اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید فلسفیانہ مضامین جلد سوم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقالات سرسید سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کو حاصل ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے اور اپنے پیچھے نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مضامین جہاں ادبی لحاظ سے وقیع ہیں، وہاں وہ پر از معلومات بھی ہیں۔ ان کے مطالعے سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مذہبی مسائل اور تاریخ عقدے حل ہوتے ہیں اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں اور سیاسی و معاشرتی لحاظ سے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ نیز بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی ان میں موجود ہیں سرسید کے ان ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا ہدف رہے ہیں ان مضامین میں علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی، مزاح بھی ہے اور طنز بھی، درد بھی ہے اور سوز بھی، دلچسپی بھی ہے اور دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے اور سرزنش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اور ہر قسم کے خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے، وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اور کہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات و رسائل کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام کے لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اور نا مکمل، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ گزر گیا مگر کسی کے دل میں ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا اور کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا آخر کار مجلس ترقی ادب لاہور کو ان بکھرے ہوئے بیش بہا جواہرات کو جمع کرنے کا خیال آیا مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں پرونے کے لیے مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا انتخاب کیا جنہوں نے پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میں دور و نزدیک کے سفر کیے فراہمی مواد کے لیے ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا، مگر چونکہ ان کی طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری باحسن طریق پوری کی چنانچہ عرصہ دراز کی اس محنت و کاوش کے ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں’’ مقالات سرسید‘‘ کی مختلف جلدوں کی شکل میں فخر و اطمینان کے جذبات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ کانشنس (تہذیب الاخلاق بابت یکم محرم۱۲۹۲ ھ صفحہ ۱۴ تا ۱۸) کانشنس نس ، یعنی وہ قوت ممیزہ جو خدا نے ہر ایک انسان کے دل میںپیدا کی ہے اور جو نیک اور بد کاموں میں تمیز کرتی ہے، انسا ن کے لئے سچی ہادی اور اصلی پیغمبر ہے یہ وہ مسئلہ ہے جس کو اس زمانہ کے آزاد منش اور انسان کو مختار اپنے فعل کا ماننے والے اپنے مذہب کا یا مشرب کا اصل اصول قرار دیتے ہیں۔ مگر در حقیقت یہ مسئلہ ایک بہت بڑا دھوکا ہے۔ کس کانشنس نس کوئی ایک جداگانہ قوت ہے جو انسان میں جداگانہ اس کی ہدایت کے لئے خدا نے پیدا کی ہے ؟ حالانکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ کانشنس نہایت عمدہ چیز ہے اور اانسان کو برائی سے بچانے اور بھلائی کی طرف راغب کرنے کو بہت اچھا راہنما ہے ۔ مگر در حقیقت وہ ایک حالت انسان کی طبیعت کی ہے اور اس کی تربیت کا نتیجہ ہے ۔ پس فی نفسہ وہ کوئی چیز نہیںبلکہ تربینت سے یا خیالات سے جو کیفیت انسان کی طبیعت میںپیدا ہوتی ہے ا سکا یہ نا م ہے ۔ اگر فی الواقع وہ ایک قوت رہنمائی کے لئے منزلہ ایک پیغمبر کے انسان میں ہو تو ضرور ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لئے یکساں رہنما ہو۔ یعنی جس بات کو ایک انسان نیک سمجھے اسی کو تمام انسان نیک سمجھیں اور جس بات کو ایک انسان بد جانے وہ سب انسانوں کے نزدیک بد ہو، مگر کانشنس انسانوں کو مختلف ، بلکہ متضاد بلکہ نفیض باتوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے او ر وہ دونوں سچی ہدایتیں نہیں ہو سکتیں۔ اس شبہ کی نسبت کہ ان متناقض کانشنسوں میںسے ایک غلط اور صرف دھوکا ہوگا، ہنری طاس بکل نے نہایت عمدہ بات کہی ہے کہ ایسی حالت میں ہم پوچھیں گے کہ وہ کون سی چیز ہے جو صحیح اور غلط یا سچی اور جھوٹی کانشنس میںتمیز کرتی ہے ۔ــ‘‘ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان فی نفسہ ایک جداگا نہ مخلوق ہے اور ہر ایک کا پیغمبر ، یعنی اس کا کانشنس خود اس کے ساتھ ہے ، بلکہ ہر ایک کو اپنے پیغمبر کی ہدایت پر چلننا چاہیے تو یہ کہنا بھی درست نہ ہوگا، کیونکہ ابھی تک یہ ثابت نہیںہوا ہے کہ کا نشنس نس در حقیقت ایک جداگانہ مخلوق قوت انسان کی رہنمائی کے لیے ہے ۔ بلکہ ابھھی تک جو معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ وہ طبیعت کی ایک حالت ہے اور اگر یہ بات ہے تو بقول مسٹر بگل کے بحث ختم ہوگئی۔ ‘‘ علاوہ اس کے جب کہ ہر ایک کا نشنس اس کا رہنما پیغمبر ٹھہرا اور ایک دوسرے کے کانشنس میں اختلاف و تناقض کا وجود با لیقین پایاگیا تو ان دونوں کا صحیح ہونا بھی ، جو ایک دوسرے کی نقیض ہیں ضرور ماننا پڑے گا ۔ شاید ان کا تناقض نسبت یا حیثیت کی مدد سے رفع کیا جاو ے گا اور یوں کہا جاوے گا کہ رام دین کا مہا دیو کی مورت کو پوجنا اس لئے نیک ہے کہ اس کا کانشنس اس کو نیک بتاتا ہے او ر محمود غزنوی کا سومنات کے بت کو توڑنا اس لئے نیک ہے کہ اس کا کانشنس اس کو نیک بتاتا ہے ۔تو اس کے معنی ہوں گے کہ دنیا میں در حقیقت نیک و بد کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ صرف خیال ہی خیال ہے، کوئی اہل مذہب تو یہودی ہویا عیسائی، مسلمان ہو یا ہندو، بد ہست ہو یا بر ہمو اس بات کو تسلیم نہیں کرنے کا۔ باقی رہا دھریہ۔ وہ بھی اس کو قبول نہیں کر سکتا ، کیونکہ بالفرض اگر ثواب و عقاب ایک شے معدوم ہوتو بھی خود دھر ہی اس دنیا میںہم کو وہ باتیں بتاتا ہے جو کرنے اور نہ کرنے کے قابل ہیں اور ا نھی کو ہم دوسرے لفظوں میں نیک و بد سے یا ممنوع و جائز سے تعبیر کرتے ہیں۔ قطع نظر اس کے اگر ایک شخص کا کانشنس ہمیشہ ایک ہی حالت پر رہتا تو بھی یقین ہو سکتا کہ اس کا پیغمبر اس میں ہے ،مگر وہ ایک حالت پر بھی نہیں رہتا ، عمر کے لحاظ سے تجربہ، کی ترقی سے، صحت کے اثر سے، معلومات کے بڑھنے سے، خیالات کے تبدیل ہونے سے بالکل بدلتا رہتا ہے۔ مسلمان کا عیسائی ہونے پر ، عیسانی کا مسلمان ہونے پر، ہندو، مسلمان ، عیسائی کا برہمو ہونے پر، بر ہمو کا دھریہ ہونے پر کانشنس بالکل بدل جاتا ہے۔ او روہ پہلے کو جس کی سچائی پر یقین کا مل رکھتا تھا۔ بالکل غلط اور جھوٹا سمجھتا ہے۔ پس یہ صاف دلیل اس بات کی ہے کہ انسان کا کانشنس اس کا پیغمبر او رسچا رہنما نہیں ہو سکتا۔ بقول مسٹر بگل صاحب کے کہ اگر بعض باتوں میں کانشنس ہم کو دھوکا دیتا ہے، تو کیوں کر یقین ہو سکتا ہے کہ اور باتوں میںدھوکا نہ دے گا ۔ پس صحیح اور غلط کا نشنس میں تمیز کرنے کو دوسری کسی چیز کا ہونا لازم و ضرور ہے یا اس مطلب کویوں ادا کرو کہ ہمارے لیے کسی ایسی دوسری چیز کا ہونا ضرور ہے جس کے سبب ہمارا کانشنس ، یعنی ہماری طبیعت کی حالت ایسی ہو جاوے کے وہ ہماری سچی رہنما اور سچے پیغمبر کے ہو۔ اس بیان سے جو ظاہر ا بالکل سیدھا او ر صاف ہے اور کج و پیچ اس میں کچھ نہیں ہے ۔ اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ کانشنس فی نفسہ کوئی چیز نہیں ہے اور نہ وہ ابتداء کسی مذہب کا اصل اصول قرار پانے کے لائق ہے او ر نہ وہ فی حد ذانہ رہنما ہونے کے مستحق ہے ۔ ہاں بلاشبہ جب کہ سچے اصول پر انسان کی طبیعت تربیت اور طبیعت اس سچائی کے مطابق حالت پیدا کر لے تب وہ حالت طبیعت ، یعنی کانشنس انسان کا محافظ اور انسان کا رہنما ہوتا ہے اور ہم ہمیشہ اپنی تحریروں میں جہاں کانشنس کا استعمال کرتے ہیں اور جس کو ہم ہادی یا محافظ یا گناہوں کا بخشانے والا کہتے ہیں اور جس کو ہم شرعی زبان میں تو بہ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں وہاں ہماری مراد اس کانشنس سے ہے۔ اب ہم کو اس چیز کی تلاش کی ضرورت پڑی ہے جس کے تابع ہماری کانشنس کو ہونا چاہیے یا جس سے ہماری طبیعت کی ایسی حالت ہو جاوے کہ وہ ہم کو دھوکہ نہ دے۔ ہماری طبیعت کی حالت ایسی کیونکر ہو جو ہم کو دھوکا نہ دے انسان کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ظاہر میں اس کو بھی اور حیوانوں کا سا پاتے ہیں۔ کھاتا ہے۔ سوتا ہے۔ مضر چیزوں سے بچتا ہے۔ مفید چیزوں کو بہم پہنچاتا ہے۔ او رحیوانات بھی یہی کرتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ انسان میںایک اور چیز بھی پاتے ہیں جو اور حیوانات میں نہیں ہے۔ وہ کیا ہے ؟ سمجھ اور فکر اور خیال اور اس چیز کو اپنے میں پیدا کرتا جو بالفعل اس میں نہیں ہے اور حیوانات جیسے پیدا ہوتے ہیں ویسے ہی رہتے ہیں۔ مگر انسان اپنے میں اور کچھ بھی پیدا کر سکتا ہے جو اس کے ساتھ پیدا نہیںہوئے تھے یا یوں کہو کہ بالفعل اس میں نہ تھے۔ یہ ترقی یا اوصاف کی زیاد تی دو چیزوں سے علاقہ رکھتی ہے۔ مادی سے اور غیر مادی سے غرض ہے جو روحانی ترقی سے علاقہ رکتھی ہے۔ آسانی کے لئے ہم اس کا نام اخلاق یا مذہب رکھتے ہیں۔ پس صحیح اخلاق یا مذہب کا اپنے میں پیدا کرنا ایک غیر مادی صفت کی ترقی انسان کے لئے ہے اور اس صفت سے انسان کی طبیعت کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جو اس کو دھوکا نہیں دیتی۔ جو اخلاق یا مذہب کہ اسی محرج سے نہیں ہے جو ان کا بانی ہے اس کی صحت ہمیشہ مشتبہ ہے او رطبیعت کی جو حالت اس سے ہو اس پر کبھی دھوکا نہ دینے کا یقین نہیں ۔ کسی کا یہ کہتا کہ میں جو اخلاق یا مذہب سکھاتا ہوں وہ اسی محرج سے ہیں جو ان بانی ہے، بغیر کسی ثبوت کے یقین کے قابل نہیں۔ کسی ایسی بات کا کر دکھاتا ، بشرطیکہ در حقیقت کر دکھائی بھی ہو، جو اس وقت کے یا اس وقات کے موجودہ گر وہ کی سمجھ سے باہر ہو، اس کے ثبوت کی دلیل نہیں۔ بہت سی چیزیں ہم کو لوگ دکھا سکتے ہیں جو ہماری سمجھ سے باہر ہیں، حالانکہ وہ کھانے والے خود دقائل ہیں کہ ان میں کچھ کرامات نہیں۔ پا ان اخلاق یا مذہب کا مخرج ایسی جگہ سے ہونا چاہیے جس کے بانی کی طرف سے ہونے میں کچھ شبہ نہ ہو او ر وہ چیز بجز فطرت اللہ اور قانون قدرت کے او ر کوئی چیز نہیں ہے ، جس کو سب سچ او ربالا نفاق اس کا کہتے ہیں ۔ اس کے قانون قدرت ایسے سچے ہیں جن میں ذرا اختلاف نہیں ۔ وہ ایسے مستحکم ہیں جن میںذرا انقلاب نہیں۔ وہ چھوٹے سے پشتے میںبھی ایسے ہی مستحکم ہیںجیسے بڑے سے بڑے پہاڑ میںہیں، پس یہی ایک مخرج ہے جس سے ہم اپنے میں ایسے اخلاق پیدا کرسکتے ہیں جن سے ہمارا کا شنس یعنی ہماری طبیعت کی حالت ایسی ہو جاوے جو ہم کو کبھی دھوکا نہ دے۔ فکر اور خیال جو ہم میں پیدا کیا گیا ہے، کب اس کو غیر مادی چیزوں سے متعلق کیا جاوے تو اس کے تعلق کے لئے بجز قانون قدرت یافطرت کے اور کوئی چیز ہے ہی نہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے بانی کا مقصود یہی ہے کہ اس کی فطرت اور اس کے قانون قدرت پر غور اور فکر کی جاوے اور جب کہ تمام چیزیں جو کچھ پیدا ہوئی ہیں ، مادی ہوں یا غیر مادی اس کے قانون قدرت کے ماتحت ہیں تو انسان اور اس کی طبیعت اور اس کی اس غیر مادی صفت کی ترقی جس کا نام ہم نے اخلاق یا مذہب رکھا ہے، سب کے سب اس قانون قدرت میں داخل ہیں، پس انسان صحیح اخلاق اسی قانون قدرت میں رکھے ہیں اورانہی اخلاق سے انسان کی طبیعت کی جو حالت ہو وہی ایسی حالت ہے جو ہم کو دھوکا نہ دے۔ انسان کی طبیعت کو ایسی حالت پر کرنے کے لیے جو کبھی دھوکا نہ دے ہادی کا ہونا ضرور ہے جس کو ہم دوسری زبان میں بنی یا پیغمبر یا رسول کہتے ہیں ہاں یہ سچ ہے کہ قانون قدر ت پر غور اور فکر کرنے سے وہ صحیح اخلاق جو انسان کی طبیعت کو ایسی حالت پر کر دیں؟ جو کبھی دھوکا نہ دے دریافت ہو سکتے ہیں، مگر کب ؟ جب کہ انسان کو معلومات کو ایک کافی ترقی او ر قوانین قدر ت پر اور ان مختلف قوا کے اسرار پر جو اس کے بانی نے انسان میں رکھے ہیں ایک معتدبہ آگاہی حاصل ہو۔ تمام انسان ان دقائق پر پہنچ نہیں سکتے اور جو پہنچ سکتے ہیں وہ معدودے چند کے سوا نہیں ہو سکتے اور وہ بھی نہ اپنی عمر میں ِ بلکہ پشتوں در پشتوں اور صدیوں در صدیوں میں۔ پس اس لئے تاکہ اس قادر مطلق کی حکمت بیکار نہ رہے ضرور ہوا ہے کہ وقتا فوقتا ملک اور زمانہ کی حالت کے لحاظ سے ایسے ہادی پیدا کئیے جاویں جن میں خلقی ایسا مادہ دیا گیا ہو جو باعتبار اپنی فطرت کے ان سچے اخلاق کے بیان کا مخزن ہو۔ وہ شخص جس میں خدا نے ایک کامل ترقی کا ملکہ رکھا ہو اس شخص سے جس کو اس کامل ترقی کا ملکہ دیا ہو مختلف حالت کا ہوتا ہے ۔ پہلے شخص کو وہ ترقی کسبی ہوتی ہے۔ وہ موجودات عالم پر غور کرتاق ہے۔ اپنے علم کو اپنی معلومات کو ترقی دیتا ہے۔ اگلوں کی معلومات سے فائدہ اٹھاتا ہے اور بذریعہ اکتساب کے اس ترقی تک پہنچتا ہے اور پھر بھی مشتبہ رہتا ہیل کہ پہنچا یا نہیں، مگر دوسرے شخص کی وہ ترقی کسبی نہیں ہوتی، بلکہ وہبی ہوتی ہے۔ اس کی بناوٹ ہی اس کامل ترقی پر ہوتی ہے۔ اس میں وہ ملکہ خلقی ہوتا ہے اور اس لئیے جب وہ کسی ایسی بات پر غور کرتا ہے جو اخلاق سے یا یوں کہو کہ دین سے متعلق ہے ۔ اس کے دل میں وہی بات پڑتی ہے جو نہایت سچی او ر سیدھی ہے اور جو عین مرضی قانون قدرت کے بنانے والے کی ہے۔ اس القاء کے مختلف طریقے قانون قدرت کے بموجب ہیں جو کو ہم دوسری زبان میں وحی اور الہام اور روح فی النفس کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس پہلے شخص اور پچھلے شخص میں ایک اور بھی فرق ہوتا ہے، پہلے شخص کو جس نے وہ صفت بذریعہ کسب کے حاصل کی ہے ۔ ضرور ہے کہ اپنی معلومات کو جن کے ذریعہ سے اس نے رفتہ رفتہ ترقی کی ہے۔ اصطلاحات خاص اور کتایات اور اشارات مضوعہ میں ضبط کرے ، مگر اس پچھلے شخص کو جسے اس کا ملکہ خلقی اور فطرت دیاگیا ہے ، اس کی کچھ حاجت نہیں ہوتی اور اس تفرقے سے یہ نتیجہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلا شخص اپنے مقاصد اور اپنے ماحصل کو عام لوگوں کی عقل اور عام لوگوں کے خیالات کے موافق ان کو سمجھا نہیں سکتا اور ہدایت عام کے منصب پر کھڑا ہونے کے لائق نہیں ہوتا اور یہ پچھلا شخص انھی دقیق مسائل کو عام لوگوں کے خیالات کے موافق اس طرح پر بیان کر دیتا ہے کہ سب کی تسلی ہوتی ہے اور نتیججی میں کچھ تفاوت نہیں ہوتا اور یہ ایک دوسری ضرورت ہے کہ دنیا کے لئے ایوسے ہادی پیدا ہوں کو خلقی اور فطری ملکہ ترقیاخلاق کا اور منصب عام ہدایت کا حاصل ہو، جس کو ہم دوسری زبان میں نبی یا پیغمبر یا رسول کہتے ہیں۔ یہ بات جو ہم نے بیان کی کچھ خاص اخلاق ہی کے معلموں پر موقوف نہیں ہے ، بلکہ تمام علوم و فنون کے معلموں کا یہی حال ہے کہ کسی شخص میں کس علم کے مناسب خدا تعالیٰ ایسا ملکہ رکھ دیتا ہے ، کہ وہ ملکہ دوسروں کو برسوں کی محنت میں نہیں ہوتا، بلکہ نہیں حاصل ہو سکتا۔ صرف فرق یہ ہے کہ وہ لوگ علوم و فنون کے معلم ہیں اور یہ پیغمبر معلم انسانی اخلاق اور مدبر انسانی روح کے۔ ہماری اس تقریر سے لوگ یہ نتیجہ نکالیں گے کہ جس شخص کو اس کامل ترقی کا ملکہ دیا گیا ہو وہ تو ضرور پیغمبر ہوگا اور جس میں اس کامل ترقی کا ملکہ رکھا گیا ہو وہ اگرچہ پیغمبر نہ ہوگا مگر ان اخلاق کو دریافت کر سکے گا جو پیغمبر بتاتے ہیں، گو کہ ایسا شخص شاذو نادر ہی کیوں نہ ہو، بے شک جو تقریر ہماری ہے اس سے اس نتیجہ کا نکلنا ہم کو تسلیم کرنا پڑے گا ، مگر انہی دو تفرقوں کے ساتھ، ایک یہ کہ بذریعہ اکتساب کے اس ترقی تک پہنچنا مشتبہ رہتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ ہدایت عام کے منصب کے لائق نہیں ہوتا جو اصلی منصب ہادی یا پیغمبر کا ہے، ہمارا یہ اصول نہایت جچا ہوا ہے کہ انسان صرف بسبب عقل کے جو اس میں ہے مکلف ہوا ہے، پس جس بات پر وہ مکلف ہوگا ضرور ہے کہ وہ فہم انسانی سے خارج نہ ہو، ورنہ معلول کا وجود بغیر علت کے لازم آنا ہے ، جو محال و ممتنع ہے، پس جن اخلاق کے پکڑنے اور چھوڑنے پر انسان مکلف ہے وہ ضرو ر عقل انسانی سے خارج نہیں ۔ پس کسی شخص کا بذریعہ اکتساب کے ان کو یا ان میںسے بعض کو پالیتا نہ منافی ہدایت کے ہے، نہ منافی رسالت کے اور یہی سبب ہے کہ متعدد اقوال اور اصول بعض حکماء کے بالکہ مطلق اقوال و اصول انبیاء کے پائے جاتے ہیں اور ان باتوں سے انبیاء کی نبوت کی زیادہ تر تقویت ہوتی ہے، ہاں ان نازک معاملوں میں تدبر درکار ہے۔ اگرایسے ہادیوں کا ہونا ضرور ہے تو ان کی تصدیق کی کیا صورت؟ اکثر یہ جواب دیں کے کہ اعتقاد ، لیکن میں اس کو لغو سمجھتا ہوں بلکہ اصل یہ ہے کہ اس ہادی کی ہدایت سننے والے چار قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے کلاََ یا جزاََ اصول قوانین قدرت پر آگاہی پائی ہے۔ وہ تو بمجرد اس ہادی کی بات سنتے ہی پر کھ جاتے ہیں کہ بے شک یہ ہدایت اسی مخرج سے جو انسان کا بانی ہے اور وہ فی الفور اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جن جو خود تو اس درجہ تک پہنچنے کی قدرت نہ تھی ۔ مگر ایسا ملکہ ان میں تھا کہ سمجھائے سے سمجھ سکتے تھے۔ پس وہ اس ہادی کی باتوں کو سنتے ہیںاور غور کرتے ہیں او رسمجھتے ہیں اور ٹھیک پاتے ہیں اور اس پر یقین کرتے ہیں۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جن میں ایسا ملکہ ہی نہیں ہے، مگر اس میں فطرتی سدھاوت سچائی اور ٹھیک اور سچ بات کا دل کو لگ جانا مخلوق کیا گیا ہے، پس وہ لوگ گو اس بات کی کنہ کو نہیں سمجھتے ، مگر ان کے دل کو سچی لگتی ہے اور وہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ چوتھے وہ لو گ ہیں جو سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں۔ بخوبی پو جھتے ہیں اور یقین کرتے ہیں، مگر غرور یا شرم یا نفسائیت ہے اس کااقرار نہیں کرتے ، یعنی ان پر ایمان نہیں لاتیل اور یہ لوگ ٹھیک ابو جہل کے بھائی ہیں۔ پانچویں وہ لوگ ہیں جن کو اصلیت سے کچھ غرض نہیں ہے۔ اپنے باپ دادا کی رسم پر چلے جاتے ہیں اور اسی کو سچ جانتے ہیں، اور اس ہادی کی بات کو نہیں مانتے ۔ یہ لوگو بالکل تیسری قسم کے لوگوں کی مانند ہیں۔ صرف اتنا فرق ہے کہ وہ اپنی سدھاوت سے سیدی راہ پر ہیں اور یہ اپنی سفاہت سے ٹیڑھی راہ پر، واللہ یہدی من یشائء الی صراط مستقیم۔ پس ان فرقوں میں اس سوال پر بحث کرنے والے وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو پہلے اور چوتھے یا دوسرے فرقہ میں داخل ہیں اور ان کو ہم اس سوال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ اس ہادی کی نصیحتوں کا ہم قانون قدرت سے مقابلہ کریں گے اور بقدر اس زبانہ کے علم و عقل و تجربہ کے ان دونوں کے اصولوں کو تلاش کریں گے جو ابتداء یا بعد سمجھنے و سمجھانے کے دریافت ہوئے ہیں ۔ اگر مطابقت پاویں گے تو یقین کریں گے کہ بلاشبہ وہ ہادی ہے اور وہ ایسی مخرج سے ہدایت کرنے پر مامور ہے جو ہمارا اور اس ہادی کا دونوں کا بنانے والاہے ۔ ایک فرانسیسی عالم نے لکھا ہے کہ کوئی پیغمبر محمد رسول اللہ صلعم سے زیادہ صاف گو نہیں ہوا جس نے نہ کسی معجزے کابہانہ کیا ، نہ کسی ایسی بات کا دعوی کیا جو انسان کے نیچیر سے باہر ہے، بلکہ یہ کہا کہ میں تو تم کو نصیحت کرنے والا ہوں، بری باتوں سے بچانا اور اچھی باتیں سکھانا چاہتا ہوں۔ پس یہی بزرگی محمد صلعم میں ایسی ہے جو کسی میں نہیں، بابی انت و امی یا رسول اللہ قال اللہ تعالی علی لسان نبیہ صلعم ’’ انما انا نذیر مبین‘‘۔ ’’انا بشر مشلکم یوحی الی انما الہکم الہ واحد۔‘‘ اس مقام پر لوگوں کے دل میں یہ بحث آوے گی کہ اس فرقہ پنجم کی نجات یا درکات کا کیا حال ہوگا مگر اس مقام پر اس بحث کو ہم ملانا نہیں چاہتے ۔ کیونکہ اس وقت صرف انبیاء کے آنے کی ضرورت اور ان کی تصدیق کی علامت پر بحث ہے جس کا خاتمہ ختم رسالت کی بحث پر کرتے ہیں۔ کیا ایسی حالت میں ختم رسالت ہوسکتی ہے؟ ہاں بلاشبہ، مگر مشکل یہ ہے کہ الفاظ کے عام مشہورمعنی آدمی کے دل کو شبہ میں ڈال دیتے ہیں۔ اس کو خیال نہیں رہتا کہ وہ عام لفظ اس خاص مقام پر کس مراد سے مستعمل ہوا ہے۔ فرض کرو کہ ایک صندوقچہ تھا اور اس میں گلاب کا نہایت خوشبودار ایک پھول رکھا تھا۔ بہت لوگ کہتے تھے کہ اس میں گلاب کا پھول ہے۔ ا س کی خوشبو س اور نشانیوں سے سمجھاتے تھے ۔ بہت لوگ مانتے تھے ۔ بہت نہ مانتے تھے۔ ایک شخص آیا اور اس نے وہ صندوقچہ کھول کر سب کو وہ پھو دکھا دیا۔ سب بول اٹھے کہ اب تو حد ہوگئی۔ یعنی یہ بات ختم ہوگئی ۔ اب اس کے کیا معنی ہیں؟ کیا ے ہ معنی ہیں کہ کوئی دوسرا شخص اس صندوقچہ کو نہیں کھولنے کا اور وہ پھول کسی کو نہیں دکھائے گا یہ مطلب سمجھنا تو محض بیوقوفی کی بات ہے، بلکہ مطلب ہے کہ اس امر کا ثابت کرنا کہ اس صندوقچہ میں پھول ہے، ختم ہوگیا یا انتہا کو پہنچ گیا ، اب اس سے زیادہ کوئی نہیں کرسکتا ، پس یہی معنی ختم رسالت کے ہیں۔ روحانی ترقی یا تہذیب کے باب میںجو کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے وہ حد یا انتہا اس کی ہے اور اسی لئے وہ خاتم ہیں۔ اب اگر ہزاروں لوگ ایسے پیدا ہوں جن میں ملکہ نبوت ہو، مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ رسول خدا صلعم نے ختم نبوت فرما یا ہے۔ ملکہ نبوت کا ختم اور فیضان الہی کا خاتمہ نہیں فرمایا ، بلکہ اولیاء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل کے لفظ سے اس ملکہ نبوت کا تا قیات جاری رہنا پایا جاتا ہے، مگر نبوت کا خاتمہ ہوگیا جیسے کہ اس پھول کے دکھا دینے سے اس پھول کے اثبات کا خاتمہ ہوگیا تھا ۔ ہاں یہ بات دیکھنی باقی رہی کہ محمد رسول صلعم نے کیا کیا جس سے ان پر نبوت کا خاتمہ ثابت ہوتا ہے۔ اس امر کی نسبت تقریر تو بہت لمبی ہے۔ مگر میں اس کو ایک مختصر تقریر میں ختم کرنا چاہتا ہوں۔ یہ امر بجائے خود تحقیق و ثابت ہوچکا ہے کہ یقین خدا کی وحدانے کا اصلی ذریعہ انسان کی روحانی ترقی کا ہے یادوسری زبان میں یوں کہو کہ باعث بجت آخروی ہے۔ اس مسئلہ کو اس مقام پر مسلم قرار دیتا ہوں اور اس جگہ اس پر بحث کی ضرورت نہیں سمجھتا ۔ پس اب ہم کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وحدانیت ذات باری کی نسبت خاتم المرسلین نے کیا کیا۔ ہم کو یہ بتایا کہ وہ ہستی مطلق یا علۃ العلل واحد فی الذات ہے۔ وحدت فی الذات ایک ایسا مسئلہ ہے کہ تمام دنیا کے اہل مذاہب اس کو تسلیم کرتے ہیں، عیسائی جو تثلیث کو وہ بھی وحدت فی الذات کے قائل ہیں ۔ پس یہ تو کچھ نئی بات یا کچھ بڑی بات (اگرچہ فی نفسہ بڑی ہے) نہ تھی ۔ اسی کے ساتھ ہم کو یہ بھی بتایا کہ وہ ہستی مطلق صفات میں بھی واحد ہے۔ یہ مسئلہ وحدت فی الصفات کا کسی قدر پہلے مسئلہ سے زیادہ ترقی کیا ہوا تھا ۔ کیونکہ اگرچہ دنیا میں ایسے بہت سے مذاہب و ادیان ہیں جو مشرک فی الصفات ہیں الا ایک آدھ مذہب ایسا بھی تھا جو وحدت فی الصفات کو بھی مانتا تھا ۔ تیسری بات جو ہمارے پیغمبر نے ہم کو بتائی وہ مسئلہ فی العبادت کا ہے۔ یعنی وہ دل کا تذلل او ان ارکان ظاہری کا ادا جو خاص اپنے خدا کے لئے ہے وہ کسی دوسرے کے لئے نہ کرنا ۔ یہ وہبھید تھا جو کسی نے ن ہیں بتایاتھا اور جس کے بغیر درحقیقت اگر توحید ناقص نہ تھی توپوری بھی نہ تھی ۔ پس ان تین وحدتوں کی ہدایت سے جن کو ہم: (۱) وحدت فی الذات (۲) وحدت فی الصفات (۳) وحدت فی العبادت سے تعبیر کرتے ہیں، ایمان وحدت ذات باری پر مکمل ہوگیا اور خدا نے کہہ دیا ’’ الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا‘‘ اور اسی کے ساتھ درحقیقت نبوت بھی ے عنی تعلیم وحدت باری بھی ختم ہوگئی جو اصل اصول جات یا روحانی ترقی کا ہے۔ پس اب جو لوگ وحدانیت خدا کی ہدایت کریںگے یا کرتے ہیں اس سے زیادہ کوئی بات نہیںکر سکتے اور جو لوگ ان تینوں وحدتوں پر یقین کریںگے بلاشبہ مسلمان اورپورے موحد ہوںگے ،کیونکہ ان تینوں وحدتوں پر یقین کرنے والا اپنا نام جو چاہے سو رکھے۔ مگر درحقیقت وہ مسلمان اور بڑے سچے مسئلہ اسلام کا پیرو ہے۔ ہاں اس قدر بے شک ہے کہ اسلام ہی سے اس مسئلے کو سیکھ کر اور اس پر یقین لا کر اگر اپنے تئیں مسلمان نہیںکہتا اور اپنا دوسرا نام رکھتا ہے تو وہ مسلمان تو خواہ مخواہ ہی ہے مگر نا شکر مسلمان ہے۔ کیا عمدہ بات ہے کہ جب کسی جاہل سے پوچھتے ہیں کہ مسلمان ہو؟ تو ہوکہتا ہے کہ شکر الحمداللہ پس ہم چاہتے ہیں کہ جو لوگ وحدت ذات باری کے بجمیع صفات کمال کے قائل ہیں اور (۱) شرک فی الذات (۲) شرک فی الصفات اور (۳) شرک فی العبادت سے بری ہیں وہ اسلام کے شکر گذار بنیں اور اپنے تئیں مسلمان کہیں اور اس سچے پیغمبر محمد رسول اللہ صلعم پر ایمان رکھیں۔ جس کے سبب سے اس وحدانیت کامل کو ہم نے پایا ہے۔ اللہم صلی علی النبی المطہری شفیع الوریٰ فی یوم بعث و محشری الاسلام ہو الفطرت و الفطرت ہی الاسلام (تہذیب الاخلاق بابت ۱۲۹۶ ہ صفحہ ۴۱ تا ۴۵) کیا نیچری ہونا شرح کی رو سے منع ہے ؟ یا مباح ؟ جائز یا واجب؟ یہ مسئلہ اس زما نہ کے علوم کے مروج ہونے سے زیر بحث ہے۔ اگر نیچی ہونے میں بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ موجودات عالم اور ان کے باہمی تعلقات سے جو نتائج حقہ پیدا ہوتے ہیں ان پر غور و فکر کی جاوے اور ان کی دلالبت اور ہدایت سے ان کے صانع کا یقین کیا جاوے کیونکہ موجودات کی صنعت اس کے صانع پر دلالت کرتی ہے اور جس قدر زیادہ اور کامل علم صنایع کا ہوتا ہے اسی قدر صانع کی معرفت کامل ہوتی ہے۔ تو تو شرع میں نیچری ہونے کی ہدایت ہے۔ خدا نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ’ ’ اولم ینظر و ا فی ملکوت السموات والار ض وما خلق الل من شیئی ‘‘ اس آیت سے صاف صاف نیچری ہونے کی بزرگی کو بتایا جہاں فرمایا ’’ وکذا لک نری ابراہیم ملکوت السموات والارض‘‘ پھر اس نیچری ہونے کی بزرگی کے بیان ہی پر بس نہیں کیا بلکہ اس کا حکم بھی دیا جہاں یوں کہا کہ ’’ افلا ینظرون الی الا بل کیف خلقت والی السماء کیف رفعت والی الجبال کیف نصبت والی االارض سطحت‘‘۔ پھر ایک جگہ فرمایا ’’ الذین یتفکرون فی خلق السموات والارض‘‘ علاوہ اس کے اس قسم کی بہت سی آئتیں ہیں۔ جن میں نیچری ہونے کی ہدایت ہے۔ نیچر جس کو خدا نے فطرت کہا اسلام کا دوسرا نام ہے ۔ اسلام ایسا سیدھا سادا بے کھسر وسیع مذہب ہے کہ لا مذہبی بھی جو لوگوں نے اپنے خیالل میں سمجھ رکھی ہے در حقیقت اسلام ہی کا ایک نام ہے۔ عدم محض کا تو وجود نہیں ہے۔ پس لا مذہب بھی کوئی مذہب رکھتا ہوگا اور وہی اسلام ہے۔ مذہب ان رسول و قیود سے ممیز ہوتا ہے جن سے ہر ایک مذہب مقید و ممیز ہے۔ ان قیود و ممیزات کو نہ ماننا لا مذہبی کہی جاتی ہے پھر اگر تمام جہان کے مذاہب کی ان قیود و ممیزات کو جن سے ایک مذہب دوسرے سے ممیز ہوا ہے نکال ڈالو، تو بھی کوئی ایسی چیز باقی رہے گی جو بلا تخصیص ہوگی ۔ یعنی اس کی تخصیص مذہبا دون مذہب نہ ہوگی اور وہی لا مذہبی ہوگی اور وہی عین اسلام ہی او ر وہی عین نیچر اور عین فطرت۔ اسلام کے اصلی اصولو ں کے موافق نہ ان اصولوں کے جن کو عنہامہ قرار دیا ہے وہ شخص جو نہ کسی نبی کو مانتا ہو نہ کسی اوتار کو نہ کسی کتاب الہامی کو اور نہ کسی حکم کو جو خدانے واحدپر یقین رکھتا ہو کون ہے؟ ہندو ہے ؟ نہیں۔ زر تشی ہے ؟ نہیں موسائی ہے ؟ نہیں ۔ عیسائی ہے؟ نہیں۔ محمدی ہے ؟ نہیں۔ پھر کون ہے ؟مسلمان۔ گو ہم نے ایسے شخص کے محمدی ہونے سے انکار کیا مگر اس کا محمدی ہونا ایسا ہی لازم ہے جیسے کہ اس کا مسلمان ہونا۔ کیونکہ انہی کی بدولت وہ مسلمان کہلایا ہے۔ پس وہ بھی درحقیقت محمد ی ہے پر نا شکرا محمدی جیسے ہمارے زمانے میں بعض فرقے ہیں جو غالباََ توحید ذات باری پر بکمالہ یقین رکھتے ہیں۔ اگر کہو کہ وہ کافر ہیںتو غلط ہے کیو نکہ کافر تو نجات نہیں پائے گا۔ مگر موحد سے تو خدا نے نجات کا وعدہ کیا ہے جہاں فرمایا ہے ۔ وقا لو الن یدخل الجنۃ الا من کان ہودا او نصاری تلک اما نیھم قل ہاتو ا بر ہانکم ان کنتم صادقین۔ بلیٰ من اسلم وجھہ للہ وھو محسن قلہ اجر ہ عند ربہ ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون (سورۃ الم بقرہ آیت ۱۰۵ و ۱۰۶) اور پھر ایک جگہ فرمایا ’’ ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذالک لمن یشاء و من یشرک با للہ فقد افتریٰ اثما عظیما (سورۃ النساء آیت ۵۱) اور محمد رسول اللہ صلعم نے فرمایا ’’من شھد ان لا الہ الا اللہ مستیقنا بھا قلبہ فد خل الجنۃ ‘‘ پس جو شخص اس کلمہ پر یقین رکھتا ہے وہ بلا شبہ مسلمان و محمد ی ہے۔ جن لوگوں کی نسبت کہا جا تا ہے کہ خدا کے وجود کے بھی قائل نہیں ہیں میں تو ان کو بھی مسلمان جانتا ہوں۔ اول تو یہ کہنا کہ وہ خدا کے وجود کے قائل نہیں ہیں غلط محض ہے خدا کے وجود پر یقین کرنا انسان کا امر طبعی ہے۔ کوئی دل اس سے خالی نہیں کیا سچ فرمایا ہے اس نے جس نے انسان کا دل بنایا کہ ’’ ولہ اسلم من فی السموات والارض طوعاََ و کرہاََ والیہ یرجعون ‘‘ (سورۃ آل عمران آیت ۷۷) دوسرے یہ کہ خدا کے وجود کا انکار یہ ہے کہ ہمارے پا س کوئی دلیل اس کے ثبوت کی نہیں ہے۔ پس یہ انکار انکار وجود نہیں ہے بلکہ انکار علم دلیل سے ہے اور بلحاظ امر طبعی ان کا دل وجود باری کا مصدق ہے اور شرک سے بری ہیں۔ پھر اہل جنت ہونے میں کیا باقی رہا۔ اگر ہم کو طعنہ دیا جاوے کہ ہم موحد کو ناجی، سمجھتے ہیں یا زانی او ر سارق کو بھی نجات سے محروم نہیں رکھتے تو یہ طعنہ درحقیقت ہم پر نہیں ہے۔ کیونکہ ہم تو دل سے ان لفظوں کے کہنے والے پر کہ ’’ وان زنی و ان سرق علی رغم انف ابی ذر‘‘ دل سے یقین رکھتے ہیں اور نہایت دل سے پکار کر کہتے ہیں کہ من قال لاالہ ، الا اللہ قد خل الجنۃ وان زنی و ان سرق علی رغم انف فلان و فلان۔ ہماری اس گفتگو سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ہم زنا کو برا نہیں سمجھتے اور چوری کو جائز قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو ہر قسم کے اعمال بد کی جرات دلاتے ہیں یا کسی کام کو بد نہیں سمجھتے یہ انہی لوگوں کے بد خیالات ہیںجو ایسا نتیجہ نکالتے ہیں۔ جبکہ ہماری سمجھ میں اعمال قبیح فطرت کی رو سے قبیح حسن اور حسن قبیح نہیں ہوسکتے اور کسی سچے ہادی کا حکم بھی ان کے برخلاف نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی ان کو تبدیل کر سکتا ہے۔ تو ہم تو قبیح کو حسن اور حسن کو قبیح سمجھ ہی نہیںسکتے ہاں شاید وہ لوگ جو کسی کام کو صرف اس وجہ سے کہ مامور یہ ہی حسن او ر صرف اس وجہ سے کہ ممنوع عنہ ہی قبیح سمجھتے ہیں اس دھوکے میں پڑ جاویں تو کچھ تعجب نہیں۔ خیر ہمارا قول صحیح ہو یا غلط۔ جس حدیث پرہم نے استدلال کیا ہے اور اس کی صحت قرآن مجید کی آیتوں سے ہوسکتی ہے۔ اس کی نسبت کیاکہا جاوے گا۔ اگر وہ فرمودہ رسول خدا صلعم ہے تو اس ک افکار کی کیا وجہ ہے ۔ قبول کرو کہ حضر ت عمرؓ نے صلاح دی ہو کہ خدا کے اس حکم کو مشہور کرنا مصلحت نہیں ہے۔ خدا نے نا سمجھی سے جاری کر دیا ہے لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے اور اعمال کو چھوڑ دیں گے۔ اور نعوذ باللہ منہا آنحضرت صلعم نے تبلیغ رسالت کو چھوڑ کر حضرت عمر ؓ کی صلاح کو مان لیا ہوتو بھی اس سے جو حقیقت حکم الہیٰ کی تھی وہ تبدیل نہیں ہوسکتی ۔ اور وہ حقیقت یہی کہ ’’ من قا ل لا الہ الا اللہ مستیقنا بھا قلبہ فد خل الجنۃ ‘‘ اصل بات یہ ہے کہ توحید ذات باری پر یقین کرنا اسلام اور باعث نجات ۔ نہ ہمارا یہ مدعا ہے کہ لوگ انبیاء سے انکار کریں نہ ہمارا یہ منشاء ہے کہ لوگ پابندی احکام شریعت کو چھوڑ دیں بلکہ ہمارا یہ مطلب ہے کہ تمام موحد مسلم و ناجی ہیں۔ پھر جو کوئی چاہے اپنے خیالا ت فاسد سے ہمارے اس قول کے اور کچھ معنی قرار دے لے۔ ہم نے بہت سے اہل مذاہب اور شریعت پر چلنے والوں کو بھی دیکھا ہے اور ایسے تعلیم یافتہ و تربیت یافتہ لوگوں کوبھی دیکھا ہے جن جو لا مذہب عرفی اعتبار سے کہا جا سکتا ہے۔ ہم نے ان پچھلوں کو ان بہلوں سے ہزار درجہ زیادہ نیک اور ایمان دار پایا ہے۔ پہلے کو نہ برائی کے برائی ہونے کا دلی یقین ہوتا ہے نہ بھلائی کے بھلائی ہونے کا۔ وہ سمجھتا ہے کہوہ چیز اس لیے بری ہے کہ بری کہی گئی ہے اور یہ چیز اس لیے اچھی ہے کہ اچھی کہ گئی ہے۔ اس کے دل پر کوئی لا زوال اثر اس کا نہیں ہوتا۔ بر خلاف اس کے اس پچھلے شخص کو برائی کے برا ہونے کا اور بھلائی کے بھلا ہونے کا دل سے یقین ہوتا ہے جو کسی طرح زائل نہیں ہوسکتا اور اسی لیے اعمال اور برتاؤ میں اور نیکی میںیہ پچھلا شخص پہلے اور ہزار درجہ زیادہ نیک ہوتا ہے۔ پہلا شخص اس برائی کو کسی حیلہ سے چھپا کر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ایک بے گناہ معصوم عورت کو حیلہ سے بہکا کر لے آتا ہے۔ لوگوں کا مال حیلہ سے کھا لیتا ہے۔ جن کاموں کو اس نے آوپری سے دل سے ناجائز سمجھ رکھا ہے ان کے جائز کرنے کے لیے سینکڑوں حیلے پیدا کرتا ہے اورکتب فقہ میں دفتر کے دفتر کتاب الحیل کے لکھ دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ تمام مذاہب میںجو لوگ زیادہ مقدس گنے جاتے ہ یں خواہ وہ یہوی مذہب کے ربی کا ہن ہوں یا عیسائی مذہب کے پوپ یا ہندو مذہب کے گرو یا مسلمان مذہب کے مولوی۔ اکثر ان میں کے مکار و دغا باز و فریبی و ریا کار دکھائی دیتے ہیں۔ یقولون مالا تفعلون ان کا ٹھیٹ مذہب ہوتا ہے۔ خدا کو دھوکا دیتے ہ یں ہر حیلہ سے ہوائے نفس کو پورا کرتے ہیں اور اپنا دوزخ بھرتے ہیں۔ پچھلا شخص سیدھا سادا آدمی ہوتا ہے۔ برائیوں کو دل سے برا جا نتا ہے۔ حتی المقدور ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اس کامل یقین پر کہ وہ درحقیقت برے ہے ان کو کسی حیلہ سے اچھا بنا لینا نہیں چاہتا ۔ وہ کسی عورت کو حیلہ سے بھگا لانے کو بے گناہ نہیں سمجھتا ۔ وہ بد نظر کو آنکھ کا گناہ۔ زبان سے فریبی باتیں کہہ کر بہکانے کو زبان کا گناہ۔ ہاتھ سے چھونے کو ہاتھ کا گناہ ۔ ظاہر میں وعظ کے حیلہ سے مکر اور نیت سے کسی کے گھر جانے کو پاؤں کا گناہ سمجھتا ہے کسی برے کام کو کسی حیلہ سے اچھا ہو جانے کا اس کو یقین نہیں ہوتا ۔ ہاںوہ بھی برے کام کرتا ہے ۔ مگرا س کا دل ہمیشہ زنج کرتا ہے۔ اور وہ یقین سمجھتا ہے کہ میںنے برا کیا ۔مگر وہ پہلا شخص اپنے حیلوں کے بھروسہ اس کو برا نہیں سمجھتا ۔ اوراس کی برائی اس کے دل میں نہیںرہتی ۔ نہ خدا سے شرم کرتا ہے ۔اور نہ دنیا سے ۔مسجد کے غسل خانہ میں نہا کر داڑھی پھٹکار ، عمامہ باندھ کرتا پہن ، چاند سا منہ لے کر ممبر پر وعظ کو آن بیٹھا ہے ۔ اور نہایت قرأت سے اعوذ باللہ من الشیطان الرحیم پڑھتا ہے۔اور بالکل خیال نہیں کرتا کہ جس سے پناہ مانگتا ہے وہ توممبر ہی پر ہے ۔ نیچری کافر ہوں یا لامذہب یا بدمذہب مگر وہ ایسے مذہب کو جیسا کہ ممبر پر اعوذباللہ پڑھنے والے کا ہے ۔ پسند نہیں کرتے ہیں۔ وہ یقین کرتے ہیں۔ کہ فطرت اور اسلام ایک چیز ہے ۔جو چیز کہ بری ہے وہ فطرت کی رو سے بری اور جو اچھی ہے ۔وہ فطرت کی روح سے اچھی ہے۔اوراس لیے اسلام نے جن چیزوں کو اچھا یا برا بتایا ہے ۔ وہ وہی ہیں۔ جوفطرت کی رو سے اچھی یا بری ہیں۔پس وہ بری چیزوںسے بچنے کی ان کو یقینی برا مان کر اور اچھی چیزوں کے حاصل کرنے کی ان کو یقینی اچھا جان کرکوشش کرتے ہیں۔ اور ٹھیٹ مسلمان اور سچے تابعدار سچی شریعت کے ہوتے ہیں۔ گناہ بھی کرتے ہیں ۔ اور گنہگار بھی ہوتے ہیں مگر دغا باز اور مکاراور یار کار نہیں ہوتے ۔ حافظا می رندی کن و خوش باش ولے دام تز یر مکن چوں دگراں قرآں را مذہبی خیال زمانہ قدیم اور زمانہ جدید کا (تہذہب الاخلاق بابت ۱۲۹۲ھ۔ صفحہ ۶۰تا ۶۲) جس طرح کہ قدیم وجد ید فلسفہ کے اصول میں تبدیلی ہوئی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسی طرح مذہبی اصول قدیم و جدید میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے ۔ زمانہ قدیم سے ہماری اصلی مراد زمانہ ماقبل سنہ نبوی سے ہے ۔ لیکن چونکہ اصل اسلام بہت جلد اسی زمانہ میںپھر چلے گئے ۔ اور زمانہ جدید کی روشنی سے آنکھ بندکر لی اس لیے بمجبوری ہم کو زمانہ قدیم کی وسعت آخر سنہ ۱۳۰۰ نبوی تک پڑھائی پڑی۔ مذہبی اصول سے ہماری مراد یہ ہے کہ اس کا برتائو اور عمل درآمد قدیم زمانہ میں کس خیال پر مبنی تھا۔ اوراس زمانہ میں جولوگ مذہبی خیالات پر بحث کرتے ہیں۔ وہ اس کا برتائو کس خیال پر قرار دیتے ہیں ۔اگرچہ میں یقین کرتا ہوں کہ ٹھیٹ مذہب اسلام اوربانی اسلام علیہ السلام کی یہی ہدایت تھی جس کاخیال چودھویں صدی نبوی کے شروع میں پیدا ہوا یا بلا خوف لومۃ لائم کے لوگوں نے بیان کیا۔ مگر میں اس آرٹیکل میںفریقین کی دلیلوں سے کچھ بحث کرنی نہیں چاہتا ۔ بلکہ صاف طور پر دونوں خیالوں کے اختلاف کو بتاتا ہوں ۔ اوراس بات کا تصفیہ کہ ان دونوں میں سے کون سا خیال ٹھیٹ اسلام کے مطابق ہے،پڑھنے والوں کی رائے پر چھوڑتا ہوں۔ قدیم اصول مذہبی یہ ہے کہ، انسان مذہب کے لیے پیدا ہوا ہے۔ جدید اصول یہ ہے کہ ۔ مذہب انسان کے لیے پیدا ہوا ہے۔ قدیم اصول یہ ہے کہ انسان جہاں تک ہو سکے نفس کشی کرے اور اپنی خوشیوں اور خواہشوں کو معدوم کر دے جدید اصول یہ ہے کہ انسان اپنی تمام خوشیوں او کواہشوں کو زندہ رکھے اور ان کو ان اصولوں پر استعما ل کرے جو اصول کہ ان کے پیدا کرنے والے نے ان کے استعمال کے لیے پیدا کئے ہیں۔ قدیم اصول یہ ہے کہ تزکیہ نفس انسانی کو لازم ہے جس کا نتیجہ ہے کہ نفس انسانی ناپاک ہے اس کو آلائشوں سے پاک کرنا چاہئیے۔ جدید اصول یہ ہے کہ نفس انسانی خود پاک ہے اور اس کام کی قابلیت رکھتا ہے جو اس سے لیا جاوے ۔ قدیم اصول یہ ہیہ کہ انسان گوشہ نشینی اور مجاہدات اور کم خوابی اور کم خوراکی سے اس مضغہ گوشت میں جو بشکل صنوبری سینہ میں بائیں طرف ہے ایک قسم کی حرکت اور شورش پیدا کرے اور بجز استغراق ذات مبداء کے سب کو یہاںتک کہ اپنے آپ کوبھی بھلا دے۔ جدید اصول یہ ہے کہ ایسا کرنا اپنے میں ایک مرض کا جس اک مالیخولیا کہتے ہیں پیدا کرنا ہے۔ دل کو (اگر اس کو مبداء کاموں کا فرض کیا جاوے ( ایسی حالت پر رکھنا چاہئے جس سے وہ کام جس کے لیے پیدا ہوا ہے انجام ہو سکیں۔ قدیم اصول یہ ہے کہ دنیا و مافیہا سے تعلق قطع کرنا اور صرف ذات مبداء سے تعلق رکھنا چا ہیے۔ جدید اصول یہ ہے کہ ایسا کرنا خالق کی مرضی کے بر خلاف ہے ۔ دنیا او ر جو کچھ اس میں ہے انسان کے فائدہ کے لیے بنائی ہے۔ پس انسان کو اسے قبول کرنا اور اسی میں ذات مبداء سے تعلق رکھنا چا ہیے۔ قدیم اصول یہ ہے کہ نعمائے دنیا میں سے صرف اسی قدر پر قناعت کرنی چا ہیے کہ جو سد رمق اور دفع خرد برد کو کافی ہو۔ جدید اصول یہ ہے کہ تمام نعمائے دنیا کو شکر المنعمہ کام میںلانا چا ہیے۔ قدیم اصول یہ ہے کہ تقدیر پر بھروسہ کرنا اور اس پر شاکر رہنا چا ہیے۔ جدید اصول یہ ہے کہ تقدیر اس امر کا نام ہے جو واقع ہو جاوے اور قبل وقوع س کے منتظر رہنا خدا کی حکمت کو جو سعی و تدبیر میں ہے باطل کرنا ہے اور بعد وقوع اس کو برداشت نہ کرنا نا شکری کرنا ہے۔ قدیم اصول یہ ہے کہ خدا کو اندھیری رات میں آنکھ بند کرکے ڈھونڈنا چا ہیے۔ جدید اصول یہ ہے کہ خدا کو آنکھیں کھول کر روشنی میں اور موجودات پر توجہ کرنی اور ان کے حقائق و منافع دریافت کرنے سے ڈھونڈھنا چاہئے۔ قدیم اصول یہ ہے کہ خدا کی عظمت و قدرت اس میں ہے کہ وہ پانی سے آگ اور آگ سے پانی کا کام لے سکتا ہے ۔ جدید اصول یہ ہے کہ اس میں خدا کی قدرت اور اس کی عظمت اور صنعت میںبٹا لگتا ہے۔ قدیم اصول یہ ہے کہ اللہ اللہ کہنااور تسبیح و تہلیل کرنا خدا کا یاد کرنا ہے۔ جدید اصول یہ ہے کہ خدا کی صنائع سے اس کی یاد کا دل میں آنا خدا کا یاد کرنا ہے۔ قدیم اصول یہ ہے کہ تسبیح و تہلیل عبادت ہے۔ جدید اصول یہ ہے کہ انسان کو خدا کی صنائع کو کام میں لانے کے لائق کرنا یا خدا کے صنائع سے انسان کو فائدہ مند کرنا عبادت ہے۔ قدیم اصول یہ ہے کہ تزکیہ نفس نفسانی خواہشوں کا دل سے دور کرنا ہے۔ جدید اصول یہ ہے کہ انسان کے دل کو نیکی پر مائل کرنا تزکیہ نفس ہے۔ قدیم اصول یہ ہے کہ قرآن مجید میں شفا بھی ہے۔ جدید اصول یہ ہے کہ امراض روحانی کے لیے نہ امراض جسمانی کے لیے۔ قدیم اصول یہ ہے کہ قرآن تلاوت کے لیے ہے۔ جدید اصول یہ ہے کہ نصیحت پکڑنے اور عمل کرنے کے لیے۔ قدیم اصول یہ ہے کہ ایک کے عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچتا ہے۔ جدید اصول یہ ہے کہ ایک کا کھایا دوسرے کے پیٹ میں نہیں جاتا۔ قدیم اصول یہ ہے کہ مرے ہوؤں کی ارواحیں زندوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ جدید اصول یہ ہے کہ خود ان کا خیال ہی ان پر اثر کرتا ہے۔ قدیم اصول ہے کہ معجزوں سے انبیاء کی تصدیق ہوتی ہے۔ جدید اصول یہ ہے کہ نیچر سے ہوتی ہے۔ قدیم اصول یہ ہے کہ مذہب روحانی اور جسمانی یعنی دینی اور دنیوی دونوں کاموں سے متعلق ہے۔ جدید اصول یہ ہے کہ مذہب صرف روحانی کاموں سے متعلق ہے۔ قدیم اصول یہ ہے کہ علوم حکمیہ مذہب کو سست کر دیتے ہیں۔ جدید اصول یہ ہے کہ علوم حکمیہ سچے مذہب کو سچائی ظاہر کرتے ہیں۔ قدیم اصول یہ ہے کہ نیکی یا عبادت حور و قصور و بہشت کے ملنے اور دوزخ کے عذاب سے بچنے کے لیے یا خدا کی رضا مندی کے لیے اور اس کی خفگی سے بچنے کے لیے کرنی چاہیے۔ جدید اصول یہ ہے کہ ہمارے نیچر کا مقتضا ہی یہی ہے کہ ہم کو نیک ہونا چاہیے۔ اسی طرح اور بہت سے اصول جدید ہیں جو اصول قدیم سے مختلف ہیں۔ پرانے اسکول کے پڑھے ملا اپنی قدیم لکیر پر فقیر ہیں۔ اس زمانہ کے جوان تعلیم یافتہ ان جدید اصول پر مرتے ہیں۔ ملا ان کی تکفیر کرتے ہیں اور یہ جوان ان کو یہ جواب دیتے ہیں:۔ من احسن و جھہ اللہ و ھو محسن فلہ اجرہ عند ربہ ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ ھو المو جود (تہذیب الاخلاق بابت ربیع الثانی ۱۲۹۷ھ) یہ کہتے تو سب ہیں مگر جب پوچھو کہ وہ کون ہے تو حیران رہ جاتے ہیں۔ سب سے اچھے اور پختہ ایمان والے جن کے یقین میںکبھی شک نہیں آنے پاتا وہ ہیںجو لے دلیل اس پر یقین کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو سچے اور پکے مسلمان ہیں گو انہوں نے بے سمجھے ایک بات پر یقین کیا ہے جس طرح کہ اور بہت سے لوگوں نے بے سمجھے ایک بات پر یقین کیا ہے جس طرح کہ اور بہت سے لوگوں نے بے سمجھے ان کے یقین کے بر خلاف یقین کیا ہے۔ مگر ان کی خوش قسمتی تھی کہ جس پر انہوں نے یقین کیا وہی سچی بات اور سیدھی راہ تھی۔ حقیقت میں لے جا نے اور بن سمجھے یقین چنیں اور چناں کرنے والوں نے یقین سے بہت زیادہ مستحکم اور مضبوط ہو تا ہے۔ جاہلوں کے گروہ میں سے ایک کٹ ملا اپنے وعظ میں بیان کرتا ہے کہ امام فخر الدین رازی کے پاس ان کے مرتے وقت شیطان آیا اور پوچھا کہ کس دلیل سے تم نے خدا کو جانا۔ رازی نے بہت سے دلیلیں بیاں کیں۔ شیطان نے ان سب کو توڑ دیا قریب تھا کہ رازی خدا کے منکر ہوکر کافر مریں اتنے میںان کے پیر کی روح مجسم ہوکر آئی اور کہا کہ کم بخت یہ کہہ کہ خدا کو بے دلیل پہچانا ۔ جب یہ کہا تو شیطان بھاگ گیا اور امام رازی کا پیر کی مدد سے خاتمہ بالخیر ہوا۔ اس قسم کے وعظ ان لوگوں کے دلوں میںایسا قوی اثر کرتے ہیں کہ بڑی سے بڑی دلیل سے بھی نہیں سکتا ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا ایسی چیز نہیںجو دلیل سے پہچانا جاوے اس کو بے دلیل کے لیے ماننا چاہیے۔ مگر جب انسان اس درجہ سے آگے بڑھتا ہے تو یقین کے لیے اس کو استدلال کا راستہ ملتا ہے جس میں ہزاروں تھوکریں اور بے شمار دشوار گزار گھاٹیاں ہیں۔ ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ جو کوئی سلامتی سے اس رستہ کو طے کر جاوے اور منزل مقصود تک پہنچ جائے تو اسی کے یقین پر یقین کا اطلاق ہوتا ہے۔ بن بوجھے یقین اور بوجھے یقین میں ایسا ہی فرق ہے۔ جیسا کہ ظلمت و نور اور جہل و علم میں ہے۔ علمائے اسلام نے اس رستہ کے طے کرنے اور لوگوں کے لیے ہموار کرنے میں نہایت کوشش کی ہے اور اپنی دانست میں اس رستہ کو نہایت صاف ہموار کر دیا ہے۔ مگر بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اب تک ناہموار و دشوار گذار ہے۔ علماء اسلام کی دلیلوں کا بڑا محالف انھی میں ایک شخص ہے جو ابن کمونہ کے لقب سے مشہور ہے۔ اس نے جو شبہ علماء اسلام کی دلیلوں پر کیا ہے وہ شبہ شیطانیہ کے نام سے مشہور ہے۔ امام فخر الدین ر ازی نے اس کے بہت سے جواب دئے جو پورے ن ہیں ہوئے اور اسی پرکٹ ملاؤں نے شیطان کی اور امام رازی کی وہ کہانی بنائی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی اور اسی پر مولانا روم نے فرمایا ہے۔ گر مدار دیں بہ استدلالے بدے۔فخر رازی راز داردیں بدے اس زمانے کے مسلمانوں نے بھی جو دین اللہ اور فطرت اللہ کے ایک معنی سمجھتے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ ٹھیٹ اسلام نیچر کے مطابق ہے اس دشوار گذار راستہ میں قدم رکھا ہے اور اس آرٹیکل میں ہمارا مقصود خدا کے وجود پر ان نیچروں کی دلیلوں کا بیان کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ واجب الوجود یا علۃ العلل یعنی ذات باری کی نسبت تین طرح سے بحث ہوتی ہے۔ ایک اس کے وجود سے کہ وہ موجود ہے۔ دوسرے اس کی ازلیت سے یعنی موجودہ زمان ہ سے گذشتہ زمانہ کی طرف کتنے ہی اوپر چلے جاؤ تو اس کو انتہا نہ ہوگی تیسرے اس کی ابدیت سے۔ یعنی موجودہ زمانہ سے آء ندہ زمانہ کی طرف کتنی ہی دور چلے جاؤ اس کو انتہا نہ ہوگی۔ پس نیچری واجب الوجود کو موجود اور ازلی و ابدی مانتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ لا آف نیچر یعنی قانون قدرت و آئین فطرت کی رو سے تمام موجودات عالم میں جہاں تک کہ انسان کو رسائی ہوئی ہے۔ اک سلسلہ علت و معلول کا نہایت استحکام سے پایا جاتا ہے۔ جو شے موجود ہے وہ کسی علت کی معلول ہے اور وہ علت کسی دوسری علت کی معلول ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح پر چلا جاتا ہے اور ایسے سلسلہ کا نیچر کی رو سے کسی علۃ العلل پر ختم ہونا ضرور ہے جس کا ثبوت خود لا آف نیچر سے پایا جاتا ہے اور وہ لا آف نیچر یہ ہیں:۔ (۱) علت و معلول کے وجود میں خواہ خارجی ہوں یا ذہنی تقدم و تاخر لازمی ہے علت مقدم ہوگی اور معلول اس کے پعد۔ (۲) معلول کا وجود بغیر وجود علت کے نہیں ہوتا۔ (۳) جب تک علت موجود بالفعل نہ ہو معلول بھی موجود بالفعل نہ ہوگا ۔ (۴) علت و معلول کے سلسلہ کو اپنے وجود کے لیے امتداد یعنی زمانہ لازمی ہے جس کے سبب سے علت و معلول پر تقدم و تاخر یا قبلیت و بعدیت کا اطلاق فی الذہن یا فی الخارج ہوتا ہے۔ (۵) علت و معلول کے سلسلہ غیر متناہی کو اپنے وجود کے لیے استداد یعنی زمانہ بھی غیر متناہی لازم ہے۔ (۶) غیر متناہی متناہی میںنہیں سما سکتا۔ یہ تمام لاء آف نیچر ہیںجو بیان ہوئے ۔ انہی سے واجب الوجود کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ جس وقت ہم عالم کو موجود کہتے ہیں تو اس وقت زمانہ کو موجودہ زمانہ تک محدود کر دیتے ہیں پس اگر اس وقت ہم یہ کہیں کہ عالم میں سلسلہ علت و معلول کا غیر متناہی ہے تو یہ کہنا خلاف لاء آف نیچر کے ہے کیونکہ غیر متناہی متناہی میں نہیں سما سکتا۔ علت و معلول کے سلسلہ غیر متناہی کو زمانہ بھی غیر متناہی لازم ہے ۔ پس کوئی معلول معلول کسی وقت موجود بالفعل نہیں ہوسکتا کیونکہ جب تک تمام سلسلہ علت و معلول کا موجود بالفعل نہ ہو سکتا کیونکہ جب تک تمام سلسلہ علت و معلول کا موجود بالفعل نہ ہو لے کوئی معلول موجود بالفعل نہ ہوگا اور تمام سلسلہ علت و معلول غیر متناہی کا موجود بالفعل نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر تمام سلسلہ موجود بالفعل ہو تو غیر متناہی نہ رہے گا۔ ہم عالم کو موجود بالفعل دیکھتے ہیں اور اس لیے بموجب لاء آف نیچر کے ضرور ہے کہ اس کی اخیر علت بھی موجود بالفعل ہو اور کسی دوسری علت کی معلول نہ ہو کیونکہ اگر وہ دوسری علت غیر موجود بالفعل کی معلول ہوتی تو وہ خود موجود بالفعل نہ ہوتی پس ہم اسی علت کو جس پر عالم کی علت و معلول کا سلسلہ خت م ہوتا ہے علۃ العلل کہتے ہیں اور اسی کو ذات باری اور واجب الوجود جس کا مختصر نام یہو واہ اور اللہ اور خدا اور گاڈ ہے اور جو ہو الموجود کہلاتا ہے۔ یہی لاء آف نیچر جو ذات باری کے وجود کو ثابت کرتا ہے اس کے واجب الموجود اور ازلی ہونے کو بھی ثابت کرتا ہے۔ کیونکہ جو چیز اپنے وجود میں کسی علت کی معلول نہیں ہے تو ا سکے واجب الوجود ہونے میں کچھ تامل نہیں ہے ۔ اورجو چیز کی واجب الوجود ہے اس کے ازلی و ابدی ہونے میں کچھ کلام نہیں۔ یہ نئے الہام ہیں جو اس زمانہ میں نیچریوں کو ہوتے ہیں۔ …………… امام غزالی ؒ کے فلسفیانہ خیالات حضرت امام غزالی ؒ فلاسفہ اسلام میں بڑی شان کے بزرگ گذرے ہیں۔ انھوں نے اسلام کے بہت سے مسائل کو فلسفیانہ نگاہ سے دیکھا ہے اور ان پر اپنے مخصوص اندا زمیں بڑے لطیف خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس ضمن میں حضرت امام صاحب نے متعدد رسالے نہایت فاضلانہ طور پر قلم بند کئے جو خود ان کے عہد میںبھی اور بعد کے زمانے میںبھی علماء و فضلاء کی ایک کثیر جماعت کے لیے بحث کا موضوع بنے رہے ۔ بہت سوں نے ان کی بناء پر امام صاحب کو کافر اور مرتد قرار دیا۔ بہت سوں نے ان کی تائید و حمایت کی۔ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ سر سید بھی دور حاضرہ کے بہت بڑے فلاسفر تھے اور جملہ اسلامی مسائل کو فلسفہ اور عقل و برہان کی عینک لگا کر دیکھتے تھے ۔ پس ناممکن تھا کہ وہ امام غزالی کے افکار و خیالات سے مستفید نہ ہوتے۔ انھوں نے نہایت گہری نظر سے امام صاحب کے فلسفے کا مطا لعہ کے اور جو مختلف وسائل امام صاحب نے ا س کے متعلق لکھے تھے سب کو اچھی طرح سے دیکھا ۔ پھر امام صاحب کے جن خیالات کو اپنے نزدیک درست اور ٹھیک سمجھا ان کو بڑے زور و شدت اور نہایت تفصیل و تشریح کے ساتھ اردو میں پیش کیا اور جن آراء و خیالات سے اختلاف کیا اس کو بھی نہایت مدلل طور پر بیان کیا اور ان پر کافی جرح و تنقید کی ، نیز کئی مضامین امام صاحب سے اخذ و انتخاب کرکے لکھے ۔ ذیل میں وہ تمام مضامین ایک جگہ درج کئے جاتے ہیںجن میں سر سید نے امام صاحب کی تائید و توثیق کی ہے یا ان پر نقد و تبصرہ کیا ہے یا ان کی تفصیل و تشریح بیان کی ہے یا ان سے اخذ و انتخاب کیا ہے۔ یہ مضامین فلسفی حضرات کے لیے یقینا بہت دلچسپی کاباعث ہوں گے اور وہ ان کو بڑے شوق سے ملاحظہ فرمائیںگے۔ یہ بیش قیمت اور نادر مضامین اسی وقت سر سید کے ایک نہایت عقیدت مند مرید قاضی سراج الدین صاحؓ نے اپنے اخبار سرمور گزٹ ناہن میں شائع کئے تھے اور ایک مرتبہ اخبار میں چھپ کر دنیا کی نظر سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوچکے تھے ۔ میں نہایت ہی ممنون ہوں اپنے محترم دوست صوفی سلطان علی صاحب کا کہ انھوں نے گجرات سے سر مور گزٹ کا قدیم فائل بابت ۱۸۸۹ء مجھے کہیں سے تلاش کر کے بھیج دیا ۔ اسی فائل سے یہ مضامین نقل کرکے میںناظرین کرام کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) (۱) روح اور اس کی حقیقت۔۔۔۔امام غزالی کے نزدیک (اخبار سرمور گزٹ ناہن بابت ۸۔ اکتوبر ۱۸۸۹ئ) (یہ مضمون امام صاحب کی کتاب ’’ المضمون بہ علی غیر اہلہ کو پیش نظر رکھ کر لکھا گیا ہے) امام صاحب فرماتے ہیں کہ روح کوئی جسم نہیں ہے کہ وہ بدن میں اس طرح چلی گئی ہو جیسے پانی برتن میں اور نہ عرض ہے۔ یعنی ایسی چیز نہیں ہے جو کسی دوسرے کے ساتھ قائم ہو اور دل و دماغ میں اس طرح گھس گئی ہو جیسے کالی چیز میں کالکی یا عالم میں علم، بلکہ وہ جوہر ہے۔ یعنی آپ اپنے آپے سے قائم ہے۔ کیونکہ وہ اپنے آپے کو اور اپنے پیدا کرنے والے کو جانتی ہے اور معقولات کو پالیتی ہے اور جو چیز کہ دوسری چیز کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ یعنی عرض ہوتی ہے اس میں یہ صفتیں نہیں ہوتیں۔ اور وہ جسم بھی نہیں ہے۔ کیونکہ جسم تقسیم ہونے کے لائق ہوتا ہے۔ یعنی اس کے دوچار دس بیس وغیرہ حصے ہوسکتے ہیں اور روح تقسیم ہونے کے قابل نہیں ہیں اور دلیل سے ثابت ہے کہ وہ واحد ہے اور تمام عقلاء نے اتفاق کیا ہے کہوہ جزء لا یستجزیٰ کے مانند ہے، ے عنی ایسی شیئی ہے کہ تقسیم نہیں ہوسکتی ۔ اور وہ متحیز بھی نہیں ہے ۔ یعنی اس نے کوئی جگہ بھی نہیں گھیری ہے جیسے کہ ہر ایک جسم بقدر اپنے جسم کے جگہ گھیرے ہوئے ہے۔ کیونکہ جو چیز متحیز ، یعنی جگہ گھیرے ہوئے ہوتی ہے وہ تقسیم کے قابل ہوتی ہے اور جزء لا یتجزیٰ ، یعنی چھوٹی سی چھوٹی چیز جو جگہ گھیرے ہوئے ہو اور تقسیم نہ ہو سکے اس کا ہونا باطل ہے۔ یعنی محالل ہے پس ثابت ہے کہ روح جوہر ہے۔ یعنی اپنے آپے سے قائمہے اور متحیز ، یع ی جگہ گھیرے ہوئے بھی نہیں ہے۔ پھر امام صاحب فرماتے ہیں کہ روح نہ تو انسان کے بدن میں داخل ہے اور نہ اس سے خارج ہے اور نہ اس سے ملی ہوئی ہے اور نہ اس سے جدا ہے۔ لیکن یہ سب باتئیں ایسی چیز سے علانہ رکھتی ہیں جس کا جسم ہو اور متحیز ہو اور روح میں ان میں سے کوئی بات بھی نہیںہے ۔ پھر فرماتے ہیں کہ وہ کسی جہت میںبھی نہیں ہے اور نہ کسی جگہ میں حلول کئے ہوئے ہے۔ کیونکہ یہ صفتیں بھی جسم دار چیز سے یا ایسی چیز سے جو دوسری چیز کے ساتھ موجود ہو، یعنی عرض ہو علاقہ رکھتی ہیں اور روح جسم ہونے سے پاک ہے۔ مگر واضح ہو کہ کرامیہ اور حنبلی ، یعنی حضرت امام احمد بن حنبل کے پیرو روح کو جسم مانتے ہیں اور اشاعرہ اور متعزلی اس کا جسم تو نہیں مانتے ، مگر اس کے لیے جہت کا ہونا تسلیم کرتے ہیں۔ جب کہ امام صاحب نے روح کو ایسا مانا کہ وہ ایک جوہر، یعنی ایک ذات ہے اور قائم بالذات ہے ، یعنی آپ اپنے آپے سے قائم ہے اور اپنے کو جانتی اور معقولات کو دریافت کر لیتی ہے اور نہ جسم ہے اور نہ متحیز ہے اور نہ تقسیم کے قابل ہے اور نہ کسی خاص طرف کو ہے اور ن ہ کسی خاص جگہ میں حلول کئے ہوئے ہے اور نہ کسی دوسری چیز کے ساتھ قائم ہے اور نہ کسی جسم میں داخل ہے اور نہ اس سے خارج ہے اور نہ اس سے ملی ہوئی ہے اور نہ اس سے جدا ہے تو یہی سب صفتیں خدا کی ذات پاک کی ہیں اور اس سے لازم آتا ہے کہ روح بھی خدا کے مانند تھے۔ اس کا جواب امام صاحب یہ دیتے ہیں کہ خدا میں بھی یہ صفتیں ہیں، مگر یہ صفتیں خدا کی مخصوص صفتوں میں سے نہیں ہیں (۱) بلکہ خدا کی مخصوص صفتیں اس کا قیوم ہونا ہے۔ یعنی وہ اپنے ذات سے قائم ہے اور باقی تمام چیزیں اس کی ذات کے سبب سے قائم ہیں او وہ آپ ہی آپ موجود ہے اور سب چیزیں آپ ہی آپ موجود نہیں ہیں۔ بلکہ ان کا وجود وعارضی ہے اور خدا کا وجود ذاتی۔ جو جواب کہ امام صاحب نے دیا اگر اس کو تسلیم کر لیا جائے تو ان صفات سے جو روح کی بیان کی ہیں یہ بات لازم ہوتی ہے کہ روح قدیم اور غیر مخلوق ہے۔ اس کا جواب عجیب طرح سے امام صاحب نے دیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ روح کو جو غیر مخلوق کہتے ہیں ا س کا مطلب یہ ہے کہ اس کا اندازہ کمیت سے کہ کتنی ہے نہیں ہو سکتا ، اس لیے کہ کسی چیز کا اندازہ اس طرح پر کہ کتنی ہے اس وقت ہو سکتا ہے ، جب کہ وہ متحیز ہو، یعنی کسی قدر جگہ کو گھیرے ہوئے ہو اور تقسیم ہوسکتی ہو۔ مگر روح نہ متحیز ہے اور نہ تقسیم ہو سکتی ہے ، نہ اس کے ٹکڑے ہو سکتے ہیں، مگر اس کو مخلوق اس لیے کہتے ہیں۔، کہ وہ پیدا ہوتی ہوتی ہے اور قدیم نہیں ہے او روہ حادث ہوتی ہے،یعنی پیدا ہوتی ہے جبکہ نطفہ میں اس کے قبول کرنے کا استعداد پیدا ہوتا ہے۔ (۱) خدا کی کل صفات محصوص ہیں ، خدا کی صفات ہے اور غیر مخصوص قرار دینا صحیح نہیں ہے (سید احمد) امام صاحب کا مذہب یہ ہے کہ ارواح بشری قبل وجود ابدان کے موجود نہیں ہیں، بلکہ بعد وجود ابدان کے حادث ہوتی ہیں جیسے صورت آئینہ میں ، کیونکہ اگر قبل وجود ابدان کے موجود ہوں تو دو حال سے خالی نہیں، یا تو کل انسانوں کے لیے روح واحد ہوگی یا کثیر یعنی بہت سی ہوںگی ۔ پھر وہ ایک لمبی دلیل لکھتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ قبل وجود ابدان روح کا واحد ہونا یا کثیر ہونا دونوں باطل ہیں اور جب وہ دونوں باتیں باطل ہوئیں تو روح کا قبل ابدان ہوناباطل ہوگیا۔ امام صاحب سے پوچھا گیا کہ جب ارواح بشری کثرت سے موجود نہیں ہو سکتیں توانسانوں کے بدن سے ان کے مرنے پر جدا ہو جانے کے بعد کیونکر کثرت سے موجود ہو جائیں گی اور آپس میں متغائر بھی ہوں گی ؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ بدن کے ساتھ متعلق ہونے کے بعد روح نے مختلف اوصاف، مثلا علم و جہل اور صفائی او رکدورت اور حسن اخلاق اور اخلاق قبیح حاصل کئے ہیں اور اسی سبب سے وہ ایک دوسری سے متغائر ہوگئی ہیں اور ان کی کثرت سمجھ میں آتی ہے، مگر جسموں سے متعلق ہونے سے پہلے اس تغائر کے اسباب موجود نہ تھے اور اسی لیے ان کا کثیر ہونا باطل تھا۔ مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب امام صاحب نے روح کو مادی نہیں مانا، بلکہ ایک جوہر غیر متحیز ، یعنی بغیر جسم کے مانا ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ نہ وہ جسم میں داخل ہے، نہ اس سے خارجہے نہ اس سے ملی ہوئی ہے اور نہ اس سے جدا ہے، بلکہ اس کا تعلق بدن سے صرف ایسا ہے جیسے کہ صورت کا آئینہ میںتو وہ انسان کے افعال سے اخلاق حسن یا اخلاق قبیح کیونکر حاصل کرسکتی تھی، تاکہ انسانوں کے مرنے کے بعدا ن کی ر وحوں میں تغائر پیداہو اور کثرت روحوں کی وجود پذیر ہو۔ علاوہ اس کے ایک امر بحغث طلب اور باقی رہا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانوں میں توالد اور تناسل جاری ہے اور آن واحد میںبہت سے نطفے روح کے قبول کرنے کا استعداد پیدا کرتے ہیں اور ضرور ہے کہ ایک کے لیے روح حادث ہو، پس روح کا آن واحد میں کثرت سے حادث ہونا یا موجود ہونا بلا کسب کسی اختلاف کے لازم آتا ہے اور چونکہ کوئی زمانہ اور کوئی آن ایسے نطفوں کے وجود سے جنہوں نے روح کے قبول کرنے کا استعداد پیدا کر لیا ہو خالی نہیں ہے تو ہر آن میں روح کا کثرت سے موجود ہونا بر وقت وجود ابداندس کثیر لازم آتا ہے اور کثرت ارواح موجودہ باطل نہیں ہوتی۔ امام صاحب نے جو یہ مذہب اختیار کیا ہے روحین پہلے سے موجود نہیں ہیں، بلکہ اجساد کے ساتھ حادث ہوتی ہیں تو اس حدیث کے کہ خلق اللہ تعالیٰ الا رواح قبل الاجساد بلفی عام (یعنی اللہ تعالیٰ نے روحوں کو دو ہزار برس پہلے جسموں سے پیدا کیا ہے ) کیا معنی ہوں گے ؟ اس کے جواب میں امام صاحب عاجز ہوگئے ہیں اور فرماتے ہیںکہ اس میں تاویل کرنی چاہیے اور تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس حدیث میں ارواح سے ارواح ملائکہ مراد ہیں اور اجساد سے اجساد عالم و فیہ ما فیہ (۱)َ جو مذہب کہ امام صاحب نے اختیار کیا ہے اس میں ایک اور دقت ہے کہ نطفے کی یا مادہ کی یا عناصر کی ترکیب اور امتزاج سے جو جسم لطیف حادث ہوتا ہے وہ وہ شے ہے جس سے نمو اور جسم کا وجود متعلق ہے او روہ اشجار و حیوانسد دونوں سے علاقہ رکھتا ہے ۔ جو کیفیت اور استعداد کسی درخت کے بیج میں بو دینے کے بعد پیدا ہوتی ہے وہی نطفے میںبھی پیدا ہوتی ہے اور وہی اس مادہ میں پیدا ہوتی ہے جس سے خود بخود کیڑے مکوڑے حشرات الارض پیدا ہوتے ہیں، مگر اس شئی پر جو حیوانی مادہ میں اسی طرح حادث ہوتی ہے جیسے کہ شجری مادے میں روح کا جس سے ہم بحث کر رہے ہیں اطلق نہیں ہو سکتا، گو کہ بعض دفعہ اس کا نام روح حیوانی اور روح بباتی کہا جائے ۔ پس بموجب مذہب امام صاحب کے یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ روح جس سے بحث ہے اور وہ شیئی جو نطفے میں بسبب امتزاج اور ترکیب مادہ کے پیدا ہوتئی ہے ایک ہی چیز ہے اور صریح البطلان ہے یا نطفے میں دو طرح کا استعداد پیدا ہوتا ہے، ایک وہ جب کہ ان میں استعداد قبول روح حیوانی ہوتی ہے اور دوسری وہ جبکہ اس میں وہ استعداد پیدا ہوتا ہے جس کے سبب سے یا جس کے لیے روح انسانی حادث ہوتی ہے اور مثل عکس آئینہ تعلق پکڑتی ہے ولکنہ فیہ مافیہ۔ مگر تعجب یہ ہے کہ امام صاحب نے اپنی کتاب المضنون بہ علی اہلہ میں روح کی یہ تعریب لکھی ہے کہ :۔ ’’وہ ایک جسم لطیف ہے اخلاط کے بخار سے مرکب اور (۱) فیہ ما فیہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ جواب درست نہیں۔ (محمد اسماعیل پانی پتی ) اس کا منبع دل ہے اور اس میں قوائے نفسانی و حیوانی دونوں ہیں اور اسی سے قوت حساسہ او اعضاء کی حرکت حاصل ہوتی ہے۔ ‘‘ اور ظاہر ہے کہ اس تعریف میں وہ روح انسانی دخل نہیں ہو سکتی جس پر ہم اس مقام میں بحث کر رہے ہیں اور جس کا ذکر امام صاحب نے المضنون الاخیر (المضنون بہ علیٰ غیر اہلہ کا دوسرا نام ) میں کیا ہے۔ واما مذہب بعض الفلاسفتہ الا الہٰیین فی ہذا الزمان ہذا۔ (اس مسئلہ کے متعلق بعض موجودہ فلاسفہ الہین (۱) کا نقطہ نظر مندرجہ ذیل ہے )۔ اول وہ اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ تعقل اور ارادہ صرف ترکیب عناصر یا امتزاج مادہ سے پیدا نہیں ہو سکتا ، البتہ تاثر پیدا ہوتا ہے، مگر تاثر اور چیز ہے اور تعقل ارادہ اور چیز ہے۔ وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ تمام حیوانات میں ، خواہ وہ انسان ہوںیا حیوان سب مے ں تعقل اور ارادہ ہے اور وہ شیئی جس سے تعقل اور ارادہ ہے وہ اس چیز کے علاوہ ہے جو ترکیب عناصر یا امتزاج مادہ سے پیدا ہوتی ہے۔ پس وہ اسی شیئئی کو جس سے انسان اور حیوان میں تعقل اور ارادہ پیدا ہوتا ہے روح کہتے ہیں۔ (۱) اس تمام سلسلہ مضامین میں جہاں موجودہ فلاسفہ الہین کا لفظ آئے گا اس سے مراد خود سر سید ہوں گے جیسا کہ ایڈیٹر سر مور گزٹ نے بھی صراحت کر دی ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی ) وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسان اور حیوان میں اور نیز ایسی مخلوق میں اگر ہو، جو ما فوق الانسان اور غیر مرئی اور ذی تعقل و ارادہ ہو جس کے وجود کا ثبوت اب تک ان کے نزدیک کتاب و سنت سے نہیں ہوا وھی ایک روح ہے۔ وہ حیوانات میںبھی روح مانتے ہیںجیسے کہ انسان میں اور دونوں کی روح میں فرق نہیں سمجھتے بلکہ متحد مانتے ہیں اور ان کے افعال کے تفاوت کو ان کی ترکیب اعضاء کے اختلاف پر جن کے ذریعے سے روح کام لیتی ہے محمول کرتے ہیں۔ وہ اس کی مثال ایک اسٹیم انجن کے کارخانے کی دیتے ہیں جس میں مختلف کام کرنے کی کلیں لگی ہوئی ہوں۔ ان تمام کلوں کو حرکت دینے والی صرف وہی ایک اسٹیم انجن ہے ، مگر وہ کلیں جن مختلف کاموں کے لیے لگائی گئی ہیں وہ مختلف کام دیتی ہیں۔ یہی حالت انسانوں اور حیوانوں کی ہے ۔ ہر ایک انسان میں اور ہر ایک حیوان میں جس کام کے لائق اس کے اعضاء کی ترکیب ہے وہ وہی کام کرتا ہے۔ حیوانات میںہم دیکھتے ہیں کہ ان کے اعضاء کی ترکیب میں بجز ایک محدود کام کرنے کی قابلیت کے اور کچھ نہیں ہے اور اسی لیے وہ او امر و نواہی کے مکلف نہیں ہیں اور نہ ان کی روح کوئی نئی چیز کسب کرتی ہے۔ مگر انسان کے اعضاء دل و ماغ کی ترکیب ایسی ہے کہ اس میں غیر محدود کام کرنے کی قابلیت ہے اور نیز ان میںیہ بھی قابلیت ہے کہ وہ اسٹیم ان سے بطور ایک انجینئیرکے کام لے، یعنی کس ی کل کو بند کر دے ، کسی کو چلنے دے۔ کسی کو تیز کر دے ۔ کسی کو سست کر دے اور اسی قابلیت کے سبب وہ مکلف ہے۔ واللہ در من قال۔ آسماں امانت نہ توانست کشید قرعہ فال بہ نام من دیوانہ زدند ما قولھم مافی ھدیۃ الروح و حقیقتھا (روح کی ماہیت اور اس کی حقیقت کے بارے میں موجودہ فلاسفہ الہین کا نظریہ) ان کا یہ ہے کہ کسی شیئی کی ماہیت کا جاننا انسان کی عقل سے خارج ہے۔ وعلم آدم الاسماء کلھا وعلم ماہیۃ المسمیٰ بھذہ الاسماء جو چیزیں کہ محسوس ہیں ان کے عوارض کو نہیں جان سکتا ، کیونکہ جو زریعے علم کے خدا نے انسان میںپیدا کئے ہیں ان میںبجز ا س کے کہ اشیائے محسوس کے عوارض کو جان سکیں اور غیر محسوس کے وجود یا عدم وجود کی تصدیق یا تکذیب کریں اور کچھ طاقت نہیں ہے۔ روح کی حقیقت یا ماہیت بھی اسی قسم کی ہے۔ اس کا وجود جان دار مخلوق میں ثابت ہوتا ہے، مگر اس کی ماہیت مثل تمام اشیاء کی ماہیت کے عقل انسانی سے بالا تر ہے اور چونکہ وہ کسی طرح پر محسوس نہیں ہے اس لیے اس کے عملوں کا جاننا بھی عقل انسانی سے خارج ہے۔ اسی لیے اس پر کاریگر (جل جلالہ و اعظم شانہ) نے فرمایا : ۔ یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی یہ وجہ ہے کہ انسان خدا کے وجود اور اس کی صفات پر ایمان لانے کو مکلف کیا گیا ہے ، نہ اس بات پر کہ ا سکی ذات کی۔ اس کی حیات کی۔ اس کی قدرت کی ۔ اس کے علم کی۔ اس کے غضب کی۔ اس کے رحم کی۔ یعنی اس کی صفات کی حقیقت و ماہیت کیا ہے ۔ مگر ہاں عقل انسانی جہا ں تک کہ وسیع ہوسکتی ہے اس حد تک انسان غیر محسوس چیزوں کی نسبت بھی اس کو وسعت دے سکتا ہے ۔ روح کی نسبت اس قدر اس کو وسعت ہوسکتی ہے کہ روح مخلوق ہے اور جوہر لطیف ہے اور ذی تعقل او ر ذی ارادہ کاسب اور مکتسب ہے اور جب کسی مادے میں وہ نطفہ ہو یا سڑی مڑی یا اور کوئی چیز استعداد حی ہونے ، یعنی جان دار ہونے کا پیدا ہوتا ہے تو وہ با ندازہ اس کی استعداد کے اس میں سرایت کر جاتی ہے اور ان اعضاء میں جو اس مخلوق میںہیں وہی کام لیتی ہے جس کام کے لائق وہ بنائے گئے ہیں یا اس کے سبب سے وہ اعضاء کام کرتے ہیں جن کے لیے وہ بنائے گئے ہیں اور جب وہ استعداد ان میں باقی نہیں رہتا جس کے سبب سے روح نے اس میں سرایت کی تھی تو روح اس سے علیحدہ ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال میں الکڑ سٹی کی مثال دی جا سکتی ہے۔ الکٹرسٹی تمام دنیا میںپھیلی ہوئی ہے اور وہ تمام اجسام میں بقدر استعداد ہر ایک جسم کے سرایت کئے ہوئے ہے اور جب ہم کسی مادے میں ایسی ترکیب پیدا کرتے ہیں جس میں الکٹرسٹی کے قبول کرنے کا استعداد پیدا ہو وہ فی الفور اس میں سرایت کر جاتی ہے اور بہ اندازہ اس کی استعداد کے سرایت کرتی ہے۔ اسی طرح روح بھی بمجرد پیدا ہونے استعدار قبول روح کے اس شیئی میں جس میں وہ استعداد پید ہوا ہے سرایت کر جاتی ہے۔ ہم بذریعہ آلات اور تراکیب کے الکٹرسٹی کو ایک جگہ جمع کر لیتے ہیں۔ ایک جسم میں سے اس کو خارج کر کے دوسرے جسم میں جس میں اس کے قبول کرنے کا استعداد ہے داخل کرتے ہیں اور جس وقت اس کو کسی جسم سے خارج کرتے ہیں تو آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ وہ ایک جسم لطیف ، سیال، روشن ہے جو مثل پانی کی دھار کے ایک جسم سے نکلتا ہے اور دوسرے جسم میں چلا جاتا ہے اور اس دوسرے جسم کی نہ جسامت میں تغیر ہوتا ہے، نہ اس کے نحیر میں اور جب اس جسم میں استعداد قبول باقی نہیں رہتا تو اس سے علیحدہ ہوجاتا ہے اور اس جسم لطیف سیال کے ہر ایک جزو میں وہی خاصیت ہے جو ا سکے کل میں ہے اور وہ جسم سیال جو نہایت لطیف ہے اور علیٰ قول الاصح مادی ہے اور اس کا جسم اجزائے صغاروی مقراطیسی سے مرکب ہے، اسی طرح روح بھی ایک جسم لطیف و مخلوق ہے، قبل وجود ابدان جو ان اجسام سے جن میں اس کے قبول کرنے کا استعداد ہوتا ہے بقدر اس کے استعداد کے اس میں سرایت کرجاتی ہے اور جب وہ استعداد قبول اس میں باقی نہیں رہتا اس سے علیحدہ ہوجاتی ہے اور اسی کا نام موت ہے۔ واللہ اعلم ۔ وھذا ما الھمنی ربی …………… (۲) ملائکہ ، جن اور شیاطین کی حقیقت امام غزالی ؒ کے نزدیک (اخبار سرمور گزٹ ناہن بابت ۱۵ اکتوبر ۱۸۸۹ئ) اس آرٹیکل میں ہمارا مطلب یہ ہے کہ ہم اس بات کو بیان کریںکہ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی متعدد تصنیفات میں ملائکہ ، جن و شیاطین کی نسبت کیا بیان کیا ہے۔ یہ مباحث مشکل ہیں۔ مگر جہاں تک ہم سے ہو سکے گا عام فہم لفظوں میں بیان کریں گے۔ مگر سب سے پہلے یہ بات معلوم ہونی چاہئیے کہ امام غزالی صاحب کی کتابوں میںسے ایک کتاب ہے جس کا نام ’’ المضنون بہ علیٰ اہلہ ‘‘ ہے اور ایک دوسری کتاب ہے جس کانام المضنون بہ علیٰ غیر اہلہ ہے۔ یہ دوسری کتاب درحقیقت تین کتابوں پر مشتمل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امام غزالی صاحب نے پہلے ایک کتاب لکھی اور اس کانام ’’ المضنون بہ علیٰ غیر اہلہ ‘‘ رکھا ۔ یہ کتاب مصر میں چھپی ہے۔ پھر ایک دوسرا رسالہ لکھا جو ’’ الا جوبۃ الغزالیۃ فی المسائل الا خرویۃ ‘‘ کہا گیا ۔ بہ رسالہ بھی مصر میں چھپا ہے۔ مگر مصر کے چھاپے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے پہلا رسالہ المضنون الکبیر کے نام سے مشہور ہوا اور دوسرا رسالہ المضنون الصغیر کے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں رسالوں کے لکھنے کے بعد امام صاحب نے ایک تیسرا رسالہ مرتب کیا جس کے شروع میں وہ رسالہ جو الاجوبۃ الغزالیہ یا المضنون الصغیر کے نام سے نام زد تھا بتمامہ مع اختلاف بسیر اس میں موجود ہے اور پہلے رسالے المضنون الکبیر کے مضامین بہ ترتیب مختلف اور بہ تقریر جدید بہت سے شامل ہیں اور کچھ متروک ہیں۔ اس رسالے کو ہم المضنون الاخیر کے نام سے نام زد کرتے ہیں۔ پس ا س آرٹیکل میں ہم جو کچھ لکھتے ہیں وہ انھیں رسالوں سے منتخب کر کے لکھتے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے : ۔ (۱) المضنون بہ علیٰ اہلہ۔ (۲) المضنون بہ علیٰ غیر اہلہ۔ یعنی المضنون الکبیر۔ (۳) الا جوبۃ الغزالیۃ فی المسائل الاخروبۃ یعنی المضنون الصغیر ۔ (۴) المضنون بہ علیٰ غیر اہلہ ، یعنی المضنون الاخیر۔ انتخاب مافی المضنون الکبیر (المضنون الکبیر کا انتخاب) وہ فرماتے ہیں کہ ملائکہ اور جن اور شیاطین ایسے جوہر، یعنی ایسی ذات ہیں جو اپنے آپے سے قائم ہیں۔ یعنی کسی دوسرے میں ہونے کے محتاج نہیںہیں اور ان کی حقیقتیں مختلف ہیں۔ ان کا اختلاف ایسا ہے جیسے کہ کسی ایک چیز کی مختلف اقسام میں ہوتا ہے۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ قدرت اور علم اور رنگ آپس میں مختلف ہیں۔ مگر یہ تینوں چیزیں اپنے آپے سے قائم نہیں ہیں۔ بلکہ کسی دوسرے میں ہو نے کی محتاج ہیں۔ اسی طرح ملائکہ اور شیطان اور جن مختلف قسمیں ہیں، مگر خود جوہر ہیں اور اپنے آپے سے قائم ہیں۔ پھر وہ فرماتے ہیں کہ ملائکہ اور جن میں جو اختلاف ہے اس میں تردد ہے کہ وہ کس قسم کا اختلاف ہے۔ کیا اس قسم کا اختلاف ہے جیسے کہ گھوڑے اور انسان میںہے ، یعنی حیوان ہونے میں تو دونوں شامل ہیں۔ مگر گھوڑا ایک الگ قسم حیوان کی ہے اور انسان ایک الگ قسم حیوان کی ہے یا اس چیز میں اختلاف جو ان کے ساتھ ہیںجیسے کہ انسان ناقص اور انسان کامل میں اختلاف ہے۔ اسی طرح ملائکہ و شیطان میں اختلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ ہیں تو ایک ہی قسم کے مگر خیر و شر جو ان میںہے اس سے باہم مختلف ہیں مگر اخیر کو امام صاحب قرار دیتے ہیں کہ ان میںپہلی قسم ہی کا اختلاف ہے۔ یعنی ایسا اختلاف جیسے کہ گھوڑے اور انسا ن میں ہے۔ پھر امام صاحب ایک زیادہ مشکل بحث پر رجوع ہوتے ہیں کہ یہ جواہر ، یعنی ذاتیں جو اپنے آپے سے قائمک ہیں منقسم ہوسکتی ہیں یا نہیں،یعنی ان کے ٹکڑے ٹکڑے یا ریزے ریزے علیحدہ علیحدہ بغیرا ن کی صفات میں نقصان ہونے ہو سکتے ہیں یا نہیں، او ر نیز وہ متحیز ہیں یا نہیں، یعنی جس طرح کہ اجسام موجودہ بقدر اپنے جسم کے ایک جگہ گھیرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہ بھی گھیرے ہوئے ہیں یا نہیں۔ اس کا فیصلہ وہ اس طرح فرماتے ہیں کہ اگر جزء لا یتجزیٰ کا موجود ہونا محال ہے تو ان کا منقسم ہونا بھی محال ہے اور اگر جزء لا یتجزیٰ کاموجود ہونا ممکن ہے تو اس کا متحیز او رمنقسم ہونا بھی ممکن ہے۔ پھر امام غزالی صاحب فرماتے ہیں بعض لوگوں کا یہ قول ہے کہ ان کا غیر منقسم اور غیر متحیز ہونا جائز نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ ہی غیر منقسم او رغیر متحیز ہے ۔ پھر خدا میں اور ملائکہ میں اور شیطان اور جن میں کیا چیز ہو گی جس سے خدا میں اور ان میں فرق کر سکیں؟ مگر امام صاحب اس قول کو نہیں مانتے اور فرماتے ہیں کہ اگر دو چیزیں ہیں اور ان دونوں کی نسبت کہا جائے کہ فلاں امر اس میں بھی نہیں ہے اور اس میں بھی نہیں ہے تو یہ لازم نہیں آتا کہ وہ دونوں چیزیں ایک ہو جائیں۔ پھر امام صاحب فرماتے ہیں کہ ملائکہ اگرچہ غیر محسوس ہیں، یعنی نہ دکھائی دیتے ہیں۔ نہ چھونے سے معلوم تے ہیں ، لیکن ممکن ہے کہ دکھائی دے جائیں اور ان کا دکھائئی دے جانا دو طرح پر ہو سکتا ہے یا کسی صورت میں بن جائیںجیسے کہ خدا نے کہا فتمثل لھا بشرا سو یا یعنی حضرت مریم کے سامنے فرشتہ ٹھیک ٹھیک آدمی بن گیا یا آنحضرت صلعم کے سامنے حضرت جبریل ؓ دحیہ کلبی کی صورت بن کر آتے ہیں۔ مگر امام صاحب نے اس مقام پر یہ نہیں بتلایا کہ جب ملائکہ کی نسبت یہ بات تسلیم ہوچکی تھی کہ وہ نہ منقسم ہوسکتے ہیں او ر نہ متحیز تو جب وہ کسی کی صورت بن گئے تو ان کا غیر منقسم اور غیر متحیز ہونا کیونکر باقی رہا۔ دوسری صورت فرشتوں کے دکھائی دینے کی امام صاحب یہ بتلاتے ہیں کہ شاید بعضے ملائکہ کے لیے ایسا بدن ہو جو محسوس ہو سکتا ہو اور اس کا محسوس ہونا، یعنی دکھائی دینا نور نبوت پر موقوف ہو جیسا کہ ہمارا دنیا کی چیزوں کو دیکھنا سورج کے نور پر موقوف ہے۔ اخیر کو فرماتے ہیں کہ یہی حال جن اور شیاطین کا ہے۔ مگر پھر یہ نہ فرمایا کہ ایسے ملائکہ اور جن اور شیاطین جن کے لیے کوئی بدن ہے وہ کیونکر غیر منقسم اور غیر متحیز ہوں گے ؟ انتخاب مافی المضنون بہ علی اہلہ (المضنون بہ علی اہلہ کا انتخاب) معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب نے جو خیالات اس میں بیان کئے تھے اس کے بعد ان میں ترقی ہوئی۔ چنانچہ اس رسالے میں بہت لمبی بحثیں او ر مقامات متعددہ لکھے ہیں اور فرماتے ہیں کہ آسمان مع اپنے تمام اجزاء کے ایک بہت بڑے انسان کے ما نند ہے اور انسان کے مانند اس میں نفس بھی ہے اور اس کے تمام اجزاء ایسے ہیں جیسے کہ انسان یا حیوان کے اعضائے مختلفہ اور وہ اپنے ارادے سے حرکت کرتا ہے اور اس حرکت کرنے سے اس کو ایک غرض بھی ہے اور وہ غرض ایک شوق ہے مشابہ ہونے کا ایک جوہر سے جو اس سے بھی اشرف ہے اور اس جوہر شریف کا اگلے حکماء اور فلاسفہ کی زبان میں عقل مجرد نام ہے اور شرع کی زبان میں ملک مقرب ، یعنی فرشتہ اور پھر فرماتے ہیں کہ ’’ ان العقول یعنی الملائکہ کثیرۃ‘‘ ا سکا ترجمہ یہ ہے کہ عقول ، یعنی ملائکہ بہت سے ہیں۔ پھر ایک جگہ فرماتے ہیں کہ عقول مجردہ کثرت سے ہونا چاہیں اور جتنے آسمان ہیں ان کی تعداد سے کم عقول مجردہ نہیں ہو سکتیں ۔ پھر ایک جگہ فرماتے ہیں کہ یہ بات ثابت ہے کہ آسمان متعدد ہیں اور ان کی حرکتیں بھی مختلف ہیں تو ان آسمانوں کے نفوس وہی ملائکہ سماویہ ہیں کیونکہ اجسام سماوی سے خصوصیت رکھتے ہیں اور یہی عقول سماویہ ملائکہ مقربون ہیں ، کیونکہ وہ مادے کے علائق سے بری ہیں اور صفات میں رب الارباب کے قریب ہیں ۔ فقط جو غلطی کہ اگلے زمانے کے علماء او رحکماء او فلاسفہ کو آسمانوں کے فلسفی وجود ( نہ شرعی وجود) کے ماننے میں ہوئی وہ امام صاحب کی تصانیف میںبھی موجود ہے اور جو دلیلیں اس بناء پر قائم کی جاتی ہیں ، ظاہر ہے کہ محض بے بنیاد ہیں اور ٹھیٹ مذہب اسلام سے اس کو کچھ تعلق نہیں ہے ۔ لیکن اس غلطی سے قطع نظر کرو تو امام صاحب کے اس قول کا نتیجہ یہ ہے کہ عقول مجردہ وہی ملائکہ ہیں ، مگر وہ نہ منقسم ہو سکتے ہیں، نہ متحیز ہوسکتے ہیں، نہ ہاتھ سے محسوس ہو سکتے ہیں اور نہ آنکھ سے دکھائی دے سکتے ہیں۔ انتخاب مافی المضنون الاخیر (’’المضنون الاخیر‘‘ کا انتخاب) امام صاحب اس رسالے میں فرماتے ہیں کہ ’’ جب یہ بات جان لی کہ خدا تعالیٰ کے کام دو طرح پر ہیں، ایک جو اس نے خود بلا واسطہ کئے ہیں او ردوسرے وہ جو اس نے بواسطہ کئے ہیں اور واسطے درجات میں مختلف ہیں ’’ فالو سائط ہم المقر بون و عنھم یعبر الملائکۃ ‘‘ یعنی وہ واسطے وہی اللہ کے مقرب ہیں اور انہی کو ملائکہ سے تعبیر کیا جاتا ہے فقط۔ اس قول کا نتیجہ بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ عالم میںجو اسباب طبیعی وقوع حوادث کے ہوتے ہیں انھیں اسباب پر ملا ئکہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ حرارت کا ہونا اور بخارات کا جمع ہونا بادلوں کے لانے کے فرشتے ہیں، مگر اس میں ایسے اسباب جمع ہونے سے جس سے بادل گرجے اور بجلی چمکے ، مینہ برسے ، بادل گرجنے بجلی چمکنے ، مینہ برسانے کے فرشتے ہیں۔ ھکذا و ھکذا الی غیر النھایۃ واما مذہب بعض الفلا سفۃ الا لہہیین فی ھذا الزمان ھذا (اس کے بارے میں موجودہ زمانے کے بعض فلاسفہ الہین (۱) کا مذھب ہمارے پاس اس بات سے انکار کرنے کی کہ انسان سے بالا تر کوئی مخلوق متحیز ، غیر مرئی، ذی تعقل و ذی ارادہ جوہر، یعنی اپنے آپے سے موجود و جود پذیر ہے ، کوئی دلیل نہیںہے، مگر ہماری دانست میں کسی ایسی ذات کا وجود برہان عقلی یا قرآن مجید او ر احادیث نبوی سے ثابت نہیں ہے۔ جہاں تک کہ ثابت ہے صرف اس قدر ہے کہ قوائے مدبر عالم کو اور قوائے ملکوتی انسانی کو مذھب اسلام میں ملائکہ سے تعبیر کیا ہے اور قوائے حیوان نفسانی انسانی کو شیطان سے ہم کو یہ بھی ثابت نہیں ہوا کہ قرآن مجید میں جانب قائلہ تعالیٰ شانہ و جل جلالہ لفظ جن کا اطلاق ایسے وجود پر ہوا ہو جیسا کہ لوگوں کے خیال میں جن کا فرضی وجود ہے۔ واللہ ا علم بحقیقۃ الحال وانما اقول ما لھمنی ربی وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ رسولہ محمد و آلہ واصحابہ اجمعین (۱) مراد خود سر سید ہیں (محمد اسماعیل پا نی پتی ) (۳) امام غزالی ؒ کے واردات قلببی اخبار سر مور گزٹ ناہن ۳۱ اکتوبر ۱۸۸۹ئ) (یہ مضمون امام صاحب کی کتاب ’’ المنقذ من الضلال ‘‘ سے ماخوذ ہے) وہ (امام غزالیؒ) لکھتے ہیں کہ لوگوں میں جو ادیان و ملل کا اختلاف ہے اور پھر گروھوں میں مختلف مذہب ہیں اور بہت سے فرقے ہوگئے ہیں اور ہر ایک کے جدا جدا طریقے ہیں ، یہ ایک نہایت گہرا دریا ہے جس میں بہت لوگ ڈوب گئے ہیں اور بہت ہی کم ہیںجنہوں نے اس سے نجات پائی ہے اور ہر ایک سمجھتا ہے کہ میں ہی نجات پانے والوں میںہوں۔ میںنے عنفواں شباب سے کہ بیس برس کا بھی نہ ہوا تھا اور اب پچاس برس کا ہوگیا ہوں، اپنے تئیں اس دریائے عمیق کی موجوں میں بے دھڑک ڈال دیا ہے اور اس گہرے دریا میں گھس پڑا ہوں جیسے کہ ایک دلیر آدمی گھس پڑے ، نہ جیسے کہ کوئی بزدل ڈرنے والا گھسے اور ہر بات پر جو تاریکی میںتھی لگا تار غور کرتا رہتا ہوں اور ہر مشکل بات میں کود پڑتا ہوں اور ہر بھنور میںبے دھڑک گھس جاتا ہوں اور ہر فرقے کے عقیدے کو ڈھونڈتا ہوں اور ہر گروہ کے مذہب کے بھیدوں کو دریافت کرتا ہوں۔ تاکہ میں تمیز کر لوں سچے اور جھوٹے اور سنی اور بدعتی میں اور میں نہ باطنیہ فرقے والے کو دھو کہ دینا چاہتا ہوں، بلکہ پسند کرتا ہوں کہ ان کے باطنیہ طریقے سے مطلع ہوں اور نہ کسی ظاہر یہ فرقے والے کو، بلکہ چاہتا ہوں کہ اس کے ظاہر یہ طریقے کا حاصل جان لوں اور نہ کسی فلسفی کو، بلکہ میر ا قصد یہ ہے کہ اس کے فلفسے کی کنہ دریافت کر لوں اور نہ کسی کو جس متکلمین فرقہ میں سے ہو، بلکہ میری کوشش ہے کہ اس کے کلام اور مجادلے پر اطلاع پاؤں اور نہ کسی صوفی کو ، بلکہ یہ خواہش ہے کہ تصوف کے بھید پر عبور کروں اور نہ کسی عابد کو، بلکہ اس بات کے جاننے کی امید کرتا ہوں کہ اس کی حاصل عبادت کا مرجع کیا ہے اور نہ کسی زندیق کو جو سب کچھ چھوڑے ہوئے ہو، بلکہ میں اس کی حالت کو اس لیے تلاش کرتا ہوں، تاکہ متنبہ ہوں کہ کیا اسباب ہیںجن سے اس زندیق پنے اور سب کچھ چھوڑ دینے میںجرات کی ہے اور ان باتوں کی حقیقت تلاش کرنے کی پیاس اللہ تعالیٰ نے میری فطرت اور جبلت میں رکھ دی تھی ، میری اختیاری اور بناوٹی نہ تھی ، یہاں تک کہ لڑکپن کے زمانے کے قریب ہی سے تقلید کا رابطہ مجھ سے چھوٹ گیا اور موروثی عقیدے ٹوٹ گئے، کیونکہ میں نے یہ بات دیکھی کہ عیسائیوں کے لڑکے عیسائیت ہی میںپلتے ہیں اور یہودیوں کے لڑکے یہودیت میں اور مسلمانوں کے لڑکے اسلام میں اور میں نے رسول خدا ﷺ کی یہ حدیث سنی تھی کہ ’’ ہر ایک جو پیدا ہوتا ہے فطر ت اسلام پر پیدا ہوتا ہے ، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا لیتے ہیں ‘‘ پس میرے دل کو اصلی فطرت کی حقیقت کی اور ان عقائد کی حقیقت کی جو والدین او ر استادوں کی تقلید سے چمٹ جاتے ہیں دریافت کرنے اور تقلیدوں میں تمیز کرنے کی جن کی ابتداء تلقین سے ہوتی ہے اور حق اور باطل میں تمیز کرنے کی جس میںبہت سے اختلافات ہوتے ہیں ، تحریک ہوئی۔ پھر میں ، پہلے اپنے دل میںکہا کہ جب میں علم کے حقائق امور پر اطلاع چاہتا ہوں تو ضروعر ہے کہ میں علم کی حقیقت کو ڈھونڈوں کہ وہ کیا ہے۔پھر مجھ کو یہ بات معلوم ہوئی کہ علم یقینی وہ ہے جس سے معلوم اس طرح منکشف ہوجائے کہ انکشاف کے بعد کوئی شبہ اس میں نہ رہے اور دھوکا اور غلطی کا امکان اس کے پاس تک نہ بھٹکنے پائے اور بدلنے کی اس میں گنجائش ہی نہ ہو۔ غلطی سے امن میں رہنے کے لیے اس کے ساتھ ایسے یقین کاہونا چاہیے کہ اگر کوئی اس کے باطل کرنے کے لیے۔ مثلا یہ دعوی کرے کہ میں پتھر کو سونا کر دیتا ہوں یا لاٹھی کو سانپ بنادیتا ہوں توبھی اس میں شک یا انکار نہ پیدا ہو،ل کیونکہ جب میں نے یہ بات جان لی کہ دس زیادہ ہیںتین سے، پھر اگرکوئی مجھ سے کہے کہ نہیں، بلکہ تین زیادہ ہیں دس سے اور اس کی دلیل ہے کہ میںلاٹھی کوسانپ بنا دیتا ہوں اور اس نے بنا بھی دیا اور میں نے خود اس کو دیکھا بھی تو اس کے سبب سے میں اپنے جا ننے میں کچھ شک نہیں کرنے کا اور اس کے ایسا کرنے سے بجز تعجب کے اور اس بات کے کہ اس کو ایسی قدرت ہے اور کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ مگر جو کچھ کہ میں نے جان لیا ہے اس میں شک نہیںآئے گا ۔ پھر میں نے جان لیا کہ جس چیز کا اس طرح پر علم نہیں ہے اور اس پر اس طور سے میںیقین نہیں کرتا تو وہ کچھ اعتبار کے لائق نہیں ہے اور نہ اس کے ساتھ امان ہے اور جو علم کہ اس کے ساتھ امان نہیں ہے وہ علم یقینی نہیں ہے۔ پھر میں نے اپنے علموں کو ٹٹولا تو میں نے اپنے میںایسے علم کو جس میںیہ صفت ہو نہ پایا ، بجز حسیات اور ضروریات کے علم کے ، یعنی بجزایسی چیزوں کے علم کے جن کا علم چھونے سے ، دیکھنے سے ،سونگھنے سے ،چکھنے سے ، سننے سے حاصل ہوتا ہے یا کسی ضروری بات کا علم جیسے کہ انسان اپنے جسم کااور اپنے ہونے کا علم رکتھا ہے۔ غرض کہ جب سب طرف سے مایوسی ہوگئی تو یہی ٹھہرایا کہ جو امر کہ بالکل صاف اور حسی اور ضروری ہیں ان ہی سے مشکلات دور ہوسکتی ہیں،مگر اس کے احکام کاجاننا ضرور ہے۔ تاکہ کھل جائے کہ میرا اعتماد جو محسوسات پر ہے اور غلطی سے امن میںرہنے کا جو اعتماد ضروریات پر ہے وہ ایسا تو نہیںہے جیسا کہ اس سے پہلے تقلید پر تھا یا جیسا کہ بہت لوگوں کو غلطی سے امن میں رہنے کا اعتماد نظریات میںہے ،یعنی ایسی بات پر جو حسیات اور ضرورت میں سے نہیں ہے، بلکہ بعد غور و تامل اور تمہید مقدمات قرار دی گئی ہے اور کیا وہ امان بالکل ٹھیک بغیر کسی شک کے ہے اور اس میں کچھ دھوکا اور شبہ نہیں ہے ۔پھر میںنے نہایت کوشش سے محسوسات اور ضروریات پر غور کی،تاکہ میںدیکھوں کہ میرے دل کو اس میںبھی کچھ شک ہوسکتا ہے یا نہیں۔ ایک طول طویل شکوک کے بعد میرے دل نے محسوسات میںبھی غلطی سے امن میں رہنے کو تسلیم نہیں کیا اور یہ شک بڑھتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ محسوسات پر کیونکر اعتماد ہوسکتا ہے اور سب سے زیادہ مضبوط آنکھ سے دیکھنا ہے اور سایا، یعنی چھاؤں کو دیکھتا ہے کہ ٹھہری ہوئی ہے۔ ہلتی نہیں اور کہتا ہے کہ وہ غیر متحرک ہے۔ پھر تجربے سے اور ایک گھنٹے کے بعددیکھنے سے جانتا ہے کہ وہ متحرک ہے اور دفعتہ متحرک نہیں ہوتا ، بلکہ تھوڑا تھوڑا حرکت کرتا ہے کہ اس کی حرکت معلوم نہیں ہوتی ۔ ستارے دیکھنے میںبہت چھوٹے اشرفی کے برابر معلوم ہوتے ہیں اور ہندسی دلیلوں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ زمین سے بھی بڑے ہیں اور اسی طرح محسوسات کی بہت سے مثالیں ہیں کہ حس تو اس میں کچھ کہتی ہے اور عقل اس کو جھٹلا دیتی ہے اس طرح پر کہ اس کے رد کرنے کا کوئی راستہ ہی نہیں۔ مگر افسوس ہے کہ امام صاحب نے ذرا غلطی کی، کیونکہ اس مقام پر محسوس صرف سایا تھا اور اس کی موجودہ یا آئندہ حالت کہ متحرک ہے یا ساکن محسوس نہ تھی ۔ ستارے میںبھی صرف ایک روشن چیز محسوس تھی اور یہ بات کہ وہ ستارہ ہے یا غبارہ یا اور کوئی چیز اور کتنا بڑا یا چھوٹا ہے محسوس نہ تھی۔ پس ان کو محسوس اور غیر محسوس کے قرار دینے میں غلطی ہوئی۔ بہر حال اس کے بعد امام صاحب فرماتے ہیں کہ پھر میں نے کہا کہ میرا اعتماد محسوسات پر بھی نہیں رہا اور سمجھا کہ شاید اگر اعتماد ہوسکتا ہے تو بجز عقلیات کے او ر کسی پر نہیں ہوسکتا ، مگر وہ عقلیات اولیات کی قسم سے ہوں، یعنی ان میںکچھ غورو فکر کی ضرورت نہ ہو جیسا کہ ہمارا یہ کہنا کہ دس زیادہ ہیںتین سے یا یہ کہنا، کہ نفی اور اثبات ، یعنی ہونا اور نہ ہونا ایک چیز میںجمع نہیں ہوسکتے اور یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی چیز حادث بھی ہو اور قدیم بھی ہو۔ موجود بھی ہو اور معدوم بھی ہو، واجب بھی ہو اور محال بھی ہو۔ اتنے میںمحسوسات نے اپنی زبان حال سے امام صاحب سے کہا کہ کس چیز نے آپ کے دل کو تسلی دی ہے کہ آپ کا اعتماد عقلیات پر اس طرح ہوگیا جیسا کہ محسوسات پرتھا اور میں تو آپ کی بڑی معتمد تھی ۔ پھر عقل آئی، اس نے مجھ کو جھٹلا دیا اور اگر عقل کی حکومت نہ ہوتی تو ہمیشہ میںسچی رہتی۔ شاید عقل کے پرے اور کوئی دوسرا حاکم ہو۔ جب وہ تشریف لائیں تو عقل نے جو حکم کئے ہیں اس میںوہ جھوٹی ہوجائے جیسے کہ حاکم عقل کے تشریف لا نے سے حس اپنے حکم میںجھوٹی ہوگئی اور ایسے حاکم کا اس وقت تشریف نہ لانااس کے نہ ہونے پر دلیل نہیں ہوسکتا۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر تھوڑی دیر کے لیے میںدم بخود ہوگیا اور اس مشکل کی تائید میںاس نے خواب کی حالت کو پیش کیا اور کہا کہ کیا تم خواب میںبہت سی باتیں نہیں دیکھتے اور بہت سے حالات خیال نہیں کرتے اور ان کے لیے ثبات اور استفرار نہیں سمجھتے اور حالت خواب میںان پر ذرا بھی شک نہیںکرتے اور پھر جب جاگتے ہوتو جانتے ہو کہ تمہارے ان تمام خیالات اور معتقدات کی کچھ اصل نہ تھی ۔ پھر کس طرح تم کو تسلی ہوئی ہے کہ جن چیزوں پر جاگتے میکں تمہارا اعتقاد ہے حس یا عقل سے وہ بہ لحظ تمہاری حالت آئے کہ بہ نسبت اس کے تمہارا جاگنا سونے کے مانند ہو اور جب وہ حالت آئے تو یقین ہو کہ جو کچھ تم نے اپنی عقل سے سوچا تھا وہ سب بے فائدہ خیالات تھے اور کیا عجب ہے کہ یہ حا لت وہ ہو جس کا دعویٰ صوفی کرتے ہیں، اس لیے کہ وہ اپنی حالت سے زعم کرتے ہیں کہ جب وہ اپنے نفس میں پیٹھ جاتے ہیں اور اپنے حواس سے غائب ہوجاتے ہیں تو وہ ایسے حالات کو دیکھتے ہیںجو ان معقولات کے موافق نہیں ہیں اور شاید کہ یہ حالت وہی موت ہو، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ تمام آدمی سوتے ہیں۔ جب مریںگے تو متنیہ ہوں گے ۔ پس شاید اس دنیا کی زندگی بہ نسبت آخرت کے نیند ہو اور جب مرے تو اس کو برخلاف اس کے جواب دیکھتا ہے چیزیں ظاہر ہوں اور اس وقت کہے فکشفنا عنک غلطاء ک فبصرک الیوم حدید۔ مگر اس زمانے کے فلاسفہ الہین (مراد سر سید) اس بات کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ خدا ایسا دھوکے باز نہیں ہے۔ اس نے انسان کی ہر ایک بات کو جو اس کی زندگی اور اس کے مرنے کے بعد ہوگی سب آشکارا کردی ہے۔ خواہ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے ولا شک ان الیقظۃ یقظۃ والنوم نوم و الموت موت و ما یقع بعدھا معلوم و ان لم نعلم ما ھیتھا لان العلم بما ھیۃ الشیشی و ان کان اصغر من حبۃ خردل محال۔ بہر حال امام صاحب فرماتے ہیں کہ جب میرے دل میںیہ باتیں آئیں تو میرا دل ٹوٹ گیا اور میںنے اس کے علاج کی تلاش کی، مگر نہ ملا، کیونکہ اس کا دل سے دو ر ہونا دلیل پر منحصر تھا اور کوئی دلیل بغیر علوم اولیہ کی ترکیب کے قائم نہیں ہوسکتی تھی اور جب وہ ہی مسلم نہ ہوں تو دلیل کی ترتیب ہی ممکن نہیں ہے۔ پس یہ مرض دو مہینے تک مجھ میںرہا اور ان دو مہینوں میں میرے مذہب کا حال سفسطہ کا تھا ، یعنی یہ سمجھتا تھا کہ کوئی چیزا صلی نہیں ہے سب خیال ہی خیال ہے، مگر زبان سے کچھ نہ کہتا تھا۔ اتنے میں خدا نے مجھ کو اس مرض سے شفا دی اور میرا نفس صحت و اعتدال پر آگیا اور ضروریات عقلیہ کے قبول کرنے اور ان پر غلطی سے امن میںہونے کا اعتماد کرنے اور یقین کرنے پر میں نے رجوع کی۔ یعنی پھر ان پر یقین کیا اور یہ یقین کسی دلیل سے نہیں ہوا، بلکہ ایک نور کے سبب سے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا تھا اور یہ نور بہت سے معارف کی کنجی ہے اور جو شخص یہ خیال کرے کہ کشف صرف دلائل پر موقوف ہے تو وہ خدا کی رحمت کو تنگ کرتا ہے ۔ رسول خدا ﷺ نے اس آیت کے معنی میں فمن برد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ للا سلام فرمایا ہے کہ وہ نور ہے جو اللہ دل میں ڈال دیتا ہے ، پھر امام صاحب فرماتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ نے مجھ کو اس مرض سے شفا دی تو میرے سامنے متعدد قسم کے طالین، یعنی جو حقیقت کی تلاش میںہیں آ حاضر ہوئے اور وہ چار گروہوں میں تھے (۱) متکلمین، اور وہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہی صاحب رائے اور غور کرنے والے ہیں (۲) باطنید۔ اور وہ دعویٰ کرتے تھے کہ انھوں ہی نے امام معصوم سے سید بسینہ تعلیم پائی ہے (۳) فلاسفہ ۔ وہ کہتے تھے کہ ہم ہی اہل منطق و برہان ہیں (۴) صوفیہ۔ وہ خیال کرتے تھے کہ وہی حضرت باری کے خاص الخاص ہیں اور مکاشفہ اور مشاہدہ والے ہیں۔ پھر میںنے اپنے دل میں کہا کہ سچ ان چاروں فرقوں سے خارج نہیں ہے اور یہی چاروں فرقے ہیں کہ سچ کی راہ کو ڈھونڈتے ہیں اور تقلید چھوڑنے کے بعد پھر تقلید میںپڑنے سے کچھ فائدہ نہیں ہے۔ پس میںنے ان چاروں فرقوں کے طریق کی بخوبی تحقیقات کی۔ سب سے پہلے میںنے علم کلام پر توجہ کی۔ اس کو حاصل کیا اور سمجھا اور محقیقین کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور خود میںنے اس میں کتابیں تصنیف کیں۔ میںنے اس کو پورا علم اس مقصد کے لیے پایا جس کے واسطے بنایا گیا ہے، مگرجو میرا مقصد تھا اس کے لیے وہ کافی نہ تھا۔ پھر جب میںعلم کلام سے فارغ ہوا تو میںنے علم فلسفہ پر توجہ کی اور اس علم کی کتابوں کو اپنی فراغت کے وقت میں جبکہ مجھ کو اپنی تصنیف اور تدریس سے کہ تین سو طالب علموں کو بغداد کے مدرسے میںپڑھاتا تھا فرصت ہوتی تھی ، بہت کوشش سے بغیر مدد استاد کے پڑھا ۔ پھر خدا تعالیٰ نے صرف مختلف اوقات میں مطالعہ کرنے ہی سے دو برس سے کم عرصے میں ان کے منتہی علوم پر مطلع کر دیا اور جب میں نے اس علم کو سمجھ لیا تو ایک برس تک اس کو سوچتا رہا اور دہراتا رہا اور اس کے دھوکے کی باتوں پر التفات کرتا رہا، یہاں تک کہ جو کچھ اس میں فریب اور دھوکا اور محض خیال بندی ہے اس پر مجھ کو اطلاع ہوئی جس میں مجھ کو ذرا بھی شک نہیں ہے۔ بعد اس کے امام صاحب فلسفے کو نہایت برا اور اس کے متعدد مسائل کو کفر او کسی گروہ فلاسفہ کو کافر و ملحد، کسی کو کو مبتدع بتاتے ہیں۔ کتاب تھافۃ الفلاسفہ وہ اس سے پہلے لکھ چکے تھے۔ اسی ضمن میں انھوںنے ابن سینا، یعن بو علی کی اور فرابی کی تکفیر واجب بیان کی ہے اور بو علی کے اس شعر پر کچھ التفات نہیں کیا ۔ در دھر چو من یکے و آں ہم کافر پس در ہمہ دہر یک مسلمان نہ بود بہر حال امام صاحب فرماتے ہیں کہ فلسفے کو بخوبی سمجھ لینے کے بعد میںن ے جانے لیا کہ جو غرض ہے اس ک ے لیے یہ بھی غیر کافی ہے اور عقل جمع مطالب کے احاطے کے لیے کافی نہیں ہے اور نہ تمام مشکلات سے پردہ اٹھانے والی ہے۔ پھر وہ باطنیہ فرقے کے مسائل کی تحقیق پر متوجہ ہوئے جو امام معصوم سے تعلیم ہونے کے قائل تھے اور اس کی رد میں انھوں نے کتابیں لکھیں۔ پہلی کتاب اس باب میں المستظھری ہے اور اس پر جو لوگوں نے بغداد میں کچھ اعتراض کئے تھے اس کے جواب میں کتاب مفصل الخلاف لکھی اور جو اعتراض کہ ہمدان میں کئے گئے تھے اس کے جواب میںکتاب الدرج لکھی اور جو اعتراض طوس میں کئے گئے ا س کے جواب میںبھی کتاب لکھی اور ان سب کے بعد کتاب القسطاس المستقیم لکھی جس میں میزان علوم کا بیان ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ جب میں اس سے بھی فارغ ہو گیا تو میںنے تصوف کی طرف توجہ کی اور مجھ کو معلوم ہوا کہ صوفیہ کا طریقہ علم اور عمل دونوںسے پورا ہو تا ہے ۔ چنانچہ اس علم کے حاصل کرنے کو میںنے ان کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا جیسے قوت القلوب ابی طالب مکی اور حارس محاسبی کی تصنیف کی ہوئی کتابیں اور متفرق رسالے جنید ؒ و شبلیؒ و ابی یزید بسطامی اور دیگر مشائخ کے ، یہاں تک کہ ان کے علمی مقاصد کی کنہ مجھ کو معلوم ہوگئی اور تعلیم سے اور سننے سے بھی میںنے کسی قدر ان کے طریقے کو حاصل کیا اور مجھ پر کھل گیا کہ جو خاص الخاسص باتیں ان کے طریقے ک ی ہیں وہ سیکھنے سے نہیںآتیں، بلکہ ذوق اور حال اور صفات کی تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو علوم انھوں نے حاصل کے وہ حاصل کئے، مگر سعادت اخروی ، تقویٰ اور نفس کی خواہشوں کو روکنے کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اور اس کے لیے سب سے اول دنیوٰ علائق کو دل سے قطع کرنا اور جس گھر میں ہمیشہ رہنا ہے اس طرف دل لگانا اور تمام ہمت کو خدا کی طرف متوجہ کرنا ہے اور یہ بات پوری نہیں ہوتی جب تک جاہ و مال سے علیحدہ نہ ہو اور علائق سے اور مشاغل سے بھاگ نہ جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر میںنے اپنے پر توجہ کی کہ میں تو بالکل علائق میں ڈوبا ہوا ہوں اور میرے اعمالوں میں سب سے اچھا عمل پڑھانا ہے۔ مگر جو علوم پڑھتا ہوں وہ کچھ بہت اہم نہیں ہیں اور نہ آخرت کے لیے مفید ہیں۔ وہ کچھ بہت اہم نہیں ہیں اور نہ آخرت کے لیے مفید ہیں۔پھر میں نے علوم کے پہڑھانے میں اپنی نیت پر خیال کیا تو وہ کچھ خدا کے واسطے نہ تھا ، بلکہ طلب جاہ اور شہرت کے لیے تھا ، پس میںنے جان لیا کہ میں دوزخ کے کنارے پرہوں اگر اس کی تلافی میں مشغول نہ ہوں۔ پھر مدت تک اس کو سوچتا رہا ۔ ایک دن بغداد سے نکلنے کا اور ان علائق اور مشاغل کوچھوڑ دینے کا مصمم ارادہ کرتاتھا اور دوسرے دن اس ارادے کو چھوڑ دیتا تھا ۔ ایک قدم آگے بڑھاتا تھا اور دوسرا پیچھے ہٹا لیتا تھا ۔ صبح تو طلب آخرت کی رغبت مجھ میں ابھرتی تھی اور شام کو خواہشوں کا لشکر اس پر حملہ کرکے بدل دیتا تھا اور یہ حال ہوگیا تھا کہ دنیا کی خواہشیں تو زنجیریں ڈال کر کھینچتی تھیں کہ ٹھہرا رہ ٹھہرا رہ اور ایمان کا پکارنے والا پکارتا تھا کہ چل رہے چل رے ، عمر بہت تھوڑی رہ گئی ہے اور تجھ کو بہت لمبا سفر کرنا ہے اور جو کچھ تیرا علم اور تیرے اعمال ہیں وہ سب ریاء اور خیالات ہیں۔ پھر اگر تو اب بھی مستعد نہیں ہوتا تو کب ہوگا اور اب بھی نہیں چھوڑتا تو کب چھوڑے گا۔ اس کے بعد عزم جزم ہوتا تھا کہ سب چھوڑ چھاڑ کر چلا جاؤں اور بھاگ جاؤں ۔ پھر شیطان آڑے آ جاتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ حالت عارضی ۔ خبردار اگر تو نے ایسا کیا۔ یہ حالت بہت جلد جاتی رہے گی اور اگر اس کو مان لیا اور اتنی بڑی جاہ اور شان زیبا کو چھوڑ دیا جس میںنہ کچھ جھگڑا ہے اور نہ بکھیڑا پھر اگر تو نے چاہا تو میسر نہیں ہونے کی۔ اسی طرح میں دنیا کی خواہشوں اور آخرت کی تمناؤں کی ادھیڑ بن میں چھ مہینے تک پڑا رہا۔ رجب ۴۸۸ ھ میں یہ کام اختیار سے نکل گیا اور میری زبان بند ہوگئی ۔ یعنی چپ رہتا تھا ۔ بولتا نہ تھا ،یہاں تک کہ پڑھانا بھی چھوٹ گیا۔ میںکوشش کرتا تھا کہ کسی دن دل خوش کرنے کے لیے لوگوں کو پڑھاؤں ۔ مگر زبان سے بات ہی نہیں نکلتی تھی۔ اسی طرح چپ رہتے رہتے میرے دل میں رنج و افسردگی پید اہوئی اور اسی کے ساتھ کھانا ہضم ہونے کی قوت جاتی رہی اور کھانا پینا چھوٹ گیا ، یہاں تک کہ ایک گھونٹ بھی نہیںپیا جاتا تھا اور ایک لقمہ بھی ہضم نہیں ہوتا تھا اور ضعف بڑھتا جاتاتھا ۔ یہاںتک کہ طبیبوں نے علاج چھوڑ دیا اور کہا کہ کوئی حادثہ دل پر ہوا ہے اور مزاج میں سرایت کر گیا ہے اورکوئی رستہ اس کے علاج کا نہیں ہے۔ بجز اس کے جو غم لگ گیا ہے وہ بدل جاوے۔ جب میرا یہ حال ہوا تو میںنے خدا سے التجا کی۔ ایک مضطر کی سی التجا اس نے میری دعا ق بول کی بجبیب المضطر ازا دعاہ اور مجھ پر جاہ اور مال اور جورو اور بچوں کا اور دوستوں کا چھوڑنا آسان ہوگیا اور میں نے ظاہر کیا کہ میں مکہ کو جاتا ہوں،مگر میرے دل میں مکہ کا جانا نہ تھا ۔ بلکہ شام میں میرے مقام کی خبر نہ ہو۔ غرض کہ بہ لطائف الحیل میںبغداد سے نکلا اس ارادے پر کہ پھر کبھی نہ لوٹوں گا۔ پھر میں شام میںپہنچا اور د وبرس تک بجز گوشہ نشینی اور تنہائی اور ریاضت اور مجاہدہ کے میرا اور کوئی شغل نہ تھا اور تزکیہ نفس اور تہذیب الاخلاق اور تصفیہ قلب اور ذکر اللہ میں اس طریقے سے جو علم تصوف حاصل کیا تھا مشغول رہتا تھا ۔ مدت تک مسجد دمشق میں معتکف رہا۔ دن کو مسجد کے مینار پر چڑھ جاتا اور دروازہ بند کر لیتاتھا۔ پھر بیت المقدس میںجاتا اور ار صخرہ کے مکان میں جا کر دروازہ بند کر لیتا ۔ پھر مجھ کو حج کا اور مدینہ منورہ کی زیارت کا شوق ہوا اور حجاز میں گیا ۔ پھر لڑکوں نے اور دیگر امور نے مجھ کو وطن میں کھینچ بلایا ، مگر میںنے تصفیہ قلب کے شوق میں گوشہ نشینی اختیار کی۔ حوادث زمانہ اور اہل و عیال کے امورات اور معاش کی ضرورت میرے مقصد میں خلل ڈالتی تھی اور گوشہ نشینی میں تشویش پیدا کرتی تھی اور میںاپنے حال کو اوقات متفرقہ میںدرست کرتا رہتا تھا ۔ مگر با ایں ہمہ میں۔ اس کام سے طمع منقطع نہیں کی تھی ۔ موانعات کو دور کرتا تھا اور پھر اپنا کام کرنے لگتا تھا۔ اسی حالت پر دس برس گذر گئے ۔ ان خلوتوں سے میں نے بہت فائدہ اٹھایا اور یقین کر لیا کہ صرف صوفیہ ہی خدا کے راستے پر چلتے ہیں۔ اس زمانے میں فسق و فجور اور الحاد کی باتیں بہت زیادہ پھیل گئی تھیں اور جب میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگوں کا ایمان ان سببوں سے ضعیف ہوگیا ہے اور میں نے اپنے اوپر خیال کیا کہ آسانی سے ان باتوں کی برائی کو کھول سکتا ہوں، مگر میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر میں ایسا کروں تو ان ظالموں کے ہاتھوں سے کیونکربچوں گا اور جب میںلوگوں کو جن امور میںکہ وہ مبتلا ہیں، اس کے بر خلاف نصیحت کروں گا اور حق کی طرف بلاؤں گا تو تمام لوگ میرے دشمن ہو جائیں گے اور میں ان کا مقابلہ کس طرح کر سکوں گا اور کس طرح زندگی بسر کروں گا، کیونکہ یہ باتیں زمانے کی مساعدت او رسلطان متدین کی مددسے پوری ہوتی ہہیں۔ پس خدا نے یہ کیا کہ بغیر کسی تحریک کے سلطان وقت کے دل میں خیال آیا اور مجھ کو نیشا پور میں جانے کا حکم دیا ۔ ت اکہ ان برائیوں کا تدارک کروں۔ پھر میںنے اس باب میں اہل دل لوگوں سے مشورہ کیا اور سب نے متفق ہوکر کہا کہ عزلت کو چھوڑو اور جاؤ اور بہت سے نیک لوگوں نے خوابوں میں دیکھا کہ میرا جانا باعث خیر و برکت کا ہوگا اور خدا تعالیٰ نے اس صدی کے سرے پر اس کو مقدر کیا ہے اور بے شک خدا نے ہر صدی کے سر پر دین کے زندہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ پس میری امید مستحکم ہوگئی اور ان گواہیوں سے حسن ظن غالب ہوا اور ذی قعدہ ۴۹۹ ھ میں نیشا پور ہو گیا اور ذی قعدہ ۴۸۸ ھ میںبغداد سے نکلا تھا اور مدت عزلت کی گیارہ برس ہوئی۔ فقط۔ …………… (۴) امام غزالی ؒ اور فلسفی حضرات اس مضمون کا عنوان تھا فی اصناف الفلاسفہ و علو مہم و فی وجوب تکفیر ہم (اخبار سرمور گزٹ ناہن باب ۸۔ نومبر ۱۸۸۹ئٌ (یہ مضمون اما م صاحب کی کتاب المنقذ من الضلال سے ماخوذہے ) وہ (امام غزالی) فرماتے ہیں کہ ’’اگرچہ فلاسفہ کے بہت سے فرقے ہیں، لیکن ان کے مذہبوں کے اختلاف سے وہ تین قسم کے ہیں۔ اول۔ دھریہ۔ وہ صانع عالم ، یعنی خدا کا انکار کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ عالم ہمیشہ سے اپنے آپ موجود تھا، کسی نے اس کو بتایا نہیں، ہمیشہ سے حیوان ، یعنی جان دار نطفے سے اور نطفہ حیوانوں سے ہوتا رہا ہے اور اسی طرح ہمیشہ ہوتارہے گا اور یہی لوگ زندیق ہیں۔ مگرہم (سر سید احمد خاں) کو ایک مشہور لطیفہ یاد ہے جو کسی شخص نے ان لوگوں سے پوچھا تھا کہ تمہارا قول صحیح ہے تو یہ بتلاؤ کہ نطفہ حیوان سے پہلے تھا یا حیوان نطفے سے ، مرغی سے انڈا پہلے تھا یا مرغی انڈے سے ، مگر ہمارے نزدیک ان کا صحیح مذہب نسبت انکار صانع کے یہ ہے کہ وہ صانع ، یعنی خدا سے بالکل انکار نہیں کرتے ، بلکہ کہتے ہیں کہ شاید ہو، مگر اس کا ہونا کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے۔ دوم۔طبیعیون۔ ان لوگوں نے عالم طبیعیات پر اور حیوانات اور نباتات میںجو عجائب صنع الہی ہیں اور جو انسان میں عجیب اور غریب تدبیریں ہیں ان پر غور کرتے کرتے یہ مجبوری اس بات کے قائل ہوئے کہ کوئی بڑی حکمت والا قادر مطلق اورتمام چیزوں کے مقصد کو جاننے والا ہے ، لیکن وہ اس بات کے بھی قائل ہوگئے کہ اعتدال مزاج کو بہت بڑی تاثیر ہے۔ حیوان کے قویٰ بننے میں اور وہ سمجھ گئے کہ انسان کی قوت فاعلہ اس کے مزاج کے تابع ہے اور اس کے مزاج کے باطل ہونے کے ساتھ وہ بھی باطل ہوجاتی ہے اور جب معدوم ہوتی ہے تو اعادہ معلوم نہیں ہو سکتا۔ اس بنا پر انھوں نے خیال کیا کہ نفس جب مر جاتا ہے تو پھر عود نہیں کرتا ، اور اسی لیے انھوںنے آخرت کا اور دوزخ کا اور بہشت کا اور قیامت کا اور حساب کا انکار کیا۔ پس ان کے نزدیک کوئی عبادت ایسی نہیں جس کا ثواب ہو اور نہ کوئی گناہ ایسا ہے جس کا عذاب ہو۔ یہ لوگ بھی زندیق ، ہیں کیونکہ اصل ایمان اللہ پر اور آخرت پر ایمان لانا ہے۔ گو کہ یہ لوگ خدا پر اور اس کی صفات پر ایما ن لائے۔ لیکن آخرت کا انکار کیا۔ مگر اس زمانے میں ایک اور فرقہ (۱) پیدا ہوا ہے جو اپنے تئیں ٹھیٹ مسلمان کہتا ہے اور طبیعات عالم سے خدا کے ہونے اور اس کی وحدانیت اور اس کی تمام صفات کمال پر استدلال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ طریقہ استدلال خود خدا نے ہم کو بتلایا ہے۔ قرآن مجید انھیں استدلالوں سے بھرا ہوا ہے۔ کبھی خدا اپنے ہوئے (۱) یہاں سر سید نے اپنے عقائد کی تشریح کی ہے ۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) پر شہید کی مکھیوں میں شہد بنانے کی طبیعت کا ہونا بتلاتا ہے، کہیں پرندوں کے ہوا پر اڑنے کو دکھاتا ہے، کہیںجہازوں اور کشتیوں کے پانی پر چلنے کی تمثیل دیتا ہے، کہیںگائے بھینس کے خون اور پیٹ کے گوبر سے مفید دودھ اور خوشگوار غذا کے نکلنے کو دکھاتا ہے۔ دن ہونے اور رات آنے اور رات جانے دن آنے سے نصیحت دیتا ہے، چاند، سورج ، ستاروں سے عظمت دکھاتا ہے۔ کہیں، بادلوں کے چلنے اور مینہ برسنے، گل پھول اور مختلف مزے کے میووں کے پیدا ہونے کو یاد دلاتا ہے، کہیں اندھیری رات میں بجلی کی چمک اوررعد کی کڑک سے ڈراتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ اسی میں نشانیاں ہیں سمجھنے والوں کو۔ پھر اپنی وحدانیت پر استدلال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر دو خدا ہوتے سوائے ایک کے تو یہ تمام کارخانہ درہم برہم ہوجاتا۔ اس بناء پر وہ کہتے ہیں کہ طبیعیات عالم سے خدائے واحد کے جاننے کا سبق خود خدا نے ہم کو دیا ہے۔ وھم مع ذالک آمنوا باللہ و ملئکتہ و کتبہ ور سلہ والیوم الاخر و بقدر خیرہ و شرہ من اللہ تعالیٰ والبعث بعد الموت بل ہم آمنوا بکل ما جا ء بعد محمد رسول اللہ خاتم النبین۔ مگر وہ اس بات کو سوچتے ہیں کہ اللہ پر ایمان لانا کیا ہے، ملائکہ کا مفہوم کیا ہے ، خدا کی کتابوں کی حقیقت کیا ہے، رسالت کی ماہیت کیا ہے ، یوم الاخر کیا چیز ہے اور بھلائی و برائی دونوں کا خدا کی طرف سے ہونے کی کیا مراد ہے اور مرنے کے بعد اٹھنے کی کیا حقیقت ہے۔ وہ اس کی تحقیق بہ قدر اپنے علم و استعداد کے و بالا ستدلال من فطرۃ اللہ الی فطر الناس علیھا و من القرآن الذی انزل علی محمد رسول اللہ ﷺ ومن سنہ الرسول مائبت عندھم کے لحاظ سے اس کی نسبت اپنا عقیدہ قائم کرتے ہیں ولا یبالون بقول زید و عمر دون قول اللہ و رسولہ، یہ فرقہ اپنے تئیں ٹھیٹ مسلمان اور اپنے مذہب کو ٹھیٹ اسلام کہتا ہے۔ مگر اور لوگ ان کو حقارت سے طبیعین یا نیچری کہتے ہیں۔ وہ سب لقبوں سے جو ان کودئے جائیں خوش ہیں اور کہتے ہیں کہ جو حقارت سے حقارت کا لقب ہم کو دیا جائے، ہمارے مذہب یا عقائد کو اس سے حقارت نہیںہوتی ، بلکہ اس حقیر لقب کو عزت اور اس میںبرکت ہو جاتی ہے۔ افسوس کہ امام غزالی صاحب مرگئے ورنہ ان سے پوچھا جاتا کہ جناب اس فرقے کی نسبت آپ کیا فرماتے ہیں۔ اگر پاؤں پاؤں چل کر نہیں آسکتے تو خواب ہی میں آکر بتا جائیے۔ مگر میرا دل کہتا ہے ھم من اہل الجنۃ بحق محمد وآلہ۔ سوم ۔ الا لہیون۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ یہ فرقہ متاکریں فلاسفہ کا ہے اور انھیں میں سقراط ہے جو استاد ہے افلاطون کا ، جو استاد ہے ارسطا طالیس کا۔ ان سب نے پہلے دونوں فرقے دھریہ و طبیعیہ کی تردید کی ہے۔ پھر ارسطاطالیس نے افلاطون کی اور سقراط کی اور ان سب فلاسفہ الہین کی جو اس سے پہلے تھے۔ تردیدکی ہے ، مگر با ایں ھمہ اس کے مذہب میں بھی کچھ کچھ ر ذائل کفر باقی رہ گئے ہیں۔ پس اس کی بھی اور ان کی بھی جو فلاسفہ اسلام یین میں سے ان کے پیرو ہیں جیسے کہ ابن سینا اور فارابی وغیرہ سب کی تکفیر واجب ہے۔ کبرت کلمۃ تخرج من افواھھم ۔ العجب ثم العجب من الامام حجۃ الاسلام ابی حامدن الغزالی ؒ ان یقول لرجل ھو یقول انا مسلم و یعتقدان لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ انہ واجب تکفیرہ۔ اللھم اغفرہ وارحمہ و احفظنا من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا۔ من بھدیہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ہادی لہ و شھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد ا رسول للہ۔ قولہ رحمتہ اللہ فی اقسام علومہم امام صاحب فرماتے ہیں کہ فلاسفہ کے علوم چھ قسم کے ہں: منطقی ، طبیعی ، الہی ، سیاسی ، خلقی ، یعنی اخلاقی۔ اول۔ علم ریاضی ، متعلق ہے علم حساب و ہندسہ اور علم ہیت سے اور ان علوم کی کوئی چیز امور دینی سے متعلق نہیںہے ،بلکہ وہ علوم مضبوط دلیلوں پر مبنی ہیں کہ ان کے سمجھنے کے بعد ان کی مخالفت کے لیے کوئی راہ ہی نہیں ہے۔ لیکن امام صاحب کا یہ قول نسبت علم ہیت کے کسی طرح صحیح نہیں ہے ۔ جس قدر علم ھیئت علماء و مسفسرین کی ان تفسیروں سے جو انھوں نے آیات قرآنی متعلق علم ھیئت کے کی ہیں اور دیگر احادیث اور روایات مرویہ مذھب اسلام میںبیان ہوئی ہیں، وہ کسی طرح علم ھیئت کے موافق نہیںہیں۔ ایک آسمان سے دوسرے آسمان میںپانسو برس کی راہ کا فاصلہ ہونا، آسمان میںدریاؤں کا ہونا۔ آفتاب کا گرم پانی کے چشمے میں ڈوبنا وغیرہ وغیرہ ایسے مسائل ہیں کہ علم ھیئت قدیم یونانی جو فلاسفہ الہیینکا تھا بالک اس کی تکذیب کرتا ہے اور وہ اس علم کی تکذیب کرتے ہیں۔ جلال الدین سیوطی نے جو آیات قرآنی اور روایات اسلامی سے اخذ کرکے ایک ھیئت اسلامی بنائی ہے اور اس پر ایک رسالہ مسمیٰ بہ الحیئہ السنیہ فی الھیئۃالسنیہ تحریر کیا ہے ، ایک مسئلہ بھی اس کا علم ھئیت یونانی سے موافقت نہیں رکھتا ۔ اس میں باسناد روایات لکھا ہے کہ عرش ، یعنی فلک الافلاک کے گرد چار نہریں ہیں ۔ ایک نور کی، ایک نار کی۔ ایک برف کی ، ایک پانی کی۔ پھر لھا ہے کہ کل دنیا کے لوگوں کی جس قدر بولیاں ہیں اتنی زبانیں عرش کی ہیں۔ پھر لکھا ہے کہ عرش سرخ یا قوت کا ہے اور عرش کے نیچے بحر مسجور ہے۔ ایک روایت کی سند پر لھا ہے کہ عرش سبز زمرد کا ہے ۔ اس کے چار پاؤں یاقوت احمر کے ہیں، عرش کے آگے ستر ہزار پردے ہیں۔ اک نور کا ، ایک ظلمت کا ، جبرئیل نے کہا کہ اگر میں ذرا بھی پاس جاؤں تو جل جاؤں۔ اگر یک سر موئے بر تر پرم فروغ تجلی بہ سوزد پرم پھر لکھتے ہیں کہ زمین کے گر پیتل کا پہاڑ ہے جو زمین کے محیط ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ سات زمینیں مثل سات آسمانوں کے تو پر تو ہیں۔ ہر ایک زمین کی موٹائی پانسو برس کی راہ چلنے کے برابر ہے اور ہر ایک طبقہ زمین کو ایک دوسرے سے اسی قدر فاصلہ ہے۔ رعد کو وہ ایک فرشتہ اور اس کی آواز کو کڑک اور اس کی بھاپ یا کوڑے کی چمک کو بجلی قرار دیتے ہیں۔ آسمانوں کو مثل ایک قبے کے کہتے ہیں اور اس میں دروازے قرار دیتے ہیں۔ مدو جزر سمندر کی بابت روایت کرتے ہیں کہ جب فرشتہ سمندر میں پاؤں رکھ دیتا ہے تو مد ہوتا ہے، جب نکال لیتا ہے تو جزر ہوتا ہے۔ غرض کہ اسی طرح لغو و مہمل موضوع روایتیں اسلام میںملالی ہیں اور لوگ سمجھتے ہیںکہ یہی مذیب اسلام ہے اور اس پر یقین کرنا چاہئے اور علماء نے بھی مثل روایات مذہبی کے ان کو اپنی تصنیفات میںجگہ دی ہے اور علم ھیئت یونانی ان سب کی تکذیب کرتا ہے۔ پس ھیئت یونانی اور اس کے مسائل کو بالکلیہ دین سے تعلق ہے۔ تاککہ ان کی تردید کی جائے یا وجہ تطبیق بیان ہو۔ اگر ہم ھیئت قدیم یونانی سے در گذر کریں اور ھیئت جدید پر جو اب تمام علمی دنیا میں مسلم ہے، نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ ہر ملک کے اہل علم کا اس پر اتفاق ہوتا جاتا ہے تو وہ تو مثل آگ اور خشک پھونس کے موجودہ مسائل اسلام کے ، نہ کہ ٹھیٹ اسلام کے، بر خلاف ہے۔ پس یہ کہنا کہ دین کو نفیاَ۔ و اثبانا اس کی کسی چیز سے تعلق نہیںہے۔ صریح غلطی ہے۔ دوم، علم منطق۔ اس کی نسبت بھی وہ لکھتے ہیں کہ اس کے مسائل کو دینیات سے کچھ تعلق نہیں ہے اور یہ بات قابل تسلیم کے ہے۔ مگر یوں کہنا چاہیے کہ دینیات میں وہی مسائل ہیںجو علم م منطق میں ہیں۔ سوم۔ علم طبیعی ۔ اس کی نسبت امام صاحب نے اپنی کتاب میںبہت کم لکھا ہے اور کتاب تھافۃ الفلا سفۃ کا حوالہ دیا ہے اور کتاب تھافۃ الفلاسفۃ میں وہ اس علم کی اس طرح پر تشریح کرتے ہیں کہ علوم طبیعیات آٹھ اصولوں پر منقسم ہیں۔ (۱) وہ جو جسم سے بحیثیت جسم ہونے کے اس کی تقسیم اور حرکت سے اور تغیر سے اور حرکت کیتوابع سے ،یعنی زمانہ، جگہ، خلا سے متعلق ہیں۔ (۲) وہ علوم جن میںآسمانوں کا ور ان کا جو فلک قمر کے پیٹ میں ہیں۔ عناصر اربعہ (خاک ، آب و باد و آتش) اور ان کی طبیعتوں کا اور ان کے اپنی اپنی جگہ پرہونے کی وجہ کا بیان ہے۔ (۳)۔ وہ علم جن میں چیزوں کے ہونے اور بگڑ جانے اور چیزوں کی پیدائش ہونے اور بڑے ہونے اور بڈھے ہونے اور ایک چیز کو دوسری چیز میںبن جانے اور پچھتروں کے اثر میں جوآسمانوں کی شرقی و غربی حرکتوں کے سبب سے اشخاص کی خرابی پر ہوتے ہیں، بیان ہے۔ (۴) وہ علم جن میں ان باتوں کا بیان ہے جو عناصر اربع کے باھمی امتزاج سے ظاہر ہوتی ہیں اور ان کے سبب سے آثار بجلی کا گرنا، جھکڑیا ہو چلنا۔ بھونچال کا آنا ظہور میں آتا ہے۔ (۵) علم معدنیات (۶) علم نباتات (۷) علم حیوانات (۸) علم نفوس انسانی ، یعنی ان قوتوں کا بیان جن سے چیزوں کو دریافت کر سکتے ہیں اور یہ ک نفس انسانی بدن کے مر جانے سے نہیں مرتا اور وہ ایک جوہر روحا نی ہے۔ اس کو فنا نہیں ہوسکتی۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ یہ آٹھوں امور تو بطور اصول کے تھے اور ان کی فروعات سات ہیں۔ (۱) طب اور اس کا مقصد بدن کے مبادی کا اور اس کے احوال کا بلحاظ صحت اور مرض اور سا کے سببوں اور اس کی دلیلوں کا جاننا ہے۔ تاکہ مرض کودور کیاجائے اور صحت کی حفاظت ہو۔ (۲) احکام نجوم اوروہ ایک اٹکل ہے ستاروں کی شکلوں سے اور ان کے ملنے سے استدلال کرنے میںکہ دنیا اور ملک کا اور پیدائش کا اور سال کا حال کس طرح پر ہوگا۔ (۳) علم فراست (علم قیافہ) اور وہ استدلال کرنا ہے خلقی ھیئت سے اخلاق پر۔ (۴) تعبیر ، اور وہ استدلال کرنا ہے سونے کی حالت کے تخیلات سے جیسا کہ نفس نے اس کو عالم غیب میں دیکھا ہے اور قوت متخیلہ نے اس کو دوسری مثال میںمتخیل کر دیا ہے۔ (۵) علم طلسمات اور وہ آسمانوں کے قویٰ کو اجرام ارضی سے ملاتا ہے ، تاکہ اس ملانے سے عالم ارضی میں ایک عجیب و غریب کام کرے۔ (۶) علم نیر نجات ، اور وہ زمین کی متعدد خاصیت کی چیزوں کی قوتوں کا ملانا ہے۔ تاکہ اس سے کوئی عجیب چیز پیدا ہو جائے۔ (۷) علم کیمیا اور وہ معدنی چیزوں کے خواص کا تبدیل کرنا ہے، تاکہ اس سے سونا او ر چاندی بن جائے۔ اس کے بعد امام صاحب فرماتے ہیںکہ ان علوم کے کسی امر سے شرعاَ۔ لازم نہیں ہے۔ صرف چار مسئلے ان علموں کے ہیں جن میں ہم مخالفت کرتے ہیں۔ پہلا مسئلہ، حکماء کا یہ قرار دیتا ہے کہ دو چیزوں ، یعنی سبب او ر مسبب کا ملنا جو ظاہر میں دکھائی دیتا ہے، یہ ملنا لازمی اور ضروری ہے اور نہ تو یہ قدرت میںہے اور نہ امکان میںہے کہ سبب بغیر مسبب کے پیداہو اور مسبب بغیر سبب کے۔ دوسرا مسئلہ ۔ ان کا یہ قول ہے کہ نفوس انسانی مسقل چیزیں ہیں اور خود اپنے آپے سے موجود ہیں۔ جسم میں پیوستہ نہیں ہیں اور موت کے معنی بدن سے ان کا قطع ہوجانا ہے۔ مگر وہ بدستور ہر حال میں اپنے آپے سے موجود ہیں۔ تیسرا مسئلہ۔ ان کا یہ قول ہے کہ ان نفوس کا جب کہ وہ جسموں سے علیحدہ ہو جائیں تو پھر ان کا جسموں میں دوبارہ آنا محال ہے۔ ہم ان چاروں مسئلوں کی صحت و عدم صحت پر پھر کسی آرٹیکل میںبحث کریں گے، اس وقت یہ بتلاتا ہے کہ صرف یہی چار مسئلے نہیںہیں، بلکہ ان علوم کے اور بھی مسائل ہیں جو مذہب اسلام یا موجودہ مسائل اسلام کے برخلاف ہیں۔ علوم طبیعی تمام ان امور کے وقوع سے انکار کرتے ہیں جو مافوق الطبیعۃ ہیں اور یہی ایک مسئلہ ہے جو موجودہ مسائل مسلمہ اسلام کے کلیۃ برخلاف ہے جس سے تمام معجزات انبیائے علیہم السلام اور کرامات اولیاء ؓ سے انکار لازم آتا ہے۔ پس اس مسئلے کی تردید یاتوفیق اہل اسلام کو ضروری ہے۔ علوم طبیعی امکان محض کو حجت نہیں قرار دیتے جب تک کہ ان کا وقوع نہ محقق ہو اور اس سے تمام دلائل علم کلام کے ساقط ہوجاتے ہیں۔ علوم طبیعی تبدیل ماہیت اشیاء کے منکر محض ہیں اور لا تبدیل الخلق اللہ کے قائل ہیں، مگر موجودہ اصول اسلام اس کے برخلاف ہیں۔ علم نجوم۔ نہایت تعجب ہے کہ امام صاحب اس علم کی نسبت یہی تحریر فرماتے ہیں کہ اس سے مخالفت لازم نہیں ہے۔ حالانکہ اس علم کے مسائل کثیر ایسے ہیں جن کو اسلام غل اور جھوٹا بیان کرتا ہے۔ علم نجوم کے وہ مسائل جو حسابیات سے متعلق ہیں، مثل حرکات و اجتماع و تفرق کو اکب اور کسوف و خسوف جس کی تحقیق بذریعہ رصد کے کی گئی ہے اور جن کے حساب زائچوں اور تفویموں میں مندرج ہیں ، درحقیقت وہ مسائل نجوم نہیں ہیں، بلکہ مسائل حسا بیہ علم ہیئت ہیں جو اہل تنجیم کام میںلاتے ہیں اور اس حرکت اور اجتماع و تفرق سے جو نتائج آفاق میںپیدا ہوتے ہیں وہ بھی علم نجوم کے مسائل نہیں ہیں، بلکہ علم طبیعیات کے (جس میں نجوم داخل نہ ہو) مسائل محققہ ہیں ۔ اہل تنجیم ان مسائل کو بھی کام میںلاتے ہیں۔ علم نجوم خالص وہ علم ہے جس سے انسانوں کی قسمت ، ان کی زندگی و موت ، ان کی عمر ، ان کی بیماری و صحت ، ان کی آئندہ زندگی کے حالت ، دولت مندی و مفلسی وغیرہ کی پیشین گئی کی جاتی ہے۔ اوقات کی اور ایام کی سعادت و نحوست بتائی جاتی ہے۔ ہر ایک کام کے لیے ایک ساعت نیک سمجھتے ہیں جس میں اس کے کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اس کے سوا ساعات بد سمجھے جاتے ہیںجن میں اسی کام کے کرنے کو برا یا منحوس یا مثمر خلاف مراد سمجھا جاتا ہے۔ قبل وقوع کسی واقعے کے جو انسان سے متعلق ہے اس کے وقوع کی پیشین گوئی کی جاتی ہے ۔ پس درحقیقت اصلی علم نجوم یہ ہے جس کو عقل او ر مذہب اسلام جھوٹا اور باطل بناتا ہے۔ علم طلسمات۔ امام صاحب نے جس کو علم طلسمات قرار دیا ہے و ہ قدیم کہنہ ضالہ کا ہے کیسے قوائے آسمانی اور کیسا ان کو اجرام ارضی سے ملانا ، اس کا نام عرف عام میں جادو گری ہے جس کی نفرین عقلا او ر اسلاما ہر مسلمان کو لازم ہے ۔ تعجب ہے کہ امام صاحب لکھتے ہیں کہ اس علم سے شرعا مخالفت لازم نہیں ہے۔ مثل مشہور ہے کہ جادو برحق ہے۔ مگر کرنے والا کافر ہے۔ اس مثل کے پہلے جملے میںغلطی ہے۔ صحیح مثل یوں ہونی چاہیے کہ جادو غلط اور جھوٹ اور فریب ہے۔ مگر کرنے والا کافر ہے۔ علم کیمیا کی نسبت جو امام صاحب نے لکھا ہے۔ اس کی نسبت ہم کچھ لکھنا نہیں چاہتے۔ کیونکہ وہ اس علم سے بالکل ناواقف معلوم ہوتے ہیں اور سونا اور چاندی ہی بتانے کی دھن میںپڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ چہارم۔ علم الہیٰ یعنی الہیات۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ خود فلاسفہ کے مسائل الہیات میں اختلاف ہے۔ مگر ارسطا طالیس کا مذہب جیسا کہ فارابی اور ابن سینا نے بیان کیا ہیقریب تر مذہب اسلام کے ہے۔ صرف بیس مسئلوں میںغلطی ہے۔ تین مسئلے تو ایسے ہیں جن کے سبب سے ان کی تکفیر واجب ہے اور سترہ مسئلے تو ایسے ہیں جن کے سبب سے ان کی تکفیر واجب ہے۔ اور سترہ مسئلے ایسے ہیں جن کے سبب سے ان کو اہل بدع کہنا لازم ہے ۔ اس کتاب میں اما م صاحب نے صرف ان تین مسئلوں کا مختصر بیان کیا ہے اور وہ تین یہ ہیں۔ (۱) ان کا یہ کہنا کہ اجساد محشور نہیں ہونے کے اور ثواب یا عذاب روح مجردہ کو ہوگا اور عذاب روحانی ہوگا نہ جسمانی ۔ (۲) ان کا یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ کا کلیات کا علم ہے جزئیات کا علم نہیں ہے۔ (۳) ان کا یہ کہنا کہ عالم قدیم و ازلی ہے۔ باقی مسائل جو صفات کی تقریر و تفہیم سے متعلق ہیں یا ان کایہ کہنا کہ خدا اپنی ذات سے علیم ہے اور ذات سے زیادہ نہیں جانتا اور اسی طرح کے اور مسائل ہیں، ان مسائل میںان کا مذہب معتزلیوں کے مذہب کے قریب ہے اور معتزلیوں کی تکفیر واجب نہیں نہے۔ اس کی تفصیل کتاب التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ میںبیان ہوتی ہے۔ پنجم ۔ علم سیاست ۔ اس کی نسبت امام صاحب فرماتے ہیںکہ اس علم کے حکماء کا کلام مصلحت دنیوی سے اور سلطنت سے علاقہ رکھتا ہے اور انھوں نے اس کو کتب منزلہ من اللہ اور احکام ماثورہ اولیاء سے اخذ کیا ہے۔ اس بیان سے امام صاحب کا مقصد یہ ہے کہ اس علم میں بھی شرعاَ۔ مخالفت لازم نہیں ہے۔ مگر مجھ کو اس میں بھی کلام ہے۔ کیونکہ اگر ان تمام احکام کو، جو کتب فقہ میں مندرج ہیں احکام شرعی قرار دئے جائیں تو متعدد مسائل سیاست حکماء میں اور ان میں اختلاف بین ہے،پھر کیا وجہ ہے کہ شرعا ان کی مخالفت لازم نہ ہو۔ ششم۔ علم الاخلاق۔ اس کی نسبت بھی امام صاحب فرماتے ہیں کہ وہ صفات نفس اور اس کے اخلاق اور اس کی درستی اور مجاہدات سے متعلق ہے اور انھوں نے اس کو کلام صوفیہ کرام سے اخذ کیا ہے۔ یعنی اس کی بھی شرعاََ مخالفت لازم نہیں ہے۔ مگر اسمیںنہایت شبہ ہے کہ آیا حکماء نے وہ علم اور اس کا طریقہ صوفیائے کرام سے اختیار کیا ہے یا صوفیہ کرام نے حکمائے عظام سے ۔ علاہ اس کے وہ طریقہ اختیار کرنا اور اس طریقے سے تہذیب نفس اور صفات نفسانی کا حاصل کرنا مقصود شارع علیہ السلام ہے یا نیں اور مذاہب سے قطع نظر مقنضائے فطرت انسانی جس میں مرضضی الہی مضمر ہے سمجھا جا سکتا ہے یا نہیں۔ یہ ہیں خیالات امام غزالی ؒ کے اور انشاء اللہ تعالیٰ کسی وقت ہم ان مسائل پر بموجب اپنی تحقیق کے بحث کر یں گے ۔ واللہ المستعان۔ (۵) امام غزالی ؒ کے خیالات صراط اور میزان کے بارے میں (اخبار سرمور گزٹ ناہن، بابت ا۳۰ نومبر ۱۸۸۹ئ) امام صاحب اپنی کتاب الافتصا د فی الاعتقاد میں لکھتے ہیں ہیں کہ صراط حق ہے۔ اس کی تصدیق واجب ہے کیونکہ وہ ممکنات میں سے ہے اور وہ ایک پل ہے جہنم کے اوپر تنا ہوا۔ تمام لوگ اس کو دیکھیں گے۔ جب وہ اس پر پہنچیں گے تو فرشتے ان کو اس پر ٹھہرائیں گے، تاکہ ان سے سوالات کئے جائیں۔ اس کے بعد امام صاحب کہتے ہیں کہ اگر کہا جائے یہ کیونکر ہوسکتا ہے روایتوں میںآیا ہے کہ وہ تو بال سے باریک او رتلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہوہوگا ۔ پھر کس طرح اس پر سے جانا ممکن ہے۔ اس کے جواب میں امام صاحب فرماتے ہیں کہ اگر یہ بات ایسے شخص نے کہی ہے جو خدا کی قدرت کا منکر ہے تو اس کے مقابلے میں خدا کو ہر ایک امر پر قادر ہونا ثابت کیاجائے گا اور اگر وہ خدا کی قدرت عام کا قائل ہے تو یہ بات ہوا پر چلنے سے زیادہ عجیب نہیںہے۔ پھر خدا تعالیٰ ایسی قدرت کے پیدا کردینے میں قادر ہے جس سے مراد یہ ہے کہ خدا ہو ا میں ایسی قدرت پیدا کر سکتا ہے کہ اس پر لوگ چل سکیں اور نیچے کی ہوا میں نیچے کو دینا یا جھکنا نہ ہواور نہ ہوا میں پھٹ جانا رہے۔ پھر جب ہوا میںایسا کر دینا ممکن ہے تو صراط ، گو وہ کیسا ہی باریک ہو ہر طرح پر ہوا سے تو زیادہ مضبوط ہے (والعجب ثم العجب علیٰ ماقالہ الامام فی ہذا المقام) امام صاحب اپنی کتاب المضنون بہ علیٰ غیر اھلہ، یعنی المضنون الاخیر میںتحریر فرماتے ہیں کہ صراط پر ایمان لانا حق ہے اور یہ جو کہا گیا ہے کہ وہ بال کے مانند ہے تو بال کی باریکی کو بھی اس سے مناسبت نہیںہے جس طرح کہ خط مصطلحہ علم ہندسہ کی باریکی میںجو دھوپ او ر چھاؤں کے بیچ میںفاصل ہے بال کی باریکی کے مانند ہے جس میں مطلفا عرض، یعنی چوڑا ، پن نہیں ہوتا (مگر ایسے خط کے نزدیک صراط کابھی وجود ذاتی نہیں ہے؟) پھر امام صاحب فرماتے ہیں کہ صراط مستقیم سے مراد ہے اخلاق متضا دہ جو انسان میںہیں، ان میں توسطب حقیقی اختیار کرنا، مثلا سخاوت اور فضول خرچی میں اور شجاعت اور جاہلانہ بے رحمی اور بزدلی میں اور خرچ کرنے اور کنجوسی میں اور تواضع میں اور تکبر اور نالائق مزاج میں اور عفت اور شہوت رانی میں اور نامردی میں، یہ سب اخلاق متضادہ ہیں اور ان کے دوسرے ہیں ایک افراط ، دوسرا تفریط اور یہ دونوں مذموم ہیں اور دونوں سروں کا جو بیچا بیچ ہے وہ توسط ہے، کسی طرف مائل نہیںہے۔ نہ زیادتی کی طرف، نہ کسی کی طرف، جیسے کہ وہ خط جو دھوپ اور چھاؤں میں فاصل ہے ، نہ تو اس کو دھوپ میں کہہ سکتے ہیں نہ چھاؤں میں۔ پھر امام صاحب فرماتے ہیں کہ انسان کا کما ل یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے فرشتوں کی مشابہت پیدا کرے جن میں اوصاف متضادہ جیسے کہ انسان میں ہیںنہیںہیں۔ انسان ان اوصاف سے بالکلیہ علیحدہ نہیں ہوسکتا اس لیے اس کو حکم ہوا ہے کہ ایسا طریقہ اختیار کرے جو ان اوصاف سے علیحدہ ہوجانے کے مشابہ ہو، گو کہ حقیقت میںعلیحدہ ہوجانا نہ ہو اور وہ توسط ہے، جیسے کہ سمو یا ہوا پانی کہ نہ گرم ہے نہ سرد اور عود کا رنگ کہ نہ سفید ہے اور نہ سیاہ، کنجوسی اور فضول خرچی۔ انسان کی دو صفتیں ہیں اور سخاوت اس میں توسط کادرجہ رکھتی ہے جس میں نہ کنجوسی ہے اور نہ فضول خرچی ۔ پس صراط مستقیم وہ توسط حقیقی ہے جو بال سے بھی زیادہ باریک ہے اور جو شخص کہ ان صفات متضادہ کے دونوں سروں سے بیچا بیچ میں ہوگا۔ مثلا ایک لوہے کے حلقے کو آگ میں لال کر کے رکھیں اور اس میں ایک چیونٹی کو ڈال دیں تو وہ اس کی گرمی سے بھاگے گی اور جو جگہ سب سے دور ہوگی وہاں ٹھہرے گی۔ پس بجز مرکز کے اس کو اور کوئی جگہ نہیںملنے کی اور وہی مرکز وسط حقیقی ہے کیونکہ اسی کو ہر طرف سے نہایت درجہ بعد اور اور اس مرکز یا نقطے کا مطلق عرض نہیں ہے۔ پس صراط مستقیم وہ ہی وسط ہے، دونوںسروں سے اور اس وسط کا مطلق عرض نہیں ہے اور وہ بال سے بھی زیادہ باریک ہے۔ پھر جب خدا تعالیٰ قیامت میں اس صراط مستقیم کو متمثل کر دے گا تو جو کوئی اس دنیا میں صراط مستقیم پر ہوگا (یعنی اس نے صفت متضادہ انسانی کے استعمال میںحتی المقدور توسط اختیار کیا ہوگا اور کسی جانب مائل نہ ہوا ہوگا) تو صراط آخرت پر بھی سیدھا چلا جائے گا ۔ امام صاحب کی دونوں تحریروں میں اختلاف یا پچھلی میںابہام ہے۔ جس کچھ انھوں نے کتاب اقتصاد میںلکھا ہے اس سے پایا جانا ہے کہ وہ صراط آخرت کو ایک شے مجسم دوزخ پر تنی ہوئی تسلیم کرتے ہیں اور کتاب المضنون میںجو لکھا ہے اس سے صرف صراط مستقیم کا جو ایک مفہوم ہے جس کا متمثل ہوجانا بیان کیا ہے۔ کما قال فاذا مثل اللہ تعالیٰ العبادہ فی القیامۃ ہذا الصراط المستقیم الخ تو یہ نہیں بتایا کہ وہ روحانی ہوگا تو اس پر سے گذرنے کے کیا معنی ہوں گے وھذا ابھام ا وفرار من اظہار الحقیقۃ ۔ فتدبر۔ المیزان امام صاحب نے اپنی کتاب الاقتصاد فی الاعتقاد میں لکھا ہے کہ میزان حق ہے اور اس پر تصدیق واجب ہے۔ وہ لکھتے ہیںل کہ اگر کوئی کہے کہ اعمال توعرض ہیں ، یعنی جس شخص نے کئے تھے اس کے ساتھ تھے۔ جب وہ نہ رہا تو وہ بھی معدوم ہوگئے اور جو چیز کہ معدوم ہوگئی وہ کیونکر تولی جائیگی اور نہ وہ اعمال جسم میزان میں ، یعنی اس کے پلڑوں میںپیدا ہوسکتے ہیں ۔ اس کا جواب امام صاحب یہ دیتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ سے یہ بات پوچھی گئی تھی ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ اعمال کے لکھے ہوئے چھٹے لیجائیںگے ۔ کیونکہ کراما کاتبین ہر ایک انسان کے اعمال کا چٹھا لکھتے جاتے ہیں اور وہ مجسم چیز ہے۔ پھرجب ان چٹھوں کو میزان میںرکھ دیں گے تو خدا تعالیٰ اس کے پلڑوں میں ہلکا پن یا بھاری پن اعمال کے رتبے کے موافق پیدا کر دے گا اوروہ ہر چیز پر قادر ہے۔ پھر امام صاحب کہتے ہیں کہ اگرکوئی پوچھے کہ اس طرح اعمال کے تولنے سے کیا فائدہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کے کاموں میںیہ سوال نہیں ہو سکتا ۔ لا یسئل عما یفعل وھم یسئلون۔ اس کے بعد ایک یہ فائدہ بیان کرتے ہیں کہ اعمال کے تولے جانے سے بندہ اپنے اعمال کی مقدار جان لے گا ۔ اس کو معلوم ہوگا کہ اس کے ساتھ عدل ہوا ہے یا اپنی مہربانی سے خدا نے اس کے گناہوں سے در گذر کیا۔ لیکن امام صاحب اس بات کو بھول گئے کہ ہر گاہ انھوں نے فرمایا ہے کہ اعمال کا وزن ، یعی میزان کے پلڑوں میں ہلکا پن یا بھائی پن خدا تعالیٰ اعمال کے رتبے کے موافق پیدا کر دے گا تو بندے کو کیونکر ظاہر ہو گا کہ وہ وزن ٹھیک ٹھیک پیدا کر دیا ہے اور جب یہ ظاہر نہ ہوا تو جو فائدہ امام صاحب نے بیان کیا ہے وہ باطل ہوجاتا ہے۔ پھر امام صاحب نے اپنی کتاب المضنون بہ علیٰ غیر اھلہ یعنی المضنون الاخیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ میزان پر ایمان لاناواجب ہے۔ جب کہ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ نفس انسانی جوہر ہے جو اپنے آپے سے قائم ہے اور جسم کا محتاج نہیںہے تو وہ خود اس بات کے لیے تیار ہے کہ حقائق امور اور جو تعلق اس کو جسد سے تھا وہ اس پر منکشف ہوجائے اور جو کچھ اس پر منکشف ہوگا اس کے اعمال کی تاثیر ہوگی بلحاظ قرب و بعد ذات باری کے اور خدا کی قدرت میں ہے کہ کوئی ایسی راہ نکالے جس سے ایک لحظے میں تمام خلق اپنے اعمال کی مقدار اور اس کی تاثیر دریافت کر لے۔ بعد اس کے امام صاحب فرماتے ہیں کہ میزان حقیقت میں اس چیز کا نام ہے جس سے کسی شیئی کی کمی یا زیادتی معلوم ہو، مثلا اس دنیا میں ثقیل چیزوں کے تولنے کے لیے پلڑے دار ترازوہے۔ آسمانوں کی حرکت اور وقت دریافت کرنے کی میزان ، یعنی ترازو اصطر لاب ہے۔ یعنی میزان الشمس ، یعنی آفات کی ترازو اور سطروں کے اندازے کی ترازو مسطر ہے اور حرفوں کی تعداد اور حرکات ، یعنی اشعار کی میزان، یعنی ترازو علم عروض ہے اور آواز کی حرکات ، یعنی گانے کی ترازو علم موسیقی ہے۔ پس خدا کو اختیار ہے کہ اعمال کے اندازے کے طریقے کو متمچل کر دے جس سے زیادتی و کمی اعمال کی معلوم ہو اور اس کی صورت محسوس موجود ہو یا صرف خیال میں تمثیل ہو اور خد کو معلوم ہے کہ وہ اس کی ایسی صورت پیدا کر ے گا جو محسوس ہو یا ایسی کرے گا جو تمثیل خیال ہو۔ فقط۔ ان دونوں کتابوں میںجو کچھ امام صاحب نے لکھا ہے اور اس میں جو تخالف ہے وہ ظاہر ہے۔ کتاب اقتصاد سے پایا جاتا ہے کہ وہ میزان کے جسمانی ہونے کے قائل ہیں اور کتاب المضنون میں صرف اس کی تمثیل کے قائل ہیں ، خواہ وہ محسوس ہو یا خیالی ہو۔ مع ھذا کسی مقام پر نہیں بیان کرتے کہ تمثیل سے یا تمثیل روحانی سے باہر ایک چیز کی روحانیت کے موجود ہونے سے کیا مراد ہے ۔ شاید اھل مکاشفہ کو اس کی حقیقت منکشف ہوئی ہو۔ مگر خدا کی بے انتہا خلقت ہے اور ان کو مکاشفہ نہیں ہے ان کو بھی تو کچھ سمجھانا چاہیے۔ علاوہ اس کے جب انھوںنے کتاب المضنون میں میزان کا متمثل ہونا محسوسی یا خیالی قرار دیا تو یہ بھی بتانا تھا کہ اس صورت میں اعمال کے چٹھوں کا جو کراما کاتبین لکھتے تھے کیا حال ہوگا۔ وہ تو مجسم تھے وہ کس پر دھرے جائیںگے؟ ان دو امور کی نسبت اس زمانے کے فلاسفہ الہین کی بھی کچھ تحقیق ہے جو ذیل میں مندرج ہے: ۔ واما مذھب بعض الفلاسفۃ الا لہین فی ھذا الزمان ھذا (ان امور کے بار ے میںموجودہ زمانے کے بعض فلاسفہ الہین کا مذہب) مذھبھم فی الصراط (صراط کے بارے میںان کا مذھب) وہ کہتے ہیں کہ صراط آخرت حق ہے اور ہر شخص کو اس کا طے کرنا ضروری ہے ۔ مگر اس کے اوصاف کہ وہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے اور دوزخ کے اوپر تنا ہوا ہے، نہ قرآن مجید میں مذکور ہیں اور نہ کسی حدیث قابل الوثوق سے پائے جاتے ہیں۔ قرآن مجید میںلفظ صراط آیا ہے اور بعض احادیث احاد میںبھی جہاں واقعات قیات مذکور ہیں صراط کا لفظ آیا ہے۔ پس ان کا قول یہ ہے کہ جن معنوں میںقرآن مجید میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس کے وی معنی ان حدیثوں میںبھی مراد ہیں۔ خود خدا نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی ہے۔ اھدنا الصراط المستقیم ۔ صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین۔ اور پیغمبر (ﷺ) کو کہاہے: ۔ وانک لتھدی الیٰ صراط مستقیم۔ پھر فرمایا: ھذا صراط ربک مستقیما۔ حضرت عیسیٰ کی زبان سے فرمایا ہے: ۔ ان اللہ ربی وربکم فاعبدوہ ھذا صراط مستقیم۔ اور تمام نبی آدم کو فرمایا ہے: ۔ وان اعبدونی ھذا صراط مستقیم۔ واللہ یھدی من یشاء الی صراط مسقیم۔ وممن یعتصم باللہ نقد ھدی الی صراط مستقیم ۔ قل اننی ھدانی ربی الی صراط مستقیم۔ افمن یمشی مکبا علیٰ وجھہ اھدیٰ امن یمشی سو یا علی صراط مستقیم۔ قل کل متربص فتربصموا فستعلمون من اصحاب الصرط السوی ومن اھتدی۔ وان الذین لایومنون بالاخرۃ عن الصراط لنا کبون۔ پس جن لوگوں نے کہ دنیا میں شرک نہیں کیا اور صرف خدائے وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی ہے وہ قیامت میں بھی صراط مستقیم پر ہوںگے ۔ اس حالت کا جس کو خدا تعالیٰ نے صراط سے تعبیر کیا ہے، ھر شخص کو اس کا طے کرنا یا یوں کہو کہ ہر شخص پر اس حالت کا گذرنا لازمی ہے۔ خواہ شامت اعمال سے کبڑا اور ندامت زدہ ہو یا خوش نصیبی اور اعمال نیک علی الخصوص خدا کی توحید اور اسی کی عبادت میں پکا ہونے سے سر بلند اور خوش حال ہو۔ اس کی طرف خدا نے اشارہ کیا ہے جہاں فرمایا ہے:۔ افمن یمشی مکبا علیٰ وجھہ اھدی امن یمشی سو یاعلیٰ صراط مستقیم۔ یعنی کیا وہ شخص جو کبڑا ہو کر منہ جھکائے چلتا ہے زیادہ ہدایت پر ہے یا وہ شخص جو سیدھاہو کر سیدھے رستے پر چلتا ہے۔ صراط سے کوئی حقیقی اور ظاہری مجسم شے مراد نہیں ہے ، بلکہ اس طریقے کو جو اس نے اختیار کیا ہے یا اس کی حالت کو صراط مستقیم سے تعبیر کیا ہے ، ترمذی میں دو حدیثیں ہیں، ایک کتاب میںیہ الفاظ ہیں کہ شعار المومن علی الصراط اب سلم۔ اس حدیث کو اور اس کے الفاظ کو کچھ خصوصیت صراط آخرت سے نہیں ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت نے فرمایا میںتین مقاموں میں سے کسی مقام میںملوں گا علی الصراط عند المیزا ، عند الحوض، مگر خود ترمرمذی نے پہلی حدیث کو غریب اور دوسری حدیث کو حسن غریب لکھا ہے۔ مشکواۃ میں ابو داؤد سے جو حدیث حضرت عائشہ ؓ کی نقل کی ہے اس میں الفاظ عندالمیزان ، عندالکتاب ، عندا الصراط بجائے علی الصراط کے آئے ہیں۔ اس کے بعد یہ الفاظ ہیں کہ اذا وضع بین ظھری جھنم اور نہیں معلوم ہو تا کہ یہ الفاظ خود راوی کے ہیں یا حدیث رسول اللہ کے۔ معہذا یہ دونوں حدیثیں آپس میںمختلف ہیں۔ ابو داؤد کی حدیث کا یہ مدعا ہے کہ آنحضرت ان مقاموں میں ملیں گے اور ملنے والے کو پہچانیںگے اور حضرت عائشہؓ کی حدیث میں صاف یہ ہے کہ ان مقاموں میںلا یذکر احد احدا۔ غرض کہ صراط آخرت اس حالت کی تعبیر ہے جو آخرت میں گزرے گی۔ جو لوگ اس دنیا میں صراط مستقیم پر چلنے والے ہیں صراط آخرت کو بھی کالبرق الخاطف طے کر جائیں گے ۔ جو اس دنیا میں صراط مستقیم سے ڈگمگا جانے والے ہیں وہ صراط آخرت پر بھی ڈگمگا جائیں گے اور جہنم میں گرپڑیں گے واما الالفاظ الواردۃ فی القرآن والا حادیث انما ورد علیٰ ما یناسبہ لفظ الصراط کالمشی والنکو ب و غیر ھما ۔ مذھبھم فی المیزان (میزان کے بار ے میں ان کا مذہب) وہ میزان کو ، یعنی اس کو جس سے اعمال کا اندازہ ہوسکے اعمال کے وزنم یعنی اندازہ ہونے پر یقین کرتے ہیں کما قال اللہ تعالیٰ۔ والوزن یو مئذن الحق فمن ثقلت موازینہ فاولئک ھم المفلحون و من خفت موازینہ فاولئک الذین خسرو وا انفسھم بما کا نو ا با یتنا یظلمون۔ ونضع الموازین القسط لیوم القیمۃ فلا تظلم نفس شیئا وان کان مثقال حبۃ من خر دل اتینا بھا وکفیٰ بنا حاسبین ۔ فمن ثقلت موازینہ فاؤلئک ھم المفلحون۔ ومن خفت موازینہ فاؤلئک الذین خسرو ا انفسھم فی جھنم خالدون۔ فاما من ثقلت موازینہ فھو فی عیشۃ راضیہ۔ واما من خفت موازینہ فا مہ ھاویہ۔ اولئکالذین کفرا با یات ربھم ولقا ئہ فحبطت اعمالھم فلا نقیم لھم یوم القیامۃ و زنا۔ قرآن مجید میں اور جگہ میزان کا لفظ آیا ہے اور اس سے آلہ معروف وزن کشی بقا لان و صرافان مراد نہیںہے ۔ سورۃ شوریٰ میں فرمایا ہے: ۔ اللہ الذی انزل الکتاب بالحق والمیزان وما یدریک لعل الساعۃ قریب۔ اور سورۃ حدید میں فرمایا ہے:۔ والقد ارسلنا بالبینات وانزلنا ، معھم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط۔ پس کوئی شخص یقین نہیںکرتا کہ سوائے کتاب اللہ کے کوئی ترازو ۔ یعنی آلہ معروف وزن کشی بھی خدا کے ہاں سے اتری تھی ۔ پس قیامت میں خدا تعالیٰ اپنے علم کامل ازلی و ابدی کے اور عالم کلیات و جزئیات کے ہونے سے اپنی اس صفت عدل سے جو اس میں ازلی و ابدی ہے ہر ایک کے اعمال نیک و بد کی مقدار ان پر ظاہر کر دے گا۔ پاس اسی صفت عدل کو میزان و زن اعمال سے تعبیر کیا ہے ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے نہایت صاف طور پر سورۃ انبیاء میں فرمایاہے:۔ ونضع الموازین القسط یعنی ہم رکھیں گے ترازو عدل کی۔ عدل کی ترازو کیا ہے، وہی عدل ہے کما بقال الموازین ھوا لعدل ، المیزان ھوالعدل (۱) ہم کو معلوم نہیں کہ اس زمانے کے فلاسفہ الہین کی بھی تکفیر واجب ہے یا نہیں ، مگر بے شک ان کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفت عدل کو میزان سے تعبیر کیا ہے اور اظہار عدل، یعنی اظہار نتیجہ اعمال کو وزن اعمال سے۔ او ر وہ ان حدیثوں کو صحیح نہیں مانتے جن میں میزان کے پلڑوں اور ڈنڈی کے ہونے کا اور اعمال کے چٹھوں کا ان پلڑوں میںرکھ کر تولے جانے کا لکھا ہے۔ وھم یحلفون باللہ علیٰ یقینھم ان الالفاظ الواردۃ فی ذالک الروایات لیس الفاظ النبی ﷺ بل من توھمات الرواۃ اوانھم فسرو المیکزان مافی اوھامھم او تفھیماللناس واللہ اعلم لکنھہ۔ ہذا ما الھمنی ربی۔ والحمد اللہ علی ذالک۔ (۱) المیزان معروف والعدل والمقدار و وازنہ عادلہ ۲ قاموس (۶) معرفت ذات اللہ کے بارے میں امام غزالی ؒ کے خیالات (جو انھوں نے اپنی کتاب المضنون بہ علیٰ اھلہ میں ظاہر کئے ہیں) (اخبار سرمور گزٹ ناھن بابت ۲۳ ۔دسمبر ۱۸۸۹ ئ) امام صاحب فرماتے ہیں کہ جو چیز کہ ہے اور اس کا ہونا کسی دوسری چیز سے اس طرح پر کہ اگر وہ ہو تو یہ بھی ہو اور اگر وہ نہ ہو تو یہ بھی نہ ہو یا تعلق رکھتا ہے یا نہیںرکھتا ، اگر ایسا تعلق رکھتاہے تو اس کو امام صاحب ممکن کہتے ہیں اور اگر ایسا تعلق نہیں رکھتا تو اس کو امام صاحب واجب بذاتہ کہتے ہیں ۔ پھر ان کا قول ہے کہ واجب میںبارہ چیزیں ہونی ضرور ہیں۔ (۱) وہ عرض ہو۔ یعنی اس کا ہونا دوسرے کے ہونے پر موقوف نہ ہو۔ (۲) وہ جسم نہ ہو، کیونکہ اگر جسم ہوگا تو بہت سے جزوں سے مل کر ہوگا اور اس کا ہونا اس کے جزوں سے ایسا تعلق رکھتا ہوگا کہ اگر جزو ہوںتو وہ بھی ہو اور جزو نہ ہوں تو وہ بھی نہ ہو۔ (۳) وہ کوئی صورت ، یعنی شکل بھی نہ رکھتا ہو، کیونکہ شکل کوھیولیٰ سے ایسا تعلق ہوتا ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو شکل بھی نہ ہوگی اور وہ ھیولیٰ کی مانند بھی نہ ہوگا، کیونکہ ھیولیٰ صورت، یعنی شکل کے ساتھ ہوتا ہے کہ اگر صورت نہ ہو تو ھیولیٰ بھی موجود نہیں ہوتا۔ امام صاحب کے مذکورہ بالا کلام میںھیولیٰ او ر صورت کا لفظ آیا ہے ۔ فلسفے کی کتابوں میںھیولیٰ اور صورت کی بحث کو اس قدر بڑھا دیا ہے کہ ان کے پڑھنے او ر سمجھنے سے جی اکتا جاتا ہے۔ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ مختصر طور پر اس کو یہاں بیان کر دیں۔ جسم دو چیزوں سے مرکب ہے۔ ایک مادے سے دوسرے صورت سے ۔ صورت مادے کے اتصال یعنی اکٹھا ہو نے مادے کے ٹکڑے کر دو جس کو فلاسفہ انفصال کہتے ہیں یا اور طرح پر توڑ مروڑ دو تو دوسری صورت پیدا ہوجاتی ہے، پاس سی مادے کا نام ھیولیٰ ہے اور اس کے اتصال کا نام صورت ہے اورچونکہ اتصال یا انفصال کا محل وہی مادہ ہے۔ پس مادہ بغیر صورت کے نہیں ہوتا اور صورت بغیر مادے کے نہیں ہوتی۔ (۴) وہ ایسا بھی نہ ہوا کہ اس کا وجوداس کی ماہیت سے مغایر ہو۔ بلکہ اس کا وجود ہی اس کی ماہیت اور اس کی ماہیت ہی اس کا وجود ہو۔ امام صاحب کے اس کلام کی تشریح یہ ہے کہ علم فلسفہ میںیہ بات ٹھہر گئی ہے کہ جس قدر ممکنات ،یعنی مخلوق پیدا کی گئی ہیں ان کا وجود جس کا نام فلاسفہ انیہ رکھتے ہیں۔ جدا چیز ہے اور ان کی ماہیت جداچیز ہے ۔ مگر واجب الوجود میں ایسا نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ اس کی انیۃ اور ماہیۃ دونوں کا متحد ہونا لازم ہے۔ (۵) اس کا تعلق کسی دوسری چیز کے ساتھ اس طرح پر نہ ہو کہ ویسا ہی تعلق اس چیز کو بھی اس کے ساتھ ہو۔ واضح ہو کہ یہ مسئلہ جو امام صاحب نے بیان کیا ہے بہت صاف ہے۔ مگر پیچیدہ لفظوں میںبیان کیا جاتا ہے ۔ مطلب ہے کہ خدا کو اپنی مخلوق کے ساتھ اور مخلوق کو خدا کے ساتھ ایک تعلق تو ہے مگر جس طرح کا تعلق خدا کومخلوق کے ساتھ اس طرح کا تعلق مخلوق کو خدا کے ساتھ نہیںہے ، کیونکہ خدا کو تو تعلق خالق ہونے کا یا یوں کہو کہ علت ہونے کا ہے اور مخلوق کو تعلق مخلوق ہونے یا یوں کہو کہ معلول ہونے کا ہے ۔ پس دونوں کا تعلق ایک طرح کا نہیںہے ۔ (۶) اس کا تعلق کسی دوسرے کے ساتھ نسبتی تعلق نہ ہو جس کو فلاسفہ کی اصطلاح میں ’’تصانیف‘‘ کہتے ہیں جیسے کہ دو پہاڑوں میں نسبت ہوتی ہے کہ ایک کا بھائی ہونا دوسرے پر اور دوسرے کابھائی ہونا اس پر منحصر ہوتا ہے۔ (۷) دو ایسے وجودوںکاہونا جو دونوں واجب الوجود ہوں اور ہر ایک جدا جدا فی نفسہ مستقل ہو اور ایک کو دوسرے سے کچھ علاقہ نہ ہو ناجائز ، یعنی محال ہے ولا شک ان اللہ واحد احد صمد لا شریک لہ ولا ند۔ (۸) کوئی صفت واجب الوجود کی ذات پر زائد نہیںہے ، یعنی اس صفت سے اس کی ذات پر کچھ زیادتی نہیں ہوتی۔ امام صاحب کایہ قول اس مسئلے میں مشتبہ ہے کہ آیا وہ ذات و صفات باری کی عینیت کے قائل ہیںیا نہیں، کیونکہ وہ ایک جگہ اسی کتاب میںفرماتے ہیں کہ ان علمہ بذاتہ لیس زائد علی ذاتہ حتیٰ یوجب کثیرۃ بل ہو ذاتہ، یعنی واجب الوجود کاعلم اپنی ذات پر اسکی ذات پرکوئی زیادتی نہیں ہے ۔ بلکہ وہ اس کی ذات ہی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوںنے معلوم کی حیثیت سے کہا ، کہ بل ہو ذاتہ، مگر جن کو ہم کو اس زمانے کے فلاسفہ الہین سے تعبیر کرتے ہیں وہ ذات وہ صفات باری کی عینیت کے قائل ہیں۔ (۹) واجب الوجود میںتغیر محال ہے ، کیونکہ تغیر کے لیے کسی نئی چیز کا پیدا ہونا ضرور ہے اور اگرواجب الوجود میں کوئی نئی چیز پیدا ہو تو وہ اس کے پیدا ہونے کے سبب کا محتاج ہوگا اور اس کی ذات اس کا سبب نہیںہوسکتی ، کیونککہ وہ تو پہلے ہی سے تھی ۔ پس اس کی ذات کے سوا کوئی دوسری چیز ہوگی اور جب واجب الوجود کسی دوسری چیز کا محتاج ہوا تو وہ واجب الوجود نہ رہا۔ (۱۰) واجب الوجود سے بجز ایک کام کے اور کوئی کام بغیر واسطے کے نہیں ہو سکتا۔ اما م صاحب نے اس مقام پر اس مسئلے کو اس طرح لکھا ہے کہ گویا ان کے نزدیک یہ مسئلہ محققہ ہے۔ فلاسفہ بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ الواحد لا یصد ر منہ الاشیئی واحد لغیر واسطۃ وانما یصدر منہ اشیاء کثیرۃ علی الترتیب بوستائطہ۔ مگر ہم جن کو اس زمانے کے فلاسفہ الہییین سے تعبیر کرتے ہیں وہ اس مسئلہ کو نہیں ما نتے ، فلاسفہ اور علماء متکلمین او ر صوفیہ کرام سب نے اس مسئلے کو تائید یا تردید میںبحثیں کی ہیںمگر ان لوگوں کا خیال جن کو ہم اس زمانے کے فلاسفہ الہین سے تعبیر کرتے ہیں اس مسئلہ کوعدم تسلیم میں ان سب سے جدا ہے اور ہم اس مقام پر اس کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں۔ اخذ کئے گئے ہیں، مثلا ہم ایک چیز کو موجود دیکھتے ہیںاور اس کا موجود نہ ہونا اس کے برخلاف سمجھتے ہیں اور اس مسئلہ علقلی کو اس سے اخذ کرتے ہیں کہ یہ بات نہیں ہوسکتی کہ کوئی چیز آن واحد میں اور حیثیت واحد میں موجود بھی ہو اور معدوم بھی ہو۔ یا مثلا ہم نے ایک چیز کودیکھا اور دو چیزوں کوبھی دیکھا ، ان کو مغایر پایا ۔ ان سے یہ عقلی مسئلہ اخذ کیا کہ ایک دو نہیں ہوسکتا اور دو ایک نہیں ہوسکتے ۔ اب ایک مفہو م وحدت اور تعدد کا ہمارے خیال میں آیا اور ہم اس طرف کو گئے کہ وہ شے واحد جس کو ہم نے صورتا ایک ماناتھا اپنے وجود میںبھی ایک ہے یا متعدد ، یعنی مرکب اور اس امر نے ہمارے دل میں ایک خیا ل بسیط و مرکب ہونے کا پیدا کیا اور اس کے ساتھ ہمارے خیال وحدت کو ترقی ہوئی کہ جس شے کو ہم نے واحد فی الوجود قرار دیاتھا وہ واحد فی العا ھیۃ یا واحد فی الانانیۃ بھی ہے یا نہیں۔ ہم نے بہت سی واحد فی الصورۃ کو آن واحد میں متعدد کام کرتے ہوئے دیکھا ، مثلا ایک آدمی ہے کہ وہ آن واحد میں چلتا بھی ہے ، بولتا بھی ہے ، سنتا بھی ہے ، پکڑتا بھی ہے ، مگر ہم نے دیکھا کہ اس میں متعدد اجزاء ہیں جن سے وہ یہ سب کام کرتا ہے توہم ، یہ مسئلہ عقلی اخذ کیا کہ جس کے وجود یعنی انا نیۃ میں ترکیب ہے اس سے آن واحد میںمتعدد کاموں کا ہونا ممکن ہے ۔ اسی کے مقابل میںایک یہ مسئلہ عقلی ہمارے خیال میں آیا کہ جس کی انانیۃ میںوحدت محض من جمیع الوجود ہے اس سے بجز ایک فعل، یعنی ایک کام کے اور کوئی کام بغیر واسطہ صادر نہیں ہوسکتا۔ واجب الوجود ،یعنی ذات باری کو فلاسفہ متقدمین الہین نے اور علماء علم کلام اور صوفیہ کرام نے اور نیز ان لوگوں نے جن کو ہم اس زمانے کے فلاسفہ الہین سے تعبیر کرتے ہیں اس کو یا یوں کہو کہ اس کی انانیۃ کو واحد محض مانا ہے (وھو الحق) اور فلاسفہ متقدمین الہین نے یا انھوں نے جو اس مسئلے کو تسلیم کرتے ہیں اپنے اسی خیال عقلی سے جو انھوں نے محسوسات سے اخذ کیا تھا یہ قرار دیا کہ واجب الوجود سے بجز ایک کام کے او رکوئی کام بغیر واسطے کے صادر نہیں ہوسکتا ، مگر اس ز مانہ کے فلاسفہ الہین نے جن کے خیال یا مذہب سے ہم کو اس مقام پر بحث ہے، اس سے انکار کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے واجب الوجود کو ایک ایسی ذات یا انانیۃ مانا ہے جو جامع جمیع صفات ہے اور اس کی تمام صفات اس کی عین ذات ہیں اور نہ وہ اپنی انانیۃ میںکسی کامحتاج ہے اور نہ اپنے ہونے میںکسی کا محتاج ہے ، نہ اپنی صفات میںان صفات کا محتاج ہے،کیونکہ اس کی صفات اس کی عین ذات ہے ، اس کی ذات غیر محدود ازلی و ابدی ہے ۔ نہ اس کی انانیۃ کے لیے مادہ ہے نہ صورت نہ حیز نہ سمت نہ مکان نہ زمان اور نہ وہ محسوس ہے اور پھر ہمارے تمام پوشیدہ خیالوں سے بذات خود بلا واسطہ واقف ہے۔ پس ایسی ذات کو بجز اس کے کہ ہے کیونکہ اس کا واجب الوجود ہونا تسلیم کیا گیا ہے ، کسی ایسے حکم کا محکوم جو محسوسات سے بمرتبہ اول یا بواسطہ مراتب متعددہ اخذ کیا گیا ہے قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مثلا ہم نے اور اکثر فلاسفہ نے اور تمام صوفیاء کرام نے تسلیم کیا ہے کہ خدا ہی تھا اور خدا کے ساتھ کوئی چیز نہ تھی(کان اللہ ولم معہ شیئی) مسلمہ مسئلہ ہے ، کیونکہ اگر کوئی چیز ہوتی تو وہ بھی مثل خدا کے واجب الوجود ہوتی اور بالفرض اگرہوتی تو بھی کچھ فائدہ نہ دیتی ۔ پس اس سے کسی ایک فعل کا صادر ہونا بھی ایسا ہی محال ہے جیسا کہ متعدد فعلوںکا، کیونکہ ایسی ذات سے کسی ایسی ایک مخلوق کابھی ، خواہ وہ عقل اول ہو یا عماء پیدا کرنا محال ہے جو نہ اس کی عین ہو اور اس کی جزو ، مگر برخلاف اس کے ہم بے انتہا اور مختلف اجناس و انواع کی مخلوق کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیںکہ کان اللہ ولم یکن معہ شیئی لکنہ خلق الخلق ولا نعلم کیف خلق۔ پس اس کے افعال صادرہ اولیہ پر بقیاس ایسی چیزوں کے جو اس کی ماہیۃو انا نیۃ اور اس کی صفات کی غیر ہیں کوئی حکم تفصیلی نفیا و اثباتا صادر نہیں کر سکتے کیونکہ وہ قیاس صحیح نہیں ہے ، بلکہ قیاس مع الفارق ہے اور کہتے ہیں کہ فلاسفہ کا یہ مسئلہ کہ الواحد لا یصدر منہ شیئی واحد نسبت واجب الوجود کے قیاس غلط پرمبنی ہے والحق انہ مرید فعال مطلقا بل ھو مطلق ایضا عن قید الاطلاق فاذا اراد شیئاََ ان یقول لہ کن فیکون وھذا اعتقادی و مذہبی و دیدنی و انی اسئل اللہ تعالیٰ ان یکون خاتمتی و خاتمۃ من احبہ علیٰ ذالک و نصلی علیٰ رسو لہ الکریم۔ (۱۱) امام صاحب فرماتے ہیں کہ واجب الوجود کو جس طرح عرض نہیں کہا جا تا اسی طرح اس کو موافق اس اصطلاح کے فلاسفہ نے مقررکی، جوہر بھی نہیں کہا جا سکتا ، کیونکہ جوہر کا اطلاق ایک حقیقت و ماہیت پر کیا جاتا ہے اور اس میں شبہ رہتا ہے کہ وہ فی الحال موجود ہے یا نہیں اور جب اس کو وجود اعراض ہوتا ہے تو وہ لامکان میںعارض ہوتا ہے۔ نتیجہ اسکا یہ ہے کہ اس کی ماہیت اس کی انیۃ سے جدا ہو تی ہے اور جس کی ماہیۃ اور انیۃ واحد ہو تو اس پر جوہر کااطلاق نہیں ہو سکتا اور اس لیے واجب الوجود پر بھی جوہر کااطلاق نہیں ہوسکتا۔ پھر امام صاحب فرماتے ہیں کہ اگر اس اسطلاح کو تبدیل کرکے نئی اصطلاح بنائی جائے کہ جوہر سے مراد ایک موجود سے ہے جس کے لیے کوئی محل نہ ہو تو جوہر کا اطلاق واجب الوجود پر ہو سکتا ہے۔ (۱۲) امام صاحب فرماتے ہیں کہ جو کچھ سوائے واجب الوجود کے ہے ، وہ واجب الوجود سے صادر ہوا ہے علی الترتیب۔ امام صاحب کے اس قول میںایک تو یہ سوال باقی رہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب سوائے واجب الوجود کے کوئی چیز اس کے ساتھ نہ تھی تو جن چیزوں پر سوائے واجب الوجود کااطلاق کیا جاتا ہے ، وہ کیونکر اس سے صادر ہوئیں، کیونکہ وہ چیزیں نہ اس کا عین ہیں نہ اس کے جزو ، پھر کہاں سے آئیں؟ غالبا امام صاحب فرما دیں گے کہ علمۃ عند اللہ تو پھر ہم ان سے پوچھیں گے کہ ایسی ذات کی نسبت کس طرح تم نے حکم کیا کہ الواحدلا یصدر منہ الا واحد۔ دوسرا شبہ علی الترتیب کے لفظ پر ہے ، اگرترتیب سے وہ ترتیب مراد ہے جو فلاسفہ نے عقل اول و ثانی ثالث وغیرہ پیدا ہو نے اور پھر ایک دوسرے کے امتزاج سے ظہور کثرت قرار دی ہے یا صوفیہ کرام نے جو ایک ترتیب تنزلات خمسہ کی مقرر کی ہے تو ہم اس کو نہیں مانتے اور اگر ترتیب سے وہ ترتیب مراد ہے جس پر خلق کو خدا نے مخلوق کیا ہے اور اس مخلوق میںہم ایک ترتیب پاتے ہیں تو اس کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کی عدم تبدیل کے قائل ہیں۔ کما قال اللہ تعالیٰ لا تبدیل لخلق اللہ ،خدا نے جس فطرت پر اپنی مخلوق کو پیدا کیاہے اس میںتبدیلی نہیں ہوسکتی۔ اگرتبدیلی ہوتو خدا کی خالقیت میں نقص لازم آتا ہے ،مگر اس کی کمال قدرت یہ ہے کہ وہ اس فطرت کو معدوم کرکے دوسری فطرت پیدا کر سکتا ہے ۔ فطرت موجودہ مخلوقہ میں تبدل ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ وعدہ میں تخلف کرنا۔ اگرکچھ فرق ہے تو اتنا ہے کہ ایک وعدہ قولی ہے اور ایک وعدہ فعلی ہے اور ان کا تخلف وعدے کا تخلف ہے واللہ بری عن ھذا واللہ سبحانہہ اعظم واجل واکبر۔ ……………… (۷) لو ح محفوظ اور قلم کے بارے میں امام غزالیؒ کے خیالات (جوانھوں نے اپنی کتاب المضنون بہ علیٰ غیر اہلہ میں ظاہر کیے ہیں) امام صاحب فرماتے ہیں کہ لوح سے مراد ایسے وجود سے ہے جو اس قابل ہو کہ جو چیزیں اس پر نقش کرنی چاہیں اس پر نقش ہو جائیں اور قلم سے مراد ایسے وجود سے ہے جس سے لوح پر جو نقش کرنا چاہیں اس سے نقش ہوجائے ، کیونکہ قلم معلومات کی صورتوںکو لوح پر نقش کرنے والی چیز ہے اور لوح وہ چیز ہے جس پر ان معلومات کی صورتیں نقش ہوتی ہیں اور یہ ضرور نہیں ہے کہ قلم نرسل کااور لوح لکڑی کی ہو،بلکہ یہ بھی ضرور نہیںہے کہ ان دونوں کے لیے جسم بھی ہو، کیونکہ قلم او ر لوح کی ماہیت و حقیقت میں ان کا مجسم ہونا داخل نہیںہے ، بلکہ ان کی روحانیت ان کی حقیقت ہے اور ان کی صورت ان کی حقیقت سے زائد ، جس کے کچھ معنی نہیں ہیں۔ پس کچھ بعید نہیں ہے کہ اللہ کا قلم او ر اللہ کی لوح ا س کی انگلیوں اور اس کے ہاتھ کے لائق ہو اور وہ پاک ہوں گی حقیقت جسمیت سے ، بلکہ وہ سب جواہر روحانی،یعنی روحانی ذاتیں ہوں گی۔بعض تو ان میں سے علم حاصل کرنے والی مثل لوح کے اور بعض علم دینے والی ہیں مانند قلم کے وان اللہ تعالیٰ علم بالقلم ۔ انھوںنے اپنی دوسری کتاب المضنون بہ علیٰ اہلہ میںبھی لکھا ہے کہ جواہرروحانیہ عقلیہ جس میںتمام موجودات کا نقش ہے ۔ شرع میں اس کو لوح محفوظ سے تعبیر کیا ہے ۔ پس امام صاحب کی اس تقریر سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوح و قلم کے ایسے وجود کے جو مجسم ہوقائل نہیں ہیں۔ مگر جن مشکلات اور پیچیدگی سے انھوں نے اس کو بیان کیا ہے اور لوح و قلم کی روحانیت کو صرف ایک فرضی طور پر جواہر موجودہ قرار دیا ہے ، وہ کسی طرح سمجھ میںآنے اور تسلی دینے کے قابل نہیں ہے ، وما ھوا لا تحکم و تجوز۔ واما مذھب الفلاسفۃ الا لہین فی ھذا الزمان ھذا (اس بارے میں موجودہ زمانے کے بعض فلاسفہ الہین کا مذھب) وہ بھی قلم کونہ نرسل کا قلم مانتے ہیں اور نہ لوح کو کاٹ کی تختی ، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ قلم سے وہ چیز تعبیر کی گئی ہے جس سے وہ نتیجہ حاسل ہو جو قلم سے حاصل ہوتا ہے ، یعنی ظہور صورمعلومات کا اور لوح سے وہ چیز تعبیر کی گئی ہے جس میں صور معلومات جس کو قلم نے ظاہر کیا ہے قائم اور موجود رہیں ۔پس منجملہ صفات باری جل شانہ کے ارادہ اورعلم دو صفتیں ہیںجن کو لوح و قلم سے تعبیر کیا ہے۔ ارادے کو قلم سے اور قلم کو لوح محفوظ سے ، کیونکہ اس کے ارادے نے تمام صور موجودات کو پیدا کیا ہے او ر اس کے علم میں تمام مساکان و ما یکون ، یعنی جو کچھ ہوا ور ہوتا ہے او ر ہوگا سب موجود ہے۔ علم کو لوح محفوظ سے تعبیر کرنے میں ایک اور نکتہ ہے کہ انسان کا علم تین زبانوں ، ماضی و حال و استقبال سے علاقہ رکھتا ہے ، مگر خدا تعالیٰ کا علم بالکلیہ حالیہ ہے یعنی ماضی اور استقبال کو اس میں گنجائش نہیں ہے ۔ ماضی و استقبال بھی مثل حال کے اسی وقت علم الہیٰ میںحاضر ہے ماکان وجما یکون وما سیکون فی الحال اس کے علم میں موجو دہے لوح میںجو چیز ثبت ہو، ماضی کی یا حال کی یا استقبال کی ، اس کاعلم بھی فی الحال موجود ہوتا ہے۔ پس علم باری کا لوح محفوظ سے تعبیر کرنا انسانوں کے سمجھانے کے لیے نہایت ہی پر لطف تھا اور ارادے کا قلم سے تعبیر کرنا ایسا لطیف استعارہ ہے کہ خدا کے سوا اور کسی کو نہیں سوجھ سکتا۔ فقط۔ واللہ اعلم و ھذا ما الھمنی ربی۔ (۸)التفر قہ بین الاسلام والزندقہ پر ایک نظر (تہذیب الاخلاق (دور دوم) از شوال ۱۲۹۶ ھ تا رمضان ۱۲۹۷ ھ صفحہ ۰۲ تا ۱۳۹) ’’التفرقہ بین الاسلام والزندقہ ‘‘حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی کی ایک نہایت اہم تصنیف ہے جس میں امام صاحب نے نصوص شرعیہ کی تفسیر اور تاویل کے لیے بعض مخصوص اصول اور قواعد مدون کیے ہیں۔ چونکہ یہ رسالہ علم الکلا ء اور مسائل کی تاویل کے سلسلے میں ایک بہت مفید اور عظیم لسانی جزوہے۔ اس لیے سر سید نے (جو مسائل اسلامیہ کی تاویل کے نہایت عاشق تھے) اس رسالے کو اپنے ڈھب کا پایا اور اس کا غائر نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد اس پر ایک بسیط اورجامع ریویو لکھا۔ یہی ریویو ہم ناظرین کرام کی خدمت میںپیش کررہے ہیں لیکن اس ریویو کو پیش کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اصل کتاب ، یعنی ــ التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ‘‘ کا خلاصہ یہاںلکھ دیا جائے ،کیونکہ اس کے بغیر ریویو کے مندرجات آساننی سے سمجھ میںنہیں آسکتے ۔ رسالہ ھذا کایہ خلاصہ علامہ شلی نعمانی کی کتاب’’ الغزالی‘‘ سے لیا گیا ہے ۔ مولانا شبلی لکھتے ہیں کہ جب امام غذالی ؒ نے اپنی مشہور تصنیف احیاء العلوم شائع کی تو اس میں شعروں کے بعض خیالات کی بھی تردید اورتکذیب کی، جس سے اشاعرہ میں عام طور پر نہایت ناراضگی پھیلی اور مختلف محفلوں میں ان کو برا بھلا کہا جانے لگا اور ان کی ذاتی تضلیل و توہین پر بس نہ کرتے ہوئے ان کی تکفیر و الحاد کے فتوے بھی تیار ہونے لگے ۔ مخالفت کے اس طوفان بے تمیزی کو دیکھ کر امام صاحب کے ایک مخلص دوست کو نہایت رنج ہوا اور اس نے تمام مخالفانہ اورمعاندانہ کاروائیوں کی مفصل اطلاع لکھ کر امام صاحب کو بھیج دی۔ امام صاحب نے اس تحریر کا اپنے دوست کو جو جواب دیا، یہی جواب ’’التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ ‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور اسی کا خلاصہ نیچے لکھا جاتا ہے۔ خلاصہ رسالہ’’ التفرقۃ بین الاسلام و الزندقۃ‘‘ امام صاحب اپنے دوست کو تحریر فرماتے ہیں:۔ ’’برادر شفیق ! حاسدین اور معاندین کا وہ گروہ جو اسرار دین کے متعلق میری تصنیفات پر اعتراض اورنکتہ چینی کر رہاہے اور اپنے زعم میں خیال کرتا ہے کہ میری کتابیں قدمائے اسلام اور مشائخ اہل کلام کے خلاف ہیں اور یہ کہ اشعری کے عقائد سے بال برابر کا انحراف بھی کفر ہے، یہ ۔صریح ان لوگوں کی نادانی اور غلط خیالی ہے ۔ میری تصنیفات کے متعلق ایسی لاطائل اورفضول باتیں سن کر تم کو جو افسوس اوررنج ہوتا ہے، مجھے اس کاپورا پورا احساس ہے، لیکن میرے مخلص اور عزیز دوست! تم کو بہر حال صبر کرناچاہیے۔ جب رسول کریم ﷺ تک فضول مطاعن اور لایعنی اعتراضات سے نہ بچ سکے تو میری تو ہستی ہی کیا ہے ۔ جس شخص کایہ عقیدہ یا خیا ل ہے کہ اشاعرہ یا معتزلہ یا حنبلیہ وغیرہ کی مخالفت انسان کو کفر کے درجے تک پہنچا دیتی ہے ۔ جان لو کہ وہ اندھا مقلد ہے۔ ایسے آدمی کی اصلاح میں کوشش کرنا اپنے قیمتی اوقات کو ضائع کرناہے۔ جو عقلمند اشعری کی مخالفت کو کفر خیال کرتا ہے اور اس بنا پر علامہ با قلانی کو کافر سمجھتا ہے، اس بھلے مانس سے کوئی پوچھے کہ اگر اشعری او ربا قلانی کسی مسئلے میں باہم مخالف ہیں اور اتنی سی بات پر وہ کافر ہوگئے ہیں تو باقلانی کے کفر کو اشعری کے کفر پر کیوں ترجیح ہے؟ اس کے برعکس کیوں نہ ہو؟ اور اگر باقلا نی کی مخالفت جائز ہے تو کرابیسی اور قلا نسی کی مخالفت کیوں جائز نہیں؟ اگر وہ شخص یہ کہے کہ معتزلہ کا یہ عقیدہ عقل میں نہیں آسکتا کہ خدا کی ذات ہی تمام صفات کی بجائے کافی ہے اس سے پوچھنا چا ہیے کہ اشعری کا یہ عقیدہ کیونکر قیاس میں آسکتا ہے کہ کلام الہی میں کثرت نہیں اور پھر وہ امر بھی ہے اور نہی بھی ، خبر بھی ہے اور استخبار بھی، قرآن بھی ہے اور انجیل بھی، توریت بھی ہے اور زبور بھی۔ اگر تم انصاف کے ساتھ دیکھو تو معلوم ہوگا کہ جو شخص حق کو کسی شخص خاص میںمحدود سمھتا ہے وہ خود کفر کے قریب ہے ، کیونکہ اس نے اس شخص کو گویا رسول اللہ ﷺ کی طرح معصوم قرار دیا۔ غالباََ تم کو کفر کے معیار کے جاننے کی خواہش ہوگی ، تو میںتم کو ایک قاعدہ کلیہ بنا تاہوں۔ کفر کے معنی صرف یہ ہیںکہ رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کی جائے اس چیز میںجو ان پر خدا کی طرف سے آئی۔ لیکن اس میں یہ دشواری پیش آئی گی کہ مسلمانوں میںہر فرقہ دوسرے فرقے کی نسبت یہی الزام لگاتا ہے ۔ اشعری معتزلہ کو اس لیے کافر کہتے ہیں کہ معتزلہ احادیث رویت کو تسلیم نہیںکرتے اور اس طرح رسول اللہﷺ کی تکذیب کرتے ہیں۔ مغتزلہ اس لیے اشعری کی تکفیر کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک صفات الہیٰ کی کثرت کاقائل ہونا توحید باری کے خلاف ہے اور رسول اللہ ﷺ کی تکذیب ہے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے میںتم کو تصدیق و تکذیب کی حقیقت بتاتا ہوں۔ تصدیق کے معنی یہ ہیںکہ رسول اللہ ﷺ نے جس چیز کے وجود کی خبر دی ہے اس کے وجود کوتسلیم کیا جائے ، لیکن وجود کے پانچ مدارج ہیں اور ان مدارج سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ہر فرقہ دوسرے فرقے کی تکذیب کرتاہے ، اس لیے میں ان مراتب خمسہ کی تفصیل بیان کرتاہوں:۔ (۱) وجود ذاتی، یعنی وجود خارجی۔ (۲) وجود حسی، یعنی صرف حاسہ میں موجود ہونا، مثلا خواب میںہم جن اشیاء کودیکھتے ہیں ان کا وجود صرف ہمارے حاسے میںہوتا ہے یاجس طرح بیماروں کو جاگنے کی حالت میںخالی صورتیںنظر آتی ہیں یا شعلہ جوالہ کا دائرہ جو درحقیقت دائرہ نہیں ، لیکن ہم کو دائرہ نظر آتاہے۔ (۳) وجود خیالی ، مثلازید کو ہم نے دیکھا ، پھر آنکھیں بند کر لیں تو زید کی صورت جو ہماری آنکھوں میں پھر رہی ہے خیالی وجود ہے ۔ (۴) وجود عقلی، یعنی کسی شے کی اصلی حقیقت ، مثلا جب ہم کہتے ہیں کہ یہ چیز ہمارے ہاتھ میں ہے اورمقصد یہ ہوتا ہے کہ ہماری قدرت اورہمارے اختیار میں ہے تو قدرت اور اختیار ہاتھ کا وجود عقلی ہے۔ (۵) وجود شبہی ، یعنی وہ شے خود موجود نہیں ، لیکن اس کے مشابہ ایک چیز موجود ہے۔ ان اقسام کے بیان کرنے کے بعد امام صاحب نے ہر ایک قسم کی متعدد مثالیں لکھی ہیں، مثلا حدیث میںآیا ہے کہ قیامت کے دن موت مینڈھے کی شکل میںلائی جائے گی اور ذبح کر دی جائے گی ۔ اس کو وجود حسی قرار دیا ہے یا مثلا حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میںیونس ؑ کو دیکھ رہا ہو۔۔۔۔الخ اسکو وجود خیالی کی مثال میںپیش کیا ہے ۔ تفصیلی مثالوں کو بیان کرنے کے بعد امام صاحب لکھتے ہیںکہ شریعت میںجن چیزوں کاذکر ہے انکے وجود کا مطلقاََ انکار کرنا کفرہے ، لیکن اگراقسام مذکورہ بالا سے کسی قسم کے مطابق اسکا وجود تسلیم کیا جائے تو یہ کفر نہیںہے ، کیونکہ یہ تاویل ہے اور تاویل سے کسی فرقے کو مفر نہیں، سب سے زیادہ امام احمد بن حنبل تاویل سے بچتے ہیں ، لیکن مفصلہ ذیل حدیثوں میںان کو بھی تاویل کرنی پڑی۔ (۱) ’’حجر اسود خداکاہاتھ ہے ‘ (۲) ’’مسلما نوں کا دل خدا کی انگلیوں میں ہے ‘‘ ’’(۳) مجھ کو یمن سے خد اکی خوشبو آتی ہے ۔‘‘ پھر لکھتے ہیں کہ احا دیث میںآیا ہے کہ قیامت میں اعمال تولے جائیں گے، چونکہ اعمال عرض ہیں اور وہ تولے نہیں جاسکتے اس لیے سب کو تاویل کرنی پڑی۔ اشاعرہ کہتے ہیں کہ نامہ اعمال کے کاغذ تولے جائیںگے۔ معتزلہ کہتے ہیں کہ تولنے سے انکشاف حقیقت مراد ہے ۔ بہر حال تاویل دونوں کو کرنی پڑی۔ باقی جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ نفس اعمال جوعرض ہیں وہی تولے جائیںگے اوران میں وزن پیدا ہوجائے گا وہ سخت جاہل اور عقل سے کورے ہیں۔ اس کے بعد امام صاحب تاویل کے اصول بتاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ جن اشیاء کا ذکر شریعت میں ہے اول ان کا وجود ذاتی ماننا چاہیے۔ اگرکوئی دلیل قطعی موجود ہو کہ وجود ذاتی مراد نہیں ہوسکتاتو وجود حسی ،پھر خیالی ، پھر عقلی ، پھر شبہی ، اب بحث یہ رہ جاتی ہے کہ ایک کے نزدیک جو دلیل جو قطعی ہے دوسرے کے نزدیک نہیں، مثلا اشعری کے نزدیک اس بات پر دلیل قطعی قائم ہے کہ خدا کسی جہت کے ساتھ مخصوص نہیں ہوسکتا ، لیکن حنابلہ کے نزدیک اس پر کوئی دلیل نہیں۔ ایسی تاویلات کی صورت میں کسی کو کافر نہیں کہنا چا ہیے، زیادہ سے زیادہ گمراہ اور بدعتی کہا جاسکتا ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ جب تاویل کی بناء پر ہم کسی کو کافر کہنا چاہیں توپہلے ان امور کو دیکھنا چاہیے کہ وہ نص قابل تاویل ہے یانہیں؟ اگر ہے تو یہ تاویل قریب ہے یا بعید؟ وہ نص بتواتر ثابت ہے یا بہ احاد؟ یا بہ اجماع امت ؟ اگر بتواتر ہے تو اس میں تواتر کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ تواتر کی تعریف یہ ہے کہ اس میں کسی طرح شک نہ ہوسکے، مثلا انبیا علیہم السلام او ر مشہور شہروں کا وجود یا قرآن شریف یہ چیزیں متواتر ہیں، لیکن قرآن کریم کے سوا اور چیزوں کا تواتر ثابت ہونا نہایت غامض ہے، کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ایک گروہ کثیر ایک امر پر متفق ہوجائے اور اس کو بتواتر بیان کرے جس طرح شیعہ حضرات حضرت علی ؓ کی ولایت کی حدیث بیان کرتے ہیں۔ اجماع کاثابت ہونا اور بھی مشکل ہے ، کیونکہ اجماع کے معنی یہ ہیں کہ تمام اہل حل و عقد ایک امر پر متفق ہوجائیں اور ایک مدت تک اور بعض کے نزدیک تاانقراض عصر اول اس اتفاق پر وہ لوگ قائم رہیں۔ اس پر بھی یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ ایسے اجماع کا منکر بھی کافر ہے یا نہیں ، کیونکہ بعض لوگوں کی یہ رائے ہے کہ جب اجماع کے منعقد ہونے کے وقت ایک شخص کا اختلاف کرناجائز تھا تو اب کیوں جائز نہ ہو؟۔ پھر یہ دیکھنا چاہیے کہ تواتر یا اجماع ہوچکا ہو۔ لیکن تاویل کرنے والے کوبھی اس اجماع یا تواتر کایقینی علم تھا یا نہیں، اگرنہیںہے تو وہ مخطی ہوگا ، مکذب نہ ہوگا۔ پھر اس امر پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جس دلیل کی وجہ سے وہ شخص تاویل کرتا ہے ، وہ شرائط برہان کے موافق دلیل ہے یا نہیں۔ شرائط برہان کی تفصیل کے لیے مجلدات درکار ہیں اور ہم نے محک النظر میں تھوڑا سابیان کیاہے ، لیکن فقہائے زمانہ اکثر ان کے سمجھنے سے عاجز ہیں، اب اگر وہ دلیل قطعی ہے تو تاویل کی اجازت ہے اور اگر قطعی نہیں تو تاویل قریب کی اجازت ہوسکتی ہے نہ بعید کی۔ پھر یہ بھی دیکھو کہ مسئلہ زیر بحث کوئی اصول دین کا مسئلہ ہے یا نہیں، اگر نہیں ہے تو اس پر چنداں گیر و دار نہیں ، مثلا شیعہ حضرات امام مہدی کا سرداب میںمخفی ہونا مانتے ہیں، اگرچہ یہ ایک وہم ہے ، لیکن یہ اعتقاد رکھنے سے دین میںکوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ اب جب تم کو یہ معلوم ہوا کہ تکفیر کے لیے تمام مراتب مذکورہ بالا کا لحاظ ضروری ہے تو تم سمجھے ہوگے کہ اشعری کی مخالفت پر کسی کو کافر کہنا جہل ہے ۔ اور فقیہ صرف علم فقہ کی بناء پر مہمات مذکورہ بالا کا کیونکر فیصلہ کرسکتا ہے ، لہذاجب تم دیکھو کہ کوئی فقیہ آدمی جس کا سرمایہ علم صرف فقہ ہے ، کسی کی تکفیر یا تذلیل کرتا ہے تو اس کی کچھ پروا نہ کرو۔ پھر لکھتے ہیںکہ جو باتیں اصول عقائد تے تعلق نہیں رکھتیں ، ان میں تاویل کرنے پر تکفیر نہیں کرنی چاہیے۔ مثلا بعض صوفیاء کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ نے آفتاب و مہتاب کوخدا نہیں کہا تھا ۔ کیونکہ اجسام کو خدا کہناان کی شان سے بعید ہے،بلکہ انھوں نے جواہر فلکیہ نورانیہ دیکھے تھے اور ان کو خدا سمجھا تھا۔ تو ایسی تاویل پر تکفیر اورتبدیع نہیں کرنی چاہیے۔ یہ تمام بحث تو ان مسائل کی نسبت تھی جو غلطی سے علم کلام میں مستزاد کر دیے گئے تھے ۔ لیکن جو مسائل اصلی تھے ان کی نسبت یہ مرحلہ باقی تھا کہ ان کے اثبات کا طریقہ اور طرز استدلال کہاں تک صحیح ہے ؟ ان مسائل کو متکلمین جن طریقوں سے ثابت کرتے تھے نہ وہ نقلی تھے اور نہ اصول علقیہ کے معیار پر پورے اترتے تھے۔ بہت بڑی دلیل جو اکثر عقائد کے اثبات کے لیے کام میںلائی جاتی تھی، تماثل اجسام کا مسئلہ تھا ، یعنی یہ کہ تمام اجسام کی ایک حقیقت اور ایک ماہیت ہے۔ شرح مقا صد میں ا س کی نسبت لکھا ہے : ۔ وھذا اصل یبنی علیہ کثیر کن قواعد الاسلام کاثبات القادر المختار و کثیر من احوال النبوۃ والمعاد ’’یعنی یہ وہ اصل ہے جس پر اسلام کے بہت سے اصول مبنی ہیں، مثلا قادر مختار کا اثبات او رنبوت و معاد کے متعلق بہت سے مسائل و حالت ، تماثل اجسام کا ثابت کرنا نہایت مشکل، بلکہ ناممکن ہے۔ اس لیے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اکثر عقائد اسلامی کا اثبات اسی مسئلے کے ثابت کرنے پر موقوف ہے تو خود ان عقائد کی بنیاد متزلزل ہو جائے گی۔ ان وجود سے امام صاحب ن متکلمین کے استدلال کے طریقے کو چھوڑ کر تمام مسائل پر نئی دلیلیں قائم کیں۔ ‘‘ (محمد اسماعیل پانی پتی ) ………… سر سید کا اصل مضمون جو لوگ کہ تقلید کی اندھا دھندی سے نکلے اور تحقیق کے میدان میںبہادرانہ قدم رکھا ان میں سے ایک امام غزالی ؒ بھی ہیں۔ عام خیالات سے علیحدہ ہونا او رآنکھیں کھول کر رستہ چلنا ہمیشہ ان لوگوں کے طعن و تشنیع کا باعث ہوا ہے جو کو لھو کے بیل کی مانند آنکھوں پر پٹی باندھے چکر کھاتے رہتے ہیں۔ رات دن پھرے جاتے ہیں، مگرجب دیکھو تو وہیں کے وہیں ہیں، اس طرح امام غزالی ؒ پر بھی عام خیالات کے لوگوں نے بہت کچھ لعن و طعن کیا ہے۔ ان کے کفر کے فتوے دئے گئے، انکا قتل مباح کہاگیا ۔ ان کی کتابوں کے جلانے کا حکم دیا گیا ، گو کہ ایک زمانے کے بعد وہ مقبول ہوئے اور مقبول ہوئیں۔ جس زمانے میںکہ ان پر کفر کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور ہر طرف سے لعنت لعنت کی آواز آرہی تھی ۔ ان کے مخلصین کا دل جلتا تھا اور تڑپ تڑپ کر رہ جاتے تھے، مگر کسی ایک مخلص نے جو کسی قدر جرات رکھتا تھا ۔ امام سے اپنا سوز دل کہا اور اس کی دوا چاہی ۔ اس پر امام نے یہ مختصر رسالہ لکھا ہے جو در حقیقت حرز جان کے قابل تھے اور ہم اسی کا ریویو لکھنا چاہتے ہیں۔ انسان کا دماغ کیسا ہی روشن ہو جاوے اور وہ کیسی ہی دلی قوت اور نڈر جرات اور بے خوف ملامت سے ان تعلیمی اور تقلیدی اور تربیتی بندشوں کو توڑنا چاہے جن سے وہ اپنے چھٹپن سے بندھا ہوا ہے، پھر بھی کوئی نہ کوئی بندش اس کو باندھے رہتی ہے ۔ ہمارے ہاں کے علماء کابھی، جنھوں نے ان بندشوں کو توڑا اور میدان تحقیق میںبہادرانہ قدم رکھا اور جن کا سلسلہ حجۃ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ صاحب پر ختم ہوتا ہے، یہی حال ہوا ہے۔ ان کی تصانیف میں ان سخت بندشوں کے جا بجا گہرے نشان پائے جاتے ہیں۔ نہایت علی دماغی سے ایک عمدہ مضمون لکھتے چلے جاتے ہیں جو مثل ایک شفاف اور خوشگوار دریا کے بہتا چلا جاتا ہے پھر جا کر اسی بند میں بند ہو جاتا اور سڑا ہو پانی معلوم ہوتا ہے۔ ان کی تصانیف کے ایک صفحے کو دیکھو تو الہام ربانی معلوم ہوتا ہے او ردوسرے صفحے کو دیکھو تو ایسا مضمون آجاتا ہے جس کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ رسالہ امام غزالی ؒ کا جس کو ہم ریویو لکھنا چاہتے ہیں، بہت چھوٹا ہے، مگر اس میں نہایت اعلیٰ مضامین بھرے ہوئے ہیں جو بڑی بڑی کتابوں میں نہیں ہیں، با ایں ہمہ شتر گربہ سے خالی نہیں۔ اس پر نظر ڈالنے اور اس کا ریویو لکھنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک مجھ سے ہوسکے ان دونوں قسم کے مضامین میں تمیز کروں اور ان کے رسالے کا ماحصل بھی اس ریویو میںلکھوں۔ یہ رسالہ درحقیقت ایک خط ہے۔ امام صاحب نے اس کو اس طرح پر شروع کیا ہے کہ ’’اے میرے بھائی اور اے میرے دوست! جب تم حاسدوں کے طعنے میری بعض کتابوں کی نسبت سنو جو میں نے اسرار علامات دین میں لکھی ہیں او رجن کی نسبت طعنہ کرنے والے سمجھتے کہ ان میں مقتد مین علماء علم کلام کے مخالف باتیں ہیں اور وہ مذہب اشاعرہ سے الگ ہونے کو ، گو کہ وہ بالشت ہی بھر کیوں نہ ہو اور ان کے خلاف کرنے کو، گو کہ وہ ایک ذرا سی چیز ہی میں کیوںنہ ہو، گمراہی جانتے ہیں، تو اے میرے دوست ! جس شخص پر لوگ حسد نہ کریں اس کو حقیر جان اور جس کو کافر و گمراہ نہ کہیں اس کو ناچیزسمجھ۔ سیدالمرسلین سے زیادہ کون شخص ہوگا، ان کی باتوں کو بھ لوگوں نے اگلے زمانے کے زٹل قافیے بتایا ۔ پھر ان کے جھگڑے میں مت پڑو اور ان کو راہ پر لانے کی توقع مت رکھے۔ کیا تم نے نہیں سناـؔ کل العداوۃ من ترجی سلامتھا الا العداوۃ من اعداک عن حسد اگر کوئی بھی ایسے لوگوں کو راہ پر لا سکتا تو ان سے بھی بڑوں کے حق میں خدا ایسی سخت آیتیں کیوں نازل فرماتا ، کیا تم نے قرآن کی وہ آیت نہیں سنی جس میں خدا نے فرمایا ہے ’’اگرچہ ان کا آنا کانی دینا تجھ کو گراں گزرتا ہو، پھر اگر تجھ سے ہو سکے کہ زمین میں ایک سرنگ اور آسمان پر ایک سیڑھی ڈھونڈ نکالے اور ان کے لیے کوئی نشانی لے آوے ’’(تو بھی وہ راہ پر نہیں آئیںگے ) اور ایک جگہ یہ فرمایا ہے کہ ’’ اگر ہم ان کے لیے ایک دروازہ آسمان میں کھول دیں اور وہ اس میں چڑھنے لگیں تو کہیں گے کہ ہماری آنکھوں پر ڈھٹ بندی ہوگئی ہے اور ہم لوگوں پر جادو کیا گیا ہے ‘‘ اور ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’اگر ہم تجھ پر کاغذ پر لکھی ہوئی ایک کتاب اتاریں اور وہ اپنے ہاتھوں سے اس کو چھو لیں تو جو لوگ منکر ہیں وہ کہیں گے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے ‘‘ اور ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’ اگر ہم ان پر فرشتے بھیجتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اور ان کے پاس ہر ایک شے کو اکھٹا کر دیتے تو بھی وہ ایمان نہ لاتے ۔‘‘ سمجھو! کہ کفر اور ایمان کی حقیقت اور ان کی حد اور حق و ناحق کا بھید ان دلوں پر نہیں کھلتا جو جاہ و منزلت کی تلاش سے او ر مال کی محبت سے میلے کچیلے اور ناپاک ہوگئے ہیں۔ بلکہ وہ ایسے دلوں پر کھلتا ہے جو اول تو دنیا کے میل کچیل سے پاک صاف ہوگئے ہیں۔ پھر کامل ریاضت سے ان کو جلا ہوگئی ہے۔ پھر خدا کی یاد سے منور ہوگئے ہیں۔ پھر غور سوچ سمجھ سے ان میںحلاوت آگئی ہے ۔ پھر شرع کی پابندی سے مزین ہو گئے ہیں او ر مشکواۃ نبوت سے ان پر نور کی شعاعیں پڑنے لگی ہیں اور جلا دار آئینے کی مانند ہوگئے ہیں اور ان کے ایمان کا چراغ بلور کی ہانڈیوں میں ہے اور ان کے دل سے نور کے چمکارے نکلتے ہیں۔ بغیر آگ کے چھو ئے ان کے دل کا چراغ روشن ہے۔ یہ اسرار ملکوت کس طرح ایسے لوگوں پر کھل سکتے ہیں جن کی خواہشوں ان کا خدا اور جن کے معبود سلاطین ہیں اور درہم و دنانیر ان کا قبلہ اور جاہ و منزلت ان کی شریعت اور ارادت ہے۔ دولت مندوں کی خدمت کرنا ان کی عبادت اور تمام وسواس ان کا ذکر اور حیلوں کا ڈھونڈنا ان کی حشمت ہے۔ پھر ایسے لوگ کس طرح کفر کی ظلمت اور ایمان کی روشنی کو تمیز کر سکتے ہیں؟ کیا الہام ربانی سے ؟ ان کا دل تو دنیا کی آلائش سے پاکک ہوا ہی نہیں، اور کیا کمال علمی سے ؟ ان کی پونچی علم کی تو صرف یہ ہے کہ نجاست دور کرنے کو زعفران کا لیپ بتاتے ہیں۔ ان باتوں کا جاننا بہت دور ہے۔ پھر اے میرے دوست ! تو اپنے کام میںلگا رہ اور اپنی اوقات ان لوگوں کی باتوں میں خراب مت کر۔ جو لوگ ہم کو برا کہتے ہیں ان کا کچھ خیال مت کر۔ دنیا کی زندگی ہی کو وہ جانتے ہیں ، یہی ان کا علم ہے، خدا ان کو بھی خوب جانتا ہے جو گمراہ ہیں اور ان کو بھی خوب جانتا ہے جو راہ پر ہیں۔ ‘‘ ا س مقام پر امام غزالی ؒ صاحب نے ان لوگوں کی نسبت جو ان کو کافر و مرتد و گمراہ بتاتے تھے۔ خوب دل کے پھپولے پھوڑے ہیں اور اپنے مخلصین کو نہایت عمدہ نصیحت کی۔ اور بلا شبہ ایسے شخص کے احباب کو ایسا کرنا چاہیے۔ ایسے شخص کے مخالفوں سے تکرار و مباحث محض بے سود ہے۔ ایسے مباحثوں سے مخالفین میں نا دانی و نا سمجھی پر ضد و نفسانیت کی بیماری زیادہ بڑھ جاتی ہے اور جو مرض علاج کے قابل ہوتا ہے وہ لا علاج ہو جاتا ہے ۔ پس ایسے شخص کے مخلصین کو ضرور ہے کہ وہ معاندین کی باتوں پر صبر کریں اور یقین کریں کہ ’’ الحق یعلو ولا یعلیٰ‘‘ او ر اسی وقت کے آنے کے منتظر رہیں۔ مگر اس مقام پر امام غزالیؒ صاحب نے دو قسم کے دلوں کا حال لکھا ہے ۔ ایک ان کا جو اسرار ملکوت اور کفر و ایمان کی حقیقت کے سمجھنے کے قابل ہیں او ردوسرے وہ جا ناقابل ہیں اور ان دونوں دلوں کے اوصاف بیان کئے ہیں۔ مگر وہ مقام کسی قدر زیادہ تشریح کے قابل ہیں۔ اس میں کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ اس مقام پر اما م صاحب نے جن لوگوں کے حال سے بحث کی ہے۔ ان میں وہ لوگو جو علانیہ اہل دنیا کہلاتے ہیں ، داخل نہیں ہیں، اہل دنیا سے میری مراد ان دنیا داروں سے نہیں ہے جن کو اہل دنیا بھی ’’الدالخصام ‘‘ سمجھتے ہیں ، بلکہ ان سے مراد ہے جنھوں نے دنیا کو بغیر کسی سر ایمانی او ردغا بازی کے اختیار کیا ہے ۔ دنیا میںبہ حیثیت دنیا داری اپنی عزت ، اپنا نام ، اپنی شہرت ، اپنا آرام ، اپنی حشمت چاہتے ہیں۔ زہد و تقویٰ ، علم و افتاء ، صبر و قناعت کے زریعے سے دنیا و آخرت میںتفوق کی خواہش انھوں نے ظاہر نہیں کی۔ انھوں نے ایمان میں سے لا الہ الا اللہ محمد رسو ل اللہ پر دل سے یقین کیا ہے۔ وہ خدا کی ذات کو بے نقص اور رسول اللہ کو بے عیب سمجھتے ہیں وہ کسی ایسی بات کو جس میں ان کی دانست میں خدا پر کوئی نقص آتا ہو او ررسول پر کوئی عیب لگتا ہو۔ نہیں مانتے ، گو وہ کسی نے کہی ہو اور کسی نے لکھی ہو اور گو کہنے والے اور لکھنے والے کے نزدیک اس سے کوئی نقص نہ آتاہو اور عیب نہ لگتا ہو اور گو بالفرض در حقیقت وہ بات کو ئی نقص یا عیب کی نہ ہو ۔ مگر اس وجہ سے کہ وہ اس کے ناقص اور معیوب ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ گو کہ وہ غلطی پر ہوں، خدا اور رسول کی شان سے اس کو بعید سمجھتے ہیں اور اس لیے اس پر یقین نہیں کرتے ، غرضیکہ ان کو خدا کے تقدس اور رسو ل کی منزلت پر ایسا یقین ہے کہ کسی دوسرے کی اس کے سامنے کچھ حقیقت نہیں سمجھتے ، پھر وہ کوئی کیوںنہ ہو۔ اعمال میںسے فرائض کو حق سمجھنا اور جس طرح پر ہو سکیں ان کو ٹوٹا پھوٹا مسلسل یا گنڈے دار ادا کرنا اور اس میں کوتاہی کو اپنی شامت اعمال سمجھنا اور اس پر تاسف کرنا، دل کو بدی اور بد نیتی ، کینہ اور فساد و بغض و حسد سے پاک رکھنا ، کسی کے ساتھ دغابازی نہ کرنا، کسی کا مال نہ مار رکھنا۔ کسی کو ایذا و تکلیف نہ پہنچا نی ، ہر ایک کے ساتھ سچی محبت سچی دوستی سے پیش آنا ، سب کی بھلائی چاہنا ، سب کے ساتھ ایمانداری سے معا ملہ کرنا اور رکھنا اخیتار کیا ہے۔ دنیا تو گویا ان کا مقصد ہی ہے، ان باتوں کے سوا انھوں نے دنیا ہی دنیا کو پکڑا ہے ۔ روپے کے ایمانداری سے پیدا کرنے میں، اپنی محنت و مشقت سے روٹی کمانے میں بے انتہا کوشش کرتے ہیں۔ روپیہ کماتے ہیں۔ عمدہ عمدہ مکانات بناتے ہیں، دنیا میں عزت و ترقی حشمت حاصل کرتے ہیں، باغ بناتے ہیں ، دنیا میںعزت و ترقی حشمت حاصل کرتے ہیں ، باغ بناتے ہیں اور اس کے پھولوں اور بیلوں کی سیر سے خوش ہوتے ہیں، میوے کھاتے ہیں، گھوڑوں پر چڑھتے ہیں، عمدہ سے عمدہ کپڑے پہنتے ہیں اور اچھے سے اچھے کھانے کھاتے ہیں، قالینوں کے فرش کو جوتیوں کے تلے بچھاتے ہیں تمام عیش و آرام کو کہ انسان عمدہ اخلاق اور شائستگی کے ساتھ کر سکتا ہے ، کرتے ہیں خدا کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو جس لیے اس نے پیدا کیا ہے ،برتتے ہیں اور کام میں لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدانے ہم کو ان سے ہمارا عیش و آرام مقصود نہ تھا تو ان کو پیدا ہی کیوں کیا تھا ؟ پس ہمار افرض ہے کہ ہم ان کو برتیں اور عیش اڑائیں ، مگر زیادتی نہ کریں، کیوں کہ جس طرح کے استعمال کے لیے وہ بنائی گئی ہیں، اگر اس طرح پر استعمال نہ کریں تو نمک حرام اور چو ر ہوں گے ، نہ شریف دنیا دار ، وہ نہ دعویٰ دین داری کرتے ہیں نہ کسی کے پیشوا بننا چاہتے ہیں، نہ اپنے تئیں تابع سنت کہلوانا پسند کرتے ہیں ، نہ پیرو مرشد، نہ منبر پر واعظ بننا چاہتے ہیں ، ن استفتاء کے معنی ؟ سیدھی طرح سے خدا کے بندے ، رسول کی امت ، خدا کے دئے ہو ئے پیش و آرام مے مست رہتے ہیں۔ پس ایسے لوگ تو امام صاحب کی بحث سے خارج ہیں۔ ہاں جو کچھ اس مقام میں امام صاحب نے لکھا ہے ، وہ ان لوگوںل کی نسبت لکھا ہے جو جبہ و عمامہ دار ہیں، دنیا چھوڑ دین کی راہ پر چلتے ہیں، دن رات قال اللہ و قال الرسول میں بسر کرتے ہیں، دین ہی دین پکارتے ہیں ، دین ہی کا اوڑھنا دین ہی کا بچھونا بناتے ہیں۔ دنیا داروں نے جس قدر مختصر انچھر دین کے اختیار کیے تھے۔ ان دین داروں نے اسی قدر مختصر باتیں دنیا کی اختیار کی ہیں اور جس قدر وہ دنیا کے حاصل کرنے میں مشغول تھے، اسی قدر وہ دین کے حاصل کرنے میں مشغول ہیں ، گویا پہلے فرقے کے بالکل برعکس ہیں۔ اسی مقدس فرقے کا (خدا ان سے پناہ میںرکھے ) امام غزالیؒ صاحب نے ذکر کیا ہے ۔ بے شک جب یہ فرقہ کربلا اور نیم چڑھا ہو جاوے، یعنی ہوائے نفس کو اپنا خدا اور سلاطین کو اپنا معبود اور درہم ونانیر کو اپنا قبلہ ور حب جاہ کو اپنی شریعت اور اہل دول کی خدمت کو اپنی عبادت قرار دے تو وہ کبھی کفر کی ظلمت اور ایمان کی روشنی کو تمیز نہیں کر سکتا ۔ فما قالہ الغزالی فہو حق لا ریب فیہ۔ مگر وہ دوسرا فرقہ بھی نہایت ہی خوفناک ہے جن کی نسبت خیال کیا جاتا ہے کہ انکا دل دنیا کے میل کچیل سے پاک ہے، کامل ریاضت سے مجلا ہے ، خد اکی یاد سے منور ہے ، فکر کی شیرینی سے شیریںج ہے ، شریعت کی پابندی سے مزین ہے، مشکواۃ نبوت سے روشنی لیتے ہیں، جلا دار آئینے کی مانند ہیں، ان کانور ایمان شیشے کی ہانڈی میںبے آگ کے سلگتا ہے، نور کے چمکارے ان کے دل سے نکلتے ہیں، ہاںیہ سچ ہے کہ اس فرقے نے ہوائے نفس کو اپنا خدا اور سلاطین کو اپنا معبود اور درہم و دنا نیر کو اپنا قبلہ نہیں بنایا ، مگر خود ہوائے نفس ، نے ا ن کو اپنا خدا اور خود سلاطین نے ان کو اپنا معبود اور درہم و دنانیر نے ان کو اپنا قبلہ بنایا ہے ، پھر ان کو بنانے کی کیا حاجت تھی ؟ جس وقت کہ پیر صاحب یا مولوی صاحب کے گرد ان کے معتقدین کاحلقہ ہوتا ہے اور حجر اسود کی مانند ان کے دست مبارک کے بوسہ دینے کو لوگ دوڑتے ہیں تو ان کا دست مبارک یمین الرحمن سے بھی بالا دست ہوجاتا ہے ۔ مولوی صاحب ، حضرت صاحب کی آواز کا چاروں طرف سے ان کے کان میں آنا چاؤ شان ِ کسری و کیقباد کی آواز سے بھی قوی اثر ان کے دل پر ڈالتا ہے ۔ مسکینی اور انکسار ان کو آسمان پر چڑھاتی جاتی ہے ، اس لیے وہ اور زیادہ مسکین اور منکسر ہوتے جاتے ہیں ۔ دنیا سے نفرت ان کو دنیا دلاتی ہے اور اس لیے دنیا سے زیادہ نفرت کرتے جاتے ہیں۔ بے طمعی حاجت سے زیادہ بغیر محنت کے درہم و دنانیر لا دیتی ہے اور اس لیے وہ زیادہ بے طمع ہوتے جاتے ہے ں۔ اس لیے دوسرے کی بات کی حقارت ان کے دل میں جمتی جاتی ہے۔ ہاتھوں کو چمواتے چمواتے ، پاؤں کو چھواتے چھواتے ، ہر ایک مشکل کے حل کو دعا ئیں منگواتے منگواتے ، ہر ایک مسئلے کا فتویٰ دیتے دیتے ایک اور بے معلوم چیز ان میں پید ا ہوجاتی ہے جس کے سبب بھلائی برائی، دوزخ و بہشت ، کفر و ایمان کی کنجی وہ اپنے ہاتھ میںسمجھنے لگتے ہیں ۔ کس کو کافر بنا دیتے ہیں اور کسی کو مرتد، کسی کو جہنم دیتے ہیں اور کسی کو بہشت ۔ کبھی خازن جنت ہیں اور کبھی مالک جہنم، خدا کے نور کے دل میں بھڑکنے کے خیال سے ظلمت پر ظلمت میں پڑتے جاتے ہیں ۔ یہ تمام باتیں مل ملا کر حضرت کو ایک ایسا شخص بنا دیتی ہیں جو پھول پھلا کر کیا ہو جاتا ہے ۔ نہ کان رہتے ہیںجو کچھ سنیں ، نہ آنکھیں رہتی ہیں جو کچھ دیکھیں ، نہ منہ رہتا ہے کہ حق بات کہیں ۔ جو سرور اور دلی آسائشیں اور دل کے پھولنے سے جو مزہ اس فرقے کو آتا ہے، نہ کسی دنیا دار کو میسر ہوتا ہے نہ کسی دولت مند کو اور نہ کسی صاحب تخت و سلطنت کو ۔ پس اس فرقے سے بھی کفر کی ظلمت اورایمان کی روشنی کو تمیز کرنے کی توقع نہیں ہے ۔ الا ماشا ء اللہ ۔ کوئی آفت انسان کے لیے اس سے زیادہ نہیں ہے جب کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں نیک ہوں۔ کوئی گمراہی انسان کے لیے اس سے زیادہ نہیں ہے جب وہ جانتا ہے کہ میں پابند شریعت ہوں ۔وہ زبان سے اپنے تئیں گنہگار کہتا ہے ۔ مگر اس کا دل اس کو جھٹلاتا رہتا ہے، اس کہنے کو بھی وہ ایک نیکی اور نعلی سمجھتا ہے ۔ اپنی چال ڈھال شریعت کے موافق بناتا ہے۔ مگر اس کادل روز بروز سیاہ ہوتا جاتا ہے ۔ ازار کے دو انگل نیچے ہونے ، داڑھی کے لمبی یا یک مشت دو انگشت ہونے ، کپڑے کو نجاست سے پاک کرنے، پانی کے پاک ناپاک ہونے پر دن رات بحث کرتا ہے۔ لمبے لمبے فتوے لکھتا ہے ۔ مگر دل کو نجاستوں سے پاک کرنے کا خیال بھی نہیں کرتا ۔ اکل حلا ل و صدق مقال پر لمبے لمبے وعظ کر تا ہے ، مگرجب کوئی لقمہ تر آجاوے تو جھپ نگل جاتا ہے اور اگر کبھی اگل دیتا ہے تو اس امید پر کہ اس سے بھی زیادہ لقمہ تر بترآوے گا۔ یہی باتیں تھیں جن کے سبب حضرت عیسیٰ نے فروسیوں او رصدوقیوں کو ، یعنی شریعت پر چلنے والے یہودیوں کو ملامت کی۔ یہی لوگ اس کے مصداق ہیںکہ یلعنھم اللہ وبلعنھم اللعنون ۔ عمدہ زندگی وہی ہے جو سیدھی سادی ایک دنیا دار کی سی ہو۔ پھر خواہ وہ دوزخ میں جائے یا بہشت میں ۔ قال رسول اللہ ﷺ ’’ لا اعلم ما یفعل بی ولا بکم۔‘‘ اس کے بعد امام صاحب اپنے دوست کو مخاطب کرکے فرماتے ہیںکہ: ۔ ’’ اگر تو اپنے دل کااور ان کے دل کا کانٹا نکالنا چاہتا ہے جن کو حاسدوں کے بہکانے نے نہیں ابھارا اور تقلید نے ان کو قید نہیں کیا ، بلکہ وہ اصل حقیقت کو جاننا چاہتے ہیں اور اسی کے پیاسے ہیں تو خود اپنے آپ سے اور ان سے پوچھ کہ کفر کی حد کیا ہے ؟