اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید تفسیری مضامین جلد دوئم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقالات سرسید سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کو حاصل ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے اور اپنے پیچھے نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مضامین جہاں ادبی لحاظ سے وقیع ہیں، وہاں وہ پر از معلومات بھی ہیں۔ ان کے مطالعے سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مذہبی مسائل اور تاریخ عقدے حل ہوتے ہیں اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں اور سیاسی و معاشرتی لحاظ سے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ نیز بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی ان میں موجود ہیں سرسید کے ان ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا ہدف رہے ہیں ان مضامین میں علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی، مزاح بھی ہے اور طنز بھی، درد بھی ہے اور سوز بھی، دلچسپی بھی ہے اور دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے اور سرزنش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اور ہر قسم کے خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے، وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اور کہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات و رسائل کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام کے لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اور نا مکمل، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ گزر گیا مگر کسی کے دل میں ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا اور کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا آخر کار مجلس ترقی ادب لاہور کو ان بکھرے ہوئے بیش بہا جواہرات کو جمع کرنے کا خیال آیا مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں پرونے کے لیے مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا انتخاب کیا جنہوں نے پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میں دور و نزدیک کے سفر کیے فراہمی مواد کے لیے ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا، مگر چونکہ ان کی طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری باحسن طریق پوری کی چنانچہ عرصہ دراز کی اس محنت و کاوش کے ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں’’ مقالات سرسید‘‘ کی مختلف جلدوں کی شکل میں فخر و اطمینان کے جذبات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ تفسیر السموات (از تہذیب الاخلاق جلد5بابت 15ربیع الثانی، یکم رجب، یکم شعبان1291ھ صفحات18-107-125) ہم کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ علماء اسلام نے کوئی خاص علم حیثیت ایسا مقرر ہے جس کی بنا قرآن مجید یا حدیث پر ہو جہاں تک ہم کو معلوم ہے وہ یہی ہے کہ جو علم ھیئت یونانی حکیموں نے اختیار کیا تھا وہ ہی بعینہ بدریعذ ترجموں کے، جو یونانی زبانوں سے عربی زبان میں ہوئے ہم مسلمانوں میں بھی پھیل گیا۔ جب قرآن مجید کی تفسیریں لکھی گئیں اور قرآن مجید کی کسی آیت میں کوئی ایسا مضمون آیا جو علم ھیئت سے علاقہ رکھتا تھا تو انہوں نے اس کی تفسیر اسی یونانی علم ہیئت کے اصول پر کی، یہاں تک کہ قرآن مجید میں سات آسمانوں کا ذکر تھا اور یونانی نو آسمان مانتے تھے تو علماء اسلام نے ان سات آسمانوں میں عرش اور کرسی کو ملا کر پورے نو کر دئیے۔ پس ہم سمجھتے ہیں کہ علماء اسلام نے یونانی علم ہیئت کو تسلیم کیا اور اسی کے اصول کو مذہبی کتابوں اور قرآن مجید کی تفسیروں میں داخل کر دیا۔ رفتہ رفتہ وہ مذہب کے ساتھ اور مسائل مذہبی میں ایسا مل جل گیا کہ یونانی علم ہیئت سے انکار کرنا گویا مسائل ضروریہ مذہب سے انکار کرنا خیال میں سما گیا پس جس قدر کہ ہم کو انکار ہے انہی مسائل علم ہیئت یونانیہ سے ہے جن کو علماء اسلام نے مسائل مذہبی و تفسیر قرآن مجید میں شامل کیا ہے۔ یونانی حکیم آسمانوں کا ایک ایسا جسم مانتے ہیں جو نہایت مضبوط اور سخت ہے اور وہ ایک مکان کو گھیرے ہوئے ہے اور وہ مثل کرہ کے گول اور اندر سے خالی ہے جیسے انڈے کا چھلکا اور دنیا کے چاروں طرف کو گھیرے ہوئے ہے اور تمام دنیا ان کے اندر ایسی ہے جیسے کہ انڈے کے چھلکے میں اس کے اندر کی زردی و سفیدی۔ وہ کہتے ہیں کہ بیچوں بیچ میں زمین اسی طرح پر ہے جیسے کہ انڈے میں انڈے کی زردی اس کے اوپر پانی ہے، مگر جس طرح کہ بعضی دفعہ انڈا اوبالنے میں اس کی زردی ایک طرف کو ہو جاتی ہے اور سفیدی سے باہر نکل آتی ہے، اسی طرح زمین بھی بیچ میں سے ٹل گئی ہے اور پانی کے ایک طرف نکل آئی ہے جس کے اوپر ربع مسکون یعنی دنیا ہے 1پھر وہ کہتے ہیں کہ پانی پر ہوا ہے اور ہوا پر کرہ آتش ہے اور کرہ آتش پر اول آسمان ہے جس میں چاند ہے پھر دوسرا آسمان ہے جس میں عطارد ہے پھر تیسرا آسمان ہے جس میں زہرہ ہے پھر چوتھا آسمان ہے جس میں آفتاب ہے پھر پانچواں آسمان ہے جس میں مریخ ہے پھر چھٹا آسمان ہے جس میں مشتری ہے پھر ساتواں آسمان ہے جس میں زحل ہے۔ پھر آٹھواں آسمان ہے جس میں یہ لاکھوں ثوابت جڑے ہوئے ہیں پھر نواں فلک الافلاک ہے جو سب کو محیط ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ فلک الافلاک کے اوپر کچھ نہیں ہے، یعنی فلک الافلاک کے اوپر مکان کا اطلاق نہیں ہے اور اسی سبب سے وہ نہیں بتلاتے کہ فلک الافلاک کی سطح محدب 1یونانیوں کو اس بات کی خبر نہ تھی کہ اس دنیا کے نیچے دوسری دنیا آباد ہے اگر اس کی خبر ہوتی تو ایسا خیال نہ کرتے۔ کس کی مماس ہے، یعنی اس کے اوپر کیا ہے مگر یہ کہتے ہیں کہ اس کی سطح مقعر فلک نہم کی سطح محدب کی مماس ہے اور اسی طرح تمام آسمانوں کی سطح مقعر اس کے نیچے کے آسمان کی سطح محدب سے مماس ہے اور اسی لیے وہ قائل ہیں کہ زمین سے فلک الافلاک تک کہیں خلا نہیں ہے۔ وہ اس کے بھی قائل ہیں کہ تمام آسمان مع کواکب کے جو ان میں جڑے ہوئے ہیں زمین کے گرد پھرتے ہیں اور زمین ان میں مثل مرکز ہے کرہ میں انہی اصولوں کو علما اسلام نے بھی اختیار کیا ہے اور انہی اصول پر قرآن مجید کے مفسروں نے قرآن کی تفسیر کی گو کہ بعض بعض باتوں میں کچھ اختلاف بھی کیا ہو مگر نظام یہی تسلیم کیا ہے اس تحریر کے ساتھ جو ایک پرچہ شامل ہے اس میں جو شکل نمبر اول کی مندرج ہے اس سے بخوبی تصویر آسمانوں اور ستاروں کی سمجھ میں آ سکتی ہے جس طرح پر یہ یونانی حکیموں نے مقرر کی ہے۔ اب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جس طرح ہر یونانی حکیموں نے آسمان کا مجسم ہونا تسلیم کیا ہے اور ان کو مع کواکب زمین کے گرد پھرنا مانا ہے یہ بالکل غلط اور خلاف واقع ہے اور علماء اسلام نے بڑی غلطی کی ہے جو انہی اصولوں کو اپنے مذہبی مسائل میں ملا دیا ہے اور قرآن مجید کی آیتوں کی تفسیر اسی یونانی علم ہیئت کے مطابق کی ہے، کیونکہ وہ بناء فاسد علی الفاسد ہے۔ ہم کو مشاہدہ سے بذریعہ دور بین کے (جو ہمارے نزدیک اور ہر ایک انسان کے نزدیک جو ذرا بھی واقفیت اور عقل رکھتا ہے دلیل قطعی ہے) بر خلاف اس کے ثابت ہوا ہے جو آسمانوں اور کواکب کا نظام یونانی حکیموں نے قرار دیا ہے اور جس کی ہونے اور آسمان انڈے کے چھلکے کی طرح ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ ان سیاروں کے چاند بغیر آسمانوں کے توڑے ان سیاروں کے گرد دورہ کرتے۔ سوئم اگلے زمانہ میں یونانی حکیموں نے دم دار ستاروں کو یہ سمجھا تھا کہ آسمان و زمین کے بیچ میں پیدا ہو جاتے ہیں اور پھر جاتے رہتے ہیں، مگر اب مشاہدہ سے بذریعہ دور بین کے ثابت ہوا ہے کہ یہ بات غلط تھی۔ وہ بھی بجائے خود ستارے ہیں اور بہت دور چلے جاتے ہیں اور پھر چلے آتے ہیں اور ان کی حرکت ایسی بڑی ہے کہ تمام کواکب اور فلک الافلاک مقررہ حکماء یونان سے بھی اونچے ہو جاتے ہیں اور جو کہ دم دار ستارے بھی متعدد ہیں اس لئے متعدد سمتوں پر حرکت کرتے ہیں پس جس طرح کا جسم آسمانوں کا یونانی حکیموں نے قرار دیا ہے اگر ویسا ہی جسم آسمانوں کا ہوتا تو دم دار ستاروں کا یا اس طرح پر حرکت کرنا نا ممکن ہوتا یا ان کی حرکت سے تمام آسمان شیشہ کی طرح چکنا چور ہو جاتے۔ دور بین کے ذریعہ سے دکھائی دیتا ہے کہ کواب اس طرح پر واقع ہیں جیسا کہ شکل دوئم میں بنائے گئے ہیں اور ان کا دورہ بھی دوربین کے ذریعہ سے اسی طرح معلوم ہوتا ہے جس طرح کہ اس شکل میں دائرے کھنچے ہیں پس اب خیال کرو اگر آسمان اس طرح پر مجسم ہوں جیسا کہ حکماء یونان نے قرار دیا ہے اور ایک کا مقعر دوسرے کے محدب سے مماس ہو تو مشتری اور زحل اور جرجیس کے چاند کیونکر ان کے گرد پھر سکتے ہیں اور اگر آسمانوں میں فاصلہ بھی مانا جاوے تو یہ ذوات الاذناب یعنی دم دار ستارے کس طرح تمام آسمانوں کو توڑ پھوڑ چکنا چور کر کر نکل جاتے ہیں۔ اگر یہ بات کہ جاوے کہ ہم آسمانوں کا جسم ایسا نہیں مانتے جیسا کہ یونانی حکیموں نے مانا ہے، بلکہ ہم ایسا لج لجا اور ڈھلم ڈھلا مانتے ہیں جس میں سے سب چیزیں نکل جاتی ہیں جیسے پانی یا ہوا یا اس سے بھی زیادہ جسم لطیف مگر اس کہنے پر ہم پوچھتے ہیں کہ ایسا جسم ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ہے اس پر ہمارے دوست کہتے ہیں کہ ضرورت یہ ہے کہ قرآن مجید سے انکار لازم نہ ہو۔ ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ حضرت اگر ایسا ہی جسم آسمانوں کا مانا جاوے گا تب بھی مفسرین کی تفسیروں سے تو انکار کرنا پڑے گا، کوینکہ سبعاً شدا داً کے جو معنے انہوں نے قرار دئیے ہیں وہ کسی طرح ایسے لج لجے ڈھلم ڈھلے جسم پر صادق نہ آویں گے اور ضرور دوسرے معنی قرار دینے پڑیں گے۔ پھر ہم ان کو دوسری طرح سمجھاتے ہیں کہ قرآن مجید کے سبب سے کسی چیز کو مان لینا اور اس کی واقعیت پر کسی دلیل کا نہ لا سکنا کچھ کام کی بات نہیں ہے۔ جاہل مسلمانوں کا یقین ہمارے یقین سے بہت زیادہ مضبوط ہے ان کو تو نہ ہمیں اس بات کے سمجھانے کی حاجت ہے کہ آسمانوں کا جسم یونانی حکیموں والا جسم ہے یا اور کسی طرح کا لطیف والطف، لج لجا اور ڈھل ڈھالا جہاں تک گفتگو ہے وہ لکھے پڑھے آدمیوں سے ہے اور مذہب کے سچے ہونے کے دلائل زیادہ تر ان لوگوں سے متعلق ہیں جو اس مذہب کو نہیں مانتے تھے یا ان لوگوں سے متعلق ہیں جو پہلے اس مذہب کو مانتے تھے مگر کسی وجہ سے اب اس سے پھر گئے ہیں پس اگر ان دونوں قسموں کے لوگوں کے سامنے آپ فرمائیے کہ ہم آسمان کا ایسا جسم لطیف اس لئے مانتے ہیں کہ قرآن کا انکار لازم نہ آوے تو اس کے دل میں یہ بات کیا اثر کرے گی، بلکہ مثل اس شخص کے جس نے اناڑی شاعر کو کہا تھا کہ شعر گفتن چہ ضرور، نعوذ باللہ وہ یہی جواب دے گا کہ تسلیم کردن قرآن چہ ضرور۔ علاوہ اس کے نہایت ضعف یقین کی بات ہے کہ ہم قرآن مجید کے علاوہ کسی کلام کی نسبت جس میں واقعات اور حقایق موجودہ کا ذکر ہو یہ کہیں کہ اس کے واقعی ہونے کا کچھ ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے ایسی بات سے کیا فائدہ ہے جس کے واقعی ہونے کا دل میں تو یقین نہ ہو مگر صرف زبان سے اقرار کیا جاوے۔ ہمارا ایمان تو قرآن مجید پر ایسا مستحکم ہے کہ ہم تمام حقائق موجودہ کو اور قرآن مجید کو مطابق دل سے یقین کرتے ہیں۔ چہارم ہم بذریعہ دوربین کے زہرہ کو اور اس کے سوا اور ستاروں کو بھی دیکھتے ہیں کہ مثل چاند کے بدر و ہلال ہوتے ہیں پس اگر وہ ستارے آفتا ب کے گرد پھرتے نہ ہوتے بلکہ زمین کے گرد پھرتے ہوتے تو ان کا بدر و ھلال ہو کر ہم کو دکھائی دینا غیر ممکن ہوتا یونانی حکیموں کو یہ بات معلوم ہی نہیں ہوئی تھی کہ اور ستارے بھی بدر و ھلال ہوتے ہیں۔ پنجم ہم بذریعہ دور بین کے اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں کہ عطارد اور زہرہ جب آفتاب کے پاس آ جاتے ہیں تو کبھی تو وہ آفتاب سے اس طرح پر مل جاتے ہیں کہ آفتاب نیچے ہوتا ہے اور وہ اس کے اوپر ہوتے ہیں اور کبھی آفتاب اوپر ہوتا ہے اور وہ اس کے نیچے ہوتے ہیں اور یہ بات ہو نہیں سکتی جب تک کہ آفتاب ساکن نہ ہو اور تمام سیارات مع زمین کے اس کے گرد نہ پھرتے ہوں اگر آفتاب چوتھے آسمان میں جڑا ہوا ہوتا اور وہ دونوں اس سے نیچے ہوتے، یعنی عطارد دوسرے آسمان میں اور زہرہ تیسرے آسمان میں اور وہ سب زمین کے گرد پھرتے ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ عطارد و زہرہ کبھی آفتاب کے اوپر آفتاب سے جا کر ملتے۔ یونانی حکیموں کو یہ بات معلوم ہی نہیں ہوئی تھی کیونکہ اس زمانہ میں دوربین ایجاد نہیں ہوئی تھی، مگر اس زمانہ میں ان کا مقررہ علم ہیئت مشاہدہ سے غلط ثابت ہوتا ہے پس اس سے زیادہ انسان کی نادانی کیا ہو گی کہ قرآن مجید کی تفسیر ایسے اصول پر کرے جن کی غلطی علانیہ ہو اور ایسے اصول پر تفسیر کرنے کو کفر سمجھے جو بالکل واقع کے مطابق ہو۔ علاوہ اس کے اور بہت سی دلیلیں ہیں جن سے بخوبی بمنزلہ عین الیقین، بلکہ حق الیقین کے ثابت ہوتا ہے کہ یونانیوں نے آسمانوں کا جیسا جسم مانا تھا اور کواکب کو ان میں جڑا ہوا تسلیم کیا تھا اور یہ جانتے تھے کہ تمام آسمان مع کواکب کے زمین کے گرد حرکت کرتے ہیں اور زمین ساکن ہے، یہ محض غلط اور خلاف واقع ہے، مگر وہ دلیلیں فی الجملہ مشکل ہیں اور آلات وصدیہ کی واقف کاری اور علم طبیعیات کے جاننے پر موقوف ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ عام لوگ جو ان علوم سے محض نا واقف ہیں سمجھ نہیں سکنے کے اس لیے ہم نے ان کو بیان نہیں کیا اور صرف چند موٹی موٹی باتیں بیان کی ہیں جو ہر سمجھدار آدمی کی سمجھ میں آ سکتی ہیں خواہ وہ ان علوم سے واقف ہو یا نہ ہو۔ مشاہدہ سے اور تمام دلیلوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایک وسعت میں خواہ اس میں کوئی جسم لطیف سیال ہو یا نہ ہو تمام کرات جو کواکب دکھائی دیتے ہیں پھیلے ہوئے ہیں یہ زمین بھی انہی کی مانند ایک کرہ کے ان کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ہم رات کو مختلف مقامات میں بہت سے غبارے اڑا دیتے ہیں اور وہ اوپر چلے جاتے ہیں اور معلق ٹھہرے ہوئے اور چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ سب کرے کواکب کے مع ہماری زمین کے خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ایک وسعت میں بکھیر دئیے ہیں جو اپنی اپنی جگہ میں ہیں ان سب کے پیچ میں آفتاب ہے اور وہ سب اس کے گرد پھرتے ہیں اور نہیں معلوم کہ ایسے ایسے آفتاب اور کتنے ہیں اور کتنے ستارے ان کے ساتھ ہیں جو اس کے گرد پھرتے ہوں گے، کیونکہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور صنعت بے انتہا ہے۔ ہمارے مخالفوں کو اور ہم پر مسئلہ وجود آسمان پر فتویٰ کفر دینے والوں کو ذرا غور سے انصاف کرنا چاہئے کہ خدا کی قدرت اور عظمت اس کو صرف اس دنیا کا جو ان کے نزدیک مثل ایک انڈے کے محدود ہے، خدا اور خالق ماننے میں ہے یا اس کو ایسی بے انتہا مخلوق کا خالق اور خدا ماننے میں ہے جس کی انتہا مثل اس کی قدرت کے بے انتہا ہے جیسی یہ ہماری دنیا ہے جس کے لیے یہ آفتاب ہے اور جس سے بہت سے کواکب سیارے متعلق ہیں، اسی طرح اور بہت سے بے انتہا شموس ہیں جن کا نظام ہی جدا ہے اور مثل ہماری دنیا کے، بلکہ اس سے بھی زیادہ عجیب بے انتہا نظام شمسی جس کے مجموع کو ہم دنیا کہتے ہیں موجود ہیں اور وہ ان سب کا خالق اور سب کا ایک خدائے واحد ذوالجلال ہے جس کا نہ کوئی ند ہے اور نہ کوئی ضد تعجب ہے کہ صرف ایک چڑیا کے انڈے کے برابر چیز کا خدا کو خدا اور خالق جاننا تو اسلام ہو اور اس کو ایسا قادر مطلق اور بے انتہا مخلوق کا خالق اور اس سب کا خدا ماننا کفر ہو فہیہات ھیہات لمثل ھذا السلام و مرحمیا ثم مرحبا لمثل ھذا الکفر وللہ درمن قال گر مسلمانی ہمین است کہ واعظ دارد وائے گر در پس امروز بود فردائے ہاں بلا شبہ اب ہم کو اس بات پر غور کرنا باقی ہے کہ جس چیز کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے اور جس کو ہم نے دلیل قطعی، یعنی مشاہدہ سے واقعی بیان کیا ہے قرآن مجید یا وہ احادیث صحیحہ جو بدرجہ یقین یا قریب بدرجہ یقین یا قریب بظن غالب پہونچی ہیں اور کوئی نقص یا کوئی وجہ ان کے انکار کی بھی نہیں ہے وہ تو اس کی مخالف نہیں ہیں، کیونکہ اگر وہ اس کی مخالف ہوں تو دو کاموں میں سے ایک کام ضرور کرنا پڑے گا یا اس مشاہدے کو غلط ماننا پڑے گا یا نعوذ باللہ اسلام کو غلط تسلیم کرنا ہو گا، مگر میری داست میں نہ قرآن اور نہ کوئی حدیث صحیح اس کے بر خلاف ہے جس کا ہم مفصل بیان کرتے ہیں۔ مگر اس کے بیان کرنے سے پہلے چند باتیں بیان کرنی ضرور ہیں، کیونکہ وہی ہمارے اصول ہیں جن پر ہمارا بیان مبنی ہو گا۔ اول یہ کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرنے کے کہ ہمارا بیان اس لئے غلط ہے کہ مفسرین نے اس کے بر خلاف بیان کیا ہے، کیونکہ ہمارے نزدیک مفسرین نے قرآن مجید کی تفسیر انہی اصولوں پر کی ہے جو حکماء یونان نے مقرر کئے تھے اور جن کی غلطی ہم کو مشاہدہ سے ثابت ہوئی ہے۔ دوسرے یہ کہ الفاظ قرآن مجید کے وہی معنی لیں گے جو ان پڑھ اہل عرب ان کے معنی حقیقی یا مجازی موافق اپنی بول چال کے سمجھتے تھے نہ وہ معنی کہ کسی علم کے عالموں نے بموجب اپنی اصطلاح کے قرار دئیے ہیں، کیونکہ خود خدا نے فرمایا ہے کہ ’’ وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ‘‘ تیسرے یہ کہ قرآن مجید بلسان قوم رب نازل ہوا ہے زبان اہل عرب، بلکہ تمام دنیا کی قوموں کی زبان انہی الفا ظ پر محدود ہے جن سے وہ اپنے مافی الضمیر کو تعبیر کرتے ہیں اور انسان کے خیال میں یا دل میں بھی وہی چیزیں آ سکتی ہیں جن کو وہ حواس خمسہ ظاہری و باطنی سے جان سکتا ہے پس جس چیز کو یا اس کی مثل کو ہم نے نہ کبھی دیکھا ہو نہ چھوا ہو نہ چکھا ہو نہ سونگھا ہو اور نہ ہمارے کان کی قوت سامع نے اس کا حس کیا اور نہ ہمارے خیال میں آئی ہو اس کا بیان کسی زبان کے الفاظ سے نہیں ہو سکتا اس کے بیان سے انسان جب کہ وہ کسی قوم کی زبان سے تکلم کرے یقینا عاجز ہے اور خداوند پاک بھی ایسے لفظ کو استعمال نہیں فرما سکتا جس کے سمجھنے سے وہی قوم عاجز ہو جس کے سمجھانے کے لیے وہ لفظ بولا گیا ہو خدا کی ماھیت ذات ہم کسی لفظ سے بیان نہیں کر سکتے اور نہ خدا ہم کو اپنی ماھیت ذات عربی زبان کے یا اور کسی زبان کے لفظوں میں بتا سکتا ہے، کیونکہ کسی زبان میں کوئی لفظ اس کی اصلیت پر مطلع کرنے کے لئے نہیں ہے۔ اسی طرح جتنی چیزیں ایسی ہیں کہ وہ نہ ہمارے دل میں آ سکتی ہیں نہ ہمارے خیال میں ان کی تعبیر کے لئے کوئی لفظ کسی زبان میں نہیں ہوتا اور جب کہ کوئی شخص اور وہ بھی جو ان چیزوں کو جانتا ہے کسی قوم کی زبان میں ان کو بیان نہیں کر سکتا تو ایسا طرز کلام کام میں لاتا ہے جس سے نتیجہ وہی حاصل ہو جاوے جو اس وقت حاصل ہوتا اگر اس مطلب کی تعبیر کے لئے کوئی لفظ کسی قوم کی زبان میں ہوتا۔ اس کی مثال یہ سمجھو کہ قرآن مجید میں خدا کی نسبت ہاتھ کا، پاؤں کا، منہ کا لفظ آیا ہے یہ تینوں لفظ انسان کی زبان میں ایک خاص شے کی تعبیر کرنے کے لئے ہیں، مگر چونکہ خدا کی ذات ہمارے ادراک سے خارج ہے تو ہر گز ان لفظوں کے وہ معنی ہم نہیں لے سکتے جو ید اور ساق اور وجہ کے لیتے ہیں، بلکہ ان لفظوں کے مفہوم سے ہم نا واقف ہیں، البتہ ان لفظوں سے وہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں جو اس وقت حاصل ہوتا اگر خدا کی ذات کی تعبیر کے لئے کوئی لفظ ہوتے۔ پس جو لوگ یہ بات کہتے ہیں کہ ہم قرآن مجید کے الفاظ سے ہر مقام پر وہی معنی لیں گے اور وہی حقیقت سمجھیں گے جو عرب کی زبان میں ان کے لئے معنی ہیں یہ ان کی محض غلطی ہے، بلکہ الفاظ مستعملہ قرآن مجید کے محل کو دیکھنا چاہئے کہ اگر وہ محل ایسا ہے جو ہمارے ادراک کے محدود احاطہ میں داخل ہے تو بلا شبہ اس کے ہم وہی معنی لیں گے جو زبان عرب میں حقیقتاً یا محاذاً موافق محاورہ زبان عرب کے اس کے لئے ہیں اور اگر وہ محل ایسا ہے جو ہمارے ادراک سے باہر ہے تو ہم اس لفظ کے حقیقتاً وہ معنی نہیں سمجھنے کے جو انسان کی زبان میں ہیں، بلکہ ہم اس سے صرف اس نتیجہ کو حاصل کریں گے جو نتیجہ ہم کو اس وقت حاصل ہوتا اگر اس حقیقت کی تعبیر کے لئے کوئی لفظ ہوتا ھذا ما الھمنی ربی والحمد للہ علی ذالک وصلی اللہ علیہ حبیبہ محمد والہ اجمعین چوتھے یہ کہ قرآن مجید اگرچہ خالق کل کائنات کا کلام ہے، مگر جو کہ وہ بطریق اعجاز انسان کی زبان میں بولا گیا ہے، اس لئے اس کے معنی اور مراد لینے میں فصاحت اور بلاغت کے لحاظ سے وہی امور اس کے لوازم میں شمار کئے جاویں گے جو ایک اعلیٰ درجہ کی زبان عرب میں معتبر ہوں نہ اور کچھ پس جس طرح کہ فصیح و بلیغ انسان آپس میں بول چال کرتے ہیں اور جو طرز ان کی بول چال کا ہوتا ہے اسی کا لحاظ قرآن مجید میں بھی ہمیشہ رکھنا چاہئے۔ ان اصول اربع کے سمجھنے کے بعد ہم کو یہ دیکھنا چاہے کہ عربی زبان میں سماء کا لفظ کن کن معنوں میں آیا ہے اور ان پڑھ عرب کس چیز کو اس اسم کا مسمی سمجھتے تھے۔ قاموس میں جو لغت زبان عرب کی کتاب ہے صرف اتنا لکھا ہے کہ ’’ السمائمعروف‘‘ یعنی آسمان وہ ہے جس کو سب جانتے ہیں پس اب ہم پوچھتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جس کو سب آسمان جانتے تھے یا جانتے ہیں؟ بجز اس نیلی یا سبز چیز کے جو ہم کو دکھلائی دیتی ہے اور کسی چیز کو کوئی شخص (بشرطیکہ وہ مولوی نہ ہو) نہ آسمان جانتا تھا نہ آسمان جانتا ہے یہی نیلی یا سبز چیز جو ہم کو دکھائی دیتی ہے سماء کا مسمیٰ سمجھا جاتا ہے۔ اس مقام پر میں نے شرط مذکور بے فائدہ لگائی، کیونکہ اگلے بزرگوں اور عالموں کے نزدیک بھی سماء کا مسمیٰ یہی نیلی یا سبز چیز تھی۔ ایک بزرگ نے ابی حاتم کی روایت پسند قاسم ابن بزہ ہمارے سامنے پیش کی ہے کہ ’’ قال لیست السماء مربعہ لکنھا مقبوبۃ یراھا الناس خضرا‘‘ یعنی آسمان مربع نہیں ہے مگر قبہ بنایا گیا ہے دیکھتے ہیں اس کو لوگ سبز پھر دوسری روایت ثعلبی کی بسند ضحاک پیش کی ہے تفسیر کوہ قاف میں ’’ انہ جبل محیط بالا رض من زمرد خضرا بضرۃ السماء منہ‘‘ یعنی قاف پہاڑ ہے محیط ساتھ زمین کے زمرد سبز سے سبزی آسمان کی اسی سے ہے۔ پھر تیسری روایت ابو الجوزا کی بسند ابن عباس پیش کی ہے کہ ’’ قال ابن عباس قاف جبل من زمردۃ خضراء محیط بالعالم و خضرۃ السماء منہا‘‘ یعنی قاف ایک پہاڑ ہے زمرد سبز کا، محیط ہے ساتھ عالم کے پس سبزی آسمان کی اس سے ہے۔ اگرچہ ہم ان روایتوں کو نہیں مانتے اور ضعیف، بلکہ موضوع سمجھتے ہیں، مگر اتنی بات ان سے ضرور پائی جاتی ہے کہ اگلے زمانے کے لوگ لفظ سماء کا مسمیٰ اسی چیز کو جو نیلی نیلی یا سبز سبز دکھائی دیتی ہے سمجھتے تھے۔ خدا تعالیٰ نے بھی آسمان کے ہم کو یہی معنی بتائے ہیں، بلکہ اس طرح بتاتا ہے کہ یہ ٓسمان ہے اس کو دیکھو سورہ ھل اتاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ افلا ینظرون الی الا بل کیف خلقت والی السماء کیف رفعت‘‘ یعنی’’ پھر کیوں نہیں دیکھتے اونٹ کو کہ کیسا بنایا گیا ہے اور آسمان کو کہ کس طرح اونچا کیا گیا ہے۔‘‘ پس خدا اسی چیز کے دیکھنے کو جو اونچی اور نیلی ہم کو دکھائی دیتی ہے فرماتا ہے اور اسی کا نام سماء لیتا ہے۔ پھر سورہ نحل آیت81میں فرمایا ہے ’’ الم یرو الی الطیر مسخرات فی جو السمائ‘‘ یعنی کیا نہیں دیکھتے اڑنے والے جانوروں کو کہ فرمانبردار کئے گئے ہیں آسمان کی وسعت میں پس ہم اسی نیلی نیلی چیز کی وسعت میں پرندوں کو اڑتا ہوا دیکھتے ہیں جس کا نام ہم کو خدا نے سماء بتایا ہے۔ پھر سورہ روم آیت47میں فرمایا ہے ’’ اللہ الذی یرسل الریاح فتشبر سحابا فیبسطہ فی السمائ‘‘ یعنی اللہ وہ ہے جو چلاتا ہے ہواؤں کو پھر اٹھاتی ہیں بادلوں کو پھر پھیلاتا ہے اس کو آسمان میں پس ہم دیکھتے ہیں کہ اسی نیلی نیلی چیز میں ہوا چلتی ہے اور اس میں بادل اٹھتے ہیں اور اسی میں پھیلتے ہیں اور اسی نیلی نیلی چیز کا نام خدا نے ہم کو سماء بتلایا ہے۔ پھر سورہ سیاء آیت9میں فرمایا ہے ’’ افلم یروا الی مابین ایدیھم وما خلفھم من السماء والارض ان نشاء فخسف بھم الارض او نسقط علیھم کشفا من السمائ‘‘ یعنی کیا انہوں نے اس چیز کو نہیں دیکھا جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے آسمان اور زمین سے اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنا دیویں یا ان پر آسمان سے ٹکڑا ڈال دیں پس ہمارے چاروں طرف یہی نیلی چیز ہے جو ہم کو دکھلائی دیتی ہے اور جس طرح کہ ہم کو زمین میں دھنس جانے کا خیال آتا ہے اسی طرح اس نیلی نیلی چیز کے اوپر سے ٹوٹ پڑنے کا خیال ہوتا ہے اور اسی نیلی چیز کا نام خدا نے سماء بتایا ہے پھر سورہ ق آیت 6میں فرماتا ہے ’’ افلم ینظر وا الی السماء فوقھم‘‘ یعنی کیا نہیں دیکھا انہوں نے آسمان کو اپنے اوپر پس یہی نیلی چیز ہم کو اوپر دکھائی دیتی ہے اور اسی کا نام خدا تعالیٰ نے ہم کو سماء بتلایا ہے۔ پھر سورہ حج آیت74میں فرمایا ہے ’’ ویمسک السماء اجن تقع علی الارض‘‘ یعنی تھام رکھتا ہے آسمان کو زمین پر گرنے سے پس وہ کیا چیز ہے جو ہم کو زمین پر گرنے سے تھام رکھی ہوئی معلوم ہوتی ہے یہی نیلی نیلی چیز ہے جس کا نام خدا نے ہم کو آسمان بتلایا ہے۔ پس لفظ سماء جو قرآن مجید میں آیا ہے وہ تو اسی چیز پر بولا گیا ہے جس کو اہل عرب سماء سمجھتے تھے ہمارے شفیق جب چاہتے ہیں کہ سماء کے معنی کچھ اور بدل دیں تو وہ نہایت خفگی سے فرماتے ہیں کہ ’’ یہ نیلی چھت چنبری او ھن من بیت الکنوب مثل ھوا ود خان کے کیا سماء منصوصہ قرآن یہی ہے اور اس کی نسبت قرآن میں وارد ہوا ہے۔‘‘ اء نتم اشد خلقا ام السماء بنا ھارفع سمکھا والسماء بنیناھا باید وہ یہی آسمان ہے جس کی نسبت فرمایا ہے ولقد جعلنا فی السماء بروجا و زینا ھا للناظرین و حفظنا ھا من کل شیطان رحیم انا ربنا السماء الدنیا بزرینۃ ن الکواکب و حفظا من کل شیطان مارد لا یسمعون الی الملاء الا علی ومن ایاتہ ان تقوم السماء والارض بامرہ کیا یہ منجملہ ان کئی کے ہے جس کی نسبت قرآن میں ہے یوم نطوی السماء کطی السجل للکتب کیا اسی کی نسبت ہے یمسک السماء ان تقع علی الارض و یوم تشقق السماء بالغمام یوم تمور السماء مورا یوم تاتی اسلامء بدخان مبین اسی کی نسبت فرمایا ہے تبارک الذی جعل فی السماء بروجا و جعل فیہا سراجا و قمرا منیرا یہی ہے جس کی نسبت قرآن میں ہے وانشقت السماء فہی یومئذ واھیۃ والملک علی ارجائھا یوم تکون السما کالمھل یوما یجعل الوالدان شیبا ن السماء منفطر بہ اذا السماء فرجت وفتحت السماء فکانت ابوابا اذا السماء کشطت اذا السما انفطرت اذا السماء انشقت والسما ذات البروج والسماء ذات الرجع مگر ہم ادب سے کہتے ہیں کہ حضرت خفا ہونے کی کوئی بات نہیں ہے، فرمایا تو اسی کی نسبت ہے، کیونکہ یہ سب باتیں بقول آپ کے سماء کی نسبت ہیں اور اسی نیلی نیلی سبز سبز چیز کو اہل عرب سماء جانتے تھے، پھر بھلا ہم پر خفگی کیا ہے اگر خفا ہونا ہے تو خدا پر خفا ہو جئے کہ اس نے اس نیلی چھت چنبری او ھن من بیت العنکوب پر کیوں ان صفتوں کا اطلاق کیا جو اس پر صادق نہیں آتیں یا اسی چیز کو ایسا مانئے جس پر یہ صفتیں صادق آ جاویں یا ہمارے ساتھ ہوجئے اور ایسے معنی اختیار کیجئے کہ خدا پر سے نعوذ باللہ کذب کا الزام اٹھے۔ یا وفا یا خبر وصل تو یا مرگ رقیب بازی چرخ ازیں یک دوسہ کارے بکند ایک ہمارے شفیق نے نہایت خوشی سے ہم کو الزام دیا ہے کہ تم کہتے ہو کہ ’’ لاوجود السماء جسمانیا‘‘ اور اگر یہی سقف چنبری مصداق آیات ہو تو اس کا ہی تو جسم ہے پھر خود تمہارے اقرار سے تمہارا قول غلط ثابت ہو گیا۔ بلا شبہ یہ الزام ہم پر بہت بڑا الزام ہے جس کو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں مگر جناب آسمانوں کی ایسی جسمانیت ماننے میں ہم کو کچھ عذر نہیں، ہم تو اس جسمانیت کے منکر ہیں جس کو حکماء یونان نے قرار دیا ہے اور جس کی تقلید علماء اسلام نے کی ہے گو کہ بسبب کسی خاص وجہ کے ان کی ایک آدھ بات سے اختلاف بھی کیا ہو۔ جناب مولوی محمد علی صاحب نے اپنے رسالہ میں جو ہم گمراھوں کی ہدایت کے لئے لکھا ہے ارقام فرمایا ہے کہ ’’ ہمارا اعتقاد نسبت آسمانوں کے یہ ہے کہ وہ ایسی چیزیں ہیں کہ خدا نے ان کو بنایا ہے اور ہمارے اوپر ہیں اور خلقت ان کی ہماری خلقت سے محکم تر اور شدید اور وہ بے ستون محض قدرت کاملہ سے مرفوع ہیں اور شمس و قمر و نجوم کے مغایر اور شمس و قمر و نجوم ان میں اور قابل انشقاق اور انفطار ہیں پھر وہ لکھتے ہیں کہ ہم اس اعتقاد کے منکر کو منکر آیات قرآن سمجھتے ہیں۔‘‘ کسی کو منکر آیات کہہ دینا تو بہت آسان بات ہے ہر شخص ایک آیت کے کوئی معنی اپنے نزدیک ٹھہرا کر دوسرے کو کہہ سکتا ہے کہ اس کے معنی نہ ماننے والے کو ہم منکر آیت قرآن سمجھتے ہیں جیسے مثلاً مفسرین کے دو فرقوں میں سے ایک اس بات کا قائل ہے کہ آسمان سقف مسطح ہے اور اس کے ستون کوہ قاف پر رکھے ہوئے ہیں اور دوسرا اس بات کا قائل ہے کہ آسمان مثل مرغی کے انڈے کے گول ہے پس اس صورت میں جو فرقہ اس کے مسطح ہونے کا قائل ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ جو شخص آسمان کو مثل انڈے کے اعتقاد کرے وہ منکر قرآن ہے اور جو اس کو انڈے کے مثل کہتے ہیں وہ کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص آسمان کو مسطح کہے وہ منکر قرآن ہے، حالانکہ یہ دونوں مخالف فرقے اب تک مسلمان مفسروں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے مذاہب بطور تحقیق و اختلاف آراء بڑی بڑی تفسیروں میں نقل کئے جاتے ہیں پس مولوی محمد علی صاحب کے قواعد کے موافق ان میں سے ابھی ایک تو ضرور منکر قرآن ہو گا مگر اس سے کسی کا کچھ فائدہ نہیں، بلکہ اپنا ہی کچھ نقصان ہے۔ مگر جو کچھ مولوی صاحب نے فرمایا ہے اگرچہ وہ کسی قدر ترمیم کے قابل ہے تو ہم کو اس سے انکار بھی نہیں بیشک آسمان ایسی چیزیں ہیں کہ خدا نے ان کو بنایا ہے ان پر کیا موقوف ہے، تمام چیزوں کا، یہاں تک کہ جناب مولوی صاحب کا بھی بنانے والا خدا ہی ہے دوسرا کوئی نہیں بے شک وہ ہمارے اوپر ہیں مگر یہاں ذرا غلطی ہے، کیونکہ وہ ہمارے پاؤں تلے بھی ہیں بیشک وہ ہماری خلقت سے محکم تر اور شدید ہیں، لیکن اگر لفظ محکم اور شدید سے یہ سمجھا جاوے کہ جیسے کچی مٹی کی دیوار اور ایک ریختہ کی یا اژدھات کی دیوار یا جیسے ایک مٹی پڑی ہوئی چھت اور ریختہ کی ڈاٹ لگی ہوئی تو اس سے ہم کو معاف رکھیں، کیونکہ ہمارے نزدیک قرآن مجید کے ان لفظوں کا یہ مطلب نہیں ہے بیشک وہ بے ستون محض قدرت کاملہ سے مرفوع ہیں، یہاں صرف اتنی بات ہے کہ جناب مولوی صاحب کو یہ نہیں معلوم ہوا کہ وہ قدرت کاملہ کس ذریعہ سے ظاہر ہوئی ہے، مگر ہم کو معلوم ہو گیا ہے کہ عالم اسباب میں وہ قدرت اس کے قوت کے ذریعہ سے ظاہر ہوئی ہے جس کو ہم جذب کہتے ہیں اور مولوی صاحب کے کلام میں شاید لفظ ’’ مرفوع ہیں‘‘ کی جگہ یوں ہونا چاہئے کہ ہر ایک کی نسبت مرفوع دکھائی دیتے ہیں اس سے بھی ہم کو کچھ انکار نہیں کہ وہ شمس و قمر و نجوم کے مغائر ہیں کہ ان پر بھی بوجہ ان کے مرتفع ہونے کے اطلاق ہو سکتا ہے، مگر یہ جو مولوی صاحب نے فرمایا کہ شمس و قمر و نجوم ان میں ہیں یہ گول گول بات ہے اگر اس سے یہ مراد ہے کہ شمس و قمر و نجوم ان میں اس طرح ہیں جیسے پانی میں مچھلی یا ہوا میں کبوتر تو ہم بدل تسلیم کرتے ہیں اور اگر ان کے ان میں ہونے سے اس طرح کا ہونا مراد ہے جیسے تختہ میں کیل یا انگوٹھی میں نگینہ تو ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے، کیونکہ ہمارے نزدیک خدا کے کلام کا یہ مطلب نہیں ہے پھر جناب ممروح ارقام فرماتے ہیں کہ وہ قابل انشقاق و انفطار کے ہیں ان لفظوں میں جو مولوی صاحب نے فرمائے ہیں قرآن مجید کی بخوبی مطابقت نہیں ہوئی اگر یوں فرماتے کہ ان پر انشقاق اور انفطار کا اطلاق ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے تو بالکل صاف ہو جاتا ہے مگر خیر بلحاظ ادب جناب مولوی صاحب کے ہم آسی کو تسلیم کر لیں گے۔ اب ہم کو یقین ہے کہ جناب مولوی صاحب ہم سے خوش ہو جاویں گے اور اب ہم کو اور ہمارے مسلمان دوستوں کو بے فائدہ ملحد و مرتد اور منکر قرآن اور بے دین نہ فرماویں گے، کیونکہ ہمارا اس میں کچھ نقصان نہیں اور مفت میں جناب مولوی صاحب کی زبان گندی ہوتی ہے، مگر ایک جگہ مولوی صاحب نے ہم لوگوں کی بات کو مجذوبانہ بڑ لکھا ہے پس ان کا ہم نہایت شکر کرتے ہیں کہ انہوں نے ہم کو تکلیفات شرعیہ سے بری کیا ہے، مگر پھر نہ معلوم کہ کیوں ملحد و مرتد و بے دین قرار دیتے ہیں مگر باتیں تو مولوی صاحب کی بھی ایسی ہیں کہ ایک کو دوسری سے مناسبت نہیں خدا رحم کرے۔ اب یہ بات بخوبی ظاہر ہو گئی کہ قرآن مجید میں سماء کے لفظ کا اطلاق بمعنی آسمان اسی نیلی چنبری چھت پر آیا ہے، خواہ وہ اوھن من بیعت العنکبوت ہو، خواہ اشد من سقف الحدید دوسرے معنوں میں سماء کا اطلاق قرآن مجید میں بادلوں پر آیا ہے بیسیوں جگہ قرآن مجید میں خدا نے فرمایا ہے کہ انزل من السماء ماء یعنی اتارا آسمان سے یعنی بادل سے پانی اور کچھ شک نہیں کہ بادل سے مینہ برستا ہے اور اس جگہ سماء کا لفظ بادل یعنی ابر پر بولا گیا ہے مگر ہمارے شفیق فرماتے ہیں کہ ہم قرآن کے معنی بدل دیں گے اور کہیں گے کہ اس سے من جانب اسلماء مراد ہے، مگر میں نہیں سمجھتا کہ سورہ ھود کی 54آیت کی نسبت کیا فرماویں گے جہاں خدا نے فرمایا ہے یرسل السماء علیکم مدارا یعنی بھیج دے گا آسمان کو یعنی ابر کو تم پر برسنے والا پھر 42آیت میں فرمایا ہے وقیل یا ارض ابلعی ما ء ک و یا سماء افلعی یعنی اور کہا گیا اے زمین نگل جا اپنا پانی اور اے آسمانی یعنی ابر تھم جا تفسیر کبیر میں لکھا ہے اقلعت السماء بعد ما مطرت اذا امسکت یعنی عرب کے محاورہ میں کہا جاتا ہے اقلعت السماء جب کہ برس کر تھم جاتا ہے پس اب کون شخص اس بات پر شبہ کر سکتا ہے کہ قرآن مجید میں سماء کے لفظ کا ابر و بادل پر بھی اطلاق ہوا ہے۔ تیسرے جس چیز میں کواکب پھرتے ہیں اس پر لفظ فلک کا بھی اطلاق آیا ہے سورہ انبیاء آیت34میں خدا فرماتا ہے وھو الذی خلق اللیل والنہار والشمس والقمر کل فی فلک یسبحون یعنی اور وہ ہے جس نے پیدا کیا رات کو اور دن کو اور سورج کو اور چاند کو ہر ایک بیچ آسمان کے تیرتے ہیں۔ پھر سورہ یس آیت40میں فرمایا لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر ولا الیل سابق النھار وکل فی فلک یسبحون یعنی سورج کے لئے لائق نہیں ہے کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات پہلے ہو سکتی ہے دن سے اور سب ستارے آسمان میں چلتے ہیں اور اہل علم تو آسمان کی جگہ فلک ہی کا لفظ بولتے ہیں جیسے فلک قمر وغیرہ اور فلک کسی ایسے مجسم کو نہیں کہتے جیسے یونانیوں کا آسمان۔ چوتھے سموات کی جگہ طرایق کا لفظ بھی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے پس ان دونوں لفظوں سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ سماء اور فلک اور سموات اور طرایق مرادف ہیں، بلکہ صرف استدلال اس قدر کہ سماء و سموات کی جگہ ان لفظوں کے بولنے سے پایا جاتا ہے کہ آسمان کا ایسا جسم جیسا کہ یونانیوں اور ان کی تقلید سے علماء اسلام نے تسلیم کیا ہے ویسا جسم ان کا نہیں ہے۔ جناب مولوی محمد علی صاحب نے یا تو ہمارا مطلب نہیں سمجھا یا ہمارا بیان ایسا ناقص ہے کہ عالموں کی سمجھ میں نہیں آتا وہ فرماتے ہیں کہ ستارے حرکت کرنے والے اجسام ہیں، پس ضرور ہے کہ مدار ان کا طویل و عریض و عمیق ہو جب یہ امر ممد ہو چکا تو بعد مدار حرکت سیارگان ان لوگوں کی رائے پر جن کے نزدیک خلا محال ہے، بلا شک و شبہ جسم ہی ہو گا، خواہ جسم لطیف مثل پانی و ہوا کے ہو، خواہ کشیف شفاف ایسا جو مانع سیر نہ ہو اور جو لوگ خلا کے امکان کے قائل ہیں ان کے نزدیک ممکن ہے کہ بعد مجرد ہو یا بعد مجسم خدا مولوی صاحب کا بھلا کرے! ہم تو اسی مدار کو جس کا ابھی ذکر کیاسماء و سبع سموات مانتے ہیں اور صرف یونانی حکیموں کے آسمان مجسم سے انکار کرتے ہیں نہ ایسے مدار سے جس کا جناب مولوی صاحب نے ذکر کیا اور اس بات کا کچھ خیال بھی نہیں کرتے کہ خلا محال ہے یا ممکن، کیونکہ اس کے محال یا ممکن ہونے پر اب تک کوئی دلیل قطعی معلوم نہیں ہوئی ہے بلکہ بحالت امکان خلا بھی ہم اس مدار کو مخلوق، بلکہ ذی العباد ثلثہ تسلیم کریں گے صرف ہم میں اور جناب مولوی صاحب میں اتنا فرق ہے کہ شاید جناب ممدوح خلا کو غیر مخلوق مانتے ہیں، اگر وہ ممکن ہو، مگر ہم خلا کو بھی مخلوق مانتے ہیں اور خدا کو سب چیز کا، یہاں تک کہ خلا کا بھی خالق جانتے ہیں۔ تعجب ہے کہ ہم برابر اور اپنی ہر ایک تحریر کے شروع میں کہتے آتے ہیں کہ ہم اس جسمانیت آسمانوں کے منکر ہیں جو یونانی حکیموں نے تسلیم کی ہے اور جس کو علماء اسلام نے یونانیوں کی تقلید کر کر بہ تبدیل قلیل تسلیم کیا ہے اور جزو مذہب قرار دیا ہے۔ ہم علماء اسلام کی ان لغو باتوں سے انکار کرتے ہیں جن میں انہوں نے یونانیوں کی تقلید سے اور موضوع روائتیں سن کر آسمان کو ایسا جسم مانا ہے جس ہم میں اور اوپر کی مخلوق میں آڑ ہے اور لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے دیکھو تفسیر کبیر میں یوم تشفق السماء بالغمام کی تفسیر میں یا لغو روایتیں لکھی ہیں ایک روایت لکھی ہے کہ انبیا کے وقت میں کونے کتروں میں سے فرشتے نازل ہوا کرتے تھے آسمان بدستور چوڑے رہتے تھے، مگر جب آسمان پھٹ جاویں گے تو زمین میں اور فرشتوں میں کوئی حائل نہ رہنے کا، پس فرشتے زمین پر اتر آویں گے۔ دوسرا قول لکھا ہے کہ آسمان کے اوپر تو فرشتے رہتے ہیں مگر جب وہ پھٹ جاوے گا تو خواہ نخواہ ان کو نیچے اترنا پڑے گا بقول شخصے کہ جب اڈا ھی نہ رہے گا تو بیٹھیں گا کاھے پر پھر حضرت ابن عباس کی طرف روایت کو منسوب کیا ہے اور ساتوں آسمانوں کا پھٹنا اور وہاں کے فرشتوں کا زمین پر آنا بیان کیا ہے پھر اس فکر میں پڑے ہیں کہ زمین پر سب وہ سمائیں گے کیوں کر پھر اس کے لئے ایک روایت گھڑی ہے۔ پھر حضرت مقاتل کی نسبت ایک روایت گھڑی ہے اور اس میں تو قیامت ہی کر دی ہے اس میں لکھا ہے کہ اول دنیا کا آسمان پھٹے گا اور اس آسمان پر جو رہتے ہیں وہ اتریں گے اور وہ تمام دنیا کے مکان سے زیادہ ہوں گے پھر اسی طرح ایک ایک آسمان پھٹتا جاوے گا اخیر کو کروبی اور فرشتگان حمتلہ العرش اتریں گے اور پھر سب سے اخیر خدا تعالیٰ رب العرش العظیم اتریں گے، کیونکہ تو وہ سب سے اوپر تھے، جب سب آسمان پھٹ لئے تب جناب باری کو اترنے کا رستہ ملا۔ نعوذ باللہ من ھذا الا باطیل اگر در حقیقت مذہب اسلام یہی ہو تو اس سے دور اور پری کے قصے ہزار درجہ بہتر ہیں جناب مولوی صاحب آپ جو ان لغویات کی تائید کرتے ہیں یہ اسلام کی خیر خواہ نہیں، بلکہ کمال بد خواہی ہے اور جھوٹوں باتوں سے بدنام کرنا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جوں جوں حکمت شہودیہ اور علوم یقینیہ کی ہو گی لوگ اسلام سے پھر جاویں گے اور اسلام کو آپ لوگوں کی بدولت لغو سمجھیں گے اس اور سب کا گناہ مولوی صاحبوں کی گردن پر ہو گا اسلام کی دوستی یہ ہے کہ نہ ضحاک کی رعایت کیجئے نہ مقاتل کی، صرف اسلام پر عاشق رہنے اور جس قدر غلط روائتیں اور غلط رائیں اسلام میں مل گئی ہیں جو در حقیقت اسلام کی نہیں ہیں، ان کو طرح اس نکال ڈالئے جیسے کہ دودھ میں سے مکھی اور اسلام کی روشنی دھریہ ولا مذہب و حکیم پیر و حکمت قدیم و پیرو حکمت جدید سب کو ایسی طرح پر سکھائیے کہ سب دنگ ہو جاویں قلم ہاتھ میں لے کر بے سود باتوں سے کاغذ کو سیاہ کر دینا اور تفسیر القول بما لا یرضی قائلہ کر کے لوگوں کو کافر و ملحد و مرتد کہنا کچھ دینداری کی بات نہیں ہے، البتہ جاہلوں میں بیٹھ کر شیخی کرنے کو اور بڑے پکے دیندار کہلانے کو تو بہت عمدہ ہے ہم کیوں پیروی کریں ان علماء کے قول کی جن کا قول خلاف واقع ثابت ہوا ہے اور کیوں پیروی کریں اس تفسیر کی جس سے تمام قرآن نعوذ باللہ غلط اور خلاف واقع معلوم ہوتا ہے ہم کسی مفسر اور کسی عالم پر ایمان نہیں لائے جو ان کی بات کی پچ کریں ہم تو خدا پر اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس کے کلام پر ایمان لائے ہیں اور اس کے عاشق ہیں پس جو شخص یا جو قول ایسا ہے جس سے ان میں نقص لازم آتا ہے تو اس کے دشمن ہیں پس نہایت مناقسب ہے کہ آپ ہمارے دشمن ہو جئیے مگر اتنا سمجھ لیجئے کہ دوست کے دشمن ہوتے ہو اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ دوست کا دشمن کون ہوتا ہے۔ پانچویں سماء کا اطلاق شے مرتفع پر بھی آتا ہے ہم نے اپنے اس قول کی تائید میں امام فخر الدین رازی کا قول نقل کیا تھا کہ السماء عبارۃ عن کل ما ارتفع اور جناب مولوی محمد علی صاحب نے یہ قول امام صاحب کا بھی نقل فرمایا ہے کہ ان السماء انما سمیت سماء لسمو ھا فکل ما سماک فھو سماء فا نزل الماء من السحاب فقد نزل من السماء یعنی آسمان کا نام سماء اسی سبب سے رکھا گیا ہے کہ وہ بلند ہے پس جو چیز کہ تجھ سے بلند ہے وہ آسمان ہے پس جب نازل ہوا مینہ بادل سے تر برسا سماء سے۔ مگر جناب مولوی صاحب ممدوح فرماتے ہیں کہ امام فخر الدین رازی علماء لغت میں سے نہیں ہیں ان کا قول بیان معانی لغت اور دیگر علوم عربیہ میں معتمد نہیں۔ پھر ارقام فرماتے ہیں کہ امام رازی نے یہ بات بطریق قیاس فی اللغتہ کے فرمائی اور چونکہ قیاس فی اللغتہ مقبول نہیں ہے، پس یہ قول بھی ان کا مقبول نہیں ہو سکتا۔ خیر ہم کو اس سے تو بحث نہیں ہے کہ امام فخر الدین رازی کو علوم عربیہ کی لیاقت تھی یا نہیں اگر لیاقت تھی تو بھی دل ماشاد اور اگر نہ تھی تو جو کچھ مولوی صاحب نے ان کے حق میں فرمایا ہماری طرف سے بھی بیش باد، مگر اس قدر تو شاید جناب مولوی صاحب بھی تسلیم فرماتے ہوں گے کہ بطور استعارہ کے مرتفع چیزوں پر سماء کا اطلاق ہو سکتا ہے پس اس قدر ہم بھی کہتے ہیں کہ ان پر بھی سماء کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ یہ ہم کب کہتے ہیں کہ ہر جگہ سماء اور سموات کے معنی اوپر کے یا اوپر کی چیزوں کے لو ہم تو خود سماء کا اطلاق متعدد چیزوں پر اس لئے ثابت کرتے ہیں کہ ان میں سے جون سی چیز مقتضائے مقام ہو اور سیاق و سباق عبارت سے پائی جاوے وہ مراد لی جاوے نہ کہ یونانیوں کی تقلید سے ہر جگہ وہی فرضی غیر واقعی جسم مراد لیا جاوے جو محض غلط و خلاف واقع ہے۔ ہم کو نہ مولوی محمد علی صاحب کا اور نہ اور کسی تحریر کا جواب لکھنا مقصود ہے اس مقام پر اتفاقیہ چند باتیں تقریر کے پھیر میں آ گئیں پس ہم نے ان کی بہت سی بیجا اور اور غیر صحیح باتوں سے جو تعرض نہیں کیا تو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ان کو تسلیم کیا ہے بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ بے فائدہ اوقات ضائع کرنے سے کیا فائدہ ہے۔ اب ہم آئندہ بیان کریں گے جو کچھ ہم نے بیان کیا کوئی آیت قرآن مجید کی اس کے بر خلاف نہیں ہے۔ اس بات کے بیان کرنے کے بعد کہ سماء کے لفظ کا کن کن معنوں میں اطلاق ہوا ہے اب ہم قرآن مجید کی جملہ اپنوں پر جو سماء سے متعلق ہیں نظر کرتے ہیں اور ان سب کو قسم وار بیان کر کر ثابت کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں انہیں معنوں میں سماء کے لفظ کا اطلاق ہوا ہے نہ ایسے جسم محکم و صلب شفاف بلورین پر جیسا کہ یونانی حکیموں نے خیال کیا ہے اور جن کی تقلید علماء اسلام نے کی ہے۔ قسم اول وہ آئین جن میں لفظ سماء کا بادلوں پر اطلاق ہوا ہے۔ 1وارسلنا السماء علیھم مدرارا الانعام آیت6 (ترجمہ) اور بھیجا ہم نے بادل کو ان پر دڑیڑے سے برستا 2برسل السماء علیکم مدرارا ھود آیت54نوح آیت10 (ترجمہ) بھیجا بادل تم پر دڑیڑے سے برستا سورہ ھود میں جو آیت ہے اس کے ترجمہ میں شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی سماء کا ترجمہ ابر کیا ہے اور باقی دو جگہ مینہ 14-4انزل من السماء ماء البقرہ آیت20الانعام آیت99الرعد آیت18 ابراہیم آیت37 النحل آیت10طہ آیت55 الحج آیت26 المومنون آیت18 الملائکہ آیت25 الزم آیت22 (ترجمہ) اتارا بادل سے پانی 15والذی نزل من السماء ماء بقدر الزخرف آیت10 (ترجمہ) اور جس نے اتارا بادل سے پانی اندازہ سے 16وانزلنا من السماء ما طھورا الفرقان آیت50 (ترجمہ) اور اتارا ہم نے بادل سے پانی پاک کرنے والا 17ونزلنا من السماء ماء مبارکاً ق آیت9 (ترجمہ) اور اتارا ہم نے پانی بادل سے برکت والا 18وما انزل اللہ من السماء من ماء البقرء آیت159 (ترجمہ) اور وہ جو اتارا اللہ نے بادل سے پانی 19وینزل علیکم من السماء ماء الانفال آیت11 (ترجمہ) اور اتارتا ہے تم پر بادل سے پانی 20کماء انزلنا من السماء یونن آیت25الکھف آیت43 (ترجمہ) مانند پانی کے جس کو اتارا ہم نے بادل سے 22فانزلنا من السماء ماء الحجر آیت22 (ترجمہ) پھر کھول دئیے ہم نے بادل کے دروازے ڈڑ یڑے کا پانی پڑنے سے 35وینزل من السماء من جبال فیھا من برد النور آیت43 (ترجمہ) اور ڈالتا ہے بادل کے پہاڑون سے جو اس میں ہیں اولے 36والسماء ذات الرجع والارض ذات الصدع الطارق 11-12 (ترجمہ) قسم ہے پھرنے والے بادل کی، قسم ہے زمین اگانے والے پھوٹاؤں والی کی۔ قسم دوم وہ آئتیں جن میں لفظ سماء کا فضائے بلند محیط پر اطلاق ہوا ہے 1والسماء ذات الحبک الذاریات آیت7 (ترجمہ) قسم ہے رستوں والی اونچائی کی تفسیر کبیر میں لکھا ہے والمساء ذات الحبک قیل الطرائق وعلی ھذا فیحتمل ان یکون المراد طرائق الکو کب و ممراتھا، یعنی تفسیر کبیر میں حبک کے معنی طرایق کے یعنی رستوں کے بتائے ہیں اور لکھا ہے کہ شاید اس سے ستاروں کے رستے اور ان کے چلنے کی جگہیں مراد ہیں۔ اب اس آیت سے دو بات پر استدلال ہے ایک یہ کہ آسمان ستاروں کے چلنے کی جگہ پر بولا گیا ہے دوسرے یہ کہ وہاں کوئی ایسا جسم سخت اور صلب شفاف بلوریں نہیں ہے جیسا کہ یونانی حکیموں نے خیال کیا تھا اور جس کی تقلید علماء اسلام نے کی ہے، بلکہ اس مکان مرتفع کا جس میں اجرام یا اجسام کواکب کے دورہ کرتے ہیں سماء نام ہے۔ ہم اس سے بحث نہیں کرتے کہ اس مکان میں کوئی جسم لطیف جو مانع سیر کواکب نہ ہو موجود ہے یا نہیں، کیونکہ ہمارے پاس اس کے موجود ہونے کے اثبات کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ قرآن مجید کی صحت اور صداقت ثابت کرنے کے لئے ایسے کسی وجود کے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے اور نہ در صورت اس کے موجود ہونے کے کچھ دقت ہے۔ کواکب بہت سے ہیں اور ان کی راہیں بھی بہت سی اور جدا جدا ہیں اور ہر ایک مکان کے دورہ پر سماء کا اطلاق ہو سکتا ہے مگر جبکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ رستوں والا آسمان تو اس وقت آسمان سے کوئی خاص مکان یا کوئی خاص جسم مسلمہ حکماء یونان مراد نہیں ہو سکتا اور اس لئے اس آیت میں لفظ سماء کا بلندی پر اطلاق ہوا ہے جو مکانیت سے خالی نہیں ہے اور جس میں ہزاروں رستے کواکب کے دورہ کے ہیں۔ وھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً ثم استوی الیٰ السماء فسوھن سبع سموات البقرہ آیت27 (ترجمہ) وہ وہ ہے جس نے پیدا کیا تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اور پیدا کیا بلندی کو تو درست کئے متعدد آسمان تفسیر کبیر میں لکھا ہے تم الستوی الی السماء اے خلق بعد الارض السماء ولم یجعل بینھما زمانا ولم یقصد شیئا اخر بعد خلقہ الارض، یعنی ثم استویٰ الی السماء سے زمین کے بعد سماء کے پیدا کرنے کا استعارہ ہے اور ان دونوں کے پیدا کرنے کے بیچ میں کچھ مدت نہیں لگی اور نہ زمین کے پیدا کرنے کے بعد اور کسی چیز کا قصد کیا۔ اور یہ بھی تفسیر کبیر میں لکھا ہے فان قال قایل فھل یدل التنصیص علی سبع سموات علی نفی العدد الزایدقلنا الحق ان تخصیص العدد بالذکر لا یدل علی نفی الزاید، یعنی کیا سات آسمانوں کی تعداد بیان کرنی اس بات کی دلیل ہے کہ سات سے زیادہ نہیں ہیں تو ہم جواب دیں گے کہ حق یہ ہے کہ کسی خاص عدد کا بیان کرنا اس سے زیادہ نہ ہونے پر دلیل نہیں ہے۔ انہیں وجوہات سے ہم نے ثم استویٰ الی السماء کا ترجمہ اور پیدا کیا آسمان یعنی بلندی کو اور سبع کا ترجمہ بعوض سات کے متعدد کیا ہے۔ علماء متقدمین کو جو یونانی ہیئت کا خیال جما ہوا تھا اس لئے ان کو اس قسم کی آیتوں کی تفسیر میں مشکلات پیش آتی ہیںورنہ حقیقت میں کچھ مشکل نہیں ہے خدا تعالیٰ ہم بندوں سے جو اس زمین پر بستے ہیں مخاطب ہو کر ان کے حسب حال کلام کرتا ہے جب کہ اس نے ہمارے لئے زمین اور اس کی تمام چیزوں کے پیدا کرنے کا ذکر کیا تو جو کچھ اس نے ہم سے اوپر پیدا کیا تھا وہ ہمارے لئے سموات ہو گئی، اس لئے اول زمین کی چیزوں کا ذکر کیا اور پھر آسمانوں کا۔ ہم نے سماء کا ترجمہ بلندی کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں سماء کے لفظ سے کوئی محل خاص یا کوئی یانانیوں والا خاص جسم مراد نہیں ہو سکتا، کیونکہ ان کے نزدیک کسی ایک آسمان کے سات آسمان نہیں بنائے گئے ہیں، بلکہ وہ الگ الگ جداگانہ سات آسمان ہیں، اس لئے بجز اس کے کہ اس آیت میں لفظ سماء سے بلندی مراد لی جائے اور کوئی معنی درست نہیں ہو سکتے اور جب اس کے معنی بلندی لئے گئے تو آیت کے معنی صاف ہو گئے کہ خدا نے بلندی کو پیدا کیا اور اس میں سات یا متعدد آسمان بنائے۔ بلندی ایک فضا یا وسعت محیط ہے جو ہماری سمت الراس پر دکھائی دیتی ہے وہ مکانیت سے خالی نہیں، خواہ اس میں خلا ہو یا نہ ہو، مگر جب وہ فضائے مرتفع متعدد نشانوں سے منتقسم ہو جاتی ہے تو اس کے ہر ہر ٹکڑے پر طبقہ یا سماء یا ارتفاع کا اطلاق ہو سکتا ہے اگرچہ ہم یونانی حکیموں کے قول کو تسلیم نہیں کرتے، مگر بطور مثال کے سمجھاتے ہیں کہ جو وسعت ان کے نزدیک زمین سے فلک قمر کے مقعر تک تھی اس کو انہوں نے تین ٹکروں پر منقسم کیا تھا جن کو وہ کرہ ہوا اور کرہ زمہر یر اور کرہ نار سے تعبیر کرتے تھے اسی طرح اس وسعت کی تقسیم سموات پر ہوتی ہے یعنی اس وسعت کے اس محل کو جہاں یہ نیلی نیلی چیز ہم کو دکھائی دیتی ہے ہم آسمان کہتے ہیں اور اس محل کو بھی جہاں چاند گردش کرتا ہے یا اور ستارے عطارد و زہرہ وغیرہ گردش کرتے ہیں سماء کہتے ہیں، کیونکہ یہ سب محل بہ نسبت ہمارے مرتفع ہیں پس انہیں محلوں پر خدا تعالیٰ نے سموات کا اطلاق کیا ہے اس بیان کی تصویر اگلی آیت سے بالکل ثابت ہوتی ہے۔ 1ثم استوی الی السماء وھی دخان فقال لہا و للارض ائتیا طوعا اوکر ھاً قالتا اتینا طائعین فقضا ھن سبع سموات فی یومین واوحی فی کل سماء امرھا فصلت آیت11-12 (ترجمہ) اور پیدا کیا بلندی کو اور وہ دھواں دھار، یعنی تاریک تھی، پھر کہا اس کو اور زمین کو حکم مانو خوشی سے خواہ نا خوشی سے دونوں نے کہا ہم نے حکم مانا خوشی سے پھر کر دئیے سات یا متعدد آسمان دو دن میں اور ڈال دیا ہر آسمان میں اس کا کام۔ جو تقریر کہ ہم نے اوپر بیان کی اسی تقریر سے آیت میں بھی جو لفظ سماء اول آیا ہے س کے معنی بھی کسی محل خاص یا جسم خاص کے نہیں ہو سکتے۔ دخان سے مفسرین نے تاریکی مراد لی ہے اور یہ بالکل ٹھیک ہے، اس لئے کہ بلندی میں قبل ظہور کواکب بجز تاریکی کے جس کو دخان سے تعبیر کیا ہے اور کچھ نہیں تھا۔ شاہ عبدالقادر صاحب اپنے ترجمہ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ ’’ آسمان ایک تھا دھواں سا، اس کو بانٹ کر سات کئے اور ہر ایک کا کارخانہ جدا ٹھہرایا‘‘ یہ بالکل تصویر اسی بیان کی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے یعنی یہ تمام فضائے بلند ایک تھی۔ اسی کو آسمان کہا ہے جب کہ اس میں اور اور چیزیں پیدا ہوئیں اور اس فضا کی ان چیزوں سے تقسیم ہو گئی تو اس کے ٹکڑوں پر سموات کا اطلاق ہونے لگا۔ دیکھو کرہ ہوا میں آفتاب کی نیلی شعاع منعکس ہونے سے یہ نیلی چھت ہم کو دکھائی دیتی ہے اور اس فضا کو اپنی اس حد سے تقسیم کر دیتی ہے اس محل کو ہم آسمان کہتے ہیں۔ چاند اور عطارد وغیرہ کواکب اپنے وجود سے اس فضا کو تقسیم کر دیتے ہیں جیسے صفحہ کاغذ پر نقاط لگانے سے ہر حصہ محدود ہو جاتا ہے اور پھر اپنے دورہ سے جو آفتاب کے گرد کرتے ہیں ایک محل کو جو بلا شبہ مکانیت کا اس پر اطلاق ہوتا ہے، اس فضا سے علیحدہ کر لیتے ہیں، اس لئے ان کے ہر ہر محل کو بھی ہم آسمان کہتے ہیں۔ 4 فانزلنا علی الذین ظلمو رجزاً من السماء بما کانو یفسقون البقرہ آیت52 (ترجمہ) پھر اتارا ہم نے زیادتی کرنے والوں پر عذاب آسمان سے، یعنی اوپر سے ان کی نافرمانی پر۔ 5 فارسلنا علیھم رجزاً من السماء بما کانو یظلمون الاعراف آیت126 (ترجمہ) پھر بھیجا ہم نے ان پر عذاب آسمان سے، یعنی اوپر سے معاوضہ ان کی زیادتی کا۔ 6 انا منزلون علی اھل ھذہ القریۃ رجزاً من السماء بما کانو یفسقون العنکبوت آیت33 (ترجمہ) ہم اتارنے والے ہیں اس بستی والوں پر عذاب آسمان سے یعنی اوپر سے بعوض ان کی بدکاری کے۔ 7 فامطر علینا حجارۃ من السماء الانفال آیت32 (ترجمہ) تو برسا ہم پر پتھر آسمان سے 8ان تنزل علیھم کتاباً من السماء النساء آیت152 (ترجمہ) ان پر اتار لاوے کتاب آسمان سے یعنی اوپر سے 9 ھل یستطیع ربک ان ینزل علینا مائدۃ من السماء المائدہ آیت112 (ترجمہ) تیرے خدا سے ہو سکتا ہے کہ اتارے ہم پر کھانا آسمان سے یعنی اوپر سے 10 اللھم ربنا انزل علینا مائدۃ من السماء المائدہ آیت114 (ترجمہ) اے اللہ ہمارے پروردگار اتار ہم پر کھانا آسمان سے یعنی اوپر سے 11ویرسل علیھا حسبانا من السماء کہف آیت38 (ترجمہ) اور بھیج دے اس پر آفت آسمان سے 12 لنزلنا علیھم من السماء ملکا رسولا اسرائیل آیت97 (ترجمہ) البتہ ہم اتارتے ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ پیغام لے کر 13ان نشا ننزل علیھم من السماء آیۃ الشعراء آیت3 (ترجمہ) اگر ہم چاہیں اتاریں ان پر آسمان سے ایک نشانی 14ومن یشرک بالل فکانما خر من السماء الحج آیت32 (ترجمہ) اور جس نے شریک بنایا اللہ کا سو جیسے گر پڑا آسمان سے یعنی بلندی سے 33 وما انزلنا علی قومہ من بعدہ من جند من السماء وما کنا منلین یس آیت27 (ترجمہ) اور نہیں اتارا ہم نے اس کی قوم پر اس کے بعد کوئی لشکر آسمان سے اور ہم نہیں اتارا کرتے۔ 34 لفتحنا علیھم برکات من السماء والارض الاعراف آیت94 (ترجمہ) تو ہم کھول دیتے ان پر برکتیں آسمان کی اور زمین کی 35 ولو فتحنا علیھم بابا من السماء الحجر آیت14 (ترجمہ) اور اگر ہم کھول دیں ان پر دروازہ آسمان سے 36 لا تفتح لھم ابواب السماء الاعراف آیت38 (ترجمہ) کبھی نہ کھلیں گے ان پر دروازے آسمان سے 37 یدبر الامر من السماء الی الارض السجدہ آیت4 (ترجمہ) تدبیر سے اتارتا ہے کام کو آسمان سے زمین تک 38-39 وما ینزل من السماء وما یعرج فیھا سبا آیت2 والحدید آیت 4 (ترجمہ) اور جو کچھ اترتا ہے آسمان سے اور جو کچھ چڑھتا ہے اس میں 40-41 امنتم من فی السماء ان یخسف بکم الارض فاذا ھی تمورا ام امنتم من فی السماء ان یرسل علیکم حاصباً الملک آیت16-17 (ترجمہ) کیا نڈر ہوئے ہو اس سے جو آسمان میں ہے کہ دھنسا دے تم کو زمین میں، پھر دیکھو وہ لرزتی ہے۔ کیا نڈر ہوئے ہو اس سے جو آسمان میں ہے کہ بھیجی تم پر پتھر برسانے والی ہوا۔ 43 ومن یرد ان یضلہ یجعل صدر ضیقاً حرجاً کانما یصعد فی السماء الانعام آیت125 (ترجمہ) اور جس کو چاہے کہ راہ سے بھٹکا دے کرتا ہے اس کا سینہ تنگ بھیجی گویا آسمان پر (یعنی اوپر کو) اٹھایا جاتا ہے 43 تبارک الذی جعل فی السماء بروجاً و جعل فیھا سراجاً و قمر منیرا الفرقان آیت62 (ترجمہ) بڑی برکت ہے اس کی جس نے بنائے آسمان میں برج اور رکھا اس میں چراغ اور چاند روشن سماء کے لفظ سے جو اس آیت میں ہے کوئی خاص محل اور خاص جسم مراد نہیں ہو سکتا بجز فضائے مرتفع کے، کیونکہ بروج اور سورج اور چاند ایک آسمان میں نہیں ہیں، بلکہ ایک فضائے مرتفع میں ہیں۔ 44ولقد جعلنا فی السماء بروجا وزینھا للناظرین الحجر آیت12 (ترجمہ) البتہ بنائے ہم نے آسمان میں برج اور خوبصورت کیا اس کو دیکھنے والوں کے لئے۔ 45والسماء ذات البروج البروج آیت1 (ترجمہ) قسم ہے برجوں والی اونچائی کی اگرچہ اس آیت میں برجوں والے آسمان کے معنی بھی لئے جا سکتے ہیں مگر بمناسبت آیت سورۃ الفرقان کے اس جگہ پر بھی فضائے مرتفع کے معنی لئے گئے ہیں۔ 22 فلیمدد بسبب الی السماء الحج آیت15 (ترجمہ) پھر چاہئے کہ تانے ایک رسی آسمان، یعنی اوپر کی طرف شاہ عبدالقادر صاحب نے بھی حاشیہ پر لکھا ہے کہ ’’ آسمان کو تانے یعنی اچان کر‘‘ اور شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی سماء کا ترجمہ جانب بالا کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں’’ پس باید کہ بیا و یزد رسنے بجانب بالا‘‘ 47 اصلھا ثابت و فرعہا فی السماء ابراہیم آیت29 (ترجمہ) اس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی ٹہنی آسمان میں یعنی نہایت بلندی میں۔ قسم سوم وہ آیتیں جن میں لفظ سماء کا اس نیلی چیز پر جو ہم کو دکھائی دیتی ہے اطلاق ہوا ہے۔ 1ولقد زینا السماء الدنیا بمصا یسح و جعلنھا رجوماً للشیاطین الملک آیت5 (ترجمہ) اور البتہ خوشنما کیا ہم نے دنیا کے آسمان کو چراغوں سے اور کیا ہم نے اس کو سنگساری شیطانوں کے لئے۔ 2وزینا السماء الدنیا بمصابیع و حفظاً فصلت آیت11 (ترجمہ) اور خوشنما کیا ہم نے دنیا کے آسمان کو چراغوں سے اور حفاظت میں رکھا۔ 3 انا زینا السماء الدنیا بزینۃ ن الکواکب الصافات آیت2 (ترجمہ) البتہ ہم نے خوشنما کیا دنیا کے آسمان کو ستاروں کی خوشنمائی سے۔ ان آیتوں میں جو لفظ ’’ سماء الدنیا‘‘ کا جناب رسول خدا صلعم کی زبان مبارک سے نکلا ہے جو امی محض تھے اور علاوہ امی ہونے کے ایسے ملک اور ایسے لوگوں میں پرورش پائی تھی جو بالکل جاہل تھے اور کسی قسم کے علوم ان کے ہاں مروج نہ تھے، وہ علم طبیعیات کا نام بھی نہیں جانتے تھے تو اس سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ بلا شبہ یہ لفظ وحی والہام سے نکلے ہیں اور جو امر کہ اب تحقیق ہوا ہے وہ تیرہ سو برس پیشتر ایک امی نے فرمایا تھا۔ صلی اللہ علیہ وسلم اس نیلی نیلی چیز کو جو ہم کو دکھائی دیتی ہے سماء دنیا کہنا ایسا ٹھیک ہے کہ آج کل بھی بڑے بڑے عالم علوم طبیعی کے اس سے زیادہ عمدہ کوئی لفظ نہیں نکال سکتے ہماری دنیا کے گرد جس پر ہم بستے ہیں ہو امحیط ہے بعضوں نے اندازہ کیا ہے کہ اس کا ارتقاع یا عمق پینتالیس میل کا ہے اور بعضوں نے اس سے بہت زیادہ خیال کیا ہے بہر حال اس ھوائے محیط میں آفتاب کی نیلی شعاعیں منعکس ہوتی ہیں اور اس سبب سے یہ نیلی گنبدی چھت ہم کو اپنی دنیا کے گرد دکھائی دیتی ہے جو در حقیقت ہماری دنیا کا آسمان ہے پس اس نیلی گنبدی چھت پر سماء دنیا کا اطلاق بالکل حقیقت اور علم کے مطابق ہے افسوس کہ ہمارے زمانہ کے علماء حکماء یونان کی تقلید کرتے ہیں اور حقایق قرآن پر غور کرتے وقد قال اللہ تعالیٰ ولا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین 4 وجعلنا السماء سقفا محفوظاً الانبیاء آیت33 (ترجمہ) اور بنایا ہم نے آسمان کو چھت حفاظت کی گئی 5والسقف المرفوع الطور آیت5 (ترجمہ) قسم ہے اونچی چھت کی 6 والسماء رفعہا و وضع المیزان الرحمن آیت2 (ترجمہ) اور آسمان کو اونچا کیا اور رکھی اس کے لئے ترازو 7اظم یرو الی مابین ایدیھم وما خلفھم من السماء والارض ان نشاء نخسف بہم الارض او نسقط علیھم کسفا من السماء سبا آیت9 (ترجمہ) کیا انہوں نے اس چیز کو نہیں دیکھا جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے آسمان اور زمین سے اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنا دیویں یا ان پر آسمان سے ٹکڑا ڈال دیں۔ 8 افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت والی السماء کیف رفعت الغاشیہ آیت18 (ترجمہ) پھر کیوں نہیں دیکھتے اونٹ کو کہ کیسا بنایا گیا ہے اور آسمان کو کہ کس طرح اونچا کیا گیا ہے۔ 9 والسماء وما بنا ھا الشمس آیت5 (ترجمہ) قسم ہے آسمان کی اور جیسا اس کو بنایا 10افلم ینظرو الی السماء فوقھم کیف بینھا وما لھا من فروج ق آیت2 (ترجمہ) کیا نہیں دیکھا انہوں نے آسمان کو اپنے اوپر کیسا ہم نے اس کو بنایا ہے اور اس کو خوشنما کیا ہے اور اس میں کوئی دڑاڑ نہیں۔ 11والسماء بنینھا باید وانا لموسعون الذاریات آیت47 (ترجمہ) اور بنایا ہم نے آسمان کو ہاتھ سے یعنی اپنی قدرت سے اور ہم کو سب قدرت ہے۔ 12الذی جعل لکم الارض فراشاً والسماء بناء البقرہ آیت20 ترجمہ جس نے بنایا زمین کو تمہارے لئے بچھونا اور آسمان کو محل 13 اللہ الذی جعل لکم الارض قرار والسماء بناء المومن آیت66 ترجمہ اللہ وہ ہے جس نے بنایا زمین کو تمہارے لئے ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو محل 14أنتم اشد خلقا ام السماء بنا ھارفع سمکھا فسوھا النازعات27-28 ترجمہ تم خلقت میں زیادہ مضبوط ہو یا آسمان خدا نے بنایا آسمان کو اونچی کی اس کی چوٹی پھر درست کیا اس کو۔ 15 ومن آیتہ ان تقوم السماء والارض بامرہ الروم آیت24 (ترجمہ) اور خدا کی نشانیوں میں سے ہے اپنی جگہ پر رہنا آسمان اور زمین کا خدا کے حکم سے 1ویمسک السماء ان تقع علی الارض الحج آیت24 (ترجمہ) تھام رکھتا ہے آسمان کو زمین کے گرنے سے 17 یوم تشقق السماء بالغمام ونزل الملائکۃ تنزیلاً الفرقان آیت27 (ترجمہ) اور جس دن پھٹ جاوے آسمان غمام سے اور اتارے جاویں فرشتے ایک طرح کا اتارنا 18 فاذا انشقت السماء فکانت وردۃ کالدھان الرحمن آیت37 (ترجمہ) جب پھٹے گا آسمان تو ہو جاوے گا گلابی تیلیا 19 وانشقت السماء فہی یومئذ واھیۃ الحاقہ آیت16 (ترجمہ) اور پھٹ جاوے گا آسمان پھر وہ اس دن ہو گا بکسا ہوا 20 اذا السماء انشقت انشقت آیت1 (ترجمہ) جب آسمان پھٹ جاوے 21 فکیٖف تشقون ان کفر تم یوما یجعل الولدان شیبان السماء منفطربہ المزمل آیت18 (ترجمہ) پس اگر تم کافر ہوئے تو کیونکر بچو گے اس دن جس میں بچے بڈھے ہو جاویں گے اور آسمان پھٹ جاوے گا 22 اذا السماء انفطرت انفطرت آیت1 (ترجمہ) جب آسمان پھٹ جاوے 23 فاذا النجوم طمست واذا السماء فرجت المرسلات آیت10 (ترجمہ) پھر جب تارے مٹائے جاویں اور آسمان پھاڑا جاوے 24 وفتحت السماء فکانت ابواباً النبا آیت19 (ترجمہ) اور کھول دیا جاوے آسمان پھر ہو جاویں دروازے 25 واذا السماء کشطت کورت آیت11 (ترجمہ) اور جب آسمان کا پوست اتارا جاوے 26یوم تکون السماء کالمھل المعارج آیت8 (ترجمہ) جس دن ہو گا آسمان جیسے پگھلا ہوا تانبا 27 فارتقب یوم تاتی السماء بدخان مبین الدخان آیت9 (ترجمہ) پس انتظار کرو اس دن کا کہ نکالے آسمان دھواں سب کو معلوم ہوتا 28 الم یروا الی الطیر مسخرات فی جو السماء النحل آیت81 (ترجمہ) کیا نہیں دیکھتے اڑنے والے جانوروں کو کہ فرمانبردار کئے گئے ہیں آسمان کی وسعت ہیں۔ 29 اللہ الذی یرسل الریاح فتشیر سحاباً فیبسطہ فی السماء کیف یشاء الروم آیت47 (ترجمہ) اللہ وہ ہے جو چلاتا ہے ہوائیں پھر اٹھاتی ہیں بادل پھر پھیلاتا ہے اس کو آسمان میں جس طرح چاہتا ہے۔ 30 قد نری تقلب وجھک فی السماء البقرہ آیت139 (ترجمہ) البتہ ہم نے دیکھا پھرنا تیرے مونہ کا آسمان کی طرف 31 ان اللہ لا یخفی علیہ شئی فی الارض ولا فی السماء ال عمران آیت4 (ترجمہ) البتہ خدا پر پوشیدہ نہیں کوئی چیز زمین میں یعنی تحت میں، نہ آسمان یعنی فرق میں 32 وما یعزب عن ربک من مثقال ذرۃ فی الارض ولا فی السماء یونس آیت26 (ترجمہ) اور غائب نہیں رہتا تیرے پروردگار سے ذرہ بھر زمین میں اور نہ آسمان میں 33اصلہا ثابت و فرعہا فی السماء ابراھیم آیت29 (ترجمہ) اس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی ٹہنی آسمان میں یعنی نہایت بلندی میں 34 وما یخفی علی اللہ من شئی فی الارض ولا فی السماء ابراھیم آیت41 (ترجمہ) اور چھپا نہیں اللہ پر کچھ زمین میں اور نہ آسمان میں 35 قال ربی یعلم القول فی السماء والارض الانبیاء آیت4 (ترجمہ) اس نے کہا میرا پروردگار جانتا ہے ہر بات کو آسمان میں ہو یا زمین میں ہو 36 الم تعلم ان اللہ یعلم ما فی السماء والارض الحج آیت29 (ترجمہ) کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ کہ ہے آسمان میں اور زمین میں 37وما عن غائبۃ فی السماء والارض الا فی کتاب مبین النمل آیت77 (ترجمہ) اور کوئی چیز نہیں جو پوشیدہ ہو آسمان میں اور زمین میں مگر ہے کتاب روشن میں 38 وما انتم بمعجزین فی الارض ولا فی السماء العنکبوت آیت21 (ترجمہ) اور نہیں ہو تم ٹہکانے والے زمین میں اور آسمان میں 39 وھو الذی فی السماء الہ وفی الارض الہ الزخرف آیت84 (ترجمہ) وہی ہے جو آسمان میں حاکم ہے اور زمین میں حاکم ہے۔ 40 وان یرو اکسفا من السماء سا قطاً یقولوا سحاب مرکوم الطور آیت44 (ترجمہ) اور اگر دیکھیں ایک آسمان گرتا ہوا کہیں یہ بادل ہے گاڑھا 41 یوم تمور السماء الطور آیت9 (ترجمہ) جس دن کہ ھل جاوے آسمان ھل ہلا جانا 42 یوم نطوی السماء کطی المجل للکتسن الانبیاء آیت104 (ترجمہ) جس دن ہم لپیٹ لیں آسمان جیسے لپیٹتے ہیں طومار میں کاغذ 43 او یکون لک بیت من زخرف او ترقی من السماء اسرائیل آیت95 (ترجمہ) یا ھووے تیرے لئے ایک گھر ستہرا یا چڑھ جاوے تو آسمان میں 44فان استطعت ان تبتغی نفقا فی الارض او سلماً فی السماء الانعام آیت35 (ترجمہ) پھر اگر تجھ سے ہو سکے ڈھونڈ نکالنی کوئی سرنگ زمین میں یا کوئی سیڑھی آسمان میں 45 فاسقط علینا کسفاً من السماء ان کنت من الصادقین الشعراء آیت187 (ترجمہ) پھر گرا ہم پر ایک ٹکرا آسمان میں سے اگر ہے تو سچوں میں سے 46 او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفاً اسرائیل آیت94 (ترجمہ) یا گراوے تو آسمان جیسا کہ تو گمان کرتا ہے ہمارے اوپر ٹکڑے ٹکڑے 47 وانا لمسنا السماء فوجدا نا ھا ملئت حرسا شدیداً و شہباً الجن آیت8 (ترجمہ) اور البتہ ہم نے چھو لیا آسمان کو پھر پایا ہم نے اس کو پھرا ہوا سخت چوکیداروں اور شہابوں سے 48 فورب السماء والارض انہ لحق مثل ما انکم تنطقون الذاریات آیت23 (ترجمہ) سو قسم ہے آسمان میں اور زمین کے پروردگار کی یہ بات ٹھیک ہے ایسی جیسے کہ تم بولتے ہو 49 وجنۃ عرضہا کعرض السماء والارض الحدید آیت21 (ترجمہ) اور بہشت کو جس کا پھیلاؤ ہے جیسے پھیلاؤ آسمان اور زمین کا 50 وما خلقنا السماء والارض وما بینھما باطلاً ص آیت26 (ترجمہ) اور ہم نے نہیں بنایا آسمان اور زمین کو اور جو ان کے بیچ میں ہے نکما 51 وما خلقنا السماء والارض وما بینھما لا عبین الانبیاء آیت12 اور نہیں پیدا کیا ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو ان کے بیچ میں ہے بطور کھلاڑی کے 52 فما یکت علیھم السماء والارض الدخان آیت28 (ترجمہ) پھر نہ رویا ان پر آسمان اور زمین 53والسماء والطارق الطارق آیت1 (ترجمہ) قسم ہے آسمان کی اور رات کو نکلنے والے کی۔ قسم چہارم وہ آیتیں جن میں لفظ سموات کا بصیغہ جمع فضائے محیط پر بلحاظ اس کے انقسام کے ابعاد متعدد میں اطلاق ہوا ہے۔ 1 ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ثم استوی الی السماء فسوھن سبع سموات البقر آیت27 (ترجمہ) وہ وھی ہے جس نے پیدا کیا تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اور پیدا کیا بلندی کو تو درست کئے سات یعنی متعدد آسمان 32 ثم استوی الی السماء وھی دخان فقال لہا وللارض ائتیا طوعاً او کرھا قالتا اتینا طائعین فقضا ھن سبع سموات فی یومین واوحی فی کل سماء امرھا فصلت آیت11-12 (ترجمہ) اور پیدا کیا بلندی کو اور دھواں دھار یعنی تاریک تھی پھر کہا اس کو اور زمین کو حکم مانو خوشی سے خواہ نا خوشی سے دونوں نے کہا ہم نے حکم مانا خوشی سے پھر کہا دئیے سات یا متعدد آسمان دو دن میں اور ڈال دیا ہر آسمان میں اس کا کام۔ 4تنزیلاً ممن خلق الارض والسموات العلیٰ طہ آیت3 (ترجمہ) بھیجا ہے اس شخص نے جس نے بنائی زمین اور آسمان اونچے 5امن خلق السموات والارض النمل آیت41 (ترجمہ) بھلا کس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو 6وھو الذی خلق السموات والارض بالحق الانعام آیت72 (ترجمہ) وہ وہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو جیسے چاہے 7 خلق السموات والارض بالحق التغابن آیت3 (ترجمہ) پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو جیسے چاہئے۔ 5 الم تران اللہ خلق السموات ولارض بالحق ابراھیم آیت22 (ترجمہ) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ پیدا کیا اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو جیسا چاہئے۔ 10-9 وما خلقنا السموات ولارض وما بینھما الا بالحق الحجر آیت85 الحقاف آیت2 (ترجمہ)اور نہیں پیدا کیا ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ کہ ان کے بیچ میں ہے مگر جیسے چاہئے۔ 11 خلق السموات ولارض بالحق تعالیٰ عما یشرکون النحل آیت3 (ترجمہ) پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو جیسا چاہئے اس کی ذات بلند ہے اس سے کہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ 12خلق اللہ السموات والارض بالحق ان فی ذالک لا یۃ اللمومنین العنکبوت آیت43 (ترجمہ) پیدا کیا اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو جیسا چاہئے بے شک اس میں ایک دلیل ہے نیک دل والوں کو۔ 13 وخلق اللہ السموات ولارض بالحق الاثیہ آیت21 (ترجمہ) اور پیدا کیا اللہ نے آسمانوں اور زمین کو جیسا چاہئے۔ 14 الحمد للہ الذی خلق السموات ولارض وجعل الظلمات والنور الانعام آیت1 (ترجمہ) خدا ہی کے لئے سب تعریفیں ہیں جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو اور پیدا کیا اندھیرے کو اور اجالے کو۔ 15-16 ان ربکم اللہ الذی خلق السموات والارض الاعراف آیت52 یونس آیت3 (ترجمہ) بیشک تمہارا پروردگار اللہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو 17وھو الذی خلق السموات والارض فی ستۃ ایام وکان عرشہ علی الماء ھود آیت9 (ترجمہ) او روہ وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور ان کو چھ دن میں اور تھا تخت اس کا پانی پر 1ولقد خلقنا السموات والارض وما فی ستۃ ایام ق آیت37 (ترجمہ) البتہ پیدا کیا ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے چھ دن میں 19-20 الذی خلق السموات والارض ابراھیم آیت37 الفرقان آیت20 (ترجمہ) جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو 21-22خلق السموات ولارض الزمر آیت7الحقاف آیت32 (ترجمہ) پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو 23لخلق السموات والارض اکبر من خلق الناس المومن آیت9 (ترجمہ) البتہ پیدا کرنا آسمانوں کا اور زمین کا بڑا ہے آدمیوں کے پیدا کرنے سے 24 لغایت26 فی خلق السموات والارض البقرہ آیت159 ال عمران آیت187-188 (ترجمہ) بیچ پیدا کرنے آسمانوں کے اور زمین کے 27 یوم خلق السموات ولارض التوبہ آیت32 (ترجمہ) جس دن پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو 28 اولم یروا ان اللہ الذی خلق السموات والارض قادر علی ان یخلق مثلھم اسرائیل آیت101 (ترجمہ) کیا نہیں دیکھا تم نے کہا جس اللہ نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو طاقت رکھتا ہے اس بات پر کہ پیدا کرے ان کی مانند 29 ما اشھد تہم خلق السموات والارض الکھف آیت49 (ترجمہ) میں نے بلایا نہ تھا ان کو بر وقت پیدا کرنے آسمانوں کے اور زمین کے 30 لغایت33 ولئن مالتھم من خلق السموات والارض العنکبوت آیت21 لقمان آیت24 الزمر آیت7 الزخرف آیت8 (ترجمہ) اگر تو پوچھے ان سے کہ کس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو 34 خلق اللہ السموات والارض الروم آیت7 (ترجمہ) اللہ نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو 35 ھو الذی خلق السموات والارض فی ستۃ ایام الحدید آیت5 (ترجمہ) وہ وہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو چھ دن میں 36 اللہ الذی خلق السموات والارض وما بینھما السجدہ آیت 3 (ترجمہ) اللہ وہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ کہ ان میں ہے۔ 37 ام خلقو السموات والارض بل لا یوقنون الطور آیت36 (ترجمہ) کیا انہوں نے پیدا کیا ہے آسمانوں کو اور زمین کو نہیں، پر ایمان نہیں لاتے۔ 38 اولیس الذی خلق السموات والارض یس آیت81 (ترجمہ) کیا نہیں ہے وہ جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو 39 خلق السموات بغیر عمد ترونہا لقمان آیت9 (ترجمہ) پیدا کیا آسمانوں کو بغیر ستون کے کہ دیکھو تم اس کو 40 رفع السموات بغیر عمد ترونہا رعد آیت2 (ترجمہ) بلند کیا آسمانوں کو بغیر ستونوں کے کہ دیکھو تم اس کو 41-42 ومن ایاتہ خلق السموات والارض الشوریٰ آیت28 الروم آیت21 (ترجمہ) اور اس کی نشانیوں میں سے ہے پیدا کرنا آسمانوں کا اور زمین کا 43 وما خلقنا السموات والارض وما بینھما لا عبین الدخان آیت38 (ترجمہ) اور نہیں پیدا کیا ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ کہ ان کے بیچ میں ہے کہلاڑی میں 44 اللہ الذی خلق سبع سموات ومن الارض مثلھن الطلاق آیت12 (ترجمہ) اللہ وہ ہے جس نے پیدا کیا سات یا متعدد آسمانوں کو اور زمین کو بھی ان کی مانند یعنی متعدد 45-46 الم تر کیف خلق اللہ سبع سموات طباقاً وجعل القمر فیہن نوراً و جعل الشمس سراجاً نوح آیت129 (ترجمہ) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کس طرح پیدا کیا اللہ نے سات یا متعدد آسمانوں کو تلے اوپر اور کیا ان میں چاند کو نور اور سورج کو روشن چراغ 47 الذی خلق سبع سموات طباقاً الملک آیت3 (ترجمہ) جس نے پیدا کیا سات یا متعدد آسمانوں کو تلے اوپر 48-49 رب السموات والارض وما بینھما ان کنتم موقنین الدخان آیت2 الشعراء آیت23 (ترجمہ) پروردگار آسمانوں کا اور زمین کا اور اس سب کا جو ان میں ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو۔ 50 قل من رب السموات والارض الرعد آیت7 (ترجمہ) پوچھ کون ہے پروردگار آسمانوں کا اور زمین کا 51 لغایت 53 رب السموات والارض اسرائیل آیت104 الکھف آیت13 مریم آیت22 (ترجمہ) پروردگار آسمانوں کا اور زمین کا 54 ربکم السموات والارض الذی فطرھن الانبیاء آیت57 (ترجمہ) تمہارا پروردگار وہی آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے جس نے پیدا کیا ان کو 55 قل من رب السموات السبع و رب العرش العظیم المومنون آیت88 (ترجمہ) پوچھ کون ہے پروردگار سات یا متعدد آسمانوں کا اور پروردگار اس بڑے تخت کا یعنی اس بڑی بادشاہت کا۔ 56 لغایت 59 رب السموات والارض وما بینھما الصافات آیت5 ص آیت22 الدخان آیت2 النباء آیت37 (ترجمہ) پروردگار آسمانوں کا اور زمین کا اور اس سب کا جو ان میں ہے۔ 60سبحان رب السموات والارض رب العرش عما یصفون الزخرف آیت 82 (ترجمہ) پاک ہے پروردگار آسمانوں کا اور زمین کا پروردگار عرش کا ان باتوں سے جو اس کو لگاتے ہیں۔ 61 فللہ الحمد رب السموات والارض رب العالمین الجاثیہ آیت35 (ترجمہ) اللہ ہی کے لئے سب تعریفیں ہیں جو پروردگار ہے آسمانوں کا اور پروردگار ہے زمین کا پروردگار ہے سارے جہان کا 62 وللہ ملک السموات والارض وما بینھما المائدہ آیت21 (ترجمہ) اور اللہ ہی کے لیے ہے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی اور اس سب کی جو ان میں ہے۔ 63 للہ ملک السموات والارض وما فیھن المائدہ آیت120 (ترجمہ) اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی اور اس سب کی جو ان میں ہے۔ 64 اولم ینظروا فی ملکوت السموات والارض الاعراف آیت184 (ترجمہ) کیا غور نہیں کی انہوں نے آسمانوں کی اور زمین کی بادشاہت میں 65 وکذالک نری ابراہیم ملکوت السموات والارض الانعام آیت 75 (ترجمہ) اور اسی طرح دکھلائی ہم نے ابراہیم کو بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی 66 لغایت 82 ملک السموات والارض المائدہ آیت44، التوبہ آیت117، الاعراف آیت158، النور آیت42، الفرقان آیت2، الشوریٰ آیت48، الزخرف آیت85، الجاثیہ آیت26، الفتح آیت14، الحدید آیت2,5، البروج آیت9، الزمر آیت45، ص آیت9، البقرہ آیت101، المائدہ آیت20، ال عمران آیت182 (ترجمہ) بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی 83 لغایت 123، ما فی السموات وما فی الارض البقرہ آیت110، 252، 284، ال عمران آیت27،105،24، النساء آیت125، 130،131،128، 129 المائدہ آیت98، الانعام آیت12، یونس آیت52,29 ابراہیم آیت 2 ، النحل آیت51،54، طہ آیت5، الحج آیت23، النور آیت24، العنکبوت آیت52، لقمان آیت25,19 ، سبا آیت1,3,12 الملائکہ آیت43، الشوریٰ آیت2، 53 الجاثیہ آیت12، الحجرات آیت12، النجم آیت32، الحدید آیت1، المجادلہ آیت8، الحشر آیت 1، 24 الصف آیت 1، الجمعہ آیت 1، التغابن آیت 1،4 (ترجمہ) جو کچھ کہ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ کہ زمین میں 124 لغایت 136 من فی السموات والارض ال عمران آیت 77، یونس آیت27، الرعد آیت16، الانبیاء آیت19، مریم آیت94، الحج آیت18، النور آیت41، النمل آیت89,66 الروم آیت25، م آیت28، الرحمن آیت29، اسرائیل آیت57 (ترجمہ) جو کوئی آسمانوں میں ہے اور زمین میں 137و 138 من السموات والارض النحل آیت75سباء آیت23 (ترجمہ) آسمانوں سے اور زمین سے 139 لغایت149 فی السموات وفی الارض الانعام آیت2 الاعراف آیت182، یونس آیت2,19,101 یوسف آیت105 الروم آیت 17,28 لقمان آیت15 الجاثیہ آیت2,36 (ترجمہ) آسمانوں میں اور زمین میں 150 انا عرضنا الامانۃ علی السموات والارض الاحزاب آیت72 (ترجمہ) البتہ ہم نے دکھلائی امانت آسمانوں کو اور زمین کو 51 وجنت عرضہا السموات والارض آل عمران آیت27 (ترجمہ) جنت جس کا پھیلاؤ ہے آسمان اور زمین 157و153 مادامت السموات والارض ھود آیت109,110 (ترجمہ) جب تک رہیں آسمان اور رہیں زمین 54 تسبح لہ السموات السع والارض ومن فیھن اسرائیل آیت42 (ترجمہ) پاکیزگی سے یاد کرتے ہیں اس کو ساتوں آسمان اور زمین 154-155ان اللہ یعلم غیب السموات والارض الملائکہ آیت 32 الفتح آیت18 (ترجمہ) البتہ اللہ جانتا ہے چھپی چیزیں آسمانوں کی اور زمین کی 157 انی اعلم غیب السموات والارض البقرہ آیت31 (ترجمہ) البتہ میں جانتا ہوں چھپی چیزیں آسمانوں کی اور زمین کی 158 لغایت 160 وللہ غیب السموات والارض النحل آیت79 الکہف آیت25ھود آیت9 (ترجمہ) اور اللہ کے لئے ہے چھپی چیزیں آسمانوں کی اور زمین کی 161,162 وللہ میراث السموات والا آل عمران آیت172 الحدید آیت10 اور اللہ وارث ہے آسمانوں کا اور زمین کا 123 وللہ خزائن السموات والارض آیت7 (ترجمہ) اور اللہ کے لئے ہے خزانے آسمانوں کے اور زمین کے 144-145 مقالید السموات والارض الزمر آیت23 الشوریٰ آیت10 (ترجمہ) کنجیاں آسمانوں کی اور زمین کی 166-167 وللہ جنود السموات والارض الفتح آیت4-7 (ترجمہ) اور اللہ کے لئے ہیں لشکر آسمانوں کے اور کے 148 اللہ نور السموات والارض النور آیت35 (ترجمہ) اللہ ہے نور آسمانوں کا اور زمین کا 129 الا یسجدوا للہ الذی یخرج الخب فی السموات والارض النمل آیت25 (ترجمہ) کیوں نہ سجدہ کریں اللہ کو جو نکالتا ہے چھپی چیز آسمانوں میں اور زمین میں 170 وکم من ملک فی السموات لا تغنی شفاعتہم شیئا النجم آیت26 (ترجمہ) بہت سے فرشتے ہیں آسمانوں میں کام نہیں آتی ان کی سفارش 171یوم تبدل الارض غیر الارض والسموات ابراہیم آیت49 (ترجمہ) جس دن کہ بدل دی جاوے یہ زمین زمین کے سوا (یعنی اور کسی چیز سے) اور بدل دئے جاویں آسمان 172یا ھا مان ابن لی صرحاً لعلی ابلغ الاسباب اسباب السموات فاطلع الی الہ موسیٰ وانی لاظنہ کاذباً المومن آیت39 (ترجمہ) اے ھامان بنا میرے لئے ایک محل شاید کہ میں پہونچوں آسمان کے رستوں میں پھر دیکھوں موسیٰ کے خدا کو اور میری اٹکل میں تو وہ جھوٹا ہے۔ 173 ارونی ماذا خلقو من الارض ام لھم شرک فی السموات الا حقاف آیت3 (ترجمہ) دکھاؤ تو مجھ کو انہوں نے کیا پیدا کیا ہے زمین میں یا کچھ ان کو ساجھا ہے آسمانوں میں۔ 174-175 بدیع السموات والارض البقرہ آیت111 الانعام آیت101 (ترجمہ) بغیر نمونہ کے بنانے والا آسمانوں کا اور زمین کا 172 لغایت 181 فاطر السموات والارض الانعام آیت14 یوسف آیت 102 الملائکہ آیت1 ابراھیم آیت11الزمر آیت47 الشوریٰ آیت9 (ترجمہ) بنانے والا آسمانوں کا اور زمین کا 182 فطر السموات والارض الانعام آیت79 (ترجمہ) بنایا آسمانوں کو اور زمین کو 183 اولم یرالذین کفرو ان السموات والارض کانتا رتقاً ففتقنھما الانبیاء آیت31 (ترجمہ) شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح لکھا ہے: آیا ندیدند کافراں کہ آسمان ھا و زمین بستہ بودند پس وا کر دیم ایں ھارا اور حاشیہ پر یہ عبارت لکھی ہے : واکردن آسمان ھا نازل کردن مطر است و واکردن زمین رویانیدن گیاہ ازوے اور شاہ عبدالقادر صاحب نے اس کا ترجمہ یہ لکھا ہے:ـ اور کیا نہیں دیکھا ان منکروں نے کہ آسمان اور زمین مونہ بند تھے پھر ہم نے ان کو کھولا۔ اور حاشیہ پر یہ لکھا ہیـ: مونہ بند تھی یعنی ایک چیز تھی زمین سے نہریں اور کانیں اور سبزے بھانت بھانت نکالے، آسمان سے کئی ستارے ہر ایک کا گھر جدا اور چال جدی۔ 184 ان اللہ یمسک السموات والارض ان تزولا ولئن زالتا ان امسکھما من احد من بعدہ الملائکہ آیت39 (ترجمہ) بیشک اللہ تھامے رکھتا ہے آسمانوں کو اور زمین کو ٹل جانے سے اور اگر ٹل جاویں تو کوئی نہ تھام سکے ان کو اس کے سوا۔ 185 ولو اتبع الحق اھواء ھم لفسدت السموات والارض ومن فیھن المومنون آیت73 (ترجمہ) اور اگر خدا چلے ان کی خوشی پر تو خراب ہوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان کے بیچ میں ہے۔ 186 تکادا السموات یتفطرون من فوقہن الشوریٰ آیت3 (ترجمہ) قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اوپر سے 187 قالو اتخذ الرحمن ولد لقد جئتم شیئاً ادا تکا دا السموات والارض یتفطرن منہ و تنسشق الارض و نخر الجبال ھدا ان دعو اللرحمن ولداً وما ینبغی للرحمن ان یتخذ ولداً مریم آیت92 (ترجمہ) وہ کہتے ہیں کہ خدا نے بیٹا کیا ہے بے شک نہایت سخت بات کہی ہے جس سے قریب ہے آسمان پھٹ پڑیں اور پھٹ جاوے زمین اور گر پڑیں پہاڑ ٹکڑے ہو کر خدا کے لئے بیٹا کہنے سے 188وما قدرو اللہ حق قدرہ ولارض جمعیاً قبضۃ یوم القیامۃ والسموات مطوبات بیمینمہ و تعالیٰ عما یشرکون الزمر آیت27 (ترجمہ) اور نہ قدر کی انہوں نے اللہ کی جتنی کہ اس کی قدر کرنی چاہئے تھی اور سب ساری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی قیامت کے دن اور آسمان لپٹے ہوں گے اس کے داہنے ہاتھ میں۔ قسم پنجم وہ آئتیں جن میں لفظ سموات کا مجازاً کواکب پر اطلاق ہوا ہے جیسے کہ مجازاً ظرف سے مظروف مراد لی جاتی ہے۔ 1 الذی خلق مبع سموات طباقاً الملک آیت3 (ترجمہ) جس نے پیدا کیا سات یا متعدد آسمانوں، یعنی کواکب کو تلے اوپر اس آیت کے بعد کی آیتوں میں خدا فرماتا ہے خلق الرحمن من تفاوت یعنی تو نہیں دیکھنے کا پیدا کرنے میں کچھ فرق پھر خدا فرماتا ہے فارجع البصر ھل تریٰ من فطور یعنی پھر پھیر اپنی نگاہ کو کہیں تجھ کو دکھائی دیتی ہے کچھ خرابی پھر خدا فرماتا ہے: ثم ارجع البصر کرتین ینقلب الیک البصر خاسا وھو حسیر، یعنی پھر پھیر اپنی نگاہ کو دو دو بار الٹ آوے گی تیرے پاس تیری نگاہ عاجز ہو کر اور تھک کر ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جن آسمانوں کے پیدا کرنے کا ذکر خدا نے پہلی آیت میں کیا ہے وہ ایسی چیز ہے کہ انسان اس کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن سبع سموات سے کوئی سے آسمان مراد خواہ مجسم خواہ محل سیر کواکب مگر وہ دکھائی نہیں دیتے پس خدا کا یہ فرمانا کہ ان کو دیکھو اور پھر نگاہ کرو اور پھر نگاہ پھیر کر دیکھو محض لغو اور بے سود ہو گا۔ ’’ فارجع البصر‘‘ سے یہی آنکھ کی نگاہ مراد ہے، نہ کوئی دوسری چیز چنانچہ امام صاحب بھی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں: فما معنی ثم ارجع الجواب امرہ برجع البصر یعنی اس آیت میں نظر کے پھیرنے کا حکم ہے۔ تعجب یہ ہے کہ امام صاحب بھی سمجھتے ہیں کہ یہ سموات جن کا ذکر اس آیت میں ہے محسوس ہونے چاہئیں اور ارقام فرماتے ہیں کہ ’’ ان انحس دل علی ان ھذہ السموات السبع اجسام مخلوقۃ علی وجہ الاحکام والا تقان‘‘ مگر یہ نہیں بتایا کہ کیونکر حس ان کے اجسام ہونے پر دلالت کرتی ہے، حالانکہ وہ تو محسوس نہیں ہیں۔ پس ضرور ہے کہ اس جگہ سموات سے وہ چیزیں مراد ہوں جو مرئی اور محسوس ہیں اور ہر کوئی ان کو دیکھتا ہے، تاکہ ان کے پیدا کرنے کی دلیل سے خدا کی عظمت اور اس کی خالقیت ثابت کی جاوے اور جو کہ سموات در حقیقت محل سیر کواکب ہیں تو بمزلہ ظرف کے ہیں اور کواکب بمنزلہ مظروف کے پس اس مقام پر سموات سے مجازاً کواکب مراد ہیں بولا گیا ہے ظرف اور مراد ہے مظروف لفظ سبع اگر بمعنی حقیقی لیا جاوے تو اس سے یہ سات کواکب سیارہ مراد ہوں گے جو ہمارے لئے بہ نسبت اور کواکب کے زیادہ تر عجیب ہیں اور اگر اس کا استعمال بطورہ محاورہ عرب بلا تعین عدد سمجھا جاوے تو اس سے تمام کواکب جو ہم کو دکھائی دیتے ہیں مراد ہوں گے۔ ظرف سے مظروف مراد ہونے پر قرینہ قویہ موجود ہے، یعنی اگلی آیتوں میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ ایسی اشیاء پر جو مرئی نہیں ہیں اور دکھائی نہیں دیتیں صادق نہیں آتا اور اس لئے ضرور ہوا ہے کہ ظرف سے مظروف مراد لی جاوے۔ اس مقام پر ظرف کو مجازاً بمعنی مظروف بیان کرنے میں ایک بڑی عمدگی و باریکی ہے، کیونکہ اگر یوں کہا جاتا ہے الذی خلق سبع کواکب طباقا تو یہ قول صرف نفس کواکب پر دلالت کرتا، حالانکہ ان کے حالات اور ان کے حرکات اور جو انتظام کہ ان کے حرکات میں ہے وہ نفس کواکب سے بھی زیادہ عجیب ہے اور ظرف سے جو ان کا محل سیر ہے ان پر اشارہ کرنے سے جو عجائبات کہ نفس کواکب اور ان کے حالات میں ہیں وہ سب کے سب یکلخت ذہن میں آ جاتے ہیں۔ ’’ طباقا‘‘ کا لفظ صفت ہے سموات کی جس سے کواکب ہم نے مراد لئے ہیں اس سے مثل پیاز کے چھلکے کے تو بر تو ہونا پایا نہیں جاتا ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر میں ان کاملا ہوا ہونا تسلیم نہیں کیا، بلکہ طباقا سے صرف ان کا اوپر تلے ہونا اور متوازی ہونا مراد ہے قال الامام فی تفسیرہ لعل المراد کو نہا طباقا کونہا متوازیۃ لا انہا متماسۃ یعنی طباقا کے لفظ سے یہ ضرور نہیں ہے کہ وہ چمٹے ہوئے ہوں، بلکہ یہ مطلب ہو کہ متوازی ہوں (یعنی حرکت میں ایک دوسرے سے ٹکرا نہ جاویں) اس کی تائید قرآن مجید کی دوسری آیت سے بخوبی ہوتی ہے جہاں فرمایا ہے ’’ والشمس تجری لمستقر لھا ذالک تقدیر العزیز العلیم والقمر قدرنا منازل حتیٰ عاد کالعرجون القدیم لا الشمس ینبغی لہا ان تدرک القمر ولا الیل سابق النہار وکل فی فلک یسبحون‘‘ یعنی آفتاب چلتا ہے اپنی قرار گاہ میںیہ ٹھہرایا ہوا ہے اس زبردست جاننے والے کا اور چاند کے لئے اس نے مقرر کی ہیں منزلیں، یہاں تک کہ پھر ہو جاتا ہے مانند پرانی ٹہنی کے، (یعنی ہلال) نہ سورج کر سکتا ہے کہ چاند کو پکڑ لے (یعنی ٹکر مارے) اور نہ رات آگے بڑھ سکتی ہے دن سے اور سر ایک یعنی سورج و چاند و ستارے ایک ایک گھیرے میں پھرتے ہیں پس طباقا کے لفظ سے یہی مطلب ہے کہ باوجودیکہ اس قدر کواکب ہیں جن کی انتہا نہیں اور سب اپنے اپنے محل سیر میں پھرتے ہیں اور ایک دوسرے سے ٹکراتا نہیں۔ اسی آیت کی مانند یہ آیت ہے و بنینا فوتکم سبعا شداداً وجعلنا سراجاً وھاجا یعنی بنائے ہم نے تمہارے اوپر سات یا متعدد کواکب مضبوط اور کیا ہم نے ان میں سے ایک کو چراغ روشن افسوس کہ بعض اکابر نے اس آیت کی نسبت مکابر کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر سع سے سات ستارے معہودہ مراد ہوتے تو لفظ سبع کو معرف باللام لانا ضرور تھا۔ اگرچہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ بحالت شہرت تعریف باللام لانا ضرور نہ تھی مگر اس کے جواب سے ہم مجبور ہیں اس لئے کہ خدا نے اور جگہ بھی ایسا ہی فرمایا ہے چنانچہ والطور و کتاب مسطور فی رق منشور میں کتاب معہودہ کو غیر معرف باللام فرمایا ہے امام فخر الدین رازیؒ فرماتے ہیں کہ ’’ما الحکمۃ فی تنکبر الکتاب و تعریف باقی الاشیاء تقول ما یحتمل الخفاء من الامور الملتبسۃ با مثالہا من الاجناس یعرف باللام فیقال رایت الامیر ودخلت علی الوزیر فاذا بلغ الامیر الشہرۃ بحیث یومن الالتباس مع شہرتہ و یرید الواصف وصفہ بالعظمۃ بقول الیوم رایت امیر امالہ نظیر وجالسا و علیہ سیما الملوک وانت ترید ذلک الامیر المعلوم والسبب فیہ انک بالتنکیر تشیر الی انہ خرج عن ان یعلم و بعرف بکنہ عظمتہ فیکون کقولہ تعالیٰ الحاقۃ ما الحاقۃ وما ادراک ما الحاقۃ فاللام وان کانت معرفۃ لکن اخرجہا عن المعرفۃ کون شدۃ ھوالھا غیر معروف فکذلک ھہنا الطورلیس فی شھرۃ بحیث یو من اللبس عند التنکیر وکذلک البیت المعمور واما الکتاب الکریم فقد تمیز عن سا یر الکتب بحیث لا یسبق الی افہام السامعین من النبی صلی اللہ علیہ وسلم لفظ الکتاب الا ذلک فلما امن اللبس و حصلت فایدہ التعریف سواء ذکر باللام اولم یذکر قصد الفایدۃ الاخرے وھی الذکر بالتنکیر وفی تلک الاشیاء لمالم تحصل فائدۃ التعریف الا بالۃ التعریف استعملھا وھذا یوید کون المراد منہ القرآن وکذالک اللوح المحفوظ مشہور۔