اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید اخلاقی اور اصلاحی مضامین جلد پنچم حصہ اول مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقالات سرسید سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کو حاصل ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے اور اپنے پیچھے نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مضامین جہاں ادبی لحاظ سے وقیع ہیں، وہاں وہ پر از معلومات بھی ہیں۔ ان کے مطالعے سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مذہبی مسائل اور تاریخ عقدے حل ہوتے ہیں اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں اور سیاسی و معاشرتی لحاظ سے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ نیز بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی ان میں موجود ہیں سرسید کے ان ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا ہدف رہے ہیں ان مضامین میں علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی، مزاح بھی ہے اور طنز بھی، درد بھی ہے اور سوز بھی، دلچسپی بھی ہے اور دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے اور سرزنش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اور ہر قسم کے خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے، وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اور کہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات و رسائل کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام کے لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اور نا مکمل، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ گزر گیا مگر کسی کے دل میں ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا اور کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا آخر کار مجلس ترقی ادب لاہور کو ان بکھرے ہوئے بیش بہا جواہرات کو جمع کرنے کا خیال آیا مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں پرونے کے لیے مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا انتخاب کیا جنہوں نے پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میں دور و نزدیک کے سفر کیے فراہمی مواد کے لیے ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا، مگر چونکہ ان کی طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری باحسن طریق پوری کی چنانچہ عرصہ دراز کی اس محنت و کاوش کے ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں’’ مقالات سرسید‘‘ کی مختلف جلدوں کی شکل میں فخر و اطمینان کے جذبات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ مذہب و معاشرت و انتم اعلم بامدنیا کم (تہذیب الاخلاق، بابت ۱۲۹۶ھ، از صفحہ ۲۱ تا ۲۶) ہمارے بانی اسلام علیہ السلام کی آن نصیحتوں میں سے جن پر ان کی امت نے کچھ نہیں یا بہت کم توجہ کی، ایک یہ مسئلہ بھی ہے جس کو ہم نے مختصر الفاظ میں عنوان پر لکھا ہے۔ بانی مذہب جس کو درحقیقت روحانی اصلاح مقصود ہوتی ہے۔ کبھی کبھی اپنے منصب اعلیٰ سے فرو تر درجہ اختیار کر کے دنیوی باتوں یمں بھی صلاح دینے لگتا ہے۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جو شخص کسی ایک بات میں درجہ اعلیٰ رکھتا ہے اور اس کی نیکی اور دیانت داری اور عقلمندی اور لیاقت مشہور ہو جاتی ہے تو ہر شخص ہر ایک بات اس کے سامنے لاتا ہے اور ہدایت چاہتا ہے۔ انبیاء علہیم السلام جو کہ بعض ایسی دنیوی باتوں کے کرنے و نہ کرنے کی ہدایت کرتے تھے جن کا اثر روحانی اور اخلاقی تربیت پر پہنچتا تھا۔ اس لیے لوگوں کو ہر ایک دنیاوی باتوں میں بھی انبیاء کی ہدایت کی رغبت ہوتی تھی۔ جس قدر کتابیں جو الہامی مشہور ہیں اور انبیاء پر ان کا نازل ہونا تسلیم کیا جاتا ہے یا بیان کیا جاتا ہے ان میں صرف ایک توریت ہے جس میں دنیوی احکام بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ مگر ان کا الہامی ہونا نہایت ہی مشتبہ ہے۔ موسی کے حال پر خیال کرو کہ نبی اسرائیل کے ایک گروہ کثیر کو جن کے اخلاق و عادات ایک مدت دراز تک غلامی کی حالت میں رہنے سے خراب ہو گئے تھے اور تمام بد عادتیں ان میں بطور طبیعت ثانی کے ہو گئی تھیں۔ رامیسس دارالخلافہ مصر سے نکال کر ایک ایسے جنگل میں لے گیا جہاں مثل ’’نہ پائے رفتن و نہ جائے ماندن‘‘ صادق آتی تھی۔ اس انبوہ کثیر میں ہر قسم کے دنیاوی جھگڑے پیش آتے تھے اور اس مجمع میں سوائے موسیٰ علیہ السلام کے کون تھا جس کے سامنے وہ جھگڑے پیش ہوتے۔ حصرت موسیٰ کو بمجبوری ان جھگڑوں کا بطور ایک سردار قوم کے فیصلہ کرنا پڑتا تھا اور اس امر کے یقین کے لیے کہ وہ تمام احکام دنیاوی معاملات کے ربانی الہام سے تھے ہم کو کوہی وجہ معلوم نہیں ہے۔ موجودہ توریت کے پڑھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے تمام دنیوی احکام مثل ایک انسان کے احکام کے ہیں جو بصلاح بعض دانشمندوں کے اور بطور انتظام مناسب وقت و حالات قوم کے دیے گئے ہوں۔ کچھ ثبوت اس بات کا نہیں ہے کہ سوائے احکام عشرہ کے، جو پتھر کی تختیوں پر کھودے گئے تھے اور تمام واقعات جو گزرے تھے اور تمام احکام جو حضرت موسی نے صادر کیے تھے۔ حضرت موسی کے وقت مین لکھے گہے تھے مگر اس پر یقین کرنے کی وجوہ ہیں کہ ان مین سے بہت کچھ معبد بیت المقدس میں تھا جو سب کا سب مع اس کے جس پر توریت کا اطلاق ہوتا ہے۔ بخت نصر کے زمانے میں بیت المقدس کے ساتھ تباہ و برباد ہو گیا اور ایک ٹکڑا بھی نہیں بچا۔ یہ ایک لازمی نتیجہ تھا کہ انبیاء نے جو کچھ کیا یا جو کچھ کہا وہ بطور ایک ربانی حکم کے سمجھا جاوے، اس لیے حضڑت موسی کے تمام دنیوی احکام بھی بطور ربانی احکام کے سمجھے جاتے ہوں گے۔ جبکہ نبی اسرائیل بابل کی قید سے چھوٹے تو صرف یادداشت اور زبانی روایتوں کے مطابق توریت لکھی گئی جو پانچ کتابوں پر مشتمل ہے اور تمام واقعات تاریخی اور احکام دنیوی جو پہلے ہی سے بطور ربانی احکام کے مانے جاتے تھے۔ اس میں بطور ربانی احکام کے مندرج ہوئے۔ اکثر مقام میں جہاں لکھا ہے کہ ’’موسی بخدا گفت و خدا بموسی گفت و موسی فرمود کہ خدا چنیں میفر ماید‘‘ اسی خیال پر لکھا گیا ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ نبی اسرائیل نے تمام دنیوی احکام کو جو درحقیقت مذہب سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے تھے۔ مذہب میں شامل کر لیا اور پھر اس کے مقاصد کو چھوڑ کر صرف لفظی معنوں کی پیروی کرنا ٹھیٹ یہودی مذہب قرار دیا۔ یہودیوں کی عادت تھی کہ مینہ برسنے کے لیے یہ ٹوٹکا کرتے تھے کہ بکری کے بجے کو اسی کی ماں کے دودھ میں پکا کر کھیتوں کے کونوں پر رکھ دیتے تھے۔ حضرت موسی نے منع کیا کہ بکری کے بچے کو اس کی ماں کے دودھ میں مت پکاؤ۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ ٹوٹکا مت کرو جو ایک قسم کا شرک باﷲ ہے۔ علماء یہود نے اس کے لفظوں کی پیروی کے خیال سے یہ قرار دیا کہ چوپائے کے گوشت کو دودھ میں پکانا منع ہے۔ پھر اس پر یہ تفریح کی کہ گھی بھی، دودھ کا جزو ہے۔ اس لیے گوشت کو گھی میں پکانا حرام ہے۔ چنانچہ اس مسئلے پر اب تک یہودی مستحکم ہیں اور کسی چوپائے کے گوشت کو گھی میں نہیں پکاتے۔ جبکہ رسول خدا صلعم نے عرب میں خدائے واحد کی عبادت کا غلغلہ ڈالا تو حضرتؐ کی امت میں عرب کے بدو تھے، جو بدی و بد اخلاقی و تعصب و عداوت اور جہالت اور چوری، قزاقی، خونریزی میں بنی اسرائیل سے بھی کئی درجہ بڑھے ہوئے تھے۔ حضرت موسی کو تو صرف اس وجہ سے کہ وہ بنی اسرائیل کے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ؟؟؟؟؟ بھی اختیار کرنی پڑی تھی، مگر آنحضرت صلعم کو اس سے بھی زیادہ سخت مجبوری دنیاوی امور میں بھی سرداری اختیار کرنے کو پیش آئی تھی جس کو منصب نبوت سے کچھ تعلق نہ تھا۔ عرب کی تمام قوموں کا یہ طریقہ تھا کہ جس کو شیخ یا سردار قوم قرار دیتے تھے۔ تمام دنیاوی امور میں بھی اسی کی اطاعت کرتے تھے اور اسی کے حکم پر چلتے تھے۔ پس بطور قدرتی امر کے ضروری تھا کہ تمام قوم عرب آنحضرت صلعم کو اپنا دنیاوی سرداری اختیار کرنی بھی لازم تھی مگر جس طرح کہ حضرت موسی میں دو منصب جدا جدا جمع ہو گئے تھے۔ اسی طرح آنحضرت صلعم میں بھی دو جداگانہ منصب جمع تھے۔ دنیاوی سرداری کے متعلق آنحضرت صلعم بھی مثل حضرت موسی کے اپنے صاحبہ کے مشورے سے اور ضرورت و مصلحت وقت کے لحاظ سے احکام صادر فرماتے تھے۔ اور یا تو یہودیوں کی پیروی سے یا اسی لازمی نتیجے سے، جس کا میں نے اوپر ذکر کیا، آنحصرت صلعم نے بھی دنیاوی امور کی نسبت جو کچھ کیا یا فرمایا بطور ربانی احکام کے سمجھا گیا اور لوگوں نے ’’و انتم اعلم بامور دنیا کم‘‘ کو یک لخت بھلا دیا۔ مسلمان عالموں نے قدم بقدم یہودیوں کی پیروی کی اور تمام دنیاوی احکام کو جو درحقیقت مذہب سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے تھے۔ مذہب میں شامل کر لیا اور پھر یہودیوں کی تقلید سے اس کے مقاصد کو چھوڑ کر صرف لفظی معنوں کی پیروی کرنا ٹھیٹ مذہب اسلام قرار دیا۔ عرب میں رواج تھا کہ متمول اور سردار بنظر افتخار و تکبر و غرور کے ازار کو ٹخنے سے نیچے زمین پر گھسٹتی ہوئی پہنا کرتے تھے اور یہ امر گویا نشان ان کے تکبر و غرور کا تھا۔ آنحضرت صلعم نے ٹخنے سے نیچی ازار پہننے کو منع فرمایا، جس کا مقصود تکبر و غرور کو منع کرنا تھا۔ ہمارے ہاں کے علماء نے ٹھیک یہودیوں کی طرح بکری کے بچے کی مانند لفظی پیروی کر کے ٹخنے سے نیچی ازار پہننے والے کو، گو وہ کیسا ہی مسکین و بے غرور و منکسر ہو اور گو وہ امر نشان غرور و تکبر باقی ہی نہ رہا ہو، جہنم میں ڈال دیا اور لوگوں کو تعجب میں ڈالا کہ یہ کیسا مذہب ہے کہ دو انگل اونچی ازار پہننے سے بہشت ملتی ہے اور دو انگل نیچی پہننے سے دوزخ میں ڈالا جاتا ہے۔ اگر وہ حدیث صحیح ہو اور سچ پوچھو تو موافق مراد اس حدیث کے اس زمانے کے ٹخنہ کھلی ازار پہننے والے ہی دوزخ میں تشریف لے جاویں گے۔ کون شخص اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ یہ ملانے، مسجدوں میں وعظ کرنے والے، سرمنڈے، ٹخنہ کھلے، نرے وہابی یا نیم چڑھے وہابی جس قدر ٹخنہ کھلی ازار پہننے سے متکبر و مغرور معلوم ہوتے ہیں اور یہودیوں سے بھی بڑھ کر الا ایا ما معدودۃ کو بھی حذف کر کے لن تمسنا النار ہی کا کلمہ پڑھتے ہیں اس کا کروڑواں حصہ بھی نیچی ازار پہننے والوں میں تکبر و غرور نہیں ہے۔ یہ ہر دم اپنی باتوں پر نادم ہیں اور وہ اپنے پندار میں ہر دم بہشت کے ایک اعلیٰ درجے پر چڑھے جاتے ہیں فا عتبروا یا اولی البصار۔ غرضیکہ انسانوں کی بدبخۃی کی جڑ دنیوی مسائل کو دینی مسائل میں جو ناقابل تغیر و تبدیل ہیں، شامل کر لینا ہے۔ ہمارے اس قول کی دلیل دنیا کی تمام قوموں کی تاریخ میں پائی جاتی ہے۔ عیسائی قومیں، جو اب دنیا میں نہایت اعلیٰ درجے کی خیال کی جاتی ہیں، جب تک اس خیال میں مبتلا رہیں، روز بروز نکبت کو پہنچۃی گئیں، جیسا کہ اس زمانے کی تاریخوں سے ثابت ہوتا ہے۔ ہندو جو ایک زژانے میں دنیا کی لائق قوموں میں تھے، اسی آفت سے تباہ و برباد ہو گئے۔ مسلمان جو ایک زمانے میں سب سے سر برآوردہ تھے، اسی بدبختی کی ذلت میں مبتلا ہوئے۔ اخیر نتیجہ ان کی بربادی کا جو ابھی سلطنت عثمانیہ ٹرکی پر گزرا، ہم نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا۔ تمام چھوٹی بڑی مسلمانی سلطنتیں اور ریاستیں جو اس وقت موجود ہیں اسی وبال میں مبتلا ہیں۔ ہم خدا خواہی وہم دنیائے دوں ایں خیال است و محال ست و جنوں گو مولانا روم کا مطلب اس شعر سے کچھ اور ہو، لیکن اگر اس کو سچے اور واقعی معنوں پر محمول کریں تو زیادہ مناسب معنی یہی ہیں کہ دنیاوی معاملات کو دینی معاملات میں ملا لینا جنون ہے۔ لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ان امور معاشرت کو جو عمدہ ہوں بطور مذہبی مسائل کے مذہب میں شامل کر لینا ان کے دوامی استحکام اور دوامی عمل درآمد کا باعث ہوتا ہے۔ مگر اس خیال میں انہوں نے غلطی کی ہے۔ دینی احکام کا نیچر دینیا وی احکام معاشرت کے نیچر سے بالکل مختلف ہے۔ دینی احکام جو روحانی اخلاق اور روحانی تہذیب سے علاقہ رکتھے ہیں دوامی و ناقابل تبدیل ہوتے ہیں، کیونکہ خدا نے انسان کی روح کو جس نیچر پر پیدا کیا ہے جب تک انسان دینا میں ہے اس کو تغیر و تبدیل نہیں، بر خلاف امور معاشرت و تمدن کے جو روز بروز تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ پس وہ داخل احکام مذہبی جو ناقابل تبدیل ہیں، نہیں ہو سکتے۔ ان کو مذہبی احکام میں داخل کرنا ہی بربادی کا باعث ہے۔ دنیا آگے بڑھی چلی جاتی ہے اور ہم اسی پرانی لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں اور ذلت و ادبار کو پہنچتے ہیں۔ خدا کی کبھی یہ مرضی نہیں ہو سکتی کہ انسان علم اور اس کے صنائع سے جو وہ روز بروز انسان پر ظاہر کرتا جاتا ہے۔ منتفع نہ ہو۔ کبھی خدا کی یہ مرضی نہیں ہو سکتی کہ جب ہم پتوں کا لباس پہنتے تھے تو جب ہم کو جانوروں کی کھال کا لباس پہننے کی قدرت ہوئی تو اس کو نہ پہنیں اور جب سوتی اور اونی اور ریشمی لباس بنانا ہم کو آیا تو اس کو استعمال نہ کریں۔ جب ہم سینا نہیں جانتے تھے اور بن سیا کپڑا پہنتے تھے تو جب ہم کو کپڑا سینا آیا تو سیا ہوا کپڑا نہ پہنیں۔ پہلے ہم کو کپڑے کی وضع و قطع اچھی طرح نہیں آتی تھی، صرف سیدھا سادا کرتہ سی لینا آتا تھا تو جب ہم کو عمدہ قطع کی قبا اور عبا اور صدری سینی آئی، جس میں اقسام اقسام کے ریشمی و سوتی گھنڈیوں دار ساز لگانے لگے تو اس کو استعمال نہ کریں یا جب ہم کو عمدہ قطع کے کوٹ و پتلون سینے آ گئے تو جو لوگ اس کو پسند کرتے ہیں وہ اس کو نہ پہنیں اور پہنیں تو کافر ہوں۔ یہ اصول ایسے ہیں جن سے کسی کا دل انکار نہیں کر سکتا۔ گو زبان انکار کرے اور جو اس کے برخلاف ہیں وہ ان اصولوں کو برباد نہیں کر سکتے بلکہ اگر ان اصولوں کی مخالفت کو اپنے مذہب کا جزو قرار دیتے ہیں تو خود اپنے مذہب کو برباد کرتے ہیں جس کا وبال انہی پر ہے۔ اسی قسم کے لوگوں کی بدولت مذہب اسلام کی یہ ذلت ہوئی ہے کہ بجائے روحانی مذہب کے جسمانی مذہب کہا جاتا ہے اور مسلمانوں میں علوم و صنائع و عقل و خیال و تمدن و معاشرت کی تمام ترقیاں یکسر مسدود ہو گئی ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن مجید میں بھی بہت سی باتیں ایسی آئی ہیں جو صرف دنیاوی امور سے جو پیش آہے تھے علاقہ رکھتی ہیں اور ان کے وحی ہونے سے اور من اﷲ ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پس اگر دنیاوی امور مذہب میں داخل نہ ہو تو قرآن مجید میں ان کا آنا کیونکر صحیح تصور ہو سکتا ہے؟ ہمارے مخالفین مذہب نے اس سے بھی زیادہ الزام لگایا ہے اور لڑائی کی نسبت اور حضڑت عائشہؓ اور حضڑت زینبؓ کی نسبت جو آیتیں ہیں ان کو نعوذ باﷲ ہوائے نفس کی جانب محمول کیا ہے، مگر یہ سب ان کی غلطی و نا سمجھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ وحی کی حقیقت نہیں جانتے اور یہ نہیں سمجھتے کہ وحی کا ملکہ کس طرح پر تحریک میں آتا ہے اور کس طرح پر وحی کا نزول ہوتا ہے۔ ہمارے علماء نے وحی کی حقیقت کو جو کچھ سمجھا ہے اور جس طرح پر بیان کیا ہے اسی سے اس قسم کے الزامات کو مذہب پر اور قرآن مجید پر وارد کیا ہے، مگر جب حقیقت وحی سمجھ میں آوے اور یہ بھی سمجھا جاوے کہ کیا امر اس ملکہ کی تحریک کا باعث ہوتا ہے جو جبرئیل وحی لانے والا ہے، تو اس وقت ان کے دل میں اس قسم کے خیالات پیدا نہ ہوتے۔ میں اپنے یقین سے یہ بات کہتا ہوں کہ اگر قرآن مجید میں عائشہؓ و زینبؓ کی آیتیں نہ ہوتیں اور تمام امورات دینی و دنیوی کے پیش آ جانے کے بعد ان کی نسبت وحی کا آنا قرآن سے نہ پایا جاتا تو میں اس کو ہر گز الہامی اور خدا کا کلام نہ سمجھتا اور اس کو ایک مصنوعی کتاب جانتا۔ قرآن مجید کے سچے اور الہامی اور من اﷲ ہونے کی بڑی دلیل یہی ہے کہ اس میں ان تمام باتوں کی نبست وحی کا آنا بیان ہوا ہے جو درپیش آتی گئی تھیں اور جو درحقیت اس ملکہ کی محرک تھیں جس کو ملکہ نبوت یا ملکہ وحی یا جبرئیل امین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قرآن کا ہر ایک لفظ احکام مذہبی سے علاقہ نہیں رکھتا۔ اگر میں اپنے ہم نام ملا احمد جونپوری کی تفسیر آیات احکام ہی کو تسلیم کر لوں تو صرف پانسو آیات احکام اس میں ہیں اور درحقیقت اتنی بھی نہیں۔ پس دنیاوی امور کا قرآن مجید میں ذکر ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ دنیاوی معاملات بھی مذہب میں داخل ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عزت (تہذیب الاخلاق، جلد دوم، نمبر ۵ (دور سوم) بابت یکم صفر ۱۳۱۳ھ) بہت کم لوگ ہیں جو اس کی حقیقت جانتے ہوں اور بہت کم ہیں جو اس کے مشتقات کے معزز القابوں کے مستحق ہوں۔ جس کی لوگ بہت زیادہ آؤ بھگت کرتے ہیں اس کو لوگ معزز سمجھتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو بھی معزز جانتا ہے۔ دولت، حکومت، ظاہری طمطراق خواہ نخواہ لوگوں کو معزز بنا دیتی ہے۔ وہ خود بھی آپ کو معزز سمجھتے ہیں اور لوگ بھی ان کو معزز جانتے ہیں۔ اوصاف ظاہری بھی ایک ذریعہ معزز ہونے اور معزز بننے کا ہے جو دولت اور حکومت اور حشمت سے بھی زیادہ ان کو معزز بنا دیتا ہے، مگر یہ اعزاز اس سے زیادہ کچھ رتبہ نہیں رکھتا جیسے کہ ایک تانبے کی مورت ٹھوس سونے کی نہ ہو اس وقت تک درحقیقت وہ کچھ قدر و قیمت کے لائق نہیں ہے۔ یہی حال انسان کا ہے۔ جب تک اس کی اندرونی حالت بھی عزت کے قابل نہ ہو وہ معزز نہیں ہو سکتا۔ لوگوں کو کسی انسان کی اندرونی حالت کا جاننا بہت مشکل اور قریب ناممکن کے ہے۔ پس ان کا کسی کو معزز سمجھنا درحقیقت اس کے معزز ہونے کی کافی دلیل نہیں ہے۔ ہاں وہ شخص بلاشبہ معزز ہے۔ جس کا دل اس کو معزز جانتا اور معزز سمجھتا ہو جس کو انگریزی میں ’’سیلف رسپکٹ‘‘ کہتے ہیں۔ کوئی شخص کسی سے جھوٹی بات کو سچی بنا کر کہتا ہے تو خود اس کا دل اس کو ٹوکتا ہے کہ یہ سچ نہیں ہے، گو سننے والا اس کو سچ سجمھتا ہو، مگر کہنے والے کا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ جھوٹوں میں کا ایک جھوٹا اور بے عزتوں میں کا ایک بے عزت ہے۔ اسی طرح تمام افعال انسان کے جو صرف ظاہری نمائش کے طور پر کیے جاتے ہیں، گو لوگ ان کی عزت کرتے ہوں، مگر درحقیقت وہ عزت کے مستحق نہیں ہیں۔ عزت کے لائق وہی کام ہیں جن کو دل بھی قابل عزت سمجھے۔ اس لیے انسان کو انسان بننے کے لیے ضروری ہے کہ تمام اس کے کام سچائی اور دلی شہادت پر مبنی ہوں۔ ہم کوئی بات ایسی نہ کہیں جس کو ہمارا دل جھٹلاتا ہو۔ ہم کوئی ایسا کام نہ کریں جس کی ہمارا دل عزت نہ کرتا ہو۔ کسی سے ہم اظہار دوستی اور محبت کا نہ کریں اگر درحقیقت ہمارے دل میں اس سے ویسی ہی محبت اور دوستی نہ ہو جیسی کہ اظہار کرتے ہیں۔ ہم کوئی کام ایسا نہ کریں جس کو ہمارا دل اچھا نہ سمجھتا ہو۔ صلح کل ہونا اگر اس کے معنی یہ ہوں کہ سب سے اس طرح ملیں کہ ہر شخص جانے کہ ہمارے بڑے دوست ہیں تو یہ تو نفاق اکبر ہے اور ایسا شخص نہ کسی کا دوست ہوتا ہے اور نہ کوئی اس کا دوست ہوتا ہے۔ اور اگر اس کے یہ معنی ہوں کہ کسی سے بغض، عداوت اور دشمنی اپنے دل میں نہ رکھے، کسی کا برا نہ چاہے، دشمن کی بھی برائی نہ چاہے، وہ بلاشبہ تعریف کے قابل ہے۔ دل انسان کا ایک ہے، اس میں دو چیزیں یعنی عداوت، کسی کے ساتھ کیوں نہ ہو، اور محبت سما نہیں سکتیں۔ وہ ایسی کلہیا نہیں ہے جس میں دو خانے ہوں، ایک محبت کا ایک عداوت کا، اور اس لیے یہ دو چیزیں، گو اشخاص متعدد اور حیثیاتِ مختلفہ کے ساتھ کیوں نہ ہو، سما نہیں سکتیں۔ اس لیے انسان کو لازم ہے کہ محبت کے سوا کسی دوسری چیز کے دل میں لانے کا خیال ہی نہ کرے اور ایسی ہی زندگی انسان کے لیے عمدہ زندگی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسوم و عادات (منقول از تہذیب الاخلاق، جلد اول، نمبر اول، بابت یکم شوال ۱۲۸۷ھ یوم جمعہ عید الفطر صفحہ) جو لوگ کہ حسن معاشرت اور تہذیب اخلاق و شائستگی پر بحث کرتے ہیں ان کے لیے کسی ملک یا قوم کے کسی رسم و رواج کو اچھا اور کسی کو برا ٹھہرانا نہایت مشکل کام ہے۔ ہر ایک قوم اپنے ملک کے رسم و رواج کو پسند کرتی ہے اور اسی میں خوش رہتی ہے، کیونکہ جن باتوں کی چھٹپن سے عادت اور موانست ہو جاتی ہے وہی دل کو بھلی معلوم ہوتی ہیں، لیکن اگر اسی پر اکتفا کریں تو اس کے معنی یہ ہو جاویں گے کہ بھلائی اور برائی حقیقت میں کوئی چیز نہیں ہے، بلکہ صرف عادت پر موقوف ہے۔ جس چیز کا رواج ہو گیا، عادت پڑ گئی، وہی اچھی ہے اور جس چیز کا رواج نہ ہوا اور عادت نہ پڑی وہی بری ہے۔ مگر یہ بات صحیح نہیں، بھلائی اور برائی فی نفسہ مستقل چیز ہے۔ رسم و رواج سے البتہ یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ کوئی اس کے کرنے پر نام نہیں دھرتا، عیب نہیں لگاتا، کیونکہ سب کے سب اس کو کرتے ہیں، مگر ایسا کرنے سے وہ چیز اگر فی نفسہ بری ہے تو اچھی نہیں ہو جاتی۔ پس ہم کو صرف اپنے ملک یا اپنی قوم کی رسومات کے اچھے ہونے پر بھروسا کر لینا نہ چاہیے، بلکہ نہایت آزادی اور نیک دلی سے اس کی اصلیت کا امتحان کرنا چاہیے، تاکہ اگر ہم میں کوئی ایسی بات ہو جو حقیقت میں بد ہو اور بسبب رسم و رواج کے ہم کو اس کی بدی خیال میں نہ آتی ہو تو معلوم ہو جاوے اور وہ بدی ہمارے ملک یا قوم سے جارتی رہے۔ البتہ یہ کہنا درست ہو گا کہ ہو گآ، معیوب اور غیر معیوب ہونا کسی بات کا زیادہ تر اس کے رواج و عدم رواج پر منحصر ہو گیا ہے تو ہم کس طرح کسی امر کے رسم و رواج کو اچھا یا برا قرار دے سکیں گے۔ بلاشبہ یہ بات کسی قدر مشکل ہے، مگر جبکہ یہ تسلیم کر لیا جاوے کہ بھلائی یا برائی فی نفسہ بھی کوئی چیز ہے تو ضرور ہر بات کی فی الحقیقت بھلائی یا برائی قرار دینے کے لیے کوئی نہ کوئی طریقہ ہو گآ۔ پس ہم کو اس طریقے کی تلاش کرنے اور اسی کے مطابق اپنی رسوم و عادات کی بھلائی یا برائی قرار دینے کی پیروی کرنے چاہیے۔ سب سے مقدم اور سب سے ضروری امر اس کام کے لیے یہ ہے کہ ہم اپنے دل کو تعصبات سے اور ان تاریک خیالوں سے جو انسان کو سچی بات کے سننے اور کرنے سے روکتے ہیں خالی کریں اور اس دلی نیکی سے جو خدا تعالی نے انسان کے دل میں رکھی ہے ہر ایک بات کی بھلائی یا برائی دریافت کرنے پر متوجہ ہوں۔ یہ بات ہم کو اپنی قوم اور اپنے ملک اور دوسری قوم اور دوسرے ملک دونوں کے رسم و رواج کے ساتھ برتنی چاہیے، تاکہ جو رسم و عادت ہم میں بھلی ہے اس پر متسحکم رہیں اور جو ہم میں بری ہے اس کے چھوڑنے پر کوشش کریں اور جو رسم و عادت دوسروں میں اچھی ہے اس کو بلا تعصب اختیار کریں اور جو ان میں بری ہے اس کے اختیار کرنے سے بچتے رہیں۔ جبکہ ہم غور کرتے ہیں کہ تمام دنیا کی قوموں میں جو رسوم و عادات مروج ہیں انہوں نے کس طرح ان قوموں میں رواج پایا ہے تو باوجود مختلف ہونے ان رسومات و عادات کے ان کا مبداء اور منشاء متحد معلوم ہوتا ہے۔ کچھ شبہ نہیں ہے کہ جو عادتیں اور رسمیں قوموں میں مروج ہیں ان کا رواج یا تو ملک کی آب و ہوا کی خاصیت سے ہوا ہے یا ان اتفاقیہ امور سے جن کی ضرورت وقتاً فوقتاً بضرورت تمدن و معاشرت کے پیش آتی گئی ہے یا دوسری قوم کی تقلید و اختلاط سے مروج ہو گئی ہیں یا انسان کی حالت ترقی یا تنزل نے اس کو پیدا کر دیا ہے۔ پس ظاہر یہی چار سبب ہر ایک قوم اور ہر ایک ملک میں رسوم و عادات کے مروج ہونے کا مبداء و منشاء معلوم ہوتے ہیں۔ جو رسوم و عادات کہ بمقتضائے آب و ہوا کسی ملک میں رائج ہوئی ہیں ان کے صحیح اور درست ہونے میں کچھ شبہ نہیں، کیونکہ وہ عادتیں قدرت اور فطرت نے ان کو سکھلائی ہیں جس کے سچ ہونے میں کچھ شبہ نہیں، مگر صرف ان کے برتاؤ کا طریقہ غور طلب باقی رہتا ہے۔ مثلاً ہم یہ بات دیکھتے ہیں کہ کشمیر میں اور لندن میں سردی کے سبب انسان کو آگ سے گرم ہونے کی ضرورت ہے۔ پس آگ کا استعمال ایک نہایت سچی اور صحیح عادت دونوں ملکوں کی قوموں میں ہے، مگر اب ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ آگ کے استعمال کے لیے یہ بات بہتر ہے کہ مکانات میں ہندسی قواعد سے آتشخانہ بنا کر آگ کی گرمی سے فائدہ اٹھاویں یا مٹی کی کانگڑیوں میں آگ جلا کر گردن میں لٹکانے پھریں جس سے گورا گورا پیٹ اور سینہ کالا اور بھونڈا ہو جاوے۔ طریق تمدن و معاشرت روز بروز انسانوں میں ترقی پاتا جاتا ہے اور اس لیے ضرور ہے کہ ہماری رسمیں و عادتیں جو بضرورت تمدن و معاشرت مروج ہوئی تھیں ان میں بھی روز بروز ترقی ہوتی جاوے اور اگر ہم اپنی ان پہلی ہی رسموں اور عادتوں کے پابند رہیں اور کچھ ترقی نہ کریں تو بلاشسبہ بمقابل ان قوموں کے جنہوں نے ترقی کی ہے، ہم ذلیل اور خوار ہوں گے اور مثل جانوروں کے خیال کیے جاویں گے۔ پھر خواہ اس نام سے ہم برا مانیں یا نہ مانیں۔ انصاف کا مقام ہے کہ جب ہم اپنے سے کمتر اور ناتربیت یافتہ قوموں کو ذلیل و حقیر مثل جانوروں کے خیال کرتے ہیں تو جو قومیں کہ ہم سے زیادہ شائستہ و تربیت یافتہ ہیں اگر وہ بھی ہم کو اسی طرح حقیر اور ذلیل مثل جانوروں کے سمجھیں تو ہم کو کیا مقام شکایت ہے، ہاں اگر ہم کو غیرت ہے تو ہم کو اس حالت سے نکلنا اور اپنی قوم کو نکالنا چاہیے۔ دوسری قوموں کی رسومات کا اختیار کرنا اگرچہ بے تعصبی اور دانائی کی دلیل ہے، مگر جب وہ رسمیں اندھے پنے سے صرف تقلیداً بغیر سمجھے بوجھے اختیار کی جاتیں ہیں تو کافی ثبوت نادانی اور حماقت کا ہوتی ہیں، دوسری قوموں کی رسومات اختیار کرنے میں اگر ہم دانائی اور ہوشیاری سے کام کریں تو اس قوم سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس لیے کہ ہم کو اس رسم سے موانست نہیں ہوتی اور اس سبب سے اس کی حقیقی بھلائی یا برائی پر غور کرنے کا، بشرطیکہ ہم تعصب کو کام میں نہ لاویں، بہت اچھا موقع ملتا ہے۔ اس قوم کے حالات دیکھنے سے جس میں وہ رسم جاری ہے ہم کو بہت عمدہ مثالیں سینکڑوں برس کے تجربے کی ملتی ہیں جو اس رسم کے اچھے یا برے ہونے کا قطعی تصفیہ کر دیتی ہیں۔ مگر یہ بات اکثر جگہ موجود ہے کہ ایک قوم کی رسمیں دوسری قوم میں بسبب اختلاط اور ملاپ کے اور بغیر قصد و ارادے کے اور ان کی بھلائی اور برائی پر غور و فکر کرنے کے بغیر داخل ہو گئی ہیں، جیسا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا بالتخصیص حال ہے کہ تمام معاملات زندگی، بلکہ بعض امورات مذہبی میں بھی ہزاروں رسمیں غیر قوموں کی بلا غور و فکر اختیار کر لی ہیں یا کوئی نئی رسم مشابہ اس قوم کی رسم کے ایجاد کر لی ہے، مگر جب ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے طریق معاشرت اور تمدن کو اعلیٰ درجے کی تہذیب پر پہنچاویں، تاکہ جو قومیں ہم سے زیادہ مہذب ہیں وہ ہم کو بنظر حقارت نہ دیکھیں تو ہ مارا فرض ہے کہ ہم اپنی تمام رسوم و عادات کو بنظر تحقیق دیکھیں اور جو بری ہوں ان کو چھوڑیں اور جو قابل اصلاح ہوں ان میں اصلاح کریں۔ جو رسومات کہ بسبب حالت ترقی یا تنزل کسی قوم کے پیدا ہوتی ہیں وہ رسمیں ٹھیک ٹھیک اس قوم کی ترقی اور تنزل یا عزت اور ذلت کی نشانی ہوتی ہیں۔ اس مقام پر ہم نے لفظ ترقی یا تنزل کو نہایت وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے اور تمام قسم کے حالات ترقی و تنزل مراد لیے ہیں، خواہ وہ ترقی و تنزل اخلاق سے متعلق ہو، خواہ علوم و فنون اور طریق معاشرت و تمدن سے اور خواہ ملک و دولت و جاہ و حشمت سے۔ بلاشبہ یہ بات تسلیم کرنے کے قابل ہے کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں نکلنے کی جس کی تمام رسمیں اور عادتیں عیب اور نقصان سے خالی ہوں، مگر اتنا فرق بیشک ہے کہ بعضی قوموں میں ایسی رسومات اور عادات جو درحقیقت نفس الامر میں بری ہوں کم ہیں اور بعضی میں زیادہ اور اسی وجہ سے وہ پہلی قوم پچھلی قوم سے اعلیٰ اور معزز ہے اور بعضی ایسی بھی قومیں ہیں جنہوں نے انسان کی حالت ترقی کو نہایت اعلیٰ درجے تک پہنچایا ہے اور اس حالت انسانی کی ترقی نے ان کے نقصانوں کو چھپا لیا ہے۔ جیسے ایک نہایت عمدہ و نفیس شیریں دریا تھوڑے سے گدلے اور کھارے پانی کو چھپا لیتا ہے یا ایک نہایت لطیف شربت کا بھرا ہوا پیالہ نیبو کی کھٹی دو بوندوں سے زیادہ تر لطیف اور خوشگوار ہو جاتا ہے اور یہی قومیں ہیں جو اب دنیا میں سویلیزڈ، یعنی مہذب گنی جاتی ہیں اور درحقیقت اس لقب کی مستحق بھی ہیں۔ میری دلسوزی اپنے ہم مذہب بھائیزں کے ساتھ اسی وجہ سے ہے کہ میری دانست میں ہم مسلمانوں مین بہت سی رسمیں جو درحقیقت نفس الامر میں بری ہیں مروج ہو گئی ہیں جن میں سے ہزاروں ہمارے پاک مذہب کے بھی برخلاف ہیں اور انسانیت کے بھی مخالف ہیں اور تہذیب و تربیت و شائستگی کے بھی برعکس ہیں اور اس لیے میں ضرور سمجھتا ہوں کہ ہم سب لوگ تعصب اور ضد اور نفسانیت کو چھوڑ کر ان بری رسموں اور بد عادتوں کے چھوڑنے پر مائل ہوں اور جیسا کہ ان کا پاک اور روشن ہزاروں حکمتوں سے بھرا ہوا مذہب ہے، اسی طرح اپنی رسومات معاشرت و تمدن کو بھی عمدہ اور پاک و صاف کریں اور جو کچھ نقصانات اس میں ہیں، گو وہ کسی وجہ سے ہوں، ان کو دور کریں۔ اس تحریر کو یہ نہ سمجھا جاوے کہ میں اپنے تئیں ان بد عادتوں سے پاک و مبرا سمجھتا ہوں یا اپنے تئیں نمونہ عادات حسنہ جتاتا ہوں یا خود ان امور میں مقتدا بننا چاہتا ہوں، حاشا وکلا، بلکہ میں بھی ایک فرد انہیں افراد میں سے ہوں جن کی اصلاح دلی مقصود ہے، بلکہ میرا مقصد صرف متوجہ کرنا اپنے بھائیوں کا اپنی اصلاح پر ہے اور خدا سے امید ہے کہ جو لوگ اصلاح حال پر متوجہ ہوں گے، سب سے اول ان کا چیلا اور ان کی پیروی کرنے والا میں ہوں گا۔ البتہ مثل مخمور کے خراب حالت میں چلا جانا اور روز بروز بد تر درجے کو پہنچتا جانا اور نہ اپنی عزت کا اور نہ قومی عزت کا خیال و پاس رکھنا اور جھوٹی شیخی اور بیجا غرور میں پڑے رہنا مجھ کو پسند نہیں ہے۔ ہماری قوم کے نیک اور مقدس لوگوں کو کبھی کبھی یہ غلط خیال آتا ہے کہ تہذیب اور حسن معاشرت و تمدن صرف دنیاوی امور ہیں جو صرف چند روزہ ہیں، اگر ان میں ناقص ہوئے تو کیا اور کامل ہوئے تو کیا، اور اس میں عزت حاصل کی تو کیا اور ذلیل رہے تو کیا، مگر ان کی اس رائے میں قصور ہے اور ان کی نیک دلی اور سادہ مزاجی اور تقدس نے ان کو اس عام فریب غلطی میں ڈالا ہے۔ جو ان کے خیالات ہیں ان کی صحت اور اصلیت میں کچھ شبہ نہیں، مگر انسان امور متعلق تمدن و معاشرت سے کسی طرح علیحدہ نہیں ہو سکتا اور نہ شارع کا مقصود ان تمام امور کو چھوڑنے کا تھا، کیونکہ قواعد قدرت سے یہ امر غیر ممکن ہے۔ پس اگر ہماری حالت تمدن و معاشرت ذلیل اور معیوب حالت پر ہو گی تو اس سے مسلمانوں کی قوم پر عیب اور ذلت عائد ہو گی اور وہ ذلت صرف ان افراد اور اشخاص پر منحصر نہیں رہتی، بلکہ ان کے مذہب پر منحصر ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ مسلمان، یعنی وہ گروہ جو مذہب اسلام کا پیرو ہے۔ نہایت ذلیل و خوار ہے۔ پس اس میں درحقیقت ہمارے افعال و عادات قبیحہ سے اسلام کو اور مسلمانی کو ذلت ہوتی ہے۔ پس ہماری دانست میں مسلمانوں کی حسن معاشرت اور خوبی تمدن اور تہذیب، اخلاق اور تربیت و شائستگی سے کوشش کرنا حقیقت میں ایک ایسا کام ہے جو دنیاوی امور سے جس قدر متعلق ہے اس سے بہت زیادہ معاد سے علاقہ رکھتا ہے اور جس قدر فائدے کی اس سے ہم کو اس دنیا میں توقع ہے اس سے بہت بڑھ کر اس دنیا میں ہے جس کو کبھی فنا نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات (تہذیب الاخلاق، جلد ۱ نمبر ۳ بابت یکم ذیقعدہ ۱۲۸۷ھ) ہم اپنے اس آرٹیکل کو بعض بڑے بڑے حکیموں کی تحریروں سے اخذ کر کے لکھتے ہیں۔ کیا عمدہ قول ایک بڑے دانا کا ہے کہ انسان کی زندگی کا منشاء یہ ہے کہ اس کے تمام قویٰ اور جذبات نہایت روشن اور شگفتہ ہوں اور ان میں باہم نامناسبت اور تناقض واقع نہ ہو، بلکہ سب کا مل کر ایک کامل اور نہایت متناسب مجموعہ ہو، مگر جس قوم میں کہ پرانی رسم و رواج کی پابندی ہوتی ہے، یعنی ان رسموں پر نہ چلنے والا مطعون اور حقیر سمجھا جاتا ہے، وہاں زندگی کا منشاء معدوم ہو جاتا ہے۔ ایک اور بڑے دانا شخص کی رائے کا یہ نتیجہ ہے کہ آزادی اور اپنی خوشی پر چلنا جہاں تک کہ دوسروں کو ضرر نہ پہنچے، ہر انسان کی خوشی اور اس کا حق ہے۔ پس جہاں کہیں معاشرت کا قاعدہ جس پر کوئی چلتا ہے، خاص اس کی خصلت پر مبنی نہیں ہے، بلکہ اگلی روایتوں پر یا پرانی رسم و رواج پر مبنی ہے تو وہاں انسانوں کی خوش حالی کا ایک بڑا جزو موجود نہیں ہے اور جو کہ خوش حالی ہر فرد بشر کی اور نیز کل لوگوں کی ترقی کا بہت بڑا جزو ہے تو اس ملک میں جہاں رسموں کی پابندی ہے، وہ جزو بھی ناپید ہوتا ہے۔ کسی شخص کی یہ رائے نہ ہو گی کہ آدمیوں کو بجز ایک دوسرے کی تقلید کے اور کچھ مطلق نہ کرنا چاہیے اور نہ کوئی شخص یہ کہے گا کہ آدمیوں کو اپنی اوقات بسری کے طریقے اور اپنے کاروبار کی کارروائی میں اپنی خوشی اور اپنی رائے کے مطابق کوئی بات بھی کرنی نہ چاہیے۔ سیدھا طریقہ یہ ہے کہ آدمی کو اس کی جوانی میں اس طرح سے تعلیم ہونی چاہیے کہ اور لوگوں کے تجربوں سے جو نتیجے تحقیق ہو چکے ہیں ان کے فوائد سے مستفید ہو اور پھر جب اس کی محفل پختگی پر پہنچے تو خود ان کی بھلائی اور برائی کو جانچے۔ بے سوچے اور بے سمجھے رسومات کی پابندی کرنے سے، گو وہ رسمیں اچھی ہی کیوں نہ ہوں، آدمی کی ان صفتوں کی ترقی اور شگفتی نہیں ہوتی جو خدا تعالیٰ نے ہر آدمی کو جدا جدا عنایت کی ہیں۔ ان قوتوں کا برتاؤ جو کسی چیز کی بھلائی برائی دریافت کرنے اور کسی بات پر رائے دینے اور دو باتوں میں امتیاز کرنے اور عقل و فہم کو تیز رکھنے، بلکہ اخلاقی باتوں کی بھلائی اور برائی تجویز کرنے میں مستعمل ہوتی ہیں، صرف ایسی ہی صورت میں ممکن ہے جبکہ ہم کو ہر بات کے پسند یا نا پسند کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ جو شخص کوئی بات رسم کی پابندی سے اختیار کرتا ہے وہ شخص اس بات کو پسند یا ناپسند نہیں کرتا اور نہ ایسے شخص کو اس بات کی تمیز یا خواہش میں کچھ تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ اخلاقی اور عقلی قوتوں کی ترقی اس صورت میں حاصل ہوتی ہے جبکہ وہ استعمال میں لائی جاویں۔ ان قوتوں کی اوروں کی تقلید کرنے سے کسی بات کی مشق حاصل نہیں ہوتی، بلکہ ایسے شخص کے لیے بجز ایسی قوت تقلید کے، جو بندر میں ہوتی ہے اور کسی قوت کی حاجت نہیں۔ البتہ جو شخص اپنا طریقہ خود پسند کرتا ہے وہ اپنی تمام قوتوں سے کام لیتا ہے۔ زمانۂ حال پر نظر کرنے کے لیے اس کو قوتِ تحقیق درکار ہوتی ہے اور انجام کار پر غور کرنے کے لیے قوت تجویز اور اس کا تصفیہ کرنے کو قوت استقراء اور بھلا برا ٹھہرانے کو قوتِ امتیاز اور سب باتوں کے تصفیے کے بعد اس پر قائم رہنے کے لیے قوتِ استقلال اور یہی سب کام ہیں جو انسان کے کرنے کے لائق ہیں۔ آدمی مثل ایک کل کے نہیں ہے کہ جو اس کے واسطے مقرر کر دیا ہے اسی کو انجام دینا کرے، بلکہ وہ ایک ایسا درخت ہے جو ان اندرونی قوتوں سے جو خدا نے اس میں رکھی ہیں اور جن کے سبب سے وہ زندہ مخلوق کہلاتا ہے، ہر چہار طرف پھیلے اور بڑھے، پھولے اور پھلے۔ جو امر کہ پسندیدہ اور تسلیم کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ لوگ اپنی فہم اور اپنی عقل سے کام لیں اور رسم و رواج کی پابندی بھی ایک معقول طور پر رکھیں، یعنی جو عمدہ و مفید ہیں ان کو اختیار کریں، جو قابل اصلاح ہوں ان میں ترمیم کریں اور جو بری اور خراب ہوں ان کی پابندی چھوڑ دیں، نہ یہ کہ اندھوں کی طرح یا ایک کل کی مانند ہمیشہ اسی سے لپٹے رہیں۔ یہ بات خیال کی جاتی ہے کہ رسومات کی پابندی نہ کرنے سے آدمی خراب کاموں اور بری باتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، مگر یہ بات صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ انسان کی ذات میں جیسے کہ خراب کام کرنے کی قوتیں اور جذبے ہیں ویسے ہی ان کے روکنے کی بھی قوتیں اور جذبے ہیں، مثلاً ایمان یا نیکی جو ہر انسان کے دل میں ہے۔ پس خراب کام ہونے کا یہ باعث نہیں ہے کہ اس نے رسومات کی پابندی نہیں کی، بلکہ یہ باعث ہے کہ اس نے ایک قسم کی قوتوں اور جذبوں کو شگفتہ اور شاداب اور قوی کیا ہے اور دوسری قسم کی قوتوں اور جذبوں کو پژمردہ اور ضعیف۔ اگر رسومات کی پابندی نہ رکھنے کے ساتھ انسان کا ایمان، ضعیف نہ ہو یا وہ دلی نکی جو ہر انسان کے دل میں ہے پژمردہ نہ ہو تو بجز عمدہ اور پسندیدہ باتوں کے اور کسی بات کا ارتکاب نہ ہو۔ ہمارے زمانے میں ہر شخص اعلی سے لے کر ادنی تک رسم و رواج کا ایسا پابند ہے جیسے کوئی شخص ایک بڑے زبردست حاکم کے نیچے اپنی زندگی بسر کرتا ہو۔ کوئی شخص یا کوئی خاندان اپنے دل سے یہ بات نہیں پوچھتا کہ ہم کو کیا کرنا چاہیے اور ہمارے مناسب یا ہماری پسند اور ہماری پسند کے لائق کیا بات ہے، یا جو عمدہ صفتیں مجھ میں ہیں ان کا ظہور نہایت عمدگی سے کس طرح پر ممکن ہے اور کونسی بات ان کی ترقی اور شگفتی کی معاون ہے، بلکہ وہ اپنے دل سے یہ پوچھے ہیں کہ میری حالت اور رتبے کے کونسی چیز مناسب ہے۔ میرے رتبے اور مقدور کے آدمی کس رسم و رواج کے مطابق کام کرتے ہیں اور اگر کوئی اس سے بھی زیادہ بیوقوف ہوا تو وہ اپنے دل سے اس سے بھی زیادہ بدتر سوال کرتا ہے اور یوں پوچھتا ہے کہ جو لوگ مجھ سے برتر ہیں اور رتبے اور مقدور میں زیادہ ہیں وہ کن رسموں کو بجا لاتے ہیں، تاکہ یہ شخص بھی ویسا ہی کر کر انہی کی سی شان میں شامل ہو۔ اس بات سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ جو لوگ اس طرح پر رسومات کو بجا لاتے ہیں وہ اپنی خواہش اور مرضی سے ان رسومات کو اور چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں اور ترجیح دے کر پسند کرتے ہیں، نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو بجز ایسی بات کے جو رسمی ہوتی ہے اور کسی بات کی خواہش کرنے کا موقع یا اتفاق نہیں ہوتا اور اس لیے طبیعت خود متحمل اور مطیع رسموں کی پابندی کی ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ جو باتیں دل کی خوشی کی کرنی ہوتی ہیں ان میں بھی اوروں کے مطابق کام کرنے کا خیال اول دل میں آتا ہے۔ غرضیکہ ان کی پسند وہی ہوتی ہے جو بہت سے لوگوں کی ہے۔ وہ صرف ایسی باتوں کے پسند کرتے پر راغب ہوتے ہیں جو عام پسند ہوں اور مذاق اور اصلی سلیقہ جو رسم و رواج کے مطابق نہ ہو اس سے ایسی ہی گریز کی جاتی ہے جیسے کہ جرموں سے یہاں تک کہ اپنی خاص طبیعت کی پیروی نہ کرتے نہ کرتے ان میں اپنی طبیعت ہی باقی نہیں رہتی کہ جس کی پیروی کریں اور ان کی ذاتی قوتیں بالکل پژمردہ اور بے کار رہنے کے سبب بالکلیہ ضائع ہو جاتی ہیں اور وہ شخص اپنی دلی خواہش کرنے اور ذاتی خوشی اٹھانے کے قابل نہیں رہتے اور عموماً ایسی طبع زاد رائیں یا خیالات نہیں رکھتے جو خاص ان کی اصلی خوشی سے مخصوص ہوں۔ اب غور کرنا چاہیے کہ انسان کی ایسی حالت پسندیدہ ہو سکتی ہے یا نہیں۔ رسومات جو مقرر ہوئی ہیں غالباً اس زمانے میں جبکہ وہ مقرر ہوئیں مفید تصور کی گئی ہوں، مگر اس بات پر بھروسا کرنا کہ درحقیقت وہ ایسی ہی ہیں محض غلطی ہے۔ ممکن ہے کہ جن لوگوں نے ان کو مقرر کیا ان کی رائے میں غلطی ہو اور ان کا تجربہ صحیح نہ ہو۔ ان کا تجربہ نہایت محدود اور صرف چند اشخاص سے متعلق ہو یا اس تجربے کا حال صحیح بیان نہ ہوا ہو یا وہ رسم اس وقت اور اس زمانے میں مفید ہو، الاحال کے زمانے میں مفید نہ رہی ہو، بلکہ مضر ہو یا وہ رسم جن حالات پر قائم کی گئی تھی کسی شخص کی وہ حالت نہ ہو۔ غرضیکہ رسموں کی پابندی میں مبتلا رہنا ہر طرح پر نقصان کا باعث ہے۔ اگر کوئی اور نقصان نہ ہو تو یہ نقصان تو ضرور ہے کہ آدمی کی عقل اور دانش اور جودت طبع اور قوت ایجاد باطل ہو جاتی ہے۔ یہ بات بے شک ہے کہ کسی عمدہ بات کی ایجاد کی لیاقت ہر ایک شخص کو نہیں ہوتی، بلکہ چند دانا شخصوں کو ہوتی ہے جن کی پیروی اور سب لوگ کرتے ہیں لیکن رسم کی پابندی اور اس قسم کی پیروی میں بہت بڑا فرق ہے۔ رسومات کی پابندی میں اس کی بھلائی و برائی و مفید و غیر مفید و مناسب حال و مطابق طبع ہونے یا نہ ہونے کا مطلق خیال نہیں کیا جاتا اور بغیر سوچے سمجھے اس کی پابندی کی جاتی ہے اور دوسری حالت میں جو قوتیں ترقی کی انسان میں ہیں وہ معدوم و مفقود نہیں ہوتیں، الا پہلی حالت میں معدوم و نابود ہو جاتی ہیں۔ رسم کی پابندی ہر جگہ انسان کی ترقی کی مانع و مزاحم ہے۔ چنانچہ وہ پابندی ایسی قوت طبعی کے جس کے ذریعے سے بہ نسبت معمولی باتوں کے کوئی بہتر بات کرنے کا قصد کیا جاوے برابر مخالف رہتی ہے اور انسان کی تنزل حالت کا اصلی باعث ہوتی ہے۔ اب اس رائے کو دنیا کی موجود قوموں کے حال سے مقابلہ کرو۔ تمام مشرقی یا ایشیائی ملکوں کا حال دیکھو کہ ان ملکوں میں تمام باتوں کے تصغیے کا مدار رسم و رواج پر ہے۔ ان ملکوں میں مذہب اور استحقاق اور انصاف کے لفظوں سے رسموں کی پابندی مراد ہوتی ہے۔ پس اب دیکھ لو کہ مشرقی یا ایشیائی قوموں کا جن میں مسلمان بھی داخل ہیں، کیسا ابتر اور خراب اور ذلیل حال ہے۔ ان مشرقی یا ایشیائی قوموں میں بھی کسی زمانے میں قوت عقل اور جودت طبع اور مادۂ ایجاد ضرور موجود ہو گا جس کی بدولت وہ باتیں اجیاد ہوئیں جو اب رسمیں ہیں۔ اس لیے کہ ان کے بزرگ ماں کے پیٹ سے تربیت یافتہ اور حسن معاشرت کے فنون سے واقف پیدا نہیں ہوئے تھے، بلکہ یہ سب باتیں انہوں نے اپنی محنت اور علم اور عقل اور جودت طبع سے ایجاد کی تھیں اور انہی وجوہات سے دنیا کی نہایت بڑی اور قوی اور مشہور قوموں سے ہو گئے تھے، مگر اب ان کا حال دیکھو کہ کیا ہے۔ انہی رسومات کی پابندی سے ان کا حال یہ ہوا ہے کہ اب وہ ایسی قوموں کے محکوم ہیں اور ایسے لوگوں کی آنکھوں میں ذلیل ہیں جن کے آبا و اجداد اس وقت جنگلوں میں آوارہ پڑے پھرتے تھے۔ جس وقت ان قوموں کے آبا و اجداد عالی شان محلوں میں رہتے تھے اور بڑے بڑے عبادت خانے اور مکانات شاہی اور شہنشاہی محل بنواتے تھے۔ اس کا سبب یہی تھا کہ اس زمانے میں ان قوموں میں رسم کی پابندی قطعی نہ تھی اور جو کسی قدر تھی تو اس کے ساتھ ہی آزادی اور ترقی کا جوش ان میں قائم تھا۔ تواریخ سے ثابت ہے کہ ایک قوم کسی قدر عرصے تک ترقی کی حالت پر رہتی ہے اور اس کے بعد ترقی مسدود ہو جاتی ہے، مگر یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ ترقی کب مسدود ہوتی ہے۔ یہ اس وقت مسدود ہوتی ہے جبکہ اس قوم میں سے وہ قوت اٹھ جاتی ہے جس کے سبب سے نئی نئی باتیں پیدا ہوتی ہیں اور ٹھیک ٹھیک مسلمانوں کا اس زمانے میں یہی حال ہے، بلکہ میں نے غلطی کی، کیونکہ ترقی مسدود ہونے کا زمانہ بھی گزر گیا اور تنزل اور ذلت و خواری کا زمانہ بھی انتہا درجے کو پہنچ گیا۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ بات کہے کہ یورپ کی قوموں میں بھی جو اس زمانے میں ہر قسم کی ترقی کی حالت میں شمار ہوتی ہیں، بہت سی رسمیں ہیں اور ان رسوموں کی نہایت درجے پر پابندی ہے تو وہ قومیں کیوں ترقی پر ہیں؟ یہ اعتراض سچ ہے اور درحقیقت یورپ میں رسموں کی پابندی کا نہایت نقصان ہے اور اگر اس کی اصلاح نہ ہوتی رہے گی، جیسا کہ اب تک ہوتی رہی ہے، تو ان کو بھی بدنصیبی کا دن پیش آوے گا، مگر یورپ میں اور مشرقی ملکوں کی پابندی رسومات میں ایک بڑا فرق ہے۔ یورپ میں رسومات کی پابندی ایک عجیب اور نئی بات ہونے کو مانع تو ہے، مگر رسومات کی تبدیلی کا کوئی مانع نہیں۔ اگر کوہی شخص عمدہ رسم نکالے اور سب لوگ پسند کریں، فی الفور پرانی رسم چھوڑ دی جاوے گی اور نئی رسم اخۃیار کر لی جاوے گی اور اس سبب سے ان لوگوں کے قوائے عقلی اور حالت تمیز اور قوت ایجاد ضائع نہیں ہوئی۔ تم دیکھو کہ یہ پوشاک جو اب انگریزوں کی ہے ان کے باپ دادا کی نہیں ہے، بالکل اپنی پوشاک بدل دی ہے۔ ہر درجے کے لوگوں کا جو مختلف لباس تھا اس رسم کو چھوڑ دیا گیا ہے اور ضرور سمجھا گیا ہے کہ ہر شخص ایک سا مثل اوروں کے لباس پہنے۔ اس وقت کوئی رسم یورپ میں ایسے درجے پر نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی رسم اس کے برخلاف، مگر اس سے عمدہ ایجاد کرے اور لوگ اس پر اتفاق کریں، اسی وقت تبدیل نہ ہو سکے اور اسی تبدیلی کے ساتھ ان کی ترقی بھی ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ نئی نئی کلیں ہمیشہ ایجاد ہوتی رہتی ہیں اور تاوقتیکہ ان کی جگہ بہتر کلیں ایجاد نہ ہو جاویں وہ بدستور رہتی ہیں۔ ملکی معاملات اور تعلیم میں، بلکہ اخلاق میں، بلکہ مذہب میں ہمیشہ ترقی کے خواہاں ہیں۔ پس یہ تصور کرنا کہ یورپ بھی مثل ہمارے، مگر دوسری قسم کی رسموں میں مبتلا ہے، محض نادانی اور ناواقفیت کا سبب ہے۔ البتہ یورپ میں اور بالتخصیص انگریزوں میں جو بات نہایت عمدہ اور قابل تعریف اور لایق خواہش کے ہے اور در حقیقت بغیر اس کے کوئی قوم مہذب اور تربیت یافتہ نہیں ہو سکتی، وہی بات اس کے تنزل کا باعث ہو گی، بشرطیکہ اس کی اصلاح نہ ہوتی رہے گی اور وہ یہ ہے کہ تمام انگریز جو حب وطن میں نامی ہیں اس بات پر نہایت کوشش اور جانفشانی کر رہے ہیں کہ کل قوم کے لوگ یکساں ہو جاویں اور سب اپنے خیالات اور طریقے یکساں مسائل اور قواعد کے تحت حکومت کر دیں اور ان کوششوں کا نتیجہ انگلستان میں روز بروز ظاہر ہوتا جاتا ہے۔ جو حالات کہ اب خاص خاص لوگوں اور فرقوں کے پائے جاتے ہیں اور جن کے سبب ان کی خاص خاص عادتیں قائم ہوئی ہیں وہ اب روز بروز ایک دوسرے کے مشابہ ہوتی جاتی ہیں۔ انگلستان میں اس زمانے سے پہلے مختلف درجوں کے لوگ اور مختلف ہمسایوں کے لوگ اور مخۃلف پیشہ والے گویا جدی جدی دنیا میں رہتے تھے، یعنی سب کا طریقہ اور عادت جدا جدا تھی۔ اب وہ سب طریقے اور عادتیں ہر ایک کی ایسی مشابہ ہو گئی ہیں کہ گویا سب کے سب ایک محلے کے رہنے ولاے ہیں۔ انگلستان میں بہ نسبت سابق کے اب بہت زیادہ رواج ہو گیا ہے کہ لوگ ایک ہی قسم کی تصنیفات کو پڑھتے ہیں اور ایک ہی سی باتیں سنتے ہیں اور ایک ہی سی چیزیں دیکھتے ہیں اور ایک ہی سے مقاموں میں جاتے ہیں اور یکساں باتوں کی خواہش رکھتے ہیں اور یکساٖ ہی چیزوں کا خوف کرتے ہیں اور ایک ہی سے حقوق اور آزادی سب کو حاصل ہے اور ان حقوق اور آزادیوں کے قائم رکھنے کے ذریعے بھی یکساں ہیں اور یہ مشابہت اور مساوات روز بروز ترقی پاتی جاتی ہے اور تعلیم و تربیت کی مشابہت اور مساوات سے اس کو اور زیادہ وسعت ہوتی ہے۔ تعلیم کے اثر سے تمام لوگ عام خیالات کے اور غلبہ اور رائے کے پابند ہوتے جاتے ہیں اور جو عام ذخیرہ حقایق اور مسائل اور رایوں کا موجود ہے اس پر سب کو رسائی ہوتی ہے۔ آمد و رفت کے ذریعوں کی ترقی سے مختلف مقاموں کے لوگ مجتمع اور شامل ہوتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں اور اس سبب سے بھی مشابہت مذکور ترقی جاتی ہے۔ کار خانوں اور تجارت کی ترقی سے آسائش اور آرام کے وسیلے اور فائدے زیادہ شائع ہوتے ہیں اور ہر قسم کی عالی ہمتی: بلکہ بڑی سے بڑی اولو اعلزمی کے کام ایسی حالت کو پہنچ گئے ہیں کہ ہر شخص ان کے کرنے کو موجود و مستحد ہوتا ہے۔ کسی خاص شخص یا گروہ پر منحصر نہیں رہا ہے، بلکہ اولو العزمی تمام لوگوں کی خاصیت ہوتی جاتی ہے اور ان سب پر آزادی اور عام رائے کا غلبہ بڑھتا جاتا ہے اور یہ تمام امور ایسے ہیں جیسے انگلستان کے تمام لوگوں کی رائیں اور عادتیں اور طریق زندگی اور قواعد معاشرت اور امورات رنج و راحت یکساں ہوتے جاتے ہیں اور بلاشبہ ملک اور قوم کے مہذب ہونے کا اور ترقی پر پہنچنے کا یہی نتیجہ ہے اور ایسا عمدہ نتیجہ ہے کہ اس سے عمدہ نہیں ہو سکتا۔ مگر باوصف اس کے ہم اس نتیجے کو، بشرطیکہ اس کی اصلاح نہ ہوتی رہے، باعث تنزل قرار دیتے ہیں تو ضرور ہم کو کہنا پڑے گا کہ کیوں یہ عمدہ نتیجہ باعث تنزل ہو گا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ جب سب لوگ ایک سی طبیعت اور عادت اور خیال کے ہو جاتے ہیں تو ان کی طبیعتوں میں سے وہ قوتیں جو نئی باتوں کے ایجاد کرنے اور عمدہ عمدہ خیالات کے پیدا کرنے اور قواعد حسن معاشرت کو ترقی دینے کی ہیں زائل اور کزور ہو جاتی ہیں اور ایک زمانہ ایسا آتا ہے کہ ترقی ٹھہر جاتی ہے اور پھر ایسا زمانہ ہوتا ہے کہ تنزل شروع ہو جاتا ہے۔ اس معاملے میں ہم کو ملک چین کے حالات پر غور کرنے سے عبرت ہوتی ہے۔ چینی بہت لئیق آدمی ہیں، بلکہ اگر بعض باتوں پر لحاظ کیا جاوے تو عقلمند بھی ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی خوش قسمتی سے ابتدا ہی میں ان کی قوم میں بہت اچھی اچھی رسمیں قائم ہو گئیں اور یہ کام ان لوگوں کا تھا جو اس قوم میں نہایت دانا اور بڑے حکیم تھے۔ چین کے لوگ اس باب میں مشہور و معروف ہیں کہ جو عمدہ سے عمدہ دانش اور عقل کی باتیں ان کو حاصل ہیں ان کو ہر شخص کی طبیعت پر بخوبی منقش کرنے کے واسطے اور اس بات کے لیے کہ جن شخصوں کو وہ دانشمندی کی باتیں حاصل ہیں ان کو بڑے بڑٰ عہدے ملیں، نہایت عمدہ طریقے ان میں رائج ہیں اور وہ طریقے حقیقت میں بہت ہی عمدہ ہیں۔ بے شک جن لوگوں نے اپنا ایسا دستور قائم رکھا انہوں نے انسان کی ترقی کے اسرار کو پا لیا اور اس لیے چاہئے تھا کہ وہ قوم تمام دنیا میں ہمیشہ افطل رہتی مگر برخلاف اس کے ان کی حالت سکون پذیر ہو گئی ہے اور ہزاروں برس سے ساکن ہے اور اگر ان کی کبھی کچھ اور ترقی ہو گی تو بے شک غیر ملکوں کے لوگوں کی بدولت ہو گی۔ اس خرابی کا سبب یہی ہوا کہ اس تمام قوم کی حالت یکساں اور مشابہ ہو گئی اور سب کے خیالات اور طریق معاشرت ایک سے ہو گئے اور سب کے سب یکساں قواعد اور مسائل کی پابندی میں پڑ گئے اور اس سبب سے وہ قوتیں جن سے انسان کو روز بروز ترقی ہوتی ہے ان میں سے معدوم ہو گئیں۔ پس جبکہ ہم مسلمان ہندوستان کے رہنے والے جن کی رسومات بھی عمدہ اصول و قواعد پر مبنی نہیں ہیں، بلکہ کوہی رسم القافیہ اور کوئی رسم بلاخیال اور قوموں کے اختلاط سے آ کئی ہے جس میں ہزاروں نقص اور برائیاں ہیں اور پھر ہم ان رسوموں کے پابند ہوں، نہ ان کی بھلائی برائی پر غور کریں اور نہ خود کچھ اصلاح اور درستی کی فکر میں ہوں، بلکہ اندھا دھوندی سے انہی کی پیروی کرتے چلے جاویں تو سمجھنا چاہئے کہ ہمارا حال کیا ہو گیا ہے اور آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ ہماری نوبت چینیوں کے حال سے بھی رسومات کی پابندی کے سبب بدتر ہو گئی ہے اور ہم میں خود اتنی طاقت نہیں رہی کہ ہم اپنی ترقی کر سکیں، اس لیے بجز اس کے کہ دوسری قوم ہماری ترقی اور ہمارے قوائے عقلی کی تحریک کا باعث ہو اور کچھ چارہ نہیں۔ بعد اس کے کہ ہمارے قوائے عقلیہ تحریک میں آ جاویں اور پھر قومت ایجاد ہم میں شگفتہ ہو، تب ہم پھر اس قابل ہوں گے کہ خود اپنی ترقی کے لیے کچھ کر سکیں۔ مگر جبکہ ہم دوسری قوموں سے از راہ تعصب نفرت رکھیں اور کوئی نیا طریقہ زندگی کا، گو وہ کیسا ہی بے عیب ہو اختیار کرنا صرف بسبب اپنے تعصب یا رسم و رواج کی پابندی کے معیوب سمجھیں تو پھر ہم کو اپنی بھلائی اور اپنی ترقی کی کیا توقع ہے۔ مگر جو کہ ہم لوگ مسلمان ہیں اور ایک مذہب رکھتے ہیں جس کو ہم دل سے سچ جانتے ہیں، اس لیے ہم کو مذہبی پابندی ضرور ہے اور وہ اسی قدر ہے کہ جو بات معاشرت اور تمدن اور زندگی بسر کرنے اور دنیوی ترقی کی اختیار کرتے ہیں اس کی نسبت اتنا دیکھ لیں کہ وہ مباحات شرعیہ میں سے ہے یا محرمات شرعیہ میں سے۔ درصورت ثانی بلاشبہ ہم کو احتراز کرنا چاہئے اور درصورت اول بلا لحاط پابندی رسوم کے اور بلا لحاظ اس بات کے کہ لوگ ہم کو برا کہتے ہیں یا بھلا، اس کو اختیار کرنا ضرور، بلکہ واسطے ترقی قومی کے فرض ہے۔ خدا ہمہ مسلماناں را بریں کار توفیق دھد۔ آمین ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ مہذب قوموں کی پیروی (تہذیب الاخلاق بابت یکم ربیع الاول ۱۲۹۰ھ) چھوٹا بچہ اپنے سے بڑے لڑکے کی باتوں کی پیروی کرتا ہے اور کم سمجھ والا اس کی جس کو وہ اپنے سے زیادہ سمجھدار سمجھتا ہے اور ناواقف اس کی جس کو وہ اپنے سے زیادہ واقف کار جانتا ہے۔ اسی طرح نامہذب قوم کو تہذیب یافتہ قوم کی پیروی کرنی ضرور پڑتی ہے، مگر بعضی دفعہ یہ پیروی ایسی اندھا دھندی سے ہوتی ہے جس سے بجائے اس کے کہ اس پیروی سے فائدہ اٹھاویں الٹا نقصان حاصل ہوتا ہے اور جس قدر ہم نامہذب ہوتے ہیں اس سے اور زیادہ ناشائستہ ہو جاتے ہیں۔ نامہذب آدمی جب تربیت یاقتہ قوم کی صحبت میں جاتا ہے تو ان لوگوں کو بہت عمدہ پاتا ہے اور ہر بات میں ان کو کامل سمجھتا ہے، ہر جگہ ان کی تعریف سنتا ہے مگر ان میں جو خراب عادتیں ہیں ان کو بھی دیکھتا ہے۔ مثلاً شراب پینا، جوا کھیلنا وغیرہ۔ پس یہ شخص ان باتوں کو بھی ان کے کمالوں ہی میں تصور کر لیتا ہے۔ ان میں جو خوبیاں اور کمالات در حقیقت ہیں ان کو تو وہ حاصل نہیں کرتا اور نہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر جو بری باتیں ان میں ہیں ان کو بہت جلد سیکھ لیتا ہے۔ ایسا کرنا درحقیقت اس آدمی کی غلطی ہے کہ اس نے ان کے نقصوں کو ان کا کمال سمجھا ہے۔ وہ لوگ بسبب کسی دوسرے کمال و لیاقت اور خوبی کی جو ان میں ہے اور بسبب دوسری عمدہ خصلتوں کے جو انہوںنے حاصل کی ہیں، مہذب و شائستہ کہلاتے ہیں نہ بہ سبب ان باتوں کے جن کو اس نے سیکھا ہے۔ بلا شبہ مہذب آدمیوں کی برائیاں ان کی بہت سی خوبیوں اور کمالوں کے سبب چھپ جاتیں ہیں اور لوگ ان پر بہت کم خیال کرتے ہیں، تاہم وہ برائیاں کچھ ہنر نہین ہو جاتیں، بلکہ جو برائی ہے وہ ہی رہتی ہے، گو کہ ایک مہذب قوم ہی میں کیوں نہ ہو۔ ہم کو یاد رکھنا چاہئے کہ کوہی قوم گو وہ کیسی ہی عمدہ اور مہذب ہو، مگر جو برائیاں اس میں ہیں وہ اس کے وصف نہیں ہیں، بلکہ ان کے کمال کی کمی ہے جس کی پیروی ہم کو کرنی نہیں چاہئے، اگر ایک خوب صورت آدمی کے منہ پر ایک مسا ہو تو ہم کو خوب صورت بننے کے لیے ویسا ہی مسا اپنے منہ پر نہ بنانا چاہئے، کیونکہ وہ مسا اس کی خوب صورتی نہیں ہے، بلکہ اس کی خوبصورتی کا نقصان ہے۔ ایسی حالت میں ہم کو یہ خیال کرنا مناسب ہے کہ اگر یہ مسا بھی اس کے منہ پر نہ ہوتا تو کتنا اور خوبصورت ہو جاتا۔ ہم بلاشبہ اپنی قوم کو اپنے ہم وطنوں کو سولیزڈ قوم کی پیروی کی ترغیب کرتے ہیں، مگر ان سے یے خواہش رکھتے ہیں کہ ان میں جو خوبیاں ہیں اور جن کے سبب وہ معزز اور قابل ادب سمجھی جاتی ہیں اور سولیزڈ شمار ہوتی ہیں ان کی پیروی کریں، نہ ان کی ان باتوں کی جو ان کے کمال میں نقص کا باعث ہیں۔ اسی سبب سے جب کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری قوم نے کسی سولیزڈ قوم کی عمدہ خصلتوں اور عادتوں میں پیروی کی تو ہم کو بہت خوشی ہوتی ہے اور جب یہ سنتے ہیں کہ اس نے ان کی برائیوں کی پیروی کی اور شراب پینی شروع کی اور پکا متوالا ہو گیا اور جوا کھیلنا سیکھا اور بے قید ہو گیا تو ہم کو نہایت افسوس ہوتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری قوم عمدہ باتوں کو سیکھے گی اور بری باتوں کو ہمیشہ برا سمجھے گی۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ طریقۂ زندگی (تہذیب الاخلاق بابت ۱۵ جمادی الثانی ۱۲۸۸ھ) قوموں کی عزت یا ذلت ان کی رسم و رواج اور ان کے طریقۂ زندگی اور کبھی کبھی ان کے مذہب سے بھی علاقہ رکھتی ہے۔ تمام قوموں میں بہت سی رسمیں وحشیانہ اور ناتربیت یافتہ زمانے کی اب تک چل آتی ہیں، مگر تربیت یافتہ قوموں نے ان رسموں کو تراش تراش کر ایسا کر لیا ہے کہ ان میں وحشیانہ پن مطلق نہیں رہا، بلکہ نہایت فرحت بخش اور دلکش ہو گئی ہیں اور ناتربیت یافتہ قومیں اب تک بدستور وحشیانہ طور سے ان کو برتتی ہیں اور اسی لیے پہلی قومیں پچھلی قوموں کو ذلت اور حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ اکثر قوموں نے قدیم زمانے میں طریقۂ زندگی بمقتضائے آب و ہوا ہر ایک ملک کے اختیار کیا تھا جو اکثر نہایت سادہ و حقارت آمیز تھا، مگر تربیت یافتہ قوموں نے اس میں اصلاح کرتے کرتے اعلی درجے کی ترقی اور شائستگی پر پہنچا دیا اور ناتربیت یافتہ قومیں اسی جہالت میں پڑی رہیں اور اس لیے پہلی قوموں کی آنکھ میں ذلیل و خوار ہیں۔ یہ امر بھی بہت واقع ہوا ہے کہ بسبب نہ ہونے فن و ہنر کے ہر ایک قوم نے جو طریقۂ زندگی بسر کرنے کا اختیار کیا تھا وہ اس زمانے میں حقیر نہ تھا، مگر حال کے زمانے میں ذلیل ہو گیا ہے۔ چنانچہ جس قدر فن و ہنر و صنعت کاری نکلتی آئی اسی قدر تربیت یافتہ قوموں نے ساز و سامان سے اپنے طریقۂ زندگی کو آراستہ کر لیا اور جنہوں نے ایسا نہ کیا وہ ویسی ہی حقیر و ذلیل نا تربیب یافتہ رہیں۔ ؟؟؟؟؟ زندگی سے قوموں کی ذلت اور عزت کا ہونا ایک ایسا امر ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، مگر ہم چند مثالوں سے اس کو اور زیادہ واضح کرتے ہیں۔ ہندوستان میں کنجروں کی قوم کو دیکھو جو ایک لنگوٹی باندھے رہتی ہے اور نہایت میلا بدن اور نجس ہاتھ پاؤں رکھتی ہے اور نہایت میلے بدبو دار برتن استعمال میں لاتی ہے۔ غذا بھی ان کی نہایت کثیف ہے اور طرز کھانے کا بھی ایسا برا ہے جسے دیکھ کر گھن آتی ہے۔ پس وہ قوم صرف اپنے طریقہ زندگی کے ذلیل ہونے کے سبب ہماری آنکھ میں کیسی ذلیل و خوار معلوم ہوتی ہے۔ اب ان قوموں کو دیکھو جو ان سے درجہ بدرجہ طریقہ زندگی کی اصلاح میں ترقی کرتی گئی ہیں، مثلاً چمار جن کا لباس اور طریق زندگی کنجروں سے بدرجہا اچھا ہے، وہ ہماری آنکھ میں ویسے ذلیل نہیں ہیں۔ چماروں کی بہ نسبت عام غریب گنواروں کا لباس اور طریقۂ زندگی بدرجہا نہایت عمدہ اور اچھا ہے۔ وہ ہماری آنکھ میں چنداں ذلیل نہیں۔ ہم کبھی ان کے گھر بھی جاتے ہیں۔ ان کے ہاں کا پانی بھی پیتے ہیں۔ ان کے گھر کی پکی ہوئی روٹی بھی کھاتے ہیں اور کچھ نفرت نہیں کرتے۔ علاوہ ان کے تین قومیں اور ہندوستان میں ہیں جو اپنے تئیں مؤدب و مہذب، تربیت یافتہ و شائستہ سمجھتی ہیں۔ ہندو، مسلمان، انگریز، ان تینوں قوموں کا جو طریق لباس اور طرز زندگی اور کھانے پینے کی رسم اور اٹھنے بیٹھنے کی عادت ہے اس سے تمام لوگ ہندوستان کے بخوبی واقف ہیں، مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ ان تینوں قوموں میں سے جس قوم کا طریقہ اعلی ہے وہ قوم باقی دو قوموں کو ایسا ہی ذلیل اور ناتربیت یافتہ اور قابل نفرت کے سمجھتی ہے جیسے کہ ہم اپنے سے ادنی قوموں کو سمجھتے ہیں۔ مسلمان اپنی دانست میں اپنے لباس اور اپنی مجلس میں نہایت آراستگی اور شان و شوکت کرتے ہیں اور اپنے دستر خوانوں کو انواع انواع طرح کے لذیذ کھانوں سے اور خوبصورت خوبصورت سونے اور چاندی اور چینی اور بلوریں برتنوں سے آراستہ کرتے ہیں، مگر جو قوم کہ ان سے بھی زیادہ لباس میں اور کھانے پینے کے طریق میں زیادہ صفائی رکھتی ہے وہ ان کو اسی حقارت اور ذلت سے دیکھتی ہے۔ جو لوگ کہ چمچے اور کانٹوں سے کھاتے ہیں اور ہر دفعہ رکابیاں اور چھری کانٹے چمچے بدلتے جاتے ہیں جب وہ ہم مسلمانوں کو ہاتھ سے کھاتے دیکھتے ہیں تو ان کو نہایت نفرت اور کراہیت آتی ہے۔ ترکوں نے اگرچہ اپنا طریقہ بدل دیا ہے، مگر مصر میں عورتیں اب تک میز پر کھانا رکھ کر اور ہاتھ سے کھاتی ہیں۔ تھوڑے دن ہوئے کہ پرنس آف ویلز، یعنی ولی عہد سلطنت انگلستان مع پرنس آف ویلز، یعنی ولی عہد بیگم کے مصر میں سیر کو تشریف لے گئے تھے۔ اسماعیل پاشا خدیو مصر کی ماں نے پرنس آف ویلز یعنی ولی عہد بیگم کی محل سرائے زنانہ میں دعوت کی اور اپنے ساتھ کھانا کھلایا۔ پرنس آف ویلز کے ساتھ آنربیل مسس ویلم گرے صاحبہ بھی بطور مصاحب کے تھیں اور دعوت میں بھی شریک تھیں۔ انہوں نے وہاں سے واپس آ کر سفر کا حال لکھا ہے۔ چنانچہ جو کچھ انہوں نے طریق کھانا کھانے کی نسبت لکھا ہے اس کا انتخاب ہم اس مقام پر لکھتے ہیں، تاکہ یہ بات معلوم ہو کہ دوسری قوم جو ہم سے زیادہ صفائی سے کھاتی ہے ہمارے کھانا کھانے کے طریق کو کیسا خیال کرتی ہے۔ مس صاحبہ محدوحہ اس طرح پر لکھتی ہیں کہ ’’کھانے کے کمرے کے اندر چاندی کی ایک گول میز بچھی ہوئی تھی، فرش سے ایک فٹ اونچی اور ایک بڑا خوان معلوم ہوتی تھی۔ اس کے گرد گبھے بچھے ہوئے تھے۔ ہم سب آلتی پالتی مار کر میز کے گرد گبھوں پر ہو بیٹھے۔ خدیو مصر کی ماں کی دائیں طرف پرنس آف ویلز بیٹھیں اور پھر سب بیگمات درجہ بدرجہ بیٹھیں۔ سب سے پہلے ایک قاب میں مرغ کا شوربا اور چانول، یعنی خشکہ آیا اور سپی کے چمچے ملے، مگر نہ چھری تھی نہ کانٹا تھا۔ اس کے بعد بڑا مٹن آیا اور دفعہ دفعہ بیس قسم کے کھانے آئے جو ہاتھوں سے اور انگلیوں سے توڑ توڑ کر کھائے جاتے تھے۔ جس قدر مجھ کو اس سے نفرت ہوئی اور پھریری آ آ کر قے ہونے کی نوبت ہوئی ایسی کبھی نہیں ہوئی۔ کھانے میں انگلیوں کا ڈبویا جانا دیکھ کر اور انگلیوں سے توڑ کر کھانے میں انگلیوں کا ڈبویا جانا دیکھ کر اور انگلیوں سے توڑ کر کھانے سے ایسی نفرت اور گھن آتی تھی کہ میں نے ایک آدھ دفعہ تو کھانے سے انکار کر دیا، مگر جو بیگم کہ میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں انہوں نے جانا کہ میں شرماتی ہوں تو ہر دفعہ کھانا اپنے ہاتھ سے لے کر میری رکابی میں رکھ دیتی تھیں اور ایک دفعہ شوروے میں سے پیاز نکال کر میرے آگے رکھ دی اور میرا جی متلاتا جاتا تھا۔ کھانے پر شراب مطلق نہ تھی، انتہی مخلصاً۔ مس گرے صاحبہ کا جو یہ حال ہوا بلاشبہ زیادہ اس کا سبب یہ تھا کہ اس طرح پر کھانے کی ان کو عادت نہ تھی، مگر انصاف سے ہم کو اس بات کا بھی اقرار کرنا چاہیے کہ چھری اور چمچے سے کھانا اور ہر قسم کے کھانے کے لیے جدا برتنوں کا ہونا بہ نسبت ہاتھ سے کھانا کھانے کے زیادہ عمدگی و صفائی اور نفاست رکھتا ہے۔ یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہاتھ سے کھانا مسنون ہے اور اس کو حقیر سمجھنا کفر تک نوبت پہنچا دیتا ہے۔ ہم اس رائے کی صحت و سقم کی بحث سے قطع نظڑ کر کر اس کو تسلیم کرتے ہیں اور جو یہ کہتے ہیں کہ ان بزرگوں کی آدھی پیروی کرنا باعث ذلت ہے۔ اگر مسلمان یہ بھی گوارا کریں کہ مرغن کھانے جن سے ہاتھ اور منہ بھر جاتا ہے اور یہی ار باعث نفرت اور گھن آنے کا ہوتا ہے، چھوڑ دیں ارو جو کے بن چھنے آٹے کی سوکھی روٹی ککڑی یا کھجور سے کھا لیا کریں تو ان بزرگوں کی پوری پوری پیروی ہو کی اور اس وقت کوئی بھی ہاتھ سے کھانے پر نفرت نہ کرے گا، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ کھانے تو ہوویں فرعونی اور طریق کھانے کا ہو مسنونی۔ ہم کو خدا کا شکر کرنا چاہئے کہ اس نے ہم کو اپنی نعمتیں عطا کی ہیں۔ ہم ان کو استعمال کریں اور عملی طور پر اس کا شکر بجا لاویں اور جبکہ ہم یہ خیال کریں کہ ان شان کی چیزوں کا ہم بنظر تکبر و غرور استعمال نہیں کرتے، بلکہ بطور ادائے شکر ولی النعم استعمال کرتے ہیں اور مسلمانوں کی قوم کو غیر قوموں کی نگاہ میں جو ذلت ہے اس سے نکالتے ہیں، جس میں اسلام کی بھی عزت ہے تو تس وقت تو ہم چمچے اور چھری کانٹے سے کھانا مندوبات اور مستحبات سے کم نہیں سمجھتے۔ کما قال علیہ الصلوۃ و السلام انما الاعمال بالنیات۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ تکمیل (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر اول بابت یکم شوال ۱۲۸۷ھ) ایک فارسی مشہور مثل ہے کہ ’’ہر کمالے را زوالے‘‘ مگر اس کے معنی اور اس کی وجہ بخوبی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ ایک بڑے حکیم نے اسی مطلب کو نہایت عمدگی اور وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اس کا یہ قول ہے کہ ’’ہم کو اپنے تئیں درجہ کمال پر پہنچا ہوا سمجھنا ہی زوال کی نشانی ہے‘‘ اور بلاشبہ ایسا ہی ہوتا ہے، اس لیے کہ جب کوئی شخص یا قوم کسی بات یں اپنے تئیں کامل سمجھ لیتی ہے تو اس میں سعی اور کوشش اور زیادہ تحقیقات اور نئی نئی باتوں کے ایجاد سے باز رہتی ہے اور رفتہ رفتہ اس چیز میں جس کو کامل سمجھا تھا زوال آ جاتا ہے۔ کامل مطلق بجز ذات باری کے اور کوئی نہیں ہے، پس جو کچھ کہ خدا نے کیا یا کہا وہ تو اپنی قسم میں کامل ہے اور اس کے سوا اور کوئی چیز جو انسان نے کی ہو یا کہی ہو کامل نہیں ہے، کیونکہ قابل سہو خطا ہونا انسان کی شان سے ہے۔ اگر یہ بات اس طرح پر نہ ہوتی تو انیباء علیہم الصلواۃ و السلام پر وحی نازل ہونے کی ضرورت نہ رہتی۔ پس ان تمام چیزوں کو جو انسان سے ایجاد ہوئی ہیں یا نتائج عقل انسانی ہیں ان کو کامل سمجھ لینا ہماری ٹھیٹ غلطی اور ہمارے تنزل و ادبار کی ٹھیک نشانی ہے۔ کسی شخص یا کسی قوم کو کسی چیز میں کامل سمجھ لینا بہت سی خرابیوں اور نقصانوں کا باعث ہوتا ہے۔ جو چیز کہ حقیقت میں کامل نہیں ہے ہم اس کو غلطی سے کامل سمجھ لیتے ہیں۔ ہم میں ایک استغنا پیدا ہوتا ہے جس سے سوائے اس کے اور کسی بات یا تحقیقات کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور اس بات کے فائدے سے محروم رہتے ہیں۔ لوگوں کے اعتراضوں کے سننے کو گوارا نہیں کرتے اور اس سبب سے اپنی غلطیوں پر متنبہ نہیں ہوتے اور جہل مرکب میں پھنسے رہتے ہیں۔ کوشش سے جو ایک ترقی کا فائدہ ہے اس کو ہاتھ سے کھو بیٹھتے ہیں۔ خدا نے جو ہم کو عقل دی ہے اور جس کا یہ فائدہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے ہم اس کو کام میں لاویں، اوروں پر بھروسا کر کر اس کو بیکار کر دیتے ہیں۔ ایسا کرنے میں ہم صرف اپنا ہی نقصان نہیں کرتے، بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی بہت بڑا نقصان پہنچاتے ہیں، کیونکہ ہماری اور ہماری آئندہ نسلوں کو بھی بہت بڑا نقصان پہنچاتے ہیں، کیونکہ ہماری اور ہماری آئندہ نسلوں کی عقل اور جودت طبع اور تیزی، ذہن اور طاقت انتقال ذہنی اور قوت ایجاد سب مٹ جاتی ہے اور صرف اوروں کی ٹٹکاری پر ہماری چال رہ جاتی ہے اور ہم ٹھیک اس مثل کے مصداق ہو جاتے ہیں ’’چآرپائے برو کتابے چند‘‘۔ ہم مسلمانوں نے اپنے میں اس نقص کو نہایت درجہ پر پہنچآ دیا ہے اور جو نقصان دینی اور دنیوی اس سے ہم نے اٹھائے ہیں ان کی کچھ انتہا نہیں۔ بھلا دینی باتوں کو اس وقت رہنے دو اور صرف اس بات پر غور کرو کہ دنیوی علوم اور دنیوی کاروبار اور دنیا کی باہمی معاشرت اور مجالست اور رسوم و عادات اور طریقۂ تعلیم اور تربیت اور ترقی علم مجلس میں کیوں ہم نہ کوشش کریں اور جس طرح اور قوموں نے ان باتوں میں ترقی کی ہے ہم بھی اسی طرح کیوں نہ ترقی کریں۔ ارسطو کچھ ہمارا مذہی پیشوا نہ تھا جو ہم اس کے علوم اور اس کے فلسفے اور اس کے الہیات کو ناقابل غلطی کے سمجھیں۔ بو علی کچھ صاحب وحی نہ تھا کہ اس کی طب کے سوا اور کسی کو نہ مانیں۔ جو علوم دنیوی ہم دولت دراز سے پڑھتے آتے تھے اور جو اپنے زمانے میں ایسے تھے کہ اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے، انہی پر پابند رہنے کے لیے ہم پر کوہی خدا کا حکم نہیں آیا تھا۔ پھر کیوں ہم اپنی آنکھ نہ کھولیں اور نئے نئے علوم اور نئی نئی چیزیں جو خدا تعالی کی عجائب قدرت کے نمونے ہیں اور جو روز بروز انسان پر ظاہر ہوتی جاتی ہیں ان کو کیوں نہ دیکھیں۔ یہ جو کچھ ہم نے کہا یہ صرف خیالی ہی باتیں نہیں ہیں، بلکہ اس وقت دنیا میں ہمارے سامنے اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں دو قسم کی قومیں ہیں جن میں سے ایک نے اپنے باپ دادا کو درجہ کمال پر پہنچا ہوا ناقابل سہو و خطا سمجھ کر ان کے علوم و فنون اور طریق معاشرت کو کامل سمجھا اور اسی کی پیروی پر جمتے رہے اور اس کی ترقی اور بہتری پر نئی چیزوں کے اخذ ایجاد پر کچھ کوشش نہیں کی اور دوسری نے کسی کو کامل نہیں سمجھا اور ہمیشہ ترقی میں اور نئے نئے علوم و فنون و طریقہ معاشرت کے ایجاد میں کوشش کرتے رہے۔ اب دیکھ لو کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے اور کون تنزل اور کون ترقی کی حالت میں ہے۔ ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں جو پچھلی لکیر کو کامل سمجھ کر اسی کو پیٹتے آتے ہیں۔ انگریز، فرنچ اور جرمن ایسی قومیں ہیں جو ہمیشہ ترقی کی کوشش میں ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ پہلی قومیں علم و ہنر و تربیت و شائشتگی میں اپنے دور میں اپنی ہم عصر قوموں سے مقدم اور اعلی تھیں اور شاید مسلمانوں کو یہ بھی عزت تھی کہ وہ یورپ کی بعض قوموں کے لیے بمنزلہ استاد کے گنے جاتے تھے، مگر اسی عیب نے جو ان قوموں میں تھا اور اب بھی ہے اور اسی خوبی نے جو پچھلی قوموں میں تھی اور اب بھی ہے، ٹھیک ٹھیک معاملہ بالعکس کر دیا ہے۔ اب یورپ کی قومیں ایشیا کی قوموں سے علم و ہنر، تربیت و شائستگی میں اعلی ہیں۔ پس میرا مطلب صرف یہی ہے کہ ہماری قوم کو بھی چاہئے کہ اپنے دماغ کو ان بیہودہ اور لغو خیالات سے جنہوں نے ان کی عقل اور سمجھ کو بالکل خراب کر رکھا ہے اور ان کی تمام خوبیوں کو خیالات فاسد کے کیچڑ میں لتھڑ پتھڑ کر دیا ہے، خآلی کرین اور علوم و فنون اور تہذیب و شائستگی میں ترقی کرنے کی کوشش کریں اور انصاف سے دیکھیں کہ ان کی تہذیب اور شائستگی میں نقصان ہونے کے سبب سے ان کی قوم کی کیسی بدنامی ہے اور ان عمدہ اخلاق اور قواعد کو جو خدا تعالی نے مذہب اسلام کی بدولت ان کو دیے تھے، بری طرح سے استعمال میں لانے اور ان کو بدصورت کر دینے سے غیر قومیں اسلام کو ہماری نالائقی کی بدولت کیسی حقارت اور نفرت سے دیکھتی ہیں۔ کیسے خندہ زن اشارات اور کنایات اس پر کرتی ہیں اور ہماری شامت اعمال کو نتیجہ مذہب اسلام ٹھہراتی ہیں۔ ان کا ایسا کہنا اور خیال کرنا کچھ بیجا نہیں ہے۔ اسلام کوئی مٹی کا پتلا نہیں ہے۔ جس کو کوہی دیکھ سکے۔ مسلمانوں کی حالت اور ان کے چال چلن سے اسلام کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ سو انہوں نے اس کو ایسا بدصورت بنایا ہے کہ جو کوئی نفرت کرے کچھ تعجب نہیں۔ پس اب میری یہ خواہش ہے کہ مسلمان اپنے اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی درستی میں کوشش کر کر اور اپنے حال اور چال چلن کو درست اور عمدہ کر کر اسلام کی جو اصلی صورت ہے وہ دنیا کو دکھا دیں ُُُُُُُُُُ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ حب وطن (تہذیب الاخلاق بابت یکم ربیع الثانی ۱۲۹۴ ھ صفحہ ۹۸ تا ۱۰۱) ۱۲۸۹ھ (مطابق ۱۸۷۲ئ) میں بمقام کلکتہ ’’مجلس مذاکرہ علمیہ‘‘ میں ’’حب وطن‘‘ کے موضوع پر سر سید نے فارسی میں ایک مقالہ پڑھا تھا جس کو انہوں نے پانچ برس کے بعد تہذیب الاخلاق کے یکم ربیع الثانی ۱۲۹۴ھ کے پرچے میں شائع کیا۔ ذیل میں وہ مقالہ بجنسہ درج کیا جاتا ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) حضرات من! پیش ازانکہ آہنگ حرف مدعا سرائے ساز کم ایزد بے ہمتا رانیایش مینہایم کہ بخۃم را یاوری و طالعم رابختیاری داد تا دریں مملکت بنگلہ گزر کردم و دریں دارالامارۃ کلکتہ کہ آنرا درالسلطنت ہند توانم گفت، را رسیدم، نازش من براں نیست کہ شہر آباداں و وسیع الفضائے کلکتہ را دیدم و از عمارت منیف و اشیاء لطیف آں مسرتے اندوخۃم، بل نازش من بر آنست کہ بخدمت ارباب فضل و کمال و بزرگان والا تبار و فضلائے بے مثل و مثال و عظمائے صاحب وقار ایں جامشرف گشتہ ام و سعادت ملازمت شما بزرگان کہ باعث افتخار بنی نوع انسان ہستید حاصل ساختہ ام۔ حضرت من! آنچہ مسافر نوازی و غریب پروری از طرف شما بزڑگان سیما از جانب گل سرسید ایں گلستان با باعث افتخار ما ہم کیشاں (یعنی جناب آنریبل مولوی محمد عبد الطیف خان بہادر) بحال ایں ھیچ میرز غریب الوطن کہ لیاقت کفش برداری ھمچو بزرگان والا منش ھم ندارم مرعی گشتہ است ادائے شکران از من ناتوان نیاید۔ اگر ھمہ تن زبان شوم، نے نے اگر ھر سر موئے من زبان گردد و از یکے داستانہا سرایم از عہدہ آں برآمدن نمیتوانم۔ ایں حال کہ اینک موجود است و ایں دم آں را بچشم مے بینم نمونہ ایست از اخلاق عمیم شما و انموذ جیست از مسافر نواوی شما کہ ھمچو منی افسردہ دلی ادنی تریں مخلقی را در انجمن خود کہ مہبط قدوسیاں انجمن قدس تواند بردبار دادہ آید و ھم اجازت فرمودہ آید کہ آہ سردے برکشم و دانہ اشکے بریزم و درد دلی باز گویم۔ حضرات من! شما نیکو میدانید کہ من کم مایہ و بے بضاعت لیاقت آں ندارم کہ رو بروئے ھمچو بزرگان عالی مقام بتکلم کشایم۔ بمخالفت شما بر انگیختہ شود شکستہ باد۔ زبان کشادن بہ بیان درد دل خویش بحضور حضرت شما نیست بجز آنکہ کرم ہائے شما مارا دلبر ساختہ کہ اینک بخدمت شما بپا ایساتدہ ام و درد دل خود را گفتن میخواھم و خود گلہ از خود سرودن آرزو دارم۔ چیست گلہ و چیست درد حب وطن است و حب وطن است و بس۔ حضرات من! اگر بغور نگریستہ آید تواں یافت کہ ھر چہ از مکمن خفا بجلوہ گاہ عیاں ظہور ساختہ آں ھمہ حقیقت واحدہ است کہ بصورت ھائے رنگا رنگ و نقش ھائے بو قلموں بصفحہ خیال ما صورت بستہ و درحقیقت نقش من و تو درمیان نیست۔ میان عاشق و معشوق ھیچ جائل نیست تو خود حجاب خودی حافظ از میاں برخیز اگرچہ تغایری اعتباری پردہ خفا بریں راز آشکارا می اندازد، مگر کسیکہ چشم بصیر تش را کشادہ اند ایں تغایر اعتباری را اعتبارے نمی نہد و ازیں حجاب تنک بے تار و پود پردہ ظلمانی بر ایں حقیقت نورانی نمی افگند۔ حاشا ثم حاشا رہ روئے طریق حقیقت موج را از لجہ جدا نداند و شعاع را از نور متغایر نہ انگارد۔ ازیں رھبر آشکار است کہ ما ھمہ ھر چہ بوجود آمدہ ایم شخص واحد ایم و تغایر اعتباری بیش از سرابے نیست۔ پس اگر جشم براں اعتبار ھا اندازیم احوال ایم کہ حقیقت واحدہ را دومی بینیم اینک غور کردنی است کہ چوں ما دریں کاخ فیروزہ رنگ آمدہ ایم و خود صورت خود را دریں کاخ آئینہ بند بہر رنگے می بینیم چگونہ با آں ھمہ تمثال ھا بسازیم و چہ ساں با آں ھمہ تشخصات اعتباری بسر بریم۔ نیست راہے دیگر بجز آنکہ تغابر اعتباری را از میاں بر اندازیم و آنچہ با خود کردن می خواھیم با ھمہ آں بکنیم۔ بر خیز و آئینہ بدست خویش گیر و صورت خود را بہ بیں و بنگر آنچہ با خود می کنی ھماں بآں تمثال خیالی می کنی و آنچہ بآں تمثال می کنی در نفس الامر با خود می کنی۔ چوں ایر مقدمہ مسلم گشت بما لازم شد کہ چنانکہ ما در رفاہ و فلاح خویشتن سعی می کنیم ھمیں ساں ما را درد سر و بہبود جمیع موجودات عالم سعی کرد نیست چہ آں ھمہ در حقیقت نسبت بہ حقیقت واحدہ کہ است ما ھم ازاں، نے نے عین آں حقیقت ایم و اگر چنیں نکنیم مثال ما ھمیں خواھد بود کہ یک چشم را نگاہ میداریم و دیگرے را بیمل کشیدن میدھیم و دست را در بغل می نہیم و پارا بہ بریدن می سپریم۔ و اے صدو اے پر کسیکہ چنیں بکند! اگر از ہوا خواہی و فلاح جوئی تمام موجودات عالم حرفی بر زنم سخن بدرازی میکشد و ازاں دایرہ کہ ما درانیم پا بیرون می افتد۔ پس ازاں درگزشتہ حرفی چند از فلاح جوئی بنی نوع خود می سرایم۔ ھویدا است کہ فلاح جوئی کسی از مقتضیات محبت اوست چہ از کسیکہ محبت ندارم سر رفاہ و فلاح اوھم ندارم۔ پس اصل اصول فلاح جوئی کسی محبت برشمارم و برآں اساس ہوا خواہی ہم کیشان خود برنہم۔ محبت را در جات بے شمار است۔ اعلیٰ و افضل آں آنست کہ تمام موجودات عالم را عین حقیقت خود دانیم اگر بینم کہ کسی برگ کا ہے بجفا شکستہ است دلم ہمیں ساں بدرد در آید کہ گویا تاخنی از ناحن ہائے دست و پائے من بر شکستہ۔ این مرتبہ حاصل نمی شود، مگر کسی راکہ خداوند عالم در رحمت بر و کشادہ باشد۔ دو یمین درجہ محبت ان است کہ جمیع ذی روح را کہ مشارکت بسیار و مشابہت بیشمار با ما دارند دوست دارم و ہرکہ جگر دارد با او نیکی کنم۔ ایں درجہ اگرچہ از درجہ اول فراوان پایہ فرو تر افتادہ است الا بجائے خود آں قدر بلند پایہ است کہ دست کو تاہ ما بشاخ پر باران نمی تواند رسید۔ سویمیں درجہ محبت آن است کہ با بنی نوع خود بکار بریم، چنانکہ سعدی علیہ الرحمۃ میفر ماید: بنی آدم اعضائے یک دیگرند کہ در آفرینش زیک جوہر اند چو عضوے بدرد آورد روزگار دگر عضو ہا رانماند قرار اگرچہ ایں مرتبہ کمترین درجہ محبت است الابنظر اینکہ انسان را ضعیف البنیان آفریدہ اند، ہمین درجہ رانسبت با و درجہ اعلیٰ قرار دادہ اند۔ ازیں مرتبہ ہم دو مرتبہ کم دیگر درجہ محبت است کہ آں را مجازاً حب قومی نام می نہم و سرور ما و سور عالم علیہ الصلواۃ والسلام کہ دل و جانم فرش راہ و سرم خاک پائے آں عرش بارگاہ باد تاکیدے بداں فرمودہ حیث قال علیہ الصلواۃ والسلام و النصح لکل مسلم۔ علماء محققین ما رضوان اﷲ علیہم اجمعین از لفظ نصح ہر گونہ رفاہ و فلاح برادران دینی مراد گرفتہ اند۔ پس ما در سعی رفاہ و فلاح برادران دینی مامور ایم و در ترک آں بعصیتی گرفتار می شویم۔ اگر ایں مدعا را برہبر عقلی جوئیم گوئیم کہ ایں درجہ محبت را کہ ما آں را بہ حب قومی نامیدہ ایم در حیوانات ہم می یا بیم۔ ایا نمی بینی کہ اگر زاغ را بدر داریم دیگر ہمجنسان او بدرد می آیند و بہ آہ و نالہ ما را میگیرند۔ اگر ہم کیشاں و ہم کشوراں خود را بدردے مبتلا بیتیم و بدرد نیایم و چارہ کار نیندیشیم از زاع فلاح ہم کیشاں و ہم کشوراں خود کمر سعی چست بستن و درپے سود و بہبود آناں آفتادن واجب و لازم است۔ ظاہر است کہ برادران دینی ما ہنوز در راں خواب غفلت اند و ہرچہ گویم و ہرچہ بکنم ازاں گراں خواب بیدار نمی شوند، لیکن مارا بداں سبب کمر ہمت سست کردن نشاید۔ او بشنود یا نشنود من گفتگوئے می کم حقوق شاں کہ بر ذمہ مایان است آں را ادا کر دن شاید شاید کہ ہمیں بیضہ بر آرد پر و بال گفتہ اثری دارد چہ عجب کہ رفتہ رفتہ ہوشیار شوند و خودرا دریا بند۔ حضرات من! معاف فرمائید نغمہ بے آھنگ سرودم و سخن بے محل گفتم۔ حضرات را می بینم کہ ہمہ تن درصلاح و فلاح ہم کیشاں و ہم کشوران خود سر گرم ہمیشد۔ پس ایں ژاژ خائی و ہرزہ درائی من رو بروے ہمچو بزرگان سراسر بیجا و سر تا پا بے محل بود، مگر چکنم شوق و ولولہ محبت کہ باہم کشوراں خود داریم محل و بے محل ما را از سرودن ایں چنیں نغمہ ہا باز نمی دارد۔ اے بزرگان کلکتہ! نیکو میدانید کہ ہمہ خانوادہ ہائے قدیم ہم کیشان ما برہم خوردہ اند و شہر ہائے قدیم کشور ما کہ علم و ادب و دانش و فرہنگ را بآں نازش بود، از پا بہ آفتادہ اند۔ در دارالسلطنت ہائے پاستانی ہیچ چیز باقی نیست، مگر استخواں ہائے چند بوسیدہ و چند کہنہ دیوار ہائے غلطیدہ۔ پس در تمام مملکت ہند از خلیج بنگالہ تا رود سندھ صرف ہمیں شما بزرگانید کہ دارالامارۃ مہد ما را بذات ستودہ صفات شما نازش است و بس آرے اگر شمار ہم در صلاح و فلاح ہم کیشاں و ہم کشوراں خود سعی نہ نمائید باز کدام کس پرسان حال ما بخت بر گشتگان خواہد بود۔ خداوند عالم شما را سرسبز و شاداب د اراد و توفیق۔ حب وطنی روز افزوں نصیب کناد۔ مگر عرضی دیگر قابل گزاردنی است و آں اینکہ دریں جزو زمان ہم کیشاں و ہم کشوران ما و شما از حلیہ تربیت عاری شدہ اند و روز بروز عاری میشوند۔ پس دریں زمانہ مدار صلاح و فلاح ہم کشوران ما در آن است کہ بہر طوریکہ تواند شد در ترقی تعلیم و تربیت شان سعی ہا عائیم و آنچہ موانع و عوائق در تربیت ہم کیشاں بودہ اند در برداشتن آں ہمہ سعی و کوشش ہا کنیم۔ مرد مان ایں زمانہ تربیت ہم کیشان ما را کہ بہ نظڑ حقارت می بینند، باعث اصلی آں ایں است کہ اکثر برادران ما با آنکہ در علوم پاستانی ید طولا دارند در علوم و فنون جدیدہ کہ مایہ نازش نوجوانان ایں زمانہ است، عاری اند۔ پس نگریستی است کہ باعث ایں چنیں نہ واقفیت از علوم و فنون جدیدہ مفیدہ چیست گویم کہ آں ہمہ علوم بزبان انگریزی اند و ہم کشوران ما را تا حال بر تحصیل آں زباں توجہی کما ینبغی نیست دیگر بارہ پرسم کہ چرا نیست؟ آیا تعصبی مذہبی را دران مداخلت است گویم حاشا وکلا کسانیکہ مارا بچشم غرض می نگرند و یا از حقیقت حال واقف نیند ایں گونہ سخن ہائے بے اصل سرائیدہ اند۔ درآموختن زبان ہر قومیکہ باشد تعصب مذہبی را چہ مداخلت است۔ ما مسلمانان زبان فارسی را میخوانیم و آں زبان مانیست و گاہے تعصب مذہبی را بہ آں نسبت نکردہ ایم۔ پس در آموختن زبان انگریزی چرا تعصب مذہبی راگنجائی خواہد بود۔ اگر گویند کہ مسائل علوم جدیدہ سیما ریاضیات ظاہرا با آنچہ در قرآن مجید از آں بیان شدہ مخالفت دراند ازیں باعث مسلمانان از خواندن آں مستکرہ اند، گویم ایں ہم غلط است۔ مسائل حکومت یونان کہ بظاہر حال با آنچہ در قرآن مجید ازاں ذکرے رفتہ مناسبت ندارند و ھمہ مسلمانان بہزاران ہزار شوق در تحصیل آں سرگرمی ہا می دارند و گاہے تعصب مذہبی را کار نفرمودہ اند۔ پس در خواندن و تحصیل نمودن ہیئت جدیدہ فیثا غورسیہ چرا تعصب مذہبی را بکار بردہ باشند۔ اصل کار و حقیقت حال کم توجہی برادران ما در خواندن زبان انگریزی و تحصیل علوم و فنون جدیدہ آں زبان ایں است کہ کتب مذہبی ما مسلمانان کہ آموختن انہا در حقیقت بر ما فرض است ہمہ در زبان مقدس عربی است و عادت ما مسلمانان از طبقہ شرفا ایں است کہ اولا میخواہند کہ اولاد ما زبان عربی را بیاموزند و بمسائل دینیہ خود واقف شوند، بعد آں چیزے شود یا نشود۔ اے حضرات من! نیکو دانید و ہوشیار باشید کہ ایں طریقہ بسیار محمود و بغایت نیک و نہایت پسندیدہ است و گاہے تا آنکہ جان در قلب شما است ایں طریقہ را مگزارید۔ زبان عربی افضل ترین زبان ہاست۔ خداوند عالم بہیچ زبان متکلم نشدہ الا بزبان عربی۔ فضائل ایں زبان چہ از اختصار الفاظ و کثرت معافی و چہ در علو درجہ فصاحت و بلاغت از ہمہ زبان ہا فائق تر و شیریں تراست۔ پس ایں چنیں زبان را گزاشتن کہ دراں عمدگی و علو درجہ در دنیا و نجات ابدی در عقبیٰ است کار خرد منداں نیست الا تدبیرے باید اندیشید کہ نوجوانان قوم ما کہ در خواندن زبان عربی مصروف اند بجہت حصول علوم و فنون جدیدہ ہم موقع و قابوے یا بند و آں بخوبی حاصل تواند شد۔ اگر ہم کشوران ما جمع شدہ انجمنی بیارایند و کتب علوم و فنون جدیدہ را از زبان انگریزی بفارسی یا عربی ترجہ نمایند و آرا بمشق نونہالان اقوام ما بدھند تا بذریعہ ہماں زبانیکہ در تحصیل آں مصروف اند از علوم و فنون جدیدہ ہم کما ینبغی واقفیت حاصل سازند۔ علم و تربیت نام صوت زبان و کام نیست بہر زبان کہ آنرا بیا موزم بمدعا میرسم۔ ازانچہ گفتم چناں ندانید کہ من روادار تساہل و تغافل در خواندن و آموختن زبان انگریزی بردہ ام، نے نے من آموختن زبان انگریزی را از قبیل ستۂ ضروریہ میدانم۔ بینید حکام ما زبان انگریزی دارند۔ اصل احکام و قوانین انتظام مملکت بزبان انگریزی است کہ واقفیت ازاں ما رعائے مطیع و مفقاد را از ضروریات است۔ اگر بخدمت کدام حاکم وقت میروم بسبب تخالف لسان نیاز مندیہائے خود راچنانکہ در دل است ادا کر دن نمی توانم۔ لطف و اخلاقیکہ از جانب حاکم سر بر حال ما میشود آنرا فہمیدن و دل را بآں خوش کر دن نمی توانم۔ ما را آں قدر حاجت بہ انگریزی دانستن آفتادہ است کہ بدون آں سر انجام امور تمدن ہم خیلی مشکل است۔ گردون دخانی کہ بہ تخۃ سلیمان مانا است عمدہ وسیلہ تسہیل سفر بجہت ما مہیا است الا بعدم واقفیت از زبان انگریزی چہا مصائب ہا ست کہ دراں نمی برداریم۔ اگر پیغام ضروری بذریعہ قوۃ کہر بائی فرستادن میخواہم بدون واقفیت از زبان انگریزی دراں عاجزیم۔ از بدترین پیشہ ہا کہ نوکری است تا بہ اعلی ترین پیشہ ہا کہ تجارت است ما بہ انگریزی دانی محتاجیم۔ من بہ حسد نمیگویم و نہ از ہمچو منی کہ ہوا خواہ بنی نوع انسانم حسد آید، بلکہ بطور غبطہ میگویم کہ دیگر ہم کشوران ما صرف بذریعہ زبان انگریزی از ماسبقت ہا بردہ اند و روز بروز مسابقت می نمایند۔ پس ہمکیشان ما را نیز واجب و ضرور است کہ سعی موفورہ درآموختن زبان انگریزی نمایند و چنانکہ پیشتر بودند دریں معرکہ ہم گوئی سبقت از دیگر ہم کشوران خود ربایند مگر ایں نمی خواہم کہ عربی را یکسر فرو گزارند و از علوم دینیہ و مسائل حقہ مذہب خود جاہل و نابلد محض مانند۔ ترجمہ کتب علوم و فنون جدیدہ را بدیں وجہ خواہانم کہ اگر ترجمہ نشوند تحصیل علوم و فنون جدیدہ منحصر بزبان انگریزی خواہد بود و بس و ازاں ہمہ چند کسانرا کہ دراں زبان لیاقت کلی بہمر سانیدہ اند فائدہ حاصل خواہد شد و بس تمام ولایت ما را کہ من در ولی آں ہستم حصول فوائد ممکن نیست۔ آیا شما خیال میکنید کہ ہر چند سعی کردہ آید زبان انگریزی در ولایت وسیع ہندوستان مثل زبان ملکی رائج شدن میتواند تا چند سال، بلکہ بسیار زائد ازاں گسے ایں چنیں خیال کر دن نہ میتواند۔ پس ابنائے جنس خود را در ہمیں جہالت و کوری و ذلت و خواری خواہم گزاشت۔ اے سرخیلان قوم ما چندانکہ دراہتمام ایں امور تاخیر میشود روز بروز مشکلے دیگر بر روئے کار می آید و کار از دست میرود۔ وقت را از دست میدھید و در فراہمی سامان تربیت اہل ہند آمادہ شوید کہ وقت رفتہ و تیر از کمان جستہ باز نمی آید۔ سخنی دیگر ہم بغور شنیدنی است کہ در تربیت علوم و فنون جدیدہ بہ نوجوانان ہم قوم ما خواہ بذریعہ زبان انگریزی باشد و خواہ بذریعہ تراجم احتمال سستی در عقائد حقۂ دینیہ بودہ است و ایں احتمال نیست، بلکہ بہ تجربہ و استقراہم ہمچنیں یافتہ ایم، مگر غور فرمایند کہ در حقیقت باعث آن تو غل در زبان انگریزی یا آموختن علوم و فنون جدیدہ نیست۔ البتہ از توغل بہ فلسفیات و غفلث از تحقیق و تدقیق اعتقادیات ایں چنیں مغالطہ ہا در پیش می آیند۔ چنانچہ در بلاد جرمن و فرانس آتش ایں فتنہ سربفلک کشیدہ بود و صد ہا و ہزار ہا مردم نقلیات را او ہن از تار عنکبوت خیال کردہ بودن و زمانے بیشتر ازیں در دارالسلطنت لندن ہم ایں بلا افتادہ بود و در زمانیکہ حکمت حکمائے یونان درمیان ما مسلمانان شیوع یافت ہمیں آفت در مایان ہم رسیدہ بود، مگر علمائے ہر قوم و ملت بدفع آں کو شیدند و ہمہ آنرا بر شکستہ حقیقت اعتقادیات نقلیہ را بصحت رسانیدند علماء مذہب ما علم کلام را ایجاد کردند و باثبات رسانیدند کہ آنچہ فلاسفہ بہ تحقیق آں برداختہ انداز و ھمیات بیش نیست و نور حقیقت ہماں است کہ زبان وحی بآں ناطق شدہ آرے۔ پائے استد لالیاں چوبیں بود پائے چوبیں سخت بے تمکین بود پس منکہ خواہان ترویج زبان انگریزی و تعلیم علوم و فنون جدیدہ بشمول عربی و باشتمال تحقیقات و تدقیقات عقائد نقلیہ بودہ ام ازیں قسم تربیت ایں احتمال بفر سنگہا دور است، البتہ در تکمیل امرے دیگر ما را آفتادن خواہد شد و آں اینکہ قواعد حکمت یونان از شیوع حکمت جدیدہ ہمہ از پا بر افتادہ اند۔ در زمان پیشیں علمائے دین ما را بہ تردید یا بمطابقت اصول حکمت یونانی باعلم و حکمت حقہ الہامی حاجت بود و بس۔ چنانجہ بتائیہ روح القدس دراں کامیاب شدند۔ الحال کہ اصول حکمت را بروش دیگر بنا نہادہ اند ھر چہ ازاں بظاہر مخالف الہامیات می نماید در تطیق یا تردید آں توجہ کردن خواہد آفتاد و ایں امر گو بظاہر دشوار می نماید، لیکن بتائید روح القدس دشوار نیست۔ بیت فیض روح القدس ار باز مدد فرماید دیگراں ہم بکنند آنچہ مسیحا میکرد یہ بینید کہ آں اصول صرف از مذہب ما بظاہر مخالف نمی نماید، بلکہ از مذہب تمام اہل کتاب کہ عبارت از یہود و نصاریٰ است مخالف می نماید۔ علماء مسیحی چہ ہا کوشش دریں بارہ کردہ اند و رسالہ ہا برنگاشتہ و علاج بدی اعتقادی ہم ملتان خود کما ینبغی فرمودہ اند پس علماء مذہب ما چرا بداں طرف توجہ نخواہند فرمود۔ اگر بدیں گونہ تربیت ہم کیشان ما شیوع گیرد یقین واثق است کہ فلاح بیشمار بحال آنہا عائد شود و ترقی روز افزوں و تہذیب مہذب نصیب ایشاں گردد و از تہذیب نا مہذب کہ در بعضے از ہم کشوران ما شیوع یافتہ بکلی ایمنے دست دھد۔ من خیر خواہ ہم کشوران خود روز و شب در ہمیں خیالات بسر میکم و عمر گرا نمایہ خود را و نیز درہم و دینار را ہرچہ در کسیکہ ام می آید در ہمین امور صرف میکنم، لیکن من یک جزو ناتوان ام و مثل پیر زالے بخریداری یوسف بر آمدہ ام تنہا از من چہ میشود و تاوقتیکہ ہمت قوی در آں متوجہ نشود و ہریکے از دل و دست و زبان و درہم و دینار تائیدے نہ نماید انجام آں از محالات می نماید۔ چنانچہ بنظر انجام بعضے ازیں امور کہ گفتہ ام تدبیرے اندیشیدہ ام و رسالہ دراں باب چاپ نمودہ پیش کش حضرت صدر ایں انجمن نمودہ ام بدیں امید کہ اگر مناسب نماید بخدمت جمیع بزرگان کہ دریں محفل خلد مشاکل فراہم آمدہ اند نذر نمایند۔ شاید خدا وند کریم وسیلہ برانگیزد کہ تصورات من رتبہ تصدیق یا بد و ما توفیقی الا باﷲ العلی العظیم۔ ہو نعم المولیٰ و نعم النصیر و آخر دعوانا ان الحمد اﷲ رب العالمین۔ راقم سید احمد ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ہمدردی ہر کوئی اپنی آپ ہمدردی کرنا ہے (تہذیب الاخلاق جلد ۱ نمبر ۳ بابت یکم ذی قعدہ ۱۲۸۷ھ) کیا دھوکے کی چیز ہے! کیا بھلاوے میں پڑے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ دوسروں کی مصیبت میں مدد کرنا ہمدردی کرنا ہے۔ کیا قدرت کا کوئی کام بے فائدہ ہے؟ نہیں، گو ھم بہتوں کے سمجھنے سے عاجز ہیں۔ کیا ھم اس فائدے میں شریک نہیں؟ نہیں، بیشک واسطہ یا بلا واسطہ یا واسطہ در واسطہ شریک ہیں۔ پھر دوسرے کی مدد کرنا کہاں رہا؟ بلکہ اپنی آسائش کے کسی وسیلے سے اپنی مدد آپ کرنا ہوا، اس لیے جو لوگ ہمدردی کرتے ہیں، وہ حقیقت میں اپنی آپ مدد کرتے ہیں اور جو نہیں کرتے وہ خود اپنی آسائش کے وسیلے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہمدردی کا لفظ ہمارے خیال کو ایسی امداد کی طرف لے جاتا ہے جو رنج اور مصیبت کی حالت میں ہو لیکن اگر ہم مصیبت کے لفظ کی اصلی مراد پر غور نہ کریں تو ضرور غلطی میں پڑیں۔ عام مفہوم مصیبت کا جو اس لفظ سے ہماری سمجھ میں آتا ہے کوئی مستقل مفہوم نہیں ہے، بلکہ نسبتی مفہوم معلوم ہوتا ہے۔ جو چیز کہ ایک کے لیے مصیبت ہو ممکن ہے کہ دوسرے کے لیے نہ ہو۔ وہ عادت اور استعمال سے ایسی مختلف ہو جاتی ہے کہ مصیبت معلوم نہیں ہوتی۔ وہ کسی جوش کے سبب سے ایسی بدل جاتی ہے کہ بالکل راحت سمجھ میں آتی ہے۔ بیشک یہ تمام مفہو م نسبتی ہیں اور جو اصلی مفہوم ہے وہ ایسی حالت کا ہونا یا واقع ہونا ہے جو قدرتی فرحت اور راحت کے برخلاف ہو۔ اس حالت کا ہونا غیر اختیاری حالتوں کا ہونا ہے اور واقع ہونا اختیاری حالتوں کا، مگر پچھلی حالت اگر نتیجے کی لاعلمی یا نقصانات غیر متعدی کے سبب سے ہے تو مجازاً وہ پہلی ہی سی ہے ورنہ حقیقت میں وہ مصیبت نہیں، بلکہ سزا ہے اور اس لیے اس میں ہمدردی نہیں، پس اصلی یا اصلی سی مصیبت میں کسی کی مدد کرنا البتہ سچی ہمدردی ہے۔ رحم اور موانست اور ہمدردی شاید نتیجے میں متحد ہوں، مگر ہر ایک کا منشاء مختلف ہے۔ رحم ایک فطرتی نیکی ہے جو ہم جنس اور غیر ہم جنس دونوں کے ساتھ برتی جاتی ہے۔ موانست کا اثر صرف ہم جنسوں ہی میں پایا جاتا ہے۔ ہمدردی جو عقل کے نتیجوں میں سے ہے ذی عقل ہی میں ہو سکتی ہے اور اس لیے صرف انسان ہی میں منحصر ہے۔ پس جس میں ہمدردی نہیں اس کی انسانیت میں نقصان ہے۔ قدرتی قاعدے کے مطابق ہمدردی کے بقدر تفاوت اپنی آسائش کے وسیلوں کے متفاوت درجے ہیں، جس طرح کہ باپ، بھائی، جورو، بچے، پھر اور درجہ بدرجہ کے رشتہ مند، پھر اپنے ملک کے، پھر اپنے ہمسایہ ملک کے، پھر اس سے دور کے ملک کے باشندے درجہ بدرجہ ہماری آسائش کے وسیلے ہیں۔ اسی طرح اس قادر مطلق کی کامل قدرت نے ہمدردی کے رشتے کی مضبوطی اور استواری کو بھی درجہ بدرجہ بنایا ہے۔ باپ کو بیٹے سے جو جوش ہمدردی ہے وہ پوتے سے نہیں اور جو پوتے سے ہے وہ پڑوتے سے نہیں۔ اسی رح یہ رشتہ جتنا کہ بڑھتا جاتا ہے اتنا ہی گھٹتا جاتا ہے اور جب وہ اپنے ملک یا اپنے ہمسایہ ملک یا اس سے دور کے ملک تک پہنچتا ہے تو اور بھی پتلا ہو جاتا ہے۔ بعضے کہتے ہیں کہ ’’یہ ایک دھوکہ ہے اور اگر یہ دھوکہ نہیں ہے اور یہ متفاوت درجے قدرتی ہیں تو انجان بیٹے اور ان پہچان باپ میں کیوں وہ ہمدردی نہیں۔ حقیقت میں یہ صرف ایک خیال ہے جس سے موانست پیدا ہوتی ہے اور وہی باعث ہمدردی ہے۔ نفرت جو اس کی ضد ہے اس کا بخوبی ثبوت کرتی ہے کہ جب وہ پیدا ہوتی ہے تو باوجود موجود ہونے قدرتی رشتے کے کچھ بھی ہمدردی نہیں رہتی۔‘‘ بیشک ایسا یا ایسا سا ہوتا ہے، مگر اس میں کچھ غلطی بھی ہے۔ قریب رشتہ والا بہ نسبت دور کے رشتے والے کے بلاشبہ ہم سے زیادہ تر جزئیت رکھتا ہے اور اسی طرح بعید بہ نسبت ابعد کے، پھر اگر وہ جزئیت قدرتی ہے تو وہ ہمدردی بھی قدرتی ہے۔ ہاں موانست اس کو نہایت تیز کر دیتی ہے اور کبھی ایسی جو قدرتی سی معلوم ہوتی ہے۔ نفرت اس کی تیزی کو دباتی ہے اور کبھی ایسا کر دیتی ہے جو بجھی ہوئی سی معلوم ہوتی ہے۔ انجان بیٹے اور ان پہچان باپ میں جو وہ چمکتی نہیں، نہ اس لیے کہ وہ نہیں ہے بلکہ اس لیے کہ ان میں انسانیت کا ایک بڑا جزو جو علم یعنی دانستن ہے وہ نہیں ہے، مگر تعجب یہ ہے کہ جو ہمدردی اعلیٰ ہے وہ مذمت میں اعلیٰ اور صفت میں ادنیٰ ہے اور جو ادنیٰ ہے وہ مذمت میں ادنیٰ اور صفت میں اعلیٰ ہے، اس لیے کہ ایک میں کھونا قدرتی صفت کا اور دوسری میں متصف ہونا قدرتی صفت میں ہے۔ قریبوں سے ہمدردی نہ کرنی نہایت بد خصلت قابل سزا کے ہے، اس لیے کہ قدرت کے نہایت مستحکم قاعدے کو توڑنا ہے اور کرنی کچھ بڑی صفت نہیں، کیونکہ قدرت نے اس کے کرنے پر مجبور کر رکھا ہے، بعیدوں سے ویسی نہ کرنی کچھ سخت مذمت نہیں اس لیے کہ قدرت کے کسی مستحکم قاعدے کی برخلافی نہیں اور کرنی نہایت عمدہ صفت ہے، کیونکہ قدرت کے منشاء کو بدرجہ اتم کامل کرنا ہے۔ افسوس ہے کہ یہ عمدہ صفت کبھی دھوکہ کھا کر معیوب بھی کر دی جاتی ہے جبکہ پہلی کو ادنیٰ صفت سمجھ کر چھوڑتے ہیں اور دوسری کو اعلیٰ صفت سمجھ کر پکڑتے ہیں، مگر پہلی کے چھوڑنے کی برائی دوسری کی بھلائی کو بھی لے ڈوبتی ہے۔ پس سچی ہمدردی وہی ہے جو قدرت کے قانون کے مطابق اور قدرت کے منشاء کی تکمیل کے لیے ہو۔ کیا عمدہ اور سہل طور پر عام عمل درآمد کے لائق کر دیا ہے اس مضمون کو بڑی قدرت والے اور معاشرت و تمدن کے زبردست قانون جاننے والے نے جبکہ ہم سے یوں کہا، ’’لیسٰ البران تولوا و جوھکم قبل المشرق و المغرب و لکن البر من آمن باﷲ و الیوم الاخر و الملئکۃ و الکتاب و النبیین و آتی المال علیٰ حبہ ذوی القربیٰ و الیتامیٰ و المساکین و ابن السبیل و السائلین و فی الرقاب‘‘ جو عمدہ ترتیب ہمدردی کی اس میں بتائی ہے وہ بالکل قانون قدرت کے مطابق ہے جس سے یقین ہوتا ہے کہ جس نے قدرت کے قانون کو بنایا ہے اسی نے یہ عملی قانون ہم کو دیا ہے۔ بیشک دونوں کا بانی ایک ہی ہے۔ جس کے فعل اور قول دونوں کا ایک ہی مقصد ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ خود غرضی اور قومی ہمدردی (تہذیب الاخلاق جلد ۷ نمبر ۸ بابت یکم شعبان ۱۲۹۳ھ صحفہ ۹۶) پہلا لفظ تو بہت پرانا ہے، مدت سے ہم سنتے چلے آہے ہیں، مگر یہ پچھلا لفظ شاید چند روز سے پیدا ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یکم شوال ۱۳۰۱ نبوی کے بعد اس کی پیدائش ہوئی ہے، مگر ضرور ہے کہ پچھلے زمانے میں بھی اس کی جگہ کوئی اور لفظ بولا جاتا ہو گا۔ پچھلے زمانے پر جب ہم نگاہ کرتے ہیں تو قومی ہمدردی کی بہت سی نشانیاں پاتے ہیں۔ جدھر جاؤ ادھر ہزاروں کھنڈرات مسجدوں اور پلوں اور کنوؤں اور مہمان سراؤں کے پاؤ گے۔ ہزاروں لاکھوں روپے لگا کر لوگوں نے قوم کے آرام کے لیے مہمان سرائیں بنوائی تھیں، مسجدیں بنوائی تھیں، کنوئیں کھدوائے تھے، پل بنوائے تھے جن کے نشانات اب بھی پائے جاتے ہیں۔ سنہری مسجدیں بنوائیں جن کے بڑے بڑے برج سونے کے کام سے مغرق تھے۔ نرے سنگ مرمر کی مسجدیں بنوائیں جو موتی مسجدوں کے نام سے مشہور ہوئیں۔ چینی کی کامدار سراؤں کے دروازے، مسجدوں کے گنبد تیار کرائے جو آج تک اسی آب و تاب سے موجود ہیں۔ اس سے بھی زیادہ کیسی بڑی بڑی عالی شان خانقاھیں تعمیر کیں۔ ان کے بنانے میں لاکھوں روپے خرچ کیے۔ دیہات معافی کے جاگیر میں دیے جن کی لاکھوں روپے کی آمدنی قومی ہمدردی میں صرف ہوتی تھی۔ ہاں مدرسہ وغیرہ بنانے کا اس قدر خیال نہ تھا، مگر پھر بھی مدرسے جاری کیے تھے۔ جب تاریخ کی کتابوں کی بہت تلاش کرو تو معلوم ہو گآ کہ فیروز شاہ کے وقت میں کوئی مدرسہ تھا اور کچھ زیادہ نشان نہیں ملتا۔ دلی کے پرانے کھنڈرات میں تلاش کرو تو اکبر کے عہد میں ماھم انگلہ کی بنائی ہوئی مسجد اور اس کے گرد کوٹدھڑیاں پائی جاتی ہیں جس کو لوگ ماھم انگلہ کا مدرسہ مشہور کرتے ہیں۔ غالباً اس میں چند اندھے قرآن حفظ کرتے ہوں گے۔ نہایت مشہور اور پر رونق شاہجہان کے عہد میں بھی چند لداؤ کی کوٹھڑیاں شاید پچیس تیس ہوں، جامع مسجد کے نیچے بنی ہوئی تھیں جو دارالبقا کے نام سے مشہور تھیں اور لوگ کہتے ہیں کہ شہجہانی مدرسہ تھا اور غالباً جس قدر ادعیہ مثل ختم خواجگان و ختم بخاری اور ختم دلایل الخیرات واسطے سلامتی شاہجہان کے ہوتے تھے وہ سب اسی میں ہوتے تھے۔ اس سے زیادہ مدرسوں کے بنانے کی ضرورت نہ تھی، کیونکہ بہت سے طالب علم متفرق مسجدوں میں رہتے تھے۔ تیل بتی ان کو مطالعہ کے لیے ملتی تھی، نذر نیاز، مردوں کی فاتحہ، سویم، چہلم کے بیماروں کے صدقوں کی بہت روٹیاں مسجدوں کے طالب علموں کو مل جاتی تھیں۔ ان کا نمونہ ہمارے زمانے تک بھی موجود تھا۔ فتچوری اور پنجابی کٹڑا اور کشمیری کٹڑا کی مسجدوں اور شاہ عبد العزیز صاحب کے مدرسے اور حصڑت شاہ غلام علی صاحب کی خانقاہ میں سے بہت سے طالب علم مردوں کی روٹیاں کھانے اور فاتحہ درود پڑھنے کو ملتے تھے۔ اب بھی قومی ہمدردی میں کچھ کسر نہیں ہے۔ دیکھو اس گئے گزرے زمانے میں بھی مسلمانوں نے کیسی ہمت کی ہے، کس قدر روپیہ خرچ کر کر جامع مسجد دھلی کی مرمت کی ہے۔ دلی کی پرانی عید گاہ کا چبوترا بڑھایا جاتا ہے اس کا فرش درست کیا جاتا ہے، تاکہ قوم کو نماز پڑھنے میں زمین کا اچان نیچان تکلیف نہ دے۔ سہارنپور میں دیکھو کئی لاکھ روپیہ خرچ کر کر جامع مسجد نئی بنائی ہے اور پرانی مسجد کو چھوڑ دیا ہے۔ دیوبند میں دیکھو کیسی عالی شان مسجد بنائی جاتی ہے۔ اس زمانے میں اگلے زمانوں سے بھی زیادہ مدرسے جاری ہوتے جاتے ہیں۔ دیکھو پنجاب میں کتنے مدارس اسلامیہ جاری ہوئے۔ دھلی میں اسلامی مدرسہ جاری ہوا۔ لکھنو میں مدرسہ اسلامیہ قائم ہوا۔ دیوبند کے مدرسے کا تو کچھ پوچھنا ہی نہیں۔ افتخار العلماء و فخر الکملا امام اعظم عہد شیخ زمان و صاحبین دوران مدرس و مہتمم ہیں۔ پھر سہارنپور میں، انبیٹہ میں مدارس اسلامی موجود ہیں۔ غرضیکہ بہت سی جگء مدارس جاری ہیں۔ پھر قومی ہمدردی کے لفظ کو نیا لفظ کہنا صحیح نہیں، ہاں شاید یہ ترکیب لفظی نئی ہو، مگر اسی مضمون کا پہلے بھی ضرور کوہی لفظ ہو گا جو ہماری یاد سے جات رہا ہے۔ جبکہ ہم یہ باتیں سنتے اور خیال کرتے ہیں تو دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ بے شک ہم لوگوں میں قومی ہمدردی قدیم سے چلی آتی ہے اور اب بھی بہت پائی جاتی ہے، مگر جب زیادہ غور کر کے دیکھتے ہیں تو وہ سب دھوکا ہی دھوکا پایا جاتا ہے (قطع نظر اس بحث کے کہ یہ کام قوم کو مفید ہیں اور قوم کو اس کی ضرورت ہے یا اس سے زیادہ اور چیزوں کی ضرورت ہے) جب ان لوگوں کے جنہوں نے یہ کام کیے اور کر رہے ہیں دل سے پوچھو تو معلوم ہو گا کہ وہ یہ تمام کام اس خیالی جوش میں کر رہے ہیں کہ ہم بڑے ثواب کے کام میں مصروف ہیں اور ثواب کی گٹھڑیاں باندھ رہے ہیں۔ مرتے ہی یہ سب کا ہم کو بہشت میں لے جاویں گے اور بہشت میں بڑے بڑے درجے پاویں گے۔ تاج ہمارے سر پر ہو گا اور ایک موتی کا محل جنت میں ملے گا۔ حوریں تصرف کو ہوں گی جن کو ہمارے سوا کسی نے چھوا بھی نہ ہو گا۔ پھر ان کی تعداد چار پر بھی محدود نہ ہو گی، بے انتہا جتنی چاہو۔ غلمان بھی نہایت خوبصورت معلوم نہیں تصرف یا خدمت کو ملیں گے۔ باغ ہو گآ، میوہ ہو گا، نہریں ہوں گی۔ شراب ہو گی۔ پئیں گے اور چین کریں گے اور کہا کریں گے کہ حافظ نے کیسا غلط یہ شعر کہا تھا: بدہ ساقی مئے باقی کہ درجنت نخواھی یافت کنار اب رکنا باد و گل گشت مصلی را ہم بھی نہایت ادب اور صدق دل سے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہو گا، خدا ہم کو بھی نصیب کرے، مگر یہ تو فرمائے کہ یہ سب کام خود غرضی کے ہیں یا قومی ہمدردی کے۔ کوئی کہے۔ میں تو نہ مانوں کہ یہ کام قومی ہمدردی کے ہیں۔ یہ تو بالکل ایسے ہی کام ہیں جیسے کہ ایک رند مشرب دنیا میں انہی عیشوں کے حاصل کرنے کو کرتا ہے۔ اس میں اور ان میں اتنا فرق ہے کہ انہوں نے نقد کو نسیہ پر چھوڑا ہے اور دوسرے جہاں میں ان عیشوں کے حاصل کرنے کی لالچ سے یہ کام کیے ہیں۔ غور کرنے کی بات ہے کہ باغبانوں سے اپنے چین کے لیے مزدوری دے کر باغ لگوانا، مزدوروں کو مزدوری دے کر اپنے آرام کے لیے محل چنوانا۔ کلال کو دام دے کر اپنی عیاشی کے لیے شراب کھنچوانا اور علاوہ اس کے روپیہ خرچ کر کر سامان عیش اور لذائذ نفسانی کا جمع کرنا کیا قومی ہمدردی گنی جاوے گی؟ نعوذ باﷲ ہر گز نہیں، یہ تو عین خود غرضی ہے۔ پھر وہ باتیں جو ثزاب کے لالچ سے کی جاتی ہیں کیوں قومی ہمدردی گنی جاویں گی اور اگر ہم سے پوچھو تو ثواب بھی نہیں۔ گدھے کھایا کھیت جس کا پاپ نہ پن۔ اسلام کا صحیح مسئلہ یہی ہے کہ اسی کام کے کرنے میں ثواب ہے جس کی ضرورت ہے۔ دیکھو کوہی اجر ہجرت سے زیادہ نہ تھا جس کی اس وقت بڑی ضرورت تھی۔ فتح مکہ کے بعد کچھ بھی نہ تھا۔ جیس اسامہ کی تیاری کے لیے جو چار ٹکے کا اسباب ابو بکر صدیقؓ حاضر کیا جس کی ضرورت تھی مگر اب اس کی برابری کوہ احد کے برابر سونا بھی نہیں کر سکتا۔ یہ سچا اصول مذہب اسلام کا ہے، مگر کوئی بھی اس کی پروا نہیں کرتا۔ قوم کی حالت اور اسلام کی حرمت کیسی ہی خراب ہوتی جاوے اس کے اسباب پر غور کرنے اور اس کے رفع کرنے کا کسی کو خیال نہیں ہے۔ اپنے خیال کے مطابق جو اپنے ثواب اور دوسرے جہاں میں اپنے چین کرنے کے کام سمجھتے ہیں وہ کرتے ہیں۔ پھر کس طرح خیال ہو سکتا ہے کہ وہ قومی ہمدردی کے کام ہیں بلکہ ٹھیٹ خود غرضی ہے اور امید ہے کہ وہ بھی حاصل نہ ہو گی۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ حب ایمانی اور حب انسانی (تہذیب الاخلاق جلد ۵ نمبر ۴ بابت یکم ربیع الثانی ۱۲۹۱ھ صحفہ ۵۸) کسی شخص کا قول ہے کہ محبت کسی حیثیت سے ہو ایک ایسی چیز ہے کہ محبوب کی دوستی دل میں بٹھا دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کافروں سے دوستی و محبت کسی وجہ سے کیوں نہ ہو ممنوع ہے۔ پس سید احمد خاں جو یہ بات کہتے ہیں کہ مذہب اسلام کی رو سے کافروں سے صرف وہی دوستی ممنوع ہے جو من حیث الدین ہو اور اس کے سوا کسی کی دوستی اور سچی محبت جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے ہو سکتی ہے، کافروں سے کرنی شرعاً ممنوع نہیں، تو ہم نہیں سمجھ سکتے کہ دوستی و محبت میں ان دونوں حیثیتوں کی تمیز ہم کیونکر کر سکتے ہیں۔ مگر ایسا کہنا اور ایک بدیہی امر میں تمیز نہ کرنا کافی طور پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ ان دونوں حیثیتوں سے جو محبت اور دوستی انسانوں میں ہوتی ہے وہ ایسی بدیہی ہے کہ ہر شخص اعلیٰ و ادنیٰ عالم و جاہل اس میں تمیز کرتا ہے۔ فرض کرو کہ کوئی شخص کسی سے محبت رکھتا ہے۔ ہم اس سے سوال کرتے ہیں کہ تم اس سے کیوں محبت رکھتے ہو۔ وہ اس کا جواب دیتا ہے کہ وہ میرا بڑا محسن ہے۔ اس نے بڑے مشکل مشکل وقتوں میں مجھ پر احسان کیے ہیں۔ تنگی کے وقت روپے سے مدد کی ہے۔ بیماری کی حالت میں میری تیمارداری کی ہے۔ دوا دارو علاج معالجے میں بڑی کوشش کی ہے۔ یا وہ اس کا یوں جواب دیتا ہے کہ ہم اور وہ مدت تک ساتھ رہے ہیں۔ دن رات آپس میں اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا ساتھ رہا ہے۔ روز روز کی ملاقات، بات چیت، ہنسی، مذاق، دل لگی، مزاج کی باہمی موافقت کے سبب آپس میں دوستی و محبت ہو گئی ہے۔ یا وہ یہ کہتا ہے کہ جس فن کا مجھ کو شوق ہے اس فن کا اس کو بدرجہ غایت کمال ہے۔ اس فن کے کمال کے سبب جس کا مجھ کو شوق ہے اس شخص سے دلی محبت اور جانی دوستی ہو گئی ہے۔ یا اس کا سبب وہ یہ بتلاتا ہے کہ وہ شخص نہایت خوبصورت ہے۔ اس کے حسن و جمال نے میرے دل میں اس کی محبت، بلکہ اس کا عشق پیدا کر دیا ہے۔ پھر ہم اس سے دوسرا سوال کرتے ہیں اور کسی بزرگ کا بزرگان دین میں سے نام لیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تم ان بزرگ سے بھی محبت رکھتے ہو، وہ ضرور جواب دیتا ہے کہ ہاں کیوں نہیں۔ تب ہم اس سے کہتے ہیں کہ وہ بزرگ تو تم سے کئی سو برس پہلے گزر چکے ہیں۔ انہوں نے کوئی تم پر احسان نہیں کیا۔ کسی مشکل کے وقت میں تمہارے کام نہیں آہے۔ کبھی تنگی کے وقت میں ت کو کچھ نہیں دیا۔ کبھی تمہاری تیمارداری نہیں کی۔ کبھی تمہاری دوا دارو اور علاج معالجے میں کوشش نہیں کی۔ کبھی وہ اور تم ساتھ نہیں رہے نہ کبھی ساتھ اٹھے بیٹھے نہ کبھی آپس میں ملاقات بات چیت ہوہی، نہ کبھی ہنسی مذاق ہوا، نہ باہم مزاجی موافقت ہوئی۔ جس فن کا تم کو شوق ہے وہ اس کا نم بھی نہیں جانتے تھے۔ نہ تو نے ان کو دیکھا کہ ان کے حسن و جمال نے تم کو فریفتہ کر لیا ہو۔ پھر کیوں تم ان سے محبت رکھتے ہو؟ اس سوال کا وہ نہایت نارض ہو کر اور لال منھ کر کر غصہ بھری آواز سے جواب دیتا ہے کہ میاں وہ بزرگان دین تھے۔ خدا کے ہاں ان کا بڑا درجہ ہے۔ وہ دینداری میں یگانہ وقت تھے۔ خدا پرستی و زہھ و تقویٰ و عبادت میں یگانہ تھے۔ ایمان کامل ان کو نصیب تھا۔ دین میں سب کے سردار تھے۔ اس لیے ان سے محبت رکھتے ہیں۔ اب میں تم کو بتاتا ہوں کہ یہی پچھلی محبت، محبت من حیث الدین ہے جس کو میں حب ایمانی کہتا ہوں اور یہی محبت غیر مذہب سے رکھنی شرعاً ممنوع اور حرام بلکہ کفر ہے اور پہلی محبت جس کو میں حب انسانی کہتا ہوں۔ شرعاً ممنوع نہیں اور دونوں قسم کی محبت میں بالبداھت تفرقہ و تمیز موجود ہے کہ ایک قسم کی محبت ان اسباب ظاہری کے باعث تھی جو بمقتضائے فطرت انسانی ایک کو دوسرے کے ساتھ پیدا ہو جاتے ہیں اور دوسری قسم کی محبت باوجود معدوم ہونے ان تمام اسباب ظاہری کے صرف من حیث الدین تھی۔ اب کون شخص ہے جو ان دونوں قسموں کی محبت میں تمیز نہیں کر سکتا؟ پس جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ غیر مذہب والوں سے سچی دوستی اور دلی محبت کرنا ممنوع ہے یہ ان کی محض غلطی ہے۔ جو چیز کہ خدا تعالی نے انسان کی فطرت میں بنائی ہے وہ برحق اور بالکل سچ ہے۔ ہم کو تمام دوستوں سے گو وہ کسی مذہب کے ہوں سچی دوستی اور دلی محبت رکھنی اور برتنی چاہیے۔ مگر وہ تمام محبت اور دوستی حب انسانی کے درجے پر ہو، نہ حب ایمانی کے۔ کیونکہ حب ایمانی بلا اتحاد مذہب، بلکہ بلا اتحاد مشرب ہونی غیر ممکن ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی ہدایت ہم کو ہمارے سچے مذہب اسلام نے کی ہے وﷲ درمن قال ما قصۂ سکندر و دارا نخواندہ ایم از مابجز حکایت مہر و وفا مپرس ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ اپنی مدد آپ خدا ان کی مدد کرتا ہے جو آپ اپنی مدد کرتے ہیں (تہذیب الاخلاق جلد ششم بابت یکم شعبان ۱۲۹۲ھ صفحہ ۱۱۳ تا ۱۲۶) یہ ایک نہایت عمدہ اور آزمودہ مقولہ ہے۔ اس چھوٹے سے فقرے میں انسانوں کا اور قوموں کا اور نسلوں کا تجربہ جمع ہے۔ ایک شخص میں اپنی مدد کرنے کا پرجوش اس کی سچی ترقی کی بنیاد ہے اور جبکہ یہ جوش بہت سے شخصوں میں پایا جاوے تو وہ قومی ترقی اور قومی طاقت اور قومی مضبوطی کی جڑ ہے۔ جبکہ کسی شخص کے لیے یا کسی گروہ کے لیے کوہی دوسرا کچھ کرتا ہے تو اس شخص میں سے یا اس گروہ میں سے وہ جوش اپنے آپ مدد کرنے کا کم ہو جاتا ہے اور ضرورت اپنے آپ مدد کرنے کی اس کے دل سے مٹتی جاتی ہے اور اسی کے ساتھ غیرت جو ایک نہایت عمدہ قوت انسان میں ہے اور اسی کے ساتھ عزت جو اصلی چمک دمک انسان کی ہے ازخود جاتی رہتی ہے اور جبکہ ایک قوم کی قوم کا یہ حال ہو تو وہ ساری قوم دوسری قوموں کی آنکھ میں ذلیل اور بے غیرت اور بے عزت ہو جاتی ہے۔ آدمی جس قدر کہ دوسرے پر بھروسے کرتے جاتے ہیں، خواہ اپنی بھلائی اور اپنی ترقی کا بھروسہ گورنمنٹ ہی پر کیوں نہ کریں (یہ امر بدیہی اور لابدی ہے) وہ اسی قدر بے مدد اور بے عزت ہوتے جاتے ہیں۔ اے میرے ہم وطن بھائیو! کیا تمہارا یہی حال نہیں ہے؟ ایشیا کی تمام قومیں یہی سمجھتی رہی ہیں کہ اچھا بادشاہ ہی رعایا کی ترقی اور خوشی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یورپ کے لوگ جو ایشیا کے لوگوں سے زیادہ ترقی کر گئے تھے، یہ سمجھتے تھے کہ ایک عمدہ انتظام قوم کی عزت و بھلائی و خوشی اور ترقی کا ذریعہ ہے، خواہ وہ انتظام باہمی قوم کے رسم و رواج کا ہو، یا گورنمنٹ کا۔ اور یہی سبب ہے کہ یورپ کے لوگ قانون بنانے والی مجلسوں کو بہت بڑا ذریعہ انسان کی ترقی و بہبود کا خیال کر کر ان کا درجہ سب سے اعلی اور نہایت بیش بہا سمجھتے تھے، مگر حقیقت میں یہ سب خیال غلط ہیں۔ ایک شخص فرض کرو کہ وہ لندن میں آئرلینڈ کی طرف سے پارلیمنٹ کا ممبر ہی کیوں نہ ہو جائے یا کلکتہ میں وائسرائے اور گورنر جنرل کی کونسل مین ہندوستان کا ممبر ہی ہوں کر کیوں نہ بیٹھ جاوے قومی عزت اور قومی بھلائی اور قومی ترقی کیا کر سکتا ہے۔ برس دو برس میں کسی بات پر ووٹ دے دینے سے گو وہ کیسی ہی ایمانداری اور انصاف سے کیوں نہ دیا ہو قوم کی کیا بھلائی ہو سکتی ہے۔ بلکہ خود اس کے چال چلن پر اس کے برتاؤ پر کیا اثر پیدا کر سکتا ہے۔ ہاں یہ بات بے شبہ ہے کہ گورنمنٹ سے انسان کے برتاؤ میں کچھ مدد نہیں ملتی، مگر عمدہ گورنمنٹ سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آدمی آزادی سے اپنے قوا کی تکمیل اور اپنی شخصی حالت کی ترقی کر سکتا ہے۔ یہ بات روز بروز روشن ہوتی جاتی ہے کہ گورنمنٹ کا فرض بہ نسبت مثبت اور معمل ہونے کے زیادہ تر منفی اور مانع ہے اور وہ فرض جان اور مال اور آزادی کی حفاظت ہے۔ جبکہ قانون کا عمل درآمد دانشمندی سے ہوتا ہے تو آدمی اپنی جسمی اور ذہنی محنت کے ثمروں کا بے خطرہ خط اٹھا سکتا ہے۔ جس قدر گورنمنٹ کی حکومت عمدہ ہوتی ہے اتنا ہی ذاتی نقصان کم ہوتا ہے۔ مگر کوئی قانون گو وہ کیسا ہی ابھارنے والا کیوں نہ ہو سست آدمی کو محنتی، فضول خرچ کو کفایت شعار، شراب خوار کو تائب نہیں بنا سکتا، بلکہ یہ باتیں شخصی محنت، کفایت شعاری، نفس کشی سے حاصل ہو سکتی ہیں۔ قومی ترقی، قومی عزت، قومی اصلاح، عمدہ عادتوں، عمدہ چال چلن، عمدہ برتاؤ کرنے سے ہوتی ہے، نہ گورنمنٹ میں بڑے بڑے حقوق اور اعلیٰ اعلیٰ درجے حاصل کرنے سے۔ پرانے لوگوں کا مقولہ ہے کہ ’’الناس علیٰ دین ملوکھم‘‘ سے چند خاص آدمی مراد لیے جاویں جو بادشاہ کے مقرب ہوتے ہیں تو تو یہ مقولہ صحیح ہے اور اگر یہ معنی لیے جاویں کہ رعایا اپنی گورنمنٹ کی سی ہو جاتی ہے تو یہ مقولہ صحیح نہیں ہے۔ رعایا کبھی گورنمنٹ کے رنگ میں نہیں رنگی جاتی۔ بلکہ گورنمنٹ رعایا کا سا رنگ بدلتی جاتی ہے۔ نہایت ٹھیک بات ہے کہ گورنمنٹ عموماً ان لوگوں کا جن پر وہ حکومت کرتی ہے عکس ہوتی ہے۔ جو رنگ ان کا ہوتا ہے اسی کا عکس گورنمنٹ میں پایا جاتا ہے۔ جو گورنمنٹ اپنی رعایا سے تہذیب و شائستگی میں آگے بڑھی ہوئی ہے، رعایا اس کو زبردستی سے پیچھے کھینچ لاتی ہے اور جو گورنمنٹ کمتر اور تہذیب و شائستگی میں پیچھے ہوتی ہے وہ ترقی کی دوڑ میں رعایا کے ساتھ کھنچ جاتی ہے۔ تاریخ کے دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان و انگلستان کا یہی حال ہوا۔ انگلستان کی رعایا تہذیب و شائستگی میں اس زمانے کی گورنمنٹ سے آگے بڑھی ہوہی تھی، اس نے زبردستی سے گورنمنٹ کو اپنے ساتھ آگے کھینچ لیا۔ ہندوستان کی رعایا تہذیب و شائستگی میں موجودہ گورنمنٹ سے کوسوں پیچھے پڑی ہے۔ گورنمنٹ کتنا ہی کھینچنا چاہتی ہے، مگر وہ نہیں کھنچتی، بلکہ زبردستی سے گورنمنٹ کو پیچھے کھینچ لائی ہے۔ یہ ایک نیچر کا قاعدہ ہے کہ جیسا مجموعہ قوم کی چال چلن کا ہوتا ہے، یقینی اسی کے موافق اس کے قانون اور اسی کے مناسب حال گورنمنٹ ہوتی ہے۔ جس طرح کہ پانی خود اپنی پنسال میں آجا تا ہے، اسی طرح عمدہ رعایا پر عمدہ حکومت ہوتی ہے اور جاہل و خراب و ناتربیت یافتہ رعایا پر ویسی ہی اکھڑ حکومت کرنی پڑتی ہے۔ تمام تجربوں سے ثابت ہوا ہے کہ کسی ملک کی خوبی و عمدگی اور قدر و منزلت بہ نسبت وہاں کی گورنمنٹ کے عمدہ ہونے کے زیادہ تر اس ملک کی رعایا کے چال چلن، اخلاق و عادت، تہذیب و شائستگی پر منحصر ہے، کیونکہ قوم شخصی حالتوں کا مجموعہ ہے اور ایک قوم کی تہذیب درحقیقت ان مرد و عورت و بچوں کی شخصی ترقی ہے، جن سے وہ قوم بنی ہے۔ قومی ترقی مجموعہ ہے، شخصی محنت، شخصی عرف، شخصی ایمانداری، شخصی ہمدردی کا، اسی طرح قومی مجموعہ ہے شخصی سستی، شخصی بے عزتی، شخصی بے ایمانی، شخصی خود غرضی کا اور شخصی برائیوں کا، نا تہذیبی و بدچلنی جو اخلاقی و تمدنی یا باہمی معاشرت کی بدیوں میں شمار ہوتی ہے۔ درحقیقت وہ خود اسی شخص کی آوارہ زندگی کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ بیرونی کوشش سے ان برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ ڈالیں اور نیست و نابود کر دیں، تو یہ برائیاں کسی اور نئی صورت میں اس سے بھی زیادہ زور شور سے پیدا ہو جاویں گی۔ جب تک شخصی زندگی اور شخصی چال چلن کی حالتوں کو ترقی نہ کی جاوے۔ اے میرے عزیز ہم وطنو! اگر یہ رائے صحیح ہے تو اس کا یہ نتیجہ ہے کہ قوم کی سچی ہمدردی اور سچی خیر خواہی کرو۔ غور کرو کہ تمہاری قوم کی شخصی زندگی اور شخصی چال چلن کس طرح پر عمدہ ہو، تاکہ تم بھی ایک معزز قوم ہو۔ کیا جو طریقہ تعلیم و تربیت کا، بات چیت کا، وضع و لباس کا، سیر سپاٹے کا، شغل اشغال کا، تمہاری اولاد کے لیے ہے، اس سے ان کی شخصی چآل چلن، اخلاق و عادات، نیکی و سچائی میں ترقی ہو سکتی ہے؟ حاشا وکلا۔ جبکہ ہر شخص اور کل قوم خود اپنی اندرونی حالتوں سے آپ اپنی اصلاح کر سکتی ہے تو اس بات کی امید پر بیٹھے رہنا کہ بیرونی زور انسان کی یا قوم کی اصلاح و ترقی کرے کس قدر افسوس بلکہ نادانی کی بات ہے۔ وہ شخص در حقیقت غلام نہیں ہے جس کو ایک خدا نا ترس نے جو اس کا ظالم آقا کہلایا جاتا ہے رعیت ہے بلکہ درحقیقت وہ شخص اصلی غلام ہے جو بداخلاقی، خود غرضی، جہالت اور شرارت کا مطیع اور اپنی خود غرضی کی غلامی میں مبتلا اور قومی ہمدردی سے بے پروا ہے۔ وہ قومیں جو اس طرح دل مین غلام ہیں وہ بیرونی زوروں سے، یعنی عمدہ گورنمنٹ یا عمدہ قومی انتظام سے آزاد نہیں ہو سکتیں جب تک کہ علامی کی یہ دلی حالت دور نہ ہو۔ اصل یہ ہے کہ جب تک انسانوں میں یہ خیال ہے کہ ہماری اصلاح و ترقی گورنمنٹ پر یا قوم کے عمدہ انتظام پر منحصر ہے اس وقت تک کوئی مستقل اور برتاؤ میں آنے کے قابل نتیجہ اصلاح و ترقی کا قوم میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ گو کیسی ہی عمدہ تبدیلیاں گورنمنٹ یا انتظام میں کی جاویں وہ تبدیلیاں فانوس خیال سے کچھ زیادہ رتبہ نہیں رکھتیں جس میں طرح طرح کی تصویریں پھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، مگر جب دیکھو تو کچھ بھی نہیں۔ مستقل امور مضبوط آزادی، سچی عزت، اصلی ترقی، شخصی چآل چلن کے عمودہ ہونے پر منحصر ہے اور وہی شخصی چال چلن معاشرت و تمدن کا محافظ اور وہی شخصی چآل چلن قومی ترقی کا بڑا ضامن ہے۔ جان اسٹیورٹ مل جو اسی زمانے میں ایک بہت بڑا دانا حکیم گزرا ہے۔ اس کا قول ہے کہ ظالم اور خود مختار حکومت بھی زیادہ خراب نتیجے پیدا نہیں کر سکتی اگر اس کی رعایا میں شخصی اصلاح اور شخصی ترقی موجود ہے اور جو چیز کہ شخصی اصلاح و شخصی ترقی کو دبا دیتی ہے درحقیقت وہی شے اس کے لیے ظالم و خود مختار گورنمنٹ ہے۔ پھر اس شے کو جس نام سے چاہو پکاور۔ اس مقولے پر میں اس قدر اور زیادہ کرتا ہوں کہ جہاں شخصی اصلاح اور شخصی ترقی مٹ گئی ہے یا دب گئی ہے وہاں کیسی ہی آزاد اور عمدہ گورنمنٹ کیوں نہ قائم کی جاوے وہ کچھ بھی عمدہ نتیجے پیدا نہیں کر سکتی اور اس اپنے مقولے کی تصدیق کو ہندوستان کی اور خصوصاً ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت کی مثال پیش کرتا ہوں۔ اے مسلمان بھائیو! کیا تمہاری یہی حالت نہیں ہے؟ تم نے اس عمدہ گورنمٹ سے جو تم پر حکومت کر رہی ہے کیا فائدہ اٹھایا ہے؟ تمہاری آزادی کے محفوظ رکھنے کا تم کو کیا نتیجہ حاصل ہوا ہے؟ ہیچ ہیچ ہیچ! اس کا سبب یہی ہے کہ تم میں اپنی مدد آپ کرنے کا جذبہ نہیں ہے۔ انسان کی قومی ترقی کی نسبت ہم لوگوں کے یہ خیال ہیں کہ کوئی خضر ملے، گورنمنٹ فیاض ہو اور ہمارے سب کام کر دے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہر چیز ہمارے لیے کی جاوے اور ہم خود نہ کریں۔ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اگر اس کو ہادی اور رہنما بنایا جاوے تو تمام قوم کی دلی آزادی کو برباد کر دے اور آدمیوں کو انسان پرست بنا دے۔ حقیقت میں ایسا ہونا قوت کی پرستش ہے اور اس کے نتائج انسان کو ایسا ہی حقیر بنا دیتے ہیں۔ جیسے کہ صرف دولت کی پرستش سے انسان حقیر و ذلیل ہو جاتا ہے۔ کیا لالہ اشرفی مل جو ہر روز لچھمی کی پوجا کرتے ہیں اور بے انتہا دولت رکھتے ہیں انسانوں میں کچھ قدر و منزلت کے لائق گنے جاتے ہیں؟ بڑا سچا مسئلہ اور نہایت مضبوط جس سے دنیا کی معزز قوموں نے عزت پائی ہے وہ اپنی آپ مدد کرنا ہے۔ جس وقت لوگ اس کو اچھی طرح سمجھیں گے اور کام میں لاویں گے، تو پھر خضر کو ڈھونڈنا بھول جاوین گے۔ اوروں پر بھروسے اور اپنی مدد آپ یہ دونوں اصول ایک دوسرے کے بالکل مخالف ہیں۔ پچھلا انسان کی بدیوں کو برباد کرتا ہے اور پہلا خود انسان کو۔ قومی انتظام یا عمدہ قوانین کے اجراء کی خواہش یہ بھی ایک قدیمی غلط خیال ہے۔ سچا اصول وہ ہے جو ولیم ڈراگن نے ڈبلن کی نمائش گاہ دستکاری میں کہا تھا جو ایک بڑا خیر خواہ آئرلینڈ کا تھا۔ اس نے کہا کہ ’’جس وقت میں آزادی کا لفظ سنتا ہوں، اسی وقت مجھ کو میرا ملک اور میرے شہر کے باشندے یاد آتے ہیں۔ ہم اپنی آزادی کے لیے بہت سی باتیں سنتے ائے ہیں، مگر میرے دل میں بہت بڑا مضبوط یقین ہے کہ ہماری محنت، ہماری آزادی ہمارے اوپر منحصر ہے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ اگر ہم محنت کیے جاویں اور اپنی قوتوں کو ٹھیک طور پر استعمال کریں تو اس سے زیادہ ہم کو کوہی موقع یا آئندہ کی قوی توقع اپنی بہتری کے لیے نہیں ہے۔ استقلال اور محنت کامیابی کا بڑا ذریعہ ہے۔ اگر ہم ایک دلی ولولے اور محنت سے کام کیے جائیں گے تو مجھے پورا یقین ہے کہ تھوڑے زمانے میں ہماری حالت بھی ایک عمدہ قوم کی مانند آرام و خوشی و آزادی کی ہو جاوے گی۔‘‘ انسان کی اگلی پشتوں کے حالات پر خیال کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی موجودہ حالت انسانوں کے نسل در نسل کے کاموں سے حاصل ہوتی ہے۔ محنتی اور مستقل مزاج محنت کرنے والوں، زمین کے جوتنے والوں، کانوں کے کھودنے والوں، نئی نئی باتوں کے ایجاد کرنے والوں، مخفی باتوں کو ڈھونڈ کر نکالنے والوں، ہنر مندوں، شاعروں، حکیموں، فیلسوفوں، ملکی منتظموں نے انسان کو موجودہ ترقی کی حالت پر پہنچانے میں بڑی مدد دی ہے۔ ایک نسل نے دوسری نسل کی محنت پر عمارت بنائی ہے اور اس کو ایک اعلی درجے پہنچایا ہے۔ ان عمدہ کاریگروں سے جو تہذیب و شائستگی کی عمارت کی معمار ہیں، لگاتار ایک دوسرے کے بعد ہونے سے محنت اور علم و ہنر میں جو ایک بے ترتیبی کی حالت میں تھی ایک ترتیب پیدا ہوئی ہے۔ رفتہ رفتہ نیچر کی گردش نے موجودہ نسل کو اس زرخیز اور بے بہا جائیداد کا وارث کیا ہے جو ہمارے پرکھوں کی ہوشیاری اور محنت سے مہیا ہوئی تھی اور وہ جائیداد ہم کو اس لیے نہیں دی گئی ہے کہ ہم صرف مثل مارسر گنج اس کی حفاظت ہی کیا کریں۔ بلکہ ہم کو اس لیے دی گئی ہے کہ اس کو ترقی دیں اور ترقی یافتہ حالت میں آئندہ نسلوں کے لیے چھوڑ جاویں، مگر افسوس صد ہزار افسوس کہ ہماری قوم نے ان پرکھوں کی چھوڑی ہوئی جائیداد کو بھی گرا دیا۔ انگریزوں کو جو دنیا کے اس دور میں اس قدر ترقی ہوئی، اس کا سبب صرف یہی ہے کہ ہمیشہ ان کی قوم میں اپنی مدد آپ کرنے کا جذبہ رہا ہے اور اس قوم کی شخصی محنت اس پر گواہ عادل ہے۔ یہی مسئلہ اپنی مدد آپ کرنے کا انگریزوں کی قوم کی طاقت کا سچا پیمانہ رہا ہے۔ انگریزوں میں اگرچء بہت سے ایسے لوگ بھی تھے، جو تمام لوگوں سے اعلیٰ درجے کے اور زیادہ مشہور تھے اور جن کی تمام لوگ عزت بھی کرتے تھے، لیکن کم درجے کے اور غیر مشہور آدمیوں کے گروہوں میں سے بھی اس قوم کی بڑی ترقی ہوئی ہے۔ گو کسی لڑائی اور میدان کارزار کی فہرستوں اور تاریخوں یمں صرف بڑے بڑے جنرلوں اور سپہ سالاروں کے نام لکھے گئے ہوں، لیکن وہ فتوحات ان کو زیادہ تر انہیں محنتی لوگوں کی شجاعت اور بہادری کے سبب ہوئی ہے۔ عام لوگ ہی تمام زمانوں میں سب سے زیادہ کام کرنے والے ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے شخص ہیں جن کی زندگی کا حال کسی نے نہیں لکھا۔ لیکن تہذیب و شائستگی اور ترقی پر ان کا بھی ایسا ہی قوی اثر ہوا ہے جیسا کہ ان خوش نصیب مشہور نامور آدمیوں کا ہوا ہے جن کی زندگی کے حالات مورخوں نے اپنی تاریخوں میں لکھے ہیں۔ ایک نہایت عاجز و مسکین غریب آدمی جو اپنے ساتھیوں کو محنت اور پرہیز گآری اور بے لگاؤ ایمانداری کی نظیر دکھاتا ہے، اس شخص کا اس کے زژانہ میں اور آئندہ زمانے میں اس کے ملک اس کی قوم کی بھلائی پر بہت بڑا اثر پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کی زندگی کا طریقہ اور چال چلن گو معلوم نہیں ہوتا، مگر اور شخصوں کی زندگی میں خفیہ خفیہ پھیل جاتا ہے اور آئندہ کی نسل کے لیے ایک عمدہ نظیر بن جاتا ہے۔ ہر روز کے تجربے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ شخصی ہی چآل چْن میں یہ قوت ہے کہ دوسرے کی زندگی اور برتاؤ اور چال چلن پر نہایت قوی اثر پیدا کرتا ہے اور حقیقت میں یہی ایک نہایت عمدہ عملی تعلیم ہے اور جب ہم اس عملی تعلیم کا علمی تعلیم سے مقابلہ کریں تو مکتب و مدرسے اور مدرسۃ العلوم کی تعلیم اسی عملی تعلیم کی ابتدائی تعلیم معلوم ہوتی ہے۔ زندگی کے علم کا یعنی زندگی کے برتاؤ کے علم کا جس کو انگریزی میں ’’لیف ایجوکیشن‘‘ کہتے ہیں، انسان پر قوم پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ مکتب و مدرسہ و مدرسۃ العلوم کا علم طاق میں یا صندوق میں یا الماری میں یا کسی بڑے کتب خانہ میں رکھا ہوا ہوتا ہے، مگر زندگی کے برتاؤ کا علم ہر وقت دوست سے ملنے میں، گھر کے رہنے سہنے میں، شہر کی گلیوں میں پھرنے میں، صرافہ کی دوکان کرنے میں، حل جوتنے میں، کپڑا بننے کے کارخانہ میں، کلوں سے کام کرنے کے کارخانہ میں اپنے ساتھ ہوتا ہے اور پھر بے سکھائے اور بے شاگرد کیے لوگوں میں صرف اس کے برتاؤ سے پھیلتا جاتا ہے۔ یہ پچھلا علم وہ علم ہے، جو انسان کو انسان بناتا ہے۔ اسی پچھلے علم سے، عمل، چال چلن، تعلیم نفسی، نفس کشی، شخصی خوبی، قومی مضبوطی، قومی عزت حاصل ہوتی ہے۔ یہی پچھلا علم وہ علم ہے۔ کہ جو انسان کو اپنے فرائض ادا کرنے اور دوسروں کے حقوق محفوظ رکھنے اور زندگی کے کاروبار کرنے اور اپنی عاقبت کے سنوارنے کے لائق بنا دیتا ہے۔ اس تعلیم کو آدمی صرف کتابوں سے نہیں سیکھ سکتا۔ اور نہ یہ تعلیم کسی درجے کی علمی تحصیل سے حاصل ہوتی ہے۔ لارڈ بیکن کا نہایت علم سے باہر اور علم سے برتر ہے۔ اور مشاہدہ آدمی کی زندگی کو درست اور اس کے علم کو باعمل، یعنی اس کے برتاؤ میں کر دیتا ہے۔ علم کے بہ نسبت عمل اور سوانح عمری کی بہ نسبت عمدہ چال چلن آدمی کو زیادہ تر معزز اور قابل ادب بناتا ہے۔ کیا یہی وجہ ہے جو مدرسۃ العلوم مسلمانان کے بانیوں نے یہ تجویز کی ہے کہ مسلمانوں کے لڑکے گھروں سے اور بد صحبتوں سے علیحدہ مدرسۃ العلوم میں عالموں، اشرافوں اور تربیت یافتہ لوگوں کی صحبت میں رکھے جاویں؟ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ دین اور دنیا کا رشتہ (تہذیب الاخلاق بابت ۱۵۔ ذی الحجہ ۱۲۸۷ھ) نجات ابدی جو نتیجہ سچے مذہب یا سچے دین کا ہے وہ دنیا کے ساتھ لازم و ملزوم نہیں ہے۔ ایک شخص جس نے تمام عمر عسرت و تنگی میں بسر کی ہو اور لباس برھنگی کے سوا اور کوئی لباس زیب تن نہ کیا ہو اور بناس پتی کے سوا جو کے بن چھنے آٹے کی روٹی بھی نصیب نہ ہوہی ہو وہ بھی سچے مذہب کی بدولت نجات ابدی حاصل کر سکتا ہے اور جس شخص نے لاکھوں کروڑوں روپے بطور جائز پیدا اور خرچ کیے ہوں اور محمودی و تن زیب زیب تن کیا ہو اور محلوں میں سویا ہو اور باغوں کی ٹھنڈی ہوا میں پھرا ہو، پری تمثال عربی گھوڑوں پر چڑھا ہو وہ بھی سچے دین و مذہب کی بدولت نجات ابدی پا سکتا ہے۔ ہم دنیا میں بے انتہا مذاہب مختلفہ کے لوگ دیکھتے ہیں جن میں بلاشبہ کوئی سچے اصول پر اور کوئی غلط بنیاد اور جھوٹے اصول پر مبنی ہو گا اور ہر مذہب کے لوگوں میں تنگی و فراخی، دولت و مفلسی کو پاتے ہیں، اس لیے یقین کرتے ہیں کہ دنیا کسی کے ساتھ لازم و ملزوم نہیں ہے۔ مسلمانوں کو اس مضمون پر یقین کرنے کے لیے حضرت ابو ذر غفاری رحمۃ اﷲ علیہ کی زندگی کا حال جاننا کافی ہے جو علانیہ اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سے فقیہ کے مقابلے میں فرماتے تھے کہ ’’واﷲ صاحب المال کافر‘‘ مگر دنیا اور دین سے ایسا مستحکم رشتہ ہے جو کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتا۔ جس طرح کہ بدبختی سے کبھی دنیا دین کو غارت بھی کر دیتی ہے۔ اسی طرح خوش قسمتی سے دنیا دین کو سنوار بھی دیتی ہے۔ مشہور مقولہ ہے: پراگندہ روزی پراگندہ دل اب ان عقلی باتوں کو جانے دو، اس پر تو یقینی۔ سب مسلمان یقین کرتے ہوں گے کہ کسی بندے پر خدا کا غضب دنیاوی امور کے سبب نہیں ہوتا، بلکہ دینی قصور اور نافرمانی اور گناہ و معصیت کے سبب ہوتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا دار جزاء نہیں ہے اور جو گناہ اور معضیت بندوں کی ہے اس کی سزا کے لیے دنیا نہیں یا ایں ہمہ ہم قرآن مجید میں دیکھتے ہیں کہ خدا تعالی نے دینی تقصیرات پر یہودیوں کے ساتھ دنیا میں کیا معاملہ کیا کیونکہ خدا تعالی قرآن مجید میں یہ فرماتا ہے ’’و ضربت علیھم الذلۃ و المسکنۃ و باؤ ابغضب من اﷲ ذالک بما عصو و کانوا یعتدون۔‘‘ پس اگر دنیا کو دین کے ساتھ کوئی مستحکم رشتہ نہ تھا تو خدا تعالیٰ نے بچارے یہودیوں کو دنیا میں ذلیل اور مسکین کیوں کیا؟ اب دوسری طرح پر غور کرو اور ایک خیالی دنیا بناؤ اور یہ تصور کرو کہ ہندوستان میں تمام مسلمانوں کے پاس دولت و حکومت اور منصب نہ رہے، سب مفلس اور نان شبینہ کو محتاج ہوں (جیسا کہ ان شاء اﷲ تعالیٰ آن بد عقلیوں اور بد فہمیوں اور بد نصیبیوں کے سبب جو زمانہ حال میں ان کے خطوط پیشانی سے پڑھی جاتی ہیں، عنفریب ہونے والا ہے) اور در بدر بھیک مانگتے پھریں، ان کی اولاد جاہل اور نالائق، چور اور بدمعاش ہو، واعظین کو جو محض ریا کاری اور مکاری سے دنیا کماتے پڑے پھرتے ہیں، کوئی ٹکا دینے والا یا حرام کا لقمہ تر کھلانے والا نہ رہے، جناب پیر جی صاحب جو لوگوں کو مرید کر کر اپنا لشکر بناتے پھرتے ہیں اور سالانہ ٹیکس یا جزیہ ان پر مقرر کرتے ہیں اور ہر سال اس کی تحصیل میں مصروف ہیں ان کو کوہی دینے والا نہ رہے، یا جناب مولوی صاحب قبلہ جو حدیث و تفسیر یا صدرا و شمس بازغہ طالب علموں کو پڑھاتے ہیں، ان کو کوہی چار پیسے کو نوکر رکھنے والا نہ رہے جیسا کہ اب بھی یہی حال موجود ہے کہ اچھے اچھے مولوی ٹکے ٹکے کو مارے پھرتے ہیں اور نہیں پوچھتا تو اس وقت دین کا حال کیاہو گا؟ مگر اس کے ساتھ یہ بھی تصور کرنا چاہیے کہ پیٹ ایسی جیز ہے کہ دین رہے یا جاوے خدا ملے یا نہ ملے اس کو بھرنا چاہیے تو ایسی حالت میں مسلمانوں کو پیٹ بھرنے کی تو کچھ فکر کرنی چاہئے گی اور فکر کیا ہو گی، اس کا خیال بڑے دینداروں کی نسبت تو یہ ہو سکتا ہے کہ کسی کے گھر چھیتری ڈھو رہے ہیں، کسی جنگل میں گھانس چھیل رہے ہیں، کسی پہاڑ پر لکڑیاں چن رہے ہوں گے، کسی کا گھوڑا مل رہے ہوں گے اور جو ایسے پکے دیندار نہیں ہیں، ان کی نسبت کچھ خیال نہیں ہو سکتا کہ وہ کیا کیا کریں گے۔ معلوم نہیں کہ ان سے جیل خانے اور جزائر نو آباد بھریں گے یا یتیم خانے اور کلیسا رونق پاویں گے۔ پس ایسی حالت میں خیال کرنا چاہئے کہ دین اسلام کی کیا شان ہو گی اور اس وقت ہم سلام کریں گے اور پوچھیں گے کہ کیوں جناب قبلہ و کعبہ ہم جو مسلمانوں میں دنیوی ترقی و تہذیب، تربیت و شائستگی میں کوشش کرتے تھے وہ ہمارا امر معاش میں مہنمک ہونا اور ترغیب دینا اور امر معاد کی طرف سے بالکل ذھول اور غفلت کا پردہ ڈالنا تھا یا یہ کام خاص خدا کا اور بالکل دین کا اور سر تا سر معاد کا تھا؟ خدا تعالی نے مذہب اسلام کو عین حکمت بنایا ہے، اس کی بھلائی چاہنے والے کو ضرور ہے کہ وہ بھی حکیم ہو، نہ مکار اور دغا باز، اور حکیم کا یہ کام ہے کہ جو مرض دیکھتا ہے اس کی دوا کرتا ہے۔ اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ امور معاش و تمدن و حسن معاشرت اور علم کی ابتری و خرابی کے سبب روز بروز خراب و ذلیل و حقیر و برباد ہوتے جاتے ہیں اور یہ واعظ و مولوی اور پیر جی خدا و رسولؐ کے دشمن ان کو روز بروز برباد و تباہ کرتے جاتے ہیں۔ پس ایسی حالت میں کہ ہم بخوبی یقین کرتے ہیں کہ وہ، یعنی مسلمان یقینی اپنے مذہب پر پختہ ہیں، خدا کو ایک جانتے ہیں، رسولؐ کو برحق سمجھتے ہیں، نماز، روزہ، حج، زکوۃ، فرض جانتے ہیں، ایک ایک جولاھا بھی ضروری نماز روزے کے مسئلے جانتا ہے یا ہر طرح پر اس کے جاننے کا سامان یا موقع موجود ہے، مذہب اسلام کے دوست دار کا یہ کام ہے کہ اپنے تئیں پیر جی یا حضرت صاحب یا مولوی صاحب کہلانے اور دغا بازی سے دنیا کمانے کے لیے انہی باتوں کا جن کی ضرورت نہیں ہے، بیٹھا ہوا وعظ کہا کرے یا جن کی ضرورت درحقیقت مسلمانوں کو اور خود اسلام کو ہے اس کی تدبیر اور کوشش کرے؟ افسوس خدا ہاتھ نہیں آتا، جناب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا میں موجود نہیں ہیں، ورنہ ایک ایک کا ہاتھ پکڑ کر ان کے سامنے لے جاتا اور کہتا ’’او خدا! اور اے جناب رسولؐ خدا! تم مجھ میں اور ان میں محاکمہ کرو اور بتاؤ کہ کون تمہارا دوست دار ہے؟ میں گنہگار یا یہ دیندار‘‘ اور ان شاء اﷲ تعالیٰ اگر خدا سچ ہے اور قیامت درست ہے تو یہ معرکہ ہونا ہے، لیکن با ایں ہمہ اگر کوئی مباہلہ پر آمادہ ہو تو میں مباہلہ کو موجود ہوں۔ تعجب کی بات ہے کہ اس بات پر کوشش کرنا کہ مسلمانوں میں قومی ترقی ہو، علوم دینی قائم رہیں، علوم دنیاوی جو مفید و بکار آمد ہیں ان کا رواج اور ترقی ہو، لوگ معاش سے فارغ البال ہوں، اکل حلال پیدا کرنے کے وسیلے ہاتھ آویں، حسن معاشرت میں جو نقص ہیں وہ رفع ہوں، جن بد رسموں اور خراب عادتوں سے غیر قومیں مسلمانوں کو اور اسلام کو حقیر و ذلیل سمجھتی ہیں وہ موقوف کی جاویں، جو خلاف شرع تعصبات و توہمات ہیں اور ہر طرح کی ترقی کے مانع ہیں وہ دور کیے جاویں، ان تمام باتوں کو محض دینداری اور جب قومی سے نہ سمجھنا اور انہماک دنیا کا الزام دینا کس طرح خدا کے نزدیک درست ہو گا؟ باقی رہا اختلاف بعض مسائل میں وہ ایک جدا بات ہے۔ میں جس مسئلے کو حق اور سچ سمجھتا ہوں بلا خوف اس کو کرتا ہوں۔ بقول شخصے ’’از خدا شرم دار و شرم مدار‘‘ ان مسائل میں سے جب کوئی مسئلہ کسی صاحب کی تحریر یا تقریر سے غلط ثابت ہو گا مجھ کو اس کا اقرار کرنے اور توبہ کرنے میں ایک لمحے کی بھی خدا نے چاہا تو دیر نہ ہو گی۔ واﷲ ولی التوفیق۔ یہ امور جو میں نے لکھے مجھ کو لکھنے زیبا نہ تھے، مگر بہ مجبوری جو کچھ اپنی نیت اور اپنا ارادہ اور قصد ہے، اس کا عام طرح پر ظاہر کرنا ضروری تھا، اس لیے دو چار حرف اسی سختی سے جو میرے دل میں ہے لکھے گئے ہیں، تاکہ میرے مخالف اور موافق سب اس پر غور کریں۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ہندوستان کے معزز خاندان (اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڈھ ۷۔ اپریل ۱۸۷۶ھ) جو عنوان ہم نے اس مضمون کے واسطے تحریر کیا ہے، گو بادی النظر میں اس کو دیکھنے سے ہندوستانیوں کو ایک نوع کی خوشی ہو گی اور ان کو اپنی عزت کے تصور کرنے کا موقع ملے گآ، لیکن جب وہ ہمارے اس مضمون کو نظر بصیرت سے دیکھیں گے تو بلاشبہ ان کو نہایت افسوس ہو گا۔ ہر ملک کے شرفاء اس ملک کی عزت اور رونق اور کمال کا باعث ہوتے ہیں، مگر ہم کو افسوس ہے کہ ہمارے ملک کے شرفاء کی حالت موجب ذلت و رسوائی ہے۔ جب ہم اپنے ملک کے ان نامی گرامی خاندانوں پر نظڑ ڈالتے ہیں جو ایک زمانے میں معدن علم و ہنر و مخزن فضل و کمال تھے تو اب وہی خاندان سب سے زیادہ ننگ و عار معلوم ہوتے ہیں اور جن لوگوں کے آباء و اجداد نے صرف علم و عقل کے سبب سے کبھی شرف حاصل کیا تھا، وہی لوگ اب علم و عقل سے ایسے بے بہرہ ہیں کہ ان کو ننگ خاندان کہنا کجھ بے جا نہیں ہے، مگر نہایت افسوس ہے کہ اب تک ایسے لوگوں کو اپنی خاندانی عزت اور قدیمی عزت کی بربادی کا کچھ افسوس نہیں ہے، بلکہ وہ بالکل نشہ غفلت میں سرشار ہیں اور جہل و خام فہمی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ بہت زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ جس قدر ان کے فضل و کمال اور خاندانی اعزاز کی کمی ہوتی ہے، اسی قدر ان کے دماغ نخوت و تکبر کے بدبودار دھوئیں سے سیاہ ہوتے چلے جاتے ہیں اور یہ ایک نہایت افسوس کے لائق حالت ہے۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شرافت انسان کی کوئی جبلی صفت ہے جو ہمیشہ بقائے ذات تک باقی رہ سکتی ہے اور اسی وجہ سے وہ اپنی ذات کو گویا ایک تودۂ شرافت خیال کرنے سے متکبر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے خالی دماغ اس خیال سے بھرے ہوئے ہیں کہ ہمارے آباء و اجداد کی عزت بھی صرف اسی خیالی شرافت پر مبنی تھی جو ہم کو حاصل ہے اور اسی وجہ سے وہ اب تک اپنی ذات کو اسی قسم کی تعظیم کا مستحق خیال کرتے ہیں جس کے ان کے آبا و اجداد مستحق تھے۔ ان کی خیالی شرافت نے ان کو یہ سمجھا دیا ہے کہ دنیا کی تمام قسم کی عزتیں قومی شرافت کے تابع ہیں اور کوہی عزت نام کی شرافت پر غالب نہیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ اس بات سے بے پروا ہیں کہ اور کسی قسم کی عزت کو حاصل کریں۔ سب سے زیادہ بے پرواہ تحصیل علوم سے وہی لوگ ہیں جو قوم کے شریف کہلاتے ہیں اور اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ ان کو ایسا بے پروا صرف ان کی شرافت کے گھمنڈ نے کر دیا ہے۔ مسلمانوں کی قوم میں کوہی صرف اس بات پر نازاں ہے کہ ہم سید ہیں، آل رسول ہیں اور اس ناز نے ان کو دین و دنیا دونوں قسم کی عزت حاصل کرنے سے روک رکھا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بداعمالی سے نہیں ڈرتے اور عقبیٰ میں بھی سید ہونے پر ناز کرتے ہیں، حالانکہ یہ ان کا خام خیال ہے۔ سیدوں سے شیخ ہونا یا اور کسی قسم کی خاندانی عزت رکھنا ایسی نعمت سمجھا گیا ہے کہ ایسا شخص باوجود تمام قسم کی ذلتوں کے بھی اپنے تئیں سب سے بہتر خیال کرتا ہے اور یہ ایک بڑی خرابی اور نہایت سخت تاریکی ہے جس سے ہزاروں نسلیں اس قدر خراب ہو گئی ہیں کہ اب ان میں بجز صورت کے اور کسی طرح کا جانوروں سے فرق نہیں رہا۔ فضل کی دولت سے مالا مال کرتے چلے جاتے ہیں اور انہوں نے اپنے تئیں باعتبار افعال و عادات کے یقیناً شریف ثابت کر دیا ہے اور اس کاسبب وہی ہے جو ہم نے پہلے بیان کیا ہے جاہل شریف اپنے نفس سے ایسے فریب کھائے ہوئے ہیں کہ ان کے نزدیک شریف ہونا اور جامع جمیع صفات ہونا ایک معنی رکھتا ہے۔ پس ان کو بعد شرافت کے اور کسی صفت کے حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے اور جو لوگ اپنے تئیں شریف نہیں سمجھتے وہ ضرور یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم کو کوہی ایسی صفت حاصل کرنی چاہئے جو ہم کو عزت والا اور صاحب وجاہت بنا دے۔ پس اس سبب سے یہ محروم ہیں اور وہ کامیاب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ علاوہ ایسے خاندانوں کے بعض اور خاندان اور قسم کی عزتوں کے ساتھ مشہور ہیں، وہ بھی نہایت خراب ہیں، مثلاً مسلمانوں میں کوئی خاندان نواب زادوں کا ہے، کوئی خاندان امیر زادوں کا ہے، کوئی خاندان مفتی صاحبوں کا، کوئی قاضی صاحبوں کا ہے اور اب انہیں خاندانوں میں جس قدر ذلت سمائی ہوئی ہے ایسی کسی خاندان میں نہیں ہے اور باوجود ذلت کے ایک خاندانی نخوت ایسی چیز ہے کہ اس نے بالکل ایسی قوموں کو ذلیل و خوار کر دیا ہے۔ نواب زادے اگرچہ بھیک مانگتے ہوں، لیکن اب بھی اپنے نام کے ساتھ نواب صاحب ضرور لگا دیں گے، گو ان کی صورت و سیرت میں کوہی شان نوابی کی نہ ہو۔ مفتی صاحبوں کا غلام بھی مفتی کہلاتا ہے اور قاضیوں کے گھر کے چوہے بھی قاضی ہی ہوتے ہیں، گو اب مفتی اور قاضی ہونا تو دوسری بات ہے حرف شناس بھی نہ ہوں اور اس لقب پر ان کو ایسا ناز ہے کہ اس کے سبب سے وہ ہر گز دنیا میں کسی کو اپنے برابر نہین سمجھتے، بلکہ یہ بات بالیقین ثابت ہو کئی ہے کہ یہ لقب ہی ان کو عزت حاصل کرنے کے مانع ہو گئے ہیں۔ وہ ضرور اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ جو عزت مفتیوں کو اور قاضیوں کو کبھی حاصل تھی وہ اب بھی ہمارے واسطے ویسی ہی باقی ہے اور جس طرح پہلے مفتیوں اور قاضیوں کے سامنے سب سرجھکاتے تھے، اب ہمارے سامنے جھکاویں گے۔ پس یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ ہم کسی کے سامنے سر جھکاویں؟ اور چونکہ اعزاز اور فخر کا حصول بغیر دوسروں کی اعانت اور بغیر فراہمی اسباب کے ممتنع ثابت ہو کیآ ہے، اس لیے اس قسم کے خیال کے لوگ بالکل وحشی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ آباء و اجداد میں سے صرف ایک شخص کا ذی عزت ہو کر مر جانا تمام عمر، بلکہ تابقائے عالم اس کی نسل کی عزت کے واسطے کافی ہے اور یہ سب خیالات ایسے افسوسناک ہیں کہ ان کے سبب سے ہندوستان سب ملکوں کی بہ نست کمتر درجے پر سمجھا جاتا ہے اور ہندوستانی شرفاء کے خاندان تباہ اور نیست و نابود ہوتے جاتے ہیں۔ ایک اور بڑا نقصان خیالی شرافت کے سبب سے یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ ایسے شریف میں نصیحت قبول کرنے کا مادہ بالکل نہیں رہتا اور اس کی دانست میں کوئی شخص ان سے زیادہ روشن رائے نہیں ہو سکتا اور یہ سب امور نہایت حسرت کا باعث ہیں۔ مولوی اور طبیب اور پیر زادے جو مرجع کل ہوتے ہیں ان کو بھی بہت زیادہ ان کے آباء و اجداد کی عزت نے تباہ کیا ہے جس کے سبب سے وہ آج اپنے کو عرش بریں پر خیال کرتے ہیں، گو ان کے سراپا برکات تجسس کے بعد بالکل خیر و عافیت ہی کیوں نہ نکلے اور چونکہ ہمیشہ سے لوگ ان کے سامنے سر جھکاتے چلے آتے ہیں، اس سبب سے وہ اپنے تئیں مادر زاد ولی اور صاحب کمال خیال کرتے ہیں اور زبانی لن ترانیوں سے وہ ایسا ہی کام نکالنا چاہتے ہیں جیسا کہ کوہی ہنر مند اپنے ہنر سے کام نکالتا ہو اور آخرکار وہ خود بھی خراب ہوتے جاتے ہیں اور ان کی بدولت صدہا، زعم فاسد ہو جاتے ہیں۔ غرضیکہ ہندوستان کے شرفاء کی حالت نہایت افسوس کے لائق ہے۔ اگر اس وقت ہم غور کی نظر سے دیکھیں تو ہم کو ہندوستان میں ایسے معزز خاندان بہت ہی کم ملیں گے جن کی عزت صرف ان کے فضل و کمال و علم و عقل کے سبب سے کی جاتی ہو اور ایسے لوگ بہت زیادہ ملیں گے جن کی عزت صرف روپے پیسے کی بدولت ہو۔ پس ایسے امور کے حیال کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو مستحکم عزت علم و فضل اور سچے شریف خاندان کی بدولت ایک ملک کو ہونی چاہئے وہ ہر گز ہندوستان کو حاصل نہیں ہے، اگر ہے تو خیالی اور عارضی عزت ہے جس کا بقاء برات عاشقاں پر شاخ آہو، کا مضمون رکھتا ہے۔ نظر بریں ہندوستان جہاں تک اپنی بدقسمتی پر رووے اس کو زیبا ہے۔ اگر ہندوستان کے شریف خاندان بالکل نیست و نابود ہو کر دوو دام میں مل گئے اور ہندوستان کے خدمتی شرفاء پر حکمران اور غالب ہو گئے تو یہ انقلاب ہندوستان کو نہایت خراب کرے گآ اور اس ملک کو ایک مستحکم عزت کے حصول سے ہمیشہ ناامیدی رہے گی۔ پس کیا ہندوستان کے خاص شرفاء جو ابھی تک انسانیت کے جامے میں ہیں اس حال سے بالکل بے خبر ہیں؟ چونکہ ایک زمانے میں ہندوستان کے یہی شرفاء جن کو اب ہم نظر ذلت سے دیکھتے ہیں دینی اور دنیوی عزت سے مالا مال تھے اور ان کے علم و فضل نے دنیوی مال و دولت ہی ان کے تابع کر دیا تھا اس سبب سے ان کے خاندانوں پر تباہی زیادہ آئی، کیونکہ حالت عیش میں تو وہ اس بات سے مطمئن رہے کہ ہم اپنی اولاد کو جب چاہیں گے چشمہ علم و فضل بنا دیں گے اور ان کی اولاد کی یہ کیفیت ہوہی کہ اپنے آباء و اجداد کے بعد وہ اپنے حق میں ماں باپ کی عزت کو کافی سمجھے اور ایک زمانے تک عیش کرتے رہے، مگر چونکہ علمی فضْ و کمال کے سوائے اور تمام قسم کی نعمتیں نہایت سریع الزوال ہوتی ہیں اس سبب سے ان کے باپ دادے کا جمع کیا ہوا سامان اور دنیا کی دولت دوچار خاندانوں کے بعد زوال پذیر ہو گئی۔ پس اب ان کے پاس کچھ بھی باقی نہ رہا۔ علم و فضل سے وہ اس خیال سے محروم رہے اور دنیوی عزت سے وہ اس سبب سے محروم ہو گئے۔ پس وہ اب کورے امیر اور بے ملک نواب اور محض معرا مفتی و قاضی اور نرے سپاٹ مولوی اور بالکل سادہ حکیم صاحب اور نرے شیخ جی اور میر صاحب رہ گئے ہیں جو گپ مارنے اور قصہ بنانے کے سوائے اور کسی کام کے نہیں ہیں۔ پس کیا ہندوستان ایسے نوابوں سے رونق پذیر ہو سکتا ہے اور کیا ایسے قاضیوں اور مفتیوں سے اس کے اسلام کے شعار قائم رہ سکتے ہیں اور کیا ایسے طبیبوں سے وہ شہرت حاصل کر سکتا ہے؟ ایک اور خرابی ہندوستان میں یہ آ گئی ہے کہ اس کی کوئی قوم کسی خیال میں پاک صاف نہیں ہے، یعنی دنیوی اور دینی دونوں قسم کے خیال اس کے مخلوط اور خراب ہو گئے ہیں اور مذہبی خیالات تو بہت ہی بگڑ گئے ہیں جس کا سبب بجز جہل کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک معمولی اور مجرب بات ہے کہ جب انسان کسی خیال میں رسوخ کے مرتبے کو پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کو دوسری قسم کے انسان سے ملنے جلنے میں کچھ اندیشہ نہیں ہوتا اور اس کی قوت ممیزہ صحیح ہو جاتی ہے اور اگر قبل رسوخ وہ اس بلا میں گرفتار ہو تو پھر وہ عجیب حالت میں ہو جاتا ہے اور اس کے خیالات دوسری قسم کے خیالات سے مخلوط ہو کر مثل معجون مرکب کے ایک معتدل مزاج حاصل کر لیتے ہیں اور چونکہ رسوخ اور قوت ممیزہ کا حاصل ہونا صرف علمی قوت پر موقوف ہے، اس سبب سے ہندوستان کے لوگ بے علمی کی بدولت زیادہ خراب ہو گئے اور مختلف قسم کی قوموں میں میل جول رہنے سے وہ ایک عجیب تماشے کی چیز بن گئے۔ مذہبی قوت ان کی بے علمی نے خراب کر دی اور بجائے مذہبی قوت کے ان کے دل و دماغ میں تعصب کی قوت مستحکم ہو گئی اور ان سب امور کا اصل منشاء وہی خاندانی عزتوں کی نخوت ہوئی جس نے ان کو اس درجے تک پہنچایا ہے۔ ہم کو بہت افسوس ہے کہ اگر ایسا ہی حال رہا تو بہت ہی قریب زمانے کے بعد ہندوستان کی اس سے بھی زیادہ عجیب حالت ہو گی۔ دیکھو ہندوستانیوں نے اپنی غفلت سے اپنا علم بھی ضائع کر دیا اور اپنی قومی عزت کو بالکل برباد کر دیا اور اب تعلیم و تربیت کو بالکل بھول گئے اور اگر ان کی خوش قسمتی سے دوسری حکمران قوم نے ان کی تعلیم و تربیت کی فکر کی تو اس کے ذریعے سے ہندوستان کے معزز اور شرفاء نے بہت ہی کم فائدہ اٹھایا۔ انصاف کی نظر سے اگر دیکھا جائے تو جو فائدہ ہندوستان کے تمام لوگوں اور متفرق خاندانوں نے سررشتہ تعلیم سے حاصل کیا ہے اس کا عشر عشیر بھی خواص نے نہیں حاصل کیا ہے۔ مسلمانوں کی قوم تو اس سے بالکل بے بہرہ ہے۔ جس شہر کے کالج یا اسکول کو جا کر دیکھو، بلکہ اس کو بھی چھوڑ دو، تحصیلی یا حلقہ بندی کے مدارس میں تلاش کرو تو بہ نسبت ہندوؤں کے مسلمانوں کی تعداد نہایت قلیل ہو گی اور اس میں بھی شریف اور معزز مسلمانوں کی اولاد نام و نشان کو نہ ہو گی اور اس کا سبب بجز ان کی نخوت اور غفلت کے کچھ نہیں ہے۔ اگر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کچھ مذہبی خیال اس کا مانع ہو گا تو یہ بالکل غلط ہے، کیونکہ جن لوگوں کی اولاد مدارس سرکاری میں نہیں جاتی ہم نے ان میں سے کسی ایک کو بھی نیک اور پارسا ایسا نہیں دیکھا کہ وہ مسلمانوں کے مذہبی علوم کی طرف متوجہ ہو اور مسلمانوں کی مذہبی ہدایت کے موافق اس نے اپنے اخلاق پیدا کیے ہوں، بلکہ وہی خرابی اور ذلت ان کو گھیرے ہوئے ہے جو ہمیشہ سے ایسے جہلاء کو گھیرتی ہے اور وہ اسی میں مست ہیں اور دین و دنیا دونوں قسم کی عزت سے محروم ہیں۔ اگر کسی سے کہو کہ آپ کا لڑکا کچھ ریاضی حساب پڑھا ہے تو کہتے ہیں کہ لاحول ولا قوۃ الا باﷲ، اور اگر کہیں کہ صاحب قرآن حدیث پڑھا ہے تو کہیں کہ اجی صاحب ہم کیا اس کو مولوی بناتے، پھر اب ان سے پوچھو کہ تم نے کیا بنایا ہے؟ مولوی تم نے نہیں بنایا، دنیا دار تم نے نہیں بنایا کیا گدھا بنایا ہے جو ہمیشہ دوسروں کا بوجھ اٹھاوے گا؟ غرضیکہ ہندوستان کے شرفاء اور علی الخصوص مسلمانوں کی اور اس میں بھی معزز اور نامور خاندانوں کی حالت نہایت خراب اور رونے کے لائق ہے۔ جس شریف محلے میں فی زماننا گزر ہو گا بہت ہی کم ایسے مہذب بچے نظر آویں گے جن کو دیکھ کر دل خوش ہو۔ اگر نظر آویں گے تو نہایت بدمعاش اور آوارہ اور بد صحبت نظر آویں گے اور دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم فلاں قاضی صاحب اور مفتی صاحب کے لڑکے ہیں۔ ہم نے ایسے لوگوں سے ملاقات کی ہے جن کو دیکھ کر ہماری آنکھ سے بے اختیار آنسو نکل آیا ہے جن میں سے ایک شخص تھے کہ ہم نے ان سے ملاقات کی تو فرمایا کہ ہم مولوی حمد اﷲ کے پوتے ہیں یا نواسے ہیں اور ان کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ اپنے دادا حمد اﷲ کا نام صحیح نہیں لے سکتے تھے۔ ہم نے ایک نواب زادے کو جو ابھی غدر میں تباہ ہوا ہے دیکھا تو اب ہم کو شبہ ہوا کہ شاید یہ کوئی تمباکو فروش ہے اور نام پوچھا تو بجائے یوسف خاں کے ای سف خاں بتایا۔ ہم نے انشاء اﷲ خاں کے پوتے ہیں اور ہم کو ان کی حالت اور صورت سے ہر گز اس بات کا یقین نہ ہوتا تھا کہ ایسے نامور کی نسل میں بھی ایسا شخص ہو سکتا ہے۔ ہم نے بادشاہ زادے بھی دیکھے ہیں جو گولا کبوتر کو سیٹی پر لگانے اور طوطوں کو پنجروں پر اڑانے اور بٹیروں کو لڑانے کے سوائے اور کوئی نشان شاہزادگی نہ رکھتے تھے اور جب ہم نظر کرتے تھے تو ہم کو خود اعتراف کرنا پڑتا تھا کہ بلاشبہ یہ قوم ضرور تباہ ہونے کے لائق تھی اور خدا کا بڑا رحم تھا جو ایسے لوگ ہماری گردنوں کے مالک اور ہم پر حکمران نہ رہے، کیونکہ اگر ہمارے ایسے ہی حکمران رہتے تو ہم اپنی زندگی کو کسی طرح انسان کی طرح بسر نہ کر سکتے۔ جب ہندوستان کے شاہزادے ایسے ہوں تو اب قیاس کرنا چاہئے کہ اس کے مفلس زادے کیسے ہوں گے اور جب یہاں امیر و غریب سب ایسے ہوں تو کیونکر خدا کا عدل و رحم اس بات کا مقتضی ہو سکتا تھا کہ وہ ایسے لوگوں کے ہاتھ سے اس ملک کو نکال کر ایک دوسری قوم کے ہاتھ میں نہ دیتا۔ اس مین شک نہیں ہے کہ شاہزادے بھی خدا کے بندے تھے، مگر جو ان کے محکوم تھے وہ بندے تعداد میں ان سے بہت زیادہ تھے۔ پس ایسے حاکموں کو اس قدر محکوموں پر ایسی حالت کے ساتھ کیونکر باقی رکھ سکتا تھا؟ بہت زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ اب بھی ہندوستان کی آنکھ اس غفلت کی نیند سے نہیں کھلی۔ ابھی تک ان کے سروں پر وہی جہالت کا پھنگا چل رہا ہے اور ان کا نفس امارہ اس کو بڑی کوشش سے کھینچ رہا ہے اور وہ اس کی ٹھنڈی ہوا کو قطع نہیں ہونے دیتا کہ وہ غافل بے چین ہو کر نہ اٹھ بیٹھیں جن کو اس نے بڑی کوششوں سے اب تک سلا رکھا ہے اور اس میں شک نہیں ہے کہ اگر ان کا نفس امارہ ان کو جاگنے دے اور اس خواب غفلت سے اٹھا دے تو جو حکومت اس کی ان پر اب ہے وہ ہر گز باقی نہیں رہ سکتی۔ پس یہ نفس امارہ ان کی بہ نسبت بہت زیادہ ہوشیار ہے جو اپنے آپ کو ذلت میں پھنسا نہیں جانتا۔ ہم خیال کرتے ہیں کہ ہمارے زمانے کے بعض سنجیدہ لوگوں کا یہ مقولہ نہایت صحیح ہے کہ تھوڑے عرصے کے بعد ہندوستانی بجائے بیل اور گدھے کے کام دیں گے۔ پس گو یہ مقولہ علی العموم صحیح نہ ہو۔ مگر ہندوستان کے شرفاء تو ضرور ایسے ہی ہو جاویں گے۔ اس وقت دس حصہ زیادہ افسوس ہو گا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ایک تدبیر مسلمانوں کے خاندان کو تباہی اور بربادی سے بچانے کی (تہذیب الاخلاق بابت ذی قعدہ ۱۲۹۶ھ) چونکہ مسلمان خاندانوں کی حالت روز بروز خراب ہوتی ہوتی جاتی ہے اور جو امیر اور ذی مقدور خاندان تھے ان کی اولاد نہایت غریب و مفلس ہو گئی ہے اور جو باقی ہیں دو پشت میں ان کی جائیدادیں اور ریاستیں بھی سب برباد اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر قرضے میں بک جاویں گی، اس لیے مجھ کو اس بات کا خیال پیدا ہوا ہے کہ کوئی ایسی تدبیر کی جاوے جس سے مسلمانوں کی ریاستیں قائم رہیں اور مسلمانوں میں رئیس و ذی مقدور لوگ دکھائی دیں جن سے مسلمانوں کی قوم کی عزت اور امتیاز قائم رہے اور وہ تدبیر بھی ایسی ہونی چاہئے کہ سنی اور شیعہ دونوں فریق کے فقہ کے مطابق ہو اور دونوں فریق کے مسائل مسلمہ مذہب کے برخلاف نہ ہو۔ مسلمانوں کی ملکیت میں جو جائیداد ہوتی ہے شرع کے مطابق اس کی دو حالتیں ہوتی ہیں، ایک زمانۂ حیات مالک میں اور ایک بعد از وفات مالک کے۔ زمانۂ حیات میں ہر مالک کو از روئے شرع کے جائیداد کی نسبت اختیار کامل ہوتا ہے، چاہے ہو اس کو بیع کر ڈالے، چاہے کسی کو بخش دے، چاہے وقف کرے، چاہے ایک ثلث کی پابندی قواعد شرع وصیت کرے۔ بعد وفات کے اس کی جائیداد اس کے وارثوں میں حسب فرائض تقسیم ہو جاتی ہے۔ وراثت کا مسئلہ بموجب شرع کے ایسا مستحکم ہے کہ کوئی مسلمان اس کی بجا آوری سے انکار نہیں کر سکتا اور کوہی شخص اس میں دست اندازی کا مجاز نہیں ہے۔ ضرور ہے کہ وہ اسی طرح تسلیم کیا جاوے اور بجنسہ بجا لایا جاوے جس طرح کہ قرآن مجید اور کتب فقہ میں مندرج ہے۔ وصیت کا مسئلہ بھی قریب قریب وراثت کے مسئلے کے ہے، یعنی کسی شخص کو ثلث مال سے زیادہ وصیت کا اختیار نہیں ہے اور نہ ذی الفروض کے حق میں اس کو وصیت کرنے کا اختیار ہے اور یہ مسئلہ بھی مثل مسئلہ وراثت کے ایسا ہے کہ نہ اس میں کوئی دست اندازی کر سکتا ہے اور نہ اس سے افکار کر سکتا ہے۔ مگر وقف کا مسئلہ جس کا اختیار مالک کو بموجب شرع کے اپنی حیات میں حاصل ہے غور کے قابل ہے۔ شیعہ اور سنی دونوں مذہب کی فقہ کی کتابوں میں وقف دو قسم کا قرار دیا گیا ہے۔ ایک وقف واسطے امورات مذہبی کے اور دوسرا وقف واسطے اپنے اور اپنے اہل و عیال کی پرورش کے۔ اس دوسری قسم کے وقف کے لیے فقہ کی کتابوں جداگانہ ابواب اور جداگانہ احکام مندرج ہیں۔ چنانچہ فناوی عالمگیری میں جو خاص باب اس پچھلی قسم کے وقف کے لیے متعقد کیا گیا ہے اس کا یہ عنوان ہے ’’یاب فی الوقف علیٰ نقسہ و علیٰ اولا دہ و نسلہ‘‘ یعنی یہ باب ہے جائیداد کو اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اور اپنی نسل کے لیے وقف کرنے میں۔ غرضیکہ شیعہ و سنی دونوں مذہب کی رو سے ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی جائیداد کو اپنے لیے اور اپنی اولاد اور اپنی نسل کے لیے وقف کر دے۔ یہ ایک مسلمہ مسئلہ دونوں مذہبوں کا ہے۔ اس طرح پر جائیداد کے وقف کرنے سے بموجب شرع کے یہ نتیجہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ جائیداد نہ بیع ہو سکتی ہے اور نہ وراثت میں تقسیم ہو سکتی ہے، ہمیشہ قائم و برقرار رہتی ہے۔ اہل خاندان میں سے ایک شخص اس قاعدے اور اس ترتیب سے جو مالک جائیداد نے مقرر کیا ہو، یکے بعد دیگرے جائیداد پر بطور جانشین یا متولی کے قابض ہوتا ہے اور اس کی آمدنی میں سے بموجب اس طریقہ و مقدار کے جو مالک نے قرار دیا ہو خود بھی لیتا ہے اور بقیہ ان لوگوں کو اس طریقہ و مقدار سے دے دیتا ہے جو مالک جائیداد نے بروقت وقف کے قرار دیا ہو۔ بڑی عمدگی اس میں یہ ہے کہ مالک جائیداد اپنی زندگی تک جائیداد کی آمدنی لینے اور خرچ کرنے کا مجاز رہتا ہے اور اس کی وفات کے بعد جانشین یا متولی کے قبضے میں جاتی ہے، مگر وقف کرنے کے بعد خود واقف کو بھی اس جائیداد کے انتقال کرنے کا حق نہیں رہتا۔ چنانچہ اس باب میں جو روایتیں کتب فقہ میں مندرج ہیں ذیل میں مندرج کی جاتی ہیں۔ روایات فتاویٰ عالمگیری (۱) رجل قدل ارضی صدقۃ موقوفۃ علیٰ نفسی یجوز ہذا لوقف۔ ترجمہ: ایک شخص نے کہا کہ میری زمین میرے لیے وقف ہے تو ایسا وقف جائز ہے۔ (۲) ولو قال وقفت علیٰ نفسی ثم من بعدی علیٰ فلان ثم علی الفقراء جاز۔ (ترجمہ): اگر ایک شخص نے کہا کہ میں نے اپنی زمین کو اپنے نفس کے لیے اور میرے بعد فلاں شخص کے لیے، پھر محتاجوں کے لیے وقف کیا تو یہ وقف جائز ہے۔ (۳) ولو قال ارضی موقوفۃ علیٰ فلان و من بعدہ علیٰ اوقال علیٰ و علیٰ فلان او علیٰ عبدی و علیٰ فلان المختار انہ یصح۔ (ترجمہ): اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میری زمین فلاں شخص کے لیے وقف ہے اور اس کے بعد میرے لیے یا میرے لیے اور فلاں شخص کے لیے یا میرے غلاموں اور فلاں شخص کے لیے تو مذہب مختار یہ ہے کہ وقف صحیح ہے۔ (۴) وکذا لو قال علیٰ ولدی و علیٰ من یحدث لی من الولد فاذا انقرضوا فعلیٰ المساکین۔ (ترجمہ): اور اسی طرح وقف صحیح ہے اگر کوئی کہے کہ میں نے اپنی زمین اپنے بیٹے کے لیے اور اس بیٹے کے لیے جو آئندہ پیدا ہو وقف کی ہے۔ مگر جب وہ نہ رہیں تو وہ وقف مساکین کے لیے ہو جائے گا۔ (۵) ولو قال ارضی ہذہ صدقۃ موقوفۃ علیٰ من یحدث من الولد و لیس لہ ولد یصح۔ (ترجمہ): اگر کوئی شخص کہے کہ میری یہ زمین اس بیٹے کے لیے وقف ہے جو پیدا ہو گا، حالانکہ بالفعل اس کے کوئی بیٹا نہیں ہے تو یہ وقف صحیح ہے۔ (۶) و ان قال علیٰ ولدی وولد ولدی وولد ولد ولدی ذکر بطن الثالث فانہ یصرف الغلۃ الیٰ اولاد ابدا ماتنا سلوا ولا یصرف الی الفقراء ما بقی احد یکون الوقف علیھم و علی من اسفل منھم الاقرب و الا بعد فیہ سواء الا ان یذکر الواقف فی وقفہ الاقرب فالا قرب او یقول علیٰ ولدی ثم من بعد ہم علی ولد ولدی ثم او یقول بطنا بعد بطن فیحنئذ یبداء بما بداء الواقف۔ (ترجمہ): اگر کوئی کہے کہ میری یہ زمین وقف ہے میرے بیٹے کے لیے اور بیٹے کے بیٹے کے بیٹے کے لیے، یعنی تین پشت تک اس نے بیان کر دیا تو اس کی آمدنی ہمیشہ اس کی اولاد صرف کرے گی جب تک کہ اولاد ہوتی رہے اور اگر ایک بھی ان میں سے باقی رہے تو محتاجوں کو نہ دی جاوے گی۔ یہ وقف انہی کے لیے ہو گا اور ان کے لیے جو ان سے نیچے کی پشت میں ہیں اور قریب و بعید اس میں برابر ہوں گے، مگر اس صورت میں کہ وقف کرنے والے نے وقف کرتے وقت یہ کہا ہو کہ اول سب سے قریب، پھر اس کے بعد جو قریب ہیں یا یہ کہا ہو کہ میرے بیٹوں کے لیے اور پھر ان کے بعد بیٹوں کے بیٹوں کے لیے یا یہ کہا ہو کہ پہلی پشت کے لیے اور پھر اس کے بعد کی پشت کے لیے تو ایسی حالت میں اسی طرح پر شروع ہو گا جس طرح پر کہ وقف کرنے والے نے شروع کیا ہے۔ (۷) و کذا لو قال علیٰ نسلی و ذریتی فھو جائز، (ترجمہ): اگر کسی شخص نے کہا کہ یہ وقف ہے میری نسل کے لیے اور میری ذریت کے لیے تو یہ وقف جائز ہے۔ وقف کرنے کے بعد امام ابو حنیفہؓ کے نزدیک وقف لازم نہیں ہوتا، جب تک کہ قضائے قاضی، یعنی حکم حاکم اس کی نسبت نافذ نہ ہو، مگر صاحبین (امام ابو یوسف و امام محمد) کے نزدیک وقف لازم ہو جاتا ہے، جیسے کہ عالمگیری کی مندرجہ ذیل روایت سے ثابت ہوتا ہے:۔ (۸) و عند ھما حبس العین علیٰ حکم ملک اﷲ اعلیٰ وجھہ یعود منفعۃ الی العباد فیلزم و لایباع ولا یو ھب ولا یورث۔ (ترجمہ): یعنی امام محمد اور قاضی ابو یوسف کے نزدیک، وقف کے معنی جائیداد کو خدا کی ملکیت کے طور پر مقید کرنا ہے اس طرح پر کہ اس کی منفعت لوگوں کو پہنچے۔ پس وقف لازم ہو جاتا ہے اور وہ جائیداد نہ بیع ہو سکتی ہے نہ ہبہ ہو سکتی ہے اور نہ اس میں وراثت جاری ہوتی ہے۔ حنفی مذہب کی رو سے وقف مؤبد، یعنی ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے، صرف امام محمد کے نزیدک اس کو دوامی کر دینا ضروری ہے اگر دوامی نہیں کیا تو وقف صحیح نہیں ہے، مگر قاضی ابو یوسف کے نزدیک دوامی کر دینے کو بیان کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ جب وقف کر دیا تو وہ دوامی ہی ہو جائے گا جیسے کہ عالمگیری کی مندرجہ ذیل روایت میں ہے:۔ لو قال، ارضی ہذہ موقوفۃ علیٰ فلاں او علیٰ ولدی اوفقراء قرابتی و ھم یحصون او علیٰ الیتا منی ولم یرد بہ جنسہ لا یصیر وقفا عند محمد لانہ وقف علیٰ شیئی ینقطع و ینقرض ولا یتا بد و عند ابی یوسف یصح لان التابید عندہ لیس بشرط ان قال ارضی او داری ہذہ صدقۃ موقوفۃ علیٰ فلان او علیٰ اولاد فلان فالغلۃ لہم ما دامودا احیاء و بعد الممات یصرف الہی الفقرائ۔ (ترجمہ): اگر کسی شخص نے کہا کہ میری یہ زمین فلاں شخص کے لیے یا میرے بیٹے کے لیے یا فقیر محتاج میرے رشتہ داروں کے لیے جو محصور ہیں یا یتیموں کے لیے وقف ہے اور اس سے کوئی سی اولاد یا کوئی سا رشتہ دار یا کوئی سا یتیم مراد نہ لی ہو تو امام محمد کے نزدیک وہ وقف نہیں ہے کیونکہ اس نے جائیداد کو ایس شئے پر مقید کیا ہے جس کا سا سلسلہ ٹوٹ جانا ہے اور ختم ہو جاتا ہے اور ہمیشہ قائم نہیں رہتا اور قاضی ابو یوسف کے نزدیک ہمیشگی کی قید شرط نہیں ہے، اس لیے ان کے نزدیک وقف صحیح ہے۔ اگر کسی شخص نے کہا کہ میری یہ زمین یا میرا یہ گھر فلاں شخص کے لیے یا فلاں شخص کی اولاد کے لیے وقف ہے تو پیدوار ان لوگوں کی ہو گی جب تک وہ زندہ ہیں اور ان کے مرنے کے بعد وہ محتاجوں پر خرچ ہو گی۔ روایات شرایع الاسلام فقہ مذہب شیعہ شیعہ مذہب کے مطابق بھی اپنی اولاد اور نسل کے لیے وقف کرنا جائز ہے جیسے کہ شریع الاسلام کی مندرجہ ذیل روایت سے ثابت ہوتا ہے۔ و اذا وقف علیٰ اولادہ و اخونہ او ذی قرابۃ اقتضنی الاطلاق اشتراک المذکر و الناث و الادنیٰ والا بعد و التساوی فی القسمۃ الا ان یشترط ترتیباً او اختصاصاً او تفصیلا ولو وقف علی اخوالہ و اعمامہ تساووا جمیعا و اذا وقف علیٰ اقرب الناس الیہ فہم الایوان و الولدون و ان سلفوا فلا یکون لا حد من ذوی القرابۃ شیئی مالم یعدم المذکورون ثم الا جداد والا خوۃ و ان نزلوا ثم الا عمام و الاخوال علیٰ ترتیب الارث لاکن یتساوون فی الاستحقاق الا ان یعین التفصیل۔ (ترجمہ): جس وقت کہ وقف کیا کسی نے اپنی اولاد کے لیے اور اپنے بھائیوں کے لیے اور اپنے رشتہ داروں کے لیے تو بلا قید ہونے کے سبب سے مرد اور عورت اور قریب اور بعید سب شریک ہوں گے اور (محاصل) سب پر برابر بٹے گا، مگر اس صورت میں کہ وقف میں کسی قسم کی ترتیب یا خصوصیت یا تفصیل لگا دی ہو اور اگر اپنے ماموں اور خالہ اور چچا اور پھوپھی کے لیے وقف کیا ہے تو سب برابر ہوں گے اور جب کہ اپنے قریب تر شخص کے لیے وقف کیا ہو تو ماں باپ اور بیٹے اور جو ان سے نیچے ہوں قریب ہیں تو اس صورت میں رشتہ داروں کو کچذ نہ ملے گا جب تک کہ وہ رشتہ دار جن کا ذکر ہوا معدوم نہ ہو جائیں۔ پھر اجداد اور بھائیوں کو ملے گا اور جو ان سے نیچے ہیں، پھر چچا اور پھوپھی اور خالہ اور ماموں کو وراثت کی ترتیب پر ملے گا، لیکن سب برابر پاویں گے، مگر اس صورت میں کہ تفصیل معین کر دی ہو۔ غرضیکہ سنی اور شیعہ دونوں مذہبوں کی مذکورہ بالا روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کی رو سے علاوہ مسئلہ وراثت و وصیت وقف واسطے امورات مذہبی کے اپنی جائیداد اور اپنی ریاست کو وقف خاندانی کرنے کا بھی اختیار حاصل ہے جس سے مندرجہ ذیل نتیجے پیدا ہوں گے: اول یہ کہ وہ جائیداد ہمیشہ کے لیے قائم و موجود رہے گی، کوئی شخص اس کو تلف نہ کر سکے گا۔ دوسرے یہ کہ جو جائیداد اس طرح وقف ہو گی اس میں وراثت جاری نہ ہو سکے گی، یعنی تقسیم نہ ہو گی، ہمیشہ بلا تقسیم بطور ریاست قائم و غیر منقسم رہے گی۔ تیسرے یہ کہ جس ترتیب اور قاعدے سے مالک جائیداد نے قرار دیا ہو اسی قاعدے اور ترتیب سے کوئی شخص، مثلاً بڑا بیٹا بطور متولی جانشین ہو گا اور جائیداد کی آمدنی میں سے جن جن لوگوں کو مالک جائیداد نے دینا تجویز کیا ہے اسی طرح پر دیتا رہے گا۔ چوتھے یہ کہ جانشین کی ترتیب بالکل یہ مالک جائیداد کی مرضی پر مقرر ہے اور شرع کی رو سے اختیار ہے کہ مالک جائیداد جو مناسب سمجھے اس کے مطابق طریقہ جانشینی مقرر کرے، کچھ ممانعت شرع میں نہیں رہی۔ پانچویں یہ کہ مالک جائیداد کو اختیار ہے کہ جس میں مقدار سے کہ مناسب سمجھے اور جس جس کے لیے مناسب سمجھے اس کی آمدنی مین سے سالانہ مقرر کرے، کوئی قید اور کچھ ممانعت شرع کی رو سے نہیں ہے۔ شرع کی رو سے صرف یہی ایک طریقہ ریاست کے محفوظ و قائم رکھنے کا ہے اور ہر شخص کے اختیار میں ہے کہ چاہے کرے چاہے نہ کرے۔ چنانچہ چند لوگوں نے جو اپنی ریاست و جائیداد کا ہمیشہ قائم رکھنا چاہا ہے اسی طریقے پر، مگر بری طرح و ناسمجھی سے عمل درآمد کیا ہے۔ امروہہ ضلع مراد آباد میں علی مظفر خاں نے اور جون پور میں حاجی امام بخش نے اور آگرہ میں میر نیاز علی صاحب نے اور ڈھاکہ میں نواب خواجہ احسن اﷲ خان بہادر سی ایس آئی نے اور اسی طرح اور لوگوں نے دیگر اضْاع میں اسی قسم یا اس کے مشابہ طریقے میں اپنی ریاست کے ہمیشہ قائم رھنے کی تدبیریں کی ہیں، مگر اس طرح خانگی طور پر بندوبست کرنے میں مندرجہ ذیل نقصانات پیش آتے ہیں: اول یہ کہ نا سمجھی سے وقف ایسے طریقے پر کیا ہے اور قاعدہ جانشینی ایسے خراب طور پر قرار دیا گیا ہے جس میں ہزاروں خلشیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ وہ نہیں سمجھ سکتے کہ کیا قاعدہ کلیہ مقرر کیا جاوے جس سے دوام کے لیے ایک مستحکم قاعدہ جانشینی قرار پاوے جو غیر مشتبہ ہو اور کبھی نزاع برپا نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ اس طرح پر وقف کر دینے سے کوئی حکم حاکم وقت کا اس کی منظوری کی بابت نہیں ہو سکتا جو موجب قول امام ابو حنیفہؓ کے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے ضروری ہے۔ تیسرے یہ کہ ہمیشہ ایسے وقف کے فرضی و قریبی ہونے کا الزام لگا کر اس کی منسوخی کے دعوے عدالت میں دائر کیے جاتے ہیں اور ہزارہا روپیہ خرچ پڑ جاتا ہے اور چونکہ درحقیقت یہ معاملہ ایسا نازک ہوتا ہے جس میں اس بات کا تصفیہ کہ وہ وقف فی الواقع نیک نیتی سے کیا گیا ہے یا فریب سے مشکل ہوتا ہے، اس لیے اکثر وہ وقف باطل قرار پاتا ہے جیسے کہ بمبئی کے صوبے میں بعض مقدمات کا حال ہوا ہے۔ چوتھے یہ کہ چونکہ اکثر جائیدادیں دیہات مالگزاری سرکاری ہوتی ہیں اور جب کوئی لائق جانشین زڑ مالگزاری سرکار نہ ادا کرے تو کوئی امر مذہبی یا قانونی اس جائیداد کے بعلت باقی مالگزاری نیلام ہو جانے کا مانع نہیں ہے۔ پس اگر یہ مسئلہ شرعی گورنمنٹ کی منظوری سے بذریعہ ایک قانون کے استحکام پا جاوے تو یہ تمام خرابیاں رفع ہو سکتی ہیں۔ میں صرف بنظر قومی بھلائی کے اس میں کوشش کرنا چاہتا ہوں اور اسی لیے میں نے ارادہ کیا ہے کہ کونسل گورنمنٹ آف انڈیا میں ایک ایسے قانون کے پیش کرنے کی تحریک کروں جس سے خاندانی وقف کا مسئلہ جو سنی و شیعہ کے مذہب کے مطابق ہے استحکام پا جاوے۔ چونکہ مجھے یقین کامل اس بات کا ہے کہ گورنمنٹ دل سے مسلمانوں کی بہتری اور مسلمانوں کی آسودگی اور ان کے رفاء و فلاح کی ایسی ہی خواہش مند ہے جیسی کہ اپنی باقی رعایا کی ہے، اس لیے مجھے امید ہے کہ گورنمنٹ بھی غالباً اس پر التفات فرمائے گی، مگر یہ سمجھنا چاہئے کہ خود گورنمنٹ ایسے قانون کی جیسا کہ خاندانی وقف کا مجوزہ قانون ہو گا، اپنی طرف سے موجد نہیں ہو سکتی اور نہ خود اپنے پر اس کی ذمہ داری لے سکتی ہے، بلکہ یہ بات صرف ذی عزت و صاحب وقعت ذی جائیداد مسلمانوں کی خواہش پر منحصر ہے۔ اگر شریف و عالی خاندان مسلمان کثرت سے ایسے قانون کے موجود ہونے پر اپنی خواہش ظاہر کریں تو میں ایسے قانون کی پیشی کی اجازت کی تحریک کر سکتا ہوں اور غالباً گورنمنٹ بھی بلحاظ خواہش و کثرت رائے شریفوں کے اس پر خیال کرے۔ پس میں نے یہ تمام حالات اس لیے چھاپے ہیں کہ مسلمان رئیس و شریف اس پر بخوبی غور کریں اور اپنی مرضی و خواہش سے مجھے مطلع فرمائیں۔ اس قانون میں مندرجہ ذیل مطالب ہوں گے دفعہ ۱۔ اس قانون کا نام قانون جائیداد موقوفہ خاندانی اہل اسلام رکھا جائے گا، لیکن اس قانون کا کوئی حکم ایسی جائیداد کے کسی مسئلہ شرعی وراثت پر موثر نہ ہو گا جو اس قانون کے ماتحت نہ کی گئی ہو۔ دفعہ ۲۔ لفظ مسلمان سے جو اس قانون میں مستعمل ہو گا اس مذہب کے کل فرقے مراد ہوں گے۔ دفعہ۳۔ ہر عاقل و بالغ مسلمان مجاز ہو گا کہ اپنی جائیداد کو جواز قسم زمینداری یا معافی دوامی ہو یا اس میں سے کسی قدر کو اس قانون کے ماتحت کر دے، بشرطیکہ: (۱)۔ جائیداد کلیۃً اور خالصۃً اسی کی ہو اور محض اسی کے خاص قبضہ مالکانہ میں ہو اور کلکٹری کے دفتر میں اسی کے نام پر مندرج ہو۔ (۲)۔ جائیداد مذکور ایک یا زیادہ محالات پر مشتمل ہو۔ (۳) جائیداد مذکورہ پر کوئی مواخذہ نہ ہو۔ (۴) جائیداد مذکورہ کے ذمے سرکاری مالگزاری باقی نہ ہو۔ (۵) جائیداد مذکورہ کی سالانہ نکاسی دس ہزار روپے سے کم نہ ہو۔ اس دفعہ سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی شخص خواہ نخواہ اس قانون کی تعمیل پر مجبور نہ ہو گآ، بلکہ جو شخص کہ چاہے کہ اس کی جائیداد ہمیشہ کو محفوظ رہے اس کو اختیار ہو گا کہ اپنی ریاست کو اس قانون کے متعلق کر دے۔ بلا لحاظ اس قانون کے جو مسئلہ وقف خاندانی کا مسلمانوں میں ہے اس کے مطابق بھی جائیداد کے وقف کرنے کا کچھ امتناع اس قانون سے نہ ہو گا، مگر جو خاص رعایتیں اس قانون میں کی گئی ہیں وہ اسی جائیداد سے متعلق ہوں گی جو اس قانون کے ماتحت کی گئی ہوں گی۔ یہ قانون جائیداد منقولہ اور جائیداد سکنی مثل مکانات و دکانات وغیرہ سے متعلق نہیں ہو سکنے کا، کیونکہ جو جائیداد اس قانون سے متعلق ہو گی ضرور ہے کہ وہ ایسی ہو جو ہمیشہ کو قائم رہے۔ اجزاء موضع مالگزاری بھی جب تک کہ ان کا بٹوارا مکمل نہ ہو لے اس قانون کے ماتحت نہیں ہو سکنے کی، اس لیے کہ جو دیہات اس قانون کے ماتحت ہو جائیں گے ان کے وصول مالگزاری کے لیے ایک خاص رعایت اس قانون میں کی گئی ہے اور اگر مالگزاری کی جواب دہی مشترکہ رہے تو وہ رعایت نہیں ہو سکتی، اس لیے یہ شرط لگائی گئی ہے کہ جو جائیداد اس قانون کے ماتحت ہو وہ پورا محال ہو۔ چونکہ مقصد اس قانون کے بنانے سے یہ ہے کہ مسلمان خاندانوں میں ہمیشہ ریاست قائم رہے، اس لیے ضرور ہے کہ کوئی حد مقرر کی جائے کہ کس قدر آمدنی کی جائیداد بطور ریاست قائم ہو، اس لیے وہ تعداد اختیار کی گئی ہے جو اودھ کے تعلقہ داروں کی ریاست کے لیے قرار دی گئی ہے۔ دفعہ۴۔ جو شخص کہ اپنی جائیداد کو اس قانون کے ماتحت کرنا چاہے گا اس کو صاحب کلکٹر کے سامنے درخواست دینی ہو گی۔ دفعہ۵۔ صاحب کلکٹر اپنے دفتر سے اس جائیداد کی نسبت تحقیقات کر کے حسب ضابطہ گورنمنٹ میں رپورٹ کرے گا۔ دفعہ ۶۔ اگر گورنمنٹ اس درخواست میں کوئی قانونی اعتراض نہ دیکھے گی تو ایک سند عطا کرے گی جس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ جائیداد بطور ریاست خاندانی کے اس قانون کے بموجب قرار دی گئی۔ دفعہ ۷۔ بعد اس کے اگر کوئی شخص چاہے گا کہ کوئی اور جائیداد اسی جائیداد میں شامل کر دی جاوے جو بموجب سند کے ریاست خاندانی بنائی گئی ہے تو اس کو ایسا کرنے کا اختیار ہو گا۔ دفعہ۸۔ جب کہ گورنمنٹ سے سند مل جائے تو وہ جائیداد اس قانون کے مطابق خاندانی ریاست منصور ہو گی۔ دفعہ۹۔ جب کوئی جائیداد اس قانون کے ماتحت ایک دفعہ ہو جاوے گی تو اس قانون کی تاثیر سے بجز ان خاص صورتوں کے جو آگے مذکورہ ہوں گی بری نہ ہو گی۔ دفعہ ۱۰۔ اس قانون کی مندرجہ ذیل تاثیر جائیداد کی نسبت ہو گی: (۱) وہ جائیداد مطابق اس مسئلہ شرعی کے جو مسئلہ ہشتم مذکورہ بالا میں بیان ہوا ہے، نہ بیع ہو سکے گی نہ ہبہ ہو سکے گی نہ وراثت میں تقسیم ہو سکے گی، بلکہ ہمیشہ یکجائی و غیر منقسم رہے گی، صرف ایک شخص بطور جانشین کے ہو گا اور جانشین صرف حین حیات منافع پانے والا جائیداد مذکور کا منصور ہو گا، یعنی جائیداد کے منافع کو صرف اپنی حین حیات تصرف میں لانے کا مجاز ہو گا اور اصل جائیداد کو بذریعہ بیع یا ھبہ یا وصیت کے یا کسی اور طرح پر منتقل کرنے کا مجاز نہ ہو گا جو جائیداد پر اس کی حیات کے بعد کوئی قانونی اثر پیدا کرے، البتہ ٹھیکہ سادہ دینے کا اختیار ہو گا، بشرطیکہ اس کی میعاد سات برس سے زیادہ نہ ہو۔ (۲) جانشین کی وفات کے بعد جائیداد اس کے وارثوں میں تقسیم نہ ہو گی، بلکہ جو قاعدے کہ اس قانون میں قرار دیئے گئے ہیں ان کے مطابق اس کے وارثوں میں سے ایک شخص منتخب ہو جائے گا۔ (۳) کسی عدالت کی ڈگری قرضہ سادہ کے اجراء میں جائیداد مذکورہ مستوجب نیلام نہ ہو گی اور باقی مال گزاری میں بھی نیلام نہ ہو گی۔ دفعہ ۱۱۔ اگر کوئی دوسرا شخص اپنی حقیت کی ڈگری اس جائیداد پر پا لے جس سے معلوم ہو کہ یہ جائیداد کل یا جزز اس شخص کی ملکیت نہ تھی جس نے جائیداد کو بطور ریاست خاندانی بنایا تھا تو اس قدر جائیداد جس پر ڈگری ہوئی اس قانون کی تاثیر سے بری ہو گی۔ دفعہ ۱۲۔ اسی طرح اگر کوئی ڈگری کفالت کے ماقبل کی ہو اور اس میں جائیداد نیلام ہو جاوے تو جائیداد نیلام شدہ بھی اس قانون کی تاثیر سے بری ہو جاوے گی۔ دفعہ ۱۳۔ اسی طرح اکثر کوئی جزو موضع ڈگری حقیت یا ڈگری کفالت ماقبل کے سبب سے نکل جاوے تو وہ کل موضع اس لیے کہ وہ غیر منقسہ رہ گیا اس قانون کی تاثیر سے بری ہو جاوے گی۔ دفعہ ۱۴۔ ۲۰ ان دفعت میں جو ڈگریاں قرضہ ذات جانشین پر ہوں ان کی نسبت مندرجہ ذیل قواعد بنائے گئے ہیں کہ وہ ڈگری عدالت سے کلکٹری میں منتقل ہو جاوے گی۔ کلکٹر جائیداد کو فرق کرے گا اور بعد ادائے مالگزاری سرکار بقیہ روپے میں سے جانشین اور اس کے خاندان کی گزران کے واسطے کچھ تجویز کرے گا اور بقیہ آمدنی ڈگری دار کو دی جائے گی۔ ایسی حالت مین وہ جانشین بعلت اجرائے ڈگری گرفتار نہ ہو گا اور نہ اس کی جائیداد قرق ہو گی۔ یہ انتظام تا ادائے ڈگری یا وفات جانشین موجودہ جائیداد قرقی سے واگذاشت ہو جاوے گی اور ڈگری داروں کا کچھ مطالبہ جائیداد پر نہ ہو گا۔ دفعہ ۲۱ و ۲۲۔ باقی مالگزاری کی علت میں ذات اور جائیداد منقولہ جانشین کی اور نیز منافع جائیداد کا تا ادائے باقی مواخذہ دار رہے گا اور اگر جانشین موجودہ مر جاوے تب بھی محاصل جائیداد سے باقی وصول کی جائے گی صرف اس قدر رعایت کی جائے گی کہ جو جائیداد اس قانون کے ماتحت کر دی جائے گی وہ بعلت باقی مالگزاری نیلام نہ ہو گی اور نہ یہ منسوخی بندوبست اس کا انتقال عمل میں آئے گا۔ طریقہ جانشینی دفعہ ۲۳ لغایت دفعہ ۲۸۔ جبکہ ایک مستحکم قانون بنایا جاتا ہے تو قاعدہ جانشینی کا مہمل اور مجمل نہیں چھوڑا جا سکتا بلکہ ضرور ہے کہ اس کے لیے قانون میں ایک مستحکم قاعدہ جانشینوں کے سلسلے کا بنایا جائے، تاکہ کوئی محل اشتباہ اور نزاع باقی نہ رہے، اس لیے اس میں یہ قاعدہ بنایا گیا ہے کہ جو شخص متوفی سے قرابت قریبہ رکھتا ہے اور عمر میں بڑا ہے اس شخص کو استحقاق جانشینی کا ہو گا۔ پرورشِ رشتہ داران دعفہ ۲۹ لغایت ۳۳۔ پرورش رشتہ داران کے لیے بھی قاعدے بنائے گئے ہیں۔ صوبہ اودھ میں جو ریاستیں تعلقہ داروں کی قائم کی گئی ہیں۔ ان کے رشتہ داروں کی پرورش کا طریقہ جو قانوناً قرار دیا گیا ہے وہ ہی طریقہ اس قانون میں بھی رکھا گیا ہے۔ چونکہ مقصد اس قانون سے یہ ہے کہ مسلمان خاندانوں کی ریاستیں قائم رہیں اور رئیس اور ذی مقدور اور ذی عزت اشخاص مسلمانوں میں موجود رہیں اس واسطے پرورش خاندان کے لیے اعتدال کے ساتھ قاعدہ مقرر کیا گیا ہے تاکہ جانشین کے پاس مناسب سرمایہ ریاست قائم کرنے کے لیے بچے۔ فوائد جو اس قانون سے مسلمانوں کو حاصل ہوں گے سب سے بڑا فائدہ اس قانون سے یہ ہو گا کہ مسلمان خاندانوں کی ریاستیں جو روز بروز برباد ہوتی جاتی ہیں وہ بربادی سے بچیں گی اور ہمیشہ کو قائم رہیں گی۔ مسلمان خاندانوں میں ایک یہ آفت ہے کہ جب کوئی مورث صاحب جائیداد مر جاتا ہے اور اس کی متعدد اولاد رہتی ہے۔ تو جائیداد اس کے بیٹوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور ہر ایک کے پاس تھوڑی تھوڑی آمدنی کی جائیداد رہ جاتی ہے، مگر ہر ایک بیٹا اپنی خاندانی عزت برقرار رکھنے کو ویسے ہی اخراجات قائم رکھتا ہے جیسے کہ اس کے باپ کے زمانے میں تھے۔ آمدنی تو گھٹ جاتی ہے اور اخراجات پورے رہتے ہیں اور روز بروز قرضہ بڑھتا جاتا ہے اور جائیداد تلف ہو جاتی ہے۔ ایک اور آفت مسلمان خاندانوں میں یہ ہے کہ ذی مقدور اور صاحب جائیداد رئیسوں کی اولاد اس خیال سے کہ جب باپ مرے گا تو کچھ جائیداد ان کے حصے میں بھی آوے گی، کسی قسم کی لیاقت اور قابلیت جس سے وہ خود کمانے کے لائق ہوں، پیدا نہیں کرتے۔ خود بھی نالائق رہتے ہیں اور انجام کار جو جائیداد وراثت ان کو ملتی ہے اس کو بھی تلف کر بیٹھتے ہیں۔ اس قانون سے، اگر جاری ہو تو یہ سب خرابیاں رفع ہو جاویں گی۔ یہ تدبیر جو بیان کی گئی ہے اس میں بڑی خوبی یہ ہے کہ سنی اور شیعہ دونوں فریق کے مذہب کے بالکل مطابق ہے اور جو مسئلہ شرعی اس وقت دونوں فریق کے فقہ کی کتابوں میں مندرج ہے اس کو زیادہ استحکام ہو جاتا ہے اور با ایں ہمہ ہر شخص کو اختیار رہتا ہے کہ چاہے اس قانون کے مطابق عمل درآمد کرے چاہے نہ کرے۔ جس طرح پر کہ میں نے اس قانون کا مسودہ بنایا ہے اس کو بعینہ اس کے ساتھ چھاپا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ رئیسوں ارو مسلمانوں کی صلاح سے اس مسودے میں مناسب مناسب اصلاحیں کی جاویں، اس وقت صرف یہ مقصود ہے کہ جو لوگ اس قسم کے قانون کو پسند کرتے ہوں وہ اپنی رائے سے اس کی پسندیدگی کی نسبت مجھ کو اطلاع دیں۔ جزئیات پر بحث اور جزئیات کی اصلاح بعد کو کثرت رائے رئیسان سے ہوا کرے گی۔ واضح ہو کہ یہ مسودہ قانون کا ابھی میں نے بطور نج کے بنایا ہے اور ابھی اس کو کونسل میں پیش نہیں کیا اور یہ تمام تحریر جو میں نے لکھی ہے ایک پرائیویٹ تحریر ہے اور جب تک کہ مجھ کو یہ نہ معلوم ہو جاوے کہ مسلمان رئیس اور اہل خاندان اس طرح کے قانون کو پسند کرتے ہیں اس وقت تک اس مسودے کو کونسل میں پیش کرنے کا میرا ارادہ نہیں ہے۔ پس یہ تمام تحریر بطور پرائیویٹ تحریر کے تصور کی جائے۔ اب اخیر کو میری التماس تمام مسلمان رئیسوں اور اہل خاندان سے یہ ہے کہ جو خرابیاں ان کے خاندان پر آتی جاتی ہیں اور جو خرابیاں کہ دو تین پشت بعد ان کے خاندان پر نازل ہوں گی۔ ان سب کو غور کریں اور اس کے بعد جو کچھ ان کی رائے نسبت اس تدبیر کے ہو اس سے مطلع فرما دیں۔ جو بزرگ کہ اپنی رائے اس کی نسبت تحریر فرما کر میرے پاس بھیجیں گے میں ان کا شکر گزار ہوں گا۔ راقم۔ سید احمد خاں مقام علی گڑھ۔ پانچویں نومبر ۱۸۷۹ء مسودہ ایکٹ بمراد انضباط ایسے قواعد کے جن سے اہل اسلام کو اپنی جائیداد کے برقرار رکھنے کے واسطے شرعی وقف خاندانی کرنے میں تسہیل ہو ہر گاہ کہ ایسے قواعد قانونی منضبط کرنے ضرور ہیں جن سے اہل اسلام کو اپنی جائیداد کے برقرار رکھنے کے واسطے وقف خاندانی کرنے میں آسانی ہو، لہذا احکام ذیل صادر ہوتے ہیں۔ حصہ اول مراتب ابتدائی دفعہ ۱۔ جائز ہے کہ یہ ایکٹ از نام ’’قانون جائیداد وقف خاندانی اہل اسلام‘‘ موسوم ہو۔ یہ ایکٹ کل برٹش انڈیا سے متعلق ہے اور تاریخ منظوری سے نافذ ہو گا۔ لیکن کوئی چیز مندرجہ ایکٹ ہذا ایسی جائیداد کے کسی قاعدہ وراثت پر موثر نہ خیال کی جائے گی جو ضابطہ اس ایکٹ کے ماتحت نہ کی گئی ہو۔ دفعہ ۲۔ ایکٹ ہذا میں، بشرطیکہ مضمون یا سیاق کلام میں کوئی امر خلاف نہ ہو، لفظ مسلمان میں اس مذہب کے کل فرقے شامل ہیں۔ لفظ زمینداری سے ہر ایسی زمین مراد ہے جس پر سرکاری مال گزاری مقرر ہو، جس کے ادا کرنے کے واسطے مالک زمین کا سرکار سے معاہدہ ہوا ہو۔ لفظ معافی سے ہر ایسی زمین مراد ہے جس کی مال گزاری دوام کے لیے کلاً واگذاشت کی گئی ہو یا کسی خاص معاہدے سے چھوڑ دی گئی ہو یا منقطع کرا لی کئی ہو یا عطا کی گئی ہو۱۔ لفظ جائیداد سے مراد وہ جائیداد ہے جو زمینداری یا معافی دونوں پر مشتمل ہو۔ لفظ موضع۲ سے مراد: ۱۔ ضمن ۱۰، دفعہ ۳، ایکٹ ۱۹، ۱۸۸۳ئ۔ ۲۔ ضمن ۱، دفعہ ۳، ایکٹ ۱۹، ۱۸۸۳ئ۔ (الف ہر ایسی زمینداری ہے جس پر مال گزاری اراصی کے ادا کرنے کے واسطے ایک جداگانہ معاہدہ ہوا ہو۔ (ب) ہر ایسی معافی ہے جس پر مال گزاری اراضی کے ادا کرنے کے واسطے ایک جداگانہ معاہدہ ہوا ہوتا اگر وہ اراضی زمینداری ہوتی۔ لفظ مواخذہ سے مراد اراضی پر ایسے مطالبے یا دعوے سے ہے جو کسی باہمی معاہدے کی بنا پر عائد ہوا ہو۱۔ لفظ مالیت سالانہ سے دو چند تعداد مال گزاری مراد ہے اور معافی کی صورت میں اس تعداد مال گزاری کا دو چند جو اس معافی پر مشخص ہوتی اگر وہ زمینداری ہوتی۲۔ لفظ کلکٹر ضلع سے ضلعے کے انتظام مال کا اعلیٰ عہدہ دار مہتمم مراد ہے۳۔ لفظ کمشنر قسمت سے قسمت کے انتظام مال کا اعلیٰ عہدہ دار مہتمم مراد ہے۴۔ لفظ جانشین سے ایسی جائیداد کا قابض مراد ہے جو ایکٹ ہذا کے ماتحت لائی گئی ہو۔ لفظ موت (یا وفات) سے طبعی موت اور سول موت دونوں مراد ہیں۔ لفظ ڈگری اور ڈگری دار اسی معنی میں استعمال کیے گئے ہیں۔ ۱۔ ضمن ۷، دفعہ ۳، ایکٹ ۱۹، ۱۸۸۳ئ۔ ۲۔ ضمن ۶، دفعہ ۳، ایکٹ ۱۹، ۱۸۸۳ئ۔ ۳۔ ضمن ۲، دفعہ ۳، ایکٹ ۱۹، ۱۸۸۳ئ۔ ۴۔ ضمن ۳، دفعہ ۳، ایکٹ ۱۹، ۱۸۸۳ئ۔ جس معنی میں کہ مجموعہ ضابطہ دیوانی میں مستعمل ہوئے ہیں۔ لفظ ڈگری قطعی سے وہ ڈگری مراد ہے جس کو عدالت مجوز ڈگری (بجز صیغہ نظر ثانی کے) کسی فریق کی درخواست پر تبدیل یا اپنی مرضی سے اس پر نظرثانی نہ کر سکے اور جو بوجہ انقضائے میعاد یا کسی اور قاعدہ قانون کے سبب سے قابل اپیل نہ ہو۱۔ لفظ قرابت سے ایسے اشخاص کا علاقہ یا رشتہ مراد ہے جو حسب شرع محمدی ایک ہی اصل یا ایک ہی مورث یا مورثہ اعلیٰ سے پیدا ہوئے ہوں۲۔ لفظ قرابت سلسلہ وار سے ایسے دو اشخاص کی قرابت باہمی مراد ہے جن میں سے ایک شخص دوسرے شخص سے ذکور یا اناث کے سلسلہ مستقیم میں پیدا ہوا ہو، خواہ وہ سلسلہ اعلیٰ ہو یا اسفل۳۔ لفظ قرابت متفرعہ سے ایسے دو اشخاص کی قرابت باہمی مراد ہے جو ایک ہی اصل یا مورث اعلیٰ سے پیدا ہوئے ہوں، لیکن ان میں سے کوئی سا دوسرے سے سلسلہ مستقیم میں نہ پیدا ہوا ہو۴۔ لفظ درجہ قرابت سے ہر اعلیٰ یا اسفل پشت مراد ہے، مثلاً ہر شخص کا باپ اس سے پہلے درجۂ قرابت میں ہے اور اسی طرح اس کا بیٹا، اس کا دادا اور پوتا دوسرے درجہ میں ہیں اور اس کا پر دادا ۱۔ دفعہ ۱۳، تشریح ۴، ایکٹ ۱۰، ۱۸۷۷ئ۔ ۲۔ دفعہ ۲۰، ایکٹ ۱۰، ۱۸۶۵ئ۔ ۳۔ دفعہ ۲۱، ایکٹ ۱۰، ۱۸۶۵ئ۔ ۴۔ دفعہ ۲۲، ایکٹ ۱۰، ۱۸۲۵۔ اور پرپوتا تیسرے درجے میں ہیں۱۔ حصہ دوم جائیداد کو ایکٹ ہذٰا کے ماتحت کرنے اور اس پر قانونی نتائج کے بیان میں دفعہ ۳۔ ہر مسلمان جو قانوناً کسی معاہدے کے کرنے کے قابل ہے ۲ مجاز ہو گا کہ حسب طریق مصرحہ ایکٹ ہذٰا اپنی جائیداد کو اس ایکٹ کے ماتحت کرے، بشرطیکہ: (۱) جائیداد کلیۃً و خالصۃً اسی کی ہو اور محض اسی کے خالص قبضہ مالکانہ میں اور سرکاری کتب مالگزاری میں اسی طرح سے درج ہو۔ (۲) جائیداد مذکور ایک یا زائد مواضعات پر مشتمل ہو۔ (۳) جائیداد مذکور پر کوئی مواخذہ نہ ہو۔ (۴) جائیداد مذکور کے ذمے سرکاری مال گزاری کی رقم باقی نہ ہو۔ (۵) جائیداد مذکور کی سالانہ مالیت دس ہزار روپے سے کم نہ ہو۔ دفعہ۴۔ برعایت قیود دفعہ ماسبق کے ہر شخص کو جس کو اپنی جائیداد بس ایکٹ کے ماتحت کرنی منظور ہو، لازم ہے کہ ایک تحریری درخواست حسب نمونہ نقشہ (الف) تتمہ منسلکہ ایکٹ ہذٰا اس ضلعے کے کلکٹر کو دے جس میں وہ کل جائیداد یا اس کا ایک جزو اعظم واقع ہو۔ ۱۔ دفعہ ۲۱، ایکٹ ۱۰، ۱۸۶۵ئ۔ ۲۔ دفعات ۱۱ و ۱۲، ایکٹ ۹، ۱۸۷۲ء دفعہ ۵۔ درخواست متذکرہ دفعہ ماسبق کے گزرنے پر کلکٹر اس امر کی تحقیق کرے گا کہ آیا کتب مالگزاری سرکاری سے بیانات مندرجہ درخواست کی تصدیق ہوتی ہے یا نہیں اور اگر تصدیق ہوتی ہو تو کلکٹر درخواست مذکور کو مع کیفیت کے معمولی ذریعوں سے لوکل گورنمنٹ بالا دست کو ارسال کرے گا اور اگر کلکٹر کو دریافت ہو کہ بیانات مندرجہ درخواست سرکاری کتب مالگزاری کی تحریرات کے مطابق نہیں ہیں تو وہ اس درخواست کو نامنظور کرے گا۔ تشریح۔ جبکہ جائیداد جس کی بابت درخواست دی گئی ہو ایک سے زائد اضلاع میں واقع ہو تو وہ کلکٹر جس کو درخواست دی گئی ہو دعفہ ہذٰا کے اغراض کے بارے میں اس کلکٹر سے تحقیقات کرے گا جس کے ضلع میں باقی جائیداد واقع ہو۔ دفعہ ۶۔ اگر لوکل گورنمنٹ درخواست میں کوئی اعتراض قانونی نہ پائے تو سائل کو ایک سند حسب نمونہ نقشہ (ج) تتمہ منسلکہ ایکٹ ہذٰا عطا کرے گی۔ دفعہ ۷۔ ہر شخص جس نے حسب دفعہ ماسبق سند حاصل کر لی ہو گی یا اس کے جانشین بعد عطائے سند مذکور کے ہر زمانے میں اس امر کے مجاز ہوں گے کہ حسب نمونہ نقشہ (ب) تتمہ منسلکہ ایکٹ ہذا ایک تحریری درخواست واسطے ازدیاد جائیداد بماتحتی ایکٹ ہذٰا دیں، بشرطیکہ جائیداد مذکور دفعہ ۳ کی قیود کو باستشنائے اور بلا لحاظ ضمن آخری کے پورا کرتی ہو۔ اس درخواست پر جو حسب دفعہ ہذٰا دی جائے گی بقیہ ترمیبات ضروری اسی طرح پر عمل درآمد ہو گا جس طرح کہ درخواست گزرانیدہ حسب دفعہ ۴ پر اور شرائط مندرجہ دفعہ ۶ بھی ایسی درخواست پر واجب الاطلاق خیال کی جائیں گی۔ دفعہ ۸۔ یوم عطائے سند کو اور اس کے بعد سے جائیداد مندرجہ سند مذکور ایکٹ ہذٰا کے ماتحت باضابطہ لائی گئی متصور ہو گی۔ دفعہ۹۔ جب کوئی جائیداد ایکٹ ہذٰا کے ماتحت ایک مرتبہ لائی گئی ہو تو وہ ایکٹ ہذٰا کی تاثیر سے بجز اس صورت کے جو آگے مذکور ہو گی بری نہ ہو گی۔ دفعہ ۱۰۔ ایکٹ ہذٰا کی تاثیر مفصلہ ذیل نتائج قانونی پیدا کرے گی: (۱) جانشین صرف حین حیات منافعہ پانے والا جائیداد مذکور کا متصور ہو گا۔ یعنی جائیداد کے منافع کو صرف اپنے حین حیات تصرف میں لانے کا مجاز ہو گا اور اصل جائیداد کو بذریعہ بیع یا ہبہ یا وصیت کے یا کسی اور طرح پر منتقل کرنے کا مجاز نہ ہو گا اور نہ اس پر کوئی مواخذہ قائم کرنے یا کسی ایسے معاہدہ کے عمل میں لانے کا مجاز ہو گا جو جائیداد پر اس کی حیات کے بعد کوہی قانونی اثر پیدا کرے، بدیں قید کہ کوئی امر مندرجہ دفعہ ہذٰا کل یا جزو جائیداد کے ایسے ٹھیکے پر (بشرطیکہ وہ ٹھیکہ بطور رہن نہ ہو) جو سات سال سے متجاوز نہ ہو مؤثر نہ ہو گا۔ (۲) جانشین کی وفات پر جائیداد اس کے وارثوں کو بطور وراثت کے نہ پہنچے گی، بلکہ جانشینی ان قواعد کے بموجب عمل میں آئے گی جو آگے مرقوم ہوں گے۔ کسی عدالت کی ڈگری قرضہ سادہ کے اجراء میں جائیداد مذکور مستوجب نیلام نہ ہو گی اور نہ مالگزاری سرکاری کی باقی میں مستوجب نیلام ہو گی۔ ان دونوں صورتوں میں جائیداد مذکور کے ساتھ اس طرح پر عمل درآمد ہو گا جو آگے مذکور ہو گا۔ دفعہ ۱۱۔ اگر کوئی شخص جانشین پر ایسی ڈگری حاصل کرے جو اس کو کسی جائیداد ماتحت ایکٹ ہذٰا کے کل یا جزو کا مستحق کر دے تو ایسا ڈگری دار اس ڈگری کے اجراء میں دخل اراصی کی درخواست کرنے کا اس وقت تک مجاز نہ ہو گا جب تک کہ وہ ڈگری قطعی نہ ہو جائے اور اس تاریخ پر اور اس کے بعد سے جبکہ ڈگری دار نے یہ تعمیل ڈگری قبضہ حاصل کیا ہو جائیداد مقبوضہ ایکٹ ہذٰا کی تاثیر سے خارج خیال کی جائے گی۔ دفعہ ۱۲۔ اگر کوئی شخص جانشین پر ایسی ڈگری حاصل کرے جس مین کسی جائیداد ماتحت ایکٹ ہذٰا کے کل یا جزو نیلام کے ایک باہمی معاہدے کی وجہ سے جو بالخصوص جائیداد مذکور پر مؤثر ہوتا ہو، ہدایت ہو تو ایسا ڈگری دار اجرائے ڈگری میں نیلام کی درخواست کا مجاز نہ ہو گا، تاوقتیکہ وہ ڈگری قطعی نہ ہو اور اس تاریخ پر اور اس کے بعد سے جبکہ مشتری کو جائیداد پر جو ایسی اجرائے ڈگری کی علت میں نیلام ہوئی ہو، قبضہ حاصل ہوا ہو، جائیداد مقبوضہ ایکٹ ہذٰا کی تاثیر سے خارج خیال کی جائے گی۔ دفعہ ۱۳۔ ہر موضع جو اس ایکٹ کے ماتحت ہو اور جو ایسی ڈگریوں کے اجراء کی وجہ سے جو حسب شرائط ہر دو دفعات ما سبق عمل میں آیا ہو، بحیثیت کلی جانشین کے پاس نہ رہے تو اس تاریخ پر اور اس تاریخ کے بعد سے جیسے کہ ڈگری دار یا مشتری نے (جیسی صورت ہو) بعلت اجرائے ڈگری ایسے موضع کے ایک جزو پر قبضہ حاصل کیا ہو، بحیثیت کلی اس ایکٹ کی تاثیر سے خارج متصور ہو گا۔ دفعہ ۱۴۔ اگر کوئی شخص جو جانشین پر ڈگری قرضہ سادہ رکھتا ہو کسی جائیداد ماتحت ایکٹ ہذٰا پر اس ڈگری کے جاری کرانے کا خواہاں ہو تو ایسے ڈگری دار کو لازم ہے کہ ڈگری مذکور کو بغرض اجراء اس کلکٹر کے پاس جس کے ضْع میں وہ جائیداد واقع ہو منتقل کرانے کی درخواست عدالت مجاز سے کرے اور اس درخواست کے گزرنے پر عدالت مذکور درخواست کو منظور کر کے ڈگری کو منتقل کر دے گی۔ دفعہ ۱۵۔ جب کوئی ڈگری حسب دفعہ ما سبق منتقل ہو جائے تو کلکٹر اپنی رائے کے بموجب بذات خود یا کسی دوسرے شخص کی معرفت جانشین کی کلی جائیداد یا جزو جائیداد کا انتظام اس طور پر کرے گا جو آگے مذکور ہو گا۔ دفعہ ۱۶۔ جب کسی جائیداد کو حسب دفعہ ما سبق کلکٹر اپنے انتظام میں لے لے تو کلکٹر یا کوئی اور آدمی جس کو وہ مقرر کرے اپنے ایام منتظمی میں جائیداد مذکور کا تمام محاصل و منافع وصول و جمع کرے گا اور اس محاصل و منافع کی وصولی کی رسید بھی دے گا۔ جمع وصول شدہ میں سے اس کو یہ اخراجات ادا کرنے ہوں گے۔ (اول) اگر مالگزاری سرکاری ہو تو وہ اور جملہ قرضے اور مواخذے جو جائیداد مذکور پر اس وقت بحق گورنمنٹ واجب ہوں۔ (دوم) وہ جمع سالانہ جو اس کی رائے میں جانشین اور اس کے خاندان کی گزران کے لیے کافی ہو اور جمع باقی ماندہ اخراجات انتظام اور مطالبہ ڈگری کے ادا کرنے میں صرف ہو گی۱۔ ۱۔ دفعہ ۵، ایکٹ ۲۴، ۱۸۷۰ئ۔ دفعہ ۷۱۔ جب تک یہ انتظام جاری رہے گا جانشین بعلت مطالبہ ڈگری جو حسب دفعہ ۱۴ کلکٹر کے ہاں منتقل ہو گئی ہو، مستوجب گرفتاری نہ ہو گا اور نہ ایسے جانشین کی جائیداد منقولہ بعلت اجرائے ڈگری مذکور مستوجب قرقی یا نیلام ہو گی۔ ایسا جانشین اس کل جائیداد کی نسبت جو کلکٹر کے انتظام میں ہو یا اس کے جزو کی بابت ٹھیکہ دینے کے قابل نہ ہو گا اور اس جائیداد کے محاصل یا منافع کے واسطے جائز رسیدیں دینے کے بھی قابل نہ ہو گا، لیکن یہ دونوں اختیارات کلکٹر کو یا اس شخص کو جس کو کلکٹر نے جائیداد کے انتظام کے واسطے مقرر کیا ہو، اسی طرح پر حاصل ہوں گے جس طرح کہ جانشین کو ایسے انتظام کے شروع ہونے سے قبل حاصل تھے ۱۔ دفعہ ۱۸۔ یہ انتظام تا بیباقی مطالبہ ڈگری جاری رہے گا، بشرطیکہ وہ جانشین جس پر ڈگری صادر ہوئی ہو قبل بیباقی مطالبہ ڈگری قوت نہ ہو جائے۔ دفعہ ۱۹۔ مطالبہ ڈگری کی بیباقی پر کل جائیداد یا جزو جائیداد (جیسی صورت ہو) جس کا انتظام کلکٹر نے اپنے ذمے لیا ہو جانشین کے حوالے کی جائے گی، مگر ان ٹھیکوں کی (اگر ایسے ٹھیکے ہوں) ماتحت ہو گی جو حسب دفعہ ۱۷ دیے گئے ہوں ۲۔ دفعہ ۲۰۔ جانشین کی وفات پر جس پر کہ ڈگری صادر ہوئی ہو کل جائیداد یا جزو جائیداد (جیسی صورت ہو) جس کا انتظام کلکٹر نے اپنے ذمے لیا ہو اس انتظام سے واگزاشت کی جائے گی اور جانشین متوفی کے جانشین کے قبضے میں دے دی جائے گی، خواہ مطالبہ ڈگری بیباق ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اور پھر کبھی وہ جائیداد مستوجب ادائے مطالبہ ڈگری مذکور کے نہ ہو گی۔ ۱۔ دفعہ ۴: ایکٹ ۲۴، ۱۸۷۰ئ۔ ۲۔ دفعہ ۱۲، ایکٹ ۲۴، ۱۸۷۰ء دفعہ ۲۱۔ اگر کسی وقت بعد اس تاریخ کے جبکہ کوئی موضع اس ایکٹ کے ماتحت کیا گیا ہو موضع مذکور پر مالگزاری سرکاری کی بابت باقی رہ جائے تو کلکٹر اس بات کا مجاز ہے کہ مالگزاری کی باقی کے وصول کرنے کے واسطے اپنے ان ختیارات کو جو از روئے قانون رائچ الوقت اس کو حاصل ہوں کلاً یا جزاً عمل میں لائے، بدیں قید کہ بندوبست منسوخ نہ ہو گا اور موضع بذریعہ نیلام یا کسی اور طرح پر منتقل نہ کیا جائے گا۔ دفعہ ۲۲۔ جانشین کی وفات کسی مطالبہ مالگزاری سرکاری پر جو اس کے زمانہ حیات میں باقی رہ گئی ہو، موثر نہ ہو گی۔ حصہ سوم جانشینی اور طریقہ شمار درجات قرابت کے بیان میں دعفہ ۲۳۔ اس بات کے دریافت کرنے کے واسطے کہ کوئی شخص جو سلسلہ وار قرابت میں متوفی سے رشتہ رکھتا ہو اس سے کونسا درجہ قرابت کا رکھتا ہے، یہ مناسب ہے کہ متوفی سے شخص مذکور تک اعلیٰ یا اسفل جانب میں (جیسی صورت ہو) شمار کریں اور ہر شخص کے واسطے ایک ایک درجہ مقرر کرتے جائیں۔ مثلاً ہر شخص کا باپ اس سے اول درجہ قرابت کا رکھتا ہے اور اسی طرح سے اس کا بیٹا، اس کا دادا اور پوتا دوسرے درجے میں ہیں اور اس کا پردادا اور پرپوتا تیسرے میں۔ دفعہ ۲۴۔ اس بات کے دریافت کرنے کے واسطے کہ کوئی شخص جو قرابت متفرعہ میں متوفی سے رشتہ رکھتا ہو اس سے کونسا درجہ قرابت کا رکھتا ہے یہ مناسب ہے کہ متوفی سے اعلیٰ جانب میں مورث ۱۔ دفعہ ۲۱، ایکٹ ۱۰، ۱۸۶۵ئ۔ مشترک تک شمار کریں اور پھر اسفل جانب میں اس شخص تک جو قرابت متفرعہ رکھتا ہو شمار کریں اور شمار اعلیٰ اور اسفل دونوں میں ہر شخص کے واسطے ایک ایک درجہ مقرر کریں۱۔ دفعہ ۲۵۔ شجرہ منسلکہ میں چھ درجہ۲ تک شمار ہوتے ہیں۔ اور ان پر ہندسے لگائے گئے ہیں۔ جس شخص کا درجہ قرابت شمار کیا جائے وہ اور اس کا برادر عم زاد شجرے کی رو سے چوتھے درجے قرابت میں ہیں، کیونکہ جانب اعلیٰ میں ایک دجرہ باپ تک ہے اور دوسرا درجہ مورث مشترک اور دوسرا درجہ برادر عم زاد تک ہے۔ اس حساب سے کل چار درجے ہوئے۔ بھائی کا پوتا اور چچا کا بیٹا، یعنی پوت بھتیجا اور برادر عم زاد برابر درجے میں ہیں، کیونکہ چار چار درجے کا فصل رکھتے ہیں۔ برادر عم زاد کا پوتا وہی درجہ رکھتا ہے جو دادا کے بھائی کا پوتا رکھتا ہے، کیونکہ یہ دونوں چھٹا درجہ قرابت کا رکھتے ہیں۳۔ دفعہ ۲۶۔ قاعدہ جانشینی میں ان اشخاص میں جو جانشین متوفی کے ایام حیات میں واقعی پیدا ہوئے ۱۔دفعہ ۲۲، ایکٹ ۱۰، ۱۸۶۵ئ۔ ۲۔ یہ شجرہ چھ درجہ کا بطور تمثیل کے لگایا گیا ہے، اسی طرح بے انتہا درجات قرابت محسوب ہوں گے جس میں تمام رشتہ دار جو کسی درجے کے ہوں گے سب آ جائیں گے۔ ۳۔ دفعہ ۲۴، ایکٹ ۱۰، ۱۸۶۵ء ہوں اور ان میں جو وقت وفات جانشین کے صرف حمل کے اندر ہوں اور بعد کو زندہ پیدا ہوئے ہوں تمیز نہیں ہے۱۔ دفعہ ۲۷۔ ہر جانشین کی وفات پر جائیداد اس شخص کو پہنچے گی جو متوفی سے درجہ قرابت میں اقرب ہو، بدین قید کہ یہ جانشینی قواعد مفصلہ ذیل کے بموجب عمل میں آئے گی: (۱) جائیداد وقت واحد میں صرف ایک شخص کو ملے گی۔ (۲) برعایت قاعدہ ماسبق ذکور کو اناث پر ترجیح ہو گی خواہ ایک ہی درجہ قرابت کا رکھتے ہوں یا مختلف۔ باستشنائے اس صورت کے جبکہ شخص قسم ذکور کی ماں متحد ہو، مگر باپ مختلف۔ اس صورت میں ایسا شخص بزمرہ اناث منصور ہو گا۔ (۳) برعایت قواعد ماسبق وہ اشخاص جو کسی شخص قسم ذکور کی وساطت سے رشتہ رکھتے ہوں ان اشخاص پر ترجیح پائیں گے جو کسی شخص قسم اناث کی وساطت سے رشتہ رکھتے ہوں، خواہ ایک ہی درجہ قرابت کا رکھتے ہوں یا مختلف۔ (۴) برعایت قواعد ماسبق وہ اشخاص جو نسب اعلیٰ یا اسفل کے سلسلہ مستقیم میں ہوں ان اشخاص پر ترجیح پائیں گے جو قرابت متفرعہ رکھتے ہوں۔ (۵) برعایت قواعد ماسبق وہ اشخاص جو نسب اسفل کے سلسلہ مستقیم میں ہوں ان اشخاص پر ترجیح پائیں گے جو نسب اعلیٰ کے سلسلہ میں مستقیم میں ہوں۔ ۱۔ دفعہ ۲۳، ایکٹ ۱۰، ۱۸۶۵ئ۔ (۶) برعایت قواعد ماسبق ایک ہی درجہ قرات کے حقیقی رشتے دار کو سوتیلے رشتے دار پر ترجیح ہو گی۔ (۷) برعایت قواعد ماسبق کبیر السن کو صغیر السن پر ترجیح ہو گی۔ (۸) برعایت چھ قواعد اولیٰ کے اور بلا لحاظ قاعدہ ۷ کے کبیر السن کی اولاد کو صغیر السن کی اولاد پر ترجیح ہو گی۔ (۹) برعایت قواعد ماسبق و باستشنائے و بلا لحاظ قاعدہ ۷ جب دو یا زائد اشخاص کا باپ متحد، لیکن مائیں مختلف ہوں تو وہ شخص ترجیح پائے گا جس کی ماں کا نکاح اس کے باپ کے ساتھ دوسرے کی ماں کے نکاح سے پیشتر اسی کے باپ کے ساتھ ہوا ہو۔ (۱۰) در صورت عدم موجودگی رشتہ داران نسبی کے جائیداد شوہر یا زوجہ کو (جیسی صورت ہو) ملے گی، لیکن اگر مرد متوفی کے ایک سے زائد زوجات ہوں تو اس زوجہ کو ترجیح دی جائے گی جس کا نکاح اس کے ساتھ پہلے ہوا ہو۔ (۱۱) درصورت عدم موجودگی ان تمام اشخاص کے جو از روئے قواعد ماسبق جانشینی کے مستحق ہوں۔ جائیداد گورنمنٹ کے پاس بطور امانت کے اس واسطے چلی جائے گی کہ اس کو بطرز مناسب کسی ایسے کار خیر میں صرف کرے جس سے اہل اسلام کی تعلیمی، اخلاقی اور تمدنی ترقی مترتب ہو۔ دفعہ ۲۸۔ جب کوئی موضع جو ایک مرتبہ ایکٹ ہذٰا کے ماتحت لایا گیا ہو، بعد کو حسب منشاء دفعہ ۱۱ یا ۱۲ یا ۱۳ کے اس ایکٹ کی ماتحتی سے خارج ہو جائے تو ایسی جائیداد حسب شرح محمدی اس شخص کے ورثاء کو بطور ترکے کے پہنچے گی جس نے جائیداد مذکور کو ایکٹ ہذٰا کے ماتحت کیا تھا۔ حصہ چہارم پرورش رشتہ داران کا بیان دفعہ ۲۹۔ جب کسی جانشین کے مرنے کے بعد ایسے رشتے دار اس کے باقی رہیں جو آگے مذکور ہوں گے تو جانشین وقت کو ایسے ہر رشتے دار کو اپنے ایام حیات میں یا اس میعاد تک جو آگے مذکور ہو گی بذریعہ بارہ اقساط مساوی ماہواری کے رواج ملک کے مطابق ایک مواجب سالانہ ادا کرنا ہو گا جو اس مقدار سے متجاوز نہ ہو گا جس کا ذکر آگے آئے گا، بشرطیکہ رشتے دار مذکور بروز وفات جانشین متوفی کے اس کے ساتھ سکونت اور خور و نوش رکھتا ہو اور نیز بدیں شرط کہ یہ رشتے دار اور کوہی کافی ذریعہ پرورش کا نہ رکھتا ہو اور نہ رکھنے والا ہو۱۔ دفعہ ۳۰۔ متوفی کے جدین و والدین و بیوگان کبیرہ کی حالت میں غایت تعداد مواجب سالانہ کی حسب شرح ذیل ہو گی: (ا) جب جائیداد کی مالیت سالانہ تین لاکھ روپے یا تین لاکھ روپے سے زائد ہو تو تعداد چھ ہزار روپے سے زیادہ نہ ہو گی۔ (ب) جب مالیت سالانہ دو لاکھ روپے یا اس سے زائد ہو، مگر تین لاکھ روپے سے کم ہو تو تعداد دو ہزار چار سو روپے سے زیادہ نہ ہو گی۔ ۱۔ دفعہ ۲۴، ایکٹ ۱، ۱۸۶۹ئ۔ (ج) جب مالیت سالانہ ایک لاکھ روپے یا اس سے زائد ہو، مگر دو لاکھ سے کم ہو تو تعداد ایک ہزار دو سو روپے سے زیادہ نہ ہو گی۔ (د) جب مالیت سالانہ پچاس ہزار روپے یا اس سے زیادہ ہو، مگر ایک لاکھ سے کم ہو تو تعداد چھ سو روپے سے زیادہ نہ ہو گی۔ (ہ) جب مالیت سالانہ تیس ہزار روپے یا اس سے زائد ہو، لیکن پچاس ہزار سے کم ہو تو تعداد تین سو ساٹھ روپے سے زیادہ نہ ہو گی۔ (و) جب مالیت سالانہ چودہ ہزار روپے یا اس سے زائد ہو، لیکن تیس ہزار سے کم ہو تو تعداد دو سو چالیس روپے سے زیادہ نہ ہو گی۔ (ز) جب مالیت سالانہ چودہ ہزار روپے سے کم ہو تو تعداد ایک سو اسی روپے سے زیادہ نہ ہو گی۱۔ جانشین متوفی کی بیوہ صغیرہ کی حالت میں غایت تعداد مواجب سالانہ کی اس غایت تعداد سے نصف ہو گی جس کی بیوہ کبیرہ بموجب جزو ماسبق دفعہ ہذٰا کے مستحق ہوتی۔ دفعہ ۳۱۔ جانشین متوفی کے برادران اور پسران نابالغ کی حالت میں غایت تعداد مواجب سالانہ کی ایک ہزار دو سو روپے سے زیادہ نہ ہو گی۔ جانشین متوفی کے بھتیجوں کی حالت میں جو یتیم اور نابالغ ہوں، غایت تعداد مواجب سالانہ کی چھ سو روپے سے زیادہ نہ ہو گی۲۔ ۱۔ دفعہ ۲۵، ایکٹ ۱، ۱۸۶۹ئ۔ ۲۔ دفعہ ۲۶، ایکٹ ۱، ۱۸۶۹ئ۔ دفعہ ۳۲۔ جانشین متوفی کی دختران ناکتخدا اور پسران اور برادران کی بیوگان کی حالت میں غایت تعداد مواجب سالانہ کی تین سو ساٹھ روپیہ سے زیادہ نہ ہو گی۱۔ دفعہ ۳۳۔ بہ پابندی شرائط متذکرہ بالا کے مواجب سالانہ مذکورہ عرصہ مندرجہ ذیل تک جاری رہیں گے: (ا) نابالغ بیٹے یا نابالغ بھتیجے کی حالت میں اس کے سن بلوغ تک۔ (ب) دختر یا بیوہ کی حالت میں تاوقتیکہ متوفی کے جانشین کے گھر سے بخوشی نہ نکل جائیں یا تاوقتیکہ بموجب رسم ملک کے مستحق پرورش نہ رہیں۔ (ج) اور باقی حالتوں میں تا وفات یا بندہ مواجب مذکور کے۲۔ حصہ پنجم متفرقات دفعہ ۳۴۔ جملہ احکامات جو کوہی کلکٹر ضلع اس ایکٹ کے بموجب صادر کرے اس قسمت کے کمشنر کے ہاں جس میں وہ ضلع واقع ہو قابل اپیل کے ہوں گے۔ دفعہ ۳۵۔ جملہ احکامات جو اپیل متدائرہ حسب دفعہ ماسبق میں کشمنر قسمت صادر کرے، حکام مال بالا دست کے ہاں جن کے ماتحت وہ کمشنر ہو، قابل اپیل ہوں گے۔ ۱۔ دفعہ ۲۷، ایکٹ ۱، ۱۸۶۹ئ۔ ۲۔ دفعہ ۲۸، ایکٹ ۱، ۱۸۶۹ئ۔ دفعہ ۳۶۔ جملہ احکام جو کسی اجراء ڈگری کی تعمیل میں عدالت نافذ کنندہ ڈگری سے کسی ایسی جائیداد پر یا اس کی بابت جو اس ایکٹ کے ماتحت کی گئی ہو اسی طرح پر اور ان ہی حکام کے ہاں قابل اپیل ہوں گے جس طرح کہ عدالت مذکور اور احکامات اپنی اجراء ڈگریوں کی تعمیل میں صادر کرتی ہیں۔ دفعہ ۳۷۔ جب بوجہ تعمیل اجراء ڈگری متذکرہ دفعہ ۱۱ یا ۱۲ کوئی شخص کسی موضع ماتحت ایکٹ ہذٰا پر قبضہ حاصل کرے یا اس موضع کے جزو پر قبضہ حاصل کرے تو عدالت نافذ کنندہ ڈگری پر واجب ہو گا کہ اس امر کی اطلاع اس ضلع کے کلکٹر کو جس میں وہ موضع واقع ہو جس قدر جلد ممکن ہو کر دے۔ دفعہ ۳۸۔ ہر ضلع کے جس میں کوئی موضع ماتحت ایکٹ ہذٰا واقع ہو، دفتری کلکٹری میں ایک رجسٹر رہا کرے گا جو از نام ’’رجسٹر جائیداد وقف خاندانی اہل اسلام‘‘ موسوم ہو گا اور جس میں ہر موضع متذکرہ صدر کی ایک یاد داشت لکھی جایا کرے گی۱۔ اس یاد داشت میں امور مفصلہ ذیل درج ہوں گے: (۱) نام موضع (۲) نام پر گنہ جس میں وہ موضع واقع ہو۔ (۳) نام مالک مندرجہ دفاتر سرکاری۔ (۴) وہ تاریخ جس میں کہ موضع ایکٹ ہذٰا کے ماتحت کیا گیا ہو۔ (۵) وہ تاریخ جس میں کہ موضع ایکٹ ہذٰا کی ماتحتی سے خارج ہو گیا ہو (اگر ایسا امر ہوا ہو)۔ ۱۔ دفعہ ۱۸، ایکٹ ۲۵، ۱۸۶۷ئ۔ (۶) اس ڈگری دار کا نام اور تاریخ جس کے اجراء کی تعمیل کی وجہ سے موضع ایکٹ ہذٰا کی ماتحتی سے خارج ہو گیا ہو۔ (۷) نام عدالت نافذ کنندہ ڈگری۔ (۸) اس شخص کا نام جس کو کل یا جزو موضع کا قبضہ دلایا گیا ہو۔ (۹) وہ تاریخ جس میں کہ ایسے شخص کو کل یا جزو موضع پر واقعی قبضہ حاصل ہوا ہو۔ اس قسم کی یادداشت ہر موضع کی بابت جو ایکٹ ہذٰا کے ماتحت کیا جائے، ماتحتی کے بعد اور اس ماتحتی سے خارج ہونے کے بعد (اگر ایسی صورت ہو) جس قدر جلد ممکن ہو گا قلم بند کی جائے گی اور ہر نئے اندراج پر کلکٹر خود اپنے ہاتھ اور اپنے دستخط سے اس کی تصدیق کرے گا۔ دفعہ ۳۹۔ وہ یادداشتیں جو ہر سہ ماہی میں رجسٹر متذکرہ صدر میں مندرج ہوں گی گورنمنٹ گزٹ مختص المقام میں بعد اختتام سہ ماہی مذکور جس قدر جلد ممکن ہو گا مشتہر ہوں گی۱۔ دفعہ ۴۰۔ رجسٹر جائیداد وقف خاندانی اہل اسلام کے معائنے کی کلکٹر سے درخواست کرنے پر ہر شخص کو ہر معقول وقت میں اجازت ہو گی اور جب کسی کو کسی اندراج کی نقل لینی منظور ہو گی تو تحریری درخواست دینے پر کلکٹر سائل کو نقل مطلوبہ اپنے ہاتھ کی مصدقہ اور دستخطی حوالے کرے گا۲۔ ۱۔ دفعہ ۹۱، ایکٹ ۲۵، ۱۸۶۷ئ۔ ۲۔ دفعہ ۳، ایکٹ ۲۰، ۱۸۶۷ئ۔ دفعہ ۴۱۔ ہر درخواست پر جو حسب منشاء دفعہ ۴ دی جائے ایک کورٹ فیس اسٹامپ قیمتی پانسو روپے کا چسپاں ہونا چاہیے۔ دفعہ ۴۲۔ ہر درخواست پر جو حسب منشاء دفعہ ۷ دی جائے ایک کورٹ فیس اسٹامپ قیمتی دو سو روپے کا چسپاں ہونا چاہیے۔ دعفہ ۴۳۔ ہر عرضی اپیل پر جو حسب منشاء دفعہ ۳۴ یا ۳۵ دی جائے ایک کورٹ فیس اسٹامپ قیمتی دس روپے کا چسپاں ہونا چاہیے۔ دفعہ ۴۴۔ دربارہ تعین اسٹامپ کورٹ فیس عرضی اپیل جو حسب منشائے دفعہ ۳۶ دی جائے وہی قواعد واجب الاطلاق ہوں گے جن پر اس عدالت کے جس کے حکم کی ناراضی سے اپیل دائر کیا گیا ہو اور احکامات کی ناراضی کے اپیلوں کا مدار ہے۔ دفعہ ۴۵۔ درخواست متذکرہ دفعہ ۴۰ میں وہ اندراجات مذکورہ ہونے چاہئیں جن کے واسطے سائل رجسٹر دیکھنا چاہتا ہو اور ایسی درخواست پر ایک کورٹ فیس اسٹامپ بحساب ایک روپیہ فی اندراج مطلوب المعائنہ کے چسپاں ہونا چاہیے۔ دفعہ ۴۶۔ ہر درخواست حسب دفعہ ۴۰ واسطے حصول نقل اندراج پر ایک کورٹ فیس اسٹامپ قیمتی دو روپے کا چسپاں ہونا چاہیے۔ دفعہ ۴۷۔ لوکل گورنمنٹ اس بات کی مجاز ہے کہ وقتاً فوقتاً ایسے قواعد منضبط کرے جو جملہ امور میں جو اس ایکٹ کے نفاذ سے متعلق ہوں ایکٹ ہذٰا سے مطابقت رکھتے ہوں۔ اس قسم کے قواعد نواب گورنر جنرل بہادر باجلاس کونسل کی منظوری اور سرکاری گزٹ مختص المقام میں مشتہر ہونے کے بعد نفاذ قانونی حاصل کریں گے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ضمیمہ نقشہ (الف) بعدالت (بیان عدہ دار ) (نام ضلع) درخواست (نام درخواست دھندہ) حسب دفعہ ۴ قانون جائیداد وقف خاندانی اہل اسلام میں مذکور الصدر (ںام درخواست دھندہ) مظہر ہوں کہ (۱) جائیداد مفصلہ ذیل ایک ایسی جائیداد ہے جس کی تعریف دفعہ ۲ قانون جائیداد وقف خاندانی اہل اسلام میں کی گئی ہے۔ (۲) جائیداد مذکور کلیۃ اور خالصۃً میری ہے اور محض میرے ہی خالص قبضۂ مالکانہ میں ہے اور کتب مال گزاری میں اسی طرح درج ہے۔ (۳) جائیداد مذکور ایسے مسلم مواضعات (یا موضع) پر جن کی تعریف دفعہ ۲ قانون جائیداد وقف خاندانی اہل اسلام میں کی گئی ہے مشتمل ہے۔ (۴) جائیداد مذکور پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ (۵) جائیداد مذکور پر سرکاری مالگزاری کی رقم باقی نہیں ہے اور نہ کوئی ایسا مطالبہ ہے جو مثل باقی مالگزاری سراری کے قابل وصول ہو۔ (۶) جائیداد مذکور کی مالیت سالانہ جس کی تعریف دفعہ ۲ قانون جائیداد وقف خاندانی اہل اسلام میں کی گئی ہے دس ہزار روپے سے کم نہیں ہے۔ میں مذکور الصدر (نام درخواست دھندہ) ملتجی ہوں کہ جائیداد مفصلہ ذیل وقف خاندانی کی جائے اور اس باب میں ایک سند حسب دفعہ ۶ قانون جائیداد وقف خاندانی اہل اسلام مجھ کو عطا ہو۔ تفصیل جائیداد نام موضع نام پر گنہ نام ضلع نوعیت حق مورخہ سنہ ۱۸ء دستخط درخواست دھندہ نقشہ (ب) بعدالت (بیان عہدہ دار) (نام ضلع) درخواست (نام درخواست دھندہ) حسب دفعہ ۷ قانون جائیداد وقف خاندانی اہل اسلام۔ میں مذکور الصدر (نام درخواست دھندہ) جو جانشین حال اس جائیداد وقف خاندانی کا ہوں جس کی بابت سند نمبری فلاں مؤرخہ تاریخ فلاں عطا کی گئی تھی مظہر ہوں کہ: (۱) جائیداد مفصلہ ذیل ایک ایسی جائیداد ہے جس کی تعریف دفعہ ۲ قانون جائیداد وقف خاندانی اہل اسلام میں کی گئی ہے۔ (۲) جائیداد مذکور کلیۃً اور خالصۃً میری ہے اور محض میرے ہی خالص قبضہ مالکانہ میں ہے اور سرکاری کتب مالگزاری میں اسی طرح درج ہے۔ (۳) جائیداد مذکور کو ایسے مسلم مواضعات (یا موضع) پر جن کی تعریف دفعہ ۲ قانون جائیداد وقف خاندانی اہل اسلام میں کی گئی ہے، مشتمل ہے۔ (۴) جائیداد مذکور پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ (۵) جائیداد مذکور پر سرکاری مالگزاری کی باقی رقم نہیں ہے اور نہ کوئی ایسا مطالبہ ہے جو مثل باقی مالگزاری سرکاری کے قابل وصول ہو۔ میں مذکور الصدر (نام درخواست دھندہ) ملتجی ہوں کہ جائیداد مفصلہ ذیل اس جائیداد وقف خاندانی میں شامل کی جائے جس کی بابت سند متذکرہ صدر نمبری فلاں مؤرخہ تاریخ فلاں عطا کی گئی تھی اور حسب دفعہ ۶ قانون جائیداد وقف خاندانی اہل اسلام مجھ کو ایک اور سند عطا ہو۔ تفصیل جائیداد نام موضع نام پر گنہ نام ضلع نوعیت حق مورخہ سنہ ۱۸ء دستخط درخواست دھندہ نقہ (ج) سند نمبری عطیہ گورنمنٹ حسب قانون جائیداد وقف خاندانی اہل اسلام۔ (نام درخواست دھندہ) کی درخواست مورخہ سنہ…… … ۱۸ء پر موضع (یا مواضعات) مفصلہ ذیل حسب ایکٹ۔ سنہ ………۱۸ء جائیداد وقف خاندانی اہل اسلام کیا گیا ہے۔ تفصیل جائیداد نام موضع نام پر گنہ نام ضلع نوعیت حق مورخہ سنہ ۱۸ء دستخط درخواست دھندہ تاریخ سنہ ۱۸ء ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ایک تدبیر یتیم اور لاوارث بچوں کے پرورش کی (تہذیب الاخلاق جلد ہفتم بابت یکم جمادی الاول ۱۲۹۴ھ) ہندوستان میں قحط کی بلا اکثر آتی ہے اور خصوصاً اس بلا میں اور نیز دیگر واقعات میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے صغیر السن بچے یتیم اور لاوارث رہ جاتے ہیں جن کی پرورش کا کچھ ٹھکانا نہیں ہوتا۔ گورنمنٹ کوئی ایسی تدبیر نہیں کر سکتی نہ ایسا خرچ اختیار کر سکتی ہے جس کے ذریعے سے ان کی پرورش اور نیز ان کی تعلیم ہو اور اس لیے گورنمنٹ ایسے یتیم اور لاوارث بچوں کو ان لوگوں کے سپرد کر دیتی ہے۔ جو ان دونوں باتوں، یعنی ان کی پرورش اور ان کی تعلیم ضروری کے ذمہ دار ہوں۔ پادری صاحبان جو ہمارے ملک میں ہر جگہ موجود ہیں اور عیسائی قومیں اپنے مذہب کی ترقی کے لیے لاکھہا روپیہ چندہ کر کر ان کو دیتی ہیں ان کو ایسے یتیم و لاوارث بچوں کے عیسائی بنا لینے کا خواب موقع ملتا ہے اور وہ ان کی پرورش اور تعلیم کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور لے جاتے ہیں اور فی الفور اس معصوم بچے کو اصطباغ دے کر عیسائی بنا لیتے ہیں اور اب بسبب حادثات پے در پے کے اس امر ناواجب اور نامناسب کی ایسی کثرت ہو گئی ہے کہ قحط کے یتیم اور لاوارث عیسائی کیے ہوئے بچوں سے گاؤں کے گاؤں آباد ہو گئے ہیں۔ اگر جوان عاقل و بالغ آدمی کسی مذہب کا عیسائی ہو جاوے یا مسلمان ہو جاوے تو کوہی الزام یا افسوس کی بات نہیں ہے، مگر صغیر السن یتیم لاوارث بچوں کو ایسی مصیبت و رحم کی حالت میں عیسائی کر لینا جس کے سبب سے وہ اپنی تمام قوم و برادری اور رشتہ مندوں سے مثل مردے کے منقطع ہو جاتے ہیں اور تمام عمر کے لیے اس خوشی سے جو اپنی قوم میں شامل رہنے سے ہوتی ہے، مجبوراً بلا اپنی مرضی کے محروم ہو جاتے ہیں، نہایت افسوس اور نہایت نفرت کے لائق بات ہے اور رحم اور انسانیت اور نیکی اور نیک دلی سے نہایت بعید ہے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ ہر گز یتیم بچوں پر رحم نہیں کرتے، بلکہ خود غرض متصور ہوتے ہیں اور درحقیقت ان یتیم بچوں پر ان کی بے کسی کی حالت میں ظلم کرتے ہین جو بغیر ان کی مرضی جائز کے ان کو ہمیشہ کے لیے ان کی قوم سے منقطع کر دیتا ہے۔ جو شخص رحم دل ہو گا اور یتیم بچوں پر بغیر کسی نفسانی خواہش کے صرف اس وجہ سے رحم کرتا ہو گآ کہ بمقتضائے انسانیت ان پر رحم واجب ہے، وہ ایسے فعل کو جیسا کہ اب ہو رہا ہے اور جس پر پادری صاحبوں کا عمل درآمد ہے اور جس کا ظہور ایک نہایت سختی اور بے رحمی کے ساتھ مدارس کے قحط میں پادری صاحبوں کی جانب سے ہوا ہے جو اخباروں میں مندرج ہے، نہایت بے رحمی تصور کرتا ہو گا اور جو لوگ ہر ایک کام کو بنظر ثواب عقبیٰ کیا کرتے ہیں وہ بھی اس بات کو نہایت ناپسند کرتے ہوں گے کیونکہ کوئی مسلمان یا ہندو اس بات سے خوش نہ ہو گا کہ یتیم لاوارث بچے ہندو یا مسلمان کے ایسی بے رحمی سے عیسائی بنائے جاویں۔ پس میں نہایت عجز و انکسار اور دلی جوش حب وطنی سے مسلمانوں اور ہندوؤں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ خدا کے واسطے، رام جی کے واسطے اپنی قوم کے یتیم اور لاوارث بچوں پر رحم کرو اور ان کی پرورش کے لیے ان تدبیروں میں میرے ساتھ شریک ہو جو مدت ہائے دراز سے میں نے سوچی ہیں اور جن کے پورا کرنے کی میری کمال آرزو ہے اور وہ تدبیریں حسب ذیل مندرجہ ذیل ہیں: (۱) ضلع علی گڑھ میں جس کی آب و ہوا نہایت عمدہ ہے کسی مقام پر چو شہر سے فاصلے پر ہو اور کسی قصبے یا گاؤں کے قریب ہو، زمین لی جاوے اور وہاں مکانات مناسب یتیم بچوں کے رکھنے اور پرورش پانے کے لیے مکان بنائے جاویں۔ (۲) ہندو اور مسلمان دونوں اس کام میں شریک ہوں اور ہر قوم کے یتیم و لاوارث بچوں کے پرورش پانے کے لیے وہ مکان متصور ہو۔ (۳) یتیم بچے جو اس میں پرورش پاویں وہ ایسی تدبیر سے پرورش پاویں کہ کسی بچے کی ذات میں اور کسی بچے کے مذہب میں جو اس کے ماں باپ کا ہو ذرا فرق نہ آںے پاوے۔ مسلمان بچوں کی پرورش کے لیے مسلمان مرد عورتیں مقرر ہوں اور ہندو مذہب کے بچوں کی پرورش کے لیے بلحاظ ان کی ذات و مذہب کے برہن وغیرہ مقرر ہوں۔ (۴) اسی مقام پر جہاں وہ بچے پرورش پاویں ایک مکتب ہو جس میں اردو ہندی کی ضروری تعلیم لڑکوں کو دی جاوے اور اسی مقام پر کچھ کام سکھلانے کا مثل دری بافی، قالین بافی یا نجای لوہاری وغیرہ پیشوں کا کارخانہ ہو اور وہ لڑکے اس کارخانے میں کوہی پیشہ سیکھ لیں اور جب وہ جوان ایک معین حد تک پہنچ جاویں اور خزد اپنے لیے آپ کمانے کے لائق ہو جاویں جب وہاں سے خارج کیے جاویں۔ (۵) اسی طرح اور اسی قاعدے پر یتیم لڑکیوں کی بھی پرورش و تعلیم و تربیت ایک جدا مکان میں جو اسی جگہ ہو، کی جاوے۔لڑکیاں جب جوان ہو جاویں تو وہ دفعۃً خارج نہ کر دی جاویں، بلکہ ان کے نکاح بیادہ شادی کی کوئی تدبیر کر دی جاوے، تاکہ نیکی اور نیک بختی سے وہ اپنی زندگی بسر کریں۔ (۶) اس کام کے لیے ایک کمیٹی مقرر ہو جس میں ہندو و مسلمان سب شریک ہوں اور اسی کمیٹی کے ذریعے سے ان سب چیزوں کا انتظام اور عمل درآمد کیا جاوے۔ (۷) تمام لوگ ہندو و مسلمان اس کام کے لیے چندہ دیں اور جو ذی مقدور ہیں وہ کچھ مہینہ مقرر کر دیں۔ جو زمیندار و تعلقہ دار ہیں وہ غلے سے، لکڑی سے، برتنوں سے ہمیشہ اس یتیم خانے کی مدد کیا کریں اور یہ یتیم خانہ ایسا مستحکم اور مستقل ہو جاوے جس کے قیام پر بخوبی بھروسا ہو اور ہم گورنمنٹ کو بتلا سکیں اور کہہ سکیں کہ اس کے قیام کی تدبیریں ایسی مستحکم ہو گئی ہیں جن کے قائم رہنے اور بخوبی چلنے میں کچھ شبہ نہیں ہے۔ (۸) اگر یہ تدبیر جیسا کہ میں نے کہا، کامل ہو جاوے تو اس وقت گورنمنٹ کے سامنے نہایت ادب اور عاجزی سے درخواست پیش کی جاوے گی کہ ہماری کمیٹی یتیم و لاوارث بچوں کی پرورش کو موافق ان کی ذات و مذہب کے موجود ہے، آئندہ سے جو یتیم و لاوارث بچے ہندو یا مسلمان کے ہوں وہ اس کمیٹی کے سپرد کیے جاویں اور پادری صاحبوں کو ان کی سپردگی جو صرف بغرض ان کے عیسائی بنانے کے لیتے ہیں، نہ حقیقۃ یتیموں پر رحم کرنے کو بند ہو جاوے۔ (۹) میں نہایت اعتماد اور نہایت بھروسے اور اپنے یقین کامل سے جو مجھ کو گورنمنٹ کے عدل و انصاف پر ہے اور اس یقین کامل سے کہ گورنمنٹ کی مرضی کسی قسم کی مداخلت مذہبی کی نہیں ہے اور اس امر کے یقین سے کہ بمجبوری یتیم بچے پادریوں کے سپرد ہوتے ہیں، گورنمنٹ کا ہر گز یہ منشاء نہیں ہے کہ وہ یتیم بچے عیسائی بنائے جاویں، میں یقین رکھتا ہوں کہ فی الفور گورنمنٹ اس درخواست کو منظور کرے گی اور پادریوں کو یتیم بچوں کا سپرد ہونا قطعاً بند کر دے گی، بشرطیکہ ہم درستی سے ان کی پرورش کا سامان مہیا کر لیں۔ (۱۰) میں دوبارہ اپنے ہم وطنوں کو یقین دلاتا ہوں کہ درخواست کے منظزر ہونے میں کچھ شبہ نہیں ہے اور یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ اس امر کی پیروی میں جہاں تک ذاتی پیروری درکار ہے میں کروں گا۔ میں یہاں تک اقرار کرتا ہوں کہ اس درخواست کو ملکہ معظمہ انگلستان و قیصر ہندوستان کے پائے تخت پر رکھنے کی ضرورت ہو تو میں خود لندن جا کر حضور ممدوح کے پائے تخت پر رکھوں گا، مگر کبھی خیال کرنا نہیں چاہیے کہ ایسی ضرورت پڑے گی۔ (۱۱) پس میں اس کمیٹی کا قائم ہونا چاہتا ہوں اور ضْع علی گڑھ کے تمام ہندو مسلمان رئیسوں سے درخواست کرتا ہوں کہ جو صاحب اس تجویز کو پسند کرتے ہوں وہ علی گڑھ میں بتاریخ بیسویں مئی ۱۸۷۷ء وقت سات بجے صبح کے سائنٹیفک سوسائٹی ہال میں تشریف لاویں اور اس تجویز کو کامل و جاری کرنے کے مقصد سے جو جو قواعد و تجویزیں اور ابتدائی تدبیریں کرنی مناسب ہوں ان کو تجویز کریں اور کمیٹی قرار دے دیں اور اس کے ممبر مقرر ہو جاویں، تاکہ آئندہ کارروائی شروع ہو اور جو صاحب شہر ہائے دور دراز کے رہنے والے ہیں وہ اپنی تحریریں اس باب میں تاریخ مذکورہ سے پہلے راقم آثم پاس بھیج دیں، تاکہ وہ سب تحریریں اس مجلس میں پڑھی جاویں۔ انسان و حیوان (تہذیب الاخلاق بابت جمادی الثانی ۱۲۹۷ھ) لوگوں نے جان دار مخلوق کی دو قسمیں کی ہیں، انسان اور حیوان، مگر سوچنا چاہیے کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے جس کے سبب سے دو قسمیں قرار دی ہیں۔ کیا چیز ایک میں ہے اور دوسرے میں نہیں یا دوسرے میں ہے اور پہلے میں نہیں۔ فطرت نے ہر ایک جاندار کو کسی نہ کسی چیز کا محتاج بنایا ہے اور اس احتیاج کے رفع کرنے کی تدبیر یا تمیز یا عقل اس کو عطا کی ہے۔ انسان کو خدا نے ننگا پیدا کیا، اس کو لباس بنانے، سردی گرمی سے بچنے، لباس کے لیے عمدہ عمدہ نفیس سادے اور گلدار سنہری روپیلی کپڑے بننے کی تدبیر بتائی۔ حیوانوں کا لباس نہایت خوبصورت و نفیس رنگ برنگ سنہرا و روپیلا گلدار و پر بہار ان کے ساتھ پیدا کیا۔ قدرت نے جاڑے گرمی کی پوشاک کی تبدیلی کا خود ذمہ لیا۔ ان میں وہ حاجت نہ تھی جو اس ننگی مخلوق میں تھی، اس لیے ان کو وہ تدبیر نہیں بتائی جو اس ننگی مخلوق کو سکھائی، گو ایک کو ایک تدبیر آئی اور دوسرے کو نہ آئی مگر نتیجے میں دونوں برابر ہیں، بلکہ پچھلا پہلے سے بہتر ہے۔ زندگی کے لیے دونوں غذا کے محتاج ہیں۔ ایک کے لیے خود فطرت نے خوان الوان نعمت چن رکھا ہے، دوسرا اپنی عرق ریزی سے اسے مہیا کرتا ہے۔ اس کو اس عرق ریزی کی حاجت نہ تھی، اس لیے اس کو اس کی کوئی تدبیر نہ بتائی اور اس کو عرق ریزی کی حاجت تھی، اس کو اس کی سب تدبیریں سکھلائیں، مگر نتیجے میں دونوں برابر ہیں، بلکہ یہ اس سے افضل ہے۔ کہتے ہیں کہ پہلا ذی عقل ہے۔ اگر عقل کے معنی وہ لو جو ہر روز برتنے میں آتے ہیں، یعنی وہ شیئی جس سے حاجت روا ہوتی ہے تو وہ تو دوسرے میں بھی پاتے ہیں۔ تمام حاجتیں جو فطرت نے اس دوسری مخلوق میں رکھی ہیں اس کے ساتھ وہ شیئی بھی رکھی ہے جس سے ان ضرورتوں کو رفع کر سکتا ہے اور اس طرح رفع کرتا ہے کہ پہلا، یعنی انسان اس طرح رفع نہیں کر سکتا۔ اس شیئی کی کمی و بیشی کا دعویٰ کہ انسان میں زیادہ یا کامل ہے اور حیوان یمں کم یا ناقص ایک بے معنی دعویٰ ہے۔ کامل یا ناقص، کم یا زیادہ، نسبتی مقولات ہیں جن میں کمی بیشی کا اطلاق نسبت کے مساوی ہونے پر محض لغو ہے۔ دس کو سو کے مقابل وہی نسبت ہے جو ایک کو دس کے مقابل، پھر یہ کہنا کہ دس زیادہ ہیں اور ایک کم بے معنی بات ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان مدرک کلیات و جزئیات ہے، اگر ہے تو اس کو اس کی بھی حاجت ہے اور حیوان کو نہیں۔ اس صورت میں بھی دونوں نتیجے میں برابر ہوئے، بلکہ حیوان اچھا رہا۔ دین دار کہتے ہیں کہ انسان خاص عبادت کے لیے بنایا گیا۔ اگر عبادت کے یہ معنی ہیں کہ مخلوق وہ کرے جس کے لیے بنایا گیا ہے تو تو شجر و حجر، آب و خاک، آتش و ہوا، چرند و پرند سے زیادہ انسان عابد نہیں ہو سکتا۔ قومی ہمدردی بھی حیوانوں میں پائی جاتی ہے، پس قومی ہمدردی بھی انسان کی خاصیت نہیں ہے۔ ہاں ایک بات انسان میں ہے جو حیوان میں نہیں کہ وہ قومی ہمدردی کے ساتھ اس قومی ضرورت کا تدارک بھی کر سکتا ہے، مگر حیوان نہیں کر سکتا۔ پس جو انسان کہ قومی ہمدردی نہیں کرتے وہ تو حیوانیت سے بھی خارج ہیں ارو جو ہمدری کی صرف باتیں بناتے ہیں اور عملی طور پر اس کو کام میں نہیں لاتے وہ ان جانوروں کی ماند ہیں جو کائیں کائیں کر کے جمع تو ہو جاتے ہیں، مگر کچھ کرتے نہیں۔ اس زمانے میں ہماری قوم کا یہی حال ہے کہ بعضے تو قومی ہمدردی کے نام سے بھی آشنا نہیں اور بعضے باتیں تو بہت لمبی چوڑی بناتے ہیں، مگر کرتے کچھ نہیں۔ خدا کرے کہ ہماری قوم انسان بنے اور سمجھے کہ ان کی قوم کس حالت میں مبتلا ہے اور کس کس چیز کی، علیٰ الخصوص تعلیم کی اس کو حاجت ہے۔ پس مقتضائے انسانیت یہی ہے کہ ہم سب مل کر اس میں مدد دیں اور جن چیزوں کی قوم کو ضرورت ہے ان کو مہیا کریں۔ عزم جزم (تہذیب الاخلاق بابت ماہ رمضان ۱۲۹۷ھ) یہی ایک شے ہے جو انسان کو دین و دنیا دونوں میں کامیاب کرتی ہے، مگر یہ ایک دوسری چیز کا نتیجہ ہوتا ہے جس کو مسٹر فاسٹر نے ’’ڈسیژ آف کیریکٹر‘‘ یعنی تصفیۃ العمل سے تعبیر کیا ہے، یعنی اس بات کا فیصلہ کہ میں کیا ہوں گا اور کیا کروں گا۔ درحقیقت انسان کے لیے اس کا فیصلہ نہایت ضرور ہے، بلکہ جب انسان بچپن کی حالت میں ہوتا ہے اور اس امر عظیم کا خود فیصلہ کرنے کے لائق نہیں ہوتا تو اس کے مربیوں کا فرض ہے کہ وہ خود اس کے لیے اس کا فیصلہ کریں اور جب وہ خود اس امر کے فیصلے کے لائق ہو تو اس کو اختیار ہو گا کہ خواہ اسی فیصلے کو بحال رکھے اور چاہے منسوخ کر کے خود اس کا فیصلہ کرے۔ تمام سویلائزڈ ملکوں میں ایک عام رواج ہے کہ جب بچہ تعلیم پانے کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کے مربی اس امر کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس فیصلے کے مطابق اس کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرتے ہیں، مگر افسوس ہے کہ ہمارے ملک اور بالتخصیص ہماری قوم کے بزرگوں کو اس بات کا کہ وہ اپنی اولاد کے لیے اس امر عظیم الشان کے فیصلے کی تدبیر کریں، کچھ بھی خیال نہیں ہے۔ وہ پیشہ ور جن کو ہم نہایت حقارت سے دیکھتے ہیں اس بات کا بخوبی تصفیہ کر چکے ہیں کہ جو ہم ہیں وہی وہ ہو گا بقول شخصے: میراث پدر خواہی علم پدر آموز مگر ہماری قوم کے ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اپنے تئیں اشراف (نسبی اشراف نہ حقیقی اشراف) یا دولت مند، صاحب جاہ و حشم سمجھتے ہیں۔ کیا ان کا بھی یہ خیال ہے کہ جو ہم ہیں وہی وہ ہو گا؟ اگر یہی ہو تو وہ نہایت غلطی پر ہیں۔ کوئی زمانہ انسان پر ایسا نہیں گزرتا کہ اس کو اس امر کے تصفیے کی حاجت نہ ہو۔ صرف اتنا فرق ہے کہ جس طرح رفتہ رفتہ یہ امر عظیم الشان ہوتا جاتا ہے اسی کے موافق اس کا تصفیہ بھی عظیم الشان ہو جاتا ہے۔ ایک اہل پیشہ کا لڑکا ابتدائی عمر سے اس کا فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں وہی ہوں گا جو میرا باپ ہے اور وہی کروں گا جو میرا باپ کرتا ہے۔ ایک طالب علم جو ابتدائی تعلیم شروع کرتا ہے جب تک وہ اس کا فیصلہ نہ کرے کہ میں کیا ہوں گا اور کیا کروں گا اس وقت تک اس کو تعلیم میں بھی کبھی کامیابی نہیں ہوتی۔ بہت سے طالب علموں کو ہم دیکھتے ہیں کہ کسی قسم کی تعلیم شروع کرتے ہیں اور پھر اس سے گھبرا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا سبب در حقیقت یہی ہوتا ہے کہ انہوں نے اس بات کا کہ وہ کیا ہوں گے اور کیا کریں گے بخوبی فیصلہ نہیں کیا اور اسی سبب سے ان میں عزم جزم پیدا نہیں ہوا جو تمام مشکلات کا آسان کرنے والا اور ہر ایک مواقع پر غالب آنے والا ہے۔ اس زمانے کے بعد انسان پر ایک ایسا زمانہ آتا ہے جس میں اس امر کا تصفیہ زیادہ تر عظیم الشان ہو جاتا ہے۔ جب وہ اپنی ضروری تعلیم و تربیت سے فارغ ہوتا ہے اور ایک قسم کی تمیز اور سمجھ حاصل کرتا ہے تب اس کو خود اپنے آپ سے پوچھنا ہوتا ہے کہ میں کیا ہوں گا اور کیا کروں گا۔ اس وقت اس امر کا تصفیہ بلاشبہ نہایت نازک اور عظیم الشان ہو جاتا ہے۔ اگر وہ اس کے تصفیہ پر قادر نہیں ہوتا تو ہمیشہ خراب و خستہ رہتا ہے اور اگر بخوبی تصفیہ کر لیتا ہے اور تصفیے میں کچھ غلطی بھی نہیں کرتا تو اس میں عزم جزم پیدا ہوتا ہے اور ضرور بالضرور وہ اس میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو انسان اس بات کا فیصلہ نہیں کر لیتا کہ وہ کیا ہو گا اور کیا کرے گا دنیا میں محض لاشیئی ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو اس تصفیے کا مدار عارضی امور پر رکھتے ہیں جیسے کہ ہماری قوم کے رئیسوں اور دولت مندوں کا حال ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ جو اتفاقیہ ریاست اور دولت ہمارے ہاتھ آ گئی ہے وہ ہمیشہ ہمارے ہاں رہے گی۔ ان کی اولاد سمجھتی ہے کہ ہم کو ایسی موروثی جائیداد ہاتھ آنے والی ہے کہ جس عیش و آرام سے ہم بسر کرنا چاہیں گے بسر کر سکیں گے اور اس پر وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم کو کچھ نہ ہونا چاہیے۔ ہم امیر ہوں گے، رئیس ہوں گے، تعلقدار ہوں گے اور انہی کے سے کام کریں گے۔ اسی خیال نے ہماری قوم کے رئیسوں اور ئیس زادوں اور تعلقداروں اور تعلقدار زادوں کو ڈبو دیا ہے، مگر وہ اس خیال میں بڑی غلطی پر ہیں۔ امور عارضی کو نہ قیام ہے اور نہ وہ ایک حال پر رہتے ہیں اور نہ وہ اس امر کے تصفیے سے کہ میں کیا ہوں گا اور کیا کرونگا کچھ علاقہ رکھتے ہیں۔ یہ سوال عارضی امور سے علاقہ نہیں رکھتا، بلکہ انسان کی ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ یہ پوچھتا ہے کہ میں کیا ہوں گا، یعنی کیا چیز اپنے میں پیدا کرونگا اور پھر جو چیز مجھ میں پیدا ہو گی اس سے کیا کروں گا۔ بہت سے لوگ ہیں جو ہر ایک چیز کا نتیجہ فائدہ مذہبی قرار دیتے ہیں اور اس مین کچھ کلام نہیں کہ فائدہ مذہبی ہر ایک چیز کا ضروری نتیجہ ہونا چاہیے، مگر وہ لوگ فائدہ مذہبی کے لفظ کو خاص معنوں میں محدود کرتے ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کو جس نے اپنا اور اپنے عمل کا بخوبی تصفیہ کیا تھا اور اس میں کامیاب بھی ہوا تھا، اس کو کچھ نتیجہ اس کا نہیں ملا ہے تو وہ سب امور کو تقدیر پر منحصر کرتے ہیں اور اس بات کے تصفیے کی کہ میں کیا ہوں گا اور کیا کروں گا کچھ ضرورت نہین سمجھتے۔ اسی خیال نے ہماری قوم کے لوگوں کو پست ہمت کر دیا ہے اور عزم جزم کا مادہ ان میں سے کھو دیا ہے۔ اس مقام پر میں اس مسئلے سے بحث کرنا نہیں چاہتا، مگر یہ کہتا ہوں کہ اگر یہی ہو تو بھی دو جداگانہ باتوں کو غلطی سے مخلوط کر دیا جاتا ہے۔ میں کیا ہوں گا اور کیا کروں گا ایک جداگانہ امر ہے اور اس سے کیا پاؤں گا جداگانہ سوال ہے۔ پس اگر پچھلا سوال تقدیر ہی پر محمول ہو تو پہلے سوال کو پچھلے سوال سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ فائدہ مندی کے معنوں کو محدود کرنا سب سے پہلی غلطی ہے، بڑی فائدہ مندی اسی میں ہے کہ انسان اس امر کا تصفیہ کر لے کہ میں کیا ہوں گا اور کیا کروں گا۔ ایک بڑے فلاسفر کا قول ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ خوش زندگی سور کی سی زںدگی ہے اور سب سے زیادہ رنجیدہ زندگی سقراط کی سی زندگی کو پسند کرتا ہوں۔ جو لوگ کہ اپنا اور اپنے عمل کا تصفیہ نہیں کر لیتے اور اتفاقیہ دولت کو پہنچ جاتے ہیں بلاشبہ خوش زندگی بسر کرتے ہیں، مگر ان کی وہ خوش زندگی سور کی سی خوش زںدگی ہے جس کو بجز سور کے اور کوئی انسان پسند نہیں کر سکتا۔ سقراط کی زندگی جس کو رنجیدہ زندگی سے تعبیر کیا ہے، درحقیقت وہی خوش زندگی ہے۔ اس زندگی اور دوسری قسم کی زندگی میں ایسا ہی فرق ہے جیسا کہ روحانی اور جسمانی چیز میں ہے۔ پس ہر انسان کو اس پچھلی خوش زندگی حاصل کرنے میں کوشش کرنی اور اس پہلی خوش زندگی سے پرہیز کرنا واجب ہے۔ قطع نظر اس کے انسان خواہ سور کی سی خوش زندگی اختیار کرے، خواہ سقراط کی سی رنجیدہ زندگی، دونوں کے لیے اس امر کا تصفیہ کہ میں کیا ہوں گا اور کیا کروں گا ضرور ہے۔ بغیر اس کے انسان کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ نہ وہ سور کی سی خوش زندگی حاصل کر سکتا ہے نہ سقراط کی سی رنجیدہ زںدگی۔ دنیا میں بہت بڑے بڑے خدا پرست گزرے ہیں جنہوں نے اپنا عیش و آرام جان و مال اپنی دانست میں خدا کے لیے صرف کیا ہے۔ دنیا میں بہت بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں جنہوں نے عظیم الشان فتوحات حاصل کی ہیں۔ دنیا میں بہت بڑے بڑے ذی علم گزرے ہیں جن سے دنیا نے بے انتہا فائدہ حاصل کیا ہے۔ دنیا میں بہت بڑے بڑے رفارمر گزڑے ہیں جنہوں نے اپنی قوم کی بھلائی و اصلاح میں اپنی جانوں کو بھی ضائع کیا ہے۔ دنیا میں ایسے بے رحم اور قاتل سفاک غارت گر گزرے ہیں جنہوں نے ایسے ایسے بے رحم کام کیے ہیں جن کو سن کر انسان حیران رہ جاتا ہے، مگر ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس نے یہ تصفیہ نہ کر لیا ہو کہ میں کیا ہوں گا اور کیا کروں گآ۔ پس سعادت حاصل کرنی چاہو یا شقاوت سب کی جڑ اسی امر کا تصفیہ کر لینا ہے کہ میں کیا ہوں گا اور کیا کروں گا۔ مسٹر فاسٹر نے کیا عمدہ بات کہی ہے کہ جس شخص میں اس امر کے فیصلہ کرنے کی قوت نہیں ہے وہ ان دو سوالوں کا کہ تم کیا ہو گے، تم کیا کرو گے؟ کچھ جواب نہیں دے سکتا۔ انسان جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو مختلف جالتیں اس کو پیش آتی ہیں۔ کبھی وہ یہ سوچتا ہے کہ یہ کام اخۃیار کرنا چاہیے، کبھی کہتا ہے کہ نہیں۔ جب وہ اس کی خوبیوں پر خیال کرتا ہے تو اس کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور جب اس کی مشکلات پر خیال کرتا ہے تو ڈگمگا جاتا ہے اور قوت فیصلہ نہ ہونے سے اس کے اختیار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ چند امور اس کے سامنے ہوتے ہیں، وہ ایک کی بھلائی برائی پر غور کرتا رہتا ہے، مگر قوت فیصلہ نہ ہونے سے ان مین سے کسی کو بھی اختیار نہیں کر سکتا۔ سب سے زیادہ مشکل اس کو اس وقت پیش آتی ہے کہ جب وہ اس گروہ کی جس مین وہ ہے کسی رسم و رواج کی برائی پر مطلع ہوتا ہے اور اس کو ترک کرنا یا تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ادھر تو اس کے دل میں اس رسم و رواج کی برائی کے خیالات پیدا ہوتے ہیں اور ادھر اپنے لوگوں کی لعن و طعن اور دوستوں کی ہنسی اور اغیار کی دل لگی اور اپنے حالات کو نقل محفل ہونے اور نامہذبوں کی پھبتیوں اور بدطینتوں کی دشنام دھی کے خیال سے اس کا دل گھبرا جاتا ہے اور قوت فیصلہ کی کم زوری سے اپنے لیے کچھ فیصلہ نہیں کر سکتا اور وہ نہیں جانتا کہ میں کیا ہوں گا اور کیا کروں گآ۔ پس ہماری خواہش اپنی قوم سے اور اپنی قوم کے نوجوانوں سے یہی ہے کہ بخوبی اس امر کا تصفیہ کر لیں کہ وہ کیا ہوں گے اور کیا کریں گے، کیونکہ بغیر اس امر کے تصفیے کے ان کو کسی قسم کی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ مضمون مروت اور اس پر سر سید کا نوٹ (تہذیب الاخلاق بابت ۱۲۹۸ھ صفحہ ۲۷۰ تا ۲۷۳) منشی مہدی حسن منصف رائے بریلی نے تہذیب الاخلاق بابت ۱۲۹۸ھ میں ایک بہت دلچسپ مضمون ’’مروت‘‘ کے زیر عنوان لکھا تھا۔ اس مضمون پر سرسید نے بھی اپنے مخصوص انداز میں بہت ہی پر لطف ریمارک کیا تھا۔ چونکہ اس ریمارک کے پڑھنے کا لطف اس وقت تک نہیں آ سکتا اور نہ یہ ریمارک اس وقت تک پورے طور پر سمجھ میں آ سکتا ہے جب تک قاری اصل مضمون نہ پڑھے، اس لیے ہم سرسید کے مضمون کے ساتھ منشی مہدی حسن کا مضمون بھی شائً کر رہے ہیں۔ پہلے مضمون ’’مروت‘‘ نقل کیا جاتا ہے اس کے بعد سرسید نے جو ریمارک اس پر کیا ہے وہ درج کیا جائے گا۔ (محمد اسماعیل) مروت یہ امر اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلاں فعل مروت میں کیا گیا، فلاں شخص کو روپیہ مروت میں دیا گیا، فلاں بددیانت شخص کی سفارش مروت میں کر دی گئی، فلاں مقدمے میں بے انصافی مروت کی وجہ سے ہو گئی، اور ایسے شخص کی لوگ بہت تعریف کرتے ہیں جو مروت میں حزم اور پیش بینی اور راست بازی کو جو فطرتی اخلاق ہیں بالائے طاق رکھ دے۔ جب میں ایسی مروت کا حال سنتا ہوں تو مجھے خراب مروت کے مضر اثروں اور پلو ٹارک کے قول کا خیال آتا ہے۔ پلو ٹارک کا قول تھا کہ اس شخص کی نہایت خراب تعلیم ہے جس کو کسی چیز سے انکار کرنا نہیں سکھایاگیا۔ اس غلط قسم کی مروت نے مرد و عورت دونوں کو ہزارہا قسم کی خراب باتوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس قسم کی غلط مروت کو عقل کبھی معاف نہیں کر سکتی، کیونکہ ایسی مروت سے دوسروں کے دل کی خواہش پوری ہوتی ہے، لیکن اپنے تئیں اطمینان نہیں ہوتا، بلکہ بطور سزا کے ایک افسوس اور حسرت دامن گیر ہوتی ہے اور یہ افسوس و حسرت مثل اس کے نہیں ہوتا جو ارتکار جرائم میں دل پر طاری ہوتا ہے، کیونکہ وہ افسوس تو ارتکار جرم کے بعد ہوتا ہے، لیکن یہ افسوس عین اس وقت ہوتا ہے جبکہ ایسی مروت کی جائے۔ یہ جھوٹی مروت صرف وہی کام ہم سے نہیں کراتی جو خلاف عقل ہیں، بلکہ وہ افعال ہم سے کراتی ہے جو جرم ہیں۔ رزوفن جوئے میں بازی نہ لگانے کی وجہ سے بزدل کہلاتا تھا، مگر اس کا قول تھا کہ میں بے شک بزدل ہوں، کیونکہ مجھے برے کام کرنے کی جرأت نہیں پڑتی۔ برخلاف اس کے جو شخص جھوٹی اور خراب مروت کا عادی ہے وہ سب ایسے اموں کو کرے گا اور صرف انہی کاموں کے کرنے سے ڈڑے گا جن کو وہ اس جماعت کی رائے کے خلاف سمجھتا ہے جس سے اسے تعلق ہے۔ یہ عادت گو عام ہے، لیکن فطرت انسانی میں ایک نہایت ہنسی کے لائق بات ہے کہ کوئی شخص خلاف عقل اور سبک امر کہنے یا کرنے سے تو نہ شرمائے، لیکن موافق عقل اور دیانت کام کرنے سے صرف اس بنا پر شرمائے کہ جماعت کی رائے کے خلاف ہے۔ جھوٹی مروت سے اس عیب کو بھی ہر وقت خیال میں رکھنا چاہیے کہ اس کی وجہ سے اکٹڑ انسان اس فعل کے کرنے سے رکتا ہے جو اچھا اور پسندیدہ ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہر ایک شخص خیال کر سکتا ہے، لیکن دو مثالوں کو میں بیان کرنا چاہتا ہوں جو مجھ پر خود گزری ہیں۔ جب میری عمر ۱۸ سال کی تھی تو میں اس زمانے مین مختصر نافع اور دیگر کتب فقہ پڑھتا تھا اور جیسا کہ اکثر ہوتا ہے اس زژانے میں فقہاء کی صحبت اور فقہ کی تعلیم کی وجہ سے ایک عجیب قسم کا شوق تقدس اور ورع کا پیدا ہوا تھا جس کے سبب سے رقص و سرود اور ایسے جلسوں سے میں احتراز کیا کرتا تھا۔ اتفاقاً میں ایک ایسی صحبت میں جا پڑا جہاں بجز اس کے اور کچھ ذکر نہ تھا۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ میں دل سے اس صحبت کو پسند نہیں کرتا تھا، تاہم میں چاہتا تھا کہ ان لوگوں کو ثابت نہ ہو کہ میں اس قدر مقدس ہوں یا ایسی صحبت کو پسند نہیں کرتا۔ دوسری مثال یہ ہے کہ آج کل ہماری قوم کے نئے تعلیم یافتہ لوگوں میں اس بات سے شرم پیدا ہوتی ہے کہ وہ مذہبی آدمی یا پابند مذہب سمجھے جائیں۔ میں صوم و صلواۃ کا پابند ہوں، لیکن چونکہ میری وضع نئی ہے، لوگوں کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ میں نماز پڑھتا ہوں اور نہ میں یقین دلانا چاہتا ہوں۔ ایک دفعہ مجھے اتفاق ایک صاحب کی ملاقات کا ہوا اور وہ وقت نماز عصر کا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ صاحب پابند نماز تھے، کیونکہ آدمی نے اطلاع دی کہ جانماز بچھی ہے۔ چونکہ ان کو گمان قوی تھا کہ میں نماز نہیں پڑتھا ہوں، لہذا انہوں نے نہایت شرما کر آدمی کی طرف دیکھا اور کچھ غصہ اور کچھ ہنسی سے کہا کہ رہنے دو اور پھر مختلف، تقاریر سے انہوں نے ثابت کرنا چاہا کہ وہ نماز کے پابند نہیں ہیں۔ غرضیکہ اس قسم کی اور بہت سی مذہبی باتیں ہیں جن کو لوگ کرتے ہیں، لینک جماعت سے سب کی رائے کو خلاف سمجھتے ہیں شرماتے ہیں، مگر میں اس کو نہایت ذلیل بات سمجھتا ہوں۔ جس فعل کو کہ ہم اچھا سمجھ کر یا برا نہ سمجھ کر اختیار کر لیں اس کو پوشیدہ کرنا یا اس سے شرمانا نہایت خلاف دیانت ہے۔ ایک بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ میں بھی بعض مقامات پر نماز پڑھنے سے شرماتا ہوں، یعنی اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے جو صرف وضع اور خیال کی تبدیلی پر فتویٰ کفر کا دیتے ہیں۔ میں اس وجہ سے شرماتا ہوں کہ مجھے اس امر کا یقین ہوتا ہے کہ وہ میری نماز کو مکر پر مبنی کریں گے۔ مہدی حسن۔ منصف رائے بریل ریمارک از طرف ایڈیٹر (سرسید احمد خاں) میں چاہتا ہوں کہ اپنے معزز دوست منشی مہدی حسن صاحب کے اس فقرے پر کہ ’’آج کل ہماری قوم کے نئے تعلیم یافتہ لوگوں میں اس بات سے شرم پیدا ہوتی ہے کہ وہ مذہبی آدمی یا پابند مذہب سمجھے جاویں‘‘ کچھ لکوں۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ اس بات کو میں نے سنا، مگر ہمارے دوست کے الفاظ کسی قدر تشریح کے قابل ہیں۔ اس زمانے میں مذہبی آدمی وہ سمجھے جاتے ہیں جن کے دل بد تعصب سے پتھر سے زیادہ سخت ہو گئے ہیں سوائے اپنے اہل مشرب کے سب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور تمام دنیا کو، بلکہ اپنے اہل مذہب میں سے بھی ان کو جو ان کے مشرب کے برخلاف ہیں، حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں۔ غیر مذہب کے لوگوں سے دوستی و محبت اور ان کے ساتھ ہمدردی کو کفر و الحاد جانتے ہیں۔ ان کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ سوائے اپنے اور کسی کو دیکھ نہیں سکتے۔ اور پابند مذہب وہ سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے جزئیات مسائل کو فرض و واجب سے بھی اعلیٰ درجہ دیا ہے۔ ان کا کام دن رات ادنی ادنی مسئلوں پر بحث و تکرار کرنا اور سر پھوڑنا اور پھڑوانا ہے۔ تمام دین داری انہوں نے اپنی ظاہری باتوں تعصب، تقشف، تصلب، ترہب پر منحصر کی ہے اور اندرونی نیکی سے کچھ غرض اور تعلق نہیں رکھا۔ ہوائے نفسانی کے پورا کرنے کو حیل شرعی کی ٹٹی بنائی ہے اور ٹٹی اوجھل شکار کھیلنا اپنا دیدن اختیار کیا ہے۔ بلاشبہ اس زمانے کے لئے تعلیم یافتہ ایسے مذہبی آدمی ہونے اور ایسے پابند شرع سمجھے جانے سے شرماتے ہوں گے اور ان کا شرمانا بجا و درست ہو گا، بلکہ کون مسلمان ایسا ہو گآ جو ایسا مذہبی آدمی ہونے اور ایسا پابند شرع سمجھے جانے سے شرماتے ہوں گے اور ان کا شرمانا بجا و درست ہو گا، بلکہ کون مسلمان ایسا ہو گا جو ایسا مذہبی آدمی ہونے اور ایسا پابند شرع سمجھے جانے سے نہ شرماتا ہو۔ اس کے سوائے تعلیم یافتہ لوگ تو اپنے تئیں نہایت فخر سے سچے مذہب ٹھیٹ اسلام کا مذہبی آدمی بیان کرتے ہیں اور سچے مذہب اسلام کا پابند ہونا اپنا افتخار جانتے ہیں۔ ادائے فرائض مذہبی میں غفلت یا سستی ہوتی ہے اس کو اپنی شامت اعمال جانتے ہیں۔ اپنے تئیں گنہگار سمجھتے ہیں اور جو ایسے نہیں ہیں وہ نئے تعلیم یافتہ نہیں ہیں، بلکہ وہ نئی تعلیم سے بے بہرہ ہیں۔ پس ہمارے دوست منشی مہدی حسن صاحب کو ضرور تھا کہ وہ یوں لکھتے کہ ’’نئے تعلیم یافتہ لوگوں میں اس بات سے شرم پیدا ہوتی ہے کہ وہ اس زمانے کے مذہیب آدمیوں کے سے مذہبی آدمی سمجھے جائیں اور اس زمانے کے پابند مذہب لوگوں کی مانند پابند مذہب گنے جائیں، کیونکہ ان کے نزدیک نہ وہ سچے مذہبی آدمی ہیں اور نہ سچے پابند مذہب۔‘‘ راقم سید احمد ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ بحث و تکرار (تہذیب الاخلاق بابت ۱۰۔ صفر ۱۲۹۰ھ) جب کتے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بری نگاہ سے آنکھیں بدل بدل کر دیکھنا شروع کرتے ہیں، پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز ان کے نتھنوں سے نکلنے لگتی ہے، پھر تھوڑا سا جبڑا کھلتا ہے اور دانت دکھائی دینے لگتے ہیں اور حلق سے آواز نکلنی شروع ہوتی ہے، پھر باچھیں چر کر کانوں سے جا لگتی ہیں اور ناک سمٹ کر ماتھے پر چڑھ جاتی ہے، ڈاڑھوں تک دانت باہر نکل آۃے ہیں، منہ سے جھاگ نکل پڑتے ہیں اور حنیف آواز کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں۔ اس کا ہاتھ اس کے گلے میں اور اس کی ٹانگ اس کی کمر میں، اس کا کان اس کے منہ میں اور اس کا ٹینٹوا اس کے جبڑے میں، اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو پچھاڑ کر بھنبوڑا، جو کمزور ہوا دم دبا کر بھاگ نکلا۔ نامہذب آدمیوں کی مجلس میں بھی آپس میں اسی طرح تکرار ہوتی ہے۔ پہلے صاحب سلامت کر کر آپس میں مل بیٹھتے ہیں، پھر دھیمی دھیمی بات چیت شروع ہوتی ہے۔ ایک کوئی بات کہتا ہے، دوسرا بولتا ہے واہ یوں نہیں یوں ہے۔ وہ کہتا ہے ’’واہ تم کیا جانو‘‘ وہ بولتا ہے ’’تم کیا جانو‘‘ دونوں کی نگاہ بدل جاتی ہے، تیوری چڑھ جاتی ہے، رخ بدل جاتا ہے، آنکھیں ڈراؤنی ہو جاتی ہیں، باچھیں چر جاتی ہیں، دانت نکل پڑتے ہیں، تھوک اڑنے لگتا ہے، باچھوں تک کف بھر آتے ہیں، سانس جلدی چلتا ہے، رگیں تن جاتی ہیں، آنکھ، ناک، بھوں، ہاتھ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتی ہیں۔ عنیف عنیف آوازیں نکلنے لگتی ہیں، آستین چڑھا، ہاتھ پھیلا، اس کی گردن اس کے ہاتھ میں اور اس کی داڑھی اس کی مٹھی میں لپا ڈوکی ہونے لگتی ہے۔ کسی نے بیچ بچاؤ کر کر چھڑا دیا تو غراتے ہوئے ایک ادھر چلا گیا اور ایک دھر اور اگر کوئی بیچ بچاؤ کرنے والا نہ ہوا تو کمزور نے پٹ کر کپڑے جھاڑتے سر سہلاتے اپنی راہ لی۔ جس قدر تہذیب میں ترقی ہوتی ہے اسی قدر اس تکرار میں کمی ہوتی ہے۔ کہیں غرفش ہو کر رہ جاتی ہے، کہیں توں تکار تک نوبت آ جاتی ہے، کہیں آنکھیں بدلنے اور ناک چڑھانے اور جلدی جلدی سانس چلنے ہی پر خیر گزر جاتی ہے، مگر ان سب میں کسی نہ کسی قدر کتوں کی مجلس کا اثر پایا جاتا ہے۔ پس انسان کو لازم ہے کہ اپنے دوستوں سے کتوں کی طرح بحث و تکرار کرنے سے پرہیز کرے۔ انسانوں میں اختلاف رائے ضرور ہوتا ہے اور اس کے پرکھنے کے لیے بحث و مباحثہ ہی کسوٹی ہے اور اگر سچ پوچھو تو بے مباحثہ اور دل لگی کے آپس میں دوستوں کی مجلس بھی پھیکی ہے، مگر ہمیشہ مباحثہ اور تکرار میں تہذیب و شائستگی، محبت اور دوستی کو ہاتھ سے دینا نہ چاہیے۔ پس اے میرے عزیز ہم وطنو! جب تم کسی کے برخلاف کوہی بات کہنی چاہو یا کسی کی بات کی تردید کا ارادہ کرو تو خوش اخلاقی اور تہذیب کو ہاتھ سے مت دو۔ اگر ایک ہی مجلس میں دو بدو بات چیت کرتے ہو تو اور بھی زیادہ نرمی اختیار کرو۔ چہرہ ، لہجہ ، آواز ، وضع ، لفظ اس طرح پر رکھو جس سے تہذیب اور شرافت ظاہر ہو ، مگر بناوٹ بھی نہ پائی جاوے۔ تردیدی گفتگو کے ساتھ ہمیشہ سادگی سے معذرت کے الفاظ استعمال کرو ، مثلا یہ کہ میری سمجھ میں نہیں آیا یا شاید مجھے دھوکا ہوا یا میں غلط سمجھا ، گو بات تو عجیب ہے ، مگر آپ کے فرمانے سے باور کرتا ہوں ، جب دو تین دفعہ بات کا الٹ پھیر ہو اور کوئی اپنی رائے کو نہ بدلے تو زیادہ تکرار مت بڑھاؤ۔ یہ کہہ کر کہ میں اس بات کو پھر سوچوں گا یا اس پر پھر خیال کروں گا ، جھگڑے کو کچھ ہنسی خوشی دوستی کی باتیں کہہ کر ختم کرو ۔ دوستی کی باتوں میں اپنے دوست کو یقین دلاؤ کہ اس دو تین دفعہ کی الٹ پھیر سے تمہارے دل میں کچھ کدورت نہیں آئی ہے اور نہ تمہارا مطلب باتوں کی اس الٹ پھیر سے اپنے دوست کو کچھ تکلیف دینے کا تھا ، کیونکہ جھگڑا یا شبہ زیادہ دنوں تک رہنے سے دونوں کی محبت میں کمی ہو جاتی ہے اور رفتہ رفتہ دوستی ٹوٹ جاتی ہے اور ایسی عزیز چیز (جیسے کہ دوستی) ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔ جبکہ تم مجلس میں ہو جہاں مختلف رائے کے آدمی ملے ہوئے ہیں تو جہاں تک ممکن ہو جھگڑے اور تکرار اور مباحثے کو آنے مت دو ، کیونکہ جب تقریر بڑھ جاتی ہے تو دونوں کو ناراض کر دیتی ہے ۔ جب دیکھو کہ تقریر لمبی ہوتی جاتی ہے اور تیزی اور زور سے تقریر ہونے لگی ہے تو جس قدر جلد ممکن ہو اس کو ختم کرو اور آپس میں ہنسی خوشی مذاق کی باتوں سے دل کو ٹھنڈا کر لو۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے ہم وطن اس بات پر غور کریں کہ ان کی مجلسوں میں آپس کے مباحثے اور تکرار کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ……٭……٭……٭ مسلمانوں کا افلاس ’ الشیطان بعد کم الفقر و یامر کم بالفحشاء واللہ بعد کم مغفرۃ منہ و فضلا ‘ (تہذیب الاخلاق بابت 15 شوال 1291ھ) خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کو محتاج اور فقیر کر دینے کا تو شیطان وعدہ کرتا ہے اور لچ پنے کے کام کرنے کو حکم دیتاہے ، اور خدا اپنی بخشش کا اور نعمت دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ اس زمانے میں یہ ٹھیک مثل ان لوگوں کی ہے جن کا پیشہ ، یقولون مالا یفعلون ہے ، یعنی خود تو دنیا کے بندے میں اور کسی مرید و معتقد کی نذر تک نہیں چھوڑتے ، مگر زبان سے دنیا کی بے ثباتی اور دنیا کا ہیچ ہونا کہتے ہیں۔ اپنی جیب میں دنیا بھرتے ہیں اور لوگوں کو اس کے چھوڑنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ جو کام مسلمانوں کی بھلائی و بہتری اور ترقی کا سوچا جاتا ہے یا کیا جاتا ہے ، یہ عقل کے دشمن ، خدا کے دشمن ، رسول ؐ کے دشمن ، مسلمانوں کے دشمن ، ایک نہایت مسکینی سے ٹھنڈے سانس بھر کر کہتے ہیں ، ہاں دنیا چند روز ہے ، دولت مند ہوئے توکیا ،غریب ہوئے تو کیا ۔ محل میں بھی گزر جاتی ہے درخت کے سائے میں بھی گزر جاتی ہے ، موٹے کپڑے سے بھی بدن ڈھک جاتا ہے ، مہین بھی پھٹ جاتا ہے ، اچھا کھانے سے بھی پیٹ بھرتا ہے ، جو کی روٹی سے بھی بھرتا ہے ، ایسی بات کرو جو وھاں کام آئے ، دنیا تو گزرہی جاتی ہے ، ھاں جتنی دنیا ہو گی اتنا ھی حساب دینا پڑے گا ، تقدیر پر شاکر رھو ، انسان کو خدا بھوکا اٹھاتا ہے پر بھو کا سلاتا نہیں ، یہ لوگ حقیقت میں اس آیت کے مصداق ہیں اور وہ ٹھیک ٹھیک وھی وعدہ کرتے ہیں جس کا اس آیت میں ذکر ہے۔ مگر ہم تمام مسلمانوں کی دین و دنیا کی بھلائی چاہتے ہیں ۔ یہ خواہش کرتے ہیں کہ احکام شریعت حقہ کے بجا لاویں ، ممنوعات و محرمات سے بچیں ، مباح کے مزے اڑا ویں ، نیک طریقے اور اچھے پیشے اور مباح و سیلوں سے دنیا کمائیں اور پھر جس طرح خدا کی مرضی ہے نیک کاموں میں اس کو صرف کریں کہ یہی مرضی خدا کی اور یہی حکم شریعت مصطفی کا ہے۔ مگر نہایت افسوس ہے کہ مسلمانوں کا حال روڈزبروز بدتر ہوتا جاتاہے ، مفلسی ان کو گھیرتی جاتی ہے ، جرائم میں وہ مبتلا ہوتے ہیں یا جیل خانے ان سے بھرے جاتے ہیں ، جائیدادیں ان کی فروخت ہوتی جاتی ہیں ، مگر وہ بے رحم ان کے حال پررحم نہیں کرتے اور ان کو بہکانے سے باز نہیں آتے ۔ وہ اپنے اس قول پر ’’ قبعزتک لاغوینہم الی یوم الدین ‘‘ جمے ہوئے اور ثابت قدم ہیں ۔ حال کے ایک انگریزی اخبار انڈین پبلک اپینین لاہور میں مسلمانوں کا حال چھپا ہے ، اس کا ماحصل اس مقام پر لکھتے ہیں ، شاید مسلمان متنبہ ہوں ۔ اخبار مذکور نے مسلمانوں کے حالات پر غور کر کر یہ اصول قائم کیا ہے کہ ’’ اس زمانے میں مسلمانوں کو ضرور مفلس ہونا چاہیے ، مسلمانوں کسانوں کا بتدریج مفلس ہونا ، جس کو ہم اس ضلع میں زیادتی مقدمات کا ایک سبب قرار دے چکے ہیں ، قابل لحاظ و غور کے ہیں ، جو رپورٹیں اور حالات کو اخبار میں چھپے ہیں ، ان سب سے پایا جاتا ہے کہ عام ہندوستان میں یہ افلاس ترقی پر ہے۔ اس ضلع میں 1873ء میں جتنی نالشیں نقدی کی مہا جنان و دکاندار ان نے کیں ان میں سے نصف نالشیں مسلمان کسانوں پر ہوئیں اور بمقابلہ کل مقدمات قسم مذکورہ کے بحساب اوسط فی صدی چونتیس مقدمے ہوتے ہیں ۔ جب ہم یہ بات دیکھتے ہیں کہ منجملہ آٹھ شخصوں کے ایک شخص بحساب اوسط عدالت کی لڑائی میں مشغول رہتا ہے ، تو تعداد ان کسانوں کی خیال کرنی چاہیے کہ کتنے لوگ روپے پیسے کے معاملات میں مبتلا ہو کر عدالت کی لڑائی میں حیران و پریشان رہتے ہیں ۔ رجسٹرار جنرل پنجاب کی اخیر رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ تیرہ لاکھ اسی ہزار پونڈ ، یعنی ایک کروڑ اڑتیس لاکھ روپے کی جائیداد غیر منقولہ مسلمانوں کی 1873ء میں بیع و رھن ہوئی۔ مسلمانوں کا مذہب صرف لڑائی اور لوٹ مار کے مناسب ہے ۔ تقدیر پر اندھا دھندی سے اعتبار و تکیہ کرنا جیسا کہ یہ مذہب سکھاتا ہے اور اس کے معتقدوں کو خوش خوش ایسے موقع کی طرف لے جاتا ہے جس میں یقینی بربادی کا سامان ہوتا ہے اور کوئی مذھب نہیں سکھلاتا ، مگر وھی خیال کہ تقدیر کبھی نہیں ٹلتی تمام جرأت اور ھمت کو کھو دیتا ہے اور ترقی و بہبود کو پژمردہ کر ڈالتا ہے ۔ ‘‘ تقدیر کے مسئلے کی نسبت جو کچھ صاحب اخبار نے لکھا ہے ، اس میں شک نہیں کہ موجودہ مسلمانوں کی حالت ایسی ھی ہے اور خود غرض لالچی مولویوں نے درحقیقت ایسا ہی ان کو سکھلایا ہے ، الامذھب اسلام کا یہ مسئلہ نہیں ہے خود قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے ’’ لیس للانسان الاماسعیٰ ۔ ‘‘ ایک دوسرے اخبار مدراس ٹائمز نے مسلمانوں کی موجودہ حالت کی نسبت نہایت عمدہ مضمون لکھا ہے ، اس کو بھی ہم لکھتے ہیں ۔ وہ لکھتا ہے کہ مسلمانوں بوربوں کے بادشاہوں کے مشابہ ہیں ، جو نہ گزشتہ بات کو بھولتے ہیں اور نہ کسی بات کو جو آئندہ ان کے لیے مفید ہو سیکھتے ہیں ۔ یہ لوگ ہر بات میں ساکن رہتے ہیں ۔ حرکت کرنے کی کبھی ان کو خواہش نہیں ہوتی ۔ یہ لوگ دوڑ میں پیچھے پڑ گئے اور گو ممکن ہے کہ بڑی کوشش سے اوروں کے برابر جاویں ، مگر وہ کوشش کرنے کی خواہش ان کو معلوم نہیں ہوتی اور نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ بلحاظ قومیت اور مرتبہ و اختیار کے مسلمان بالکل گم ہو جائیں گے ۔ اب یہ لوگ گویا اپنے امتحان پر ہیں اور اگر چوکے تو ممکن نہیں کہ دوسرا موقع ان کو مل سکے۔ یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ان لوگوں کی حالت عجیب ہے۔ یہ لوگ سابق میں اس ملک کے فتح کرنے والے تھے اور اب ان کو مفتوحوں میں اپنا شمار ہونے کا بالطبع رنج ہوتا ہے۔ مذہبی تعصب اور غرور اور تعلیم کا جھوٹا خیال مسلمانوں کو اپنی ترقی کے اس میدان میں پیر رکھنے سے باز رکھتا ہے جس میدان کو انہیں طے کرنا ضرور ہے ، پیشتر اس کے کہ بمقابلہ اپنے ہوشیار ہمسایہ ہندوؤں کے نوکری یا اپنی روٹی پیدا کرنے کی امید کریں ۔ جو قوم کہ تھوڑا عرصہ گزرا ان کے تابع تھی ، اس کے ساتھ مقابلہ کرنے میں ان کے فخر کو سخت ضرر پہنچتا ہو ، مگر ان کو چاہیے کہ اپنی حالت کو قبول کرنے کے لیے کافی ہمت اور اس مقابلہ میں سخت کوشش کرنے کے لیے کافی جرأت اور اپنی ذات کی عزت کا خیال رکھنے کے لیے پوری ہمت کریں۔ اگر تجربے کی نصیحتوں کو صحیح صحیح نہیں پڑھ سکتے ، یا نہ پڑھیں گے تو ضرور تکلیف میں رہیں گے۔ منجملہ ان بڑے بڑے اسباب کے جن سے مسلمانوں کی خرابی ہوئی ہے ، روزینہ داری اور لاخراج داری بھی ، جس کے وہ بہت گرویدہ ہیں ، ایک بڑا سبب ہے ۔ یہ طریقہ کاھلی پیدا کرتا ہے اور کاھلی سے افلاس ہوتا ہے ، اور افلاس موجب ہے ناخوشی کا ۔ ‘‘ بلاشبہ ملکی ہونا اور روزینہ دار ہونا انسان کے لیے بہت بڑی آفت ہے۔ اس زمانے میں ملکی معافیدار اور روزینہ دار سب سے زیادہ خراب و بری حالت میں ہیں ، مگر میری دانست میں ایک اور فرقہ بھی ایسا ہی ہے ، یعنی وہ لوگ جو پیر بن کر شہر بشہر اپنے مریدوں سے ٹیکس وصول کرتے پھرتے ہیں یا منبر پر بیٹھ کر جھوٹے سچے قصے سنا کر اور واعظ بن کر لوگوں سے روپیہ وصول کرتے پھرتے ہیں ، اور بہت سے وہ لوگ ہیں جو اپنے نئیں کسی پیر فقیر کے خاندان کا بیا ن کر کر ، کسی درگاہ کا خادم کہہ کر ، یا مکہ معظمہ کا مطوف اور مدینہ منورہ کا زیارت کرنے والا بتا کر روپیہ مانگتے پھرتے ہیں ۔ جو مسلمان کہ ان لوگوں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں ، درحقیقت اپنی قوم کے ، یعنی مسلمانوں کے دشمن ہیں ، نامہذب خیرات نہایت بری چیز ہے ، اس سے قوم میں مفلسی اور ناشائستگی، بے حیائی اور بے غیرتی پھیلتی ہے۔ ٭……٭……٭……٭ قومی اتفاق (’’ مقالات سرسید ‘‘ صفحہ 136 تا 141 ) قوم کا لفظ ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنوں پر کسی قدر غور کرنی لازم ہے ۔ زمانہ دراز سے جس کی ابتداء تاریخی زمانے سے بھی بالاتر ہے قوموں کا شمار کسی بزرگ کی نسل میں ہونے یا کسی ملک کا باشندہ ہونے سے ہوتا تھا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بابی انت و امی نے اس تفرقۂ قومی کو جو صرف دنیاوی اعتبار سے تھا مٹا دیا اور ایک روحانی رشتۂ قومی قائم کیا جو ایک حبل المتین : لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے مضبوط تھا ، تمام قومی سلسلے ، تمام قومی رشتے ، سب کے سب اس روحانی رشتے ک سامنے نیست و نابود ہوگئے اور ایک نیا روحانی ، بلکہ خدائی قومی رشتہ قائم ہو گیا۔ اسلام کسی سے نہیں پوچھتا کہ وہ ترک ہے یا تاجیک ، وہ افریقہ کا رہنے والا ہے یا عرب کا ، وہ چین کا باشندہ ہے یا ماچین کا ، وہ پنجاب میں پیدا ہوا ہے یا ہندستان میں ، وہ کالے رنگ کا ہے یا گورے رنگ کا ، بلکہ جس کسی نے عروۃ الوثقی کلمۂ توحید کو مستحکم کیا وہ ایک قوم ہو گیا ! بلکہ ایک روحانی باپ کا بیٹا ! کیونکہ خدا نے خود فرمایا ہے : ’’ انما المومنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم واتقوا اللہ لعلکم ترحمون ۔ کون شخص ہے جو دو بھائیوں کو ایک باپ کا بیٹا نہیں جانتا ؟ پھر جبکہ خود خدا نے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی فرمایا ہے تو ہم سب کا ایک روحانی باپ کی اولاد ہونے میں کیا شک رہا ؟ مجھے اس بات کے دیکھنے سے نہایت افسوس ہے کہ ہم سب آپس میں بھائی تو ہیں ، مگر مثل برادران یوسف کے ہیں۔ آپس میں دوستی اور محبت ، یک دلی اور یکجہتی بہت کم ہے ۔ حسد ، بغض و عداوت کا ہر جگہ اثر پایا جاتا ہے جس کا نتیجہ آپس کی نااتفاقی ہے ۔ شیطان ، جس نے خدا سے وعدہ کیا ’ لاقعدن لھم صراطک المستقیم ‘ ایک مقدس اور بظاہر نہایت نورانی خیلے سے آپس میں بھائیوں کے ، جن کو کہ خدا نے بھائی بنایا ہے ، نفاق ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور جس طرح کہ ہمارے باپ حضرت آدم اس کے دھوکے کو خالص دوستی سمجھ کر دھوکے میں آگئے ، اسی طرح ہم بھی اس کے دھوکے میں آجاتے ہیں اور اس نفاق کو جو ہر حالت میں مردود ہے ، ایک مقدس لباس پہناتے ہیں ، یعنی ’’ مذہبی مقدس لباس کا خلعت ‘‘ اسے عنایت کرتے ہیں۔ کون شخص ہے جو اس بات کو نہیں جانتا ہے کہ : من قال لا الہٰ الا اللہ فھو مسلم ۔ من استقبل قبلتنا فھو مسلم و من ھو مسلم فھوا خ۔ امام اعظم کا مذھب مشہور ہے : لانکفر اھل القبلۃ بااین ھمہ فروع مسائل میں اختلاف ہونے کے سبب کس طرح ہماری قوم نے اس حبل المتین کی بندش کو توڑا ہے اور اس رشتۂ اخوت کو جسے خود خدا نے قائم کیا تھا ، چھوڑا ہے۔ جس قصبے اور شہر میں جاؤ ، جس مسجد اور امام باڑے میں گزرو ، باہم مسلمانوں کے شیعہ و سنی ، وھابی و بدعتی ، لامذھب و مقلد ہونے کی بنا پر آپس میں نفاق و عداوت پاؤ گے۔ ان اتفاقیوں نے ہماری قوم کو نہایت ضعیف اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ جمعیت کی برکت ہماری قوم سے جاتی رہی ہے۔ قومی ہمدردی اور قومی ترقی اور قومی امور کے سر انجام دینے میں اس نالائق نااتفاق نے بہت کچھ اثر بد پہنچایا ہے۔ پس ہماری قومی ترقی کا سب سے اول مرحلہ یہ ہے کہ ہم سب آپس کی محبت سے اس عداوت و نفاق کو یکتائی و یکجہتی سے مبدل کریں ۔ یکتائی و یکجہتی سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ سب لوگ اپنے اپنے عقائد کو چھوڑ کر ایک عقیدے پر قائم ہو جائیں ، یہ امر تو قانون قدرت کے برخلاف ہے جو ہو نہیں سکتا ۔ نہ تو پہلے کبھی ہوا اور نہ آئندہ کبھی ہو گا۔ اتفاق کے قائم رکھنے کی جس کی ہم کو ضرورت ہے اور عقلی و نقلی راہ ہے جس کی پیروی قومی اتحاد کا ذریعہ ہو سکتی ہے۔ انسان جب اپنی ہستی پر نظر ڈالے گا تو اپنے میں دو حصے پائے گا۔ ایک حصہ خدا کا اور ایک حصہ اپنے ابنائے جنس کا ۔ انسان کا دل یا اس کا اعتقاد یا مختصر سے الفاظ میں یوں کہو کہ اس کا مذھب خدا کا حصہ ہے جس میں دوسرا کوئی شریک نہیں۔ اس کا مذھب خدا کا حصہ ہے جس میں دوسرا کوئی شریک نہیں۔ اس کے عقائد کی جو کچھ بھلائی یا برائی ہو اس کا معاملہ اس کے خدا کے ساتھ ہے۔ نہ بھائی اس میں شریک ہے ، نہ بیٹا ، نہ دوست نہ آشنا اور نہ قوم ۔ پس ہم کو اس بات سے جس کا اثر ہر ایک کی صرف ذات تک محدود ہے اور ہم سے کچھ تعلق نہیں ہے ، کچھ بھی تعلق رکھنا نہیں چاہیے ۔ ہم کو کسی شخص سے اس خیال پر کہ وہ شیعہ ہے یا سنی ، و ھابی ہے یا بدعتی ، لامذھب ہے یا مقلد یا نیچری یا اس سے کسی بدتر لقب کے ساتھ ملفب ہے ، جبکہ وہ خدا و خدا کے رسول کو برحق جانتا ہے ، کسی قسم کی عداوت و مخالفت رکھنی نہیں چاہیے ، بلکہ اس کو بھی بھائی اور کلمے کا شریک سمجھنا اور اس اخوت کو جس کو خدا نے قائم کیا ہے قائم رکھنا چاہیے۔ نہایت افسوس اور نادانی کی بات ہے کہ ہم کسی سے ایسے امر میں عداوت رکھیں جس کا اثر خود اسی تک محدود ہے اور ہم کو اس سے کچھ بھی ضرور نقصان نہیں ۔ جو حصہ کہ انسان میں اس کے ابنائے جنس کا ہے اس سے ہم کو غرض رکھنی چاہیے اور وہ حصہ آپس کی محبت ، باہمی دوستی ، ایک دوسرے کی اعانت ، ایک دوسرے کی ہمدردی ہے جس کے مجموعے کا نام قومی ہمدردی ہے۔ یہی ایک طریقہ ہے جس سے خدا کے حکم کی بھی اطاعت اور آپس میں برادرانہ برتاؤ ، قومی اتفاق ، قومی ہمدردی قائم ہو سکتی ہے جو قومی ترقی کے لیے پہلی منزل ہے۔ یہ بات ہم کو بھولنی نہیں چاہیے کہ ان روحانی بھائیوں کے سوا اور بھی ہمارے وطنی بھائی ہیں۔ گووہ ہمارے ساتھ اس کلمے میں ، جس نے ہم مختلف قوموں اور مختلف فرقوں کو ایک قوم اور آپس میں روحانی بھائی بنا دیا ہے ، شریک نہیں ہیں ، مگر بہت سے تمدنی امور ہیں جن میں ہم اور وہ مثل بھائیوں کے شریک ہیں۔ ہمسائے کا ادب ہمارے مذھب کا ایک جزو ہے اور یہی ھمسائگی وسعت پاتے پاتے ہم ملکی اور ہم وطنی کی وسعت تک پہنچ گئی ہے۔ ان ہم وطن بھائیوں میں بھی دو حصے ہیں ، ایک خدا کا اور ایک ابنائے جنس کا ۔ خدا کاحصہ خدا کے لیے چھوڑو اور جو حصہ ان میں ابنائے جنس کا ہے اس سے غرض رکھو۔ تمام امور انسانیت میں جو تمدن و معاشرت سے تعلق رکھتے ہیں ایک دوسرے کے مددگار رھو ۔ آپس میں سچی محبت ، سچی دوستی اور دوستانہ بردباری رکھو۔ اتفاق کی خوبیاں لوگوں نے بہت کچھ بیان کی ہیں اور وہ ایسی ظاہر ہیں کہ کوئی شخص اتفاق سے بھی ان کو بھول نہیں سکتا۔ بہت بڑے بڑے واقعات دنیا میں گزرے ہیں جن کو پرانی تاریخیں یاد دلاتی ہیں اور جن کی یاد سے ایک عجیب اثر ہمارے دلوں میں ہوتا ہے ۔ وہ سب باہمی اتفاق کا نتیجہ ہے۔ ایک ناچیز ریشۂ گیاہ جو تنہا نہایت کمزور ہوتا ہے باھمی اتفاق سے ایسا قوی اور زبردست ہو جاتا ہے کہ بڑی سے بڑی قوت کا مقابلہ کرتا ہے۔ اس وقت تعلیم یافتہ دنیا میں جو کچھ ترقی ہے یا مہذب ملکوں میں جو کچھ طاقت ہے و ہ سب اتفاق کی بدولت ہے۔ بعض قابل ادب بزرگوں کا قول ہے کہ جس طرح اصلی دوستی دنیا میں ناپید ہے اسی طرح آپس کا اتفاق بھی ناممکن ہے ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ تمام انسانوں کی طبائع اور ان کے اغراض مختلف ہیں تو ضرور ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مخالف ہوں۔ کوئی قوم مہذب یا نامہذب ایسی نہیں پائی جائے گی جس میں باہم حسد و نفاق ، عداوت اور باھمی حقارت نہ پائی جاتی ہو۔ ھاں ! یہ بات سچ ہے ، مگر جس اتفاق پر ھم بحث کرتے ہیںوہ شخصی اتفاق نہیں ہے ، بلکہ قومی اتفاق ہے ! جو خدا کے نزدیک ایک سخت گناہ ہے ، مگر وہ قومی اتحاد اور قومی اتفاق کا مانع نہیں ہے ۔ قومی بھلائی یا قومی برائی کا اثر تمام قوم کے لوگوں پر پہنچتا ہے ، اس لیے جلب منفعت یا دفع مضرت میں سب لوگ متفق ہو جاتے ہیں اور شخصی تنازعات کا اس وقت کچھ اثر باقی نہیں رہتا ہے۔ اس زمانے میں جو سب سے بڑا سبب ہماری قوم کے تنزل کا ہے وہ یہی ہے کہ ہم میں قومی اتفاق کا خیال نسیا منسیا ہو گیا ہے۔ کسی کو بجز ذاتی منفعت کے قومی بھلائی یا قومی منفعت کا خیال بھی نہیں آتا ہے۔ اگر کوئی کچھ کرتا بھی ہے تو اس کو پہلے اپنی ذاتی غرض مدنظر ہوتی ہے اور قومی بھلائی کے پردے سے اس کی پردہ پوشی کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کاموں میں برکت نہیں ہوتی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہماری قوم میں نیکی کا خیال نہیں ہے۔ نہیں ! ان میں بہت کچھ نیکی ہے اور بہت سے نیک کام ان سے ہوتے ہیں۔ کیسی کیسی عالیشان مسجدیں ، کیسے کیسے عالیشان امام باڑے ، کیسی کیسی نفیس خانقاہیں ان کی نیکی کی یادلگاریں موجود ہیں۔ اب بھی ہر شہر اور ہر قصبے میں دیکھو گے کہ لوگ کس قدر خیرات کرتے ہیں۔ بھوکوں کو کھلاتے ہیں ، حج و زیارت میں روپیہ خرچ کرتے ہیں ، مسجدیں بنواتے ہیں ، کوئی ایسا کام جس میں ان کی دانست میں مذھبی نیکی ہو دل و جان سے اس میں مصروف ہوتے ہیں۔ سب کہ قیامت میں ان کو اس کا بدلہ ملے گا اور روز حشر میں ان کو ثواب حاصل ہو گا۔ اگر میرا یہ خیال صحیح ہے ، نہ ابنائے جنس کی بھلائی اور قومی ہمدردی کے ۔ جب تک کہ ہمارے دل میں یہ جوش نہ پیدا ہو کہ جو کام ہم کریں وہ قوم کے لیے کریں ، نہ ثواب آخرت کے لیے، اس وقت تک قومی ہمدردی کا جوش پیدا نہیں ہو سکتا۔ میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں ان ثواب کے کاموں کو برا جانتا ہوں یا ان کی کچھ حقارت کرتا ہوں ، بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ میں صلی قومی ہمدردی کو ذھن نشین کرنے میں کوشش کروں اور دوسرے کاموں سے جو امتیاز ہے اس کو بتلاؤں۔ ان شاء اللہ ’’ ان شاء اللہ ‘‘ عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’’ اگر اللہ نے چاہا ‘‘ ہم محض رسم اور دکھاوے یا عادت کے طور پر اپنے دوستوں ، عزیزوں اور ملنے والوں سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کل ان شاء اللہ آپ کے ہاں آئیں گے ، ان شاء اللہ میں آپ کا یہ کام ضرور کر دوں گا و غیرہ وغیرہ ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ ہمارا جانے کا ارادہ ہوتا ہے نہ کام کرنے کا ، مگر ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ کسی کا دل توڑیں یا انکار کر کے کسی سے برے بنیں ، اس لیے بڑے جوش سے ان شاء اللہ کہہ دیتے ہیں جو ایسے موقع پر صریح گناہ اور معصیت ہے ۔ ہمارا یہ جملہ اس درجے بد نام ہوچکا ہے کہ لفظ ’’ ان شاء اللہ ‘‘ کی کوئی عظمت ہمارے دلوں میں باقی نہیں رہی اور جب بھی ہم میں سے کوئی اپنے دوست سے کہتا ہے کہ میں ان شاء اللہ کل آپ کے ہاں آؤں گا تو وہ فوراً کہتا ہے ’’ ان شاء اللہ نہیں پکا وعدہ کرو ‘‘ گویا ہمیں مخاطب کے ان شاء اللہ کہتے ہی اس بات کا یقین ہو جاتا ہے۔ کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے ، ہرگز نہیں ٓئے گا یا کبھی میرا کام نہیں کرے گا۔ دوسری عادت ہم میں شرعی حیلے تلاش کر کے کسی کام سے بچنے کی اتنی پیدا ہو گئی ہے جس کی انتہا نہیں اور ایک دو میں نہیں ، عوام سے لے کر خواص تک اور ادنی سے لے کر اعلیٰ تک اور جاھل سے لے کر عالم تک ہر شخص اس میں بری طرح مبتلا ہے۔ ان دونوں باتوں کے متعلق سرسید نے ظریفانہ اور مزاحیہ انداز میں ایک بہت پرلطف مضمون سوال و جواب کے پیرائے میں ’’ ان شاء اللہ ‘‘ کے عنوان سے تہذیب الاخلاق میں لکھا تھا جس کو مولانا خالی نے اپنے ایک نوٹ کے ساتھ ’’ حیات جاوید ‘‘ میں درج کیا ہے ، چنانچہ ہم حیات جاوید سے یہ مضمون یہاں نقل کرتے ہیں۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ’’ کافر کافر ‘‘ ’’ کیوں حضرت کافر کیوں ؟ ‘‘ ’’ تم نے کیا کہا ؟ ‘‘ ’’ میں نے کہا انا مومن ان شاء اللہ ‘‘ (ان شاء اللہ میں مومن ہوں ) ’’ کافر کافر !یوں کہو ’’ انا مومن حقاً (میں یقیناً مومن ہوں) اس جگہ ان شاء اللہ کا لفظ نہیں کہتے ۔ ایسے موقع پر یوں بولنا کفر ہے۔ ‘‘ ’’ پھر حضرت کس جگہ کہتے ہیں ؟ ‘‘ ’’ قسم سے بچنے ، وعدہ نہ کرنے ، بے گناہ کو دھوکا دینے ، جھوٹ بولنے اور جھوٹا نہ ہونے میں۔ ‘‘ گویا ایک مولوی یا فقیہ کا ایک جاھل آدمی سے خطاب ہے اور اس نے جو یہ لفظ کہا ہے کہ انا مومن ان شاء اللہ (ان شاء اللہ میں مومن ہوں ) اس پراس کو کافر بتاتا ہے۔ (حالی) ’’ حضرت ! پھر تو ان شاء اللہ خوب اوزار ہے، کیا مسلمانوں کا برتاؤ اسی مسئلے پر ہے ؟ ‘‘ ’’ ھاں جو پرہیز گار ، مولوی ، عالم ، شرع پر چلنے ولے ہیں ، گناہوں سے بچنا چاہتے ہیں وہ ہمیشہ اس پر خیال رکھتے ہیں ۔ ‘‘ ’’ حضرت ! میں تو نہیں سمجھتا ۔ ‘‘ ’’ فقہ پڑھی ہو ، اصول فقہ کو جاتا ہو ، عالموں کی صحبت آٹھائی ہو تو جانو ۔ جاھل کندہ ناتراش ، نہ پڑھے نہ لکھے ، جانو تو کیا جانو ! ‘‘ ’’ حضرت آپ ہی سمجھا دیجیے۔ ‘‘ ’’ ارے میاں ! ’’ ان ‘‘ کے معنی ’’ اگر ‘‘ ، ’’ شاء ‘‘ کے معنی ’’چاھا ‘‘ ، اللہ کے معنی تو اللہ کے ہیں ہی ، مگر وہ فاعل واقع ہوا ہے جس کے معنی ’’ نے ‘‘ کے ہوتے ہیں ۔ ان سب کو ملاؤ تو یہ معنی ہوئے ’’ اگر چاہا اللہ نے ‘‘ اب دو مسئلے فقہ کے اور سمجھ لو ۔ اگر کوئی امر کسی پر مشروط ہو اور بسبب نہ پورے ہونے شرط کے ادا نہ کیا جائے تو کچھ گناہ لازم نہیں آتا ’’ اذا فات الشرط فات المشروط ‘‘ ایک مسئلہ ہوا ؟ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خلق جمیع افعال عباد کا خدا ہے ۔ پس جب ان دونوں مسئلوں کو ملا کر ان شاء اللہ کے معنوں کو دیکھو تو ان شاء اللہ کہنے کے بعد کچھ گناہ نہیں رہتا۔ ‘‘ ’’ حضرت ! میں مسئلے کو تو بخوبی سمجھ گیا ، مگر اب تک میری سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ گناہ کیونکر نہیں رہتا ؟ کیاوہ لفظوں کے الٹ پھیر سے الٹ جاتا ہے ؟ ‘‘ ’’ جاھل ! اور کیا ؟ ہماری جیب میں ایک گھڑی ہے ، ہماری دوست کو اس کی ضرورت ہے ، جب اس نے ہم سے مانگی ، ہم نے کہا کہ ہمارے گھر میں کوئی گھڑی ہی نہیں۔ اس نے کہا ’’ قسم تو کھاؤ ‘‘ ہم نے کہا ’’ خدا کی قسم ! ہمارے گھر میں کوئی گھڑی نہیں۔ ‘‘ ہمارے گھر میں ایک اشرفی رکھی ہے ، ہمرے دوست نے ہم سے اشرفی مانگی ۔ ہم نے کہا ’’ ہمارے پاس کوئی اشرفی نہیں ‘‘ اس نے کہا ’’ قسم تو کھا ‘‘ ہم نے کہا ’’ خدا کی قسم ہمارے پاس کوئی اشرفی نہیں ‘‘ کیوں سچ بات ہوئی کہ نہیں ؟ بات ہی بات میں گناہ الٹ گیا کہ نہیں ؟ تو باتیں ہی باتیں ہوئیں ،روپے پیسے ، سود ، بٹے کے معالے میں بھی لفظوں ہی کے الٹ پھیر سے گناہ الٹ جاتا ہے۔ تولہ بھر سونا سولہ روپے کی قیمت کا ہم سے قرض لو ۔ سود سے بچنے کو کہہ لو کہ بیس تولے چاندی لیں گے۔ سولہ تولے چاندی میں وہی تولہ بھر سونا آیا اور چار تولے چاندی سود میں بچ رہی اور سود نہ ہو۔ کھوٹا سونا جس میں ذرا ساتانبے کا میل ہو قرض دو اور اسی وزن کے برابر کھرا سونا لے لو ، مال تو زیادہ کا ہاتھ لگ گیا اور سود نہ ہوا۔ مکان گروی رکھو ، راھن سے کہلو ا لو کہ سکونت میں نے بحل کی ۔ کرائے کا فائدہ ہوا اور سود نہ ہوا۔ گاؤں گروی لو ، مثلا ہزار روپے کو جس میں دو سو روپے سالانہ کا فائدہ ہو ، راھن سے اسی روپے سال دینے کے اقرار پر پٹا لکھوا لو اور گاؤں پر قبضہ کر لو ۔ کل منافع تحصیل کرو ۔ ایک سو بیس روپے سال سود کے پٹے کے نام سے بچے کہ نہیں ؟ اور سود نہ ہوا ‘‘ ’’ حضرت کیا یہ ہوتا ہے ؟ ‘‘ ’’ خدا کی قسم ! سب کرتے ہیں۔ جتنے مقدس ، خدا پرست ، وھابی ، نیم وھابی ،مقلد ، حنفی ، زمیندار ، تعلقہ دار ہیں سب کرتے ہیں۔ بڑے بڑے مولویوں نے فتوے دے دیے ہیں۔ اب سمجھے کہ لفظوں کے الٹ پھیر سے گناہ پلٹ گیا کہ نہیں ۔ کوئی ہمارے پاس زکوۃ کا روپیہ لائے اور ہم مستطیع ہوں ، ابھی گھر میں جا کر بیوی سے کہہ آویں کہ ہم نے اپنا کل مال تم کو ہبہ کیا۔ اب مفلس ہو گئے کہ نہیں ؟ باہم آویں اور زکوۃ کا روپیہ لے لیں۔ باتیں ہی تو ہیں ان برکیوں کے سمجھنے کے لیے علم درکار ہے۔ ‘‘ ’’ بھلا حضرت ! یہ تو ہوا ۔ ان شاء اللہ والی بات رہ گئی ، اس کو بھی کسی مثال سے مجھا دو ۔ ‘‘ ’’ ارے میاں یوں سمجھوں کہ ہم نے تمہارا دل خوش کرنے کو تم سے کہہ دیا کہ ہم کل تمہارے ہاں آویں گے ان شاء اللہ ‘ ہمارا ارادہ آنے والے کا کچھ نہ تھا ، یوں ہی کہہ دیا تھا ، یوں ہی کہہ دیا تھا ، جب نہ گئے تو معلوم ہوا کہ خدا نے نہیں چاہا۔ اسی لیے وعدے کو مشروط کیا تھا ۔ ’’ اذا فات الشرط فات المشروط ‘‘ بات کی بات میں گناہ پلٹ گیا۔ کبھی تم عدالت میں گواہی دینے بھی گئے ہو ؟ ‘‘ ’’ ھاں صاحب ! ایک دفعہ گیا تھا ، میں نے تو جو سچ تھا کہہ دیا تھا ، مگر میرا بھائی مقدمہ ہار گیا۔ میں کیا کرتا ، وہاں ایک کالی مخمل کی گولی چنٹ دار ٹوپی پہنے ہوئے گوری رنگت کا مسلمان مولوی کرسی پر بیٹھا تھا ، اس نے قسم دی کہ سچ کہنا ، میں جھوٹ بولنے سے ڈر گیا ، سچ کہہ دیا۔ ‘‘ ’’ ھاں فقہ نہ جاننے سے عالموں کی صحبت نہ اٹھانے سے یہی تو نتیجہ ہوتا ہے ۔ ارے ! جب اس مولوی جج نے قسم دی تھی کہ سچ بولنا تو نے کہا ہوتا کہ خدا کی قسم سچ بولوں گا ان شاء اللہ ۔ اگر وہ جج نام کا مولوی تھا اور فقہ نہ جانتا تھا تو پکار کر ہی ان شاء اللہ کہ دیا ہوتا اور اگر وہ مولوی تھا اور ٹھٹیرے ٹھٹیرے بدلائی ان پڑی تھی تو پکار کر کہا ہوتا کہ خدا کی قسم ! سچ بولوں گا او جھٹ پٹ دل میں کہہ لیا ہوتا ان شاء اللہ ، مگر یہ خیال رکھا ہوتا کہ سانس نہ ٹوٹنے پائے ورنہ ان شاء اللہ کا جوڑ ٹوٹ جاتا ، پھر جو چاہتے وہ کہہ دیتے ، ذرا بھی جھوٹی قسم کھانے کا گناہ نہ ہوتا۔ ‘‘ ’’ حضرت ! باتیں تو آپ نے خوب بتائیں ، مگر میں حیرت میں ہو گیا۔ اب تو رخصت ہوتا ہوں اور کسی سے بھی تحقیق کروں گا۔ میرا دل دھکڑ پکڑ کر رہا ہے۔ ‘‘ ’’ تم جس مولوی سے چاہنا پوچھنا ، یہی بتاوے گا ۔ کہو تو میں ابھی عدایہ ، شرح وقایہ ، درمختار ، بحرالرائق ، نہر الفائق اور بڑے بڑے معتبر فتاووں سے ہر ایک جزئی کی روایت نکال دوں اور تم نے وہ فتاوی بھی دیکھا ہے جو پرانے خاندانی مولویوں اور قاضیوں کے ہاں ہوتا ہے ؟ میں اس وقت اس کا نام بھول گیا ہوں ، یاد آجاوے گا تو بتا دوں گا ۔ اس میں ہر ایک مسئلے کی نسبت دو روایتیں لھی ہیں۔ ایک میں جائز حلال اور دوسری میں ناجائز حرام لکھ رکھا ہے ۔ پھر جونسی روایت کے مطابق چاہا فتوی لے لیا۔ بہت ہوا روپیہ ، دو روپے ، فتوے کے نام سے نہیں ، ور کسی نام سے کبھی کبھی دیتے رہے۔ کیوں ؟ بات کی بات میں گناہ پلٹ گیا کہ نہیں ؟ مگر اس زمانے میں جو کمبخت مقلدین فلاسفہ ملا حدہ نکلے ہیں وہ تو مذھب اسلام کی جڑ کاٹتے ہیں ۔ یا اللہ ! کیا مشکل پڑی ہے۔ ‘‘ تھوڑی دور چلے تھے کہ ایک پیر مرد متبرک صورت سفید ریش ملے ، جانا کہ یہ بھی کوئی مولوی ہیں ۔ پکار کر کہنے لگے۔ یہاں تک مولوی اور اس کے جاھل مخاطب کی گفتگو تھی ، اس ک بعد گویا آرٹیکل لکھنے والا کہتا ہے کہ اس جاھل کا مقابلہ راہ میں نیچریوں کے کسی سرگروہ سے ہو گیا ، پھر ان دونوں کے سوال و جواب ہیں ۔ (حالی) کہ مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھائی کیا کوئی مذھبی مسئلہ ہے ؟ بولے ’’ حضرت ! ہاں مذھب کا مسئلہ ہے ‘‘ انہوں نے کہا کہ بھائی نہ میں مولوی نہ مولوی کی دم ، مجھ سے اور مذھی مسئلوں کے پوچھنے سے کیا واسط ! کسی مولوی صاحب سے جا کر پوچھو ۔ اسی شہر میں بہت سے مولوی ہیں۔ یہاں سے دس پندرہ کوس پر نامی نامی قصبے میں ، وہاں مولویوی کے ڈھیر کے ڈھیر ہیں ، وہاں جا کر پوچھو۔ ‘‘ ’’ نہیں حضرت ! میں آپ ہی سے پوچھنا چاہتا ہوں ، آپ کا نام بھی تو مشہور ہے۔ ‘‘ ’’ ارے میاں شیطان کا نام تو مجھ سے بھی زیادہ مشہور ہے ، ابھی ویسی شہرت تو مجھ کو ہوئی بھی نہیں ۔ میں نیچری مشہور ہوں ، ملا مولوی نہیں ہوں ، مجھ سے مت پوچھو۔ ‘‘ ’’ حضرت ! اگر مولوی ملاؤں سے دل کو تسکین ہوتی تو آپ تک کیوں آتے ؟ جب دل ہی کو تسکین نہ ہو تو مولوی ملاؤں کو کیا کریں ؟ پھر آپ نیچری ہوں یا پینچری ، بے پوچھے تو دل مانتا نہیں خدا کے واسطے بتا ہی دو ۔ ‘‘ ’’ اچھا صاحب پوچھو کیا پوچھتے ہو ۔ مگر میں کسی فتاوی و تاوی کو نہیںجانتا ، خدا کی کتاب اور خدا کے فتاوی کو جو سب 1۔ خدا کے فتاوی سے مرا فطرت انسانی ہے جس میں حسن و قبح اشیاء کا علم و دیعت کیا گیا ہے اور جس کی طرف مخبر صادق نے اس حدیث میں اشارہ کیا ہے کہ ’’ استفت قلبک و لو افتاک المفستیوں ‘‘ (اپنے دل سے فتوی پوچھو اور اسی کے مطابق عمل کرو خواہ مفتیوں کا فتوی اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو) اور جو لوگ اس فتاوی کے موافق عمل کرتے ہیں وہ مفتیوں کے فتووں سے مستغنی ہیں۔ (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر) کی آنکھوں کے سمنے کھلا ہوا ہے (جانتا ہوں ، جو کہوں گا اسی سے کہوں گا۔ ‘‘ ’’ بہت اچھا ! آپ اسی سے فرمائیے گا ، میں پوچھتا ہوں کہ آپ ’’ ان شاء اللہ ‘‘ کو جانتے ہیں؟ ‘‘ ’’ خوب جانتا ہوں ، ہماری دلی کے رہنے والے تھے ، بڑے شاعر تھے ، ذرا مزاج میں ظرافت تھی ۔ ان کے یہ اشعار مجھے یاد ہیں ، پہلے مصرع میں شاید کچھ لفظ ادل بدل ہو گئے ہیں : مولوی کہتے ہیں ہم کو تو نے کیوں رسوا کیا کیا گنہ ، کیا جرم ، کیا تقصیر ہم نے کیا کیا واسطہ ، باعث ، سبب ، موجب ، جہت کچھ بات بھی راز وہ کمبخت کیا تھا میں نے جو افشا کیا کیا کہا ، کس سے کہا ، کس نے سنا ، کب کس گھڑی کس جگہ ، کس وقت ، کس دم آپ کا چرچا کیا ’’ حضرت ! میں آپ سے انشاء للہ خاں کا حال نہیں پوچھتا ، ’’ ان شاء اللہ ‘‘ کے لفظ کی نسبت حکم شرع کا پوچھتا ہوں کہ (گزشتہ صفحے کا باقی حاشیہ) چنانچہ ہم نے خود دیکھا ہے کہ نواب مصطفی خاں مرحوم رئیس جہانگیر آباد ضلع بلند شہر کے پاس ایک موضع گروی تھا ، بہت مدت کے بعد مالک نے اس کو چھڑانا چاہا۔ ہر چند کہ رھن نامے میں تمام منافع موضع مرھونہ کا مرتہن کو معاف و مباح کر دیا گیا تھا اور فک رھن کے وقت مالک بخوشی کل زر رھن اد کرنا چاہتا تھا اور مفتیوں نے بھی اباحت کا فتوی دے دیا تھا ، مگر اس مرحوم ، مغفور نے یہی حدیث پڑھی کہ استفت قلبک و لو افتاک المفتون اور جس قدر محاصل اس موضع سے وصول ہوا تھا سب زر رھن میں سے مجرا دے کر باقی روپیہ راھن سے لے لیا ۔ (حالی) کس مرا د اور کس مطلب سے اور کس مقام پر اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے ؟ ‘‘ ’’ یہ کہو ، ذرا مجھ کو خدائی فتاوی نیچر دیکھ لینے دو۔ اس میں تو یہ لکھا ہے کہ تم کو کسی کام کی نسبت یہ نہ کہنا چاہیے کہ میں کل کروں گا ، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اگر خدا چاہے تو میں کل کروں گا۔ خدا بسبب علۃ العلل ہونے کے ہر کام کو خواہ انسان کرے یا حیوان ، اپنی طرف منسوب کرتا ہے ، اس لیے انسان کو بھی لازم ہے کہ ہر چیز کو خدا سے متعلق کرے۔ پس جس بات پر ان شائاللہ کا لفظ کہا جاتا ہے تو ان شاء اللہ کے لفظ سے اس بات پر تعلیق ہوتی ہے اور وعدے کو زیادہ استحکام ہوتا ہے۔ سننے والے کو کامل یقین ہو جاتا ہے کہ وعدہ کرنے والے نے خدا پر اس وعدے کی تعلیق کی ہے تو ضرور اس کو پورا کرے گا۔ اگر تم نے کسی سے وعدہ کیا کہ میں کل تمہارے گھر آؤں گا اور اس کے ساتھ ان شاء اللہ نہیں کہا اور نہیں گئے تو صرف وعدہ خلافی کا گناہ ہوا اور اگر س کے ساتھ ان شاء اللہ بھی کہا اور پھر نہ گئے تو تین گناہ ہوئے۔ ایک وعدے کا ، دوسرا اس بات کا کہ جس سے وعدہ کیا تھا اس کو وعدہ پورا کرنے کا زیادہ یقین دلایا اور وعدہ پور نہ کیا ، تیسرا اس بات کا کہ خدا کو ضامن دیا اور اس کے نام کی عزت کا بھی کچھ ادب نہ کیا ۔ اگر کسی بات پر قسم کھا کر ان شاء اللہ کہا ہو تو قسم توڑنے پر گناہ سے نہیں بچتے ، بلکہ دگنا گناہ ہوتا ہے ، قسم توڑنے کا ، خدا کے ساتھ تعلیق کر کے اس کا ادب نہ کرنے کا ، جب قسم کھائی کہ سچ کہوں گا اور ظاہر میں یا دل میں ان شاء اللہ کہہ لیا اور پھر جھوٹ بولے تو تین گناہ ہوئے ، جھوٹ بولنے کا ، قسم توڑنے کا ، خدا پر تعلیق کر کے اس کا ادب نہ کرنے کا ، جس بات کا وعدہ کیا جاتا ہے ، جب مصمم اور نہایت مضبوطی اور سچی نیت سے لیں کے پورا کرنے کا ارادہ ہوتا ہے ، اس وقت اس کے ساتھ ان شاء اللہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ تم نے ایک مولوی سے کہا کہ میں تم کو ان شاء اللہ دس روپے دوں گا ، تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ ضرور بے شک تم کو دس روپے دوں گا۔ ‘‘ ’’ حضرت ! اپنے وعدوں کی نسبت تو مولوی بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ وعدہ نفلی نہیں رہتا ، بلکہ بحکم نصوص صریحہ مثل زکوۃ اور نذر معین کے واجب ہو جاتا ہے ، مگر اور جگہ کہتے ہیں کہ نہ وعدہ خلافی کا گنا ہوتا ہے ، نہ قسم ٹوٹنے کا گناہ ہوتا ہے اور ان شاء اللہ کو ایک سپر بناتے ہیں جو ہر ایک حربے سے بچا لیتی ہے ۔ حضرت ! خدا مارے یا چھوڑے ، ان مولویوں نے جو اسلام بنا رکھا ہے اگر وھی اسلام ہے تو میرا سلام ۔ اس سے نیچریہ میں اچھے جو سچائی کو اسلام بتاتے ہیں۔ ‘‘ غیر مذھب کے پیشواؤں کا ہم کو ادب کرنا چاہیے ہم کو نہایت افسوس ہے کہ جب ہم مذھبی پیشواؤں کی کوئی کتاب دیکھتے ہیں تو اس میں ایک مذھب والا دوسرے مذھب کے پیشواؤں کا بری طرح پر ذکر کرتا ہے۔ یہ امر مذہب اسلام کے بالکل برخلاف ہے۔ جس مذھب کے جو پیشوا ہیں جب ہم اپنے مذہبی مباحثوں میں ان کا ذکر کریں ، خواہ وہ لوگ ہندوھوں یا پارسی ، عیسائی ہوں یا یہودی یا خود مختلف عقائد کے مسلمان ہی ہوں ، اگر ہم ان کے بزرگوں و پیشواؤں کے ساتھ گستاخی سے پیش آئیں گے تو کیا وجہ ہے کہ وہ اسی طرح ہمارے بزرگوں اور پیشواؤں کے ساتھ گستاخی اور بے ادبی سے پیش نہ آئیں ، اس لیے خدا تعالیٰ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ ’ ’ ولا تسبوا لذین یدعون میں دون اللہ فیسبوا اللہ عدوا بغیر علم ، (انعام آیت 108) (ترجمہ) یعنی ’’ مت برا کہو ان کو جو خدا کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے ہیں ، پھر وہ بڑھ کر نادانستگی سے خدا کو برا کہیں گے۔ ‘‘ پس حقیقت میں مذھب والوں کے پیشواؤں کو برا کہنا خود اپنے مذھب کے پیشواؤں کو برا کہنا ہے ۔ علاوہ اس کے اخلاق اور متانت سے نہایت بعید ہے کہ ہم کسی مذھب کے پیشوا کا بے ادبی سے ذکر کریں ۔ واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم۔ ٭……٭……٭……٭ پردہ ان دنوں میں عورتوں کے پردے کی نسبت متعدد تحریرات اخباروں میں شائع ہوتی ہیں اور ہمارے بعض عزیز ، جن کو ہم لحمک لحمی کہہ سکتے ہیں اور بعض ہمارے مخدوم جن کو ہم فخر کہہ سکتے ہیں ، پردے کے مخالف ہیں ، مگر ہم گو لوگ نئے فیشن کا سمجھیں ، مگر ہم تو اگر اسی پرانے فیشن کے نہیں ہیں تو دقیانوسی مزاج کے تو ضرور ہیں اور اس لیے ہم اپنے مخدوموں کی رائے کے مخالف ہیں اور عورتوں کا پردہ جو مسلمانوں میں رائج ہے ، اس کو نہایت عمدہ سمجھتے ہیں ۔ اس بات پر بحث کرنی کہ قرآن مجید سے پردہ مروجہ عورات اہل اسلام ثابت ہوتا ہے یا نہیں ، محض فضول ہے ، کیونکہ گر مسلمان مراد اپنے افعل و عادات میں پابند ، شریعت اور تابع احکام قرآنی ہوتے تو اس وقت عورتوں کے پردے کی بابت اس بات کی گفتگو کرنی کہ قرآن مجید سے مروجہ پردہ ثابت ہے یا نہیں ، زیبا ہوتی ، مگر جب ہمارے مردوں کی نسبت قرآن مجید کے کسی امر کے اتباع کی نسبت بحث نہیں کی جاتی تو عورتوں کے پردے کی نسبت یہ بحث کرنی کہ قرآن مجید سے ثابت ہے یا نہیں ، کیسی نازیبا معلوم ہوتی ہے۔ یہ خیال کرنا کہ اگر پردے کی رسم اٹھ جائے تو ہندوستانیوں کو انگریزوں سے زیادہ راہ و رسم اور ارتباط کا موقع ملے گا ، محض غلط خیال ہے۔ پہلے اپنے تئیں تو انگریزوں سے ملنے اور ارتباط پیدا کرنے کے قابل بنا لو ، پھر عورتوں کی طرف متوجہ ہونا : ع تو کار زمین را نکو سختی کہ با آسماں نیز پر داختی ٭……٭……٭……٭ ہندوستان کی عورتوں کی حالت (اخبار سائنٹیفک سو سائٹی علی گڑھ 14 ۔ اپریل 1876ئ) جبکہ ہندوستان کے مردوں کی حالت بلحاظ معاشرت بدرجہ غایت قابل اصلاح ہے تو ہندوستان کی عورتوں کی حالت دیکھا چاہیے کیا ہو گی ، کیونکہ عقلی روشنی میں عورتیں بہ نسبت مردوں کے قطعاً ناقص مجبول ہوئی ہیں اور باوجود اس نقصان کے علمی روشنی سے ان کو اس قدر بھی بہرہ نہیں ہے جس قدر کہ ہندوستان کے مردوں کو ہے جس کے سبب سے وہ اپنی طرز معاشرت میں اس مخلوق کے مشابہ ہیں جو انسان کی صورت میں مخلوق ہوئی ہے اور سیرت انسانی سے معرا ہے۔ اگر ان کو ایک ایسے طائر کے ساتھ تشبیہ دی جاوے جو بچپن میں گرفتار قفس ہوا تو کچھ بھی نہیں ہے ، کیونکہ جس طرح وہ جانور باوجود طائر ہونے کے اڑنے کی کیفیت سے خالی ہوتی ہیں۔ ان کے خیالات میں اس قدر تیرگی ہوتی ہے کہ وہ بہت کم ، بلکہ بالکل کسی چیز کی اصلی کیفیت اور اس کی مناسب تدبیر کو نہیں سمجھ سکتیں ور ان کے خیالات میں ایک ہولناک ابتری ایسی ہے کہ اس کے تصور سے وحشت معلوم ہوتی ہے اور باوجود ان تمام خرابیوں کے ان کی جبلت میں اپنے قدیمی اطوار کی پابندی ایسی ہے کہ اس پابندی کو موت و حیات پر بدر جہا فائق سمجھتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ہندوستان کے مردوں کی وہ کوشش جو وہ اپنے انتظام خانہ دری اور حسن معاشرت کی امید سے کرتے ہیں ، بالکل رائگاں جاتی ہے اور ان کے اصرار اور سخت پابندی مردوں کی تدبیر پر غالب آجاتی ہے اور جو امور کہ خاص عورتوں کی ذات سے متعلق ہیں اور ان میں مردوں کو دخل نہیں ہے ، س درجہ ابتر ہوتے ہیں کہ ان کے خیال کرنے سے حیرت ہوتی ہے۔ ان کے دلوں میں بہ نسبت ان کے عجائب پرستی زیادہ ہے اور بجائے علمی خیالات کے اعتقاد کی غلطی میں زیادہ پڑی ہوئی ہیں۔ وہ اپنی قدیمی رسم کے متغیر کرنے سے کچھ اسی لیے متنفر نہیں ہوتیں کہ وہ اس کو اپنی قدیمی عادت کے خلف سمجھتی ہوں ، بلکہ وہ اپنے ذھن میں بعض تغیرات کو موت و حیات کا باعث سمجھتی ہوں ، بلکہ وہ اپنی موت ، زندگی اور رنج و غم و خوشی و خرمی میں اپنی پرانی رسوم کو زیادہ مؤثر سمجھتی ہیں اوریہ جانتی ہیں کہ ان رسوم کی تبدیلی سے ایک مصیبت کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہمیشہ وہ امراض کو بھوت اور آسیب کا اثر سمجھتی ہیں اور اسی وجہ سے بجائے اس کے کہ وہ مرض کے علاج کی طرف عاقلانہ طور سے متوجہ ہوں ، اول جھاڑ پھونک اور نذر و نیاز سے کام لینا جانتی ہیں۔ اگر ان کے ہاں کوئی ضرورت بشری پیش ہو تو وہ اصل تدبیر کو چھوڑ کر غل شور اور منت اور اٹھاؤنی سے کام لیتی ہیں ، مثلا اگر ان کے گھر میں کوئی زچہ ہو تو بجائے اس کے کہ وہ آسانی سے بچہ پیدا ہونے کی فکر کریں ایک بیہودہ مجمع سے زچہ کو گھیر کر اپنی معمولی رسموں میں مصروف ہو جاتی ہیں اور جو صدمہ اس زچہ پر ان کی بیہودر رسم سے ہو اس کی ہرگز پروا نہیں کرنیں اور جو دستور ولادت کے اوقات میں ان کے جہل سے مقرر ہو رہے ہیں اگر ان کو کوئی عاقل زچہ پر رحم کر کے دفع کرنا چاہے تو قیامت تک اس کو نہیں مانتیں ۔ دوا اور غذا میں وہ ہرگز کسی حکیم یا ڈاکٹر کی مداخلت کو پسند کرتیں اور انہیں اپنے پرانے دستوروں کے مواقف کام کرتی ہیں۔ اگر زچہ صدمے سے بے ہوش ہو جاوے تو وہ فوراً گنڈا فلیتہ کرنے کی جانب متوجہ ہو جاتی ہیں اور گو اسی حالت میں زچہ تمام ہو جاوے ، مگر ان کے خیال کو تبدیلی نہیں وتی۔ ایک شائستہ ملک کی غورت نے جو کسی ہندوستانی عورت کی ولادت کی کیفیت دیکھتی ہے اس کو اس نے قلمبند کیا ہے ، چنانچہ ہم بھی اس کو ملاحظہ ناظرین کے واسطے نقل کرتے ہیں۔ ہم کو یقین ہے کہ اس کے دیکھنے سے ہمارے ناظرین اخبار کو س بات کا اندازہ معلوم ہو جاوے گا کہ ہندوستان کی عورتوں کی حالت اور ناواقفیت کس درجے ہے اور اس کے سبب سے تمام ہندوستان کیسی خطرناک حالت میں ہے۔ بجائے اس بات کے کہ چند عورتیں مجمع ہو کر کسی کام کو اسلوب کے ساتھ کر سکیں اور اپنے کرنے کے کاموں میں وہ مثل انسان کے کوئی کام کر سکیں ، یوں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا مجمع ایک سخت مصیبت اور ہلاکت کا باعث ہوتا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ انتظام خانہ داری میں ایک معاون سمجھی جاویں ، اور مخالف سمجھی جاتی ہیں اور بجائے اس بات کے کہ وہ کسی کام میں مشورہ ار ہوں ، اور مخالف اور بے جاضد سے کام کو خراب کر دیتی ہیں۔ دوا یا غذا یا لباس کی تدبیر سے اکثر محض ناواقف ہوتی ہیں اور ایک پرانے قاعدے کی نہایت پابند ہوتی ہیں۔ یہ سب اسی جہل کا سبب ہے جو آج کل ہندوستان کی عام عورتوں میں بدرجہ غایت پھیلا ہوا ہے اور جس کے سبب سے ہندوستان کے مردوں کو ایک وحشی کے ساتھ زندگی بسر کرنی پڑتی ہے اور جس کی بدولت ان کی زندگی اور موت اور شادی و غم اور صحت و مرض سب ب لطف ہیں ۔ اب ہمہ اس کیفیت کو نقل کرتے ہیں جس کا ہم نے وعدہ کیا ہے : ’’ میں نے وہاں پہنچ کر دیکھا کہ رانی جننے کو ہے اوربہت گھبرا رہی ہے۔ اس کی ساس نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ اے میم صاحبہ ! میری بہو کو ایک رات اور ایک دن سے اسی طرح درد لگے ہوئے ہیں پر جننے کا کوئی طور پر معلوم نہیں ہوتا اور رانی کی شوہر کے مرنے کے وقت جیسا شوروغل تھا ویسا ہی شوروغل اب بھی عورتیں اس کے گرد جمع ہو کر کررہی ہیں اور دس بارہ عورتیں اس زچہ کے گھر بیٹھی ہوئی اپنی اپنی کہہ رہی ہیں۔ ایک کچھ کہتی ہے تو دوسری کچھ۔ ایک کہتی ہے کہ زچہ بیٹھ جاوے اور دوسری کہتی ہے تو دوسری کچھ۔ ایک کہتی ہے کہ زچہ بیٹھ جاوے اور دوسری کہتی ہے کہ نہیں۔ ایک کہتی ہے کہ وہ ٹہلے ، دوسری کہتی ہے کہ نہیں ۔ ایک کوئی ٹوٹکا کرتی ہے۔ تو دوسری گڑ کھلاتی ہے اور رانی بیچاری ان کی ایسی حرکتوں سے جاں بہ لب ہے ، اور کچھ خبر نہیں ہے ، اگر کوئی اس وقت چھینک دیتا ہے تو وہ ایک کام کو کرتے کرتے چھوڑ دیتی ہیں ۔ اگر چھپکلی بولے توکام چھوڑ دیتی ہیں ، بندر کا منہ دیکھ لیں تو سفر نہیں کرتیں۔ چاند گہن کے دن کسی چیز کو نہیں کاٹتیں۔ غرضیکہ رانی نے دو تین مہینے پہلے اپنی ساس سے یہ کہا تھا کہ کل کی رات ایک الو بولتا ہوا میرے سر پر سے اڑتا ہوا چلا گیاتھا ۔ پس اس کی ساس کو اس وقت وہ بات یاد آئی اور وہ کہنے لگی کہ جب تک وہ چڑیا پھر نہ لوٹے گی اس وقت تک بچہ پیدا نہ ہو گا۔ دوسری نے کہا کہ نہیں، کسی نے اس پر جادو کیا ہے۔ اس بات کی سنتے ہی سب عورتیں کہنے لگیں کہ ہاں ضرور یہی بات ہے۔ غرضیکہ یہ سب باتیں ہو رہی تھیں اور کوئی اس زچہ کی تباہ حالت کاخیال نہ کرتا تھا۔ ایک عورت کہیں سے پڑھا ہوا تیل اور اپنی اس کے واسطے لائی ور زچہ کو پلانا چاہا۔ اس وقت زچہ نے تنگ آکر مجھ سے کہا کہ اے صاحبہ ! تم مجھ کو یہ تیل پانی نہ پینے دو ورنہ میرا حال تباہ ہو جاوے گا۔ تب میں نے کہا کہ تمہاری ایسی بیہودہ تدابیر سے کچھ کام نہ ہو گا۔ تم اس وقت اس کو کچھ کھانے کو دو ، تاکہ اس میں کچھ طاقت ہو ، یہ بات سن کر اس کی ساس ناراض ہوئی ، مگر میں نے غصے سے کہا کہ تم نہایت نادان ہو اوریہ کہہ کر میں نے تھوڑا سا شوربا اس کو پلایا ۔ سب عورتیں خفا ہو کر کہنے لگیں کہ یہ دستور تو صاحب لوگوں کا ہوتا ہے ہمارے ہاں اس کاکیا کام ہے ، اس سے زچہ مر جاتی ہے ، مگر میں نے کسی کی نہ سنی اور شوربا پلا ہی دیا کہ اس کے سبب سے اس کو بہت طاقت ہوئی اور اس کو ہوش آگیا۔ علاوہ اس سے ان نادان عوتوں نے اس کو تین گھنٹے تک گھٹنوں کے بل بٹھلا رکھا تھا جس کے سبب سے وہ ٹھک گئی تھی۔ پس میں نے دایہ سے کہا کہ اس کو لٹا دو۔ اس بات سے دایہ نہایت ناخوش ہوئی۔ میں نے اس سے کہا کہ اس سے کچھ ہرج نہیں ہے ، ولایت میں سب عورتیں اسی طرح جنتی ہیں۔ اس کے جواب میں دایہ نے کہا کہ صاحب ولایتی عورتوں میں اور دیسی میں بڑا فرق ہے۔ اپنا اپنا دستور ہے ، مگر میں نے نہ مانا اور اس کو کروٹ سے لٹا دیا۔ اس بیچاری کے پیٹ پر ایک کپڑا نہایت کس کو باندہ رکھا ہ جس کے سبب سے وہ جن نہیں سکتی میں نے اس کپڑے کو کھول دیا تو سب عورتیں کہنے لگیں کہ اب خیر نہیں ، بچہ اوپر چڑھ جاوے گا ، مگر خدا کی قدرت سے کپڑے کے کھولتے ہی بچہ پیدا ہو گیا ۔ ‘‘ اب اس تمام کیفیت کے دیکھنے سے اس بات کا یقین ہو سکتا ہے کہ ہندوستان کی عورتوں کی کیا حالت ہے اور ان کے ایسے جاھلانہ حیالات کیسے مضرت کاباعث ہیں۔ ایک اور عجیب کیفیت یہ ہوتی ہے کہ جب ولادت میں کچھ دیر ہو جاتی ہے تو عورتیں اس کے قریب شورو غل کرتی ہیں اور بندوق پٹاخے چلاتی ہیں اور یہ خیال کرتی ہیں کہ بچے نے زچہ کی آنت پکڑ رکھی ہے ، اس آواز سے و ہ چھوڑ دے گا تو درد میں کمی ہو جاوے گی۔ پس یہ بھی ایک ہجیب روشنی ا ن کے خیال کی ہے جو افسوس کے لائق ہے۔ ٭……٭……٭……٭ عورتوں کے حقوق (تہذیب الاخلاق بابت 15 ۔ جہادی الاول 1288ھ) تربیت یافتہ ملک اس بات پر بہت غل مچاتے ہیں کہ عورت اور مرد دونوں باعتبار آفرینش کے مساوی ہیں اور دونوں برابر حق رکھتے ہیں ، کوئی وجہ نہیں ہے کہ عورتوں کو مردوں سے کم اور حقیر سمجھا جاوے ۔اگر تمثیلاً کہا جاوے کہ عورت انسان کے لیے بمنزلہ بائیں ہاتھ کے ہے اورمرد بمنزلہ دائیں ہاتھ کے یاقدر وقیمت میں عورت بمنزلہ سولہ آنے کے ہے اور مرد بمنزلہ روپے کے تو بھی اس پر راضی نہیں ہوتے۔ با اینہمہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر قدر و منزلت عورتوں کی مذھب اسلام میں کی گئی ہے اور ان کے حقوق اور ان کے اختیارات کو مردوں کے برابر کیا گیا ہے اس قدر آج تک کسی تربیت یافتہ ملک میں نہیں ہے۔ انگلینڈ جو عورتوں کی آزادی بڑی حامی کار ہے جب اس کے قانون پر جو عورتوں کے باب میں ہے نظر کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے عورتوں کو نہایت حقیر اور لایعقل اور لاشے سمجھا ہے۔ اگلینڈ کے قانون بموجب عورت شادی کرنے کے بعد معدوم انوجود متصور ہوتی ہے اور ذات شوہر سے مبدل ہو جاتی ہے۔ وہ کسی قسم کے معاہدے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اس لیے وہ کسی دستاویز کی جو اس نے خود اپنی مرضی سے بلا شوہر کی مرضی کے لکھی ہو ذمہ دار نہیں ہو سکتی۔ جو ذاتی اسباب اور مال و نقد و جائیداد قبل شادی عورت کی ملک ہو وہ سب بعد شادی کے بقبضہ شوہر آجاتی ہے۔ جو جائیداد کہ عورت کو وراثہ قبل شادی کے یا بعد شادی کے ملی ہو اس سب پر اس کا شوہر تا حین حیات قابض ہو جاتا ہے اور وھی اس کا محاصل لیتا ہے۔ وہ مثلا لایعقل شخص کے نہ کسی پر دعوی کر سکتی ہے۔ اور نہ اس پر کوئی دعوی رجوع کر سکتا ہے۔ وہ بلا اجازت شوہر کے کوئی اسباب نہیں خرید سکتی اور کوئی چیز بیع نہیں کر سکتی۔ وہ بجز روٹی کھانے اور کپڑا پہننے اور ایک مکان میں رہنے کے خرچ کے جو ضروریات زندگی کے لیے درکارہے اور کوئی خرچ بغیر مرضی شوہر کے نہیں کر سکتی۔ 1870ء میں پارلیمنٹ میں منکوحجہ عورتوں کی جائیداد کا یک بل پیش ہوا تھا اس میں صرف بہ حلفی تھی کہ وہ قانون جس کے ذریعے سے بعد شادی کے عورت جائیداد سے محروم ہو جاتی ہے منسوخ کیا جاوے۔ آنریبل مسٹر رسل گرنی ممبر پارلیمنٹ نے یہ مسودہ قانون کا پیش کیا تھا ، اس وقت انہوں نے نہایت لطیف بات نہ کہی تھی کہ حال کے قانون کے بموجب جو کچھ جائیداد عورت کے پاس قبل شادی ہوتی ہے اور بعد شادی ملتی ہے اور جو کہا وہ اتنی محنت و لیاقت سے کہتی ہے بعد شادی کے وہ اس کا ۔ سب پر شوہر ملک ہو جاتا ہے۔ پس شادی کا اثر اس عورت پر ایسا ہوتا ہے جیسا کہ کسی جرم قابل ضبطی جائیداد کا اثر ہوتا ہے۔ اس گفتگو پر تمام ہؤس آف کا منز ہنس پڑا اور اکثر ممبروں نے آنریبل مسٹر رس گرے کی تائید کی۔ پس انگلستان کے قانون کا عورتوں کی نسبت یہ حال ہے اور غالباً کوئی قانون اس سے زیادہ خراب اور مضرت رساں اور ناانصاف نہ ہو گا۔ ذکر مسلمانی قانون کا نسبت عورتوں کے اب خیال کرو کہ مسلمانی قانون میں عورتوں کو کس طرح عزت دی گئی ہے اور مردوں کے برابر ان کے حقوق اور اختیار تسلیم کیے گئے ہیں۔ حالت نابالغی میں جس طرح مرد اسی طرح عورت بے اختیار اور ناقابل معاہدہ متصور ہے ، الا بعد بلوغ وہ بالکل مثل مرد کے مختار اور ہر ایک معاہدے کے لائق ہے۔ جس طرح مرد اسی طرح عورت اپنی شادی کرنے میں مختار ہیں۔ جس طرح کہ مرد کی بے رضا مندی نکاح نہیں ہو سکتا اسی طرح عورت کی بلا رضا مندی نکاں نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنی تمام ذاتی جائیداد کی خود مالک اور مختار ہے اور ہر طرح اس میں تصرف کرنے کا اس کو اختیار کامل حاصل ہے۔ وہ مثل مرد کے ہر قسم کے معاہدے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کی ذات اور اس کی جائیداد ان معاھدوں اور دستاویزوں کی بابت جوابدہ ہے جو اس نے تحریر کی ہوں۔ جو جائیداد قبل شادی اور بعد شادی اس کی ملکیت میں آئی ہو وہ خود اس کی مالک ہے اور خود اس کے محاصل کی لینے والی ہے۔ وہ مثل مرد کے دعوی بھی کر سکتی ہے اور اس پر بھی دعوی ہو سکتا ہے۔ وہ اپنے مال سے ہر ایک چیز خرید سکتی ہے اور جو چاہے اس کو بیع کرتی ہے ۔ وہ مثل مرد کے ہرقسم کی جائیداد کو ہبہ اور وصیت اور وقف کرسکتی ہے۔ وہ رشتہ داروں اور شوہر کی جائیداد میں سے بہ ترتیب وراثت ورثہ پا سکتی ہے۔ وہ تمام مذھبی نیکیوں کو جو مرد حاصل کرسکتا ہے حاصل کر سکتی ہے ۔ وہ تمام گناہوں کے عوض میں دنیا اور آخرت میں وھی سزائیں پا سکتی ہے جومرد پا سکتا ہے۔ کوئی قید خاص عورت پر بجز اس کے جو خود اس نے بسبب معاہدہ نکاح کے اپنے پر قبول کی ہیں یا اس تفاوت ستر عورت میں جو نیچر ، یعنی قدرت نے دونوں میں مختلف طور پر بنایا ہے ایسی نہیں ہے جو مرد پر نہ ہو۔ پس حقیقت میں مذھب اسلام میں جس طرح کہ عورت و مرد کو برابر سمجھا ہے ویسا نہ کسی مذھب میں ہے اور نہ کسی قوم کے قانون میں ہے۔ مگر تعجب اور کمال تعجب اس بات میں ہے کہ تمام تربیت یافتہ ملک مسلمانوں کی عورتوں کی جو حالت ہے اس پر بہت کچھ نام رکھتے ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کر تربیت یافتہ ملک کی عورتوں کی حالت مسلمانوں کی اور مسلمان ملک کی عورتوں کی حالت سے بدرجھا بہتر ہے ، حالانکہ معاملہ بالعکس ہونا چاہیے تھا۔ عورتوں کی حالت کی بہتری جو تربیت یافتہ ملکوں میں ہم نے تسلیم کی ہے اس میں کچھ یہی خیال ہم نے بے پردگی کی آزادی کا نہیں کیا ہے ، کیونکہ ہماری رائے میں ھندوستان میں اس باب میں جس قدر کہ تفریط ہے اسی قدرتربیت یافتہ ملکوں میں افراط ہے اور جو حد کہ شرع نے مقرر کی ہے اورجہاں تک کہ انسان اس پر غور کر سکتا ہے اور اپنی عقل کو کام میں لا سکتا ہے بلاشبہ وھی حد نہایت درست اور ٹھیک معلوم ہوتی ہے ۔ اس مقام پر جو ہم و بحث ہے وہ صرف مردوں کے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور حسن معاشرت اورت واضع اور خاطر داری اور محبت اور پاس خاطر اور ان کی آسائش اور آرام اور خوشی اور فرحت کی طرف متوجہ ہونا اور ان کو ہر طرح پر خوش رکھنا اور بعوض اس کے کہ عورتوں کو اپنی خدمت گزار تصور کریں ان کو اپنا انیس اور جلیس اور رنج و راحت کا شریک اور اپنے کو ان کی اور ان کو اپنی باعث مسرت اورتقویت کے سمجھنے پر بحث ہے۔ بلاشبہ جہاں تک کہ ہم کو معلوم ہے تربیت یافتہ ملکوں میں عورتوں کے ساتھ یہ تمام مراتب بخوبی برتے جاتے ہیں اور مسلمان ملکوں میں ویسے نہیں برتے جاتے اور ہندوستان میں تو ایسی نالائقی اور خاک اڑتی ہے کہ نعوذ باللہ منہا۔ جو لوگ کہ ان خرابیوں کو مذھب اسلام کی طرف نسبت کرتے ہیں یقینی ان کی غلطی ہے ، بلکہ ہندوستان میں جس قدر کہ عورتوں کی حالت میں تنزل ہے صرف اس کا باعث احکام مذھب اسلام کی بخوبی پابندی نہ کرنا ہے۔ اگر ان کی پابندی کی جاوے تو بلاشبہ یہ تمام خرابیاں دور ہو جاوں۔ معہذا بڑا باعث اس کا ان سو لیزڈ ، یعنی نا مہذب ہونا مسلمانوں کا ہے۔ مہذب قوموں نے باوجودیکہ ان کے ہاں کا قانون نسبت عورت کے نہایت ہی ناقص اور خراب تھا ، اپنی عورتوں کی حالت کو نہایت اعلیٰ درجے کی ترقی پر پہنچایا ہے اورمسلمانوں نے باوجودیکہ ان کا مذھبی قانون نسبت عورتوں کے اور ان کی حالت کی بہتری کے تمام دنیا کے قانون سے بہتر اور عمدہ تھا ، مگر انہوں نے اپنے نامہذب ہونے سے ایسا خراب برتاؤ عورتوں کے ساتھ اختیار کیا ہے ۔ جس کے سبب تمام قومیں ان کی حالت پر ہنستی ہیں اور ہماری ذاتی برائیوں کے سبب اس وجہ سے کہ قوم ایک حالت پر ہے ، الا ماشاء اللہ ، اس قوم کے مذھب پر عیب لگاتی ہیں۔ پس اب یہ زمانہ نہیں ہے کہ م ان باتوں کی غیرت نہ کریں اور اپنے چال چلن کو درست نہ کریں اور جیسا کہ مذھب اسلام روشن ہے خود اپنے چال چلن سے اس کی روشنی کا ثبوت لوگوں کو نہ دکھاویں۔ ٭……٭……٭……٭ بیوہ عورتوں کا نکاح نہ کرنے میں کیا فساد ہے ؟ (اخبار سائنٹیفک سو سائٹی علی گڑھ 31 ۔ مارچ 1876 ئ) ہمارے ناظرین اس خبر کو جس کو ہم اپنی تحریر کے بعد نقل کریں گے نہایت عبرت کے ساتھ ملاحظہ کریں گے۔ جو لوگ کسی قسم کی عزت اور حمیت رکھتے ہیں اور باوجود اس کے ان کی قوم میں یہ ذلت ہوتی ہے ان کو اس خبر کے دیکھنے کے بعد پروائی نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ ان پر ضرور ہے کہ وہ آئندہ اپنی عزت کی پگڑی کو سنبھالنے کی فکر کریں۔ جو خرابیاں بیوہ عورتوں کے نکاح ثانی نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہیں اگر ان کو خیال کیا جاوے تو وہ صرف شریعت کے ہی خلاف نہیں اور وہ ان کے عزیز مذھب کی روشن پیشانی پر ہی خلاف نہیں اور وہ ان کے عزیز مذھب کی روشن پیشانی پر ہی سیاہ ٹیکہ نہیں لگاتیں ، بلکہ اس کی دنیا کی عزت میں بھی نہایت خلل آتا ہے اور سچ پوچھو تو انسانیت ہی میں خلل آتا ہے۔ فرض کرو کہ بعض بے وقوف یا بد اعتقاد آدمی یہ خیال کر لیں کہ عقبیٰ میں ہم سے چھ مواخذہ نہ ہو گا یا مواخذہ تو ہو گا ، مگر کچھ بہت نہ ہو گا تو ہم یہ کہہ سکیں گے کہ بداعتقادوں کا ایسا خیال اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے عقبیٰ کی رسوائی کو آنکھ سے نھیں دیکھا ، اس لیے و نڈر میں یا وہ اس وقت موجود نہیں ہے اس وجہ سے ان کو بے پروائی ہے ، مگر اس دنیا کی ذلت جس سے دنیا دار بہت ڈرتے ہیں صریح احمقوں کو نصیب ہوتی ہے اور با این ہمہ وہ اس سزائے ظاہری سے نہیں شرماتے۔کیا وہ حقیقت میں انسان نہیں ہیں کہ عبرت پکڑیں ؟ اور اگر انسان میں تو کیا خدا نے ان کے دماغ میں جوہرعقل بالکل نہیں رکھا۔ جو وہ مثل و حشیوں کے غیرت کے مفہوم کو ہی نہیں سمجھتے ؟ اور اگر ان کو عقل بھی ہے تو کیا وہ بے حیا اور بے شرم ہیں جو ایسی رسوائیوں کے بعد بھی نہیں سمجھتے ؟ اور اگر وہ بے حیا بھی ہیں تو کیا اس بے حیائی سے زندگی بسر کرنے میں ان کوئی ایسا لطف آتا ہے جس کو وہ باایں ہمہ رسوائی اور ذلت نہیں چھوڑتے ؟ کیا وہ اپنے ہم جنس کے ساتھ ہمدردی کرنا عیب سمجھتے ہیں جو وہ اپنی عزیز عورتوں کو ایسی مصیبت میں پھنسانا پسند کرتے ہیں ؟ کیا ان کو ذرا بھی اس بات کی پروا نہیں ہے کہ ان کی بیوہ عورتیں بچہ کشی کے جرم میں ماخوذ ہو کر پھانسی یادائم الجس ہونے کی سزا پاویں اور وہ آنکھوں سے دیکھیں؟ ہم کو بہت افسوس ہے کہ ہندوستان کے جہلاء اپنی عزیز عورتوں ے ساتھ اس قدر بھی ہمدردی نہیں کرتے ہیں جس قدر کہ شولا پور کے ایک جج نے اپنے ایک فیصلے میں ظاہر کی ہے۔ اس کے فیصلے کے پڑھنے سے پتھر کا جگر بھی پانی ہو جاتا ہے اور اس رسوائی کے خیال کرنے سے جو اس وجہ سے شرفاء کو حاصل ہوتی ہے انسان تو کیا گدھا بھی شرما جاتا ہے ، مگر عجب عزت ہے اس قوم کی جو اس رسوائی سے نکاح ثانی کی رسوائی کو زیادہ جانتے ہیں ۔ جو اپنی نادانی سے نکاح ثانی کو عیب سمجھتے ہیں۔ ان کی عقلیں نہایت کوتاہ ہیں ۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ جن قوتوں کو خدا نے انسان کے واسطے لابد کر دیا ہے اس میں بھی انسان کو کوئی چارہ نہیں ہے۔ شاید ان کے نزدیک بھوک پیاس کی قوت اور رفع ضرورت کی قوت بھی اختیاری ہے۔ کیونکہ وہ اپنی دانست میں اس قوت کو اختیاری سمجھتے ہیں جو ہر ایک مرد و عورت میں خالق نے اپنی حکمت سے مفوض کی ہے اور اس اضطراری حالت کو اختیار کرتا گویا جمیع اضطراری قوتوں کو اختیار کرنا ہے اور یہ نہایت نادانی ہے ۔ صاحب جج موصوف کا یہ فقرہ اپنی تجویز میں نہایت پسندیدہ ہے : ’’ اگر کسی کوشش اورکسی طرز سے بیوہ ہندوؤں کی عورتوں کی شادی ہو جایا کرے تو بہت ہی اچھا ہے ۔ پھانسی اور جلاوطنی سے شادی ہو جانا آسان ہے۔ ‘‘ ہماری دانست میں اگر اسی فقرے کو اور بڑھایا جاوے اور یہ کہا جاوے کہ اول ایک نوجوان عورت کا چھوٹی عمر سے مصیبت میں گرفتار رہنا اور بیچاری کا اپنی جان کو تباہ کرنا اور اگر ضبط نہ ہو سکے ، بلکہ بمقتضائے بشریت گناہ کرے تو اس کے بعد رسوا ہونا اور اگر بچہ پیدا ہو اور اس کو غیرت یا شرم سے مار ڈالے تو پھر ای شریف کی لڑکی کا تھانے میں جانا اور سپاہیوں کے ہاتھ سے بے عزت ہو نا اور اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کا ملا حظہ ہونا اور پھر مجسٹریٹ کے روبرو علی الاعلان زنا کاری اوربچہ کشتی کا اقرار کرنا اور اس کے بعد پھانسی پر لٹکنا اور اگر دائم الجس ہوئی تو تمام عمر جیل خانوں کے سپاہیوں کے قبضے میں رہنا ہزار درجے بدتر ہے اس سے کہ اس کی شادی ہو جاوے۔ پس اب ہم کہتے ہیں کہ وہ عزت دار صاحب جو بیوہ عورت کے نکاح ثانی کے نام سے گھبراتے ہیں اور نکاح ثانی کو موت سے زیادہ سمجھتے ہیں اور اپنی نہایت نازک ناک کو تھامے پھرتے ہیں کیا وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس قدر بے انتہا ذلتیں اچھی ہیں یا ایک نکاح کی وہ ذلت اچھی ہے جس کو وہ اپنی حماقت سے ذلت سمجھتے ہیں ؟ اول تو ہم کو یقین نہیں ہے اس ذلت کو آسان سمجھیں اور اگر وہ آسان ہی سمجھیں تو ہم کو آدمیوں سے خطاب کرنا چاہیے جوہ اس لحاظ سے بہت کم یاب ہوں گے۔ ہم کو یہ بھی امید ہے کہ ہمارے زمانے کے تعلیم یافتہ جن کو اپنی قومی ہمدردی کا نہایت خیال ہے اور جو ہمیشہ اپنی قوم کو ذلت سے بچانے کی فکر میں رہتے ہیں اور باب میں کوئی کمیٹی ایسی کریں گے جو اس مصیبت کو ہندوستان سے کم کرے ، بلکہ ہم افسوس کرتے ہیں اس بات پر کہ ایک شخص منشی پیارے لال صاحب جنہوں نے ہندوستانیوں کی شادیوں کی فضول خرچی کم کروانے کے واسطے تمام ہندوستان میں دورہ کیا تھا ، بجائے اس کام کے اس طرف کیوں نہ متوجہ ہوئے کہ نکاح ثانی کو جاری کراتے اور اس کی نسبت غلط خیال کو ہندوؤں کے دل سے نکالتے ۔ ہماری دانست میں منشی پیارے لال صاحب کو اس قدر ثواب فضول خرچی کے کم کرانے میں نہیں ہوا جس قدر کہ اس ظلم کے دور کرانے میں ہوتا اور ان پر کیا منحصر ہے ، کیا ہندوستان میں اور کوئی ایسا نہیں ہے کہ وہ اس کام کو اپنے ذمے لے ؟ پنڈت دیانند سرسوتی صاحب جہاں توحید کے متعلق و عظ کہتے ہیں ان کو ضرور ہے کہ وہ تکاح ثانی کے متعلق بھی نصیحت کو اپنے ذمے پر لازم کر لیں ۔ کیا وہ معزز ہندو جو بڑے دانشمند ہیں بجائے اور کوششوں کے یہ کوشش نہیں کرتے کہ ایک کمیٹی بیوہ عورتوں کے نکاح ثانی کے واسطے قائم کریں اور اس کمیٹی کی اس غرض سے اعانت کریں کہ وہ اپنے کام کو ترقی دے ؟ ہم کو امید ہے کہ اس فیصلے کے پڑھنے کے بعد تمام ہندو اور وہ بے عزت مسلمان جو اس باب میں ہندوؤں کے تابع ہیں ضرور کچھ کریں گے ۔ اب ہم اس رائے کو ذیل میں درج کرتے ہیں جس کی بناء پر ہم نے یہ لکھا ہے : ’’ ماہ گزشتہ میں بمقام شولا پور ایک مقدمہ بچہ کشی کا ہوا۔ صاحب جج نے یہ تجویز کی کہ چونکہ یہاں ایسے مقدمے بہت سے ہوا کرتے ہیں ، لہذا ہم مجرم کو پھانسی کی سزا دیتے ہیں ۔ ھائی کورٹ کو اختیار ہے کہ وہ چاہے سزا کم کر دے اور چاہے تو نہ کرے ، مگر میری رائے میں یہی آتا ہے۔ اس مقدمے کی کیفیت یہ ہے کہ ایک عورت بیوہ اپنے عزیز سے حاملہ ہوئی اور اس سے لڑکا پیدا ہوا۔ پس عورت نے اپنی خالہ کی اعانت سے اس بچے سے لڑکا پیدا ہوا۔ پس عورت نے اپنی خالہ کی اعانت سے اس بچے کو ایک خار دار درخت کے نیچے ڈال دیا یہاں بچہ پڑا رہا اور چلایا گیا ۔ کانٹے بھی اس کے بہت سے لگے تھے۔ جب اس بچے کو مردمان پولیس اٹھا کر لائے تو وہ دو گھنٹے کے بعد مر گیا ۔ عورت کو سزائے پھانسی کا حکم ملا تھا ، مگر اس کو عدالت ہائی کورٹ نے ترمیم کر کے دائم الجس کی سزا دی اور اس کی خالہ کو جس نے اعانت کی تھی دو برس کی سزا ملی۔ افسوس کی بات ہے کہ ادھر ایسے مقدمات بہت ہوتے ہیں ، خاص کر ہندو بیوہ عورتوں میں ۔ یہ عورتیں نوجوانی میں بیوہ ہو جاتی ہیں اور بموجب مذھب کے شادی تو یہ کر سکتی نہیں ، پس اس وجہ سے خرابیاں پڑتی ہیں۔ ستی ہونا تو بالکل دور ہو گیا ، لیکن ہندوایسا قانون جاری کریں کہ جس سے بیوہ عورتوں کی شادی ہو جایا کرے تو جو باتیں اب ہوتی ہیں وہ کاھے کو ہونے پاویں ۔ منو کا حکم یہ ہے کہ اگر بیوہ عورت دوبارہ شادی کرے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ متوفی خاوند کا اس کو ہرگز خیال نہ تھا۔ اس کی بے عزتی دنیا میں ہوگی اور اپنے خاوند کے ساتھ بعد مرنے کے نہ رہنے پاوے گی۔ پس بیوہ کو چاہیے کہ ساگ ترکاری اور درختوں کی جڑیں کھایا کرے اور کوئی عمدہ اور لذیذ غذا نہ کھائے اور یہ بھی ان کا حکم ہے کہ بیوہ پلنگ پر نہ سویا کرے اور کسی طرح کا عیش نہ کرے۔ دس بارہ برس کی عورت اگر بیوہ ہو جاتی ہے تو تمام عمر اس کو اسی مصیبت میں بسر کرنی پڑتی ہے۔ پس اگر بشریت سے ذرا بھی اسی خطا ہو جاتی ہے تو سوائے اولاد کے مار ڈالنے کے اور کچھ چارہ نہیں ہوتا ہے اور ملکوں میں شادی کرنے کے واسطے آزادی ہے ، مگر یہاں نہیں ہے۔ جب مرد مان پولیس کو ایسے مقدمے کی خبر ہوتی ہے تو وہ عورت کو گرفتار کر کے لے جاتے ہیں اور عورت صاحب مجسٹریٹ کے روبرو قبول کر لیتی ہے کہ ہاں میں نے مارا ہے۔ گر کسی کوشش اور کسی طرز سے بیوہ ہندوؤں کی عورتوں کی شادی ہو جایا کرے تو بہت ہی اچھا ہے۔ پھانسی اور جلاوطنی سے شادی ہو جانا بہتر۔ ‘‘ ٭……٭……٭……٭ بیوہ عورتوں کا نکاح نہ کرنے کا نتیجہ (اخبار سائنٹیفک سو سائٹی علی گڑھ 20 ۔اکتوبر 1876ئ) جو اخلاق برائیاں ہندوستانیوں کی بعض غلط فہمیوں سے ہندوستان میں پھیل رہی ہیں وہ نہایت بھی نفرت کے لائق ہیں اور وہ ایسی نہیں ہیں کہ جن کو دیکھ کر یا سن کر ایک ایسا انسان جس کے دل میں کچھ بھی انسانیت کا اثر ہو صدمہ نہ اٹھاتا ہو اور جو لوگ کسی قدر عاقل یا مہذب ہیں وہ تو صرف صدمہ ہی نہیں اٹھاتے ، بلکہ ایک بڑی شرم و ندامت اٹھاتے ہیں اور وہ اپنے پاس اپنی جاھل اور بے ہودہ قوم کی لغو اور بے فائدہ حرکتوں کا کوئی جواب نہیں رکھتے ، خصوصاً ایسی اخلاقی شناعت میں جو ان کے نزدیک عقلاً اور نقلاً اور تجربۃً ہر طرح سے بری ثابت ہوئی ہو۔ بیوہ عورتوں کے نکاح ثانی کی مخالفت میں جو جاھل ہندوستانیوں نے ایک ضد کر رکھی ہے اس کے سبب سے ہندوستان میں نہایت بڑی بد اخلاقی پھیلی ہوئی ہے اور اس کے ثمرات اور نتائج سے ہندوستان کے جاھلوں کو نہایت بڑی بڑی ذلتیں نصیب ہو چکی ہے اور ہمیشہ ہوتی ہیں ،مگر افسوس ہے کہ اس کے تدارک کی کچھ پروا نہیں کی جاتی اور اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ جس طرح ہمارے زمانے کے مہذب اس بے ہودہ حرکت کی برائی کو جانتے ہیں اورجس قدر اس سے دلی نفرت کرتے ہیں اس قدر عملی کوشش سے اس کے انسداد میں سر گرم نہیں ہوتے اور ہر شخص اپنی قوم میں اس بات کا منتظر ہے کہ پہلے دوسرا شروع کرے ، حالانکہ اصلا ح کے کاموں میں ایک کو دوسرے کا انتظار ہمیشہ اس کے کرنے سے باز رکھتا ہے۔ اس موقع پر ہم ایک خبر وکیل ہندوستان مطبوعہ 7۔ اکتوبر سے نقل کرتے ہیں جو نہایت شرم و غیرت کے لائق ہے۔ ’’ عدم تزویج بیوگان کے نتیجے کی نسبت ایک متدین صاحب لکھتے ہیں کہ روپڑ سے ایک میل کے فاصلے پر ایک گاؤں کوٹلہ نہنگ میں مسمات سو بھی (بیوہ) زوجہ کوٹو ذات کھتری عمر 21 سال نے ایک مہتر سے زنا کرایا۔ کیفیت اس کی یہ ے کہ عرصہ دو سال سے اس باحیا عورت کی آشنائی ایک خاکروب مسمی منگل ساکن قصبہ ہذا سے تھی۔ یہ عورت بھی کا بیان ہے کہ ایک سال ہوا مجھے یہ خاکروب ایک روز برھنہ دیکھ کر عاشق ہو گیا تھا ، پھر رفتہ رفتہ آشنائی ہو گئی۔ اکثر باغ ملکیت عورت میں ملاقات ہوا کرتی تھی۔ اس دفعہ گاؤں کے آدمیوں نے دیکھ لیا۔ ، بات مشہور ہو گئی ۔ عورت کے وارثوں نے اس کو پھسلا اور اغوا کر کے اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اس خاکروب پر زنا بالجبر کا الزام لگا دے آخر اس خاکروب کو مجرم قرار دے کر گرفتار کر کے تھانے میں لے گئے جہاں سے چالان زیر دفعہ 376 تعزیرات ہند مکمل ہو کر مقدمہ باجلاس صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر انبالہ دائر ہوا۔ مدعا علیہ بباعث ثابت ہونے آشنائی قدیم اور مرضی سے عورت کے صحبت کرنے میں رہا ہوا۔ اب دونوں کوٹلہ میں چین کرتے ہیں۔ اب شریف ہندوؤں سے عموماً اور نیز مسلمانان از قوم راجپوت و سید وغیرہ سے خصوصاً دریافت کرنا مناسب ہے کہ آیا اس کی اس بدفعلی کا باعث کیا چیز ہوئی ؟ بے شک اس کا جواب یہی ہو گا کہ اس نوجوان عورت کا مکرر شادی نہ کرنا ہی۔ اجی دور کہاں جاتے ہو ابھی تو تھوڑے ہی دن گزرے ہیں کہ خاص روپڑھی میں ایک بڑے پنڈت صاحب (جو برھمنوں میں یہاں اول درجے کے ہیں) کی لڑکی تین دن رات ایک مسلمان کنجر کے لڑکے ک گھر میں جس سے کہ اس کی آشنائی تھی اپنے ماں باپ سے تنگ ہو ہو کر اس جلاپے سے رہی کہ اس کو اس کے والدین نے شادی کر کے عرصہ دراز سے اپنے خاوند کے پاس نہیں جانے دیا تھا۔ اب فرمائیے کہ ایسے ایسے اشد کام کیوں ہوتے ہیں ؟ ایک تو بیوہ کی عدم تزویج سے اور دوسرا شادی کر کے بھی مکلاوا (یعنی گونا) دیر تک ناروانہ کرنے سے ظہور میں آتے ہیں ۔ ہندو و مسلمانوں کو ایسی ایسی باتوں پر غور کر کے اس کا تدارک کرنا چاہیے اور خاص کر آج کل کے انگریزی خواں مہذب ہندوؤں کو جا بجا کمیٹیاں مقرر کر کے اس رسم بد کو کہ جس کے طفیل ہر ایک طرف سے ایک نیا ہی شگوفہ کھلتا نظر آتا ہے ، برہمنوں کو اپنے سے متفق الرائے کر کے دور کرنا چاہیے۔ میری دانست میں تو ایسے ایسے گناہ کبیرہ ، یعنی زنا کا بوجھ قیامت کے روز کچھ سرکار کی گردن پر بھی پڑے گا جس نے کسی قانون میں اس حرت ناشائستہ کے مرتکب ہونے پر عورت زانیہ کے لیے کوئی واقعی سزا مقرر نہیں کی۔ ‘‘ ٭……٭……٭……٭ عید کا دن (تہذیب الاخلاق جلد دوم نمبر 1 (دور سوم) بابت یکم شوال 1312ھ 1896ئ) السلام علیکم ، عید مبارک ہو ، وعلیکم السلام ، آپ کو بھی مبارک ہو۔ مصافحہ کیجیے۔ اس سے مجھے معاف رکھو۔ مصافحے کو عید کے دن مخصوص کرنا بد عت ہے۔ اگر بدعت ہے تو جانے دیجیے۔ کیاآپ اسے بدعت نہیں سمجھتے ؟ جناب میں تو نہ مصافحے کو بدعت سمجھتا ہوں نہ معانقے کو ۔ بدعت دراصل اعتقاد سے تعلق رکھتی ہے۔ عید کے مصافحے یا معانقے کو کوئی سنت یا مستحب یا واجب نہیں سمجھتا ۔ عید کا دن مسلمانوں کی خوشی کا دن ہے ، کوئی آپس میں دوستوں سے ھاتھ ملا کے خوش ہوتا ہے کوئی گلے لگ کے ، اس کو سنت اور بدعت سے کیا تعلق ہے ؟ اب کی دفعہ تو عید گاہ میں بہت کثرت سے لوگ تھے اور سب قسم کے لوگ بہت خوش معلوم ہوتے تھے۔ آپ نے بھی دیکھا ہو گا۔ میںتو عید گاہ نہیں گیا ، مگر سب قسم کے لوگوں سے آپ کی کیا مراد ہے اور وہ سب کیوں خوش تھے ؟ حضرت !ھاں پھر ،بڈھے تو اس لیے خوش تھے کہ ان کو توقع نہ تھی کہ ان کی زندگی میں پھر رمضان آئے گا اور اگر آئے گا تو روزے بھی رکھ سکیں گے یا نہیں۔ خدا کے فضل سے ان کی زندگی میں رمضان آیا اور انہوں نے روزے بھی رکھے۔ فرض سے بھی ادا ہوئے اور قیامت میں بہشت جانے کا سامان ہوا۔ علماء اور زھاد اس لیے خوش تھے کہ انہوں نے روزے رکھے ، تروایح پڑھیں ، اعتکاف کیا ،ان کے مریدوں شاگردوں میں ان کا تقدس زیادہ بڑھا اور اگر اس میں سے کچھ خدا نے بھی منظور کر لیا تو پھر کیا کہنا ہے، چپڑی اور دودو ، ادھر بندے خوش ادھر خد خوش ۔ جوان اس لیے خوش تھے کہ خدا خدا کر کے فاقوں کے دن گئے ، اب رات دن جو چاہوسو کھاؤ اور جو چاہو سو کرو ،چین سے رھو : ماہ رمضان گزشت و عید آمد لڑکے اوربچے اس لیے خوش تھے کہ مکتب سے چھٹی ملی تھی ، عید گاہ سے کھلونے خرید لائے تھے ، دودھ سویا کھا کر مگن تھے۔ حضرت ! آپ نے عورتوں کا کچھ حال نہ فرمایا ؟ لواجی ان کے بغیر عید کیسی ؟ عشوہ و ناز کرنے والوں کو رتھیں پر رتھیں قطار کی قطار موجود تھیں۔ سینکڑوں آدمی پروانہ وار ان کے گرد تھے۔ اس زمانے کے برگشتہ خیال پردہ شکن لوگوں کا بھی کچھ اثر تھا ؟ نہیں خدا نہ کرے کہ کچھ ہوتا ۔ جس دن ان ناعاقبت اندیشوں کے خیال خدانخواستہ پورے ہوں گے اس دن مسلمانوں کی دین و دنیا دونوں میں پوری تضلیل و تذلیل ہو جائے گی۔ بھلاحضرت ! ان لوگوں کا کیا حال تھا جو اپنے آپ کو رفارمر اور مسلمانوں کی دین و دنیا کی بھلائی چاہنے والے سمجھتے ہیں ؟ یہ لوگ تو اس مجمع میں کم تھے ، مگر جو تھے وہ اداس رونی صورت بنائے ہوئے تھے۔ حضرت یہ کیوں ؟ ہندوستان کے ہر گوشتے میں انجمن اسلامیہ قائم ہوتی ہیں اور ہوتی جاتی ہیں۔ اسلامیہ مدرسہ اور اسکول برابر کھلتے جاتے ہیں۔ یتیموں کی پرورش پرداخت کے لیے انجمنیں قائم ہو گئی ہیں اور ہوتی جاتی ہیں۔ مسلمان قیدی جیل خانے میں مرے تو اس کی مسلمانوں کی طریقے پر تجہیز و تکفین کرنے کو جا بجا کمیٹیاں قائم ہیں۔ زنامہ اسکول بنتے جاتے ہیں۔ یتیموں کو صنعت و حرفت سکھانے کا انتظام ہوتا جاتا ہے۔ ایک نہایت عجیب چیز جس کے قائم ہونے کی کبھی توقع نہ تھی وہ بھی قائم ہو گئی ہے۔ آپ نے سنا ہو گا کہ ایک عالی شان جلسہ ندرۃ العلماء کا کانپور میں ہو چکا ہے اوراب دوسرا لکھنو میں ہونے والا ہے۔ پس اس سے زیادہ اور کیا سر سبزی و شادابی مسلمانوں کی ہو سکتی ہے ، پھر اب فلاح خواہان قوم کی اداس اور رونی صورت کیوں بنی ہوئی تھی؟ ارے صاحب ! اول تو ان تمام کارخانوں کو قومی بہبود و فلاح کے کارخانے ہی بیجا ہے۔ یہ تو سودا گر کی دکانیں ہیں۔ ایک سودا گر مختلف چیزیں خرید کر دکان بھرتا ہے۔ اس امید پر کہ دگنے تگنے نفع پر بیچے گا اور فائدہ اٹھائے گا۔ یہ لوگ یہ کام اس لیے کرتے ہیں کہ اس کے عوض عقبی میں ثواب یا فائدہ ہو گا۔ کسی کو بہشت میں کوئی محل مل جائے گا۔ مسن بنی للہ مسجد بنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ ۔ کسی کو حور غلمان ایک کے بدلے دو اور دو کے بدلے چار ملیں گی۔ شراب طہور کے جام پر جام پئیں گے۔ میوے کھانے کو ملیں گے اور وہاں سب کاموں کا نفع سوایا مل جاوے گا۔ بھلا یہ قوم کی بھلائی ہے یا پوری سودا گری ؟ اس کے سوا ان چھوٹے چھوٹے اور غیر ضروری کاموں سے قوم کی کیا بھلائی ہو سکتی ہے ؟ مردے کو کفن دے کر گاڑنے یا ننگا گاڑ دینے سے قوم کی کیا بہتری اور برتری ہو سکتی ہے۔ یہ باتیں اس وقت کام کی ہیں جب قوم اور تمام ضرورتوں سے نچنت ہو تو مردوں کی بھی فکر اچھی معلوم ہوتی ہے ورنہ خود مردے مردوں کے ساتھ کیا کریں گے۔ ہم نے مانا کہ ان چھوٹے چھوٹے مدرسوں سے کچھ حرف شناس یا شدبد آگئی ، کیا اس قدر تعلیم سے قوم ، قوم ہو سکتی یا کچھ عزت پیدا کر سکتی ہے ؟ یہ بھی تسلیم کرو کہ مذھبی مدرسوں میں پڑھ کر بہت بڑے عالم اور فقیہ ہو جاویں گے اور جن کو وہ اھل بدع ار اھواء سمجھتے ہیں ان کو خوب ہرا سکیں گے ، مگر اس سے کیا ہو گا ؟ بڑا حملہ اس وقت علوم و فلسفۂ جدیدہ اسلام پر کیا ، تمام مذاھب پر ہے۔ ان مدرسوں کے پڑھنے والے اسی پرانی لکیر کو پٹے جاتے ہیں جس کا نشان بھی اب دنیا میں نہیں رہا۔ ان پڑھے ہوئے دستار فضیلت بندھے ہوؤں کو کچھ بھی مادہ ان حملوں سے مذھب کی حفاظت کا ہے ؟ پھر دستار فضیلت سر کا ایک بوجھ ہے ، قوم کو تو ان سے کسی فائدے کی توقع نہیں ہوسکتی۔ پس قوم کے ان بھلائی چاہنے والوں یا رفارمروں کو آنکھ میں یہ سب ہیچ ہے۔ ان مدرسوں سے قومی فلاح کی ان کو توقع نہیں ہے۔ پھر وہ اداس اور رونی صورت بنائے ہوئے نہ ہوں تو اور کیا ہوں۔ ٭……٭……٭……٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حصہ اول اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید اخلاقی اور اصلاحی مضامین جلد پنچم حصہ دوئم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی آزادی رائے (تہذیب الاخلاق جلد 1 نمبر 5 بابت 20 ذی قعدہ 1287 ھ) ہم اپنے اس آرٹیکل کو ایک بڑے لائق اور قابل زمانہ حال کے فیلسوف کی تحریر سے اخذ کرتے ہیں۔ رائے کی آزادی ایک ایسی چیز ہے کہ ہر ایک انسان اس پر پورا پورا حق رکھتا ہے۔ فرض کرو کہ تمام آدمی بجز ایک شخص کے کسی بات پر متفق الرائے ہیں ، مگر صرف وھی ایک شخص ان کے برخلاف رائے رکھتا ہے۔ تو ان تمام آدمیوں کو اس ایک شخص کی رائے کو غلط ٹھہرانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ استحقاق حاصل ہے۔ کوئی وجہ اس بات کی نہیں ہے کہ پانچ آدمیوں کو تو بمقابلہ پانچ آدمیوں کی رایوں کے غلط ٹھہرانے کا استحقائق ہو اور ایک آدمی کو بمقابل نو آدمیوں کے یہ استحقاق نہ ہو۔ رائے کی غلطی آدمیوں کی تعداد کی کمی بیشی پر منحصر نہیں ہے ، بلکہ قوت استدلال پر منحصر ہے۔ جیسے کہ یہ بات ممکن ہے کہ نو آدمیوں کی رائے بمقابلہ ایک شخص کے صحیح ہو ویسے ہی یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص کی رائے بمقابل نو کے صحیح ہو۔ رایوں کا بند خواہ بسبب کسی مذھبی خوف کے اور خواہ بسب اندیشہ برادری و قوم کے اور خواہ بد نامی کے ڈر سے اور یا گورنمنٹ کے ظلم سے نہایت ہی بری چیز ہے۔ اگر رائے اس قسم کی کوئی چیز ہوتی جس کی قدر و قیمت صرف اس رائے والے کی ذات ہی سے متعلق اور اسی میں محصور ہوتی تو رایوں کے بند رہنے سے ایک خاص شخص کا یا معدودے چند کا نقصان متصور ہوتا ، مگر رایوں کے بند رہنے سے تمام انسان کی حق تلفی ہوتی ہے اور کل انسانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور نہ صرف موجودہ انسانوں کو ، بلکہ ان کو بھی جو آئندہ پیدا ہوں گے۔ اگرچہ رسم و رواج بھی اس کے برخلاف رایوں کے اظہار کے لیے ایک بہت قومی مزاحم کار گنا جاتا ہے ، لیکن مذھبی خیالات مخالف مذھب رائے کے اظہار اور مشتہر ہونے کے لیے نہایت اقوے مزاحم کار ہوتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ اس مخالف رائے کا ظاہر ہونا ان کو ناپسند ہوا ہے ، بلکہ اسی کے ساتھ جوش مذھبی امنڈ آتا ہے اور عقل کو سلیم نہیں رکھتا اور اس حالت میں ان سے ایسے افعال و اقوال سرزد ہوتے ہیں جو ان ہی ے مذھب کو جس کے وہ طرفدار ہیں مضرت پہنچتے ہیں ۔ وہ خود اس بات کی باعث ہوتے ہیں کہ مخالفوں کے اعتراض لامعلوم رہیں ۔ و خود اس بات کے باعث ہوتے ہیں کہ بسبب پوشیدرہنے ان اعتراضوں کے ان ہی کے مذھب کے لوگ ان کے حل پر متوجہ نہ ہوں اور مخالفوں کے اعتراض بلاتحقیق کیے اور بلا دفع کیے باقی رہ جاویں۔وہ خود اس بات کے باعث ہوتے ہیں کہ ان کی آئندہ نسلیں بسبب ناتحقیق باقی رہ جانے ان اعتراضوں کے جس وقت ان اعتراضوعں سے واقف ہوں اسی وقت مذھب سے منحرف ہو جاویں۔ وہ خود اس بات کے باعث ہوتے ہیں کہ وہ اپنی نادانی سے تمام دنیا پر گویا بات ظاہر کرتے ہیں کہ اس مذھب کو جس کے وہ پیرو ہیں مخالفوں کے اعتراضوں سے نہایت بھی اندیشہ ہے۔ اگر انہی کے مذھب کا کوئی شخص بغرض حصول اغراض مذکورہ ان کو پھیلانا چاہے تو خود اس کو معترض کی جگہ تصور کرتے ہیں اور اپنی نادانی سے دوست کو دشمن قرار دیتے ہیں۔ کیا عمدہ رائے اس فلیسوف کی ہے کہ ’’ کسی رائے کے حامیوں کا اس رائے کے برخلاف رائے کے مشتہر ہونے میں مزاحمت کرنے سے خود ان حامیوں کا بہ نسبت ان کے مخالفوں کے زیادہ تر نقصان ہے ، اس لیے کہ اگر وہ رائے صحیح و درست ہو تو اس کی مزاحمت سے غلطی کے بدلے صحیح بات حاصل کرنے کا موقع ان کے ہاتھ سے جاتا ہے اور اگر وہ غلط ہے تو اس بات کا موقع باقی نہیں رہتا کہ غلطی اور صحت کے مقابلے سے جو صحی کو زیادہ استحکام اور اس کی سچائی زیادہ تر دلوں پر موثر ہوتی ہے اور اس کی روشنی دلوں میں بیٹھ جاتی ہے ، اس نتیجے کو حاصل کریں جو فی الحقیقت نہایت عمدہ فائدہ ہے ۔ ‘‘ کچھ شبہ نہیں ہے کہ عموماً مخالف اور موافق رایوں کا پھیلنا اور منتشر ہونا ، خواہ وہ دنی معاملے سے علاقہ رھتی ہوں یا دنیوی معاملے سے نہایت ہی عمدہ اور مفید ہے ۔ دونوں قسم کی رایوں پر جدا جدا غور کرنے کا موقع ملتا ہے کہ ان میں سے کون سی بہتر ہے یا ان دونوں کی تائید ایسے دلائل سے ہوتی ہے جو جدا گانہ ہر ایک کے مناسب ہیں۔ ہم کو اس بات کا کبھی یقین کامل نہیں ہو سکتا ہے کہ جس رائے کی مزاحمت میں یا بند رہنے میں ہم کوشش کرتے ہیں وہ غلط ہی ہے اور اگر یقین بھی ہوکہ وہ غلط ہے تو بھی اس کی مزاحمت ہی ہے اور اگر یقین بھی ہو کہ وہ غلط ہے تو بھی اس کی مزاحمت اور اس کا انسداد برائی سے خالی نہیں۔ فرض کرو کہ جس رائے کا بند کرنا ہم چاہتے ہیں حقیقت میں وہ رائے صحیح و درست ہے اورجو لوگ اس کا انسداد چاہتے ہیں وہ اس ی درستی اور صحت سے منکر ہیں ،مگر غورکرنا چاہیے کہ وہ لوگ ، یعنی اس رائے کے بند کرنے والے ایسے نہیںہیں جن سے غلطی اور خطا ہونی ممکن نہ ہو تو ان کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ اس خاص معاملے کو تمام انسانوں کے لیے خود فیصل کریں اور اور شخصوں کو اپنی رائے کام میں لانے سے محروم کر دیں۔ کسی مخالف رائے کی سماعت سے اس وجہ سے انکار کرنا کہ ہمارا یقین یقین کامل کا رتبہ رکھتا ہے اور اس پربحث و گفتگو کی ممانعت کرنا انبیاء سے بھی بڑھ کر اپنا رتبہ ٹھہرانا ہے اور اپنی تئیں ایسا سمجھتا ہے کہ ہم سے سہو و خطا کا ہونا ناممکن ہے۔ انسانوں کی سمجھ پر بڑا افسوس ہے کہ جس قدر کہ وہ اپنے خیال و قیاس میں اپنے سے اس مشہور مقولے کی سند پر کہ ’’ انسان مرکب من الخطاء و النسیان ‘‘ سہو و خطا کا ہونا ممکن سمجھتے ہیں اس قدر اپنی رایوں اور اپنی باتوں کے عمل درآمد میں ہیں سمجھتے ، ان کی عملی باتوں سے اس کی قدر و منزلت نہایت ہی خفیف معلوم ہوتی ہے ، گوخیال و قیاس میں اس کی کیسی ہی بڑی قدر و منزل سمجھتے ہوں۔ اگرچہ سب اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم سے سہو و خطا ہونی ممکن ہے ، مگر بہت ہی کم آدمی ایسے ہوں گے جو اس کا خیال رکھنا اور از روئے عمل کے بھی اس کے احتیاط کرنا ضرور سمجھتے ہوں اور عملی طور پر اس بات کو تسلیم کرتے ہوں کہ جس رائے کی صحت کا ان کو خوب یقین ہے شاید وہ اسی سہوو خطا کی مثال ہو جس کا ہونا وہ اپنے سے ممکن سمجھتے ہیں۔ جو لوگ کہ دولت و منصب اور حکومت یا علم کے سبب غیر محدود تعظیم و ادب کے عادی ہوتے ہیں ، وہ تمام معاملات میں اپنی رایوں کے صحیح ہونے پر یقین کامل رکھتے ہیں اور اپنے میں سہو و خطا ہونے کا احتمال بھی نہیں کرتے اور جو لوگ ان سے کسی قدر زیادہ خوش نصیب ہیں ، یعنی وہ کبھی کبھی اپنی رایوں پر اعتراض اور حجت اور تکرار ہوتے ہوئے سنتے ہیں اور کچھ کچھ اس بات کے عادی ہوتے ہیں کہ کہ جب غلطی پر ہوں تو متنبہ ہونے پر اس کو چھوٹے دیں اور درست بات کو مان لیں ، اگرچہ ان کو اپنی ہر ایک رائے کی درستی پر یقین کامل تو نہیں ہوتا ، اگرچہ ان کو اپنی ہر ایک رائے کی درستی پر یقین کامل تو نہیں ہوتا ، مگر ان رایوں کی درستی پر ضرور یقین ہوتا ہے جن کو وہ لوگ جو ان کے ارد گرد رہتے ہیں یا ایسے لوگ جن کی بات کو وہ نہایت ادب و تعظیم کے قابل سمجھتے ہیں ان رایوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ جو شخص جس قدر اپنی ذاتی رائے پر اعتماد نہیں رکھتا وہ شخص اس قدر دنیا کی رائے پر عموماً زیادہ تر اعتماد رکھتا ہے جس کو بعضی اصطلاحوں میں جمہور کی رائے یا جمہور کا مذھب کہا جاتا ہے۔ مگر یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک دنیا سے یا جمہور سے کیا مراد ہوتی ہے ۔ ہر ایسے شخص کے نزدیک دنیا سے اور جمہور سے وہ چند اشخاص معدود مراد ہوتے ہیں جن سے وہ اعتقاد رکھتا ہے یا جن سے وہ ملتا جلتا ہے ، مثلا اس کے دوستوں یا ہم راویوں کا فریق یا اس کی ذات برادری کے لوگ یا اس کے درجے و رتبے کے لوگ ۔ پس اس کے نزدیک تمام دنیا اور جمہور کے معنی انھی میں ختم ہو جاتے ہیں اور اس لیے وہ شخص اس رائے کو دنیا کی یا جمہور کی رائے سمجھ کر اس کی درستی پر زیادہ تر یقین کرتا ہے ۔ اس ہیئت مجموعی رائے کا جو اعتماد اور یقین اس کو زیادہ ہوتا ہے اور ذرا بھی اس میں لغزش نہیں آتی اس کا سبب یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ اس بات سے واقف نہیں ہوتا کہ اس کے زمانے سے پہلے اور زمانوں کے ، اور ملکوں کے ، اور فرقوں کے، اور مذھبوں کے لوگ اس میں کیا رائے رکھتے تھے اور اب بھی اور ملکوں اور فرقوں اور مذھبوں کے لوگ کیا رائے رکھتے ہیں ۔ ایسے شخص کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ اس بات کی جواب دھی کو کہ در حقیقت وہ راہ راست پر چلتا ہے اپنی فرضی دنیا یا جمہور کے ذمے ڈالتا ہے۔ پس جو کچھ اس کی رائے یا اس لیے کہ جن و جوھات سے وہ شخص بسبب مسلمان خاندان میں پیدا ہونے کے اس وقت بڑا مقدس مسلمان ہے ، انھی وجوھات سے اگر وہ عیسائی خاندان یا ملک یا بت پرست خاندان یا ملک میں پیدا ہوتا تو وہ بھلا چنگا عیسائی یا بت پرست ہوتا۔ وہ مطلق اس بات کا خیال نہیں کرتا کہ جس طرح کسی خاص شخص کا خطا میں پڑنا ممکن ہے اسی طرح اس کی فرضی دنیا اور خیالی جمہور کی تو کیا حقیقت ہے زمانے کے زمانے کا اور اس سے بھی بہت بڑی دنیا کا خطا میں پڑنا ممکن ہے ۔ تاریخ سے اور علوم موجودہ سے بخوبی ظاہر ہے کہ ہرزمانے میں ایسی ایسی رائیں قائم ہوئیں اور مسلم قرار پائیں جو اس کے بعد کے زمانے میں صرف غلط ہی نہیں بلکہ سراسر لغو و مہمل سمجھی گئیں اور یقیناً اس زمانے میں بھی بہت سے ایسی رائیں مروج ہوں گی جو کسی آئندہ زمانے میں اسی طرح مردود اور نامعقول ٹھہریں گی جیسے کہ بہت سی رائیں جو اگلے زمانے میں عام طور پر مروج تھیں اور اب مردود ہو گئی ہیں۔ اس تقریر پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ جو لوگ مخالف رائے کو غلط اور مضر سمجھ کر اس کی مزاحمت کرتے ہیں اس سے ان کا مطلب اس بات کا دعوی کرنا کہ وہ غلطی سے آزاد و بری ہیں نہیں ہوتا ، بلکہ اس سے اس فرض کا ادا کرنا مقصود ہوتا ہے جو ان پر ناوصف قابل سہو و خطا ہونے کے اپنے ایمان اور اپنے یقین کے مطابق عمل کرنے کا ہے۔ اگر لوگ اس وجہ سے اپنی رایوں کے موافق کاریند نہ ہوں کہ شاید وہ غلط ہوں تو کوئی شخص اپنا کوئی کام بھی نہیں کرسکتا۔ لوگوں کا یہ فرض ہے کہ حتی المقدور اپنی نہایت درست رائیں قائم کریں اور بغور ان کو قرار دیں اور جب ان کی درستی کا بخوبی یقین ہو جاوے تو اس کے مخالف رایوں کے بند کرنے اور مزاحمت کرنے میں کوشش کریں۔ آدمیوں کو اپنی استعداد و قابلیت کو نہایت عمدہ طور پر برتنا چاہیے۔ یقین کامل کسی امر میں نہیں ہو سکتا ، مگر ایسا یقین ہو سکتا ہے جو انسان کے مطالب کے لیے کافی ہو۔ انسان اپنی کارروائی کے لیے اپنی رائے کو درست و صحیح سمجھ سکتے ہیں اور ان کو ایسا ہی سمجھنا چاہیے اور وہ اس سے زیادہ اور کوئی بات اس صورت میں اختیار نہیں کرتے جبکہ وہ خراب آدمیوں کو ممانعت کرتے ہیں کہ ایسی رایوں کے شائع کرنے سے جو ان کے نزدیک فاسد اور مضر ہیں لوگوں کو خراب یا بد اخلاق یا بد مذھب نہ کریں۔ مگر مخالف رائے کے بند کرنے میں صرف اتنا ہی نہیں ہوتا کہ انہوں نے اپنے تئیں قابل سہو و خطا سمجھ کر اپنے ایمان اور اپنے یقین کے موافق عمل کیا ہے ، بلکہ اس سے بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس بات میں کہ ایک رائے کو اس وجہ سے صحیح سمجھا جاوے کہ اس اعتراض وحجت کرنے کا ہر طرح پر لوگوں کو موقع دیا گیا اور اس کی تردید نہ ہو سکی اور اس بات میں کہ ایک رائے کو اس وجہ سے مان لیا گیا کہ اس کی تردید کی کسی کو اجازت نہیں ہوئی ، زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ پس مخالف رایوں کی مزاحمت کرنے والے اپنی رائے کو اس وجہ سے صحیح نہیں سمجھتے کہ اس کی تردید نہیں ہو سکی ، بلکہ اس لیے صحیح ٹھہراتے ہیں کہ اس کی تردید کی اجازت نہیں ہوئی ، حالانکہ جس شرط سے ہم بطور جائز اپنی رائے کوعمل درآمد ہونے کے لیے درست قرار دے سکتے ہیں۔ وہ صرف یہی ہے کہ لوگوں کو اس بات کی کامل آزادی ہو کہ وہ اس رائے کے برخلاف کہیں اور اس کو غلط ثابت کریں۔ اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے کہ انسان جس کے قوائے عقلی اور اور قوی کامل نہیں ہیں ، اپنے آپ کو راہ راست ہونے کا یقین کر سکے۔ اہل مذاھب جو صرف اپنے معتقد فیہ کی پیروی ہی کو راہ راست سمجھتے ہیں جب تک کہ وہ بھی اس بات پر مباحثے اوراظہار رائے کی اجازت نہ دیں کہ جس طرح پر ان کا عمل درآمد اور چال چلن یا اعتقاد اور خیال ہے وہ صحیح طور سے ان کے معتقد فیہ کی پیروی ہے یانہیں ، اس وقت تک وہ بھی اپنے آپ کو راہ راست پر ہونے کا یقین کر سکتے۔ انسان کی پچھلی حالتوں کو موجودہ حالتوں سے مقابلہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانے میں انسانوں کا یہی حال ہے کہ سو میں سے ایک ہی شخص اس قابل ہوتا ہے کہ کسی دقیق معاملے پر رائے دے اور ننانوے شخص اس میں رائے دینے کی لیاقت نہیں رکھتے ، مگر اس ایک آدمی کی رائے کی عمدگی بھی صرف اضافی ہوتی ہے ، اس لئے کہ اگلے زمانے کے لوگوں میں اکثر آدمی جو سمجھ بوجھ اور لیاقت میں مشہور تھے ایسی رائیں رکھتے تھے کہ جن کی غلطی بخوبی روشن ہو گئی ہے۔ بہت سی ایسی باتیں ان کو پسندیدہ اور ان کے عمل درآمد تھیں جن کو اب کوئی بھی ٹھیک اور درست نہیں سمجھتا اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانوں میں ہمیشہ معقول رایوں اور پسندیدہ رایوں کو عمدہ صفت کے جو نہایت ہی پسندیدہ ہے اور کوئی نہیں اور وہ صفت یہ ہے کہ انسان کی غلطیاں اصلاح کی صلاحیت رکھتی ہیں ، یعنی انسان اپنی غلطیوں کومباحثے اور تجربے کے ذریعے سے درست کرلینے کی قابلیت رکھتا ہے ۔ پس انسان کی رائے کی بتمامہ قوت اورقدر و منزلت کا حصر اس ایک بات پر ہے کہ جب وہ غلط ہو تو صحیح کی جا سکتی ہے، مگر اس پر اعتماد اسی وقت کیا جا سکتا ہے جبکہ اس کے صحیح کرنے کے ذریعے ہمیشہ برتاؤ میں رکھے جاویں ، خیال کرنا چاہیے کہ جس آدمی کی رائے حقیقت میں اعتماد کے قابل ہے اس کی وہ رائے اس قدر و منزلت کو کس وجہ سے پہنچی ہے ؟ اسی وجہ سے پہنچی ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنی طبیعت پر اس بات کو گوارا رکھا ہے کہ اس کی رائے پر نکتہ چینیاں کی جاویں اور اس نے اپنا طریقہ یہ ٹھہرایا ہے کہ اپنے مخالف کی رائے کو ٹھنڈے دل سے سننا اور اس میں جو کچھ درست اور واجب تھا ، اس سے خود مستفید ہونا اور جوکچھ اس میں غلط اور ناواجب تھا اس کو سمجھ لینا اور موقع پر اس غلطی سے اوروں کو بھی آگاہ کر دینا۔ ایسا شخص گویا اس بات کو عملی طور پر تسلیم کرتا ہے کہ جس طریقے سے انسان کسی معاملے کے کل مدارج کوجان سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس کی بابت ہر قسم کی رائے کے لوگوں کی گفتگو کو سنے اور جن جن طریقوں سے ہر سمجھ اور طریقے اور طبیعت کے آدمی اس معاملے پر نظر کریں ان سب طریقوں کو سوچے اور سمجھے ۔ کسی دانا آدمی نے اپنی دانائی بجز اس طریقے کے اور کسی طرح پر حال نہیں کی۔ انسان کی عقل و فہم کا خاصہ یہی ہے کہ وہ اس طور کے سوا اورکسی طور پر مہذب اور معقول ہو ہی نہیں سکتی اور صرف اس بات کی مستقل عادت کے سوا کہ اپنی رائے کو اوروں کی رایوں سے مقابلہ کر کے اس کی اطلاح و تکمیل کیا کرے اور کوئی بات اس اعتماد کرنے کی وجہ متصور نہیں ہو سکتی ، اس لیے کہ اس صورت میں اس شخص نے لوگوں کی ان تمام باتوں کو جو اس کے برخلاف کہہ سکتے تھے بخوبی سنا اور تمام معترضوں کے سامنے اپنی رائے کو ڈالا اور بعوض اس کے کہ مشکلاتوں اور اعتراضوں کو چھپاوے خود اس نے جستجو کی اور ہر طرف سے جو کچھ روشنی پہنچی اس کو بند نہیں کیا۔ تو ایسا شخص البتہ اس بات کے خیال کرنے کا استحقاق رکھتا ہے کہ میری رائے ایسے شخص یا اشخاص سے جھنوں نے اپنی رائے کو اس طرح پر پختہ نہیں کیا بہتر وفائق ہے۔ جس شخص کو اپنے رائے پر کسی قدر بھروسا کرنے کی خواہش ہو یا یا خواہش رکھتا ہو کہ عام لوگ بھی اس کی تسلیم کریں اس کا طریقہ بجز اس کے اورکچھ نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے کو عام مباحثے اور ہر قسم کے لوگوں کو اعتراضوں کے لیے حاضر کرے۔ اگر نیوٹن صاحب کی حکمت اور ھیئت اور مسئلہ ثقل پر اعتراض اور حجت کرنے کی اجازت نہ ہوتی تو دنیا اس کی صحت اور صداقت پر ایسا پختہ یقین نہ کر سکتی جیسا کہ اب کرتی ہے۔ کیا کچھ مخالفت ہے جو لوگوں نے اس دانا حکیم کے ساتھ نہیں کی اور کون سی مذھبی لعن و طعن ہے جو اس سچے اورسچی رائے رھنے والے حکیم کو نہیں دی گئی ، مگر غور کرنا چاہیے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوا ؟ یہ ہوا کہ آج تمام دنیا ، کیا دانا اور کیا نادان ، کیا حکیم اور کیا متعصب اہل مذھب سب اسی کو تسلیم کرتے ہیں اور اسی کو سچ جانتے ہیں اور مذھبی عقائد سے بھی زیادہ اس کی سچائی دلوں میں بیٹھی ہے۔ بغیر آزادی رائے کے کسی چیز کی سچائی جہاں تک کہ اس کی سچائی دریافت ہونی ممکن ہے ، دریافت نہیں ہو سکتی ۔ جن اعتقادوں کو ہم نہایت جائز و درست سمجھتے ہیں ان کے جواز و درستی کی اور کوئی سند اور بنیاد بجز اس کے نہیں ہو سکتی کہ تمام دنیا کو اختیار دیا جاوے کہ وہ ان کو بے بنیاد ثابت کریں۔ اگر وہ لوگ ایسا قصد نہ کریں یا کریں اور کامیاب نہ ہوں تو بھی ہم ان پر یقین کامل رکھنے کے مجاز نہیں ہیں ، البتہ ایسی اجازت دینے سے ہم نے ایک ایسا نہایت عمدہ ثبوت ان کی صحت کا حاصل کیا ہے جو انسانوں کو عقل کی حالت موجودہ سے ممکن تھا ، کیونکہ ایسی حالت میں ہم نے کسی ایسی بات سے غفلت نہیں کی جس سے صحیح صحیح بات ہم تک نہ پہنچ سکتی ہو ا اور اگر امر مذکورہ پر مباحثے کی اجازت جاری رہے تو ہم امید کر سکتے ہیں کہ اگر کوئی بات اس سے بہتر اور سچ اور صحیح ہے تو وہ اس وقت ہم کو حاصل ہو جاوے گی جبکہ انسانوں کی عقل و فہم اس کے دریافت کرنے کے قابل ہو گی اور اس اثناء میں ہم اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ ہم راستی اورصداقت کے اس قدر قریب پہنچ گئے ہیں جس قدر کہ ہمارے زمانے میں ممکن تھا۔ غرضیکہ ایک خطا وار وجود جس کو انسان کہتے ہیں اگر کسی امر کی نسبت کسی قدر یقین حاصل کر سکتا ہے تو اس کا یہی طریقہ ہے جو بیان ہوا اور مسلمانی مذھب کا جو ای مشہور مسئلہ ہے کہ ’ الحق یعلوولایعلیٰ ‘ یہ اس کی ایک ادنی تفسیر ہے۔ گر ایک بہت بڑا دھوکا ہے جو انسانوں کو اور بعضی دفعہ نیک گورنمنٹوں کو بھی آزادی رائے کے بند کرنے پر مائل کرتا ہے۔ اور وہ مسئلہ سود مندی کا ہے جس کو غلط اور جھوٹا نام مصلحت عام کا دیا گیاہے۔ وللہ درمن قال ۔ برعکس نہند نام زنگی کافود اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ کسی رائے یامسئلے یا عقیدے کی سچائی اورصحت پر بحث کرنے سے اس لیے ممانعت کی جاتی ہے کہ گووہ فی نفسہ کیسا ہی ہو ، مگر اس سے عام لوگوں کا پابند رہنا نہایت مفید اور باعث صلاح و فلاح عام لوگوں کا ہے اور فی زماننا ہندوستان میں اور خصوصاً مسلمانوں میں یہ رائے بکثرت رائج ہے ، بلکہ اس گناہ کے کام کو ایک نیک کام تصور کیا جاتا ہے۔ اس رائے کا نتیجہ یہ ہے کہ مباحثے اور رایوں کی آزادی کا بند کرنا اس مسئلے یا عقیدے کی صحت اور سچائی پر منحصر نہیں ہے ، بلکہ زیادہ تر مفید عام ہونے پر منحصر ہے ، مگر افسوس ہے کہ ایسی رائے رکھنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ وہی دعوائے سابق ،یعنی اپنے آپ کو ناقابل سہو و خطا سمجھتے کا جس سے انہوںنے توبہ کی تھی پھر پھرا کر پھر قائم ہو جاتا ہے۔ صرف اتنا فرق ہوتا ہے کہ پہلے وہ دعوی ایک بات پر تھا اب وھی دعوی دوسری بات پر ہے ، یعنی پہلے اس اصل مسئلے یا عقیدے کے سچ ہونے پر تھا اور اب اس کے مفیدعام ہونے پر ہے، حالانکہ یہ بات بھی کہ وہ مسئلہ یا عقیدہ مفید عام ہے اسی قدر بحث و مباحثے کی محتاج ہے جس قدر کہ وہ اصل مسئلہ یاعقیدہ محتاج ہے۔ ایسی رائے رکھنے والے اس غلطی پر ایک اور دوسری غلطی یہ کرتے ہیں جبکہ وہ یہکہتے ہیں کہ ہم نے صرف اس کی اصلیت ارو سچائی پر بحث کی ممانعت کی ہے ، اس کے مفید عام ہونے کی بحث پر ممانعت نہیں کی اور یہ نہیں سمجھتے کہ رائے کی صداقت خود اس کے مفید عام ہونے کا ایک جزو ہے۔ ممکن نہیں کہ ہم کسی رائے کے مفید عام ہونے پر بغیر اس کی صحت اور سچائی ثابت کیے بحث کر سکیں۔ اگر ہم یہبات جاننی چاہتے ہیں کہ آیا فلاں بات لوگوں کے حق میںمفید ہے یا نہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ اس بات پر توجہ نہ کریں کہ آیا وہ بات سچ اور صحیح و درست بھی ہے یا نہیں ۔ ادنی اور اعلیٰ سب اس بات کو قبول کریں گے کہ کوئی رائے یا مسئلہ یا اعتقاد جو صداقت اورراستی کے برخلاف ہے دراصل کسی کے لئے مفید نہیں ہو سکتا۔ یہ تمام مباحثہ جو ہم نے کیا ایسی صورت سے متعلق تھا کہ رائے مروجہ اور تسلیم شدہ کو ہم نے غلط اور اس کے برخلاف رائے کو جس کا بند رکھنا لوگ چاہتے تھے صحیح و درست فرض کیا تھا۔ اب اس کے برخلاف شق کو اختیار کرتے ہیں ، یعنی یہ فرض کرتے ہیں کہ رائے مروجہ اور تسلیم شدہ صحیح ہے اور اس کے برخلاف رائے جس کا بند کرنا چاہتے ہیں غلط اور نادرست ہے اور اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اس غلط رائے کا بند کرناخالی برائی اور نقصان سے نہیں۔ ہرایک شخص کو گو اس کی رائے کیسی ہی زبردست اور مضبوط ہو اور وہ کیسی ہی شکل اور نا رضا مندی سے اپنی رائے کے غلط ہونے کے امکان کو تسلیم کرے یہ بات خوب یاد رکھنی چاہیے کہاگر اس رائے پر بخوبی تمام اور نہایت لے باکی سے بے ڈھڑک مباحثہ نہیں ہو سکتا تو وہ ایک مردہ اور مردار رائے قرار دی جاوے گی نہ ایک زندگی اور سچی حقیقت ، اور وہ کبھی ایسی حق اور سچ بات قرار نہیںپا سکتی جس کا اثر ہمیشہ لوگوں کی طبیعتوں پر رہے۔ گزشتہ اور حال کے زمانے کی تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعضی دفعہ ظالم گورنمنٹوں نے بھی نہایت سچی ور صحیح بات کے رواج پر کوشش کی ، الا ان کے ظلم نے اس پر آزادی سے مباحثے کی اجازت نہیں دی اور بہت سی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ نیک اور تربیت یافتہ گورنمنٹ نے نہایت سچی اور صحیح بات کا رواج دینا چاہا اور لوگوں نے یا تو اس خیال سے کہ ہمارے مباحثے اور دلائل کو اس رائے میں کچھ مداخلت نہیں ہے یا کوئی التفات نہیں کرتا ، ازخود مباحثے کو نہیں اٹھایا یا اپنے وھی خوف سے یا اراکین گورنمنٹ کی بد مزاجی کے ڈر سے یا ان کی خلاف رائے کے کوئی بات نہ کہنی مصلحت وقت سمجھ کر یا یہ خیال کر کر کہ گورنمنٹ کے یا کسی کے برخلاف بحث کرنا خیرخواہی نہیں ہے ،مباحثہ ترک کردیا تو اس کا نتیجہ بجز اس کے اورکچھ نہیں ہوا کہ اس تجویز نے کسی کیدلوں میں مطلق اثر نہیں کیا اور ایک مردہ رائے سے زیادہ اورکچھ رتبہ لوگوں کے دلوںمیں نہیں پایا۔ یہ بات کہ سچی اور درست رائے بے مباحثہ و دلیل کے بھی طبیعتوں میں بیٹھ جاتی ہے اور گھر کر لیتی ہے ، ایک خوش آئند مگر غلط آواز ہے۔دنیا کو دیکھو کہ گروہ کے گروہ ایک دوسرے کی متناقض رائے پر جمے ہوئے ہیں اور وہ متناقض رائیں ان کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہیں۔ پھر کیا وہ دونوں متناقض رائیں سچی اور صحیح ہیں ؟ ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ بہت سی باتیں بے سمجھے اور بغیر دلیل کے اور بغیر مباحثے کے لوگوں کے دلوں میںگھرکر جاتی ہیں ، مگر ان کا صحیح و درست ہونا ضرور نہیں۔ سچ میں کوئی ایسی اعجازی کرامات نہیں ہے کہ وہ از خود لدوں میںبیٹھ جاوے ۔ اس میں جو کچھ کرامات ہے وہ صرف اسی قدر ہے کہ مباحثے کا اس کو خوف نہیں۔ سچ رائے بھی اگر بلا دلیل و مباحثہ دل میںگھر کر لے تو وہ سچی رائے بھی اگر بلا دلیل وہ مباحثہ دل میں گھر کر لے تو وہ سچی رائے نہیںکہلاوے گی ، بلکہ تعصب اورجہل مرکب اس کا مناسب نام ہو گا ،مگر ایسا طریقہ حق اورسچ بات کے قبول کرنے کا ایک ذی عقل مخلوق کے لیے ، جیسا کہ انسان ہے ، شایان نہیں اور نہ یہ طریقہ راستی و حق کے پہچاننے کا ہے ،بلکہ حق بات جو اس طرح پر قبول کی جاتی ہے وہ ایک خیال فاسد اور باطل ہے اور جن باتوں کو حق فرض کر لیا ہے ان کا تفاقیہ قبول کر لینا ہے۔ نہایت سچ اور بالکل سچ تو یہ بات ہے ک جس شخص نے جو رائے یا مذھب اختیار کیا ہے وھی شخص اس کا جوابدہ ہے۔ اس رائے کے موجد یا اس مذھب کے پیشوا اور معلم اور مجہد کچھ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں ،مگر مسلمانوں نے اس آفتاب سے بھی زیادہ ، روشن مسئلے سے آنکھ بند کر لی ہے اور رومن کیتھولک ، یعنی بت پرست عیسائیوں کا مسئلہ اختیار کیا ہے۔ رومن کیتھولک مذھب میں ان لوگوں کے جو اس مذھب پر ایمان رکھتے ہیں دو فرقے قرار دیے گئے ہیں ، ایک تو وہ جو اس مذھب کے مسائل کو بعد دلیل و ثبوت کے قبول کرنے کے مجاز ہیں اور دوسرے وہ جن کو صرف اعتماد اور بھرسے ، یعنی تقلید سے ان کو قبول کر لینا چاہیے۔ اسی قاعدے کی پیروی سے مسلمانوں نے بھی اپنے مذھب میں دو فریق قائم کیے ہیں۔ ایک وہ جنہوںنے مسئلہ مسلمہ کو بعد ثبوت وہ تحقیقات اور اقامت دلیل تسلیم کیا ہے اور ان کا نام باختلاف درجات مجتہد مطلق اور مجتہد فی المذھب اور مرجح قرار دیاہے۔ دوسرا وہ جن کو بے سمجھے بوجھے آنکھ بند کر کر ان کی پیروی کرنی چاہیے اور ان کا نام مقلد اور اس فعل کا نام تقلید قرار دیا ہے اور اس سبب سے مخالف رائے کی مزاحمت مسلمانوں میں بہت زیادہ پھیل گئی ہے اور وہ اس کی نسبت ایک نہایت عمدہ ، مگر ابلہ فریب تقریر کرتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ تمام انسانوں کو ان تمام باتوں کو جاننا نہ ضرور ہے اور نہ ممکن ہے جن کو بڑے بڑے حکیم یا اھل معرفت اور عالم علوم دین جانتے اور سمجھتے ہیں اور نہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہر ایک عام آدمی ایک ذکی اور دانشمند مخالف کی تمام غلط بیانیوں کو جانے اور ان کو غلط ثابت کرے یا تردید کرنے اور غلط ثابت کرنے کے قابل ہو ، بلکہ صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ ان کے جواب دینے کے لائق ہمیشہ کوئی نہ کوئی موجود ہوں گے جن کی بدولت مخالف کی کوئی بات بھی بلا تردید نہ رہی ہو گی ، پس سیدھی سادی عقل کے آدمیوں کے لیے یہی کافی ہے کہ ان باتوں کی اصلیت سکھلا دی جاوے اور باقی وجوھات کی بابت وہ اوروں کی سند پر بھروسا کریںاور جبکہ وہ خود اس بات سے واقف ہیں کہ ہم ان تمام مشکلات کے رفع دفع کرنے کے واسطے کافی علم اور پوری لیاقت نہیں رکھتے ہیں تو اس بات کا یقین کرکر مطمئن ہو سکتے ہیں کہ جو جو مشکلات اور اعتراض برپا کئے گئے ہیں وہ لوگ ان سب کا جواب دے چکے ہیں یا آئندہ دیں گے جو بڑے بڑے عالم ہیں۔ اس تقریر کو تسلیم کرنے کے بعد بھی رائے کی آزادی اور مخالف رائے کی مزاحمت سے جو نقصان ہیں اس میں کچھ نقصان نہیں لازم آتا ، کیونکہ اس تقریر کے بموجب بھی یہ بات قرار پاتی ہے کہ آدمیوں کو اس بات کا معقول یقین ہونا چاہیے کہ تمام اعتراضوں کا جواب حسب اطمینان دیا گیا ہے اور یہ یقین جب ہی ہو سکتا ہے جب کہ اس پر بحث و مباحثہ کرنے کی آزادی ہو اور مخالفوں کو اجازت ہو کہ تمام اپنی وجوھات کو جو اس کے مخالف رکھتے ہیں بیان کریں اور اس مسئلے کو غلط ثابت کرنے میں کوئی کوشش باقی نہ چھوڑیں۔ اگر تقلید کی گرم بازاری کا جیسے کہ آج کل ہے اور آزادانہ مباحثے کی مزاحمت و عدم موجودگی کا نقصان اور بد اثر در صورتیکہ تسلیم شدہ مسئلے یا قرار دادہ رائیں صحیح ہوں اسی قدر ہوتا کہ اس مسئلے یا ان رایوں کی وجوہات معلوم ہیں تو یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ گو وہ مزاحمت عقل و فہم کے حق میں مضر ہے ،مگر اخلاق کو تو کچھ اس سے کچھ مضرت نہیں پہنچتی اور نہ اس مسئلے ی یارایوں کی اس قدر و منزلت میں کہ ان سے نہایت عمدہ اثر لوگوں کی خصلتوں پر ہوتا ہے کچھ نقصان ہے ، مگر یہ بات نہیں ہے ، بلکہ اس سے بہت بڑھ کر نقصان ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مباحثے اور آزادی رائے کی عدم موجودگی میں صرف مسئلے یا رایوں کی وجوہات ہی کو لوگوں نہیں بھول جاتے ، بلکہ اکثر اس مسئلے یا رائے کے معنی اور مقصود کو بھی بھول جاتے ہیں ، بلکہ اکثر اس مسئلے یا رائے کے معنی اور مقصود کو بھی بھول جاتے ہیں ، چنانچہ جن لفظوں میں وہ مسئلہ یا رائے بیان کی گئی ہے ان سے کسی رائے یا خیال کا قائم کرنا تک موقوف ہو جاتا ہے یا جو جو باتیں ان لفظوں سے ابتداء میں مراد رکھی گئی تھیں ان میں سے سے بہت تھوڑی ہی معلوم رہ جاتی ہیں اور بعوض اس کے کہ اس مسئلے یا رائے کا اعتقاد ہر دم ترو تازہ اور زندہ ، یعنی موثر رہے ، اس کے صرف چند ادھورے کلمے حافظے کی بدولت باقی رہ جاتے ہیں اور اگر اس کی مراد اور معنی بھی کچھ باقی رہتے ہیں تو صرف ان کا پوست ہی پوست باقی رہتا ہے اور مغز و اصلیت نابود ہو جاتی ہے۔ اب ذرا انصاف سے مسلمانوں کو اپنا حل دیکھنا چاہیے کہ تمام علوم معقول و منقول میں اسی مزاحمت رائے یا تقلید کی بدولت ان کا درحقیقت ایسا ہی حال ہو گیا ہے یا نہیں۔ اس زمانے تک جس قدر کہ انسانوں کو تمام مذہبی عقائد اور اخلاقی امور اور علمی مسائل میں تجوبہ ہوا ہے اس سے امر مذکورہ بالا کی صحت ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ کسی مذہب یا علم یا رائے کے موجد تھے ان کے زمانے میں اور ان کے خاص مریدوں یا شاگردوں کے دلوں میں تو وہ عقائد یا مسائل طرح طرح کے معنوں اور مرادوں اور خوبیوں سے بھر پور تھے اور اس کا سبب یہی تھا کہ ان میں اور ان کے مخالف رائے والوں میں اس غرض سے بحث و حجت رہتی تھی کہ ایک کو دوسرے کے عقیدے اور مسئلے پر غلبہ اور فوقیت حاصل ہو ، مگر جب اس کو کامیابی ہوئی اوربہت لوگوں نے اس کو مان لیا اور بحث اور حجت بند ہو گئی تو اس کی ترقی بھی ٹھہر گئی اور وہ اثر جو دلوںمیں تھا اس میں بھی جان ، یعنی حرکت اور جنبش نہیں رہی۔ ایسی حالت میں خود اس کے حامیوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ مثل سابق کے اپنے مخالفوں کے مقابلے پر آمادہ نہیں رہتے اور جیسے کہ اس عقیدے یا مسئلے کی پہلے حفاظت کرتے تھے ویسی اب نہیں کرتے ، بلکہ نہایت جھوٹے غرور ار بیجا استغناء سے سکون اختیار کرتے ہیں اور حتی الامکان اس عقید اور مسئلے کے برخلاف کوئی دلیل نہیں سنتے اور اپنے گروہ کے لوگوں کوبھی کفر کے فتووں کے ڈراوے سے اور جہنم میں جانے کی جھوٹی دہشت دکھانے سے سننے سے اور اس پر بحث کرنے سے جہاں تک ہو سکتا ہے باز رکھتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ کہیں علموں کی روشنی جو آفتاب کی روشنی کی طرح پھیلتی ہے اور اعتراضوں کی ہوا اگر وہ صحیح ہوں تو کیا ان کے روکے رک سکتی ہے اور جب یہ نوبت پہنچ جاتی ہے تو اس عقیدے یا مسئلے کا جن کو ان کے پیشواؤں نے نہایت محنتوں سے قائم کیا تھا زوال شروع ہوتا ہے۔ اس وقت تمام معلم اور مقدس لوگ جو اس کمبخت زمانے کے پیشوا گنے جاتے ہیں اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ معتقدوں کے دلوں میں ان عقیدوں کا جن کو انہوں نے برائے نام قبول کیا ہے کچھ بھی اثر نہیں پاتے اور باوجود یکہ وہ ظاہر میں ان عقیدوں اور مسئلوں کو قبول کرتے ہیں ، مگر ان کا ایسا اثر کہ ان کے معتقدوں کا چال چلن اور اخلاق اور عادت اور معاشرت بھی ان عقیدوں اور مسئلوں کے مطابق ہو مطلق نہیں پاتے ، مگر افسوس اور نہایت افسوس کہ وہ معلوم اور مقدس لوگ اتنا خیال نہیں فرماتے کہ یہ حال جو ہوا ہے جس کی وہ شکایت کرتے ہیں انہیں کی عنایت و مہربانی کا تو نتیجہ ہے۔ اب میں صاف کہتا ہوں اور نہایت بے دھڑک کہتا ہوں کہ یہ جو کچھ میں نے بیان کیا اس زمانے کے مسلمانوں کے حال کا ٹھیک ٹھیک آئینہ ہے۔ اب اس حالت کے برخلاف حالت کو خیال کرو ، یعنی جبکہ آزادی رائے کی قائم رہتی ہے۔ جس کے ساتھ مباحثے کا بھی قائم رہنا لازم و ملزوم ہوتاہے اور ہر ایک حامی کسی عقیدے یا علمی مسئلے کا اپنے عقیدے یا مسئلے کی وجوہ کو قائم اور غالب رہنے پر بحث کرتا رہتا ہے تو اس وقت عام لوگ بھی اور سست عقیدے رہنے پر بحث کرتا رہتا ہے تو اس وقت عام لوگ بھی اور سست عقیدے والے بھی اس بات کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم کس بات پر لڑ بھڑ رہے ہیں اور ہمارے عقیدے اور مسئلے میں اور دوسروں کے عقید ے اور مسئلے میں کیا تفاوت ہے اور ایسی حالت میں ہزاروں ایسے آدمی پائے جاویں گے جنہوں نے اس عقیدے یا مسئلے ک اصول کو بخوبی خیال کیا ہو گا اور ہر ڈھنگ و طریقے سے اس کو خوب سمجھ بوجھ لیا ہو گا ۔ اور اس کے عمدہ عمدہ پہلوؤں کو بخوبی جانچ اور تول لی ہو گا اور ان کے اخلاق اور ان کی عادت اور خصلت پر اس کا ایسا پورا پورا اثر ہو گا کہجیسا کہ ایسے شخص کی طبیعت پر ہونا ممکن ہے۔ جس میں وہ عقیدہ یا مسئلہ بخوبی رچ بس گیا ہو ،مگر جبکہ وہ عقیدہ ایک موروثی اعتقاد ہو جاتا ہے اور لوگ باپ دادا یا استاد پیر کی رسم متبرک کے طور پر قبول کرتے ہیں تو وہ تصدیق قلبی نہیں ہوتی ، طبیعت اس کو مردہ دلی سے قبول کرتی ہے اور اس لیے طبیعت کا میلان اس عقیدے اور مسئلے کے بھلا دینے پر ہوتا ہے ، یہاں تک کہ وہ عقیدہ یا مسئلہ انسان کے باطن سے بے تعلق ہو جاتا ہے اور صرف اوپر ہی اوپر رہ جاتا ہے اورتمام اخلاق اور عادات اس کے برخلاف ہوتے ہیں اور ایسے ایسے حالات پیش آتے ہیں جیسے کہ اس زمانے میں اکثر پیش ہوتے رہتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عقیدہ یا مسئلہ طبیعت کے باہر باہررہتا ہے اور بجائے اس کے کہ و ہ دل میں گھر کرے باہر ہی باہر ایسے خراب اور کانٹے دا ر پوست کی مانند لپٹا ہوا ہے جس کی سب وہ باتیں ظہور میں نہیں آتیں جو انسان کے عمدہ عمدہ اوصاف درونی سے تعلقم رکھتی ہیں ،بلکہ اس سے اس قسم کی قوت ظاہر ہوتی ہے جیسے کانٹے دار تھور ے درخت کی باڑ سے ہوتی ہے کہ وہ نہ خود اس گھیری ہوئی زمین کو کچھ فائدہ دیتا ہے اور نہ اوروں کو گل پھول ل جا کر اس میں لگانے دیتا ہے اور بجز اس کے کہ دل کی زمین کو ہمیشہ خالی اور ویران اور بیکار پڑا رہنے دے اور کچھ نہیں کرتا۔ جو بات بیان ہوئی اس کی صحت ہر ایک مذھب والا اپنے حالات پر غور کرنے سے بخوبی جان سکتا ہے۔ ہر ایک مذھب والا اپنے مذھب میں کسی نہ کسی کتاب کو مقدس سمجھتا ہے اور بطور قانون مذھب کے تسلیم کرتا ہے ،مگر بااین ہمہ یہ بات کہنی کچھ مبالغہ نہیں ہے کہ شاید ہزاروں میں سے ایک اپنی چال چلن کی جانچ اور اس کے برے یا بھلے ہونے کی آزمائش اس مقدس تسلیم شدہ قانون کی بموجب کرتا ہو ، بلکہ جس چیز کی سند اور پابندی پر وہ کام کرتے ہیں وہ صرف اپنی قوم یا فرقے یا مذھبی گروہ کا رسم و رواج ہوتا ہے نہ اور کچھ ۔ پس حقیقت میں یہ حال ہوتا ہے کہ ایک طرف تو تو وہ اخلاقی مسائل کا مجموعہ ہوتا ہے جس کی نسبت وہ اعتقادہ رکھتے ہیں کہ ان کی زندگی کے عمل درآمد کے لیے خدا نے بنایا ہے یا کم سے کم کسی نہایت نیک اور دانا عاقل ناقابل سہو و خطا شخص نے بنایا ہے اور دوسری طرف ان رسم و رواج اور معتقد رایوں کا مجموعہ ہوتاہے جو اس قوم یافرقے یا گروہ میں مروج ہوتی ہیں اور اس پچھلے مجموعے کی بعض باتیں اس پہلے مجموعے باکل مطابق ہوتی ہیں اور بعض کچھ مطابق اوربعض بالکل برخلاف اور مذھب پر اعتقادہ رکھنے والے اس پہلے مجموعے کی زبانی تصدیق تو بلاشبہ کرتے ہیں الا اصلی اطاعت اور رفاقت اور پابندی اس پچھلے مجموعے کی کرتے ہیں جس پر روز مرہ ان کا عمل ہوتا ہے اور جس کا ترک کرنا یا اس کے برخلاف کوئی کام کرنا نہایت ننگ و عار جانتے ہیں۔ پس یہ بے قدری جو اس پہلے مجموعے کے مسائل کی ہو گئی جس کو وہ خدا کا بتایا ہوا جانتے تھے اسی بات سے ہوگئی کہ اس کے مسائل اور اصول پر مباحثہ بند ہو گی اور اس سبب سے انسان کے باطن سے بے تعلق ہو گیا اور بجائے زندہ عقیدے کے صرف بطور مردہ عقیدے کے لوگوں کے خیال میں رہ گیا۔ اس تقریر پر جو بہت بڑا اور نہایت سخت عتراض وارد ہو سکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ صحیح اور درست علم یا تجربہ حاصل کرنے کے لیے کیا یہ بات ضرور ہے کہ کبھی رایوں میں اتفاق نہ ہو ،بلکہ ضرور ہے کہ چند آدمی غلطی پر مصر رہیں ، تاکہ مباحثہ قائم رہے اور اور لوگ ان کی بدولت حق بات حاصل کر سکیں ؟ کیا دنیا میں غلطیوں کا موجود رہنا صحیح رایوں کے حاصل کرنے کے لیے لابد ہے ؟ جبکہ کسی عقیدے یا علمی مسئلے کو عموماً تسلیم کر لیا جاوے تو کیا اس کی حقیقت بدل جاتی ہے اور اس کی تاثیر جاتی رہتی ہے اور کیا کسی مسئلے یا عقیدے کا اس وقت تک اثر نہیں ہوتا یا لوگ اس کو بخوبی نہیں سمجھتے جب تک کہ کوئی اس پر شبہ نہ کرتا رہے ؟ جبکہ انسان کسی حق بات کو بالا تفق قبول کر لیتے ہیں تو کیا اس کی حقانیت معدوم ہو جاتی ہے ؟ اب تک یہ خیال کیا گیا ہے کہ علم اور عقل کی ترقی کا عمدہ مقصد اور اعلیٰ نتیجہ یہ ہے کہ تمام انسان اچھی اچھی اور عمدہ باتوں میں متفق الرائے ہوویں اور وہ اتفاق رائے روز بروز زیادہ بڑھتا جاوے ، پھر کیا علم اور عقل اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک کہ اس کا مقصد اور اس کا نتیجہ حاصل ہو ؟ یہ تو سنا گیا تھا کہ ہر بات کا کما اس کے مقصد اور نتیجے کا حاصل ہونا ہے ،مگر یہ نہیں سنا تھا کہ مقصد اور نتیجے کا حاصل ہوناہی اس کا زوال ہے۔ مگرمیرا مقصد یہ نہیں ہے جواس اعتراض میں بیان ہوا ۔ میں قبول کرتا ہوں کہ بلاشبہ جس قدر انسانوں کی ترقی اور تہذیب ہو گی اسی قدر مختلف فیہ رائیں اور مسئلے اور عقیدے گھٹتے جاویں گے ، بلکہ آدمیوں کی بہبود اور بھلائی کااندازہ بالتخصیص انھی حقائق کی تعداد اورمقدار سے ہو سکتا ہے جو غیر متنازعہ فیہ یا حقائق محققہ کے مرتبے کو پہنچ جاتی ہیں اور اس کے استحکام کے لیے انسانوں کی رایوںکا اجتماع اور اتفاق ضروری شرطوں میں سے ہے اوروہ اجتماع اور اتفاق جیسا کہ غلط رائے پر ہونا نہایت مضر ہے ویسا ہی صحیح رائے پر ہونا نہایت مفید ہے ، مگرجبکہ ہم کو غلط رایوں پر بھی اجتماع اور اتفاق ہو جانے کا اندیشہ ہے تو ہم کو اس سے بچنے کی فکر و تدبیر سے غافل رہنا نہیں چاہیے اور وہ تدبیر یہی ہے کہ آزادی رائے اورمباحثہ جاری رہے۔ اگر اسی تدبیر کے قائم رہنے کا بسبب عموماً تسلیم ہو جانے اس مسئلے یا عقیدے کے موقع نہ رہے تو ہم کو اس کی جگہ کوئی اورتدبیر قائم کرنی چاہیے۔ سقراط نے اسی تدبیر کے لیے فرضی مباحثے کا طریقہ ایجاد کیا تھا جس کو افلاطون نے نہایت خوبی سے اپنی سوال وجواب میں بیان کیا ہے۔ مگر افسوس اورہزار افسوس کہ اس زمانے کے مسلمانوں نے بجائے اس کے کہ اس تدبیر کے قائم رکھنے کا کوئی طریقہ ایجاد کریں ان تدبیروں کوبھی ضائع کر دیا جو سابق میںایجاد ہوئی تھیں۔ مسلمانوں میں ہر ایک علم کی تحصیل کامدت سے یہ حال رہ گیا ہے کہ سب کے سب کیا قصہ اور کہانی کی کتابوں کو اورکیا تاریخ اور واقعات گزشتہ کے روزنامچوں کو اورکیا ٹوٹے پھوٹے اگلے زمانے کے جغرافیے کو اور کیا لولی لنجی انسان کے بدن کی تشریح کو اورکیا دقیانوسی بطلیموسی ہیئت اورقدیم ریاضی کو اور کیا انسانوں کے اجتہادیات مسائل دینی کوجس کو علم فقہ کہا جاتا ہے اورکیا علم حدیث اور تفسیر کو اس ارادے سے مطلق نہیں پڑھتے کہ ہم کو اس کی اصلیت اور حقیقت معلوم ہو ، بلکہ صرف یہ ارادہ ہوتاہے کہجو کچھ اس کتاب میں لکھا ہے ،خواہ ، غلط خواہ صحیح ،وہ ہم جان لیں۔ اگر مباحثہ کیا جاوے تو نہ اس بات پرکہ وہ اصول جو اس کتاب میںلکھے ہیں صحیح ہیں یا غلط ، بلکہ اس بات پرکہ اس کتاب میںیہی بات لکھی ہے یا نہیں۔ اس طریقے اور عادت نے آزادی رائے کو کھو دیا اور اس سپر کوجس سے غلطی میںپڑنے سے حفاظت تھی توڑ دیا۔ ان کے تمام علم و فضل غارت ہو گئے۔ ان کے باپ داد کی کمائی جس سے توقع تھی کہان کی اولاد فائدہ اٹھاوے گی سب ڈوب گئی۔ اب جو بڑے بڑے عالم فقیہ اوردانا رہ گئے ہیں ان کا یہ حال ہے کہ کسی چیز کی حقیقت سے کیا مسائل علمی اور کیا عقاید مذھبی میں کچھ بھی واقفیت نہیں رکھتے۔ جس شخص سے کسی بات کی حقیقت پوچھو اگر وہ بڑا ہی عالم ہے تو بجز اس کے کہ فلاں شخص نے یہ لکھا ہے اور کچھ نہیں بتا سکتا ۔تمام علوم کا مزہ اور تمام عقیدوں کا اثر دل سے جاتا رہا۔ پس آزادی رائے کے قائم نہ رہنے کے یہ عمدہ اثر ہیں جن کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ آزادی رائے کے غیر مفید ہونے کے ثبوت میں یہ بات اکثر پیش کی جاتی ہے کہ آزادی رائے سے جس کے ساتھ مباحثہ لازم و ملزوم ہے کسی رائے کے حق یا سچ ہونے کا فیصد ممکن نہیں ، بلکہ ہر ایک فریق کو اپنی اپنی رائے پر اور زیادہ پختگی اور اصر ار ہو جاتا ہے۔ میں بھی اس بات کا اقرار کرتاہوں اور اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ درحقیقت تمام رایوں کا یہ خاصہ ہے کہ وہ خاص خاص فرقوں کی رائیں ہو جاتی ہیں۔ بحث و مثاحثے کی کمال آزادی سے بھی اس کا کچھ تدارک نہیں ہو سکتا ، بلکہ اس سے اور زیادتی ہوتی جاتی ہے اور حق کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے کہ بعوض اس کے کہ لوگ اس کو سمجھیں اور بوجھیں اس وجہ سے اس کو نہیں سونچتے سمجھتے ، بلکہ بیسوچے اور سمجھے نہایت زور شور سے رد کرتے ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کا قول ہے جن کو وہ اپنا مخالف جانتے ہیں یا ان سے نفرت رکھتے ہیں ، مگر یہ بھی خوب جان لینا چاہیے کہ آپس میں رایوں کے اختلاف اور مباحثے سے انھی متعصب گروھوں کو جن کے باہم بحث ہوتی ہے چنداں فائدہ نہیں ہوتا ، بلکہ اس کا عملدہ اور مفید اثر ان لوگوں پر ہوتا ہے۔ جو اس کے دیکھنے سننے الے ہیں اور جن کی طبیعتوں میں وہ جذبہ و حرارت اور خود غرضی اورطرف داری نہیں ہوتی جیسے کہ ان مخالف فرقوں کے حامیوں میں ہوتی ہے اور جبکہ رفتہ رفتہ ان متعصبوں کی بھی حرارت کم ہو جاتی ہے تو جو حق بات ہے وہ اس کے صحیح ہونے کا اقرار اپنے دل میں یا اپنے خاص دوستوں میں چپکے چپکے کرنے لگتے ہیں ، گوکہ علانیہ کبھی اس کا اقرار نہ کریں۔ سچ بات پر سخت سے سخت نزاع کا ہونا کچھ برائی یا نقصان کی بات نہیں ، بلکہ اس کا انسداد بہت بڑے نقصان کی بات ہے جبکہ لوگ طرفین کے دلائل سننے پر مجبور ہوتے ہیں تو ہمیشہ انصاف کی امید ہوتی ہے ، مگر جبکہ وہ صرف یک طرفہ بات سنتے ہیں تو اس صورت میں غلطیاں سختی پکڑ کرتعصب بن جاتی ہیں اور سچ میں بھی سچ کا اثر اس لیے باقی نہیں رہتا کہ اس میں مبالغہ ہوتے ہوتے وہ خود ایک جھوٹ بن جاتا ہے۔ انصاف کی قوت جو انسان میں ہے وہ اسی وقت بخوبی کام میں آتی ہے کہ ہر ایک معاملے کے دونوں پہلوؤں کے حامی اور معاون تصفیے کے وقت روبرو موجود ہوں اور وہ دونوں ایسے زبردست ہوں کہ اپنے اپنے دلائل اور وجوہات کی سماعت پر لوگوں کو گویا مجبور کردیں اورسوائے اس کے اور کوئی صورت حق کے حاصل کرنے کی نہیں ہے۔ رائے کی آزادی پر ایک اور چیز جس کولوگ سند کہتے ہیں کبھی کبھی مزاحمت پہنچاتی ہے۔ یہ اکثر ہوتا ہے کہ بحث کرنے والے اپنی اپنی تقریر کی تائید میں کسی مشہور شخص کے قول کی سند لاتے ہیں ، حالانکہ کسی شخص کی سند پر اپنی رائے کو منحصر رکھنا خود آزادی رائے کے برخلاف چلنا ہے۔ اگر ہم کسی کے قول کو صحیح اور سچ سمجھتے ہیں تو اس کے قول کو پیش کرنا کچھ مفید نہیں ہے ، بلکہ ہم کو وہ دلیلیں پیش کرنی چاہئیں جن سے اس قول کوہم نے صحیح مانا ہے۔ اگر سقراط و بقراط نے کوئی ایسی بات کہی ہے جو در حقیقت صحیح نہیں ہے تو وہ ان کے کہنے سے صحیح نہیں ہو جانے کی اور اگر کسی جاھل نے کوئی صحیح بات کہی ہے تو وہ اس لیے کہ کسی جاھل نے کہی ہے غلط نہیں ہو جائے گی۔ کیا عمدہ مسئلہ ہے جس پر ہر انسان کو عمل کرنا چاہیے ،مگر افسوس کہ اس پر نہایت کم عمل ہوتا ہے اور وہ مسئلہ یہ ہے ۔ فانظرالیٰ ماقال ولاتنظیرالیٰ من قال و للہ درمن قال مرد باید کہ گیرد اندر گوش ورنوشت است پند بر دیوار ٭……٭……٭……٭ نااھل کی رائے (اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ 17 ۔ دسمبر 1875ئ) ہمیشہ ایک ایسی رائے جو اس کے اھل سے ظاہر نہ ہو بڑی بڑی قباحتوں کا باعث ہوت یہے اور ان قباحتوں کا اثر صرف یہی نہیں ہوتا کہ ایسی رائے کا ظاہر کرنے والا احمق سمجھا جاوے اور وہ رائے ناقابل التفات ٹھہرے ، بلکہ کبھی اس کا اثر ایک عالم میں نقصان و فساد پھیلا دیتا ہے۔ پس اس لحاظ سے ہمارے نزدیک یہ بڑے نقصان کی بات ہے کہ ہم لوگ جس باب میںرائے دینے کی قابلیت نہ رکھتے ہوں اس بات میں اپنی عقل کے اندھے ٹٹو دوڑایا کریں۔ اگر ایک عالی مرتبہ انجینئر فن تعمیرات میں اپنی عمدہ رائے ظاہر کرے وہ بالا تفاق سب کے نزدیک صحیح اور مفید ثابت ہو گی اور اگر وہ انجینئر بلا واقفیت کاشتکاروں کے تخم ریزی کے طریقے میں دخل دینا چاہے تو علاوہ اس کی حماقت کے وہ تمام فائدے جو اس زراعت سے حاصل ہو سکتے ہیں خلل پذیر ہو جاویں گے۔ اگر ایک عالم فن جہاز رانی کی بابت کوئی رائے ظاہر کرے تو وہ حق بجانب ہے اور اگر وہ خشکی کی ریل میں بادبان لگانے کی رائے ظاہر کرنا چاہے تو نہایت بے وقوف ہو گا۔ غرض کہ جو لوگ جس بات کے اھل ہیں اگر وہ اسی باب میں اپنی رائے ظاہر کریں تو اندیشہ نہیں ہوتا اور اگر وہ ایسے معاملے میں رائے ظاہر کریں جس میں ان کو واقفیت نہیں ہے تو ضرور وہ ایک بڑے مفسدے کا باعث ہوں گے۔ اگر یورپین ہماری دیسی زبان کے حسن و قبح کا پرکھنا چاہے اور اس باب میں اس کی رائے قابل اعتماد ٹھہرے تو اس کا نقصان کچھ اس سے کم نہیں ہے کہ ایک ہندوستان کا باشندہ انگریزی زبان کا ممیز قرار دیا جاوے۔ اسی طرح اور جملہ امور کا حال ہے کہان میں سے ہر ایک کی نسبت کسی شخص کی رائے تاوقتیکہ وہ اس کی قابلیت نہ رکھتا ہو بڑے بڑے فسادوں کا باعث ہوتی ہے اور اس کا ثمرہ بعض اوقات نہایت نازک اور خطر ناک ہوتا ہے اور جو لوگ اس بات کی پروا نہیں کرتے وہ دو حال سے خالی نہیں ہیں ، یا وہ عقل سے بہرہ نہیں رکھتے یا وہ فساد آمیز خیال ظاہر کرنے میں کوئی فخر سمجھتے ہیں۔ جس مصیبت کی نسبت ہم نے اپنی یہ رائے لکھی ہے اس کا ظہور ہماری دانست میں اس وقت سے بہت زیادہ ہوا ہے جب سے کہ اخبار کے پرچے ان لوگوں کے ہاتھ میںآگئے ہیں جو اس کی قابلیت نہیں رکھتے اور جو اس نازک کام کے نشیب و فرازسے آگاہ نہیں ہیں۔ وہ اس امر کو بڑا فخر جانتے ہیں کہ ہم کوئی نہ کوئی رائے لکھیں اور صاحب رائے مشہور ہو جاویں ۔ ذرا انصاف کے لائق بات ہے کہ جو شخص خود اپنے ذاتی معاملات میں علانیہ غلط بیانیاں کریت ہوں کیا وہ اس لائق ہو سکتے ہیں کہ عامہ خلائق کی نسبت ان کاقول قول فیصل خیال کیا جاوے ۔ اگر ایسا ہو تو شاید ایک عالم کا انقلاب ہو جاوے۔ ہم کو نہایت ہنسی آتی ہے اس بات کے خیال کرنے سے کہ ایک اخبار نویس حضور شاہزادہ ویلز بہادر کے حیدرآباد نہ جانے کی یہ وجہ بیان کرتا ہے کہ حیدر آباد میں چونکہ عرب بہت ہیں اس سبب سے گورنمنٹ کو اندیشہ ہوا کہ مبادا شاہزادہ صاحب کو صدمہ پہنچے۔ اسی طرح وہ نظام حیدر آباد کے بمبئی میں بطور استقبال نہ آنے کی یہ وجہ بیان کرتا ہے کہ جب شاہزادہ صاحب نے اپنا قصد ملتوی کیا تو نظام حیدر آباد نے بھی اپنا قصد ملتوی کیا۔ اگر اس رائے کو کسی عقل مند کی رائے سمجھ کر قابل سمجھا جاوے تو گورنمنٹ اور رعایا دونوں کے حق میں وہ ایک نہایت خطر ناک چیز ہے۔ گورنمنٹ کے حق میں وہ اس لحاظ سے خطر ناک ہے کہ اگر شاہزادہ صاحب کے حیدر آباد نہ جانے کی یہ وجہ مان لی جاوے تو مفسدوں کو اس بات کا یقین ہو جاوے کہ گورنمنٹ انگریزی ہندوستان میں اپنی حکومت نہایت خوف و اندیشے سے کر رہی ے اوروہ اپنی رعب و دبدبے سے اپنی رعایا پر حکمران نہیں ہے ، بلکہ فکر و اندیشے سے حکمران ہے اور جو اقبال ایک گورنمنٹ کا اپنی حکومت میں ہونا چاہیے گورنمنٹ انگریزی کا وہ اقبال نہیں ہے اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہاس کو ہر عاقل گورنمنٹ انگریزی کے حق میں پسندیدہ نہیں سمجھتا ۔ کیا ایک مرتبہ کسی شریر آدمی کی شرارت سے ہندوستان کے گورنر بہادر کا قتل ہو جانا ہماری گورنمنٹ انگریزی کے اس شاہی اقبال میں جس کا شہرہ آج دنیا کے اس کنارے سے لے کر اس کنارے تک ہو رہا ہے کچھ خلل انداز ہو سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں اور اگر نہیں ہو سکتا تو کیا یہ رائے کچھ پسندیدہ ہے کہ شاہزادہ بہادر عربوں کے خوف سے حیدر آباد کو نہیں گئے۔ ہماری رائے میں ایسا خیال کرنا گورنمنٹ انگریزی کی ہنسی کرنا اور اس کے اقبال کو کالعدم خیال کر لینا ہے۔ گورنمنٹ کے رعب و دبدبے نے آج کل وہ عروج پایا ہے کہ اگر اس کا قصد کسی والئی ملک کی طرف ہو تو قبل ظہور اس کے قصد کے اس کا رعب دوسروں کے مخالف ارادے کو فورا نیست و نابود کر دیتا ہے۔ خود حیدر آباد کے متعلق ایک خبر میں ہی ہم نے پڑھا ہے کہ کچھ مفسدوں نے ہنگامہ کیا تھا۔ جب صاحب ریذیڈنٹ بہادر حیدر آباد نے انگریزی فوج کے بلانے کا قصد کیا تو مفسد انگریزی فوج کے نام سے بھاگ گئے۔ پس ایسی صورتوں میں یہ خیال کرنا کہ گورنمنٹ انگریزی حیدرآباد کے عربوں سے خائف ہو گئی کس قدر نامناسب ہے۔ اسی طرح ایسی بے محل رائے رعایا انگریزی کے حق میں نہایت مضرت ناک ہے۔ اگر اس خیال کو صحیح تسلیم کر لیا جاوے کہ نظام صاحب اسی وجہ سے تشریف نہیں لائے جو بیان کی گئی ہے تو نظام صاحب پر ایک سخت الزام ثابت ہوتاہے۔ اور اس الزام کا ثمرہ کسی طرح ان کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ کیا یہ بات عقل میں آ سکتی ہے کہ نظام صاحب اپنی ملکہ معظمہ کے فرزند ارجمند اورہمارے بادشاہ کے ولی عہد کے استقبال میں اس وجہ سے تامل کریں کہ شاہزادہ صاحب نے ان کی ریاست میں کسی عذر سے تشریف لے جانے کا وعدہ نہیں فرمایا اوہر اگر کسی طرح سے عقل اس خیال کو تجویز کرے تو اسی کیساتھ اس کو اوربہت سی تجویزیں نظام صاحب کی نسبت سوچنی پڑیں ، مگر چونکہ وہ کسی طرح عقل کے موافق نہیں ہے اس وجہ سے کوئی عاقل تجویز نہیں کر سکتا۔ ان دونوں امر کے لحاظ سے ہمارا یہ خیال صحیح ثابت ہو گیا ہے کہ جو لوگ جس رائے کے لائق نہیں ہیں اگر وہ ایسی رائے ظاہر کیا کریں تو ضرور وہ نقصان آمیز ہو سکتی ہے اور اس کا اثر رعایا اور گورنمنٹ دونوں کے حق میں سخت مضرت ناک ہوتا ہے۔ جو لوگ ہندوستان میں بیٹھے ہوئے روس کی نسبت اپنے خیالات ظاہر کرتے ہیں ان کے خیالات بھی اسی کے قریب قریب ہیں اور ان کے سبب سے کبھی کبھی ہندوستان کی ناواقف اور ناتجربہ کار رعایا کے اطمینان میں خلل پیدا ہو سکتا ہے۔ کیا یورپ کے لارڈوں کے ان خیالات کا جو وہ انگلستان کی پارلیمنٹ میں زور دار تقریوں کے ساتھ ظاہر کیا کرتے ہیں یہی مطلب ہے جو ہمارے ہندوستان کے اخبار نویس اپنے اخباروں میں بیان کرتے ہیں جو ان کے غم میں ڈھلکتا چلا آتا ہے۔ کیا وہ اس پہیے کی سٹرک کا ڈھلاؤ اسی ہندوستان کی طرف خیال کرتے ہیں جس پر وہ بلا اختیار ڈھلکتا چلا آتا ہے۔ کیا وہ روس کو ایسا نڈر اور بے خوف سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری گورنمنٹ کے اقبال سے بے خبر ہوکر آنکھیں بند کیے ہوئے چلا آتا ہے اورہماری گورنمنٹ کی بیداری کو وہ اسی قدر سمجھتے ہیں جس قدر کہ ان کو اپنی ایسی رایوں کے ظاہر کرنے میں بیداری ہے۔ کیا جب وہ یہ فقرہ لکھتے ہیں کہ روس بڑھتا چلا آتا ہے اور گورنمنٹ غافل ہے اس وقت گورنمنٹ انگریزی کو ہندوستان کے سلاطین سابقہ کے مثل خیال کر لییت ہیں جو ایسی رائے ظاہر کرتے ہیں۔ گوروس اس وقت بہت زور آور ہو اور گو اس کے ارادے نہایت ہی عالی ہوں ، اور گو وہ اس وقت سلطنت ٹرکی کو دھمکانے سے اپنا رعب بٹھلانا چاہتا ہوں ،مگر اس میں کسی طرح کا شبہ نہیں ہے کہ گورنمنٹ انگریزی کا رعب اس کے دل میںایسا کام کر رہا ہے جیسا کہ انسان کے بدن میں رعشہ کام کرتا ہو اور اس طرف قدم اٹھانے کو وہ اسی قدر دشوار سمجھتا ہے جس قدر ہندوستان کے اخبار اس کو آسان سمجھتے ہیں۔ باایں لحاظ ضرور ہے کہ جو لوگ رائے دینے کا شوق رکھتے ہیں وہ اس باب میں دور اندیشی کو کام فرمایا کریں۔ ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم صرف اسی قسم کے خاص معاملات میں یہ خیال کرتے ہیں ، بلکہ ہمارا منشاء ہے کہ جوہ شخص جس معاملے میں قابلیت نہ رکھتا ہو و ہ اس معاملے میں رائے دینے سے کچھ کم خرابی نہیں ڈالتا ، چنانچہ بعض اوقات انتظامی معاملات میں کسی قسم کی شدت ناترس کے دیکھنے سے ، ظلم پسند نرمی پر اور رحم پسند سختی پر عتراض کرنا پسند کرتے ہیں ، حالانہ کبھی وہ انتظام خود اس نرمی یا شدت کا مقتضی ہوتا ہے۔ پس ایسی حالت میں انتظامی امور کے نا واقفوں کی جانب سے اس قسم کی آراء ہنسی کا باعث ہوتی ہیں اور منتظم ان کو احمق کہتے ہیں ، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جو شخص کسی چیز سے ناواقف ہوتا ہے ہمیشہ وہ ایسی غلطی کرتا ہے۔ ٭……٭……٭……٭ سمجھ یعنی تمیز جس سے بھلائی برائی میں امتیاز کیا جاتاہے (تہذیب الاخلاق بابت یکم شوال 1279ھ) میرا یہ خیال ہے کہ اگر انسانوں کے دلوں کو چیر کر ان کا حال دیکھا جاوے تو دانا اور نادان دونوں کے دلوں میں کچھ تھوڑا ہی سا فرق نکلے گا۔ دونوں کے دلوں میں ہمیشہ بہت سے لغو اور بے ہودہ خیال آتے ہیں ، بے شمار و سو سے دونوں کے دلوں میں آٹھتے ہیں ،مگر ان دونوں میں یہی فرق ہوتا ہے کہ دانا آدمی ان میں سے انتخاب کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کون سے خیالات ایسے ہیں جن کو گفتگو میں لانا چاہیے اور کون سے ایسے ہیں جن کو چھوڑ دینا چاہیے۔ نادان آدمی ایسا نہیں کرتا اور جو خیال اس کے دل میںآتا ہے بے سوچے سمجھے منہ سے بکتا جاتا ہے۔ دانشمند آدمی بھی دوستوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں نادان کی مانند ہوتاہے ، جو اس کے دل میں آتا ہے بے تردد دوست کہتا ہے ، گویا اس کو خیالات ہی ایک بلند آواز میں آتے ہیں ۔ پسٹلی صاحب کا یہ قول ہے کہ انسان کو دشمن کے ساتھ بھی ایسا برتاؤں رکھنا چاہیے کہ اس کو دوست بنا لینے کا موقع رہے اور دوست سے اس طرح برتاؤ کرنا چاہیے کہاگر کبھی وہ دشمن ہو جاوے تو اس کے ضرر سے بچنے کی جگہ رہے۔ اس قول کی پہلی بات جو شخص کے ساتھ برتاؤ کی ہے وہ تو نہایت عمدہ ہے ، مگر پچھلی بات جو دوست کے ساتھ برتاؤکی ہے وہ کچھ اچھی نہیں اس میں سمجھ کی کچھ بھی بات نہیں ہے ، بلکہ نری مکاری ہے ایسے برتاؤ سے انسان زندگی کی بہت بڑی خوشی سے محروم رہتاہے اپنے دلی دوستوں سے بھی دل کی بات نہیں کہہ سکتا ہے کہ بعضی دفعہ دوست دشمن ہوجاتے ہیں ۔ اور بھید کو کھول دیتے ہیں ، مگر دنیا انھی کو دغا بازی کرتے ہیں اور دوست پر بھروسا کرنے والے کو ناسمجھ نہیں کہتی ہاں البتہ دوستوں کے منتخب کرنے میں بڑی سمجھ چاہیے۔ سمجھ صرف باتوں ہی میں منحصر نہیں ہے ، بلکہ ہر قسم کے کاموں کی رہنما اور ہمارے لیے ہمارے قادر مطلق خدا کی نائب انسان میں بہت سی بڑی عمدہ عمدہ صفتیں ہیں ، مگر سمجھ سے زیادہ مفید ہے۔ سمجھ ہی کے سبب سے اور تمام صفتوں کی قدر ہوتی ہے۔ سمجھ ہی کے سبب سے اور تمام صفتوں کی قدر ہوتی ہے۔ سمجھ ہی کے سبب سے وہ تمام صفتیں اپنے اپنے موقع پر کام آتی ہیں۔ سمجھ ہی کے سبب سے وہ شخص جس میں وہ صفتیں ہیں ان صفتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ سمجھ بغیرعلم اور عقل دونوں ناچیز ہیں ، بھلائی برائی دکھائی دیتی ہے۔ باوجود یکہ انسان میں نہایت عمدہ عمدہ خصلتیں ہوتی ہیں ،مگر سمجھ بغیر ان کے برتاؤںمیں غلطیاں کرتاہے اور نقصان پر نقصان اٹھاتا ہے ۔ سمجھ ہونے سے صرف انھی خوبیوں کا جو اس میں ہیں مالک نہیں ہوتا ، بلکہ دوسروں میں جو خوبیاں ہیں ان کا بھی مالک بن جاتا ہے ۔ سمجھ دار آدمی جس سے گفتگو کرتا ہے اس کی لیاقت کو بھی خان لیتا ہے اور اسی کی لیاقت کے موافق گفتگو کرتا ہے۔ اگر ہم انسانوں کومختلف فرقوں اور گروھوں اور جماعتوں کی مجلسوں کے حالات پر غورکریں تو ہم کو صاف معلوم ہو گا کہ ہر ایک مجلس میں نہ کسی عقلمند کی گفتگو کو غلبہ ہوتا ہے اور نہ کسی بہادر اور دلیر کی گفتگو کو ، بلکہ اسی شخص کی گفتگو سب پر غالب رہتی ہے جس کو سمجھ ہے اور جو اھل مجلس کی لیاقتوں کو اور جو بات کہنی ہے اور جو نہ کہنی ہے اس میں تمیز کر سکتا ہے۔ جس شخص کو بڑی سی بڑی لیاقت حاصل ہو پر سمجھ نہ ہو وہ ایک نہایت قوی اور زبردست پر اندھے آدمی کی مانند ہے جو بسبب اپنے ندھے پن کے اپنے زور و قوت سے کچھ کام نہیں لے سکتے ہے۔گو ایسے شخص کو دنیا میں اور سب طرح کے کمال حاصل ہوں ، مگر سمجھ نہ ہو تو وہ دنیا میں کسی کام کا نہیں۔ برخلاف اس کے اگر اس کی سمجھ پوری ہو اور صرف اسی ایک صفت میںاس کوکمال ہو اور باقی اوصاف متوسط درجے کے رکھتاہو تو وہ اپنی زندگی میں جو کچھ چاہے کر سکتا ہے۔ سمجھ جس طرح کہ انسان کے لیے ایک بہت بڑا کمال ہے ،اسی طرح مکر اس کے حق میںبہت بڑا و بال ہے ۔ نیک دل کی منتہائے خوبی سمجھ ہے اور بد دل کی منتہائے بدی مکر یا یوںکہو کہ وہ نیک دل کے لیے معراج ہے اور یہ بد دل کے لیے کمال ۔ سمجھ نہایت عمدہ اور نیک مقصد پیدا کرتی ہے اور ان کے حاصل ہونے کو نہایت عمدہ عمدہ اور تعریف کے قابل ذریعے قائم کرتی ہے ،مگر مکر میںصرف خود غرضی ہوتی ہے ۔ سمجھ مثل ایک روشن آنکھ کے ہے جس میںبے انتہا وسعت ہے اور تمام دنیا کو اور دور دور کی چیزوں ، آسمانوں کو اور آسمانوں کے ستاروں کو بخوبی دیکھ سکتی ہے ۔ مکرمثل ایک کوتاہ نظر آنکھ کے ہے جو پاس پاس کی ناچیز چیزوں کو دیکھ سکتی ہے اور دور کی چیزیں گو وہ کیسی ہی عمدہ اورروشن ہوں اسے نظر نہیں آتیں۔ سمجھ جس قدر ظاہر ہوتی جاتی ہے۔ اسی قدر انسان کا اختیار اور اعتبار بڑھتا جاتا ہے ، مگر مکر کاٹ کی ہنڈیا کی مانند ہے کہ جب ایک دفعہ کھل گیا تو پھر اس کی قوت اور عزت بالکل جاتی رہتی ہے ،پھر انسان کسی کام کا نہیں رہتا ۔ جوکام کہ وہ ایسی حالت میں کر سکتا جب کہ لوگ اس کو ایک سیدھا سادھا بھولا بھالا آدمی سمجھتے ، اب وہ کام بھی وہ نہیں کر سکتا ۔ سمجھ عقل کے لیے کمال ہے اور ہمارے کاموں کے لیے رہنما ،مکر ایک قوت ہے جو صرف حال ہی کے فائدوں کو دیکھتی ہے ۔ سمجھ نہایت عقلمند اور نیک آدمیوں میں پائی جاتی ہے ۔ مکر اکثر جانوروں میں اور ان لوگوں میںجو جانوروں کی مانند یا ان سے کچھ بہتر ہوتے ہیں پایا جاتا ہے۔ سمجھ نفس الامر میں ایک نہایت خوبصورت دلکش چیز ہے اور مکر گویا اس کی بگاڑی ہوئی نقل ہے۔ سمجھ والے آدمی کی طبیعت ہمیشہ زمانہ حال اور استقبال دونوں پر لگی رہتی ہے۔ جو باتیں ہ زمانہ دراز کے بعد ہونے والی ہیں اور جو اب ہو رہی ہیں دونوں کو دیکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ رنج و خوشی جو دوسری زندگی یعنی قیامت میں ہونے والی ہے وہ بے شک ہو گی ، گو اس کا زمانہ ابھی بہت دور ہے۔ وہ اس کے دور ہونے کے سبب سے اس لیے اس کو حقیر نہیں سمجھتا کہ دوسری زندگی ، یعنی قیامت کی تکلیف و راحت لمحہ لمحہ پاس آت یجاتی ہے اور اسی طرح سے رنج و خوشی دیویں گی جیسا کہ زمانہ حال میں رنج و خوشی ہوتی ہے ، اس لیے وہ نہایت غورو فکر سے ان خوشیوں کے ہاتھ آنے کے لیے کوشش کرتا ہیجو قدرت نے اس کے لیے بنائی ہیں اور جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ۔ وہ اپنے خیال کو ہر کام کے انجام تک دوڑاتا ہے اور اس کے حال و مال کے نتیجوں پر غورکرتا ہے اور اس فانی دنیا کے تھوڑے سے نفع اور فائدے کو اگر درحقیقت وہ نفع اور فائدہ اس کی سچی عاقبت کے خیال کے مخالف ہو چھوڑ دیتا ہے۔ غرضکہ اس کی تمام تدبیریں عمدہ ہوتی ہیں اس کا رویہ ایسے شخص کی مانند ہوتا ہے جو اپنا فائدہ بھی سمجھتا ہے اور اس کی حاصل کرنے کا مناسب طریقہ بھی جانتا ہے۔سمجھ جس کو میں نے اس مضمون میںبطور ایک نیکی اورکمال کے بیان کیا ہے وہ صرف دنیا ہی کے کاموں کے لیے مفید نہیں ہے ، بلکہ ہماری ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ وہصرف اس فانی انسان کے لیے ہی رہنما نہیں ہے ، بلکہ اس صلی نافانی انسان کے لیے بھی جو ہم میںبولتا ہے رہنما ہے۔ بعض مصنف اس کو عقل کہتے ہیں اور بعض سمجھ ،یعنی تمیز جس سیاچھی و بری باتوں اوربھلائی و برائی میں امتیاز کیا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہی چیز سب سے بڑی ہے۔ ایک مصنف کا قول ہے کہ سمجھ ہی ایسی رونق کی چیز ہے جس کوکبھی زوال نہیں ۔ جو اس کو چاہیت ہیں آنکھوں کو سامنے دیکھتے ہیں ، جو اس کوڈھونڈتے ہیں وہ آسانی سے پاتے ہیں۔ اس کی تلاش میں ان کو بہت دور جانا نہیں پڑتا ۔ کیونکہ وہاس کو اپنے ہی دروازے پر پاتے ہیں۔ اس کا خیال رکھنا ہی اس میں کمال حاصل کرنا ہے۔ جو کوئی اس پر خیال رکھتا ہے اسی دم جستجو سے چھوٹ جاتا ہے، کیونکہ وہ خود ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتی ہے اور جواس کے لائق ہیں ان کو رستے ہی میں ملتی ہے اور پھر کبھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑتی ۔ افسوس کہ ہماری قوم میں سب کچھ موجود ہے پر یہی نہیں۔ ٭……٭……٭……٭ انسان کے خیالات (تہذیب الاخلاق جلد 1 نمبر 2 بابت 15 ۔ شوال 1287ئ) جہاں اور بہت سے عجائبات قدرت الہی ہیں انہی میں سے انسان کے خیالات بھی نہایت عجیب ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک قسم کی مخلوقات ایک ہی سا خیال رکھتی ہے۔ جانوروں کی وہ حرکات اورافعال جو جاندار ہونے کے سبب سے ہیں اور وہ چیز جو محر ک ان افعال یا حرکات کی بواسطہ یا بلاواسطہ ہے اس کا کچھ ہی نام رکھو ،مگر وہ وھی چیز ہے جس کو انسان حالت میںخیال کہتے ہیں۔ تمام افعال اور حرکات جانوروں کی بلاشبہ ارادی ہیں اور کچھ شک نہیں کہ وہ متحرک بالا رادہ ہیں۔ ان کی تمام حرکتوں کا باعث بواسطہ یا بلاواسطہ کی خیال جلب منفعت مادی جیسے غذا مسکن وغیرہ یاغیر مادی جیسے فرحت و انسبساط اور بشاشت یا خیال دفع مضرت مادی و غیر مادی کا ہوتا ہے۔ ہم نہیں پاتے کہ انسان میں اور کوئی چیز اس سے زیادہ ہے۔ بلاشبہ اتنا فرق پاتے ہیں کہ جانور میں وہ خیالات محدود اور انسان میں نامحدود ہیں۔ مگر تعجب تو ہم کو اس بات سے ہوتاہے کہ ہر گاہ ایک قسم کے جانداروں میں ایک ہی سے خیالات ہیں اور ان پر وہ سب ایک ہی سایقین کامل رکھتے ہیں تو تمام انسان بھی باوجودیکہ ایک قسم کے جاندار ہیں ایک ہی سے خیالات اور ایک ہی سا یقین کیوں نہیں رکھتے ہیں۔ کبھی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جانوروں کے خیالات محدود ہونے کے سبب متفق ہیں اور انسان کے خیالات میں نامحدود ہونے کے سبب وہ صفت نہیں ہے ، مگر یہ بات تسلیم نہیں کی جا سکتی ، اس لیے کہ نامحدود ہونے کے لیے مختلف ہونا ضرور نہیں ہے پس انسانوں کے خیالات سے جہاں تک ہم کو واقفیت ہو سنی قدر عجائبات قدر الہٰی سے ہم کو زیاد واقفیت ہوتی ہے اور ان خیالات کا صحیح ہونا یا غیر صحیح ہونا ہمارے اس فائدے میں کچھ نقصان نہیں پہنچتا ، بلکہ درصورت مختلف ہونے کے اور بھی زیادہ فائدہ دیتا ہے ، اس لیے ہم اپنے اس آرٹیکل میں ایک انسان کے خیالات بیان کرتے ہیں جن کو وہ اس طرح پر کہتا ہے۔ مجھ کو خیال کہ جس قدر اور جانداروںکو کرنا ہے اتنا ہی مجھ کو بھی کرنا ہے یا اس سے زیادہ۔ مگر میرے خیال میں یہ آیا کہ انسان کے سوا تمام جاندار مخلوقات کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان کے بنانے والے کاریگر نے سب کچھ ان کے ساتھ بنا دی ہیں۔ ان کو ان چیزوں کے بہم پہنچانے پیدا کرنے کی حاجب نہیں ہے۔ تمام جانوروں کی خوراک بغیر ان کی سعی و تدبیر کے پیدا ہوتی ہے۔ سرد ملک کے جانوروں کے لیے نہایت عمدہ پشمینے کا گرم لباس ان کے بدنوں پر پیدا کیا ہے ۔ پرند جانوروں کے لیے مینہ سے بچنے کا باران کوٹ انھی کے بدنوں پر سیا ہے ، گرم ملک کے جانوروں کے لیے اسی اب و ہوا کے مناسب ان کا جامہ قطع کیا ہے ، مگر انسان کے لیے کچھ نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو یہ سب کچھ خود کرنا ہے۔ پھر میں نے خیال کیاکہ حیوان نے اپنے کاموں کے کرنے کے لیے کسی سے کچھ سیکھنے یا تعلیم پانے کے محتاج نہیں ہوتے ، خود سیکھے سکھائے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ شہد کی مکھی کو رس چوسنے کے لیے عمدہ قسم کے ماخذوں کو شناخت کوئی نہیں بتاتا اور اپنے گھروں کو ایسی عملدہ تقسیم سے نکالنا جس میں ایک بڑا مہندس بھی حیران ہو جاوے کوئی نہیں پڑھاتا۔ بیئے کو ایسا عمدہ اور محفوظ کا شانہ بنانا کوئی نہیں سکھاتا ، مگر انسان کوبغیر سیکھے کچھ بھی نہیں آتا۔ پھر میں نے خیال کیا کہ حیوان کے کام خواہ وہ افعال جوارح سے ہوں یا دوسری قسم سے اور وہ ازخود ان کو آئے ہوں یا تعلیم سے نہایت محدود ہیں ، مگر انسان کے ہر قسم کے کام نامحدود ہیں ۔ ان سب باتوں سے میں نے خیال کیا کہ انسان کو اور جانوروں سے بہت کچھ زیادہ کرنا ہے۔ پھر میں نے خیال کیا کہ ایسے بڑے کاریگر نے جو انسان کو اور جانوروں سے بھی زیادہ درماندہ بنایا ہے اور طرح طرح کی مشکلات میں ڈالا ہے تو کیا چیز اس کو دی ہے جس سے وہ یہ سب چیزیں کر سکتاہے اور تمام مشکلوں پر فتح پا سکتا ہے ، اتنے میں میرا دل بول اٹھا کہ عقل۔ میں نے یہ بات سن کر سوچ میں گیا کہ کیا یہ بات سچ ہے ، مگر میں نے خیال کیا کہ عقل سے تو یہ کام نہیں نکل سکتا۔ نہ تووہ خود یہ کام نکال سکتی ہے اور نہ اس کے بغیر یہ مشکل حل ہو سکتی ہے ، یہ تو کسی دوسری چیز ہماری بھوک نہیں کھو سکتا ، مگر اس چیز کو بہم پہنچا دیتا ہے ، جو ہماری بھوک کھو دیتی ہے۔ بہت سی تلاش اور جستجو میں نے کی اور خیال دوڑایا کہ وہ کیا چیز ہے جس کے حاصل کرنے کے لیے عقل بھی صرف آلہ ہے۔تو خیال میں آیا کہ وہ چیز علم ہے جس کے معنی دانستی ہیں۔ تب میں سمجھا کہ مجھ کو اور جانوروں سے زیادہ جو کچھ کرنا ہے وہ صرف تمام باتوں کی اصلیت دریافت کرنا ہے۔ میں نے خیال کیا کہ علم اور یقین یہ دونوں آپس میں لازم و ملزومھ ہیں۔ جس چیز کا مجھ کو علم ہو گا بیشک اس کا یقین ہو گا اور جس کا یقین ہو گا اس کا علم بھی ہو گا۔ پس میں نے خیال کیا کہ یقین بغیر علم کے اور علم بغیر یقین کے سچا ارو پورا نہیں ہے۔ میں نے اس بات کو بالکل سچ سمجھا اور خیال کیا کہ مثلا مجھ کو اعداد کے حساب میں تین کا اور دس کا علم ہے اور اس لیے یقین ہے کہ دس بہ نسبت تین کے زیادہ ہوتے ہیں ، تو اگر کوئی شخص اس کے برخلاف کہے اور اپنے بیان کے ثبوت کے لیے یہ بات کہے کہ میں اس لکڑی کو سانپ بنا دیتا ہوں اور وہ اس کو سانپ بنا بھی دے ، تو کچھ عجب نہیں کہ اس کا ایسا کرنا مجھ کو حیرت میں ڈال دے ، مگر کسی طرح اس بات کے یقین میں کہ دس بہ نسبت تین کے زیادہ ہوتے ہیں شک نہیں لانے کا۔ میں نے یہ خیال کیا کہ مسلمانوں کے مذھب کا یہ ایمانی مسئلہ کہ اقرار باللسانی و تصدیق بالقلب بے شک سچا مسئلہ ہے۔ اس کا پہلا جزو تو دنیاوی باتوں سے متعلق ہے مگر وہ اصل مطلب ہے وہ دوسری جزو میں ہے۔ تصدیق قلبی اور یقین اگرچہ ایک ہی چیز ہے ، مگر الفاظ تصدیق قلبی زیادہ شادار اور مطلب کو زیادہ تر دل پر نقش کرنے والے ہیں ، اس لیے میں نے خیال کیا کہ ایمان بے یقین کے اور یقین بغیر علم کے نہیں ہو سکتا۔ میں نے یہ بھی خیال کیا کہ علم یا یقین جس کے بغیر ایمان نہیں حاصل ہو سکتا ایسا ہی ہونا چاہیے جیسے کہ دس اور تین کی زیادتی و کمی کا یقین ہے ، تاکہ کسی طرح زائل نہ ہو سکے ، کیونکہ اگر وہ کسی طرح زائل ہو گیا تو وہ حقیقت میں علم یا یقین نہ تھا ، بلکہ محض ایک دھوکا تھا۔ ان تمام خیالات نے مجھ کو گھبرا لیا اور میں چاروں طرف ڈھونڈنے لگا کہ علم یا یقین ، بلکہ یوں کہو کہ ایمان حاصل کرنے کا کیا صریحہ ہے۔ میں نے دیکھا کہ ہزاروں ، لاکھوں ، کروڑوں آدمی بہت سی باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور ان کو کچھ بھی مشکل نہیں ہوتی۔ میں کیوں ایسی مشکلات میں پڑا ہوں۔ بہتر ہے کہ ان لوگوں سے پوچھوں کہ تم نے ان سب باتوں پر کس طرح سے یقین حاصل کیا۔ یہودی نے کہا کہ مجھے اس بات پر یقین کامل ہے کہ خدا ایک ہے ، اس لیے کہ موسیٰ نے کہا ہے۔ عیسائی بولا کہ غلط ، خدا تین ہیں اورمجھ کو اس پر کامل یقین ہے ، اس لیے کہ یوحنا نے یوں بھی بتایا ہے۔ ایسے اختلاف سے میں اور بھی گھبرایا ، میں نے خیال کیا کہ ایک شے کے علم یا یقین میں اختلاف ہے تووہ یقین ہی نہیں ، پھر کیونکر ان کو ایسا مختلف یقین ہوا۔ جب میں نے غور کیا تو سمجھا کہ ان کو تو نہ خدا کے ایک ہونے پر یقین ہے نہ خدا کے تین ہونے پر ، بلکہ ان کو تو اس بات پر یقین ہے کہ موسیٰ اور یوحنا نے ایسا کہا ہے۔ یہودی بولا کہ موسیٰ نے خدا سے باتیں کیں ، لکڑی کو سانپ بنایا پھر اس نے جو کہا اس میں کیا شک ہے ؟ عیسائی بولہ کہ عیسی نے مردوں کو جلایا ، مارنے سے بھی نہ مرا ، بلکہ قبر میں سے آٹھ کر آسمان پر چلا گیا ، پھر اس کے خدا ہونے میں کیا شک ہے ؟ پہلے تو میں شک میں پڑ ا کہ دلیلیں تو اچھی ہیں مگر پھر مجھے خیال ہوا کہ ان کو تو خدا سے موسی کے باتوں کرنے پر اور لکڑی کو سانپ بنانے پر اور عیسی کے مردوں کو جلانے پر اور خود جی اٹھنے پر یقین ہے خدا کے ایک یا تین ہونے پر یقین نہیں۔ ان مباحثوں کے بعد میں نے یقین کیا کہ علم یا یقین یا ایمان حاصل کرنے کا وسیلہ صرف عقل ہے جو ان چیزوں کے حاصل کرنے کے لیے آلہ اور نہایت عملدہ رہنما ہے۔ پھر میں نے خیال کیا کہ عقل پر غلطی سے محفوظ رہنے کا کیونکر یقین ہو ، میں نے اقرار کیا کہ حقیقت میں اس پر یقین نہیں ہو سکتا ، مگر جب عقل ہمیشہ کام میں لائی جاتی ہے تو ایک شخص کی عقل کی غلطی دوسرے شخص کی عقل سے اور ایک زمانے کی عقلوں کی غلطی دوسرے زمانے کی عقلوں سے صحیح ہو جاتی ہے ، مگر جب کہ علم یا یقین یا ایمان کا مدار عقل پر نہ رکھا جاوے تو اس کا حاصل ہونا کسی زمانے اور کسی وقت میں بھی ممکن نہیں۔ میرے دل میں شبہ اٹھا کہ کہ عقل کو جو میں نے سب سے بڑا رہنما سمجھا کیوں سمجھا۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ عقل سے بڑا کوئی اور رہنما ہو جو عقل کو بھی شکست دے دے ، ہم کو اس سے واقفیت نہ ہونی اس کے معدوم ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ مگر میں نے خیال کیا کہ ایسے رہنما کے موجود ہونے کے احتمال سے ہمارا کام نہیں چلتا۔ اس کے موجود ہونے کا ہم کو علم اور یقین چاہیے ، جب یہ نہیں ہے تو عقل کے سوا اور کوئی رہنما بھی نہیں ہے۔ مجھے خواب کا خیال آیا ، میں نے اپنے دل میں کہا کہ سونے کے وقت ہم خواب دیکھتے ہیں اور اس حالت میں ہم اس کو واقعی اور اصلی سمجھتے ہیںاور اس کے سچے ہونے میں ہم کو کچھ شبہ بھی نہیں ہوتا ، مگر جب جاگتے ہیں تو جانتے ہیں کہ وہ اصلی نہ تھا ، بلکہ صرف خواب و خیال تھا تو کس وجہ سے ہم کو یقین ہے کہ جو کچھ ہم حالت بیداری میں جانتے اور سمجھتے ہیں وہ دراصل صحیح اور واقعی ہے ، ممکن ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے اس وقت کی حالت کے مطابق صحیح ہو ، مگر ایک دوسری حالت پیش آوے جو ہماری بیداری کی حالت خواب کے ساتھ ہے اوہر اس وقت ہم کو معلوم ہو کہ ہماری حالت بیداری کی درحقیقت خواب کی حالت تھی۔ مگر پھر مجھے خیال آیا کہ ایسی حالت کا احتمال ہمارے یقین کو کافی نہیں ، ہم کو یقین ہونا چاہیے کہ درحقیقت ایسی بھی کوئی حالت ہے اور احتمال اور یقین میں بڑا فرق ہے ۔ پھر عقل کے سوا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔ میں نے خیال کیا کہ ممکن ہے کہ ورائے عقل کے اور کوئی طریقہ بھی ہو جس سے صورت یا کیفیت روح کی تبدیل ہو جاوے اور وھی تبدل یا ترقی آلہ حصول علم یا یقین یا ایمان کی ہو اور اس کیفیت میں اور اس سے پہلی کیفیت میں ایسا ہی فرق ہو جیسا کہ ایک تندرست شخص میں اور اس شخص میں جو صرف تندرستی کے حال سے واقف ہو فرق ہے۔ پھر مجھ کو خیال آیا کہ تندرستی کے حال سے واقف ہونا بغیر تندرست رہے ممکن نہیں اور صورت یا کیفیت روح کی تبدل کی حالت میں اس بات کی تمیز کرنے کے لیے کہ دونوں حالتوں میں سے بیماری کی حالت کون سے ہے ، کیا چیز ہے وہی تبدل صورت یا کیفیت روح تو اس کی ممیز ہو نہیں سکتی لامحالہ دوسری چیز چاہیے اور وہ دوسری چیز بجز عقل اور کوئی نہیں ہے ، اس لیے کسی طرف جاؤ اور ہیں سے پھیر کھا کر آؤ علم یا یقین کا ایمان مدار صرف عقل ہی پر رہتا ہے۔ ان تمام خیالوں نے مجھے یہ ہدایت کی کہ عام لوگوں میں جو یہ مسئلہ ہے کہ ایمان اور مذھب کو عقل سے کچھ علاقہ نہیں ہے یقین غلط ہے اور جب میں نے مذھب اسلام کو بالکل عقل کے مطابق پایا تو اس کی سچائی پر اور اس مسئلے کی غلطی پر اور بھی کامل یقین ہوا۔ ٭……٭……٭……٭ گزرا ہوا زمانہ (تہذیب الاخلاق بابت یکم صفر 1290ھ) برس کی اخیر رات کو ایک بڈھا اپنے اندھیرے گھر میں اکیلا بیٹھا ہے ، رات بھی ڈراؤنی اور اندھیری ہے گھٹا چھا رھی ہے ۔ بجلی تڑپ تڑپ کر کڑکتی ہے ، آندھی بڑے زور سے چلتی ہے ، دل کانپتا ہے اور دم گھبراتا ہے ، بڈھا نہایت غمگین ہے ، مگر اس کا غم نہ اندھیرے گھر پر ہے ، نہ اکیلے پن پر اور نہ اندھیری رات اور بجلی کی کڑک اور آندھی کی گونج پر اور نہ برس کی اخیر رات پر ، وہ اپنے پچھلے زمانے کو یاد کرتا ہے اور جتنا زیادہ یاد آتا ہے اتنا ہی زیادہ اس کا غم بڑھتا ہے ۔ ہاتھوں سے ڈھکے ہوئے منہ پر آنکھوں سے آنسو بھی بہے چلے جاتے ہیں۔ پچھلا زمانہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتا ہے ، اپنا لڑکپن اس کو یاد آتا ہے ، جبکہ اس کو کسی چیز کا غم اور کسی بات کی فکر دل میں نہ تھی ۔ روپے اشرفی کے بدلے ریوڑی اور مٹھائی اچھی لگتی تھی۔ سارا گھر ماں باپ ، بھائی بہن اس کو پیار کرتے تھے۔ پڑھنے کے لیے چھٹی کا وقت جلد آنے کی خوشی میں کتابیں بغل میں لے مکتب میں چلا جاتا تھا۔ مکتب کا خیال آتے ہیں اس کو اپنے ہم مکتب یاد آتے تھے۔ وہ اور زیادہ غمگین ہوتا تھا اور بے اختیار چلا اٹھتا تھا ’’ ھائے وقت ‘‘ ہائے وقت ! گزرے ہوئے زمانے ! افسوس کہ میں نے تجھے بہت دیر میں یاد کیا۔ ‘‘ پھر وہ اپنی جوانی کا زمانہ یاد کرتا تھا۔ اپنی سرخ سفید چہرہ ، سڈول ڈیل ، بھرا بھرا بدن ، رسیلی آنکھیں ، موتی کی لڑی سے دانت ، امنگ میں بھرا ہوا دل ، جذبات انسان کے جوشوں کی خوشی اسے یاد آتی تھی ۔ اس آنکھوں میں اندھیرا چھائے ہوئے زمانے میں ماں باپ جو نصیحت کرتے تھے اور نیکی اور خدا پرستی کی بات بتاتے تھے اور یہ کہتا تھا کہ ’’ اہ ابھی بہت وقت ہے ‘‘ اور بڑھاپے کے آنے کا کبھی خیال بھی نہ کرتا تھا۔ اس کویاد آتا تھا اور افسوس کرتا تھا کہ کیا اچھا ہوتا اگر جب ہی میں اس وقت کا خیال کرتا اور خدا پرستی اور نیکی سے اپنے دل کو سنوارتا اور موت کے لیے تیار رہتا۔ آہ وقت گزر گیا ! آہ وقت گزر گیا ! اب پچتائے کیا ہوتا ہے ۔ افسوس میں نے اپنے تئیں ہمیشہ یہ کہہ کر برباد کیا کہ ’’ ابھی وقت بہت ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کہ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ٹٹول ٹٹول کر کھڑکی تک آیا۔ کھڑکی کھولی ، دیکھا کہ رات ویسی ہی ڈراؤنی ہے ، اندھیری گھٹا چھا رہی ہے ، بجلی کی کڑک سے دل پھٹا جاتا ہے ، ہولناک آندھی چل رہی ہے ،درختوں کے پتے آڑتے ہیں اور ٹہنے ٹوٹتے ہیں ، تب وہ چلا کر بولا ، ہائے ہائے میرے گزری ہوئی زندگی بھی ایسی بھی ڈراؤنی ہے جیسی یہ رات ‘‘ یہ کہہ کر پھر اپنی جگہ آبیٹھا۔ اتنے میں اس کو اپنے ماں باپ ، بھائی بہن ، دوست آشنا یاد آئے جن کی ھڈیاں قبروں میں گل کر خاک ہو چکی تھیں ۔ ماں گویا محبت سے اس کو چھاتی سے لگائے آنکھوں میں آنسوں بھرے کھڑی ہے۔ یہ کہتی ہوئی کہ ہائے بیٹا وقت گزر گیا۔ باپ کا نورانی چہرہ اس کے سامنے ہے اور اس میں یہ آواز آتی ہے کہ کیوں بیٹا ہم تمہارے بھی بھلے کے لیے نہ کہتے تھے۔ بھائی بہن دانتوں میں انگلی دیے ہوئے خاموش ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہے۔ دوست آشنا سب غمگین کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہم کیا کہ سکتے ہیں۔ ایسی حالت میں اس کو اپنی وہ باتیں یاد آتی تھیں جو اس نے نہایت بے پروائی اور بے مروتی اور کج خلقی سے اپنے ماں باپ ، بھائی ، بہن ، دوست آشنا کے ساتھ برتی تھیں۔ ماں کو رنجیدہ رکھنا ، باپ کو ناراض کرنا ، بھائی بہن سے بے مروت رہنا ، دوست آشنا کے ساتھ ہمدردی نہ کرنا یاد آتا تھا اور اس پر ان گلی ہڈیوں میں سے ایسی محبت کا دیکھنا اس کے دل کو پاش پاش کرتا تھا۔ اس کا دم چھاتی میں گھٹ جاتا تھا اور یہ کہہ کر چلا اٹھتا تھا کہ ہائے وقت نکل گیا ، ہائے وقت نکل گیا ، اب کیوں کر اس کا بدلہ ہو! وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا اور ٹکراتا لڑکھڑاتا کھڑکی تک پہنچا ۔ اس کو کھولا اور دیکھا کہ ہوا کچھ ٹھہری ہے اور بجلی کی کڑک کچھ تھمی ہے پر رات ویسی ہی اندھیری ہے۔ اس کی گھبراہٹ کچھ کم ہوئی اور پھر اپنی جگہ آبیٹھا۔ اتنے میں اس کو اپنا ادھیڑپنا یاد آیا جس میں کہ وہ جوانی رہی تھی اور نہ وہ جوانی کا جوبن ، نہ وہ دل رہا تھا اور نہ دل کے ولولوں کا جوش ۔ اس نے اپنی اس نیکی کے زمانے کو یاد کیا جس میں یہ بہ نسبت بدی کے نیکی کی طرف زیادہ مائل تھا۔ وہ اپنا روزہ رکھنا ، نمازیں پڑھنی ، حج کرنا ، زکواۃ دینی ، بھوکوں کو کھلانا ، مسجدیں اور کنوئیں بنوانا یاد کر کر اپنے دل کو تسلی دیتا تھا۔ فقیروں اور درویشوں کو جن کی خدمت کی تھی ، اپنے پیروں کو جن سے بیعت کی تھی اپنی مدد کو پکارتا تھا ، مگر دل کی بے قراری نہیں جاتی تھی ۔ وہ دیکھتا تھا کہ اس کے ذاتی اعمال کا اسی تک خاتمہ ہے ۔ بھوکے پھر ویسے ہی بھوکے ہیں۔ مسجدیں ٹوٹ کر یا تو کھنڈر ہیں اور یا پھر ویسے ہی جنگل ہیں ، کنوئیں اندھے پڑے ہیں ۔ نہ پیر اور نہ فقیر ، کوئی اس کی آواز نہیں سنتا اور نہ مدد کرتا ہے۔ اس کا دل پھر گھبراتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے کیا کیا جو تمام فانی چیزوں پر دل لگایا۔ یہ پچھلی سمجھ پہلے ہی کیوں نہ سوجھی ، اب کچھ بس نہیں چلتا اور پھر یہ کہہ کر چلا اٹھا ’’ ہائے وقت ! میں نے تجھ کو کیوں کھو دیا ؟ ‘‘ وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا ۔اس کے پٹ کھولے تو دیکھا کہ آسمان صاف ہے ، آندھی تمھ گئی ہے ، گھٹا کھل گئی ہے ، تارے نکل آئے ہیں ، ان کی چمک سے اندھیرا بھی کچھ کم ہو گیا ہے ۔ وہ دل بہلانے کے لیے تاروں بھر ی رات کو دیکھ رہا تھا کہ یکایک اس کو آسمان کے بیچ میں ایک روشنی دکھائی دی اور اس میں ایک خوبصورت دلہن نظرآئی۔ اس نے ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنا شروع کیا۔ جوں جوں وہ اسے دیکھتا تھا وہ قریب ہوتی جاتی تھیں ، یہاں تک کہ وہ اس کے بہت پاس آگئی ، وہ اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور نہایت پاک دل اور محبت کے لہجے سے پوچھا کہ تم کون ہو۔ وہ بولی کہ میں ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی ہوں ۔ اس نے پوچھا کہ تمہاری تسخیر کا بھی کوئی عمل ہے۔ وہ بولی ہاں ہے ، نہایت آسان پر بہت مشکل ۔ جو کوئی خدا کے فرض اس بدوی کی طرح جس نے کہا کہ ’’ وہ اللہ لا ازید و الاانقص ‘‘ اد ا کر کے انسان کی بھلائی اور اس کی بہتری میں سعی کرے اس کی میں مسخر ہوتی ہوں۔ دنیا میں کوئی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے ، انسان ہی ایسی چیز ہے جو اخیر تک رہے گا۔پس جو بھلائی کہ انسان کی بہتری کے لیے کی جاتی ہے ۔ وہی نسل در نسل اخیر تک چلی آتی ہے۔ نماز ، روزہ ، حج ، زکواۃاسی تک ختم ہو جاتا ہے۔ اس کی موت ان سب چیزوں کو ختم کر دیتی ہے۔ مادی چیزیں بھی چند روز میں فنا چیزوں کو ختم کر دیتی ہے۔ مادی چیزیں بھی چند میں فنا ہو جاتی ہیں ، مگر انسان کی بھلائی اخیر تک جاری رہتی ہے۔ میں تمام انسانوں کی روح ہوں ، جو مجھ کو تسخیر کرنا چاہیے انسان کی بھلائی میں کوشش کرے کم سے کم اپنی قوم کی بھلائی میں تو دل و جان و مال سے ساعی ہو۔ یہ کہہ کروہ دلہن غائب ہو گئی اور بڈھا پھر اپنی جگہ آبیٹھا۔ اب پھر اس نے اپنا پچھلا زمانہ یاد کیا اور دیکھا کہ اس نے اپنی پچپن کی عمر میں کوئی کام بھی انسان کی بھلائی اور کم سے کم اپنی قومی بھلائی کا نہیں کیا تھا۔ اس کے تمام کام ذاتی غرض پر مبنی تھے۔ نیک کام جو کیے تھے ثواب کے لالچ اور گویا خدا کو رشوت دینے کی نظر سے کیے تھے۔ خاص قومی بھلائی کی خالص نیت سے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ اپنا حال سوچ کر وہ اس دلفریب دلہن کے ملنے سے مایوس ہوا۔ اپنا اخیر زمانہ دیکھ کر آیندہ کرنے کی بھی کچھ امید نہ پائی ، تب تو نہایت مایوسی کی حالت میں بے قرار ہو کر چلا اٹھا ’’ ہائے وقت ، ہائے وقت ، کیا پھر تجھے میں بلا سکتا ہوں ؟ ہائے میں دس ہزار دیناریں دیتا اگر وقت پھر آتا اور میں جوان ہوسکتا ۔ ‘‘یہ کہہ کر اس نے ایک آہ سرد بھری اور بے ہوش ہو گیا۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ اس کے کانوں میں میٹھی میٹھی باتوں کی آواز آنے لگی۔ اس کی پیاری ماں اس کے پاس آکھڑی ہوئی، اس کو گلے لگا کر اس کی ببی لی۔ اس کا باپ اس کو دکھائی دیا۔ چھوٹے چھوٹے بھائی بہن اس کو گرد آکھڑے ہوئے۔ ماں نے کہا کہ بیٹا کیوں برس کے برس دن روتا ہے ؟ کیوں تو بے قرار ہے ؟ کس لیے تیری ہچکی بندہ گئی ہے ؟ آٹھ منہ ہاتھ دھو ، کپڑے پہن، نو روز کی خوشی منا ، تیرے بھائی بہن تیرے منتظر کھڑے ہیں۔ تب وہ لڑکا جاگا اور سمجھا کہ میں نے خواب دیکھا اور خواب میں بڈھا ہو گیا تھا۔ اس نے اپنا سارا خواب اپنی ماں سے کہا۔ اس نے سن کر اس کوجواب دیا کہ بیٹا بس تو ایسا مت کر جیسا اس پیشیمان بڈھے نے کیا ، بلکہ ایسا کر جیسا تیری دلہن نے تجھ سے کہ۔ یہ سن کر وہ لڑکا پلنگ پر سے کود پڑا اور نہایت خوشی سے پکارا کہ اور یہی میری زندگی کا پہلا دن ہے ، میں کبھی اس بڈھے کی طرح نہ پچتاؤں گا اور ضرور اس دلہن کو بیاھوں گا جسے نے ایسے خوبصورت اپنا چہرہ مجھ کو دکھلایا اور ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی اپنا نام بتلایا۔ او خدا اوخدا تو میری مدد کر ، آمین۔ پس اے میرے پیارے نوجوان ہم وطنو ! اور اے میری قوم کے بچوں ، اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو ، تاکہ اخیر وقت میں اس بڈھے کی طرح نہ پچتاؤ۔ ہمارا زمانہ تو اخیر ہے اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوش کرے ، آمین۔ ٭……٭……٭……٭ طریقہ تناول طعام (تہذیب الاخلاق بابت 20۔ محرم 1289ھ) ضد اور نفسانیت انسان کے بہت بڑے دشمن ہیں۔ کسی اچھی بات کو ضد سے نہ ماننا اور اس کی نیک و بد پر غور نہ کرنا درحقیقت انسان کا کام نہیں ہے۔ اس وقت ہم کو نہ انگریزوں کی طرف چھری کانٹے سے میز کرسی لگا کر کھنے پر بحث ہے اور نہ ہم کو ترکوں کی تقلید کی ہوس ہے ، بلکہ ہم نہایت سیدھی طرح سے کھانے کے طریق پر غور کرنی ہے اور بلاتبدیل وضع جس قدر کہ اس کے نقصان رفع ہو سکتے ہیں اس پر بحث کرنے سے غرض ہے۔ ہندو چوکے میں چھوٹی چھوٹی پیالیوں یا تشتریوں یا پتلوں میں تھوڑا تھوڑا سب قسم کا کھانا چن کر آگے رکھ لیتے ہیں اور ہر ایک میں سے کچھ کچھ کھاتے جاتے ہیں اور جو بچتا ہے وہ اسی برتن میں دھرا رہتا ہے جس میں انہوں نے کھایا تھا اور اس سبب سے کھانے کے وقت ان کے سامنے جھوٹے برتن اور نیم خوردو کھانا سب دھرا رہتا ہے اور کھا چنے کے بعد وہ سب اٹھ جاتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے کھانا کھانے کا بھی یہی طریق ہے جو ہندوؤں کا ہے ، صرف اتنا فرق ہے کہ ہندو چوکے میں بیٹھتے ہیں ، مسلماندستر خوان بچھا کر بیٹھتے ہیں ۔ جس طرح ہندو سب طرح کا کھانا ایک ساتھ اپنے آگے رکھ لیتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی قابوں اور رکابیوں اور غوریوں اور تشتریوں اور پیالوں میں سب طرح کا کھانا اور سب قسم کی روٹی اور ہر طرح کے کباب اور فیرنی کے خوانچے اور بورانی کے پیالے اور اچار مربے کی پیالیاں سیتلا کے پوجاپے کی طرح سب اپنے آگے رکھ لیتے ہیں اور اس ایک دستر خوان پر کوئی تو فیرینی کلمہ شہادت کی انگلی سے اور کوئی دست بخیر چاروں انگلیوں سے چاٹ رہا ہے ، کوئی پلاؤ میں اروی کا سامن ملا ملا کر کھا رہا ہے ، کسی نے سالن ملا ہوا پلاؤ کھا کر نان ابی سے لتھڑا ہوا پنجہ مبارک پونچھ کر روٹی کو سالن میں ڈبو ڈبو کر کھانا شروع کیا ہے۔ کسی نے بورانی کے پیالے کو منہ سے لگا کر سڑپا بھر یہ کہہ کر واللہ بڑی تیز ہے اوہ اوہ کرنا شروع کیا ہے۔ تمام جھوٹے برتن اور نیم خوردہ کھانا اور چچوڑی ہوئی ہڈیاں اور روٹی کے ٹکڑے اور سالن میں کی نکالی ہوئی مکھیاں سب آگے رکھی ہوئی ہیں۔ اس عرصے میں جو شخص پہلے کھا چکا ہے اس نے ہاتھ دھونا ، کھنکار کھنکار کر گلا صاف کرنا اور بیسن سے دانت رگڑنے اور زبان پر دو انگلیاں رگڑ رگڑ کر زبان صاف کرنا شروع کیا ہے اور بے تکلف بیٹھے کھانا نوش فرماتے ہیں ۔ نہ ان ہاتھ منہ دھونے والوں کو خیال ہے کہ ہم کھانا کھانے والوں کے قریب کیسی حرکات ناشائستہ کرتے ہیں اور نہ کھانا کھانے والوں کو ان لوگوں کی کریہ آواز سننے اور زرد زرد ہلدی کے ملے ہویء رنگ کا لعاب نکلنے اور بلغم کے لوتھڑے تھوہ کر کر چلمچی یا تاش میں تھوک دینے اور بتاشے کی طرح اس کے پانی پر تیرتے پھرنے کی پروا ہے۔ نعوذ بالا منھا۔ انگریز جس طرح کھانا کھاتے ہیں وہ سب پر روشن ہے اور ان کا بین بھی کچھ ضرور نہیں ہے ، کیونکہ ہمارے نیک متبع سنت موطن اس پر تو حدیث ’ من تشبہ بقوم فھومنھم ‘ کا چھرا ماریں گے۔ عرب میں کھانا کھلانے کا یہ دستور ہے کہ ایک چوکی پر چھوٹا سا دستر خوان بچھایا جاتا ہے اور ایک برتن میں ایک قسم کا کھانا آتا ہے اور جو لوگ چوکی کے گرد بیٹھتے ہیں وہ سب اس میں کھانا شروع کرتے ہیں۔ چند لقمے کھانے پر وہ برتن اٹھ جاتا ہے اور دوسری قسم کا کھانا دوسرے برتن میں آتا ہے اور چند لقمے کے بعد وہ بھی اٹھ جاتا ہے اور اسی طرح آتا جاتا رہتا ہے ۔ اس طرح پر کھانے میں یہ فائدہ ہے کہ جھوٹے برتن اور جھوٹا کھانا سامنے نہیں رہتا۔ مگر جو غچلی پن ہندوستان کے مسلمانوں میں کھانے کی مجلس میں ہوتا ہے نعوذ باللہ منہا ، کسی ملک کے کھانے کی مجلس میں نہیں ہوتا ۔ پس نہایت شرم اور افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنی ضد و نفسیانیت سے اس غچلی پن میں پڑے رہیں اور اس کی درستی و تہذیب پر متوجہ نہ ہوں۔ ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ خواہ نخواہ میز کرسی پر بیٹھ کر چھری کانٹے سے کھانا کھاؤیا عرب کی طرح چھوٹی چوکی پر ایک خوان بچاؤ ، بلکہ شوق سے بسم اللہ کر کے دستر خوان پر کھانا تناول فرماؤ اور گو بہت سے سنن ھدی کے ادا کی فکر نہ ہو زمین پر بیٹھ کر کھانا کھانے ہی کی سنت عادی کی پیروی کرو ، مگر برائے خدا یہ غچلی پن چھوڑو اور سب طرح وضع پر کھانا کھانے میں جہاں تک اصلاح و صفائی ہو سکے اس کو اختیار کرو۔ صفائی و پاکیزگی اختیار کرنا تو شریعت میں ممنوع نہیں ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب تک کسی کام کے لیے کوئی قاعدہ اور طریقہ مقرر نہیں ہوتا اور بخوبی اس کی پابندی نہیں کی جاتی اس وقت تک وہ چلتا نہیں اور جب وہ قاعدہ عمدہ ہوتا ہے تو رفتہ رفتہ از خود اس کا رواج ہو جاتا ہے اور سب لوگ اس کو کرنے لگتے ہیں اور چند عرصہ بعد اس کی ایسی عادت ہو جاتی ہے کہ طبیعت ثانی گنی جاتی ہے۔ پس ہمارا مقصد یہ ہے کہ طریقہ تناول طعام کے کچھ قواعد سوچے جاوید اور یہی طریقہ جو دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کا ہے اسی میں ایسی اصلاح کی جاوے جس کو لوگ مورد طعن من تشبہ بقوم بھی نہ کریں اور اس غچل پنے سے بھی نجات پاویں۔ چنانچہ ہم نے اس باب میں کچھ قواعد تجویز کیے ہیں اور ہم ان کو آیندہ کسی پرچے میں لکھیں گے۔ ٭……٭……٭……٭ کلمۃ الحق یہ مضمون سرسید نے 1266 ہجری مطابق 1849عیسوی میں لکھا تھا۔ اس زمانے میں پیری مریدی اور اولیاء و صوفیاء ی بیعت کا بڑا زور شور تھا۔ مذھب سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کے لیے ضروری تھا کہ وہ صوفیاء کے کسی نہ کسی سلسلے میں کسی نہ کسی بزرگ کی بیعت کرے۔ بے پیرے بے مریدے انسان کی سوسائٹی میں کچھ وقعت اور عزت نہ ہوتی تھی ، مگر پیروں نے بھولے بھالے مریدوں کو پھانسنے کے لیے عجیب عجیب گورکھ دھندے بنا رکھے تھے۔ صوفیوں نے بیعت کرنے کے نرالے طریق گھڑ رکھے تھے جو سراسر خلاف سنت اور خلاف شریعت تھے اور قرآن و حدیث میں ان کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ چند چالاک اور عیار لوگوں نے تقدس کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح مسلمانوں کو لوٹنے کا زبردست کاربار جاری کر رکھا تھا اور اس کا الہ کار انہوں نے پیری مریدی اور بیعت کو بنا رکھا تھا۔ اس ٹٹی کی آڑ میں وہ بے فکری کے ساتھ شکار کھیلتے تھے اور سو فیصدی کامیاب ہوتے تھے۔ نہ انہیں کوئی پوچھنے والا تھا ، نہ احتساب کرنے والا ، بلکہ مخلص مرید اپنے ہوشیار پیروں کے پھندے سے خود نکلنا نہ چاہتے تھے اور احمقوں کی جنت میں بڑی خوش اعتقادی کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ پیر جی کی فرمایش پر اپنا تن ، من ، دھن قربان کر دینے کو اپنی بڑی سعادت سمجھتے تھے۔ بیعت کا حقیقی مقصد تزکیہ نفس ہوتا ہے ، مگر اس سے پیر اور مرید دونوں خالی تھے۔ اطاعت خدا و رسول حقیقی صوفیاء اور فقرا ئکا اصل اصول تھا ، مگر اس وقت کے عام صوفیوں کو نہ خدا سے کوئی غرض تھی ، نہ رسول سے کوئی واسطہ تھا ، وہ احکام شریعت بجا لانے سے مستثنیٰ سمجھے جاتے تھے اور ’’ حالت جذب ‘‘ میں جو کچھ وہ کہہ دیتے ، مریدین اور معتقدین اس کو خدا کے فرمان اور رسول کے حکم سے بھی زیادہ عزت اور وقعت دیتے ۔ خدا کا ارشاد ٹالا جا سکات تھا ، رسول کا کہنا نظر انداز کیا جا سکتا تھا ، مگر پیر جی کا ارشاد کسی حالت میں بھی پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا تھا۔ یہ تھی ہمارے معاشرے کی حالت اس وقت ، جبکہ سرسید یہ مضمون لکھا۔ اس میں سر سید نے بڑے زور دار الفاظ میں نہایت مدلل طریقے سے پیری مریدی اور بیعت کے مروجہ طریقوں کے خاف آواز اٹھائی ہے اور ان کے نقائص اور خرابیاں کھول کر بتائی ہیں۔ یہ قابل قدر اصلاحی مضمون نایاب تھا اور 1849ء میں ایک مرتبہ چھپ کر کچھ عرصے بعد دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ سرسید نے دوبار اس مضمون کو ’’تصانیف احمدیہ ‘‘ جلد اول حصہ اول میں شامل کر کے 1300ھ مطابق 1883ء میں شائع کیا ، مگر تصانیف احمد یہ کا یہ اڈیشن بھی اب باکل نایاب ہے۔ اتفاق سے اس کی ایک کاپی لاہور کی پنجاب پبلک لائبریری میں موجود ہے جس کا نمبر م 1636 ، 297ہے۔ مکرمی سردار مسیح صاحب ایم اے انچارج شعبہ علوم مشرقی کی مہربانی کی بدولت میں اس نسخے سے یہ قدیم اور نایاب مضمون نقل کر کے ، ناظرین کرام کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) دل در طلب ماہ رخت شیدائی است وزنکہت تار کا کلت صحرائی است در مہر تو چوں ز خویش رفتم چہ زیاں زیں طعنہ کہ خلق گویدم سو دائی است اللھم صلی علیٰ محمد و آل محمد و بارک و سلم ، الہٰی تو اپنی اور اپنے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نصیب کر اور انہیں کی سنت پر چلا اور انہیں کی سنت پر مار ، آمین یا رب العالمین ۔ اما بعد یہ کلمۃ الحق پیری اور مریدی کے بیان میں ہماری زبان سے نکلا ہے ، کیونکہ ہمارے زمانے میں پیری مریدی کا ایسا ایک جھگڑا لگا ہے ، جس کے سبب ہزاروں آدمی دھوکے میں پڑے ہیں۔ جہاں ایک نئی صورت کا آدمی دیکھا کوئی تو اس کو قطب کہتا ہے اور کوئی ابدال اور کوئی ولی اور کوئی غوث اور پھر وہ کیسی ہی باتیں کرتا ہو اس پر کچھ خیال نہیں کرتے۔ اگر کوئی کہے کہ میاں یہ تو شرع کے خلاف باتیں کرتا ہے ، تو یوں جواب دیتے ہیں کہ اجی تم نہیں جانتے ، طریقت کا اور ہی رستہ ہے ، فقیروں کی باتیں ہی جدا ہیں۔ شریعت تو ظاہر کے لیے ہے۔ یہ ولی اللہ کے ہیں جو کریں سو بجا ہے اور یہ نہیں جانتے کہ اللہ کی راہ نبی کی اطاعت بغیر ملتی ہیں نہیں ہے۔ بیت دریں راہ جزمرد داعی نرفت گم آن شد کہ دنبال راعی نرفت جو ذرا بھی شریعت کی راہ سے بھٹکا وہی راہ بھولا۔ اگر کوئی آسمان پر اڑے اور زمین میں گھسے اور ایک بال بھر شریعت سے پھرا ہو وہ گمراہ ہے۔ ولی و ابدال ، غوث اور قطب ہونا کچھ کرشمہ اور کرامات نہیں ہے ، بھوت اور پلیت ، دیو ، جن ، نٹ اور بھان متی بھی بہت سے شعبدے اور تماشے دکھاتے ہیں۔ ولی و ابدال ، غوث و قطب وھی ہے جو پورا پورا شریعت پر چلے۔ قال اللہ تعالیٰ ’’ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ‘‘ یعنی اللہ صاحب نے سورہ آل عمران میںڈ فرمایا کہ اے نبی توکہ دے کہ اگر تم اللہ ہ چاہتے ہو تو تو میری راہ چلو کہ اللہ تم کو چاہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آدمی کیسی ہی عبادت اور بندگی کرے ، مگر اللہ اس کو جب ہی دوست رکھتا ہے جب شریعت محمدیہ علی صاحبہ الصلواۃ والسلام کا تابع ہو جاوے۔ دیکھو جو گی ، بیراگی ، اتیت اور فقیر کیسی کیسی صحبتیں کرتے ہیں اور مصیبتیں بھگتتے ہیں اور جوگ اٹھاتے ہیں ، مگر جب شریعت کے برخلاف ہیں تو سب اکارت ہے اور شریعت کی تابعداری یہی ہے کہ جو اللہ اور اللہ کے رسول نے کہا اس کو کیا اور جس سے منع کیا اس کو نہ کیا۔ قال اللہ تعالیٰ ’’ ومااتکم الرسول فخذوہ ومانھٰکم عنہ فانتھوا ‘‘ یعنی اللہ صاحب نے سورہ حشر میں فرمایا ، اور جو دے تم کو رسول وہ لے لو اور جس سے منع کر دے وہ مت کرو (ف) ، یعنی رسول نے جو حکم تم پہچائے ہیں ان کو قبول کرو اور جن کاموں سے منع کر د یا ہے ان کو مت کرو کہ یہی شریعت کی تابعداری ہے۔ بڑا تابعدار شرع کا وھی ہے کہ ہر بات میں جو اس کے سامنے توے غور کرے کہ اس میں اللہ اور اللہ کے رسول کا کیا حکم ہے۔ جو حکم ہو وھی کرے اور پھر جی میں ملال نہ لاوے۔ قال اللہ تعالیٰ ’’ فلا و ربک لایومنون حتیٰ یحکمو ک فیما شجر بینھم ثم لایجدوا فی انفسھم حرجا مماقضیت ویسلموا تسلیما ‘‘ یعنی اللہ صاحب نے سورہ نساء میں اپنے رسول کو فرمایا کہ تیرے پروردگار کی قسم ان کو ایمان نہ ہو گا جب تک کہ آپس کے جھگڑے میں تجھی کو حاکم نہ بدیں پھر نہ پاویں اپنے دل میں تیرے انصاف سے کچھ بھی ملال اور اس کو مان لیں ٹھیک جان کر۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ پورا ایمان پورا ایمان جب ہی ہوتا ہے جب سب کام قبول کرے اور یوں جانے کہ یہی حق ہے اور یونہی ٹھیک ۔ ’’عن عبداللہ ابن عمرؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لایومن احد کم حتیٰ یکون ہوا ہ تبعالما جئت بہ ‘‘ یعنی مشکواۃ شریف کے باب الااعتصام بالسنہ میں عبداللہ ابن عمر ؓ سے حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ کوئی تم میں سے مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا ارمان شریعت کے تابع نہ ہو ، یعنی اس کی خواہش شریعت ہی ہو جاوے اور اس کو یہی ارمان ہوکہ جو شریعت میں ہے وہی کروں اور جب شریعت کا حکم بجا لاوے تو یوں جانے کہ میرے دل کا بڑا ارمان نکلا ، کیونکہ وہ تو شریعت کو دل سے چاہتا تھا۔ جب پورا مسلمان ہوتا ہے ، نہ یہ کہ ایک کام کرنے کو تو اپنا دل چاہتا ہو اور خواہ نخواہ کھینچ تان کر اس کو شرع میں لاوے اور کہے کہ اگرچہ حضرت کے وقت میں یا حضرت کے خاص لوگوں کے قوت میں تو نہ تھا ، مگر اس میں کیا قباحث ہے اس کو تو فلا نے بزرگ نے کیا ہے اور بڑے بڑے مشائخ کرتے آئے ہیں ، کیونکہ ایسی باتیں کہنی اور کرنی شریعت کی تابعداری نہیں ہے ، بلکہ شریعت کو اپنے نفس کا تابع بنانا ہے ، خدا پناہ میں رکھے اس بات سے ، حضرت کی شریعت پر عمل کرنا اور آپ کی سنت پر چلنا یہ تو بہت بڑے درجے کی بات ہے۔ حضرت کی سنت تو ایسی نعمت ہے کہ اگر کوئی اس کو دوست ہی رکھے تو دونوں جہان کی نعمت اس کو ملتی ہے۔ ’’ عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من احب سنتی فقد احبنی و من احبنی کا ن معی فی الجنہ ‘‘ یعنی مشکواۃ شریف کے باب الاعتصام بالسنہ میں حضرت انس سے ایک بڑی حدیث نقل کی ہے کہ اس کا یہ ٹکڑا ہے اور اس حدیث میں جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس کو کمال شفقت سے بیٹا خطاب کر کے فرمایا ہے کہ اے میرے بیٹے جس نے میری سنت کو دوست رکھا ، اس نے بے شک مجھ کو دوست رکھا اور جس نے مجھ کو دوست رکھا وہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا۔ ا ے مسلمانوں ذرا غور کرو کہ اگر اس مع کے لفظ پر ہزار جان نثار کی جاوے تو بھی کم ہے۔ رسول اللہ کے ساتھ جنت میں ہونا ایسی بشارت ہے کہ قسم اس خدائے لایزال کی جس نے دونوں عالم پیدا کیے کہ اگر دونوں عالم اس کے پیدا کیے کہ اگر دونوں عالم اس کے مقابل کچھ بھی حقیقت رکھتے ہوں۔ کیا اچھے نصیب اس کے کہ جس کو حضرت کا ساتھ نصیب ہو۔ افسوس تم کہاں بھٹکتے پھرتے ہو۔ جو نعمت ہے وہ حضرت کی سنت میں ہے ، واللہ اور کسی میں نہیں ، کسی میں نہیں ، کسی میں نہیں ، پھر آدمی کو لازم ہے کہ حضرت ہی کی سنت پر چلنے اور شریعت ہی کی اطاعت کرنے پر سعی کرے اور جو حضرت کی شریعت اور حضرت ہی کی سنت پر چلتا ہو اسی کو پیر اور ولی اور ابدال اور غوث اور قطب جانے اور جو حضرت کی شریعت سے باہر ہو اس کو شیطان سے بدتر جانے ، گو وہ زمین میں تیرتا ہو اور آسمان پر اڑتا ہو اور صحابہ کا یہی حال تھا کہ جو کوئی ،کیا عبادت میں اور کیا ذکرمیں اورکیا فکر میں ایک سرمو بھی سنت کے خلاف کرتا تھا اس کو بہت ہی بڑا جانتے تھے۔ فی شرعۃ الاسلام وقد کانت الصحابۃ رضی اللہ عنھم ینکرون اشد الا انکار علی من احدث امرا او ابتدع رسما لم یعھد فی عھد النبوۃ قل ذالک اوکثر صغر ذالک اوکبر کان فی المعاملۃ اوفی العبادۃاوفی الذکر ، یعنی شرعۃ الاسلام میں یہ بات لکھی ہے کہ صحابہ رضی للہ عنہم نہایت برا جانتے تھے اس شخص کو جو نئی بات نکالتا تھا یا نئی رسم شروع کرتا تھا جو حضرت کے وقت میں نہ تھی ، خواہ وہ نئی بات تھوڑی ہوتی تھی ، یا بہت بڑی ہوتی تھی ، یا چھوٹی اور خواہ دنیا کے معاملوں میں ہوتی تھی۔ خواہ دین کے ، خواہ اللہ کے یاد کرنے میں ۔ اب خیال کرو کہ جب صحابہ عبادت کرنے اور اللہ کی یاد کرنے میں بھی نئی بات کو برا جانتے تھے تو پھر اگر کوئی شخص نئی نئی باتیں خلاف سنت رسول اللہ نکالے اور ان کو عبادت جانے اور یوں کہے کہ خدا اس سے ملتا ہے تو بالکل جھوٹا ہے اور مکار ۔ خدا کے ملنے کوسوائے سنت رسول اللہ کے اور کوئی رستہ ہی نہیں ۔ ’’ عن عبداللہ ابن مسعود قال خط لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمینہ وعن شمالہ وقال ہذا سبل علیٰ کل سبیل منھا شیطان یدعوالیہ و قراً وان ہذا صراطی مستقیما فاتبعوہ والا تتبعو السبل فتفرق بکم عن سبیلہ۔ یعنی مشکواۃ شریف کے باب اعتصام بالسنہ میں عبداللہ ابن مسعود سے حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے ایک سیدھا خط کھینچا اور فرمایا کہ یہ تو اللہ کاراستہ ہے ، پھر اس کے دائیں بائیں خط کھینچے اور فرمایا یہ اور رستے ہیں ان میں سے ہر رستے پر شیطان ہے کہ اس کا طرف بلاتا ہے اور کلام اللہ کی آیت پڑھی جس کا یہ ترجمہ ہے ’’ اور اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ میری راہ سیدھی ہے ، پھر اسی پر چلو اور رستوں پرمت جاؤ ، تاکہ اس کی راہ سے نہ بھٹکو ۔ ‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ راہ جس سے خا ملتا ہے وہ رسول اللہ ہی کی سنت ہے اور اس کے سوا سب راہیں شیطان کی ہیں۔ ان آیتوں اورحدیثوں کی نقل کرنے سے ہمارا مقصود صرف اتنا ہے کہ کہ ہر مداری سدھاری کو تم پیر مت بناؤ اور اس کے کرشمے اور کرامات پر مت جاؤ ، بلکہ جو شخص سنت محمدیہ علیٰ صاجہا الصلواۃ والسلام کا تابع ہو اسی کو والی اور غوث اور قطب اور ابدال سمجھو، گو اس سے ایک بھی کرامت نہ ہو ، کیونکہ کرامت ہونا ولی ہونے کی نشانی نہیں ، بلکہ رسول اللہ کی سنت اور شریعت کا تابع ہونا ولی ہونے کی علامت ہے۔ مطلب ساری تقریر کا یہ ہے کہ پیر وہی ہے جو سرس ے پاؤں تک سنت میں ڈوبا ہوا ہو ،نہیں تو خاک بھی نہیں ۔ ان باتوں کو سن کربعضے لوگ یوں کہتے ہیں کہ ہاں یہ بات تو تم سچ کہتے ہو کہ جو کچھ ہے وہ شریعت اور سنت ہی ہے ، مگر فقیروں کی اور ولیوں کی بعضی باتیں ایسی ہیں کہ جب تک وہ نہ کرے دل صاف ہی نہیں ہوتا اورولایت حاصل ہی نہیں ہوتی اور اللہ کے دربار میں خاص مرتبہ ملتا ہی نہیں اور نرا شرع پر چلنے سے تو ملانے کا ملانا ہی رہ جاتا ہے اور دل صاف نہیں ہوتا۔ یہ کہنا اور سمجھنا پوری گمراہی ہے ،کیونکہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخر الزمان ہیں اور اب اور کوئی نبی نہیں ہونے کا اور نہ اور کوئی شریعت اتر گی ، پھر اگر اس شریعت سے بھی اللہ نہ ملے گا اور دل صاف نہ ہو گا تو پھر کس سے ملے گا اور کاھے سے ہو گا ، بلکہ جو شخص یوں سمجھے کہ مرید ہوئے بغیر اور پیر کی صحبت اٹھائے بغیر اور جو ذکر کے طریقے چاروں سلسلوں میں ہیں اسی طرح پر ذکر اور شغل کرنے بغیر ، صرف شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے اور قائم رہنے سے ولیت کا رتبہ اور اللہ کے دربار میں خاص مرتبہ حاصل نہیں ہوتا ، تو اس نے گویا محمدرسول اللہ کی اچھی طرح تصدیق نہیں کی ، کیونکہ محمد رسول اللہ کی تصدیق کے تویہی معنی ہیں کہ دل سے یوں ہی جانے کہ جو حضرت کا بتایا ہوا رستہ ہے وہی سیدھا اور سچا ہے اور اسی سے سب مرتبے غوث اور قطب اور ابدال کے حاصل ہوتے ہیں ۔ ہم کو صرف محمد رسول اللہ کی شریعت اور سنت پر چلنے سے دونوں جہان کی نعمت ملتی ہے نہ کسی پیر کی حاجت نہ کی فقیر کی اور نہ کی نئے ذکرکی درکار اور نہ کسی نئے شغل کی ،جو ہمارے حضرت نے ہم کو بتا دیا ہے وہی کافی ہے۔ ’’ حسبنا کتاب اللہ و سنت رسولہ ‘‘ یعنی ہم کو کلام للہ اور سنت رسول اللہ ہی بس ہے۔ ہمارا دین تو پورا ہو چکا ہے اب اس میں نہ بڑھانے کی حاجت اور نہ گھٹانے کی درکار۔ ’’ قال اللہ تعالیٰ الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دنیا ‘‘ یعنی اللہ صاحب نے سورہ مائدہ میں فرمایا کہ اب پورا کر دیا میں نے تمہارے لیے دین تمہارا پوری کر دی میں نے تم پر اپنی نعمت اورپسند کیا میں نے تمہارے لیے دین مسلمانی ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اب ہمارا دین پورا ہو چکا قیامت تک اس میں کچھ گھٹنے بڑھنے کا نہیں۔ قال فی التفسیر النیشا پوری ’’ و فی اخیر زمان البعثۃ حکم ببقاء الاحکام علیٰ حالھا من غیر نسخ و زیادۃ و نقص الیٰ یوم القیامۃ ‘‘ یعنی تفسیر نیشا پوری میں یہ بات لکھی ہے کہ جب زمانہ نبوت کا اخیر ہونے کو ہوا تو اللہ صاحب نے حکم دیا کہ یہ شرع کے احکام جیسے ہیں ہمیشہ ویسے ہی رہیں گے ، قیامت تک نہ اس میں سے کچھ ردوبدل ہو گا اور نہ کم زیادہ ، پھر اگر کوئی شخص نئی نئی باتیں نکالے ان کی کچھ اصل نہیں ، کیونکہ شرع کے جوں کے توں قیامت تک رہنے کا اللہ صاحب نے وعدہ کیا ہے اوراسی آیت میں اللہ صاحب نے فرمایا ’’واتممت علیکم نعمتی ‘‘ یعنی پوری کردی میں نے تم پر اپنی نعمت ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی جو نعمت ہے وہ شریعت محمدیہ ہی میں پوری ہوئی ہے ،پھر جو کوئی اس پرچلے گا اسی کو یہ نعمت ملے گی اور جو بہت چلے گا اس کو بہت ملے گی۔ اب یہ خیال کرنا کہ جب تک مرید نہ ہو اور مشائخوں کی طرح ذکر و شغل نہ کرے اس کواللہ کی نعمت اور اس کے دربار میں مرتبہ نہیں ملتا ، بالکل غلط ہے ۔ اللہ کی نعمت شریعت محمدیہ ہے جو اس پر چلے گا ، خواہ پیر ہو خواہ مرید ، خواہ بوڑھا ہو ، خواہ جوان ، خواہ جولاھا ہو خواہ پیر زادہ ، خواہ شیخ ہو ، خواہ سید ، خواہ مغل ہو ، خواہ پٹھان اسی کو ملے گی اور یہ بھی جان لو کہ اللہ کی نعمت سے دین کا پورا ہونا اور اللہ کی ہدایت ہونی مراد ہے۔ فی التفسیر النیشا پوری ’’ اتممت علیکم نعمتی ای بذالک الاکمال لانہ لانعمۃ اتم من نعمۃ الاسلام ‘‘ یعنی تفسیر نیشاپوری میں ’’ اتممت علیکم نعمتی ‘‘ کے یہ معنی لکھے ہیں کہ اللہ صاحب نے یوں فرمایا ہے دین کے پورا ہونے سے میں نے اپنی نعمت تم پر پوری کردی ے ، کیونکہ دین کی نعمت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ۔ و فی تفسیر البیضاوی ’’ اتممت علیکم نعمتی بالھدایۃ والتوفیق اوبکمال الدین ‘‘ یعنی تفسیر بیضاوی میں اس آیت کے یہ معنی لکھے ہیں کہ اللہ صاحب نے یوں فرمایا کہ ہدایت اور توفیق دینے اور دین کے پورا کرنے سے میں نے اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور جن پر اللہ صاحب نے اپنی نعمت پوری کی ہے وہ نبی اور ولی ہیں ، کیونکہ سب تفسیر والوں نے الحمد کی تفسیر میں انعمت علیھم کے یہی معنی لکھے ہیں کہ جن کو اللہ نے نعمت دی ہے وہ نبی ہے اور صدیق اور شہید اور ولی ۔ اب اس سے معلوم ہوا کہ شریعت محمدیہ اللہ کی نعمت ہے اورجو اس پر چلتا ہے اس کو یہ نعمت حاصل ہوتی ہے اور جس کو یہ نعمت حاصل ہوتی ہے وہ ولی ہوتا ہے یا صدیق یا شہید ، کچھ پیر و پیر زادہ پر موقوف نہیں۔ اللہ صاحب نے خود بھی فرمایا ہے۔ ’’ ان اولیائہ الا الاالمتقون ‘‘ یعنی نہیں اولیاء اس کے مگر متقی لوگ ۔ ’’ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء ‘‘ یعنی اللہ کی رحمت ہے جس کو چاہے دے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی قول جمیل میں لکھا ہے کہ کوئی یوں نہ جانے کہ ان صوفیاء کے اشغال بغیر خدا ملتا ہی نہیں ، بلکہ صحابہ اور تابعین نے نمازیں پڑھ کر اللہ کے دربار میں عاجزی کر کے اور موت کے یاد رکھ کر اور جن باتوں پر اللہ صاحب نے ثواب کا وعدہ کیا ہے اور جن پر عذاب دینے کا اقرار کیا ہے ان کا دھیان رکھ کر اور اس کے معنوں میں غور کر کر اور جن حدیثوں سے مسلمان کا دل نرم ہوتا ہے ان کو سن کر یہ مرتبے حاصل کیے تھے۔ اے مسلمانوں اب تم اپنے دل میں سوچ لو کہ جو بات حضرت نے اپنے صحابہ کو بتائی اور جس کو بدولت صحابہ اس مرتبے کو پہنچے اس کو اختیار کرنا بہتر ہے یا کسی نئی بات کو ؟ سچی بات سب کو کڑی لگتی ہے ، ان سچی سچی باتوں کو سن کر بعضے لوگ یوں کہیں گے کہ لو صاحب یہ تو پیروں سے پھرے ہوئے ہیں اور معتزلیوں کی سی باتیں کرتے ہیں اور اگلے پیروں پر طعنے مارتے ہیں اور ان کے وظیفوں کو برا جانتے ہیں ۔ نعوذ باللہ منہا یہ ہمارا اعتقاد نہیں ، ہم نہ کسی پر طعنہ مارتے ہیں اور نہ کسی کے وظیفے کو برا جانتے ہیں ، مگر اتنی بات بے شک کہتے ہیں کہ کیسا ہی بڑا پیر ہو اس کی باتیں جو شریعت محمدیہ علیٰ صاجہا الصواۃ والسلام کے موافق ہیں ان کو انپے سر اور آنکھوں پر رکھتے ہیں اور اس شخص کو اپنا سرتاج سمجھتے ہیں اور جو باتیں اس کی شرع کے برخلاف ہیں ان باتوں کو جن مجھی کوڑی کے برابر بھی نہیں جانتے ، کیونکہ ہم تو محمد رسول اللہ کے آگے کسی کا وجود ہی نہیں جانتے ، پھر جو کوئی حضرت کی شریعت کے مخالف کہے گا یا کرے گا ہم تو اس کو غلط ہی سمجھیں گے ، نہ اس کے پیر ہونے کا خیال کریں گے اور نہ پیرزادہ اور نہ اخوند ہونے کا دھیان رکھیں گے اور نہ اخون زادہ ۔ الہٰی تو ہم کو اپنے حبیب کی سنت پر قائم رکھ اور انھی کی سنت کا اتباع نصیب کر اور ہماری زبان سے حق بات نکلوا اور ملامت کرنے والوں کی ملامت سے دہشت نہ دے ، آمین یا رب العالمین ۔ اب تم نے پیر کے معنی تو سمجھے اب مرید ہونے کے معنی سمجھو کہ اگر مرید ہونے سے دنیا گھسیٹنی ہے اور اگر خانقاہ بنا کر ڈنڈوت کروانی ہے ، تو وہ بات تو جدا ہے اور اگر خدا کا ملنا چاہتے ہو تو وہ تو بغیر سنت رسول اللہ کے ملتا ہی نہیں ، پھر دیکھو کہ سنت رسول اللہ میں مرید ہونا پایا جاتا ہے یا نہیں ، اگر پایا جاتا ہو تو اسی طرح مرید ہو جس طرححضرت مرید کرتے تھے ، کچھ زیادتی کمی اپنی طرف سے مت کرو ، کیونکہ میں باتیں سنت ہیں وہ جب ہی تک سنت رہتی ہیں کہ جس طرح حضرت نے کیا ہے ، اسی طرح جوں کا توں سنت سمجھ کر کرے اور اگر اس سے ایک سرمو بھی اختلاف کیا تو وہ حضرت کی سنت نہ رہی ، بلکہ اپنے نفس کی سنت ہو گئی۔اب سنو کہ مرید ہونا ، بیعت کرنے کو کہتے ہیں اور حضرت سے چھ طرح کی بیعت ثابت ہے ۔ ایک بیعت الاسلام ، یعنی مسلمان ہوتے وقت بیعت کرنی۔ ’’عن عمرو بن العاص قال اتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقلت ابسط یمینک لابایعک فبسط یمینہ فقبضت یدی فقال مالک یا عمر و قلت اردب ان اشترط قال فاشترط ماذاقلت ان یغفرلی فقال اماعلمت یا عمرو ان الاسلام یھدم ماکان قبلہ و ان الھجرۃ تہدم ماکان قبلھا و ان الحج یھدم ماکان قبلہ ‘‘ یعنی مشکواۃ شریف کی کتاب الایمانمیں عمرو ابن العاص سے حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا کہ اپنا داھنا ہاتھ بڑھائے ، تاکہ مسلمان ہونے کو آپ کا مرید ہوں۔ جب حضرت اپنا داھنا ہاتھ بڑھا یا تو میں نے ہاتھ کھینچ لیا۔ حضرت نے فرمایا کہ اے عمرو تجھ کو کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط کرنی چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا شرط کرتا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یہ بات چاہتا ہوں کہ میری اگلی باتیں بخشی جاویں ، آپ نے فرمایا کہ ا ے عمرو کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام لانا بے شک پہلی باتوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت اگلی باتوں کو دور کر دیتی ہے اور حج پہلی باتوں کو نیست کر دیتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت کے وقت میں مسلمان ہوتے وقت بیعت ہوتی تھی۔ دوسری بیعت الخلافت ، یعنی جس کو اپنا سردار بنایا اس کے حکم بجا لانے کے بیعت کرنی۔ چنانچہ بخاری شریف میں ایک حدیث موجود ہے جس کا یہ ٹکڑا ہے۔ ’’ فلما اجتمعوا تشھد عبدالرحمن ثم قال المابعد یا علی انی قد نظرت فی امر الناس فلم ارھم یعدلون بعثمان فلا تجعلن علی نفسک سبیلا ۔ فقل ابایعک علیٰ سنۃ اللہ وہ رسولہ وہ الخلیفتین قبایعہ عبدالرحمنٰ و بایعہ الناس و المہا جرون و الانصار و امراء الاجناد والمسلمون ‘‘ یعنی پھر جب سب لوگ اکٹھے ہو گئے تو عبدالرحمن نے خطبہ پڑھا اور پھر کہا کہ اس کے بعد یہ بات ہے کہ اے علی میں نے غور کیا لوگوں کے حال میں پھر میں نے عثمان کے برابر کسی کو نہ دیکھا ، پھر تم بھی انکار مت کرو ، پھر علی نے کہا کہ بیعت کرتا ہوں میں تجھ سے ، یعنی عثمان سے اللہ اور اللہ کے رسول اور دونوں خلیفوں کی سنت پر ۔ پھر بیعت کی ان سے یعنی عثمان سے عبدالرحمن نے اور بیعت کی اور ان سے اور لوگوں نے اور مہاجرین نے اور انصار اور لشکروں کے سرداروں نے اور مسلمانوں نے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کے وقت میں بیعت خلافت کی ہوتی تھی۔ تیسری بیعت الہجرۃ یعنی ہجرت پر بیعت کرنی چوتھی بیعت الجہاد ، یعنی جہاد پر بیعت کرنی۔ ’’ عن مجاشع قال اتیت النبی صلی اللہ علیہ وسم باخی بعد الفتح قال فقلت یا رسول اللہ جئتک با خی لتبنایعہ علی الھجرۃ قال ذھب اھل الھجرۃ بما فیھا فقلت علیٰ ای شئی تبایعہ قال ابایعہ علی الاسلام و الایمان و الجھاد قلقیت ابا معبد بعد و کان اکبر ہما فسالتہ فقال مدق ‘‘ یعنی صحیح بخاری کے باب مقام النبی صلی اللہ علیہ وسلم بمکۃ زمین الفتح میں مجاشع سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ میں پیغمبر خد اصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بھائی کو لایا مکے کی فتح کے بعد ، پھر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ اس سے ہجرت پر بیعت لیں۔ آپ نے فرمایا ہجرت والے گئے اس سمیت جو ہجرت میں تھی ، پھر میں نے عرض کیا کہ کسی چیز پر اس سے آپ بیعت لیویں گے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں اس سے بیعت لوں گا اسلام پر اور ایمان پر اور جہاد پر مجاشع سے جس نے یہ حدیث نقل کی ہے اس نے یہ بھی کہا کہ پھر میں اس کے بعد ابو سعید سے ملا اور وہ ان دونوں میں بڑا تھا۔ پھر میں نے ان سے پوچھا انہوں نے کہا کہ مجاشع نے سچ کہا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت کے وقت میں ہجرت اور جہاد کرنے پر بعیت ہوتی تھی۔ پانچویں بیعت فی الجہاد ، یعنی جہاد میں مضبوط رہنے اور مرجانے پر بیعت کرنی۔ ’’ عن یزید ابن عبید قال قلت لسلمۃ علی ای شیئی بایعہم النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم الحدیبیۃ قال علی الموت ‘‘ یعنی صحیح بخاری میں یزید ابن عبید اللہ سے حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ میں نے سلمہ سے پوچھا کہ تم نے کسی چیز پر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیبیہ کے دن بیعت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مرنے پر ۔ اس حدیث سے معلوم ہو کہ حضرت کے وقت میں جہاد میں مضبوط رہنے اور مرنے پر بیعت ہوتی تھی۔ چھٹے بیعت التمسک بحبل التقویٰ ، یعنی پرہیز گاری کرنے اور شریعت پر چلنے کے لیے بیعت کرنی۔ ’’ عن عبیدہ ابن صامت رضی اللہ عنہ قال بایعنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی اسمع والطاعۃ والمنشط والمکرہ وان لانتنازع الامر اہلہ و ان نقوم او نقول بالحق چیثما کنا لاتخاف فی اللہ لومۃ لائم ‘‘ یعنی صحیح بخاری میں عبیدہ ابن صامت رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ ہم نے بیعت کی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اوپر کہا ماننے اور حکم بجا لانے کے اور مرغوب و نامر غوب پر اور اس پر کہ نہ جھگڑیں گے سردار سے اور کہ جہاں کہیں ہوں حق بات پر قائم رہیں گے اور حق بات کہیں گے ، نہ ڈریں گے اللہ کی راہ میں ملامت کرنے والے ملامت سے ۔ ‘‘ ’’ عن جریر ابن عبد اللہ رضی عنہ قال بایعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی السمع و الطاعۃ فلقانی مااستطعت والنصح لکل مسلم ‘‘ یعنی صحیح بخاری میں جریر ابن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ کہ انہوں نے کہا ہ میں نے بیعت کی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اوپر کہا ماننے اور حکم بجا لانے کے پھر سکھائی مجھ وہ چیز جس کی مجھے طاقت تھی اور ہر مسلمان کے لیے خیر خواہی ۔ ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ حضرت کے وقت میں گناہوں سے بچنے اور سنت پر چلنے اور احکام شرعی کے بج لانے پر بیعت ہوتی تھی۔ یہ چھ طرح کی بیعتیں تو ثابت ہوئیں اور ان سے سوا ساتویں طرح کی کوئی بیعت ثابت نہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی قول جمیل میں انہیں چھ بیعتوں کا ذکر لکھا ہے اور انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ صحابہ اور تابعین کے وقت میں بعضے سببوں سے ان میں سے بھی کوئی بیعت مروج نہ تھ۔ی ایک مدت بعد صوفیہ نے چھٹی قسم کی بیعت کو جاری کیا ہے ۔ اب سمجھ لو کہ گناہوں سے بچنے اور سنت رسول اللہ پر چلنے اور اگلے گناہوں سے توبہ اور استغفار کرنے کے لیے اگر کوئی شخص صرف سنت رسول اللہ سمجھ کر کسی نیک بخت پر ہیز گار لکھے پڑھے عالم آدمی سے بیعت کرے تو کچھ مضائقہ نہیں ، بلکہ سنت و مستحب ہے ، مگر یہ بات کہ ہم فلانے سلسلے میں مرید ہوئے اس کی کچھ اصل نہیں ، کیونکہ یہ بیعت تو دراصل توبہ ہے پھر یہ کہنا کہ ہم نے فلانے فلانے خاندان میں توبہ کی یا فلانے سلسلے میں توبہ کی ، اس کے کچھ معنی نہیں ، ہمارے زمانے میں تو یہ حال ہو گیا ہے کہ مرید ہو کر پیر کو اپنا حمایتی جانتے ہیں اور شجرہ لے کر اس کو معافی کا پروانہ سمجھتے ہیں اور یوں جانتے ہیں کہ ہمارے پیر ہمارے نزع کے وقت میں بھی کام آویں گے اور قبر میں بھی حمایت کو دوڑیں گے اور اڑے کام نکالیں گے ۔ یہ سمجھنا بالکل گمراہی ہے۔ قبر میں اپنے اعمال کے سوا کچھ کام نہیں آتا ، شجر ہ لے جانے سے کیا فائدہ ، اپنا نامۂ اعمال درست کرنا چاہیے جو قبر میں بھی کام آئے اور قبامت میں بھی اور قیامت میں اللہ آپ انصاف کرے گا۔ پھر جب تک اللہ ہی فضل نہ کرے وہاں نہ پیر کی حمایت چلے گی نہ فقیر کی ۔ وہ ایسا برا وقت ہو گا کہ کوئی کسی کی سدھ نہ لے گا ، اپنی نفسی نفسی میں گرفتار ہوں گے ، نہ پیر کو مرید کی خبر رہے گی اور نہ مرید کو پیر کی۔ وہاں یہ نہیں پوچھا جانے کا کہ تو قادریہ خاندان میں مرید ہے یا نقشبند یہ میں ی چشتیہ خاندان کا مرید ہے یا سہروردیہ کا ، وہاں صرف یہ بات پوچھی جاوے گی کہ کہو کیا لایا ، نیکی یا بدی ،متابعت رسول اللہ کی تھی یا نہیں ، پھر اللہ ہی کے فضل سے پیر کا بھی چھٹکارا ہے اور مرید کا بھی ۔ بیت : قدسی ندانم چوں شود سودائے بازار جزا اونقد آمر زش بکف من جنس عصیاں دربغل مطلب ساری تقریر کا اگر تم مرید بھی ہو تو اسی طرح ہو جس طرح رسول اللہ کی سنت میں ثابت ہوا ہے اور اگر ذکر اشغال بھی کرو تو اسی طرح کرو جس طرح کہ حضرت سے ثابت ہوا ہے۔ کوئی بات اپنی طرف سے مت بڑھاؤ ،کیونکہ دین کی بات میں زیادتی کمی کرنی بدعت ہے اور جو بدعت ہے وہ گمراہی ہے۔ خدا کے نام لینے میں بے شک برکت ہے ، مگر وہ برکت جب بھی تک ہے جب تک کہ اللہ کا نام اسی طرح لیا جاوے جس طرح کہ خدا اور خدا کے رسول نے بتایا ہے۔ ’’ فی التاتار خانیہ و الطوالع و قدصح انہ قیل لابن مسعود رضی اللہ عنہ ان قوما اجتمعوا فی المسجد یھالون ویصلون عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ویر قعون اصو اتھم فذھب الیھم ابن مسعود رضی اللہ عنہ وقال ما عہد ناھذا علیٰ عہد رسول اللہ و ما اراکم الا مبتدعین فما زال یذکر ذالک حتیٰ اخرجھم من المسجد و فی لبحر الرائق لان ذکر اللہ تعالیٰ اذا قصدبہ اتخصیص بوقت دون وقت اوبشیئی دون شیئی لم یکن مشروعاً حیث لم یردبہ لانہ خلاف المشروع ‘‘ یعنی تاتار خانیہ اور طوالع میں یہ بات لکھی ہے کہ یہ بات تحقیقی ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ کچھ لوگ مسجد میں جمع ہیں اور لا الہ الا للہ پڑھ رہے ہیں اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسم پر درود بھیج رہے ہیں اور پکار پکار کر پڑھتے ہیں۔ پھر ابن مسعود ان کے پاس گئے اور کہا کہ یہ بات پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں نہ تھی اور میں تم کو نہیں جانتا ، مگر بدعتی اور یہی کہتے رہے ، یہاں تک کہ ان کو مسجد میں سے نکلوا دیا اور بحرالرایق میں لکھا ہے کہ یہ بات اس لیے ہوئی کہ اگر اللہ کی یاد کرنے کو کوئی وقت یا کوئی چیز خاص کی جاوے جو شرع میں نہیں آئی تو وہ جائز نہیں ، کیونکہ خلاف شرع ہے۔ اب خیال کرو کہ کلمہ پڑھنا اور درود بھیجنا کتنے بڑے ثواب کا کام ہے ،مگر جب کہ وہ لوگ اس طرح نہیں پڑھتے تھے جس طرح کہ سنت رسول اللہ میں ثابت ہوا ہے تو حضرت ابن مسعود نے ان کو بدعتی کہا کہ مسجد سے نکال دیا۔ پس اب جتنے ذکر اور اذکار شغل اشغال کے ہیں تین حال سے خالی نہیں ، یا یہ کہ سنت رسول اللہ کے موافق ہیں ، ان کو تو سر آنکھوں پر رکھنا چاہیے ، یا کہ شرع محمدیہ اور سنت مصطفویہ میں اس طرح پر ذکر اور شغل کرنا جائز نہیں ، بلکہ مباح ہے ، تو ان ذکروں کا بھی مضایقہ نہیں ، مگر جو ذکر کہ سنت سے ثابت ہوئے ہیں ان ذکروں کے سامنے ان ذکروں کی اتنی بھی حقیقت نہیں جیسے آفتاب کے آگے ذرہ ، بلکہ جس شخص کو اللہ تعالی نے نور ایمان اور محبت اپنے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم کی دی ہے وہ اس بات کا مزا جانتا ہو گا کہ بدعت کیسی ہی ہو ، حسنہ ہو سیئہ ، اس کا چھوڑنا اور اس سے بیزاری کرنی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم کی سنت پر قائم رہنا اور آپ ہی کی سنت پر چلنا اور کیسی ہی چھوٹی سنت ہو اور اس پر جان دینی دونوں جہان کی نعمت سے اعلیٰ اور اولیٰ اور افضل ہے ، کیونکہ سنت پر چلنے سے تو نور ایمان زیادہ ہوتا ہے اور اللہ کے دربار میں رتبہ بڑھ جاتا ہے اور بدعت کرنے سے ایک سنت اٹھ جاتی ہے۔ پھر فرض کرو کہ اگر بدعت کرنے میں گو وہ حسنہ ہی کیوں نہ ہو ، اگر ہم کو گٹھڑیاں کی گٹھڑیاں چھکڑے بھر بھر کر ثواب ملتا ہو اور سنت پر چلنے سے ایک تل بھر ۔تو ہم کو وہ تل بھر کافی ہے اور وہ بہت سا ثواب درکار نہیں ، حالانکہ یہ بات فرضی ہی نہیں تو ظاہر ہے کہ اگر تمام جہان کے تجن کیے جاویں تو بھی ایک ادنی سنت کے ثواب برابر نہیں ہو سکتا۔ افسوس تم پروانے سے بھی بدتر ہو گئے ، دیکھو وہ شمع کا عاشق ہے اور اس کو آفتاب سے کچھ غرض نہیں ۔ تم تو محمد رسول اللہ کی امت میں ہو ، پھر تم کو بدعت حسنہ اور سیئہ سے کیا کام ، جو حضرت نے کہا اور کیا وھی کرو اور نئی بات سے کچھ غرض نہ رکھو ، خواہ وہ حسنہ ہو خواہ سیئہ ۔ کیا مسلمان ہو کر تمہیں اچھا لگتا ہے کہ رسول اللہ کی سنت تم میں سے اٹھ جاوے ؟ ’’ عن غضیف بن الحادرث الثمال قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما احدث قوم بدعۃ الا رفع مثلھا من السنۃ فتمسک بسنۃ خیر من احداث بدعۃ ‘‘ یعنی مشکواۃ شریف کے باب الاعتصام بالسنہ میں غضیف ابن حارث ثمالی سے حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ فرمایا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے نکالی کسی قوم نے کوئی بدعت ، مگر اٹھاء جاتی ہے ویسی سنت پھر پکڑنا سنت کا بہتر ہے نکالنے بدعت ہے۔ ’’ وعن حسان قال ماابتدع قوم بدعۃ فی دینہم الانزع اللہ من سنتہم مثلھا ثم لایعید ھا الیھم الیٰ یوم القیامۃ ‘‘ یعنی مشکواۃ شریف کے اسی باب میں حسان سے حدیث نقل ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ نہیں نکالی کسی قوم نے اپنیدین میں کوئی بدعت ، مگر چھین لیتا ہے ، اللہ ان سے ویسی ہی سنت ، پھر نہیں ہاتھ لگتی ان کے وہ سنت قیامت تک ، ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جو چیزیں سنت ہیں اگر ان کو چھوڑ کر کوئی نئی بات نکالی جاوے اور فرض کرو کہ وہ بدعت حسنہ ، بلکہ احسن ہی ہو ، مگر ایک سنت رسول اللہ کی اس بدعت سے اٹھ جاتی ہے ، پھر ہم کو یقین نہیں آتا کہ مسلمان ہو کر رسول اللہ کی سنت کے اٹھ جانے پر راضی ہو ، تیسری صورت یہ ہے کہ اس طرح پر ذکر کرنا شرع محمدیہ اور سنت مصطفویہ میں جائز نہیں ،بلکہ بدعت اور ناجائز ہے ، پھر اس طرح پر ذکر کرنا ہرگز نہیں چاہیے ، خواہ اس کے کرنے کو پیر کہے خواہ پیر زادہ اور خواہ اس کے کسی پیر نے کیا ہو یا پیر زادے نے ، ہرگز اس پر کان نہ دھرے اور شیطان وسوسہ جانے ۔ معلوم نہیں کہ لوگوں نے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کسی چیز کی کمی دیکھی کہ نئی بات نکالنے کے محتاج ہوئے ہیں۔ سنت رسول اللہ تو وہ چیز ہے کہ اور اعماس قطع نظر ، اگر صرف ایک نماز ہی پانچوں وقت دل لگا کر او دھیان جما کر اور یوں تصور کر کر کہ یہ اللہ تعالیٰ موجود ہے جس کے سامنے میں نہایت ذلت سے کھڑا ہوں پڑھی جاوے تو ایسا رتبہ اللہ کے دربار میں حاصل ہوتا ہے کہ نہ کسی ذکر سے ہو نہع شغل سے ۔ اسی واسطے بزرگان متقدمین اہل سنت میں سے کسی نے کہا ہے کہ نماز معراج مومنین کی ہے ۔ بیت دو بامداد گرآیدکسے یخدمت شاہ سیوم ہر آئینہ دروے کند بلطف نگاہ فلیف ربی و ہو ارحم الراحمینٰ ، یعنی جب دنیا کے بادشاہوں کا یہ حال ہے کہ اگر دو دن کوئی ان کو سلام کرے تو تیسرے دن اس پر مہربانی کرتے ہیں ،پھر جب انللہ کے دربار میں دل سے اضری کیا کرے گا تو میرا رب کیونکر مہربانی نہ کرے گا۔ وہ تو سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے۔ نہ یہ کہ نماز تو پڑھتے ہیں مسجدمیں اور دھیان ہے صنم جانے میں اوراس پر سنت محمدیہ پر ن م دھرتے ہیں کہ نرا شرع پر چلنے سے ملانے کا ملانا ہی رہ جاتا ہے ، افسوس اس مسلمانی پر ۔ بیت گرمسلمانی ہمیں است کو دارد حافظ واے گراز پس امروز بود فردائے ان باتوں کو سن کر بعضے لوگ یوں کہنے لگتے ہیں کہ اس حضوری ہی کے حاصل کرنے کو تومرید ہوتے ہیں اور فقیروں کے پاس جاتے ہیں اور وہ جوبتاتے ہیں ذکر اشغال کرتے ہیں ، حالانکہ یہ سب سے بڑی نادانی ہے ، کیونکہ یہ بات بھی تو سنت رسول اللہ ہی سے حاصل ہوتی ہے ، کیونکہ جب تم دھیان جما کرسنت طور پر نماز پڑھنی شروع کرو گے ، ایک دن دھیان نہ جمے گا ، دو دن نہ جمے گا ، تیسرے دن خود بخود جمنے لگے گا۔ یہ تو آپ کی بدیا ہے جوکرے گا وہ پاوے گا۔ دیکھو بھٹیارے کا تنور کیسا گرم ہوتا ہے کہ اس کے سامنے ٹھہرا بھی نہیں جاتا ،مگر جب اس کو عادت پڑ جاتی ہے تو وہ بے تکلف اندر ہاتھ ڈال کر روٹیاں لگاتا ہے ۔ جن فقیروں کے خیال میں تم پھنسے ہو وہ بھی تو کرتب ہی کی بات ہے ، کیونکہ جس طرح وہ شغل بتاتے ہیں اگر اسی شرح نہ کرو تو بھی تم کو خاک نہیں ملتا ،پھر تم کو کیا بلا ہو گئی ہے کہ سنت رسول اللہ کو تو چھوڑتے ہو اور نئی بلا میں پھنستے ہو۔ حاصل یہ کہ سنت رسول اللہ کو مت چھوڑو ۔، پیر بھی بنو تو سنت ہی پر بنو اور مرید بھی بنو تو سنت ہی پر بنو۔ بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہو اور جو مطیع سنت رسول اللہ ہو اس کی محبت اختیار کرو کہ تم کوبھی نیک صحبت کی برکت پہنچے اور تم کو بھی اتباع سنت نصیب ہو ، کیونکہ صحبت نیک میں بڑی تاثیر ہے۔ ’’ عن ابی موسیٰ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثل الجلیس الصالع و السوہ کحامل المسک و نافخ الکیر فحال مل المسک امان ان یحذ یک و اما ان تتباع منہ و اما ان تجدمنہ ریحاً طیبۃ ونافخ الکیر اما ان یحرق ثیابک و اما ان تجدمنہ ریحاً خبیثۃ ‘‘ ۔ یعنی بخاری شریف کے باب الصحب فی اللہ وہ من اللہ میں ابی موسیٰ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ انہوں یہ بات کہی کہ فرمایا رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اچھے اور برے آدمی کی صحبت کی مثال عطار کی سی اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے ، پھر عطار یا تو تجھے بھی اس خوشبو میں سے دے گا۔یا تو اس میں سے خریدے گا اس میں سے کچھ خوشبو تجھ کو پہنچ ہی رہے گی اور بھٹی دھوکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلا دے گااور یا تجھ کو بد بو پہنچے گی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحبت نیک عجب چیز ہے ۔ آدمی کو صحبت نیک اختیار کرنی چاہیے اور اگر کوئی صحبت نیک نہ ملے تو پھر حدیث اور قرآن کی صحبت سے بہتر کوئی صحبت نہیں ۔ آدمی دن رات حدیث و قرآن پڑھا کرے اور اس کے معنوں پر غور کرے ،وہ صفائی باطن اور تقرب الی اللہ حاصل ہوتا ہے کہ کسی چیز سے نہیں ہوتا۔ الحمد اللہ کہ تم نے مرید ہونے کے معنی جانے ، اب یہ بھی جان لو کہ مرید کسے کہتے ہیں۔ ’’ عن سفیان ابن عبداللہ الثقفی قال قلت یا رسول اللہ قل لی فی الاسلام قولا لااسال عنہ احداً بعدک و فی روایت غیرک قال قل امنت باللہ ثم اسقم ۔ ‘‘ یعنی مشکواۃ شریف کی کتاب الایمان میں شفیان بن عبداللہ الثقفی سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات ہی کہ میں نے حضرت پیغمبر خد صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں عرض کیا کہ آپ مجھے ایسی بات اسلام کے مقدمے میں فرماویں کہ آپ کے بعد اس کے پوچھنے کی حاجت نہ رہے اور ایک روایت میں ہے کہ اور کسی سے پوچھنا نہ پڑے ، آپ نے فرمایا کہ یوں کہو کہ اللہ پر ایمان لایا میں اور پھر اسی پر قائم رہ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پورا مرید وہی ہے کہ جو اللہ کی راہ پر قائم رہے اور باقی سب زٹل ہے۔ الحمد اللہ اولاً و آخراً والصلوۃ والسلام علی رسولہ ظاہراً باطناً۔ ہماری خط و کتابت میں اصلاح کی ضرورت (تہذیب الاخلاق جلد 7نمبر 9 بابت یکم رمضان 1293ھ) اس مضمون میں سرسید احمد خاں نے خطوط نویسی کے اس قدیم طرز کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو آج سے قریباً ایک صدی پہلے مسلمانوں میں رائج تھا۔ جو نصیحتیں اس مضمون میں سرسید نے خطوط لکھنے والوں کو کی ہیں وہ اس زمانے کے لیے بے شک مفید تھیں ، مگر آج کل کے مسلمان اس قدیم طرز تحریر سے بالکل ناآشنا ہو چکے ہیں ۔ اب تو دیگر بہت سی باتوں کی طرح خط و کتابت میں بھی بالکل انگریزوں کی نقل کی جاتی ہے ، اور پرانی ساری باتیں نسیاً منسیاً ہو گئی ہیں۔ اب نہ کوئی ان سے واقف ہے اور نہ کوئی ان کو استعمال کرتا ہے ، مگر ہاں مسلمانوں کے مذھب پرست طبقے میں بسم اللہ الرحمن الرحیم خطوط کے شروع میں لکھنے کا اب بھی رواج ہے اور بظاہر اس میں کوئی حرج اور نقصان بھی نہیں۔ مسلمان کے لیے حکم ہے کہ ہر کام بسم اللہ شروع کرے۔ خطوط لکھنا بھی ایک کام ہے ، پھر اس کو بسم اللہ سے کیوں نہ شروع کیا جائے ، علاوہ زیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت بھی یہی ہے ۔ حضور جب کسی کو خط لکھواتے تو ضرور بسم اللہ سے شروع کرواتے ، حالانکہ اکثر کافر بادشاہوں کو حضور علیہ ا لسلام نے خطوط لکھوائے ہیں اور ان سے یہ توقع نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ حضور کے خط کی تعظیم کریں گے یا اسے احتیاط اور حفاظت سے رکھیں گے ، اس کے برخلاف شہنشاہ ایران نے تو حضور علیہ السلام کا خط پڑھ کر پھاڑ ڈالا تھا ، مگر اس تجربے کے بعد بھی حضور علیہ السلام برابر خطوط پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھواتے رہے اور یہ خیال نہ فرمایا کہ اس طرح اللہ کے نام کی بے ادبی ہوتی ہے۔ سرسید کا یہ مضمون بطور نصیحت تو اب بیکار ہو گیا ، (کیونکہ اب خطوط نویسی کا طرز ہی بد گیا) مگر ہاں اس لحاظ سے ضرور دلچسپ اور مفید ہے کہ اس سے اس وقت کے طریقہ خطوط نویسی پر روشنی پڑتی ہے ۔ آج کل کے جن نوجوانوں کو اس وقت کی طرز خط و کتابت کا پتہ نہ ہو ان کے لیے یہ ایک معلوماتی مضممون ہے جس سے اس وقت کی خط و کتاب کی طرز کا سارا حال معلوم ہوتا ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) اگر ہم اپنی قوم کے طریقہ خط و کتابت کی درستی پر بھی کچھ لکھیں تو شاید نامناسب نہ ہو گا۔ جس طرح ہماری قوم میں اور بہت سی فضول اور نامناسب باتیں مروج ہیں اسی طرح خط و کتابت کے طریقے میں بھی بہت سی فضول و لغویات شامل ہیں اور ایسی باتیں بھی ہیں جو ہماری سمجھ میں مذھب اسلام کی عمدہ اور پر اثر باتوں کو بے اثر اور کھیل بنا دیتی ہیں۔ جب ہم کسی خط کو پڑھتے ہیں تو اس میں ایک بہت لمبا چوڑا القاب و آداب پاتے ہیں۔ ان دونوں میں صرف شاعرانہ الفاظ ، ثناو صف مکتوب الیہ کے ہوتے ہیں ، جو درحقیقت مکتوب الیہ میں نہیں ہیں ، حالانکہ القاب میں یا تو بیگانہ وار (اگر مکتوب الیہ بیگانہ ہے) کوئی ایسا لفظ ہونا چاہیے جو خطاب کا مشعر اور مخاطب کرنے کے لیے کافی ہو یا اس دلی تعلق یا دیب کو ظاہر کرتاہو جو درحقیقت کاتب کو مکتوب الیہ سے ہو۔ آداب معلوم نہیں کیا لغو چیز ہے ؟ ایشیاء کے امراء اور بادشاہ ہمیشہ اس خیال میں تھے کہ جو ہم سے کمتر ہیں وہ بمنزلہ ہمارے غلاموں کے ہیں اور بدبختی سے وہ لوگ بھی اپنے تئیں ایسا ہی سمجھتے تھے اور ہر قسم اور ہر موقع کی ملاقاتوں اور بات چیت میں دونوں اس خیال کو کبھی بھولتے نہ تھے۔ س سبب سے آپس کی تحریروں میں بھی وہ رسم جاری ہوئی جو خط و کتابت کے لیے زیبا نہیں ہے۔ فضول و بے معنی وقت ضائع ہونے کے سوا آداب کے لفظوں کی رعایت سے دلی مطالب علی الخصوص اس زور یا جوش سے دل میں ہے ادا نہیں ہو سکتے ۔ قوم کے دل میں جو ایک غلامانہ انفعال پڑا ہوا ہے وہ دور نہیں ہو سکتا ۔ ہم کو امید ہے کہ ہمارے اس آرٹیکل کے پڑھنے والے ادب میں اور خطوط میں جو آداب لکھا جاتا ہے اور نیز ادب میں اور غلامانہ اانفعال میں جو فرق ہے اس کو نظر انداز نہ کریں گے ۔ اس کے بعد نہایت شوق و ذوق سے اشتیاق ملاقات لکھا جاتا ہے اور خلوص عقیدت و محبت جتائی جاتی ہے جس کا ایک لفظ بھی صحیح اور واقعی نہیں ہوتا اور اگر صحیح بھی ہو تو اس کو مقدمہ مطالب بنانے سے کیا مطلب ہے۔ اس رسم نے ایسا رواج پایا ہے کہ دوست و دشمن دونوں کے خطوط کی طرز تحریر میں کچھ فرق و امتیاز نہیں رہا ہے۔ خط پڑھنے سے جو الفاظ محبت یا اشتیاق اس میں لکھے ہیں ان کا کچھ بھی اثر دل پر نہیں ہوتا ، بلکہ ایک معمولی تحریر سمجھتی جاتی ے جو دوست دشمن سب کو لکھی جاتی ہے۔ خود پڑھنے والا جانتا ہے کہ میںبھی اس سے زیادہ چکنے چپڑے الفاظ لوگوں کو لکھتا ہوں جن کا کچھ بھی اثر میرے دل میںنہیں ہے۔ ان رسموں نے خط و کتابت کا خط سب سے بڑا نتیجہ ہے اور حالت مفارقت میں محبت و اخلاص کے ازدیاد کا ذریعہ ہے اس کو بالکل خاک میں ملا دیا ہے۔ ہماری قوم کے مقدس لوگوں نے ان دنیاوی تحریرات میں ایک اور مذھبی طرہ لگایا ہے : کوئی خط بسم اللہ الرحمن الرحیم سے خالی نہیں ہوتا۔ بہت سے بزرگ اپنے خطوط کے عنوان پر ’’ مبتملا ‘‘ ، ’’ محمداً ‘‘ ’’ حامد اً ‘‘ ’’ مصلیا ً ‘‘ ’’ مسلماً‘‘ لکھتے ہیں ۔ لفافوں پر ’’ ان شاء اللہ تعالیٰ ‘‘ ’’ بعونہ تعالیٰ ‘‘ ’’ بمنہ و کمال کرمہ ‘‘ تحریر فرماتے ہیں اور جن بزرگوں کا مذاق عمل اعمال کی طرف مائل ہے وہ لفافے پر ’’ حوالہ قطمیر ‘‘ بھی لکھ دیتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ان الفاظ کی تحریر سے ہمارا خط ضرور مکتوب الیہ تک پہنچے گا ، مگر اکثر دیکھتے ہیں کہ ان الفاظ کی کچھ بھی تاثیر نہیں ہوتی۔ ڈاک جن اکثر خط اڑا ہی لے جاتے ہیں۔ جو اس سے بھی ادانی خیال کے لوگ ہیں وہ لفافوں پر چوہتر بردیگراں لکھ دیتے ہیں ، تاکہ کوئی دوسرا شخص ان کے خط کو کھول کر نہ پڑھ لے۔ ہم کو نہایت افسوس ہے کہ لوگوں نے اسلام کے مقدس الفاظ و مضامین کو ایک دل لگی کی بات بنا لیا ہے اور سمجھتے ہیں کہ یہ نہایت دینداری اور خدا پرستی اور نہایت ہی اتقاء اور ٹھیٹ سنت پر چلنے کا کام ہے ، حالانکہ اس سے زیادہ اسلام اور اس کے مقدس الفاظ و مضامین کی بے ادبی نہیں ہو سکتی۔ مسلمانوں کے اسی قسم کے برتاؤ سے اسلام کی برکت اور منزلت ان کے دل میں نہیں رہی۔ بعوض اس کے کہ اسلام کی باتوں سے ان کے دل میں نیکی ، خضوع اور خشوع پیدا ہو سختی اور قساوت پیدا ہوتی ہے۔ وہ بسم اللہ خط پر کھتے ہیں ، مگر ان سے پوچھو کہ لکھتے وقت اس پاک کلام اور مقدس الفاظ کے معافی اور مطلب کا کچھ بھی خیال اور دھیان تمہارے دل میں آتا ہے۔ جس طرح اور لفظ شوقیہ و سخت وسست قلم سے نکلے جاتے ہیں اسی طرح بے خیال بسم الہل بھی لکھ دی ، بلکہ میں نے غلط کہا ، شاید اگر کسی محبوب کو خط لکھا جاتا ہو تو الفاظ شوقیہ و محبت کا کچھ اثر دل میں معلوم ہوتا ہو گا ، کسی کو سخت و سست لکھنے میں بھی دل میں کچھ اثر غصے کا پیدا ہوتا ہو گا، مگر بسم اللہ لکھتے وقت خدا کا دھیان بھی نہں ہوتا ۔ہم نے بڑے بڑے شخصوں کو دیکھا ہے کہ شطرنج کا تماشا دیکھ رہے ہیں اور خط پر حامداً لکھ رہے ہیں ۔ ح ۔ الف لکھا تھا کہ بولے وہ پیادہ مرا ، وہ پیادہ مرا ، پھر میم ۔ دال لکھی اور کہا وہ کشت ، اتنے میں الف لکھا اور بولے وہ مات ۔ غور کرو کہ اس طرح پر مذھبی مقدس الفاظ کا برتاؤ کیا کچھ دل میں نیکی پیدا کر سکتا ہے۔ ہم نے ایسا بھی دیکھا ہے کہ خدمت گار پر خفا ہو رہے ہیں اور گالیاں دے رہے ہیں اور قلم سے خط کے سرے پر بسم اللہ الرحمن الرحیم حامداً و مصلیاً لکھا رہے ہیں ۔ ایک گالی پر بسم اللہ اور دوسری پر حامداً اور تیسرے پر مصلیاً لکھا جا رہا ہے۔ ہم نے ایسے خط بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم حامداً و مصلیاً لکھے دیکھے ہیں جن میں تمام دنیاوی مزخرفات بھرے ہوئے ہیں ان کاموں کے کرنے کے حکم اور صلاحیں مندرج ہیں جو ایماناً ، اخلاقاً ، شرعاً ممنوع و حرام ہیں۔ بعضے خطوں کا یہ فقرہ بھی یاد ہے کہ از دیگر حالات ہم مطلع فرما یند۔ لفظ دیگر کی تشریح ہم نہ کریں گے صرف مولوی کا یہ شعر پڑھ دیں گے : خوشتر آن باشد کہ سردلبراں گفتگو آید درحدیث دیگراں پھر کیا ایسی سنت تحریری بجا لانے سے کچھ ایمان و اسلام کی برکت دل میں بیٹھ سکتی ہے ؟ شاید کہا جاوے کہ یہ تو رند مشربوں کا حال ہو ا ، بزرگ و مقدرس لوگوں کا لکھنا اس طرح پر نہیں ہے۔ غالباً یہ بات صحیح ہو ، مگر تجربے سے ، مشاہدے سے ، عقل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب مذھب کی مقدمس باتوں کو دنیاوی باتوں میں ملا دیا جاتا ہے اور بطور مذھبی تقدس کے اس کو نہیں برتا جاتا تو ان کی کچھ عظمت اور ان کا کچھ اثر دل میں نہیں رہتا۔ انصاف سے کہو کہ وہ لوگ جو رات دن تسبیح ہلاتے پھرتے ہیں اور جہاں بیٹھتے ہیںاللہ اللہ کر رہے ہیں ، دو باتیں کیں اور اللہ اللہ کہہ کر دانے ادھر کے ادھر کر دیے ، تین لغویات منہ سے نکالیں اور اللہم صل پڑھنے لگے۔ رفتہ رفتہ انگلیوں کو وہ مشق ہو گئی کہ وہ کچھ پڑھیں یا نہ پڑھیں یہ دانے ادھر کے ادھر کرتی چلی جاتی ہیں ۔ کیا ایسے برتاؤ س خدا کے نام کی عظمت اور برکت دل میں رہتی ہے ؟ کیا ایسی حالت میں خدا کا نام سنتے ہی خضوع و خشوع دل میں پیدا ہوتا ہے ؟ ہرگز نہیں ، بلکہ ایسے برتاؤ سے خدا نام لینا اور کسی کو بد ذات کہنا دونوں برابر ہو جاتے ہیں ، نہ اس کا کچھ اثر ہوتا ہے نہ اس کا ۔ ہر ایک کام میں خدا سے مدد چاہنااور اس کی طرف سے رجوع کرنا نہایت عمدہ مسئلہ ایمان و اخلاق کا ہے ، مگر یہ ایک فعل قلبی ہے جس کے ساتھ ممکن ہے کہ زبان بھی شریک ہو ، مگر صرف قلم سے لفافے کے سرے پر ان شاء اللہ لکھ دینا چہ معنی دارد ۔ نہایت عمدہ بات ہے کہ خط کے پہنچنے میں بھی خدا پر بھروسا کرو ،اس سے مدد چاہو ، مگر لفافے پر ان شاء اللہ کی چڑیا بنانے سے کیا مطلب ہے؟ میرے ایک دوست نے (جو اس قسم کی رسمیات کے نہایت پابند اور پرانے فیشن اور پرانے خیالات پر نہایت مستحکم ہیں) مجھ سے کہا کہ درحقیقت ایمان کی بات تو یہی ہے کہ جس طرح ہم خط پر مشفق مہربان ایک رسم کے موافق لکھتے ہیں اسی طرح ہم خط پر مشفق مہربان ایک رسم کے موافق لکھتے ہیں اسی طرح ان شاء اللہ بھی لکھ دیتے ہیں۔ جس طرح شہر کا نام لکھا ، پتہ لکھا ، اسی طرح ان شاء اللہ بھی لکھ دیا۔ پس اب غور کرنے کی بات ہے کہ کیا ایسی صورتوں میں اسلام کی برکتیں نصیب ہو سکتی ہیں ؟ یہ اسلام کے کام ہی نہیں ہیں ، یہ تو مثل اوررسمی باتوں کے رسمی کام ہیں۔ غیر مذھب کے لوگ جب ہمارے خطوں کے لفافے دیکھتے ہیں ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا احمق مذھب ہے جو یہ خیال بتلاتا ہے کہ ایسے لفظوں کے لکھنے س خط تلف نہیں ہوتا ، مگر ہم کہتے ہیں ، کہ صاحب مذھب تو احمق نہیں ہے ، مگر لکھنے والے احمق ہیں۔ بعضے دوست ہم سے کہتے ہیں کہ سب صحیح ، مگر مسلمانوں کے خطوط پر ایسے الفاظ ہونے مسلمانی کی نشانی ہے ، مگر ہم نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں کہ جناب ہم ہندوؤں کی طرح خط کے ماتھے پر قشقہ لگا کر اور گلے میںزنار ڈال کر مسلمانی پہچنوانا نہیں چاہتے۔ اگر دل کی آنکھیں اندھی ہیں تو خط پر بسم اللہ کا قشقہ دینے سے کچھ فائدہ نہیں ہے۔ جناب رسول خدا صلعم نے اپنے فرامین پر بسم اللہ لکھی ہو پھر کیا وہ نامے انھی مضامین کے تھے اور انہیں مقاصد کے تھے جن مقاصد و مطالب میں تم اپنی روزانہ خط و کتابت کرتے ہو ؟ اگر کوئی شخص اپنے خطوط پر بسم اللہ لکھنی سنت سمجھتا ہو تو نہایت بے ادب و گستاخ ہے اور کچھ بھی قدر و منزلت سنت کی نہیں جانتا۔ اسی بات کو تو ہم روتے ہیں کہ مسلمان مذھب کو مذھب کی طرح نہیں برتتے ، بلکہ اس کا کھیل بناتے ہیں ۔ یہودیوں کا بھی یہی حال تھا کہ محض ظاہری باتوں کو انہوں نے یہودیت سمجھی تھی اور ان کے ہاں کے علماء و فقہاء جو ربی اور کاھن کہلاتے تھے صرف ظاہری باتوں پر چلتے تھے۔ انہوںنے بھی اپنے ہاں دو فرقے قائم کیے تھے ، ایک صدوقی جیسے سنیوں میں اھل حدیث اور وھابی اور شیعوں میں اخباری ،دوسری فروسی جیسے کہ سنیوں میں فقہی شیعوں میں اصولی۔ یہ دونوں فرقے ذرا ذرا سی باتوں پر بحث کرتے تھے اور اسی کو کمال دینداری جانتے تھے۔ اس بات کی بڑی احتیاط کرتے تھے کہ بکرا اس قدر انگشت لمبی چھری سے تین رگڑوں میں ذبح ہو ، مگر اس بات کی کچھ پروا نہ تھی کہ آیا کہاں سے تھا۔ توریت کو بے طہارت چھونے اور بے لوبان جلائے کھولنے میں بہت احتیاط ہوتی تھی ، مگر اس بات کی کہ اس میں لکھا کیا ہے کچھ پروا نہ تھی۔ مکان پر ، مرسلوں پر ، چھاتی پر آیات توریت کے حروف مقطعات کا نقش لگانا نہایت ایمان اور اتقاء کا کام سمجھتے تھے ،مگر جو بدی سینے میں بھری ہوئی تھی اس کا ذرا بھی خیال نہ تھا ۔ یہی حال بعنیہ ہمارے زمانے کے مقدس لوگوں کا ہے۔ گول عمامہ ، برج کی صورت کا عمامہ ، عرب والوںکے عمامے کی طرف کا عمامہ سرپرباندھے ، شملہ کئی انگل کا چھوٹے ، اس کی تحقیق کیے اور ٹھیک گدی کے پیچھے لٹکائے۔ ریش مبارک مکنگھن پھٹکارے ، قمیص مسبنوں پہنے ، اس پر صدری عربی لگائے اور اس پر عبائے کسروانی ، جس کو بعضی کتابوں میں خسروانی منسوب الیٰ کی خسرو کافر بادشاہ فارس لکھاہے ، زیب تن کیے مسجد یا خانقاہ یا کسی مدرسہ اسلامی میں تشریف رکھتے ہیں ۔ بعضے نہایت سادھا سیادھا دیہاتیوں کا سا لباس اپنی سادگی اورمحض للہیت اور خالص بے تکلفی جتانے کو پہنے ہوئے پھرتے ہیں ، مگر پوچھو تو سہی کہ تمہارے دل بھی کسی لباس پر تکلف یا ملبوس سادہ سے آراستہ ہیں، بجز اس کے کہ مسواک اتنی لمبی ہو اور ڈاڑھی اتنی مٹھی ، پیجامہ اتنا اونچا ہو اور کرتا اتنا نیچا اور کچھ نہیں اور اگر کچھ ہے تو یہ ہے کہ جو کچھ ہم کریں وہ سب ثواب اور جو کچھ دوسرے کرے ۔ وہ سب عذاب قل انخذتم عند اللہ عھداً فلن یخلف اللہ عھدہ ام تقولون علی اللہ مالاتعلمون ۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ ہم کو شایستہ ہونا چاہیے ۔ دنیا کے کاموں کو دنیا کی طرف اور دین کے کاموں کو دین کی طرح برتنا چاہیے۔ دونوں کو خلط ملط کر کے بگاڑنا اور مذھبی باتوں کو دنیاوی باتوں میں گڈ مڈ کر کر غیر مذھب والوں کو ہنسوانا نہیں چاہیے ۔ دنیاوی باتوں کے خطوط پر بسم اللہ نہ لکھنی درحقیقت اللہ کے نام کا ادب کرنا ہے۔ لفافے پر ان شاء اللہ کی چڑیا نہ بنانی دراصل خدا پر بھروسا کرنا ہے۔ واللہ المستعان وعلیہ التکلان ٭……٭……٭……٭ صاف بیانی عام طور پر اخبارات کے ایڈیٹر اور مدیران جرائد کا قاعدہ ہے کہ جو خطوط اورمراسلات ان کی تعریف و توصیف اور ان کے کاموں کی مدح و ستایش میں ناظرین رسالہ یا قاریین اخبار کی طرف سے آتے ہیں ان کو بڑے طمطراق اور شان شائع کرتے ہیں ۔ بعض جرائد میں توہم نے خودستائی کا یہ سلسلہ اس عنوان کے ساتھ شائع ہوتے دیکھا ہے کہ : ’’عالم ہمہ افسانۂ ما دارد و ما ہیچ‘‘ ایسے برخود غلط ایڈیٹروں کے لیے سرسید کا ذیل کا مضمون خاص طور پر اور نہایت توجہ کے ساتھ پڑھنے کے قابل ہے جس میںسرسید اپنے رسالے تہذیب الاخلاق کے ناظرین کو اطلاع دیتے ہیں کہ جو مضمون یا مراسلے خاص طور پر میری ذاتی تعریف میں آئیں گے وہ شائع نہیں ہو سکیں گے ۔ یہ مضمون سرسید کی بلند خیالی ،خود داری اور صف بیانی کی عادت کو نہات نمایاں طور پر ظاہرکرتا ہے اور جو بزرگ سر سید کو ان کے زمانے میں اور بعض لوگ آج بھی نام و نمود کا بندہ اور شہرت کا بھوکا سمجھتے تھے یا سمجھتے ہیں ان کے سامنے نہایت واضح طور پر سر سید کے اخلاص اور اخلاق کو ظاہر کرتا ہے۔ اس مضمون سے یہ بات بھی عمدہ طور پر معلوم ہوتی ہے کہ سر سید اپنے رسالے تہذیب الاخلاق کو مرتب کرنے میںکن کن امور کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے اور یہ کہ بزرگ سید کے دل میںقوم کا حقیقی درد تھا یا جو کچھ وہ کرتا تھا وہ محض بطور ریاء اور دکھاوے کے ہوتا تھا ؟ اگر سر سید کی نیت پر حملہ کرنیوالے اور انہیں بدنام کرنے والے حضرات اب بھی انصاف کے ساتھ غور فرمائیں تو وہ یقینا اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہوں گے۔ (محمداسماعیل پانی پتی) ٭……٭……٭……٭ اطلاع (تہذیب الاخلاق یکم رجب 1290ھ) ہمارے پاس بہت سے خطوط اور مضامین بے نام و نشان آتے ہیں۔ خطوط میں تو بعض سوالات ہوتے ہیں اور کبھی مسائل شرعی پوچھے جاتے ہیں اوریہ درخواست ہوتی ہے کہ تہذیب الاخلاق میں مع جواب چھاپ دیے جائیں اور مضامین بھی جوآتے ہیں وہہماری اورہمارے مدرسۃ العلوم کی حمایت اور ہمارے مخالفین اور ہمارے ذاتی اور افعال سے الزامات مخالفین کی تردید میں ہوتے ہیں اور یہ درخواست ہوتی ہے کہ تہذیب الاخلاق میں چھاپ دیے جائیں ۔ ان سب بزرگوں کا جنہوں نے اس قسم کے خطوط ، خواہ مضامین بھیجے ہیں ، ہم دل سے شکرادا کرتے ہیں اور چونکہ بہ سبب نہ معلوم ہونے نام و نشان کے ہم ان کو جواب نہیں بھیج سکتے ، اس لیے عدم تحریر جواب کا عذر کرتے ہیں۔ باقی رہا ان کا مندرج ہونا تہذیب الاخلاق میں ، اس میں بھی ہم کو چند عذر ہیں ۔ ہمارا دستور نہیںہے کہ کوئی بے نامضمون جوہمارے ذاتی افعال کی حمایت میں ہو ، ہم کو اپنے پرچے تہذیب الاخلاق میں چھاپنا پسند نہیں ہے ، اس لیے کہ ’’ من آنم کہ من دانم ‘‘ جو باتیں ہمارے مخالف ہماری نسبت منسوب کرتے ہیں ہم اس سے زیادہ الزام کے لائق ہیں ۔ فرض کرو کہ وہ باتیں ہم میں نہ ہوں ، مگر اورباتیں ان سے بھی زیادہ بد تر ہم میں موجود ہیں۔ پس ہمارے ذاتی افعال کی حمایت سے کیا فائدہ ہے۔ہماری تو وہی مثال ہے کہ ’’ اونٹ رے اونٹ تیری کون سے کل سیدھی ۔ ‘‘ باقی رہے مسائل شرعی ،اس بات سے ہر کوئی واقف ہے کہ میں ایک جاھل آدمی ہوں ، جس طرح اور عام لوگ شدبد جانتے ہیں ، میں بھی جانتا ہوں ۔ جو لوگ کہ میرے نام کے ساتھ مولوی کا لفظ لکھتے ہیں وہ محض غلطی کرتے ہیں اور غلط صفت میری نسبت لگاتے ہیں۔ ہذا بھتان عظیم ۔ بعض مسائل شرعی کی نسبت جو میںبحث کرتا ہوں ، میری واقفیت یا میرا اجتہاد انہیں مسئلوں پر محدود ہے، ابھی مجہد عام ہونے کا رتبہ میرا نہیں ہوا۔ خدا کا یہ بھی شکر ہے کہ نہ میں مولوی ہوں ، نہ قاضی ، نہ مفتی ،پس میںمسائل شرعی مستفرہ کا جواب نہیں دے سکتا ۔ شرعی مسائل کے جواب دینے کو بہت سے مولوی موجود ہیں۔ علاوہ اس کے ہمارا تہذیب الاخلاق اس لیے موضوع نہیں ہوا ہے کہ ہر قسم کے سوالوں کا جواب اور ہر قسم کے مسائل کی بحث اس میں مندرج ہو ، بلکہ وہ پرچہ ہم نے اپنی دانست میں اپنی قومی تہذیب کے لیے جاری کیا ہے۔ پس جن مسائل مذھبی سے بحث کرنی ہم مناسب سمجھتے ہیں اور اس بحث کو تہذیب قومی سے کچھ تعلق جانتے ہیں اور اس کو مندرج کرتے ہیں اور ایسا ہی مضامین کا حال ہے کہ عام مضامین اس میں مندرج نہیں ہوتے اور مضامین خاص بھی وہی مندرج ہوتے ہیں جن سے اس کے بانوں کی رائے میں لوگوں میںکسی قسم کی تہذیب کی ترقی متصور ہو اور اگر ہم اپنے تئیں عموماً لوگوں کے سوالوں یا استفتاؤں کے جوابوں کے لکھنے پر مصروف کریں تو ہمارا وقت بالکل ضائع ہو جاوے اورہمارے پرچے تہذیب الاخلاق کا جو منشاء ہے وہ باقی نہ رہے۔ پس ہم ان بزرگوں سے جنہوں نے ہمارے پاس ایسے خطوط اورمضامین بھیجے ہیں ، ان کو تہذیب الاخلاق میں مندرج نہ ہونے کی معافی چاہتے ہیں۔ (تہذیب الاخلاق بابت یکم رجب 1290) ٭……٭……٭……٭ افسوس مسلمانوں کے حال پر (تہذیب الاخلاق یکم ربیع الثانی 1291ھ) ناصر الاخبار دھلی نے قسطنطنیہ کے اخبار سے کچھ حال بیت المقدس کے مسلمانوں کا لکھا ہے ، ہم بھی اس کو اپنے پرچے میں نقل کرتے ہیں ، اس مراد سے کہ ہمارے بھائی ہندوستانی کے مسلمان اس پر غور کریں اور اپنی قوم کی بھلائی و بہتری و ترقی کی کوشش کریں۔ دیکھو تمام دنیا کے مسلمانوں کا اور ان کا بھی جو خود مسلمان بادشاہت میں رہتے ہیں تعصب و جہالت و نادانی اور کم فہمی سے کیا حال ہو گیا ہے اور آئندہ کیا حال ہونے والا ہے۔ پس اب کون سی ذلت اور خواری باقی ہے جس کے آنے کی خوشی میں بیٹھے ہو ۔دیکھو خبر دار ہو ، ہوشیار ہو ،جو راہ ہم نے مدرسۃالعلوم قائم کرنے اور مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کی سوچی ہے وھی راہ ان کی بھلائی کی ہے۔ دیکھو اس کی امداد سے غافل نہ ہو ، کوشش کرو اور دل و جان سے اس کے لیے چندہ جمع کرو ۔ دیکھو ہماری ناچیز کوششوں سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ چندہ ہو گیا ہے۔ اگر اور لوگ بھی دل سے کوشش کریں اور باھمی نفاق اور اختلاف کو نکال ڈلیں تو مسلمانوں کے حق میں زیادہ تر مفید ہو گا۔ کیا تعجب کی بات ہے کہ جو کوئی یہ خیال کرے کہ اگر مجوزہ مدرسۃ العلوم قائم نہ ہوا تو سید احمد کو خفت ہو گی۔ سید احمد کو خفت ہو یا نہ ہو ، اس میں کچھ شک نہیں کہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو تو منہ دکھانے کی جگہ نہیں رہنے کی اور یہ بھی ہم اپنی عزیز قوم کو سمجھائے دیتے ہیں کہ اگر یہ تدبیر کارگر نہ ہوئی اور انجام کو نہ پہنچی تویقین جان لینا کہ پھر کبھی مسلمانوں کی بھلائی و بہتری کی توقع نہیں ہونے کی۔ پس یہ اخیر دوا ہے ، خدا کو مانو ، اس کو ہونے دو ۔ اپنی قوم کے حق میں اپنے ہاتھوں کانٹے مت بوؤ۔ اگر مسئلہ مسائل میںبحث ہے یا مخالفت ہے تو ہم سے ،مدرستہ العلوم کو اس سے کیا تعلق ہے۔ گنہگار ہوں تو میں ہوں ، تقصیروار ہوں تو میں ، تمام مسلمانوں نے اور ان کی اولاد نے اور خود تمہاری اولاد نے تمھارا کیا قصور کیا ہے جو مدرسۃ العلوم کی مخالفت سے یا اس میں مدد نہ کرنے سے ان کے ساتھ دشمنی کرتے ہو۔ اس اخبار میں لکھا ہے کہ اس زمانے سے پیشتر شہر قدس میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد تھے اور تین سو ساٹھ سے زیادہ مدرسے تھے۔ چنانچہ اب تک ان کے نشان موجود ہیں اور بزبان حال اس مضمون کے گویا ہیں کہ سوائے خد ا کے سب شیئی کو تغیر و زوال ہے۔ اب اس شہر میں تیس ہزار سے زیادہ باشندے نہیں ہیں جن میں سے اٹھارہ ہزار یہودی اور پانچ ہزارمسلمان ، ایک ہزار کیتھولک اور تین رومی اور مسکربی اور ایک ہزار ارمنی و قبطی اور سریانی و حبشی اور ایک ہزار انگریز پروٹسٹنٹ اور المانی اور اایک ہزار اور مختلف قومیں ہندی اور عجمی ہیں۔ اکثر مکتب یہودی اور نصوانیوں کے ہیں اور مسلمانوں کے مکتب کا پتا بھی نہیں۔ ہاں ایک مکتب رشیدیہ خاص ان کا ہے ، مگر ایسا مکتب ہے کہ جس دن سے وہ مکتب کھلا ہے جس کو سات برس کا عرصہ گزرا ہے کوئی طالب علم اس میں ایسا نہیں نکلا جو عربی لکھنا جانتا ہو ، چہ جائیکہ ترکی فرانسیسی یا اور کوئی زبان بھی جانے ۔ اس واسطے تمام سوداگر اور اھل حرفہ یہودی ہیں یا نصاری ہیں ، لیکن کوئلے والے اور لکڑیوں والے اور ترکاری والے اور مزدور مسلمان ہیں ۔ فاعتبروایااولی الالباب ۔ پس ہم اپنے بھائی ہندوستان کے مسلمانوں سے بمنت عرض کرتے ہیں کہ اس واقعے سے نصیحت پکڑیں اور اپنے بھائی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے جو مدرسۃ العلوم قائم ہونا تجویز ہوا ہے اس کے لیے چندہ فراہم کرنے کی کوشش فرما ویں۔ یہ حال جو لکھا گیا ان مسلمانوں کا تھا جو خاص سلطان روم کی عملداری کے رہنے والے ہیں ، ہندوستان کے مسلمانوں کا حال بھی ایسا ہی ہے یا ایسا ہی ہونے والا ہے۔ میور گزٹ میں پنجاب ریلوے کے ایک ملازم نے ایک واقعہ چھایا تھا جس میں اس مقام پر مرقع تہذیب لکھنؤ سے بعینہ نقل کی جتی ہے۔ اس واقعے کا راقم لکھتا ہے کہ : ’’ میں پنجاب ریلوے کے کارخانے سے متعلق ہوں ، اپنی دنوں دو سو قلیوں کے رکھنے کی ضرورت پڑی۔ کیا عرض کروں جس کثرت سے امیدوار آئے ہیں ۔ یوں تو ہمارے روز بروز دو چر تاک میں لگے رہتے ہیں ، لیکن ان دنوں اس کثرت سے آئے جیسے مسلمان لوگ کہیں نیاز کی روٹیاں تقسیم ہوتی ہوں اور وہاں اوپر تلے گرے پڑتے ہیں ۔ دو سو آدم رکھے بھی گئے ،مگر ابھی تک لوگ اسی طرح چلے آتے ہیں ۔ مفلس قلانچوں کو دھکے دے کر نکلوایا جاتا ہے ،مگر بے غیرت دوسرے روز پھر اسی قدر ان موجود ہوتے ہیں۔ میں خوب غور سے دیکھتا ہوں کہ مسلمان ہی بہت آتے ہیں اور ہندو بہت کم ۔ سید اور حافظ اور ملا اور بعضے لکھے پڑھے خاصے منشی ان قلیوں کی نوکری کرنے کے لیے میرے پاس آئے۔ جو دو سو آدمی ملازم رکھے گئے ہیں ان کا حال بھی سن لیجیے۔دو ثلث مسلمان ہیں اور ایک ثلث ہندو۔ کل شمار میں سید چوتھائی سے زیادہ ہوں گے۔ سوقلی کے کام پر لگائے گئے اور بس لوہار اور اسی مستری کے کام پر ۔ لوہاروں اور مستریوں میں میں نے دیکھا تو بڑی تنخواہ پانے والے فقط دو مسلمان نکلے ورنہ سب ہندو ہیں۔ اس سے زیادہ یہ پایا گیا کہ مسلمان لوگ سوائے ساگ پات بچنے اور رذیل تر روزگار کرنے کے دستکاری کے کاموں میں بھی اور اقوام کے برابر توجہ نہیں کرتے ہیں ۔ میں شہر میں رہتا ہوں ، ہر روز سینکڑوں آوازیں سنتا ہوں کہ بابا سید آل رسول کو للہ ایک روٹی دو۔ میں نے یہ حال آپ کی خدمت میںاس واسطے لکھ بھیجا ہے کہ مسلمان لوگ اسے دیکھ کر ذرا شرمائیں اور اپنی حالت درست کرنے اور اپنے تئیں مرفہ الحال بنانے کے اسباب حاصل کرنے میں ہمہ تن مصروف ہو جاویں۔ کیا غضب ہے کہ آل رسول کہلائیں اور اپنے آپ کو ایسا ذلیل بنائیں۔ رسول خدا کو کیا جواب دیں گے اور اس شریف آل کو جو زکواۃ کا مال اپنے اوپر حرام سمجھتے ہیں (گدائی تو ایک طرف) کیا منہ دکھاویں گے۔ ‘‘ اب ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے پوچھتے ہیں کہ اس سے زیادہ اور بد بختی اور بد قسمتی ہو گی۔ پس آپس کی مخالفت کو چھوڑو اور اپنی قوم کی دست گیری پر یک دل ہو کرمتوجہ ہو۔ کن کن چیزوں میں تہذیب چاہیے ؟ (تہذیب الاخلاق جلد 1 نمبر 6 بابت یکم ذی الحجہ 1287ھ) جبکہ ہم کسی قوم کو تہذیب کی طرف مائل کرتے ہیں تو ہم کو ضرور ہے کہ ہم یہ بھی بتاویں کہ اس قوم کو کن کن چیزوں میں تہذیب کرنی چاہیے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے جو حالات ہیں ان کے لحاظ سے ہمارے خیال میں آتا ہے کہمفصلہ ذیل چیزوں ہیں جن کی تہذیب پر ان کو متوجہ ہونا چاہیے۔ اول ، آزادی ، رائے ، مسلمانوں کی رائے اور ان کے خیالات ہر ایک امر میں تقلید کرتے کرتے اور رسومات کے پابند رہتے رہتے ایسے پست اور پامال گئے ہیں جس کے سبب کسی قسم کی ترقی کی تحریک ان میں نہیں ہوتی۔ پس جب تک کہ رائے کی آزادی ان میں پیدا نہ ہو گی اس وقت تک ان میں تہذیب نہیں آنے کی ۔ دو ،درستی ، عقائد ، مذھبی ، ہندوستان کے مسلمانوں کے عقائد مذھبی جو ان کی کتابوں میں لکھے ہیں وہ اور ہیں اور جو ان کے دلوں میں ہیں اور جن کا ان کویقین بیٹھا ہوا ہے وہ اور ہیں۔ ہزاروں عقائد کو سنت اسلام کے مطابق کرنا اور اسی پر یقین رکھنا تہذیب و شائستگی حاصل کرنے کی اصل جڑ ہے۔ سوئم ، خیالات وافعال مذھبی ۔ ہندوستان ک مسلمانوں میں صدھا خیال اور توہمات ایسے موجود ہیں جن کو وہ عمدہ افعال مذھب سمجھ کر ادا کرتے ہیں ، حالانکہ ان کو مذھب اسلام سے کچھ علاقہ نہیں ہے۔ یا تو وہ خود بدعت ہیں یا رسومات و خیالات کفر و شرک ہیں جو باعث ہمارے نامہذب ہونے کے ہیں۔ پس ہم کو مہذب ہونے کے لیے ان کی تہذیب درکار ہے۔ چھارم ، تدقیق بعض مسائل مذھبی ۔ ہمارے مذھب کے بعض صحیح اور اصلی مسائل ایسے ہیں جن کی پوری پوری تحقیق و تدقیق اب تک نہیں ہوئی اور اگرچہ وہ مسائل فی نفسہ صحیح و درست ہیں الابیان واضح اور تحقیق کامل نہ ہونے کے سبب علوم عقلیہ کے برخلاف اور تہذیب وشائستگی کے مخالف معلوم ہوتے ہیں ، پس ہم کو ان کی تشریح و تفسیر میں تہذیب کرنی چاہیے۔ پنجم ، تصحیح بعض مسائل مذھبی ۔ ہم کچھ شک نہیں کرتے کہ بعض مسائل ایسے بھی ہیں یا یوں کہو کہ بعض ایسے مسائل کا ہونا ممکن ہے جن میں متقدمین نے غلطی کی ہو ، پس ان کو بحث میں لانا اور ایک امر متفح ٹھہرانا ہمارے لیے ضرورہے۔ ان تمام چیزوں کو جو مذھب سے متعلق ہیں ہم نے تہذیب و شائستگی میں اسے لیے داخل کیا ہے کہ قوم کے مہذب ہونے پر مذھب کا بڑا اثر ہوتا ہے ، پس جس قدر جس قوم کے مذھب میں نقص ہے اتنا ہی اس کی پوری تہذیب میں نقصان ہے۔ ششم ، تعلیم اطفال ، مذھب کے بعد جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ تعلیم ہے۔ ہم کو زمانہ گزشتہ اور حال پر نظر کر کر ایک ایسا طریقہ تعلیم معین کرنا چاہیے جس سے علوم دنی اور دنیوی دونوں قسم کی تعلیم کا اعلیٰ درجے تک ہم کو قابو ملے۔ ہفتم ، سامان تعلیم ہمارے لیے صرف طریقہ تعلیم معین کرنا ہی کافی نہ ہو گا ، بلکہ آپس کی مدد اور مجموعی ہمت اورفیاضی سے اس کا سامان بھی مہیا کر دینا ضرور ہو گا۔ ہشتم ، عورتوں کی تعلیم ، کچھ شبہ نہیں ہے کہ قومی تہذیب و شائستگی کے لیے عورتوں کا تعلیم یافتہ ہوتا ضرور ہے۔ پس ہم کو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اور ان کو دستکاری سکھلانے کے لیے کوئی عمدہ بندوبست کرنا چاہیے۔ نہم ، ہنر وفن و حرفہ ، اپنی قوم میں ہر قسم کے ہنر اور صنعت اور فن و حرفہ کو پھیلانا و ترقی دینا قومی تہذیب کے لیے ایک بہت بڑا جزو ہے۔ یہ تمام باتیں وہ تھیں جو مجموعاً و منفرداً ہر شخص سے اور کل قوم سے علاقہ رکھتی تھیں ، اب ان باتوں کا ذکر کرتے ہیں جو ہر ایک شخص کی ذات سے علاقہ رکھتی ہیں ، مگر ان کا اثر کل قوم پر ہوتا ہے اور ہر ایک میں ان باتوں کے ہونے سے قومی تہذیب و شائستگی قرار پاتی ہے۔ دھم ، خود غرضی ۔ سب سے بڑا عیب ہم میں خود غرضی کا ہے اور یہی مقدم سبب قومی ذلت اور نامہذب ہونے کا ہے ۔ ہم میں سے ایک کو ضرور ہے کہ رفاہ عام کا جوش دل میں پیدا کریں اور یقین جانیں کہ خود غرضی سے تمام قوم کی اور اس کے ساتھ اپنی بھی بربادی ہو گی۔ اس مقام پر ہم کو ایک کہانی یاد آئی۔ انسان کے اعضاء میں تکرار ہوئی اور ہر ایک عضونے خود غرضی اختیار کی۔ تھوڑی دیر بعد معدہ بھوک کے مارے۔ چین ہوا۔ پانؤں نے کہا کہ میں کیوں چل کر غذا بہم پہنچاؤں۔ ہاتھوں نے کہا کہ ہم کیوں غذا کو منہ تک پہنچاویں ۔ آنکھوں نے کہا کہ ہم اس میں کی بال مکھی کیوں دیکھیں ۔ ناک نے کہا کہ غذا کا سٹرک بسا بساندا ہونا میں کیوں سونگھوں ۔ منہ نے کہا کہ میں کیو چبا کر حلق میں نگلوں۔ سب آپ آپ چپکے و رہے ۔ دو ایک دن تو جوں توں گزر گئے پھر تو پانؤں لڑکھڑانے لگے ، ہاتھ کانپنے لگے ، منہ ہلا ۔ کی طاقت نہ رہی ، آنکھوں میں اندھیرا آنے لگا ، تب تو گھبرا ۔ کہ یہ کیا ہوا ۔ اس وقت عقل کے پاس گئے۔ اس نے کہا کہ خود غرضی نے تمہارا یہ حال کیا ہے ۔ تم نے جانا کہ دوسرے کے کام سے ہم کو کیا مطلب ہے ، حالانکہ حقیقت میں وہ تمہارا ہی کام تھا اور اس کا نقصان تمہارا ہی نقصان تھا۔ پس جس قوم کے لوگوں میں خود غرضی ہوتی ہے جیسا کہ ہندوستان کے مسلمانوں میںہے تووہ اب آپ اپنے تئیں برباد کرتی ہے۔ یازدھم ، عزت اور غیرت ۔ غیرت اور عزت یہ دونوں آپس میں ایسی ملی ہوئی ہیں کہ کبھی جدا نہیں ہوتیں۔ جس کو عزت ہے اس کو غیرت ہے ، جس کو غیرت ہے اس کوعزت ہے۔ اب مسلمانوں میں ان دونوں چیزوں کی کمی کیا ، بلکہ وہ معدوم ہو گئی ہیں۔ اگرچہ میری اس بات سے لوگ متعجب ہوں گے کہ مسلمان کیونکر ایسے ہیں ، اگر ابھی ان کو کوئی گالی دے ، جان نکال لیں ، مر جائیں پر اپنی شان نہ جانے دں۔ شادی مہمانی میں ہرگز ناک کٹائی نہ ہونے دیں۔ روپیہ قرض لیں اور شادی دھوم سے کریں۔ اگر باوامر گیا ہے تو اس کی فاتحہ اور چہلم کی تودہ بندی میں کبھی دریغ نہ کریں ، پھر کیونکر ان کو اپنی عزت یا غیرت کا خیال نہیں ہے۔ یہ سب باتیں سچ ہیں ، مگر یہ سب شیطانی اور جھوٹی عزت اور غیرت ہے ، جو اصلی اور اخلاقی عزت ہے ہم اس کا ذکر کرتے ہیں۔ کسی کواس بات کی غیرت ہے کہ ہم کو کوئی جھوٹا خیال کرے۔ کس کو اس بات کا خیال ہے کہ ہم آپس میں اور معمولی باتوں میں بھی سچ کی عزت پر بٹا نہ لگائیں۔ کون ہے جو بلحاظ اپنی اخلاقی عزت کے کسی برائی کے فعل سے بشرطیکہاس میں سزائے دنیاوی کا اندیشہ نہ ہو بچ کر اپنے تئیں معزز رکھنا چاہتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ مہذب و شایستہ قوموں میں نہ خدا کے ڈر سے ، بلکہ اپنی عزت کے ڈر سے ان باتوں کا بہت خیال ہے۔ دوازدھ ، ضبط اوقات ، ہماری قومی تہذیب و شائستگی میں اوقات کے منضبط نہ ہونے سے بڑا نقصان پہنچا ہے۔ ہر ایک کواپنے خاص کاموں میں اپنی خاص اوقات کا اور جو کام عام قوم سے متعلق ہیں ان میں تمام قوم کو یکساں اوقات منضبط کرنا چاہیے کہ یہ بھی ایک اصلی اصول قومی تہذیب و شائستگی کا ہ۔ سیزدھم ، اخلاق ،بافعل مدار اخلاق ہم لوگوں میں اس پر رہ گیا ہے کہ جس کسی سے ملے کچھ ہنس کر سلام کیا ، کچھ محبت کی جھوٹی باتیں بنائیں ، دو چار میٹھی میٹھی باتیں سنائیں، کھ اپنی جھوٹی نیازمندی کا اظہار کیا ، کچھ ان کی جھوٹی تعریف کی آؤ بھگت کی اور دل میں کہا کہ خوب الو بنایا۔ جب وہ چلا گیا تو یا تو برا کہنے لگے یا جو باتیں کی تھیں ان کا نقش بر آب کا سا بھی نشان نہ تھا۔ یہ سب باتیں انسان کے دل کو اوراس کے اخلاق کو خراب کر دیتی ہے۔ بلاشبہ ہم کو سب سے جھک کر اور خندہ پیشانی سے ملنا چاہیے ، مگر وہیں تک جہاں تک کہ انسانیت کا مقتضا ہے ، مگر اس کو مکاری کی حدتک نہ پہنچانا چاہیے۔ چہاردھم ، صدق مقال ،یہ تو وہ صفت ہے کہ جو انسان کو قطب و ابدال کے درجے سے بھی بڑھا دیتی ہے ، مگر یہاں ہمارامطلب دنیاوی باتوں میں سچے پن کا ہے۔ ضرور ہے کہ سب لوگ سچ میں عزت سمجھیں ۔ ایک شخص دوسر ے کی بات کو سچ سمجھے ، تاکہ قابل کو قبل کلام اس بات کی غیرت ہو کہ سامع میرے اس قول کو جھوٹ نہ سمجھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے لڑکوں سے خوش طبعی میں کہتے ہیں کہ کیوں جھوٹ بولتا ہے۔ آپس میں ایک دوست دوسرے کو کہتا ہے کہ میاں کیوی جھوٹ بولتے ہو۔ ان باتوں سے جھوٹ کے عیب اور جھوٹ کے طعنے کی غیرت دل سے جاتی رہتی ہے جو بڑا سبب ذلت قومی اور نا مہذب اور ناشایستہ ہونے قوم کا ہوتی ہے۔ پانزدھم ، دوستوں سے راہ و رسم ، ہماری راہ و رسم جو دوستوں ہے ہے اس میں بھی نہایت نقص ہیں۔ ہم آپس میں اس طرح پر نہیں ملتے جیسے انسان انسان سے ملتے ہیں، بلکہ اس طرح پر ملنے ہیں جیسے حیوان آپس میںملتے ہیں۔ ان تمام طریقوں اور قاعدوں پر تہذیب کرنی ایک بڑا امرضروری ہے ۔ شانزدھم ، کلام ،طرز گفتگو اور سیاق کلام بھی جزواعظم تہذیب و شائستگی کا ہے جس کی ہم میں بہت کسر ہے۔ہمارے کلام میں وہ الفاظ جو مہذبانہ گفتگو میں ہوتے ہیں نہایت کم مستعمل ہیں اور اس لیے اس کی اصلاح کی بہت ضرورت ہے ۔ ہفتدھم ، لہجہ ،اس کو بھی تہذیب میںبڑا دخل ہے۔ اکھڑا لہجہ اس قسم کی آواز جس سے شبہ ہو کہ آدمی بولتے ہیں یا جانور لڑتے ہیں ، ناشایستہ ہونے کی نشانی ہے۔ کسی قدر اس پر بھی ہم کو توجہ درکار ہے۔ ھیژدھم ، طریق زندگی ۔ یہ توہمارا ابتر و خراب ہے کہ ہم بے مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ بہت سے جانور ایسے ہیںجن کا طریق زندگی ہمارے طریقہ زندگی سے نہایت عمدہ اور اچھا ہے۔ نوزدھم ، صفائی بدن اور گھر اورلباس سب کی صفائی تہذیب میں داخل ہے۔ انگریزی مثل ہے کہ خدا اور خدا کے بعد صفائی ،مسلمانوں کے ہاں بھی حدیث ہے کہ ’’ الطھور شطر الایمان ‘‘ مگر ہم مسلمان بہت کم اس طرف متوجہ ہیں ، صورت دیکھو تو واہ واہ ، گھر دیکھو تو سبحان اللہ ، اس لیے ہم کو صفائی پر توجہ کرنے کی بھی بڑی ضرورت ہے۔ بسم ، طرز لباس ،لباس کی قطع اور وضع درست ہونی بہت بڑی نشانی تربیت یافتہ ہونے کی ہے۔ دیکھ لو کہ تمام دنیامیں جس قدر و حشیانہ پن کم ہوتا گیا اسی قدر لباس کی درستی ہوتی گئی۔ پس ہم کو اپنے لباس کی طرف متوجہ ہو کر دیکھنا چاہیے کہ کس قسم کی ترمیم کے لائق ہے۔ بست و یکم ، طریق اکل و شرب ،اگر ہم تعصب نہ کریں اور انصاف سے دیکھیں تو ہمارا طریقہ اکل و شرب ایسا ہے کہ جوقومیں ہم سے زیادہ صفائی سے کھاتی ہیں جب وہ ہم کوکھاتے دیکھتی ہیں تو ان کو قے آتی ہے۔ بست و دوم ،تدبیر منزل ،ہماری تدبیر منزل ،یعنی انتظام خانہ داری ایسا ابتر و خراب ہے جس میں نہایت درجے کی اصلاح و ترقی کی حاجت ہے۔ بست و سوم ، رفاہ عورتوں کی حالت میں ۔ غیر قوموں نے ہمارا برتاؤ عورتوں کے ساتھ جیسا کچھ خیال کیا ہے اور لکھا ہے اور اس میں یقینی بہت سی غلطیاں اور غلط فہمیاں ہیں ، مگرجو اصلی حالت عورتوں کی بلاشبہ ترقی کے لائق ہے اور ہمارا برتاؤ عورتوں کے ساتھ بہت سی اصلاح اور تہذیب کا محتاج ہے۔ بست و چہارم ،کثرت ازدواج ، اگرچہ ہندوستان کے مسلمانوں میں کم ہے ، مگر پھر بھی زیاد ہ ہے اور نہایت نالائقی سے اور خدا و خدا کے رسول کے حکم بر خلاف برتا جاتا ہے ۔ یہ ایسی بدخصلت مسلمانوں میں جاری ہے جس کی بدولت اسلام کو شرمندگی و بدنامی ہے۔ بست و پنجم ، غلام ۔ اگرچہ ہندوستانی میں انگریزوں کی بدولت غلامی کی بدرسم موقوف ہو گئی ہے، مگر ہمارے مہذب و شایستہ ہونے کے لیے صرف اس کا موقوف ہونا ہی کافی نہیں ہے ،بلکہ ہمارے دل میں اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ درحقیقت یہ رسم خلاف مسلمانی مذھب کے تھی اور فی نفسہ خراب و نالائق تھی ، اس لیے ہم کواس پر توجہ کرنے کی ضرورت باقی ہے۔ بست و ششم ، رسومات شادی ، جو رسومات شادی کی ہم مسلمانوں میں رائج ہیں ایک بھی ان میں سے مذھب اسلام کی رسم نہیں ہے اور جیسی نالائق اور نامہذب وہ رسمیں ہیں شاید ہی اور کوئی رسم اس سے زیادہ ناشائستہ اور نامہذب ہو گی۔ بست و ہفتم ، رسومات غمی ، اس طرح رسومات غمی کاحال ہے کہ برخلاف مذھب اسلام کے ہم نے نامہذب و ناشائستہ رسمیں اختیار کر لی ہیں۔ خدا رحمت کرے مولوی اسماعیل پر جن کی بدولت بہت سی نامہذب و ناشائستہ رسمیں شادی و غمی کی ہم میں سے چھوٹ گئی ہیں ، مگر ا س پر بھی بہت کچھ باقی ہیں جن کی تہذیب پر ہم کومتوجہ ہونا چاہیے۔ بست و ہشم ، ترقی زراعت ،زراعت کی ترقی اور کاشتکاروں کی حالت کی بہتری قومی ترقی اور تہذیب میں بڑا اثر رکھتی ہے اور اس میں ہم کو بہت کچھ کرنا ہے۔ بست و نہم ،تجارت ،یہ سب سے آخر جزو ہے قومی ترقی اور تہذیب و شائستگی حاصل کرنے کا اورہم مسلمانوں میں سے یہ امر بالکل متروک ہو گیا ہے۔ پس ہم کو اپنی قوم میں اس کا رواج دینا اور عمدہ اصولوں پر اس کو قائم کرنا ایک بہت بڑا امر واسطے تہذیب وشائستگی حاصل کرنے کے ہو گا۔ یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ یہ تمام دنیا کی چیزوں کی ترقی ہم سے کیونکر ہو سکتی ہے ، اس لیے کہ اگر ہم متوجہ ہوں گے اور تہذیب و شائستگی حاصل کرنے پر دل لگاویں گے تو سب کچھ ہم سے ہو سکے گا۔ یہ باتیں ظاہر میں بہت سی معلوم ہوتی ہیں ، لیکن آپس میں ایک دوسرے سے ایک ایسا علاقہ رکھتی ہیں کہ جب ایک بات میں ترقی شروع ہوتی ہے تو ہرایک بات میں از خود ترقی ہوتی جاتی ہے پر کوشش شرط ہے ۔ السعی من والاتمام من اللہ تعالیٰ۔ ٭……٭……٭……٭ اخلاق (تہذیب الاخلاق بابت 15 شوال 1289ھ) مسٹر اڈیسن کا قول ہے کہ مذھب کے دو حصے ہو سکتے ہیں ، ایک اعتقادیات ، دوسرا عملیات ، مسٹر اڈیسن کی غرض اعتقادیات سے صرف وہ مسائل ہیں جو وحی سے معلوم ہوئے ہیں۔ اور جو عقل سے یا کارخانہ قدرت پر غور کرنے سے معلوم نہیں ہو سکتے ، مگرہم کو ان کے اس بیان سے کس قدر اختلاف ہے۔ ہم اعتقادیات ان مسائل کوکہتے ہیں جن کا ہونا عقل و نیچر ، یعنی کارخانہ قدرت کے اصول پر ناممکن نہیں ہے، الا ہم ان دونوں کی بنا پر ان کے ہونے کا یقین نہیں کر سکتے تھے ، وحی نے صرف ان کے ہونے پر جب وہ ہوں ہم کو یقین دلایا ہے یا ان کا ہونا بتلایا ہے۔ ہم نے اس مقام پر حرف تردید کو اس لیے استعمال کیا ہے کہ ہم کو اس بات میں شبہ ہے کہ ان مسائل پرجن کو ہم نے اعتقادیات میں داخل کیا ہے یقین لانا جزو ایمان ہے یا نہیں۔ عملیات میں مسٹر اڈیسن نے ان مسائل کو داخل کیا ہے جن کی عقل و نیچر کے مطابق مذھب نے بھی ہدایت کی ہے۔ پس وہ پہلے حصے کا نام عقائد رکھتے ہیں اور دوسرے حصے کا نام اخلاق ۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ ہم اکثر لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اعتقادیات پر اس قدر خیال کرتے ہیں کہ اخلاق کو بالکل بھول جاتے ہیں اور بعضے اخلاق پر ایسے متوجہ ہوتے ہیں کہ اعتقادیات کا کچھ خیال نہیں کرتے۔ صاحب کمال آدمی کو ان دونوں میں سے کسی بات میں ناقص نہ رہنا چاہیے۔ جولوگ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہرایک سے کیا کیا فائدہ حاصل ہوتاہے وہ دل سے ہمارے اس بیان کی تصدیق کریں گے۔ افسوس ہے کہ اس مقام پر بھی مجھ کو مسٹر اڈیسن سے کچھ تھوڑا سا اختلاف ہے۔ پچھلا حصہ ان کے اس مضمون کا نہایت سچ ہے ، مگر پہلے حصے میں کچھ غلطی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اعتقادیات میں اور عملیات میںجس کو مسٹر اڈیسن خلاق کہتے ہیں کچھ علاقے نہیں ہے۔ انسان اعتقادیاں پر کتنا ہی زیادہ خیال کرے اس کے اخلاق میں کچھ تفاوت نہیں ہو سکات۔ اسی طرح اخلاق پر کیسا ہی متوجہ ہو اس کے اعتقادیات میں کچھ نقصان نہیں آسکتا۔ کیونکہ یہ دونوں کام دو جدا جدا آلوں اور دو جدا جدا شخصوں سے متعلق ہیں ، پہلا ہمارے دل یا ہماری روح اور خد ا سے ، دوسرا ہماری ظاہری حرکات اورجذبات اور انسان سے۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ گو مذھب ، اخلاق اور اعتقاد پر منقسم ہے اور ان دونوں میں خاص خاص خوبیاں ہیں ، مگر اخلاق کو اعتقاد پر اکثر باتوں میں ترجیح ہے : (1 ) کیونکہ اخلاق کی اکثر باتیں نہایت صحیح اور نہایت مضبوط ہیں ، یہاں تکہ اگر اعتقاد بالکل قائم نہ رہے تب بھی وہ باتیں (یعنی اخلاق کے مسائل) بدستور قائم رہتی ہیں۔ (2) جس شخص میں اخلاق ہے اعتقاد نہیں وہ شخص بہ نسبت اس شخص کے جس میں اعتقاد ہے اور اخلاق نہیں انسان کے لیے دنیا میں بہت زیادہ بہتری کر سکتا ہے اور میں اس قدر اور زیادہ کہتا ہوں کہ انسان کے لیے دین اور دنیا دونوں میں بہت زیادہ بھلائی کر سکتا ہے۔ (3) اخلاق انسان کی فطرت کو زیادہ کمال بخشنا ہے ،کیونکہ اس سے دل کو قرار و آسودگی ہوتی ہے ،دل کی جذبات اعتدال پر رہتے ہیں اور ہر ایک انسان کی خوشی کو ترقی ہوتی ہے۔ (4) اخلاق میں ایک نہایت زیادہ فائدہ اعتقاد سے یہ ہے کہ اگر وہ ٹھیک ٹھیک ہوں تو تمام دنیا کی مہذب قومیں اخلاق کے بڑے بڑے اصولوں میں متفق ہوتی ہیں ، گو کہ عقائد میں وہ کیسی ہی مختلف ہوں۔ (5) کفر سے بھی بد اخلاق عمدہ بدتر ہے یا اس مطلب کو یوں کہو کہ اگر لوگوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہ یکہ اک نیک چلن نپٹ جاھل وحشی جس کو خدا کی باتوں کی کچھ خبر بھی نہیں پہنچی نجات پا سکتا ہے ، مگر بد چل معتقد آدمی نجات نہیں پا سکتا۔ (6) اعتقاد کی خوبی اسی میں ہے کہ اس کا اثر اخلاق پر ہوتا ہے۔ اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ اعتقاد کی ، یعنی خدا کے دیے ہوئے مذھب پر ایمان رکھنے کی خوبیاں کیا ہیں تو کیا ہم کو اس بات کی صحت جو ہم نے ابھی بیان کی بخوبی معلوم ہو جاوے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذھب کی خوبیاں ان باتوں میں ہیں جن کو میں بیان کرتا ہوں : 1۔اخلاق کی باتوں کو سمجھتا اور ان کو اعلیٰ درجے پر پہنچانا۔ 2۔ نیک اخلاق پر عمل کرنے کے لیے نئے نئے اورقوی قوی اغراض کو بہم پہنچانا۔ 3 ۔ خدا کی نسبت عمدہ خیالات پیدا کرنا اور اپنے ہم جنسوں سے اچھا برتاؤ کرنا جس سے آپس میں محبت زیادہ ہو اور خود انسان اپنی سچی حالت کو ، کیا بلحاظ اپنے نیچر کی خوبی کے اور کیا بلحاظ اس کی بدی کے بخوبی سمجھے۔ 4۔ برائی کی برائیوں کو ظاہر کرنا۔ 5۔ نجات کے لیے اخلاق کوعام ذریعہ ٹھہرانا۔ مذھب کی خوبیوں کا یہ ایک مختصر بیان ہے ،مگر جولوگ اس قسم کے مباحثوں میں مشغول رہتے ہیں وہ نہایت آسانی سے ان خیالوں کو ترقی دے سکتے ہیں اور مفید نتیجے ان سے نکال سکیت ہیں ، مگر میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ ان سب باتوں کا ظاہرنتیجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اخلاق میں کمال حاصل نہیں کر سکتا جب تک اخلاق کو عیسائی مذھب کا سہارا نہ ہو۔ یہ قول مسٹر اڈیسن کا ہے ، مگر میں یہ کہتا ہوں کہ کوئی اعتقاد یا کوئی مذھب سچا ہو ہی نہیں سکتا جس کا نتیجہ اخلاق کی عمدگی نہ ہو۔ پس اخلاق کو کسی مذھب کا کچھ سہارا درکار نہیں ہے ، بلکہمذھب یا اعتقاد کے سچ سمجھنے کو اخلاق کا سہارا درکار ہے۔ مسٹر اڈیسن اور بھی دو ایک اصول قائم کرتے ہیں جو اس گفتگو سے علاقہ رکھتے ہیں ۔ (1 ) وہ کہتے ہیں کہ ہم کوایسی بات کو اعتقاد کی جڑ نہ قرار دینا چاہیے جس کے اخلاق کو استحکام اور ترقی نہ ہوتی ہو۔ (2) کوئی اعتقاد صحیح بنیاد پر ہو ہی نہیں سکتا جس سے اخلاق خراب یا ان میں تنزل ہوتا ہو۔ یہ دونوں اصول مسٹر اڈیسن کے ایسے عمدہ میں کہ دنیا میں کوئی شخص جس کے دل کی آنکھ خدا نے اندھی نہ کی ہو ان سے انکاری نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد مسٹر اڈیسن انہیں اصلوں پر ایک اور مسئلہ متفرع کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ تمام مشتبہ مقاموں میں ہم کو نہایت غور کرنی چاہیے کہ اگر بالفرض وہ غلط ہو تو اس سے کیا کیا بد نتیجے پیدا ہو سکتے ہیں ، مثلا اپنے ایمان کے مضبوط کرنے اور خیالی ثواب حاصل کرنے کی امنگ میں لوگوں کوتکلیف دینا ،لوگوں کے دلوں میں رنج اور نفرت ، غصہ اور سخت عداوت پیدا کرنا اور جس چیز پر ان کو اعتقاد نہیں ہے زبردستی ان سے قبول کروانا۔ ایسے جذبات میں ہم اسی پر بس نہیں کرتے ، بلکہ ان سب باتوں کے سوا ہم ان کو دنیاکے فائدے اور خوشی سے بھی محروم کرتے ہیں۔ ان کے جسم کو تکلیف دیتے ہیں ، ان کی دولت کو خراب کرتے ہیں ، ان کی ناموریوں کو خاک میں ملاتے ہیں ، ان کے خاندانوں کو برباد کرتے ہیں ، ان کی زندگیوں کوتلخ کر ڈالتے ہیں ، یہاں تک کہ آخر کار ان کو مار ڈالتے ہیں ۔ پس جب کسی مسئلے سے ایسے بد نتیجے نکلیں تو مجھ کو اس مسئلے کمشکوک ہونے میں کچھ شبہ نہیں رہتا جیسے کہ علم حساب میں دو اور دو چار ہونے میں کچھ شبہ نہیں ہونا ۔ پس ایسے مسئلے کو اپنے مذھب کی بنیاد نہیں ٹھہرا سکتا اور نہ اس پر عمل کر سکتا ہوں۔ اس قسم کے معاملات میں ہم صریح اپنے ہم جنسوں کو ضرور پہنچاتے ہیں اور جس مسئلے سے ہم ایسے کرتے ہیں بلاشبہ وہ مشکوک اور قابل اعتراض ہے ،اخلاق اس سے بالکل خراب ہو جاتے ہیں۔ یہ مضمون مسٹر اڈیسن کا غالباً عیسائی مذھب کے اس زمانے پر اشارہ ہے جبکہ رومن کیتھلک اور پروٹسٹنٹ فرقے میں دشمنی کی آگ بھڑک رہی تھی اور مرد اور عورت و بچے مذھب نہ ماننے پر آگ میں جلائے جاتے تھے اور نہایت بد بخت خوں ریزیاں جو درحقیقت کرشچاٹی کے بالکل برخلاف تھیں ہو رہی تھیں۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے مذھب میں بھی ایسا ہی خونخوار امن اور اخلاق کے برخلاف جہاں کا مسئلہ ہے ۔ اگر وہ مسئلہ درحقیقت ایسا ہی ہو جیسا کہ بعض یا اکثر حقیقت تک نہ پہنچنے والے یا خود غرض لوگوں نے سمجھا ہے یا اکثر ظالم و مکار مسلمان حکمرانوں نے برتا ہے تو اس کے اخلاق کے برخلاف ہونے میں کون شبہ کر سکتا ہے ، مگر ہمارا اعتقاد یہ نہیں ہے ،بلکہ جو حقیقت جہاد کی در حقیقت مذھب اسلام کی رو سے ہے وہ اخلاق کے برخلاف نہیں ہے۔ اس میںکسی قسم کا جبریا کسی کے مذھب کو بجبر چھڑانا یا مذھب کے لیے کسی کا خون بہانا مطلق نہیں ہے ۔ وہ صرف نیشنل لا پر ، یعنی اس قانون پر جو مختلف قوموں کو آپس میں برتنا چاہیے مبنی ہے اورجو آج کل مہذب سے مہذب قوموں میں جاری ہے۔ اس مسئلے کا ذکر ہم نے اپنی متعدد تصنیفات میں کیا ہے اور امید ہے کہ کبھی اس مضمون پر کوئی تحریر اس پرچے میں بھی چھاپیں گے۔ مسٹر اڈیسن اپنے اس مضمون کو کسی مصنف کے نہایت عمدہ اور دل میں اثر کرنے والے کلام پرختم کرتے ہیں اور وہ کلام یہ ہے ’’ آپس میں نفرت پیدا کرنے کو تو ہمارے لیے مذھب کافی ہے ، مگر ایک دوسرے میں محبت پیدا کرنے کے لیے کافی نہیں ۔‘‘ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ جو برتاؤ مذھبوں کا اس زمانے میں ہے وہ ایسا ہی ہے اور مسلمانوں کا برتاؤ سب سے زیادہ برا ہے ،مگر سچے مذھب کا ، یعنی اسلام کا سچا مسئلہ یہ ہے کہ ’’ خدا کو ایک جاننا اور انسان کو اپنا بھائی سمجھنا ‘‘ پس جو کوئی اس مسئلے کے برخلاف ہے وہ غلطی پر ہے۔ ٭……٭……٭……٭ وحشیانہ نیکی (تہذیب الاخلاق بابت 15 شوال 1289ھ) انسان وحشیانہ طور پر ایک نیک کام کرتا ہے اور جو کہ وہ اصل میں نیک ہوتا ہے لوگوں کے دل میں بیٹھ جاتا ہے اور اس وحشیانہ پنے کی برائی جس وحشیانہ پن سے وہ کام ہوا آنکھوں سے چھپ جاتی ہے ، مگر عمدہ تعلیم میں یہ اثر ہے کہ ان وحشیانہ حرکتوں کو چھڑا دیتی ہے اور صرف نیکی رہ جاتی ہے۔ نقل ہے کہ ایک شخص کے پاس دو حبشی لڑکے تھے ، جوان ، نو عمر اور اپنی قسم کے لوگوں میں نہایت حسین اور خوبصورت اور آپس میں دونوں کے جانی دوستی اور دلی محبت تھی۔ اسی شخص کے پاس ایک حبشن نو عمر لڑکی بھی تھی جو اس قوم میں نہایت ہی خوبصورت سمجھی جاتی تھی۔ اتفاقاً وہ دونوں کا مزاج بھی اچھا تھا اور ہم عمر بھی تھے ، وہ لڑکی دونوں میں سے جس کے ساتھ شادی ہو راضی تھی ، مگر اس نے یہ کہا کہ تم دونوں دوست آپس میں اس بات کا تصفیہ کر لو کہ دونوں میں سے کس کے ساتھ شادی ہو ۔دونوں لڑکے دل و جان سے اس پر عاشق تھے ، عشق اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ ایک تو اس سے شادی کر لے اور دوسرا محروم رہے ۔ اور دوستی بھی ان میں ایسی سچی تھی کہ ایک کو دوسرے کا رنج دیا اور بغیر آپس ک صلاح اور بغیر آپس کی خوشی کے دونوں میں سے کسی کو شادی کرلینا پسند نہ تھا۔ آخر کار عشق اور دوستی میں جھگڑا ہوا ۔ وہ چاہتا تھا کہ میں غالب آؤں اوروہ چاہتی تھی۔ کہ میں فتح پاؤں ، مگر کوئی جیت نہ سکا ، دونوں برابر رہے۔ تب وہ دونوں لڑکے اپنی معشوقہ کو ایک دن جنگل میں لے گئے اور دونوں نے اس کو چھری مار کرمار ڈالا اور جب اس کا خون بہنے لگا تو دونوں اسے چاٹنے لگے ۔ دونوں نے مردہ لاش کو خوب گلے لگایا اور دلی محبت سے اس کی دلفریب گالوں کا بے تحاشا بوسہ لیا اور پھر اس کی لاش کے گرد بیٹھ کر رونے اور پٹنے لگے ، خوب ماتم کیا ، خوب چھاتی پیٹی اور پھر دونوں نے اپنے تئیں بھی مار ڈالا۔ اس عجیب واقعے سے انسان کے دل کے جوشوں کی جو تعلیم و تربیت سے شائستہ نہیں ہوئیں عیب و غریب حالتیں معلوم ہوتی ہیں۔ جو واقعہ کہ میں نے ابھی بیان کیا وہ حیرت اور گناہ سے بالکل بھرا ہوا ہے تو بھی ایسے نیک دل اور دلی ایمانداری سے سرزد ہوا ہے کہ اگر اس کی عمدہ طور پر تعلیم و تربیت ہوتی تو اس سے نہایت عمدہ عمدہ نتیجے حاصل ہوتے۔ انسان کا ایسے ملک میں پیدا ہونا یا وہاں جا کر رہنا اور تربیت پانا جہاں تعلیم و تربیت کا چرچا ہو اور علم و شائستگی پھیلی ہوئی ہو نہایت خوش قسمتی کی بات ہے۔ گو ان ملکوں میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ان حبشی لڑکوں سے کچھ بہتر نہیں ہوتے ، مگر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو تعلیم و تربیت کے بے شمار فائدے حاصل ہوتے ہیں اور مختلف درجے کا اس میںکمال رکھتے ہیں ۔ شائستہ ملک کی مثال صورت بنانے والے سنگ تراش کے کارخانے کی سی ہے کہ جب آدمی وہاں جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ ابھی تو کوئی پتھر اسی طرح ڈھوئے کا ڈھوا ہی رکھا ہوا ہے اور کسی میں صرف ابھی ٹانگیں ہی بنی ہیں اور کسی میں ہاتھ پانؤں منہ سب کٹ چکا ، مگر ابھی ان گھڑ ہے اور کسی میں انسان کے تمام اعضا درستی سے بن چکے ہیں ،مگر صاف ہونے اور جلا ہونے باقی ہیں اور کوئی مورت نہایت خوبصورت اور دلربا بالکل بن کر تیار ہو چکی ہے ۔ اس وقت انسان کے دل میں ضرور یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ پتھر کا ڈھوا کہاں تک ترقی پا سکتا ہے اور ہر ایک ان گھڑ صورت سوائے شاذ و نادر کے آذر سے بت تراش کے ہاتھ سے نہایت خوبصورت یا قریب قریب خوبصورت کے ہو سکتی ہے۔ نامہذب ملک کی مثال منڈے پہاڑوں کی سی ہے جہاں بجز پتھر کے ڈھوؤں کے اور کچھ نظر نہیں آتا ۔ کوئی مثال ایسی نظر نہیں آتی جس سے انسان کویہ خیال ہو کہ وہ کہاں تک ترقی کر سکتا ہے اور اس میں کا چیز نہیں ہے جو وہ اب تک ان گھڑ پتھر کی مانند ہے ۔ جو نیکیاں خود اس میں ہیں ان سے بھی وہ ناواقف ہے ،کیونکہ وہ نیکیاں مثل پتھرکے ڈھوئے کے اس کے جگر میں چھپی ہوئی ہیں اور بے تعلیم و تربیت کے وہ ظاہر نہیں ہو سکتیں۔ یہی خیالات مجھ کو اس بات پر برانگیختہ کرتے ہیں کہ میں اپنی قوم کومہذب قوم سے ملنے اور شائستہ ملک میں جانے کی ترغیب کرتا ہوں اور اس خیال سے ہمیشہ رنج میں رہتا ہوں کہ ہماری قوم میںجس قدر نیکیاں ہیں وہ بھی نامہذب ہیں ۔ دنیاوی برتاؤ ، آپس کا ملاپ ، دوستوں کی دوستی ،ح دینداروں ک دینداری ، امیروں کی امیری نہایت نا شائستہ اور نامہذب طور پر واقع ہوئی ہے ، اگر وہ عمدہ تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو جاوے تو انسان کے لیے اس زندگی میں اور آنے والی زندگی میں دونوں میں نہایت ہی مفید ہو۔ ٭……٭……٭……٭ کاھلی تہذیب الاخلاق جلد 3 بابت 10 محرم 1289ھ) یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنی سمجھنے میں لوگ غلطی کرتے ہیں ۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنا ، کام کاج محنت مزدوری میں چسبتی نہ کرنا ، اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے میں سبتی کرنا کا ھلی ہے، مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ دلی قوی کو بیکار چھوڑ دینا سب سے بڑی کاھلی ہے۔ ہاتھ پاؤں کی محنت اوقات بسر کرنے اور روٹی کما کر کھانے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ روٹی پیدا کرنا اور پیٹ بھرنا ایک ایسی چیز ہے کہ بمجبوری اس کے لیے محنت کی جاتی ہے اور ہاتھ پاؤں کی کاھلی چھوڑی جاتی ہے اور اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ محنت مزدوری کرنے والے لوگ اور وہ جو کہ اپنی روزانہ محنت سے اپنی بسر اوقات کا سامان مہیا کرتے ہیں بہت کم کاھل ہوتے ہیں۔ محنت کرنا اور سخت سخت کاموں میں ہرروز لگے رہنا گویا ان کی طبیعت ثانی ہو جاتی ہے ، مگر جن لوگوں کو ان باتوں کی حاجت نہیں ہے وہ اپنی دلی قوی کا بیکار چھوڑ کر بڑے کاھل اور بالکل حیوان صفت ہوجاتے ہیں۔ یہ سچ کہ لوگ پڑھتے ہیں کہ پڑھنے میں ترقی بھی کرتے ہیں اور ہزار پڑھے لکھوں میں سے شاید ایک کو ایسا موقع ملتا ہو گا کہ اپنی تعلیم کو اور اپنی عقل کو ضرورتاً کام میں لاوے ، لیکن اگر انسان ان عارضی ضرورتوں کا منتظر رہے اور اپنے دلی قوی کا بیکار ڈال دے تو وہ نہایت سخت کاھل اور وحشی ہو جاتا ہے۔ انسان بھی مثل اور حیوانوں کے ایک حیوان ہے جب کہ اس کے دلی قوی کی تحریک سست ہو جاتی ہے اور کام میں نہیں لائی جاتی تووہ اپنی حیوانی خصلت میں پڑ جاتا ہے اور جسمانی باتوں میں مشغول ہو جاتا ہے اور انسانی صفت کو کھو کر پورا حیوان بن جاتا ہے۔ پس ہر ایک انسان پر لازم ہے کہ اپنے اندرونی قوی کو زندہ رکھنے کی کوشش میں رہے اور ان کو بیکار نہ چھوڑے۔ ایک ایسے شخص کی حالت کو خیال کرو جس کی آمدنی اس کے اخراجات کو مناسب ہو اور اس کے حاصل کرنے میں اس کو چنداں محنت و مشقت کرنی نہ پڑے جیسا کہ ہمارے ہندوستان میں ملکیوں اور لاخراج داروں کا حال تھا ، اور وہ اپنے دلی قوی کو بھی بے کار ڈال دے تو اس کا حال کیا ہو گا۔ یہی ہو گا کہ اس کے عام شوق و حشیانہ باتوں کی طرف مائل ہوتے جاویں گے۔ شراب پینا اور مزے دار کھانا اس کو پسند ہو گا ، قمار بازی اور تماش بینی کا عادی ہو گا اور یہی سب باتیں اس کے وحشی بھائیوں میں بھی ہوتی ہیں ، البتہ اتنا فرق ہوتا ہے کہ وہ پہواڑ بد سلیقہ و حشی ہوتے ہیں اور یہ ایک وضع دار وحشی ہوتا ہے۔ شراب پی کر پلنگ پر پڑے رہنا اور پیچوان کے دھوئیں اڑانا اس کو پسند ہوتا ہے اور جنگل کے ریت پر پڑے رہنا اور ناریل میں تمبا کو کے دھوئیں اڑانا اس کو پسند ہوتا ہے ۔ پس پیچوان اور ناریل اور بچھونے اور ریت کے فرق سے کچھ مشابہت میں جو ان دونوں ہے کمی نہیں ہوتی۔ ہم قبول کرتے ہیں کہ ہندوستان میں ہندوستانیوں کے لیے ایسے کام بہت کم ہیں جن میں ان کو قوائے دلی اور قوت عقلی کو کام میں لانے کا موقع ملے اور برخلاف اس کے اور ولایتوں میں اور خصوصا انگلستان میں وھاں کے لوگوں کے لیے ایسے موقعے بہت ہیں اور اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ اگر انگریزوں کو بھی کوش اور محنت کی ضرورت اور اس کا شوق نہ رہے جیسا کہ اب ہے تو وہ بھی بہت جلد و حشت پنے کی حالت کو پہنچ جاویں گے ، مگر ہم اپنے ہم وطنوں سے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جو ہم کو اپنے ہم وطنوں سے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جو ہم کو اپنے قوائے دلی اور قوت عقلی کو کام میں لانے کا موقع نہیں رہاہے اس کا بھی سبب یہی ہے کہ ہم نے کاھلی اختیار کی ہے ، یعنی اپنے دلی قوی کو بے کار چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم کو قوائے قلبی اور قوت عقلی کے کام میں لانے کا موقع نہیں ہے تو ہم کو اسی کی فکر اور کوشش چاہیی کہ وہ موقع کیونکر حاصل ہو۔ اگر اس کے حاصل کرنے میں ہمارا کچھ قصور ہے تو اس کی فکر اور کوشش چاہیے کہ وہ قصور کیونکر رفع ہو ۔غرض کہ کسی شخص کے دل کو بے کار پڑا رہنا نہ چاہیے، کسی نہ کسی بات کی فکر و کوشش میں مصروف رہنا لازم ہے ، تاکہ ہم کو اپنی تمام ضروریات کے انجام کرنے کی فکر اور مستعدی رہے اور جب تک ہماری قوم سے کاھلی ، یعنی دل کو بے کار پڑا رکھنا نہ چھوٹے گا اس وقت تک ہم کو اپنی قوم کی بہتری کی توقع کچھ نہیں ہے ۔ نہایت حکیمانہ قول ہے کہ : بے کار مباش کچھ کیا کہ گر کر نہ کسے تو تو کچھ کہا کہ ٭……٭……٭……٭ خوشامد (تہذیب الاخلاق بابت یکم ذی الحجہ ۔ 1289ھ) دل کی جس قدر بیماریاں ہیں ان میں سب سے زیادہ مہلک خوشامد کا اچھا لگنا ہے۔ جس وقت کہ انسان کے بدن میں ایسا مادہ پیدا ہوجاتا ہے۔ جو وبائی ہوا کے اثر کو جلد قبول کرلیتا ہے تو اسی وقت انسان مرض مہلک میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جبکہ خوشامد کے اچھا لگنے کی بیماری انسان کو لگ جاتی ہے تو اس کے دل میں ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو ہمیشہ زہریلی باتوں کے زہر کو چوس لینے کی خواہش رکھتا ہے ۔ جس طرح کہ خوش گلو گانے والے کا راگ اور خوش آیند باجے کی آواز انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے اسی طرح خوشامد بھی انسان کے دل کو ایسا ہی پگھلا دیتی ہے کہ ہر ایک کانٹے کے چبھنے کی جگہ اس میں ہو جاتی ہے۔ اول اول یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی آپ خوشامد کرتے ہیں اور اپنی ہر ایک چیز کو اچھا سمجھتے ہیں اور آپ ہی آپ اپنی خوشامد کر کر اپنے دل کو خوش کرتے ہیں ، پھر رفتہ رفتہ اوروں کی خوشامد ہم میں اثر کرنے لگتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اول تو خود ہم کو اپنی محبت پیدا ہوتی ہے پھر یہی محبت ہم سے باغی ہو جاتی ہے اور ہمارے بیرونی دشمنوں سے جا ملتی ہے اور جو محبت و مہربانی ہم خود اپنے ساتھ کرتے تھے وہ ہم خوشامدیوں کے ساتھ کرنے لگتے ہیں اور وھی ہماری محبت ہم کو یہ بتلاتی ہے کہ ان خوشامدیوں پر مہربانی کرنا نہایت حق اور انصاف ہے جو ہماری باتوں کو ایسا سمجھتے ہیں اور ان کی اس قدر قدر کرتے ہیں ۔ جبکہ ہمارا دل ایسا نرم ہو جاتا ہے اور اس قسم کے پھسلاوے اور فریب میں آجاتا ہے تو ہماری عقل خوشامدیوں کے مکروفریب سے اندھی ہو جاتی ہے اور وہ مکروفریب ہماری بیمار طبیعت پر بالکل غالب آجاتا ہے۔ لیکن اگر ہر شخص کو یہ بات معلوم ہو جاوے کہ خوشامد کا شوق کیسے نالائق اور کمینے سببوں سے پیدا ہوتا ہے تو یقینی خوشامد کی خواہش کرنے والا شخص بھی ویسا ہی نالائق اور کمینہ متصور ہونے لگے گا۔ جبکہ ہم کو کسی ایسی وصف کا شوق پیدا ہوتا ہے جو ہم میں نہیں ہے یا ہم ایسے بننا چاہتے ہیں جیسے کہ درحقیقت ہم نہیں ہیں تب ہم اپنے تئیں خوشامدیوں کے حوالے کرتے ہیں جو اوروں کے اوصاف اور اوروں کی خوبیاں ہم میں لگانے لگتے ہیں۔ گو بسبب اس کمینے شوق کے اس خوشامدی کی باتیں ہم کو اچھی لگتی ہوں ، مگر در حقیقت وہ ہم کو ایسی ہی بدزیب ہیں جیسے کہ دوسروں کے کپڑے جو ہمارے بدن ہیں جیسے کہ دوسروں کے کپڑے جو ہمارے بدن پر کسی طرح ٹھیک نہیں۔ اس بات سے کہ ہم اپنی حقیقت کو چھوڑ کر دوسرے کے اوصاف اپنے میں سمجھنے لگیں یہ بات نہایت عمدہ ہے کہ ہم خود اپنی حقیقت کو درست کریں اور سچ مچ وہ اوصاف خود اپنے میں پیدا کریں اور بعوض جھوٹی نقل بننے کے خوکد ایک اچھی اصل ہو جاویں ، کیونکہ ہر قسم کی طبیعتیں جو انسان رکھتے ہیں اپنے اپنے موقع پر مفید ہو سکتی ہیں۔ ایک نیز مزاج اور چست چالاک آدمی اپنے موقع پر ایسا ہی مفید ہوتا ہے جیسے کہ ایک روتی صورت کا چپ چاپ آدمی اپنے موقع پر۔ خودی جو انسان کو برباد کرنے والی چیز ہے جب چپ چاپ سوئی ہوئی ہوتی ہے توخوشامد اس کو جگاتی اور ابھارتی ہے اور جس کی خوشامد کی جاتی ہے اس میں چھچورے پن کی کافی لیاقت پیدا کردیتی ہے ، مگر یہ بات بخوبی یاد رکھنی چاہیے کہ جس طرح خوشامد ایک بدتر چیز ہے اسی طرح مناسب اور سچی تعریف کرنا نہایت عمدہ اور بہت ہی خوب چیز ہے۔ جس طرح کہ لائق شاعر دوسروں کی تعریف کرتے ہیں کہ ان اشعار سے ان لوگوں کا نام باقی رہتا ہے جن کی وہ تعریفی کرتے ہیں اور شاعری کی خوبی سے خود ان شاعروں کا نام بھی دنیا میں باقی رہتا ہے ، دونوں شخص خوش ہوتے ہیں ۔ ایک اپنی لیاقت کے سبب سے اور دوسرا اس لیاقت کو تمیز کرنے کے سبب سے ، مگر لیاقت شاعری کی یہ ہے کہ وہ نہایت بڑے استاد مصور کی مانند ہو کہ وہ اصل صورت اور رنگ اور خال خط کو بھی قائم رکھتا ہے اور پھر بھی تصویر ایسی بناتا ہے کہ خوش نما معلوم ہو۔ ایشیا کے شاعروں میں ایک بڑا نقص یہی ہے کہ وہ اس بات کا خیال نہیں رکھتے ، بلکہ جس کی تعریف کرتے ہیں اس کے اوصاف ایسے جھوٹے اور ناممکن بیان کرتے ہیں جن کے سبب سے وہ تعریف تعریف نہیں رہتی ، بلکہ فرضی خیالات ہو جاتے ہیں۔ ناموری کی مثال نہایت عمدہ خوشبو کی ہے جب ہوشیاری اور سچائی سے ہماری واجب تعریف ہوتی ہے تو اس کا ویسا ہی اثر ہوتا ہے جیسے عمدہ خوشبو کا ، مگر جب کسی کمزور دماغ میں زبردستی سے وہ خوشبو ٹھونس دی جاتی ہے تو ایک تیزبو کی مانند دماغ کو پریشان کر دیتی ہے ۔ فیاض آدمی کو بدنامی اور نیک نامی کا زیادہ خیال ہوتا ہے اور عالی ہمت طبیعت کو مناسب عزت اور تعریف سے ایسی ہی تقویت ہوتی ہے جیسے کہ غفلت اور حقارت سے پست ہمتی ہوتی ہے۔ جو لوگ کہ عوام کے درجے سے اوپر ہیں انہی لوگوں پر اس کا زیادہ اثر ہوتا ہے جیسے کہ تھرمامیٹر میں وھی حصہ موسم کا زیادہ اثر قبول کرتا ہے جو صاف اور سب سے اوپر ہوتا ہے۔ ٭……٭……٭……٭ مخالفت (تہذیب الاخلاق بابت یکم ذی الحجہ 1289ھ) دشمنی اور عداوت ، حسد اور رنجش اور ناراضی کے سوا ایک اور جذبہ انسان میں ہے جو خود اسی شخص میں کمینہ عادتیں اور رذیل اخلاق پیدا کرتا ہے اور بعوض اس کے کہ وہ اپنے مخالف کو کچھ نقصان پہنچاوے خود اپنے آپ نقصان کرتا ہے ۔ اس انسان جذبے کو ہم مخالفت کہتے ہیں۔ دشمنی اور عداوت کا منشاء اکثر اتلاف حقوق کے سبب سے ہوتا ہے۔ زن یا زر ، زمین یا خون اس جذبے کے جوش میں آنے کے باعث ہوتے ہیں۔ حسد کا منشاء صرف وہ اوصاف حمیدہ ہوتے ہیں جو محسود میں ہیں اور حاسد ان کا خواہاں ہے ، مگر وہ اس میں نہیں ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں۔ رنجش اور ناراضی اکثر باہمی معاشرت میں خلل واقع ہونے سے ہوتی ہے۔ مگر ان سب کے سوا ایک اور جذبہ انسان میں ہے جو بغیر ان سببوں کے جوش میں آتا ہے۔ اس کا منشاء نہ زر و زمین و زن کی دشمنی ہوتی ہے اور نہ مخالف کے اوصاف حمیدہ کی خواہش ہوتی ہے ، کیونکہ وہ شخص اپنے مخالف کے اوصاف حمیدہ کواوصاف حمیدہ ہی نہیں تصور کرتا اور نہ باہمی معاشرت کا خلل اس کا باعث ہوتا ہے ، اس لیے کہ اکثر ان دونوں میں ملاقات اور واقفیت بھی نہیں ہوتی ، بلکہ اس کا منشاء صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کی مخالف رائے یا عقل و سمجھ دوسرے فریق کی رائے اور سمجھ سے مخالف ہوتی ہے۔ یہ جذبہ مخالفت قریباً کل انسانوں میں پایا جاتا ہے ، مگر مہذب اور تربیت یافتہ اور نیک اور ناتربیت یافتہ بدذات آدمیوں میں اس کا ظہور دوسری طرح پر ہوتا ہے۔ پہلا اس مخالفت سے ہر قسم کے فائدے اٹھاتا ہے اور دوسرا ان فائدوں سے بھی محروم رہتا ہے اور دنیا میں خود اپنے تئیں بد طینت اور کذاب اور نامہذب ثابت کرتا ہے۔ دنیا میں یہ بات قریباً نا ممکن ہے کہ تمام لوگ ایک رائے پر ، گووہ کیسی ہی صحیح و سچ ہو متفق ہو جاویں ، پس ضرور ہے کہ آپس میں اختلاف رائے ہو، نیک آدمی اپنے مخالف کی رائے کو نہایت نیک دلی سے سوچتا ہے اور ہمیشہ یہ ارادہ رکھتا ہے کہ اگر اس میں کوئی اچھی بات ہو تو اس کو چن لوں اور اگر مجھ میں کوئی غلطی ہو تو اس کو صحیح کر لوں اور جب ایسی کوئی بات اس میں نہیں پاتا تو اپنے مخالف کی غلطیوں کی اصلاح کے درپے ہوتا ہے اور ان غلطیوں کو اس طرح پر بتاتا ہے جیسے ایک دل سوز دوست بتاتا ہے۔ کہیں کہیں طبیعت کو تر و تازہ کرنے کے لیے نہایت دلچسپ ظرافت بھی کر بیٹھتا ہے اور کبھی کبھی کوئی لطیفہ بھی بول اٹھتا ہے اور باوجود مخالفت کے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچتا ہے۔ کمینہ طبیعت اور نامہذب ناشائستہ آدمی یہ رستہ نہیں چلتا ، وہ بات کے حسن وقبح کی طرف متوجہ نہیں ہوتا ، بلکہ اپنے مخالف کے عیوب ذاتی سے بحث کرنے لگتا ہے۔ سخت کلامی ، درشت گوئی سب و شتم اپنا پیشہ کر لیتا ہے۔ اپنا پیشہ کر لیتا ہے۔ اپنے مخالف کے عیوب واقعی ہی کے بیان پر بس نہیں کرتا ، بلکہ ہر قسم کے بہتان اس پر لگاتا ہے ، اور جھوٹی جھوٹی باتیں اس کی طرف منسوب کرتا ہے اور خود مو رد ’’ لعنت اللہ علی الکار ذبین ‘‘ بنتا ہے ۔ اس راہ چلنے سے اور جھوٹ اتہام کرنے سے اور لعنت خدا کا مورد بننے سے اس کا مطلب اپنے مخالف کو بد نام کرنا اور عام لوگوں میں جو اس کے مخالف کے حال سے واقف نہیں ہیں ناراضی پیدا کرنا ہوتا ہے ، مگر درحقیقت اس کا یہ مطلب حاصل نہیں ہوتا اور بعوض اس کے کہ اس کا مخالف بد نام ہو خود وہی زیادہ رسوا اور بدنام ہوتا ہے اس لیے کہ جب اس مخالف کی برائی جو اس نے براہ کذب و اتہام اس کی نسبت منسوب کی ہے مشہور ہوتی ہے تو کوئی تو اس کو سچ سمجھتا ہے اور بہت لوگ اس کی تحقیق کے درپے ہوتے ہیں اور جب اس کی کچھ اصل نہیں پاتے تو بعوض اس کے مخالف کے خود اسی کذاب پر لعنت اور تھوہ تھوہ کرتے ہیں اور بقول شخصے کہ دروغ کو فروغ نہیں ہوتا تھوڑے ہی دنوں میں اس کی قلعی کھل جاتی ہے اور وہ جھوٹا بد گو خود اسی گڑھے میں گرتا ہے جو اس نے اپنے مخالف کے لیے کھودا تھا ۔ پس انسان کو چاہیے کہ اپنے مخالف سے بھی مخالفت کرنے میں سچائی اور راست بازی ، نیکی اور نیک دلی کو کام میں لاوے کہ یہی طریقہ اپنے مخالف پر فتح پانے کا ہے ، ورنہ بعوض اپنے مخالف کے خود اپنے تئیں رسوا کرنا ہے۔ ہم کو بڑا افسوس ہے کہ ہمارے مخالف اس پچھلے طریقے پر ہم سے مخالفت کرتے ہیں۔ ہم کو اپنے مخالفت کا یا اپنے پر اتہام کرنے کا یا اپنی بدنامی کا کچھ اندیشہ نہیں ہے ، بلکہ اس بات کا افسوس ہے کہ انجام کو ہمارے مخالف ہی رسوا و بد نام ہوتے ہیں اور دنیا انھی کو دروغ گو و کذاب قرار دیتی ہے۔ اگر ان کو ہمارے حال پر رحم نہیں ہے تو خود ان کو اپنے حال پر رحم کرنا چاہیے۔ ربنا نقبل مناانک انت السمیع العلیم۔ ٭……٭……٭……٭ ریا (تہذیب الاخلاق بابت 15 ۔شوال 1289ھ) دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ ہوتا ہے۔ دنیا دار اور رند مشرب آدمی جس قدر کہ دراصل وہ بد ہیں اس سے زیادہ اپنے تئیں بد بناتے ہیں۔ جس قدر کہ دراصل وہ بد ہیں اس سے زیادہ اپنے تئںی بد بناتے ہیں ۔ دینداری کی بناوٹ کرنے والے جس قدر کہ ہوتے ہیں اس سے زیادہ نیک اپنے آپ کو جتلاتے ہیں۔ وہ تو دینداری کی ذر ا ذرا سی باتوں سے بھی بھاگتے ہیں اور دن رات عشق و تماش بینی اور لچ پنے کی باتوں کی جن کو دراصل انہوں نے کیا بھی نہیں گپیں اڑاتے ہیں اور یہ حضرت سے شمار گناہوں اور بدیوں کو ایک ظاہری دینداری کے پردے میں چھپاتے ہیں اور ٹٹی کی اوجہل شکار کھیلتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں قسم کے آدمی چنداں برے نہیں ہیں ، مگر ایک اور تیسری قسم کے لوگ ہیں جو ان دونوں قسموں سے علیحدہ ہیں اور انہیں کا کچھ ذکر میں اس تحریر میں کرنا چاہتا ہوں۔ ان کی بناوٹ ایک اور ہی عجب قسم کی ہے وہ اپنی بناوٹ سے دنیا کے لوگوں ہی کو فریب نہیں دیتے ، بلکہ اکثر خود آپ بھی دھوکے میں پڑتے ہیں ۔ وہ بناوٹ خود ان سے انہیں کے دل کے حال کو چھپاتی ہے۔ جس قدر کہ درحقیقت وہ نیک ہیں اس سے زیادہ ان کو نیک جتاتی ہے۔ پھر تو وہ لوگ یا اپنی بدیوں پر خیال ہی نہیں کرتے یا ان بدیوں کو نیکیاں سمجھتے ہیں۔ مقدس داؤد ؑ نے نہایت دلچسپ لفظوں میں اس برائی سے پناہ مانگی ہے اور اس طرح پر خدا کی مناجات کی ہے ’’ کون اپنی غلطیوں کو سمجھ سکتا ہے توہی مجھ کو میرے پوشیدہ عیبوں سے پاک کر ۔‘‘ جو لوگ علانیہ بدی کرتے ہیں اگر ان کو بدیوں اور گناہوں سے بچانے کے لیے نصیحت کی ضرورت ہے تو وہ لوگ جو درحقیقت موت کی راہ چلتے ہیں اور اپنے تئیں نیکی اور زندگی کے رستے پر سمجھتے ہیں کس قدر رحم کے لائق ہیں اور کتنی نصیحت کے محتاج ہیں۔ پس میں چند قاعدے بیان کرنا چاہتا ہوں جن سے وہ بدیاں جو دل کے کونوں میں چھپی ہوتی ہیں اور جن کے چھپے رہنے سے انسان خود اپنے دل کا سچا حال آپ نہیں جان سکتا معلوم ہوسکیں۔ عام قاعدہ تو اس کے لیے یہ ہے کہ ہم خود اپنے آپ کو ان مذھبی اصلوں سے جو ہماری ہدایت کے لیے مقدس کتاب اللہ میں لکھے ہیں جانچیں اور اپنی زندگی کو اس پاک شخص کی زندگی سے مقابلہ کریں جس نے یہ فرمایا ’’ انا بشر مثلکم یوحیٰ الی انما الھکم الہ واحد ‘‘ اور جو اس درجۂ کمال تک پہنچا جہاں تک انسان کا پہنچنا ممکن ہے اور جس کی زندگی ہماری زندگی کے لیے نمونہ ہے اور جو اپنی پیروی کرنے والوں کے لیے ، بلکہ تمام دنیا کے لیے بڑا ہادی اور بہت بڑا دانا استاد ہے۔ ان دونوں قاعدوں کے برتنے میں بڑی بڑی غلطیاں پڑتی ہیں۔ کچھ تو لوگوں کی سمجھ میں غلطیاں ہوتی ہیں اور کچھ آپس میں اختلاف رائے ہوتا ہے جو بن ہوئے رہ نہیں سکتا اور کچھ زمانے کے گزرنے سے ٹھیک ٹھیک حالت اور کیفیت ان واقعات کی جو گزرے معلوم نہیں ہو سکتی ، اس لیے برخلاف اگلے مسلمان مصنفوں کے صرف انھی قاعدوں کے بیان کرنے پر میں اکتفا نہیں کرتا ، بلکہ اور بھی قاعدہ بیان کرتا ہوں جو انسان کو ٹھیک ٹھیک مطلوبہ راہ پر لے آتے ہیں۔ اپنے پوشیدہ عیبوں کے معلوم کرنے کا ایک عمدہ قاعدہ یہ ہے کہ ہم اس بات پر غورکریں کہ ہمارے دشمن ہم کو کیا کہتے ہیں۔ ہمارے دوست اکثر ہمارے دل کے موافق ہماری تعریف کرتے ہیں ، یا تو ہمارے عیب ان کو عیب ہی نہیں معلوم ہوتے ہیں اور یا ہماری خاطر کو ایسا عزیز رکھتے ہیں کہ اس کو رنجیدہ نہ کرنے کے خیال سے ان کو چھپاتے ہیں یا ایسی نرمی سے کہتے ہیں کہ ہم ان کو نہایت ہی خفیف سمجھتے ہیں۔ برخلاف اس کے دشمن ہم کو خوب ٹٹولتا ہے اور کونے کونے سے ڈھونڈ کر ہمارے عیب نکالتا ہے۔ گو وہ دشمنی سے چھوٹی بات کو بہت بڑا کر دیتا ہے ، مگر اکثر اس کو کچھ نہ کچھ اصلیت ہوتی ہے۔ تانباشد چیز کے مردم نگویند چیز ہا دوست ہمیشہ اپنے دوست کی نیکیوں کو بڑھاتا ہے اور دشمن عیبوں کو ، اس لیے ہم کو اپنے دشمن کا زیادہ احسان مند ہونا چاہیے کہ وہ ہم کو ہمارے عیبوں سے مطلع کرتا ہے۔ اگر ہم نے اس کے طعنوں کے سب ان عیبوں کوچھوڑ دیا تو دشمن سے ہم کو وھی نتیجہ ملا جو ایک شفیق استاد سے ملنا چاہیے تھا۔ دشمن جو عیب صحیح یا غلط ہم میں لگاتا ہے ہمارے فائدے سے خالی نہیں۔ اگر وہ ہم میں ہوتا ہے تو ہم اپنے عیب سے مطلع ہوتے ہیں اور اگر نہیں ہوتا تو خدا کا شکر کرتے ہیں کہ وہ عیب ہم میں نہیں۔ سچ ہے کہ ’’ دشمن از دوست ناصح تراست ‘‘ این جز نکوئی نگوید و ایں جز بدی تجوید ‘‘ پلوٹارک کا دشمنی کے فائدوں پر جو مضمون ہے اس میں اس نے یہ بات لکھی ہے کہ دشمن جو ہم کو بدنا کرتے ہیں اس سے ہم کو ہماری برائیاں معلوم ہوتی ہیں اور ہماری گفتگو میں اور ہمارے چال چلن میں اور ہماری تحریر میں جو نقص ہیں وہ بغیر ایسے دشمن کی مدد کے کبھی معلوم نہیں ہوتے۔ علیٰ ہذا لقیاس اگر ہم خود اپنے آپ کو سمجھنا چاہیں کہ ہم کیا تو ہم کو اس بات پر غور کرنی چاہیے کہ جو لوگ ہماری تعریف کرتے ہیں اس میں سے ہم کس قدر کے مستحق ہیں اور پھر یہ سوچنا چاہیے کہ جن کاموں کے سبب سے وہ تعریف کرتے ہیں وہ کام ہم عمدہ غرض سے اور نیک نیتی سے دنیا کو فائدہ پہنچانے کے لیے کرتے ہیں یا نہیں اور پھر ہم کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ وہ نیکیاں جن کے سبب ہماری تعریف کرنے والے ہماری تعریف کرتے ہیں دراصل ہم میں کہاں تک ہیں۔ ان باتوں پر انسان کو بخوبی غور کرنا نہایت ضرور ہے ، کیونکہ ہمارا یہ حال ہے کہ کبھی تو ہم لوگوں کی رایوں کو جو ہماری نسبت ہیں پسند کرتے ہیں اور جو کچھ ہمارا دل کہتا ہے اس کے مقابلے میں ان تمام رایوں کو نہیں مانتے۔ ہم کو ایسی نیکی پر بھی جس کو ہم نے اپنے خیال میں نیک سمجھا ہے ، مگر در حقیقت اس کی نکی مشتبہ ہے زیادہ اصرار کرنا نہیں چاہیے ، بلکہ ان لوگوں کی رایوں کی بھی نہایت قدر و منزلت کرنی چاہیے جو ہم سے اخلاف رکھتے ہیں اور جو عقلمند اور نیک دل ہیں اور جس طرح ہم نیک دلی سے بات کہتے ہیں اسی طرح وہ بھی نیک دلی سے ہم سے مخالفت کرتے ہیں ، مگر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان اختلاف کرنے والوں نے صرف آزادی رائے اور اس دلی نیکی سے جس کے سر چشمے کی سوت قدرت نے ہر ایک انسان کے دل میں کھولی ہے اختلاف کیا ہے یا کسی بیرونی دباؤ یا پابندی رسم و رواج اور تعصب اور تقلید نے ان کے دل کو پھیرا ہے ، کیونکہ اگر یہ پچھلی بات اختلاف رائے کا سبب ہو تو نہایت بے قدر ہو جاتی ہے۔ جہاں ہم کو دھوکا کھانے کا احتمال ہے وہاں ہم کو نہایت ہوشیاری اور بہت خبرداری سے کام کرنا چاہیے۔ حد سے زیادہ سر گرمی اور تعصب اور کسی خاص فرقے کو یا کسی خاص رائے کے لوگوں کو برا اور حقیر سمجھنا یہ اسی باتیں ہیں جن سے ہزاروں آفتیں پیدا ہوتی ہیں۔ وہ فی نفسہ نہایت ہی بری ہیں ، گوکہ وہ ہم سے کمزور دل آدمیوں کو اچھی معلوم ہوتی ہوں ، مگر اس پر بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں جوک دین داری اور نیکی کے لیے نہایت مشہور ہیں ، مگر نہایت لغو اور نرے شیطانی اصولوں کو نیکی سمجھ کر اپنے دلوں میں ان کی جڑ گاڑ دی ہے ۔ میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میں نے آج تک کوئی ایسا عقلمند اور انصاف پسند شخص نہیں دیکھا جس میں پوری پوری یہ سب باتیں ہوں اور پھر بھی وہ گناہ سے پاک ہو۔ اسی طرح ہم کو ان کاموں سے بھی ڈرنا چاہیے جو انسان کے کمزور دل کی قدرتی بناوٹ سے یا کسی خاص شوق سے یا کسی خاص تعلیم کے اثر سے یا کسی اور سبب سے ہوتی ہیں جس میں ہمارا دنیوی فائدہ ہے ۔ ایسی حالت میں انسان کی سمجھ نہایت آسانی سے حق بات کی طرف سے پھر جاتی ہے اور اس کا دل غلطی کی طرف مائل ہو جاتی ہے اور یہی باتیں ہیں جن کے سبب سے تعصب اور ہزاروں غلطیاں اور پوشیدہ برائیاں اور لامعلوم عیب انسان کے دل میں گھس جاتے ہیں۔ جس کام کے کرنے میں عقل کے سوا اور جذبوں کی بھی ترغیب ہو اس کے کرنے میں عقل مند آدمی کو ہمیشہ ڈرنا اور ہمیشہ اس پر شبہ کرنا چاہیے کہ ضرور اس میں کوئی نہ کوئی برائی چھپی ہوئی ہو گی۔ ان اصولوں پر اپنے خیال کو جانچنا اور اپنے دل کو ٹٹولنا اور دل کے تاریک جذبوں کو ڈھونڈنا ہمارے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز مفید نہیں ۔ اگر ہم اپنے دل میں ایسی مضبوط نیکی بٹھانی چاہیں جو قیامت کے دل ہمارے کام آوے ، جس دن کہ ہمارے بھیدوں کا جاننے والا ہمارے دل کو جانچے گا جس کی عقل اور انصاف کی کچھ انتہا نہیں ، تو ان اصولوں پر چلنے سے بہتر ہمارے لیے کوئی راہ نہیں۔ ہمارے بانی اسلام نے جب ہم کو یہ سکھلایا ہے کہ خدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے ، ہمارے دل کے چھپے بھیدوں کو جانتا ہے تو اس نے کس خوبی اور خوبصورتی سے اس ریکاری کی برائی ہم کو بتا دی جس سے انسان دنیا کو دھوکا دیتا ہے اور خود اپنے آپ کو بھی فریب میںڈالتا ہے۔ داؤد نے بھی اپنی مناجات میں اس ریا کاری کے خوف کو جس سے انسان خود اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے نہایت دلچسپ لفظوں میں ادا کیا ہے جہاں اس نے کہا کہ اے خدا تو مجھ کو جانچ ، میرے دل کی تہ کو ڈھونڈ ، میرے خیالوں کو دیکھ ، مجھ کو ٹٹول ، مجھ کو بخوبی پر کھ کہ مجھ میں کس برائی نے راہ کی ہے اور مجھ کو ایسی راہ پر لے چل جو ہمیشہ کو قائم رہے۔ تعصب (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر اول بابت یکم شوال 1287ئ) روحانی اور اخلاقی بیماریوں میں تعصب غالبا سب سے زیادہ خطر ناک بیماری ہے جو آج کل ہمارے عوام ، ہمارے خواص ،ہمارے جہلا ء اور ہمارے علماء میں نہایت کثرت سے پھیلی ہوئی ہے ، بالخصوص ہمارے علماء کرام اور صوفیائے عظام اس موذی مرض کے بری طرح شکار ہیں ، حالانکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاص طور پر اس عادت سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے۔ ’’لیس منا من دعا الی عصیبۃ ولیس منامن قاتل عصیبۃ و لیس منامن مات علی عصبیۃ حب الشئی یعمی ویصم ‘‘ اس ارشاد نبوی کا ترجمہ مولانا حالی نے ان الفاظ میں کیا ہے۔ ’’ڈرایا تعصب سے ان کو یہ کہہ کر کہ زندہ رہا اور مرا جو اسی پر ہوا وہ ہماری جماعت سے باہر وہ ساتھی ہمارا نہ ہم اس کے یاور نہیں حق سے کچھ اس محبت کو بہرہ کہ جو تم کو اندھا کرے اور بہرا ‘‘ جس بری طرح ہمارے واعظین ، ہمارے علمائے دین اور ہم خود اس مرص میں مبتلا ہیں اس کا نہایت صحیح خاکہ مولانا خالی نے مسدس میں اس طرح کھینچا ہے : تعصب کہ ہے دشمن نوع انساں بھرے گھر کیے سینکڑوں جس نے ویواں ہوئی بزم نمرود جس سے پریشاں کیا جس نے فرعون کو نذر طوفاں گیا جوش میں بولہب جس کے کھویا ابرجہل کا جس نے بیڑا ڈبویا وہ یاں اک عجب بھیس میں جلوہ گر ہے چھپا جس کے پردے میں اس کا ضرر ہے بھرا زہر جس جام میں سر بسر ہے وہ اب بقا ہم کو آتا نظرہے تعصب کو اک جزو دین سمجھے ہیں ہم جہنم کو خلد بریں سمجھے ہیں ہم ہمیں واعظوں نے یہ تعلیم دی ہے کہ جو کام دینی ہے یا دنیوی ہے مخالف کی ریس اس میں کرنی بری ہے نشاں غیرت دین حق کا یہی ہے نہ ٹھیک اس کی ہرگز کوئی بات سمجھو وہ دن کو کہے دن تو تم رات سمجھو سرسید کا یہ قابل قدر اور اور لائق عمل مضمون اسی نامراد بیماری کے معتلق ہے اور جیسے آج سے 94 سال پہلے قابل مطالعہ تھا ایسا ہی ، بلکہ اس وقت سے زیادہ آج پڑھنے کے لائق ہے ۔ کاش کوئی نصیحت حاصل کرنے والا اس سے نصیحت حاصل کرے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) انسان کی بدترین خصلتوں میں سے تعصب بھی ایک بد ترین خصلت ہے۔ یہ ایسی بد خصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔ متعصب گو اپنی زبان سے نہ کہے ، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل و انصاف کی خصلت جو عمدہ ترین خصائل انسان ہے اس میں نہیں ہے۔ متعصب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا ، کیونکہ اس کا تعصب اس کے برخلاف بات کے سننے اور سمجھتے اور اس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے ، بلکہ سچی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا ، کیونکہ اس کے مخالفوں کو اپنی غلطی پر متنبہ ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ تعصب انسان کو ہزار طرح کی نیکیوں کے حاصل کرنے سے باز رکھتا ہے۔ اکثر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی کام کو نہایت عمدہ اور مفید سمجھتا ہے ، مگر صرف تعصب سے اس کو اختیار نہیں کرتا اور دیدہ و دانستہ برائی میں گرفتار اور بھلائی سے بیزار رہتا ہے۔ مذھبی تعصبات کی نسبت بھی ہم کچھ تھوڑا سا بیان کریں گے ، مگر اول امور تمدن و معاشرت میں جو نقصان تعصب سے پیدا ہوتے ہیں ان کا ذکر کرتے ہیں۔ انسان قواعد قدرت کے مطابق مدنی الطبع پیدا ہوا ہے ، وہ تنہا اپنی حوائج ضروری کو مہیا نہیں کرسکتا ، اس کو ہمیشہ مددگاروں اور معاونوں کی جو دوستی اور محبت سے ہاتھ آتے ہیں ضرورت ہوتی ہے ، مگر متعصب بسبب اپنے تعصب کے تمام لوگوں سے منحرف اور بیزار رہتا ہے اور کسی کی دوستی اور محبت کی طرف بجز ان چند لوگوں کے جو اس کے ہم رائے میں مائل نہیں ہوتا۔ عقل اور قواعد قدرت کا مقتضا یہ معلوم ہوتا ہے کہ امور متعلق تمدن و معاشرت میں جو باتیں زیادہ منفعت اور زیادہ آرام اور زیادہ لیاقت اور زیادہ عزت کی ہیں اور ان کو انسان اختیار کرے ، مگر متعصب ان سب نعمتوں سے محروم رہتا ہے۔ ہنر اورفن اور علم ایسی عمدہ چیزیں ہیں کہ ان میں سے ہر ایک چیز کو نہایت اعلیٰ درجے تک حاصل کرنا چاہیے ، مگر متعصب اپنی بد خصلت سے ہر ایک ہنر اور فن اور علم کے اعلیٰ درجے تک پہنچنے سے محروم رہتا ہے۔ وہ ان تمام دلچسپ اور مفید باتوں سے جو نئی تحقیقات سے اور نئے علوم اورفنون سے حاصل ہوتی ہیں محض جاھل اور ناواقف رہتا ہے۔ اس کی عقل اور اس کے دماغ کی قوت محض بیکار ہو جاتی ہے اور جو کچھ اس میں سمائی ہوئی ہے اس کے سوا اور کسی بات کے سمجھنے کی اس میں طاقت اور قوت نہیں رہتی۔ وہ ایک ایسے جانور کی مانند ہو جاتا ہے کہ اس کو جو کچھ بالطبع آتا ہے اس کے سوا اور کسی چیز کی تعلیم و تربیت کے قابل نہیں ہوتا۔ بہت سی قومیں ہیں جو اپنے تعصب کے باعث سے تمام باتوں میں کیا اخلاق میں اور کیا علم و ہنر میں اور کیا فضل و دانش میں اور کیا تہذیب و شائستگی میں اور کیا جاہ وحشمت اور مال و دولت میں اعلیٰ درجے سے نہایت پست درجہ مذلت اور خواری کو پہنچ گئی ہیں اور بہت سی قومیں ہیں جنہوں نے اپنی بے تعصبی سے ہر جگہ اور ہر قوم سے اچھی اچھی باتوں اخذ کیں اور ادنی درجے سے ترقی کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجے پر پہنچ گئیں۔ مجھ کو اپنے ملک کے بھائیوں پر اس بات کی بد گمانی ہے کہ وہ بھی تعصب کی بد خصلت میں گرفتار ہیں اور اس سبب سے ہزاروں ایک معزز قوم کو دکھانے سے محروم کرنے سے اور دنیا میں اپنے تئیں ایک معزز قوم کو دکھانے سے محروم اور ذلت اور خواری اور بے علمی اور بے ہنری کی مصیبت میں گرفتار ہیں اور اسی لیے میری خواہش ہے کہ وہ اس بد خصلت سے نکلیں اور عمل و فضل اور ہنر و کمال کے اعلیٰ درجے کی عزت تک پہنچیں۔ ہم مسلمانوں میں ایک غلطی یہ پڑی ہے کہ بعضی دفعہ ایک غلط نما نیکی کے جذبے سے تعصب کو اچھا سمجھتے ہیں اور جو شخص اپنے مذھب میں بڑا متعصب ہوا اور تمام شخصوں کو جو اس مذھب کے نہیں ہیں اور تمام ان علوم اور فنون کو جو اس مذھب کے لوگوں میں نہیں ہیں نہایت حقارت سے دیکھے اور برا سمجھے۔ اس شخص کو نہایت قابل تعریف اور توصیف کے اور بڑا پختہ اور پکا اپنے مذھب میں سمجھتے ہیں ، مگر ایسا سمجھنا سب سے بڑی غلطی ہے جس نے حقیقت میں مسلمانوں کوبرباد کر دیا ہے۔ ہمارا مذھب اور مذھبی علوم اور دنیا اور دنیاوی علوم بالکل علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں ، پس بڑی نادانی ہے جو دنیاوی علوم اور فنون کے سیکھنے میں کسی قسم کے تعصب مذھبی کو کام میں لاویں۔ اگر یہ خیال ہو کہ ان دنیاوی علوم کے سیکھنے سے ہمارے عقائد مذھبی میں سستی آتی ہے ، کیونکہ مذھبی مسائل ان دنیاوی علوم کے پڑھنے سے مشتبہ یا غلط معلوم ہوتے ہیں تو نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان اپنے ایسے روشن اور مستحکم سچے مذھب کو ایسا ضعیف اور کمزور سمجھتے ہیں کہ دنیاوی علوم کی ترقی سے اس کی برھی کا خیال کرتے ہیں ، نعوذ باللہ منہا ۔ مذھب اسلام مستحکم اور سچا مذھب ہے کہ جس قدر دینی اور دنیاوی علوم کی ترقی ہوتی جاوے گی اسی قدر اس کی سچائی زیادہ تر ثابت ہو گی۔ اب ہم یہ بات بتاتے ہیں کہ اپنے مذھب میں پختہ ہونا جدا بات ہے اور یہ ایک نہایت عمدہ صفت ہے جو کسی اہل مذھب کے لیے ہو سکتی ہے اور تعصب ، گوکہ وہ مذھبی باتوں میں کیوں نہ ہو نہایت برا اور خود مذھب کو نہایت نقصان پہنچانے والا ہے۔ غیر متعصب ، مگر اپنے مذھب میں پختہ ہمیشہ سچا دانا دوست اپنے مذھب کا ہوتا ہے۔ اس کی خوبیوں اور نیکیوں کو پھیلاتا ہے ، اس کے اصول کو دلائل و براہین سے ثابت کرتا ہے ، مخالفوں اور معترضوں اور برا کہنے والوں کی باتوں کو ٹھنڈے دل سے سنتا ہے اور خود بھی اس کے دفعیے پر مستعد ہوتا ہے اور اور لوگوں کو بھی اس کے دفعیے کا موقع دیتا ہے۔ برخلاف اس کے متعصب ۔ نادان دوست اپنے مذھب کا ہوتا ہے۔ وہ سراسر اپنی نادانی سے اپنے مذھب کو نقصان پہنچاتا ہے۔ پہلی بسم اللہ ایسی بد خصلت اختیار کرنے سے جو ہر عقل مند کے نزدیک نفرت کے قابل ہے اپنے مذھب کے حسن اخلاق اور اس کے نتیجوں کی خوبی پر داغ لگاتا ہے۔ اپنے مذھب کی خوبیوں کے پھیلنے اور لوگوں کو اس کی طرف راغب کرنے کے بدلے الٹا اس کا ہارج قوی ہوتا ہے۔ اپنے تعصب کے سب بد اخلاق اور مغرور اور متقشف سخت دل ہو جاتا ہے۔اور ٹھیک ٹھیک اس آیت کر یمہ لوکنت فظاً غلیظ القلب لانفضوا من حولک سے مخالفت صریح کرتا ہے۔ مذھب میں متعصب شخص دوسروں کے اعتراضوں کو جب اس کے مذھب پر ہیں سننا یا مشہور ہونا پسند نہیںکرتا اور اس سبب سے ضمناً وہ اس بات کا باعث ہوتا ہے کہ مخالفوں کے اعتراض بلا تحقیقات کیے اور بلا جواب دیے باقی رہ جاویں۔ وہ اپنی نادانی سے تمام دنیا پر گویا یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ اس کے مذھب کو مخالفوں کے اعتراضوں سے نہایت اندیشہ اور اس کے برھم ہو جانے کا خوف ہے۔ پس یہ تمام باتیں مذھب کی دوستی کی نہیں ہے ، بلکہ مخالفوں کی فتح یابی اور میدان جیت لینے کی ہیں۔ غرضکہ تعصب خواب دینی ہو یا دنیاوی باتوں میں ، نہایت برا اور بہت سی خوابیوں کا پیدنا کرنے والا ہے۔ مغرور و متکبر ہو جانا اور اپنے ہم جنسوں کو سرائے چند کے نہایت حقیر و ذلیل سمجھنا متعصب کا خاصہ ہوتا ہے۔ اس کے اصول کا مقتضا یہ ہوتا ہے کہ تمام دنیا کے لوگوں سے سوائے چند کے کنارے گزیں ہو ، مگر ایسا کر نہیں سکتا اور بمجبوری ہر ایک سے ملتا ہے اور اوپر دل سے ان کا ادب اور اپنی جھوٹی نیاز مندی بھی ظاہر کرتا ہے اور ایسا کرنے سے ایک اور بد خصلت نفاق اورکذب اور دغا بازی اور فریب و مکاری کی اپنے میں پیدا کرتا ہے۔ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس نے خود بھی تمام کمالات اور تمام خوبیاں اور خوشیاں حاصل کی ہوں ، بلکہ ہمیشہ ایک قوم نے دوسری قوم سے فائدہ اٹھایا ہے ، مگر متعصب شخص ان نعمتوں سے بد نصیب رہتا ہے۔ علم میں اس کو ترقی نہیں ہوتی ، ہنر و فن میں اس کو دست گاہ نہیں ہوتی ، دنیا کے حالات سے وہ ناواقف رہتا ہے ، عجائبات قدرت کے دیکھنے سے محروم ہوتا ہے ، حصول معاش اور دنیاوی عزت اور نمول ، مثل تجارت وغیرہ کے وسیلے جاتے رہتے ہیں اور رفتہ رفتہ تمام دنیا کے انسانوں میں روز بروز ذلیل اور خوار اور حقیر و ناچیز ہوتا جاتا ہے۔ اس کی مثال ایک ایسے جانور کی ہوتی ہے جو اپنے ریوڑ میں ملا رہتا ہے اور انہیں جانتا کہ اس کے ہم جنس کیا کر رہے ہیں ، بلبل کیا چہچہاتی ہے اور قمری کیا غل مچاتی ہے ، بیا کیا بن رہا ہے اور مکھی کیا چن رہی ہے۔ وہ بجز کوڑے پر کی گھاس چرنے کے اور کچھ نہیں جانتا کہ باغ کیوں بنا ہے اور پھول کیوں کھلا ہے ، نرگس کیا دیکھتی ہے اور انگور کی تاک کیا تاکتی ہے۔ تعصب میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جب تک وہ نہیں جاتا کوئی ہنر و کمال اس میں نہیں آتا۔ تربیت و شائستگی ،تہذیب و انسانیت کا مطلق نشاں نہیں پایا جاتا اور جبکہ وہ مذھبی غلط نما نیکی کے پردے میں ظہور کرتا ہے تو اور بھی سم قاتل ہوتا ہے ، کیونکہ مذھب سے اور تعصب سے کچھ تعلق نہیں ہے، انسان کے خراب و برباد کرنے کے لیے شیطان کا سب سے بڑا تعصب کو مذھبی رنگت سے دل میں ڈالنا اور اس تاریکی کے فرشتے کو روشنی کا فرشتہ کر کر دکھلانا ہے۔ پس میری التجا اپنے بھائیوں سے یہ ہے کہ ہمارا خدا نہایت مہربان اور بہت بڑا منصف ہے اور سچا سچائی پسند کرنے والا ہے ، وہ ہمارے دلوں کے بھید جانتا ہے ، وہ ہماری نیتوں کو پہچانتا ہے۔ پس ہم کو اپنے مذھب میں نہایت سچائی سے پختہ رہنا ، مگر تعصب کو جو ایک بری خصلت ہے چھوڑنا چاہیے ۔ تمام بنی نوع انسان ہمارے بھائی ہیں ، ہم کو سب سے محبت اور سچا معاملہ رکھنا اور سب سے سچی دوستی اور سب کی سچی خیرخواھی کرنا ہمار قدرتی فرض ہے ، پس اسی کی ہم کو پیروی چاہیے۔ ٭……٭……٭……٭ راہ سنت اور ردبدعت یہ مضمون سر سید نے 1297ہجری مطابق 1850عیسوی میں اس وقت لکھا تھا جب آپ پکے اہل حدیث یا دوسرے لفظوں میں کٹر وھابی تھے اور اپنے سوا سب مسلمانوں کو بدعتی سمجھتے اور کہتے تھے چنانچہ 33 سال کے بعد اپنے اسی مضمون پر ریویو کرتے ہوئے خود لکھتے ہیں ’’ یہ رسالہ راہ سنت اس زمانے میں لکھا گیا تھا جبکہ وھابیت کا نہایت زور شور سے دل پر اثر چھایا ہوا تھا ۔ ‘‘ اس زمانے میں جبکہ یہ مضمون لکھا گیا وھابیت اور حنفیت کی جنگ بڑے زور شور سے لڑی جا رہی تھی اور اکثر اوقات اکثر مقامات پر زبانی تو تکار سے ہاتھا پائی تک توبت پہنچ جاتی تھیں اور معمولی بحث مباحثہ اکثر مقدمہ بازی ، ضمانت ، مچلکہ ، بلکہ قید اور جرما پرختم ہوتا تھا ۔ بکثرت کتابیں ایک دوسرے کے رد میں لکھی جاتی تھیں ، کفر و الحاد کے فتوے بڑی شدت کے ساتھ مخالف کے خلاف جاری ہوتے تھے۔ ایک فریق کے علمائے کرام بڑے وثوق کے ساتھ یہ فیصلہ دیتے تھے۔ کہ جو شخص فلاں فلاں مسئلے کو نہیں مانتا وہ زندیق ہے ، اس کا نکاں ٹوٹ گیا اور اس کی بیوی پر طلاق پڑ گئی۔ دوسرا فریق اینٹ کا جواب پتھر سے یوں دیتا کہ جو آدمی ایسے اور ایسے عقائد کا قائل ہے وہ کافر ہے اور جو اس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے ، مسلمانوں کو چاہیے کو اس کو ذات برادری سے خارج کر دیں اور مر جائے تو اس کے جنازے کی نماز نہ پڑھیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ سر سید نے اس قسم کے فتووں کا اعادہ تو اپنے مضمون میں نہیں کیا ،مگر مضمون لکھا بڑے جوش اور شدت کے ساتھ اور خوب تشریح اور تفصیل سے ۔ جس میں اس امر کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ ہم مسلمانوں کو اپنے تمام کاموں میں پورے طور پر ایک ایسے کام اور فعل سے بچنا اور پرہیز کرنا چاہیے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ، مگر جس سختی اور تشدد کے ساتھ 1850ء میں سر سید نے یہ مضمون لکھا تھا ، وہ بات بعد میں باقی نہ رہی اور 1883ء میں جب انہوں نے اس مضمون کو دوبارہ تصانیف احمدیہ جلد اول حصہ اول میں شامل کر کے شائع کیا تو اس پر خود ہی ایک میں شامل کر کے شائع کیا تو اس پر خود ہی ایک ریویو بھی لکھا (جو ہم مضمون کے آخر میں درج کر رہے ہیں) اس میں اول تو یہ بتایا کہ اس مضمون کے لکھنے کا محرک کای واقعہ ہوا اور اس کے بعد اس امر کا نہایت صاف طور پر اعتراف کیا کہ میں اس مضمون کے متعلق بعض باتوں میں غلطی پر تھا جن سے اب رجوع کرتا ہوں۔ اپنی غلطی کا اقرار انہوں نے بقول خود ’’ بہت غوروں اور فکروں اور اونچ نیچ سمجھنے اور خدا اور خداکے رسول کے احکام پرخوف کر کرنے کے بعد ‘‘ کیا ہے۔ اپنی غلطی کو کھلے دل سے اور بغیر کسی جھجک کے تسلیم کر لینا نہایت ہی اعلیٰ صفت ہے اور اپنی غلطی کو مان کو سرسید نے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی ’’ بڑے آدمی ‘‘ تھے۔ کتنا بے نظیر اور پر معارف شعر ہے۔ جب کھل گئی سچائی پھر اس کو جان لینا نیکوں کی ہے یہ خصلت ، راہ حیا یہی ہے ایک نئی اور دلچسپ بات اس مضمون میں یہ ہے کہ اس کی ابتداء سر سید نے اپنی ایک نظم سے کی ہے جو خالص مذھبی اور اسلامی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے اور سر سید کے ذاتی خیالات اور عقائد کو بہت اچھی طرح ظاہر کرتی ہے۔ جو لوگ سر سید کو کافر اور ملحد بتاتے ہیں وہ اس نظم کو پڑھ کر ذرا غور فرمائیں کہ ایک ملحد انسان کس طرح خدا کے حضور میں ایسی عاجزانہ التجائیں کر سکتا ہے ؟ سرسید ، جیسا کہ لالہ سری رام مولف خم خانہ جاوید نے لکھا ہے اپنا تخلص آھی کرتے تھے اور کبھی کبھار شعر کہتے تھے۔ غالباً اس مناجات کے علاوہ ان کی اتنی بڑی نظم اور کوئی موجود نہیں اور یہ بھی اس وقت تک عام لوگوں کی نظروں سے چھپی ہوئی تھی۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) مناجات الہٰی میں ہوں بندہ بس گنہ گار کہ بھگا در سے تیرے دن میں سو بار الٰہی دربدر بھٹکا پھرا میں نہ آسودہ ہوا ہرگز ذرا میں الہٰی نفس و شیطان نے سنایا نہ جانا تھا جہاں رستہ بتایا الہٰی ہر طرف سے پھر پھرا کر پڑا ہوں تیرے دروازے پہ آکر الہٰی تو شہنشاہ جہاں ہے الہٰی دوسرا تجھ سا کہاں ہے نہیں قادر الہٰی کوئی تجھ سا نہیں عاجز الہٰی کوئی مجھ سا الہٰی تو غنی میں بے نوا ہوں الہٰی شاہ تو ہے میں گدا ہوں الہٰی تو غفور اور میں گنہ گار الہٰی تو کریم اور میں گرفتار الہٰی تو قوی اور ناتواں میں خدا وندا کہاں تو اور کہاں میں کیا میں نے تھا جو مجھ کو سزا وار تو اب وہ کر جو ہے تجھ کو سزا وار الہٰی بخش دے اپنے کرم سے چھڑا دے دین اور دنیا کے غم سے الہٰی آسرا رکھتا ہوں تیرا تو کر دے خاتمہ باخیر میرا الہٰی ہیں سبھی محتاج تیرے الہٰی بخش دے ماں باپ میرے الہٰی ترک دنیا کا کروں میں تری ہی یاد میں آخر مروں میں نہ رکھوں کچھ غرض شاہ و گدا سے جو کچھ چاہوں سو چاہوں تجھ خدا سے الہٰی سینۂ بریاں عطا کر الہٰی دیدۂ گریاں عطا کر الہٰی عشق میں احمد کے رکھ چور ہے بیمار محبت اس کا مغفور الہٰی درد عشق مصطفیؐ دے پھر اس کے وصل کی مجھ کو دوا دے الہٰی مجھ کو کر خاک مدینہ لگا دے گھاٹ سے میرا سفینہ الہٰی فبغنی من کسل فین بجاہ المصطفیٰ مولیٰ الجمیع وھب لی فی مدینتہ قراراً بایمان و دفن بالبقیع سنو بھائی مسلمانوں ، ہمارے زمانے میں بدعت کا ایسا زور ہوا ہے کہ سنت کے نام سے لوگ بھاگتے ہیں۔ اگر سنت کا نام لو تو وھابی اور معتزلی کہلاؤ اور اگر بدعت پر بدعت کرتے جاؤ تو اللہ کے ولی بن جاؤ۔ اب تو یوں ٹھہر گیا ہے کہ جو سنت پر چلے وہ وھابی اور جو بدعت کرے وہ ولی۔ ایک بزرگ کا قول ہے کہ اگلے زمانے میں بعضے بزرگوں نے ایسا کیا ہے کہ جب بہت سے لوگ ان کے معتقد ہو جاتے تھے اور ہر وقت ان کے گرد رہتے اور اس سبب سے ان کے اوقات میں خلل پڑتا تو ان کا عقیدہ توڑنے اور اپنا پیچھا چھڑانے کو ایک چھوٹی سی سنت کو چھوڑ دیتے تھے ، تاکہ لوگ بے اعتقاد ہو جائیں اور ملامت کریں کہ یہ تو تارک سنت ہے ، اس کے پاس پھٹکنا نہیں چاہیے ۔ اب یہ زمانہ آگیا ہے کہ اگر کوئی یہ چاہے کہ مجھے لوگ برا کہیں اور میرے پاس نہ پھٹکیں تو وہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا اتباع کرے کہ اسی زمانے میں یہی بات اس کے برا کہنے کو کافی ہے۔ ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا افسوس کیازمانہ تھا کہ اگلے لوگ سنت رسول اللہ صلعم پر جان دیتے تھے اور اب جوسنت پر چلے اس پر نام دھرا جاتا ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کیا۔ ہوتا تھا اور صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کیا کرتے تھے۔ آیا ان کے ہاں بھی مرنا ، جینا ، شادی غمی ہوتی تھی ، وہ بھی خدا کے طالب تھے ، دنیا سے بھاگتے تھے ، انہوں نے کیا کیا ، وھی ہم بھی کریں ، کون سی چیز اس زمانے میں نہ ہوتی تھی۔ جواب نئی ہو گئی کہ نئی بات کا نکالنا پڑا اور جن زمانوں کے اچھے ہونے کی حضرت صلعم نے خبر دی ان کی پیروی چھوڑنے کی کیا ضرورت پیش آئی۔ ’’ عن عمران بن حصین قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر امتی قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ثم ان بعد ھم قوماً یشھدون و لایستشھدون و یغونون ولا یوتمنون ویندرون و لایفون ویظھر فیھم السمن ۔ ‘‘ یعنی مشکواۃ شریف کے باب مناقب الصحابہ میں عمران ابن حصین سے نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سب سے اچھے میرے اصحاب ہیں ، پھر میرے اصحاب کے ملنے والے ، پھر ان کے ملنے والوں کے ملنے والے پھر ان کے بعد لوگ ہوں گے کہ گواہی دیں گے اور کوئی ان سے گواہی نہ لے گا اور خیانت کریں گے اور دیانت دار نہ ہوں گے اور وعدہ کریں گے مگر پورا نہ کریں گے اور ہر طرح کا مال کھا کر موٹے ہو جاویں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ساری امت سے اچھے تو صحابہ تھے اور ان کے بعد تابعین اور ان کے بعد تبع تابعین باقی امت سے اچھے ہیں۔ پھر جو خصلتیں اور عادتیں اور عادتیں ان لوگوں میں مروج تھیں وھی اچھی ہیں اور باقی سب ناکارہ ۔ پھر کیسا ھی بڑا عالم اور کتنا ہی بڑا فقیر اور کیسا ہی پیر اور کیسا ہی پیرزادہ ہو اگر اس کی باتیں ایسی ہیں جیسی ان لوگوں کی تھیں تو وہ تو سب کا سرتاج ہے اور نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اے بھائی مسلمانوں یقین جان لو کہ کسی پیر یا فقیر کے نکالے ہوئے طریقے پر چلنے سے چھٹکارا نہیں ہونے کا ، صرف رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کے خاص لوگوں کی طریقت پر چلنے سے چھٹکارا ہے۔ ’’ عن عبداللہ ابن عمرو قال قال رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم لیاتین علیٰ امتی کما اتیٰ علیٰ بنی اسرائیل ہذو النعمل بالنعمل حتیٰ انکان منھم من اتیٰ امہ علانیۃ لکان فی امتی من یصنع ذالک وان بنی اسرائیل تفرقت علیٰ ثنتین و سبعین ملۃ و تفترق امتی علیٰ ثلث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الاملۃ واحدۃ قالو امن ہی یا رسول اللہ قال ما انا علیہ و اصحابی ۔ ‘‘ یعنی مشکواۃ شریف کے باب الاعتصام بالسنہ میں عبداللہ ابن عمرو سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت پر بھی ایسا زمانہ آوے گا جیسا بنی اسرائیل پر آیا تھا ، ہو بہو یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے بے دھڑک اپنی ماں کے ساتھ برا کام کیا تھا تو میری امت میں بھی ایسا ہی کریں گے اور نبی اسرائیل تو بہتتر (72) راہ پر ہو گئے تھے اور میری امت کے لوگ تہتر (73)راہ ہوں گے ، سارے کے سارے دوزخ میں جاویں گے ، مگر ایک راہ والے دوزخ میں نہیں جانے کے ۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ کون سی راہ ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ جس راہ پر میں ہوں اور میرے اصحاب ، یعنی اس راہ پر جو لوگ ہوں گے دوزخ میں نہیں جانے کے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس بات میں نجات ہے وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کی طریقت ہے ، پھر اے بھائی مسلمانوں ، تم بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسم کی سنت اور صحابہ کی طریقت کو پکڑو اور بدعت کو چھوڑو اور اپنے باپ دادا کی رسمیں مٹنے کا دھیان مت کرو ، اس لیے کہ باپ داد اکی رسموں کے بدلے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مہنگی نہیں ہے ، بلکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تو وہ نعمت ہے کہ اگر دونوں جہان کے بدلے ہاتھ لگتی ہے تو بھی سستی ہے ۔ بیت : بوئے کزاں عنبر ارزاں دھی گر بہ دو عالم دھی ارزاں دھی یہ تو خیال میں نہیں آتا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ کر اور مسلمان کہلا کر آدمی بدعت کو برا نہ جانے ، مگر حدیث میں جو بدعت کا لفظ آیا ہے شاید تم کو اس کے معنے معلوم نہیں تو چلو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی حدیث سے اس کے معنی بھی پوچھ لیں ، کیونکہ مثل مشہور ہے ، ع : پہلی قسم کی بدعت کا بیان ’’ عن عرباض بن ساریۃ قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات یوم ثم اقبل علینا بوجھہ فوعظنا موعظۃ بلیغۃ ذرفت منھا العیون و وجلت منھا القلوب فقال رجل یا رسول اللہ کان ھذہ موعظۃ مودع فاوصینا فقال اوصیکم بتقوی اللہ و السمع و الطاعۃ وان کان عبدا حبشیا فانہ من یعش منکم بعدی فسیری اختلافا کثیرا فعلیکم بسنتی وسنۃ خلفاء الراشد ین المھدیین تمسکوابھا وغضوا علیھا بالنوا جذوایا کم و محدثات الامور فان کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ ‘‘ یعنی مشکواۃ شریف کے باب الاعتصام بالسنۃ میں عرباض ابن ساریہ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسم نے ایک دن ہم کو نماز پڑھائی پھر ہماری طرف منہ کر کر متوجہ ہوئے پھر ہم کو نصیحت کی بہت اچھی نصیحت کہ اس نصیحت کے سبب آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور اس سے دل کانپ گئے۔ پھر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ نصیحت تو رخصت کرنے والے کی سی ہے ، پھر ہم کو کچھ وصیت بھی کر دیجئے۔ پھر حضرت نے فرمایا کہ میں تم کو اللہ کے ساتھ پرہیز گاری کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور سردار کا کہا ماننے اور حکم بجا لا نے کی ، اگرچہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ میرے پیچھے جو کوئی تم میں سے جیتا رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ پھر میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت پر چلو کہ ان کو ہدایت ہو گئی ہے ۔ اسی پر بروسا کرو اور اسی کو دانتوں سے مضبوط پکڑے رہو اور بچو تم نئی نئی چیزوں سے ۔ پھر اس میں کچھ شک نہیں کہ جو نئی چیز ہے بدعت ہے اور جو بدعت ہے گمراہی ہے۔ ‘‘ ’’ و عن جابر قال قال رسول اللہ علیہ وسلم اما بعد فان خیر الحدیث کتاب اللہ و خیر الھدیٰ ھدی ، محمد وشرالا مورمحد ثاتھا وکل بدعۃ ضلالۃ‘‘ یعنی اور مشکواۃ شریف کے اسی بات میں جابر سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی تعریف کے بعد یہ بات ہے کہ سب سے اچھا کلام کلام اللہ ہے اور سب سے اچھی راہ محمد کی ہے اور بد تریز چیزوں کی نئی کلی ہوئی چیزیں ہیں اور جو بدعت ہے گمراہی ہے۔ ان حدیثوں میں دو لفظ آئے ہیں ، ایک تو محدثات اور دوسرا امور جن کا ترجمہ نئی چیزیں ہیں اور دونوں لفظوں کے معنی معلوم ہونے سے بدعت کے معنی بھی معلوم ہو جاتے ہیں ، کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو نئی چیز ہے بدعت ہے تو جب نئی چیز اسے کہتے ہیں کہ نہ تو وہ چیز اگلے زمانے میں ہو اور نہ اس کی مانند اور کوئی چیز ہو ،مثلا ً نئی ٹوپی سینی یا تازی روٹی پکانے یا نئی تلوار جو اب بنائی گئی ہے اگلے زمانے میں یہ تو نہ تھی ، مگر اس طرح کی ٹوپی اور اس طرح کی تلوار اگلے زمانے میں بھی ہوتی تھی۔ اس واسطے ان چیزوں کو یہ تو کہیں گے کہ یہ نئی ٹوپی اور یہ تازی روٹی اور یہ نئی تلوار ہے ، مگر یہ کوئی نہ کہنے کا کہ یہ نئی چیز ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ نئی چیز وھی ہے کہ جو اگلے زمانے میں نہ وہ چیز تھی اور نہ اس کی ماند اور کوئی چزی ، کیونکہ اگر وہ چیز خود اگلے زمانے میں تھی تو اس کے نئے نہ ہونے میں کچھ کلام ہی نہیں اور جو چیز کہ اب ہے اور ویسی ہے ، ایک اور چیز اگلے زمانے میں بھی تو گویا یہ حال کی چیز بھی اگلے زمانے کی ہوئی اور اس واسطے اللہ صاحب نے فرمایا ۔ فاعبتر وایا اولی الابصار ۔ یعنی اے سمجھ والو ایک چیز کا حال دیکھ کر اسی طرح کی دوسری چیز کا بھی ویسا ہی حال سمجھ لو اورشرع میں اسی بات کا نام قیاس ہے۔ پھر ایک چیز کا دوسری چیز پر قیاس کرنا نئی بات نہ ہوئی۔ کیونکہ قیادت کرنے کا تو اللہ نے حکم دیا ہے اور نئی چیز کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے برا بتایا ہے کہ شرالامور محمد ثاتھا ،یعنی بد ترین چیزوں کی نئی نکلی ہوئی چیزیں ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ بری بات کا کیوں حکم دیتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر پہلی چیزوں کی مانند اب کوئی چیز ہو ، تو وہ نئی چیز نہیں ہے اور یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اگلے زمانے سے وھی زمانہ مراد ہے جس کے اچھے ہونے کی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے اور وہ زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین رضی اللہ عنہم کا۔ خیر امتی قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ، یعنی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سب سے اچھے میرے اصحاب ہیں ، پھر میرے اصحاب کے ملنے والوں کے ملنے والے پس اب نئی چیز وھی ہو گی کہ ان زمانوں میں نہ وہ چیز ہو اور نہ اس کی مانند دوسری چیز ، کیونکہ جو چیز کی حضرت کے وقت میں تھی وہ تو ٹھیٹ سنت ہے اور جو چیز کہ ان تینوں زمانوں میں تھی وہ بھی سنت ہی ہے ، کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان زمانوں کے اچھے ہونے کی خبر کر دی اور صحابہ کے طریقے پر چلنے کا حکم دے دیا۔ ’’ علیکم بسنتی و سنۃ خلفاء الراشدین المھدیین ‘‘ یعنی میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت پر چلو کہ ان کو ہدایت ہو گئی ہے اور یہ بھی جان لو کہ ہم نے جو یہ بات کہی ہے کہ جو چیز حضرت کے زمانے میں یا ان تینوں زمانوں میں تھی وہ سنت ہے ، اس کے یہ معنی ہیں کہ یا تو اس چیز کو حضرت نے آپ نے کیا اور یا اس کے کرنے کا حکم دیا ہو اور کسی نے کیا ہو اور آپ نے خبر پا کر منع نہ کیا ہو ۔ یہ تو اس چیز کا حضرت کے وقت میں ہونا ہے۔ اور صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے وقت میں اس چیز کے ہونے کے یہ معین ہیں کہ ان زمانوں میں سے کسی زمانے میں بے کھٹکے اس کا رواج ہو گیا ہو اور کسی نے اس کو برا نہ جانا ہے ، یہ کہ کسی اکا دکا نے اسے کیا ہو یا اس کے کرنے والوں کو لوگوں نے برا جانا ہو ، کیونکہ اس طرح کی بات معتبر نہیں ہوتی اور اس کا ہونا نہہونے ہی کے برابر ہوتا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ حدیث میں جو یہ لفظ آیا ہے کہ ’’ ماانا علیہ واصحابی ‘‘ اس لفظ سے صحابہ کی عادت مراد ہے ، کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحابہ کی راہ پر چلنے کے یہ معنی بتائے ہیں : ’’ عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال من کان مستناً فلیستن بمن قدمات فان الحی لاتومن علیہ الفتنۃ اولٰئک اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نوا افضل ہٰذا الامۃ ابرھا قلوباً و اعمقھا علماً واقلھا تکلفاً اختار ہم اللہ لصحبۃ نبیہ ولا قامۃ دینہ فاعترفو الھم فضلھم و اتبعو اھم علیٰ اثر ہم وتمسکوا بما استعطتم من اخلاقھم و سیر ھم فانھم کا نوا علی الھدی المستقیم ۔ روا رزین ‘‘ یعنی مشکواۃ شریف کے باب الاعتصام بالسنہ میں لکھا ہے کہ رزین نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ بات نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی راہ پر چلنا چاہے تو ان لوگوں کی راہ پرچلے جومر گئے ہیں ، کیونکہ جیتوں پر فتنے میں نہ پڑنے کا بھروسا نہیں ہوتا ہے اور وہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تھے ، اس ساری امت کے لوگوں سے بہتر ، بہت صاف دل اور بڑے عالم اور بہت بے تکلف ۔ ان کو اللہ نے اپنی نبی کی صحبت اور اس کادین مستحکم کرنے کے لیے پسند کیا تھا۔ پھر تم ان کی بزرگی پر خیال کرو اور ان کے قدم بقدم چلو اور جتنا ہو سکے ان کے اخلاق اور ان کے عادتوں کو پکڑو۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ سیدھی راہ پر تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ’’ ماانا علیہ و اصحابی ‘‘ سے یہی مراد ہے کہ صحابہ کے اخلاق اور ان کی عادتوں کو پکڑنا چاہیے اور یہ قاعدہ ہے کہ جب اس طرح پر بات کہی جاتی ہے کہ فلانے لوگوں میں رواج ہو نہ وہ بات کہ اتفاقاً کسی اکاد کا آدمی نے اس کو کر لیا ہو یا اس کے کرنے والوں کو لوگ برا جانتے ہوں ، کیونکہ ایسی بات کو عادت نہیں کہتے ۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسے حبشیوں میں کچا گوشت کھانے کا رواج ہے کہ اکثر حبشی کچا گوشت کھاتے ہیں اور کوئی حبشی اس کو برا نہیں جانتا۔ گو کسی ایک آدھ حبشی نے نہ بھی کھایا ہو ، مگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ کچا گوشت کھانا حبشیوں کی عادت ہے اور اگر اتفاق سے کوئی ہندوستانی بھی کچا گوشت کھا لے یا ہندوستانی لوگ کچا گوشت کھانے والوں پر نام دھریں تو یہ کوئی نہیں کہنے کا کہ کچا گوشت کھانا ہندوستانیوں کی بھی عادت ہے۔ غرض کہ عادت اسی کو کہتے ہیں کہ جس کا بے کھٹکے رواج ہو گیا ہو اور اس کے سوا ایک بات ہے کہ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ ’’ ما انا علیہ واصحابی ‘‘ یعنی جس طریق پر میں ہوں اور میرے اصحاب اور یہ قاعدہ ہے کہ اگر بہت سی چیزوں کو اپنی طرف نسبت کر کر بیان کیا جاوے تو اس سے وہ سب چیزیں مراد ہوتی ہیں ، یہ نہیں ہوتا کہ کچھ تو ان میں سے مراد ہوں اور کچھ نہ ہوں ، مثلا کسی شخص کے بہت سے بھائی ہوں اور وہ یہ کہے کہ اس حویلی میںمیرے بھائیوں کی شرکت ہے۔ تو اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ اس کے جتنے بھائی ہیں سب کے سب شریک ہیں۔ اسی طرح سرول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’ میرا صحاب ‘‘ کہ اس لفظ سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ سارے اصحاب مراد ہیں اور سارے صحابیوں کا کسی بات پر متفق ہو جانا دو ہی طرح پر ہو سکات ہے ، یا یہ کہ سب صحابی اس بات کو کریں یا اکثر کریں اور باقی برا نہ جانیں اور اسی بات کا نام رواج ہے اور اسی طرح رسول مقبول نے فرمایا ہے ’’ خیر امتی قرنی ‘‘ یعنی میری امت میں سب سے اچھے میرے زمانے کے لوگ ہیں ، تو اس سے یہ بات بھی سمجھی جاتی ہے کہ ان لوگوں میں جن جن چیزوں کا رواج ہے وہ اچھی ہیں ، نہ یہ کہ اگر کوئی شخص اتفاقاً بشریت سے کوئی کام کر بیٹھے وہ بھی اچھا ہو جاوے گا۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی یوں کہے کہ اس زمانے کے لوگ بڑے فضول خرچ ہیں تو اس سے یہی سمجھا جاوے گا کہ اس زمانے کے لوگوں میں شادی اور غمی اور مرنے جینے اور پہنے اوڑھنے اور کھانے اور پینے میں بہت سے روپے خرچ کرنے کا رواج ہے ، اگرچہ کوئی ایک آدھ آدمی فضول خرچ نہ بھی ہو۔ غرض کہ جس چیز کی عاد پڑ گئی ہو اور جس کا روازج ہو گیا ہو وھی چیز ہو ، میں داخل ھی نہیں تو اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔ پس اب نئی چیز کے معنی یہ ٹھہرے کہ نہ وہ چیز اور نہ اس کی مانند دوسری چیز رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہو اور نہ اس چیز کا اور نہ اس کی مانند دوسری چیز کا ان تینوں وقتوں میں بے کھٹکے رواج ہو گیا ہو۔ اب جہاں کہیں نئی چیز کا ذکر آوے یہی معنی سمجھنا ، مگر اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ نئی چیز تو ہر طرح کی بات کو کہتے ہیں ، خواہ دین کی بات ہو خواہ دنیا کی ، مگر اس جگہ صرف دین کی بات مراد ہے۔ ’’ عن رافع ابن خدیج قال قدم نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المدینۃ و ھم یابرون النخل فقال ما تصنعون قالو اکنانصنہ قال لعلکم لولم تفعلوا کان خیراً فترکوہ فنقصت قال فذکروا ذالک لہ فقال انما انا بشرا ذا امر تکم بشیئی من امر دینکم فنحذ و بہ و اذا امرتکم بشیئی من رای فاناما انا بشر ‘‘ یعنی مشکواۃ شریف کے باب الاعتصام بالسنہ میں رافع ابن خدیج سے یہ حدیث نقل کی ہے کہانہوں نے یہب ات کہی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ ولم مدینے میں تشریف لائے اور مدینے والے کھجوری میں کھجورے کا مادہ دیتے تھے۔ پھر حضرت نے پوچھا کہ یہ کیا کرتے ہو ، انہوں نے کہا کہ ہم تو یونہی کیا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر نہ کرو تو شاید اچھا ہو۔ پھر لوگوں نے حضرت کے سامنے اس کا ذکر کیا ، آپ نے فرمایا کہ بات یوں ہی ہے کہ میں بھی آدمی ہوں ، جب تمہارے دین کی کوئی بات بتاؤں اس کو تو بجا لاؤ اور دنیا کی جس بات کو پانی عقل سے کہوں تو پھر میں بھی آدمی ہی ہوں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نئی چیزوں کو برا بتایا ہے ان نئی چیزوں سے دین ہی کی بات مراد ہے ، دنیا کے کاموں سے کچھ غرض نہیں اور دین کی بات اسے کہتے ہیں جس سے شرع کے حکم علاقہ رکھتے ہوں اور شرع کے حکم پانچ چیزوں سے متعلق ہیں۔ ایک تو عقاید سے کہ آدمی اپنا عقیدہ کیسا رکھے ، جیسے کہ اللہ کو ایک جاننا اور شرک نہ کرنا ، کیوں کہ اللہ کو ایک سمجھنا مسلمان ہون کی بنیاد ہے اور شرک کرنا مسلمانی کو ڈھانا ہے ۔ دوسرے اخلاق سے کہ آدمی اپنے میں کس طرح کا خلق پیدا کرے ، جیسے رحم دل ہونا اور سخت دل نہ ہونا ، کیونکہ رحم دل پر اللہ رحمت کرتا ہے اور سخت دل اللہ کی رحمت سے دور ہوتا ہے یا توکل کرنا اور حریص نہ ہونا ، کیونکہ توکل کرنے سے اللہ صاحب کے دربار میں رتبہ بڑھتا ہے اور حرص کرنے سے قدر گھٹتی ہے۔ تیسرے ان باتوں سے جو آدمی کے دل پر ایک کیفیت اچھی یا بری چھا جاتی ہے جیسے اللہ کی محبت دل پر چھانی اور سب کی محبت دل سے نکلنی اللہ کی رضا مندی کا سب ہے اور اللہ کے دشمنوں کی محبت جمنی اللہ کی خفگی کا باعث ہے۔ چوتھے ان باتوں سے جو آدمی اپنی زبان سے کہتا ہے ، جیسے گناہوں سے توبہ کرنے میں اللہ مہربان ہوتا ہے اور دین کے کاموں میں رویت کرنے سے جس کا نام صلح کل رکھا ہے ، اللہ کی مہربانی جاتی رہتی ہے۔ پانچویں ان باتوں سے جو آدمی اپنے ہاتھ پاؤں آنکھ ناک سے کرتا ہے ، جیسے جہاں کرنے سے جنت میں درجہ بڑھ جاتا ہے اور مسلمان کے مارنے سے دوزخ میں پڑتا ہے۔ غرضیکہ شرع میں انھی پانچ چیزوں سے بحث ہے کہ انہیں پانچویں چیزوں میں سے کسی کے کرنے کا حکم ہوتا ہے اور کسی کے نہ کرنے کا حکم ہوتا ہے اور ان پانچوں چیزوں کو اگر عبادت کے طور پر کرے گا تو اگر عادت کے طور پر کرے گا تو اور اگر دنیا کے معاملے کے طورپ کرے گا تو انہی سے شرع کے حکم متعلق نہیں ، کیونکہ جس طرح شرع کے حکم عبادت سے متعلق ہیں ، اسی رطح عادت اور دنیا کے معاملے سے بھی متعلق ہیں ، جیسے کہ حدیث شریف میں آیا کہ تین دفعہ کر کر خوشبو لگانی اور تین سلائی سرمہ دینا اللہ کے نزدیک اچھا ہے اور بائیں ہاتھ سے کھانا برا ، حالانکہ یہ تو ایک عادت کی بات ہے یا یہ کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایمان داری سے سودا گری کرنی قیامت میں نفع دے گی اور کلام اللہ میں آیا ہے کہ سود کھانا قیامت میں نقصان دے گا ، حالانکہ یہ تو دنیا کے معاملات کی بات ہے۔ غرض کہ شرع کے احکام جس طرح عبادت سے متعلق ہیں اسی طرح عادت اور دنیا کے معاملات سے بھی متعلق ہیں اور سبب اس کا یہ ہے کہ شرع کے احکام آدمی کا ظاہر اور باطن دونوں درست ہونے کے اترے ہیں۔ پھر ظاہر کی درستی جب ہی ہوتی ہے ، جب آدمی اپنی عبادت اور عادت اور معاملے کو درست کرے اور باطن کی درستی جب ہوتی ہے جب آدمی اپنا عقیدہ اور دل کے حالات خدا کے رسول کے حکم کے بموجب درست کرے : اندرون راز جہل خالی دار تادرو نور معرفت بینی اوریہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ جس طرح شرع میں ان پانچویں چیزوں میں سے کسی کے کرنے اور کسی کے نہ کرنے کا حکم ہے اس طرح بعضے حکموں میں ایک قید لگا دی جاتی ہے اور اس کی حد معین کر دی جاتی ہے اور اس کی ایک شرط ٹھہرا دی جاتی ہے ، جیسے وضو غیر نماز کا نہ ہونا یا مقدور بغیر حج کا فرض نہ ہونا تو اس طرح کی باتیں بھی دین ہی کی باتوں میں داخل ہیں اور ان میں بھی نئی بات نکالنی دین ہی کی بات میں نئی بات نکالنی ہے ، کیونکہ ان باتوں سے بھی شرع کے حکم متعلق ہیں۔ ان حدیثوں سے بدعت کے یہ معنی معلوم ہوئے کہ جو عقیدہ اوربات چیت اور دل پر کے حالات اور عبادت اور عادت اور معاملہ کہ نیا ہو ، یعنی نہ وہ اور نہ اس کے مانند دوسری چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہو اور نہ اس کا اور نہ اس کے مانند دوسری چیز کا صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے وقتوں میں بے کھٹکے رواج ہو گیا ہو اور کوئی شخص اس کو قیامت میں فائدہ مند سمجھ کر کرے یا مضر جان کر چھوڑ دے یا کسی عبادت یا معاملے کے رکن یا شرط یا لوازم سے جان کر کرے یا اس کے برخلاف سمجھ کر چھوڑ دے اس کو ٹھیٹ بدعت کہتے ہیں جس کے حق میں رسول مقبول صادق مصدوق نے فرمایا کہ ’’ شرا لا مور محدثاتھا ‘‘ یعنی بد ترین چیزوں کی نئی چیزیں ہیں ، اب دیکھ لو کہ جو اس طرح کی نئی باتیں ہیں وہ ٹھیٹ بدعت ہیں۔ دوسری قسم کی بدعت کا بیان اس کے سوا ہمارے زمانے میں ایک اور طرح کی بدعت کا زور ہے کہ جس میں اکثر خواص لوگ بھی مبتلا ہیں ، مثلا ایک بات تو شرع میں ہے ، مگر اس میں ایک اور ایسی بات بڑھا گھٹا دیتے ہیں کہ وہ سنت سے بدعت ہو جاتی ہے ۔ چنانچہ اب ہم اس بدعت کا بیان کرتے ہیں۔ ’’ عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من احدث فی امر نا ہذا مالیس منہ فھورد ‘‘ یعنی مشکوۃ شریف کے باب الاعتصام بالسنہ میں حضرت عایشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہماری اس شریعت میں نئی چیز نکالی کہ جو اس میں نہیں ہے تو وہ چیز مردود ہے۔ ‘‘ ’’ وعن انس قال جاء ثلثۃ رھط الی ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم یسئلون عن عبادۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلما اخبروا بھا کا نھم تقالوھا فقالوا این نحن من النبی صلی اللہ علیہ وسلم وقد غفر اللہ لہ ماتقدم من ذنبہ و ماتا خرفقال احد ہم اما انا فاصلی اللیل ابدا و قال الاخرانا اصوم النھار ابداولا افطروقال الاخر افا اغزل النساء فلا اتزوج ابداً فجاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم الیھم فقال انتم الذین قلتم کذا وکذاابا واللہ انی لاخشکم اللہ واتقکم الہ لکنی اصوم و افطرو اصلی وار قدو اتزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی ‘‘ یعنی مشکواۃ شریف کے باب الاعتصام بالسنہ میں انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیثی نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ تین شخص پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں کے پاس آئے پوچھتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا حال ، پھر جب ان کو وہ بتائے گئے تو گویا انہوں نے اس کو کم جانا ، پھر آپس میں کہنے لگے کہ کہاں ہم اور کہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ بیشک اللہ نے ان کی پہلی پچھلی باتیں سب بخش دی ہیں ، پھر ان میں سے ایک نے کہا کہ میں تو ساری رات نماز ہی پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے ہی رکھا کروں گا اور نہ چھوڑوں گا ۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں کے پاس نہیں جانے کا اور کبھی نکاح نہیں کرنے کا ۔ اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا کہ تم ہی ایسی ایسی باتیں کرتے ہو ، خبر دار ہو کہ خدا کی قسم بے شک میں بہت ڈرتا ہوں تمہاری بہ نسبت اللہ سے اور تمہاری بہ نسبت بہت پرہیز گاری کرتا ہوں اللہ کی ، لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اور انہیں بھی رکھتا ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں اور اور رات کو سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاں بھی کرتا ہوں ، پھر جو شخص میری سنت سے پھرا وہ مجھ سے نہیں۔ پہلی حدیث میں تین لفظ آئے ہیں کہ جن کے جاننے سے اس طرح کی بدعت کے معنی بھی معلو ہو جاتے ہیں ، ایک تو لفظ احدث اور دوسرا مرنا اور تیسرا لفظ ماجن میں سے پہلے دونوں لفظوں کا ترجمہ یہ ہے کہ نئی چیز نکالی ہماری شریعت میں ۔ ان دونوں لفظوں کے معنی تو پہلے معلوم ہو چکے ہیں کہ نئی چیز کیا ہوتی ہے اور دین کی بات کن کن چیزوں کو کہتے ہیں ، البتہ تیسرے لفظ ، یعنی ماہ کے لفظ کے معنی معلوم کرنے چاہئیں ۔ اب جان لو کہ ما کے لفظ کا ترجمہ اردو میں جو ہے اور اس لفظ کے ایسے مبہم معنی معلوم ہوتے ہیں کہ ہر بات پر ٹھیک آجاتے ہیں ، لیکن جس مقدمے میں بات چیت ہو اس کے قرینے سے اسی مقدمے کے متعلق مراد ہوتی ہے ، مثلا اگر کوئی یوں کہے کہ جاھلوں کو نہیں چاہیے کہ جو عالموں کی باتیں ہیں ان میں دخل دیں تو اب ’’ جو ‘‘ کا لفظ ایسا ہے کہ ہر بات پر ٹھیک آسکتا ہے ، مگر اس جگہ بات چیت کے قرینے سے یہ ہی بات سمجھی جاتی ہے کہ جو کے لفظ سے علم کی باتیں مراد ہیں کہ جاھل عالموں کے علم کی باتوں میں دخل نہ دے ، یعنی کوئی کتاب نہ بنائے ، کوئی تقریر نہ کرے ، کوئی مسئلہ نہ نکالے ، نہ یہ کہ کپڑا بنانے اور کھانا کھانے میں کچھ دخل نہ دے ، اگرچہ کپڑا پہننا اور کھانا کھانا عالموں میں بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح پہلی حدیث میں جو ’ ما ‘ کا لفظ ہے اس سے بھی اسی طرح کے معنی مراد ہیں کہ جو کوئی نبیوں کے کام میں جو نئی بات نکالے وہ بات مردود ہے تو اب یہ بات دیکھنی چاہیے کہ انبیاء کس کام پر اللہ کی طرف سے آئے ہیں ۔ اب سمجھ لو کہ جس طرح انبیاء علیہم الصلواۃ والسلام عقاید اور اخلاق اور دل کے حالات اور زبان کی بات چیت اور ہاتھ پاؤں کے کام کاج جن سے ظاہر اور باطن کی آراستگی ہوتی ہے درست کرنے کو آئے ہیں اسی طرح سب باتوں کی حدیں مقرر کرنے اور ہر کام کرنے کا ڈھب بنائے اور ہر ایک چیز کی صورت ٹھہرا دینے کو بھی آئے ہیں ، کیوں کہ پہلے کی پانچویں باتوں کو تو جن سے ظاہر اور باطن درست ہوتا ہے دین کہتے ہیں اور دین ہر ایک نبی کے ساتھ تھا اور ہر نبی کو انھی پانچ باتوں کو درستی کے لیے نبوت ہوئی تھی۔ ’’ قال اللہ تعالیٰ شرع لکم من الدین ماوصی بہ نوحاً والذی اوحینا الیک و اما وصینا بہ ابراہیم و موسیٰ وعیسیٰ ‘‘ یعنی اللہ صاحب نے سورۃ الشوریٰ میں فرمایا ، ’’ راہ ڈال دی تم کو دین میں وھی جو کہہ دیا تھا نوح کو اور جو حکم بھیجا ہم نے تیری طرف اور وہ جو کہہ دیا ہم نے ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو ۔ ‘‘ اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین تو ہر نبی کا ایک سا تھا ، مگر دوسری بات میں جس سے حدیں مقرر ہوجاویں اور ہر کام کا ڈھب ٹھہر جاوے اور ہر ایک بات کی ایک صورت بن جاوے جدا جدا تھی اور اسی دوسرے صورت کو شریعت کہتے ہیں۔ ’’ قال اللہ تعالیٰ لکل جعلنا منکم شرعۃ و منھاجا ‘‘ یعنی اللہ صاحب نے سورۃ المائدہ میں فرمایا ’’ ہر ایک کو تم میں دی ہم نے ایک شریعت اور راہ ۔ ‘‘ پس اب سمجھ لو کہ ہر ایک چیز کی ایک حد مقرر کرنے اور ہر کام کا ڈھب بتانے اور ہر ایک بات کی ایک صورت بتا دینے کا نام شریعت ہے ، مثلانماز پڑھنی اور شرک نہ کرنا اور زنا سے بچنا ، یہ تو اصل دین ہے کہ ہر نبیوں کے وقت میں تھا اور نماز کی بھی حد مقرر کر دینے اور وقت ٹھہرا دینے اور رکعتیں گن دینے اور شرطیں لگا دینے اور نکاں میں گواہوں کا ہونا اور مہر کا بندھنا اور بد شگونی ماننے سے ایک طرح کا شرک ہوجانا اور اللہ کے سوا دوسرے کسی کو قسم کھانے میں بھی ایک طرح کا شرک ہو جانا اور زنا اسی کو کہنا جہاں زنا نہ ہونے کا شبہ نہ ہو اور پھر زنا کی بھی حد معین کا مقرر ہونا اور اسی طرح کی اور بہت سی باتیں جو شریع میں مقرر ہیں اس کا نام شریعت ہے جو بخوبی شریعت محمدیہ علی صاجہاالصلواۃ والسلام میں پوری ہو چکیں جس میں اب گھٹانے بڑھانے کی حجت نہ رہی ، اور جن باتوں کی حدیں اور جن چیزوں کی صورتیں شارع نے مقرر کر دی ہیں وہ دو طرح پر ہیں ، ایک تو یہ کہ اگر فلانا کام اس طرح پر نہ کیا جاوے گا تو شرع میں وہ نہ ہونے کے برابر ہے ، دوسرے یہ نہ کیا جاوے گا تو شرع میں وہ نہ ہونے کے برابر ہے ، دوسرے یہ کہ اگر فلانا کام اس صورت پر ہو گا تو شرع میں بہت اچھا اور اللہ کے نزدیک بہت بہتر ہے جیسے نماز میں کھڑا ہونا اور کچھ کلام اللہ پڑھنا اور رکوع اور سجدہ کرنا یا نکاح میں ایجاب و قبول ہونا کہ یہ سب باتیں ضرور ہیں اور ان کے بغیر وہ کام نہ ہونے ہی کے برابر ہے۔ مثلا نماز میں مقرر کر دینا کہ اتنی دیر تک کھڑا رہنا اور اتنی دیر تک بیٹھنا اور اتنی دفعہ تسبیحات پڑھنی بہتر ہیں اور اللہ کے نزدیک اچھی ، یا مثلا پانچوں نمازوں کے وقت مقرر کر دینے اور رمضان کا مہینہ روزوں کے لیے ٹھہرا دینا اور عید کے مہینے کی پہلی تاریخ اور بقرہ عید کی دسویں تاریخ عید کے لیے مقرر کر دینی ایسی باتیں ہیں کہ اگر اپنے وقتوں میں نہ کیا جاوے تو ہونا نہ ہونے کے برابر ہے ، یا مثلا رمضان کی راتیں اور شب برات میں عبادت کرنی اور آفتاب نکلنے کے بعد اشراق کی نماز پڑھنی اور آدمی رات کے بعد تہجد کی نماز ادا کرنی اور ایام بیض اورشش عید اور عرفہ اور عاشورہ اور شب برات کے روزے رکھنے اور ساتویں دن عقیقہ کرنا اور جمعرات کے دن سفر کو جانا ایسی چیزیں ہیں کہ اگر اپنے دنوں میں یہ کام کیے جاویں تو اللہ کے نزدیک بہت بہتر ہے ، یا مثلا پاک جگہ کا نماز کے لیے مقرر کرنا اور شہریوں ہی میں جمعے کی اور عید کی نمازوں کا ہونا اور اعتکاف کے لیے مسجدوں ہی کا ٹھہرانا اور حج کے لیے کعبۃ اللہ ہی جانا ایسی چیزیں ہیں کہ اگر اسی طرح نہ ہوں تو ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے ، یا مثلاً فرضوں کے لیے اور نکاح باندھنے کو مسجدوں کا معین ہونا اور نفل اور کلام اللہ پڑھنے کو گھروں کا ٹھہرانا اور جامع مسجد جمعہ کی نماز کو ااور جنگل عید کی نماز کو معین کرنا ، ایسی باتیں ہیں کہ اگر اسی طرح پر ہوں تو اللہ کے نزدیک بہت بہتر ہے ، یا مثلاً نماز میں رکعتوں کی گنتی ٹھہرا دینی ، روزوں کا شمار بتا دینا ، کفارے میں محتاج کھلانے کی گنتی مقرر کر دینی یا خریدوفروخت کے معاملے میں تین دن تک اختیار دینا ایسی باتیں ہیں کہ اگر اس طرح نہ ہوں تو ان کا ہونا نہ ہونے کے برابر ہے ،یا مثلاًنفلوں میں رکعتوں کی گنتی مقرر کر دینے اور جیسے صلواۃ التسبیح میں تمسبیحات کا شمار بتا دینا یا ہر بات میں طاق کا اچھا ہونا ایسی باتیں ہیں کہ اگر اسی طرح پر ہوں تو اللہ کے نزدیک بہتر ہے۔ غرض کہ جتنی باتیں دنیا میں ہیں کیا شادی کی اور کیا غمی کی اور کیا عبادت کی اور کیا عادت کی اور کیا معاملے کی ، سب کے لیے اللہ صاحب نے ایک حد مقرر کر دی ہے اور وہ حد دو طرح پر ہے ، یا یہ کہ اگر اس حد مقرر کردی ہے اور وہ حد دو طرح پر ہے ، یا یہ کہ اگر اس حد کو توڑا جاوکے گا تو اللہ کے نزدیک اس کام کا ہونا نہ ہونے کے برابر ہو گا یا یہ کہ ہوتو جاوے گا مگر جس طرح حد کے نہتوڑنے میں اللہ کے نزدیک ثواب اور درجہ تھا اتنا ثواب اور درجہ نہیں ہو گا۔ کما قال اللہ تعالیٰ ’’ و تلک حدود اللہ و من یتعد حدود اللہ فقذظلم نفسہ ‘‘ یعنی اللہ صاحب نے سورہ طلاق میں فرمایا ’’ اور یہ حدیں ہیں اللہ کی باندھی اور جو کوئی بڑھے اللہ کی حدوں سے تو اس نے برا کیا اپنا ۔ ‘‘ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر کام کی جو اللہ صاحب نے حدیں مقرر کر دی ہیں ان کو نہ توڑنا ، یعنی ان میں کمی بیشی نہ کرنی شریعت پر چلنا ہے ، بلکہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے نور معرفت کا دیا ہے اور اتباع اپنے حبیب کا نصیب کیا ہے ان کو تو ان باتوں کا یہاں تک خیال رہتا ہے کہ جتنے احکام شرع کے ہیں ان میں بھی غور کرتے ہیں کہجن چیزوں کے بجا لانے کا تاکیدی حکم ہے ان کے بجا لانے میں ، ان حکموں کے بجا لانے سے جن میں اتنی تاکید نہیں ہے زیادہ سعی اور کوشش کرتے ہیں ، مثلا نماز میں سب چیزوں کیادا کرنے کا حکم ہے ، مگرجتنی تاکید کہ اس کے ارکان درست کرنے پر ہے اتنی اور چیز پر نہیں ، یا جتنی تاکید وضو کر کر نماز پڑھنے پر ہے ، اتنی سیدھا قبلے کی طرف کھڑا رہنے پر نہیں، کیونکہ اگر تھوڑا سا قبلے سے کج ہو تو بھی نماز ہو جاتی ہے ، یا مثلا جیسے الحمد پڑھنے پر تاکید ہے ایسی اور سورت کے پڑھنے پر نہیں ، کیونکہ اخیر رکعتوں میں پڑھی نہیں جاتی اور اسی طرح جیسی تاکید پہلی دو رکعتوں کے ادا کرنے میں ہے ویسی اخیر کی دو رکعتوں میںنہیں ، کیونکہ سفر میں نہیں پڑھی جاتیں۔ غرض کہ ہر ایک کام کرنے کی ایک حد شرع میں مقرر کردی ہے ، اس حد کو توڑنا نہیں چاہیے اور اسی واسطے رسول مقبول نے فرمایا ہے کہ ’’ ان اللہ حدود اً فلا تضیعوھاً ‘‘ یعنی اللہ صاحب نے ہر کام کی حدیںمقرر کر دی ہیں ان کو نہ کھوؤ۔ غرض کہ جس چیز کا نام شریعت محمدیہ ہے اس کے احکام دوہی طرح پر ہیں ، یا تو ان سے ہر چیز کی حدیں ٹھہرائی گئی ہیں اور یا ہر حکم کے درجے مقرر کیے گئے ہیں۔ پس اس پہلی حدیث میں جو ما کا لفظ آیا ہے اس سے یہی باتیں مراد ہیں، یعنی جو کوئی دین کی باتوں میں کوئی چیز ، خواہ وہ کسی چیز کی حد مقرر کر دینی ہو یا ایک جگہ کی چیز دوسری جگہ ٹھہرا دینی ہو یا ایک کا مرتبہ بڑھا دینا اور دوسرے کا گھٹا دینا ہو ، نکالے تو وہ بات مردود ہے۔ اب تم کو جب اس ما کے لفظ کے معنی معلوم ہو گئے تو اب اس قسم کی بدعت کے یہ معنی ٹھہرے کہ دین کی باتوں میں جو نئی نئی حدیں مقر ر کرنی یا نئی طرح کا ڈھنگ اور موقع دین میں ٹھہرا دینا کہ نہ وہ رسول اللہ کے وقت میں تھا اور نہ اس کی مانند اور نہ اس کا رواج صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے وقت میں تھا اور نہ اس کی مانند کا ، اور کوئی شخص اس بات کو یوں جان کر کرے کہ فلانی دین کی بات کے ہونے کا اسی پر مدار ہے با اس بات کاہونا اللہ کے نزدیک اچھا اور بہتر ہے یا کسی دین کی چیز کو اس طرح پر سمجھ کر چھوڑ دے کہ اس کے ہونے سے دین کی فلانی بات ہونے ہی کے برابر ہے یا اس کے ہونے سے اس کو ثواب گھٹ جاتا ہے تو یہ ہی بدعت ہے ،مگر اتنا فرق ہے کہ پہلی تو ٹھیٹ بدعت تھی کہ اس کی اصل ہی شرع میں نہ تھی اور یہ بدعت اس سے اثر کر ہے کہ شرع میں جو بات تھی اس پر ایسی چیزیں اور لگادی ہیں کہ جو شرع میں نہ تھیں اور اسی سبب سے یہ بدعت ہو گئی جس کے حق میں رسول مقبول نے فرمایا : ’’ من احدث فی امرنا ہذا مالیس منہ فھورد ‘‘ یعنی جس شخص نے کہ نئی بات نکالی ہماری اس شریعت میں جو اس میں نہیں ہے تو وہ نئی بات مردود ہے ۔ سارے سارے بیان سے معلوم ہوا کہ بدعت کا مدار مقیدے پر ہے ، یعنی جو چیز کہ اللہ کے نزدیک فائدہ مند نہیں ہے اس کو فائدہ مند جاننا اور جو چیز کہ اللہ کے نزدیک مضر نہیں ہے اس کو مضر سمجھنا بدعت ہے ، لیکن اس کے علاوہ ایک اور قسم کی بھی بدعت ہے کہ جو بغیر اعتقاد کے بھی بدعت ہی ہو جاتی ہے اور اسی قسم کی بدعت میں ہزاروں زن و مرد گرفتار ہیں۔ تیسری قسم کی بدعت کا بیان اور وہ یہ ہے کہ دین کی باتوں میں جو نئی بات نکلی ہو اس کے کرنے میں بھلائی اور نہ کرنے میں برائی کا تو اعتقاد نہ رکھتا ہو ، لیکن اس کو اس طرح پر کرتا ہو یا اس کے نہ کرنے میں ایسا اہتمام بجا لاتا ہو کہ جیسا اس چیز کی بھلائی یا برائی پر اعتقاد رکھنے والے بجا لاتے ہیں۔ ’’ عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من تشبہ بقوم فھو منھم ‘‘ یعنی مشکواۃ شریف کے بات اللباس میں ابن عمر سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انھی میں سے ہے۔ اس حدیث میں تشبیہ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی مشابہت کرنے کے ہیں اور دو چیزوں میں پوری مشابہت جب ہوتی ہے جب دیکھنے والا ان دونوں کو دیکھ کر پہچان نہ سکے کہ یہ چیز کون سی ہے اور وہ چیز کون سی ، اور اس حدیث میں نری مشابہت کا لفظ آیا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بات میں مشابہت کرے ، خواہ کھانے میں ، خواہ پہننے میں ، خواہ بولنے میں ،خواہ عادت میں ، خواہ عبادت میں ، خواہ معاملے ہیں ، وہ ان ہی لوگوں میں سے ہو گا جن کے ساتھ مشابہت کی ہے۔ اب غور کرو کہ جس شخص نے دین میں نئی بات نکلی ہوئی کو اختیار کیا ہے اور گو وہ شخص اس نئی بات کے کرنے میں بھلائی اور نہ کرنے میں برائی کا اعتقاد نہ رکھتا ہو ، لیکن جب وہ شخص اس نئی بات کو اسی طرح بجا لاتا ہے جس طر ح کہ اس چیز کی بھلائی یا برائی پر اعتقاد رکھنے والے بجا لاتے تھے تو اس شخص نے بھی انہی لوگوں کی مشابہت کی ، اس سبب سے انہی لوگوں میں گنا گیا۔ اب خیال کرو کہ وحدت وجود کا مسئلہ جو اس زمانے کے پیروں اور پیرزادوں میں پھیل رہا ہے اورمولوی بھی اس کو سن کر گردن نیچی ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بابا فقیروں کی باتوں میں دم نہیں مارا جاتا اور اس مسئلے کو غایت عرفان اور موجب نہایت قربت الی اللہ کا سمجھ رکھا ہے تو یہ اعتقاد ٹھیٹ بدعت ہے ، کیونکہ یہ باتیں نہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں تھیں ، نہ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے وقت میں اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات پاک میں گفتگو کرنی کہ کیسا ہے اور کہاں ہے اور کیونکر ہے یا جبر و اختیار کے مسئلے میں الجھنا یا دیدار الہٰی کے معنی بتانے کہ اس طرح پر ہو گا یا کلام اللہ کی متشابہ آیتوں اور متشابہ حدیثوں میں بحث کرنی اور خواہ مخواہ اس میں معنی پہنانے یا حکیموں اور فلسفیوں کے مذھب کی کتابیں پڑھنی اور ہمیشہ اس میں اوقات ضائع کرنے اور اس سے ثواب ملنے کی توقع رکھنی ٹھیٹ بدعت ہے ، اور یوں ہی بطور رسم کے لوگوں کی ریسا ریس پڑھنا اور اس پر ایسا اہتمام کرنا جیسا کلام اللہ اور حدیث اور فقہ کے پڑھنے پر چاہیے تھا ، جس طرح کہ ہمارے زمانے کے لوگ کرتے ہیں اور چار کتابیں منطق کی پڑھ کر مولوی بن بیٹھتے ہیں اور جس نے ان کتابوں کو نہ پڑھا ہو اور گو حدیث و فقہ خوب جانتا ہو اور اس کو جاھل اور دلوں سے گرا ہو سمجھتے ہیں تو اس طرح کا بھی پڑھنا بدعت ہے ، گو اس میں ثواب ملنے کا اعتقاد نہ رکھتا ہو ، کیوں کہ اس نے بھی ان کتابوں کے پڑھنے پر ایسا ہی اہتمام کیا ہے ، جیسا کہ ثواب ملنے کا اعتقاد رکھنے والے کرتے ہیں ، البتہ بقدر ضرورت کے پڑھ لینا اور سب کو مقصود بالذات نہ سمجھنا اور اسی میں غلطاں وپیچاں نہ رہنا دوسری بات ہے اور اسی طرح اکثر فقیروں نے جو طریقے زھد و ریاضت اور مراقبے اور ذکر اور شغل کے خلاف سنت نکالے ہیں اور ان سے کشف و کرامات حاصل کرتے ہیں ان کا بھی یہی حال ہے ، کیوں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے رستے صفائی باطن اور تقرب الی اللہ کے بتا دیے ہیں اور صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے برتاؤ میں رہے ہیں اس کے سوا دوسری بات نکالنی جس کا ٹھکانا نہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں تھا اور نہ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے وقت میں تو وہ بات ٹھیٹ بدعت ہے اور اسی طرح تعویذ طو مار ،گنڈے پلیتے کرنے اور کسی گنڈے کے سبب انڈا مرغی کا کھلانا اور کسی پلیتے کے باعث ہرن کا گوشت کھلانا چڑھانا یہ بھی بدعت ہے ، کیوں کہ اس طرح کی باتیں نہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں تھیں نہ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے وقت میں ، البتہ جن جن دعاؤں کا پڑھنا یادم کرنا جس طرح پر کہ حدیثوں میں آیا ہے انھی کو اسی طرح پر کرنے میں کسی کو کلام نہیں، کلام تو اس میں ہے کہ جو اس زمانے کے پیر زادوں اور مولوں زادوں نے حدیث کی دعاؤں کو چھوڑ کر اپنے باپ دادا کے عمل اعمال نکالے ہیں اور اسی رطح بعضے مشائخوں نے جو نئی نئی طرح ذکر نکالے ہیں اور ان کی ضربیں مقرر کی ہیں اور اس کی گنتی ٹھہرائی ہے اور پیر کا تصور کر کر مراقبہ نکالا ہے اور اسی طرح بہت سی باتیں شریعت مصطفویہ علیٰ صاجہا الصلواۃ والسلام میں بڑھا دی ہیں ، جن کا ٹھکانا نہ حضرت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں لگتا ہے اور نہ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے قوت میں اور پھر ان سب باتوں کو دینداری سمجھ کر اور ثواب ملنے کا اور اللہ صاحب کے دربار میں مرتبہ بڑھنے کا اعتقاد رکھ کر کرتے ہیں یہ سب باتیں بھی ٹھیٹ بدعت ہیں ، اور جو لوگ ان باتوں کو صرف وسیلہ جان کر اس طرح پر سعی کرتے ہیں جس طرح پر کہ ثواب ملنے اور اللہ کے دربار میں مرتبہ بڑھنے کے اعتقاد رکھنے والے کرتے ہیں تو ان کی نسبت بھی مشابہت کے سبب بدعت ہی میں داخل ہے۔ البتہ جن لوگوں نے کہ ان باتوں کو مقصود اصلی سمجھا اور نہ اس طرح پر اوڑھنا بچھونا بنایا اور نہ شریعت کے مسئلوں کے مقابل طریقت کے مسئلے ٹھہرائے ، بلکہ بعضی دفعہ کسی مصلحت سے کسی کی نسبت کوئی بات بتا دی اور یہ سبز باغ دکھا کر شرع محمدیہ علیٰ صاجہا الصلواۃ والسلام پر قائم کر دیا اور پورا پورا سنی مسلمان بنا دیا تو وہ دوسری بات ہے اور اسی طرح بزرگوں کے نام پر ختموں کا کرنا یہ بات ٹھہرانی کہ فلانے ختم میں اتنے آدمی ہوں اور فلانا ختم فلانے وقت ہو اور فلانے توشے میں یہی چیز ہو اور فلانے کونڈے میں فلانی چیز دھری جاوے اور بیری کی صحنک اس طرح پر نکالی جاوے اور اس کو ایک خصیوں سے سوا کوئی نہ کھاوے اور بیوی کی پڑیا اس طرح لال ناڑے سے باندھی جاوے اور اسی طرح اور ہزاروں باتیں جو اس زمانے میں مروج ہیں اور ان کے کرنے میں بھلائی اور نہ کرنے میں برائی کا اعتقاد رکھتے ہیں یہ سب باتیں ٹھیٹ بدعت ہیں اور اسی طرح راگ کی محفل کرنی اور قوالوں سے خالی معرفت کی غزلیں گوانی یا ڈھولکی سارنگی تال تنبورا بھی بجوانا اور حال قال کی مجلس نام رکھنا اور مرثیہ خوانی اور کتاب خوانی کرنی ، ماتم کرنا ، تعزیے بنانے ، شدے نکالنے ، لوگوں کو جمع کر کر قبروں پر جانا اور ان پر بیٹھ بیٹھ کر مراقبے کرنا اور اس بات کو اللہ کی رضا مندی کا باعث سمجھنا ، قبروں پر جا کر مردوں سے مدد مانگنی ، قبروں کو چومنا ، آستانوں کا بوسہ لینا ، گال رگڑنے ، قبروں پر پھولوں کی چادر ڈالنی ، غلاف چڑھانے ، قبروں کو غسل دینا اور اس کا پانی آب زمزم کی طرح پینا ، بانٹنا اور لحد بنانے کو ثواب سمجھنا ، قبروں پر روشنی کرنی اور میلہ جمع کرنا اور عرس نام رکھنا ، ناچ کرنااور ناچ کرنا اور بسنت کا بہانہ بنا لینا ، اگر کوئی مسلمان منع کرے تو حضرت امیر خسرو سے منکر جاننا اور ترت وھابی کہہ دینا ، مردے کے لیے نماز ھول کا پڑھنا ، دفنا نے کے بعد اذان کا دینا اوراسی طرح کی ہزاروں باتیں جو خلاف سنت رائج ہو گئی ہیں اور ان کو ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے ، یہ سب کی سب باتیں ٹھیٹ بدعت ہیں ، اسی طرح حضرت امام حسین کی فاتحہ کو محرم ہی کا مہینہ مقرر کرنا اور مولود شریف پڑھنے کو بارہ وفات ہی کا مہینہ ٹھہرانا اور مردوں کی فاتحہ کو نتیجے اور دسویں اور بیسویں اور چالیسویں اور نماھی اور چھ ماہی اور برسی کا مقرر کرنا ، بزرگوں اور پرانے مردوں کی فاتحہ کو ان کے مرنے ہی کے دن باندھ لینا ، یہ سب باتیں بھی بدعت ہیں۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسی قربانی کرنی تین دن تک درست ہے ، مگر عین بقرہ عید کادن ایسا ہے کہ اگر اسی دن قربانی کی جاوے تو زیادہ ثواب ہے۔ اس واسطے جن لوگوں کو اللہ نے توفیق دی ہے وہ پہلے سے بکرے بھی خریدتے ہیں اور باوجودیکہ ان دنوں میں بکرے مہنگے بھی ہاتھ لگتے ہیں ،مگر گرانی قیمت پر کچھ خیال نہیں کرتے اور باوجودیکہ اس دن نماز کو عیدگاہ میں بھی جانا ہوتا ہے اور فرصت بھی کم ہوتی ہے اور اس دن گوشت بھی بہت سا ہوتا ہے کہ گوشت کھاتے کھاتے جی بھر جاتا ہے ، مگر ان باتوں میں کسی کا بھی خیال نہیں کرتے اور سو طرح کے ہرج کر کے اس دن قربانی کرتے ہیں ، مگر اس دن کو ناغہ نہیں ہونے دیتے۔ پس اس طرح کے مقرر کرنے کا نام تو شریعت ہے کہ اس سے ہر کام کا وقت اور ہر بات کی حد مقرر ہوگئی ہے ، اب اس طرح اور کسی چیز کو اپنے آپ کو مقرر کر لینا بدعت ہو جاتا ہے۔ اب دیکھو کہ حضرت امام حسین کے لیے کھنا پکانا اور بھوکوں کو کھلانا اور اس کا ثواب حضرت امام حسین کو دینا ثواب کی بات ہے ، مگر خاص محرم کا مہینہ مقرر کر لینا بدعت ہے ، اس واسطے کہ کسی کام کے لیے کوئی دن یا مہینہ یا وقت مقرر کرنا تو شرع کا کام تھا تو پھرجس شخص نے کہ حضرت امام حسین کی فاتحہ کو محرم کا مہینہ اپنی طرف سے مقرر کر لیا اس نے شریعت میں ایک نئی بات نکالی اور شریعت میں نئی بات کا نکالنا بدعت ہے ، پھر جو شخص محرم ہی میں حضرت امام حین کی فاتحہ دینا زیادہ ثواب سمجھتا ہے تو اس کے حق میں تو دوسری قسم کی بدعت ہے اور جو شخص کہ زیادہ ثواب ملنے کا تو اعتقاد نہیں کرتا ، لیکن فاتحہ ہمیشہ محرم ہی میں کیا کرتا ہے جس طرح کہ زیادہ ثواب ملنے کا اعتقاد رکھنے والے کیا کرتے ہیں تو اس کے حق میں تیسرے قسم کی بدعت ہے اسی طرح جناب پیغمبر خدا صلی الہ علیہ وسلم کا ذکر کرنا اور ان کے حالات اور سوائخ عمری کا بیان کرنا اور ان کی عادتوں اور عبادتوں اور خصلتوں کا یاد کرنا دونوں جہان کی سعادت ہے ، مگر اب مولود شریف کی مجلس میں جو اپنی طرف سے یہ بات ٹھہرالی ہے کہ بارہ وفات ہی کا مہینہ ہو اور خواہ اور حالات حضرت کے بیان کیے جاویں یا نہ کیے جاویں ، مگر حضرت کے پیدا ہونے کا ضرور حال بیان کیا جاوے تو یہ باتیں مقرر کرنی شرع میں نہیں آئیں ، اس سبب سے ان کا اپنی طرف سے مقرر کر لینا بدعت ہے ۔ای طرح مردوں کے ثواب کے لیے کھانا بانٹنا اور اللہ دینا ، بھوکوں کو کھلانا ثواب ہے ، لیکن اس کام کے لیے اپنی طرف سے تیجے اور دسویں اور بیسویں اور چالیسویں اور نماھی اور چھ ماہی اور برسی کا دن مقرر کرنا بدعت ہے۔ اسی طرح مردے کی فاتحہ کو عین اس کے مرنے کا زور مقرر کرلینا کہ آندھی جائے یا مہینہ جائے ، سو طرح کے ہرج کر کر اسی دن فاتحہ دلائے ، یہاں تک کہ اگر اس دن کچھ پاس نہ ہو تو بنئے ہی کے ہاں سے گڑ ، گھی ، آٹا قرض لے لے اور حلوہ مانڈا پکالے اور اگر کہیں سفر کو جانا ہو تو کہے کہ کل داداجی کی فاتحہ کا دن ہے کیوں کہ چلا جاؤں ، فاتحہ دے کر پرسوں جاؤں گا ، ایک دن اور ٹھہر جاؤں ، غرض کہ ہزار کام کاج ہرج کرے ، یہاں تک کہ حدیث کا پڑھنا پڑھانا چھوڑے ، جماعت کے جاتے رہنے کا خیال نہ کرے ، مگر اس دن فاتحہ دلانی نہ چھوڑے تو یہ بات بھی بدعت ہے۔ پھر اگر وہ شخص یوں عقیدہ رکھتا ہے کہ ان دنوں میںزیادہ ثواب ملتا ہے تو اس کے حق میں تو دوسری قسم کی بدعت ہے ، اگر وہ شخص اس دن فاتحہ دینے سے ثواب زیادہ ملنے کا اور اور دن میں کم ملنے کا یا اس بات کا کہ یہ دن اوردنوں سے اچھا ہے یا اور دن برے ہیں ، اعتقاد تو نہیں رکھتا ، مگر یہ شخص اس بات کو اس طرح پر کرتا ہے ، اور اس ڈھنگ سے برتتا ہے جس طرح کہ ان باتوں کے بھلے برے ہونے کا اعتقاد رکھنے والے برتتے ہیں تو اس کے حق میں تیسرے قسم کی بدعت ہے اور اسی طرح کلام اللہ پڑھ کر مردوں کو بخشنا اکثر عالموں کے نزدیک ثواب کی بات ہے ، کھانا پکا کر اور اس پر ہاتھ اٹھا کر فاتحہ دینی اور الحمد اللہ، قل ہو اللہ پڑھنی اور اگلے پچھلوں کا نام لینا جیسا کہ اس زمانے کے لوگ کرتے ہیں ، یہ بھی بدعت ہے ، پھر اگر یہ شخص یوں سمجھتاہے کہ بغیر فاتحہ دینے کے کھانے کا ثواب مردے کو پہنچتا ہی نہیں جیسے کہ اکثر عوام یوں ہی جانتے ہیں تو اس کے حق میں دوسری قسم کی بدعت ہے اور اگر وہ شخص یوں تو نہیں جانتا ، مگر اس کو اسی طرح کرتا ہے جس طرح کہ اس بات کا اعتقاد رکھنے والے کرتے ہیں تو اس کے حق میں تیسری قسم کی بدعت ہے اور اسی طرح جو عورت کہ رانڈ ہو گئی اور باوجودیکہ اپنے خصم کے مرجانے سے جو اس کی روٹی کپڑے کی خبر لیتا تھا ، نہایت مفلس ہو گئی ہے اور دربدر بھیک مانگتی پھرتی ہے اور خصم کرنے کو جی چاہتا ہے اور سب طرح کی باتیں جی میں آتی ہیں اور وہ عور ان سب باتوں پر صبر کرتی ہے ، مگر دوسرے خصم کرنے کا نام نہیں لیتی کہ ہم جولیوں میں بڑی نیک بخت بیوی کا دانہ کھانے والی کہلاؤں ، پھر گوہ عورت ان باتوں کو اچھا نہ کہی ہو اور دوسرا نکاح کرنے کو برا بھی نہ جانتی ہو ، مگر اس نے اس بات کو اس طرح پر برتا ہے جس طرح کہ ان باتوں کو برے ہونے کا اعتقاد رکھنے والے برتتے ہیں ، اس واسطے اس عورت کا ان باتوں پر صبر کرنا بھی بدعت ہے ۔ اس کے سوا ایک اور بات بھی ہے کہ اللہ صاحب کی طرف سے اسلام کی نشانیوںپر سعی اور کوشش کرنے کا حکم ہے ،پھر اسلام کی نشانیوں کے سوا اور کسی بات پر اس طرح سے سعی کرنی جس طرح کہ اسلام کی نشانیوں پر سعی اور کوشش کرنی چاہیے تھی تو یہ کام خلاف حکم اللہ صاحب کے کرنا ہے ، جیسے کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ دور دور سے قبروں کی زیارت کو آنا نہیں چاہیے ، تاکہ جو چیزیں کہ اسلام کی نشانیوں میں سے نہیں ہیں اسلام کی نشانیوں میں مل نہ جاویں ، یعنی دور سے آنے کا حکم شرع میں کعبۃ اللہ اور مدینۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بیت المقدس ہی کے لیے ہے ، پھر اگر کوئی شخص کسی بزرگ کی قبر یا لحد یا چلہ گاہ کی زیارت کو دور دور سے قصد کر کر آوے تو اس کا اس طرح پر سفر کرنا اسلام کی نشانیوں ، یعنی کعبۃ اللہ اور مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بیت المقدس کے سفر سے مشابہ ہو جاتا ہے اور یہ بات شرع کے برخلاف ہے ، تو اس سے معلوم ہوا کہ جو بات اسلام کی نشانیوں میں سے نہیں ہے اس پر اسی طرح سعی کرنی جس طرح کہ اسلام کہ نشانیوں پر سعی کرنے کا حکم ہے بدعت ہی ہو جاتی ہے ، خواہ اس کے اچھے برے ہونے کا اعتقاد ہو یا نہ ہو۔ تیسری قسم کی بدعت کا ضمیمہ مثلاً نکاح کے وقت گواہوں کا ہونا اورولی کی اجازت دینا شرعاً ضرور ہے ، یہاں تک کہ اگر گواہ نہ ہوں یا ولی اجازت نہ دے تو نکاح کو موقوف رکھتے ہیں اور جو نقصان ہو اس کو گوارا کرتے ہیں ، اسی طرح اگر کوئی شخص بہ سبب مفلسی کے اور جہیز نہ ہونے یا ولیمے کا کھانا میسر نہ ہونے کے یا کسی بھائی بند ، عزیز اقربا کے سوگی ہونے کے نکاح کوبڑھا دے تو یہ بھی بدعت ہے۔ پھر اگر اس کے اچھا ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے تو اس کے حق میں تو دوسری قسم کی بدعت ہے اور اگر اس کے اچھا ہونے کا اعتقاد نہیں رکھتا ، مگر اس بات کو اس طرح پر کرتا ہے اور اس ڈھنگ سے برتتا ہے کہ گویا ان باتوں کو بھلے برے ہونے کا اعتقاد ہی ہے ، اس سبب سے یہ بھی بدعت ہے ، کیونکہ اس شخص نے اس رسم کے ساتھ ایسا معاملہ کیا ہے جیسا کہ ان چیزوں کے ساتھ کرنا چاہیے تھا جن کے کرنے سے شرعاً بھلائی اور نہ کرنے سے شرعاً برائی حاصل ہوتی تھی۔ اسی طرح جن لوگوں نے اپنی رفتار گفتار نشست برخاست کا ایک ڈھکوسلا بنا رکھتا ہے اور اسی کے پیچھے رپ ہو رہے ہیں اور کچھ بھی ہو جاوے جو وقت کہ حضرت کے باہر تشریف لانے کا ہے اس کے سوا اور وقت تشریف لانے ہی کے نہیں اور جو وقت آپ کی بات کرنے کا ہے اس کے سوا بات کرنے ہی کے نہیں اور جیسی ٹوپی چار ترکی دادا جان پہنتے آئے ہیں اس کے سوا اور طرح کی ٹوپی پہننے ہی کے نہیں اور جو چیز کہ باوا جان ہاتھ میں رکھتے تھے اور اس کو یہ بھی ہاتھ سے چھوڑنے ہی کے نہیں اور جس مسجد میں کہ ان کے پیر نے نماز پڑھی تھی اس کے سوا اور کسی مسجد میں نماز پڑھنے ہی کے نہیں ، کوئی مرتا مر کیوں نہ جاوے آپ عیادت کو تشریف لانے ہی کے نہیں ، جو دن کہ اپنے مریدوں اور معتقدوں کے جمع کرنے کا ہے اس دن کو ناغہ کرنے ہی کے نہیں ، اگر کسی سبب سے نکاح نہیں تو اب یہ بھی باوجود خواہش اور مقدور ہونے کے درویشی کو بٹا نہ لگنے کے لیے کرنے ہی کے نہیں ، مفلسی کا حال تو یہ پہنچا ہے کہ فاقے پر فاقہ ہوتا ہے اگر بڑی وضع داری کی تو سوالنہ کیا۔ مگر رواں رواں پڑا سوال کرتا ہے ، لیکن یہ صاحب اپنے پیر کا نام روشن رہنے اور اپنے خاندان کے نام نہ ڈبونے کو محنت مزدوری پیشہ کرنے ہی کے نہیں ، جب تک کہ جھک کر تسلیمات نہ کی جاوے اورقدم آنکھوں سے نہ لگائے جاویں حضرت کا مزاج خوش ہونے ہی کا نہیں ، سلام و علیک کا جواب زبان سے نکلنے ہی کا نہیں ، قدم چومتے وقت سر پر ہاتھ پھیرنے کے سوا مصافحے کو کبھی ہاتھ اٹھنے ہی کا نہیں، جب تک کہ حضرت صاحب اور شاہ صاحب اور میاں صاحب اور مولوی صاحب کہہ کر بات نہ کی جاوے ، تیوری کا بل اترنے ہی کا نہیں جیسے کہ ہمارے زمانے کے مولویوں اور فقیروں اور سجادہ نشینوں اور خانقاھیوں اور قلندریوں اور مداریوں اور جلالیوں اور رسول شاہیوں اور اسی قسم کے لوگوں میں رواج پا رہا ہے ، پھر گو ان کو اس کی عبادت ہونے کاعقیدہ نہ ہو، بلکہ اپنے باپ دادا کی رسم جانتے ہوں اس پر بھی یہ سب باتیں بدعت ہی میں داخل ہیں ، کیونکہ یہ لوگ ان باتوں پر ایسی کوشش کرتے ہیں جیسی اسلام کی نشانیوں پر کوشش کرنی چاہیے ، بلکہ جو لوگ اس کوبڑی خوبی اور نہایت دین داری جانتے ہیں ان کے حق میں خاصی بدعت ہے ، کیونکہ یہ طریقہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور نہ حضرت کے صحابہ کا اور نہ تابعین کا اور نہ تبع تابعین کا ، بلکہ صحابہ کا تو یہ حال تھا کہ سب آپس میں یاروں کے یار تھے۔ پھر انہوں نے جو ایک شاخسانہ لگایا اور سب بھائی مسلمانوں سے اپنے تئیں عمدہ ٹھہرایا اور کسی نے پیرزادہ پن اور کسی نے مولوی زادہ پن لگایا ،یہ بات کہاں سے ہے۔ دونوں عالم کے سرتاج رسول مقبول کا تو یہ حال تھا کہ اگر آپ کے یاروں میں سے کوئی شخص پکارتا تو آپ فرماتے ، لبیک ‘ یعنی ’ حاضر ہوں ‘‘ ان لوگوں کو کیا ہوا ہے ، جو اپنے تئیں آسمان پر چڑھ جاتے ہیں۔ تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تشریف رکھتے تھے ، آپ نے اپنے یاروں سے فرمایا کہ آج تو بکرے کے کباب بنانے چاہئیں۔ سب نے عرض کیا کہ بہت بہتر ، پھر ان میں سے ایک صحابی نے کہا کہ بکرے تو میں ذبح کرتا ہوں ، دوسرے نے کہا کہ صاف میں کر دیتا ہوں ، تیسرے نے کہا کہ گوشت میں بنا دیتا ہوں ، چوتھے نے کہا کہ پکا میںدیتا ہوں ۔ غرض کہ ہر ایک صحابی نے ایک ایک کام اپنے ذمے لے لیا کہ جلدی سے کباب تیار ہو جاویں ۔ اصحاب تو ان کاموں میں لگے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم چپکے سے اٹھ کر جنگل میں چلے گئے اور لکڑیاں لے آئے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ نے کیوں تکلیف کی، یہ بھی ہم کر لیتے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو برا جانتا ہے کہ کوئی شخص اپنے یاروں میں اپنے تئیں ممتاز بناوے اور یاروں میں شریک نہ ہو۔ رسول خدا کا جو دونوں عالم کے سرتاج تھے ، تو یہ حال ہو ، ان لوگوں کو کیا مشیخت لگی ہے جو بھائی مسلمانوں کو حقیر اورناچیز سمجھتے ہیں۔ اب انصاف سے غور کر کے دیکھو کہ یہ باتیں اگر بدعت نہیں ہیں توکیا ہیں۔ خلق محمدی پیدا کرنا سنت ہے یا نخوت فرعونی ؟ تیسری قسم کی بدعت کا ضمیمہ اسی طرح ہمارے زمانے میں بعضی مباح چیزوں کا کہ جن کے کرنے میںکچھ مضائقہ نہیں ، ایسی بری طرح سے رواج ہوا ہے کہ باوجودیکہ وہ لوگ ان باتوں کو اپنے باپ دادا کی رسم سمجھ کر کرتے ہیں ، مگر وہ بھی بدعت ہی میں داخل ہو گئی ہیں ، بلکہ بعضوں کی کی نسبت تہنیت بدعت اور شرک تک نوبت پہنچ گئی ہے ۔ اس کا بیان یوں ہے کہ اگرچہ بعضے ا حکام شرع کے اللہ صاحب نے بعضی مصلحتوں کے واسطے مقر ر کیے ہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد کرنے کو نماز پڑھنا اور سفر کی ماندگی کے سبب چار رکعتوں کی جگہ دو رکعتوں کا پڑھنا یا پیٹ نہ ہونے کے شبہ رفع کرنے کو عدت تک دوسرا نکاح نہ کرنا ، لیکن بندوں کو چاہیے کہ اس بات سے قطع نظر کریں کہ رب العالمین نے کس مصالحت سے یہ حکم دیا ہے ، بلکہ اسی طرح جوں کا توں اس حکم کے بجا لانے پر سعی کریں ، خواہ وہ مصلحت اس وقت بھی ہو یا نہ ہو، نہ یہ کہ یوں کہیں کہ نماز تو اللہ کی یاد کرنے کو بنی ہے اور نماز میں تو ہم سے حضور قلب نہیں ہو سکتا ، مگر مراقبے میں بڑا دل لگتا ہے ، آؤ نماز کے بدلے بھی مراقبہ کر لیا کریں۔ اس میں بھی تو اللہ ہی کی یاد ہے ، اور گو سفر کیسے ہی آرام کا ہو ، مگر اس میں اس خیال سے کہ ہم کو ماندگی تو ہوئی ہی نہیں چلو پوری چار رکعتیں پڑھ لیں یا یہ کہ لوہاری اور بیلداری میں تو سفر سے بھی زیادہ محنت ہوتی ہے ، لاؤ چار کی جگہ دو ہی رکعتیں پڑھ لیں ، یا یہ کہ اگر یقین ہو جاوے کہ عورت پیٹ سے نہیں ہے تو عدت کی راہ نہ دیکھیں او دوسرا خصم کر لیں ، کیونکہ اس طرح کی باتیں کرنی بالکل خلاف شرع ہیں اور بھید اس میں یہ ہے کہ شرع کے احکام ان کے فائدوں سے قطع نظر کر کر خود وہ حکم ہی بالذات مقصود ہو گئے ہیں ، پھر ان حکیموں کو اسی طرح جوں کا توں ان کے فائدوں سے قطع نظر کر کے بجا لانا چاہیے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے حکم کردیا ہے ، خواہ اس وقت بھی وہ فائدہ ہو ، خواہ نہ ہو ۔ اب سنو کہ اگلے زمانے میں بعضے عقلمندوں نے یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جو چیز للہ دی جاوے پہلے اپنے عزیز اقربا محتاجوں کو دی جاوے اور پھر غیروں کو۔ اس واسطے جب انہوں نے کسی مردے کو ثواب پہنچانے کے لیے کھانا بانٹنا چاہا تو پہلے اپنے عزیز اقربا کو دیا پھر ہوتے ہوتے اس بات کا یہاں تک رواج ہوا کہ لوگوں نے اس مصلحت کو جس کے لیے یہ بات مقرر ہوئی تھی دل سے بھلا دیا اور مردے کی بھاجی ہی بانٹنے کو مقصود بالذات ٹھہرا دیا اور محتاج عزیز اقربا کے بدلے بڑے بڑے آدمیوں کے حصے بخرے مقرر ہو گئے اور ادلا بدلی ٹھہر گئی۔ یہ حال ہے کہ اگر ہزار طرح سے کھانا للہ دیا جاوے اور برادری میں بھاجی نہ بٹے تو اس شخص پر ہزاروں طرح کی لعنت ملامت ہوتی ہے اور اگر برادری میں بھاجی بانٹی اور للہ ایک چاول کا دانہ اور سو کھی روٹی کا ٹکڑا بھی نہ دیا تو اس پر کچھ بھی نہیں کہنے کے اور اگر کوئی کہہ دے کہ میاں مردے کی طرف سے یہ صدقے کا کھانا ہے تو ساری برادری لٹھ لے لے کر دوڑے اور گالی سے بدتر جانے اوراس کھانے کو ہاتھ تک نہ لگائے جیسے کہ ہمارے زمانے میں تیجے اور دسویں اور بیسویں اور چالیسویں اور برسی کے کھانے بانٹنے اور بزرگوں کے عرس میں کھانا تقسیم کرنے کا دستور ہے۔ پس اس طرح پر بھاجی بانٹنی ایک رسم پڑ گئی ہے جیسے گدھے کھایا کھیت جس کا پاپ نہ پن۔ پھر اگر کوئی شخص اس کو رسم ہی جان کو بھاجی بانٹے تو اس کی نسبت بھی بدعت ہی میں داخل ہے ، کیونکہ جس طرح شرع کے احکام کو ان کے فائدوں اور مصلحتوں سے قطع نظر کر کر بجا لایا جاتا تھا اور اس بات کا خیال نہ رہتا تھا کہ اب بھی اس میں وہ مصلحت اورفائدہ ہے یا نہیں ، اسی طرح اس شخص نے بھی اس رسم کے بجا لانے میں اس فائدے سے جو اس میں تھا قطع نظر کر کر سعی اور کوشش کی ، اور اگر کوئی شخص اس بات کو ثواب ملنے کا اعتقاد کر کر کرے تو اس کی نسبت ٹھیٹ بدعت ہے ، کیوں کہ جو چیز کہ اللہ کے نزدیک کچھ فائدہ مند نہ تھی یہ شخص اس کو فائدہ مند سمجھ کر بجا لایا اور یہی ٹھیٹ بدعت ہے اور اگر کوئی شخص اس بھاجی کو یا گزرگوں کے عرس کے کھانے کو اس طرح پر سمجھ کر کرے کہ ان مردوں کی ارواج میری طرف متوجہ ہوتی ہیں اور وہ مردے مجھ سے خوش ہوتے ہیں اور ان کی توجہ اور خوشی سے میرے اڑے کام نکلتے ہیں اور میری سر سبزی ہوتی ہے اور مجھ پر سے بلا ٹل جاتی ہے جیسے اکثر لوگ ، بلکہ سب کے سب حضرت غوث الاعظم کی گیارہویں اور سترہویں وغیرہ اسی نیت سے کیا کرتے ہیں یا بڑے بڑے ییروں کی نیاز مانتے ہیں اور اس کے نہ کرنے کو اپنے و بال کا سبب جانتے ہیں ، تو اس طرح پر سمجھ کر کرنا شرک ہے ، نعوذ باللہ منھا ۔ غرض کہ جو مباح امر ، یعنی ایسی بات کہ جس کے کرنے سے شرع میں کچھ مضائقہ نہیں اس طرح سے لوگوں میں رواج پا جائے کہ اگر کوئی اس کو نہ کرے تو اس پر طعنے تشنے ہونے لگیں اور درکار پھٹکار پڑنے لگے اور اس کا رواج ثواب ملنے یا عذاب سے بچنے کو نہ ہو ، بلکہ اپنے باپ دادا کی رسم ٹھہر گئی ہو اور ایک دوسرے کی ریس پر کرتا ہواس کو رسم کہتے ہیں ۔ پس جتنی رسمیں شادی ، غمی ، مرنے ، جینے میں مروج ہو رہی ہیں سب کی سب بدعت ہی میں داخل ہیں ، کیوں کہ ان رسموں کے بجا لانے پر وہ لوگ اس طرح پر سعی کرتے ہیں جیسے اسلام کی نشانیوں پرسعی کرنی چاہیے تھی ، مثلا اشرافوں میں یہ بلا پڑی ہے کہ دولھا کو تو ٹکے کا بھی مقدور نہیں، مگر مہر لاکھوں اور ہزاروں ہی کا باندھتے ہیں ، یہاں تک کہ اسی پر قصہ ہوتا ہے اور براتیں اٹھ جاتی ہیں اورشادیاںموقوف ہو جاتی ہیں۔ اگرچہ مہر کا زیادہ باندھنا شرعاً ممنوع نہیں ، مگر جب اس پر اتنا اہتمام ہوتا ہے جیسے کہ ضروریات دین پر چاہیی تھا تو یہ بھی گویا بدعت ہی میں داخل ہے یا کہ مثلا بڑے خاندانی اشراف تو ہیں ، مگر اس اشرافت میں یہ خاک ڈالتے ہیں کہ باوجودیکہ فاقے پر فاقہ ہونے اور نیت ڈاواں ڈول ہونے کے محنت مزدوری پیشہ حرفہ نہیں کرتے اور پھر اس کو بڑی خوبی اور نہایت وضع داری سمجھتے ہیں یا ضرورت تو درپیش ہے اور سودا لانے کی حاجت ، مگر مشیخت کے مارے اور نواب زادہ پن نہ جاتے رہنے کے واسطے یا مولوی زادہ پن اور پیر زادہ پن میں بٹا نہ لگنے کے لیے سودا خریدنے نہیں جاتے اور اگر جبراً قہراً گئے بھی تو سودے والے کی دکان پر سوا لیے بیٹھے ہیں کہ کوئی ہمارے دادا جان کی رعیت ہی میں سے آجاوے یا طالب علم ہمارا شاگرد ہی مل جاوے یا کوئی مرید نظر پڑ جاوے تو اس سے اٹھوا کر لے جاویں۔ اس قسم کی سب باتیں بدعت ہی میں داخل ہیں ، کیونکہ شریع محمدیہ میں ایسی باتوں کے پیچھے پڑنا اور ان کا اہتمام کرنا مقصود نہیں ہے۔ اس طرح بعضی رسمیں شگون اور بدشگونی کی کفار مشرکین میں جاری ہیں کہ وہ لوگ ان کے ہونے کو شگون اور نہ ہونے کو بدشگونی سمجھتے ہیں جیسے بعضے ہندوؤں میں بیاہ کے وقت مسی لگانی اور جمیع اقوام ہندوؤں میں نتھ پہنانی اور چوڑیاں ہاتھوں میں پہنی ، بلکہ بعضے وقتوں میں خاص ہری ہی چوڑیاں پہننی مروج ہیں اور وہ لوگ ان رسموں کے ہونے کو شگون اور نہ ہونے کو بد شگونی سمجھتے ہیں۔ ان رسموں کو مسلمانوں نے بھی اپنے ہاں اسی طرح ہو بہو رواج دیا ہے اور اسی طرح اس کے بجا لانے پر اہتمام کیا جاتا ہے جس طرح کہ ہندوؤں میں ہوتا ہے مثلا کنواری بیٹی کو کبھی مسی نہیں لگوانے کے ، بغیر نتھ کے کبھی بیاہ نہیں کرنے کے ، یہاں تک کہ اگر میسر نہ ہو گی تو مانگ کر لاویں گے۔ کنواری بیٹی چنی ڈال کر کبھی دو موتیوں کی نتھ نہیں پہنے گی اور رانڈ عورت کبھی نتھ ناک میں نہیں ڈالنے کی ، چوڑیوں کا جوڑا سہاگن ہی پہنے گی ، رانڈ نہیں پہننے کی اور اگر کسی کمبختی ماری رانڈ عورت نے چوڑیاں پہن بھی لیں تو کب پہنیں ، جب اس کو ہم جولیوں نے کہا کہ اے بوا تو چوڑیاں کیوں نہیں پہنتی ، تیرے بھائی کو خدا جیتا رکھے ، تیرا بیٹا بیسا سو برس کا ہو ، نابہن بد شگونی نہ کر ، جب اس کم بختی ماری کی شامت آئی اور اس نے چوڑیاں پہنیں ، پھر گو مسلمانوں کو ان کے شگن اور بد شگن ہونے کا اعتقاد نہ ہو ، لیکن جب اس کے ساتھ وہ معاملہ کیا جاتا ہے ، جیسا مشرکین کرتے ہیں اور اس کے بجا لانے پر وہ اہتمام ہوتا ہے جیسا ضروریات دین پر چاہیے تھا جن کے کرنے سے شرعا بھلائی اور نہ کرنے سے شرعا برائی حاصل ہوتی ہے تو یہ ساری باتیں بدعت ہی ہیں اور اگر ان باتوں کے شگن اور بدشگن ہونے کا اعتقاد رکھے ، جیسے کفار مشرکین رکھتے ہیں تو پھر خاصا شرک ہو جاتا ہے ، تعوذ باللہ منہا ۔ غرض کہ اس طرح ہزاروں بلائیں اشرافوں پر بھلے مانسوں اور کمینوں اور مولویوں اور مولوی زادوں اور پیروں اور پیر زادوں اور ملاسیانوں میں مروج ہیں کہ جن کا کچھ حد و حساب نہیں اور ان باتوں کو پورا کرنے اور بجا لانے پر اتنا اہتمام ہوتا ہے کہ جماعت سے نماز پڑھنے کا بھی اتنا خیال نہیں اور جب آدمی انصاف کر کر اور اپنے باپ دادا ، استاد پیر کی رسموں کی محبت دل سے نکال کر اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل میںجما کر دیکھے گا تو خود انصاف کرے گا کہ یہ طریقہ ہرگز رسول مقبول اور صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کا نہ تھا۔ پھر یہ باتیں اگر بدعت نہیں ہیں تو کیا ہیں۔ اے بھائی مسلمانوں ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل میں جماؤ اور بدعت کو چھوڑو ، بیت : ہر چہ نہ ازقران طرازی برفشاں زاں آستین ہرچہ نہ از ایمان بساطی درنورد آں داستاں اس بیان سے بدعت کے معنی جس میں یہ تینوں طرح کہ بدعتیں آجاویں یہ معلوم ہوئے کہ جو نئی چیز کہ نہ اس کو اور نہ اس کی مانند دوسری چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور نہ اس کے کرنے کو فرمایا اور نہ حضرت کے وقت میں اس کو کسی نے اس طرح پر کیا کہ حضرت کو خبر بھی ہوئی ، مگر حضرت نے منع نہ کیا اور نہ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے وقت میں بغیر برا جاننے کے اس کا رواج ہوا۔ پھر خواہ اس چیز کا سرے سے وجود ہی نہ ہوا ہو ، یا اس کا وجود تو ہو ، مگر اس طرح پر اور اس صورت پر اور اس ڈھنگ پر جس طرح کہ اب نکلی ہے نہ ہوا ہو اور کوئی شخص اس کو دین کی بات اعتقاد کر کر برتے اور اس کے کرنے اور نہ کرنے میں فائدہ اور نقصان دینی سمجھے ، یا یوں تو نہ جانے ، مگر اس کو اسی طرح پر برتاؤ میں لاوے جس طرح کہ فائدہ اور نقصان کا اعتقاد رکھنے والے بجا لاتے ہیں یا جس طرح کہ دین کی باتوں کو برتاؤ میں لاتے ہیں تو وہ چیز بدعت ہے جس کے حق میں رسول مقبول صادق مصدق ۔ فرمایا : ’’ ایا کم و محد ثات الامور فان کل محدث بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ ‘‘ یعنی بچو تم نئی باتوں سے ، کیونکہ جو نئی بات ہے وہ بدعت ہے اور جو بدعت ہے گمراہی ہے اور جس کے حق میں فرمایا ’’ شرالامور محدثا تھا ‘‘ یعنی بدترین چیزوں کی نئی چیزیں ہیں۔ اب معلوم ہو گیا کہ بدعت کبھی اچھی ہوتی ہی نہیں ، جو بدعت ہے وہ گمراہی ہے اور بدعت کو حسنہ کہنا باکل غلطی ہے ، اس واسطے اب ہم بدعت حسنہ اور سیئہ کی بھی تفصیل بتا دیتے ہیں۔ بد عت حسنہ اور سبئہ کا بیان جانناچاہیے کہ بعضے عالموں نے بدعت کے یہ معنی لکھے ہیں : ’’ البدعۃ ما احدث علیٰ خلاف الحق المتلقی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من علم اوعمل اوحال بنوع شبھۃ و استحسان و جعل دیناً قویماً و صراطاً مستقیماً کذافی البحر ‘‘ یعنی کتاب بحرالرایق میں تکھا ہے کہ بدعت اس نئی بات کو کہتے ہیں جو برخلاف ہو ان سچی باتوں کے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہوئی ہیں ، پھر وہ نئی بات خواہ علم کی ہو ، خواہ عمل کی ہو ، خواہ حال کی اور وہ بات کسی شبہے سے نکلی ہو یا اچھا سمجھ کر نکلی ہو اور اس کو ایک دین اور سیدھا راستہ ٹھہرایا ہو ،پھرجو بدعت کہ ایسی ہو گی وہ ہمیشہ سیئہ ہی ہو گی اور ایسی بدعت کبھی حسنہ نہیں ہو سکتی اور بعضے عالموں نے بدعت کے یہ معنی بیان کیے ہیں : ’’ احداث مالم یکن فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ یعنی بدعت نئی بات نکالنی ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں نہ تھی اور پھر ان لوگوں نے بدعت کے یہ معنی ٹھہرا کر اس کی دو قسمیں نکالی میں : ’’ کمال قال الجوزی فی النھا یۃ البدعۃ بدعتان بدعۃ ہدیٰ و بدعۃ ضلالۃ فما کان فی خلاف ما امر اللہ بہ ورسولہ فھو فی حیز الذم والا نکا روما کان واقعاً تحت عموم ماندب اللہ وحص علیہ رسولہ فہوفی حیز المدح ‘‘ یعنی نہایہ جوزی میں لکھا ہے کہ بدعت دو طرح کی ہے ، ایک تو بدعت حسنہ ہے اور ایک بدعت سیئہ ، پھر جو بدعت کہ اللہ اور الہ کے رسول کے حکم کے برخلاف ہے وہ تو بدعت سیئہ ہے اور جو بدعت اس میں داخل ہے جس کے کرنے کو اللہ اور اللہ کے رسول نے کہا یا رغبت دلائی تو وہ بدعت حسنہ ہے ۔ اب غور کرو کہ ان دونوں معنوں میں کچھ فرق نہیں۔ پہلی روایت کابھی یہی حاصل ہے کہ جوب ات خدا اور خدا کے رسول کے حکم کے برخلاف ہے وہ بری ہے اور دوسری روایت کا بھی یہی مطلب ہے کہ جو نئی بات خدا اور خدا کے رسول کے حکم کے برخلاف ہے وہ بری ، یعنی بدعت سیئہ ہے اور جو برخلاف نہیں وہ بدعت حسنہ ہے۔ پس ان دونوں معنوں میں کچھ فرق نہیں۔ جو باتیں بری ہیں وہ سب لوگوں کے نزدیک بری ہیں ، صرف فرق اتنا ہے کہ بعضی اچھی باتوں کو وہ لوگ سنت میں گنتے ہیں اور یہ لوگ بدعت حسنہ اس کانام رکھتے ہیں ، لیکن اگر انصاف سے دیکھو کہ جن لوگوں نیبدعت کی دو قسمیں نکالیہیں ایک حسنہ اور ایک سیئہ ، ان لوگوں سے ان حدیثوں کے معنی سمجھنے میں چوک ہو گئی ، کیونکہ ان حدیثوں میں جو لفظ آئے ہیں ان پر ان لوگوں نے غور نہیں کی کہ نئی چیز کس کو کہتے ہیں اور اس سبب سے نئی چیز کے یہ معنی سمجھ لیے گئے کہ جو حضرت کے وقت نہ ہو ، حالانکہ نئی چیز کے یہ معنی ہیں کہ نہ وہ چیز ہو اورنہ اس کی مانند دوسری چیز ، چنانچہ ہم اس مطلب کو اس طرح طرح سے مثالیں دے کر اوپر سمجھا چکے ہیں۔ پس جب ان لوگوں کو نئی چیز کے معنی سمجھنے میں غلطی پڑی تو لاچار انہوں نے بدعت کی دو قسمیں ٹھہرائیں ، ایک حسنہ اور ایک سیئہ اور یہ جو صاف صاف رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول تھا کہ جو بدعت ہے گمراہی ہے اور بدترین چیزوں کی نئی چیزیں ہیں ، اس کی تاویل کرنی پڑی اور اس کے معنی گھڑنے پڑے۔ اگر وہ لوگ نئی چیز کے معنی بخوبی سمجھ لیتے تو نہ بدعت حسنہ نکالنی پڑتی اور نہحدیث کے سیدھے سیدھے معنوں کو بدلنا پڑتا ، مگر الحمد للہ کو یہاں تک تو مطلب ایک ہے ، صرف نام کا فرق ہے کہ وہ لوگ جس کو بدعت کہتے ہیں ہم اس کو سنت حکمیہ سمجھتے ہیں ،مگر ہمارے زمانے میںلوگوں نے بدعت حسنہ کے اور ہی معنی نکالے ہیں کہ جو آج تک کسی نے نہیں کہے ، یعنی وہ یہ بات کہیت ہیں کہ اگرچہ کوئی بات حضرت کے وقت یا صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے وقت میں نہ ہوئی ہو اور وہ نئی نکلی ہوئی ہو ، مگر اس میں اچھی اچھی باتیں اور ثواب کے کام ہوتے ہوں ، تو وہ بدعت حسنہ ہے ، حالانکہ یہ نہیں جانتے کہ تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر بتائے کہاں سے معلوم ہوا کہ اس بات میں ثواب ہے ، اور اسی باعت کے مقابلے میں ہم کہا کرتے ہیں کہ بدعت کیسی ہی ہو حسنہ یا سیئہ ، اس کا چھوڑنا اور اس سے بیزاری کرنی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنا اور کیسی ہی چھوٹی سنت ہو اس پر جان دینی دونوں جہاں کی نعمت سے اعلیٰ اور اولیٰ اور افضل ہے ، کیونکہ سنت پر چلنے سے نور ایمان زیادہ ہوتا ہے اور اللہ کے دربار میں رتبہ بڑھ جاتا ہے اور بدعت کرنے سے ایک سنت اٹھ جاتی ہے ۔ پھر فرض کرو کہ اگر بدعت کرنے میں ، گو وہ تمہارے نزدیک حسنہ ہی کیوں نہ ہو ، اگر ہم کو گٹھریاں کی گٹھریاں چھکڑے بھر بھر کر ثواب ملتا ہو اور سنت پر چلنے سے ایک تال بھر تو ہم کو وہ تل بھر کافی ہے اور وہ بہت سا ثواب درکار نہیں ، بیت : مردماں گویند احمد خیمہ درگلزار زن من گلے را دوست می دارم کہ در گلزار نیست اور ان لوگوں کے جو بدعت حسنہ کے یہ غلط معنی سمجھے ہیں 1۔ بداں کہ ہر عبادت موافق سنت است آں عبادت مفید تر است برائے ازالہ نفس و تصفیہ عناصر و حصول قرب الہٰی لہذا از بدعت حسنہ مثل بدعت قبیحہ اجتناب میں کنند کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ کل محدثۃ بد عۃ ضلالۃ۔ پس نتیجہ ایں حدیث(بقیہ اگلے صفحے پر) تو اس کا سبب یہ ہے کہ ان لوگوں کی نگاہ سے وہ حدیثیں گزری ہیں جن کے معنی غلط سمجھے گئے اور بدعت حسنہ کے نئے معنی بنائے۔ اس واسطے ہم کو ضرور پڑا کہ ان حدیثوں کو بیان کر کر ان کے معنی بھی بیان کر دیں : ’’ عن جریر قال کنافی صدر النھار عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجائہ عراۃ مجتبابی النمار اوالعباء متقلدی السیوف عامتھم من مضربل کلھم من مضر فتھعمر وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لمارای بھم من الفاقۃ فد خل ثم خرج فارمر بلالاً فاذن و اقام فصلی ثم خطب فقال یا ایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس و احدۃ الیٰ آخر الا یۃ ان اللہ کان علیکم رقیباً وآیۃ التی فی الحشر اتقو اللہ والتنظر نفس ماقد مت لغد تصدق رجل من درینارہ من درھمہ من ثوبہ من صاع برہ من صاح تمرہ حتی قال و لوبشق تمرۃ قال فجاء رجل من الانصار بصرۃ کا دت کفہ تعجز عنھا بل قد عجزت ثم تتابع الناس حتی رایت کو مین من طعام و ثیاب حتی رایت وجہ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم یتھلل کا نہ مذھبۃ فقال رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم (پچھلے صفحے کا حاشیہ) ان نست نہ کل محدثۃ ضلالۃ و بدیہی است کہ لاشئی من الضلالۃ بمدا یۃ و فلاشئے من المحدثۃ بھدیۃ و نیز در حدیث آمد ان القول لایقبل مالم یعمل بہ و کلاھما لایقبلان بدون النسیۃ والقول و العمل والنسیۃ لایقبل مالم یوفق السنۃ و چوں اعمال غیر مطابق سنت مقبول نباشد ثواب برآں مترتب تشود۔ (ترجمہ ، ارشاد الطالبین ۔ قاضی شیخ ثناء اللہ پانی پتی) من سن فی الاسلام حسنۃ فلہ اجرھا واجرمن عمل بھا من بعدہ من غیر ان ینقص من اجورھم شئی و من سن فی الاسلام سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرھا و وزرمن عمل بھا من بعدہ من غیر ان ینقص من اوزار ہم شی۔ ‘‘ یعنی مشکواۃ شریف کی کتاب العلم میں جریر سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ انہوں یہ بات کہی کہ دوپہر سے پہلے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہم لوگ تھے کہ کچھ لوگ آپ کے پاس آئے ، ننگے بدن کمبل لپیٹے ہوئے یا پہنے ہوئے اور گلے میں تلواریں ڈالے ہوئے کہ بہت سے ان میں کے سفر کے تھے ، بلکہ سب کے سب سفر کے تھے۔ پس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کا رنگ ان کے فاقے کا حال دیکھ کر متغیر ہو گیا۔ پھر آپ ان کے لیے کچھ لانے کو گھر میں تشریف لے گئے ، مگر گھر میں کچھ نہ پایا تو پھر باہر تشریف لائے اور بلال کو حکم دیا کہ انہوں نے اذان کہی اور تکبیر کہہ کر نماز پڑھی۔ پھر حضرت نے خطبہ پڑھا اور اس میں یہ آیت پڑھی۔ اے لوگو ! ڈرو اپنے پروردگار سے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور اس آیت کو اخیر تک پڑھا کہ اللہ ہی تم پر نگہبان ہے اور پھر سورۂ حشر کی آیت پڑھی کہ ڈرو اللہ سے اور آدمی کو چاہیے اس چیز پر نظر کرے جو پہلے کر چکا ہے قیامت کے لیے ، پھر فرمایا حضرت نے کہ للہ دے کوئی شخص اپنے پاس سے روپیہ ہی یا اشرفی ہی ، یا کپڑا ہی ، یا ایک پیمانہ گیہوں ہی ، یا ایک پیمانہ کھجور ہی ،یہاں تک فرمایا کہ للہ دے اگرچہ ٹکڑا کھجور کاہو اور جنھوں نے یہ حدیث نقل کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ پھر ایک شخص انصار میں سے ایک بھری ہوئی اشرفیوں کی یاروپوں کی تھیلی لایا کہ قریب تھا کہ اس کا ہاتھ تھک جاوے ، بلکہ تھک ہی گیا۔ پھر پے در پے لوگوں نے لانا شروع کیا ، یہاں تک کہ میں نے دو ڈھیر اناج اور کپڑے دیکھے ، یہاں تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا کہ گویا سونا بھرا ہوا ہے۔ پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے رواج دیا اسلام میں نیک طریقے کو تو اس کے لیے اس کا ثواب ہے اور اس شخص کو جو اس کے بعد اس کوکرے گا اور اس کرنے والے کا بھی ثواب کچھ نہیں گھٹے گا اور جس نے نکالا اسلام میں برے طریقے کو تو اس پر اس کا عذاب ہے اور اس شخص کا جو اس کے بعد اس کو کرے گا اور اس کرنے والے کا بھی عذاب کچھ نہیں گھٹے گا۔ اس حدیث سے ہمارے زمانے کے لوگوں نے یہ سند پکڑی ہے کہ جو شخص اچھی بات دین میں نکالے وہ بدعت حسنہ ہے اور جو بری نکالے وہ بدعت سیئہ ہے اور یہ سمجھ ان کی بالکل غلط ہے ، دو وجہ سے،ایک تو یہ کہ وہ لوگ ’’ من سنۃ حسنۃ ‘‘ کے یہ معنی سمجھے ہیں کہ جو شخص اچھی بات نکالے ، حالانکہ اس کے یہ معنی نہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں ک جو شخص اچھی بات کا رواج دے ، یعنی وہ بات پہلے سے نکلی ہوئی ہو اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خوبی بتا دی ہو اور اس کی نکلی ہوئی بات کو جو شخص رواج دے ، اس کے واسطے یہ ثواب ہے ، نہ یہ کہ اپنی طرف سے کوئی بات نکال کر اور اس کو اچھا سمجھ کر رواج دے ، اور ہم نے جو اس حدیث کے یہ معنی بیان کیے ہیں اس کی دو دلیلیں ہیں ، ایک تو یہ کہ اسی حدیث سے ظاہر ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ ولم نے للہ دینے کا تو حکم دے دیا تھا ، مگر اس کا رواج باقی تھا ، پھر جس شخص نے کہ پہلے لا کر دیا اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو رواج دیا کہ اس کی دیکھا داکھی اور لوگ بھی لائے۔ اسی واسطے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہلے ، شخص کی بڑائی اور اس کو زیادہ ثواب ملنے کی بشارت دی۔ اب معلوم ہو گیا کہ اس حدیث سے کوئی نئی بات نکالنی مراد نہیں بلکہ جو بات کہ حضرت کے اصحاب اور تابعین اور تبع تابعین کے وقت میں نکلی چکی ہے اس کا رواج دینا مراد ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ قاعدہ ہے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی تفسیر پڑ جاتی ہے۔ اب دیکھو کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور حدیث میں یہی بات فرمائی ہے۔ ’’ وعن بلال بن الحارث امزنی قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من احیر سنۃ من سنتی قدامیتت بعدی فان لہ من الاجر مثل اجورمن عمل بھامن غیر ان ینقص من اجورھم شیئاً و من ابتداع بدعۃ ضلالۃ لایرضھا اللہ و رسول لہ کان علیہ من الاثم مثل انام من عمل بھالا ینقص ذالک من اوزار ھم شیئاً ‘‘ یعنی مشکواۃ شریف کے باب الاعتصام بالسنۃ میں بلال ابن حارث مزنی سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے زندہ کیا ، یعنی رواج دیا میری ایسی سنت کو کہ مر گئی تھی ، یعنی چھوٹ ئی تھی میرے بعد تو اس کے لیے ان لوگوں کی مانند ثواب ہے ، جو اس سنت پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے ثواب میں سے کچھ گھٹے اور جس شخص نے نکالا گمراہی میں سے بدعت کو نہیں راضی ہوتا اس سیاللہ اور رسول اس کا، ہوگا اس پر اس کا گناہ مانند گناہ ان لوگوں کے جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان لوگوںکے گناہوں میں سے کچھ گھنٹے۔ اب غور کرو کہ ان دونوں حدیثوں کا ایک مطلب ہے ۔ پہلی حدیث میں فرمایا ’’ من سنۃ حسنۃ ‘‘ اور دوسری حدیث میں فرمایا ’’ من احییٰ سنۃ من سنتی ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ من سن کے اور من احییٰ کے معنی تو رواج دینے اور جاری کرنے کے ہیں تو من سن کے بھی یہی معنی ہوئے۔ اس حدیث سے صاف معلوم ہو گیا کہ جولوگ من سن کے معنی نئی بات نکالنے کے سمجھتے ہیں ان کی سمجھ بالکل غلط ہے ، مگر ان معنوں میں بعضے لوگوں کو ایک شبہ پڑے گا کہ اگر پہلی جگہ میں من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ کے معنی رواج دینے اور جاری کرنے کے ٹھہرے تو دوسری جگہ من سن فی الاسلام سنۃ سیئۃ میں سن کے معنی رواج دینے اور جاری کرنے کے کیونکر ہو سکتے ہیں ، کیونکہ اگر یہاں بھی سن کے یہی معنی ٹھہریں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ دین میں جو برا طریقہ نکلا ہوا ہے اگر اس کو کوئی رواج دے یا جاری کرے تو اس پریہ عذاب ہے ، حالانکہ دین میں جتنے طریقے ہیں وہ سب اچھے ہیں۔ دین میں کوئی برا طریقہ نہیں ، پھر اس کے کیا معنی کہ دین میں جو برا طریقہ نکلا ہوا ہے اس کو رواج دے یا جاری کرے ، لیکن یہ شبہ ان لوگوں کی نادانی ہے، اس واسطے کہ خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے کہ دوسری جگہ سن کے معنی رواج دینے کے نہیں ہیں ، بلکہ یہاں سن کے معنی نئی بات نکالنے ہی کے ہیں۔ اس واسطے اس دوسری حدیث میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے من سن کے مقابل میں تو من احییٰ فرمایا اور دوسرے من سن کے مقابل میں من ابتداع فرمایا تو اس سے معلوم ہوا کہ پہلے من سن کے معنی وہ ہیں جو من احییٰ کے ہیں اور دوسرے من سن کے معنی وہ ہیں جو من ابتدع کے ہیں اور احتیٰ کے معنی تو رواج دینے اور جاری کرنے کے ہیں اور ابتدع کے معنی نئی بات نکالنے کے تو پہلے من سن کے معنی بھی جاری کرنے اور رواج دینے کے ہوئے اور دوسرے من سن کے معنی نئی بات نکالنے کے ۔ اب خیال کرو کہ اس حدیث سے بھی یہی مطلب ثابت ہوا کہ جو بات حضرت کے وقت میں ہو چکی ہے اس کا رواج دینا اور جاری کرنا اچا ہے اور نئی بات کا نکالنا برا۔ اس پر بعض نادان اس شبہے میں پڑتے ہیں کہ پہلی حدیث میں بھی دوسری جگہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے وابتدع کا ہی لفظ کیوں نہ فرما دیا جس میں کچھ شبہنہ رہتا اور یہ بات ان کی کمال نادانی کی ہے،کیونکہ کہ یہ تو بڑی فصاحت کی بات ہے کہ ایک لفظ دو جگہ آوے اور ایک جگہ اس کے اور معنی ہوں اور دوسری جگہ اور دیکھو اللہ صاحب نے بھی سورۃ البقر میں اس طرح فرمایا ؟’ ’وکذالک جعلنا کم امۃ وسطاً لتکو نو اشھداء علی الناس و یکون الرسول علیکم شھیدا ‘‘ یعنی ’’ اور اسی طرح ہم نے کیا تم کو امت چنندہ ، تاکہ تم سب آدمیوں پر گواہ ہو اوررسول تم پر گواہ ہو ۔ ‘‘ اس آیت میں پہلے علی کے تو یہ معنی ہیں کہ اگلی امتیں جو برا کام کرتی ہیں تو ان کی برائی پر تم گواہ ہو کہ تمہاری گواہی سے ان کا نقصان ہو گا ،جیسے کہا کرتے ہیں کہ فلانے چور پر گواہ گزر گئے ، یعنی اس کی چوری ثابت کرنے کو اور اس کو سزا دلوانے کو چور پرگواہ گزر گئے تو اس سے پہلے علی کے معنی نقصان پہنچانے کے ہوئے اور دوسرے جگہ جو علی آیا ہے ’’ ویکون الرسول علیکم شھیدا ‘‘ یعنی تمہاری بھلائی کے لئے رسول تمھارا گواہ ے جس کی گواہی سے تم کو فائدہ ہو گا ، تو اس دوسرے علی کے معنی فائدہ پہنچانے کے ہوئے اور یہ بڑی فصاحت بلاغت کی بات ہوئی کہ ایک لفظ دو جگہ آیا ہے ، پہلی جگہ اس کے اور معنی تھے اور دوسری جگہ اور معنی ، اسی طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کالفظ دو جگہ فرمایا کہ پہلی جگہ اس کے معنی رواج دینے کے تھے اور دوسری جگہ نئی بات نکالنے کے اور اس کی سند پر دوسری حدیث بیان ہو چکی ، مگر بعضے آدمی دوسری حدیث میں ایک شبہ نکالتے ہیں کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری حدیث میں فرمایا کہ من ابتدع بدعۃ ضلالۃ ، یعنی جس شخص نے نکال نئی بات گمراہی کی تو اس سے معلوم ہوا کہ نئی بات دو طرح کی ہوتی ہے ، ایک نئی بات تو گمراہی کی ، دوسری نئی بات بھلائی کی تو جو نئی بات گمراہی کی ہے وہ بدعت سیئہ ہے اور جو نئی بات بھلائی کی ہے و ہ بدعت حسنہ ہے ،مگر یہ سمجھ ان کی بالکل غلط ہے ، کیوں کہ جب پہلی حدیثوں سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ جو نئی بات ہے وہ گمراہی ہے تو اب اس جگہ بھی اس طرح سے معنی بیان کرنے چاہئیں کہ پہلی حدیثوں کی مخالفت نہ ہو۔ اس واسطے بعضے عالموں نے دونوں جگہ زبر پڑھے ہیں ، یعنی بدعۃ ضلالۃ جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ بدعت جو گمراہی ہے اور جن عالموں نے ضلالۃ کا زیر پڑھا ہے تو زیر پڑھنے میں بھی کچھ خرابی نہیں ہوتی ، کیونکہ زیر پڑھنے میں بھی اس کے معنی یہ ہوں گے کہ گمراہی میں سے بدعت کو ، یعنی گمراہی کی تو بہت سی چیزیں ہیں ان میں سے ایک بدعت بھی گمراہی ہے تو زیر پڑھنے میں بھی وہی مطلب نکلا جو اور حدیثوں سے نکلا تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس حدیث میں جو حسنہ اور سیئہ کا لفظ ہے اس کے یہ معنی سمجھ لیے ہیں کہ جو ہمارے نزدیک اچھی ثواب کی بات ہے وہ بدعت حسنہ اور جو ہمارے نزدیک بری بات ہے وہ بدعت سیئہ ہے۔ مثلاً یہ تو جانتے ہو کہ مصافحہ کرنا اور کلام اللہ پڑھنا اور اذان دینی اچھی بات ہے اب تم یوں سمجھتے ہو کہ اگر عصر کے بعد بھی مصافحہ کرنا ٹھہرا لیا یا قبروں کے گرد بھی حلقہ باندھ کر کلام اللہ پڑھا یا مردہ دفن کرنے کے بعد بھی اذان دے دی تو اس میں کچھ قباحت نہیں ، بلکہ ثواب کی بات معلوم ہوتی ہے ، اس واسطے تم نے اس کو بدعت حسنہ ٹھہرا دیا ہے اور یہ سمجھ بالکل غلط ہے ، کیونکہ کہ کسی دین کے کام کہ بھلائی برائی جب تک کہ شرع سے ثابت نہ ہو جاوے معلوم نہیں ہوتی۔ پھر تم نے جو اپنی عقل سے عصر کے بعد کے مصافحے کے التزام کو بھی اور قبروں کے گرد حلقہ باندھ کر کلام اللہ پڑھنے کو یا مردہ دفن کرنے کے بعد اذان دینے کو یا اسی طرح کی اوربہت سی باتوں کو جو اچھا ٹھہرا رکھا ہے ، یہ غلطی ہے ، کیونکہ جب تک کہ شرع سے نہ ثابت ہو جاوے ، کسی دین کی چیز کی بھلائی برائی معلوم ہی نہیں ہوتی۔ ’’ قال صاحب المجالس و قد تقررفی الاصول ان حسن الافعال وقبحہا عند اھل الحق انما یعرفان بالشرع لابا لعقل فکل فعل امر بہ فی الشرع فھو حسن و کل فعل نھی عنہ فی الشرع فھو قبیع ‘‘ یعنی صاحب مججالس الابرار نے لکھا ہے کہ اصول میں یہ بات ٹھہر چکی ہے کہ بھلائی اور برائی کاموں کی حق والوں نے نزدیک شرع ہی سے معلوم ہوتی ہے ، عقل سے معلوم نہیں ہوتی ، پھر جس کام کا کہ شرع میں حکم ہو چکا ہے وہ اچھا ہے اور جس کام سے شرع میں منع ہو چکا ہے ، وہ برا ہے۔ ’’ وقال الامام الغزالی فی کتاب الاربعین فی اصول الدین ایاک ان یتصرف بعقلک و نقول کل ماکان خیراً اونا فعاً فھو افضل و کل ماکان اکثر کان انفع فان عقلک لایھتدی الیٰ اسرار الامور الاتھیہ و انھا یتھقلھا قوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فعلیک بالا تباع فان خواص الامور لا تدرک بالقیاس اور ماتری کیف ندیت الی الصلواۃ و نھیت عنھا فی جمع النھار امرت بتر کھا بعد الصبح والعصر و عند الطلوع و الغروب والزوال ‘‘ یعنی امام غزالی صاحب نے کتاب اربعین فی اصول الدین میں لکھا ہے کہ بچ تو اپنی عقل پر کام کرنے سے اور اس بات کے کہنے سے کہ جو اچھی اور فائدے کی بات ہیوہ بہتر ہے اور جو بہت ہے وہ فائدہ مند بہت ہے ، کیونکہ تیری سمجھ اللہ صاحب کے بھیدوں تک کہاں پہنچتی ہے ، ان کو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سمجھتے ہیں ، پس تجھ کو تو تابعداری ہی لازم ہے ، کیوں کہ ان باتوں کی خاصیتیں عقل سے نہیں سمجھی جاتیں۔ تو نہیں دیکھتا کہ نمازوں کے وقت تو اذان دی جاتی ہے اور پھر دن بھر اذان دینے کا حکم نہیں ، بلکہ پوپھٹنے اور عصر کی نماز ہو چکنے کے بعد نفل پڑھنے کا اور سورج نکلتے اور ڈوبت وقت اور ٹھیک دوپہر کو نماز پڑھنے تک کا حکم نہیں ، حالانکہ اذان دینی اور نماز پڑھنی تو ثواب کا کام تھا ، پھر اگر اپنی سمجھ کو دخل ہوتا تو ہر وقت نماز پڑھنے میں ثواب ہوتا ، حالانکہ ان وقتوں میں نماز پڑھنی منع ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنی سمجھ میں سمجھ لینا کہ فلانی بات اچھی ہے ، کسی کام کی نہیں ، اچھی بات وہی ہوتی ہے جس کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اچھا بتا دیں۔ ’’ وقال فی الاحیاء کماان العقول تقصر عن ادراک منافع الادویۃ مع ان الجربۃ سبیل الیھا کذالک تقصر عن ادراک ماینفع فی الاخرۃ مع ان الجربۃغیر متطرق الیھا وانما یکون ذالک لو رجع الینا بعض الاموات و اخبرو ناعن الاعمال المقربۃ الی اللہ تعالیٰ و المجدۃ عنہ و ذالک محالاً مطمع فیہ ‘‘ یعنی اور انھی امام صاحب نے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ جس طرح عقل دواؤں کے فائدے دریافت کرنے میں عاجز ہے ، باوجودیکہ ان کا فائدہ دریافت کرنے کو تجربے کی راہ ہے ، اسی طرح جوباتیں قیامت میں فائدے مند ہیں ان کے معلوم کرنے میں بھی عقل عاجز ہے اور اس کے ساتھ یہ ہے کہ اس کے دریافت کرنے کو تجربے کی بھی راہ نہیں اور تجربہ جب ہوتا جب مردے اٹھ آتے اور ہم کو کہہ جاتے کہ فلانی باتیں تو ثواب کی ہیں اور فلانی باتیں عذاب کی اور مردے اٹھ آنے کی توقع ہیں نہیں ۔ ‘‘ اب اس سے معلوم ہوا کہ جس چیز کوتم نے اپنے نزدیک اچھا سمجھا ہے اس کا اچھا سمجھنا ٹھیک نہیں ہے ، بلکہ اچھا سمجھا ہے اس کا اچھا سمجھنا ٹھیک نہیں ہے ، بلکہ اچھا ہونا اور برا ہونا اسی چیز پر بولا جاوے گا جو شرع سے ثابت ہوا ہو۔ اب سمجھ لو کہ ان حدیثوں میں جو حسنہ اور سیئہ کے لفظ آئے ہیں ان سے وہی مراد ہے کہ جس کا اچھا ہونا اور برا ہونا شرع میں آچکا ہو۔ پھر جن چیزوں کی بھلائی شرع میںآچکی ہے ان کے رواج دینے میں ثواب ہے اور جن چیزوں کی برائی شرع میں آچکی ہے ان کے رواج دینے میں عذات ہے۔ پس اب اگر دونوں جگہ سن کے معنی رواج دینے ہی کے ہوں تو بھی وھی ایک مطلب ہے۔ اس حدیث سے بھی کسی طرح بدعت حسنہ کے ان معنوں پر جوتم سمجھتے ہو استدلال نہیں ہو سکتا اور دوسری حدیث جس سے ان لوگوں نے بدعت حسنہ کے یہ معنی گھڑ لیے ہیں وہ یہ حدیث ہے : ’’ ان اللہ تعالیٰ نظر فی قلوب العباد فاختار محمداً صلی اللہعلیہ وسلم قبعثہ برسا تہ ثم نظر فی قلوب العباد فا ختارلہ اصحاباً فجعلھم انصار دینہ و وزراء بنیہ فما راہ المسلمون حسناً فھو عند اللہ حسن و مارا ہ المسلون قبیحاً فھو عند اللہ قبیح ‘‘ یعنی اللہ صاحب نے اپنے بندوں کے دلوں پر دیکھا ، پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چنا ، پھر ان کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ، پھر اپنے بندوں کے دلوں میں نظر کی اور ان کے لیے اصحاب چنے اور ان کو اپنے دین کا مدد گار اور اپنے نبی کا وزیر ٹھہرایا ، پھر جس کو مسلمان اچھا جانیں وہ اللہ کے نزدیک اچھی ہے اور جس چیز کو برا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بری ہے ۔ اس حدیث سے اس زمانے کے لوگوں نے یہسمجھا ہے کہاگرچہ کسی چیز کی اصل پہلے زمانوں میں نہ پائی جاتی ہو ،مگر جس چیز کو دس مسلمانوں نے اچھا سمجھا وہ بدعت حسنہ ہے اور جس چیز کو برا سمجھا وہ بدعت سیئہ ہے اور یہ سمجھ ان کی بالکل غلط ہے ، کیونکہ اس حدیث میں جو مسلمانوں کا الفظ آیا ہے اگر اس سے یہ مراد ہے کہ کوئی مسلمان جس چیز کو اچھا جانے وہ اچھی ہے تو یہ معنی صریح غلط ہیں ، کیونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’ ستفترق امتی علی ثلث و سبعون ملۃ کلھم فی النار الاواحدۃ‘‘ یعنی قریب ہے کہ میری امت میں تہتر فرقے ہو جاویں گے اور سب کے سب دوزخ میں جاویں گے ، مگر ایک فرقہ ، اور جتنی امت حضرت کی ہے ان کے مسلمان میں تو کچھ شبہ ہی نہیں ، کیونکہ اگر وہ مسلمان نہ ہوں تو امت میں کاہے کو رہیں اور ہر ایک فرقے نے اپنے مذھب کو اچھا جان کر اختیار کیا ہے ، تو اب چاہیی کہ کوئی فرقہ دوزخ میں نہ جاوے ، حالانکہ رسول مقبول نے تو خیر کر دی ہے کہ بہتر فرقے دوزخ میں جاویں گے ، اس سے معلوم ہوا کہ یہاں ہر ایک مسلمان کے اچھے جاننے سے تومراد نہیں ہے ، پس تواب مسلمانوں کے لفظ سے یا تو وہ مسلمان مراد ہیں کہجن کال ذکر اوپر آچکا ہے ، یعنی رسول خدا صلی اللہعلیہ وسلم کے اصحاب یا وہ مسلمان مراد ہیں کہ جو شرع کے احکام کو بخوبی جانتے ہیں اور آئمہ مجتہدین ہیں اور یا وہ مسلمان مراد ہیں کہ جن کے اچھے ہونے کی رسول مقبول نے خبر دے دی ہے کہ و ہ صحابہ ہیں اور تابعین اور تبع تابعین ۔ پھر جو چیز کہ ان تینوں زمانوں میں روج ہو گئی ہے نہ اس کے سنت ہونے میں کسی کو کلام ہے اور جس کوعلماء مجتہدین نے کلام اللہ اور حدیث رسول اللہ اور آثار صحابہ پر غور کر کر انپے اجتہاد سے نکالا ہے نہ اس کے سنت ہونے میں کسی کو کلام ہے۔ غرض کہ اس حدیث سے بھی یہی بات نکلی ہے کہ جو بات ان تینوں وقتوں میں نکل چکی تھی اور یا جس کو آئمہ مجتہدین نے قیاس کر کر نکالا ہے وہ باتیں اچھی ہیں اور تمہاری نکالی ہوئی باتیں مردود ہیں ۔ اب غور کرو کہ جن لوگوں نے بدعت حسنہ کے یہ معنی نکالے تھے کہ اگرچہ کسی بات کی اصل حضرت کے وقت میں یا صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کے وقت میں نہ پائی اوے ، مگر چار مسلمانوں کی سمجھ کے موافق اس میں اچھی اچھی باتیں اور ثواب کے کام ہوتے ہوں ، وہ بدعت حسنہ ہے ، یہ معنی بالکل غلط ہو گئے۔ غورکرنے کی بات ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے ’ ’ الاتجتمع امتی علی الضلالۃ ‘‘ یعنی میری امت گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوتی اور اسی سب سے اجماع امت کا دلیل شرعی ہو گیا ہے ، اس پر بھی اصول کی کتابوں میں یہ شرط لگا دی ہے کہ سند اور دلیل اس اجماع کی بھی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے چاہیے ۔ تم نے جو دین کی ہر بات میں گھٹانا اور بڑھانا شروع کیا اور کہنے لگے کہ ’’ ماراہ المسلمون حسنا فھو عند اللہ حسن ‘‘ یہ کب ٹھیک ہو سکتا ہے ۔ اے بھائی مسلمانوں یہ سب نفس کی شامت ہے۔ ان باتوں کو ھوڑو اور خاصے ستھرے سنی مسلمان ہو کر اپنے تئیں مردے کی مانند دریائے شریعت محمدیہ علی صاجہا الصلواۃ والسلام میں ڈال دو اور جس طرف اس کی موجیں لے جاوید بخوشی چلے جاؤ اور اپنے ہاتھ پاؤں مت ھلاؤ ، مبادا کہ لہر پر سے چوک جاؤ اور بھنور میں جا پڑو کہ پھر ڈوبنے کے سوا کچھ چارہ ہی نہیں ۔ اجماع امت کا بیان جاننا چاہیے کہ سب عالموں کے نزدیک اجماع امت محمدی علی صاجہاالصلواۃ والسلام کا اس چیز کے اچھا ہونے کے دلیل ہے ، مگر لوگ اجماع میں ، جس کا ذکر شرع میں ہے اور رواج میں فرق نہیں جانتے ، حالانکہ یہ بڑی غلطی ہے ، کیونکہ اجماع اورچیز ہے اور رواج اور چیز ، تفصیل اس کی یوں ہے کہ بعضے وقت کوئی نئی بات خواہ ظاہر کی ہو ، خواہ باطن کی ، کسی سبب سے ہونی شروع ہوتی ہے اور ان کے بعد جو اور لوگ ہوتے ہیں وہ بھی اس کو کرتے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ اس پر ایک مدت گزر جاتی ہے اور پھر وہ بات ہر ایک شخص ، کیا بڑے اورکیا چھوٹے کے ہاں ایسی طرح مقرر ہو جاتی ہے کہاگر کوئی اس کو چھوڑے تو اس کو برا بھلا کہتے ہیں اور جب اس کی اصل ڈھونڈی جاتی ہے کہ یہ بات کہاں سے نکلی، تو شرع میں اس کا ٹھکانا نہیں لگتا تو اس طرح ایک چیز پھیل جانے کو رواج کہتے ہیں ۔ اس بات کی شرع میں کچھ حقیقت نہیں اور اس کو اجماع امت سمجھنا گمراہی ہے اور بعضے وقت ایسا ہوتا ہے کہ نئی بات پیش آتی ہے اور اس زمانے کے علماء مجتہدین اس کی تلاش کے درپے ہوتے ہیں اور کلام اللہ اور حدیث رسول الہ اور آثار صحابہ پر غور کر کر اس بات کا ایک حکم نکالتے ہیں اور جب وہ حکم نکل آتا ہے تو ہر شخص جان لیتا ہے کہ اس دلیل شرعی سے یہ حکم نکالا اور اسی پرعمل درآمد رکھتے ہیں۔ اس طرح سے حکم نکلنے کو اجماع کہتے ہیں۔ جب یہ بات سمجھ لی تو اب جاننا چاہیے کہ ان تینوں زمانوں کے بعد صرف کسی چیز کے مروج ہو جانے سے وہ چیز بدعت سے نہیں نکل جاتی ، برخلاف اجماع کے کہ جس مسئلے پر اجماع امت ہو جاوے وہ مسئلہ سنت میں داخل ہو جاتا ہے اوراس کا سبب یہ ہے کہ کلام اللہ سے یہی بات نکلتی ہے کہ جس بات کو مسلمان دین کاحکم سمجھ کر بجا لاویں وھی ٹھیک ہے : کمال قال اللہ تعالیٰ ’’ ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدیٰ و یتبع غیر سبیل المومنین نولہ ماتولی و نصلہ جھنم و سائت مصیرا ‘‘ یعنی اللہ صاحب نے سورۃ النساء میں فرمایا ’ اور جو کوئی مخالفت کرے رسول سے جب کھل چکی اس پر راہ کی بات اور الگ چلے مسلمانوں کی راہ سے حوالے کریں ہم اس کو وھی راہ جو اس نے پکڑی اور ڈالیں اس کو دوزخ میںاور بہت بری جگہ پہنچا۔ پس اس آیت میںاللہ صاحب نے فرمایا کہ جب راہ کو مسلمانوں نے اپنے اسلام کے سبب اختیار کیا ہو ،جیسے بولتے ہیں کہ بادشاہ کا حکم ، یا قاضی کا حکم ، تو اس سے یہی مراد ہوتی ہے کہ بادشاہ نے اپنی بادشاہت کے سبب اور قاضی نے اپنی قضائت کے سب جو حکم دیاہو وہ حکم بادشاہ کا اور قاضی کا کہلائے گا،یا جیسے یوں بولتے ہیں کہ توسپاہیوں کی راہ ہے، یا یہ مشایخوں کا طریقہ ہے، تو اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس راہ کو سپاہیوں نے اپنی سپہ گری کے سبب اور جس طریقے کو مشایخوں نے اپنے مشایخ پنے کے سبب اختیار کیا ہو ۔ غرض کہ اس آیت میں مسلمانوں کی راہ سے وھی راہ مراد ہے جو مسلمانوں نے اپنے اسلام کے سبب اختیار کی ہو ، نہ بطور رسم و عادت کے ، چنانچہ حدیث ’’ ماراہ المسلمون حسنا فہو عنداللہ حسن ‘‘ میں بھی یہی معنی مراد ہیں کہ جس چیز کو مسلمانوں نے اپنے اسلام کے سبب اچھا جانا ہو ، وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھے ہے ، کیونکہ اس حدیث میں اچھا جاننا فرمایا ، یہ نہیں فرمایا کہجس کا رواج مسلمانوں میں ہو گیا ہو وہ اچھی ہے۔ حاصل یہ کہ جتنے مسئلے اجماعی ہیں وہ تو سنت میںداخل ہیں اور جتنی باتیں کہ بطور واج کے جاری ہو رہی ہیں وہ سب بدعت ہیں ، پھر اجماع میں اور رواج میں خوف فرق رکھنا چاہیے ۔ احتجاج بلا دلیل کا بیان بعضے لوگ اس شبہے میں پڑتے ہیں کہ جوچیز حضرت کے وقت میں نہیں ہوئی اور نہ ان تینوں وقتوں میں اس کا رواج ہوا ، اگر اس کا کرنا نادرست ہو تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ ایک چیز کا نہ ہونا اس کی ناجوازی کی دلیل ہوئی ، حالانکہ اصول کا مسئلہ ہے کہ احتجاج بلا دلیل درست نہیں ، یعنی کسی چیز کے نہ ہونے پر دلیل پکڑنی درست نہیں ہے ، مگر یہ شبہان کابے جا بھی ہے ، کیونکہ اصول کی ساری کتابوں میں کسی چیز کے نہ ہونے پر دلیل پکڑنے کو دو طرح پر لکھا ہے ایک یہ کہ مثلا ایک بات ہو اور اس کا ہونا کئی دلیلوں سے ہو سکتا ہو ، تو ایک دلیل کے نہ ہونے سے اس کے نہ ہونے پر دلیل نہیں پکڑی جا سکتی ، مثلا آدمی کے مر جانے کی بہت سی صورتیں ہیں کہ آدمی بیماری سے بھی مرتا ہے ، زہر کھا کر بھی مرتا ہے ، چھت پر سے گر کر بھی مرتا ہے ، پھر اگر کوئی یوں کہے کہ فلاں شخص نہیں مرا ، کیونکہ چھت پر سے نہیں گرا ، تو چھت پر سے نہ گرنے کی دلیل سے اس کے نہ مرنے کا حکم دینا درست نہیں ، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ شخص بیمار ہو کر مر گیا ہو ، یا زہر کھا کر مر گیا ہو ،لیکن اگر کوئی بات ایسی ہو کہ اس کے لیے ایک دلیل کے سوا دوسری دلیل ھی نہ ہو تو اس وقت دلیل کے نہ ہونے پردلیل پکڑنی البتہ درست ہو گی، مثلا خون کے بدلے پھانسی اسی کو دی جاتی ہے جو خون کرتاہے پھر اب اگر کوئی یہ بات کہے کہ فلانے شخص کو خون کے بدلے پھانسی نہیں ملنے کی ، کیونکہ اس نے خون نہیں کیا ، تو اس اب پھانسی نہ ملنے کو خون کے نہ کرنے پر دلیل پکڑنی درست ہو گئی ، کیونکہ پھانسی ملنے کی دلیل تو صرف خون کرنا تھا ،جب وہ دلیل جاتی رہی تو پھانسی ملتی بھی جاتی رہی، غرض کہ اگر کوئی ایسی چیز ہو کہ اس کے ہونے پر ایک دلیل کے سوا کوئی ایسی چیز ہو کہ اس کے ہونے پر ایک دلیل کے سوا دوسری دلیل ھی نہ ہو تو اس دلیل کے نہ ہونے پر اس چیز کے نہ ہونے کے لیے دلیل پکڑنی اصول کے قاعدوں کے موافق درست ہے۔ اب غور کرو کے شرع کے جتنے احکام ہیں ان کے ہونے پر ایک دلیل کے سوا دوسری دلیل نہیں اور وہ دلیل کیا ہے ، حکم شرع کا ، یہاں تک کہ مباح چیزیں جن کے کرنے نہ کرنے کا بندوں کا اختیار کر دیا گیا ہے ، اس میں بھی شرع ھی کا حکم ہے ۔ ’’ کمافی المسلم الاباحۃ حکم شرعی لانہ خطاب الشرع تخسیرا ‘‘ یعنی مسلم میں یہ بات لکھی ہے کہ کسی چیز کا مباح ہونا بھی شرع ہی کا حکم ہے ،کیونکہ اس کام کے کرنے نہ کرنے پر شرع کی طرف سے اجازت ہے ، تو اب جہاں شرع کا حکم پایا جاوے گا ، اس کا کرنا درست ہو گا اور جہاں شرع کاحکم نہ پایا جاوے گا درست نہ ہو گا ، تو اب کہہ سکتے ہیں کہ فلانی بات کرنی درست نہیں ، کیونکہ شرع میں نہیں آئی ، تو اب شرع میں نہ آنے کو دلیل پکڑنا درست ہو گا ، اور یہی سبب ہے کہ تمام فقہ کی کتابوں میں کسی چیز کے شرع میں آنے کو اس کی ناجوازی کی دلیل پکڑی ہے ۔ ’’ قال صاحب الھدایۃ یکرہ ان یتنفل بعد الفجر اکثر من رکعتی الفجرلانہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یزدعلیھا ‘‘ یعنی ھدایہ میں لکھا ہے کہ صبح صادق لکھنے کے بعدفجر کی سنتوں کے سوا اور نفل پڑھنے درست نہیں ، کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زیادہ نہیں کیا ۔ اسی طرح تمام فقہ کی کتابیں بھری پڑی ہیں کہ اگر ان کو چنا جاوے تو ایک کتاب بن جاوے ۔ عدم نقل کا بیان بعضے لوگ اس شبہے میں پڑتے ہیں کہ جو چیز حدیث میں نہیں آتی تو اس سے یہ کیونکر معلوم ہوا کہ حضرت نے وہ کیا ہی نہیں ، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ حضرت نے وہ کیا ہی نہیں ، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ حضرت نے کیا ہو ، مگر اس کا ذکرکسی حدیث میں نہ آیا ہو ،تو یہ ان کاکہنا ٹھیک نہیں ہے ، کیونکہ جتنی باتیں ہیں ان کا نہ ہونا تو ثابت ہے ۔ اس سبب سے کہ سب چیز کی اصل میں عدم ہے جو جب تک کہ اس کا ہونا نہ ثابت ہو جاوے تو اس کی اصل جو کہ ثابت ہو چکی ہے نہیں فوت ہو سکتی۔ ’’ کما قال القاری فی شرحہ قال و عدم و رودہ لایدال علی عدم و قوعہ قلنا ھٰذا امر مردود لان الاصل عدم و قوعہ حتی یوجد دلیل ورودہ ‘‘ یعنی ملا علی قاری نے مشکواۃ شریف کی شرح میں الاعمال بالنیات کی حدیث کے نیچے لکھا ہے کہ یہجو کہتے ہیں کہ حدیث میںنہ آنا اس بات کے نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا ، تو ہم کہیت ہیں کہ یہ بات مردود ہے ، کیونکہ ہر چیز کی اصل میں تو نہ ہوتا ہے ، جب تک کہ اس کے ہونے کی دلیل نہ پائی جاوے ۔ ’’ قال بعض الافاضل الاصل فی الحوادث العدم حق یوجد عللھا ‘‘ یعنی بعضے بڑے عالموں نے لکھا ہے کہ جتنی چیزیں ہونے والی ہیں ان کی اصل میں نہ ہونا ہے ، جب تک کہ ان کے ہونے کی دلیل نہ پائی جاوے۔ اب بخوبی چھن گیا کہ جن باتوں کا ذکر حدیثوں میں نہیں آیا ان کا ایسا ہی حکم ہے کہ گویا حقیقت میں وہ باتیں ہوئی ہی نہیں۔ جو بات نہیں ہوئی اس کے نہ کرنے میں سنت کا بیان ایک اور بات جان لینی چاہیے کہ جو بات حضرت کے وقت میں یا تینوں وقتوں میں معلوم ہوئی ہے ، جس طرح ان کا کرنا سنت ہے اسی طرح جو باتیں نہیں ہوئیں ان کا نہ کرنا ، یعنی ان کو چھوڑنا بھی سنت ہے ۔ ’’ کماقال صاحب المجالس قالوا کما ان فعل ما فعلھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان سنۃ کذالک ترک ماترکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مع الوجود المقتضی وعدم المانع منہ کان سنۃ ایضاً ۔‘‘ یعنی صاحب المجالس نے لکھا ہے کہ عالموں نے یہ بات کہی کہ جس طرح اس کام کام کرنا جس کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا سنت ہے اسی طرح اس کام کا چھوڑنا جس کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا باوجود ہونے حاجت اور نہ ہونے مانع کے سنت ہے۔ ’’ وقال القاری والشیخ فی شرح المشکواۃ والمتابعۃ کمایکون فی الفعل یکون فی الترک ایضاً ‘‘ یعنی ملا علی قاری اور شیخ عبدالحق نے مشکواۃ کی شرح میں لکھا ہے کہ جس طرح تابعداری کام کے کرنے میں ہے اسی طرح نہ کرنے میں بھی ہے ، تو اب اسی سے معلوم ہوا ہے کہ جو بات حضرت کے وقت میں یا ان تینوں وقتوں میں نہیںہوئی ، اس کاچھوڑنا ھی سنت ہے۔ خصوصیات کا بیان یہ بھی جان لینا چاہیے کہ جیسے حضرت کی اطاعت نہ کرنی اور آپ کی سنت پر نہ چلنا بدعت ہے اسی طرح جو باتیں کہ خصوصیات حضرت سے ہیں یا اتفاق سے ہو گئی ہیں یا اسی طرح کی اور بہت سی باتیں جو خاص بعضے لوگوں ہی کے متعلق ہیں۔ان پر چلنا بھی بدعت ہے ، جیسے سو رہنے سے حضرت کا وضو نہ جانا ، یا چار نکاح سے سوا حضرت کی ذات پاک کو درست ہونا ، یا اتفاق سے مشرکین کی بھی بخشش کی دعا مانگنا یا منافق کے جنازے کی نماز کاپڑھ لینا ، یا حضر ت کی ازواج مطہرات کو دوسرے نکاح کا امتناع ہونا ، یا زکواۃ یا عید کے گیہوں یا اللہ کی مانی ہوئی نذر یا کفارے کے صدقے کا بنی ہاشم اور سادات پر حرام ہونا ، یا بعضے صحابہ اور اھل بیت کے قطعی بہشتی ہونے کا حکم کر دینا ایسی باتیں ہیں کہ ان پر چلنا بدعت اور گنا ہے ، کیونکہ یہ باتیں خصوصیات سے ہیں یا اتفاق سے بتقاضائے بشریت ہوگئی ہیں، اسی طرح بعضی باتیں اگرچہ صحابہ یا تابعین یا تبع تابعین کے وقت میں ہوئیں ، مگر اھل حق نے اس کو برا جانا اور اس کا بھی رواج نہیں ہوا اور پھر اس کے بعد کوئی دلیل کلام اللہ اور سنت رسول اللہ یا قیاس مجتہدین یا اجماع امت سے اس پر نہیں ملی تو اس کا کرنا بھی بدعت ہے ، سنت نہیں ، جیسے کہ بزرگوں کے مزاروں سے مدد چاہنی ، باوجودیکہ حضرت عمرؓ کے وقت ایک گنوارنے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مبارک سے مینہ برسنے کے لیے دعامانگی ، لیکن جب اس کا رواج نہ ہوا تو سنت نہ ٹھہرا ، بلکہ بدعت ہی رہا اور اس واسطے مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب نیاولیاء اللہ کی قبروں سے مدد چاہنے کو ، گو وہ لوگ حقیقت میں ان کو واسطہ ہی کرتے ہوں اور اپنی مراد اللہ ہی سے مانگتے ہو، بدعت فرمایا اور بدعت ہونے کا فتویٰ دیا اور اسی طرح حضرت عائشہؓ سے عورتوں کا قبروں پر جانا اور حضرت ابن عباس سے وضو کے وقت پاؤں پر صرف مسح کر لینا یا عبدالہ ابن حعفر سے عود کا بجانا یا سعید ابن المسیب سے بغیر صحبت کے صرف نکاح سے حالالے کا حلال ہونا یا معاویہ ابن ابی سفیان سے تخت سلطنت پر بیٹھنا اور اس طرح کی بہت سی باتیں جن کا نھی وقتوں میں ہونا آیا ہے ، مگر اس سبب سے کہ ان کا رواج نہیں ہوا اور اہل حلق نے برا جانا ، بدعت کی بدعت ہی رہی۔ پھر ان باتوں پر چلنا اور رواج نہ ہونے کا خیال نہ کرنا عین گمراہی اور اپنے نفس کے موافق باتیں ڈھونڈ لانی ہیں ، نعوذ باللہ منہا۔ ان باتوں کا بیان جو بدعت نہیں ہیں بعضی باتیں ایسی ہیں کہ ظاہر میں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بدعت ہوں گی ، مگر درحقیقت وہ باتیں بدعت نہیں ہیں ، بلکہ سنت ہیں ، مثلا قرآن کا جمع کرنا اور سورتوں کو آگے پیچے لگانا اور رمضان میں اکھٹے ہو کر تراویح پڑھنی اور جمعے کو پہلی اذان دینی اور کالم اللہ میںزیر زیر دینے اور حدیثوں اور کلام اللہ کی آیتوں سے کفار مشرکین اور بدعتیان مضلین کورد کرنا اور حدیث فقہ کی کتابیں بنانی اور صرف ونحو کے قاعدے بقدر ضرورت بنانے اور حدیث کے راویوں کاحال تحقیق کرنا اور کلام اللہ اور سنت رسول اللہ میں سے مسئلوں کا نکالنا یہ سب باتیں سنت ہیں ، کیونکہ یہ سب باتیں ان تین زمانوں میں جن کے اچھے ہونے کی رسول مقبول نے خبر کر دی ہے بے کھٹکے مروج تھیں اور کوئی انباتوں کو برا نہ جانتا تھا ، بلکہ بعض اسے بزرگی اور سبب بڑھائی کا جانتے تھے ، مگر اتنی بات بے شک ہے کہ ہر ایک چیز کی ایک حد اللہ تعالیٰ نے باندھ دی ہے اور ہرایک چیز کا مرتبہ بنایا ہے ،کسی کا بڑا اور کسی کاچھوٹا ،پھر جوکوئی اس حد سے بڑھ جاوے گا اور اس مرتبے کاخیال نہ رکھے گا ،البتہ بدعت میں پڑ جاوے گا ،یامثلا آئمہ مجتہدین کے مسئلے نکالے ہوئے کہ فلانی بات واجب ہے یا مندوب یا مباح ہے یا مکر وہ یا حرام یا فلانی چیز فلانی چیز کی رکن ہے اور فلانی شرط یا اس طرح پر کہ فلانا کام کرنے سے اس کام میں پورا ثواب ہوتا ہے یا فلانی بات کرنے سے فلانی بات لازم آجاتی ہے یا فلانی بات کرنے کا یہ پھل ہے ، یا فلانی بات فلانی بات کے برخلاف ہے ، یا فلانی بات ،فلانی بات کے بدلے مقرر ہوتی ہے ،پھر خواہ وہ باتعقائد کی ہو یا دل کے حالات کی ،یاہاتھ پاؤں کے کام کاج کی، یا عبادت ، یا عادت یا معاملات کی وہ سب کی سب سنت ہیں ،کیونکہ ان سب کی اصل شرع میں موجود ہے اور فقہائے مجتہدین اور آئمہ متقدمین شکر اللہ سعیہم نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ھی سے یہ احکام نکالے ہیں، پھر یہ نئی چیزیں بھی نہیں ہیں ، جو بدعت ہوں۔ تقلید کا بیان اور اسی طرح آئمہ اربع مجتہدین کی تقلید کرنی بھی سنت ہے بدعت نہیں ، کیونکہ ان چاروں مذھبوں میںجو اختلاف ہیں وہ اختلاف یا توصحابہ کے اختلاف ہیں یا آئمہ مجتہدین کے قیاس کے ، اور اس میں سے ہر ایک کی تابعداری سنت ہے نہ بدعت ، البتہ بعضے جاھل جویوں جانتے ہیں کہ ہم کو کلام اللہ اور سنت رسول اللہ صلعم سے کیا کام ہے، ہم کو تو اپنے امام کے قول کی تابعداری چاہیے یا بعضے یوں کہتے ہیں کہ اگر فرض کرو کہایک قول امام کا صریح مخالف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے کسی فتویٰ کی کتاب میں نکل آوے تو ہم نہ کتاب اللہ مانیں گے ، یا یہ کہ اکثر عوام ،بلکہ خواص بھی بعضے بزرگوں کی نسبت جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دریائے رحمت سے سیراب کردیا تھا اور ان کو اس بات کا ملکہ عنایت کیا تھا کہ روایات اور اختلافات مختلفہ کے دلائل پر غور کر کر اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر خیال کر کر ایک بات کو تریجح دے سکتے تھے ، بلکہ ہزاروں مسئلوں کا استدلال کلام اللہ اور سنت رسول اللہ سے نکال سکتے تھے اور انہوں نے کسی مسئلے میں تاج الائمہ امام الامت امام ابو حنیفہ کوفی کی تقلید چھوڑ دی اور امام شافعی کی تقلید اختیار کر لی یا اور کسی امام کے آئمہ مجتہدین میں سے کسی مسئلہ خاص میں پیرو ہو گئے تو ابان پر رافضیوں کی طرح تبرا کرنے لگے اور گمراہ اور مردود بنانے لگے او کافر اورمرتد کا فتویٰ دینے لگے اور جس طرح ہم لوگ حقارت اور نفرت سے اھل بدع و اھوا کا نام لیتے ہیں اسی طرح ان بزرگوں کا بھی لامذھباًٰ اور بدمذھباً اور گمراہ کر کے نام لینے لگے ،یا یہ کہ جن لوگوںنے آئمہ مجتہدین کی تقلید کو ایک جزو ایمان کا سمجھ رکھا ہے کہ جب تک لاالہ الااللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ محمد رسول اللہ کے ساتھ اخترت مذھب الحنفی اوالشفعی اور المالکی اوالحنبلی نہ کہے مسلمان ھی نہیں ہوتا اور سیدھی راہ ہی پر نہیں آتا ، البتہ ان لوگوں کی نسبت ایسی تقلید شرع کی بدعت ہے ، ورنہ جس تقلید آئمہ مجتہدین رضوان اللہ عنہم اجمعین پر ہم لوگ اھل سنت و جماعت ہیں یہ تقلید تو خاصی ستھری بے کھٹکے سنت ہے کہ اس میں کسی کو کچھ کلام ہی نہیں ، یامثلا وہ چیزیں کہ جن کی دین کے کام میں ضرورت پڑتی ہے ، جیسے کلام اللہ اورحدیث رسول اللہ کے سمجھنے کے لایق عربی کی کتابیں پڑھنی یا صوفیوں کے ھاں جو باتیں حد سے زیادہ مروج ہیں ان میں ذکر خفی سے لطائف خمسہ کی تحریک اور پاس انفاس کا حال اور یادداشت رسمی اور ملاخطہ بہ سوئے قلب جس سے حقیقت احسان کے متعلق ہے اور کفار مشرکین پر جہاد کرنے کے لیے ہر طرح کے ہتیار اور اسی طرح کی اور باتیں جو مخالف شرع نہیں ہیں ، اور صرف ان کو احکام بجا لانے کے لیے برتا جاتا ہے وہ بھی بدعت نہیں ہیں ، مگر جب ہی تک کہ کرنے والا ان کو صرف واسطہ اور آلہ سمجھے ، لیکن اگر کوئی ان کو دین کی سی بات سمجھنے لگے تو پھر وہ بھی بدعت ہی میں داخل ہو جاویں گی، اب ضرور پڑا کہ اس مقام پر یہ بھی بتاویں کہ دین کے کاموں میںکسی چیز کے واسطے یاوسیلہ ہونے کے کیا معنی ہیں تو اب سنو کہ دین کے کاموں کیوسیلے دوطرح پر ہیں ۔ واسطے اور وسیلے کا بیان ایک تو یہ کہ وہ وسیلہ خود بھی شرع میںثواب کا کام ہے جیسے وضو کرنا اورنہانا کہاگرچہ یہ دونوں نماز پڑھنے کے لیے وسیلہ اور واسطہ ہیں ، مگر یہ خود بھی ایسی چیزیں ہیں کہ شرع میںان کی تعریف آئی ہے : قال اللہ تعالیٰ ’’ ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین ‘‘ وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ الطھور شرط الایمان ‘‘ یعنی اللہ صاحب نے سورۃ البقرہ میں فرمایا کہ خوش آتے ہیں توبہ کرنے والے اور خوش آتے ہیں ستھرائی کرنے والے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ستھرائی شرط ایمان کی ہے ، یا مثلا کلام اللہ پڑھنا تو اس بات کا وسیلہ ہے کہ اس کے معنوں پر آدمی غور کرے ، مگر اس کا پڑھنا خود بھی ثواب ہے ، یا مثلا اعتکاف کرنے سے مقصود جماعت کی نماز ہاتھ لگنی اور اللہ تعالیٰ کی یاد کرنی اور بری باتوں سے بچنا ہے ، مگر اعتکاف خود بھی ثواب کا کام ہے اور اسی طرحاور بہت سی چیزیں شرع میں ایسی ہیں کہ در حقیقت تو وہ چیزیں ایک اور کام کا وسیلہ اور واسطہ ہیں ، مگر وہ باتیں خود بھی ثواب کی ہیں اور ان کی نشانی یہ ہے کہ اگر ان باتوں سے جو مقصود اصلی ہیں قطع نظر کی جاوے تو یہ باتیں جو وسیلہ اور واسطہ ہیں ثواب سے خالی نہیں۔ دوسری طرح کی وہ چیزیں ہیں کہ اگرچہ وہ خود تو ثواب کا کام نہیں ہے ، مگر ایک اور ثواب کی بات ہاتھ لگنے کو واسطہ اور وسیلہ ہو جاتا ہے ، مثلا سفر کرنا حج کے لیے یامسجد کے جانے کو بازار میںجانا اور وضو کے لیے کنوئیں میں سے پانی کھینچنا ، اور اسی طرح کی ہزاروں باتیں ہیں کہ خود تو ثواب کی بات نہیں ہے ،مگر ثواب حاصل ہونے کوواسطہ اور وسیلہ ہو جاتی ہیں ، کیونکہ اگر ان مقصدوں سے قطع نظر کی جاوے تو نہ سفر کرنے سے کچھ ثواب ملتا ہے اور نہ بازار میں جانے سے اور نہ پانی کھینچنے سے ، پھر جو شخص ان دوسری طرح کی باتوں کو اس طرح پرکرے گاجس طرح کہ پہلی باتیں کرتے تھے ، یعنی ان کے مقصود اصلی سے قطع نظر کر کر انہیں باتوں کو مقصود ٹھہراوے گا تو یہ باتیں اس کے حق میں بدعت ہو جاویں گی۔ خاتمہ ایک اور بات بھی سمجھنی چاہیے کہ شرع شریف میں اکثر باتیں ایسی ہیں کہ جن کے حق میں فرما دیا ہے کہ یہ بات شرک کی ہے اور یہ بات کفر کی اور یہ بات منافق پنے کی ، لیکن کسی خاص شخص کو مشرک یا کافر یامنافق کہنا نہیں چاہیے ، کیونکہ خاص کسی شخص کو کافر یامشرک یا منافق کہنے سے یہی بات مراد ہوتی تھی کہ وہ شخص عقیدہ کفر اور شرک اور نفاق کا رکھتا ہے، اسی طرح ہزاروں باتیں بدعت کی ہیں ، لیکن اس کے کرنے والے کو بدعتی نہیں کہہ سکتے ، کیوں کہ جس طرح بعضی باتوں کو شرع شریف میں کفر اور شرک اور نفاق میں گن دینے سے یہ مقصود ہے کہ لوگ ان کو چھوڑیں اور ان باتوں سے بچیں نہ یہ کہ جس طرح کافروں اور مشرکوں کو سمجھتے ہیں اسی طرح ان باتوں کے کرنے والوں کو بھی سمجھیں اور ان کا مال لوٹنے اور ان کے بال بچوں کو پکڑنے میںکچھ دریغ نہ کریں اور ان کے جنازے کی نماز پڑھنے اور ان کی بخشش کی دعا مانگنے میں بھی مضایقہ کریں اسی طرح بدعت کی باتیں بتا دینے سے بھی یہی مقصود ہے کہ آدمی اس سے بچے اور ان باتوں کو چھوڑے اور جو باتیں کہ سنت نہیں ہیں ان کو برا جانے ، نہ یہ کہ جو باتیں بدعتیوں کے حق میں حدیث میں آئی ہیں جیسے ان اعمال جاتیرہنے اور ان کی تعظیم و توقیر نہ کرنی اور ان کی بیماری میں خبر نہ پوچھنی یا سلام و علیک نہ کرنی ، وھی باتیں ان کے ساتھ بھی کرے ، کیونکہ وہ سب لوگ بھائی مسلمان ہیں ،جو بری باتیں بدعت کی ان میں ہیں ان کے چھوڑنے کو اسی طرح سمجھائے جس طرح کہ بھائی بھائی کو سمجھاتا ہے اور ہمیشہ سنت پر چلنے کی ترغیب دیتا رہے اور کج اخلاقی اور نخوت فرعونی اور تکبر کو چھوڑنے اور اپنے تئیں بڑا نیک بخت ، پرہیز گار ان کو بدبخت بدعتی گندگار نہ سمجھے ، کیونکہ یہ باتیں نفسانیت اور ہما ہمی کی ہیں ، اسلام سے ایسی باتوں کو کچھ علاقہ نہیں ۔ الہٰی تو اپنے فضل و کرم سے سیدھی راہ کی ہدایت کر اور جو طریقہ خاص تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اسی پر قائم رکھ اور جس طرح زبان سے تو نے سنت محمدیہ علیٰ صاجہا الصواۃ والسلام کو کہلوایا ہے اسی طرح دل و جان سے اس پر عمل کرنے اور اسی پر قائم رہنے کی توفیق دے ، آمین یا رب العالمین ! جان در قدم تو ریخت احمد این منزلت از خدائے میخواست والحمدللہ علیٰ ذالک ریویو برمضمون ’’ راہ سنت و رد بدعت ‘‘ (نوشتہ سر سید بماہ جولائی 1789ء ) یہ رسالہ ’ راہ سنت ‘ اس زمانے میں لکھا گیا تھا جب کہ وھابیت کا نہایت زور شور سے دل پر اثر چھایا ہوا تھا ۔ اگرچہ اس رسالے کی طرز تقریر و بیان میں کچھ فرق ہو ،مگر دراصل یہ رسالہ جناب مولانا مولوی محمداسماعیل صاحب کے ایک رسالے مسمی یہ احقاق الحق الصریح فی احوال الموتنی والفریح سے ماخوذ ہے۔ ایک دفعہ جناب مولانا محمد صدر الدین خان بہادر مرحوم کی مجلس میں سنت بدعت کا تذکرہ ہوا اور میں نے کہا کہ گوبدعت اعتقاد سے متعلق ہے ، مگر حقیقت میں عقائد و اعمال دونوں سے علاقہ رکھتی ہے ، حتی کہ افعال عبادت و عادت و معاملت و کتابت تمام امور سے متعلق ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ آنحضرت صلعم نے کبھی آم نہیں کھایا تو آم کھانے کو بھی بدعت کہو گے اور آم نہ کھانے والے کو متبع سنت ، میں نے عرض کیا کہ ہاں ،مگر جیسے درجے فرض و واجب و سنت و مستحب و مباح کے اعمال جائز میں ہیں اور جیسے حرام و مکروہ تحریمی و مکروہ تفزیہی اعمال ناجائز میں ہیں ، اسی طرح بدعت کے بھی درجات ہیں۔ کفر سے لے کر ادنیٰ سے ادنیٰ درجے ترک اولیٰ تک ، جو چیزیں کہ آنحضرت نے تناول فرمائی ہیں جب تک ان کا کھانا غالباً آپ بھی سنت فرماویں گے تو جو چیزیں آنحضرت کو ناپسند تھیں ان کا کھانا مکر وہ تو ضرور کہا جائے گا اور جو چیزیں اس وقت میں موجود نہ تھیں ان کا پسند یا ناپسند ہونا مشتبہ ہے ۔ پس آم کھانا مکروہ نہ سہی ترک اولیٰ تو ہے ، اس لیے کہ نہ کھانے میں تو صریح آنحضرت کے ساتھ مطابقت ہے اور کھانے میں امر مشتبہ ہے اور اس لیے ترک اولیٰ تو ضرور ہے۔ مولانا اس تقریر سے کسی قدر خفا ہوئے اور فرمایا کہ تم آم کھانے والوں کو کیا کہتے ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ ان کو تو میں کچھ نہیں کہتا ،کیونکہ امر مشتبہ ہے ، لیکن اگر آپ نہ کھانے والوں کو نسبت استفسار فرماویں تو عرض کروں ؟ مولانا نے فرمایا کہ انہی کی نسبت کہو ۔ میں نے عرض کیا کہ قسم اس خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر کوئی شخص اس خیال سے آم نہ کھاوے کہ آنحضرت صلعم نے نہیں کھایا تو فرشتے اس کے بچھونے پر اس کے قدم چومیں۔ یہ بات میں نے نہایت دلی جوش سے کہی ، مولانا اس کو سن کر چپ ہو رہے۔ اسی زمانۂ زور و شور وھابیت میں اور اسی گفتگو کیبعد میں نے یہ رسالہ لکھا ۔ اخیر کلمہ جس پر مولانا موحوم خاموش ہو رہے اس کو میں اب بھی ایسا ہی سچ جانتا ہوں جیسا کہ اس وقت جانتا تھا ،مگر اتنا فرق ہے کہ ایسے شخص کو جس کا ایسا حال ہو ، آنحضرت صلعم کی محبت میں دیوانہ اور مرفوع القلم سمجھتا ہوں ، بشرطیکہ اس نے صرف آم ہی نہ کھاے میں یہ جوش محبت نہ ظاہر کیا ہو ، بلکہ اور تمام باتوں میں بھی اسی طرح عاشق رسول اللہ اور آپ کی ہر بات پر دیوانہ ہو ،مگر یہ بات ایک خاص حالت ہے ،مذھب سے اس بات کوکچھ تعلق نہیں۔ یہ باتیں تو ایسی صحبتوں کی بادگار ہیں جن کی یاد سے آنسو بھر آتے ہیں ۔ کجا وہ صحبتیں اور کجا وہ مجلسیں ،کہاں وہ آزردہ اور کہاں وہ شیفتہ اور کہاں وہ صہبائی ، کہاں وہ علماء اور کہاں وہ صلحاء ، صرف یاد ہی یاد ہے ، پس مجھ کو خود اپنا خیال جو اس رسالے کی نسبت ہے وہ لکھنا چاہیے۔ اگر غور کیا جاوے تو یہ رسالہ دو قسموں پر منقسم ہے ، ایک وہ جو عقاید و عبادت سے علاقہ رکھتی ہیں جس کو میں اب مذھب کہتا ہوں ، دوسری جو عادت سے اور اور باتوں سے جو دنیاوی امور سے متعلق ہیں ، علاقہ رکھتی ہیں ،جیسے کھانا ، پینا ، پہننا ، معاملہ کرنا ، وغیرہ اور امور تمدن اور معاشرت ، پس جو کچھ می نے عقاید و عبادت کی نسبت لکھا ہے اس کو اب بھی میں ویسا ہی برحق سمجھتا ہوں جیسا کہ جب سمجھتا تھا۔ باقی امور معاشرت و تمدن کو جو میں نے مذھب میںشامل کردیا ہے اس کو صحیح نہیں سمجھتا ، بلکہ بڑی غلطی جانتا ہوں۔ اصل یہ ہے کہ ابتدائے تعلیم سے یہ خیال جما ہوا تھا کہ مذھب دین و دنیا دونوں سے علاقہ رکھتا ہے اور جب یہ رسالہ لکھا اس وقت بھی یہی خیال تھا ، پس دین و دنیا دونوں کی باتیں اس میں ملا دیں۔ بہت غوروں اور فکروں اور اونچ نیچ سمجھنے اور خدا اور خدا کے رسول کے احکام پر خوف فکر کرنے کے بعد دونوں میں تفرقہ معلوم ہوا ہے اور یہ غلطی جو اس رسالے میں ہوئی ہے ، کھلی ہے ۔ میں نہایت خوشی سے اقرار کرتا ہوں اور یقین جانتا ہوں کہ دینی اور دنیاوی اومور میں تفرقہ نہ کرنا اور دونوں کو برابر مذھبی احکام سمجھنا در حقیقت ایک بڑی غلطی ہے۔ (تصانیف احمدیہ جلد اول حصہ انول مطبوعہ1883ئ) ٭……٭……٭……٭ ترجمہ کیمیائے سعادت ’’ کیمیائے سعادت ‘‘ حضرت امام غزالی کی مشہور کتاب ہے۔ اس کا اردو ترجمہ سرسید نے حضرت حاجی امداد اللہ کی فرمائش سے 1270ہجری مطابق 1853عیسوی میں شروع کیا تھا ، مگر ابتدائی تین فصلیں ترجمہ کرنے کے بعد سرسید دوسرے کاموں میں ایسے مصروف ہوئے کہ ترجمیکی تکمیل نہ کر سکے اور کام بیچ میںرہ گیا۔جس قدر تردجمہ ہو چکا تھا وہ تصانیف احمدیہ جلد اول حصہ اول (مطبوعہ 1883ئ) سے لے کر یہاں درج کیا جاتا ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) الہٰی تو نے ہم ناچیز اپنے بندوں کو نیست سے ہست کیا پھر کن کن نعمتوں اور کیسے کیسے احسانوں سے نوازا۔ آنکھیں دیں ، ناک دیں ، کان دیے ، زبان دی ، ہاتھ دیے ، پاؤں دیے۔ سر سے پاؤں تک دیکھو تو ذرہ ذرہ اور رواں رواں تیری نعمتیں اور تیرے ہی احسان ہیں ، پھر بھی تو نے بس نہ کیا ، تمام عالم کو اپنے ناچیز بندوں کے لیے پیدا کیا۔ رات بنائی کہ آرکام سے سوتے ہیں ، دن بنایا کہ اپنے کام سے لگتے ہیں ۔ پھر دنیا میں کیسی کیسی نعمتیں کھانے اور پینے اور پہننے اور دیکھنے کی بنائیں کہ ایک سے ایک اچھی اور نرالی ہے۔ غرض کہ تو نے اپنے ناچیز بندوں کے تن بدن اور دل اور جان اور روائیں کو اپنے ناچیز بندوں کے تن بدن اور دل اور جان اور روئیں روئیں کو اپنے احسانوں سے بھر دیا ہے ،پھر کیونکر تیرے احسانوں کا شکر ادا ہو سکے ! ایک ادنی غلام ہوتا ہے ، سچ پوچھو تو اس کے خاوند کا غلام پر کیا احسان ہے ۔ پیدا اس نے نہیں کیا ، آنکھ اس نے نہیں دی ، ناک اس نے نہیں ، کان اس نے نہیں دیے ، ہاتھ اس نے نہیں دیے ، پاؤں اس نے نہیں دے ، ہاں البتہ آپ جیسے بندے کو چار پیسے دے کرمول لینے کا نام کیاہے ،پھر دن رات اپنی خدمت میں رکھتا ہے ،ذرا سی تقصیر پر ماراتا ہے ،روٹی نہیںدیتا ،کپڑا چھین لیتا ہے ۔ ان باتوں پر بھی وہ غلام اپنے خاوند کا حق ادا نہیںکر سکتا۔ تجھ سیمالک کا حق کیوں کر ادا ہو کہ رواں رواں تیرا دیا ہوا اور تیرا پالا ہوا ہے۔ اے میرے رب تو تو میراایسا پیار ا مالک ہے کہ میں دن رات تقصیر پر تقصیر کرتاہوں اور تو آپ دیکھتا ہے اور کچھ نہیں کہتا ، نہ ایک دن روٹی بند کی اور نہ کبھی کپڑے چھینے ، پھر ہم ناچیز تیرے بندے کیوں کر تیرا شکر اور تیرا حق ادا کر سکیں۔ ہمارا تجھ پر کچھ حق نہیں اور تو ہم کو دیتا ہے ۔ ہمارا تجھ پر کچھ زور نہیں اور تو ہم کو نوازتاہے۔ ہم نافرمانی کرتے ہیں اور تو مہربانی کرتا ہے۔ سچ ہے کہ خدائی تجھی پر زیبا ہے۔ تیرے سوا اور کسی سے کب ہو سکتا ہے۔ سچ ہے کہ تو ایک خدا ہے ، بے لگاؤ کہ نہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی تیرا باپ اور نہ کوئی تیرا کنبہ۔ اے میرے اللہ جس طرح کہ تیری رحمت اور مہربانی کی انتہا نہیں ، اسی طرح بے انتہا اپنی رحمت پیغمبر خدا مصطفی سرور مرسلین رحمت اللعالمین پر بھیج ، جن کے سبب ہم نے تجھ سے خدا کو پہچانا۔ الہٰی ہم تیری راہ کیا جانتے تھے اور تجھ کو کب پہچانتے تھے ۔ یہ تیرے حبیب کا فضل ہے کہ جو ہم نے اس کو راہ کو پہچانا اور تیرے نام کو جانا۔ ہمارا دل اور ہماری جان ان کے نام کے قربان کہ ان کے سبب ہم گمراہی سے نکلے اور ہم سیدھے رستے پر پڑے۔ دل و جانم فدایت یا محمد سر من خاک پایت یا محمد آمین ثم آمین ، اور ان کی اولاد پر اور ان کے یاروں پر بھی اللہ کی رحمت ہو ، جنہوں نے رسول اللہ کی راہ کو بتایا اور ساری امت پر احسان کیا … اما بعد … اگرچہ بہت دنوں سے دل چاہتا تھا کہ ایک ایسی کتاب اردو زبان میں لکھی جاوے جس سے نفس کو تہذیب اور اخلاق کو آراستگی ، دل کو نرمی ، ایمان کومضبوطی حاصل ہو ، لیکن مکروھات زمانہ سے یہ بات لیت و لعل میں پڑی تھی۔ اتفاقاً 1279ہجری میں حاجی محمدامداد اللہ صاحب دھلی میں تشریف لائے اور انہوں نے کیمیائے سعادت کے ترجمے کو فرمایا۔ اگرچہ دل میں شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ اگر اس قسم کا کام کسی بادشاہ ، امیر ، وزیر کی فرمائش سے کیا جاتا تو روپے ہاتھ لگتے ، ان درویشوں کی فرمائش سے محنت سے کیا جاتا تو روپے ہاتھ لگنے ، ان درویشوں کی فرمائش سے محنت میں پڑنا کیا فائدہ۔ اگر اچھے ہیں تو اپنے لیے ہیں ، ہم کو کیا ، مگر پھر خیال میں آیا کہ بزرگوں کی دعا بھی کافی ہے ، آؤ ہم ان کے ارشاد بموجب ترجمے میں محنت کریں اور وہ ہم کو دعائیں دیں۔ الحمد اللہ کو ان کے ارشاد کی برکت نے اس سے بھی بڑھ کر کام کیا کہ جب میں نے اس کتاب کے ترجمے کاارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل سے بدلے کی طمع کو مٹا دیا اور اس محنت کو خالص مخلص اپنے لیے کیا۔ ’’ انی و جھت و جھی للذی فطرالسمٰوات والارض حنیفا و ماانا من المشرکین ۔ ‘‘ الہٰی جس طرح کہ تو نے میرے دل میں یہ بات ڈالی اسی طرح میری اس محنت کو خالص اپنے لیے قبول کر اور اس کے تمام کرنے کی توفیق دے۔ آمین یارب العالمین۔ ٭……٭……٭……٭ دیباچہ کیمیائے سعادت اللہ کی درگاہ میں بہت سا شکر آسمان کے ستاروں اور مینہ کی بوندوں اور درختوں کے پتوں اور جنگلوں کی ریت اور زمین کے ذروں برابر ہے کہ یکا ہونا اسی کی تعریف ہے اور دبدبہ اور بڑائی اور بزرگی اور شان اسی کا سبھاؤ ہے۔ اس کی بزرگی کو کوئی نہیں جانتا اور اس کے سوا اور کوئی اس کو نہیں پہچانتا۔ اللہ کے پہچاننے میں بزرگوں کے پہچاننے کی انتہا پہچاننے سے عاجز آنا ہے اور اللہ کی تعریف کرنے میں فرشتوں اور پیغمبروں کی تعریف کرنے کی انتہا اس کی تعریف کرنی اپنے مقدور سے باہر سمجھنا ہے۔ بڑے عقل مندوں کی عقل اس کیادانی بات میں حیران رہ جانا ہے اور اس کی راہ ڈھونڈنے والوں کو اس کی نزدیکی ڈھونڈنا دہشت میں پڑ جانا ہے۔ اس کو پہچاننے سے بالکل امید توڑنی نادانی ہے اور اس کے پہچاننے کا دعویٰ کرنا خام خیالی ہے۔ آنکھوں کاحصہ اس کے جمال سے چکا میں رہ جانا ہے اور عقل کا حصہ اس کی عجائب مخلوقات دیکھ کر اس کو برحق سمجھنا ہے۔ خدا نہ کرے کہ کوئی شخص اس کی ذات کی فکر میں پڑے کہ کیونکر ہے اور کیا ہے کہ اور خدا نہ کرے کہ کوئی دل اس کی عجائب مخلوقات کے سمجھنے سے غافل رہے کہ کیوں کر ہیں اور کس نے بنائی ہیں۔ تب یقینی جان لے گا کہ یہ سب کی قدرت کی نشانیاں ہیں اور یہ سب اسی کی بزرگی کا نور ہے اور یہ سب اسی کی حکمت کے عجائبات ہیں اور اسی کی ذات کا پرتو ہے اور جو کچھ ہے اسی سے ہے اور اسی کے سبب سے ہے ، بلکہ وہ سب آپ ہی ہے ، کیونکہ اس کے سوا اور کسی کا وجود حقیقت میں نہیں ، بلکہ ہر چیز کاوجود اسی کے وجود کا پر تو ہے اور رحمت اللہ کی ہوپیغمبر خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ سب پیغمبروں کے سردار ہیں اور سب مسلمانوں کو سیدھی راہ بتانے والے اور اللہ کے بھیدوں کے امانت دار ہیں اور اللہ کی درگاہ میں مقبول ، اور ان کے یاروں پر اور ان کے کنبے پر بھی اللہ کی رحمت ہو کہ ان میں کا ہر ایک امت کا سردار ہے اور شریعت کی راہ بتانے والا۔ امابعد جاننا چاہیے کہ آدمی کو کھیلنے اور کودنے کے لیے پیدا نہیں کیا ، بلکہ اس کا کام بہت بڑا ہے اور اس کا مطلب بہت اونچا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو نیست سے ہست کیاہے ، مگر ہمیشہ ہست ہی رہے گا اور اگرچہ اس کے تن بدن کا خمیر ادنی خاک ہے ، لیکن اس کی روح بہت اچھی اور پاک ہے اور اگرچہاسکی ذات ظاہر میں بری باتوں سے بھری ہے ، لیکن اگر عبادت میں اس کو گھلاؤ تو پھر سب برائیوں سے پاک ہو کر اللہ کے دربار کے لایق ہے اور زمین سے لے کر آسمان تک سب اس کے تابع دار ہیں۔ ادنی درجہ آدمی کا یہ یہ کہ جانوروں اور درندوں اور شیطانوں کے سے کام کرے ، نفس کی خواہش اور غصے میں پھنس جاوے ، اور بڑا درجہ آدمی کا یہ ہے کہ فرشتوں کی باتیں پیدا کرے ، نفس کی خواہش کو چھوڑے ، غصے سے بچے اور دونوں کو اپنا تابع دار کر کر آپ ان پر بادشاہ بنے ، تب اللہ صاحب کی بندگی کے لایق ہووے کہ اس طرح کا ہونا فرشتوں کی خصلت ہے اور آدمی کے لیے بہت بڑی منزلت ، اور جب آدمی کو اللہ کے دیار کا مزہ پڑہ تو ایک دم بن دیکھے چین نہیں لیتا اور اس کے دیدار بن اس کو آرام نہیں ہوتا اور ظاہر کے آرام اس کے آگے ہیچ ہو جاتے ہیں اور جو کہ آدمی کی ذات اللہ صاحب نے بری باتوں میں ملی ہوئی پیدا کی ہے تو ان بری باتوں کا نکلنا بغیر عبادت کے ممکن نہیں۔ جس طرح کہ ایسی کیمیا جس سے تانبا اور پیتل سونا بن جاوے مشکل ہے اور ہر کسی کو نہیں آتی ، اسی طرح یہ کیمیا کہ جس سے آدمی کی ذات بری باتوں سے پاک ہو کر فرشتوں کی بزرگی میں جا ملے اور ہمیشہ کو چین پاوے ، مشکل ہے اور اس کو بھی ہر کوئی نہیں جانتا۔ اس کتاب کے لکھنے سے مقصد یہ ہے کہ اس کیمیا کا نسخہ بتا دیا جائے کہ حقیقت میں ہمیشہ کو چین میں رہنے کی کیمیا یہ بھی ہے اور ای سبب سے میں نے اس کتاب کا نام بھی کیمیائے سعادت رکھا ہے کہ اس کو کیمیا کہنا سچ ہے ، کیونکہ تانبے اور سونے میں تو بجز زردی اور چمک کے اور کچھ فرق نہیں اور اس کیمیا سے دنیا کے عیش و عشرت کے سوا اور کچھ فائدہ نہیں اور جب دنیا ہی چند روز ہے تو اس کے عیش کی کیا حقیقت ہے اور یہ کیمیا ہمیشہ کو چین میں رہنے کی ہے کہ اس کو بھی انتہا نہیں اور اس کی نعمتوں کو بھی انتہا نہیں اور کسی طرح کے غبار کو اس کی نعمتوں میں دخل نہیں ، پھر اس کیمیا کے سوا اور کسی پر کیمیا کا نام رکھنا جھوٹ موٹ کی بات ہے۔ فصل جاننا چاہیے کہ جس طرح کیمیا ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی ، بلکہ بزرگوں اور بادشاہوں کے خزنے میں ہوتی ہے ، اسی طرح وہ کیمیا کہ جس سے آدمی کی ذات بری باتوں سے پاک ہو ہر جگہ نہیں ہوتی ، بلکہ اللہ صاحب ہی کے خزانے میں ہے اور اللہ صاحب کا خزانہ آسمان میں تو فرشتے ہیں اور زمین پر پیغمبروں کے دل ہیں۔ پھر اگر کوئی اس کیمیا کو پیغمبر صاحب کے دل کے سوا اور کہیں ڈھونڈے تو جان لو کہ وہ راہ سے بھٹک گیا اور انجام کار اس کا دل کی بیماری ہے ، آخر حال اس کا خام خیالی اور قیامت کے دن بڑی خرابی ہو گی اور اس کے دل کی بیماری کھلے گی اور اس کی خام خیالیوں کی رسوائی ہو گی۔ پھر کہنے والے کہیں گے کہ اب اٹھا دیے ہم نے تیرے آگے سے تیرے پردے ، اب نگاہ تیری آج کے دن تیز ہے۔ اللہ صاحب کی بڑی نعمتوں میں سے ایک یہ بیھ نعمت ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اسی کام کے لیے اپنی بندوں کے پاس بھیجے کہ اس کیمیا کا نسخہ سب کو سکھا ویں اور ان کو بتاویں کہ دل کو اللہ کی عبادت میں کیوں کر بھلا ویں اور برائی کو اور بری باتوں کو جو دل پر کامیل ہے ، کیونکر دل سے دور کریں اور اچھی باتوں کو کیونکر دل میں ڈالیں۔ اسی سبب سے جس طرح کہ اللہ صاحب نے اپنی بڑائی اور پاکی بتائی ہے اسی طرح نبیوں کے بھیجنے پر بھی اپنی بڑائی جتائی ہے اور سورہ جمعہ میں فرمایا کہ پاکی سے یاد کرتا ہے اللہ کو جو کچھ کہ آسمانوں میں ہے اور جو کھ کہ زمین میں ہے اور وہ بادشاہ ہی پاک ذات زبردست حکمت والا وھی ہے جس نے بھیجا ان پڑھوں پر ایک رسول انھی میں کا ، سناتا ہے ان کو اس کی نشایاں اور پاک کرتا ہے ان کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور حکمت ۔ پاک کرنے کے یہ معنی ہیں کہ بری باتیں جانوروں کی سی ان میں سے دور کرے اور کتاب اور حکمت کا سکھانا یہ ہے کہ فرشتوں کی سی باتیں ان کے دل میں ڈالے اور کیمیا سے مطلب یہ ہے کہ آدمی میں جو بری باتیں ہیں وہ نہ رہیں اور جو اچھی باتیں ہیں وہ دل میں بیٹھ جاویں اور سب سے بڑی کیمیا یہ ہے کہ آدمی دنیا سے بیزار ہو وہے اور اللہ صاحب کی طرف رجوع کرے جیسے کہ اللہ صاحب نے سورہ مزمل میں پیغمبر صاحب کو سکھایا کہ پڑھ نام اپنے رب کا اور رجوع کر اس کی طرف سے سب سے الگ ہو کر ، اور الگ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ سب چیزوں سے توڑنے اور اللہ ہی سے جوڑے ، حاصل اس کیمیا کا تو یہی ہے اور یوں تو تفصیل اس کی بہت لمبی ہے ، مگر اس کیمیا کا طریق چار چیزوں کا جاننا ہے اور اس کے چار رکن چار معاملوں کا کرنا ہے اور ہر ایک رکن کی دس اصلیں ہیں ، پہلا طریق یہ ہے کہ اپنی حقیقت کو جانے ، دوسرا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پہچانے ، تیسرا طریق یہ ہے کہ دنیا کی حقیقت کو جانے ، چوتھا طریق یہ ہے کہ قیامت کی حقیقت کو پہچانے ، ان چاروں طریقوں کا جاننا حقیقت میں مسلمان ہونے کے طریق کا جاننا ہے اور ان رکنوں کے بھی چار معاملے ہیں ، دو ظاہر سے علاقہ رکھتے ہیں اور دو باطن سے ۔ وہ دو جو ظاہر سے علاقہ رکھتے ہیں ان میں سے پہلارکن اللہ کا حکم بجا لانا ہے کہ اس کا نام عبادات ہے، دوسرا رکن ہر کامکے جو آداب ہیں ان کا لحاظ رکھنا ہے کہ اس کا نام معاملات ہے اور وہ دو رکن جو باطن سے علاقہ رکھتے ہیں ان میں سے پہلا رکن بری باتوں سے اپنے دل کا پاک کرنا ہے ، جیسے غصے سے اور کنجوسی سے اور حسد سے اور غرور سے اور تکبر سے کہ اس کا نام مہلکات ہے۔ دوسرا رکن اچی باتوں سے اپنے دل کا سنوارنا ہے ،جسے صبر کرنے سے ، شکرنے سے ، اللہ کی محبت رکھنے سے ، اللہ سے امید رکھنے سے ، اللہ پر توکل کرنے سے کہ اس کا نام منجیات ہے ، پہلا رکن جو عبادات کا ہے ، اس میں دس اصل ہیں، پہلی سینوں کے اعتقاد میں ، دوسری علم سیکھنے میں ، تیسری ستھرائی میں ، چوتھی نماز میں ، پانچویں زکواۃ میں ، چھٹی روزے میں ، ساتویں حج میں ، آٹھویں قرآن پڑھنے میں ، نویں اللہ کی یاد کرنے اور دعاؤں کے مانگنے میں ، دسویں وظیفہ پڑھنے میں ۔ دوسرا رکن جو معاملات کا ہے اس میں بھی دس اصل ہیں۔ پہلی کھانے کے ادب میں ، دوسری نکاح کے ادب میں تیسری کسب اور سودا گری کے ادب میں ، چوتھی رزق حلال ڈھونڈنے میں ، پانچویں صحبت کے ادب میں ، چھٹی گوشہ نشینی کے ادب میں ، ساتویں سفر کے ادب میں ، آٹھویں راگ سننے اور حال آنے کے ادب میں ، نویں لوگوں کو اچھی باتوں کے سکھانے اور بری باتوں سے منع کرنے میں ، دسویں رعیت پالنے اور حکومت کرنے میں ۔ تیسرا رکن بری باتوں سے اپنا دل پاک کرنے میں جن کو مہلکات کہتے ہیں ، اس میں بھی دس اصل ہیں۔ پہلی نفس مارنے میں ، دوسری بھوک کے مارنے اور عورت کی خواہش کے روکنے میں ، تیسری بری باتوں سے چپ رہنے اور زبان کو برائی سے روکنے میں ، چوتھی غصہ اور رشک اور حسد کھونے میں ، پانچویں دنیا کی محبت کھونے میں ، چھٹی مال کی محبت توڑنے میں ، ساتویں چاہ اور بڑائی کی محبت کھونے میں ، آٹھویں ریا اور دکھلاوے کی عبادت نہ کرنے میں ، نویں مغروری اور تکبر مٹانے میں ، دسویں غرور اور غفلت دور کرنے میں ۔ چوتھا رکھن منجیات میں ، اس میں بھی دس اصل ہیں۔ پہلی گناہوں سے توبہ کرنے میں ، دوسری شکر اور صبر کرنے میں ، تیسری اللہ کے غضب سے ڈرنے اور اس کی رحمت سے امیدوار رہنے میں ، چوتھی فقیری اور زھد کرنے میں ، پانچویں سچی اور خالص نیت رکھنے میں ، چھٹی اپنے نفس سے برائیوں کا حساب لیتے رہنے اور اس کے حالات پرغور کرنے میں ، ساتویں اللہ تعالیٰ کی عجائب حکمت کے فکر کرنے میں ، آٹھویں توکل اور توحید میں ، نویں اللہ کے محبت اور شوق میں ، دسویں موت کے یاد کرنے اور احوال قیامت کے سوچنے میں۔ یہ فہرست ہے تمام کتاب کیمیائے سعادت کی اور اس کتاب میں آگے کون سب باتوں کی تفصیل آسان عبارت میں آوے گی۔ اگر کسی کو اس سے زیادہ تحقیق کرنی ہو تو عربی زبان میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ، جیسے احیاء العلوم اور جواہر القران اور اسی طرح کی اور کتابوں میں دیکھے ، کیونکہ اس کتاب سے یہ مطلب ہے کہ ایک اس کو سمجھ سکے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے پڑھنے والوں کی نیت بخیر کرے اور میری نیت کو بھی ریا ور دکھلاوے کی باتوں سے پاک کر کر قبول کرے اور توفیق دے کہ جو کہوں وھی کروں ، کیونکہ آپ نہ کرنا اور اوروں کو کہنا بے تاثیر ہوتا ہے اور لوگوں کو کہنا اور آپ اس پر عمل نہ کرنا قیامت کا وبال ہوتا ہے۔ خدا اس سے بچاوے۔ ابتدا کتاب کی مسلمانی کے طریق پیدا کرنے میں اور وہ چار طریق ہیں۔ پہلا طریق اپنے آپ کو پہچاننا ہے ۔ جاننا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ے پہچاننے کی جڑ اپنے آپ کا پہچاننا ہے ، اسی واسطے کہا ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اللہ کو جانا اور اللہ صاحب نے بھی سورہ فصلت میں فرمایا کہ اب ہم دکھلاویں گے ان کو اپنی نشانیاں دنیا میں اور ان کے آپے میں جب تک کہ کھل جاوے ان پر کہ یہی ٹھیک ہے ، غرض کہ اپنے آپے سے سوا کوئی چیز تجھ سے نزدیک نہیں ہے ، پھر اگر تو نے اپنے آپے کو نہ جانا تو اور کو کیا پہچانے گا ، اگرچہ تو کہتا ہے کہ میں اپنے تئیں جانتا ہوں ، مگر یہی غلطی ہے۔ اس طرح کے جاننے سے اللہ کی حقیقت کا پہچاننا نہیں آتا، کیونکہ اتنا تو جانور بھی اپنے تئیں جانتا ہے جتنا کہ تو سر اور منہ اور ہاتھ پاؤں گوشت پوست صمر کا دیکھ کر پہچانتا ہے اور باطن کی تجھے اسی قدر خبر ہے کہ جب بھوک لگتی ہے روٹی کھاتا ہے اور جب غصہ آتا ہے لڑ پڑتا ہے جب عورت کو جی چاہتا ہے جورو پاس جا سوتا ہے۔ اتنی بات میں تو جانور تیرے برابر ہیں ، پھر تجھ کو چاہیے کہ اپنی حقیقت کو ڈھونڈے کہ کہاں سے آیا ہے اور کدھر کو جاوے گا اور دنیا میں کس کام کو آیا ہے اور کس دھندے کے لیے تجھے پیدا کیا ہے اور تیری بھلائی کیا ہے اور کس چیز میں ہے اور تیری برائی کیا ہے اور کس چیز میں ہے اور یہ باتیں جو تجھ میں جمع ہیں کہ ان میں سے بعضی فرشتوں کی ، ان میں سے تو کون ہے اور کون سی بات اصل میں تیری ہے اور کون سی بیگانی تجھ میں آگئی ہے۔ اگر اس بات کو تو نہ جانے گا تو اپنی بھلائی ڈھونڈ نہ سکے گا ، کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی غذا جد اور ہر ایک کا کام جدا ہے۔ جانورکی غذا اور اس کا کام دن رات کھانا اور اینڈنا اور سونا ہے ، پھر اگر تو جانور ہے تو دن رات کھانے اور اینڈنے اورسونے کی فکر میں رہ اور درندوں کی غذا اوران کا کام پھاڑنا اور چیرنا ، مارنا اور لڑنا اور دیووں کی غذا اور ان کا کام فساد کرنا اور سو اٹھانا اور فریب کرنا ہے ، پھر اگر تو ان میں سے ہے تو ان کاموں میںمشغول ہو کرجوان کامطالب ہے وہ تجھ کو حاصل ہو اور فرشتوں کی غذا اور ان کا کام اللہ کے دیدار کا دیکھنا ہے ، اسی سبب سے نہ ان کے پاس غصہ ہے ، نہ ان میں جانوروں کی سی باتیں ہیں۔ اگر تو بھی اصل میں فرشتہ ہے تو اس میں کوشش کر کہ اللہ کو پہچانے اور اس کے دیدار کے دیکھنے کے لایق ہو اور نفس کی خواہش اورغصے سے بچے اور اس بات کو سمجھے کہ جانوروں اور درندوں کی باتیں تجھ میں کیوں بنائی ہیں ، کیا اس لیے بنائی ہیں کہ تجھ کو پکڑ کر تجھ سے اپنی خدمت لے ویں اور دن رات تجھ کو اپنا چاکر بناویں یا اس لیے بنائی ہیں کہ توان کو پکڑے اور جوموت کا سفر تجھ کو کرنا ہے۔ اس میں ان سے خدمت لے۔ کسی سے گھوڑے کا کام لے اور کسی سے ھتیار کا اور چند روز جو یہاں ہے تو بھی ان سے اپنی خدمت لے ، تاکہ ان کے سبب تجھ کو بھلائی ملے اور چین سے اپنے اصلی وطن میں چلا چلے۔ اچھے لوگوں کے نزدیک تو وہ وطن دن رات اللہ کے دربار میں حاضر رہنا اور اس کے دیدار کا دیکھنا ہے اور عوام کے نزدیک بہشت میں جانا ہے ، غرض کہ یہ باتیں تجھ کو جانی لازم ہیں ، تاکہ تھوڑا سا اپنے آپ کو جانے اور جو شخص کہ اتنا بھی نہ جانے گا دین کی راہ میں اس کے نصیب پریشانی ہے اور دین کی حقیقت اس سے پردے میں تھی۔ فصل اگر آدمی اپنے آپ کو پہچاننا چاہے تو جان لے کہ آدمی کو خدا نے دو چیزوں سے پیدا کیا ہے ۔ ایک تو ظاہر کا بدن ہے کہ آنکھ سے دکھائی دیتا ہے اور ایک اندر کچھ چیز ہے کہ اس کو روح اور جان کہتے ہیں اور بعضی دفعہ جو کہتے ہیں کہ دل میں یہ بات آئی تو اس دل سے بھی وھی روح اور جان مراد ہوتی ہے اور وہ اندر کی چیز باطن کی آنکھ سے دکھائی دیتی ہے ، ظاہر کی آنکھ سے نہیں سوجھتی اور وھی اندر کی چیز آدمی کی حقیقت ہے اور اس کے سوا جو کچھ ہے اس کے تابع اور نوکر چار کر خدمت گارھیں اور امام غزالی صاحب نے اس اندر کی چیز کا دل نام رکھا ہے اور جس جگہ دل کا نام لے کر وہ کچھ بات کہتے ہیں تو وھاں ان کی مراد آدمی کی اصل حقیقت کی بات کہنی ہوتی ہے ۔ اسی کو روح بھی کہت ہیں اور جان بھی کہتے ہیں اور امام غزالی صاحب کی مراد اس دل سے ظاہر کا دل جو گوشت کا ٹکڑا آدمی کے بائیں طرف سینے میں لٹکتا ہے ، نہیں ہوتی ، کیوں کہ وہ فرماتے ہیں کہ اس کی کیا حقیقت ہے ، وہ تو جانوروں اور مردوں کے بھی ہوتا ہے اور وہ تو آنکھ سے بھی دکھائی دیتا ہے اور جو چیز کی ظاہر کی آنکھ سے دکھائی دیوے وہ تو دنیا کی چیزوں میں سے ایک چیز ہے جس کو عالم ظاہر کہتے ہیں اور جس دل کا وہ ذکرتے ہیں وہ عالم ظاہر میں سے نہیں ہے ، بلکہ یہاں تو مسافروں کی طرح راہ چلتے آنکلا ہے اور یہ ظاہر کادل گوشت کا ٹکڑا ، گویا اسکے سفر کرنے کی سواری ہیاور سب اعضا اس کے نوکر چاکر خدمت گارہیں اور وہ سب کا بادشاہ ہے اور اس کا کام اللہ کا پہچاننا اور اس کے دیدار کا دیکھنا ہے اور جو اللہ کا حکم ہے اس کے لیے ہے اور جو گناہ ہوتا ہے اسی پر ہوتا ہے اور جو عذاب ثواب ہے سب اسی پر ہے اور اچھا ہونا ، برا ہونا اصل میں اسی کا ہے اور ظاہر کا بدن ان سب باتوں میں اس کے تابع ہے۔ غرض کہ اس اندر کی چیز کا خواہدل نام لو خواہ جان اور خواہ روح ، اس کا جاننا اور اس کے بھلے برے کاموں کو پہچاننا اللہ تعالیٰ کے پہچاننے کی جڑ ہے ، پھر آدمی کو اس میں کوشش کرنی چاہیے کہ اس اندر کی چیز کو جانے ، کیوں کہ وہ بہت اچھا پاک صاف موتی ہے اور ذات الہٰی کے دریا میں سے نکلا ہے اور یہاں مسافر ہو کر سودا گری کرنے اور کمائی کرنے کو آیا ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ جس سودا گری اورکمائی کرنے کو وہ اندر کی چیز ، یعنی آدمی کی روح دنیا میں آئی ہے اس سودا گری کرنے اور کمائی کرنے کے معنی آگے معلوم ہوویں گے۔ فصل جاننا چاہیے کہ روح کی حقیقت کا پہچاننا نہیں آتا جب تک یہ نہ جانے کہ وہ بے شک موجود ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے اور اس کے نوکر چاکر کون ہیں اور اس کو نوکروں چاکروں سے کیاعلاقہ ہے اور اس کاکام کیا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی پہچان کیوں کر ہو جاتی ہے اور وہ اس درجے پر کیوں کر پہنچتی ہے۔ اگرچہ اس سب کا حال ہم بتاویں گے ، مگر اتنی بات یہیں جان لینی چاہیی کہ روح کا حقیقت میں موجود ہونا تو ظاہر ہے ، اس لیے کہآدمی کو اپنے ہونے میں کسی طرح کا شک نہیں اور وہ یہ بھی نہیں جانتا ہے کہ میرا ہونا صرف ظاہر کے بدن کا ہونا نہیں ہے ، کیونکہ ظاہر کا بدن تو مردے کے بھی ہوتا ہے مگر جان نہیں ہوتی اور جب وہ جان نہیں ہوتی تو پھر آدمی مردار ہے اور اگر کوئی شخص آنکھ بند کر کر اپنے تن بدن کو بھول جاوے اور آسمان زمین کو بھی بھول جاوے اور جو کچھ آنکھ سے دکھائی دیتا ہے اس کو بھی بھلا دے تو بھی اس کو اپنے ہونے میں کچھ شک نہیں ہوتا اور اپنے آپ کو جانتا ہے ، گو اس نے آسمان کو اور زمین کو اور جو کچھ کہ اس میں ہے سب کو بھلا دیا ہو۔ اگر کوئی شخصی اسی بات پر غور کرے تو تھوڑا سا قیات کا حال سمجھ لے اور جان جاوے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر ظاہر کا بدن بھی اس کا جاتارہے تو بھی وہ شخص جیسا ہے ویسا ہی رہے۔ فصل جاننا چاہیی کہ روح کی حقیقت کی جستجو کرنے میں کہ وہ کیا ہے اورکیوں کر ہے ، شریعت کی اجازت نہیں اور اسی سبب سے حضرت پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تفصیل بیان نہیں کی ۔ اللہ صاحب نے بھی سورہ نبی اسرائیل میں یوں ہی فرمایا کہ روح کا حال جو تجھ سے پوچھتے ہیں ، ان سے کہہ دے کہ روح میرے اللہ کا حکم ہے اور اس سے سوا کہ اللہ کے حکموں میں سے یہ بھی ایک حکم ہے ، پیغمبر صاحب نے یہ بھی بتانے کا حکم نہیں پایا ۔ سچ ہے اللہ ہی کے لیے پیدا کرنا ہے اور اسی کے لیے حکم ہے۔ ظاہر کی مخلوق کا عالم اور ہے اور باطن کے حکموں کا عالم جدا ہے ۔ جو چیز کہ اندازے میں آسکے یا دکھائی دیوے یا خیال میں آوے کہ کتنی ہے اس کو تو ظاہر کی مخلوق کا عالم کہتے ہیں ، کیونکہ خلق کے معنی اصل میں اندازے میں لانے کے ہیں ، آدمی کے دل کا کچھ اندازہ نہیں اور نہ یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ کتنا ہے اور اسی سبب سے دو مخالف باتیں اس میں جمع نہیں ہوتیں ، کیونکہ اگر جمع ہو سکتیں تو ممکن تھا کہدل کا ایک کونا ایک بات کو جانتا ہو اوردوسرا کونا اسی بات سے ناواقف ہو اور ایک ہی دم میں عالم بھی ہو اور اسی دم میں جاھل بھی ہو اور یہ بات نہیں ہو سکتی اور باوجودیکہ اس دل میں نہ دوسری بات آسکتی ہے اور نہ اس کا اندازہ ہو سکتا ہے اس پر بھی اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے۔ (اسی قدر ترجمہ لکھا گیا تھا) ٭……٭……٭……٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End