پھر اگر وہ یہ کہیں کہ مذاہ مشہورہ سے مخالفت کرنی کفر ہے ، ایسے شخص کو تومحض کو دن سمجھ کہ اس کو تقلید نے قید کر رکھا ہے اور نپٹ اندھا ہے۔ اس کے راہ پرلانے کو اپنی اوقات مت ضائع کرو۔ اس کے لیے تو یہی کافی ہے کہ اسی کی سی بات سے جو اسکا مخالف کہتا ہے اس کو قائل کیا جائے، کیونکہ وہ اپنے میں اور دیگر مذاہب کے مقلدوں میںجو ا سکے مذہب کے برخلاف ہیں، کچھ فضیلت نہیں پاتا ۔ ایک شخص تمام مذہبوں میں سے اشعری کے مذہب میںہیں ان کی مخالفت کفر ہے۔ اس سے پوچھو ککہ تو نے کیونکر جانا کہ اشعری ہی کا مذہب حق ہے جس کی مخالفت کے سبب بلقا نی کو کافر بتاتا ہے ، جس نے اللہ تعالیٰ کی صفت بقا کی نسبت اشعری کی مخالفت کی ہے اور یہ سمجھا ہے کہ صفت بقا ذات باری سے کچھ علیحدہ نہیں، بلکہ عین ذات ہے اور کیوں اس نے اشعری کی مخالفت سے با قلانی کو کافر بتایا اور اعری کو با قلانی کی مخالفت سے کیوں نہ کافر سمجھااور کس لیے اس نے ان میں سے ایک کو مذہب حق پر اور دوسرے کو باطل پر مانا؟ اگر اس لیے کہ اشعری با قلانی سے پہلے تھا تو اشعری سے پہلے معتزلی اور اور لوگ تھے تو چاہیے کہ وہی حق پرہوں۔ اور اگر علم اور سمجھ کی زیادتی سے، تو کس ترازو اور کس پیمانے سے اس نے ان کے علم کے درجوں کوتولا اور ناپا ہے جس سے اس کو معلوم ہوا کہ جس کا وہ مقلد ہے ا س سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے اور اگر ہو باقلانی کو مخالفت کرنے کی اجازت دیتا ہے تو اوروں کو ک یوں منع کرتا ہے اور با قلانی اور کریبسی اور قلانسی اور اور لوگوں میں کیا فرق نکالتا ہے اور اس تخصیص کی کیا وجہ بتاتا ہے ؟ اور اگر وہ یہ گمان کرتا ہے ، جیسے کہ بعض متعصبوں نے کیا ہے کہ باقلانی اور اشعری میں صرف لفظی اختلاف ہے اور دوام وجوہ میں دونوں موافق ہیں اور یہ بات کہ صفت بقا عین ذات ہے یاذات میں قائم ہے، قریب قریب ہے اور اس اختلاف پر تشدد کی ضرورت نہیںوہ بھی تو اس بات کے معترف ہیں کہ خدا عالم اور محیط جمیع معلومات پر ہے ، جمیع ممکنات پر قادر ہے او ر اشعری سے صرف اسی بات میں اختلاف ہے کہ وہ عالم بالذات ہے یا بالصفت قائمۃ فی الذات ، پھر ان اختلافوں میںکیافرق ہے۔ اگر وہ یہ کہے کہ ہم معتزلی کو اس لیے کافر بتاتے ہیں کہ وہ یہ کہتا ہے کہ خدا ذات واحد ہے اور اسی ذات واحد سے علم و قدرت و حیات ہے اور یہ مختلف صفتیں مختلف الحقائق ہیں اور حقایق مختلفہ کو ذات واحد کہنا یا سب کو ذات واحد ٹھہرانا ناممکن ہے تو وہ کیوں اشعری کے اس قول کو مستبعد نہیں سمجھتا جبکہ وہ کہتا ہے کہ کلام ایک صفت ہے جو ذات باری میں قائم ہے، باوجودیکہ ذات باری واحد ہے اور کلام مختلف ہیںجیسے کہ توریت و انجیل و قرآن اور امر و نہی ، خبر دینا اور خبر چاہنا اور یہ سب حقائق مختلفہ ہیں۔ خبرکس طرح حقیقت واحد ہوسکتی ہے جب کہ اس پر صادق اور کاذب کا اطلاق ہوسکے اور جس پر نہ ہو سککے وہ کیونکر حقیقت واحد ہوسکتی ہے؟ پھر وہ نفی و اثبات دونوں کو ذات واحد میں جمع کرتا ہے۔ پھر اگر وہ اس کا جواب اٹکا سٹ دینے لگے اور اس کی حقیقت نہ بتا سکے تو جان لے کہ وہ محقق نہیں ہے نرا مقلد ہے۔ اس کو چپ رہتا اور اس کے جواب میں بھی خاموش رہنا چاہیے، کیونکہ مقلد کے سامنے دلیل کا لانا اور اس کو سمجھا نا بے فائدہ آہن سرد کو فتن ہے۔‘‘ یہ تقریر امام صاحب کی نہایت عمدہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ، مگر انھوں نے اسکو نہایت محدود خیال کیا ہے ، یہ تو ایک بڑا مضمون ہے ، صرف اشعری و باقلانی اور معتزلی ہی پر محدود نہیں ہے ، بلکہ ادیان مختلفہ سے بھی متعلق ہے۔ یہودی و عیسائی اور مسلمان ، مجوسی و برہمی سب کی نسبت یہی بحث ہے۔ ایک مسلمان کیوں صرف اپنے مذہب کو حق اور اپنے ہی کو ناجی اور سب مذھبوں کو باطل اور ان کے پیروؤں کو کافر بتاتا ہے ۔ اس کا سبب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ اپنے متبو ع اور اس کے کلام پر پورا اعتماد رکھتا ہے ۔ مگر یہودی و عیسائی ، مجوسی و برہمی بھی اسی طرح اپنے متبوع پر اعتقاد رکھتا ہے ۔ جو دلیلیں ایک مذہب والا اپنے متبوع کے قابل اتباع ہونے کی اپنے ہی گروہ کی سند پر پیش کرتا ہے، وہی دلیلیں دوسرے مذہب والا اپنے ہی گروہ کی سند پر اپنے متبوع کے واجب الاتباع ہونے کی لاتا ہے ۔ خواہ وہ دلیلیں اس متبوع کی ذاتی عمدگی اوراعلیٰ سے اعلیٰ درجہ رکھنے سے متعلق ہوں یا ذات باری سے تعلق خاص ثابت کرنے سے علاقہ رکھتی ہوں، خواہ ظہور معجزات و خرق عادات اور اظہار عجائبات پر مبنی ہوں۔ یہی سب سے بڑا مرحلہ ہے جو ہر ایک مذہب والے کو صرف اپنے ہی مذہب کے حق ہونے کا دعویدار ہے ، طے کرنا ہے ۔ امام صاحب کو اس رسالے میں صرف مذہب معین ہی کے فرق متعددہ سے بحث کرنی تھی۔ اس لیے انھوںنے اس بحث کو وسعت نہیں دی۔ ہماری کوشش اس میں ہے کہ ادیان مختلفہ میں سے مذہب حق کی تمیز کرنے کا طریقہ ظاہر کریں اور اس پر جو کچھ ہم نے لکھا اس کو لوگ نہیںسمجھے اور سمجھے تو کفر و ارتداد اور نیچر بت بمعنی دہرے سمجھے ۔ اگرچہ موقع تھا کہ ہم بھی وہی کہیں جو امام صاحب نے کہا، مگر ہم کو ایسی جرات نہیںہے اور ہم صرف اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ ان ربی ھو اعلم بمن ضل عن سییلہ وھوا علم بمن اھتدیٰ۔ اس کے بعد ایک نہایت عمدہ اور سچافقر ہ امام صاحؓ نے لکھا ہے ، فرماتے ہیں:۔ ’’ جو شخص صرف کسی ایک ہی محقق پر راہ حق کا منحصر کرتا ہے، وہی کفر اور تناقض کے قریب آتا ہے۔ کفر کے قریب تو اس لیے ہوتا ہے کہ اس پر اس محقق کو ایسے نبی معصوم کا درجہ دے دیا ہے جس کی اتباع پر اسلام منحصر ہے اور جس کی مخالفت سے کفر لازم آتا ہے (اسی مطلب کو ہم نے اپنی تحریروں میں شک فی النبوۃ سے تعبیر کیا ہے ) اور تناقض کے قریب اس لیے ہوتا ہے کہ ہر ایک محقق کو تحقیق لازم ہے اور تقلید اس پر حرام ہے ، پھر کیونکر تحقیق و تقلید ساتھ ساتھ ہو سکتی ہے۔ یہ تو ایسی بات ہے جیسے کہ کوئی کہے کہ تجھ کو دیکھنا واجب ہے ، مگر جو بتایا گیا ہے اس کے سواکچھ مت دیکھ اور اسی کو تحقیق سمجھ اور جو چیز کہ تجھ کو مشتبہ بتائی گئی ہے اس کو مشتبہ یقین کر۔ پھر کیا فرق ہے اس شخص میںجو کہتا ہے کہ صرف میرے مذہب کی پیروی کرو اور اس شخص میں جو کہتا ہے کہ میرے مذہب اور میری دلیل دونوں کی پیروی کرو اور یہ تناقض نہیں ہے اور کیا ہے ؟‘‘ اس کے بعد امام صاحب اپنے دوست کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ:۔ اگرتو کفر کی حد جاننی چا ہے تو میںتجھ کو اس کی صحیح نشانی جو سب جگہ اور ہر طرح ٹھیک آوے بتا دوں ، تاکہ تو لوگوں کو جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پریقین رکھتے ہیںناحق کافر نہ کہے اور اہل اسلام کے حق میںزبان درازی نہ کرے، گو کہ ان کے طریقے کیسے ہی مختلف ہوں۔ پس سمجھ لے کہ کفر رسول ﷺ کی تکذیب ہے اور جو کچھ ان پر نازل ہوا ہے اس کو جھٹلانا ہے۔ یہودی اور عیسائیوں کوکافر اس لیے کہتے جہیں کہ وہ رسول اللہ کی تکذیب کرتے ہیں اور براہمی اس لیے کافر کہ تمام رسولوںکو جھٹلا تے ہیں اور دھرئے بھی کافر ہیں کہ وہ رسولوں کو نہیںمانتے ۔ کفر ایک حکم شرعی ہے جس کا مطب خلود فی النار ہے اور اس کی پہچان بھی شرعی ہے کہ ناقص صریح یا قیاس سے جو نقص پر مبنی ہوپہچانا جاتا ہے۔ یہود و نصاریٰ کے حق میں نص موجود ہے براہمہ و بت پرست اور زندیق اور دھرئے انھی کے ساتھ ہیں،کیونکہ وہ رسول ﷺ کی تکذیب کرتے ہیں اور جو رسول کی تکذیب کرتا ہے وہ کافر ہے۔ یہی عام علامات ہے جو الٹ پلٹ کر سب طرح ٹھیک کرتی ہے ۔ ‘‘ اس مقام پر امام صاحب نے بات کو خلط ملط کر دیا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ کفر ایک شرعی حکم ہے اور منکر یا مکذب رسول کافر ہے ،مگر شرعی کافر۔ پس ایک موحد جو پورا پورا ٹھیک طور پر کام موحد ہے۔ مگر وہ نفس رسا لت ہی کا منکر ہے اور اس لیے کسی رسول کو نہیںمانتا ، اسکا کفر بھی شرعی کفر ہے، مگر اس پر خلود فی النار کا حکم دینا جیسا کہ اس مام پر امام صاحب نے بیان کیا ہے ، صحیح نہیں موحد کے کفر پر کوئی نص وارد نہیں ہے، بلکہ بر خلاف اس کے نص آئی ہے، قیاس بھی ہو ج و نص پر مبنی ہو ، بلکہ مطلق قیاس بھی موجو دنہیں ہے ۔انبیاء صرف خدا کی وحدانیت پر یقین دلانے کو اور اس ک عبادت ہی کو ہدایت کرنے کو مبعوث ہوئے ہیں اور موحد اس پر کامل یقین رکھتا ہے ۔ پھر اس کے کفر مطلق پر قیاس بھی موجود نہیں ہے ۔ کفر شرعی اور کفر مطلق دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیںجن میں عموم خصوص من وجہ کی نسبت ہے اور خلود فی النار صرف کفر مطلق کا نتیجہ ہے اور وہ کفر شرک حقیقی سے ، خواہ ذات میں ہو، خواہ صفات میں، خواہ عبادت میں متحق ہوتا ہے ، نہ کسی دوسری چیز سے لانہ یغفر مادون ذلک فا فھم۔ اس کے بعد امام صاحب نے جو کچھ لکھا ہے در حقیقت الہام ربانی معلوم ہوتا ہے اور تحقیق کا ایک دریائے عمیق و شفاف دکھائی دیتا ہے جو نہایت دل فریبی سے بہتا چلا آتا ہ ۔ وہ فرماتے ہیں کہ:۔ ’’جو بات ہم نے بیان کی وہ نہایت غور کے لائق ہے ۔ ہر ایک فرقہ دوسرے فرقے کی تکفیر کرتا ہے اور اس پر رسول کی تکذیب کی تہمت دھرتا ہے ۔ حنبلی اشعری کو کافر کہتا ہے اور یہ خیا ل کرتا ہے کہ اس نے جو خدا کے لیے اوپر کی جہت ثابت کی ہے اور عرش پر خدا کا بیٹھنا مانا ہے تو اس نے رسول کی تکذیب کی ہے اور اشعری حنبلی کو کافر کہتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ وہ خدا کی تشبیہ کا قائل ہے اور رسول نے تو کہا ہے لیس کمثلہ شیئی ۔ اس لیے وہ رسول کی تکذیب کرتاہے اور اشعری معتزلی کو اس خیال سے کافر بتاتا ہے کہ اس نے خدا کے دیدار ہونے اور خدا میں علم اور قدرت اور دیگر صفات کے قائم بالذات ہونے سے انکار کرنے میں رسول کی تکذیب کی ہے اور معتزلی اشعری کو اس خیال سے کافر بتاتا ہے کہ صفات کو عین ذاتہ نہ مانتا تکثیر فی الذات ہے اور توحید ذات باری میں تکذیب رسول کی ہے ، پس ان جھگڑوں سے نکلنا جب تک کہ تکذیب و تصدیق کی حقیقت نہ سمجھی جاوے مشکل ہے ۔ ‘‘ اس کے بعد امام صاحب تکذیب و تصدیق کی حقیقت اس طرح پر بتلاتے ہیں کہ کسی خبر کی تصدیق صرف اس خبر ہی تک نہیں ٹھہرتی ، بلکہ مخبر تک پہنچتی ہے اور اس کی حقیقت اس چیز کے وجود کو تسلیم کرتا ہے جس کے وجود کی خبر رسول نے دی ہے ، لیکن وجود کے پانچ درجے ہیں اورانہی کے نہ جانتے سے ایک فرقہ دوسرے فرقے کو کافر بتاتا ہے اور وجود کے پانچ درجے یہ ہیں (۱) وجود ذاتی (۲) وجود حسی (۳) وجود خیالی (۴) وجود عقلی (۵) وجود شبھی (شین اور بے کے فتحہ ، یعنی زبر سے) پس جس چیز کے وجود کی رسول نے خبر دی ہے اور جس نے ان کے وجود کو ان پانچوں قسموں میں سے کسی قسم کے وجود سے تسلیم کیا ہے تو وہ اس کی تصدیق کرتا ہے ، نہ تکذیب اور اس کی تشریح مثالوں میں بتائی جاوے گی ۔ وجود ذاتی ، حقیقی وجود ہوتا ہے جو خارج میں موجود ہو اور حس او رعقل اس سے اس کو سمجھے ، جیسے کہ آسمان اور زمین اور جانور اور نباتات کا وجود ہے جو حقیقہ موجود ہے اور سب جانتے ہیں ، بلکہ اکثر ان سے بجز ان کے وجود کے اور کوئی معنی ہی نہیں سمجھتے ۔ وجود حسی ۔ ایسا وجود ہوتا ہے ، جو آنکھ میں محسوس ہوتا ہے ، مگر خارج میں اس کا وجود نہیں ہوتا ۔ اس کا وجود صرف حس ہی میں ہوتا ہے اور حس کرنے والا ہی اس کو دیکھتا ہے او رکوئی دوسرا شخص اس کو نہیں دیکھتا جیسے کہ مریض جاگنے میں بعض دفعہ طرح بطرح کی صورتوں کو اسی طرح دیکھتا ہے جیسے کہ وہ اور تمام موجودات خارجی کو جو وجود حقیقی رکھتے ہیں دیکھتا ہے، حالانکہ ان کا وجود خار ج میں کچھ نہیں ہوتا ، بلکہ کبھی انبیا ء او ر اولیاء اللہ کو صحت کی حالت میں اور جاگنے میں ایک خوبصورت شکل جو فرشتے کی خیال کی جاتی ہے دکھائی دیتی ہے اور اس کے ذریعے سے ان تک وحی و الہام پہنچتا ہے، جیسے کہ حضرت مریم کو ایک آدمی کی صورت دکھائی دی تھی جس کی نسبت خدا نے فرمایا ہے’’ فتمثل لھا بشرا سو یا‘‘ اور جیسے کہ آنحضرت صلعم نے جبریل کو بہت طرح کی صورتوں میں دیکھا ہے اور اصلی صورت میں صرف دو ہی دفعہ دیکھا ہے اور جب کہ مختلف صورتوںمیں دیکھا تھا تو صرف مثالی صورت تھی اور جیسے کہ کوئی آنحضرت صلعم کو خواب میں دیکھتا ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے مجھی کو دیکھا کیونکہ شیطان میری شبیہ نہیں بنتا او رآنحضرت کے دیکھنے کا یہ مطلب نہیںہے کہ آپ کا جسم مطہر روضہء مبارک سے نکل کر خواب دیکھنے والے کے پاس آجاتا ہے او ر اس کو دکھائی دیتا ہے ، بلکہ وہ دیکھنا اس صورت کا ہے جو خواب دیکھنے والے کی حس میں ہے ۔ باقی تحقیق اس حدیث کی اور کتابوں میںلکھی گئی ہے اور اگر تجھ کو اس بات پر یقین نہ ہو تو خود اپنی آنکھ پر تجربہ کرکے یقین کر لے ۔ آگ کی ایک چنگاری ایک نقطے کے برابر لے اور زور سے ہلا۔ وہ تجھ کو آتشین لمبا خط دکھائی دے گی اور اس کو چکر دے تو وہ ایک گول آتشین دائرہ معلو م ہوگی ، حالانکہ نہ خط موجود فی الخارج ہے نہ دائرہ بلکہ حرف تیرے حس میں ہے اور موجود فی الخارج تو صرف وہ نقطہ ہے۔ وجود خیالی ، ان محسوس چیزوں کی صورت ہے جو ہم کو دکھائی دیتی ہیں۔ جبکہ وہ ہمارے سامنے موجود نہ ہوں۔ تم آنکھیں بند کئے ہی ہاتھی اورگھوڑے کی صورت اپنے خیال میں پیدا کر سکتے ہیں، جبکہ وہ ہمارے سامنے موجود نہ ہوں، تم آنکھیں بند کئے ہی ہاتھی اور گھوڑے کی صورت اپنے خیال میں پیدا کر سکتے ہو، گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو اور وہ ہو نہ ہو پوری صورت و شکل کا تمہارے سامنے موجود ہے ، مگر موجود فی الخارج کچھ بھی نہیں۔ وجود عقلی ، ہر ایک چیز کی ایک حقیقت اور اس کے لیے کوئی معنی ، یعنی غایت ہے ، پس جبکہ عقل اس شے کی غایت و مقصد کی طرف بلا لحاظ اس کی صورت ذاتی یا خیالی یا حسی کے منتقل ہوتی ہے تو اس شے کا وجود وجود عقلی ہوتا ہے ، مثلا ہاتھ ۔ اس کی ایک تو صورت موجود فی الخارج ہے جو اس کا وجود ذاتی ہے اور ایک اس کا وجود حسی ہے اور ایک وجود خیالی ہے جس کی تفصیل اور بیان ہوئی، مگر اس کے سوا ہاتھ کے لیے ایک معنی بھی ہیں جو در اصل اس کی حقیقت ہے اور وہ کیا ہے ؟ پکڑنے کی قدرت اور یہی عقلی ہاتھ ہے، اور مثلا قلم ، اس کی ایک صورت ہے۔ مگر اس کے لیے ایک معنی بھی ہیں اور وہ کیا ہیں؟ علوم کو نقش کر دینا اور اس امر کو بغیر اس کے کہ قلم کو لکڑی یا نیزے یا پر یا اسٹیل کی صورت پر خیال کیاجائے عقل تسلیم کر لیتی ہے اور یہی اس کا وجود عقلی ہے۔ وجودشبھی ۔ (بفتح شین و ہائے موحدہ) وہ ہے کہ نفس شے موجود نہ ہو۔ نہ حقیقت میں اور نہ فی الخارج اور نہ فی الحس اور نہ الخیال اور نہ فی العقل ، بلکہ ایک ایسی چیز موجود ہو جو اس کی کسی خاصیت یا صفت میں مشابہ ہو۔ یہ ذرا دقیق بات ہے ، آئندہ مثال میںبخوبی سمجھ میں آوے گی۔ ان پانچوں اقسام وجود کے بیان کے بعد امام صاحب ان کی مثالیں بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ وجود ذاتی توکچھ تاویل کا محتاج نہیں ہے ، اس سے تو یہی ظاہری وجود مراد ہوتا ہے اور اس کی مثال میں فرماتے ہیں جیسے عرش و کرسی و سبع سماوات جن کی خبر رسول اللہ صلعم نے دی ہے اور ان وجود سے ان کا ظاہری وجود مراد ہے اس لیے کہ یہ چیزیں فی نفسہ موجود ہیں خواہ وہ حس سے اور خیال سے جانی جاویں یا نہ جانی جاویں۔ یہ اخیر فقرہ امام صاحب کا اور جو تمثیل کہ امام صاحب نے اس مقام پر دی ہے ، یہ وہی تعلیمی و تربیتی بندش ہے جو ٹوٹ نہیں سکی ۔ تعلیم نے جو ابتداء سے ان کے دل پر آسمان کے جسم کا ایسا ہی یقین بٹھلا دیا تھا جیسے کہ زمین کا ، اس لیے انھوں نے مثال دینے میں آسمان و زمین میںکچھ امتیاز نہیں کیا، یونا نیوں کی ہیئت نے ان کے سات عدد ہونے کا اورآٹھویں فلک ثوابت اور نویں فلک اطلس کا ایسا یقین دلا رکھا تھا کہ ان کی تعداد کا بھی ان کو ایسا ہی یقین تھا جیسے ک زمین اور چونکہ یہ غلط یقین کی ہوئی چیزیں نہ ان کو دکھائی دیتی تھیں نہ محسوس ہوتی تھیں ، اس لیے کہہ دیا کہ ’’ آدر کت بالحس والخیا ل اولم تدرک ‘‘ اور یہ نہ سمجھے کہ جو چیز نہ ظا ہر ا دکھائی دیتی ہو نہ حس و خیال سے معلوم ہوتی ہو تو اس کا وجود ذاتی مع التشخص کیونکر مانا جا سکتا ہے اور وہ شے کیونکر وجود ذاتی کی ان معنوں میں جو خود انھوں نے بیان کئے ہیں مثال ہوسکتی ہے۔ وجود ذاتی کی نسبت زمین کی مثال بالکل صحیح ہے ۔ سموات کے لفظ سے اگر یہی نیلا نیلا گنبد جو ہم کو دکھائی دیتا ہے مراد ہو، گو اس کی ماہیت کچھ ہی ہو تو بھی وجود ذاتی کی مثال دینے میں چنداں مقام تامل نہیں ہے ، لیکن اگر اس سے آگے بڑھو اور آسمان کا جسم یا جرم ایسا مانو جیسا کہ حکماء یونانی نے مانا ہے اور علماء اسلام نے بھی اس کو تسلیم کر کے غلطی سے وہی مطلب قرآن کا بھی قرار دیا ہے تو اس میں کلام ہے اور پھر کسی طرح سموات وجود ذاتی کی مثال نہیں ہو سکتی اور ان کے ساتھ عدد کو بھی وجود ذاتی کی مثال میں داخل کرنا تعجب پر تعجب ہوتا ہے ۔ عرش و کرسی کی تعریف یا ان کی صورت یا ان کے جسم کی حالت یا ان کی ماہیت خدا نے نہیں بتائی اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان کے وجود کو وجود عقلی سے خارج کرکے وجود ذاتی کی مثال میں داخل کیاجائے۔ پس یہ وہی گندہ پانی ہے جوا س شفاف دریا میں مل گیا ہے ۔ وجود حسی کی امام صاحب نے دو عمدہ مثالیں دی ہیں۔ پہلی مثال رسول خدا صلعم کا موت کی نسبت یہ فرما نا ہے کہ قیامت کے دن ابلق مینڈھے کی صورت میں موت لائی جاوے گی اور دوزخ و بہشت کے بیچ میں ذبح کر ڈالی جائے گی ۔ اس پر امام صاحب فرماتے ہیں کہ جو یہ دلیل لاتا ہے کہ موت عرض ہے یا عدم عرض ہے ، یعنی یاتو خود علیحدہ موجود نہیں ہے ، بلکہ مردہ میں پائی جاتی ہے یا زندہ ہیں جو حیات موجود ہوتی ہے اس کے نہ ہونے کا نام موت ہے ، پس جبکہ وہ علیحدہ کوئی چیز نہیں ہے تو اس کا مینڈھے کی صورت میں لایا جانا محال ہے تو وہ شخص اس حدیث کا مطلب یہ قرار دیتا ہے کہ قیامت میں لوگ ایسا ہوتا دیکھیں گے اور اس مینڈھے کی صورت کو جو وہ دیکھیں گے موت سمجھیں گے اور یہ صرف ان کی حس میں موجود ہوگا نہ موجود فی الخارج اور جو شخص اس دلیل کو تسلیم نہیں کرتا وہ سمجھتا ہے کہ در حقیقت موت ہی مینڈھے کی صورت بن جائے گی اور وہی ذبح کی جائے گی۔ دوسری مثال وجود حسی کی رسول خدا ﷺ کا جنت کی نسبت یہ فرما نا ہے کہ مجھ کو اس چار دیواری کے چوڑان کے اندر جنت دکھلائی گئی۔ پس جو شخص یہ دلیل لاتا کہ تداخل اجسام محال ہے اور چھوٹی چیز کے اندر بڑی چیز نہیں سما سکتی وہ اس کے معنی یہ کہتا ہے کہ خود جنت اس چار دیواری میں نہیں چلی آئی تھی ، لیکن حس میں جنت کی صورت بن گئی تھی گویا کہ وہ دکھائی دیتی ہے اور بڑی چیز کا چھوٹی چیز میں دکھائی دینا غیر ممکن نہیں ہے ، جس طرح آسمان چھوٹے سے آئینے میں دکھائی دیتا ہے اور اس طرح کا دکھلانا صرف خیال میں آنے سے بالکل جدا چیز ہے اور یہ تفرقہ اس وقت سمجھ میں آجاتا ہے جبکہ آسمان کو آئینے میں دیکھو اور جبکہ آنکھ بند کر کے اس کا خیالک کرو تو آئینے میں آسمان کی صورت تخیل کی صورت سے دوسری طرح پاؤ گے۔ وجود خیالی کی مثال امام صاحب نے رسول خدا ﷺ کے اس قول سے دی ہے کہ حضرت نے فرمایا ’’ گویا میں یونس ابن متی کو دیکھتا ہوں۔ اس پر دو قطرانی عبائیں ہیں وہ لبیک کہتا ہے اور پہاڑ اس کو جواب دیتے ہیں اور خدا کہتا ہے ، لبیک اے یونس ! ‘‘ آنحضرت صلعم کا ایسا فرما نا اس پر مبنی ہے کہ حضرت کے خیال میں یہ صورت بندھ گئی تھی ، اس لیے کہ اس حالت کا وجود آنحضرت صلعم کے وجود سے پہلے تھا اور وہ معدوم ہوگیا تھا اور اس وقت موجود نہ تھا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت ؓ کی حس میں بہ حالت اس طرح پر آئی تھی کہ اس کو دیکھتے تھے جیسے کہ خواب دیکھنے والا صورتیں دیکھتا ہے ، لیکن یہ فر مانا کہ گویا میں دیکھتا ہوں اس بات کا اشارہ ہے کہ حقیقت میں دیکھنا نہ تھا اور اس سے غرض صرف مثال سے مطلب کا سمجھانا ہے ، نہ خاص اس صورت کا ہونا ،بہر حال جو چیز خیال میں بندھ جاتی ہے وہ دیکھنے ہی کی جگہ ہوجاتی ہے اور اس لیے وہ دیکھنا ہی ہو جاتا ہے ۔ وجود عقلی کی امام صاحب نے دو مثالیں دی ہیں۔ پہلی مثال رسول خدا صلعم کا یہ فرمانا ہے کہ جو شخص سب سے اخیرکو دوزخ میں سے نکالا جاوے گا اس کو دنیا سے دس گنی جنت ملے گی ۔ظاہر میں تو ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے عرض و طول سے دس گنی جنت ملے گی اور یہ تفاوت حسی و خیالی ہے اور جب اس بات کا تعجب ہوتا ہے کہ کیونکر دنیا سے باعتبار مساحت کے دس گنی ہو سکتی ہے ، کیوں کہ جنت تو آسمان پر ہے جیسے کہ روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے ، پھر آسمان میں دس گنی دنیا سے کیونکر جنت سما سکتی ہے۔ اس لیے کہ آسمان بھی تو دنیا ہی میں داخل ہے تو تاویل کرنے والا اس تعجب کو اس طرح دور کرتا ہے کہ اس تفاوت سے تفاوت معنوی اور عقلی مراد ہے ، نہ حسی و خیالی ، جیسے کہ کہتے ہیں کہ یہ موتی تو گھوڑے سے دس گنا ہے ، یعنی مالیت و قیمت میں جو عقلی تفاوت ہے نہ گھوڑے کے قد و قامت سے جو حسی و خیالی تفاوت ہے ۔ اس مثال میں تو امام صاحب نے صرف ملانا بن ہی برتا ہے ۔ انھوں نے بلا تنقیح اس بات کہ فوق کے اور آسمان کے اور جنت کے اور دوزخ کے وجود سے منجملہ اقسام وجود کے جو انہوں نے بیان کئے ہیں کون ساوجود منحقق ہے ۔ اس حدیث کو مثال میں پیش کر دیا ہے اور اسی تعلیمی و تربیتی بندش سے بہشت اور دوزخ کے وجو دکو منوا مالی کے باغ اور کلوا الو ہار کی بھٹی کے مانند تسلیم کر لیا ہے ۔ فلیتعجب کل العجب۔ دوسری مثال رسول خدا ﷺ کا یہ فرما نا ہے کہ چالیس دن تک خدا نے اپنے ہاتھ سے آدم کی مٹی کو گوندھا ہے جس سے خدا کے ہاتھ ہونا معلوم ہوتا ہے ۔ پس جس شخص کے نزدیک دلیل سے ثابت ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ ہونا محال ہے جو ایک عضو محسوسہ اور متخیلہ ہے تو وہ شخص اللہ کے لیے عقلی ہاتھ ثابت کرتا ہے ، یعنی جو حقیقت او ر غایت ہاتھ کی ہے وہ خدا میں ثابت کرتا ہے نہ ہاتھ کی صورت ، اور ہاتھ کی حقیت کیا ہے ؟ پکڑنا ، اس سے کام کرنا ، دینا ، چھین لینا ، جو بواسطہ ملائکہ ہوتے ہیں، رسول خدا صلعم نے فرمایا ہے کہ خدا نے سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا اور کہا کہ تیرے واسطے سے دوں گا اور نہ دوں گا اور اس سے عقل کا عرض ہونا ، یعنی ذی عقل میں قائم ہونا ، نہیں پایا جاتا جیسا کہ متکلمین نے خیا ل کیا ہے ، کیونکہ ممکن نہیںہے کہ عرض،یعنی وہ چیز جو ایک دوسری چیز میں قائم ہو ۔ سب سے اول مخلوق ہو، بلکہ اس سے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ مراد ہوسکتا ہے جس کا نام عقل ہے ۔ اس حیثیت سے کہ وہ اشیاء کی ذاتی باتوں کو بغیر سکھائے جانتا ہے او ر اسی کا نام قلم ہے ، اس حیثیت سے کہ وہ انبیاء او ر اولیاء اللہ اور تمام ملائکہ کے لوح دل پر حقائق علوم کو وحی و الہام سے نقش کرد یتا ہے ۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ سب سے پہلے قلم کو خدا نے پیدا کیا ۔ پس اگر عقل و قلم کو ایک نہ مانا جاوے تو دونوں حدیثوں میں تناقض ہوتا ہے۔ ایک شیئی کے مختلف حیثیتوں سے متعدد نام ہو سکتے ہیں۔ عقل کانام عقل باعتبار اس کی ذات کے اور ملک بلحاظ اس نسبت کے جو اس کو خدا کے ساتھ ہے اور خدا میں اور خلق میں واسطہ ہے اور قلم اس لحاظ سے کہ اس کے سب الہام اوروحی سے علوم کا دلوں پر نقش ہوتا ہے ، نام رکھا جا سکتا ہے اور یہ ایک ہی شیئی کے تین نام مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے ہوئے ، جیسے کہ جبرئیل کا نام باعتبار اس کی ذات کے روح اور بلحاظ ان اسرار کے جو اس کے سپرد کئے جاتے ہیں امین او ربلحاظ اس کی قدرت کے ذومرہ اور باعتبار اس کی قوت کے شدید القویٰ اور باعتبار قربت الی اللہ کے مکین عند ذی العرش او رمطاع اس لحاظ سے کہ بعض ملائکہ کا متبوع ہی کہا جاتا ہے ، جو شخص کہ اس طرح پر قائل ہے اس نے قلم او ر ہاتھ کا عقلی وجود ثابت کیا ہے ، نہ حسی و خیالی ، اس طرح جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ ہاتھ سے مراد صفات باری کی صفتوں میں سے ایک صفت ہے ، خواہ اس سے اس نے صفت قدرت مرادلی ہو یا اور کوئی ، وہ بھی عقلی ہاتھ کا مثبت ہے ۔ وجود شبھی (بفتح الشین والیاء موحدہ) کی مثال امام صاحب نے خدا کی طرف غصہ او ر شوق اور خوشی اور صبر اور اسی طرح کی باتوں کی نسبت کرنے کی دی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ مثلا غضب ، اس کی حقیقت دل میں خون کا جوش مارتا ہے اس مقصد سے کہ غصہ کر کے تسکین حاصل ہو اور یہ بات نقصان اور رنج سے خالی نہیں، پھر جس شخص کے نزدیک خدا کی نسبت ذاتی یا خیالی یا حسی یا عقلی طور پر غضب کو منسوب کرنا دلیل سے محال ثابت ہوا ہے تو وہ اس سے ایک اور صفت کو مراد لیتا ہے جو غضب پر مبنی جیسے ارادہ عقاب اور ارادہ عقاب اور چیز ہے اور غضب اور چیز ہے ، لیکن اس کی صفت میں سے ایک صفت کے قریب قریب ہے اور ایک اثر ہے جو غضب سے صادر ہوتا ہے اور وہ خدا کی شان کے نامناسب نہیں ہے۔ ان پانچوں قسم کے وجود کے بیان کرنے کے بعد امام صاحب فرماتے ہیںکہ جس شخص نے شارع کے اقوال کو ان قسموں میں سے کسی قسم پر تسلیم کیا تو وہ شارع کے قول کا تصدیق کرنے والا ہے ، نہ تکذیب کرنے والا۔ تکذیب جب ہی ہوگی جب وہ ان سب قسم کے معانی و مراد سے انکار کرے اور یہ گمان رکھے کہ جو کہا ہے اس کے کچھ معنی نہیں ہیں او ر وہ کذب محض ہے اور قائل کی غرض دھوکہ دیتا ہے یا دنیاوی مصلحت اور یہ محض کفر و زندقہ ہے اور تاویل کرنے والوں کو جب تک کہ قانون تاویل کو پکڑے ہوئے ہیں، جس کا ہم آگے بیان کریں گے ، کفر لازم نہیں ہوتا۔ اب ہم پوچھتے ہیںکہ بموجب اس تشریح کے جو امام صاحب نے بیان کی کیا وجہ ہے کہ جو لوگ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ’’ الاخبار من الجنۃ والنار حق‘‘ مگر ان کے نزدیک دلیل سے ثابت ہوا ہے کہ جنت و دوزخ منوا مالی کا سا باغ اور کلوا لوہار کی سی بھٹی نہیں ہو سکتی اور اس لیے وہ اس کا وجود شبہی قرار دیتے ہیںپھر وہ کیوں کافر ہیں؟ وہ لو گ جن کے نزدیک کسی دوسری جسم غیر مرئی و غیر محسوس کا مغوی للانسان یاہادی للانسان ہونا محال ثابت ہوا ہے اور ا س لیے وہ شیطان یا ملائکہ کے وجود خارجی کے منکر ہو کر ان کا وجود فی نفس الانسان تسلیم کرتے ہیں اور بعوض ہوکر ان کا وجود فی نفس الانسان تسلیم کرتے ہیں اور بعوض اس کے کہ عورت کے رحم میں ایک مصور فرشتہ گھسا ہوا سمجھا قوت مصورہ ہی پر ملک کا اطلاق کرتے ہیں کیوں کافر ہیں؟ جو لوگ کہ لوح محفوظ کو لڑکوں کی سی تختی اورقلم کو نیزہ یا ٹھیٹرے کا قلم نہیں سمجھتے ، بلکہ ااس کا وجود عقلی تسلیم کرتے ہیں وہ کیوں کافر ہیں؟ جو لوگ کہ وحی من اللہ میں کسی دوسرے کے واسطے کو بدلائل محال سمجھتے ہیں اور وہ اسی قوت کو جو انبیاء میں ہے جس کے سبب ان پر نزول وحی ہوتا ہے اور جس کو ملکہ نبوت سے ابھی تعبیر کیاجتا ہے ، جبرئیل امین تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ الجبریل حق ، وہ کیوں کافر ہیں؟ علاوہ اس کے بے انتہا دریا اسی قسم کی مثالوں کا اس چشمے سے جس کو امام صاحب نے کھولا ہے بہہ سکتا ہے ۔ مگر اخیر کے دو لفظ اما م صاحب کے سخت گرفت کے قابل ہیں اور صرف گرفت ہی کے قابل نہیں ہیں ، بلکہ غلط بھی ہیں۔ وہ اس طرح پر معنی قراردینے کو جس طرح پر بیان ہوا تاویل کہتے ہیں۔ تاویل کے معنی انھوں نے نہیں بیان کئے ، مگر ان کے سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ جن الفاظ کے ظاہری معنی بد لیل مستحکم درست نہ ٹھہر سکتے ہوں تو اس کے دوسرے معنی لیے جاویں اور تاویل کی جاوے ، تاکہ قول قائل صحیح ہوجائے جس کا منشاء یہ نکلتا ہے کہ بغرض تصحیح قول قائل وہ تاویل کی گئی ہے ۔ اگریہی مطلب امام صاحب کا ہو تو یقینی غلط ہے اور خدا و خدا کے رسول کے کلام کو ایسا سمجھتا مساوی تکذیب کے ہے جس کو انھوں نے کفر اور ہم نے کفر شرعی قرار دیا۔ تاویل کے معنی اگرصرف صرف عین الظاہر کے لیے جا ئیں تو میں اس کو تسلیم کرتا ہوں اور اگر اس کے معنی صرف عما قالہ البقائل کے لیے جاویں تو اس کو کفر شرعی سمجھتا ہوں۔ ایک شخص نے کہا کہ زید اسد اور لفظ اسد سے قا ئل کی مراد تھی کہ زید شجاع ہے تو اب ہم جو اسد کے معنی شجاع کے لیتے ہیں وہ درحقیقت تاویل نہیں ہے ، کیونکہ ہم نے وہی معنی لیے ہیں جس کے لیے قائل نے یہ لفظ بولا تھا اور اس طرح پر معنی لینے کو تاویل کہنا حماقت میں داخل ہے ۔ کیا فرق ہے اس میں کہ ایک شخص نے شجاع کے لیے اسد کا لفظ اختیار کیا ہے اور ایک شخص نے شمس کا اپنے بیٹے کے لیے ۔ شمس سے تو حیوان ناطق مع ھذا التشخص مراد لینا تاویل نہ ہو اور اسد سے شجاع مراد اپنا تاویل ہو۔ ہم جو خدا او ر خدا کے رسول کے کلام کے معنی بیان کرتے ہیں یقین کامل رکھتے ہیں کہ خدا و خدا کے رسول نے انہی معنوں میںوہ الفاظ بولے ہیں اور موافق اور مخالف دونوں کو دلیل سے اسکا ثبوت دیتے ہیں، موافق ، یعنی اہل اسلام سے صرف اسی قدر کہتے ہیں کہ تم خدا اور رسول کو برحق او ر ان کے کلام کو سچ او رغلطی سے پاک یقین کرتے ہو، پس اگر ان الفاظ کے یہ معنی و مراد نہ ہوں او ر خدا و رسول نے ان معنی و مراد میں ان کا استعمال نہ کیا ہو تو دلیل مستحکم سے ان کا غلط اور جھوٹ ہونا ثابت ہوتا ہے جو تمہاری تسلیم کے برخلاف ہے ۔ اس لیے ضرور ہے کہ وہی معنی اور مراد خدا اور رسول کی ہے جو صحیح اور سچ ہے ۔ مخالف کو ،یعنی اس کو جو مذہب اسلام کو تسلیم نہیں کرتا دلیل سے اور مقتضائے کلام انسانی سے اور خود خدا و خدا کے رسول کے کلام کے سیاق سے یا اس کی مثل دوسرے کلام سے ثابت کرتے ہیں کہ ان الفاظ کے یہی معنی خدا و خدا کے رسول نے لیے ہیں، ہم اس کی تاویل نہیںکرتے ، بلکہ انہی معنوں و مراد میں خد ا و رسول نے ان الفاظ کو استعمال کیا ہے ، جب وہ کہتا ہے کہ تیرہ سو برس تک اور کسی نے بھی یہ معنی سمجھے ہیں تو ہم اسکو غیر بلید کہتے ہیں۔ کیونکہ بالفرض ہزاروں برس تک کسی کلام کے صحیح معنوں پر کسی اسباب سے لوگوں کا غور نہ کرنا یا پے نہ لے جانا دوسری چیز ہے اور کلام کا فی نفسہ صحیح ہونا دوسری چیز ہے ۔ اس کے لیے سیدھی راہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے بے نہ لے جانے کے اسباب کو تفتیش کرے نہ یہ کہ کلام کے صحیح معنوں کو تسلیم نہ کرے ولا ینجی احد من ھذہ الظلمات الا من شرح اللہ صدرہ للکمالات۔ دوسرا لفظ وہ ہے جس سے امام صاحب نے قانون تاویل کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس قانون کو آگے بیان کیا ہے ۔ ہم اس قانون تاویل کے صحیح نہ ہونے پر بحث نہیںکرتے ، بلکہ امام صاحب نے جو شرط عدم کفر کو اس قانون پر مشروط کیا ہے اس پر بحث کرتے ہیں۔ ہم پوچھتے ہیں کہ وہ قانون تاویل بنانے والا کون ہے ؟ اما م صاحب؟ اگر وہی ہیں یا اور کوئی انسان تو اس بات کے کہنے میںکہ جب تک تاویل کرنے والا ہمارے قانون تاویل کا پابند رہے گا اس وقت تک اس پر کفر لازم نہیں ہوگا اور اس بات کے کہنے میں کہ جو شخص جب تک ہمارے مسائل کا یا ہمارے مذہب کا پابند رہے گا اس وقت تک اس پر کفر لازم نہ ہوگا ، کیا فرق ہے ؟ اشعری و معتزلی و حنبلی کی مخالفت کو (گو کہ وہ ذات و صفات خدا ہی میں کیوںنہ ہو) جب کفر قرار نہیں دیاتو امام صاحب کے بنائے ہوئے قانون تاویل کی مخالفت سے کیونکر کفر لازم آوے گا۔ پس یہ وحی مثل ہوئی کہ فرمن المطر و وقع تحت المیزاب۔ کوئی شخص جس کو امام صاحب موول کہا ہے جب تک کہ وہ تاویل کرتا ہے اور تکذیب نہیں کرتا کافر نہیں کہلایا جا سکتا گو کہ اس کی تاویل کیسی ہی غلط ہو۔ کیا کہو گے حضرت اما م محی الدین ابن عربی کو جن کی تفسیر ایسی رکیک تاویلوں سے بھری ہوئی ہے جس کے لیے کوئی قانون نہیں ۔ ھل ہو کافر نعوذباللہ منھا۔ اس کے بعد اما م صاحب فرماتے ہیں کہ موول کی تکفیر کیونکر ہو سکتی ہے۔اہل اسلام کا کوئی فرقہ بھی ایسا نہیں ہے جو تاویل کا محتاج نہ ہوا ہو۔ سب سے زیادہ تاویل سے پرہیز کرنے والے امام احمد بن حنبل ہیں اور اقسام تاویل سے سب سے بعید تاویل جس سے کلام اپنی حقیقت سے خارج ہو کر صرف مجاز و استعارہ ہی رہ جاتا ہے وہ وجود عقلی و شبہی سے تاویل کرتا ہے۔ امام احمد بن حنبل ایسی بعید تاویل کرنے پر بھی مجبو ہوئے ہیں۔ میں نے بغدار میںنہایت معتبر علماء حنبلی سے سنا ہے کہ امام احمد بن حنبل نے بالتصریح تین حدیثوں کی تاویل کی ہے ۔ پہلی حدیث یہ ہے ’’ الحجر الاسود یمین اللہ فی الارض ‘‘ اور دوسری یہ ہے کہ انی لا جد نفس الرحمن من قبل الیمن ‘‘ اور تیسری حدیث یہ ہے ’’ قلب المومن فی اصبعین من اصابع الرحمن ‘‘ اب دیکھو کہ امام احمد حنبل نے ان میں کیسی تاویل کی ہے ۔ جب ان کے نزدیک ان حدیثوں کے ظاہری معنوں کے محال ہونے پر دلیل قائم ہوئی تو انھوں نے فرمایا کہ بزرگوں کا عادتا داہنا ہاتھ چوما جاتا ہے اورحجر اسود کابھی تقر باََ الی اللہ بوسہ لیاجاتا ہے تو وہ دائیں ہاتھ کی مانند ہوا نہ کہ حقیقت میں دایاں ہاتھ ہے اور اسی مناسبت سے اس کو خدا کا دایاں ہاتھ کہا گیا اور یہ تاویل وہی ہے جس کو ہم نے وجود شبہی بتایا ہے اورجو تاویلوں میںبعید سے بعید تاویل ہے ۔ اب دیکھو کہ جو شخص سب سے زیادہ تاویل سے پرہیز کرتا تھا کیسی بعید سے بعید تاویل پر مجبور ہوا۔ اسی طرح جب ان کے نزدیک خدا کے لیے حسی دو انگلیوں کا ہونا محال ثابت ہوا تو ان کو انگلیوں کے مقصد سے تاویل کیا او ریہ وہی تاویل ہے جس کو وجود عقلی بنایا ہے ۔ انگلیوں سے وہ چیز مقصود ہے جس سے اشیاء الٹ پلٹ کر دینا ہوسکے۔ انسان کا دل جس سے الٹ پلٹ ہوجاتا ہے اس کو کنایۃ خدا کی انگلیوں سے تعبیر کیا ۔ اب دیکھو کہ امام احمد بن حنبل نے کس طرح ان تین حدیثوں کی تاویل کی۔ان کے نزدیک ان تین حدیثوں کے سوا اور کسی حدیث میں استحا لہ لازم نہیںآتا ۔ وہ کچھ زیادہ غور کرنے والے نہ تھے ، اگر زیادہ غور کرتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ خدا کو فو ق کے ساتھ مخصوص کرنے اور چیزوں میں بھی جن کی وہ تاویل نہیںکرتے استحالہ لازم آتا ہے۔ جو کتاب ہمارے پاس موجود ہے اس مقام پر اس میں غالباََ کچھ عبارت ساقط ہوگئی ہے۔ اس لیے کہ اس میں صرف دو ہی حدیثیں ہیں، تیسری حدیث نہیں ہے اور جس کو دوسری حدیث لکھا ہے اس کی تاویل کا بیان نہیں ہے ۔ پس یقینی اس مقام سے کچھ عبارت ساقط ہوگئی ہے ۔ دوسرا نسخہ ہمارے پاس نہیں ہے جس سے مقا بلہ کریں۔ اس کے بعد امام صاحب لکھتے ہیں کہ قیامت سے متعلق امور میں اشعری تاویل نہ کرنے میں حنبلی کے قریب قریب ہیں۔ انہوں نے سوائے چند کے اور سب امور قیامت کو اس کے ظاہری معنوں میں قرار دیا ہے ۔ مگر معنزلہ سب سے زیادہ تاویل کرنے والوں میں ہیں ۔ باوجود اس کے اشعری بھی قیامت کے امور میں تاویل کے محتاج ہوئے ہیں جیسے کہ موت کے مینڈھے کی صورت میں لاکر ذبح کرنے کی مثال میںبیان ہوا۔ اعمال کے تولے جانے میںبھی اشعریوں نے تاویل کی ہے اور کہا کہ صحائف اعمال تولے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان میں بمناسبت اعمال کے وزن پیدا کر دے گا اور یہ تاویل وجود ذاتی کو وجود شبہی قرار دینا ہے جو بعدالتاویلات ہے ، کیونکہ صحائف تو ایسے اجسام ہیں جن میں حساب لکھا جاتا ہے اور بطور اصطلاح کے اعمال کے لفظ سے اس پر استدلال کیا ہے جو عرض ہیں، یعنی اس میں لکھے گئے ہیں۔ پس اس صورت میں اعمال کا وزن نہ ہوگا ، بلکہ ا س چیز کا وزن ہوگا جس میں اعمال لکھے گئے ہیں معتزلی میزان کی تاویل کرتے ہیں اور اس کو ایسے سبب کا کنایہ قرار دیتے ہیں جس سے ہر ایک شخص کے اعمال کی مقدار ظاہر ہو جاوے اور یہ تاویل اعمال کو صحائف سے تاویل کرنے سے بھی زیادہ بعید ہے۔ اس مقام پر یہ غرض نہیں ہے کہ ان تاویلوں میں سے کون سی صحیح ہے ، بلکہ اس بیان سے غرض یہ ہے کہ ہر فرقہ، گو کہ وہ کیسا ہی ظواہر آیات کاپابند رہا ہو اس کو بھی تاویل کی ضرورت پڑتی ہے۔ صڑف وہی شخص جو حد سے زیادہ جاہل و غبی ہو تاویل کرنا نہ چاہے گا اور کہے گا کہ حجر اسود حقیقۃ خدا کا دایاں ہاتھ دنیا میں ہے اور موت گو کہ وہ عرض ہو ، وہ سچ مچ کا مینڈھا بن جاوے گی اور اعمال اگرچہ عرض ہیں اور معدوم بھی ہوگئے ہیں،مگر وہ پھر ترازو میں آویں گے اور باوجود ان کے خود عرض ہونے کے ان میں اعراض مثل وزن وغیرہ کے پیدا ہوںگے ۔ پھر جو شخص کہ جہالت کی اس حد کو پہنچ جائے تو اس کی نسبت کہنا چاہیے کہ وہ عقل سے خارج ہوگیا۔ اس کے بعد امام صاحب قانون تاویل کو جس کا اوپر وعدہ کیاتھا بتاتے ہیں اور فرماتے ہیںکہ یہ تو تو نے جان لیا کہ یہ پانچ درجے تاویل کے جو بیان ہوئے اس پر تمام فرقے متفق ہیں او ر ان میں کوئی سی تاویل کرنی تکذیب رسول نہیں ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ ان تاویلوں کا جائز ہونا ان کے ظاہری معنوں کی دلیل سے محال ثابت ہونے پر موقوف ہے اور ظاہری معنی ہر ایک چیز کے جس کی خبر دی گئی ہے وجود ذاتی ماننا ہے جب کہ اس کا وجود ذاتی ماننا متعدد ہو تو وجود حسی تسلیم کرنا ہے اور جب کہ اس کا تسلیم کرنا بھی متعدد ہوتو وجود خیالی او رعقلی کا تسلیم کرنا ہے ۔ اگر اس کا تسلیم کرنا بھی متعذر ہو تو وجود شبہی و مجازی کا تسلیم کرنا ہے ۔ ایک درجے سے دوسرے درجے میں تنزل کی جب تک کہ وجہ و دلیل کے ٹھیک اور ناٹھیک ہونے کی نسبت ہوگا۔ حتبلی کہے گا کہ ذات باری کو جہت فوق سے مخصوص کرنے میں کوئی محال لازم نہیں آتا۔اشعری کہے گا کہ خدا کی رویت ہونے میں کوئی محال نہیں ہوتا اور ان کے مخالف جو دلیلیں ان کے محال ہونے کی پیش کرتے ہیں ان کو وہ دلیل کافی اور برہان قطعی نہیںسمجھتے ۔ خیر جو کچھ کہ ہو ۔ مگر یہ بات کیونکر لائق ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق کو کافر بتادے ۔ باوجو دیکہ اس کو دلیل کے سبب سے غلطی میںپڑنا تسلیم کرتا ہے۔ ہاںیہ بات ممکن ہے کہ اس کو گمراہ اور مبتدع کہے۔ گمراہ اس لیے کہ جو راہ اس کے نزدیک تھی اس سے بھٹک گیا مبتدع اس لیے کہ اس نے ایک ایسی بات نکالی کہ سلف سے اس کی تصریح کرنے کا دستور نہ تھا ، کیونکہ سلف سے یہ بات مشہور ہے کہ خدا دکھائی دے گا پس یہ کہنا کہ نہیں دے گا بدعت ہے اور تاویل کر نا رویت کا بھی بدعت ہے ، بلکہ جس شخص کے نزدیک یہ بات تحقیق ہو کہ رویت سے مشاہدہ قلبی مراد ہے تو اس کو لازم ہے کہ اس کا ذکر کسی سے نہ کرے اور کسی سے نہ کہے ، کیونکہ سلف نے اس کاکبھی ذکر نہیں کیا ، مگر اس کہنے پر حنبلی کہے گا کہ خدا کا فوق پر ہونا سلف سے مشہور ہے اور ان میں سے کسی نے نہیںکہا کہ خالق عالم نہ عالم سے ملا ہوا ہے اور نہ عالم سے جدا ہے اور نہ عالم کے اندر ہے اور نہ عالم کے باہر ہے اور چھیئوں طرفین اس سے خالی ہیں، یعنی جہت سے مستغنی ہے اور اس کی نسبت فوق کے ساتھ ایسی ہے جیسے کہ تحت کے ساتھ تو یہ کہنا بھی بدعت ہے، کیونکہ بدعت کے معنی نئی بات نکالنے کے ہیں جو سلف سے ماثور نہیں ہے ۔ اس بحث سے تجھ کو معلوم ہوا ہوگا کہ ان باتوں کے لیے دو مقام ہیں ۔ ایک تو عوام خلق کا درجہ و مقام ہے ، ان کے لیے تو یہی بہتر ہے کہ جو کچھ ہے اس کو مانیں اور جو ظاہری معنی لفظ کے ہیں اس کے تغیر تبدیل سے قطعا باز رہیں اور اس کی تصریح اور نئی تاویل سے اس کی تصریح صحابہ نے نہیں کی باز رہیں اور باب سوالات کو نکل بند کر دیں او ر اس میں خوض کرنے سے ڈانٹ دئے جائیں اور کلام اللہ او رحدیث رسول اللہ میںجو متشابہات ہیں ان کی متابعت کریں ۔ روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ سے کسی نے دو متعارض آیتوں کی نسبت پوچھا ۔ انھوںنے اس کو دروں سے ٹھونک دیا او ر ایک روایت میںہے کہ امام مالک سے خدا کے استویٰ علیٰ العرش سے سوال کیاگیا ۔ انھوں نے کہا کہ استویٰ کے معنی معلوم ہیں اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کی کیفیت لامعلوم ہے اور اس سے سوال بدعت۔ جو کچھ امام صاحب نے بیان کیا رکاکت سے خالی نہیں۔ قانون جو انھوں، بتایا عمدہ و سنجیدہ ہے،مگر خدا و خدا کے رسول کے کلام کے لیے ایسا قانون قرار دینا ٹھیک نہیںہے ۔ اس قانون کے تو یہ معنی ہیں کہ ہم کو خواہ مخواہ ایک شخص کے کلام کو درست کرنا اور صحیح بتانا ہے۔ پس اگر اس کے ایک معنی نہیں بنتے تو دوسرے معنی لیتے ہیں۔ جب دوسرے نہیںبنتے توتیسرے معنی لیتے ہیں اورعلیٰ ھذا القیاس ۔ خدا و رسول کے کلام کے لیے ایسا قانون بنانا تو ایک ایسے نوکر کی مثال ہے جو اپنے آقا کی ہر غلط اور دور از قیاس بات کو صحیح پہلو پر ثابت کرنے کے لیے کوشش کرتا تھا ۔ خدا اور رسول کے کلام کے لیے تو خود ان ہی کے کلام سے انہی کے منشاء و مراد سے ، انہی کے سیا ق کلام سے ، انہی کے سیاق عبار ت سے ، انہی کے کلام سے دلیل و برہان قائم کر کے اس بات کا تحقیق کرنا ہے کہ ان الفاظ کے کیا معنی اور ان سے کیا مراد ہے ۔ حقیقی یامجازی یا استعارہ ذاتی یا حسی یا خیالی یا عقلی یا شبہی ۔ پس جو تحقیق ہو وہی اس کے حقیقی معنی ، یعنی مراد قائل ہے بلا تاویل و بلا رد و قدح کے ۔ پس یہی اصلی قانون ہے جو پاک کلام سے متعلق ہو سکتا ہے ۔ العجب ثم العجب کہ امام صاحب نے ایسے شخص کو جو اس قسم کی بحثیں کرتا ہے ضال و مبتدع کہنا پسند کیا ہے ۔ ضال ، یعنی گمراہ اس کی نسبت اطلاق کیا جاتا ہے جو راہ حق سے گمراہ ہو گیا ہو، مگر ابھی تک اس شخص میں اور اس کے مخالف میں اس بات کا تصفیہ ہی نہیںہوا کہ حق کس کیطرف ہے اور اس لیے ان دونوں میں سے کسی کو گمراہ کہنا صحیح و درست نہیںہے ۔ مبتدع کہنااس سے بھی زیادہ تعجب کی بات ہے ۔ جو شخص کہ کسی امر کے حق ہونے کا دعویٰ کرتاہے اور لوگوں کو اس کا قبول کرنا اور یقین دلانا چاہتا ہے اس کافرض ہے کہ اپنے دعوے کے حق میں ہونے کو ثابت کرے ۔ خدا نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا ہے ۔ قرآن مجید میںان کے لیے جن کو مذہب اسلام کی دعوت کی ہے اور منکرین اور معترضین کے اسکات کے لیے اول سے آخر تک دلیلیںبھری پڑی ہیں ۔ جس کے دل میں خود خدشات پیدا ہوئے ہیں اس کو خود اپنی تسکین کرنی واجب ہے۔ پس ایسا امر جو خود خدا نے اختیار کیا ہے اور اور جس کے بغیر چارہ نہیں کس طرح بدعت ہو سکتا ہے ۔ حقیقت میںبھی بدعت کا اطلاق اس پر نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس کی نظیر خدا کے کلام میں موجود ہے، ہاںبہت سے امور ایسے ہیںجن پر اس زمانے میں بحث نہیں ہوئی ، کیونکہ پیش نہیں آئے تھے۔ اب کہ وہ پیش آئے تھے اسی نظیر سے اس پر بحث کرنی ضرور ہے۔ عوام کو اما م صاحب اس بحث سے منع کرتے ہیں اور یہ زجرو تو بیخ فرماتے ہیں کہ چپ رہو ور اسی پریقین رکھو۔ اول تو یہی غلطی ہے کہ ان کو کہا جاتا ہے کہ اسی پر یقین رکھو۔ یقین کرنا تصدیق قلبی کا نام ہے، پس جس شخص کو کسی بات میں شبہ ہے جب تک کہ اس کا وہ شبہ نہ نکل جاوے اس کو تصدیق قلبی ہو کیونکر سکتی ہے ۔ حضڑت عمر ؓ کی نسبت جو روایت لکھی ہے اول تو وہ یقین کے لائق نہیںہے، اس لیے کہ اس کے سچ ہونے کاثبوت نہیں او ر اگر اس کو واقعی تسلیم کیا جاوے تو امام مالک ؒ کی طرح ہم بھی اس کی نسبت کہیں گے ’’ والکیفیۃ مجھولۃ‘‘ کیونکہ حضرت عمر ؓ کے کسی فعل کی کیفیت کا مجھول ہونا ایمان میںکچھ نقصان نہیں لاتا ۔ بر خلاف اس کے کہ عقائد اسلام میںسے کسی عقیدے کایقین تولازمی اور ضروری بتایاجاوے اور اسکی کیفیت کی نسبت کہا جاوے کہ ’’مجھولۃ‘‘ امام مالکؒ نے کیفیت استویٰ کو مجھول بتایا ان کو معلوم نہ ہوگی اور ان کے باوجود اس کی کیفیت نہ معلوم ہونے کے استویٰ پر یقین ہوگا ۔ اس زمانے میں ہزاروں لاکھوں کروڑوں مسلمان ایسے ہیں جنکو حقیقت استویٰ اور حقیقت حشر و میزان و وزن اعمال معلوم نہیں ، مگر وہ ان سب پر دل سے یقین رکھتے ہیں اور نہایت عمدہ اور سچے اور سیدھے مسلمان ہیں ۔یہی حال استویٰ کے مسئلے میںامام مالک کا ہوگا۔ بحث میں اس میں ہے کہ جب مخالفین اس پر معترض ہوں یا خود کسی کے دل میں اس کی نسبت شبہ پیدا ہو تو اس سے بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ والکیفیۃ مجحولۃ والایمان بہ واجب حاشا و کلا۔ عوام کی تعریف امام صاحب نے کچھ نہیں فرمائی ۔ امام صاحب کے زمانے میں معدودے چند لوگ ہوں گے جو دارالعلوم بغدار میںپڑھ کر ملا کہلاتے ہوں گے اور انہوں نے بھی صرف عربی لٹریچر اور فلسفہ یونا نیہ میں کمال حاصل کیا ہوگا جو خود بہت سے غلط باتوں پر مبنی ہے، باقی لوگو وہ ہوں گے جو الف کے نام بے بھی نہیں جانتے ہوں گے ، مگر ہمارے زمانے کا حال ایسا نہیں ہے ۔ عربی لٹریچر کا تنزل جہاں تک کہو تسلیم کیا جا سکتا ہے مگرعوام کسی خاص زبان میں مقید نہیں ہیں۔اس زمانے میںعلوم کی ترقی اس درجے پر پہنچ گئی ہے کہ عوام کے لفظ کا اطلق ہی مشکل پڑ گیا ہے ۔ علوم حکمیہ اور ریاضیہ و طبعیہ نئے نئے پیدا ہوگئے ، گلی گوچوں میں پھیل گئے۔ بے مبالغہ لاکھوں آدمی ہیںجو ہندسہ کو اقلیدس سے بہت زیادہ جانتے ہیں۔ لاکھوں آدمی ہیںجو فن تشریح کو بو علی سینا سے بہت بہتر جانتے ہیں، علوم طبعیہ نے ہزاروں چیزوں کی حقیقت کو ظاہر کر دیا ہے جو پہلے معلوم نہ تھیں ، تمام دنیا کے مذہبوں کے امتحان کو ،بڑے بڑے لوگوں کے اقوال کو جانچنے کو کسوٹیاں موجود ہوگئی ہیں ، پس اس زمانے میں نہ وہ درہ کام آسکتا ہے اور نہ ’’ والکیفیۃ مجھولۃ ‘‘ کہنا ۔ اس زمانے میں جو شخص کسی بات کے سچ ہو۔ کا دعویٰ کرتا ہے ، گو کہ وہ مذہب ہی کیوں نہ ہو، جب تک کہ اس کا سچ ہونا ثابت نہ کر دے سچ نہیںمانا جاتا ۔ پس جو لوگ کہ اسلام کے طرفدار ہیں ان کا فرض ہے کہ اس کو ان کسوٹیوں پر امتحان کے لیے حاضر کریں اور کامل امتحان اور علوم کے مقابلے میں اس کا حق ہونا ثابت کر دیں۔ و ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشائ۔ ہاں اتنی بات بے شک ہے کہ مسائل کے فہم کے موافق جواب دیا جاوے اور اس کی تسکین کی جاوے۔ خدا نے بھی بہت جگہ قرآن مجید میں ایسا ہی کیا ہے ، مگر یہ امر مجیب کی لیاقت سے علاقہ رکھتا ہے نہ سائل سے ۔ ایک دفعہ جناب مولانا مولوی محمد اسماعیل صاحب ؒ کے وعظ میں جس میں انھوں نے اولیاء اور انبیاء سب سے نفی علم غیب کی تھی ایک شخص نے کہا کہ آپ تو فرماتے ہیں کہ اولیاء کو علم غیب نہیں ہوتا اور فلاں اولیاء اللہ نے لکھا ہے کہ اگر ساتویں زمین پر چیونٹی چلتی ہے تو مجھے خبر ہو جاتی ہے ۔ مولانا نے اس کے فہم کا اندازہ کر کے اس کو جواب دیا کہ میاںکبھی انھوں نے اپنی بیوی سے یہ بھی پوچھا ہوگا کہ کھانا کیا پکا ہے ، اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو علم غیب نہ تھا۔ ایک دفعہ مولانا مرحوم سے ایک شخص نے حافظ کے اس شعر کے معنی پوچھے آں تلخ و ش کہ صوفی امام الخبائثش خواند اشھیٰ لنا و احلیٰ من قبلہ العذا را اور کہا کہ شراب کو امام الخبائث تو آنحضرت صلعم نے فرمایا ہے۔ پس صوفی سے یہاں کیا مطلب ہے ۔ مولانا نے جواب دیا کہ یہاں ایک شاعر کا شعر ہے ۔ کچھ قرآن و حدیث تو نہیں ہے جس کی صحت کی فکر میںپڑے ہو۔ جان لو اور سمجھ لو کہ بے جا کہا ہے ۔ ہماری غرض یہ ہے کہ عامی ہو یا عالم اس کے دل کا شبہ مٹانا یاا اس کو اپنے دل کا شبہ مٹانا واجب ہے اور بغیر اس کے اس کو تصدیق قلبی نہیں ہوسکتی اور جن کے دل میں کوئی شبہ نہیں ہے ، خواہ وہ عامی ہوںیا عالم ان سے کچھ بحث نہیں ہے۔ اس کے بعد امام صاحب نے دوسرے درجے کے لوگوں کی نسبت ، نہایت عمدہ بحث لکھی ہے ۔ وہ فرماتے ہیںکہ جب اہل تحقیق کے عقائد ماثورہ اور مرویہ ڈگمگا نے لگیں تو ان کوبقدر ضرورت بحث کرنے اور برہان قاطع کے سبب ظاہری معنوں کو ترک کر دینا لائق ہے، لیکن ایک دوسرے کی تکفیر اس وجہ پر کہ جس امر کو اس نے برہان قاطع سمجھ کر ظاہری معنوں کو ترک کیا ہے اس کے برہان سمجھنے میں اس نے غلطی کی ہے ، نہیں ہو سکتی ، کیونکہ یہ بتا آسان نہیں ہے برہان کیسی ہی ہو اور انصاف ہی سے لوگ ا س پر غور کریں، مگر تاہم اختلاف ہونا ناممکن نہیں ہے ، خواہ تو اس وجہ سے کہ بعضوں نے اس کے تمام شرائط پر لحاظ نیں کیا یا بغیر کامل غور کے اور میزان برہان میں وزن کرنے کے صرف اپنی طبیعت ہی پر بھروسا کر لیا ہے ، جیسے کہ کسی شاعر نے عروض تو پڑھ لی ہو ، مگر اشعار وزان نہ کرے اور صرف طبیعت کے بھروسے پر رہنے دے تو کچھ عجب ہو کہ کبھی غلطی میں پڑ جاوے یا ان علوم کے اختلاف کے سبب سے جو برہان کے لیے بطور مقدمات کے ہیںکچھ تو ان میں سے تجربہ ہیں اور کچھ تواتر وغیرہ اور لوگوں کو تجربہ اور تواتر دونوں میں اختلاف ہوتا ہے۔ ایک کے نزدیک تو اس میں تواتر ہوتا اور دوسرے کے نزدیک نہیں ہوتا ۔ ایک شخص تجربہ کر کے ایک بات کو مانتا ہے اور دوسرے کا تجربہ اس کو نہیں مانتا یا بوجہ مشتبہ ہوجائے قیاسی امرکے وھمی امر سے یا بوجہ التباس کلمات کے اختلاف ہوتا ہے ۔ یہ تصریح امام صاحب کی بالکل سچ و برحق ہے اور اہل اسلام کو ایک دوسرے کی تکفیر سے عمدگی سے منع کیا ہے ۔ اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ بعض آدمی بغیر برہان کے اپنے گمان و وہم کے غلبے سے تاویل کر بیٹھتے ہیں، مگر ہر جگہ ان کی بھی تکفیر لاز م نہیں ہے ، بلکہ دیکھنا چاہیے کہ کس چیز میں وہ تاویل کرتا ہے ۔ اگر وہ تاویل مہمات عقائد سے متعلق نہ ہو تو اس کی تکفیر کرنی نہیں چاہیے ۔ جیسے کہ بعض صوفیہ کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کاچاند و سورج کو دیکھنا اور یہ کہنا کہ یہ میرا خدا ہے ، ان سے چاند و سور ج مراد نہیں ہیں، بلکہ انھوں نے ملکوت کی چیزیں دیکھی تھیں اور ان کی نورانیت عقلی تھی نہ حسی اور بسبب تفاوت درجات کمال کے حضرت ابراہیم ؑ نے ان کو کو اکب و شمس و قمر سے تعبیر کیا تھا اور اس کی دلیل یہ لاتے ہیں کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی شان سنے بعید ہے کہ کسی جسم میںخدا ہونے کا اعتقاد کریں، جب تک کہ ان کا غروب ہو جانا نہ دیکھ لیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر وہ غروب ہوجانا نہ دیکھ لیں ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر وہ خدا کوجسم میں ہونا محال نہ سمجھتے۔ اور یہ دلیل بھی لاتے ہیں کہ پہلے ہی پہل اسی چاند و سورج و کواکب کودیکھنا کیونکر کہا جا سکتا ہے اور جو کچھ انھوں نے دیکھا تھا وہ تو وہ چیز تھی جس کو پہلے ہی پہل انھوں نے دیکھا تھا ۔ اس کے بعد امام صاحب صوفیہ کے استدلال کی غلطی بیان کر تے ہیں اور فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کی شان سے ایسے اعتقاد کو بعید قرار دینا ٹھیک نہیں ہے ، اس لیے کہ انھوں نے چھٹپن میں کواکب و شمس و قمر کو دیکھ کر ایسا خیال کیا تھا اور چھٹپن کے زمانے میںایسے شخص کے دل میں جو نبی ہونے والا ہو، ایسے خیالات کا آنا کچھ بعید نہیں ہے ۔ خصو صاجب کہ وہ فی الغور زائل ہوگئے ہوں اور کیا عجب ہے کہ ان کاغروب ہونا ان کے نزدیک ان کے حادث ہونے پر بہ نسبت ان کی جسمیت و مقدار کے زیادہ تر واضح دلیل ہو اور ان کے پہلے ہی پہل ان کا دیکھنا اس روایت پر مبنی ہوسکتا ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ چھپٹن کے زمانے میں ایک بھونرے میں قید تھے اور رات کو اس میں سے نکلتے تھے ۔ امام صاحب کی دلیلوں کی رکا کت و لغویت اور مہمل قصول پر ان کا مبنی ہونا او رایسے بڑے عالم کا اس طرح پر تعلیمی و تربیتی گڑھوں میں گر پڑ نا خود انکی دلیلوں سے ظاہر ہوتا ہے ۔ گو کہ صوفیہ کا استدلال بھی ایک بے معنی استدلال ہے تجد تحقیق ھذا المقام فی تفسیر القرآن انشا ء اللہ تعالیٰ۔ بہر حال امام صاحب اس قسم کی تاویلات کو اورجو تاویل کہ صوفیہ نے ’’ اخلع نعلیک ‘‘ اور ’’ الق مافی یمینک ‘‘ کی نسبت نعلین و عصائے موسیٰ کے کی ہے اور جو تاویل کہ صوفیہ نے عجل سامری کی ، کی ہے اس کو مہمات عقائد سے خیال نہیں کرتے اور ان کے استدلال کو ظنون و اوھام قرار دیتے ہیں۔نہ برہان ، مگر ان کی تکفیر سے اس لیے منع کرتے ہیں کہ وہ تاویل مہمات عقائد سے متعلق نہیں۔ اس کے بعد امام صاحب نے کفر کا دروازہ کھولا ہے اور فرماتے ہیں کہ مگر اس قسم کی تاویلیں جو اصول عقائد مہمہ کی نسبت کی جا ویں اور ظاہری معنوں کو بغیر برہان قاطع کے تغیر کیاجاوے تو ان تاویل کرنے والوں کی تکفیر لازم ہے جیسے کہ منکرین حشر اجساد و منکرین عقوبات حسیہ نے اپنے ظنون و اوہام سے بغیرک برہان قاطع کے اس کو مستبعد سمجھا ہے۔ پس ان کی تکفیر قطعا واجب ہے ، کیونکہ ارواح کے اجساد میں پھر آنے کے محال ہونے پر کوئی برہان قاطع نہیں ہے اور اس پر بحث کرنی دین میں نقصان عظیم ڈالتی ہے ، پس ان کی تکفیر واجب ہے ۔ اسی طرح اس شخص کی بھی تکفیر وا جب ہے جو کہتا کہ ہے خدا تعالیٰ بجز اپنے آپے کے اور کچھ نہیں جانتا ، اس لیے کہ وہ بجز کلیات کے جزئیات کو جو اشخاص سے متعلق ہیں نہیں جانتا ۔ ایسے شخص کی تکفیر اس لیے واجب ہے کہ اس سے قطعاََ تکذیب رسول صلعم لازم آتی ہے اور یہ اس قسم کی تاویلات میں سے نہیں ہے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے ، کیونکہ قرآن اور حدیث کی دلیلیں تعمیم حشر اجساد اور تعمیم علم باری پر نسبت ہر ایک بات کے جو ہوتی ہے حد سے متجاوز ہیں جن میں کوئی تویل نہیں ہوسکتی اور وہ لوگ بھی اپنے اس قول کو تاویل نہیںکہتے ، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ معاد عقلی کے سمجھنے کی عقل لوگوں میں عمو مانہیں ہے اور اس لیے خلق کی اصلاح اسی میںہے کہ لوگ حشر اجساد پر اعتقاد رکھیں اور یہ بھی یقین کریں کہ جو کچھ ہوتا ہے خدا اس کو جانتا ہے اور اس کا نگہبان ہے، تاکہ اس اعتقاد سے ان کے دل میں رغبت و ڈر پیدا ہو او ر رسول خدا صلعم کو اس طرح پر سمجھا نا جائز ہے اور اگر کوئی شخص کسی کی بھلائی کے لیے خلاف واقع کوئی بات کہے تو وہ کاذب نہیں ہے ۔ مگر اس طرح پر کہنا بالکل غلط ہے ، کیونکہ وہ صریح جھوٹا کہنا ہے اور جو دلیل بیان کی ہے وہ اس بات کا بیان ہے کہ کیوں جھوٹ بولا ہے اور ایسی خصلت سے منصب نبوت میں خلل لازم آتا ہے اور ندیق ہونے کا پہلا درجہ ہے اور اعتزال اور زندقہ مطلق کے بیچ بیچ میں ہے ۔ کیونکہ معتزلیوں کی دلیلیں فلسفیوں کی دلیلوں کی طرح پر ہیں، بجز اس کے کہ معتزلی ایسے عذر کے سبب سے رسول پرکذب جائز نہیں رکھتے ، بلکہ وہ ظاہری معنوں کی جہاں اس کے برخلاف ان کو برہان ملتی ہے تاویل کر دیتے ہیں اور فلسفی جن چیزوں کی تاویل بعید یا قریب ہوسکتی ہے تاویل کر دیتا ہے ۔ زندیق مطلق اصل معاد کا ، عقلی ہو یا حسی ، منکر ہوتا ہے اور صا نع عالم کو بھی سرے سے نہیں مانتا ۔ مگر معاد عقلی کا ثابت کرنا اور آلام و لذات حسی کا نہ ماننا اور صانع کے وجود کا تسلیم کرنا اور اس کے علم تفصیلی سے انکار کرنا وہ ایک مقید زندقہ ہے جس میں ایک نوع تصدیق انبیاء کی پائی جاتی ہے ۔ اس کے بعد امام صاحب لکھتے ہیں کہ جس حدیث میںیہ آیا ہے کہ ’’ ستفترق امتی اثنا و سبعین فرقۃ کلھم فی الجنۃ الا الزنا دقۃ ‘‘ توظاہر اََ اس حدیث سے امت محمدیہ کایہی فرقہ مراد ہے ، کیونکہ حضرت نے امتی کا لفظ فرما یا ہے اور جو شخص کہ حضرت کی نبوت کا قائل ہی نہ ہو اس پر امتی کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوسکتا اورجو لوگ اصل معاد اور صا نع کے منکر ہیں وہ نبوت کے بھی قائل نہیں ہیں، بلکہ وہ سمجھتے ہیںکہ موت عدم محض کانام ہے اور عالم بنفسہ بغیر صانع کے موجود ہے او رہمیشہ چلا جاوے گا اور نہ خدا پر یقین کرتے ہیں اور نہ قیامت پر اور انبیاء کو دھوکا دینے والا بتاتے ہیں ، ان پر تو امتی کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا ۔ پس اس امت کے زنداقہ کا مصداق بجز ان کے جن کا اوپر ذکر ہوا اور کوئی ہو ہی نہیںسکتا۔ یہی مقام ہے جہاں امام صاحب اپنی تقلیدی و تعلیمی و تربیتی بندشوں کو توڑ نہیں سکے اور اپنے کلام کے اختلاف کو بھی خیال میں نہ رکھ سکے۔ انھوں نے فرمایا ہے کہ جو شخص مہمات عقائد میںبغیر برہان قاطع تاویل کرے اس کی تکفیر واجب مہمات عقائد میںبغیر برہان قاطع تاویل کرے اس کی تکفیر واجب ہے اور اس کی مثال حشر اجساد اور عقوبات کے ظاہری معنوں کے تاویل کی دی ہے ۔ برہان قاطع کی انھوں نے اس مقام پر بھی شرط لگائی ہے اور خود لکھ آئے ہیں کہ برہان کو برہان قرار دینے میںبہت سے اسباب سے اختلاف رائے ہوسکتا ہے۔ اور برہان کی غلطی کے سبب تکفیر نہیں چاہیے ۔ پس اب یہ سوال ہے کہ گو امام صاحب کے نزدیک اعادہ ارواح اجسام معدوم میں محال نہ ہو مگر جس کے نزدیک اس کا محال ہونا برہان سے ثابت ہوا ہو اور گو کہ برہان میں اس سے غلطی ہوئی ہو اس کی تکفیر کیوں واجب ہے؟ حشر اجساد پربحث کرنے کو جو انھوں نے ضرر عظیم فی الدین قرار دیا ہے یہ بھی ان کی غلطی ہے ، بلکہ بحث نہ کرنا اور اس کو درجہ تحقیق پر نہ پہنچانا ضرر فی الدین ہے۔ دنیا میں ایسے لوگ ہیں جو حشر اجساد و نعیم جنت و عذاب دوزخ پر جن لفظوں سے کہ وہ وارد ہیںیقین رکھتے ہیں وہ لوگ تو ضرور مباحثے سے خارج وغیر متعلق ہیں ان کے سوا دو قسم کے اور لوگ ہیں۔ ایک وہ جو مسلمان نہیں ہیں اور خواہ اس ارادے سے کہ بعد تحقیق کے مسلمان ہوںیا اس ارادے سے کہ مذہب اسلام کا مہمل و غلط ہونا ثابت کریں مباحثہ کرتے ہیں ۔ دوسرے وہ لوگ جو مسلمان ہیں اور بسبب شیوع علوم حکمیہ و تحقیقات علوم طبعیہ کے جو امام صاحب کے زمانے سے اب بہت اعلیٰ درجے پر پہنچ گئی ہے اور حد استدلال سے خارج ہوکر مشاہدہ عینی کے درجے تک ثابت ہوگئی ہے اور ایسی سہل و عام ہوگئی ہے کہ جن لوگوں کو امام صاحب عوام کہتے ہیں وہ بھی ان کی عالم ہوگئے ہیں اور ان مسلمانوں کے دل میں حشر اجساد اور الام والذاید معادکی نسبت شبہات پیدا ہوئے ہیں اور وہ اعادہ ارواح کو اجسام معدوم میں محال سمجھتے ہیں اور معاد میںآلام و الذایذ کا ایسا ہی ہونا جیسا کہ دنیا میں آلام و لذایذ ہوتے ہیں محال قرار دیتے ہیں۔ پس ان کے لیے ان امور پر مباحثہ اور اس کی حقیقت کو بیان کرنا نفع عظیم فی الدین ہے یا ضررعظیم فی الدین۔ ایک کافر مسلمان ہوناچاہتا ہے بشرطیکہ اسکو سمجھا دو کہ اسلام میں حشر اجساد اور آلام و لذایذ معاد کیونکر ہوسکتے ہیں۔ امام صاحب جواب دیتے ہیں کہ چپ ،بحث مت کرو۔ اس سے ضرر فی الدین ہے ۔ جن لفظوں سے آیا ہے اسی پر یقین کرو۔ سید احمد کہتا ہے کہ کوئی لفظ اسلام کا ایسا نہیں ہے جس پربحث سے کچھ اندیشہ ہو اور سچ میںیہی خوبی ہے کہ اس کو بحث سے اندیشہ ہو اور سچ میں یہی خوبی ہے کہ اس کو بحث سے اندیشہ نہیں۔ ان دونوں میں کون شخص دین کو مضرت پہنچاتا ہے اور کون منفعت؟ ایک مسلما ن اسلام کو ترک کرتا ہے ، اس لیے کہ حشر اجساد اورآلام و لذایذ معاد جو اسلام میں ہیں اس کے نزدیک ان کا ہونا محال ثابت ہوتا ہے ۔ امام صاحب فرماتے کہ خاموش، ایسی باتوں سے ضرر عظیم دین میں ہوتا ہے ۔ سید احمد اس کی حقیقت او رماہیت سمجھانے کو مستعدہوتا ہے پھر ان دونوں میں سے کون اسلام کی حقانیت پر زیادہ یقین رکھتا ہے؟ سب سے مشکل مثال جو امام صاحب نے اس مقام پر دی ہے وہ نفی علم جزئیات کی ذات باری سے ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ اعتقاد صحیح ہے، نہ میں ا س مقام پر اس کی حقیقت بیان کرنی چاہتا ہوں۔ مگر میں یہ پوچھتا ہوں کہ جن آیات و اخبار سے امام صاحب قرار دیتے ہیں کہ خدا کو علم جزئیات کاہونا ان سے علانیہ ظاہر ہے آیا وہ بھی ان سے علانیہ ظاہر ہونے کاقائل ہے یا نہیں۔ اگر ہے اور پھر اس سے انکار کرتا ہے تو بلاشبہ تکذب رسول لازم آتی ہے اور اگر وہ قائل نہیں ہے اور ان آیات و اخبار سے اس کے نزدیک خدا کو علم جزئیات ہونا ظاہر نہیں ہے ، گو کہ وہ اس غلطی پر ہو تو اس کی طرف تکذیب رسول کیونکر منسوب کی جاسکتی ہے؟ اس سے بھی زیادہ سخت اس شخص کی مثال ہے جو رسول کو ترغیب و تر بینا بے سمجھ لوگوں کے لیے معاد عقلی کو یا علم کلیات ذات باری کو معاد جسمانی کے پیرائے اورعلم جزئیات کے طور پربیان کرنا جائز قرار دیتا ہے اور باوجود اس کے رسول کیطرف کذب کی نسبت نہیں کرتا۔ گو اس کو ایسا سمجھتا فی نفسہ غلط ہو، مگر اس کی طرف کیونکر خلاف اس کے قول و یقین کے تکذیب رسول کی جاسکتی ہے؟ حدیث جو امام صاحب نے پیش کی ہے جس کی اور جس کے مانند اور حدیثوں کے الفاظ نہایت مضطرب واقع ہو ئے ہیں۔ اول تو اس کا ثبوت امام صاحب سے طلب کیاجاتا ہے جس کو وہ مہیا نہ کریں گے اور ا گر انہوں نے کیا بھی تو خبر احاد سے زیادہ رتبہ اس کا نہ ہوگا اور پھر اس میں جولفظ زنا دقہ کا واقع ہواہے اس سے مراد صرف امام صاحب کے خیال پر اور امتی کے لفظ سے استدلال کرنے پر جو امت دعوت اور امت اجابت دونوں اطلاق ہوسکتا ہے مبنی ہوگی اور ایسی ضعیف و مہمل قیاسی ، بلکہ وہمی استدلال پر ایک شخص کو جو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر یقین رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’ الحشر حق و علم اللہ حق و ما جاء بہ رسول اللہ صلعم حق وان اختلف فی مرادہ ‘‘ کافر کہہ دیا جا وے گا ’’ وما ھذا الا اثر من آثار التقلید و رجحان الطبیعۃ الیٰ مابہ الناس من التعلیم دون التنقید۔