‘‘ (ترجمہ) اگر کوئی کہے کیا حکمت ہے بیچ نکرہ لانے لفظ کتاب کے اور معروف لانے اور چیزوں کے، پس ہم جواب دیں گے کہ جو چیزیں احتمال رکھتی ہیں کسی قسم کی خفاء کا منجملہ ان امور کے جو مشتبہ ہوتے ہیں ساتھ اپنی امثال کے اجناس وغیرہ سے تو وہ معرفہ لائی جاتی ہیں، چنانچہ یوں بولا جاتا ہے رایت الامیر ودخلت علی الوزیر، یعنی دیکھا میں نے اس امیر کو او گیا میں پاس اس وزیر کے اور جب کہ کوئی امیر خاص ایسا مشہور ہو جاتا ہے کہ وقت اطلاق کے وہی سمجھا جاتا ہے اور کسی دوسرے کا شبہ نہیں ہوتا اور کوئی شخص اس مشہور امیر کی کچھ تعریف کرنا چاہتا ہے تو یوں کہتا ہے الیوم رایت امیر امالہ نظیر جالسا وعلیہ سیما الملوک یعنی آج میں نے امیر کو بیٹھے دیکھا کہ اس کی کوئی نظیر ہی نہیں ہے اور وہ ملوکانہ شان سے بیٹھا ہوا تھا پس بوجہ شہرت کے کچھ اس کے معرف لانے کی ضرورت نہیں ہوتی، گو در حقیقت ارادہ میں امیر خاص ہی ہوتا ہے اور نکتہ اس میں یہ ہوتا ہے کہ گویا تنکیر سے تم اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہو کہ بسبب شہرت کے وہ اس بات کا محتاج نہیں ہے کہ اس کی کنہ عظمت کی تعریف کی جاوے پس گویا کہ ہے مثل اس قوم اللہ تعالیٰ کے الحاقہ ما الحاقۃ وما ادراک ما الحاقۃ کہ اس کلام میں اگرچہ لفظ لام موجب تعریف ہے، لیکن بسبب اس کے ھول اور دہشت کے غیر معروف ہونے کے اس کو معرفہ ہونے کی حالت سے نکال دیا ہے اسی طرح پر طور اگرچہ مشتہر ہے، لیکن اس درجہ شہرت کو نہیں پہنچا کہ التباس کا خوف نہ رہا ہو اور یہی حال بیت المعمور کا ہے بخلاف کتاب کریم کے کہ وہ اپنی امثال میں اس درجہ ممتاز ہے کہ جو لوگ سننے والے ہیں وہ اس لفظ کے سننے سے اسی کو سمجھ لیتے ہیں دوسری کتاب کا شبہ نہیں ہوتا، پس جب کہ خوف التباس نہ رہا اور فائدہ تعریف کا شہرت ہی سے حاصل ہو گیا خواہ لام ہو یا نہ ہو تو اس وجہ سے ایک دوسرے فائدہ کا مفید کیا گیا اور وہ فائدہ یہی ہے کہ اس کو بالتنکیر ذکر کیا اور چونکہ اور اشیاء میں بغیر آلہ تعریف کے توصیف نہیں آ سکتی تھی اس لئے ان کو معرف باللام بیان کیا اور اس وجہ سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ مراد اس سے قرآن ہے اور ایسے ہی لوح محفوظ مشہور ہے۔ پس جو کہ کواکب سبع نہایت مشہور تھے، بلکہ ان کو سیارہ خیال کرنے سے لوگ بالتخصیص اور دیگر کواکب سے تمیز کرتے تھے تو ہماری دانست میں خدا نے کچھ غلطی نہیں کی بلکہ معرف باللام لانا ضرور نہ تھا۔ پھر وہ فرماتے ہیں کہ یہ ترجمہ غلط ہے (شاید غلط ہو اس لئے کہ ہم مولوی نہیں ہیں) وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنی جہالت اور ھوائے نفسانی اور جعلنا کو متعدی الی المفعولین ٹھہرایا ہے، حالانکہ وہ متعدی الی مفعول واحد ہے۔ مگر یہ ارقام نہیں فرمایا کہ اس مقام پر جعلنا کو متعدی الی مفعول واحد قرار دینے کی ان پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور کیوں اس کا متعدی الی المفعولین ہونا ناجائز ٹھہرایا ہے مگر چند ہم سے جاھلوں نے تو جعلنا کو اس مقام پر متعدی الی مفعولین مانا ہے۔ تفسیر معالم التنزیل والا کہتا ہے وجعلنا سراجاً یعنی الشمس وھاجاً مضیاً پس اس نے ایک مفعول سراج کو بمعنی شمس اور دوسرا مفعول وھاج کو قرار دیا ہے۔ پھر تفسیر ابن عباس کے مصنف نے بھی جہالت کی ہے کہ وجعلنا سراجاً وھاجاً شمسا مضیا بیان کیا ہے اور جعلنا کو متعدی الی المفعولین مانا ہے۔ بے شک خدا نے بھی غلطی کی ہے کہ اوپر سے برابر جعلنا کو متعدی الی المفعولین کہتا چلا آتا تھا الم نجعل، الارض، مھاداً، والجبال، اوتاداً، وجعلنا، نومکم، سباتا، وجعلنا، اللیل، لباسا، وجعلنا، النہار، معاشا، پھر اخیر میں بھی وجعلنا کو متعدی الی المفعولین کہہ دیا کہیں تو متعدی الی المفعول واحد بولا ہوتا اگر در حقیقت خدا اس قصور کا تقصیر وار ہو تو ہم بھی اس جعلنا کو اس جگہ متعدی الی مفعول واحد تسلیم کر لیں گے۔ سبعاً کا مضاف الیہ محذوف بلا شبہ ممکن ہے کہ سموات ہو جیسا کہ تمام مفسروں نے مانا ہے، لیکن جو کہ ان کے ذہن میں بہ تقلید یونانیان جما ہوا تھا کہ آسمان سات ہیں اور ان کا جسم شدید صلب بلوریں ہے کہ خرق والتیام کے بھی قابل نہیں، اسی خیال سے انہوں نے سبعا کا مضاف الیہ سموات کو قرار دیا ہے ورنہ ان پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی کہ مضاف الیہ محذوف سموات ہے غایت یہ ہے کہ کوئی قرینہ ہو گا باستدلال آیت ’’ انتم اشد خلقا ام السماء بناھا‘‘ لیکن یہ استدلال ایسا نہیں ہے کہ باوجود موجود ہونے دوسرے قرینہ کے بھی کوئی اور مضاف الیہ محذوف اس کا نہ مانا جاوے۔ خدا تعالیٰ نے شروع آیت میں سات کا ذکر کیا اور اس کے ساتھ سورج کا ذکر فرمایا، پس یہ کیسا صاف قرینہ ہے کہ وہ سات وھی ہیں جن میں کا ایک سورج ہے اور سورج ان ہی سات میں کا ایک ہے، پس ایسے صاف اور روشن قرینہ سے جو سورج کی مانند چکمتا ہے سبعاکاً مضاف الیہ کواکب اور جعلنا کو متعدی الی المفعولین اور اس کا مفعول اول احد ھن قرار دیتے ہیں اور جو کہ اس کے حذف پر صاف قرینہ دلالت کرتا تھا اس لئے اس کا حذف نہایت وسیع تھا صاف صاف معنی خدا کے کلام کے تو یہی ہیں پھر یونانیوں کی تقلید کرنے والے چاہیں مانیں چاہیں نہ مانیں۔ واضح ہو کہ اگر ہم اس تمام تقریر سے قطع نظر کریں اور سبعا کا مضاف ہی مراد لیں اور اشد کے لفظ کو بھی نسبت سموات ہی کے تسلیم کر لیں تو بھی آسمانوں کا جسم یونانیوں کے آسمانوں کا سا جسم یا ویسا جسم جیسا کہ تیرھویں صدی کے مولوی قرار دینا چاہتے ہیں، ثابت نہیں ہوتا، چنانچہ اس کی بحث آگے آوے گی۔ 2اولم یرو ان اللہ الذی خلق السموات والارض قادر علی ان یخلق مثلھم اسرائیل آیت101 (ترجمہ) کیا نہیں دیکھا تم نے کہ جس اللہ نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو طاقت رکھتا ہے اس بات پر کہ پیدا کرے ان کی مانند۔ کیا فائدہ ہے اس آیت سے اور خدا کی قدرت پر کیوں کر اقرار کر سکتا ہے اگر وہ سموات جن کا اس میں ذکر ہے ہم کو دکھائی نہیں دیتے بلا شبہ اس مقام میں بھی سموات سے کواکب مراد ہیں جن کو ہم دیکھتے ہیں اور خدا کی قدرت کا اقرار کرتے ہیں 3الم تران اللہ خلق السموات والارض بالحق آیت22 (ترجمہ) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ پیدا کیا اللہ نے آسمانوں کواکب کو اور زمین کو جیسا چاہئے۔ اس آیت میں بھی جب تک سموات سے ایسی چیزیں مراد لی جاویں جو حقیقت میں دکھائی دیتی ہوں اس وقت تک خدا تعالیٰ کی قدرت کے اثبات پر دلیل نہیں ہو سکتی۔ الم تر کیف خلق اللہ سبع سموات طباقاً وجعل القمر فیھن نوراً وجعل الشمس سراجاً نوح آیت15,16 (ترجمہ) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کس طرح پیدا کیا اللہ نے سات یا متعدد آسمانوں یعنی کواکب کو تلے اوپر اور کیا ان میں چاند کو نور اور کیا سورج کو چراغ روشن۔ اس آیت میں بھی ہم کو وہی بحث ہے جو پہلی آیت میں کی ہے اور جس طرح اور جس دلیل سے ہم نے سورۃ الملک کی آیت میں سموات سے کواکب مراد لئے ہیں اسی طرح اس مقام پر بھی لیتے ہیں شمس و قمر ان کواکب کے مغایر نہیں ہیں کیونکہ اس مقام پر لفظ فی سے داخل ہونا شمس و قمر کا ان ہی اعداد سبع میں پایا جاتا ہے۔ قال اللہ تبارک و تعالیٰ من لسان ابراہیم علیہ السلام ربنا وابعث فیھم رسولاً منھم یتلو علیھم ایاتک ویعلمھم الکتاب والحکمۃ و یزکیھم انک انت العزیز الحکیم یعنی اے ہمارے پروردگار اٹھا ان میں ایک رسول ان ہی میں سے الخ 5اللہ الذی رفع السموات بغیر عمد ترونہا ثم استویٰ علی العرش و سخر الشمس والقمر کل یجری لا جل مسمی الرعد آیت2 (ترجمہ) اللہ وہ ہے جس نے بلند کیا آسمانوں کو بغیر ستون کے کہ دیکھو تم اس کو پھر ٹھہرا عرش پر اور فرماں بردار کیا سورج اور چاند کو ہر ایک چلتا ہے معین سمت میں 6خلق السموات بغیر عمد ترونہا لقمان آیت9 (ترجمہ) پیدا کیا اللہ نے آسمانوں کو بغیر ستون کے کہ دیکھو تم اس کو ان دونوں آیتوں میں خدا تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اس طرح پر ثابت کرتا ہے کہ اس نے سموات کو بغیر ستون کے بلند کیا ہے جب تک کہ وہ سموات بغیر ستون کے بلند ہوئے نہ دکھائی دیں اس وقت تک اس قدرت کا ثبوت نہیں ہو سکتا۔ پس اس جگہ سموات سے خواہ یونانیوں والے مجسم آسمان مراد لو، خواہ تیرھویں صدی کے مولویوں والا، خواہ محل سیر کواکب، مگر ان میں سے کوئی بھی مرئی نہیں ہے پس اگر لفظ سموات کو بجائے لفظ سماء کے سمجھو اور اس سے یہ نیلی چھت مراد لو تو تو ہم کو کچھ کلام نہیں، لیکن اگر اس کو بمعنی جمع قرار دو، جیسا کہ ظاہر لفظ میں ہے تو ہم اس سے بھی کواکب مراد لیں گے، اسی دلیل سے جس سے کہ پہلی آیتوں میں لئے ہیں، تاکہ دلیل پوری ہو جاوے۔ شمس و قمر بھی انہی سموات یعنی کواکب میں داخل ہیں مگر جو کہ وہ بہت نسبت دیگر کواکب کے زیادہ عظیم الشان ہم کو معلوم ہوتے ہیں اور وہ چلتے ہوئے بھی ہر ایک کو محسوس ہوتے ہیں اس لئے اپنے کمال قدرت کو زیادہ تر ظاہر کرنے کو فرمایا کہ وہ بھی خدا کے فرمانبردار ہیں۔ مولوی مہدی علی صاحب نے جو اپنے آرٹیکل میں عمد غیر مرئی کی نسبت ایک محققانہ گفتگو کی تھی اس کی نسبت بعض اکابر نے اپنی تحریر میں مکابرہ کیا ہے ہم نے اس کو بغور دیکھا اور مولوی مہدی علی صاحب کی زبان نے صرف اتنا ہی کہنا مناسب سمجھا کہ ’’ شعر مرابہ مدرسہ کہ برد‘‘ علاوہ ان آیتوں کے اور بھی آیتیں ہیں جن میں سموات کے الفاظ سے کواکب مراد لینا بہ نسبت آسمانوں کے زیادہ تر مناسب ہم انہیں آیتوں پر بس کرتے ہیں۔ تحقیق الفاظ آیات فلاسفہ اور اصحاب علم ہیئت آسمان کی نسبت بیان تک کہ ’’ انہا اجرام صلبۃ الا تقلیۃ والا خفیفۃ غیر قابلۃ للخرق والا لتیام والنمو والذ بول‘‘ یعنی آسمان سخت اجرام ہیں، نہ بوجھل ہیں اور نہ ہلکے ہیں، پھٹنے اور جڑنے اور بڑھنے اور گھٹنے کے قابل نہیں ہیں اس حقیقت اور اس وجود سموات کے ہم بالکل منکر ہیں۔ علماء معقول اور منقول سماء و فلک دونوں کو ایک سمجھتے ہیں جیسا کہ امام فخر الدین رازیؒ نے بھی تفسیر کبیر میں تحت آیۃ کل فی فلک یسبحون کے فلک اور سماء میں کچھ تفرقہ نہیں کیا ہے، بلکہ دونوں کو ایک سمجھا ہے پس جو بحث کہ انہوں نے فلک کی حقیقت میں کی ہے وہ بحث گویا سماء کی اور سموات کی حقیقت میں ہے چنانچہ انہوں نے مفصلہ ذیل مذہب نسبت اس کے نقل کئے ہیں۔ ’’ قال بعضہم الفلک لیس بجسم وانما ھو مدار ھذہ النجوم و ھو قول الضحاک و قال الا کثرون ھی اجسام تدور النجوم علہا وھذا اقرب الی ظاہر القرآن ثم اختلفو فی کیفیتہ فقال بعضھم الفلک موج مکفوف تجری الشمس والقمر والنجوم فیہ و قال الکلبی ماء مجموع تجری فیہ الکواکب‘‘ یعنی بعضوں کا قول ہے کہ فلک یعنی آسمان کا کوئی جسم نہیں ہے، بلکہ وہ ستاروں کے چکر کی جگہ ہے اور یہ قول ضحاک کا ہے اور اکثر عالم مفسر یہ کہتے ہیں کہ ان کا جسم ہے اور ستارے ان کے اوپر پھرتے ہیں (جیسے کہ گیند پر چیونٹی) اور بھی معنی قرآن کے الفاظ کے نہایت قریب ہیں اس کے بعد پھر عالموں اور مفسروں نے اس بات میں کہ پھر وہ کیسے ہیں اختلاف کیا ہے بعض کا قول ہے کہ فلک یعنی سیاء پانی کا بلبلہ ہے سورج اور چاند ستارے اس میں پھرتے ہیں اور کلبی کا یہ قول ہے کہ پانی جمع ہو گیا ہے اس میں ستارے بہتے ہیں۔ پھر امام صاحب لکھتے ہیں کہ والحق انہ لا سبیل الی معرفۃ صفات السموات الا بالخبر یعنی سچ یہ ہے کہ آسمانوں کی صفت معلوم کرنے کے لئے بجز وحی کے کوئی راہ نہیں ہے (بشرطیکہ وحی کے معنی سمجھنے میں غلطی نہ ہو) اخیر کو امام صاحب نے یہ فیصلہ کیا ہے ’’ والذی یدل علیہ لفظ القرآن ان تکون الافلاک واقفۃ والکواکب تکون جاریۃ فیھا کما تسبح السمکۃ فی الماء ‘‘ یعنی وہ بات جو قرآن کے لفظوں سے پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ افلاک یعنی آسمان تو ٹھہرے ہوئے ہوں اور ستارے اس میں بہتے ہوں جیسے کہ مچھلی پانی میں تیرتی ہے۔ ہم نے جو کچھ کہا ہے وہ انہیں علماء کے اقوال کے نہایت قریب قریب ہے حقیقت سماء اور سموات کی ہم نہیں جانتے مگر یہ بات کہ وہ اجرام صلب ہیں محض غلط ہے۔ اس کو بھی ہم نہیں مانتے کہ وہ گیند کی طرح ایک جسم ہیںاور ستارے ان پر پھرتے ہیں جیسے کہ گیند پر چیونٹی یا گنبد پر اخروٹ اور ان دونوں باتوں کو اس لئے مانتے کہ قرآن مجید سے ان کا ایسا جسم یا ان کی ایسی حقیقت ثابت نہیں ہوتی۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ پانی کے بلبلہ کی مانند ہیں یا پانی اکٹھا ہو گیا ہے، یعنی وہ ایک ایسے جسم لطیف سیال ہیں جو کواکب کی سیر و حرکت کو مانع نہیں ہیں، اگر کوئی شخص ان کے ایسے جسم ہونے کا دعویٰ کرے تو ہم اس کو اس کا جواب دیں گے کہ ہوں گے مگر ہم ایسے جسم ہونے کا دعویٰ نہیں کریں گے دو وجہ سے اول اس لئے کہ ایسے جسم کے ثبوت کے لئے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں دوسرے اس کہ قرآن مجید میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس سے نہ ایسے وجود کا ہونا پایا جاتا ہے اور نہ اس کے تسلیم کرنے کی ضرورت معلوم ہوتی ہے۔ پس علاوہ ان چیزوں کے جن پر سماء کے لفظ کا اطلاق ہوا ہے ہم نے سماء کے معنی فضائے محیط کے قرار دئیے ہیں اور اس کے درجات یا طبقات کو جو بسبب حدوث اور وجود دیگر اشیاء کے اس فضائے محیط میں اوپر تلے یا طبقہ بعد طبقہ پیدا ہو گئے ہیں سموات کہا ہے، تو اب ہم کو ضرور ہے کہ ہم اس بات کو بھی بیان کریں کہ جو معنی ہم نے لفظ سماء یا سموات کے قرار دئیے ہیں یا جن معنوں میں ان کا اطلاق ہونا بیان کیا ہے کوئی لفظ کسی آیت کا آیات قرآن مجید سے اس کے مخالف نہیں ہے اس بیان سے یہ بھی ثابت ہے کہ ہم وجود سموات کے منکر نہیں ہیں، کیونکہ اس فضائے محیط یا اس کے طبقات کا وجود مخلوق ہے۔ قسم اول کی آیتوں میں یعنی جن میں لفظ سماء کا بمعنی ابر و بادل کے اطلا ہوا ہے، کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جو بحث کے قابل ہو اور اسے ان معنوں میں شبہ پڑ سکتا ہو ہاں صرف ایک اخیر کی والسماء ذات الرجع شاید بحث کے لائق ہو، کیونکہ ہمارے زمانہ کے علماء شاید اس کو یونانیوں والا آسمان قرار دے کر اس سے آسمان کی گردش اور زمین کے سکون قرا ردیتے پر متوجہ ہوں۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ جمہور مفسرین نے بھی اس آیت میں لفظ سماء سے بادل مراد لی ہے صرف ابن زید کا ایک قول منقول ہوا ہے جس سے یونانیوں والا آسمان مراد ہو سکتا ہے مگر اس قول کو مفسرین نے نہیں مانا۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے اماقولہ والسماء ذات الرجع فنقول قال الزجاج الرجع المطر لا نہ یحیئے ویتکر و اعلم ان کلام الزجاج وسائر ائمۃ اللغۃ صریح فی ان الرجع لیس اسما موضوعا للمطر بل سمی رجعا علی سبیل المجاز والحسن ھذہ المجاز وجوہ (احدھا) قال القفال کانہ من ترجیح الصوت وھدا عادتہ ووصل الحروف بہ فکذا المطر لکونہ عائدا مرۃ بعد اخری سمی رجعاً (وثانیہا) ان الغرب کا نویز عمون ان السحاب یحمل الماء من بحار الارض ثم یرجعہ الی الارض (وثالثہا) انہم ارادو التفاول فسموہ وجعا لیرجع (ورابعہا) ان المطر یرجع فی کل عام اذا عرفت ھذا فنقول للمفسرین اقوال (احدھا) قال ابن عباس والسماء ذات الرجع ای ذات المطر یرجع لمطر بعد مطر و تانیہا رجع السماء اعطاء الخیر الذی یکون من جھتہا حالا بعد حال علی مرور الازمان ترجعہ (جعاً اے طتعطیہ مرۃ بعد مرۃ (وثانیہا) رجع السماء اعطاء الخیر الذی یکون من جھتہا حالا بعد مرۃ (وثالثہا) قال ابن زید ھوا نہا ترد و ترجع شمسہا و قمرھا بعد مضیبھا والقول ھو الاول یعنی ہم کہتے ہیں کہ والسمائالرجع میں جو لفظ رجع کا ہے اس کے معنی زجاج نے مینہ کے لئے ہیں، کیونکہ مینہ آتا ہے اور پھر پھر کر آتا ہے یہ بات جان لینی چاہئے کہ زجاج کے اور تمام لغت کے عالموں کے کلام میں اس بات کی تصریح ہے کہ لفظ رجع مینہ کے لئے نہیں بنایا گیا ہے، یعنی اس کے لغوی معنی مینہ کے نہیں ہیں، بلکہ محازاً بطور مینہ کے نام کے بولا جاتا ہے اور مجازاً مینہ کے نام رجع رکھنے میں کوئی خوبیاں ہیں اول یہ کہ قفال کا قول ہے کہ رجع کا لفظ گویا ترجیع الصوت سے لیا ہے جس کو گانے والے گٹکری کہتے ہیں اور گٹکری آواز کا پھیرنا اور اس حرفوں کالے میں ملانا ہے اور یہی حال مینہ کا ہے، پس اس کے برسنے اور پھر برسنے کے سبب رجع اس کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اہل عرب سمجھتے تھے کہ بادل زمین کے دریاؤں میں سے پانی لے جاتے ہیں اور پھر زمین کو پھیر دیتے ہیں تیسرے یہ کہ انہوں نے نیک فال کے ارادہ سے مینہ کا نام رجع رکھا ہے تاکہ پھر آوے چوتھے یہ کہ مینہ ہر برس پھر آتا ہے اب کہ یہ بات جان لی گئی تو ہم کہتے ہیں کہ مفسروں کے کئی قول ہیں اول ابن عباس کا قول ہے کہ والسماء ذات الرجع کے معنی ہیں ذات المطر یعنی مینہ والا پھیر لاتا ہے مینہ کو مینہ کے بعد دوسرے یہ کہ رجع السماء سے وہ نیکی مراد ہے جو آسمان کی طرف سے بار بار زمانوں کے گذر جانے پر بھی ہوتی رہتی ہے عرب بولتے ہیں ترجعہ رجعا یعنی اس کو دیتا ہے بار بار تیسرا ابن زید کا قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ آسمان لے جاتا ہے اور پھر لاتا ہے اپنے سورج اور چاند کو ان کے چھپ جانے کے بعد مگر پہلی بات ٹھیک ہے۔ بایں ہمہ ہم خود سیاق و سباق کلام خدا پر غور سکتے ہیں اس کے دونوں جملوں کے ملانے سے صاف معلوم ہے کہ نہایت فصاحت اور خوبی سے بادلوں کا اور اس کے زمین کے اگانے کا جو دونوں لازم و ملزوم ہیں بیان کیا ہے۔ چاہولفظ رجع کے لغوی معنی مراد لو خواہ مجازی معنی دونوں حالتوں میں مطلب ایک ہی رہتا ہے ہم خود بادلوں کو دیکھتے ہیں کہ جاتے آتے ہیں، یہاں برستے ہیں پھر وہاں جا برستے ہیں، پھر یہاں آ برستے ہیں زمین کو سیراب کرتے ہیں وہ طرح طرح کے پھل پھولوں کو اگاتی ہے۔ ایک بہت بڑا معجزہ قرآن مجید کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جابجا نیچر کی خوبی انسان کو جتلاتا ہے اور اس سے اپنی خدا کے ثبوت پر دلیل لاتا ہے اور پھر اس سے انسان و روحانی نیکی حاصل کرنا سکھلاتا ہے فھو رب العرش العظیم سبحانہ و تعالیٰ شانہ قسم دوم میں جو آیتیں بیان ہوئی ہیں اور جن میں لفظ سماء کے فضائے محیط پر اطلاق ہوا ہے ان آیتوں میں کئی لفظ بحث کے لائق ہیں اول لفظ ’’ استویٰ‘‘ جس کو ہم نے اور مفسروں نے بمعنی خلق بیان کیا ہے پس لفظ استوا سے بحث کرنی گویا لفظ خلق سے بحث کرنی ہے، اس لئے اس مقام پر اس لفظ سے بحث نہیں کرتے، کیونکہ آگے لفظ خلق سے پوری بحث کی جاوے گی۔ دوسرا لفظ ’’ بروج ‘‘ کا ہے یہ لفظ تین آیتوں میں آیا ہے تبارک الذی جعل فی السماء بروجا وجعل فیھا سراجاً و قمراً منیرا ولقد جعلنا فی السماء بروجا وزینھا للناظرین والسماء ذات البروج مگر یہ لفظ ہمارے بیان کے مخالف نہیں ہے اور نہ اس لفظ سے آسمان کا ایسا جسم جیسا کہ یونانی حکیموں نے مانا تھا اور جس کی تقلید علماء اسلام نے کی ہے ثابت ہوتا ہے۔ بروج جمع ہے برج کی اور برج مشتق ہے تبرج سے جس کے معنی ظاہر ہونے کے ہیں قال الامام فی تفسیرہ ’’ اشتقاق البرج من التبسرج لظہورہ‘‘ پس ان آیتوں میں جو بروج کا لفظ آیا ہے مفسرین نے اس کے تین معنی لئے ہیں اول ابن عباس کی روایت ہے کہ بروج سے مراد کواکب ہیں قال الامام فی تفسیرہ ’’ عن ابن عباس رضی اللہ عنہ ان البروج ھی الکواکب العظام‘‘ یعنی حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ یہی بڑے بڑے ستارے بروج ہیں اور پھر دوسری جگہ فرمایا ہے ’’ البروج ہی عظام الکواکب سمیت بروجا لظہورھا‘‘ یعنی بروج یہی بڑے بڑے ستارے ہیں ان کا نام بروج اس لئے ہوا کہ وہ ظاہر ہیں لغات قرآن میں لکھا ہے والسماء ذات البروج وھی ذات کواکب العظام یعنی آسمان برجوں والے سے بڑے بڑے ستاروں والا مراد ہے پس اگر یہی معنی بروج کے لئے جاویں تو لفظ بروج کا ان معنوں سے جو ہم نے سماء کے لئے ہیں کچھ بھی مخالف نہیں اور نہ ایسے معنی لینے سے یونانیوں کے آسمان کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ دوسرے معنی بروج کے لئے ہیں منازل قمر، یعنی نچھتر کے یا منازل سیارات کے جیسا کہ تفسیر کبیر میں ہے اما البروج فھی منازل السیارات اور دوسری جگہ لکھا ہے البروج ھی منازل القمر تیسرے معنی بروج کے بروج السماء یعنی آسمانوں کے برجوں کے لئے ہیں، چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے انہا ھی البروج الاثنا عشر وھی مشہورۃ اور لغات قرآن میں لکھا ہے بروج السماء منازل الشمس والقمر ھی اثنا عشر بروجا معروفۃ اولھا الحمل واخرھا الحوت مگر حقیقت میں دوسرے اور تیسرے معنی ایک ہیں کچھ ان میں فرق نہیں ہے اب بروج اثنا عشر کی کیفیت بتلانی چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ جو معنی سماء کے ہم نے بیان کئے ہیں بروج کا لفظ اس کے منافی ہے یا نہیں جاننا چاہئے کہ ابتداء میں جب اہل تنجیم یا اہل ہیئت نے اس علم کے مسائل پر غور کی تو انہوں نے دیکھا کہ آفتاب سال بھر میں نقطہ اعتدال سے طلوع و غروب میں تین مہینہ تک جانب شمال میل کرتا جاتا ہے اور پھر تین مہینہ تک جانب نقطہ اعتدال رجوع کرتا آتا ہے اور جب اس نقطہ پر پہنچ جاتا ہے تو تین مہینہ تک جانب جنوب میل کرتا جاتا ہے اور پھر تین مہینہ تک جانب نقطہ اعتدال رجوع کرتا ہے یہ حال آفتاب کا تمام دنیا میں دکھائی دیتا تھا اور اس سبب سے وہ ستارے جو طریق الشمس میں ہمیشہ پڑتے تھے بہ نسبت اور ستاروں کے زیادہ معلوم ہو گئے تھے یعنی اہل تنجیم بہ نسبت اور ستاروں کے ان سے زیادہ واقف ہو گئے تھے جب انہوں نے ان ستاروں پر غور کیا تو بہت سے ستاروں کو ایک جگہ ایک ایسی ترتیب سے پایا کہ اگر ان کو نقاط فرض کر کر خطوط وصل کئے جاویں تو ایک صورت اس میں پیدا ہوتی ہے اور ایسا مجمع ستاروں کا بارہ موقعوں پر ان کو دکھائی دیا اور ہر ایک مجمع کی حد سے قریب ایک ایک مہینہ میں آفتاب کا گذر ہوتا تھا پس اہل تنجیم نے ستاروں کے ان بارہ مجمعوں کو بارہ صورتیں قرار دیں جیسا کہ ان کواکب میں خطوط وصول کرنے سے پیدا ہوتی تھیں اور ہر ایک صورت کا ایک نام رکھ دیا جو مشہور ہیں اور جو کہ وہ کواکب کچھ تو اس سبب سے کہ طریق الشمس میں واقع تھے اور کچھ اس سبب سے کہ ان کے مجموع سے ایک صورت قرار دے دی گئی تھی بہ نسبت اور کواکب کے زیادہ ظاہر اور زیادہ معلوم تھے، ان کے مجمع کا یا اس صورت کا جو مجمع کواکب سے خیال کی گئی تھی برج نام رکھا جو مشتق ترج سے ہے پس نتیجہ یہ ہوا کہ برج نام ہے اس خاص مجمع کواکب کا جو اس فضائے محیط میں ملان طریق الشمس میں بوضع خاص واقع ہوئے ہیں، اس لئے سماء کو ذات البروج کہنا کچھ بھی منافی ہمارے کلام کا نہیں ہے اور والسماء ذات البروج کہنا بالکل ایسا ہے جیسے کہ والسماء ذات النجوم کہنا اور تبارک الی جعل فی السماء بروجا کہنا ایسا ہے جیسا کہ تبارک الذی جعل فی السماء بروجااور لقد جعلنا فی السماء بروجا کہنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ولقد جعلنا فی السماء نجوما کہنا بعد اس تقرر کے اہل تنجیم و اہل ہیئت یونانیہ کو ایک اور مشکل پیش آئی جس سے انہوں نے صور بروج کو فلک ہشتم پر اور تقسیم بروج کو فلک نہم پر مانا، مگر یہ مسائل علم ہیئت کے ہیں اس کی بحث کا یہاں موقع نہیں ہے غرضیکہ انہی کواکب کے مجمع کو جن سے صورت حمل و ثور و جوزا و سرطان وغیرہ کی پیدا ہوتی ہیں اہل عرب بروج کہتے تھے اور ان کا کہنا صحیح تھا پس قرآن مجید میں بھی انہی پر بروج کے لفظ کا اطلاق ہوا ہے جو ذرا بھی ہمارے بیان کے منافی نہیں ہے اور نہ کسی طرح لفظ بروج کا آسمان کے مجسم بجسم صلب بلوریں ہونے کا متقاضی ہے۔ تیسرا قابل بحث کے شاید لفظ ’’ قال‘‘ ہو جو آیۃ کریمہ فقال لہا و للارض ہتیا طوعا او کرھا قالتا اتینا طائعین میں واقع ہے مگر ہم نہیں سمجھتے کہ اس میں کیا بحث کی جاوے گی شاید یہ بحث ہو کہ ہر گاہ سما سے فضائے محیط مرتفع مراد لی ہے اور وہاں کسی لطیف جسم ہونے کا بھی دعویٰ نہیں کیا گیا تو خلا لازم آیا اور خلا امر وجودی نہیں ہے، بلکہ امر عدمی ہے تو وہ کیونکر قابل امر و لائق اطاعت ہو سکتا ہے۔ مگر یہ خیال اگر کسی کو ہو تو صحیح نہیں ہے، کیونکہ ہم نے محل سیر کواکب کو سماء قرار دیا ہے اور وہ مکانیت سے خالی نہیں اور مکان خالی عن المادہ امر وجودی ہے امر عدمی نہیں ہے باقی رہی بحث استعمال لفظ قال کی جو خدا کی طرف سے زمین کی نسبت اور آسمانوں کی نسبت کہا گیا اور اسی طرح زمین اور آسمان کی طرف قال کی نسبت کی گئی یہ ایک جدا بحث ہے جو ما نحن فیہ سے متعلق نہیں۔ چوتھا لفظ قابل بحث کے ’’ ابواب‘‘ کا ہے جو آیت کریمہ لا تفتح لہم ابواب السماء میں واقع ہے اس لفظ سے لوف خیال کرتے ہوں گے کہ آسمان میں دروازے ہیں اور جب تک آسمان ایسا ہی مجسم نہ ہو جیسے کہ یونانیوں والا آسمان تو اس میں دروازے اور کواڑ اور کنڈے قفل کیونکر ہو سکتے ہیں۔ جن علماء کے ذہن میں آسمان کا جسم بہ تقلید یونانیوں صلب بلوریں جما ہوا تھا انہوں نے تو آسمان میں سچ مچ کے دروازے بنا دئیے ہیں، لیکن علماء محققین نے فتح ابواب سماء سے خیر و برکت مراد لی ہے چنانچہ ان کا قول تفسیر کبیر میں اس طرح پر لکھا ہے فی قولہ لا تفتح لھم ابواب السماء اقوال والقول الرابع لا تنزل علیہم البرکۃ والخیر وھو ما خوذ من قولہ ففتحنا ابواب السماء بماء منھم یعنی ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھلنے کی تفسیر میں مفسروں کے کئی قول ہیں ان میں سے ایک یہ قول ہے کہ لا تفتح لھم ابواب السماء کے یہ معنی ہیں کہ ان پر یعنی کافروں پر خیر و برکت نہ نازل ہو گی اور یہی معنی ہمارے نزدیک صحیح ہیں جو کسی طرح ہمارے بیان کے مخالف نہیں ہیں۔ سوائے ان الفاظ کے جو مذکور ہوئے اور کوئی لفظ ان آیتوں میں جو قسم دوم میں داخل ہیں قابل بحث کے نہیں معلوم ہوتا۔ قسم سوم میں جو آیتیں بیان ہوئی ہیں اور جن میں الفاظ مسماء کا اس نیلی چیز پر جو ہم کو دکھلائی دیتی ہے اطلاق ہوا ہے، ان آیتوں میں کئی لفظ بحث کے قابل ہیں۔ اول لفظ ’’ باب‘‘ جو آیت کریمہ ’’ ولو فتحنا علیھم بابا من السمائ‘‘ میں واقع ہے اور وہ پوری آیت یوں ہے ولو فتحنا علیھم بابا من السماء فظلوا فیہ یعرجون لقالو انما سکرت ابصارنا بل نحن قوم مسحورون یعنی اور اگر ہم کوھل دیں ان پر دروازہ آسمان سے اور وہ ایسے ہو جاویں کہ سارے دن اس میں چڑھتے رہیں تو کہیں گے کہ ہماری ڈھٹ بندی ہوئی ہے نہیں تو ہم پر جادو ہوا۔ لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ جب اس آیت میں آسمان کے دروازے کا ذکر ہے اور اس میں چڑھنے کا بھی بیان ہے تو ضرور آسمان ایسا ہی مجسم ہے جیسا کہ یونانی بیان کرتے ہیں۔ مگر خود اس آیت سے آسمان میں دروازہ ہونے کا علم امکان ثابت ہوتا ہے، کیونکر خدا تعالیٰ ایک غیر ممکن بات کو فرض کر کر بیان فرماتا ہے کہ اگر آسمان میں دروازہ بھی کھل جاوے اور کافر اس میں چڑھ بھی جایا کریں تب بھی ایمان نہ لاویں گے اور کہیں گے کہ یا ہماری ڈھٹ بندی کی ہے یا ہم پر جادو کیا ہے، پس اس آیت سے ہمارا مطلب ثابت ہوتا ہے نہ یونانیوں کے مقلدوں کا۔ خدا تعالیٰ کافروں کے حال میں اکثر غیر ممکن باتوں کی نسبت فرمایا کرتا ہے کہ اگر یہ بھی ہو جاوے تب بھی وہ نہ مانیں گے جیسے کہ اس آیت میں فرمایا ہے ان الذین کذبو بایاتنا واستکبرو عنھا لا تفتح لھم ابواب السماء ولا یدخلون الجنۃ حتیٰ یلج الجمل فی سم الخیاط یعنی بے شک جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان کے سامنے گھمنڈ کیا ہر گز نہ کھلیں گے ان کے لئے دروازے آسمان کے یعنی ان کو خیر و برکت نہ ہو گی اور نہ بہشت میں جاویں گے، یہاں تک کہ گھس جاوے اونٹ سوئی کے ناکے میں۔ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں گھس جانا غیر ممکن ہے پس اللہ تعالیٰ کافروں پر خیر و برکت ہونے اور ان کا بہشت میں جانا نا ممکن ہونا اس طرح پر سمجھاتا ہے کہ اگر اونٹ بھی سوئی کے ناکے میں گھس جاوے تو بھی نہ ان پر خیر و برکت ہو گی اور نہ وہ بہشت میں جاویں گے۔ اسی طرح آیت مانخن فیہ میں فرمایا ہے کہ اگر آسمان میں ایسا دروازہ جس میں آدمی آتے جاتے ہیں کھولا جاوے اور کافر اس میں جانے لگیں جو غیر ممکن ہے تب بھی وہ نہ مانیں گے اور کہیں گے کہ ہماری ڈھٹ بندی کی ہے یا ہم پر جادو کیا ہے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے ’’ اعلم ان ھذا الکلام ھو المذکور فی سورۃ الانعام فی ولہ ولو نزلنا علیک کتابا فی قرطاس فلمسوہ بایدیہم لقال الذین کفرو ان الذین الا سحر مبین والحاصل ان القوم لما طلبوا نزول الملائکۃ یصرحون بتصدیق الرسول علیہ السلام فی کونہ رسولا من عندااللہ تعالیٰ بین اللہ تعالیٰ فی ھذا من باب السحر وھولاء الذین یظن انا نراھم فنحن فے الحقیقۃ لا نراھم‘‘ (ترجمہ) جاننا چاہئے کہ اس آیت میں وہی بات ہے جو سورہ انعام میں کہی گئی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ’’ اور اگر بھیجیں ہم تیرے پاس کاغذ میں لکھا ہوا پھر چھولیں اس کو اپنے ہاتھ سے تو بھی جو لوگ منکر ہیں کہیں گے کہ یہ اصل میں کچھ نہیں ہے صرف جادو ہے‘‘ حاصل یہ ہے کہ جب اہل عرب نے رسول خدا پر رسول اللہ ہونے کا یقین لانے کو فرشتوں کا اترنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بتایا کہ ہر تقدیر اگر یہ بھی ہو جاوے تو بھی جو لوگ منکر ہیں کہیں گے کہ یہ ایک جادو کی قسم میں سے ہے اور جن کو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم دیکھتے ہیں حقیقت میں ہم نہیں دیکھتے پس جب کہ اس آیت میں آسمان میں دروازہ کا ہونا اور اس میں کافروں کا چڑھنا یا فرشتوں کا اترنا بطور محال کے بیان کیا گیا ہے تو باب کا لفظ سماء کے ان معنوں کے جو ہم نے اس آیت میں یا اس قسم سوم میں بمعنی اس نیلی چیز کے جو ہم کو بسبب انعکاس شعاع آفتاب کرہ ہوا میں دکھائی دیتی ہے، لئے ہیں کچھ بھی منافی نہیں، البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس آیت میں جس چیز پر ہم نے سماء کے لفظ کا اطلاق ہونا بیان کیا ہے بظاہر اس کی حالت ایسی ہونی چاہیے جس میں دروازہ کھلنے کا اطلاق ہو سکے اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ نیلی چیز جو ہم کو اس کی ایسی ہی حالت دکھائی دیتی ہے نہایت صاف بغیر کسی پھوٹاؤ اور دڑاڑ کے گنبد کی چھت کی مانند نہایت پختہ بنائی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور ہمارے خیال میں ڈاٹ لگا ہوا سا ایک جسم سمائی ہوئی ہے پس اس خیال کے موافق اس جسم خیالی میں دروازہ کھولنے کا اطلاق ہو سکتا ہے خدا تعالیٰ نے قرآن مجید بندوں کی زبان اور محاورہ میں نازل کیا ہے۔ پس بندوں کے اس خیالی جسم پر بندوں کے محاورہ کے موافق دروازہ کھولنے کا اطلاق ہوا ہے نہ بطور اصل حقیقت کے۔ دوسرا لفظ ’’ سقف‘‘ ہے جو آیہ کریمہ وجعلنا السماء سقفا محفوظا میں آیا ہے اور والسقف المرفوع میں جو لفظ سقف کا ہے اس سے بھی آسمان مراد ہے تفسیر کبیر میں لکھا ہے سمی السماء سقفنا لا نہا للارض کا السقف للبیت یعنی آسمان کو چھت اس لئے کہا ہے کہ وہ زمین کے لئے ایسا ہے جیسے گھر کے لئے چھت۔ بلا شبہ یہ نیلی نیلی چیز ہم کو ایسی اوپر دکھائی دیتی ہے کہ گویا دنیا کی چھت ہے مگر اس سے یونانیوں کے مقلدوں کو کیا فائدہ ہے، اس لئے کہ اس نیلی چیز کو جس نے خدا نے سقف محفوظ یا سقف مرفوع کہا ہے یونانی بھی تو وہ آسمان نہیں مانتے جس کے وہ قائل ہیں اور علمائے اسلام بھی ان کی تقلید سے اس نیلی نیلی چیز کو اپنا مسلمہ آسمان قرار نہیں دیتے اور قرآن مجید میں جس کو سقف مرفوع و سقف محفوظ کہا ہے وہ تو یہی نیلی نیلی چیز ہے جو تمام دنیا کے لوگوں کو دنیا کی چھت کی مانند دکھائی دیتی ہے اور عرب کے بادیہ نشین جن کی زبان میں قرآن مجید اترا اسی کو سقف مرفوع سمجھتے تھے جو آسمان کہ یونانی قرار دیتے ہیں اور جن آسمانوں کا یہ جس آسمان کا ذکر علمائے اسلام کرتے ہیں وہ تو کسی نے دیکھا بھی نہیں پھر کیا معلوم کہ وہ دنیا کی چھت ہے یا چھت کی چھت گیری ہے۔ علاوہ اس کے سقف کی مثال دینے سے اس کا ایسے جسم سے مجسم ہونا جیسا کہ یونانی تسلیم کرتے ہیں کیونکر لازم آتا ہے یہ نیلی نیلی چیز ہم کو اس طرح پر دنیا کو گھیرے وئے دکھائی دیتی ہے جیسے گھر کو چھت اور اسی مشابہت سے اس پر سقف کا اطلاق کیا ہے، خواہ وہ اھون من بیت العنکبوت ہو خواہ اشد من سقف الحدید تیسرا لفظ’’ رفع‘‘ کا ہے جو آسمان کی نسبت بولا گیا ہے در حقیقت یہ نیلی چیز جو ہم کو دکھائی دیتی ہے اور جس کو آسمان کہتے ہے شے مرفوع ہے لفظ رفع سے اس کا لوہے یا تانبے کے پترے کا سا ہونا کیونکر لازم آتا ہے۔ چوتھا لفظ کسف کا ہے جس کے معنی ٹکڑوں یا پارچوں کے ہیں یہ لفظ البتہ بحث کے قابل ہے مگر اول ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ ان آیتوں میں جو لفظ سماء کا آیا ہے اس سے یہی نیلی نیلی چیز جو دکھائی دیتی ہے مراد ہے یا اور کوئی چیز کچھ شبہ نہیں کہ یہی مراد ہے، کیونکہ سورۃ سبا کی آیت میں خدا نے فرمایا ہے ’’ اولم یروالی ما بین ایدیھم وما خلفھم من السماء والارض‘‘ اور انسان کے ہر طرف یہی نیلی نیلی چیز ہے جس کو آسمان فرمایا ہے اور آسمان سے ٹکڑا گرانے کا ذکر فرمایا ہے وہ بھی اسی زمین کے دھنسانے اور اسی نیلی نیلی چیز کے ٹکڑا گرانے کا ہے اور سب کے نزدیک اس نیلی نیلی چیز کا ایسا جسم نہیں ہے جس سے حقیقتاً ٹکڑا گرنا ممکن ہو پس جن آیتوں میں’’ کسفا‘‘ کالفظ ہے وہ یونانیوں کے مقلد مولویوں کے لئے کچھ مفید نہیں اور نہ اس سے یونانیوں والا مجسم آسمان ثابت ہوتا ہے نہ تیرھویں صدی کے مولویوں کا۔ علاوہ اس کے اس آیت میں خدا تعالیٰ محسوسات سے اپنی قدرت ثابت کرتا ہے یونانیوں والا مجسم آسمان یا تیرھویں صدی کے مولویوں والا مجسم آسمان محسوس نہیں ہے، کیونکہ سوائے اس نیلی چیز کے اور کچھ انسان کو محسوس نہیں ہے پس غیر محسوس شے سے ٹکڑا گرانے کا ذکر کرنا اثبات مدعا کو کافی نہیں اس لئے ’’ کسفا‘‘ کا لفظ نہ ہمارے مطلب کے منافی ہے اور نہ یونانیوں کے مقلدوں کے مفید ہے۔ اصل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن مجید میں بندوں کی زبان میں اور انہی کے محاورات کے موافق کلام کرتا ہے اور جب ان کو کسی محسوس چیز سے ہدایت کرتا ہے یا محسوسات سے اپنے کمال قدرت کو ثابت کرتا ہے تو انہی کے خیالات کے موافق اور جس طرح کہ وہ شے محسوس ہوتی ہے اسی کے مطابق کلام کرتا ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر ایسے موقع پر خیالات کی تبدیل اور حقائق اشیاء کے سمجھانے پر متوجہ ہو تو اصلی مقصود روحانی تربیت کا فوت ہو جاوے۔ تمام انسان اس نیلی چیز کو سقف گنبدی سمجھتے تھے جیسے کہ وہ دکھائی دیتی ہے اور ریختہ کی ڈاٹ سے بھی زیادہ مضبوط سمجھتے تھے پس خدا کے مطابق ان کے خیالات کے ان کو فرمایا کہ اس میں ایسی قدرت ہے کہ اگر چاہے تو اس چیز میں سے بھی جس کو تم ایسا مستحکم سمجھتے ہو تم پر ٹکڑا گرا دے اور زمین کو با وصف اس قدر عظمت و استحکام کے دھنسا دے پس ایسے مقامات پر اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ اس نیلی چیز کا جسم اس قابل ہے کہ اس میں سے ٹکڑا ٹوٹ کر گر سکے یا نہیں اور اگر ٹکرا ٹوٹ کر گرنے کے قابل ہے تو وہ ایسا ہی ٹکڑا ہو گا جیسے چھت میں کی پٹیا یا پتھر میں کی بٹیا۔ علاوہ اس کے ’’ سمائ‘‘ سے سماء ما نحن فیہ مراد نہیں ہے تفسیر کبیر میں لکھا ہے ’’ کفسا من السماء قر کسفا بالسکون والحرکہ وکلا ھما جمع کسفتۃ وھی القطعہ والسماء السحاب او الظلہ، روی انہ جس عنھم الریح سبعا و سلط علیھم الرمل فاخذ بانفاسہم لا ینفعہم ظل ولا ماء فاضطروا الی ان خر جوا الی البریۃ فاظلتھم سحابۃ وجد والہا بردو نسیہا فاجستمعو تحتہا فامطرت علیہم نارا فاحترقوا‘‘ یعنی کسفا جمع ہے کسفۃ کی جس کے معنی ٹکرے کے ہیں اور آسمان سے یا تو بادل مراد ہے یا اور کوئی چھائی ہوئی چیز پھر اخیر میں وہ ایک روایت لکھتے ہیں کہ اصحاب ایکہ نے جو کہا تھا کہ ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا دو تو ان پر عذاب اس طرح پر نازل ہوا کہ سات دن تک ہوا بند رہی اور ریت یا غبار جو آسمان میں چڑھ گیا تھا ان پر چھا گیا اور ان سب کا دم گھٹنے لگا نہ ان کو کوئی سایہ دار چیز فائدہ دیتی تھی اور نہ پانی پھر وہ بے قرار ہوئے اور جنگل میں نکل جانا چاہا، اتنے میں ایک بادل ان پر چھا گیا ان کو ٹھنڈک معلوم ہوئی اور ہلکی ہلکی ہوا بھی لگی اور سب اس کے نیچے آن کر جمع ہو گئے پھر اس میں سے ان پر آگ برسنے لگی،پھر سب جل گئے پس جب کہ سماء سے اس مقام پر سماء ما نحن فیہ ہی مراد نہ ہو تو ’’ کسف‘‘ کے لفظ سے سماء ما نحن فیہ کے مجسم ہونے پر کیونکر استدلال ہو سکتا ہے اور خدا کو محل عذاب میں یہ بات فرمانی کہ ہم چاہیں زمین کو دھنسا دیں یا بادل کا گودر تمام عمر شمشیر بدست نگر فتہ باشد یا گویند فلاں می گوید کہ در زمین کسی رائمی بینم کہ بامن مبازرت تو اند کر دویا گویند کہ فلاں خود چنیں میکند و اشارہ کنند بہ ہیئیتے کہ اھل مبازرت در وقت غلبہ بر خصم می کنند گو کہ ایں شخص گاھے ایں کلمہ نگفتہ باشد و ایں فعل نکردہ باشد یا گویند فلاں حلق مراخفا کردہ است و دست در گلوئے ن انداختہ لقمہ را برکشیدہ است انتہی پس جہاں کہیں کہ قرآن مجید میں خدا تعالیٰ محسوسات کا بطور عرف عام بیان فرماتا ہے اس سے اس کے عین کا ثبوت مقصود نہیں ہوتا ہم بھی کہتے ہیں کہ آسمان گر پڑے، آسمان ٹوٹ پڑا، یہ ایسی بات ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جاوے، کلیجا پھٹ جاوے، مگر کبھی ان الفاظ سے حقیقتاً ان چیزوں کا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس کے لازم ملزوم عقلی یا عادی کا ہوتا ہے فتدبر پانچویں لفظ’’ الطی‘‘ قابل بحث ہے جس کے مشتقات آیہ کریمہ یوم نطوی السماء کطی السجل للکتب اور آیہ کریمہ والسموات مطویات بیمینہ میں لائے ہیں مگر ان آیتوں سے یہ خیال کرنا کہ آسمان کاغذ یا کپڑے یا چادر یا رومال کی مانند ایک جسم ہے جو خدا کے ہاتھ پر لپٹ جاوے گا یا جیسے مکتبوں میں لڑکے مکتوب لپیٹ لیتے ہیں اس طرح لپٹ جاوے گا، ایک بڑی غلطی ہے۔ یہ کلام مجازاً بولا گیا ہے جس سے مقصود صرف اتنا ہے کہ یہ تمام آسمان و زمین جیسے کہ پہلے نیست تھے پھر نیست ہو جاویں گے۔ خدا تعالیٰ اول فرماتا ہے کہ یوم نطوی السماء کطی السجل للکتب اور اسی کے ساتھ فرماتا ہے کما بداء نا اول خلق نعیدہ یعنی یہ فرما کر کہ ہم آسمان کو مکتوب کی مانند لپیٹ لیں گے اس کے مطلب کو بتا دیا کہ جس طرح ہم نے پہلے پہل پیدا کرنا شروع کیا تھا پھر ویسا ہی کریں گے اور ایسا کرنا اسی وقت ہو گا جب کہ یہ سب نیست ہو جاوے گا۔ تفسیر کبیر میں بہ تحت آیت والسموات مطویات بیمینہ کے بہت طویل گفتگو لکھی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب مجاز ہے اور مجازاً واسطے اظہار قدرت و شان خدا تعالیٰ کے بولا گیا ہے۔ قال صاحب الکشاف: الغرض من ھذا الکلام اذا اخذتہ کما ھو بجملتہ ومجموعہ تصویر عظمۃ والتوقف علی کنہہ جلالہ من غیر ذھاب بالقبضۃ ولا بالیمین الی جہۃ حقیقۃ او جہۃ مجازاً یعنی صاحب تفسیر کشاف کا قول ہے کہ اس کلام سے جبکہ اس سب کو جمع کر لو تو مقصود اس سے خدا تعالیٰ کی عظمت کی تصویر بتانا اور اس کے جلال کی کنہ میں متوقف رہنا ہے، بغیر اس کے کہ مٹھی اور دائیں ہاتھ سے حقیقت میں مٹھی اور دایاں ہاتھ سمجھیں یا مجازاً خیال کریں۔ بعد اس کے ایک لمبا جھگڑا تاویل کا اور حمل کلام کا حقیقت سے مجاز پر لکھ کر ارقام فرماتے ہیں ولا شک ان لفظ القبضۃ والیمین مشعر لہذاوالا عضاء والجوارح الا ان الدلایل العلیۃ قامت علی امتناع ثبوت الا عضاء والجوارح للہ تعالیٰ فوجب حمل ھذہ الاعضاء علی وجوہ المجاز یعنی اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ مٹھی اور دایاں ہاتھ ان اعضاء اور ہاتھوں کو جو ظاہر میں ہیں بتاتا ہے مگر عقلی دلیلوں سے ثابت ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ کے اعضاء اور جوارح کا ہونا غیر ممکن ہے، اس لئے واجب ہے کہ مٹھی اور دایاں ہاتھ جو بیان ہوا ہے اس کو مجاز پر حمل کریں پس جبکہ دونوں چیزیں مجاز پر حمل ہوئیں تو مٹھی میں اٹھانا اور ہاتھ پر لپٹنا بھی یقینی مجاز ہو گیا۔ ثم قال صاحب الکشاف وقیل قبضۃ ملکہ ویمینہ قدرہ وقیل مطویات بیمینہ ای مفنیات یعنی صاحب کشاف نے کہا ہے کہ مٹھی سے تو ملک خدا مراد ہے اور دائیں ہاتھ سے اس کی قدرت اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دائیں ہاتھ میں لپٹیں گے، یعنی فنا اور معدوم ہو جاویں گے پس لپٹنے کے لفظ سے آسمانوں کا حقیقت میں لپٹنے کے لائق جسم سمجھنا ٹھیک ٹھیک کٹھ ملا ہونا ہے۔ چھٹے الفاظ ’’ انشقاق وانفراج اور انفطار اور فتح‘‘ اور مثل ان کے ہیں کہ ان کے مشتقات یا بہ تبدیل ابواب قرآن مجید میں آئے ہیں ان الفاظ کی نسبت بھی وہی بحث ہے جو ہم نے بالتفصیل ’’ کسفا‘‘ کے لفظ کے تحت میں کی ہے یہی نیلی نیلی چیز جس کو سب لوگ آسمان کہتے تھے اور جانتے تھے اور کہتے ہیں اور جانتے ہیں سب کو ایک مجسم چیز اور چھت کی طرح بنی ہوئی معلوم ہوتی ہے وہ اس کی حقیقت سے واقف نہ تھے مگر جیسے کہ وہ دکھائی دیتی تھی اس قیاس پر اس کو پھٹنے اور چرنے کے قابل خیال کرتے تھے قرآن مجید میں جو ٹھیک عرب اول کے محاورہ میں اترا ہے انہی کے خیال اور محاورہ کے موافق وہ الفاظ بولے گئے ہیں اور مقصود اس سے صرف معدوم ہونا اور فنا ہونا موجودات کا ہے۔ پس کسی طرح یہ الفاظ آسمان کی ایسی حقیقت پر اور ایسے جسم پر جیسا کہ یونانیوں نے تسلیم کیا تھا اور جس کی تقلید علماء اسلام نے کی تھی یا جیسا کہ تیرھویں صدی کے مولوی بیان کرنا چاہتے ہیں دلالت نہیں کرتے۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ فوز الکبیر میں اسلوب قرآن کی بحث میں ارقام فرماتے ہیں کہ ’’ پس اگر بر خلاف طورایشاں(یعنی عرب اول) گفتہ شور بحیرت در مانند و چیزے نا آشنا بگوش ایشاں رسد و فہم ایشاں را مشوش سازد‘‘ مگر یہ قاعدہ صرف اسلوب قرآن ہی پر منحصر نہیں ہے، بلکہ قرآن مجید کی ہر بات میں یہ امر ملحوظ ہے۔ ایک مقام میں یہ ذیل بیان معنی آیت محکم شاہ صاحب نے بیان فرمایا ہے کہ ’’ اعتبار دانستن عرب اول است نہ موشگافان زمان ماراکہ موشگافی بیجاوائی است عضال کہ محکم رامتشابہ میسا زند و معلوم رامجہول‘‘ اگرچہ یہ امر شاہ احب نے معنی لغت کی نسبت لکھا ہے، مگر یہ ایسا قاعدہ ہے جو بہت سی چیزوں کے لیے مفید ہے مثلاً جیسے کہ عرب سماء کا اطلاق اس نیلی چیز پر کیا کرتے تھے جو ہم کو بطور ایک سقف گنبدی کے دکھائی دیتی ہے تو ہم کو اسی پر اکتفا کرنا چاہئے اور زیادہ موشگافی کر کر اور مل مل کر مکھی کو بھنسا نہیں بنانا چاہئے اسی طرح جبکہ عرب اول اسی نیلی چھت کو پھٹنے والی اور چرنے والی اور پوست کھینچنے کے لائق خیال کرتے تھے تو ان الفاظ کو انہی کے خیالات پر مقصود رکھنا چاہئے نہ یہ کہ اس کے لازم کو اپنی طرف سے اضافہ کر کر اس نیلی چھت کو ایسا جسم قرار دیا جاوے جو کاغذ یا کپڑے کی طرح پھٹ سکے یا لپٹ سکے یا بکری کی طرح اس کا پوست اتارا جا سکے اگر غور کیا جاوے تو سبع سموات کا لفظ بھی در حقیقت مثبت تعداد آسمان کا نہیں ہے، کیونکہ عرب کے خیال میں تھا کہ سات آسمان ہیں اور جو کہ انہوں نے بجز اس نیلی چھت کے اور کسی چیز کو نہیں دیکھا تھا اور اس کو ایک مستحکم جسم سمجھتے تھے اور اس لئے انہوں نے خیال کیا تھا کہ ساتوں آسمانوں کا ہی جسم ہو گا اور پھر اس خیال سے ان کا توبر تور ہونا بھی ان کے ذہن میں جما ہوا تھا انہی کے خیال کے موافق قرآن مجید میں جو عرب اول کی زبان و محاورہ میں نازل ہوا ہے وہ سب باتیں بیان ہوئی ہیں ان کو خواہ مخواہ حقیقت واقعی کا مثبت قرار دینا اسلوب بدیع قرآن مجید کے بر خلاف ہے اگر حقیقت اشیاء اس کے مطابق پائی جاوے جیسا کہ قرآن مجید میں موافق خیال عرب اول کے بیان ہوا ہے فہو المراد، اور اگر بفرض محال اس کے بر خلاف بیان ہو تو بھی کچھ نقصان یا اعتراض قرآن مجید پر نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ عرب اول کی زبان میں بولا گیا ہے ہاں جس وقت کہ قرآن مجید یونانی مولویوں اور خیالی فلسفیوں کے ہاتھ آتا ہے اور وہ ہندی کی چندی اور نکات بعد الوقوع نکالنے پر اپنے علم کو اور بے معنی اعتراضات و بحث کو ختم کرنے لگتے ہیں اس وقت قرآن مجید کا حال صائب کے شعر کا سا ہو جاتا ہے جبکہ اس نے کہا تھا کہ ’’ شعر مرا بمدرسہ کہ برد‘‘ غرض ہماری یہ ہے کہ قرآن مجید کو مثل کلام ایک انسان فصیح قمح عرب اول کے خیال کر کر اس کے الفاظ کے معنی لگائے جاویں نہ مثل فلاسفہ یونان کے کلام کے ومن لم یعتقد بہذا فقد ضل سواء السبیل ساتویں الفاظ’’ اشد و اکبر‘‘ قابل لحاظ کے ہیں خدا تعالیٰ موافق خیال عرب اول کے اپنی قدرت کاملہ کو بیان فرماتا ہے کہ آسمانوں کا اور زمین کا بنانا انسان کے پیدا کرنے سے زیادہ مشکل یا سخت تر ہے، حالانکہ خدا کے نزدیک نہ آسمان و زمین کا پیدا کرنا مشکل ہے نہ انسان کا مگر اس مقام پر انہی کے خیال کے موافق خدا نے فرمایا کہ جس چیز کی خلقت کو تم ایسا مشکل یا سخت تر جانتے ہو تو خدا کو تمہارا پیدا کرنا یا پھر دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے اب انصاف سے دیکھا جاوے کہ اس طرز کلام سے اشد کے معنی لوہے یا تانے کے پتر کی مانند جسم کے قرار دینے کیسی نا سمجھی کی بات ہے اور پھر اس کو ایک مسئلہ مستحکم قرار دینا اور اس کے بر خلاف کہنے والے کو کافر کہنا خود کفر میں گرنا ہے ونعوذ باللہ منھا تفسیر کبیر میں تحت تفسیر آیہ کریمہ أنتم اشد خلقا ام السماء کے لکھا ہے کہ انہ استدلال علی منکر البعث فقال انتم اد خلقا ام السماء فئبھھم علی امر بعلم بالمشاھدۃ و ذلک لان خلقۃ الانسان علی صغرہ وضعفہ اذا اضیف الی خلق السماء علی عظمھا وعظم احوالہا فیمین تعالیٰ ان خلق السماء اعظم واذا کان کذلک فخلۃ بہم علی وجہ الاعادۃ اولی ان یکون مقدور اللہ تعالیٰ فکیف ینکرون ذلک و نظیرہ قولہ اولیس الذیے خلق السموات والارض بقادر علی ان یخلق مثلھم و قولہ خلق السموات والارض اکبر من خلق الناس والمعنی اخلقکم بعد الموت اشد ام خلق السماء ای عندکم وفی تقدیر کم فان کلا الامرین بالنسیۃ الی قدرۃ اللہ واحد یعنی تفسیر کبیر میں انتم اشد خلقا ام السماء کی تفسیر میں لکھا ہے کہ جو لوگ بعث کے منکر تھے ان پر دلیل لانے کے لئے فرمایا ہے کہ تمہارا پیدا کرنا مشکل یا سخت تر ہے یا آسمان کا پس ان کو ایسی بات سے جس کو وہ علانیہ دیکھتے تھے خبردار کیا کیونکہ جس وقت انسان کی خلقت کو جو ضعیف اور صغیر ہے آسمان سے نسبت دی جاوے جو ایسا بڑا ہے اور اس میں بہت بڑی بڑی حالتیں ہیں تو خدا نے بتایا کہ آسمان کا پیدا کرنا بڑا کام ہے اور جب کہ یہ بات ہے تو تمہارا پھر پیدا کرنا کچھ بڑی بات نہیں ہے تو بدرجہ اولیٰ خدا کی قدرت میں ہو گا پھر کیونکر تم اس کا انکار کرتے ہو اس کی ایسی مثال ہے جیسے کہ خدا نے فرمایا ہے کہ جس نے آسمان و زمین پیدا کئے کیا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ انہی کی مانند اور پیدا کرے یا جیسے کہ خدا نے فرمایا ہے کہ آسمان اور زمین کا پیدا کرنا آدمیوں کے پیدا کرنے سے بڑا ہے اور مطلب یہ ہے کہ آیا مرنے کے بعد تمہارا پیدا کرنا مشکل ہے یا تمہارے نزدیک آسمانوں کا پیدا کرنا مشکل ہے، اگرچہ خدا کی قدرت کے نزدیک تو یہ دونوں باتیں یکساں ہیں، یعنی کچھ مشکل نہیں ہیں پس اب غور کا مقام ہے کہ لفظ اشد سے آسمانوں کا سخت جسم ہونا کیونکر ثابت ہوتا ہے۔ اور اگر لفظ اشد سے مستحکم و مضبوط کے معنی لئے جاویں تو بھی اس سے یہ سمجھنا کہ آدمی کے پوست سے آسمان کا پوست اور اس کے جسم سے آسمان کا جسم اور اس کی ہڈی پسلی سے آسمان کی ہڈی پسلی زیادہ مضبوط اور سخت ہے، نادانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے بے شک آسمان اور زمین اور پہاڑ اور درخت کو ہم دیکھتے ہیں کہ انسان سے زیادہ پائدار ہیں اسی زمین پر اور اسی آسمان کے تلے ہزاروں لاکھوں نبی اور ولی اور شہداء اور صالحین آئے اور گزر گئے، سکندر و دارا، جمشید و فریدوں بھی ہوئے اور گذر گئے بہت سے کفر کے فتویٰ دینے والے پیدا ہوئے اور گذر گئے بہت سے مسلمان خدا اور رسول پر دل و جان سے ایمان رکھنے والے کافر بنائے گئے اور گذر گئے ہزاروں کافر و مرتد اور خدا کے وجود کے بھی منکر پیدا ہوئے اور گذر گئے اور ایک دن ہم بھی اور ہمارے کفر کے فتوے دینے والے بھی گذر جاویں گے اور اپنے اپنے اعمال کو خدا کے سامنے حاضر ہوں گے وانی لا اعلم ما یفعل بی وما یفعل بہم ولا کنی ارجو رحمت ربی انہ ھوا رحم الراحمین اور باوجود ان سب حوادث کے آسمان اور زمین ویسے ہی ہیں جیسے کہ تھے تو ضرور کوئی پوچھنے والا پوچھ سکتا ہے انتم اشد خلقا ام السماء مگر اس سے یہ مراد یعنی کہ ہم مٹی کے ہیں اور آسمان لوہے کا اس تیرھویں صدی کے مولویوں کے سوا جو مکہ معظمہ و مدینہ منورہ سے بھی کفر کا تحفہ لانے والوں کے یار غار ہیں اور کس سے ہو سکتا ہے وانا افوض امری وامرکم الی اللہ ان اللہ بصیر بالعباد ساتواں لفظ’’ امساک‘‘ کا ہے خدا نے فرمایا کہ وہی تھام رکھتا ہے آسمان کو زمین پر گرنے سے کیسی صاف اور سیدھی بات ہے ہم آسمان کو ایک گنبد کی چھت کی مانند دیکھتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ تھمی ہوئی ہے اور ہم پر گرتی نہیں اسی خیال کے موافق اگر ایک قح عرب اول کہے کہ کسی صاحب قدرت نے آسمان کو زمین پر گرنے سے تھام رکھا ہے تو اس کا یہ کہنا بالکل سچ اور صحیح ہے یا نہیں اگر صحیح ہے تو خدا کا یہ کہنا بھی کہ میں نے آسمان کو زمین پر گرنے سے تھام رکھا ہے صحیح ہے اس قول پر اپنی طرف سے زیادہ حاشیے لگانے کہ آسمان پر فرشتے رہتے ہیں، اس لئے ضرور ہے کہ وہ سخت و صلب ہو تاکہ فرشتے اس پر ٹک سکیں اور جبکہ وہ سخت و صلب ٹھہرا تو ضرور ہے کہ اس کا لوہے کے پتروں کا سا جسم ہو اور جب وہ ایسا ہوا تو ضرور ہے کہ بوجھل اور ثقیل لاکھوں، کروڑوں، پدموں بے انتہا من کاھو محض لغو اور واھیات بات ہے اور قرآن مجید کے اسلوب بدیع کے بالکل مخالف ہے۔ آٹھواں لفظ ’’ بنا‘‘ کا ہے اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہ فرمایا ہے کہ میں نے آسمان کو پیدا کیا بلا شبہ وہی خالق ہے بنا کا لفظ اور خالق کا دونوں ہم معنی باہم مراد ہیں کون اس سے انکار کر سکتا ہے کہ خدا نے آسمان کو نہیں بنایا بلا شبہ ہم کو دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے لئے ایک محل ہے جس میں ہزاروں لاکھوں گیاس اور میگنٹ کی روشنی سے بھی عمدہ روشنی کے مصابیح روشن ہیں وہ ایسی خوبصورت ہم کو دکھائی دیتی ہیں جیسے کہ بلور کی ھانڈیوں اور فانوسوں میں میگنٹ کی روشنی ہو رہی ہے پس یہ حال جو ہم کو آنکھوں سے دکھائی دے رہا ہے اسی کو خدا بتلاتا ہے کہ میں نے آسمان کو تمہارے لئے محل بنایا ہے کمبختو میری عبادت کرو میری وحدانیت کا اقرار کرو میرے رسولؐ کی تابعداری کرو میری وحدانیت کا اقرار کرو میرے رسول ؐ کی تابعداری کرو جو کوئی میرا اور میرے رسول ؐ کا قرار کرے اس کو کافر مت کہو نہ مانو تو جہنم میں جاؤ بس خدا کے کلام کا تو اسی قدر مطلب ہے آگے اس پر حاشیے لگانے اور کہنا کہ جب بنا کا اطلاق ہوا ہے تو ضرور اس کی بنیاد کوہ قاف پر پڑی ہو گی اور جب اس کو محل کہا ہے تو وہ ضرور گنبد کی چھت کی طرح ڈاٹ لگا کر بنایا گیا ہو گا اور اینٹ پتھر کی جگہ بلور کے پتھر لگائے گئے ہوں گے یا کانچ کے شیشہ کی طرح ڈھالا گیا ہو گا اور کچھ نہیں تو لندن کے کرسٹل پیلس کی طرح تو ضرور ہو گا محض بے جا و نادانی ہے۔ قسم چہارم میں جو آیتیں بیان ہوئی ہیں جن میں لفظ سموات کا آیا ہے ان میں کئی لفظ بحث کے قابل ہیں۔ اول لفظ ’’ سموات‘‘ بحث یہ ہے کہ اس لفظ کا ہمیشہ جمع ہی پر اطلاق ہوتا ہے یا مفرد پر بھی تفسیر کبیر میں لکھا ہے ’’ وانما قال کانتا رتقا ولم یقل کن رتقالان السموات لفظ الجمع والمر دبہ الواحد الدال علی الجنس قال الاخفش السموات نوع ولارض نوع و مئلہ ان اللہ یمسک السموات والارض ان تزولا‘‘ یعنی اللہ صاحب نے کہا ہے کہ آسمانوں اور زمین دونوں کے منہ بند تھے، یعنی آسمانوں اور زمین دونوں کے یعنی آسمانوں کو ایک کہا اور زمین کو ایک کہا اور یہ نہیں کہا کہ سب آسمانوں کے جو بہت سے ہیں منہ بند تھے اور زمین کا منہ بند تھا اس کا سبب یہ ہے کہ سموات جمع کا صیغہ ہے، لیکن اس سے ایک بھی مراد لیا جاتا ہے، کیونکہ وہ سب آسمانوں کے ایک طرح کا ہونے پر دلالت کرتا ہے اخفش کا قول ہے کہ سموات ایک نوع ہے اور زمین ایک نوع اور اسی کی مانند خدا نے فرمایا کہ اللہ تھامتا ہے آسمانوں کو اور زمین کو کہ وہ دونوں ٹل نہ جاویں اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سموات کے لفظ سے سماء بھی مراد ہوتا ہے اسی طرح سے سماء پر بھی جمع کا اطلاق ہوتا ہے اس لئے کہ اس کا ہر جزو سماء ہے کقولہ تعالیٰ ثم استویٰ الی السماء فسوھن سبع سموات پس اس قسم میں ہم نے جو آیتیں لکھی ہیں ان میں سے بعضی آیتوں کو قسم پنجم میں بھی لکھا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ ان میں جو لفظ سموات کا آیا ہے اگر اس سے سماء بصیغہ مفرد مراد لیا جاوے تو تو وہ آیتیں قسم چہارم میں داخل رہتی ہیں، بلکہ قسم سوم میں شامل ہو سکتی ہیں اور اگر اس سے جمع ہی مراد لی جاوے تو پھر ان کا ٹھکانا بجز قسم پنجم کے اور کہیں نہیں ہو سکتا۔ دوم لفظ ’’ خلق‘‘ قابل بحث ہے ہر گاہ ہم نے فضائے محیط کو سماء اور اس کے طبقات کو جو بسبب وجود کواکب کے یا اور کسی حد ظاہر کے پیدا ہو گئے ہیں، سموات کہا اور اس بات کا بھی دعویٰ نہیں کیا کہ اس میں کوئی جسم سیال اثیری ہے یا نہیں تو گویا ہم نے شے معدوم کو سماء و سموات کہا یا ایسی چیز کو سماء و سموات کہا جس کا کوئی وجود جسمانی نہیں ہے تو پھر اس پر خلق کا اطلاق کیونکر صادق آتا ہے۔ مگر یہ تمام خیالات کج فہمی سے پیدا ہوتے ہیں سیدھی سمجھ کا آدمی ان خیالات کی غلطی بخوبی سمجھ لیتا ہے۔ اول تو یہ کہنا کہ عدم غیر مخلوق ہے نہایت غلطی ہے عدم محض نہ کبھی موجود تھا اور نہ کبھی موجود ہو گا پس ایسی چیز جو کبھی موجود ہی نہیں ہو سکتی اس کی نسبت یہ کہنا کہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق محض نادانی ہے باقی رہا عدم ممکن جس کو عدم الشے سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہ موجود بھی ہوتا ہے اور جب موجود ہو تو بلا شبہ مخلوق ہے پس جو حقیقت آسمان کی ہم نے بیان کی اس پر معدوم غیر موجود ہونے کا اطلاق نہیں ہو سکتا، بلکہ معدوم الجسم کہہ سکتے ہیں اور شے مخلوق کے لئے یا جس پر مخلوق ہونے کا اطلاق ہوتا ہے اس کا مجسم ہونا ضرور نہیں ہے۔خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ خلق الموت والحیاۃ حالانکہ موت اور حیات کوئی شے جسمانی نہیں ہے پھر ہے کہ خلق اللیل والنہار وجعل الظلمات والنور حالانکہ رات ظلمت یعنی عدم النور کا نام ہے اور لیل و نہار یعنی رات دنوں اور نور و ظلمت دونوں جسمانی نہیں ہیں پس خلق کا لفظ نسبت سموات کے ہمارے کلام کے منافی نہیں ہے۔ استوا اور خلق دونوں کی مراد واحد ہے قال الامام فی نفسیرہ ثم استویٰ الی السماء کنایۃ عن ایجاد السماء والارض یعنی استوا کے لفظ سے آسمان اور زمین کا پیدا کرنا مراد ہے۔ تیسرا لفظ ’’ رتق و فتق‘‘ قابل بحث ہے ہم نے اسی آیت کے ساتھ شاہ ولی اللہ صاحبؒ اور شاہ عبدالقادر صاحبؒ کا ترجمہ مع تفسیر کے لکھ دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں لفظ ہمارے کلام کے منافی نہیں ہمارے نزدیک تو اس مقام پر سموات بادلوں سے مراد ہے جن پر بسبب کثرت و تعدد کے جمع کا صیغہ بولا گیا ہے اور بڑی تائید اس کی اس بات سے ہوتی ہے کہ اسی آیت میں خدا فرماتا ہے وجعلنا من الماء کل شیء حی اور صداقت اس آیت کی ہر شخص ہمیشہ اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے بادل آتے ہیں اور گھرے رہتے ہیں اور نہیں برستے پھر اللہ تعالیٰ ان کا منہ کھولتا ہے ان سے مینہ برستا ہے زمین خشک ہو جاتی ہے، کھیتی نہیں رہتی، کچھ اگانے کے قابل نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اس کا منہ کھولتا ہے سب چیز اس میں پیدا کرتا ہے اور یہ سب باتیں ہمیشہ تمام لوگ دیکھتے رہتے ہیںبعض علماء اسلام نے یہود کی تقلید سے یہ خیال کیا تھا کہ اس آیت سے یہ مراد ہے کہ آسمان و زمین آپس میں چمٹے ہوئے تھے جیسے بدن پر کھلڑی خدا نے زمین کی کھلڑی کھینچ کر آسمان بنا دیا مگر یہ صرف یہودیوں کا قصہ ہے، اسی کی تقلید سے ان علماء نے قرآن کی بھی تفسیر کی ہے جن لوگوں کو خد انے مخاطب کیا ہے وہ آسمان و زمین کی پیدائش کے وقت کہاں تھے جو وہ دیکھتے کہ آسمان زمین سے بدن کی کھلڑی کی مانند چمٹا ہوا تھا یا نہیں۔ اکثر مفسرین نے بھی اس آیت کی تفسیر ہمارے قول کے مطابق کی ہے، صرف اتنا فرق ہے کہ ہم نے سموات کا اطلاق بادلوں پر کیا ہے اور انہوں نے اس نیلی چھت پر جو ہم کو دکھائی دیتی ہے، چنانچہ ہم اس کو تفسیر کبیر سے نقل کرتے ہیں۔ قال الامام فی القول الثالث و ھو قول ابن عباس واکثر المفسر بن ان السموات والارض کانتا و تقاً بالا ستواء والصلابتہ ففتق اللہ السماء بالمطر والارض بالنبات والشجر ونظیرہ قولہ تعالیٰ والسماء ذات الرجع والارض ذات الصدع ورجحو ھذا الوجہ علی سائرا لوجوہ لقولہ بد ذالک وجعلنا من الماء کل شی حی و ذالک لا یلیق الا وللماء تعلق بما تقدم ولا یکون کذلک الا اذا کان اطراد ما ذکرنا فان قیل ھذا الوجہ مرجوع لان المطر لا ینزل من السموات بل من سماء واحد وھی سماء الدنیا قلنا انما اطلق علیہ لفظ الجمع لان کل قطعۃ منہا سماء کما یقال ثوب اخلاق و برمۃ اعشار واعلم ان علی ھذا التاویل بجوز حمل الرویۃ علی الابصار یعنی امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں اس آیت کی نسبت تیسرا قول یہ نقل کیا ہے کہ ابن عباس کا اور اور بہت سے مفسروں کا یہ قول ہے کہ آسمان و زمین بسبب سختی اور پٹ پڑ ہونے کے منہ بند تھے، پھر منہ کھولا اللہ تعالیٰ نے آسمان کا مینہ سے اور زمین کا نباتات اور درخت اگانے سے اور اسی کی مانند خدا کا یہ قول ہے قسم ہے پھرنے والے یا برسنے والے بادل کی اور اگانے والی پھٹاؤ والی زمین کی اور اس وجہ کو تمام وجہوں پر ترجیح دی ہے خدا تعالیٰ کے اس قول کی دلیل سے جو اسی کے بعد ہے کہ کیا ہم نے ہر چیز کو پائی سے زندہ اور اس آیت کا پہلی آیت سے جب ہی جوڑ ملتا ہے جبکہ پہلی آیت کو پانی سے کچھ تعلق ہو اگر کوئی اعتراض کرے کہ یہ وجہ ضعیف ہے اس لئے کہ مینہ آسمانوں سے نہیں آتا، بلکہ ایک آسمان سے جو دنیا کا آسمان ہے اترتا ہے تو اس کا جواب ہم یہ دینگے کہ دنیا کے آسمان پر جمع کا صیغہ اس لئے بولا گیا ہے کہ اس کا ہر ایک ٹکڑا آسمان ہے، جس طرح کہ عرب بولتے ہیں ثوب اخلاق اور برمۃ اعشار اب یہ بات بھی جاننی چاہئے کہ اس تاویل پر جائز ہے کہ روایت کے لفظ کے معنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے جاویں۔ قسم پنم میں جو آیتیں لکھی ہیں ان کے الفاظ و معانی کی تشریح انہی کے ساتھ ہے پس اب کوئی لفظ آیات قرانی میں میری دانست میں ایسا نہیں رہا جس پر بحث درکار ہو۔ اب میں اپنے اس آرٹیکل کو ختم کرتا ہوں اور پھر کبھی فرصت میں انشاء اللہ تعالیٰ نسبت احادیث کے جو اس باب میں ہیں بحث کی جاویگی واللہ المستعان ٭٭٭٭٭٭ اصحاب الفیل کا واقعہ سورہ فیل کی تشریح (تہذیب الاخلاق بابت یکم صفر1293ھ) سورہ فیل مکہ میں اتری، اس میں پانچ آیتیں ہیں اس سورۃ میں لفظ فیل آیا ہے اور اس سبب سے اس کا نام ’’ سورہ فیل‘‘ ہوا ہے، یعنہ وہ سورۃ جس میں ہاتھی کا نام ہے یا ہاتھی والوں کا قصہ ہے۔ اہرھۃ الاشرم یمن کا بادشاہ جو عیسائی مذہب رکھتا تھا اس نے کعبہ کے ڈھانے کے ارادہ سے مکہ پر چڑھائی کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو اور اس کے لشکر کو برباد کر دیا وہی قصہ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں فرمایا ہے مفسرین کی عادت ہے کہ اصل بات کو بڑھا کر کچھ کا کچھ کر دیتے ہیں اسی طرح اس اصلیو اقعہ کو بھی کہانی کی صورت پر بنا لیا ہے اور اپنی تفسیروں میں اس طرح لکھا ہے کہ جب ابرھہ کا لشکر ہاتھیوں سمیت کعبہ کے پاس آیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک قسم کے پرند جانوروں کو حکم دیا کہ مسور یا چنے کے دانہ کے برابر ایک کنکری چونچ میں اور ایک ایک دونوں پنجوں میں لے کر جاؤ اور ابرہہ کے لشکر پر چھوڑو۔ ان پرندوں نے ایسا ہی کیا اور کنکری جس کے سر پر پڑی پار نکل گئی سارا لشکر برباد ہو گیا اور ا س قصہ کے لئے کچھ بے اصل روائتیں بھی گھڑ لی ہیں اور لفظی مناسبت سے تمام اس کے لوازمات از خود خیال کر لیے ہیں قرآن مجید میں اس طرح پر یہ قصہ نہیں ہے، بلکہ قرآن مجید سے صرف اس قدر پایا جاتا ہے کہ ابرہہ کے لشکر پر ایک آفت پڑی اور وہ برباد ہو گیا۔ اس آفت کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے مگر قرآن مجید کی سیاق عبارت سے اور تاریخی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آفت وبائی چیچک کی بیماری تھی جو ابرہہ کے لشکر میں دفعتاً زمانہ محاصرہ مکہ میں پھیلی اور بہت سے آدمی اور جانور چیچک سے مرگئے اور سارا لشکر تباہ ہو گیا اسی واقعہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں فرمایا ہے: بسم اللہ الرحمن الرحمن 1 الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل 1کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے خدا نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا 2 الم یجعل کیدھم فی تضلیل 2کیا ان کے فند کو پیکار نہیں کیا 3وارسل علیھم طیراً ابابیل 3اور بھیجے ان پر وبالوں کے غول یعنی آفت پڑی ہے عرب میں بھی یہ محاورہ ہے چنانچہ قاموس میں لکھا ہے رومی بجارۃ الارض اے بداھیۃ یعنی زمین کے پتھر ڈالے گئے یعنی مصیبت میں مبتلا ہوا۔ وفی حدیث الا حنف قال علی حین ندب معاویۃ عمراً للحکومۃ لقدر میت بحجر الارض ای بداھۃ عظیمۃ تشہت ثبوت الحجر فی الارض نہایۃ ابن اثیر و مجمع بحار الانوار یعنی نہایہ ابن اثیر اور مجمع بحارا الانوار میں لکھا ہے کہ جب معاویہ نے عمرو بن العاص کو عامل کرنے کے لئے بلایا تو حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ اس پر زمین کے پتھر مارے گئے، یعنی اٹل مصیبت پڑی جیسے کہ پتھر زمین سے اٹل ہوتا ہے۔ لفظ سجیل جب کہ مفسرین نے لفظ حجارہ سے اس کے لغوی معنی پتھر کے لئے تو لفظ سجیل کے بھی انہوں نے پتھر کے معنی لئے، یعنی مٹی کے پتھر اور اس لئے شاہ عبدالقادر صاحب نے اس کا ترجمہ کنگھر کر دیا ہے، یعنی وہ اینٹیں جو پژ اوہ میں گل جاتی ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر ڈھم ہو کر بہت سخت ہو جاتی ہیں۔ مگر سجیل، یعنی سجل بھی آیا ہے چنانچہ قاموس میں لکھا ہے قولہ تعالیٰ من سجیل اے من سجل ای مما کتب لہم انہم یعذبون بہا قال اللہ تعالیٰ ما ادرک ما سجین کتاب مرقوم والسجیل بمعنی السجین قال الازھری ھذا احسن مما مرفیہا عندی یعنی من سجیل کے منی ہیں سجل کے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ جس چیز سے خدا نے ان کے لئے لکھا تھا کہ عذاب دئیے جاویں گے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کیا جانتا ہے تو اے محمد کہ کیا ہے سجین وہ لکھی ہوئی کتاب ہے اور سجیل کے بھی وہی معنی ہیں جو سجین کے ہیں اور ازھری کا قول ہے کہ یہی معنی میرے نزدیک سجیل کے لفظ کے ان سب معنوں سے بہتر ہیں جو اوپر گذرے۔ پس اب معنی بالکل صاف ہو گئے اور اس لئے ہم نے سجیل کا ترجمہ ’’ جو ان کے لئے لکھے ہوئے تھے‘‘ کیا ہے۔ لفظ عصف کے معنی ہیں خراب ہوئی یا روندی ہوئی یا کٹی ہوئی یا چری ہوئی یا کیڑے کھائی ہوئی زراعت کے۔ خواہ اس کے پتوں کا یہ حال ہو گیا ہو، خواہ بالوں کا، خواہ پتوں اور بالوں دونوں کا تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ والا حتمال الثانی علی ہذا الوجہہ ان یکون التشبیہہ واقعا بورق الزرع اذا وقع فیہ الا کال وھو ان یا کلہ الدود یعنی تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ یہ تشبیہہ ہے کھیتی کے پتوں سے جس میں کیڑا لگ گیا ہو اور اس کو کیڑوں نے کھا لیا ہو اور اسی سبب سے میں نے کعصف ما کول کا ترجمہ کیا ہے ’’ جیسی کڑ کھائی کھیتی‘‘ قاموس اور صراح میں لکھا ہے کہ کعصف ماکول اے کزرع قد اکل حبہ و بقی تبنہ یعنی قاموس و صراح میں لکھا ہے کہ عصف ماکول کے معنی ایسی کھیتی کے ہیں جس کے دانے کھا لئے ہوں اور ڈنٹھل باقی رہ گئے ہوں۔ بیان القصہ عرب کی ملکی روایتوں میں یہ قصہ تواتر کو پہنچ گیا ہے اور جس زمانے میں یہ واقع ہوا اس زمانہ سے عرب میں ایک نئے سنہ کا شمار کیا جاتا ہے جس کو عام الفیل کہتے ہیں اور اس واقعہ کے بعد اسی سال میں جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے ہیں اور قصہ یہ ہے کہ ابرھۃ الاشرم ابی مسکوم عیسائی مذہب اور یمن کا حاکم تھا اس نے جرجنتیو اسقف کی تحریک سے جس کو اسکندریہ کے بطریق نے بھیجا تھا، صنعاء یمن میں ایک کلیسا بنوایا اور چاہا کہ اہل عرب مکہ کا حج چھوڑ دیں اور اس کلیسا کا حج کیا کریں مکہ والوں نے نہ مانا تب ابرہہ نے 570ء میں مکہ پر اس ارادہ سے چڑھائی کی کہ کعبہ کو مسمار کر دے اور ابرہہ کے ساتھ کعبہ کے مسمار کرنے کے لئے ہاتھی بھی تھی اس سبب سے وہ لوگ اصحاب الفیل کہلانے لگے اور وہ برس جس میں یہ چڑھائی ہوئی عام الفیل کے نام سے مشہور ہوا جب کہ انہوں نے مکہ معظمہ کا محاصرہ کیا ان میں ایک سخت وبا چیچک کی پھیلی اور ابرہہ اور اس کا تمام لشکر اس وبا سے ہلاک اور برباد ہو گیا اور محاصرہ چھوڑ کر بھاگ گیا اور جو کہ ایسے وقت میں اس وبا کا واقع ہونا مکہ معظمہ کے محفوظ رہنے کا سبب ہوا اسی کا ذکر خدا تعالیٰ نے اس سورۃ میں فرمایا ہے۔ تحقیق القصہ اب ہم کو یہ بات کہ جب مکہ معظمہ کا محاصرہ ابرہۃ الاشرم نے کیا تو در حقیقت اس کے لکر میں چیچک کی وبا پھیلی تھی ثابت کرنا باقی رہا ہے ۔اور یہ بھی بیان کرنا ہے کہ اس سورۃ میں خدا تعالیٰ نے اسی واقعہ کا ذکر کیا ہے نہ اور کسی قصہ کا پس اب ہم اول امر کو مفصلہ ذیل دلیلوں سے ثابت کرتے ہیں۔ اول سیرت ھشامی میں لکھا ہوا ہے واصیب ابرھۃ فی جندہ و خرجو ابہ معہم یسقط انملۃ انملۃ کاسا سقطت منہ انمالۃ اتبعہا منہ مدۃ تمت فیحا ودما حتی فدمر ابہ صنعاء وھو شل یعنی ابرہہ کے بدن میں بیماری ہو گئی اس کی انگلیاں گرنے لگیں ان میں سے پیپ اور خون بہتا تھا، یہاں تک کہ جب صناء میں آیا تو لنجا تھا اس کیفیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ چیچک کی بیماری میں ابرہہ بھی مبتلا ہوا تھا۔ دوم سیرت ھشامی میں لکھا ہے قال ابن اسحاق و حدثی عبداللہ بن ابی بکر عن عمرۃ بنت عبدالرحمان بن اسعد بن زرارہ عن عائسۃ قالت رایت قائد الفیل و سایسہ بمکۃ اعمیین مقعدین یستطمان، یعنی حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انہیں نے کہا دیکھا ابرہہ کے فیلبان اور چر کٹے کو مکہ میں کہ وہ اندھے ہو گئے تھے اس روایت میں بھی جو کیفیت مندرج ہے اس سے بھی صاف پایا جاتاہے کہ چیچک کی بیماریسے وہ اندھے ہو گئے تھے۔ سوم سیرت ھشامی میں لکھا ہے قال ابن اسحاق و حدثنی یعقوب بن عینیۃ انہ حدث ان اول ما رویت الحصبۃ والجدری بارض العرب ذلک العام یعنی سیرت ھشام میں لکھا ہے کہ ابن اسحاق نے کہا کہ یعقوب ابن عینیہ نے یہ بات کہی کہ ملک عرب میں اسی برس پہلے پہل چیچک کی بیماری نمودار ہوئی۔ چہارم واندی میں لکھا ہے، فکان ذلک اول ما کان الجدری والحصبہ یعنی یہی وقت تھا کہ پہلے پہل چیچک کی بیماری ہوئی۔ پنجم ثعلبی نے کتاب العرائس کے باب قصہ اصحاب الفیل میں لکھا ہے وولی ابرھۃ ومن معہ ھاربا فجعل ابرھۃ یسقط عضواً عضواً حتی مات وھو اول وقت رئی الجدری والحصبۃ یعنی بھاگ گیا ابرہہ اور جو لوگ کہ اس کے ساتھ تھے اور ابرہہ کے اعضا گل گل کر گرتے تھے، یہاں تک کہ مر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ پہلا وقت ہے جو چیچک کی بیماری نمودار ہوئی۔ ششم تفسیر صافی میں ہے فجلت ترمیہم بھا حتی جدرست اجسامھم فقتلہم بھا وما کان قیل ذالک رئی شئی من الجدری، یعنی پتھر مارتے تھے، یہاں تک کہ ان کے بدنوں میں چیچک نکل آئی، اسی نے ان کو مار ڈالا اور اس سے پہلے چیچک کی بیماری نمودار نہیں ہوئی تھی۔ ہفتم تفسیر مجمع البیان میں ہے فما لقی احد منہم الا اخذتہ الحکۃ وکان لا یحک الانسان منہم جلدہ الاتساقط لحمہ، یعنی ان میں سے جس کو پتھر لگا اس کے بدن میں کھجلی پیدا ہوئی اور ان میں سے جو شخص کھجلاتا تھا اس کا گوشت اتر پڑتا تھا یہ حالت خاص چیچک کی بیماری کی ہے۔ ہشتم کشاف میں ہے عن عکرمہ من اصابہ جدرۃ و ھو اول جدری ظہر، یعنی عکرمہ کا قول ہے کہ وہ پتھر جس کو لگا اس کو چیچک نکل آئی اور وہی زمانہ تھا جس میں پہلے پہل چیچک نکلی۔ نہم تفسیر کبیر میں لکھا ہے روی عکرمۃ عن ابن عباس قال لما ارسل اللہ الحجارۃ علی اصحاب الفیل لم یقع حجر علی احد منہم الانفط جلدہ و اثاربہ الجدی و ھو قول سعید ابن جبیر یعنی تفسیر کبیر میں لکھا کہ عکرمہ نے ابن عباس کا قول نقل کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اصحاب فیل پر پتھر ڈالے تو جس شخص پر پتھر پڑا اس کی جلد پھد پھدا اٹھی اور چیچک کا زور ہو گیا اور یہ قول سعید ابن جبیر کا ہے۔ دھم گبن کی تاریخ رومیہ (باب50) کے حاشیہ پر ولیم اسمتھ نے اور ترجمہ انگریزی قرآن کے سورۃ الفیل کے حاشیہ پر رادول نے رلیسک کی کتاب معالجات عرب اور ہمر گیمل ولسان کی کتاب سے نقل کیا ہے کہ عرب میں اول مرتبہ چیچک کا مرض ابرہہ کی چڑھائی کے وقت نمودار ہوا تھا۔ یہ روایتیں بالکل یقین دلاتی ہیں کہ ابرہہ کے لشکر پر جو آفت پڑی وہ بلا شک چیچک کی وبا تھی۔ اب ہم بیان کرتے ہیں کہ قرآن مجید سے بھی اسی واقع کے ہونے کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ اول بڑی عمدہ تشبیہہ جو قرآن مجید میں ابرہہ کے لشکر کی عصف ما کول سے دی گئی ہے وہ بالکل مرض چیچک کی پوری تشبیہہ ہے، کیونکہ چیچک کی بیماری میں انسان کا بدن کپڑے کھائی ہوئی چیز کے بالکل مشابہ ہو جاتا ہے۔ دوم حجر کا لفظ بھی اس مرض کی طرف اشارہ کرتا ہے، اس لئے کہ حجر و حصبہ کے ایک معنی ہیں اور حصبہ چیچک کے مرض کو کہتے ہیں۔ سوم سجیل سے بھی اگر وہی مراد لی جاوے جو مفسرین نے لی ہے، یعنی دوزخ کی آگ میں پکی ہوئی کنکریاں تو وہ بھی چیچک کے دانوں کے نہایت مناسب ہے۔ چہارم ابابیل کا لفظ بھی اس مرض کی حالت سے نہایت مناسبت رکھتا ہے، اس لئے کہ ابابیل ایسی کثرت کو کہتے ہیں جو گروہ گروہ میں پے در پے ہو مرض چیچک کا بھی یہی حال ہوتا ہے کہ ایک غول آج اس مرض میں مبتلا ہوا دوسرا غل کل اور علی ہذا القیاس پس قرآن مجید میں جس آفت کا ابرہہ پر نازل ہونا مذکور ہوا ہے اگرچہ اس کا نام نہیں لیا گیا مگر اس کے الفاظ اور اس کی تشبیہیں مرض چیچک سے ایسی مناسب ہیں کہ اس سے صرف مرض چیچک کی وبا کا ابرہہ کے لشکر میں واقع ہونا پایا جاتا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭ جواب اعتراض ملاحدہ اب اس مقام پر کوئی ملحد یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ اگر یہ واقعہ وقوع میں آیا تو اس سے کعبہ کی کچھ بزرگی اور کرامات ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ یہ ایک اتفاقی واقعہ تھا اور ایسے واقعے دنیا میں بہت ہوا کرتے ہیں چناہ ہیرو ڈوٹس کی تاریخ سے جو چار سو برس پیشتر حضرت مسیح کے تھا، ثابت ہوتا ہے کہ ڈلفی کے مندر پر جو یونان میں تھا ایک دفعہ ایرانیوں نے پانچ سو برس قبل مسیح کے چڑھائی کی جب اس کے قریب پہنچے تو آسمان پر سے بجلی گری اور مندر کے بعض مکانات گرے اور ایرانی اس میں دب کر مر گئے اور باقی خوف سے بھاگ گئے اور پھر تین سو برس پیشتر گال والوں نے اس پر چڑھائی کی اور اسی طرح ایک عجیب واقعہ سے جس کا ذکر پاسانیاس نے لکھا ہے گال والے پسپا ہو گئے پس اس واقعہ کے ہونے سے کعبہ کی کیا کرامات ثابت ہوتی ہیں؟ مگر ایسا اعتراض کرنا اعتراض کرنے والوں کی غلطی ہے کعبہ کی بزرگی کسی کرامت کے ظاہر ہونے سے نہیں ہے، بلکہ اس کی بزرگی صرف اس وجہ سے ہے کہ خاص خدا کا نام پکارنے کو ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے بنایا گیا تھا۔ اس سورۃ میں بھی خدا تعالیٰ نے یہ واقعہ کچھ کعبہ کی کرامات ثابت کرنے کو نہیں بیان کیا، بلکہ اپنی قدرت کاملہ کی ایک شان بیان کی ہے تمام قدرتیں خدا تعالیٰ کے قوانین قدرت کے طور پر ظہور میں آتی ہیں انسان کا پیدا کرنا، درختوں کا پیدا کرنا، پھول پھل کا پیدا کرنا، سب قوانین قدرت کے مطابق ہوتا ہے، لیکن ان سب میں اظہار قدرت اور شان خدا تعالیٰ کی ہوتی ہے اسی طرح اس واقع میں بھی جو قوانین قدرت کے مطابق واقع ہوا خدا تعالیٰ کی شان اور قدرت پائی جاتی ہے جس کا ذکر خدا تعالیٰ نے ان کی نصیحت کو اس سورۃ میں فرمایا ہے ہاں البتہ اس بیان سے کعبہ معظمہ کی یہ عزت ثابت ہوتی ہے کہ جس واقعہ سے کعبہ محفوظ رہا خدا نے بطور اظہار اپنی شان و قدرت کے اس کا ذکر کیا مگر ڈلفی کے مندر کا کبھی نام بھی نہیں لیا۔ ٭٭٭٭٭٭ کافر اگلے زمانے میں بھی گذرے ہیں (تہذیب الاخلاق جلد7نمبر7بابت یکم رجب 1293ھ صفحہ88تا 90) ان دنوں میں جناب مولوی محمد مسیح الدین خاں بہادر رئیس کاکوری علاقہ لکھنو کے کتب خانہ سے ایک تفسیر مسمیٰ بہ ’’ کشف الاسرار‘‘ہمارے ہاتھ آئی ہے اس کتاب کا اور اس کے مصنف کا حال ہم پھر کبھی لکھیں گے، اس وقت اس نے جو تفسیر ان آیتوں کی لکھی ہے جن کی تفسیر میں ہمارے زمانہ کے احباب ہم کو کافر بناتے ہیں بعینہ اس مقام پر لکھتے ہیں اور دکھاتے ہیں کہ اگلے زمانہ کے مفسر بھی کافر تھے۔ اس تفسیر کے مصنف کا ہم ابھی نام نہیں بتاتے جب خوب اس کی تکفیر کے فتوے ہو لیں گے تب نام بتاویں گے سورۃ النساء اس مفسر نے حضرت عیسی ؑ کی نسبت تین باتین قریب قریب اسی کے بیان کی ہیں جو ہم کہتے ہیں۔ اول یہ کہ خدا نے کسی دوسرے شخص کی صورت حضرت عیسی ؑ کی صورت کے مشابہ نہیں بدل دی تھی، بلکہ اس مفسر کا مذہب یہ ہے کہ روسا یہود نے ایک خص غیر کو دیدہ و دانستہ کہ یہ حضرت عیسی ؑ نہیں ہے، مار ڈالا اور صلیب پر لٹکا دیا اور عوام سے یہ کہہ کر دکھا دیا کہ وہ عیسی ؑ ہے جس کو ہم نے مار ڈالا ہے۔ دوسرے یہ کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر نہیں چلے گئے اور جب ان دونوں باتوں کو ملایا جاوے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حضرت عیسی ؑ مثل اور انبیاء کے اسی دنیا میں اپنی موت سے مرے۔ تیسرے یہ کہ اس مفسر کا مذہب یہ ہے کہ معراج بالجسد نہیں ہوئی تھی، بلکہ بالروح خواب میں ہوئی تھی۔ فما قولکم یا ایہا المکفرین المسلمین فی حق مثل ھذہ المفسرین المومنین عبارت تفسیر مذکور یہ ہے اور ان کا یہ کہنا کہ ہم عیسیٰ مریم کے بیٹے خدا کے رسول کو مارا، یعنی ان کا یہ کہنا اور ایسا ان کا دعویٰ کرنا ’’ وفولہم انا قلنا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ‘‘ای المشہور بہذہ الدعوی عندھم ’’ وما قتلوہ و ما صلبو ولکن شبہ لھم‘‘افہم ھذہ العبارۃ واعرف الفرق بینھما و بین قولہ لو قال ولکن شبہ للہ لہم او اشتبہ علیھم فانہ لو قال شبہ اللہ تدل علی کرامتہم او نشبہ لہم بعیسی واحدا لیر ضیہم بقتل واحد وان لم یکن عیسی ولقد کان تعالیٰ قادر اعلیٰ اکرام عیسیٰ علیہ السلام وان ینجیہ منہم بغیر ذلک و لو قال اشتبہ دل علی انہم اشتبہ علیہم کلہم مثلا و می اشتبہ الشیئی فیجوز ان یکون ھو المشار الیہ فی نفس الامر و قد اشتبہ کما یجوز ان یکون غیرہ و قد اشتبہ ایضا و قد نسب الضمیر الی عیسی اعنی اشار الیہ فلزم ان لا یقول شیئا من ذالک فقولہ شبہ بہذہ العبارۃ و ما بعدھا یدل علی ما نقلہ الجبائی انہ لمارفع عیسیٰ علیہ السلام خاف روساء الیہود من اتباع الیہود لعیسی و میلہم الی من مال معہ منہم فعمد وا الی رجل فقتلوہ و صلبوہ علی مکان عال بعد قتلہ ولم یمکنو احدا من الدنومنہ فتغیرت تنکرت صورتہ و قالو قتلنا عیسی و موھوا علی بقیۃ قومہم فاختلفو وان الذین اختلفو فیہ لفی شک منہ و ذلک انہ من حین رفع مالہم بہ من علم الا اتباع الظن و ما قتلوہ ثم قال یقینا فہم عن یقین منہم اعنی من ادعی قتلہ یقین انہم ما قتلوہ وھم الذین شبہو لبقیۃ الناس منہم و بیقۃ الناس ھم الذینش بہہ لہم رجل بعیسی ممن قد کان یشبھہ فجات العبارۃ منبۃ بصورۃ الواقعۃ ولو شبہ اللہ لہم انسانا بعیسی فقتلوہ لم یکن قولھم انا قتلنا المسیح بعجبۃ ولا کذبا اذا لواتی انسان امراۃ تشبہ زوجتہ بحیث لا یشک فیہا لم یکن زانیا و قولہ تعالیٰ ما قتلوہ و ما صلبوہ دل علی انہم قتلو انسانا اولاثم صلبوہ بعد القتل و ھذا بقصد منہم ولہذا لم یقل اشتبہ فانہ لم یشتبہ علیہم بل الروساء شبہو ا غیر ہم شبہ لہم ولم یقل ایضا شبہہ اللہ کما تقدم واما الذین اختلفو فیہ فہم غیر الروسا لا نہم کلھم کانو یہودا غیر ان بعضہم خالف بعضافی الایمان بہ فاخبر اللہ عن بقیۃ الیہود والنصاریٰ بقولہ وان الذین اختلفو فیہ ای فی الایمان بہ لا فی قتلہ لفی شک منہ فعاد قولہ وما قتلوہ راجعا الی الروسا المتقنین بانہم لم یقتلوہ بل شبہو و قولہ ان الذین اختلفو فیہ راجع الی الیہود والنصاری معا ولہذا لم یقل اختلفو فی قتلہ و قولہ ما لہم بہ من علم عائد الی الیہود والنصاریٰ غیر الروسا ومن ھہنا تدل علی استغراق الجنس و قولہ الا اتباع الظن ای ان اتباعہم لما فعلہ الرؤسا وادعو اتباع ظن ولما ذکر الظن من المتبعین اتبعہ بذکر الیقین من القائلین للشبہۃ مع نفی القتل عن عیسی فقال وما قتلوہ ای و ذلک الاخبار منا بقولنا ما قتلو ھو عن یقین منہم ولا یفہم انہم قتلوہ شکابل رفعہ اللہ علیہ و کان اللہ عزیز حکیما ان میں مشہور تھا، حالانکہ نہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کو مارا، نہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کو صلیب پر لٹکایا، مگر لوگوں کے لئے ان کی صورت بنا دی پس اس عبارت کو سمجھنا چاہئے اور جس طرح خدا نے کہا ہے اس میں اور اس طرح کے کہنے میں کہ الہ نے ان کے لئے عیسیٰ کی سی صورت بنا دی یا مشابہ کر دیااللہ نے ان کے لئے فرق کرنا چاہئے، کیونکہ اگر یوں کہتے کہ اللہ نے ان کے لئے عیسیٰ کی سی صورت بنا دی تو اس سے تو یہودیوں کی بزرگی ثابت ہوتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی خاطر سے ایک شخص کی حضرت عیسیٰ کی سی صورت بنا دی، تاکہ یہودیوں کو اس ایک کے مار ڈالنے سے رضا مند کر دے، گو کہ وہ عیسیٰ نہ ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بزرگی قائم رکھنے پر قادر تھا اور حضرت عیسیٰ کو اس طرح پر صورت بدل دینے کے سوا اور طرح پر بھی بچا سکتا تھا اور اگر یوں کہا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے مشابہ کر دیا تو ثابت ہوتا کہ کل یہودیوں کے لئے مشابہ کر دیا تھا اور جو چیز کہ اس طرح پر مشابہ ہو جاوے تو یہ کہنا کہ وہ چیز نفس الامر میں وہی ہے جائز ہو گا، کیونکہ مشابہ ہو گئی ہے جس طرح کہ جائز ہے کہ وہ اور ہو اور مشابہ ہو گئی ہو اور اس کلام میں عیسیٰ ہی کی طرف نسبت ہے، یعنی انہیں کی طرف اشارہ ہے تو لازم آیا کہ ان دونوں طرح نہ کہتا کہ عیسیٰ کی سی صورت بنا دی تھی یا مشابہ کر دیا تھا اللہ نے ان کے لئے پس خدا تعالیٰ کا اس طرح کہنا کہ لوگوں کے لئے صورت بنا دی اور جو اس کے بعد ہے دلالت کرتا ہے اسی پر جو جبائی نے نقل کیا ہے کہ جب عیسیٰ اٹھائے گئے تو سرداران یہود نے اس خوف سے کہ یہود عیسیٰ کے پیرو نہ ہو جاویں اور ان کی طرف نہ جھک جاویں جو عیسیٰ کی طرف مائل ہیں یہ قصد کیا کہ ایک آدمی کو مار کر اونچے پر صلیب پر لٹکا دیا اور کسی کو اس کے پاس نہ آنے دیا جب کہ بگڑ گیا اور صورت بدل گئی تو اپنی باقی قوم سے کہا کہ ہم نے عیسیٰ کو مار ڈالا اور دھوکہ دیا اپنی باقی قوم کو پس ان میں آپس میں جھگڑا ہوا اور جو اس میں جھگڑ رہے ہیں وے تو البتہ شک میں ہیں اور اس لئے شک میں ہیں کہ جن سے عیسیٰ اٹھائے گئے ان کو کچھ علم نہیں ہے مگرظن کی پیروی کرتے ہیں اور عیسیٰ کو نہیں مارا ہے پھر کہا یقینا یعنی ان کو تو یہ یقین ہے، یعنی جو قتل کا دعویٰ کرتے ہیں وے بے شک جانتے ہیں کہ انہوں نے نہیں مارا اور انہوں ہی نے اپنے باقی آدمیوں کو شبہ میں ڈال دیا ہے اور یہ باقی آدمی وے ہی ہیں جن کے لئے مشابہ کیا گیا ایک آدمی جو حضرت عیسیٰ کے مشابہ تھا پس یہ عبارت صورت واقعہ کی خبر دیتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو ان کے لئے عیسیٰ کی صورت بنا دیتا اور وے اس کو مار ڈالتے تو ان کا یہ قول کہ ہم نے مسیح کو مار ڈالا کچھ تعجب کی بات نہ ہوتی اور نہ جھوٹ ہوتا، اس لئے کہ اگر ایک آدمی ایک عورت سے جماع کرے جو اس کی زوجہ کے مشابہ ہو اس طرح پر کہ اس میں کچھ شک نہ ہو تو یہ زانی نہیں ہو گا اور یہ قول اللہ تعالیٰ کا کہ نہ اس کو مارا اور نہ صلیب پر لٹکایا اس پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو پہلے مارا پھر بعد قتل کے صلیب پر لٹکایا اور یہ اپنے ارادہ سے کیا اسی لئے نہیں فرمایا کہ ان پر مشابہ ہو گیا تھا کہ ان پر تو نہیں مشابہ ہوا تھا، بلکہ روسا نے صورت بنا دی تھی اور غیر رئیسوں کے لئے صورت بنا دی تھی اور اس لئے نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے صورت بنا دی تھی، جیسا کہ پہلے گذر چکا اور جن میں اختلاف ہوا وے رئیسوں کے سوا اور یہود ہیں کہ وے تو سب یہود ہی تھے، ہاں مگر ان میں کچھ آدمیوں نے دوسروں کی مخالفت کی عیسیٰ پر ایمان لائے ہیں پس اللہ تعالیٰ باقی یہود اور نصاریسی سے خبر دی اپنے اس قول میں کہ جنہوں نے اس میں اختلاف کیا (یعنی اس پر ایمان لانے میں اختلاف کیا نہ یہ کہ اس کے قتل میں اختلاف کیا) وے البتہ شک میں ہیں پس یہ قول خدا تعالیٰ کا کہ نہیں مارا راجع ہے روساء کی طرف جن کو یقین تھا کہ انہوں نے نہیں قتل کیا، بلکہ صورت بنا دی اور یہ قول اللہ تعالیٰ کا کہ جنہوں نے اس میں اختلاف کیا راجع ہے طرف یہود اور نصاریٰ دونوں کے اور اسی لئے نہیں فرمایا کہ اختلاف کیا انہوں نے اس کے قتل میں اور یہ قول اللہ تعالیٰ کا کہ ان کو کچھ خبر نہیں ہے رئیسوں کے سوا باقی یہود اور نصاریٰ کی طرف راجع ہے اور سن کا لفظ یہاں سب کے شامل ہونے پر دلالت کرتا ہے اور یہ قول خدا تعالیٰ کا کہ وے ظن کی پیروی کرتے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے روسا نے کیا اور دعویٰ کیا اور یہ ظن کی پیروی ہے اور جب کہ پیروی کرنے والوں کی طرف سے ظن بولا تو اس کے بعد یقین کا ذکر کیا ان کی جانب سے جنہوں نے شبہ میں ڈالا با وصف نہ قتل ہونے عیسی کے پس فرمایا کہ نہیں مارا ہے اس کو اور ہماری یہ خبر دینی کہ اس کو نہیں مارا ہے یہ ان کے یقین کی خبر ہے اور یہ نہیں سمجھا جاتا کہ انہوں نے شک سے مارا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا ہے اور ہے اللہ عزت والا دانا اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول کہ عیسی کو اللہ نے اٹھایا اپنی طرف ایسا ہے جیسے یہ قول کہ ہم نے اٹھایا اس کو ’’ واما قولہ تعالیٰ بل رفعہ اللہ الیہ فہو کقولہ تعالیٰ ورفعناہ مکانا علیا و کقولہ عن ابراہیم انی ذھب الی ربی و مثلہ یرفع اللہ الذین امنو منکم والذین اوتو العلم درجات و نفس قولہ تعالیٰ بل رفعہ اللہ الیہ یطعی ان ھذا الرفع لیس بجسد لان اللہ تعالیٰ لیس فی مکان و حیز بل کما قیل فی الشہداء عند ربہم یرزقون فرحین واجسامھم فی التراب جیف و قدروی ان ابراھیم و موسیٰ و غیر ھما واھم النبی صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ المعراج والا شک انہ ما منھم احد رفع بالجسور نحن فلا بجور لنا ان نحمل علی عقو لنا ما لیس فی وسعہا لا نہا مبعدۃ متناھیۃ واما الاسراء فلا شرف اذا کان بجسد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد ان قدر ای ماراہ و صدق اللہ تعالیٰ بقولہ ما کذب الفواد مارای ولا نقس اذا کان الا سراء بالروح دون الجسد و کان نوما ولا خلاف فی ان ابراہیم و آدم موسیٰ لم یکو نوا فی السماء باجساد و کذالک واھم وھذا انما نقولہ لا نہ الاقرب فی الا ذھان مع اننا لا ننکر ان اللہ تعالیٰ یفعل ما یشاء من رفع جبل فی الہوی و بحرمن الماء فی السحاب وغیرہ فکیف لا یرفع جسد نبی لہ ولکن شرف الرسول ثابت بما لا یدفعہ الخصم و کذلک الاعتراف بقدرۃ الباری تعالیٰ فلا نزاع اذا حصل المراد و کذالک الکلام فی عیسیٰ علیہ السلام واللہ اعلم بانبیاء ویحب ان تعلیم ان اللہ تعالیٰ انما اذن للرؤساء ومنہم بما فعلوہ من انہم قتلو انسانا و شبہوہ لبنی اسرائیل وادعو انہ عیسی جمع ذلک بحکمہ الہیۃ من اللہ سبحانہ ذلک ان ھذا الامر بعینہ رحمہ فی حق من امن بعیسی و فتنۃ فی حق من کفر بہ‘‘ بڑے مرتبہ پر اور جیسے ابراہیم کا یہ قول نقل کیا کہ میں جاتا ہوں اپنے پروردگار کے پاس اور ایسا ہے یہ قول کہ اٹھاوے گا اللہ تعالیٰ ان کو جو ایمان لائے تم میں سے اور جن کو علم ملا بڑے درجوں پر اور خود اللہ تعالیٰ کایہ قول کہ اللہ نے اس کو اٹھایا اپنی طرف بہ فائدہ دیتا ہے کہ یہ بدن کا اٹھانا نہیں ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کسی جگہ اور مقام میں نہیں ہے جیسا کہ شہیدوں کے حق میں کہا گیا ہے کہ خدا کے پاس ہیں، رزق دئیے جاتے ہیں، خوش ہیں اور ان کے بدن تو مٹی میں مردہ پڑے ہیں اور روایت کیا گیا ہے کہ ابراہیم اور موسیٰ اور ان کے سوا اور نبیوں کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں دیکھا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ ان میں سے کوئی مع بدن کے نہیں اٹھایا گیا اور ہم کو یہ جائز نہیں ہے کہ ہم اپنی عقلوں پر ایسا بوجھ ڈالیں جس کو اٹھا نہ سکیں اس لئے کہ یہ عقول پابند ہیں اسباب کی اور ان کے ادراک کی ایک حد ہے اور معراج میں اس سے کچھ زیادہ خوبی نہیں بڑھ جاتی اگر وہ مع جسد کے مانی جاوے کہ حضرت نے دیکھا جو کچھ دیکھا اور خدا تعالیٰ نے اس کی اپنے اس قول سے تصدیق کی کہ جھوٹ نہ جانا دل نے جو کچھ دیکھا تھا اور کچھ نقصان نہیں ہے اس میں کہ معراج روح کو بغیر بدن کے سوتے ہوئے ہوئی ہو اور اس میں تو کچھ اختلاف نہیں ہے کہ ابراہیم اور آدم اور موسیٰ تو آسمان پر مع بدن کے نہ تھے اور ایسے ہی ان کو دیکھا اور یہ ہم اس لئے کہتے ہیں کہ یہی ذہن کے قریب ہے اور ہم اس کا انکار نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کر سکتا ہے جو چاہے کہ ایک پہاڑ کو ہوا میں اٹھا دے اور ابر میں ایک دریا بہا دے اور اس کے سوا اور جو کچھ چاہے پس کس طرح نہیں اٹھا سکتا اپنے ایک نبی کا بدن، لیکن نبی کی بزرگی ایسی ماننی چاہئے جس کا دشمن انکار نہ کر سکے اور ایسے ہی خدا کی قدرت کا اقرار پس جھگڑا نہ چاہئے جب مطلب حاصل ہو جاوے اور ایسے ہی کلام ہے عیسیٰ کے اٹھا لینے میں اور خدا تعالیٰ اپنے نبیوں کے حال کو خوب جانتا ہے اور ضرور تجھ کو یہ جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہودیوں کے سرداروں کو یہ کرنے دیا اور ان کو اس پر قدرت دی جو انہوں نے کیا کہ ایک آدمی کو مارا اور اس کو اور سب بنی اسرائیل پر مشتبہ کیا اور دعویٰ کیا یہ عیسیٰ ہے یہ سب کام حکمت الٰہی سے خالی نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب کام عیسیٰ کے پیرووں کے لئے باعث رحمت کا ہوا اور اسی سے ان یہودیوں میں جنہوں نے عیسیٰ کو نہ مانا تھا فتنہ پھیلا ٭٭٭٭٭٭ سورہ جن کی تفسیر (تہذیب الاخلاق بابت یکم صفر1293ھ) قرآن کریم کی سورۃ جن مکے میں اتری اس میں اٹھائیس آیتیں اور دو رکوع ہیں اس سورۃ میں لفظ جن آیا ہے اور اس لفظ کے سبب اس کا نام سورہ جن ہوا ہے ہمارے قدیم عالموں اور مفسروں نے اپنی معمولی عادت کے مطابق اس سورۃ میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کو بھی ایک عجیب و غریب قصہ بنا لیا ہے ان کے خیال میں آیا کہ اس مقام پر لفظ جن سے وہ مخلوق مراد ہے جس کو عوام الناس جن خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ہوائی آگ کے شعلوں سے بنی ہوئی مخلوق ہے جو دکھلائی نہیں دیتی مگر طرح طرح شکلوں میں بن جانے اور انسانوں کے سروں پر آنے اور ان کو تکلیف دینے یا ان کا کام خدمت کرنے کی قدرت رکھتی ہے یہ خیال صحیح ہو یا غلط مگر اس صورت میں لفظ جن سے وہ جن جو لوگوں کے خیال میں ہے ہر گز مراد نہیں ہے لفظ جن لفظ اجتنان سے مشتق ہے جس کے معنی چھپے ہوئے کے ہیں اور عربی زبان کے محاورہ میں جو چیز پوشیدہ ہو اس پر جن کا اطلاق کر سکتے ہیں، یہا تک کہ پیٹ کے بچے کو بھی جنین اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ پیٹ کے اندر پوشیدہ ہوتا ہے مکہ کے کافروں کی عادت تھی کہ چھپ چھپ کر جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنا کرتے تھے اسی طرح چند آدمیوں نے جن کا اس سورۃ میں ذکر ہے چھپ کر جناب رسول خدا صلعم کو قرآن پڑھتے سنا اور ان کے دلوں پر اثر ہوا اور وہ ایمان لے آئے اور بہ سبب اس کے کہ انہوں نے پوشیدہ ہو کر سنا تھا ان پر نفرمن الجن کا اطلا ق ہوا ہمارے مفسروں نے اس کو سچ مچ کا جن بنا دیا خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کا چھپ کر سننا اور ایمان لانا اور جو کچھ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے جا کر کہا آنحضرت صلعم کو وحی سے بتلا دیا۔ 