وہ عمدہ عمدہ فنون ایجاد کے گئے جن کے سبب سے مصر او ر کالڈیا اور یونان اور اٹلی کو نہایت زیب و زینت حاصل ہوئی اورانہیں فنون سے وہ شائستگی ثابت ہوتی ہے جو کسی زمانہ میں ان ملکوں کے اندر ہو گی۔ بدھ لوگوں کے مذہب سے یانوا نامی حکیم کے مذہب کی بدولت تمام مشرقی ایشیامیں دریائے گنگ کے پار ہے۔ اور چین میں صرف وہی مذہب پایا جاتاہے جس میں مادیات کو قدیم مانا ہے اور در پردہ انہون نے خدا کے وجود سے انکار کیا ہے اور گو اس مذہب کے لوگ کسی قسم کے فہم و فراست رکھتے ہوں مگر اصل یہ ہے کہ ان کے ملکوں میں شائستگی ترقی پذیر نہ ہوئی۔ اس بات کا بیان کرنا اس موقع پر فضول ہوگا کہ عیسائی مذہب کا اثر لوگوں پر کس قدر ہوا مگر اس قدر کہنا مناسب ہے کہ گو اس کے اصول میں سادگی اور انکسار ہے مگر اس کے ظہور کے بعد لوگوں کے دلوں میں اس مذہب کے سبب سے شان و شوکت کا بڑا شوق پیدا ہوا یہاں تک کہ اس کی پرستش کے ارکان میں بھی اسنمود کا رواج ہو گیا۔ چنانچہ اس شوق کو پورا کرنے میں بہت کچھ صرف ہوتا تھا مگر یہ بات ضرور تھی کہ اس زمانہ کی خرابیوں کی اصلاح کے لیے وہ شوق نہایت عمدہ ذریعہ تھا۔ مذہب اسلام کی نسبت اگرچہ بہت لوگ شائستگی کی مخالفت کا دھبہ لگاتے ہیں مگر ہمارے نزدیک یہ بات غلط ہے ۔ دراصل یہ مذہب کسی طرح شائستگی کے منافی نہیں ہے۔ البتہ اس کی نسبت صرف یہ کہا جا سکتاہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مذہبی مصلحت سے عمدہ عمدہ فنون کے جاری کرنے کی کچھ تائید نہیں کی اورگو یہ بات بھی کہ وہ ان فنون کی قدرومنزلت کو خوب جانتے تھے مگر ان کو یہ خیال تھا کہ اگراہل عرب کی طبیعتیں ا س طرف مائل ہو ئیں تو بہ سبب اس کے کہ وہ اپنے ذاتی جوش و خروش سے مجبور ہیں یقینا بت پرستی اختیارکر لیں گے۔ چنانچہ اسی وجہ سے عمدہ عمدہ فنون کی اشاعت مشرق کے اس بڑے مصلح نے روا نہ رکھی۔ لیکن اپنے ان احکا م کی بدولت جن سے شراب نوشی بلکہ جملہ مسکرات اور قمار بازی کی ممانعت ہے جس قدر فائدہ انہوں نے شائستگی کو پہنچایا اس نے ان نقصانوں کی بہ کچھ تلافی کر دی جو عمدہ فنون کی ایسی تائید کے نہ ہونے سے ہوئی تھی۔ جیسے کہ میکونس نے کی تھی۔ اگر عیسائی مذہب کے اصول کے بموجب ویسی ہے ممانعت ان برائیوں کی کی جاتی تو اس بات سے ہرگز انکار نہیں ہو سکتا تھا کہ عیسائی مذہب کے لوگوں کی اور ان میں بھی خصوصاً کم تر درجہ کے لوگوں کی طبیعت اس سے بہت کچھ مخالف ہو تی جیسے کہ ان کی بدقسمتی سے اب ہے۔ چہارم: ان تعلقات کا بیان جو حکومتوں کو شائستگی سے ہیں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حاکم کوجو رعایا پر ایک کامل اور غیر محدود اختیار حاصل ہوتا ہے اور جو چیزیں رعایا کی ذات سے متعلق ہیں۔ ان سب پر اس کو تصرف کامل حاصل ہوتا ہے۔ اس وجہ سے وہ اپنی رعایا کے ساتھ ایسا برتائو کرتا ہے جیسا کہ کوئی اپنے باب دادے کے ترکہ پرپس اس صورت میں کوئی شخص گو اس پر ہمیشہ یکساں ظلم نہ رہے اپنی زندگی کو اس طرح پر بسر نہیں کر سکتا جس سے وہ مرتبہ کمال کو پہنچ سکے۔ اس لیے کہ ہمیشہ اس کے دل میں اپنے حاکم کی طر ف سے ایک ایس اخطرہ لگا رہتا ہے جو اس کی آزادی کا مانع ہوتا ہے ۔ او ر وہ جانتاہے کہ آخر کار میں اس حاکم کا شکار اور غلام بنوں گا اور ایسی سلطنتوں میں جہاں بادشاہ بالکل خود مختار ہوتا ہے یہ دستور ہے ‘ کہ جو کاری گر کوئی عمدہ صنعت یا کوئی ہنر ایجاد کرے بادشاہ وقت اپنی ذات سے منسوب کرتا ہے چناں چہ ایسی سلطنت شاعر کا بھی اپنی خیال بندی میں اسی کا تابع ہوتاہے‘ اور بے چارہ کاری گر بھی اپنی تمام محنت و مشقت کو اسی کے فائدہ کے واسطے کرتا ہے۔ غرض کہ جب حاکم کو ایسے عمل درآمد سے لطف آتا ہے تو وہ ہمیشہ اپنے اختیار کو اسی طرح سے صرف کرتاہے۔ پس ایسی صورت میں ذہین اور دانش مند لوگوں کی آزادی اور جان کی حفاظت بالکل جاتی رہتی ہے جب کہ حاکم کو ان کی نام آوری اور شہرت سے حسد ہونے لگتی ہے چنانچہ جب رومیوںمیںشہنشاہی قائم ہوئی تو غلام بنانے کے دستور اور آزادی کے جاتے رہنے سے ان کی شائستگی بالکل معدوم ہو گئی اور جس قدر ملکی انقلاب نئے خیالات اوردلی ولولوں سے پیدا ہوتے ہیں ان کے اندیشہ سے ظالمانہ حکومتوںکا یہ ایک دستور ہو گیا کہ وہ لوگوں کی عقلی ترقی کی مزاحم بن جاتی ہیں۔ اور ان کو ایک متوسط حالت میں رکھنا پسند کرتی ہیں جیسا کہ خاص چین میں ان آبائی اجدادی رسوم کا چھوڑنا ایک بڑی خطرنا ک بات ٹھہری ہوئی ہے جو قدیم وہاں سے چلی آتی ہیں۔ باوجود ے کہ ان لوگوں کی دانش مندی اور صناعی تمام دنیا میں مسلم ہے اور ایجاد ی طرف ا کے طباع کا میلان ایک شہرہ آفاق بات ہے ایسے ہی مصری لوگ اپنے بتوں پر رنگ لگانے اور تصویرات کے بنانے میں انہیں قدیمی طریقوں کے پیرو ہیں اورصرف یہی ایک مزاحمت نہ تھی بلکہ پیشہ بھی وہاں کے خاص خاص خاندانوں میں اسی طرح سے چلے آتے ہیں۔ جیسے کسی کی موروثی جائداد میں جس کی کاشت کاروں اور سپاہیوں کا کوئی فرقہ بھی قائم نہ رہتا تھا بلکہ ہر قسم کے کاری گروں اور محنتیوں کے گروہ قائم ہو گئے تھے اور وہ لوگ اپنی تمام زیست کو اسی تاریک حالت میں بسر کرتے تھے۔ جو ان کے واسطے مقرر کی گئی تھی یہاں تک کہ اسی میں پیدا ہوتے تھے اور اسی میں مرتے تھے پس اس بے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کا مختلف قوموں میں تقسیم ہونا بھی اس کی شائستگی کا بڑا مانع ہے۔ اور ہر زمانہ میں جہالت اور کم ہمتی ہی اس بات کا باعث ہوتی ہے کہ انسان دوسرے انسان کا غلام ہے۔ یا اس کا ہر طرح سے مطیع رہے حالاں کہ شائستگی اس وقت تک ہرگز حاصل نہیں ہوتی جب تک کہ انسان کو اپنے خیالات ظاہر کرنے اور ان کے موافق عمل درآمد ہونے میں آزادی حاصل نہ ہو۔ اور اگر یہ بات مسلم ہے کہ قدیم یونان اور روم میں علم و فن کی ترقی اس وقت ہوئی جب کہ وہ نہایت ترقی پر تھی اور اہل اسلام اپنی ان فتوحات کے زمانے میں نام آور ہوئے جو خاندان بنی فاطمہ اور عباسیہ کے عہدمیں ان کو حاصل ہوئی تھیں۔ اور ملک اٹلی میں نیا زمانہ علم و فن کا اس وقت سے قائم ہوا جب کہ متوسط زبانوں میں گوالف اور گبیسلن کے خاندان کے باہم لڑائی جھگڑا ہو گیا تھ اور سولھویں صدی میں مذہب اور اخلاق کی وہ مشہور اصلاح ہوئی جس میں مذہبی آزادی کو اس ظلم پر غلبہ حاصل ہوا تھا جو پوپ جنامی ایک شخص کے سبب سے پھیل رہا تھا‘ تو اب شائستگی کے یوما فیوماً ترقی پذیر ہونے سے اس بات کا تسلیم کرنا چاہیے کہ آزادی اور خود مختاری کو بھی ایک روز ضرور فتح حاصل ہو گی۔ انگلستان ‘ فرانس‘ جرمنی اور اٹلی کی چھوٹی چھوٹی جمہوریہ سلطنتوں ریاست ہائے متحدہ میں تجارت اورفنون کی اشاعت سے بخوبی ثابت ہوتاہے کہ ان سلطنتوں میں عقلی امور کی نہایت درجہ ترقی ظاہر ہوئی ہے اورعمدہ عمدہ کاموں کی اشاعت میں بڑی بڑی کوششیں لوگوں کی طرف سے ظاہر ہوئیں اور کمال تحقیق ان کی بدولت عمل میں آئی۔ پس ان سب امور سے معلوم ہوتا ہے کہ شائستگی کی ترقی اسی آزادی کے تناسب سے ہوا کرتی ہے جو گورنمنٹوں کی طرف سے اس کی رعایا کو عطا ہو خواہ اس میں امریکہ کی حالت پر لحاظ کیا جاوے۔ خواہ قدیمی یورپ کی سلطنتوں پر اور بلاشبہ جو سلطنتیں علم و دانش کی ہیں وہ جمہوری ظالموں کو دیکھ نہیںسکتیں چناں چہ آج کل کے نہایت خود مختار بادشاہوں کو بھی اس بات کی جرات نہیں رہی کہ وہ انسان کی عقل اور ذہانت کو اپنی بے جا قید اور … سے آزادی نہ حاصل کرنے دیں۔ پنجم: انسان کی جملہ نسلوں میں شائستگی قبول کرنے کی صلاحیت اکثر ذہین مورخوں نے اس بات کو ثابت کرنے میں کوششیں کی ہیں کہ حبشیوں کی نسل میں بھی شائستگی قبول کرنے کی ایسی ہی صلاحیت ہے جیسی کہ انسان کی اور نسلوںمیں ہے اور وہ بھی اور نسلوں کی ہم سری کر سکتے ہیں مگر ہماری دانست میں ان کی کوششیں مفید نہیں ہوئیں اور اصل یہ ہے کہ یہ مورخ اس بات کے تو بڑے موئد ہیں کہ کالے رنگ والے ہر طرح پر گورے رنگ والوں کی ہم سری کر سکتے ہیں۔ مگر جب ان سے یہ بات دریافت کی جاتی ہے۔ کہ کالے رنگ والے عقل و دانائی میں کس وجہ سے بہ نسبت ان کے کم ہیں تو وہ کچھ نہیں بیان کر سکتے یعنی یہ مورخ اس بات کو نہیںبیان کر سکتے کہ ان جاہل اور تاریک دروں قوموں کی دوامی وحشت کا کیا سبب ہے۔ جو تمام افریقہ میں آباد ہیں اور جو افریقہ کی ان باقی ماندہ قوموں کے مقابلہ میں مثل مسلمانوں اور ایتھوپیہ والوں کے ہیں جن کی اصل سفید رنگ کی قوموں سے ہے اور جن کو اب شائستگی میں تھوڑی بہت امتیاز حاصل ہے۔ افریقہ میں بعض ایسے مقامات ہیں جو ثمر دار درختوں سے نہایت آباد ہیں اوراس وجہ سے وہاں گرمی کی برداشت ہو سکتی ہے اور ان مقامات میں متعدد دریا اور بہت سی جھیلیں ہیں۔ جن میں سے ایک جھیل کا نام جھیل اشاد ہے اور وہ اس قابل ہیں کہ ان کے ذریعہ سے ملک میں آمدورفت ہو سکتی ہے اور ایک ملک کے مختلف باشندے باہم اپنے اپنے مقامات کی پیداوار کا ایک دوسرے سے مبادلہ کر سکتے ہیں۔ اور تجارت کو ترقی ہو سکتی ہے علاوہ اس کے حبشی قوموں کو ایک مدت سے خود مختاری اور فرصت بھی حاصل ہے۔ مگر باوجود ان سب باتوں کے اس آزاد منش قوم نے اپنی وحشیانہ حالت کو نہیں چھوڑا اورکبھی اپنے ملک میں علم کے درخت کا پھل نہیں چکھا غرض کہ ان کی حالت دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے جو شام کو بددعا دی تھی اس کا اثر اب تک ان کی نسل میں چلا جاتا ہے۔ گو یہ بات صحیح ہے کہ کالے رنگ کی قوم تعلیم و تربیت کی صلاحیت رکھتی تھی مگر اب تک یہ بات وقوع میں نہ آئی کہ اس قوم میں سے کسی نے کبھی کسی قسم کی تحقیق کی ہو یا اس سے کوئی بات دانش مندی اور ذہانت کی وجود میں آئی ہو۔ بخلاف زرد قوم یونی مونگولیا نسل کی قوموں کے جو فخریہ خوشی کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ چین اور جاپان اور ولایتوں میں جوہندوستان کی مشرقی طر ف میں واقع ہیں جس قدر شائستگی پھیلی ہوئی ہے وہ سب ہماری دانش مندی اور ذہانت کا ثمرہ ہے۔ بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسل امریکہ تک پھیلی ہوئی ہے ۔ اور وہ نسل اس بات کا دعویٰ کر سکتی ہے کہ میکسیکو اور پیرو کی ولایتوں کو بھی ہم نے ہی شائستہ بنایا ہے ۔ مگر اب شائستگی کی اس حد کو دریافت کرنا چاہیے جہاں تک پہنچ کر اس نسل نے اپنے آپ کو چین میں نام کیا پس بسبب ظاہر اکثر نہایت عمدہ عمدہ تحقیقاتیں جیسے کہ باروت اور توپوں کاایجاد اور چھاپہ کی صنعت او رسوزن مقناطیسی اور علاوہ اس کے جو فن آلات سے متعلق ہیں وہ سب چینیوں سے منسوب ہیں لیکن اگر یہ بات درحقیقت تسلیم بھی کر لی جاوے تو پھر یہ سوال دریافت کرنے کے لائق ہو گا کہ ان چیزوں سے انہوںنے فائدہ کیا حاصل کیا اس واسطے ان کا توپ خانہ کچھ انگریزی توپ خانہ سے بہتر نہیں ہے۔ بلکہ انگریزی توپ خانہ سے کیا ان قوموں کے توپ خانہ سے بھی بہت نہیں ہے۔ جو ان کے قریب آباد ہیں اور بہر طور ان کی نسبت فہم و فراست میں کم ہیں۔ البتہ چینی کتابیں چھاپتے ہیں۔ مگر چوں کہ ان کی زبان کی ترکیب ایسی واقع ہے کہ اس کے بہت سے ٹکڑے نہیں ہو سکتے۔ اور ان کی تحریر جو صرف علامتوں پر مبنی ہے اور اس میں حروف ابجد نہیں ہیں۔ بلکہ جن تختیوں پر وہ بہت سی عبارت کندہ کر کے چھاپتے ہیں۔ کہ ان کے سبب سے چینیوں کی حالت ہنوز علم طفولیت میں شمار کی جاتی ہے اور جب یہ کہا جاوے کہ اس کے علاوہ قدیم رسم و رواج کی چیزوں کی بھی چینی لوگ نہایت تعظیم و تکریم کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کی تعظیم تعصب کے مرتبہ کو پہنچ جاتی ہے یعنی اگر ان رسم و رواج کی تبدیلی کی نسبت کسی طرح کوشش کی جاوے تو چینی لوگ ہرگز اس کو گوارا نہیں کرتے اور وہ اپنے کمالات کے بھی معنی جانتے ہیں۔ کہ اپنے آباو اجداد کی سادگی کی تقلید کریں تو یہ بات بہت جلد سمجھ میں آتی ہے کہ ان کی حالت کا ترقی پذیر نہ ہونا خاص اس وجہ سے ہے ۔ مگر چوں کہ اب ان کے تعصبات اس قدر کم ہوئے ہیں کہ وہ ملک یورپ میں آنے جانے لگے ہیں ۔ اس نظر سے امید ہو سکتی ہے کہ شاید ان کی شائستگی کو آئندہ کچھ ترقی ہو جاوے اور اس سبب سے ان کو اور ان کے سوائے اوروں کو بھی فائدہ حاصل ہو پس گویا باقی تمام روئے زمین کے باشندوں کی ترقی کا ذریعہ صرف سفید رنگ کی نسل کے آدمی ہیں جو ابتداء ہندوستان اور کوہ قاف کے رہنے والے تھے۔ اور غالباً ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاص ان مغربی قوموں کو جیسے کہ ایران اور شام اور کالڈیا اور مصر اور فنشیا کی قومیں ہیں اور ان سے یونان اور اٹلی کی قوموں کو علوم و فنون کی وہ شعاعیں جن کے ذریعہ سے عام جہالت کی تاریکی دور ہوئی ہے خاص وسط ہندوستان سے ہی پہنچی ہے ۔ یہ جو کچھ بیان کیا گیا اس سے بخوبی ظاہر ہے کہ انسان کا شائستہ ہونا صرف ان عادات کے ترک کرنے پر موقوف ہے جو خون خوار وحشیوں کے خواص میںسے ہیں اورجو خاص ایسے زمانہ میں پید اہوتی ہیں جس میںکسی طرح تہذیب و تربیت نہ ہو اور اس قسم کی صفات میں جیسے کہ جنگ جوئی ‘ شکار بازی ‘ غارت گری جا بجا نقل مکان کرنا بلا امتیاز مباشرت کرنا اور مثل ان کے ایسی حرکتیںکرنا جو کسی قانون یا ضابطہ کے بموجب نہ ہوں حالانکہ یہ سب عادات ایسی ہیں کہ جب کوئی وحشی بھی ان فائدوں سے آگا ہ ہو جاتا ہے جو ان کے ترک کرنے میں متصور ہیں تووہ بھی نہایت خوشی کے ساتھ ان کو چھوڑ دیتا ہے مثلاً بجائے ان کے امان و امان اور زراعت اور جان و مال کا حفظ اور سکونت کے مکانوں کا شہروں یا دیہات میں قرار پانا اور نکاح کے احکام و قوانین مستقلہ کا ہدایت کے واسطے مقرر ہونا اور ذاتی اختیارات کا انسان پر حاصل ہونا سب ایسے امور ہیں کہ ان کے قاعدوں سے آگاہ ہونے کے بعد خود بخود انسان ان کی طرف مائل ہوتا ہے ۔ اورجو حقوق انسان کو قدرتی حاصل ہیں ان کو باہمی معاشرت کے معاہدے سے مستحکم کرنا ہے غرض یہ کہ اسی حالت کا نام شائستگی ہے اور ان سب کے سبب سے طبیعت کی تمام قوتیںظاہر اورشگفتہ ہو جاتی ہیں اور اسی کی بدولت علم کے خزانے کھل جاتے ہیں اورپھر ان کا ایک دریائے فیض دور دور تک بہنے لگتا ہے اورپھر معقول اور پند آمیز گفتگو اور انسانیت کی اور بہت سی باتوں کی تحقیق اورتکمیل سے انسان کو شہری ہونے کا رتبہ حاصل ہوتا ہے جو وحشیوں کے درجہ سے بمرتبہا بلند ہے۔ ٭٭٭ غلامی (تہذیب الاخلاق بابت ۱۵ ۔ جمادی الاول ۱۲۸۸ھ) آزادی اور غلام آپس میں ایسی نقیض ہیں کہ نہ دونوں کا اجتماع ہو سکتا ہے اورنہ دونوں کا ارتفاع اور اس لیے دونوں داخل مرضی پروردگار نہیں ہو سکتیں ورنہ خود پروردگار کی مرضی میں تناقض لازم آوے گا۔ جو اس کی حکمت بالغہ کے شایان نہیں ہے۔ پس کچھ شبہ نہیں ہے کہ ان دونوںمیں سے صرف ایک ہی پروردگار کی مرضی کے مطابق ہو گی ‘ یا یوں کہو کہ قانون قدرت دو نقیجوں کا متقاضی نہیں ہو سکتا اس لیے ان میں سیایک ہی متقضائے قانون قدرت ہو گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان ایک ایسی ہستی بنایا گیا ہے جس کی فطت آزادی اور خود مختاری رکھی گئی ہے۔ وہ ذی عقل و ذی شعور ہے۔ اس کو تمام قوائے ظاہری و باطنی دیے گئے ہیں‘ ان کے استعمال پر جس طرح کہ وہ چاہے قادر ہے۔ تمام کاموں کے شروع کرنے کی سمجھ اور ان کے انجام کی سوچ اس کو دی گئی ہے تاکہ ہر کام کا آغاز اور انجا م سوچ لے۔ اس کی فطرت ایسی ہے کہ اپنے لیے آپ تمام چیزیں مہیا کرنے کے لیے حاجت مند ہے پس یہ تمام چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس پتلے کے صانع کی مرضی یہی تھی کہ یہ پتلا خود اپنا آپ مالک رہے۔ صانع نے یہ تما م قوی انسان کو عطا فرمائے ہیں ان سے اس کی مرضی یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ تمام قوی انسان میں اس طرح پر شگفتہ و شاداب رہیں کہ اعتدال سے کارج نہ ہونے پاویں اورایک دوسرے کی نقیض نہ ہو جاویں۔ انسان کی ذاتی محنت اسی کے لیے سود مند ہو۔ غلامی کی حالت میں انسان کے بہت سے قواء بعوض شگفتہ و تروتازہ رہنے کے پژمردہ بلکہ محض معطل و بیکار ہو جاتے ہیں ۔ اس کی محنت اس کی سود مندی کے لیے نہیں رہتی۔ پس کسی طرح ایسی حالت صانع کی مرضی سے نہیں ہو سکتی۔ انسان کی وہ چیز جس سے انسان انسان کہلاتا ہے اور جس کا نام لوگ روح لیتے ہیں مگر اس کی حقیقت کچھ نہیں بتلا سکتے ۔ ایسی شریف چیز ہے کہ کسی کی مملوک ہونے کی لیاقت ہی نہیں رہتی۔ کیا نتائج قانون قدرت یا خدا کی روح یا امر رب کسی کی ملکیت ہو سکتی ہے ؟ کیا ہم سی ہی ایک مخلوق ہماری ملکیت میں آ سکتی ہے؟ حاشا وکلا۔ پس صاف عیاں ہے کہ غلامی اس قادر مطلق کی مرضی اور قانون قدرت دونوں کے برخلاف ہے تمام انسان آزاد اور یکساںپیدا ہوئے ہیں اور کچھ شبہ نہیں کہ زندگی اور آزادی اور خوشی حاصل کرنے میں یکساں اور غیر قابل انتقال استحقاق رکھتے ہیں۔ مگر انسان کی بدبختی سے کوئی نسل اورکوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا کہ غلامی کی مصیبت انسانوں میں نہ رہی ہو۔ بہت عقلمند اور دانا اور حکیم گزرے‘ بہت سے صاحب شریعت گزرے‘ مگر بجز ایک کے اورکسی نے اس قانون قدرت کے مخالف کا کچھ تدارک نہ یا موسیٰ صلوۃ اللہ علیہ نے ا سکو جائز ہی رکھا‘ عیسیٰ علیہ السلام نے اس کی نسبت ایک حرف بھی نہیں کہا۔ یونانی حکیموںنے ازروئے اصول اخلاقی کے حالت غلامی کی نسبت کوئی اعتراض ہی نہیں سمجھا۔ ارسطو باوصف ا سدانائی کے یہ سمجھا کہ خود خدا نے انسان کو آزادی اور غلامی میں تقسیم کیا ہے۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ جن لوگوں کو غلام بنایا جاتا ہے وہ ایک قسم ہی جد اہے۔ اول تو یہ سمجھ ہی اس بڑے حکیم کی جو ہر طرح ہمارے ادب کے لائق ہے ‘ غلط تھی اور سوائے اس کے اس نے یہ خیال کیا کہ غلامی کسی خاص قوم پر مخصوص نہیں رہ سکتی۔ افلاطون اس سے بھی زیادہ غلطی میں تھا جب اس نے یہ کہا کہ صرف یونانی غلام نہ ہونے چاہئیں۔ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ایک فیاض شخص کا اصول مقرر جس نے آئندہ کی غلامی کی جڑ کو کاٹا اور غلاموں کی حالت کو سنوارا اور جہاں تک ممکن ہوا ان کو آزادی کا خلعت پہنایا ۔ ایسا غفلت میں پڑا رہا کہ بہت ہی کم اس پر خیا ل ہوا۔ پس ہمارا ارادہ ہے کہ ہ اس مضمون کی اصلیت پر بموجب اسلام کے کچھ تحقیق و تدقیق کریں مگر قبل اس کے ہم چاہتے ہیں کہ اس آرٹیکل میں غلامی کا کچھ مختصر حال بیان کریں کہ کس کس طرح پر اورکن کن قوموں میں رائج تھی اور کیسی کیسی بے رحمیاں ان کی نسبت ہوتی تھیں۔ غلامی کا رواج ایسا پرانا معلوم ہوتا ہے جس کا زمانہ انسان کی یاد سے باہر ہے۔ غالباً تواریخ دنیا کے شروع ہی سے غلامی پیدا ہوئی تھی اصلیت شروع غلامی کے صرف یہی پائی جاتی ہے کہ وحشی قوموں نے اپنے قیدیوں کو بجائے مار ڈالنے کے غلامی کی حالت میں دیکھا زیادہ مفید سمجھا اور اس سبب سے دو طریق غلامی کے رائج ہوئے ایک وہ جو لڑائی میں لوگ قیدی ہوتے تھے اوریہ طریقہ طریق جائز اور بے عیب اور گویا قانوناً جائز سمجھا جاتا تھا اور تمام قوموں نے اپنی تہذیب و شائستگی کے زمانے میں بھی اس کو صحیح سمجھا تھا۔ دوسرے وہ قیدی جو دغا و فریب یا دزری سے قید کیے جاتے تھے اور ان کے ساتھ بھی ویسا ہی طریقہ برتا جاتا تھا جیساکہ جائز غلاموں کے ساتھ۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ اور متعدد طریقے غلامی کے مختلف قوموں میںپیدا ہوتے گئے۔ تمام مشرقی قومیں جن کا حال ہم کو معلوم ہے غلام رکھتی تھیں۔ یہودیوں کے ہاں غلامی قانونا جائز تھی‘ ایرانی بھی بموجب اپنے قانون کے غلام رکھتے تھے‘ ان کے ہاں صرف دوسری ہی قوم کے لوگوں کو غلام بنانے کی اجازت نہ تھی‘ بلکہ اپنی قوم کے لوگوں کو بھی غلام بناتے تھے۔ان کے ہاں دستور تھا کہ مفلس مقروض اپنے تئیں بطور غلام کے بیچ ڈالتا تھا‘ چور بطور غلام کے رہتے تھے‘ البتہ بہ نسبت غیر قوم کے غلاموں کے ان کی نسبت قانون فی الجملہ نرم تھا۔ سات برس بعد ہم قوم غلام آزاد ہو جاتے تھے اور ہر پچاسویںبرس عام طور پر ہم قوم غلام آزاد کیے جاتے تھے۔ یونانیوں میںبھی غلامی کی رسم جاری تھی‘ وہاں ایک قوم وہاں کے قدیم باشندوںکی نسل سے تھی جو اپنے آقا کی زمین کاشت کر کر اس کو لگان دیتی تھی اور لڑائی کے وقت اپنے آقا کے ساتھ ہوتی تھی۔ ایک قسم غلاموں کی یونان میں ایسی تھی کہ وہ یونان سے باہر دوسرے ملک میں فروخت نہیں ہو سکتی تھی اور نہ اپنے عیاس و اطفال سے جدا رکھی جاتی تھی بلکہ کسی قدر جائداد پیدا کرنے کے بھی قابل سمجھی جاتی تھی اور وحشی غلام جو بذریعہ خرید حاصل ہوتے تھے وہ تو مثل اور جائداد کے تھے کہ جب اور جہاں چاہو بیچ ڈالو۔ ان سے محنت مزدوری کروائی جاتی تھی کانیں کھدوائی جاتی تھیں اور ان کی اجرت اور منفعت ان کے آقا لیتے تھے۔ ان غلاموں کی جو اولاد ہوتی تھی وہ بھی غلام ہوتی تھی۔ تھریشیا کے لوگوں کی ایسی بدبختی تھی کہ وہ خود اپنی اولاد کو بیچتے تھے۔ ایتھنز میں غلاموں کی حالت اور ملکوں سے اچھی تھی۔ ڈیماستھینز کا قول ہے کہ بمقابلہ اورملکوں کی آزادیوں کے ایتھنز کی غلامی کی حالت اچھی ہے۔ رومیوں میں بھی غلامی تھی‘ مگر ان کی سمجھ سب سے عمدہ تھی۔ رومی مقنن سمجھتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے سب کو آزاد بنایا ہے اورغلامی قانون خالق کے برخلاف ہے‘ مگر صرف ملکی قانون کے مطابق وہ غلامی کو جائز رکھتے تھے اور اس لیے ان لوگوں کو جو لڑائی میں قید ہوتے تھے اور ان آزاد شخصوںکو جو خود اپنے آپ کو بیچ ڈالتے تھے‘ غلام سمجھتے تھے۔ آقا کا اختیار غلام کو سزا دینے یا قتل کرنے کا نامحدود تھا۔ ضعیف و ناکارہ غلام ٹائبر کے جزیرے میںفاقہ کشی کرتے کرتے مر جانے کے لیے چھوڑ دیے جاتے تھے ۔ سلطنت کے قوانین نے ان بے رحمیوں کی کسی قدر روک تھام کی تھی۔ یہ قانون تھا کہ اگر کوئی آقا اپنے غلام کو بلاسبب قتل کر ڈالے تو اس کے ساتھ اس طرح پیش آیا جاوے کہ گویا اس نے دوسرے شخص کے غلام کو مار ڈالا ہے۔ اگر کوئی آقا اپنے غلام پر بہت سخت بے رحمیاں کرتاتھا تو آقا اس بات پر مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ اس کو بیچ ڈالے۔ کلاڈیس کے قانون کے مطابق غلام کا مار ڈالنابمنزلہ قتل کے متصور ہوتا تھا۔ غلام جب بیچے جاتے تھے تو ماں باپ لڑکے‘ بھائی بہن جدا نہ کیے جاتے تھے۔ غلاموں کو شادی کرنے کا اختیار نہ تھا۔ اور ان کے اور ان کی اولاد میں کوئی قانونی رشتہ نہ سمجھا جاتا تھا ۔ بھاگے ہوئے غلام کو پناہ دینا جرم تھا۔ ان کے آزاد کرنے کے بھی بہت سے طریقے تھے جو از روئے قانون کے معین اور محدود کیے گئے تھے ۔ رومیوں کے ہاں ابتدا میںغلام بہت کم تھے لیکن رفتہ رفتہ ان کی بہت کثر ت ہو گئی یہاں تک کہ کل کاشتکاری غلاموں کے ذریعے سے ہوتی تھی۔ سلطنت جمہوری کے زمانے میں جو روم میں تھی ذی مقدور لوگ نہایت کثر ت سے غلام رکھتے تھے اور جس قدر زیادہ غلام ہوں اسی قدر شان و شوکت زیادہ متصور ہوتی تھی۔ ایک شخص کے پاس دو سو غلاموں کا ہونا ایسی بات نہ تھی کہ لوگ اسکو معمولی بات سے کچھ زیادہ سمجھیں۔ ابتدامیں غلام کوئی جائیداد پیدا نہیں کر سکتا تھا ۔ جو کچھ وہ پیدا کرتا تھا سب کچھ اس کے آقا کی ملک ہو جاتاتھا۔ لیکن جب غلام تجارت کے کاموں میں مصروف ہونے لگے تو کچھ حصہ منافع میں سے ان کا خاص سرمایہ سمجھا جاتا تھا اور بعضی دفعہ یہ شرط ہوتی تھی ہ جب وہ سرمایہ اس قدر روپے تک پہنچ جاوے گا تو غلام آزاد ہو جاوے گا۔ ہندووں میںبھی دھرم شاستر کے بموجب غلامی جائز تھی اور مفصلہ ذیل صورتوںمیںایک انسان دوسرے انسان کا غلام ہو جاتا تھا لڑائی میں قید ہونے سے ‘ خود اپنے تئیں کسی کا غلام بعوض روپے کے یا قحط سالی میں بعوض نان و نفقہ دینے کے یا اور کسی سبب سے بنا دینے سے‘ بعوض زر قرجہ یا کیس جرم کی سزا میں غلام ہو جانے سے‘ ماں با پ کا اپنی اولاد کو بیچ دینے سے‘ اولاد غلاموں کی بھی غلام ہوتی تھی‘ غلاموں کا بیع و ہبہ کے ذریعے سے انتقال ہوتا تھا اور روز انتقال سے منقتل الیہ کی غلامی میں آ جاتا تھا۔ دھرم شاستر کی رو سے غلام مثل مویشی کے اپنے آقا کی ملکیت ہوتا ہے اور اسکو حقیر نام یعنی دو پائی مویشی دیا گیا ہے۔ دھرم شاسترمیں کوئی حکم غلام کی نسبت ایسا نہیں ہے جس کے ذریعے سے وہ بے رحم آقا کے تسشدد و بدسلوکی سے محفوظ رہے اور نہ اس میں آقا کے اختیار کی جو اس کے غلام پر ہو کچھ تصریح ہے۔ کوئی حق ملکیت دھرم شاستر کی رو سے غلام کو حاصل نہیں ہے اس کا مال مکسوبہ بھی اس کا حق نہیں ہے دھرم شاستر میں بجز آقا کے خوشی کے اور وئی ایسا طریقہ نہیں ہے کہ جس کے ذریعے سے غلام کو آزادی حاصل ہو سکے‘ الا اگر اس نے آقا کی جان بچائی ہو تو وہ اپنی اور اپنے بیٹے کی آزادی کی درخواست کرنے کا استحقاق رکھتا ہے۔ اگر آقا سے لونڈی کے اولاد پیدا ہو تو کوئی صحیح النسب اولاد نہ ہو تو دونوں آزاد ہو جاتے ہیں یا جو سبب غلامی کا ہے وہ نہ رہے تو غلام آزادہو جاتا ہے۔ ایک دوسری قسم کیغلاموں کی دھر م شاستر کے بموجب عبیدالارض ہیںیعنی غلام جو کاشت اراضی سے تعلق حق موروثی کا رکھتے ہیں۔ یعنی ان غلاموں پر جو کاشتکاری کے کام کے لیے ہوں باپ اوربیٹے کو یکساں اختیار حاصل ہے۔ مذہب اسلام کے پیرئوں کو بلاشبہ حق تھا کہ وہ غلامی کا نام و نشان دنیا میں باقی نہ رہنے دیتے اورغلاموں کی آزادی کا فرمان جیسا کہ اصول مذہب سے پایا جاتا ہے دنیا میں جاری کرتے مگر افسوس ہے کہ وہ سب سے زیادہ اندھیرے میں پڑے اور باوجود یکہ اس زمانے میں تمام ملک روشن ہو گئے ہیں مگر اسلامی عمل داریاں اب تک اسی تاریکی اور اندھیرے میں ہیں اگرچہ عیسائی مذہب نے کچھ بھلائی غلاموں کے حق میں نہیں کی تھی مگر بلا شبہ عیسائیوں نے ان کے حال پر رحم کیا اور نیکی اور بلند نامی انہوں ہی نے حاسل کی ۔ جسٹنین نے غلاموں کے رفتہ رفتہ آزاد ہو جانے میں بڑی کوشش کی۔ عیسائیوں ہی نے ان آقائوں کو جواپنے غلاموں کو بے اطلاع حاکم مار ڈالتے تھے ملعون قرار دیا‘ مگر اس زمانے میں یہ آٖت رک نہ سکی اور وحشی حمہ کرنے والے بہت سے غلام اپنے ساتھ لائے جو اکثر سلیونین قیدی تھے ۔ اور جس سے انگریزی لفظ سلیو بمعنی غلام نکلا ہے۔ تھوڑے زمانے بعد تمام یورپ میں ایک قم کی غلامی مروج تھی جو سرف کے نام سے کہلاتی تھی۔ سلیو اور سرف میں یہ فرق تھا کہ سلیو کو آقا فروخت بھی کر سکتا تھا‘ مگر سرف سے صرف معین کام لینے کا حق رکھتا تھا۔ جبکہ نئی دنیا ‘ یعنی امریکہ دریافت ہوئی تو عیسائی قوموںمیں غلامی کے معاملے کی بڑی گرم بازاری ہوئی۔ امریکہ کے قدیم باشندے کمزور تھے اورجن مشکلات اور محنت کے کاموں کی وہاں حاجت تھی اس کے قابل نہ تھے۔ اس لیے پورچگیز والوں نے جن کے قبضے میں بہت سا حصہ افریقہ کاتھا وہاں سے حبشیوں کو لے جانا شروع کیا۔ لاس کسیس صاحب چیپا کے بشپ نے امریکہ کے باشندوں کو لائق محنت کانوںکے کھودنے کے نہ دیکھ کر کنگ چارلس بادشاہ انگلینڈ سے درخواست کی کہ ان کے بدلے وحشی غلام کام کرنے کو دیے جاویں‘ کیونکہ وہ مضبوط اور توانا ہیں چنانچہ اس بادشاہ نے ۱۵۱۷ء میں حبشی غلاموں کو لائے جانے کا حکم دیا۔ انگریزوں میں سب سے پہلے جس نے غلاموں کی تجارت شروع کی وہ سرجان ہاکنس تھے جن کا نام غلامی کے ساتھ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا مگر تھوڑے ہی عرصے میں اوربہت سے لوگ ان کے ساتھ غلاموں کی تجارت میں شریک ہو گئے۔ انگلستان نے ۱۶۸۰ء سے لغایت ۱۷۰۰ء کے تین لاکھ غلام افریقہ سے حاصل کیے اور اس کے بعد لغایت ۱۷۸۶ء صرف جمایکہ میں چھ لاکھ دس ہزار غلام بھیجے۔ تجارت غلاموں کی ایسی بے رحمی سے ہوتی تھی کہ جس کا حال سن کر تعجب آتا ہے۔ جہاز میںنہایت بے احتیاطی سے مثل بکریوں اور بھیڑوں کے بھر دیے جاتے تھے اورامریکہ پہنچنے کے بعد بھی ان کی کچھ حفاظت نہ ہوتی تھی مگر جہاں انگریزوں کی عملداری تھی وہاں ان غلاموں کی حالت کسی قدربہتر تھی۔ ان کی فریاد رسی کے لیے عدالتیں مقرر تھیں۔ عورتوں کو کوڑے مارنے کی بالکل ممانعت تھی‘ مگر یہ بات پوچھنے کے قابل ہیکہ جس زمانے میں امریکہ میں ‘ جہاں انگریزی عمل داری تھی قوانین مذکورہ بالا غلاموں کی نسبت جاری تھے اس زمانے میں انگلینڈ میں نسبت غلامی کے کیا قانون تھا۔ اسی زمانے یعنی ۱۷۸۶ء میں مقدمہ غلامی مسمی سرمرسٹ حبشی جو لندن میں چلا آیا تھا پیش ہوا اس میں یہ تجویز ہوئی کہ انگریزی زمین پر قدم رکھنے کے ساتھ ہی غلام آزاد ہو جاتاہے‘ گو کہ بعد واپس جانے اس غلام کے غلامی کے ملک میں اس کا آقا پھر اس پر دعویٰ کر سکتا ہے۔ ولایت میں ایک بڑے میرے انگریزدوست نے مجھ سے کہا کہ صرف ہماری قوم ہی کو آزادی کا فخر حاصل نہیںہے بلکہ ہماری زمین کو بھی یہ افتخار ہے‘ اس لیے کہ جو شخص ہماری زمین پر قدم رکھتا ہے گو وہ کسی کا غلام ہی کیوں نہ ہو اسی وقت آزاد ہے۔ اس کے اس کہنے نے میرے دل پر نہایت اثر کیا اور میں نے کہا بلا شبہ تم کو اور تمہاری زمین کو یہ بڑی عزت ہے جو خدانے دی ہے۔ اسی زمانے میں رحیم اورنیک دل اور انسان کی بھلائی چاہنے والے لوگوں کے دل میں خیال آیا کہ غلاموں کی تجارت کی موقوفی کی کوشش کرنی چاہیے ‘ چنانچہ ۱۷۸۷ء میں ایک سوسائٹی واسطے موقوفی غلاموں کی تجارت کے لندن میں قائم ہوئی۔ اس کے ابتدائی ممبر ڈبلیو ڈلون صاحب اورطامس کلرکسن صاحب اورگرینول شارپ صاحب تھے جن کی نیک نامی ہمیشہ یاد رہے گی۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ پر جوش اور نہایت مستعی سے رائے دینے والے اورگفتگو کرنے والے ولیم ولبر فور س صاحب تھے جن کی تائید ولیم پت وزیر سلطنت کی جانب سے ہمیشہ ہوتی تھی۔ غرضیکہ شدہ شدہ ان انسان کی بھلائی چاہنے والوں کی بدولت فروری ۱۷۸۸ء میںسلطنت انگلشیہ نے حکم دیا کہ بذریعہ کمیٹی پریوی کونسل نسبت تجارت غلاموںکے تحقیقات کی جاوے اور ایک قانون بنایا جاوے جس سے جہا ز میں بے انتہا غلاموں کے بھر لینے کی کچھ اصلاح ہوئی۔ بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ ولبر فور س صاحب نے جو مسودہ اس قانون کا اس مطلب سے بنایا تھا کہ آئندہ سے تجارت غلاموں کی موقوف ہو وہ مسودہ ۱۷۹۱ء میں گم ہو گیا۔ اسی اثناء میں انگریزوں نے وچ پر فتح پائی اور غلاموں کی تجارت نے پھر افزائش پکڑی ‘ مگر ۱۸۰۵ء میں کونسل سے ایک حکم مشعر امتناع تجارت ان مفتوحہ نو آبادیوں میں جاری ہوا اور پھر ۱۸۰۶ء میں ایک قانون بنایا گیا کہ انگریزی رعایا کسی طرح غلاموں کی تجارت میںشریک نہ ہو اور اسی سال مسٹر فاکس صاحب نے ایک روزولیوشن ہوس آف کامنز میںپیش کیا اوروہ جاری بھی ہو گیا کہ آئندہ سے کلیۃ غلاموں کی تجارت موقو ف ہو۔ لارڈ گرینول صاحب کی تحریک سے ہوس آف کالارڈ نے اس رزولیوشن کو منظور کر لیا اور انگلینڈ نے اس فیاضانہ اور رحیمانہ ‘ بلکہ انسانیت کے کام میںبلند نامی حاصل کی۔ اس کے بعد دوسرے ہی سال میں‘ یعنی ۱۸۰۹۷ء میں لارڈ ہاک صاحب نے جو بعد کو ارل گرے ہوئے‘ایک مسودہ قانون ہائو س آف کامنز میں پیش کیا کہ یکم جنوری ۱۸۰۸ ء کے بعد غلاموں کی تجارت عموماً اور قطعاً موقوف ہو۔ دونوں ہائس یعنی ہائوس آف کامنز اور ہائوس آف لارڈز نے اس قانون کو پسند کیا اور پچیسویں مارچ ۱۸۰۷ء کو اس قانون کی نسبت شاہی منظور ی حاصل ہوئی۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ جس ٹکرہ زمین پر ایسے فیاض اور عالی ہمت لوگ رہتے تھے جنھوں نے اس رسم بد کی موقوفی پر بے انتہا کوششیں کیں وہاں کمینہ طبیعت لوگ بھی موجود تھے اورانھوں نے غلاموںکی تجارت کو نہ چھوڑا اوراسپین اورپورچگیز کے جھنڈوں کی آڑ میں ان کی تجارت کرتے تھے اورپھر کثرت سے غلام جہازوں میں بھرنے لگے اور جب کوئی جہاز ان کی تلاشی کو جاتا تو حبشی غلاموں کو جہاز پرسے دریا میں پھینک دیتے ھتے اورجو حکم نامہ کہ اس قانون میں غلاموں کی خرید و فروخت کرنے پر تھا وہ اس رسم بد کے بند کرنے کو کافی نہ تھا‘ اس لیے فیاض دل اور انسان دوست بلکہ انسانیت مجسم مسٹر بروہم صاحب نے ۱۸۱۱ء میں ایک مسودہ قانون پیش کیا جو بالاتفاق سب کک منظور ہو گیا اور جس میں یہ بات قرار پائی کہ تجارت غلاموں کی جرم کبیرہ ہے جس کی سزا چودہ برس کی قید مع جلاوطنی یا تین برس سے پانچ برس تک کی قید مع مشقت شاقہ دی جاوے گی۔ ۱۸۲۴ء میں ایک اور ایکٹ جاری ہوا جس میں غلاموں کی تجارت جرم بحری ڈکیتی قرار پایا جو نہایت سنگین جرم ہے اور پھر ۱۸۳۷ء میں اس کی ترمیم ایک ضابطہ فوجداری کے نفاذ سے ہوئی اور تجارت غلامی کی سزا جس دوام مع جلا وطنی قرار دی گئی۔ ان بڑی کوششوں کے بعد انگریزوں کی عمل داری میں سے غلاموں کی تجارت اٹھ گئی اور اسی کے ساتھ امریکہ کے یونائٹڈ سٹیٹ سے بھی موقوف ہوئی اور رفتہ رفتہ جنوبی امریکہ کی جہوری سلطنت مقام ونزویہ و چلی و بونس ایرز اور سوئیڈن اور ڈنمارک اورہالینڈ سے بھی موقو ف ہوئی۔ انگریزوں کی اس فیاضی کو دیکھ کر یورپ کی اور سلطنتوں کو بھی اس بد تجارت کے اٹھا دینے کی ترغیب ہوئی اور اس کے لیے قانون بنائے گئے اور عہد نامے کیے گئے چنانچہ ۱۸۱۵ء اور ۱۸۱۷ء میں پورچگیز اور اسپین کی سلطنت منے بھی اس پر اپنی رضا مندی ظاہر کی اور ۱۸۲۶ء میں برازیل نے قبول کیا کہ بعد ۱۸۳۰ء کے اگر غلاموں کی تجارت اس ملک میں ہوتو ڈکیتی بحری کا جرم سمجھا جاوے گا اور ۱۸۳۱ء اور ۱۸۳۳ء می جو عہد نامہ فرانس سے ہوا اور جس کو قریبا کل یورپ کی بحری سلطنتوںنے منظور کیا اس سے استحقاق سمندر میں جہازوں کی تلاشی کے واسطے بند کرنے غلامی کی تجارت کے حاصل ہوا اورپھر کنٹیوپل عہد نامے کے مطابق جو ۱۸۴۱ء میں ہوا ا عہد نامے کو یورپ کی پانچ اعلیٰ سلطنتوں میں وسعت دی گئی پھر آشیرٹن کے عہد نامے سے جو ۱۸۴۲ء میں یونائٹڈ اسٹیٹ سے ہوا کچھ فوج مشترکہ افریقہ کے کنارے پر واسطے موقوفی تجارت غلاموں کے قائم ہوئی۔ پھر ۱۸۴۵ء میں فوج مشترکہ انگلستان اور فرانس کو استحقاق تلاشی غلامان حاصل ہوا۔ فیاض دل اور عالی حوصلہ اورنیک دل انگریزوں کو یہ خیا ل بھی تھا کہ موجودہ غلام بھی آزاد کیے جاویں۔ اس بات کے لیے سوسائٹیاں بھی بنیں اورہائوس آف کامنز میں بحث بھی ہوا کی۔ آخر کار ۱۸۳۳ ء میں مسٹر اسٹینلی صاحب نے جو اس زمانے میں نوآبادیوں کے وزیر تھے غلاموں کی آزادی کے لیے قانون کا مسودہ پیش کیا اور ہائوس آف کامنز اورہائوس آف لارڈز میں منظور ہوا اور ۲۸ اگست ۱۸۳۳ء کو بادشاہی منظور ی حاصل ہوئی اور بیس کروڑ پونڈ یعنی دو پدم روپے غلاموں کے مالکوں کو بطور معاوضہ نقصان کے دیا گیا‘ مگر یہ خیال کرنا چاہیے کہ یہ روپیہ آیا کہاں سے تھا۔ یہ روپیہ اس ملک کی رعایا نے دیا تھا جس ملک کو ہم کہتے ہیں کہ تہذیب و شائستگی میں اپنا نظیر نہیں رکھتا ۔ ۱۸۴۸ء میں فرنچ نے بھی اپنے حبشی غلاموںکو آزاد کر دیا اور ۱۸۶۳ء میں وچ کے غلام آزا د ہوئے اور شمالی اور جنوبی امریکہ میں جو لڑائی غلاموں کی آزادی کے لیے ہوئی وہ ابھی تک دنیا کی ٓانکھوں سے محو نہیں ہوئی۔ انگریزوں کی کوششیں جو غلامی کے بند کرنے میں ہوئیں ان کے ہم دل سے ثنا خواں ہیں اوراس بات کو بھی قبول کرتے ہیں کہ ہندوستان میں بھی انگلش گورنمنٹ نے غلاموں کی تجارت بالکل موقوف کر دی اروبردہ فروشی بھی بند ہوئی‘ مگر ہم دل سے گورنمنٹ کی کارروائی کی جو ہندوستان میں غلامی کی نسبت ہوئی ہے ثنا خواں نہیں ہیں۔ ہم کو ظن غالب ہے کہ ہندوستان میں درمیانی ہندوستانی عمل داریوں کے بردہ فروشی جاری ہے اور گورنمنٹ کچھ کافی تدبیر اس کے لیے نہیں کرتی۔ بعضی دفعہ ہم کو خود انگریزی عمل داری میں بردہ فروشی ہونے یا لونڈی اور غلام لانے کا شبہ پیدا ہوتا ہے‘ جبکہ ہم کسبیوں کے ہاں نئی نئی نوچیوں کا اور ہیجڑوں کے ہاں نئے نئے چیلوں کا اور نوابوں کے ہاںنئے نئے خواجہ سرائوں کا آنا سنتے ہیں۔ ہم دل سے کہتے ہیں کہ ان سب باتوں کا گناہ اب تک انگریزی گورنمنٹ کے سر پر ہے۔ جو موجودہ قانون ان امورات کے تدارک کے لی کافی نہیں ہیں مگر امید ہے کہ کسی دن یہ رسم بد ہندوستان سے بالکل موقوف ہوگی۔ یہ سب تو ہم نے کہا مگر ہم کو دیکھنا چاہیے کہ مسلمان گورنمنٹوں نے اس باب میں کیا عزت کمائی ہے ۔ ہماری رائے میں اس معاملے میں دین و دنیا دونوں کا خسران مسلمان گورنمنٹوں کو نصیب ہے۔ اب بجز مسلمان گورنمنٹوںکے اور کہٰں غلاموں کی تجارت جاری نہیں ہے۔ ہم نے جو دین و دنیا دونوں کا خسران مسلمان گورنمنٹوںکی نسبت منسوب کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب اسلام کے مطابق غلاموں کی تجارت اور بردہ فروشی جائز نہیں ہے۔ ایک تو یہ گناہ ہے کہ اور دوسرا گناہ عظیم یہ ہے کہ غیر قومیں اسلام پر طعنہ مارتی ہیں اورحقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں کیونکہ وہ ان مسلمان گورنمنٹوںکے افعال سے یہ غلط نتیجہ نکالتی ہیں کہ مسلمانی مذہب میں یہ باتیں جائز ہیںسلطان روم نے در باب بند کر نے تجارت غلاموں کے کوشش کی ہے اور جہاں تک کہ ان کی عمل داری یورپ کے ـٹکڑے میں ہے وہاں کسی قدر وہ کوشش موثر بھی ہو سکتی ہے۔ مگر اس کے سوا کچھ کارگر نہیں ہوئی۔ کیا افسوس اور شرمندگی کی بات ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ عرب میں گائے بیل کی مانند نہایت بے رحمی سے لونڈی یا غلام بازار میں بکتے ہیں۔ دیکھو غلط اوہام مذیبی میں پڑنا اور بیجا رسم کی تقلید کرنا انسان کو ایسا اندھا کر دیتا ہے کہ سلطان سے ایسی رسم قبیح کا جس کے ناجائز اورخلاف شرع ہونے پر علماء اور قضات پایہ تخت نے فتویٰ بھی دیا ہے کچھ انتظام نہیں ہو سکتا اور اس فعل ناشایستہ سے دنیا میں جو ذلت اور حقارت اور وحشی اور نصف وحشی کا لقب ہے وہ توخود ہی ظاہر ہے ۔ پس مسلمان گورنمنٹوں کو اس فعل کے سبب ہماری ملامت کرنا اور خسر الدنیا و الاخرۃ کہنا کچھ خلاف نہیں ہے۔ مگر مصر کا حال سن کر ہمارا دل تھوڑ ا سا خوش ہوتا ہے ۔ ولیم ہورڈ رسل صاحب جو نہایت نامی گرامی ہیں اپنے روزنامچے میں اسماعیل پاشا خدیو مصر کی بڑی تعریف کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اس نے اس نیکی کے حاصل کرنے اوررسم بد کے موقوف کرنے میں بڑی کوشش کی ہے اور کسی قدر کامیاب بھی ہوا ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو ہم بھی دل سے اسماعیل پاشا کی خیر مناتے ہیں اوردعا دیتے ہیں اور شکر کرتے ہیں مگر ہم نے جو ٹھنڈے دل سے یہ دعا دی اس کا سبب یہ ہے ہ ہم نے خود مصر میں دیکھا ہے کہ حبشی غلام خواجہ سرا نہایت کثرت سے ہیں اور خود اسماعیل پاشا کے محل میں موجود ہیں ‘ پس یہ کیا خدا کی دوہری لعنت یونی ایک غلامی اور دوسرے خواجہ سرا کرنا مصر والوں کی سیاہ روہی اور پورے وحشی ہونے سے کم ہے افسوس کہ ان نا خدا ترس مسلمانوں نے اپنے افعال قبیحہ سے کیسے روشن مذہب اسلام کو بدنام کیا ہے او ر دھبہ لگایا ہے سبحان اللہ جو فعل مبغوض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھا اسی قسم کے لوگ‘ یعنی خواجہ سرا روضۃ متبرک رسالت مآب علی صاحبہا الصلوۃ والسلام پر اور خانہ کعبہ پر متعین کیے گئے ہیں اوریہ ہے کہ پھوٹے مسلمان اس کو باعث افتخار جانتے ہیں اور اس کے مخالف کو لامذہب یا کرسٹان بنتاتے ہیں۔ فاعتبرو ایا اولی الابصار۔ اگرچہ مسٹر رسل صاحب کی کتاب متعلق غلامی مصر پڑھ کر ہمارا دل خوش ہوا‘ مگر جس لفظ نے ہمارے دل کو نہایت رنجیدہ کیا اس کا بیان کرنا بھی ہم کو ضرور ہے اوروہ یہ ہے ہک جہاں انہوں نے اسماعیل پاشا کے اس نیک کام کی تعریف لکھی ہے وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ اس نے برخلاف اپنے مذہب و ایمان کے یہ نیک کام کیا ہے۔ اس تحریر پر ہم مسٹر رسل صاحب سے ناراض نہیں ہوئے‘ انہوںنے ٹھیک لکھا ہے‘ مگر ان کافر مسلمانوں سے ناراض ہوئے جنہوںنے اپنے افعال ناشائستہ کو ایسے طور پر رواج دیا ہے کہ جس کے سبب غیر قومیں ان افعال کو مذہبی اورایمانی افعال سمجھتی ہیں اور مذہب اسلام کو حقارت سے دیکھتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ تہذیب اور شائستگی اورانسانیت مذہب اسلام کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی‘ پس ہم نے یہ مضمون اسی لیے اختیار کیا ہے تاکہ ہم دکھائیں کہ مذہب اسلام نے غلاموں اور غلامی کی نسبت کیا کیا ہے ارو کس طرح رحم اور انسانیت اور تہذیب کو اعلیٰ درجے تک پہنچایا ہے ۔ چنانچہ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم دوسرے آرٹیکل میں جو غلامی پر لکھیں گے اس میں مذہب اسلام کے مطابق مضمون غلامی پر بحث کریں گے اوراسلام کی روشنی (مگر نہ زید و عمر کی) دنیا کی آنکھ میں دکھاویں گے ۔ من او را دوست میدارم و دیگراں زید و عمرا ٭٭٭ غلاموں کی آزادی (تہذیب الاخلاق (دور اول) جلد ہفتم نمبر ۷ بابت یکم ربیع الثانی ۱۲۹۴ھ) ۱۸۶۳ء میں سلطنت ٹیونس میں غلاموں کی خرید و فروخت کو قانونی طور پر روک دیاگیا۔ اس پر امریکی سففیر مقیم ٹیونس نے کچھ سوالات کیے ۔ ان سوالات کا جواب وہاں کے ایک فاضل شخص حسین پاشا رئیس المجلس البلدی نے لکھا۔ یہ جواب قسطنطنیہ کے ایک عربی اخبار (الجوائب) میں شائع ہوا۔ جب اخبار الجوائب ہندوستان پہنچا اور سرسید نے اسے پڑھا تو چونکہ مضمون ان کی دلچسپی کا تھا اور وہ اس موضوع پر ایک مبسوط مقالہ پہلے لکھ بھی چکے تھے‘ اس لیے انہوں نے ’’الجوائب‘‘ کے اس مضمو ن کے متعلق اپنے خیالات عربی میں لکھ کر ’’الجوائب‘‘ کو بھیجے اور تہذیب الاخلاق جاری ہونے کے بعد یہ مضمون اور اس پر اپنا تبصرہ اس کے یکم ربیع الثانی ۱۲۹۴ھ (مطابق اپریل ۱۸۷۷ء ) کے پرچے میں شائع کیا ۔ چونکہ عربی سمجھنے والے ہمارے ہاں بہت کم ہیں لہذا ہم اصل مقالہ اور اس پر تبصرہ دونوں کا اردو میں ترجمہ کر کے یہاں پیش کرتے ہیں ۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ترجمہ مقالہ ’’اعتاق الرقیق‘‘ مندرجہ اخبار الجوائب جس کا کہ اخبار میں مشتہر کرنا اچھا ہے اور اس کا ذکر کرنا مناسب ہے ایک بات تو یہ ہے کہ کونسل سلطنت امریکہ نے فاضل کامل وزیر سلطنت ٹیونس سعادتلو حسین پاشاسے ان کی رائے درباب اعتاق (آزادی) غلاموں کے جنوبی امریکہ میں جیسا کہ اس میں اورشمالی امریکہ میں سخت لڑائی ہو رہی تھی اور ان پر سختی کا وقت تھا دریافت کی اور اس معاملے می انھیں کی رائے دریافت کی تھی نہ مسئلہ فقیہہ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ یہ فاضل علوم دینیہ اور انتظام ملکی دونوں میں کامل ہیں اور وہی بات بتائیں گے جو کتب عقلیہ اور نقلیہ اور نظام مدنی کے موافق ہو گی۔ پس انہوںنے یہ جاب جو زیل میں مرقوم ہے لکھا جس سے ان کی کمال سلامت عقل و فضل علمی ثابت ہوتا ہے۔ بخدمت موسیواموس پیری سفیر امریکہ موجودہ ٹیونس! امابعد میں آپ کے خط کے پہنچنے سے معزز ہوا۔ آپ نے لکھاہے کہ ہم ایسی جگہ میں تھے کہ جہاں آزادی اور غلامی دونوں مدت دراز سے باہم ملی ہوئی تھیں اوراب ایک سخت لڑائی میں آپس میں بسبب غلبہ ایکد وسرے کے متداخل ہو گئی ہیں اور تم نے تاریخ ٹیونس میں حوادث ان دونوں متضاد باتوں کے متعلق پائے ہیں‘ اس لیے آپ کا ارادہ ہے کہ آپ دریافت کریں کہ ہمارے ملک میں جب غلامی تھی تو اس کی کیا تاثیر ہوئی تھی اور اعتاق عبید (غلاموں کی آزادی) سے کچھ مالکوں کو تاسف اور حسرت ہوا اوغلاموں کے جانے سے ان کو کچھ تکلیف ہوئی یا آڑام اور آپ مجھ سے اس حال کی شرح دریافت کرتے ہیں کہ تجربے سے کون سی خدمت اچھی ثابت ہوئی ۔ غلاموں کی خدمت جو مجبوری اور بے اختیاری سے کرائی جاتی تھی یا نوکروں کی خدمت جو اختیار ی ہے اور ان دونوں میں سے کون سی مصلحت حالت موجودہ عام کے موافق ہے۔ جواب یہ ہے کہ آپ نے جو تاریخ ٹیونس میں دیکھا ہے کہ وہاں ملکیت آدمی کی جو مباح تھی اس کو منع کیا ہے اور غلام آزاد کیے گئے اس کا یہ سبب ہے کہ یہ سلطنت مثل اورسلطنت ہائے ااسلامیہ کے جامع ہے درمیان دیانت اور انتظام ملکی کے اور شریعت اسلامیہ نے غلامی کی جو تینوں شریعتوں سے پہلے جاری اور مباح تھی قائم رکھا جبکہ سبب ملک پایا جاوے اور شرائط اور واجبات کی (جن کی بجا آوری مشکل ہے) پوری تعمیل کی جاوے۔ ایک ان میں سے مملوک کو نہ تکلیف دینے یس ہے اور تکلیف مملوک موجب اس کی آزادی کیا ہے جیسا کہ فرمایا کہ جس غلام کو تکلیف دی جاوے وہ آزاد ہے اورباوجود اس کے جناب رسول مقبول غلاموں کے ساتھ سلوک اور مروت کرنے کی ہمیشہ وصیت کرتے رہے ‘ یہاں تک کہ نبی پاک کا آخر کلام یہی ہے کہ محفظت کرو نماز پرا اور حقوق غلاموں پر اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ تمہارے بھائی ہیں کہ خدا نے تمہارے اختیار میں کیے ہیں۔ جس کسی کا بھائی اس کے اختیار میں ہو تو چاہیے کہ جو آپ کھاوے اس کو کھلاوے اور جو آپ پہنے وہی اس کو پہناوے اور اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے اور حضرت عمر خلیفہ ہر روز غلاموں کے حال دریافت کرنے کے لیے جاتے تھے۔ جس کو دیکھتے کہ طاقت سے زیادہ کام لیا جاتاہے اس پر تخفیف کرتے اور ایسے ہی شنبے کے روز دواب (جانور ) کے حال کو دریافت کرنے کو جاتے‘ جس کو سخت کام میں پاتے اس سے کمی کرتے۔ اور مسائل شرعیہ سے شارع کا غایت اہتمام طرف آزاد کرانے غلاموں کے پایا جاتاہے کہ یہ حکم ہے کہ جو جزو غلام آزاد کرے اس کو کل غلام کا آزاد کرنا لازم ہے اور مصارف زکوۃ جو بنص قرآن اٹھ میں منحصر ہیں ان میں سے ایک غلاموں کا آزاد کرنا بھی ہے۔ کہا ہے کہ مال زکوۃ سے غلام خرید کیے جا کر آزاد کیے جاویں اور ایسی ہی کفارہ قسم اور قتل اور روزہ اور ظہار میں غلام آزاد کرنے کا حکم ہے۔ اگر عتق غلام کی شارع کے نزدیک بہت اہتمام نہ ہوتا تو ان صورتوں میں فقرا اور مساکین پر اس وجہ سے تنگی نہ فرماتے ۔ اور شارع کی غایت اہتمام کی ایک یہ بھی دلیل ہے کہ شارع نے غلاموں کے آزاد کرنے پر بہت ترغیب دی تھی کہ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان کو آزاد کرے گا تو اس کے ہر ہر عضو کے بدلے خدا تعالیٰ اس کے ہر ہر عضو کو دوزخ سے نجات دے گا۔ اور جو حقوق اور شروط کہ شارع نے غلاموں کے معاملے میں مقرر فرمائی ہیں ان کی پوری تعمیل تو اسلام کی جوانی کے عالم میں بھی دشوار تھی’‘ اب کہ اسلام کے بڑھاپے کا زمانہ ہے تو ان کی پوری تعمیل کا گمان کیا ہو سکتاہے اورخاص کر کرللے حبشی غلاموں سے گوروں کو نفرت طبعی ہے اور غلام اور مالکوں میں بہت نزاع واقع ہوتے ہٰں جن کا منشا صرف نفرت طبعی ہی ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے غلاموں کو بہت تکلیف دیتے ہیں اور حقوق شرعی کی رعایت نہیں کرتے اور اس قسم کی تکلیف بڑھتی جاتی تھی کہ سلطنت کی مصحلت اس کی مقتضی ہوئی کہ سب غلام آزاد کیے جاویں اور غلامی کی ممانعت کی جاوے اس لیے کہ جب غلاموں کے ساتھ موافق تاکید شرعی کے نرمی اور سلوک نہ کیا جاوے تو یہ حکم ہے کہ یا وہ بیچ دیا جاوے یا آزاد کر دیا جاوے اور بیچن یکی صورت میں تو مطلب نہیں حاصل ہوتا کہ مشتری سے بھی وہی ضرور عائد ہو گا اور تسلسل ہو گا تو دوسری ہی بات متعین ہوئی کہ آزاد کرائے جاویں‘ تو اس وجہ سے محرم ۱۲۶۲ھ میں زمانہ وزارت احمد پاشا بائی سے ملکیت غلاموں کے باطل ہوئی اور اس نے جو اس معاملے میں اول مرتبہ مجلس شرعی سے خطاب کر کے کہا وہ یہ ہے ک ہم کو خوب اچھی طرح یہ بات ثابت کرنی ہے کہ جس میں کچھ شک نہیں رہا۔ کہ اتالیا کے اکثر آدمی ان کالے غلاموں کے حقوق کی جس طرح شرعاً حکم ہے رعایت نہیں کرتے تو مصلحت انتظام ملکی مقتضی اسی کی ہے کہ بنظر رعایت حال ان مساکین بہت طرح کر سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ منصف آدمیوں کی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جن ملکوں میں غلامی نہیں ہے اور آزادی عام ہے وہاں عمر زیادہ ہوتی ہے اورمیں ںے ایک بڑے فاضل کا خطبہ دیکھا جس میں اس نے اپنے ملک کے سب رہنے والوں کو اس امر کے قبول کرنے پر بہت بر انگیختہ کیا ہے کہ وے رئیس کے اس حکم کو دل سے قبول کریں اور وہ اس میں یہ کہتا ہے کہ نفوس پاک اور دل جو رحم اور شفقت کی طرف مائل ہیں ان کو مطلع کرنا چاہیے کہ شریعت ہمارے غلاموں کی آزادی کی طرف متوجہ ہے اور اس کا بہت اہتمام کیا ہے اور آدمی کا مملوک ہو جانا یہ ایک بلا ہے جس پر رحم کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ اس پر بھی قادر ہے کہ الٹا کر دے۔ اور اس بات کا کہ عبودیت کے جاتے رہنے سے کیا اثر ہوا جواب یہ ہے کہ جب ملکیت آدمی ضروری نہ تھی اور بغیر اس کے بھی گزارن کر سکتا تھا تو اس کی موقوفی میں کوئی دقت پیش نہیں آئی اورنہ کچھ یہاں کے لوگوں کو ناگوار گزرا اورجو خوش عیش نعمت والا آغاز اور انجام کو بنظر توجہ دیکھتے ہیں وہ کسی طرح غلاموں کے آزاد کرنے پر افسوس نہیں کرتے کہ وہ تو یہ قدرت رکھتے ہیں کہ ایس رویے کے سبب آزاد آدمیوں کو اپنا غلام بنا لیں اوروہ یہ بھی اعتقاد کرتے ہیں کہ غلام کے آزاد کرنے کے سبب سے وہ ثواب آخرت کے مستحق ہوئے ہیں۔ اول میں یہ امر اس وجہ سے سخت معلوم ہوا کہ غلاموں کی خدمت گزاری بغیر اجرت کے آسان اورسستی معلوم ہوتی تھی اوربسبب طمع دنیا کے غلاموں کے آزاد کرنے کو ان کے دل نہیں پسند کرتے تھے ۔ اور بخل کرتے تھے‘ مگر تھوڑے دنوں میں ان کو تسلی ہو گئی جبکہ ان کو تجربے سے معلوم ہو گیا کہ خدمت گزاری اختیاری جو نوکروں کی ہے خدمت گزاری غلاموں سے جو مجبور کر کر کرتے ہیں بہت اچھی ہے اورجو نوکر نہیں رکھ سکتا اور غلاموں سے خدمت لیتا تھا اس نے یہ بات مناسب جانی کہ امر طبعی کی طرف رجوع کرے اورپسندیدہ خصلت اختیار کرے کہ اپنی ضروریات کو آپ انجام دے اور اپنی حاجت غیرپر کم ڈالے کہ آدمی جب غیرسے کام لینے کا عاد ی ہو جاتا ہے تو اپنی تھوڑی ضروریات کا بہت پابند ہوتا ہے اتنا طبیعت کا بھی پابند نہیں ہوتا‘ اور ایسی عادات سے اس کی زندگی بہت سی شرائط پر موقوف ہو جاتی ہیں اورجس چیز میں شرائط زیادہ ہوتی ہٰں وہ کم ہوا کرتی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ کام کرنے میں آمیوں کی چار اقسام ہیں: ایک یہ کہ اپنا کا م ااپ کرے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ اس قدر کام کرتاہے جو اس سے ہو سکے اور دل سے کوشش کرتا ہے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ اجرت پر دوسروں کے کام کرے اوریہ پہلے سے کم دوسروں کی خدمت کرے اور یہ مجبور ہے اوریہ درجہ غلام کا ہے اور یہ دوسری سے بھی بہت درجہ کم ہے ۔ چوتھی یہ کہ جو نہ اپنا کام کرے اور نہ دوسرے کا اوروہ ناکارہ غلام ہے اور اسی قسم سے ہے وہ شخص کہ جو خود کام بالکل نہیں کرتے اور شیخی کے سبب غلاموں سے کراتے ہیں اور ایسوں کا یہ علاج کرنا ان کے لیے کارآمد ہے کہ وہ دیکھیں کہ جو ہم سے بھی بڑے ہیں وہ بھی ایسے کام کرتے ہیں جو ہم نے چھوڑ رکھے ہیں اورنیز ایسا اتفاق کاہلوں کے لیے بہت کارآمد ہوتا ہے کہ وہ اپنے حاکموں کی ترغیب اور توجہ اس کی طرف دیکھیں‘ اس لیے کہ ان کو کچھ چارہ نہیں ہو سکتا پا پیادہ چلنے سے جب ایسون کے ساتھ چلیں او آدمی بااعتبار اپنی اصلی پیدائش کے اچھی خصلت کی طرف مائل ہے بری خصلت سے اس لیے کہ یہ بری خصلتیں تو قوائے حیوانیہ کی وجہ سے ہوتی ہیں اور اصلی قوت عاملہ تو بھلائی کو چاہتی ہے ۔ جب کسی طبیب ماہر سے ملے گا اور اس کی بیماری کی دوا کی جاوے گی تو پھر اچھی حالت کی طرف رجوع کرے گا اور اس کے سبب سے اس کی عمر بڑھے گی اوریہی وجہ ہے کہ جن ملکوں میں آزادی عام ہے وہاں عمر زیادہ ہوتی ہے اور اس کا سبب یہی ہے کہ آدمی کے اپنے کاموں میں برکت زیادہ ہے اس سے کہ جبراً غلاموں سے کام کرواوے اور میرے نزدیک تو یہ ہے کہ آزادی عام سے جیسے عمر بڑھتی ہے ایسے ہی آدمی کی شائستگی بھی زیادہ ہوتی ہے اور عمر کے بڑھنے کی تو یہ وجہ تھی کہ عمر عدل اور میانہ روی سے زیادہ ہوتی ہے اور آزادی عام کا یہ نتیجہ ہے۔جب آزادی عام ن ہوئی تو عدل نہ رہا اور ظلم پیدا ہوا جو باعث خرابی اورکمی عمر کا ہے او رشائستگی کی وجہ یہ ہے کہ بوجہ آزادی عام کے اکثر بڑے عذابوں سے آدمی محفو ظ رہتا ہے ۔ جیسے تکبر اورکاہلی او ردوسرے پر جبر کرنا کہ بحالت رقیت ان سے بچ نہیں سکتا‘ وہ آدمی جس کے لیے غلام کی خدمت کو موجود ہوں کہ وہ عادی تکبر اور بھی حکم کرنے کا ہو جاتا ہے اورکبھی آدمیوں کو بھی اسی نظر سے دیکھنے لگتا ہے جیسے غلاموں کو دیکھتا تھا‘ جیسے اب کالے آدمیوں کو ایسا ہی دیکھتے ہیں جیسے جانوروں کو۔ میں ایک مرتبہ ۱۸۵۶ء میں زمانہ کرسمس کے دنوں میں اپرہ کلاں واقع پیر میں گیا اورمیرے ساتھ ایک کالا غلام بھی تھا ۔ مجھ کو یہ بات دیکھ کر بہت خوف معلوم ہوا کہ جب اس کو ایک امریکہ کے آدمی نے دیکھا اور اس کی طرف ایسے بھاگا جیسے بلا چوہے پر بھاگتا ہے اور آن کر اس کا کپڑا پکڑ لیا اور غصے میں گھڑی گھڑی یہ کہتا تھا کہ جہاں ہم ہیں وہاں کالے غلام کا کیا کام اورکہاں غلام ہم مالکوں کے پا س بیٹھ سکتا ہے ۔ یہ غلام بے چارہ متحیر رہ گیا کہ یہ کچھ جواب نہیں دے سکتا تھا اوریہ بھی نہیں جانتا تھا کہ کس وجہ سے یہ آدمی اس پر چڑھا جاتا ہے اور حملہ کرتا ہے۔ میں اس آدمی کے پاس آیا۔ میں نے کہا میاں ذرا نرمی کر‘ ہم مسافر پیرس میں ہیں اوربریسمرند نہیں ہیں۔ جب کہ وے دونوں ایسی حالت میں تھے کہ ایک محافظ مرکب کا آ گیا اور اس کو متنبہ کیا کہ ان کے ہاں کچھ کھال کی وجہ سے آدمی کو عزت نہیں ہے‘ بلکہ خوبی اور کمال کی وجہ سے ایک کو دوسرے پر زیادتی ہے۔ پس اس بے چارے غلا کو عمدہ لباس اوراسباب زینت نے اس کے ہاتھ سے نہ چھڑایا‘ بلکہ چھڑایا اس کو عدل اور سفید ی حق نے۔ پس سلطنت ٹیونس کے نزدیک نظام مملکت کے مناسب یہی ہے کہ ملکیت اٹھائی جاوے اور آزادی عام ریہ اور اس کا کچھ اعتبار نہیں کہ بعض غلاموں نے بعد آزادی کے تسلیم شرو ط غلامی پر مالکان کی طرف رجوح کیا کہ کبھی آنکھ بیماری کے سبب آفتاب کی روشنی سے نفرت کر جاتی ہے اوربیماری کی وجہ سے پانی بدمزہ معلوم ہوتا ہے اوریہبھی جب تھا کہ جب ابتدا میں بے سامان مثل جانوروں کے چھڑائے گئے ھتے اورکچھ سامان معیثت ان کے لیے نہ تھا۔ آج تو ان کو بالکل اس بات کا خیال بھی نہیں ہے۔ اب ہم ایسے بے معنی شبہات کو چھوڑ کر ایک اچھی بات کہنا چاہتے ہیں کہ اے امریکہ والو! تم ایسے ہو جیسے لوگوں کے حق میں عمر بن العاص صحابی نے کہا تھا کہ فتنے کے وقت تحمل کرنے والا مصیبت کے وقت جلدی ہوشیار ہونے والا اور جلدی لوٹنے والا بعد منہ پھیرنے کے یتیم اور مسکین اور ضعیف پر بھلائی کرنے والا اور بادشاہوں کے ظلموں سے بہت بچے ہوئے۔ اور خدا کی قسم! تم ایسے ہو جیسا کہ کہا کہ بادشاہوں کے ظلموں سے بہت بچے ہوئے‘ اس لیے کہ خدا تعالیٰ نے تم کو پوری آزادی دی اور سب کا م کا انتظام مدنی اور سیاست ملکی تمہارے ہی اختیار میں دیے اورتمہارے سوا اوروں کو تو صرف ایک ہی حق تمدن ہی کا ہے کہ وہ بھی نہیں پاتے ہیں۔ تمہار ا کیا نقصان ہوا گر اپنے غلاموں پر مہربانی کرو اور بشکر اس نعمت کے جو خدا نے تم پر کی ہے ان کو آزاد کرو اور تمہارا طرز معاشرت اور اتفاق سے رہنا اس امر کو نہیں چاہتا کہ تم پیروی کرو ان لوگوں کی جن کی نظر دائرہ تقلید پر محصور ہے اور اس میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ہم نے اپنے آبائو اجداد کو ایسی حالت میں پایا اور ہم انہیں کے قدموں پر چلتے ہیں اورجانو کہ شفقت اور محبت نوع بشری تم کو داعی ہو گی کہ تم اپنی اس آزادانہ معاشرت میں سے جو وہ زیادتی جو اس کے لیے بری ہے اور اس آزادی عام کو مکدر کرتی ہے اس کے سبب سے بعض کو ہلاکی کے کنارے پر پاتے ہو اوروہی یہ بیچارے غلام ہیں اورخدا تعالیٰ اپنے بندوں میں سے ان کو دوست رکھتا ہے جو رحم کرتے ہیں غیروں پر ۔ پس بیچاروں پر رحم کرو‘ تم پر خدا تعالیٰ رحم کرے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ ہمارا بہت موجب پراگندگی خاطر ہے کہ ہمدردی نوع انسانی ہم کو اس رنج کا ہی باعث ہے جیسا کہ میں امید کرتا ہوں کہ تم مجھ کو اپنا خالص دوست جانو گے۔ کتبہ الفقیرالی ربہ تعالیٰ حسین رئیس المجلس البلدی تحریرا فی اواخر جمادی الاولیٰ سنۃ ۱۲۸۱ھ ہجریہ الموافق لاواخر اکتوبر سنۃ ۱۸۶۳ مسیحیۃ۔ التماس سرسید بخدمت ایڈیٹر اخبار الجوائب بلاشبہ یہ تحریر مولانا حسین رئیس مجلس بلدی ٹیونس کی آب زر سے لکھنے کے لائق ہے اور جو اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ فقہ اسلامیہ اورقوانین تمدن و سیاست مدن عقلیہ میں انسان کے لیے خیال میں آ سکتا ہے وہ مولانا کی اس تحریر سے ان کے لیے ثابت ہوتا ہے مگر مجھ کو اس میں ایک سوال باقی ہے جس کا حل اس تحریر میںنہیں پایا جاتا اور وہ یہ ہے ہ میں نے قرآن مجید کو متعدد دفعہ نہایت غور سے پڑھا ہے اور بہت تلاش کیا کہ اس کی کس آیت میںحکم رقیت (غلامی) ہے۔ تمام چیزیں جو شارع نے اس حرام و حلال کی ہیں ان کے احکام قرآن مجید میں موجود ہیں مگر یہ حکم کہ ایک آزاد انسان پر رقیت کیونکر طاری ہو جاتی ہے مجھ کو نہیں ملا۔ الفاظ عبد و امۃ جو قرآن مجید میں آئے ہیں وہ حکم قیت متصور نہیں ہو سکتے۔ احکام اعتاق جو قرآن مجید میں ہیں وہ فی حد ذاتۃ مبطل رقیت ہیں نہ مثبت رقیت‘ کیونکہ کوئی حکم اپنے مفہوم کا مثبت نہیں ہو سکتا۔ یہ تصور کرنا کہ رقیت وجوداعتا ق پر مقدم ہے تسلیم ہے‘مگر یہاں بحث اس کے وجود کی نہیں ہے‘ بلکہ اس کے حکم شرعی ہونے سے ہے اور تقدم وجودی دلیل اس کی مشروعیت کی نہیں ہو سکتی جیسے کہ حکم قصاص اور حد زنا سے قتل و زنا بلاشبہ وجوداً مقدم ہیں‘ مگر ان کا تقدم وجودی ان کی مشروعیت کی دلیل نہیں ہوسکتا۔ جو واقعات کہ عہد رحمت مہد جناب رسول خدا صلعم میں گزرے ہیں اور جو حالات زمانہ خلافت ہائے راشدہ میں پیش آئے جو کتب و تاریخ سے معلوم ہوتے ہیں اورجو احکام رقیت کتب فقہ میں مندرج ہیں سب میںنے دیکھے ہیں۔ ان سے استدلال کرنا اور ان پر بحث کرنا میرا مقصود نہیں ہے‘ مجھ کو صرف اس بات کی تلاش ہے کہ قرآن مجید کی کون سی آیت میں حکم رقیت نازل ہوا ہے اور قرآن مید نے آزاد انسان پر کسی طرح رقیت طاری ہونے کا حکم دیا ہے بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آیت وافی ہدایت فاما منا بعد واما فداء انسان کے لیے اور اس کی آئندہ نسل کے لیے فرمان حریت ہے اور اسی لیے میں اس کو آیت حریت کہتا ہوں۔ اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ ابتدائے زمانے سے رسم رقیت جاری ہے ‘ اگرچہ ہمارے پاس کوئی ثبوت اس بات کا نہیں ہے کہ وہ رقیت بموجب حکم شریعت سابقہ تھی‘ اس لیے کہ کتب ادیان سابزہ‘ یعنی تورات و زبور و صحف انبیاء و انجیل اختلاط کلام بشر سے محفوظ نہیں ہیںجیسا کہ ہمارا قرآن مجید محفوظ ہے۔ ان کتابوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک تالیف ہے جس میںاحکام خدا اور واقعات تاریخی اور امورات رسمی قوم بنی اسرائیل اوروہ حالات جو مولفین نے دیکھے اور بعض ایسے جو سنے اوربہت سی دعائیں اورمناجاتیں جو نیک بندوں نے خدا کی درگاہ میں کیں شامل ہیں۔ ان میں سے یہ قرار دینا کہ کون سا حکم شرعی من اللہ ہے اور کون سی باتیں بطور قومی رسم و رواج کے انسان کی طرف سے ان میں مندرج ہیں اگر ممکن نہیں تو قریب ناممکن ضرور ہے۔ ہماری کتابوں میں جہاں ذکر بنی اسرائیل کا آیا ہے وہاں بھی عبید کا ذکر اسی استعمال کے موافق ہے جو اس قوم میں مستعمل تھا۔ پس یہ دعویٰ کہ ادیان سابقہ سے استرقاق ایک حکم شرعی تھا ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی کچھ دلیل نہیں‘ لیکن قطع نظر ان سب باتوں کے اگر ہم تسلیم کریں کہ ادیان سابقہ میں رقیت یایک حکم شرعی تھا تو اس سے ہمارا مقصود حاصل نہیں ہوتا‘ کیونکہ ہمارا مقصود اس بات کا جاننا ہے کہ قرآن مجید میں کوئی ایسا صریح حکم موجودہے جس سے معلوم ہو سکے کہ انسان پر رقیت طاری ہوتی ہے یا نہیں۔ میں جناب ادیب اریب عالم بے نظیر ایڈیٹر الجوائب سے آرزو رکھتا ہوں کہ میری ا س تحریر کو پرچہ الجوائب میں مندرج فرماویں اور علماء قسطنطنیہ و ٹیونس و مصر سے جو کوئی آیت استرقاق قرآن مجید میں نشان دے اس سے اس احقر العباد کو مطلع فرماویں۔ راقم سید احمد ٭٭٭ تبریۃ الاسلام عن شین الامۃ والغلام یعنی غلامی کی لعنت سے اسلام کی بریت (تہذیب الاخلاق جلد دوم بابت ۱۲۸۸ھ نمبر ۱۲ تا ۱۷) ابطال غلامی کے متعلق سرسید کا یہ عالمانہ ‘ فاضلانہ اور محققانہ طویل مضمون ایک تمہید‘ سات باب اورایک خاتمے پر مشتمل ہے اور تہذیب الاخلاق جلد دوم بابت ۱۲۸۸ھ کے شمارہ ۱۲ تا ۱۷ میں ۱۵ رجب سے یکم شوال تک مسلسل شائع ہوتا رہا ۔ یہ مضمون ایک مستقل مقالے کی حیثیت رکھتا ہے اور ایسے موضوع کے متعلق ہے جس پر علمائے اسلام میں زبردست بحثیں ہو چکی ہیں ۔ یعنی ’’اسلام میں لونڈی غلاموں کی حیثیت‘‘ سرسید نے اس مضمون میں ہر معاملے کے ہر پہلو پر نہایت مدلل اور نہایت مفصل بحث کی ہے اور بہت پختہ دلائل کے ساتھ اس امر کو ثابت کیا ہے کہ اسلام کی صحیح اور حقیقی تعلیم یہی ہے کہ آزاد انسانوں کو غلام بنانا ہرگز جائز نہیں اور قرآن کریم کی کوئی آیت اور احادیث صحیحہ کی کوئی روایت اس رسم کی تائید اور حمایت میں نہیں۔ اس عالمانہ اور محققانہ بحث میں سرسید نے معاملے کے کسی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا اورمسئلے کی ہر شق پر قرآن ‘ حدیث ‘ سنت رسول اور تاریخ کے لحاظ سے خوب کھل کر بحث کی ہے۔ بعض حضرات شاید اس مضمون کے مندرجات اور دلائل و براہین سے متفق نہ ہوں‘لین یہ ضرور ماننا پڑتاہے کہ سرسید نے اس مضمون کو نہایت عالمانہ اور فاضلانہ طور پر پیش کرنے میں کوشش اور سعی کا کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا۔ اس دعوے کی صداقت ا س وقت ہو گی جب اس مضمون میں دلچسپی رکھنے والے اصحاب مضمون کو از اول تا آخر غور اور تعمق کے ساتھ پڑھیں گے۔ اس موضوع پر الرق فی الاسلام کے نام سے ایک اور فاضلانہ تصنیف ندوۃ المصنفین دہلی سے بھی شائع ہوئی تھی۔ قارئین کرام میں سے جو حضرات اس خاص موضوع سے دلچسپی رکھتے ہیں سرسید کے اس مضمون کے بعد مولانا سعید احمد کی یہ کتاب ان کی معلومات میں اضافے کا باعث ہو گی ۔ جو ۲۵۸ صفحات پر مشتمل ہے اور ۱۹۳۹ء میں شائع ہوئی تھی۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) تمہید خدا نے انسان کو ایک ایسی ہستی بنایا ہے جس کی فطرت میںآزادی اور خود مختاری رکھی ہے ۔ اس کو ذی عقل اور ذی شعور پیدا کیا ہے۔ اس کو تمام قوی ظاہری و باطنی عطا کیے ہیں۔ ان کے استعمال کی اس کو قدرت بخشی ہے ۔ ہر کام کے شرو ع کرنے کی سمجھ اور اس کے انجام کی سوچ اس کو دی ہے ‘ تاکہ ہر کام کا آغاز و انجام خو د سوچ لے۔ا س کو ایسی فطرت پر بنایا ہے کہ وہ خود اپنے لیے تمام چیزوں کے مہیا کرنے کا حاجت مند ہے ۔ خود خدانے فرمایا ہے کہ لیس للانسان الا ما سعیٰ (انسان کے لیے بجز اس کے جس کی وہ خود کوشش کرتا ہے کچھ نہیں ہے) پس یہ تمام حالتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس پتلے کے صانع کی مرضی یہی تھی کہ یہ پتلا خود آپ اپنا مالک رہے۔ غلامی ان تمام چیزوں کے یا یوں کہو کہ صانع کی مرضی کے برخلاف ہے اور اس لیے خدا کی مرضی کے مطابق نہیں ہو سکتی۔ حقیقت میں غلامی سے زیادہ کوئی چیز فطرتی نیکی کے (جو اصلی منبع تمام نیکیوں کا ہے) برعکس اور مخالف نہیں ہے۔ غلامی بے انتہا بدیوں کی جڑ اور تمام بداخلاقیوں کی ماں اور کلیۃ اخلاق حمیدہ کی دشمن ہے ۔ کیا پاک پروردگار ایسی ناپاک چیز کو انسان کے حق میں جائز کرتا؟ کیا خدا تعالیٰ ان تمام صفات کو جو اس نے انسان میں پیدا کی ہیں غلامی کی حالت میں برباد کرنا پسند کرتا؟ یہ تمام لطیف قویٰ جو انسان میں خدا نے اس لیے پیدا کیے ہیں کہ خدا کے لیے کام میں آئیں۔ دوسروں کے تصرف میں جانے پر راضی ہوتا؟ جب کہ خود خدا الہام کر چکا ہے کہ کلکم عبید اللہ وکل نساء کم اماء اللہ (تمام مرد میرے غلام ہیں اور تمام عورتیں میری لونڈیاں ہیں) تو کیا وہ اپنا شریک پیدا کر کے خوش ہوتا؟ لا واللہ یا اللہ انت وحدت لا شریک لک آزادی جو ہر انسان کا قدرتی حق ہے غلامی ٹھیک ٹھیک اس کو برباد کرنے والی ہے۔ قدرتی حقوق کا برباد کرنا اصلی ظلم اور ٹھیٹ ناانصافی ہے۔ پس انسان ایسی خطائوں کا خطاوار ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ ناقابل سہو و خطا نہیں ہے‘ مگر خدا ایسے قصور کا تقصیر وار نہیں ہو سکتا۔ وہ تمام خطائوں سے پاک اورتما م تقصیروں سے مبرا ہے۔ یہ سمجھنا کہ اگر غلام آرام و آسائش سے رکھے جایوں اور رحم ومحبت پر پرورش کیے جائیں تو کوئی برائی نہیں ہے‘ محض غلطی اور سر تا سر دھوکا ہے۔ غلامی فی نفسیہ ایک قدرتی گناہ ہے اور ان کو بدسلوکی سے رکھنا دوسرا گناہ ہے پس کوئی چیز قدرتی قناہ سے زیادہ خوفناک نہیں ہے۔ غلامی تمام اخلاق انسانی کو خراب کرنے والی ہے۔ غلاموں کے حالات اور ان کی عقل اور عادات انسانی حالت سے تنزل کر کے حیوانی حالت میں آ جاتے ہیں اورجو لوگ غلام بناتے ہیں وہ جبرا اور ناانسافی سے انسان کو جو اشرف المخلوقات ہے تنزل کی حالت میں ڈالتے ہیں۔ غلامی کی حالت میں انسان کے تمام قدرتی قویٰ جن کو خدا نے وسیلہ ترقی بنایا ہے معطل و بے کار ہو جاتے ہیں اور ان کی حالت ہر طرح پر ان کی ترقی کی جن کی ترقی کرنا قدرت کے قانون بنانے والے قادر مطلق کی مرضی ہے مانع ہوتی ہے۔ محنت و مشقت اٹھانے کی قوت جو خدا نے انسان میں اس مراد سے پیدا کی ہے کہ انسان اپنی ترقی اور بھلائی کے لیے صرف کرے غلاموں میں بالکل معدوم ہوتی ہے‘ کیونکہ ان کی کوئی محنت ان کے لیے نہیں ہے۔ محبت و الفت جو انسان کی زندگی کی جان ہے اور جس پر دین و دنیا دونوں کی بھلائی منحصر ہے غلامی کی حالت میں بالکل مردہ ہو جاتی ہے۔ جو لطف اور انس و محبت ازدواج سے پیدا ہو جاتا ہے وہ غلاموں کو حاصل نہیں ہوتا۔ ان کا ازدواج وحشی جانوروں کے ازدواج سے کچھ زیادہ رتبہ نہیں رکھتا۔ اولاد کی محبت اوران کی پرورش کا جوش جتنا کہ جانوروں میں ہے غلاموں میں اتنا بھی نہیںہوتا۔ غلاموں میں ولولہ ہمدردی کا کسی سے یہاں تک کہ اپنی اولاد سے بھی مطلق نہیں ہوتا۔ بے وفا ہونا اس کی ایک مشہور صفت ہو جاتی ہے۔ مالکیت کی جو ایک قدرتی خوشی ہے وہ غلاموں میں بالکل معدوم ہوتی ہے‘ کیونکہ وہ کسی چیز کے ‘ یہاں تک کہ خود اپنے آپ کے بھی مالک نہیں ہوتے اور یہ حالت ادنیٰ سے ادنیٰ جاندا ر سے بھی جس کو خدا نے پیدا کیا ہے ‘ نہایت کمینہ اور بدتر حالت ہے ۔ چونکہ غلام بجز روٹی کھانے اور کپڑا پہننے کے اور کوئی حق دنیا میں اپنے لیے نہیں رکھتے‘ اس لیے وہ ان تمام حقوق سے جو خدا نے ایک انسان کے دوسرے پر پیدا کیے ہیں ناواقف رہتے ہیں اور اس لیے کچھ ا ن کی قدر نہیں جانتے اور گناہ اور دوسروں کی حق تلفی اور طرح طرح کے جرائم دینی و دنیوی کے محمع بن جاتے ہیں اور اپنے نفس کو کسی طرح ضبط میں نہیں رکھ سکتے۔ نہایت سچ کہا ہے جس نے کہا ہے کہ غلام زمانہ موجودہ کی مخلوق ہیں کیونکہ اس کی حالت قابل ترقی نہیں ہے۔ زمانہ آئندہ ان کے لیے درحقیقت تکرار زمانہ گزشتہ کی ہے۔ ان کو قوائے انسانی میں سے بجز بھوک اور غصے کے اور کچھ نصیب نہیں۔ بیش بینی اور پیش بندی میں حیوان مطلق سے کچھ بھی زیادہ نہیں۔ جو قوت کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی خواہشوں کو اعتدال میں رکھنے کے لیے بخشی ہے وہ غلامی کی حالت سے زائل ہو جاتی ہے اور اس لیے غلام نہایت کمینہ خواہشوں اور خوشیوں کے بالکیہ مغلوب ہو جاتے ہیں اور نفس امارہ کے روکنے کی باگ ان کے قابو میں نہیں رہتی۔ نہایت سچا قول ہے کہ غلامی کی حالت غلاموں کے خیالات اور اخلاق کو خراب اور ابتر کر دیتی ہے۔ وہ اپنی پیدائش سے ظلم و بے انصافی کے مظلوم رہتے ہیں ان کا مدرسہ بے ایمانی اور فساد ہے۔ ان کے تمام حقوق ضائع ہو جاتے ہیں اور اس لیے دوسروں کے استحقاق کو توڑنا اور ضائع کرنا گویا ان کی جبلت ہو جاتی ہے اور اسی سبب سے چوری جھوت بولنا ان کا روز مرہ کا کام ہوتاہے اور اس کی برائی اور گنہگاری ان کو سمجھانا امکان سے خارج ہوتا ہے ۔ پس ان کی حالت ایسی ہو جاتی ہے کہ گویا ان کے تام قویٰ عقلی اور اخلاقی سب ضائع ہو گئے ہیں۔ غلاموں کی حالت کی خرابی ان کی جسمانی حالت کی خرابی سے کچھ زیادہ نہیں تعلق رکھتی بلکہ وہ خرابی زیادہ تر روح سے علاقہ رکھتی ہے۔ انسان کی روح جہاں تک کہ خراب و برباد ہو سکتی ہے غلامی اس کے خراب اور برباد کرنے کو کافی ہے۔ غلام کو اس بات کا مطلق خیال نہیں آتا کہ میں کیا ہوں اور مجھے کیا ہونا چاہیے‘ مجھ میں کیا کیا قوتیں ہیں اور ان کو کس طرح اورکس درجے تک ترقی دینا چاہیے۔ غلامی صرف غلاموں ہی کے اخلاق کو خراب نہیں کرتی بلکہ ان کے آقائوں کے اور جو لوگ غلام کرنے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے اخلاق کو بھی وحشی درندوں کی مانند کر دیتی ہے ۔آہ اس بے رحم سنگدل پر جو بچوں کو ان کی مائوں کی آغوش محبت سے جدا کرتا ہے اورایک بے رحم خریدار کے ہاتھ بیچتا ہے۔ ان بچوں کے ماں باپ کی لا علاج اورنہ صبر آنے والے بے قراری ارو ان معصوم بچوں کی بے کسی پر غور کرنا چاہیے۔ ماں باپ‘ بھائی بہن کی صورتیں ان کی آنکھوں میں پھرتی ہیں پر دکھائی نہیں دیتیں۔ ماں کی چھاتی سے چمٹنے کا شعلہ اس معصوم بچے کے سینے میں بھڑکتا ہے پر ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ آنکھوں پر بس چلتا ہے سو روتا ہے مگر وہ بے رحم ‘ سنگ دل آقا رونے بھی نہیں دیتا۔ رحم کی امید پر ہر ایک کا منہ تکتا ہے اورسیلی جفا کھا کر آنکھیں نیچی کر لیتا ہے پس یہ تمام حالتیں وحشی درندے جانوروں سے کچھ کم نہیں ہیں۔ دشمنوں کے یا کافروں کے ساتھ لڑائی کی قیدی عورتوں اور بچوں اور مردوں کا غلام کرنا ان بدیوں میں سے کیس بدی کو کم نہیں کرتا۔ لڑنا یا کافر ہونا ان قدرتی حق یعنی آزادی کو زائل نہیں کر سکتا اورنہ ان برائیوں کو کھو سکتا ہے جو غلامیہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔ فرض کرو کہ لڑنے والے قصور وار ہوں مگر عورتوں کا کیا قصور ہے؟ شاید ان کا قصور یہ ہو کہ وہ کافر ہیں۔ مگر معصوم بچوں کا کیا قصور ہے؟ جو امور کہ لونڈیوں اور قیدی عورتوں اور بے گناہ اہل عصمت کے ساتھ جائز سمجھے جاتے ہیں کیا وہ حقیقت میں نیک ہو سکتے ہیں ؟ کیا وہ باتیں حرکات بہائم سے کچھ زیادہ رتبہ رکھتی ہیں؟ کیا وہ کسی مذہب کے سچے ہونے اور خدا کے ہونے پر دلیل ہو سکتی ہیں؟ وہ دنیا کی آنکھ میں اس مذہب اور اہل مذہب کی نیکی بتھا سکتی ہیں؟ حاشا وکلا‘ بلکہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ بات مانی نہیں جا سکتی کہ سچا مذہب جو خدا کی طرف سے اترا ہو اس میں ایسے امور جائز ہوں۔ پس نہایت افسوسہے کہ ان باتوں کو سوچا سمجھا نہ جائے۔ یہودی مذہب نے غلامی کے قانون کو جائز سمجھا اور عیسیٰ مسیح نے اس کی نسبت کچھ نہیں کہا‘ مگر محمد رسول اللہ صلعم نے جو کچھ اس کی نسبت کہا اس کو کسی نے نہیں سمجھا۔ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید مٰں انسان پر بعض قدرتی احسان بیان کرنے میں یوں فرمایا ہے: الم نجعل لہ عینین ولسانا وشفتین وھدیناہ الجدین فلا اقتحم العقبۃ وما ادراجک ما العقبہ فک رقبۃ کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں نہیں دیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ اور کیا نہیں بتا دیے ہم نے اس کو دو گھاٹیوں کے رستے‘ پھر وہ نہیں پھلانگ جاتا گھاٹی کو‘ تو جانتا ہے کہ وہ کیا گھاٹی ہے وہ غلام کو آزاد کرنا ہے۔ پیغمبر صاحب نے کھلم کھلا فرما دیا کہ : ما خلق اللہ شیئاً علیٰ وجہ الارض احب الیہ من العتاق یعنی لڑائی کے بعد احسان کر کے یا فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دو۔ طائف کی لڑائی میں پیغمبر خدا صلعم نے منادی کر ا دی کہ جتنے غلام ہمارے پاس چلے آئیں وہ سب آزاد ہی‘ مگر باایں ہمہ مسلمانوں کی یہ بدبختی تھی کہ ان کے عالموں نے اپنی قدیم رستم کی غفلت میں اس پر خیال نہیںکیا اور صرف لڑائی کے قیدیوں کا لونڈی یا غلام بنانا جائز سمجھا‘ مگر ہم صرف خدا اور خدا کے رسول کے حکم کی اطاعت کریں گے اورکسی مولوی ملا مجتہد فقیہ کی تقلید سے غلطی میں نہ پڑیں گے بلکہ جہاں تک ممکن ہے ا س مسئلے کی خوب تحقیق کریں گے ۔ واللہ ولی التوفیق۔ ٭٭٭ باب اول اس بات کے بیان میں کہ قبل اسلام کے بھی کفار اور مشرکین عرب میں غلامی کا عام رواج تھا اورمتعدد طرح سے لونڈی اور غلام بنائے جاتے تھے عرب میں قبل اسلام غلامی کا عام رواج تھا اورجس قدر احکام متعلق غلاموں کے اس وقت ہمارے ہاں کی کتب فقہ میں مندرج ہیں وہ سب زمانہ جاہلیت میں بھی جاری تھے۔ وہ بیع بھی ہوتے تھے‘ ورثے میں بھی آتے تھے‘ آزاد بھی کیے جاتے تھے مکاتب و مدبر بھی ہوتے تھے‘لونڈیاں مثل جوروئوں کے کام میں آتی تھیں۔ غرضیکہ جو کچھ اب جائز سمجھا جاتا ہے وہ سب زمانہ جاہلیت میں بھی ہوتا تھا۔ غلاموں کی تمام رسم و رواج کا جو زمانہ جاہلیت میں تھیں اس جگہ بیان کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے‘ مگر ہم صرف اس قدر بیان کریں گے کہ زمانہ جاہلیت میں کس کس صورت سے انسان لونڈی و غلام بنائے جاتے تھے چنانچہ اس کی تفصیل یہ ہے : اول : وہ لوگ جو اپنے تئیں آپ بیچ ڈالتے تھے۔ یہ رسم غالباً یہودیوں سے جو عرب میں رہتے تھے جاری ہوئی تھی۔ یہودی اسی طرح غلامی کو جائز سمجھتے تھے۔ صرف اتنا فرق تھا کہ اپنے ہم قوم کی حقارت اور قوم کے غلاموں کی سی نہ کرتے تھے‘ اور ایک خاص تیوھار میں جو یوبلی کا سال کہلاتاتھا اس قسم کے غلام آزاد ہو جاتے تھے۔ توریت مقدس سفر لویان باب بست و پنجم آیت ۳۹ لغایت ۴۳ میں لکھا ہے : اگر برادرت نزد تو فقیر شدہ بتو فروختہ شود بندگی بندگان را باو مگزار۔ باتو مثل مزدور یا چوں مہماں باشد و تراتا سال یوبلی خدمت نماید آنگاہ از نزد تو بیوں رود و اولادش بہمراہش تا بقبیلہ خود بر گردد وہم بملک آبائے خود رجعت نماید ‘ زیرا کہ بندگان منندوایشاں را از زمین مصر بیروں آوردم ۔ مثل فروش بندگان فروختہ نشود۔ باوے بحفا حکمرانی منما و از خدائے خود پترس دوم : وہ صغیر السن لڑکے و لڑکیاں جو ان کے ماں با پ سے خرید لی جاتی تھیں۔ یہ طریقہ بھی غلابا یہودیوں سیجاری ہوا تھا۔ توریت مقدس سفر لویان باب بست و پنجم آیت ۴۴ لغایت ۴۶ میں لکھا ہے: بندگان و کنیز گانے کہ ازاں تر انداز طرایفی کہ در اطراف شمایند از بشاں بندگان و کنیز گان را بخراید و ھم از پسران مسافران غریبی کہ باشمایند از ایشاں و ھم از قبیلہ ہائے ایشان کہ با شما بردہ در زمین شما تولید یافتہ ان بخرید تا برائے شما مملوک باشند و ایشان را برائے پسران شما بعد از شما مملوک سازند تا آنکہ ملک موروثی باشند و ایشاں را ابدا بندہ سازید اما برادان شما پسران اسائیل بایک دیگر بحفا حکمرانی ننمایند سوم : وہ صغیر السن لڑکے و لڑکیاں جو کسی ملک سے بھگا کر یا چرا کر لے آتے تھے۔ چہارم: وہ جن کو بہ زبردستی ڈاکہ زنی یا رہزنی کے طور سے پکڑ لاتے تھے۔ پنجم : دشمن کے ملک کا وہ آدمی جو لڑائی کے زمانے میں بلا امان خفیہ چلا آتا تھا اورگرفتا ر ہو جاتا تھا۔ شم: وہ مرد وعورت و بچے جو لڑائی میں قید ہو تے تھے۔ ایسی عورتوں کے ساتھ مشرکین عرب بمجرد ان کے گرفتارکرنے کے مباشرت کو جائز اوردرست سمجھتے تھے۔ چنانچہ اس وحشیانہ اور ناپاک حرکت کو فرزدق شاعر زمانہ جاہلیت کا اس طرح پر فخریہ بیان کرتاہے: وذات حلیل انکحتھار ما حنا حلال لما یبنیٰ بھا لم تطلق بلاشبہ ان تما م وحشیانہ رسموں کو سن کر جو قبل اسلام نسبت غلامی کے عرب میں جاری تھیں انسان کے دل پر نہایت سخت اثر ہوتا تھا اور اس بات کی تلاش پر رغبت کرتا ہے کہ کوئی ایسا زمانہ بھی گزرا ہے جس مٰں ایسی بے رحمیوں کے معدوم کرنے پر کوشش کی گئی ہو اور انسانیت نے اپنے درجہ کمال پر ظہور کیا ہو۔ پس اب ہ اسسی زمانے کی تلاش پر متوجہ ہوتے ہیں۔ باب دوم اس بات کے بیان میں کہ لونڈیوں اور غلاموں کی نسبت اور غلامی کی رسم کی نسبت جو زمانہ جاہلیت میں تھی اسلام نے کیا کیا اسلام کے شروع ہوتے ہی زمانہ جاہلیت کی تمام رسمیں موقوف نہیں ہو گئی تھیں بلکہ زمانہ اسلام میں بھی زمانہ جاہلیت کی بہت سی رسمون پر جب تک کہ ان کے برخلاف کوئی حکم نہیں آیا عمل درآمد رہا‘ مثلا متعہ کی رسم‘ شراب خوری‘ احرام کی حالت میں گھروںکے دروازوں کے باہر نہ آنا‘ برہنہ ہو کر طواف خانہ کعبہ کرنا‘ د و بہنوں کے ساتھ ایک ساتھ شادی کرنا‘ باپ کی جورو کو اپنی جورو بنا لینا۔ متبنیٰ کی جورو کو بعد طلاق بھی محرمات میں سے جاننا۔ یہ تمام جاہلیت کی رسمیں ایسی تھیں کہ زمانہ اسلام میں بھی جب تک کہ امتناع نہیں آیا ان پر عمل ہوتا رہا۔ اسی طرح غلامی کی رسم پر بھی جب تک اایت حریت نازل نہیں ہوئی کچھ تھوڑا سا عمل درآمد ہوا‘ مگر اس کے بعد ہرگز نہیں ہوا اوراسی لیے ہم کہتے ہیں کہ صرف اسلام ہی ایسا کام دین ہے جس نے غلامی کو دنیا سے معدوم کر نا چاہا۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ قبل نزول آیت حریت جو غلام موجود تھے ان کو اسلام نے دفعۃ ازاد نہیں کیا اور نہ ان کے ان تعلقات کو توڑا جو بموجب رسم زمانہ جاہلیت کے ان مین تھے بلکہ آئندہ کی غلامی کو معدوم کیا اور موجودہ غلاموںکے لیے بہت سی تدبیریں ان کے رفتہ رفتہ آزاد ہوجانے کی کیں۔ جو لوگ اصول انتظام مدن سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ کسی ملک کے اور خصوصاً عرب کے سے ملک کے جس میں لونڈیوں و غلاموں کے تعلقات ان کے آقائوں سے ایک عجیب سی قسم کے اور نہایت پیچ در پیچ تھے تمام لونڈیوں اور غلاموں کا دفعۃ آزاد کر دینا کیسا مشکل اوکس قدر مختلف قسم کی خرابیوں اور دقتوں بلکہ انواع و اقسام کے گناہوں کا مورث ہوتا اس لیے دفعۃ ان کا آزاد کرنا غیر ممکن عادی تھا ۔ پس اسلام نے عین رحمت اور حکمت کی جو ان کو دفعۃ آزد نہیں کیا۔ بلکہ ان کے رفتہ رفتہ آزاد ہونے کی اور آئندہ کی مسدودی کی تدبیر کی۔ بارہ سو برس بعد اس واقعے کے بڑے بڑے مدبروں نے جو غلامی کے معدوم ہونے میں کوششیں کیں وہ بھی اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکے کہ آئندہ کی غلامی کو بند کیا اور موجودہ غلاموں کے رفتہ رفتہ آزاد ہونے کی تدبیر کی۔ البتہ ان کی تدبیروں میں اوربانی اسلام کی تدبیروں میں اتنا فر ق تھا کہ ان کی تدبیریں زیادہ تر مادی چیزوں سے علاقہ رکھتی تھیں اور بانی اسلام کی تدبیریں زیادہ تر روحانی چیزوں سے متعلق تھیں۔ اس نے غلاموں کے مالکوں کو وحی کی رو سے سمجھایا کہ غلاموں کو آزاد کرنے سے زیادہ کوئی پیاری چیز اللہ کے نزدیک نہیںہے۔ اس نے بعض گناہوں کے کفارے میں بردہ آزاد کرنے کا حکم دیا۔ صاف یہ حکم دیا کہ اگر غلام کما کر اپنی قیمت ادا کرنی چاہیں تو اقرار نامہ لے کر ان کو چھوڑ دو۔ ایسے غلاموں کو جن ک مالکوں نے قیمت لے کر آزاد کرنے کا وعدہ کیا ہے خیرات دینے اور چندہ دینے پر رغبت دلائی۔ بیت المال میں سے مکاتب غلاموں کی آزادی کے لیے روپیہ دینا تجویز کیا۔ بعض حالتین ایسی مقرر کیں کہ ان میں لونڈیاں از خود بلا آزاد کیے آزاد ہو جائیں۔ ایسے معاہدے یا اقرار کو جس میں ذرا سا بھی اشتباہ معاہدے یا اقرار آزادی کا ہو بمنزل معاہدہ و اقرار کامل آزادی کے قرار دیا۔ موجودہ غلاموں کی ترقی حالت کے لیے بھی نہایت سنجیدہ احکام صادر فرمائے۔ غلاموں کے مالکوں کو مناسب سے زیادہ خدمت لینے سے منع کیا یہ حکم دیا کہ وہ لونڈی غلام کہہ کر نہ پکارے جائیں ان کو مثل اپنے کھلایا پہنایا جائے ان کو ان کے رشتے داروں سے جدا نہ کیا جائے۔ ی احکام ایسے سنجیدہ اور رحم کے بھرے ہوئے جن سے غلاموں کی حالت کو بہت ترقی تھی بلکہ وہ غلامی کی حالت سے بھائی بندی کی حالت پر پہنچ گئے تھے۔ پس کوئی تدبیر اوکوئی حکیم اور کوئی انسان کا بھلائی چاہنے والا ان کے ساتھ اس سے زیادہ نہیں کر سکتا تھا جو کہ اسلام نے ان کے ساتھ کیا۔ مگر قرآن مجید میں جو متعددجگہ لونڈیوں او ر غلاموں کا ذکر آیا ہے اور بعضی جگہ ان کی نسبت کچھ احکام بھی بیان ہوئے ہیں اس سے لوگ متعجب ہوں گے کہ اگر غلامی معدوم ہو گئی تھی تو وہ احکام قرآن مجید میں کیوں آئے تھے۔ اسی چیز نے بڑے بڑے عالموں کو دھوکا دیا ہے اور غلطی میں ڈالا ہے مگر سمجھ لینا چاہیے کہ وہ تمام احکام انہیں موجودہ لونڈیوں و غلاموں کی نسبت ہیں جو بموجب رسم جاہلیت اورقبل نزول آیت حریت کے غلام ہو چکے تھے اور جن کو اسلام نے بھی آزاد نہیں کیا تھا ‘ چنانچہ ان تمام آیتوں میں جن میں لونڈی و غلام کا ذکر ہے ایک بھی ایسا لفظ نہیں ہے جو آئندہ کی غلامی پر جس کو ہم بلفظ رقیت مستقبلہ تعبیر کریں گے دلالت کرتا ہو۔ اس مقام پر ہم اپنے اس بیان کے اثبات کے لیے قرآن مجید کی ان تمام آیات کو نقل کرتے ہیں جن میں کوئی ایسا لفظ آیا ہے جو غلامی پر دلالت کرتا ہے اور تمام دنیا پر اپنے اس دعوے کی تصدیق ظاہر کرتے ہیں کہ ان میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو رقیت مستقبلہ پر دلالت کرتا ہو۔ لفظ ما ملکت یہ لفظ قرآن مجید کی پندرہ آیتوں میں آیا ہے۔ اول تو یہ لفظ خود ہی صیغہ ماضی کا ہے جو ملکیت مستقبلہ پر دلالت نہیں کرتا اورقطع نظر اس کے ان آیتوں کے معنی بھی کسی طرح رقیت مستقبلہ پر اشارہ نہیں کرتے۔ آیت اول: سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فان خفتم الا تعدلو ا فو احدۃ اوما ملکت ایمانکم اگر متعدد جوروئیں کرنے میں تم کو اس بات کا ڈر ہو کہ برابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی عورت سے یا اس سے جس کے مالک تمہارے ہاتھ ہو چکے ہیں نکاح کرو۔ آیت دوم : اسی سورہ میں اللہ صاحب نے دوسری جگہ فرمایا: والمحصنات من النساء الا ما ملکت ایمانکم کتاب اللہ علیکم واحل لکم ماوراء ذالکم ان تبتغوا باموالم محصنین غیر مصافحین تم پر وہ رشتے دار عورتیں جن کا بیان ہوا اور آزاد عورتیں حرام کی گئی ہیں ‘ مگر وہ جو تمہارے ہاتھوں کی ملک ہو چکی ہیں۔ خدا نے یہ حکم تم پر لکھ دیا ہے اور ان کے سوا جتنی ہیں وہ تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں اس طرح پر کہ تم اپنے مال کے (یعنی مہر کے) بدلے نکاح کرنا چاہو‘ پاکدامنی رکھنے کو نہ مستی نکالنے کو۔ اس آیت میں جو لفظ محصنات کا ہے اس کے معنی اکثر مفسروں نے شوہر والی عورتیں لیے ہیں اور ماملکت ایمانکم کے لفظ سے مراد لی ہے کہ وہ عورتیں لڑائی میں قید ہو کر آئی ہوں اوران کے کافر شوہر دارالکفر میں ہوں اور اس گھڑی ہوئی تفسیر سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ لڑائی میں جو عورتیں شوہر والی یا بے شوہر والی پکڑی جائیں وہ لونڈیاں ہیں اور ان سے بہائم کی مباشرت کرنی درست ہے۔ چنانچہ تفسیر کشاف میں لکھا ہے کہ : والمحصنات وھن ذوات الازواج لانھن احصن فروجھن بالتزوبج فھن محصنات و محصنات ۔ الا ما ملکت ایمانکم یرید ما ملکت ایمانھم من اللاتی سبین ولھن ازواج فی دارالکفر فھن حلال لغزاۃ المسلمین وان کن محصنات محصنات شوہر والی عورتیں ہیں‘ اس لیے کہ انہوںنے بیا کرکے اپنی شرمگاہ کو محفوظ کر لیا ہے۔ پس وہ محفوظ کرنے والی اور محفوظ کی گئی ہیں۔ اور ہاتھوں کے مالک ہو چکنے سے یہ مراد ہے کہ وہ عورتیں لڑائی میں باندی ہو کر ان کے ہاتھ آئی ہیں ۔ پس وہ عورتین مسلمان غازیوں کے لیے حلال ہیں اور اگرچہ وہ شوہر والی ہوں نعوذ باللہ۔ مگر جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ضلالت تقلید سے بچایا ہو گا اور خدا کے کلا م کو اس ادب سے جس کا وہ مستحق ہے دیکھے گا تو یقین کر لے گا کہ اس آیت کی یہ مراد نہیں ہے‘ نہ اس میں لڑائی کے قیدیوں کا کچھ ذکر ہے اورنہ ان لفظوں کے یہ معنی ہیں۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ قرآن مجید میں احصان کا لفظ سورۃ نور میں آیا ہے: اول: بمعنی حریت‘ یعنی آزادی‘ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور میں فرمایا ہے : والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتو ا باربعۃ شھداء فاجلدوھم ثمانیں جلدۃ جو لوگ بدکاری کی تہمت محصنات یعنی ‘ آزاد عورتوں پر لگاویں اورپھر چار گواہ نہ لا سکیں تو ان کو اسی (۸۰) درے مارو ۔ اور اسی طرح سورہ نساء میں فرمایا : فاذا احصن فان اتین بفاھشۃ فعلیھن نصف ماعلی المحصنات من العذاب یعنی الحرائر پھر جب وہ یعنی لونڈیاں شوہر دار ہو جائیں اور پھر بدکاری کریں تو ان پر یہ نسبت محصنات ‘ یعنی آزاد عورتوں کے آدھا عذاب ہے‘ اور تفسیر کبیر میں بھی محصنات کے معنی الحرائر یعنی آزاد عورتیں لکھے ہیں۔ اور اسی جگہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے: ومن لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنات … یعنی الحرائر جوکوئی تم میں سے محصنات ‘ یعنی آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی وسعت نہ رکھتا ہو اس جگہ بھی تفسیر کبیر میں محصنات کے معنی الحرائر یعنی آزاد عورتوں کے لکھے ہیں۔ دوم : بمعنی پاکدامنی ‘ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ سے فرمایا ہے: محصنین غیر مسافحین۔ اور محصنات غیر مسافحات محصنین‘ یعنی پاکدامنی رکھنے کو نہ مستی نکالنے کو اور لونڈیوں کی نسبت بھی فرمایا ہے کہ محصنات‘ یعنی پاکدامنی رکھنے والیاں نہ مستی نکالنے والیاں۔ اور اسی طرح سورۃ انبیاء میں حضرت مریم کی نسبت فرمایا ہے : والتی احصنت فرحھا اے اعقہ! اور جس نے پاک دامنی سے رکھا اپنی شرمگاہ کو۔ احصنت کا لفظ جو اس آیت میں ہے اس کے معنی تفسیر کبیر میں عفت یعنی پاکدامنی کے لکھے ہیں۔ سوم : بمعنی اسلام ۔ ہم ابھی سورہ نساء کی ایک آیت لکھ چکے ہیں جس میں لفظ احصن کا ہے ۔ تفسیر کبیر میں اس کے معنی لکھے ہیں احصن اے اسلمین یعنی جب لونڈیاں مسلمان ہو جاویں اورپھر بدکاری کریں تو ان پر بہ نسبت آزاد عورتوں کے آدھا عذاب ہے۔ علماء حنفیہ اور دیگر علماء کو اس جگہ احصن کے معنی اسلمن کے لینے پڑے۔ اس کا یہ سبب ہے کہ اگر یہ معنی نہ لیں تو ان کا ایک دوسرا مسئلہ رجم محصنات کا جڑ پیڑ سے ہل کر گر پڑتا ہے۔ اس لی انہوں نے احصن کے اسلمن معنی بنائے مگر ہم ان معنوںکو تسلیم نہیں کرتے۔ چہارم: بمعنی شوہر دار‘ پس جو لوگ کہ والمحصنات من النساء سے شوہر دار عورتیں مراد لیتے ہیں ان کے پاس ا س کی کیا سند ہے۔ اس لیے لفظ متعدد المعنی سے ایک معین معنی ایک مسئلہ عظیمہ کے اخذ کرنے کو مقرر کرنے کے لیے کوئی دلیل عقلی یا نقلی چاہیے۔ سو یہاں بجز اپنے قیاس سے ایک بات کہہ دینے کے نہ کوئی عقلی دلیل ہے نہ نقلی۔ خود اس آیت سے ثابت کہ یہاں محصنات سے آزاد عورتیں مراد ہیں ‘ کیونکہ یہی لفظ کئی جگہ اس مقام پر آیا ہے اور سب جگہ آزاد عورتیں ہی اس سے مراد لی گئی ہیں۔ تفسیر کبیر میں بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے اور قبول کیا ہے کہ جس طرح اور جگہ ا س لفظ کے معنی آزاد عورتوں کے ہیں اسی طرح اس جگہ بھی اس لفظ کے معنی آزاد عورتوں کے ہیں‘ چنانچہ اس میں لکھا ہے: ان المراد ھھنا بالمحصنات الحرائر والدلیل علیہ قولہ تعالیٰ بعد ہذا الایۃ ومن لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنات المومنات فمن ما ملکت ایمانکم ‘ ذکر ھھنا المحصنات ثم قال بعدہ و من لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنات کان مراد بالمحصنات ھھنا ماہو المراد ھناک ثم المراد من المحصنات ھناک الحرائر فکذا ھھنا۔ اس جگہ محصنات سے آزاد عورتیں مرادہیں اور خود خدا تعالیٰ نے جو اس آیت کے بعد فرمایا ہے کہ اس کی دلیل ہے ۔ اور وہ فرماتا ہے کہ جو کوئی تم میں سے بخوبی مقدور نہ رکھتا ہو کہ محصنات یعنی مسلمان آزاد عورتوں سے نکاح کرے تو ان سے کر لے جو تمہارے ہاتھوں کی ملک ہو چکی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے پہلی دفعہ محصنات کا لفظ فرمایا پھر دوسری دفعہ بھی وہی لفظ محصنات کا فرمایا تو جو مراد محصنات کے لفظ سے اس جگہ ہو گی وہی اس جگہ ہو گی۔ پھر اس جگہ تو محصنات سے آزاد عورتیں مراد ہیں پھر اس جگہ بھی وہی مراد ہیں۔ اور الا ما ملکت ایمانکم ‘ جو ا س آیت میں آیا ہے اس سے لونڈیوں کے معنی لینے ضروری نہیں ہیں‘ اس لیے کہ نکاح کے سبب جو ملکیت ہو جاتی ہے اس پر بھی ماملکت ایمانکم کا اطلا ق ہوتا ہے اور جو عدد ازواج کے خدا نے ہمارے لیے جائز کر دیے ہیں ان پر بھی ملکیت کا اطلاق ہوتا ہے۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے: الاول المرادمنہ العدد الذی جعلہ اللہ ملکا لکم وھو الاربع مضار التقدیر حرمت علیکم الحرائر الا العدد الذی جعلہ ملکالکم وھو الاربع والثانی الحرائر محرمات علیکم الا ما اثبت اللہ لکم ملکا علیھن وذالک عند حضور الولی و الشھود و سائر الشرائط المعشیرۃ فی الشریعۃ فھذاالاول فی تفسیر قولہ الا ما ملکت ایمانکم وھو المختار و یدل علیہ قولہ تعالیٰ والذین ھم لغرو جھم حافظون الا علیٰ ازواجہم او ماملکت ایمانھم جعل اللہ ملک الیمین عبارۃ عن ثبوت الملک فیھا فوجب ان یکون ھھنا مفسرا بذالک لان تفسیر کلام اللہ اقرب الطرق الی الصدق والصواب اس آیت میں جو لفظ نفی قولہ الا ماملکت ایمانکم اور جہاں الا ما ملکت ایمانکم آیا ہے اس کے معنی یہ ہیں۔ پہلے یہ اس سے مراد وہ تعداد ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہماری ملک کر دی ہے‘ یعنی چار آزاد عورتوں تک۔ تو اب آیت کے معنی یہ ہوئے کہ تم پر آزاد عورتیں حرام ہوئیں‘ مگر اتنی جتنی کہ خدا نے تمہاری ملک کر دی ہیں‘ یعنی چار۔ دوسرے یہ کہ آزاد عورتیں تم پر حرام ہیں‘ مگر وہ جن میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری ملکیت مقرر کر دی ہے اوریہ ملکیت مقرر کر دی ہے اور یہ ملکیت جب ہوتی ہے جب ولی موجود ہو اورگواہ حاضر ہوں اور تمام شرطیں جو شریعت میں نکاح کے لیے مقرر ہیں وہ پوری ہوں ۔ پس ٹھیک تفسیر ہے خدا کے کلام الا ما ملکت ایمانکم کی اور اسی کو عالموں نے اختیار کیا ہے اور اس کی صحت پر قرآن مجید کی دوسری آیت بھی دلالت کر تی ہے۔ سورہ مومنون میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان عضو شہوت کی نگہبانی کرتے ہیں بجز اپنی جوروئوں کے یا ان کے جن کے مالک ان کے ہاتھ ہو چکے ہیں۔ اس آیت میں اللہ صاحب نے ہاتھ کی ملک سے مسلمانوں کی ملکیت کا ان میں ثابت ہونا مراد لیا ہے‘ پس ثابت ہے کہ اس آیت میں بھی یہی مراد لی جائے ‘ اس لیے کہ تفسیر قرآن مجید کی ایک آیت کی قرآن مجید کی دوسری آیت سے نہایت ٹھیک رستہ سچائی اور درستی پر چلنے کا ہے۔ علاوہ اس کے اگر ما ملکت ایمانکم سے لونڈیاں ہی مراد لی جاویں تو بھی آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ تم پر آزاد عورتیں حرام ہوئی ہیں‘ مگر وہ عورتیں جو پہلے آزا د تھیں‘ مگر اب تمہاری لونڈیاں ہو چکی ہیں۔ اگر انسان کو ضلالت تقلید میں خدا تعالیٰ نہ ڈالے اور اس کے دل کو اس سچائی اور نور حقیقی سے جو مذہب اسلا م میں ہے روشن کرے تو اس ایت کا مطلب سمجھنے میںکچھ دقت نہیں ہے۔ اس جگہ خدا تعالیٰ نے جو عورتیں اور رشتہ دار عورتیں حرام ہیں اور جو حلال ہیں ان کا بیان فرمایا ہے ‘ مگر قبل نزول اس آیت کے اس کا کچھ لحاظ نہ تھا۔ خدا تعالیٰ نے جو کچھ کہ قبل اس آیت کے ہو چکا تھا اس کے جائز رکھنے کو یہ فرمایا کہ جو آزاد عورتیں تمہاری ملک ہو چکی ہیں‘ یعنی اس زمانے کی رسم کے بموجب تصرف میں آ چکی ہیں‘ وہ حرام نہیں ہیں۔ پس اس سے کوئی حکم رقیت مستقبلہ کا نہیں نکل سکتا۔ اس کی نظیر اسی سورۃ میں اور اسی جگہ موجود ہے کہ اہل عرب اپنے باپ کی جورو کو جور و بنانے میں کچھ قباحت نہیں سمجھتے تھے‘ جب اس کی نہی آئی تو خدا نے فرما دیا کہ اس سے پہلے جو ہو چکا وہ ہو چکا ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: لا تنکحوا ما نکح آباء کم من النساء الا ما قد سلف مت نکاح کرو ان عورتوں سے جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے‘ مگر جو کچھ کہ پہلے ہو چکا ۔ یعنی وہ اس امتناع میں داخل نہیںہے: آیت سوم : اللہ صاحب نے سورۃ النساء میں فرمایا ہے: ومن لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنات المومنات فمن ما ملکت ایمانکم من فتیاتکم المومنات اور جو کوئی تم میں سے بخوبی مقدور نہ رکھتا ہو کہ مسلمان آزاد عورتوں سے نکاح کرے تو جو عورتیں تمہارے ہاتھوں کی ملکیت ہو چکی ہیں ان میں سے جو مسلمان چھوکریاں ہیں ان سے نکاح کرے۔ آیت چہارم: اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ میں دوسری جگہ فرمایا: واعبد و اللہ ولا تشر کو ابہ شیئا وبالوالدین احسان وبذی القربیٰ والیتمیٰ والمساکین والجار ذی القربیٰ والجار الجنب والحاحب باجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک کرو اور قرابت مندوں اور یتیموں اور غریبوں اور قرابت مند ہمسایے اور اجنبی ہمسایے اور اپنے پاس کے بیٹھنے والے کے ساتھ اور ان کے ساتھ جو تمہارے ہاتھوں کی ملک ہو چکی ہیں۔ آیت پنجم: اللہ صاحب نے سورہ نحل میں فرمایا ہے: واللہ فضل بعضکم علیٰ بعض فی الرزو فما الذین فضلوا برادی رزقھم علیٰ ما ملکت ایمانھم فھم فیہ سوائ۔ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے کسی کو کسی پر رزق کی فراخی میں زیاد تی دی ہے پس جن کو زیادتی دی ہے وہ اپنا رزو ان کو بھی دیں جن کے مالک ان کے ہاتھ ہو چکے ہیں‘ تاکہ رزو میں وہ برابر رہیں۔ آیت ششم و ہفتم : یہ آیت سورۃ مومنون میں بھی ہے اورسورۃ معارج میں بھی ہے‘ اس میں اللہ صاحب نے فرمایا ہے : والذین ہم لفروجھم حافظوں الا علیٰ ازواجہم اوما ملکت ایماھم فانھم غیر ملومین ۔ جو مسلمان اپنے عضو شہوت پر نگہبانی کرتے ہیں‘ مگر اپنی جورئوں کے ساتھ یا ان کے ساتھ جن کے مالک ان کے ہاتھ ہو چکے ہیں تو ان پر کچھ ملامت نہیں ۔ آیت ہشتم: اللہ صاحب نے سورۃ نور میں فرمایا ہے : اونسائھن او ما ملکت ایمانھن عورتوں کو اپنا سینہ جو ان کے بدن کی زیبائش ہے سب لوگوں سے سوائے بعض کے ڈھکا رکھنا چاہیے اور بعض لوگوں سے چھپا رکھنا ضرور نہیں ہے۔ ان میںسے یہ لوگ ہیں جن ا س مقام پر ذکر ہے یعنی آپ کی عورتیں یا وہ جن کے مالک ان کے ہاتھ ہو چکے ہیں۔ آیت نہم : اسی سورۃ میں دوسری جگہ یہ آیت ہے: والذین یبتغون الکتاب مما مملکت ایمانکم فکاتبو ھم ان علمتم فیھم خیرا! ان لوگوں میں سے جو تمہارے ہاتھوں کی ملک ہو چکے ہیں خط آزادی چاہیں تو ان کو لکھ دو اگر جانو اس میں بہتری۔ آیت دھم : اسی سورۃ میں اللہ صاحب نے فرمایا ہے کہ: یا ایھا الذین آمنوا لیستا ذنکم الذین ملکت ایمانکم اے مسلمانو ! تین وقت ہیں جن کا بیان اس آیت میں ہے تمہارے پاس ان کو بھی اجازت لے کر آنا چاہیے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہو چکے ہیں۔ آیت یاز دھم : اللہ صاحب نے سورہ روم میں تمثیلاً فرمایا ہے : ضرب لکم مثلا من انفسکم ھل لکم من ما ملکت ایمانکم من شرکاء فیما رزقنا کم۔ تم کو تمہارے ہی حال سے مثال دی ہے کہ جو کچھ خدانے تم کو دیا ہے کیا اس میں ان لوگوں میں سے کوئی جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہو چکے ہیں تمہارے شریکوں میں ہے۔ آیت دوا ز دہم: اللہ صاحب نے سورۃ احزاب میں فرمایا ہے: یا ایھا النبی انا احللنالک ازواجلک اللاتی آتیت اجورھن وما ملکت یمینک مما افاء اللہ علیک اے نبی ہم نے حلال کیں تیرے لیے تیری جوروئیں جن کا مہر تو دے چکا ہے اورجو تیرے ہاتھوں کی ملک ہو چکی ہیں ان میں سے جن کو اللہ نے تجھ کو کر دیا ہے۔ یہ وہ آیت ہے جس میں احکام ازواج مطہرات مذکور ہیں اور اس کے بعد کی آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بعد اورکسی عورت سے ازدواج کرنے سے امتناع آیا ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جنا ب رسول خدا صلعم کے ازواج کے کوئی احکام خاص نہیں تھے‘ بلکہ جس طرح کہ عرب میں ازدواج کا دستور تھا اسی طرح پر ازدواج ہوا تھا۔ البتہ متنبیٰ کی زوجہ کے بعد طلاق حرام نہ ہونے کی نسبت احکام صادر ہوئے تھے سو وہ بھی جناب پیغمبر خدا صلعم کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں‘ بلکہ حکم مذکورہ تمام مسلمانوں کے لیے ہے‘ مگر اس آیت میں خدا تعالیٰ نے ان تمام ازدواجوں کو جو ہو چکے تھے حلال و پاک قرا ر دیا اور ازدواج آئندہ سے منع فرمایا ‘ چنانچہ اسی سورۃ میں فرمایا ہے: ولا یحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بھن من ازواج ولا اعجبک حسنھن اور نہیں حلال ہیں تجھ کو عورتیں اس کے بعد اور نہ یہ کہ ان جوروئوں کے بدلے جو جوروئوئیں کرے اگرچہ ان کا حسن تجھ کو اچھا لگتا ہو۔ قبل نزول اس آیت کے مقوقس مصر کے بادشاہ نے دو لونڈیاں ایک ماریہ قبطیہ اور دوسری سیرین بطور تحفے کے بھیجی تھیں ۔ ان میں سے ماریہ قبطیہ بموجب رسم عرب کے حضرت کے تصرف میں تھیں۔ اس طرح پر تحفے میں آنے کو عربی زبان میں(فئی) کہتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : ما ملکت یمینک مما افاء اللہ علیک تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تصرف کو بھی اللہ نے درست رکھا‘ مگر ا س کے بعد مطلقاً ازدواج کو منع کر دیا ۔ پس اس آیت سے بھی کسی طرح رقیت مستقبلہ کا ثبوت نہیں ہوتا۔ بعضے لوگ افاء کے معنی غنیمت یعنی لڑائی کی لوٹ کے کہتے ہیں اور اس پر یہ دلیل لاتے ہیں کہ لڑائی میں لوٹ کے وقت جو عورتیں ہاتھ آویں وہ لونڈیاں ہو جاتی ہیں‘ مگر یہ دلیل ان کی دو وجہ سے غلط ہے اول اس لیے کہ لڑائی کے قیدیوں کی نسبت خاص حکم آ چکا ہے کہ وہ احسان کر کے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیے جائیں دوسرے اس لیے کہ افاء کے معنی لڑائی کی لوٹ کے نہیں ہیں بلکہ کافر بغیر لڑائی کے جو کچھ دیں وہ ’’فئی‘‘ ہے چنانچہ بحار الانوار میں لکھا ہے : الفئی ما حصل للمسلمین من اموال الکفار من غیر حرب ولا جھاد واصلہ الرجوع فئی وہ چیز ہے جو کافروں کے مال میں سے بغیر لڑائی کے اور بغیر جہاد کے مسلمانوں کے ہاتھ آوے۔ البتہ کبھی کبھی مجازاً غنیمت کے مال پر بھی ’’فئی‘‘ کا اطلاق ہو جاتا ہے‘ مگر جبکہ اصلی معنی بالکل صحیح و درست او ر مطابق واقعے کے ہوں تو مجازی معنی اختیار کرنے کوئی وجہ نہیں ہے۔ علاوہ اس کے تمام آیت میں ان موجودہ عورتوں کی نسبت احکام ہیں جو آنحضرت صلعم کے پاس موجود تھیں اور ’’ملکت‘‘ اور ’’افائ‘‘ دونوں ماضی کے صیغے ہیں۔ پھر ان سے رقیت مستقبلہ پر کیونکر استدلال ہو سکتا ہے؟ آیت سیز دہم: اللہ تعالیٰ سورۃ احزاب میں فرماتا ہے : قد علمنا ما فرضنا علیھم فی ازواجھم وما ملکت ایمانھم ہم کو معلوم ہے جو کچھ مقرر کر دیا ہے ہم نے مسلمانوں پر ان کی جوروئوں کے باب میں اور ان کے باب میں جن کے مالک ان کے ہاتھ ہو چکے ہیں۔ آیت چہار دہم: اسی سورۃ میں خدا تعالیٰ نے فرمایا: لا یحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بھن من ازواج ولوا عجبک حسنھن الا ما ملکت یمینک نہیں حلال ہیں تجھ کو عورتیں اس کے بعد اور نہ یہ کہ ان جوروئوں کے بدلے اور جوروئیں کرے اگرچہ ان کا حسن تجھ کو اچھا لگتا ہو منکر وہ جس کے مالک تیرے ہاتھ ہو چکے ہیں۔ یہ آیت اور اس کے پہلے کی آیت جس میں تحدید ازواج ہے دونوں کا مطلب واحد ہے۔ اس آیت کی ابتدا میں مطلقاً عورتوں کے حلال ہونے سے منع فرمایا تھا‘ مگر الا ما ملکت کہنے سے وہ عورتیں مستثنیٰ ہو گئیں جن کا بیان پہلی آیت میں ہوا تھا اس لیے کہ ما ملکت یمینک اس ملکیت کو بھی شمال ہے جو بسبب نکاح یا مما افاء اللہ علیک کے حاصل ہوئی ہو ۔ پس آیت کے معنی یہ ہوئے کہ: لا یحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بھن من ازواج ولوا عجبک حسنھن الا ازواجک اللاتی آتیت اجورھن او ما ملکت یمینک مما افاء اللہ علیک نہیں حلال ہیں تجھ کو عورتیں اس کے بعد اور نہ یہ کہ ان جوروئوں کے بدلے اور جوروئیں کرے اگرچہ ان کا حسن تجھ کو اچھا لگتا ہو‘ مگر تیری وہ عورتیں جن کا تو مہر دے چکا ہے اور جو تیرے ہاتھوں کی ملک ہو چکی ہیں ان میں سے جنکو اللہ نے تجھ کو کر دیا ہے۔ پس اس آیت میں بھی کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو رقیت مستقبلہ پر دلالت کرتا ہو۔ آیت پانز دہم: اللہ صاحب نے اسی سورۃ میں فرمایا ہے: ولا نساء ھن ولا ما ملکت ایمانھن عورتوں کو اپنی عورتوں کے اور جن کے مالک ان کے ہاتھ ہو چکے ہیں سامنے آنا گناہ نہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ قرآن مجید میں بہت سے افعال صیغہ ماضی سے بیان ہوئے ہیں‘ حالانکہ جو احکام ان کی نسبت ہیں‘ وہ زمانہ مستقبل کو بھی شامل ہیں‘ مگر افعال انسانی دو قسم کے ہیں ‘ ایک وہ کہ جن کا تحقق اور وقوع دونوں ایک ساتھ ہیں مثلاً قتل کہ جب وہ واقع ہو گا اور اس کا تحقق بھی ہوگا۔ پس ایسے افعال جو صیغہ ماضی سے بیان ہوں ان احکام مستقبل کو بھی شامل ہیں کیونکہ ان کا تحقق صرف وقوع فعل پر منحصر ہے مگر دوسری قسم کے افعال یعنی وہ جن کا تحقق حکمی ہے تو ان کا تحقق بغیر موجود ہونے حکم کے نہیں ہوتا۔ رقیت ایک حکمی شئی ہے تو جب تک حکم رقیت موجود نہ ہو تحقق رقیت کسی فعل انسانی سے نہیں ہو سکتا اورحکم رقیت قرآن مجید میں موجود نہیں ہے۔ پس جو الفاظ متضمن معنی رقیت بصیغہ ماضی بیان ہوئے ہیں وہ رقیت مستقبلہ پر حاوی نہیں ہو سکتے۔ لفظ رقیۃ یہ لفظ چار جگہ قرآن مجید میں آیا ہے چنانچہ ان آیتوں کو جن میں یہ لفظ ہے ہم اس جگہ لکھتے ہیں‘ تاکہ معلوم ہو کہ ان آیتوں سے کسی طرح حکم رقیت مستقبلہ مستبط نہیں ہوتا۔ آیت اول : اللہ تعالیٰ سورۃ نساء میں فرماتا ہے: وما کان لمومن ان یقتل مومنا الا خطاء فتحر یر رقبۃ مومنۃ دیۃ مسلمۃ الیٰ الا ان یصدقوا فان کان من قوم عدولکم وھو مومن فتحریر رقبۃ مومنۃ وان کان من قوم بینکم و بینھم میثاق فدیۃ مسلمۃ الیٰ اہلہ وتحریر رقبۃ مومنۃ فمن لم یجد فصیام سھرین متتابعین توبۃ من اللہ وکان اللہ علیما حکیما۔ مسلمان کو نہیں چاہیے کہ مسلمان کو مار ڈالے‘ مگر یہ کہ انجانی سے مار دیا ہو اورجس شخص نے کہ انجانی سے کسی مسلمان کو مار ڈالا ہو تو گلو خلاصی کرے ایک مسلمان کی‘ یعنی ایک بردہ آزاد کرے اورخون بہا دے اس کے وارثوں کو‘ مگر یہ کہ وہ معاف کریں۔ پھر اگر وہ تمہارے دشمن کی قوم میں سے تھا اوروہ مسلمان تھا تو آزاد کرے مسلمان بردہ اوراگر ایسی قوم میں سے تھا جن میں تم سے اوران سے عہد ہے تو خون بہا دے اس کے وارثوں کو اور تم سے اور ان سے عہد ہے تو خون بہا دے اس کے وارثوں وک اور آزاد کرے مسلمان بردہ اور جس کو مسلمان بردہ نہ ملے تو دو مہینے برابر روزہ رکھے تاکہ اللہ اس کو معاف کرے۔ آیت دوم : اللہ صاحب نے سورہ مائدہ میں فرمایا ہے: لا یواخذ کم اللہ باللغو فی ایمانکم ولکن یواخذکم بما عقع تم الایمان فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ما تطمعون اھلیکم او کسوتھم او تحریر رقبۃ فمن لم یجد فصیام ثلثہ ایام اللہ تم کو نہیں پکڑتا تمہاری بے فائدہ قسموں پر مگر پکڑتا ہے اس پر جس پر تم مضبوطی سے قسم کھائی تھی۔ پھر ا س کا کفارہ دس محتاجوں کو متوسط درجے کا کھانا کھلانا جیسا کہ تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑا پہنانا یا مسلمان بردہ آزاد کرنا ہے اور اگر نہ ملے تو تین دن روزے رکھنے ہیں۔ آیت سوم : اللہ صاحب نے سورہ مجادلہ میں فرمایا ہے: والذین یظاھرون من نساء ہم ثم یعودون لما قالوافتحریر رقبۃ من قبل ان یتماسا ذالکم تو عظون بہ واللہ بما تعملون خبیر۔ فمن لم یجد فصیام شھرین متتابعین من قبل ان یتماسا فمن لم یستطع فاطعام ستین مسکینا۔ جو کوئی تم میں سے اپنی جوروئوں میں سے کسی کو ماں کہہ بیٹھے اور پھر جو بات کہی تھی اس سے پھرنا چاہے تو آزاد کرے ایک بردہ اپنی جورو کو چھونے سے پہلے۔ اس سے تم کو نصیحت ہو گی اور اللہ جانتا ہیجو تم کرتے ہو۔ پھر جس کو نہ ملے تو دو مہینے برابر روزے رکھے اوراپنی جورو کو چھونے سے پہلے‘ اورجو نہ کر سکے تو ساٹھ محتاجوں کو کھانا کھلاوے۔ آیت چہارم: اللہ صاحب سورہ بلد میں فرماتا ہے: فک رقبۃ یعنی آزاد کرنا بردہ کا بڑی گھاٹی کا پھلانگنا ہے ۔ ان تمام احکام میں جو غلام نہ ملنے کی حالت میں اودوسری قسم کے کفاروں کا ذکر آیا ہے اس سے رقیت مستقبلہ کے معدوم ہونے پر اشارہ نکل سکتا ہے فتدبر۔ لفظ الرقاب یہ لفظ قرآن مجید میں دو جگہ بمعنی عبد آیا ہے‘ مگر کوئی لفظ بھی ان آیتوں کو جن میں یہ لفظ ہے رقیت مستقبلہ پر دلالت نہیں کرتا۔ آیت اول: والسائلین و فی الرقاب۔ سورہ بقر میںاللہ صاحب نے ان باتوں کو جو اس آیت میں بیان ہوئی ہیں نیکیاں گنا ہے اورانہی کے ساتھ مسافرو ں اور سائلوں کو خیرات دینا اور بردہ آزاد کرنے میں روپیہ خرچ کرنا نیک کام فرمایا ہے۔ آیت دوم: انما الصدقات للفقراء والمساکین والعاملین علیھا والمولفۃ قلوبھم وفی الرقاب سورۃ توبہ (کی اس آیت) میںاللہ صاحب نے زکوۃ کے روپے کا خرچ بتلایا ہے کہ کہاں کہاں خرچ ہو گا‘ اسی کے ساتھ بتلایا ہے کہ بردہ آزاد کرنے میں بھی خرچ کیا جائے گا۔ لفظ عبد یہ لفظ بمعنی غلام تین چار جگہ قرآن مجید میں آیا ہے اور اس سے بھی رقیت مستقبلہ پر استدلال نہیں ہو سکتا۔ آیت اول: ولعبد مومن خیر من مشرک ولو اعجبکم یعنی اللہ صاحب نے مسلمان عورتوں کو مشرکین سے شادی کرنے کو منع کیا ہے اور بطور تاکید کے یہ فرمایا ہے کہ مسلمان غلام بھی ایک مشرک سے اچھا ہے‘ اگرچہ وہ مشرک تم کو اچھا معلوم ہوتا ہو۔ آیت دوم : الحر بالحر والعبد بالعبد۔ عرب میں زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ ایک قوم دوسری قوم پر کسی سبب سے اپنے تئیں بڑا قرار دیتی تھی اوربڑائی کے سبب سے یہ ہوتا تھا کہ اگر بڑی قوم میں کا غلام مارا جاتا تو اس کے بدلے میں دوسری قوم کے حر ‘ یعنی آزاد کو مار ڈالتے تھے اور اگر عورت ماری جاتی تھی تو اس کے بدلے میں مرد کو مارتے تھے اوراگر ایک مرد مارا جاتا تھا تو اس کے بدلے میں دو مرد مارتے تھے۔ جب وہ لوگ مسلمان ہو گئے اور اس کا جھگڑا رسول خدا صلعم کے سامنے ہوا تو قرآن مجید میں یہ حکم نازل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر قصاص فرض کیا ہے اگر آزاد مرد مرد کو مارے تو وہی مارا جائے گا‘ اگر غلام غلام کو مارے تو غلام ہی مارا جائے گا‘ اگر عورت عورت کو مارے تو وہی عورت ماری جائے۔ آیت سوم: ضرب اللہ مثلا عبدامملو کا لا یقدر علیٰ شیئی۔ اللہ صاحب نے سورۃ نحل (کی اس آیت) میں بت پرستوں کے سمجھانے کو ایک غلام کی مثال دی جو دوسرے کا مال ہے اور کسی چیز پر کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ لفظ امۃ قرآن مجید میں دو جگہ پر یہ لفظ ہے اورکسی جگہ سے بھی رقیت مستقبلہ کا حکم نہیں پایا جاتا۔ آیت اول: ولامۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ ولو اعجبتکم۔ سورۃ بقرہ (کی اس آیت) میں اللہ صاحب نے مسلمانوں کو مشرک عورتوں سے بیاہ کرنے کو منع فرمایا ہے اورتاکیدا یہ ارشاد کیا کہ ایک مسلمان لونڈی مشرک عورت سے اچھی ہے اگرچہ وہ مشرک عورت تم کو اچھی لگتی ہو۔ آیت دوم: وانکحوا الا یامیٰ منکم والصالحین من عبادکم وامائکم اللہ صاحب نے سورۃ نور (کی اس آیت) میں فرمایا ہے کہ نکاح کرو مسلمان رانڈوں کا اورنیک چلن اپنے غلاموں اور لونڈیوں کا۔ لفظ فتیات یہ لفظ بھی قرآ ن مجید میں دو جگہ بمعنی لونڈیوں کے آیا ہے مگر ایک جگہ بھی ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جو رقیت مستقبلہ پر اشارہ کرتا ہو۔ آیت اول: سورہ نساء کی آیت ہے جو ذیل لفظ ماملکت میں بیان ہو چکی ہے۔ آیت دوم: ولا تکرھوا فتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصنا لتبتغوا عرض الحیوۃ الدنیا۔ اللہ صاحب نے سورۃ نور (کی اس آیت) میں فرمایا ہے کہ اپنی چھوکریوں پر بدکاری کے لیے جبر نہ کرو‘ دنیا کی زندگی کا سامان بہم پہنچانے کے لیے جبکہ وہ چاہتی ہیں پاک دامن رہنا۔ لفظ افاء یہ لفظ تین جگہ قرآن مجید میں آیا ہے ۔ مگر صرف آیت سورۃ احزاب سے ہماری بحث سے متعلق تھی جس پر ہم بہ ذیل لفظ ماملکت بخوبی بحث کر چکے ہیں۔ لفظ غلام وجاریہ یہ لفظ قرآن مجید میں تو نہیں آئے‘ مگر حدیث میں آئے ہیں چنانچہ وہ حدیث لکھی جاتی ہے: عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یقولن احدکم عبدی و امتی کلکم عبیداللہ وکل نساء کم اماء اللہ ولکن یقل غلامی وجاریتی وفتای و فتاتی ولا یقل العبد ربی و لکن یقل سیدی وفی روایۃ یقل سیدی ومولائی وفی روایۃ لا یقل العبد لسیدہ مولائی فان مولا کم اللہ۔ رواہ مسلم کذافی المشکوۃ۔ ابو ہریرہ نے کہا کہ جناب رسول خدا صلعم نے فرمایا ہے کہ کوئی تم میں سے یوں نہ کہوے کہ میرا غلام اور میری لونڈی۔ تم سب خدا کے غلام ہو اورسب تمہاری عورتیں خدا کی لونڈیاں ہیں‘ مگر یوں کہو کہ میرا لونڈا اور میری لونڈیا۔ اورمیرا چھوکرا اور میری چھوکری‘ اور غلام بھی تم کو ربی نہ کہے‘ بلکہ میرے آقا یا میرے مالک کہے اورایک روایت میں آیا ہے کہ میرے مالک بھی نہ کہوے ۔ کیونکہ تم سب کا مالک اللہ ہے۔ یہ حدیث مسلم میں ہے اورمشکوۃ میں بھی اس کو نقل کیا گیا ہے۔ باب سویم علماء اسلام نے سبب طاری ہونے رقیت کاصرف غلبہ و آستیلاء قرار دیا ہے۔ یہ مسئلہ کہ تمام انسان دراصل حر ‘ یعنی آزاد ہیں علما ء اسلام بھی تسلیم کرتے ہیں اور قاعدہ کلیہ الحر معصوم بنفسہ کو تسلیم کرتے ہیں اوراسی سبب سے ابتدا طاری ہونا رقیت کا کسی انسان پر وہ قبول نہیں کرتے‘ چنانچہ ان کا قول ہے کہ اگر کوئی ذمی یا حربی دارالسلام میں اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کو بیچے تو وہ بیع جائز نہیں اور جو لوگ بیچے گئے ہیں وہ لونڈی و غلام نہیں۔ اسی طرح ان کا یہ بھی قول ہے کہ اگر حربی اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کو دارالحرب میں بیچے تو وہ بیع بھی جائز نہیں اورجب تک کہ وہ لوگ جو بیع ہوئے ہیں دارالحرب میں ہیں بالاتفاق جملہ اثمہ کے وہ لونڈی و غلام نہیں ہیں‘ لیکن اگر وہ دارالحرب سے دارالسلام میں نکال لیے جاویں تو اس بات میں کہ بعد نکا ل لانے کے وہ لونڈی و غلام ہو جاتے ہیں اختلاف ہے۔ بعضے کہتے ہیں کہ بسبب حصول غلبہ مالا لونڈی و غلام ہوجاتے ہیں اوراکثر کا یہ قول ہے کہ نہیں ہوتے۔ اکثر علماء اسلام اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دارالحرب میں سے بغیر لڑائی و غلبے کے دغا و فریب سے یا دھوکہ دے کر کافروں کو یا ان کی اولاد کو پکڑا دے تو وہ لونڈی غلام نہیں ہوتے اور بعض کہتے ہیں کہ بسبب حصول غلبہ و استیلا ء کے مالا لونڈی و غلام ہو جاتے ہیں۔ مگرچار صورتیں ہیں جن میں بالاتفاق مسلمان عالموں کا فتویٰ ہے کہ ان صورتوں میں کافر لونڈی و غلام ہو جاتے ہیں اوراس کے بعد بذریعہ‘ بیع و ہبہ وارث و وصیت کے منتقل ہوتے ہیں اوروہ چار صورتیں یہ ہیں: اول: وہ حربی کافر مرد اور عورت اور معصوم بچے جو جہاد میں قید ہوں اور دارالحرب سے دارالسلام میں لے آئے جائیں۔ دوم : دارالحرب میں سے مسلمان بزبردستی کافروں کو یا ان کی عورتوں اور بچوں کو پکڑ لائیں۔ سوم: کافر بادشاہ کسی مسلمان کو بطور نذر یا ہدیہ کے یا جزیہ و خراج کے کافروں کو یا ان کے بچوں کو بھیجے۔ چہارم: کوئی حربی دارالسلام میں بغیر امان کے آ جائے اور پکڑا جائے۔ چنانچہ یہ تمام صورتیں اہل سنت و جماعت کی کتب فقہ میں مندرج ہیں جن کو بجنسہ ا س مقام پر ہم نقل کرتے ہیں: روایت اول: فتاویٰ قاضی خاں میں لکھا ہے : ان الحربی اذاباع ایاہ او ابنہ لا یجوز فان اخرجہ المشتری الی دارالسلام ملکہ ان لم یکن بیننا امان حربی کا اپنے تئیں یا اپنے بیٹے کو بیچنا جائز نہیں ہے ۔ پھر اگر خریدار اس کو دارالسلام میں نکال لائے تو اس کا مالک ہو جاتا ہے‘ بشرطیکہ مسلمانوں میں اور ان حربیوں میں امن سے رہنے کا اقرار نہ ہو۔ روایت دوم: قاضی خاں میںیہ بھی لکھا ہے کہ : واتفقت الروایات علیٰ انہ لا یجوز بیعہ فی دارالسلام ومتیٰ لم یجز البیع فی دارالحرب علیٰ قول العامۃ نان اخرجہ المشتری الیٰ دارالسلام اختلف المشائخ رحمھم اللہ فیہ قال بعضھم یملکہ لان البیع وان بطل فمتیٰ اخرجہ جبرا ملکہ بالقھر المبتداء وقال بعضھم یکون حرالان البائع لا یملک التصرف فیہ لا بیعاو لا وطیافلا یملک المشتری وقال بعضھم ان کان البائع یریٰ جواز ھذا البیع یملکہ المشتری بالا خراج الیٰ دارالسلام اخرجہ طائعا او مکرھا وان کان البائع لا یریٰ جواز ھذا البیع فان اخرجہ المشتری کرھا یملکہ وان جاء بہ طائعا لا یملکہ۔ تمام روایتیں اس بات میں متفق ہیں کہ دار السلام میں ان کی بیع جائز نہیں ہے اورجبکہ عام علماء کے قول کے مطابق دارالحرب میں ان کی بیع ناجائز ہے‘ پر اگر خریدار ان کو دارالسلا م میں نکال لاوے تو اس پر بڑے بڑے عالموں نے خدا ان کو بخشے اختلاف کیا ہے۔ بعضے کہتے ہیں کہ وہ ان کا مالک ہو جاتا ہے‘ کیونکہ اگرچہ ان کی بیع باطل تھی مگر جبکہ مشتری زبردستی ان کو نکا ل لایا ہے تو بسبب غلبے کے جو اسنے کیا ان کا مالک ہو گیا اور بعضے کہتے ہیں کہ جن کو خریدا ہے وہ غلام ہی نہیں ہوتے بلکہ آزاد رہتے ہیں‘ کیونکہ بانع ان میں سے کسی طرح کا تصرف بذریعہ بیع یا مباشرت کے نہیں کر سکتا تھا تو تو بس مشتری بھی مالک نہ ہوا اور بعضے کہتے ہیں کہ اگر بائع ان کی بیع کو جائز سمجھتا ہے تو مشتری ان کا مالک ہو جاتا ہے بشرطیکہ ان کو دارالسلام میں زبردستی یس خواہ رضامندی سے لے آئے او اگر بائع ان کی بیع کو جائز سمجھتا ہے تو اگر مشتری ان کو جبراً دارالسلام میں نکال لایا ہے تو ان کا مالک ہو جائے گا اور اگر رضامندی سے لایا ہے تو نہیں ہونے کا۔ روایت سوم: حموی شرح اشباہ میں لکھا ہے : الحربی والذمی لا یملک بیع ولدہ فی ادارالسلام فاذا باع فی دارالحرب ان اخرجہ منہ کرھا یتملک وان اخرج المشتری باختارہ فالا حتیاط النکاح۔ حربی اور ذمی دونوں اپنی اولاد کو دار السلام میں نہیں بیچ سکتے جبکہ انہوںنے دارالحرب میں بیچا ہو تو اگر مشتری ان کو زبردستی سے دارالاسلام میں نکال لاوے تو مالک ہو جاتا ہے اور اگر وہ جس کو خرید اہے خود دار الاسلام میں چلی آوے تو اس سے نکاح کر لینا احتیاط کی بات ہے۔ روایت چہارم: خزانۃ الروایات میں لکھا ہے : مسلم دخل دارالحرب بامان فاشتریٰ من احدھم ابنہ او اخاہ فالصحیح انہ لا یجوز البیع لکنھم اذا دانوا جواز ہذا البیع ملکہ بالقھرا لا بالشرائ۔ ایک مسلمان دارالحرب میں امان مانگ کر گیا ہے ‘ پھر ا س نے وہاں کسی سے اپنی بیتا یا اپنی بھائی مول لیا تو ٹھیک مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ بیع جائز نہیں‘ لیکن جبکہ وہاں کے لوگوں نے اس بیع کو جائز سمجھا ہے تو مشتری بسبب غلبے کے مالک ہوا نہ بسبب مول لینے کے۔ روایت پنجم : ہدایہ میں لکھا ہے : ولایملک علینا اہل الحرب مدبرنا وامھات اولادنا ومکاتبنا واحرارنا ونملک علیھم جمیع ذالک لان السبب انما یقید الحکم فی محلہ والمحل المال المصباح والحرہ معصوم بنفسہ وکذامن سراہ لانہ یثبت الحریۃ فیہ من وجھہ بخلاف ارقائھم لان الشرع اسقط عصمتھم جزاء عیلٰ جنایتھم وجعلھم ارقاء ولا جنایۃ من ہولائ۔ حربی ہمارے مالک نہیں ہوتے ‘ نہ ہمارے ان غلاموں کے جو ہمارے بعد آزاد ہو جائیں گے اورنہ ہماری صاحب اولاد لونڈیوں کے اور نہ ان غلاموں کے جن کو ہم نے خط آزادی لکھ دیا ہے اورنہ ہمارے آزاد لوگوں کے‘ مگرہم حربیوں کی ان سب چیزوں کے مالک ہو جاتے ہیں اس لیے کہ سبب یعنی غلبہ جبکہ ایسی جگہ ہو جہاں ہو سکتا ہے تو جو نتیجہ غلبہ سے ہوتا ہے وہ حاصل ہو جاتا ہے اورجس جگہ غلبہ ہو سکتا ہے وہ ایسا مال ہے جس پر غلبہ کرنا مباح ہو اور آزاد لوگ بذات خود محفوظ رہیں اور اسی طرح وہ بھی جن میں کسی طرح سے بھی آزادی موجود ہوتی ہے‘ برخلاف کفار کے بردوں کے اس لیے کہ شرع نے ان کی محفوظیت بسبب ان کے گناہ کے توڑ دی ہے اوران کو بردہ کر دیا ہے اورہمارے لوگوں میں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے اس قسم کا گناہ نہیں ہے۔ روایت ششم: ہدایہ میں لکھا ہے : الاستیلاء لا یتحقق الا بالا حراز بالدار لانہ عبارۃ عن الاقدار علی المحل حالا و مالا۔ غلبہ متحقق نہیں ہوتا جب تک کہ ان کو دارالسلام میں نہ پکڑ لاویں‘ اس لیے کہ غلبے سے مراد قابو پانا ہے مباح چیز پر بالفعل اور آخر کار تک۔ روایت ہفتم : بحرالرائق میں لکھا ہے : وفی الحاوی الملک الاختصاص الحاجز وانہ حکم الاستیلا لانہ یثبت الملک فیہ خالیا عن الملک والخالی عن الملک ھو المباح والاستیلاء لا غیر ہو طریق الملک فی جمیع الاموال لان الاصل الا باحۃ فیھا والبیع والھبۃ ونحوھما ینتقل الملک الحاصل بالا ستیلاء الیہ ضمن شرط البیع الملک حالہ البیع حتیٰ لم یصح فی مباح قبل الاستیلا ء لخو المحل عن الملک وقتہ وبالارث والوصیۃ تحصل الخلافۃ حتیٰ کانہ ہوالا نتقال حتیٰ لا یکون للوارث الرد بالؑیب دون المشتری فالاسباب ثلاثۃ مثبت للملک وھو الا استیلاء ونا قل للملک وھو البیع ونحوہ و خلافۃ وھو الارث والوصیۃ۔ حاوی میں یہ بات لکھی ہے کہ ملک کیا چیز ہے ایک خصوصیت ہے وج غیر کو اس میں تصرف کی مانع ہے اووہ خصوصیت غلبے کا اثر ہے اس لیے جو چیز کسی کی ملک نہ ہو اس پر غلبے کے سبب سے ملکیت ہو جاتی ہے اور جو چیز کہ کسی کی ملک نہ ہو وہ مباح ہے اور تمام چیزوں میں صرف غلبہ ہی وہ طریق ہے جس سے ملکیت ہو جاتی ہے نہ اور کوئی ‘ اس لیے کہ اباحت تمام چیزوں میں اصل ہے اور بیع اورہبہ اورمانند ان کے جو معاہدے ہیں ان سے وہ ملکیت جو بسبب غلبے کے حاصل ہوتی ہے منتقل الیہ کے پاس منتقل ہو جاتی ہے۔ پس بیع کی شرط سے یہ بات ہے کہ جو چیز بیچی گئی ہے وہ بروقت بیع کے بائع کی ملکیت ہو یہاں تک کہ اگر کوئی شخص مباح چیز کو اس پر غلبہ کرنے سے پہلے بیچ ڈالے تو وہ بیع جائز نہ ہو گی اس لیے کہ وہ مباح چیز اس وقت تک کسی کی ملکیتنہ تھی اور وراثت اور وصیت سے پہلے مالک کی جانشینی حاصل ہوتی ہے گویا یہ وہی پہلی ملک ہے اورنہ انتقال اور اس لیے وارث بسبب عیب کے مال پھیر نہیں سکتا‘ مگر مشتری پھیر سکتا ہے۔ پس تین سبب ملکیت کے ہوئے ایک وہ جو ملکیت ثابت کرتا ہے وہ تو غلبہ ہے اور ایک وہ جو ملکیت منتقل کر دیتا ہے اووہ بیع ہے اور مثل اس کے ایک وہ جو مالک کا جانشین کر دیتا ہے اور وہ وراثت او ر وصیت ہے۔ روایت ہشتم: درمختار میں لکھا ہے : فلو اخرج الینا شئیا ملکہ ملکا حراما للغدر فیتصدق بہ بخلاف الاسیر فیباح تعرضہ وان اطلقوا طوعا لانہ غیر مستا منہ فھو کالمتلصص فانہ یجوز لہ اخذ المال وقتل النفس۔ اگر کوئی مستامن دارالحرب سے کوئی چیز دارلاسلام میں نکال لائے تو حرام مال کی مانند ا س کا مالک ہو گا کیونکہ اس نے غدر کیا ہے۔ پس چاہیے کہ اس مال کوغریبوں کو دے دے برخلاف اس شخص کے جس کو حربی قید کر کے لے گئے ہوں پس اس سے تعرض کرنا درست ہے‘ اگرچہ حربیوں نے اس کو اپنی خوشی سے چھوڑ ہی دیا ہو‘ کیونکہ وہ شخص قید ہو کر گیا وہ مستامن نہیں ہے بلکہ وہ چور کی مانند ہے اور اس لیے اس کو جائز ہے مال کا لینا اور جان کا مارنا۔ روایت نہم : ذخیرۃ الروایات میں لکھا ہے کہ عیون میںلکھا ہے کہ: اھدی ملک من ملوک اہل الحرب الی رجل من المسلمین ہدیۃ من احرارھم اومن بعد اہلہ فان لم یکن بین المھدی والمھدی قرابۃ کانوا مما لیک للمھدی الیہ و ان کان المھدی دارھم محرم من المھدی او امۃ قد و لدت لہ لم یصرملکا للمھدی الیہ۔ اہل حرب کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ نے ایک مسلمان کو آزاد حربی یا کوئی اپنا رشتہ مند بطور تحفے کے بھیجا۔ پس اگر ان لوگوں میں سے جو بطور تحفے کے بھیجے گئے ہیں اور اس میں جس کوتحفہ بھیجا کچھ رشتے داری نہیں ہے تو وہ اس کے مملو ک ہو جاتے ہیں اوراگر وہ شخص جو بھیجا گیا ہے اس کا رشتے مند قریب ہو یا اسی کی صاحب اولاد لونڈی ہو تو جس کو تحفہ بھیجا گیا ہے اس کی ملک نہیں ہوتی۔ روایت دہم : سراجیہ میں لکھا ہے : حربی دخل الینا بغیر امان ناخذہ رجل منا فھو فئی لعامۃ المسلمین وقال ابو یوسف و محمد ہو للذی اخذہ۔ ایک حربی دارالاسلام میں بغیر امان مانگے چلا آیا‘ پھر اس کو ایک مسلمان نے پکڑ لیا تو وہ بطور غنیمت تمام مسلمانوں کا مال ہو جاتا ہے اورامام ابو یوسف اور امام محمد کی یہ رائے ہے کہ وہ اسی کا مال ہے جس نے اس کو پکڑا۔ ان تمام رویتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگلے عالموں نے صرف غلطے اور استیلاء کو سبب رقیت قرار دیا ہے ۔ ایک مدت ہوئی کہ بعض لوگوںنے استفتاء کیا تھا کہ انسان کس چیز سے غلام و لونڈی ہوتا ہے اوکون سا آدمی ہے کہ غلام اور لونڈی ہو سکتا ہے۔ اس کا جواب مولوی وجیہ الدین صاحب سہارنپوری نے لکھا تھا‘ اورجناب مولوی محمد اسحاق صاحب نے اس سے اتفاق کیا تھا اوبعد کو مفتی محمد اکرام الدین صاحب اور مولوی محمد کریم اللہ صاحب اور مفتی سید رحمت علی خاں عرف مفتی میر لال صاحب اور جناب حضرت شاہ احمد سعید صاحب اور مولوی حاجی قاسم صاحب اورمولوی عبدالخالق صاحب اور جاناب مولوی نذیر حسین صاحب اورمولوی حبیب اللہ صاحب اورجناب مولوی محمد صدرالدین صاحب نے بھی اس پر اپنی اپنی مہریں ثبت فرمائی تھیں۔ اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ سبب غلام و کنیز ہونے کا ابتدائی غلبہ ہے حالاً و مالاً‘ یعنی بالفعل اور آئندہ کو نہ غیراس کا بیع وغیرہ اس لیے کہ سبب اور پیدا کرنے والا ملک کا ہر چیز میں غلبہ ہے نہ غیر اس کا‘ اور محل اس کا مال مباح ہے نہ غیر اس کا اور آدمی میں مال مباح فقط حربی ہے اورمعنی غلبے کے قدرت اور قابو پانا ہے ایک چیز پر بالفعل اورآئندہ کو بھی یعنی اس طرح اس کی پناہ میں آیا کوء اسے چھڑا نہیں سکتا اورغالب حربی پر جو کوئی ہو مسلمان ہو یا کافر‘ ذمی ہو یا حربی مالک اس کا ہوجاتاہے ۔ انتہیٰ۔ مگر اب ہم کو دیکھنا چاہیے کہ غلبہ او ر استیلاء کو جو سبب رقیت اور حربی کو مال مباح ٹھہرایا ہے اس کے لیے کوئی نص قرآن و حدیث میں موجو د ہے یا نہیں‘ اس کا جواب صاف ہے کہ کوئی نہیں‘ البتہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگلے عالموں نے اپنے ذہن میں قیدیان جہاد کو لونڈی یا غلام سمجھ کر اور صرف اپنی رائے سے اور نہ کسی نص سے ان کی رقیت کی وجہ غلبہ و استیلاء قرار دی اورجہاں کہیں انہوں نے ذرا بھی غلبہ و استیلاء کسی قسم کا پایا وہاں رقیت کو جاری کر دیا۔ مسلمانوں کو حربیوں کو زبردستی پکڑ لانا یا حربیوں کو بطور نذر کے بھیجنا یا حربیوں کا دارالاسلام میں پکڑا جانا سب کو جہا د کے غلبہ و استیلاء پر قیاس کر لیا۔ کیسے تعجب کی بات ہے کہ اگلے علماء نے حربیوں کی اولاد کا دارالحرب میں خریدنا‘ بشرطیکہ وہ لوگ ان کا بیچنا جائز سمجھتے ہوں‘ اس لیے جائز قرار دیا ہے کہ اس میں بھی ان کا بیچنا جائز سمجھتے ہوں‘ اس لیے جائز قرار دیا ہے کہ اس میں بھی غلبہ و استیلا کی صورت ہے اوروہ صورت یہ ہے کہ جب اہل حر ب جواز بیع کے معتقد ہوئے تو بعد بیع کے وہ اس کو پھیر نہیں سکتے ۔ پس بسبب خریدنے کے مسلمان کو حربی پر غلبہ و استیلاء تحقق ہو گیا۔ نعوز باللہ من ھذا الاباطیل۔ اب ہمارے علماء اس غلبہ و استیلاء کو جو اپنی طبیعت کا ٹھہرایا ہوا اصول تھا۔ یہاں تک وسعت دی کہ غلبہ و استیلاء کرنے والے پر مسلمان ہونے کی شرط ساقط کر دی اور لکھ دیا کہ اگر کافر کافر کو بھی بغلبہ و استیلا ء پکرے تو وہ بھی اس کا غلام ہو جائے گا‘ چنانچہ ہدایہ شریف میں لکھا ہے : واذا غلب الترک علی الروم فسیرھم واخذ اموالھم ملکوھا لان الاستیلاء قد تحقق فی مال مباح وھو السبب۔ جب کفار ترک کفار روم پر غالب ہو جائیں اور بنی پکڑ لیں اور مال لے لیں تو اس کے مالک ہو جاتے ہیں کیونکہ استیلاء یعنی غلبہ تحقق ہوگیا مباح مال میں اور وہی سبب ملک ہے۔ باایں ہمہ اب تک فضل الٰہی سے کسی بزرگ نے یہ نہیں فرمایا کہ حربیوں کو مال مباح کس اصول پر قرار دیا۔آیا قرآن مجید میں یا حدیث نبوی میں یہ حکم آیا ہے یا حضرت جبرئیل ان بزرگوں پر وحی لائے تھے البتہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ لڑائی میں لوٹ کا مال اللہ تعالیٰ نے ہم کو مباح کیا ہے اوریہ نہایت عمدہ اوربہت ہی خوب اصول ہے مگر انسان کو مال میں داخل نہیں فرمایا۔ غالباً ہمارے علماء نے قیاس سے انسان کو بھی مال سمجھا ہے۔ بہرحال جو ہو اتنی بات ضرور تسلیم کرنی چاہیے کہ غلامی ایک مسئلہ ہے جس کو علماء اسلام نے نکالا ہے یا اختیار کیا ہے ‘ مگر اس کو ایک مسئلہ شرعی منزل من اللہ کہنا کیسا جھوٹ اور اسلام پر کتنا بڑا اتہام ہے ۔ ان تمام حالات سے اور تمام روایتوں سے جو مذکور ہوئیں یہ بات ثابت ہو گئی کہ فقہائے اسلام نے جو غلبہ و استیلاء کو سبب رقیت قرار دیا ہے اس کی اصل جہاد کے قیدیوں کو لونڈی و غلام بنانے پر مبنی ہے۔ پس اب ہم کو اس بات پر بحث کرنی چاہیے کہ جہا د کے قیدیوں کا لونڈی و غلام بنانا جائز ہے یا نہیں کیونکہ اگر ان قیدیوں کا لونڈی و غلام بنانا ناجائز ثابت ہو جاء گا تو اصول رقیت باطل ہو جائے گا اورسب کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام میں کوئی شخص اور کسی حالت میں لونڈی و غلام نہیں ہو سکتا ۔ پس اب ہم امر مذکور کی بحث پر متوجہ ہوتے ہیں۔ واللہ المستعان۔ باب چہارم اس بات کے بیان میں کہ قیدیان جہاد کے لونڈی یا غلام بنانے کا کوئی حکم قرآن مجید یا حدیث صحیح میں نہیں ہے کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ قرآن یا حدیث میں کسی جگہ یہ حکم ہے کہ جو لوگ جہاد میں پکڑے جاتے ہیں وہ لوندی و غلام ہو جاتے ہیں ۔ مگر اگلے عالموں نے قرآن مجید سے اس مسئلے کے استنباط پر کوشش کی ہے۔ چنانچہ ہم اس کو اس مقام پر لکھتے ہیں اور جو غلطیاں اس استبناط میں ہیں ان کو بھی بیان کرتے ہیں۔ استباط اول: وہ کہتے ہیں کہ بہت سی جگہ قرآن مجید میں اور احادیث میں صحیح میں لونڈیوں اور غلاموں کا ذکر آیا ہے اوربہت سے احکا م ان کی نسبت بیان ہوئے ہیں اور اس سے پایا جاتا ہے کہ اسلام میں بھی لونڈی یا غلام کا ہونا جائز رکھا گیا ہے۔ مگر یہ دلیل رقیت مستقبلہ سے متعلق نہیں ہو سکتی اس لیے کہ ہم یہ بات ثابت کر آئے ہیں کہ قبل نزول آیت حریت کے جس قدر لونڈی و غلام موجود تھے ان سب کو اسلام نے بطور لونڈیہ و غلام تسلیم کیاتھا اورانہیں کی آزادی اور آرام و آسائش کے لیے احکام صادر کیے تھے اور ان احکام میں کوئی لفظ بھی ایسا نہیں ہے جو رقیت مستقبلہ پر دلالت کرتا ہو۔ استنباط دوم: اللہ تعالیٰ نے سورۃ براۃ میں نسبت ان مشرکین عرب کے جنھوں نے اپنے تمام عہد توڑ دیے تھے اور دغا و بد عہدی کر کے لڑائی شروع کر دی تھی یہ فرمایا : فاذا انسلخ الاشھر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم وخذوھم واحصروھم واقعدوا لھم کل مرصدفان تابوا و اقاموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ فخلوا سبیلھم ان اللہ غفور رحیم جب وہ مہینے جن میں لڑائی منع ہے گزر جاویں تو مشرکوں کو مارو جہاں پائو اوران کو پکڑو اور ان کو گھیرو اورہر جگہ ان کی گھات میں بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اورنماز پڑھیں اور زکوۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ملا احمد جونپوری نے جو عالمگیر کے عہد میں تھے‘ اس آیت کا نام آیت استرقاق رکھا ہے اورعلماء اسلام کے بڑے دوڑ اثبات پر یہ آیت ہے ‘ مگر کوئی شخص بھی جس کے دل کی آنکھیں ضلالت تقلید سے اندھی نہیں ہوئی ہیں نہیں کہہ سکتا کہ اس آیت سے رقیت ثابت ہوتی ہے۔ اس آیت میں یا حکم قتل کرنے یعنی لڑنے کا ہے یا قید کرنے کا یا کافروں کے رستوں کے روکنے کا ہے تاکہ وہ مسلمانوں پر فوج نہ لا سکیں یا شب خون یا اور کسی قسم کی لوٹ مار نہ کر سکیں اوران قیدیوں کو غلام و لونڈی بنانے کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ تعجب ہے کہ مفسرین نے بھی اورخود ملا احمد جونپوری نے بھی اس آیت کی تفسیر میں استرقاق کا کچھ ذکر نہیں کیا۔ چنانچہ اس مقام پر متعدد تفسیروں سے اس آیت کی تفسیر نقل کی جاتی ہے۔ تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ : وخذوھم و اسروھم ‘ والا خیذو الاسیر واحصروھم واحبسوھم وحیلوا بینھم وبین المسجد الحرام واقعدوالھم کل مرصد۔ کل ممرلئلا یتبسطوا فی البلاد۔ خذوھم کا لفظ جو اس آیت میں ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کو پکڑ لو اور اس لیے کہ اخیذ کے معنی پکڑے ہوئے کے ہیں اور واحصروھم کے معنی یہ ہیں کہ ان کو روکے رکھو اور کافروں کے اور مکہ معظمہ کے درمیان میں رکائو ہو جائو اورواقعدو الھم کل مرصد کے یہ معنی ہیں کہ ان کے رستے روک لو تاکہ وہ ملکوں میں نہ پھیل جائیں۔ تفسیر مدارک میں بھی خذوھم کے معنی پکڑ لینے کے لکھے ہیں اور لکھا ہے کہ : وخذوھم‘ واسروھم والاکذ الاسر واحصروھم قیدوھم وامنعوھم من التصرف فی البلاد والھم کل مرصد کل ممرد مجتاز ترصدونھم بہ اخذ کے معنی ہیں پکڑنے کے اور احصروھم کے معنی ہیں کہ ان کو قید کر لو اور ان کو ملکوں میں تصرف مت کرنے دو اور واقعدوالھم کل مرصد کے یہ معنی ہیں کہ ان کے تمام رستے گھیر لو جہاں سے وہ جانا چاہیں۔ تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے : وخذوھم واسروھم واحصروھم ای احسبوھم قال ابن عباس یریدان تحصنوا ناحصروھم ای امنعوھم من الخروج و قیل امنعوھم من دخول مکۃ والتصرف فی بلاد الاسلام واقعدوالھم کل مرصد ای علی کل طریق والمرصد الموضع الذی یرقب فیہ العدو من رصدت الشیئی ارصدہ اذا ترقبہ یرید کو نو الھم رصدا لتاخذوھم من ای جھۃ توجھو او قیل اقعدوالھم بطریق مکۃ حتی لا یدخلوھا۔ وخذوھم کے معنی ہیں کہ ان کو پکڑ لو اور احصروھم کے معنی ہیں کہ ان کو روک لو۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ اگر قلعے میں پناہ لیں تو ان کو گھیر لو اورنکلنے مت دو اوربعضوں نے کہا ہے کہ ا س کا مطلب ہے کہ ان کو مکے میںمت آنے دو اور واقعد والھم کل مرصد کے یہ معنی ہیں کہ ہر رستے پر ان کی گھات میں بیٹھو کیونکہ مرصد اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں دشمن کے ملنے کی امید ہو چنانچہ عربی زبان کا ایسا ہی محاورہ ہے مطلب ہے کہ ا ن کی تاک میں رہو تاکہ جس طرف وہ متوجہ ہوں ان کو پکڑ لو اوربعضو ں نے کہا ہے کہ مطلب صرف اتنا ہے کہ مکے کے راستے میں ان کی گھات میں بیٹھے رہو تاکہ وہ مکے میں نہ آ سکیں۔ تفسیر کشاف میں لکھا ہے کہ : وخذوھم واسروھم والاخیذ الا سیر واحصرو ہم وقیدھم وامنعواھم من التصرف فی البلاد وعن ابن عباس حصرھم ان یحال بینھم و بین المسجد الحرام کل مرصدو کل ممرو مجتاز ترصدونھم بہ۔ خذوھم کے معنی یہ ہیں کہ ان کو پکڑ لو اس لیے کہ اخیذ اس کو کہتے ہیں جو پکڑا گیا ہو اور واحصروھم کے معنی ہیں کہ ان کو قید کر لو اور ان کو شہروں پر تصرف مت کرنے دو اور ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے کہ حصرھم سے یہ مطلب ہے ک ان میں اور مکے میں روک کر دی جاوے ہر موصد یعنی ہر راستے پر جہاں سے وہ وہا ں جانا چاہیں۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے : قولہ وخذوھم اے بالاسر والا خیذ الا سیر۔ وقولہ واحصر وھم معنی الحصر المنع من الخروج من محیط قال ابن عباس یرید ان تحصنوا انا حصروھم وقال الفراء حصرھم ان یمنعوا من البیت الحرام قولہ تعالیٰ واقعدوالھم کل مرصد و المرصد الموضع الذی یرقب فیہ العدو من قولھم رصدت فلانا نار صدہ اذا ترقبتہ قال المفسرون المعنی اقعدو الھم علیٰ کل طریق یا خذون فیہ الی البیت اوالی الصحرا او الی التجارہ فال الا خفش فی الاکلام محذوف والتقدیر واقعدو الھم علیٰ کل مرصد ثم قال تعالیٰ فان تابوا واقامو الصلوۃ واتو الذکوۃ فخلو سبیلھم ان کو پکڑ لو گرفتار کر کے‘ کیونکہ اخذ کے معنی ہیں گرفتار ہوئے اور حصر کے معنی ہیں گھیرے سے نہ نکلنے دینے کے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس سے یہ مطلب ہے کہ اگر وہ قلعے میں پناہ لیویں تو ان کو گھیر لو اورفرا ء کا قول ہے کہ گھیرنے سے یہ مطلب ہے کہ ان کو مکے میں مت آنے دو اور مرصد اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں دشمن کے ملنے کی توقع ہو چنانچہ زبان عرب کا ایسا ہی محاورہ ہے۔ مفسروں کا قول ہے کہ جس رستے سے وہ مکے کو یا چراگاہ کو یا تجارت کو جانا چاہیں ان کی کمین گاہوں میں بیٹھو۔ اخفش کا قول ہے کہ اس عبارت کے معنی یہ ہیں کہ ہر رستے پر ان کی کمین گاہ پر بیٹھو ۔ اس کے بعد خدا نے فرمایا کہ جب وہ توبہ کر لیں اور نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ ملا احمد صاحب تفسیر احمدی میں لکھتے ہیں: معنی الایۃ اذا النسلخ الا شھر الحرم التی ابیح فیھا لناکثین ان یسیحوا ناقتلوا المشرکین الذین یحصوکم مظاہرو ا علیھم حیث و جدتمو ھم من حل اودم وخذوھم ای اسروھم واحصروھم ای قیدوھم وامنعواھم من التصرف فی البلاد و اقعدو الھم کل مرصد ای کل ممرو مجتاز ترصد و نھم فان تابو ا عن الکفر و اقامۃ الصلوۃ واتوالزکوۃ فخلوا سبیلھم ای فاطلقوا منھم الا سرفکفوا عنھم ولا تتعرضوا لھم ان اللہ غفور رحیم معنی آیت کے یہ ہیں کہ جب وہ مہینے جن میں لڑائی منع ہے اورجن میں عہد توڑنے والوں کو مارنا منع نہیں ہے گزر جائیں تو ان مشرکوں کو جنہوں نے تمہاری تقسیر کی ہے اور تم پر غلبہ کیا ہے‘ قتل کرو جہاں ان کو پائو‘ مکے کے باہر یا مکے کے اندر اوران کو پکڑو‘ یعنی گرفتار کرو اوران کو گھیرو‘ یعنی ان کو قید کر و اور شہروں پر تصرف مت کرنے دو اورہر جگہ ان کی گھات میں بیٹھو ‘ یعنی ہر راستے پر جدھر وہ جانا چاہیں‘ پھر جب وہ کفر سے توبہ کر لیں اور نماز پڑھنے لگیں اورزکوۃ دیویں تو ان کا رستہ چھو ڑ دویعنی ان کی قید چھوڑ دو اوران سے ہاتھ روک لو اوران سے کسی طرح کا تعرض مت کرو۔ بے شک اللہ ہی بخشنے والا مہربان ہے۔ ان تمام تفسیروں سے جو ہم نے بیان کیں بخوبی ظاہر ہے کہ اس آیت کے کسی لفظ سے بھی غلامی کے جواز پر استدلال نہیںہو سکتا۔ استنباط سوئم: قولہ تعالیٰ: والمحصنات من النساء الا ما ملکت ایمانکم الخ استنباط چہارم : قولہ تعالیٰ : وما ملت یمینک مما افاء اللہ علیک ان دونوں آیتوں کا بیان ہم دوسرے باب میں بہت تحت لفظ ما ملکت بخوبی کر چکے ہیں اور بخوبی ثابت کر دیا ہے کہ ان آیتوں سے استرقاق پر استدلال کرنا محض غلطی ہے۔ استنباط پنجم : بخاری و مسلم میں یہ حدیث ہے: سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن اہل الدار یبیتون من المشرکین فیصاب من نسائھم درار یھم قال ہم منھم وفی راویۃ ہم من ابائھم رسول خدا صلعم سے اس شہر کے مشرکوں کی نسبت پوچھا گیا جن پر شب خون مارا جائے اوراس میں ان کی عورتوں اور بچوں کو نقصان پہنچے تو حضرت نے فرمایا کہ وہ بھی انہی میں سے ہیں اور ایک روایت میں ہے ہ یہ فرمایا کہ وہبھی اپنے باپوں میں سے ہیں۔ طیبی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ: قولہ ہم منھم ای النساء والصبیان من الرجال قال القاضی اراء جتحریر سبیھم واسترقا قھم کمالو اتو ا اہلھا نھارا وحار بوھم جھارا او ان من قتل منھم فی ظلمۃ اتفاقا من غیر قصد وتوجہ الیٰ قتلہ فھد لا حرج فی قتلۃ لا نھم ایضا کفار وانما یجب التحرزعن قتلھم حث تسیر ذالک حتی لو ترسوا ابنائھم وذراریھم لم نیال بھم رسول خدا صلعم نے جو یہ فرمایا ہے کہ وہ انہی میں سے ہیں‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں اور بچے بھی مردوں ہی میں سے ہیں اور قاضی صاحب نے فرمایا ہے کہ اس سے مطلب پکڑ لینا اوران کا لونڈی و غلام بنا لینا ہے اسی طرح جس طرح کہ دن کو کھلم کھلا جا کر ان سے لڑتے یا یہ مطلب ہے کہ اگر ان میں کی کوئی عور ت یا ان کا کوئی بچہ اندھیرے میں اتفاق سے بغیر قصد و ارادے سے مارا جاوے تو اس کے خون کا کچھ مواخذہ نہیں او ر اس کے مار ڈالنے میں کچھ گناہ نہیں‘ کیونکہ وہ بھی کافر ہیں اور ان کے مارنے سے بچنا اسی وقت تک واجب ہے جب تک کہ بچنا ممکن ہو‘ مگر جب کہ وہ اپنے لڑکوں کو اور اپنے بچوں کو سپر بنا لیں تو ان کی کچھ پروا نہ کی جائے گی۔ استنباط ششم: ترمذی اور ابودائود میں یہ حدیث سمرہ بیٹے جندب سے بیان ہوئی ہے: عن سمرۃ بن جندب عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال اقتلوا شیوخ المشرکین واستحیوا شرخھم ای صبیانھم پیغمبر خدا صلعم نے فرمایا کہ بڑی عمر کے مشرکوں کو مار ڈالو اور ان کے پٹھوں ‘ یعنی بچوں کو زندہ رکھو۔ ملا علی قاری صاحب مرقاۃ میں اس کی شرع اس طرح پر ارقا م کرتے ہیں: قولہ شرخھم ای سبیا نھم تفسیر من الصحابی او احد الرواہ و یویدہ ما فی النھایۃ الشرخ الصغار الذین لم یدر کو او اما تفسیر الاحیا بالا سترقاق فتوسع ومجاز وذالک لان الغرض من استبقائھم احیاء استرقاقھم واستخدامھم۔ حدیث میں جو لفظ شرخہم کے معنی ان کے بچوں کے بیان کیے ہیں‘ یا تو یہ معنی کسی صحابی کے بیان کیے ہوئے ہیں یا حدیث کے کسی راوی کے ‘ اور نہایہ میں جو یہ لکھا ہے کہ شرخ ان چھوٹی عمر والوں کو کہتے ہیں جو بالغ نہ ہوئے ہوں اس سے ان معنوں کی تائید ہوتی ہے مگر بچوں کے زندہ رکھنے سے ان کا لونڈی و غلام بنا لینا مراد لینی لفظ احیاء کے معنی میں توسع اور مجاز ہے‘ کیونکہ اس صورت میں ان کے زندہ رکھنے سے گویا ان کی خدمت اور رقیت کا زند ہ رکھنا یعنی باقی رکھنا مراد ہے۔ ان دونوں استنباطوںکی نسبت ہم کو زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘ اس لیے کہ ہر کوئی نفس حدیث سے جان سکتا ہے کہ اس کو رقیت سے کچھ علاقہ نہیں ہے اور جس طرح پر بعض نے اس پر استنباط کیا ہے خود علماء نے اس کو ٹھیک نہیں سمجھا۔ استنباط ہفتم: بہت بڑا استدلال علماء اسلام کا جواز استرقاق پر فعل جناب رسول خدا صلعم ہے۔ اگر یہ ہو تو امنا و صدقنا ہمارے سر آنکھوں پر مگر ہم کو اس بات سے کہ جناب رسول خدا صلعم نے ایسا کیا انکار ہے۔ اس استدلال کی صحت یا غلطی تین امر کی بحث پر منحصر ہے ۔ اول اس پر کہ قرآن مجید میں جہاد کے قیدیوں کے لونڈی و غلام بنانے کا کوئی حکم ہے یا نہیں کیونکہ اگر ہو تو اس کے برخلاف فعل رسول مقبول کیونکر ہوا ہو گا۔ دوسرے اس پر کہ اگرکوئی ایسا حکم قران میں موجود ہو تو اس بات کو دیکھنا ضرور پڑے گا کہ اس کے بعد فعل رسول خدا صلعم کا کیا ہوا ہے‘ کیونکہ یہی فعل منشاء استنباط مسئلہ شرعی ہو گا نہ او ر کوئی۔ تیسرے اس پر کہ اگر کسی وقت کوئی فعل رسول خدا صلعم کا برخلاف اس کے حکم کے ہوا ہے تو قبل اس کے ہوا ہے یا بعد اس کے ‘ کیونکہ اگر اس کا وقوع قبل اس کے ثابت ہوتو وہ فعل منشاء استبناط کسی مسئلہ شرعی کا نہیں ہو سکتا۔ پس اگر یہ تینوں امر ہمارے ادعا کے مطابق تحقیق ہو جائیں تو یہ استنباط علماء اسلام کا بالکل غلط ہو جائے گا اور ہماری فقہ کے فتاویٰ اورتمام کتابیں بہت ہلکی ہو جائیںگی اس لیے کہ ان میں بہت سے باپوں کی جو غلامی سے متعلق ہیں ضرورت نہیں رہنے کی۔ چنانچہ ہم ان تین مطلبوں کو تین جدا جدا بابوں میں بیان کرتے ہیں۔ باب پنجم اس بات کے بیان میں کہ قرآن مجید میں جہاد کے قیدیوں کے لونڈی و غلام نہ بنانے کا حکم موجود ہے جس کو ہم آیت حریت کہتے ہیں قال اللہ تبارک و تعالیٰ: فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب حتیٰ اذا اسخنتموھم فشدوا الوثاق فاما منا بعد و اما فدائ۔ اللہ صاحب نے فرمایا ہے کہ جب تم مقابلے پر ہو کافروں کے تو ان کی گردنیں کاٹو‘ جبکہ تم ان پر گھمسان کر چکو تو ان کو قید کر لو پھر قید کرنے کے بعد یا تو ان پر احسان رکھ کر یا ان سے فدیہ یعنی چھڑائی لے کر چھوڑ دو۔ یہ آیت قرآن مجید کے چھبیسویں سپائے اور سورہ محمد صلعم میں موجود ہے ۔ اس میں خدا تعالیٰ نے لڑائی کے بعد قیدیوںکو چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے اورلفظ اما اورانما کا حصر کے لیے آتا ہ ‘ یعنی عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی حکم ا س طرح پر دیا جاوے کہ یا یہ کرو یا یہ کرو تو ان دونوں میںسے ایک کا کرنا ضرورہوتا ہے اوراس کے سواکسی اور بات کے کرنے کا اختیار نہیں رہتا۔ پس اس آیت کے نازل ہونے کے بعد کوئی قیدی نہ قتل ہو سکتا ہے نہ لونڈی و غلام بنایا جا سکتا ہے او ربجز اس کے منایا فداء چھوڑ دیا جاوے اور کچھ اس کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ علماء اسلام نے بھی ا س آیت کی تفسیر میں یہی معنی تسلیم کیے ہیں چنانچہ چند تفسیروں سے اس مقام پر بطور سند کے مضمون اور عبارت لکھی جاتی ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ ان معنوں سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ تفسیر مدارک اورتفسیر کشاف میں لکھا ہے : فاما منا بعد ان تاسروھم واما فداء منا وفداء منصوبان بفعلیھما مضمرین وھی فاما تمنون مناو اما تفدون فداء والمعنی التخییر بعد الا سربین ان تمنوا علیہ فتطلقوھم وبین ان تفادوھم ان کو چھوڑ دو احسان رکھ کر قید رکرنے کے بعد یا چھوڑ دو فدیہ لے کر۔ لفظ منا اور فدا مفعول ہیں جن کے فعل تمنون اور تفدون یہاں محذوف ہیں اور معنی یہ ہیں کہ قید کرنے کے بعد ا س پر احسان رکھنے میں اور چھوڑ دینے میں اور فدیہ لینے میں اختیار ہے۔ تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے : فاما منا بعد و اما فداء بعد ان تاسروھم فاما ان تمنوا علیھم باطلاتھم من غیر عرض واما ان تفادوھم قید کرنے کے بعد احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر چھوڑ دینا ہے‘ پس اگر تم ان پر احسان رکھو تو احسان ہے بغیر بدلے کے ان کو چھوڑنا اوریا ان سے فدیہ لے لو۔ تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے: فاما منا بعد واما فداء ای فاما تمنون منا او تقدون فداء فالمراد التخییر بعد الاسربین المن والا طلاق وبین اخذا لفداء احسان رکھنے یا فدیہ لینے کے معنی یہ ہیں کہ یا تو تم ان پر احسان رکھو یا فدیہ لے لو غرضیکہ قدی کرنے کے بعد احسان رکھ کر چھوڑ دینے اورفدیہ لے کر چھوڑ دینے میں اخیتار ہے ۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے : ـمنا وفداء منصوبان لکونھما مصدرین تقدیرہ فاما تمنون منا واما تفدون فداء وتقدیم المن علی الفداء اشارۃ الیٰ ترجیح حرمۃ النفس علیٰ طلب العال والفداء یجوز یکون مالا و ان یکون غیرہ من الاساریٰ او شرط یشترط علیھم او علیہ وحدہ منا وفداء مصد ر ہیں‘ ان کے فعل تمنون اور تفدون اس جگہ محذوف ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ یا تو تم ان پر احسان کرو یا فدیہ لے لو اور احسان کرنے کو جو فدیہ لینے سے پہلے بیان کیا گیا ہے اس سے اس بات پر اشار ہ ہے کہ بہ نسبت مال مانگنے کے انسان کی بزرگی زیادہ ہے اورفدیہ مال بھی ہو سکتا ہے او ر اس کے سوا قیدی بھی فدیہ میں دیے جا سکتے ہیں اورصر ف کوئی شرط قبول کر لینی بھی فدیہ ہوتا ہے پھر وہ شرط ان کافروں نے قبول کی ہو یا صرف اسی قیدی نے جس کو چھوڑا جاتاہے قبول کی ہو۔ زمانہ جاہلیت میں اورنیز کسی قدر ابتدائے اسلام اور قبل نزول اس آیت کے قیدیوں کو مار ڈالنے یا لونڈی و غلام بنا لینے یا احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا رواج تھا اور کوئی حکم نازل نہیں ہو ا تھا اس آیت میں قیدیوں کی نسبت حکم نازل ہوا جس میں بجز من اور فداء کے اور کوئی حکم نہیں ہے اوراس لیے قتل و استرقاق جائز نہ رہا۔ اس آیت پر جو ایک نص صریح یا ناقابل التاویل ہے علماء اسلام نے متعدد طرح سے بحث کی ہے چنانچہ ہم ان تمام بحثوں کو مع ان کی تردید کے اس مقام پر لکھتے ہیں۔ بحث اول متعلق زمانہ نزول آیت یہ آیت سورہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے اور ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سورہ محمد مدینہ میں بزمانہ فتح مکہ یعنی ۸ ھ میں نازل ہوئی اورا س دعوے کے ثبوت پر تین قطعی دلیلیں ہیں۔ اول یہ کہ تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ بعض علما کا قول ہے کہ سورہ محمد صلعم مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ دوسرے یہ کہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت بعد جنگ بدر نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں تحت آیہ کریمہ ماکان لنبی ان یکون لہ اسریٰ بہ قول ابن عباس کا مندرج ہے: قال ابن عباس ھذا الحکم انما کان یوم بدر لان المسلمین کانوا قلیلین فلما کثرو او قویٰ سلطانھم انزل اللہ بعد ذالک فی الاساریٰ۔ حتیٰ اذا اثخنتموھم فشدو الو ثاق فاما منا بعد واما فداء حتیٰ تضع الحرب اوزارھا۔ یہ حکم جو آیت ما کان لنبی میں ہے بدر کی لڑائی کے دن تھا‘ کیونکہ اس زمانے میں مسلمان تھوڑے تھے‘ مگر جب مسلما ن بہت ہو گئے اور بخوبی ان کو غلبہ ہو گیا تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قیدیوں کے حق میں یہ حکم نازل کیا کہ جب لڑائی میں خوب گھمسان کر چکو تو ان کو قید کر لو اور پھر قید کرنے کے بعد ان کو احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر چھوڑ دو جب تک کہ لڑائی ہتھیار رکھ دے‘ یعنی موقوف ہوجائے۔ تیسرے یہ کہ علماء حنفیہ جو کہتے ہیں کہ یہ آیت بدر کی لڑائی میں اتری تھی اس کی غلطی کالشمس فی نصف النہار وشن ہے‘ اس لیے کہ پیغمبر خدا صلعم نے قیدیان بدر کو جو فدیہ لے کر چھوڑا تھا صحابہ سے صلاح و مشورہ کر کے چھوڑا تھا‘ اگر ان کی نسبت وحی آ چکی ہوتی تو صحابہ سے مشورہ کیوں کرتے۔ علاوہ اس کے بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے میں خدا تعالیٰ کی بڑی خفگی ہوئی تھی‘ اگر یہ آیت یعنی فدیہ لے کر چھوڑنے کا حکم بدر کے قیدیوں کی نسبت نازل ہو چکا ہوتا تو خدا کی اس قدر خفگی کیوں ہوتی۔چنانچہ یہ مطالب ذیل حدیثوں میں مندرج ہیں۔ صحیح مسلم میں یہ حدیث موجو دہے: قال ابن عباس فلما اسرو الاساریٰ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا بی بکر ماترون فی ہولاء الاساریٰ فقال ابوبکر یا نبی اللہ ہم بنوا العم والعشیرۃ ۔ اریٰ ان تاخذمنھم فدیۃ فتکون لنا قوۃ علی الکفار فعسی اللہ ان یھدھم للاسلام فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما تریٰ یا ابن الخطاب قال قلت لا واللہ یا رسول اللہ ما اری الذی رای ابوبکر ولکنی اری ان تمکنا ننضرب اعناقھم فتمکن علیا منعقیل فیضرب عنقہ و تمکنی من فلان نسیبا لعمر فاضرب عنقہ فان ہولاء ائمۃ الکفروصنا دیدھا فھوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما قال ابوبکر ولم یھو ما قلت فلما کان من الغد جئت فاذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ابوبکر قاعدین وھما یکبیان قلت یا رسول اللہ اخبرنی من ای شیئی تبکی انت وصاحبک فان وجدت بکار بکیت وان لم اجد بکار تباکیت لبکائکما فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابکی الذی عرض علی عذابھم ادنیٰ من ہذہ الشجرۃ شجرۃ قریبۃ من نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فانزل الہ عز و جل ما کان لنبی ان یکون لہ اسریٰ حتیٰ یثخن فی الارض الیٰ قولہ فکلوا مما غنمتم حلالا طیبا فاحل اللہ انعنیمۃ لھم۔ حضرت ابن عباس نے کہا کہ جب جنگ بدر میں قیدی پکڑے تو رسول خدا صلعم نے حضرت ابوبکر سے پوچھا کہ ان قیدیوں کی نسبت تمہاری کیا رائے ہے۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ اے پیغمبر خدا! یہ لو گ چچ اکے بیٹے اور کنبے کے ہیں‘ میں سمجھتا ہوں کہ ان سے فدیہ لیا جائے اور کہ اسکے سبب سے ہم کوکافروں پر قوت بھی ہو گی اورشاید اللہ تعالیٰ ان کو مسلما ن بھی کر دے۔ اس کے بعد رسول خدا صلعم نے حضرت عمر سے پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے حضرت عمر نے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ خدا کی قسم میری تو رائے نہیں ہے جو ابوبکر کی رائے ہے بلکہ میری تو یہ رائے ہے کہ اگر آپ اجاازت دیں تو ہم ان کی گردنیں ماریں۔ پس علی کو اجازت دیجیے کہ وہ عقیل کی گردن مارے اور مجھ کو اجازت دیجیے کہ میں فلاں شخص کی (جو حضرت عمر کا ہم جدی تھا) کی گردن ماروں کیونکہ یہ لوگ کفر کے پیشوا اور اس کے سردا ر ہیں‘ مگر جو کچھ کہ ابوبکر نے کہا تھا اس کو رسول خدا صلعم نے پسند کیا اورجو کچھ کہ عمر نے کہا تھا اسے حضور نے پسند نہ کیا۔ اور دوسرے دن حضرت عمر آئے رسول اللہ صلعم اور ابوبکر دونوں بیٹھے رو رہے تھے۔ حضرت عمر نے کہا کہ یا رسول اللہ مجھ سے تو فرمائیے کہ کس بات پر آ اورآپ کے دوست ابوبکر رو رہے ہیں‘ تاک ہاسگر مجھ کو رونا آئے تو میں بھی روئوں اوراگر رونا نہ آئے تو آپ صاحبوں کے رونے پر بسوروں۔ رسول خدا صلعم نے فرمایا کہ میںاس بات پر روتا ہوں کہ جو تیرے دوست نے مجھ سے کہی قیدیوں سے فدیہ لینے میں۔ مجھ کو ان کا عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب دکھایا گیا۔ اس کے خدا تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی کہ نبی کو لائق نہیں کہ وہ قید ی بنائے جب تک گھمسان نہ کر لے زمین پر اور اس آیت کا اخیر یہ ہے کہ جو کچھ لوٹ میں آیا ہے اس کو کھائو وہ حلال طیب ہے۔ پس خدا تعالیٰ نے لوٹ کے مال کو حلال کر دیا ہے۔ تفسیر کبیر میں روایت لکھی ہے : ورویٰ انھم لما اخذوا الفداء نزلت ھذہ الایۃ (ماکان لنبی ان یکون لہ اسریٰ الخ) فدخل عمر علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاذا ھووا بوبکر یکبیان فقال یا رسول اللہ اخبرنی فان وجدت بکاء بکیت وان لم اجد تباکیت فقال ابکی علی اصحابک فی اخذھم لم اجد تباکیت فقال ابکی علی اصحابک فی اخذھم الفداء ولقد عرض علی عذابھم ادنیٰ من ھذہ الشجرۃ قریبۃ منہ ولونزل عذاب من السماء لمانجا منہ غیر عمرو سعد بن معاذ۔ جب پیغمبر خدا صلعم نے صحابہ سے صلاح سے جنگ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لے لیا تو آیت ما کان لنبی نازل ہوئی۔ اس کے بعد حضرت عمر رسول خدا صلعم کے پاس گئے کیا دیکھتے ہیں کہ جناب رسول مقبول اور ابوبکر دونوں رو رہے ہیں۔ حضرت عمر نے کہا کہ یا رسول اللہ مجھ کو بھی بتائیے کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ۔ اگر مجھ کو بھی رونا آئے تو میں بھی روئوں ورنہ بسوروں ہی۔ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ میں تیرے دوستوں پر بدر کے قیدیوں کا فدیہ لینے پر روتا ہوں مجھ کو ان کا عذاب اس درخت سے بھی قریب دکھایا گیاہے اوراگر آسمان سے بھی عذاب اترتا ہے تو بجز عمر اورسعد بن معاذ کے اس عذاب سے کوئی نہ بچتا۔ حصہ دوم متعلق معنی حصر اما م ابو حنیفہ صاحب تو قیدیوں کا چھوڑنا کسی طرح پر جائز نہیں سمجھتے ‘ مگر امام شافعی صاحب اورامام احمد بن حنبل صاحب فرماتے ہیں کہ قیدیوں کا قتل کرنا بھی جائز ہے اورلونڈی اور غلام بنانا بھی جائز ہے اوراحسان رکھ کر اورفدیہ لے کر چھوڑ دینا بھی جائز ہے۔ چنانچہ تفسیر احمدی میں لکھا ہے۔ ثم الشافعی و احمد بن حنبل یقولان ان الامام مخیر بین القتل والاسرقاق والمن بالاطلاق والفداء بالمال او باساری المسلمین ۔ شافعی اور احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ امام مختار ہے چاہے قیدیوں کو قتل کرے‘ لونڈی و غلام بنائے ‘ چاہے احسان رکھ کر چھوڑ دے ‘ چاہے فدیہ میں مال لے کر یا مسلمان قیدیوں کے بدلے چھوڑ دے۔ اور تفسری معالم التنزیل میں لکھا ہے : وذھب الاخرون ان الایۃ محکمۃ والامام بالخیار فی الرجال العاقلین من الکفار اذا وقعوا فی الاسر بین ان یقتلھم او یمن علیھم فیطلقھم بلا عرض او یفادیھم بالمال او با ساری المسلمین والیہ ذھب عمر و بہ قال الحسن والعطاء واکثر الصحابہ والعلماء وھو قول الثوری والشافعی و احمد و اسحاق قال ابن عباس لما کثر المسلمون و اشتد سلطانھم انزل اللہ عز و جل فی الساریٰ فامامنا بعد واما فداء وھذا ھوا لا صح والا ختیار لانہ عمل بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والخلفاء بعدہ۔ اور لوگوں کی یہ راء ہے کہ آیت منا بعدو اما فداء آیت محکم ہے اور جو مرد عاقل و بالغ کافروں کی طرف سے قید میں پڑیں اور ان کی نسبت امام کو اختیار ہے کہ چاہے قتل کرے یا چاہے ان پر احسان کر کے بغیر کچھ لیے چھوڑ دے۔ چاے فدیہ میں مال لے کر یا مسلمان قیدیوںکے بدلے میں چھوڑ دے (شکر خدا کا کہ اس روایت میں لونڈی و غلام بنانا نہیں لکھا) اور اسی بات کو پسند کیا عمر نے اور یہی بات پسند کی ہے حسن نے اور عطاء نے اور بہت سے صحابیوں نے اورعالموں نے اور یہی قول ہے نوری کا اور شافعی کا اور احمد اور اسحاق کا۔ ابن عباس کا قول ہے کہ جب مسلمان بہت ہو گئے اوران کا خوب غلبہ ہو گیا تو اللہ عز و جل نے قیدیوں کے معاملے میں آیت اتاری کہ قید کرنے کے بعد یا تو ان پر احسان رکھ کر یا کچھ چھڑائی لے کر چھوڑ دو۔ سب سے زیادہ فصیح یہی بات ہے اوراختیار کرنے کے لائق ہے اس لیے رسول خدا صلعم نے ان کے بعد صحابہ نے اسی پر عمل کیا ہے۔ چونکہ اس آیت میں استرقاق کا کچھ ذکر نہیں ہے اس لیے ہم اس پر زیادہ بحث نہیں کرتے۔ جن بزرگوں نے قیدیوں کی نسبت چاروں امر یعنی قتل اوراسترقاق اور من اور فداء جائز قرار دیے ہیں انہوں نیے یہ دیکھ لیا کہ تمام غزوات میں کیا کیا واقع ہوا ہے اورا س سب کو انہوں نے جائز قرار دیا‘ مگر غور صرف اس پر کرنا تھا کہ جب قیدیوں کی نسبت خاص حکم آچکا اس کے بعد کیا ہوا اور یہ بات بخوبی ثابت ہو گئی کہ اس کے بعد بجز من و فداء کے اور کچھ نہیںہوا۔ بہرحال منشاء ان اختلافات کا کچھ ہی ہو جبکہ مابعد کے عالموں نے ائمہ میں یہ اختلاف دیکھا تو اپنے اپنے مذہب کی طرف داری سے آیہ کریمہ اما منا بعد واما فداء میں جو صریح حصر ہے اس پر کج بحثی شروع کی اورکہا کہ اس سے حصر ہی مراد نہیں ہے ۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ : اما وانما للحصر وحالھم بعد الاسرغیر منحصر فی الامر ین بل یجوز القتل والا سترقاق والمن والفدائ۔ نقول ھذا ارشاد بذکر العام الجائز فی سائر الاجناس والا سترقاق غیر جائز فی اسراء العرب لان النبی صلعم کان معھم فلم یذکر الاسترقاق واما القتل فلان الظاہر فی المثخن الازمان ولان القتل ذکرہ بقولہ فضرب الرقاب فلم یبق الا الامران۔ اما اور انما تو حصر کے لیے آتے ہیں اور کافروں کی نسبت ان کے قید ہونے کے بعد کو صرف یہی دو باتیں ‘ یعنی من و فداء نہیں ہوتیں۔ بلکہ ان کا قتل اوران کو لونڈی یا غلام بنا لینا بھی من و فدا بھی جائز ہے (یعنی ان کے عالموں اور مجتہدوں کی رائے میں) تو ہم یوں کہیں گے کہ اس آیت میں وہی باتیں بیان ہوئی ہیں جو تمام لوگوں سے متعلق تھیں اورعرب کی قوم کو لونڈی و غلام بنانا جائز نہ تھا (واضح ہو کہ یہ بیان محض غلط ہے) اس لیے کہ پیغمبر خدا صلعم ان کے ساتھ تھے‘ اس لیے اس آیت میں لونڈی و غلام بنانے کا ذکر نہیں کیا اور قتل کرنے اک اس لیے ذکر نہیں کیا کہ خود اس آیت میں گردن مارنے کا ذکر آ چکا ہے۔ پس اب بجز دو باتوں یعنی من اور فداء کے اور کچھ ذکر کرنے کے لائق باقی نہیں رہا۔ جو لغویت کہ اس تقریر کی ہے وہ خود اس سے ظاہر ہے اول تو یہ کہنا غلط ہے کہ قوم عرب کا استرقاق ناجائز تھا اور بالفرض اگر کوئی قوم حکم استرقاق سے مستثنیٰ تھی تو اس کو مستثنیٰ کرنا تھا نہ یہ کہ اس حکم کے بیان ہی کو متروک کیا جاتا اور ازمان کے سبب سے حکم قتل کا بیان نہ کرنا یا جو حکم قتل عین لڑائی میں ۃے اس کو بعد لڑٓئی کے قیدیوں کی نسبت منسوب کرنا ایسی لغو باتیں ہیں کہ کوئی ان پر التفات نہیں کر سکتا۔ پس اس آیت سے بہ نص صریح ثابت ہے کہ قیدیوں کی نسبت جو حکم ہے وو دو ہی باتوں یعنی من و فداء میں منحصر ہے۔ اور اس لیے نہ وہ بعد قید ہونے کے قتل ہو سکتے ہیں نہ لونڈی و غلام بن سکتے ہیں۔ ٭٭٭ بحث سوم نسبت معنی من و فداء من کے معنی قیدیوں کو ان پر احسان رکھ کر اور فداء کے معنی کچھ لے کر چھوڑ دینے کے ہیں اوریہ ایسے معنی ہیں کہ کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ تفسیر احمدی میں لکھا ہے : المن ان یترک الاسیر الکافر من غیران یوخذ منہ شیئی والفداء ان یترک ویاخذ منہ مالا او اسیر امسلما۔ من کے معنی قیدی کافر کو بغیر کچھ لیے چھوڑنے کے ہیں اور فدا کے معنی کچھ مال لے کر یا مسلمان قیدی کے بدلے کافر قیدی کو چھوڑ دینے کے ہیں۔ مگر بعض صاحبوں نے اس میں بھی بحث کی ہے چنانچہ تفسری احمدی میں لکھا ہے : ونقل عنہ (ای عن مجاہد) انہ یجوز ان یکون المراد بالمن المن بترک القتل و اختیار الاسترقاق او بالتخلیۃ وقبول الجزیۃ وبالفداء الفداء باساری المسلمین لا بالمال ویکون عاما باقیا وھذا راویۃ الطحاوی عن ابی حنیفۃ وھو قولھما تفسیر احمدی میں لکھا ہے کہ مجاہد سے یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ احسان کرنے سے یہ مراد ہو کہ ان کو غلام بنا کر جان سے نہ مارنے کا ان پر احسان رکھا جائے یا ان سے جزیہ لینا قبول کر کے ان کی جان چھوڑ دینے کا احسا ن رکھا جائے اور بدلے میں چھوڑنے سے یہ مراد ہے کہ مسلمان قیدیوں کے بدلے میں چھوڑا جائے نہ مال کے بدلے میں اور اس صورت میں یہ آیت بدستور عام اوربحال رہے گی یہ روایت طحاوی نے امام ابو حنیفہ سے نقل کی ہے اور صاحبین کا بھی یہی قول ہے۔ تفسیر کشاف اوتفسیر مدارک میں لکھا ہے : ویجوز ان براد بالمن علیھم بتک القتل واترقوا اویمن علیھم فیخلوا لقبولھم الجزیۃ وکونھم من اہل الذمہ و بالفدا‘ ان بفادی با ساریٰ ہم اساری المشرکین فقد رواہ الطحاوی مذھباعند ای حنفۃ والمشھور انہ لا یری فداھم ال بالمال ولا بغیرہ خیفۃ ان یعودوا بالمسلمین ’’ہو سکتا ہے کہ احسان رکھنے سے یہ مطلب ہو کہ ان کو غلام بنایا جاوے یہ احسان رھ کر کہ ان کو نہیں مار ڈالا‘ یا جزیہ قبول کرنے اور ذمیوں کی طرح رہنے پر احسان رکھ کر ان کی جان چھوڑ دی‘ اور فدیہ لینے سے یہ مطلب ہو کہ مشرکین نے جو قید کیے ہوں وہ ان قیدیوں کے بدلے میں چھٹا لے۔ طحاوی کہتا ہے کہ امام ابو حنفیہ کا بھی ایک ایک مذہب تھا‘ مگر مشہور مذہب ان کا یہ ہے کہ وہ نہ مال لے کر اور نہ اورکسی طرح پر قیدیوں کا چھوڑنا جائز سمجھتے تھے اورڈرتے تھے کہ وہ پھر مسلمانوں سے لڑنے کو نہ چڑ ھ آئیں‘‘ یہ تمام تاویلیں‘ بلکہ تعریفیں صحیح معنوںکی غلط اورخیالی معنوں کی طرف صرف بات کی پچ اورمذہب کی طرفداری اور تقلید کی گمراہی کے سبب سے کی گئی ہیں ورنہ جو معنی ‘ آیت کے ہیں اورجو معنی لفظ من وفداء کے ہیں وہ اظہر من الشمس کے ہیں اور ان رکیک اورپرپیچ تاویلوں کو ہر کوئی لغو اورمہمل جانتا ہے اور چونکہ خود ان تفسیروں میں ان تاویلوں کو نہایت ضعیف و نا معتبر کر کے لکھا ہے اس لیے زیادہ بحث اس میں ضرور نہیں۔ بحث چہارم متعلق خاص ہونے ا س آیت کے اکثر علما ء حنفیہ کا قول ہے کہ یہ آیت قیدیان بدر سے مخصوص ہے۔ اس قول کی غلطی فاحش بحث اول سے بخوبی ثابت ہوتی ہے ‘ اس لیے کہ اس بحث میں ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ بدر کی لڑائی تک یہ آیت نازل ہی نہیں ہوئی تھی۔ بحث پنجم نسبت منسوخ ہونے اس آیت کے کوئی امام اس آیت کے منسوخ ہونے کا قائل نہیں ہے‘ مگر علماء حنفیہ کہتے ہیں کہ حضرت امام ابو حنیفہ کا یہ مذہب ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے (معلوم نہیں کہ صحیح ہے یا ان پر اتہام ہے) اور اس لیے ٹھیک ٹھیک برخلاف اس آیت کے حضرت امام ابو حنفیہ کا مذہب یہ قرار دیا جا تا ہے کہ قیدیوں پر نہ من ہو سکتا ہے اورنہ ان سے فدیہ لیا جا سکتاہے اور بجز اس کے کہ وہ مار ڈالے جائیں یا لونڈی و غلام بنا لئے جائیں او ر کچھ چارہ نہیں ہے ۔ چنانچہ تفسیر مدارک میں اورتفسیر احمدی میں لکھا ہے : وعندنا (ای اند الحنفیۃ) حکمہم ( ای حکم الاساریٰ) والا سترقاق فقط والمن و الفداء المذکور ان فی ہذہ الایۃ منسوختان بایۃ القتل والاسترقاق المذکور بن فی براۃ لانھا من آخر مانزل او مخصوصتان بکفار بدر ویویدہ ما روی عن مجاہد لیس الیوم من ولا فداء وھو المذہب الصحیح عن ابی حنیفہؒ ’’ہم حنفیوں کے نزدیک قیدیوں کے لیے صرف قتل کرنے یا لونڈی و غلام بنانے کا حکم ہے اور احسان رکھ کر یا کچھ لے کر چھوڑ دینا جن کا اس آیت میں ذکر ہے یہ دونوں حکم منسوخ ہو گئے ہیں اس آیت سے جس میں قتل اور لونڈی اور غلام بنانے کا حکم ہے اور جن کا ذکر سورۃ براۃ میں آیا ہے اس لیے کہ وہ ان میں سے ہے جو اخیر کو نازل ہوئی ہیںیا یہ آیت کفار بدر کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کی تائید اس روایت سے بھی پیدا ہوتی ہے جو مجاہد سے بیان ہوئی ہے کہ اب من فداء نہیں ہے اور یہی صحیح مذہب امام ابوحنیفہؒ کا ہے‘‘۔ اس مقام پر اتنی بات یاد رکھنی چاہے کہ اس بیان میں علانیہ دو غلطیاں ہیں اول یہ کہ سورۃ براۃ کی اس آیت میں جو عنقریب بیان ہو گی استرقاق کا مطلق ذکر نہیں ہے پس اس آیت کا استرقاق کا مطلق ذکر نہیں ہے‘ پس اس آیت استرقاق کا نام رکھنا محض غلط ہے‘ دوسرے یہ کہ آیت قتل کو یا سورۃ براۃ کو جو آخر مانزل کہا ہے یہ بھی غلط ہے علماء کا قول ہے کہ سورۃ براۃ یک لخت پوری اتری ہے اس کے بعد کوئی پوری سورۃ یک لخت پوری اتری ہے اس کے بعد کوئی پوری نہیں اتری۔ پس جتنی سورتیں پوری پوری اتری ہیں ان میں اخیر سورۃ البتہ وہی ہے الاآخر مانزل نہیں ہے فتدبر۔ غرضیکہ جس طرح ان دو تفسیروں میں علما حنفیہ کا مذہب نقل کیا ہے اسی طرح تفسیر کشاف میں بھی لکھا ہے : فان قلت کیف حکم الاساریٰ المشرکین قلت اما عند ابی حنیفہ و اصحابہ فاحد الامرین اما قتلہم واما استرقاقھم ایھما ریٰ الامام و یقولون فی المن والفداء انما ہو الاسلام اوضرب العنق ’’اگر کوئی پوچھے کہ مشرکین کے قیدیوں کا کیا حکم ہے تو ہم کہیں گے کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے پیروئوں کے نزدیک تو دو کاموں میں سے ایک کرنا ہے یا ان کو قتل کرنا ہے یا ان کو لونڈی و غلام بنا لیناہے دونں میں سے جونسی بات امام مناسب سمجھے‘ اور من و فداء کے باب میں حنفی کہتے ہیں کہ بس یا اسلام قبول کرنا ہے یا گردن مارنی ہے‘‘۔ تفسیر بیضاوی میں بھی حنفیوں کا یہی مذہب لکھا ہے کہ : منسوخ (ای ھذہ الایۃ) عند ابی حنیفۃ او مخصوص یحرب بدر فانھم قالو ابتعین القتل او الاسرقاق ’’امام ابو حنیفہ کے نزدیک آیت من و فداء منسوخ ہے یا جنگ بدرکے قیدیوں سے مخصوص ہے ‘ کیونکہ حنفی صرف قیدیوں کے قتل کرنے یا لونڈی و غلام بنا لینے کے قائل ہیں‘‘۔ غرضیکہ ان روایتوں سے حنفیوں کا مذہب یہ معلوم ہوا کہ وہ آیت من و فداء کو منسوخ بتاتے ہیں۔ پس اس امر پر بحث کرنے کے لیے اولاً ان آیتات کو جنکو ناسخ قرار دیا ہے یا جن کا ناسخ قرار دینا ممکن ہے اس مقام پر نقل کرتے ہیں کہ اورپھر جد ا جدا ہر ہر آیت سے بحث کرتے ہیں کہ ان سے آیت من و فداء کا منسوخ ہونا ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔ اول آیت سورۃ انفال: خدا تعالیٰ پیغمبر صاحب سے فرماتا ہے: الذین عاھت منھم ثم ینقضون عھدھم فی کل مرۃ ھم لا یتقون فا ما تثقفنھم فی الحرب فشردبھم خلفھم لعلھم یذکرون ’’جن سے تو نے عہد کیا ہے پھر وہ ہر دفعہ اپنا عہد توڑتے ہیں اور عہد توڑنے سے پرھیز نہیں کرتے پھر اگر تو ان کو لڑائی میں پاوے تو ان لوگوں تک کو جوان کے پیچھے ہیں تتر بتر کر دے شاید کہ وہ عبرت پکڑیں‘‘۔ دوم آیت سورۃ براۃ: جن مشرکین عرب نے عہد شکنی کی تھی ان کی نسبت خدا تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا: فاذا انسلخ الاشھر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث و جد تموھم و خذوھم و احصروھم واقعدو ا لھم کل مرصد فان تبوا واقاموا الصلوۃ ااتوا الذکوۃ فخلوا سبیلھم ۔ ان اللہ غفور رحیم ’’جب وہ مہینے جن میں لڑائی منع ہے گزر جاویں تو مشکرکوں کو مارو جہاں پائو اور ان کو پکڑو اور گھیرو اوربیٹھو ان کی گھات کی جگہ میں۔ پھر اگر وہ کفر سے توبہ کریں اور نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں تو ان کا رستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ ہے بخشنے والا مہربان‘‘۔ سویم آیت سورۃ بقرہ: اللہ صاحب نے فرمایا: وقاتلوھم فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا ان اللہ لا یحب الممعتدین واقتلوھم حیث ثقفتوھمم وا اخرجو ہم من حیث اخرجوکم والفتنۃ اشد من القتل ولا تقاتلو ھم عند المسجد الحرام حتی یقاتلو کم فیہ فان قاتلوکم فاقتلوھم کذالک جزاء الکافرین ’’جو لو گ تم سے لڑتے ہیں تم بھی ان سے خدا کی راہ میں لڑو اور زیادتی مت کرو بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور قتل کرو ان کو جس جگہ پائو اور نکالو ان کو جہاں سے انہوںنے تم کو نکالا اور فساد کرنا قتل کرنے سے بھی زیادہ سخت ہے اور ان سے کعبے کے پاس مت لڑو جب تک کہ وہ تم سے وہاں نہ لڑیں۔ پھر اگر وہ تم سے لڑیں تو ان کو مارو۔ یہی سزا ہے کافروں کی‘‘۔ چہارم آیت سورۃ نسائ: اللہ صاحب فرماتا ہے کہ : ودولوتکفرون کما کفروا فتکونون سواء فلا تتخذوا منھم اولیاء حتیٰ بھا جرو ا فی سبیل اللہ فان تولو افخذوھم واقتلوھم حیث وجد تموھم ولا تتخذوامنھم ولا ولا نصیرا ’’کافر یہ چاہتے ہیں کہ اگر تم بھی ویسے ہی کافر ہو جائو جیسے وہ کافر ہیں تو سب برابر ہو جائیں سو تم ان میںان میں سے کسی کو اپنا دوست مت سمجھو جب تک کہ وہ خدا کی راہ میں ہجرت کر کے نہ چلے آویں۔ پھر اگر وہ نہ مانیں توان کو پکڑو اور ان کو قتل کرو جہاں پائو اور مت سمجھو ان میں سے کسی کو دوست اور مددگار‘‘۔ پنجم آیت سورۃ نسائ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ستجدون آخرین یریدون ان یامنوکم ویامنوا قومھم ردوا الی الفتنۃ ارکسوا فیھا فان لم یعتزلوکم ویلقوا الیکم السلم ویکفوا ایدیھم فخذوھم واقتلوھم حیثث ثقفتموھم و اولئکم جعلنا لکم علیھم سلطانا مبینا ’’اب بھی تم پائو گے اور لوگوں کو جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں جب اکسائے جاتے ہیں فسار کرنے کو تواس میں پلٹ پڑتے ہیں ۔ پھر اگر وہ تمہارے ساتھ فساد کرنے سے کنارہ کش نہ ہوں تو ان کو پکڑو اور ان کو قتل کرو جہاںپائو اورہم نے تم کو ان پر بتا دی دلیل روشن‘‘۔ یہ وہ آیتیں ہیںجن سے کہا جتاہے کہ آیت من و فداء منسوخ ہو گئی ہے ۔ ان آیتوں میں مشرکین کے قتل کرنے کا حکم ہے ۔ پس اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ آیتیں آیت من و فداء کی ناسخ ہیں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ قیدیوں کاچھوڑنا جائز نہیں‘ بلکہ قتل کرنا چاہییی‘ مگر ان کو لونڈی یا غلام بنانا جائز نہین مگر ہم صرف اسی پر اکتفا نہ کریں گے ‘ بلکہ ثابت کریں گے کہ ان آیتوں سے آیت من و فداء کا منسوخ قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ آیت سورۃ انفال کی بہبود بنو قریظہ کے حق میں نازل ہوئی تھی جن سے ۵ ھ میں لڑائی ہوئی تھی۔ تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے: وھم یھود بنی قریظہ عا ھدھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لا یمالئوا علیہ فاعانو المشرکین بالسلاح و قالوا نسیناثم عاھدھم فنکثوا اوما لئوھم علیہ یوم الخندق ’’جن کے لیے آیت سورۃ انفال نازل ہوئی وہ یہود بنو قریظہ ہیں ۔ ان سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد کیا تھا کہ ان کے برخلاف ان کے دشمنوں سے مل نہ جاویں اور پھر انھوں نے مشرکین کو ہتھیار دیے اور مشرکین کی مدد کی اور کہنے لگے کہ ہم بھول گئے۔ اس پر دوبارہ ان سے عہد کیا۔ پرھ انہوں نے اس عہد کو توڑ ڈالا اور جنگ خندق میں مشرکین سے مل گئے‘‘۔ اور تفسیر کبیر میں لکھا ہے: قال ابن عباس ہم قریظۃ فانھم نقضوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویمالئوا علیہ المشرکین بالسلاح فی یوم بدر ثم قالوا احظانا فعاھدھم مرۃ اخریٰ نفقضوا ایضاً یوم الخندق ’’ابن عباس نے کہا کہ وہ لوگ بنو قریظہ ہیں۔ انہھوں نے جو عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اس کو توڑ دیا اورلڑائی بدر کی میں آپ کے برخلاف مشرکین کو ہتھیار دیے اور مدد کی پھر کہنے لگے کہ ہم سے خطا ہوئی۔ پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دوسری دفعہ عہد لیا اور خندق کی لڑائی میں اس کو بھی انہوں نے توڑ دیا‘‘۔ پس جبکہ یہ آیت قبل نازل ہونے آیت من و فداء کے نازل ہو چکیت ھی تو ا سکی ناسخ کیونکر ہو سکتی ہے؟ علاوہ اس کے کوئی لفظ بھی اس آیت کا من و فداء کو منسوخ کرنے والا نہیں …لفظ فشرد بھم من خلفھم…کسی طرح اساریٰ کے قتل پر اور آیت من و فدا ء کے منسوخ ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے : التشرید عبارۃ عن التفریق مع الاضطراب یقال شرد یشرد شرو دا و شردۃ و تشریدا ’’لفظ شرد کا مصدر تشرید ہے ۔ اس کے معنی بدحواس کر کے پراگندہ کر دینے کے ہیں اور عربی زبان کے محاورے میں اسی طرح اس کا استعمال ہوتا ہے‘‘۔ تفسیر بیضاوی میں ہے کہ: التشرید تفریق علی اضطراب و قری شرذ بالذال المعجمۃ کانہ مقلوب شذر ’’تشرید کے معنی بدحواس کر کے تتر بتر کردینے کے ہیں اور بعضوں نے لفظ شرد کو جو بے نقطہ والی دال سے ہے شرذ نقطہ والی دال سے پڑھا ہے گویا کہ شرذ لفظ شذر کا الٹا ہوا ہے‘‘۔ تفسیر کشاف میں لکھا ہے : وقراء ابن مسعود فشرذ بالذال المعجمۃ بمعنی ففرق وکانہ مقلوب شذر من قولھم وھبوا شذر مذروا منہ الشذر الملنقظ من المعدون لتفرقہ۔ ’’ابن مسعود فشرذ نقطہ والی دال سے پڑھتے تھے جس کے معنی یہ ہیں کہ پراگندہ کر دے گویا کہ لفظ شذر کا الٹا ہوا ہے جیسے کہ عرب کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ لوگ متفرق متفرق ہو کر گئے اورکان سے نکالی ہوئی چیز کو بھی شذر کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی کان سے علیحدہ ہو جاتی ہے‘‘۔ تفسیر مدارک میں لکھا ہے: فشردبھم قال الزجاج افعل بھم ما تفرق جمعھم وتفردبہ من بدابھم زجاج کا قول ہے کہ فشردبھم کے یہ معنی ہیں کہ ان کے ساتھ وہ کام کرجس سے ان کا گروہ متفرق ہو جائے اور جنھوں نے وہ کام کیا ہے وہ تنہا رہ جائیں‘‘ اس لفظ کی اصلیت تحقیق کرنے کے بعد تفسیر کبیر میں لکھا ہے : فمعنی الایۃ انک ان ظفرت فی الحرب بھولاء الکفار الذین ینقضون العھد فافعل بھم فعلا بفرق بھم خلفھم قال عطاء تشخن فیھم القتل حتی یخافک غیرھم وقیل نکل بھم تنکیلا یشرد غیرھم من ناقضی العھد لعلھم یذکرون ذالک النکال فیمنعھم ذالک عن نقض العھد ’’آیت کے معنی یہ ہیں کہ اگر لڑائی میں ان کافروں پر جنھوںنے عہد شکنی کی ہے تو فتح پائے اور ان کے ساتھ اس طرح پیش آکہ جو لوگ ان کے پیچھے لگے ہیں وہ سب ڈر کر متفرق ہو جائیں۔ عطاء کا یہ قول ہے کہ اس سے مراد تھی کہ ان میں قتل عام کر دو اور بعضوں نے کہا مرا د یہ تھی کہ ان کو اس قسم کی سزا یا ذلت دو کہ ان کے بعد جن کو عہد توڑنے کا خیال ہو سب متفرق ہو جائیں‘ اور اس بات کا کہ شاید اس کو یاد رکھیں‘ یہ مطلب ہے کہ شاید وہ لوگ جو ان کے سوا ہیں اس سزا یا ذلت کو یاد رکھیں اور یہ بات ان کو عہد توڑنے سے روکے‘‘۔ تفسیر کشاف میں بھی اس آیت کا مطلب یہی لکھا ہے :؛ فشردبھم من خلفھم ففرق عن محاربتک ومنا صبتک بقتلھم شرقتلۃ والنکابۃ فیھم من وراء ھم من الکفرۃ حتیٰ لا یجسر علیک احد بعدھم اعتبار ا بھم واتعاظا بحالھم ’’فشردبھم من خلفھم کے یہ معنی ہیں کہ لڑنے سے اور بری طرح قتل کرنے سے اور ان میں ذلت و خواری ڈالنے سے باقی کافروں کو جو کے سوا ہیں پراگندہ کرے تاکہ ا سکے بعد پھر کوئی ان کا حال دیکھ کر تجھ پر جرات نہ کر سکے اوران کے حال سے نصیحت پکڑے‘‘۔ تفسیر معالم التنزیل میں بھی یہی مطلب لکھا ہے : فشردبھم من خلفھم قال ابن عباس فنکل بھم من ورائھم وقاالسعید بن جبیر وا نذرھم من خلفھم واسل التشدید ا التفریق والتھدید معناہ فرق بنھم جمع کل ناقض للعھد ای افعل بھولاء الذین نقضوا عہدک وجاوا بحربک فعلا من القتل والتنکیل یفرق منک و یخافک من خلفھم من اہل مکۃ والیمن۔ ’’فشردبھم من خلفھم کا مطلب ابن عباس نے یہ کہا ہے ہ عہد توڑنے والوں کے بعد جو لو گ ہیں ان کو بھی ذلیل کرے اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ جن لوگوں نے ابھی عہد نہیں توڑا ان کو ڈرا دے ۔ تشدید کے معنی اصل میں متفرق کردینے اور تنبیہہ کرنے کے ہیں ۔ پس معنی یہ ہوئے کہ تمام لوگوں کو جو عہد توڑنے کا خیال رکھتے ہیں متفرق اورپریشان کر دے اور جن لوگوں نے عہد توڑا ہے اور لڑنے کو آے ہیں ان کے ساتھ قتل کرنے یا ذلیل و خوار کرنے سے اس طرح پر پیش آ کہ جو لوگ عہد توڑنے میں ان کے پیچھے ہیں‘ یعنی اہل مکہ و اہل یمن وہ بھی پریشان ہو جائیں اور ڈر جائیں‘‘۔ پس ان تمام تفسیروں سے ظاہر ہے کہ اس آیت میں کوئی صاف حکم قیدیوں کے قتل کرنے کا نہیںہے‘ بلکہ جو کافر عہد شکنی کرکے لڑنے کو آمادہ ہوئے ان کے ساتھ ا س طرح پر پیش آنا فرمایا ہے جس سے اوروں کو عبرت ہو جائے۔ پس جبکہ اس آیت میں قتل کی تشریح نہیں ہے اور نہ قیدیوں کا ذکر ہے تو اس سے نص صریح آیت من و فداء کی ‘ جو بالتخصیص قیدیوں کے لیے ہے‘ کیونکر منسوخ ہو سکتی ہے؟ یہود بنو قریظہ نے خود اپنے تئیں اس شرط پر سپرد کیا تھا کہ جو سزا عہد شکنی کرنے اورلڑنے کی ان کی نسبت سعد بن معاذ تجویز کرے وہ ان کو دی جائے اوررسول خدا صلعم نے اس بات کو قبول کر لیا تھا اور اس سے توثابت ہوتاہے کہ خود رسول خدا صلعم نے اس آیت سے یہ خیال نہیں فرمایا ہے کہ خواہ مخواہ ان کے قتل ہی کا حکم ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ قتل ہوئے ‘ مگر نہ کسی حکم منصوص اس آیت سے ‘ بلکہ سعد بن معاذ کی پنچائت سے۔ چنانچہ حدیث بخاری میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ: قال لمنزلت بنو قریظہ علیٰ حکم سعید بن معاذ بعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و کان قریبا منہ فجاء علی حمار فلماد نا قال رسول اللہ صلعم قوموا الیٰ سید کم فجاء فجلس الیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال لہ انہ ہولاہ نزلوا علی حکمک قال فانی احکم ان تقتل المقاتلۃ وان تسبی الذریۃ قال لقد حکمت قال لقد حکمت فیھم بھکم الملک ’’جب یہود بنو قریظہ نے سعد بن معاذ کی پنچایت پر اپنے تئیں سپرد کر دیا تو رسول خدا صلعم نے سعد بن معاذ جو وہاں سیپاس ایک جگہ میں تھے بلایا۔ وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے۔ جبکہ وہ قریب پہنچے تو آنحضرت نے لوگوں سے کہا کہ تم اپنے سردار کے لیے کھڑے ہو جائو۔ پرھ سعد بن معاذ آئے اورپیغمبر خدا صلعم کے پااس بیٹھے ۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ ان لوگوں نے تمہاری پنچایت پر اپنے تئیں سپرد کر دیاہے۔ سعد بن معاذ نے کہا کہ میں یہ حکم دیتا ہوں کہ جو لوگ ان میں لڑنے والے ہیں وہ قتل کر دیے جائیں اوران کے بچے قیدی بنا لیے جائیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے ان لوگوں کے حق میں بادشاہ کا سا حکم دیا ہے ‘‘۔ اس تمام واقعے سے جو اس حدیث میں مذکور ہے بخوبی ظاہر ہے کہ بنو قریظہ کا کوئی حکم منصوص نہ تھا‘ مگر بعض مکابر یہ بحث کریں گے کہ اس حدیث کے اخیر میں جو لفظ بحکم الملک ہے اس مٰں یہ بھی روایت ہے کہ وہ لفظ بحکم الملک ے لام کے زبر سے بمعنی فرشتہ کے۔ اورایک روایت میں صاف ہے بحکم اللہ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے قتل اوران کے بچوں کو قیدی یا لونڈی و غلام بنا لینے کا خدا کا حکم تھا‘ مگر یہ بحث بے جا ہے اس لیے کہ ہر گاہ خود وہ آیت موجود ہے اور اس میں قتل کا کوئی حکم موجود نہیں تو اختلاف روایت پر استدلال نہیں ہو سکتا۔ معہذا لام کا زبر پڑھان صرف شبہ تجنیس خطی ہے اور روایت میں لفط اللہ کا ہے اوروہ صرف راوی کی سمجھ ہے کہ لفظ ملک بکسر لام سے وہ خدا سمجھا اورمطابق اپنی سمجھ کے بجائے لفظ ملک بکسر لام کے لفظ اللہ کہہ دیا۔ علاوہ اس کے سیر ت ہشامی میں لکھا ہے کہ منجملہ اساریٰ بنو قریظہ کے زبیر ابن باتا بھی تھا۔ اس نے ایام جاہلیت میں ثابت بن قیس ابن شمات پر ایک احسان کیا تھا۔ ثابت نے بعوض اس احسان کے اس کی جان بچانی چاہی اوررسول خدا صلعم سے شفاعت کی اورآنحضرت صلعم نے اس کا قتل معا ف کیا۔ گو کہ اس کا خون معاف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے قتل کا حکم نہ تھا‘ بلکہ صرف سعد بن معاذ کی تجویز تھی بہرحال یہود بنو قریظہ کسی طرح پر قتل ہوئے ہوں ہم کو صرف یہ بحث ہے کہ اس آیت سے آیت من و فداء کا منسوخ ہونا لازم آتا ہے یا نہیںَ سو یہ بات علانیہ ہو گئی کہ کسی طرح اس کا منسوخ ہونا لازم نہیں آتا۔ آیت سورۃ توبہ قبل فتح مکہ کے نازل ہوئی تھی تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے : قال محمد بن اسحاق و مجاہد و غیر ھما نزلت فی اہل مکۃ وذالک ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم عاھد قریشا عام الحدیبیۃ علیٰ ان یضعوا الحرب عشرسنین یامن فیھا الناس و دخلت خزاعۃ فی عہد رسول اللہ صلعم ودخل بنو بکر فی عہد قریش ثم عدت بنوبکر علیٰ خزاعۃ فقاتلت منھا و اعا نھم قریش بالسلاحفلما ظاہر بنو بکر و قریش علیٰ خزاعۃ و نقضوا عہدھم خرج عمر بن سالم الخزاعی حتیٰ وقف علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ان قریشا اخلفوک المواعد اونقضوا میثاقک الموکدا ہم بیوتنا بالھجیر ہجدا وقتلونار لکاوسجد ا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا نصرت ان لم انصرکم وتجھز الیٰ مکۃ سنۃ ثمان من الھجرۃ ففتح مکۃ ’’محمد بن اسحاق اور مجاہد ودونوںنے کہا ہے کہ یہ آیت مکے والوں کے حق میں نازل ہوئی ہے اوریہ بات اس طرح پر ہے کہ رسول خدا صلعم نے حدیبیہ کی لڑائی میں قریش سے معاہدہ کیا تھا کہ دس برس تک لڑائی تھم جائے کہ اس میں لوگ پرامن سے رہیں اور بنو خزاعہ رسول خدا صلعم کے معاہدے میں شامل تھے اوربنو بکر قریش کے معاہدے میں شامل تھے۔ پھر بنوبکر نے بنو خزاعہ پر زیادتی کی اوران کو قتل کیا اور قریش نے ہتھیار دے کر ان کی مدد کی۔ پس جبکہ بنو بکر اور قریش بنو خزاعہ پر غالب ہو گئے اورانہوں نے عہد کو توڑ ڈالا تو عمر بن سالم خزاعی وہاں سے چلا اور رسول اللہ صلعم کے پاس آیا اور سامنے کھڑے ہو کر اشعار پڑھے اوراپنا حال بیان کیا۔ انہی شعروں میں س دو شعر ہیں جن کا مضمون ہے کہ قریش نے بد عہد ی کی اور مستحکم عہد کو توڑ دیا اور ہجیر میں ہمارے گھروں کو لوٹ لیا اور ہم کو رکوع کرتے میں اور سجدہ کرتے میں‘ یعنی نماز پڑھتے میں مار ڈالا۔ رسول خدا صلعم نے یہ حال سن کر فرمایا کہ اگر ہمتمہاری مدد نہ کریں تو ہم نے کچھ مدد ہی نہیں کی۔ چنانچہ ۸ ھ میں مکے والو ں سے لڑائی کا سامان پیدا کیا اور مکے کو فتح کر لیا‘‘۔ اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آیت قبل فتح مکہ نازل ہوئی تھی اورہم نے اوپر ثابت کیا ہے کہ آیت من و فداء بعد فتح مکہ نازل ہوئی ہے‘ پس یہ آیت اس کی ناسخ نہیں ہو سکتی۔ بعض مکابر یہ بات کہیں گے کہ سورۃ براۃ کے بعد کوئی سورۃ نازل نہیں ہوئی اور اس لیے سورہ محمد صلعم کا جس میں آیت من و فداء ہے سورۃ براۃ کے بعد نازل ہونا صحیح نہیں ہے‘ مگر یہ کہنا بالکل غلط ہے۔ ایک حدیث میں ذکر آیاہے کہ سورۃ براۃ ان سورتوں کی اخیر سورۃ ہے جو پوری ایک دفعہ اتری ہیں مگر اس کو بھی علماء نے تسلیم نہیں کیا اواس حدیث میں شبہ پیدا کیا ہے ۔ چنانچہ ہم اپنے اس قوم کی تصدیق کے لیے اس حدیث کو مع عالموں کی تشکیک کے اس مقام پر نقل کرتے ہیں: فی البخاری عن البراء قال آخر سورۃ نزلت کاملۃ سورۃ براۃ وآخر سورۃ نزلت خامتہ سورۃ النساء ویستفتونک فی النساء قل اللہ یفتکیم فی الکلالۃ فی القسطلانی استتشکل ہذا من حیث انہ نزلت شئیا فشئیا فالمردا بعضھا او معظمھا حال والا ففیھا آیات کثیرۃ نزلت قبل سنۃ وفاۃ النبویۃ ’’بخاری میں لکھا ہے کہ براء نے کہا ہے کہ اخیر پوری سورۃ جو نازل ہوئی ہے وہ سورۃ براۃ ہے اورجس سورۃ کا خاتمہ اخیر کو نازل ہوا ہے وہ سورۃ نساء ہے۔ قسطلانی نے کہا کہ یہ تو بڑی مشکل کی بات ہے ‘ اس لیے کہ سورۃ براۃ تھوڑی تھوڑی ہو کر اتری ہے تو اس حدیث کا مطلب سورۃ براۃ کی بعض آیتوں یا بڑی بڑی آیتوں کے اترنے کا ہو گا کیونکہ سورہ براۃ میں بہت آیتیں ہیں جو سال وفات نبوی میں نازل ہوئی ہیں‘‘۔ اب ہم اس بحث سے بھی قطع نظر کرتے ہیں اور اس بات پر غور کرتے ہیں کہ آیت سورۃ براۃ سے آیت من و فداء منسوخ ہو بھی سکتی ہے ی انہیں اور کہتے ہیں کہ منسوخ نہیں ہو سکتی۔ آیت سورۃ براۃ میں دو جملے ہیں جن سے آیت من و فداء کے منسوخ ہونے پر استدلال ہو سکتا ہے اول فاقتلوا لمشرکین اور دوسری حیث وجدتموھم مگر ان سے استدلال محض غلط ہے۔ اول جملہ فاقتلو المشرکین میں جو المشرکین کا لفظ ہے اس کا الف لام استغراق کا تو ہو نہیں سکتا۔ کیونکہ اگر استغراق کا ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ تمام مشرکوں کو مار ڈالو۔ اول تو یہ ایسا حکم ہو گا جو طاقت انسانی بلکہ عادت الٰہی سے بھی خارج ہے۔ دوسرے تمام احکام جزیہ لینے کے اور صلح کرنے کے بالکل باطل ہو جائیں گے۔ پس ضرور ہے کہ الف لام عبدی ہے۔ پس اس ٓیت سے نص صریح آیت من و فداء کے منسوخ قرار دینے کو ضرور ہے کہ کسی نص صریح قرآنی سے یہ بات ثابت کی جائے کہ المشرکین میں اساریٰ مشرکین بھی داخل ہیں اوریہ بات ثابت نہیں تو دعویٰ نسخ باطل ہے۔ دوسرے جملے حیث وجدتموھم کو اساریٰ سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ زمانہ قدیم سے کعبے کے اندر قتل و خونریزی منع تھی‘ مگر جب مکے پر چڑھائی ہوئی تو یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرک جہاں ملیں یعی حرم کے اندر یا حرم کے باہر ان کو مارو۔ پس ا س جملے کو قیدیوں کے قتل سے اور منسوخ ہونے آیت من و فداء سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ تمام تفسیروں میں بھی اس جملے کے یہی معنی لکھے ہیں۔ چنانچہ تفسیر بیضاوی میں ہے۔ فاقتلوا المشرکین الناکثین وجدتموھم من حل و حرم ’’عہد توڑنے والے مشرکین کو مارو کعبے کے اندر یا کعبے کے باہر‘‘۔ تفسیر مدارک میں لکھا ہے: فاقتلوا المشرکین الذین نقضوکم وظاھروا علیکم حیث وجد تموھم من حل و حرم ’’ان مشرکوں کو جنھوں نے تمہارا عہد توڑ ڈالا اورتم سے لڑائی ٹھانی مارو جہاں پائو کعبے کے اندر یا کعبے کے باہر‘‘۔ تفسیر احمدی میں لکھا ہے : فاقتلوا المشرکین الذین یعصوکم فظاہروا علیکم حیث وجدتموھم من حل اوحرم ’’جن مشرکوں نے تمہاری نافرمانی کی ہے اور تم سے لڑائی ٹھانی ہے ان کو مارو جہاں پائو کعبے کے اندر یا کعبے کے باہر ‘‘۔ تفسیر کشاف میں لکھا ہے : فاقتلوا المشرکین‘ یعنی الذین نقضواکم وظاہروا علیکم حیث وجدتموھم من حل او حرم ’’مشرکوں کو مارو یعنی ان کو جنھوں نے تم سے عہدشکنی کی ہے اورتم سے لڑائی ٹھانی ہے جہاں پائو کعبے کے اندر یا کعبے کے باہر‘‘۔ تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے : فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم فی حل و حرم ’’کافروں کو مارو جہاں پائو کعبے کے اندر یا کعبے کے باہر‘‘۔ معہذا ان تمام آیتوں میں جو مشرکین کے قتل کا حکم ہے وہ عین لڑائی کی حالت میں ہے۔ اس سے اورآیت من و فداء سے جو بعد ختم ہونے لڑائی کے ان لوگوں سے علاقہ رکھتی ہے جو قید ہو گئے ہیں اورلڑنے پر قادر نہیں ہیں کیا تعلق ہے؟ احکام حالت مختلفہ ایکد وسرے کے ناسخ نہیںہو سکتے۔ آیت سورۃ بقرہ بھی صلح حدیبیہ جو ۶ ہجری میں ہوئی تھی قبل نزول آیت من و فداء نازل ہوئی تھی اوراس لیے اس کی ناسخ نہیں ہو سکتی۔ تفسیر معالم التنزیل میں ابن عباس سے روایت لکھی ہے کہ : عن ابن عباس نزلت ہذہ الایۃ فی صلح الحدیبیۃ وذالک ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج مع اصحابہ العمرۃ وکانوا الفاواربع مائۃ فسارو حتیٰ نزلوا الحدیبیۃ فصدھم المشرکون من حتیٰ نزلو الحدیبیۃ فصدھم المشرکون من البیت الحرام فصالحم علیٰ ان یرجع عامۃ ذالک علیٰ یخلوا لہ مکۃ عام قابل ثلثۃ ایام فیطوف بالبیبت فلما کان العام القابلۃ تجھزبہ رسول اللہ واصحابہ لعمرۃ القضاء وخافوا ان لا تفی قریش بما قالوا وان یصدوھم ان البیت الحرام و کرہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتالھم فی الشھر الحرام وفی الحرم فانزل اللہ تعالیٰ وقاتلوھم فی سبیل اللہ یعنی محرمین الذین یقاتلوکم یعنی قریشاء ولا تعتدوا افتبدوا بالقتال فی الحرم محرمین اللہ لا یحب المعتدین یہ آیت حدیبیہ کی صلح میں نازل ہوئی ہے بات یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ سلم مع اپنے اصحابون کے جو چودہ سو تھے عمر ے کے لیے تشریف فرما ہوئے۔ جبکہ حدیبیہ میں پہنچے تو مشرکین مکہ میں آنے سے روکا۔ اس وقت اس بات پر صلح ہوئی کہ ا ب کے برس تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم پھر جاویں اگلے برس ان کے لیے تین دن تک مکہ خالی کردیں گے تاک وہ خانہ کعبہ کا طواف کریں۔ جب اگلا برس آیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے دمرہ قضاء کے لیے سامان درست کیا اواس بات کا خاف ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ قریش اپنا اقرار پورا نہ کریں اورجو کہا ہے وہ نہ کریں اورمکے میں جانے سے روکیں اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ان مہینوں میں جن میں لڑائی منع تھی اورنیز مکے میں لڑنا برا جانتے تھے ۔ پس خدا تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی کہ خدا کی راہ میں‘ یعنی احرام باندھے ہوئے ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑیں‘ یعنی قریش سے او ر تم زیادت مت کرو کہ تم ہی حرم میں پہلے لڑائی شروع کر دو ۔ بے شک زیادتی کرنے والوں کو اللہ دوست نہیں رکھتا۔ قطع نظر اس بات کے کہ یہ آیت قبل آیت من و فدا کے نازل ہوئی تھی ‘ اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اس آیت سے آیت من و فداء منسوخ بھی ہو سکتی ہے یا نہیں‘ سو ظاہر ہے کہ کسی طرح منسوخ نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ اس آیت میںجو حک ہے وہ خاص اہل مکہ کے لیے ہے جو برکلاف عہد کے لڑنے پر تیار ہوں‘ تمام مشرکین سے متعلق نہیں ہے۔ پس قید ی جو بعد قید کے لڑنے پر قابو نہیں رکھتے اس حکم میں داخل نہیں ہو سکتے۔ بعض مکابر کیا عجب ہے کہ لفظ حیث ثقفتموھم سے آیت من و فداء کے منسوخ ہونے کے امکان پر استدلال کریں (اگرچہ آج تک کسی عالم نے جن کے وہ مقلد ہیں استدلال نہیں کیا) اس لیے کہ گو تفسیر کشاف میں لکھا ہے کہ: واقتلوھم حیث ثقفتموھم قیل نسخت الایۃ الاولیٰ بھذہ الایۃ واصل الشفافۃ الحذق والبصر بالامرو معناء اقتلوھم حیث البصرتم مقاتلتھم وتمکنتم من قتلھم ’’اخیر آیت سے کہ ان کو ماور جہاں پائو پہلی آیت یعنی یہ کہ انہیں مارو جو لڑیں منسوخ ہو گئی (سبحان اللہ کیا عمدہ مذہب ہے جس میں آیت کا شروع آیت کے اخیر سے منسوخ ہو جاتاہے۔کلام اللہ کا ہے کو ہوا ہنسی ٹھٹھا ہو گیا) ثقافتہ کے معی کسی چیز کو بغور دیکھنے کے ہیں۔ پس معنی یہ ہوئے کہہ کافروں کے لڑنے والوں کو جہاں دیکھو اور ان کے قتل پر قابوپاء و مار ڈالو‘‘۔ اور تفسیر مدارک میں لکھا ہے : واقتلوھم حیث ثقفتموھم وجدتموھم والثقف الوجود علی وجہ الاخذا والغلبۃ واخرجوھم من حیث اخرجوکم ای من مکۃ وعدھم اللہ تعالیٰ فتح مکۃ بھذہ الایۃ وقد فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بمن لم یسلم منھم یوم الفتح۔ ’’ان کو مار و جہاں پائو ۔ ثقف کے لفط کے معنی پکڑ کے اورغلبہ کر کے پانے کے ہیں اور آیت میں جو یہ حکم ہے ہ ان کو نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے اس سے مراد مکہ ہے۔ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں سے مکے کے فتح ہونے کا وعدہ فرمایا اور جب مکہ فتح ہوا تو پیغمبر خدا صلعم نے ان کے ساتھ جو مسلمان ہوئے ایسا ہی کیا جیسا کہ اس آیت میں لکھا ہے ‘‘۔ پس ان دونوں تفسیروں سے قیدیوں کا قتل کرنا جائز پایا جاتاہے اوجب وہ جائز ٹھہرا تو آیت من و فداء کا منسوخ ہونا لازم آ گیا۔ مگر یہ تمام تقریر محض غلط اور بالکل دھوکا ہے۔ اگر فرض کیا جاوے کہ اس آیت میں قیدیوں کے ہی قتل کا حکم ہے تو ہرگاہ یہ آیت قبل آیت من و فداء نازل ہوئی ہے اور آیت من و فداء اس کے بعد توآیت نف وفدا ا س کی ناسخ ٹھہرے گی نہ یہ آتی۔ علاوہ اس کے کیسا تعجب ہے کہ تفسیر کو جو قول مفسر یا رائے مفسر سے زیادہ رتبہ نہیں رکھتی نص صریح قرآنی کا جس کے کلام الٰہی ہونے میں کچھ شبہ نہیں ہے ناسخ قرار دیا جائے قطع نظر ان سب باتوںکے جو تفسیر آیت کی صاحب معالم التنزیل نے کی ہے اس سے قیدیو کا قتل کرنا نہیں پایا جاتا کیونکہ وہ یہ کہتا ہے کہ شروع آتی میں یہ حکم تھا کہ جو لڑیں انہی کو مارو تو اس حکم سے یہ لازم آتاہے کہ جو لڑیں انہیں کو مارو تواس حکم سے یہ لازم آتا تھاکہ جب تک کوئی مشرک پہلے وار نہ کرے اس وقت تک اس کو نہ مارو۔ اخیر آیت سے یہ حکم منسوخ ہو گیا اوریہ حکم ہوا کہ ان کے لڑنے والوں کو جہاں دیکھو مارڈالو‘ ان کے بھی پہلے وار کرنے کے منتظر نہ رہو ۔ پس قیدی اس تفسیر سے بھی خارج ہیں اس لیے کہ قید ہونے کے بعد ان میں لڑنے اور مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رہتی اور اس لیے وہ مقاتلتھم کے لفظ میں داخل نہیں رہتے۔ صاحب تفسیر مدارک نے جو معنی ثقف کے گھڑے ہیں اول تو وہ قابل تسلیم نہیں‘ کیونکہ ثقف کے معنی پکڑ کر اور غلبہ کر کے پانے کے جو اس نے بیان کیے ہیں جن سے قیدی پن نکلتا ہے اس کی کوئی سند نہیں ہے معہذا وہ صاف صاف قیدیوں پر دلالت بھی نہیں کرتے کیونکہ مقاتلین کی نسبت بھی صادق آ سکتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ اگر بالکل تقریر مخالفین تسلیم کر لی جاوے تو حک اس آیت میں وہ ہو مخصوص اہل مکہ سے ہو گا جن کی نسبت متعدد احکا مخصوصہ صادر ہوئے تھے او اس لیے عمومیت آیت من و فداء کا مخصص ہوگ انہ مبطل اس لیے یکہ آیت من و فداء عام ہے اور احکام عام کے برخلاف جو کوئی حکم خاص صادر ہوتا ہے تو وہ حکم خاص اس حکم کا مخصص ہوتا ہے یا وہ حکم خاص اس حکم عام سے مستثنیٰ سمجھا جاتا ہے نہ اس حکم عام کا مبطل کیونکہ وہ حکم عام اپنے باقی افراد کے لیے بدستور نافذ و بحال رہتا ہے۔ پس نتیجہ مخالفین کی تقریر کو تسلیم کرنے کے بعد بھی یہ نکللے گا کہ تمام قیدیوں کو سوائے قیدیان مشرکین مکہ کے یا احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر چھوڑ دو اور ہمارا مطلب بھی اسی قدر ہے۔ اب باقی رہ گئیں سورۃ نساء کی آیتیں وہ بھی قبل فتح مکہ یعنی قبل نزول آیت من و فداء نازل ہوئی ہیں اوراس یے اس کی ناسخ نہیں ہو سکتیں۔ علاوہ ا س کے ان آیتوں میں بھی وہی لفظ حیث و جدتموھم ہے جس کی نسبت ہم اوپر بحث کر آئے ہیں کہ قیدیوں سے متعلق نہیں ہے اور اس آیت من و فداء کا ناسخ نہی ہو سکت اورچونکہ علماء حنفیہ میں سے بھی کسی عالم نے ان آیتوں کو ناسخ آیت من و فداء نہیں کہا ہے اس لیے ہم کو بھی اور زیادہ بحث کرنے کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔ اب ہم آیت من و فداء کے غیر منسوخ ہونے کو ثابت کرنے کے لیے اوراس بات کے ثابت کرنے کے لیے کہ قیدویں کے ساتھ بجز من یا فداء کے اورکچھ نہیں ہو سکتا ایسی دلیل بیان کرنے پرمتوجہ ہوتے ہیں کہ جس میں کسی کو گفتگو کا محل نہ رہے گا اوروہ یہ ہے کہ بعد نزول آیت حریت کے جناب رسول خدا صلعم نے نہ کسی قدی کو قتل کیا نہ کسی کو لونڈی و غلام بنایا ‘ بلکہ سب کو بلا استثنائے احدے احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا اواس سے ثابت ہوا کہ آیت من و فداء منسوخ نہیں ہوئی اور قیدیوں کا لونڈی و غلام بنانا جائز نہیں رہا ۔ چنانچہ ان جملہ امورکو باب آئندہ میں بیان کرتے ہیں‘ واللہ المستعان۔ باب ششم اس بات کے بیان میں کہ بعد نزول آیت حریت کے جناب رسول خدا صلعم نے کسی قیدی کو لونڈی یا غلام نہیں بنایا اگرچہ عرب میں زمانہ جاہلیت سے لڑائی کے قیدیوں کو قتل کرنے اور لونڈی و غلام بنالینے اور فدیہ لے کر اور احسان رکھ کر چھوڑ دینے کا رواج تھا او جب تک کہ اسلام میں کوء حکم نسبت قیدیوں کے نہیں آیا ایسا ہی ہوتا رہا‘ لیکن بعد نزول آیت من و فداء کے ( جس میں قیدیوں کی بابت احکام ہیں) جس قدر غزوات ہوئے کسی غزوہ کے قیدی لونڈی و غلام نہیںبنائے گئے ‘بلکہ احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر چھوڑ دیے گئے اوراس کے برخلاف رسول خدا صلعم نے کبھی نہیں کیا‘ یہاں تک کہ اس دنیا سے رحلت فرمائی وھذا ما یدور علیہ رحی الاسلام و ھذا و مذہب الاسلام اور یہی ہے مسئلہ مذہب اسلام کا ۔ اب ہم اپنے اس کلام کے اثبات کو ان غزوا ت کے قیدیوں کا جو بعد نزول آیت من و فداء ہوئے تھے ذکر کرتے ہیں۔ اول: اساریٰ بطن مکہ ۔انہیں دنوں میں جب کہ مکہ فتح ہوا ای آدمی جو جبل تنعیم سے لڑنے کواترے تھے قید ہوئے اور جناب رسول خدا صلعم نے احسان رکھ کر ان سب کو چھوڑ دیا۔ خود خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کا ذکر فرمایا ہے : وھو الذی کف ایدیھم عنکم و ایدیکم عنھم ببطنمکۃ من بعد ان اظفر کم علیھم ’’وہ خداہے جس نے روکے ہاتھ کافروں کے تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے مکے کے بیچ میں‘ بعد اس کے کہ فتح مند کیا تم کو ان پر‘‘۔ صحیح مسلم کی حدیث میں بھی اس کا ذکر ہے: عن انس ان ثمانین رجلا من اہل مکۃ ھبطوا علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من جبل التنعیم متسلحٰن یریدون غزۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فاخذھم سلما فاستحیاہ وفی روایۃ فاعتقھم فانزل اللہ تعالیٰ وھوالذی کف ایدیھم عنکم و ایدیھکم عنھم ببطن مکۃ من بعد ان اظفر کم علیھم ’’انس سے روایت ہے کہ اسی آدمی مکہ والوں میںسے رسول خدا صلعمسے لڑنے کو جبل تنعیم سے اترے ‘ پھر ان کو پکڑ لیا اور اس طرح پر کہ انہوں نے اپنے تئیں سپرد کر دیا‘ پھر ان کو زندہ رہنے دیا‘ یعنی قتل نہیں کیا اورایک روایت میں ہے کہ ان کو چھوڑ دیا ۔ پس یہ آیت اتری کہ وہ خدا ہے جس نے روکے ہاتھ کافروں کے تم سے اورتمہارے ہاتھ ان سے مکے کے بیچ میں بعد اس کے کہ فتح مند کیا تم کو ان پر‘‘۔ تمام علماء اورمفسرین اور اہل سیر اس بات کے قائل ہیں کہ یہ لشکر کشی بعد فتح مکہ کے ہوئی اور خود قرآن مجید کی آیت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے‘ مگر بعض لغو روایتوں میں ہے کہ یہ واقعہ حدیبیہ میں قبل فتح مکہ ہو ا تھا‘ لیکن جب کہ سب لوگ اس روایت کو مردود جانتے ہیں تو اس پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ دوم ۔ اساریٰ غزوہ بنی خذیمہ۔ قال الکرمانی ہی قبیلۃ من عبدالقیس قال السیوطی فی التوشیح کانالبعث الیھم فی شوال عقیب الفتح۔ ’’کرمانی کہتا ہے کہ یہ ایک قبیلہ ہے عبقیس کا اور سیوطی نے توشیح سے کہا ہے کہ ان پر لشکر کشی شوال کے مہنے میں مکہ فتح ہونے کے بعد ہوئی تھی‘‘۔ مواہب للدنیہ میں لکھا ہے : ثم سریۃ خالد بن الولید الی بنی خذیمہ قبیلۃ من عبدالقیس اسفل مکۃ علی لیلۃ بناحیۃ یلملم فی شوال سنۃ ثمان وھو یوم الغیصا بعثہ علیہ السلام لما رجع من ہدم اصغریٰ وھو صلعم مقیم بمکۃ ’’خالد بن ولید تھوڑا سا لشکر لے کر بنو خذیمہ پر جو عبد قیس کے قبیل میںسے ہے مکے کے اتر ایک رات کی راہ پر یلملم کی طرف شوال ۸ ہجری میں غیصا کے دن روانہ ہوئے ۔ ان کو رسول خدا صلعم نے عزیٰ توڑ کر پھر آنے کے بعد بھیجا تھا اور خود رسول خدا صلعم مکے میں مقیم تھے‘‘۔ اس غزرہ کی جو حدیث بخاری میں ہے اس کو ہم تو اپنے استبناط کے موافق سمجھتے ہیں اور شاید ہمارے مخالف اس کو اپنے مفید سمجھیں‘ اس لیے کہ اس کو لکھ کر اپنے استبناط کا اثبات اورمخالفین کے استدلال کی تردید کرتے ہیں اوروہ حدیث یہ ہے کہ: عن سام عن ابیہ قال بعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم خالد بن الولیس الیٰ بنی خذیمہ فدعاھم الیٰ الاسلام فلم یحسنوا ان یقولوا اسلمنا فجعل یقولون صبانا صبانا فجعل خالد یقتل و یاسر و دفع الیٰ کل رجل منا اسیرہ حتی اذا کان یوم آخر امر خال ان یقتل کل رج منا اسیرہ فقلت واللہ لا اقتل اسیری ولا یقتل رجل من اصحابی اسیرہ حتی قد منا الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فذکرنا لہ فرفع النبی صلی اللہ علیہ وسلم یدہ فقال للھم انی ابراء الیک مما صنع خالد مرتین ’’سالم نے روایت کی کہ اسکے باپ نے ہا کہ پیغمبر خدا صلعم نے خالد بن ولید وک لشکر دے کر بنو خذیمہ پر بھیجا۔ خالد نے ان کو کہا کہ تم مسلمان ہو جائو۔ انہوں نے صاف صاف یہ کہنا تو پسدن نہ کیا کہ ہم مسلمان ہو گئے بلکہ یہ کہنے لگے کہ ہم بد مذہب ہو گئے۔ پس خالد نے ان کو قتل کرنا شروع کیا اور ہر ایک کا قید ی اسی کے سپرد کر دیا۔ جب دوسرا دن ہوا تو خالد نے حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو مار ڈالے ۔ پس سالم کے باپ نے کہا کہ خدا کی قسم میں تو اپنا قیدی کونہیںمارنے کا۔ اورنہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی اپنے قیدی کو مار ے گا۔ جب کہ ہم رسول خدا صلعم کے پاس آئے تو ہم نے ان باتوں کا ذکر کیا۔ یہ سن کر پیغمبر خدا صلعم نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دو دفعہ کہا کہ بار خدایا جو کچھ خالد نے کیا ہے میںاپنی برات تیرے سامنے اس سے ظاہر کرتا ہوں‘‘۔ ہمارے مخالف تو اس حدیث میں یہ استدلال کریںگے کہ اس غزوہ میں جو بعد فتح مکہ کے ہوا خالد نے قیدیوںکو قتل کیا اور ان کے قتل کا حکم دیا۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ آیت من و فداء منسوخ ہو چکی تھی یا س سے صرف من و فداء میں حصر مقصود نہ تھا۔ مگر یہ دلیل دو وجہ سے غلط ہے ۔ اول تو خالد کا فعل ناسخ آیت قرآنی نہیںہو سکتا‘ دوسرے اور بہت سے اصحابوں کا جو خالد کے ساتھ تے قیدیوں کے قتل سے انکار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نزول آیت سے واقف تھے اورکیا عجب ہے کہ اس وقت تک خالد واقف نہ ہوئے ہوں‘ اس لیے کہ ابھی آیت کو نازل ہوئے صرف کئی دن ہوئے تھے اور خالد بن ولید ان دنوںمیں لڑائیوں میں مصروف تھے۔ یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ جن لوگوں نے قیدیوں کے قتل سے انکار کیا ان کو صبانا کے لفظ سے اس بات کا شبہ ہوا تھا کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں کیونکہ اگر وہ ان کو مسلمان سمجھتے تو قید ہی کاہے کو کرتے۔ کیالطیفہ ہے کہ خالد نے اس غزوہ میں دو قصور ہوئے تھے ایک یہ کہ صبانا کے لفظ سے جو مقصد ان لوگوں کا تھا وہ نہ سمجھے‘ دوسرے یہ کہ قیدیوں کے قتل کا حکم دیا تھا‘ اسی لیے دو دفعہ رسول خدا صلعم نے خدا کے سامنے اپنی صفائی خالد کے کام سے عرض کی۔ غرضیکہ یہ واقعہ اس وجہ سے کہ خلاف مرضی رسول خدا صلعم کے ہوا اور آنحضرت نے اپنی ناراضی اس سے ظاہر کی ہمارے استنباط کا مثبت اورر ممدو و معاون ہے اور ہمارے مخالفوں کے مفید نہیں۔ سوم : اساریٰ ہوازن۔ ہوازن کے قیدیوں کو رسول خدا صلعم نے احسان رکھ کر اورجو لوگ احساناً چھوٹنا نہ چاہتے تھے‘ ان کو ان کا فدیہ لے کر چھوڑ دیا تھا اور اس سے ثابت ہوگیا کہ غازیوں کا جنہوں نے کافروں کو قید کیا ہو بجز فدیہ لینے کے اورکچھ حق قیدیوں پر نہیںہے۔ اساریٰ ہوازن کا ذرا لمبا قصہ ہے۔ چند حدیثوںمیں بھی وہ قصہ مذکورہے۔ اور سیر کی کتاوں مین بھی اس کی روایتیں ہیں اور ان میں بہت باتیں ہمارے استنباط کی معاون ہیں اور بعض باتیں ایسی ہیں جن کو ہمارے مخالف اپنے مفید سمجھتے ہوں گے۔ اس لیے اولاً ان تمام حدیثوں اور روایتوں کو بجسہ لکھتے ہیں اور پھر ان سے جو استنباط ہوتاہے اس کوبیان کرتے ہیں۔ سیرت ہشامی میں لکھا ہے: ثم جمعت الی رسول اللہ صلعم سبایا حنین و اموالھا وکان علی المغانم مسعود بن عمرو الغفاری و امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالسبایا والاموال ای الجعرانۃ فحبست بھا ’’تمام قیدی اور مال جو حنین کی لڑائی میں ہاتھ آیارسول خدا صلعم پاس جمع کیا گیا اور غنیمت پر مسعود بن عمرو الغازی متعین تھے اوررسول خدا صلعم نے تمام قیدیوں کو اور مال کو جعرانہ میں لے کر جانے کا حکم دیا اوروہیں وہ رکھے گئے‘‘۔ اور سیر ت محمدی میں لکھا ہے : وامر رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم جمع السبی والغنائم فجمع ذالک کلہ وحدورہ الی الجعرانۃ فوقف بھا الیٰ ان انصرف رسول اللہ من الطائف و کان السبی ستۃ الاف راس …اخرج البخاری فی تاریخہ والبغوی عن ہزیل ابن ورقا وقال فی الاصابۃ اسنادہ حسن ان رسول اللہ صلعم امرہ ان یحبس السبایا والاموال یوم حنین بالحصرانۃ حتی یقدم علیہ و الجعرانۃ بسکون العین و تجفیف الرائ…واخرج ابن عساکر فی تاریخہ عن ابن المسیب ان رسول اللہ صلعم یوم حنین ستۃ آلاف من غلام و امراۃ ’’رسول خدا صلعم نے قیدیوں کے اورلوٹ کے مال جمع کرنے کا حکم دیا‘ چنانچہ وہ سب جمع کیے گئے اورجعرانہ میں بھیج دیے گئے اوررسول خدا صلعم کے طائف سے مراجعت فرمانے تک وہیں رہے اورقیدی چھ ہزار آدمی تھے اور بخاری نے اپنی تاریخ مین اوربغوی نے ہزیل بن ورقاسے یہ روایت کی ہے کہ اور اصابہ میں لکھا ہے کہ اس کی سند اچھی ہے کہ رسول خدا صلعم نے اپنے تشریف لانے تک قیدیوں کے اور مال کے جعرانہ میں رہنے کا حکم دیا تھا اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں مسیب سے یہ روایت کی ہے کہ رسول خدا صلعم نے حنین کی لڑائی میں چھ ہزار لڑکے اور عورتیں قید کی تھیں۔‘‘ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قام حن جاء وفد ہوازن مسلمین فسالوہ ان یرد الیھم اموالھم وسبیھم فقال لھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معنی من ترون واحب الحدیث الی اصدقہ فاختاروا احدی الطائفتیناما السبی واما المال وقد کنت استانیت بکم وکان انظر ھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم بضع عشرۃ لیلۃ حین قفل من الطائف فلما بین لھم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیر راد الیھم الا احدی الطائفتین قالو افانا نختار سبینا فقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی المسلمین فاثنیٰ علی اللہ بما ھو اہلہ تم قال اما بعد فان اخوانکم قدجاء واتائبین وانی قدرایت ان ارادالیھم سبیھم فمن اخب منکم ان یطیب ذالک الیفعلہ ومن احب منکم ان یکون علی حظہ حتی نعطیہ ایالا من اول ما یقی اللہ علینا فلیعفعل فقال الناس قد طیبنا ذالک یا رسول اللہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انا لا ندری من اذن منکم فی ذالک منمن لم باذن فارجعو حتی یرفع الینا عرفاء کم امرم فرجع الناس فکلم عرفائو ہم ثم رجعوا الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاخبروہ انھم قد طیبا واذنوا ہذا الذی بلغنی عن سبی ہوازن۔ ’’جب ہوازن کے لو گ مسلمان ہو کر آئے اور رسول خدا صلعم سے سوال کیاکہ ان کا مال اور ان کے قیدی ان کو پھیر دیے جائیں تو رسول خدا صلعم کھڑے ہوئے اور ا ن سے فرمایا کہ میں پسند کرتاہوں کہ جو تم چاہتے ہو‘ مگر ٹھیک بات کہہ دینی مجھ کو پسند ہے۔ تم دونوں میں سے ایک چیز اختیار کرو یا تو قیدی ہی لے لو یا مال ہی لے لو۔ میں بے شک تم سے انس رکھتا ہوں۔ رسول خداصلعم نے طائف سے پھر کر اس سے بھی زیادہ رات تک ان لوگوں کے آنے کاانتظار کیا تھا غرضیکہ جب ان لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ رسول خدا صلعم دونوں چیزیں نہیں دیں گے بلکہ ان میں سے ایک چیز دیں گے تو انہوں نے کہا کہ ہم قیدیوں کو چاہتے ہیں۔ پس رسول خدا صلعم مسلمانوں کے بیچ کھڑے ہوے اوخدا کی تعریف کی جس کا وہ مستحق ہے‘ پھر خدا کی تعریف کے بعد فرمایا کہ یہ تمہارے بھائی توبہ کر کے آئے ہیں اورمیں چاہتا ہوں کہ ان کے قیدی ان کوپھیر دوںل پس جس کسی کو یہ بات اچھی لگے وہ کرے اورجو شخص چاہے کہ اپنا حصہ نہ چھوڑے تو وہ ویسا کرے‘ یہاں تک کہہ دیاجائے گا اس کا حق اس مال سے جو سب سے اول خدا ہم کو دے گا ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ ہم آپ ہی کی بات کو پسند کرتے ہیں۔ رسول خدا صلعم نے فرمایا کہ ہم نہیں جانتے کہ کس نے ہم میں سے ایک بات کی اجازت دی اورکس نے نہیں دی‘ تم جائو تاکہ تمہارے مکھیا یہ بات آن کر کہیں سب لو گ گئے اور اپنے اپنے سرگروہوں سے کہا پھر وہ لوگ حضور صلعم کے پاس آئے اور اطلاع کی کہ سب لوگ پسند کرتے ہیں اور اجازت دیتے ہیں۔ یہ قصہ ہوازن کا ہے جس کی اطلاع ہم کو ہوئی ہے۔‘‘ سیرت ہشامی میں اس قصے کو اس طرح پر لکھا ہے: ثم خرج رسول اللہ صلعم فیمن انصرف عن الطائف علی دحناحتی نزل الجعرانۃ حنین معہ من الناس و معہ من ہوازن سبی کثیرو قد قال لہ رجل من اصحابہ یوم ظعن ثقیف یا رسول اللہ ادھ علیھم فقال رسول اللہ صلعم اللھم اھد ثقیفا وائت بھم ۔ ثم اتاہ وفد ہوازن بالجعرانۃ وکان مع رسول اللہ صلعم من سبی ہوازن ستۃ الاف من الذراری والنساء ومن الابل والاشیاء مما لا یدری ماعدتہ قال ابن اسحاق فحدثنی عمرو بن شعیب بن ابیہ عن جدہ عبداللہ بن عمرو قال فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابنائکم و نسائکم احب الیکم ام اموالکم فقالوا یا رسول اللہ خری تنابین اموالنا و احسابنا بل ترد الینا نسائنا وابنانا فھوا حب الینا۔ فقال لھم اما ما کان لی ولنبی عبدالمطلب فھو لکم اما انا صلیت الظھر بالناس فقوموا فقولوا نا نستشفع برسول اللہ الی المسلمین و بالمسلمین الی رسول اللہ فی ابناء ونسائنا فسا عطیکم عند ذال واسال لکم۔ فلما صل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالناس الظھر قامو ا فتکلموا بالذی امرھم بہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال الاقرع بن حابس اما انا و بنو تمیم فلا۔ قال عیینۃ بن حصن واما انا وبنو فزارۃ فلا۔ لما وقال عباس ابن مرداس اما انا وبنو سلیم فلا۔ قالت بنو سلیم بلی ما کان لنا فھو لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال یقول عباس لنبی سلیم وھنتمو نی فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اما من تمسک بحقہ من ھذا السبی فلہ بکل ست فرایض من اول سبی اصیبہ فردوا الناس انبائھم ونائھم۔ قال ابن اسحاق وحدثنی ابووجزۃ یزید بن عبید السعدی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعطی علی بن ابی طالب جاریۃ یقال لھا ریطہ بنت ہلال بن حیان بن عمیرہ بن ہلال بن ناصرہ بن قصیہ بن نصر بن سعد بن بکرو اعطی عثمان بن عفان جاریۃ یقال لھا زینب بنت حیان بن عمرو بن حیان۔ واعطی عمر بن الخطاب جاریۃ فوھبھا لعبداللہ بن عمر ابنہ ۔ قال ابن اسحاق فحدثنی نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر عن عبداللہ بن عمر قال بعثت بھا الی اخوانی من بنی جمع لیصلحوا بی منھا حتی اطوف بالبیت ثم آتیھم وانا اریدان اصیبھا اذا رجعت الیھا قال فخرجت من المسجد حین فرغت فاذا الناس یشتدون قلت ما شانکم قال ردعلینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نسئنا وابنائنا فقلت تلکم صاحبتکم فی بنی جمع فاذھبوا فخذو ھافذھبوا الیھا فاخذوھا۔ قال ابن اسحاق واما عیینۃ بن حص فاخذھا عجوزا من عجائز ہوازن وقال حین اخزھا اری عجوزا انی لا حسب لھا فی الحی لنسبا و عسیٰ ان یعظم نداھا فلمادر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم السبایا بست فرائض ابی ان یردھا فقال لہ زھیر ابو صرف خدھا عند فواللہ مافوھا ببارد ولا ثدیھا بناھد ولا بطناھا بو الدولا زوجھا بواحد و لادراھا بما کد فردھا بست فرائض حینقال لہ زھیر ماقال فزعموا ان عیینۃ لقی بن حابس فشکی الیہ ذالک فقال انک واللہ ما اخذتھا بیضاء عزیزۃ و لانصفا وثیرۃ ’’بارادہ جہاد تشریف لے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبکہ مراجعت فرمائی آپ نے طائع سے اوپر دخا کے یہاں تک پہنچے آپ جعرانہ میں مع اپنے ہمراہیوں کے اورآ پ کے اتھ قوم ہوازن کے بہت سے قیدی تھے اور جب آپ کے ساتھ قوم ہوازن کے بہت سے قید ی تھے اورجب آپ نے بنو ثقیف سے لڑنے کے لیے سفر کیا تو اس سفر میں آپ کے صحابہ میںسے کسی نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ آپ اس قوم کے لیے کچھ ہدایت کی دعا فرمائیے۔ چنانچہ آنحضرت نے فرمایا تھا کہ اے اللہ! ہدایت کر قوم ثقیف کو اورمطیع کر دے اس کو ۔ چنانچہ آیا ایک گروہ ہوازن کا مقام جعرانہ میں اور آنحضر ت کے ساتھ قوم ہوازن کے قیدیوں میں سے چھ ہزار بچے اور عورتیں تھیں اور اونٹ او ر اورچیزیں اس قدر تھیں کہ جن کی کچھ شمار نہ تھی۔ کہا اسحق نے پھر بیان کیا مجھ سے عمرو بن شعیب نے اپنے با پ سے سن کر اوراس کے با پ نے اپنے باپ سے سن کر جس کا نام عبداللہ بن عمرو تھا‘ یہ کہ روہ ہوازن کا آیا رسول خدا کے پاس اور سب نے اسلام قبول کر لیا تھا اورکہا اس گروہ نے کہ یا رسول اللہ ! جو کچھ ہم پر مصیبت پڑی وہ آپ سے کیا پوشیدہ ے۔ پس آپ ہم پر احسان کریں اللہ آپکو اس کا عوض دے گا۔ کہا ابن اسحاق نے پس روایت کی مجھ سے عمر بن شعیب نے اور اس سے اس کے باپ نے اور ا س کے باپ سے اس کے دادا نے جن کا نام عبداللہ بن عمر تھا کہ فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں نے آیا تم اپنی اولاد او عورتیں زیادہ پیاری ہیں یا مال زیادہ پیارا ہ۔ پس انہوںنے جواب دیا کہ یا رسول اللہ! مخیر کر دیا آپ نے ہم کو ہمارے مال میں اور ہمارے بچے اور عورتوں میں‘ پس آپ ہم کو ہماری عورتیں اور بچے ہی عنایت کیجیے کیونکہ وہ ہم کو زیادہ پیارے ہیں۔ پس آ پ نے ارشاد فرمایا کہ جو میرے اور بنو مطلب کے حصے کے ہیں وہ تو ہم نے تم کو عطا کیں اور باقی سب کی نسبت یہ بات ہے کہ جب میں ظہر کی نماز جماعت سے ادا کروں گا اور سب لوگ موجود ہوں اس وقت تم اس بات کی التجا کرنا اور یہ کہنا کہ ہم شفیع لائے ہیں اللہ کے رسول کو مسلمانوں کے پاس اور مسلمانوں کو اللہ کے رسول کے پاس بیچ چھوڑ دینے کے اپنی عورتوں اور اپنے بچوں کو ۔ پس میں بھی تم کو تمھاری عورتیں دے دوں گا اور اوروں سے بھی تمہارے لیے سعی کروں گا اورکہہ سن کر دلوا دوں گا۔ پس جب نماز پڑھی رسول خدا نے جماعت سے ظہر کی تو کھڑے ہوئے اور لوگ اورجیسا آپ نے تلقین کر دیا تھا اسی طرح سے انہوںنے عرض کیا۔ پس فرمایا آنحضرت نے جو میرے اور بنو مطلب کے حصے میں ہیں وہ میں نے تم کو دیں۔ پس کہا مہرجرین نے کہ یا رسول اللہ جو ہمارے حصے میں ہے وہ بھی آپ کا ہے۔ پس کہا اقرع بن حابس نے کہ یا رسول اللہ ہم اور بنو تمیم نہ دین گے اور عیینہ بن حصن نے کہا ہم اور بنو سلیم بھی نہ دیں گے‘ مگر بنو سلیم نے کہا کہ نہیں ہمارا حصہ ہے اس کے مالک آنحضرت ہیں۔ کہا راوی نے کہ عباس بن مردساس بنو سلیم سے کہتا تھا کہ تم نے میری بات کو پست کر دیا۔ پس فرمایا رسول خدا نے جس شخص نے ان قیدیوں میں سے اپنا حق لے لیا ہے اور وہ واپ سکر دے گا اس کو میں بدلے میں اس کے حصے کے چھ چھ اونٹ اسس غنیمت میں سے دے دوں گا جو سب سے پہلے میرے ہاتھ لگے گی۔ بس پھیرو ان لوگوںکے بچے اور عورتیں۔ کہا ابن اسحا قنے اور رویت کی مجھ سے ابو وجزہ یزید بن عبدالسعی نے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ریطہ نامی ایک لونڈی ہلال بن حیان بن عمرہ بن ھلال بن ناصرہ بن قصیہ بن نصر بن سعد بن بکر کی بیٹی عطا کی تھی اورحضرت عثمان بن صفان (رضی اللہ عنہ) کو زینب نام کی ایک لونڈی بنت حیان بن عمر و بن حیان بن عمرو بن حیان کی بیٹی عطافرمائی تھی اورحضرت عمر بن خطاب کو ایک لونڈی عطا کی تھی اور انہوں نے ا س کو اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر کو بخش دیا تھا۔ کہا ابن اسحاق نے پس روایت کی مجھ سے نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر نے اور انہوںنے سنا تھا عبداللہ بن عمر سے کہ یں نے اس لونڈی کو اپنے بھائیوں قوم بنع جمح کے پاس بھیج دیا تھا‘ تاکہ وہ اس کو رکھیں‘ یہاں تک کہ میں طواف بیت اللہ سے فارغ ہو جائوں۔ اس کے بعد ان کے پاس جائوں اور میرا دل چاہتا تھا کہ جب میں واپس آئوں تو اس لونڈی سے مصاحبت کروں۔ کہا عبداللہ نے جبکہ میں مسجد سے فارغ ہو کر نکلا تو لوگوں کا جمگھٹ تھا۔ میں نے پوچھا ہ کیا حال ہے کہوں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے بچوں اور عورتوں کو رسو ل خدا نے چھوڑ دیا ہے ۔ پس میں نے کہا کہ ایک بیوی تمہاری بنو جمح میں ہے وہ بھی تم لے جائو۔ پس وہ گئے اور اس کو بھی لے گئے۔ کہا ابن اسحاق نے کہ عیینہ بن حصن نے ایک بڑھیا قوم ہوازن سے لی تھی اور جب اس نے اس بڑھیا کو لیا تھا تو یہ کہا تھا کہ بڑحای میری دانست میں قوم ہوازن میں سے کسی بڑے گھر کی ہے اورغالب ہے کہ مجھ کو اس کے عوض بہت کچھ مال ہاتھ آئے گا۔ پس جبکہ رسول خدا نے تمام قیدیوں کو رہا کر دیا اورلوگوں سے وعدہ کیا کہ ان کے عوض چھ چھ اونٹوں کا تو عیینہ نے انکار کیا کہ میں ا س بڑھیا کو نہ دوں گا۔ پس زہیر ابو صرد نے کہا کہ نہ تو وہ چنداں پاکیزہ دھن ہے اورنہ اس کی چھاتیاں ابھری ہوئی ہیں اورنہ وہ جننے کے لائق ہے اورنہ زوج ا س کا ایک ہے اورنہ اس کے کسی دائمی نفع کی توقع ہے ‘پھر کیوں نہیں دے دیتا؟ پس عیینہ نے ابو صرف کے اس کہنے سننے سے دے دیا۔ کہا پس گمان کیا انہوں نے یہ کہ عیینہ ملا اقرع بن حابس سے اور شکایت کی اس سے اس بات کی۔ پس اس نے کہا کہ واللہ نہی لیا تو نے ااس کو کچھ عاقلہ عزیزہ سمجھ کر اورنہ کچھ کام خدمت کے لائق دیکھ کر‘‘۔ ہم کو اپنے دعوے کے اثبات کے لیے بخاری کی حدیث پر استدلال ہے جس سے قیدیوں کا احسان رکھ کر چھوڑ دینا ظاہر ہے اور اس حدیث کے ان الفاظ سے کہ : من احسب منکم ان یکون علی حظہ حتیی یعطیہ ایاہ من اول ما یغی اللہ علینا بخوبی ثابت ہے کہ غازیوں کا حق اساری ٰ پر بجز فدیہ لینے کے اور کچھ نہیں ہے۔ سیرت ہشامی میں جو لکھا ہے ہ بنو تمیم نے احسان رکھ کر چھوڑنے سے انکار کیا تو رسول خدا صلعم نے بطو ر حق قید کرنے والے کے فی قیدی چھ اونٹ فدیہ دلانے کی تجویز کیے اور اس سے اوربھی ثابت ہوا کہ غازیوں کا بجز فدیہ کے اور کچھ حق نہ تھا۔ سیرت ہشامی کے ان لفظوں سے کہ عیینہ نے ایک بڑھیا کو اس خیال سے پکڑا تھا کہ اس کا فدیہ زیادہ ہو گا ظاہر ہوتا ہے کہ مجاہدین صحابہ جانتے تھے کہ اساریٰ پر بجز فدیہ لینے کے اور کچھ حق نہیں ہے۔ گو سیرت ہشامی کو ہم اس رتبے کی کتاب نہیں سمجھتے کہ اس کی روایت بلا کسی موئد کے قابل اعتبار ہو مگر چونکہ بخاری کی مذکورہ بالا حدیث سے اس قدر مضمون کی تائید ہوتی ہے‘ اس لیے ہم نے اس پر بھروسا کیا ہے۔ مگر ہمارے مخالف سیرت ہشامی کی روایت پر استدلالا کر کے ہم سے مکابرہ کریں گے کہ جب خو د رسول اللہ صلعم نے قبل واپس دینے اساریٰ کے چند لڑکیاں علی و عثمان و عمر کو بخش دی تھیں اورحضرت عمر نے منجملہ ان کے ایک اپنے بیٹے کو ہبہ کر دی تھی اور وہ اس کے ساتھ مباشرت کرنے کو تیار ہو گئے تھے تو اس سے صاف اساریٰ کے استرقاق کا جواز پایا جاتا ہے۔ مگر ا س کے جواب میں اول تو ہم یہ کہیں گے کہ سیرت ہشامی اور اس کے راوی نامعتمد ہیں اور اس لیے سیرت ہشام کی وہ روایت جس کی موید کوئی صحیح روایت نہیں قابل اعتما د کے نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ سیرت ہشامی میں جو لفظ اعطی کا لکھا ہے‘ جو قصہ بد اخلاقی اور صفت بہیمیہ کا عبداللہ بن عمر کی نسبت منصوب کیا ہے محض کذب اور جھوٹ ہے۔ رسول خدا صلعم نے کسی کو کوئی لڑکی نہیں بخشی تھی‘ بلکہ خود حضرت عمر نے گرفتار کیا تھا اوراس کی سند کے لیے ہم حدیث بخاری کی اپنے پاس موجود رکھتے ہیں: فی البخاری عن نافع ان عمر بن الخطاب قال یا رسول اللہ انہ کان علیٰ اعتکاف یوم فی الجاھلیۃ فامرہ انیعنی بہ قال واصاب عمر جایتین من سبی حنین فوضعھما فی بعض بیوت مکۃ قال فمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی سبی حنین فجعلوا یسعون فی السکک فقال عمر یا عبداللہ انظر ما ھذا فقال من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی السیسی قال اذھب فارسل جاریتین الخ ’’بخاری میں نافع سے یہ روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے رسول خدا صلعم سے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک دن اعتکاف میں نے مانا تھا وہ مجھ پر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کو اتار دو اور نافع نے بھی کہا کہ حضرت عمر کے ہاتھ دو لڑکیاں آئی تھیں جنین کے قیدیوںمین سے یعنی جو لوگ حنین میں قید ہوئے تھے ان مین دو لڑکیاں وہ تھیں جن کو حضرت عمر نے پکڑا تھا اوران کو مکے کے گھروں میں سے کسی گھرمیں رکھ دیا تھا ۔ نافع نے کہا کہ جب پیغمبر خدا صلعم نے حنین کے قیدیوں کو احسا ن رکھ کر چھوڑا تو وہ بازار میں چلنے پھرنے لگے ‘ تب عمر نے کہا اے عبداللہ دیکھ تو یہ کیا ہے ؟ تب عبداللہ نے کہا کہ رسول خدا صلعم نے قیدیوں کو احسان رکھ کر چھوڑ دیا ہے عمر نے کہا جا ان لڑکیوں کو بھی چھوڑ دے۔‘‘ پس اس حدیث میں نہ پیغمبر خدا صلعم کا ان لڑکیوں کو بخش دینا مذکور ہے اونہ اس اتہام کا ذکر ہے جو ابن اسحاق نے حضرت عبداللہ بن عمر پر کیا ہے۔ قطع نظر اس کے اگر الفاظ سیرت ہشامی ہی کو تسلیم کر لیا جائے تو بھی استرقاق ثابت نہیں ہوتا۔ اعطی کا لفظ استرقاق پر دلالت نہیں کرتا اور جاریہ کالفظ لونڈی اور آزادی لڑکی دونوں پر اطلاق ہوتا ہے اورجس جاریہ کی نسبت عبداللہ بن عمرپر اتہام کیا گیا اگر وہ لونڈی تھی جیسے کہ طرز کلام ہشامی سے بوجہ ذکر کرنے نسب دو جاریوں کے اور نہ ذکر کرنے نسب اس جاریہ سے پایا جاتا ہے تو مابعد آیت حریت کے استرقاق پر کچھ بھی استدلال نہیں ہو سکتا۔۔ چہارم : اساریٰ ثقیف۔ ثقیف کے قیدیوں کو بھی رسول خدا صلعم نے فدیہ لے کر چھوڑ دیا تھا چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ : عن عمران بن حصین قال کان ثقیف حلیفا لنبی عقیل فاسرت ثقیف رجلین من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واسر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رجا من بنی عقیل فا وثقوہ وفطر حوہ فی الحر فمر بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فناداہ یا محمد یا محمد فیما اخذت قال بجریرۃ حلفائکم ثقیف فترکہ و مضی فناداہ یا محمد یا محمد فرحمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرجع قال ما سئانک فقال انی مسلم فقال لو قلتھا وانت تملک امرک افحلت کل الفلاح قال ففداہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالرجلین اللذین اسرتھما ثقیف ’’عمران بن حصین نے کہا کہ بنو ثقیف اور بنو عقیل دونوں آپس میں بھائی بھائی بن گئے تھے بنو ثقیف نے رسول خد ا صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابوں میں سے دو شخصوں کوقید کر لیا تھا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے تو اس نے پکارا اے محمد! مجھ کو کس وجہ سے پکڑا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تمہارے بنے ہوئے بھائیوں ثقیف کے گناہ میں ۔ یہ فرمایا اوراس کو بدستور بندھا ہوا چھوڑ کر تشریف لے گئے ۔ وہ پھر پکارا اے محمد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر رحم آیا اورپھر آپ پھر کر آئے اورپوچھا کہ تیرا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ میں مسلمان ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تو اس وقت کہتا جب کہ تو اپنے اختیار میں تھا تو بہت سی بھلائیاں پاتا۔ عمران بن حصین نے کہا کہ بعد اس کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو قیدیوں کے فدیہ میں جن کو بنو ثقیف نے قید کیا تھا اسے چھوڑ دیا‘‘۔ یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اس شخص کو بوجہ مسلما ن ہو جانے کے چھوڑ دیا تھا‘ اس یے کہ وہ مسلمان نہیں ہوا تھاجھوٹ موٹ کہتا تھا کہ میں مسلمان ہوں۔ چنانچہ مرقاۃ میں لکھا ہے: فقیل انما ردہ صلی اللہ علیہ وسلم الی دارالحرب بعد اظہار کلمۃ الاسلام لانہ قد علم انہ غیر صادق فھذا خاصۃ بہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’اس شخص کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد اس کے اس نے مسلمان ہونے کا اقرار کر لیا اس لیے دارالحرب میں بھیج دیا کہ آپ جانتے تھے کہ وہ سچا نہیں ہے۔ پس یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم ہی کے لیے خاص تھی‘‘۔ پنجم: اساریٰ بنو تمیم۔ بخاری نے ترجمۃ الباب میں لکھا ہے کہ : قال ابن اسحا ق غزوۃ عیینہ بن حصین بن حذیفہ بن بنی بدر بنی العبنر من بنی تمیم بعثہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم الیھم فاغارو اصاب منھم ناسا و سبی منھم نسائ۔ ’’ابن اسحاق نے کہا ہے کہ ذکر ہے غزوہ عیینہ بن حصین بن حذیفہ بن بدر کا بنو العنبر پر جو بنو تمیم سے ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر ان کو بھیجا تھا انہوں نے وہاں لوٹا اور آدمیوں کو مارا اورعورتوں کو قیدی بنا لائے‘‘۔ بعد اس کے بخاری نے یہ حدیث لکھی ہے : عن ابی ہریرۃ قال لا ازال احب بنی تمیم بعد ثلث سمعتہ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقولھا فیہ ۔ ہم اشد امتی علی الدجال وکانت فیھم منم سبیتہ عند عائشۃ فقال اعتقیھا فانھا من ولد اسماعیل و جاء ت صدقاتھم فقال ھذہ صدقات قوم او قومی ’’ابو ہریرہ نے کہا کہ میں ہمیشہ بنو تمیم کو دوست رکھتا ہوں جب سے کہ ان کی نسبت تین باتیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں۔ آپ ان کے حق میں فرماتے ہیں کہ میری تمام امت سے زیادہ سخت ہوں گے دجال پر اور انہی لوگوں میں ایک عورت حضرت عائشہ کے پاس بندی میں تھی تو آپ نے فرمایا کہ ا کو چھوڑ دے ‘ کیونکہ وہ اسماعیل کی اولاد میں سے ہے اور ان کے پاس سے جس صدقات آئے تو آپ نے فرمایا کہ یہ ایک قوم کے صدقات ہیں یا فرمایا کہ میری قوم کے صدقات ہیں‘‘۔ یہ تینوں باتیں جوحضرت ابوہریرہؓ نے فرمائیں یہ اس وقت کے واقعات نہیں ہیں جس وقت کہ انہوں نے ان کو فرمایا تھا‘ بلکہ پچھلی باتوں کو جو مختلف اوقات میں کہی گئی تھیں ان کو اس وقت بیان کیا تھا ۔ پس اس حدیث سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ غزوہ بنو تمیم کے بعد کوئی عورت حضرت عائشہ کے پاس لونڈی کے تھی اواس کے آزاد کرنے کا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ھتا بلکہ جب غزوہ بنو تمیم کے قیدی پکڑے آئے اسی میں سے ایک عورت حضرت عائشہ کے پاس تھی جس کو بلا فدیہ بہ سبب اولاد ابراہم ہونے کے چھوڑ دینے کو فرمایا تھا کیونکہ تمام قیدی بنو تمیم کے بلا فدیہ احسان رکھ کر اسی وقت چھوڑ دیے گئے تھے۔ چنانچہ موہب لدنیہ میں بالتفصیل لکھا ہے کہ: وبعث عیینۃ بن حصین الفرازی الی بنی تمیم بالسقیا وہی ارض بنی تمیم فی المحرم ستۃ تسع وکان خمسین فارسا من العرب لیس فیھم مھاجرین والانصاری فکان یسیرا الیل ویمکن النھار فھجم علیھم فی صحراء فدخلوا وسرحوا مواشیھم فلما روالمجمع ولو افاخذوا منھم احد عشر رجلا ووجدوا فی المحلۃ احدی عشرۃ امراۃ وثلاثین صبیا فقدم منمھم عشرۃ من رئوسائھم منھم عطارد والدبر قان وقیس ابن عاصم والاقرع بن حابس فجاء واالی باب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فنادوا یا محمد اخراج علینا فخرج صلی اللہ علیہ وسلم واقام بلال الصلوۃ وتعلقوا برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکلمونہ فوقف معھم ثم مضی فصلی الظہر ثم جلس فی صحن المسجد فقد موا عطارد ابن حاجب فتکلم و خطب فامر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثابت ان قیس بن شماس فاجابھم و نزل فیھم ان الذین ینادونک من وراء الحجرت الایۃ ورد علیھم صلی اللہ علیہ وسلم الاسریٰ والسبی۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیینہ بن حصن فرازی کو بنو تمیم پر سقیا کے مقام پر جو بنو تمیم کا ضلع ہے محرم ۹ ھ کو بھیجا اور اس کے ساتھ پچاس سوار عرب کے تھے اوران میں کوئی مہاجرین اور انصار میں سے نہ تھا۔ پس وہ رات کو چلتے تھے اور دن کو گھات میں بیٹھتے تھے۔ پس ایک جنگل میں بنو تمیم پر ٹوٹ پڑے اورگھس کر ان کے مویشی کو گھیر لیا۔ جب انہوں نے آدمیوں کے غو ل کو دیکھا تو وہ بھاگ گئے۔ دس آدمی ان میں سے پکڑے گئے اور اس جگہ گیارہ عورتیں اورتیس بچے ملے۔ اس کے بعد ان میں سے دس سردار جن میں عطارد اور دبرقان اور قیس بن عاصم اور اقرع بن حابس بھی تھا مدینہ میں آئے اورپیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر جا کر پکارنے لگے کہ اے محمد! ہمارے پاس باہر آئو۔ آپ اندر سے باہر تشریف لائے۔ اتنے میں بلال نے ظہر کی نماز کی اذان دی اور ان لوگوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو پکڑ لیا اور بات چیت کرنے لگے۔ آپ نے تھوڑی دیر توقف کیا۔ پھر چلے گئے اور بعد میں آ کر ظہر کی نماز پڑھی پھر مسجد کے صحن میں بیٹھے‘ ان لوگوں نے عطار بن حاجب کو پیش کیا۔ اس نے بات چیت کی اور خطبہ پڑھا۔ پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس بن شماس کو ان کا جواب دینے کا حکم دیا اور انہوںنے ان کا جواب دیا۔ انہی لوگوں کی نسبت یہ آیت نازل ہوئی کہ جو لوگ تجھ کو مکان کے دروازے کے باہر پکارتے ہیں الخ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قیدی مرد اور عورتیں اور بچے سب پھیر دیے‘‘۔ سبی اور سبایا کا لفظ عام ہے ان پر بھی اطلا ق کیا جاتا ہے جو قیدی لونڈی و غلام بنا لیے گئے ہوں اور ان پر بھی بولا جاتا ہے جو قید ہوئے ہوں۔ اصل میں وہ لفظ لڑائی میں جو لوگ پکڑے جائیں ان کے لیے موضوع ہوا ہے‘ مگر چونکہ عرب میں ہمیشہ لڑائی کے قیدی لونڈی و غلام بنا لیے جاتے ہیں اسس لیے سبی سے لڑائی میں پکڑے ہوئے لونڈی یا غلام مراد ہونے لگے مگر وہ مطلق لرائی کے قیدیوں کی نسبت بھی مستعمل ہیں۔ عتق کا لفظ صرف غلام ہی کے آزاد کرنے پر نہیں بولا جاتا بلکہ نہایت عام معنوں میں او ر قیدیوں کے چھوڑ دینے میں بھی مستعمل ہے۔ پس حدیث مزکورہ بالا میں جو لفظ اعتقھا ہے اس سے یہ سمجھنا کہ وہ عورت لونڈی تھی ایک بہت بڑی فاحش غلطی ہے۔ کشف الغمہ عن جمیع الامۃ کی کتا ب السیر میں حضرت ابو ھرہرہ سے ایک حدیث منقول ہے: کان علی عائشۃ رضی اللہ عنھا عتق رقبۃ فجاء سبی من بنی تمیم فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اعتقی من ہولاء الخ ’’جب عائشہ پر ایک بردہ آزاد کرنا تھا جب بنو تمیم کے قیدی آئے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان میں سے آزاد کر دے‘‘۔ یہ حدیث محض بے جوڑ اور خلاف اصول اورمحض نا معتبر ہے اگر ایسی لغویات پر مسائل مذہب اسلام کی بنیاد ہو تو خدا حافظ ہے۔ ایک متعصب مکابر ہمارے اس بیان پر جو اس باب میں کیا ہے یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ بعد فتح مکہ جس قدر غزوات میں قیدی ہوئے اور جن کا ذکر ہم نے اس باب میں کیا وہ سب اہل عرب تھے اور اہل عرب کا لونڈی و غلام بنانا جائز نہ تھا اس لیے وہ چھوڑے گئے نہ اس وجہ سے کہ آیت من و فداء نازل ہو چکی تھی۔ مگر اس کا جواب ہم یہ دیتے ہیں کہ عرب میں بزمانہ جاہلیت اہل عرب کا لونڈی و غلام بنانا بالکل رائج تھا اور ابتدائے زمانہ اسلام میں بھی جبکہ قیدیوں کے باب میں کوئی حکم نہیں آیا تھا اور رسم و رواج عرب کے موافق کام ہوتا تھا قوم عرب کا لونڈی و غلام بنانا ناجائز نہیں سمجھا جاتا تھا اورتمام علماء بالتفاق اس بات کے مقر ہیں کہ قوم عرب کا لونڈی و غلام بنانا ناجائز نہ تھا۔ پس اس سے بخوبی ظاہر ہوا کہ ان غزوات میں جس قدر قیدی منا و فداء چھوڑے گئے وہ اسی وجہ سے چھوڑے گئے کہ قیدیوں کی نسبت آیت من و فداء نازل ہو چکی تھی۔ اوراس کی تعمیل فرض تھی۔ واسطے ثبوت اس بات کے کہ قبل نزول آیت من و فداء قوم عرب کا لونڈی و غلام بنانا ناجائز نہیں سمجھا جاتا تھا دو حدیثیں اور قول علماء متقدمین ذیل میں لکھا جاتا ہے۔ بخاری نے اپنی صحیح میں ایک باب میں لکھا ہے : باب غزوۃ بنی المصطلق من خزاعۃ وھی غزوۃ المریسیع قال ابن اسحاق وذالک سنۃ ست و قال موسیٰ بن عقبۃ سنۃ اربع وقال نعمان بن راشد عن الزھری کان حدیث الافک فی غزوۃ المریسیع ’’یہ باب ہے بنو المصطلق کا جو خزاعہ کی شاخ ہے اور اسی کا نام غزوہ مریسیع ہے ۔ ابن اسحاق نے کہا کہ یہ غزوہ ۶ھ میں ہوا تھا اور موسیٰ بن عقبہ کا قول ہیکہ ۴ھ میں ہوا تھا اور نعمان بن راشد نے زہری سے روایت کی ہے کہ اسی غزوہ میں مریسیع میں لوگوں نے حضرت عائشہ پر اتہام کیا تھا‘‘ عن ابی محیرز قال دخلت المسجد فرائت ابا سعید الخدری فجلست الیہ فسالتہ عن العزل قال ابو سعید خرجنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی غزوۃ بنی المصطلق ناصبناسبینا عن سی العرب فاشتھینا النساء وواشتدت علینا العذبۃ واحببنا العزل فاردنا ان نعزل وقلنا نغزل ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین اظھر ناقبل ان نسائلہ فساء لنا ہ عن ذالک فقال مالکم ان تفعلوا ما من نسمۃ کائنۃ الیٰ یوم القیامۃ وھی کائنۃ ’’ابی محیر ز نے کہا کہ میں مسجد نبوی میں گیا وہاں ابو سعید خدری کو بیٹھا ہوا دیکھا ۔ پھر میں نے عزل کی نسبت ان سے پوچھا۔ انہوںنے کہا کہ ہم ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بنو المصطلق کی لڑائی میں گئے تو عرب کی قیدی عورتوںمیں ایک قیدی عورت میرے ہاتھ لگی اور ہم عورتوں کے ہاتھ آنے کے خواہش مند تھے کہ عورتوں کے پاس نہ جانا ہم پر بہت سخت تھا اورعزل کرنا ہم چاہتے تھے‘ تاکہ کسی کو حمل نہ رہے۔ پس ہم نے عزل کا ارادہ کیا۔ پھر ہم نے کہا کہ باوجود موجو د ہونے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کے بغیر پوچھے ہم یہ کام کریں۔ پھر ہم نے اس باب میں آنحضرت سے پوچھا‘ آپ نے فرمایا کہ تم کو کیا ہوا ہے جو ایسا کرتے ہو۔ جو جان کہ قیامت تک پیدا ہونے والی ہے وہ پیدا ہو گی۔ صحیح مسلم میں یہ حدیث ہے: عن ابن عون قال کتبت الیٰ نافع اسعئلہ عن الدعا قبل القتال کفکتبالی انما کان ذالک فی اول الاسلام قداغار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیٰ بنی المصطلق وھم غارون وانعامھم تسقی علی الماء فقتل مقاتلتہم وسبا سبیہم و اصاب یومئذ قال یحییٰ احسبہ قال جویریۃ او الباتۃ بنت الحارث و فی روایۃ قال جریریۃ بنت الحارث ولم یشک ’’میں نے نافع کو لکھ کر پوچھا کہ قبل شرو ع ہونے لڑائی کے کافروں کو مسلمان ہونے کا پیغام دینے کے باب میں کیا حکم ہے؟ انہوں نے مجھ کو لکھا کہ یہ بات ابتدائے اسام میںتھی۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو المصطلق پر حملہ کیا اوان کے مویشی پانی پیتے تھے۔ پھر قتل کیا ان میں سے لڑے والوں کو اور قید کیا ان میں سے قیدیوں کو او ر یحیٰ نے کہا کہ میں خیا کرتا ہوں کہ سلیم نے جویریہ کہا یا الباتۃ بنت الحارث کہا کہ اسی دن ہاتھ آئی تھیں اورایک روایت ہے کہ اس نے جویریہ بنت الحارث کا نام لیا بغیر کسی شک کے‘‘۔ قال النودی فی شرحہ وفی ہذا الحدیث جواز استرقاق العرب لان بنی المصطلق عرب من خزاعۃ وھذا قول الشافعی فی الجدید و ھو الصحیح وبہ قال مالک وجمھور اصحاب وابو حنیفۃ والا وزاعی و جمھور العلماء وقال جماعۃ من العلماء لا یسترقون وھذا قول الشافعی فی القدیم ’’نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے عرب کی قوم ک لونڈی و غلام بنانے کا جواز نکلتا ہے‘ کیونکہ بنو مصطلق قوم عرب بنو خزاعہ کی شاخ ہیں اور امام شافعی صاحب بھی اخیر کو اسی بات کے قائل ہوئے ہیں اوریہی بات صحیح بھی ہے اور امام مالک اورتمام ان ے شاگرد اور امام ابو حنیفہ اور اوزاعی اور تمام علماء اسی بات کے قائل ہیں اور ایک گروہ علماء کا یہ قول ہے کہ وہ لونڈی و غلام نہیں ہو سکتی اور یہ قول ابتدا میں امام شافعی صاحب کا تھا‘‘۔ پس ان حدیثوں اور اقوال علماء سے ظاہر ہے کہ قبل نزول آیت من و فداء کے قوم عرب میں لونڈی یا غلام بنانا رائج تھا۔ پس بعد نزول اس آیت کے جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا تو اس کا سبب یہ نہ تھا کہ وہ لوگ قوم عرب سے تھے‘ بلکہ اسی آیت کے حکم کے مطابق چھوڑا تھا ۔ تمام کام جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے اور تمام احکام جو رسول مقبول نے صادر فرمائے سب کا منشاء غلاموں کی آزادی اورغلامی کا معدوم کرنا تھا‘ یہاں تک ککہ غزوہ طائف میں عام منادی کر دی تھی کہ جو غلام نکل کر ہمارے پاس چلا آئے گا وہ آزاد ہے۔ چنانچہ مواہب لدنیہ میں لکھا ہے : ثم نادیٰ منادیہ علیہ الصلوۃ والسلام ای عبد نزل من الحصن خرج الینا فہوحر ’’رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی کرنے والوں نے منادی کی کہ جو غلام قلعے میںسے نکل کر ہمارے پاس چلا آئے گا وہ آزاد ہے‘‘۔ پس جو کہ غلاموں کو ایسی عام منادی سے آزاد کرتا تھا وہ آزادوں کے غلام بنانے پر کبھی راضی نہ تھا‘ صلی اللہ علیہ وعلیٰ من احبہ وسلک طریقہ وسلم مگر افسوس ہے کہ قدیم رسم و رواج کے انس نے جو انسان کو غفلت میں ڈالتا ہے ہمارے بزرگوں نے اس طرف غورکرنے سے غافل کر دیا۔ مگر اب ہم کو اس سے غفلت نہیں کرنی چاہیے اور تفرد کا ڈر اور اس کاخوف بالکل نکال دینا چاہیے اس لیے کہ بڑ ے بزرگ کا قول ہے کہ راہ طلب میں تفرد ہی دلیل صدق طلب ہے ۔ وتوکل علی اللہ و ہو نعم الوکیل ٭٭٭ باب ہفتم ان حدیثوں اور روایتوں کے بیان میں جن سے لونڈی و غلام بنانے کا فعل رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت منسوب کیا جاتا ہے تمام علماء اسلام کوئی حکم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا نسبت جواز استرقاق کے بیان نہیں کر سکتے اورجب اس کے بیان سے عاجز ہوتے ہٰں تو کہتے ہیں کہ فعل رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمارے لیے حجت ہے۔ اس بات کو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں اورفعل رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو مثلا آپ کے قول کے سرآنکھوں پر رکھتے ہیں مگر فعل کی تفتیش پر اس وقت متوجہ ہوتے ہیں کہ قول یا حکم موجود نہ ہو اوراس باب میں حکم قرآنی فاما منا بعد واما فداء موجودہے جس میں کچھ شبہ نہیں ۔ علاوہ اس کے جو کام رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے یاآپ کے سامنے پہوئے اوراخیر زمانہ نبوی تک نہ اس کے مخالف کوئی حکم آیا اورنہ اس کے برخلاف کوئی کام ہوا وہی کام کسی مسئلہ شرعی کی بنیا د ہو سکتے ہیں۔ اس معاملے میں جس میں ہم بحث کر رہے ہیں ہم نے نص سریح قرآنی کو سند پکڑا ہے اوریہ ثابت کیا ہے کہ اس کے بعد فعل رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اسی آیت کے مطابق رہا ہے اور کبھی اس کے برخلاف نہیں ہوا تو ہم کو اس حکم کے ماقبل کے فعل رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تفتیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘ کیونکہ اس حکم سے ماقبل یا اس فعل پر جو مابعد اس کے ہوا ہے قائم ہو گی اور یہ اصول کچھ ہمارا مقرر کیا ہوا نہیں ہے بلکہ تمام اہل اسلام اور علما دین اور ائمہ مجتہدین کا اصول ہے لیکن با ایں ہمہ ہم ان حدیثوں اور روایتوں کا بھی ذکر کریں گے جن سے لونڈی و غلام بنانے کا فعل جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قبل نزول آیت اما منا بعد واما فداء کے منسوب کیا جاتا ہے ۔ اور جو لطیف لطیف نکتے ان میں ہیں ان کو بھی بغیر بیان کیے نہیں چھوڑیں گے۔ روایات متعلق غزوہ یہود بنی قریظہ سب سے بڑا واقعہ جس سے اساریٰ کو لونڈی و غلام بنانافعل رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا کہا جاتا ہے وہ غزرہ بنی قریظہ ہے مگر یہ غزرہ قبل فتح مکہ و قبل نزول آیت واقع ہوا ہے۔ بلاشبہ یہ حدیث جو بخاری و مسلم میں ہے کہ: عن ابن عمر قال حاربت النضیر و قریظہ فاجلا بنی النضیر و اقر قریضۃ ومن علیھم حتی حاربت قریظۃ فقتل رجالھم وقسم نساھم واولادھم و اموالھم بین المسلمین الا بعضھم لحقوا بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم فامنھم واسلمو ا واجلا یھود المدینۃ کلھم بنی قینقاع وھم رھط عبداللہ بن سلام وہ یھود بنی حارثۃ وکل یھود بالمدینۃ ’’ابن عمر نے کہا ک بن نضیر اور بنی قریظہ دونوں سے لڑائی ہوئی۔ بنی نضیر کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جلا وطن کر دیا اور بنی قریظہ کو احسان رکھ کر بسا رکھا۔ یہاں تک کہ بنی قریظہ نے پھر لڑائی کی تب ان کے مردوں کو مار ڈالا اور ان کی عورتیں اور بچے اور مال مسلمانوں میں بانٹ دیا مگر بعض لوگ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے آئے وہ امن سے رہے اور مسلمان ہو گے اورمدینے کے تمام یہودی بنی قینقاع جر عبداللہ بن سلام کی قوم تھے اور یہود بنی حارثہ اور تمام مدنے کے یہودیوں کو جلاوطن کر دیا‘‘۔ اس حدیث سے البتہ اساریٰ کا لونڈی و غلام بنایا جانا پایا جاتا ہے اورسیرت ہشامی میں جو اس قدر ت روایت اور زیادہ لکھی ہے کہ: ثم بعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن زید الانصاری اخابنی عبددالا شھل بسبایا من سبایا بنی قریظہالیٰ نجد فابتاع لھم بھم خیلا و سلاحا ’’رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن زید الانصاری اخابنی عبدالاشہل کو بنی قریظہ کے قیدیوں میں سے کچھ قیدیوں کے ساتھ نجد کو بھیجا اور ان قیدیوں کے بدلے گھوڑے اور ہتھیار خریدے گئے‘‘۔ اگر صحیح ہو تو ان قیدیوں کو لونڈی وغلام تصور کرنے کی اور بھی زیادہ وضاحت ہو جاتی ہے مگر اس روایت سے ہمارا کچھ حرج نہیں ہے‘ اس لیے کہ آیت من و فداء کے نازل ہونے سے قبل کا یہ واقعہ ہے اورنکتہ باریک اس میں یہ ہے کہ جو کچھ معاملہ اساریٰ بنی قریظہ کے ساتھ کیا گیا وہ خدا کے حکم کے بموجب نہیں کیا گیا تھا‘ بلکہ موافق رسم و عادت عرب کے جواس زمانے میں تھی سعد بن معاذ حکم قرار دیے گئے تھے اور یہ ٹھہرا تھا کہ نسبت بنی قریظہ کے جو لڑائی میں قید نہیں ہوئے تھے بلکہ خود انہوں نے اپنے تئیں سپرد کر دیا تھا جو فیصلہ سعد بن معاذ کر دیں اور جو حکم وہدیں وہ کیا جائے۔ پس جو کچھ ان کے ساتھہوا وہ حکم سعد بن معاذ کا تھا نہ حکم خدا کا چنانچہ اس حدیث کو مع بحث متعلق اس کے ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ روایات متعلق غزوہ بنی فرازہ صحیح مسلم میں یہ حدیث ہے کہ: قال (ای ایاس ابن سلمۃ ) حدثنی ابی قال غزونا فرازۃ وعلینا ابوبکر امرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلما کان بیننا وبین الماء ساعۃ امرنا ابوبکر فعرسنا ثم شن الغارۃ فورد الماء فقتل من قتل علیہ وسبا وانظر الیٰ عنق من الناس فیھم الذراری فخشیت ان یسبقونی الی الجبل فرمیت بسھم بینھم وبین الجبل فلماروا الھم وقفوا۔ فجئت بھم اسرتھم و فیھم امراء من بنی فرازۃ علیھا فشع من ادم قال القش النطر معھا ابنۃ لھامن احسن العرب فسقتھم حتی اتیت بھم ابابکر فنفلنی ابوبکر ابنتھا فقدمنا المدینۃ وما کفت لھا ثوبا فلقینی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی السوق فقال یا سلمۃ ھب لی المراء فقلت یا رسول اللہ لقد اعجبتنی وما کشفت لھا ثوبا ثم لقینی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الغد فی السوق فقال یا سلمۃ ہب لی المراۃ للہ ابوک فقلت ھی لک یا رسول اللہ ما کشف لھا ثوبا فبعث بھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الیٰ اھل مکۃ ففدا بھانا سامن المسلمین۔ ’’ایاس بن سلمہ نے کہا کہ میرے باپ نے مجھ سے یہ بات کہی کہ ہم بنی فرازہ سے لڑنے کو چلے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرکو ہم پر سردار کیا تھا۔ پس جب کہ رہا ہم سے اورپانی سے تھوڑا فاصلہ حکم دیاہم کو ابوبکر نے ٹھہرنے کا ۔ پس ٹھہرے ہم رات کو اور پھر متفرق کیا چار طرف سے اور پانی پر آ گئے۔ پس جو مقابل ہوا اس کو قتل کر ڈالا اور کچھ لوگوں کو قید کیا اور ایک جماعت میں نے دیکھی کہ اس میں بچے اور عورتیں تھیں پس مجھ کو اندیشہ ہوا کہ یہ بچ کر پہاڑ پر نہ چڑھ جائیں‘ چنانچہ میںنے ایک تیر پھینکا وہ ان کے اور پہاڑ کے درمیان میں گرا۔ جب انہوں نے تیر دیکھا تو وہ کھڑے ہو گئے اور اسی عرصے میں میں نے ان کو جا لیا۔ ان کو اس طرف پھیرا اور اس جماعت میں ایک عورت قوم بنی فرازہ سے تھی اوروہ ایک چادر چمڑ ے کی اوڑھے ہوئے تھی اور اس کے ساتھ اس کی بیٹی نہایت خوبصورت تھی۔ پس سب کو گھیر کرمیں ابوبکر کے پاس لے آیا۔ حضرت ابوبکر نے اس لڑکی کو مجھے دے دیا۔ اس کے بعد ہم سب مدینہ منورہ کو چلے آئے اور میں نے اس لڑکی کا کپڑا تک نہ کھولا (کپڑا نہ کھولنا اشارہ ہے جماع نہ کرنے کی طرف) اتفاقا مدینے کے بازار میں مجھ کو حضرت رسول خداؐ ملے اور ارشاد فرمایا کہ اے سلمہ وہ عورت تو مجھ کو بخش دے۔ پس میںنے کہا کہ یارسول اللہ وہ عورت مجھ کو نہایت پیاری لگتی ہے حالانکہ میں نے ابھی تک اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا۔ پھر دوبارہ ملے مجھ کو رسول خدا دوسرے دن بازار ہی میں اورپھر فرمایا کہ اے سلمہ بخش دے تو مجھ کو وہ عورت تو میں نے جواب دیا کہ لے لیں آپ یا رسول اللہ اور قسم ہے خدا کی کہ میں نے ابھی اتک اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا۔پس آنحضرت نے اسے لے کر مکے بھیج دیا اور اہل مکہ نے اس کے عوض میں بہت سے مسلمانوں کو جو کفار کی قید میں تھے چھوڑ دیا‘‘۔ اس حدیث سے بھی بلاشبہ مطلع ہونا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بات سے کہ اساریٰ بنو فرازہ لونڈی و غلام بنائے گئے ثابت ہوتا ہے۔ مگر خود اس حدیث سے ظاہر ہے کہ یہ واقعہ فتح مکہ سو قبل نزول آیت حریت واقع ہوا تھا اور اس لیے ہمارے استنباط میں کچھ نقصان نہیں ڈالتا۔ روایات متعلق غزوہ بنو المصطلق یہ غزوہ بھی ۵ھ یا ۶ ھ میں قبل فتح مکہ و قبل نزول آیت من و فداء ہوا تھا اور اس لیے جو کچھ کہ ااس غزو ہ میں ہوا ہو ہمارے استدلال کا ناقض نہیں ہو سکتا مہذا زیادہ تفصیل اس کی غزوہ کے اساریٰ کی ہم کو نہیں ملی اورجس قدر ملی ہے اس کو ہم جویریہ کے حال کے ساتھ بیان کریں گے جو منجملہ سبایائے غزوہ ہذا سے تصور ہوتی ہیں اوراسی کے ساتھ ان تمام اختلافات روایات کو بھی جو اس معاملے میں ہیں اور نہایت تعجب انگیز ہیں بیان کریں گے۔ ذکر آنحضرت صلعم کی سراری کا مواھب لدنیہ میں لکھا ہے: واما سراریہ فقیل انھن اربعۃ ماریۃ القبطیۃ بنت شمعون بفتع الشینالمھملۃ اھدا ھالہ المقوقس القبی صاحب مصر والا سکندریۃ واھدیٰ معھا اختھا سیرین بکسر السین المھملۃ وسکون المثناۃ التحانیۃ وکسرا الراء و بالنون اخرھا…ووھب صلی اللہ علیہ وسلم سیرین لحسان بن ثابت وھی ام عبدالرحمن ابن حسان وماریۃ ھی ام ابراہیم ابن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وماتت ماریۃ فی خلافۃ عمر رضی اللہ عنہ سنۃ ست عشرو دفنت بالبقیع ۔ وریحانۃ بنت شمعون من بنی قریظۃ وقیل من بنی النضیر ولاول اظہر وماتت قبل دفاۃ علیہ السلام مرجعہ من حجۃ الوداع سنۃ عشرو دفنت بالبقیع وکان علیھا السلام وطیھا بملک الیمین وقیل اعتقھا و تزوجھا ولم یذکر ابن الایر غیرہ۔ واخری و ہبتھازینب بن جحش۔ الرابعۃ اصابھا فی بعض السبی۔ ’’کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چار حرمیں تھیں: ماریہ قبطیہ بیٹی شمعون کی۔ اس کو مقوقس مصر اور اسکندریہ کے بادشاہ نے بطور تحفے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا اور اسکے ساتھ سیرین اس کی بہن بھی بھیجی تھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سیرین کو حسان بن ثابت کو دے دیا تھا اور اسی سے عبدالرحمن بن حسان پیدا ہوئے تھے اور ماریہ حضرت ابراہم بیٹے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں ہیں۔ حضرت عمر کی خلافت میں ۱۶ ھ میں ان کا انتقال ہوا اور بقیع میں مدفون ہوئیں اور ریحانہ بنت شمعون تھیں بنی قریظہ میں کی اور بعضوں نے کہا کہ بنو نضیر میں کی اور پہی بات ٹھیک ہے۔ ان کا انتقال قبل وفات پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہو گیا جبکہ آپ ۱۰ ھ میں حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم بطور حرم کے ان کو تصرف میں لائے تھے اور بعضے کہتے ہیں کہ ان کو آزاد کردیا تھا اور پھر ان سے نکاح کیا تھا اورابن اثیر نے اس کے سوا اور کوئی روایت نہیں لکھی اور ایک اورتھیں جن کو زینب بن جحش نے ہبہ کیا تھا اورچھوتھی بھی تھیں جو کسی لڑائی میں قیدیوں میں سے آپ کے ہاتھ آئی تھیں‘‘۔ اب ہم ان چاروں کا جن کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمین بیان کیا گیا ہے جدا جد احال لھتے ہیں ۔ ماریہ قبطیہ کے بطور تحفہ آنے میں اور نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرف میں آنے اور ان سے حضرت ابراہیم کے پیدا ہونے میں کچھ شبہ نہیں ہے‘ مگر شبہ اس بات میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو تصرف میں لانا جواز استرقاق کی دلیل ہو سکتی ہے یا نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ نہیں ہو سکتی اس لیے کہ قرآن مجید یا حدیث نبوی میں تو حکم و علت اور سبب طاری وہنے رقیت کا کسی جگہ مذکور نہیں ہے اورہم کو قرآن مجید سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بعد شروع زمانہ اسلام بھی جب تک احکام ازدواج نازل نہیں ہوئے تھے نہ ان رشتوں کا جو بعد کو حرام ہوئیء خیال تھا اورنہ اس تعداد کا جو بعد کو قرار پائی اور نہ اس شرط اہم عدل کا جو تعدد ازواج کے لیے مقرر ہوئی جس سے حقیقۃً معدومیت تعدد ازواج لازم آتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی کوئی احکام خاص اس باب میں نہ تھے اس لیے ازدواج اورنیز سراری کا تصرف موافق اسی رسم عرب کے ہوا تھا جو محض بے عیب و بے گناہ تھا ۔ بعد اس کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت درباب ازدواج احکام صادر ہوئے اور وہ حکم یہ تھے کہ جس قدر ازواج و سراری تمہارے تصرف میں آ چکیں ان کو تو ہم حلال رکھتے ہیں ‘ مگر اب کوئی عورت مت کرو۔ پس اس حکم سے صاف پایا جاتا ہے کہ واقعات سابق سب بموجب رسم مروجہ عرب ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ آیتیں جن پر ہم نے استدلال کیا یہ ہیں: اللہ تعالیٰ سورہ احزاب میں فرماتا ہے: یاایھا النبی انا احللنالک ازواجک اللاتی اتیت اجورھن وما ملکت یمینک مما افاء اللہ علیک ’’اے نبی ! ہم نے حلال کیں تیرے لیے تیری جوروئیں جن کا مہر تو دے چکا ہے اورجو تیرے ہاتھوں کی ملک ہو چکی ہیں ان میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے تجھ کو دیا ہے‘‘۔ اور یہ بی بی جن کی نسبت خدا نے فرمایا : وما ملکت یمینک مما افاء اللہ علیک صرف حضرت ماریہ قبطیہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ میں اس پہلی آیت کے بعد اپنے نبی کو یہ حکم دیا : ولایحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بھن من ازواج ولا اعجبک حسنھن الا ما ملکت یمینک ’’نہیں حلال ہیں تجھ کو عورتیں اس کے بعد اور نہ یہ کہ ان جوروئوں کے بدلے اور جوروئیں کرے اگرچہ ان کا حسن تجھ کو اچھا لگتا ہو‘‘۔ اس آیت میں جو لفظ نساء کا تھا جس کے معنی عورتون کے ہیں ایسا عام تھا جس سے ما ملکت یمینک سے ہی حکم امتناعی متعلق ہوتا تھا اس لیے خدا تعالیٰ نے اس کومستثنیٰ فرمایا اور وہ جو مستثنیٰ ہوئیں صرف حضرت ماریہ قبطیہ تھیں۔ اب کہ ان آیتوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ واقعات موافق رسم زمانہ جاہلیت عرب ہوئے تھے اور بعد وقوع بالتخصیص جائز رکھے گئے تھے اس لیے آئندہ کے استرقاق کی دلیل نہیں ہو سکتے خصوصاً جب کہ غلبہ و استیلاء جو نذر اور ہدیہ میں بھی محقق ہوتا ہے باعث رقیت نہیں رہا۔ ریحانہ کا یہ حال ہے کہ وہ یہود بنی قریظہ میں سے ایک عورت تھیں اور قبل نزول آیت من و فداء کے تمام سبایا ئے بنی قریظہ لونڈی و غلام بنا لیے گئے تھے جس کا حال ہم اوپر بیان کر چکے اوریہ بھی بیان کر چکے کہ دلیل استرقاق نہیں ہو سکتا او رنیز قبل نزول آیت حریت تھا ۔ معہذا ہم کو اس بات سے کہ وہ بطور حرم تصرف رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم میں آئی تھیں یا آزادکرنے کے بعد ان سے نکاح کیا تھا بالکل انکار ہے۔ کسی معتبر حدیث میں ان میں سے کسی بات کا ذکر نہیں ہے‘ بلکہ سیرت ہشامی میں جو روایت مندرج ہے اس سے ان دونوں باتوں کا غلط ہونا پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اس میں لکھا ہے کہ : قال وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قدا صطفیٰ لنفسہ ریحانۃ نبت عمرو بن جنانۃ احدیٰ نساء بنی عمرو بن قریظۃ فکانت عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی توفی عنھا و فی ملکہ وقد کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرض علیھا ان یتزوجھا ویضرب علیھا الحجاب فقالت یا رسول اللہ بل تترکنی فی ملک فھوا خف علی وعلیک فترکھا۔ ’’رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ریحانہ بنت عمرو بن جنانہ کو جو ایک عورت بنی عمرو بن قریظہ میں سے تھیں اپنے لیے چن لیا تھا (قیدی اس لڑائی میں تقسیم ہوئے تھے ‘ شاید آپ نے ان کو چن لیا ہو) پس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہیں یہاں تک کہ حضرت نے ان کو چھوڑ کر انتقال فرمایا اوروہ حضرت ہی کی ملک میں تھیں اوررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ریحانہ سے یہ بات کہی تھی کہ میں تم سے نکاح کر لوں اورپردے میں بٹھائوں۔ ریحانہ نے کہا نہیں یا رسول اللہ! مجھ کو یوں ہی اپنی لونڈی رہنے دو کہ یہ بات مجھ پر آسان ہے اور آپ پر بھی آسان ہے۔ پس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسی طرح چھوڑ دیا ‘‘۔ ا ب ہم یہ پوچھتے ہیںکہ اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنے تصرف میںلا ہی چکے تھے تو ان سے پیغام نکاح کرنے اور ان کے انکار کرنے کی کچھ وجہ معقول نہ تھی ۔پس اسی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ تصرف نہیں کیا تھا۔ مورخین نے اپنی بدطینی پر قیاس کر کے صرف اس بدگمانی سے کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بطور لونڈی کے رکھاتھا تو ضرور تصرف بھی کیا ہو گا یہ با ت لکھ دی : وطیھا بملک الیمین حالانکہ اس کا کچھ ثبوت نہیں۔ واہ کیا معتقدین رسول کے ہیں کہ جو برائیاں ان میں ہیں وہ سب پیغمبر کی نسبت بھی قیا س کرتے ہیں اورجب ہم ان سے مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسی بدگمانی پیغمبر سے مت کرو تو ہمارے زمانے کے لمبی ڈاڑھی والے اور اونچے پیجامہ والے ہم کو غیر مقلد آئمہ اربع اورکافر اورملحد بتاتے ہیں اور ہم اپنے اس کفر کو ان کے ایمان سے بہت اچھا سمجھتے ہیں۔ لو کان الکفر حب النبی محمد فانی اشھد باللہ انی کافر تیسری بے نام حر م جس کی نسبت لکھا ہے کہ وھبت زینب بنت جحش اس کا کچھ پتا نہیں ہے‘ نہ نام نشان ہے‘ نہ کچھ ثبوت ہے اوریہ عام قاعدہ مقلدین کا ہے کہ بے دھڑک اور بلا سند جو بات چاہتے ہیں وہ رسول کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اورجو اتہام چاہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لگا دیتے ہیں‘ گو یہ اتہام عمدا ً نہ ہو اور اس لیے جہنم میں نہ جائیں مگر اس میں کچھ ثواب بھی نہیں پانے کے۔ چوتھی بے نام حرم کا بھی یہی حال ہے جس کی نسبت لکھا ہے کہ اصابھا فی بعض السبیی اگرچہ اس فرضی حرم کا بھی پتا نہیں ملتا تھا‘ مگر ہم نے اس بات کا کھوج لگایا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب پر ان اتہام کرنے والوں کو موقع اتہام کا کیونکر ہاتھ آیا۔ بہت غور کرنے کے بعد غزوہ بنی فرازہ کا حال ہم کو ملا جس میں ایک خوبصورت لڑکی بنی فرازہ کی قبل نزول آیت حریت سلمہ کے ہاتھ آئی تھی اورجناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے باصرار اس کو سلمہ سے مانگ لیا تھا۔ ان بے ادب مقلدین نے اس کو بھی حرم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں خیال کر لیا‘ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لے کر مکے میں اس کے کنبے کے پاس بھیج دیا تھا اوراس کے بدلے مسلمان قیدی چھڑا لیے تھے۔ چنانچہ اس واقعے کی حدیث صحیح مسلم میں ہم ابھی لکھ چکے ہیں۔ ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج مطھرات کا حضرت جویریہ بنت الحارث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطھرات میں سے ہیں ۔ ان کا بھی کچھ زکر ا س مقام پر لکھنا ضرور ہے۔ ان کے ازدواج کی نسبت اس قدر مختلف روایتیں ہیں کہ ان کو دیکھ کر تعجب معلوم ہوتاہے۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جویریہ قبل ہجرت مکے میں حضرت فاطمہ علیہ السلام کے پاس تھیں اور کافر جو نماز پڑھنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ستاتے تھے ا س میں ان کی مدد کرتی تھیں جس سے ان کے اسلام پر استدلال ہو سکتا ہے۔ پھر اسی صحیح مسلم کی دوسری حدیث میں ہے کہ ان کو بنی مصطلق کے غزوے میں جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور لونڈی کے قید کیا پھر ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دیا۔ پھر وہ مسلمان ہو گئیں اوررسول خدا نے ان سے نکاح کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ثابت ابن قیس کی قید میں پڑیں اور انہوں نے لونڈی بنایا۔ پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ثابت سے مول لیا‘ پھر آزاد کیا‘ پھر نکاح کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ثابت نے ان کو مکاتب کیا۔ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں اورمدد چاہی۔ آنحضرت نے کتابت کو ادا کیا اور نکاح کر لیا۔ چنانچہ یہ سب پریشان روایتیں اس مقام پر لکھی جاتی ہیں: صحیح مسلم میں ابن مسعود سے یہ حدیث ہے کہ: عن ابن مسعود قال بینما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی عنہ البیت و ابوجھل واصحاب لہ جلوس وقد نحرت جزور بالا مس فقال ابوجھل ایکم یقوم الی سلاجزور بنی فلان فیاخذہ فیضحہ فی کتفی محمد اذا سجد فانبعث اشقی القوم فاخذہ فلما سجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضعہ بین کتفیہ قال فاستضحکوا وجعل بعضھم یمیل الیٰ بعض وانا قائم انظر لوکانت لی منعۃ طرحتہ عن ظھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والنبی صلی اللہ علیہ وسلم ساجد ما یرفع راسہ حتی انطلق الناس فاخبر فاطمۃ فجائت ھی وجویریۃ فطرحتہ عنہ۔ ’’ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نزدیک خانہ کعبہ کے نماز پڑھتے تھے اورابوجہل اپنے یاروں میں بیٹھا ہوا دیکھ رہا تھا اوروہاں اونٹ ذبح ہوتے تھے کہ ابوجہل نے اپنے یاروں سے کہا کہ بھلا کون شخص ایسا ہے جو اٹھ کر اونٹ کی اوجھڑی وغیرہ آنحضرت کے دونوں شانوں کے درمیان میں رکھ دے جبکہ آنحضرت سجدے میں جاویں۔ پس ایک پکا شقی اٹھا اورجب آنحضرت سجدے میں گئے تو اس نے وہ اوجھڑی آپ کے دونوں شانوں کے درمیان میں رکھ دی اور پھر سب کے سب ہنسے اور ایک دوسرے کو اشارہ کرنے لگا اور عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا دیکھتا تھا۔ اگر مجھ کو مجال ہوتی تو میں اس کو پھینک دیتا۔ پس آنحضرت سجدے میں ٹھہرے رہے ۔ آپ نے سر نہ اٹھایا یہاں تک کہ ایک شخص نے حضرت فاطمہ کو خبر دی جب حضرت فاطمہ اور جویریہ نے آکر اس کو پھینکا‘‘۔ یہ دوسری حدیث بھی صحیح مسلم میں ہے کہ: قد اغار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیٰ بنی المصطلق وھم غارون و انعامھم تسقی علی الماء فقتل مقاتلتھم وسباسبیھم واصاب یومئذ قال احسبہ جویریۃ او البتۃ بنت الحارث وفی روایۃ جویریۃ بنت الحارث ولم یشک۔ ’’حملہ کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر قوم بنی مصطلق کے اس حالت میں کہ وہ متفرق تھے اور ان کے جانور وغیرہ پانی پیتے تھے۔ پس قتل کیا آپ نے مقاتلہ کرنے والوں کو اور قید کیا قیدیوں کو اوراسی روز ہاتھ آئی کہا راوی نے گمان کرتا ہوں میں کہ کہا جویریہ یا کہا البتۃ بنت حارث اور ایک روایت میں کہا جویریہ بنت حارث اور ا س میں کچھ شبہ نہیں کیا۔ اور سیرت ہشامی میں یہ روایت لکھی ہے : قال ابن ہشام و یقال لما انصرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن غزوۃ بنی المصطلق ومعہ جویریۃ بنت الحارث فکان بذات الجیش دفع جویریۃ الیٰ رجل من الانصار ودیعۃ و امرہ الاحتفاظ بھا وقدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المدینۃ فا قبل ابوھا الحارث بن ابی ضرار بغداء ابنتہ فلما کان بالعقیق نظر الی الا بل الذی جاء بھا للفداء فرغب فی بعیرین منھا فغیبہما فی شعب من شعاب العقیق ثم اتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا محمد اصبتم بنتی وھذا فداء ہا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاین البعیر ان اللذان غیبت بالعقیق فی شعب کذا و کذا فقال الحارث اشھد ان لا الہ الا اللہ وانک رسول اللہ فواللہ ما اطلع علیٰ ذالک الا اللہ فاسلم الحارث و اسلم معہ ابنان لہ و ناس من قومہ وارسل الی البعیرین فجا بھما فدفع الا بل الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم و دفعت الیہ ابنتہ جویریۃ فاسلمت وحسن اسلامھا ابیھا فزوجہ ایا ہاو اصدقہا اربع ماۃ درھم و کانت قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عند ابن عم لھا یقال لہ عبداللہ۔ ’’ابن ہشام سے روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنی المصطلق کے غزوے سے لوٹے تو آپ کے ساتھ جویریہ بنت الحارث تھیں ۔ پس لشکر میں ایک انصاری شخص کے پاس بطور امانت اس جویریہ کو بھیج دیا اور اس کی حفاظت کی تاکید کی اورآنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کو تشریف لے آئے ۔ پس اس جویریہ کا باپ حارث بن ضرار اپنی بیٹی کا فدیہ لے کرآیا۔ پس جبکہ عقیق کے قریب آیا تو جو اونٹ فدیہ کے لایا تھا اس میں سے دو اونٹوں کو لالچ میں چھپا آیا اورآنحضرت کے پاس آ کر کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ہاتھ میری بیٹی لگ گئی۔ پس یہ اونٹ اس کے بدلے کے ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا کہ وہ دونوں اونٹ کہاں ہیں جن کو تو عقیق کی گھاٹی میں چھپا آیا ہے اور آنحضرت نے ٹھک ٹھیک ان کا پتا بتا دیا۔ اس وقت حارث نے کہا : اشھد ان لا الہ الا اللہ وانک رسول اللہ قسم اللہ کی نہیں اطلاع دی تجھ کو اونٹوں کے حال کی مگر خدائے پاک نے۔ پس حارث مسلمان ہوا اور اس کے ساتھ ا س کے دو بیٹے بھی مسلمان ہوئے اور بہت سے آدمی اس کی قوم کے مسلمان ہوئے اور ایک آدمی کو بھیج کر اس نے وہ دونوں اونٹ منگا لیے اور آنحضرت کو دے دیے۔ آنحضرت نے اس کی بیٹی اس کے حوالے کی جس کا نام جویریہ تھا۔ پس وہ مسلمان ہو گئی اوربہت پکی مسلمان ہوگئی اور بہت پکی مسلمان ہوئی۔ پس آنحضرت نے اس کو نکاح کا پیام دیا۔ پس اس کے باپ نے اس کا نکاح آنحضرت کے ساتھ کر دیا اور چار سو درھم اس کا مہر ہوا اورآنحضرت کے نکاح سے پہلے بھی جویریہ اپنے چچا عبداللہ کے نکاح میں تھی‘‘۔ یہی قصہ بعینہ استیعاب میں بہ تحت بیان حال حارث بن ابی صڑف پدر جویریہ کے لکھا ہے اوربہ تحت بیان حال عبداللہ بن حارث کے بھی قصہ ہے‘ مگر کچھ خفیف سا اختلاف ہے ۔ مگر خود جویریہ کی نسبت جو روایتیں ہیں وہ کیسی مختلف ہیں۔ سیرت ہشامی میں لکھا ہے : قال ابن ہشام و یقال اشتراھا رسول اللہ من ثابت ابن قیس فاعتقھا و تزوجھا و اصدقھا اربعمامۃ درھم ’’یہ بات کہی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ثابت بن قیس سے مول لیا پھر آزاد کر دیا اور ان سے نکا ح کیا اور چار سو درہم ان کا مہر باندھا‘‘۔ اور استیعاب میں اورہی کچھ لکھا ہوا ہے۔ اس کا مختصر سیرت ہشامی میں بھی موجود ہے‘ مگر اس مقام پر ہم استیعاب کی روایت جو مفصل ہے لکھتے ہیں: فی الاستیعاب فی ترجمۃ جویریۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم سبا ھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم المریسیع فی سنۃ خمس و قیل فی سنۃ ست ولم یختلفوا انھا اصابھا فی تلک الغزوۃ و کانت قبلۃ تحت سافع بن صفوان المصطلقی و کانت قد و قعت فی سھم ثابت بن قیس بن سماس و ابن عم لہ وکاتبہ علیٰ نفسھا وکانت امراۃ جمیلۃ قالت غائشۃ کانت جویریۃ علیھا حلاوۃ وملاحۃ ولا یکاد یراھا الا وقعت بنفسہ قالت فاتت رسول اللہ تستعینہ علیٰ کتابتھا قالت واللہ ما ھوالا ان رایتھا علی باب الحجرۃ فکر ھتھا وعرفت انہ سیری منھا مثل الذی رایت فقالت یا رسول اللہ انا جویریۃ بنت الحارث بن ابی ضرار سید قومہ وقداصابنی من الا مرمالم بخف علیک فوقعت فی السہم لثابت ولا بن عم لہ فکاتبہ علیٰ نفسی وجئتک استیعنک فقال لھاھل لک فی خیر من ذالک قالت وما ھو یا رسول اللہ قال اقضی کتابک واتزوجک قالت نعم فال قد فعلت و خرج الخبر الی الناس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تزوج جویریۃ بنت الحارث فقال سحررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فارسلو اما فی ایدیھم من سبایا بنی المصطلق قالت عائشۃ فلا نعلم امراۃ کانت اعظم برکۃ علیٰ قومھا منھا وکان اسمھا برۃ فغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسمھا وسماھا جویریۃ وتوفیت فی ربیع الاول سنہ ست و خمسین۔ ’’استیعاب میں بیچ حال جویریہ بی بی رسول خدا کے لکھا ہے کہ آنحضرت نے ان کو یوم مریسیع ۵ ھ میں اور بعض نے کہا ہے کہ ۶ھ میں قید کیا تھا‘ مگر اس میں کسی کا اختلاف نہیںہے کہ یہ اسی غزوہ میں ہاتھ لگی تھی اوراس سے پہلے یہ سافع بن صفوان کے نکاح میں تھی اور ثابت بن قیس بن سماس اور اسکے چچا کے بیٹے کے حصے میں آئی تھی اوراس نے اس کو مکاتب کر دیا تھا اور جویریہ ایک خوبصورت عور ت تھی ۔ حضرت عائشہ نے فرمایا ہے کہ جویریہ ایسی عورت تھی کہ اس میں ایک قسم کی ملاحت اور حلاوت دونوں باتیں تھیں اور جو شخص اس کو دیکھتا تھا اس کے دل میں کھب جاتی تھی ۔ پس وہ آنحضرت کے پاس اس لیے آئی کہ آپ اسکی خلاصی میں کچھ اعانت فرمائیں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ وہ آنحضرت کے حجرے کے دروازے پر جا کھڑی ہوئی پس مجھ کو ناگوار گزرا اور میں نے جان لیا کہ جو بات میں نے دیکھی ہے وہی وہ دیکھیں گے۔ پس اس جویریہ نے کہا یا رسول اللہ! میں جویریہ بنت حارث ہوں اور حارث سید القوم ہے اور جو کچھ میرے نصیب میں لکھا تھا وہ آپ کو معلوم ہی ہے اور میں ثابت بن قیس اور اس کے چچا زاد بھائی کے حصے میں آئی ہوں۔ پس اسنے مجھ کو مکاتب کر دیا ہے اس لیے میں آ کی خدمت میں آئی ہوں کہ آپ میری خلاصی میں معاونت فرمائیں۔ آنحضرت نے فرمایا کہ اگر تجھ کو اس سے بہتر بات نصیب ہو تو تو راضی ہے؟ آنحضرت نے کہا کہ میں تیرے بدلے کا روپیہ دے کر تجھ کو چھٹا لوں گا اورتجھ سے نکا ح کر لوں۔ اس نے کہا کہ مجھے منطور ہے۔ پس اسی وقت یہ خبر لوگوں میںمشہور ہو گئی کہ آنحضرت نے جویریہ بنت حارث سے نکا ح کر لیا۔ پس بعض لوگوں نے کہا کہ آنحضرت نے سحر کیا۔ پس جس کس کے پاس قو م بنی المصطلق کے قیدی تھے سب نے چھوڑ دیے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ پھر میں نے کوئی عورت جویریہ سے بڑھ کربابرکت اس قوم میں نہیں دیکھی۔ اور اس کا نام برہ تھا پس آنحضرت نے اس کو بدل کر جویریہ رکھ دیا اوراس نے ۵۶ ھ میں ربیع الاول کے مہینے میں وفات پائی‘‘۔ پس یہ تمام روایتیں جو ایسی مختلف ہیں اور بعض بے سند ہیں اور بعض ایسی بے ادبی کی باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت منسوب کی جاتی ہیں جیسے کہ خود ان راویوں کی طینت ھتی تو بجز ان لوگوں کے جن کی آنکھیں ظلمت تقلید سے کسی چیز کو نہیں دیکھتیں اوکون سچا مسلمان ہے جو درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو تمام چیزوں سے اور زید و عمرو کی محبت سے زیادہ عزیز سمجھتا ہو اس کو تسلیم کرے گا اور کیونکر ان واقعات مشتبہ کو فعل رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم قرار دے کر ایک مسئلہ عظیم الشان معرکۃ الارا کی بنیاد قائم کرے گا۔ باایں ہمہ ہم کہتے ہیں کہ جو کچھ ہوا قبل نزول آیت من و فداء ہوا اور اس لیے وہ واقعات کسی طرح پر ہوئے ہوں بنیاد مسئلہ استرقاق نہیں ہو سکتے۔ حضرت صفیہ بنت حئی ابن اخطب الیہودی…اکثر روایتوں میں ہے کہ حضرت صفیہ خیبر کی لڑائی میں پکڑی گئیں اوربطور لونڈی کے دحیہ کلبی کے حصے میں آئیں ۔ ا ن سے مول لے کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا۔ چنانچہ مواہب اور اور کتابوں میں بھی اسی طرح لکھا ہے اور مواہب کی عبارت یہ ہے: صفیۃ بنت حی ابن اخطب الیہودی وقعت فی سہم دحیۃ بن خلیفۃ الکلبی فاشتر اھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باروس اختلف فی عددھا و اعتقھاد وتزوجھا و ذالک سنۃ سبع صفیہ بنت حئی ابن اخطب یہودی دحیہ بن خلیفۃ الکلبی کے حصے میں آئی تھیں مگر ان کو آنحضرت نے بدلے باروس کے جس کے عدد میں اختلاف ہے خرید لیا اور آزاد کر کے نکاح کر لیا اوریہ ۷ ھ میں ہوا۔‘‘ اور سیرت ہشامی میں جو روایت ہے اس میں اختلاف ہے اس سے دحیہ سے خرید کرنا نہیں معلوم ہوتا چنانچہ اس کی عبارت یہ ہے : وتزوج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفیہ بنت حئی بن اخطب سباھا من خیبرفا صطفا ھا لنفسہ واولم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولیمۃ مافیھا شحم ولا لحم وکان سویقا وتمرا۔ ’’اور نکاح کیا آنحضرت نے صفیہ بنت حی بن اخطب سے ۔ اس کو آ پ نے قید میں پکڑا تھا جنگ خیبر میں۔ پس آنحضرت نے ان کو خاص اپنے واسطے پسند کر لیا تھا اور آپ نے اس کا ولیمہ کیاتھا جس میں نہ گوشت تھا نہ شحم تھی‘ صرف ستو اورچھوہارے تھے‘‘۔ اور ابن شہاب کی روایت میں ہے کہ کانت مما افاء اللہ علیہ اوریہ روایت بالکل مخالف روایت خرید کے ہے‘ مگر اس سب سے زیادہ بخاری کی حدیث ہے جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت صفیہ کو کسی لونڈی یا مما ملکت ایمانکم میں سمجھا ہی نہیں۔ دراصل واقعہ اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا شوہر کنانہ ابن الحقیق خیبر کی لڑائی میں مارا گیا ۔ وہ رانڈ رہ گئیں۔ ان سے حضرت نے نکاح کر لیا۔ راویوں نے ان کو سبایا میں سمجھا اور اس پر قیاساً قصے بنا دیے۔ چنانچہ وہ حدیث بخاری کی یہ ہے: عن حمید انہ سمع انسا یقول اقام النبی صلی اللہ علیہ وسلم بین خیبرو المدینۃ ثلث لیال یبنی علیہ بصفیۃ فدعوت المسلمین الیٰ ولیمتہ وما کان فیھا من خبز ولالحم وما کان فیھا الا ان امر بلا لا بالا نطاع فبسطت فالقی علیھا التمر والاقط والسمن فقال المسلمون احدی امھات المومنین اوما ملکت یمینہ قالوا ن حجبھا فھی احدی امھات المومنین فان لم یحجبہا فھی مما ملکت یمینہ فلما ارتحل وطا خلفہ و مدالحجاب۔ ’’حمید سے روایت ہے انہوںنے انس سے سنا ہے کہ آنحضرت نے تین شب درمیان خیبر اور مدینے کے قیام فرمایا اور وہیں حضرت صفیہ سے صحبت کی اور ان کے ولیمے کے واسطے خود میں نے ہی مسلمانوںکو بلایا مگر اس ولیمے میں روٹی یا گوشت کچھ نہ تھا ۔ صرف یہ تھا کہ آنحضرت نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ تم دستر خوان بچھا دو۔ انہوںنے دستر خوان بچھا دیا۔ پس آپ نے اس پر چھوہارے اور اقط (یہ ایک کھانا دہی سے عرب میں بنتا ہے) اور مسکہ رکھ دیا۔ پس مسلمانوں نے کہا کہ جو اب دیا کہ اگر آنحضرت ان کو پردے میں لے جاویں تو بیوی ہیں نہیں تو لونڈی ہیں۔ پس جب آ پ نے کوچ کیا تو صفیہ کو پشت پر بٹھا کر پردہ روپ دیا‘‘۔ پس ان مختلف روایتوں سے یہ بات کہ در حقیقت کیا واقعہ پیش آیا اور فعل جنا ب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا کس طرح اور کس سبب سے واقع ہوا بخوبی ثابت و متحقق نہیں ہوتا اوراسی لیے یہ واقعات کسی مسئلہ عظیمہ شرعیہ کی بنیا د نہیں ہو سکتے۔ معہذا اگر فرض کیا جائے کہ یہ سب واقعات ماقبل نزول آیت من و فداء کے ہیں تو کسی طرح بنیاد مسئلہ استرقاق اساریٰ نہیں ہو سکتے۔ روایات متفرقہ بخاری و مسلم میںابوہریرہ سے یہ روایت ہے کہ : قال اھدی رجل لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلاما یقال لہ مدعم یحط رجلا لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صابہ سہم عا یر فقتلہ الخ ’’ایک شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے ایک غلام بطور ہدیہ بھیجا جس کا نام مدعم تھا۔ پس ایک مرتبہ وہ آنحضرت کا اسباب اتارتا تھا کہ ناگاہ اس کے ایک مقام پر ایک تیر آ لگا اور اس سے وہ مر گیا‘‘۔ یہ حدیث ہمارے مدعا کے مخالف نہیں ہے اس لیے کہ ابتدائے اسلام میں جو غلام تھے وہ سب بطور غلام تسلیم کیے گئے تھے۔ خاتمہ بعض شہادت کے جواب میں اگرچہ ہماری اس تحریرسے بخوبی تشفی ہوتی ہے کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامی کو مذہب اسلام سے معدوم کر دیا‘ تب بھی بلاشبہ مسلمانوں کے دل میں دوشبھے پیدا ہو ں گے۔ اول یہ کہ بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم اجمعین کے عہد خلافت میں نسبت قیدیوںکے کیا عمل درآمد رہا اور صحابہ اور تابعین کے زمانے میں جس کی نسبت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم کیا ہوا۔ دوم یہ کہ تیرھویں صدی میں تمام اہلہ قبلہ اور اجماع امت کے برخلا ف یہ مسئل کیونکر تسلیم ہو سکتاہے؟ پہلے شبہے کی تحقیق نہایت سچ اور بالکل صحیح اور مطابق واقع کے یہ ہے کہ خلفائے راشدین کا انحصار صرف پانچ میں ہے۔ ابوبکر صدیق‘ عمر فاروق ‘ عثمان غنی‘ علی مرتضیٰ ‘ حسن مجتبیٰ خاتم الخلفاء رضی اللہ عنہم اجمعین اور ان کا زمانہ خلافت صرف تیس برس ہے۔ اس کے بعد زمانہ خلافت نہیں ہے‘ بلکہ عہد دولت ملوک عضوض ہے الا ماشاء اللہ ۔ غرض کہ اس زمانے کے بعد کسی شخص پر خلیفہ نبی اور جانشین پیغمبر کا اطلاق نہیں ہو سکتا البتہ بادشاہان اسلام تھے جن میں سے بہت سوں نے ہزاروں ظلم اورہزاروں کام خلاف اسلام کے اور بعضوںنے کچھ کم اور کسی نے بہت زیادہ انصاف کیا اور احکام مذہب اسلام کی پیروی کی اور حتی المقدور ان کو بجا لایا ۔ پس جس قدر ہم کو تفتیش ہے وہ صرف انہی پانچ خلیفوں کے زمانے کی ہے نہ کسی اور عہد کی۔ مگر اولا نہایت ٹھنڈے دل سے اور انصاف سے اور ے ہودہ اورغلط مذہبی غلو کو ایک لمح؁کیلیے چھوڑ کر یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرمانے سے کہ : خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم یہ لازم نہیں آتا کہ اس زمانے کیلوگ معصوم اور بشریت سے مبرا ہیں‘ بلکہ وہ سب انسان مگر ہمارے سردار اور پیشوا ہیں اورہمارے سرتاج تھے۔ ان کا قول و فعل ہمارے لیے ہدایت ہے‘ مگر نہ اس وجہ سے کہ وہ خاص ان کا قول و فعل ہے بلکہ اس یقین یا حسن ظن سے کہ وہ قول و فعل رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل ہے یا ہو گا۔ پس تمام اقوال اور افعال صحابہ کو واجب العمل سمجھنے کے لیے یا ہ کو یقین کامل ہونا چاہیے کہ بلا شبہ یہ قول و فعل رسول مقبول کا ہے یا اس کے ایسا ہونے کا ہم کو حسن ظن ہونا چاہیے اور حسن ظن اسی وقت تک باقی رہتا ہے جب کہ برخلاف اس کے کوئی ثبوت نہیں موجود ہوتا۔ الاجب خلاف اس کے ثبوت موجود ہو ا تو اسی وقت حسن ظن ساقط ہو گیا اوریہ خیال کرنا کہ اگر ہم کسی صحابی کے قول و فعل کی نسبت یہ گمان کریں کہ مطابق قول و فعل رسول مقبول کے نہ تھا تو ان کی ششان کے منقصت اورکمال بے ادبی اور ہمارے ایمان کے نقصان کی بات ہے‘ ایک غلط اور بے جا غلو مذہبی ہے ۔صحابہ ہزاروں کا م اپنی سمجھ اور اپنے اجتہاد سے کرتے تھے اور جب اس کی غلطی ظاہر ہوتی تھی یا کسی دوسرے صحابی سے اس کے برخلا ف قول یا فعل رسول مقبول کا دریافت ہوتا تھا فی الفورہ اس سے رجوع کرتے تھے۔ بہت کثرت سے مسائل ہیں کہ جن میں باہم صحابہ کے اختلاف رہا ہے اور ان دونوں کا صحیح ہونا محال ہے۔ کبھی کسی صحابی نے اپنے معصوم ہونے کا دعویٰ نہیں کیا پس یہ تمام اوھام اور بے جا اورغلو مذہبی ہیں اورجو خود ہم نے دل سے پیدا کیا ہے۔ صحابہ کی پروی امور مذہبی میںہم اپنی نجات کا باعث سمجھتے ہیں‘ مگر ہمارا فرض ہے کہ اول ہم یہ بات دیکھیں کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے ۔ جب آنحضرت کا قول نہ ملے تو دیکھیں کہ صحابہ کیا فرماتے تھے۔ جب وہ نہ معلوم ہو تو دیکھیں کہ تابعین کیا کہتے ہیں پھر اس کی صحت و غلطی کا امتحان کر کے اس کو تسلیم کریں۔ بعینہ اس کی ایسی مثال ہے کہ ہم کو احکام مذہبی بجا لانے میں اول قرآن مجید پر عمل کرنا چاہیے پھر قیاس منصوص العلت اور اجتہاد پر۔ پھر جب کہ ہم اساریٰ کی نسبت نص صریح قرآن مجید میں پاتے ہیں اور مزید برآں ثابت ہوتا ہے کہ روز وفات تک اسی پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رہا ہے تو اب ہم کو اس بات کی تفتیش کی کہ خلفائے راشدین کے زمانے میں کیا ہوا ہو اور کچھ ہی اس کا سبب قرار دیاجائے ہم کو تو اپنے محبوب رسول کی پیروی ضرور ہو گی اور مسئلہ اسلام کا تو وہی قرارپائے گا جو قرآن مجید میں ہے نہ اور کوئی ۔ باایں ہمہ ہم صحابہ کرام اور خلفائے خمسہ راشدین کے زمانے کے حالات دریافت کرنے کے نہایت آرزو مند ہیں ۔ ان حالات و واقعات سے ہم کو بڑی ہدایت ہوتی ہے اور جو مسئلہ کہ ہم نے قرآن مجید سے یا حدیث سے نکالا ہے اس کے صحیح ہونے اور اس استبناط کے درست ہونے کے لیے کسوٹی ہوتے ہیں جن سے ہماری سمجھ کا کھوٹ اکھرا ہونا پرکھا جاتا ہے مگربڑی مشکل ہے کہ جو محاربات کہ خلفائے خمسہ راشدین کے وقت میں ہوء ان پر لائق اعتماد اور طمانیت کے اطلاع حاصل ہونے کو ہمارے پاس کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے۔ کتب احادیث میں وہ واقعات بہت کم ہیں۔ کتب سیر و تواریخ میں وہ پائے جاتے ہیں‘ مگر وہ روایات الف لیلہ و قصہ حاتم طائی سے کچھ زیادہ نہیں اس لیے کہ اپنے ثبوت کے لیے بالکل محتاج دوسری سند یا دلیل یا کسی اور وجہ قابل اعتماد کی بنیاد قرار پاویں اور ان پر مسائل مذہب کا مدار ٹھہرے تو مسلمانی مذہب تو لونڈوں کا کھیل اور دو پری کا قصہ ہو جائے۔ نعوذ باللہ منہا۔ علماء محدثین رحم اللہ اجمعین نے احادیث کے جمع کرنے اوران کی صحت کی تنقیح میں نہایت کوشش کی ہے۔ اس پر بھی حدیث کی کتابوں کا یہاں تک کہ بخاری و مسلم کا بھی یہ حال ہے کہ بعد تنقیح کے بھی ان کی احادیث مندرجہ مفید ظن یا ظن غالب کی ہیں تو وائے برحال کتب سیر وتواریخ کے کہ ان سے تو بجز چند واقعات ناقابل الاشتباہ کے وقوع کی اطلاع کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اگر ان کتابوں کو ہم استنباط مسائل مذہبی میں دخل دیں تو ہمصاف صاف ہندوئوں کے مقلد ہوں گے جنہوں نے مہا بھارت کو اپنے ہاںکتب مقدسہ میں داخل کر لیا ہے۔ دوسرا شبہ تو نہایت ہی لغو او ر نالائق التفات ہے ۔ یہ مسئلہ ہے کہ اجماع امت سے کوئی حکم شرعی قائم مثل حکم منزل من اللہ قائم ہو جاتا ہے ۔ غلط محض ہے: لا تجتمع امتی علی الضلالۃ اور من شذشذ فی النار کی صحت تسلیم کرنے کے بعد بھی کبھی ان کا یہ مطلب کہ خد ا یا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کو دوسرا شارع یا موجد احکام مذہب بنایا تھا یا اس کو معصوم یا ناقابل سہو و خطا ٹھہرایا تھا نہ تھا۔ اس کی بحث کے لیے ایک دوسرا رسالہ چاہیے‘ مگر ا س مقام پر اس قدر لکھنا چاہیے کہ صحیح مسئلہ اسلام کا یہ ہے کہ جس طرح ایک آدمی کا خطا میں پڑنا ممکن ہے اسی طرح ایک گروہ کا ‘ بلکہ ایک زمانے کے لوگوں کا خطا میں پڑنا ممکن ہے۔پس اجماع امت ہر ایک شخص پر جو اس اجماع کو غلط یا غلط بنیاد پر سمجھتا ہو واجب العمل نہیں ہے۔ غلامی پر جو اجماع امت ہوا ہے اب اس کی غلطی علانیہ ظاہر ہوتی ہے ۔ اول تو نص صریح قرآنی کے برخلاف ہے ۔ دوسرے اس اجماع کا سبب کوئی حکم احکام مذہبی کے نہ تھا۔ بلکہ ایک اتفاقیہ طبعی ایسا سبب تھا کہ نادانستہ اس آیت سے غفلت ہو گئی۔ چند روز اتفاقیہ غفلت رہ۔ اس زمانے کے بعد کے لوگوں نے اس ذھول کو امر قصدی اور ارادی سمجھا اور اس سے استنباط مسائل کیا۔ اس کے بعد ظلمت تقلید نے دنیا میں اندھیرا کر دیا اورسب اس کی پیروی کرتے رہے اوراز خود بلا قصد اجماع اس پر اجتماع ہو گیا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ عرب می رواج لونڈی و غلام کا اور لڑائی کے قیدیوں کو لونڈی و غلام بنانے کا ایسا قدیم چلا آتا تھا او ر ایسا بے عیب سمجھا جاتا تھا کہ کسی کے دل میں اس کا خیال بھی نہ تھا کہ اس کی موقوفی ہو گی۔ اس خیال کو بعض واقعات ابتدائی زمانہ اسلا م نے جس میں لڑائی کے قیدیوں کو بطور رسم زمانہ قدیم لونڈی و غلام سمجھا اور نیز مذہب اسلام کے ان احکام نے جن سے وہ لونڈی و غلام جو قبل نزول آیت حریت لونڈی و غلام ہو چکے تھے بطور لونڈی و غلام کے تسلیم کیے گئے تھے اورمتعدد احکام ان کی نسبت قرآن مجید و حدیث میں موجود تھے اوربھی زیادہ مستحکم اورپختہ کر دیا تھا۔ اخیر غزوات میں آیت من و فداء نازل ہوئی۔ اس آیت سے بھی قیدیوں کی نسبت احکام محصورہ صادر ہوئے اور ان کا لونڈی و غلام بنانا الفاظ صریح سے نہیں‘ بلکہ بوجہ حصرباطل کیا گیا۔ بعد نزول اس آیت کے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ تماما اساریٰ پر من و فداء کیا الا چونکہ قبل نزول اس آیت کے بھی ایسا ہوتا تھا اس سبب سے خیال حصر موجود آیت پر نہ ہوا اور اس کے بعد قلیل زمانے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی۔ صحابہ کے زمانے میں اس پر خیا ل نہ ہوا بوجوہات مذکورہ بالا کچھ تعجب کی بات نہیں ہے۔ شراب کی حرمت نازل ہونے کے بعد کوئی نہیں سمجھا تھا کہ شراب حرام ہو گئی ہے‘ یہاں تک کہ تین دفعہ اس کی حرمت نازل ہوئی۔ بیع امہات اولاد ممنوع ہونے پر ابتدائے عہد خلافت حضرت عمر تک بیع ہوتی رہی۔ متعی کے غیر ممنوع ہونے پر متعدد صحابہ بلکہ حضرت علی المرتضیٰ کو بھی خیال نہ تھا۔ علاوہ اس کے خلفائے راشدین کے زمانے میں اس خیال نہ ہونے کا یہ بھی سبب ہوا کہ ان کے وقت میں اس مسئلے پر بحث ہونے کا بہت کم موقع ملا۔ حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت مرتدین کے مطیع کرنے میں ختم ہو گئی اورحضرت عمر اور حضرت عثمان کے زمانے میں دارالخلافہ سے بہت دور دور کے فاصلے پر لڑائیاں انجام ہوئیں اور حضرت امام حسن علیہ السلام کی خلافت تو آفتاب یوم باراں کے مانند تھی اور یہ بڑے قوی اسباب تھے جن کے سبب سے آیت من و فداء کا حصر خیال سے خارج رہا۔ اس زمانے کے بعد لوگوں کی توجہ اس بات پر زیادہ تر تھی کہ اس زمانے کے واقعات کو جہاں تک ہو سکے دلائل سے قوی کریں اس لیے غلامی کی نسبت آیات تلاش ہونے لگیں اور بمجبوری آیت من و فداء کو منسوخ بتانے لگے۔ بہرحال یہ جو کچھ ہوا اس کی نسبت یہ بات تسلیم ہو سکتی ہے کہ اس زمانے کے لوگوں کی غلامی کی نسبت یہ رائے تھی مگر وہ رائے مذہب اسلام کا مسئلہ اور حکم منزل من اللہ نہیں قرار پا سکتا اور نہ اسلام پر ان لوگوں کی رائے سے کچھ داغ لگ سکتا ہے۔ مگر یہ بات ظاہر ہے کہ یہ بحث جو ہم نے شروع کی ایک ایسی بحث ہے کہ ساڑھے بارہ سو برس کے درمیان میں شاید کسی نے نہیں کی اوربلاشبہ اس وقت ہم پر خرق اجماع اور تخلف اجماع امت کا الزام لگایا جاتا ہے‘ مگر چونکہ مسلمانوں کا مقرر کیا ہوا یہ ایک مسئلہ ہے کہ اجماع ثانی اجماع اول کو منسوخ کر دیتا ہے اور اجماع ثانی شروع ہونے کے لیے ضرور ہے کہ کوئی نہ کوئی شخص اجماع اول سے اختلاف کرے ۔ پس وہ شخص میں ہوں اورکیا عجب ہے کہ اس پر اجماع ہو جائے اور اجماع ثانی اجماع اول کو منسوخ کر دے اوریہ جھوٹا داغ جو ہم نے اپنی غلطی سے اسلا م کے خوبصورت چہرے پر لگایا ہے ہمیشہ کے لیے مٹ جائے۔ اے میرے بھائی مسلمانو! یہ سب باتیں جو اس وقت تمہارے دل میں ہیں بہ سبب خیالات کے محدود ہونے کے ہیں جو ہر ایک قوم اور ہر ایک مذہب میں بہ سبب محدود ہونے علم کے تھے مگر اب وہ زمانہ نہیں رہا اور انسان کی ہر ایک چیز کو ترقی اور اس کے خیالا ت کو وسعت ہوتی جاتی ہے۔ پس وہ زمانہ کچھ دور نہیں ہے کہ جس طرح اب تم میری بات سے نفرت کرتے ہو اسی طرح ان سب باتوں کی دل میں تصدیق کرو اور اس وقت تم کو اسلام کی حقیقت معلوم ہو گی اور جس قدر کہ اس وقت اس کے بن سمجھی خوبی تمہارے دل میں ہے اس سے ہزار درجے زیادہ سچی اور دل کی تصدیق کی ہوئی خوبی تمہارے دل میں سمائے گی اور اس وقت پکے مسلمان ہو گے۔ اللھم ارزقنا حقیقۃ الاسلام وامتنا علیہ ۔ آمین ٭٭٭ ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End