‘‘ اصل یہ ہے کہ جس شخص نے لا الہ الا اللہ پر یقین کیا اس نے ذات باری کو جامع حمع صفات و بری جمیع نقصانات سے یقین کیا ہے اور جس شخص نے محمد رسول اللہ پر یقین کیا اس نے اس کو نبی صادق تسلیم کیا ہے اور ما جاء یہ کہ حق مانا ہے۔ پس اس کے کسی قول سے اپنے قیاس کے مطابق ایک امر کا استنباط کرنا اور کہنا کہ اس سے تکذیب رسول لازم آتی ہے تفسیر القول مالا یرضی بہ قائلہ ہے اور اس تفسیر سے جس کو خود قائل قبول نہیں کرتااس کی تکفیر بہت بڑی غلطی اور نادانی ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی تمام تاویلوں کو اور تمام دلائل و براہین کو ظن و وہم و سفسطہ کہا جاوے ، مگر اس کو کافر نہیں کہا جا سکتا ۔ پس کسی کلمہ گوکو کافر کہنا سخت گمراہی ہے ۔ لا نکفر اھل القبلۃ صحیح اور ٹھیک مذہب ہے۔ اس کے بعد امام صاحب نے تکفیر کے معاملے میں ایک وصیت کی ہے اور ایک قانون بنایا ہے ۔ وصیت تو یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے اہل قبلہ کی تکفیر زبان سے بند رکھی جاوے جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہوں ’’ غیر منا قضین لھا‘‘مگر ہم اس اخیر فقرے پر چند لفظ اضافہ کرتے ہیں کہ غیر مناقضین لھا فی زعمھم لا فی زعم غیر ھم ۔ مناقضت کے معنی امام صاحب نے تکذیب رسول کے بتلائے ہوئے ہیں خواہ وہ تکذیب کسی عذر کے سبب سے ہو یا بغیر عذر کے ، اسی لیے ہم نے یہ قید بڑھائی کہ وہ سمجھتے ہوں کہ اس میںتکذیب رسول ہوتی ہے اور اگر ان کا یہ یقین ہو کہ اس میںتکذیب رسول نہیں ہے تو ان کی تکفیر نہیں ہو سکتی ۔ قانون تکفیر امام صاحب یہ بتلاتے ہیں کہ جن باتوں میں غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ دو قسم ہیں۔ ایک تو اصول عقائد سے متعلق ہیں اور دوسری فروع سے اور اصول ایمان کے تین ہیں ’’ ایمان باللہ و بر سولہ و بالیوم الاخر‘‘ اور اسکے سوا سب فروع ہیں، امامت کے معاملے کوبھی انھوں نے فروع میں داخل کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کا انکار کوئی چیز نہیں ہے ۔ ابن کیسان اصل و جوب امامت کے منکر تھے۔ ان کی تکفیر نہیں ہوسکتی اور وہ لوگ بھی جو امامت کے منکر تھے ، ان کی تکفیر نہیں ہو سکتی اور وہ لوگ بھی جو امامت کو جزو ایمان قرار دیتے ہیں التفات کے لائق نہیں ہیں۔ لیکن اگر فروعات ہی میں کوئی شخص ایسی بات کہے جس سے تکذیب رسول لازم آتی ہو تو تکفیر لازم ہے۔ اس کی دو مثالیں انہوں نے دی ہیں۔ پہلی مثال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کہے کہ خانہ کعبہ جو مکہ میں ہے وہ کعبہ نہیں ہے جس کے حج کا خدا نے حکم دیا ہے تو یہ کہنا کفر ہے ۔ کیونکہ متواتر رسول خدا صلعم سے اس کے قول کے بر خلاف ثابت ہوا ہے اور اگر وہ اس پر رسول کی شہادت ہونے سے انکار کرے تواس کا انکار کچھ مفید نہیں ہے۔ بشرطیکہ وہ نو مسلم نہ ہو اور اس کے نزدیک اس کے ثبوت پر تواتر نہ ہوا ہو۔ دوسری مثال انہوں نے حضرت عائشہؓ پر بہتان کی دی ہے۔ باوجودیکہ اس بہتان کے غلط ہونے پر قرآن نازل ہو چکا ہے تو ایسا شخص بھی کافر ہے۔ کیونکہ یہ ایسی باتیں ہیں کہ تکذیباور انکار تواتر ان کو لازم ہے اور جو چیز کہ تواتر سے ثابت ہوتی ہے اس سے انسان زبان سے تو انکار کرتا ہے ، مگر اس کا یقین دل سے دور نہیں کر سکتا۔ ہاں یہ بات ہے کہ جو چیز خبر احادیث سے ثابت ہوئی ہے اس کے انکار سے تکفیر لازم نہیں ہے اور جو چیز کہ اجماع سے ثابت ہوئی ہے اس کے انکار سے تکفیر کرنے میں تامل ہے کیونکہ یہ مسئلہ کہ اجماع حجۃ ہے مختلف فیہ ہے ۔ جس زمانے میں کہ غزالیٰ ؒ صاحب تھے اس زمانے کے اور اس کے بعد کے زمانے کے لوگوں پر یہ آفت چھائی تھی کہ لوگوں کے اقوال پر کفر کے فتوے دیتے تھے اور ان کے اقوال کا مطلب خود قرار دے لیتے تھے جو در حقیقت اس قول کے قائل کا وہ مطلب نہیں ہوتا تھا ۔ یہی آفت ہمارے زماے کے لوگوں پر بھی ہے ۔ اسی آفت کا نتیجہ ہے کہ لوگوں نے حضرت شیخ عبدلقادر جیلانی ؒ ، حضرت امام محی الدین ابن العربی ، حضرت شیخ احمد سر ہندی اور بزرگ مسلمانوں کے اور خود امام غزالی کی تکفیر کے فتوے دئے ہیں۔ اسی تقلید میں امام غزالی بھی پھنسے ہوئے ہیں اور لوگوں کے اقوال کے الفاظ لے کر اور ان کا مطلب خود قرار دے کر تکفیر کو لازم قرار دیتے ہیں ۔ کسی شخص کے قول پر گو ظاہر میں وہ کیسا ہی صریح ہو جب تک کہ خود قائل سے نہ پوچھا جائے کہ اس قول سے تیر مطلب کیا ہے ؟آیا تو تکذیب رسول کرتا ہے ؟ اس وقت تک اس کے کفرکا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا ۔ یہی مثالیں جو امام صاحب نے فرمائی ہیں اور جن کی نسبت انہوں نے یقین کر لیا ہے کہ تکذیب شہادت رسول اور قرآن ہے۔ اسی میں انہوں نے کسی قدر غلطی کی ہے ۔ اب فرض کرو کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ خانہ کعبہ جو مکہ میں ہے وہ کعبہ نہیں ہے جس کے حج کا قرآن میںحکم ہے وہ طلب کیا گیا اور اس سے پوچھا گیا کہ اس قول سے تیرا مطلب کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میرا مطلب یہ ہے کہ جو خانہ کعبہ آنحضرت صلعم کے وقت میںتھا وہ نہیںرہا، عبدا للہ بن زبیر کے وقت میںجل گیا ، پھر جب ابن زبیر نے بنایا اس کو حجاج نے ڈھا دیا۔ اب یہ خانہ کعبہ وہ نہیں ہے ۔ پس اگر وہ اپنے قول کا یہ مطلب بیان کرے تو اس کے قول سے انکار شہادت رسول ﷺ جس پر بنائے تکفیر امام صاحب، قائم کی ہے، لازم نہیں آتی ۔ پھر کس طرح مجرد قول پر امام صاحب تکفیر کو لازم ٹھہراتے ہیں؟ دوسری مثال میں اگر وہ مجرم یہ بیان کرے کہ آیات قرآنی حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حق میں نازل نہیں ہوئیں گو کہ وہ اس میں غلطی پر ہو، مگر اس پر الزام انکار قرآن کیونکر لازم آتا ہے؟ ایک مجلس علماء میں جناب مولوی اسماعیل صاحب مرحوم کی تکفیر کی نسبت گفتگو ہو رہی تھی ۔ ایک صاحب نے ان کی کتاب تقویۃ الایمان کے چند مقام پڑھے اور فرمایا کہ اس سے تحقیر و اہا نت رسول ﷺ لازم آتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ لازم آتی ہے یا انہوں نے کی ہے ۔ مولانا نے فرمایا جبکہ الفاظ اہانت پر دال ہیں تو قائل نے اہانت کی ہے۔ ان کی مدلولات سے عدول کی کوئی وجہ نہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ وجہ تو ہے کہ قائل ان الفاظ کا محمد رسول اللہ کا قائل ہے جس کی تصدیق تحقیر و اہانت کے منافی ہے۔ پس قائل نے تو یقینی تحقیر و اہانت نہیں کی ۔ مگر آپ اس سے لازم گر دانتے ہیں ’’ وھذا فعلکم لیس فعل القائل ‘‘ جو شخص کہ لا الہ الا محمد رسول اللہ کی تصدیق کرتا ہے اس کے کسی قول سے انکار شہادت رسول ﷺ یا انکار قرآن یا تکذیب رسول قرار دینا نہایت جہالت و محض نادانی ہے۔ اس کے بعد امام صاحب ان تین اصولوں کا ذکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیںکہ جس میں فی نفسہ تاویل نہیں ہو سکتی اور جو بتواتر منقول ہے اور اس کے خلاف پر بر ہان کا قائم ہونا متصور نہیں ہے اس کی مخالفت محض تکذیب ہے جس کی مثل ہم نے حشر اجساد و جنت و نار و علم جزئیات باری کی دی ہے۔ مگر یہ فیصلہ امام صاحب کابھی صحیح نہیں ہے ، اس لیے کہ فی نفسہ تاویل کا نہ ہو، سکنا اور بتواتر منقول ماننا اور اس کے بر خلاف برہان کاقائم نہ ہو سکتا اختلاف رائے پر مبنی ہے۔ ممکن ہے کہ امام صاحب کے نزدیک کوئی امر ایسا ہو جس میںفی نفسہ تاویل نہ ہو سکتی ہو دوسرے کے نزدیک ایسا نہ ہو ۔ ان کے نزدیک ایک امر بتواتر نقل ثابت ہو ، دوسرے کے نزدیک نہ ہو۔ ان کے نزدیک ایک امر کے برخلاف برہان کا قائم ہونا متصور نہ ہو، دوسرے کے نزدیک ہو۔ پس کس طرح ایک فریق دوسرے فریق کی تکفیر کر سکتا ہے۔ اس کے بعد امام صاحب ارقام فرماتے ہیں کہ جس میں تاویل کا احتمال ہے۔ گو کہ مجاز بعید سے ہو تو اس کی برہان پر نظر ڈالنی چاہیے۔ اگر وہ برہان قاطع ہو تو ا س کو ماننا چاہیے ( یہاں بھی نہیں فرمایا کہ کس کے نزدیک) لیکن اگر عوام میں بیان کرنے سے ان کی کم فہمی کے سبب ضرر کا احتمال ہو تو اس کا بیان کرنا بدعت ہے (لیکن اگر عوام ہی کے دل میںوہ شبہات ہوں تو کیا کرنا چا ہئے ؟) اور اگر برہان قاطع نہ ہو اور دین میں ضرر نہ ہو جیسے کہ معتزلی کا خدا کے دیدار سے انکار کرنا تو وہ بدعت ہے اور وہ کفر نہیںہے اور اگر اس میں ضرر ہو تو وہ اجتہاد کی محتاج ہے۔ ممکن ہے کہ تکفیر کی جاوے اور ممکن ہے کہ نہ کی جاوے اور اسی قسم سے ان صوفیہ کا حال ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان میں اور خدا میں ایسا درجہ تقرب پہنچ گیا ہے کہ نما ز کا حکم ان پر سے ساقط ہوگیا ہے اور مسکرات اور گناہ کی باتیں اور بادشاہ کا مال مار لینا ان کو حلال ہوگیا ہے تو کچھ شک نہیں کہ ایسا شخص قتل کر ڈالا جائے ، اگرچہ اس کی نسبت خلود فی النار کے فتوے دینے میں تامل ہے۔ ایسے شخص کا مارنا سو کافروں کے قتل سے بہتر ہے، کیونکہ ایسے شخص سے بہ نسبت کافر کے ضرر فی الدین زیادہ ہے۔ اس مقام پر تو امام صاحب نے اپنی تمام فضیلت اور امامت کو ڈبو دیا اور محض جاہلوں اور متعصبوں کی سی باتیں لکھی ہیں۔ خدا نے تو قتل انسان کی صرف قصاص میںیا مقاتلہ کی لڑائی میں اجازت دی ہے ، امام صاحب نے کہاں سے ان کے قتل کا حکم نکال لیا ہے ۔ ممکن ہے کہ ایسے صوفی کو جس کا ذکر امام صاحب نے کیا ہے (اگر کوئی ہو) تو مجنون و مرفوع القلم تصور کیا جائے یاپاگل خانے میں بھیج دیا جائے ، قتل چہ معنی دارد۔ اس کے بعد امام صاحب ایک قاعدہ بیان فرماتے ہیں اور گویا ہمارے شبہات کا جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں جواب ہے اور ہم نہایت دل سے اس پر متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ بعضی دفعہ کوئی شخص نص متواتر سے مخالفت کرتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ میںتاویل کرتا ہوں۔ لیکن جو تاویل کہ وہ کرتا ہے وہ زبان عرب میں نہیں ہے نہ بطور تاویل قریب کے نہ تاویل بعید کے اور ایسی تا ویل کفر ہے۔ اگرچہ تاویل کرنے والا سمجھے کہ میںتاویل کرتا ہوں اور اس کی مثال صوفیہ باطنیہ کایہ کلام ہے کہ اللہ واحد ہے۔ اس معنی کو کہ وحدت کو دیتا ہے اور پیدا کر تا ہے اور عالم ہے اس معنی کو کہ علم کو دیتا ہے اور دوسرے میں پیدا کرتا ہے او رموجود ہے اس معنی کو کہ اس کے سوا بھی موجود ہیں اور یہ معنی کہ فی نفسہ واحد او رموجود اور عالم کے اوصاف سے موصوف ہی نہیں ہیں اور یہ صریح کفر ہے، کیونک لغت و کلام عرب میں ان لفظوں سے یہ معنی نہیںلیے جا سکتے ۔ پس حقیقت میںیہ تکذیب ہے نہ تاویل ۔ ہم کو اس بات سے اس مقام پر بحث نہیں ہے کہ یہ تاویل صوفیہ کی صحیح ہے یا نہیں ، بلکہ امام صاحب نے جو فتوی کفر دیا ہے اس سے بحث ہے۔ کفر کے فتوے کی بنیاد انہوں نے صرف اس بات پر رکھی ہے کہ لغت و کلام عر ب میں ان الفظوں کے یہ معنی نہیں ہو سکتے ، مگر وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ جو لغات عرب بطورنقل ہم تک پہنچے ہیں وہ خود ظنی ہیں اور فتراء و سیبویہ وغیرہ کی نقل سے پہنچے ہیںجس کی بحث مستوعب قاضی ابو الولید سے ہم نے اپنی تفسیر میں نقل کی ہے پس ایسے امور ظنی پر تکفیر ایسے شخص کی جو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتا ہے ، کیونکر کی جا سکتی ہے ۔ بلا شبہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا قول غلط ہے ۔ جو تاویل وہ کرتا ہے اس کے مساعد لغت عرب میں پایا نہیں گیا ، مگر تکفیر کا حکم کیونکر ہو سکتا ہے ۔ اس کے بعد امام صاحب ارقام فرماتے ہیں کہ تکفیر کرنے میں چند باتوں کو دیکھنا چاہیے ۔ اول یہ کہ جس نص شرعی کے ظاہری معنی چھوڑے گئے ہیں اس میں تاویل ہو سکتی ہے یا نہیں ( کسی کے نزدیک ؟ امام صاحب کے یا تاویل کرنے والے کے ؟) اور اگر تاویل ہو سکتی ہے تو وہ تاویل قریب ہے یا بعید ۔ اس بات کا جاننا کہ کس میں تاویل ہو سکتی ہے اور کس میں نہیں ہو سکتی ، آسان نہیں ہے۔ اس میں بجز اس کے جو لغت عرب اور اصول لغت کا ماہر ہو اور عرب کے استعارات اور مجازات کے استعمال کو اور مثالوں کے طریقوں کو جانتا ہو اور کسی کو نہ پڑنا چا ہیے۔ دوسرے یہ کہ جو نص چھوڑی گئی ہے وہ تواتر سے ثابت تھی یا احاد سے یا اجماع مجرد سے اور اگر تواتر سے ثابت تھی تو شروط تواتر اس میںتھیں یا نہیں اور تواتر وہ ہے جس میں شک کرنا ممکن نہ ہو، جسے کہ انبیاء کا ہونا اور مشہور شہروں کا ہونا۔ مگرتواتر کے جو معنی بیان کئے جاتے ہیں اور جو مثالیں دی جاتی ہیں ان میں کسی قدر تسامح ہوتا ہے ، امام صاحب نے بھی اس تسامح کو رفع نہیں کیا ۔ تواتر دو قسم پر منقسم ہو سکتا ہے ، ایک تواتر عام اور ایک تواتر خاص۔ تواتر عام وہ ہے کہ اس کا متواتر ہونا کسی فرقہ یا قوم یا مذہب پر منحصر نہ ہو ، جیسے وجود بلا د مشہور ہ کا یا کسی شخص کا یہ حیثیت اس کے ہونے کے اور تواتر خاص وہ ہے جس کسی فرقہ خاص سے متعلق ہو جیسے کسی شخص کا نبی ہونا یاقرآن کا قرآن ہونا ۔ پس جو لوگ کہ تواتر سے استدلال کرتے ہیں وہ یہ نہیں کر سکتے کہ اپنے فرقے کے تواتر کو تواتر تسلیم کریں اور دوسرے فرقے میں جو بات تواتر سے ثابت ہوئی ہے اس سے انکار کریں۔ پس تواتر خاص فرقہ خاص کے لیے دلیل ہوسکتی ہے۔ نہ عام کے لیے۔ پھر امام صاحب لکھتے ہیں کہ اجماع کو جاننا سب سے زیادہ مشکل ہے ، کیونکہ اس کی شرط یہ ہے کہ اہل حل و عقد (جن کے معنی امام صاحب نے کچھ نہیں بتائے ) ایک جگہ جمع ہو کر ایک بات پر صریح الفاظ سے اتفاق کریں اور پھر اسی پر قائم رہیں اور تمام افطار ارض سے اسی پر الفاظ صریح میںفتویٰ ہو جاویں اس درجے تک کہ اس کے بعد اس سے اختلاف ممتنع ہو جاوے ۔ اس کے بعد یہ دیکھنا ہے کہ جو شخص ان تمام باتوں کے بعد اس سے اختلاف کرے تو اس کی تکفیر کی جاوے یانہیں، اگرچہ ایسے اجماع کا ثبوت جس کا ذکر امام صاحب نے کیا ہے نہایت مشکل قریب ناممکن کے ہے، لیکن اس درجے کا اجماع بھی جبکہ اجماع اول کے بعد اجماع ثانی بر خلاف اس کے ناجائز نہیں ہوسکتا تو درحقیقت اجماع فی نفسہ کوئی حجت نہیں ہے اور نہ ا سے کوئی مسئلہ شرعی قائم یا پیدا ہو سکتا ہے۔ اجماع مجموعہ آراء کا نام ہے اور جبکہ اس کی افراد میں غلطی ہونے کا احتمال ہے تو اس کا مجموعہ احتمال غلطی سے خالی نہیں ہوسکتا اور جبکہ اجماع اول کے برخلاف اجماع ثانی ہوسکتا ہے تواول اختلاف کرنا جائز ہوجاتا ہے اور اجماع کا حجت ہونا قائم نہیں رہ سکتا ، فافھم۔ تیسری بات امام صاحب یہ لکھتے ہیں کہ اس تاویل کرنے والے کی نسبت دیکھنا چاہیے کہ اس کے نزدیک بھی اس امر میںتواتر ہے یا اس کو تواتر کا ہونا معلوم ہو ہے یا نہیں ۔ اگر نہیں تواجماع کی مخالفت کرنے والا جاہل اور خاطی ہے ، نہ تکذیب کرنے والا، پس اس کی تکفیر نہیں ہو سکتی۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اس برہان پر غور کی جاوے جس کے سبب سے وہ ظاہری معنوں کی تاویل کرنی چاہتا ہے۔ اگر برہان قاطع ہو ( اس کا فیصلہ کون کرے ؟) تو تاویل کی اجازت دی جاوے، اگرچہ تاویل بعید بھی کیوں نہ ہو او ر اگر قاطع نہ ہو تو بجز تاویل قریب کے اجازت نہ دی جاوے۔ پانچویں یہ بات ہے کہ اس کی بات پر غور کی جاوے۔ اگروہ ایسی بات کہتا ہو کہ جس سے ضرر اعظم دین میں نہ ہوتا ہو، بلکہ محض لغو و صریح البطلان ہوتو بھی تکفیر نہ کی جاوے۔ یہ تمام امور جو امام صاحب نے بیان کیے ہیں بودی بودی باتوں پر مبنی ہیں۔ تکفیر کرنی یا نہ کرنی اس لائق نہیں ہے جس کی بنیاد ایسی باتوں پر مبنی ہو، بلکہ اس کی بنیاد نہایت صریح اور مستحکم امور پر ہونی لازم ہے اور وہ امر یا با لتصریح اقرار وحدانیت و تصدیق رسالت ہے یا انکار۔ اس کے بعد امام صاحب نے لکھا ہے کہ متکلمین کا یہ کہنا کہ جو لوگ عقائد شرعیہ کو مع دلائل کے نہیں جانتے وہ کافر ہیں ، ان کا یہ کہنا محض غلط ہے، بلکہ جو لوگ اس قسم کی دلیلوں اور بحثوں کو نہیںجانتے ان کا ایمان اور یقین زیادہ مستحکم ہوتا ہے ۔ ہاں اس قدر صحیح ہے کہ دلائل مذاہب پر اس شخص کو جو ایمان پر مستحکم ہے اور اوروں کا شبہ مٹانا اور لوگوں کو گمراہی سے بچانا چاہتا ہے غور کرنا فرض کفایہ ہے اور خود مشکک کو شبہ مٹالینا فرض عین ہے ، جبکہ بغیر دلیل کے اور کسی طرح ا س کا شبہ دل سے نہ مٹ سکے۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ خدا کی رحمت بہت وسیع ہے اور تمام امت محمدیہ کو شامل ہوگی، بلکہ اکثر امم سابقہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ رحمت سے محروم نہ رہیںگی ،گو کہ ایک لحظے یا ایک ساعت یا کسی قدر مدت کے لیے آگ میںڈالی جاویں، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے زمانے کے اکثر روم کے عیسائی اورترک جو ملک روم اور ترک کی انتہا پر رہتے ہیں اور ان تک آنحضرت ﷺ کی دعوت اسلام نہیںپہنچتی ، وہ بھی انشا ئا للہ تعالیٰ رحمت خدا میں شامل ہوں گے ۔ وہ لوگ تین قسم کے ہیں۔ ایک تو وہ ہیںجنہوں نے محمد صلعم کا نام تک نہیںسنا ، وہ تو معذور ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کا نام اور آنحضرت کی تعریف اور آنحضرت کے معجزات کا حال سنا ہے اور بلا د اسلام کے قریب رہتے ہیں اور مسلمانوں سے ملتے ہیں وہ کافر ہیںجو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے ۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو ان درجوں کے بیچ میں ہیں۔ انہوں نے آنحضرت صلعم کانا م تو سنا ہے ، مگر آنحضرت کے اوصاف نہیں سنے ، بلکہ بچپن سے یہی سنا ہے کہ ایک جھوٹا مکار شخص جس کا نام ۔۔۔تھا (۱) پیدا ہوا تھا اور اس نے دعویٰ نبوت کیا تھا ، جس طرح کہ ہمارے بچے ابن مقنع کا نام سنتے ہیں کہ اس نے جھوٹا دعویٰ نبوت کا کیاتھا ، تو یہ لوگ قسم اول میں ( امام صاحب کے نزدیک) داخل ہیں (یعنی معذور ہیں)۔ اس کے بعد امام صاحب اس فرقے کا ذکر کرتے ہیں جو مخلدق فی النار ہوگا اور کہتے ہیںکہ اس امت سے تو وہی ایک فرقہ مخلد فی النار ہوگا جس نے تکذیب رسول کی ہے یا رسول اللہ کو بمصلحت جھوٹ بات کہنی جائز قرار دی ہے اور باقی لوگوں میں سے جو مختلف اقوام و مذاہب کے ہیں اس فرقے کو مخلد فی النار تجویز کیا ہے جس نے آنحضرت صلعم کا نبی مبعوث ہونا اور آپ کے اوصاف اور معجزات اور خارق عادات مثل معجزہ شق قمر اور سنگریزوں کے سبحان اللہ پڑھنے کے اور حضرت کی انگلیوں سے پانی بہہ نکلنے کے اور قرآن کے معجزے کے جس کی مانند اہل فصاحت کہنے سے عاجز ہوگئے بتواتر سنا ہے اور اس پر متوجہ نہیںہوا تو وہ فرقہ کافر مخلد فی النار ہے ، مگر فرماتے ہیں کہ اس میں اکثر اہل روم اورترک جو بلاد اسلام سے نہایت دور رہتے ہیں۔ داخل نہیں ہیں اور جو شخص ان باتوں کو سن کر تحقیق و دریافت میں بخوبی متوجہ ہوا اور قبل تمام ہونے تحقیق کے مر گیا تو وہ بھی مغفور اور رحمت اللہ علیہ میں داخل ہے۔ (۱) امام صاحب نے تو صاف کذابا ملبسا کے بعد آنحضرت کا نام لکھ دیا ہے ۔ مگر ہم نے ادبا نام نہیں لکھا ۔ (سید احمد) اس مقام پر امام صاحب نے نہایت ملانا پن برتا ہے اور عام ملانوں کی سی باتیں کی ہیں۔ جن کو دوزخی بنایا ہے ان میںبھی غلطی کی ہے اور جن کو بہشتی قرار دیا ہے ان میں بھی غلطی کی ہے۔ جن معجزات کا انہوں نے ذکر کیا ہے اول تو ان کا خود اہل اسلام میںبتواتر ثابت کیا ہوتا ، پھر دوسرے مذہب والے کے نزدیک ان کے بتواتر ثابت ہونے کے طریقے کو بتایا ہوتا ۔ پھر معجزہ فصاحت قرآن مجید کو ان اقوام پر جن کی اصلی زبان عربی نہیں ہے۔ حجت ہونا ثابت کیا ہوتا تب شاید ایک حصہ ان کی دلیل کا صحیح ہوسکتا تھا ۔ اہل روم و ترک کے فرقہ اول و سوم کو جو دلیل سے بہشت میں داخل کیا ہے اس کی کوئی وجہ ثبوت دی ہوتی ۔ تاکہ معلوم ہوتا کہ کس کنجی سے ان کے لیے بہشت کے دروازے کا قفل کھولا ہے ۔ ہم ان کی اس تمام تقریر کو بودا او رمحض نکما سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک خدانے تمام جن و انس کو ، یعنی تمام انسانوں کو وحشی ہوں یا شہری ، جاہل ہوں یا عالم ، مہذب ہوں یا نا مہذب لا الہ الا اللہ پر ایمان لانے کو مکلف کیا ہے اور خلود فی النار صرف شرک حقیقی پر منحصر کیا ہے اور اس کا سبب یعنی وجہ مکلف ہونے کی ہر ایک انسان میں ازروئے فطرت کے ودیعت کی ہے جس کو ہم عقل سے تعبیر کرتے ہیں اور ہمارے پرانے مقنن نے شجرۃ العلم سے اس کو تعبیر کیا ہے ، مگر یہ ودیعت ہر ایک کو مساوی ودیعت نہیں ہوئی اور اسی لیے ہر ایک کیف لیے مکلف ہونے کے درجات بھی مختلف ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جس کے پاس یہ ودیعت اس قدر قلیل ہے یا قلیل ہوجاتی ہے جو مکلف ہونے سے بری اور مرفوع القلم ہونے میں داخل ہوجاتے ہیں اور ان کے سوا وہ ہیں جو بمقدر اس و دیعت کے مکلف ہونے کے درجات میںداخل رہتے ہیں۔ تما م انسانوں کے حالات پر غور کرنے سے جو اب تک معلوم ہوئے ہیں ایساثابت ہوتا ہے کہ ان سب میں خدا نے ایک قوت رکھی ہے جو اپنی فطرت سے اور ان چیزوں کے اثر سے جو ان کے گردو پیش ہیں او ر ان واقعات سے جو ان پر گذرتے ہیں ایک قوی اور سب سے برتر وجود کے وجود کا خیال ان کے دل میں پیدا ہوتا ہے اور اپنی بھلائی و برائی اس کے ہاتھ میںسمجھتے ہیں۔ اس لا معلوم وجود کے قرار دینے میں بھی درجات انسانوں کے ازروئے فطرت کے مختلف ہوتے ہیں۔ ایک گروہ ایسا ہوتا ہے کہ اس لا معلوم وجود کے خیال کے سوا کچھ ان کی سمجھ میں نہیںآتا اور اس لیے وہ کسی اپنے سے اعلیٰ شخص کی بغیر اپنے اجتہاد و سمجھ کے متابعت کرتے ہیں ۔ اور وہ ایسا کرنے میں مجبور ہیں۔ کیونکہ ان کی سمجھ اس لا معلوم وجود کے اپنی فہم و فراست اور اجتہاد سے قرار دینے یا مختلف رائے کے اشخاص کی رایوں میں تمیز کرنے سے فطرتا معذور ہے اور آئندہ کی نسلیں جن کی خلقت فطرتا اسی حد کی ہے اسی طریقے میںاپنی زندگی بسر کرتی جاتی ہیں جس میں انہوں نے اپنی پیش بینوں کو پایا تھا ۔ میںکچھ شک نہیں کرتا کہ خدا کی رحمت انشا ء اللہ تعالیٰ ان کے حال پر ضرور شامل ہوگی اور جس قدر کہ فطرت نے ان کو دیا ہے اس سے زیادہ کامحصول ان سے طلب نہ کیا جاوے گا ۔ ایک گروہ ایسا ہے جوخود اپنی فہم و فراست و اجتہاد سے اس لامعلوم وجود پر پے نہیں لے جاسکتا ہیں اور مختلف رائے کے اشخاص کی رایوں کو جو اس لامعلوم وجود کی نسبت ہوں، تمیز کر سکتے ہیں ۔ یہ قوت اکثر خارجی اسباب سے جیسے کسے فرقے میں پیدا ہونے اور انہی میںپرورش پانے اور بچپن سے انہی خیالات کے سچ سمجھنے یا باہمی معاشرت کے اثر یا اشخاص خاص کے اعتقاد علو سے دی جاتی ہے۔ مگر معدوم نہیںہوتی ۔ یہ فرقہ بلا شبہ ایسا ہے کہ اگر ان میںکوئی ایسا شخص جو اس لامعلوم وجود کو بتا دے پیدا نہ ہوا ہو اور نہ کسی نے ان کو اس لامعلوم ہستی کو بتایا ہو تو میںکچھ شبہ نہیںکرتا کہ خدا کی رحمت انشا ء اللہ تعالیٰ ان کے حال پر بھی شامل ہوگی ۔ مگر یہ بات تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ ایسے لوگوں میں کوئی شخص اس لا معلوم وجود کا بتا نے والا پیدا نہ ہو اہو یا کسی نے نہ بتایا ہو۔ اگر خدا نے ان کو ایما ن با اللہ پر مکلف کیاہے اور فطرت ایسی دی ہے کہ بغیر کسی کے سمجھائے وہ اس پر ایمان نہیں لا سکتے تو ضرور ہے کہ ان میںکوئی اس بات کا سمجھا نے والا بھی ہوا ہو اور مناسب اوقات میںاس سمجھا نے والے کی تعلیم کو یاد دلانے والے بھی ہوتے رہے ہوں۔ اس کا ثبوت مذہبی و تاریخی تحقیقات سے پایا جاتا ہے۔ خدا نے فرمایا ہے کہ ’’ لکل قوم ھاد ‘‘ اور تاریخی تحقیقات سے ثابت ہے کہ ہر قوم میںکوئی نہ کوئی رفارمر یا پیغمبر گذرا ہے جس کی تعلیم کی بنیاد وحدانیت ذات باری پر قائم ہوئی ہے ۔ گو کہ بعد کو لوگوں نے اس ذات واحد کے ما سواا کی پرستش اختیار کی ہو اور کسی دوسری شیئی میں الوہیت کا یقین کیا ہو جو شرک حقیقی کے لوازم ذاتی میںسے ہے ، تو ایسے فرقے کو میں خدا کی رحمت میں، با وجویکہ اس کے بے انتہا وسیع ہونے کامجھے یقین ہے ، داخل نہیں کر سکتا۔ ان ہی لوگوں میںوہ لوگ بھی داخل ہیںجن کی قوت مدرکہ بچپن سے اور ابتدائے عمر سے ایسی تعلیم و تربیت کے بوجھ میں دب گئی ہے یا معاشرت کی بندشوں میں بندھ گئی ہے جو ایمان با اللہ اور اس کی توحید فی الذات و فی الصفات و فی العبادت کے منافی ہیہ اور اس کے سبب سے ان کے دل میں اس لا معلوم وجود کے بتانے والے کی یا اس کے یاد دلانے والے کی بات نہیںسماتی یا سما تی ہے پر مانی نہیں جاتی یا لا علمی ونا سمجھی کے سہارے اس کے سمجھنے کی اور جو سمجھے ہیںاس کے بوجھنے کی اور جو کرتے ہیں اس کے کئے جانے کی معذرت کی جاتی ہے۔ بلا شبہ وہ قوت ان اسباب سے ضعیف ہوگئی ہے پر معدوم نہیں ہوئی اور ان میںفطرت نے ایک ایسی قوت دی ہے جو اس بوجھ کو اٹھا سکتی ہے اور ان بندشوں کو توڑ سکتی ہے اور اس قوت مدرکہ کو اس لا معلوم وجود بتانے والے یا اس کی یاد دلانے والے کی بات کے سمجھنے کے لائق کر سکتی ہے ۔ پس ا س فرقے کوبھی خدا کی رحمت میں باوجود اس کے بے انتہا وسیع ہونے کی جگہ نہیں دے سکتا ۔ شاید خدا کی رحمت اس سے بھی وسیع ہو اور ان کو جگہ نہ دینا صرف میری ہی کم ظرفی ہو۔ ایک گروہ، گو اس کی تعداد کتنی ہی قلیل ہو ، ایسا ہوتا ہے کہ خود اپنے فہم و فراست اور اجتہاد سے اس لا معلوم وجود پر پے لے جاسکتاہے اور کوئی منزل مقصود تک پہنچتا ہے ، کوئی رستے میں رہ جاتا ہے او ر کوئی رستہ بھول جا تا ہے ، مگر ان پچھلے دونوں فرقوں میں وہ امر جس سے وہ اس اول فرقے والے کی بات کو سمجھ سکیں اور اپنے خیالات سے اس کا مقابلہ کریں ضرور موجود ہوتی ہے ۔ پس ایسا نہ کرنے سے وہ خود اپنے تئیں خدا کی رحمت سے دور رکھنا اور اس کی وسعت کو تنگ کرنا چاہتے ہیں، مگر پہلا فرقہ منجھدار خدا کی رحمت میں غریق ہونے والا ہے۔ اسی فرقے کے اعلیٰ درجے کے لوگ وہ ہیںجن کو فہم و فراست و اجتہاد کے سوا ایک اور چیز عنایت ہوتی ہے جس کو جبرئیل امین یا ملکہ نبوت سے تعبیر کیاجاتا ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جو دنیا میں انبیاء ہوئے ہیں، ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان کو جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ کسبی ہے اور انباء کو وھبی۔ بغیر اس فن کے حاصل کئے اس فن میںکامل ہوئے ہیں، خود ان کے دل میں وہ بات پیداہوتی ہے جس کو وہ وحی والہام قرار دیتے ہین، کیونکہ بن جانئے جانی جاتی ہے اور بن بلائے آتی ہے ۔ یہ ایک فطرتی مناسبت ہے جو ہر ایک کام کے ساتھ انسانوں کو ہو سکتی ہے جعفر زٹلی کو زٹل کے ساتھ، ایک شاعر کو شعر کیساتھ ، ایک نیچری کو نیچر کے ساتھ ، مگر جس انسان کو یہ فطرتی مناسبت روحانی تربیت کے ساتھ ہوتی ہے اس کو پیغمبر کہتے ہیں اور اوروں کو زٹلی اور شاعر اور نیچری۔ غرضیکہ نبوت ایک فطری قوت ہے جو انبیاء کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔ جس کی تصدیق اس قول سے ہوتی ہے کہ ’’ انا نبی و ادم بین الماء و الطین‘‘۔ ہمارے کلام کے اور امام صاحب کے کلام کے مقصد میں بجز طرز بیان کے اور ایک آدھ بات کے چنداں فرق نہیں ہے ۔ صرف مابہ الا فتراق یہ ہے کہ وہ مشرکین کوبھی جن کو نبی آخر الزمان ﷺ کی خبر نہیں پہنچی یا بصحت نہیں پہنچی رحمت میں شا مل کرتے ہیں اور جن کو پہنچی اور انہوں نے تصدیق نہیں کی ان کو مخلدفی النار بتا تے ہیں۔ مگر ہم شرک سے کسی کی مغفرت خواہ اس کو نبی آخر الزمان ﷺ کی خبرپہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو قرار نہیں دیتے اور موحد غیر مصدق رسالت کو مخلد فی النار نہیںکہتے۔ اس قسم کی تقریر پر جو ہم نے کی، امام صاحب نے ایک اعتراض کیا ہے کہ کفر و ایمان کی نسبت ایسی گفتگو کرنا گویا یہ کہنا ہے کہ ماخذ تکفیر عقل ہے نہ شرح اور جاہل باللہ کافر ہے او رعارف با اللہ مومن ، مگر خون کا مباح ہونا اور خلود فی النار حکم شرعی ہے اور قبل شرع اس کے حکم شرعی ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں اور اگر یہ مطلب ہو کہ شارع کے کلام سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ صرف جاہل با للہ کافر ہے تو صرف اسی امر میں کفر کا حصر کرنا ممکن نہیں ، کیونکہ جاہل بالرسول اور بالیوم الاخرۃ بھی کافر ہے اور جاہل بااللہ سے اگر صرف اس کے وجود وحدانیت کا انکار قرار دیا جاوے اور صفات کو علیحدہ کر دیا جاوے تو بھی غلط ہے اور اگر صفات میںبھی خطا کرنے والے کو جاہل باللہ و کافر کہا جاوے تو صفت بقا و صفت قدم اور کلام کو وصف زائد علی العلم اور سمع و بصر اور جواز رویت وغیرہ صفات کے نہ ماننے والے کو بھی کافر کہا جاوے گا۔ مگر اس مقام پر بھی امام صاحب نے اسی طرح پر جیسے کوئی کھسیانا شخص لاجواب ہوکر خلط بحث کر دیتا ہے ۔ یہ بات کہ کفر حکم شرعی ہے یا عقلی نہایت لغو اعتراض ہے۔یہ ایک جدا بحث ہے کہ شرع مظہر حقائق اشیا ہے یا موجد حقائق اشیاء اور ا س امر کو کفر و ایمان سے کچھ تعلق نہیں ہے ۔ قائل کا قول نہایت صاف ہے اور یہ کہنا ہے کہ تمام انبیاء نے مدار ایمان یا مدار نجات خدا کے ماننے اور اس کے ساتھ شریک نہ کرنے اور منحصر کیا ہے ۔ پس جو شخص اس پر ایمان رکھتا ہے وہ مومن ہے۔ رسول کا انکار کفر شرعی ہے۔ کفر مطلق نہیں۔ اس کے شریک نہ کرنے کاکابھی سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس کی مانند کوئی دوسرا وجود نہیں ہے ، نہ ذات میں ، نہ صفت میں، نہ استحقا ق عبادت میں اور اس اعتقاد سے یہ بحثیں کہ وہ ذات و صفات کیسی ہیں اور صفت بقا و قدم وغیرہ عین ذات ہیں یا ذات میں قائم ہیں اور اس کی صفت کلام و سمع و بصر و رویت وغیرہ کی کیا حقیقت ہے کچھ متعلق نہیں ہیں۔ وہ ایک زائد و فضول مباحث ہیں۔ ان کا بیان یا ان کی تاویل کس طرح اور کسی معنی پر مع اس یقین کے کی جاوے نہ محل ایمان ہے اور نہ کوئی بیان اور کوئی تاویل باعث کفر ۔ ان کے بیان و تاویل میںجو اختلاف واقع ہو اس کا نتیجہ صرف یہی ہے کہ باہم علماء ایک دوسرے کی تکفیر کیا کریں، مگر خدا ان میں سے کسی کی تکفیر نہیں کرتا ۔ وھذا اخر کلامی وعلی اللہ اعتما دی ۔ ……… عالم مثال یا ملاء اعلیٰ (تہذیب الاخلاق جلد دوم نمبر ۱ (دور سوم ) بابت یکم شوال ۱۳۱۲ ھ) علماء اسلام اور خصوصا صوفیہ کرام کا خیال ہے کہ سوائے اس عالم کے جو موجود ہے اور جس کو عالم شہادت سے تعبیر کیا جاتا ہے ایک عالم مثال بھی موجود ہے جس کا پر تو یہ عالم شہادت ہے۔ اہل کشف اور صوفیہ کرام کا دارومدار بہت کچھ اس عالم پرہے۔ یہ بات تو ملزوماََ تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ جو کچھ عالم شہادت میںہوا اور ہو رہا ہے اور ہو گا وہ سب علم الہیٰ میں جس کی حقیقت و ماہیت کا جاننا عقل انسانی سے بالا تر ہے ۔ موجود ہے مگر مثال جس کو علماء اسلام او رصوفیہ کرام نے تصور کیا ہے وہ اس سے علیحدہ معلوم ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکماء یونانی جو قبل زمانہ اسلام کے تھے مثل افلاطون و ارسطو وغیرہ وہ بھی عالم مثال کے قائل تھے۔ پھر علماء اسلام اور صوفیہ کرام میںیہ مسئلہ کیونکر داخل ہوا۔ آیا قرآن یا حدیث نبوی علیٰ صا حبہا الصلوۃ والسلام سے اس کا کچھ اثر پایا جاتا ہے یا کیا ۔ غرضیکہ ہماری دانست میں اس مسئلہ کی تحقیق و تنقیح کرنی ہم مسلمانوں کو نہایت ضرور ہے کیونکہ بہت سے مسائل مذہبی تحقیق جبکہ علوم جدیدہ کے مقابل میںکی جاتی ہے تو اس مسئلہ کے نا تحقیق ہونے سے ایک قسم کا اٹکلو ہوجاتا ہے۔ مگر اس مسئلے کی تحقیق نہایت غور طلب ہے اور جب تک یہ بات نہ معلوم ہو کہ حکماء یونانی اور علمائے اسلام اور صوفیہ کرام کے اس باب میںکیا اقوال ہیں اور کس بناء پر وہ اقوال ہیں اس وقت تک اس کی تنقیح نہیں ہوسکتی ، اس لیے ہمارا ارادہ ہے کہ ان سب بزرگوں کے اقوال کو تلا ش کرر کے وقتا فوقتا تہذیب الاخلاق میںمشتہر کرتے رہیں اور اخیر کو جو کچھ تنقیح اس باب میں ہو اس کو بیان کریں۔ اگر کوئی دوست ہم کو ا س امر کی تحقیق و تنقیح میں مدد دے گا تو ہم اس کے نہایت دل سے شکر گذار رہیں گے ۔ اس وقت ارسطو کی کتاب ’’ اثو لو جیا‘‘ سے جو اس کی رائے ہم کو معلوم ہوئی ہے اس کو ذیل میں لکھتے ہیں۔ ارسطو کی رائے عالم مثال کی نسبت جس کو اس نے عالم عقلی یا عالم اعلیٰ سے تعبیر کیا ہے ارسطو اپنی کتاب ’’اثو لوجیا‘‘ میںجس کا ترجمہ عربی میں عبد المسیح بن عبدا للہ ناعمہ حمصی نے کیا اور ابو یوسف یعقوب بن اسحاق کندی نے احمد بن معتصم کے لیے اس کو درست کیا ، لکھتا ہے:۔ عربی (ترجمہ) ’’ ہم نے کہا ہے کہ یہ عالم حسی عالم عقلی کا نمونہ اور اس کی مثال ہے۔ پس اگر یہ عالم زندہ ہے تو و ہ پہلا عالم بطریق اولیٰ زندہ ہوگا اور یہ عالم تام اور کامل ہے تو وہ عالم اتم اور اکمل ہوگا ، اس لیے کہ زندگی ، قوت ، کمال اور دوام کافیضان اس عالم سے اس دنیا میںجاری ہوتا ہے ، پس اگرعالم اعلیٰ نہایت درجے کا کامل اوراتم ہے تو یہ بات محال نہیں ہے کہ جتنی چیزیں یہاںہیں وہاں بھی ہوں، مگر یہاں کی چیزوں سے زیادہ اشرف اورا علیٰ ہوں جیسا کہ ہم بار بار کہہ چکے ہیں ۔ پس وہاں زندہ آسمان ہے اور اس سے زیادہ روشن اور کامل ہیں اور وہ جدا جدا نہیں ہیں جیسے کہ یہ ستارے ہیں ، کیونکہ وہ جسمانی نہیں ہیں اور وہاں زمین بھی ہے مگر ویران اوربنجر نہیں ہے ، بلکہ زندہ اور آباد ہے اور اس میں ہماری زمین کے حیوانات کی طبیعت رکھنے والے حیوان ہیں اور زندہ نباتات ہیں اور اس میں سمندر اور نہریں بھی جاری ہیں او ر وہ چیزیں ہیں جو ہماری زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ ان میں پانی کے سب جانور ہیں اور وہاں ہوا بھی ہے اور اس میں ایسے ہی زندہ ہوائی جانور ہیںجیسے اس ہوا میں ، اور وہاں کی سب چیزیں زندہ ہیں اور کیوں نہ زندہ ہوں۔ اس لیے کہ وہ سب ایسے عالم میںہیںجو زندگی محض ہے ، جہاں موت کا شائبہ نہیں ہے ۔ وہاں کے حیوانوں کی طبیعت یہاں کے حیوانت کی طبائع کی مانند ہے ، لیکن ان کی نسبت اعلیٰ و اشرف ہیں ، کیونکہ وہ طبیعتیں عقلی ہیں۔ حیوانی نہیں ہیں ۔ اگر کوئی شخص ہمارے اس قول کا انکار کرے کہ عالم اعلیٰ میں حیوان آسمان اور تمام وہ چیزیں جن کا ہم نے ذکر کیا کہاں سے آئیں تو ہم جواب دیں گے کہ عالم اعلیٰ ایک زندہ اور کامل دنیا ہے جس میں تمام چیزیں موجود ہیں ، کیونکہ وہ عالم کامل مبدع اول کا پیدا کیا ہوا ہے اور اسی لیے اس میں ہر نفس اور ہر عقل موجود ہے اور کسی طرح کی ضرورت اوراحتیاج وہاں نہیں ہے ، کیونکہ تمام اشیاء جو وہاں موجود ہیں زندگی اور کمال سے بھرپور ہیں ، گویا کہ زندگی وہاں جوش مارتی اورفوارے کی طرح اچھلتی ہے اور ان تمام چیزوں کی زندگی ایک سر چشمے سے جاری ہوتی ہے ، گویا کہ وہاں نہ فقط ایک طرح کی حرارت ہے نہ ایک قسم کی ہوا۔ بلکہ ہم قسم کی کیفیت اور ہر قسم کا ذائقہ ہے ایک ہی کیفیت میں اورہم کہتے ہیں کہ اس کیفیت واحدہ میں مٹھاس کا ذائقہ او ر شراب کا مزہ ہے او ر تما خوشبو دار چیزیں اور کل رنگ جو بصارت پر اپنا اثر ڈالتے ہیں اور تمام چیزیں جو چھوٹی جاسکتی ہیں اور کل چیزیں جو سنی جاتی ہیں۔ یعنی کل آوازیں اور قسم قسم کے سر اور تمام چیزیں جو محسوس ہوتی ہیں سب ایک بسیط کیفیت میں موجود ہیںجیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں، کیونکہ یہ کیفیت عقلی ہے، حیوانی نہیں ہے اور تمام مذکورہ کیفیتوں کو شامل ہے ، ایک چیز بھی جدا نہیں ہے۔ نہ ایک کیفیت دوسری سے ملتی ہے نہ بگڑتی ہے۔ بلکہ سب کیفیتیں جدا جدا محفوظ ہیں ۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نمید انم نمید انم نمیدانم نمیدانم (تہذیب الاخلاق جلد دوم نمبر ۱ (دور سوم) بابت ماہ شوال ۱۳۱۲ ھ) کدام چیز نمیدانی۔ لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العیم الحکیم۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ خدا نے انسان کو عقل و معرفت عطا کی ہے ، اگر یہ نہ دی ہوتی تو وہ مامور بھی ہوتا مگر وہ جو دی ہے نا محدود نہیں ہے ۔ اس کے لیے حد ہے جس سے آگے وہ نہیںچل سکتی ۔ مگر وہ بھی عقل ہی ہم کو بتاتی ہے۔ اگر وہ نہ ہوتی تو اس کی حد بھی معلوم نہ ہوتی۔ جو باتیں ہماری عقل کی حد سے باہر ہیں خدا بھی تو ان کو صاف صاف نہیں بتاتا ، بلکہ مثالوں میں سمجھاتا ہے اور فرماتا ہے ویضرب اللہ الا مثال للناس لعلہم یتذکرون پھر کوئی شخص ، گو کہ والراسخون فی العلم ہی کیوں نہ ہو اس حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ پھر جس طرح اس حد کاتوڑنا فطری گناہ ہے۔ اسی طرح اس حد کے اندر اس کا کام میں نہ لانا فطری گناہ ہے۔ عالم شہادت جس کو ہم دیکھتے ہیں اس کی بہت باتیں عقل کی حد سے باہر ہیں ، کیونکہ اس میں ہم کتنی ہی عقل کو کام میںلاویں بجز موجود کے اور کچھ نہیںجان سکیں ۔ مثلا ہم نے ایک قسم کی ہوا کو پایا ہے اور اس کا نام آکسیجن رکھا ہے اور دوسری قسم کی ہوا کو پایا ہے جس کانام ہائیڈروجن رکھا ہے۔ اول تو اس کا جاننا کہ آکسیجن اور ہائیڈروجن کیا ہے ، ہماری حد عقل سے خارج ہے اور پھر جب وہ دونوں ملتی ہیں تو پانی بن جا تا ہے ۔ یہ تو ہم نے جانا کہ ان کے ملنے سے پانی بن گیا ، مگر اس بات کا جاننا کہ کیوں پانی بن گیا ہماری عقل کی حد سے باہر ہے۔ علماء علوم طبعیہ ، یعنی نیچرل سائنس جاننے والے تو یہیں تک ٹھہر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو موجود ہے اس کے سوا ہم اورکچھ نہیں پاتے ، مگر علماء علم مذاہب اس سے آگے بڑھتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ آکسیجن اور ہائیڈروجن کا پیدا کرنے والا اور ان میں ایسی تاثیر رکھنے والا کہ جب وہ ملیں تو پانی ہو جاوے کوئی ہے اور جس کو وہ خدا کہتے ہیں۔ پھر ان میں دو قسم کے لوگ ہیں، ایک وہ جن کو ہم مذبذ بین کہتے ہیں، ان کا اعتقاد ہے کہ ممکن ہے ، گو اس کا وقوع بھی نہ ہوا ہو، کہ آکسیجن اور ہائیڈروجن ملے اور پانی نہ بنے اور اسی کو وہ خدا کے قادر ہونے کی صفت قرار دیتے ہیں ایک دوسرے وہ ہیں جن کو ہم راسخین کہتے ہیں، ان کا اعتقاد یہ ہے کہ خدا نے جو کیا ہے اس کو تبدیل نہیںکرتا ’’لن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا‘‘ مگرپہلی قسم کے لوگ ان کو نیچری کہتے ہیں۔ ماوراء اس عالم شہادت کے عالم غیب ہے ۔ اس کے نہ ہونے پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔ بلکہ جب ہم کسی کو جسے ہم خدا کہتے ہیں موثر عالم شہادت میںپاتے ہیں تو عالم غیب کا تسلیم کرنا لازم آتا ہے، مگر اس کی حقیقت کا جاننا ہماری عقل کی حد سے خارج ہے۔ خدا نے بھی عالم غیب کی بہت سی باتیں بتلائی ہیں۔ مگر تمثیلوں میںمگھم مگھم ، کیونکہ جب ہم اس کو جانتے ہی نہیں تو جو کچھ وہاں ہے یاہوتا ہے اور ہوگا اس کو بعینہ ہم کیونکر جان سکتے ہیں اور خدا کیونکر بتلا سکتا ہے۔ دنیا میں بھی انجان کو انجانی چیز بغیر تمثیل کے نہیں بتلائی جاتی۔ مشہور ہے کہ ایک شخص جو ہندوستان میں آم کھا گیا تھا اس نے ایک بدو کو اس کا بتلانا چاہا، ہر چند کوشش کی نہ وہ سمجھا نہ یہ سمجھا سکا۔ آخر اس نے اپنے ٹھوڑی پر جس پر چھو ٹے چھوٹے بال تھے شہد ملا اور اس کو کہا کہ اس کو چوسو ، آم ایسا ہوتا ہے ۔ بدو نے کہا واہ واہ کیا اچھا ہوتا ہے ، مگر کجا آم کا رس اور کجا شہد ، کجا آم کا ریشہ اور کجا اس کی ریش ، کجا آم کی گٹھلی اور کجا اس کی ٹھوڑی۔ حکماء یونانی اور ہمارے مذہب کے علماء اور حضرات صوفیہ سب کے سب عالم غیب کے قائل ہیں اور اسکے مختلف نام رکھے ہیں،ملا ء اعلیٰ ، عالم ملکوت ، عالم عقل ، عالم مثال، عالم ارواح ، عالم ربوبیت ، عالم امر، عالم قدس ، عالم جبروت ، عالم احدیث ، بہر حال اس کے کوئی نام رکھے ہوں سب اس عالم کو غیر مادی مانتے ہیں، چنانچہ کشاف اصطلاحات الفنون میں لکھا ہے: و عالم الغیب عند المتصوفۃ مطلق علیٰ عالم وجد بلا مدۃ و بلا ما دۃ مثل العقول والنفوس کما ان الخلق یطلق علیٰ عالم وجد بمادۃ کا لا فلاک والعناصر والموالید الثلاثۃ ویسمی ایضاََ بعالم الخلق و عالم الملک وعالم الشھادۃ (کشاف اصطلاحات الفنون ورق ۴۱۵ صفحہ دوم)۔ (ترجمہ) عالم غیب صوفیوں کے نزدیک غیر مادی عالم پر بولا جاتا ہے جیسے عقول و نفوس ، جس طرح لفظ خلق اس عالم پر بولا جاتا ہے جو مادی ہے جیسے آسمان، عناصر ، نباتات ، حیوانات جمادات ، اس عالم کو عالم خلق ، عالم ملک ، عالم شہادت بھی کہتے ہیں۔‘‘ مگرعلمائے اسلام و صوفیہ کرام عالم غیب کے ایسے حالات اور واقعات تفصیلی بیان کرتے ہیں جن کو پڑھ کر تعجب ہوتا ہے اور نہیں معلوم ہوتا کہ کہاں سے یہ حالات معلوم ہوئے ۔ لوگ کہتے ہیںکہ مکا شفہ سے یہ سب حالات کھلتے ہیں۔ہم کو تو مکا شفہ نہیں ہے کہ یہ حالات کھلیں ، خدا ہم کو بھی مکاشفہ مرحمت کرے، تاکہ ہم کوبھی یہ حالات معلوم ہوں۔ اب تک تو ہم یہی جانتے ہیں کہ جو کچھ وہ کہتے یا سمجھتے یا جانتے یا دیکھتے ہیں وہ انہی کے خیالات ہے جن کو خود ان کے متخیلہ نے پیدا کیاہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھل شاء اللہ (تہذیب الاخلاق جلد دوم نمبر ۴، ۵، ۶ (دور سوم) بابت یکم محرم الحرام ، یکم صفر و یکم ربیع الاول ۱۳۱۳ ھ) ھل شاء اللہ عزو جل کون الکفر والفسق اولم یشاء ذالک ولا اراد کونہ یعنی خدانے چاہا ککہ کفر و فسق ہو یا اس کا ہونا نہیں چاہا ہے اور نہ اس کے ہونے کا ارادہ کیا ہے ؟ یہ سوال علامہ ابن حزم کا ہے جن کا نام علی اور کنیت ابو محمد ہے او ر وہ بیٹے ہیں احمد بن سعید بن حزم کے ۔ بہت بڑے مسلم الثبوت عالم ہیں اور اصحاب ظواہر کے امام ہیں ۔ وہ پیدا ہوئے تھے رمضان ۳۸۴ ھ میں اور فوت ہوئے یکم شعبان ۴۵۶ ھ میں ۔ بہتر (۷۲) برس کی عمر ہوئی ۔ انہی کی تصنیف سے ایک نایاب اور مشہور کتاب ہے جس کا نا م ہے ’’ کتاب الفضل فی الملل والا راء والنخل‘‘ اور اسی کتاب میں یہ سوال بھی ہے۔ اصحاب ظواہر کا یہ مذہب ہے کہ خدا نے چا ہا ہے کہ کافر کفر کرے اور فاسق فسق کرے ، مگر وہ ان کاموں میںسے کسی پر راضی نہیں ہے ۔ پس اسکے کرنے والے پر غصہ ہوتا ہے اور غضب کرتا ہے اسی کام پر جس کو خود اس نے چاہا تھا کہ کافر اور فاسو کریں اور جو کچھ اس نے کیا وہ عین حکمت ، عین عدل اور حق ہے اور یہ بات کہ جس کام کو خود خدا نے چاہا کہ کافر اور فاسق کرے ، اس کے کرنے پرکیوں خفا ہوتا ہے ، اس سے نہیں پوچھی جاسکتی ، کیونکہ خدا نے فرمایا ہے، لا یسئل عما یفعل وھم یسئلون (جو کچھ خدا کرتا ہے اس سے نہیں پوچھا جاتا ہے اور بندے اپنے کاموں سے پوچھے جائیں گے انبیاء ۲۴ )۔ اور معتزلیوں کا یہ مذہب ہے کہ خدا نے نہیں چاہا کہ کافر کفر کرے۔ اور فاسق فسق کرے کیونکہ خدا نے فرمایا ہے کہ لا یرضیٰ العبادہ الکفر، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے کفر پرراضیج نہیں ہے اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’ واتبعو ا ما اسخط اللہ وکرھوا رضوانہ فاحبط اعمالھم ‘‘ (یعنی انھوں نے رغبت کی اس کی جس پر غصہ ہوا اللہ اور انہوں نے ناپسند کیا اللہ کی رضا مندی کو، پھر ملیا میٹ کر دئے اللہ ان کے اعمال) اور چونکہ وہ کافروں کے کفر اور فاسقوں کے گناہ کرنے پرراضی نہیں ہے، اس لیے کافر کو سزا اور مومن کو جزا دینا عین عدل ہے۔ اہل سنت و جماعت کا مذہب یہ ہے کہ خالق تمام افعال فیک و بد کا خدا ہے ، جیسا کہ ان کے عقیدے میں داخل ہے والقدر خیرہ و شرہ من اللہ تعالیٰ ، مگر اس فعل کا ارادہ کرنے والا بندہ ہے (۱) ۔ پس بندہ کے ارادہ پر خدا اس فعل کو پیدا کر دیتا ہے اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ خدا نے اس فعل کا بندے سے صادر ہونا چاہا تھا اور اسکے صادر ہونے پر راضی تھا ۔ (۱) مگر اس پر یہ سوال باقی رہتا ہے کہ خدا نے یہ بات بھی چاہی تھی کہ بندہ اس فعل کے کرنے کا ارادہ کرے یا نہیں چاہی تھی ۔ اگر چاہی تھی تو یہی عین مذہب اہل ظواہر کا ہے اور اگر نہیں چاہی تھی تو یہی عین مذہب معتزلہ کا ہے۔ بلکہ خدا انہی کاموں کو پسند کرتا ہے جو اس کی مرضی کے مطابق ہوں۔ ہم چاہتے ہیں ہیں کہ اس باب میں جو بات ہمارے نزدیک صحیح اور درست ہے اس کو بیان کریں ، مگر اس کے بیان کرنے سے پہلے اصحاب ظواہر کی ان دلیلوں کو بیان کرنا مناسب ہے جن پر انہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد رکھی ہے۔ اصحاب ظواہر ، خصوصا ابن حزم اپنے مذہب کی تائید میں منجملہ بہت سی دلیلوں کے یہ کہتے ہیں کہ اگر سب دلیلوں کو چھوڑ دیا جاوے تو بھی یہ بات کافی ہے کہ امت کا اجماع اس بات پر ہے کہ جو اللہ نے چاہا وہ ہوا اور جو اللہ نے نہیں چاہا وہ نہیںہوا اور یہ اعتقاد علی العموم اس بات کو چاہتا ہے کہ جو عالم میں تھا یاہوگا یا کوئی چیز جو گزری اس کو اللہ نے چاہا تھا اور جو چیز نہ تھی یا نہ ہوگی اس کو اللہ نے نہیں چاہا اور اس بات کو اللہ تعالیٰ نے ایسے کھلے طور سے فرمایا ہے جس میں تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔ (۱) چنانچہ اس نے کہاہے لمن شاء منکم ان یستقیم وما تشاؤن الا ان یشاء اب العا لمین ‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے کھلم کھلا فرمایا ہے کہ قرآن نصیحت ہے اس شخص کے لیے جو تم میںسے سیدھی راہ پر رہرنا چاہے اور تم کچھ نہیں چاہتے مگر یہ کہ چاہے اللہ پروردگار عالموں کا۔ (۲) اور ایک جگہ فرمایا ہے ’’یضل اللہ من یشا ء و یھدی من یشاء ‘‘ یعنی خدا گمراہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت کرتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ (۳) اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’قل ھو للذین آمنوا ھدی و شفاء والذین لا یومنون فی آذانھم و قرو ھو علیھم عمی ‘‘ یعنی کہہ دے اے پیغمبر ! کہ قرآن ان لوگوں کے لیے جو کہ ایما ن لائے ہیں ہدایت اورشفا ہے اور جو لوگ نہیں ایمان لائے ان کے کانوں میں ٹھیٹیاں ہیں اور قرآن ان کے لیے اندھا پن ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ جب خدا نے قرآن کو اتارا تب اس نے چاہا کہ مومنوں کے واسطے ہدایت ہو اور کافروں کے لیے گمراہی۔ (۴) اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’ ولو شا ء ربک لامن فی الارض کلھم جمیعا ‘‘ یعنی اگر تیر ا پروردگار چاہتا ہے کہ کل لوگ جب ایمان نہیںلائے تو خدا نے ان کا جو کافر رہے ایمان لانا نہیں چاہا۔ (۵) ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے، ’’وماکان لنفس ان تومن الا باذن اللہ ‘‘ یعنی نہیں ممکن ہے کہ کوئی شخص بدون حکم خدا کے ایمان لاوے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ خدا نے جس شخص کو ایمان لانے کی اجازت نہیں دی وہ ایمان نہیں لایا ، یعنی خدا نے چاہا کہ وہ کافر ہے۔ (۶) اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ’’ و نذرھم فی طغیانھم یعمھون ‘‘ یعنی ہم انکو چھوڑ دیں گے ان کی گمراہی میں بھٹکتے ہوئے ۔ پھر فرمایا ’’ ماکانو الیومنوا لا ان یشاء اللہ ‘‘ یعنی وہ ایمان نہیںلائیں گے ، مگر یہ کہ خدا چاہے۔ پس یہ بات یقنا صحیح ہے کہ کوئی شخص ایمان نہیں لاتا مگر وہ جس کو خدا چاہے اور کوئی شخص کافر نہیں ہوتا ، مگروہ جس کو خدا چاہے۔ (۷) اور ایک جگہ فرمایا ہے، ’’ وجعلنا علیٰ قلو بھم اکنۃ ان بفقھو ہ وفی آذانھم و قرا ‘‘ یعنی ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئے ہیں اس سے کہ وہ قرآن کوسمجھیں اور ان کے کانوں میںبہرا پن کر دیا ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ خدا نے خود چاہا کہ کافر قرآن کو نہ سمجھیں اور ان کے دلوں پر پردے رہیں، تاکہ وہ کافر ہی رہیں۔ (۸) اور ایک جگہ فرمایاہے ’’ ولا شاء اللہ لجعکم امۃ واحدۃ و لکن یضل من یشاء ویھدی من یشا ء ‘‘ یعنی اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ایک گروہ بنا دیتا ، لیکن وہ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت کرتا ہے جس کو چاہتا ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خود اللہ نے گمراہ کرنا چاہا ہے۔ (۹) اور ایک جگہ فرمایا ہے ’’وما یکون لنا ان نعود فیھا الا ان یشاء اللہ ربنا‘‘ یعنی ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ ہم پھر پڑیں بت پرستی میں، مگر یہ کہ چاہے پروردگار ہمارا۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان کو خدا نے کفر سے بچایا جو ایمان لے آئے تھے اورجو کافر رہے تھے ان کو کفر سے نہیںبچایا۔ اگر خدا چاہتا تووہ بھی جو ایمان لے آئے تھے دوبارہ کافر ہوجائے ۔ (۱۰) اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’فی قلوبھم مرض فزادھم اللہ مرضا ‘ ‘ یعنی ان کے دلوں میںبیماری ہے۔پس زیادہ کیا اللہ نے ان کی بیماری کو۔ پس جبکہ خد انے بیماری کو ان کے دلوں میں زیادہ کیا تو کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ اس نے نہیں چاہا اور نہیں ارادہ کیا بیماری کے زیادہ کرنے کا ان کے دلوں میں اور بیماری شک اورکفر کی ہے۔ (۱۱) اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’ولو شاء اللہ ما اقتتلو ولکن اللہ تفعل ما یرید ‘‘ یعنی اگر خدا چاہتا تو خدا کی نشانیاں نازل ہونے کے بعد وہ آپس میںنہ لڑتے ، لیکن اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر خدا چاہتا تو وہ لوگ نہ لڑتے۔ پس یہ بات ضرور واجب ہو ئی ہے کہ اللہ نے چاہا اور ارادہ کیا کہ وہ باہم جوگمراہی ہے۔ (۱۲) اور ایک جگہ فرمایا ہے ’’ومن یردا للہ فتنتہ فلن تملک لہ من اللہ شیئا‘‘ یعنی خدا جس شخص کو فتنے میںڈالنے کاارادہ کرتا ہے تو ہر گز اس کو خدا سے نہیںبچا سکتا ۔ اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ خدا نے چاہا فتنے میں پڑنا فتنے میںپڑنے والوں کا اور کفر انکا اور وہ ایسے ہیں کہ رسول خدا کو بھی ان کے حق میں خدا سے کسی بات چاہنے کا اختیار نہیں ہے۔ (۱۳) اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ’’ لم یرد اللہ ان یطھر قلوبھم ‘‘ یعنی خدا نے نہ چاہا کہ انکے دلوں کو پاک کرے۔ اس سے ظاہر ہے کہ جس کادل خدا نے پاک کرنا نہ چاہا اسکے دل کو بگاڑنا چاہا ۔ (۱۴) اور ایک جگہ فرمایا ہے، ’’ولا شاء اللہ لجعلھم علی الھدیٰ ‘‘ یعنی اگر اللہ چاہتا تو ان کو کرتا سیدھے رستے پر اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ نے ان کاسیدھے رستے پرہونا نہیں چاہا اور کفر میںرہنا چاہا۔ (۱۵) اور ایک جگہ فرمایا ’’ولو شئنا لا تینا کل نفس ھداھا ولکن حق القول منی لا ملئن جھنم من الجنۃ والناس اجمعین ‘‘ یعنی اگرہم چاہتے تو ہرشخص کو سیدھی راہ پر چلاتے ،لیکن ہمارا قول پورا ہوا کہ ہم دوزخ کو جنوں اور آدمیوں سے بھریں گے سب سے ، اس سے ظاہر ہے کہ خدا نے کافروں کی ہدایت نہیںچاہی۔ (۱۶) اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’من یشااللہ یضللہ ومن یشا یجعلہ علیٰ صراط مستقیم ‘‘ یعنی خدا جس شخص کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس شخص کو چاہتا ہے سیدھے رستے پر چلاتا ہے ، اس سے ظاہر ہے کہ خدا نے جن کو گمراہ کیا ان کو خود اپنے ارادے اور خواہش سے گمراہ کیا۔ (۱۷) اور ایک جگہ حضرت ابراہیم ؑ کی زبان سے فرمایا کہ ’’لئن لم یھدنی ربی لا کونن من القوم الضالین‘‘ یعنی اگر میرا رب مجھ کو ہدایت نہ کرتا تو بے شک میںہوتا گمراہ قوم میںسے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ جو گمراہ رہے ان کو خدا نے چاہا کہ گمراہ رہیں۔ (۱۸) ایک اور جگہ خدانے فرمایا ’’ولو شاء اللہ ما اشر کوا ‘‘یعنی اگر خدا چاہتا تووہ شرک نہ کرتے ، اس سے ظاہر ہے کہ خدا نے چاہا کہ وہ شرک کریں۔ (۱۹) ایک اور جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’یوحی بعضھم الیٰ بعض زخرف القول غرورا۔ ولو شا ء ربک ما فعلوہ‘‘ یعنی ان میںسے بعض بعض کے دل میں چکنی چپڑی بات فریب دینے کو ڈالتے ہیںاور اگر تیرا رب چاہتا تو وہ اس کو نہ کرتے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ جو کچھ ان کافروں نے کیا وہ خدا کی خواہش سے کیا ، اگر وہ چاہتا کہ ایسا نہ کریں تو نہ کرتے ۔ (۲۰) اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’ وکذالک زین لکثیر من المشرکین قتل اولادھم شرکاؤ ھم لیردوھم ولیلبسوا علیھم دینھم ولو شا ء اللہ ما فعلوہ ‘‘ یعنی اسی طرح اچھا کر دکھایا بہت سے مشرکین کو مار ڈالنا اپنے بچوں کا ان کے شریکوں نے ، تاکہ ان کو مار ڈالیں اور مشتبہ کردیں ان پر ان کے دین کو اور اگر چاہتا اللہ تو وہ اس کو نہ کرتے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا نے چاہا کہ مشتبہ ہوجائے دین ان کا جن کا دین مشتبہ ہوگیا اوریہ چاہا کہ اولاد کاقتل صادر ہو اور اگر وہ چاہتا تو ایسانہ کرتے۔ (۲۱) اور ایک جگہ فرمایا ہے ’’ولو شا ء اللہ لسلطھم علیکم‘‘ یعنی اگر خدا چاہتا تو مسلط کر دیتا ان کو تم پر ۔ ا س سے صاف ظاہر ہے کہ جن کافروں نے نبیوں اور نیک بندوں کو قتل کیا خدا نے ان کو ان پر مسلط کر دیاتھا ۔ (۲۲) اور ایک جگہ فرمایا ہے ’’فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ للا سلا ومن یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقا حرجا ‘‘ یعنی اللہ جس کو ہدایت کرنی چاہتا ہے کھول دیتا ہے اس کادل اسلام کے لیے او ر جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے کر دیتا ہے اس کے دل کو تنگ گھٹاہوا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جسکوخدا چا ہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ (۲۳) اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’ واصبر وما صبرک الا باللہ ‘‘یعنی صبر کو اور نہیں ہے تیرا صبر کرنا مگر اللہ کی توفیق سے ۔ پس یہ کہنا صحیح ہے کہ جس نے صبر کیا اللہ نے اس کو صبر دیا اور جس نے صبر نہیں کیا اللہ نے اس کو صبر نہیں دیا۔ (۲۴) اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’ ولا تنازعوا‘‘ یعنی جھگڑا نہ کرو، پھر ایک جگہ فرمایا ہے ’’ولو شاء ربک لجعل الناس امۃ واحدۃ ولا یز الون مختلفین الا من رحم ربک والذالک خلقھم ‘‘ یعنی اگر تیرا پروردگار چاہتا کر دیتا لوگوں کوایک گروہ۔ اور وہ ہمیشہ رہیںگے اختلاف کرنے والے ، مگر جس پررحم کرے تیرا پروردگار اور اسی واسطے خدا نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا ہی نے ان کو اختلاف کے لیے پیدا کیا۔ (۲۵) اور دوسری جگہ فرمایا ہے ’’ توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشا ء و تعز من تشاء و تذل من تشاء ‘‘ تو دیتا ہے ملک جس کو چاہے اور ذلت دیتا ہے جس کو چاہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو کچھ کرتا ہے خود خدا کرتا ہے ۔ (۲۶) اور ایک جگہ فرمایا ہے ’’بعثنا علیکم عباد النا اولی باس شدید‘‘ یعنی جب بنی اسرائیل بہت بڑھ گئے توہم نے ان پر بھیجے اپنے بندے سخت لڑنے والے ’’وکان وعدا مفعولا ‘‘ اور یہ ایک وعدہ تھا جو پورا کیا گیا ’’ فاذا جاء وعد الاخرۃ لیسووا و جو ھکم ‘‘ یعنی جب دوسرا وعدہ آیاتاکہ بگاڑ دیں وہ تمہارے مونہوں کو ، پس خدا نے صاف صاف کہا کہ اس نے لڑایا کافروں کو اورچھین لیا مومنوں سے ملک ۔ پس اس میں شک نہیںکہ خدا نے یہ سب پیدا کیا اور اس کا ہونا چاہا۔ (۲۷) اور ایک جگہ فرمایا ہے ’’ ان آتاہ اللہ الملک ‘‘ یعنی خدا نے نمرود کو پادشاہت دی جس سے اور حضرت ابراہیم سے بحث ہوئی۔ (۲۸) ایک اور جگہ فرمایا ہے ’’ کرہ اللہ انبعا ثھم‘‘ یعنی جو لوگ غزوہ تبوک میں آنحضرت ﷺکے ساتھ جہاد میں نہیں گئے تھے ان کی نسبت کہا کہ خدا نے نا پسند کیاان کے جانے کو تیار ہونا اور کہا گیا کہ بیٹھے رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ ۔ پس خود خدا نے ان کو جہاد میں جانے سے روک دیا اور پھر خود ہی ان کے نہ جانے پر ناراض ہوا۔ (۲۹) اور ایک جگہ خد انے فرمایا ’’ انما یرید اللہ لیعذبھم بھا فی الحیوۃ الدنیا و تزھق انفسھم و ھم کافرون ‘‘ یعنی خدا نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ تو ان کے مال اور اولاد پر تعجب نہ کر۔ اللہ نے ارادہ کیا ہے کہ عذاب دے انکو اس کے سبب سے دنیا کی زندگی میں اور نکل جائیں جانیں ان کی اور وہ کافر ہوں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ انکے عذاب دینے کا اور ان کے کافر رہنے کا خود خدا نے ارادہ کیا۔ (۳۰) اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’وقا لو ا لوشاء الرحمن ما عبد نا ھم مالھم بذالک من علم ان ھم الا یخرصون‘‘ یعنی کافروں نے کہا کہ اگر خدا چاہتا تو ہم فرشتوں کی عبادت نہ کرتے ۔ نہیں ہے اس بات میںان کو کچھ علم اور نہیں ہیں وہ مگر اٹکل کرنے ۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ اگر خدا چاہتا تو ہم فرشتوں کی عبادت نہ کرتے تردید لازم نہیں آتی ۔ کیونکہ خدا نے صرف اس بات کو جتا یا ہے کہ انہوں نے بے علمی اور اٹکل سے کہا، اس لیے کہ وہ کہتے ہیں ’’ بل قالوا انا وجدنا آباء نا علیٰ امۃ وانا علی آثارھم مھتدون ‘‘ یعنی ہم نے اپنے باپ داد ا کو ایک راہ پر پایا اور ہم انہی کے نشان قدم پر چلتے ہیں۔ (۳۱) اور ایک جگہ فرمایا ہے ’’ فمنھم من ھدی اللہ و منھم من حقت علیہ الضلالۃ ‘‘ یعنی ان میں سے جن کے پاس رسول بھیجے تھے کچھ وہ ہیںجن کو اللہ نے ہدایت کی اور کچھ وہ ہیںجن پر گمراہی ثابت ہوئی ۔ پھر فرمایا ’’فا ن اللہ لا یھدی من یضل ‘‘ یعنی اللہ نہیں ہدایت کرتا اس شخص کوجس کو گمراہ کرتا ہے۔ (۳۲) ایک اور جگہ خدانے فرمایا ہے ’’ سیقول الذین اشر کوا لوشاء اللہ اشرکنا ولا آبا ء تا ولا حرمنا من شیئی۔ کذالک کذب الذین من قبلھم حتیٰ ذاقوا با سنا قل ھل عند کم من علم فتخر جوہ لنا۔ ان تتبعون الا الظن وان انتم الا تخر صون‘‘ یعنی مشرک کہیںگے کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے نہ ہمارے بزرگ اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کرتے ۔ اسی طرح ان سے پہلوں نے جھٹلایا ، یہاں تک کہ ہمارا عذاب چکھا ۔ کہہ دے کہ کیاتمہارے پاس کچھ علم ہے۔ تا کہ ہمارے لیے تم اس کو نکلو۔ تم نہیں پیروی کرتے مگر گمان کی اور نہیں تم مگر اٹکل کرتے ۔ اس آیت میںبھی خدا نے مشرکین کے اس قول کی تردید نہیں کی ہے کہ اگرخداچاہتا توہم شرک نہ کرتے اور نہ اس بات میں ان کو جھٹلایا ہے ، بلکہ انکی بے علمی سے کہنے کا انکار کیا ہے ، اگرچہ وہ بات صحیح اور حق ہو ، کیونکہ آگے چل کر اسی آیت کے سلسلے میں ہے کہ خدا نے ان کی اس بات کی تصدیق کی کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے نہ ہمارے بزرگ اور نہ ہم کسی چیز کوحرام کرتے ۔ (۳۳) اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’ اتبع ما اوحی الیک من ربک لا الہ الا ھو و اعرض عن المشرکین۔ ولو شا ء اللہ ما اشرکو ا وما جعلنا ک علیھم حفیظا‘‘ یعنی اے پیغمبر !پیروی کر اس چیز کی کہ وہی کی گئی ہے تیری طرف تیرے پروردگار کی جانب سے نہیں ہے کوئی معبود ، مگر وہ اور منہ پھیر لے مشرکین سے اور اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے اور نہیں کیا ہم نے تجھ کو ان پر نگہبان۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا نے ان کے اس قول کا انکار نہیںکہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے ، بلکہ اس آیت سے بھی ہمارے اس قول کی تصدیق ہوتی ہے کہ ایمان ، شرک ، ہدایت اور گمراہی جو کچھ دنیا میں ہے اللہ نے ان سب کے ہونے کا ارادہ کیا۔ (۳۴) اسی طرح ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’ انطعم من لو یشاء اللہ اطعمہ‘‘ یعنی کیا ہم کھانا کھلائیں ان کو جن کو اگر خدا چاہتا تو کھانا کھلاتا ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ ہی ن فقیروں اور بھوکوں کو کھانا نہیں دیا، اگر وہ چاہتا تو انکوکھانا کھلاتا۔ (۲۵) ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’ ولو شئنا لا تینا کل نفس ھداھا ولکن حق القول مننی لا ملئن جھنھم من الجنۃ والناس اجمعین ‘‘ یعنی اگر ہم چاہتے تو البتہ دیتے ہم ہر ایک شخص کو ہدایت ، لیکن وعدہ میرا پورا ہوا کہ میںبھروں گا درزخ کو جنوں سے اور آدمیوں سے سب سے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا ہی ہدایت کرتا اور خدا ہی گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے دوزخ میںبھیجتا ہے اور جس کو چاہتا ہے جنت میںبھیجتا ہے۔ (۳۷) اور ایک جگہ خد انے فرمایا ہے ’’وما کان لنفس ان تومن الا باذن اللہ ‘‘ یعنی نہیںممکن ہے کہ کوئی شخص ایمان لائے۔ مگر اللہ کی اجازت سے ۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ہر شخص کاایمان اضطراری ہے ۔ اختیاری نہیں۔ (۳۷) اور ایک جگہ خد انے فرمایا ہے ’’من یھدی اللہ فھوا المھتد ومن یضلل فلن تجدلہ ولیا مر شدا‘‘ یعنی جس کواللہ ہدایت کرتاہے وہ ہدایت پانے والا ہے اور جس کو گمراہ کرتا ہے نہ پائے گا تو اس کا کوئی دوست راہ بتانے والا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہدایت اور گمراہی دونوں خدا کی طرف سے ہیں۔ (۳۸) اور ایک جگہ فرمایا ہے ’’انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء ‘‘ یعنی اے پیغمبر ! تو جس کو چاہے ہدایت نہیں کرتا ہے ، بلکہ خدا جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔ ا س آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ہدایت ایک امر اضطراری ہے، اختیار کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے ۔ (۳۹)اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’وما النصر الا من عند اللہ ‘‘ یعنی نہیں ہے مدد مگر خدا کی طرف سے ۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ جو فتح اور غلبہ حاصل کرتا ہے خدا ہی اس کوفتح اورغلبہ دیتا ہے۔ (۴۰) اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’ اذھم قوم ان یبسطو ا الیکن ایدیھم فکف ایدیھم عنکم ‘‘ یعنی جب قصد کیاایک قوم نے کہ تمہاری طرف اپنے ہاتھ دراز کریں، خدا نے روکا ان کے ہاتھوں کو تم سے ۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ خدا نے جب چاہا کافروں کے ہاتھوں کو مومنوں سے باز رکھا اور جب چاہا باز نہ رکھا۔ (۴۱) اور ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’ھو الذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم ‘‘یعنی وہ ہے جس نے باز رکھے ہاتھ ان کے تم سے اور ہاتھ تمہارے ان سے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا نے جب چاہا مومنوں کو کافروں پر غالب کیا اور جب چاہا کافروں کو مومنوں پر فتح دی ۔ یہ تمام وہ آیتیں ہیںجن کو اصحاب ظواہر اپنے مذہب کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ لفظ شاء و اراد کے دو معنی ہیں۔ ایک معنی راضی ہونے اور پسند کرنے کے ہیں اور یہ معنی خداسے منسوب نہیں ہوسکتے کہ اس نے اس کام کے کرنے کا ارادہ کیا یا اس کام کا ہونا چاہا جس سے کہ اس نے منع کیاتھا ۔ دوسرے معنی لفظ شاء و اراد کے یہ ہیں کہ اس نے اس کے ہونے کا ارادہ کیا یااس کا موجود ہوجانا چاہا، اوریہی بات ہے جو اللہ کی نسبت کہی جاتی ہے تمام موجودات پر جو عالم میںہے اچھی یا بری تحقیق ھذا المقام ہمارے نزدیک اہل سنت نے جو لفظ شاء کے معنوں میں تفریق کی ہے وہ کافی نہیں ہے اور ابن حزم نے جن آیتوں پر استدلال کیا ہے وہ بھی صحیح نہیں ہے ، اس لیے کہ ان آیتوں میں یاتو اخبار ہے عن حالات الانسان یا انسان ان میں مخاطب ہیں۔ غرضیکہ موضوع ان آیتوں کا انسان ہے ۔ پس ہم کو سب سے اول یہ بات دیکھنی ہے کہ انسان کی فطرت کیا ہے اور خدا نے انسان کو کس فطرت پر پیدا کیا ہے۔ یعنی اس کے نیچر میں کیا باتیں پیدا کی گئی ہیں ، کیونکہ بر خلاف اس فطرت کے اس سے کوئی امر ظہور میںنہیں آسکتا ہے اور نہ برخلاف اس فطرت کے وہ مخاطب ہوسکتا ہے ۔ نیچرل سائنس کے عالموں نے یہ امر محقق طورپر ثابت کیا ہے کہ کسی چیز کا نیچر ، یعنی جس فطرت پر وہ چیز پیدا ہوئی ہے ، تبدیل نہیں ہو سکتا اور نہ برخلاف اس فطرت کے اس سے کوئی امر ظاہر ہوسکتا ہے۔ انسان کی فطرت کا بھی یہی حال ہے۔ قرآن مجید میںبھی انسان کی نسبت خدا نے یہی فرمایا ہے ’’ قرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ ‘‘پس ان آیتوں کے معنی قرار دینے سے پہلے ہم کو فطرت انسانی کی تفتیش و تحقیق کرنی لازم ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ خدا ن ے جو ایک حد معین تک انسان کو قدر ت عطا کی ہے جس سے وہ اس حد تک اپنے افعال کا مختار ہے اور یہ سمجھتا کہ ایسا اختیار دینے سے خدا کی قدرت میںنقصان لازم آتا ہے محض غلط ہے ، کیونکہ اس نے وہ قوت کسی اضطرار یا مجبور ہونے کے سبب نہیں دی تھی، بلکہ اپنی خوشی اور اپنی مرضی سے دی تھی اور وہ مختار تھا، چاہے دیتا چاہے نہ دیتا اور اس قدرت کا دینا نہایت حکمت پرمبنی ہے جس کی طرف خدا نے اشارہ کیا ہے جہاں فرشتوں کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا ہے ’’انی اعلم مالا تعلمون ‘‘ یہ کہنا کہ خدا نے جس فطرت پر جس کو بنا یا ہے اس کے تبدیل نہ کرنے سے خدا کا عجز ثابت ہوتا ہے۔ جہلاء کا کام ہے ، کیونکہ کسی صاحب قدرت اور اختیار کا اپنی بنائی ہوئی فطرت یاقانون فطرت کو قائم رکھنا اس کی قدرت کی دلیل ہے نہ اس کے عجز کی۔ خدا نے اپنی تمام مخلوقات کے پیدا کرنے میں اور ان کو ایک فطرت عطا کرنے میں ہر ایک کے ساتھ نہایت عدل کیا ہے ۔ اس کاثبوت اس بات سے ہوتا ہے کہ ہر ایک مخلوق کو ایک بھنگے سے لے کر انسان تک، جس کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے ، جو چیزیں کہ بلحاظ اس کی خلقت کے اس کے لیے ضروری تھیں سب عطا فرمائی ہیں۔ کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جس کی نسبت کہا جا سکے کہ بلحاظ اس کی خلقت کے اس کو فلاں چیز ـضرور تھی اور اس کو عطا نہیں ہوئی ۔ پس یہ ایسا بے نظیر عد ل ہے جو خدا کے سوا اور کسی سے ہو ہی نہیں سکتا اور جو فطرت جس میں پیدا کی ہے بلحاظ اس کی خلقت کے اس فطرت کا اس میں ہونا بھی مقتضا نے عدل تھا ۔ انسان کو جب اس نے مکلف بنایا تو اس فطرت کا بھی جس سے وہ مکلف ہو سکے عطا کرنا عین انصاف تھا اور وہ فطرت اس کا ایک حد مناسب تک مختار ہونا ہے اور اس فطرت کا بدلنا اور اس کو بدستور مکلف رکھنا عدل و حکمت دونوں کے برخلاف تھا ، اسی لیے خدا نے فرمایا ’’لا تبدیل لخلق اللہ ‘‘پس اس فطرت کوقائم رکھنا عین دلیل اس کے کمال قدرت اور عدل کی ہے نہ عجز و ظلم کی۔ علماء کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ موجودات عالم جو موجود اور مشاہد ہیںانکی فطرت کی تفتیش خود انہی موجودات میں نہیںکرتے ، بلکہ الفاظ کتب سماوی سے جن کے معنی اور جن کا مقصدبغیر تحقیق فطرت موجود موجودات عالم کے صحیح نہیں معلوم ہوسکتے ، موجودات عالم کی فطرت قرار دینا چاہتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ ورڈ آف گاڈ ، یعنی کلام الہیٰ اور ورک آف گاڈ ، یعنی موجودات عالم میں اور ان کی فطرت میں جس پر اس نے ان کو پیدا کیا ہے۔ اختلاف نہیںہو سکتا۔ مگر موجودات عالم جو موجود و مشا ہد ہیں اور جن کی فطرت ہم یقینی دریافت کر سکتے ہیں اس وقت تک کہ ان کی فطرت نہ دریافت کر لیں ورڈ آف گاڈ کو اس وقت تک کہ ان کی فطرت نہ دریافت کر سکتے ہیں اس وقت تک کہ ان کی فطرت نہ دریافت کر لیں ورڈ آف گاڈ کو اس کے مطابق یا غیر مطابق قرار نہیں دے سکتے ، اوریہ بات غیر ممکن ہے کہ ہم اولا اپنے خیال و قیاس کے مطابق ورڈ آف گاڈ کے کوئی معنی قرار دے لیں اور بلا تحقیق و تفتیش فطرت موجودات عالم قرار دیں، کیونکہ جو در اصل فطرت موجودات عالم ہے وہ بجائے خود موجود اور مستحکم ہے۔ پس انہوں نے ورڈ آف گاڈ کے کوئی معنی قرار دئے ہوں اس سے وہ فطرت تبدیل نہیں ہوسکتی ۔ اب ہم کو فطرت انسانی کادریافت کرنا ہے ۔ اس بات کو تو کوئی تسلیم نہیں کرنے کا کہ انسان حی کومثل جمادبے جان کے پیدا کیا ہے اور وہ بذاتہ لا یعقل اور غیر متحرک بالا رادہ ہے۔ کیونکہ ہم اس کو دیکھتے ہیںکہ وہ ذی عقل او ر متحرک بالا اراد ہ ہے۔ جس کام کو وہ چاہتا ہے کرتا ہے جس کو چاہتا ہے نہیں کرتا، بعض کاموں کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے او ر پھر ان کے کرنے سے رک جاتا ہے اور نہیں کرتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں بعض خواہشات طبعی ایسی موجو د ہیں جن کے کرنے پر ہو بالطبع مائل ہے۔ پھر ا س میں ایسی چیز بھی پاتے ہیں جو ان کاموں کے کرنے سے اس کو روک دیتی ہے جن کے کرنے پر وہ بالطبع مائل ہے۔ یہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جو کام وہ کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے اس کے لیے کچھ اسباب ہوتے ہیں اور جن کو وہ کرنا نہیں چاہتا ہے اس کے لیے بھی کچھ اسباب ہوتے ہیں اور جن کاموں کے کرنے کا وہ ارادہ کرتا ہے اور پھر ان سے باز رہتا ہے اور ان کو نہیں کرتا اس کے لیے بھی کچھ اسباب ہوتے ہیں جن میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کی اس کو ضرورت پڑتی ہے۔ مگر ہر حال میںیہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ انسان میں ایسے قویٰ مخلوق ہوئے ہیں جن میں قدرت کسی کام کے کرنے کی اور کسی کام کے نہ کرنے کی اور جس کام کا اس نے ارادہ کیا ہو اس کے ترک کر دینے کی موجود ہے اور اسی قدرت کے سبب و ہ مکلف ہو اہے ورنہ اس کو مکلف قرار دینا محض بے معنی ہوتا۔ انسان جبکہ تربیت یافتہ نہ تھا اس میں جو طبعی خواہشات تھیںوہی کسی کام کے کرنے اور نہ کرنے کا سبب ہوتی تھیں ۔ مثلا جب اس کو پیاس لگی اور اس نے ایک تالاب پانی بھرا دیکھا وہ اٹھا اور تالاب تک گیا ۔ پس وہ خواہش طبعی اس کے اٹھنے اور تالاب تک جانے کا سبب ہوئی یا جبکہ آگ کو ہاتھ نہ لگانا ایک امر طبعی تھا جو اس کی تکلیف کا باعث تھا۔ اس لیے آگ کو ہاتھ نہیں لگاتا اس کی خواہش طبعی اس بات کا سبب تھی کہ آگ کو ہاتھ نہ لگاوے۔ مگر جبکہ انسان میں زیادہ تمدن آیا ، کیونکہ وہ فطرتی مدنی الطبع پیدا ہوا ہے تو بہت سے اسباب تمدن اور طریق معاشرت جن کو رسم و رواج یاسوسائٹی کے فورس سے تعبیر کرتے ہیں ایسے پیدا ہو گئے جو سبب ہوئے اس قوت کے کام میںلانے کے جو کسی فعل کے کرنے کا باعث ہو تی ہے یا اس قوت کے کام میں لانے کے جو کسی فعل کے کرنے سے باز رکھتی ہے۔ انسان جب انسانیت میںاور زیادہ ترقی کرتا ہے اور اس قوت کو کام میںلانے کے قابل ہوتا ہے جس کو عقل کہتے ہیں اور جو باعث ہوتی ہے اس بات کے سمجھنے کی کہ فلاں کام اچھا ہے یا برا اور جس کو اچھا سمجھتا ہے اس کو کرتا ہے اور جس کو برا سمجھتا ہے اس کے کرنے سے باز رہتا ہے تو خود انسان کی سمجھ کسی فعل کے کرنے اور کسی کے کرنے سے باز رہنے کا سبب ہوتی ہے ۔ جیسے کہ اس نوجوان نے کہا جس کو ہم تم سب جانتے ہیں ’’ لا احب الافلین ۔ انی و جھت و جھی اللذی فطر السموات والارض حنیفا وما انا من المشرکین۔‘‘ انھیں اسباب میں سے بہت بڑا سبب مذہب ہوتا ہے۔ جب انسان کسی مذہب کا تابع ہو جاتا ہے جس میں بعض الفاظ کو نیک بلفظ تقویٰ اور بعض کو بد بلفظ فجور بیان کیا گیا ہے اور اس کا یقین ا سکے دل میںبیٹھ جاتا ہے تو جو افعال نیک اس مذہب نے قرار دئے ہیں وہ مذہب یا اس کا یقین اس کے کرنے کے لیے سبب ہوتا ہے اور جو افعال بد قرار دئے ہیں ان کے کرنے سے باز رہنے کا باعث ہوتا ہے۔ قرآن مجید سے بھی ان دونوں قوتوں کا انسان میںمخلوق ہونا پایا جاتا ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ’’ونفس و ما سواھا فالھمھا فجورھا و تقواھا ۔ قد افلح من زکا ھا و قد خاب من دسھا‘‘ یعنی انسان کے نفس کی قسم اور جس طر ح کہ برابر کیا اس کو پھر ڈالی اس میں اس کی بدکاری اور اس کی پرہیز گاری ۔ بے شک فلاح پائی جس نے اس کو پاک کیا اور بے شک نقصان اٹھایا جس نے اس کو ڈبو دیا۔ تعقل اور رسم و رواج ، یعنی سوسائٹی کا فورس اور مذہب باعث ہو تے ہیں انسان میں ایک اور قوت کے پیدا ہونے کے ، جس کو کانشنس یا وجدان قلبی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کانشنس کوئی اصلی چیز حق اور باطل یا اچھے اور برے میں تمیز کرنے کی نہیں ہے ، بلکہ وہ تعقل یا رسم و رواج یا مذہب کا نتیجہ ہے، کیونکہ وہ لوگوں کے دلوں میں بلحاظ اختلاف اسباب مختلف اور آپس میں متضاد ہوتی ہے۔ جیسے کہ آذر کا ایک بت کو پرستش کرنا ٹھیک اس کا کانشنس ، وجدانی قلبی یا نور ایما ن تھا، ویسا ہی ابر اھیم ؑ کا بت کو توڑنا ٹھیک ان کا کانشنس ، وجدانی قلبی یا نور ایمان تھا ، مگر یہ کانشنس بہت بڑا سبب ہوتا ہے اس قوت کے کام میںلانے کا جو کسی فعل کے کرنے سے باز رکھتی ہے ۔ بہر حال سب کچھ ہی ہو انسان میںدو قوتیں ، یعنی فعل اور ترک فعل کی پائی جاتی ہیں۔ جبکہ انسان متضاد خواہشیں اور متضاد قوتیں اپنے میںپاتا ہے تو حیران ہوتا ہے کہ یہ متضاد خواہشیں اور متضاد قوتیں جو اور حیوانوں میںنہیں ہیں یا کمتر ہیں کیوںمجھ میںایسی قوی پیدا کی گئی ہیں اورجب وہ تمام موجودات عالم میں متضاد قوتوں کا وجود پاتا ہے اور یہ بھی دیکھتا ہے کہ انکا وجود اس اعتدال قویٰ کے سبب سے ہے جو ان کے وجود کے لیے ضروری تھا تو وہ خود بخود اپنی فطرت پر غور کر کے یقین کر سکتا ہے کہ ان متضاد قوتوں اور خواہشوں کا اس میں پیدا کرنا اس مقصد سے ہے کہ وہ ان کو اعتدال پر رکھے۔ تمام مذاہب حقہ کا بھی اس سے زیادہ منشاء نہیں ہو سکتا اور ظاہر انسان کو انسان بنانے کا یہی منشا ء معلوم ہوتا ہے۔ جب انسان اس درجے سے بھی آگے بڑھتا ہے تو اس کو حیرت ہوتی ہے کہ یہ مجموعہ اضداد کیونکر بنا اور کس نے بنایا ۔ اس کا خیال صرف اپنی ہی ذات پر منحصر نہیں رہتا ۔ بلکہ اس کو زیادہ وسعت ہوتی ہے اور تمام عالم پرخیال ودوڑا جاتا کہ یہ کیونکر بنا اور کس نے بنایا یا آپ ہی آپ ہو گیا ۔ علمائے علم موجودات عالم سے پوچھتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم کو نیچرل سائنس سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ ابتداء میں صرف ھیولیٰ تھا جس کو مادہ کہتے ہیں اور وہ اجزائے صغار دیمقراطیسی پر جن کو اب سالمات سے تعبیر کرتے ہیں، مشتمل تھا ۔ وہ سالمات خاص خاص طرح پر ایک دوسرے سے ملے اور ان کی ترکیب سے تمام موجودات عالم ظہور میںآئے، مگر ان کو یہ بات معلوم نہ ہوئی کہ وہ مادہ از خود موجود تھا یا کسی موجود نے اس کو پیدا کیاتھا اور جس خاص خاص ترکیب سے وہ سالمات آپس میں ملے جن سے موجودات مختلف اجناس اور انواع و اقسام کے پیدا ہوگئے اس کا کیا سبب تھا ۔ یہ خاصیتیں او ر قوتیں خو د انہی میں تھیں یا کسی موجود نے ان میںرکھی تھیں، مگر ہو تو موجودات میں سوائے اس کے جو موجود و محسوس ہے اور کچھ نہیں پاتے۔ یہی ایک مقام ہے جو فلاسفہ طبیعین اور فلاسفہ الہین کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ فلاسفہ طبییعیین تو اسی حد تک پہنچ کر رہ جاتے ہیں او رزبان حال سے کہتے ہیں: اگر یک سو موئے پر تو پر م فروغ تجلی بسوز دپرم اور لا ادریہ ور نیچریہ کے لقب سے مقلب ہوتے ہیں،کیونکہ وہ نیچر ہی کو خالق کائنات مانتے ہیں، مگر فلاسفہ الہین یقین کرتے ہیں کہ اس کا پیدا کرنے والا وہی واحد ازلی و ابدی ہے جس کو ہم تم خدا اور عرب کے بدو اللہ اور یورپ کے لوگ گاڈ اور فلاسفہ الہین علۃ العلل کہتے ہیں اور تمام موجودات عالم کا خال مع ان تمام قویٰ کے جو ان میںہیں او ر مع ان کی فطرت کے جس پر وہ پیدا ہوئے ہیں اسی علۃ العلل کو یقین کرتے ہیں۔ اس حد تک پہنچنے پر دو باتیں محقق ہو جاتی ہیں یا تسلیم کرنی پڑتی ہیں۔ اول یہ کہ انسان میںدو قوتیں موجود ہیں کہ ایک کسی کام کے کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور دوسری اسی کامکے کرنے سے اس کو روکتی ہے گو اس کے اسباب کچھ ہی ہوتے ہوں، مگر ان دونوں قوتوں کا وجود انسان میں محقق پایا جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ان تمام افعال کے ظہور کا سبب اخیر جو انسان سے مطابق اس کی فطرت کے ظاہر ہوتے ہیں، وہی علۃ العلل ہے جس نے ان کو پیدا کیاہے۔ جب ہم یہاں تک پہنچتے ہیںتو ایک اور امر اس علۃ العلل کی ذات میںہم کو تسلیم کرنا پڑتا ہے جس کو ہم اس کی صفت علم سے تعبیر کرتے ہیں، کیونکہ کسی صانع نے جو کسی چیز کو بنا یا ہو اس کی نسبت یہ گمان نہیںہو سکتا کہ اس صنعت کی حقیقت کو اور اس بات کو کہ اس سے کیا کیا امر ظہور میں آویں گے نہ جانتا ہو ،کیونکہ اگر ہو نہ جانتا ہو تو اس سے اس کا بنانا غیر ممکن ہے۔ مثلا ایک گھڑی ساز قبل بناتے اس گھڑی کے جانتا ہے کہ ا س قدر پرزے اس میں ہوں گے اور وہ پرزے فلاں فلاں کام دیں گے اور اس قدر تک وہ گھڑی چلے گی اور اس قدر عرصے کے بعد بند ہو جائے گی۔ پس وہ علۃ العلل جس نے انسان کو مع اس کے قویٰ اور اس کی فطرت کے پیدا کیا ہے بخوبی جانتا ہے کہ یہ پتلا کیا کیا کام کرے گا اور اسی جاننے کو ہم اس علۃ العلل کی صفت علم سے تعبیر کرتے ہیں اور جو کچھ اس کے علم میں ہے، ممکن نہیں کہ اس کے بر خلاف وہ پتلا کر سکے۔ اس بیان سے یہ سمجھنا نہ چاہیے کہ ایسی حالت میںوہ پتلا اس با ت پر مجبور ہو جاتا ہے کہ خواہ مخواہ وہی کرے یا وہی کرے گا جو اس علۃ العلل کے علم میں ہے اور اس کے برخلاف کرنا ناممکن ہے، کیونکہ یہ بات کہ وہ پتلا کیا کیا کرے گا ایک جدا امر ہے اور اس بات کا علم کہ وہ پتلا یہ یہ کرے گا ایک جدا امر ہے۔ اس کے علم سے اس پتلے کی مجبوری اس کے افعال میںلازم نہیں آئی۔ اس کی مثال اس طرح پر بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ فرض کرو ایک نجومی ایسا کامل ہے کہ جو کچھ آئندہ کے احکام بتاتا ہے، اس میں سر مو فرق نہیں ہوتا ۔ اب اس نے ایک شخص کی نسبت بتایا کہ وہ ڈوب کر مرے گا۔ اس کا ڈوب کر مرنا تو ضرو ر ہے، اس لیے کہ نجومی کا علم واقعی ہے ، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس نجومی نے اس شخص کو ڈوبنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ پس جو علم الہیٰ میںہے یا یوں کہو کہ جو تقدیر میںہے وہ ہوگا تو ضرور، مگر اس کے کرنے پر خدا کیطرف سے مجبوری نہیں ہے، بلکہ خدا کے علم کو اس کے جاننے میںیا تقدیر کو اس کے ہونے میں مجبوری ہے۔ امام احمد بن یحییٰ المرتضی زیدی نے اپنی کتاب الملل و النحل میںلکھا ہے: ۔ عربی (ترجمہ) عبدا للہ بن عمر ؓ سے ایک شخص نے کہا اے ابو عبد الرحمان ! بعض قوموں کے لوگ زنا کرتے ہیں اور شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں اور لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور کہتے ہے ں کہ یہ خدا کے علم میںتھا ، ہم کو اس سے کوئی چارہ نہیں ہے ۔ عبداللہ بن عمر ؓ غصہ ہوئے۔ پھر کہا سبحان اللہ بے شک اس کے علم میںتھا کہ وہ ایسے کام کریںگے ، مگر خدا کے علم نے ان کو ان کاموں کے کرنے پر مجبور نہیں کیا ۔ مجھ سے میرے باپ عمر ؓ بن خطاب نے ذکر کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا کہ علم الہی کی مثال تم میں ما نند آسمان کے ہے جس نے تم پر سایا کر رکھا ہے اور مانند زمین کے ہے جس نے تم کو اٹھا رکھا ہے۔ پس جس طرح تم آسمان و زمین سے باہر نہیں جا سکتے اسی طرح تم خدا کے علم سے باہر نہیں ہوسکتے اور جس طرح آسمان و زمین تم کو گناہوں پر مائل نہیںکرتے اسی طرح خدا کا علم بھی تم کو ان گناہوں پر مجبور نہیںکرتا۔ ان تمام امور سے جو ہم نے بیان کئے چند مقدمات قائم ہوتے ہیںجن کے مطابق ان آیتوں کی تفسیر ہوسکتی ہے جن میں انسان مخاطب یا اس کے حالات سے اخبار ہے۔ یعنی موضوع ان آیتوں کا انسان ہے، چنانچہ اس مقام پر ہم ا ن مقدمات کو بیان کرتے ہیں:۔ (اول) تمام موجودات کو اور انسان کو مع اس کے تمام قویٰ کے اس نے پیدا کیاہے جس کو ہم علۃ العلل یا خدا کہتے ہیں۔ (دوم) اس نے تمام مخلوقات کیاانسان اور کیا حیوان وغیر ہ کو اپنی مشیت سے ایک فطرت پر پیدا کیا ہے جس میں تغیر و تبدل نہیںکرتا ۔ اسی فطرت کے مطابق ان سے افعال صادر ہوتے ہیں اختیاری یااضطراری ۔ اور دونوں کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ مشیت الہی سے ہوتے ہیں۔ (سوم) ہم دیکھتے ہیں کہ انسان میںدو قوتیں موجود ہیں، ایک کسی کام کے کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور دوسری اسی کام کے کرنے سے روکتی ہے۔ (چہارم ) انسان ان تمام قویٰ کو جو اس میں ودیعت رکھے گئے ہیں اپنی فطرت کی حد تک ان کے کام میںلانے کا مختار ہے۔ (پنجم ) اسی اختیار کے سبب انسان مکلف ہے۔ (ششم ) مو جودات کے عالم کے حالات و افعال کا علم ماکا ن و مایکون بالفعل اس علۃ العلل کو حاصل ہے جس نے اس عالم کو بنایا یا پیدا کیا۔ (ہفتم) تمام حالات جو موجودات عالم پر گزرتے ہیں او ر تمام افعال جو انسان سے صادر ہوتے ہیں خود وہ علۃ العلل بسبب علۃ العلل ہونے کے تمام وسائط کو درمیان سے حذف کر کے کہہ سکتی ہے کہ ’’ انا فعلت کذا و کذا‘‘ جیسے کہ کہا ہے ’’ما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمیٰ۔‘‘ (ہشتم ) اسی طرح انسان بھی اپنے تمام افعال کو اس علۃ العلل کی طرف منسوب کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ ان قوتوں کا خالق ہے جن سے وہ افعال ظاہر ہوئے۔ (نہم) امورات شرعیہ کے بجا لانے میں قوت فعل کو کام میں لانا ور مہیات شرعیہ سے بچنے میںقوت ترک فعل کو کام میں لانا اس علۃ العلل کی مرضی کے موافق ہے اور باعث درجات۔ (دھم) بر خلاف اس کے یعنی مہیات شرعیہ میں قوت فعل کو کام میںلانا او ر قوت ترک فعل کو کام میں نہ لانا اس علۃ العلل کی مرضی کے موافق نہیں ہے اور باعث درکات ۔ اس بحث کا دارو مدار چوتھے مقدمے پر ہے جس میں ہم نے لکھا ہے کہ جو قوتیں انسان میں ودیعت کی گئی ہیں ان کو اپنی فطرت کی حد تک کام میںلانے کا وہ مختار ہے۔ ہمارے پاس تو اس کا ثبوت خود انسان کے نیچر میں موجود ہے ۔ یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ انسان جو کام کرنا چاہتا ہے کرتا ہے اور جو کان نہیں کرنا چاہتا نہیںکرتا ، گو ان کے کرنے اور نہ کرنے کے کچھ اسباب بھی موجود ہوں، مگر ہم کوئی وجہ اس امر کی قرار دینے کی نہیں پاتے کہ انسان ان قویٰ سے اس وقت تک کام نہیںلے سکتا جب تک کہ بر وقت اس کام کا ارادہ اور مشیت الہی نہ ہو کہ وہ ان قوتوں سے کام لے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہر کام کے کرنے کا وقت ارادہ اور مشیت الہی کا ہونا درکار ہے تو ان کو اس کی دلیل بین لانی چاہیے۔ قرآن مجید کی آیتوں سے جو اس پر استدلال کرتے ہیں وہ دو وجہ سے غلطی کرتے ہیں۔ اول تو اس وجہ سے کہ وہ انسان کے نیچر کو قرآن مجید میں ڈھونڈتے ہیں ، حالانکہ انسان کے نیچر کو خود انسان میںٹٹولنا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ جن آیتوں سے وہ استدلال کرتے ہیںہمارے نزدیک نہ وہ استدلال صحیح ہے نہ ان کے معنی جو وہ لیتے ہیں صحیح ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیںکر سکتا کہ بے مشیت ایزدی نہ کچھ ہوا ہے نہ کچھ ہو سکتا ہے۔ مگر اس امر میںکہ اس مشیت کا ظہور کیونکر ہوتا ہے اکثر لوگوں نے غلطی کی ہے ، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں ککہ جب انسان کوئی نیک کام کرنا چاہتا ہے اس وقت خدا کا ارادہ اور اس کی مشیت ہوتی ہے کہ وہ اس کام کو کرے اور جب کوئی برا کام کرنا چاہتا ہے جب بھی خدا کا ارادہ اور مشیت ہوتی ہے کہ وہ یہ کام کرے ، لیکن اس طریقے پر مشیت ایزدی کا ظہور اس فطرت میںہوتا ہے جس پر اس نے انسان کو اور دیگر موجودات عالم کو پید کیا ہے ۔ پتھر کو بھاری پیدا کیا ہے ۔ اس کی فطرت میں ارادہ ور مشیت الہی یہ رکھی گئی ہے کہ جب پانی میںڈالا جائے ڈوب جائے اور جب پتھر پانی میں ڈوبے گا کہا جائے گا کہ مشیت الہی سے ڈوبا ہے۔ آگ کو خدا نے اپنی مشیت و ارادے سے ایسی فطرت پر پیدا کیا ہے کہ جب کوئی چیز جس میںجلنے کی فطرت ہے اس سے ملے تو جل جائے۔ پس جس وقت لکڑی یا ایندھن آگ میں ڈالنے سے جل جاوے گا کہا جاوے گا کہ مشیت ایزدی یہی تھی ، مگر یہ کہنا کہ آگ میںقوت احراق نہیں ہے ، مگر جب کوئی چیز قابل احتراق اس میں ڈالی جاتی ہے ، تو خدا تعالیٰ اس میں عادۃَ۔ قوت احراق پیدا کر دیتا ہے اور وہ جلا دیتی ہے ہمارے نزدیک صحیح نہیں اور اس سے اس فطرت کا بطلان لازم آتا ہے جو خدا نے ہر ایک چیز میںپیدا کی ہے۔ انسان کو خدا نے اس فطرت پر پیدا کیا ہے کہ جو قویٰ اس میں ودیعت کئے گئے ہیں ان کو کام میں لانے کا اس کو مختار کیا ہے ، پس جب وہ اپنے اس اختیار سے جو خدا کے ارادے اور مشیت سے اس نے وہ کام کیا۔ اس کا مختار ہونا اس بات کے مانع نہیں ہے کہ خدا کے ارادے اور مشیت کو اس سے منسوب نہ کیا جائے۔ اب ان اصول عشرہ کے مطابق ہم ان آیتوں کی تفسیر بیان کریںگے جن کو ابن حزم نے بیان کیا ہے اور بتاویں گے کہ ان آیتوں سے انسان ان قویٰ کے کام میںلانے میںجو اس کو حسب فطرت عطا کئے گئے ہیں مجبور نہیں ہے ، بلکہ ان کے کام میں لانے کا اس حد تک جو از روئے فطرت کے مقرر ہوئی مختار ہے اور اسی وجہ سے مکلف ہے۔ (۱) مثلا خدا نے فرمایا کہ ’’قرآن نصیحت ہے اس شخص کے لیے جو تم میں سے سیدھی راہ پر چلنا چاہے ‘‘ اس جملے سے تو انسان کا مختار ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ دوسرا جملہ یہ ہے کہ ’’ تم کچھ نہیں چاہتے مگر یہ کہ چاہے اللہ پروردگار عالموں کا‘‘ یعنی جس فطرت پر اپنی مشیت سے خدا نے اس کو پیدا کیا ہے اس پر خدا نے فرمایا ہے ’’وما تشاؤن الا ان یشاء اللہ ‘‘ جیسا کہ ہم نے مقدمہ دوم میں بیان کیا ہے اس سے سلب اختیار انسان جبکہ وہ فطرت ذی اختیار پر پیدا کیا گیا ہے لاز م نہیں آتا ۔ (۲) یا خدا کا یہ فر مانا کہ ’’ خدا گمراہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت کرتا ہے جس کو چاہتا ہے ‘‘ چونکہ خدا علۃ العلل ہے۔ اس لیے وہ تمام افعال بندوں کو وسائط درمیانی سے حذف کر کے اپنی طرف منسوب کر سکتا ہے۔ جیسا کہ مقدمہ ہفتم میں ہم نے بیان کیا ہے ، اس سے بریت انسان جو ایک فطرت ذی اختیار پر پیدا کیا گیا ہے لازم نہیں آتی۔ (۳) جہاں خدا نے یہ فرمایا ہے کہ ’’قرآن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیںلائے ان کے کانوں میںٹھیٹیاں ہیں اور قرآن ان کے لیے اندھا پن ہے ‘] یہ آیت تو بطور بیان ایک واقعہ کے ہے اور ابن حزم کے مذہب پر دلیل نہیں ہوسکتی۔ (۴) خدا نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’اگر تیرا پروردگار چاہتا تو ایمان لاتے سب جو زمین پر ہیں ‘‘ یعنی اگر چاہتا تو ان کو فطرت ذی اختیار پر پیدا نہ کرتا ، بلکہ اس فطرت پر پیدا کرتا کہ ’’ لا یعصون اللہ ما امر ھم و یفعلون ما یو مرون۔‘‘ (۵) خدا نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’ممکن نہیں کہ کوئی شخص بدون اذن خدا کے ایمان لاوے ‘‘ اذن کیا ہے ؟ وہ اس کی فطرت ذی اختیار ہونے کی ہے جس پر خدا نے اس کو پیدا کیا ہے یا خد ا کا علم ہے ’’ بانہ یعلم انہ یومن ام لا‘‘ یعنی وہ جانتا ہے کہ وہ ایمان لائے گا یا نہیں جیسا کہ ہم نے مقدمہ ششم میں بیان کیاہے۔ دو لفظ قرآن مجید میںآتے ہیں، ایک اذن کا اور ایک شاء کا ، جیسے کہ ’’ الا بازن اللہ ‘‘ اور ’’الا ان یشاء اللہ ‘‘ ان لفظوں سے کسی امر مستثنیٰ کا واقع ہونا مراد نہیںہوتا ، بلکہ اس سے اپنی عظمت و جبروت اور قدرت کاملہ کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور بعض جگہ باوجود استثناء کے توثیق اس امر کی مراد ہوتی ہے جس اس کے ما قبل ہے ۔ مثلا خدا نے ایک جگہ فرمایا’’ من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ ، یعنی کون شخص ہے کہ خدا کے پاس کسی کی شفاعت کرے گا ۔ دوسری جگہ خدانے شفاعت کی بالکل نفی کی ہے اور فرمایا ہے ’’ واتقو یوما لا تجزی نفس عن نفس شیئا ولا یقبل منھا شفا عۃ ولا یوخذ منھا عدل ولا ھم ینصرون‘‘ یعنی ڈرو اس دن سے جبکہ کوئی کچھ بھی کسی کے کام نہ آوے گا اور اس کے لیے کوئی شفاعت قبول نہ ہوگی اور نہ کچھ اس کے بدلے میںلیا جاوے گا اور نہ اس کی مدد کی جائے گی ۔ پس اس آیت میں ’’ ال باذنہ‘‘ یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ خدا کسی کو شفاعت کا اذن دے گا ، بلکہ ان لفظوں سے توثیق اور تائید اس حکم کی مراد ہوتی ہے جو کہ استثناء سے پہلے بیان ہے۔ اس کی زیادہ تفسیر ہم وہاں بیان کریں گے جہاں لفظ الا ان یشاء اللہ ‘‘ کا آیا ہے۔ (۶) خدا نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’ ہم ان کو چھوڑ دیں گے ان کی گمراہی میںبھٹکتے ہوئے، وہ ایمان نہیں لانے کے، مگر یہ کہ خدا چاہے‘‘ گمراہی میںچھوڑ دینے کے معنی یہ ہیں کہ جس فطر ت پر کہ وہ پیدا ہوئے ہیں اسی فطرت میںرہیں گے ۔ یہ اسی اصول پر ہے جو ہم نے مقدمہ دوم میںبیان کیا ہے اور یہ جو خدا نے فرمایا کہ وہ ایمان نہیں لا نے کے،یہ بیان اس اصول پر متفرع ہے ہم نے مقدمہ ششم میںبیان کیا کہ خدا کو اپنے علم سے معلوم تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہونے کے۔ ’’ الا ان یشاء اللہ ‘‘ کا لفظ جو اس مقام پر ہے وہ خدا کی جانب منسوب ہے۔ ’’ ال ان یشاء اللہ ‘‘ لا لفظ تین طرح پر بولا جاتا ہے۔ ایک اس طرح پر کہ انسان اس کو اپنے ایسے کام کے ساتھ شامل کرتا ہے جس کے کرنے کا وہ آئندہ ارادہ رکھتا ہے۔ ایسے مقام پر یہ لفظ تذکر اللہ اورخدا سے بطور طلب امداد بولا جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ انسان اپنے کسی حتمی وعدے کے ساتھ کہ میں فلاں کام کروں گا استعمال کرتا ہے۔ اس سے مراد ہوتی ہے توثیق اس وعدے کی خدا کے نام شامل کرنے سے ۔ تیسرے یہ کہ خدا تعالیٰ اپنے احکام قطعی اور اپنے وعدوں کے ساتھ اس کو استعمال کرتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ جو امر اس سے قبل بیان ہوا ہے وہ کبھی تبدیل نہیں ہونے کا ، گوکہ خدا تبدیلی پر قادر ہو، مگر وہ تبدیل نہیں کرے گا۔ تفسیر کشاف میں اس آیت کی تفسیر میں ’’ ولا تقولن لشیئی انی فاعل ذالک غدا الا ان یشاء اللہ ‘‘ یہ لکھا ہے:۔ ’’وفیہ وجہ ثالث وھو ان یکون ان شاء اللہ فی معنی کلمۃ تابید کانہ قیل ولا تقو لنہ ابدا و نحو ہ فیھا الا ان یشا ء اللہ لان عودھم فی ملتھم ممالن یشا ء اللہ‘‘۔ (ترجمہ) ’’ اس میںتیسری وجہ یہ ہے کہ اس مقام پر ان شاء اللہ کلمہ تا بید کا ہے جس کے معنی کبھی کے ہوتے ہیں۔ گویا کہ یوں کہا گیا ہے کہ تو اس کو کبھی نہ کہیو اور اسی کی مثل دوسری آیت ہے جہاںخدا نے فرمایا ہے بندوں کی زبان سے ’’ نہیں ممکن ہے کہ ہم پھر جاویں اس دین میں ، مگر یہ کہ چاہے اللہ ‘‘ کیونکہ ان کا پھرنا ان کے مذہب میں ان چیزوں میںسے تھا جن کو خدا نے نہیں چاہا۔ ان دونوں مقاموں میں صاحب کشاف نے ان یشاء اللہ کے لفظ کو اس کے معنی معروف میںقرار نہیں دیا ، بلکہ دونوں جگہ کلمۃ تابید قرار دیا ہے جس سے قائم رہنا اس امر کا جو استثناء سے پیشتر ہے ثابت ہوتا ہے نہ اس سے مستثنیٰ ہونا۔ اگرچہ ہمارے نزدیک پہلا کلمہ ان یشاء اللہ کا تذکر اللہ اور بطور استمداد من اللہ کے ہے اور دوسری جگہ بطور توثیق اس کلام کے ہے جو ماقبل استثنا ہے اور جس کو صاحب کشاف نے کلمہ تابید سے تعبیر کیا ہے، مگر اتنی بات تفسیر کشاف سے ثابت ہوتی ہے کہ لفظ ’’الا ان یشا ء اللہ ‘‘ سے استثنا مراد نہیں ہوتی ۔ پس جس آیت سے کہ ہم بحث کرتے ہیں کہ وہ ایمان نہیںلانے کے، مگر یہ کہ چاہے اللہ، اس سے استثناء مراد نہیں ہے ، بلکہ ایمان نہ لانے کی تابید مراد ہے ، یعنی کبھی ایمان نہیںلانے کے جیسا کہ خدا کے علم میںہے ۔ (۷) خدا نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’ہم ان کے دلوں پر پردے ڈال دئے ہیں اس سے کہ وہ قرآن کو سمجھیں اور ان کے کانوں میںبہرا پن کر دیا ہے ‘‘ یہ اس اصول پر بیان فرمایا ہے جو مقدمہ ششم میں مذکور ہے۔ یعنی باوجودیکہ فطرتا خدا نے ان کو مختار پیدا کیاتھا ، لیکن خدا کو اپنے علم سے یہ بات معلوم تھی کہ وہ ہر گز راستی پر نہیں آئیں گے ۔ اس واسطے انکے افعال کو ان لفظوں میںجو اس آیت میں ہیں بیان کیا ہے اور حسب مقدمہ ہفتم ان افعال عباد کو بسبب علۃ العلل ہونے کے اپنی طرف منسوب کیا ہے ، نہ یہ کہ خدا نے انکو ایمان نہ لانے پر مجبور کر دیا ہے۔ (۸)خدا نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’ اگر خد اچاہتا تو تم سب کو ایک گرو بنا دیتا ‘‘ یعنی جس فطرت ذی اختیار ہونے پر خدا نے تم کو پیدا کیا ہے اس فطرت پر پیدا نہ کرتا ، بلکہ عدم اختیار کی ایسی فطرت پر پیدا کرتا جس پریہ صادق آتا ہے ’’ لایعصمون اللہ ما امر ھم و یفعلون ما یومرون ‘‘ اور دوسرا جملہ جو اس آیت کا ہے ’’ لیکن وہ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہتا اور ہدایت کرتا ہے جس کو چاہتا ہے ‘‘ اسی علم الہی پر مبنی ہے جس کا ذکر مقدمہ ششم میںہے اور اس کو اپنی ذات کی طرف تمام وسائط کو حذف کرکے منسوب کیا ہے ، اسی اصول پر جس کا ذکر مقدمہ کو حذف کر کے منسوب کیا ہے ، اسی اصول پر جس کا ذکر مقدمہ ہفتم میں ہے۔ (۹) یہ جو خدا نے فرمایا ہے انسانوں کی زبان سے کہ ’’ہمارے لیے یہ ممکن نہیںہے کہ ہم پھر پڑیں بت پرستی میں ، مگر یہ کہ چاہے پروردگار ہمارا ‘‘ اس کی تفسیر بحوالہ تفسیر کشاف ابھی بیان کر چکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ جملہ مستثنیٰ سے استثناء مراد نہیں ہے ، بلکہ اس سے تابیدمراد ہے۔ (۱۰) اور خدا نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’ ان کے دلو ں میں بیماری ہے پھر زیادہ کیا اللہ نے ان کی بیمار ی کو ‘‘ یہ بیان تو صرف ان کے ذی اختیار ہونے کی فطر ت کا ہے اور زیادہ ہونا مرض کا بھی نتیجہ اسی فطرت کا ہے اور اس کو خدا نے یہ سبب علۃ العلل ہونے کے اپنی طرف منسوب کیاہے جیسا کہ مقدمہ ہفتم میںمذکور ہے۔ (۱۱) یہ جو خدا نے فرمایا کہ ’’اگر خدا چاہتا تو خدا کی نشانیاں نازل ہو نے کے بعد وہ آپس میںنہ لڑتے ، لیکن اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے ‘‘ اول تو خدا کے اس فرمانے سے کہ اگر خدا چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کا لڑنا خدا نے چاہا تھا ۔ بلا شبہ یہ بات سچ ہے کہ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے، مگر اس کے چاہنے کا ظہور اسی طرح ہوتا ہے جس طرح کہ اس نے قانون قدرت میںمقرر کیا ہے ۔ پس وہ مختار تھا کہ جس فطرت ذی اختیار پر ا س نے ان کو پیدا کیا ہے جو لڑتے ہیں، ان کو دوسری فطرت پر پیدا کرتا۔ (۱۲) یہ جو خدا نے فرمایا ہے کہ ’’خدا جس شخص کو فتنے میںڈالنے کا ارادہ کرتا ہے تو تو ہر گز اس کو خدا سے نہیں بچا سکتا ‘‘ بالکل سچ ہے ۔ خدا کا ارادہ قانون فطرت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ پس جس فطر ت ذی اختیار ہونے پر خدا نے جس کو پیدا کیا ہے اس کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا ، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ خدا نے ان کو فتنے میںپڑنے پر مجبور کر دیا تھا ، کیونکہ وہ ذی اختیار ہونے کی فطرت پر پیدا ہوئے تھے۔ (۱۳) خدا کے اس فرمانے سے کہ ’’ خدا نے نہ چاہا کہ ان کے دلوں کو پاک کرے‘‘ اس سے یہ لازم نہیںآتا کہ خدا نے ان کے دلوں کو ناپاک کرنا چاہا تھا ۔ کیونکہ وہ ایک فطرت ذی اختیار ہونے پر پیدا ہوئے تھے، ہاں اگر خدا چاہتا تو ان کو دوسری فطرت عدم اختیار پر پیدا کرتا ۔ (۱۴) خدا نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’اگر خدا چاہتا تو ان کو سیدھے رستے پر کر دیتا‘‘ یعنی ان کو فطرت غیر اختیاری پر پیدا کرتا ، مگر جبکہ فطرت ذی اختیار پر پیدا کیا ہے تو ان کو کوئی مجبوری لازم نہیں آتی۔ (۱۵) اسی طرح خدا کے اس فرمانے سے کہ ’’اگر ہم چاہتے توہر شخص کو سیدھی راہ پر چلاتے ، لیکن ہمارا قول پورا ہوا کہ ہم دوزخ کو جنوں اور آدمیوں سے بھریں گے سب سے ‘‘ انسان کا مجبورہونا لازم نہیںآتا ، کیونکہ خدا نے اس کو ایسی فطرت پر پیدا کیا ہے جو ذی اختیار ہے اور بے شک اگر خدا چاہتا تو ان کو ایسی فطرت پر پیدا کرتا جو ذی اختیار نہ ہوتی ۔ اس صورت میں اسی فطرت پر چلتے جس فطرت پر پیدا کیا تھا۔ (۱۶) خدا کا یہ فرمانا کہ ’’ خدا جس شخص کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس شخص کو چاہتا ہے سیدھے رستے پر چلاتا ہے‘‘ یہ اسی اصول پر مبنی ہے جس کا ذکر مقدمہ ہفتم میںہے ، یعنی تمام وسائط کو حذف کر کے بندوں کے کاموں کو یہ سبب علۃ العلل ہونے کے اپنی ذات پاک کی طرف منسوب کرتا ہے۔ (۱۷) خدا نے جو حضرت ابراہیم ؑ کی زبان سے یہ فرمایا ہے کہ اگرمیرا رب مجھ کو ہدایت نہ کرتا تو بے شک میںہوتا گمراہ قوم میں سے ‘‘ اس سے یہ نتیجہ کسی طرح نہیںنکلتا کہ جو گمراہ رہے ہیں ان کو خدا نے چاہا کہ وہ گمراہ رہیں، خصوصا اس صورت میں کہ اس نے انسان کو فطرت ذی اختیار پر پیدا کیا ہے۔ (۱۸) اور خدا کا یہ فرمانا کہ ’’ اگر خدا چاہتا تووہ شرک نہ کرتے‘‘ یعنی فطرت ذی اختیار پر جو انکو پیدا کیا ہے ، اگروہ چاہتا تو ایسی فطرت پر پیدا کرتا جس میں طاقت شرک کرنیکی نہ ہوتی۔ (۱۹) ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے کہ ’’ بعض لوگ بعض کے دل میںدھوکا ڈلتے ہیں، اگرتیرا پروردگار چاہتا تووہ اس کو نہ کرتے ۔‘‘ (۲۰) اور ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’ اگر خدا چاہتا تو مشرکین اپنی اولا د کو قتل نہ کرتے ۔‘‘ (۲۱) اور خدا نے فرمایا کہ ’’اگر خدا چاہتا تو مسلط کر دیتا ان کو تم پر۔‘‘ ا ن تینوں آیتوں میںلفظ شا ء کا ہے ، مگر شیت کا ظہور اس فطرت کے پیرائے میںہوتا ہے جس پر کہ اس نے انسان کو پیدا کیا ہے ۔ پس خدا نے انسان میں ایسی قوت رکھی ہے کہ وہ چاہے تو دوسروں کو فریب دے اور چاہے تو نہ دے ، نیز اس بات کی ہی قوت رکھی ہے کہ مشرکین چاہیں تو اپنی اولاد کو ماریں اور نہ چاہیں تو نہ ماریں اور نیز انسان کو ایسی قدرت بھی دی ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنے بعض بنی نوع پر تسلط حاصل کرے اور اگر نہ چاہے تو نہیں، پس ان تمام افعال میں انسان مجبور نہیں ہے۔ لیکن اگر خدا چاہتا تو ان کو اور قسم کی فطرت پر پیدا کرتا جس سے فریب دہی یاقتل اولاد ممکن نہ ہوتا یا ایک کا دوسرے پر تسلط کرنا لازمی ہو تا ۔ پس ان آیتوں سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ کافروں نے جو کچھ کیا وہ خدا کی خواہش تھی یا کافروں کا بچوں کو قتل کرنا یا کافروں کو نبیوں اور نیک بندوں پر مسلط کرنا اس کی مرضی تھی۔ (۲۲) اور خدا نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’ اللہ جس کو ہدایت کرنی چاہتا ہے اس کا دل اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کے دل کو تنگ کر دیتا ہے ۔‘‘ اگر چہ یہ سب باتیں خود فطرت انسانی سے پیدا ہوتی ہیں، لیکن چونکہ خدا علۃ العلل ہے اس نے ان باتوں کو جیسا کہ ہم نے مقدمہ ہفتم میںبیان کیا ہے اپنی طرف منسوب کیاہے اور خدا کے علم میںیہ بات تھی کہ کون شخص مسلمان ہوگا اورکیاچیز اس کے دل میں پیداہوگی جس سے کہ وہ اسلام قبول کرے گا اور کیا چیز پیدا ہوگی جس سے کہ وہ اسلام قبول نہ کریگا۔ (۲۳) اور خدا نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’ تو صبر کر اور تیرا صبر اللہ کی توفیق سے ہے ‘‘ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ جس نے صبر نہیں کیا اللہ اس کو صبر نہیں دیا کسی طرح پر صحیح نہیں ہے کیونکہ کسی بات پر صبر کرنا یا نہ کرنا خود فطرت انسانی پر منحصر ہے اور اسی فطرت کے کام میںلانے کا اس میں اشارہ ہے۔ (۲۴) خدا کا یہ فرما نا کہ ’’ جھگڑا مت کرو‘‘ یہ اشارہ اسی فطرت کی طرف ہے جو خدا نے ان میںپیدا کی ہے جس سے کہ وہ اپنے افعال میں خود مختار ہیں اور یہ بات سچ ہے کہ اگر خدا چاہتا تو ایسی فطرت پر لوگوں کو پیدا کرتا کہ وہ آپس میں اختلاف نہ کرتے ۔ (۲۵) خدا کی نسبت بندوں کا یہ کہنا کہ تو جس کو چاہتا ہے ملک اور عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلت ، اسی وجہ سے ہے کہ اس کو علۃ العلل تسلیم کیا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے مقدمہ ہشتم میں بیا ن کیا ہے ۔ اس سے بندوں کا سلب اختیار یا مجبور ہونا نہیں پایا جاتا۔ (۲۶) خدا کا اپنی طرف منسوب کرنا کہ ہم نے کمزوروں پر زبردستوں کو غلبہ دیا ہے ، اسی علۃ العلل ہونے کی وجہ سے ہے جس کا ذکر ہم نے مقدمہ ہفتم میں کیا ہے ، ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ غالب اور مغلوب ہونے کے لیے ظاہری اسباب ہوتے ہیں جن کے سبب ایک غالب اور ایک مغلوب ہوتا ہے۔ (۲۷) خدا کا یہ کہنا کہ ’’ ہم نے نمرود کو پادشاہت دی ‘‘ اس قسم کا ہے جس کا ذکر ہم نے مقدمہ ہفتم میں کیا ہے۔ (۲۸) غزوۃ تبوک میںجو لوگ جہاد میںنہیں گئے ان کی نسبت یہ کہنے سے کہ ’’ خدا نے ناپسند کیا ان کا جانا‘‘ یہ لازم نہیںآتا کہ خدا نے جو قدرت انکو جہاد میں جانے کی فطرتا عنایت کی تھی ان سے سلب کر لی تھی اور باوجود سلب کرنے کے ان سے ناراض ہواتھا۔ (۲۹) خدا کا کافروں کی نسبت یہ کہنا کہ ’’ ہم نے دنیا میں ان کو عذاب دینے کا ارادہ کیاہے ‘‘ یہ اسی بناء پر ہے کہ خدا کو معلوم ہے کہ وہ لوگ کیا کریںگے اور ان کے لیے کیا ہوگا ، جیسا کہ ہم نے مقدمہ ششم میںبیان کیا ہے ۔ اس کہنے سے ان کا مجبور ہونا لازم نہیں آتا۔ (۳۰) کافروں کا یہ کہنا کہ اگر خدا چاہتا تو ہم فرشتوں کی پرستش نہ کرتے ، اسی قسم کی بات ہے جیسا کہ انسان اپنے افعال کو خدا کی طرف منسوب کردیتے ہیں، جس کا ذکر مقدمہ ہفتم میںہم نے کیا ہے ، پاس ان کے کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خدا نے ان کو فرشتوں کی عبادت کرنے پر مجبور کیاتھا ۔ (۳۱) اور یہ بات کہ ان میں سے بعض کو خدا نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوئی اور خدا نہیں ہدایت کرتا اس ک جسے گمراہ کرتا ہے ، یہ سب بندوں کے افعال ہیں، جو خد بسبب علۃ العلل ہونے کے اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور گویا اپنے علم مستقبل سے کہتا ہے کہ جو گمراہ ہوتے ہیں وہ ہدایت نہیں پاویں گے ۔ اس قسم کے طرز کلام سے انسان کے اس نیچر کا بطلان لازم نہیں آتا جس پر وہ خود مختار پیدا کیا گیا ہے۔ (۳۲) مشرکین کا یہ کہنا کہ اگر خدا چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے ، اس سے ہر گز یہ لاز م نہیں آتا کہ خدا نے ان کو شرک کرنے پر مجبور کیا تھا ، بلکہ خدا نے ان کے اس کہنے کو ان کی بے علمی کی طرف منسوب کیا ہے ، کیونکہ وہ غلط خیال رکھتے تھے، کہ خدا نے ان کو شرک کرنے پر مجبور کیا ہے ۔ (۳۳) خدانے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’ اگر اللہ چاہتا تو کافر شرک نہ کرتے ‘‘ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ایمان اور شرک، ہدایت اور گمراہی جو کچھ دنیا میںہے ، اللہ نے ان سب کے ہونے کا ارادہ کیا ہے ، صحیح نہیںہے ، بلکہ خدا کے یہ کہنے کا کہ اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے یہ مطلب ہے کہ اگر خدا چاہتا تو ان کو فطرت ذی اختیار پر نہ پیدا کرتا، بلکہ ان کو دوسری فطرت پر پیدا کرتا جس سے شرک نہ کرنے پر وہ مجبو ر ہوتے۔ (۳۴) لوگوں کے اس کہنے سے کہ کیا ہم کھانا کھلائیں انکو جن کو اگر خدا چاہتا تو کھانا کھلاتا ، یہ لاز م نہیں آتا کہ خدا نے ارادہ کیا کہ بھوکوں کوکھانا نہ دے، کیونکہ بھوکا ہونا یا پیٹ بھرا ہونا اس قوت اکتساب پر یا ان واقعات فطری پر منحصر ہے جو انسانی زندگی میںپیش آتے ہیں۔ (۳۵) اور خدا کا یہ فرمانا کہ ’’اگر ہم چاہتے تو ہر ایک شخص کو ہم ہدایت دیتے ‘‘ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جن لوگوں نے ہدایت نہیںپائی، خدا نے ارادہ کیا کہ وہ ہدایت نہ پائیں اور بے شک خدا میںایسی قدرت تھی کہ اگر وہ چاہتا تو انکو دوسری فطرت پر پیدا کرتا اور وہ اپنے حالات و افعال میں مجبور ہوتے۔ (۳۶) خدا نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص ایما ن لاوے ، مگر اللہ کی اجازت سے ‘‘ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ہر شخص کا ایمان اضطراری ہے اختیاری نہیں، محض غلط ہے ، بلکہ اس کے وہ معنی ہیں جو ہم نے پانچویں آیت کی تفسیر میںلکھے ہیں۔ (۳۷) اور یہ بات کہ ’’ خدا جس کو چاہتا ہے وہ ہدایت پاتا ہے اور جس کو گمراہ کرتا ہے پھر اس کے لیے کوئی راہ بتانے والا نہیں‘‘ یہ اسی بنا ء پر خدا نے فرمایا ہے جس کے مطابق وہ بسبب علۃ العلل ہونے کے بندوں کے افعال کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے جیسا کہ ہم نے مقدمہ ہفتم میںبیان کیا ہے۔ (۳۸) یہی تفسیر اس آیت کی بھی ہے جہاں خدا نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ ’’ خدا جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے ۔‘‘ (۳۹) اور یہ بات کہ فتح مندی نہیں ہے ، مگر خدا کی طرف سے ، اس سے پایا جاتا ہے کہ فتح مندوں کی فتح مندی اور کامیابی ان اسباب فطری پر موقوف ہے جو خدا نے اس عالم اسباب میں پیدا کئے ہیں۔ (۴۰،۴۱) خدا کا یہ فرمانا کہ ’’ خدا نے ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے باز رکھا ‘‘ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے جو فطری اسباب غالب ہو نے مغلوب ہونے ،، شکست پانے اور کامیابی حاصل کرنے کے دنیا میں پیدا کئے ہیں انہی پر یہ تمام واقعات و حالات موقوف ہیں۔ ابن حزم نے ان آیتوں کو چھوڑ دیا ہے جن میں افعال انسانی خود انسا نی خود انسان کی طرف منسوب کئے ہیں، جیسے کہ ’’ ماظلمھم اللہ ولکن انفسھم یظلمون ‘‘ اور ایک جگہ فرمایا ہے ’’فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر ‘‘ اور مثل اس کے بہت سی آیتیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسا ن خود اپنے افعال کا مرتکب ہے۔ پس جب ان دونوں قسم کی آیتوں پر غور کیاجاوے تو یہی نتیجہ نکلتاہے کہ خدا نے اپنی حکمت کاملہ سے انسان کو ایک حد تک ذی اختیار پید ا کیا ہے اور اسی حد اختیار میںجو افعال وہ کرتا ہے اسی کا وہ ذمہ دار اور جوب دہ ہے، خدا اس کو بندے کی طرف منسوب کرے یا علۃ العلل ہونے کے سبب اپنی طرف منسوب کرے۔ …………… لا وثوق بما وعدہ اللہ (تہذیب الاخلاق جلد دوم نمبر ۷ (دور سوم ) بابت یکم ربیع الثانی ۱۳۱۳ھ ) لاوثوق بما وعدہ اللہ (نعوذ باللہ منھا ) یعنی خدا کے وعدوں کا کچھ اعتبار نہیں ہے ۔ ایک شاعر نے کہا ہے : خدا کو کام تو سونپے ہیں میںنے سب لیکن رہے ہے خوف مجھے اس کی بے نیازی کا میاں! تم کیا کہتے ہو ، اگر خدا ہی کے وعدوں پر اعتماد نہ ہوگا ، تو پھر کس کے وعدوں پر اعتماد ہوگا۔ تم تو مجھ کو نیچری معلوم ہوتے ہو جو یہ کہتے ہیں کہ خدا نے جو قانون قدرت بتایا ہے اس کے برخلاف نہیں کرتا ۔ میاں تم سمجھتے بھی ہو کہ اگر خدا اپنے وعدوں کے برخلاف کرے تو خدا پر کذب لازم آتا ہے۔ پھر خدا نعوذ باللہ جھوٹا وعدہ کرتا ہے؟ ہاں، جی ہاں ، خدا کے اوپر اگر جھوٹا وعدہ کرنا لازم آتا ہے تو آیا کرے ، مگرمیں تو نیچروں کے عقیدے کو نہیں ماننے کا ۔ میاں! اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ منافق مرد اور منافق عورتیں اور کافر ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہیں گے اور وہی ان کے لیے کافی ہے، لعنت کی ہے ان پر اللہ نے اور ان کے لیے ہے اٹل عذاب ۔ اور ایک جگہ خدانے کہا ہے:۔ وعد اللہ المومنین والمومنات جنات تجری من تحتھا الانھار خالد بن فیھا ومسا کن طیبۃ فی جنات عدن و رضوان من اللہ اکبر ذالک ھو الفوز العظیم۔ ’’ (ترجمہ)‘‘ وعدہ کیا ہے اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے بہشت کا ، بہتی ہیں اس میںنہریں ، ہمیشہ رہیںگے اس میںاور اچھے ہے اور یہ بڑی کامیابی ہے ‘‘ پھر کیا یہ وعدہ جھوٹا ہے اور اعتبار کے لائق نہیں ہے ؟ کون کہتا ہے کہ جھوٹا ہے ، مگر تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ خدا قادر مطلق ہے جو چاہتاہے سو کرتا ہے۔ کیاقرآن میں یہ نہیں ہے کہ ’’ یفعل ما یشاء و یحکم ما یرید‘‘ پھر اگر خدا نے اپنے قادر مطلق ہونے کے سبب سے منافقوں اور کافروں کو توبہشت میںبھیج دیا اور مسلمانوں کو دوزخ میں تو پھر تم اس کا کیا کر لو گے ؟ اگر تم یہ کہو کہ خدا کو اپنا وعدہ پورا کرنا ضرور ہے تو اس سے خدا کی مجبوری لازم آتی ہے اور وہ فاعل مختار نہیں رہتا اووہ تو ایسا ہی ہو جاتا ہے جس کو کچھ اختیار نہ ہو۔ بت میں اور ایسے خدا میں کیا فرق ہے ؟ ہم تو ایسے خدا کو نہیںمانتے جس کو کچھ اختیار نہ ہو ۔ نیچری بھی تو یہی کہتے ہیںکہ خدا نے جو قانون قدرت بنایا ہے اس کے برخلاف نہیںکرتا تو ہم ان پر یہی اعتراض کرتے ہیں کہ اگر خدا قانون قدرت کے برخلاف نہیںکرتا یا جو مقدرات اس نے مقرر کر دئے ہیں ان کے برخلاف نہیں کر سکتا تو ہم ان کے عقیدے کو اسی لیے نہیںمانتے کہ خد ا بعوض قادر مطلق ہو۔ کے کاٹ کا پتلا رہ جاتا ہے جس کو کچھ اختیار نہیںہے ۔ پھر اگر خدا اپنے وعدوں کے برخلاف نہ کرتا ہو اور نہ کر سکتا ہو تب بھی وہ ایک کاٹ کا پتلا رہ جاتا ہے تو جب ہم اس کو نہیں مانتے تو اس کو کیوں مانیںگے ۔ میاں! تم ذرا سمجھ کر بات کہو کہ اگر کوئی بڑا بادشاہ اپنی خوشی سے کسی انعام کا وعدہ کرے جس میں اس پر کسی کا زور زبر نہ ہو یا اپنی رعیت کے لیے کوئی قانون بنائے اور اس قانون کو نہ توڑے تو اس وعد کے پورا کرنے سے اور قانون کے نہ توڑنے سے اس کا قادر مطلق ہونا کیونکر جاتارہتا ہے؟ ! جی ! نہ جاتے رہنے کے کیا سر پر سینگ ہوتے ہیں! جب وہ اپنے وعدے کے خلاف نہ کرسکا اور نہ کیا اور جو قانون اس نے بنایا تھا اس کو نہ توڑا اور نہ توڑ سکا بے اختیار ہوگیا یا نہیں، پھر وہ قادر مطلق کہاں رہا! میاں ذرا غور تو کرو کہ خدا تعالیٰ نے تمام مقدرات مقرر کئے تھے اور وہ مقدرات کس طرح نہیںٹلتے ، جو ہونی ہے وہ ہوتی ہے اور جو ان ہونی ہے وہ نہیںہوتی ، پھر اس سے کیا خدا کے قادر مطلق ہونے میںکچھ فرق آتا ہے ؟ ہاں ہاں فرق آتا ہے ، وہ قادر مطلق ہیںرہتا۔ایسے بے اختیار خداسے نہ کوئی محبت رکھ سکتا ہے نہ اسکی عبادت کر سکتا ہے۔ ایسے خدا سے تو بت بہتر ہیں کہ اگر ہم ان کو اٹھا کر کسی کے سر پر ماریں تو اس کا سر پھٹ جائے گا ، مگر جس خدا کا تم ذکرکرتے ہو اس سے تو یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ میاں! تم یہ توسمجھو کہ ہر ایک کی موت کا وقت مقرر ہے ۔ نہ اس وقت سے پہلے آتی ہے نہ اس سے پیچھے ۔ خدا نے خود فرما دیا ہے ’’ اذا جاء اجلھم لا یستقد مون ساعۃ ولا یستا خرون ‘‘ پھر وقت معین پر موت آنے سے کیا خدا کا قادر مطلق ہونا باقی نہیںرہتا ؟ ہاں اگرہم خدا سے دعا کریں کہ فلاں شخص کی موت کا جو وقت معین ہے وہ ٹل جائے یا اس وقت سے پہلے اس کو موت آجائے اور خدا اس کی موت کو نہ ٹلا دے یا اس کو وقت سے پہلے نہ بلا لے تو وہ قادر مطلق نہیںرہتا ۔ خدا تو بڑی چیز ہے اس کے بندے جو کامل ہیں اور ولی اللہ ہیں وہ بھی تو ایسا کر سکتے ہیں، پھر اگر خدا ایسا نہیں کر سکتا تو قادر مطلق کا ہے کا ہے ۔ تم نے سنا نہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی عمر میں سے دس برس حضرت یوسف کو دے دئے تھے اور جو وقت حضرت یوسف ؑ کے مرنے کا تھا اس سے دس برس زیادہ وہ زندہ رہے ۔ خدا نے اپنے قادر مطلق ہونے سے حضرت یوسف ؑ کو ان کی موت کے وقت سے دس برس زیادہ زندہ رکھا ۔ حضرت موسیٰؑ کی موت کا جو وقت مقرر تھا اس سے دس برس پہلے ملک الموت تشریف لائے ۔ انھوںنے کہا ، ہیں! تو ابھی کیوں آیا ۔ میری عمر میںابھی دس برس باقی ہیں اور دس برس جو حضرت یوسف ؑ کو دئے تھے اس سے ناٹ گئے اور ملک الموت کو ایسا گھونسا مارا اور وہ روتا ہواخدا کے پاس گیا ۔ خدا نے بسبب اپنے قادر مطلق ہونے کے کہا کہ خبر دس برس موسیٰ کو اور زندہ رہنے دو او ریوسف کو بھی دس برس اور زندہ رہنے دینا ۔ یہ معنی ہیں قاد ر مطلق ہونے کے اور ہم تو ایسے ہی خدا کو مانتے ہیں اور جس کو تم خدا کہتے ہو اس کو تو ہم کاٹ کا پتلا جانتے ہیں۔ میاں! ! اب تمہاے سمجھانے کی کچھ امید نہیںرہی ، تم کسی کے سمجھائے سے نہیں سمجھنے کے۔ خدا تم کو ہدایت کرے۔ ……………………… روح اور اس کا وجود علیحدہ مادے سے (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۲ (دور سوم) یکم ذی قعدہ ۱۳۱۱ ھ صفحہ ۲۶، ۲۷) السلام علیکم! آپ کو دیکھ کر تو میری روح خوش ہوگئی ۔ روح ! کیا اب تک آپ روح ہی کے پھندے میںپھنسے ہوئے ہیں؟ وہ زمانہ تو گیا جب روح کا جال پھیلا ہواتھا ۔ جہالت کے زمانے میں جب نہ انسان کے دماغ کو نہ علوم و فنون کو ترقی ہوئی تھی ، روح ہی روح تھی ۔ پہاڑ میں، درخت میں، سمندر میں، آسمان میں، زمین میں ، چاند سورج ستاروں میں، گنگا مائی، جمنا مائی، سب میںروح مانی جاتی تھی ، جب انسان میںبھی روح مانتے تھے ۔ وہ جہالت کا زمانہ گیا اب کیسی روح ، البتہ پیروں کے ملفوظات میں ان کے مریدوں کا لکھا ہوا پاؤگے کہ حضرت کے پاس سمندر کی روح آتی ہے۔ جس مکان میںرہتے ہیں اس کی روح بھی آتی ہے۔ مردوں کی روحیں آتی ہیں، حضرت بڑے پیر کی روح آتی ہے ، آج آپ کی زبان سے بھی روح کا لفظ سن کر مجھ کو نہایت تعجب ہوا۔ حضرت ! کیا دنیا میںکوئی غیر مادی چیز نہیں ہے ؟ نہیں تعجب ! میںتو بہت سی غیر مادی چیزیں دنیا میںدیکھتا ہوں۔ خوب! تو آپ بڑے روشن ضمیر ہیں۔ میاں جب تک مادے سے مادہ نہیں ملتا، یعنی ایک مادہ دوسرے مادے کو نہیںچھوتا، یا نہیں ٹکراتا کوئی حرکت پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی جوش ابھرتا ہے ۔۔ دیکھو یہ میرا ہاتھ ہے، جب تک تمہارا ہاتھ اس سے نہ ٹکراوے یہ ہٹ نہیںسکتا ۔ یہ کاغذ میرے ہاتھ میںہے ، جب تک ہوا اس کو نہ لگے ہل نہیں سکتا۔ بھلا حضرت ! مقناطیس لوہے سے تو الگ رہتا ہے، پھر اگر اس میںروح نہیں تو لوہے کو کیونکر کھینچ لیتا ہے ؟ میاں کبھی تم نے الیکٹرسٹی کا تماشا دیکھا ہے ؟ دھات کے تار یا ٹکرے میں سے بجلی نکلتی ہے اور ایتھر میںہوکر دوسری چیز میں چلی جاتی ہے اور اس کو ہلا دیتی ہے ۔ اس طرح مقناطیس میں سے اسی قسم کی ایک چیز نکلتی ہے اور ایتھر کے ذریعے سے لوہے تک پہنچتی ہے اور لوہے کو کھینچ لیتی ہے اور چونکہ کوئی مادہ کسی دوسرے مادے کے چھوئے بغیر حرکت نہیں کرتا ، پس مقناطیس کی قوت بھی ایتھر میںسے ہوکر لوہے کو چھوتی ہے اور مقناطیس لوہے کو کھینچ لیتا ہے ، احمق سمجھتے ہیں کہ اس میںروح ہے۔ اب تم دیکھو کہ اگرہم مقنا طیس او رلوہے میں ایک ایسی چیز آڑکر دیں جس میں سے پار ہوکر ایتھر مقناطیس کی قوت کو لوہے تک نہ پہنچا سکے یا مقناطیس کو لوہے سے دور رکھیں تو مقناطیس لوہے کو نہیں کھینچتا ۔ کوں نہیں کھینچ سکتا؟ اس لیے کہ مادے نے کسی ذریعے سے مادے کوچھوا نہیں۔ اچھا حضرت ! میں نے غلط کہا کہ آپ کو دیکھ کر میری روح خوش ہوئی ، اب میں یہ کہتا ہوں کہ میرا دل خوش ہوا۔ میں بھی مادی ہوں میرا دل بھی مادی ہے، آپ بھی مادی ہیں، مگر نہ آپ نے مجھ کو چھوا تھا نہ میں نے آپ کو ، پھر میرا دل کیوں خوش ہوا؟ میاں یہ سب بے علمی اور ناسمجھی کے خیالات ہیں ۔ انسان میںبھی وہی چیز ہے جو مقناطیس میں ہے اور جس طرح مقناطیس سے وہ قوت آنکھوں سے ایتھر کے ذریعے سے لوہے تک پہنچتی ہے اس طرح وہ قوت ایتھر کے ذریعے سے لوہے تک پہنچتی ہے اسی طرح وہ قوت ایتھر کے ذریعے سے محبوب چیز کو جاکر چھوتی ہے اور دل میںحرکت پیدا ہوتی ہے جس کو تم خوشی سے تعبیر کرتے ہو۔ اگر وہی شخص جس کو تم دیکھ کر خوش ہوئے تمہارے گلے لگ جاوے تو تم کو بہت زیادہ خوشی ہوگی ۔ اگر کوئی ایسی ہستی تمہارے سامنے آوے جس سے تم کو زیادہ رغبت ہو تو زیادہ دل خوش ہوگا، اگروہی تمہارے گلے لگ جاوے تو قوت مقناطیسی بہت زیادہ حرکت میں آوے۔ حضرت ! تو آپ کا یہ مطلب ہے کہ دنیا میںبجز مادی چیزوں کے کوئی غیرمادی چیز نہیں ہے ؟ ہاں یہی مطلب ہے۔ حضرت یہ تو صحیح نہیں ہے ۔۔۔ آپ مادہ کس کو کہتے ہیں؟ جسمیںطول ، عرض اور عمق او ر ثقل ہو اس کو ہم مادہ کہتے ہیں، خواہ وہ آنکھ سے دکھائی دے یا نہ دکھائی دے ۔۔ ہوا کو سب مادہ مانتے ہیں پھر کیا وہ دکھائی دیتی ہے ؟۔۔۔ اگرروشنی کے شعلے میں اور ہم میں ایتھر کا مادہ نہ ہو تو روشنی بھی ہم تک نہ پہنچے ۔ غرضیکہ جب تک خود مادے یا کسی ذریعے سے دوسرے مادے تک نہ پہنچے تو کوئی جدید حالت مادے میں نہیں پیدا ہوسکتی۔ جناب یہ تو سب سچ ہے ، مگر غیر مادی چیزیں بھی دنیا میں موجود ہیں۔ پر چھائیں دنیا میں موجود ہیں اور وہ مادہ نہیں، کیونکہ اس میں عرض اور طول ہے ، عمق اور ثقل نہیں ، غرضیکہ جو تعریف آپ نے مادے کی تھی اس سے خارج ہے۔ اس کو جانے دو ، علم اور خیال کیا چیز ہے، محض ایک انکشاف ہے جس کا نہ عرض ہے نہ طول نہ عمق اور نہ اس میں ثقل اور کچھ شک نہیں کہ دنیا میںموجود ہے او رہم جانتے ہیںکہ فلاں شخص کو فلاں چیز کا علم ہے۔ عشق کیا چیز ہے ؟ معشوق سامنے ہو یا اوجھل میں، ایک شہر میں ہو یا پر شہر میں بلکہ زندہ بھی نہ ہو، مگر عشق موجود ہے اور ہم جانتے ہیںکہ فلا ں شخص کو فلاں شخص سے عشق ہے جس کے لیے نہ طول کہہ سکتے ہیں نہ عرض، نہ عمق نہ ثقل، پس کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ جو چیزیں مادی نہیں وہ دنیا میں موجود نہیں اورجب غیرمادی چیزوں کا دنیا میں موجود ہونا تسلیم کیا جاوے تو کیا وجہ ہے کہ روح کوبھی جسے ہم غیر مادی کہتے ہیں دنیا میں موجود ہونا نہ مانا جاوے۔ میاں جن چیزوں کا تم نے بیان کیا وہ تو مادے کے خواصوں میںسے بعض خاصہ ہیں جو اس کے ساتھ موجود ہیں اور غیر مادی چیزیں موجود فی العالم نہیں ہیں۔ حضرت اول تو آپ کو ثابت کرنا چاہئے کہ علم اور خیال اور عشق اور مثل اس کے بہت سی چیزیں جو انسان اور حیوان میںپائی جاتی ہیں وہ خواص مادہ سے ہیں او ر اگر خواص مادہ سے ہیںتو وہ کیوں نہیں اس طرح ہر مادے کے ساتھ پائی جاتیں جیسے کہ عرض و طول و عمق اور ثقل؟ حضرت اول آپ اس بات کو ثابت نہ کر سکیں گے اور اگر آپ یہ کہیں کہ جو مادہ انسان اور حیوان میں ہے ا س مادے کے خواص میںسے یہ سب چیزیں ہیںتو ہم یہ کہیںگے کہ یہ تو صرف نام کی تبدیلی اورلفظی بحث ہے ، جس کو ہم روح کہتے ہیں اسی کو آپ غلطی سے خواص مادہ انسانی کہتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ منفرد عن المادہ بھی اس کا وجود دنیا میں ہے یا نہیں، ہم کہتے ہیںکہ اس کا ہونا اس کے نہ ہونے سے زیادہ تر قرین عقل ہے، کیونکہ اول تو مادہ کسی ایسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتا جو غیرمادی ہو اور جبکہ خواص مادہ میں سے اس کا ہونا ثابت نہیں ہو سکتا ، تو ضرور وہ ایک چیز علیحدہ ہے جو مادے میںمل گئی ہے اور اسی سبب سے اس کی زیادہ حقیقت کا بجز اس کے کہ قل الروح من امر ربی اورکچھ بیان نہیں ہوسکتا۔ ………………… نقل او عقل میں مخالفت (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۲ (دور سوم ) یکم ذی قعدہ ۱۳۱۱ ھ صفحہ ۲۸۔۲۹) اس مقام پر نقل سے مراد وہ امور ہیں جو قرآن مجید اور قول رسول صلعم سے جس کی پو رے طور پر صحت ہوگئی ہو پائے جائے ہوں اور عقل سے وہ امور مراد ہیں جو مباحث عقلی یا تحقیقات علو م طبیعیات سے پائے گئے ہوں۔ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ ورڈ گاڈ یعنی کلام الہی وار ورک آف گاڈ ، یعنی خدا کے کام میں کبھی مخالفت نہیں ہوسکتی۔ یہی اعتقاد ہمارا حدیث نبوی کی نسبت ہے، بشرطیکہ وہ روایتا اور درایتا ثابت ہوئی ہو۔ مگر اس مقا م پر ہم کو اس امر پر زیادہ بحث مقصود نہیں ہے ، بلکہ صرف یہ بات دکھائی ہے کہ اور عالموں کا اس میں کیا قول ہے ، چنانچہ اس امر کی نسبت ابن تیمیہ اور ابن رشد کے اقوال اور شریف مرتضیٰ علم الہدیٰ کا قول جو بہت بڑے عالم شیعہ مذہب کے ہیں، نقل کرتے ہیں اور ان کو سمجھنا اور ان پر غور کرنا اور کوئی رائے قرار دینا پڑھنے والو ں پر چھوڑتے ہیں ، مگر اتنا بنا دیتے ہیںکہ ابن تیمیہ کی رائے کا یہ نتیجہ ہے کہ نقل کو عقل پر مقدم کیا جاوے، کیونکہ وہ دلیل عقلی کا نقل کے خلاف ہونا محال سمجھنا ہے ۔ ابن رشد کا یہ خیال ہے کہ اگر نقل پر بخوبی غور کیا جاوے گا اور اسکے ماسیق اور مالحق پر خیال کیا جاوے گا تو خود نقل سے ظاہر ہوگا کہ وہ مول ہے اور اس کے بعد عقل اورنقل میں مخالفت نہیںرہے گی۔ شریف مرتضیٰ کی یہ رائے ہے کہ عقل کو مقدم رکھنا چاہیے اور اگر نقل کسی طرح اس کے مطابق نہ ہوتو اس کو چھوڑ دینا اور سکوت کرنا چا ہیے۔ چنانچہ یہ ہیں اقوال ان تین عالموں کے قول ابن تیمیہ فلو قال قائل اذا قام الدلیل العقلی القطعی علیٰ مناقضۃ ہذا ( السمعی ) فلا بدمن تقدیم احد ھما فلو قدم ھذا السمعی قدح فی اصلہ و ان قدم العقلی لزم تکذیب الرسول فیما علم بالا ضطرار انہ جاء بہ وحذا ھوا لکفر الصریح فلا بدلھم من جواب عن ھذا والجواب عنہ انہ یمتنع ان یقوم عقلی قطعی یناقص ھذا فتبین ان کلما فلم علیہ دلیل قطعی سمعی یمتنع ان یعارضہ قطعی عقلی (کتاب العقل والنقل لا بن تیمیہ صفحہ ۱۹ نسخہ قلمی)۔ (ترجمہ) ’’ پس اگر کوئی کہے کہ جب یقینی دلیل عقلی سمعی دلیل کے خلا ف ہو تو دونوں میںسے ایک کو مقدم کرنا ناگزیر ہوگا۔ پس اگر سمعی دلیل مقدم کی جاوے تو اصل کے خلاف ہوگا اور عقلی دلیل مقدم کی جاوے تو رسول کو جھٹلا نا لازم آوے گا، ایسی بات میںجس کی نسبت اضطراری علم ہے کہ رسول نے فرمایا ہے ۔ اوریہ کھلا ہو اکفر ہے ۔ پس اس بات کا ان کو جواب دینا چاہیے اورجواب یہ ہے کہ یہ بات ناممکن ہے کہ کوئی یقینی عقلی دلیل سمعی دلیل کے خلاف ہو ۔ پس ظاہر ہوگیا کہ جس بات پر یقینی سمعی دلیل قائم ہو محال ہے کہ یقینی عقلی دلیل اس کے خلاف ہو۔‘‘ قول ابن رشد ونحن نقطع قطعا ان کل ما ادیٰ الیہ البرھان و خالفہ ظاہر الشرع ان ذالک الظاہر یقبل التاویل علی قانون التاویل العربی وھذہ القضیۃ لا یشک فیھا مسلم ولا یرتاب بھا مومن وما اعظم از یاد الیقین بھا عند من زا ول ھذا المعنی وجربہ و قصد ھذا المقصد من الجمع بین المعقول والمنقول بل نقول انہ مامن منطوق بہ فی الشرع مخالف بظاہرہ لما ادی الیہ البرھان الا اذا اعتبر الشرع و تصفحت سائر اجزائہ وجد فی الفاظ لشرع ما یشھد بظا ھرہ لذلک التاویل اور یقارب ان یشھد۔ (کتاب فصل المقا ل و تقریر ما بین الشریعۃ والحکمۃ من الا تصال لا بن رشد)۔ (ترجمہ) اور ہم کو پورا یقین ہے کہ جس بات پر دلیل ہو اور ظاہر شرع اس کے خلاف ہو تو وہ ظاہر عربی کے قانون تاویل ہوگا اور یہ قضیہ ہے جس میں کسی مسلم او رمومن کو شک نہیں ہوسکتا اور اس شخص کو اس قضیہ کا یقین کتنا بڑھ جاتا ہے جس نے اس کی مشق اور تجربہ کیا ہو اور معقول اور منقول میں جمع کرنا چاہا ہو، بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ جب کوئی ظاہر شرع اس بات کے خلاف ہو جس پر دلیل قائم ہو چکی ہے تو ایسا نہیں ہے کہ جب شرع کے لحاظ کیا جائے اور اس کے تمام حصوں میں تلاش ہو تو شرع کے لفظوں میں ایسا ظاہر نہ ملے کہ ا س تاویل کے موافق ہو جو ظاہر شرع کی تاویل کی ہے اگر بعینہ ایسا نہ ہوگا تو اس کے قریب ہوگا۔‘‘ قول شریف مرتضیٰ اعلم انالمصمول فیما یعتقد علی ماتدل الادلۃ علیہ من نفی واثبات فاذا دلت الادلۃ علیٰ امر من الامور وجب ان نبنی کل وارد من الاخبار اذاکان ظاھرہ بخلافہ علیۃ و نسوقہ الیہ ونطابق بینہ و بینہ ونخلی ظاہرا ان کان لہ نشرط ان کان مطلقا و نخصہ ان کان عاما و نفصلہ ان کان مجملا و نوفق بینہ و بین الادلۃ من کل طریق۔ اقتضی الموافقۃ و آل الی المطا بقۃ و اذا کنا نفعل ذالک ولا نحتشمہ فی ظواہر القرآن المقطو علیٰ صحتۃ المعلوم وردوہ فکیف نتوقف عن ذالک فی اخبار احادلا لوجب علماء ولا نثمر یقینا فمتی وردت علیک اخبار فا عرضھا علیٰ ھذہ الجملۃ و اینھا علیھا وافعل فیھا ما حکمت بہ الا دلۃ واوجبۃ الحجج العقلیۃ وان تعذر فیھا بناء و تاویل و تخریج و تنزیل فلیس غیر الاطراح لھا و ترک التصریح علیھا ولو اقتصرنا علیٰ ھذ ہ الجملۃ لا کتفینا فیمن یتدیر ویتفکر۔ (درر غرر شریف مرتضیٰ علم الھدی) (ترجمہ) ’’اعتقادات میںبس انھیں باتوں پر اعتماد کرنا چاہیے جو دلیلوں سے اثبتا یانفیاََ ثابت ہوں۔ پس جب دلیلیں کسی بات پر دلالت کریں۔ پس واجب ہے کہ جو خبریں ظاہر میں اس بات کے خلاف ہوں ان خبروں کوہم اس بات کی طرف کھینچ لاویں اور اس سے مطا بق کردیں اور ان خبروں کے ظاہر کو چھوڑ دیں اور مطلق ہوںتو شرط لگا دیں اور عام ہوں تو خاص کر دیں اور مجمل ہوں تو تفصیل کر دیں اورجس راہ سے ہوان خبروں میں اور دلیلوں میں مطابقت کردیں۔ اور جب ہم قرآن کے ظواہر کی نسبت جن کی صحت یقینی ہے اور جن کا نازل ہونا قطعی ہے ایسا کرتے ہیں تو اخبار احاد کی بابت جو علم اور یقین کاموجب نہیں ہوتیں ، ایسا کرنے میکں کیوں روکیں گے۔ پس جب تجھ پر خبریں وار دہوں تو ان کو دلیلوں سے مقابلہ کر اورجو مقنضا دلیلوں کا ہو ان خبروں کی نسبت وہی برتاؤ کر اور اگر ان کی تاویل اورنکالنا اور اتارنا نہ ہوسکے تو سوائے گرا دینے خبروں اور ان کی تصریح چھوڑ دینے کے کیا چارہ ہے۔ اور اگر ہم ان باتوں پر اقتصار کریں تو ان لوگوں میںسے جو تامل اور فکر کرتے ہیں کافی ہوگا۔ التلازم بین العلۃ والمعلول (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۳ (دور سوم) یکم ذی الحجۃ ۱۳۱۱ ھ) اس بات کو تمام اہل مذاہب تسلیم کرتے ہیں کہ خدا خالق جمیع کائنات ہے، یعنی خدا علت ہے اور تمام مخلوق اس کی معلول ہے ، بواسطہ یا بلا واسطہ اور اسی لیے خدا کو علۃ العلل کہا جاتا ہے۔ ابن سینا اوردیگر فلاسفہ کے نزدیک یہ امر مسلم ہے کہ معلول علۃ سے جدا نہیں ہوتا ، نہ علۃ معلول سے ، یعنی علۃ و معلول ایک ہی ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ جہاں اور جس وقت علۃ ہوگی اسی وقت اور اسی کے ساتھ معلول بھی ہوگا اور اسی طرح جس وقت معلول ہوگا اسی کے ساتھ علۃ بھی ہوگی۔ غرضیکہ معلول کا علۃ سے اور علۃ کا معلول سے جدا ہونا محال ہے۔ اس مسئلے کے ماننے میںیہ مشکل پیش آتی ہے کہ جب خدا کو علۃ وجود کائنات مانا جو ازلی ہے اور اس بات کو بھی مانا کہ معلول علۃ سے اور علۃ معلول سے جدا نہیں ہوتا تو لازم آتا ہے کہ کائنات بھی ازلی ہو او ر عقیدہ العالم حادث غلط ہو جاوے ، اس لیے امام غزالی ؒ اپنی کتاب ’’ المنقذمن الضلال ‘‘ میںفرماتے ہیںکہ حکماء کا یہ مسئلہ کہ ’’ دو چیزوں، یعنی سبب اور مسبب کا ملنا جو ظاہر میں دکھائی دیتا ہے ، یہ ملنا لازمی اور ضروری ہے اور نہ تو یہ قدرت میں ہے اور نہ امکان میں ہے کہ سبب بغیر مسبب کے پیدا ہو او رمسبب بغیر سبب کے ‘‘ اسلام کے برخلاف ہے۔ ابن تیمیہ بھی مثل امام غزالیؒ کے اس مسئلے کو غلط بتاتے ہیں ۔ چنانچہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ’’ العقل والنقل‘‘ میںکہا ہے کہ یہ کہنا کہ اثرموثر تام سے ملا ہوا ہوتا ہے اور اس کی تاثیر کے لیے ضرور ہے کہ اثرتاثیر سے دیر کر نہ ہو اور اثر کے بعد ہو اور نہ اثر اور تاثیر میںوقفہ ،یعنی فترۃ یافاصلہ ہو۔ یہ رائے دھریوں کی ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ زمانہ قدیم ہے، کیونکہ اس کا جو صانع ہے وہ قدیم ہے۔ اس کے بعد ابن تیمیہ نے ان رایوں کی کہ اثر اور تاثیر یا علۃ و معلول ساتھ ساتھ ہوتے ہیں، تردید کی ہے اور کہا ہے کہ جب خدا کو علۃ قرار دیاگیا ہے اور جو کچھ سوا خدا کے ہے وہ بواسطہ یا بلا واسطہ خدا کا معلول ہے تو لازم آتا ہے کہ دنیا میں کوئی چیز حادث نہ ہو، کیونکہ خدا تو ازلی ہے اور علۃ و معلول کا ملنا زمانے میںواقع ہوتا ہے ۔ علاوہ اس کے جو حوادث کہ واقع ہوتے ہیں ان کے لیے کوئی دوسری علۃ تام چاہیے اور اس سے تسلسل علتوں کا لازم آتا ہے، یاتمام علتیں اور ان کے معلول ان واحد میں موجود ہوں اور یہ امر سب کے نزدیک باطل ہے۔ ہم ا س بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ خدا خالق کائنات ہے اور وہ علۃ العلل وجودکائنات کا ہے اور تمام مخلوق اس کی معلول ہے ، اوریہ مسئلہ بھی بالکل سچ اور مطابق فطرت کے ہے نہ معلول علۃ سے جدا ہوتا ہے اور نہ علۃ معلول سے ۔ جہاں علۃ ہوگی وہاں معلول ہوگا اور جہاں معلول ہوگا وہاں علۃ ہوگی ۔ امام غزالیؒ نے جو اس مسئلے کو خلاف مذھب اسلام کہا ہے اور ابن تیمیہ نے جو اس مسئلے کی صحت پر اعتراض کئے ہیں اور اس کو غلط اور دھریوں کا مذہب ٹھہرایا ہے دونوں نے غلطی کی ہے۔ اس زمانے میں نیچرل فلاسفی کو کچھ ترقی نہیں ہوئی تھی اور نہ موجودات عالم کی تحقیقات ہوئی تھی ۔ اس لیے ان کو اس فطرت پر جس پر خدا نے عالم کو پیدا کیا ہے غور کرنے کا اور اس سلسلہ علۃ و معلول کو سمجھنے کا موقع نہیںملا جس سلسلہ علۃ و معلول پر خدا نے عالم و ما فیہا کو پیدا کیا ہے۔ موجودات عالم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز جو دنیا میں ہے اور ہم جس کے وجود کی علت ذات باری کو قرار دیتے ہیں، اس کی حالت ان علل کے سبب سے جو اس پر موثر ہیں تبدیل ہوتی رہتی ہے اور وہ تبدیل حالت جو معلول علل ہے دوسرے معلول کی علۃ ہوجاتی ہے اور بمجرد علۃ ہونے کے اس کا معلول موجود ہو جاتا ہے اور وہ کسی دوسرے معلول کی علت ہوتا ہے۔ ہم بطور مثال کے ایک درخت کے بیچ کو لیں جو زمین میں دبا ہوا ہے وہ صرف اس بات کی علۃ ہے کہ زمین کی حرات اور رطوبت اور اجزائے زمین کو جو اس کے مناسب ہیں اپنے میںجذب کرے ۔ یہ علۃ اپنے معلول سے جب تک کہ کوئی امر مانع نہ ہو کبھی جدا نہیں ہوتی ۔ پھر رفتہ رفتہ وہ علۃ ہوجاتا ہے تو اپنے معلول سے کبھی جدا نہیں ہوتا اور نہ معلول اپنی علۃ سے پھر وہ علۃ ہو جاتا ہے زمین سے زیادہ مادہ جذب کرنے کا اور علۃ ہو جاتا ہے ٹہنیاں اور پتے پیدا ہونے کا ، پھر وہ علۃ ہو جاتا ہے علاوہ زمین سے مادہ جذب کرنے کے ہوا اور روشنی سے مادہ جذب کرنے کا اور رفتہ رفتہ وہ علۃ ہوجاتا ہے پھول آنے اور پھل لگنے کا۔ اور کبھی کوئی علۃ کسی حال میںاپنے معلول سے جد ا نہیں ہوتی ہے اور نہ معلول علۃ سے۔ یہی طریقہ عالم میں تمام حوادث کے پیدا ہونے کاہے اور اس کو فطرت یا نیچر یا قانون قدر سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ پس ابن تیمیہ نے جو یہ بات کہی ہے کہ حوادث محتاج ہوں گے ایسی علۃ ناہ کے جو ان سے ملی ہوئی ہو۔ یہ کوئی مقام اعتراض کا نہیں ہے ، کیونکہ ایسا ہی ہوتا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے ۔ تمام حوادث جو دنیا میںحادث ہوتے ہیں ان کے لیے کوئی نہ کوئی علۃ ان کے حدوث کی ان کے مفارن ہوتی ہے، اور سلسلہ علل میںہر علۃ اپنے معلول کے لیے علۃ نامہ ہوتی ہے۔ مگریہ کہنا ابن تیمیہ کا صحیح نہیںہے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ دنیا میںکوئی چیز حادث نہ ہو کیونکہ حدوث حوادث کا عالم میںبواسطہ علتوں کے ہوتا ہے او ر جب وہ علتیں موجود ہوتی ہیں معا ان کا معلول بھی موجود ہوتا ہے اور یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ ایسی حالتوں میںعلتوں کا تسلسل لازم آوے گا ۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اس میںتسلسل ممتنع کس طرح لازم آتا ہے اور تسلسل لازم آنے سے انھوں نے کیا مراد لی ہے اور نہ یہ کہنا ابن تیمیہ کا صحیح ہوتا ہے کہ اس صورت میںتمام علتوں اور معلولات کا ایک ان واحد میں موجود ہونا لازم آوے گا ، کیونکہ تمام حوادث گو علۃ العلل کے معلول ہوں مگر وہ بواسطہ دیگر علتوں کے جو بتدریج موجود ہوتے ہیں معلول ہوتے ہیں۔ ابن تیمیہ کہتے ہیںکہ بعض اہل کلام کی یہ رائے ہے کہ واجب ہے تاخیر ہونا اثر کا موثر نام سے اور اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے لازم آتا ہے کہ موثر بدون کسی سبب جدید کے موثر نام ہوجائے ۔ بعد ازانکہ وہ موثر نام نہ تھا یا یہ لازم آتا ہے کہ حوادث پیدا ہوں بدون موثر نام کے۔ اول تو ہم اس مذہب کو جس کو ابن تیمیہ نے مذہب بعض اہل کلام کابیان کیا ہے غلط کہتے ہیں، معہذا جو اعتراض کہ انہوں نے بیان کئے ہیں وہ اس غلط مذہب پر وارد ہوتے ہوں تو ہوں مگر جو امور کہ ہم نے بیان کئے ہیں اس پر وارد نہیں ہو سکتے ، کیونکہ اس کی رو سے نہ موثر نا تمام تام ہوگیا ہے اور نہ حوادث بدون موثر یا علت کے پیدا ہوتے ہیں۔ ابن تیمیہ نے اس باب میں ایک اور مذہب بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ بعض کایہ مذہب کہ موثر تام کو لازم ہے کہ اس کا اثر ہو جائے ، نہ بلحاظ زمانہ اس کے ساتھ ہو اور نہ اس سے دیر کر جیسے کہ خدا نے فرمایا ہے : انما قولنا لشیئی اذا اردنا ہ ان نقول لہ کن فیکون ، مگر اس مذہب کی بھی تردید کی ہے ۔ پھر لکھا ہے کہ بعض لوگوں کا یہ قول ہے کہ خدائے مختار کی تاثیر اور علۃ موجبہ کی تاثیر میںفرق ہے۔ خدا ئے مختار کی تاثیر یہ ترافی ہوتی ہے اورعلۃ موجبہ کی تاثیر مقارنت اثر اور موثر کی ہوتی ہے۔ اس قول کوبھی ابن تیمیہ نے غلط بیان کیا ہے اور کچھ شبہ نہیں کہ یہ سب تقریریں غلط اور لچر ہیں اور صحیح مسئلہ یہی ہے کہ علۃ معلول سے اور معلول علۃ سے اور سبب مسبب سے اور مسبب سبب سے جدا نہیں ہوتا۔ نیچرل سینز کے علماء کے نزدیک یہ امر محقق ہوا ہے کہ ابتداء میں صرف مادہ تھا ، اجزائے لا یتجزیٰ یا اجزاء صغار دیمقراطیسی کی صورت میںجو فضائے محض میں مملو تھا ۔ پھر اس سے تمام کائنات بنی۔ آئندہ سے ہم ان اجزاء صغار کو سالمات سے تعبیر کریںگے۔ اس مادے کا پتا یہودیوں او رمسلمانوں کی کتابوں سے بھی پایا جاتا ہے ۔توریت میںلکھا ہے کہ ابتداء میں خد اکی روح پائی پرتھی ۔ قرآن مجید میںہے ثم استویٰ الیٰ السماء وھی دخان فقال لھا والارض ائتیا طوعاَ او کرھا قا لتا اتینا طائعین اور مشکوۃ میں عمران بن حصن کی حدیث میں ہے قال کان اللہ ولم یکن شیئی قبلہ وکان عرشہ علی الماء اور دوسری حدیث میںہے جس کو رزین نے روایت کیا ہے قال قلت یا رسول اللہ این کان ربنا قبل ان یخلق خلقہ قال کان فی عماء ماتحتہ ہوا ء وما فوقہ ہوا و کان عرشہ علی المائ۔ دخان کالفظ جو قرآن مجید میں ہے وہ ایسے ہی مادے کا خیال کرتا ہے جو سالمات کی صورت میںبغیر رشن ہوئے فضائے محض میںمملو ہو۔ عمام کے معنی لغت میںبادل کے لکھے ہیں، مگر درحقیقت تحقیق نہیںہوا کہ کس قسم کے بادل کو کہتے ہیں ، لسان العرب میں لکھا ہے : قال الازھری والقول عندی ما قالہ ابو عبید انہ الحماء ممدود و وا لسحاب ولا یدری کیف ذالک العماء بصفۃ تحصرہ ولا نعمت تحدہ و یقوی ھذا القول قولہ تعا لیٰ ھل ینظرون الا ان یاتیھم اللہ فی ظلل من الغمام ولملا ئکۃ۔ بہر حال اس مادے کا پتا مذہبی کتابوں میںپایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو، مگر اس پر یہ بحث ہے کہ آیا یہ مادہ آپ ہی آپ تھا یا کسی علۃ کا معلول ، یعنی خالق کامخلوق تھا۔ دھریہ کہتے ہیں کہ آپ ہی آپ تھا ، کم سے کم یہ کہ وہ نہیں جانتے ، شاید کوئی خالق ہو یا نہ ہو۔ مگر میں یقین کرتا ہوں او رغالبا سب مسلمان یقین کرتے ہیں کہ وہ مادہ بھی مخلوق ہے اور خدا نے جو علۃ العلل ہے اس کو پید اکیا ہے ۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ اس مادے میںتغیرات پائے جاتے ہیں۔ کبھی وہ ہوا کی صورت میںہے کبھی پانی کی، کہیںگل ہے او رکہیںگل، کہیںہاتھی ہے اور کہیں مچھر ، کہیں آگ ہے اور کہیں پانی ، کہیں درخت ہے اور کہیں پتھر ، کہیںشیر ہے اور کہیںبکری، اگر وہ اپنے آپ تھا اور جس صورت میںتھا اس میںتبد لات کا کون باعث ہوا ۔ وہ خود تو اپنے تبدلات کا باعث نہیں ہو سکتا ، بلکہ کوئی دوسرا اس کے تبدلات میںموثر ہے اور یہ تغیرات اس بات کے بدیہی ثبوت ہیںکہ وہ کسی علۃ کا اپنے وجود میںبھی معلول ہے۔ اس لیے ہم یقین کرتے ہیں کہ اس علۃ العلل نے جس کو خدا کہتے ہیں اس کو مخلوق کیا ہے ۔ نیچر ل سینز کے علماء اگر یہ کہیں کہ ان تبدلات کا باعث کوئی دوسرا موثر نہیں ہے ، بلکہ خود خوص مادہ ان تغیرات کا باعث ہے۔ ان کے باہمی اتصال سے یہ تغیرات پیدا ہوتے ہیں۔ اول تو ان کے پاس اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ تغیرات خواص مادہ کے سبب سے ہیں ، بلکہ انھوں نے ان تغیرات کو جن کو ہم بوجہ اثر موثر بیان کرتے ہیں خواص مادہ سے تعبیر کیا ہے اور اس صورت میں صرف نزاع لفظی ہے ، دوسری کوئی وجہ اس کی نہیں بتا سکتے کہ وہ سالمات جو آپس میں باہم مماثل اور آپس میںشامل تھے کیوں زیادہ متصل ہوئے او رکیوں ایسی خاص طرح سے متصل ہوئے کہ کچھ پہاڑ کی صورت میںہوگئے او ر کچھ ایسی طرح سے ملے کہ دریا اورسمندر بن گئے اور اور کچھ ایسی طرح سے ملے کہ بکری بن گئے اورکوئی شیر اور کوئی چوہا اور کوئی بلی، پھر جو شے ان سے مل کر بنی ہے اس کی ترتیب اور اس کا نظم ایسا ہے کہ جس کو دیکھ کر اور سمجھ کر عقل حیران ہوتی ہے اور جن مقاصد کے لیے ملے ہیں ایسی خوبی سے ملے ہیں کہ اور طرح پر وہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا ۔ پھر تمام چیزوں جمادات ، نباتات ، حیوانات میں ایک چھوٹے سے تنکے اور نہایت چھوٹے سے بھنگے سے کر ہاتھی اور ویل مچھلی تک او ر عظیم الشان درختوں تک وہ تمام اعضاء ان میں موجود ہیں جن کی ضرورت ان کو ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک نہایت دانش مند حکیم نے ان سالمات مین متعدد طرح سے اتصال کی ایسی قدرت ، اورہم قبول کرتے ہیں کہ ایسی خاصیت عنایت کی ہے جو مختلف طرح پر آپس میںملتے ہیں او رایسی عجیب صورتیں بدلتے ہیں فتبارک اللہ احسن الخالقین ۔ ان تمام باتوں کی نسبت یہ کہہ دینا کہ یہ سب از خود خواص مادہ س بلا موثر ہیں یا افاقیہ ہیں اور ان کی باہمی مناسبت کی تمام خوبیا ں نکات بعد الوقوع ہیں حقیقت میں کچھ جواب نہیں ہے ، بلکہ لاجواب ہوکر رو دینا ہے۔ جو لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ علۃ معلول سے اور معلول علۃ سے یا سبب مسبب سے اور مسبب سبب سے جدا ہو جاتا ہے اور جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بغیر علۃ کے معلول اور بغیر سبب کے مسبب حادث ہوسکتا ہے اور جو قانون قدر ت علۃ و معلول کا خدانے بنایا ہے وہ معطل ہوجات ہے۔ اس کا کوئی قطعی ثبوت جیسے کہ دو اور دو کا چار ہونا، ان کے پاس نہیں ہے۔ وہ صرف اپنے توہمات مکنونہ سے علۃ و معلول کے سلسلے کو جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتاتوڑنا چاہتے ہیں، مگر نہ وہ کبھی ٹوٹ سکتا ہے اور نہ اس کے ٹوٹنے پر کوئی یقین کر سکتا ہے ، کیونکہ لا تبدیل لخلق اللہ خود خدا نے فرما دیا ہے جو بالکل مطابق اس قانون قدرت کے ہے جس پر خدا نے دنیا کو پیدا کیا ہے فتدبر ولا تکن من المنکرین۔ اب یہ بحث باقی رہتی ہے کہ اگر خدائے ازلی و ابدی علۃ ہے تمام کائنات کی تو عالم قدیم ہے یاحادث اور خدا میںابھی ایسا تنوع ہے یا نہیں، جیسا مادے میں ، مگر یہ بحث صفات باری سے علا قہ رکھتی ہے جس کو ہم کسی دوسرے آرٹیکل میں بیان کریں گے۔ ……………… العلم حجاب اکبر (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۳ (دور سوم یکم ذی الحجہ ۱۳۱۱ھ) بے علمی ایک عجیب صفت معصومیت کی ہے ۔ دل کو راحت میں طبیعت کو طمانیت میںرکھنے والی جیسی بے علمی ہے ویسی کوئی اور چیز نہیں ہے ۔ جو کچھ وہ جانتا ہے اس کو سچ سمجھتا ہے جو کچھ وہ کرتا ہے اس کوٹھیک جانتا ہے ۔ ایک جھیل ہے جس میں کوئی لہر ہی نہیں ۔ کناروں تک پانی بھرا ہوا ہے مگر ہلتا تک نہیں، نہ اس میں کوئی مچھلی ہے کہ تیرے ، نہ کوئی مینڈک ہے کہ ادھر سے ادھر ادھر سے ادھر غوطہ لگائے ، نہ دل میںکچھ ڈبکا ہے ، نہ کسی بات کے سوچنے کی حاجت ، جس نے جو کہا اس کو سچ جانا اور جو جس نے بتایا اس کو مانا۔ انہی لوگوں کا مذہب صحیح ہویا غلط ، نہایت پختہ او ر مضبوط ہے جس میں ذرا سی بھی کھسر اور کچھ بھی کسر نہیں۔ ان کی زندگی اچھی ہویابری، راہپر ہو یا کراہ حیوان مطلق ، بلکہ ایک جماد متحرک کی سی ہو۔ مگر وہ کیسی ہی ہو بے تردد اور بے خدشہ اور عاری عن الشبہات ہے۔ مگرجہاں علم آیا اور جس قدر آیا اتنا ہی گڑبڑ ہوا، اندھیرا چھاگیا ، پردوں پر پردے پڑ گئے ، اگر ایک پردہ اٹھا تو دوسرا پڑا ہوا ہے۔ دوسرا اٹھا تو تیسرا پڑا ہوا ہے۔ اٹھاتے چلے جاؤ کوئی نہ کوئی پردہ پڑا ہی رہے گا۔ اسی پرکہا گیا ہے کہ : العلم حجاب اکبر۔ الا من شرح اللہ صدرہ و نور قلبہ و اعطاہ نور امن انوارہ ، وھم الانبیاء ورسلہ ، لا تفرق بین احدمن رسلہ لکن اللہ فضل یعضھم علیٰ بعض ، ونعتقد ان افضلھم محمد رسول اللہ خاتم النبین وافضل المرسلین یا ایھا الذین آمنو صلوا علیہ وسلموا تسلیما والعلما ء الراسخین فی العلم ورثۃ الانبیاء فلیس لھم العلم حجاب اکبر بل العلم لھم نور لتنویر الظلمات وآلۃ لکشف الغاطاء والحجابات۔ جب تک ہماری حالت عرب کے صحرا نشین بدؤوں کی تھی ہم خو ش تھے ۔ یہی نیلی نیلی چھت جو ہم کو دکھائی دیتی ہے خواہ اس کا کوئی وجود ہو یا نہ ہو اسی کو آسمان سمجھے تھے ۔ اس سے کچھ بحث نہ تھی کہ وہ قابل خرق و التیام ہے یا نہیں۔ اسی چیز موھوم کو سفف مرفوع کہتے تھے۔ ستارے اس میں جڑے ہوئے دکھائی دیتے تھے اور یہی سمجھتے تھے کہ اس چھت میں کیلیں جڑی ہوئی ہیں ۔ اوپر سے مینہ برستاتھا ، ہم سمجھتے تھے کہ آسمان پر سے مینہ برستا ہے ۔ اس سے کچھ بحث نہ تھی کہ اوپر سے آتا ہے یا نیچے سے چڑھتا ہے۔ ہم نے اس دنیا کے سوادوسری دنیا بھی ایسی ہی یا اس سے کچھ اچھی ہوگی ۔ ہم سو کر پھر جاگنے او راٹھنے کے سوا دوسری طرح اٹھنا جانتے ہی نہ تھے اور اس لیے سمجھتے تھے کہ اپنی خوابگاہ میں سے اس طرح اٹھ کر دوسری دنیا میں چلے جاویں گے ۔ ہم جانتے ہی نہ تھے کہ جو چیزیں ہم کو دنیا میں سکھ دینے والی اور خوش رکھنے والی یا دکھ دینے والی اور رنج پہنچانے والی ہیں وہی یااس سے کچھ اچھی یا زیادہ بری اس دنیا میں بھی ہوں گی ،یہاں تک کہ اونٹ جس سے ہم کو بہت الفت ہے وہ بھی وہاں ہوگا، مگر اس دنیا کے اونٹ جس سے ہم کوبہت الفت ہے ، وہ بھی وہاں ہوگا، مگر اس دنیاکے اونٹ سے زیادہ خوبصورت ، زیادہ گردن ہلانے والا ، بہت زیادہ تیز چلنے والا، خدا کو ہم نے جانا تھا ، مگر کیا جانا تھا، خلق آدم علیٰ صورتہ ۔ ایک بہت بڑے قد کا آدمی بلور کی سی پنڈلیاں چمکتی ہوئی آنکھیں ، نہایت سفید لمبی داڑھی۔ برس کی مانند سفید سر ، ہاتھ میں عصائے سلطنت ، ایک بت بڑے زمرد کے تخت پر پاؤں پھیلائے یا لٹکا ئے بیٹھا ہے ۔ بوئی تخت کو کندھوں پراٹھا ئے پھرتے ہیں ۔ ہالی موالی ساتھ ساتھ ہیں ۔ جس بات کو کہاںہوں! ہوگئی ، جس کو کہا ہیں! مٹ گئی جیسے کہ دنیا کے بادشاہ کرتے ہیں ، کیونکہ اس کے سوا اور کسی قسم کی بادشاہت کو ہم جانتے ہی نہ تھی ، ہاںہم نے اتنا سمجھا تھا کہ وہ بادشاہ زیادہ قوت والا اور زیادہ رعب والا اورتیز حکم والاہوگا۔ اب ہم کو علم آیا جس نے ہمارے سارے نقشے کو مٹا دیا ۔ یونانیوں کو ناحق بدنام کیاجاتا ہے۔ خود انسان جس طرح اپنے جسم میںعقل میںترقی کرتا جاتا ہے ، اس طرح قوم بھی دماغی قوتوں میںترقی کرتی جاتی ہے۔ انسان کی ترقی اس کی محدود عمر کے سبب محدود ہوتی ہے ، م گر قوم کو اگلوں کی جمع کی ہوئی ترقی کا سرمایہ مل جاتا ہے اور وہ اس کو او ر ترقی دیتے جاتے ہیں۔ پس اگر ہم کو یونانیوں سے کچھ نہ ملتا تو ایک زمانے میں ہم خود ہی وہاں تک پہنچ جاتے اور کوئی نہ کوئی اسباب اس کے لیے مہیا ہوجاتے ۔ اس وقت یونانیوں کے علوم ہی وہ اسباب ہوگئے۔ خیر کچھ ہی سبب ہو وہ ہمارے دل کا سب نقشہ مٹ گیا ، اندھیرا چھا گیا ، پردے پر پردے پڑ گے اور ہم چلا اٹھے کہ العلم حجاب اکبر۔ اتنا تو ہم نے جان لیا تھا کہ وہ شیئی یا خیال یا اعتقاد جس کو لوگ مذہب کہتے ہیں انسان کا امر طبعی ہے، اس لیے کہ کوئی فرد بشر اس سے نہ خالی تھا اور نہ خالی ہے اور نہ خالی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ہم نے جان لیاتھا کہ وہ مذہب جس کو اسلام کہتے ہیں اور مذاہب سے عمدہ اور سچا ہے، مگر ہمکو ، نہ صرف ہم کو ، بلکہ ہمارے بڑے بڑے علماء اور فضلاء کووہاں بڑی مشکل پیش آئی جہاں عقل یا علم مذھبی باتوں سے لڑ گیا اور دونوں کا سچ ہونا ناممکن معلوم ہوا اور یہ خیال پیدا ہوا کہ اس طرح پر تو یہ گاڑی چلنے والی نہیں۔ جب اس طرح دلدل میںگاڑی پھنس گئی تو بہتوں نے جوا ہار دیا اوردو فریق ہو گئے ۔ ایک نے کہا کہ عقل میںاتنی قوت ہی نہیں کہ مذہب کے رموز کو پہچانے ، پس عقل کو بیکار سمجھنا چاہیے اور اسی کو جو مذہب میںہے بے دلیل سچ ماننا چاہیے۔ یعنی اپنی حالت ایک جماد متحرک کی سی کر لینی چاہیے۔ مگر یہ نہ بتایا کہ علم کے آنے کے بعد وہ ہو کیونکر سکتی ہے اورنہ یہ جواب تسلی بخش ہو سکتا ہے کہ العلم حجاب اکبر۔ دوسرا فریق عقل و نقل کے متحد کرنے پر آمادہ ہوا، کسی نے ’’کتاب العقل و النقل‘‘ لکھی کسی نے ’’التفرقۃ بین الاسلام والزند قۃ ‘‘ اور المضنون بہ علیٰ اہلہ وعلیٰ غیر اہلہ‘‘ لکھی ، کسی نے ’’ درروغرر‘‘ لکھی کسی نے ’’فصل المقال و تقریر ما بین الشریعۃ والحکمۃ من الاتصال‘‘ لکھی اور علیٰ ھذا القیاس ، مگر ہم بتاتے ہیں کہ انھوں نے کیا اصول قائم کیا ہے۔ اما غزالی ؒ کا تو سب چلتا اصول یہ ہے کہ انھوں نے وجود کی پانچ قسمیں بنائی ہیں: وجود ذاتی ، یعنی حقیقی وجود کہ خارج میں موجود ہو اور حس اور عقل کے سمجھنے کے قابل۔ وجود حسی، یعنی ایسا وجود جو آنکھ سے محسوس ہوتا ہو، مگر خارج میںاس کا وجود نہ ہو۔ وجو د خیالی۔ یعنی جو صرف خیال ہی خیال میںہو۔ وجود عقلی۔ یعنی ایک چیز کی حقیقت اور اس کی غایت ۔ وجود شبہی۔ یعنی وہ وجود ہو نہ فی الخارج نہ فی الحس نہ فی الخیال نہ فی العقل ، بلکہ ایسی چیز ، موجود ہو جو اس کی کسی خاصیت یا صفت میں مشابہ ہو۔ اب وہ کہتے ہیںکہ جس چیز کے وجود کی رسول نے خبر دی ہے ان پانچوں قسموں میں سے کسی قسم میں اس کا وجود مان لینا کافی ہے۔ بے شک یہ ایسا اصول ہے کہ بہت کچھ عقل و نقل کے تعارض کو رفع کرتا ہے، مگر جہاد متحرکہ تو اس کو کبھی نہیں ماننے کے ۔ علامہ شریف مرتضیٰ علم الہدیٰ نے (جس کے عزارۃ علم سے سنی بھی انکار نہیں کر سکتے ) یہ اصول قرار دیا ہے کہ جو امر دلیل عقلی سے ثابت ہو تو واجب ہے کہ جو خبر ، یعنی نقل بظاہر اس کے خلاف ہو تو خبر کو دلیل عقلی کے مطابق کر لیں گے اور اس کی ظاہری مراد کو چھوڑ دیں گے ۔ اس میں کوئی شرط لگا دیںگے یااس کی تخصیص کر دیں گے یا اس میںتفصیل کر دیں گے اور جب ہم قرآن میں ایسا کرتے ہیں تو حدیث احاد میں جو مفید یقین نہیں ہیں ، ایسا کرنے میں کیا تامل ہے ، پھر اگر کوئی حدیث اس طرح پر بھی موافق دلائل عقلی نہ ہو سکے تو اسے پھینک دیں گے۔ علامہ ابن تیمیہ سب سے زیادہ خم ٹھونک کر بڑی جرات سے میدان میں آئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگرکوئی دلیل عقلی قطعی امر سمعی کے متناقض ہو تو ان دونوں میںسے کسی کو مقدم سمجھنا ضرور ہو گا۔ پھر اگر امر سمعی کو مقدم کیا جاوے تو وہ بنیاد ہی سے گر پڑتا ہے اور اگر عقلی کو مقدم کیاجاوے تو تکذیب رسول لازم آتی ہے اور یہ تو کفر ہے۔ مگر اس کا ٹھیک جواب یہ کہا جاوے کہ یہ بات ممکن نہیں ہے کہ کوئی دلیل عقلی قطعی دلیل قطعی سمعی کے متناقض ہو۔ یہ اصول تو نہایت عمدہ ہے۔ مگر ابن تیمیہ اپنی تمام کتاب میںایک جگہ بھی اس کا ثبوت دینے پر قادر نہیں ہوا۔ ابن رشد نے ایک نہایت معتدل اور معقول اور درست اصول قائم کیاہے ، وہ کہتا ہے کہ ہم کو اس بات پر یقین کلی ہے کہ جو امر دلیل سے ثابت ہوا ہے او ر ظاہر شرح ا سکے برخلاف ہے تو اس میں عربی زبان کے قواعد تاویل کے مطابق تاویل ہوسکتی ہے اور کوئی مسلمان اس میں شک نہیں کر سکتا اور جب شرع پر بخوبی غور کیا جائے اور اس کی سب چیزوں کو ڈھونڈا جائے تو خود شرع میں ایسے لفظ پائے جائیںگے جو اس تاویل پر گواہ ہوں گے۔ ہم تو ابن رشد کے اس اصول کو دل سے تسلیم کرتے ہیں، مگر صرف لفظ تاویل کے مخالف ہیں، کیونکہ عموما اس مقصد سے بولی جاتی ہے جبکہ کسی مصنف ، یا کسی قائل نے کسی لفظ کو ایسے معنی میںبولا تھا جو ٹھیک نہ تھے اور دوسرا شخص اس لفظ کو دوسرے معنوں میںپھیر کر اس کے معنی درست کرتا ہے، لیکن جبکہ معلوم ہو کہ خود قائل نے اس لفظ کو انہی معنوں میںبولا ہے جس کو تم تاویل کہتے ہو تو وہ تاویل نہیں ہے ، بلکہ بعینہ وہی معنی ہیں جو قائل کے مقصود ہیں۔ ان مصنفوں نے اپنے کلام میں دلائل عقلی کالفظ استعمال کیا ہے جو بلا شبہ عام ہے اور سب قسم کی دلائل عقلی کو شامل ہے، مگر خاص دلائل سب سے بڑ کر وہ ہیں جو مشاہدے سے اور تجربے سے موجودات عالم میں پائے جاتے ہیں یا ایسے قواعد سے جو ہندسہ پر مبنی ہیں ثابت ہوتے ہیں۔ وہ محض عقلی دلائل سے زیادہ تر مستحکم ہیں اور کوئی شخص جو ان سے واقف ہے ان کا انکار نہیں کر سکتا ۔ پس اگر ان کے برخلاف منقول میں کوئی امر ہو تو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس اصول کی پیروی کرے جو ابن رشد نے قرار دیا ہے۔ اس کا جماد متحرک سا ہو جانا اور یہ کہہ دینا کہ العلم حجاب اکبر کافی نہیں ہے۔ ہماری تفسیریں اکثر اس قسم کے امور کے بیان کرنے سے خالی ہیں، مگر اب زمانہ نہیں رہا کہ اس پر توجہ نہ کی جاوے، بلکہ ہمارے زمانے کے علماء اورفضلاء کا فرض ہے کہ علم طبیعیات سے اول آگہی بہم پہنچا ویں اور قرآن مجید کی خدمت کریں جو بلاشبہ سچ او اسی کا کلام ہے جو خالق کائنات ہے اور مقولہ باطل العلم حجاب اکبر کو مٹا کر مقولہ العلم کشاف الغطار کو ثابت کریں۔ …………… ذات باری جل جلالہ و اعظم شانہ (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۴ (دور سوم) ۔بابت یکم محرم الحرام ۱۳۱۲ ھ صفحہ ۵۳ و ۵۴) اسلام نے ہم کو ذات باری کی نسبت یہ بتایا ہے او ریقین دلایا ہے کہ وہ واحد ازلی و ابدی ہے۔ وہ موجو دہے ، اس لیے کہ واجب الوجودد ہے۔ مگر بغیر صورت کے اور بغیر مکان کے۔ خود اس نے اپنے آپ کو اپنی صفات میں ظاہر کیا ہے، یعنی اس کی صفات عین اس کی ذات ہیں۔ نہ کوئی اس کی مثل ہے ہ مشابہ، نہ کوئی اس کا شریک ہے او ر نہ کوئی مقابل، نہ اس کا کوئی باپ ہے نہ اس کا کوئی بیٹا ، نہ چھوا جاتا ہے نہ دکھائی دیتا ہے ، نہ ہماری عقل میں آسکتا ہے، نہ خیال میں سما سکتا ہے، مگر ہمارے یقین یا ہمارے مخفی خیالات میں ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ نہج البلاغہ میںجناب علی مرتضیٰ علیہ السلام کا یہ قول لکھا ہے: اول الدین معر فتہ و کمال معرفتہ التصدیق بہ و کمال التصدین بہ تو حیدہ و کمال توحیدہ الاخلاص و کمال الاخلاص لہ نفی الصفات عنہ۔ مگر جیسا کہ مسٹر گبن نے لکھا ہے ایک فلسفی یہ سوال کر سکتا ہے کہ جب ہم اس نامعلوم جوہر کو جو ایک خیال سے جو زمان یا مکان یا مشابہت یا حرکت یا ارادہ یا حس یا خیال سے متعلق ہو منزہ کر دیں تو ہمارے تصور یا فہم کے لیے کیا چیز باقی رہ جاتی ہے۔ مگر حضرت مرتضیٰ کے قول پر غور کرنے سے اس کا جواب مل سکتا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ پہلی سیڑھی اسلام کی خدا کا جاننا ہے۔ پھر اس کی وحدت اورواجب الوجود ہونے پر یقین کرنا جو عقل ورنقل دونوں سے علیٰ حسب استعداد افراد الناس ثابت ہوتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ خلوص پیدا کرنا ہے او ر خلوص کا کمال ذات باری سے صفات کا نفی کرنا ہے۔ جب انسان اس کے موجود ہونے پر یقین کرتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ کیسا وہ کمال والا ہیہ جس نے ایک عجو بہ اور دلکش طرز پر جس سے زیادہ عمدہ نہیں ہوسکتی دنیا کو رچا ہے ۔ پھر وہ اپنے آپے پر غور کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اس پتلے کو اس نے کس قدر نعمتیں عنایت کی ہیں اور اس کی ترکیب جسمانی میںکیسی کیسی حکمتیں رکھی ہیں اور اس کے دماغ کو کیسی کیسی اعلیٰ قوتیں عنایت کی ہیں تو اس کی محبت اور اس کے ساتھ اخلاص پیدا ہوتا ہے اور جس قدر اس غور میں ترقی ہوتی جاوے اور وہ دقائق اورلطائف جو خود نفس انسانی میںہیں زیادہ کھلتے جاویں ، اسی قدر اخلاص ترقی کرتا جاتا ہے اور کمال توحیدہ الاخلاص لہ کے درجے پر پہنچ جاتا ہے اور اس واجب الوجود کو جامع جمیع صفات کمال قرار دیتا ہے۔ مگر جب یہ اخلاص درجہ کمال کو پہنچتا ہے تووہ سمجھتا ہے کہ میں نے جن صفات کمال کا جامع اس ذات پاک کو قرار دیاہے بلا شبہ وہ صفتیں تو اس میں ہیں ، مگر میںنے جو ان صفتوں کی حقیقت سمجھی ہے وہ تو ممکنات سے ماخوذ کی ہے۔ وہ صفتیں تو اس واجب الوجود کی صفات ہو نہیں سکتیں اور اس لیے وہ ان سب کو ذات باری سے نفی کرتا ہے اور کہتا ہے لیس ھو عا لم لیس ھو حی لیس ھو قا درو لیس ھو کذا و کذا کما انا نعلم حقیقتھا۔ پس اس طرح نفی کرتے کرتے اس کے تصور و فہم کے لیے ایک وجود جو واجب الوجود ہے اور جو مجمع جمیع صفات کمال ہے باقی رہ جاتا ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اس کی صفات ایسی اعلیٰ اور ارفع ہیںکہ انسان کے خیال کو اس پر حاوی ہونے کی قدرت نہیں ہے۔ وھو ربنا و ربکم و الھنا والھکم وانا اعبد ہ فاعبد وھذا صراط مستقیم۔ ………… ذاتہ و صفاتہ تعالیٰ شانہ (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۴ (دور سوم)یکم محرم الحرام ۱۳۱۲ ھ صفحہ ۵۴۔۵۷) چو خاصاں دریں رہ رس راندہ اند بلا احصی از تک فرو ماندہ اند یہ تو ہر کوئی کہہ سکتا ہے اور جان سکتا ہے کہ کوئی معشوق ہے اس پردہ زر نگاری میں، مگر نہ کوئی کہہ سکتا ہے نہ بتا سکتا ہے نہ جان سکتا ہے کہ وہ کیسا ہے۔ عقل انسانی اس بات کوتو قبول کرتی ہے کہ کوئی وجود تو ہے اور بے شک وہ آپ ہی آپ ہے اور اسی لیے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ (کما ثبت فی محلہ) مگروہی عقل کہتی ہے کہ اس سے زیادہ اور کچھ نہ میںجانتی ہوں نہ جان سکتی ہوں۔ عقل کہتی ہے کہ میں کیونکر جان سکتی ہوں کہ وہ کیسا ہے ۔ میںنے جن چیزوں کو جانا ہے وہ ہوتی بھی ہیں اورپھر نہیں بھی ہوتیں۔ ایسی کوئی مثال نہیںہے جو آپ ہی آپ ہو او رہمیشہ سے ہو او رہمیشہ رہے ۔ پھر میںکیونکر بتاؤں یا جانوں کہ وہ کیسا ہے۔ عقل کہتی ہے کہ اس کے لیے میںکوئی صورت نہیںتجویز کرسکتی ۔ نہ اس کے لیے کوئی صورت ہوسکتی ہے۔ نہ اس کی مانند کوئی چیز ہے کہ اسی سے اسکو جانوں، پھر کیونکر بتاؤں یا جانوں کہ وہ کیسا ہے۔ جب اس کی کوئی صورت اور شبیہ نہیں ہے تو جسم بھی نہیں ہے اور جب جسم نہیں ہے تو مادہ بھی نہیں ہے اور جب مادہ نہیں ہے تو اس کے لیے کوئی مکان بھی نہیںہے۔ پھر وہ نہ دیکھا جا سکتا ہے نہ چھوا جا سکتا ہے۔ پھر کیونکر بتایا جا سکتا ہے کہ وہ کیساہے۔ خیال جہاں تک دوڑاؤں تو کسی نہ کسی چیز کے مشابہ ہوجاتا ہے، حالانکہ وہ کسی چیز کے مشابہ نہیں ہوسکتا ۔ لوگ کہتے ہیں کہ آنچہ درو ھمت نیاید آن خداست پھر کیونکر میںاس کو خیال میںلاؤں او ر کیونکر بتاؤں کہ وہ کیسا ہے۔ اگر میںاپنی پوری قوت کو کام میںلاؤں تو یہ کہہ سکتی ہوں کہ جو کچھ خیال تم کو وجود، مادہ مکان ، تحیز ، تشکل حرکت، سکون ، علم ، خلق ، قدرت ، حیات ، رحم ، کرم، قہر کا ہے سب کو اپنے دل سے محو کرو ، پھر جس کو کہو کہ ہے وہی اللہ ہے۔ العجب ثم العجب ! جو ذریعے ہمارے جاننے کے ہیں ، جب ہم نے انہی کو محو کر دیا توکیونکر جان سکتے ہیںکہ ہے، مگر ایسا کہنا غلطی ہے، کیونکہ اس امر کا جاننا کہ کوئی ہے دوسری چیز ہے اور یہ جاننا کہ کیونکر ہے اور کیسا ہے دوسری چیز ہے۔ پچھلی بات کے نہ جاننے سے پہلی بات کا نہ ہونا لازم نہیں آتا ، کیونکہ پہلی بات اس کے آثاروں سے یقین کی جاتی ہے اور پچھلی بات ان آثاروں کے موثر کی حقیقت او ر ماہیت جاننے سے علاقہ رکھتی ہے ۔ اگرہم اس کو نہ جانیں تو یہ لازم نہیں آتا کہ اس کو بھی نہ جانیں۔ اسلام کا مسئلہ صرف اسی قدر ہے کہ ہم اس واجب الوجود کے وجود پر یقین کریں اور اس کے وجود کی حقیقت اور اس کی صفات کی کیفیت جاننے پر اسلام نے ہم کو مکلف نہیںکیا ، گ و وہ صفتیں اس کے ساتھ منسوب کی جاتی ہیں اور ان کا منسوب کیا جانا ایسا ہی لازمی اور ضروری ہے جیسے کہ اس کا ہونا، مگر ان صفات کی کیفیت اور حقیقت کا جاننا انسان کی قدرت اور اسکی عقل کی وسعت سے جو ا س میںہے بالا تر ہے۔ تمام صفات جو ہم اس ذات کے ساتھ منسوب کرتے ہیں اگر اسی کیفیت سے منسوب کرتے ہیںجس کیفیت سے ہم نے انکو جانا ہے تو یہ تو محض کفر ہے۔ کسی شیئی کے خارج میںموجود ہونے کا بغیر اس کے کہ ہم اس کو متحیز اور کسی صورت اور ہیئت میں مشکل نہ تصور کریں، ہم کو خیال ہی نہیں ہو سکتا۔ پس اگر اس ذات واجب الوجود کو بھی ایسا ہی سمجھیں تو بالفرض اگر کافر نہ ہوں تو احمق تو ضرور بنیں۔ اصحاب ظواہر جو اس ذات کے ہاتھ اور پاؤں او رمنہ ہونے اور پالتی مارے یاپاؤں لٹکائے تخت پر بیٹھا ہوا مانتے ہیں وہ بھی تو اس کے ایسے ہاتھ پاؤں اور منہ اور بیٹھنے کو نہیںبتاتے جس طرح کے ہاتھ پاؤں او رمنہ اور بیٹھنے کو وہ جانتے ہیں۔ پس دونوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کے وجود کی یا اس کے موجود ہونے کی حقیقت و ماہیت کو نہیں جانتے اور اس کا جاننا ہماری عقل ، قیاس خیال وھم و گمان سے بالا ترہے۔ وحدت اس کی صفت ہے، مگر ہم اس کی حقیقت کو جانتے ہی نہیں، بجز اس کے الواحد نصف الا ثنین ۔ ہم نے نصف الا ثین تو بہت چیزیں دیکھی ہیں۔ مگر آج تک ہم نے محض واحد کوئی چیز دیکھی ہی نہیں، تمام چیزیں جن کو ہم جانتے ہیں مادی ہیں اور و ہ واحد نہیں، عناصر جو آج کل ستر بہتر مانے جاتے ہیں، وہ بھی مادی ہیں، گو کہ ہم نے ابھی تک یہ نہیں جانا یا ہم کو اب تک یقین نہیں آیا کہ اس کے جزوں کو الگ بنا سکیں یا کر سکیں۔ خیا ل جس کو ہم مادی نہیں کہہ سکتے وہ بھی مادی چیزوں سے ماخوذ ہوتا ہے اور خود اپنی ہی قسم کی غیر مادی چیزوں سے مل کر بن جاتا ہے۔ پس اس ذات کی وحدت کی کیفیت کو باوجودیکہ اس کو واحد کہتے ہیں نہیں جانتے ۔ اس کا واحد کہنا صرف اس سبب سے لازم آتا ہے کہ اس کو واجب الوجود مانا ہے ، نہ اس سبب سے کہ اس کی وحدت کی ماہیت کو ہم نے جانا ہے۔ جبکہ ہم اس ذات کی وحدت کی ماہیت کو نہیں جانتے تو فلاسفروں او رہمارے علماء متکلمین کا جن میں امام غزالی بھی شامل ہیں یہ کیسا غلط مسئلہ ہے کہ الواحد یصدر عنہ الا الواحد جس چیز کو انہوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور اسکی حقیقت اور ماہیت کو جانتے ہی نہیں اس پر کوئی اصول قائم کرنا اور مجھول شیئی پر کلیہ بنانا اگر سفسطہ نہیں ہو کیا ہے ؟ اگر ہم ان کی بات مان بھی لیں تو بھی کچھ فائدہ نہیں، کیونکہ واحد سے اگر کوئی چیزوںکا ہونا محال ہے تو ویسا ہی ایک کا ہونا بھی محال ہے کیونکہ وہ واحد نہ اس کا عین ہو سکتا ہے نہ اس کا جزو ، پھر کیونکر ہو سکتا ہے اور کیا ہو سکتا ہے ۔ حیات ممات کو بجز اس کے ہم اور کچھ نہیں جانتے کہ ایک جسم ناھق ہو یا ناطق یا اور کچھ ہلتا جلتا ، چلتا پھرتا ہو ۔ سانس اس میں آتی جاتی ہو، روٹی کا پھو یا جب اس کی ناک کے سامنے ہو تو وہ ہلتا ہو۔آنکھ میںسامنے کی چیز کی مورت بن جاوے اس کو تو ہم حیات جانتے ہیں اور جب یہ نہ ہوں تو ا سکو ممات سمجھتے ہیں۔ پھر کیا وہ ذات بھی اسی طرح حی لا یموت ہے۔ حاشاء وکلا ۔ پاس اس کو ہم حی لا یموت کہتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اس کی حیات کیسی ہے ۔ اور ممات کا نہ ہونا کیسا ہے ، نہ یہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کھا کر زندہ رہتا ہے اور بن کھائے کیونکر جیتا ہے۔ علم جس کے جاننے سے ہم عالم کہلاتے ہیں اس کی کیا کیفیت ہے ؟ موجودات خارجی و ذہنی کا جاننا ہے جس سے لازم آتا ہے کہ معلوم ہمارے علم سے مقدم ہو۔ پھر کیا اس ذات پر جو سب سے مقدم ہے کوئی چیز مقدم ہوسکتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو کیفیت علم کی ہم جانتے ہیں اس میں ویسی نہیں۔ پھر جب اس کے علم کی کیفیت معلوم نہیں تو اس بات پر بحث کرنا کہ اس کا علم کس طرح کا ہے اور وہ صرف عالم کلیات ہے یا عالم جزئیات بھی ، اگر نادانی نہیں تو اور کیا ہے ؟ خلق بلا شبہ اس کی صفت ہے ، مگر اس کی ماہیت ہم کو معلوم نہیں، نہ ہم نے کسی چیز کو ایک بھنگے تک خلق کیا ہے نہ کسی کو خلق کرنے دیکھا ہے ، البتہ کمھار کو ہاتھی گھوڑے بناتے دیکھا ہے۔ پھر جو صفت خالی اس ذات میں ہے اس کی ماہیت کیونکر جان سکتے ہیں؟ ولھذا قال جدی علیہ السلام علی ؓ ابن ابی طالب ’’ اول الدین معرفتہ و کمال المعرفۃ التصدیق بہ وکمال التصدیق بہ تو حیدہ و کمال توحیدہ الاخلاص لہ وہ کمال الاخلاص لہ نفی الصفات عنہ ‘‘ یعنی حضرت علی مرتضی ٰ کا قول ہے کہ پہلی منزل دین کی اس ذات کا جاننا ہے کہ ہے اور پورے طور پر اس کا جاننا اس کے ساتھ محبت رکھنا ہے اور پورے طور سے محبت رکھنااس کو تمام صفتوں سے بر ی رکھنا ہے ۔ ہم نے ان صفات انسانی میں سے جن کو ہم جانتے تھے کچھ صفتیں اس ذات کی طرف منسوب کی ہیں اور جو کیفیتیں ان صفتوں کی ہم سمجھتے ہیں۔ اسی کا خیال اس ذات کی صفات کے ساتھ بھی کرتے ہیں جس سے طمع یاخوف منتنج ہوتا ہے۔ پس حضرت علی مرتضی نے نفی صفات کا لفظ فرمایا جس سے دو اشارے ہیں، اول یہ کہ جس طرح سے تم اس میں صفات کا خیال کرتے ہو اس طر ح کی صفات اس میں نہیں ہیں ۔ دوسرے یہ کہ طمع یا خوف کی سبب محبت کرنا اخلاص نہیںہے ، پورا اخلاس اسی وقت ہوتا ہے جبکہ صر ف ذات سے محبت ہو۔ فلزم لکمال الاخلاص نفی الصفات۔ شاہ ولی اللہ صاحب فوز الکبیر میں لکھتے ہیں کہ ’’حکمت الہی مقتضی آں شک کہ از صفت کاملہ بشرکہ آنرامی دانند و بوجود آں تمدح میان ایشاں جاری است چندے بر گزید و آں را بازائے معانی غامصہ کہ عقول بشر را بساحت جلال اور راہ نیست استعمال فرمود و نکتہ لیس کمثلہ شیئی تریاق دای عضال جہل مرکب ساخت‘‘ یہی حال باقی تمام صفات ثبوتی و سلبی کا ہے جو ہم اس ذات کی نسبت منسوب کرتے ہیں، مگر ان صفات میںسے دو صفتیں ایسی ہیں کہ گو ان کی ماہیت اور حقیقت ہم کو معلوم نہ ہو، مگر انکے نتائج ایسے ظہور میںآتے ہیں جن کو سب دیکھتے ہیںاور کوئی شخص اس سے انکار نہیںکر سکتا ، کیو نی وہ برابر مشاہدے میںآتے ہیں۔ منجملہ ان کے صفت ایک علۃ العلل ہونے کی ہے جس کے سبب سے تمام موجودات اس کے معلول اور موجود ہیں (کما ثبت فی محلہ) دوسری صفت کالق ہونے کی ہے جس کانتیجہ یعنی مخلوق کا وجود ہرشخص ہر روز دیکھتا ہے ،ان دونوں صفتوں کے سبب چند خیالات پیش آتے ہیں: اول یہ کہ جب اس ذات ازلی و ابدی کو علۃ العلل مانا ہے تو لازم آتا ہے کہ اس کا معلول بھی ازلی و ابدی ہو۔ دوسرے یہ کہ علوم جدیدہ سے مادے کا وجود سب سے اول ثابت ہوا ہے۔ پس اگر وہ اس ذات ازلی و ابدی کا معلول ہے تو مادہ بھی ازلی و ابدی ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ ذات تو واحد محض ہے اور اجزائے مادہ میںایسی مختلف کیفیت کاہوناضرور ہے جس سے وہ ایسی مناسبت سے آپس میںملیں جس سے انواع مخلوقات وجود میں آویں تو ذات واحد محض سے یہ تنوع کیونکر پیدا ہو سکتا ہے ۔ یہ تمام شبہات عدم تدبر سے پیدا ہو تے ہیں۔ جہاں تک کہ انسان خیال کر سکتا ہے اور علت کی صفت سمجھ سکتا ہے یہ کہہ سکتا ہے کہ کسی علت کا معلول اگروہ بلا واسطہ اس علت کا معلول ہے تو بلا شبہ وہ معلول علت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگرعلت ازلی ہے تو معلول بھی ازلی ہے اورعلت گو صرف تقدم ذاتی ہے۔ مگر اس کا ابدی ہونا ضرور نہیں، کیونکہ معلول کی حال تبدیل ہو کر وہ دوسرے کی علت ہو جاتی ہے اور جب تغیر حالت معلول میںہوا تو اس کا ابدی ہونا لازم نہیں آتا ۔ مادے کو سب سے اول ،یعنی علت کا معلول او ل بلا واسطہ قرار دینا صحیح نہیں۔ اس لیے کہ ہم اس طرف سے مادیات کے سلسلے کو دریافت کرتے کرتے اوپر کی طرف چلے ہیں اور اخیر کو ، یعنی سب کے مادے کا وجود قرار دیا ہے اور یہ ہم کو مطلق معلوم نہیں ہے کہ اس سے اوپر اور کیا معلولات تھے یا ہیںجن کی تغیر حالت مادے کے لیے علت ہوئی ہے ۔ حکماء یونانی اور علماء متکلمین اسلام کا یہ کہنا کہ خدا نے سب سے اول عقل اول کو پیدا کیا ، پھر عقل اول نے عقل ثانی کو ، پھر عقل ثانی نے عقل ثالث اور فلک اول کو اور علی ٰ ھذا القیاس عقول عشرہ اور نو فلک پیدا ہوئے اورافلاک کی حرکات سے تمام عالم ہوا، محض ڈھکو سلا ہے جس کا ثبوت کسی طرح نہیں ہے ، نہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ جب ثابت ہوگیا کہ جس طرح یونانی افلاک کو مانتے تھے اوران کا جسم یا جرم نا قابل خرق والقیام قرار دیتے تھے اور ہر ایک فلک کے لیے نفس روح قرار دیتے تھے اور انکو متحرک بالا رادہ سمجھتے تھے، محض غلط ہے اور افلاک کوئی مجسم چیز اور محیط عالم نہیں ہے اور نہ فلک الافلاک محدد جہات کوئی چیز ہے تو مذکورہ بالا بیان کیسا سخیف مہمل و لغو ظاہرہوتا ہے۔ بالفرض اگرمادے کو معلول اول علۃ العلل کا قرار دیں اور اس کو بھی ازلی سمجھیں اور اس کی علت کو صرف تقدم ذاتی قرار دیںتو بھی اس کا ابدی ہونا لازم نہیںآتا اورجبکہ یہ مسئلہ کہ الواحد لا یصدرعنہ الا الواحد غلط قرار پایا ہے، جیسے کہ ہم نے اوپر بیان کیا تو مختلف خاصیتیں جو اجزاء مادہ میںہیںجن کے سبب ایک مناسبت سے آپس میںمل کر انواع مختلف پیدا ہوتی ہیںتو اس مادے کو مع ان خاصیتوں کے اس نے پیدا کیاہے جس کو اس کی علت قرار دیا ہے ۔ پس صاف مسئلہ جہاں تک عقل انسانی اس کو قرار دے سکتی ہے ، یہی ہے کہ خدائے واحد واجب الوجود ہے۔تمام صفتیں اس کی عین ذات ہیں۔ عقل انسان اس کی ذات کی اور ان صفات کی حقیقت اورماہیت سمجھنے سے عاجز ہے۔ وہ علۃ العلل ہے اور اسنے تمام موجودات کو پیدا کیا ہے لکنہ لا نعلم کیف خلق لا نہ ماھیۃ صفت خلقہ تعالیٰ فوق فھم الانسان ولھذا الم یکلف اللہ احدا یفھمہ واکتفی با ذعان انہ موجود واحد احد صمد واجب وجودہ وانہ ہو خالق کل شیئی۔ و قف الشارع علیہ ولم یر خص فی تفتیش کھنہ لا نہ ہو وراء عقل الانسان۔ ہم دنیا کو دیکھتے او ر قبول کرتے ہیں کہ ایک ہی مادہ سے پیدا ہوئی ہے جیسا کہ علماء علوم جدیدہ کہتے ہیں۔ لیکن اس میںبرابر تغیرات پاتے ہیں اور یہی تغیرات ہر عالم و جاہل کو اس بات کا یقین کرنے پر کہ وہ حادث ہے کافی ہیں …………… بھولا بھالا دین دار اور پکا فلاسفر (تہذیب الاخلاق یکم محرم الحرام ۱۳۱۲ ھ جلد اول نمبر ۴ (دور سوم) صفحہ ۵۷ تا ۶۱) یہ مقابلہ جان فسک کے ایک مضمون سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ سر سید نے مدرسۃ العلوم کے نہایت لائق طالب علم، اپنے قابل شاگرد اور شمس العلماء خان بہادر مولانا ذکا ء اللہ کے فرزند مولوی عنایت اللہ سے کرایا تھا جو اس ذمانے میںعلی گڑھی کالج میںتعلیم پاتے تھے ۔ مولوی صاحب مرحوم ترجمے کی نہایت غیر معمولی قابلیت رکھتے تھے۔ پچاس سے زیادہ تراجم ان کی بے نظیر لیاقت کا زندہ ثبوت ہیں۔ بعد کے زمانے میں مولوی صاحب مرحوم دارالترجمہ عثمانیہ یونیورسٹی کے ناظم ہوگئے تھے۔ جہاں نہایت قابلیت کے ساتھ انہوں نے اپنے فرائض انجا م دئے ۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) دونوں آپس میں بہت دوست تھے۔ اگرچہ خدا کی نسبت ایک کے خیالات بہت ادنیٰ اور دوسرے کے بہت اعلیٰ تھے، مگر دونوں کا نتیجہ ایک تھا ، صرف سمجھ کا فرق تھا۔ دوستی بھی دونوں میںیکساںتھی ، اس میںکچھ گھٹ بڑھ نہ تھی۔ دونوں باغ میںٹہل رہے تھے ، دیندار نے فلاسفر سے کہا کہ بہت دنوں سے میںنے تم کو عبادت کرتے نہیں دیکھا ، تم کو خدا کا بھی یقین رہا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب ہاںیا ناں تو بہت آسان تھا ، مگر فلاسفر نے جو الہیات کے مسائل کو بخوبی سمجھ چکا تھا۔ اپنے دل میںکہا کہ کون شخص ایسی جرات کا ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ خدا جس کی عظمت اورجلال کی کچھ انتہا نہیں ہے اس کے خیال میںسما گیا ہے اور کونسا ایسا مخلوق ہے جو انسان کی طرح سوچ سمجھ رکھتا ہے اور اس نے خدا کے یقین کو جسے خود انسان کا نیچر اور اسکی عقل مانتی ہے دل سے ہٹا دیا ہو۔ ایک اور مشکل یہ تھی کہ دیندار نے ممکنات کے قیاسات سے اس واجب الوجود کو جانا تھا جیسا کہ اہل مذاہب کا طریقہ سے اس واجب الوجود کو جا ناتھا کہ اہل مذاہب کا طریقہ ہے اور فلاسفر نے تنزہات سے اور اس لیے دونوں کا خیال مختلف تھا۔ فلاسفر نہایت حیران ہوا کہ میں اس بھولے بھالے دین دار دوست کو کیا جواب دون اور اس نادان، مگر نیک دوست کوکیونکر سمجھا ؤں ۔ آخر اس نے جواب دیا کہ:۔ ’’ جب تک یہ کھوکھلا بے صدا گنبد آسمان ہمارے سروں پر ہے ور جب یہ ٹھوس زمین ہمارے پیروں کے نیچے ہے، جب تک یہ قدیماجرام فلکی اپنے وسیع دائروں میںپھر رہے ہیں ، جب تک کہ ایک دوست دوسرے دوست کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے اس وقت تک ہمرا اورتمہارا دل اس ذات پاک پر یقین کرتا رہے گا جو سب کو سنبھالتا اور سب کو اپنے میںشامل کرتا ہے۔ ھوالاول ، ھوالاخر ، ھو الظاہر ، ھوالباطن وھو علیٰ کل شیئی محیط ۔ اس عالم کے قائم رکھنے والے کا جو نام چاہو رکھو جس طرح چاہو اسے بیان کرو ، لیکن جو اس کی حقیقت ہے وہی ہے ، جو ہے اس کو جنبش نہیں، یہ وہ حقیقت ہے جو ہماری تمہاری سمجھ سے بالا تر ہے، لیکن جس کا ہونا اور حقیقی ہونا تمام حقیقتوں سے زیادہ روشن ہے۔ اس کا نام رکھنا یا اسکو بیان کرنا یا مذہب کے کسی مقولے سے اس کو بتانا اس کی شان اورعظمت پر ایسا ہی پردہ ڈالتا ہے جیسے کثیف بخارات روز روشن کو دھندلا کر دیتے ہیں۔ یہ باتیںجو فلاسفر کی زبان پر آئیں دین دار کے کانوں کو بھلی معلوم ہوئیں ، لیکن پھر بھی دل بے چین اورغیر مطمئن رہا ۔ یہ سن کر کہ خدا کا خیال ایسا عظیم ہے کہ ذہن میںسما نہیں سکتا ، دل سرد ہوگیا ۔ اس نے چاہا کہ کوئی ایسی ظاہری علامت مل جاوے جو آسانی سے سمجھ میںآوے ۔ پھر اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے دوست فلاسفر سے کہا کہ کہیں دھریت نے تو یہ سبق تم کو نہیں پڑھایا۔ فلاسفر کو دین دار کے اس کہنے پر تعجب نہیںہو ا۔ کیونکہ وہ جانتاتھا کہ زیادہ تر لوگ ایسے ہی ہیںجو نہ تنزہات سے خدا کا خیال کر سکتے ہیں نہ دل کو طمانیت دے سکتے ہیں ، بلکہ ممکنات مادی کے قیاسات سے دل کو مطمئن کرتے ہیں۔ خدانے بھی اسی طرح ان کی تسلی کی ہے جبکہ اپنے تئیںرحیم قہار، رزاق ، قادر ، خالق سے تعبیر کیا ہے ، یہ صفات وہی ہیںجو ممکنات مادی کے قیاست سے جا نی گئی ہیں اورجن سے خد ا جاناجاتا ہے ۔ ایسا ہونا ایک طرح پر ضروری بھی ہے، کیونکہ ا س قسم کے لوگوں کے سامنے خدا کے کاموں کو داستان کی صورت میں بیان کرنا جس میں خدا کی تصویر ایسی دکھائی دے جو انسا نی خواہشوں اور انسانی جذبوں کے قیاس پر ہو صرف ایسابیان ہی نہیںہے جو سمجھ میںآتا ہو، بلکہ موثر بھی ہوتا ہے۔ دلوں میں جذباتی کیفیتیں پیدا کرتا ہے۔ جو کچھ کہتا ہے دل سے مخاطب ہوکر کہتا ہے۔ گنہگار کو آئندہ کے عذاب سے خوف دلاتا ہے ۔ اپنی ہمدردی اور دلسوزی سے زخمی دلوںکو تشفی دیتا ہے۔ خدا کا خیال کتنا ہی قصہ اور داستان کی صورت میںبیان کیا جاوے، خواہ وہ بیان جس پر وہ مشتمل ہیں کتنے ہی غلط ہوں، لیکن اس کا خود خیال ہمیشہ اصلی اور واقعی ہے ۔ جس طریق پر مذہبی فرقہ خدا کے خیال کو بتاتا ہے اس کی بڑی تعریف یہی ہے کہ وہ ایسی ممکنات مادی کے قیاسات پر بتا تا ہے کہ عام فہم ہوجاتا ہے، لیکن اگر خدا اور اس کے کاموں کی حقیقت کو جہاں تک ممکن ہو ممکنات مادی کے قیاسات سے منزہ رکھا جاوے اور تمام مسلسل انقلابات جو عالم معلوم میںہوتے آئے ہیں اور ہوتے آویںگے ، تنزہات کے پیرائے میںبیان کئے جاویں تو یہ بیان معمولی فہم رکھنے والوںکی سمجھ میںصاف طور پر نہیں آتا اور ایسے بیان سے کوئی کیفیت ان کے دل میںپیدا نہیںہوتی ، اس لیے کہ ان کی سمجھ میںنہیں آتا، گو کہ یہ بیا ن صحت میںکتنا ہی اس حقیقت اصلی کے قریب پہنچ جاوے ، جو عقل انسانی اس وقت ا سکے سمجھنے کی قابلیت رکھتی ہے، خواہ اس کے واقعات حقائق نیچر پرکتنے ہی مبنی ہوں، لیکن پھر بھی پھیکے اور سیٹھے معلوم ہوںگے ۔ جاہل سے جاہل گنوار سے اگر یہ کہا جاوے کہ شہد میٹھا ہوتا ہے تو وہ ضرور ہمارا مطلب سمجھ جا وے گا، لیکن جب اس سے یہ کہو کہ دائرے میں قطر ور محیط کی نسبت تین اور ساتویں حصے کی ہے تو وہ ضرور بول اٹھے گا کہ یہ کیا بیہودہ بکواس ہے۔ لیکن اگروہی گنوار اس حساب کو جانتا ہوتا تو سمجھتا کہ روز مرہ کاموں میں اس حساب کو جانتا ہوتا تو سمجھتا کہ روز مرہ کاموں میںاس حساب سے اس کو زیادہ کام پڑتا ہے یااس بات کے جاننے سے کہ شہد میٹھا ہوتا ہے ۔ جھاڑی کے جلنے اورآگ میں سے خدا کی آواز آنے کے عبرانی قصے کو ایک معمولی بہ بھی پڑھ کر سمجھ سکتا ہے کہ اس کو سن کر تعجب کرے ، لیکن یہ پختہ او رزبردست دماغ رکھنے والوں کا کام ہے کہ ایسے مشکل مسائل کو سمجھ لیں جن کو ابن عربی اور ان کے ہم خیال مشہور فلاسفر اسیبی نوزانے جبکہ وہ وحدت وجود اور وحدت شہود کے مشکل مسائل پر غور کر رہے تھے ، نہایت عمیق فکر اور دماغی کشمکش سے سمجھا تھا۔ مگر کلمہ لیس کمثلہ شیئی ہم کو بتاتا ہے کہ ہم کو اس درجے سے آگے بڑھتا ہے اور ممکنات مادی کے قیاسات سے نہیں، بلکہ تنزہات کے اعلیٰ وسیلے سے ہم کو جانتا ہے۔ یہ کامہر ایک کا نہیں ہے، بلکہ یہ ان زبردست علی دماغ لوگوں کا ہے جنہوں نے اس عالم کی پوشیدہ حقیقت کو روشن اور اس کے معنوں کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ وہ مشکل ہے جس نے ہزاروں کے منہ پھیر دئے ہیں اور کچھ شک نہیںکہ جو اس کے پار اترے وہ بہت ہی کم ہیں۔ بہت سوں کایہ حال ہے کہ انہوںنے خدا کے لیے چند مقررہ صورتیں قرار دے لی ہیں اور اب ان کا یہ کام رہ گیا ہے کہ جو عالی خیالات ان کے تنگ مذہب کی حدود میں سما نہ سکیں ان کو دھریت یا الحاد و زندقہ کی طرف منسوب کرکے تودہ ملامت بنائیں ۔ یہی دقت محی الدین ابن عربی پر پڑی جن کی نسبت قیل صدیق زندیق کا قول مشہور ہے۔ یہی مصیبت امام غزالی پر نازل ہوئی جس کے سبب ان کو کتاب ’’ التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ‘‘ لکھنی پڑی۔ یہی مصیبت حضرت مجدد الف ثانی احمد سر ہندی پر آئی جس کے سب کٹ ملاؤں نے ان کو گوالیار کے قلعے میںقید میں ڈلوایا ۔ اسی سبب سے وہ شخص تودہ ملامت ہوا۔ جس نے کہا کہ ورڈ آف گاڈ اور ورک آف گاڈ میںتخالف نہیں ہے۔ ذات باری کا اصلی خیال متعدد رسوم اور مذہبی مقولات سے جو مدت سے اضافہ ہوتے چلے ہیںبالکل ڈھک گیا ہے اور رسوم اور مقولات کسی زمانے میں اپنے معنی رکھتے تھے۔ انہیں حسن طینت پیدا کرنے کے لیے کہیں جوش اوبھارنے اور کہیں خوف دلانے اور کہیں کسی امر کے منع کرنے کے لیے۔ اور ان میں سے اکثر اب تک یہی معنی رکھتے ہیں، لیکن خواہ معنی رکھتے ہوں یا مہمل ہوں انسان کو انکے ساتھ ایسی ہی دل بستگی رہی ہے جیسے طوفان زدہ جہاز کے ملاح بہتے ہوئے بادبانوں اورٹوٹے ڈگمگانے تختوں سے چمٹ جاتے ہیں اور موت سے جو اس وقت سر پر کھڑی ہے اسی میں سلامتی دیکھتے ہیں کہ بادبانوں اور تختوں سے چمٹے رہیں۔ ان مذہبی مسائل اور رسوم پروہ وہ مباحثے اور لڑائیاں رہی ہیںکہ آخر کار یہ چیزیں خود مذہب کا جزو اعظم ہوگئیں اور نئے نئے مسائل اور مذہبی جماعتوں کے فتوے خدا کے جانشین بن گئے ۔ ہر ایک زمانے میںیہ دیکھا گیا کہ جب کوئی علمی کلمہ یا تحقیقات دریافت ہوتی ہے خواہ وہ اصلی معنوں میں خدا کے یقین پر کتنے ہی ثابت قدم او ر اس خیال کے ممد ہو، لیکن اگر اس نے ان ممکنات مادی کے قیاسات میں جو کسی مذہب میں خدا کے نسبت قرار دے لیے ہیں ، کسی طرح کا مغالطہ ثابت کیا ہے تو ضرور اس پر الزام لگایا گیاہے کہ وہ مذہب کے مخالف اور اس کی مٹا نے والی ہے اور اس کے تسلیم کرنے والوں پر لعنت بھیجی گئی ہے اور طرح بطرح کے ظلم ان پر کئے گئے ہیں، کما نشاھد فی ھذا الزمان۔ یہی اسباب ہیںجنکی وجہ سے ایسی تمام کوششوں سے باز ہی نہیں رکھا جاتا، بلکہ ان پر ملامت کی جاتی ہے جو خدا کو اس طرح پر سمجھنے کے لیے کی جاتی ہیں کہ موجودات عالم میں جس طرح وہ اپنے کاموں سے ظاہر ہوتا ہو سمجھا جاوے اور اس طرح سمجھنے کے بعد اسی نوع پر ا سکی صفات بیان کی جاویں۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسے خیال کی جگہ جو آسانی سے سمجھ میں آتا ہو وہ باتیں بتائی جاتی ہیں جو مشکل سے ذہن میں آتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی خدا کے خیال کو اس قدر کم اور ہلکا کیاجاتا ہے کہ وہ کم ہوتے ہوتے فقط ایک خالی خیال رہ جائے گا۔ خدا کو اس طرح سمجھنے اور پہچاننے کی نسبت ایک اور وجہ بھی خوف کی سمجھی جاتی ہے۔ خدا کے کاموں کو لوگ اسی صورت میں تسلیم کرتے ہیں جس صورت سے کہ ان کے باپ دادا ان کو مانتے تھے، لیکن فی الحقیقت جو حالات خدا کے کاموں کی نسبت اس وقت مانے جا تے تھے وہ ان فرضی واقعات نیچر کے مطابق تھے جن کو اب علم غلط بتاتا جا تاہے (تعجب یہ ہے کہ قرآن نے بھی کبھی ان کو مثل اصلی واقعات نیچر کے تسلیم نہیں کیا تھا )فزیکل سائنس (علوم طبیعات) میں جو قدم آگے بڑھاتے ہیں جب اس قدم کو جما کر عالم پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی صورت کچھ اور ہی نظر آتی ہے ۔ ہر قدم پر نیا نظارہ ہے۔ جہاں آگے بڑھنے کو قدم اٹھا یا وہیں چیزوں کی جگہ او رصورت دوسرے پہلو سے نظر آئی دنیا اور خدا کی نسبت جن خیالات سے ہم نے ابتداء کی تھی وہ اب کافی اور اطمینان بخش نہیں معلوم ہوتے ۔ جو علم اب ہمارے قبضے میں ہے ا س وہ خیالات مطابق نہیں ہو تے (مگر تعجب یہ ہے کہ قرآن سے مطابق ہوسکتے ہیں) اس لیے وہ آدمی جن کا پرانے خیالات سے ناتا بندھا ہے غل مچا نے اور دھائی دینے کو سب سے پہلے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ آستین پکڑ کر ہم کو پیچھے گھسیٹ لیں اور آگے قدم نہ رکھتے دیں ، وہ چلاتے ہیںکہ دیکھو سائنس سے ہوشیار رہنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی چمکدار تحقیقات اور نڈر خیالات سے ہماریک دلوں کے اطمینان اور ایمان کو چھین لے اور ہم کو ایسی دنیا میںچھوڑ دے جو خدا پرست نہ ہو۔ یہ شور و شغب ہمیشہ ایسے لوگوں میںہوا ہے جو ڈرپو ک دل اور مذبزب طبیعتیں ( یا کہ مذبذب ایمان) رکھتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ جو کچھ خوف اور ڈر ان کے دل میںبیٹھا ہوتا ہے اس کو پکا کرنے والے بھی ) موجود ہوتے ہیں۔ جہاں ایسے لوگ موجود ہیں جن کو ہمیشہ اس وقت کا دھڑکا لگا ہوا ہے جبکہ سائنس دنیا سے خدا کو معزول کر دے گا وہاں وہ لوگ بھی ہیں جو اس وقت کا شوق سے انتظار کرتے ہیں اور اس انتظار میں ایسے مضطر ہیں کہ چونک چونک کر چلاتے ہیں کہ دیکھو وہ وقت آگیا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنکو انکار میںہمیشہ لذت آتی ہے، جو اپنے دل میںکہتے ہیں کہ کوئی خدا نہیںہے اور اس بات پر اپنے تئیں مبارک باد دیتے ہیں کہ ہم جانوروں کی طرح مریںگے ۔ فلسفے کی مقدس بارگاہ میں جہاں فرشتے تک قدم رکھتے ڈرتے ہیں، یہ منکر گھس جاتے ہیں اور علم اور سائنس کی ہر ایک جدید تحقیق کو جو موجودات علم کے متعلق ہمار ے علم کو کسی طرح تبدیل کرتی ہے۔ دیکھ کر نکل آتے ہیں اور دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتے ہیںکہ لو مبارک ہو دھریت کا علم بلند ہوتا ہے ۔ آج وہ فتح ہوئی ہے کہ جس سے وہ خوش وقت نصیب ہوگا جبکہ خدا کا انکار کل مخلوق کا مذہب ہوگا۔ اس قسم کے جھوٹے اور ناقص فلسفی ہیں جن کے خیالات سن کر وہ عالم جو مختلف علوم کی تحصیل اور تحقیق میںبیٹھے اپنی جانیں کھپا رہے ہیں کانپ اٹھتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ’’ یا الہی ہم کو ہمار ے دوستوں سے بچائیو۔‘‘ اسی طرح ہر زمانے اور عہد میں جو تحقیقات انسان نے علم میںکیں یا خدا اور روح کی نسبت خیالات ظاہر کئے ان کے ساتھ یہی برتاؤ ہوتا آیا ہے ۔ حکیم گلیلیو اور نیوٹن کے زمانے میںبھی یہی حال تھا اور اب ڈارون اور اسپنسر کے وقت میںبھی یہی دیکھا جاتا ہے۔ علماء دینیات کہتے ہیں کہ اگر سیارے کشش ثقل اور دوری حرکت کے مخالف زور سے اپنی اپنی جگہ پر قائم ہیں اوراگر جاندار اپنی موجودہ صورت میں دوسری جاندار کی صورت سے قواعد نیچرل سیکشن کے مطابق آیا ہے تو دنیا صرف اندھی قوتوں سے چل رہی ہے۔ خداکے کرنے کے لیے کیا کام باقی رہا۔ پس کس قدر خوفناک اور ناپاک خیال یہ ہے جب یہ آواز دھرے سنتے ہیں تو کہتے ہیں بے شک ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کا کارخانہ بغیر خدا کے ہمیشہ سے جاری ہے۔ اس لیے کوئی خدا نہیں ہے اور دیکھو کس قدر شریف اور دل کو خو ش کرنے والا یہ خیا ل ہے ۔ غرض اس طرح ہر زمانے اورعہد میںیہ لوگ روشنی کی طر ف سے منہ پھیرے اس قسم کی کج بحثیاں کرتے چلے آئے ہیں، لیکن دنیا اس کی پروا نہیں کرتی کہ یہ اندھے صلاح کار کیا بکتے ہیں، بلکہ اپنے اصلی ایمان پر قائم رہتی ہے اور علم کی فضا میں برابر بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ زمانے کی پر شور کار گاہ میں بعید ا ز شمار واقعات کا تانتا تنا ہوا ہے اور جو بانا علم اس میں ڈالتا ہے وہ خدا کے لباس کے جلوے کو زیادہ نمایاں کرتا ہے۔ ہم کو تو ان مسلمانوں پر بڑا تعجب آتا ہے جو اپنے تئیں مسلمان کہتے ہیں، مگراسلام اور قرآن پر ایسا بودا یقین رکھتے ہیںکہ فلسفے اور نیچرل سائنس کے محققہ مسائل سے ڈرتے ہیںکہ کہیں اسلام نہ جاتا رہے اور قرآن الٹ نہ جاوے ، مگر ہمارا تو ان کے بر خلاف یہ یقین ہے کہ جس قدر نیچرل سائنس اور فلسفے کو ترقی ہوتی جاوے گی اس قدر خد اکے وجود اور اس کی عظمت اور قرآن مجید کی صداقت پر زیادہ یقیں ہوتا جاوے گا، بشرطیکہ جو چیز انھوں نے اندھیر میں ٹٹولی تھی اب اس کو اجالے میںلا کر دیکھیں۔ ھذہ ترجمہ راء الفیلسوف جان فسک مع تذئیل و تحسین ترتیب لیستفیذبھا اخواننا المسلمون حفظھم اللہ من شر الظنون وانا اشکر عزیزی عنایت اللہ علیٰ ترجمہ من الا نگریزی فی لسان القوم۔ ………… طبیعیون یانیچروں یا فطرتیوں (تہذیب الاخلاق جلداول نمبر ۵ (دور سوم) یکم صفر ۱۳۱۲ ھ صفحہ ۷۳۔۷۵) یہ تینوں لفظ ہم معنی ہیں۔ پہلے لفظ کو حکماء فلاسفر عربی دان نے استعمال کیا ہے ، دوسرے لفظ کوعلماء انگریزی دان نے اور تیسرے لفظ کو قرآن مجید میں خدا ئے عز و جل جل جلالہ نے۔ جس امر کے تحقیق کرنے یا دریافت کرنے پر یہ لوگ مستعد ہوئے ہیں وہ علم طبیعیات یا نیچرل سائنس کے نام سے پکارا جاتا ہے اور اس علم کے عالموں یا محققوں کا مقصد موجودات عالم کی محسوسات کا دریافت کرنا ہے ، نہ ان کے موجود ہونے کی علت کا۔ مثلا پانی ، اس کی نسبت وہیہ کہیں گے دو گیسیں آکسیجن اور ہائڈروجن ایک معین مقدار سے آپس میں ملیں اور ان سے پانی بن گیا ۔ اب ان کو اس سے بحث نہیںکہ وہ دونوں گیسیں کیونکر پیدا ہوئیں یا کس نے پیدا کیں اور وہ کیوں آپس میں ملیں اور ان کے ملنے سے کیوں پانی بن گیا ۔ پس نہایت بے وقوفی ہے جو یہ سمجھتے ہیںکہ نیچرل سائنس کے ماننے یا جاننے سے خدا معزول ہوتا ہے اور دھریت کی بادشاہت کا جھنڈا بلند ہوتا ہے۔ مگرہاں نیچرل سائنس کے عالموں کے تین فرقے ضرور ہو گئے ہیں، ایک وہ ہیں جن کا یہ قول ہے کہ جب دیکھتے ہیں کہ مادے ہی سے اور اسکی باہمی ترکیب سے دنیا موجود ہوئی ہے اور اسی اصول پر دنیا چلی جاتی ہے اور جو اصول نیچر کے ہیں ان میںکچھ تبدیلی نہیںہوتی اور سوائے اس کے اور کچھ محسوس نہیں ہوتا تو یہ ماننا کہ ایک خدا بھی ہے بے فائدہ ہے۔ پس وہ لوگ وجود خدا کے منکر ہوئے اور وہی لوگ ہیںجو دھریہ کہلاتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیںکہ ہم کو محسوس تو اسی قدر ہوتا ہے جس قدر کہ ہم نے نیچرل سائنس سے دریافت کیا ہے اور ا سکے سوا ہم کو نہ کچھ محسوس ہو اہے نہ ثابت ہوا ہے۔ لیکن ممکن ہے کہ خدا ہو بھی یا نہ ہو، ہم کو معلوم نہیں او ریہ وہ لوگ ہیں جو لا ادریہ کہلاتے ہیں اور پہلوں کے چھوٹے بھائی ہیں۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو نیچر کے اور قانون نیچر کے قائل ہیں،مگر یقین کرتے ہیں کہ ایک صانع یا خالق ہے جس نے نیچر او رقانون نیچر کو پیدا کیا ہے او رکہتے ہیںکہ خود نیچرل سائنس ایک صانع کے تسلیم کرنے پر مجبور ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو اگلے زمانے میںحکماء الہین اور اس زمانے میںنیچر بین یا ٹھیٹ مسلمان یاٹھیٹ اسلام کے پیرو کہے جا سکتے ہیں۔ مثلا نیچرل سائنس سے ثابت ہو اہے کہ ابتداء میں صرف مادہ اجزا ئے صغار دی مقراطیسی کی صورت میںجس کو انگریزی میں ایٹم کہتے ہیں او ر ہمارے دوست مولوی سید کرامت حسین نے سالمات ان کا نام رکھا ہے۔ فضائے محض میں تھا ، اسی سے عالم بنا، مگر یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ مادہ کہاں سے اور کیونکر آیا ۔ نیچر یین الہین کہتے ہیں کہ خدائے واحد ازلی و ابدی نے اس کو پیدا کیا اور اس کو وہ دلیل عقلی سے ثابت کرتے ہیں جو ان کی تصنیفات میں مذکور ہے۔ پھر نیچرل سائنس سے یہ بات ثابت نہیںہوئی کہ وہ مادہ ایک ہی سا تھا یا متعدد طرح کا ، مگر انھوں نے بغیر کسی ثبوت کے اس کا ایک سا ہونا تسلیم کر لیا ہے جس پر ہم کو کچھ بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ مگر نیچرل سائنس میںثابت ہواہے کہ وہ کل مادہ جو فضا میں موجود تھا متعدد مفردات کی صورت میں ہو گیا اور نہیں جانتے کہ ایسا ہو جانے کا سبب یا س کی علت کیا ہے ۔ نیچر یین الہین کہتے ہیں کہ اس کی علۃ وہ صانع ازلی و ابدی ہے۔ جس کو خدا کہتے ہیں۔ حکماء یونانیین نے خاک و باد و آب و آتش پر عناصر اربع کا اطلاق کیا تھا ، مگر یہ ان کی غلطی تھی ، وہ چاروں چیزیں مرکبات سے ہیں اور اس لیے عناصر نہیں قرار پائی جا سکتیں ۔ اس زمانے کے علماء نیچرل سائنس نے دنیا میں تریسٹھ چیزوں کو ایسا پایا ہے جو مفرد یا بسیط ہیں او ردنیا کی تمام چیزیں کیا حیوانات اور کیا جمادات اور کیا نباتات سب ان ہی تریسٹھ چیزوں کی ترکیب سے بتنی ہیں اور وہ فاسفورس ، کاربن ، آکسیجن، ہائڈروجن، نائٹروجن، چاندی، سونا ، لوہا گندھک وغیرہ ہیں۔ ان کومفرد یابسیط اس لیے کہتے ہیں کہ اب تک نیچرل سائنس سے یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ وہ چیزیں مرکب ہیں ، لیکن ممکن ہے کہ آئندہ ثابت ہو جائے یا کوئی اور مفرد چیز نکل آوے۔ یہ مفردات اس مادے کے اجزائے صغار سے بنی ہیں اور ان میں عجیب خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔ ہمارے دوست مولوی سید کرامت حسین نے عربی زبان میںایک کتاب لکھی ہے کہ عربی زبان کے لغت کس طرح پیدا ہوئے ہیں۔ اس کتاب کو ہم عنقریب چھاپیں گے ۔ اس کتاب کے مقدمات میں انھوں نے نیچرل سائنس کی بھی نہایت عمدہ باتیں لکھی ہیں اور اس میں مختصر طور مفردات کو بھی بیان کیا ہے جو نیچرل سائنس سے پائے گئے ہیں، مثلا: ۱۔ وہ اجزائے صغار ہمیشہ متحرک رہتے ہیں، ان کی حرکت طبعی ہے اور سکون عارضی ہے ۔ ۲۔ اگر ان مفردات میں سے ایک ایک ٹکڑا لیں جو جسامت میںہر ایک برابر ہو تو وہ وزن میںبرابر نہ ہوں گے اور اگر وز ن میں برابر لیں تو جسامت میںبرابر نہ ہوں گے۔ ۳۔اگر ہم ان مفردات کو جلاویں تو جو رنگ اس سے دکھائی دیں گے وہ ہر ایک مفرد کے مختلف ہوںگے ۔ ۴۔ مادے کے اجزائے صغار سے جو جسم بنتا ہے ۔ اس میں پورے پورے اجزائے صغار شامل ہوتے ہیں۔ کسر شامل نہیںہوتی۔ ۵۔ جس نسبت سے مفردات کے اجزائے صغار مل کر کوئی جسم مرکب بنا ہے وہ نسبت ہمیشہ قائم رہتی ہے، کبھی کم و بیش نہیں ہوتی۔ ۶۔ مفردات کے اجزائے صغار دوسری مفردات کے اجزاء صغار سے مختلف شکلوں میںملتے ہیں جو ہر ایک مفردات کے اجزاء صغار کے لیے مقرر ہیں اور دوسری طرح پر کبھی نہیںملتے۔ ۷۔مادے کے ہر ایک اجزائے صغار میںقوت جاذبہ ہے جو دوسرے اجزائے صغار کو جذب کرتی ہے، مگر یہ جذب پیدا نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اجزاء آپس میں ایسے ہی نہ مل جاویں جیسے کہ قدرتی طور پر ملے ہوئے تھے۔ ۸۔مادے کے ہر ایک اجزائے صغار میں ایک ثقل ہے اور اسی سبب سے چاند زمین کے گرد اور زمین سورج کے گرد پھرتی ہے۔ ۹۔ مفردات میں جو اجزائے صغار ہیں ان میں سے بعض مفردات کے اجزائے صغار کو دوسرے مفردات کے اجزائے صغار سے ملنے کی رغبت ہے، بعض کو کم رغبت ہے اور بعض کو نفرت ، اور جن کو جن سے نفرت ہے وہ کبھی ان میںنہیں ملتے ۔ غرضیکہ اجزائے مادہ میںیہ خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔ دھریہ کہتے ہیں کہ یہ سب خواص مادہ سے ہیں۔ لا ادریہ کہتے ہیں کہ ہم کو ان خواص کی علت معلوم نہیں ہوتی، ممکن ہے کہ خواص مادہ ہی سے ہو یا کوئی اور موثرہو جس کے سبب یہ خواص پیدا ہوئے ہوں ، نیچر یین الہین کہتے ہیں کہ ان میںخواص پیدا کرنے والا و ہ صا نع ازلی و ابدی ہے جس کو ہم خدا کہتے ہیں اور عقلا ء اس کے وجود کو ثابت کرتے ہیں۔ غرضیکہ خود نیچرل سائنس کے اصول مسلمہ سے خدا ئے واحد و صانع کا نہ ہونا ثابت ہی نہیں ہوتا ، بلکہ ایک موثر یا صانع کا ماننا لازم آتا ہے۔ لو گ بڑی غلطی اور دھوکے میںپڑے ہوئے ہیں جو نیچرل سائنس اور مذہب کو دو مقابل اور متضاد چیزیں قرار دیتے ہیں، حالانکہ مذہب و نیچرل سائنس کا موضوع بالکل مختلف اور ایک دوسرے سے علیحدہ ہے اور اس لیے وہ باہم مقابل اور باہم متضاد نہیں ہو سکتے ۔ نیچرل سائنس کا موضوع اشیاء موجودہ کی علت حدوث کو بتلاتا ہے کہ پانی کیونکر بن گیا اور بادل کیونکر آگیا اور مذہب کا موضوع ان اشیاء کی علت خلق کا بتاتا یا جاننا ہے کہ مادہ کس نے پیدا کیا اور اس میں وہ خواص کس نے پیدا کیے۔ پس دو چیزیں جن کا موضوع مختلف ہے۔ ان کو ایک دوسرے کے مقابل یا متضاد قرار دینا کیسی نادانی ہے، بلکہ جس امر سے مذہب کو بحث ہے اس سے نیچرل سائنس کو بحث ہی نہیں کیا نیچر کے ماننے سے خدا معطل ہو جاتا ہے ؟ (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۵ (دور سوم ) یکم صفر ۱۳۱۲ ھ صفحہ ۷۵، ۷۶) بہت نیک ، مگر کم غور کرنے والے بزرگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر دنیا ایک قانون قدرت پر چلتی ہے اور اس کے برخلاف نہیں ہوسکتا ، گو وہ قانون قدرت خود خدا ہی نے بتایا ہو، مر اس کے بنانے کے بعد خدا کے کرنے کے لیے کیا کام باقی ہے ۔ پھر ایسے خدا سے جو معزول یامعطل ہوگیا ہے ہم کو کیا عرض ہے اور وہ ہمارے کس کام کا ہے۔ نعوذ باللہ، ایسے خیالات تعمق نہ کرنے سے لوگوں کے دلوں میںپیدا ہو تے ہیں، وہ نہیں سمجھتے کہ نعوذ بااللہ اگر خدا قانون قدر ت بنا کر معطل ہو گیا ہو تو ا س قانون قدرت کا قائم رکھنے والا اور دنیا کو اس قانون کے مطابق چلانے والا کون ہوگا ؟ نعوذ بااللہ ، ایسے خیالات تعمق نہ کرنے سے لوگوں کے دلوں میںپیدا ہوتے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ نعوذبااللہ اگر خداقانون قدرت بنا کر معطل ہوگیا ہوتو اس قانون قدرت کا قائم رکھنے والا اور دنیا کو اس قانون کے مطابق چلانے والا کون ہو گا؟ وہ لوگ ہمیشہ ان خیالات اور قیاسات کو جو ممکنات سے اخذ کرتے ہیں ، ذات باری کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔وہ دیکھتے ہیںکہ ایک کاریگر نے گھڑی بنائی جو باقاعدہ چلتی ہے ، اب گھڑی بنانے والے کو اس سے کچھ تعلق نہیںرہا۔ و ہ جیتا ہو یا مر جائے ، معطل ہو یا معزول وہ گھڑی بدستور چلا کرے گی۔ اسی قیاس پر کہتے ہیں کہ بالفرض اگر خود خداہی نے قانون قدرت بنا دیا جس پر دنیا چلتی ہے تو اب خدا کے لیے کیا کام رہا اور ہم کو اس سے کیا غرض رہی۔ ایک مقدس خدا پرست کہہ سکتا ہے میاں اب وہ ہمارے اور تمہارے لیے بہشت میںمحل اور باغ بنا رہا ہے اور دو زخیوں کے لیے جہنم میں آگ سلگا رہا ہے ۔ خیر یہ تو ایک دل لگی کی بات ہے،مگر جو خیال کہ ممکنات سے اخذ کیا ہے اس کو خدا کے ساتھ منسوب کرنا محض غلطی و نادانی ہے۔ علۃ اور علۃ العلل میںبہت فرق ہے ، علت موثر ہوتی ہے اشیاء موجودہ میںبلا واسطہ یا بواسطہ دیگر علل کے اور وہ خود بھی معلول ہوتی ہے کسی علۃ کی۔ اورعلۃ العلل سبب ہوتی ہے اس شیئی کے وجود کی اور اس لیے وجود اس شیئی کا منحصر ہوتا ہے وجود علۃ العل پر اور تمام علل و معلول جو ہوتی رہتی ہیں وہ معلول ہوتی ہیں اسی علۃ العلل کی اور اس لیے علۃ العلل اپنے معلول بلا واسطہ یا بواسطہ سے علیحدہ نہیں ہوسکتی ، بلکہ ہروقت اس کے لیے علۃ ہوتی ہے اوراگرعلیحدہ ہوتو وجود شیئی کامعدوم ہوجاوے اورتسلسل علۃ و معلول کا نہ رہے اور یہی معنی احاطت کے ہیں جہاں خدا نے فرمایا ہے ’’ انہ بکل شیئی محیط‘‘ ( ۴۱ فصلت آیت ۵۴) اسی مطلب کو خدا نے بہت ہی عمدہ بے مثال مثال سے سورۃ نور میںبتایا ہے جہاں فرمایا ہے ’ ’ اللہ نور السموات والارض یہ آیت ، آیت نور مشہور ہے اور بڑے بڑے عالموں نے اس کی تفسیر کی ہے اور عجیب عجیب نکات بیان کئے ہیں جو حسب خیال ہمار ے محسن کے نعوذ باللہ خدا کو بھی نہ سوجھے ہوں گے ۔ امام غزالی صاحب نے اس آیت کی خاص تفسیر لکھی ہے جس کانام ’’ مشکواۃ الانوار ‘‘ ہے ۔ مگر اس آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ وجود تمام چیزوں کا ذات باری پر منحصر ہے اور نور کی تمثیل سے اس کو سمجھایا ہے ۔ قرآن مجید میں متعدد جگہ خدا نے اپنے آپ کو خالق کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اوریہاں نور سے ، نور کیا ہے ؟ ما یظھر بہ الاشیاء یعنی جس کے سبب سے تما م چیزیں معلوم ہوتی ہیں، اگر نور نہ ہو اور ظلمت محض ہو تو تمام چیزیں معلوم نہ ہوں جو ممنزلہ عدم یا نہ ہونے کے ہیں، پس جس طرح ظہو ر اشیاء کا نور کے ہونے پر منحصر ہے اسی طرح وجود موجودات کا ذات باری پر مع اس کی صفات کے جو اس کی عین ذات ہیں منحصر ہے ۔ پس اگر ہو معزول یا معطل ہو تو تمام عالم معدوم ہو جاوے اور ایک آن بھی اس کا وجود نہ رہے ۔ پس یہ سمجھنا کہ قانون قدرت بنانے سے نعوذ بااللہ خدا معطل یا معزول ہو جاتا ہے کس قدر نادانی ہے۔ ھو الحی القیوم ای ھو المقوم بذاتہ والمقوم لکل ما سواہ فی ما ھیۃ و وجودہ (تفسیر کبیر) یعنی وہ اب قائم ہے اور قائم رکھنے والا ان تمام چیزوں کا ہے جو اس کے سوا ہیں۔ پس خدا کسی وقت بھی بے کار نہیں ہے۔ الدلیل والبرہان (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۸ (دور سوم) یکم جمادی الاول ۱۳۱۲ ھ) دلیل کسی چیز کی ایسی حالت کو کہتے ہیںکہ اس کے جاننے سے دوسری چیز کا جاننا لازم آوے اور اس کی تقسیم لفظی اور غیر لفظی پر کی جاتی ہے اور دلالت التزامی بھی اس کی ایک قسم ہے۔ برہان کے اصلی معنی تودلیل کو صاف طور پر بیان کرنے کے ہیں اور بعضوں کا قول ہے کہ برہان وہ چیز ہے کہ جس کے ماننے سے دوسری چیز کا ماننا لازم ہوجاوے۔ اگلے علماء نے برہان کی دو قسمیں بتائی ہیں۔ ایک لمی اور دوسری انی اور اس پر شرح مطالع اور شمسیہ اور شرح موافق میںبہت کچھ بحثیں ہیں ۔ سب کا خلاصہ یہ ہے کہ اگرعلت سے معلول پر استدلال کیا گیا ہے تو وہ دلیل لمی ہے اور اگر معلول سے علت پر استدلال کیا گیا ہے تو وہ دلیل لمی ہے او ر اگر معلول سے علت پر استدلال کیا گیا ہے تو وہ دلیل انی ہے ۔ مگر جب علت و معلول کا افتراق ناممکن ہے تو برہان کو لمی انی پر تقسیم کونا صرف ایک لفظی بحث ہے۔ علاوہ اس کے علمائے قدیم نے ابعاد غیر متناہی کے باطل کرنے کوبہت سی برہا ئیں قائم کی ہیں جیسے بر ہان تطبیق۔ برہان التضا یف۔ برہان العرشی ،۔ برہان السلمی ۔ برہان ترسی ۔ برہان المسلمہ ۔ اس مقام پر ہم کو اس امر سے کچھ بحث نہیں ہے مگر ان کی کوئی دلیل بھی موصل الی المطلوب نہیں ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ دلیل یا برہان کی بنیاد اولیات پرہوتی ضرور ہے۔ امام غزالی صاحب کوبھی مرض لاحقہ سے افاقہ ہوا تو انہوں نے بھی اس امر کو قبول کیا ۔ چنانچہ وہ المنقذ من الضلال میں لکھتے ہیں:۔ ’’ اتنے میں خدا نے مجھ کو اس مرض سے شفا دی اور میرا نفس صحت و استدلال پر آگیا اور ضروریات عقلیہ کے قبول کرنے اور ان پر غلطی سے امن ہونے کا اعتماد کرنے اور یقین کرنے پر میںنے رجوع کی۔ مگر اس بات پر بحث ہوسکتی ہے کہ اولیات کیا چیزیں ہیں جن کو دلیل یا برہان کی بنیاد قرار دیا ہے ۔ ہمارے نزدیک علوم جدیدہ کی ترقی سے بہت سی ایسی چیزیں معلوم ہوئی ہیں جو اولیات کے طور پر قرار پا سکتی ہیں۔ علمائے قدیم کو ان سے واقفیت نہیں تھی ۔ اس لیے ہم ان امور کا ایک سلسلہ بیان کرتے ہیںجواولیات کے بطور قرار دینے کے لائق ہے۔ اس بیان سے ہمارا مطلب ان لوگوں کو بھی متنبہ کرنے کا ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ علوم جدیدہ کی بنا پر جو دلائل قدیم کی جاتی ہیں وہ دلیل کا رتبہ نہیںرکھتیں بلکہ صرف گمان اور قیاس ہیں جن پر کسی دلیل یا کسی مسئلہ کا قائم کرنا صحیح نہیں ہے ۔ حالانکہ یہ غلط خیال ہے اس کے اکثر دلائل کی بنیاد ایسے ہی امور پر قائم ہے جو بمنزلہ اولیات کے ہیں اور بعض ایسے ہیںجن کو خواہ نخواہ تسلیم کرنا پرا ہے اس لیے ہم خیال کرتے ہیں کہ وہ سلسلہ جو ہم بیان کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کے لیے مفید ہوگا جو مذہب اور علم سے بحث کرتے ہیں اور دونوں کے مطابق ہونے کو دکھلانا چاہتے ہیں چنانچہ ہمارے آرٹیکلوں کا جو مذہب اور علم کی مطابقت پر ہوے ہیں ان پر استدلال ہوتا ہے اور وہ سلسلہ یہ ہے۔ اول تجربہ: ۔ کسی امر کے ہونے یا ہوجانے پر یقین کرنا ہے اس لیے کہ اسکوایسا ہی ہوتے یا ہو جان پر یقین کرنا ہے اس لیے کہ اس کو ایسا ہی ہونے یا ہو جا نے بہت دفعہ دیکھا ہے۔ مگر یقین کرنے کی شرط یہ ہے کہ اس کے ہونے کے لیے کوئی علت ہو اور ہونا اس کا معلول ہو۔ مثلا لکڑی کا آگ میں جل جانا معلول ہے اور آگ اس کی علت ہے۔ کسی امر کو کسی واقعہ کی علت قرار دینے کہ تین شرطوں کا ہونا لازم ہے۔ ۱۔ جب علت ہو تو معلول بھی ضرور ہو اور جب معلول ہو تو علت بھی ضرو ر ہو۔ آگ لکڑی کے موجود ہونے کی علت نہیںہے بکہ اس کے جلنے کی علت ہے۔ ۲۔ یااس کے برعکس یعنی جب علت نہ ہو تو معلول بھی نہ ہو اورجب معلول نہ ہوتو علت بھی نہ ہو۔ ۳۔ جب علت گھٹے تو معلول بھی گھٹے اور جب معلول گھٹے تو علت بھی گھٹے جیسے آگ پر پانی گرم کرنا ۔ ا گر آگ کم ہوگی تو پانی بھی کم ہو گا اور اگر پانی کم گرم ہوگا تو آگ بھی کم ہوگی۔ یہ اصول تجربے کے جو ہم نے بیان کئے یہ اس بات پر مبنی ہیں کہ لا ء آف نیچر میںتبدیلی نہیں ہوتی جس کو بڑے بڑے عالموں نے عمدہ دلیلوں سے ثابت کیا ہے اور قرآن مجید سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے ، جہاں خدا نے فرمایا ہے لا تبدیل لخلق اللہ۔ شرح اشارات میںتجربے کی دوقسمیں بیان کی ہیں، ایک کلیہ جس میںاحتمال عدم وقوع کا نہ ہو اور ایک اکثر یہ جس میں احتمال وقوع کا ہو، مگر ہم نے جو تعریف تجربے کی کی ہے اور جن شرطوں سے اس کو مشروط کیا ہے اس میں احتمال عدم وقوع ناممکن ہے۔ مصنف کشاف اصلاحات الفنون نے تمام حکماء کی رایوں کو جو تجربے کے باب میںہیں نہایت اختصار اور خوبی سے اپنی کتاب میںلکھا ہے۔ اگرچہ ہم ے اپنی دانست میںا س مسئلے کو زیادہ ترقی یافتہ حالت میںبیان کیا ہے اور قدماء کی رائے بھی اکثر باتو ں میںہماری رائے سے مطابق ہے اور کسی قدر مخالف بھی ہے، لیکن بنظر مزید بصیرت اسکا اس مقام پر لکھ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مصنف کشاف اصلاحات الفنون نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ :۔ التجربۃ لغۃ آزمو دن والتجربیات والمجربات فی اصطلاح العلماء ہی القضا یا التی یحتا ج العقل فی جزم الحکم بھا الیٰ واسطۃ تکرار المشاھدۃ۔ فی شرح الاشارات التجر بۃ قد تکون کلیۃ (ترجمہ) تجربہ لغت میںآزمانے کو کہتے ہیں اور تجربات اور مجربات علماء کی اصطلاح میںوہ قضایا (یعنی جملے ) ہیں جن کے مفہوم پر یقین کرنے کے لیے عقل بار بار مشاہدہ کرنے کی محتاج ہو۔ شرح اشارات میںلکھا ہے کہ تجربہ کبھی کلی ہوتا ہے جبکہ وہ بار بار وقوع میںآنے سے اس طرح حاصل ہوکہ واقع نہ ہونے کا احتمال باقی نہ رہے اور کبھی اکثر یہ ہوتا ہے جبکہ وقوع کا پہلو عدم وقوع سے ترجیح رکھتا ہو اورعدم وقوع بھی ممکن ہو۔ یہ مطلق مجربات کی تعریف ہے۔ خواہ کلی ہو ں اور خواہ اکثر یہ، مگریقینات ضرور یہ میں صرف مجربات کلیہ داخل ہیں۔ تعریف کا ماحصل یہ ہے کہ یہ مجربات مطلقا وہ قضایا ہیںجن میںباربار مشاہدے ہونے سے بغیر کسی عقلی تعلق کے حکم لگا دیا جاتا ہے۔ لیکن تکرار مشاہدہ سے نامعلوم طور پر ان سے ایک قیاس (یعنی شکل منطقی) پیدا ہوجاتی ہے جس کی خود حکم لگانے والے کو خبر نہیں ہوتی ۔ وہ شکل یہ ہے کہ ’’اگر وقوع اتفاقی ہوتا تو دائمی یا اکثریہ نہ ہوتا ، کیونکہ امور اتفاقی شاذو نادر واقع ہوتے ہیں۔ پس ضرور ہے کہ واقع میںکوئی سبب ہو۔ اگرچہ اس کی ماہیت معلوم نہ ہو اورجب سبب کا ہونامعلوم ہوا تو مسبب کا ہونا بھی ثابت ہوا‘ ‘ مثلا ہمارا یہ کہنا کہ لکڑی سے مارنا مولم ہے یا سقمونیا کا پیتا سہل صفراء ہے۔ پس احکام استقرائیہ اس تعریف سے خارج ہوگئے ، کیونکہ کوئی ایسی شکل ان سے پیدا نہیںہوتی اور حدسیات بھی نکل گئی، کیونکہ جو قیاس ان سے مرتب ہوتا ہے وہ تکرار مشاہدہ سے حاصل نہیں ہوتا اور فطریات بھی نکل گئے۔ کیونکہ ان میںقیاس موضوع اور محمول کو لازم ہوتا ہے۔یہ بات ظاہر ہے کہ تجربہ کلیہ کا مصداق وہ تجربہ ہے جس سے یقین ایسا حاصل ہو جاوے جیسا تواتر سے ہوتا ہے ، نہ یہ کہ مشاہدے کی تکرار ایک حد معین تک پہنچ جائے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تجربے سے یقین حاصل ہونے کے لیے کچھ یہ ضرور نہیں ہے کہ انسان اپنے نفس پر تجربہ کرے، بلکہ دوسرے کا حال دیکھ کر بھی یقین حاصل ہوجاتا ہے ۔ مثلااگر ایک شخص سقمونیا کا استعمال کرے اور اس سے اسہال واقع ہو ور دوسرا شخص بار بار یہ حال مشاہدہ کرے تو اس کو قطعا علم تجربی حاصل ہو جاوے گا۔ اس پر یہ اعتراض کیاگیا ہے کہ احکام نجومی بھی تجربیات میںداخل ہیں، حالانکہ وہ کسی شخص کے فعل پر موقوف نہیں ہیں جیسے کہ حدسیات کسی کے فعل پر موقوف نہیں ہیں، اس لیے شارح حکمۃ الاشراق نے کہا ہے کہ مجربات کا اطلاق وہیںکیا جاتا ہے جہاں تاثیر کرنا اور اس تاثیر کو قبول کرنا پایاجائے ۔ پس یوں نہیں کہا جائے گا کہ ’’ ہم نے تجربہ کیاہے کہ سیاہی ایک ہیئات ہے جو آگ سے منسوب ہے یا یہ آگ سیاہ ہے ‘‘ بلکہ یوں کہا جائے گا کہ آگ جلا نے والی ہے اور سقمونیا اسہال لانے والا ۔ پس تجربے میں انسان کا فعل شرط نہیں ہے ، بلکہ تاثیر اور تاثر شرط ہے ۔ یہ تمام بیان صادق حلوانی حاشیہ طبی کا اور حاشیہ شرح مواقف میںجو مولوی عبدالحکیم نے تحقیق کی ہے ا س کا خلاصہ ہے (کشاف اصطلاحات الفنون ورق ۷۲) نسخہ قلمی۔ دوم استمرار ، یعنی کسی امر کا ہمیشہ ایک حالت پر ہونا اور جب تک کوئی دوسرا امر واقع نہ ہو اس بر خلاف نہ ہونا، خواہ اس کی علت معلوم ہو یا نہ ہو، جیسے آفتاب کا ہر روز نکلنا اور ہلال کا زمانہ معین کے بعد بدر ہونا۔ یہ ہمیشہ اسی طرح ہوتے ہیں اور انکی علت بھی معلوم ہے۔ یا جیسے مقناطیس کی سوئی کاہمیشہ قطب کی طرف رہنا جب تک کہ کوئی دوسرا امر اس کے مزا حم واقع نہ ہو ، گو کہ ہمیشہ اس کے قطب کی طرف رہنے کی علت ہم کومعلوم نہیں۔ سوم۔ استقراء لمی جبکہ ا س کے لیے کوئی دلیل ہو۔ مثلا ہمارا یہ کہنا کہ کل انسان او قیل او اسد او فرس اور مثل ذالک الحیوانات یتحرک فکہ الاسفل بالکل یقینی ہے ، گو کہ ہم نے کل انسانوں کونہیں دیکھا اور نہ ہاتھیوں کو اور نہ کل شیروں کو اور نہ کل گھوڑوں کو ، مگر انسان یا ہاتھی یا شیر یا گھوڑا ان کو کہتے ہیںجو موجودہ خلقت پر مخلوق ہوئے ہیں او ر ہم کو علم تشریح سے ثابت ہواہے کہ انسان اور وہ حیوان اور مثل ان کے بلحاظ ترکیب اعضاء کے اس طرح پر مخلوق ہوئے ہیں کہ انکا اوپر کا جبڑا ہلنا نا ممکن ہے۔ پس ہم اس دلیل سے اس کلیے کو اولیات میںسمجھتے ہیں۔ چہارم استقراء نوعی۔ یعنی ایسی شیئی پر کلیہ قائم کرنا جس کے جزو میںوہی صفات اور خواص ہیںجو اس کے کل میں ہیں، جیسے پانی ۔ ہم پاتے ہیںکہ پانی سے زیادہ بھاری چیز پانی میںڈوب جاتی ہے او ر اس لیے ہم کہتے ہیں کہ کل شیئی اثقل من الماء یغرق فی الماء اور اس کلیے کو ہم اولیات میںداخل کرتے ہیں۔ یا ہمارا یہ کہنا کہ کل حطب بحرق فی النار اولیات میں داخل ہے اور یہ بحث نہیں کی جاسکتی کہ ہم نے تمام دنیا کی لکڑیوں کو جلا کر نہیں دیکھا، کیونکہ ہم نے ایک جسم نباتی متخلل قابل اخذ شعلہ آتش کا نام لکڑی رکھا ہے اور جو جسم ایسا نہیں ہے وہ لکڑی نہیںہے اور اس لیے یہ کلیہ اولیات میںداخل ہے۔ پنجم ۔ استقراء محض ، یعنی جس کے لیے اس کی تمام نوع یا جنس پر صادق آنے کی کوئی دلیل لمی نہ ہو۔ ہم کہتے ہیںکہ جب تک اس کے مخالف کوئی امر متحقق نہ ہو ۔ عملا وہ بھی اولیات میں داخل ہے اور اس شبہے کو کہ کوئی فر د اس کے بر خلاف ہو کافی نہیں سمجھتے ، کیونکہ موجودات اور محسوسات کے مباحثے میںامکان وقوعی کا ثابت کرنالازم ہے ، نہ امکان فرضی اور نہ خیالی کا۔ ششم ۔ المشاھدۃ بالتکریر۔ مشاہدہ خود ایک مستقل دلیل یقین حاصل کرنے کی ہے جبکہ کسی چیز کو باربار دیکھنے سے ایک سا ہی پاویں۔ مثلا ہم دیکھتے ہیںکہ ہمارے سامنے کوئی چیز ، مثلا گھڑی رکھی ہوئی ہے اور پھر دیکھتے ہیںکہ رکھی ہوئی ہے اور ہمارے سوا اور دیکھنے والے بھی ایسا ہی دیکھتے ہیں تو ہم کو یقین کلی ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے گھڑی رکھی ہوئی ہے اور یہ ایسا یقین ہیکہ کسی طرح زائل نہیں ہوتا۔ ہمار اگھڑی کو دیکھنا مشاہدہ ہے اور بار بار اس کو ویساہی دیکھنا مشاہدے کو بدرجہ یقین پہنچا تا ہے۔ اس بیان سے وہ خیال اور وھمی صورتیں جو اتفاق سے کسی کو نظر آجاتی ہیں یا خواب میںدکھائی دیتی ہیں، مشاہدے کی تعریف سے خارج ہو جاتی ہیں۔ امام غزالی نے مشاہدے پر اس لیے شک کیا کہ انھوں نے سائے کو دیکھا کہ ساکن ہے حالانکہ وہ ساکن نہ تھا ، مگر انہوں ، نے شرط تکرار مشاہدہ پر غور نہیںکیا ۔ اگرمشاہدہ بالتکریر کو وہ شرط یقین ٹھہراتے تو سائے کو ساکن نہ تصور کرتے۔ اب ہم مشاہدے کی علت پر ضرور کرتے ہیں اور پاتے ہیں کہ ہمار ی آنکھ میں منعکس شعاعیں اس کی تصویر بنا دیتی ہیںجس کوہم دیکھتے ہیں اور وہی سبب اس شیئی کے دکھائی دینے کا ہے ۔ فوٹو گراف کے ذریعے سے تصویر کا بننا اس مسئلے کا عملی اورعینی ثبوت ہے۔ اب ہم کو ہزاروں تجربوں سے ثابت ہے کہ منعکس شعاعیں جو کسی چیز سے ہماری آنکھ تک پہنچتی ہیں وہ خطوط مستقیمہ میں ہوتی ہیں۔ طبقات چشم جو محدب اور ذی ثقین مخلوق ہوتی ہیں ان کی بناوٹ کی وضع ہم کو علم تشریح سے یقینی معلوم ہے۔ ان معلومات کے سبب علم مناظر پیدا ہوا اور اب جو چیز مشاہدہ ہوتی ہے اس کے مشاہدے کہ دلائل ہندسی سے ثابت کر سکتے ہیں ۔ ہم بتا سکتے ہیںکہ پانی میں درختوں، مکانوں اور آدمیوں کا عکس الٹا کیوں دکھائی دیتا ہے، آئینے میںہم کو دائیں طرف ، بائیں طرف اور بائیں طرف دائیں طرف کیوں دکھائی دیتی ہے ہر چیز دور سے کیوں دکھائی دیتی ہیں۔ آنکھ کے ثقبہ دو ہیں اور دونوں میں منعکسہ شعاعیں جاتی ہیں، پھر ہر چیز دو کیوں نہیںدکھائی دیتیں ؟۔ غرضیکہ علم مناظرے نے وہ مرتبہ ثبوت کا حاصل کر لیا ہے جو اقلیدس نے اپنے دعووں کے ثبوت کا رتبہ حاصل کیا ہے اور اس لیے مشاہدے کو اولیات میںداخل کر تے ہیں۔ ہفتم۔ المشاہدۃ بالا لات۔ جس اصول پر خدا نے ہماری دو آنکھیں بنائی ہیں اور باوجودیکہ دو ہونے کے ہم کو ہر چیز ایک ہی معلوم ہوتی ہے اور جس پر ہم نے علم مناظر میںدلیل قائم کی ہیں، اسکو ہم عملی طور پر بھی کام میںلائے ہیں اور اسی اصول پر ہم نے بائی ناکیولر ٹلس کوپ بنائی ہے جس میں دو شیشے ہوتے ہیں اور ہم دو تصویریں اس میںرکھتے ہیں اور دونوں آنکھوں سے دیکھتے ہیں، مگر ایک ہی تصویر ہم کو دکھائی دیتی ہے۔ پھر ہم نے آنکھ کی بناوٹ اس اصول پر پائی ہے کہ ایک قسم کے تبدل سے مسطح چیز ہم کومجسم دکھائی دیتی ہے ۔ اسی اصول کے موافق ہم نے بائی نا کیو لر ٹلس کوپ کے شیشے بنائے ہیں کہ ان سے مسطح چیز مجسم معلوم ہوتی ہے۔ غرضیکہ ہم نے آنکھ کی بناوٹ کو بخوبی دریافت کر لیا ہے اور جو چیز مختلف طرح سے ہم کو دکھائی دیتی ہے اس کو علم مناظر میںبطور دلیل ہندسی ثابت کر لیا ہے۔ ضعف بصارت جس شخص کو ہو جاتا ہے اس کا سبب ہم نے دریافت کیا ہے کہ اس کی آنکھ منعکسہ شعاعوںکو بخوبی اخذ نہیں کرتی،مگر ہم جب اس کی آنکھ پر دو شیشے لگا دیتے ہیں اور ان کے سبب منعکسہ شعاعیں قوت سے اس کی آنکھ میں جاتی ہیں تو وہ ان چیزوں کو بخوبی دیکھ سکتا ہے جنکو بغیر ان شیشوں کے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ یہ اصول ایسا عام ہو گیا ہے کہ ہزاروں آدمی عینک لگاتے ہیں اور ان چیزوں کو بخوبی دیکھتے ہیںجن کو بغیر عینک کے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ پھر ہم کو ایسے اصول معلوم ہوگئے ہیں کہ چاہیں ہم ان شیشوںس کو ایسابنائیں کہ جس قد کی شے مرئی ہے اسی قد سے دکھائی دے۔ چاہے ایسے بنائیں کہ اس سے دو چند یا سو چند یا ہزاروں چند بڑا دکھائی دے۔ ان ہی اصول محققہ پر ہم خوردبین بناتے ہیں جس سے ایک پشہ کے بدن کے بال تک اورمکھی کی ایک آنکھ کے ہزاروں ٹکڑوں تک جس سے وہ جڑی ہوئی ہے اور بدن کے چھوٹے چھوٹے مسامات تک دیکھ لیتے ہیں۔ ہم نے ایسے اصول بھی دریافت کئے ہیں جن سے دو ر کی چیز نزدیک یا نزدیک کی چیز دور دکھائی دیتی ہے ۔ اسی اصول پر دوربین بناتے ہیں اور دور دور کی چیزوں کو ایسے ہی دیکھتے ہیںجیسے کہ اپنے پاس کی چیزوں کو اور یہ اصول علم مناظر میںایسے ہی محقق ہیںجیسے اقلیدس میں اس کے دعوے ، پس ان آلات سو جو ہم مشاہدہ کرتے ہیں ا سمیںشک لانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ پھر ہم نے ان اصولوں کی ایجاد ہی پر اکتفا نہیںکیا ، بلکہ ہزاروں دفعہ اس کا تجربہ کیا ہے او ر دور و نزدیک چیزوں کو دوربین سے دیکھا ہے او رجس چیز کو اس میںدیکھا ہے اس کو بعینہ ویسا ہی پایا ہے جیسی وہ ہے۔ دوربینیں کم قوت کی اور زیادہ قوت کی باعتبار ان کے شیشوں اورانکے طول کے بنتی ہیں۔ اب ایسی قوت والی دوربینیں بن گئی ہیں کہ چاند اور آسمان کے دور دور کے ستاروں کی ایسی ہی کیفیت معلوم ہوتی ہے کہ گویا ان کو قریب سے آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ پس جو کچھ ان دوربینوں سے ہم دیکھتے ہیں ان کو اس قسم کے مشاہدے میںشمار کرتے ہیں جسمیںبعد تجربے کے کچھ بھی شک نہیںرہتا اور اس لیے جو مشاہدہ بذریعہ ان آلات کے ہوتا ہے اسکو اولیات میںشمار کرتے ہیں۔ ہشتم۔ الطبیعی الانسانی۔ یعنی طبیعت انسانی کا دو چیزوں میںایسا طبعی علاقہ ہو جس کے سبب سے ایک امر کے جاننے سے دوسرے امر کے جاننے پریقین ہو۔ ان میں سے ایک کو دال کہیںگے اور دوسری کو مدلول۔ طبیعت کے معنی جبلت انسانی کے ہیںجس پر کہ انسان پیداکیاگیا ہے۔ اس صورت میںمدلول کی ماہیت کا جاننا لازمی نہیںہے۔ بلکہ صرف اس کے وجود کا جاننا کافی ہوتا ہے۔ مثلا دیوار کے پیچھے سے ہم نے کھٹ کھٹ کی آواز سنی اور ہم کو یقین ہوا کہ کوئی کھٹکھٹا نے والا ہے ۔ اس صورت میں ہم نے صرف کھٹکھٹا نے والے کے وجود پر بغیر جاننے ا سکی ماہیت کے یقین کیاہے۔ یا ایک مصنوعی چیز ہمارے سامنے ہے اور اس سے ہم نے یقین کیا کہ اس کا کوئی صانع ہے۔ پس یہ یقین بغیراس کے کہ صانع کی حقیقت یا ماہیت جانیںصرف صانع کے وجود پر یقین ہوتا ہے اور اسی سبب سے اس کو اولیات میںقرار دیا ہے۔ جب ہم تمام عالم پرنظر ڈالتے ہیں اور اس میں مختلف انواع کی ترکیب پاتے ہیں تو اس کو مصنوع قرار دیتے ہیں اور اس سے صرف صانع کے وجود پر یقین کرتے ہیں گو کہ اس کی حقیقت اور ماہیت نہیں جان سکتے۔ قرآن مجید میں وجود ذات باری پر جا بجا اسی قسم کی دلیلوں سے استدلال کیا گیا ہے جس سے درحقیقت کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔ منکرین ذات باری اگر بہت کچھ کہہ سکتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہم عالم کو اس حیثیت سے تو پاتے ہیں، مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کا کوئی صانع ہے یا نہیں ، ممکن ہے کہ ہو اور ممکن ہے کہ نہ ہو اور یہی لوگ لا ادریہ کے نام سے مشہور ہیں، مگر خود جبلت انسانی ایسا کہنے سے ابا کرتی ہے۔ ان سے بڑھ کر دھریہ ہیں جو کہتے ہیںکہ جو کچھ عالم میںموجود ہے وہ آپ ہی آپ ہو گیا ہے ، مگر جبکہ عالم میںسلسلہ علت و معلول کا دیکھتے ہیں اور اس کے قائل بھی ہیں تو نہیںبتا سکتے کہ بغیر ختم ہونے سلسلہ علت و معلول کے آپ ہی آپ کیوں کر ہوا۔ اگر ہم دیوار کے پیچھے کسی گدھے کی یا آدمی کی آواز سنتے ہیں اور کوئی مصنوعی چیز کسی شخص معین کی دیکھتے ہیںتو اس صورت میںمدلول کی ماہیت کو بھی جانتے ہیں۔ نہم۔ الفطری ، یہ لفظ ہم نے قرآن مجید سے اخذ کیا ہے جہا ں خدا نے فرمایا ہے: ’’فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ ‘‘ فطرت کا ٹھیک ترجمہ انگریزی میںنیچر ہے۔ پس نیچرل سائنس کی ترقی و تحقیقات اور دلائل یقینیہ سے جو امور ثابت ہوئے ہیں وہ سب اولیات میںداخل ہیں، کیونکہ وہ سب تجربہ یا مشاہدہ بالتکریر یا مشاہدہ بالا لات پر مبنی ہیں اور علم تشریح کو بھی ہم اسی میںشامل کرتے ہیں، کیونکہ علم تشریح میںجو بناوٹ و حالات اعضاء انسانی یاحیوانی ثابت ہوئے ہیں وہ سب مشاہدات بالتکریر اور مشاہدہ بالا لات میںداخل ہیں اور اس لیے وہ بھی اولیات ہیں۔ نیچرل سائنس سے جو امور یقینی ثابت ہوئے ہیں ان کی تفصیل طویل ہے اور اس مقام پر وہ لکھے نہیںجا سکتے ، اس لیے ہم نے ان کے بالا جمال بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ اس تحریر سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ ہمارے علماء مقدمین جو ان علوم کے مسائل کی نسبت توجہ نہیں کرتے اور ان کو لغو مہمل کہہ کر ٹال دیتے ہیں اور بلا تحقیق اس بات کے کہ دراصل قرآن مجید میںکیا ہے اپنی سمجھی ہوئی بات کو قرآن مجید کا مطلب قرار دے کر کہہ دیتے ہیںکہ یہ سب غلط ہے اور قرآن مجید میںجو ہے، یعنی جو ہم نے یا اگلے لوگوں نے، جبکہ نیچرل سائنس کا علم نہ تھا ، سمجھا ہے وہ ٹھیک ہے، گو کہ عقل اس کو قبول نہ کرتی ہو۔ ہم زمین کو چو کھونٹی اور چورس ہی کہے جاویں گے، گو کہ ہزار دلیل سے اس کا گول ہونا ثابت ہوا ہو۔ اس قسم کی بات کہنے سے ان لوگوںکو جو علوم جدیدہ کی تحصیل کرتے ہیں تشفی نہیںہوتی، بلکہ اور گمراہ ہوتے ہیں۔ ان کو لازم ہے کہ قاضی ابن رشد کے قول کی پیروی کریں۔ وہ کہتے ہیں:۔ ’’ ہم کو پورا یقین ہے کہ جس بات پر دلیل ہو او رظاہر شرع اس کے خلاف ہوتو وہ ظاہر عربی کے قانون تاویل کے موافق قابل تاویل ہوگا اور یہ قضیہ ایسا ہے جس میں کسی مسلم اور مومن کو شک نہیں ہو سکتا اور اس شخص کو اس قضیہ کا یقین کتنا بڑھ جاتا ہے جس نے اس کی مشق اور تجربہ کیا ہو اور معقول اور منقول میںجمع کرنا چاہا ہو، بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ جب کوئی ظاہر شرع اس بات کے خلاف ہو جس پر دلیل قائم ہو چکی ہے تو ایسا نہیں ہے کہ جب شرع پر لحاظ کیا جائے اور اس کے تمام حصوں میںتلاش ہو تو شرع کے لفظوں میںایسا ظاہر نہ ملے کہ اس تاویل کے موافق ہو جو ظاہر شرع کی تاویل کی ہے۔ اگر بعینہ ایسا نہ ہوگا تو اس کے قریب ہوگا۔ ‘‘ وقد فتح اللہ لی ھذا الباب وانی اجد فی کلامہ تعالیٰ و سیاتہ ما یشھد بماثبت یقینا فی علوم الکائنات والاخلاف فی کلامہ و صنعہ تعالیٰ شانہ و غر برھانہ۔ ………… ھوالموجود (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۱۱ (دور سوم) یکم شعبان ۱۳۱۲ ھ) یہ کہتے تو سب ہیں، مگرجب پوچھو کہ وہ کون ہے تو حیران رہ جاتے ہیں۔ سب سے اچھے اور پختہ ایمان والے جن کے یقین میںکچھ شک نہیں آنے پاتا وہ ہیںجو بے دلیل اس پر یقین کرتے ہیں، یہی لوگ ہیںجو سچے اورپکے مسلمان ہیں، گو انھوں نے بے سمجھے ایک بات پر یقین کیا ہے جس طرح کہ اور بہت سے لوگوں نے بے سمجھے ان کے یقین کیاہے جس طرح کہ او ربہت سے لوگوں نے بے سمجھے ان کے یقین کے برخلاف یقین کیا ہے ، مگر ان کی خوش قسمتی تھی کہ جس بات پرانھوں نے یقین کیا ، وہی سچی بات اور سیدھی راہ تھی ۔ حقیقت میںبے جانے اور بے سمجھے یقین چنیں اور چناں کرنے والوں کے یقین سے بہت زیادہ مستحکم او رمضبوط ہوتا ہے۔ جاہلوں کے گروہ میںایک کٹ ملا اپنے وعظ میںبیان کرتا ہے کہ امام فخر الدین رازی کے پاس ان کے مرتے وقت شیطان آیا اور پوچھا کہ کس دلیل سے تم نے کو خد ا نے جانا؟ راز ی نے بہت سے دلیلیں بیان کیں، شیطان نے ان سب کو توڑ دیا ۔ قریب تھا کہ راز ی خدا کے منکر ہو کر کافر مریں ، اتنے میں ان کے پیر کی روح مجسم ہوکر آئی اور کہا کہ کم بخت یہ کہہ کہ خدا کو بے دلیل پہچانا۔ جب یہ کہا تو شیطان بھاگ گیا اور امام رازی کا پیر کی مدد سے خاتمہ بالخیر ہوا۔ اس قسم کے وعظ ان لوگوں کے دلوں پر ایسا قوی اثر کرتے ہیںکہ بڑی سے بڑی دلیل سے بھی نہیںہوسکتا ۔ وہ سمجھتے ہیںکہ خدا ایسی چیز ہی نہیں جو دلیل سے پہچانا جاوے، اس کو بے دلیل کے ماننا چاہیے۔ مگر جب انسان اس درجے سے آگے بڑھتا ہے تو یقین کے لیے اس کو استدلال کا رستہ ملتا ہے جس میں ہزاروں ٹھوکریں اور بے شمار دشوار گذار گھاٹیاں ہیں، ہاںاس میں کچھ شک نہیںکہ جو کوئی سلامتی سے اس راستے کو طے کر جاوے اور منزل مقصود تک پہنچ جاوے تو اسی کے یقین پر یقین کا اطلاق ہوتا ہے۔ بن بوجھے یقین اور بوجھے یقین میںایسا فرق ہے جیسا کہ ظلمت و نور اور جہل و علم میںہے۔ علمائے اسلام نے اس رستے کے طے کرنے اور لوگوں کے لیے ہموار کرنے میںنہایت کوشش کی ہے اور اپنی دانست میں اس رستے کو نہایت صاف ہموار کر دیا ہے ، مگربعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اب تک ناہموار و دشوار گزار ہے ۔ علمائے اسلام کی دلیلوں کا بڑ ا مخالف ان ہی میں کا ایک شخص ہے جو ابن کمونہ کے لقب سے مشہور ہے۔ اس نے جو شبہ علماء اسلام کی دلیلوں پر کیا ہے وہ شبہ شیطا نیہ کے نام سے مشہور ہے۔ امام فخر الدین رازی نے اس کے بہت سے جواب دئے ہیں جو پورے نہیںہوئے اور اسی پر کٹ ملاؤں نے شیطان کی اور امام رازی کی وہ کہانی بنائی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی اور اسی پر مولانا روم نے فرمایا ہے: گر باستدلال کار دیں بدے۔ فخر رازی راز دار دیں بدے اس زمانے کے مسلمانوں نے بھی جو دین اللہ اورفطرت اللہ کے ایک معنی سمجھتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ٹھیٹ اسلام نیچر کے مطابق ہے اس دشوار گذار راستے میںقدم رکھا ہے اور اس آرٹیکل میںہمارا مقصود خدا کے وجود پر ان نیچروں کی دلیلوں کا بیان کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ واجب الوجود یا علۃ العلل ، یعنی ذات باری کی نسبت تین طرح سے بحث ہوتی ہے۔ ایک اس کے وجود سے کہ وہ موجود ہے۔ دوسرے اسکی ازلیت سے ، یعنی موجودہ زمانے سے گزشتہ زمانے کی طرف کتنے ہی اوپر چلے جاؤ تو اس کی انتہا نہ ہوگی۔تیسری اس کی ابدیت سے، یعنی موجودہ زمانے سے آئندہ زمانے کی طرف کتنے ہی دورچلے جاؤ اس کو انتہا نہ ہوگی۔پس نیچری واجب الوجود کو موجود اور ازلی و ابدی مانتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ لاء آف نیچر ، یعنی قدرت و آئین فطرت کی رو سے تمام موجودات عالم میںجہاں تک کہ انسان کو رسائی ہوئی ہے۔ ایک سلسلہ علت و معلول کا نہایت استحکام سے پایا جاتا ہے۔ جو شیئی موجود ہے وہ کسی علت کی معلول ہے اور وہ علت کسی دوسری علت کی معلول ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح پر چلا جاتا ہے اور ایسے سلسلے کانیچر کی ر و سے کسی علۃ العلل پر ختم ہونا ضرور ہے جس کاثبوت خود لاء آف نیچر سے پایا جاتا ہے اور وہ لاء آف نیچر یہ ہیں: ۱۔ علت و معلول کے وجود میں،خواہ خارجی ہوںیا ذہنی تقدم و تاخر لازمی ہے۔ یعنی علت مقدم ہوگی اور معلول اس کے بعد۔ ۲۔ معلول کا وجود بغیر وجود کے نہیںہوتا۔ ۳۔ جب تک علت موجود بالفعل نہ ہو معلول بھی موجود بالفعل نہ ہوگا۔ ۴۔ علت و معلول کے سلسلے کو اپنے وجود کے لیے امتدادیعنی زمانہ لازمی ہے جس کے سبب سے علت ومعلول پر تقدم و تاخر ما قبلیت و بعدیت کااطلاق فی الذہن یافی الخارج ہوتا ہے۔ ۵۔ علت و معلول کے سلسلہ غیر متناہی کو اپنے وجود کے لیے امتداد ، یعنی زمانہ بھی غیر متناہی لازم ہے ۔ ۶۔ غیر متناہی ، متناہی میںنہیں سما سکتا۔ یہ تمام لاء آف نیچر ہیںجو بیان ہوئے۔ ان ہی سے واجب الوجود کا وجود ثابت ہوتا ہے، کیونکہ جس وقت ہم عالم کو موجود کہتے ہیں تو اس وقت تک زمانے کو موجود ہ زمانے تک محدود کر دیتے ہیں ۔ پس اگر اس وقت ہم یہ کہیں کہ عالم میں سلسلہ علت و معلول کا اوپر کو غیر متناہی ہے تو یہ کہنا خلاف لاء آف نیچر کے ہے ، کیونکہ نا متناہی متناہی میںنہیںسما سکتا۔ علت و معلول کے سلسلہ غیر متناہی کو زمانہ بھی غیر متناہی لازم ہے ۔ پس کوئی معلول کسی وقت موجود بالفعل نہیں ہو سکتا ، کیونکہ جب تک تمام سلسلہ علت و معلول کا موجود بالفعل نہ ہو لے کوئی معلول موجود بالفعل نہ ہوگا اور تمام سلسلہ علت و معلول غیر متناہی کا موجود بالفعل نہیں ہو سکتا ، کیونکہ اگر تمام سلسلہ موجود بالفعل ہو تو غیر متناہی نہ رہے گا۔ ہم عالم کو موجود بالفعل دیکھتے ہیں اور اس لیے بموجب لاء آف نیچر کے ضروری ہے کہ اس کی اخیر علت بھی موجود بالفعل ہو اور کسی دوسری علت کی معلول نہ ہو، کیونکہ اگر وہ دوسری علت غیر موجود بالفعل کی معلول ہوتی تو وہ خود موجود بالفعل نہ ہوتی۔ پس ہم اس علت کو جس پر عالم کی علت و معلول کا سلسلہ ختم ہوتاہے ، علۃ العلل کہتے ہیں اور اسی کو ذات باری اور واجب الوجود جس کا مختصر نام یہووہ اور اللہ او رخدا او ر گاڈ اور جو ہو الموجود کہلاتا ہے۔ یہی لاء آف نیچر جو ذات باری کے وجود کو ثابت کرتا ہے، اس کے واجب الوجود اور ازلی و ابدی ہونے کو بھی ثابت کرتا ہے ، کیونکہ جو چیز اپنے وجود میںکسی علت کی معلول نہیںہے تو اس کے واجب الوجود ہونے میںکچھ تامل نہیں ہے اورجو چیز کہ واجب الوجود ہے اس کے ازلی و ابدی ہونے میںکچھ کلام نہیں، یہ نئے الہام ہیںجو اس زمانے میں نیچریوںکو ہوتے ہیں۔ لکن ادراک حقیقۃ وجودہ مافوق فطرۃ الانسان۔ علۃ العلل یاذات باری کے وجود کا، یعنی اس کا ہونا لاء آف نیچر یا فطرت انسانی کی رو سے تسلیم کرنا لازمی ہے۔ مگر اس کی ماہیت وجود یا ماہیت ذات کا جاننا فطرت انسانی سے خارج ہے۔ جاننا جو ایک لفظ ہے اور جس کی فارسی دانستن ہے اور عربی علم، وہ ایک کیفیت ہے جو انسان کو ان ذریعوں سے جو اس کیفیت کے حاصل کرنے کے یاہونے کے وسیلے ہیں ، حاصل ہوتی ہے اور وہ دس وسیلے ہیں جن کو حواس خمسہ ظاہری و باطنی سے تعبیر کیاجاتا ہے ۔ دیکھنا، چھونا، مزا، سننا ، سونگھنا ، حواس خمسہ ظاہری ہیں۔ حس مشترک ، متخیلہ ،حافظہ ، متو ھمہ ، متصرفہ ، حواس خمسہ باطنی ہیں۔ یہ پچھلے پانچوں حواس پہلے پانچ حواسوں پر مبنی ہیں ، یعنی یہ پچھلے حواس جب ہی کام کرتے ہیں جبکہ ہم نے پہلے پانچ حواسوں سے کسی چیز کو جانا ہو۔ انسان نے کسی ایسے وجود کو جس پر علۃ العلل ہونے کا اطلاق ہوسکے ، ان وسیلوں سے جو اس کے جاننے یا علم کے وسیلے ہیں نہیں جانا ہے اور اس لیے انسان کو اس کے وجود کی حقیقت یااس کی ذات کی ماہیت کا جاننا لاء آف نیچر یافطرت انسانی سے خارج ہے ، گو کہ وہ ان چیزوں کی ماہیت کو بھی جن کو اس نے جانا ہے نہیںجان سکتا۔ کسی موجود کے وجود کی حقیقت نہ جاننا اس موجود کے وجود کے نہ ہونے کو مستلزم نہیں ہے ، جیسے کہ ہم ایک آواز سنیںاور آواز کرنے والے کے وجود کو نہ جا نتے ہوں توہم کو اس بات کا یقین ہوگا کہ کوئی آواز کرنے والا موجود ہے ، گو کہ ہم اس کے وجود کی حقیقت یا اس کے وجود کی ماہیت کو نہ جانتے ہوں۔ یہی حال ذات باری کا ہے جس کو ہم نے علۃ العلل سے تعبیر کیا ہے اور اسکا موجود ہونا لاء آف نیچر سے تسلیم کیا ہے ، مگر اس کے وجود کی حقیقت یااس کی ذات کی ماہیت مطابق لاء آف نیچر یاقانون فطرت کے نہیں جان سکتے ، کیونکہ اس کا جاننا انسان کی فطرت سے خارج ہے۔ الہ صفات یوصف بھا و صفات ببر ء عنھا صفت کا اطلاق کبھی تو اس پر ہونا ہے جو موصوف کی ذات پر محدود ہوتی ہے جیسے جسم کا متحیز ہونا یا اس میں ابعاد ثلاثہ کا ہونا ۔ اس قسم کی صفات توعلۃ العلل یا واجب الوجود میں نہ ہوسکتی ہیں اور نہ منسوب ہوسکتی ہیں، کیونکہ ہم مطابق لاء آف نیچر یا قانون فطرت کے اس کے وجود کی حقیقت نہیںجان سکتے اور اس لیے کوئی ایسی صفت جس کا قرار دینا وجود کی حقیقت کے جاننے پر منحصر ہواس کی نسبت منسوب نہیں کر سکتے اور نہ ہو سکنے کی وجہ آئندہ معلوم ہوگی۔ کبھی صفت کا اطلاق اس پر ہوتا ہے جو موصوف سے ظہور میںآتی ہے اور وہ اس سے موصوف ہوتا ہے اور جبکہ علۃ العلل یا واجب الوجود سے تمام معلومات کا ظہور ہوا ہے تو اس کو بھی صفات متعددہ موصوف کیا جاتا ہے۔ مگر صفت کے لفظ سے ہم میں دو خیال پیدا ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ صفت اس کی ذات میں تو نہ ہو، مگر اس میں پیدا ہو گئی ہو اور زائد علی الذات ہو جیسے رنگ کا کسی بے رنگ میں۔ دوسرے یہ کہ وہ اسی کی ذات میںہو جیسے پانی میں وقت یا پتھر میںبوجھ یا مقناطیس میں جذب۔ اگرچہ یہ مثالیں بالکل ٹھیک نہیںہیں۔ لیکن ان سے صفت اور ذات کی عینیت کا ایک خیال پیدا ہوتا ہے ۔ پس علۃ العلل میں کسی صفت کا جو زائد علی الذات ہو، ہونا محال ہے اس لیے کہ وہ ازلی و ابدی ہے اور معلول کسی علت کا نہیں۔ پس اس میںکسی ایسی صفت کا جو اس کی عین ذات نہ ہو ہونا محال ہے۔ دوسرے خیال پر ہم اس کے لیے صفات قرار دے سکتے ہیں اور اسکو موصوف بصفات کہہ سکتے ہیں، مگر ان صفات کی حقیقت او رماہیت کا جاننا بھی اسی طرح ہماری فطرت سے خارج ہے جیسے کہ اس کے وجود کی حقیقت و ماہیت کو جاننا۔ لان الصفات التی تنسب الیہ ہی عین ذاتہ۔ اسی طرح بعض صفات سے جو منافی اس کے وجود کے یا من جمیع الوجوہ منفی اس کی کسی صفت مسلمہ کے ہیں اس کو بری کرتے ہیں، کیونکہ اجتماع نیضین محال ہے ۔ علماء اسلام نے پہلی صفا تکو صفات ثبوتیہ اور دوسری کو صفات سلبیہ سے تعبیرکیا ہے ۔ وما ھذا لا اصطلاحات اخترو ھا بغیر العلم بحقا ئقہا ۔ فتد بر۔ مثلا حی، یعنی زندہ ہونا جو ایک صفت ہے اس سے علۃ العلل یا واجب الوجود کو موصوف کرتے ہیں اور اس کی نقیض سے جوموت ہے اس کو بری کرتے ہیں اور کہتے ہیں ھو حی لایموت۔ مگر حی ہونے کی حقیقت ہم نے اسی قدر جانی ہے جو ہم نے ذی حیات میںدیکھی ہے۔ مگر وہ تو بہت سی علتوں کی معلول ہے او ر اسی لیے علۃ العلل یا واجب الوجود سے منسوب نہیںہو سکتی ۔ البتہ ان ذی حیات سے حیات کے سبب افعال صادر ہوتے ہیں اور اسی سبب سے ہم ان کو حی کہتے ہیں اور ظہور کائنات و ما مضی علیھا وما یمضیٰ او سیمضی علیھا افعال ہیں اسی واجب الوجود کے جو علۃ العلل ان کے ظہور کا ہے ۔ اس لیے اس کو بھی حی ہونے کی صفت سے موصوف کرتے ہیں اورکہتے ہیں ھو حی لا بحیاتنا لا نعلم حقیقۃ حیا تہ اور موت سے جو حیات کی نقیض ہے اس کو ازلا و بدا بری کرتے ہیں۔ کیونکہ موت امر سلبی ہے اور کوئی امر سلبی ذات واجب الوجود میںموجود نہیں ہو سکتا اور اس لیے کہتے ہیں کہ ھو حی لایموت۔ مثلا مرید ، یعنی اپنے ارادے سے کام کرنے والا، اس صفت سے بھی علۃ العلل یا واجب الوجود کو موصوف کرتے ہیں، مگرہم نے اس صفت کی حقیقت کو اسی قدر جانا ہے جس قدر کہ ہم نے انسان یا دیگر حیوانات میںدیکھا ہے اوریہ سمجھا ہے کہ وہ ایک کیفیت ہے جو ہم میںاپنے خیالات سے اپنی خواہشوں کے پورا کرنے یا کسی قسم کی جلب منعفت او ر دفع مضرت کے لیے پیدا ہوتی ہے اور ہماری ذات کو عارض ہوتی ہے۔ یعنی زائد علی الذات ہے اور اس لیے وہ صفت جس کو ہم جانتے ہیں علۃ العلل یا وواجب الوجود سے منسوب نہیں ہو سکتی ۔ مگر اس علۃ العلل سے جو ظہور ہوا ہے وہ اس کے افعال ہیںجو صفت ارادہ کے نتائج ہیں اور اس لیے مرید ہونے کی صفت کا اس میں یقین کرتے ہیں اور اس کی حقیقت کو نہیں جا نتے اور جبکہ اس کی تمام صفات اس کی عین ذات ہیں اس لیے اس کو مقتضائے ذات سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس پر بحث کہ ان افعال کا ظہور بمجبوری ہوا ہے یا باختیار ایک محض لغو و مہمل بحث ہے۔ جو امر کہ بمتقضا ئے ذات ہوا ہو اس سے یہ بحث متعلق نہیںہو سکتی۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے نفہیمات میں لکھا ہے ’ ’ ان نزاع الفلا سفۃ والمتکلمین فی ان اللہ تعالیٰ خالق بالاختیار اوبالا یجاب لیس فی معارک المعانی فی شیئی لما کان الارادۃ عند الفلاسفۃ عین الذات کان الا بداع ایجابا۔‘‘ مگرجب ہم ان کاموں کو جو ا س علۃ العلل سے ظہور میں آئے ہیں کامل انتظام سے منتظم اور سلسلہ علت و معلول میں بالترتیب مسلسل اور لاء آف نیچر کے مطیع دیکھتے ہیں تو فطرت انسانی اس پر شہادت دیتی ہے کہ یہ سب کام بالا رادہ ظہور میں آئے ہیں اور اس لیے ہیں ۔ ھو فعال یرید ولما نعلم حقیقۃ ارادتہ لا ن ارادتۃ لیس کا رادتنا۔ یا مثلا خالق ہونا۔یہ بھی ایک صفت ہے جسے علۃ العلل یا واجب الوجود کو موصوف کرتے ہیں۔ مگر یہ خیال انسان میںایک چیز سے دوسری چیز کو پیدا ہو تے ہوئے دیکھ کر پیدا ہو اہے مگر درحقیقت وہ اس صفت کی حقیقت یامجازی سے مطلق واقف نہیں ہے اور نہ اس نے اپنے کسی حواس سے محسوس کیا ہے اور نہ کرسکتا ہے اور اس لیے اس کی حقیقت کا جاننا مافوق فطرت انسانی ہے، بلکہ اس نے صرف اس وجہ سے کہ تمام کائنات کا ظہور اس علۃ العلل یا واجب الوجود سے ہوا ہے اس کو خالق اور اس ظہور کو مخلوق قرار دے کر صفت خالقیت بلا علم اس کی حقیقت کے علۃ العلل یا واجب الوجود کی طرف معسوب کی ہے ۔ وھو الحق ولھذا نقول ھو خالق کل شیئی لکنہ لا نعلم حقیقتہ واما الذین قالو اانہ واحد ولا یصدر من واحد الا واحد الا واحد فصدر منہ اولا العقل الاول او کذا و منہ صدر کذ او کذ او منھا صدر کذا وکذ وکذ او منھم قالو ا کان اللہ وکان معہ شیئی ویسمو نھا مادۃ فخلق منھا اشیاء و بث الخلق فکلھا ظنون ظنو ا بھا بغیر علم والحق کان اللہ ولم یکن معہ شیئی فخلق الخلق ولا نعلم لیف خلق لان فطرۃ الانسان قاصرۃ ان یعلمہ۔ یا مثلا علم ہو نا ایک صفت ہے جس سے علۃ العلل یا واجب الوجود کومو صوف کرتے ہیں، ممگر اسکی حقیقت کو بجز اس کے جو ہم نے بذریعہ اپنے حواس کے موجودات سے اخذ کی ہے نہیں جانتے اور وہ ایک کیفیت ہے جس سے ہم کو موجودات خارجی اور ذہنی کا انکشاف ہوتا ہے ، اس لیے ہمارے علم کے لیے قبل از علم موجودات خارجی یا ذہنی کاموجود ہونا ضرور ہے۔ یعنی ہمارا علم ان کے کے موجود ہونے کا فی الخارج یا فی الذہن محتاج ہے اور زائد علی الذات ہے اور زمانے سے متعلق ہے جس کو ہم نے ماضی و حال و استقبال سے تعبیر کیا ہے۔ مگر با ایں ہمہ اپنے علم سے کسی خاص شیئی کے موجد کے علم کو بہ نسبت اس شیئی کے زیادہ وسیع پاتے ہیں۔ وہ قبل وجود اس شیئی کے کل اور جزو کا اپنے ذہن میں علم رکھتا ہے اور اس کے وجود میں آنے پر اور ان خاص حالات کے ہونے پر جو آئندہ اس کے ہوں گے کوئی زیادتی اس ککے علم میں نہیں ہوتی اور اس شیئی خاص کی نسبت اس کے علم میں زمانے کا امتیاز بھی نہیں ہوتا ، بلکہ ماضی و حال و استقبال اس کے علم کی نسبت مساوی ہوتے ہیں۔ بہر حال جس صفت علم کو ہم جانتے ہیں اور جو محتاج وجود معلومات ہے اور جوزائد علی الذات ہے اس کو علۃ العلل یا واجب الوجود کی نسبت منسوب نہیں کر سکتے۔ مگر جب ہم نے از روئے قانون فطرت تسلیم کیا ہے کہ جو کچھ اس علۃ االعلل یا واجب الوجود سے ظہور میں آیا ہے اس کے ارادے سے ظہور میںآیا ہے اور وہ خالق جمیع مخلوقات ہے تو فطرت انسانی اس بات پر شہادت دیتی ہے کہ صفت علم بھی اس کو لازمی ہے جو نہ مقید وجود معلومات ہو اور نہ جس میں زمانے کا امتیاز ہو اور اس لیے اس کو کہتے ہیں عالم الغیب والشھادۃ وھو بکل خلق علیم وھذا العلم عند نا ھو المسمیٰ بالتقدیر۔ علم کی صفت میں سمیع و بصیر ، یعنی سننے والا اور دیکھنے والا ہونا بھی داخل ہے، کیونکہ وہ بھی انسان کے لیے ذریعے علم کے ہیں۔ لیکن جب اس علۃ العلل یا واجب الوجود کی نسبت ہم نے کہا ہے عالم الغیب والشھادۃ تو ہم کو علم کے ذرائع سے جو انسان کے خیال میںبھی بطور ذرائع جزئیات علم کے ہیں بحث کرنی ضرور نہ تھی ، مگر چونکہ انسان کے ذہن میں سننا او دیکھنا بھی منجملہ خاص ذرائع علم کے ہیں اور ان سے علم کے کامل ہونے کا خیال پیدا ہوتا ہے، اس لیے ان کو بطور جداگانہ دو صفتوں کے علۃ العلل یا واجب الوجود کی نسبت منسوب کیا ہے جن کو سننے اور دیکھنے سے تعبیر کرتے ہیں۔ مگر غور کرنا چاہیے کہ ہم ان صفتوں کی حقیقت کیا جانتے ہیں۔ سننے کی حقیقت ہم یہ جانتے ہیںکہ ہمارے کان میں ایک نہایت باریک پردہ ہے او جب کوئی صدمہ ہوائے محیط کو پہنچتا ہے تو اس میں چکر دار لہر پیدا ہوتی ہے ، جیسے کہ کنکری ڈالنے سے پانی میںپیدا ہوتی ہے۔ وہ لہر ہمارے کان کے پردے پر پہنچتی ہے اور وہ ذریعہ ہمارے سننے کا ہوتی ہے مگر اس طرح سے سننا معلول ہے متعدد علتوں کا اور وہ حقیقت سمع علۃ العلل یا واجب الوجود سے متعلق نہیں ہو سکتی ۔ پس جس سننے کی حقیقت کو ہم جانتے ہیں وہ حقیقت علۃ العلل یا واجب الوجود کے سننے کی نہیں ہے۔ دیکھنے کی حقیقت ہم یہ جانتے ہیں کہ ہماری آنکھ کے شفاف پردے اور اس رطوبت پر جو ثقبہ چشم میںہے روشنی کے سبب اس شیئی کا جو ہمارے سامنے ہے عکس آتا ہے جیسے کہ فوٹو گراف کی تصویر کھینچنے میں اور اس سبب سے ہم اس چیز کو جو ہمارے سامنے ہے دیکھتے ہیں ۔ یہ حقیقت دیکھنے کی تو متعدد چیزوں کے وجود ماقبل کی محتاج ہے اور بہت سی علتوں کی معلول ہے ، وہ علۃ العلل یا واجب الوجود سے منسوب نہیں ہو سکتی ۔ مگر جس طرح ا ز روئے قانون فطرت کے ہم اس علۃ العلل یا واجب الوجود کا علم ہونا تسلیم کرتے ہیں جو نہ مقید وجود معلومات پرہو اور نہ جس میں زمانے کا امتیاز ہو۔ اسی طرح ہم کو قانون فطرت کے مطابق سمیع و بصیر ہونا بھی جو در حقیقت صفت علم میں داخل ہے بلا موجود ہونے آواز اور بلا موجود ہونے مبصرات کے تسلیم کرنا لازم آتا ہے اور اس لیے کہتے ہیں وھو السمیع العلیم وانہ بصیر بالعباد انہ خارج عن فطرۃ الانسان۔ یا مثلا قادر ، یعنی قدرت والاہوتا ، یہ بھی ایک صفت ہے جس سے علۃ العلل یا واجب الوجود موصوف کیا جاتا ہے، قادر ہونے کا مفہوم عام یہ ہے کہ جس پر و ہ قدرت رکھتا ہے اسکو اپنی مرضی کے تابع رکھنا اور جس طرح چاہے اس میں تصرف کرنا ۔ اس مفہوم کو جب انسان اورعلۃ العلل سے منسوب کریں تو مختلف امور کا تسلیم کرنا لازم آتا ہے ۔ انسان جمیع موجودات پر قدرت نہیں رکھتا ۔ علۃ العلل یا واجب الوجود جو کہ مخرج ہے یا موجد ہے یا خالق ہے تمام ان چیزوں کا جو موجود ہیں یا آئندہ موجود ہوں، اس لیے ضرور ہے کہ ان تمام پر قادر ہو ۔ انسان کی قدرت محدو د ہے اور بعض دفعہ ناکامیاب ہوتی ہے ، یعنی وہ جو کرنا چاہتا ہے نہیں کر سکتا ، مگر علۃ العلل یا واجب الوجود جو خالق جمیع موجودات موجو دہ اور آئندہ کا ہے ، اس کی قدرت نہ جوارح سے متعلق ہے اور نہ محدود ہے اور نہ کبھی ناکام ہوسکتی ہے ۔پس مختصر لفظوں میںکہا جا سکتا ہے کہ اس کی قدرت ہماری سی قدرت نہیں ہے اور اس لیے اس کی قدرت کی ماہیت یا حقیقت کا سمجھنا انسان کی فطرت سے خارج ہے اور اس لیے کہا جاتا ہے انہ اعلیٰ کل شیئی قدیر لکنہ لا نعلم حقیقتہ قدرتہ۔ انسان کے دل میں ایک شبہ ہوتا ہے کہ جب یہ تسلیم کر لیا کہ علۃ االعل یا واجب الوجود سے تمام موجودات کا ظہور ہو اہے او ر سلسلہ علۃ العلل میں مربوط ہے اور فطرت ، یعنی نیچر کا مطیع ہے اور جو کچھ ظہور میں آتا ہے وہ اسی سلسلے سے آتا جاتا ہے تو اب وہ علۃ العلل یا واجب الوجود بیکار محض ہے اور اس طرح سلسلہ علۃ و معلول کو تسلیم کرنا اس کی صفت قدرت کو معدوم کرنا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ اس کو کرنا تھا کر چکا اب نہ اس میںکچھ صفت قدرت باقی ہے اور نہ اس سلسلے کے برخلاف کسی کام کے کرنے کی اس میںقدرت ہے۔ اسی خیال پر یہودیوں نے سبت کا دن قرار دیا ہے اور کہتے ہیں کہ خدا نے جس کو ہم نے علۃ العلل یا واجب الوجود کہا ہے ۔ چھ دن میں سب کچھ کر کے ساتویں دن آرام کیا۔ مگر یہ شبہ متعدد غلطیوں کے سبب سے پیدا ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ جس طرح انسان کا کام محدد ہیں اس طرح اس نے اس علۃ العلل یا واجب الوجود کے کاموں کو بھی محدود خیال کر لیا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے کام صرف اسی بیضہ نما دنیا میں محدود ہیں اور اس بیضہہ نما دنیا کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ایک لطیف حکایت ہے کہ اتفاقا ایک درویش جو میلے کچیلے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھا ۔ پاؤں سے ننگا ، بال گرد آلودہ ایک بادشاہ کے دربار میں چلا آیا اور درویشوں کی سی باتیں کرنے لگا، بادشاہ نے پوچھا کہ خدا کو جو کچھ کرنا تھاوہ کرچکا اب بتاؤ وہ کیا کرتا ہے ؟ درویش نے کہا’’ بادشاہ سلامت ! یہ تو بہت بڑا شاہانہ سوال ہے ۔ اگر آپ تخت سے نیچے اتر آویں اور میںتخت پر ایک لمحے کے لیے جا بیٹھوں تو اس شاہانہ سوال کا شاہانہ حالت میں جواب دے سکتا ہوں۔‘‘ بادشاہ نے منظور کیا اور تخت سے اتر آیا ۔ درویش تخت پر جابیٹھا اور بادشاہ ہاتھ باندھ کر تخت کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ درویش نے تخت پر سے جواب دیا کہ اس وقت خدا یہ کر رہا ہے کہ مجھ سے درویش کو تخت پر بٹھا دیا ہے اور تجھ سے بادشاہ کو دست بستہ میرے آگے کھڑا کر دیا ہے۔یہ کہہ کر درویش تخت پر سے اتر آیا اور جنگل کا رستہ لیا۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ جب انسان کوئی کام کر چکتا ہے تو اس کا تعلق اس کام سے منقطع ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح وہ سمجھتا ہے کہ علۃ العلل یا واجب الوجود نے جو کام کیا اس کا تعلق بھی اس کام سے قطع ہوگیا ، حالانکہ علۃ العلل یا واجب الوجود میںجو علاقہ علیۃ اور معلولیت کا ہے وہ کبھی قطع نہیں ہوتا اور وہی سبب معلول کے وجود کا ہے۔ اگر ایک ان بھی علا قہ علیۃ کا علۃ و معلول میں منقطع ہو جاوے تو معلول کا وجود بھی باطل ہو جاوے جیسے کہ الیکٹرسٹی سے جو لمپ روشن ہو اہے ، روشن ہونے کے بعد بھی اس کا تعلق الیکٹرسٹی سے قائم ہے۔ اگر منقطع ہو تو روشنی کا وجود بھی نہ رہے۔ تیسری غلطی یہ ہے کہ لاء آف نیچر یا قانون قدرت اور آئین فطرت خود اس علۃ العلل یا واجب الوجود نے اپنی قدرت اور ارادے سے پیدا کئے ہیں اور مقنضائے قدرت اور کمال فطرت یہی ہے کہ وہ بے خطا اسی طرح پر جاری رہے جس طرح اس نے بنایا ہے اور جس میں اس کی قدرت کا کامل طور پر ظہور ہے۔ اس کے بدستور جاری رہنے کو اس کی عدم قدرت کی دلیل سمجھنا کیسی عجیب بات ہے ، خصوصا جبکہ کوئی امر اس بات کا مانع نہیں ہے کہ وہ اس لاء آف نیچر اور قانون قدرت کو بالکل تبدیل کر دے اور کوئی نیا لاء آف نیچر یا قانون قدرت پیدا کرے اور سلسلہ موجودات اور کائنات کا اس کے مطابق جاری کرے اور کیا معلوم ہے کہ اس نے موجودہ لاء آف نیچر و قانون قدرت کب تک کے لیے بنایا ہے اور کب وہ زمانہ ختم ہوگا اور پھر اس کی قدرت کاملہ سے نیا لاء آف نیچر و قانون قدرت ظہور میں آوے گا ، مگر جو لاء آف نیچر وہ بنائے گا وہ تبدیل نہیں ہونے کا۔ خدا کا قادر ہونا اسی بات میں سمجھنا کہ کبھی آگ جلا دیا کرے اور کبھی نہ جلایا کرے ، کبھی پانی بھاری چیز کو ڈبو دیا کرے اور کبھی تیرا دیا کرے، کبھی سورج چلتا رہے اورکبھی ٹھہرجا یا کرے ، کبھی گیہوں بویا کریں اور جو پید ہوں او رکبھی جو بوئیں اور گیہوں پیدا ہوں، کبھی ان ہونی بات بھی کسی کے کہنے سے ہو جاوے اور ہونے والی بھی ٹل جاوے ، ایسا خیال کرنا تو عقلا اور فطرتا اس علۃ العلل اور واجب الوجود کی قدرت کے ساتھ ہنسی او ر ٹھٹھا کرنا اور نقلا لا تبدیل لخلق اللہ سے انکار کرنا ہے ۔ یہ تو ایسی بات ہے کہ کوئی کہے کہ جب اس علۃ العلل یا واجب الوجود کو اپنا سا دوسرا پیدا کرنے کی طاقت نہیں ہے تو وہ قادر مطلق کیا ہوا۔ ایسے سوالات خود غلط ہیں، کیونکہ اس سوال کا ایک جزو خودا س سوال کے دوسرے جزو کو باطل کرتا ہے۔ یہ چند صفتیں میں نے بطور تمثیل کے بیان کی ہیں۔ یہی حال ان تمام صفتوں کا ہے جو علۃ العلل یا واجب الوجود کی نسبت منسوب کی جاتی ہیں۔ پس از روئے آف نیچر اور مطابق فطرت انسانی کے انسان کے ذہن میں خدا کا یا علۃ العلل کا یا واجب الوجود کا مفہوم یا جو نام اس کا قرار دو یہ قرار پاتا ہے: بے شک وہ موجود ہے ، کیونکہ اس کا موجود ہونا اور واجب الوجود ہونا عقلا اور فطرتا اسی طرح ثابت ہے جس طرح ایک کو ایک میں ضرب دینے سے ایک ہی کا ہونا یا دو اور دو کا چار ہونا مساوی کے مساوی کا مساوی ہونا۔ اس کے وجود کی حقیقت کا نہ جاننا بھی فطرت انسانی کے مطابق ہے۔ اس لیے یقین کیاجاتا ہے کہ وہ موجود ہے نہ مجسم ہوکر، وہ موجود ہے نہ متحیز ہوکر ، یعنی کسی مکان کامکین ہو کر۔ پھر وہی لاء آف نیچر اور فطرت انسانی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ اس علۃ العلل یا واجب الوجود میں صفات کا ہونا بھی ضرور ہے ، مگر جو حقیقت صفات کی ہم جانتے ہیں اس طرح پر نہیں۔ اس لیے لازمی طور پر مانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے۔ جیسے کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ ’’وہ ایک مقدس اور پا ک ہستی جس کو کوئی اللہ اور کوئی وجود اور کوئی کلام کہتا ہے، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، وہ آپ ہی آپ ہے اور اس کا ہونا اس کی ذات ہے ، کیونکہ اس نے اپنا لقب یہی بتایا کہ میں ہوں۔ اس کا ہونا ہی ا س کی بڑائی ہے ۔ اپنے ہونے سے وہ پہچانا جاتا ہے اور اسی بڑائی سے وہ پکارا جاتا ہے۔ اس کی ابتدا ہے نہ انتہا۔ وہ کسی کامحتاج نہیں اور اس کے سوا کوئی نہیں یہاں تک کہ اگر کہا جاوے کہ ہے تو بوجھا جاوے کہ وہی ہے۔ نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور پھر جو کچھ ہوابغیر اس کے نہ ہوا۔ اس کا سا کوئی نہیں نہ ہونے میں، کیونکہ ہو نا اس کی ذات ہے ۔ اور نہ کسی صفت میں، کیونکہ سب صفتیں اس کی ذات ہیں۔ وہ زندہ ہے نہ جان سے،بلکہ اپنے آپ سے ۔ وہ جانتا ہے نہ کسی جہت سے ، بلکہ اپنی ذات سے ، وہ دیکھتا ہے نہ کسی دیکھنے والی چیز سے ، بلکہ اپنی ذات سے وہ سنتا ہے نہ کسی سننے والی چیز سے ، بلکہ اپنی ذات سے ، وہ بولتا ہے نہ کسی بولنے والی چیز سے ، بلکہ اپنی ذات سے ،وہ جو چاہتا ہے سو کرتا ہے نہ کسی غرض سے ، بلکہ اپنے کمال سے ، وہ سب کچھ کرتا ہے نہ کسی کرنے والی چیز سے ، بلکہ اپنی ذات سے ۔ وہ ہر طرح پر یکہ ہے اور ہر ان میں ہزاروں لاکھوں بلکہ بے انتہا کام کرتا ہے ۔ پھر ایسی ذات کی حقیقت کر بجز اس کے کہ ہے کوئی عقل سے پہچان سکتا ہے ‘‘۔ یہ کوئی ایسا مفہوم نہیں ہے کہ انسان کے ذہن میں نہ آسکے ، کیونکہ اس کا سمجھنا اور ذہن میں آنا بالکل انسان کی فطرت کے مطابق ہے اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End