1 قل اوحی الی انہ استمع نفرمن الجن فقالو انا سمعنا قرآناً عجباً 1کہہ دے اے محمد کہ مجھ کو وحی سے معلوم ہوا ہے کہ چند چھپے ہوئے شخصوں نے مجھ کو قرآن پڑھتے سنا پھر انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک عجب قرآن سنا 1یہدی الی الرشد فامنا بہ ولن نشرک بربنا احداً 2 جو اچھی بات بتلاتا ہے ہم تو اس پر ایمان لائے اور ہر گز ہم اپنے خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔ جن لوگوں نے چھپ کر قرآن سنا، یہودی عیسائی اور آتش پرست اور بت پرست تھے ہمارے ہاں کے قدیم عالم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ بے شک وہ چاروں مذہب والے تھے، مگر اس قدر طرہ بڑھا دیا ہے کہ وہ سب جن تھے، کیونکہ ان کے نزدیک جنوں میں یہودی مذہب کے اور عیسائی مذہب کے اور آتش پرست اور بت پرست سب طرح کے جن ہیں، چنانچہ وذکر الحسن ان فیہم یہود تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ او نصاری و مجوسا و مشرکین تفسیر کبیر صفحہ371جلد2 حسن نے ذکر کیا کہ ان میں یہودی اور عیسائی اور آتش پرست اور بت پرست جن تھے۔ ہم اسی قدر کہتے ہیں کہ حضرت وہ جن نہ تھے آدمی تھے ان لوگوں میں جو لوگ عیسائی تھے اور حضرت عیسیٰ کو ابن اللہ جانتے تھے انہوں نے کہا:ـ 3وانہ تعالیٰ جد ربنا ما اتخذ صاحبۃ ولا ولدا 3اور ہمارا پروردگار بہت بڑا ہے نہ اس نے کوئی جورو کی ہے نہ اس کا کوئی بیٹا ہے 4 وانہ کان یقول سفیہنا علی اللہ شططا 4 اور بے شک یہ بات تھی کہ ہمارے بے وقوف (یعنی ان کے پیشوا) خدا پر جھوٹ بولتے تھے 5 وانا ظننا ان لن تقول الانس والجن علی اللہ کذبا 5اور بے شبہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ انسان اور جنات کبھی خدا پر جھوٹ بات نہ کہیں گے۔ جن لوگوں کا یہ قول ہے وہ یقین کرتے تھے کہ جناب بھی مثل انسان کے مخلوق ہے، اس لئے انہوں نے س مقام پر انسان اور جنات دونوں کا نام لیا پس یہ تصور نہ کرنا چاہئے کہ اس مقام پر خدا تعالیٰ نے جن کی کچھ حقیقت بتائی ہے، کیونکہ یہ ان لوگوں کے قول کا بیان ہے جنہوں نے چھپ کر قرآن سنا تھا اور ان لوگوں میں جو لوگ کفار عرب تھے انہوں نے کہا: 6وانہ کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوھم رھقاً 6اور یہ بات ٹھیک ہے کہ ایسے لوگ تھے جو پناہ مانگتے تھے مرد جناتوں سے پھر ان کی ڈھٹائی زیادہ ہو گئی تھی۔ عرب کے کافروں کے جو لوگ پیشوا تھے ان کی عادت تھی کہ جب سفر میں یا شکار میں کسی میدان میں جا کر اترتے تو لوگوں کے دکھانے کو وہاں کے جنوں کے سردار سے پناہ مانگتے تھے اور اس سبب سے ان کے پرو کافروں میں ان کی توقیر اور ان کا ادب اور ڈر بڑھ جاتا تھا اور خود ان کے پیشواؤں کے دلوں میں تکبر و غرور زیادہ سما جاتا تھا اسی بات کا ذکر اس آیت میں ہے اور ان لوگوں میں جو لوگ یہودی تھے اور یقین کرتے تھے کہ بعد حضرت موسیٰ کے کوئی پیغمبر صاحب شریعت نہ ہو گا، انہوں نے کہا: 7وانہم ظنو کما ظننتم ان لن یبیعث اللہ احداً 7اور بے شک لوگوں نے سمجھا تھا جیسا کہ تم سمجھے ہو کہ کسی پیغمبر کو خدا نہیں بھیجے گا اور ان لوگوں میں سے جنہوں نے چھپ کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید پڑھتے سنا تھا، جو لوگ مجوسی آتش پرست تھے اور ستاروں کی گردش سے سعادت و نحوست اور غیب کی باتیں سمجھتے تھے ان لوگوں نے کہا: 8وانا لمسنا السماء فوجد نہا ملئت حرسا شدیداً و شہبا 8اور بلا شبہ ہم نے ڈھونڈ ڈالا آسمانوں کو اور پھر ہم نے اس کو سخت چوکیداروں اور آگ کے بھڑکتے شعلوں سے بھرا ہوا پایا 9وانا کنا نقعد منہا مقاعد للسمع فمن یستمع الان یجد لہ شھا بار صداً 9اور بے شک ہم آسمانوں کے بیٹھنے کی جگہ میں سننے کے لئے بیٹھتے تھے پھر اب جو کوئی سنتا ہے تو اپنے لئے ایک بھڑکتا ہوا آگ کا شعلہ تاک میں لگا پاتا ہے۔ 10وانا لاندری اشر ارید بمن فی الارض ام اراد بہم ربہم رشدا 10 اور ہم نہیں جانتے کہ برائی کا ارادہ کیا گیا ہے ان لوگوں کے لئے جو زمین پر ہیں یا ان کے پروردگار نے ان کے لئے بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔ 11 وانا منا الصلحون ومنا دون ذلک کنا طرائق قددا 11اور بے شبہ ہم میں سے نیک بھی ہیں اور ہم میں سے دوسری طرح کے بھی ہیں ہم مختلف راہوں پر ہیں 12وانا ظننا ان لن تعجز اللہ فی الارض ولن تعجزہ ھربا 12 اور بیشک ہم نے جان لیا کہ ہر گز ہم خدا کو نہیں ہرا سکتے زمین میں اور نہ اس کو ہرا سکتے ہیں بھاگ کر 13وانا لما سمعنا الہدی امنا بہ فمن یو من بربہ فلا یخاف بخسا ولا رھقا 13ہم نے ایمان لائے اپنے خدا پر ایمان لاوے تو اس کو کسی قسم کے نقصان اور زیادتی کا ڈر نہیں 14 وانا منا المساعون ومنا القاسطون فمن اسلم فاؤلئک تحروا رشداً 14 اور بے شبہ ہم میں فرمانبردار بھی ہیں اور نا فرمان بھی ہیں پھر جو کوئی فرمانبردار ہوئے تو انہوں نے بلائی کا قصد کیا 15واما القاسطون فکانو لجہنم حطبا 15اور جو نافرمان ہوئے تو وہ دوزخ کے کندے ہوئے یہاں تک جو کچھ بیان ہوا ان لوگوں کے اقوال کا بیان تھا جنہوں نے چھپ کر قرآن سنا تھا اور اسی بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ یہودی، عیسائی اور آتش پرست اور بت پرست تھے، کیونکہ ان کی باتوں میں پہلی بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے نہ کوئی جورو کی ہے اور نہ اس کے کوئی بیٹا ہے ہمارے پیشواوؤں نے خدا پر تہمت لگائی تھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ، یعنی خدا کا بیٹا سمجھنا عیسائیوں کا عقیدہ ہے پس جن لوگوں نے اس عقیدہ کے غلط ہونے کا اقرار کیا بیشک وہ عیسائی تھے۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ انسانوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو جناتوں سے پناہ چاہتے تھے یہ طریقہ عرب کے بت پرست کافروں کا تھا اور جن لوگوں نے اس عقیدہ کو قرآن سن کر غلط سمجھا بلا شبہ وہ لوگ عرب کے بت پرست کافر تھے۔ تیسری بات انہوں نے یہ کہی کہ ہم سمجھتے تھے کہ خدا کسی پیغمبر کو نہیں بھیجنے کا یہ عقیدہ یہودیوں کا تھا وہ سمجھتے تھے کہ جو شریعت موسیٰ کو دی گئی ہے وہ ابدی ہے اب کوئی پیغمبر صاحب شریعت مبعوث نہیں ہونے کا جن لوگوں نے قرآن سن کر اس عقیدہ کو غلط جانا اور اس بات پر یقین کیا کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور پیغمبر پر نازل ہوا ہے اور ایک پیغمبر آکر الزمان صاحب شریعت مبعوث ہوا ہے، وہ لوگ بلا شبہ یہودی تھے۔ چوتھی بات ان لوگوں نے یہ کہی کہ ہم جو بیٹھ بیٹھ کر آسمانوں میں سے غیب کی باتیں سنتے تھے اب سننے والوں پر شہاب ثاقب مارے جاتے ہیں اس کلام سے ثابت ہوتا ہے کہ اس بات کے کہنے والے مجوسی آتش پرست تھے اس فرقہ کے پیشوا نجوم پر یقین رکھتے تھے اور ستاروں کے مقامات سے غیب کی خبریں دیتے تھے اور ہر ایک کی بھلائی برائی بتلاتے تھے پس جن لوگوں نے قرآن مجید سن کر اس عقیدہ کو غلط سمجھا اور اس پر ایمان لائے کہ نجومی جھوٹے ہیں اور غیب کی بات کوئی نہیں جان سکتا اور خدا کو نہ کوئی ہرا سکتا ہے اور نہ اس کو جیت سکتا ہے، نہ اس سے بھاگ سکتا ہے، بلا شبہ وہ لوگ مجوسی تھے، یعنی آتش پرست اب اس مقام پر ایک اور بات بھی بیان کرنے کے قابل ہے ہمارے قدیم عالموں نے ان پچھلی آیتوں کو بھی بطور ایک عجیب قصہ کے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلعم کے مبعوث ہونے سے پہلے جن اور شیطان آسمان دنیا تک جاتے تھے اور چپکے سے کان لگا کر ملاء اعلیٰ میں جو باتیں فرشتے کرتے تھے چوری سے سن لیتے تھے اور اس چوری سے وہ جان جاتے تھے کہ دنیا میں کیا ہونے والا ہے اور کاہنوں اور جادوگروں اور نجومیوں وغیرہ کو جو ان کی پوجا کرتے تھے غیب کی خبر دیتے تھے جب آنحضرت صلعم مبعوث ہوئے تو شیطانوں اور جنوں کا اوپر جانا اور چوری سے ملاء اعلیٰ کی باتیں سننا بند ہو گیا اور آسمان میں بہ نسبت سابق کے چوکی پہرہ زیادہ بڑھ گیا جگہ جگہ چوکیدار بیٹھ گئے اور آگ کے شعلے بھی بڑھا دئیے ، یہاں تک کہ کوئی جگہ خالی نہیں رہی اب جو شیطان یا جن آسمانوں پر باتیں سننے جانا چاہتا ہے اس پر شہاب ثاقب کی مار پڑتی ہے اور رات کو جو ہم ستارے ٹوٹتے دیکھتے ہیں یہ وہی شعلہ ہائے آتشیں ہیں جو شیطانوں اور جنوں کو مارے جاتے ہیں۔ مگر یہ سب باتیں غلط اور لوگوں کی بنای ہوئی ہیں سب مذہب اسلام اور خدائے پاک کا کلام ان دور از کار قصوں سے پاک ہے اس مقام پر ان نجومیوں کا قول جو قرآن سن کر ایمان لائے تھے نہایت خوبی اور فصاحت و بلاغت سے استعارے میں بیان کیا گیا ہے نجومی کہتے ہیں کہ ہم نے آسمان کو بہت ڈھونڈا، یعنی اس کے ستاروں کی گردش اور ان کی سعادت و نحوست پر غور و فکر کی مگر اس کو چوکیداروں اور آگ کے شعلوں سے بھرا ہوا پایا، یعنی کوئی راہ ایسی نہیں پائی جس سے در حقیقت غیب کی بات دریافت کر سکیں اور جو کچھ بھلائی یا برائی انسان کے لئے ہونے والی ہے اس کو ادل بدل کر دیں۔ لفظ لمس جو قرآن مجید میں آیا ہے اس کے معنی چھونے کے ہیں مگر اس سے ڈھونڈنے کا مطلب لیا جاتا ہے چنانچہ تفسیر اللمس المس فاستعیر للطلب کبیر میں لکھا ہے کہ لمس کے لان المماس طالب متعرف بقال معنی چھوٹے کے ہیں، اس سے لمسہ والتمسہ مراد لی گئی ہے ڈھونڈنا تلاش کرنا، کیونکہ چھونے والا بھی تلاش کرنے والا اور دریات کرنے والا ہوتا ہے، عربی زبان میں چھو لیا بمعنی ڈھونڈ لیا بولا جاتا ہے جناب مولوی عبدالقادر صاحب نے اس کا ٹٹولنا نہایت عمدہ ترجمہ کیا ہے، کیونکہ اردو زبان میں ٹٹولنا چھو کر دریافت کرنے اور صرف کسی بات کے دریافت کرنے دونوں پر بولا جاتا ہے اسی طرح لفظ لمس عربی محاورہ میں دونوں پر بولا جاتا ہے، مگر ہم نے بنظر مزید توضیح ڈھونڈنا ترجمہ اختیار کیا ہے پس جن لوگوں نے کہ لفظ لمس پر خیال کر کر یہ قصہ بنا لیا ہے کہ جن و شیطان آسمان تک جاتے تھے انہوں نے محض غلطی کی ہے۔ اب وہی نجومی کہتے ہیں کہ ہم بہت بیٹھ کر آسمانوں کی باتیں سنا کرتے تھے، یعنی اس کے ستاروں کی گردش سے غیب کی باتیں سمجھا کرتے تھے مگر اب اس قرآن کو سننے اور ایمان لانے کے بعد ہم کو یہ یقین ہوا ہے کہ جو کوئی نجوم سے غیب کی بات دریافت کرتا ہے تو اس کے لئے بجز آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلہ کے اور کچھ نہیں ہے، یعنی کوئی چیز غیب کی دریافت نہیں کر سکتی اور کوئی نہیں جان سکتا کہ خدا کا کیا ارادہ ہے بھلائی کا یا برائی کا اس بیان سے صرف اس قدر مطلب ہے کہ علم نجوم کے ذریعہ سے غیب کی بات دریافت کرنے کا در حقیقت رستہ بند ہے کسی طرح خدا کی بات دریافت نہیں ہو سکتی خدا سے نہ کوئی جیت سکتا ہے، نہ اس کی مشیت سے بھاگ سکتا ہے پس ان باتوں کو ہم قرآن سے سن کر اس پر ایمان لے آئے قرآن مجید کا صاف صاف یہ مطلب ہے جس کو لوگوں نے عوام الناس کے سامنے عجیب عجیب باتیں کہنے کے لئے ایک ایسا قصہ بنایا ہے جس پر کوئی ذی عقل یقین نہیں کر سکتا مگر غور کرنے سے ہر ذی عقل سمجھ سکتا ہے کہ یہ صرف ایک ساختہ قصہ ہے، قرآن مجید کا یہ مطلب نہیں ہے مفسرین کی گھڑت ہے کہ ایک لفظ کی مناسبت سے اس کے تمام لوازمات کو اکٹھا کر کر ایک خیالی قصہ بنا لیتے ہیں۔ اب خدا تعالیٰ نے اس قصہ کو بیان فرما کر تمام لوگوں کی ہدایت کی طرف توجہ فرمائی اور آنحضرت صلعم کو لوگوں میں وعظ فرمانے کی طرف متوجہ کیا اور آنحضرت کو فرمایا کہ: 16وان لو استقامو علی الطریقۃ لا سقینھم ماء غدقا 16اے محمد تو لوگوں سے کہہ دے کہ مجھ پر تو وحی آئی ہے کہ اگر لوگ سیدھی راہ پر قائم رہتے تو ہم ان کو پیٹ بھر کر پانی پلاتے۔ 17لنفتنھم فیہ ومن یعرض عن ذکر ربہ یسلکہ عذاباً صعدا 17تاکہ اس میں ان کو آزمانے اور جو منہ موڑے اپنے پروردگار کی یاد سے ڈالے گا اس کو پڑھنے والے عذاب میں 18وان المسجد للہ فلا تدعو مع اللہ احداً 18اور مسجدیں اللہ کے لئے ہیں پھر اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو 19وانہ لما قام عبداللہ یدعو کادو یکونون علیہ لبداً 19اور جب خدا کا بندہ کھڑا ہوا کہ پکارے اپنے اللہ کو تو اس پر غول پر غول چڑھنے کو ہوئے 20قل انما ادعو ربی ولا اشرک بہ احدا 20کہدے کہ میں تو اپنے ہی پروردگار کو پکارتا ہوں اس کے ساتھ کوی کو شریک نہیں کرتا 21 قل انی لا املک لکم ضرا ولا رشدا 21 کہدے کہ میرے اختیار میں تمہارے لئے نہ برا کرنا ہے اور نہ بھلا کرنا 22قل انی لن یجیرنی من اللہ احد ولن اجد من دونہ ملتحدا 22کہدے کہ بیشک خدا سے مجھے کوئی نہ بچاوے گا اور نہ میں اس کے سوا کوئی جگہ پناہ کی پاؤں گا 23الابلغا من اللہ و رسلتہ ومن یعص اللہ ورسولہ فان لہ نار جہنم خلد ین فیھا ایدا 23سوائے پہنچانے خدا کے حکموں اور اس کے پیغاموں کے اور جس نے خدا کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو ان کے لئے جہنم کی آگ ہے ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ 24حتی اذا را واما یوعدون فسیعلمون من اضعف ناصرا واقل عددا 24یہاں تک کہ جب دیکھیں گے کہ وہی ہوا جو ان سے کہا گیا تھا تب جانیں گے کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور گنتی میں بھی کچھ نہیں 25قل ان ادری اقریب ما توعدون ام یجعل لہ ربی امدا 25کہدے کہ میں نہیں جانتا کہ جو وعدے تم سے کئے گئے ہیں کیا وہ قریب ہونے والے ہیں یا میرا پروردگار ان کو کر دے گا دور و دراز 26علم الغیب فلا یظہر علی غیبہ احدا 26وہ غیب کی بات جانتا ہے پھر اپنی غیب کی بات کسی کو نہیں جتلاتا۔ 27 الا من ارتضیٰ من رسول فانہ یسلک من بین یدیہ ومن خلفہ وصدا 27 سوائے اس کے جس کو پیغمبر کرنا پسند کرتا ہے پھر وحی رکھتا ہے اس کے آگے اور اس کے پیچھے نگہبانی 28لیعلم ان قد ابلغو رسلت ربہم واحاط بعما لدبھم واحصی کل شیئی عدداً 28تاکہ جان لے کہ بیشک انہوں نے اپنے پرودگار کے پیغام پہنچا دئیے اور گھیر لیا ہے اس چیز کو جو ان کے پاس ہے اور گن لیا ہے ہر چیز کو ایک ایک کر کے ٭٭٭٭٭٭٭ جنوں کی حقیقت (الجن والجان علی ما فی القرآن) اس مضمون میں ہمارا مقصد جن اور انس کے الفاظ سے جو قرآن مجید میں آئے ہیں بحث کرنا ہے مگر جس جگہ قرآن مجید میں جن یا جان کے لفظ کا شیطان پر اطلاق ہوا ہے ان سے اس مقالے میں بحث مقصود نہیں ہے، کیونکہ وہ بحث در حقیقت شیطان سے متعلق ہے۔ ہمارے نزدیک صرف تین مقام ہیں جہاں قرآن مجید میں جن یا جان کا لفظ شیطان پر اطلاق ہوا ہے۔ اول سورۂ کہف میں ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے: واذ قلنا للملائکۃ اسجدوا لادم فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربہ دوم سورہ حجر میں جہاں خدا نے فرمایا ہے ولقد خلقنا الانسان من صلصال من حماء مسنون والجان خلقنا من قبل من نارا السموم سوم سورہ رحمن میں جہاں خدا نے فرمایا ہے خلق الانسان من صلصال کالفخار و خلق الجان من مارج من نار ان تینوں مقاموں میں اول انسان کے پیدا کرنے کا ذکر ہے اور سورہ کہف کی آیت میں ابلیس کے سجدہ نہ کرنے کا ذکر ہے اور اس کو جن کہا ہے اور سورہ اعراف کی آیت میں آدم کو سجدہ کرنے کے بارہ میں فرمایا فسجدو الا ابلیس لم یکن من الساجدین قال ما منعک ان لا تسجد اذا امر تک قال انا خیر منہ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین پس سورۃ حجر اور سورۃ رحمن میں جو انسان کے مٹی یا کیچڑ سے پیدا کرنے کے ساتھ جان کو نار سے پیدا کرنا فرمایا، اس سے ثابت ہے کہ جان سے وہی ابلیس مراد ہے جس نے کہا خلقتنی من نار وخلقتہ من طین علاوہ اس کے جن اور جان دونوں ایک لفظ ہیں اور ابلیس کو سورہ کہف میں جن بتلایا ہے جس کا ذکر آدم کے ساتھ ہے اور ان دونوں سورتوں میں بھی جان کا لفظ انسان کے ذکر کے ساتھ ہے پس ان تینوں آیتوں میں جن اور جان کا ابلیس پر اطلاق ہوا ہے جس کو دوسرے لفظوں میں شیطان رحیم کہا گیا ہے جس سے ہم کو اس رسالہ میں بحث نہیں ہے، بلکہ اس جن سے بحث ہے جو بمقابلہ انس آیا ہے یا جو مزعومات اور مظنونات باطلہ عرب میں تھا۔ جبکہ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عرب جاہلیت کا، بلکہ متوسطین یہودیوں اور مجوسیوں کا بھی یہ خیال تھا کہ ماورائے انسان کے ایک اور مخلوق بھی ہوائی ناری ہے جو دکھائی نہیں دیتی اور وہ دنیا میں انسان کو بھلائی یا برائی پہنچانے کی بالکل قدرت رکھتی ہے اور متشکل باشکال مختلفہ ہو جاتی ہے اور کبھی کبھی کسی کو دکھائی بھی دے جاتی ہے تو ہم کو اس بات کے بیان کرنے میں کچھ فائدہ نہیں ہے نہ اس کی کچھ ضرورت ہے کہ یہ غلط اور بیہودہ خیال کب اور کس سبب سے پیدا ہوا اور زمانہ جوں جوں گذرتا گیا یہ غلط خیال کس طرح پر اور کن کن مختلف صورتوں سے لوگوں میں عام ہوتا گیا، کیونکہ ہم کو اس مقالے میں انسان کے خیالات کی ہسٹری بیان کرنی مقصود نہیں ہے، بلکہ صرف اس بات کو بتلانا ہے کہ قرآن مجید میں جو لفظ جن آیا ہے وہ کن معنوں میں اور کس مراد سے آیا ہے۔ ہم اس بات کو بھی قبول کرتے ہیں کہ صرف پانچ مقام پر قرآن مجید میں جن کا لفظ بمعنی مزعوم اور مظنون عرب جاہلیت کے آیا ہے مگر ان کا عقیدہ رد کرنے کے لئے اور اس لئے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن مجید کسی ایسی مخلوق کا وجود جس کا خیال عرب جاہلیت کو تھا تسلیم کرتا ہے اور وہ پانچ مقام یہ ہیں۔ اول سورہ انعام میں جہاں خدا نے فرمایا ہے وجعلو للہ شرکاء الجن و خلقھم و خرقو لہ بنین و بنات بغیر علم سبحانہ و تعالیٰ عما یصفون اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسروں نے کہا ہے کہ جن سے مراد شیطان ہے اور اس سے مجوس کی طرف اشارہ ہے جو یزدان پر اعتقاد رکھتے تھے اور یزدان کو خالق افعال اور مخلوقات نیک اور اھرمن کو خالق افعال و مخلوقات بد سمجھتے تھے اور خرقو لہ بنین سے اشارہ ہے یہود اور نصاریٰ کی طرف جنہوں نے حضرت عزیزؑ اور حضرت مسیح کو ابن اللہ قرار دیا تھا اور بنات سے اشارہ ہے دیگر مشرکین عرب اور بت پرستوں کی طرف ہم اس تفسیر سے کچھ انکار کرنا نہیں چاہتے مگر یہ کہتے ہیں کہ بلحاظ اس تفسیر کے یہ آیت بھی ہماری بحث سے خارج ہو جاتی ہے اور ان تین آیتوں میں شامل ہو جاتی ہے جن کو ہم نے سب سے اول بیان کیا ہے اور جن میں لفظ جن و جان سے شیطان مراد لی گئی ہے۔ مگر چونکہ ہم کو اس آیت میں کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا جس سے ہم شرکاء الجن کو مخصوص مجوسیوں سے اور ان کے اعتقاد اھرمن و یزداں سے سمجھیں، اس لئے اس کو عام مشرکین سے متعلق سمجھتے ہیں اور اس لئے لفظ جن کے وہی معنی لیتے ہیں جو مزعومات و مظنونات عرب جاہلیت کے تھے۔ وخلقھم یعنی واللہ خلقھم کی ضمیر مشرکین کی طرف راجع ہے، یعنی حالانکہ خدا نے ان کو یعنی شریک ٹھہرانے والوں کو پیدا کیا ہے اور پھر وہ جنوں کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ دوم سورہ سبا میں جہاں خدا نے فرمایا ہے ویوم یحشرکم جمیعاً ثم یقول للملئکۃ اھولاء ایاکم کانو یعبدون قالو سبحانک انت و لینا من دونھم بل کانو یعبدون الجن واکثرھم بھم مومنون سوم سورہ جن میں جہاں خدا نے حکایۃً کافروں کا قول اور ان کا عقیدہ باطل نقل کیا ہے، یعنی جن کافروں نے چھپ کر آنحضرت صلعم کو قرآن پڑھتے سنا تھا اور اس کے بعد اپنے عقائد باطل کو بیان کیا تھا اور ان کا باطل ہونا ان کے دل میں آیا تھا تو انہوں نے اپنے ان عقیدوں کو اس طرح پر بیان کیاـ: وانا ظننا ان لن تقول الانس والجن علی اللہ کذبا وانہ کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوھم رھقا چہارم سورہ فصلت میں جہاں خدا نے کافروں کی زبان حال سے جبکہ وہ آگ میں ڈالے جاویں گے حکایتاً فرمایا ہے: ربنا ارنا الذین اضلنا من الجن والانس نجعلہما تحت اقدامنا لیکونا من الاسفلین یعنی اے پروردگار! ہمیں ان کو جن اور انس میں سے دکھا دے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا کہ ہم ان کو اپنے پاؤں تلے ڈالیں تاکہ وہ روندے ہوئے ہو جاویں۔ اگرچہ ان دونوں پچھلے مقاموں میں بھی خواہ مخواہ یہ ضرور نہیں ہے کہ لفظ جن سے وہی مخلوق مزعومہ و مظنونہ سمجھی جاوے بلکہ یہاں بھی جن کا لفظ جنگل و پہاڑوں کے رہنے والوں پر بھی صادق آتا ہے مگر چونکہ ان مقاموں میں کفار کے اقوال حکایتاً نقل ہوئے ہیں ہم کو اس میں زیادہ کاوش کی ضرورت نہیں ہے انھم معھم فی النار پنجم سورہ صافات میں جہاں کافروں کا خدا کے ساتھ جنوں کا ناتا رشتہ ٹھہرانے کا بیان ہے اور جس کو خدا تعالیٰ نے رد کیا ہے اور وہ آیت یہ ہے۔ وجعلو بینہ و بین الجنۃ نسبا ولقد علمت الجنۃ انھم لمحضرون عرب جاہلیت جنوں کی متعدد قسمیں سمجھتے تھے اور بد اور نیک ارواحوں کو بھی اسی طرح خیال کرتے تھے جس طرح جنوں کی مزعوم و مظنون مخلوق کا خیال کرتے تھے اور ان ارواحوں کو بھی مثل جنوں کے پرستش اور ان سے بھی نیکی و بدی پہنچنے کا یقین کرتے تھے اسی کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا ولقد علمت الجنۃ یعنی ارواح اشخاص جن کی پرستش وہ کرتے ہیں وہ خود جانتے ہیں کہ خدا کے سامنے حاضر کئے جاویںگے، یعنی مجبور و محکوم ہیں اور قابل پرستش نہیں ہیں۔ ان آیتوں میں زیادہ بحث کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس جگہ لفظ جن سے وہی جن مظنونہ عرب جاہلیت مراد ہے مگر ان آیتوں سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ کوئی ایسی مخلوق جیسا کہ عرب جاہلیت جنوں کی نسبت خیال کرتے تھے در حقیقت مخلوق ہوئی ہے۔ ن آیتوں کے سوا جہاں قرآن مجید میں لفظ جن آیا اس سے وحشی اور جنگلی انسان مراد ہیں جو شہروں سے دور اور جنگلوں و پہاڑوں اور ویران میدانوں میں چھپے رہتے تھے جس کے سبب سے ان پر جن کا استعمال ہوتا تھا ذر ابھی شبہ نہیں ہے کہ عرب جاہلیت باوجودیکہ ان میں جن مزعوم و مظنون کا خیال بہت عام ہو گیا تھا اور غلبہ پا گیا تھا مگر وہ جنگلی و پہاڑی آدمیوں پر بھی جن کا اطلاق کرتے تھے عربی زبان کے لغت کی کتابیں بہت زمانہ بعد تالیف ہوئیں اور جیسا کہ عام دستور ہے کہ زمانہ گذرنے پر زبان میں اور خیالات و استعمالات میں تغیر ہوتا جاتا ہے اور بہت سے قدیم لفظ اور ان کے معنی و استعمالات ضائع ہو جاتے ہیں، ویسا ہی عربی زبان میں ہوا اور جن کا استعمال وحشی و جنگلی انسانوں کے بدلے مزعومہ و مظنونہ جنوں پر نہایت کثرت سے ہو گیا، اسی لئے جہاں لفظ جن کا قرآن مجید یا اشعار جاہلیت میں آیا اس کے معنی اسی جن مزعومہ و مظنونہ کے سمجھے اور وحشی انسانوں پر استعمال سے ذھول (1) ہوگیا، مگر ہم ایسی مثالیں اشعار جاہلیت کی پیش کریں گے اور جو حالات ان کی نسبت بیان ہوئے ہیں ان کو نقل کریں گے جن کے بعد اس بات میں کہ جن کا لفظ وحشی اور جنگلی انسانوں پر بولا گیا ہے کچھ شبہ نہ رہے گا۔ ہم نے اس مقام پر جو لغات عرب اور ان کے معنے اور استعمالات کے ضائع ہونے کا ذکر کیا ہے، یہ کچھ ہمارا خیال نہیں ہے، بلکہ بہت سے علمائے متقدمین کا بھی یہی خیال ہے جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ’’ المزھری‘‘ میں ایک باب منعقد کیا ہے جس کا عنوان یہ ہے: باب القول علی ان لغۃ العرب لم تنتہ الینا بکلیتھا وان الذی جاعنا عن العرب قلیل من کثیر وان کثیرا من الکلام ذھب بذھا ب اھلہ (المزھری جلد اول صفحۃ43) یعنی عرب کے کل لغت ہم تک نہیں پہنچے اور جس قدر پہنچے ہیں وہ بہت میں سے بہت تھوڑے ہیں اور بہت سا کلام اہل زبان کے مر جانے سے جاتا رہا ہے۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ ذھب علماء نا اوا اکثرھم الی ان الذی انتھی الینا من کلام العرب ھوالاقل ولو جائنا 1غفلت، بے پروائی جمیع ما قالوہ لجاء ناشعر کثیر و کلام کثیر(المزھری جلد اول صفحہ43) یعنی جس قدر کلام عرب ہم تک پہنچا ہے وہ نہایت تھوڑا ہے اور جو کچھ انہوں نے کہا اگر وہ سب ہم تک پہنچتا تو بہت ہی کچھ ہوتا۔ اس کے بعد انہوں نے بہت سی مثالیں دی ہیں اور اشعار لکھے ہیں جن کی لغت کی تحقیق نہیں ہوئی۔ اسی کتاب میں حضرت عمرؓ کا قول نقل ہے کہ انہوں نے کہا: (قال ابن عوف) عن ابن سیرین قال قال عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کان الشعر علم قوم لم یکن لہم علم اصح منہ فجاء الاسلام فتشاغلت عنہ العرب و تشاغلو بالجھاد و غزوا فارس و الروم ولھت عن الشعرو روایتہ فلما کثر الاسلام و جات الفتوح واطمانت العرب بالا مصار راجعوا روایۃ الشعر فلم یولو الی دیوان مدون و کتاب مکتوب والفو ذالک و قد ھلک من العرب من ھلک بالموت والقتل فحفظوا اقل ذالک و ذھب عنھم منہ کثیر (المزھری جلد دوم صفحہ237) (ترجمہ) قوم عرب کا علم شعر تھا اور کوئی علم ان کے پاس اس سے زیادہ صحت سے نہ تھا پھر جب اسلام آیا تو عرب شعر کا خیال چھوڑ کر جہاور اور فارس اور روم کی لڑائیوں میں مشغول ہو گئے اور شعر سے اور اس کی روایت سے بے پروائی کی۔ پھر جب اسلام پھیل گیا اور فتوحات ہو گئیں اور عرب نے شہروں میں قیام کیا تو وہ شعر کی روایت پر پھر متوجہ ہوئے۔ان کے پاس کوئی دیوان نہ تھا اور نہ کوئی کتاب لکھی ہوئی تھی انہوں نے اس کو جمع کیا اور اہل عرب سے وہ لوگ جو موت سے یا قتل سے مرے تھے مر چکے تھے پھر انہوں نے اس میں سے بہت ہی تھوڑا محفوظ رکھا اور بہت کچھ اس میں سے ان کے پاس سے جاتا رہا۔ ان تمام حالات کے بیان کرنے سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ جو اشعار جاہلیت ہم کو دستیاب ہیں اگر ان پر غور کرنے سے ہم کو کسی لفظ کے معنی یا مراد پر انہیں اشعار سے کامل یقین ہو کہ اس کے برخلاف ہونا غیر ممکن ہو اور وہ معنی یا مراد لغت کی موجودہ کتب میں نہ پائے جاویں تو ہم اس کو غلط نہیں کہہ سکتے، بلکہ اس کا یقین کریں گے کہ اہل لغت سے وہ چھوٹ گیا ہے۔ اب ہم اس بات کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اشعار جاہلیت میں لفظ جن کا استعمال وحشی، جنگلی، پہاڑی لوگوں پر ہوا ہے، مگر سب سے اول ہم توریت میں سے ایک ورس (1) نقل کرتے ہیں جس سے نہایت قدیم زمانے سے انسان کے دو فریق ہونے کا ثبوت ہوتا ہے، یعنی بدوی (2) اور حضری (3) باوبری (4) و مدری (5) یا شہری و دشتی یا سولیڈ (6) و باربیرن (7) اور نئے لفظوں میں میں کہوں گا اھلی اور وحشی 1انگریزی زبان کا لفظ ہے جو انجیل و توراۃ کے فقروں پر بولا جاتا ہے، جس طرح ہم مسلمان قرآن مجید کے فقروں کو آیت کہتے ہیں۔ 2بیابانی، صحرائی، جنگلی 3شہری،4وبر (پشم) آخر میں پائے نسبت اہل صحرا، 5 مدر (مٹی کا ڈھیلا) مدری اہل ذرہ گاؤں کا رہنے والا 6 انگریزی زبان کا لفظ ہے مہذب شائستہ 7 وحشی عبری توریت کتاب پیدائش باب 25ورس 27 میں یہ عبارت ہے: ’’ وھی عیوایش یرع صیدایش شدہ و یعقوب ایش تم یسب اھالیم‘‘ ترجمہ عربی مطبوعہ لندن1804 وکان عیسو انسانا یعرف الصیدانس البریۃ و یعقوب انسانا کاملا یسکن الخیام ترجمہ عرب توریت سامرہ مطبوعرہ1854ء وکان العیس رجلاعا رفا بالصید رجل بر و یعقوب رجلا کاملا ساکن المضاریب ترجمہ مطبوعہ روما1671ء وکان عیسورجلا بصیرا فی الصید و انسانا ما واہ البراری فاما یعقوب رجل سلیم کان ساکنا فی الخبا ترجمہ زبان عربی مطبوعہ لندن1857ء صارعیو رجلا بصیرا فی الصید بریا و کان یعقوب رجلا سلیما اھلیا عبری لفظ ’’ شدہ‘‘ کا ترجمہ سب نے جنگلی صحرائی کیا ہے۔ اس ورس سے انسانوں کی تفریق اھلی اور وحشی ہونے کی نہایت قدیم زمانہ سے معلوم ہوتی ہے ابتداء میں یہودیوں کو کسی ایسی مخلوق غیر مرئی (1) کا جس کو عرف عام میں جن کہتے ہیں خیال نہ تھا مگر یہودیوں کے ہمسایوں، یعنی عمالیق (2) وغیرہ بت پرست قوموں میں یہ خیال ضرور تھا اور وہ لوگ ارواحوں اور مخلوق غیر مرئی کو بطور معبود کے پوجتے تھے اور ان کو جنگلوں اور پہاڑوں میں ساکن سمجھتے تھے، اس لئے توریت و صحف انبیاء میں ان ارواحوں اور مخلوق غیر مرئی 1نہ دکھائی دینے والا2قدیم زمانہ میں ایک قوم تھی مظنونہ بت پرستوں اور نیز ان کے بتوں پر بھی ’’ شدہ‘‘ و ’’ شدیم‘‘ کا اطلاق کیا گیا۔ عرب جاہلیت جن کا اطلاق گو مخلوق مزعومہ و مظنونہ غیر مرئی پر کرتے تھے مگر ان کے اشعار سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس کا اطلاق وحشی و جنگلی انسان پر بھی کرتے تھے اور یہ امر متعدد دلیلوں سے ثابت ہے۔ اول صحاح جوھری (1) میں انس کے معنی جو الف و نون کے زبر سے ہے الحی المقیمون کے لکھے ہیں، یعنی انسانوں کے وہ قبیلے جو مل کر شہروں اور قصبوں میں رہتے ہوں جن کو حضری یا مدری یا شہری یا سویلزڈ یا اھلی سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کے بعد لکھا ہے انس جو الف کے زیر اور نون کے جزم سے ہے انہیں معنوں میں آتا ہے اور اس کی سند میں اخفش نے یہ شعر پڑھے: اتوا اناری فقلت منون انتم فقالو الجن فقلت عمو اظلاما نقلت الی الطعام فقال منھم زعھیم نحسد الانس الطعاما (ترجمہ) وہ میرے الاؤ کے پاس آئے میں نے ان سے کہا کہ تم کون ہو انہوں نے کہا ہم جن ہیں میں نے کہا کہ تمہاری رات خوش گذرے پھر میں نے ان سے کہا آؤ کھانا کھاؤ تو ان میں جو سردار تھا اس نے کہا کہ ہم انس یعنی شہروں کے رہنے والوں کے کھانے پر حسد کرتے ہیں۔ ان اشعار میں جن کا لفظ انس کے مقابل میں ہوا ہے اور جب انس کے معنی الحی المقیون کے یعنی شہری لوگوں کے ہیں تو ان کے مقابل الحی الغیر المقیمین یعنی جنگلی وحشی آدمیوں کو قرار دینا زیادہ تر قرین قیاس ہے، تاکہ تقابل صحیح رہے اور اس 1لغت عرب کی ایک کتاب ہے لئے ان اشعار میں جن بمعنی وحشی و جنگلی آدمیوں کے ہونا چاہئے۔ دوم شیخ عبدالقادر بن عمر بغدادی نے کتاب ’’ خزانۃ الادب‘‘ میں اسی قسم کے شعر جدع بن سنان الغسانی کے نقل کئے ہیں اس کی تحقیق میں وہ قصیدہ جس کے مذکورہ بالا اشعار ہیں میمیہ قصیدہ نہیں ہے، بلکہ حائیہ قصیدہ ہے جدع بن سنان کو، جو ایک مشہور شاعر زمانہ جاہلیت کا تھا اور اس کے مندرجہ ذیل اشعار سے زیادہ وضاحت سے پایا جاتا ہے کہ جن کا اطلاق وحشی جنگلی آدمیوں پر ہوا ہے اور وہ اشعار یہ ہیں۔ اتوا ناری فقلت منون انتم فقالو الجن فقلت عموا صباحا نزلت بشعب وادی الجن لما رایت اللیل قد نشر الجنا حا اتیتھم غریبا مستفیضا رأو اقتلی اذا فعلوا جناحا اتونی سافرین فقلت اھللا رایت وجوھھم وسما صباحا نحرت لھم و قتلت الاھلمو کلو مما طبخت لکم سماحا اتانی قاشر و بنوا ابیہ وقد جن الدجی وا للیل لاحا فنا زعنی الزجاجۃ بعد وھن مزجت لھم بھا عسلا و راحا (ترجمہ) میرے الاؤ کے پاس وہ آئے تو میں نے کہا کہ تم کون ہو تو انہوں نے کہا کہ جن (یعنی پہاڑی) میں نے کہا کہ تمہاری صبح اچھی ہو میں وادی الجن کی گھاٹی میں اترا تھا جبکہ رات نے اپنے پر پھیلا دئیے تھے، یعنی رات کا اندھیرا چھا گیا تھا، اس لئے وہیں اتر پڑا تھا میں ان کے پاس گیا بطور ایک مسافر کے مہمان کے اور انہوں نے میرا مار ڈالنا اگر وہ ایسا کرتے ایک گناہ خیال کیا پھر وہ میرے پاس چل کر آئے تو میں نے کہا مبارک باد مجھ کو ان کے چہرے شباھت میں صبح کے سے روشن معلوم ہوئے میں نے ان کے لئے اونٹ ذبح کیا اور کہا کہ ہاں آؤ اور جو کچھ میں نے تمہارے لئے فراخ حوصلگی سے پکایا ہے اس کو کھاؤ میرے پاس قاشر اور اس کے باپ کی اولاد آئی اور تاریکی چھا گئی تھی اس نے ذرا ٹھہر کر شراب کے پیالہ میں چھینا چھانی کی اور میں نے ان کے لئے شراب میں شہد ملا دیا تھا۔ اب یہ کہہ دینا کہ وہ سب جن ہی تھے اور جنوں ہی نے باتیں کی تھیں اور اونٹ کا گوشت کھایا تھا اور شراب پی تھی کسی ذی عقل کا تو کام نہیں ہے۔ سوم جوھری نے لفظ رون کے بیان میں لکھا ہے کہ انس الف و نون کے زبر سے جن کے مقابل اشعار میں آیا ہے اور یہ شعر نقل کیا ہے اور جب جن کا لفظ انس یعنی شہری کے مقابل میں آیا ہے تو جن کے لفظ سے وحشی قرار دینا نہایت قرین قیاس ہے۔ بھا حاضر من غیر جن یروعہ والا انس ذوارو فان و زو زجل یعنی وہ وہاں حاضر تھا بغیر کسی جن کے کہ ڈراتا اس کو اور نہ کوئی شہر کا رہنے والا تھا غل غپاڑہ مچانے والا۔ چہارم خزانۃ الادب میں ورقہ بن نوفل کا یہ شعر نقل کیا ہے: ولا سلیمان اذ دان الشعوب لہ الجن والانس تجری بینھا البرد اور نہ سلیمان جبکہ مطیع ہوئے قبیلے اس کے لئے، یعنی جن اور انس آتے جاتے تھے ان میں قاصد خزانہ الادب میں اس شعر کی شرح میں لکھا ہے کہ:ـ الشعوب جمع شعب بفتح و سکون وھو ما تشعب ای تفرق من قبائل العرب والعجم و بینہ منھا بقولہ الجن والانس (خزانۃ الادب جلد ثانی صفحہ 38) یعنی شعوب جمع ہے شعب کی اور وہ وہ ہیں جو شعبہ شعبہ ہوتے ہیں، یعنی جو متفرق ہو گئے عرب اور عجم کے قبیلوں میں سے اور شاعر نے انہیں کی طرف جن اور انس کہہ کر تصریح کی ہے۔ اور یہ شعر صاف اس بات کی دلیل ہے کہ جن اور انس کا لفظ انسانوں پر بولا گیا ہے۔ پنجم نابغہ ذیبانی (1) کے دیوان میں یہ دو شعر ہیںـ: لقد قلت للنعمان یوم لقیتہ یرید بنی جن ببرقۃ صادر تجنب بنی جن فان لقائھم کریہ وان لم تلق الابصابر (ترجمہ) ’’ البتہ میں نے کہا نعمان سے جس دن کہ میں اس سے ملا وہ بنی جن سے لڑنے کو تھا مقام صادر کے ریتلے کنکریلے میدان میں علیحدہ رہ بنی جن سے پھر بیشک ان کے مقابل ہونا برا ہے اگرچہ نہ ملے تو مگر صابر آدمیوں کے ساتھ‘‘ اس شعر کی تشریح اس طرح پر کی ہے: قلت لہ تجنب بنی جن فان لقائھم مکروہ وان لم تلقھم الا برجل صابر شدید فی الحرب یرید انھم اشد صبرا ممن یلقاھم وان بلغ فی الصبرا لغایۃ (ترجمہ)’’ میں نے اس کو کہا کہ علیحدہ رہ بنی جن سے، بے شک ان کا مقابلہ برا ہے اور اگر تو ان کا مقابلہ نہیں کرے گا مگر ساتھ ایسے شخص کے جو نہایت مستقل ہو لڑائی میں شاعر کا اس کہنے سے یہ مطلب ہے کہ وہ بہت زیادہ مستقل ہیں اس سے جو ان کے مقابل ہو اگرچہ وہ مستقل رہنے میں کتنے ہی انتہا کے درجہ تک پہنچ گیا ہو۔‘‘ قبل اس کے کہ ہم اس پر کچھ اور زیادہ لکھیں ہم کو بیان کرنا چاہئے کہ عرب میں بہت سے قبیلے تھے جو بنی جن 1ایام جاہلیت کا مشہور شاعر کہلاتے تھے یا اور طرح پر جن کے لفظ سے منسوب تھے جیسے جنی وغیرہ اس قسم کے نام ہونے کا ایک عام قاعدہ تمدن کے مطابق تھا، کیونکہ جب تمدن کو وسعت ہوتی جاتی ہے تو ہر جگہ کے لوگ تمدن میں ترقی کرتے جاتے ہیں اور شہر اور قصبے خود بھی آباد کرتے ہیں اور شہر اور قصبے جو آباد ہو گئے ہیں ان میں بھی آکر سکونت اختیار کرتے ہیں، مگر ان کا قدیم لقب باقی رہتا ہے۔ اس کی مثال ہندوستان کی قوموں میں جو ہماری آنکھ کے سامنے ہیں، بخوبی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ پہاڑی لوگ جب کہیں شہر یا قصبہ میں آباد ہو جاتے ہیں ہمیشہ ان کا لقب پہاڑی چلا جاتا ہے پنجاب کے لوگ دوسرے ملکوں میں آباد ہو گئے ہیں۔ باوجود گذرنے پشتوں کے پنجابی کہلاتے ہیں جاٹ جو مغربی سرحد سے آ کر آباد ہوئے ہیں اور معلوم نہیں کہ کتنی پشتیں ان کی گذر گئیں مگر پچھاوی (1) کہلائے جاتے ہیں اسی طرح پر جب وحشی جنگلی لوگ عرب کی بستیوں میں آ کر آباد ہوئے تو وہ لوگ اسی قدیمی نام سے موسوم رہے۔ علاوہ اس کے ایک قوم کے زن یا مرد کی دوسری قوم کے مرد یا عورت سے شادی ہو جانے سے ایک جدا شاخ اس قوم کی ایک جدا لقب سے پیدا ہو جاتی ہے پس اس عام قاعدہ تمدن سے عرب بھی خالی نہ تھا۔ عرب میں ایک دستور آپس میں قوموں کے حلیف ہونے کا تھا اور حضریوں کا بدویوں یا مدریوں کا وبریوں سے حلیف ہونا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے انکار ہو سکے اور اسی سبب سے بعض لوگ بنی جن اور بعض ان کے حلیف کہلاتے تھے۔پس اس شعر میں بنی جن کا لفظ انہیں قدیم وحشی جنگلی آدمیوں پر اطلاق ہوا ہے جنہوں نے بمرور زمانہ کسی قدر تمدن اختیار 1پچھم (مغرب ) کے رہنے والے کر لیا تھا اور بعض مقاموں پر قبضہ کر لیا تھا مگر اپنے لقب بنی جن سے مشہور تھے۔ اس شعر میں جس لڑائی کا ذکر ہے، شارح دیوان نابغہ نے اس کو اس طرح پر بیان کیا ہے: قالو الوزیر ابوبکر قال ابو الحسن ارادا النعمان ان یغزو ابنی جن و ھم قوم من بنی عذرہ و قد کانت بنو عذرہ قبل ذالک قتلو رجلا من طی یقال لہ ابوجا برو خذوا امراتہ و غلبو علی وادی القریٰ وھو کثیر النخل فقال النابغۃ بمدح بنی عذرہ و کان لھم مادھا (وقال) ابو عبیدہ لما اراد النعمان بن الحادث غزوبنی جن کان النابغۃ عندہ فنھاہ عن ذالک واخبرانھم فی حرۃ وبلاد شدیدۃ فابی علیہ فبعث النابغہ الی قومہ یخبر ھم بغز والنعمان لھم ویامرھم بان یمدوا بنی جن فلماغزھم النعمان فی بنی غسان التحمت قوم النابغۃ لبنی جن والقتوا مع ال غسان فھز موھم و جازوا علی مامعھم من الغنایم واسھمو البنی مرۃ (شرح دیوان نابغہ جلد اول صفحہ46) (ترجمہ وزیر ابوبکر نے کہا کہ ابو الحسن نے یہ کہا کہ نعمان نے ارادہ کیا کہ بنی جن پر چڑھائی کرے اور بنی جن بنی عذرہ میں سے ایک قوم ہے اور اس سے پہلے بنی عذرہ نے ایک آدمی بنی طے کو جس کا نام ابوجابر تھا مار ڈالا تھا اور اس کی جورو کو پکڑ کر لے گئے تھے اور وادی القریٰ پر جس میں بہت سے کھجوروں کے درخت ہیں قبضہ کر لیا تھا تو نابغہ نے بنی عذرہ کی مدح کی ہے اور وہ ان کا مدح کرنے والا تھا ابو عبیدہ نے کہا کہ جب نعمان حارث کے بیٹے نے بنی جن پر چڑھائی کا ارادہ کیا تو نابغہ اس کے پاس موجود تھا اس نے اس کو چڑھائی کرنے سے منع کیا اور اس کو جتلایا کہ وہ سنگستان میں ہیں اور ان کا ملک بھی نہایت سخت ہے، یعنی وہاں جانا سخت مشکل ہے مگر نعمان نے انکار کیا پھر نابغہ اپنی قوم کے پاس گیا تاکہ وہ نعمان کی چڑھائی سے ان کو خبر دے اور ان سے کہے کہ بنی جن کی مدد کریں پھر جب نعمان نے بنی غسان کے ساتھ ان پر چڑھائی کی تو قوم نابغہ کی بنی جن سے مٹ بھیڑ ہوئی اور آل غسان کا مقابلہ کیا پھر ان کو شکست دی اور مال و اسباب ان کا لے لیا اور بنی مرہ بن عوف کو اس میں سے حصہ دیا۔ اب کیا کسی ذی عقل کا کام ہے کہ بنی جن سے انسان نہ سمجھے، بلکہ ان کو ایک قوم مزعومہ و منظونہ مخلوق غیر مرئی سمجھے۔ ششم شرح دیوان نابغہ میں لکھا ہے کہ بنی اسد اور بنی زبیان عرب کے دو قبیلے تھے مگر ایک واقعہ کے سبب بنی اسد بنی زبیان کے حلف سے علیحدہ ہو گئے اس پر نابغہ نے کہا نانک من جمال بنی اقیش یقعقع خلف رحلیہ بشن یعنی گویا کہ تو بنی اقیش کی اونٹنیوں میں سے ہے کھڑکھڑایا جاتا ہے اس کے پاؤں کے پیچھے سوکھے ہوئے مشکیزہ سے تاج العروس شرح قاموس میں لکھا ہے: جمال بنی اقیش غیر عتاق تنفرمن کل شیئی منسوبۃ الی حی من الجن یقال لھم بنو اقیش و انشد سیبویہ، یعنی بنی اقیش کی اونٹنیاں اچھی نہیں تھے اور ہر چیز سے بھاگتی تھیں اور وہ منسوب ہیں کہ ایک عرب کے قبیلہ بنی جن سے جن کو کہا جات اہے بنو اقیش اور اس کی سند میں سیبویہ نے یہی شعر پڑھا تھا۔ یہ بات بہت صاف ہے کہ بنی اقیش جنگلوں اور پہاڑوں میں رہتے ہوں گے اور جیسے کہ جنگل کے رہنے والوں کے مویشی غیر مانوس اور ہر چیز سے بدکنے والے ہوتے ہیں، بنی اقیش کی اونٹنیاں بھی ہر چیز سے بدکتی اور بھاگتی ہوں گی، اس لئے کسی کے کسی سے علیحدہ ہونے کے لئے جمال بنی اقیش بطور ضرب المثل ہو گیا۔ صحاح جوھری اور شرح قاموس دونوں میں لکھا ہے کہ اقیش قوم من العرب، یعنی اقیش عرب کی ایک قوم ہے اور آل ایش کی نسبت لکھا ہے: قال السھیلی فی الروض آل ایش یحتمل ان تکون قبیلۃ من المومنین ینسبون الی ایش واحسبہ اراد بال ایش بنی اقیش وھم حلفاء الانصار من الجن (ترجمہ)’’ سہیلی نے روض میں لکھا ہے کہ آل ایش غالباً ایک قبیلہ مسلمانوں کا ہے جو منسوب ہے ایش کی طرف اور اس نے خیال کیا ہے آل ایش سے بنی اقیش کو اور وہ انصار کے حلیف تھے جن میں سے اقیش بن ذھل ان کے شاعروں میں سے تھا۔‘‘ سیرۃ ابن ھشام میں لکھا ہے کہ جب آنحضرتؐ عرب کے قبیلوں کو بتوں کی پرستش چھوڑنے اور توحید اختیار کرنے کی نصیحت فرما رہے تھے تو قال(یعنی عبدالعزی بن عبدالمطلب ابو لھب)یا بنی فلان ان ھذا الرجل انما یدعوکم الی ان تسلخو اللات والعزی من اعناقکم و حلفاء کم من الجن من بنی مالک بن اقیش الی ما جاء بہ من البدعۃ و الضلالۃ فلا تطیعوہ ولا تسمعو منہ (عبدالعزی یعنی ابولہب نے کھڑے ہو کر کہا کہ اس کی بات نہ مانو کیونکہ یہ تم کو اس طرف بلاتا ہے کہ تم اپنی گردنوں میں سے لات و عزی کو نکال کر اپنے حلیفوں کو جن جن میں سے ہیں (قبیلہ بنی مالک بن اقیش سے) چھوڑ کر اس بدعت و گمراہی کی طرف آؤ جو وہ لایا ہے) معلوم ہوتا ہے کہ بنی مالک بنا قیش اہل مکہ کے خلیفوں میں سے تھے۔ اب یہ سوال ہے کہ بنی جن جو قوم بنی عذرہ میں سے تھے اور جن سے نعمان لڑا اور آل ایش یا بنی اقیش جو انصار کے حلیف تھے اور بنی مالک بن اقیش جو اہل مکہ کے حلیف تھے یہ سب وہی جن مزعومہ و مظنونہ تھے جن کی نسبت کہا جات اہے کہ جسم ناری حساس، متحرک بالارادہ یتشکل باشکال مختلفۃ (1) حاشا و کلا یہ وہی جن ہیں جن کی نسبت خدا نے فرمایا ہے وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون اب ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے بخوبی ثابت کر دیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جن کا اطلاق وحشی و جنگلی قوموں پر اور ان قوموں پر جو دراصل پہاڑی وحشی تھے مگر رفتہ رفتہ تمدن کی ترقی ہونے سے انہوں نے بھی تمدن اختیار کیا تھا اور قدیم سویلائزڈ یا شہری قوموں سے حلیف ہو گئے تھے ہوا ہے اور وہ سب انسان تھے اور وہ وھمی اور خیالی وجود جن کی عرب پرستش کرتے تھے اور جن کو بہ سبب مخفی ہونے کے جن سے تعبیر کرتے تھے، بالکل ایک علیحدہ وہم اور خیال تھا اور نہ قرآن مجید سے کسی ایسی مخلوق کا وجود ثابت ہوتا ہے جیسا کہ حمقاء جنوں کے وجود کا خیال کرتے ہیں پس جب تک کہ ایسی مخلوق کا مخلوق ہونا قرآن مجید سے ثابت نہ کیا جاوے تو لفظ جن سے ایسی واقعی مخلوق مراد لینا صحیح نہیں ہو سکتا پس قرآن مجید میں جہاں لفظ جن آیا ہے اس سے وہی وہمی اور خیالی وجود غیر موجود سمجھنا محض غلط اور بیجا ہے۔ 1آگ سے بنا ہوا جسم محسوس کرنے والا، ارادے سے حرکت کرنے والا، مختلف شکلوں میں ظاہر ہونے والا اب ہم قرآن مجید کی ان باقی ماندہ آیتوں کو بیان کریں گے جن میں لفظ جن کا اطلاق بمعنی وحشی اور و بری انسانوں پر آیا ہے وبہ نستعین پہلی آیت سورۃ ذاریات میں خدا فرماتا ہے ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمام انسانوں کو خواہ وہ شہر میں رہنے والے ہوں یا جنگلوں اور پہاڑوں میں بسیرا کرنے والے سب کو پیدا کیا ہے کہ خدا کی عبادت کریں۔ دوسری آیت خدا تعالیٰ سورۃ فصلت اور سورۃ احقاف میں فرماتا ہے قد خات من قبلھم من الجن والانس انھم کانو خاسرین سورۃ فصلت میں خدا ان لوگوں کا ذکر کرتا ہے جو ایمان نہیں لائے اور سورۃ احقاف میں خدا نے ایک مثال ایسے شخص کی دی ہے جو خدا پر ایمان لایا ہے اور باپ ماں کے ساتھ جس نے اس کو جنا اور دودھ پلایا احسان کیا اور اچھے کام کیے اور دوسری مثال ایسے شخص کی دی ہے جو ماں باپ کے ساتھ گستاخی و بد زبانی سے پیش آیا اور ایمان نہیں لایا اور فرمایا کہ یہی لوگ ہیں جن پر عذاب کا سچا وعدہ ہوا ہے اور ان گروہوں میں داخل ہیں جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں جن اور انس، یعنی ہر قسم کے انسانوں سے کہ وہ نقصان پاتے تھے۔ تیسری آیت سورۃ اعراف میں خدا نے فرمایا ادخلو فی امم قد خلت من قبلکم من الجن والانس فی النار یعنی خدا تعالیٰ نے کافروں کی زبان حال سے اول یہ فرمایا کہ جب خدا کے بھیجے ہوئے ان کی جان نکالنے کو آویں گے تو پوچھیں گے کہ وہ کہاں ہیں جن کو تم پوجتے تھے تو کہیں گے کہ وہ تو کھو گئے اور اپنے کفر پر یقین کریں گے خدا کہے گا کہ ان لوگوں کے ساتھ جو تم سے پہلے گزرے ہیں، جن اور انس سے، یعنی ہر قسم کے انسان سے آگ میں داخل ہو۔ چوتھی آیت خدا تعالیٰ سورہ انعام میں فرماتا ہے: یامعشر الجن والانس یعنی اے شہر کے رہنے والا اور جنگل اور پہاڑ میں بسیرا کرنے والا الم یاتکم رسل منکم کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے صاف ظاہر ہے کہ قرآن مجید انسانوں کے لیے نازل ہوا ہے اس میں جس قدر انبیاء اور رسل کا ذکر ہے انہیں کا ہے جو انسانوں کے لئے مبعوث ہوئے تھے بر خلاف ان نصوص صریحہ کے یہ کہنا کہ مخلوق موہوم اور مزعوم میں بھی انہیں میں سے ان کے رسول آئے تھے یا یہ کہنا کہ یہی انبیاء ان کے لئے بھی رسول تھے کوئی سلیم العقل تو نہیں قبول کر سکتا۔ پانچویں آیت خدا تعالیٰ اسی سورہ انعام میں فرماتا ہے لقد ذرا انا لجھنم کثیرا من الجن والانس لھم قلوب لا یفقھون بھا ولھم اعین لا یبصرون بھا ولھم اذان لا یسمعون بہا اولئک کالانعام بل ہم اضل اولئک ھم الغافلون یعنی خدا فرماتا ہے کہ ہم نے بہتوں کو جن اور انس میں سے یعنی مہذب و غیر مہذب انسانوں میں سے دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے یہ اس لئے فرمایا کہ اس سے پہلی آیت میں فرمایا تھا وانفسہم کانو یظلمون یعنی وہ اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے اس آیت میں اس کی تفصیل ہے کہ ان کو دل دیا ہے سمجھنے کو مگر وہ اس سے نہیں سمجھتے ان کو آنکھیں دی ہیں مگر وہ ان سے نہیں دیکھتے ان کو کان دیے ہیں مگر وہ ان سے نہیں سنتے یہی لوگ ہیں چو پایوں کی مانند، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ، کیونکہ یہ سب چیزیں چوپایوں کو دی ہیں وہ تو ان کو ان کاموں میں لاتے ہیں جن کے لئے ان کو دی گئی ہیں اور یہ لوگ ان کو کام میں بھی نہیں لاتے یہی لوگ ہیں غافل ۔ کس خوبی اور فصاحت اور دل میں اثر کرنے والے طریقہ سے خدا تعالیٰ نے اس آیت میں ہر قسم کے انسانوں کا، مہذب ہوں یا غیر مہذب، شہری ہوں یا جنگلی، پہاڑی، حال بیان کیا ہے خدا سمجھے ان لوگوں سے جو ان تمام خوبیوں کو غارت کر کے جن کے لفظ سے ایک وجود غیر مرئی اپنی مزعومہ و مظنونہ غیر موجود کو سمجھتے ہیں والحق لھم قلوب لا یفقھون بھا ولھم اعین لا یبصرون لھم قلوب لا یفقھون بھا ولھم اعین لا یبصرون بھا ولھم اذان لا یسمعون بھا لعل اللہ یھدیھم الی الحق والھدا یۃ من لدیہ وکل امر یرجع الیہ چھٹی آیت خدا تعالیٰ نے سورہ اسریٰ میں میں فرمایا ہے قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتو بمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضم لبعض ظھیرا، یعنی کہہ دے اے پیغمبر! اگر جمع ہو جاویں انس، یعنی شہروں کے رہنے والے اور جن یعنی بدویین جو خالص عربی جاننے والے تھے اس بات پر کہ کوئی چیز اس قرآن کی مانند لاویں تو اس کی مانند نہ لا سکیں گے اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں ۔ اس کے بعد خدا فرماتا ہے ولقد صرفنا للناس فی ھذا القرآن من کل مثل فابی اکثر الناس الا کفوراً یعنی ہم نے اس قرآن میں انسانوں کے لئے ہر طرح کی مثالیں دی ہیں، پھر اکثر آدمیوں نے ناشکری سے ان کو نہیں مانا اس آیت میں لفظ انس و جن کے بدلے لفظ ناس فرمایا ہے جو علانیہ ثابت کرتا ہے کہ پہلی آیت میں بھی انس و جن سے ناس ہی مراد تھے نہ دیو جن موھومہ و مظنونہ کفار۔ ساتویں آیت خدا تعالیٰ نے سورہ انعام میں فرمایا وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا شیاطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا اس آیت میں صاف صاف خدا نے فرمایا ہے کہ مدری اور وبری شریر اور بد ذات آدمی نبیوں کے دشمن ہوتے ہیں اور آپس میں بنا بنا کر چکنی چپڑی باتیں بناتے ہیں یہاں جن سے وھی جن مزعومہ اور مظنونہ کو قرار دینا اور نعوذ باللہ انبیاء کے ساتھ عداوت سے ان کا وسوسہ انبیاء کے دل میں ڈالنا مراد لینا کس قدر افسوس کے لائق بات ہے مفسرین کی اس تفسیر کو کوئی شخص جو انبیاء علیہم السلام کی قدر و منزلت کو جانتا ہے، تسلیم نہیں کر سکتا۔ آٹھویں آیت سورۃ الرحمن میں خدا نے فرمایا یا معشر الجن والانس ان استطعتم ان تنفذوامن اقطار السموات والارض فانفذ والا تنفذون الا بسلطان یہ آیت قیامت میں کافروں کے عذاب ہونے میں ہے اور یہ بتایا ہے کہ وہ کسی طرح کہیں بھاگ کر عذاب سے بچ نہیں سکتے قرآن مجید میں ان مزعومہ اور مظنونہ جنوں کی نسبت کچھ بھی احکام اوامر و مناھی کے نہیں ہیں انسانوں کے لئے تو قرآن مجید میں احکام بھرے پڑے ہیں اور ان مظنون جنوں کی نسبت ایک بھی نہیں پھر وہ دوزخ میں کس وجہ سے جاویں گے اور کیوں عذاب پاویں گے اگر انسان ان کی پرستش کرتے ہیں تو ان کا کیا قصور ہے وہ تو کہہ دیں گے کہ انھم لکان بون پس کوئی شخص یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ اس آیت میں لفظ جن سے بجز جنگل اور وحشی انسانوں کے جو اسی طرح مکلف ہیں جیسے کہ شہری اور کوئی مخلوق مراد نہیں ہو سکتی ہے۔ نویں آیت اسی سورۃ میں خدا نے قیامت قائم ہونے کے حال میں بیان فرمایا ہے فیومئذلا یسئل عن ذنبہ انس ولا جان اور دوسری جگہ حور ان بہشتی کے حال میں فرمایا ہے لم یطمئھن انس قبلھم ولا جان جان اور جن ایک لفظ ہے ان آیتوں میں بوجہ حسن کلام کے بجائے جن کے جان بولا ہے جو دلیل کہ ہم آٹھویں آیت میں بیان کر چکے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ ان دونوں آیتوں میں سے پہلی آیت میں بجز انسانوں کے کوئی اور مخلوق غیر مرئی اور غیر مکلف بالا حکام من القرآن مراد ہو ہی نہیں سکتی اور دوسری آیت میں حور ان بہشتی کی عصمت ظاہر کرنے کو تعمیم کی گئی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ کسی انسان نے ان کو پہلے نہیں چھوا ہے وعندی ان ھذا لیس الا التمثیل من نعیم الجنۃ التی جاء فیھا لا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر دسویں آیت سورہ نمل میں خدا نے فرمایا ہے وحشر لسلیمان جنورہ من الجن والانس والطیر وھم یوزعون یعنی جمع کیا گیا سلیمان کا لشکر جن سے اور انس سے اور طیر سے اور وہ ترتیب سے کھڑے کئے جاتے تھے۔ اول تو نہایت تعجب ہے کہ مفسرین یا مترجمین قرآن نے لفظ طیر کے معنی مرغان یا پرند جانوروں کے لئے ہیں، ان کو لشکر سے کیا تعلق ہے لشکر ایک ترتیب سے کھڑا کیا جاتا ہے مگر پرنس سپاہیوں کے ساتھ کس ترتیب سے کھڑے کئے جا سکتے ہیں۔ طیر کا اطلاق گھوڑوں پر ہوتا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ سلیمان کا لشکر جس میں جن وانس و گھوڑے تھے جمع کیا تھا۔ جن سے مراد نہیں جنگلی و پہاڑی انسانوں سے ہے جو لشکر سلیمان میں داخل تھے۔نہ ان جنوں سے جن کا وجود صرف مزعومہ و منظومہ جاہلیت ہے نہ وجودحقیقی ان صاف باتوں کو نہ سمجھنے اور ایک عجیب قصہ بنا لینے کا سبب یہی ہے کہ دلوں پر جن چھایا ہوا تھا اور اس طرف خیال بھی نہیں جاتا تھا کہ کوئی انسان بھی ایسے ہیں جن پر جن کا اطلاق ہوتا ہے۔ گیارھویں آیت سورہ انعام میں خدا نے فرمایا ہے: یامعشر الجن قد استکثرتم من الانس مفسرین اور مترجمین نے استکثرتم کے معنے یہ لئے ہیں کہ اے گروہ جنوں کے تم نے بہت سے انسان اپنے تابع بنا لئے ہیں۔ ہم اگرچہ استکثرتم کے معنے اس طرح پر لینے تحقیق سے بعید سمجھتے تھے، لیکن ہم نے اپنی تفسیر میں انہیں معنوں کو اختیار کر لیا، کیونکہ ہمارے نزدیک اس طرح معنی لینے میں لفظ ’’ یا‘‘ کا جو جنوں کے لئے بطور ندا کے آیا ہے۔ صرف بطور خطابیات کے ہے جیسے کہ جان چیزوں کو ندا کی جاتی ہے مثلاً سورہ ھود میں ہے یاارض ابلعی ماء ک و یاسماء اقلعی اور سورہ انبیاء میں ہے یانار کونی بردا و سلاما علی ابراہیم اور سورہ سبا میں ہے یا جبال اوبی معہ مگر ہمارے نزدیک یہاں بھی جن سے وہی جنگلی و پہاڑی آدمی مراد ہیں اس سے پہلی آیتوں میں خدا تعالیٰ نیک و بد انسانوں کا برابر ذکر کرتا آتا ہے پھر فرمایا کہ قیامت میں سب کو اکٹھا کریں گے اسی کے ساتھ ان لوگوں کو جو پہاڑوں اور جنگلوں میں چھپے رہتے تھے خطاب کر کے بتایا کہ تم نے بہت زیادہ جمع کر لئے گناہ بہ نسبت شہر والوں کے پس استکثار سے زیادتی معاصی میں مراد ہے جیسے کہ ہمیشہ پہاڑی و جنگلی آدمی بہ نسبت شہر والوں کے زیادہ قتل و غارت اور انواع معاصی کے مرتکب ہوتے ہیں اس لئے ان کو خاص خطاب کیا اور پھر دونوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ یامعشر الجن والانس الم یاتکم رسل منکم کیا تمہارے پاس پیغمبر نہیں آئے تھے، اس لئے اس مقام پر بھی جن سے مزعومہ و مظنونہ عرب جاہلیت مراد نہیں ہے۔ بارھویں آیت سورہ جن کی ہے جہاں خدا نے فرمایا قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن فقالو انا سمعنا قرانا عجبا یھدی الی الرشد فامنا بہ ولن نشرک بربنا احدا تیرہویں آیت سورہ احقاف کی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے واذا صرفنا الیک نفرامن الجن یستمعون القران فلما حضروہ قالو انصتو فلما قضی ولو الی قومھم منذرین یہ دونوں آیتیں ایک ہی واقعہ سے متعلق ہیں اور جو لفظ جن کا ان میں آیا ہے وہ بالکل دوسرے معنوں میں ہے، یعنی ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے چھپ کر اور پوشیدہ ہو کر قرآن سنا تھا اور آنحضرف صلعم کو معلوم نہ تھا آنحضرت ؐ سے پوشیدہ تھے اس لئے ان کی نسبت جن کا لفظ اطلاق ہوا ہے۔ ترمذی میں ایک بہت لمبی حدیث ابن عباس سے منقول ہے اگرچہ وہ حدیث بلحاظ اس کے مضمون کے جو اس حدیث میں ہے تسلیم کے قابل نہیں ہے مگر خارج از مضمون راوی کی یہ رائے ہے ماقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الجن ولا راھم یعنی آنحضرت صلعم نے جنوں کو قرآن نہیں سنایا تھا اور نہ ان کو دیکھا تھا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے چھپ کر قرآن سنا تھا۔ تمام سورہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے چھپ کر قرآن سنا تھا مختلف مذاہب کے انسان تھے اور قرآن سننے کے بعد وہ سمجھے کہ ان کے عقیدے اور ان کے خیالات محض غلط ہیں، چنانچہ انہوں نے اپنے عقائد اور ان کی غلطیوں کو بیان کیا ہے پس وہ انسان تھے نہ جن مزعومہ و مظنونہ عرب جاہلیت۔ چودہویں آیت سورہ ہود میں خدا نے فرمایا ہے:ـ وتمت کلمہ ربک لا ملئن جھنم من الجنۃ والناس اجمعین سولھویں آیت سورہ ناس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے: الذی ایسوسوس فی صدور الناس من الجنۃ والناس ان تینوں آیتوں میں جنۃ اور ناس کا لفظ آیا ہے بجائے لفظ جن اور انس کے جن میں جنۃ ایک لفظ ہے البتہ ناس میں تمام انسان شہری ہوں یا پہاڑی سب شامل ہیں مگر پھر جن کو علیحدہ بیان کرنے سے اور انس کو علیحدہ بیان کرنے سے زیادہ تصریح و توثیق حکم کی مقصود ہوتی ہے جیسے کہ عام کو بیان کرنے کے بعد خاص کو پھر بیان کر دیتے ہیں جیسے کہ خدا نے فرمایا ہے من کان عدوا للہ وملائکۃ وجبریل و میکال حالانکہ فرشتوں میں جبرئیل اور میکائیل داخل تھے مگر پھر ان دونوں کو علیحدہ بیان کرنے سے تاکید و توثیق و تنبیہہ حکم کی مقصود ہے۔ اسی طرح ان مقاموں میں جنۃ کا لفظ فرما کر ناس کا لفظ فرمایا جس میں انسان جن، یعنی و بری اور انسان انس، یعنی مدری دونوں شامل ہیں اس سے مخاطب اول جنگلی و پہاڑی لوگ ہیں جن کی نسبت فرمایا تھا قد استکثرتم اور پھر دونوں کو شامل کیا اور اس لئے ان دونوں آیتوں سے بھی کسی ایسی مخلوق کا حصہ جیسا کہ مزعوم و مظنون کفار تھا ثابت نہیں ہوتا۔ سترھویں آیت سورہ صبا میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ومن الجن من یعمل بین یدیہ باذن ربہ یعنی جنوں میں سے وہ تھا جو حضرت سلیمانؑ کے سامنے اپنے رب، یعنی اپنے آقا کے حکم سے کام کرتا تھا۔ تاریخ اور توریت سے پایا جاتا ہے کہ بادشاہ صور نے ایک کاریگر کو جو صور کا رہنے والا تھا حضرت سلیمان کے ہاں کام کرنے کو بھیجا تھا اسی کی نسبت خدا نے فرمایا ومن الجن من یعمل بین یدیہ باذن ربہ اور یہ ایک تاریخانہ ثبوت اس بات کا ہے کہ جن کا لفظ قرآن مجید میں پہاڑی آدمیوں پر اطلاق ہوا ہے۔ اٹھارہویں آیت سورہ نمل میں سلیمان اور بلقیس کے قصہ میں خدا نے فرمایا قال عفریت من الجن انا اتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک وانی علیہ لقوی امین عفریت کے معنی لغت میں زبردست مضبوط کے ہیں پس جب حضرت سلیمان نے بلقیس کے لئے تخت منگانا چاہا ایک زبردست پہاڑی آدمی نے کہا میں بھی اٹھا لاتا ہوں یہ جو مفسرین نے قصہ بنایا ہے کہ وہ تخت شہر سبا، یعنی ملک یمن میں تھا،نہ اس کی کچھ اصلیت ہے نہ اس کا کچھ ثبوت ہے سلیمان کے مکان میں وہ تخت ہو گا انہوں نے اس کو منگانا چاہا ایک شخص نے کہا حضور میں ابھی اٹھا لاتا ہوں اس میں نہ کچھ عجیب قصہ ہے نہ کوئی بات ہے مگر ہاں واعظین کے لئے منبر پر بیٹھ کر عجیب و غریب و دور از کار و دور از عقل باتیں بنانے کو کافی نہیں۔ انیسویں آیت خدا تعالیٰ نے سورہ سبا میں سلیمان کے قصہ میں فرمایا فلما خرتبینت الجن ان لو کانو یعلمون الغیب ما لبثو فی العذاب المھین مصریوں میں عام رواج تھا کہ مردے کی لاش کو ممی سے محفوظ کر کے رکھ چھوڑتے تھے اور کسی سہارے سے کھڑا کر دیتے تھے اگر کسی کو آنکھ سے دیکھنا ہو تو اب بھی مصر میں جا کر وہاں کے میوزیم میں دیکھے دو ایک لاشیں ممیاں کی ہوئی دیوار کے سہارے کھڑی ہوں گی۔ یہ طریقہ ممی کرنے کا یہودیوں میں جاری ہو گیا تھا۔ حضرت یوسف کی لاش کو ممی کر کے رکھا گیا تھا اور جب یہودی مصر سے چلے تھے تو اس کو ساتھ لے لیا تھا اسی طرح سلیمان کے مرنے کے بعد ان کی لاش کو ممی کر کے ایک لکڑی کے سہارے کھڑا کر دیا ہو گا بیت المقدس کی تعمیر میں ہزاروں جنگلی و پہاڑی آدمی پکڑے آئے تھے اور بیگار میں کام کرتے تھے انہوں نے اس ممی کی ہوئی کھڑی لاش کو جانا ہو گا کہ حضرت سلیمان زندہ ہیں اور کام کئے جاتے تھے اتفاقاً اس لکڑی کو جس کے سہارے وہ لاش کھڑی تھی، کسی کیڑے نے کھا لیا اور لاش گر پڑی۔ جب ان پہاڑی آدمیوں نے جانا کہ وہ مر چکے ہیں تو کام چھوڑ چھوڑ کر چلے گئے اور کہا کہ اگر ہم کو غیب کی بات معلوم ہوتی تو ہم اس مصیبت میں نہ رہتے، یعنی پہلے ہی سے چلے جاتے۔ ہم اپنی تفسیر میں بیان کر چکے ہیں او راب پھر بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ سوائے موجودات مرئی اور محسوس کے کوئی اور ایسی مخلوق موجود نہ ہو جو مرئی نہ ہو مگر کلام اس میں ہے کہ جس طرح جنوں کی مخلوق کو مسلمانوں نے تسلیم کیا ہے ایسی مخلوق کا وجود قرآن مجید سے ثابت نہیں۔ علمائے اسلام جن کی تعریف میں بیان کرتے ہیں کہ جسم ناری، حساس متحرک بالا رادہ یتشکل باشکال مختلفۃ اسی بنا پر عام مسلمان خیال کرتے ہیں کہ وہ ایک ہوائی آگ کے شعلہ سے پیدا ہوئے ہیں ان میں مرد اور عورت دونوں ہیں لڑکے اور لڑکیاں جنتے جناتے ہیں طرح طرح کی شکلوں میں بن جاتے ہیں انسانوں کے سروں پر آتے ہیں ان کو تکلیف پہنچاتے ہیں ان کو اٹھا لے جاتے ہیں ان کو مار ڈالتے ہیں انسانوں پر عاشق ہو جاتے ہیں ان کو تازہ بتازہ میوے لا کر دیتے ہیں اور دکھائی نہ دیتے، مگر جب چاہیں اور جیسی شکل میں چاہیں اپنے تئیں دکھلا دیتے ہیں، یعنی اپنے جسم میں دفعۃً ایسا مادہ پیدا کر یتے ہیں کہ دکھائی دینے لگتا ہے آدمی کی صورت بن کر بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں عامل ان کو آدمی بنا کر اپنے گھوڑے کا سائیس کر لیتے ہیں مگر اس میں سے ایک بات بھی قرآن مجید سے ثابت نہیں۔ کتب احادیث و سیر میں جو قصے جنوں کے لکھے ہیں وہ تو ایسے ہیں جیسے کہ اس زمانہ میں مشہور ہوتے ہیں او رجن کی کچھ اصلیت نہیں ہوتی کوئی ایسی معتبر حدیث موجود نہیں ہے جس سے واقعی حالات ایسی مخلوق کے اور ان کے ایسے افعال کہ جیسا کہ عرب جاہلیت کو خیال تھا ثابت ہوتے ہوں۔ تمام علمائے علم حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ کل حدیثیں بالمعنی روایت کی گئی ہیں نہ باللفظ، اس لئے الفاظ حدیث اس اخیر راوی کے متصور ہوتے ہیں جس نے ان سے روایت کی جنہوں نے اس کو حدیث کی کتابوں میں قلم بند کیا اور اس سبب سے حدیثیں کلام مولدین قرار پائی ہیں جن سے بلحاظ علم ادب استناد نہیں ہو سکتا اور یہی سبب ہے کہ علمائے علم ادب مثل سیبویہ واخفش وغیرہ نے علم ادب میں کسی حدیث سے استدلال نہیں کیا، بلکہ اشعار جاہلیت اور کلام بدویین سے جو محض جاہل تھے، استدلال کیا ہے اس پر مصنف خزانہ الادب نے بہت بڑی بحث کی ہے اور بہت سے وجوہ بیان کئے ہیں جن کے سبب سے علمائے علم ادب نے بلحاظ علم ادب کے حدیث پر استدلال کرنا متروک رکھا ہے۔ علاوہ اس کے حدیث کی صحت اور مستند ہونے پر بجز ان افعال صحابہ و تابعین و تبع تابعین کے جواب تک متواتر اور نسلاً بعد نسل عمل میں آتے رہے ہیں، اس قدر لمبی بحثیں ہیں کہ ان سے کوئی ایسی بات جس کا ثبوت قرآن مجید سے علانیہ نہ ہوتا ہو ایسے طور پر ثابت ہو سکے جو بنیاد ایسے عقیدے کی ہو جس کا ثبوت نہ عقلاً ہو اور نہ اس کا وجود ظاہر میں ہو، اس لئے اس باب میں حدیثوں اور سیر کی روائتوں سے بحث کرنا ہمارے نزدیک محض فضول اور بے فائدہ ہے حسبنا کتاب اللہ، مگر ہم ایک حدیث بخاری کی جو اصح الکتب حدیث ہے اور ترمذی کی جو بخاری کی اسی حدیث سے متعلق ہے اور ایک آدھ روایت کتب سیر سے اس مقام پر تمثیلاً نقل کرتے ہیں۔ بخاری نے کتاب التفسیر میں سورۃ جن کی تفسیر میں ابن عباس سے یہ حدیث لکھی ہے: حدثنا موسیٰ بن اسمعیل قال حدثنا ابوعوانۃ عن ابی بشر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال انطلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی طائفۃ من اصحابہ عامد ین الیٰ سوق عکاظ وقد حیل بین الشیاطین و بین خبر السماء وارسلت علیھم الشھب فرجعت الشیاطین فقالو مالکم قالو حیل بیننا و بین خبر السماء وارسلت علینا الشھب قال ما حال بینکم و من خبر السماء الا ما حدث فاضربوا مشارق الارض و مغار بھا فانظروا ماھذا الامر الذی حدث فانطلقو فضر وا مشارق الارض و مغاربھا ینظرون ما ھذا الامر الذی حال بینھم و بین خبر السماء قال فا نطلق الذین توجھوا نحو تھامۃ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنخلۃ وھو عامد الیٰ سوق عکاظ وھو یصلی باصحابہ صلواۃ الفجر فلما سمعوا القرآن تسمعو الہ فقالو ھذا الذی حال بینکم و بین خبر السماء فھنالک رجعوا الیٰ قومہم فقالو یا قومنا انا سمعنا قراناً عجباً یھدی الی الرشدفا منا بہ ولن نشرک بربنا احدا و انزل اللہ تعالیٰ علی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم قل او حی الی انہ استمع نفرمن الجن وانما اوحی الیہ قول الجن۔ ’’ ابن عباس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابیوں کے ساتھ سوق عکاظ کی طرف تشریف لئے جاتے تھے اور شیاطین میں اور شیاطین کے آسمان کی خبر ملنے میں روک ہو گئی تھی اور ان پر شہاب ثاقب پھینکے جاتے تھے پھر شیاطین وہاں سے پھرے ان کے بھائی بندوں یا دوستوں نے یا ان کی قوم نے کہا کہ تمہارا کیا حال ہے انہوں نے کہا کہ ہم میں اور آسمان کی خبر میں روک ہو گئی ہے اور ہم پر شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں (قال) کیا چیز ہم میں اور آسمان کی خبر میں روک ہو گئی ہے، مگر کوئی نئی بات ہوئی ہے پھر جاؤ دنیا میں اس کے مشرق سے اس کے مغرب تک اور دیکھو کہ یہ کیا بات ہے جو نئی پیدا ہوئی ہے پھر وہ چلے اور دنیا میں اس کے مشرق اور اس کے مغرب میں دیکھتے ہوئے پھرے کہ کیا یہ بات ہے جو روک ہو گئی ہے ہم میں اور آسمان کی خبر میں کہا کہ جو شیاطین چلے وہ آئے تہامہ کی طرف رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نخلہ میں اور آنحضرت سوق عکاظ کو جاتے تھے اور اپنے اصحاب کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے پھر جب ان شیاطین نے قرآن سنا تو خوب غور سے سنا، پھر بولے یہی وہ چیز ہے جو ہم میں اور آسمان کی خبر میں روک ہے پھر وہیں سے اپنی قوم کے پاس لوٹے اور کہا اے ہماری قوم! ہم نے سنا ایک عجیب قرآن جو اچھی ر اہ پر ہدایت کرتا ہے پھر ہم تو اس پر ایمان لے آئے اور ہم اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل کی‘‘ قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن اور وحی جو نازل ہوئی تھی وہ جنوں کی بات کرنا تھی۔ اب غور کرنا چاہئے کہ یہ بخاری کی حدیث ہے محمد اسمعیل بخاری کے نزدیک اس کے راوی معتبر ہوں گے، مگر عام ور پر حدیث سے معلوم نہیں ہوتا کہ حضرت ابن عباسؓ بھی آنحضرت ؐ کے ساتھ اس مقام پر موجود تھے اور اگر نہیں تو انہوں نے کیونکر جانا کہ شیاطین میں یہ سب باتیں ہوئی تھیں، کیونکہ یہ اشارہ بھی اس حدیث میں اس پر نہیں ہے کہ آنحضرت ؐ نے ابن عباسؓ سے وہ باتیں جو جنوں میں باہم ہوئی تھیں فرمائی ہوں۔ اس کے بعد یہ الفاظ ہیں قال فا نطلق الذین تو جھوا نحو تھامۃ قال کی ضمیر حضرت ابن عباس راوی کی طرف راجع ہے پھر انہوں نے کس طرح جانا کہ جنوں نے قرآن سنا اور ایمان لے آئے اور اپنی قوم سے جا کر کہا کہ ہمارے اور آسمان کی خبر میں یہی روک ہو گئی ہے۔ علاوہ اس کے شہاب ثاقب کا شیاطین پر پھینکے جانے کا ذکر ہے، وہ کوئی نئی بات نہیں ہے دنیا جب سے پیدا ہوئی ہے ہمیشہ شہاب ثاقب بھی چلتے رہے ہیں۔ کس قدر تعجب ہے کہ ترمذی کی حدیث میں ہے ولم تکن النجوم یرمی بھا قبل ذالک، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ستارے، یعنی شہاب ثاقب نہیں مارے جاتے تھے اس کے اوپر یہ بات کہنی کہ پہلے تھوڑے مارے جاتے تھے اور آنحضرت ؐ کے مبعوث ہونے کے بعد کثرت سے مارے جاتے تھے ایک ایسی بات ہے کہ کوئی شخص جو شہاب ثاقب کے اسباب سے واقف ہے قبول نہیں کر سکتا زیادہ تعجب تو یہ ہے کہ روک تو ہوئی تھی آسمان پر اور وہ اس روک کے تلاش کرنے کو زمین میں مشرق سے مغرب تک دوڑتے پھرے وانا اقسم باللہ الذی نفسی بیدہ لیس ھذا قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معلوم نہیں کہ در حقیقت کیا بات تھی اور حضرت ابن عباس نے کیا فرمایا تھا اور راوی کیا سمجھے پہلے راوی نے دوسرے راوی سے کیا کہا اور دوسرے نے تیسرے سے اور تیسرے نے چوتھے سے اور چوتھے نے پانچویں سے اور جو کچھ بخاری نے اپنی کتاب میں لکھا پانچ چھ آدمیوں میں ہو کر آیا اور معلوم نہیں کیا کیا تغیر و تبدل مضمون میں اور الفاظ میں ہو گیا۔ ترمذی میں یہی حدیث ہے اور حضرت ابن عباسؓ ہی کی روایت ہے جس میں ان کے سوا تین اور راوی بھی ہیں جو بخاری کے راوی ہیں اور وہ حدیث اس طرح پر آئی ہے: حدثنا عبد بن حمید حدثنا ابوالولید اخبرنا ابو عوانۃ عن ابی بشر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال ما قرأ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی طائفۃ من اصحابہ عامد ین الی سوق عکاظ و قد حیل بین الشیاطین و بین خبر السماء وارسلت علیہم الشھب فرجعت الشیاطین الی قومھم فقالو مالکم قالو ما حال بیننا و بین خبر السماء وارسلت علینا الشھب فقالوا ما حال بیننا و بین خبر السماء الا من حدث فاضر بوا مشارق الارض و مغاربھا فانظروا ما ھذا الذی حال بینکم و بن خبر السماء قال فانطلقوا یضربون مشارق الارض و مغاربھا یبتغون ما ھذا الذی حال بینھم و بین خبر السماء فانصرف اولئک النفر الذین توجھوا نحو تھامہ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھو بنخلۃ عامداً الی سوق عکاظ وھو یصلی باصحابہ صلوۃ الفجر فلما سمعوا القرآن استعموالہ فقالو ھذا واللہ الذی حال بینکم و بین خبر السماء قال فھنالک رجعوا الی قومھم فقالو یا قومنا انا سمعنا قراناً عجبا یھدی الی الرشد فامنا بہ ولن نشرک بربنا احدا فانزل اللہ تبارک و تعالیٰ علی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن وانما اوحی الیہ قول الجن وبھذا الاسناد عن ابن عباس قال قول الجن اقومھم لماقام عبداللہ یدعوہ کادوا یکونون علیہ لبدا قال لما راؤہ یصلی وا صحابہ یصولون بصلاتہ و یسجدون بسمودہ قال تعجبوا من طواعیہ اصحابہ لہ قالو لقومھم لما قام عبداللہ یدعوہ کادوا یکونون علیہ لبدا ھذا حدیث حسن صحیح ’’ ابن عباسؓ نے کہا کہ نہیں پڑھا قرآن رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں پر اور نہ ان کو دیکھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم چند اپنے اصحابوں کے ساتھ سوق عکاظ جانے کے قصد سے روانہ ہوئے اور شیاطین میں اور آسمان کی خبر میں روک ہو گئی تھی اور پھینکے جاتے تھے ان پر شہاب ثاقب پھر لو شیاطین اپنی قوم کے پاس انہوں نے کہا کہ کیا تمہارا حال ہے انہوں نے کہا کہ روک ہو گئی ہے ہم میں اور آسمان کی خبر میں اور پھینکے جاتے ہیں ہم پر شہاب ثاقب پھر انہوں نے کہا کہ کیا چیز روک ہو گئی ہے تم میں اور آسمان کی خبر میں الا کسی نئی چیز سے پھر جاؤ دنیا کے مشرقوں اور اس کے مغربوں میں پھر دیکھو کیا یہ چیز ہے جو روک ہوئی ہے تم میں اور آسمان کی خبر میں پھر وہ گئے دنیا کے مشرقوں اور اس کے مغربوں کو ڈھونڈتے ہوئے کہ کیا یہ ہے جو روک ہو گئی ہے ان میں اور آسمان کی خبر میں پھر پھرے یہ لوگ جو متوجہ ہوئے تھے تہامہ کو طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور وہ نخلہ میں تھے ارادہ کرتے ہوئے جانے کا سوق عکاظ کی طرف اور وہ نماز پڑھ رہے تھے اپنے اصحابوں کے ساتھ فجر کی۔ پھر جب انہوں نے قرآن سنا اور اس کو خوب سنا تو انہوں نے کہا یہ قسم اللہ کی روک ہوا ہے تم میں اور آسمان کی خبر میں کہا پھر اسی جگہ سے وہ لوٹے اپنی قوم کی طرف پھر انہوں نے کہا اے ہماری قوم! بیشک ہم نے سنا قرآن عجیب ہدایت کرتا ہے اچھی طرف پھر ہم ایمان لے آئے اس پر اور ہم نہ شریک کریں گے اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو پھر اتاری اللہ برکت والے بڑے نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ‘‘ قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن اور صرف جو وحی بھیجی گئی تھی وہ جنوں کی بات تھی اور انہیں راویوں نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ بات جنوں کی ان کی قوم کے لئے یہ تھی لما قام عبداللہ یدعوہ کادوا یکونون علیہ لبدا ابن عباس نے کہا ان کا یہ کہنا اس لئے تھا کہ انہوں نے دیکھا آنحضرت صلعم کو اور ان کے اصحاب کو نماز پڑھتے ہیں آنحضرت ؐ کی نماز کے ساتھ اور سجدہ رکتے ہیں آنحضرت ؐ کے سجدہ کے ساتھ تو انہوں نے تعجب کیا آنحضرت ؐ کے لئے ان کے اصحاب کی اطاعت سے تو انہوں نے اپنی قوم سے کہا۔ قام عبداللہ یدعوہ کادوا یکونون علیہ لبدا یعنی جب کھڑا ہوا بندہ اللہ کا کہ عبادت کرے اس کی قریب تھا کہ ھوویں اس پر جمگھٹ باوجودیکہ یہ ایک حدیث ہے اور وہی اس کے راوی ہیں جو بخاری کی حدیث کے راوی ہیں، لیکن ان دونوں حدیثوں میں چودہ جگہ اختلاف ہے جس کو ہم بیان کریں گے اور وہ اختلاف صرف لفظی ہی نہیں ہے، بلکہ ایسا اختلاف ہے جس سے بتہ کچھ مطلب بدل جاتا ہے اور وہ اختلاف یہ ہیں: بخاری ترمذی 1۔۔۔۔۔۔ 1قام ما قراء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الجن ولا راھم 2فرجعت الشیاطین 2فرجعت الشیاطین الی قومھم 3قال ما حال بینکم و بین خبر السماء 3فقالو ما حال بیننا و بین خبر السماء 4الا ما حدث 4الا من حدث 5فانظروا ما ھذا الامر الذی حدث 5فانظر واما ھذا الذی حال بینکم و بین خبر السماء 6فانطلقوا فضربوا مشارق الارض و مغاربھا 6فانطلقوا یضربون مشارق الارض و مغاربھا 7 ینظرون ماھذا الامر الذی 7یبتغون ماھذا الذی 8قال فانطلق الذین توجھوا نحو تھامہ 8فانصرف اولئک النفر الذین توجھوا نحو تھامہ 9 بنخلۃ وھوا عامدا الی سوق عکاظ 9وھو نخلۃ عامدا الی سوق عکاظ 10تمسعوالہ 10تسمعو الہ 11فقالو ھذا الذی حال بینکم و بین خبر السماء 11فقالوا ھذا الذی واللہ الذی حال بینکم و بین خبر السماء 12 فھنالک رجعوا الی قومھم 12قال فھنالک رجعوا الی قومھم 13 وانزل اللہ تعالیٰ 13 فانزل اللہ تبارک و تعالیٰ 14۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 14وھذا الا سناد عن ابن عباس قال قول الجن لقومھم لما قام عبداللہ یدعوہ کادوا یکونون علیہ لبدا قال لما را وہ یصلی واصحابہ یصلون بصلاتہ و یسجدون بسجودہ قال تعجبوا من طواعیۃ اصحابہ زہ قالو لقومھم لما قام عبداللہ کادوا یکونون علیہ لبدا 1یعنی ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں پر قرآن نہیں پڑھا اور نہ ان کو دیکھا مگر بخاری میں یہ جملہ نہیں ہے۔ 2 ترمذی میں ہے کہ پھر شیاطین پھرے اپنی قوم کے پاس مگر بخاری میں اپنی قوم کے پاس نہیں ہے۔ 3 بخاری میں لفظ قال ہے جس کی ضمیر بظاھر راوی کی طرف پھرتی ہے اور اگر کوئی لفظ مقدر مانو تو شیطان کی طرف پھیرو مگر ترمذی میں لفظ قالوا ہے، یعنی شیاطین کی قوم نے کہا کہ کیا چیز روک ہے تم میں اور آسمان کی خبر میں 4 بخاری میں ہے کہ کوئی نئی چیز پیدا ہوئی ہے اور ترمذی میں ہے کہ نئی چیز پیدا ہونے سے ہے۔ 5 بخاری میں ہے پھر دیکھو کہ کیا یہ بات ہے جو پیدا ہوئی ہے اور ترمذی میں ہے پھر دیکھو کہ کیا ہے یہ جو روک ہے تم میں اور آسمان کی خبر میں 6بخاری میں ہے پھر وہ گئے اور چلے زمین، یعنی دنیا کے مشرقوں اور اس کے مغربوں میں، ترمذی میں ہے پھر وہ گئے چلتے زمین، یعنی دنیا کے مشرقوں اور اس کے مغربوں میں۔ 7بخاری میں ہے دیکھو کہ یہ کیا بات ہے ترمذی میں ہے کہ ڈھونڈو یہ کیا ہے۔ 8بخاری میں ہے قال پھر اس کی ضمیر میں مشکل پڑی ظاہر میں یہ ہے کہ راوی نے کہا ترمذی میں لفظ قال نہیں ہے، بلکہ یوں ہے کہ پھر پھرے وہ گروہ جو متوجہ ہوئے تھے تھامہ کی طرف۔ 9 بخاری میں ہوکا لفظ موخر ہے اور ترمذی میں مقدم 10بخاری میں تسمعوا کا لفظ ہے اور ترمذی میں استمعوا 11ترمذی میں واللہ کا لفظ قسم ہے اور بخاری میں واللہ کا لفظ نہیں ہے 12پھر وہ وہاں سے پھرے، مگر ترمذی میں لفظ قال ہے جس کی ضمیر بظاہر راوی کی طرف پھرتی ہے، یعنی راوی نے کہا کہ پھر وہاں سے پھرے 13 بخاری میں وانزل اللہ تعالیٰ ہے اور ترمذی میں ہے فانزل اللہ تبارک و تعالیٰ 14 اخیر طولانی عبارت ترمذی میں ہے اور بخاری میں نہیں ہے۔ یہ سب باتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ احادیث بالمعنی بیان ہوئی ہیں نہ باللفظ اور اس لئے نہایت شبہ رہتا ہے کہ راوی اول نے کیا بیان کیا تھا اور رفتہ رفتہ اس میں کیا تغیر و تبدل ہو گیا، اس لئے جہاں تک ممکن ہو اس قسم کے حالات میں جو قصص سے متعلق ہیں صرف قرآن مجید کے الفاظ پر منحصر رہنا چاہئے اور ان قصوں کی پیروی کرنے سے بچنا چاہئے جو کتب احادیث و تفاسیر و سیر میں مندرج ہیں۔ جنوں ہی کے متعلق ایک اور حدیث ترمذی میں آئی ہے پہلے راوی ابن مسعودؓ ہیں ان کے بعد علقمہ ہیں اور علقمہ سے شعبی نے روایت کی ہے اور ان سے اوروں نے۔ حدثنا علی بن حجر اخبرنا اسماعیل بن ابراہیم عن داؤد عن الشعبی عن علقمۃ قال قلت لا بن مسعود ھل صحب النبی صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ الجن منکم احداً قال ما صحبہ منا احد و لکن افتقد ناہ ذات لیلۃ وھو بمکۃ فقلنا اغتیل استطیر ما فعل فبتنا بشر لیلۃ یات بھا قوم حتیٰ اذا اصبحنا او کان فی وجہ الصبح اذا نحن بہ یحیئی من قبل حرا قال فذکرو الہ الذی کانوافیہ قال فقال اتانی داعی الجن فاتیتھم فقرأت علیہم قال فانطلق فارا انا اثارھم واثار نیر انھم قال الشعی و سالوہ الزاد و کانو من جن الجزیرۃ فقال کل عظیم لم یذکر اسم اللہ علیہ یقع فی ایدیکم او فو ما کان لحما و کل بعرۃ اور وثۃ علف دوابکم فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تستنجوا بھما فانھما زاداخوانکم من الجن ھذا حدیث حسن صحیح۔ ’’ علقمہ نے کہا کہ میں نے ابن مسعود سے پوچھا کہ لیلۃ الجن میں تم میں سے کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا انہوں نے کہا نہیں ، ہم میں سے کوئی نہ تھا، لیکن ہم نے ایک رات آنحضرت ؐ کو جب کہ وہ مکہ میں تھے کھو دیا تھا پھر ہم نے کہا کہ کوئی دھوکا دے کر ان کو پکڑ لے گیا۔ پھر ہم نے نہایت مصیبت کی رات جو کسی قوم پر گذری ہو بسر کی، یہاں تک کہ جب ہم نے صبح کی یا صبح ہونے لگی کہ ہم ان کے پاس تھے وہ آتے تھے حرا کی طرف سے پھر ہم نے ان سے کہا جو ہم پر ہوا تھا۔ راوی نے کہا پھر فرمایا آنحضرت ؐ نے کہا جنوں کا ایلچی میرے پاس آیا پھر میں ان کے پاس گیا پھر ان کے سامنے قرآن پڑھا راوی نے کہا پھر وہ گئے اور ہم کو ان کے یعنی جنوں کے نشان اور ان کے الاؤ دکھانے (اس کے آگے اس حدیث میں ابن مسعود کا نام بھی چھوڑ دیا ہے اور علقمہ کا نام بھی چھوڑ دیا ہے اور یوں لکھا ہے کہ) شعبی نے کہا کہ انہوں نے ان سے خوراک کا سوال کیا اور وہ تھے جزیرہ کے جن پھر کہا (غالباً قال کی ضمیر اسی طرف پھرتی ہے جس طرف سالوہ کی ضمیر راجع ہے یعنی آنحضرت ؐ کی طرف) تمام ہڈیاں جن پر نام خدا کا نہیں لیا گیا تمہارے ہاتھ لگیں گی بہت زیادہ ہوں گی گوشت سے اور اونٹنیوں کی تمام مینگنیاں اور گوبر تمہارے چارپایوں کا چارا ہے پھر فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ مت استنجا کرو ان دونوں سے کہ وہ دونوں خوراک ہیں تمہارے بھائیوں کی جو جنوں میں سے ہیں۔‘‘ ممکن ہے کہ کسی جزیرے کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ہوں اور آپ ان کے پاس تشریف لے گئے ہوں اور آنحضرت نے نشان کسی قافلہ کے ٹھہرنے کے جو مثل الاؤ لگانے کے ہوتے ہیں، دکھائے ہوں اور رفتہ رفتہ راویوں کے خیال میں جو جن چھا گیا تھا اس سے انہوں نے ان لوگوں کو جن مزعومہ و منظونہ سمجھا ہو گا کہ قافلہ کے نشان صریح انسانوں کے قافلہ پر دلالت کرتے ہیں لیکن آدھی حدیث میں جو دو اصلی راویوں کو چھوڑ کر شعبی سے روایت لکھی ہے اس پر کیونکر اعتقاد ہو سکتا ہے اور جو کچھ شعبی نے بیان کیا ہے وہ ایک عام مشہور بات تھی جس کو اس نے حدیث سے ملا دیا۔ قدیم سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ جن ہڈیاں اور گوبر کھاتے ہیں تعجب یہ ہے کہ ان کے اجسام کو نہایت لطیف ہوائی ناری مانتے ہیں اور ان کی خوراک یہ کچھ؟ پس ایسے قصص و حکایات ہر گز اس قابل نہیں ہیں کہ قرآن مجید کی تفسیروں میں شامل کئے جاویں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوں۔ واقسم باللہ ان ذاتہ الشریف یری عن مثل ذالک الھفوات حدیث کی کتابیں نہایت قابل ادب ہیں ان کے جامعین نے ایک طرح سے نہایت احسان کیا ہے کہ احادیث کے جمع کرنے میں اس قدر محنت کی ہے، مگر ان کا ایسا کرناقرون اول کے صحابہ کرام کے برخلاف ہوا۔ بہر حال انوہں نے جو کچھ کیا نہایت نیک نیتی اور محبت اسلام سے کیا وہ خود بھی نہایت بزرگ اور قابل ادب تھے، مگر یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ ان کی حدیثیں مثل قرآن مجید کے بری عن السہو والخطا ہیں۔ معہذا ان بزرگوں نے حتی المقدور راویوں کے ثقہ اور معتبر ہونے پر حدیث کی صحت کا مدا رکھا ہے مگر اس کی صحت کی پڑتال میں درایت سے کام نہیں لیا اور یہ باریک بات تو یہ مخالفین مذہب اسلام کی نظر سے چوک گئی ہے یا قصداً انہوں نے اس کو ترک کر دیا ہے اور احادیث و روایات کے استدلال سے مذہب اسلام پر اعتراض کئے ہیں اس میں کسی قدر خطا مسلمانوں کی ہے کیونکہ اصول حدیث میں حدیث کی صحت تسلیم کرنے کو درایت کو قائم کیا ہے مگر افسوس کہ اس پر عمل بہت ہی کم کیا ہے۔ پس حدیثوں پر استدلال کرنے میں لازم ہے کہ علاوہ دیگر اصول تصحیح حدیث درایتاً بھی اس پر نظر ڈالی جاوے کہ ازروئے درایت کے بھی صحیح ہے یا نہیں اور اس اصول سے کوئی حدیث مع صحیحین کی یا اور کوئی کتب حدیث کی بری نہیں ہو سکتی۔ سیرت ابن ھشام میں اس سے بھی زیادہ غیر مفہوم باتیں لکھی ہیں اسمائؓ بنت ابی بکر ؓ کا قول لکھا ہے قالت (اسماء بنت ابی بکر) قالت ثم انعرفوا فمکثنا ثلاث لیال ما ندری ابن وجہ رسول اللہ صلعم حتی اقبل ر من الجن من اسفل مکۃ یتغنی بابیات من الشعر غناء العرب وان الناس یستبعونہ یسمعون صوتہ وما یرونہ حتی خرج من اعلاء مکۃ و ھو یقول: جزی اللہ رب الناس خیر جزاہ رفیقین حلا خیمتی ام معبد ھما نزلا بالبر ثم تروحا۔ فافلح من امسیٰ رفیق محمد لیھنی بنی کعب مکان فناتھم، و مقعد ھا للمومنین بمرصد۔ قال ابن اسحق قالت اسماء بنت ابی بکر فلما سمعنا قولہ علمنا حیث وجہ رسول اللہ صلعم وان وجہ الی المدینۃ وکانو اربعۃ رسول اللہ صلعم وابو بکر و عامر بن فھیرۃ مولیٰ ابی بکر و عبداللہ بن ارقط دلیلھما ’’ جب آنحضرت مکہ سے تشریف فرما ہوئے تو تین رات تک ہم نے انتظار کیا اور ہم نے نہ جانا کہ آنحضرت کس طرف تشریف لے گئے، یہاں تک کہ ایک شخص جنوں میں سے اسفل مکہ سے چند عربی شعر عرب کے راگ کے گاتا ہوا آیا۔ لوگ اس کے پیچھے ہوئے، اس کی آواز سنتے تھے اور اس کو نہ دیکھتے تھے، یہاں تک کہ وہ اعلیٰ مکہ سے ہو کر چلا گیا۔ ان شعروں کا ترجمہ یہ ہے ’’ بدلہ دے اللہ پروردگار لوگوں کا اچھا بدلہ دو رفیقوں کو جو ٹھہرے خیموں ام معبد میں وہ دونوں اترے ساتھ نیکی کے پھر دونوں چلے گئے پھر فلاح پائی اس شخص نے جو ہوا رفیق محمد کا تاکہ مبارک ہو بنی کعب کو جگہ ان کی لڑکی کی (یعنی ام معبد کی جو بیٹی تھی کعب کی اور ایک عورت تھی بنی کعب کی جو ایک شاخ ہے خزاعہ کی) درانجا لیکہ اس کے رہنے کی جگہ مسلمانوں کے لئے جگہ تھی ٹھہرنے کے لئے‘‘ ابن اسحاق نے کہا کہ اسماء بنت ابی بکر نے کہا کہ جب ہم نے اس کا یعنی جن کا یہ گانا سنا تو ہم نے جان لیا جس طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گئے ہیں اور ان کا جانا مدینہ کی طرف تھا اور وہ چار شخص تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر اور عامر بن فہیرہ مولیٰ ابی بکر اور عبداللہ بن ارقط، ان کا اگوا یعنی راہنما‘‘ اس قسم کی تمام رائتیں محض نا معتمد ہیں۔ افواھی بے اصل باتیں جیسے کہ اس زمانہ میں بھی بہت سی بے اصل باتیں مشہور ہوتی تھیں جن کو اہل سیر نے بطور روایت اپنی کتابوں میں لکھ دیا ہے۔ سیرت ابن اسحاق ان تمام قصوں کی جڑ ہے اور اس میں بھی بہت سے اشعار مختلف قصوں پر لکھے ہیں، وہ سب مصنوعی اور بنائے ہوئے ہیں میزان الاعتدال ذھبی میں لکھا ہے: عن ابی بکر بن ابی داؤد حدثنی ابی حدثنا ابن ابی عمر الشیبا نی سمعت ابی یقول رایت محمد بن اسحاق یعطی الشعراء الاحادیث یقولون علیھا الشعر و قال ابوبکر الخطیب روی ان ابن اسحاق کان یدفع الیٰ شعراء رقتہ اخبار المغازی یسئلھم ان یقولوا فیھا الاشعار لیلحقھا بھا (میزان الاعتدال ذھبی) ’’ ابوبکر شیبانی نے اپنے باپ سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ میں نے محمد بن اسحاق کو دیکھا کہ وہ شاعروں کو حدیثیں دیتا تھا اور وہ اس پر شعر کہہ دیتے تھے اور ابو بکر خطیب بغدادی نے کہا ہے کہ روایت کی گئی ہے کہ ابن اسحاق شعرائے وقت کے پاس مغازی کے اخبار بھیجتا تھا اور ان سے چاہتا تھا کہ اس سے شعر کہہ دیں‘‘ پس تمام قصوں میں جو اشعار مندرج ہیں وہ ہر گز اس زمانہ کے جس کے وہ قصے ہیں اور ان وگوں کے جن کے وہ قصے ہیں نہیں ہیں، بلکہ مصنوعی ہیں جو ان کے نام سے ان قصوں میں لگا دئے ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭ قرآن مجید کی تفسیر کے اصول سرسید کا ایک نایاب مضمون (ماخوذ از تحریر فی اصول التفسیر) سرسید نے دیگر بہت سی تصنیفات کے علاوہ قرآن کریم کی ایک تفسیر بھی لکھی ہے جس میں قدیم مفسرین کے مسلک سے ہٹ کر تفسیر القرآن کا ایک نیا اسلوب اختیار کیا ہے اور ہر آیت کو عقل اور سائنس کے مطابق ثابت کرنا چاہا ہے، تاکہ یورپ کے سائنس دانوں اور فلاسفروں کو تسلی بخش جواب دیا جا سکے۔ جدید خیالات کی اس جدید تفسیر کا سلسلہ 1292ھ مطابق 1879ء سے شروع ہوا اور سرسید کی آخر عمر تک جاری رہا، مگر مکمل نہ ہو سکا اور صرف ابتدائی 14پاروں کی تفسیر سورہ نحل تک شائع ہوئی۔ سرسید نے اس جدید طرز کی تفسیر لکھنے اور مرتب کرنے میں جن اصول کو ملحوظ رکھا ان کو ’’ تحریر فی اصول التفسیر‘‘ کے نام سے 1310ھ مطابق1892ء میں چھاپ کر شائع کر دیا۔ یہ نایاب مقالہ محض اتفاق سے مجھے ایک کباڑی کی دوکان سے پرانی کتابیں تلاش کرتے ہوئے مل گیا میں نے اسے خرید کر بڑی احتیاط سے سنبھال کر رکھ لیا اور آج اس نایاب چیز کو ناظرین کرام کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ اس مضمون کے مطالعہ سے آپ کو سرسید کے ان معتقدات اور خیالات کے سمجھنے میں آسانی ہو گی جو وہ قرآن کریم کی آیات کی تفسیر و تشریح کے متعلق رکھتے تھے اور جن کے مطابق انہوں نے اپنی تفسیر کو مرتب کیا ہے سرسید کے مذہبی خیالات سے واقفیت کے لیے اس اہم مضمون کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ٭٭٭٭٭٭ بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ الذی انزل لقران علی محمد رسولہ علیہ السلام ھدایۃ للانام والصوالۃ والسلام علی رسولہ محمد قد ھدا نابہ الی الاسلام وعلی آلہ واصحابہ الی یوم القیام اما بعد جبکہ غدر کا زمانہ گزر گیا اور مسلمانوں پر بھی جو کچھ گذرنا تھا گزر گیا تو مجھ کو اپنی قوم کی اصلاح کی فکر ہوئی میں نے اس میں بہت غور کی اور ایک زمانہ دراز کے غور کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ان کی دینی و دنیوی اصلاح بغیر اس کے کہ ان کو علوم و فنون جدیدہ میں جو اور قوموں کے سرمایہ افتخار ہیں اور اس زبان میں جو ہم پر بمشیۃ اللہ حکومت کرتی ہے تعلیم نہ دی جاوے اور کسی طرح ممکن نہیں۔ اس طریقہ سے دنیوی اصلاح کے ہونے کا تو ایسا مسئلہ تھا جس میںکچھ اختلاف نہیں ہو سکتا مگر یہ مسئلہ کہ دینی اصلاح کے لئے بھی وہ مفید ہے معرض بحث میں تھا، بلکہ کوئی بھی اس کو تسلیم نہیں کرتا تھا کیونکہ یہ بات ظاہر تھی کہ جن لوگوں نے ان علوم میں تو غل کیا خواہ وہ عیسائی ہوں یا مسلمان یا ہندو انہوں نے اپنے مذہبی عقائد سے ہاتھ دھویا اس لئے کہ انہوں نے علوم جدید کے مسائل کو سچ اور صحیح اور درست جانا اور عقائد مذہبی کو جب اس کے بر خلاف پایا تو اس کو غلط مانا۔ یہ مشکل کچھ اسی وقت میں پیش نہیں آئی بلکہ اس وقت بھی پیش آئی تھی جب کہ فلسفہ یونانی مسلمانوں میں پھیلا تھا اور مذہبی اصول و عقائد کو اس نے درہم برہم کر دیا تھا، مگر اس زمانہ کے علماء نے اس پر توجہ کی اور علم کلام ایجاد کیا اور مذہب کی حمایت میں فلسلفہ یونانی سے مقابلہ کیا اور انہوں نے صرف تین کام کئے۔ یا تو مسائل مذہبی کو فلسفہ یونانی کے مطابق کر دکھایا یا ان کے دلائل کو غلط کر دیا یا مشتبہ، مگر اس زمانہ میں جو سخت مشکل پیش آئی ہے وہ یہ ہے کہ فلسفہ اور طبیعات یونانی بھی جس کی بناء پر اس زمانہ کے علماء نے بہت سے مذہبی مسائل بھی قائم کئے تھے، علوم جدیدہ سے غلط ثابت ہوا ہے اور علوم جدیدہ کے دلائل صرف قیاسی اور فرضی ہی نہیں رہے بلکہ تجربہ اور عمل نے ان کو درجہ مشاہدہ تک پہنچا دیا ہے، یہاں تک کہ عام طور پر یہ مسئلہ محقق مانا جانے لگا کہ علوم مذہب کے مخالف ہیں اور وہ مذہب کو اسی طرح جلا دیتے ہیں جیسے چھوٹے پودے کو پالا۔ جب کہ میں نے علوم جدیدہ و انگریزی زبان کو مسلمانوں میں رواج دینے کی کوشش کی تو مجھ کو خیال ہوا کہ کیا در حقیقت وہ علوم مذہب اسلام کے ایسے ہی بر خلاف ہیں جیسا کہ کہا جاتاہے میں نے بقدر اپنی طاقت کے تفسیروں کو پڑھا اور بجز ان مضامین کے جو علم ادب سے علاقہ رکھتے ہیں باقی کو محض فضول اور مملو بروایات ضعیف و موضوع اور قصص بے سروپا سے پایا جو اکثر یہودیوں کے قصوں سے اخذ کئے گئے تھے پھر میں نے بقدر اپنی استعداد و طاقت کے کتب اصول تفسیر پر توجہ کی اس امید سے کہ ان میں ضرور کوئی ایسے اصول قائم کئے ہوں گے جن کا ماخذ خود قرآن مجید یا کوئی اور ایسا ہو گا جس پر کچھ کلام نہ ہو سکے، مگر ان میں بجز اس قسم کے بیان کے کہ قرآن مجید میں فلاں فلاں علم ہیں، مثلاً وقفہ، کلام و وعظ اور اسباب خفائے نظم قرآن و لطافت نظم اور بیان اختلاف تفاسیر کے یا شرح غریب قرآن کے اور کچھ نہیں ہے۔ جو زیادہ مبسوط ہیں ان میں آیات مکی و مدنی، صیفی و شتائی، یومی و لیلی اور ان کے حروف و کلمات یا بحث مجاز وغیرہ کے کوئی ایسے اصول نہیں بتائے ہیں جن سے وہ مشکلات جو در پیش ہیں ہل ہو سکیں۔ پھر میں نے بقدر اپنی طاقت کے خود قرآن مجید پر غور کی اور چاہا کہ قرآن ہی سے سمجھنا چاہئے کہ اس کا نظم کن اصولوں پر واقع ہوا ہے اور جہاں تک میری طاقت میں تھا میں نے سمجھا اور میں نے پایا کہ جو اصول خود قرآن مجید سے نکلتے ہیں ان کے مطابق کوئی مخالفت علوم جدیدہ میں نہ اسلام سے ہے اور نہ قرآن سے اگر رات پرسی من شاکر قرآن عظیم ام و ھذا قولی کما قال شاہ ولی اللہ پھر میں نے انہیں اصول پر ایک تفسیر قرآن مجید کی لکھنی شروع کی جو اس وقت سورۃ النہحل تک ہو چکی ہے۔ اس تفسیر کے چھپنے اور مشتہر ہونے پر لوگوں نے مخالفت کی اور اس کی تردید میں کتابیں لکھیں۔ میں نے ان پر کچھ التفات نہیں کیا اور نہ دیکھا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ انہوں نے کیا لکھا ہو گا، مگر ان دنوں میں پیارے مہدی نواب محسن الملک نے مجھے دو خط لکھے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو بھی تفسیر کے بعض یا اکثر مقامات کی نسبت اسی قسم کے شبہات ہیں جو اور لوگوں کو ہیں اور وہ دونوں خط اور ان کے جواب یہ ہیں۔ پہلا خط نواب محسن الملک مولوی سید مہدی علی خان کا بنام سید احمد خاں حیدر آباد دکن 9اگست1892ء جناب عالی! دوسری بات لکھنے کی یہ ہے کہ آجکل میں آپ کی تفسیر دیکھ رہا ہوں جسے در حقیقت اب تک اچھی طرح، بلکہ سرسری طور پر بھی نہ دیکھا تھا اور اس کے نہ دیکھنے کا سبب آپ سے کہہ بھی دیا تھا غالباً آپ اس بات کے سننے سے تو خوش نہ ہونگے کہ میں اب تک آپ کی راہوں سے اتفاق نہیں کرتا اور ہر بحث میں اسے قرآن کی وہ تفسیر جس کو کوئی قرآن کے مطالب کی تشریح اور تفصیل اور تفسیر سمجھے، نہیں سمجھتا، بلکہ اکثر جگہ تفسیر کو تفسیر القول بمالا یرضی بہ قاثلہ تصور کرتا ہوں، مگر اس میں شبہ نہیں ہے کہ جس مضمون کو آپ نے لکھا ہے ایسی عمدگی اور خوبی اور صفائی سے بیان کیا ہے کہ اگر آدمی نہایت ہی راسخ الاعتقاد نہ ہو تو ضرور اس کی تصدیق کرنے لگے اور بال شبہ ایک جادو کئے ہوئے آدمی کی طرح آمنا و صدقنا پکارنے لگے واقعی خدا نے دل کے حالات کو الفاظ میں ادا کرنے اور تحریر میں لانے کی عجیب حیرت انگیز قوت اور طاقت آپ کو دی ہے کہ اگر اسے جادو کہیں یا سحر تو بے محل نہ ہو، مگر افسوس ہے کہ آپ نے ان مسائل کو جو آج کل یورپ کے وہ تعلیم یافتہ لوگ جو مذہب کے پورے پابند اور معتقد نہیں ہے صحیح اور یقینی اور غیر قابل الاعتراض سمجھتے ہیں، مان لیا اور قرآن کی آیتوں کو جن میں ان کا ذکر ہے ایسا ماول کر دیا ہے کہ وہ تاویل ایسے درجہ پر پہنچ گئی کہ اس پر تاویل کا لفظ بھی صادق نہیں ہو سکتا۔ آپ نے مسلمان مفسروں کو تو خوب گالیاں دیں اور برا بھلا کہا اور یہودیوں کا مقلد بتایا، مگر آپ نے خود اس زمانہ کے لا مذہبوں کی باتوں پر ایسا یقین کر لیا کہ ان کو مسائل محققہ صحیحہ یقینیہ قرار دے کر تمام آیتوں کو قرآن کے ماول کر دیا اور لطف یہ ہے کہ آپ اسے تاویل بھی نہیں کہتے (تاویل کو تو آپ کفر سمجھتے ہیں) بلکہ صحیح تفسیر اور اصلی تفسیر قرآن کی سمجھتے ہیں، حالانکہ نہ سیاق کلام، نہ الفاظ قرآنی، نہ محاورات عرب سے اس کی تائید ہوتی ہے اگر آپ میرے اس شبہ کو کسی طرح دور کر سکیں تو مجھے ایسی خوشی ہو کہ کسی اور چیز سے نہ ہو، اس لئے کہ اکثر مقامات اس کے ایسے عمدہ اور پاکیزہ اور اعلیٰ درجہ کے ہیں کہ بعد قرآن و حدیث کے اگر کوئی اسے ورد زبان کرے اور دل پر نقش تو دنیا میں عالم اور سچا مسلمان ہو اور عاقبت میں ان ثوابوں کا مستحق جو سچے مسلمانوں کے لئے خدا نے مقرر کئے ہیں۔ محسن الملک ٭٭٭٭٭٭ جواب از طرف سید احمد خاں مکرمی! مہدی میں نہایت خوش ہوں کہ آپ نے میری تفسیر کو دیکھنا شروع کیا ہے مجھے نہایت خوشی ہے کہ آپ اس کو مخالفانہ اور غیر معتمدانہ طور پر دیکھیں او راس کی ایک بات پر بھی یقین نہ کریں، سب کو غلط سمجھیں، مگر اس کو دیکھیں اور غور سے پڑھیں۔ آپ نے اس خط میں لکھا ہے کہ اکثر جگہ تفسیر کو تفسیر القول بما لا یرضی بہ قایلہ تصور کرتا ہوں، یقینی آپ کے پاس خدا کے بھیجی ہوئی وحی تو آئی نہیں جس سے آپ کو ثابت ہوا ہو کہ اس قول سے مرضی قایل یعنی خدا کی یہ نہیں ہے، پس ضرور ہے کہ کوئی اور ذریعہ آپ کے پاس ہے جس کی وجہ سے آپ نے تفسیر کے مقامات کو مالا یرضی بہ قایلہ قرار دیا ہے۔ میں نے بہت سوچا کہ وہ ذریعہ آپ کے پاس کیا ہے اور وہ ذریعے دو معلوم ہوئے اول بچپن کی تربیت بچپن سے باتوں کو سنتے سنتے ان کا نقش کا لحجر دل میں ہو جاتا ہے جس کا مٹانا بہت ہی زبردست دل اور نہایت ہی قوت ایمانیہ کا اور بہت ہی غور و فکر کا کام ہے۔ دوسرا ذریعہ جو پہلے ذریعہ کا شعبہ ہے مگر اس پہلے کو نہایت قوی اور مضبوط کرنے والا ہے، وہ علماء کے اقوال اور تفاسیر کے مندرجہ رطب و یا بس روائتیں اور قصے ہیں وگو آپ نے اسی خط میں ایک فقرہ لکھا ہے کہ ’’ میرے نزدیک یہ ساری خرابیاں غلط مذہبی خیالات اور تقلید سے پیدا ہوئی ہیں اور مسلمانوں کو اسی کم بخت تقلید نے اندھا، بہرا، گونگا بنا دیا ہے۔(1)‘‘ مگر افسوس ہے کہ تم یہ خیال نہیں کرتے کہ خود تمہارا بھی یہی حال ہے آبائی خیالات کو اور خصوصاً ایسے خیالات کو جو مذہبی روایتوں پر مبنی ہیں چھوڑنا نہایت مشکل ہے۔ آپ یہ دعویٰ نہ کریں کہ میں آبائی مذہب کو چھوڑ کر شیعہ سے (1) واضح ہو کہ یہ فقرہ خط کے پہلے فقرے میں ہے جو چھوڑ دیا ہے اس لئے کہ وہ متعلق الہ آباد کانفرنس کے لیکچر سے تھا، تفسیر کے مضمون سے متعلق نہیں تھا12سید احمد سنی ہو گیا ہوں۔ اول تو بہت سے اسباب آپ کے گرد ایسے جمع تھے کہ جن کے سبب سے شیعہ مذہب نے بخوبی جڑ دل میں نہیں پکڑی تھی، علاوہ اس کے یہ تبدل صرف جزئیات میں تھا جو قابل اعتنا نہیں ہے، مگر جن امور کو آپ تفسیر القول بما لا یرضی بہ قایلہ قرار دیتے ہیں ان کی جڑ بہت زیادہ گہری اور نہایت مضبوط دل میں بیٹھی ہوئی ہے، اس کا اکھڑنا اور اس کی جگہ دوسری بات کا بیٹھنا، گو کہ یہ دوسری بات کیسی ہی سچ وصحیح ہو بہت زیادہ دشوار اور بہت زیادہ مشکل ہے۔ غرض کہ آپ کے پاس کوئی دلیل اس بات کی نہیں ہے کہ آپ تفسیر کو تفسیر القول بما لا یرضی بہ قایلہ سے تعبیر کریں۔ ہاں اس کو غلط سمجھیں، اس کو تسلیم نہ کریں، یہ دوسری بات ہے مگر ما لا یرضی بہ قایلہ نہیں کہہ سکتے۔ آپ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’’ افسوس ہے کہ آپ ان مسائل کو جو آج کل یورپ کے وہ تعلیم یافتہ لوگ جو مذہب کے پورے پابند اور معتقد نہیں ہیں صحیح اور یقینی اور غیر قابل الاعتراض سمجھتے ہیں، مان لیا ہے اور قرآن کی آیتوں کو جن میں ان مسائل کا ذکر ہے ایسا ماول کر دیا ہے کہ وہ تاویل ایسے درجہ کو پہنچ گئی ہے کہ اس پر تاویل کا لفظ بھی صادق نہیںہو سکتا۔‘‘ تمہارے اس فقرے سے میں خوش بھی ہوا اور متعجب بھی ہوا خوش تو اس لئے ہوا کہ تم نے اس پر تاویل کا صادق آنا نہیں مانا، کیونکہ میں قرآن مجید میں تاویل کو مطابق اس کے مفہوم عام کے کفر سمجھتا ہوں۔ متعجب اس لئے ہوا کہ تم نے اس فقرے میں یہ قید کیوں لگائی ہے کہ ’’ جو مذہب کے پورے پابند اور معتقد نہیں ہیں‘‘ کیا اگر کوئی لا مذہب یعنی غیر معتقد کسی مذہب کا مذاہب موجودہ میں سے یہ بات کہ کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں تو کیا اس کے لا مذہب ہونے سے یہ بات غلط ہو جاوے گی۔ اگر کوئی نہایت پابند مذہب کہے کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں تو کیا اس کے پابند مذہب ہونے سے یہ بات صحیح ہو جاوے گی حاشا و کلا۔ ہاں ایک بات آپ نے بہت صحیح لکھی ہے کہ اگر آپ میری تفسیر کے کسی مقام کو خلاف سیاق کلام (اگرچہ مجھ کو نہایت شبہ ہے کہ تم اس بات کو سمجھے بھی ہو کہ قرآن مجید کا سیاق کلام کیا ہے اور کس طور پر ہے) اور خلاف الفاظ قرآن اور خلاف محاورہ عرب جاہلیت ثابت کر دو تو میں اسی وقت اپنی غلطی کا مقر ہو جاؤں گا، مگر مجازو حقیقت میں یا استعارہ و کنایہ یا خطابیات میں بحث مت کرنا کیونکہ جیسا تم کو کسی لفظ کے حقیقی یا لغوی معنی لینے کا حق ہے ویسا ہی مجھ کو اس کے مجازی معنی لینے یا استعارہ اور کنایہ یا از قسم خطابیات قرار دینے کا حق ہے اور اس کے لئے ایک عام مثل دینی کافی ہے جیسے کہ علماء نے نسبت خدا کے ید اور وجہ اور استوا علی العرش اور ہبوط کے مذاہب مختلفہ اختیار کئے ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ شاید تم بھی ان کے حقیقی اور لغوی معنی نہیں لیتے اور اس کے لئے کوئی وجہ رکھتے ہو اسی طرح میں بھی ایسا کرنے کے لئے قطعی اور یقینی وجہ رکھتا ہوں پس اس پر بحث بحث نہ ہو گی بلکہ مکابرہ ہو گا۔ جان من حقیقت یہ ہے کہ تم نے خدا کی عظمت کا جس عظمت کے وہ لائق ہے اور قرآن مجید کی صداقت کا جس صداقت کے وہ لائق ہے اور مذہب اسلام کی عزت اور سچائی کا جس عزت اور سچائی کے وہ لائق ہے، اپنے دل پر نقش کا لحجر نہیں کیا ہے، اس لئے تمہاری رائے یا تمہارا دل اور تمہارا ایمان ڈاواں ڈول ہوتا ہے اگر تمام خیالات کو دل سے محو کر کے یہ سچا اور دلی یقین کر لو کہ خدا سچا ہے اور قرآن اس کا کلام اور بالکل سچا ہے تو تم کو اس قسم کے شبہات ہر گز پیدا نہ ہوں۔ پس سمجھو کہ تفسیر لکھنے میں میرے اصول کیا ہیں اس کے بالا ستیعاب بیان کرنے کے لئے تو ایک رسالہ مستقل چاہئے مگر میں چند کو جو مقدم ہیں بتلاتا ہوں۔ پہلا اصول یہ ہے کہ خدا سچا ہے اور قرآن مجید اس کا کلام اور بالکل سچ اور صحیح ہے کوئی علم یعنی سچ اس کو جھٹلا نہیں سکتا، بلکہ اس کی سچائی پر زیادہ روشنی ڈالتا ہے۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ اب ہمارے سامنے دو چیزیں موجود ہیں1ورک آف گاڑ یعنی خدا کے کام2ورڈ آف گاڈ یعنی خدا کا کلام یعنی قرآن مجید، اور ورک آف گاڈ اور ورڈ آف گاڈ کبھی مختلف نہیں ہو سکتا اگر مختلف ہو تو ورک آف گاڈ تو موجود ہے جس سے انکار نہیں ہو سکتا اور اس لئے ورڈ آف گاڈ جس کو کہا جاتا ہے اس کا جھوٹا ہونا لازم آتا ہے نعوذ باللہ منھا اس لئے ضرور ہے کہ دونوں متحد ہوں۔ تیسرا اصول ورک آف گاڈ یعنی قانون قدرت ایک عملی عہد خدا کا ہے اور وعدہ اور وعید یہ قولی معاہدہ ہے اور ان دونوں میں سے کوئی بھی خلاف نہیں ہو سکتا، لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ اس کی تسلیم سے خدا کی قدرت مطلق میں نقصان آتا ہے جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ تمہارا خیال ہے، محض غلط اور وہم اور نا سمجھی ہے اس راز کے سمجھانے کو چند سطریں کافی نہیں۔ چوتھا اصول خواہ یہ تسلیم کرو کہ انسان مذہب، یعنی خدا کی عبادت کے لئے پیدا ہوا ہے، خواہ یہ کہو کہ مذہب انسان کے لئے بنایا گیا ہے، دونوں حالتوں میں ضرور ہے کہ انسان میں بہ نسبت دیگر حیوانات کے کوئی ایسی چیز ہو کہ وہ اس بار کے اٹھانے کا مکلف ہو اور انسان میں وہ شے کیا ہے؟ عقل ہے، اس لئے ضرور ہے کہ جو مذہب اس کو دیا جاوے وہ عقل انسانی کے مافوق نہ ہو (مجھ کو افسوس ہے کہ تم ہرگز نہیں سمجھتے کہ عقل انسانی اور عقل شخصی میں کیا فرق ہے) اگر وہ عقل انسانی کے مافوق ہے تو انسان اس کا مکلف نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کی ایسی مثال ہو گی جیسے کہ بیل یا گدھے کو امرو نہی کا مکلف قرار دیا جاوے یا جونپور کا قاضی بنا دیا جاوے۔ مذہب اسلام اور خدا کا کلام ان تمام نقصانوں سے پاک ہے وہ بتاتا ہے کہ تم سمجھ لو اور سمجھ کر یقین کرو کہ جو کچھ خدا بتاتا ہے اور کہتا ہے وہ سچ ہے اس سے زیادہ سچائی کیا ہو سکتی ہے جو بانی اسلام کی زبان سے کہہ دینے کو خدا نے فرمایا انما انا بشر مثلکم یوحی الی انما الھکم الہ واحد انما انا بشیر و نذیر جان من، مذہب اسلام اور خدا کے کلام کو دیو و پری کے قصے مت بناؤ ورنہ جو فوقیت اسلام کو دوسرے مذاہب باطلہ سے ہے وہ ساقط ہو جاتی ہے اور اسلام عقل انسانی کی رو سے قابل یقین نہیں رہتا۔ جاہل ایک بات کو جو عقل انسانی کے مافوق ہے مان سکتا ہے اس وجہ پر کہ فلاں بزرگ نے کہی ہے اور اسی کا ایمان مضبوط رہتا ہے، کیونکہ وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں جانتا مگر جس کو خد انے عقل انسانی یا اس کا کوئی حصہ عطا کیا ہے وہ ایسی بات پر جو مافوق عقل انسانی ہے یقین نہیں کر سکتا۔ میں نے بہت سے عالموں کو یہ بات کہتے سنا ہے اور شاید تم پر بھی گزرا ہو گا کہ فلاں بات دل میں تو نہیں بیٹھتی یا سمجھ میں تو نہیں آتی مگر قرآن یا حدیث میں آئی ہے مان لینی چاہئے اسی طرح مان لینے پر یقین اور ایمان کامل کا اطلاق نہیں ہو سکتا گو کہ نجات کے لئے کافی ہو۔ اب تمہارے دل میں بہت سے شبہات پیدا ہونگے اور تم خیال کرو گے کہ مذہب اسلام اور قرآن مجید میں تو بہت باتیں مافوق عقل انسانی ہیں مگر یہ تمہاری سمجھ کا قصور ہے، قرآن مجید اس نقصان سے پاک ہے۔ تم نے بہت مدت تک نوکری کی اب اس کو چھوڑ دو، علیگڑھ میں چلے آؤ، یہاں رہو۔ چند مدت کی گفتگو اور سمجھانے اور بتانے کے بعد تم کو ثابت ہو جاوے گا کہ اسلام میں اور قرآن مجید میں کوئی بات مافوق عقل انسانی نہیں ہے والسلام خاکسار سید احمد از الہ آباد 17اگست1892ء ٭٭٭٭٭٭٭ دوسرا خط نواب محسن الملک مولوی سید مہدی علی خاں کا بنام سید احمد حیدر آباد دکن 19ستمبر1892ء جناب عالی! آپ کا خط17اگست کا لکھا ہوا ہے مجھے اس کا ذرا بھی خیال نہ تھا کہ ان دو فقروں پر جو یونہی سرسری طور پر میرے قلم سے آپ کی تفسیر کی نسبت نکل گئے تھے آپ اتنی توجہ فرماویں گے اور اس کے متعلق ایسا بڑا خط لکھیں گے، مگر میں نہایت خوش ہوں کہ آپ نے اس پر ایسی توجہ فرمائی اور مجھے اپنے شبہات کا زیادہ تفصیل سے عرض کرنے کا موقع دیا۔ مجھے امید ہے کہ آپ نہایت ٹھنڈے دل سے میرے اس تحریر کو ملاحظہ فرماویں گے اور محققانہ جواب سے میرے دل کے سارے شکوک دور کر دیں گے آپ یقین کیجئے کہ میں اگرچہ آپ کے نزدیک آبائی تقلید کی دلدل میں پھنسا ہوں مگر اس سے نکلنے پر آمادہ ہوں، بشرطیکہ آپ مجھے ثابت کر دیں کہ میں در حقیقت کسی ایسی دلدل میں پھنسا ہوں اور یہ کہ اس سے نکلنے کے بعد کسی ایسے گہرے تاریک اور آگ سے بھرے ہوئے غار میں گرنے کا اندیشہ نہیں ہے جس کی نسبت میرے حق میںدلدل ہی میں پھنسا رہنا زیادہ مفید ہو۔ حضرت! آپ نے اٹھارہ برس کے بعد میرے دل پر تازیانہ لگایا ہے اور بھرے ہوئے زخم کو پھر ہرا کیا ہے، اگر اس کے درد سے میں چلاؤں اور نالہ و شیون کروں تو مجھے معذور سمجھئے اور میرے شور و فغاں کو سن کر میرے درد کی دوا فرمائیے ایسا نہ ہو کہ آپ اور چوٹ لگا دیں اور مجھے چلانے اور غل مچانے پر زیادہ مجبور کریں۔ جناب والا! آپ نے میرے اس خیال کی نسبت جو آپ کی تفسیر کی نسبت ہے دو سبب قرار دئیے ہیں ایک آبائی خیالات کی پابندی، دوسرے علماء کے اقوال اور تفاسیر پر یقین پہلے امر کی نسبت میں تسلیم کرتا ہوں کہ خدا نے اپنی مہربانی سے مجھے مسلمان کے گھر میں پید اکیا بچپن سے میرے کان میں اسلام کی باتیں ڈالیں لڑکپن سے میں اسلامی باتیں سنتا رہا اور بلا شبہ ان کا بہت بڑا اثر میرے دل پر ہوا مگر میں یہ بات نہیں مان سکتا کہ جو کچھ میں نے سنا اور جو کچھ سنی ہوئی باتوں کا اثر میرے دل پر ہوا وہ عموماً ایسا قوی تھا کہ اس کو میں دل سے مٹا نہیں سکا۔ میں اپنی زندگی کے پچھلے دنوں پر جب ایک سرسری نظر ڈالتا ہوں تو ایک بہت بڑا سلسلہ ایسے خیالات اور اعتقادات کا پاتا ہوں جن میں نہایت تغیر و تبدل ہوا ہے بہت سی چیزیں ایسی دیکھتا ہوں جن کو میں اول صحیح سمجھتا تھا۔ مگر اب غلط جانتا ہوں اور بہت سے خیالات ایسے ہیں جن کو ایک زمانہ میں برا جاننا تھا مگر اب اچھا سمجھت اہوں پھر میں یہ تغیر خیالات کا صرف جزئیات میں نہیں پاتا بلکہ اصول اور کلیات میں بھی پس اگر آپ کے ارشاد کے موافق آبائی تقلید کی جڑ میرے دل میں ایسی مضبوط ہوتی کہ کسی طرح وہ اکھڑ نہ سکتی تو میں اپنے دل سے ایسے خیالات کو جو لڑکپن سے میرے دل میں جمے ہوئے تھے کیونکر اکھاڑ کر پھینک دیتا اور بہت سی ایسی باتوں کو جو سنتے سنتے کالنقش فی الحجر ہو گئی تھیں حرف غلط کی طرح صفحہ دل سے کس طرح مٹا سکتا اس لئے جہاں تک میں اپنے دل کو دیکھتا ہوں اسے حق کے قبول پر آمادہ اور آبائی خیالات اور رسم و رواج اور قوم اور برادری کی پابندی سے آزاد پاتا ہوں اس پر میری رائے جب کہ آپ کی تفسیر کے بعض مضامین سے ایسی مخالف ہے کہ اس کی نسبت القول بما لا یرضی بہ قایلہ کہہ بیٹھا تو اس کا کوئی نہ کوئی سبب ہو گابظاہر حالات تو مقتضی اس کے تھے کہ میں آپ کی رائے سے اتفاق کرتا، اور آپ کے ہر خیال کو اچھا سمجھتا، اس لئے کہ علاوہ اس یقین کے جو مجھے آپ کے اسلام اور عالی دماغی اور بلند خیالی اور پاک باطنی پر ہے میرے دل کو آپ سے وہ نسبت ہے جو لوہے کو مقناطیس سے جس طرح کہ اس کے اختیار سے خارج ہے کہ مقناطیس کی طرف نہ جھکے اور اپنے آپ کو اس کی کشش سے بچا سکے، اسی طرح میرے امکان میں نہیں ہے کہ آپ کی بات نہ مانوں اور آپ کے خیالات کا ہم صفیر نہ بنوں، مگر باوجود اس کے جب کہ میں آپ کی تفسیر کے بعض مضامین کا مخالف ہوا اور مخالف بھی ایسا کہ اس مخالفت کو نہ آپ کی وہ عظمت و وقعت جو میرے دل میں ہے روک سکی، نہ وہ محبت واردات جو مجھے آپ سے ہے اس کی مانع ہوئی نہ آپ کی جادو بھری تحریر نے اثر کیا، نہ آپ کی پر زور تقریر نے، تو میرے پیارے سید خدا کے لئے انصاف کرو کہ اس کا سبب بچپن کی سنی سنائی باتوں کا اثر ہو گا یا اس قوت ایمانیہ کا جس کے مقابلے میں سارے خیالات محبت اور عظمت اور ارادت کے دب گئے اور یہ کمزور دل کا کام ہے یا اس زبردست دل کا جس نے حق بات پر کسی اور چیز کو غالب ہونے نہ دیا۔ دوسرا سبب میری مخالفت کا آپ اس اعتقاد کو قرار دیتے ہیں جو مجھے علماء کے اقوال اور تفاسیر کے رطب و یابس روایات پر ہے اور جو آپ کے نزدیک پہلے سبب کا قوی اور مضبوط کرنے والا ہے آپ کی اس تحریر نے مجھے نہایت متعجب کیا اس لئے کہ آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ میرے خیالات اس بارہ میں کیا ہیں اور علماء اور ان کی کتابوں کی نسبت میں کیا رائے رکھتا ہوں آپ خوب جانتے ہیں کہ میرے نزدیک نہ کوئی کتاب خدا کی کتاب کے سوا غلطی سے پاک ہے، گو وہ کیسی ہی اصح الکتب کیوں نہ سمجھی گئی ہو اور نہ کوئی شخص سوائے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے خطا اور غلطی سے محفوظ ہے، گو وہ صحابی اور امام ہی کیوں نہ ہو بلا شبہ اسلام اس پر فخر کر سکتا ہے کہ اس میں بہت بڑے مفسر اور محدث اور مجتہد اور عالم اور فقیہ اور حکیم ہوئے اور بہت مفید اور قابل قدر کتابیں لکھی گئیں اور ہمارے بزرگوں نے بہت بڑا ذخیرہ علم کا ہمارے لئے چھوڑا اور ہم ان کے علم اور اجتہاد اور رائے اور تالیفات سے بہت بڑی مدد پاتے ہیں مگر کوئی بھی ان میں معصوم نہ تھا نہ کسی پر جبریل امین وحی لائے تھے، نہ کسی کی شان میں خدا نے ماینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی فرمایا تھا۔ اس پر بھی اگر کوئی کسی کو ہر طرح سے ہر بات میں اور ہر حالت میں واجب التقلید سمجھے اور باوجود ظاہر ہو جائے غلطی کے، خواہ وہ عقل و فطرت کی وجہ سے ہو یا کسی اور سبب سے اسی کی کہی ہوئی یا لکھی ہوئی بات کو سچ سمجھتا اور یقین کرتا رہے تو وہ میرے نزدیک مشرک فی صفۃ النبوۃ ہے اور عقل سے خارج اور راہ راست سے کوسوں دور کیا خوب فرمایا امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے من جعل الحق وقفا علی واحد من النظار فھو الی الکفر والتنا قص اقرب پس جب کہ عالموں اور کتابوں کی نسبت میری یہ رائے ہو اور جسے آپ خوب جانتے ہوں تو آپ میرے اس تعجب اور تاسف کا اندازہ کر سکتے ہیں جو آپ کی اس تحریر سے مجھے ہوا ہو گا خیر آپ کو اختیار ہے جو سبب چاہیں آپ اس کا قرار دیں خواہ بچپن کے خیالات کو، خواہ علماء کے اقوال پر یقین کرنے کو، مگر میرے نزدیک تو اس کا سبب صرف یہ ہے کہ آپ کی تفسیر بعض مقام پر تفسیر الکلام بما لا یرضی بہ قایلہ ہے۔ جناب من! مجھے تو آپ نے اپنی تفسیر کے اعلیٰ مقامات کے نہ سمجھنے پر یہ الزام لگایا کہ بچپن کی سنی سنائی ہوئی باتیں دل میں ایسی جم گئی ہیں کہ انہوں نے غور و فکر کی قوت کو بیکار کر دیا ہے، مگر یہ تو فرمائیے کہ اس زمانہ کے فلاسفر اور سائنس (علم) کے جاننے والے جو تمام درجے نیچر(فطرۃ) کے طے کر کے نئی روشنی دنیا میں پھیلا رہے ہیں، اگر حضرت کی نسبت کہیں کہ گو آپ نے تقلید چھوڑی، کتابوں کو ردی سمجھا،عالموں اور مفسروں کی تضحیک کی اور اپنے نزدیک تحقیق کے بڑے بڑے درجہ پر قدم رکھا اور قرآن کو نیچر اور قوانین نیچر کے مطابق کرنے میں بڑی زحمت اٹھائی، مگر باوجود اس عالی دماغی اور روشن ضمیری اور محققانہ خیالات اور حکیمانہ دماغ کے بچپن کی سنی سنائی باتوں کے اثر سے آپ اپنے آپ کو بچا نہ سکے (1) اور اب تک خدا کے مقر، رسول کے قابل اور اصول دین کے معتقد بنے رہے۔ قصور معاف آپ کو اس کے جواب دینے میں اتنی آسانی نہ ہو گی جتنی کہ مجھے آپ کے ارشاد کے جواب میں ہے، اس لئے کہ میں ایک حد تک بیخبر کہہ کر اپنا پیچھا چھڑا لوں گا اور علی بدین العجائز کا اقرار کرنے لگوں گا، مگر آپ کو بڑی مشکل پیش آوے گی کہ آپ ایک اصل کو بھی اصول دین سے اور ایک اعتقاد کو بھی منجملہ معتقدات مذہب کے ماڈرن سائنس (علوم جدیدہ) اور زمانہ حال کے فلسفہ کی روح سے لا آف نیچر کے مطابق 1کچھ عجب نہیں کہ اس مقام پر جو کچھ کہا ہے سچ ہو، مگر میں نے اپنی دانست میں خدا اور رسول کو اور اسلام کی حقیقت کو بعد تحقیق اور بعد یقین مانا ہے، باایں ہمہ اگر اس میں کوئی شایبہ بچپن کی سنی ہوئی باتوں اور تعلیم پائی ہوئی کے اثر کا ہو، اس سے میں انکار نہیں کر سکتا12سید احمد ثابت نہیں کر سکیں گے (1) یہ میرا کہنا در حقیقت معارضہ بالمثل نہیں ہے اور نہ آپ کی جناب میں گستاخانہ خیال میں اپنی ارادت اور عقیدت اور آپ کی شان کو اس سے بہت ارفع و اعلیٰ سمجھتا ہوں کہ کوئی بے ادبانہ اور گستاخانہ بات زبان پر لاؤں، مگر عقیدت یا عظمت واقعات کو بدل نہیں سکتی۔ جو کچھ میں نے کہا ہے یہ ایک واقعہ ہے اور اس زمانہ کے فلاسفر اور حکیم اور نئی سائنس کے عالم مذہبی خیالات رکھنے والوں کی نسبت یہی کہتے ہیں، چنانچہ ایک بہت بڑا یورپین عالم اپنی ایک مشہور کتاب میں جہا ںاس نے خدا کی قدرت اور ارادہ اور علم اور تصرف فی العالم اور خالق خبر و شر ہونے سے انکار کیاہے اور اسے صرف ایک ایسی علۃ العلل قرار دیا ہے جسے کسی قسم کا اختیار یا تصرف عالم میں نہیں ہے، کہتاہے کہ ’’ یہ عقیدہ پرانے خیالات سے زیادہ تر صاف اور عاقلانہ ہے، مگر اس میں شک نہیں کہ اس کے ماننے کے لئے زیادہ قوت دل کی ضرورت ہے اور جن لوگوں کو ہر معمولی واقعہ میں خدا کی خاص قدرت اور ارادہ اور پیش بینی اور ہر روز مرہ کی چیز میں اس کی نگرانی اور علم کے آثار پانے کی عادت ہو گئی ہے ان کو یہ عقیدہ سرد اور غیر تسکین بخش معلوم ہو گا، لیکن امیدیں اور خیالات واقعات کے مقابلہ میں بے طاقت ہیں‘‘ ایک اور صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ جیسے لوگ خدا اور خالق کہتے ہیں وہ خود انسان کا مخلوق ہے، یعنی اپنے دل سے اسے پیدا کر لیا ہے اور اپنے صفات کا جامع قرار دیا ہے‘‘ یہ صاحب دنیا کے ناقص اور غیر مکمل اور 1یہ کہنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ مجھے دعویٰ ہے اور یقین ہے کہ میں عہدہ برا ہو سکوں گا والا فحو کان لتسکین قلبی ولا جاجۃ لی ان اقول علی بدین العجایز 12سید احمد بے ترتیب ہونے پر اس کے بنانے والے کو براہ تمسخر و طنز نو آموز قرار دے کر خدا کے ماننے والوں کو احمق اور بیوقوف کہتے اور کتب آسمانی کے غلط اور جھوٹ ہرنے پر انہیں کی شہادت لاتے ہیں چنانچہ انجیل سی پاک کتاب کی نسبت آپ فرماتے ہیں کہ ’’ میری رائے میں کسی دانشمند آدمی کو اس بات کے یقین دلانے کو کہ انجیل انسان کی بناوٹ بلکہ وحشیانہ ایجاد ہے، صرف اسی قدر ضرورت ہے کہ وہ انجیل کو پڑھے‘‘ پھر آپ لوگوں سے فرماتے ہیں کہ ’’ تم انجیل کو اس طور سے پڑھو جیسے کہ تم اور کسی کتاب کو پڑھتے ہو اور ا سکی نسبت ایسے خیالات کرو جیسے کہ اور کتابوں کی نسبت کرتے ہو اپنی آنکھوں سے تعظیم کی پٹی نکال ڈالو اور اپنے دل سے خوف کے بھوت کو بھگا دو اور دماغ اوھام سے خالی کرو تب انجیل مقدس کو پڑھو تو تم کو تعجب ہو گا کہ تم نے ایک لحظہ کے لئے بھی کیونکر اس جہالت اور ظلم کے مصنف کو عقلمند اور نیک پاک خیال کیا تھا (1)‘‘ یہ خیالات کچھ ایک دو مصنفوں کے نہیں ہیں بلکہ اکثر سائنس کے جاننے والے مذہب کے ماننے والوں اور خدا کے متصف بصفات و جوبیہ و سلبیہ سمجھنے والوں پر نہایت تعجب اور تاسف کرتے ہیں پس جب تک کہ آدمی علم کی معراج کے اس درجہ پر نہ پہونچ جاوے وہ ایسے لوگوں کے نزدیک ضرور آبائی خیالات کا پابند سمجھا جاوے گا اور جب تک خدا اور رسول اور معاد اور اصول دین کو مانتا رہے، گو وہ کتنے ہی زینے علم و نیچر کے طے کر چکا ہو، مجھ ہی سا ضعیف القلب 10 آپ یقین کر لیں کہ جب ہم ان کے مقابل کچھ لکھیں گے تو ان کے ان اقوال کا غلط ہونا نیچر کی رو سے اور عقل دلائل سے ثابت کر دیں گے 12سید احمد اور کمزور ٹھہرے گا، اگر فرق ہو گا تو کمی بیشی کا مجھے ایسے لوگ زیادہ بودے دل کا سمجھیں گے، اس لیے کہ میں خدا کو قاضی الحاجات سمجھتا ہوں، دعا کو ایک سبب حصول مقصد کا اور اجابت دعا کے معنی مطلب کا حاصل ہونا جانتا ہوں جبریل کو ایک فرشتہ وحی کا لانے والا اور نبوت کا ایک عہدہ خدا کا دیا ہوا خیال کرتا ہوں آپ کو ان باتوں کے انکار سے یہ نسبت میرے زیادہ قوی اور زیادہ ہمت والا سمجھیں گے، مگر پورا مرد اور بچپن کی سنی سنائی باتوں کی قید سے کامل آزاد نہ کہیں گے، اس لئے کہ آپ بھی خدا کے معتقد، رسول کے قایل، قرآن کے مقر ہیں اور عذاب و ثواب، حشر و نشر وغیرہ اصول دین کو مانتے ہیں، گو بعض کی حقیقت میں عامہ مسلمین سے کچھ اختلاف رکھتے ہوں۔ بہر حال جو دو سبب آپ نے میری مخالفت کے اپنی تفسیر سے قرار دئیے ہیں، ان میں سے کسی ایک کو بھی میں نہیں مانتا (الحمد للہ 12سید احمد) اب رہا یہ امر کہ میرے پاس خدا کی بھیجی ہوئی وحی آئی تھی جس سے مجھے ثابت ہوا کہ مرضی قایل یعنی خدا کی وہ نہیں ہے جو آپ سمجھے ہیں، اس کی نسبت بادب تمام عرض کرتا ہوں کہ مجھ پر تو وحی آنے کی ضرورت جب ہوتی کہ میں کوئی ایسی بات بیان کرتا جو انسانوں کی معمولی سمجھ سے خارج ہوتی یا وہ معنی قرآن کے بیان کرت جسے نہ صاحب الوحی سمجھتے تھے، نہ صحابہ، نہ ائمہ نہ عامہ مسلمین (1) ہاں آپ نے بعض مقامات پر قرآن کے وہ معنی بتائے ہیں جو نہ لفظوں سے نکلتے ہیں، نہ محاورہ عرب کے مطابق ہیں، نہ 1ابھی یہ دعویٰ ثابت نہیں ہوا اور بغیر اس کے ثابت کرنے کے کیونکر اس کو دلیل گردانا ہے 12سید احمد سیاق کلام کے موافق، بلکہ جو اسلام کا منشا اور قرآن کا مقصود اور پیغمبر کی ہدایت کی اصلی غرض ہے ان سب کے خلاف پس ایسی صریح اور صاف بات کے لئے مجھ پر وحی آنے کی ضرورت نہ تھی اور خدا کی عام مرضی معلوم ہونے کے بعد جو معنی اس کے خلاف لئے گئے اس پر لایرضی بہ قایلہ کہنا بیجا نہ تھا اب رہا اس کا ثبوت وہ میں آئندہ آپ کی تفسیر کے بعض اقوال نقل کر کے بخوبی دوں گا (1) مگر باایں ہمہ آپ یہ خیال نہ فرماویں کہ میں اس ضرورت سے بے خبر ہوں جس نے آپ کو تفسیر لکھنے پر مجبور کیا یا مذہب اور علم کی اس لڑائی سے نا واقف ہوں جو نہایت زور شور سے اس زمانہ میں ہو رہی ہے، یا میں علم کے حملہ کو خفیف سمجھتا ہوں جو وہ نئے ڈھنگ سے اور نو ایجاد ہتھیاروں سے مذہب پر کر رہا ہے یا میں اپنے ہاں کی موجودہ کتابوں کو اس وقت کی ضرورت کے لئے کافی سمجھتا ہوں یا نئے خیالات اور نئے افکار کا مخالف ہوں غالباً بہت کم آدمی ایسے ہوں گے جو مجھ سے بڑھ کر اس بات کے خواہش مند ہوں کہ مذہب کو علم کے حملہ سے بچایا جاوے اور کم ایسے لوگ ہوں گے جو آپ کی اس مردانہ ہمت کی داد دیتے ہوں آپ اس لڑائی میں سفید علم لیکر علم کے سامنے آئے اور ایسے غالب اور قوی حریف سے مصالحت کی کوشش کی مجھ سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا کہ تفسیر کے لکھنے سے آپ کا مقصود کیا ہے، کچھ نہیں سوائے اس کے کہ اسلام اپنی سلطنت پر قائم رہے اور علم اس کا دوست سمجھا جاوے اور آپ کی تفسیر میں اس بات کی بہت سی نشانیاں 1جب دو گے اور ثابت کر لو گے تب دلیل میں لانا، اس وقت اس پر استدلال بے موقع ہے 12سید احمد بھی پائی جاتی ہیںاور وہ غور سے دیکھنے والے کو نہایت اعلیٰ مضامین اور حکیمانہ خیالات اور محققانہ باتوں سے بھری ہوئی نظر آتی ہے لاریب فیہ انہ کنز مدفون من جواھر الفو ایدوبحر مشحون بنفا یس الفراید مگر میں یہ نہیں مانتا کہ آپ ہر جگہ اس مقصود کے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، بلکہ بر خلاف اس کے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ بعض جگہ تسامح کے درجہ سے گزر کر مغالطہ میں پڑ گئے اور جس حد پر پہونچ کر آپ کو ٹھہرنا چاہئے تھا اس سے گذر گئے۔ آپ نے ان باتوں کو جو اس زمانہ کے علم و سائنس نے پیدا کی ہیں بغیر کسی شک و شبہ کے صحیح اور یقینی مان لیا اور جو باتیں قرآن میں بظاہر اس کی مخالف معلوم ہوئیں، اس میں ایسی تاویلیں کرنی شروع کیں کہ قرآن کا مقصود ہی فوت ہو گیا اور اس پر ستم ظریفی آپ کی یہ ہے کہ آپ تاویل کو کفر قرار دیتے اور اپنی تفسیر کو قرآن کے الفاظ اور سیاق اور محاورے اور مقصود محاورے کے مطابق بتاتے ہیں، لیکن اس سے بھی آپ کا اصل مقصود کوسوں دور رہا، اس لئے نیچر اور لا آف نیچر اگر وہی ہے جو اس زمانہ کے یورپین حکیم بتاتے ہیں تو خدا کی خدائی اور رسولوں کی رسالت اور عذاب و ثواب کا اقرار وہی آبائی تقلید اور بچپن کی سنی سنائی باتوں کا اثر سمجھا جاوے گا اور قرآن باوجود انکار معجزات اور خرق عادات اور دعا اور اجابت دعا اور فرشتوں اور جنات کے نیچر اور لا آف نیچر کے مخالف ہی رہے گا پس میرے نزدیک آپ دو مصیبتوں میں سے ایک میں سے بھی نہ نکل سکے کہیں قرآن کے معنی سمجھنے میں غلطی کی اور کہیں نیچر اور لا آف نیچر کے ثابت کرنے میں بعض جگہ تو آپ قرآن کا وہ مطلب سمجھے جو نہ خدا سمجھا، نہ جبریل، نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم، نہ صحابہ، نہ اہلبیت، نہ عامہ مسلمان اور کہیں نیچر کے دائرہ سے نکل گئے اور مذہبی آدمیوں کی طرح پرانے خیالات اور پرانی دلیلوں اور پرانی باتوں کا گیت گانے لگے، چنانچہ آپ کی تفسیر میں دونوں باتوں کا جلوہ نظر آتا ہے، جہاں آپ نے دعا اور اجابت دعا کے مشہور معنوں سے انکار کیا، معجزات اور خرق عادات کو نا ممکن سمجھ کر حضرت عیسیٰ کے بے باب ہونے اور ان کی طفلی کے زمانہ کے واقعات احیائے اموات وغیرہ باتوں کو اہل کتاب کی کہانیاں بتلایا، وہاں آپ نے دکھا دیا کہ آپ کی تفسیر قرآن کے الفاظ اور سیاق عبارت اور اس کے عام منشاء سے کچھ مناسبت اور مطابقت نہیں رکھتی اور جہاں آپ نے خدا کی خدائی اور پیغمبر کی پیغمبری اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے اور ثواب و عذاب وغیرہ کا اقرار کیا، گو اس کی حقیقت میں علمائے ظاہری کی رایوں سے اختلاف کیا ہو، وہاں آپ نے ثابت کر دیا کہ نیچر اور لا آف نیچر کا کچھ بھی اثر آپ پر نہیں ہوا۔ وہی سب پرانے خیالات آپ کے دل میں سمائے ہوئے ہیں جن پر نیچر کے جاننے والے اور لا آف نیچر کے ماننے والے ہنستے ہیں کیا آپ ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ اعتقادات لا آف نیچر (قوانین فطرۃ) کے مطابق ہیں (ہاں12سید احمد) یا ماڈر سائنس (علوم جدیدہ) سے اس کی تصدیق ہو سکتی ہے (ہاں ہو سکتی ہے 12سید احمد) اور اعتقادات کا تو کیا ذکر ہے آپ صرف خدا کی خدائی فلسفہ جدید سے ثابت کر دیجئے (بیشک12سید احمد) اور اس کے خالق اور قادر اور حکیم اور علیم ہونے کا ثبوت حکماء زمانہ حال کے اقوال سے پیش کیجئے (اس کی مجھے حاجت نہیں12سید احمد) میرے نزدیک اکثر فلسفی تو ایسے با ہمت اور بہادر اور دل کے قوی ہیں کہ وہ خدا کے وجود کے اعتقاد سے بڑھ کر کسی بات کو بیہودہ نہیں سمجھتے اور نعوذ باللہ خدا کو خود انسان کے وہم و خیال کا پیدا کیا ہوا کہتے ہیں۔ہاں بعض اس کے وجود کے قایل ہیں یا یوں کہیے کہ منکر نہیں ہیں، مگر وہ بھی کس خدا کے قایل ہیں، اس خدا کے نہیں جو ابراہیم علیہ الصلواۃ والسلام اور محمد کا خدا ہے، بلکہ اس خدا کے جو ڈارون اور ہیگل کا خدا ہے جس کا نام ان کی زبان میں فرسٹ کاز اور عربی میں علۃ العلل ہے واین خدا بجوے نمی ارزد و بکار ما نمی آید ان کے خدا نے نہ کسی چیز کو اپنے ارادے اور مرضی سے پیدا کیا اور نہ کر سکتا ہے، نہ کسی چیز میں تصرف کیا نہ کر سکتا ہے نہ وہ کسی قسم کا اختیار رکھتا ہے، نہ کسی چیز کو مانتا ہے۔ نہ کسی بات کو سنتا ہے، نہ قاضی الحاجات ہے، نہ سمیع الدعوات ، نہ فاعل مختار ہے نہ قادر علی الاطلاق ہاں اس سے انکار نہیں کہ وہ ایک ہستی ہو جس سے کوئی غیر معلوم مادہ بلا اس کے اختیار اور بغیر اس کی مرضی کے اور بغیر تقدم زمانہ کے ظاہر یا پیدا ہو گیا اور اس سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا اور تیسرے سے چوتھا وھلم جرا مواد پید اہوتے ہوتے مادی کائنات کا ظہور ہوا اور ایک نا کامل حالت سے آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے لاکھوں کروڑوں برسوں کے تغیرات اور تنازعات کے بعد یہ دنیا بنی اور جو کچھ اب ہم دیکھتے ہیں اس کا اس طور پر ظہور تدریجی عمل میں آیا ولکن لیس فیھا ما یدل علی الاختیار بل کلہ عن الاضطرار پس اگر یہ مسئلہ نیچر کا مان لیا جاوے اور یہ لاز آف نیچر تسلیم کر لئے جاویں تو فرمائیے کہ وہ خدا جو خالق اور صانع، قادر اور مرید، سمیع، علیم، مصور اور حکیم اور کیا کیا مانا جاتا ہے، کہاں باقی رہتا ہے اور جب تک کوائی ڈارون کا ہم خیال اور ہیگل کا ہم صفیر نہ بن جاوے، کیونکر وہ دل کا مضبوط اور دانشمند کیا جا سکتا ہے (1) رہا ان کا ہم خیال اور ہم صفیر ہونا، اس کی کسی اور کو خواہش ہو تو ہو مگر مجھے تو نہ اس کی خواہش ہے اور نہ طاقت (شاباش، شاباش12 سید احمد) میرا بودا دل اور ضعیف دماغ تو اپنے اولڈ (پرانے) خدا کے چھوڑنے اور ساری صفات سے اسے خالی کر کے صرف فرسٹ کاز (علۃ العلل) ماننے سے بہت گھبراتا اور لرزتا ہے (شاباش، شاباش12سید احمد) میں تو اپنی نادانی اور بزدلی کو اپنے حق میں ایسے حکیموں کی دانائی اور جوانمردی سے بہت زیادہ مفید سمجھتا ہوں، لان البلاھۃ او فی الی الخلاص من فطانۃ تبراء والعمی اقرب الی السلامۃ من بصیرۃ حوالاء اب میں اس خط کو تمام کرتا ہوں، اس لئے کہ جو دلچسپ مضمون آپ نے چھیڑا ہے وہ ایک یا دو خط میں نہیں آ سکتا، ضرور ہے کہ ایک سلسلہ ایسی تحریرات کا آپ کی اور آپ کی بدولت اور شایقین کی خدمت میں پیش کیا جاوے میں اگلے خط میں نیچر اور لا آف نیچر اور ورک آف گاڈ یعنی خدا کے کام اور ورڈ آف گاڈ یعنی خدا کے کلام سے جو آپ کی تفسیر کے اصول میں سے ایک اصول ہے بحث کرونگا اور اس بات کو دکھا دوں گا کہ اس زمانہ کی سائنس کی رو سے جن کو آپ ورک آف گاڈ اور ورڈ آف گاڈ کہتے ہیں بلکہ خود گاڈ خیالی ڈھکوسلے اور اولڈ فیشن والوں کے سڑیل خیالات ہیں کہاں کا گاڈ اور کہاں کا ورک آف گاڈ اور کیسا ورڈ آف گاڈ، علم کی روشنی نے 1ہم ان کی ان سب باتوں کی غلطی نیچر سے ثابت کرنے کو موجود ہیں اور نیچر ہی سے اس خدا کو ثابت کرتے ہیں جو ابراہیم اور محمد کا خدا ہے 12سید احمد ان تاریک خیالات سے دنیا کو پاک کرنا شروع کر دیا ہے اور جن کے دل نئے خیالات کی تیز شعاعوں سے روشن ہو گئے ہیں وہ ان لغویات کو کچھ نہیں سمجھتے ان کے نزدیک ان پرانی باتوں اور ان جہالت و وحشت کے یادگار خیالات کی جگہ اب باقی نہیں رہی، الا ان دلوں میں جو آبائی تقلید کے بندوں میں پھنسے ہوئے اور بچپن کی سنی سنائی باتوں کے دام میں گرفتار ہیں، ورنہ ماڈرن سائنس نے فتویٰ دیدیا ہے کہ خدا وجود معطل ہے۔ رزاقی اور الوہیت بیہودہ خیالات ہیں دعا اور عبادت وحشیوں اور جاہلوں کے ڈر اور خوف کا نتیجہ ہے نبوت دھوکہ کی ٹٹی ہے وحی افسانہ ہے، الہام خواب ہے، روح فانی ہے، قیامت ڈھکوسلہ ہے، عذاب و ثواب انسانی اوھام ہیں، دوزخ و جنت الفاظ بے معنی ہیں، انسان صرف ایک ترقی یافتہ بندر ہے ما بعد الموت نہ سزا ہے نہ جزا، وہ مرنے کے بعد سب جھگڑوں قصوں سے پاک ہے پس اے میرے بزرگ سرسید اور اے میرے پیارے مرشد یہ ہیں خیالات ان لوگوں کے جو کہ حقیقت میں دل کے قوی اور عقل کے کامل اور حکمۃ کے موجد اور علوم کے دریا کے شناور ہیں۔ الذین یستحبون الحیواۃ الدنیا علی الاخرۃ ویعصدون عن سبیل اللہ ویبغونھا عوجا اولئک فی ضلال بعید محسن الملک 1 لا کن یا جیسی انت تنظر الاموربعین واھدۃ لا بعینین تارۃ تنظر الاسلام بعین و تارہ اقوال الملحدین بعین ولا تنظر ما بجانب الآخر فلو نظرت کلیہما بعینین لکشفت لک حقیقۃ الاسلام ظاہرہ و باطنہ و ظھرت لک الا غلاط والصواب فی اقوال الملحدین الذین ذکرت اقوالھم باعظم الشان و افضل البرھان والا خترت صراطاً مستقیما اللھم اھدنا الصرا المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین آمین12 سید احمد جواب از طرف سید احمد خاں مکرمی مہدی! آپ کا نہایت طولانی خط نہایت دلچسپ، فصیح و زبردست، دلکش، مملو از قوت ایمانی و ممزوج از فطرت ربانی پہونچا خوبی تحریر و فصاحت بیان جیسا کہ آپ کا خاصہ تسلیم کیا گیا ہے آپ کی ہر تحریر میں پایا جاتا ہے، خواہ و ہ میرے نام کا خط ہو، خواہ لکچر اشاعت اسلام پر، خواہ اور کوئی لکچر، مگر معاف کیجئے اتنا ضرور کہوں گا کہ ذرا سی کسر تعمق نظر میں رہ جاتی ہے وعندی ھذا دابکم بات یہ ہے کہ میں خود یہ چاہتا ہوں کہ کوئی دوست اور صاحب سمجھ ایسا ہو جو میری تفسیر پر متوجہ ہو اور اس کی غلطیوں سے مجھے آگاہ کرے اور شاید آپ کو یقین ہو گا کہ اگر اگاہی آپ سے مجھ کو حاصل ہو تو اس سے زیادہ خوشی مجھے اور کوئی نہیں ہو سکتی، مگر جس طرح پر آپ نے یہ خط لکھا ہے یا آیندہ نسبت کسی مقام تفسیر کے کچھ لکھیں وہ کچھ مفید نہیں ہو سکتا کیونکہ جو ادب آپ کا میرے خیال میں ہے وہ مجھ کو اس طرف لے جاوے گا کہ پوری غور نہیں کی اور اصل بات نہیں سمجھی۔ فروع ہمیشہ متفرع ہوتے ہیں کسی اصول پر اور اس لئے فروع پر بحث مفید نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اصل جس پر وہ فرع متفرع ہے صحیح یا غلط نہ قرار پاوے۔ اگر وہ اصل صحیح ٹھہرے تو ضرور ہے کہ فروغ اس کے تابع قرار دئیے جاویں اور صحت اصل وہی دلیل قاطع اور برھان قطعی اس امر کی صحت کی ہو گی جو بات کہ بلحاظ تابع ہونے اس فرع کے اپنی اصل سی قرار دی گئی ہے۔ مثلاً امام شافعیؓ کے نزدیک حرمت مصاھرت بدون ازدواج شرعی کے نہیں ہو سکتی۔ اب اس پر یہ امر متفرع ہے کہ اگر کسی کے باپ کی کسی عورت سے آشنائی ہو اور کتنی ہی مدت رہی ہو، بیٹا اس سے نکاح کر سکتا ہے یا خود کسی شخص نے کسی عورت سے آشنائی رکھی ہو پھر اس کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے اس فرع کی بہت عیوب اور خرابیاں بیان ہو سکتی ہیں لیکن جب تک وہ اصل غلط نہ ٹھہرے، فرع کے نقصان و عیوب بیان کرنے سے کوئی نقصان لازم نہیں آتا، بلکہ صحت اصل دلیل قاطع صحت فرع کی ہے۔ وہ بحال خود باقی رہتی ہے جب تک کہ وہ اصل باطل نہ ہو۔ مشکل یہ ہے کہ ہم میں اور تم میں یہ امر طے نہیں ہوئے کہ اصول تفسیر کیا ہیں یا کیا ہونے چاہئیں، جب وہ اصول قرار پا جاویں اس وقت کسی خاص آیت پر بحث ہو سکتی ہے اور بغیر اس کے یہ کہہ دینا کہ یہ تفسیر نہ محاورہ عرب کے مطابق ہے، نہ سیاق کلام کے موافق، بلکہ جو اسلام کا منشا اور قرآن کا مقصود اور پیغمبر کی ہدایت کی اصل غرض ہے ان سب کے بر خلاف ہے، کچھ موثر نہیں۔ اس طرح اوٹ پٹانگ بات کہہ دینے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھ سے اور آپ سے مکاتبات ہوں صرف متعلق تفسیر اور وہ بطور رسالہ کے جمع کئے جاویں اور اس کا نام ’’ مکاتباب الخلان فی اصول التفسیر و علوم القرآن‘‘ رکھا جاوے شروع ان مکاتبات کی اس طرح پر ہو کہ میں آپ کی خدمت میں ہر ایک اصول تفسیر کو وقتاً فوقتاً بھیجوں اگر وہ اصول آپ کے نزدیک صحیح ہو تو آپ اس پر لکھ دیں کہ یہ اصول صحیح ہے پس وہ ہم میں اور آپ میں اصول مسلمہ ہو گا، خواہ وہ اصول ہم دونوں نے بلحاظ مذہب آبائی تسلیم کیا ہو، خواہ از روئے تحقیق کے۔ اور جس اصول کو آپ غلط تصور کریں اس کی تردید کر دیں بعد تحریرات تین امر اس کی نسبت ہوں گے یا تو آپ اس کو تسلیم کر لیں گے تو وہ اصول مسلمہ فریقین ہو جاوے گا اور یا آپ کی تردید کو میں تسلیم کر لوں گا تو اس پر کوئی تفربع معانی قرآن میں نہ کی جاوے گی یا ہم دونوں میں اختلاف باقی رہے گا اس صورت میں وہ اصول آپ کے مقابلہ میں حجت نہ ہو گا۔ جب یہ سب اصول اس طرح پر طے ہو جاویں اس وقت میں آپ کو اجازت دوں گا کہ اب میری تفسیر کے جس مقام کو آپ غلط سمجھیں اس پر تحریر فرماویں، مگر جب تک اس طرح پر اول اصول نہ قرار پا لیں اعتراضات و تحریرات و جواب و سوال محض بے سود معلوم ہوتے ہیں اور اوقات عزیز کا ضائع ہونا ہے اگر اس طرح ایک رسالہ اصول تفسیر کی تحقیق میں ہماری اور آپ کی تحریرات کا جمع ہو جاوے تو کچھ شبہ نہیں کہ نہایت ہی مفید اور بکار آمد ہو گا پس اگر آپ اس بات کو منظور کریں تو میں آپ کی خدمت میں ان اصولوں کو وقتاً فوقتاً بھیجنا شروع کروں۔ بعد اس کے نسبت تفسیر کے جو تحریر ہو وہ ہو۔ میرے خط میں جو آپ نے لکھا ہے کہ نئے خیالات کی روشنی جگاؤں گا کہ نہ خدا ہے اور نہ ورک آف گاڈ اور نہ بلکہ انسان ایک بندر ترقی یافتہ ہے جو فنا ہو جاوے گا میر کی بحث سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے جب کہ صحت و عدم صحت سے بحث کرتے ہیں تو قرآن کا تسلیم کرنا لازم آتا ہے اور اس کو تسلیم کر کے اس کی معنی کی صحت پر یا عدم صحت پر بحث رہ جاتی ہے اگر خدا پر بحث کی جاوے تو وہ جداگانہ بحث ہے پس آپ کا یہ خط اس حد سے جس پر آپ نے پہلا خط لکھا ہے اور جس کا جواب میں نے لکھا خارج ہے اور جب اس طرح خارج از مبحث کلام ہوتا ہے تو اس کی نسبت تحریرات فضول معلوم ہوتی ہیں والسلام خاکسار سید احمد ٭٭٭٭٭٭ از الہ آباد 8اکتوبر1892ء اس خط کا جواب غالباً بسبب کثرت کام کے میرے پاس نہیں آیا میرا ارادہ تھا کہ جب میری تفسیر پوری ہو جاوے گی اور اول سے آخر تک قرآن بنظر غایر تمام ہو جاوے گا اس وقت میں دیباچہ تفسیر کا لکھوں گا اور اس میں وہ تمام اصول بیان کروں گا جو تفسیر لکھنے میں میں نے اختیار کئے ہیں مگر جو کہ اس کو زمانہ دراز درکار تھا اس لئے میں نے خیال کیا کہ مقدم اصولوں کو جو میں نے تفسیر کے لکھنے میں اختیار کئے ہیں لکھدوں اور باقی اصول اس وقت پر منحصر رکھوں جب کہ تفسیر تمام ہو جاوے اور خدا کی مرضی ان کے لکھنے پر ہو پس یہ چند مقدم اصول ہیں جن پر میری تفسیر مبنی ہے اور جو ایک رسالہ کی صورت میں لکھے گئے ہیں اور اس لئے میں نے اس کا نام بھی تحریر فی اصول التفسیر رکھا ہے اب میں ان اصولوں کو شروع کرتا ہوں وبہ نستعین وھو نعم المولی و نعم النصیر 1الاصل الاول یہ بات مسلم ہے کہ ایک خدا خالق کائنات موجود ہے وھو احد صمد لم یلد و لم یولد، واجب الووجود، حی لا یموت، ازلی و ابدی، وھو علۃ العلل لجمیع اللمخلوقات علی ماکانت و علی ما تکون 2الااصل الثانی یہ بھی مسلم ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء مبعوث کے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول بر حق و خاتم المرسلین ہیں۔ 3الاصل الثالث یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید کلام الہٰی ہے نزل علی قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم او یوحی الیہ وانہ علیہا الصلوۃ والسلام ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی 4الاصل الرابع یہ بھی مسلم ہے کہ قرآن مجید بلفظہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر نازل ہوا ہے یا وحی کیا گیا ہے خواہ یہ تسلیم کیا جاوے کہ جبریل فرشتہ نے آنحضرت تک پہونچایا ہے جیسا کہ مذہب عام علماء اسلام کا ہے یا ملکہ نبوت نے جو روح الامین سے تعبیر کیا گیا ہے آنحضرت کے قلب پر القاء کیا ہے جیسا کہ میرا خاص مذہب کے کماقلت زجبریل امیں قرآن بہ پیغامے نمیخواھم ہمہ گفتار معشوق ست قرآنے کہ من دارم اور ان دونوں صورتوں کا نتیجہ متحد ہے اور اس لئے اس پر کوئی بحث ضرور نہیں ہے۔ مگر میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ صرف مضمون القاء کیا گیا تھا اور الفاظ قرآن آنحضرت صلعم کے ہیں جن سے آنحضرت نے اپنی زبان میں جو عربی تھی اس مضمون کو بیان کیا ہے والعجب ثم العجب علی ما قال الا مام حجۃ الا سلام بل حجۃ اللہ فی الا نام الشاہ ولی اللہ الدھلوی فی کتابہ الفتھیمات الا لھیہ حیث قال، فمن ذلک (ای من التدلیات) القران العظیم و ذلک ان الفاظ القران انما ھی من اللغۃ العربیۃ التی یعرفھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ویتخیلھا والمعانی فایضۃ من الغیب تعلیماتہ صلی اللہ علیہ وسلم تدلیا الی الخلق فھم صار کلاما الھیا انما صار لان اردۃ الخیر بالناس امدت فی خیالہ علیہ السلام فھی اللتی جمعت الالفاظ نظمھا ثم امدنی ھذا نظم فالبس لباسا محا کیا للجبروت فضار بذلک تدلیا الھیا وسمی کلام اللہ (تفھیمات الھیہ صفحہ581) اللھم الا ان یقال ھذا بیان تدلیات وھو رحمۃ اللہ علیہ ادرج القرآن من حیث القاء المعانی تحت التدلیات مگر یہ قول شاہ صاحب کا عقل اور نفس الامر دونوں کے مخالف ہے خود قرآن مجید میں ہے کہ وانہ لنتزیل رب العالمین نزل بہ الروح الامین علی قلبک لتکون من المنذرین بلسان عربی مبین (شورہ شعرا آیت192-194) دوسری جگہ فرمایا ہے انا انزلنا قرانا عربیا لعلکم تعقلون (سورہ یوسف آیت3) اس سے ظاہر ہے کہ نزول قرآن قلب آنحضرت پر عربی زبان میں ہوا تھا نہ یہ کہ صرف معنی القاء ہوئے تھے اور الفاظ جن سے وہ معنی تعبیر کئے گئے ہیں آنحضرت کے تھے۔ نفس الامر کے اس لئے بر خلاف ہے کہ خود تم اپنے نفس پر غور کرو کہ کوئی مضمون دل میں مجرد عن الالفاظ آ ہی نہیں سکتا اور نہ القاء ہو سکتا ہے۔ تخیل یا تصور کسی مضمون کا مستلزم ان الفاظ کے تخیل یا تصور کا ہے جن کا وہ مضمون مدلول ہے مضمون کا الفاظ سے مجرد ہونا محالات عقلی سے ہے اور اس لئے قرآن مجید بلفظہ آنحضرت کے قلب پر القاء ہوا تھا اور وھی الفاظ اور اسی نظم سے جس طرح القاء ہوئے تھے آنحضرت نے لوگوں کو پڑھ سنایا 5الاصل الخامس قرآن مجید بالکل سچ ہے کوئی بات اس میں غلط یا خلاف واقع مندرج نہیں ہے خود قرآن میں ہے۔ وانہ لکتاب عزیز لا یاتیہ الباط من بین یدیہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید (سورہ فصلت الم سجدہ آیت41) اور حکایتاً کسی قول کا نقل کرنا صرف بغرض بیان یا بغرض تردید یا لوگوں کے اعتقادات کو جو منافی مقصد قرآن کے نہیں ہیں بلا بحث ان کی اصلیت اور واقفیت کے تسلیم کر کے ان پر استدلال کرنا یا بطور حجت الزامی کے پیش کرنا یا امور ظاہر الوقوع کو ان کی ظاہری حالت پر بلا ان کی اصلی لمیت پر بحث کے بیان کرنا یا کلام غیر مقصود بالذات کا اثنائے کلام میں آنا قرآن مجید کی صداقت کے منافی نہیں ہے۔ 6الاصل السادس صفات ثبوتی اور سلبی ذات باری کے جس قدر قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں سب سچ اور درست ہیں مگر ان صفات کی ماہیت کا من حیث ھی ھی جاننا مافوق عقل انسانی ہے اسی لئے وہ صفات جس کیفیت یا جس حیثیت سے ہمارے ذہن میں ہیں اور جن کو ہم نے ممکنات سے اخذ کیا ہے بعینہ وبحیثیتہ ذات باری پر جو واجب الوجود ہے منسوب نہیں کر سکتے اور صرف یہ کہتے ہیں کہ ان صفات سے جو معنی مصدری ہیں وہ ذات باری میں موجود ہیں، یعنی علم، ایجاد، قدرت، حیات الی غیر ذلک اور نیز ان صفات کا ذات واجب الوجود یا علۃ العلل میں ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔ 7الاصل السابع صفات باری عین ذات ہیں اور وہ مثل ذات کے ازلی و ابدی ہیں اور مقتضائے ذات ظہور صفات ہے بای وجہ کان و بای شان یکون علمائے متکلمین کا یہ مذہب ہے کہ صفات باری نہ عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات، مگر فلاسفہ الہین عین ذات سمجھتے ہیں اور اسی لئے ان کا ظہور مقتضائے ذات قرار دیتے ہیں، مگر یہ سب نزع لفظی ہے اور نتیجہ واحد ہے ہاں اس میں شبہ نہیں کہ متکلمین نے جو امر اختیار کیا ہے اس کے لئے حجت ساطع اور برھان قاطع نہیں ہے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تفہیمات الیہہ میں فرماتے ہیں کہ ان نزاع الفلاسفہ والمتکلمین فے ان اللہ تعالیٰ خالق بالاختیار او با لا بجاب لیس فے معارک المعنی فی شیئی لما کان الارادۃ عند الفلاسفہ عین الذات کان الابداع ایجابا 8الاصل الثامن تمام صفات باری کی نا محدود اور مطلق عن القیود ہیں یفعل ما یشاء و یحکم ما یرید پس وہ ان وعدوں کے کرنے کا مختار تھا جن کو اس نے کیا ہے اور اس قانون فطرتکے قائم کرنے کا بھی مختار تھا جس پر اس نے کسی کائنات کو بنایا ہو یا اس موجودہ کائنات کو بنایا ہے یا آئندہ اور کسی صورت میں بنا دے، مگر اس وعدہ اور قانون فطرت میں جب تک کہ قانون فطرت قائم ہے تخلف محال ہے اور اگر ہو تو ذات باری کی صفات کاملہ میں نقصان لازم آتا ہے اور ان وعدوں کا کرنا اور قانون فطرت پر کائنات قائم کرنا اس کی قدرت کاملہ کا ثبوت ہے اور ان کے ایفا سے جس کا خود اس نے اپنے اختیار سے وعدہ کیا ہے اس کی قدرت کے مطلق عن القیود اور نا محدود ہونے کی معارض نہیں ہو سکتا۔ قال اللہ تعالیٰ: وعد اللہ الذین امنو وعملو الصالحات لھم مغفرۃ واجر عظیم والذین کفرو اوکذبو با یاتنا اولئک اصحاب الجحیم آیت12,13 سورہ المایدہ 5) وعد اللہ المنافقین والمنافقات والکفار نار جہنم خالدین فیہا (آیت29 سورہ التوبہ 9) وعد اللہ المومنین والمومنات جنات تجری من تحتھا الانھار خالد بن فیھا (آیت73سورہ التوبہ9) جنات عدن ن التی وعد الرحمن عبادہ بالغیب انہ کان وعدہ ماتیا (آیت21 سورہ مریم 19) وقالو الن تمسنا النار الا ایاما معدو دات قل اتخذتم عند اللہ عھدا فلن یخلف اللہ عھدہ ام تقولون علے اللہ ما لا تعلمون (آیت74 البقر 2) ونادی اصحاب الجنۃ اصحاب النار ان قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا فھل وجدتم ما وعد ربکم حقا قالو نعم (آیت42 الاعراف 7) ولو لا کلمۃ سبقت من ربک لقضی بینہم (آیت45 فصلت 41 حم السجدہ) ان اللہ لا یخلف المیعاد (آیت7آل عمران3) کان وعدہ مفعولا (آیت18مزمل73) فاصبر ان وعداللہ حق (آیت57و77 ورہ المومن40) ان آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور تخلف وعدہ نہیں ہونے کا اور باوجود ان وعدوں اور ان کی عدم تخلف کے جا بجا اپنے تئیں قادر مطلق اور فعال لما یرید بیان کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وعدہ اور عدم تخلف وعدہ اس کے قادر مطلق ہونے اور اس کی صفات کے مطلق عن القیود ہونے کے منافی نہیں ہے۔ یہی حال قانون فطرت کا ہے جس پر یہ کائنات بنائی گئی ہے پہلا قولی وعدہ ہے اور قانون فطرت عملی وعدہ اس قانون فطرت میں سے بہت کچھ خدا نے ہم کو بتایا ہے اور بہت کچھ انسان نے دریافت کیا ہے گو کہ انسان کو ابھی بہت کچھ دریافت نہ ہوا ہو اور کیا عجب ہے کہ بہت کچھ دریافت نہ ہو، مگر جس قدر دریافت ہوا ہے وہ بلا شبہ خدا کا عملی وعدہ ہے جس سے تخلف قولی وعدہ کی تخلف کے مساوی ہے جو کبھی نہیں ہو سکتا۔ خدا نے فرمایا ہے انا کل شیئی خلقناہ بقدر (آیت49قمر54) پس جس اندازہ پر خدا نے چیزوں کو پیدا کیا ہے اس سے تخلف نہیں ہو سکتا۔ پھر خدا فرماتا ہے ولکل امہ اجل فاذا جاء اجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون (آیت 32 اعراف7) پس ممکن نہیں ہے کہ جو وقت جس چیز کے لئے مقرر ہے وہ کسی طرح ٹل سکے۔ پھر خدا فرماتا ہے فاقم وجھک للدین حنیفا فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لا یعلمون (آیت29 الروم30) پس جس فطرت پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے اس کی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ دوسری جگہ فرماتا ہے لا تبدیل لکلمات اللہ (آیت25یونس10) ہمارے نزدیک کلمات اللہ اور خلق اللہ دو مترادف الفاظ ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ فطرت میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ پھر فرمایا ہے ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلاً (آیت26احزاب33) پس جو طریق کہ خدا نے مقرر کیا ہے اس میں تبدل نہیں ہو سکتا۔ تو یہ عام ہدایتیں نسبت قانون فطرت کے تمہیں مگر خدا نے ہم کو خاص خاص قانون فطرت بھی بتائے ہیں اور فرمایا ہے کہ: لقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین ثم جعلنہ نطفۃ فی قرار مکین ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃ فخلقنا المضغۃ عظا ما فکسونا العظام لحما ثم انشانا خلقا اخر فتبارک اللہ احسن الخالقین (آیت12-14 المومنین 23) دوسری جگہ فرماتاہے کہ فانا خلقنا کم من تراب ثم من نطفۃ ثم من علقۃ ثم من مضغۃ مخلقۃ و غیر مخلقۃ لنبن لکم و نقرفی الارحام ما نشاء الی اجل مسمی ثم نخرجکم طفلا ثم لتبلغوا اشد کم ومنکم من یتوفی و منکم من یردا الی ارذل العمر لکیلا یعلم من بعد علم شیا (آیت5 الحج22) ایک جگہ فرماتا ہے من ایاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنو الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ ان فی ذلک لایات لقوم یتفکرون (آیت20الروم30) علاوہ ان کے اور بہت سی آئتیں اسی مضمون کی ہیں جن میں ہم کو قانون فطرت نے یہ بتایا ہے کہ جوڑے سے یعنی زن و مرد سے اور نطقہ کے ایک مدت معین تک مقرر جگہ میں رہنے سے انسان پیدا ہوتا ہے پس اس قانون فطرت کے بر خلاف اسی طرح نہیں ہو سکتا جس طرح کہ قولی وعدہ کے بر خلاف نہیں ہو سکتا۔ ایک جگہ فرمایا ہے وایۃ لھم اللیل نسلخ منہ النھار فاذا ھم مظلمون والشمس تجری لمستقر لھا ذلک تقدیر العزیز العلیم والقمر قدرنا منازل حتی عاد کالعرجون القدیم لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر ولا الیل سابق النہار و کل فی فلک یسبحون (آیت37-40 سورہ یس36) پس نہیں ہو سکتا کہ سورج خلاف قانون فطرت جس طرح کہ وہ چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے کسی کے لئے چلنے سے ٹھہر جاوے اور چاند اپنی منزلیں طے کرتا ہوا جس طرح ہلال ہوا تھا پھر ہلال نہ ہو، نہ یہ ہو سکتا ہے کہ سورج اور چاند ٹکرا جاویں، نہ یہ ہو سکتا ہے کہ رات دن گڈ مڈ ہو جاویں اور جبکہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ سورج کا چلنا زمین کی حرکت سے دکھائی دیتا ہے تو اسی آیت سے لازم آتا ہے کہ یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ زمین حرکت کرنے سے کسی وقت کسی کے واسطے ٹھہر جاوے۔ ایسا ہونا خلاف قانون فطرت کے ہے اور وہ ویسا ہی نا ممکن ہے جیسے کہ قولی وعدہ کے برخلاف ہونا نا ممکن ہے۔ پھر خدا نے ابراہیم کی زبان سے یہ قانون قدرت بتلایا کہ فان اللہ یاتی بالشمس من المشرق فات بھا من المغرب فبھت الذی کفر (آیت260البقر2) پس یہ بات غیر ممکن ہے کہ جب تک یہ قانون فطرت قائم ہے، سورج شرق سے طلوع نہ کرے اور اسی کے ساتھ یہ بھی نا ممکن ہے کہ زمین مغرب سے مشرق کی طرف اپنے محور پر گردش نہ کرے، اس کے بر خلاف ہونا ایسا ہی نا ممکن ہے جیسے کہ قولی وعدہ کے بر خلاف ہونا نا ممکن ہے۔ ایک جگہ ابراہیم کے قصہ میں فرمایا ہے فما کان جواب قومہ الا ان قالو اقتلوہ اوحرقوہ فانجا اللہ من النار (آیت23 عنکبوت29) فانجاہ اللہ من ا لنار سے ثابت ہوتا ہے کہ احراق خاصہ نار کا ہے۔ اور ایک جگہ تمثیل میں فرمایا ہے فاصا بھا اعصار فیہ نارفا حترقت (آیت268 البقر2) پس ان دونوں آیتوں سے خدا نے ہم کو قانون فطرت یہ بتایا کہ آگ جلا دینے والی ہے پس جب تک یہ قانون فطرت قائم ہے اس کے بر خلاف ہونا ایسا ہی نا ممکن ہے جیسے کہ قولی وعدہ کے بر خلاف ہونا نا ممکن ہے۔ ایک جگہ موسیٰ کے قصہ میں فرمایا ہے کہ واذ فرقنا بکم البحر فانجینا کم واغرقنا ال فرعون وانتم تنظرون آیت47البقرہ 2 ایک جگہ فرمایا ہے فاغرقنا ہم فی الیم بانھم کذبو با یاتنا وکانو عنھا غافلین (آیت132 اعراف7) ایک جگہ فرمایا ہے وقوم نوح لما کذبو الرسل اغرقناھم وجعلنا ہم للناس ایۃ (آیت39 فرقان 25) ان آیتوں میں اور ان کی مثل بہت سی آیتوں میں خدا نے یہ قانون فطرت بتایا کہ پانی میں بوجھل چیز ڈوب جاتی ہے پس جب تک یہ قانون قدرت قائم ہے پانی سے یہ فطرت معدوم نہیں ہو سکتی اس کا معدوم ہونا ایسا ہی نا ممکن ہے جیسے کہ قولی وعدہ کے بر خلاف ہونا نا ممکن ہے۔ ایک جگہ خدا فرماتا ہے ھو الذی ارسل الریاح بشرا بین یدی رحمتہ وانزلنا من السماء ماء طہورا النحیی بہ بلدۃ میتا و نسقیہ مما خلقنا انعاما واناسی کثیرا (آیت50 فرقان 25)۔ پس یہ نہیں ہو سکتا کہ بغیر بادل کے پانی برسے اور فواید مینہ کے جو خدا نے بیان کئے ہیں وہ اس سے حاصل نہ ہوں ان کے خلاف ہونا ایسا ہی نا ممکن ہے جیسے کہ قولی وعدہ کا بر خلاف ہونا نا ممکن ہے۔ یہ چند آیتیں ہم نے بطور مثال کے لکھی ہیں، ان کے سوا اور بہت کچھ قرآن مجید میں آیا ہے اور خدا نے ہم کو قانون فطرت بتایا ہے۔ علاوہ اس کے انسان نے ان چیزوں کے تجربہ سے جو خدا نے پیدا کی ہیں اس کی مخلوقات کے قانون فطرت کو معلوم کیا ہے اور بے شبہ وہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے مخلوقات کے تمام قوانین فطرت کو دریافت کر لیا ہے ان میں سے بہت سے ایسے محققہ ہیں جو درجہ یقین کو پہنچ گئے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو ابھی د رجہ یقین کو نہیں پہنچے اور معلوم نہیں کہ ابھی تک کس قدر نا معلوم ہیں۔ جو کچھ کہ ہم نے قرآن مجید کی آیتوں سے قانون فطرت بتایا ہے اس پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ قانون فطرت عام نہیں ہے بلکہ اس میں مستثنیات بھی ہیں لیکن اس کے ذمہ ان مستثنیات کا قرآن مجید سے ثابت کرنا لازم ہو گا مگر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن مجید سے اس قانون فطرت میں مستثنیٰ ہونا ثابت نہیں ہوتا جس کو ہم آئندہ بیان کریں گے۔ جو قانون فطرت کہ انسان نے تجربہ سے قائم کیا ہے اس کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ جب کہ تمام قانون فطرت ابھی تک نا معلوم ہیں تو ممکن ہے کہ کوئی قانون فطرت ایسا ہو جس سے مستثنیات ثابت ہوتے ہوں، مگر یہ کہنا کافی نہیں ہے اس لئے کہ امکان عقلی تو کوئی شے وجودی نہیں ہے صرف ایک خیال غیر محقق الوقوع ہے وان الظن لا یغنی من الحق شیئا علاوہ اس کے امکان کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جو کبھی ہو اور اس پر امکان کا اطلاق غلط اور محض مفسلہ ہے غرض کہ جو شخص قانون فطرت میں مستثنیات کا مدعوی ہو اس کو ان مستثنیات کے کبھی واقع ہونے کو ثابت کرنا بھی لازم ہے۔ 9الاصل التاسع قرآن مجید میں کوئی امر ایسا نہیں ہے جو قانون فطرت کے بر خلاف ہو واما المعجزات فقد ثبت من القران انہ علیہ الصلوۃ والسلام ما ادعی باحد من المعجزات و قال علیہ السلام انما انا بشر مثلکم یوحی الی انما الھکم الہ واحد و قال علیہ السلام فی موضع اخر انما انا بشیر و نذیر ولھذا قال المحقق الاجل الشاہ ولی اللہ فی التفھیمات الا لیہہ ولم یذکر اللہ سبحانہ شیئاً من المعجزات فی کتابہ و لم یشر الیھاقط مگر شاہ صاحب کے اس قول سے یہ بات سمجھنی مشکل ہے کہ ان کی مراد اس نفی سے کیا ہے آیا ان کا یہ مطلب ہے کہ قرآن مجید میں کسی نبی کے کسی معجزہ کا ذکر نہیں ہے یا صرف آنحضرت صلعم کے کسی معجزہ کا ذکر نہیں ہے، مگر ہم تنزنا قبول کرتے ہیں کہ ان کا مطلب صرف آنحضرت صلعم کے کسی معجزہ کا ذکر نہ ہونے سے ہے، مگر ہم کو دیکھنا چاہئے کہ ان کا قول نسبت معجزات کے کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ! فاللہ سبحانہ احدی مجرد من الصفات فی مرتبہ واحدۃ ولحاظ واحد و مقرون بالصفات فی مرتبہ اخری و لحاظ اخر و علی ھذا القیاس ان مواطن نفس الامر متفاوتہ منھا مواطن الاسباب وفیہ العلۃ و المعلول فقط والسبب والمسبب فحسب و من المتحقق عن نا انہ لم یترک الاسباب قط ولن یترک و لن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا وانما المعجزات والکرامات امور اسبابیۃ غلب علیھا السبوغ فبانیت سسائر الاسبابیات (تفھیبات الھیہہ صفحہ53) پس شاہ صاحب معجزات کو مسبب یا سباب سمجھتے ہیں اور اس قول پر معجزات کا وقوع قانون فطرت کے مطابق ہوتا ہے اور ہم کو اس میں کچھ بحث نہیں ہے بحث اس میں ہے جب کہ معجزات کو مافوق الفطرت قرار دیا جاوے جس کو انگریزی میں ’’ سپر نیچرل‘‘ کہتے ہیں اور اس سے انکار کہتے ہیں اور ان کا وقوع ایسا ہی نا ممکن قرار دیتے ہیں جیسے کہ قولی وعدہ کا ایفا نہ ہونا اور علانیہ کہتے ہیں کہ کسی ایسے امر کے واقع ہونے کا ثبوت نہیں ہے جو مافوق الفطرت ہو اور جس کو تم معجزہ قرار دیتے ہو اور اگر بفرض محال خدا کی قدرت کے حوالہ پر اس کو تسلیم بھی کریں تو وہ ایک بے فائدہ امر ہو گا جو نہ مثبت کسی امر کا ہے اور نہ مسکت للخصم۔ بے شک ہمارے بعض اخوان کو اس پر غصہ آوے گا اور قرآن مجید میں سے بعض امور کو معجزہ قرار دے کر ان کو مافوق الفطرت سمجھ کر پیش کریں گے اور کہیں گے کہ قرآن مجید میں معجزات مافوق الفطرت موجود ہیں۔ ہم ان کے اس قول کو نہایت ٹھنڈے دل سے سنیں گے اور عرض کریں گے کہ جو آیت قرآن مجید کی آپ پیش کرتے ہیں اور اس سے معجزات مافوق الفطرت پر استدلال فرماتے ہیں آیا اس کے کوئی دوسرے معنی بھی ا یسے ہیں جو موافق زبان و کلام عرب کے اور موافق محاورات اور استعارات قرآن مجید کے ہو سکتے ہیں۔اگر نہ ہو سکتے ہوں تو ہم قبول کریں گے کہ ہمارا یہ اصول غلط ہے اور اگر ہو سکتے ہوں تو ہم نہایت ادب سے عرض کریں گے کہ آپ اس بات کو ثابت نہیں کر سکے کہ قرآن مجید میں معجزات مافوق الفطرت موجود ہیں اگر وہ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں مفسرین کے اقوال پیش کریں یا یہ کہیں کہ تیرہ سو برس سے کسی نے صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین یا علماء مجہدین و مفسرین نے یہ معنی نہیں کہے، بلکہ خدا بھی یہ معنی نہیں سمجھا جو تم کہتے ہو تو ہم ادب سے عرض کریں گے کہ اس دلیل سے ہم کو معاف رکھئے اور صرف یہ بتائیے کہ قرآن مجید کے الفاظ سے اور ان محاورات اور استعارات سے جو قرآن مجید میں آئے ہیں وہ معنی جو ہم نے بیان کئے صحیح ہوئے ہیں یا نہیں۔ غرضیکہ جب تک وہ ہم کو یہ ثابت نہ کریں کہ اس آیت کے جو انہوں نے پیش کی ہے اور کوئی معنی بجز اس کے جو وہ بیان کرتے ہیں ہو ہی نہیں سکتے اور وہ آیت مافوق الفطرت ہونے پر نص صریح ہے اس وقت تک ہم اس کا مافوق الفطرت ہونا تسلیم نہیں کریں گے، لیکن کسی آیت کے کوئی معنی بیان کرنا اور اس کی صحت کے لئے خدا کے قادر مطلق ہونے پر حوالہ کرنا صحیح نہ ہو گا کیونکہ ہمارے نزدیک خدا بموجب اپنے وعدہ کے سب کام اس قانون قدرت کے مطابق کرتا ہے جو اس نے بنایا ہے۔ واما ماھیۃ نفس الانسان والقوی المودعۃ فیھا وما یکون لھا بعد الموت من حشر الاجساد و غیر ھا و کیف یکون یوم الاخرۃ وما حقیقت الجنۃ والجحیم و ما کیفۃ نعیمھا وعقابھا فکلھا خارجۃ عن فھم الانسان لا نھا مالا عین رایت ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر ولھذا سبحانہ جل شانہ بینھا بمثال یلیق بفھم الانسان و بین نعیمھا علی افضل ما یرغب بہ الانسان و عقابھا علی اکبر ما یدھش بہ فکلھا لیست بخارجۃ عن قانون الفطرۃ بل کلھا امثال استعارات لا حوالھا و نعیمھا و عقابھا لکی یتخیل بھا الانسان نوع تخیل ما فیہ و ما بعد الموت وما نعیمیھا وما عقابھا و ھذا سیاق الکلام المجید فی ضرب الامثال فی امور شتی لتفھیم الانسان و توضیح البیان بقدر الامکان ولا یخفی ھذا علی من قرا القرآن بالا معان فقدیر ھذا قولی فی القطرۃ التی قدرھا اللہ سبحانہ تعالیٰ لکنا لا نخد صفات الباری بحد بل نقول ان یشاء یذھب السموات والارض وما بینھما لاجل اجل لھاویات باخرین علی ای فطرت یشاء کما قال اللہ تعالیٰ وللہ مافی المسوات وما فی الارض و کفی باللہ وکیلا ان یشاء یذھبکم ایھا الناس ویات باخرین و کان اللہ علی ذلک قدیرا (آیت132نسائ4) 10الاصل العاشر قرآن مجید جس قدر نازل ہوا ہے بتہامہ موجود ہے، نہ اس میں سے ایک حرف کم ہوا ہے نہ زیادہ ہوا ہے۔ وتوا ترت علیہ جیل بعد جیل فی قرن بعد قرن الی زماننا ھذا وقال اللہ تعالیٰ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (آیت9 الحجر15) 11الاصل الحادی عشر ہر ایک سورہ کی آیات کی ترتیب میرے نزدیک منصوص ہے اذا نزلت الایات اشار رسول اللہ صلعم انھا من سورۃ کذابعد آیتہ کذا و حفظھا الحفاظ فی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی ھذا الترتیب ولم یزل الصحابۃ والتابعون ومن بعد ھم یقرون القران علی ھذا فثبت ترتیب الایات علی ھذا المنوال من التواتر جیلا بعد جیل و قرنا بعد قرن الی زماننا ھذا اور یہی قول شاہ ولی اللہ صاحب کا ہے جہاں فوز الکبیر میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ’’ در زمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر سورتی علیحدہ محفوظ و مضبوط بود‘‘ 12الاصل الثانی عشر قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ نہیں ہے یعنی اس کی کوئی آیت کسی دوسری آیت سے منسوخ نہیں ہوئی ولیس فی القرآن نوع من الاشارۃ علی ھذا واما آیتہ ما ننسح من ایۃ اوننسھانات بخیر منھا اومثلھا متعلقۃ بشرایع ما قبل الاسلام لا بایات القرآن ولا شک ان اھل الکتاب من الیھود والنصاری والمشرکین لا یودون من احکام الاسلام ما خالف شرایعھم فذکرہ سبحانہ تعالیٰ اولا و قال ما یود الذین کفروا من اھل الکتاب والا المشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم واللہ یختص برحمۃ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم ثم قال ما ننسخ من ایۃ او ننسھانات بخیر منھا اومثلھا الم تعلم ان اللہ علی کل شئی قدیر (آیت99-100 البقرہ2) فظاھران النسخ المذکور فی الایۃ المذکورۃ متعلق بشرایع ما قبل الاسلام لا بایات القرآن ولا دلیل علی ان المراد بلفظ الایۃ فی قولہ واذا بدلنا آیۃ مکان آیۃ (آیت103النحل6) آیات القرآن ولا دلیل علی ان قولہ یمحوا اللہ ما یشاء و یثبت وعندہ ام الکتاب (آیت39 الرعد13) متعلق ینسخ آیات القرآن فتدبر 13الاصل الثالث عشر قرآن مجید دفعۃ واحدۃً نازل نہیں ہوا ہے،بلکہ نجماً نجماً نازل ہوا ہے قال اللہ تعالیٰ و قرانا فرقنہ لتقراہ علی الناس علی مکت ونزلہ تنزیل (آیت107 بنی اسرائیل 17) وقتاً فوقتاً واقعات پیش آنے سے روح القدس یعنی ملکہ نبوت کو انبعاث ہوا اور اس کے سبب سے وحی نازل ہوئی پس وہ مختلف اوقات کے کلام کا مجموعہ ہے جو خدا نے وقا فوقا بمقۃ صائے اس وقت کے نازل کیا ہے اور بطور ایک تصیف کی ہوئی کتاب کے نہیں ہے جس میں اول مصنف ابواب و فصول کو تقسیم کر کے اس کے مضامین کو ترتیب خاص سے مرتب کرنا ہے شاہ ولی اللہ صاحب فوز الکبر میں لکھتے ہیں کہ ’’ قرآن رابردس متون میوب و مفصل ساختہ نشدہ است تاھر مطلبے ازان دربا بے یا فصلے مذکورہ شود بلکہ قرآن رامانند مجموعہ مکتوبات فرض کن چنانکہ بادشاھان برعا بائے خود بحسب اقتضائے حال مثال مینو یسند و بعد زمانے مثال دیگر و علی ھذا القیاس تا آنکہ امثلہ بسیار جمع شود شخصے آن امثلہ راتدوین کند و مجموعہ مرتب سازد ہمچنیں ملک علی الاطلاق بر پیغمبر خود صلی اللہ علیہ وسلم برائے ہدایت بندگان بحسب افتضاے حال سورۃ بعد سورۃ نازل فرمود و در زمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر سور نے علیحدہ محفوظ و مضبوط بوداما سورتہا تدوین نفر مودند و درزمان حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہمہ سورتہا دریک مجلد بترتیب خاص جمع نمود نداوابن مجموع بمصحف مسمی شد (فوز الکبیر صفحہ73‘‘ قرآن مجید کا نجماً نجماً نازل ہونا اور وقتاً فوقتاً واقعات کے پیش آنے پر ملکہ نبوت کا انبعاث ہونا اور وحی کا نازل ہونا ایک طبعی امر ہے انسان کے دماغ میں متعدد قسم کے علم و فنون کا ملکہ موجود ہوتاہے مگر بغیر محرک کے وہ ملکہ تحریک میں نہیں آتا۔ پس قرآن مجید کا اس سوال پر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ایک تصنیف کی ہوئی کتاب نہیں ہے جس کے مضامین کو مصنف پہلے سے سوچ کر اور اپنی مرضی کے موافق کتاب مرتب کرتا ہے۔ قرآن مجید کے اوقات مختلفہ کے کلام کے مجموعہ ہونے پر یہ بھی دلیل ہے کہ جس طرح مختلف اوقات میں لام کرتے ہیں اور اس وقت بمققضائے محل اور بغرض مزید تنبیہہ اشخاص کے اس کلام کے دھرانے کی ضرورت پڑتی ہے جو کسی پہلے وقت میں کہا گیا تھا بعض مضمون کو جو مہتمم بالشان ہیں ہر دفعہ کے کلام میں بار بار جتلانا پڑتا ہے بعض دفعہ کسی قصہ کی تلمیح کرنی ہوتی ہے بعض دفعہ کسی قصہ کے اسی جزو کا بیان کافی ہوتا ہے جو اس وقت کے کلام کے لئے ضرور ہے بعض دفعہ کسی قصہ کو بالا جمال اور بعض دفعہ زیادہ تفصیل سے بیان کرنا مقتضائے کلام ہوتا ہے، غرض کہ ہر ایک امر جو مختلف اوقات میں کلام کرنے میں پیش آتا ہے کہ قرآن ا یک تصنیف کی ہوئی کتاب نہیں ہے اور جب کہ اس میں صرف کلمات وحی ہی لکھے گئے ہیں تو مبادی کلام جس سے وحی متعلق ہے اس میں شامل نہیں ہیں اور اس سبب سے بعض مقامات قرآن مجید میں بلکہ متعدد ایسے ہیں کہ ایک مقصد بیان کرتے کرتے دوسرا مطلب بیان ہونے لگا ہے جو ایک نیا یا اجنبی معلوم ہوتا ہے حالانکہ وہ ایس انہیں ہے بلکہ مبادی کلام کے مندرج نہ ہونے سے ایسا معلومہ وتا ہے بعض دفعہ قرینہ حالیہ کسی کلام کے مقتضا پر دلالت کرتا ہے اور متکلم بغیر اس کے کہ اپنے کلام میں اس کی طرف اشارہ کرنے کی ضرورت سمجھے اپنا کلام شروع کر دیتا ہے اور جبکہ صرف متکلم ہی کا کلام بلا بیان اس قرینہ حالیہ کے لکھا جاوے تو جو دلالت کلام کی قرینہ حالیہ سے پائی جاتی تھی وہ اس میں نہیں ہوتی اور اس لئے اس کی تلاش یا تعین کی ضرورت پڑتی ہے اسی بنیاد پر علماء اسلام آیات کی شان نزول تفتیش کرنے پر توجہ کی ہے جس کی بنیاد صرف روایات ضعیف پر ہے اور اس لئے زیادہ پر امن طریقہ یہ ہے کہ جہاں اس کی ضرورت ہو حتی المقدور صرف قرآن مجید کے سیاق و سباق کلام سے اور اس کی طرف ادائے کلام سے اس کو تلاش کیا جاوے اور جو اصول کہ قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں ان کو ہر ایسے مقام پر ملحوظ رکھا جاوے۔ 14الاصل الرابع عشر موجودات عالم اور مصنوعات کائنات کی نسبت جو کچھ خدا نے قرآن مجید میں کہا ہے وہ سب ہو ہو یا بحیثیتہ من الحیثیات مطابق واقع ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کا قول اس کی مصنوعات کے مخالف ہو یا مصنوعات اس کے قول کی مخالف ہوں بعض جگہ ہم نے قول کو ورڈ آف گلڈ اور اس کی مصنوعات کو ورک آف گاڈ سے تعبیر کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ ورڈ آف گاڈ اور ورک آف گاڈ دونوں کا متحد ہونا لازم ہے اگر ورڈ ورک کے کسی حیثیت سے مطابق نہیں ہے تو ایسا ورڈ، ورڈ آف گاڈ نہیں ہو سکتا۔ 15 الاصل الخامس عشر باوجود اس بات کے تسلیم کرنے کہ قرآن مجید بلفظہ کلام خدا ہے مگر جب کہ وہ عربی میں اور انسان کی زبان میں نازل ہوا ہے تو اس کے معنی اسی طرح پر لگائے جاویں گے جیسے کہ ایک نہایت فصیح عربی زبان میں کلام کرنے والے کے معنی لگائے جاتے ہیں اور جس طرح کہ انسان استعارہ و مجاز و کنایہ و تشبیہ و تمثیل اور دلایل لمی و اقناعی و خطابی و استرای و الزامی کو کام میں لاتا ہے اسی طرح قرآن مجید میں بھی استعارہ و مجاز و کنایہ و تشبیہہ و تمثیل اور دلایل لمی و اقناعی و خطابی و استرای و الزامی سب موجود ہیں۔ علاوہ اس کے ہم کو ان اصول اور ان قولی اور عملی وعدوں پر غور کرنا ضرور ہوتا ہے جو خود خدا نے کئے ہیں اور اس طرز کلام اور طریق استعمال الفاظ کو دیکھنا لازم ہوتا ہے جو مخصوص قرآن مجید سے ہے اور جس کے لئے ہم کو ایک آیت کی تفسیر بیان کرنے میں دوسری آیت سے استمداد لینی پڑتی ہے۔ ہر ایک کلام کے معنی قرار دینے میں، وہ کلام کسی کا ہو، خواہ خدا کا یا انسان کا مندرجہ ذیل باتوں کا محقق ہونا ضرور ہے۔ (1) جس لفظ کے جو معنی قرار دئیے گئے ہیں اس کی نسبت جاننا چاہئے کہ وہ لفظ انہیں معنوں میں وضع کیا گیا ہے۔ (2) اس بات کا قرار دینا کہ جن معنوں میں وہ لفظ وضع کیاگیا تھا ان معنوں سے کسی دوسرے معنوں میں مستعمل نہیں ہوا ہے۔ (3) اگر وہ لفظ مشترک المعنی ہے تو اس بات کا قرار دینا لازم ہے کہ وہ ان مشترک معنوں میں سے کس معنی میں استعمال کیا گیا ہے ضمایر جن کا مرجع مختلف ہو سکتا ہو وہ بھی الفاظ مشترک المعنی میں داخل ہیں۔ (4) اس بات کو قرار دینا ضرور ہے کہ وہ ان اصلی معنوں میں بولا گیا ہے جو اس سے متبادر ہوتے ہیں یا مجازی معنوں میں (5) اس بات کو قرار دینا کہ اس کلام میں کوئی شے مضمر ہے یا نہیں (6) اس بات کو قرار دینا ضرور ہے کہ جن معنوں پر وہ لفظ دلالت کرتا ہے اس میں کوئی تخصیص بھی ہے یا نہیں (7) یہ بات دیکھنی لازم ہے کہ جو معنی اس لفظ کے قرار دئیے گئے ہیں اس پر کوئی عقلی معارضہ بھی ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو وہ معنی اس کے صحیح نہ ہوں گے اور یہ بات کوئی نئی نہیں ہے، بلکہ تمام علماء اسلام نے سینکڑوں مقاموں میں اس کی پیروی کی ہے مثلاً خدا کے عرش پر استوا ہونے میں، اس کے ہاتھ اور منہ اور ساق ہونے میں اور مثل ان کے اور بہت سے لفظوں کے اصلی معنی اسی لئے نہیں لئے گئے کہ دلیل عقلی ان کے بر خلاف تھی پس کوئی وجہ نہیں ہے کہ اور الفاظ کے ایسے معنی جو دلیل عقلی سے محال ہیں یا خود اس قانون فطرت کے مخالف ہیں جو خود خدا نے بیان کیا ہے یا تجربہ کے مخالف ہیں، چھوڑ کر دوسرے معنی نہ لئے جاویں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں الفاظ کے معنی معین و مستعمل تھے اور اگر ہم تسلیم کر لیں کہ وہی معنی بتواتر ہم تک پہنچے ہیں تو اس سے صرف امر اول کا تصفیہ ہو جاتا ہے، مگر اس بات کا تصفیہ کہ وہ لفظ دوسرے معنوں میں مستعمل نہیں ہوا اور اگر وہ مشترک المعنی ہے تو کون سے معنوں میں مستعمل ہوا ہے اور وہ مجازی معنوں میں مستعمل ہوا ہے یا نہیں الی غیر ذلک نہیں ہو سکتا۔ پس جب تک کہ ساتویں امر کی پیروی نہ کی جاوے جس کی پیروی بہت سے مقاموں میں علماء اسلام نے کی ہے نہ کسی انسان کے کلام کے معنی صحیح طور پر قرار دئیے جا سکتے ہیں نہ خدا کے کلام کے۔ قرآن مجید کے معنی قرار دینے میں ہم کو ایک اور مشکل یہ پیش آتی ہے کہ عرب جاہلیت کا کلام بہت کم ہم تک پہونچا ہے اور کچھ شک نہیں کہ اس میں سے بہت بڑا حصہ ضائع ہو گیا ہے اور علماء علم ادب اس بات کو خود تسلیم کرتے ہیں پس یہ امر قابل یقین نہیں ہے کہ اہل لغت اور علماء علم ادب نے جو معنی الفاظ کے لغت کی کتابوں میں اور اس کے محاورات اور استعارات کو لکھا ہے ان کے سوا اور کوئی معنی اور استعارات زمانہ جاہلیت اور خود زمانہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ تھے۔ بلاشبہ اس امر میں ہم مجبور ہیں اور بجز اس کے کہ قرآن مجید کے معنی قرار دینے میں موجودہ لغت کی کتابوں اور علم ادب کی کتابوں کی طرف رجوع کریں اور کچھ چارا نہیں ہے، لیکن اگر بالفرض ہم کو قرآن مجید سے کسی لفظ کا ایسے طور پر استعمال یا ایسے معنوں میں استعمال بطور یقین کے ثابت ہو جاوے جو کتب لغت یا علم ادب کی کتابوں میں نہ ملے تو ہم اس کے اختیار کرنے میں کوئی وجہ تامل کی نہیں پاتے اور ایسا کرنے میں ہم قرآن مجید کے ساتھ اس سے زیادہ کچھ نہ کریں گے جو کلام جاہلیت کے ساتھ کیا ہے، کیونکہ ہماری تمام لغت کی کتابوں اور علم ادب کی کتابوں کی بنیاد اسی بات پر ہے کہ ہم نے وہ معنی یا محاورہ کلام جاہلیت سے اخذ کیا ہے۔ (8) قرآن مجید کے معنی قرار دینے میں ہم کو ایک اور امر کا تصفیہ بھی لازم ہے کہ جس کلام پر ہم استدلال کرتے ہیں آیا وہ کلام مقصود ہے یا غیر مقصود کیونکہ اگر وہ کلام غیر مقصود ہے تو اس پر استدلال نہیں ہو سکتا کلام غیر مقصود قرآن مجید میں بہت جگہ پایا جاتا ہے اور انسان کے کلاموں میں بھی کلام غیر مقصود ہوتا ہے جس پر حجت قائم نہیں ہو سکتی مثلاً خدا کا یہ فرمانا کہ ان الذین کذبو با یاتنا واستکبر وانھا لا تفتح لھم ابواب السماء ولا یدخلون الجنۃ حتیٰ یلج الجمعل فی سم الخیاط (آیت38 اعراف7) اس سے یہ استدلال نہیں ہو سکتا کہ کسی وقت میں اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جاوے گا کیونکہ وہ کلام غیر مقصود ہے اور صرف ان لوگوں کے جنہوں نے خدا کے احکام کو جھٹلایا ہے جنت میں داخل ہونے کے عدم امکان کا بیان ہے اسی طرح اس آیت سے آسمان کے دروازوں کے ہونے پر بھی استدلال نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ کلام اس مقصد کے لئے نہیں بولا گیا ہے، بلکہ صرف خدا کی رحمت سے محروم رہنے کے مقصد سے بولا گیا ہے اسی طرح کلام غیر مقصود کی بہت سی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں اور ان کے اصلی معنوں پر استدلال نہیں ہو سکتا۔ اسی کے ضمن میں ایک بڑی بحث تاویل کی آتی ہے، یعنی جب کسی لفظ کے اصلی معنی نہیں بن سکتے تو دوسرے معنی اختیار کرتے ہیں جس سے قول قائل کا صحیح ہو جاوے، مگر میں اس مقصد سے تاویل کو قرآن مجید میں جائز نہیں سمجھتا اور میری رائے یہ ہے کہ تاویل اس کو کہتے ہیں جب کہ یہ متحقق ہو جاوے کہ قائل کا اس کلام سے در حقیقت یہ مطلب تھا اور وہ مقصد صحیح نہ ہو اور اس وقت اس کلام کے دوسرے معنی اختیار کئے جاویں تاکہ وہ کلام صحیح ہو جاوے اور اگر قائل کا در حقیقت وہی مقصد ہو جو بعد تاویل کے قرار دیا گیا ہے تو وہ تاویل نہیں ہے، بلکہ قائل کے اصلی مقصد کا ظاہر کرنا ہے۔ مثلاً قائل کا یہ قول کہ ’’ زید اسد‘‘ اگر قائل کا در حقیقت لفظ اسد سے حیوان معروف مراد ہو اور وہ زید پر صاق نہ آوے اور کوئی شخص خلاف مقصد اس فائل کے اس کے معنی شجاعت کے لئے تو در حقیقت یہ تاویل ہے اور اگر قائل نے اسد کے لفظ سے خود شجاعت ہی مراد لی ہو تو اسد سے شجاعت مراد لینا تاویل نہیں ہے بلکہ قائل کے اصلی مطلب کا اظہار ہے اسی طرح جب ہم قرآن مجید کے کسی لفظ کے اصلی معنی نہیں لیتے بلکہ مجازی معنی لیتے ہیں تو ہم اس کو تاویل نہیں کہتے اس لئے کہ ہم بقدر اپنی طاقت کے یہی سمجھتے ہیں کہ خدا نے ان ہی مجازی معنوں میں اس لفظ کو استعمال کیا ہے۔ قرآن مجید کے معانی بیان کرنے میں سب سے زیادہ دھوکا انسان کو ان مقامات میں پڑتا ہے جہاں قرآن میں قصص انبیاء سابقین بیان ہوئے ہیں۔ انبیاء سابقین کے قصے عہد عتیق کی کتابوں میں بھی آئے ہیں اور علمائے یہود نے بھی قصص انبیاء مستقل کتابوں میں لکھے ہیں جن میں بہت کچھ باتیں دور از عقل و خلاف قانون فطرت مندرج ہیں وہ قصے مشہور تھے اور ہمارے علماء بھی ان سے مانوس تھے اور ان کے عجائبات کو جو قانون فطرت کے بر خلاف تھے معجزات قرار دیتے تھے وہ قصے قرآن میں بھی بیان ہوئے ہیں اور وہ بیان بہت کچھ اسی کے مشابہ اور مماثل ہے جو ان قصوں کی نسبت بیان ہوا ہے، مگر قرآن مجید کے الفاظ ان قصوں میں اسی طرح آئے ہیں کہ ان سے وہ باتیں جو دور از عقل اور خلاف قانون قدرت ان قصوں میں مشہور تھیں ان کا ثبوت نہیں ہوتا ہمارے علماء متقدمین نے اس بات پر خیال نہیں کیا بلکہ جہاں تک ان سے ہو سکا قرآن مجید کے الفاظ کو ان قصوں پر بعینہ حمل کرنے پر کوشش کی اور اس کے کئی سبب تھے۔ اول یہ کہ ان قصوں کی کیفیت مشہورہ ان کے دل میں بسی ہوئی تھی، اسی لئے قرآن مجید کے ان الفاظ پر انہوں نے توجہ نہیں کی۔ دوسرے یہ کہ ان کے پاس ہر ایک عجیب چیز کو، گو وہ کیسی ہی قانون فطرت کے بر خلاف کیوں نہ ہو خدا کی قدرت عام کے تحت میں داخل کر دینے کا نہایت سہل طریقہ تھا اور اس سبب سے ان الفاظ کی حقیقت پر غور کرنے کو توجہ مایل نہیں ہوتی تھی۔ تیسرے یہ کہ ان کے زمانہ میں نیچرل سینز نے ترقی نہیں کی تھی اور کوئی چیز ان کو قانون فطرت کی طرف رجوع کرنے والی اور ان کی غلطیوں سے متنبہ کرنے والی نہ تھی پس یہ اسباب اور مثل ان کے اور بہت سے اسباب ایسے تھے کہ ان کی کافی توجہ قرآن مجید کے ان الفاظ کی طرف نہیں ہوئی۔ مثلاً ان کے زمانہ میں یہ مسئلہ ثابت نہیں ہوا تھا کہ طوفان نوح کا تمام دنیا میں عام ہونا اور پانی کا اونچے سے اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں سے بلند ہو جانا محلات سے اور خلاف واقع ہے اور اسی لئے ان کے خیال میں یہ بات نہ آئی کہ قرآن مجید میں جو الارض کا لفظ ہے اس میں الف لام استغراق کا نہیں ہے، بلکہ عہد کا ہے۔ حضرت ابراہیم کے قصے میں کوئی نص صریح اس بات پر نہیں ہے کہ در حقیقت ان کو آگ میں ڈال دیا گیا تھا، مگر انہوں نے اس بات پر خیال نہیں کیا۔ اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت میں کوئی نص صریح قرآن مجید میں موجود نہیں ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ اسی طرح حضرت یونس کے قصے میں اس بات پر قرآن مجید میں کوئی نص صریح نہیں ہے کہ در حقیقت مچھلی ان کو نگل گئی تھی ابتلع کا لفظ قرآن مجید میں نہیں ہے النقم کا لفظ ہے جس سے صرف منہ میں پکڑ لینا مراد ہے، کیونکہ جب کوئی لفظ تاکید کا اس کے ساتھ نہیں جیسے التقمہ فلقمہا تو التقم کے معنی ابتلع کے نہیں ہو سکتے اور اگر فرض کرو کہ بغیر لفظ تاکید کے بھی اس کے معنی ابتلع کے ہوں تو بھی لقم والتقم کے دو معنی ہیں ایک سرعۃ الاکل، دوسرے والتبا در علیہ اور ان دوسرے معنوں سے بلع ثابت نہیں ہوتا۔ پس دوسرے معنوں پر جو مطابق قانون فطرت کے تھے انہوں نے توجہ نہیں کی اور اس آیت میں کہ فلولا انہ کان من المسحین للبت فی بطنہ الی یوم یبعثون (آیت143-144 الصافات37) اس پر التفات نہیں کیا کہ لبت فی بطن الحوت کی نفی دو طرح متحقق ہو سکتی ہے اول اس طرح پر کہ مچھلی نے نگلا ہی نہیں، دوسرے اس طرح کہ نگلا ہو مگر اس کے پیٹ میں نہ ٹھہرے ہوں، مثلاً اگر کوئی کہے کہ اگر میں اس کو نہ بچاتا تو وہ قبر میں ہوتا اس کا مقصد صرف یہی ہے کہ قتل نہیں ہوا نہ یہ کہ قبر میں جا کر نگل آیا، مگر انہوں نے ان معنوں پر توجہ نہیں کی غرضیکہ اس قسم کی بہت سے مثالیں قرآن مجید میں ہیں ہم کو ضرور ہے کہ صرف الفاظ قرآن مجید کے پابند رہیں نہ ان قصوں کے جو یہود و نصاریٰ میں مذکور و مشہور ہیں شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ نقل از بنی اسرائیل پیشتر است کہ در دین ما داخل شد بعد از آنکہ لا تصد قوا اہل الکتاب ولا تکذ بواھم قاعدہ مقر راست پس دو چیز لازم آمد یکے آنکہ تعریض قرآں را در سنت حضرت پیغامبر صلی اللہ علیہ وسلم بیان یافتہ شود مرتکب نقل از اہل کتاب نباید شد مثلا چون محمل آیت‘‘ ولقد فتنا سلیمان و القینا علی کرسیہ جسدا ثم اناب درسنت نبویہ یافتہ می شو وآن قصہ ترک انشاء اللہ و مواخذہ بر آن است مرتکب ذکر سخرہ مارد چرا باید شد دویم آنکہ الضرورے تیقد بقدر الضرورۃ رادر نظر داشتہ قدر اقتضاء تعریض سخن باید گفت تا بشہادت قرآن تصدیق کردہ باشم و از زیادت زبان باید کشید 12(فوز الکبیر صفحہ97-98) ہم سے کہا جات اہے کہ قرآن مجید کے معنی اس طور پر قرار دینے ضرور ہیں جس طرح کہ ایک امی آدمی اس کے معنی سمجھ سکتا ہے، کیونکہ بدویین اور تمام قبائل عرب کے ان پڑھ تھے پس اس زمانہ کے اہل عرب جس طرح سیدھے طور پر الفاظ قرآن کے ظاہری معنی سمجھتے تھے اسی طرح ہم کو بھی قرآن کے معنی بیان کرنے چاہئیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی طرح کرتے ہیں کیونکہ الفاظ کے وہی معنی لیتے ہیں جو عرب جاہلیت سمجھتے تھے کلام جاہلیت ہی کی بنا پر صرف و نحو و لغت کی کتابیں بنی ہیں جن سے ہم قرآن مجید کے معنی بیان کرنے میں استمداد لیتے ہیں موجودہ علم ادب عربی زبان کا بدویین اور اہل عرب کے کلام کی بنا پر مبنی ہے مگر بحث اس پر آ جاتی ہے جب کہ بلحاظ علوم و فنون کے قرآن مجید پر توجہ کی جاتی ہے اور جس سے اہل عرب بالکل ناواقف اور عاری محض تھے اس حالت میں بھی ہم کوئی نئی بات پیش نہیں کرتے بلکہ خود موافق زبان اہل عرب کے قرآن مجید کے الفاظ کے ان معنوں پر متوجہ کرتے ہیں جو علوم کی ترقی کے سبب ہم کو صحیح و درست معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً اہل عرب بجز اس کے کہ جس پر وہ رہتے تھے اس کو ارض کہتے تھے اور جو نیلی نیلی چیز گنبد نما ان کے سر پر تھی اس کو سما جانتے تھے اور بحثوں سے جو علوم میں ان سے متعلق ہیں محض نا واقف تھے اور با ایں ہمہ جو نتیجہ ہدایت اور تعلیم روحانی اور وحدت و قدرت ذات باری کا قرآن مجید سے مقصود تھا وہ ان کو حاصل ہوتا تھا، مگر جب بلحاظ علوم کے قرآن کے الفاظ پر بحث کی جاوے تو اس وقت ان سے کہتے ہیں کہ الفاظ قرآن کے وہ معنی لینے جو مطابق زبان عرب کے اور ان علمی بحثوں کے مطابق ہیں کیوں نظر انداز کئے جاتے ہیں اور جو قانون فطرت خود خدا نے بتایا ہے اس کے مطابق وہ معنی جو کلام عرب کے مطابق بھی ہیں کیوں نہیں لئے جاتے۔ ہم سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید کا یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اس طرز کلام میں نازل ہوا ہے کہ امی اور عالم و جاہل و فلسفی کسی طرح پر اس کے معنی سمجھیں سیدھے سادہ طور پر با علمی و فلسفی طریقہ پر مگر نتیجہ میں سب متحد ہو جاتے ہیں کوئی کلام بجز قرآن مجید کے ایسا نہیں ہے کہ وہ جاہل اور امی محض کو بھی اسی نتیجہ پر پہونچا دے جس نتیجہ پر ایک عالم فلسفی کو پہونچاتا ہے اور ہر ایک بقدر اپنے علم اور استعداد کے اس سے فائدہ اٹھا کر ایک منزل مقصود پر پہنچتا ہے۔ ہم سے طعنا کہا جاتا ہے کہ جب حکمت و ہیئت و فلسفہ یونانی مسلمانوں میں پھیلا اور جو اس زمانہ میں بالکل سچ و صحیح اور مطابق حقیقت واقع سمجھا جاتا تھا، علماء اسلام نے قرآن مجید کے ان مقامات کی جو ان کے مطابق معلوم ہوتے تھے تائید کی اور ان مقامات کو جو بظاہر مخالف ان علوم کے معلوم ہوتے تھے ان کے مطابق کرنے پر کوشش کی، اب کہ معلوم ہوا کہ وہ علوم غلط اصول پر مبنی تھے اور ان کا علم ہیئت بالکل خلاف حقیقت تھا اور علم طبیعات اور نیچرل سینز نے زیادہ ترقی کی تو اب ان معنوں سے جو اگلے علماء نے مطابق یونانی علوم کے قرار دئیے تھے تخلف کرتے ہو اور دوسرے معنی اختیار کرتے ہو جو حال کے علوم کے مطابق ہیں اور کیا عجب ہے کہ آئندہ زمانہ میں ان علوم کو اور زیادہ ترقی ہو اور جو امور اس وقت محققہ معلوم ہوتے ہیں وہ غلط ثابت ہوں اس وقت قرآن مجید کے الفاظ کے دوسرے معنی قرار دینے کی ضرورت ہو گی دھلم جرا پس قرآن لوگوں کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہو جاوے گا۔ ہم اس طعنہ کو بطور ایک بشارت کے نہایت خوشی سے تسلیم ہیں کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ قرآن مجید حقیقت امور کے مطابق ہے کیونکہ وہ ورڈ آف گاڈ ہے اور بالکل ورک آف گاڈ یا اس کے مطابق ہے مگر اس میں بہت بڑا معجزہ یہ ہے کہ ہمارے ہر درجہ علم میں ان امور میں جن کی ہدایت کے لئے قرآن نازل ہوا ہے یکساں ہدایت کرتا ہے اس کے الفاظ ایسے اعجاز سے نازل ہوئے ہیں کہ جہاں تک ہمارے علوم کو ترقی ہوتی جاوے گی اور اس ترقی یافتہ علم کے لحاظ سے ہم اس پر غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ اس کے الفاظ اس لحاظ سے بھی مطابق حقیقت ہیں اور ہم کو ثابت ہو جاوے گا کہ جو معنی ہم نے پہلے قرار دئیے تھے اور اب غلط ثابت ہوئے وہ ہمارے علم کا قصور تھا نہ الفاظ قرآن مجید کا پس اگر ہمارے علوم کو آئندہ زمانہ میں ایسی ترقی ہو جاوے کہ اس وقت کے امور محققہ کی غلطی ثابت ہو تو ہم پھر قرآن مجید پر رجوع کریں گے اور اس کو ضرور مطابق حقیقت پاویں گے اور ہم کو معلوم ہو گا کہ جو معنی ہم نے قرار دئیے تھے وہ ہمارے علم کا نقصان تھا، قرآن مجید ہر ایک نقصان سے بری تھا۔ مثلاً فرض کرو کہ قرآن مجید سے ہم نے یہ سمجھا تھا کہ سورج زمین کے گرد پھرتا ہے جس سے طلوع و غروب ہوتا ہے اب معلوم ہوا ہے کہ سورج ساکن ہے اور زمین سورج کے گرد پھرتی ہے اب ہم قرآن مجید پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سورج کا پھرنا قرآن مجید میں بطور حقیقت واقع کے بیان نہیں ہوا، بلکہ علی ما یشھدہ الناس بیان ہوا ہے اور وہ سچ ہے۔ پس ہم نے جو اس کو بطور حقیقت واقع کے سمجھا تھا وہ ہماری غلطی تھی نہ قرآن مجید کی غرض کہ ترقی علوم سے ہم کو ان امور سے رجوع کرنا جو ہم نے پہلے نسبت قرآن کے قرار دئیے تھے اور قرآن مجید کا اس کے مطابق پانا جس کی طرف ہم نے بعد ترقی علم رجوع کی ہے ہمارے علم سابق کا نقصان اور قرآن مجید کے کامل ہونے کا ثبوت ہے مگر ہماری نسبت کسی قسم کی طعنہ زنی کا سبب نہیں۔ یہ بحثیں جہاں تک ہیں صرف ان امور سے متعلق ہیں جو علوم سے اور طبیعیات سے علاقہ رکھتے ہیں باقی رہے وہ امور جو روحانی تعلیم سے متعلق ہیں اور جن کو لا الہ الا اللہ و محمد رسول اللہ حاوی ہے، ہر وقت میں ایک حالت مستقل پر قائم ہیں اس میں نہ کبھی تبدل ہوا، نہ ہو گا، نہ ہونے کی حاجت جس کے لئے منطوق ایہ کریمہ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا شاہد عادل ہے۔ الان نختم الکلام و نقول ھذہ اصول معدودۃ من الاصول اللتی اسسنا علیھا تفسیر القرآن و نبین کلھا فی وقت اخر انشاء اللہ تعالیٰ سید احمد الہ آباد15نومبر1892ء ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End