اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید ۱۔ مضامین متعلق سوانح وسیر ۲۔ مضامین ادبی ۳۔ مضامین متعلق تنقید وتبصرہ جلدہفتم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقالات سرسید سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کو حاصل ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے اور اپنے پیچھے نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مضامین جہاں ادبی لحاظ سے وقیع ہیں، وہاں وہ پر از معلومات بھی ہیں۔ ان کے مطالعے سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مذہبی مسائل اور تاریخ عقدے حل ہوتے ہیں اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں اور سیاسی و معاشرتی لحاظ سے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ نیز بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی ان میں موجود ہیں سرسید کے ان ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا ہدف رہے ہیں ان مضامین میں علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی، مزاح بھی ہے اور طنز بھی، درد بھی ہے اور سوز بھی، دلچسپی بھی ہے اور دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے اور سرزنش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اور ہر قسم کے خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے، وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اور کہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات و رسائل کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام کے لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اور نا مکمل، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ گزر گیا مگر کسی کے دل میں ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا اور کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا آخر کار مجلس ترقی ادب لاہور کو ان بکھرے ہوئے بیش بہا جواہرات کو جمع کرنے کا خیال آیا مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں پرونے کے لیے مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا انتخاب کیا جنہوں نے پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میں دور و نزدیک کے سفر کیے فراہمی مواد کے لیے ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا، مگر چونکہ ان کی طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری باحسن طریق پوری کی چنانچہ عرصہ دراز کی اس محنت و کاوش کے ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں’’ مقالات سرسید‘‘ کی مختلف جلدوں کی شکل میں فخر و اطمینان کے جذبات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ جلاء القلوب بذکر المحبوب ؑ (سر سید کا ایک قدیم ترین نایاب مضمون) ۱۲۵۸ ھ مطابق ۱۸۴۲ ء میں سر سید نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک مختصر سوانح عمری ان عقائد و خیالات کے بموجب لکھی جو اس زمانہ میںعام طور پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات کے متعلق عوام میں پھیلے ہوے تھے۔ اپنے ابتدائی ایا م میں سر سید بھی ان ہی بیانات کو درست اور صحیح مانتے تھے اور ان کو کبھی اس بات کا خیال نہ آتا تھا کہ ان میں بیشتر من گھڑت واقعات اور فرضی کہانیاں ہیں جو محض مولود خوانوں کی اختراعات ہیں۔احادیث صحیحہ میںان کا کوئی وجود نہیں۔ تاہم سر سید کی مرتب کردہ اور سیرۃ میں وضعی روایات کا عنصر بہت کم ہے اور جو چند روایتیں اس قسم کی اس میں تھی ، ان کی نشان دہی سر سید نے خود اس وقت کر دی جب ان کے خیالات میں انقلاب پید اہوا اور تحقیق و تفتیش کے بعد ان کو ان فرضی روایات کی حقیقت اچھی طرح معلوم ہوگئی۔ اس کی تصریح سر سید نے اپنے اس ریویو میں کر دی ہے جو انہوں نے اس سوانح عمر ی پر ۱۸۷۸ ء میں کیا تھا اور جسے ہم اس سوانح عمری کے آخر میں شائع کر رہے ہیں۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ سوانح عمری سر سید نے ۱۲۵۸ ھ میںلکھی اور ۱۲۵۹ میں شائع کی تھی ۔ خوش قسمتی سے اس اشاعت کا ایک قدیم نسخہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری لاہور میں محفوظ ہ جو لیتھو میں چھپا ہوا ہے اور پراننی طرز کتابت اور قدیم اسلوب نگارش کا نہایت واضح نمونہ ہے۔ (ہم نے یہاں اس سوانح عمری کو جدید رسم الخط کے مطابق لکھا ہے ) قائرین کرام کی دلچسپی کے لیے اس نایاب سوانح عمری کے سرورق کی نقل دوسرے صفحہ پر پیش کی جارہی ہے ۔ لائبریری میں ا س سوانح عمری کا نمبر ۴۴II U.F ہے ہجری حساب کے مطابق آج سے ۱۲۲ برس پہلے کی یہ رتحریر امید ہے ناظرین دلچسپی کے ساتھ پڑھیں گے ۔ (محمد اسماعیل پانی پتی ) جلاء القلوب بذکر المحبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جواد الدولہ سید احمد خان بہادر عارف جنگ کی تالیف کی ہوئی ماہ رمضان المبارک ۲۵۹ ہجری میںجناب سید محمد خان بہادر کے چھاپہ خانہ کے لیتھو گرافک پریس میں سید عبد الغفور کے اہتمام سے دلی میںچھپی (نقل مطابق اصل) بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد اللہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سید محمد خاتم المرسلین والہ الطیبن الطاہرین واصحابہ نجوم الدین۔ افضل الا ذکار ذکر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ دنیا میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اپنے پیارے کا ذکر کیجئے اور ہر دم اس کے نام پر دم دیجیے۔ بیت دل و جانم فدایت یا محمد سر من خاک پایت یا محمد کیا ذات پا ک رسول علیٰ محمد وآل محمد ۔ سبحان اللہ ! کیاذات پاک رسول رب العالمین ہے کہ اس کے جمال یا کمال سے عالم منور ہوا اور سا کے قدوم میمنت لزوم کی برکت سے زمین نے آسمان پر نا زکیا۔ محمد کہ آفرینش ہست خاکش ہزاراں آفریں بر جان پا کش چراغ افروز چشم اہل بینش طراز کار گاہ آفرینش سرو سر خیل میدان وفارا سپہ سالار و سرخیل انبیاء را مرقع برکش نر مادہ چند شفاعت خواہ کار افتادہ چند ریاحین بخش باد صبحگا ہی کلید مخزن گنج الہیٰ صلی علیٰ کیوں نہ ہم ناز کریں اپنے مقبول نبی پر ۔ جس کی امت میںہونے کی نبیوں نے آرزو کی اور اس کی در بانی فرشتوں نے چاہی ۔ نماند بعصیاں کسے در گرو کہ دارد چنین سید پیشرو اللہ تعالیٰ نے اسکا نام نبی الرحمتہ رکھا اور اس کے تئیں امت کی شفاعت کا اختیار دیا۔ اس کے اشارہ سے شق القمر ہوا۔ اس کی ذات پاک سے چراغ ہدایت روشن ہوا۔ اس کے اشارہ سے شق القمر ہوا۔ اس کی ذات پاک سے چراغ ہدایت روشن ہوا۔ ہمارے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم شریف محمد ہے یعنی اللہ اور جمیع مخلوقات کا ممدوح۔ اللھم صلی وسلم علیٰ محمد و آل محمد اور آپ کے والد ماجدکا نام ہاشم ہے اور آپ کی جناب والدہ ماجدہ کا اسم مبارک آمنہ بنت وہب ہے کہ وہ بھی قریشی ہیں۔ بیان ولادت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ربیع الاول کے مہینے میںپیر کے دن پیدا ہوے ہیںاللھم صل وسلم علیہ وسلم نے ظہور فرمایا ، انوار الہی ظاہر ہوئے۔ اور کسریٰ کہ کافروں میںبہت بڑا عظیم الشان بادشاہ تھا اور ہزاروں برس سے اس کے گھر میں بادشاہی چلی آتی تھی ، اس کا محل لرز گیا اور چودہ کنگورے اس کے گر پڑے، بیت چو صیتش در افواہ دنیا فتاد تزلزل در ایوان کسریٰ فتاد اور فارس کا آتش کدہ کہ ہزا برس سے اس میں آگ جلتی رہتی تھی اور فارس کے آتش پرست اس کو پوجا کرتے تھے، دفعتا بجھ گئی اور ساوہ کے چشمہ میں ایک بوند پانی نہ رہا۔ حلیمہ ۱ بنت ابی ذویب اور ثوبیہ ۲ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا اور ام ایمن نے آپ کو پالا اللھم صل وسلم علیٰ محمد وال محمد۔ جبکہ آپ کا سن مبارک چار برس کا ہوا، آپ کی والدہ ماجدہ نے انتقال فرمایا اور آپ کے والد آ پ کے پیدا ہونے سے پہلے رحلت فرما چکے تھے اور عبدالمطلب آپ کے دادا آپ کی پرورش کرنے لگے ۔ جبکہ آپ آٹھ برس اور دو مہینے کے ہوے آپ کے دادا نے بھی رحلت فرمائی ۔ پھر ابو مطلب آپ کے چچا نے آپ کی پرورش کی۔ اللھم صلی وسلم علیٰ محمد وآل محمد۔ اور جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سن مبارک بارہ برس دو مہینہ دس روز کا ہوا اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ آپ نے شام کی طرف سفر کیا۔ جب بصری ۴ میںپہنچے ، ایک نصرانی فقیر نے کہ اس کا نام بحیرا تھا۔ آپ کو دیکھا اور جو ۱۔ حلیمہ سعدیہ بسب دودھ پلانے کے آپ کی ماں ہیں۔آپ ان کی بہت تعظیم کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ حنین میںآپ کے پاس آئیں۔ آپ اٹھے اور اپنی چادر ان کے لیے بچھائی اور وہ اس پر بیٹھیں۔ ۲۔ ثوبیہ ابی لہب کی لونڈی ہیں اور(انھوں نے)آپ کو اور حضرت حمزہ کو دودھ پلایا ۔ آپ ان کی بہت تعظیم کرتے تھے۔ ۳۔ ام ایمن ان کانا م برکہ ہے۔ پہلے عبید حبشی کے نکاح میں تھیں، اس سے ایمن لڑکا پیدا ہوا اس وسطے ام ایمن کہنے لگے۔ بعد اس کے زید بن حارث سے نکاح کیا اور ان سے اسامہ پیدا ہوے۔ اس واسطے (انھیں) ام اسامہ بھی کہتے ہیں اور آپ ان کو ماں کہتے تھے اور ہمیشہ ان کے گھر جاتے تھے اور حضر ت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر بھی ان کے گھر زیارت کو جایا کرتے تھے۔ ۴۔ بصری۔ کحبلی ۔ شام کے پاس ایک شہر ہے۔ ۵۔ بحیرہ علماء نصاریٰ میںسے تھا ، کہ سب چیز چھوڑ کر گوشہ اختیار کیا تھا۔ پتے کہ کتابوں سے اس کو معلوم تھے ان سے پہچانا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے حاضر ہو کر آپ کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا رسول ہے اور خدا تعالیٰ آپ کو بھیجے گا تاکہ سب جہان پر رحمت عام ہو۔ اور بحیرا نے کہا کہ جب آپ یہاں تشریف لائے ہیں اس وقت سب درختوں اور پتھروں نے آپ کو سجدہ کیا اور نبی کے سوا اور کسی کو پتھر اور درخت سجدہ نہیں کرتے اور اپنی کتابوںؓ میں سے آپ کی بہت سی نشانیاں پاتا ہوں۔ بعد اس کے ابو طالب سے کہاکہ شام میںیہودی بہت سے ہیں ۔آپ کا وہاں لے جانا مناسب نہیں ۔ مبادا آپ کو ایذا دیں۔ ابو طالب نے آپ کو احتیاطا مکہ میں بھیج دیا ۔ اللھم صل وسلم علی محمد وآل محمد۔ اس کے بعد دوسری دفعہ میسرہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شام کی طرف کوچ فرمایا۔ جب کہ شام میں پہنچے ایک نصرانی فقیر کے تکیہ کے پاس ایک درخت کے سایہ میں اترے۔ اس نصرانی فقیر نے کہا کہ اس درخت کے نیچے پیغمبر کے سوا اور کوئی نہیں اترا اور میسرہ کہتا تھا کہ دوپہر کے وقت جب گرمی کی شدت ہوتی تھی تو د و فرشتے آن کر آپ پر سایہ کرتے تھے۔ اللھم صل وسلم علیٰ محمد و آل محمد۔ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی سفر سے پھر کر حضرت خدیجہ بنت خویلد سے نکاح کیااور اس زمانہ میں آپ کا سن شریف پچیس برس کا تھا ۔ جب آپ پچیس برس کے ہوے کعبہ کی عمارت کودرست کیا اور اپنے ہاتھ سے حجر اسود کو رکھا اور جب آپ کی عمر چالیس برس کی ہوئی اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس جبرئیل کو بھیجا اور وحی نازل کی او ر ساری خلقت پر نبی کیا۔ ظہور نبوت کا زمانہ جب قریب آیا تھا تو آپ کو خلوت اور تنہائی ۱۔ میسرہ حضرت خدیجہ کے غلام ہیں ۔ پسند آئی تھی اور اکثر غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے جہاں پیر کے دن آٹھویں ربیع الاول ۱ کو ایک فرشتہ وحی لے کر آیا اور کہا کہ ’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو خوشخبری ہوکہ میں جبرئیل ہوں او راللہ تعالیٰ نے میرے تئیں آپ کے پاس بھیجا ہے او ر تم خدا تعالیٰ کی ساری خلقت پر رسول ہو‘‘ اور حضڑت جبرئیل نے کہا کہ اقراء یعنی پڑھو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا کہ میں پڑھا نہیں ہوں۔ حضرے جبرئیل نے آپ کو بغل میں بھینچا اور پھر کہا کہ اقراء یعنی پڑھو۔ آپ نے پھر کہا کہ میں نہیں پڑھا ہوں۔ پھر حضرت جبرئیل نے آپ کو بغل میں بھینچا ۔ اسی طرح تین دفعہ حال گذرا۔ آخر تیسری دفعہ حضرت جبرئیل نے کہا۔‘ ‘ اقراء باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقراء و ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقراء و ربک الا اکرام الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم ۔ یعنی پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے بنایا ۔ آدمی کو لہو کی پھٹکی سے۔ پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے علم سکھایا قلم سے۔ سکھایا آدمی کو جو نہ جانتا تھا ۔ آپ نے پڑھا اور سب حقیقت اور ماہیت کائنات اور ماورائے کائنات کھل گئی اور بآواز بلند اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچانا اور سب آدمیوں کو سیدھا راستہ بتانا شروع کیا مکہ کے جاہلوں نے آپ کو ایذا دینے کا ارادہ کیا۔ اور شعب میں آپ کو گھیر لیا۔ کچھ کم تین برس تک آپ اہل بیت سمیت اس میں گھیرے رہے بعد اس کے جناب پیغمبر خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے نکلے اور اس زمانہ میں آپ کا سن شریف انچاس برس کا تھا۔ اس کے بعد ابو طالب نے انتقال کیا اور اس حادثہ کے تین دن بعد حضرت خدیجہ نے رحلت فرمائی۔ پھرآپ کی خدمت میں جن حاضر ہو۔ ۱۔ صحیح یہ ہے کہ رمضان میں وحی نازل ہوئی۔ محررہ ۱۸۷۸ئ۔ اور اسلام لائے۔ جب آپ کا سن مبارک اکیاون برس اور نو مہینے کا ہوا۔ آپ کو معراج ہوئی اور پہلے حضرت کو زمزم اور مقام ابراہیم سے اٹھا کر بیت المقدس لے گئے۔ اور براق کو حاضرکیا اور جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر سوار ہوئے اور آسمانوں کی طرف تشریف لے گئے۔ اور عرش بریں کو اپنی ذات پاک سے منور کیا۔ بیت رسوئے کا سماں را پایہ داد رکابش عرش راپیرایہ داد اور وہاں جناب باری اور حبیب رب العالمین میںوہ باتیں ہوئیں کہ دوسرے کو خبر نہیں اور پانچوں وقت کی نماز فرض ہوئی اور جب آپ کا سن مبارک تر پین برس کا ہوا پیر کے دن آٹھویں ربیع الاول کو آپ نے مکہ سے مدنہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پیر کے دن مدینہ منورہ میںداخل ہوئے او ر وہاں دس برس تشریف رکھی پھر اس جہان سے رحلت فرمائی اور اس عرصہ میںلوگوں کی ہدایت اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے رواج دینے کے لیے ستائیس لڑائیاں لڑے اور کفار نا ہنجار کو مغلوب و مرعوب کیا۔ منجملہ انکے دس بڑی لڑائیاں بدر ۱ احد۲۔ خندق ۳۔ بنی قریظہ۴۔ بنی المصطلق ۵۔ خیبر ۶۔ طائف ۷۔ ۱۔ بدر ایک کنویں کا نام ہے ، کہ اس کو بدر میںقریش نے کھودا تھا۔ ۲۔ احد مدینہ منورہ میں ایک پہاڑ ہے۔ ۳۔ خندق آپ نے مدینہ منورہ کے گرد کھودی تھی ۔ ۴۔ قریظہ یہودیوں کی ایک قوم ہے۔ ۵۔ مصطلق خذیمہ بن سعد بن عمر کا لقب ہے اور یہ گانے میں بہت خوش آواز تھا اس واسطے اس کا یہ لقب ہوا۔ ۶۔ خیبر مدینہ منورہ کے پاس ایک مشہور قلعہ ہے۔ ۷۔ طائف شہر کا نام ہے۔ وادی القریٰ۔ غابہ ۲۔ بنی نضیر ۳ کی ہیں اور سوائے اس کے قر یب پچاس جگہ کے فوج بھیجی ۔ مگر آپ بذات مبارک وہاں تشریف نہیں لے گئے اور ہجرت سے دسویں برس حج کو تشریف لے گئے اور لوگوں کو احکام حج کے سکھلائے۔ اس حج کو حجۃ الوداع کہتے ہیں ۔ کہ اس کے بعد حضرت علیۃ الصلوۃ والسلام کو پھر اتفاق حج کانہیں ہوا۔ مگر پہلے د و بار حج ادا کیا تھا اور چار عمرے کیے تھے اور یہ سب حج اور عمرے ذیقعد کے مہینے میں ہوئے تھے۔ اسمائے مبارک اور جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ میرا نام محمد ہے۔ اللھم صل وسلم علیٰ محمد و آل محمد اور احمد بھی ہے اللھم صل وسلم علیٰ محمد و آل محمدو بارک وسلماور ماحی بھی ہے کہ میرے سبب سے اللہ تعالیٰ کفر کو عالم سے نیست و نابود کرتا ہے اور حاشر بھی کہ قیامت میں سب سے پہلے اٹھوں گا اور عاقب بھی ہے۔ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور بعض روایتوں میں آپ کا اسم شریف نبی الرحمتہ و نبی التوبہ و نبی الملحمہ بھی آیا ہے اللھم صل وسلم علیٰ محمد و آل محمد ِخاتم النبین و سید المرسلین اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن مجید میں بشیر اور روف اور رحیم اور رحمتہ اللعالمین و محمد و احمد و طہ و یسین مزمل و مدثر اور عبد جیسے کہ سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا اور عبداللہ جیسے کہ انہ الما قام عبداللہ یدعوہ ۱۔ وادی القریٰ ایک جنگل کا نام ہے۔ ۲۔ غابہ حجاز میں ایک جگہ ہے۔ ۳۔ نضیر یہودیوں کی ایک قوم ہے۔ اور منذر جیسے کہ انما انت منذر بھی فرمایا ہے اللھم صل علیٰ محمدن الذی سمیتہ بشیرا و نظیرا و خطبتۃ رحمتہ اللعالمین وسراجا منیرا و محمد وا حمد و طہ و یسین و مزل و مدثر و العبد و عبداللہ والمنذر الف الف صلوۃوسلام۔ حلیہ شریف جناب پیغمبر خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت خوبصورت اور حسین تھے۔ آپ کا میانہ قد تھا ۔ سرخ و سفید رنگت تھی اور آپ کا سینہ چوڑا تھا اور آپ کے دونوں شانوں میں تھوڑا سافاصلہ تھا اور آپ کے موئے مبارک کان کی لو تک پہنچتے تھے اور آپ کے سر اور داڑھی میںکل بیس بال سفید تھے اور آپ کا چہرہ مبارک چودھویں تاریخ کے چاند سے بھی زیادہ روشن تھا۔ اور آپ کا بدن متوسط تھا ۔ نہ بہت موٹا نہ بہت دبلا۔ اگرجناب پیغمبر خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چپ رہتے تو بہت ہیبت او ر شان و شوکت معلوم ہوتی تھی اور اگر آپ بات کہتے تو لطافت اور نازکی ظاہر معلوم ہوتی تھی اور اگر آپ کو دور سے دیکھتاتو کمال حسن و جمال نظر آتا اور اگر پاس سے دیکھتا تھا تو ملاحت اور شیرینی معلوم ہوتی تھی ۔ آپ کی باتیں بہت میٹھی میٹھی تھیں اور آپ کشادہ پیشانی تھے اور باریک اور لمبی بھویںتھیں اور دونوں بھوؤں میں کچھ فاصلہ بھی تھا ۔ پر بہت خوبصورت۔ دانت بہت روشن اور صاف موتی سے بہتر او ر آپ کے شانوں کے بیچ میںمہر نبوت تھی ۔ اور اس میں سے یہ الفاظ پڑھے جاتے تھے۔ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ اور جن لوگوں نے آپ کو دیکھا تھا وہ کہا کرتے تھے کہ ہم نے کبھی پہلے اور نہ کبھی بعد ایسا کوئی شخص حسن و جمال میںنہیں دیکھا۔ آپ بہت وسیع الاخلاق تھے۔ کسی پر خفا نہ ہوتے تھے اور اپنی ذات کے لیے کسی سے بدلہ نہ لیتے تھے۔ مگرجو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا تھا ۔ اس سے بدلہ صرف خالصہ للہ لیتے تھے اور جب آپ خفا ہوتے تھے تو کسی شخص میں آپ کی خفگی اٹھانے کی طاقت نہ تھی ۔ آپ حد سے زیادہ اور سب سے زیادہ شجاع او ر سخی تھے۔ جس شخص نے جو چیز مانگی اسی وقت آپ نے دے دی اور کبھی نہیں کہا کہ میں نہیں دیتا اور ات کو آپ کے گھر میںایک کوڑی بھی نہیں رہتی تھی ۔ اگر اتفاق سے رہ جاتی تھی۔ تو جب تک وہ خرچ نہ ہوتی آپ دولت خانہ میں تشریف نہ لاتے تھے اور بیت المال سے آپ جو چیز کہ سستی سے سستی ہوتی تھی ۔جیسے کہ کھجور۔ اسی میں سے ایک برس کی خوراک کے موافق اپنے اہل بیت کے واسطے لیتے تھے اور باقی سب لوگوں کو بانٹ دیتے تھے۔ اپنے حصہ میں سے بھی مسافروں اور فقیروں کو بہت عنایت کیاکرتے تھے۔ یہاں تک کہ اکثر پورا برس نہ ہونے پاتاتھا کہ آپ کے پاس کھانا ختم ہوچکتا تھا اور فرض کی حاجت ہوتی تھی آپ بہت سچی بات فرمایا کرتے تھے ۔ جس سے جو اقرار کر لیتے تھے اس کو پورا کرتے تھے۔ آپ بہت با حیا تھے آپ کی نگاہ ہمیشہ نیچی رہتی تھی اور دیکھتے تو کن انکھیوں سے دیکھتے ۔ حضرت کا حلم اور تواضع بھی حد سے زیادہ تھا ۔ جو شخص غریب امیر آزاد آپ کی دعوت کرتا تھا اس کو قبول کر لیتے تھے اور سب خلق خدا پر حد سے زائد شفیق تھے۔ بلی کے پانی پینے کے لیے برتن کو جھکا دیتے تھے۔ اورجب تک وہ خوب نہ پی لیتی تھی اس برتن کو نہ ہلاتے تھے۔ حضرت بہت پاکیزہ طبیعت تھے کچھ ہوا و حرص آپ کے دل میں نہ تھی جو شخص آپ کو پہلے پہل دیکھتا تھا۔ اس کے دل میںرعب بیٹھ جاتا تھا اور جو شخص ہمیشہ آپ کی خدمت میں حاضر رہتا تھا اس کو آپ سے نہایت محبت اور عشق ہوجاتا تھا۔ بیان سیر جمیلہ آپ اپنے یاروں کو بہت دوست او رمعزز رکھتے تھے۔ ان کے سامنے کبھی پاؤں تک نہ پھیلائے تھے۔ اگر آدمیوں کی کثرت سے جگہ تنگ ہوجاتی تھی تو آپ ان کے لیے جگہ کشادہ کر دیتے تھے اور آپ کے یار بھی آپ پر دل و جان سے تصدق و فدا اور پروانہ کی طرح اپنی جان دینے کو حاضر تھے۔ اگر آپ کوئی بات ارشاد کرتے تھے تو خاموش اس کو سنتے تھے اور اگر کچھ فرماتے تھے تو اس کو جلدبجا لاتے تھے اور جس سے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاقات کرتے تھے۔ پہلے آپ ہی سلام علیک کرتے تھے۔ اور زیبائش و تجمل سے اپنے یاروں کی خیر و عافیت پوچھتے رہتے تھے۔ اگرکوئی بیمار ہوتاتھا۔ اس کی خبر لینے کو تشریف لے جایا کرتے تھے اور جو سفر کو جاتا تھا اس کو دعا دیتے تھے اور جو مرجاتا تھا اس کے لیے انا للہ وانا الیہ راجعون فرماتے تھے ۔ قوم کے شریفوں کی بہت دلجوئی فرماتے تھے اور اہل فضل و کمال کو بہت عزیز رکھتے تھے اور سب سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے اور ہر عذر خوا ہ کا عذر قبول کر لیتے تھے۔ الھم صل علیٰ صاحب السیر الجمیلۃ صلواۃ کما ھوا ھلہ۔ حضرت انس ۱ ؓ کہتے تھے کہ میںنے دس برس جناب پیغمبر خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی۔ خدا کی قسم جتنی خدمت کہ میںنے سفر و حضر میں آپ کی کی ہے۔ اس سے زائد آپ نے میری خدمت کی ہے اور کبھی میرے تئیں آف تک نہیں کہا اور جو کام میںکرتا تھا کبھی نہ فرماتے تھے کہ یہ کیوں اورجو نہ کرتا تھا اس کو کبھی نہ فرماتے تھے کہ کیوں نہ کیا۔ ایک دفعہ سفر میں آپ نے گو سفند پکانے کے لیے ارشاد کیا۔ ایک شخص نے کہا کہ اس کو ذبح میںکروں گا ۔ دوسرے نے کہا کہ اس کو پاک میںکروںگا۔ تیسرے نے کہا کہ اس کو میںپکاؤںگا۔ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لکڑیاں میںلاؤں گا سب نے عرض کیا کہ یارسول خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کام بھی ہم کر لیں گے آپ ن ے فرمایا کہ میں یہ بات جانتا ہوں کہ یہ کام بھی تم کر لو گے ۔ مگر یہ بات نہیں چاہتا کہ تم سے اپنے تئیں بڑا بنائے رکھوں ۔ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے اس بات کا برا جانتا ہے کہ اپنے یاروں میںاپنی بڑائی چاہے اور جب آپ کسی مجلس میں جاتے تھے تو جہاں جگہ ہوتی تھی ۔ وہیں بیٹھ جاتے تھے۔ یہ ارادہ نہ کرتے تھے کہ سب اوپر جاکر بیٹھوں اور جو شخص آپ کے پاس حاضر ۱۔ انس بن مالک۔ آپ کی کنیت ابو حمزہ اور آ پ کی ماں کا نام سملہ تھا۔ دس برس کی عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے اور ننانوے برس کے ہو کر بصرہ میں مرے۔ جناب پیغمبر خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو دعا دی تھی کہ تمہارے پاس بہت سا پیسہ اور بہت سی اولاد ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت سے انصاریوں میںسے سب سے مال دار رہے اور اٹھتر بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں اور ان کے جتیے جی پوتوں سمیت سو آدمی ہو گئے تھے۔ ہوتا تھا اس پر ایسی نظر عنایت اور التفات فرماتے تھے۔ کہ وہ شخص یہی بات جانتا تھا کہ مجھ سے سوا اور کسی پر اتنی عنایت نہیں اور فقیروں کو بہت چاہتے ۔ ان میںبہت بیٹھا کرتے اور ان کے جنازہ کے ساتھ جاتے۔ مہمان کی بہت خاطر داری کرتے ۔ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرتے ۔ نما ز پڑھنے میں رقت و بکا غالب ہوتی۔ کہ آپ کے سینہ مبارک سے آواز ہنڈیا کے پکنے کی سی آتی۔ آپ روزہ بہت رکھا کرتے اور جب آپ سوتے تو آپ کا دل جاگتا رہتا ۔ جو کوئی کچھ کہتا تو سن لیتے آپ صدقے کے مال کو نہ کھاتے۔ جو کوئی تحفہ لاتا تو لے لیتے اور اس سے بہت سلوک کرتے، خداتعالیٰ نے آپ کو سارے جہاں کے خزانوں کی کنجیات عنایت کیں۔ پر آپ نے نہ لیں اور آخرت ہی کی نعمیتں اختیار کیں۔ آپ تینوں انگلیوں ۱ سے کھانا نوش فرماتے آ پ نے جو کی روٹی چھوہارے سے اور خربوزوہ کو کھجور سے تناول فر مایا ہے اور سرکہ اور روٹی کھا کر آپ نے فرمایا ہے کہ روٹی کے ساتھ کھانے کو سب سے بہتر سرکہ ہے آپ کو شہد اور مٹھاس بہت بھاتی تھی۔ آپ بیٹھ کر تین دم میں پانی پیتے تھے ۔ ایک دفعہ آپ نے دودھ نوش فرمایا او ر ارشاد کیا کہ اگر کوئی کھانے کی چیز کھاوے تو کہے الھم ارزقنا خیر امنہ اور جب دودھ پیے تو کہے کہ الھم بارک لنانیہ و زدنا منہ اور فرمایا کہ دودھ کے سوا ایسی اور کوئی چیز نہیں کہ کھانے پینے دونوں چیزوں کو کفایت کرے ، آپ پشمینہ کی پوشاک پہنتے تھے۔ لیکن کچھ تکلف نہ فرماتے تھے، آپ کے نزدیک کرتہ سب سے اچھی پوشاک تھی، جب آپ کوئی نیاکپڑا پہنتے تھے تو فرماتے تھے اللھم لک الحمد کما البستہ واستلک خیرہ و خیر ماضیح لہ ۲۔یعنی انگوٹھا اور کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی۔ اور سبز پوشاک سے بہت خوش ہوتے تھے او ر عمامہ باندھتے تھے۔ اس کا ایک سراشملہ کے طور پر دونوں شانوں کے بیچ میںلٹکا دیتے تھے، آپ کبھی دائیںہاتھ کی چھنگلیا میں اورکبھی بائیں ہاتھ کی چھنگلیا میںچاندی کی انگوٹھی پہنتے تھے۔ کہ اس پر ’’محمد رسول اللہ ‘‘ کھدا ہوا تھا ۔ آپ خوشبو س بہت رغبت اور بدبو سے کمال نفرت رکھتے تھے اور غالیہ اور مشک او ر عود اور کافور کو استعمال کرتے تھے ، آئینہ بھی دیکھا کرتے تھے، آپ تین دفعہ دائیں آنکھ میں اور دو دفعہ بائیں آنکھ میں سرمہ لگایا کرتے تھے ، سفر میںآپ کے پاس ہمیشہ تیل اور سرمہ اور آئینہ اور کنگھی اور قینچی اور مسواک اور سوئی تاگا رہتاتھا اور آپ کبھی کبھی مزاح بھی فرماتے تھے۔ مگر اس میں جو بات ارشاد ہوتی تھی ۔ سب سچ ہی ہوتی تھی ۔ جیسے کہ ایک دفعہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے عرض کیا۔ کہ میرے تئیں اونٹ پر سوار کر دو۔ آپ نے فرمایا کہ ت یرے تئیں اونٹنی کے بچے پر سوار کریں گے ۔ اس شخص نے عرض کیا کہ مجھے بچہ اٹھا نہ سکے گا۔ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اونٹ بھی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک عورت نے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا خاوند بیمار ہے۔ اور آپ کو بلاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تیرا خاوند وہی ہے جس کی آنکھ میں سفیدی ہے۔ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سفیدہ سے وہ سفیدی مقصود تھی جو سب کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ مگر وہ عورت پہلے نہ سمجھی اور جا کر اپنے خاوند کی آنکھ کو چیر کر دیکھا۔ اس کے خاوند نے کہ کہ تجھے کیا ہو گیا ہے۔ کہ تو میری آنکھ کو چیرتی ہے۔ اس نے جواب دیاکیا جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ہے کہ تیرے خاوند کی آنکھ میںسفید ی ہے۔ اس نے کہا کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جس کی آنکھ میں سفیدی نہ ہو۔ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے خدیجہ بنت خویلد سے نکا ح کیا اور اس کے بعد سودہ۱ بنت زمعہ اور پھر حضرت عائشہ صدیقہ ۲ اور حفصہ ۳ بنت عمر فاروق اور ام حبیبہ ۴ بنت ابی سفیان اور ام سلمہ ۵ اور زینت ۶ بتن جحش اور جویریہ ۷ بنت حارژ کہ وہ حضرت ہارون پیغمبر علیہ السلام ۱۔ سودہ نے شوال کے مہینہ ۵۵ ھ میںمعاویہ کے زمانہ میں انتقال فرمایا۔ ۲۔ عائشہ بنت ابو بکر رضی اللہ عنہ۔ ان کی عمر چھ بر س کی تھی جب آپ نے نکاح کیا اور جب آپ نے انتقال فرمایا تب حضرت عائشہ اٹھارہ برس کی تھیں۔ حضرت عائشہ نے سرھویں رمضان ۵۸ ہجری میںانتقال فرمایا ان کی کنیت ام عبد للہ ہے۔ ۳۔ حفصہ بنت عمر فاروق ؓ نے اکتا لیسویں برس ہجرت سے انتقال فرمایا ۔ ۴۔ ام حبیبہ بنت ابی سفیان۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے نکاح کیا ہے ۔ تو یہ حبشہ میںتھیں اور نجاشی حبشہ کے بادشاہ نے چار سو دینار آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مہر دیا آپ نے ہجرت سے چالیسویں برس انتقال فرمایا ۔ ۵۔ ام سلمہ نے رمضان میںباسٹھویں برس انتقال فرمایا ہے۔ اور سب ازواج مطہرات سے پیچھے ان کی وفات پائی ہے بعضے میمونہ کو کہتے ہیں۔ ۶۔ زینت بنت جحش نے حضڑت عمر کی خلافت میںہجرت سے بیسویں یا اکیسویں برس مدینہ منورہ میںانتقال فرمایا اور سب ازواج سے پہلے آپ ہی نے انتقال فرمایا اور آپ ہی سے گہوارہ میںاٹھا نے کی رسم نکلی۔ ۷۔ جویریہ بنت حارث بنی مصطلق کی لڑائی میںپکڑی گئی تھیں اور ثابت بن قیس کے حصہ میںآئیں۔ اس نے ان کو مکاتب کر دیا ۔ انہوں نے پیغمبر خدا سے کچھ روپے مانگے ۔ آپ نے کہا ہم تم سے نکاح کریںگے ۔ وہ راضی ہو گئیں۔ اور چھبیسویں بر س میں ہجرت سے انتقال فرمایا۔ کی اولاد سے تھیں اور میمونا اور زینب بنت خزیمہ سے ، آپ کی اولاد میں سے حضرت قاسم تھے ۔ ان ہی کے نام سے آپ کی کنیت تھی اور اسی واسطے آپ کو ابو القاسم کہتے تھے اور عبداللہ کہ طیب اور طاہر ان ہی کا لقب تھا اور زینت اور رقبہ اور ام کلثوم اور فاطمہ ۔ ان صاحب زادوں نے نبوت سے پہلے انتقال فرمایا اور صاحبزادیوں نے نبوت کے بعد۔ اور یہ سب صاحبزادے اور صاحبزادیاںحضرت خدیجہ سے تھیں۔بعد اس کے ابراہیم ماریہ قبطیہ سے مدینہ میں پیدا ہوئے اور ستردن کے ہو کر مر گئے۔ حضرت کی سب اولاد اپ کے رو برو رحلت کر چکی تھی۔ مگر فاطمہ علیھا السلام باقی تھیں۔ چھ مہینہ کے بعد انہوں نے رحلت فرمائی۔ پھوپھیاں اور چچا حضرت کے سترہ تھے ۔ ان میں سے صرف تین ہی اسلام لائے۔ حضرت عباس ۱ اور حمزہ۲ اور صفیہ اور حارث اور زبیر اور قثم اور ابو طالب عمران اور عبدالکعبہ اورحجل اور ضرار ۔ غیداق ۔ ابو لہب چچوں میںسے اور عاتکہ اور اروی وام حکم اور برہ دامیہ پھوپھیوں میں سے ایمان نہیںلائی تھیں۔ حضرت کے خاد م بہت سے تھے ان میں سے انس اور عبداللہ بن مسعود اور بلال ہیں اور ذومخمر بھانجا نجاشی کا آپ کا خادم تھا ۔ اور ایلچی آپ کے جن کو بادشاہوں کے پاس بھیجا تھا بہت تھے عمرو بن امیہ کو نجاشی حبشہ کے بادشاہ کے پاس بھیجا اوروہ ایمان بھی لایا اور دحیہ کلبی کو اول روم کے بادشاہ کے پاس بھیجا ۔ وہ بھی ایمان ۱۔ عباس مکہ کی فتح سے پہلے مسلمان ہوئے اور حضرت عثما ن کی خلافت میں انتقال فرمایا۔ ۲۔ حمزہ۔ ہجرت سے پہلے مسلمان ہوئے اور شوال کے مہینے میں جنگ احد میںشہید ہوئے۔ پر مستعد ہوا تھا ۔ پر اس کی قوم نے نہ مانا۔ ان کے ڈر سے وہ ایمان نہ لایا ۔ عبد اللہ بن حدافہ کو خسرو فارس کے بادشاہ کے پاس بھیجا تھا۔ اس مردود نے حضرت کے نامہ مبارک کو چاک کر ڈالا حضرت نے اس کے حق میں بد دعا کی اور وہ ہلاک ہوا۔ بیت درید آں ناہ گردن شکن را نہ نا مہ بلک نام خویشتن را علاء بن حضرمی کو بحرین کے بادشاہ کے پاس بھیجا اور وہ ایمان بھی لایا ۔ اور لکھنے والے حضرت کی سرکار میں بہت تھے ۔ چاروں خلیفہ اور عبداللہ بن ارقم وا ابی بن کعب و ثابت بن قیس و زید بن ثابت و معاویہ اورآپ کے بہت سے اصحاب تھے۔ صحابہ کرام مگر وہ اصحاب کہ جن پ بہت عنایت تھی اور آپ کے خاص الخاص تھے وہ یہ ہیں۔ ۱۔ ابو بکر ۔ ۲۔ عمر فاروق ۔۳ عثمان غنی ۴۔ علی مرتضی ۵۔ حمزہ ۶۔ جعفر ۷۔ ابو ذر ۸۔ مقداد ۹۔ سلمان ۱۰۔ خذیفہ ۱۱۔ عبداللہ بن مسعود ۱۲۔ عمار ۱۳۔ بلال۔ عشرۃ مبشرہ جولوگ کہ عشرہ مبشرہ ہیں اور ان کو بہشت میںجانے کی خوش خبری دی تھی ۔ وہ یہ ہیں۔ ۱۔ ابو بکر صدیق ۲۔ عمر فاروق ۳۔ عثمان غنی ۴۔ علی مرتضی ۵۔ سعد بن ابی وقاص ۶۔ زبیر بن العوام۷۔ عبد الرحمن بن عوف ۸۔ طلحہ بن عبداللہ ۹۔ عبیدہ بن جراح ۱۰۔ سعد بن زید۔ دواب حضرت کی سرکار میںدس گھوڑے اور بیس اونٹنیا دودھ دینے والی او ربکریاں تھیں۔ ہتیار اور تین تلواریں چار کمانیں ایک ترکش اور ایک سپر اور دو زرہ اور ایک خو دتھا۔ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہزارہا معجزات ظہور میں آئے تھے ۔ جو معجزے کہ سب نبیوں میںتھے وہ آپ کی ذات بابرکات سے ظاہر ہوتے تھے۔ ان کا احاطہ ممکن نہیں مگر تمینا و تبرکا چند معجزات بیان کیے جاتے ہیں۔ معجزات سب سے بڑا معجزہ کلام اللہ ہے کہ کیسا ہی عالم فاضل فصیح بلیغ ہو اس کی چھوٹی سے چھوٹی ایک سورۃ کے برابر نہیں کہ سکتا اور باوجودیکہ آپ کچھ پڑھے نہ تھے ۔ ان باتوں کی جو ہوچکی اور ہونگی خبر دی اور سب سچ ہے۔ آپ کی ایک انگلی کے اشارہ سے شق القمر ہوا۔ کہ کسی نبی سے ایسا معجزہ ظہور میں نہیںآیا ۔ ایک دفعہ آپ نے بکری کے چھوٹے سے بچے پر ہاتھ پھیرا اور باوجودیکہ وہ بچہ تھا ۔ مگر فی الفور اس نے دودھ ادیااور آپ نے عمر فاروق ؓ کو دعا دی تھی۔ کہ ان کے سبب اسلام کو رونق ہو۔ اسی طرح ہوا۔ کہ ان کی خلافت میںجتنی رونق اسلام اورفتح بلا د ہوئی۔ کسی خلیفہ کے وقت میںایسا نہ ہوا اور ایک دفعہ قتادہ بن النعہا ن کی آنکھ میںزخم لگا او آنکھ نکل کرپانی سی بہہ گئی ۔ آپ نے اپنے دست مبارک سے اس کو لے کر آنکھ میںرکھ دیا آنکھ اچھی خاصی دوسری آنکھ سے بھی اچھی ہوگئی ۔ ایک دفعہ جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اعرابی کو مسلمان ہونے کے لیے کہا۔ اس نے کہا کہ کوئی گواہ لاؤ آپ نے فرمایا یہ درخت گواہ ہے اور درخت کو کہا کہ آگے آؤ وہ درخت آگے آیا اور تین دفعہ یہ آواز بلند گواہی دیکر جہاں کا تھا وہیںچلا گیا اور جس رات جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت ہوئی۔ اسی رات جتنے درکت او رپتھر وغیر ہ تھے۔ سب نے باواز بلند کہا تھا کہ السلام علیکم یا رسول اللہ۔ ایک دفعہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہونی نے عرض کیا کہ میرے تئیں قید سے چھڑا دو۔ میریدو بچے ہیںان کو دودھ پلا کر پھرآجاؤنگی ۔ آپ نے اس کو چھڑوا دیا اور اس نے آدمیوں کے طرح اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمد رسول للہ پڑا ۔ ایک دفعہ ایک شخص ایمانا لیا او پھر کمبخت مرتد ہو کر پھر گیا اور کافروں سے جا ملا بعد اس کے مر گیا ۔ جب آپ کو اس کے مرنے کی خبر پہنچی آپ نے فرمایا کہ زمین اس کو قبول نہ کرے گی۔ اسی طرح ہوا۔ کہ جب اس کو دفن کرتے تھے۔ زمین اگل دیتی تھی۔ ایک دفعہ حضر ت کی انگلیوں سے ایسا پانی جاری ہوا کہ اس سے چودہ سو آدمیوں نے پیا۔ اور وضو کیا ۔ یہ معجزہ کئی بار ہوا ہے اور جب مکی کی فتح ہوئی تھی اور آپ مسجد الحرام میںداخل ہوئے ہیںتو کعبہ کے گردا گرد بت لٹکتے تھے ۔ آپ کے دست مبارک میں ایک چھوٹی سی چھڑی تھی ۔ اس سے آپ اشارہ کرکے فرماتے تھے کہ ’’جاء الحق و ذھق الباطل‘‘ وہ بت آپ سے آپ گر پڑتے تھے۔ اور اس طرح ہزار ہا اعجاز ہیں کہ ان کا حد و حصر ممکن نہیں۔ حجۃ الوداع ہجرت سے دسویں برس جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ حج کرنے کا ارادہ کیا اور سب لوگوں کو خبرپہنچائی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج کو تشریف لے جاتے ہیں۔ یہ خبر سن کر ہزاروںآدمی مدینہ میںجمع ہوگئے اور اس سفر میں اس قدر آدمی جمع ہو گئے تھے۔ کہ حد اور شمار سے باہرتھے ، جہاں تک نگاہ جاتی تھی آدمی ہی آدمی دکھائی دیتے تھے ، اس حج کا نام حجۃ الوداع ّ‘‘ ہے اس واسطے کہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سفر میںسب لوگوں سے سفر آخرت کے لیے رخصت ہوئے ہیں اور فرمایا ہے کہ مجھ سے اپنے طریق اور راہیں سیکھ لو۔ شاید میںاگلے برس حج میںنہ ہوں اور جیتا نہ رہوں۔ غرض کہ ذیقعد کی پچیسویں کو آپ نے غسل فرمایا اور کنگھی کی او رتیل ڈالا اور خوشبو لگائی اور احرام کے کپڑے پہن کر دولت خانہ سے باہر نکلے اور مدینہ منورہ میںظہر کی نما زپڑھی اس کے بعد ذی الحلیفہ میں پہنچے ا ور عصر کی نماز قصر کرکے پڑھی اور احرام باندھ کر لبیک فرمایا ، اوراپنی اونٹنی پر کہ قصوا اس کا نام تھا سوار ہوئے اور منزلوں کو طے کر کے ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ صبح سے وقت اتوار کے دن مکہ معظمہ میں داخل ہوئے اللھم صل وسلم علیٰ محمد و آل محمد۔ جب آپ مکہ معظمہ کے پاس پہنچے آپ نے تین دفعہ جلدی جلدی طواف کیا اورچار دفعہ آہستہ آہستہ طواف کیااور جب آپ حجر اسود کے پاس پہنچے تھے اس وقت بوسہ دیتے تھے اورکبھی پیشانی رکھتے تھے اور اس کے بعد بوسہ دیتے تھے اور فرماتے تھے ۔ بسم اللہ واللہ اکبر اس کے بعد کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور یہ آیت پڑھی کہ ’’ ان الصفا والمر وۃ من شعائر اللہ ۔اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ جو لوگ ذبیحہ اپنے ساتھ نہیںلائے ہیں وہ حج کی نیت موقوف کریں، صرف عمرہ کریں اور احرام سے نکل آویں۔ جب ترویہ کا دن یعنی ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ ہوئی تو آپ صفا کی طرف متوجہ ہوئے اور وہاں ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی اوررات کو رہے اور صبح کی نماز پڑھ کر جب آفتاب نکلا تو عرفات کی طرف روانہ ہوئے۔ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہنچنے سے پہلے نمیرہ کے جنگل میںکہ عرفات کے پاس ہے۔ خیمہ کھڑا کیا تھا۔ آپ وہاں آنکر اترے اور جب دوپہر ڈھل چکی نماز ظہر او ر عصر کی جماعت کے ساتھ پڑھی اور موقف کی طرف کہ عرفات کے میدان میںہے چلے اوروہاں دعا اور کلمہ کہتے تھے یہاں تک کہ شام ہوگئی ۔ پھر مزدلفہ کی طرف تشریف لے گئے اور رات کو رہے اور صبح کی نماز پڑھ کے دن نکلے تک مشعر الحرام میں ٹھہرے اوراس کے بعد حجرۃ العقبہ میں سات کنکریاں پھینک کر صفا کی طرف روانہ ہوئے اور ایام تشریق ۱ میں بھی سات سات کنکریاں پھینکتے رہے اور بقر عید کے دن اول وقت قربانی کرکے کعبہ کے طواف کو روانہ ہوئے اور سات دفعہ کعبہ کے گرد پھر کر طواف کیا۔ اس کے بعد سقایہ میں آئے اور وہاں اب زمزم پیا ، اور منی کی طر ف تشریف لے گئے اور تشریق کے تیسرے دن کوچ کیا۔ اور مخصب میںپہنچ کر لشکر کو کوچ کاحکم دیا۔ اس کے بعد مدینہ منورہ میںداخل ہوئے۔ اسی حج کے دنوں میں آیت ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ‘‘ اوراس سے پہلے ’’ سورۃ اذاجاء نصراللہ ‘‘ نازل ہوئی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سفر آخرت کی خبر دی تھی اس واسطے جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض صحابہ سے ۱۔ تشریق۔ یعنی ذی الحجہ کی گیارھوین بارھویں۔ تیرھویں تاریخ۔ انتقال کے دن قریب ہونے کا حال فرمایاتھا اور جناب فاطمہ علیھا السلام سے بھی فرمایا تھا کہ میرے تئیں مرنے کی خبر دی ہے۔ حضرت فاطمہ رونے لگیں۔ جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم سب اہل بیت سے پہلے ہم سے ملو گی۔ اس کے بعد آنحضرت نے کئی دفعہ رات کو شہدائے بقیع کے لیے دعا کی۔ جب وہاں سے مراجعت کی اور حضرت عایشہ ؓ کے گھر میںتشریف لائے۔ آپ کے درد سر شروع ہوا اور دن بدن شدت ہونے لگی۔یہاں تک کہ وقت انتقال قریب آیا اور بموجب حکم باری تعالیٰ ملک الموت ایک اعرابی کی صورت میںدر دولت پر حاضر ہوا اور اندر آنے کی اجازت چاہی۔ حضر ت فاطمہ علیہا السلام نے جواب دیا کہ اس وقت جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مرض کی شدت ہے ملاقات کا وقت نہیں، پھر دوبار ہ اندر آنے کی اجازت چاہی پھر وہی جواب سنا، تیسری دفعہ چلاکر کہا کہ سب لوگ اس آواز سے حیران ہو گئے اورجناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھ کھل گئی ۔ آپ نے پوچھا کہ کیا حال ہے جو حال تھا سب نے عرض کیا ، جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے فاطمہ یہ ملک الموت ہے ، جناب فاطمہ زہرہ نے جو یہ بات سنی رونے لگیں ، آپ نے فرمایا کہ اے میری بیٹی مت رو کہ تیرے رونے پر عرش روتا ہے اور اپنے ہاتھ سے حضرت فاطمہ کے آنسو پونچھے اور تسلی دی اور دعا دی کہ اللہ تعالیٰ میری جدائی میں اس کو صبر دے اور حضرت فاطمہ علیہا السلام سے فرمایا کہ اپنے بیٹوں کو میرے پاس لا ۔ جناب حسن و حسین علیہا السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے ۔ وہ دونوں صاحب زادے آپ کو اس حال میں دیکھ کر رونے لگے ، ان کے رونے کی آواز سن کر جتنے لوگ گھر میں تھے سب رونے لگے ، جب سب کے رونے کی آواز آپ کے کان میںپہنچی آپ بھی رونے لگے ، سکرات موت نے شدت کی۔ کہ آپ کا رنگ مبارک متغیر ہوتا جاتا تھا اور آپ کے پاس ایک پانی کا پیالہ بھرا ہوا دھرا تھا۔ آپ اس میں ہاتھ ڈالتے تھے اور روئے مبارک پر ملتے تھے اورفرماتے تھے۔ ’’الھم ۱ عنی علی سکرات الموت‘‘ جب ملک الموت نے اجازت قبض روح مبار ک کی چاہی آپ نے فرمایا کہ ذرا صبر کرو جبرائیل آجائے۔ اتنے میں حضرت جبرئیل آئے ۔آپ نے فرمایا اے دوست اس وقت میںمجھے اکیلا چھوڑتا ہے۔ حضرت جبرئیل نے کہا کہ آپ کو خوشی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مالک دوزخ کو حکم دیا ہے کہ میرے پیارے دوست کی روح پاک آسمان پر آوے گی۔ دوزخ کی آنچ کو بالک بجھادے اور حوروں کو حکم دیا ہے کہ اپنے تئیں آراستہ کریںاور فرشتوں کو فرمایا ہے کہ اٹھ کر صف بصف کھڑے ہوں ۔ کہ روح پا ک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آنی ہے اور مجھ کو حکم دیا ہے کہ زمین پر جا کر میرے دوست سے کہو۔ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جبل تک تو اورتیری امت بہشت میںنہ داخل ہولیں گے اس وقت تک سب نبیوں اور امتوں پر بہشت حرام ہے اورقیامت کے دن تیری امت کو میںبخشوں گا کہ تو راضی ہو جاوے، یہ بات سن کر آپ نے ملک الموت کو فرمایا کہ جس کام تو آیا ہے وہ کام کر۔ ملک الموت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح قبض کی اور اعلیٰ علیین میں لے گیا اور کہا کہ یا محمد۔ یارسول اب اللعالمین۔ اللھم صل وسلم علیٰ محمد و آل محمد اس واقعہ جانکاہ کے بعد جو لوگ حاضر تھے ۔ انہوں نے یا کسی فرشتے نے آپ کے اوپر حبرہ کہ ایک قسم کی چادر ہے اڑھائی اور جناب فاطمہ زھرا علیہا السلام اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور جو مقرب تھے حالت بے قراری میںگریہ و زاری کرتے تھے اور سب صحابہ پر وہ حال بے طاقتی اور بے ہوشی کا تھا ۔ کہ بعضوں نے حضرت کی موت کا انکار کیااو ر حضرت عثمان ؓ خاموش گنگ ہوگئے اور جناب علی علیہ السلام بیٹبھے کے بیٹھے رہ گئے اور سب صحابہ کا اسی طرح برا حال ہوا۔ مگر حضرت عباس آپ کے چچا اور حضرت ابو بکر صدیق نے بہت استقلال اور کمال ضبط کیا۔ اتنے میں حضرت خضر علی ٰ نبینا و علیہ الصلواۃ والسلام نے حجرہ مبارک میں سے آواز دی کہ آپ کو غسل دو۔ اور حضرت خضر علیٰ نبینا وعلیۃ الصلواۃ والسلام نے سب صحابہ کو کہ اس غم اور الم میںکوئی ان کا شریک نہ تھا تسلی دی اور ان الفاظ سے تعزیت کی ’’ ان اللہ فی غزاء من کل مصیبۃ وخلفا من کل ہالک و درکا من کل فایت قبا اللہ فاتقو ا والیہ فارجعوا فان المصائب من حرم التواب ‘‘یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس ہر مصیبت کے واسطے دلاسا ہے اور ہر مرنے والے کا عوض ہے اور ہر جانے والی چیز کا بدلہ ہے پھر اللہ پر اعتماد کرو اور اس کی طرف رجو ع کرو کہ حقیقت میں مصیبت زدہ وہ ہے جو ثواب سے محروم رہے ۔ بعد اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی او حضرت عباس او ر فضل اور قثم حضرت عباس کے بیٹے اور شقران جناب پیغمبر خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام اور اسا مہ نے کپڑوں سمیت غسل دیا ۔ اور اوس انصاری بھی حضرت کے نہلانے اور دھلانے میںحاضر ہوئے اور حضرت علی نے آپ کے پیٹ پر ہاتھ رکھا ۔ کہ شکم سے کچھ نہ نکلا آپ نے کہا کہ ’’ صل اللہ علیک فقد طیب حیا و میتا ‘‘ یعنی رحمت خدا کی تم پر ہو کہ پاک ہو تم جیتے اور مرے اور آپ کے تئیں چادروں میں تکفین کیا اور ہر شخص نے الگ الگ نما زپڑھی۔ کوئی امام آپ کے جنازہ پر نہیں ہوا اور جناب عائشہ صدیقہ کے گھر میں آپ کی قبر شریف بطور بغلی کے کھدی ۔ اورقبر میں قطیفہ کا فرش ہوا اور اس میں مدفون کیا۔ نظم گریباں زمیں شد نا گہاں چاک د آمد ہمچو جاں در قالب خاک مگرشخص ز میکں لب تشنہ مے برد کہ آب زندگانی را فرو برد اللھم صلی علیٰ النبی المطہر شفیع الورٰ فی یوم بعث و محشر بشیر نذیر سید القوم جملۃ رسول کریم خیر ذآت و جوہر وما مثلاہ فی الناس من صلب آدم بخلق عظیم ثم ذآت معطر اذا نار نورک فی خلق آدم خیر الملائکۃ جملۃ مکبر اذا لاح بالا نوار وجہ محمد فلم یبق نور مالنجم منور سقی معشر الا برارمن حوض کوثر شرابا طہورا خالیا عن مکدر علیک صلواۃ اللہ یا سید الوریٰ علیک سلام اللہ یا خیر منظر فقیر حقیر سید احمد حسینی الحسنی المخاطب بہ جواد الدولہ سید احمد خاں بہادر عارف جنگ نے اس رسالہ کو سرور المحزون سے ماخوز کیا او رچند مطالب مدارج النبوت سے اس میںبڑھا ئے اور بعضی بعضی باتیں اصل رسالہ میںسے کم کر دیں گئیں اور جناب استاذی اعلم العلماء و افضل الفضلاء مولانا محمد نور الحسن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ (مرحوم و مغفور) کی اصلاح سے صحیح و درست ہوا۔ ……………… جلاء القلوب پر ریویو (خود مصنف کا لکھا ہوا) (مورخہ جون ۱۸۷۸ئ) یہ کتاب اس زمانہ میںلکھی گئی تھی جبکہ لوگوں کی دیکھا دیکھی مولود کی مجلس کا دل میں بڑا شوق تھا۔ ہر مہینے کی دواز دہم کو لوگ جمع ہوتے تھے۔ سوا لا کھ دفعہ چھوارے کی گٹھلیوں پر درود پڑھا جاتاتھا اور ختم کے بعد شیرینی بٹتی تھی اورہم لوگ بہت نیک او رمحب رسول سمجھتے تھے ، حالانکہ اس زمانہ میںہم نے نہ رسول کو سمجھا تھا اورنہ رسول کی محبت کو۔ اسی زمانہ میںبہت سے رسالہ مولود کے دیکھے ۔ اس وقت کے خیال کے مطابق بھی ان میں ایسی باتیں معلوم ہوئیں جوٹھیک نہ تھیں اور بجائے اس کے کہ ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات بیان ہوں وہ رسالے زیادہ تو مرثیہ خوانی کتاب خوانی کے جس کا رواج محرم کی مجلسوں میں ہے مشا بہ تھے ۔ اس لیے دل میں آیاتھا کہ ایک مختصر رسالہ جو بطور بیان حالت اور واقعات کے ہو اور جس میں نا معتبر باتیں نہ ہوں لکھا جاوے مگر اب افسوس ہوتا ہے کہ اس میں بھی بہت سی نا معتبر بلکہ لغو باتیں ہیں۔ بڑا ماخذ اس رسالہ کا سرور المحزون ہے۔ جس کو شاہ ولی اللہ صاحب نے تصنیف کیاتھا اور کچھ باتیں مدارج النبوت سے جس میں ہزاروں لغو و نا معتبر کہانیاں مندرج ہیںلی گئی تھیں ۔ اس زمانہ میں تو اس رسالے کے لکھنے پر بڑا فخر تھا ۔ مگر اب اس کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے۔ مولود کی مجالس کی نسبت جو خیال اس زمانہ میں تھا ۔ اس میںبھی انقلاب عظیم ہوگیا ہے۔ اس وقت خیا ل تھا ۔ کہ مولود کی مجلس ایک مذہبی امر اور بہت بڑے ثواب کا کام ہے اور بہشت کی نعمتوں کے ملنے کی کنجی ہے۔ مجلس مولود میںپیغمبر صاحب کی ارواح پاک موجود رہتی ہے اور رحمت کے فرشتے اترتے رہتے ہیں۔ خصوصا ہماری مجلس میںجو بالکل سادہ اور زاوید بیہودہ سے آزاد اور صر درود خوانی ہے اور تمام باتوں سے جو مشابہ مرثیہ خوانی یا کتاب خوانی کی ہوں پاک ہے۔ جب مذہبی مسائل میںزیادہ تر پختگی ہوئی اور عقائد کی جانب میلان ہوا ۔ جس کو وہابیت کہتے ہیں تو مجلس مولود کو بدعت سمجھا۔ کیونکہ اس کا وجود قرون مشہود لہا بالخیر میں نہ تھا ۔ کئی سو برس بعد آنحضرت صلعم کے انتقال کے اس کا رواج ہوا ہے اور حدیث میںآیا ہے کہ ’’ من احدت فی امر نا ھذا فہورد ‘‘ ۔’’ وکل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور شاید معتزلیت زیادہ چر گئی ہے۔ جو یہ خیال ہے کہ ایک کے فعل کاخواہ وہ اس قسم سے ہو جس کو عبادت بدنی کہتے ہیں اور خواہ اس قسم سے ہو جس کو عبادت مالی کہتے ہیں دوسرے پ رخواہ وہ زندہ ہو یا مردہ کچھ اثر نہیں ہوتا۔قرآن و فاتحہ پڑھ کرثواب بخشنا یا ملانوں کو بغرض ایصال ثواب کھانا کھلانا بالکل لا حاصل محض اور ہمہ وجوہ ہندوؤں کے اس فعل کے مشابہ ہے جو اپنے بزرگوں کو ثواب پہنچا نے کے لیے برہمنوں سے کتھا اورمنتر پڑھوا تے ہے ں اور برہمنوں کو جماتے ہیں اور گیا و پراگ میںجاکر پنڈدان کرتے ہیں اور اب اس پر یقین ہے کہ ٹھیٹ اسلام کا یہی سچا مسئلہ ہے ۔ جشن مولود اگر بطور یادگار اس دن کے ہو جس میں ایسا بڑا شخص پیدا ہوا جس نے تمام دنیا کو سچائی سے روشن کیا ۔ تمام عالم میں خدا پرستی کو شائع کیا۔ ہر ایک کو ہدایت کا رستہ بتایا ۔ اور یہ کہا کہ ۔ انا بشر مثلکم یوحیٰ الی انما الھکم الہ واحد۔ اور صرف یہ کہا ہی نہیں بلکہ اس قول سے تمام دنیا کے مذاہب کو الٹ دیا۔ بت پرستی کو جزیرہ عرب سے مٹا دیا ۔ متفرق قوموں کو ایک کر دیا ، تمام جابر اور گمراہ سلطنتوں کو نیست و نابود کر دیا تو اس جشن عظیم کا ہر سال ہونا نہایت عمدہ بات ہے ۔ اس لیے کہ پرانی تاریخ کی یادگاروں کو زندہ رکھنا افضل ترین بنی نوع انسان کے دائمی احسانوں کا اعتراف کرنا ہے اور آئندہ اپنی فوائد اورنیکیوں کی جو انہوں نے جاری کیں، ہمیشہ قائم رکھنے کی نیت کا دکھلانا اور ہمت کا دلانا ہے۔ قومی اتحاد کا جو اصلی باعث ہوا اس کی یاد سے قومی اتحاد بڑھتا ہے۔ جس کی نیکیوں کا اثر ہم پر پڑا اس کا احسان ماننے طینت کی نیکی زیادہ ہوتی ہے اور نیکی کے قیام کو بہت زیادہ استحکام ہوتا ہے ، مگر جب ہی ہوتا ہے جب کہ مذہبی خیالات جو انسان کومعاد کے ثواب وعذاب کی طرف مائل کرتے ہیں اور اصلی سبب کو دل سے بھلا دیتے ہیںاور انسان کے تمام قدرتی جذبات کو دیادیتے ہیں۔ ان کا اس میں کچھ اثر نہ ہو۔ پس چار آدمیوں کا بیٹھ کر اور نعتیہ چار اشعار پڑھ کر رو لینا بے فائدہ کام ہے۔ بلکہ بعوض اس کے جشن عظیم الشان کیا جاوے۔ شہر آراستہ ہوں، روشنیاں کی جاویں اور خوشیاں منائی جاویں اورجہاں تک ممکن ہو شان و شوکت و حشمت اسی نبی پاک کے پیرؤوں کی دکھلائی جاوے تو بے شک وہ فوائد اس سے مل سکتے ہیں گو کہ بہت لوگوں کے نزدیک ایسے امر کی خوشی کرنا انسان کی روح کی ترقی مدارج کابھی باعث ہو۔ جس کانام ثواب ہے اور اگر ا س سے صرف ثواب کی گٹھریاں باندھنی مقصود ہوں اور اس مقصد سے یہ مجلس بطور ایک مذہبی رسم کے کی جاوے تو توکل بدعۃ ضلالہ ہی ہے۔ اس رسالہ میںبہت سی باتیں ایسی ہیں جو حال کے یقین کے بالکل بر خلاف ہیں۔ آنحضرت صلعم بلاشبہ شفیع امت ہیں، کیوںکہ آپ نے وہ راہ بتائی ہے۔ جس پرچلنے سے نجات ہوتی ہے مگر یہ سمجھنا کہ قیامت میں گناہ بخشوا لیں گے ۔ یہ تو بالکل عیسائیوں کے مسئلہ کے مطابق ہے ، جو یہ سمجھتے ہیں، کہ عیسیٰ مسیح تمام امت کے گناہوں کے بدلے میںفدیہ ہوگئے۔ عشق القمر کا ہونا محض غلط ہے اور بانی اسلام نے کہیں اس کا دعویٰ نہیں کیا۔ کسریٰ کے محل کے کنگروں کا گرنا۔ آتش کدہ کی آگ کا بجھنا ۔ سا وہ کے چشمہ کا خشک ہونا ۔ بحیرہ کا آنحضرت کو نبی ہونے کی خوش خبری دینا۔ درختوں اور پھلوں پتھروں کا سجدہ کرنا۔۔۔ ایک درخت کے سایہ میں اترتے کے سبب میسرہ کا آپ کو پیغمبر ہونے کی خبر ۔ دھوپ روکنے کو دوفرشتوں کا سایہ کرنا ۔ جبرئیل کا تین دفعہ بغل میں بھینچنا ۔ جنوں کا جن سے ایک ایسی خلقت جو مشکل با شکال مختلفہ ہوجاتی ہے مراد ہے ایمان لانا۔ ان میں سے کوئی بات بھی ان اصول کے مطابق جو صحت روایت کے لیے درکار ہیں اور جن کا ذکر میں نے خطبات احمدیہ میںلکھا ہے ثابت نہیں ہے معراج کا بیان بھی جس طرح ا س رسالہ میںلکھا صحیح نہیںہے ۔ جو صحیح ثابت ہوا ہے وہ اس کے بعد کی تصانیف میں مندرج ہے مہر نبوت کا ذکر بھی صحیح نہیںہے۔ راویوں نے اس کے بیان میں غلطی کھائی ہے۔ جس کی تفصیل ہماری کتابوں میںملے گی۔ آنحضرت صلعم کے بہت سے معجزات بھی اس رسالہ میں مندرج ہیں جس میں شق القمر کامعجزہ بھی شامل ہے جس سے اکثر علماء محققین نے بھی انکار کیا ہے ۔۔ قرآن مجید کی فصاحت بے مثل کو معجزہ سمجھنا ایک غلط فہمی ہے۔ فاتو بسورۃ من مثلہ ۔ کا یہ مقصد نہیں ہے اس کا بیان ہماری تفسیر میں ملے گا باقی جس قدر معجزے اس رسالہ میںبیان ہوئے ہیں۔ دوسری تحقیق میں حد ثبوت کو نہیں پہنچتے ۔ حجۃالودواع کے ارکان جو بیان ہوئے ہیں ان کی تحقیق و اصلیت بھی ہماری تصانیف میںملے گی۔ وفات کے میںجو عجیب روایتیں ہیں او رجن میںحضرت خضر کا تشریف لانا بھی بیان ہوا ہے و ہ سب بے سند و غیر ثابت ہیں۔ اتنی بات سچ ہے جیسا کہ ایسے موقع میں ہوا کرتا ہے، سب لوگ خلافت کی فکر میں پڑ گئے ، مگر جن کو خاص ذاتی تعلق آنحضرت سے تھا انہوں نے ہی آپ کی تجہیز و تکفین کی۔ (تصانیف احمدیہ جلد اول۔ حصہ اول) مطبوعہ ۱۸۸۳ء ……………… حالات و واقعات خیر خواہان مسلمانان نمبر اول غدر ۱۸۵۷ء کے بعد کا زمانہ ایسا پر شوب تھا کہ مسلمانوں کے لیے ہند میںکوئی جائے پناہ نہ تھی اور نہ ا ن کاکوئی مددگار و معاون تھا ۔ ہندو قوم بی جمالو کا پارٹ ادا کر کے الگ کھڑی ہوگئی تھی اور حکمرانوں کا سارا نزلہ غریب اور مظلوم مسلمانوں پر ٹوٹ پڑاتھا ۔ وہ انکو باغی سمجھتے اور نہایت قہر و غضب کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ اور بقول مولانا حالی ان پر یہ الزام لگائے جاتے تھے کہ: ۔ (۱) ان کا مذہب ان کویہ تعلیم دیتا ہے کہ عیسائیوں سے عداوت رکھیں (۲) شاہ نعمت اللہ ولی کی پیشگوئی کے مطابق مسلمانوں کویقین ہے کہ اب عیسائیوں کی عملداری ہندوستان میں نہیںرہے گی۔ (۳) مسلمانوں پر مذہبی لحاظ سے انگریزوں پر جہاد فرض ہے۔ اور اس لیے ۱۸۵۷ ء کے ہنگا مہ میں مسلمان سب سے زیادہ بغاوت کے مرتکب ہوئے ۔ ایسی نازک اور خطرناک حالت میںجو بزرگ اپنی قوم کے حقیقی بہی خواہ ور ہمدرد تھے انھیں کوئی تدبیر ایسی نظر نہ آتی تھی جس سے کام لیکر وہ حکمران قوم کے دل سے مسلمانوں کے متعلق بدظنی کے اور غلط فہمی دور کر سکتے۔ سر سید اس زمانے میںمسلمانوں کی تباہی اوربربادی و بدحالی کو دیکھ دیکھ کر نہایت مغموم اور مضحمل رہتے تھے۔ اور برابر یہ سوچتے رہتے تھے کہ کونسی ترکیب ایسی کی جائے کہ انگریز حاکموں کا غصہ و غضب کم ہو۔ اور وہ مسلمانوں کو امن پسند شہری سمجھیں اور ان پر ظلم و ستم کرنے سے باز رہیں۔ اس کے لیے اول توانہوں نے ’’ اسباب بغاوت ہند‘‘ کے عنوان سے ایک مسبوط اور مدلل مضمون لکھا جس میںواضح دلائل کے ساتھ اس امر کو ثابت کیا کہ ۱۸۵۷ء کے غدر میںمسلمان بے قصور تھے اور بغاوت کا الزام ان پر ناحق تھوپ دیاگیا۔ دوسری تدبیر انہوں نے مسلمانوں پر سے بغاوت کاالزام دور کرنے کی یہ سوچی کی ایسے بکثرت معزز مسلمانوں کے حالات اور کوائف جمع کر کے اردو اور انگریزی ہیں شائع کیے جائیں جنکو حکمرانوں کی وفاداری و ہمدردی اور امداد و اعانت کے صلہ میں حکومت کی طرف سے خطابات ، انعامات ، جاگیرات اور وظائف ملے۔ اس سے سر سید کی غرض یہ تھی کہ ان حالات کو پیش کر کے انگریز حکام کے دلوں سے یہ خیال نکالا جائے کہ مسلمان سلطنت انگریزی کے دشمن اور مخالف ہیں۔ جب دلائل اوربراہین سے یہ بات ثابت کردی جائے گی تو بدگو دشمن اور مخالف ممکن ہے اپنے غلط پراپگنڈہ سے با ز آجائیں اور تباہ حال مسلمان اس پر مصائب دنیا میں کچھ امن کا سانس لے سکیں۔ اس غر ض کے لیے انہوں نے مراد آباد (پو ۔پی) سے جہاں وہ اس وقت صدر الصدور تھے ۱۸۶۰ ء میں ایک سہ ماہی رسالہ جاری کیا جس میں سب سے پہلے تو خود اپنے حالات بیان کیے۔ پھر دوسرے معزز مسلمانوں سے ان کے حالات منگوا کر اور انہیں خود مرتب کر کے انگریزی ترجمہ کے ساتھ شائع کیے۔ یہ رسالہ میرٹھ میںچپھتا تھا اور مردا آبد سے شائع ہوتا تھا اس کا اردو نام ’’ رسالہ خیر خواہان مسلمانان‘‘ تھا اور انگریزی میں ’’لائل محڈنز آف انڈیا‘‘۔ یہ ۱۸۲۲ ء کی تقطیع پر ٹائپ میںچھپتا تھا۔ صفحہ کے دو کام ہوتے تھے ۔ ایک میں اردو دوسر ے میں اس کا انگریزی ترجمہ۔ اس رسالے کے صرف تین نمبر شائع ہوئے۔ پھر بند ہو گیا ۔ ابتدائی دو نمبر ۱۸۶۰ ء میںچھپے اور آخری ایک نمبر ۱۸۶۱ء میں۔ حصہ اول کے ۸۲ حصہ دوم کے ۱۰۰ اور حصہ سوم کے ۹۲ صفحات تھے۔ فی رسالہ دو روپے قیمت تھی۔ اس سے معلوم ہوتاتھا کہ اس زمانے میں ٹائپ کی اجرت۔ چھپائی کی شرح اور انگریزی ترجمے کا معاوضہ بہت زیادہ بڑھا ہوا تھا ۔ ورنہ سر سید ۹۲ یا ۸۲ صفحات کی قیمت دو روپے نہ رکھتے۔ یہ تینوں رسالے بالکل نایاب تھے اور کہیں نہیںملتے تھے۔ پروفیسر محمود شیرانی مرحوم کا قیمتی کتب خانہ جب یونیورسٹی لائبریری لاہور کو دیا گیا تو اس مجموعہ میںاتفاق سے یہ رسالے بھی تھے جہاں سے نقل کر کے ہم انہیں ناظرین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ (محمد اسماعیل پا نی پتی) سچ ہے انقلاب زمانہ ایک ایسا برا حادثہ ہے کہ آدمی کو نہایت زبوں و در ماندہ کردیتا ہے ۔ ایسے وقت میںانسان کا فضل و کمال، عقل و ہنر ، علم و عمل کچھ کام نہیں آتا ۔ یہ ہی حادثہ ہیجس سے انسان کا یا پلٹ ہو جاتا ہے۔ کوئی کام اس کا اعتبار کے لائق نہیںرہتا ، کسی شخص کو اس کی قدر و منزلت کا خیال نہیں ہوتا ۔ جو کام انسان سے برا سر زد ہوتا ہے وہ در حقیقت برا ہی ہے۔ مگر اس کم بخت وقت کا مقتضا یہ ہوتا ہے کہ اس کا اچھا کام بھی برائی اور ظاہر داری پر محمول ہوتا ہے ہر ایک قوم میںاچھے برے سب قسم کے آدمی ہوتے ہیں۔ یہ جو ایک مچھلی سارے جل کو گنداکرے ، یہ خاص اسی برے وقت کی مثل ہے اس کم بخت وقت کا یہ خاصہ ہے کہ اگر ایک آدمی بھی برا کام کرے تو ساری قوم کی قوم رسوا اور بدنام ہوتی ہے۔ گو اسی قوم میںسے صہا آدمیوں نے اچھے کام کیے ہوں۔ مگر ان خوبیوں پر کسی کو خیال نہیں ہوتا ،۔ برخلاف اس کے جن لوگوں پر یہ بد بختی کیدن نہیںہوتے۔ انکا برا کام بھی آنکھوں میںنہیں کھٹکتا ۔ ان میںسے ہزاروں نے کیسے ہی بری برے کام کیے ہوں۔ مگر ان کا برائی پر کسی کو دھیان نہیں ہوتا ۔ یہ بد بختی کا زمانہ وہ ہے جو ۵۸۔۱۸۵۷ء میں ہندوستان کے مسلمانوں پر گزرا۔ کوئی آفت ایسی نہیں ہے جو اس زمانے میںہوئی ہو ۔ گو وہ رام دین اور مانا دین ہی نے کی ہو۔ اور یہ نہ کہا گیا ہو کہ مسلمانوں نے کی۔ کوئی بلا آسمان پر سے نہیںچلی جو اس نے زمین پر پہنچنے سے پہلے مسلمانوں کا گھر نہ ڈھونڈھا ہو۔ ہر بلائے کز آسمان آید گرچہ بر دیگرے قضا باشد بر زمیں نا رسیدہ می پر سد خانہ مسلماں کجا باشد اس گذشتہ ہنگامے کے حالات پر میںنے بھی بہت غور کیا اور جو اصلی حالا ت مجھ کو معلوم ہوئے ہیں ان پر میں یقین رکھتا ہوں۔ اور اسی سبب سے میرا دل خوش ہے کہ بالفعل جو ایک غوغا مسلمانوں کی برائی اور مفسدے اور بد ذاتی کا چاروں طرف پھیل رہا ہے۔ یہ بالکل مٹ جاوے گا ۔ اگرچہ کچھ کچھ حالات فساد کے کھلتے چلے ہیں۔ مگر روز بروز اور زیادہ کھلتے جاویںگے اور جب اصلی حال بالکل روشن ہو جاوے گا تو جن لوگوں کی زبانیں مسلمانوں کی نسبت بہت دراز ہو رہی ہیں سب بند ہو جا ویں گی۔ اور تحقیق ہو جاوے گی کہ ہندوستان میںاگر کوئی قوم مذہب کے رو سے اعادت اور مزاج کے رو سے عیسائیوں سے محبت اور اخلاص اور ارتباط اور یگانگت کر سکتی ہے تو مسلمان ہی کر سکتے ہیں۔ اور کوئی نہیں، مگر ان دنوں میں جو میری نگاہ سے انگریزی اخبار کثرت سے گزرے اور جو کتابیں اس ہنگامہ کی بابت تصنیف ہوئیں۔ وہ بھی میںنے دیکھیں تو ہر ایک میںیہی دیکھا کہ ہندوستان میںمفسد اور بد ذات کوئی نہیںمگر مسلمان۔ کوئی کانٹوں دار درخت اس زمانے میںنہیںآگا جس کی نسبت یہ نہ کہا گیا ہو کہ اس کا بیج مسلمانوں نے بویاتھا ۔ اور کوئی آٹشین ببولہ نہیںاٹھا جو یہ نہ کہا گیا ہو کہ مسلمانو ں نے اٹھایا تھا۔ مگر میں اس کے برخلاف سمجھتا ہوں۔ میںنہیںدیکھتا کہ مسلمانوں کے سواایسا اور کوئی ہو۔ جس نے خالص سرکار کی خیر خواہی میںاپنی جان، مال۔ عزت ۔ آبرو کھوئی ہو۔ زبانی بات چیت کی خیر خواہیاں ملا دینے اورجھوٹے سچے ایک د و پرچے لکھ بھیجنے بہت آسان ہیں۔ مسلمانوں کے سوا وہ کون شخص ہے جس نے صرف سرکار کی خیر خواہی میںاپنی اور اپنے کنبے کی جان دی اور ہر وقت ہاتھ پاؤں۔ دل و جان سے جاں نثاری کو حاضر رہا۔ جن مسلمانو ں نے ہماری سرکار کی نمک حرامی اور بد خواہی کی میںان کا طرف دار نہیں۔ میں ان سے بہت زیادہ ناراض ہوں۔ اور حد سے زیادہ بر اجانتا ہوں۔ کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کی بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا تھا۔ جواہل کتاب اور ہماے مذہبی بھائی بندہیں۔ نبیوں پر ایمان لائے ہیں۔ خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاباپنے پاس رکھتے ہیں۔ جس کا تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایمان ہے۔ پھر اس ہنگامے میںجہاں عیسائیوں کا خون گرتا ۔ وہیں مسلمانوں کا بھی خون گرنا چاہیے تھا ۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا ۔ اس نے علاوہ نمک حرامی اور گورنمنٹ کی ناشکری کے۔ جو ہر ایک رعیت پر واجب ہے۔ اپنے مذہب کے بھی بر خلاف کیا۔ پھر بلا شبہ وہ اس لائق ہیںکہ زیادہ تر ان سے ناراض ہوا جاوے۔ مگر عموما اخبارو ں اور بغاوت کی کتابوں میںجورائے ان کی نسبت چھاپی جاتی ہے اس میں اور میری رائے میںاتنافرق ہے کہ جو تمہیدا اورجو بنا اور جو منشا کہ وہ لوگ ان کی نسبت لگاتے ہیں۔ میں اسکو قبول نہیں کرتا اور کچھ شک نہیں کہ میں اپنی رائے کو بہت درستی اور انصاف سے کام میںلایاہوں۔ اگرچہ چاروں طرف سے مسلمانوں پر یہ شور و غل ہو رہا ہے ۔ مگر مسلمانوں کو کسی طرح رنجیدہ خاطر ہونا نہیں چاہیے۔ کیونکہ ہماری نہایت اعلیٰ منصف گورنمنٹ مسلمانوں کی طرف ہے۔ ہماری گورنمنٹ نے اصلی حالات فساد پر بخوبی غور کیا ہے ۔ اور یقین ہے کہ ہماری گورنمنٹ کی ہر گز یہ رائے نہیں ہے ۔ جو تم اخباروں اور بغاوت کی کتابوں میںدیکھتے ہو۔ پس جب کہ مسلمانوں کی طرف خود گورنمنٹ ہے تو پھر اس شور وغاغا کا ان کو کیا غم ہے۔ نمی گویم درین گلشن گل و باغ و بہار از من بہار از یارو باغ از یارو گل از یارو یار ازمن ہم جو یہ بات لکھتے ہیں کہ ہماری منصف گورنمنٹ مسلمانوں کے ساتھ ہے ۔ اس کی بہت روشن دلیل یہ ہے کہ ہماری قدردان گورنمنٹ نے خیر خواہ مسلمانوں کی کیسی قدر و منزلت اور عزت او ر آبرو کی ہے۔ انعام وکرام اور جاگیر اور پنشن سے نہال کر دیا ہے ترقی عہدہ اور افزونی مراتب سے سرفراز کیا ہے۔ پھر کیا یہ ایسی بات نہیںہے ۔ کہ مسلمان نازاں نہ ہوں۔ اور دل و جان سیہمای گورنمنٹ کے شکر گزار اور ثنا خواں نہ ہوں، مگر میںدیکھتا ہوں کہ مسلما نوں نے جو جو خیر خواہیاں کیں ان کا ذکر اخباروں میںبہت کم چھپتا ہے۔ بغاوت کی جو کتابیں چھپی ہیں ان میںتو اس کا ذکر ہے نہیں۔ اس لیے میںنے ارادہ کیا ہے کہ مسلمان خیر خواہوں کا تذکرہ اس کتاب میںلکھنا شروع کروں۔ اورجن مسلمانوںنے علی الخصوص مسلمان ملازمان گورنمنٹ جے جو جو خیر خواہیاں ہماری گورنمنٹ کی کیں۔ ان کیا بیان جہاں تک مجھ کو معلوم ہے لکھوں۔ اور جو جو انعام اوراکرام ہماری منصف اور قدردان گورنمنٹ نے بعوض اس کے مسلمانوں کو دیے وہ سب بیان کرون۔ تاکہ ہماری گورنمنٹ کی سخاوت اور منصفی اور قدردانی زیادہ تر مشہور ہو اور تمام مسلمان رعایا اپنے ہم قوموں کے ساتھ ہماری گورنمنٹ کی مروت اور سلوک اور رعایت اور قدردانی دیکھ کر ہماری گورنمنٹ کے دل سے شکر گذار ہوں۔ اور ہر ایک کو یہ حوصلہ پیدا ہو کہ جس طرح ہمارے ہم قوموں نے ہماری گورنمنٹ کی رفاقت سے عزت اورنیک نامی حاصل کی۔ اسی طرح ہم بھی حاصل کریں۔ اور یہ بھی جان لیںکہ ہماری گورنمنٹ ہمیشہ اپنی مطیع رعایا پر دل سے مہربان اور ان کی قدر و منزلت کرنے کو تیار ہے۔ مگر جو کہ مسلمان خیر خواہ بہت کثرت سے ہیں اور ان کی رپورٹیں بھی بہت لمبی لمبی ہیں۔ ان سب کا ایک کتاب میں جمع کرنا اور چھاپنا خالی دقت سے نہ تھا۔ اس واسطے یہ تجویز کی ہے ۔ کہ مناسب مناسب وقت پر چند چند لوگوں کا حال مختصر مختصر رسالوں میںچھاپا جاوے۔ چنانچہ یہ رسالہ پہلا نمبر اس کتاب کا ہے۔ جن لوگوں کی رائے یہ سبب تعصب او ر عدم واقفیت کے حالات ملکی اور سیاست مدن کے جو اصول ہیں ان پر صحیح رائے نہ پہنچے کے سبب میری رائے کے برخلاف ہیںوہ لوگ میری اس کتاب کو دیکھ کر حب الوطنی کا الزام مجھ پر لگائیںگے۔ ہاں یہ بات تومجبوری کی ہے ۔ کہ میری پیدائش ہندوستان میںہوئی۔ اور میں بلاشبہ مسلماں ہوں۔ اور مسلمانوں ہی کا ذکر خیر اس کتاب میںلکھتا ہوں۔ پھر نا م نصفی سے جو کوئی چاہے یہ الزام مجھ پر لگائے۔ مگر جو لوگ انصاف دوست ہیں۔ وہ خیال کریںگے کہ ان حالات اور واقعات کی تحریر میں میںنے کسی جگہ انصاف کو ہاتھ سے نہیںدیا۔ جس کسی مسلمان کی خیر خواہی کا ذکر لکھا ہے ۔ اس کے اتھ بجنسہ حکام متعہد ک رپورٹیں جو ان کے حق میںہوئیں۔ اور سارٹیفکیٹ جو ان کو دیے اور گورنمنٹ سے جو انعام و اکرام ان کو ملے وہ سب لفظ بلفظ اس میں مندرج ہیں۔ جو میری اس تمام تحریر پر گواہ عادل موجود ہیں۔ اور تما م متعصبوں کی زبان کو الزام لگانے سے بند کرتے ہیں۔ میرا اراداہ تھا کہ میںاپنا حال اس کتاب میںکچھ نہ لکھوں کیوںکہ میں اپنی ناچیز اور مسککین خدمتوں کو اس لائق نہیں جانتا کہ ان کو گورنمنٹ کی خیر خواہی میںپیش کروں ۔ علاوہ اس کے جو گورنمنٹ نے میرے ساتھ سلوک کیا وہ در حقیقت میری مسکین خدمت کے مقابل میںبہت زیاد ہے اور جب میںاپنی گورنمنٹ کے انعام اوراکرام کو دیکھتا ہوں اور پھر اپنی نا چیز خدمتوں پر خیال کرتا ہوں تو نہایت شرمندہ ہوتا ہوں۔ اور کہتا ہوں کہ ہماری گورنمنٹ نے مجھ پر اس سے زیادہ احسان کیا ہے جس لائق میںتھا ۔ مگر مجبوری ہے کہ اس کتاب کے مصنف کو ضرور ہے کہ اپنا حال اور اپنے خیالات کولوگوں پر ظاہر کرے۔ تاکہ سب لگ جانیں کہ اس کتاب کے مصنف کا کیا حال ہے۔ اور اس نے اس ہنگامے میںکس طرح اپنی دلی محبت گورنمنٹ کی خیر خواہی میںصرف کی ہے۔ سید احمد خان۔ مصنف اس رسالے کا اگر چہ میرے بزرگ عر ب کے رہنے والے ہیں، مگر اکبر اول کے عہد میںہرات سے ہندوستان میںآرہے ۔ میری پیدائش دہلی کی ہے۔ اور میں وہیں کا رہنے والا ہوں۔ دلی جو ایک شہر تھا رشک جنان و خلد ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے میری ددھیال میںسے کوئی شخص برٹش گورنمنٹ کا نوکر نہیںتھا ۔ البتہ سلاطین مغلیہ کے نوکر تھے اور پشت در پشت منصب و خطاب پاتے رہے۔ یہاں تک کہ میںنے بھی اس معزول کم بخت بادشاپ سے اپنے خاندان کی رسم کے بموجب موروثی خطاب پایا تھا ۔ میرے نانا نے البتہ گورنمنٹ انگلشیہ کی نوکری کی تھی ۔ ۱۸۰۱ء میںگورنمنٹ کی طرف سے وکیل ہوکر گئے تھے۔ ایران کو ۔ جبکہ حاجی خلیل خان سفیر شاہ ایران بمبئی میںمارا گیا تھااور جب اس خدمت کو انجام کر کر پھرے تو پولیٹیکل ایجنٹ ہوئے اوا (برما) میں ۔ اور جب ا س خدمت کو بھی انجام دیکر اپنے وطن میںآئے تو وزیر ہوئے۔ اکبر بادشاہ ثانی کے۔ اور پایا وہ درجہ اور خطاب جو وزیر اعظم کو مغلیہ سلطنت میں ملتا تھا۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا، گورنمنٹ انگلشیہ کی نوکری اختیار کی اور مجھ کو شوق ہوا فن تاریخ سے اور جب مختلف ملکوں کی تاریخ میری نظر سے گذری اور اصول گورنمنٹ اور سیاست مدن پر میں نے لحاظ کیا اس وقت سے میری رائے یہی رہی کہ ہماری گورنمنٹ اورہندوستان کی رعایا میںایسی محبت اور یگانگت ہو جاوے ، کہ ہر ایک کے امور مذہبی اور رسم و رواج سے کچھ سروکار نہ رہے۔ مگر تمام رعایا اور ہماری گورنمنٹ انتظام ملکی میںایک رائے اور ایک قصد اور ایک ارادہ رہیں اور تمام ہندوستان کی رعایا گورنمنٹ انگلشیہ کو اپنا بادشاہ سمجھ کر اس کی خیر خواہی اوررفاقت میںرہے۔ ۱۸۵۴ء میں جب میں نے ایک تاریخ دہلی کی پرانی عمارتوں اوراگلی عملداریوں کی لکھی تو اس میںسلسلہ سلطنت خاندان مغلیہ کا ۱۸۰۳ ء سے یعنی جب سے کہ نیک سپہ سالار انگلشیہ نے دہلی کو فتح کیا منقطع کیا اور ہندوستان کی سلنطنت میںسلسلہ شاہان انگلستان کا قا یم کیا ۔ ا س سے یقین ہو سکتا ہے کہ اس ہنگامہ کے پہلے سے میری نیت یہی تھی کہ تمام اہل ہند جان لیں۔ کہ اب سلطنت خاندان مغلیہ کی ختم ہوگئی ہے اور ہندوستان کی بادشاہت شاہان انگلستان کی ہے۔ اس لیے تمام رعایا کو اپنے بادشاہ اور گورنمنٹ انگلشیہ کی خیر خواہی اور اس سے محبت پیدا کرنی چاہیے۔ جب غدر ہوا۔ میںبجنور میں صدر امین تھا کہ دفعۃ سرکشی میرٹھ کی خبر بجنور میں پہنچی۔ او ل تو ہم نے جھوٹ جانا۔ مگر جب یقین ہوا تو اسی وقت سے میں نے اپنی گورنمنٹ کی خیر خواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کرباندھی ۔ ہر حال اور ہر ا مر میں مسٹر الیگزینڈر شکسپئر صاحب کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کے شریک رہا یہاں تک کہ ہم نے اپنے مکان پر رہنا موقوف کر دیا ۔ دن رات صاحب کی کوٹھی پر حاضر رہتا تھا اور رات کو کوٹھی کا پہرہ دیتا تھا اور حکام کی اور میم صاحبہ کی اور بچوں کی حفاظت جان کا خاص اپنے ذمہ اہتمام لیا۔ ہم کو دیاد نہیں ہے کہ دن رات میں کسی وقت ہمارے بد ن پر سے ہتیار اتر ا ہو۔ اگرچہ اکیسویں مئی ۱۸۵۷ء کو یعنی جب کہ جیل خانہ ٹوٹا اور نگینہ تک سفر مینا کی سرکش پلٹن روڑکی سے آگئی اور ہم نے کنویں میںخزانہ ڈالا۔ بہت بڑا سخت وقت تھا اور جب مسٹر الیگز ینڈر شیکسپئر صاحب بہادر نے قیدیوں پر تن تنہا حملہ کیا ۔ تو اس وقت سوائے میرے اور میرے ساتھی مسلمان دو افسروں کے اور کوئی شخص صاحب ممدوح کے ساتھ نہ تھا۔ مگر میری دانست میںدو وقتوں سے زیادہ سخت وقت کوئی ہم پر نہیں گذرا اور اس وقت بھی مسلمانوں کے سوا کوئی شخص مسٹر الیگزینڈر صاحب بہادر کے ساتھ جان دینے کوتیار نہ تھا۔ پہلا وقت وہ تھا ۔ جب دفعۃ ۲۹ کی کمپنی سہارن پور سے بجنور میںآگئی ۔ میں اس وقت ممدوح کے پا س نہ تھا ۔ دفعۃ میں نے سنا کہ فوج باغی آگئی اور صاحب کے بنگلہ پر چڑھ گئی۔ میںنے یقین جان لیا کہ سب صاحبوں کا کام تمام ہوگیا ۔ مگر میںنے نہایت بری بات سمجھی کہ میں اس حادثہ سے الگ رہوں۔ میںہتیار سنبھال کر روانہ ہوا اور میرے ساتھ جو ایک لڑکا صغیر سن تھا۔ میںنے اپنے آ دمی کو وصیت کی ۔ میں تو مرنے جاتا ہوں۔ مگر جب تو میرے مرنے کی خبر سن لے تب اس لڑکے کو کسی امن کی جگہ پہونچا دیجیو۔ مگر ہماری خوش نصیبی اور نیک نیتی کا یہ پھل ہوا کہ اس آفت سے ہم بھی اور ہمارے حکام بھی سب محفوظ رہے۔ مگر مجھ کو ان کے ساتھ اپنی جان دینے میںکچھ دریغ نہ تھا۔ دوسرا زمانہ وہ ہے کہ جب جون کی آٹھویں رات کو باغیوں نے حکام یورپین کے قتل کا ارادہ کیا اور مجھ کو خبر ملی اورفی الفور میں نے مسٹر الیگزینڈر شیکسپیئر صاحب بہادر کو اطلاع دی۔ وہ رات جس مصیبت سے گذری ہم سے اس کا بیان نہیں ہو سکتا ۔ مگر اس وقت تین افسر جو جان دینے کو موجود تھے ۔ وہ تینوں مسلمان تھے ۔ جو شخص کہ عین اس وقت میں باغیوں کے غول میں گیا اور اس فتنہ کو دبایا اور حکم یورپین کو بخیر و عافیت روانہ ہونے کی فرصت ملی۔ وہ شخص بھی مسلمان تھا اور اسی سبب سے میںمسلمانوں کو جاں نثار خیر خواہ اپنی گورنمنٹ کا کہتا ہوں۔ یہ تمام ہنگامہ باغیوں کا ضلع بجنور میں ہور ہا تھا کہ دفعۃ ہمارے نام حکم آیا کہ سرکار کی طرف سے ضلع بجنور کا انتظام کرو۔ اس وقت بھی ہم اپنی جان کابچنا باغیوں کے ہاتھ سے ہر گز نہیں جانتے تھے۔ مگر ہم نے انتظام ضلع کا اٹھایا اور سرکار کے نام سے تمام ضلع میں منادی کی اور اشتہارات سرکار کے نام سے جاری کیے اور انتظام ضلع کا سرکار کی طرف سے کیا اور ضلع بجنور کے زمینداروں کو اپنے ساتھ لے کر باغیوں سے مقابلہ کیا۔ جب ہماری شکست ہوئی تو ہم بھاگے اور چاند پور کے مقام پر باغیوں کے ہاتھ گھر گئے۔ ہماری زندگی باقی تھی ، کہ بہت بڑ ا صدمہ اٹھا کر وہاں سے نکلے اور میرٹھ پہنچے اور پھر ۲۵ اپریل ۱۸۵۷ ء کو بفتح و فیروزی بجنور میں داخل ہوئے۔ اس کے عوض میں سرکار نے میری بڑی قدر دانی کی۔ عہدۃ صدر الصدوری پر ترقی کی او رعلاوہ اس کے دو سو روپیہ ماہواری پنشن مجھ کو اور میرے بڑے بیٹے کو عنایت فرمائے اور خلعت پا نچ پارچہ اورتین رقم جواہر ایک شمشیر عمدہ قیمتی ہزار روپیہ کا اور ہزار روپیہ نقد واسطے مدد خرچ کے مرجمت فرمایا ۔ میری نسبت جو رپورٹ ہوئی۔ و ہ ذیل میں مندرج ہے۔ ترجمہ سرٹیفکیٹ عطائے ولسن صاحب بہادر سپیشل کمشنر سابق جج اضلاع مراد آباد و بجنور مورخہ ۲۸ جون ۱۸۵۷ ء واضح رہے کہ ہم تصدیق اس امر کی کرتے ہیں کہ سید احمد خاں صدر امین بجنور کے خیر خواہ اور مطیع سرکار انگریز بہادرکے دل سے ہیںچنانچہ جب حکام انگریزی ضلع مذکور سے تشریف لے گئے صدر امین موصوف بطور افسر سرکار کے اس ضلع میںموجود رہے۔ ہم ان کی سفارش کرتے ہیںکہ یہ صاحب قابل نظر عنایت حکام سرکاری کے ہیں۔ دستخط۔ جان کرائی کرافٹ ولسن صاحب ترجمہ انتخاب چٹھی مسٹر الیگزینڈر شیکسپئر صاحب بہادر و کلکٹر و مجسڑیٹ ضلع بجنور ۔ نمبر ۵۶ مورخہ ۵ جون بنام رابٹ الیگزینڈر صاحب بہاد کمشنر روہیل کھنڈ مقام بریلی۔ دفعہ دوم۔ ہم آپ کی خدمت میںبلا توقف گذارش کرتے ہیں کہ درباب ان اہل کار ان کے جنہوں نے غدر میں عمدہ کام کیے ہیں اور اپن ناموری حاصل کی۔ دفعہ سو،۔ نقشہ معمولی ارسال کرتے ہیں۔ نسبت رحمت خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر ضلع بجنور اور سید احمد خاں صاحب صدر امین اور میرتراب علی صاحب تحصیلدار ضلع بجنور کے اور حالات مفصلہ تحریر کیے جاتے ہیں ، کہ موید اس کے ہیں۔ دفعہ چہارم۔ جو صورت اس ضلع کی وقت شروع غدر کے تھی ۔ آب کو بخوبی روشن ہے۔ فوج سرکاری یہاں کچھ نہ تھی ۔ اس سبب سے کچھ اندیشہ ایسے امر کا نہ ہوا اور نہ کچھ تدبیر کرنی پڑی۔ صرف دو مرتبہ البتہ اندیشہ ہوا تھا ۔ جب چند نفر تلنگہ تھوڑے دنوں کے واسطے یہاں آئے تھے ۔ بہت ضروری یہ تدبیر تھی کہ بندوبست ضلع کا بدستور قائم رہے اور کسی وجہ کی بدعت اور دنگہ نواب صاحب اور ان کے لواحقین کی جانب سے ہونے پاوے سو ایسا سامان جس سے یہ تدبیر کامل ہو سکتی اس قت بہت مشکل تھا اور اشد ضرورت تھی کہ خبر معتبر نسبت ارادہ اورحال ہر قسم کے لوگوں کے ہم کو پہنچا کرے ۔ چنانچہ ہم نے مدد کے واسطے افسران سے مشورہ اس امر کا کیا اور ان افسروں نے اس مصیبت کے وقت میں ایسی عمدہ مدد ہماری کی کہ جس کا بیان مفصل نہیںہو سکتا۔ ہم کو یقین کام ہے ۔ کہ اگر افسران موصوف ہماری مدد نہ کرتے تو اپنی مدت تک صاحبان انگریز کا اس ضلع میں ٹھہرنا بہت دشوار تھا اورنیز انہیں تین صاحب سے واسطے تدبیر مناسب کے اس وقت بھی مشورت کی گئی تھی ۔ جب ضلع کا حال بگڑنے لگا ۔ اور معلوم ہو اکہ نواب صاحب مسلح سپاہیوں کو بھرتی کرتے ہیں۔ کیوںکہ اس صورت میںخبر داری بہت ہی لازم تھی اور نیز جس وقت سپاہیان رجمنٹ ۲۹ سہارن پور سے مراد آباد کو اس ضلع کی راہ سے آئی اورجیل خانہ ٹوٹ گیا اور خزانہ سرکاری کنویں میںڈالنا مناسب معلوم ہو ااور چند تلنگے اس پلٹن کے ہماری مدد کے واسطے بھیجے گئے ۔ غرض ان ہر ایک وقت میںیہ تینوں صاحب بہت ہوشیاری اورجواں مردی کر کے ہمارے ساتھ مستعد رہے ۔ آخرش جس رات ہم نے کیمپ چھوڑنا مناسب جانا۔ اگر صدر امین صاحب درمیان میں نہ ہوتے تو یقین تھا کہ نواب صاحب اپنے اہل کارا ن کو بدعت کی جازت دیتے اور اغلب تھا کہ ہماری جان پر ضرور صدمہ پہنچتا۔ دفعہ پنجم۔ جب کہ ہم نے کمبو چھوڑ دیا تو ان تین صاحب نے بھی چھوڑ دیا۔ چنانچہ ڈپٹی صاحب مقام ہلددر کی جہاں راجپوت رہتے ہیں۔ تشریف لے گئے اور صدر امین صاحب اور تحصیلدر صاحب نے موضع بسر کٹرہ میںپناہ لی ۔ دو صاحب ان میں سے عیال دار بھی تھے ۔ اس سبب سردست ہمارے ساتھ نہ چل سکے تھے بلکہ ان کا چلنا منا سب بھی نہ تھا۔ اس واسطے کہ ان دنوں میں خبر گرم تھی کہ صبح شام میںدلی فتح ہوئی ہے اور ہم نے اس ضلع کو نواب صاحب کے سپرد اس امید پر کیا تھا ، کہ وہ کسی نہج کی حرکت نہ کریں۔ غرض ا س صورت میں مناسب بھی تھا، کہ حکام اہل ہند جو معتمد ہوں۔ اس ضلع میں موجو د رہیں۔ دفعہ ششم۔ جو کہ دلی فتح نہ ہوئی تو ا س ضلع کے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھ گیا اور ان افسران کا وہاں رہنا مشکل ہوا۔ بلکہ ۲۹ جون کو جب قریب چار سو آدمی جہادی منیر خاں سر گروہ کے ساتھ واسطے جانے دہلی کے اس ضلع میںآئے تھے۔ اس وقت ان صاحبوں کو جان کا بھی خوف تھا اور ۱۶ اگست تک جب نواب بجنور بھاگا ۔ تب تک یہ افسر علانیہ خیر خواہی سرکار کی نہ کر سکے مگر بہت مشکل کے ساتھ حکام ضلع کو خبر دیتے رہے۔ کسی وقت میں ان صاحبوں کو اس بات کا وسوسہ نہیں ہوا کہ انجام کار سرکار غالب نہ رہے۔ چنانچہ جس وقت ا ن صاحبوں کو اجازت واسطے انتظام ضلع کے ہوئی تھی ۔ ڈپٹی صاحب اور صدر امین صاحب فی الفور مستعد اس کا م کے ہوئے تھے اور باعانت زمینداران قوم ہنود کے بندوبت کرنا شروع کیا تھا ۔ مگر ۲۳ اگست کو چار و ناچار ہنود چلے گئے اور اس قصبہ پر مسلمان چڑھ آئے اور اگرچہ راجپوت اور دیگر قوم ہنود جو خیر خواہ سرکاری تھے ان سے بمقابلہ پیش آئے مگرمسلمان فتح یاب ہوئے ۔ دفعہ ہفتم ۔ جب یہ مصیبت گذری تو ڈپٹی صاحب اور صدر امین صاحب نے مع دیگر اشخاص کے بمشکل تمام چاند پور میںپناہ لی ۔ مگر وہاں بھی نہ ٹھہر سکے۔ کس واسطے کہ باغی مسلمان ان سے بباعث خیر خواہی سرکار کے بہت نفرت رکھتے تھے اس سبب سے صدہا مصیبت کے ساتھ دریا عبور کر کے ڈپٹی صاحب تو خورجہ اپنے وطن کو اور صدر امین صاحب میرٹھ کو تشریف لے گئے۔ دفعہ دوازدہم۔ سید احمد خان پلے ۱۸۲۷ء میںمقام آگرہ کی کمشنری میں منشی مقرر ہوئے تھے ۔ بعد اس کے ۱۸۴۱ء میں منصف ہوئے اور ۱۸۵۵ ء میں ترقی ان کی اوپر عہدہ صدر امینی کے ہوئی اور اس عہدہ پر رضا مندی و خوشنودی مزاج حاکماں کے کام کرتے رہے۔ دفعہ سیزدہم۔ ان کا نقصان بھی بہت ہوا۔ کس واسطے کہ شروع غدر میں ان کے عیال اور اطفال دہلی میںتھے اور ہم نے اس بات کو خوب دریافت کر لیا کہ بہ سبب ان کی خیر خواہی کے باغیوں نے ان کے گھر کو لوٹ لیا۔ مکانات تو مل گئے ہیں مگر نقصان مال اور اسباب کا جو دہلی اوربجنور میں ہو تخمینا تیس ہزار تن سو چوراسی روپیہ کا قرار دیتے ہیں۔ دستخط ۔ الیگزینڈر شیکشپئر صاحب میجسٹریٹ و کلکٹر ترجمہ چٹھی صاحب رجسٹر عدالت صدر دیوانی اضلاع غربی نمبری ۷۳۲ مورخہ جون ۱۸۵۷ء با جلاس مارگن صاحب دمنی صاحب جج۔ بنام میور صاحب بہادر سیکرٹری گورنمنٹ۔ بوصول نقل چٹھی صاحب کلکٹر و میجسٹریٹ ضلع بجنور نمبر ی ۵۲ مورخہ ۱۸۵۷ ء موسومہ صاحب کمشنر بہادر روہیل کھنڈ مشعر حسن کار گذاری سید احمد خاں صاحب صدر امین حکام عدلت بخدمت نواب گورنر جنرل بہادر کے گذارش کرتے ہیں کہ اگر صدر امین مذکور بعہدہ صدر الصدوری ضلع مراد آباد کے بجائے احمد حسین خاں صدر الصدرو سابق کہ ماہ مئی ۱۸۵۷ ء میں وفات پاگیا۔ مقرر کیا جاوے تو مناسب ہے۔ دفعہ دوم ۔ ماسوائے استحقاق خیر خواہی کے من جملہ ان افسروں لئیق کے جو تحت حکام عدالت ہیں۔ سید احمد خاں صدر امین ایک افسر لئیق ہے ۔ بطور نشانی عنایات گورنمنٹ کی اگر تاریخ تقری سیدا حمد خاں کی عہدہ صدر الصدوری پر اس روز سے محسوب ہو کہ جس روز سے سرکار کا قبضہ دوبارہ مراد آبا د پر ہوا تھا تو نہایت ہی مناسب ہے اور اسی نیت سے حکام عدالت ان کی تقرری کی تجویز کرتے ہیں۔ حالاں کہ فی الحال کوئی حاکم اس ضلع میں اوپر عہدہ ججی کے مقرر نہیں ہو اہے ۔ مگر جو شیکسپئر صاحب کے نزدیک قائم رہنا سید احمد خاں صاحب کا بالفعل بجنور میں واسطے بندوبست اس ضلع کے مناسب ہو تو اس کا کچھ مضائقہ نہیں ہے اور واسطے ملاحظہ کے نقل رپورٹ مذکورہ بالا ملفو ف چٹھی ہذا ارسال ہوئی ہے۔ دستخط ڈاش وڈ صاحب رجسٹر ترجمہ چٹھی صاحب رجسٹر عدالت صدر دیوانی نمبر ۸۳۳ مورخہ ۱۳ جولائی ۱۸۵۸ ء بنا م سید احمد خاں صدر امین۔ حکام عدالت کو کمال خوشیہے در باب بھیجنے نقل چٹھی گورنمنٹ مورخہ دوازدہم جولائی نمبر ۲۳۹۹ مشعر تقرری آپ کی بعہدہ صدر الصدوری مراد آباد ابتدائے اس تاریخ سے جس روز سے سرکار کا قبضہ اس ضلع پر ہوا تھا اور سند بر وقت پہنچنے سے اس سرشتہ کی آپ کی خدمت میںبھیج دی جاوے گی۔ دفعہ دوم ۔ تا مقرر ہونے صاحب جج مراد آباد کے آپ بدستور مقام بجنور میںرہیے ۔ دستخط ۔ ڈاش وڈ صاحب رجسٹر نقل چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ نمبر ۲۳۷۹ مورخہ ۱۲ جولائی ۱۸۵۷ بنا ب صاحب دیوانی عدالت۔ بجواب چٹھی مورخہ ۱۹ جون سن الہ آپ کواطلاع دی جاتی ہے کہ حسب تجویز حکام عدالت صدر کے امیر کبیر نواب گورنر جنرل بہادر نے سید احمد خاں صدر امین بجنور کی ترقی اوپر عہد ہ صدر الصدوری ضلع مراد آباد ابتدائے اس تاریخ سے کہ سرکار کا قبضہ اس ضلع پر ہوا بعوض خیر خواہی اور عمدہ کار گذاری ایام غدر کے منظور فرمائی ۔ دستخط ۔ میور صاحب سیکرٹری گورنمنٹ ترجمہ چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ نمبر ۳۲۷۱ حرف الف مرقومہ ۱۲ جولائی ۱۸۵۸ ء بنا م سید احمد خاں صاحب صدر امین بجنور۔ آپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ امیر کبیر نواب گورنر جنرل بہادر نے عہد ہ صدر الصدوری ضلع مراد آباد کے مقرر فرمایا ۔ ابتدائے اس روز سے جس دن سرکار کا قبضہ اس ضلع پر ہوا۔ دستخط ۔ میور صاحب سیکرٹری گورنمنٹ ترجمہ انتخاب چٹھی رابرٹ الیگزینڈر صاحب بہادر کمشنر روہیل کھنڈ مورخہ یکم جولائی ۱۸۵۸ ء ۔ بنام سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع غربی۔ مقام الہ آباد۔ دفعہ سوم۔ اگرچہ ہم کو ایسا اتفاق نہ ہوا جیسا شیکسپئر صاحب کوہوا کہ حسن کار گذاری ان تینوں صاحبوں کے جن کی نسبت صاحب ممدوح رپورٹ لکھتے ہیں اچھی طرح معلوم کرتے مگر البتہ ہم کو نینی تال میںاتنی خبر پہنچی تھی کہ یہ تینوں صاحب خیر خواہ سرکار رہے ہیں۔ اور ابتدائے غد ر سے انتہا تک کسی نہج کا شبہ ان کی خیر خواہی میں نہیں ہوا۔ اگرچہ نزدیک تھا کہ کئی مرتبہ ان کی جان پر بھی صدمہ پہنچتا۔ اور مال اسباب ان کا جو اس ضلع میں تھا ۔ وہ تو بالکل برباد ہوگیا ۔ دفعہ چہارم۔ہماری ملاقات تینوں صاحب سے ہے جو کچھ در باب لیاقت اور نیک چلنی ان کی شیکسپئر صاحب نے لکھا ہے۔ ہم بھی اس کی تائید کر سکتے ہیں۔ دفعہ پنجم۔ جس قدر انعام صاحب ممدوح نے واسطے ان لوگوں کے تجویز کیا ہے ۔ ہمارے نزدیک بہت مناسب ہے اور ہم چاہتے ہیںکہ منظور کیا جاوے۔ انتخاب چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع غربی نمبر ۲۸۰۲ مورخہ ۲۹ جولائی ۱۸۵۸ ء بنا م رابرٹ الیگزینڈر صاحب بہادر کمشنر روہیل کھنڈ۔ دفعہ دوم ۔ جو آپ نے اور صاحب کلکٹر و میجسٹریٹ بجنور نے نسبت عمدہ کار گزاری ان تین افسروں کی حسب تصریح شیکسپیئر صاحب کے اپنی اپنی رائے تحریر فرمائی ہے سو رائے گورنمنٹ کی بھی متفق اس کے ہے۔ دفعہ سوم۔ اگرچہ یہ تجویز صدر دیوانی عدالت کے ترقی سید احمد خاں صاحب صدر امین کے بعہدہ صدر الصدوری ضلع مراد آباد کے ہوچکی ہے۔ علاوہ اس کے آج خدمت نواب گورنر جنرل بہادر میںرپورٹ واسطے عطائے پنشن دو سو روپیہ ماہواری تاحین حیات ان کے اور ان کے بڑے بیٹے کے عوض حسن کار گذاری کے بھیجی گئی۔ دستخط ۔ ولیم میو ر صاحب، سیکرٹری گورنمنٹ ترجمہ چٹھی ،سیکرٹری گورنمنٹ ہند نمبر ۳۴۶ بنام سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع غربی۔ بوصول چٹھی مورخہ ۲۹ جولائی ۱۸۵۸ ء نمبر ۱۸۲ حر ف الف مرسلہ آپ کے جوابا آپ کو اطلاع دی جاتی ہے بعوض خیر خواہی اور حسن کار گذاری ایام غدر کے امیر کبیر نواب گورنر جنرل بہادر نے پنشن مبلغ د و سو روپیہ ماہواری حین حیات سید احمدخاں صد ر الصدور مراد آباد اور انکے بیٹے مرحمت فرمائی ۔ دستخط ایڈ منسٹن صاحب سیکرٹری گورنمنٹ ہند۔ ہمراہی گورنر جنرل بہادر حکم ہوا ، کہ نقل چٹھی ہذا کے پاس صاحب کمشنر روہیل کھنڈ بجواب چٹھیات مرقومہ یکم اگست نمبر ۹۴ و ششم اگست نمبر ۱۰۰ مرسلہ انکی بھیجی جاوے دستخط اورمٹرام صاحب اسسٹنٹ سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع غربی مورخہ ۲۱ اگست ۱۸۵۸ مقام الہ آباد میر صاحب مشفق مہربان مخلصانی سیدا حمد خاں صاحبط بدر الصدور مراد آبطاد سلامت بعد اشتیاق ملاقات محبت آیات راضح باد بموجب حکم جناب مستطا ب معلیٰ القاب نواب گورنر جنرل بہادر بتاریخ شانزدہم مارچ ۱۸۵۸ ء جناب صاحب کمشنر بہادر روہیل کھنڈ نے با جلاس عام خدت پانچ پارچہ و تین رقم جواہر مفصلہ ذیل بنظر خیر خواہی آپ کو عطا کیا ۔ا ور یہ خط حسب ضابطہ سند بنام آپ کے تسطیر ہوا۔ بطور سند اپنے پاس رکھو۔ تفصیل خدمت پارچہ جواہر شمشیر مع پرتلہ کلاہ چار قب ۵ ۳ ۱ ۱ گوشوارہ جبغہ سرپیچ نیم آستین دوشالہ ۱ ۱ ۱ ۱ ۱ مالائے مروارید پٹکہ ۱ ۱ دستخط جی پامر صاحب میجسٹریٹ اورکلکٹر المرقوم ۱۶ مارچ ۱۸۵۹ ء ذکریا خاں مرحوم یہ صاحب پٹھان اور رام پور کے ر ہنے والے تھے۔ جب غدر ہوا تو یہ صاحب جہان آباد ضلع پیلی بھیت کے پیش کار تھے۔ ابتدائے غدر سے انہوں نے طرح طرح کی جانفشانیاں، سرکار کی خیر خواہی اور صاحب میجسٹریٹ بہادر کی حفاظت اور نگہبانی میں کیں اورخود صاحب کے بنگلے پر ان کی حفاظت کے لیے رات دن متعین رہے۔ جب پیلی بھیت میں زیادہ غدر ہوا اور میم صاحبوں اور بچوں کاوہاں رہنا کسی طرح مناسب معلوم نہ ہوا تو ان خان صاحب نے صاحب میجسٹریٹ بہادر کی میم صاحبہ اوربچوں کو اپنے ساتھ لیا اور جو مسلمان اس نازک وقت میں ان کے رفیق تھے۔ وہ سب ساتھ ہوئے اور نہایت ہوشیاری اور جواں مردی اور جاں بازی سے میم صا حبہ کووہاں سے نکال کر نینی تال لے چکے پیلی بھیت سے پانچ کوس موضع بڑا مجھلیا تک پہنچے تھے کہ وہاں صاحب میجسٹریٹ بہادر مع عبدا للہ خاں صاحب کے آں کر ملے اور سب لوگ بخیر و عافیت نینی تال پہنچے۔ نینی تال میںبھی ہر طرح اور ہر وقت خیر خواہی سرکار میں مصروف رہے۔ چیر پورہ اور ستار گنج کی لڑائی میںجو فروری ۱۸۵۸ ء میں ہوئی تھی ، یہ صاحب بہت دلاوری سے شریک تھے جب فوج سرکاری پھر دوبارہ پیلی بھیت میںپہنچی تو یہ خان صاحب بھی ساتھ آئے اور ترقی عہدہ پاکر تحصیلدار مقرر ہوئے مگر عین حالت تحصیلداری میں ایک باغی نے تلوار سے مار ڈالا اور سرکار کی خیر خواہی میں انہوں نے اپنی جان نثار کی۔ سرکار دولت مدارنے اس نمک حلال خیر خواہ کے پاس ماندگان کی بہت قدر و منزلت کی اور ایک ہزار روپے سے زائد کی مال گزاری کے دیہات انعام دیے اور ایک ہزار پانچ سو رروپیہ زر مال گذاری معاف کیا اور ان کے تینوں بیٹوں کو ساڑے سات سو روپے کا خلعت جس میں مختلف ہتھیار بھی ہیں تجویز ہوا ہے۔ جس کی منظوری آگئی ہے اور تیار ہو رہا ہے اور تینوں بیٹوں کو اوپر عہدہ معزز کے نوکر کر دیا ہے ۔ تر جمہ رپورٹ مسٹر کارمیکل صاحب بہادر میجسٹریٹ پیلی بھیت نسبت ذکریا خاں۔ سابق میں ذکریا خاں پیش کار جہاں آباد ضلع پیلی بھیت کے تھے چنانچہ اس عہدے سے ناحق معزول کیے گئے مگر چند روز پہلے غدر کے صاحب کمشنر بہادر نے ان کو پھر بحال فرمایا ۔ اس کی شکر گذاری انہوں نے بخوبی کی۔ ہمارے عیال و اطفال کو اپنی حمایت میں رکھا۔ اور کمال جاں فشانی اوراحتیاط سے ان کو پہاڑ پر پہنچایا ۔ کئی کوس چل چکے تھے کہ ہم بھی شریک ان کے ہوئے۔ ہمارے ساتھ کمال وفاداری سے رہے اور جہاںکل ہم گئے ہمارے ساتھ رہے۔ یہ شخص پرانا آدمی تھا ۔ دکن اور اور اضلاع میں بہت دنوں تک نوکری بھی کی تھی ۔ اور سرکار انگریزی کی دانائی اور مقدور اور ہمت پر یقین کلی رکھتے تھے اور جس وقت بریلی کے ضلع میں سرکار کا دوبارہ انتظام ہوا۔ صاحب کمشنر بہادر نے ان کی ترقی اوپر عہدہ تحصیلداری کے فرمائی تھی ۔ اور ہم نے سنا ہے کہ کملا جانفشانی سے عہد تحصیلداری کا کام کرتے تھے ، مگر افسوس یہ ہے کہ سر کچہری ایک کم بخت مسلمان نے ان کو قتل کر دیا ۔ اور سرکار کا ایسا خیر خواہ اور نمک حلال نوکر جان سے جاتار ہا۔ ان کے تین بیٹے تھ دو کی پرورش تو ہ م نے کر دی ہے ۔ چنانچہ ایک کو پیش کار اور ایک کو عملہ میں بھرتی کیا ہے ۔ اور نسبت تیسرے کی چٹھی سفارشی صاحب میجسٹریٹ مظفر نگر کی خدت میںبھیجی ہے ۔ کس واسطے کہ اس لڑکے کا استحقاق ا س ضلعے میں ہے ، کیونکہ جس وقت اس کے چچا محمد ابراہیم شاملی کی تحصیل میںمارے گے تھے ، یہ لڑکا بھی ان کے پاس تھا ، بلکہ زخمی بھی ہوا تھا ۔ دفعہ دوم: اور حقیقت میں یہ سمجھنا چاہیے کہ ذکریا خاں کو کچھ انعام نہیںملا، کیونکہ ان کی اتنی زندگی نہ ہوئی کہ اپنی خیر خواہی کا ثمرہ پائے۔ لہذا ان کے تینوں بیٹوں کا استحقاق بذمہ عنایت سرکار ہے او ر دو گاؤں جائداد ذکریا خاں متوفی کی پرگنہ شاہی ضلع بریلی میںتھے ۔ ایک دھریتا ، دوسرا شمس پور سو جس وقت ذکریا خاں کی خیر خواہی کا حال خان بہادر خان نے سنا تو اس ظالم نے دونوں گاؤں ضط کر لیے ۔ اور مال گذاری ان کی اپنے تصرف میںکر لی تھی ۔ بلکہ ان کے گھر بار کو بھی لٹوا دیا تھا اور اس سبب سے ان کے عیال اطفال پر سخت مصیبت پڑی تھی ، لہذا واسطے منظوری گورنمنٹ کے ہم تجویز کرتے ہیں کہ ان دونوں گاؤں کی جمع بابت سال گذشتہ فصل کے معاف فرمائی جاوے اور علاوہ اس کے ایک دو گاؤں پر گنہ شاہی کے من جملہ دیہات مضبطہ سرکار کہ جن کی جمع ہزار روپیہ سالانہ ہو ان تینوں بیٹوں کو یہ حصہ مساوی عنایت فرمائی جاویں اور ان کے ایک بیٹے کا نام یحییٰ خاں اور دوسرے کا نذیر احمد خاں اور تیسرے کا حیدر خاں ہے۔ دستخط کارمیکل صاحب میجسٹریٹ عبدا للہ خاں یہ صاحب پٹھان اور رام پور کے رہنے والے ہیں۔ جب غدر ہوا تو پیلی بھیت میں کوتوال تھے۔ ابتدائے غدر سے انہوں نے بقاء انتظام اور خیر خواہی سرکا رپر چست کمر باندھی۔ چند آدمی معتمد اپنے وطن کے بلائے اور کارمیکل صاحب میجسٹریٹ بہادر کی خاص حفاظت کا بندوبست کیا اور باوجودیکہ پرپلی ۳۱ مئی کو بگڑ چکی تھی ۔ مگر انہوں نے اپنی پولیس کا انتظام ہاتھ سے نہیں دیا ۔ آخر جب ضلع چھوڑنا صاحب میجسٹریٹ بہادر کو مناسب معلوم ہوا تو ا س افسر نے مع چودہ آدمی مسلمان اپنے رفیقوں کے صاحب میجسٹریٹ بہادر کی رفاقت کی اور باوجود اس عظیم بلوہ اور ہر جگہ پر باغیوں اور مفسدوںکے مجمع کے صاحب میجسٹریٹ بہادر کے نینی تال لے چل۔ تمام کنبہ انکا اور بال بچہ سب پیلی بھیت میںتھے۔ سب کو خدا پر چھوڑا اور کسی کی پرواہ نہیںکی اور صاحب میجسٹریٹ بہادر کے ساتھ ہوئے اور ہزاروں طرح اندیشے اور مشکلیں اٹھا کر ۳ جون ۱۸۵۷ کو مع الخیر نینی تال پہنچے اور صاحب میجسٹریٹ بہادر کو مع میم صاحبہ اور بچوں کے نینی تال پہنچایا اور تا مراجعت فوج نینی تال میں حکام کی رفاقت میںرہے اور ہلددانی کے انتظام پر متعین ہوئے اور بارہویں جولائی ۱۸۵۷ ء تک وہاں کا انتظام کیا۔ جب با غیوں نے ستار گنج پر فوج ڈالی اور فروری ۱۸۵۸ ء میں ان پر چھاپہ مارنے کی تجویز ہوئی۔ تو یہ صاحب بہت دلاوری سے اس لڑائی میں شریک تھے ۔ غرض کہ ان کی ہر ایک عمدہ کار گذاریوں سے حکام کو یقین کامل اس بات کا ہے کہ یہ صاحب دل و جان سے سرکار کے خیر خواہ رہے اور ہر ایک موقعہ میں سرکار پر اپنی جان نثار کرنے کو موجود و تیار تھے ۔ بعوض اس خیر خواہی کے سرکار دلت مدار نے ان کی بہت قدر کی اولا عہدہ کوتوالی سے عہدہ تحصیلداری پر ترقی کی اور ساڑھے چار موضع زمینداری کے جن کی جمع بارہ سو روپیہ سے زیادہ ہے انعام میں عطا فرمائے اور پانچ سو روپیہ کے خلعت کی منظوری آگئی ، چنانچہ خلعت جس میں بہت عمدہ ہتھیار بھی ہیں تیار ہو رہا ہے اور علاوہ اس کے ایک بہت عمدہ پختہ حویلی سہسوال میںملنے کی رپورٹ ہوئی ہے اور دفتر گورنمنٹ سے سند بھی ۔ جس کا ذکر رپورٹ میں مندرج ہے عنقریب آنے والی ہے۔ ترجمہ چھٹیات وغیرہ نسبت عبدا للہ خاں چٹھی نج عطیہ مسٹر الیگز ینڈر صاحب بہادر کمشنر روہیل کھنڈ بنا ولیم صاحب بہادر کمشنر میرٹھ ، مرقومہ ۲۵ ستمبر ۱۸۵۷ ء مقام نینی تال۔ اگرچہ احتیاج نہیں ہے کہ ہم آپ کو نسبت عبدا للہ خاں کے کچھ سفارش لکھیں ، مگر یہ چند کلمہ اطلاعا لکھتے ہیں کہ انہوں نے جیسے حال مارے جانے اپنے قبلہ گاہ اور چچا اور دیگر اقرباء اپنے کا بمقام شاملی سنا ہے تب سے بہت آزردہ ہوئے ہیں اور اب اپنی مستورات اور عیال اطفال لانے کے لیے جا تے ہیں، ہم اس شخص کے واسطے بہت افسوس کرتے ہیں اور یقین ہے کہ آپ بھی افسوس کریں گے اور ہم نے واسطے حفاظت ان کے راہبر بھی ساتھ کر دیے ہیں اور کہہ دیا ہے کہ ان لوگوں کو گھاٹ پر ٹھیرانا اور بعد استمزاج آپ کے دریا پا رلیے جانا۔ یقین ہے کہ آپ جو مناسب جانیں گے اچھی ہی صلاح تجویز کریںگے ۔ دستخط ۔ رابرٹ الیگزینڈر صاحب یہ اصل چٹھی بطور سرٹیفکیٹ کے عبدا للہ خاں کو دی گئی تھی ۔ترجمہ سرٹیفکیٹ عطائے کرنیل کارمیل صاحب پلٹن شاہی نمبر ۲۳ ۔ مورخہ ۳ مارچ ۱۸۵۸ ء ۔ مقام نینی تال۔ حسب خواہش عبدا للہ خاں کے ہم کو کمال خوشی ہے درباب لکھنے ان چند کلموں کے کہ ہماری ملاقات ان سے کئی مہینے سے مقام نینی تال میںہوئی اور ہم ان کو بہت بڑا ذ ی عزت اور اہل ادب سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ یہ اور اور کئی آدمی ہمارے بھائی اور ان کے عیال اطفال کے ساتھ عین غدر میں پیلی بھیت سے پہاڑ کو آئے تھے۔ دستخط ۔ کرنیل کارمیکل صاحب بہادر ترجمہ سرٹیفکیٹ عطا ئے میجر رامزی صاحب کمانیر کمایوں مورخہ ۲۳ اپریل ۱۸۵۸ ء مقام ہلددانی۔ عبدا للہ خاں ساکن رام پور پر وقت شروع غدر روہیل کھنڈ کے پیلی بھیت میں کوتوال تھے۔ اور ہمراہ کارمیکل صاحب کے نینی تال کو آئے۔ ہم آٹھ برس سے ان کو جانتے ہیں اور زبانی مسٹر ڈرامن کے ان کی تعریف بھی ہم نے سنی ہے ۔ جب تک کمایوں میںرہے تب تک ہماری مدد ہر طرح سے کرتے رہے غرض بروقت انتظام روہیل کھنڈ عوض خیر خواہی کے اگر سرکار سے ان کو انعام عطا ہو تو ہم کو کمال خوشی ہوئی اور ان کی زبانی یہ بھی معلوم ہوا کہ جو سرٹیفکیٹ ان کے پاس تھے سب جاتے رہے۔ دستخط ۔ رامزی صاحب بہادر ترجمہ سرٹیفکیٹ مسٹر گریوز صاحب، لفٹنٹ پلٹن ۲۶ گورکھ مورخہ ۲۳ اپریل ۱۸۵۸ ء ۔ مقام ہلددانی ۔ عبد اللہ خاں کوتوال پیلی بھیت کو ہم ایک عرصے سے پہنچانتے ہیں کہ یہ شخص اہل کار بہت ہوشیار اور خیر خواہ سرکار ہیں۔ چیر پورہ اور ستار گنج میں جو باغیوں سے مقابلہ ہوا تو اس وقت بھی موجود تھے اور کارنمایاں کیا تھا ۔ اب صاحب کمشنر روہیل کھنڈ کے ساتھ مراد آباد کو جاتے ہیں۔ ہم سے سرٹیفکیٹ طلب کیا تھا ۔ اس واسطے ہم نے لکھ دیا ۔ دستخط گریوز صاحب لفٹنٹ ترجمہ رپورٹ مسٹر کارمیکل صاحب میجسٹریٹ ضلع بدایوں مورخہ ۲۸ اگست ۱۸۵۸ ء ۔ جب روہیل کھنڈ میںغدر شروع ہوا تو عبداللہ خاں اس وقت پیلی بھیت میں کوتوال تھے اور جب سے احتمال اس غدر کا ہوا تھا تب سے کمال مشقت اور جانفشانی سے بندوبست اس ضلع کا کیا تھا اور ہمارا دیکھا ہو اہے کہ پندرہ روز قبل غدر کے عبداللہ خاں دن اور رات گھوڑے پر سوار رہے اور راؤنڈ گشت شہر اور چوکیات کا کرتے رہے ۔ انہی کی دلیری دیکھ کر ہر ایک کو اطمینان ہوگیا تھا اور بریلی میں جب غدر ہو اتھا تب بھی اپنے علاقہ کے انجام کا رمیں بخوبی مصروف رہے اور بروقت بگڑنے پولیس پیلی بھیت کے بھی ان کی نیک نیتی اورجواں مردی میں کچھ شک نہیں تھا۔ کیامعنی کہ انہوں نے بہت ہی چاہا۔ کہ اس فساد کے بانی مبانی کو گولی سے مار دیں۔ مگر تحصیلدار نے روک لیا اور کہا کہ خون نہ کرو، ورنہ فساد زیادہ برپا ہو جاوے گا تب سے ہمارے پاس خیر خواہی سے موجود رہے اورپہاڑ کو ہمارے ساتھے چلے اور یہ بھی ہم جانتے ہیںکہ جو لوگ ہمارے ساتھ محافظت کے واسطے چلے تھے۔ وہ سب انہی کے ذریعے سے چلے تھے اور جس وقت ہم کو پہاڑ کے نیچے پہنچا دیا ۔ تب ان میں سے صرف چوتھائی آدمی رہ گئے تھ ے ۔ اگرچہ عبداللہ خاں نے فہمائش کرنے میں کچھ کسر نہیں کی۔ مگروہ کس کی سنتے تھے آخر کو نہ مانا ، اور جب تک ہم پیلی بھیت میںرہے اس وقت تک بھی ان کی جانت سے کوئی خطا نہیں ہوئی اور ہم جانتے ہیں کہ یہ اہل کار بہت نیک اور جاں فشاں خیر خواہ سرکار کے ہیں، چنانچہ ان کے خاندان کے لوگ بھی سرکار کے ساتھ بہت خیر خواہی سے پیش آئے۔ حتیٰ کہ سرکار کے کام میں جان سے بھی دریغ نہ کیا ، چنانچہ ذکریا خاں مذکور ان کے چچا تھے ۔ اور دوسرے چچا ان کے محمد ابراہیم خاں تحصیلدار تھے کہ تحصل شاملی ضلع مظفر نگر میں مارے گئے ۔ انہوں نے ابتداء سے باغیوں کو اپنی تحصیل میں دخل نہیں دیا تھا اور کرنال کے حاکم کو اور نیز کپتان ہاڈسن صاحب کو جو دلی کی فوج میںمہتمم خبر رسانی کے محکمہ کے تھے ۔ بہت مدد دی تھی اور حکام ان کی کار گذاری سے بہت خوشنود ہوئے تھے ۔ چنانچہ صاحب میجسٹریٹ ضلع مظفر نگر نے بھی ہم کو لکھا تھا کہ جیسا کام محمد ابراہیم خاں نے کیا ہے ، اس سے عمدہ کوئی نہیں کر سکتا آخر کوئی باغی بکثرت تمام ان کی تحصیل پر چڑھ آئی اور اس تحصیلدار نے سر خروئی جان نثار کی حاصل کی اور ان کے اقرباء جو رام پور سے ان کی مدد کو گئے ۔ وہ بھی بہشت نصیب ہوئے۔ چنانچہ ان میں عبدااللہ خاں کاباپ اور اقرباء بھی تھے۔ اب اس خاندان میں صرف دو مرد ایک عبداللہ خاں اور دوسرے ان کا چھوٹا بھائی باقی رہتے ہیں۔ لہذا ہم ان کی سفارش دلی ضرورتا کرتے ہیں۔ کس واسطے کہ انہوں نے خیر خواہی اپنی سرکار کی اچھی طرح کی اور وقت ایسی مصیبت کے ہمارے پاس موجود رہ کر مددگار رہے۔ بلکہ انکے خاندان کے لوگ بھی خیر خواہ سرکار رہے اور اس خاندان کا سرپرست سوا عبداللہ خاں کے کوئی نہیں رہا۔ یعنی صرف یہی شخص جو ان ہے۔ باقی سب مستورات اور لڑکے ہیں، لہذا ہم یہ رپورٹ کرتے ہیں کہ سرکار تجویز مناسب درباب پرورش ان کی فرمائے۔ یعنی عبداللہ خاں کو کہ باعث پرورش اس خاندان کا ہے ، اس قدر زمینداری مرحمت فرمائے کہ بدستور سابق دولت مندی سے گزران کریں، تا کہ ان کو اور اور لوگوں کو سرکار کی وفاداری پر یقین کلی ہو جاوے، جو کہ پرگنہ سیسوان ضلع بدایوں میں چند دیہات باغیوں کے سرکار میں ضبط ہوئے ہیں، اگر ان میں سے پانچ گاؤں ، کہ جن کیکل جمع بارہ سو روپیہ سالانہ ہو ، عبد اللہ خاں کو مرحمت ہوکر اس میں اپنے خاندان کے لوگوں کی اوقات بسری بخوبی کرا دے اور صلہ اپنی خیر خواہی کا تصور کرے ، تو بہت بہتر ہے ، اور جو کہ ولیم صاحب کمشنر بہادر میرٹھ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہم اپنی معرفت پرورش خاندان محمد ابراہیم تحصیلدار شاملی کی کرا د یں گے ا س واسطے ہم اپنی تجویز اسی قدر کرتے ہیں، کہ واسطے پرورش خاندان ان کے باپ کے بھی کافی ہو۔ کس واسطے کہ بجز اس شخص کے اب کوئی ان کا سرپرست نہیں رہا اور جو کہ محمد ابراہیم خاں کو ایک جوڑی طمنچہ کا وعدہ کیا تھا لہذا ہم چاہتے ہیں کہ وہی جوڑہ طمنچہ عبداللہ خاں کو عنایت ہو اور علاوہ اس کے ایک تلوار بھی ، کل قیمتی پانچ سو روپیہ مرحمت ہو۔ اور ایک پروانہ خوشنودی مزاج کا درباب اس خیر خواہی کے سرکار سے عطا ہو۔ اور بروقت موقع کے عہدہ تحصیلداری پر پرورش ان کی فرمائی جاوے۔ دستخط کارمیکل صاحب میجسٹریٹ جب کہ میں نے ذکریا خاں اور عبداللہ خاں کا ذکر کیا تو بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اسی مقام پر ان مسلمان خیر خواہوں کا بھی ذکر لکھ دوں، جنہوں نے ان دونوں پٹھانوں کے ساتھ خیر خواہی سرکار میںاپنی جان کھوئی ، یا بہت سخت مصیبت اٹھائی ، علی محمد خاں یہ شخص بھی رام پور کا پٹھان ہے ۔ جب غدر شروع ہوا تو ۲۱ مئی ۱۸۵۷ ء کو عبداللہ خاں نے ان کو بلا کر سواروں میںنوکر رکھا۔ جو مسلمان ذکریا خان کے ساتھ مسٹر کارمیگل صاحب کی میم صحبہ کے ساتھ گئے تھے ۔ ان میں یہ شخص بھی تھا ۔ نینی تال پہنچنے کے بعد ہلددانی کے بکٹ پر تعینات ہوئے دو دفعہ ڈاکوؤں کی لڑائی میںشریک رہے اور ستمبر ۱۸۵۷ء میں جب باغیان بریلی کی فوج وہاں آئی تو ان سے بھی خوب لڑے اور پھر چیر پور ہ کی لڑائی میںبہت بہادری سے دسویں فروری ۱۸۵۸ ء کو مارے گئے ، سرکار نے اس کے عوض میں آٹھ روپیہ پنشن ان کے وارثوں کو اور تین سوچھتیس روپیہ نقد انعام مرحمت فرمایا۔ محب اللہ خاں یہ بھی رام پور کے پٹھان ہیں غدر میںنئے نوکر ہوئے تھے یہ بھی انہی مسلمانوں میں سے ہیںج جو میم صاحبہ کارمیکل صاحب کی رفاقت میں تھے ۔ ہلددانی اور جیر پورہ اور ستار گنج ، رمپورہ کی لڑائیوں میں زخمی بھی ہوئے ۔ اب دفعہ دار سواران پولیس ہیں، دو سور روپیہ کی زمینداری انعام میں ملی تھی ۔ سیف اللہ خاں یہ بھی نئے نوکر اور رام پور کے رہنے والے اور انہی مسلمانوں میں سے ہیں جو میم صاحبہ میکل صاحب کی رفاقت میں تھے اور چیر پورہ کی لڑائی میں بھی شریک تھے۔ ان کو دو سو پانچ روپیہ جمع کی زمینداری انعام میں ملی ہے اور اب جمعدار سواران فوجداری ہیں۔ علاوہ ان کے وہ مسلمان جن کے نام ذیل میں مندرج ہیں میم صاحبہ کی رفاقت میںبھی اور اور لڑائیوں میںشریک رہے اور ان کو مفصلہ ذیل انعام ملے ۔ اللہ یار خاں پٹھان رام پوری جو پورہ میں زخمی ہوئے انعام دفعدار سواران زمینداری بشرکت محب اللہ خاں قوم پٹھان ساکن رام پور۔ محمدخاں پٹھان رام پوری، جمعدار سواران پولیس ہیں عبد الکریم خاں پٹھان رام پوری، جمعدار سواران پولیس ہیں سید نور خان پٹھان ساکن امریا ۔ ضلع پیلی بھیت ، جمعدار سواران پولیس ہیں۔ غلام صامن پٹھان ، انعام دو سو روپیہ ۔ ان شخصوں کے واسطے جو رپورٹیں ہوئیں وہ ذیل میں مندرج ہیں۔ ترجمہ انتخا ب فہرست خبر خواہان سرکار بابت ایام غدر واقع اضلاع پیلی بھیت و بریلی ۔ محب اللہ خاں قوم پٹھان ساکن رام پور یہ شخص پولیس میں بمشاہرہ دس روپیہ ،جمعدار ضلع پیلی بھیت میںتھے ۔ ان کی نسبت ہم کو بخوبی اعتبار رہا اور کسی طرح کاشک نہیں ہوا ۔ ہمارے پاس برابر موجود رہے۔ گو کہ پیادہ تھے اور کچھ کام سواری وغیرہ کا ان سے متعلق نہ تھا ۔ مگر پھر بھی عاریتا گھوڑا لے کر اور سواروں کے ہمراہ جاتے تھے۔ چنانچہ چیر پورہ اورستار گنج کی لڑائی میں بھی مو جو د تھے ۔ اگرچہ ہم نے ضلع کے سواروں میں باضابطہ تنخواہ بھرتی کر دیا ہے ، مگرہم جانتے ہیں کہ حسب تجویز ہماری جیسے اور سواروں کو انعام تجویز ہوا ہے ان کو بھی دیاجاوے ۔ کس واسطے کہ ان کی کار گذاری ان کی کار گذاری سے کم نہ تھی ۔ سیف اللہ خان قوم پٹھان ساکن پیلی بھیت یہ شخص اہالیان پولیس میںدس روپیہ کے جمعدار تھے ان کی وفاداری اور خیر خواہی ایک عجیب ماجرا ہے۔ کیونکہ ان کے خاندان کے لوگ بالکل باغی ہوگئے اور خان بہادر خان کے پاس نوکری کر کے پیلی بھیت میں سردار باغیوں کے بنے ۔ باوجود اس کے اس شخص نے کچھ نمک حرامی سرکار کی نہیں کی، بلکہ اطاعت اور نمک حلا لی سے موجود رہا۔ بالفعل مقام بریلی میںبہ زمرہ سوا ران بھرتی ہے۔ چونکہ اس کے اقرباء کی جائداد ضبط ہوگئی لہذا ہم چاہتے ہیں کہ نصف یا ایک ثلث اس کا خیر خواہی کے صلہ میں اس شخص کو عطا کیا جاوے اور نام ان لوگوں کا حسب تفصیل ذیل ہے ۔ عنایت اللہ ۔ چنا خاں۔ منا خاں ۔ عبدالرشید خاں اللہ یار خاں قوم پٹھان ساکن رام پور دفعدار سواران اس شخص کو بھی ہم نے بمقام پیلی بھیت رسالہ میں بھرتی کیا تھا۔ بمقدور اپنے بہت خیر خواہی کی۔ ہلددانی کی پہلی لڑائی میں بہت ہی دلیری کی تھی ،چنانچہ افسر کمان رسالہ نے بھی اپنی رپورٹ میں اس کا ذکر لکھا تھا ۔ چیر پورہ کی لڑائی میں خود مجروح ہوئے اور گھورا بہ صدمہ گولی جان سے مارا گیا اور اور سواروں کی مانند اچھا کام کیا ۔ ہلددانی میںبھی موجود رہے اور راونڈ گشت بخوبی کرتے رہے اور ہم نے چٹھی مورخہ ۹ مارچ کی دفعہ ششم موسومہ صاحب کمشنر بہادر میںپہلی ستمبر ۱۸۵۷ ء سے بعہدہ دفعداری ترقی ان کی تجویز کی تھی ، چنانچہ صاحب ممدوح نے چٹھی نمبر ۷۰ مورخہ ۱۰ مارچ ۱۸۵۸ ء کی دفعہ سوم میںوہ تجویز ہماری منظور فرمائی ،۔ بالفعل اللہ یار خاں کو یہ بسبب جواں مردی اس لڑائی ترقی عہدہ دفعد داری پر ہوئی اور جو کچھ بعوض خیر خواہی اوروفاداری ان کی اور محمد خاں کے تجویز کیا گیا ہے محمد خاں کے نام کے نیچے لکھا ہے ۔ ملاحظہ کر لینا چا ہے۔ محمد خاں قوم پٹھان ساکن رام پور دفعدار سواران یہ شخص بہت جواں مرد اور اشراف آدمی ہے۔ ہم نے پیلی بھیت میںبہ زمرہ سواران بھرتی کیا تھا ۔ یہ شخص بہت جواں مردی سے لڑائی کے سامنے موجود رہتا تھا۔ چنانچہ ان کی جواں مردی اور ہمت کا ذکر دو مرتبہ ہوا۔ ایک دفعہ کپتان بیچر صاحب کمانیر ڈی ٹیچ منٹ ہشتم رسالہ نے لکھا کہ نقل اس چٹھی کی ہمراہ اپنی چٹھی مورخہ ۹ مارچ بخدمت صاحب کمشنر بہادر کے روانہ کی ہے اور دوسری مرتبہ کپتان کراس مین صاحب کمانیر رسالہ روہیل کھنڈ نے بھی لکھا ہے ۔ چنانچہ اس کا ذکر دفعہ پنجم چٹھی مذکورہ میں لکھا گیا ہے اور اس رپورٹ میںہم نے واسطے ترقی محمد خاں کی اوپر عہدہ دفعداری کے تجویز تھی۔ کہ صاحب کمشنر نے بھی یہ تجویز ۱۰ مارچ کو منظور فرمائی اورجس وقت مراد آباد سے بریلی کو فوج چلی تو جرنیل صاحب کو منظور ہوا۔ کہ کچھ فوج میجر کارڈن صاحب کی جو جدا ہوگئی تھی ۔ معلوم فرما ویں۔ لہذا محمد خاں کو بسبب واقفیت راہ کے ایک چٹھی کا جواب ایسی جلد لائے کہ عقل حیران ہوگئی اورجس وقت لشکر میںآئے توگھوڑا ان کا ایسا ہارا ہو اتھا کہ اسی وقت گر کر مر گیا ۔ یس سوائے اس ترقی دفعداری کے کہ صرف بہ بسبب دلیری ان کے ہوئی ہے۔ اب تک کچھ انعام ان کو اور نہ اور سواروں مفصلہ ذیل کو مرحمت ہوا۔ لہذا ہم تجویز کرتے ہے ں کہ زمینداری گاؤں مٹسان بجمع دو سو چھتیس روپیہ واقع پ رگنہ سہسوان ضلع بدایوںبہ حصہ مساوی محمد خاں اور اللہ یار خاں اور سید نور خاں و عبدالکریم خاں اور محب اللہ خاں کو عطا ہو اور ان لوگوں نے درخواست بھی کی ہے۔ کہ ہم کو نقد انعام لینا منظور نہیں ہے اگر کچھ جائداد مرحمت ہو تو بہتر ہے ۔ اسی واسطے ہم نے یہ تجویز کی ہے اور واضع رہے کہ بمقابلہ ان کی کارگذاری کے انعام کچھ زیادہ نہیں ہے ۔ عبدالکریم خاں قوم پٹھان ساکن شاہ جہاںپور و سید نور خاں قوم پٹھان ساکن امر سیہ ضلع پیلی بھیت ان دونوں شخصوں کی کیفیت مطابق تینوں آدمی مذکور کے ہے۔ کیونکہ یہ ہوگ بھی پیلی بھیت میںبھرتی ہوئے تھے اور ہمارے ساتھ ہلددانی تک گئے تھے اور اچھا کا م کیا تھا۔ ان دونوں میںسید نور خاں بڑی ہمت کا آدمی تھا ۔ اس کو خواہش دفعداری کے ہے لہذا ہم چاہتے ہیں کہ سوائے انعام مذکورہ بالا کے دفعداری بھی اس کو دی جاوے اور عبدالکریم خاں کے واسطے صرف انعام مذکورہ کافی ہے۔ جن لوگوں نے اس خت وقت میں مسٹر کارمیکل صاحب بہادر اور ان کی میم صاحبہ کی رفاقت کی۔ وہ لوگ سب مسلمان تھے ۔ پھر کیا یہ بات خیال میں آسکتی ہے کہ صاحب ممدوح چند بدمعاشوں کے سبب تمام مسلمانوں کی قوم کی قوم کوبرا جانتے ہوں گے اور ان کی رفاقت اور خیر خواہی اور جاں نثاری کی قدر ان کے دل میں کچھ نہ ہوگی۔ منشی محمد حسین ۔ سر شتہ دار دیوانی ۔ مراد آباد اگر یہ صاحب پرانے نوکر اور قدیم سے نیک کاماور کار گذار اہل کار گورنمنٹ کے ہیں۔ مگر غدر میں جو خاص خدمت ان سے بن آئی ۔ وہ یہ ہے کہ جب مراد آباد کا جیل خانہ ٹوٹا تو انہوں نے کما ل خیر خواہی اور جان نثاری سے میم صاحبہ مسٹر جان کیری کرافٹ ولسن صاحب بہادر جج مراد آباد کی خاص حفاظت کی اور پھر میرٹھ میںبحضور حکام حاضر ہوئے۔ اب بدستور اپنے عہدہ پر مامور ہیں۔ ان کی خوبی اور دلی خیر خواہی ان کے سرٹیفکیٹوں سے جوذیل میں مندج ہیں ظاہر ہوتی ہے۔ نسبت محمد حسین خاں، ترجمہ سرتیفکیٹ ولسن صاحب اسپیشل کمشنر مورخہ ۲۵ اکتوبر ۱۸۵۸ ء مقام مراد آباد ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ محمد حسین سرشتہ دار عدالت دیوانی ۱۹ مئی ۱۸۵۷ ء کو وقت صبح کے حسب دستور واسطے رپورٹ خوانی کے آئے تھے۔ اسی روزباغیان انتیس پلٹن نے جیل خانہ کھول کے قیدیوں کو نکال دیا۔ ایک بجے قیدیوں کی گرفتاری میںہم مصروف رہے اس عرصہ تک محمد حسین ہماری میم کی حفاظت میں موجود رہے ۔ یہ شخص بہت کار گذار او ر لئیق آدمی ہے۔ ولسن صاحب ترجمہ سرٹیفکیٹ میم صاحبہ مور خہ ۲۷ اکتوبر ۱۸۵۸ء مقام مرادآباد محمد حسین سرشتہ دار ہماری نج پر کار سرکا م انجام دے رہے تھے کہ اسی دن صبح کو باغیوں کی پلٹن انتیس نے جیل خانہ توڑ کر قیدیوں کو چھوڑ دیا ، چنانچہ ولسن صاحب نج سے واسطے انتظام اور حفاظت کے وہاں تشریف لے گئے اور میںاکیلی رہ گئی۔ اس وقت محمد حسین ہمارے ساتھ رہے اور حتی المقدور ہماری حفاظت کی۔ ولسن صاحب نے بھی ایک سرٹیفکیٹ دیا ہے یقین ہے کہ ان کے کارآمد ہو،مگر جو کہ انکو ہماری نشانی رکھنے کی بھی خواہش تھی۔ اس واسطے یہ چند کلمے ہم نے لکھ دیے کہ ان کی خیر خواہی جو ہماری مصیبت کے دن تھے ، اس کے ذریعہ سے واضح ہوجاوے۔ دستخط جین کرای کرافٹ ولسن صاحب شیخ شرف الدین رئیس شیخوپورہ ضلع بدایوں ان صاحب نے جو کچھ خیر خواہی و جان نثاری ایام غدر میں کی، اس کالکھنا بہت مشکل ہے اگرچہ واقعہ لکھا جانا ممکن ہے، مگر جو کیفیت اورجو مشکلات پیش آئی ہیں وہ کسی طرح بیان نہیں ہو سکتیں ۔ جب کہ فوج باغی ۳۱ مئی ۱۸۵۷ ء کو بریلی میںبگڑ گئی اور جیل خانہ توڑ دیا اور تمام فساد برپا کیا ۔تو ضلع بدایوں کابھی انتظام ہاتھ سے جاتا رہا ۔ یکم جون ۱۸۵۷ ء روز دو شنبہ کو فوج موجود بدایوں نے شورش کی اور بریلی کی فوج بدایوں میںآنے کی خبر ہر دم گرم ہوئی مسٹر ایڈورڈ صاحب بہادر کلکٹر میجسٹریٹ بدایوں نے ایک سوار مسلمان شیخ شرف الدین کے پاس بھیجا اور ان کو اپنی مدد کے لیے بلایا ۔ اسی وقت شیخ الدین دو سو آدمی مسلمان مع تمام اپنے عزیز و اقرباء کو مسلح ہتیار بند لے کر روانہ بدایوںہوئے۔ جس وقت وہ بدایوںمیںپہنچے تلنگوں نے جیل خانہ توڑ دیا تھا ۔ اور خزانہ اورکوٹھیوں کی لوٹ شروع تھی۔ شیخ شرف الدین مع تمام گروہ مسلمانوں کے اسی ہنگا مہ میںصاحب کے پاس پہنچے اور مسٹر ایڈورڈ صاحب اور مسٹرڈانیل صاحب مالک کوٹھی نیل اور ان کے ایک لڑکے کو اور ایک صاحب پترول کو جملہ چار صاحبوں کو اپنے ساتھ بحفاظت تمام شیخوپورلائے اور اپنے مکان میںرکھا۔ اس عرصہ میںفوج باغی بریلی بدایوں کے قریب آ پہنچے ۔ شیخوپور بدایوں سے ایک میل کے فاصلے پر ہے اور سب لوگوں کو حال تشریف لے جانے صاحب لوگوں کاشیخوپور میںمعلوم تھا اور بریلی کی فوج جس کے ساتھ توپیں اور پانچ سوسوار اور ایک پلٹن تلنگہ کی تھی۔ بدایوں کے باغات میںآگئی ۔ اس وقت یہ مصلحت ہوئی کہ ایسے قریب مقام میںان صاحب لوگوں کا رکھنا مناسب نہیں اس واسطے ان صاحب لوگوں سے عرض کیا گیا کہ یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں اس واسطے ان صاحب لوگوںسے عرض کیا گیا کہ یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں اورجگہ چل کر پناہ لیجیے۔ اس لیے شیخ شرف الدین ان صاحبوں کو مع جماعت مسلمانان شیخوپور سے نکالا اورموضع ککورہ میںجو انہی کی زمینداری کا گاؤں ہے اور متصل جنگل کے ساتھ آٹھ کو س کے فاصلہ پر ہے لے گئے یہ مصلحت بہت ہی مناسب ہوئی کیوں ک ہ سب صاحب لوگ شیخوپور سے دو سو قدم بھی باہر نہیںنکلے تھے کہ فوج باغی بدایوں میں داخل ہوئی اورتوپ بغاوت کی اس نے سر کی۔ فوج تمام رات جملہ مسلمان کمر بند مستعد بہ لڑائی رہے اور ان صاحبوں کی چوکی و بہرہ کی حفاظت کی۔ صبح کو مسٹر ایڈورڈ صاحب نے فرمایا کہ ہم کو پٹیالی پہنچا دو۔ وہاں مسٹر فلپس صاحب ومسٹر براملی صاحب مع سواران کے موجود تھے ۔ شیخ شرف الدین نے اسکو قبول کیا اور مع اپنے تمام گروہ مسلمانوں کے سب صاحب لوگوںکو بعد عبور گنگ بحفاظت تمام بمقام پٹیالی پہنچا دیا۔ اس کے بعد مسٹر اسٹوراٹ صاحب معہ عیا ل و اطفال نہایت سراسیمہ شیخوپور میں پہنچے اور شیخ شرف الدین نے ان کو بھی ککورہ میںچھپایا اورتین مہینہ تک ان کی ہر طرح سے حفاظت کی اور پھر ان کو بہ جماعت ایک گروہ مسلمان بندوقچیوں کے سو بروں تک پہنچاد یا۔ بعوض اس خیر خواہی کے شیخ شرف الدین کو تین ہزار روپیہ کا خلعت گورنمنٹ سے مرحمت ہوا۔ اور دو ہزار پانچ سو روپیہ کی جمع کا گاؤں چہارم جمع پر نسلا بعد نسلا ملا اور جو رپورٹیں ان کے واسطے کے ہوئیں اور جو چٹھیات نیک نامی ان کو ملیں وہ ذیل میں مندرج ہیں۔ ترجمہ سرٹیفکیٹ و رپورٹ وغیرہ نسبت شیخ شرف الدین رئیس شیخوپور ضلع بدایوں ۔ سرٹیفکیٹ عطائے مسٹر اسٹوارڈ صاحب ، مورخہ ۱۶ اکتوبر ۱۸۵۷ مقام فتح پور ۔ واضح رہے کہ شیخ شر ف الدین نے ہماری اور ہمارے گھر کے پانچ آدمیوں کی جان بچائی اور ایک گاؤں میں جو متصل شیخوپور کے ہے ۳ جون سے لغایت ۱۰ اگست ہم کو پناہ دی۔ اور ۱۲ اگست ۱۸۵۷ ء کو بحفاظت تمام فتح پور متصل سرؤں کے ہم کو پہنچا دیا۔ دستخط مسٹر جیمس اسٹوارڈ صاحب ترجمہ سرٹیفکیٹ فلپس صاحب جائنٹ میجسٹریٹ سابق ضلع ایٹہ مورخہ ۱۲ فروری ۱۸۵۹ء مقام: آگرہ۔ ہماری ملاقات شرف الدین زمیندار شیخوپور ضلع بدایوں سے عرضے سے ہے۔ بہت ذی عزت اور لئیق اور صاحب علم ہیں انہوں نے مسٹر اسٹوارڈ صاحب، سر دفتر کچہری کلکٹری ضلع بدایوں کو بھی پناہ دی تھی ۔ جب ہم لوگ اس نواح میںتھے او رہم ان کو ان چند مسلمان زمینداروں میں سمجھتے ہیںکہ جنہوں نے سرکار کی خیر خواہی کی ہے اور بخوبی اعانت کی ہے دستخط مسٹر فلپس صاحب ترجمہ چٹھی ایڈورڈ صاحب جج ضلع بنارس مورخہ ۳ مارچ ۱۸۵۸ ء مقام بنارس بنا م مسٹر راس صاحب،۔ میں آپ کی خدمت میںچند قطعے خطوط مرسلہ روساء بدایوں روانہ کرتا ہوں۔ شاید انکے ملاحظہ سے کچھ ایسا ضروری حال معلوم ہو کہ اس عرصے میں آپ کے کار آمد ہو شیخ شرف الدین نامی اور خاندانی آدمی ہے اس ضلع میں اس کا وسیلہ اور قدر بڑی ہے ۔ یقین ہے کہ ایسے وقت میں اس کی ذات سے اچھا کام انجام ہو اور جس رات ہم نے بدایوںچھوڑا تھا۔ انہوں نے بھی ہم کو پناہ دی تھی اور یقین کلی ہے کہ اگر یہ شخص درمیان میں نہ ہوتے تو ہم اپنی جان بدایوں سے بچا کر نہ لا سکتے ۔ اگر آپ ان سے خطوط نویسی کریں تو ہماری کمال خوشی ہے۔ دستخط ایڈورڈ صاحب جج ترجمہ میمورنڈم ایڈورڈ صاحب ضلع بنارس مورخہ ۳ مارچ ۱۸۵۸ء مقام بنارس۔ شیخ شرف الدین رئیس شیخو پور کے سرپرست ایک خاندان نامی اور ذی عزت ضلع بدایوں کے ہیں اور اپنی ذات سے بہت اشراف اور ذہین ہیں۔ قبل غدر کے اکثر ہماری ملاقات کو آئے تھے۔ اور بباعث انہی کی ملاقات کے پہلی جون کو جب آمد باغیان فوج بریلی کی خبرگرم ہوئی تھی ۔ ہم نے تجویز کیا تھا کہ جب تک باغی نہ نکل جاویں گے۔ ہم ان کے مکان میںپناہ لیں گے ۔ اور بعد اس کے بدستور کام ضلعے کا انجام دیں گے ۔ چنانچہ جب باغی کمپو میں آگئے۔ اور جیل خانہ توڑ دیا ہم یکم جون کو رات کے وقت شیخوپور میں گئے ۔ مگر ہمارے حق میںبہت اچھا ہوا۔ کہ ان کے اقرباء اور بیگانوں نے ہم کو اس مکان میں نہ رہنے دیا۔ شیخ مذکور ہم کو اپنے ساتھ ایک اور اپنے گاؤں میں جو گنگا کے کنارے بائیں ہاتھ ہے لے گئے۔ ہم رات پھر وہاں رہے۔ دفعہ دوم:۔ سب گاؤں والے اس وقت ایسے بگڑ رہے تھے ۔ کہ اگر شیخ مذکور ہمارے ساتھ نہ ہوتے تو یقین کامل ہے کہ ہم صحیح سلامت دریا تک نہ پہنچ سکتے اور ہم نے سنا ہے کہ بعد اس کے شیخ جی نے اسٹوارڈ صاحب کرائی بدایوں کو بھی پنا ہ دی تھی ۔ اور دو مرتبہ شیخ جی کے خط بھی ہمارے پا س آئے تھے۔ ان میںاپنا اور ضلعے کا حال لکھا تھا ، چنانچہ ہم نے ان خطوں کو بذریعہ اپنے خط کے بخدمت راس صاحب بمقام فتح گڑھ بھیج دے ہیں اور لکھا ہے کہ یہ شخص بہت لئیق اور خیر خواہ اور مستحق عنایت کا ہے۔ دستخط ایڈورڈ صاحب ترجمہ سرٹیفکیٹ عطائے مسٹر براملی صاحب بہادر میجسٹریٹ کلکٹر ضلع علی گڑھ، مورخہ ۲۹ اپریل ۱۸۵۸ مقام علی گڑھ۔ ہماری ملاقات کئی سال سے خاندان شیخ شرف الدین رئیس شیخوپور متصل بدایوں سے ہے اور ہم ان لوگوں کو بڑ ااشراف جانتے ہیں خصوصا شیخ شرف الدین کو اور جو کچھ ہم کو خبر پہنچی ہے اس سے ہم کویقین ہے کہ ایام غدر میں باغبان مسلمان ساکن بدایوں نے ان کو بہ سبب نہ کرنے اطاعت کے بہت تنگ کیا تھا اور تین شخص ان کے قرابتی ہیں۔ ایک تحصیلدار خاص گنج، دوسرا تحصیلدار ضلع آگرہ اور تیسرے ہمارے پاس سررشتہ دار فوجداری کے ہیں اور یہ تینوں اب تک اپنے اپنے کام پر بہت مستعد ہیں ہم شیخ شرف الدین کوبہت لئیق اس بدایوں کے ضلعے میں سمجھتے ہیں او رمعتمد جانتے ہیں۔ لہذا جملہ حکام انگریز کی خدمت میںہم ان کی سفارش کرتے ہیں اور یہ سرٹیفکیٹ دیتے ہیں کس واسطے کہ ہم نے سنا ہے کہ جو کچھ اسناد خوشنودی مزاج حکام بدایوں کی ان کے پاس تھیں باغیوں نے لوٹ لیں اور جلا دیں اورانہوں نے ۳۱ مئی یا یکم جون کو ایڈورڈ صاحب میجسٹریٹ کلکٹر بدایوں کی بھی حفاظت کی تھی ۔ جس وقت بدایوں کی فوج بگڑ گئی تھی ۔ دستخط براملی صاحب میجسٹریٹ کلکٹر ترجہ سرٹیفکیٹ عطائے مسٹرکالون صاحب بہادر کلکٹر ۳۱ جولائی ۱۸۵۸ ء مقام : بدایوں۔ ایام غدر میں شیخ شرف الدین رئیس شیخوپور نے اخلاص سرکار انگریزی کا بخوبی ظاہر کیا اور کئی صاحبان انگریز کی جان بچائی ۔ بروقت دوبارہ قبضہ ہوئے سرکار انگریزی کے اس ضلع پر حاضر ہو کر مشکل کے وقت میں کام آئے۔ تھوڑے عرصے تک تحصیلدار بھی رہے۔ بعد ا سکے ساتھ وجہ معقول کے مستعفی ہوئے ۔ ہم ان کے من جملہ ان لوگوں کے سمجھتے ہیںجو خیر خواہ سرکار رہے اور مستحق انعام کے ہیں۔ یقین ہے کہ سرکار سے عطا بھی ہوگا۔ دستخط ایلٹ کالون صاحب ترجمہ خط ایڈورڈ صاحب بہادر مورخہ ۱۸ اکتوبر ۱۸۵۸ء مقام : ولایت بنام شیخ شرف الدین۔ خط اس عزیز کا مورخہ ۵ اگست ۱۸۵۸ ء کہ علی گڑھ سے بھیجا تھا ، کل کے روز ہمارے پاس پہنچا ۔ اس کا جواب بلا توقف بھیجتے ہیں۔ ہم کو کمال خوشی ہوئی ، جس وقت ہم کومعلوم ہوا کہ آپ کی خیر خواہی اور کار گذاری پیش گاہ مسٹر الیگزینڈر صاحب کمشنر بہادر کی ظاہر ہوئی۔ اور صاحب ممدوح نے قبل پہنچتے فوج سرکاری مقام بدایوں میں آپ کے واسطے تحصیل کرنے مال گذاری سرکاری کے تحصیلدار مقرر فرمایا ۔ ہم آپ کی اور آپ کے خاندان کی خیر و عافیت بد ل و جان چاہتے ہیں ، کس واسطے کہ یکم جون کی رات کو جس وقت باغیوں کے کمپو کو پھونک دیا۔ اگرآپ ہم کو موضع ککورہ میںنہ پہنچا تے تو ہم کو جان بچانا دشوار تھا اور ہم سرکار گورنمنٹ کی خدمت میںاس آپ کے سلوک کی اطلاع کر چکے ہیں، یقین ہے کہ اس خیر خواہی اور کار گذاری کا ثمرہ سرکار گورنمنٹ کی خدمت میں اس آپ کے سلوک کی اطلاع کر چکے ہیں، یقین ہے کہ اس خیر خواہی اور کار گذاری کا ثمرہ سرکار سے آپ کو مرحمت ہو گا اب تک مفصل حال نسبت عذر داریوں کے ہم کو دریافت نہیں ہوا، لہذا ہم چاہتے ہیں کہ یہ حال اچھی طرح معلوم ہو کہ کون کون باغی ہوئے اور کون کون خیر خواہ سرکار رہے اور کون لوگ باغیوں کے ہاتھ سے مارے گئے اور کس نے سرکار سے تدارک پایا اور کس کو انعام ملا، خصوصا دریافت احوال اشخاص مفصلہ ذیل اکابر ضرور ہے کہ کس طرح پیش آئے اور کیا حال رہا اور اب کہاں ہیں۔ ایک تحصیلدار بسولی کے سابق سرشتہ دار کلکٹری کے تھے اور کوتوال اور ان کا خاندان کہ جائداد ان کی بسولی میںتھی اور سررشتہ دار فوجداری اورڈاکٹر ہندوستانی اورکل تھانے دار۔ اگر آپ ان لوگوں کا حال مفصل لکھیں تو ہماری کمال خوشی ہے۔ اور نیز ان زمینداروں کابھی حال لکھیے جن سے ہماری ملاقات تھی اور یہ بھی کہ کس کس نے باغیوں کی نوکری کی تھی اور مسمیان حسینی او رمولا بخش چپراسیاں اردلی ہمارے کا کیا حال رہا۔ اب طبیعت ہماری ولایت آنے سے درست ہوگئی ۔ ارادہ مصمم ہے کہ مہینے اپریل تک ضلع بنارس میںداخل ہوں گے اور آپ کی خیر خواہی کا حال حکام ہندوستان کو لکھیں گے اور یقین ہے کہ آپ کے خاندان کے لوگ بھی ایا م غدر میں خیر خواہ سرکار رہے ہوں۔ ہمارا سلام سب سے کہہ دینا اور نیز جو شخص ہمارے پاس ناظر تھا اس کو بھی سلام کہہ دینا۔ ہم کو واسطے دریافت کرنے حال باشندگان بدایوں کے بڑا اشتیاق ہے۔ آ ان سے کہہ دیجئے کہ جس کی طبیعت چاہے عرضی یا خط لکھ بھیجے اور انگریزی میں لکھ نا مشکل ہو تو اردو یا ہندی میں خوش خط لکھ بھیجے کہ ہم پڑھ لیں گے۔ دستخط ایڈورڈ صاحب ترجمہ چٹھی مسز الیگزینڈر صاحب بہادر کمشنر روہیل کھنڈ مورخہ ۱۵ جون ۱۸۵۸ء نمبری ۳۴۴ بنام کارمیکل صاحب ۔ میجسٹریٹ کلکٹر ضلع : بدایوں۔ دفعہ اول: چند کاغذات مرسلہ مسٹر راس صاحب اسپیشل کمشنر بدایوں میںتھے ۔ اس مراد سے آپ کے پاس بھیجے جاتے ہیں کہ آپ بلا توقف نسبت شیخ شرف الدین ساکن شیخوپور بابت ایام غدر کے تحریر فرمائے ۔ جیسا ازروئے تحقیقات کے دریافت ہوا۔ دفعہ دوم:۔ اور آپ کے نزدیک شخص مذکور مستحق جس قدر انعام پائے جاویں۔ اس سے بہ تصریح تمام مطلع کیجئے۔ دستخط الیگزینڈر صاحب کمشنر روہیل کھنڈ ترجمہ رپورٹ کارمیکل صاحب بہادر میجسٹریٹ کلکٹر ضلع بدایوں مورخہ ۲ اگست ۱۸۵۸ ء نمبر ۱۱۶ ۔ مقام : بدایوں بنام صاحب کمشنر بہادر روہیل کھنڈ۔ یہ تعمیل حکم مورخہ ۱۵ جون ۱۸۵۸ ء نمبری ۳۴۴ ۔ آپ کی خدمت میں گذارش کیجاتی ہے کہ ۲۱ ماہ گذشتہ کہ ہم ضلع سے کمپو میںواپس آئے تو ہم نے نسبت چلن و رویہ محمد شرف الدے نزمیندار شیخوپور کی بخوبی تحقیقات کی معلوم ہوا کہ ابتدائے سے انتہا تک ان کا چلن و رویہ ایسا رہا ہے جیسے اچھے خیر خواہاں سرکار کا ہونا چاہیے۔ دفعہ دوم۔ جس روز فوج یہاں کی بگڑی تھی ۔ اس روز مسٹر ایڈورڈ صاحب میجسٹریٹ بدایوں کو احتمال ہو اتھا کہ کچھ آفت ضرور آنے والی ہے۔ چنانچہ انہوں نے شرف الدین کو طلب کے اور جس وق ت صاحب ممدوح کے بنگلے پر پہنچے ، اسی وقت تلنگا متعینہ خزانہ جیل خانہ نے جیل خانہ توڑ کر قیدیوں کو چھوڑ دیا اور گولیاں چلنے لگیں ۔ شہر کے بدمعاش انکے شامل ہوگئے ہر طرح کی بدعت ہونے لگی اور بنگلے صاحبان انگریز کے پھونک کر اسباب لوٹنے لگے ۔ اس وقت اگر شرف الدین اور ان کے ہمراہی نہ پہنچتے اور ایڈورڈ صاحب وہیں رہتے تو اغلب تھ کہ باغیوں کے ہاتھ سے مار ے جاتے اور جو نکل جاتے تو تنہا رہتے۔ دفعہ سوم: ۔ چنانچہ اس وقت شیخ شرف الدین پہنچ گئے اور بحفاظت تمام چار صاحبان انگریز کو اپنے مکان میں موضع شیخوپور کو لے گئے او ر تحقیقات سے دریافت ہوا کہ صاحبان ممدوح وہاں تھوڑے عرصے تک ٹھہرے تھے کہ اقربا اور یگانوں شرف الدین کو وہاں رہنا ان کا ناگوار ہوا۔ لہذا شیخ مذکور ان کو موضع ککورہ اپنے گاؤں میںکہ لب دریا واقع ہے اور وہاں سے صبح کے وقت دریا عبور کراکے قادر گنج ضلع پٹیالی میںپہنچا دیا۔ وہاں پرمسٹر فلپس صاحب اور براملی صاحب معہ ایک گروہ سواروں کے ان صاحبوں کو مل گئے اور شرف الدین اپنے گھر واپس چلے آئے۔ دفعہ چہارم:۔ ایام غدر میںبراملی صاحب اور فلپس صاحب کو جو آگرہ میںتھے۔ شیخ مذکور ضلعے کے حال سے خبر دیتے رہے اور ان صاحبان سے جواب بھی پاتے رہے۔ اگرچہ چار و ناچار اس وقت میںباغیوں کی کچھ اطاعت بھی کرنی پڑی، مگر ان سے بہت علیحدہ رہے اور ان کے صلاح کے ہر گز شریک نہ ہوئے ۔ دفعہ پنجم:۔ بروقت آمد فوج انگریز بہادر مقام بریلی میں اگرچہ رحم علی اور اور باغی سر حد ضلعے میں موجود تھے۔ مگر شرف الدین نے فورا اپنی خیر خواہی ظاہر کی۔ اور با جازت صاحب کمشنر بہادر کا م تحصیل بدایوں کا انجام دینے لگے اور مال گذاری سرکا ر تحصیل کرنا شروع کر دیا اور باشندگان شہر کو تسلی دی، گو کہ تحصیل کے کام سے بخوبی واقف نہ تھے ۔ مگر کام اچھی طرح انجام دیا، البتہ بباعث ہونے ریاست اس جگہ کے کام تحصیلداری کا ا س وقت میں دشوار اور ان کو نا پسند تھا۔ مگر باوجود اس کے کمال مستعدی اور دانائی سے کام کرتے رہے اور کسی طرح کی شکایت نسبت ان کے نہیںہوئی۔ دفعہ ششم :۔ ہماری ملاقات شرف الدین سے کئی برس سے ہے یہ نسبت ان کے اقربا ء کے جو ملازم سرکار ہیں ہم ان کوبہت اشراف اور لئیق سمجھتے ہیں اور چلن ان کابہت اچھا ہے ۔ ہر ایک وقت پیچ مددگاری حکام ضلع کے حاضر رہے۔ غرض ہمارے نزدیک اس ایام غدر میں ان سے ایسی کار گذاری عمدہ ہوئی کہ لائق ملاحظہ او ر پسند سرکار کے تھی ۔عوض اس کا سرکار سے جب ہوسکتا ہے کہ ان کو خلعت مرحمت ہو اور زمینداری دو ایک گاؤں کی بہ جمع تین چار ہزار روپیہ سالانہ دی جاوے۔ اور اصل کاغذات مشمولہ چٹھی آپ کی بہ لف رپورٹ ہذا واپس ہوتے ہیں ۔ دستخط ۔ کارمیکل صاحب میجسٹریٹ کلکٹر ترجمہ انتخاب فہرست خیرخواہاں ضلع بدایوں نسبت شرف الدین قوم مسلمان زمیندار شیخوپور رائے مسٹر اسٹوارڈ صاحب انہوں نے ہم کو اور ہمارے اہل عیال کو ایام غدر میںابتدائے ۳ جون لغایت ۱۰ اگست ۱۸۵۸ء تک اپنے گاؤں سر کی میںبحفاظت تمام رکھا اور اگرچہ صوبے دار نے ان پر تاکید کی کہ ان لوگوں کو پناہ نہ دو، مگر انہوں نے اس تاکید پر اصلا خیال نہیں کیا ۔ آخر کو جب دیکھا کہ ہم لوگوں کا رہنا اس گاؤ میں دشوار ہے ۔ تو پچاس آدمی بندوقچی ہمارے ساتھ کر کے سواروں کو پہنچا دیا تھا ۔ علاوہ اس کے ایڈورڈ صاحب کلکٹر بدایوں اور مسٹر ڈائل صاحب اور ان کے بیٹے اور مسٹر گبسن صاحب پٹرول کو گنگاسے بخیریت تمام عبور کرایا ۔ ہمارے نزدیک مناسب ہے کہ ان کو بعوض ہماری جان بچانے کے گاؤں مضبطہ انہی کے علاقے کے قریب دیاجاوے۔ رائے کارمیکل صاحب میجسٹریٹ بہاد ر جو کہ ہم ان کی نسبت چٹھی مورخہ ۲ اگست ۱۸۵۸ ء نمبر ۱۱۶ میںعلیحدہ رپورٹ کر چکے ہیں۔ یہاں مختصر بھی کافی ہے کہ ایام غدر میںانہوں نے مسٹر ایڈورڈ کلکٹر بدایوں کی جان کی حفاظت کی اورنیز دیگر صاحبان انگریز ہمراہی صاحب ممدوح کو دریا سے عبور کرایا تھا ۔ اور ہر صورت سے خیر خواہ سرکار رہے تھے۔ بعد لکھنے رپورٹ مذکورہ بالا کہ ہم کو معلوم ہوا کہ شیخ شر ف الدین نے ایک انگریزی کرانی کی جان بچائی۔ اگرچہ شیخ مذکور نے ہم سے اس بات کا ذکر نہیں کیا ۔ مگر ہم نے ا سکی کیفیت اسی کرانی کے لکھنے سے معلوم کی ہے ۔ ہو بہو لکھی جاتی ہے۔ شرف الدین نے ہم کو اور ہمارے عیال کو ۳ جون سے ۱۰ اگست تک بحفا ظت تمام اپنے گاؤں سر کی متصل شیخوپور میں رکھا ۔ اور حالانکہ صوبے دار نے ہماری طلب کے واسطے بار ہا تاکید شدید کی۔ مگر شیخ جی نے کچھ خیال نہ کیا آخر کو جب ہمارا وہاں رہنا مشکل جانا تو پچاس بندوقچی ہمراہ کر کے موضع سو راوں کو پہنچا دیا ۔ فقط اس سے واضع ہے کہ بجز شرف الدین کے اور کسی نے اسٹوارڈ صاحب کی مدد نہیں کی۔ جو تجویز ہم ان کی نسبت اپنی رپورٹ میں لکھ چکے ہیں۔ وہی یہاں بھی لکھتے ہیںکہ چار ہزار روپیہ کی زمینداری ان کو دی جاوے ۔ اور ایک خلعت صاحب کمشنر بہادر اپنے اجلاس عام میںمرحمت فرما ویں۔ اور علاوہ اس کے عوض اس عمدہ کام کے کہ اسٹوارڈ صاحب کی جان کو بچایا ایک اور زمینداری ہزار روپے کی جاوے۔ کل پانچ ہزار روپیہ کی زمینداری مرحمت ہو اور بر وقت عطا ہونے خلعت کے واسطے خطاب بہادری کے سرکار سے ایک پروانہ بھی مرحمت فرمایا جاوے جو کہ ایسی بدل و جان خیر خواہ سرکار کے بہت کم ہیں ۔ لہذا ان کو خاطر خواہ انعام دینا لازم ہے۔ دستخط کارمیکل صاحب میجسٹریٹ ۱۴ فروری ۱۸۵۸ء ترجمہ انتخاب چٹھی مسٹر آڈرم صاحب بہادر اسسٹنٹ سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع غربی بنام الیگزینڈر صاحب بہادر کمشنر روہیل کھنڈ ۔ مرقوم ۱۷ دسمبر ۱۸۵۷ ء مقام الہ آباد نمبری ۱۱۹۰۔ دفعہ اول:۔چٹھی آپ کی نمبری ۱۴۴ مورخہ ۵ اگست ۱۸۵۸ء ورود ہوئی۔ بجواب اس کے آپ کو اطلاع دی جاتی ہے۔ کہ امیر کبیر نواب گورنر جنرل بہادر نے بلحاظ خیر خواہی اور عمدہ کار گذاری ایام غدر کے شیخ شرف الدین کو خلعت مالیت تین ہزار روپیہ اور زمینداری ایک گاؤں کی بجمع پچیس سوروپیہ اس تفصیل سے عطا فرمائی۔ کہ ان کے حین حیات نصف جمع معاف رہے ۔ اور بعد ان کے ایک پشت تک چہارم جمع معاف رہے گی ۔ ا ب میں اپنے رسالے کے پہلے نمبر کو انہی کے حال پر ختم کرتا ہوں۔ اس لیے کہ آئندہ جن خیر خواہ مسلمانوں کا مجھ کو حال لکھنا منظور ہے۔ اس سے پہلے ایک بہت عمدہ گفتگو مجھ کو لکھنی ہے اور میں چاہتا ہوں ۔ کہ وہ گفتگو میرے رسالے نمبر دویم میں ہو۔ حالات خیر خواہان ِ مسلمانان نمبر دوم میں نے نمبر اول رسالہ خیر خواہان مسلمانان میں چند مسلمانوں کا ذکر کیا۔ جنہوں نے ہماری گورنمنٹ کی خیر خواہی اور خدمت گذاری سے سرخ روی حاصل کی۔ اب میں اس دوسرے نمبر میں سب سے پہلے ایک ایسے خیر خواہ مسلمان کا ذکر لکھتا ہوں جس کی رپورٹ خیر خواہی میںایک جاہل بدمعاش آدمی کا جس کو جہادی مشہور کیا تھا ۔ ذکر آتا ہے اس لیے میں مناسب جانتا ہوں، کہ اول اس معاملہ میںکچھ گفتگو کروں۔ ۱۸۵۷ء ، ۱۸۵۸ ء میںہند وستان کی آب و ہوا ایسی بگڑ گئی تھی کہ ہر ایک شخص کے دل میں ایک غلط خیال ایسا مستحکم ہو جاتا تھا ۔ کہ وہ اسی کو سچ سمجھتا تھا۔ حالاں کہ اس کی کچھ بھی اصل نہ ہوتی تھی اسی آب و ہوا کا اثر تھا کہ اکثر متکلمین اور مصنفین کتب بغاوت نے ایک شور بے اصل باتوں کامسلمانوں کی نسبتت مچا دیا۔ انہی میں سے ایک بے اصل یہ بات مسلما نوں پر لگائی کہ مسلمانوں کو بالذات اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں سے عداوت ہے ۔ حالاں کہ یہ بات محض بے اصل ہے۔ مسلمانوں کے مذہب میں عیسائیوں کو سوا اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کو مذہب کی رو سے اور اتحاد نہ ہو۔ القران سورۃ المائدہ آیت ۸۵۔ لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین آمنو الیھو دو الذین اشرکوا ولتجدن افربھم مودۃ للذین آمنو الذین قالو انا نصاری ذالک بان منھم تسیسین و رہبا نا و انھم لا یستکبرون۔ یعنی کلام اللہ میںہے کہ اللہ تعالی نے ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا ہے ۔ کہ ’’ تو پاوے گا سب لوگوں سے زیادہ دشمن مسلمانوں کا یہودیوں کو اور مشرکوں کو اور تو پاوے گا ۔ سب سے زیادہ محبت میں مسلمانوں کی ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ ہم عیسائی ہیں اس لیے کہ ان میں ہیں عالم اور دریش اور اس لیے کہ وہ غرور نہیں کرتے ۔‘‘ تاریخ اسماعیل ابوالفدا کو دیکھو اور جارج سیل صاحب پری لیمزی ڈسکورس کا ملاحظہ کر و جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب مکہ کے مشرکوں نے مسلمانوں کو نہایت تکلیف دی تو اسی مودت کے سبب جو خداکے حکم کے بموجب ہے ہمارے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم حبشہ کو چلے جاؤ جہاں کا بادشاہ نجاشی کہلاتا تھا اور وہ عیسائی تھا۔ چنانچہ ہم اس مقام پر جارج سیل صاحب کے پری لیمنری ڈسکورس کی عبارت نقل کرتے ہیں۔ ’’ جب قریش نے دیکھا کہ نہ دھمکانے سے کام نکلتا ہے اور نہ ترغیب سے ،تب علانیہ مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کرنے لگے اور ان کو مکی میںرہنا دشوار کر دیا۔ اس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی کہ جس کا کوئی حامی او رمدد گار نہ ہو پناہ کی جگہ ہجرت کر جاوے ۔ چنانچہ سن اول بعث میںبارہ مر د اور چار عورتیں کہ من جملہ ان کے عثمان بن عفان مع حضرت رقیہ زوجہ اپنی کے کہ بیٹی پیغمبر خدا کی تھیں۔ حبشہ کے ملک میںہجرت کر گئے ۔ ‘‘ …………… ’’ پہلی یہی ہجرت ہوئی ۔ بعداس کے ایک ایک دو دو آدمی حبشہ کو ہجرت کرتے رہے۔ حتیٰ کے بقدر تراسی مرد ار اٹھارہ عورتیں سوائے بچوں کے حبشہ میںجمع ہوگئے اور نجاشی وہاں کے بادشاہ نے ان مہاجرین بیکس کو از راہ مہربانی اپنی حمایت میںبہت آرام سے رکھا اور جب قریش نے کہ مخالف تھے۔ طلب کیا تو نجاشی مذکور نے دینے سے انکار کیا۔ ‘‘ اسممیل ابو الفدا، اپنی تاریخ میںجس کا نا ہے مختصر فی احوال البشر لکھتا ہے کہ جب مسلمان وہاں گئے ۔تو نجاشی شاہ حبشہ نے پوچھا کہ تم جناب حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے حق میں کیا کہتے ہو؟ مسلمانوں نے جواب دیا۔ کہ ہم وہ کہتے ہیں جو ہمارے خد نے قرآن میںجناب حضرت عیسیٰ مسیح ؑ کے حق میں فرمایا ہے اور یہ ـآیت پڑھی۔ القرآن سورۃ النساء آیت ۱۷۱ انما المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ و کلمۃالقھا الی مریم و روح منہ فامنو اللہ بااللہ و رسولہ۔ یعنی کلام اللہ میں ہے کہ اللہ صاحب نے فرمایا کہ مسیح جو ہے عیسیٰ مریم کا بیٹا رسو ل اللہ کا اور اس کا کلام جو ڈال دیا مریم کی طرف سے روح ہے اس کی سو مانو اللہ کو اور اس کے رسولوں کو۔ بڑی نشانی مسلمانوں اور عیسائیوں کی محبت کی ہمارے کلام اللہ سے یہ پائی جاتی ہے۔ کہ جب اہل فارس نے روم کو جو عیسائی تھے۔ شکست دے کر دبا دیا۔ تو مسلمان عیسائیوں کے شکست کھانے سے بہت غمگین تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تسلی کی اور اپنے پیغمبر پر وحی بھیجی کہ میںعنقریب عیسائیوں کی فتح دینے سے مسلمانوں کو خوش کروں گا۔ چنانچہ اس آیت میں اس کا ذکر ہے۔ القرآن سورۃ الروم آیت ، لغایت ۵ الم غیبت الروم فی ادنی الارض و ھم من بعد غلبھم سیغلبون فی بضع سنین اللہ الامرمن قبل و من بعد و یومیدیفرح المومنون بنصراللہ ینصر من یشاء وھو العزیز الرحیم۔ یعنی اللہ صاحب نے فرمایا کہ دب گئی ہے روم سرحد کی زمین پر اور وہ اس دینے کے بعد غالب ہوگی کئی برس میں۔ اللہ ہی کے لیے ہیںکام پہلے اور اس دن خوش ہوں گے مسلمان اللہ کی مدد سے ۔ مدد کرے جس کے چاہے اور وہی ہے زبردست مہربان۔ تاریخ سے واضح ہے کہ خسرو پرویز بادشاہ فارس بہ طلب خون مارس ، اپنے خسر کے کہ فوقس کے ہاتھ سے مارا گیا تھا ۔ روم والوں پر چڑھ گیا اورفتح یاب ہو کر بائیس برس تک غالب رہا۔ خصوصا چھ برس پہلے سن ہجری سے ۶۱۵ ء میںفارس والے ایسے زبردست ہوئے ۔ کہ سریا کے ملک پر بھی غالب آئے ۔ اور بلکہ یہود کے ملک پر بھی قبضہ کر لیا۔ یہی ذکر ان آیات میں پایا جاتا ہے۔ ظن قوی ہے کہ عرب کے لوگ بھی ان سے مخوف تھے کیوں کہ ان کاملک بھی یہود کے ملک کے قریب تھا۔ اور ہر گز امیدنہ تھی کہ روم والے غالب آکر پھر اپنے ملک پر دخل پاو ے اور ان کے بعد بھی فارس کے لوگ فتح پاتے رہے اور اتنا حوصلہ بڑھ گیا کہ قسطنطیہ پر بھی ارادہ کیا۔ اتفاقا یہود کے ملک لینے سے دس برس بعد ۶۲۵ ء اور چوتھی ہجری میںیکایک روم والے فارس پر ایسے فتح یاب ہوئے کہ ان کو اپنے ملک سے خارج کر دیا اور انہی کے ملک میںلڑائی ڈالی اور شہر مدائن کو نقصان عظیم پہنچا اور عراق پر بھی خسرو کے انتقال تک فتح پائی ۔ اگراس پیشین گوئی کی اصلیت میںزیادہ تر تحقیق منظور ہو تو اس وقت کی تاریخوں کو دیکھنا چاہیے۔ اب خیال کرو کہ جن لوگوں نے یہ شور مچا رکھا ہے کہ مسلمانوں کو عیسائیوں سے مذہب کے بموجب عداوت اور دشمنی ہے کتنی بے اصل بات ہے اور وہ لوگ مسلمانی مذہب کے احکام مطلق نہیں جانتے اور بہودہ غل مچاتے ہیں۔ انہی باتوں میںسے جو ان لوگوں نے مسلمانوں کی طرف لگای ہیںایک یہ بات ہے کہ مسلمان کسی فقیر کی پیشین گوئی سے یقین کرتے تھے کہ اب عیسائیوں کی عملداری نہیں رہنے کی اور ان لوگوںنے اس بات کو مسلمانوں کی طرف ایسا لگایا تھاکہ گویا مسلمانوں کی مذہبی بات ہے۔ نعوذ باللہ مسلمان نبی کے سوا اور کسی کی پیشین گوئی پر یقین نہیںکرتے ۔ بلکہ کسی کو عالم الغیب جاننا یا نجوم کی باتوں پر یقین کرنا، یا کسی شگون کو ماننا گناہ عظیم سمجھتے ہیں۔ چہ جا ئے کہ کسی مہمل بے سند لغو اشعار کو مذہبی بات جا ئے۔ عیسائیوں کی نسبت جو ہمارے نبی نے ہم کو خبر دی ہے اور جس پر ہم بلاشبہ یقین رکھتے ہیں وہ یہ ہے۔ القرآن سورۃ ال عمران آیت ۵۴، ۵۵ از قال اللہ یا عیسیٰ انی متو فیک و رافعک الی۔ و مطھرک من الذین کفروا و جا عل الذین اتبعوک فوق الذین کفرو الی یوم القیامہ۔ یعنی کلام اللہ میںیہ ہے کہ جس وقت کہا اللہ نے اے عیسیٰ میںتیری زندگی پوری کروں گا اور اٹھا لوں گا تجھے اپنی طرف اور پاک کروں گا کافروں سے اور رکھوں گا تیرے ماننے والوں کو غالب نہ ماننے والوں پر قیامت کے دن تک۔ اب غور کرو کہ اس آیت سے قیام عیسائیوں کا ظاہر میں قیامت تک پایا جاتا ہے ۔ گو ہماری سمجھ نے وحی کے اصلی مطلب تک پہنچنے میںکچھ قصور کیا ہو۔ مگر مسلمان اس بات کو چھوڑ کر کسی طرح مہمل شعروں پر یقین لا سکتے ہیں۔ ایک بڑا الزام جو ان لوگوں نے مسلمانوں کو طرف نہایت بے جا لگایا وہ مسئلہ جہا د کا ہے حالاں کہ کجا جہاد اور کجا بغاوت ، یہ بین تفاوت رہ از کجا است تا بہ کجا۔ ایک عجیب ماجرا ہے کہ اس ہنگامہ میںنہایت بدمعاش اور جاہل بے علم جو مولوی کے نام سے مشہور تھے ۔ نہ اس سبب سے کہ وہ خود پڑھے لکھے تھے بلکہ ا س وجہ سے کہ ان کے باپ دادوں میںکوئی مولوی تھا۔ وہ بھی مولوی کے نام سے مشہور ہوگئے تھے۔ ان کو تمام اخباروں میں اس طرح پر چھاپا گیا ۔ جیسے کہ کوئی سچ مچ کا مولوی اور مسلمانوں کا بڑا عالم اور بڑا خد پرست ہے۔ کسی کو ایک بڑا فقیر کرکر لکھا گیا اورفلاں شاہ اور ڈھمک شاہ اس کا نام چھاپا۔ ہمارے حکام جب ان ناموں کو دیکھتے ہوںگے تو خیال کرتے ہوں گے کہ اوہ اوہ بڑے بڑے مولویوں اور خدا پرستوں نے فساد کیا ہے، حالاں کہ وہ لوگ محض جاہل او ربے علم اور بدمعاش اور واہی ادمی تھی۔ کوئی مسلمان ان کو اچھا نہیں جانتاتھا اور ان میں سے کوئی شخص مسلمانوں میں مذہب کی باتوں م یں مقتداء اور پیشوا اورمولوی نہ تھا۔ جس قدر کہ اچھے اور خدا پرست اور سچ مچ کے مولوی اور درویش تھے۔ ان میں سے کوئی شخص اس فساد میں شریک نہیں ہوا ۔ بلکہ ہمیشہ مفسدوں کو برا اور اس فساد کو بے جا جانتے تھے۔ نیک بخت اور خدا پرست مولویوں کا یہ حال تھا ۔ کہ ایک قصبہ میں غدر سے پہلے درمیان ہندو اور مسلمانوں کے درباب تعبیر ایک مسجد کے تکرار تھی ۔ مقدمہ حاکم عیسائی کے سامنے دائرہ تھا۔ ہنوز حکم تعمیر مسجد نہیں ہوا تھا۔ کہ غدر ہوگیا ۔ اس زمانہ میں بعض جاہل مسلمانوں نے مل کر ایک بڑے خدا پرست مولوی سے یہ بات کہی کہ اگر آپ حکم دیں تو اب ہم مسجد بنا لیں اب سچے مولوی نے جواب دیا کہ جب تک انگریز نہ آویں اور وہی حکم نہ دیں اس وقت تک مسجد بنانے کو میں حکم نہیں دیتا۔ غور کرو کہ نیک بخت اصلی مولویوں کا تو یہ حال تھا مگر ان اخبار لکھنے والوں نے بے سبب ہائے تو یہ مچا دی کہ فلاںمولوی نے یہ کیا او رفلاں شاہ نے یہ کیا ۔ کچھ نہ دریافت کیا کہ درحقیقت وہ مولوی ہے کچھ پڑا لکھا ہے یا نہیں۔ میںنہیں دیکھتا کہ اس تمام میںکوئی خدا پرست آدمی یا کوئی سچ مچ کامولوی شریک ہوا ہو۔ بجز ایک شخص کے او رمیں نہیںجانتا کہ ا س پر کیا آفت پڑی۔ شاید اس کی سمجھ میںغلطی پڑی کیوں کہ خطا ہونا انسان سے کچھ بعید نہیں۔ جہاد کا مسئلہ مسلمانوں میں دغا اور بے ایمانی اور غدر اور بے رحمی نہیں ہے۔ جیسے کہ اس ہنگامہ میںہوا۔ کوئی شخص بھی اس ہنگامہ مفسدی اور بے ایمانی اور بے رحمی اور خد اکے رسول کے احکام کی نافرمانی کو جہاد نہیں کہہ سکتا۔ بلکہ مسلمانوں کے مذہب کے بموجب ہماری گورنمنٹ کی عملداری میںجہاد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ہم تمام مسلمان ہندوستان کے برٹش گورنمنٹ کے امن میںہیں اور مستامن ان لوگوں پر جن کے امن میں ہے ۔ جہاد نہیں کر سکتا ۔ ہماری گورنمنٹ انگلشیہ نے تمام ہندوستا ن پر دو طرح حکومت پائی یا بہ سبب غلبہ اورفتح یا بموجب عہد و پیہان تمام مسلمان ہندوستان کے ان کی رعیت ہوئے۔ ہماری گورنمنٹ نے ان کو امن دیا اور تمام مسلمان ہماری گورنمنٹ کے امن میں آئے اور ہماری گورنمنٹ بھی تمام مسلمانوں کی طرف سے مطمئن ہوئی ۔ کہ وہ ہماری رعیت اور تابعدار ہوکر رہتے ہیح۔ پھر کس طرح مذہب کے بموجب ہندوستان کے مسلمان گورنمنٹ انگلشیہ کے ساتھ غدر اور بغاوت کر سکتے تھے۔ کیوں کہ شرائط جہاد میںسے پہلے ہی شرط ہے کہ جن لوگوں پر جہاد کیا جاوے ان میں اور جہاد کرنے والوں میں امن اور کوئی عہد نہ ہو۔ فی العا لمگیری واما شرط ابا حۃ فشئیان احمد ہما عدم الامان والعھد بیننا وبینھم۔ ’’یعنی شرط درست ہونے جہاد کے دو چیزیں ہیں۔ پہلی ان میں سے نہ ہونا امن کا اور نہ ہونا عہد کا۔ ہم میں اور ان میں ۔‘‘ علاوہ اس کے اور شرائط جہاد کی ہمارے مذہب میں اس قدر ہے کہ ان میں ایک بھی اس ہنگامہ بغاوت میںنہ تھی۔ ہر گز نہ بھولنا چاہیے۔ سلطان جلا ل الدین فیروز خلجی کے قول کو کہ جب قاضی فخر الدین فاقلہ نے اس سے کہا کہ آپ بہت دفعہ مشرکین سے لڑے ا گر حکم ہو تو آپ کو غاضی کہا کریں۔ وہ بادشاہ نیک سرشت رویا اور کہا کہ میںنے کس خدا کے واسطے لڑائی کی کہ مجھے غازی کہو۔ (دیکھو تاریخ فیروز شاہی برنی) عجب تعجب ہے اس شخص پر جو کہ اس ہنگا مہ قتل و غارت کو مسلمانوں کا مذہبی جہاد کہے۔ اب اس مقام پر ہم مستامن کے معنی مذہب کے بموجب اور وہ روایت جس کے بموجب مستامن غدر اور بغاوت نہیں کر سکتا، نقل کرتے ہیں۔ فی الھدایا۔ المستا من ھومن ید خل دار غیرہ بامان۔ یعنی ہدایہ میں ہے کہ مستامن اس شخص کو کہتے ہیں جو غیر مذہب کی عملداری میں رہے ۔ ساتھ امن کے جس طرح کہ مسلمان ہماری گورنمنٹ انگلشیہ کی علمداری میںرہتے تھے اور رہتے ہیں۔ فی الھدایا والعالم گیری ۔ دخل مسلم دار الحرب بامان حرم علیہ تعرضہ بشئی ممن دم و مال منھم ۔ یعنی جو مسلمان کہ غیرمذہب کی عملداری میںرہیں ساتھ امن کے حرام ہے اس پر تعرض کرنا ساتھ کسی چیز کے خون سے یا مال سے ان لوگوں کی جن کی عملداری میں گیا ہے۔ مسلمانوں کے مذہب میں یہ بات ہے کہ اگر مسلمان اپنے اختیار سے کسی کو بادشاہ بنانا چاہیں تو مسلمان کواور قریش کی قوم سے بناویں، لیکن جو شخص کہ اپنے غلبہ سے بادشاہ ہوا ہو یا اس بادشاہ یا حاکم کاجس کی اطاعت میں مسلمان ہو ، مسلمان ہونا شرط نہیں ہے یعنی کسی مذہب کا بادشاہ ہو اس کی اطاعت واجب ہے۔ فی التا ثار خانی و ذکر فی الملتقط الاسلام لیس بشرط فی السلطان الذی یقلد۔ یعنی تا تارخانی میںجو مسلمانوں کے مذہب کی کتاب ہے یوںلکھا ہے کہ ملتقط میںکہ وہ بھی مذہبی کتاب ہے یہ لکھا ہے کہ مسلمان ہونا شرط نہیں ہے اس بادشاہ میں جس کی اطاعت کی جاوے۔ یہ مسئلہ مسلمانوں کا لیا گیا ہے۔ توریت مقدس سے جہاں ذکر ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے فوطیفار مصری کی اطاعت میںاس کی نوکری قبول کی اور نہایت خیر خواہی اور وفاداری سے اسکی خدمت انجا م دی۔ حالانکہ فوطیقار مصری مسلمان نہ تھا ۔ کیوں کہ وہ موسیٰ کے حکموں پر نہیں چلتاتھا۔ (دیکھو کتاب پیدائش باب ۳۹) پس مسلمانوں کو مذہب کی بموجب برٹش گورنمنٹ کی اطاعت جو ہمارے بادشاہ اور حاکم تھے اور ہیں واجب اور لازم تھی اور ہے۔ اگرچہ ہماری گورنمنٹ کسی کے دین و مذہب میں مداخلت نہیں کرتی اور نہ کرے گی ، کیوںکہ ملکہ معظمہ نے اپنے اشتہار میں صاف صاف بہت پختہ وعدہ کیا ہے۔ لیکن بالفرض اگر کرے تو بھی مسلمان غدر اور بغاوت نہیں کر سکتے ۔ ہاں ہجرت کر جانے کے مختار ہیں۔ فی التفسیر الاحمدی ان لم یتمکن من اقامۃ دینہ بسبب ایدی للظمۃ اوالکفرۃ یفرض علیہ الھجرۃ وھو الحق۔ یعنی کلام اللہ کی تفسیر میںجس کا نام تفسیر احمدی ہے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے مذہب کے کام نہ کر سکے۔ بہ سبب زبردستی ظالموں یا کافروں کے تو اس پر ہجرت فرض ہے،یعنی اس ملک میں جا رہے جہاں وہ شخص اپنے دین کے احکام بخوبی بجا لا سکے۔ اس ہنگامہ میںکوئی بات مسلمانوں کے مذہب کے موافق نہیں ہوئی ۔ پھر مجھ کو کمال تعجب ہوتا ہے۔ متکلمین اور مصنفین کتب بغاوت پر جو مسلمانوں پر الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے مذہب بمو جب یہ باتیں تھیں۔ غور کرو کہ خزانہ اور میگزین جو ہندوستانیوں کے سپر د تھا وہ سب امانت تھا۔ اس کا لوٹنا اور تلف کرنا اور اپنے استعمال میںلانا مسلمانوں کے مذہب میںکب درست تھا۔ فی الشعب الایمان، عن انس قال فلما غطینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الاقال لا ایمان لمن لا ام اخطبنہ لاہ ونۃ لا دین لمن لا عھد لہ۔ یعنی بیہقی کی کتاب میں جس کانام شعب الایمان ہے، لکھا ہے کہ حضرت انس نے کہا کہ بہت کم ہے کہ نصیحت کی ہو ہم کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور یہ نہ کہا ہو کہ نہیں ہے ایمان اس شخص کا جس نے امانت نہ رکھی اور نہیں ہے دین اس شخص کا جس نے عہد پورا نہ کیا ہو۔ القرآن۔ سورۃ النساء آیت ۵۸۔ ان اللہ یامرکم ان تو دو الامانات الی اھلھا و اذا حکمتم بین الناس ان تحکمو ا بالعدل ان اللہ نعما یعظکم بہ ان اللہ کان سمیعا بصیرا۔ یعنی اللہ تم کو فرماتا ہے کہ پہنچاؤ امانتیں امانت والوں کو اور جب فیصلہ کرو لوگوں میںتو فیصلہ کر وانصاف سے۔ اللہ اچھی نصیحت کرتا ہے تم کو ، اللہ ہے سننے والا ، دیکھنے والا۔ سبحان اللہ ہمارے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو حکم دین کہ اگر کافروں کے ساتھ بھی لڑائی ہو تو لڑائی کے وقت بھی عورتوں کو اور بچوں کو اور بوڑھوں کو اور جو نہ لڑسکیں اورجو امن میں آجاویں ان کو قتل مت کروں۔ اس ہنگامہ میں مفسد ، بدمعاش بے ایمان بے رحموں نے خلاف اس حکم کے کیا۔ کافر تو درکنار اہل کتاب کو بے وجہ قتل کیا اور ہمارے مہربان متکلمین اور مصنفین کتب بغاوت کہتے ہیں کہ یہ تو مسلمانوں نے اپنے مذہب کے مموافق جہا د کیا ہے نعوذ باللہ من ھذ ہ الا تاویل۔ بخاری و مسلم:۔ عن عبد اللہ ابن عمر قال نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن قتل النساء والصبیان۔ یعنی حدیث کی بڑی معتبر کتابوں میں جن کا نام بخاری اور مسلم ہے۔ یہ بات لکھی ہے کہ عبداللہ ابن عمر نے کہا کہ منع فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے سے۔ ابو داؤد:۔ عن انس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لا تقتلو شیخا فانیا ولا طفلا صغیرا ولا امرۃ۔ یعین ابو داؤد میںہے کہ انس نے کہا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نہ قتل کرو بڈھے ضعیف کو ا ور نہ بچوں چھوٹے کو او رنہ عورت کو۔ یہ مسلمہ ہمارے ہاں کا ا س قدر مشہور ہے کہ مصنفین اصول قوانین ممالک مختلفہ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے ، برٹرس صاحب لکھتے ہیں۔ کہ نصیحت پیغمبر کی یہ تھی کہ عورتوں اور اطفال شیر خوار اور ان لوگوں کو قتل کرنے سے جو قریب مرگ ہوں باز رہو۔ جو لوگ مقابلہ نہ کرتے ہوں۔ ان کے مکانات کو مت ڈھاؤ۔ وسیلے ان کے وجہ معیشت کی نہ کھو وو اور ان کے میوہ دار درختوں کو ہاتھ نہ لگاؤ۔ جو عہد و پیمان تم کرو اس پر ایمان داری سے قائم رہو اور چاہیے کہ تمہارا قول مطابق ساتھ فعل کے ہو۔ فقط۔ ہمارے مذہب میں عہدہ کا پورا کرنا فرض ہے اورجب عہد توڑا جاوے تو نہایت احتیاط چاہیے۔ کہ کس طرح کی بے ایمانی نہ ہونے پاوے، جس سے عہد توڑا جاوے اس کو خبردار ک دیا جاوے اس کو مہلت دی جاوے کہ تمام سامان اپنی حفاظت کا درست کر لے۔ اس ہنگا مہ میں برابر بد عہدی ہوتی رہی۔ سپاہ نمک حرام عہد کر کر پھر گئی۔ بدمعاشوں نے عہد کر کر دغا سے توڑ ڈالا اور پھر ہمارے مہربان متکلمین اور مصنفین کتب بغاوت فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے مذہب میں یوں ہی تھا۔ نعوذ باللہ مہنا ھذا بھتان عظیم۔ القرآن سورۃ بنی اسرائیل آیت ۳۴۔ واوقوا بالعہدان العہد کان مسئولا۔ یعنی اللہ صاحب نے فرمایا ہے کہ پورا کرو اقرار کو ۔ بے شک اقرار پوچھا جاوے گا ،یعنی قیامت کے دن۔ ترمذی و ابو داؤد: عن سلیم ابن عامر قال کان بین معویہ و بین الروم عھد و کان و بسیر نحو بلا وھم حتی اذا انقضی العھدا غار علیھم فجا ء رجل علی فرس او بر ذون وھو یقول اللہ اکبر اللہ اکبر وفاء لا غدر فنظر و افا ذا ھو عمر و بن عتبہ فسالہ معویہ عن ذالک فقال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول من کان بنیہ و بین قوم عھد فلا یسعلن عھدا ولا یشد نہ حتی یمض امر او بنبذالیھم علی سواء قال فرجمع معاویہ بالناس۔ یعنی ترمذی او رابو داؤد میںہے کہ سلیم ابن عامر نے کہا کہ معویہ اور روم میںعہد نامہ تھا اور معویہ روم کے شہروں کی طرف جانا تھا ۔ تاکہ جس وقت عہد نامے کی مدت گزر جاوے رومیوں پر حملہ کرے۔ کہ اتنے میں ایک آدمی عربی گھوڑے پر یا ترکی گھوڑے پر سوا رآیا یہ کہتا ہوا کہ اللہ اکبر ۔ اللہ اکبر ۔ عہد پورا کرنا چا ہیے اور غدر نہ کرنا چاہیے جب لوگوں نے دیکھا تو وہ شخص عمر بن عتبہ تھا۔ پھر معو یہ نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے۔ اس نے کہا کہ میںنے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ جو شخص کہ اس میں اور کسی قوم میںعہد ہو تو نہ اس کو ڈھیلا کرے نہ سخت کرے، یہاں تک کہ اس کی مدت گزر جاوے یا اس کو موقوف کرے۔ اس طرح پر کہ دونوں طرفین برابر رہیں۔ یہ سن کر معویہ مع اپنے لشکر کے واپس آیا ۔ فی العالمگیری ولو صالحھم الا مام ثم رائے نقض الصلح اصلح نبذ الیھم وقا تلھم و یکون النبذ علی وجہ الذی کان الامان قان کان منتشرا یجب ان یکون النبذ کذالک و ان کان غیر منتشر یان آمنھم واحد من المسلمین سر اََ یکتفی بنذذالک الواحد ثم بعد النبذ لا یجوز قتالھم حتی یمضی علیھم زمان یتمکن فیہ ملکھم من انفاذ الجزالی اطراف مملکۃ وان کانوا خرجوا من حصونھم و تفرقو فی البلاد وفی عسا کر المسلمین او خربو حصر نھم بسبب الا مان فحن یعو د و اکلھم الیٰ ما منھم و یعمروا حصو نھم مثل ما کانت تو قبا عن الغدر۔ یعنی عالمگیری میںہے کہ اگر سردار نے کسی قوم سے صلح کی، پھر اس صلح کا موقوف کرنا مناسب جانا تو صلح موقوف کرے اور ان سے لڑے، لیکن یہ موقوف ہوناصلح کا اس طرح پر ہو، جس طرح صلح ہوئی تھی ، یعنی اگر صلح علانیہ ہوئی تھی ، تو موقوف ہونا صلح کا بھی علانیہ ہو اور اگر صلح چپکے سے ہوئی تھی کہ ایک آدمی نے کر لی تھی ، تو اس کی موقوفی بھی سای ایک آدمی کی کافی ہے پھر صلح موقوف ہونے کے بعد بھی ان سے لڑنا نہیں چاہیے۔ یہاں تک کہ ایک ایسی مدت گزرے جس میں ا س قوم کا بادشاہ اپنے ملک میںچاروں طرف خبر بھیج سکے۔اور اگر وہ لوگ اپنے قلعوں میں سے نکلے ہوں اور مسلمانوں کے شہر میں اور مسلمانوں کے لشکروں میں متفرق ہو گئے ہوں۔ یاانہوں ، بہ سبب امن کے اپنے قلعے توڑ دیے ہون ۔ تو اتنی مہلت دینی چا ہیے ۔ کہ وہ سب لوگ اپنی امن کی جگہ پر چلے آویں۔ اپنے قلعوں کو جیسے کہ تھی ، ویسے ہی بنا لیں، یہ حکم ہے واسطے بچنے ،کے غدر سے۔ القرآن ، سورۃ انفال ، آیت ۵۸۔ واما تخافن من قوم خیانۃ فانبذالیھم علٰی سوائِِ ان اللہ لا یحب الخا ئنین۔ یعنی اللہ صاحب نے فرمایا ک اور اگر تجھ کو ڈر ہو ایک قوم کی دغا کا تو جواب دے ان کو برابر کے برابر اللہ کو خوش نہیں آتے دغا باز۔ اب خیا ل کرو کہ جب ہماری گورنمنٹ انگلشیہ نے اس ملک کو فتح کیا۔ تو ہم مسلمانوں نے انا کارعیت ہوناقبول کیا۔ کہ ان کی عملداری میںرعیت ہوکر رہے یا جو پہلے حاکم تھے انہوں نے عہد کر کر گورنمنٹ انگلشیہ کو ملک سپرد کیاتو پھر جیسا غدر ۱۸۵۷ء میںہوا۔ کیا مسلمانوں کو مذہب کی رو سے اسی طرح کرنا درست تھا۔ اور سنو مجھے امید ہے کہ ہمارے مہربان متکلمین اور مصنفین کتب بغاوت اس بات سے تو انکار نہ کریں گے ، کہ چند جا مسلمانوں نے عیسائیوں کو پناہ دی۔ پھر اور بدمعاشوں نے بلوہ کر کر قتل کیا۔ حالاں کہ ہمارے مذہب میںاگر ایک مسلما ن بھی کسی کو امن دے تو ایسا ہے کہ گویا سب نے امن دیا ، اور پھر اس کا قتل کرنا گناہ عظیم اور قتل کرنیوالا غادر ہے۔ سراج االوھاج ۔ امان الواحد کامان الجماعۃ۔ یعنی سراج الوہاج میںہے کہ ایک کا امن دینا مانند سب کی طرف سے امن دینے کے ہے۔ فی العا لمگیری اذا امن رجل حراو امرۃ حرۃ کافرا او جماعۃ او اہل حصن او مدینۃ صح امانھم ولم یکن لا حد من المسلمین قتا لھم، یعنی عالمگیری میںہے کہ جب ایک آزاد مرد یا آزاد عورت کسی کافر کو یا کسی گروہ کو ،یا قلعے کے محصوروں کو یا شہر والوں کو امن دے تو ان ا امن دینا درست ہے اورنہیں ہے کسی شخص کو مسلمانوں میںسے ا ن کا قتال کرنا۔ دیکھو جب کافر کے لیے یہ حکم ہے تو اہل کتاب کیوںکر تکلیف دیے جا سکتے ہیں۔ بخاری و مسلم ، عن ام ہانی بنت اب ی طالب قالت ذہبت الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الفتح فوجد تہ بغتسل و فاطمۃ ابنۃ تستسرہ ثبوت فسلمت فقال من ہذہ فقلت انا ام ہانی بنت ابی طالب فقال مرحبا بام ہا نی فلما فرغ عن غسلہ قام فصہ ثمانی رکعات ملتقا فی ثو ب واحد فلما انصرف فقلت یارسول اللہ زعم ابن امی علی انہ قاتل رجلا اجرتتہ فلان بن ہبیرہ فقال رسول اللہ صلی علیہ وسلم قد اجرنا من اجرت یا ام ہانی قالت ام ہانی و ذالک ضحی۔ ’’یعنی بخاری و مسلم میںہے کہ ام ہانی بیٹی ابو طالب نے کہا کہ جس برس مکہ فتح ہوا میں پیغمبر خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئی میںنے پایا کہ وہ نہا رہے ہیں اور حضرت فاطمہ آپ کی بیٹی کپڑے سے پردہ کیے ہوئے ہیں۔ میںنے سلام کیا ۔ حضرت نے فرمایا کہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میںہوں، ام ہانی بیٹی ابو طالب کی۔ حضرت نے فرمایا خو ش رہے ام ہانی۔ پس جب حضرت نہانے سے فارغ ہوگے تو آٹھ رکعتیں نماز کی پڑھیں کپڑے میں لپٹے لپٹے پھر میری طرف متوجہ ہوئے۔ میںنے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے ماں جائے بھائی علی نے ارادہ کیا ہے ایک شخص کے قتل کا، جس کو میںنے بچایا ہے۔ پس فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ بچایا ہم نے اس کو جس کو تو نے بچایا ۔ اے ام ہانی اور وہ وقت تھا چاشت تھا۔ فی الشرح السنہ: عن عمر ابن الحمق۔ قال سمعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من آمن رجلا علی نفسہ فقتلہ اعطی لو ء الغدر یوم القیمۃ۔ یعنی شرح السنہ میں ہے کہ عمر بیٹے حق نے کہا کہ میںنے سنا رسول خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو شخص کہ پناہ دے کسی کو آپ او رپھر اس کو مار ڈالے تودیاجاوے گا اس کو نشان غدر کا قیامت کے دن۔ پہلے یہ ثابت ہوچکا کہ ایک پناہ دینا سب کا پناہ دینا ہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ جو کوئی مارے کسی کی پناہ دی ہوئی کو وہ غادر ہے۔ ایک اور بات سنو کہ بعضی جگہ اس ہنگامے میںبعضے عیسائیوں نے کہا کہ ہم مسلمان ہوتے ہیں، ہم کو قتل مت کرو اور بعضے ہوگئے اور ان بے ایمان مفسدوں اورکافروں نے ان کو مار ڈالا ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان عیسائیوں نے ظاہر میں اقرار کیا اپنی جان کے ڈر سے دل سے وہ مسلمان نہیںہوتے تھے، مگر ہمارے مذہب میںایسے شخص کا بھی قتل کرنانہایت گناہ عظیم قریب کفر ہے۔ القرآن : ۔ سورۃ النساء ۔ آیت ۹۴ ۔ یا ایھا لاذین آمنو ازا ضربتم فی سبیل اللہ فتبینو ولا تقو لو ا لمن القیٰ الیکن السلم لست مومنا تبتغون عرض الحیواۃ الدنیا فعند اللہ مغانم کثیرہ کذالک کنتم من قبل فمن اللہ علیکم فتبینو ان اللہ کان بما تعملون خبیرا۔ یعنی اللہ صاحب نے فرمایا اے ایما ن والو جب سفر کرو اللہ کی راہ میں تو تحقیق کرو اور کہو جو شخص تمہاری طرف سلام علیک کرے کہ تو مسلمان نہیں ہے چاہتے ہو مال دنیا کی زندگی کا، تو اللہ کے ہاں بہت غنیمتیں ہیں۔ تم ایسے ہی تھی پہلے پھر اللہ نے تم پر فضل کیا، سو اب تحقیق کرو اللہ تمہارے کام سے واقف ہے۔ تفسیر احمد میںلکھا ہے، کہ مرد اس بن نہسیک نے بروقت پکڑے جانے کے لڑائی میں کلمہ پڑھا یعنی اقرار کیا وحدانیت کا او رپیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر۔ مگر اسامہ نے اس کو مار ڈالا۔ جبیہ خبر رسول خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچی تو نہایت رنجیدہ ہوئے ۔ اور جب اسامہ نے کہا کہ آپ میرا گناہ بخشا جانے کے لیے دعا کیجئے ، تو آپ نے فرمایا کہ کیوں کر یعنی اس حال میں کہ تو نے قتل کیا ہے ایک شخص کو جس نے خد ا کی وحدانیت اور رسالت کا اقرار کیا تھا ۔ اسامہ نے کہا کہ اس نے تو میری تلوار کے ڈر سے اقرار کیا تھا ۔ حضرت نے فرمایا کہ کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا۔ اور ایک بات سنو کہ یہ تمام بغاوت جو ہوئی بنا اس کی کارتوس تھا ۔ کارتوس کاٹنے سے مسلمانوں کے مذہب کا کیا نقصان تھا ۔ہمارے مذہب میں اہل کتاب کا کھانا کھانا درست ہے ان کا ذبیحہ ہم پر حلال ہے۔ ہم فرض کرتے ہے ں کہ اس میکں سور کی چربی ہو گی۔ تو پھر بھی ہمارا کیانقصان تھا۔ ہمارے ہاں شرع میں ثابت ہو چکا ہے کہ جس چیز کی حرمت او ر ناپاکی معلوم نہ ہو وہ چیز حلال اور پاک کا حکم رکھتی ہے۔ اگر یہ بھی فرض کر لیںکہ اس میں یقینا سور کی چربی تھی تو اس کے کاٹنے سے بھی مسلمانوں کا دین نہیں جاتا صرف اتنی بات تھی کہ گناہ ہوتا سو وہ گناہ شرعا بہت درجہ کم تھا ان گناہوں سے جو ا س غدر میں بد ذات مفسدوں نے کیے ۔ القرآن ۔ سورہ المائدہ ۔ آیت ۶۔ احل لکم الطیبات و طعام الذین اوتوا الکتاب حل لکم و طعا مکم حل لھم۔ یعنی اللہ صاحب نے فرمایا کہ آج حلال ہوئیں تم کو سب چیزیں ستھری اورکتاب والوں کا کھانا تم کو حلال ہے اور تمہار ا کھانا ان کو حلا ل ہے۔ ابو داود عن ابن عباس قال فکلو ا مما ذکر اسم اللہ علیہ ولا تاکلوا ممالم بذکر اسم اللہ علیہ فنسخ وامستثنیٰ من ذالک فقال طعام الذین اوتو الکتاب حل لکم و طعامکم حل لھم۔ یعنی ابو داؤد میںہے کہ ابن عباس نے کہا کہ تم کھاؤ اس میں سے جس پر نام لیا اللہ کا ۔ یعنی جو جانور کہ اللہ کے نام سے ذبح ہوا۔ اور نہ کھاؤ اس میں سے جس پر نام لیانہ گیا اللہ کا۔ یعنی جو جانور اللہ کے نام سے ذبح نہیں ہوا بلکہ بتوں پر اور دیوتاؤں پر چڑھایاگیا ۔ مگر یہ حکم عام نہیں رہا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے ذبیحہ کو اس میں سے مستثنیٰ کیا اور فرمایا کہ کھانا یعنی ذبیحہ اہل کتاب کا حلال ہے۔ واسطے تمہارے اور تمہارا کھانا یعنی ذبیحہ حلال ہے۔ ان کو یعنی اہل کتاب کو۔ اب دیکھو کہ یہ بات ظاہر ہے کہ ہمارے مذہب میں سور کھانا اور شراب پینی حرام ہے۔ مگرعیسائی ان دونو کا استعمال کرتے ہیں ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ جس برتن میں اہل کتاب نے سور پکایا یا شراب پی ہے۔ اس کو دھو لو اورتم اپنے کام میں لاؤ۔ اسو داؤد۔ عن ابی ثعلبہ الخشنی انہ سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال ان نجار اہل الکتاب وھم یطبخون فی قدورھم الخنزیر و یشربون فی الیتھم الخمر فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان وجدتم فکلوا فیھا واشربو او ان لم تجدو ا اغیرھا فار حضوھا بالماء وکلوا واشربوا۔ یعنی ابو داؤد میںہے ۔ کہ ابی ثعلبہ خشنی نے پوچھا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور عرض کیا کہ ہم اہل کتاب کے ہمسایہ میںہیں اور وہ لوگ پکاتے ہیں اپنی ہنڈیا میں سور۔ یعنی مٹی کی ہنڈیا میں اور پتے ہیں اپنے برتنو ںمیں شراب یعنی ان برتنوں کو اپنے استعمال میںلاویں یا نہیںفرمایا رسول خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ اگر تم کو اور برتن ملیں تو ان میںکھاؤ او رپیو اور اگر اور کوئی برتن ان کے سوا نہ ملے تو ان کو پانی سے دھو لو اور کھاؤ پیو۔ ایک عجیب واقعہ یہ ہے کہ متکلمین اور مصنفین کتب بغاوت نے اپنے آپ کو مسلمانوں کے مذہب کے بہت واقف کار ظاہر کیا ہے اور یوں جانتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے مذہب کے بھی بڑے مولوی ہیں، حالانکہ وہ مسلمانوں کے مذہب کے احکام بالکل نہیں جانتے۔ میںنے فلاں اخبار اور فلاں کتاب میں دیکھا کہ من جملہ متکلمین او رمصنفین کتب بغاوت نے ہمارے کلام اللہ کی بہت سی آیتیں متضمن فضائل جہاد اور قتل کفار جمع کیں۔ اور ان کو عجیب عجیب ر نگ برنگ کی عبارتوں میںچھاپا، نتیجہ یہ نکالا کہ مسلمانوں کے مذہب میںعیسائیوں کا قتل کرنا اور ان پر جہاد کرنا فرض تھا اور اور بہت سی نہمتیں مذہب مسلمانی پر لگائیں۔ ان بے جا باتوں سے ان کا مطلب میری سمجھ میں نہ آیا شاید یہ بات ہو کہ ان کو بہ سبب ناواقفیت کے غلطی ہوئی ۔ یا یہ کہ حکام وقت کو مسلمانوں سے ناراض کرنا اور ان کو جوش دلانا مقصود تھا۔ اگریہی پچھلی بات تھی تو خیال میں نہیں آتا کہ ان جنٹلمین لوگوں کا اس سے کیا مطلب تھا، کیا مسلمانوں کی یہ بات ان کو بری معلوم ہوتی تھی ، کہ جس طرح عیسائی خدا کو مانتے ہیں ، نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں، خدا کے کلام پر یقین کرتے ہیں، عیسیٰ مسیح ؑ کو برحق جانتے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی خدا کو مانتے ہیں، نبیوں پر ایمان لاتے ہیں، خدا کی کتابوں کو بر حق جانتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو رسول اللہ وکلمۃ اللہ و روح اللہ جانتے ہیں۔ افسوس ہے تاریخ ایک ایسی چیز ہے جس سے اصلی واقعہ ہم کو معلوم ہوتے ہیں آئندہ جو لوگ آنے والے ہیں ان کی رہنمائی کے لیے روشنی ہے پھر اس میںبے جا اور اپنے غصہ کی بھری ہوئی باتوں کا لکھنا کتنا ناواجب ہے۔ جان لینا چاہیے کہ ہمارے کلام اللہ میں بہت سے احکام ہیں ان میں سے بعضے عام ہیں اور بعضے خاص ہیں پھر خاص احکام میںبہت تفصیل ہے بعضے محصوص اہل کتاب سے ہیںبعضے خاص عیسائیوں سے ہیں بعضے مشرکین سے ہیں، پھر ان میں سے بھی کئی قسم ہے بعض معاملہ خاص اور وقت خاص کے لیے تھے ۔بعض مکہ کے سوا اور ملکوں کے مشرکوں کے لیے تھے کہ وہ بہ نسبت جمع احکام کے سخت تر تھے ۔ پھر جو شخص ہمارے کلام اللہ سے احکام نکا لنے چاہے اس پر واجب ہے کہ ان تمام حالات اور جمیع شرائط سے واقف ہو۔ ہمارے ان مہربانوں نے کیا کیا کہ تمام آیتیں فتال و جدال کی جو مشرکین یا خاص مکہ کے مشرکین اور وقت خاص کے تھیں ان سب کو ہندوستان کے فساد اور عیسائیوں کے قتل پر لکھ دیا ۔ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ ان کا مقصد بجز اس کے کہ حکام کو مسلمانوںسے ناراض کریں اور کچھ نہ تھا۔ فضائل جہاد کے لکھنے کا کیا فائدہ ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ جہاد مسلمانوں کا ایک مذہبی مسئلہ ہے۔ ا سکے قواعد ایسے قاعدہ پر مبنی ہیں جس میںذرا بھی دغا اور فریب اور غدر و بغاوت اور بے ایمانی نہیں۔ اس ہندوستانی کی بغاوت کو اس سے کیا علاقہ جو ان آیتوں اور حدیثوں کو ہندوستان کی بغاوت اور اس ہنگامے کی بے ایمانی اور بے رحمی پر لاتے ہیں۔ مجھ کو کمال تعجب ہے ان جنٹلمین لوگوں سے جن کی تہذیب اورحکمت ملکوں میں مشہو ر ہے اور وہ بے گانہ اپنی تحریر و تقریر میں علانیہ ایک خاص قوم کو الفاظ نا ملائم اور نازیبا لکھتے ہیں اور نہیں ڈرتے اس دن سے جو آنے والا ہے جس میں دل کی برائیاں پوچھی جائیں گی او ر کیا جواب دیں گے اس وقت جب حضر ت عیسیٰ مسیح ؑ پوچھیں گے کہ انجیل مقدس میں یہی میں نے تم کو نصیحت کی تھی جس پر تم چلے تھے۔ قوم کو برا کہنا کیا معنی ہے۔ کوئی قوم ایسی نہیں جس میں اچھے برے سب قسم کے آدمی نہ ہوں۔ یہی مسلمانوں کی قوم جن کو ہمارے مہربان متکلمین اور مصنفین کتب بغاوت نے جو چا ہا ہے سو کہا ہے ان میں سے لاکھوں آدمی ایسے ہیں جو ان گناہوں سے جو متکلمین او رمصنفین کتب بغاوت ان کی نسبت نکالتے ہیں اس سے خدا کے سامنے پاک ہیں۔ سیکڑوں آدمیوں نے سرکار کی خیر خواہی میںاپنی جان و مال و عزت و آبرو کی مصیبت اٹھائی پھر تمام قوم کو علانیہ بر ا کہنا اور خیر خواہ و بدخواہ سب کے دل کو رنجیدہ کرنا کیا معنی ہے۔ حاصل یہ کہ فسادات کو مذہبی باتوں سے کیا علاقہ ہے۔ ایک تقدیری فساد تھا وہ ہوا۔ ہر ایک نے بقدر اپنے رنج و تکلیف کے گو وہ خیال ان کا غلط ہو۔ فساد کیا۔ اور سید خاموش ! کوئی مقام شکایت نہیں،واقع میں ہماری شامت اعمال ہے۔ ہمارا دل ، ہماری جان گناہوں سے بھر گئی ہے جو کچھ پیش آتا ہے اسی کی مصیبت ہے سچ فرماتا ہے خدا تعالیٰ اپنے کلام میں۔ القرآن ۔ سورۃ رعد ، آیت ۱۱، ان اللہ لا یغبیر ما بقوم حتی یغیر واما بانفسھم واذا اراد اللہ بقوم سوء فلا مرد لہ ومالھم من دونہ من دال۔ یعنی للہ نہیں بدلتا کسی قوم کو جب تک وہ نہ بدلیں۔ جو ان کے دل میںہے اور جب چاہے کسی قوم پر برائی۔ پھر وہ نہیںپھرتی اور کوئی ان کو اس میں مددگار۔ پس خدا ہی کے سامنے اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چا ہیے۔ آمین،۔ لاحول ولا قوۃ الا با اللہ میں کہاں تھا اور جولائی قلم مجھے کہاں کھینچ لائی اب بہتر ہے کہ میں اس کو بس کر دوں اور جو میرا مطلب ہے اس کو لکھوں۔ منشی امام الدین تحصیلدار مراد آباد منشی ام الدین صاحب تحصیلدار مراد آبد، یہ افسر زمانہ غدر میں کوتوالی مرادآباد کے تھے ۔ ۱۲ کمبخت مئی ۱۸۵۷ ء کو جب میرٹھ میںفساد کی خبر پہنچی تو اسی وقت سے انہوں نے بقا ء انتظام سرکاری پر چست کمر باندھی۔ دفعۃ ۱۸ مئی کو ۲۵ یا ۳۰ تلنگہ باغی نمبر ۲۰ بیلی پلٹن کے مظفر نگر سے آئے اور کھیڑہ کے جنگل میں کانگن کے پل کے پاس مقیم ہوئے۔ صاحب میجسٹریٹ بہادر نے ان کی جاسوسی کی تدبیر کی۔ یہ افسر آدھی رات کو تنہا وہاں گئے اور تمام حال تحقیق کر کر لائے اور پھر صاحب میجسٹریٹ بہادر کی ہمراہی میں ان پر حملہ کیا۔ کہ ایک تلگہ مارا گیا ۔ اور کوئی تلنگے مع خزانے کے جوان کے پاس تھا گرفتار ہوئے۔ ۱۹ مئی کو جب جیل خانہ ٹوٹا تو نہایت سعی سے بہت سے قیدیوں کو گرفتار کیا۔ ۲۱ مئی ۱۸۵۷ء کو ایک گروہ بدمعاشوں کا رام پور سے آیا اوررام گنگا کے کنارہ پر ٹھہرا ۔ یہ معلوم ہو اکہ منو نامی بدمعاش نے جو مولوی کے نا م سے مشہور تھا ان کو بلایا ہے یہی شعر کہ ہے جس کو ہمارے مہربانوں نے مشہور کیا ہے کہ مراد آباد میں مسلمانوں نے جہاد کیا تھا اور محمد ی جھنڈا کھڑا ہوا تھا۔ یہ منو پوتا تھا مولوی وجیہہ الدین کا او ربھتیجا تھا مولوی اسماعیل کا۔ جو چند برس ہوئے کہ شاہ اودھ کی طرف سے سفیر ہو کر لندن گئے تھے اور وہاں سے مراجعت کے وقت مرے۔اس منو کا اصلی نام وھاج الدین تھا ۔ وضع اس کی ایسی تھی جیسے اچھے بدمعاشوں کی ہوتی ہے۔ مطلق لکھا پڑھا نہ تھا۔ یہاں تک کہ اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتا تھا ۔ بدمعاشی کایہ حال تھا کہ جرائم سنگین میں دو مرتبہ قید ہو چکا تھا۔ ایک دفعہ د س برس ایک دفعہ سات برس ۔ پچھلی قید جیل خانہ میںپوری کی تھی۔ اب ہماری کتاب پڑھنے والے خود انصاف کر لیں گے کہ یہ شخص مسلمانوں کے مذہب کا مولوی اور خدا پرست تھا یا بدمعاش۔ غرض کہ جب اس گروہ کے آنے کی خبر پہنچی تو جناب مسٹر جان کری کرافٹ صاحب بہادر نے بہ جمعیت منشی تاج الدین کے جو بھائی اس افسر کے ہیں ان پر حملہ کیا۔ کچھ لوگ بھاگے کچھ زخمی ہوکر پکڑے گئے۔ اس افسر نے شہر میں بذریعہ اپنے عہدہ کو توالی کے ایسا انتظام کیا کہ منو کو فرصت ملنے کی ان بدمعاشوں سے نہ ملی۔ اور فی الفور منو کو اپنی کوتوالی کے انتظام سے گھیر کر مار دیا ایک آدمی اور اسکا ہمراہی مارا گیا اور چند گرفتار ہوئے۔ جب کہ انتظام مراد آباد کا بالکل ہاتھ سے جاتارہا اور حکام میرٹھ تشریف لے گئے تو یہ افسر بھی کوتوالی چھوڑ کر بھا گ گئے اور بدمعاشوں اور فوج نمک حرام کے ڈر سے جنگلوں جنگلوں مخفی رہے۔ پھر موقع پاکر بحضور مسٹر سانڈرس صاحب بہادر جو اس زمانے میںمیجسٹریٹ مرادآبادتھے حاضر ہوئے۔ جب مسٹر جان انگلس صاحب بہادر میجسٹریٹ مراد آباد مقر ہوئے اور حکم روانگی فوج کا روہیل کھنڈ کو صادر ہوا تو صاحب ممدوح کے ساتھ ہمراہ اس فوج کے جو روڑکی میں زیر حکم جنرل جونس صاحب بہادر کے جمع ہوئی تھی مراد آباد میں آئے اور تحصیلدار بلاری مقرر ہوئے۔ پھر یہ سبب ضرورت خاص کے اسی کمپو کے ساتھ ہمراہی مسٹرجان انگلس صاحب بہادر بریلی کو روانہ ہوئے اور شاہجہان پور اور محمدی تک ساتھ رہے اور اس درمیان میں جو کام متعلق ہوا نہایت خیر خواہی سے انجام دیا۔ پھر بدایوں ہوتے ہوئے مراد آباد میںآئے اور خاص مراد آباد کی تحصیلداری پر مقررہوئے۔ بعوض اس خیر خواہی کے علاوہ ترقی عہدہ کے ایک ہزار روپیہ کی جمع کا گاؤں سرکار سے مرحمت ہوا۔ ہماری اس تحریر میںایک جگہ محمد جھنڈے کاذکر آیا ضرور ہے کہ ہم اس کا بھی کچھ حال بیان کریں۔ جان لینا چاہیے کہ یہ جو بعضے متکلمین اور مصنفین کتب بغاوت خیال کرتے ہیں کہ محمدی جھنڈے کا کھڑا کرنا کوئی مذہبی بات ہے یہ محض غلط ہے ۔ مذہب میں اس طرح پر اس کی کچھ اصل نہیں ایک قدیم دستور تمام قوموںکا ہے کہ جب دو فوجیں جمع ہوتی ہیں۔ ان فوجوں میںنشان ہوتے ہیں۔ ہر ایک قوم کی فوج کا نشان اس کے نا م سے مشہور ہوتا ہے۔ یہ جو مشہور کر رکھا ہے کہ واسطے قائم کرنے جہاد کے محمدی جھنڈا کھڑا ہوتا ہے۔ محض بے اصل بات ہے۔ اس تمام ہنگامہ میںمیںنے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ جہاں دو غول واسطے آپس کی لڑائی کے جمع ہوئے ہیں سب کے ساتھ نشان تھے ہندو کیا اور مسلمان کیا یہاں تک کہ جب مسلمان ایک غول نے دوسرے مسلمان غول پر چڑھائی کی۔ تب بھی دونوں کے ساتھ نشان تھے۔ مگر یہ مسلما نوں کی بدبختی تھی کہ جہاں جہاں مسلمانوں کے غول میںنشان تھے ان کو متکلمین اور مصنفین کتب بغاوت نے ایک مذہبی بات قرار دی اور محمدی جھنڈا اس کا نام اس طرح پر لیا کہ جس سے ایک مذہبی جہاد کی بات پائی جاوے۔ حالانکہ کیسا جہاد کیسا محمدی جھنڈا جتنے مقدمہ آپس کی لوٹ اورغارت کے قائم ہوئے ان میں سے بہت سوں میں یہی مذکور ہوا کہ خداوند مسلمانوں نے تو ہم پر جہاد کیاتھا ۔ وہ تو گاجی بنے تھے ہجور۔ انہوں نے تو محمدی جھنڈا کھڑا کیا تھا ہمارے مہربان متکلمین اورمصنفین کتب بغاوت نے اصلی حال پر غور و فکر نہ کرنا جہاد کا مسلمانوں پر غل مچا دیا اب ہم ا س مقام پر اس افسر کی جو رپورٹیں ہوئیں اور جو سرٹیفکیٹ اس کو ملے بجنسہ نقل کرتے ہیں۔ ترجمہ سرٹیفکیٹ سانڈرس صاحب مجھ کو کمال خوشی ہے درباب تصدیق اس امر کے کہ آخر ماہ مئی اور ابتدائے جون ۱۸۵۷ ء میں جب غدر شروع ہوا پہلے بگڑجانے بلٹن اونتیس کے امام الدین کوتوال مراد آباد ک تھے اور کمال ہی جواں مردی اور جانفشانی سے باوجود مسلمان ہوئے کے خیر خواہی سرکار کرتے رہے اور جس وقت بدمعاشان مراد آباد مع دیگر مسلمانان بسر کر د گی مولوی منور مستعد فساد اور آمادہ قتل او رخون ریزی صاحبان انگریز کے ہوئے۔ اس وقت بھی اس شخص نے بلا استدعا معاونت تدبرے قرارواقعی واسطے انسداد فساد کے کری اور معرفت اہالیان پولیس کے ان لوگوں کو گھیر لیا ۔ چنانچہ مولوی منو مع دو تین آدمی ہمراہی اپنے مارے گئے اور وہ ہنگامہ کم ہوا ۔ ہر گاہ حکام ملکی و جنگی مراد آباد سے تشریف لے گئے ۔ اس و قت سے کوتوال مذکور بھی فرار ہو کر مخفی ہوگیا ۔ اس نظر سے کہ یہ شخص خیر خواہ سرکار مشہور او رمعرو ف تھا اور مسلمان اس ضلع کے مخالف اس کے تھے۔ تاج الدین داروغہ پل جو ان کا بھائی ہے اچھی خیر خواہی کرتارہا۔ چنانچہ رام پور س پٹھان لوگ جو یہاں آئے اور رام گنگا کے کنارے محاذی شہر مراد آباد کے محمدی جھنڈا کھڑا کرنا ٹھیرایا اسی تاج الدین نے ان کے سرداروں کو روکا تھا ۔ غرض ہم نے امام الدین سے بہتر کوئی افسر پولیس نہیں دیکھا۔ اورہمارے نزدیک مستحق سرفرازی اور لائق عطاانعام کے ہے ۔ دستخط سی بی ساندرس صاحب مقام دہلی مورخہ سیز دہم مارچ ۱۸۵۸ء ترجمہ سرٹیفکیٹ انگلش صاحب جب سے ہم نے میرٹھ چھوڑا امام الدین کوتوال مراد آباد ہمارے ساتھ رہے اور اس عرصہ میں اچھے اچھے کام کرتے رہے اور پارسال نہایت دلیری اور خیر خواہی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ مستحق ترقی کے ضرور ہیں۔ مگرافسوس یہ ہے کہ ہم سے ان کی ترقی کچھ نہیں ہو سکتی۔ دستخط جان انگلس صاحب، مقام بریلی مورخہ مئی ۱۸۵۸ء ترجمہ سرٹیفکیٹ ر کٹس صاحب اما م الدین تحصیلدار مراد آباد بروقت غدر کوتوال تھے اور اچھی کارگذاری کی۔ ہم کو بریلی میں ملے تھے ۔ اور محمدی او ر شاہجہان پور اور بدایوں تک ہمارے ساتھ رہ اور کاروبار متفرق متعلقہ افسر ہمراہی فوج میںہماری اعانت کرتے رہے۔ غرض بہر حال ہم ان سے بہت راضی رہے۔ اور بر وقت پہنچے مرادآباد کے ہم نے کاشی پور میںتحصیلدار مقرر کیا ۔ اور وہاں سے خاص مراد آباد میں تبدیل کر لیا۔ غرض دونوں جگہ پر کارگذاری ان کی بہتر ہوئی اور کام فوجداری اور مال میں بخوؓی مستعدرہے اور کئی باغیوں کو کوشش کر کے گرفتار کرایا اور اس خیر خواہی اور جواں مردی کے سبب چند اشخاص ان کے دشمن ہوگئے ۔ تعجب نہیںکہ وہ لوگ کچھ بدی سے پیش آویں چونکہ ایسے نازک وقت میں ان کی کار گذاری قابل تحسین ہوئی ہے لہذا ہم کو منظور ہے کہ جو افسر ہمارے بعد اس ناقص اور دغا باز ضلع میں آوے ان کی خاطر ملحوظ رکھے۔ دستخط صاحب رکٹس صاحب مقام مراد آباد ، مورخہ بست ہشتم اکتوبر ۱۸۵۸ء ترجمہ سرٹیفکیٹ کرنیل کوک صاحب اما م الدین تحصیلدار مراد آباد ایام غدر میں خیر خواہ سرکار رہے اور بر وقت روانگی فوج زیر حکومت جنرل جونس صاحب بریلی اور ہر ایک موقع پر اچھا کام کرتے رہے اوراپنی خیر خواہی ظاہرکرتے رہے اور جس وقت ک فوج مذکور بریلی سے محمدی اور بدایوں پرچڑھی تب بھی ان کی کار گذاری سے صاحب میجسٹریٹ اور ہم کوبہت آرام ملتا رہااورہر ایک مقام پر خبر معتبر پہنچاتے رہے۔ غرض یہ افسر بہت ہوشیار اور نہایت لئیق ہیں۔ دستخط کرنیل جان کوک صاحب کمانیر مراد آباد ، مورخہ باز دھم دسمبر ۱۸۵۸ ء ترجمہ سرٹیفکیٹ الیگزینڈر صاحب کمشنر روہیل کھنڈ ہم کو کمال خوشی ہے اس بات کی تصدیق کی کہ امام الدین تحصیلدار حال نے ایام غدر یعنی ۵۷ ء ۵۸ ء میںسرکار کی خیر خواہی کی اور پسندیدہ تریہ ہے کہ باوجود ایسی کار گذاری کے کبھی کچھ خود سناء نہیں کی اور نہ خواہش انعام کی پیش کی۔ حکام نے بخوشی خاطر جو کچھ مرحمت فرمایا لے لیا۔ ہم کو امید ہے کہ بدستور سابق نیک نامی سے اپنا کام کرتے رہیںگے ۔ دستخط آر۔ الگز ینڈر صاحب، کمشنر روہیل کھنڈ مقام آگرہ ۔ مورخہ ماہ اپریل ۱۸۵۹ ء ترجمہ انتخاب فہرست خیر خواہان ضلع مراد آباد بر وقت شروع غدر کے امام الدین کوتوال مرادآباد کے تھے اور بہت خیر خواہی سے اپنا کام انجا م دیا۔ چنانچہ جس وقت بدمعاشان مراد آباد نے با مسندی مولوی منو مسلمانوں کو آمادہ قتل انگریزوں کے کیا تو اسی افسر نے بسر کردگی بھوپ سنگ قوم ہندو اور دیگر اہل پولیس کے معرفت با ختیار خود مولوی مذکور کو قتل کیا۔ اگرچہ دوبارہ انتظام ہونے کے وقت بعہدہ تحصیداری ترقی ان کی کی گئی ہے الا بطور انعام ایک گاؤں بھی بجمع ایک ہزار روپیہ خاص بریلی ان کے وطن میں مرحمت کیا جاوے تو بہت مناسب ہے۔ نقل مطابق اصل دستخط جانسین صاحب ڈپٹی کلکٹر ترجمہ چٹھی اسٹر بجی صاحب میجسٹریٹ ضلع مراد آبا د مورخہ ۱۸ مئی ۱۸۵۹ء نمبر ۱۴۳ بنام صاحب کمشنر بہادر روہیل کھنڈ۔ بموجب حکم گورنمنٹ مورخہ نوزدھم جنوری ۱۸۵۹ء نمبر ۱۲۱ ،امام الدین حال تحصیلدار مراد آباد کو ایک گاؤں بجمع ایک ہزار روپیہ واقع بریلی مرحمت ہوا ، مگر تصریح نام کسی گاؤں کی نہیں لکھی ۔ دفعہ دوم۔ سابق میں اس خیال سے کہ وطن میںامام الدین کا ضلع بریلی ہے یہ تجویز ہوئی تھی ۔ کہ گاؤں جو ان کو مرحمت ہو بریلی میںہو۔ سو یہ بات غلط ہوئی ۔ کیوں کہ ا ب معلوم ہوا ہے کہ بزرگ ان کے حقیقت میں بریلی کے تھے ، مگر مدت سے مراد آبا دمیں بودو باش کر لی ہے اور کچھ تعلق بریلی میں نہیں رہا لہذا ان کی درخواست یہ ہے کہ اسی ضلع میںگاؤں بھی مرحمت فرمایا جاوے۔ دفعہ سوم۔ چونکہ قبل غدر اور نیز بعد غدر کے اس شخص سے خیر خواہی اور عمدہ کار گذاری عمل میںآئی ۔ لہذا ہم درخواست کرتے ہیںکہ حکام گورنمنٹ اس درخواست کو منظور فرماویں۔ دستخط جی ۔اسٹریجی صاحب میجسٹریٹ ترجمہ چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ نمبر ۷۸۲ مورخہ ۲۴ جون ۱۸۵۹ ء بنام کمشنر صاحب روہیل کھنڈ۔ دفعہ اول۔ چٹھی آپ کی نمبر ۲۰۷ مورخہ ۲۳ مئی ۱۸۵۹ء اس درخواست سے کہ ایک گاؤ ں واقوع بریلی بھی ایک ہزار روپیہ جو واسطے دینے امام الدین تحصیلار کے بطور انعام منظور ہوا ہے ۔ سو موضع مذکور بہ نظر اس امر کے کہ تحصیلدار مذکور ضلع مراد آباد میںبود باش رکھتا ہے۔ اسی ضلع میں مرحمت فرمایا جاوے ہمارے پاس پہنچی۔ دفعہ دوم۔ اس کے جواب میںآپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ نواب لفٹنٹ گورنر بہادر نے اس درخواست کو منظور فرمایا ، مگر چا ہیے کہ اب صاحب کلکٹر کو ارشادکریں کہ بعد تجویز کرنے گاؤں کے اس کی حیثیت سے ہم کو اطلاع دیں۔ دستخط جی۔ کوپر صاحب ۔ سیکرٹری گورنمنٹ حضرت جہاں پناہ سلامت بعز عرض می رساند حضور پر روشن ہے کہ آفرید گا ر عالم کو انصاف پسند ہے اور ظلم ناپسند۔ اس لیے عرض رساہوں کہ جو افسران فوج واسطے قتل مفیدان میم و بچوں وغیرہ کے عرض کرتے ہیں۔ اگر نزدیک حضور انور کے مناسب ہووے تو حضور افسران سے براہ انصاف ارشاد فرما ویں کہ سب عرض تمہاری کے ما بدولت نے تمہارے سر پر ہاتھ رکھا اور دین کے شریک ہوئے اور ان کے قتل کرنے میںدین ہمارا جاتا ہے۔ ایک فتویٰ اور ایک پیوستہ اس باب میں طلب کرو۔ اگر وہ حکم قتل کا دیویں تو کرو ورنہ ہم خلاف شرح حکم قتل نہ دیویں گے ۔ نہیںتو جو تمہارے دل میں حسرت ہے اول ما بدولت کے لیے کرو امیدوار کہ افسران فوج سے ساتھ و باغت کے معروضہ بالا ارشاد فرمایا جاوے ، واجب تھا عرض کیا۔ آفتاب دولت و اقبال و سلطنت کا تاباں و درخشاں بار ۔ عرضے فدوی ۔ نبی بخش خان سفیر حضرت عرش آرام گاہ یہ بات مشہور ہے کہ جب فوج نمک حرام نے ان لوگوں کے قتل کا ارادہ کیا اور مرزا مجھلے نے جو سلاطین میں سے تھا ۔ ان لوگوں کو منع کیا او رکہا کہ کس مذہب میں ان کا مارا جانا درست ہے۔ مگروہ لوگ مرزا مجھلے کے مارنے پر مستعد ہوگئے اور وہ وہاں سے بھاگ گیا۔ جب دہلی فتح ہوئی اور دفتر بادشاہی سرکار دولت مدار کے قبضہ میں آیا ۔ یہ عرضی صاحب کمشنر بہادر کو ہمراہ اوردفتر کے ملی ۔ صاحب ممدوح نے فی الفور ان نواب صاحب کو بلایا اور پانچ سو روپیہ انعام دیا اور تمام جائداد چھوڑ دی اور شہر میںرہنے کا حکم دیا اور جو سرٹیفکیٹ کہ صاحب ممدوح نے ان کو مرحمت کیا۔ اس مقام پر لکھتے ہیں۔ ترجمہ سرٹیفکیٹ عطائے سانڈرس صاحب کمشنر دہلی۔ واضح ہو کہ نواب نبی بخش خاں صاحب امیگر ذی عزت ہیں انہوں نے شاہ دہلی کی خدمت میں ایک عرضی اس مقصد کی گذرانی تھی کہ زن ومرد و اطفال عیسائی جو ماخوذ ہیں آپ ان کو قتل سے بچائیے۔ چنانچہ جس وقت ہم لوگوں نے محل پر چڑھائی کی۔ یہ عرضی اتفاقا محل سے دستیاب ہوئی یہ کام ان کا پسندیدہ اور لائق تحسین کے ہے۔ بطور انعام عوض اس کام کے مبلغ پانچ سورورپیہ نقد ہم نے عطا کیا او رہماری درخواست ہے کہ جملہ افسران انگریز ان کی عزت ملحوظ نظر رکھین اور مع اہل و اطفال شہر میں رہنے دیں۔ دستخط سی۔ بی سانڈرس صاحب مورخہ پنجم دسمبر ۱۸۵۷ء شیخ خیرالدینل احمد بہادر ڈپٹی کلکٹر و ڈپٹی میجسٹریٹ ان صاحب کی خیر خواہیاں دیکھ کر آدمی نہایت حیران رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سے تمام ہندوستانیوں کو فخر ہے تمام مسلمانوں کو خدا شکرکرنا چاہیے کہ انہی کا ہم قوم ایسا شخص ہے جس کا نظیر شاید ہی کہ اور کوئی نکلے۔ ان کے باپ ۱۷۹۲ ء سے سرکار کے نوکر تھے ۔ برہما کی فتح کے بعد کمیشن افسر فوج کے ہوئے اور اور ۱۸۲۹ء میں ہنگا مہ مہم کابل کام میں آئے یہ صاحب خود بی جانسین پلٹن رجمنٹ ۴۲ میںنوکر تھے او رمہم کابل میں سر رشتہ جاسوسی کابھی ان سے متعلق تھا اور کابل کی بارہ لڑائیوں میں خو د شریک و موجود تھے اور ۱۸۴۵ء کی مہم لاہور میںموجود تھے اور ۱۸ دسمبر کو جو لڑائی بدکی پر ہوئی اور ۲۳، ۲۴ دسمبر و یکم فروری ۱۸۴۶ء کو جو لڑائی فیروز پور اور سو میراں پرہوئی اس میں بھی شامل تھے اور متعدد طمغہ اور ۱۸۵۰ ء میںایک عمدہ تلوار جس پر فتح نامہ کندہ ہیں صلہ میں پا ئی ۔ ۱۸۵۴ء میں سر رشتہ ملٹری سے نکل کر شیو راج پور ضلع کان پور میں تحصیلدار ہوئے ۔ جب سے اب تک برابر سرشتہ سول میں مامور ہیں۔ ۱۸۵۶ ء میں بمقام بلیا ضلع غازی پور ڈپٹی کلکٹر مقرر ہوئے جب غدر شروع ہوا وہیں کے ڈپٹی کلکٹر تھے۔ ۲۲ مئی ۱۸۵۷ ء کو یہ صاحب اپنے مقام سے صاحب میجسٹریٹ بہاد رکی ملاقات کو غازی پو رمیں آئے اور حال بلو ہ میرٹھ دریافت ہوا اور صاحب میجسٹریٹ بہاد نے وہیںرہنے کا حکم دیا چنانچہ یہ صاحب وہاں رہے اور گشت و انتظام وہاں کا شروع کیا اور دن رات صاحب کے بنگالہ پر مسلح حاضر رہ کر ان کی حفاظت جان کا خاص اپنا ذمہ لیا۔ غازی پور میں اگر فساد ہوجاتا تو علاوہ قتل و خوں ریزی کے بڑی مشکل یہ پیش آتی۔کہ ڈیڑھ کروڑ روپیہ کی افیون اور پندرہ لاکھ روپیہ نقد جو خزانہ میںتھا سب برباد ہوجاتا اور دخانی کشتی کی آمد ورفت میں بھی چندے ہرج پڑتا ، مگر ان صاحب نے وہاں کے انتظام پر نہایت جاں فشاننی کی۔ رجمنٹ ۶۵ جو غازی پور میں مقیم تھی، صرف ان کی فہمائش سے تابعدار و خیر خواہ رہی ۔ حکام کی اجازت سے خود یہ افسر بہت دفعہ پلٹن میں گئے اورپریٹ جمع کر کر ان کوبہت اچھی اچھی نصیحتوں سے فہمائش کی اورجو شبہ مداخلت مذہب کا ان کے دل میںتھا اس کو بالکل کھو دیا اور باوجودیکہ تمام اضلاع گرد وپیش غازی پور مثل اعظم گڑھ و جونپور و گورکھ پور و بنارس وغیرہ بگڑ گئے مگر ان افسر نے غازی پور کی سپاہ کو بگڑنے نہیں دیا۔ جب بنارس میںامن ہوا تو غازی پور میںبھی تسلی ہوئی ۔ اس وقت مسٹر راس صاحب بہادر کلکٹر بنارس نے جون ۱۸۵۷ ء میںان افسر ک واسطے انتظام علاقہ بلیا کے روانہ کیا کہ وہاں نہایت مفسدہ برپا تھا ۔ یہ صاحب وہاںگئے اور تنہا باوجود نہ ہوئے کمک کے بخوبی انتظام کیا اور موضع چورا کے مفسدوں کے مقابلہ میں بہت سرگرمی کی او ر تحصیل مالگذاری جاری کر دی اور جب پلٹن باقر بلیا پر آئی اور نیز جب کہ دانا پور کا کمپو یعنی کراپٹ رجمنٹ ۷ بر دوان رجمنٹ ۸ و پلٹن میرم رجمنٹ ۴۰ بگڑ کر ارہ میں آئی اور کنور سنگھ ان کا سرغنہ ہوا اور جب کہ گیارھواں ہندوستا نی رسالہ بگڑ کر مقام نگر امنصل بلیا تک آپہنچا۔ ان افسر نے اپنی رعایا کو اپنے ساتھ جمع کر کر ان کو روکا او ربلیا کو بچایا اور انتظام سرکاری ہاتھ سے نہ دیا ۔ یہ و قت ایسا مشکل کا تھا کہ جب یہ افسر باغیوں کے مقابلہ کو چلے تو اپنی عورتوں اور پانچ لڑکوں صغیر السن کو خدا کے سپرد کر کر وصیت کی کہ جب میں دنیا میںنہ رہوں۔ تو میرے کنبہ کو حکام انگریزی کے پاس جہاں وہ ہوں پہنچا دینا کیوں کہ ان افسرکو کسی طرح ان موقعوں میں اپنے زندہ بچنے کی توقع نہ تھی اور گورنمنٹ پر اپنی جان نثار کرنے کو تیار تھے۔ جب کہ علاقہ بلیا میں امن ہوگیا اور ضلع گورکھ پور مرکز فساد بنا تو ان افسر نے درخواست کی کہ اب مجھ کو واسطے انتظام کے گورکھ پور میں بھیجا جاوے چنانچہ ۳۱ جنوری کوگورکھ پور پہنچے اورہمراہ فوج گورکھا واسطے بہم رسانی رسد اور خبر رسانی باغیان متعین ہوئے اور پھر ہمرا ہ فوج بریگیڈ نے رو کرافٹ صاحب بہا در کے ہوئے اورجو لڑائیاں کہ ۲۹ فروری کو بمقام پھول پور اور پانچوے مار کو بمقام امردہ ہوئیں۔ ان سب میں شریک تھے اور جو نتیجہ پچھلی لڑائی میں حاصل ہوا۔ وہ صرف انہی کی خبر رسانی سے ہوا۔ بعد اسکے جو لڑائیاں کہ ۲۵، ۲۹ اپریل کو اسی مقام پر اور پہلی مئی کو بمقام نگر ہوئیں۔ ان میںبھی بہت مردانہ کام کیے اور باغیوں کے نشان بردار کو اپنے ہاتھ سے مار کر نشان چھین لیا اور پھر اموہ کی لڑائئی میںجو دسویں جو ن کوہو ئی اور دیر معیا کی لڑائی میں اور جگدیش پور کی لڑائی میںجو ۲۶ دسمبر کوہوئی۔ اسی طرح بہادرانہ نے نیپال کے ملک میںباغیوں پر تعاقب کے اور ۲۵، ۲۸مارچ کو جو لڑائیاں بمقام بوتول ہوئیں ان میں جاں نثاری کو حاضر رہے اورپھر بموجب حکم کمشنر بہادر بمقام لوٹن سرحد نیپا ل پر واسطے حفاظت اور خبر رسانی باغیان کے متعین ہوئے اور نہایت جاںنثاری سے ا س کام کو انجام دیا او ربہت سے باغیوں کو گرفتار کر کر بمقام دھنکھوی حکام انگریزی کے پاس بھیج دیا اور بعد تمام انتظام کے گورکھ پور میںواپس آئے۔ بعوض اس جاں نثاری کے سرکار نے ان کی بڑی قدردانی کی۔ ڈپٹی کلکٹری درجہ سوم سے درجہ دوم پر ترقی کی اورپھر درجہ دورم سے درجہ اول پرترقی فرمائی اور ایک خلعت چھ پارچہ کا اورمالائے مروارید و جیقہ سر پیچ مرصع اور ایک تلوار قیمتی دو ہزار روپیہ کی جمع کی۔ مرحمت فرمائی چنانچہ اب ہم افسر کے سرٹیفکیٹ اوررپورٹوں کی بجنسہ نقل لکھتے ہیں۔ ترجمہ چٹھی نج ٹکر صاحب کمشنر بنام شیخ خیرا لدین مورخہ یکم جون ۱۸۵۷ ء ۔ مقام بنارس ۔ اے عزیز ! اسی وقت ایک چٹھی کالون صاحب لفٹنٹ گورنر بہادر کی ہمارے پاس اس مضمون کی آئی ہے کہ خیر الدین کو ہماری طرف سے اطلاع دو کہ ان کی عمدہ کار گذاری ایام غدر سے ہم بہت خوش ہوئے۔ حقیقت میںایسے ہی وقت میںنیکی نیکوں کی اور بدی بدوں کی معلوم ہوتی ہے۔ آئندہ کو اس معاملہ میں بخوبی تمیز ہوگئی ۔ ہم بھی آپ کی کار گذاری کے نہایت مشکور ہیں۔ آپ دوستان دلی سے ہم کو سمجھتے ہیں۔ دستخط ایچ ۔سی ۔ ٹکر صاحب کمشنر بنارس ترجمہ چٹھی نج راس صاحب۔ مرقومہ ۱۰ جولائی ۱۸۵۷ ء مقام غازی پور۔ اے عزیز ! تم جو مشکل کے قوت میںبطور کمال وفاداروں اور عزیزوں کے پیش آئے اس بات کی ہم کوبڑ خوشی ہے۔ آپ کی قدراور منزلت ہم کوپہلے سے معلوم تھی۔ بر وقت موقع از روئے تحریر و تقریرآپ کی تعریف رو بروے کالون صاحب اورٹکر صاحب کے کر چکے ہے ں اور اب بھی ارادہ ہے کہ آ پ کی کارگذاری اور جاں فشانی کہ اس دو مہینے میں درباب قائم رکھنے انتظام ضلع اور مدد گاری آپ کی بروقت مقام صدر مذکور کی جاوے گی۔ دستخط۔ راس صاحب ترجمہ چٹھی ییکبٹس صاحب میجسٹریٹ غازی پور مرقوم ۳۶ دسمبر ۱۸۵۷ ء نمبر ۲۰۸ بنام کمشنر صاحب بنارس۔ درخواست گذارندہ ڈپٹی میجسٹریٹ علاقہ بلیا بذریعہ چٹھی ہذا آپ کی خدمت میںپہنچتی ہے۔ اگرچہ دریں وجہ اس درخواست کا روکنا نامناسب ہے۔ مگر ہم کو منظور نہیںہے کہ یہ صاحب دوسرے ضلع میںبدلے جاویں۔ کچھ احوال ان کی کار گذاری کا یہ ہے کہ ایام غدر میںباوجود بگڑ جانے گردو نواح کے ان صاح نے اپنے علاقہ کو بگڑنے نہ دیا اورجب ہم کو واسطے گوشمالی مفسدوں کے ضرورت دورہ کی ہوئی تو ا س وقت بھی ہم کو بڑی اعانت کی۔ لہذا ہم چاہتے ہیں کہ ترقی ان کی بمشا ھرہ پانچ سوروپیہ ماہواری کی جاوے۔ بلکہ ان کی کارگذاری آپ کو اور نیر مسٹر راس صاحب کو بھی معلوم ہوگی کہ یہ شخص صرف بوسلیہ کار گذاری کے اس درجہ پر پہنچا ہے۔ ہمارے نزدیک انکی ترقی ہونا بہت ہی مناسبہے۔ کس واسطے کہ اس شخص نے بذات واحد باوجود فساد چار سو کے نصف ضلع کو تھا م لیا اور مالگذاری بھی تحصیل کی۔ غرض ان صاحب کی تبدیلی سے گونہ ہم کو بھی تکلیف ہے۔ دستخط ے یکبٹس صاحب ترجمہ چٹھی صاحب کمشنر بہادر قسمت بنارس بنام سیکرٹری گورنمنٹ ۔ مرقومہ ۲۸ دسمبر ۱۸۵۷ ء مقام بنارس۔ دفعہ اول۔ نقل چٹھی کلکٹر غازی پور مورخہ ۲۶ دسمبر ۱۸۵۷ ء بہ درخواست تبدیلی شیخ خیر الدین احد ڈپٹی کلکٹر و میجسٹریٹ علاقہ بلایا ضلع گورکھ پور مع دیگر چٹھیات بابت کا رگذاری ڈپٹی صاحب موصوف و نیز یک قطعہ چٹھی مرقومہ بریٹن صاحب کلکٹر واقع ۲۲ دسمبر ۱۸۵۷ ء مع جواب محررہ ۲۴ ماہ مذکور بذریعہ چٹھی ہذا آپ کی خدمت میںروانہ کرتاہوں۔ دفعہ دوم۔ میری رائے نہیںہے کہ خیر الدین گورکھ پور کو تبدیل کیے جاویں۔ گورکھ پور کا انتظام کرنامشکل نہیں معلوم ہوتا ، احتمال لڑائی کابھی نہیں ہے ۔ کس واسطے کہ جس وقت فوج گورکھ پور بہ سرداری جنگ بہادر صاحب جنریل کے دریائے گندک سے عبور کرے گی ناظم مع اپنے ہمراہیوں کے اودھ کو بھاگ جاویگا۔ اگرچہ خیر الدین سپاہی آدمی ہے ، مگر وہاں ان کی کچھ ضرورت معلوم نہیں ہوتی ۔ علاوہ اس کے گورکھ پورمیں سر دست انتظام جدید جاری ہوگا اور اس باب میں ان کو دست گاہ بھی کم ہے۔ بدیں نظر ہمارے نزدیک بھی مناسب ہے کہ بدستور بلیا میں رہیں اورغازی پور کی جانب مشرق جو ان کا علاقہ ہے اس کا انتظام انہی کا کام ہے اور اس بات میںبہت مستعد ہیںَ دفعہ سوم۔ اس غدر میں خیر الدین کی کار گذاری بہت عمدہ ہوئی اور سب حکام حتٰی کہ نواب لفٹنٹ گورنر بہادر کو بھی پسند آئی۔ انہی کی کوشش سے رجمنٹ ۶۵ بگڑنے سے بچی ۔ غرض کہ ان کی سعی اور جان فشانی حاکم ولایت زا سے کم نہیں ہے ۔ دفعہ چہارم۔ پس ہم کو آرزو ہے کہ سرکار بہادر ان کی ترقی بدرجہ ا ول ڈپٹی کلکٹری مشاہرہ پانچ سو روپیہ پر فرمائے اور اس ہنگامہ میںسرکار کو فیاضی زیبا ہے۔ کیامعنی کہ جیسا کچھ جلد بدخواہتوںکو تدارک ہوتا ہے۔ ویسا ہی جلد نیک خواہوں کو انعام ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوگا تو اہل کاران جان فشان کم میسر ہوں گے ۔ دستخط ۔ سی ٹکر صاحب کمشنر ترجمہ چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ بنا م صاحب کمشنر مورخہ ۱ ۳ دسمبر ۱۸۵۷ ئ۔ دفعہ اول۔ بہ جواب چٹھی مرقومہ ۲۸ ماہ حال نمبر ۳۸۰ آپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ نواب لفٹنٹ گورنر بہادر نے ترقی شیخ خیر الدین ڈپٹی میجسٹریٹ و کلکٹر درجہ سوم اوپر درجہ دوم بمشا ہر مقررہ درجہ مذکورہ منظور فرمائی۔ دفعہ دوم۔ صاحب لفٹنٹ گو رنر کی رائے میں شیخ خیر الدین مستحق ترقی درجہ اول کے ضرور ہیں، مگر چونکہ اب تک دوبرس ان کو اس عہدہ پر نہیںگذرے لہذا یکایک درجہ اول پر ترقی کرنا مناسب نہ ہوا۔ دفعہ سوم۔ چونکہ بریٹن صاحب میجسٹریٹ گورکھ پور نے درخواس ت کی ہے کہ خیر الدین ضلع گورکھ پور میںہمارے پاس تبدیل کیے جاویں۔لہذا تبدیلی ان کی یہ ضلع مذکور منظو ر ہوئی ۔ اگرچہ اس ضلع میںلڑائی کا احتمال نہیںہے، مگر پھر بھی نواب لفٹنٹ گورنر صاحب بہادر کو احتمال بہت سے خر خشوں کا ہے اور ذہن میںنہیں آتا کہ حکام وہاں کے سر دست فرصت بندوبست کی پاویں۔ غرض برکیف مناسب ہے کہ درخواست صاحب میجسٹریٹ بہادر ضلع گورکھ پور کی منظور کی جاوے۔ بلکہ جس اہل کار کو صاحب موصوف معتبر اور معتمد جان کر اپنی استعانت کے واسطے طلب کریں بھیجنا مناسب ہے۔ دستخط کرنیل اسٹریچی صاحب، سیکرٹری گورنمنٹ ۷ جنوری ۱۸۵۸ء بنا م شیخ خیر الدین ڈپٹی کلکٹر و ڈپٹی میجسٹریٹ۔ دفعہ اول۔ مجھ کو کمال خوشی ہے درباب بھیجنے نقل چٹھی اپنی مو سومہ گورنمنٹ مورخہ ۲۸ دسمبر ۱۸۵۷ ء او رنقلل اول و دوم و سوم جواب چٹھی مذکور کہ مشعر ترقی درجہ دوم آپ کی ہیں۔ دفعہ دوم۔ آپ کے اس حسن انتظام سے میں بھی کمال ہی خو ش ہوا ہوں۔ یہ ترقی آپ کو مبارک ہو۔ دستخط ۔ ایچ۔ ٹکر صاحب کمشنر ترجمہ چٹھی صاحب کمشنر گورکھ پور بنام سیکرٹری گورنمنٹ ہند۔ مرقومہ ۲۲ مارچ ۱۸۵۷ ء مقام امرڑہ۔ دفعہ اول۔ درخواست شیخ خیر الدین مشعر تبدیلی ملک اودھ بہ ذریعہ اس چٹھی کے آپ کی خدمت میں بھیجی جا تی ہے۔ جیسی کچھ عمدہ کار گذاری ان سے عمل میںآئی۔ اس کا بیان کرنا عین ہماری خوشی ہے۔ دفعہ دوم۔ جب سے صاحب اس ضلع میںتشریف لائے کرنیل رو کرافٹ صاحب کے ہمراہ بہ طور افسر ملکی کے رہے اور لڑائی میںبھی موجود رہے اور سررشتہ جاسوسی صرف ان کی ذات سے متعلق تھا کہ بخوبی انجا م دیا۔ دفعہ سوم۔ ان کی خیر خواہی اور وفاداری پر ہم کو ایسا اعتماد اور اعتبار ہے جیسا اپنے عزیزوں پر ہوتا ہے۔ بہ قیاس کارگذاری سابق اغلب ہے کہ ملک اودھ میںبھی اچھی ہی کارگذاری ہو۔ چونکہ اس کے باشندے سپاہی پیشہ ہیں۔ لہذا بہ نسبت اہل قلم کے سپاہی پر زیادہ اعتماد رکھیںگے۔ دفعہ چہارم ہم چاہتے ہیںکہ درخواست ڈپٹی صاحب موصوف کی منظور فرمائی جاوے اور ترقی انکی بدرجہ اول ملک اودھ میں کی جاوے۔ سابق میںبہ باعث کم ہونے کارگذاری دو سالہ ترقی اس درجہ سے باز رہی تھی۔ سو اب و ہ امر بھی نہیںرہا اور دو برس پورے ہو گئے ۔ دستخط سی ۔ جے وینگ فیلڈ صاحب کمشنر ترجمہ چٹھی صاحب کمشنر گور کھ پور نمبر ۱۷۰ مرقومہ ۱۰ جون ۱۸۵۸ ء بنا م سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع غربی۔ دفعہ اول۔ سابق ایک قطعہ چٹھی بہ خدمت سیکرٹری گورنمنٹ فار ن ڈیپارٹمنٹ میں بہ درخواست تبد یلی شیخ خیر الدین مقام اودھ روانہ کی گئی تھی اور حسب تصریح چٹھیات حاشیہ صاحب چیف کمشنر بہادر سے استمزاج بھی کیاگیا تھا۔ مگر اب معلوم ہوا کہ اودھ میںدرجہ او ل اکسٹرا اسسٹنٹ کا عہدہ خالی نہیں ہے لہذا صاحب موصوف نے تحریر فرمایا ہے کہ اگر خیر الدین موصوف درجہ دوم پر ترقی اپنی منظور کریںتو ممکن ہے چونکہ اس صورت میںصر پچاس روپیہ کی ترقی ہے۔ لہذا شیخ صاحب موصوف کوقبول اور منظور نہیںہے۔ دفعہ دوم۔ اب دوبارہ آپ کی خدمت میںگذارش ہے کہ تنخواہ ان کی بہ قدر پانچ سو روپیہ مقرر کی۔ جاوے۔ یعنی ڈیڑھ دو سوروپیہ اضافہ کیا ۔ جاوے اور یہ اضافہ بنام مناد پرسنل الاونس یعنی تنخواہ ذا ت خا ص قرار پاوے اور بملاحظہ چٹھی بھی اسی قدر ترقی ان صاحب کی مد نظر تھی۔ علاوہ اس کے دریافت ہوا ہے کہ پارسک صاحب اور سید محمدمعین ڈپٹی کلکٹر کی بھی ترقی اسی قدر ہوئی ہے ان کی کارگذاری خیر الدین کی کارگذاری سے زیاد ہ نہیںہے۔ دفعہ سوم۔ اور حکام نے بھی انکی تعریف لکھی ہے۔ ہم بھی لکھتے ہیں اورشاہد ہیںکہ جب سے اس ضلع میںتشریف لائے ہیں۔ اچھے ہی کام کرتے رہے اورعلاوہ کاروبار کچہری کے نہایت جاں فشانی سے لوگوں کی بدگمانی کو رفع کرکے۔مستعد اصلاع اورخیر خواہی کرتے رہے۔ دفعہ چہارم۔ سررشتہ جاسوسی متعلقہ رو کرافٹ صاحب جو ان کے اہتمام میںتھا ۔ یہ وجہ احسن انجام دیا او ر جب فوج اموڑہ میںپہنچی اورلڑائی شروع ہوئی آپ سے شریک جنگ رہے دفعہ پنجم ۔ ہم کو احتمال نہیں ہے کہ سرکار مکررسہ کرر۔ سعی شیخ خیر الدین سے ناراض ہوگئی ، بلکہ یقین کامل اس امر کا ہے کہ اگر ایسے خیر خواہ ہندوستانی کی خیر خواہی مخفی رکھیں تو سرکار کو ناگوار ہو،کس واسطے کہ بہ خلاف ان کے بہت سے اہل کار اس قسم کے باغی ہوگئے ۔ لاجرم عمدہ کار گذاری مستحق انعام ہے۔ دفعہ ششم۔ نقل اسناد و چٹھیات واسطے ملاحظہ کے روانہ ہوتی ہیں دستخط ۔ سی جے وینگ فیلڈ صاحب کمشنر ترجمہ چٹھی میور صاحب ، سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع غربی نمبری ۹۴۹ مورخہ ۲۴ جون ۱۸۵۸ ء بنام شیخ خیر الدین۔ آپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ امیرکبیر نواب گورنر جنرل بہادر نے بہ عوض حسن کار گذاری ضلع گورکھ پور ترقی آپ کی اورپر درجہ اول بہ مشاہرہ چار سو پچاس روپیہ منظور فرمائی ۔ چٹھی وینگ فیلڈ صاحب چیف کمشنر اودھ سابق کمشنر گورکھ پور مرقومہ یکم اپریل ۱۸۵۹ ء ۔ مقام لکھنو ۔ بنام سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع غربی۔ دفعہ اول ۔ ارادہ یہ تھاکہ یہ قبل چھوڑنے ضلع گورکھ پور کے از سر نو آپ کی خدمت میںعمدہ کار گذاری ایام غدرشیخ خیر الدین کی رپورٹ کر کے درخواست انعام کی کریں۔ مگر فرصت نہ ہوئی ۔ دفعہ دوم ۔ اگر چہ چٹھیات سابق میںجن کے ذریعہ سے ترقی ان کی بہ درجہ اول ہوئی ہے ۔ حال حسن گذاری ان صاحب کا مشرح لکھا گیا ہے ، مگر دوبارہ بھی کچھ تذکرہ اس کا کیا جاتا ہے۔ دفعہ سوم۔ یہ چٹھی تمام سال ۱۸۵۷ء میںڈپٹی میجسٹریٹ ضلع بلیا کے رہے اور یہ علاقہ ضلع غازی پور میں شور ہ پشت ہے مگر ان صاحب نے اس علاقہ کو ایسا اپنی حمایت میںلیا کہ ذرا بی نہ بگڑا ۔چنانچہ بکٹس صاحب کلکٹر اور مسٹر راس صاحب جج اور مسٹر ٹکر صاحب بہادر کمشنر بنارس نے بھی اس کار گذاری کو پسند فرمایا اور انہی صاحبوں کے ذریعہ سے ان کی ترقی بہ درجہ دوم ہوئی تھی ۔ دفعہ چہارم فروری ۱۸۵۸ء میں تبدیلی ان کی ضلع گورکھ پور ہوئی کہ تمام سال مذکور ہمراہ بریگیڈ یر رو کرافٹ صاحب کے موجود رہے اور جب کہ فوج باغیوں کے مقابلہ کو جاتی تھی یہ صاحب بخوشی خاطر ساتھ جاتے تھے۔ علاوہ اس کے کاروبار فوجداری و کلکٹری علاقہ بسی اور انجام امورات سررشتہ جاسوسی میں نہایت سعی جمیل کرتے تھے۔ دفعہ پنجم ۔ بر وقت اجرائے اشتہار ملکہ معظمہ چند باغی حاضر ہوئے یعنی جب انہوں نے دلچسپ تقریر سے بدگمانی ان کی رفع کی تو نامی نامی باغی حدود ملک اودھ سے میعاد کے اندر حاضر ہوئے ان کے قول پر بہ نسبت ہمارے زیادہ تر اعتماد تھا۔ دفعہ ششم۔ قدر و منزلت ان کی اطراف غربی ضلع کے زیادہ ہے اور نتیجہ اس کایہی تھا جو ظہور میں آیا ہم نے جو اس ضلع کاانتظام کیا اور سرکار نے پسند فرمایا انجام اس کا اغلب یہ معاونت انہی صاحب کے تھا۔ دفعہ ہفتم۔ ابتدائے جنوری سن حال سے ہم دم فوج سینہ سر حد نیپال کے شامل رہے۔ صرف ایک بار چند روز کے واسطے مکان کو تشریف لائے تھے اور آج ہی ہم نے سنا ہے کہ لڑائی پندرہ ماہ گذشتہل مقام پتوال میںشریک فوج کرنیل کیلی صاحب کے تھے۔ دفعہ ہشتم۔ اگرچہ اس طور کے امور ان لوگوں سے نہیں ہو سکتے مگر تاہم بلا خوف جا ن ایسی ایسی خطرناک جگہ موجود رہے اور کاروبار متعلقہ اپنے کوبھی انجام دیتے رہے۔ غرض کہ ہم انکے بڑے احسان مند ہیں۔ اگر ان کے انعام اور ترقی کے واسطے سفارش نہ کریں تو کمال بے وفائی ہے لہذا ہم رپورٹ کرتے ہیں کہ بہ طور انعام ذمہ داری مشخصہ پانچ ہزار روپیہ عطا فرمائے جاویں۔ دفعہ نہم۔ چونکہ یہ صاحب پرانے سپاہی ہیں اور رجمنٹ ۴۲ میںمہمات کابل و پنجاب میںموجود رہے اور اس غدر میں بھی باغیوں کے ساتھ سرمو دریغ نہ کیا لہذا علاوہ ذمہ داری مذکور کے ایک قبضہ شمشیر مالیت دو ہزار روپیہ مرحمت فرمایا جائے۔ دفعہ دہم۔ ان صاحب کو ضلع بدایوں اپنے وطن میںلینا زمینداری کا مدنظر ہے۔ ورنہ ملک اودھ میں متصل روہیل کھنڈ کے دی جاوے۔ تو بھی مضائقہ نہیں۔ دستخط سی۔ جے وینگ فیلڈ صاحب ترجمہ چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع غربی نمبر ۱۵۱ مورخہ ۱۰ مئی ۱۸۵۹ ء یہ نام صاحب کمشنر ۔ گورکھ پور۔ دفعہ اول۔ نقل چٹھی وینگ فیلڈ صاحب سابق کمشنر ضلع گورکھ پور مشعر حسن کارگذاری شیخ خیر الدین احمدڈپٹی میجسٹریٹ ضلع گورکھ پوربہ ذریعہ اس چٹھی کے آپ کی خدمت میںبھیجی جاتی ہے۔ اس کے ملاحظہ سے واضح ہو گا کہ شیخ خیر الدین ہر دم بہ دل و جان خیر خواہی اور بقائے انتظام سرکار میںساعی رہے اور لڑائی اور خبر رسا نی اور اور امو رات اہم میں اپنی ہمت اور توانائی اور ہشیاری کام میں لاتے رہے۔ دفعہ دوم۔ واضح ہو کہ مسٹر وینگ فیلڈ صاحب انصاف سے خود مقر ہیںکہ ہم نے انتظام ضلع میںان کے باعث بڑی مدد پائی ۔ دفعہ سو، تم کو ارشاد ہوتا ہے کہ شیخ خیر الدین کو مطلع کر دو کہ بہ لحاظ سفارش صاحب موصوف نواب لفٹنٹ گورنر بہادر نے تجویز فرمایا ہے کہ من جملہ دیہات مضبطہ زمینداری پانچ ہزار روپیہ سالانہ ان صاحب کو مرحمت ہو اور صاحب کمشنر روہیل کھنڈ سے دریافت کیا گیا ہے کہ اس قدر جائیداد مضبط ضلع بدایوں میںموجود ہے یا نہیں اور آپ ایک قبضہ تلوار قیمتی دو ہزار روپیہ واسطے شیخ صاحب موصوف کے خرید کیجیے اور نواب لفٹنٹ گورنر بہادر کی طرف سے ان کو سنا دیجئے کہ سرکار آپ کی اس کار گذاری سے بہت خوش اور انعام دینے میں بہت راضی ہے۔ دفعہ چہارم۔ اور اس بات کی بھی اطلاع کر دینی چا ہیے کہ آج ایک چٹھی بہ مراد عطا ہونے لقب خان بہادر آپ کے لیے یہ خدمت نواب گورنر جنرل بہادر بھیجی گئی ہے۔ دستخط ۔ جے ۔ کوپر صاحب سیکرٹری گورنمنٹ ترجمہ چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ ہند۔ مقام کلکتہ نمبری ۳۳۹۵ ۔ مورخہ ۳۱ مئی ۱۸۵۹ ء بہ نام سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع غربی۔ مقام الہ آباد یہ جواب چٹھی نمبر ۷۵۰ مورخہ دسویں ماہ حال متضمن ترقی انعام شیخ خیر الدین احمد ڈپٹی میجسٹریٹ ضلع گورکھ پور آپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ امیر کبیر نواب گورنر جنرل بہادر نے تجویز لفٹنٹ گورنر بہادر منظور فرما کر ارشاد فرمایا کہ شیخ خیر الدین احمد کو خطاب خان بہادر کا دیاجاوے ،علاوہ اس کے خلعت چھ پارچہ مع مالائے مروارید اور سر پیچ مرصع مرحمت کیا جاوے۔ کہ سند مذکور بہ ذریعہ چٹھی ہذا آپ کی خدمت میںپہنچتی ہے۔ دستخط ۔ آر سیمسن صاحب سیکرٹری گورنمنٹ ترجمہ چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع غربی نمبری ۱۱۶۱ مورخہ ۷ جولائی ۱۸۵۹ء ۔ بصیغہ چٹھی سابق ۱۰ مئی سن حال ۔ نقل چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ کلکتہ مرقوم ۳۱ مئی مع سند جس رو سے شیخ خیر الدین صاحب ڈپٹی میجسٹریٹ کو خطاب خان بہادر کا اور خلعت چھ پارچہ و ما لائے مروارید و سر پیچ مرصع رو برو امیر کبر نواب گورنر جنرل بہادر سے عطا ہوا ہے بھیج کر لکھا جاتا ہے۔ کہ نواب صاحب موصوف ارشاد فرماتے ہیںکہ یہ سند اور خلعت تمام تر تعظیم اور تکریم سے صاحب موصوف کو دربار عام میں دیا جاوے۔ دستخط ۔ ایف بی ۔ اوترم صاحب نائب سیکرٹری نقل سند۔ مہر سرکار اعظم و اعلیٰ انگریز بہادر مختیار بالا طلاق نظم و نسق امور ممالک و جزائر ہند ۱۸۲۱ ۔ سند خطاب خانی و بہادری بنام شیخ خیر الدین احمد خاں بہادر ڈپٹی میجسٹریٹ قسمت گورکھ پور بخشیدہ بندگان نواب مستطاب معلی القاب نائب السلطنت و گورنر جنرل بہادر دام اقبالہ۔ ازاں حاکم بتحریر گورنمنٹ مغربی و شمالی بہ دریافت رسید کہ ایشاں از آغاز بلوہ و فساد در اعانت سرکار باوقار انگریز بہادر کو ششہائے از حاضر ماندن بکار زار و رسانیدن اخبار باغیاں اشرار بر روہے ظہور آور دہ اندوھم ہر امر صعب و مشکل کہ بایشاں تفویضح شدہ بطییب خاطر و تمام تر دلاوری بتقدیم آں پر داختہ اندو ایں معنی موجب رضا مندی و خوشنودی ایں جانب گر دیدہ لا جرم از رھگذر عنایت و مکرمت خطاب خانی و بہادری مع خلعت فاخرہ بایشاں مبذول و مرحمت گردیدہ سند ہذا سمت امضا پذیر فتنہ شکے نیست کہ بازاء چنیں عطیہ عظمیٰ و موہبت گبری بیش ا زبیش در تقدیم حسن خدمت و خیر خواہی سرکار دولت مدار انگریزی کہ ہر آینہ منتج نتائج بہ برائے ایشاں خواہد بود خواہند کو شید و ایں سند را ذریعہ فخر و اعزاز بین الامثال خویش خواہند کو شید و ایں سند را ذریعہ فخر و اعزاز بین الامثال خویش خواہند شناخت ۔ المرقوم سی و یکم مائی مئی ۱۸۵۹۔ العبد:۔ منشی محمد سعید خاں بہادر۔ میرمنشی محکمہ معظمہ محشتعہ نواب گورنر صاحب بہادر دام حشتمہم۔ ترجمہ سرٹیفکیٹ عطائے بریگیڈیر رو کرافٹ صاحب کمانیر گورکھ پور۔، مورخہ ۳۰ نومبر ۱۸۵۹ ء فروری ۱۸۵۸ ء میںبجائے مسٹر نکلسن صاحب قائمقام ڈپٹی میجسٹریٹ واسطے رسد رسانی و انتظام سر رشتہ جاسوسی کے تعیناتی شیخ خیر الدین صاحب بہادر ڈپٹی میجسٹریٹ ضلع گورکھ پور بہ طور افسر ملکی ہمارے پاس ہوئی تھی ۔ صاحب موصوف مقام مہیسر متصل دریائے گھاگرہ حاضر ہو کر مہینہ مئی تک سفر میںاور دسمبر سن مذکورتک حضر میں شامل فوج کے ہر ایک طرح کی کوشش اور ہماری اعانت کرتے رہے بلکہ جو لڑائی باغیوں سے پیش آئی اس میںبھی موجود رہے اور صدہا وقت سے متعبر متعبر خبریں حاصل کرتے رہے۔ خصوصا جنگ اموڑہ کہ ۵ مارچ کو واقع ہوئی انہی کی خبر رسانی پر سامان اور مدا ر جنگ کیا گیا تھا اور اس جنگ میںمخالفوں کے ساتھ کئی راجا اور بابو پندرہ ہزار فوج اور نو ضرب توپ تھیں اور ہمارے پاس صرف بارہ سو فوج اور چارتوپیں تھیں۔ باوجود ا سکے مخالفوں نے شکست فاش اٹھائی کہ پانچ سو آدمی ان کے مارے گئے۔ اور آٹھ ضرب توپ مع دیگر سامان حرب سرکار کے ہاتھ لگا۔ اسی سب سے ضلع گورکھ پور پر کہ مال دار اور بڑا ضلع ہے محمد حسین ناظم کی بربادی سے محفوظ اور مامون رہا اور نیز مواضعات گردو نواح مثل چنپارن و سرن و تر ہوٹ بھی امن میں رہے۔ ابتدائے مئی لغایت اکتوبر ہنگام سفر بہ مقام بستی باوجود کار کچہری انعام مہمات سررشتہ جاسوسی میںبھی بہت مستعد اور سر گرم رہے اور جبکہ تھوڑی سی فوج مقابلہ باغیوں کو جاتی تھی تو ہم ان کوبھی ہمراہ کر دیتے تھے۔ دفعہ دوم۔ وینگ فیلڈ صاحب بہادر سابق کمشنر گورکھ پور حال چیف کمشنر اودھ بھی شیخ خیر الدین کی کار گذاری سے راضی رہے اور ان کی جاں فشانی اور حسن کارگذاری تحریر فرما چکے ہیں اورکوشش بلیغہ درباب اجرائے اشتہار ملکہ معظمہ اور سعی مرفورہ کے جہت بقائے انتظام ضلع ان سے عمل میں آئی زیب تحریر کر چکے ہیں حکام ضلع مذکور اور ٹکر صاحب کمشنر غازی پور ان صاحب سے بہت رضا مند رہے۔ ماہ مارچ و اپریل ۱۸۵۹ ء میں ہمراہ فوج کرنیل کیلی صاحب موجود تھے ۔ ۲۵ مارچ مقام بتوال کی لڑائی میںکہ علاقہ نیپال میں ہوئی شامل تھے۔ سابق میںیہ صاحب رجمنٹ ۴۲ میں بعہدہ حوالدار میجر کے تھے ۔ کمال کوشش سے لکھنا پڑھتا انگریزی حاصل کیا اور اس پلٹن کے ساتھ مہم کابل اور پنجاب میںموجودتھے۔ بناء علیہ انکی خیر خواہی اور دلیری اور حسن کار گذاری سے سرکار نے بھی منصب اور جاگیر ایک شمشیر اور خلعت مع لقب خاں بہادر مرحمت فرمایا۔ دستخط ۔ ایف رو کرافٹ صاحب بریگیڈیر نتمہ ہمارے ان چند صفحوں کو جن میں مذہبی گفتگو ہے۔ میرے دوست ایک مولوی نے دیکھا او ر بہت پسند کیا۔ اورکئی عمدہ عمدہ روایتیں مذہبی میرے سامنے پیش کیں او رفرمایا کہ اگر ے ہ بھی اس میں مندرج ہو تیں تو بہت اچھا ہوتا۔ اس لیے میں بہ کمال خوشی ان روایتوں کو اس تتمہ میں مندرج کرتا ہوں اور اپنے دل کونہایت مبارکی دیتا ہوں کہ ہمارے مذہب کے عالم میری تحریر کو پسند کر تے ہیں۔ صفحہ ۶ میں ا س بات کا ذکر ہے کہ بسبب مغلوب ہو نے اہل روم کے جو عیسائی تھے مسلمانوں کو غم ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فارس والو ں پر عیسائیوں کو فتح دینے سے مسلمانوں کو خوش کریں گے اور اس کی سند میں جارج سیل صاحب لکھتے ہیں کہ ظن قوی ہے کہ عرب کے لوگ بھی ان سے مخوف تھے کیونکہ ان کا ملک بھی یہود کے ملک کے قریب تھا۔ واضح ہو کہ مسلمانوں کے تئیں عیسائیوں کے مغلوب ہونے میں اس سبب سے غم نہ تھا کہ مسلمانوں کا ملک یہود کے ملک کے قریب تھا اور بسبب اپنے ملک کے اندیشہ کے وہ لوگ خوف اور غم کرتے تھے۔ نہیں بلکہ مسلمان عیسائیوں سے جو اہل کتاب تھے مذہبی انس او رمحبت اور اتحاد اور مناسبت رکھتے تھے۔ اس لیے ان کو غم تھا ۔ چنانچہ اس کی تفصیل ہماری مذہبی کتابوں میں بخوبی مندرج ہے۔ تفسیر بیضاوی۔روی ان فارس غزوا الروم فوا فوہم با ذرعات و بصریٰ و قیل بالجزیرۃ وھھی ادنیٰ ارض الروم من الفرس فغلبو ا علیھم و بلغ الخبر مکۃ ففرح المشرکون و شتموا بالمسلمین وقا لو ا انتم والنصارٰ اہل کتاب و نخن و فارس امییون فقد ظھر اخواننا علی اخوانکم فلنظہرن علیکم۔ ترجمہ یعنی کلام اللہ کی تفسیر میں جس کانام بیضاوی ہے یہ لکھا ہے کہ ان آیتوں کے اتر نے کایہ حال ہے کہ فارس نے روم پر چڑھائی کی۔ دونوں لشکروں کامقابلہ ہوا۔ اذرعات اور بصریٰ میں بعضوں نے کہا کہ ایک جزیرہ پر جو سرحد ہے روم و فارس کی ہے۔ پھر فارس غالب ہوئے روم پر اورپہنچی یہ خبر مکہ میں تب خوش ہوئے مشرک اور بر اکہا مسلمانوں کو اور کہا کہ تم اور عیسائی اہل کتاب ہو اورہم اور فارس بے کتاب ہیں۔ پس غالب ہوئے ہمارے بھائی تمہارے بھائیوں پر۔ پس ہم بھی غالب ہوںگے تم پر۔ تفسیر معالم التنزیل سبب نزول ہذہ الایۃ علی مازکرہ المفسرون انہ کان بین فارس والروم قتال و کان المشرکون یو دون ان بغلب فارس الروم لان اہل فارس کا ن مجوسیا امیین و المسلمون یودون غلبۃ الروم علی فارس الکونھم اہل للکتاب فبعث کسریٰ جیشا الی الروم و استعمل علیحا رجلا یقال لہ شہر یراز و بعث قیصر جیشا علیھم رجل یدی یعتمش فالتقیا با ذرعات و بصریٰ وھی ادنی الشام الی ارض العرب والعجم فغلب فارس الروم فبلغ ذالک المسلمون بمکۃ فشق علیھم و فرح بہ کفار مکۃ وقالو المسلمین انکم اہل کتاب و النصاریٰ اہل کتاب و نحن امیسیون و قد ظہر اخوہ اننامن اہل فارس علیٰ اخوانکم من اہل الروم وانکم ان قاتلتمو نالنظھرن علیکم نانزل اللہ تعالیٰ ھذا الایات۔ ترجمہ۔ یعنی قرآن کی تفسیر میںجس کا نام معالم ہے۔ یہ لکھا ہے کہ اس آیت کے اترتے کا سبب یہ ہے کہ روم اور فارس میں لڑائی تھی ۔ اورمشرک چاہتے تھے غلبہ فارس کا روم پر ، کیونکہ فارس والے مجوسی تھے بے کتاب اور مسلمان چاہتے تھے روم کا فارس پر کیونکہ روم والے اہل کتاب تھے۔ پس کسریٰ فارس کے بادشاہ نے ایک لشکر روم پر بھیجا اورجس کو اس پر سردار کیا اس کا نام تھا شہریراز اور قیصر روم نے بھی لشکر بھیجا اور اس پر ایک شخص کو سردار کیاجس کانام تھا یمتش پھر دونوں لشکر مقابل ہوئے اذرعات اور بصریٰ پر کہ وہ سرحد شام کی ہے درمیان عرب اورعجم کے ، پھر فارس نے روم پر فتح پائی ۔ جب یہ خبر مکہ میں مسلمانوں کو پہنچی تو ان کو افسوس ہوا اور خوش ہوئے مکہ کے کافر اور مسلمانوں سے کہا کہ تم بھی اہل کتاب اور اورنصاریٰ بھی اہل کتاب ہیں اور ہم بے کتاب ہیں۔ پس غالب ہوئے ہمارے بھائی فارس والے تمہارے روم والے بھائیوں پر اور اگر تم ہم سے لڑو تو ہم بھی تم پر غالب ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں بھیجیں جن میں یہ وعدہ کیا کہ ہم عیسائیوں کو فتح دینے سے مسلمانوں کو خوش کر یں گے۔ ۱۴ صفحہ میںہم نے یہ بات لکھی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان جو ہماری گورنمنٹ کے ستامن ہیں، مذہب کے بموجب جہاد نہیں کر سکتے اور اس کے ثبوت پر چند مذہبی کتابوں سے ہم نے سندیں لکھی ہیں۔ مگر ہمارے دوست ان مولوی نے قرآن کی آیت سے اس مطلب کوبخوبی ثابت کیا ، چنانچہ ہم اس کو یہاںبیان کرتے ہیں۔ القرآن ، سورۃ القصص۔ آیت ۱۵، ۱۶۔ ودخل المدینہ علی حین غفلۃ من اھلھا فوجد فیھا ر جلین یقتلان ھذا من شیعۃ وھذا من عدوہ فاستغائہ الذی شیعتۃ علی الذی من عد وہ فوکزہ ،موسیٰ فقضیٰ علیہ قال ھذا من عمل الشیطان انہ عدو مضل مبین قال رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی فغفرلہ انہ ہوالغفور الرحیم۔ ترجمہ: ۔ اور آیا موسیٰ شہر میںیعنی مصر میں جس وقت بے خبر ہوئے تھے وہاں کے لو گ پھر پائے اس میں دو مرد لڑتے ۔ یہ اس کے رفیقوں میں اور یہ اس کے دشمنوں میں۔ پھر فریاد کی آس پاس اس نے جوتھا اس کے رفیقوں میںپھر مکا مارا اس کو موسیٰ نے۔پھر اس کو تمام کیا ۔ بولا یہ ہوا شیطان کے کام سے ۔ بے شک وہ دشمن ہے بہکانے والا۔ صریح بولا۔ اے رب میںنے برا کیا اپنی جان کا ۔ سو بخش مجھ کوپھر اس کو بخش دیا۔ بے شک وہی ہے بخشنے والا مہربان۔ یہ قصہ توریت مقدس میں بھی ہے دیکھو کتاب خروج باب ۲ درس ۱۲، ۱۳۔ جس شخص کی حضرت موسیؑ نے مدد کی وہ عبری تھا مسلمان اور جس کو مارڈالا و ہ مصری تھا کافر۔ اب ہمارے مذہب کے بموجب یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ حالت لڑائی میں کافر کے مار ڈالنے سے حضرت موسیٰ نے کس لیے اپنے تئیں گنہ گار جانا اورخد ا سے بخشش چاہی۔ اس کی وجہ تفسیر مدارک میںیہ لکھی ہے کہ حضرت موسیٰؑ مصریوں کے امن میںتھے ۔ ان کے تئیں کسی کا قتل کرنا درت نہ تھا ۔ پس قرآن سے ثابت ہوا کہ مستامن کو ان لوگوں سے لڑنا یا انکا قتل کرن جن کے امن میں ہے درست نہیں اب اس مقام پر ہم تفسیر مدارک کی عبارت نقل کرتے ہیں۔ تفسیر مبارک۔ وانما جعل قتل الکافر عمل الشیطان وسما ء ظلما لنفسہ و استغفر منہ لانہ کان مستا منا فیھم فلا یحل لہ قتل الکافر الحربی۔ ترجمہ: یعنی کلام اللہ کی تفسیر میںجس کانام مدارک ہے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ نے کافر کے قتل کو جو شیطان کے کام سے بنایا اور اس کا نام رکھا ظلم اپنی جان پر اور اپنی بخشش چاہی اس سے ان کامطلب یہ تھا کہ حضرت موسیٰ مصریوں کے امن میںتھے۔ اس لیے حضرت موسیٰ کو اس کافرکا مارنا درست نہ تھا۔ ۱۷ صفحہ پر میںپر میں نے لکھا ہے کہ جب کوئی بادشاہ اپنے زور سے غلبہ پاوے تو اس کی اطاعت کے لیے اس بادشاہ کا مسلمان ہونا شرط نہیںہے اور اس کی سند میںتاتارخانی سے ملتقط کی روایت نقل کی ہے۔ ان ہمارے دوست مولوی صاحب نے بیان کیا کہ درمختار نے ا س سے بھی زیادہ صراحت سے اس مضمون کو لکھا ہے چنانچہ اس کی عبارت یہ ہے۔ فتاویٰ در مختار: ۔ا ان غلبو ا علی اموالنا ولو عبدا مومنا واحرزدھا بدارھم ملکوھا وتفترض علینا اتباعھم۔ یعنی درمختار میں ہے کہ اگر غیر مذہب کے لوگ مسلمانوں پر غالب آویں اور ان کا مال اور ان کے مسلمان غلام پکڑ کر اپنے ملک میں لے جاویںتو وہ غیر مذہب والے اس مال کے اور مسلمان غلاموں کے مالک ہو جاتے ہیں اور فرض ہے ہم پر اطاعت ان کی۔ غرض کہ اب ہمارے پاس اس رسالے کے پڑھنے والوں کو بخوبی ثابت ہوگیا ہوگا کہ اس ہنگامہ فساد ۱۸۵۷ء کو مسلمانل کے مذہب کی طرف نسبت کرنا محض غلطی ہے۔ اشتہار یہ رسالے فروخت ہوتے ہیں۔ قیمت ہر ایک رسالہ کی دو روپیہ ہے۔ جس شخص کو خریداری منطور ہو دس روپیہ پانچ رسالوں کی قیمت پیشگی بھیج کر مصنف سے طلب کرے۔ جے رسالے چھپ چکے ہیں وہ فی الفور بھیجے جاویں گے اور باقی بر وقت چھپنے کے پہنچیںگے ۔ جو مسلمان لو گ اس ہنگامہ ۱۸۵۷ ء میںہماری گورنمنٹ کے خیر خواہ رہے ہیں۔ ان کو چا ہیے کہ اپنا حال اصل یا نقل صحیح اپنی چٹھیات اورسرٹیفکیٹ اور رپورٹوں کی ہمارے پاس بھیج دیں ہم ان کا تذکرہ اپنے رسالوں میںلکھیںگے۔ اگرچہ میرے پاس بہت سے مسلمان کے خیر خواہوں کے حال آئے ہوئے رکھے ہیں اور مجھ کو دو ایک اور گفتگو ئیں بہت عمدہ اسی مضامین پر لکھنی ہیں ، لیکن اب میں اس رسالہ نمبر دوئم کو ختم کرتا ہوں اور آئندہ رسالہ میں اور خیر خواہوں کے حالات اور وہ گفتگو جو مجھ کو لکھی ہے لکھوں گا۔ حالات خیر خواہان مسلمانان نمبر سوم ان دنوں میں مسٹر لانسلاٹ کی کتاب میرے مطالعہ میں تھی ۔ اس کتاب میں میر ی نگاہ سے ایک عہد نامہ گذرا جو مسلمانوں اور عیسائیوں میں اگلے وقت میں ہوا تھا۔ میںاس عہد نامہ کوبجنسہ نقل کرتا ہوں اوراپنے رسالہ کے ناظرین سے امید رکھتا ہوں کہ اگر کسی عربی تاریخ میں اس عہد نامہ کا ذکر ان کی نگاہ سے گذرا ہوتو مجھے مطلع فرمایں۔ تفصیل عہد پیمان جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عیسائیوں سے کیا اور اصل اس کی ایک مناستری جو اوپر پہاڑ کارمل کے متصل پہاڑ لبنس کے ہے برآمد ہوئی اور وہ جگہ مکی سے ایک منزل کے فاصلہ پر ہے۔ بعضے یہ بھی کہتے ہیں کہ اصل اس کی کتب خانہ شاہ فرانس میں بھیج دی گئی تھی۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو پیغمبر خدا ہیں اور واسطے تعلیم کرنے انسانوں کے اور مشتہر کرنے کلام راست خداوند کریم کے تختہ زمین پر وارد ہوئے انہوں نے ا س مراد سے کہ مذہب عیسائی بھی جو خدا کی طرف سے ہے قائم رہے اس کو تحریر کیا ۔ اور جملہ باشندگان مابین مشرق اورمغرب کو خواہ اپنے ہوں یا بیگانہ یا دور ہوں یا نزدیک۔ واقف ہوں یا ناواقف یہ کلمہ بطور عہد پیمان کے سپرد کیا جاتا ہے تاکہ اس پر بحث ختم ہووے اور اس کے مطابق انصاف کیا جاوے اور سب لوگ اسی کے موافق کار بند ہوں۔ اگر کوئی مسلمان اس کی تعمیل میںنافرمانی کرے گا اور ہمارے حکم کو بجا نہیں لاوے گا تو واضح رہے کہ وہ منحرف خدا سے ہوگا خواہ بادشاہ ہو یا فقیر۔ اور یہ عہد پیمان حسب منشاء عیسائیوں کے تحریر کیا ہے اوراپنے نام میں اور اپنی امت میں جو امام اور ہادی اور ولی گذر گئے اور آئندہ کو ہوں گے ۔ یہ عہد نامہ بہ طور کلمہ خدا و پیغمبر کے قائم کیاگیا۔ اور مراد ہماری یہ ہے کہ یہ عہد پیمان از راہ ایمان قائم رہے۔ جیسا کہ مذہب اور جیسا کہ فرشتہ و ولی و صلحا تعمیل احکام خداوند کریم کرتے ہیں ۔ ویسے ہی اس کی بھی تعمیل رہے اور از روئے اس پیمان کے ہم اس بات کا وعدہ کرتے ہیںکہ جو حاکم لوگ ان کے ہمارے ملک میں باشندہ ہیں ان کو ہم امن دیں گے ۔ اپنی فوج سوار پیادہ سے اور نیز اپنے فرقہ کے لوگوں سے اور ان کے مخالفوں سے ہم ان کو بچاویں۔ گو کہ دور ہوں یا نزدیک اور لڑائی اور چین میں ان کی محافظت کریںگے اور ان کی عبادت گاہ و مقام کعبۃ اللہ شریف اور خانقا ہ وغیرہ گو کہ پہاڑ پر ہویا زمین پر ، یا اندر زمین کے، یاریت پر، یا کیسا ہی مکان ہو اور ان کے مذب کو اور ان کی جائداد کو۔جہاں موجود ہو خواہ زمین پر ۔ خواہ سمندر پر ، مشرقی یامغربی ، ایسا ہی ان کورکھیں گے۔ جیسا کہ ہم اپنے تئیں رکھتے ہیں اور اپنے لوگوں کو جو ایمان دار ہیں اور از روئے عہد پیمان کے اس بات کا بھی ہم اقرار کرتے ہیں کہ ہر طرح کی صعوبت و مزاحمت و حملہ سے ان کو پناہ میںرکھیںگے اور جو ان کے اور ہمارے دشمن ہوں گے ان سے مستعد مقابلہ ہوں گے۔ بذات خود اور اپنے و باشندگان ملک کے ۔ کس واسطے جبکہ ہم ان پر سردار مقرر کیے گئے تو ہم پر لازم ہے کہ ہر مصیبت سے انکو امن میں رکھیں اور کس طرح کی مشکل ہو اول ہم پر آویں جب ان پر پڑے۔ کس واسطے کہ ہم سب ایک ہی کامپر مستعد ہیںاور بہ بھی ہم وعدہ کرتے ہیں کہ کسی طرح کی تکلیف بہ باعث قرضہ یا محصول سب طرح سے ان کو محفوظ رکھیں اور جس طرح کا دینا ان کو منظور ہو اسی قدر دیویں۔ تاکہ کوئی ان سے مزاحمت نہ کرنے پاوے۔ جو شخص بشپ ۔ یعنی پادریوں کا پیشہ رکھتا ہو وہ اپنے علاقہ سے جدا نہیں ہونے پاوے گا اور نہ کوئی عیسائی جبرا اپنے مذہب کو ترک کرنے پاوے گا ۔اور نہ کوئی منکہ یعنی درویش اپنے پیشہ سے جدا ہو گا اور نہ کوئی حاجی اپنے حج کے کام میں مزاحمت پاوے گا اور نہ کوئی فقیر اپنے حجرہ میں ایذا پاوے گا اور نہ کوئی مکان عبادت گاہ کا مسمار کرکے مسجد بنائی جاوے اور واضح رہے کہ جو کوئی شخص اس عہد نامہ سے بر خلاف کرے گا تو وہ پیغمبر خد ا سے مخالف ہوگا اور کسی طرح کا محصول اوپر درویش اور پادریوں کے پیشواؤںسے نہ لیا جاوے گا اورنہ کسی سے جس پر واجب الطلب نہ ہو ہاں ا گر وہ خود دیوے تو مضائقہ نہیں اور نجارو جوہری و فروشندہ طلا و نقرہ وغیرہ دیگر متمول عیسائیوں سے صرف بقدر مقدار مناسب محصول لیاجاوے گا ۔ زیادہ حیثیت سے نہ لیا جاوے گا اور بارہ شلنگ یعنی چھ روپے سکہ کلدار سے زیادہ سال تمام میں نہ لیاجاوے گا اور یہ بھی واضح رہے کہ یہ محصول ان لوگوں سے واجب الطلب ہوگا جو باشندہ شہر کے ہوں اور نہ مسافروں اور نہ پردیسیوں سے ۔صرف اس حالت میں لیاجاوے گا جو جائداد اور ملک رکھتے ہیں کہ جس پر بادشاہ کو خراج دینالازم ہو۔ مگر حیثیت سے زیادہ نہیں۔ اور رفیقوں پر یہ ضرور نہیں ہوگا کہ ہمراہ مسلمان کے ان کے دشمنوں سے جنگ کرے ۔ کس واسطے یہ کام رفیقوں پر لازم نہیں ہے کہ جنگ کے معاملہ میں شریک ہوں۔ بلکہ خاص کر مطلب اس عہد نامہ کا یہ ہے کہ ان لوگوں پر ظلم نہ ہووے اور مسلمانوں کو لازم ہے کہ ان کی حفاظت کریں اور امن میں رکھیں ۔ لہذا ان لوگوں سے امداد واسطہ مقابلہ غنیم کے واسطے بیادہ یا سواران کے طلب نہیں کی جاوے گی لیکن جو وہ ا ز خود مددمیں شریک ہوں تو مضائقہ نہیں اور جو ایسا کریں گے ان کے واسطے انعام ہوگا اور لازم ہے کہ کوئی مسلمان عیسائی کو تنگ نہ کرے۔ کسی طرح کی ان کو ایذا نہ پہنچاوے بہر کیف مہربانی اور درستی کے پیش آوے۔ اگر کسی عیسائی سے کوئی قصور سر زد ہووے تو مسلمان پر واجب ہوگا کہ اس کی مدد میں شریک ہوں اور سفارش کریں اور ضامن ہوں و بہ صورت مناسب اس کی خطا معاف کر ا دیں و بعوض خون کے بھی جان بخشی ہو کر اس سے تاوان لیاجاوے۔ نہ ہو کہ اس سے جدا ہو کر بلا درد چھوڑ دیویں کس واسطے ان لوگوں کے ساتھ عہد نامہ خدا کا ہوا ہے۔ پس مناسب ہے کہ ہر ایک مصیبت اور آرام میںشریک رہیں۔ بہرحال بموجب اس عہد نامہ کے واجب ہے کہ ہر طرح کے رنج سے ان لوگوں یعنی عیسائیوں کو امن میں رکھو اور نیک کام ان کے ساتھ کر و اور شفقت سے پیش آؤ ۔ کس واسطے کہ یہ عہد نامہ اگرچہ بدرخواست عیسائیوں کے قرار پایا ہے مگر بہر کیف مناسب اور واجب ہے لہذا اس کو برقرار رکھنا سب پر لازم ہے۔ ہر حالت میںمسلمان لوگ ا ن کے ساتھ رہیںاور رنج اور راحت میں شریک رہیں۔ اس بات پر کمال لحاظ رکھنا چاہیے کہ در باب شادی کے کس طرح کی زیادتی ان لوگوں کے ساتھ عمل میںنہ آوے ۔ یعنی مسلمان کو نہ چاہیے کہ جبرا ان کی دختر ان سے شادی کریں۔ اگر ایسا پیغام ہووے بھی واسطے شادی دختریا پسر ۔ اور وہ انکار کرے تو یہ باعث اس انکار کے کچھ سختی ان کے ساتھ نہ کرے ۔ کس واسطے کہ یہ امر اختیاری ہے اور رضا مندی پر منحصر ہے۔ اگر ایسا ہووے کہ عورت عیسائی مسلمان کو خاوند کر لیوے تو اس خاوند کو لازم ہے کہ ہر گز اس کے مذہب میں خلل نہ ہو۔ بلکہ اس عورت کو اختیا ر ہوگا کہ موافق اپنے مذہب اور حسب تعلیم اپنے پادری کے کار منصبی مذہبی میںکاربند رہے ۔ بلا ہرج و مزاحمت کسی طرح کے۔ پس خاوند کو نہ چا ہیے کہ یہ باعث طلاق دے دینے یا خوشامد کے اس کو واسطہ چھوڑ دینے مذہب ترغیب کرے ۔ اگر برخلاف حکم کے کرے گا۔ تو عہد پیمان پیغمبر خدا سے دشمنائی کرے گا اور کلام خدا کو ناچیز سمجھے گا تو کافر ہوگا۔ علاوہ اس کے جس وقت عیسائی لوگ اپنے مکانات عبادت گاہ کو مرمت کیاچاہیں اور ضرورت امداد مسلمانوں کی ہوتو مسلمان کو چاہیے کہ حسب حیثیت ان کے مدد میں شریک ہوں۔ اس نیت سے نہ ہوں کہ جو دیویں پھر وہ واپس پاویںگے ۔ بلکہ نذراللہ تاکہ ثابت ہو۔ کہ وہ ان کے مذہب کے برخلاف نہیںہے اور نیز اس خیال سے کہ اس طرح کے کرنے میں بجا آوری احکام خدا و رسول ہے ۔ اگر عیسائی مسلمانوں کے بیچ میںرہتے ہوں تو ان کو ایذا پہنچا ویں اور جبرا کسی طرح کا بیکاری کار ان سے نہ لیویں مثلا خط پہنچانا۔ یا راہ بتلانا او ر واضح رہے اگر کوئی اس طرح پر ان سے پیش آوے گا۔ تو وہ ظالم متصور ہوگا اور دشمن پیغمبر خدا۔ غرض کہ یہ عہد نامہ جب شرائط بالا کے قرار پایا ہے۔ مابین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر خد ا عیسائیوں کے اور عیسائیوں کی جانب سے تعمیل شرائط مفصلہ ذیل ان پر مناسب ہے ۔ کوئی سپاہی جو مسلمانوں کا غنیم ہووے عیسائی اسے اپنے مکا ن میں خفیہ یاعلانیہ آنے نہ دیویں اور نہ اس کی خاطر کریں۔ نہ ان لوگوں کو جومسلما نو ں کے دشمن ہوں۔ بہ حالت مسافری اپنے مکان میںنہ ٹھہرا ویں۔ نہ اپنی عبادت گاہ میںاور نہ خفیہ ان کے دشمنوں کو مدد دیویں۔ ہتیار یا گھوڑے یا اور سامان جنگ سے اورنہ ان کے پاس کسی طرح کی آمدو رفت رکھیں۔ از روئے تحریر یااقرار نامہ۔ مگر ایام جنگ میں لازم ہوگا۔ عیسائیوں کو امن میں جا رہیں اور حفاظت کریںاپنی اور اپنے مذہب کی۔ اور ان کو لازم ہو گا کہ مسلمان مسافر اور ان کے جانور کو تین روز تک اپنے پاس ٹھہراویں اور خورد و نوش سے خاطر کریں اور ان کو مصیبت اورتکلیف سے پناہ دیویں۔ اگر کسی مسلمان پر ایسی مصیبت پڑے کہ اس کو روپوش ہونا ضرور ہو تو اس کو اپنے مکان میںپناہ دیویں اور آرام سے رکھیں۔ نہ اس کے دشمن کے پاس اس کو پہنچا ویں یا اس کی مخبری کریں۔ غرض کہ اسی طور پر دریانت اور امانت سے چا ہیے کہ عیسائی مطابق ان شرائط کے عمل درآمد کرتے رہیں۔ اگرکوئی امر بر خلاف اس کے وہ کریں گے تو جس قدر آرام ان کے واسطے ازروے اس عہد نامہ کے تجویز کیا گیا ہے وہ ضبط کر لیا جاوے گا پھر مستحق نہ ہو وینگے حاصل کرنے ان باتوں کے جو نسبت ان کے پادریوں کے لکھا گیا ہے اور نیز ان لوگوں کوجو اہل قرآن پر ایمان رکھتے ہیں۔ لہذا ہم اپنے ایمان داروں کو از روئے ایمان یہ بات قرار دیتے ہیں۔ باسم خدا اور اس کے پیغمبر کے کہ اس عہد نامہ کی شرائط کو بہر کیف بر قرار رکھیں گے اور تعمیل اس کی کریںگے ۔ جب تک دنیا قائم ہے اور اس فرماں برداری کے عوض پیغمبر خدا سے ثمرہ پاویں گے اور عاقبت تک ا س قول اقرار پر قائم رہیں۔ واضح رہے کہ یہ عہد پیمان بہ گواہی اشخاص مفصلہ ذیل کے تحریر پائی۔ ابو بکر بن قحا فہ ؓ ۔ عمر بن خطاب ؓ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ۔ علی بن ابو طالب کرم اللہ وجہ۔ معاویہ بن سفیان۔ اصحاب پیغمبر خدا ۔ تحریر کنندہ اول روز چاند کے چوتھے مہینہ ہجری مقام مدینہ خدا خوش رکھے ان لوگوں کو جن کی گواہی اس پر تحریر ہوئی اور سایہ رہے خدا کا ان پر جو اس کے مطیع ہیں۔ یہ عہد نامہ منتخب کیا گیا ہے اس کتاب سے جس کانام ہے تواریخ حال شروعات قوم محمدی۔ اور راقم ہے اس کا وہ شخص جنہوں نے یہودی کے حال کی تواریخ لکھی ہے اور نام ان کا لانس لٹ اڈیسن صاحب ۱۶۹۷ ء میں مسٹر جارج تھارپ صاحب نے اس کتاب کو مطبع کیا تھا شیخ تاج الدین یہ وہ صاحب ہیں جن کا ذکر مسٹر سانڈرس صاحب نے اپنے سرٹیفکیٹ موسومہ منشی امام الدین تحصیلدار مراد آباد میں لکھا ہے اور جس کی نقل ہمارے رسالہ نمبر دو کے صفحہ ۴۸ میں مندرج ہے۔ جب غدر ہوا تو یہ صاحب مراد میں رام گنگا کے پل کے داروغہ تھے ۔ جب رام پور کے پٹھان بدمعاشوں کے غول نے فساد مچانے کے ارادہ سے مراد آباد میں آنا چاہا اور رام گنگا کے بائیں کنارے تک آپہنچے تو جان کری کرافٹ ولسن صاحب ان کے مقابلہ کو روانہ ہوئے۔ یہ صاحب گھاٹ پر سے ان کے ساتھ ہوئے اور ان بدمعاشوں سے بہ مقابلہ پیش آئے۔ بہادر خاں جو سرکردہ ان بدمعاشوں کا تھا ۔ اس نے مسٹر ولسن صاحب پر حملہ کیا۔ عین حملہ کرنے میں شیخ تاج الدین نے نہایت دلاوری سے دو زخم کاری تلوار کے اس کو مارے اور اس کو گرادیا۔ ان بدمعاشوں کے سردار کا یہ حال ہوتے ہی وہ سب بھاگ نکلے۔ پانچ آدمی ان کے گرفتار ہوئے اور اس افسر کی دلاوری سے جو فساد کہ ان مفسدوں نے کرنا چاہا تھا۔ نہ ہونے پایا۔ سرٹیفکیٹ جو اس افسر کو دیے گئے ۔ ان میں یہ بات لکھی ہے کہ اس افسر نے بہادر خاں کے تلوار اس وقت ماری جب کہ اس پر ایک سپاہی رجمنٹ ۲۹ حربہ کر چکا تھا ۔ مگراصلیت اس معاملہ کی یہ ہے کہ اسی افسر نے اس کو زخمی کر گرایا ۔ کسی سپاہی کا اس میں شمول نہ تھا ۔ سپاہی کا ذکر ایک اور سبب سے لکھا گیا ہے۔ جس کو مسٹرولسن صاحب بہادر خوب جانتے ہیں۔ یہ وہی ہنگامہ ہے ۔ جو مراد آباد میں جہاد قائم ہونے کے نام سے مشہور ہے۔ مگرجو لوگ عقلمند ہیں وہ دیکھیں گے کہ خود مسلمان اس ہنگامہ کے برخلاف مقابلہ اور مقاتلہ اور محاربہ پر موجود تھے اور اس بات سے خود سمجھ لیں گے کہ آیا انصاف اجازت دیتا ہے کہ اس قسم کے بدمعاشوں کے ہنگاموں کو مسلمانوں کا مذہبی جہاد کہا جاوے۔ یہ عوض اس خیر خواہی کے گورنمنٹ نے اس افسرکی بہت عزت کی اور اس قدر کی اور داروغگی پل سے اوپر عہدہ تھانیداری کاشی پور کے ترقی کی اور دو ہزار روپیہ نقد انعام میں مرحمت فرمایا ۔ اب اس مقام پر ہم اس افسر کے سرٹیفکیٹوں اور رپورٹوں کی جو حکام نے مرحمت فرمائے بعینہ نقل کرتے ہیں۔ ترجمہ سرٹیفکیٹ سانڈرس صاحب بہادر مورخہ ۱۸ مارچ ۱۸۵۹ ئ۔ مقام دہلی۔ مجھ کو کمال خوشی ہے درباب تصدیق اس امر کے کہ آخر ماء مئئی اور ابتدائے ماہ جون ۱۸۵۷ ء میں جب غدر شروع ہوا۔ پہلے بگڑ جانے پلٹن ۲۹ کے اما م الدین کوتوال مراد آباد کے تھے اور کمال ہی جواں مردی اور جاں فشانی سے باوجود مسلمان ہوئے کے خیر خواہی سرکار کرتے ہے۔ اور جس وقت بدمعاشان مراد آباد مع دیگر مسلمانان بہ سر گروہی مولوی منو مستعد فساد اور آمادہ قتل و خوں ریزی صاحبان انگریز کے ہوئے اس قت بھی اس شخص نے بلا استدعا معاونت تدبیر قرار واقعی واسطہ انسداد فساد کے کری ۔ اور معرفت اہالیان پولیس کے ان لوگوں کوگھیر لیا چنانچہ مولوی منو مع دو تین آدمی ہمراہی اپنے کے مارے گئے۔ اورہو ہنگامہ کم ہو ا ہو گاہ کہ حکام ملکی و جنگی مراد آباد سے تشریف لے گے۔ اس وقت کوتوال مذکور بھی فرار ہو کر مخفی ہو گیا ۔ اس نظر سے کہ یہ شخص خیر خواہ سرکار مشہور و معرو ف تھا اور مسلمان اس ضلع کے مخالف اس کے تھے ۔ تاج الدین داروغہ پل جو ان کا بھائی ہے انہوں نے بھی اچھی خیر خواہی کری ۔ چنانچہ رام پور سے پٹھان لوگ جو یہاں آئے اور رام گنگا کے کنارے محاذی شہر مراد آباد کے محمدی جھنڈا کھڑا کرنا ٹھہرایا ۔ اسی تاج الدین نے ان کے سرداروں کو روکا تھا ۔ غرض کہ ہم نے امام الدین سے بہتر کوئی افسر پولیس نہیں دیکھا۔ اور ہمارے نزدیک مستحق سرفرازی اور لائق عطائے انعام کے ہے۔ دستخط ۔ سی ۔ ی سانڈرس صاحب قائمقام کمشنر دہلیل۔ سابق میجسٹریٹ کلکٹر ضلع مراد آباد نقل مطابق اصل دستخط جی رکٹ صاحب میجسٹریٹ ترجمہ چٹھی خوشنودی عطا کردہ ولسن صاحب بہادر تاج الدین بعہدہ داروغہ پل کشتی واقع مراد آباد کے مامور تھا او رتاریخ بست یکم مئی ۱۸۵۷ ء کو بقید دو ہزار غازی مراد آباد پر چڑھ آئے۔یہ سرداری بہادر خاں جو کوتوالی رام پور کا برق اندازہ تھا۔ اس شخص نے ہم کو گولی مارنے کا ارادہ کیا۔ مگر کالکا سنگھ سپاہی پلٹن ۲۹ کمپنی نے ان کو گر الیا ۔بعد تاج الدین نے اس کے گلے پر دو ضرب تلوار کی لگائی۔ مگرہم نے سنا ہے کہ یہ بہادر خان اپنی مجروہی سے اچھا ہوگیا اور اب رام پور میں موجود ہے مگر التبہ تاج الدین نے اس وقت بڑی دلاوری کی اور مناسب ہے جملہ حکام انگریز اس شخص کی پرورش کریں۔ کس واسطے کہ اگر غازی دریا سے عبور کر پاتے تو غالب ہے کہ شہر مراد آباد لٹ جاتا اور صاحبان انگریز ان کے ہاتھ سے قتل ہوئے۔ دستخط جی ۔ سی ولسن صاحب اسپیشل کمشنر مورخہ بست پنجم اکتوبر ۵۸ کیمپ مراد آباد چٹھی ڈاکٹر کین صاحب بہ نام ولیم صاحب کمشنر یہ صاحب جو آپ کے پاس پہنچتے ہیں شیخ امام الدین صاحب ہیں ۔ جو سابق میں مراد آباد کے کوتوال رہے۔اگر کسی شخص قوم مسلمان نے ایا م غدر میں سرکار کے ساتھ خیر خواہی کری۔تو اسی نے کری۔ اور ان صاحب کو مع اپنے بھائی تاج الدین کے آپ کے سلام کا اشتیاق ہے اور چار روز قبل چھوڑنے مرادآباد کے امام الدین نے شہر میں مولوی کو گولی سے مارا او ر تاج الدین جو رام گنگا کے پل کے داروغہ تھے۔ انہوں نے ایک غازی کو قتل کیا جو ارادہ مار ڈالنے ولسن صاحب کا رکھتا ھتا ۔ دستخط ۔ایچ ۔ ایم کین صاحب ترجمہ چٹھی صاحب میجسٹریٹ مراد آباد،بہ نام کمشنر صاحب روہیل کھنڈ۔ مورخہ ۱۵ اپریل ۱۸۵۹ ء نمبر ۱۱۶۔ جو استفسار سرکار گورنمنٹ نے کیا ہے ۔ بیچ چٹھی سیکرٹری مورخہ ۱۹ جنوری ۱۸۵۹ ء دفعہ ۱۶ معرفت چٹھی صاحب کمشنر نمبر ۱۳۴ مورخہ ہشتم ماہ مارچ ۵۹ کی ہمارے پاس پہنچی اس کا جواب اب ہم گذارش کرتے ہیں۔ مسمی تاج الدین داراغہ پل کشتی مراد آباد کے تھے ۔ اس ایام میںجب انتظام ضلع کا سپرد نواب رام پور کے کیا گیا تھا اور سابق میںہمارے سامنے بھی بہت دنوں سے اسی عہدہ پرمامور رہے تھے اور اسی داروغائی میںبروز بست یکم مئی ۱۸۵۷ ء انہوں نے وہ عمدہ کار گذاری دکھلائی جس کی رپورٹ سابق میں ہو چکی او ربرابر ایام غدر میںیہ خیر خواہ رہے اور جب از سر نو انتظام سرکار کا ہوا اچھا کام کرتے رہے۔ دستخط جان اسٹریچی صاحب میجسٹریٹ انتخاب فہرست خیر خواہاں ضلع مراد آباد کیفیت یہ نسبت تاج الدین۔ یہ شخص رام گنگا کے پل کے داروغہ تھا اور تاریخ بست یکم مئی ۱۸۵۷ ء کو جب کہ دو ہزار آدمی غازی بہ سرداری بہادر خاں کے چڑھ آئے۔ جنہوں نے ارادہ مارنے گولی ولسن صاحب کا کیا تھا ۔ تو اس وقت میں تاج الدین نے دو ضرب تلوار کی اس کے گلے پر کھینچ ماری ۔ جب ایک سپاہی پلٹن ۲۹ نے اس کو گرا لیاتھا ۔ غرض کہ ایسی دلیری اس ایام میں بہر حال قابل پسندیدگی تھی اور ولسن صاحب بھی اس کے بہت مشکور ہوئے اور یہ کام بہت عمدہ سمجھا اور اس شخص کو ۴۵ روپیہ مشاہرہ داروغائی کا ملتا ہے اور یہ بھی ان کے واسطے تجویز ہوئی ہے کہ ۲۵ روپیہ بہ طور پنشن کے سرکار سے اس کو مرحمت ہوں تو برابر اپنی زندگی تک پائے جاوے۔ خواہ کسی جگہ نوکر ہو یا نہ ہو اور بہر حال یہ شخص مستحق ہے پانے اس انعام کا جو اس کے واسطے تجویز کیا گیا ہے ۔ اور حکام ضلع سے لائق رعایت کے ہے ان کو چاہیے کہ ان کے دشمنوں سے ان کوامن دیویں کس واسطے کہ بہ باعث ان کی خیر خواہی کے کئی لوگ ان کے دشمن بن رہے ہیں۔ انتخاب چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع غربی بہ نام صاحب کمشنر روہیل کھنڈ مورخہ ۲۹ جنوری ۱۸۵۹ ء دفعہ شانزدھم نواب لفٹنٹ گو ر نر بہادر ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ رپورٹ کیجیے نسبت کار گذاری و چل طریقہ تاج الدین داروغہ بعد بست یکم مئی ۱۸۵۷ ء ۔ نقل مطابق اصل دستخط جان سین صاحب ڈپٹی کلکٹر ترجمہ چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ مورخہ یاز دھم جولائی ۱۸۵۹ ء نمبر ۹۱۰ ۔ بہ نام کمشنر صاحب روہیل کھنڈ۔ چٹھی آپ کی مورخہ بست یکم جون نمبر ۲۴۷ نسبت چلن رویہ تاج الدین داروغہ بعد بست یکم مئی ۱۸۵۷ ء کے ورود ہوئی اور یہ جواب اس کے آپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ بعد ملاحظہ جملہ روئداد کے نواب لفٹنٹ گورنر بہادر انعام مبلغ دو ہزار روپیہ اس شخص کے واسطے مقرر فرماتے ہیں۔ حسب تجویز صاحب کمشنر سابق۔ دستخط ۔ جی ۔ کوپر صاحب سیکرٹری گورنمنٹ نقل اسی چٹھی کی پاس صاحب میجسٹریٹ مردا آباد کے بھیجی گئی تھی بہ ذریعہ ڈاکٹ صاحب کمشنر مورخہ بستم جولائی ۱۸۵۹ ئ۔ نقل مطابق اصل دستخط ۔ جان سین صاحب ڈپٹی کلکٹر سید تراب علی ۔ ڈپٹی کلکٹر بہادر ضلع بجنور۔ جب غدر ہوا یہ صاحب خاص بجنور کے تحصیلدار تھے ابتدائے غدر س انتہا تک خیر خواہی سرکار پر بہت چست و چالاک رہے ۔ یہ لوگ انہی لوگوں میںسے ہیں جن کی نسبت مسٹر شکسپئر صاحب بہادر ارقام فرماتے ہیں کہ کسی وقت ان صاحبوں کو اس بات کا وسوسہ نہیں ہوا کہ انجام کار سرکار غالب نہ رہے ۔ جب مسلمان افسروں نے بروقت زیادہ شورش ہونے کے ضلع بجنور میں دن رات صاحب کلکٹر بہادر کی کوٹھی پر رہنا اختیار کیا ۔ اور رات کو گشت کرتے اور پہرہ دیتے اور حکام کی اور جناب میم صاحبہ اور بچوں کی حفاظت کا خاص اپنے ذمے اہتمام لیا ۔ انہی افسروں میں کے ایک یہ افسر ہیں جب جیل خانہ ٹوٹا اور قیدیوں نے تلواریں اور بندوقیںلے کر حربہ کرناشروع کیا۔ اورجناب مسٹر شیکسپئر صاحب بہادر نے دلیرانہ جیل خانہ میںگھسنا میرا فرض ہے۔ جب کہ پر گنہ منڈا ور میں اور گوجروں نے بہت زیادہ شورش کی اور اکتیس مئی ۱۸۵۷ ء کو جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر ان کے دفعیہ کے لیے تشریف فرما ہوئے تو یہ افسران کے ساتھ تھے اور برابر میدان میں مقابلہ کرتے رہے اور بندوقوں کے فائر سے بدمعاشوںکو مجروح و مقتول کیا اور اس شورش کے دفعیہ میں بہت کوشش مردانہ کام میں لائے۔ بعد تشریف فرما ہوئے حکام کے اور پڑنے متواتر صدموں اور آفتوں کے جب یہ افسر نگینہ میں باغیوں کے چنگل میںپھنس گئے تو باوصف سختی حفاظت کے سرکار کی خیر خواہی سے ہاتھ نہ اٹھا اوردلی خیر خواہی وہاں بھی کام میںلاتے رہے اور نہایت مشکل سے خفیہ وہاں کی خبر یں تحریری اور بذریعہ پیغام زبانی جناب صاحب کلکٹر بہادر پاس بمقام میرٹھ بھیجتے رہے اور جب قابو ملا فی الفو لشکر میں حاضر ہوئے ۔اس زمانہ میں سرکاری لشکر بہ مقام روڑکی تھا۔ ان کے آنے سے تمام لشکر اور خصوصا جناب مسٹر شیکسپئر صاحب بہادر اور جناب مسٹر جار ج پامر صاحب بہادر کو نہایت خوشی ہوئی کیوں کہ باغیوں کے ہاتھ سے ان کا زندہ رہنا بہت کم توقع کیا گیا تھا۔ جب سے برابر لشکر کے ساتھ رہے اور نگینہ کی لڑائی میں جو اکیسویں اپریل ۱۸۵۸ ء کو واقع ہوئی۔ ہم رکاب جناب صاحب کلکٹر بہادر لشکر مقدم کے ساتھ بفتح و فیروزی نگینہ میں داخل ہوئے جناب صاحب کلکٹر بہادر نے اس نازک وقت میں تمام نگینہ کا انتظام ان کے سپر د کیا اور انہوں نے نہایت ہوشیاری اور خیر خواہی سے اس کو انجام دیا۔ یہ عوض اس خیر خواہی کے سرکار دولت مدار نے جیسا کہ چا ہیے ان افسر کی قدر و منزلت کی۔ فی الفور آنریری ڈپٹی کلکٹر مقرر کیا اور پچاس روپیہ ماہواری تنخواہ میں اضافہ فرمایا اور خلعت پانچ پارچہ مع کلاہ چار قب اور تین رقم جواہر اور شمشیر زر نگار قیمتی ایک ہزار روپیہ کا اور پچیس سو روپیہ سالانہ جمع کی دیہات زمینداری عطا فرمائی اور پھر اسی ضلع کا مستقل ڈپٹی کلکٹر مقرر فرمایا ، چنانچہ سرٹیفکیٹ اور رپورٹ ہائے مفصلہ ذیل سے ہماری اس تحریر کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے۔ ترجمہ چٹھی شیکسپئر صاحب میجسٹریٹ ضلع بجنور بہ نام صاحب کمشنر بہادر روہیل کھنڈ۔ مرقومہ ۵ جون ۱۸۵۸ ء ۔ مقام بریلی نمبر ۵۶۔ دفعہ دوم ۔ جس تحقیقات کے واسطے آپ نے لکھا ہے اس کی تلاش میںالبتہ کچھ عرصہ گزرے گا ۔ لہذا ہم آپ کی خدمت میں بلا توقف گزارش کرتے ہیں درباب ان اہل کاروں کے جنہوں نے غدر میں عمدہ کام کیے اور اپنی ناموری حاصل کی۔ دفعہ سوم۔ نقشہ معمولی ارسال کرتے ہیں۔ نسبت رحمت خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر ضلع بجنور اور سید احمد خاں صاحب صدر امین اور میرتراب علی صاحب تحصیلدار ضلع بجنور کے او ر حالات تفصیل ذیل تحریر کیے جاتے ہیں کہ موید اس کے ہیں۔ دفعہ چہارم۔ جو صورت اس ضلع کی وقت شروع غدر کے تھی آپ کو بخوبی روشن ہے۔ فوج سرکاری یہاں کچھ نہ تھی اس سبب سے کچھ اندیشہ ایسے امر اکا نہ ہوا۔ اور نہ کچھ تدبیر کرنی پڑی صرف دو مرتبہ البتہ اندیشہ ہوا تھا ۔ جب چند نفر تلنگہ تھوڑے دنوں کے واسطے یہاں آئے تھے ۔ بہت ضروری بہ تدبیر تھی کہ بندو بست ضلع کا بدستور قائم رہے۔ اور کسی وجہ کی بدعت اوردنگہ نواب صاحب اور ان کے لواحقین کی جانب سے نہ ہونے پاوے تو ایسا سامان جس سے یہ تدبیر کامل ہو سکتی اس وقت بہت مشکل تھا اور ضرورت اشد تھی کہ خبر معتبر نسبت ارادہ اور حال ہر قسم کے لوگوں کی ہم کو پہنچا کرے چنانچہ افسران موصوف سے مشورہل اس امر کاکیا اور ان افسروں نے اس مشقت کے وقت میں ایسی عمدہ خدمت ہماری کی کہ جس کابیان مفصل نہیں ہو سکتا ہم کو یقین کامل ہے کہ اگر افسران موصوف ہماری خدمت نہ کرتے تو اتنی مدت تک صاحبان انگریز کا اس ضلع میں ٹھہرنا بہت دشوار تھ ا اور انہی تین صاحب سے واسطہ تدبیر مناسب کی اس وقت بھی مشاورت کی گئی تھی جب ضلع کا حال بگڑنے لگا۔ اور معلوم ہو اکہ نواب صاحب مسلح سپاہیوں کو بھرتی کرتے ہیں کیونکہ اس صورت میں خبرداری بہت ہی لازم تھی اور نیز جس وقت سپاہیان رجمنٹ ۲۹ سہارن پور س مراد آباد کو اس ضلع کی راہ سے آئے اور جیل خانہ ٹوٹ گیا اور خزانہ سرکاری کنویں میں ڈالنا مناسب معلوم ہوا اور چند تلنگہ اس پلٹن کے ہماری مدد کے واسطے بھیجے گئے۔ غرض ان ہر ایک وقت میں یہ تینوں صاحب بہت ہوشیاری و جواں مردی کرکے ہمارے ساتھ مستعد رہے ۔ آخرش جس رات کو ہم نے کمپو چھوڑنا مناسب جانا اگر صدر امین صاحب درمیان میں نہ ہوتے تو یقین تھا کہ نواب صاحب اپنے اہل کار ان کو ہدایت کرنے کی اجازت دیتے اور اغلب تھا کہ ہماری جان پر ضرور صدمہ پہنچتا۔ دفعہ پنجم ۔ جب کہ ہم نے کمپو چھوڑ دیا تو ان تین صاحب نے بھی چھوڑ دیا۔ چنانچہ ڈپٹی صاحب ہلدور کو جہاں راجپوت رہتے ہیں تشریف لے گئے اور صدر امین صاحب و تحصیلدار صاحب نے موضع بسر گڑھ میں پناہ لی۔ دو صاحب ان میں سے عیال دار بن بھی تھے ۔ اس سبب سے سردست ہمارے ساتھ نہ چل سکے تھے۔ بلکہ ان کا چلنا مناسب نہ تھا کس واسطے کہ ان دنوں میںخبر گرم تھی کہ صبح شام میں دہلی فتح ہونے والی ہے اور ہم نے اس ضلع کو نواب صاحب کے سپرد اس امید پر کیا تھا کہ وہ کسی طرح کی حرکت نہ کریں۔ غرض اس صورت میں مناسب بھی تھا کہ حکام اہل ہند جو معتمد ہوں اس ضلع میں موجو درہیں۔ دفعہ ششم۔ جب کہ دہلی فتح ہوئی ۔ تو اس ضلع کے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھ گیا او ر ان افسروں کا وہاں رہنا بھی مشکل ہوا۔ بلکہ بست نہم جون کو جب قریب چار سو آدمی جہادی میر خاں سر گروہ کے ساتھ واسطے جانے دہلی کے اس ضلع میں آئے تھے ۔ اس وقت ان صاحبوں کو جان کا بھی خوف تھا اور ۶ اگست تک جب نواب بجنور بھاگا ۔ تب تک یہ افسر علانیہ خیر خواہی سرکا ر کہ نہ کر سکے۔ مگر بہت مشکل کے ساتھ حکام ضلع کو خبر دیتے رہے۔ کسی وقت میں ان صاحبوں کو وسوسہ نہیں ہوا۔ کہ انجام کار سرکار غالب نہ رہے۔ باقی جو اس دفعہ کا مضمون ہے وہ متعلق ڈپٹی صاحب و صدر امین صاحب کے ہے۔ دفعہ ہشتم ۔ قبل از جنگ ہلدور کے تراب علی تحصیلدار نگینہ کو واسطے لانے عیال و اطفال کے چلے گئے تھے جن کو انہوں نے پیشتر سے وہاں روانہ کر دیا تھا ۔ جب حکام انگریز کمپو سے چلے گئے تھے ۔ مگر ا س مقام پر اس طور سے زیر نظر رہے کہ آنا ان کا دشوار ہوا۔ مگر شروع مہینے مارچ میں موقعہ پا کر مراد آباد کو فرار ہوگئے ۔ وہاں سے ہمارے پاس روڑکی میں آگئے ۔ دفعہ ۱۷ ۔ اس افسر نے مدرسہ آگرہ میں تعلیم پائی اول نوکری سرکار ۱۸۴۲ ء میں کری اور جلدی ان کی ترقی ہوتی رہی اور سررشتہ دار فوجداری و نظامت کے ضلع متھرا میں رہے وہاں سے ۵۵ ء میں بجنور کے تحصیلدار ہوئے اور اسناد خوشنودی مزاج حکام سے حاصل کرتے رہے۔ دفعہ ۱۹ ۔تراب علی کا حقیقی بھائی سید ضامن علی وقت شروع غدر ضلع بڑائچ ملک اودھ میںتحصیلدار تھے ۔ وہاں سے جب فرار ہونا مناسب ہوا تو مسٹر ونگ فیلڈ صاحب کمشنر بڑائچ کے ہمرا ہ رہے۔ یہ اضلاع اعظم گڑھ و گورکھ پور اور چچا تراب علی کے صابت علی مدھیل گڑھ ضلع میں تحصیلدار تھے۔ ہاتھ سے باغیوں کے قتل ہوئے اور ارشاد علی چچا زاد ایک صاحب ان کے یگانوں میں سے ناگ پور میںڈپٹی کلکٹر اور ایک صاحب محکمہ کمشنری جیل پور میں سر رشتہ دار اور ایک صاحب پرگنہ مہا بن ضلع متھرا میںتحصیلدار ہیں اور یہ سب صاحب ایام غدر میں خیر خواہ سرکار رہے۔ دفعہ ۲۰ ۔ قبل غدر کے تراب علی صاحب کا امتحان واسطے عہدہ ڈپٹی کلکٹری کے ہوا تھا اور جوابات بند سوال پر جو ان کے ہوئے تھے ۔ وہ شروع ماہ مئی ۵۷ ء میں واسطے ملاحظہ حکام صدر بورڈ کے روانہ ہوئے۔ ہم کو یقین ہے کہ اگر وہ کاغذات برآمد ہو جاویں۔ تو ا سکے ملاحظہ سے لیاقت اس شخص کے واسطے اس عہد جلیل کے ثابت ہو جاوے۔ کس واسطے کہ وہ جوابات ہمارے ملاحظہ سے گذرے تھے ۔ ہم کو خوب یاد پڑتا ہے کہ جوابات ان کے بہت معقول تھے اور ان سے مترشح ہوتا تھا کہ ان کو واقفیت کار سرکار میں بدرجہ کما ل ہے اور واقعی میںکچھ شک نہیں کہ بڑے مستعد افسر ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ان کی ترقی بہ عہدہ ڈپٹی کلکٹری ہوجاوے اور ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ضلع متھرا یا آگرہ میں ان کو زمینداری عطا کی جاوے کہ جس سے سو روپیہ ماہواری کی ان کو منفعت ہوتی رہے اگر یہ امر غیرممکن ہو اور اس قسم کی زمینداری میسر نہ ہو تو ہمارے نزدیک مناسب ہے کہ بہ عوض خیر خواہی وحسن کار گذاری ایام غدر سور وپیہ ماہواری بطور پنشن تاحین حیات ان کو دیا جایا کرے۔ دستخط۔ ای ۔ شیکسپئر صاحب میجسٹریٹ کلکٹر انتخاب دفعہ دوم۔ چٹھی صاحب کلکٹر ضلع بجنور بنام صاحب کمشنر روہیل کھنڈ۔ مورخہ ۱۳ جون ۵۸ ء نمبر ۷۵ ۔ دفعہ دوم۔ یقین ہے کہ جو ہم نے تجویز کیا ہے وہ بخوبی صاف ہے اور و اسطے رحمت خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر و تراب علی تحصیلدار کے جو انعام تجویز کیا ہے وہ بہ حساب نصف تنخواہ کے ہے۔ ترجمہ چٹھ ی سیکرٹری صدر بورڈ۔ بنام صاحب کلکٹر بجنور نمبر ۱۶۹ مورخۃ دوسری جولائی ۵۷ ئ۔ دفعہ اول۔ چٹھی تمہاری مورخہ یاز دھم جون نمبر ۱۰۶ ملاحظہ میں گذری صاحبان بورڈ کو کمال خوشی ہوئی۔ کہ اس طرح کی کارگذاری جانب افسران مفصلہ ذیل سے ظہور میں آئی ۔ یعنی محمد رحمت خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر و سید احمد خاں صاحب آئی۔ یعنی محمد رحمت خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر و سید احمد خاں صاحب صدر امین ضلع بجنور و میر تراب علی صاحب تحصیلدار بجنور۔ دفعہ دوم ۔ بہ ملاحظہ انتخاب روبکار محکمہ صدر بورڈ مورخہ ۱۹ مئی ۵۷ ء جو لف چٹھی ہذا کی ہے آپ کو واضح ہو کہ امتحان تراب علی کا تسلیم ہوا۔ دستخط ۔ ڈبلیو ۔ ایچ۔ لو صاحب سیکرٹری انتخاب روبکاری صدر بورڈ در باب ترقی تراب علی تحصیلدار ۱۶۶ ۔ چٹھی صاحب کلکٹر بجنور کی آئی ۔ مورخہ ۲۸ اپریل ۵۷ ء یہ جواب چٹھی صدر بورڈ مورخہ ۲ ماہ مذکور مع نقل بند سوال و جوابات تراب علی نمبر ۱۶۷ چٹھی بنام صاحب کمشنر روہیل کھنڈ کے لکھی گئی کہ امتحان تراب علی کا درست آیا اور قابل ترقی درجہ دوم تحصیلداری کے ہیں۔ صاحب کمشنر اگر مناسب سمجھیں تو درخواست حسب ضابطہ واسطے عطائے اختیار خاص کے بھیجیں ۔ تصدیق انتخاب دستخطی ۔ ای ۔ جی فریزر صاحب نائب سیکرٹری۔ ترجمہ ۔ چٹھی صاحب کلکٹر بجنور۔ بنام صاحب کمشنر روہیل کھنڈ مورخہ ۱۴ جولائی ۵۸ ء ۔ نمبر ۹۰ ۔ یہ لحاظ انتخاب روپہ کاری محکمہ صدر بورڈ کے ہم ضابطہ آپ سے استدعا کرتے ہیں کہ میر تراب علی صاحب تحصیلدار بجنور کو اختیار خاص مطابق ضمن ۳ دفعہ ۲ قانون ہشتم ۱۸۴۱ ء کے دیا جاوے اور جس قدر خیر خواہی اس شخص کی ایام غدر میں ہوئی تھی ۔ وہ آپ کو روشن ہے۔ چنانچہ اس کا حال ہم نے اپنی چٹھی مورخہ ۵ جون ۵۸ ء میں مفصل تحریر کیا ہے ۔ اب زیادہ تذکرہ کرنا فضول ہے۔ دستخط ۔ ای ۔ شیکسپئر صاحب انتخاب چٹھی صاحب کمشنر روہیل کھنڈ ۔ بنام ۔ سیکرٹری گورنمنٹ الہ آباد ، مورخہ ۱۴ جولائی ۱۸۵۸ ء مقام بریلی ۔ دفعہ سوم۔ اگرچہ ان تینوں صاحبوں کے حال سے ہم کو بذات خود ایسا علم نہیں ہے جیسا شیکسپئر صاحب کو ہے۔ مگرجب ہم نینی تال پہاڑ پر تھے تو البتہ ہم کو دریافت ہو ا تھا ۔ کہ یہ تینوں صاحب برابر خیر خواہ سرکار کے رہے۔ کسی طرح ان پر حرف نہ آنے پایا ۔ حالاں کہ کئی مرتبہ ان کی جان پر بھی نوبت صدمہ کی پہنچی اور جو کچھ ان کا اسباب اس ضلع میں تھا لٹ گیا۔ دفعہ چہارم۔ مجھ کو ملاقات تینوں صاحبوں سے ہے اور جو ان کی تعریف میںشیکسپئر صاحب نے لکھا ہے وہ ہم بھی تصدیق کر سکتے ہیں۔ چنانچہ میر تراب علی نے ترقی ہمارے ہاتھ سے پائی۔ جب ہم متھرا میں کلکٹر تھے۔ دفعہ پنجم ۔ جو انعام شیکسپئر صاحب نے ان کے واسطے تجویز کیا ہے ہمارے نزدیک بھی مناسب ہے او رواسطے منظوری کے ہم رپورٹ کرتے ہیں۔ ترجمہ چٹھی صاحب کمشنر روہیل کھنڈ۔ بہ نام سیکرٹری صاحب گورنمنٹ مقام الہ آباد۔ مورخہ ۶ جولائی ۵۸ ء مقام بریلی ۔ اس مہینے کی پہلی تاریخ میں نے آپ کو چٹھی لکھی تھی ۔ درباب انعام چند افسران کے بہ عوض خیر خواہی و حسن کار گذاری ایام غدر ۔ سو اب ہم انتخاب روبکار محکمہ صدر بورڈ کے بھی بھیجتے ہیں۔ جس سے واضح ہوگا کہ میر تراب علی تحصیلدار ضلع بجنور کے عہدہ جلیل القدر کے لائق متصور ہوئے ۔ دستخط ۔ آر ۔ الیگزینڈر صاحب کمشنر۔ چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ ۔ یہ نام کمشنر روہیل کھنڈ۔ مورخہ ۲۹ جولائی ۵۸ ء نمبر ۵۳ ۲۷۔ دو قطعہ چٹھی آپ کی مورخہ پہلی و چٹھی جولائی نمبر ۹۴ و ۱۰۰ نسبت عمدہ کار گذاری سید احمد خاں صدر امین و محمد رحمت خاں ڈپٹی کلکٹر و میر تراب علی تحصیلدار بجنور کے ملاحظہ میں گذری۔ دفعہ دوم۔ امیر کبیر نواب گورنر جنرل بہادر کی رائے مطابق رائے آپ کی و کلکٹر بجنور کی ہے اور واقعی میں حسن کار گذاری ان تینوں صاحبوں کی لائق پسند کے ہے۔ دفعہ ۳، ۴ اس چٹھی کے متعلق ڈپٹی کلکٹر و صدر امین کے ہے۔ دفعہ پنجم ۔ انتخاب رپورٹ صاحب میجسٹریٹ کے پاس صاحب کمشنر آگرہ کے بھیج دی گئی ہے۔ اس مراد سے کہ متھرا یاآگرہ کے ضلع میں ملکیت بھی دو ہزار پانچ سو روپیہ سالانہ واسطے میر تراب علی کے تجویز کی جاوے۔ دفعہ ششم۔ علاوہ اس کے گورنر جنرل بہادر تراب علی کو لقب ڈپٹی کلکٹری کا دیتے ہیں اور صاحبان بورڈ کو فہمائش کی جاوے گی کہ بر وقت خالی ہونے کے یہ صاحب بالا ستقلال مقرر کیے جاویں، بالفعل ان کو اجازت ہوتی ہے کہ تحصیلدار بھی رہیں اور اختیار ڈپٹی کلٹر و ڈپٹی میجسٹریٹ کا بھی حاصل رکھیں اور واسطے اس فاضل کام کے پچاس روپیہ ماہواری ان کی تنخواہ کا اضافہ کا گیا۔ دستخط ۔ ڈبلیو ۔ میور صاحب ۔ سیکرٹری گورنمنٹ نقل مطابق اصل دستخط ۔ جے ۔ کلارک ہیڈ کلرک نقل النقل دستخط شیکسپئر صاحب کلکٹر۔ نقل سند عطائے خلعت میر صاحب مشفق مہربان مخلصان سید تراب علی ڈپٹی کلکٹر بجنور سلمہ اللہ تعالیٰ ۔ بعد اشتیاق بہجت آیا ت واضح رہے۔ خاطر باد بموجب حکم جناب متطا ب معلی القاب نواب گورنر جنرل بہادر بہ تاریخ ۱۶ مار چ ۱۸۵۹ ء جناب صدر کمشنر بہادر روہیل کھنڈ نے با جلاس عام خلعت پانچ پارچہ و تین رقم جواہر مفصلہ ذیل بنظر خیر خواہی آپ کو عطا کیا۔ اس واسطے یہ خط حسب ضابطہ سند بنام آپ کے تسطیر ہوا۔ بطور سند اپنے پاس رکھو۔ تفصیل خلعت پارچہ جواہر کلاہ چارقب گوشوار جیغہ ۵ ۳ ۱ ۱ ۱ سرپیچ نیم آستین دوشالہ دوشالہ مالائے مروارید پٹکہ ۱ ۱ ۱ ۱ ۱ شمشیر مع پرتلہ ۱ مرقومہ ۱۵ اپریل ۱۸۵۹ (Copy) G. Palmer Magistrate and Collector. شیخ امیر علی ۔ تحصیلدارپیلی پھیت جب غدر ہو ا۔ یہ صاحب پیلی بھیت کے تحصیلدار تھے ۔ میرٹھ کے بلوہ کی خبر پہنچتے ہی یہ افسر دل و جان سے انتظام پیلی بھیت پر مصروف ہوئے اور رات کا گشت اور صاحب جائنٹ میجسٹریٹ بہادر کی کوٹھی کی حفاظت کرتے رہے۔ ۳۱ مئی ۱۸۵۷ ء کو رات کے وقت بریلی کے بلوہ کی خبر پیلی بھیت میں پہنچی اوروہاں بھی بد انتظامی شروع ہوئی اور حاصب جائنٹ میجسٹریٹ بہادر نے نینی تال تشریف لے جانے کا ارادہ کیا ، باوجود اس کے کہ ان افسر کے زن و فرزند سب پیلی بھیت میںتھے۔ ان کو تنہا خدا پر چھوڑا اور صاحب ممدوح کے ساتھ ہوکر روانہ نینی تال ہوئے اور موضع بڑا مجھلیا میں میم صاحبہ کے ساتھ جا ملے۔ جو محمد ذکریا خاں کے ہمراہ وہاں تک جا پہنچیں تھیں اور وہاں سے بخیر و عافیت ۳ جون ۱۸۵۷ ء کو طرح طرح کے ترددات اٹھا کر نینی تال پہنچے اور ابتداء سے انتہا تک بخدمت حکام نینی تال پرحاضر رہے اور پھر ہمراہ فوج بریگیڈیر کو ک صاحب بہادر پیلی بھیت تشریف لے گئے اور باوجویکہ فوج باغی وہاں سے بہت قریب تھی۔ یہ افسر تنہا وہاں چھوڑے گئے اور وہاں سے بہت قریب تھی ۔ یہ افسر تنہا وہاں چھوڑے گئے اور وہاں کا انتظام ان افسر کے اور محمد عبدا للہ خاں صاحب کے سپرد ہوا اور تمام حکام ان کی دلی خیر خواہی اور حسن کار گذاری کے مشکور رہے۔ بہ عوض اس خیر خواہی کے ان افسر کو بہ موجب رپورٹ مسٹر کارمیکل صاحب بہادر کے زمینداری جمعی دو ہزار روپیہ سالانہ کی اور ہزار روپیہ کا خلعت بابت حسن کار گذاری قبل غدر اور پانچ سور وپیہ کا خلعت عین دربار گورنری میں بمقام فرخ آباد اور تین ہزار روپیہ جمع کی زمینداری ، بموجب رپورٹ مسٹر لو صاحب بہادر جائنٹ میجسٹریٹ پیلی بھیت مرحمت ہوئی اور نام نامی ان کا فہرست امید واران ڈپٹی کلکٹری میںمندرج ہوا۔ نقول ان کے سرٹیفکیٹوں کی ذیل میںدرج ہیں۔ انتخاب رپورٹ صاحب کمشنر روہیل کھنڈ ؎ دفعہ ۲۴ ۔ اول درجہ میںافسران مفصلہ ذیل کانام داخل ہوا۔ یعنی بدر الدین کوتوال پریلی ۔ امیر علی تحصیلدار پیلی بھیت عبدا للہ خاں، کوتوال پیلی بھیت ۔ ذکریا خاں پیشکار جہاںآباد سوائے ان کے چند آدمی سوا ر پیادگان جومسٹر کارمیکل صاحب کے ساتھ نینی تال کو گئے اور وہاں ٹھہرے رہے۔ دفعہ ۲۵۔ یہ جملہ افسران قابل تعریف کے ہیں۔ کس واسطے کہ ان کو اجازت دی گئی تھی کہ نینی تال سے لوٹ جاویں۔ مگرانہوں نے لوٹ جانا قبول نہ کیا اور اپنے تئیں حاضر رکھتا خدمت میں حکام انگریز کے پسند کیا اور بہت تکلیف اٹھائی چنانچہ سب کے واسطے انعام تجویز کیا ہوا ہے۔ لازم ہے کہ یادگاری ان کی حسن کار گذاری اوردلی خیر خواہی کے قائم رہے۔ ترجمہ سرٹیفکیٹ مسٹر الیگزینڈر صاحب کمشنر کھنڈ مورخہ ۳۰ مارچ ۵۰ء مقام بریلی۔ شیخ امین علی تحصیلدار پیلی بھیت کے رہے ۔ ہمارے عہد کمشنری میں اور ہم کو کمال خوشی ہوتی ہے۔ اسی چٹھی کے لکھنے میں تاکہ صاحب کشنر آئندہ سے ان پر نظر عنایت کی رکھیں اور کاغذات سررشتہ سرکاری سے حسن کار گذاری ان کی ایام غدر میں بہ خوبی واضح ہو گئی اور بعد اس کے کئی مرتبہ حکام ضلع نے ان کی تعریف کری۔ بہ نسبت چست چالاکی اور لیاقت اور تدبیر مناسب کہ جس کی رو سے انتظام شہر پیلی بھیت کا اور نیز سرحد ضلع کا کیا گیا اور جب کبھی ہماری ان سے گفتگو و مشورہ ہوتارہا۔ تو ان کو صاحب عزت و لئیق و معتبر پایا۔ نہ کچھ خوشا مدی اگر بہ دستور انگریز کو راضی رکھیں گے اور ترقی پاویں تو ہم کو کمال خوشی ہوگی ۔ دستخط الیگزینڈر صاحب کمشنر سرٹیفکیٹ کرنیل اسمٹ صاحب، مورخہ ۲ جون ۵۹ ئ۔ جس وقت ہماری کمان سرحد ضلع پر تھی تو شیخ امیر علی تحصیلدار پیلی بھیت سے ہم نے بہت مدد پائی اور اس بات کی صداقت میںکمال خوشی ہوتی ہے۔ دستخط ۔ جے ڈبلیو اسمٹ کرنیل کمان پیلی بھیت ترجمہ سرٹیفکیٹ میجر ٹیلن صاحب کمانیر ۱۷ ۔ پلٹن پنجابی مورخہ ۳۱ اگست ۱۸۵۹ ء ۔ مقام پیلی بھیت ۔ واضح رہے کہ امیر علی تحصیلدار پیلی بھیت سے چودہ مہینے سے ہماری ملاقات ہے۔ بہت نیک چلن اورلئیق ہیں۔ ہمارے نزدیک ہوشیا ر افسر ہیں اور ایام غدرمیں اچھا کام کیا ۔ دستخط ۔ رابرٹ سیبنس صاحب سرٹیفکیٹ میجر کراسمین کمان رسالہ روہیل کھنڈ ۔ مورخہ ۳۰ جنوری ۔ ۱۸۶۰ئ۔ مقام پیلی بھیت ۔ شیخ امیر علی کو ہم تین برس سے زیادہ سے پہنچا نتے ہیں اور اکثر ان سے آمد و رفت خطوط کی ہوتی رہتی ہے اور کمال خیر خواہی کے ساتھ انہوں نے حسن کار گذاری دکھلائی اور کارمیکل صاحب کی جان بچائی اور ان کے پاس نینی تال میں موجود رہے۔ جب تک از سر نو عملداری سرکار پیلی بھیت میںہوئی ۔ چنانچہ بہ عوض اس کے انعام بھی سرکار نے عطا فرمایا اور فی الحقیقت کمال صاحب اخلا ق ہیں اور مہربانی توجہ کے ساتھ پیش آتے رہے دستخط ۔ میجر کراس مین ترجمہ سرٹیفکیٹ مسٹر لو صاحب، مقام ، پیلی بھیت مورخہ ۲۷ فروری ۶۰ ئ۔ جو کہ ہم عنقریب ولایت جانے والے ہیں۔ ہم سے شیخ امیر علی نے جو تحصیلدار و ڈپٹی میجسٹریٹ پیی بھیت کے ہیں۔ استدعا سرٹیفکیٹ کی کری۔ چنانچہ ہم ان کی نسبت لکھتے ہیں۔ کہ ان کو ہم نے مدد گار اپنا ایساپایا کہ جو صاحب دانا اور عقیل اور ایمان دار اور معتبر اور ان کی ہوشیاری اور لیاقت کے باعث سے از سر نو قائم کرنی عملداری اس ضلع میںبہت فائدہ حاصل ہوا۔ ڈیڑھ سال کے عرصہ سے ہم کو یہاںتک ان کی کارگذاری پسند ہوئی ۔ کہ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ پھر ان کے واسطے تجویر انعام کی کریں۔ ماسوائے اس انعام کے جو بابت کارگذاری ایام غدر منظور ہو چکا ہے۔ یعنی ہم نے تین ہزار چار سو روپیہ کی زمینداری کے واسطے لکھا تھا اور اگرچہ ہنوز منظوری نہیں آئی ہے۔ مگر بطور مستاجری کے ان کو دخلدلادیا گیا ہے غرض کہ اس مقام پر ہم کو زیادہ لکھنا درباب خیر خواہی اور جاں فشانی ایام غدر کے فضول ہے۔ کس واسطے کہ یہ باتیں مشہور ہیں او رکارمیگل صاحب جائنٹ میجسٹریٹ سابق ، حال مفصل لکھ چکے ہیں۔ اتنا البتہ کہہ سکتے ہیں۔ کہ درباب محنت اور دیانت کے اس کا ثانی نہیں دیکھا اورجو کہ اس کے باعث سے اس ضلع کو منفعت ہوئی ہے اس کا ذکر کرنا مشکل ہے۔ ان کے واسطے رپورٹ ڈپٹی کلکٹری کی بھی بھیجی گئی اور او ر یقین ہے کہ ان کی جلد ترقی ہوگی اور پیلی بھیت سے دوسرے ضلع کو روانہ ہوں گے ۔ چنانچہ ہم بھی جاتے ہیں شاید پھر کبھی اس دنیا میںہماری ان کی ملاقات نہ ہو، مگر جہاں ان کی قسمت میںرہنا ہوگا ان کی ملاقات نہ ہو، مگر جہاں ان کی قسمت میں رہنا ہو گا ہم انکو اچھا سمجھیں گے اور جیسے انہوں نے اس ضلع کے انتظام میں ہم کو مدد دی۔ دل سے ہم بھی ان کے مشکور ہیں جہاں یہ جائیں ہماری یہ بھی دعا ہے کہ خوشی اور آرام میںرہیں دستخط ایم۔ لو صاحب ترجمہ سرٹیفکیٹ کپتان بیکر صاحب، کمانیر پلٹن گورکھ مقام پیلی بھیت مورخہ ۲۵ جولائی ۱۸۶۰ء کئی مہینے سے ہماری ملاقات امیر علی تحصیلدار سے ہے اور ہم انکوصاحب اخلاق اور نیک سمجھتے ہیں اور ان کی اسناد سے واضح ہوتا ہے کہ ۵۷ ء و ۵۸ ء میںبڑے کار گذار رہے اور جو کچھ کار سرکار میںہم ان سے سروکار بڑ اتوکام میںہم کو مدد دینے کے لیے ہر وقت مستعدرہے اور کمال ہوشیاری سے انجام دیتے رہے دستخط کپتان ڈبلیو ۔ ٹی بیکر انتخاب فہرست خیر خواہان ضلع پیلی بھیت ۔ مقام بدایوں مورخہ ۲۸ اگست ۱۸۵۸ ئ۔ کئی برس سے شیخ امیر علی پیلی بھیت کے تحصیلدار رہے ۔ اول ان کی ترقی اورپر عہدہ جلیل القدر کے مسٹر کتھ برٹ تھارن ہل صاحب انسپکٹر جنرل مجس نے کی تھی اور صاحب ممدوح بڑی قدر ان کی سمجھتے ہیںاور ۱۸۵۷ ء میںجب اندیشہ بگڑنے ضلع پیدا ہو اتو ابتدا سے بکمال مستعدی حالانکہ عمر میں زیادہ ہیں مصروف بہ کارگذاری رہے ۔ چونکہ ضلع کے حال سے بخوبی واقف تھے۔ لہذا ان سے مشورہ کرتے رہے۔ کس واسطے کہ ان ایام میں مجھ کو پیلی بھیت میںآئے ہوئے تھوڑا عرصہ ہو ا تھا اور ان کی صلاح سے ایسا بندوبست عمل میں آیا کہ کسی طرح کی حرکت بے جا اس ضلع میںتا بگڑ جانے پلٹن مقیم کے وقوع میںنہ آئی ۔ چنانچہ اس وقت کوئی خبر رساں ہمارے پاس نہ پہنچا۔ توہم نے امیر علی سے ایک خط کا جو جواب آیا ۔ اس سے ہم کو بگڑ جانے بریلی کا حال سب کو دریافت ہوا۔ اس کے چھ گھنٹہ بعد پیلی بھیت کے مسلمانوں نے مسلح ہو کر تحصیل کو گھیر لیا ۔ مگر امیر علی بد مدد کوتوال کے اپنی جگہ پر مستعد رہے۔جب ہم نے دیکھا کہ ان کی جا ن پر صدمہ آنے والا ہے۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ نکل آؤ اور ہمارے ساتھ نینی تال کو گئے وہاں رہے اور دس مہینے وہاں اور ہلدور میں رہے اور خیر خواہی سے انجام کام کرتے رہے اور بہت تکلیف اٹھائی ۔ کیونکہ وہاں آرام کہاں تھا اورجو کچھ اسباب ان کاتھا لٹ گیا ۔ گھوڑا سواری کاباقی رہا اور جب خاں بہادر خاں ان کی خیر خواہی کا حال سنا تب ان کا مکان و جائداد جو شاہجانپور میں تھا ضبط کرلیا اور ان کے گھر والے ملک اودھ میںفرار ہو گئے اور گرفتاری سے پناء پائی۔ لیکن کئی مہینے تک بہت اندیشہ سے ان کی بسر اوقات ہوئی۔ تب ہم نے شاہ آباد کے زمیندار کی معرفت خط بھیجنے شروع کیے۔ انہوں نے ہماری خاطر سے ان کے وابستگان کو اپنے پاس رکھ لیا اور ہم جرنیل جون صاحب کی فوج کے ساتھ شاہ جہان پور کو گئے تھے ۔ تب ان لوگوں کو یعنی وابستگان شیخ امیر علی کو اپنے پاس بلا لیا ۔ جب صاحب کمشنر اور ہم مراد آباد سے کوچ کرکے بریلی کو چلے تو امیر علی بھی ہمراہ ہو لیا اور جب بریگیڈیر کوک صاحب کی فوج پیلی بھیت کو گئی ۔ تب یہ بھی فوج کے ساتھ روانہ ہوئے تھے ۔ مگر دفعتا فوج واپس آئی تو امیرعلی و عبدا للہ خاں کوتوال پیلی بھیت میںواسطے انتظام کے چھوڑ دیے گئے تھے اور کچھ فوج اس وقت نہ تھی اور واقعی اندیشہ کا مقام تھا۔ کس واسطے کہ فوج انگریزی تیس میل کے فاصلہ پر تھی اور باغیوں کے غول گردو نواح میںپھیل رہے تھے اور تھانہ رنوبہ ضلع پیلی بھیت میں بدعت مچا رہے تھے ۔یہاں تکہ کہ آخر کار بریلی سے فوج بھیجی گئی ۔ ان کے دفعیہ کے واسطے اور ایک بڑا غول باغیوں کا ارادہ چڑھ جانے شاہ جہان پور پر رکھتا تھا۔ وہ اگر چاہتا تو پیلی بھیت پر بھی چڑھ آتا ۔ غرض کہ ایسے وقت میں امیر علی اپنے کام پر بلا دہشت مستعد رہا ۔ مگر اس باب میںزیادہ لکھنا مناسب نہیں۔ کس واسطے کہ ایسے امر کی تحریر تعلق صاحب کلکٹر بریلی کے ہے۔ اتنا البتہ ہم کو لکھنا لازم ہے کہ مسٹر لو صاحب جو پیلی بھیت میںجائنٹ میجسٹریٹ ہیں انکاخط ہمارے پاس پہنچا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ فی الحقیقت امیر علی بڑا محسن و کار گذار آدمی ہے اور ہم ان سے راضی ہیں۔ پس ہم کو یقین ہے کہ جو حکام اس ضلع میںہوں گے ۔ اس سے رضا مند رہیں گے ۔ بالفعل بہ عوض اس خیر خواہی کے امیر علی کو کچھ انعام نہیں ملا ہے۔ اور ماقبل غدر کے رپورٹ نسبت خدم اور عمدہ کار گذاری اس شخص کی نواب لفٹنٹ گورنر بہادر مسٹر کالون صاحب کے بھیجی گئی ہے اور صاحب ممدوح نے ارشاد فرمایا کہ ایک گھڑی طلائی ان کے واسطے منگوائی جاوے جس پریہ عبارت لکھی ہو کہ سرکار سے ان کو یہ شے مرحمت ہوئی۔ بہ عوض عمدہ کار گذاری۔ علاوہ اس کے صاحب ممدوح نے دو شالہ دینے کا بھی ارادہ کیا تھا ۔ دونوں شے مالیت پانچ سو روپیہ اور منشاء یہی تھا کہ صاحب کمشنر کے دربار میںیہ دونوں چیز ان کو دی جاویں۔ بلکہ ہم نے سنا ہے کہ گھڑی منگانے کے واسطے ولایت کو لکھا بھی گیا ۔ لہذا ہم چاہتے ہیںکہ یہ دونوں چیز اب ان کو دی جاویں۔ علاوہ اس کے خلعت بھی چھ پارچہ کا سرکار مناسب جانے مرحمت ہو اور دربار میںدیا جاوے ۔ علاوہ اس کے ہم یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ ایک ہزار روپیہ نقد بہ عوض نقصان اسباب کے دیاجاوے اور بہ عوض خیر خواہی اور نیک کار گذار قدیم کے زمینداری بہ جمع دو ہزار روپیہ سالانہ بطور نشا نی سرکار کے ان کودی جاوے اور وطن ان کا شاہ جان پور میںہے ۔ اسی ضلع میں زمینداری ہو۔ ہم بھی کچھ ایام شاہ جہان پور میںرہ آئے ہیں اور وہاں کے گاؤں کا حال ہم کو معلوم ہے تو ہماری یہ تجویز ہے کہ بعد دریافت صاحب کلکٹر اس ضلع کے اگر کوئی امرمانع نہ ہو ۔ تو عزیز گنج جو قریب شہر کے ہے وہ ان کو دیا جاوے۔ اگر اس کی جمع دوہزار سے کم ہو تو ایک گاؤں اور بھی دیا جاوے۔ علاوہ اس کے معرفت صاحبان بورڈ کے نام شیخ امیر علی کا فہرست امیدواران ڈپٹی کلکٹری کے داخل کیا جاوے۔ دستخط ۔ سی ۔بی ۔ کارمیکل صاحب میجسٹریٹ کلکٹر۔ ترجمہ چٹھی صاحب کلکٹر بدایوں،یہ نام صاحب کلکٹر شاہ جہان پور مورخہ ۱۱ فروری ۱۸۵۹ء ۔ نمبر ۳۹۔ میں نے آپ کے پاس نقول کاغذات مفصلہ ذیل بھیجتا ہوںاور درخواست یہ بھی ہے کہ براہ مہربانی آپ ملکیت تجویز فرمائیے۔ بقدر جمع منظوری کے جو سرکار نے شیخ امیر علی کو عطا فرمایا ہے۔ دستخط ۔ سی ۔پی کارمیکل ۔ کلکٹر ۔ انتخاب نقشہ انعام بعوض خیر خواہیی ایام غدر نمبر ایک شیخ امیر علی تحصیلدار دوشالہ گھڑی طلائی ایک ایک ہر دو اشیاء قیمتی پانچ سو روپیہ حسب تجویز لفٹنٹ گورنر مرحوم۔ خلعت نقد زمینداری واقع شاہ جہان پور ایک ہزار بہ قدر دو ہزار روپیہ تحریر نام اوپر فہرست امیدواران ڈپٹی کلکٹری۔ چنانچہ یہ سب تجویز صاحب کمشنر نے بھی پسند کی۔ انتخاب چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ مورخہ بست نہم اکتوبر ۱۸۵۸ء بنام صاحب کمشنر روہیل کھنڈ۔ چٹھی تمہاری نمبر ۲۰۰ ۔ مورخہہ ۶ ستمبر مع نقشہ انعام مجوز ہ بابت چند اشخاص متعلقہ ضلع پیلی بھیت جن سے ایام غدر میںخیر خواہی و عمدہ کار گذاری ظہور میں آئی۔ ملاحظہ سے گذری۔ دفعہ ۲۔ اس کے جواب میں آپ کو اطلاع دی جاتی ہے ککہ بہ استثناء تجویز پنشن حین حیات کے امیر کبیر نواب گورنر نرل نہادر دے کر تفصیل انعام مناسب متصور فرماکر منظور کرتے ہیں اور آپ کو اجازت ہوتی ہے ۔ کہ اس کو جاری کریں۔ دستخط ۔سی ۔بی ۔ کارمیکل صاحب کلکٹر شیخ بدر الدین صاحب تحصیلدار انوبہ ضلع بریلی۔ ان افسر نے نہایت مستعدی اورعجب چالاکی سے ایام غدر میں خیر خواہی اوروفاداری کی کہ اس زمانہ میںیہ صاحب بریلی کے کوتوال تھے۔ غرض کہ ۱۴ مئی ۱۸۵۷ ء کو جب خبر بلوہ میرٹھ کی بریلی میںپہنچی ۔ اسی وقت سے انتظام پر مستعد ہوئے اور ملازمان جدید سوار و پیادہ بہ اجازت حکام ملازم رکھ کر چوکیات پر متعین کیے اور ایک عمدہ انتظام یہ کیا کہ تلنگا ن باغی جو میرٹھ سے مفرور ہوئے ان کو بریلی آنے نہ دیا۔ جو ملا با لابالا رودر پور روانہ کر دیا۔ تاکہ پلٹن موجودہ بریلی بگڑنے نہ پاوے۔ روز و شب گشت و گرداوری میں مصروف رہے۔ کبھی کوتوالی پر اور کبھی چوکیات پر اور کبھی صاحب میجسٹریٹ بہادر کے پاس اور کبھی صاحب کمشنر بہادر کے پاس حاضر رہتے۔ یہاں تک کہ ۳۱ مئی ۱۸۵۷ء کو بریلی میںفوج بگڑ گئی اور قتل و غارت شروع ہوا۔ حکام والا مقام نے ضلع چھوڑ دیا اور روانہ نینی تال ہوئے۔ یہ افسر اس وقت شہر کے انتظام میںمصروف تھے۔چوکی نگریا کی طرف جب گئے تو حکام کو تشریف لے جاتے ہوئے دیکھا ۔ فی الفور صاحب میجسٹریٹ بہادر کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے کیاحکم ہے۔ صاحب نے فرمایاکہ ہمارے ساتھ نینی تال چلو۔ یہ مستعد وفادار افسر اسی طرح گھوڑے پرسوار حکام کے ساتھ ہولیے اور تمام اپنے خاندان کو خد ا پرچھوڑا اور سب سے مقدوم وفاداری اورنمک حلالی کو جانا اورہمراہ مسٹر گیتھوی صاحب بہادر میجسٹریٹ اور مسٹر الیگزینڈر صاحب بہادر کمشنر اور حکام اور افسران فوج کے برابر نینی تال پہنچے اوراخیر تک وہاں رہے۔ بریلی میںباغیوں نے ان اک گھربار سب لوٹ لیا ۔ جبکہ فوج واسطے فتح بریلی کے روانہ ہوئی ۔ تو یہ وفا دار افسر ہمراہ فوج ظفر موج براء مراد آباد داخل بریلی ہوئے اور اپنے عہد ہ کا کام کیا اور انتظام ضلع میںبدل و جان نہایت کوشش سے مصروف ہوئے۔ سرکار دولت مند نے بعوض اس وفاداری کے ان افسر کی بڑی قدر کی کوتوالی سے عہدہ تحصیداری پر ترقی فرمائی اور سند نیک نامی دفتر گورنمنٹی سے عطاہوئی اور پہلی دفعہ دو ہزار روپیہ کی جمع کی زمینداری اور پھر دوبارہ بارہ سو روپیہ جمع کی اور زمینداری عنایت فرمائی اور بمقام فرخ آباد دربار عام میں پیش گاہ وائسرائے لارڈ کینگ سے خلعت پانچ سو روپیہ کا مرحمت ہوا۔ رپورٹ اور سرٹیفکیٹ ہائے مندرجہ ذیل اس وفادار افسر کے مصدق ہیں۔ ترجمہ سرٹیفکیٹ عطائے گیتھری صاحب میجسٹریٹ ککلٹر ضلع بریلی مورخہ ۳ فروری ۱۸۵۹ ء مقام نینی تال۔ مسمی بدر الدین کوتوال بریلی کا تھا ۔ درمیان دسویں مئی ۵۸ء اور غرہ جون کے ان کی جانت سے ہم نے بہت مدد پائی ۔ چنانچہ اس تاریخ غرہ جون کو بباعث بگڑ جانے فوج کے جن احبان انگریز کی زندگی تھی وہ کمپوں سے تشریف لے گئے اور ان صاحب کے چہرے پر کبھی میل اندیشہ کا ہم نے نہ دیکھا اور جو احکامات ہمارے محکمہ سے واسطے انتظام شہر کے جاری ہوئے وہ بمشورہ کوتوال کے اور اکثر با یمائے کوتوال کے جاری ہوتے تھے۔ چنانچہ بباعث مستعدی اور دانائی کوتوال صاحب کے شہر میں خیریت رہی ۔ تاوقتیکہ تلنگان باغی آتش زنی کرنے لگے اور اپنے افسروں پر گولی چلانے لگے۔ تب البتہ غدر مچ گیا ۔ غرض کے جس وقت ہمارے چلنے کی تیاری تھی ۔ ہمارے پاس کوتوال حاضر ہوئے۔ الا جو کہ مجھ کو معلوم تھا کہ بعد رہائی قیدیان کے ان کا رہنا بریلی میں بمنزلہ قوت کے تھا۔ لہذا ہم نے ان سے واسطے ساتھ چلنے کے کہا اور ہم کو تمنا ہے کہ آپ کی خیر خواہی کا ثمرہ سرکار سے آپ کوبخوبی حاصل ہوگا او رواقعی میںان کے برابر ہم نے کوئی شخص صاحب ہمت و تیز فہم نہیں دیکھا۔ دستخط گیتھری صاحب ترجمہ چٹھی صاحب کمشنر روہیل کھنڈ۔ بنا م صاحب میجسٹریٹ بریلی مورخہ سی یکم اگست ۱۸۵۸ء نمبر ۲۸۔ آپ کے پاس چٹھیاں ملفوف ہذ ا کی بھیجی جاتی ہیں۔ درباب حسن کار گذاری بدر الدین کوتوال و عطائے انعام۔ لہذا آپ کو لکھا جات ا ہے کہ واسطے اطلاع گورنمنٹ کے رپورٹ کیجیے کہ جس ایام سے کوتوال موصوف آپ کے زیر حکومت ہیں۔ آپ کی رائے میں انکی کار گذاری کیسی ہے۔ دستخط ۔ الیگزینڈر صاحب کمشنر ترجمہ چٹھی صاحب میجسٹریٹ ضلع بریلی۔ بنام صاحب کمشنر روہیل کھنڈ نمبر ۵۱ مورخہ ۱۶ ستمبر ۵۸ئ۔ دفعہ اول ۔ چٹھی آپ کی بطلب کیفیت درباب کار گذاری بدر الین کوتوال کے ورود ہوئی ۔ دفعہ دوم۔ اس کے جواب میں مجھ کو کمال خوشی ہو تی ہے تحریر کرنے اس باب میںکہ جب سے ہم اس ضلع میںعہدہ میجسٹریٹی پر قائم ہیں۔ توبہر حال خیر خواہی و کار گذاری بطور افسر پولیس کمال پسند آئی۔ دستخط انگلش صاحب میجسٹریٹ ترجمہ چٹھی صاحب کمشنر روہیل کھنڈ ۔ بنا م میجسٹریٹ بریلی مورخہ ۹ نمبر ۱۸۵۸ ء ۔ نمبر ۸۲۔ دفعہ اول۔ بموجب چٹھی آپ کے مورخہ ۱۶ ستمبر ۱۸۵۸ ء نمبر ۵۱ میں آپ کے پاس بھیجتا ہوں۔ نقل چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ نمبری ۹۹۴ مرقومہ ۴ نومبر ۱۸۵۸ء ۔ مشعر عطائے انعام بدرالدین کوتوالک سابق ضلع بریلی ۔ بعوض حسن کار گذاری ایام غدر اور بعد اس کے۔ دفعہ دوم۔ لہذا آپ کو اجازت ہوتی ہے کہ حسب منشا گورنمنٹ کے آپ گاؤںک زمینداری کا اور مکان رہنے کا تجویز کیجئے ۔ واسطے منظوری سرکار کے اور جو پروانہ خوشنودی کا سرکار سے مرحمت ہوا ہے او ر وہ میں نے کوتوال صاحب کو دے دیا اور باقی جو انعام ہے ۔ مثل شمشیر و تمنچہ و خلعت وہ پیچھے سے تجویز کیا جاوے گا۔ دستخط۔ الیگزینڈر صاحب کمشنر ترجمہ چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ بنا م صاحب کمشنر روہیل کھنڈ مقام الہ آباد مرقومہ ۴ نومبر ۱۸۵۸ ئ۔ نواب امیر کبیر گورنر جنرل بہادر نے عطائے انعام مفصلہ ذیل۔ بنا م بدر الدین کوتوال کے منظور فرمایا ۔ یعنی ایک شمشیر اور ایک تمنچہ قیمتی پانچ سو روپیہ ایک مکان ضبطی واقع شہر بریلی اور خلعت۔ دفعہ دوم ۔ علاوہ اس کے حق زمینداری بیچ گاؤں جمع دو ہزا روپیہ ان کو عطا ہوتا ہے ۔ مگر واضح رہے کہ جمع میں تخفیف نہیں ہوگی ۔ دفعہ سوم۔ چٹھیات اصل آپ کی واپس کی جاتی ہیں۔ بعد رکھنے نقل ان کی سرشتہ میں۔ دستخط ۔ لو صاحب ۔ نائب سیکرٹری نقل مطابق اصل ۔ دستخطی کلارک صاحب نقل پروانہ بدستخط صاحب سکرٹر نواب معلی القاب وائسرائے گورنر جنرل بہادر ۔ دام اقبالہ۔ تہور دستگاہ بدر الدین کوتوال شہر بریلی ۔ مورد مراحم والا باشند۔ دریں وال از روئے رپورٹ حکام ضلع بریلی بحضور فیض گنجور۔ بندگان ذیشان نواب مستطاب معلی القاب گورنر جنرل بہادر دام اقبالہم ۔مرابت خیر خواہی و جان فشانی ما ایشان با یام بلوہ باغیان کوتہ اندیش بوضوح پیوستہ خاطر فیض مظاہر بندگان نواب صاحب محتشم الیہم رضا مند و خوشنود گردید۔ لہذا حسب الحکم بندگان نواب صاحب معظم الیہم جہت اعلان و اظہار خوشنودی خاطر اقدس واعلیٰ پروانہ کرامت نشا نہ ہذا بایشاں مرحمت میشود تا موجب سرخروئے و افتخار بین الا ماثل والا قران گردد و بجلدوئے ایں خیر خواہی و جاں فشا نی برائے عطائے خلعت و قطعہ مکان و قبضہ شمشیر و پستول و اراضی زمینداری کہ منافع آں دو ہزار روپیہ سالانہ باشد بحکام موصوفین ایما رفتہ مرقوم ۲۸ اکتوبر ۱۸۵۸ ئ۔ منشی عبدالغنی صاحب یہ صاحب آہنی سڑک میںجو سلیپر درکار ہوئے ہیں اس کے ٹھیکیدار ہیں۔ جب غدر ہوا تو یہ صآحب پیلی بھیت میں تھے مسٹر کار میل صاحب بہادر جب یکم جون ۱۸۵۸ ء کو ہمراہی شیخ امیر علی صاحب اور ذکریا خاں صاحب او رعبداللہ خاں صاحب کے تشریف فرمائے نینی تال ہوئے ہیں۔ ان صاحب نے گھوڑے کی زین حاضرکرنے میں مدد کی۔ صاحب موصوف کے تشریف لیجانے کے بعد وہاں زیادہ غدر ہوا اور مسٹر برنی صاحب نے مع عیال و اطفال کے وزیر خاں اور امیر خاں کے گھر میں آکر پناہ لی۔ اس وقت ان کی حفاظت میںرہے اور عبدالرحمن خاں رئیس جو انجام تک خبر خواہ رہے وہ بھی حقیقت میں ہمارے شریک رہے۔ اور زمانہ غدر میں حکام سے خط و کتابت کرتے رہے اور ابتدائے ۱۸۵۸ ء میں حسب الطلب مسٹر ریڈ صاحب بہادر سپر نٹنڈنٹ جنگل نینی تال گئے اور جو کام صاحب ممدوح نے سپر د کیا۔ اس کو انجام دیا۔ ان کا جو نقصان ممدوح نے سپر د کیا ۔ اس کو انجام دیا۔ ان کا جو نقصان باغیوں کے ہاتھ سے ہوا تھا ۔ اس کے عوض ستاون ہزار سات سو اننچاس روپیہ بطور معاوضہ نقصان محکمہ بنارس سے مرحمت ہوا۔ چنانچہ سرٹیفکیٹ ہائے مفصلہ ذیل سے ان کا حال بخوبی واضح ہوتا ہے ۔ ترجمہ سرٹیفکیٹ دستخطی پر سر صاحب ۔ چیف انجنیئر سڑک آہنی مقام الہ آباد مورخہ ۱۲ جولائی ۱۸۵۸ئ۔ میں اس بات کو تصدیق کرتا ہوں کہ مسمی عبد الغنی جو فی الحال نینی تال میں مقیم ہے۔ آہنی سڑک کے ٹھیکیکدار ہیں۔ واسطے پہنچانے لکڑی جس کو سلیپر کہتے اور ان کی جانب سے اس کار سڑک آہنی میںبہت مدد ہوئی او ر واسطے شرائط ٹھیکہ کے ایفائے عہد کرتے رہے تھے۔ چنانچہ اسی کام پر مصروف تھے ۔ جب غدر ہوا۔ ا سکے باعث خسارہ کثیران پر ہوا ور یہ بھی وجہ ہے کہ کام اسی سڑک کا بھی رک گیا او رمسمی عبدالغنی آدمی اشراف ہیں اور سرکار کے ساتھ انہوں نے خیر خواہی کی ہے ۔ چنانچہ لازم ہے کہ جو دعویٰ ان کا بباعث ہرجہ نقصان کے ہے وہ جلد تسلیم کیا جاوے ت اکہ کار سڑک آہنی میں زیادہ ہرج نہ ہونے پاوے۔ دستخط ۔ پر سر صاحب ترجمہ سرٹیفکیٹ صاحب سپرنٹنڈنٹ ۔ بن کمانو ۔ مقام نینی تال مورخہ ۱۱ اگست ۱۸۵۸ ئ۔ ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ عبدالغنی کے پاس سے خیر ہمارے پاس ابتدائے غدر سے برابر چلی آتی تھی او ر بر وقت شروع غدر کے ہمارے ساتھ جنگل میں موجود تھے ۔ چنانچہ ان کو طلب کر لیا تھا ۔ کئی مہینے پہلے تسلط روہیل کھنڈ سے اور واسطے بندوبست کرنے بار برداری لٹھہ ہم نینی تال میں گئے ۔ تب سے ہمارے ساتھ برابر موجود رہے۔ دستخط ۔ ریڈ صاحب ترجمہ سرٹیفکیٹ دستخطی کپتان گون صاحب اسٹنٹ سپیشل کمشنر مقام مراد آبا د مورخہ ۱۸۵۸ء واضح رہے کہ حسب ارشاد صاحب اسپیشل کمشنر کے میں اس بات کو تصدیق کرتا ہوں کہ مسمی عبدالغنی ٹھیکہ دار لٹھہ واسطے آہنی سڑک کے ایام غدر میں خیر خواہ سرکار رہے اور نینی تال اور کانشی پور میں موجود رہے ۔ کسی طرح باغیوں سے سروکار نہ رکھا۔ دستخط ۔ کپتان گون صاحب ترجمہ سرٹیفکیٹ مسٹر برنی صاحب۔ سابق نائب سپرنٹنڈنٹ شہر روہیل کھنڈ۔ فی الحال سپرنٹنڈنٹ سڑک شہر پناہ کلکتہ مورخہ ۱۲ جنوری ۱۸۶۰ ئ۔ میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں۔ کہ جب میں مع عیال وا طفا ل کے بمقام پیلی بھیت بزمرہ باغیان زیر نظر تھا۔ اس وقت عبدالغچی ٹھیکہ دار سڑک آہنی اس شہر میںموجود تھا اور وہاں سے ضروری اسباب لے کر بھاگا۔ بھاگنے کا یہ سبب ہوا کہ عبدالرحمن خاں رئیس مذکور پیلی بھیت نے ان کی حفاظت کر لی ۔ ورنہ بھاگنا بھی دشوار تھا اور رئیس مذکور نے مع اپنے شاگرد پیشہ کے کئی کو س سڑک بریلی پر پہنچا دیا او ریہ بھی سنا تھا ۔ کہ جو کچھ اسباب ان کا پیلی بھیت میں رہ گیا تھا ۔ وہ بدمعاشوں نے لوٹ لیا اور ہم ۶ جون ۱۸۵۷ء کو باغیوں کے پنچہ سے رہائی پائی۔ تو معلوم نہیں کہ اس میں عبدالغنی کی بھی مدد تھی یا نہیں۔ مگر البتہ عبدالرحمن خاں کی حویلی میں چند مرتبہ ان سے ملاقات ہوئی اور بر وقت گفتگو کے ہم کو یقین ہوا کہ فی الحقیقت یہ آدمی خیر خواہ سرکار ہے اور یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ حکام انگریز کو نینی تال میںیہ خبر پہنچا تے رہے اور مقام میرٹھ سے ہمارے پاس بھی خبر بھیجتے رہے۔ واقعی یہ شخص بہت اچھا ہے۔ اگر سرکار سے عوضانہ نقصان اس کو مرحمت ہو جاوے بہت مناسب ہے۔ دستخط برنی صاحب ترجمہ چٹھی مسٹر ریڈ صاح بنام۔ عبدالغنی ٹھیکہ دار مورخہ ۲۸ مارچ ۱۸۶۰ مقام نینی تال۔ واضح ہو کہ خط آپ کا مورخہ ۲۳ ماہ حال مشعر عطائے سرٹیفکیٹ در باب خیر خواہی بمراد تائید دعوی عوضانہ نقصان کے ہمارے پاس پہنچا۔ اس کے جواب میںتین امر کی البتہ ہم تصدیق کر سکتے ہیں ایک تو یہ کہ چند روز قبل بگڑنے فوج بریلی کے آپ کی مدد سے ہم بخیریت کمپو میں پہنچ گئے تھے۔ کس واسطے کہ آپ نے چند گھوڑے ہمارے واسطے جڑوہ ندی تک بھیج دیے تھے ۔ اگر ایسی مدد نہ ہوتی تو غالب ہے کہ قبل بگڑنے فوج کے میںبریلی تک نہ پہنچ سکتا۔ دویم یہ کہ جو ہمارا اسباب پیلی بھیت میں تھا ۔ اس کو آپ نے اپنی حفاظت میں رکھا اور بعد تسلط ہوجانے اس شہر میں وہ بحفاظت تمام ہمارے پاس پہنچا دیا۔ سوم یہ کہ شروع غدر میں آپ کی چھٹیات نینی تال میں برابر ہمارے پاس پہنچتی رہیں اور ان ایام میںکوئی آدمی مستعد ا س بات پر نہ ہوا کہ لٹھوں کی بار برداری میرٹھ اور مراد آباد اور دیگر کمپو تک قبول کرے ۔ الا آپ نے اس بات کو قبول کر لیااور آپ کی امداد سے لٹھہ جا بجا واسطے کار سرکار کے پہنچ گئے اور جہاں تک ہم کو علم ہے اور سنا ہے البتہ یقین اس بات کا ہوتا ہے کہ آپ برابر خیر خواہی سرکار کی کرتے رہے۔ دستخط ۔ ریڈ صاحب محمد ابرا ہیم خاں تحصیلدار شاملی۔ ضلع مظفر نگر یہ ایسا نامی افسر خیر خواہ سر کار ہے جس کی نیک نامی اور وفاداری اور جاں نثاری کی شہرت تمام شمال مغربی اضلاع میں پھیل رہی ہے ۔ ابتدائے غدر سے اس افسر نے گورنمنٹ کی خیر خواہی اور قیام عملداری سرکار پر بہت چست کمر باندھی ۔ چوتھے رسالہ کے سواروں نے جب بغاوت کی او ر تحصیل شاملی پر قبضہ کرنا چاہا۔ تو یہ افسر کمال بہادری سے بمقا بلہ پیش آیا اور اپنی تحصیل کو باغیوں کے ہاتھ سے بچایا بہت ہی کم حاکم اضلاع متصلہ مظفر نگر کے باقی رہے ہوں گے ۔ جن سے ایام غدر میں اس افسر نے خط و کتابت نہیںرکھی ۔ جہاں تک ممکن ہوا انتظام گورنمنٹ میں مدد کی اور جس قدر لٹاہوا مال گورنمنٹ اور حکام یورپین کا دستیاب ہوا سب کو برآمد کیا اور پہنچایا ۔ آخر کار جب مقسدہ زیادہ ہوگیا اور انتظام کے لیے معتمد آدمی زیادہ درکار ہوئے تو اس افسر نے رام پور سے اپنے تمام خاندان کو شاملی میںبلوایا اور سب کو سرکار سرکار میںمصروف کیا۔ پچا س آدمی اس افسر کے خاندان کے مع اکبر خاں اس افسر کے شاملی میں تھے ۔ جن میںسے اکثر بمقابلہ باغیان سرکار کی خیر خواہی میںمارے گئے ۔ اور خود اس افسر نے بھی خیر خواہی سرکار میں اپنی جاں نثار کی۔ زمانہ غدر میں انتظام ڈاک کا جاتا رہا تھا اور پھر اس کا قائم کرنا اس زمانہ میں کچھ آسان امر نہ تھا ۔ اس افسر ۔ بموجب حکم کمانڈر ان چیف صاحب بہادر کے کمال سعی و کوشش سے شاملی سے کرنال تک ڈاک قائم کی اور انتہا تک بخوبی جاری رکھی ۔ جس سے نہایت فائدہ انتظام گورنمنٹ میںحاصل ہوا۔ چنانچہ اس کا حال پروانہ کمانڈر انچیف صاحب بہادر مورخہ ۳ اگست ۱۸۵۷ ء سے جس کی نقللک آگے آوے گی ۔ واضح ہوگا۔ ستمبر ۱۸۵۷ ء میں دفعہ مسلمانان سا کنان تھانہ بھون نے جن کا افسر قاضی عنایت علی تھا ۔ فساد برپا کیا اور ایک بڑے گروہ نے تحصیل شاملی پر حملہ کیا ۔ اس وقت تحصیل شاملی میں تخمینا د س سوار پنجابی رسالہ کے اورا ٹھائیس سپاہی جیل خانہ کے اور پچاس سے زائد سپاہی متعینہ تھانہ و تحصیل کے اور باقی آدمی اس افسر کے خاندان کے تھے ۔ مع اکبر خاں اس کے بھائی جو رام پور سے گئے تھے اور وہاں موجود تھے ۔ یہ افسر بکمال دلاوری و بہادری بمقابلہ پیش آیا اور تحصیل شاملی کو مستحکم کر کر اور اس میں محصور ہو کربخوبی لڑا اور ہر دفعہ مفسدوںکے حملہ کو ہٹا دیا اور بہت سے آدمی ان میںکے مارے گئے ۔ اخیر کو گولی و باروت تحصیل میں ہوچکی اور نہایت مجبوری کا وقت آیا اور مفسدوںج کو قابو ہو گیا اور وہ لوگ تحصیل کے قریب آگئے ۔ یہاں تک کہ تحصیل میں گھس آئے وہاںک بھی مقابلہ ہوا اور یہ افسر نہایت بہادری سے مع اکثر آدمیوں اپنے خاندان کے کام آیا اور شرط نمک حلالی کو پورا کر دیا ۔ یہ قتل و خون ریزی شاملی میں ۱۴ ستمبر ۱۸۵۷ ء کو واقع ہوئی جو دن کہ فتح دہلی کاتھا ۔ مگر نہایت افسوس ہے کہ اس افسر کا کان تک مثردہ فتح دہلی جس کا وہ ہر دم مشتاق تھا ۔ پہنچنے تھے کام آئے اور ہر ایک تحفہ خیر خواہی سرکار کا اپنے نام کے ساتھ لے گیا ۔ یہ ہنگامہ جو تحصیل شاملی میںتھانہ بھون کے مفسدوں کے ساتھ ہوا وہ ہنگامہ بھی جس کو مفسدان تھانہ بھون نے جہاد نام رکھا تھا ۔ مگر اس تمام حالات کے دیکھنے سے واضح ہو گا جو لوگ ان مفسدوں کے مقابلہ میں آئے اور در بدر ہوکر لڑے اور بہتوں کو جان سے مارا اور مرتے دم تک مقابلہ و مقاتلہ سے باز نہ رہے وہ بھی مسلمان تھے اور نیک بخت اور اپنے مذہب کے پکے ۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ مفسدوں نے صرف فساد مچانے اور غلغلہ ڈالنے اور ہنگا مہ کرنے کو اپنے فسادوں کو جھوٹا جہاد کے نام سے مشہور کیا تھا ۔ در حقیقت کوئی مسلمان ان بغاوتوں کو جہاد خیال نہیں کرتا تھا ۔ کیونکہ یہ بات سب لوگ جانتے ہیںکہ جس حاکم کی علمداری میں جو بطور رعیت ہو کر اس امن میں رہتے ہیں ان حاکموں سے مقابلہ کرنا بغاوت ہے ۔ نہ کہ جہاد۔ میں نے سنا ہے کہ جب یہ مفسد تھانہ بھون کی تحصیل میں گھس آئے اور ابراہیم خاں نے بہت بہادری سے ہتیار کرنے میں جان دی تو باقی ماندہ آدمی پریشان ہوئے او ر مسجد میں اور ایک درگاہ میں جو تحصیل میں ہے پناہ لی۔ تاکہ مفسد ان مقاموں کو مقدس سمجھ کر ان کی جان معاف کریں۔ مگران کمبختوں نے وہاں بھی نہ چھوڑا اور سب کو جان سے مار ڈالا۔ کہ مسجد اور درگاہ کی سب دیواریں خون سے بھر گئی تھیں۔ اکبر خاں ابراہیم خاں کا بھائی بھی کام آیا۔ یہ شخص بہت دلاور تھا اور جب رام پور سے شاملی گیا ہے تو بجنور کے راستہ سے گیا تھا اور جناب مسٹر الیگزینڈر شیکسپئر صاحب بہادر سے ملازمت کی تھی جب میں نے بھی اس بہادر کو دیکھا تھا او رشاملی پہنچ کر وہاں کے حالات کی عرضی بھی حضور صاحب ممدوح میں بھیجی تھی۔ اب اس مقام پر ان چٹھیات اور رپورٹ کی میںنقل کرتا ہوں جس سے ابراہیم خاں اور اکبر خاں کی خیر خواہی اور جو انعام کہ ان کے پس ماندگان کو گورنمنٹ سے مرحمت ہوا واضح ہوتا ہے۔ نقل پروانہ جناب چارلس صاحب بہادر کمانڈر ان چیف۔ رفعت عالی مرتبت محمدابراہیم خاں تحصیلدار شاملی حفظہ عرضی تمہاری معروضہ ۲۷ جولائی سن حال درباب اطلاع انتظام سرشتہ ڈاک از ابتدائے شاملی تاکر نال حسب الحکم حضور ابن جانب و نیز انجام دینے کار مفو ضہ اکبر علی خاں باہتمام اس کے اور دریافت حال نمک حرامان بد اعمال اور استفسار کیمپ فوج موجودہ کیمپ چھاؤنی دہلی اور خبر افواج قاہرہ سرکاری عنقریب آنے والی ہیں۔ مع مراتب کے پہنچی ملاحظہ میں آئی۔ اس واسطے لکھا جاتا ہے کہ حضور ایں جانب اورجنرل صاحب بہادر اور صاحب ایجنٹ دہلی سب تمہاری کار گذاری سے واقف ہیںاور بہت خوش ہیں اور جب کچھ ذکر آتا ہے تو حضور تمہاری تعریف حکام کے رو برو بیان کرتے ہیں۔ تم خاطر جمع رکھو اور اسی طرح سے کار سرکار بکوشش و جان فشا نی کرتے رہو ۔ اور حضور کو اپنے حال پر متوجہ جانو کہ عنقریب ثمرہ نیک اس جاں فشانی اور خدمات سرکاری کاتم کو ملے گا۔ فقط اور حال مفسدان نمک حرام کا یہ ہے کہ جب باہر نکل کر دوچارافواج ظفر امواج انگریزی کے ہوتے ہیں۔ کشتہ خشتہ افتاں و خیزاں اپنی جان بچا کر بھاگ جاتے ہیں۔ اب نہ ان کو مقابلہ کی جرات نہ دہلی میںرہنے کی ہمت نہ کسی طرف بھاگنے کی طاقت ہے ۔ مثل چراغ سحری کوئی دم کے مہمان ہیں۔ عنقریب لقمہ تیغ بے دریغ بہادران میدان شجاعت کے ہوں گے اور افواج قاہرہ سرکار بہت کلکتہ کی طرف اور ملتان کی طرف روانہ ہوچکے ہیں بامروز فردا اس کیمپ میں داخل ہوا چاہتے ہیںفقط اور حضور کے نام جب عرضی لکھو تو کیمپ چھاؤنی دہلی میں بھیجا کرو حضور کامقام اسی چھاؤنی میںہے کسی طرف دورہ کا اتفاق نہیں ہوتا ہے۔ فقط المرقوم سوم اگست ۱۸۵۷ ء چھاؤنی دہلی۔ نقل سرٹیفکیٹ عطیہ مسٹر گرانٹ صاحب بہادر جا ئنٹ میجسٹریٹ مظفر نگر محمد ابراہیم خاں تحصیلدار شاملی سے ہماری ملاقات بخوبی تھی اور ابتدائے مارچ ۱۸۵۶ ء سے ہمارا اس ضلع میں ہوا۔ پس ان کو ہم اکثر دیکھاکرتے ہیں۔ خصوصا شروع اس غدر میرٹھ سے ہم شاملی کی تشریف لے گئے تھے اور دو روز ماہ جون اور بارہ روز ماہ جولائی اور چودہ روز ماہ ستمبر ہم وہاں مقیم رہے۔ غرض کہ جیسی ان کی قدر ہمارے نزدیک تھی اس کا بیان ہم نہیں کر سکتے اور ان کی جان بحق تسلیم ہونے سے ہم کو کمال افسوس ہوا اور جیسے انہوں نے اس غد ر میں خیر خواہی سرکار کر ی ہے وہ بقابلہ بے وفاداری اور بدکاری منجانب دیگر اہالیان سرکار کے بخوبی چمکتی تھی ۔اگرچہ شاملی کچھ دہلی سے دو ر نہ تھی اور سپاہیان باغی کی آمد و رفت برابر جاری تھی ۔ خصوصا جب چوتھے رسالہ کے سواروں کا غول جو شاملی میںموجود تھا بگڑا اور یہ ہمراہی دیگر سو اران اپنے کے بارادہ قبضہ گری کے تحصیل پر چڑھ آئے۔ مگر جب دیکھا کہ تحصیلدار مستعد مقابلہ ہیں تو ہٹ کر دہلی کو روانہ ہوئے ۔ غرضیکہ اس طرح چار مہینے تک برابر تحصیلدار نے اپنی تحصیل کو قائم رکھا ۔ اس میں ان کی بہت نیک نامی ہوئی ۔ کیونکہ اضلاع شاملی و کرانی و کاندھلی وغیرہ کے سب باغی ہورہے تھے ۔ آخر کار جب گروہ باغیوں کا جس میں غازی و رانگڑھ وغیر ہ قصبہ جات کے کثرت سے تھے سرداری قاضی عنایت علی خاں کی تحصیل پر چڑھ آیا اور محمد جھنڈا کھڑا کیا ۔ باوجود اس کے تحصیلدار نے ان کا مقابلہ کیا اور کمال شجاعت سے لڑے ۔ جو کہ غنیم کا ہجوم زیادہ تھا۔ انجام کا ر تحصیلدار بقید ہشتاد جوان ہمرا ہیان اپنے کے اس لڑائی میںشہید ہوئے اور یہ جو خبر فرضی پھیل گئی تھی۔ کہ تحصیلدار نے قبل مارے جانے کے اپنے ہتیار مفسدوں کو دے قابل اعتبار نہیں ہم امید رکھتے ہیں کہ ان کے پسران اسماعیل خاں وغیرہ کی سرکار میں سرفرازی ہوگی اور زمینداری باغیان کی ان کو عطا کی جاوے گی اور ان کے داماد محمدرضا پر بھی کہ بے معاش ہوگیا ہے لحاظ کیا جاوے گا ۔ دستخط ۔ سی گرانٹ جائنٹ میجسٹریٹ نقل سرٹیفکیٹ درباب محمد اکبر خاں ۔ عطا ئے مسٹر گرانٹ صاحب جائنٹ میجسٹریٹ ۔ مظفر نگر، مرقوم ۳ نومبر ۱۸۵۷ ئ۔ سرٹیفکیٹ نسبت کار گذاری میرے والد محمد اکبر خاں کی جو نواب رام پور کے یہاں نوکر تھے اور چودھویں ستمبر ۱۸۵۷ ء کو مع ابرا ہیم خاں اپنے بھائی کے عندا لمقابلہ ہاتھ سے باغیان تھانہ بھوںکے جو شاملی پر چڑھ آئے۔ مارے گئے ۔ عنایت کیجئے اور ایک بیٹا ان کا عبدالقادر خاں وہ بھی والئی رام پور کے یہاں نوکر ہے اور دولڑکے صغیر سن ہیں۔ دستخط ۔ سی ۔ گرانٹ صاحب جائنٹ میجسٹریٹ ۔ مظفر نگر۔ ترجمہ رپورٹ صاحب کمشنر بہادر میرٹھ۔ بنام ۔ سیکرٹری گورنمنٹ اضلا ع غربی مورخہ ہشتم جنوری ۱۸۵۹ ء ۔ نمبر ۱۹ ۔ دفعہ اول ۔ میںکاغذات مشمولہ چٹھی ہذا مجوزہ پنشن و انعام واسطہ قرابت داروں و لواحقان ان افسران کے جو تھانہ اور تحصیل شاملی میں مامور تھے اورعند المقابلہ باغیان کے ہاتھ سے ۱۴ ستمبر ۱۸۵۷ ء کو تہ تیغ ہوئے ۔ بخدمت امیر کبیر جناب نواب گورنر جنرل صاحب بہادر کے گزارتا ہوں۔ دفعہ دوم۔ شروع غدر سے لغایت دم واپسیں تک کا ر گذاری محمد ابراہیم خان کی بہت عمدہ اور قابل تعریف کے ہے۔ جس نے مہر خون کی اپنی وفاداری پر ثبت کر دی۔ دفعہ سوم۔ میںدرخواست عمدہ پنشن کی کرتا ہوں۔ واسطے ان کے وارثان اور وابستگان کے۔ ؎ دفعہ چہارم۔ واضح ہو کہ اس جنگ و جدل میں او ر بھی کئی شخص جو نوکر نہ تھے مگر یہ طلب ابر اہیم خاں متوفی کے وطن سے ان کی مدد کے واسطے چلے آئے تھے ہلاک ہوئے۔ مگر جو لوگ خاص ان کے یگانہ تھے ان کے نام پر واسطے شناخت کے اس قدر نشانی کر دی گئی ۔ دفعہ پنجم ۔ اب بر حال وفاداری دم اخیر تک ان مر دمان کی جو تحصیل شاملی میں کام آئے اس لائق تھی کہ جس قدر پنشن ان کے واسطے تجویز ہوئی عطا فرمائی جاوے۔ دفعہ ہشتم ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر ابراہیم خاں حملہ باغیان سے جانبر ہوتے تو بجلد دیے اس حسن کارگذاری اور خیر خواہی کے مستحق پانے انعام عمدہ کا ہوتے ۔ دستخط ۔ ولیم صاحب کمشنر بہادر میرٹھ۔ انتخاب چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ ۔ مرقوم ۷ اپریل ۱۸۵۹ ء نمبر ۳۱۵ ۔ بنام صاحب کمشنر میرٹھ۔ دفعہ دوم۔ جس قدر انعام اپنی نسبت ورثائے محمد ابراہیم خاں تحصیلدار کے تجویز کیا ہے وہ بدانست لفٹنٹ گورنر بہادر کے بہت ہی مناسب ہے۔ لہذا گورنر صاحب ممدوح نے ا سکو منظور فرمایا ۔ بایں تصریح کہ پنجاہ روپیہ ماہواری بنام والدہ اور زوجہ تحصیلدار متوفی کے اور مبلغ دو رروپیہ فی اسم بنام دو کس دختران و نیز عطائے زمینداری جائداد مضبطہ بجمع دوہزار روپیہ واقع روہیل کھنڈ ۔ چنانچہ بمشورہ حاکم روہیل کھنڈ کے اس کی تجویز کر دی جاوے۔ دفعہ سوم۔ علاوہ اس کے روز ینہ بطور حین حیات حسب تفصیل ذیل عطا فرمایا گیا ہے ۔ بنام والدہ مسمی عنایت علی متوفی دو روپیہ ۔ بنام والدین خدا بخش دو روپیہ اور روزینہ تا ہونے شادی مستورات اور بالغ ہونے لڑکوں یعنی بعمر ہشت دہ سالہ کے مطابق تفصیل ذیل منظور ہوا ہے۔ تفصیل: شش شش روپیہ بنام اعظم بیگم ہمشیران و زیدا بیگم مجو خاں۔ بنام زوجہ نصیر خاں متوفی دو روپیہ ۔ واسطے اس کی دختر کے ایک روپیہ ۔ برائے زوجہ شیر محمد خاں دور وپیہ اور واسطے برخوردار خورد اس کے ایک روپیہ بنام والدہ و بردار محمد حسین متوفی دو دو روپیہ۔ دفعہ ہشتم۔ روزینہ بقید مبلغ دو روپیہ ماہواری واسطے زوجہ غلام حیدر خاں متوفی کے و نیز ایک ایک روپیہ ماہواری فی اسم واسطے چہار کس دختران متوفی مذکور کے منظور ہوتا ہے ۔ اشرف بیگم ۔ اولیا بیگم خانم بیگم اور بہ نسبت جمعت بیگم کے کچھ غلطی معلوم ہوتی ہے ۔ چنانچہ ایک جگہ عمر اس کی چوبیس سال بلفظ قبیلہ عبداللہ خاں کے لکھی ہے او ردوسرے مقام پر عمر پینتالیس برس اورزوجہ اکبر خاں لکھا ہے۔ دفعہ نہم۔ علاہو اس کے روزینہ سہ روپیہ ماہوار واسطے زوجہ نیاز اللہ متوفی کے تا حیات و تا شادی ثانی منظورہوا ۔ مگر اس میں یہ بھی شرط ہے کہ اگر زوجہ مذکور فوت ہوجاوے قبل پہنچنے عمر لڑکوں کے اٹھارہ برس تک ۔ تو اس وقت صاحب کمشنر کواختیار ہوگا کہ نسبت فرزندان اس کے از سر نو رپورٹ کریں۔ دفعہ دہم۔ حق زمینداری بجمع ایک ہزار روپیہ سالانہ بنام چہار طفلاں محمد اکبر خاں برادر محمد ابراہیم خاں تحصیلدار کے بحصہ مساوی علاوہ پنشن تیس روپیہ ماہواری بنام زوجہ محمد اکبر خاں متوفی اور د س روپیہ ماہواری واسطے دختر خاں متوفی مذکور کے تاہونے شادی ان کی کے عطا کی جاوے۔ دستخط ایڈورڈ صاحب۔ میجسٹریٹ و کلکٹر پر تصدیق۔ نقل مطابق اصل ترجمہ سرٹیفکیٹ عطا کردہ مسٹر ہوم صاحب کلکٹر ضلع اٹاوہ مرقوم ۱۸ جولائی ۱۸۶۰ ء محمد عبداللہ خان برادر زادہ محمد ابراہیم خاں تحصیلدار شاملی ضلع مظفر نگر کے نے ہم سے استدعا کری کے چند کلمہ بطریق سرٹیفکیٹ نسبت میرے چچا کے عنایت کیجئے ۔ چنانچہ مطابق اس کی درخواست کے جو کچھ حال ان کا ہم کو معلوم ہے۔ لکھتے ہیں کہ محمد ابراہیم خاں ضلع مرا د آباد میں بعہدہ تھانہ داری مامور تھے اور آوردہ مسٹر ولسن صاحب کے تھے ۔ خو د ہم نے صاحب موصوف کی زبان سے سنا کہ بہت لئیق او ر ہوشیار اہل کار ہیں۔ بعدہ مجلس علی گڑھی کے داروغہ ہوئے ۔ چنانچہ د و سال تک کار گذاری اور دیانت داری ان کی ہمارے دیکھنے میںآئی ۔ اس قدر ان کی نیک نامی اور دیانت داری کی تعریف ہے کہ جب ۱۸۵۵ ء میں سرکار نے ہم کو واسطے تحقیقات ڈاکی زنی کے جو اس ایا م میںبہ کثرت ہونے لگی تھی اور کاٹ میل سرکاری لوٹ گئے تھے ۔ متعین کیا تو ہم نے محمد ابراہیم خاں کو بزمرہ اہالیان اس ضلع کے چھانٹ کر بعہدہ افسری اپنے سرشتہ میںمقرر کیا تھا۔ ان کی مدد سے کمال ہوشیاری سے بیشتر مجرمان جو خورجہ کی واردات میں شامل تھے ۔ گرفتار ہو کر سزا یاب ہوئے۔ چنانچہ بعوض اس کارگذاری کے ان کو پیشکاری ضلع میرٹھ پر تعینات کیا اور وعدہ کیا کہ بر وقت خالی ہونے کسی جگہ تحصیلداری پر مامور کیا جاوے گا۔ اس عہد ہ پریہ زیر نگاہ مسٹر ہاکس صاحب اور مسٹر ترنیل صاحب کے جو الحال جج میرٹھ کے ہیں۔ ان صاحبان کی زبان سے اکثر تعریف محمد ابراہیم خان کی سنی گئی ۔ بعد چندے ضلع مظفر نگر میں بعہدہ تحصیلداری کہ وہاں مشاہرہ دو سو روپیہ ماہواری کا ہے تبدیل ہو کر آئے۔ جب غدر ہوا اور میرٹھ و دہلی میںفساد برپا ہوا۔ ہم نے بارہا تاکید ان کو خط لکھا کہ ہم نے تمہاے لیے سفارش کی ہے ۔ اب اس قت ثمرہ وفاداری کا ظہور میںلاؤ اور جان تک کا دریغ نہ کرو۔ یہ نہ ہو کہ ہماری سفارش میں داغ آوے ۔ پس جیسا انہوں نے کیا وہ سب پر اظہر من الشمس ہے۔ کیا معنی کہ اپنے یگانوں کو بلو اکر حفاظت تحصیل میں مستعد رہے جب باغیان نے دہلی سے حملہ کیا تب مع چند کسان ہمراہیان اپنے کے جاں بحق تسلیم ہوئے ۔ خوب نمک حلالی کی۔ اس شخص سے زیادہ شجاع مرد خواہ ہندوستانی خواہ انگریزی ہم نے نہیں دیکھا ۔ غرض جب تک وہ زندہ رہے ہم ان کو عزیز سمجھتے تھے۔ اب بعد مرنے کے ہم کو ا س بات کے سننے سے کمال خوشی ہوگی ۔ کہ ان کے قبیلہ او ر فرزنداں سے جس سے وے بڑی محبت اور پیار رکھتے تھے۔ خوش ہیں اور ان کی خوب پرورش ہوئی شاید دوسرا شخص ہندوستان میں نہ ہوگا۔ کہ جس کا قبیلہ وقت جدائی اپنے خاوند کے نامہ و پیا م بھیجتار ہے ۔ اگرچہ یہ ایک چھوٹی بات ہے ۔ تاہم قابل تحریر ہے کہ ابراہیم خاں نے اپنی بی بی کہ ہندی پڑھایا تھا اور پڑھنے لکھنے میںاس کو خوب مشاقی ہو گئی تھی اور ہندی اس واسطے سکھایا تھا کہ ہندی پڑھنا آدمی سے جلد باسانی آجاتا ہے ۔ خصوصا اس واسطے سکھایا تھا کہ وقت مفارقت اور دوری کے باہم خط و کتابت رہے۔ دستخط ۔ ہوم صاحب مصلحانِ معاشرت مسلمانان (تہذیب الاخلاق بابت یکم جمادی الثانی ۱۲۸۸ ھ) ہم سے پہلے بھی ایسے لوگ گذرے ہیں جنہوں نے مسلمانوںکی طرز معاشرت و طریقہ تمدن میں ترقی کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی کوششوں میں کامیاب بھی ہوئے ہیں ان کا کچھ مختصر حال لکھنا مسلمانوں کی واقفیت کے لیے بہتر ہوگا (سید احمد)۔ اول :: سلطان محمود خاں مرحوم سلطان روم یہ بادشاہ ۱۸۰۳ ء میں تخت پر بیٹھا اور ۱۸۳۹ ء میں فوت ہوا ہماری رائے میں مسلمانوں میںسب سے اول یہ سلطان ہے جس کے اخلاق اور طریق معاشرت میں تہذیب شروع کی۔ تعصبات مذہبی کو جو درحقیقت اخلاق محمدی کے برخلاف تھے بالکل چھوڑ دیا۔ اپنے تمام مختلف مذہب کی رعایا کو اجازت دی کہ مطابق اپنے مذہب کے اپنی اپنی رسومات مذہبی ادا کریں۔ خود عیسائی گرجاؤں کی جو اس کے ملک میں تھے مرمت کر ا دی ۔ جبکہ اس نے رفاہ عا م کے کاموں میںایک لاکھ پیاستر (یہ ایک ترکی سکہ چاندی کا ہے ) بانٹے تو گریک اور ارمنی چرچوں کوبھی برابر حصہ دیا۔ اپنے ملک میں سکول مقرر کیے اور کل مذہب کے لوگوں یہودی، عیسائی ، مسلمان سب کو برابر بلا تعصب تعلیم دینی شروع کی۔ سیتلا کی بیماری موقوف ہونے کے لیے ٹیکہ لگانے کی نہایتت خوبی سے رواج دیا۔ شفا خا نے مقرر کیے جس میں فرنچ ڈاکٹر کام کرتے تھے ۔ ڈاکٹر ڈس گالیر صاحب لکچر دیاکرتے تھے اور سلطانی حکیموں کو حکم تھا کہ وہ بھی ان کا لکچر سننے کو حاضر ہوا کریں۔ ۱۸۳۰ ء میں اس سلطان نے غلامی کے رواج کو جو خلاف شرع جاری تھا موقوف کر دیا اور تمام گریک کو جو بطور غلامی پکڑے گئے تھے چھوڑ دیا اور غلام آزاد کر دیے کیونکہ قرآن مجید کے احکام کے مطابق اور خصوصا آیت انما المو منو نہ اخوۃ فاصلحو ابین اخویکم اور آیت فامنا بعد واما فداء کے حکم کے مطابق کوئی شخص کسی کا غلام نہیں ہو سکتا۔ اسی بادشاہ کے عہد میں ترکی زبان میںاخبار شروع ہوا اور پانچویں نومبر ۱۸۳۱ ء کو پہلا اخبار چھپا جس کا نام تفویم وقائع رکھا گیا تھا ۔ ترک ایسے جاہل اور بیجا تعصب مذہبی میں مبتلا تھے کہ علم تشریح انسان سیکھنے کو بھی تصویر کا بنانا جائز نہ سمجھتے تھے ۔ سلطان نے خود اپنی تصویر بنوائی اور سرجری اسکول قائم کیا جو دوسری جنوری ۱۸۳۲ ء کو کھولا گیا تھا اور حکم دیا کہ کتب تشریح مع تصاویر تصنیف کی جاویں اور چھاپی جاویں اور پڑھائی جاویں۔ اس سلطان نے ترکوں کا لباس اور طریق زندگی درست کرنے میںبڑی کوشش کی وہ خوب جانتا تھا کہ مہذب قوموں کے سامنے عزت حاصل کرنی اور حقارت سے نکلنا اور برابر کی ملاقات اور دوستی رکھنی بغیر اس کے لباس اور طریقہ زندگی نہ درست کیاجاوے بالکل ناممکن ہے۔ اس نے دفعتا اپنی سپا ہ کی وردی بدل دی اور بالکل انگریزوں کی سی کر دی صرف ٹوپی کا فرق تھا۔ ڈاکٹر ولش صاحب لکھتے ہیں نہ ٹرکی کی زمین پر قدم رکھتے ہی پہلی چیز جومیں نے دیکھی اور جس نے مجھ کو حیران کر دیا وہ تعلیم تافتہ اور خوبصورت وردی پہنی ہوئی شکل سپاہیوں کی تھی اور افسر فوج کے ولنگٹن کوٹ او ر پتلون اور بوٹ پہنے ہوئے تھے ۔ اس سلطان نے خود بھی ترکی لباس او ر دستر خوان پر یا پائداد خوان پر کھانا رکھ کر ہاتھ سے کھانا ترک کر دیا اور لباس میںکوٹ پتلون اور سرخ جو فیس کہلاتی ہے پہننی شروع کی۔ میز و کرسی پر چمچہ اور چھری اور کانٹے سے کھانا شروع کیا ڈاکٹر ولش صاحب نے سلطان محمود کو دیکھا تھا کہ وہ لکھتے ہیںکہ سلطان کی یورپین طریقہ تناول طعام اور خوبی ، اوصاف اور شائستگی عادا ت میں اور ترکوں کی قدیم جہالت او ر نا شائستگی میں آسمان و زمین کا فر ق ہے ۔ اس بادشاہ نے جو نصیحت اور تدبیر ممکت اپنے جانشینوں کے لیے چھوڑی تھی وہ یہ ہے ک سب کو برابر پناہ اور حقوق ہوں مسلمان پہچانے جاویں اور لوگوں سے صرف مسجدوں میں اور عیسائی صرف گر جاؤں میں اور یہودی صرف سینکا میں۔ یہ تھے اصلی اصول اسلام کے جس پر سلطان محمود نے عمل کرنا شرو ع کیا تھا اور ہم ہندوستان کے عالموں سے یہ بھی کہتے ہیں کہ سلطان نے یہ سب کام علماء پایہ تخت کے فتووں سے کیے تھے مگر وہ لوگ ہندوستان کے لوگوں کی طرح جاہل او رمتعصب نہ تھے اس سلطان کی پورے قد کی تصویر میں نے وارسیل کے بیلس میں دیکھی تھی جو پیرس دارلسلطنت فرانس میں ہے ۔ اس کی یورپین لباس اور سرخ ٹوپی نہایت ہی سوہاتی تھی ۔ خدا اس پر رحمت کرے کہ اس نے مسلمانوں کو مہذب و شائستہ بنانے کے لیے سب سے اول کوشش کی۔ دوم :: سلطان عبد المجید خاں مرحوم سلطان روم یہ سلطان پہلی جولائی ۱۸۳۹ ء کو تحت پر بیٹھا اور ۱۸۶۲ ء میں فوت ہوا اس سلطان نے بالکل سلطان محمود کے طریقہ کی پیروی کی۔ بالکل یورپین کوٹ و پتلون او تمام یورپین لباس پہنتا تھا ۔ صرف ٹوپی سرخ تر کی کی ہوتی تھی میز پر چھری کانٹے چمچے سے کھانا کھاتا تھا او ر تمام تعصبات کو جو مذہب اسلام کی ر و سے لغو تھے چھوڑ دیا تھا اور روز بروز عیسائی قوموں سے محبت او ر دوستی بڑھا تا تھا۔ سب سے اول اور عمدہ کام جو اس بادشاہ سے بن آیااور جس کے سبب مسلمان ہمیشہ اس کے احسان مند رہیں گے تمام یورپ کی اعلی سلطنتوں سے اور خصوص انگریزوں سے خالص محبت اور اخلاص پیدا کرناتھا جس کے سبب سلطنت روم کی منجملہ یورپ کی سلطنتوں کے شمار ہوئی اور جو عہد نامہ ۱۸۴۰ ء میں یورپ کی سلطنتوں میں ہوا اس عہد نامہ میںیہ مسلمانی سلطنت بھی شامل ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کریمیا کی لڑائی میں جو اس بادشاہ سے اور روسیوں سے ہوئی تھی انگریز اور فرنچ نے سلطان کی مد د کی اور اس مسلمانی سلطنت کو بچا لیا ورنہ آج دنیا میںمسلمانی سلطنت کا نام بھی نہ ہوتا۔ پس حقیقت میں تمام دنیا کے مسلمانوں پر انگریزوں او رفرنچوں کا مگر بالتخصیص انگریزوں کا اس قدر احسان ہے کہ جب تک مسلمانی سلطنت قائم ہے بلکہ جب تک مسلمان دنیا میں ہیں اس کے شکر اور مراسم احسان مندی کو اد ا نہیں کر سکیں گے۔ سلطان کی خوش قسمتی سے سلطان کو ایک نہایت لائق اور جامع جمیع صفات وزیر ہاتھ آیا تھا جس کا نام رشید پاشا تھا ۔ اگر ہم سلطان عبدالمجید خا ں کے ادب کا پا س نہ کرتے تو ان لوگوں کی فہرست میں جنہوں نے مسلمانوں کے حالات معاشرت میں اصلاح و ترقی کی سلطان محمود خاں کے بعد رشید پاشا کا نام نامی اور لقب گرامہ لکھتے ۔ اس نے ترکوں کو تمام لغو اور بیہودہ تعصبات کو جن کو انہوں نے غلط دینداری کے رنگ میںرنگا تھا ۔ اور جو دراصل مذہب اسلام سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے تھے اور جو درحقیقت مسلمانوں کے تربیت یافتہ اور مہذب ہونے کے مانع تھے بخوبی غور کیا اور قرآن مجید کے استدلال اور سند سے اور نہ زید و عمر و کی تقلید سے ان تمام تعصبات کی تردید کی اور یورپ کے طریقوں کے اختیار کرنے کا جواز لکھا اور سلطان عبدالمجید خاں نے اس کو پسند کیا اور تمام علماء اور مسلمانوں میں او ر تمام رعایا میں اس کے مشتہر کرنے کا حکم دیا چنانچہ وہ تمام تحریر بطور فرمان لکھی گئی جو ٹرکی زبان میں’’ہت شریف‘‘ کے نام سے ملقب ہے۔ ۳ نومبر ۱۸۴۱ ء کو ایک بہت بڑے عالی شان مکان ہیں خود سلطان اور اس کے تمام وزاراء اور علماء اور سول و فوج کے افسر اور تمام سلطنتوں کے سفیر جو انباسٹر کہلاتے ہیں اور شیخ و مشایخ کبار اور ہر درجہ کے امام اور گریک اور ارمتی چرچ کے بشپ جو پیٹر یارک کہلاتے ہیں اور علماء یہود جو ربی کہلاتے ہیں او ر تمام اہل حل و عقد جمع ہوئے اور رشید پاشا نے وہ ہت شریف پڑھا اور سب نے آمنا و صدقتا کہا۔ یہ دن سلطان عبدالمجید خان کی سلطنت میں ایسا مبارک دن تھا جس پر سے ہزار عید قربان ہوتی چاہییں ۔ یہ دن نہیں تھا بلکہ مسلمانون کی قوم کی جان تھا اور حقیقت میںرشید پاشا مسلمانوں کی قوم کی زندگی کا سبب تھا ۔ خدا اس پر رحمت کرے ۔ سلطان عبدالمجید خان نے جو اس زور شور سے مسلمانوں کے حالات کی بہتری چاہی اور ان کے لغو تعصبات کو جو غلط دینداری کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے دفعتا تو ڑ دیا تو عام جاہل لوگوں اور ان کٹ ملاؤں نے جن کی مثال ایسی تھی کہ ۔ چار پائے بروکتا بے چند۔ انہوں نے بہت غل مچیا اور عوام میں ایک ناراضی پیدا ہوئی اور اس کو کرسٹان کہنے لگے ۔ مگر جب رفتہ رفتہ لوگوں کو معلوم ہوتا گیا کہ سلطان نے کیا کچھ بھلائی اور بہتری اسلام کی اور مسلمانوں کے ساتھ کی ہے تو سب لوگ دل سے سلطان کو چاہنے لگے۔ ایک مورخ لکھتا ہے کہ ایک دفعہ سلطان کوٹ پتلون پہنے ہوئے اور لال ٹرکی ٹوپی اوڑے ہوئے گھوڑے پر سوار نماز کے لیے با یزید کی مسجد کو جاتا تھا راستہ میں عورتوں کے غول نے بادشاہ کو گھیر لیا اور دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور آپس میںکہنے لگیں کہ کیا ہمارا بیٹا خوبصورت نہیں ہے ۔ اب اس بات سے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ سلطان کو کس قدر لوگ عزیز سمجھنے لگے تھے۔ اس سلطان نے اپنی سلطنت میں نہایت عمدہ کام کیے۔ انگریزوں اور فرنچ سے نہایت استحکام اور سچائی سے دوستی قائم کی۔ عدالتوں کے لیے قوانین بنائے اور فرانس کے طریقہ پر تمام انتظام سلطنت قائم کے ا۱۸۴۶ ء میں پبلک انسٹرکشن کی کونسل بنائی ۔ نئی یونیورسٹی قائم کی۔ نارمل اسکول قائم کیے اور اس کے وقت میں اتنی ترقی ہوئی کہ قسطنطنیہ میںتیرہ اخبار فرنچ اور ٹرکی اور گریک زبان میں چھپنے لگے تھے۔ ما شرابی سینی صاحب ایک فرنچ مورخ نے اس سلطان کے زمانہ کے حال میں لکھا ہے کہ ترک نہایت بہادر اور زہین آدمی ہیں اور نہایت ایماندار مسلمان جو نہایت عجیب طرز پر اپنے مذہب کے ذریعہ سے اپنے چال چلن درست کرنے پر متوجہ ہیں۔ سوم :: سلطان عبدالعزیز خاں سلطان روم یہ اس عہد کا بادشاہ ہے جس کی ذات مبارک سے روم کا تخت سلطنت مزین ہے خدا اس کو اور اس کی سلطنت کو سلامت رکھے یہ سلطان بھائی ہے سلطان عبدالمجید خاں کا ۱۸۶۲ ء میں اپنے بھائی کے مرنے کے بعد تخت پربیٹھا۔ اس سلطان نے سب سے زیادہ مسلمانوں میںتربیت و شائستگی پھیلانے میں قدم بڑھایا ہے اور انگریزوں اورفرنچ اور آسٹریا سے اوربھی زیادہ دوستی و اخلاص پید ا کیا ہے ۔ لباس میں اس طریقہ زندگی میںاپنے سابقین کی صرف پیروی ہی نہیں کی بلک رو زبروز اس میں ترقی کرتا گیا ۔ بے تعصبی اور سچی دوستی اورمحبت کا جو اس نے فرنچ اور انگریزوں سے پیدا کی ہے ۱۸۶۷ ء میں بخوبی ثبوت ہوگیا جب کہ سلطان پیرس دارلسلطنت فرانس میںبطور مہمان کے آیا اور امپرر نپولین کے ساتھ کھانے اور تمام جلسوں میںشریک رہا اور وہاں کی سیر و سیاحت کرکر لنڈن میںصرف دوستی اور اخلاص کے سبب ملک معظمہ وکٹوریا دام ظلہا سے ملاقات کر آیا اور کھانوں او ر دعوتوں اورجلسوں میں شریک رہا۔ سب سے زیادہ عزت جو سلطان نے لنڈن میںکمائی بلکہ مسلمانوں کی قوم کو بلکہ ان کے اخلاق مذہبی کو دی و ہ صرف یاد رکھنا اس احسان کا تھا جو لارڈ پالمرسٹن نے کریمیا کی لڑائی میں ترکوں کو مدد دینے سے کیا تھا وہ عالی ہمت فیاض لارڈ جو زمانہ جنگ کر یمیا میں وزیراعظم سلطنت ملکہ معظمہ وکٹوریا کا تھا مر گیا تھا مگر ان کی بی بی لیڈی پالمرسٹن زندہ تھی سلطان خود لیڈی پالمرسٹن کے پاس کے شوہر عالی وقار کا شکر ادا کرن ے گیا اور جتنی بڑی عزت کایہ کام سلطان سے ہوا شاید آئندہ تمام عمر اس کو ایسا دوسرا کام کرنا نصیب نہیں ہونے کا۔ اس مقام پر ہم ہندوستان کے مسلمانوں کے سراسٹا فورڈ نارتھ کوٹ اس زمانہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا یعنی وزیر ہندوستان کے اس احسان کا ضرور ذکر کریں گے کہ جب سلطان لنڈن میں تشریف رکھتے تھے تو انہوں نے ہندوستان کی طرف سے سلطان کو انڈیا آفس میںبلایا اور ہماری طرف سے دعوت کی۔ جب میں لنڈن میں گیاتھا تو میں نے انڈیا آفس کے اس خوبصورت بڑے ہال کو جس میں ہماری طرف سے سلطان کی دعوت ہوئی تھی دیکھا تھا اور سپر اسٹار فورڈ نارتھ کوٹ کا بہت بہت شکرکیا تھا ۔ پھر اسی دوستی اور اخلاص کا استحکام ۱۸۶۸ ء میں اور زیادہ روشن ہوا کہ پرنس آف ویلز اور پرنس آف ویلز ولیعہد ملکہ معظمہ اور ولیعہد بیگم قسطنطنیہ میںسلطان کے ہاں مہمان تشریف لے گئے اور باہم دوستی اور محبت سے جلسوں اور دعوتوں میں شریک ہوئے۔ اس کے بعد امپرس آف فرانس یعنی فرانس کے بادشاہ بیگم سلطان کے ہا ں مہماں تشریف لے گئیں اور اس طرح کھانے اور پینے اور دعوتوں کے جلسے رہے۔ پھر امپرز جوزف یعنی شہنشاہ آسٹریا سلطان کے ہاں مہمان تشریف لے گئے اور جو کہ سلطان کے ملک کی اور آسٹریا کی حد بالکل پیوستہ ہے اور جا رملا صق ہے اس لیے سلطان نے حق ہمسایہ کو جس کا اد ب بموجب مذہب اسلام زیادہ تر ہے زیادہ عزیز سمجھا اور خاص اسی محل میںجس میں خود رہتا تھا اپنے ساتھ شہنشاہ آسٹریا کواتارا۔ دن رات باہم صحبت رہی ۔ کھانے پینے میں شریک رہے۔ سب ایک میز پر بیٹھ کر کھاتے تھے ۔صرف سلطان کا نما ز پڑھنا اور شہنشاہ آسٹریا کا چرچ میں جانا مسلمان اور عیسائی ہونا بتاتا تھا اور اس کے سوا کچھ فرق نہ تھا۔ گریک اور ارمنی چوچوں کے لیے بشپ اور پیٹریارک اسی طرح سلطان مقرر کرتا ہے جس طرح کہ اگر خود انہی مذہبوں کا کوی بادشاہ ہوتا اور وہ مقرر کرتا س کے ہاں تمام عہدہ دار اعلی سے اعلی بھی بلحاظ مذہب کے عہدوں پر مقرر ہیں اور آپس میں ایسا اطمینان اور اعتماد ہے کہ سفارت کے عہدوں تک جس میںہزاروں راز کی باتیں ہوتی ہیں عیسائی اور مسلمان سب مقرر ہیں۔ یہ کسی عمدہ اور خوشی کی بات ہے کہ مسلمان سلطان کی طرف کے دربار حضور ملکہ معظمہ میں جو سب سے بڑا دربار ہے اور سلطان کو سب سے زیادہ تعلق اور غرض اس عالی شان دربار سے ہے مسورس پاشا جو گریک ہے انباسٹر یعنی سفیر مقرر ہے۔ ترکوں کی تربیت اور شائستگی اور تہذیب کا اب یہ حال ہے کہ ان کا تمام لباس کوٹ و پتلو ن اور قمیض وواسکٹ بالکل یورپ کی مانند ہے ایک قسم کا فراک کوٹ جو استعمال کرتے ہیں اور تمام امراء اور شریف لوگوں کایہی لباس ہے صرف ترکی ٹوپی جدا ہے سب نے زمین پر کا بیٹھنا چھوڑ دیا ہے میز و کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ میز پر چھڑی کانٹوں سے کھانا کھاتے ہیں ان کے مکان کی آراستگی اور طریقہ زندگی بالکل یورپین کا سا ہوگیا ہے ۔ علی پاشا وزیر سلطنت نہایت عمدہ انگریزی پڑھا ہوا ہے لنڈن میں اس نے تعلیم پائی ترکوں کا لباس نہایت عمدہ اور خوبصورت ہوگیا ہے ۔ خوش وضع پتلونیں اور پاؤں میں سیاہ نفیس انگریزی بوٹ اور سیاہ سیاہ نفیس با نات کے کوٹ اور سر پر لال ٹوپی جو فیس کہلاتی ہے نہایت خوبصورت معلوم ہوتی ہے۔ صفائی اور نفاست اور آراستگی مکانات بالکل یورپ کی مانند ہے ۔ جب وہ لوگ اپنی ہمسایہ قوموں فرنچ اور انگریزوں میں مل ک بیٹھتے ہیں تو ہمجولی معلوم ہوتے ہیں اور امید ہے کہ روز بروز اور زیادہ مہذب ہوتے جاویںگے ۔ پس ہندوستان کے مسلمانوں سے بھی ہم یہی چاہتے ہیں کہ اپنے تعصبات اور خیالات خام کو چھوڑ دیں اور تربیت اور شائستگی میں قدم بڑھائیں ۔ ……………… مولانا محمد قاسم ناتوتوی ؒ (علیگڑھ انسٹیٹیوٹ گزت مورخہ ۲۴ اپریل ۱۸۸۰ئ) افسوس ہے کہ جناب ممدوح مولانا محمد قاسم ناتوتوی نے ۱۵ اپریل ۱۸۸۰ ء کو ضیق النفس کی بیماری میںبمقام دیو بند انتقال فرمایا ۔ زمانہ بہتوں کورویا ہے اور آئندہ بھی بہتوں کو روئے گا ۔ لیکن ایسے شخص کے لیے رونا جس کے بعد اس کا کوئی جانشین نظر نہ آوے ۔ نہایت رنج و غم اور افسوس کا باعث ہوتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ دلی کے علماء میں سے بعض لوگ جیسے کہ اپنے علم و فضل اور تقویٰ اور ورع میں مصروف و مشہور تھے ۔ ایسے ہی نیک مزاجہ اور سادہ وضعی اور مسکینی میںبے مثل تھے۔ لوگوں کا خیا ل تھا کہ بعد جناب مولوی اسحاق کے کوئی شخص ان کی مثل ان تمام صفات میں پیدا ہونے والا نہیں ہے ۔ مگرمولوی محمد قاسم مرحوم نے اپنی کمال نیکی اور دینداری اور تقویٰ او رورع اور مسکینی سے ثابت کر دیا کہ اس دلی کی تعلیم و تربیت کی بدولت مولوی محمد اسحاق صاحب کی مثلل ایک اور شخص کو بھی خد ا نے پید اکیا ہے ۔ بلکہ چند باتوں میں ان سے زیادہ ہے۔ ابھی بہت سے لوگ زندہ ہیں جنہوں نے مولوی محمد قاسم صاحب کو نہایت کم عمری میں دلی میں تعلیم پاتے دیکھا ہے ۔ انہوں نے جناب مولوی مملوک علی صاحب سے تمام باتیں پڑھی تھیں۔ ابتدا ہی سے آثار تقویٰ اور ورع اور نیک بختی او ر خدا پرستی کے ان کے اوضاع اور اطوار سے نمایا ں تھے اور یہ شعر ان کے حق میں بالکل صادق تھا ؎ بالائے سرش ز ہوش مندی می تافت ستارہ بلندی زمانہ تحصیل علم میں جیسے کہ وہ ذہانت اور عالی دماغی اور فہم و فراست میں مصروف و مشہور تھے ویسے ہی نیکی اور خدا پر ستی میں بھی زبان زد اہل فضل و کمال تھے۔ ان کو جناب مولوی مظفر حسین صاحب کا ند ہلوی کی صحبت نے اتباع سنت پر بہت زیادہ راغب کر دیا تھا اور حاجی امداد اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے بہت زیادہ راغب کر دیا تھا او حاجی امداد اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے فیض صحبت نے ان کے دل کو ایک نہایت علی رتبہ کادل بنا دیا تھا۔ خود بھی پابند اور شریعت تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی پابند سنت و شریعت کرنے میں زائد از حد کوشش کرتے تھے ۔ بایں ہمہ عام مسلمانوں کی بھلائی کا ان کو خیال تھا ان ہی کی کوشش سے علوم دینیہ کی تعلیم کے لیے نہایت مفید مدرسہ دیو بند میں قائم ہوا اور ایک نہایت عمدہ مسجد بنائی گئی علاوہ اس کے اور چند مقامات میںبھی ان کی سعی اور کو شش سے مسلما نی مدرسے قائم ہوئے ۔ وہ کچھ خواہش پیر و مرشد بننے کی نہیں کرتے تھے ۔ لیکن ہندوستان میں او رخصوصا اضلاع شمال و مغرب میں ہزار ہا آدمی ان کے معتقد تھے اور ان کو اپنا پیشوا و مقتدا جانتے تھے۔ مسائل خلافیہ میں بعض لوگ ان سے ناراض تھے اور بعضوں سے وہ ناراض تھے ۔ مگرجہاں تک ہماری سمجھ ہے ہم مولوی محمد قاسم مرحوم کے کسی فعل کو خواہ کسی سے ناراضی کا ہو۔ خواہ کسی سے خوشی کا ہو۔ کس طرح ہوائے نفس یا ضد یا عداوت پر محمول نہیں کر سکتے ۔ ان کے تمام کام اور افعال جس قدر کہ تھے بلا شبہ للہیت او ر ثواب آخرت کی نظر سے تھے اور جس بات کو وہ حق او ر سچ سمجھتے تھے اس کی پیروی کرتے تھے ۔ ان کا کسی سے ناراض ہونا صرف خدا کے لیے تھا اور کسی سے خوش ہونا بھی صرف خد اکے واسطے تھا۔ کسی شخص کو مولوی محمد قاسم صاحب اپنے زاتی تعلقات کے سبب اچھا یا برا نہیں جانتے تھے ۔ مسئلہ حب اللہ اور بغض للہ خاص ان کے برتاؤ میںتھا ۔ ان کی تمام خصلتیں فرشتو ں کی سی خصلتیں تھیں۔ ہم اپنے دل سے ان کے ساتھ محبت رکھتے تھے اور ایسا شخص جس نے ایسی نیکی سے اپنی زندگی بسر کی ہو بلاشبہ نہایت محبت کے لائق ہے۔ اس زمانہ میںسب لوگ تسلیم کرتے ہوں گے کہ مولوی محمد قاسم اس دنیا میں بے مثل تھے ۔ انکا پایہ اس زمانہ میں شاید معلوماتی علم میں شاہ عبدالعزیز کے کچھ کم ہو۔ الا او رتمام باتوں میں ان سے بڑ ھ کر تھا۔ مسکینی ، نیکی اور سادہ مزاجی میںاگر ان کا پایہ مولوی اسحاق سے بڑھ کر نہ تھا تو کم بھی نہ تھا ۔ وہ درحقیقت فرشتہ سیرت اور ملکوتی خصلت کے شخص تھے اور ایسے آدمی کے وجود سے زمانے کا خالی ہوجانا ان لوگوں کے لیے جو ان کے بعد زندہ ہیں نہایت رنج اور افسوس کا باعث ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری قوم بہ نسبت اس کے کہ عملی طور پر کوئی کام کرے زبانی عقیدت اور ارادت بہت زیادہ ظاہر کرتی ہے۔ ہماری قوم کے لوگوں کایہ کام نہیں ہے کہ ایسے شخص کے دنیا سے آٹھ جانے کے بعد صرف چند کلمے حسرت اور افسوس کے کہہ کر خاموش ہوجائیں۔ یا چند آنسو آنکھ سے بہا کر اور رومال سے پونچھ کر چہرہ صاف کر لیں۔ بلکہ ان ک فرض ہے کہ ایسے شخص کی یادگار کو قائم رکھیں۔ دیوبند کا مدرسہ ان کی ایک نہایت عمدہ یادگار ہے اور سب لوگوں کا فرض ہے کہ ایسی کوشش کریں کہ وہ سارے ہمیشہ قائم اور مستقل رہے اور اس کے ذریعے سے تمام قوم کے دل پر ان کی یادگاری کا نقش جمارہے۔ (۲) مضامین ادبی علوم جدیدہ (تہذیب الاخلاق یکم ذی الحجہ ۱۲۸۸ ھ) ہماری تحریروں میں اکثر لفظ ’’ علوم جدیدہ‘‘ آتا ہے غالبا اس کی مراد میںلوگوں کو شبہ رہتا ہوگا ۔ اس لیے اس کی تفسیر کرنی مناسب معلوم ہوتی ہے۔ واضح ہو کہ علوم جدیدہ سے تین قسم کے علوم مراد ہیں: (۱) ایک وہ جو متقدمین یونانیہ اور حکمائے اسلامیہ کے زمانہ میںمطلق نہ تھے اور اب حال میں ایجاد ہوئے ہیں مثلا جیالوجی اور ایلکٹرسٹی وغیرہ۔ (۲) دوسرے وہ علوم جن کا نام تو متقدمین یونانیہ اور حکمائے اسلامیہ میں تھا مگر جن اصول پر وہ علوم مبنی تھے وہ اصول غلط ثابت ہوکر متروک ہو گئے اور اب نئے اصول قائم ہوئے۔ جن کو اصول قدیمہ سے کچھ مناسبت نہیں اور بجز اتحاد نام کے اور کچھ باقی نہیں رہا۔ مثلا علم ہیت اور کیمسٹری وغیرہ۔ (۳) تیسرے وہ علوم جو متقدمین یونانیہ اور حکمائے اسلامیہ کے زمانہ میںبھی تھے اور ان کے اصولوں میںبھی کچھ اختلاف نہیں ہوا۔ مگر اب ان کو کمال وسعت ہوگئی ہے کہ زمانہ حال میں بالکل نئے معلوم ہو تے ہیں مثلا میکنکس یعنی علم آلات جو ہمارے ہاں بلفظ علم جو تقیل مستعمل ہے اور علم حساب ، جبر و مقابلہ ہندسہ وغیرہ۔ پس ہم اپنے ناظرین پرچہ ہذا (یعنی تہذیب الاخلاق) سے امید رکھتے ہیںکہ وہ جہاں ہماری تحریر میںعلوم جدیدہ کا لفظ دیکھیں اس سے ہماری مراد ان تینوں قسموں سے کسی قسم کو یاکل کو مجموعا و منفردا تصور فرمائیں ترقی علوم (تہذیب الاخلاق بابت ۱۵ ذی قعدہ ۱۲۸۸ ھ) مسلمانوں میںترقی علوم کی ایک عجیب سلسلہ سے ہوئی ہے۔ سب سے اول بنیاد ترقی علوم کی جنگ یمامہ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت میںہوئی کہ انہوں نے زید ابن ثابت کو متعین کیا کہ قرآن مجید کو اول سے آخر تک یک جا جمع کر کر بطور ایک کتاب کے لکھ دیں چناں چہ انہوں نے لکھا جیسا کہ اب موجود ہے۔ دوسری دفعہ مسلمانوں کے علوم کو اس وقت ترقی ہوئی جب کہ لوگوں نے حدیث کو جمع کرنے کا ارادہ کیا اگرچہ اول اول لوگ ا س کو برا جانتے تھے ( اور شایدا ن کی رائے صحیح ہو) مگر دوسری صدی میں سب نے اس کی ضرورت کو قبول کے اور حدیثوں کو جمع کرنے اور حدیث کی کتابوں کے لکھنے کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ اس بات میں اختلاف ہے کہ سب سے اول کس نے اس کام کو شروع کیا بعضے کہتے ہیں کہ سب سے اول امام عبدالمالک بن عبدالعزیز ابن جریج بصری نے جنہوں نے ۱۵۵ ہجری میں وفات پائی کتاب تصنیف کی۔ او ربعضے کہتے ہیں کہ ابو نصر سعید ابن عروبہ نے جنہوں نے ۱۵۶ ہجری میں انتقال کیا ، کت اب تصنیف کی اور بعضے کہتے ہیں کہ ربیع ابن صبیح نے جو ۱۶۰ ہجری میں مر گئے سب سے اول کتاب لکھی اور اسی زمانہ کے قریب میںسفیان بن عینیہ اور مالک ابن انس کی تصنیفات مدینہ میں، اور عبداللہ ابن وھب کی تصنیفات مصر میں، او رمعمر اور عبد الرزاق کی تصانیف یمن میں اور سفیان ثوری اور محمد ابن فضیل ابن غزوان کی کوفہ میں اور حماد ابن سلمہ اور روح ابن عبادہ کی بصرہ میں اور ہشیم واسط اور عبداللہ ابن مبارک کی خراسان میں شائع ہوئیں۔ تیسری دفعہ مسلمانوں کے علوم کی ترقی اس وقت ہوئی کہ بعض لوگوں نے عقاید مذہبی میںاختلاف کیا اور فرق بدع و اہواء کا شیوع ہوا اور علم کلام میں کتابیں تصنیف ہوئی شروع ہوئیں پھر اسی علم کلام کو اور زیادہ ترقی ہو گئیں جبکہ تر دید مسائل فلسفہ یونانیہ بھی جو عقا ید اسلام کے برخلاف تھے اس میں شامل کیے گئے ۔ سب سے اول اسی علم میں حارث محاسبی نے کتاب ت صنیف کی جو حضرت امام احمد جنبلؒ کا ہمعصر تھا۔ اول اول علما ء ور انقیاء اس علم کو زندقہ و الحاد سمجھتے تھے پھر رفتہ رفتہ اس کی ایسی ضرورت معلوم ہوئی کہ فرض کفایہ تک نوبت پہنچ گئی ۔ چوتھی دفعہ مسلمانوں کے علوم کی ترقی خلفاء عباسیہ کے عہدمیں ہوئی کہ یونانیوں کے علوم یونانی زبان سے عربی میں ترجہ ہوئے اور مسلمانوں میں رائج ہوئے ۔ اول اول ان علوم پڑھنے والوں پر بھی کفر و ارتداد کے فتوے ہوئے مگر چند روز بعد یہی علوم مدار فضیلت و کمال قرارپائے۔ پانچویں دفعہ مسلمانوں کے علوم کی ترقی اس وقت ہوئی جب کہ مسلمان عالموں نے معقول و منقول کی تطیق کو ایک امر لازمی اور ضروری سمجھا اور یقین کیا کہ بغیر اس کے انسان کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ اس فن میں سب سے زیادہ کمال امام غزالی ؒ نے حاصل کیا ۔ ان کی کتاب احیا ء العلوم گویا سر چشمہ اس فن کا ہے۔ اگرچہ ابتداء میں امام غزالیؒ کی نسبت بھی کفر کے فتوے ہوئے اور ان کی کتاب ک جلا دینے کے اشتہار کیے گئے مگرآخر کو حجۃ الاسلام ان کا لقب ہو ا اور ان کی کتاب کو تمام عالم نے تسلیم کیا۔ اس کے بعد بہت کم کتابیں اس فن میں تصنیف ہوئیں مگر اخیر زمانہ میں مولانا شاہ ولی اللہ صاحب ؒ اس طرف متوجہ ہوئے اور کتاب حجۃ اللہ البالغہ لکھی جو بلحاظ اس زمانہ کے درحقیقت نہایت عمدہ اور عجیب لطیف کتاب تھ ۔ مگر اب یہ تمام وقت جن کی کہانی ہم نے بیان کی گذر گئے اور اب بڑی ضرور ت ہے کہ مسلمانوں میں دو طرح پر علوم کی ترقی ہو ۔ اول۔ جس طرح کہ قدیم یونانی فلسفہ اور حکمت ہم مسلمانوں نے حاصل کی تھی اب فلسفہ و حکمت جدیدہ کے حاصل کرنے میںترقی کریں کیونکہ علوم یونانیہ کی غلطی اب علانیہ ظاہر ہوگئی ہے او رعلوم جدیدہ نہایت عمدہ او رمستحکم بنیاد پر قائم ہوئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جس طرح علماء سابق نے معقول یونا نیہ اور منقول اسلامیہ کی مطابقت میں کوشش کی تھی اسی طرح حال کے معقول جدیدہ اور منقول اسلامیہ قدیمہ کی تطیق میں کوشش کی جاوے تاکہ جو نتائج ہم کو پہلے حاصل ہوئے تھے وہ اب بھی حاصل ہوں۔ اس کام کے کرنے میں بلاشبہ بہت سے ناداں برا کہیں گے اور زبان طعنہ دراز کریںگے مگر ہم کو اس پر کچھ خیا ل کرنا نہیں چاہیے کیونکہ جن اگلے لوگوں نے ایسا کیا تھا ان کا بھی یہی حال ہوا تھا مگر آخر کو سب لوگ اس کی قدر کریں گے ۔ …………………… علامات قرات (تہذیب الاخلاق ۵ بابت یکم رمضان ۱۲۹۱ ھ صفحہ ۱۶۵ تا ۱۶۹ ) اس مقام پر لفظ قرات سے ہماری مراد قرات مصطلحہ قرآن مجید نہیں ہے بلکہ اس کے لغوی معنی مراد ہیں۔ یعنی پڑھنے کے نشان ، انگریزی میں چند علامتیں مقرر ہیں جن کو پنگچو ئیشن کہتے ہیں۔ انگریزی عبارت میں وہ نشان ہمیشہ لگائے جاتے ہیں۔ ان کا فائدہ یہ ہے کہ عبارت کو فصیح طور پر پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ان نشانوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جملہ کہاں ختم ہوا۔ کہاں سے دوسرا مطلب شروع ہوا۔ کون سے لفظ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ، کونسے علیحدہ ہیں عبارت پڑھنے میں کس جگہ ٹھہرنا چاہیے ، کس جگہ ملا کر پڑھنا چا ہیے۔ تاکہ مطلب پڑھنے والے اور سننے والے کی سمجھ میں بخوبی آتا جاوے ۔ اس کے سوا ان نشانوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس عبارت میںکون سا جملہ معترضہہے اور کون سا استفہامیہ ؟ کون سا اقتباسیہ اور کو ن سا ندائیہ ؟ کس مقام پر مصنف نے کوئی بات تعجب انگیز لکھی ہے؟ او رکس مطلب پر مصنف نے پڑھنے والے کی زیادہ توجہ چاہی ہے ؟علیٰ ہذا القیاس اس میں کچھ شک نہیں کہ علامات قرات نہایت عمدہ چیز ہیں اور علم ادب کی ترقی کے لیے نہایت مفید ہیں۔ تمام ملکوں میںجہاں علم و فنون ، علم ادب و انشاء تہذیب اور شائستگی کی ترقی ہے ۔ ان علامت کا استعمال ہوتا ہے ۔ ہم مسلمانوں نے اپنی تحریروں میںکوئی علامتیں اس قسم کی معین نہیں کیں۔ صرف قرآن مجید میں جس کو ہم نہایت عزیز اور قابل ادب سمجھتے ہیں اور جس کی تلاوت میں ہم کو بڑا اہتمام ہے۔ یعض ایسی علامتیں جو قرات مجید سے مخصوص ہیں، مقرر کی تھیں۔ سنسکرت زبان کی تحریر میںبھی کچھ علامتیں اس قسم کی مقرر نہ تھیں لیکن اس زمانہ میںجن لوگوں نے اپنی زبان کی ترقی اور درستی کی فکر کی ہے انہوں نے اپنی اپنی تحریروں میںان علامتوں کا رواج شروع کیا ہے ۔ بنگالی زبان کی تحریر میں توبہ علامتیں نہایت خوبی سے مروج ہو گئی ہیں اور اوریا ور گجراتی اور ناگری میںبھی مروج ہوتی جاتی ہیں، مگر اردو زبان کی تحریر میں اس کابہت کم رواج ہے۔ کبھی کبھی ہم اپنے تہذیب الاخلاق میںکوئی کوئی علامت اس قسم کی لگا دیتے ہیں۔یا آگرہ اخبار کے ایک صاحب معاون اپنے آرٹیکلوں میں نہایت خوبی اور خو ش اسلوبی سے ان علا متوں کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ کم دو برس کا عرصہ ہوا ہوگا کہ جناب منشی غلام محمد صاحب متوطن بمبئی نے اس پر بہت توجہ کی اور اردو زبان کی تحریر میں بھی ان علامتوں کا مروج ہونا ضروری سمجھا اور اس باب میں ایک رسالہ ، موسو بہ ’’نجوم العلامات‘‘ تحریر فرمایا جو درحقیقت اپنی خوبی اور حسن بیا ن میں بے نظیر ہے۔ اس رسالہ میں جناب موصو نے ہر قسم کی علامتیںمقرر کی ہیں جو علامات قرات قرآن مجید سے اخذ کی گئی ہیں۔ اور اکثر حروف مفردہ تہجی باضافہ ایک لکیر مثل زیر کے ان علامتوں کے لیے مقرر کیے ہیں ۔ اور ہر ایک علامت کا بیان خوبی اور خوش بیانی او ر وضاحت سے کیا ہے۔ ہم کو جناب ممدوح کی تمام تجویزوں سے دل سے اتفاق ہے، مگر جو علامتیں انہوں نے مقرر کی ہیں ان سے بو جوہات مفصلہ ذیل ہم کو اختلاف ہے:۔ اول: ہم نہیں پسند کرتے کہ جو علامتیں مدت سے قر آن مجید کی تحریر میں مخصوص ہوگئی ہیں وہ اور تحریروں میں مروج کی جاویں اور آیت او ر مطلق جو خاص قرآن مجید کی اصلاحات ہیں۔ اور تحریروں پر بولی جاویں۔ گو شرعا وعقلا اس میں کچھ قباحت نہ ہو۔ الا تعظیما للقرآن المجید ایسا کرنا پسند نہیں کرتے ۔ دو یم: علامتیں جو حروف مفردہ پہنچی سے مقرر کی گئی ہیں وہ اردو زبان کی تحریرمیں حروف عبارت سے مشتبہ ہوجاتی ہیں اور پڑھنے میں شبہ پڑتا ہے کہ وہ حرف بھی منجملہ حروف عبارت ہے،اس لیے ضرور ہے کہ علامات مذکورہ صرف نقوس ہوں، حروف نہ ہوں۔ سویم: علامات مذکورہ ایسی ہونی چاہیئں کہ جو پتھر اور ٹیپ (ٹائپ) دونوں قسم کے چھاپہ میںمستمل ہو سکیں۔ پس اگر ہم ایسی علامتیں مقرر کریں جو ٹیپ (ٹائپ) میںبنی ہوئی مروج ن ہ ہوں تو بالفعل ہم کو نہایت مشکل پڑے گی اور کسی طرح ہم کو نہ ان علامتوں کا ہاتھ آنا میسر ہوگا نہ ان کو بتا سکیں گے؟ اس لیے نہایت مناسب ہے کہ جو علامتیں انگریزی میںمروج ہیں وہی ہم اردو تحریر میںبھی اختیار کریں ، ان علامتوں کا ٹیپ (ٹائپ) ہر قسم کا بنا ہو ادستیاب ہوتا ہے ۔ پ تھر کے چھاپہ میں نہایت آسانی سے تحریر میں آسکتی ہیں او ران کی شکل ایسی ہے کہ کسی حرف کے ساتھ مشابہ نہیں ہے ۔ صرف ایک علامت ہے جو حرف واؤ کے مشابہ ہے ۔ لیکن اس کو الٹ دینے سے وہ التباس بالکل زایل ہوجاتا ہے۔ ہمارا ارادہ ہے کہ ہم تہذیب الاخلاق میں ان علامتوں کا رواج دیں۔اگر اور لوگ بھی اس کو پسند کریں گے تو امید ہے کہ اردو زبان میںبھی اس کا رواج ہوجاوے گا ۔ اب ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ جناب منشی غلام محمد صاحب کے رسالہ کی خوشہ چینی سے ان علامتوں کا ا س مقام پر کچھ بیان کریں۔ مفصلہ ذیل علامتیں ہیں جو اردو زبان کی تحریر میں مسعتمل ہو سکتی ہیں (،)کاما یعنی علامت سکتہ ۔ انگریزی میں اسکی یہ شکل ہے (،) حرف مگر یہ ۔ واؤ کے مشابہ تھا اس لیے اس کو الٹ دیا تاکہ مفرد تہجی سے مشا بہت نہ رہے۔ (؛) سمیکولن یعنی علامت سکون۔ انگریزی میں اس کی صورت یوں (؛) ہے ۔ اس کو بھی الٹ دیا ہے ۔ (:) کولن یعنی علامت وقفہ۔ جہاں علامت سکتہ ہو اس لفظ پر پڑھنے میں ذرا ٹھہرنا چاہیے۔ اور جہاں علامت سکون ہو وہاں ذرا اس سے زیادہ اور جہاں علامت وقفہ ہو وہاں ذرا اس سے بھی زیادہ۔ () فل سٹاپ یعنی علامت وقفہ کامل ۔ یہ علامت اس بات کی ہے کہ یہاں فقرہ پورا ہوگیا ۔ (؟) نوٹ آف اکسکلا میشن یعنی علامت تعجب و حیرت و فرحت۔ اگر یہی نشان برابر دو (!!) کر دیے جاویں یا تین (!!!) کر دیے جاویں تو زیادہ تعجب و حیرت یا مسرت پر دلالت کرتے ہیں۔ (۔) ہائی فن یعنی علامت ترکیب ۔ (۔) ڈیش یعنی خط یا لکیر۔ ( ) پرنتھسز یعنی علامت جملہ معترضہ۔ () کوٹیشن ۔ یعنی علامت اقتباس ، انگریزی تحریر میںیہ علامت اس طرح پر لکھی جاتی ہے ۔ ( ) مگرہم نے دونوں کو الٹا رہنے دیا ہے ۔ لفظوں کے اوپر لکیر کر دینا ۔ یہ قدیم علامت نقل یا اقتباس کی ہے : جیسے کہ شرح میں متن کی عبارت پر لکیر کر دی جاتی ہے۔ ( ) انڈر لائن یعنی علامت توجہ ۔ جن لفظوں کے نیچے لکیر کر دی جاتی ہے۔ وہ اس بات کا نشان ہے کہ بڑھنے والااس پر زیادہ توجہ کرے۔ (*ـ''#+) اسٹار یعنی نجم ۔ کسی جملہ یا عبارت منقولہ کے بیچ میں دو یاتین نجم لگا دینا اس بات کا نشان ہے کہ ا س مقام پر سے کچھ لفظ یا عبارت جو مطلب سے متعلق نہ تھا یا ا سکی نقل ضروری نہ تھی چھو ڑ دی گئی ہے ۔، اور ایک نجم علامت حاشیہ کی ہے ۔ ( ) ان میں سے ہر ایک حاشیہ کی علامت ہے علامت سکتہ اس علامت سے جملہ کے ایسے حصے علیحدہ علیحدہ معلوم ہوتے ہیں جو مطلب میںتوملے ہوئے ہیں مگر پڑھنے میں ان مقاموں پر ذرا سکتہ کر کر پڑھنا چا ہیے۔ ۱۔ جب کسی مفرد جملہ میں مبتدا اور خبر مرکب ہوں۔ تو ان کے بیچ میںعلامت سکتہ لگا نی چا ہیے۔ مثال: کسی چیز کی طرف مستقل اور پوری توجہ ، اعلیٰ طبیعت کی نشانی ہے۔ ۲۔ جملہ مرکبہ کے اجزا ء مفردہ بذریعہ علامت سکتہ علیحدہ کرنے چاہییں ۔ تاکہ پڑھنے میں الگ الگ پڑھے جاویں۔ مثال: جب اچھائی نہیں ر ہتی ۔ تو لوگوں کی توجہ بھی نہیں رہتی۔ بہادروں نے جب دشمنوں کا حال سنا۔ تو ان پر نہایت دلیری سے حملہ کیا ۔ مگرجب جملہ کے اجزاء ایسے ہوں کہ خود انہی سے ان میں ترکیب پائی جاتی ہو۔ تو وہاں سکتہ کا لگانا کچھ ضرور نہیںہے۔ مثال: خود ہمارا دل ہم کو بتاتا ہے کہ اصلی نیکی کیا ہے۔ ۳۔ معطوف و معطوف علیہ میں جب حرف عطف موجود ہو۔ تو وہاں بھی علامت سکتہ لگانی ضرور نہیں۔ مثال: زمین اور چاند دونوں سیارے ہیں۔ عقلمند آدمی وقت کی قدر کرتا ہے او ر اس کو ضائع نہیں کرتا ۔ کامیابی اکثر ہوشیاری او رہمت سے کام کرنے پر منحصر ہوتی ہے ۔ مگر جب معطوف و معطوف علیہ میں حرف عطف موجود نہ ہو، تو وہاں علامت سکتہ لگا نی ضرور ہے۔ مثال: عقل ، ہوش ، علم ، ہنر سب وقت پر کام آتے ہیں۔ وہ تو سیدھا ، سادھا ایمان دار ، آدمی ہے۔ مستثنی اور مستثنی منہ کے درمیان میںبھی علامت سکتہ کا لگانا ضرور ہے۔ مثال: وہ شخص ایماندار ہے، مگر سست۔ بہت بڑا عا لم ہے۔ مگر بے عمل ۔ پر ہیز گار ہے ، مگر ظاہری باتو ں میں۔ جب متعدد صفتیں کسی اسم کی بغیر حرف عطف کے بیان کی جاویں تووہاں علامت سکتہ لگا نی ضرو ر ہے۔ مثال: زید نہایت دانا ، ہشیار ، عالم، فاضل ہے ۔ مگر جب دو یا دو سے زیادہ ایسی بیان ک ی جاویں کہ ایک صفت دوسری صفت کی تشریح کرتی ہو۔ تو ان میں علامت سکتہ لگانی نہیں چا ہیے۔ مثال: بھوراسیاہی کپڑا۔ ہلکا زردی مائل سبز رنگ۔ اگر حرف عطف موجود ہو۔ مگر جملہ کے اجزا لمبے لمبے ہوں، تو بھی ان میں علامت سکتہ لگانی چا ہیے۔ مثال: بے اعتدالی ہمارے جسم کی قوت کو ضائع کرتی ہے۔ اور ہمارے دل کی جرات کو۔ ۴۔ جب کہ تین یاتین سے زیادہ الفاظ ایک ہی جزو کلام میںہوں۔ او راس میں صرف عطف ہو خواہ نہ ہو ۔ ان لفظوں کے اخیر میںبھی۔ سوائے اس لفظ کے جو سب سے اخیر ہو۔ علامت سکتہ لگانی چا ہیے، لیکن اگر ہو اخیر کا لفظ اسم ہو تو اس کے بعد بھی علامت سکتہ ہونی چا ہیے۔ مثال : نظم ، موسیقی ، مصوری ، عمدہ ہنر ہیں۔ خورم ایک دلیر ، دانا ، اور دو ر اندیش شہزاد ہ تھا۔ جبکہ جملہ میں دو دو لفظ ساتھ ساتھ ہوں، تو ہر دو کے بعد علامت سکتہ ہونی چا ہیے۔ مثال: بے بندوبستی اور بد انتظامی ، مفلسی اور محتاجی، تکلیف او رمصیبت ، ویرانی و بربادی ، آپس کی نااتفاقیوں کا نتیجہ ہے۔ ۵۔ جملہ ندائیہ کے بعد بھی علامت سکتہ ہونی چا ہیے۔ مثال: میرے پیارے ، میری بات سن۔ او جانے والے ، ادھر ہوتا جا۔ جاگنے والو، جاگتے رہیو ۔ ۶۔ جملہ بیانیہ فقرہ مفرد کے شروع میں ہو ۔ خواہ پیچ میں ، خواہ اخیر میں، اس کے ساتھ بھی علامت سکتہ ہونی چاہیے۔ مثال: ان کی نیکی ، احسان مندی سے ، مجھے یاد ہے ۔ ان کی نیکی مجھے یاد ہے ۔ نہایت احسان مندی سے ۔ احسان مندی سے ۔ ان کی نیکی مجھے یاد ہے۔ ۷۔ جب کہ کسی جملہ میں دو اسم آویں۔ اور پچھلا اسم ، مع اپنے متعلقات کے۔ اسی شخص یا چیز پر دلالت کرے جس پر پہلا اسم دلالت کرتا ہے۔ تو ان کے درمیان میںبھی علامت سکتہ لگانی چاہیے ۔ مثال: احمد ، خیر خواہ معا ندان۔ مگر جب کئی لفظ مل کر ایک مرکب بنے۔ تو ان لفظوں کے درمیان میں علامت سکتہ نہ ہو نی چاہیے ۔ مثال: وہ جو خم کر پھر سیدھی ہو جاوے ۔ اصل تلوار ہے۔ مگر جبکہ اسماء موصولہ اسم کے ساتھ ملے ہوئے ہوں ، تو ا س وقت ان کے پہلے علامت سکتہ کا لگانا ضرور نہیں۔ مثال: جو تلوار خم ہو کر سیدھی ہو جاوے، اصیل ہے ۹۔ جب کسی جملہ کی ترکیب الٹ دی جاوے تو اس کے بیچ میں علامت سکتہ لگانی چا ہیے۔ مثال۔ خدا کے نزدیک کوئی چیز مشکل نہیں ہے ۔ اس مثال میں علامت سکتہ کی ضرورت نہیں ہے مگر جب اس کی ترکیب الٹ دو تو علامت سکتہ کی ضرورت ہوگی ۔ مثلا ۔ کوئی چیز مشکل نہیںہے ، خدا کے نزدیک ۔ ۱۰۔ جب کوئی فعل محذوف ہو، تو وہاں علامت سکتہ لگانی چا ہیے۔ مثال: پڑھنے سے آدمی پورا انسان ہوتا ہے؛ او راچھی گفتگو سے ، لائق ؛ او رلکھنے سے ، قابل۔ ۱۱۔ کاف بیانیہ یا تردیدیہ کے پہلے علامت سکتہ لگانی چاہیے۔ مثال: ذولفقار خاں آویںگے ، کہ نہیں ۔ نیک ہو ، تاکہ خوش رہو۔ علامت سکون یہ علامت فقرہ کے ایسے اجزا علیحدہ کرنے کو لگا ئی جاتی ہے جو، بہ نسبت ان اجزاء کے جن میں علامت سکتہ لگا تے ہیں، آپس میں کم مناسبت رکھتے ہیں۔ ۱۔ جب کہ پہلا حصہ فقرہ کا پورا کلام ہو۔ مگر اس کے بعد کا حصہ ایسا ہو کہ اس سے کوئی نتیجہ پایا جاوے ، یا پہلے حصہ کا مطلب بتا وے ، تو ان میں بھی علامت سکون لگانی چا ہیے۔ مثال: ایمانداری سے اپنا کام کرو: کیونکہ اس سے تمہاری عاقبت سنورے گی ۔ ۳۔ جب کئی چھوٹے چھوٹے جملے ایک دوسرے کے بعد آویں، اور باہم ان کے کچھ ضروری مناسبت نہ ہو، تو ان میں بھی علامت سکون لگانی چا ہیے۔ مثال: ہر چیز پرانی ہوتی ہے؛ وقت گذر جاتا ہے ؛ ہر چیز فنا ہو نے والی ہے۔ ۳۔ جب کسی فقرہ میںکچھ تفصیل ہو، تو اس کے اجزاء علامت سکون سے الگ کرنے چاہئیں۔ مثال: حکیموں کا قول ہے کہ نیچر کے بے انتہا کام ہیں؛ اس کا خزانہ معمور ہے ؛ علم ہمیشہ ترقی پر ہے ؛ اور آئندہ نسل کے لوگ ایسی باتیں دریافت کریں گے ، جو ہمارے وہم و گمان میںبھی نہیں ۔ علامت وقفہ اس علامت سے فقرہ کو دو یا زیادہ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جو حصے علامت سکون سے علیحدہ کیے جاتے ہیں ، بہ نسبت ان کے ان حصوں میںجو علامت وقفہ سے علیحدہ ہوتے ہیں، اور بھی کم مناسبت ہوتی ہے۔ مگر ایسی بھی نہیںہوتی کہ ان پر مطلب ختم ہو گیا ہو۔ ۱۔ جب کوئی جزو فقر ہ کا اپنی ترکیب او رمعنی بتانے میں پورا ہو، مگر اس کے بعد کا جملہ بیانیہ ہو، تو ایسی جگہ علامت وقفہ لگانی چاہیے۔ مثال: غور کرنے کی عادت ڈالو: کہ اس سے زیادہ عمدہ کوئی تعلیم نہیں۔ ۲۔ جب کہ ایک فقرہ کے کئی جملے علامت سکون سے علیحدہ کیے جاویں۔ او ران کا نتیجہ ان فقروں پر منحصر ہو، تو اخیر فقرہ سے پہلے علامت وقفہ لگاننی چا ہیے۔ مثال: نیکی سے خدا خوش ہوتا ہے : برے کاموں سے خدا ناراض ہوتا ہے؛ نیکوں کو عاقبت میںجزا دے گا ؛ بدکاروں کو قیامت کے دن سزا دے گا ؛ یہ ایسے خیالات ہیں کہ دنیا کو خو ف و رجا میںرکھتے ہیں ، نیکی پر رغبت دلاتے ہیں، گناہوں سے باز رکھتے ہیں۔ علامتِ وقفہ کامل ۱۔جب کوئی مفر د جملہ چھوٹا ہو، تو اس کے اخیر میںعلامت کامل لگانی چاہیے۔ مثال۔زندگی کی کوئی حالت تکلیف سے خالی نہیں۔ ۲۔ جب کوئی فقرہ ترتیب معانی میں پورا ہوجاوے ، تو وہاں بھی علامت وقفہ کامل لگانی چا ہیے۔ مثال ۔ ناامیدی سے ۔ اور آزمائش میں پڑنے سے ہمارے دلوں کا جوش کم ہو جاتا ہے۔ ۳۔ جب کسی لفظ کر اختصار کرکر لکھیں، تو اس کے بعدبھی علامت وقفہ کامل لگانی چاہیے۔ مثال۔ الخ جو اختصار ہے الہی آخرہ کا تکلف ۔ جو اختصار ہے ہذا خلف کا ۔ بی ۔ اے ۔ جو اختصار ہے بیچرل آف آرٹ کا ۔ ایم ۔ اے جو اختصار ہے ماسٹر آف آرٹ کا۔ سی ۔ ایس ۔آء ۔ جو اختصار ہے کمپینین آف دی آرڈر آف دی سٹار آف انڈیا کا۔ علامتِ استفہام یاسوال یہ علامت ایسے فقرہ کے اخیر میںلگائی جاتی ہے جس میں کوئی بات پوچھی گئی ہو۔ مثال ۔ تم اپنے کام سے کیوں غفلت کرتے ہو؟ آپ کا مزاج کس طرح ہے؟ کیا ہم نے تم سے نہیں کہا تھا ؟ علامتِ تعجب جبکہ فقرہ میںکوئی ایسا کلمہ جس سے دفعتا جوش ، یامسرت ، یاخوف یا تعجب وغیرہ پیدا ہوتا ہو، و اس کے اخیر میںیہ علامت لگائی جاتی ہے۔ مثال۔ او ازلی و ابدی خدا! او خوش کرنے والے اور خوف دلانے والے خیال! میںنے شیخ کلو سے پوچھا کہ تم کون ہو، اس نے کہا کہ گیدڑ !! علامت ترکیب جب دو لفظ مرکب کیے جاویں تو ان کے درمیان میںیہ علامت لگا دیتے ہیں، تاکہ کوئی انکو جدا جدا نہ سمجھے ۔ مثال۔ کتب ، خانہ ، شراب ، خانہ ، فیل ، خانہ منشی ، خانہ ۔ خط یا لکیر کبھی تو اس خط سے یہ مقصود ہونا ہے کہ ایک لفظ سے دوسرے لفظ میںفرق ہو جاوے ، اور کھ مطلب نہیں ہوتا ؛ مگر دراصل اس کا استعمال ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں دفعتا فقرہ ٹوٹ جا تا ہے ، یا دفعتا خیال پھر جاتا ہے ۔ مثال۔ خد انے کہا ، کیا؟ ، اے زمین نگل جا اپنا پانی ؛ او راے آسمان تھم جا برسنے سے ۔ کبھی اس علامت کا استعمال بطور کنابہ کسی محذوف لفظ کے ساتھ ہوتا ہے۔ مثال۔ وہ تو ۔۔ سے بھی بدتر ہے ، یعنی وہ تو شیطان سے بھی بد تر ہے ۔ میں جاتا تھا۔۔۔ مجھ سے ملا۔ اس مقام پر کسی ایسے شخص سے کنایہ ہے ۔ کہ جس کو پڑھنے والا جانتا ہے ، یا لکھنے والے کو اسکا نام ظاہر کرنا مقصود نہیں ہے ۔ علامت جملہ معترضہ جب کسی فقرہ میں کوئی جملہ معترضہ آجاوے ، تو اس جملہ معترضہ کے شروع و اخیر میںیہ علامت لگانی چا ہیے۔ جس سے معلوم ہو کہ وہ ایک علیحدہ جملہ ہے جو مطلب کے بیچ میں آگیا ہے۔ مثال ۔ اس بات کو بخوبی جان لو ( اور تم کو اتنا ہی جاننا کافی ہے ) کہ انسان کے لیے صرف نیکی ہی اصلی خوشی ہے۔ علامت اقتباس یا نقل جبکہ تحریر میںکسی دو سرے کا قو ل آجاوے ، تو اس کے اول اور آخر میں علامت لگا دینی چا ہیے۔ مثال۔ باغ کی تعریف اس سے بہتر نہیں ہوسکتی ۔ تو گوی خوردہ مینا برخاکش ریختہ و عقد ثریا بتاکش آویختہ۔‘‘ جب تک آدمی خود اپنا کام آپ نہ کرے ، بخوبی کام نہیں ہو تا: مشہور قول ہے کہ ’’ آپ کام مہا کام‘‘۔ رسول خدا صلعم نے فرمایا کہ ’’عمل نیت پر منحصر ہیں‘‘ حدیث کے یہ لفظ ’’ الما الاعمال بالنیات۔‘‘ علامت توجہ جس لفظ یا عبارت کے نیچے لکیر کی جاتی ہے ا سکا یہ مطلب ہے کہ اس پر زیادہ توجہ درکار ہے۔ مثال۔ ذولفقار خاں کشتی پر جاتے تھے ۔ کتاب ہاتھ میں تھی ، نادانی سے گرپڑی ، اور ڈوب گئی۔ علامت نجم اس بات کی نشانی ہے کہ نقل کرنے میں بیچ میں سے غیر ضروری عبارت چھوڑ دی گئی ہے۔ مثال۔ ’’ شبے تامل ایام گذشتہ میکردم ، وبر عمر تلف کردہ تاسف میخوردم ، و سنگ لاخہ دل را بالماس آب دیدہ می سفتم *** تا یکے از دوستان کہ در کنجاوہ غم انیس من بود، و در حجرہ ہم جلیس ، برسم قدیم از در در آمد ۔ ‘‘ علامت حاشیہ شخصے نزد فقیہے آمد و پرسید کہ آں کدام زن * مجوسی بود، کہ د خترش ، راگرگاں خوردہ بودند ؟ فقیہہ جواب داد، کہ بابا تو تمامتر غلط گفتی ، من کدام کدام غلط ترا صحیح کنم از پیش من برو۔ آں زن نہ بود بلکہ مرد بود۔ مجوسی نبود بلکہ حضرت یعقوب نبی نبی اسرائیل بودند۔ دختر نہ بود بلکہ پسربود۔ گرگاں نخو ردہ بلکہ برادرانش غلط گفتہ بودند۔ نمونہ لغت زبان اردو ادب اردو کی جو خدمات سر سید کے پیش نظر تھیں ان میں سے دو چیزیں بہت اہم تھیں۔ (۱) ایک ایسی مفصل فہرست مرتب کرنی جس میں ان تمام کتابوں کی تفصیلات ہوں جو ابتدا سے سر سید کے وقت تک اردو میںچھپیں ۔ عنوانات کے نام سر سید نے یہ تجویز کیے تھے ۔ نام کتاب ، نام مصنف یا مولف یا مترجب ۔ سنہ تصنیف ۔ کتاب کا اسلوب بیان مختلف مقامات سے کتاب کے نمونے او ربعض مضامین کا خلاصہ ، افسوس دوسری قو می مصروفیات میںبری طرح منہمک ہونے کے باعث اس کتاب کے لکھنے کا موقع سر سید کو نہ ملا، ورنہ ادب اردو کی تار یخ بے نظیر چیز ہوتی ۔ (۲) ایک مفصل اور محققانہ اردو و لغت جس میں ہر لفظ کے متعلق بتایا جاتا کہ وہ اسم ہے یا صفت، ظرف مکا ن ہے یا ظرف زمان، مونث ہے یا مذکر ، ضمیر ہے یا فعل ، اگر فعل ہے تو لازم ہے یا متعدی ۔ الفاظ اور محاورات کی سند میں مشہور اساتذہ کے اشعار بھی اس میں درج کیے جاتے۔ الفاظ کے معنوں کے ساتھ ان کی تفصیل اور تشریح بھی اس کتاب میںسر سید کا دینے کا ارادہ تھا مگر افسوس یہ کت اب بھی سر سید مکمل نہ لکھ سکے ۔ البتہ اس کے چند ابتدائی صفحات بطور نمونہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میںچھپے جو ہم مولوی عبدالحق کی کتاب ’’ سر سید احمد خاں‘‘ سے لے کر یہاںک درج کرتے ہیں۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کا وہ پرچہ جس میں اردو لغات کا یہ نمونہ شائع ہواتھا ہمیں نہیں ملا۔ اس سلسلہ میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب سر سید احمد خاں نے اس لغت کا ابتدائی حصہ تیار کیا تو نمونہ کے طور پر ۴ صفحات اردو زبان کے مشہور و معروف مستشرق پروفیسر گارسن ڈٹاسی کو مشورہ کے لیے پیرس بھیجے ۔ سر سید نے جدید لغت کا انگریزی نام تجویز کیا تھا مگر ڈٹاسی نے سر سید صاحب کے مشورہ دیا کہ اس ڈکشنری کا نام ’’لغت زبان اردو‘‘ رکھو چنانچہ ڈٹاسی اپنی ایک تقریر میںکہتا ہے : ’’سر سید احمد خاں کی اردو لغت کے چار صفحات میرے پاس نمونے کے طور پر بھیجے گئے ہیں۔ موصوف نے میری رائے کے مطابق اس ڈکشنری کا نام (پرانا یورپین نام ترک کر کے ) ’’لغت زبان اردو ‘‘ رکھا ہے ۔‘‘ اس کے علاوہ اس لغت کے متعلق سر سید کو ڈٹاسی نے دو مشورے اور دیے تھے۔ ایک تویہ کہ ٹائپ کے حروف بہت چھوٹے اور باریک ہیںجو لغت کے لیے موزوں نہیں۔ ٹائپ نسبتا ذر ا موٹا ہونا چا ہیے۔ دوسرے یہ کہ لغت میں الفاظ کے ماخذ بھی بیان ہونے چاہیںیعنی ہر لفظ کے متعلق یہ بتایا جائے کہ یہ کس زبان سے آیا ۔ اس کی اصل کا تھی ؟ اردو میں اس لفظ کا مفہوم کیا تھا اردو میں منتقل ہو کر کیا مفہوم ہوگیا۔ (سوانح عمری گارسن ڈٹاسی مولفہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور ایم اے صفحہ ۶ ) ڈٹاسی نے اس لغت کے متعلق اپنی جو رائے ظاہر کی تھی وہ ہم اس مضمون کے آخر میںپوری نقل کررہے ہیں۔ اگر سر سید اس جدید اورعجیب لغت کوپورا لکھ سکتے تو یہ ان کی ادبی تالیفات میں بہترین ہوتی مگر افسوس وہ اسے مکمل نہ لکھ سکے ۔ مگرآنے والے ادیبوں کے لیے ایسا نمونہ ضرور چھوڑ گئے ہیں جسے سامنے رکھ کر اردو کی بہتر سے بہتر لغت تیار ہو سکتی ہے۔ اب وہ نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی ) الفاظ کے اختصار کے لیے جو حروف مفرد معین کیے گئے ہیں ان کی تشریح سم ۔ س مذکر ۔ م مونث ۔ث مصدر ۔ صد لازم ۔ لا متعدی ۔ مت صفت ۔ ص مفرد۔ د جمع۔ ج لفظ خطاب ۔ لا ۔ خ ضمیر متکلم ۔ ض۔ م ضمیر حاضر ۔ ض۔ ح ضمیر غائب ۔ ض۔ غ ضمہ اور کسرہ اور واؤ اور یائے معروف ف ضمہ اور کسرہ اور واؤ اور یائے مجہول ل ظرف زمان۔ ظ۔ ز ظرف مکان ۔ ظ۔ م الف۔ ب الف: س ۔ م پہلا حرف حروف تہجی کا۔ بمعنی نفی مثلا اکارت ۔ یعنی بیکار۔ الونا ۔ بے نمک۔ اکال۔ عدم قحط ۔ مگر پچھلے دونوںلفظ بہت کم بولے جاتے ہیں۔ آب: س ۔ م پانی یعنی ایک رقیق سیا ل جسم جو بادلوں سے برستا ہے اور دریاؤں اور چشموں اور سوتوں میں اکٹھا ہوتا ہے۔ آب دار : س ۔ م وہ شخص یا وہ عورت جس کے ذمہ پینے آب دارانی: س۔ ث کے پانی کا انتظام ہو۔ آب دار خانہ ۔ س۔ م وہ مکان جس میں آب دار پانی رہتا ہے۔ آب خورہ۔ س۔ م ۔ ایک خاص صورت کا چھوٹے منہ کامٹی کا برتن جس سے پانی پیا جاتا ہے اگر اس صورت کا برتن اور کسی چیز کا ہو تو اس چیز کا نام لینا چا ہیے مثلا تانبے کا آب خورہ۔ پیتل کا آب خورہ۔ چاندی کا آب خورہ۔ آب حیات۔ س ۔ م (۱) وہ پانی جس کاذکر کہانیوں میں ہے کہ جس کے پینے کے بعد موت نہیںآتی ۔ (۲) بادشاہوں اور امیروں کے پینے کا پانی جو نیک فال سمجھ کر لیا جاتا ہے۔ آب خاصہ۔ س ۔ م خاص بادشاہوں اور امیروں کے پینے کاپانی۔ الف ۔ ب آب حیواں: س۔ م ۔ آب حیات ۔ذوق ’’جو لذت آشنائے مرگ ہوتا خضر تو ہر گز نہ پیتا آب حیوان ڈوب مرتا آب حیواں میں‘‘ آب شور : س۔ م (۱) سمندر (۲) کھاری پانی ۔ آب شورہ: س۔ م (۱) مٹھاس گھول کر لیموں نچوڑا ہواپانی ۔ (۲) شورہ کاٹھنڈا کیاہوا پانی۔ آ ب بقا : س ۔ م (۱) آب حیواں (ذوق ) ’’ کہانیاں ہیں حکایات خضر و آب بقا بقا کا ذکر ہی کیا اس جہان فانی میں‘‘ (۲) حیات ابدی جو دوسری زندگی میں ہوتی ہے۔ آب پاش: س ۔ م باغ میں کھیتوں میں کنوئیں سے یا نہر یا تالاب سے پانی دیتا۔ آبی : ص (۱) جو چیز پانی سے علاقہ رکھے۔ (۲) پانی کے رنگ کے مانند یعنی ہلکا نیلا رنگ ۔ آبی روٹی: س ۔ ث ۔ ایک قسم کی خمیری تنوری روٹی جس میں صرف پانی پڑا ہو۔ دودھ اور گھی نہ پڑا ہو۔ آب : س ۔ث (۱) صفائی اور براقی مثلا موتی کی آب ۔ (۲) رونق و چمک مثلا کپڑے کی آب کھانے کی آب۔ (۳) کاٹنے ولاے ہتیار کے لوہے کی چمک اور سختی اور تیزی مثلا تلوار کی آب۔ آب دار : ص (۱) رونق دار مثلا آب دار سالن۔ آب دار کپڑا ۔ (۲) صاف اور براق مثلا آب دارموتی ۔ (۳) سخت اورتیز مثلا آب دار تلوار۔ الف ۔ب آب داری : س ۔ث یعنی آب موتی کی ۔ کپڑے کی۔ کھانے کی ،تلوار کی آب داری ۔ آب کار: س ۔ م۔ کلال یعنی شرابک بنانے یا بیچنے والا۔ آب کاری: س ۔ب ۔ ث شراب یا او ر نشے کی چیزوں کے بنانے اور بیچنے کا پیشہ۔ آباد : س (۱) بسا ہوا۔ دلی آباد ہے یعنی بسی ہوئی ہے۔ شہر آباد ہے یعنی بسا ہوا ہے ۔ گھر آبادیعنی بسا ہوا ہے اور اس میں لوگ رہتے ہے (درد) ’’بستے ہیں تیرے سایہ میں سب شیخ و برہمن آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دیر و حرم کا‘‘ (۲) بسایا ہوا جب کہ فاعل سے مرکب ہو مثلا شاہ جہاں آباد یعنی شاہ جہاں کا بسایا ہوا۔ (۳) دعائیہ مثلا آباد رہو یعنی مال و دولت ۔ گھر بار اولاد سے بھرپور رہو۔ خانہ آباد ۔ دولت زیادہ خانہ آباد (درد) ’’کون سا دل ہے وہ کہ جس میں آہ خانہ آباد تو نے گھر نہ کیا ‘‘ آبادی: س ۔ ث (۱) بستی یعنی وہ جگہ جہاں لو گ جمع ہو کر رہتے ہیں۔ ج ۔ آبادیاں ، آبادیوں۔ (۲) فعل ایک جگہ رہنے کا مثلا دلی میں آبادی ہوتی جاتی ہے۔ آباد ہونا: صد ۔ لا بسنا یعنی ایک جگہ جمع ہوکر رہنا ۔ آباد کرنا: مت ۔ بسانا ۔ آباد کروانا ۔ مت مت ۔ بسوانا ۔ گھر کا آباد ہونا۔ لوگوں کا اس میں رہنا ۔ دل کا آباد الف ۔ ب ہونا طمانیت سے ہونا۔ باغ کا آباد ہونا۔ سر سبز و شاداب ہونا۔ مسجد کا آباد ہونا۔ آراستہ رہنا اور کثرت سے نمازیوں کانماز پڑھنے کو آنا۔ آب تاب: س۔ ث ۔ رونق ۔ شان ۔ شوکت ۔ محسوس چیزوں پر بھی بولا جاتا ہے مثلا نہایت آب و تاب سے فوج آراستہ ہے۔ غیر محسوس پر بھی بولا جاتا ہے مثلا نہایت آب و تاب کی گفتگو کی۔ آب رو: سن ۔ث۔ عزت یعنی ادب اور تعظیم کے مستحق ہونے کا خیال۔ آب رو ریزی: س ۔ ث ۔ بے عزتی کرنا یعنی وہ فعل جو ادب اور تعظیم کے استحقاق کے بر خلاف ہو۔ آبائی : ص ۔ موروثی ۔ باپ دادا سے پہنچی ہوئی مگر بہت کم بولا جاتا ہے۔ آبگینہ: س ۔ م ۔ شیشہ ۔ کانچ کا ظرف جو ایک صورت پر نہایت باریک بنایا گیاہوتا ہے۔ پیٹ بڑا اور چپٹا اورگردن پتلی ۔ گفتگو میںکبھی یہ لفظ نہیںبولا جاتا۔ صرف اشعار میںآتا ہے۔ آبلہ : س ۔ م۔ پھپھولا ۔ آدمی کے بدن پر جو گول برجی دار دانہ اٹھ آتا ہے ۔ اور جس میں صرف سفید ساپانی بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ج۔ آبلے ، جب کہ فعل لازمی کے ساتھ ہو مثلا آبلے پڑ گئے۔ آبلوں جب کہ مضاف ہو یا فعل متعدی کے ساتھ ہو مثلا آبلوں کا پھوٹنا (غالب) ’’اہل تدبیر کی وا ماندگیاں آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں‘‘ الف ۔ ب آب نوس: س ۔ م ۔ ایک قسم کا درخت جس کی لکڑی نہایت سیاہ اور وزن ی ہوتی ہے۔ آبنائے: س ۔ ث پانی کا گلیارا یعنی پانی کا کم عرض راستہ جس سے ایک بڑا سمندر دوسرے بڑے سمندر سے مل جاوے۔ آب نے : س ۔ ث حقہ کی نے جو پانی میں کھڑی رہتی ہے۔ آبدست : س۔ ث ۔ پاخانہل پھرنے کے بعد پانی سے دھونا۔ الف ۔ پ آپ: ل : خ (۱) اگر مخاطب بزرگ اور قابل تعظیم و ادب ہو تو اس لفظ سے مخاطب کیا جاتا ہے (غالب ) ’’بے نیازی حد سے گرزی بندہ پرور کب تلک ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا ‘‘ (۲) اس لفظ سے مساوی درجہ کے مخاطب کو بلکہ اپنے سے کم درجہ کے مخاطب کو بھی خطاب کیاجاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جب مخاطب بزرگ اور قابل ادب ہوتو اس کے ساتھ تعظیم کے اور لفظ بھی بولے جاتے ہیں اور وہ لفظ نہیں بولے جاتے۔ مثلا آپ جو فرماویں وہی ٹھیک ہے۔ آپ جوو کہیں وہی ٹھیک ہے۔ مساوی درجہ کے ایسے شخصوں میں جن میں دوستی اور ارتباط کم ہے اکثر اس لفظ سے خطاب کیاجاتا ہے۔ الف۔ پ (۳)کبھی کم درجہ کے ایسے مخاطب کو جو اس خطاب کے لائق نہیں ہے بطور طنز کے اس لفظ سے خطاب کرتے ہیں۔ کبھی اس خطاب کے لائق مخاطب کو طنزا اس سے خطاب کیاجاتا ہے اور الفاظ مابعد اور نہجہ تلفظ اس پر دلالت کرتاہے مثلا آپ بھی خوب ہیں۔ آپ: س ۔ بمعنی خود ۔ بجائے ذات اور نفس کے بولا جاتا ہے اور تاکید کا فائدہ دیتا ہے مثلا میں آپ جاؤنگا ۔ وہ آ پ گیا تھا۔ تم آپ جاؤ۔ آپ ہی آپ : خود بخود۔ یعنی اپنی ہی ذات سے بغیر دوسرے سبب کے مثلا آپ ہی آپ خفا ہوتے ہو۔ خد ا آپ ہی آپ موجود ہے۔ یہ کام آپ سے آپ ہو جاوے۔ آپ میں آنا: ص۔ ہوش میں آنا۔ آپ میں نہ ہونا: ص ۔ ہوش نہ ہونا (مومن) ’’ہم تا سحر آپ میںنہیں تھے کیا جانے رہے وہ کس کے گھر رات‘‘ آپ ہیں: حقیقت میںخطاب ہے مگر خاص ایسی حالت میںبولا جاتا ہے جب ک ہ کسی پرانے دوست کو دفعتہ دیکھیں یا شبہ میںپڑ نے کے بعد پہنچا نیں(طفر) ’’دیکھ صحر ا میں مجھے اول تو گھبراتا تھا قیس پھر جو پہچانا تو بولا حضرت من آپ ہیں‘‘ آپا: س۔ بمعنی ذات ۔ نفس ۔ مثلا ایسا خفا ہوا کہ آپ الف ۔ پ ۔ الف ت۔ الف ٹ۔ ہی سے نکل پڑا(آہی ) ’’ اتنابڑھ بڑھ کر بات مت کیجیے اپنا آپ سنبھالیے حضرت ۔‘‘ آپا دھاپی: س ۔ ث ۔اپنے اپنے کام میں یا اپنی اپنی فکر میںبے تحاشا مصروف ہونا اور دوسروں کی سدھ نہ لینا۔ آپا: س ۔ ث ۔ بڑی بہن۔ آپس : س (۱) چند شخصوں میںکسی خاص قسم کا علاقہ ہونا برادری کا ، رشتہ داری کا ، محبت کا ، پیشہ کا ، مذہب کا ، کسی ایک رائے اور ایک خیال کے ہونے کا۔ (۲) بمعنی ایک دوسرے کے جب کہ لفظ ’’میں‘‘ کیساتھ مرکب ہو (مومن) ’’کہے ہے چھیڑنے کومیرے گر سب ہوں مرے بس میںنہ دوں ملنے کسی معشوق اور عاشق کو آپس میں‘‘ آپس داری : بمعنی رشتہ داری۔ برادری ۔ آتو: ف۔ س۔ ث ۔ وہ عورت جو لڑکیوں کو پڑھاتی ہے۔ آٹا: س ۔ م۔ پسے ہوئے گیہوں اور اگر کوئی اور اناج پسا ہوا ہو تتو اس کا نام بھی لیاجاوے گا مثلا جو کا آٹا۔ چاولوں کا آٹا۔ آٹھ: س۔م ۔ اکائیوں میںکے ایک عدد کا نام ہے جو چار کا دوگنا اور دو کا چوگنا ہوتا ہے اور جو صحیح عدد سات کے بعد آتا ہے ۔ آٹھ: ص۔ جب کہ اپنے معدود کیساتھ مرکب ہو اور اس کی تعداد بتاوے مثلا آٹھ عورتیں ۔ آٹھ روپے۔ آٹھواں ص۔ م (۱) صفت اس معدود کی جس سے یہ آٹھویں ف ۔ ص۔ ث عدد پورا ہوتا ہے اور جو سات کے بعد آتا ہے مثلا آٹھواں گھوڑا یعنی وہ گھوڑا جو سات گھوڑوں کے بعد ہے۔ (۲) درجہ ۔ مرتبہ ۔ خواہ باعتبار ترقی کے ہو خواہ باعتبار تنزل کے مثلا فلاںکل شخص امتحان میں آٹھواں رہا۔ آٹھویں: ص ۔ م۔ بمعنی آٹھواں جبکہ اپنے موصوف کے ساتھ ہو مثلا آٹھویں دن آنا۔ آٹھویں درجے پر منتخب ہونا۔ آٹھوں: ص۔ آٹھ کے ہر ایک معدود کا کسی صفت میںشامل ہونامثلا آٹھوں نے مارا یعنی ہر شخص ان آٹھ میںکا مارنے میں شریک تھا ۔ آٹھواں حصہ: س۔ م۔ کسی چیز کا ایک حصہ جب کہ اس کو آٹھ برابر حصوں میں تقسیم کیا ہو۔ ایک کو جو آٹھ آٹھ پر تقسیم کیاجائے اس کا خارج قسمت ۔ آٹھ آٹھ آنسو رونا: صد۔ لا بہت رونا۔ آٹھ آٹھ آنسو رلوانا۔ صد،مت (۱) بہت سا رلوانا۔ (۲) ایسی تکلیف اور رنج پہنچانا جو بہت سے رونے کا باعث ہو۔ آٹھوں گانٹھ کمیت : ص ۔ ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مطلب میںنہایت ہوشیار ہو اور جس طرح بنے اپنا مطلب نکال لے اور اس کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ الف ث۔ الف ج۔ لف ح۔ الف ح آثار: س ، م ۔ ج۔ نشانیاں ، علامتیں آثار: س۔ م ۔د بنیاد کا یا دیوار کا عرض۔ آج: س۔ م ۔د وہ دن جو کہ موجود ہے (درد) ’’محتسب آج تو مے خانے میںتیر ے ہاتھوں کون سا دل ہے کہ شیشہ کی طرح چور نہ تھا ‘‘ آج کل کرنا : صدر ۔ لا امروز فردا کرنا ۔ یعنی کسی وعدہ کے پورا کرنے کو ٹالنا آج کل بتانا آج کل: ظ ۔ ز (۱) قریب زمانہ گزرا ہوا یا آئندہ جب کہ اس لفظ کا ان معنوں میںاستعمال ہوتا ہے تو ان دونوں لفظوں میںواؤ کبھی نہیںآتی۔ (۲) جلدی ۔ یعنی تھوڑے دن اور بحذف حرف عطف یاحرف تردید کے۔ بمعنی آج اور کل کے بولنا غلط ہے۔ آحاد: س۔ م ۔ ج ،بمعنی اکائیاں۔ دس سے کم صحیح عددوں کانام۔ آخر: س ۔ م ۔د وہ جو سب کے بعد ہو خواہ زمانہ میں اورخواہ ترتیب میںاور معقول ہو یا محسوس۔ آخرش : س ۔ م۔ د ۔ بمعنی آخرت ۔ مگر اسکا استعمال صرف معقولات پر ہے ۔ آخر کار: آخری وقت: س۔ م۔ د وہ وقت کہ جب موت بہت قریب ہو۔ آخرت: س۔ ث۔ د قیامت ۔ یعنی وہ دن جو اس دنیا کے فنا ہونے کے بعد ہوگا اور جس میںلوگوں سے ان کے اعمال کا حساب لیاجائے گا۔ ……………… الف خ۔ الف آخور: س ۔ ث د۔ وہ کوڑا کرکٹ اور ناقص گھاس جو گھوڑوں کے اگاڑی ، پچھاڑی میںجمع ہو جاتی ہے۔ آخور کی بھرتی: س۔ ث د۔ ہر چیز جو ناقص اور ناکارہ ہو۔ آداب: س ۔ م ج۔ (۱) وہ طریقہ جس سے دوسروں کی بڑائی ظاہر کی جاتی ہے۔ (۲) کسی کام کے کرنے کے طریقے جیسے نماز کے آداب، کھانے کے آداب۔ آداب: س ۔ م ۔ (۱) ہر بات کو سلیقہ سے اوراچھی طرح کرنا ، (ذوق) ’’میں نہ تڑپا جو دم زبح تو یہ باعث تھا کہ رہا مد نظر عشق کا آداب مجھے ‘‘ (۲) وہ فعل جو کسی بڑے کو دیکھتے ہی کیا جاتا ہے جیسے سلام یا مجرا۔ جب کہ کسی بڑے کے سامنے زبان سے یہ لفظ کہا جاتا ہے تو گویا اس کو مطلع کیا جاتا ہے کہ میںآپ کی تعظیم ادا کرتا ہوں اور بجائے سلام کے بھی مستعمل ہوتا ہے۔ آداب بجالانا۔ صد ۔ لا ۔ یعنی وہ فعل کرنا جس سے اس شخص کی جو مستحق تعظیم کا ہے تعظیم ادا ہوتی ہے۔ مغلیہ سلطنت میںجب بادشاہ کے سامنے کوئی حاضر ہوتا تھا تو چوب دار نہایت خوش آوازی سے پکارتا تھا آداب بجا لاؤ۔ جہاں پناہ۔ بادشاہ سلامت ۔ (عالم پناہ ۔ بادشاہ سلامت) پہلے جملے سے یہ مراد ہے کہ وہ فعل کرو جس سے تعظیم ادا ہوتی ہے اور باقی جملے دعائیہ ہیں۔ الف ۔ د۔ الف ر آدم: س ۔م ۔د اس انسان کا نام ہے جو سب سے اول پیدا ہوا اور جس کی ہم سب اولاد ہیں۔ آدم زاد: بمعنی انسان۔ آدمی : س ۔ م ۔د بمعنی انسان ، یعنی آدم کی اولاد (ج)آدمی فعل لازمی کے ساتھ ، (ج) آدمیوں ۔ فعل متعدی کے ساتھ مثلا دس آدمی ۔ اسے دس آدمیوں نے مارا۔ آدمیت: ص۔ ث ۔ د ۔ وہ نیک اخلاق اور عادات جو انسان میں سب سے اعلیٰ مخلوق ہونے کے سبب سے اس میںہونے چاہیئیں۔ آدھا: ص ۔ م دو برابر حصوں میں ایک مثلا آدھا دن آدھی : ص ۔ ث آدھی رات ،آدھا کپڑا ۔ آدھی روٹی اور حالت ترکیب میںپہلے الف کی مد اور آخر کا الف بولانہیںجاتا جیسے کہ ادھ کیچرا۔ آدھوں آدھ: ص ۔ برابر کے دو حصے ۔ آدھا سیسی : س ۔ م سر کا ایک مرض ہے جسے کے سبب سے آدھے سر میں درد ہوتا ہے جس کو درد شقیقہ کہتے ہیں۔ آر: س ۔م۔ د آریس (ج) بیلوں کے ہانکنے کا ایک آلہ ہے جو ایک پتلی گول لکڑی یا چھڑی میں لوہے کی نوک کانٹے کی صورت کی لگا لیتے ہیں اور چلنے کے لیے بیل کے پٹھے میںیا دم کے پاس چبھوتے ہے ں۔ الف۔ د آراستگی : صد ۔لا کسی چیز کا اپنی ضروری لوازمات سے مہیا ہونا۔ آراستہ ہونا آراستہ: ص۔ کوئی چیز جو اپنی ضروری لوازمات سے مرتب ہو۔ گھوڑا، باغ ، مکان ، آراستہ ہے۔ آراستہ کرنا : صد ، مت کسی چیز کے ضروری لوازمات کا مہیا کرنا ، مکان کو، باغ کو ، گھوڑے کو، دل کو آراستہ کرو۔ آرام: س ۔ م۔ د (۱) ایسی حالت جس میں کچھ تکلیف روحانی یا جسمانی نہ ہو(آفتاب) ’’عاقبت کی خبر خدا جانے اب تو آرام سے گزرتی ہے‘‘ (میر) ’’ ہو گا کسی دیوار کے سائے میںپڑا میر کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو ‘‘ (۲) نیند آرام میںیعنی سوتے ہیں (میر) ’’عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا ‘‘ ّ۳) بیماری سے اچھے ہونے کی یا اس میں تحفیف ہونے کی حالت ، اب تو آرام ہے یعنی بیمری میں تخفیف ہے۔ اب آرام ہے یعنی صحت ہے۔ آرام گا ہ: س ۔ م د ۔ امیروں کے سونے کی جگہ۔ آرائش : س۔ ث (۱) کسی چیز کے اپنے ضروری لوازمات سے آراستہ ہونے کی حالت ۔ (۲) اسباب اور سامان کی آرائش۔ (۳) کاغذ کے پھولوں کے تختے اور پہاڑ اور چمن اور الف ۔ ر درخت اور روشنی کے کنول وغیرہ جو سا چق اور برات میںساتھ لیکر چلتے ہیں۔ آرزو: س۔ ث ۔ دل کی خواہش کسی چیز کے ہونے یا نہ ہونے کی۔ جس کاہونا یا نہ ہونا مشکل ہو یا اختیار میںنہ ہو (درد) ’’ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں دل ہی نہیں رہا ہے کہ کچھ آرزو کریں‘‘ آرزو کرنا صد۔لا : کسی چیز کی خواہش کرنا یا خواہش کروانا ۔ آرزو کروانا صد۔ مت آرسی: س ۔ ث۔ دآرسیاں (ج) بحالت مبتدا ہونے یا موصوف ہونے کے آرسیوں ج۔ اضا فت کی حالت میںکا۔ کا ج کا بنا ہوا گول یا مستطیل چھوٹا سا پرکالا جس میںمنہ دیکھتے ہیں اور جس کے ایک طرف پارہ کی قلعی ہوتی ہے اور جس کوکسی چیز کے چوکھٹے میںجڑ دیتے ہیں اور گول پرکالہ کو اس طرح چاندی یا سونے میںلگا ت ہیں کہ ہاتھ کے انگو ٹھے میںبطور انگوٹھی پہنا جاوے۔ آرسی مصخف : س۔ م ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی بے وقوفی کی ایک رسم ہے کہ جب نکاح ہو چکتا ہے اور دولہا ا س مکان میں جاتا ہے جہاں دولہن ہوتی ہے تو اول دولہا اور دلہن کے سر پر ایک لال کپڑا ڈال کر اور دونوں کے سر ملا کر ان کے سامنے قرآن میںسے سورۃ اخلاص کھول کر رکھتے ہیں اور ایک آرسی رکھتے ہیں تاکہ دولہا اور دولہن اول سورۃ اخلاص کو ایک ساتھ دیکھیں اور پھر اسی وقت ایک ساتھ آئینہ میںدولہا اپنی اور ۔۔۔ سرسید احمد خاں اس لغت کے متعلق فرانس کا مشہور مستشرق اور اردو زبان کانامور محقق گارسن ڈٹاسی اپنے اردو زبان کے متعلق خطبات میںحسب ذیل رائے کا اظہار کرتا ہے : ’’سر سید احمد خاں کی اردو لغت کے چار صفحات نمونۃ مجھے بھیجے گئے ہیں ۔ موصوف نے ایس ہاول اور میری رائے کے مطابق اس لغت کا نام پرانا یورپین نام ترک کرکے ’’لغت زبان اردو ‘‘رکاھ ہے ۔ ،مسٹر ہاول نے میری رائے بھی سید صاحب موصوف کو پہنچا دی ہے۔ ا س لغت میںوہی عربی ٹائپ استعمال کیاگیا ہے جو سید صاحب کے مطبع میںہے اور جس میں موصوف نے ’’انجیل مقدس کی تفسیر ‘‘شائع کی ہے ۔ اس ٹائپ کا بڑا عیب یہ ہے کہ اس کے حروف بہت چھوٹے ہیں۔ مسٹر ولیم ہند فورڈ نے افسوس ظاہر کیا ہے اور میں بھی ان کے ساتھ متفق ہوں کہ اس لغت میں الفاظ کی اصل نہیںبتائی گئی ۔ اگرچہ اس سے انکار نہیں کہ الفاظ کے معنی اور مطلب صاف زبان میںبیان کیے گئے ہیں اور ہر لفظ کے بعد اس کے مشتقات لکھے گئے ہیں۔ لیکن علی گڑھ کے اخبار مورخہ ۵ فروری ۱۸۶۹ ء میں اس لغت پر جو تنقید شائع ہوئی ہے۔ میں اس سے متفق نہیں۔ مثلا یہ اعتراض سنسکرت ، عربی اور فارسی سے بنی ہے ، اس لیے دیسی لوگوں کے لیے ان زبانوں کی علیحدہ علیحدہ لغتیں تیار کرنی چا ہیئیں ، رہے خالص ہندوستانی الفاظ ، تو ان کے لیے لغت کی کیا ضرورت ہے۔ اس لیے کہ ہر کس و ناکس انھیں سمجھتا ہے اور روز مرہ میں استعمال کرتا ہے ۔‘‘ یہ بات ایسی ہوئی کہ کوئی یہ کہے کہ ’’بھلا فرانسیسی زبان کی لغت کی کیا ضرورت ہے۔ لا طینی کی لغت کافی ہے۔ اس لیے کہ فرانسیسی زبان اس سے نکلی ہے۔ ان الفاظ کے لیے جو عام طور پر استعمال کیے جاتے ہیں اور جن کے معنی ہر شخص جانتا ہے۔ علیحدہ لغت کی کیا ضرورت ہے ؟ اسی طرح انگریزی کی لغت کی بھی ضرورت نہیں اس کے لیے سیکسن زبان اور فرانسیسی کی لغت سے کام نکل سکتا ہے۔‘‘ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایسے مفید کام پر اس طرح غیر ذمہ داری کے ساتھ تنقید کی جائے۔ لوگوں کی عادت ہے کہ وہ دوسرے کی آنکھ کے تنکے کو دیکھ لیتے ہیںلیکن اپنی آنکھ کا شہتیر انہیں نظر نہیں آتا بوالو نے ٹھیک کہا ہے کہ ’’تنقید آسانج ہے مگر صناعی (کام کو کرکے دکھانا) مشکل ہے۔‘‘ سید صاحب جیسے جلیل القدر مسلمان کے حوصلے کو پست کرنے کی کوشش کرنا جو تعلیم و تمدن کے سچے دل سے حامی اور قدر دان ہیں ، کہاں کی انسانیت ہے ؟موصوف کے نکتہ چیں جو خود علم و فضل میںممتاز درجہ نہیں رکھتے ، انہیں سبق دینے چلے ہیں۔ سچے محققوں کا یہ شیوہ ہے کہ وہ ایسی تصنیف کے عیوب سے چشم پوشی کرتے ہیں جو مجموعی طور پراطمینان بخش ہو اور جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے کی توقع ہو۔ (خطبات گارسان ڈٹاسی شائع کردہ انجمن ترقی اردو اورنگ آباد مطبوعہ ۱۹۳۵ ء خطبہ دسمبر ۱۸۶۹ ء صفحہ ۷۸۵ تا ۷۸۷)۔ اردو زبان اور اسکی عہد بعہد کی ترقی یہ مضمون سر سید نے ۱۸۴۷ء میں ا س وقت لکھاتھا ۔ جب انہوں نے نہایت محنت اور جاں فشانی کے بعد دہلی کی عمارات اور اس کے محلات و مزارات کی جامع تاریخ ’’آثار الصنا دید ‘‘ کے نام سے مرتب کی۔ اس مضمون میں سر سید نے بتایا ہے کہ اردو زبان کیا ہے ؟اور کیوں وہ اردو کے نام سے موسوم ہوئی ؟ کس طرح رفتہ رفتہ وہ صاف و شستہ ہوتی گئی اور کن کن لوگوں نے اس کی ترقی و عروج میں حصہ لیا ؟ اب منجھ منجھا کر وہ کسی ہوگئی ہے؟ اور عام طور پر کس شہر کی بولی سب سے زیادہ صحیح اور مستند سمجھی جاتی ہے ؟ اس مضمون میں سر سید نے اردو کے ادیبوں اور انشا پر دازوں کو نہایت قابل قدر نصیحت یہ کی ہے کہ اگر تم اردو زبان میںفارسی کی تراکیب اورالفاظ زیادہ لاؤگے تو یہ کوئی خوبی نہیں ہوگی بلکہ عیب ہوگا۔ اور ایسا کرنے کا نقصان یہ ہوگا کہ زبان میں اردو پن نہیں رہے گا ۔ سر سید کی یہ نصیحت آج بھی ایسی ہی ضروری اور اسی قدر لائق عمل ہے جیسی اب سے ایک سو تیرہ برس پہلے تھی۔ یہ مفید اور معلوماتی مضمون سر سید نے اپنی کتاب ’’آثار الصنادید‘‘ کا چوتھا اباب شروع کرتے ہوئے اس میں شامل کیاتھا (محمداسماعیل پانی پتی ) اس ملک میں اب جو زبان مروج ہے اور جس میں سب لوگ بولتے چالتے ہیں اس کانام اردو ہے اور تحقیق اس کی یوں ہے کہ’’ اردو‘‘ فارسی لفظ ہے اور اس کے معنی ’’بازار‘‘ کے ہیں اور اردو سے مراد اردوئے شاہجہاں ہے ۔ اگرچہ دلی بہت قدیم شہر ہے اور ہندوؤں کے تمام راجہ پرجاؤں کا ہمیشہ سے دارلسلطنت رہا ہے۔ لیکن سب اپنی اپنی بھاکا بولتے تھے۔ ایک کی دورے سے زبان نہیںملتی تھی ۔ جب کہ ہندوستان میںمسلمانوں کی عملداری ہوئی اور مسلمان لوگ ان شہروں میںآئے (تو) اور بھی مشکل پڑی۔ اور نئی زبان کے لوگوں کے آنے سے سودا سلف لینے دینے۔ بیچنے بچانے ، میںدقت پڑنے لگی ۔ اول اول تو مسلمانوں کی عملداری میں اختلاف رہا۔ کبھی کسی کی بادشاہت رہی اور کبھی کسی کی۔ کبھی غوری آئے اور کبھی لودھی اورکبھی پٹھان اور کبھی مغل، اس سبب سے زبان کا بدستور اختلاف چلا گیا ۔ اورکوئی شخص اس کی اصلاح کے پیچھے نہ پڑا۔ جب کہ اکبر بادشاہ ہوا ایک گونہ سطلنت کو قیام ہوا اور سب لوگ اپنے اپنے ٹھکانے بیٹھے اورعلم کا بھی چرچا ہوا۔ لیکن اس زمانہ میںفارسی زبان کی ایسی قدر تھی کہ لوگ اور کسی طرف متوجہ بھی نہیں ہوتے تھے ۔ جب کہ شہاب الدین شاہجہان بادشاہ ہو اور اس نے انتظام سلطنت کا کیا اور سب ملکوں کے وکلا کے حاضر رہنے کا حکم دیا اور دلی شہر کو نئے سرے سے آباد کیا اورقلعہ بنایا اور شاہ جہاں آباد اس کا نام رکھا۔ اس وقت اس شہر میں تمام لوگوں کا مجمع ہوا۔ ہر ایک کی گفتار رفتار جدا جدا تھی۔ ہر ایک کا رنگ ڈھنگ نرالا تھا۔ جب آپس میں معاملہ کرتے ناچار ایک لفظ اپنی زبان کا دو لفظ اس کی زبان کے ، تین لفظ دوسرے کی زبان کے ، ملا کر بولتے اور سودا لیتے ۔ رفتہ رفتہ اس زبان نے ایسی ترکیب پائی کہ یہ خود ایک نئی زبان ہوگئی اور جو کہ یہ زبان خاص بادشاہی بازاروں میں مروج ت ھی اس واسطے اس کو زبان اردو کہاکرتے تھے اور بادشاہی امیر امراء اسی کو بولا کرتے تھے ۔ گویا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی یہی زبان تھی ۔ ہوتے ہوتے خود اس زبان ہی کا ’’اردو نام ہوگیا ۔ اس وقت سے اس زبان نے ایک رونق حاصل کی اور دن بدن تراش خراش اس میں ہوتی گی یہاں تک کہ جس زمانہ میںمیر اور سودا نے آوازہ اپنی خوش زبانی کا بلند کیا تھا اور یہ آویزہ ہر ایک کے کان میںپہنایا تھا۔ اس وقت یہ زبان بہت درست ہوگئی تھی اور عجب رنگ ڈھنگ نکال لائی تھی۔ ان کے بعد کچھ کچھ اس زبان میں اور تغیر و تبدیل ہوئی اور اب ایسی منجھ گئی ہے کہ قیامت تک اس سے بہتر ہوئی ممکن نہیں اور اس زبان کو شاہ جہان آباد سے ایسی نسبت ہے جیسے فارسی کو شیراز سے ، یعنی یہاں کے لوگوں کی زبان تمام اردو بولنے والوں کو سند ہے۔ نہیں تو بقول میرا من کے اپنی دستار ، رفتار ، گفتار کو کوئی برا نہیں جانتا ۔ اگر ایک گنوار سے پوچھیے تو شہر والوں کو نام نہیں جانتا ۔ اگر ایک کنوارے سے پوچھیے تو شہر والوں کو نام رکھتا ہے اوراپنے تئیں سب سے بہتر سمجھتا ہے۔ خیر عاقلاں خود مید انند۔ اگرچہ ا س زبان میں اکثر فارسی اورعربی اور سنسکرت کے الفاظ مستعمل ہیں اور بعضے بعضوں میں کچھ تغیر و تبدیل کر لی ہے لیکن اس زمانہ میں اور شہر کے لوگوں نے یہ طریقہ اختیار کیاہے کہ اردو زبان میںیا تو فارسی کی لغت بہت ملا دیتے ہیں اور یا فارسی کی ترکیب پر لکھنے لگتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں اچھی نہیں۔ ان سے اردو پن نہیں رہتا اور ظاہر ہے کہ اس بات کے لیے کہ کس در فارسی کی ترکیب دی جاوے؟ اورکون کون سی لغت اور زبانوں کی نہ بولی جاویں۔ کوئی قاعدہ نیں مقرر ہوسکتا ۔ یہ بات صرف اہل زبانوں کی صحت پر منحصر ہے ۔ اردو زبان اس کا بیان (آثار الصنادید مطبوعہ ۱۸۵۴ ء و ۱۹۰۴ئ) اردو زبان کے متعلق یہ مضمون سر سید مرحوم نے آثار الصنادید کے دوسرے اڈیشن مطبوعہ ۱۸۵۴ ء کے آخر میں لکھ کرشامل کیاتھا ۔ ۱۹۰۴ ء کے کان پور والے اڈیشن میںبھی یہ مضمون موجود ہے۔ صرف پہلے اڈیشن میںنہیں ہے اردو زبان کی مختصر تاریخ اور اس کی بتدریج اشاعت کے سلسلہ میں غالبا یہ پہلا مضمون ہے جو سر سید کے قلم سے نکلا۔ لسانیات کے متعلق بھی بہت سی نئی باتیں کے قلم سے نکلا۔ لسانیات کے متعلق بھی بہت سی نئی باتیں آپ کو اس مضمون کے پڑھنے سے معلوم ہوں گی ۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) (۱) ہندوؤں کے راج میںتو یہاں ہندی بھاشا بولنے چالنے لکھنے پڑھنے میںآتی تھی ۔ ۵۸۷ ہجری مطابق ۱۹۱۱ عیسوی موافق سمت ۱۲۴۸ بکر ماجیت کے جب مسلمانوں کے سلطنت نے یہاں قیام پکڑا تو بادشاہی دفتر فارسی ہوگیا ۔ مگرزبان رعایا کی وہی بھاشا رہی ۔ ۸۹۴ ہجری مطابق ۱۴۸۸ ء تک بجز بادشاہی دفتر کے رعایا میںفارسی رواج نہیںہوا۔ اس کے چند روز بعدسلطان سکندر لودھی کے عہد میںسب سے پہلے ہندوؤں میں سے کائستوں نے جو ہمیشہ سے امورات ملکی اور ترتیب دفتر میںمداخلت رکھتے تھے ، فارسی لکھنا پڑھنا شروع کیا ۔ پھر رفتہ رفتہ اور قوموں نے بھی شروع کر لیا اور فارسی لکھنے پڑھنے کاہندوؤں میںبھی رواج ہوگیا ۔ (۲) اگرچہ بابر اور جہانگیر کے عہد تک ہندی بھاشا میں تغیر و تبدل نہیںہوئی تھی مسلمان اپنی گفتگو فارسی زبان میں اور ہندو اپنی گفتگو بھاشا میںکیا کرتے تھے ۔ پر جب بھی امیر خسر خسرو نے خلجی بادشاہوں ہی کے زمانے سے یعنی حضرت مسیح سے تیرھویں صدی میں فارسی زبان میںبھاشا کے لفظ ملانے شروع کیے تھے اورکچھ پہلیلیاں اورمکرنیا ں اورنسبتیں ایسی زبان میںکہیںتھیں۔ جس میں اکثر الفاظ بھاشا کے تھے۔ غالب ہے کہ رفتہ رفتہ بھاشامیںجب ہی سے ملاپ شروع ہوا۔ مگر ایسا نہ تھا جس کو جدا زبان کہاجائے۔ جبکہ شاہ جہاں بادشاہ نے ۱۰۵۸ ہجری مطابق ۱۶۴۸ ء کے شہر شاہ جہاں آباد ،آباد کیا اور ہر ملک کے لوگوں کامجمع ہوا اس زمانے میں فارسی زبان اور ہندی بھاشا بہت مل گئی ور بعضے فارسی لفظوں اور اکثر بھاشا کے لفظوں میںبہ سبب کثرت استعمال کے تغیر و تبدیل ہوگئی ۔ عرض کہ بادشاہی اور اردو معلی میں ان دونوں زبانوں کی ترکیب سے نئی زبان پید اہو گئی اور اسی سبب سے زبان کا اردو نام ہوا۔ پھر کثرت استعمال سے لفظ زبان کا محذوف ہوکر ا س زبان کو اردو کہنے لگے ۔ رفتہ رفتہ اس زبان کی تہذیب اور آراستگی ہوتی گئی ۔ یہاں تک کہ تخمینا ۱۱۰۰ ہجری مطابق ۱۶۸۸ ء کے یعنی اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں شعر کہنا شروع ہوا۔ اگرچہ مشہور ہے کہ سب سے پہلے اس زبان میںولی نے شعر کہا۔ مگر خود ولی کے اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی کسی نے اس زبان میںشعر کہاہے۔ کیونکہ اس کے شعروں میں اور شاعروں کی زبان پر طنز نکلتی ہے ۔ مگر اس زمانے کے شعر بہت پھیکے اور نہایت سست بندش کے تھے ۔ پھر دن بدن اس کو ترقی ہوتی گئی ۔ یہاں تک کہ میر او ر سودا نے اس کو کمال پر پہنچا دیا۔ (۳) میر کی زبان ایسی صاف اور شستہ ہے اور اس کے شعروں میں ایسے اچھے محاورات بے تکلف بند ہے ہیں کہ آج تک سب اس کی تعریف کرتے ہیں۔ سودا کی زبان بھی اگرچہ بہت خوب ہے اور مضامین کی تیزی میر پر غالب ہے۔ مگر میر کی زبان کو اس کی زبان نہیں پہونچتی۔ (۴) اردو نثر لکھنے والوں میں میر امن جس نے باغ و بہار لکھا۔ سب پر فوق لے گیا ۔ حقیقت میںنظم لکھنے میں جیسا کمال میر کو ہے نثر لکھنے میں ویسا ہی کمال میر امن کو ہے۔ (۵) عربی زبان کا اردو میں ترجمہ سب سے پہلے مولوی عبدالقادر صاحب اور مولوی رفیع الدین صاحب نے کیا۔ مولوی عبدالقادر صاحب کا اردو ترجمہ کلام اللہ کا اردو لغات کے لیے ایک بڑی سندہے اور مولوی رفیع الدین صاحب کا ترجمہ تراکیب نحوی کے لیے ایک بہت دستاویز ہے۔ (۶) اردو زبان کے شعروں کا بھی طریقہ فارسی شعروں کے قاعدے پر یوں ہی آن پڑا۔ کہ و یا جوان مرد۔ خوبصورت لڑکے کی تعریف میں شعر کہنا ہے۔ (۷) ہندی بھاشا میں دستور تھا کہ عورت کی زبان سے مرد کی نسبت شوقیہ شعر ہوتے ہیں۔ بعضی بعضی دفعہ اردو زبان میں اسی طرح پربھی شعر کہا جاتا ہے اور اس کو ریختی بولتے ہیں۔ غالب ہے کہ تخمینا ۱۲۲۰ ہجری مطابق ۱۸۰۵ ء کے انشاء اللہ خاں نے اس کو رواج دیا۔ (۸) فارسی شعروں کی جو بحریں اور اقسام ہیں وہ سب اردو شعروں میں مروج ہیں۔ الامکری اور پہیلی کہنے کا وزن بھی اور ہے زبان بھی ایسی ہے۔ جس میںاکثر بھاشا ملی ہوئی ہو۔ (۹) نسبتیں جو مشہور ہیں، فقرے ہوتے ہیں کہ ان میں دو یا تین یا زائد چیزیں جس میںکچھ باعتبار ظاہر کے مناسبت نہیں معلوم ہوتی ہے۔ بیان کی جاتی ہے اور مخاطب سے پوچھا جاتا ہے کہ ایسی ایک بات جو جامع بیان کرے۔ جو سب میں پائی جائے۔ (۱۰) پہیلی میںکسی چیز کے اوصاف اور خصائص اور پتے بیان کیے جاتے ہیں اور مخاطب سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ چیز کیا ہے۔بڑی خوبی پہیلی کی یہ ہے کہ اس میں اس چیز کا نام بھی آجائے جس کے اوصاف اور خصائص بیان کیے گئے ہیں۔ پھر اس پر بھی مخاطب نہ سمجھے ۔ (۱۱) مکری میں عورت کی زبان سے ذو معنی بات بیان کی جاتی ہے جن میںایک سے معشوق مراد ہوتا ہے اور دوسری سے اور کچھ ، قائل اس کا جب چاہے معشوق کی بات سے مکر جائے۔ پہیلیاں بالا تھا تو سب کو بھایا بڑا ہوا کچھ کام نہ آیا میں لے دیا اس کا ناؤں بوجھے تو بوجھ نہیں دے گاؤں (دیا یعنی چراغ) فارسی بولی آئی نہ ترکی بولی پائی نا ہندی کہتے عارسی آوے منہ دیکھوں جو اسے بتاوے (آئینہ ) مکری آپ ہلے اور موکو ہلاوے وا کا ہلنا موکو بھا وے ہاں ہلا کے بھیا نسنکھا اے سکھی ساجن نا سکھی پنکھا (پنکھا) نسبتیں گوشت کیوں نہ کھایا ڈوم کیوں نہ گا یا گلانہ تھا سموسہ نہ کھایا جوتہ کیوں نہ پہنا تلا نہ تھا ریختی اچھا جو جفا ہم سے ہو تم اے صنم اچھا لو میں بھی نہ بولوں گی خدا کی قسم اچھا شعر اردو عشق کرتے ہیں اس پری رو سے میر صاحب بھی کیا دیوا نے ہیں میر اس نیم باز آنکھوں میں ؎ ساری مستی شراب کی سی ہے ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے ………… (۳) مضامین متعلق تنقید و تبصرہ اقوام المسالک (تہذیب الاخلاق بابت ۱۵ صفر ۱۲۸۸ ھ) چندروز سے ہماری خواہش اپنے ہم قوموں سے یہ ہے کہ وہ تہذیب و شائستگی میںترقی کریں اور تعصب کو جس کا منشاء جہل مرکب ہے چھوڑیں اور اچھی باتوں کو گو وہ کسی قوم کی ہوں اور جو شریعت اسلامیہ میںبھی مباح ہوں اختیار کریں تاکہ مہذب قوموں کی نگاہ میں ذلیل و خوار نہ ہون۔ ہم کو اس بات کے بیان کرنے سے نہایت خوشی ہے کہ صرف ہماری ہی یہ رائے یا یہ خواہش نہیں ہے بلکہ جوبڑے بڑے عالم او رمدبر بلاد اسلامیہ کے ہیں ان ک بھی یہی رائے ہے۔ چنانچہ ہم اس دعویٰ کی سند پر جناب امیر الامراء سید خیر الدین صاحب بہادر وزیر مملکت ٹونس کی رائے کا خلاصہ اس مقام پر مندرج کرتے ہیں۔ ٹونس کنارہ افریقہ پر ایک چھوٹی سی خود مختار اسلامی سلطنت ہے وہاں کا بادشاہ بی آف ٹونس کہلاتا ہے۔ اس کے وزیر سید خیر الدین صاحب نے نہایت عمدہ اور فصیح عربی زبان میں ایک کتاب یورپ کی سلطنتوں کے حال میںلکھی ہے اور اس کانام ’’اقوم المسا لک فی احوال الممالک‘‘ رکھا ہے وہ کتاب ٹونس میںچھپی ہے اور اس کی ایک جلد ہمارے پاس موجود ہے اس کتاب کے مصنف نے اس کے دیباچہ اور مقدمہ میںسبب ا سکی تالیف کا بیان کیا ہے جو آگے لکھا جاتا ہے اور جس سے اس بڑے مدبر اور عالم کی رائے واضح ہوتی ہے ۔ وھو ہذا خطبہ کتاب اقوم المسالک اما بعد فیقول جامع ہذا الورقات ارشدہ اللہ تعالیٰ الی اقوم الطرقات انی بعدان تاملت تاملا طویلا فی السباب تقدم الامم وتاخر ھا جیلا فجیلا مستندا فی زالک لما امکن تصفحہ من التواریخ الا سلا میتہ والا فرنجیۃ مع ماحررہ المولفون من الفریقین فیما کانت علیہ وآلت الیہ الامتہ الا سلامیتۃ ولا سیئول الیہ امر ہا فی المستقبل بمقتضی شوا ھدالتی قضت الترجبۃ بان تقبل التجات الی الجزم بما لا اظن عاقلا من رجال الاسلام ینا قضۃ اوینھض لہ دلیل یعارضہ من انا اذا اعتبرا تسابق الا مم فی میادین التمدن و تحزب عذائمھم علی فعل ما ھوا اعود نفعا و اعون لا یتھیالنا ان نمیز ما یلیق بنا علی قاعدۃ محکمۃ البنا الا بمعر فۃ احوال من لیس من حزبنا لا سیما من حق بنا وحل بقربنا ثم ازا اعتبرنا ماحدث فی ھذا الازمان من الوسائط التی قربت تواصل الا بدان والاذھان ثم نتوقف ان نتصور الدنیا بصورۃ بلدۃ متحدۃ تسکنھا امم متعددۃ حاجتہ بعضھم لبعض متاکدۃ وکل منھم و ان کان فی مساعیہ الخضو صیۃ غریم نفسہ فھو بالنظرالی ما ینجر بھا من الفوائد العمومیۃ مطلوب لسائر بنی جنسہ فمن لاحظ ھذین الاعتبار ین الذین لاتبقی لمشاھدۃ فی صحتھما ادنیٰ دین وکان بمقتضی دیانتہ من الدارین ان الشرییعۃ الاسلامیۃ کا فلۃ بمصالح الدارین ضرورۃ ان التنظیم الدنیوی اساس متین لاستقامۃ نظام الدین یسوہ ان یری بعض علماء الاسلام الموکول لا مانتھم مراعاۃ احوال الوقت فی تنزیل الاحکام معرضین عن استکشاف الحوادث الداخیلۃ وازھا نھم عن معرفتہ الخارجیۃ خلیۃ ولا یخفی ان ذالک من اعظم العوائق عن معرفتہ ما یجب اعتبارہ علی الوجہ اللایق افیحسن من اساۃ الامتہ الجھل بامراضھا اوصرف الھمتۃ الی افتناء جواہر العلوم مجر دۃ عن اعراضھا کما انہ لیسؤ نا الجھل بذالک من بعض رجال السیاسیۃ والتجا ہل من بعضھم رغبۃ فی اطلاق الریاسۃ فلذالک ھجس ببالی مااستذکیت کا جلہ ذیالی من انی لو جمعت بعج ما استنتبحتۃ منذ سنین باعمال الفکر والرویۃ مع ما شاھدتہ اثناء اسفاری للبلدان الاوریا ویتہ التی ارسلنی الی بعض ودلھا الفخام الطود الرفیع الاسمی والکھف المنیع الا حمی جناب ولی النھم وزکی الاخلاق والشیم من لم تزل عذائمہ کاسمہ صادقتہ والسنتہ الانام بالثناء علیہ ناطقتہ لم یخل سیعی من فایدۃ خصوصا اذا صادف افئدۃ علی حما یتہ بیضیۃ الاسلام متعا ضدۃ واھم تلک الفواید عندی التی فی ھذا لتا لیف مناط قصدی تذکیر العلماء الا علام بما یعینھم علیٰ معرفۃ مایجب اعتبارہ من حوادث الایام و ایقا ظ الغافلین من رجال السیا ستہہ وسائر الخواص والعوام ببیان ما ینبغی ان تکون علیہ التصرفات الداخیلۃ والخارجیۃ وذکر مانتا کد معرفۃ من احوال الامم الافرنجیۃ خصوصا من لھم بنا مزید اختلاط وشدید علقۃ و ارتباط مع ما اولعوابہ من صرف الھمم الی استیعاب احوال سائر الامم واستسھا لھم ذالک بطی مسافات الکرۃ الذی الحق شامھا بالامم فجمعت ما تیسر بعون اللہ مستحد ثاتھم المتعلقۃ بسیاستی الا قتصاد و التنظیم مع الاشارۃ الی ماکانو اعلیہ فی العھد القدیم وبیان الوساء ل التی ترقوا بھا فی سیاستہ العباد الی غایۃ القصوی من عمران البلد کما اشرت الی ماکنت علیہ امۃ الاسلام المشھود لھا حتی من مورخی اوریا الاعیان بسا بقیۃ التقدیم فی مضماری العرفان و العمران وقت نفوذ الشریعۃ فی احوالھا و نسج سائر التصرفات بمنو الھا والغرض من ذر الوسائل التی اوصلت الممالک الا وریا ویۃ الی ماھی علیہ من المنعتہ والسلطنۃ الدنیویۃ ان نتخیرمنھا یایکون بحالنا لا یقا والنصوص شریعتنا مسا عدا موافقا عسیٰ ان نسترجع منھا مااخذ من ایدینا ونخرج یا ستعما لہ من ورطات التفریط الموجود فینا الی غیر ذالک مما تتشوق الیہ نفس الناظرفی ھذا الموضوع المختوی من الملا حظات النقلیۃ والعقلیۃ علی ما نشرۃ بطبی فصولہ یضوع و سمیتہ اقوام المسالک فی معرفۃ احوال الممالک مرتبالہ علی مقدمہ و کتابین یشتمل کل منھا علی ابواب وبھدایہ اللہ نستوضح مناھج الرشد والصوب والحجری فی ھذا المجال وان کان فوق طاقتی لکن اغضاء الفضلاء مامول فی جنب فاقتی وصدق النیۃ کافل انشاء اللہ تعالیٰ ببلوغ الامنیۃ۔ المقدمۃ لما کان السبب الحامل علی الشئے منقدما علیہ طبعا ناسب ان نقدمہ وضعا ولم نکتف بالا یماء فی الخطبہ الی مادعا نالجمع ھذالتا لیف بل راینامن المھم ان نعود الیٰ ایضاحہ ھھنا ونبنی علیہ ما اردنا ایرادہ فی المقدمۃفنقول ان الباعث الاصلی علی ذلک امران آیلان الی مقصد واحد احد ھما اغراء ذوی الغیرۃ والحزم من رجال السیا سۃ والعلم بالتمساس ما یمکنھم من الوسائل الموصلۃ الی حسن حال الامۃ الاسلامیۃ وتنمیۃ اسباب تمدنھا بمثل توسیع دوائر العلوم والعرفان وتمھید طرق الثروۃ من الزارعۃ والتجارۃ وترویح سائر الصناعات ونفی اسباب الطبالۃ واساس جمیع ذلک حسن الا مارۃ المتولد منہ الامن المتولد منہ الامل المتولد منہ اتقان العمل المشاہد فی الممالک الا وریاویۃ بالعیان ولیس بعدہ بیان ثانیھما تحذیر ذوی الغفلات من عوام المسلمین عن تمادیھم فی الاعراض عما یحد من سیرۃ الغیر الموانقۃ لشرعنا بمجرد ما انتقش فی عقولھم من ان جمیع ما علیہ غیر المسلم من السیر والتراتیب ینبغی ان بھجر و تالیفھم فی ذلک یجب ان تنبذ ولا تذکر حتی انھم یشد دون الاناکار عیل من یستحسن شیا منھا وھذا علی اطلاقۃ خط محض فان الامرا ذاکان صادرا من غیر نا وکان صوابا موافقا للا دلۃ لا سیما اذاکنا علیہ واخذ من ایدینا فلاوجہ لانکارہ و اعمالہ بل الواجب الحرص علی استرجاعہ واستعمالہ وکل متنمسک بد یافنتہ وان کانیری غیرہ ضالا فی دیانۃ فذلک لایمنعہ من الاقتداء بہ فیما یستحسن فی نفسہ من اعمالہ المتعلقۃ بالمصالح الدنیویۃ کما تفعلہ الامتہ الا فر نجیۃ فانھم ما زالوا یقتدون بغیرھم فی کل مایرونہ حسنا من اعما لہ حتی بلغوا فی استقا مۃ نظام دنیاہم الیٰ ماھو مشاہد وشان الناقد البصیر تمیز الحق بمسبار النظر فی الشئے المروض علیہ قولا کان او فعلافان وجدہ صوابا قبلہ واتبعہ سواء کان صاحبہ من اہل الحق او رمن غیر ھم فلیس بالرجال یعرف الحق بل بالحق تعرف الرجال والحکمۃ ضالۃ المومن یا خذھا ھیث وجدھا۔ ولما اشار سلمان الفارسی ؓ علی رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وسلم بان عادۃ الفرس ان یطو قوا مدنھم بخندق حین یحاصرھم العدو اتقاء من ہجومہ علیھم اخذ رسول اللہ صلی علیہ وسلم برایہ و حفر خندقا للمدینۃ فی غزوۃ الاحزاب عمل فیہ بنفسہ ترغیبا للمسلمین وقال سیدنا علی کرم اللہ وجھہ لا تنظر الی من قال وانظرت الی ماقال واذا ساغ للسلف الصالح اخذ مثل المنطق من غیر اہل ملتھم و ترجمۃ من لغۃ الیونان لما رواہ من الالا ت النافعۃ حتی قال الغزالی رحمہ اللہ من لا معرفۃ لہ بالمنطق لا ثق بعلم فای مانع لنا الیوم من اخذ بعض المعارف التی نرے انفسنا محتابین الیھا غایۃ الا حتیا ج فی دفع المکا ئد و جلب الفوائد وفی سنن المھتدین للعلامۃ الشیخ المراق المالکی مانصہ ان مانھینا عنہ من اعمال غیرنا ہو ماکان علی خلاف مق تضی شرعنا اماما فعلوہ علی وفق الندب اوالا یجات اوالا باحتہ فانالا نترکہ لاجل تعاطیھم ایاہ لان الشرع لم ینہ عن التشیہ بمن یفعل مااذن اللہ فیہ و فی حاشیۃ الدر المختار للعلامۃ الشیخ محمد بن عابد بن الحنفی مانصہ ان صورۃ المشابھۃ فیما تعلق بہ صلاح العباد لا تضر علی انا اذا تا ملنا فی حالتہ ھولاء المنکرین لما یستحسن من اعمال الا فرنج نجدھم یمتنعون من مجاراتھم فیما ینفع من التنظیمات ونتائجہا ولا یمتنعون فیما یضرھم وذلک انانراھم یتنا فسون فی الملابس واثاث المساکن و نحوہا من الضروریات وکذا الا سلحۃ وسائر اللوازم الحربیۃ والحال ان جمیع ذلک من اعمال الا فرنج ولا یخفی ما یلحق الامۃ بذلک من الشین والخلل فی العمران وفی السیاسۃ اما الشین فبا لا حتیاج للغیر فی غالب الضروریات الدال علیٰ تاخر الامتۃ فی المعارف واما خلل العمران فبعدم انتفاع صناع البلاد با صطناع نتائجھا الذی ھواصل مھم من اصول المکا سب و مصداق ذلک مانشا ھدہ من ان صاحب الغنم منا و مستولد الحریر و زارع القطن مثلا یقتحم تعب ذلک سنۃ کاملۃ و یبیع ما ینتجہ عملہ للا فرنجی بثمن یسیرثم یشتریہ منہ یعد اصطناعہ فی مدۃ باضعاف ما باعہ بہ وبالجملۃ فلیس لنا الان التطویرات العلمیۃ التی ہی منشاء تو فرالرغبات منا ومن غیرنا ثم اذا نظرنا الی مجموع ما یخرج من المملکۃ وقا یسناہ بما یدخلھا فان وجد نا ھما متقاربین خف الضرر واما اذا زادت قیمۃ الداخل علی قیمۃ الخارج فحینئذ یتوقع الخراب لا محالۃ۔ ترجمہ خطبہ کا حمد و نعت کے بعد کہتا ہے مولف اس کتاب کا اللہ اس کو سیدھی راہ بتاوے کہ جب میںنے دنیا کی مختلف قوموں کے ترقی اور تنزل کے اسباب کو نہایت فکر و تامل کے ساتھ دیکھا اور مسلمانوں اورانگریزوں کی تواریخ سے جہاں تک ممکن تھا ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کو نکالا اور جو کیفیت مسلمان لوگوں کے ان حالات کی جو ان پر ابتدائے زمانہ میںطاری تھے اورجو فی زما ننا طاری ہیں اورجو آئندہ تجربہ کی رو سے ان پر طاری ہونے والے ہیں انگریز اور مسلمان مورخوں نے لکھی ہے اس کو بھی میںنے دیکھا تو خواہ مخواہ مجھ کویہ یقین ہو گیا (اور میرے اس یقین کا شاید کوئی مرد مسلمان مخالف نہ ہوگا اور نہ اس کی مخالفت کے واسطے وجہ نکلے گی ) کہ جب ہم ایک قوم کی ترقی اور انتظام مملکت کی خوبی کا خیال کریں اور اس کی ہمت کو بھلائی اور نفع کی باتوں پر حد سے زیادہ مائل پا ویں تو اس صورت میںہم کو اپنی بھلائی کی باتوں کے اچھی طرح پر سمجھنے اور جانچنے کے لیے بجز اس کے اور کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ہم ایک ایسی قوم کے حالات کو نظر تامل سے دیکھیں جو ہمارے گروہ کی نہیں ہے اور اس کی ترقی کے اسباب کو دریافت کریں خصوصا اس قوم کے حالات کو جو ہمارے قرب وجوار میںہی رہتی ہو اور پھر ہم ان جدید ہنر مندیوں اور کمالات کو خیال کریں جو فی زما ننا علم و عمل کے موافق ہونے سے پیدا کی گئی ہیں اور ان باتوں کا لحاظ کرکے ہم تمام دنیا کویہ سمجھیں کہ گویا ساری دنیا بمنزلہ ایک شہر کے ہے جس میںمختلف قومیں اس قسم کی رہتی ہیں جن کی ضرورتیں باہم ملی جلی ہیں اور ایک دوسری پر موقوف ہیں اور یہ خیال کریں کہ گوہر ایک فرقہ اپنی خاص ضرورتوں میںاپنے ہی نفس کا محتاج ہے مگر بلحاظ ان فوائد کے جو سب کی نسبت عام ہیں سب قومیں ایک دوسرے کی محتاج ہیں پس جو شخص ان سب باتوں پر غور کرے گا جو ہمارے تجربہ کی ر و سے بلا شبہ صحیح ہیں اوریہ بھی اپنی دیانت کی رو سے جانتا ہوگا کہ شریعت اسلامیہ دین و دنیا دونوں کی مصلحتوں پر مشتمل ہے کیونکہ دنیوی معاملات کی اصلاح امور دینیہ کے استحکام کی بنیاد ہے اس شخص کو یہ بات نہایت بری معلوم ہوگی کہ وہ ایسے علماء اسلام کو جو بہ سبب اپنی امانت و دیانت کے اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ احکام شرعیہ کے جاری کرنے میںمصلحت وقت کابھی ضرور لحاظ رکھیں غوامض اور دقایق شرعیہ کے کھولنے اور مصالحہ دینیہ کی حقیقت بیان کرنے سے پہلو تہی کرنا دیکھے اور دانستہ اغماض کرتا پاوے یا ایسے علماء کی عقلیں ظاہری اور باطنی مصلحتوں کے سمجھنے سے قاصر ہوں اور ان کے ذہن ان سے خالی رہیںکیونکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ایسے خاص لوگوں کا ایسا ہونا عوام الناس کو بہتری اور ترقی کی ان باتوں کے دریافت کرنے سے محروم رکھتاہے جو ان کے لیے ضرور ہیں۔ بھلا انصاف کرو کیا یہ کچھ اچھی ہے کہ طبیب ہی مریضوں کے حال سے غافل ہو یا یہ بت کسی کو زیبا ہے کہ وہ صرف ایک چیز کی اصلیت تو دریافت کر لے اور اس کے لوازم اورعوارض سے جاہل رہے اور جیسی یہ بات بری معلوم ہوتی ہے اس طرح یہ بات بھی بری معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ صاحب سیاست ہیں وہ سیاست کے طریقوں سے جاہل ہوں یا اپنی ریاست کی باگ چھوڑ دینے کے واسطے دانستہ تجاہل کریں پس جب مجھ کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ ترقی کے سامان بغیر دریافت کرنے کسی ترقی یافتہ قوم کے حالات کے ہر گز ہم کو میسر نہیں آسکتے تو میرے دل میںیہ خیال آیا کہ اگر میں ان سب باتوں کوبطور کتاب کے جمع کر کے لکھوں جو میںنے برسوں کی فکر اور تجربہ سے حاصل کی ہیں اور جن کومیں نے اپنی آنکھ سے یورپ کے اس سفر میںدیکھا ہے جس پر مجھ کو میرے ایسے آقائے نامدار نے مامور کیا تھا جو نہایت مفخم اور معظم اور بلند رتبہ پاکیزہ اخلاق پسندیدہ خصلت ہے اورجس کے ارادے ہمیشہ اس کے نام کی مثل صادق ہوتے رہتے ہیں اور جس کی تعریف میںتمام دنیا رطب اللسان ہے تو شاید میری یہ محنت رائگاں نہ جاوے گی خصوصا اس حالت میںجبکہ بہت سے لوگ یکدل ہو کر شریعت غرائے اسلام کی حمایت کر نے پر مستعد ہونگے اور سب سے بڑا کام اس کتاب کے تالیف کرنے سے میں نے اپنے دل میںیہ ٹھہرایا تھا کہ میں اس کے ذریعہ سے بڑے بڑے علماء کو ان باتوں سے آگاہ کروں جن کی اطلاع سے ان لوگوں کو ایسی باتوں کے دریافت کرنے میں مدد ملے گی جن کی حسب مقتضائے زمانہ اور مصلحت وقت ہم کو نہایت بڑی ضرورت ہے اور ان باتوں کا ذکر وں جن پر فی زماننا انسان کے جملہ معاملات ظاہری اور باطنی کا مدار ہونا چاہیے تا کہ جو اہل سیاست بلکہ علے العموم جو لوگ خواب غفلت میںہیں وہ سب بیدار ہو جاویں اور یہ بھی ارادہ کیا کہ کچھ حالات انگریزی قوم کے خصوصا ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہم کو زیادہ خصوصیت اور ربط و ضبط اور سخت تعلق ہے بیان کروں اور ان کے حالات کے ساتھ انگریزی قوم کی ان عالی ہمتیوں کا بھی ذکر کروں جن کی بدولت انہوں نے تمام دنیا کی قوموں کے حالات مفصل دریافت کر لیے ہیں اور اس کام کو انہوں نے اپنی سیر و سیاحت اور تمام عالم کے سفر سے اپنے اور آسان کیا ہے پس میں نے اپنے ارادہ کے موافق اس کتاب میں ان سب باتوں کو جمع کیا جو انگریزی قوم نے تدابیر ملکیہ سے متعلق نظم و نسق کی غرض سے ایجاد کی ہیں۔ جہاں تک کہ خدا نے مجھ پر آسان کیا اور ان جدید باتوں کے ضمن میں میں نے ان باتوں پر بھی ایما کر دیا جو زمانہ سابق یعنی عہد قدیم میں انگریزوں کے ہاں رائج تھیں اور ان طریقوں کو بھی بیان کیا جن کی بدولت انگریزی قوم نے سیاست مدن میںایسی ترقی حاصل کی ہے جس کے سبب سے وہ ترقی ملک کی حد پر پہنچ گئی ہیں اور اسی طرح میںنے اس کتاب میںامت اسلامیہ کے ان قدیمی حالات کو بیان کیا ہے جن سے اس قوم کے کمالات اور فضائل کی وہ کیفیت معلوم ہوتی ہے جو اس زمانہ میںتھی جب کہ احکام شریعہ اپنے اپنے موقع پر جاری تھے اور جملہ معاملات اپنے اپنے طریقہ سے برتے جاتے تھے اور انگریزی قوم سے تمام معاملات نظم ونسق اور طریقہ سیاست اور تمدن کو میں نے اس غرض سے بیان کیا ہے کہ مسلمان لوگ بھی ان میںسے جن باتوں کو اپنے حسب حال اور اپنے حق میںبہتر دیکھیں ان کو اختیار کر لیں اور جو باتیں ہماری شریعت کے مخالف نہیں ہیں بلکہ مساعد ہیں ان کو اپنے برتاؤ میںداخل کریںتاکہ وہ شاید اس تدبیر سے پھر اپنے ان کمالات کو حاصل کر لیںجو کسی زمانہ میںہمارے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں اور شاید ہم اس ذریعہ سے اپنے ہاں کی اس تفریط کے گرداب سے نجات پاویں جو آج کل ہم لوگوں میںپھیل رہی ہے اور علاوہ ان باتوں کے اور بہت سی عقی اور نفلی با تیں او رکتاب میں ایسی ہیںجن کو دیکھنے والا نہایت شوق سے دیکھے گا اور اس کتاب کا نام اقوام المسالک فی معرفتۃ احوال الممالک رکھا ہے (یعنی نہایت سیدھی راہ مملکتوں کا حال دریافت کرنے کے باب میں) اور اس کتاب کو ہم نے ایک مقدمہ اور دو حصوں پر منقسم کیا ہے اور اس کے ہر ایک حصہ میں متعدد باب ہیں اور اللہ کی ہدایت سے مجھ کو توقع ہے کہ وہ سیدھے راستے پر مجھ پر کھول دیگا اورچونکہ ایسے مشکل کام کا سرانجام میری بساط سے بڑھ کر تھا اسی لیے مجھ کو علماء اور فضلا ء سے اس بات کی امید ہے کہ وہ میری خطا سے چشم پوشی فرما وینگے اور اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ جو کام صدق نیت اور خلوص قلب سے کیا جاتا ہے اس میں کامیابی عطا کرنے کا خود اللہ ہی کفیل ہوجاتا ہے۔ ترجمہ مقدمہ کتاب کا جب ہر چیز کا اصلی سبب اس کے وجود پر مقدم ہوتا ہے تو اس سبب کو کتاب میںبھی بیان کرنازیبا ہوتا ہے اور مجھ کو یہ بات منظور نہیں ہے کہ میں اس کتاب کے سبب تالیف کا اظہار صرف اسی قدر کافی سمجھوں جس قدر کہ میںنے خطبہ میںایماء بیان کر دیا بلکہ میں اس کی تصریح اس موقع پر بھی ضروری سمجھا ہوں کیونکہ جو بات مجھ کو اس مقدمہ میںبیان کرنی منظور ہے اس کی بنا ء یہی سبب تالیف ہے چنانچہ کہتا ہوں میںکہ اس کتاب کے تالیف کرنے اور اس میں مطالب مذکروہ بالا کے بیان کرنے کی ضرورت مجھ کو دو وجہ سے معلوم ہوئی اگرچہ ان دونوں وجہوں کا مال واحد ہی ہے ایک تو ان میں سے غیرت دلا کر برانگیختہ کرنا غیرت دار عقلمند عالم صاحب ثروت اہل سیاست مسلمانوں کا اس بات پر کہ وہ ذرا ہوشیار ہوکر ان وسیلوں کو دریافت کریں جن کے سبب سے مسلمانوں کی یہ حالت آئندہ اصلاح پذیر ہو، اور جن کے سبب سے ان کے علم و فضل اور طریق تمدن وغیرہ میںترقی ہو اور جن کی بدولت ان کی ثروت اور عزت کے سامان مہیا ہوں ۔ مثلا تجارت یا زراعت یا صنای اور دستکاری کے کام رونق پکڑیں اور ان سب کاموں کے اسباب ان کے لیے پیدا ہوجاوین اورجن باتوں سے ان پر ذلت اورافلاس چھا رہا ہے وہ سب رفع ہو جاویں، اور ایسی بہبودی کی باتوں کی جو حقیقت میں انتظام ملکی اور طرق سیاست کی اصلاح ہے کہ اس اصلاح سے امن پید ا ہوتی ہے اور امن سے دلوں کی آرزوئیں بڑھتی ہیں اور آرزو پیدا ہونے سے کام مضبوط ہوتا ہے جیسا کہ ہم سب لوگ ممالک یورپ میں آنکھوں سے مشاہدہ ہوتا ہے جیسا کہ ہم سب لوگ ممالک یورپ میں آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں اور جس کا بیان ہم نہیں کرسکتے ، اور دوسری بات جو اس تالیف کا باعث ہے ان غافل لوگوں کا ہوشیار کرنا اور متنبہ کرنا ہے جو ایک اچھی بات کو بھی صرف اس خیال سے نہیں اختیار کرتے کہ وہ ظاہر ان کی شریعت میںنہیںہے اور اس غلط خیال کا منشاء یہ ہے کہ وہ دوسرے مذہب کے لوگوں کی جملہ باتوں کو اسی قابل سمجھتے ہیں کہ ان کو ترک کیاجاوے خواہ وہ باتیں کسی قوم کی عادات میں سے ہوں خواہ تدبیر ملکیہ سے متعلق ہوں اور وہ غافل لوگ غیر مذہب والے کی تالیفات کو پڑھنا بھی برا سمجھتے ہیں۔ یہاںتک کہ اگر کوئی شخص ان کے سامنے غیر مذہب کی تالیفات یا عمدہ باتوں کی تعریف کرے تو وہ اس شخص کو بھی برا بھلا کہنے پر مستعد ہوجاتے ہیں، حالانکہ یہ بات بالکل حماقت کی ہے اور سراسر خطا ہے اس لیے کہ جو کافی نفسہ اچھا ہو اور ہماری عقل بھی اس کو تسلیم کرے خصوصا وہ کام جس کو کبھی ہم لوگ ہی کیا کرتے تھے اور غیروں نے اس کو ہم سے ہی اڑا لیا ہے تو ایسے کام سے انکار کرنے اور یا اس کو چھوڑ دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ جب وہ کام کسی زمانہ میںہماری ہی قوم کے عملدر آمد میںتھاتو ہم کو ایسے کام کے پھر حاصل کرنے میںنہایت شوق اور تمنا ظاہر کرنی چاہیے اور گو یہ بات مسلم ہے کہ ہر اہل مذہب اپنے مذہب کے سامنے دوسرے کے مذہب کو ضلالت خیال کیا کرتا ہے لیکن اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ غیرمذہب والے کی دنیوی باتیںبھی بری ہوجاویں یا جوکام مصلحت ملکی کے لحاظ سے اس نے کیا ہے وہ بھی ضلالت ہو جاوے اور ہم کو ان کاموں میں غیر مذہب والی قوم کا اتبا ع ممنوع دیکھو انگریزوں کا ہمیشہ سے یہ دستور ہے کہ جب وہ کسی قوم کا کوئی کام اچھا دیکھتے ہیں فورا اس کے کرنے پر مستعد ہوجاتے ہیں چنانچہ وہ اپنی ایسی ہی باتوں کے سبب سے آج اپنی ترقی اور بلندی کے اس رتبہ پر ہیں جس کو سب لوگ آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور حقیقت میں ایک بڑے پرکھئے دانشمند کاکام بھی یہی ہے کہ جو بات اس کے سامن پیش آوے خواہ وہ کسی کا قول ہویا فعل ہو اس کو نظر امتیاز سے تاڑ کر جانچے اور اگر اس کو اچھا دیکھے تو فور ا اخذ کرلے اور دل سے اس کو بہتر سمجھے گو اس کا موجد دین کے لحاظ سے سچا ہو یا جھوٹا اس لیے کہ حق کچھ لوگوں سے نہین پہنچانی جاتی بلکہ لوگ حق بات سے پہچانے جاتے ہیں اور حکمت مسلمان کے لیے بمنزلہ ایک گم شدہ چیز کے ہے کہ جہاں کہیں اسکو پاوے فورالے لے ۔ ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ نے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میںبطور مشورہ عرض کیا کہ یارسول اللہ اہل فارس محاربہ کے وقت اپنے شہروں کے گرد خندقیں کھود لیتے ہیں تاکہ دشمن کے مقابلہ اور حملہ سے محفوظ رہیں۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس رائے کو پسندفر ما کر غزوہ احزاب میں مدینہ کے گرد خود خندقیں کھودی تاکہ اور مسلمان بھی اس تدبیر پر عمل کیاکریں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ قول کی خوبی کی طرف دیکھوں قائل کے حال کی طرف مت دیکھو اورجبکہ ہمارے متقدمین نے غیر ملت کے لوگوں سے علوم منطقیہ کو نفع کی چیز سمجھ کر اپنی زبان مین ترجمہ کر لیا اور اس کے رواج کو مستحسن جانا یہاں تک کہ امام غزالی علیہ الرحمتہ نے لکھا ہے کہ جو شخص منطق نہ جانتا ہو گویا اس کاعلم کچا ہے تو ہم کو کس چیز نے منع کر دیا ہے کہ ہمبھی اس زمانہ میںغیر ملتک قوم کی جن باتوں کو اپنے حق میںنا فع اور کار آمد دیکھیں ان کو نہ کریں اور جن باتوں کی طرف ہم کو مکائد اعداء سے محفوظ رہنے اور منفعتوں کے حاصل کرنے میں نہایت حاجت ہو ان کو اختیار نہ کریں کتاب سنن المہتدین میںشیخ المراق المالکی نے صاف لکھا ہے کہ غیر قوم کے ساتھ جن باتوں میںمشابہت ممنوع ہے وہ صرف وہی باتیں ہیںجو ہماری شریعت کے خلاف ہیںورنہ جن باتوں کو غیر ملت کے لوگ موافق طریقہ مندوبہ یا مباح یا واجب کیکرتے ہون ان کو ہم صرف اس خیال سے نہیں چھوڑ سکتے کہ غیر ملت کے لوگوں کا بھی ان پر عملد رآمد ہے اس واسطے کہ ہماری شریعت نے ہم کو غیر قوم کے ساتھ ان باتوں میںمشابہ ہونے سے منع نہیں کیا جن کو وہ قوم بھی کارخانہ قدرت کی اجازت سے کرتی ہو اور حاشیہ در مختار میںعلامہ شیخ محمد بن عابد بن الخنفی نے تو یہاں تک بہ تصریح لکھا ہے کہ جن باتوں میںمخلوق خدا کی بہتری اور ترقی ہو اگر ان کے کرنے میںہم کسی غیرملت قوم کے ساتھ بھی مشابہ ہو جاویں توکچھ خرابی نہیں ہے اور بڑ تعجب کی بات یہ ہے کہ جولوگ انگریزی قوم کی باتوں کے اتباع سے سخت انکار کرتے ہیں وہ اپنی بھلائی کی باتوں میں تو انکار کرتے ہیں اورجو باتیں ان کے حق میںمضر ہیں ان میں کچھ ان کو انکار نہیںہے ۔ کیونکہ وہ لوگ انگریزی بنا ہوا کپڑا پہن کر خوش ہوتے ہیں، اور انگریزی اسباب گھروں میںرکھتے ہیں اورانگریزی ہتیھار اورضرورت کی چیزیں استعمال میں لاتے ہیں مگر ان چیزوں کو انگریزی تدبیر سے کام میں لانے میں بڑا پرہیز کرتے ہیںحالانکہ ان باتوں سے ان کے ملکی انتظام اورملکی ترقی میںبڑا نقصان اور خرابی پڑتی ہے اور وہ خرابی کچھ پوشیدہ نہیںبلکہ ظاہر ہے اور گویا اس سبب سے ان میں ایک عیب رہتا ہے اس لیے کہ جب وہ اپنی ذاتی ضرورتوں کے سامانج میںدوسری قوم کے محتاج ہیںتو گویا علم میں وہ اس قوم سے پست درجہ ہیں او ر ان کی ملکی ترقی میںیہ نقصان رہتا ہے ، کہ وہ اپنے ملک کی پیداوار وغیرہ ک ثمرہ سے نفع نہیں اٹھا سکتے حالانکہ ترقی ملک کی یہی علامت اور اس سے یہی مقصود ہے اور تصدیق ا سکی ہمارے اس مشاہدہ سے ہوتی ہے کہ ہماری قوم کے صناع لوگ اپنی صنعت اور دستکاری سے کچھ فائدہ حاصل نہیں کرتے مثلا جو روئی بوتے ہیں یابکریوں کی اون تراش کر درست کرتے ہیں اور سال پھر اس پر جان مارتے ہیں وہ اپنی سال بھر کی محنت کی پیداوار یعنی روئی اور اون وغیرہ کو تھوڑی سی قیمت پر انگریزی قوم کے ہاتھ بیچ ڈالتے ہیں اور اسی روٹی اور اون سے انگریز لوگ تھوڑے عرصہ میں اپنی صناعی کی بدولت طرح طرح کے کپڑے بن کر لاتے ہیں تو پھر وہی ہماری قوم کے لو گ جنہوں نے ان کو روٹی دی تھی انگریزوں کو چوگنی قیمت دے کر کپڑا خریدتے ہیں غرض کہ ہمکو اپنے ملک کی صرف اصلی پیداوار کی قیمت مل جاتی ہے اور کسی قسم کی ہنر مندی یا صناعی سے ہم ا س سے فائدہ نہیںاٹھا سکتے پس جب ہم یہ بات دیکھیں کہ ہمارے ملک میںسے یہ چیز جاتی ہے اور یہ چیز آتی ہے اور اس بات کااندازہ کریں کہ آنے والی چیز کا خرچ اور جانے والی چیز کی آمدنی مساوی ہے تو یہاں تک گویا خیریت ہے تھوڑا ہی ساضرر ہے اور جب ہم کو جانے والی چیز کی قیمت کم ملے اور آنے والی چیز کی قیمت چہار چند دینی پڑی تو یقین کر لو کہ ایسا ملک آج نہ تباہ ہوا کل تباہ ہوگا۔ …………… مدرسہ دیوبند کی سالانہ رپورٹ پر تبصرہ مسلمانوں کا جھوٹا دعویٰ دینداری (تہذیب اخلاق بابت یکم جمادی الثانی ۱۲۹۰ ئ) مولوی رفیع الدین صاحب مہتمم مدرسہ عربی دیو بند نے اس مدرسہ کی رپورٹ سالانہ بابت ۱۲۸۹ ھ ہمارے پاس بھیجی ہے جس کے دیکھنے سے ہم کو نہایت ہی رنج ہوتا ہے اور مسلمانوں کی حالت پر کس قدر افسوس آتا ہے ۔ اب ہم اس رپورٹ پر متعدد طرح پر نظر ڈالتے ہیں۔ اول بلحاظ مسلمانوں کے جوش مذہبی کے ہم سمجھتے تھے کہ جو مدرسہ ہم قائم کرنا چاہتے ہیں اورجس میںعلوم انگریزی اور دیگر علوم دنیاوی بشمول علوم دینی پڑھائے جاویںگے اس پر جو پکے مسلمان یا متعصب دیندار یا متقشف وہابی اعتراض کرتے ہیں اور اس کو کرسٹا نی مدرسہ ٹھہراتے ہیں اور اس سبب سے لوگوں کو اس میں چند ہ دینے سے منع کرتے ہیں تو عربی مدرسہ دیو بند میںجس میں بجز مسلمانی کے اور کچھ نہیںہے اور جس میں وہی پرانے علوم پڑھائے جاتے ہیں جن کو مسلمانک چاہتے ہیں، بڑے بڑے مسلمانوں نے ضرور مدد کی ہوگی ۔ مگر رپورٹ کے دیکھنے سے ہم کو نہایت مایوسی ہوئی۔ بڑے سے بڑا چند ہ فہرست میں آٹھ روپے پانچ آنہ ماہواری کا ہے اور اس کے بعد پانچ روپیہ ماہواری کے اس کے بعد چار روپیہ ماہواری کا اور اس کے بعد تین روپیہ ماہواری کا اور یہ چاروں قسم کے چندے غیر وصولی ہیں۔ بعضوں پر دو د و برس اور بعضوں پر ایک ایک برس کا باقی ہے۔ اس کے بعد بہت تھوڑے چندے دو روپیہ اور ایک روپیہ ماہواری کے ہیںاور اس کے بعد تو پھر روپیہ ،دو روپیہ ،تین روپیہ ، آٹھ آنہ ، چار آنہ سال پر نوبت پہنچ گئی اور وہ بھی باسائش وصول نہیں ہوتا ۔ بمجبوری مہتعم نے تجویز کی ہے کہ چندہ اوگاہنے کے لیے ایک آدمی نوکر رکھا جاوے ۔ پس یہ کاروائی ہمارے لیے قطعی ثبوت اس بات کا ہے کہ جو لوگ اپنے تئیں مقدس اور متقی اور پکا مسلمان ظاہر کرکے مدرسۃ العلوم مسلما نان میں شریک نہ ہونے کی وجہ اپنی دینداری ظاہر کرتے ہیں صرف سخن ساختہ اور حیلہ نا مشرع ہے ورنہ کیا وجہ یہ کہ ان لوگوں نے مدرسہ عربی دیو بند میںجس میںبجز مسلمانی کے اور کچھ نہیںہے کیوں مدد نہیں کی۔ حقیقت میں مسلمانوں پر نہایت افسوس ہے کہ ایسے مدرسہ میں بھی جیسا کہ دیو بند کا عربی مدرسہ ہے اور جس میں جناب مولوی محمد قاسم صاحب سا فرشتہ سیر ت شخص نگران ہے اور مولوی محمد یعقوب صاحب سا شخص مدرس ہے کچھ مدد نہ کریں۔ دیکھو اس کا سبب صرف یہی ہے کہ ہماری قوم کی تعلیم و تربیت اچھی نہیں ہے ۔ جس طرح کہ ہم مجوزہ مدرستہ العلوم میںتعلیم و تربیت دینا چاہتے ہیں اگرہماری قوم نے اس طرح پر تعلیم پائی ہوتی تو تم دیکھتے کہ اس مذہبی مدرسہ دیو بند میں کس طرح روپیہ کی مدد پہنچتی اورکس طرح یہ مذہبی مدرسہ جو اب ایسا غریب ہے جس کا حال دیکھ کر اور مسلمانوں کے مذہبی مدرسہ کا نام سن کر رونا آتا ہے کس قدر رونق اورترقی پرہوتا۔ پس جو لوگ ہمارے مجوزہ مدرسۃ العلوم کے برخلاف جوش مذہبی ظاہر کرتے ہیں در حقیقت سچائی سے نہیں ہے بلکہ صرف ایک غلط حیلہ مخالف کا ہے۔ دوم بلحاظ استقلال مدرسہ کے۔ تمام رپورٹ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مدرسہ خود اپنے پر یا مسلمانو ں کی ہمددری پر قائم نہیں ہے بلکہ صرف ایک شخص کی ذات پر اس کا مدار ہے۔ مولوی محمد قاسم صاحب درحقیقت نہایت بزرگ و نہایت نیک مادر زاد ولی ہیں۔ تمام ضلع سہارنپور اور میرٹھ و مظفر نگر میںلوگ ان کو مصداق اس حدیث کا کہ علماء امتی کا انبیاء بنی اسرائیل سمجھتے ہیں اور ان کے سبب سے یہ چند ہوتا ہے ورنہ کوئی مسلمان ایک ٹکا بھی نہ دیتا۔ دوسرا بڑا سبب مولوی محمد یعقوب صاحب کاہے جو مدرس اول اس مدرسہ کے ہیں اور انہوں نے صرف پینتیس روپیہ ماہواری مدرسہ سے لینا قبول کیا ہے اور قناعت و زہد سے اس قدر علیل میںاوقات بسر کرتے ہیں اگر وہ نہ ہوںل تو کیا دوسرا شخص اس قلیل مشاہرہ پر ان علوم کو پڑھانے کو ملے گا جو اس میں پڑھانے جاتے ہیں۔ پس یہ مدرسہ صرف ان بزرگوں کی دعا پر قائم ہے جس دن یہ دونوں بزرگ خد اکے گھر یا خدا کے پاس تشریف لیے جاویںگے اسی دن مدرسہ کابھی خاتمہ ہے۔ کیا افسوس ہے مسلمانوں کی عقلوںپر کہ دیو بند میں بلا ضرورت مسجد بناتے ہیں اورہزاروں روپیہ خرچ ہوتا جاتا ہے اور اس زندہ خانہ خدا کا خیال نہیں کرتے ۔ اگر مسجد نہ بناتے اور اس روپیہ سے اس مدرسہ کے لیے مستقل آمدنی کی جائداد پیدا کر لیتے تو کیا کچھ مسلمانی کو فائدہ ہوتا اگرچہ مسلمانوں کی نیک ذاتی سے یقین تھا کہ چند ہی سال میں وہ جائداد متولیوں کے صرف میںآجاتی۔ اس واقع سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمان جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خالصاللہ کوئی کام کرتے ہیں یہ محض غلط ہے بلکہ ہر شخص اپنی خواہش نفسانی یا رسمی خوشی میں مبتلا ہے۔ مسجد کے بننے کے لیے روپیہ دینے سے اس لیے خوشی ہوتی ہے کہ دھنیے اور جولا ہے۔ سقے اور بھیٹا رے جو سنتے ہیں اس کو نہایت دیندار اور نیک کام کرنے والا سمجھتے ہیں اور یہ اپنے دل میںخوش اور مغرور ہوتے ہیں او رگر عقل ہوگی تو غالبا سمجھتے ہوں گے کہ جس کام کے لیے سید احمد روپیہ مانگتا ہے حقیقت میں وہ اس زمانہ میں مسجد بنوانے سے بھی زیادہ ثواب کاکام ہے۔ مگر چونکہ اس میں روپیہ دینے سے عالم لوگ ایسا نیک اورکار ثواب نہیں سمجھنے کے اور نہ عوام میںایسی نیک نامی کا شہرہ ہوگا جیسے مسجد بنانے میں اس لیے اس میں روپیہ نہ دیں گے ، ہزاروں حیلہ کریں گے کہ یہاں اس میں تو انگریزی پڑھا جاوے گی۔ الحاد سکھایا جاوے گا حالانکہ خود ان کادل جانتا ہے کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں غلط ہے اور مسلمانوں کے حق میں وہی بہتر ہے جو سیداحمد کہتا ہے۔ سویم ۔ بلحاظ نتائج دینی و دنیوی کے جن کے حاصل ہونے کی اس مدرسہ سے توقعی کی جاوے، اس مضمون پر کچھ لکھنے سے پہلے کچھ حال طالب علموں کا اور بعد امتحان سالانہ جو انعام تقسیم ہوا کچھ اس کا حال لکھنا مناسب ہوگا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس مدرسے میں ایک سو پنتالیس طالب علم ہیں جن میں سے تراسی خاص دیو بند کے رہنے والے ہیں اور باسٹھ بیرونجات کے ہیں۔ ان سے سات طالب علم تو ویسے ہیں جو اپنے پاس سے روٹی کھاتے ہیںاوربچپن وہ ہیں جو دیو بند کے رہنے والوں سے یا مدرسے سے روٹی پاتے ہیں۔ کسی کو کچھ کپڑا ور جاڑے میںرضائی بھی مل سکتی ہے۔ تقسیم انعام کی کیفیت رپورٹ میںیہ لکھی ہے کہ صورت تقسیم انعام یوں تجویز ہوئی کہ طلبہ مکتب قرآن میںجو اعلیٰ دو حافظ اور اعلیٰ دولڑکے کل چار مستحق انعام ہوئے ان کے لیے ڈیڑھ روپیہ تجویز ہوا اور طلبہ فارسی ادنیٰ جو سات تھے ان کے گیارہ انعام کے لیے ایک روپیہ چھ آنہ تجویز کیا کہ تخمینا ہر انعام کے موازی دو آنہ ہو ئے اور فارسی کے طلبہ اعلیٰ کو جو چھ تھے سات انعام ملے بحساب فی انعام پانچ آنہ۔ کل دو روپیہ تین انہ مقرر ہوئے اور عربی میں ادنیٰ درجہ کے چو بیس طالبعلموں کو تریپن انعام ملے بحساب فی انعام پانچ آنہ ۔ انکا کل روپیہ سولہ روپے نو آنہ ہوئے اور اوسط گیارہ طلباء کو اکیس انعام ۔ ان کو فی انعام سات آنہ تخمین کیے۔ کل نو روپیہ تین انہ ہوئے اور طلبہ اعلیٰ عربی کے انیس قابل انعام ہوئے اور چھیاسٹھ انعام انھوں نے پائے فی کتاب چودہ آنہ تخمین کیے تو کل روپیہ ان کا ستاون روپیہ بارہ آنہ ہوا۔ اول تو ہم مسلمانوں کی اس حالت پر افسوس کرتے ہیں کہ ان کی قوم کا مسلمانی مدرسہ اور ایسی خراب اور محتاج حالت میں رہے ۔ کہاں ہیں بڑے بڑے دینداری کا دعویٰ کرنے والے اور کیوں مذہب اسلام کے مدرسے کو ایسی حالت میںڈال رکھا ہے مگر ہم پھر نہایت مضبوطی اور استقلال سے کہتے ہیں کہ یہ خراب حالت مسلمانوں کی ہمیشہ ایسی ہی رہے گی اور ان کی کسی بات کو خواہ دینی ہویا دنیاوی کبھی ترقی نہیں ہونے کی اور کبھی ذلت کی حالت سے نہیں نکلنے کے جب تک کہ اس طرح پر ان کی تعلیم و تر بیت نہ ہو جس کی بنیاد ہم نے ڈالی ہے ۔ دیکھ لو تمہارے ہی ملک میں ایک تربیت یافتہ قوم پادریوں کے مذہبی مدرسے ہیں ۔ اس کی تائید بھی نہایت غر یب آدمی اور بیوہ عورتیں زیادہ تر کرتی ہیں اور خود انصاف کرو کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے ۔ اس کا سبب صرف یہی ہے کہ اس قوم میں تعلیم و تربیت عمدہ ہے ۔ ان کے سب کام اچھے ہیں۔ ہماری قوم میںتعلیم و تربیت نہایت خراب ہے۔ گو تعلیم تو برائے نام ہوا لا تربیت کا تونام بھی نہیں اور اسی سبب سے ہمارے سب کام کیا دینی اور کیا دنیووی سب خراب اور بربار و ذلیل ہیںَ پھر ہم پوچھتے ہیں کہ جن طالب علموں نے ایسی خراب حالت محتاجی اور خواری اور ذلت میںتعلیم پائی ہے ان سے ہم کو اپنی قومی ترقی کی کیا توقع ہے ۔ کیا ان میں عالی خیالات اور جرات اور فیاضی اور قو می ہمدردی پیدا ہو سکتی ہے ؟ کیا ان میں خود غرضی کی بو جو قومی ترقی اور ہمدردی کی کلی منافی ہے جا سکتی ہے ؟کیا ایسی حالت سے ایسے لوگ پید اہو سکتے ہیں جو قومی ترقی کے لیے بمنزلہ آلہ کے ہوں اور کیا ایسی حالت سے لوگوں کو عموما تحصیل علوم کی طرف رغبت دلائی جا سکتی ہے ؟ یہ وہ حالت ہے جس سے ہر شخص پناہ مانگتا ہے ۔ پھرکون ہے جو اس میں مبتلا ہونے کی خواہش کرے۔ جو شخص ان طالب علموں کو روٹی دیتے ہیں انہی سے انہی کے ایمان سے دریافت کرو کہ وہ لوگ ان طالب علموں کی کیا عزت سمجھتے ہیں ۔ جس طرح اور چار فقیروں کو جو دروازہ پر آکر روٹی مانگتے ہیں اور وہ لوگ ان کو ایک ٹکڑا روٹی کا توڑ کر دے دیتے ہیں اسی طرح ان طالب علموں کو بھی روٹی کا توڑ کر دے دیتے ہیں اسی طرح ان طالب علموں کو بھی روٹی پکڑا دیتے ہیں۔ پس جن لوگوں نے ایسی حالت میں تربیت پائی ہو ان کے تمام وہ اندرونی قویٰ جن سے قو می ترقی اور قومی عزت کو ترقی ہوتی ہے نیست و نا بود ہو جاتے ہیں۔ تربیت یافتہ ملکوں میں بھی غریب محتاج آدمیوں کی تعلیم کی تدبیریں کی جاتی ہیں مگر وہ لوگ ایسے عمدہ طور پر وہ تدبیریں کرتے ہیں جن سے اس قسم کی ذلتیں پیدا نہیں ہوتیں اور وہ قومی ہمدردی کی قوت معدوم نہیں ہونے پاتی ۔پس ہماری قوم میں بھی اگرتعلیم و تربیت عمدہ طور پر ہو جائے تو غریب محتاج طالب علموں کی تعلیم کا سامان بھی اور ہی صورت پکڑ جاوے او رمذہبی تعلیم بھی ایسے عمدہ طور پر ہو جاوے اور ایسی کثرت سے ہونے لگے کہ لوگوں کو دیھ کر تعجب ہو۔ اب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ان لوگوں سے قوم کو دینی بھلائی کیا پہنچنے والی ہے؟ اس زمانہ میں مسلمانوں کو دینیات میںنماز، روزہ ، حج ، زکواۃ ، نکاح، طلاق و میراث کے مسائل دریافت کرنے کی البتہ حاجت ہوتی ہے۔ اکثر مسائل خود لوگوں کو معلوم ہوتے ہیں اور جن کو دریافت بھی کیا جا ئے تو ان علماء سے اس سے زیادہ بتانے کی توقع نہیں ہے جو ایک اردو خواں چند مذہبی کتابین پڑھا ہوابتا سکتا ہے انصاف سے اور ایمان سے دریافت کرو کہ ان لوگوں نیجو بڑی بڑی کتابیں حدیث و تفسیر کی پڑھی ہیں صرف بطور تبرک پڑھی ہیں یا درحقیقت اپنے علم سے ان کی تحقیقات و تنقیح کے بعد ان پر عمل کرنے کے لیے پڑھی ہیں۔ پس بعینہ ایسی مثال ہے کہ بخاری شریف جس طرح ایک طاق میںرکھی ہے اس طرح ایک مولوی کے سینہ میںرکھی ہے ۔ نہ اس سے کچھ عمل مقصود ہے نہ ا س سے ۔ یہ تو پوچھو کہ ان لوگوں سے دین کی کچھ حمایت ہوسکتی ہے۔ اگر ایک جیالوجی جاننے والا آموجود ہو اور بموجب قواعد او رتجربہ جیالوجی کے مذہب اسلام پر اور قرآن مجید پر اعتراض کرنے شروع کر دے ۔ یا ایک کیمسٹری جاننے والا کیمسٹری کے قواعد سے مسلمات مذہب اسلام کی تردید شروع کر دے۔ یا ایک جدید ہئیت دان قرآن مجید کے بیانات پر شبہات ڈالے یا جیسا کہ اس زمانہ میں برابر ہو رہا ہے کہ پادریوں او رمسلمانوں سے مذہبی مباحثہ ہوتو یہ لوگ کیا حمایت دین اسلام کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ ان علوم سے مطلق واقف نہیں ہیں۔ پادریوں سے بھی گفتگو کرنے کے لیے انگریزی زبان کا جاننا اور اکیلز پاسٹکل ہسٹری سے واقف ہونا ، یونانی اور عبری زبان سے واق ہونا واجبات سے ہے ۔ پس جب یہ لوگ ان باتوں سے واقف ہی نہیں ہیں تو کیاکر سکتے ہیں؟پس صرف اس تعلیم سے جو ہر رہی ہے ہم کو دین اسلام کی حمایت کی بھی کچھ توقع نہیں ہے۔ جب ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ لوگ خو دآپ اپنے لیے کچھ مفید ہونگے تو اس کی بھی ہم کو کچھ توقع نہیں ہوتی ۔ کوئی فن انہوں نے نہیں سیکھا ۔ کوئی ہنر ان کو نہیں آتا ۔ روٹی کمانے اور کھانے کا کوئی ذریعہ ان کے پاس نہیں ہے ۔ پس وہ کیا اپنی بہتری آ پ کر سکتے ہیں اور یہ تصور کرنا کہ تمام لوگ عابد و ذاہد اور فاقہ کش او رخدا رسیدہ ہو جاویں گے ایک ہنسی اور دل لگی کی بات ہے۔ مولوی محمد قاسم کس کس کو اپنا سا بنا لیں گے اور آج تک کتنے آدمیوں کو انہوں نے اپنا سا بنا لیا۔ شبلی و جنید تو اپنا سا کسی کو نہ بنا سکے تو یہ کیونکر توقع ہوسکتی ہے کہ ہزاروں مسلمان ایسے ہی دنیا سے آزاد ہو جاویں گے جیسے مولوی محمد مظفر حسین صاحب مرحوم تھے یا جیسے کہ مولوی محمد قاسم صاحب ہیں۔ ایسے خیالات ہونے درحقیقت ٹھیک ٹھیک دشمنی مسلمانوں کی قوم کے ساتھ ہے ۔ ہاں ایک بات بے شبہ اس قسم کی تعلیم سے ہونے والی ہے کہ کاہل اور مال مردم خوروں کا گروۃ بڑھتا جاوے گا آج اس مسجد میںاگر دس ملاں خیرات کی روٹی کھانے والے موجود ہیں تو کل بیس ہو جاویں گے اور اگر آج فلاں گاؤں کی چو پاڑ میں دو ملانے بے محنت کی روٹی کھانے والے اترے ہوئے ہیں تو کل چار موجود ہو جاویں گے ۔ ان کی صورت سے گاؤں کا چودھری کانپ جاوے گا اور اس کا سیر بھر خون خشک ہو جاوے گا۔ دور سے ملانے کی صورت دیکھ کر اپنی بیوی سے کہے گا کہ اری کلوا کی ماں ایک اور آیا ۔ اس کے لیے کچھ روٹی ٹکڑا دے ۔ کیا ایسی حالتوں میںہم کو توقع ہے کہ ہماری قوم میں کچھ نیکی بڑھے گی؟ہر گز نہیں، مفلسی تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ اس کی اتنی بڑی شان ہے کہ خدا نے بھی مفلسی کی حالت کو مرقوع القلم کیا ہے ۔ پس ان لوگوں سے بجز اس کے کہ ہزاروں قسم کے جرائم اور گناہ سر زد ہوں اور کیا توقع ہو سکتی ہے ۔ جیسا کہ اب بھی ہوتا ہے او رخود جناب مولوی محمد قاسم صاحب اور مولوی محمد یعقوب صاحب اپنے اضلاع کے حالات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ مسلمانوں کی نیتیوں کا ۔ ان کے حالات کا ، ان کے معاملات کا ، ان کی ایمانداری کا ، جھوٹی گواہی دینے کا ، جھوٹے حلف اٹھانے کا کیا حال ہے او رکیا ہوتا جاتا ہے ۔ یہ تمام با تیں صرف نتیجہ اس کا ہے کہ ہماری قوم میںتعلیم و تربیت نہایت خراب درجہ پر ہے ۔ خود مذہبی تعلیم بھی ایسے خراب قاعدہ پر ہے کہ وہ دلی نیکی جو خود انسان کو اس کے برے کاموں کو جتلاتی رہتی ہے اور جس کو انگریزی میں کانشنس کہتے ہیں انسان میں سے معدوم و مفقود ہو جاتی ہے۔ ہاں بلاشبہ ان لوگوں سے اس بات کی توقع ہے کہ جب کوئی شخص دلی ہمدردی اور محبت قومی اور حب ایما نی او ر خالص عشق اسلامی سے اپنی قوم کی بھلائی میں کھڑا ہو ۔ جس کے خیالات بالضرور ان تاریک سے مختلف ہوں گے تو ا سکی نسبت کفر کے فتوے دینے کو موجود ہوں گے ۔ جناب شمس العلماء مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی بھی سید احمد کے کفر پر مہر ثبت فرماویں گے اور مولوی محمد سعد اللہ صاحب بھی تکفیر کے فتووں پر مہر لیں کریںگے۔ اور اس بات کوبھول جائیں گے کہ ان دونوں صاحبوں نے کیسے کیسے فتووں پر مہریں کی ہیں جس سے سچے مسلمان کا ایما ن کانپ جاتا ہے۔ تھوڑی سی دنیا کی توقع میں کس طرح خدا کے احکام کو تحریف کیا ہے۔ مگر ان بزرگوں کو یہ خیال کرنا چاہیے کہ ان فتووں سے کیا ہوتا ہے۔ بقول مولوی شاہ عبدالعزیز صاحب کے کہ گوزشتر کے برابر بھی کچھ وقعت نہیں رکھتے پہلے وہ خود تو مسلمان ہولیویں جب دوسروں کی تکفیر کریں۔ او خویشتن گم است کرا رہبری کند ہماری غرض اس تمام تحریر سے مسلمانوں کو اس بات کی غیرت دلانا ہے کہ ان کے دونوں کام دین و دنیا کے سب خراب و ابتر ہیں۔ ان کو شرم آنی چا ہیے کہ ان کے مدرسہ اسلامی دیو بند کاکیا حال ہے ۔ سب کو چا ہیے کہ اس مدسہ کی ایسی مدد کریں اور ایسی اعلیٰ ترقی پر پہنچا ئیں جو اسلام کی رونق و شان کا نمونہ ہو۔ دوسرے ہم کو اس تمام تقریر سے یہ مطلب ہے کہ تمام مسلمان خوب یقین کر لیں کہ ان مدرسوں سے جیسے کہ وہ اب ہیں قومی عزت یا قومی ترقی یا اسلام کی رونق و شوکت ہونی ممکن نہیں ہے ۔ اصلی بھلائی اس میںہے ۔ جس کی ہم راہ بتاتے ہیں اور جب تک اس طرح پر مسلمانوں کی تعلیم و تربیت نہ ہوگی اور مدرسۃ العلوم قائم نہ ہوگا۔ جس میں تمام علوم دینی و دنیاوی پڑھائے جائیں گے اور جس میں سے ایسے لوگ تعلیم پاکر نکلیں گے جو بعوض اس کے کہ خود خیرات کی روٹی کھاویں دس کو کھلا سکیں گے اور علوم دین سے اپنی عاقبت درست کریں گے اور علوم و فنون دنیاوی سے عام لوگوں میں منفعت پھیلا دیں گے۔ کسی قسم کی دینی یا دنیوی بھلائی مسلمانوں کو نصیب نہ ہوگی ۔ جو لوگ کہ ہماری تدبیروں کی مخالفت کرتے ہین وہ پکے دشمن اسلام کے اور مسلمانوں کے ہیں۔ تمام باتیں ان کی ظاہری اور محض جھوٹی ہیں۔ اپنے مطلب پر وہ وہ باتیں کرتے ہیں جو ایک ادنیٰ دنیا دار بھی نہیں کیا کرتا ۔ کیا اس زما نہ کے لوگ واقف نہیں ہیں کہ اپنی غرض پر مولوی نون بسر او رمولوی سین بسر او ر مولوی میم بسر اور مولوی عین بسر وغیرہ وغیرہ نے کیا کیا کیا ۔ جو لوگ ہماری تکفیر کا فتویٰ دیتے ہیں ذرا ان کو شرم کرنی چا ہیے اور اپنے گریبان میں منہ ڈالنا چاہیے۔ کون سی لمبی پوزیشن کے مولوی صاحب ہیں جن کے حال اور کرتوت سے ہم واقف نہیں۔ خدا مسلمان کو ہدایت کرے اور توفیق نیک دے۔ …………… نوٹ:عربی مدرسہ دیوبند کی جو تعلیمی حالت سر سید نے آج سے ۹۰ برس پیشتر لکھی تھی وہ افسوس ہے کہ بعد کے زمانہ میںبھی اسی طرح قائم رہی ۔ چنانچہ عرصہ ہوا ایک مرتبہ میں علی گڑھ میں صاحبزادہ آفتاب احمد خاں صاحب مرحوم وائس چانسلر یونیورسٹی کے پاس بیٹھا ہو اتھا کہ کسی قصبہ کے چند معززین ان سے ملنے آئے اور اثنائے گفتگو میں کہنے لگے کہ ’’جناب ہمار ے قصبے میں جو کوئی آریہ لکچرار یا قادیانی مبلغ آتا ہے اور ہم شہر سے کسی دیو بند پا س مولوی صاحب کو اس سے مباحثہ کرنے کے لیے بلاتے ہیں تو مولوی صاحب نہ آریوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور نہ قادیانیوں کا۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟‘‘ اس پر جناب صاحبزادہ صاحب حضرت خواجہ سجاد حسین صاحب مرحوم فرزند شمس العلماء مولاناالطاف حسین حالی) سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے (جو اس وقت وہیں تشریف رکھتے تھے ) ’’خواجہ صاحب! آپ نے سنا یہ صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟ یہ ہے ہمارے دینی مدارس کی حالت! مجھے ایک مرتبہ دیو بند جانے کااتفاق ہوا تومیںنے خود دیکھا کہ مدرسہ میںپڑھنے والے طلباء مسلمانوں کے گھروں سے در در پھر کر دونوں وقت روٹیاں مانگ لاتے تھے اور بیٹھ کر کھالیتے تھے۔جسے دیکھ کر مجھے سخت افسوس ہوا اور میںسوچنے لگا کہ ایسی حالت میں تربیت پانے والے طلباء کی ذہنیتیں بھی ایسی ہی پست اور ذلیل ہوں گی اور اس پست حالت کی موجودگی میں ان کے دل علم کی روشنی سے کس طرح منور ہو سکتے ہیں؟‘‘ پانی پت میں میرے ایک بہت ہی مخلص دوست تھے مولوی عبدالرحیم جو پانی پت کے سب سے بڑے عربی مدرسہ کے صدر مدرس تھے اور آٹھ برس تک دیوبند میںپڑھ کر فضیلت کی سند حاصل کر چکے تھے ۔ آدمی نہایت نیک دل اورصاف گوتھے۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا ’’ مولانا !ٹھیک ٹھیک بتائیں کہ دیوبند سے جو لوگ سالہاسال پڑھ کر باہر آتے ہیں کیا وہ عربی کے فاضل اور عالم ہوتے ہیں؟ اور عربی سے روانی اورآسانی کے ساتھ اردو میںترجمہ کر سکتے ہیں یا اردوعبارت کو فصاحت اور بلاغت کیساتھ عربی میںمنتقل کر سکتے ہیں؟ مولانا نے جوابا بہت ہی سادگی کے ساتھ فرمایا ’’نہیں‘‘ میں نے کہا ’’ اس کی وجہ کیا ہے ؟‘‘ کہنے لگے ’’ملازمت کے لیے اور روٹی کی خاطر پڑھتے ہیں۔ اس لیے علم نہیںآتا مجھے دیکھ لو۔ آٹھ برس دیو بند میں منطق پڑھی او آٹھ برس سے یہاں طلباء کو منطق پڑھا رہاہوں لیکن منطق کا ایک حرف نہ اس وقت سمجھ میں آیا ۔ نہ اس وقت طلباء کو سمجھا سکتا ہوں۔ جس طرح طوطے کی طرح پڑھ کر آیا تھا اسی طرح طوطے کی طرح پڑھا رہا ہوں۔‘‘ سر سید کے اس مضمون کے شائع ہونے کے چھ برس بعد ۱۲۹۶ ء میںجب حضرت شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی مشہور و معروف مسدس لکھی تو اس میںاس قسم کے مولویوں کی علمی قابلیت کانہایت صحیح نقشہ ان الفاظ میںکھینچا ؎ وہ جب کر چکے ختم تحصیل حکمت بندھی سر پہ دستار علم و فضیلت اگر رکھتے ہیں کچھ طبیعت میں جودت تو ہے ان کی سب سے بڑی یہ لیاقت کہ گردن کو وہ رات کہہ دیں زباں سے تو منوا کے چھوڑیں اسے ایک جہاں سے سوا اس کے جو آئے اس کو پڑھا دیں انہیں جو کچھ آتا ہے اس کو بتا دیں وہ سیکھے ہیں جو بولیاں سب سکھا دیں میاں مٹھو اپنا سا اس کو بنادیں یہ لے دے کے ہے علم کا ان کے حاصل اسی رپ ہے فخر ان کو بین الا ماثل نہ سرکار میں کام پانے کے قابل نہ دربر میں لب ہلانے کے قابل نہ جنگل میں ریوڑ چرانے کے قابل نہ بازار میں بوجھ اٹھانے کے قابل نہ پڑھتے تو سو طرح کھاتے کما کر وہ کھوئے گئے اور تعلیم پا کر جو پوچھو کہ حضرت نے جو کچھ پڑھا ہے مرد آپ کی اسکے پڑھنے سے کیا ہے مفاد اس میں دنیا کا یا دین کا ہے نتیجہ کوئی یا کہ اسکے سوا ہے تو مجذوب کی طرح سب کچھ بکیں گے جواب اس کا لیکن نہ کچھ دے سکیں گے نہ حجت رسالت پہ لا سکتے ہیں وہ نہ اسلام کا حق جتا سکتے ہیں وہ نہ قرآن کی عظمت دکھا سکتے ہیں وہ نہ حق کی حقیقت بتا سکتے ہیں وہ دلیلیں ہیں سب آج بیکار ان کی نہیں چلتی توپوں میں تلوار ان کی (محمد اسماعیل پانی پتی) ……………… نجم الامثال (اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ ۱۴ اپریل ۱۸۷۶ئ) ا س نام کی ایک کتاب ہمارے دفتر سائنٹیفک سوسائٹی میں وصول ہوئی جس کو اس کے لائق مصنف نے بطور ارمغاںاس دفترمیںبھیجا ہے۔ اس کے دیباچہ کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ یہ کتاب اخیر حصہ اس مجلد کا ہے جس کے اس کے مصنف نے تین حصے کیے ہیں اور ان تینوں حصوں کو ایک کتاب بنایا ہے۔ اس کتاب میںاردو زبان کی وہ مثلیں اور کہاوتیں درج ہیں جو ہندوستان کی عورت و مرد کی زبان زد ہیں۔ پس مصنف مذکور نے اپنی کتاب کے ہر صفحہ کے دو کالم بنائے ہیں اور ان میں سے ایک کالم میںمثل۔ دوسرے کالم میں اس کے محاذی اس مثل کے معنی اور محل کی تشریح کی ہے جس سے نہایت آسانی پڑھنے والوں کومعلوم ہوتی ہے۔ جو تلاش اس کے مصنف نے کی ہے اہل انصاف کی نظر میں وہ سراسر مدح کے لائق ہے اور جو لوگ عام لسان کے شائق ہیں ان کے لیے یہ کتاب ایک مفید شیئی ہے اور گو ہم یہ کہہ سکتے ہیںکہ اس باب میں یہ کتاب کوئی پہلی تصنیف نہیںہے مگر اپنی طرز کے لحاظ سے بلا شبہ وہ پہلی تصنیف ہے جس سے اردو زبان کے شائق بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں او ر ہم یقین کرتے ہیں کہ اگر اس قسم کی تصنیفات کا رواج زیادہ ہو جاوے گا تو ہندوستان کی دیسی زبان نہایت مستحکم حالت میں ہو جاوے گی ۔ ایسی تصنیفات ہر زبان کے علم ادب کے واسطے اصل الاصول خیال کی گئی ہیں۔ پس تا وقتیکہ کسی ملک میں ایسا ذخیرہ مہیا نہ ہو جاوے اس ملک کی زبان ایک مستقل حالت میںنہیں ہوسکتی ۔ اسی وجہ سے اگر ہم اس کتاب کو ان تمام تصنیفات سے بہتر خیال کریں جو انعام کی امید سے تصنیف ہو گئیں اور جن کی بدولت صدھا طرح کے قصہ کہانیاں بن گئیں تو کچھ عجب نہیں ہے اور جس طرح ہم اس کے اس ایک حصہ کو مفید خیال کرتے ہیں ہم کو امید ہے کہ اس کے باقی دو حصے بھی ضرو ر مفید ہوںگے ۔ اگرہم ان تمام باتوں کو راستی کے ساتھ بیان نہ کریںجو اس کتاب میںہیں توہم صرف ایک مداح ہوں گے اور اس کے حسن و قبح کی نسبت نظر کرنے والے نہ ہوں گے اس لیے ہم اس بات کو بیا ن کیے بغیرنہیںرہ سکتے کہ اس کتاب میںبعض مثلوں کی تشریح اس خیال کے موافق نہیں ہوئی جس کے لحاظ سے وہ اپنے اپنے موقع پر بولی جاتی ہیں اور گو ہم اس تشریح کو غلط نہیں کہہ سکتے مگر اس لحاظ سے ضرور وہ محل تامل ہیںکہ ہماری زبان میں ان کا استعمال ٹھیک انہیں کے واسطے نہیں ہوتا جو اس کے محاذی لکھے گئے ہیں۔ پس اگر آئندہ ان حصوںکے ساتھ صاحب مصنف مذکور اس پر بھی نظر ثانی فرماویں تو نہایت خوبی کی بات ہے۔ کیونکہ جو کمی اس میں ہے وہ بی رفع ہوجاوے گی اور اس کی وجہ سے جو فائدہ اسکا ہے وہ بھی بہمہ وجود کامل ہو جاوے گا۔ …… جغرافیہ طبعی مبتدیوں کے واسطے (اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ ۱۹ مئی ۱۸۷۶ء ) جس کو منشی محمد ذکاء اللہ صاحب پروفیسر ریاضی کالج الہ آباد نے مدرسۃ العلوم مسلمانان کے سلسلہ خواندگی میں شامل کرنے کے لیے تصنیف کیا۔ ہم اس ہندوستا نی مصنف کی متعدد کتابوں کا ریویو اپنے مختلف اخباروں میںلکھ چکے ہیں اورہم کو یاد ہے کہ ہم نے ہمیشہ اس لائق شخص کے جوہر دماغی کی تعریف کی ہے اور جس قدرتعریف ہم نے اس کی کی ہے ہماری اس تعریف کے صحیح اور بلا مبالغہ ہونے پر نہایت مستحکم دلیل یہ ہے کہ جو مقبولیت اس شخص کی تصانیف نے حاصل کی ہے وہ بے انتہا ہے اور اس کے مفید ہونے میںکسی کو کلام نہیںہے ۔ جس قدر کتابیں اس شخص نے تصنیف کی ہیں ان کے طبع ہونے کے بعد کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ ان طلب میںتوقف ہوا ہو یا ہر ایک کتاب کے دوبارہ طبع کی حاجت نہ معلوم ہوئی ہو۔ علاوہ اس کے جو قدر شناسی اس کی تصنیف کی گورنمنٹ کی جانب سے ہوئی وہ بھی ہمارے اس خیال کی موید ہے کہ یہ لائق مصنف ہندوستانی کے لیے ناز کاسبب ہے۔ اہل علم کی ہمیشہ دو حالتیں رہی ہیں ایک وہ جو فن کے جاننے والے ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو صرف کتاب کے جاننے والے ہوتے ہیں اور فن کونہیںجانتے اور ترجیح ہر طرح سے اسی شخص کو ہوتی ہے جو فن کا جاننے والا ہو کیونکہ ایسا ہی شخص کتاب کو بھی خوب جان سکتا ہے اور جو لوگ کتاب کو جانتے ہیں ضرور نہیںہے کہ وہ فن کے بھی ماہر ہوں اور اس بات کی بتانے والی چیز کہ کون شخص فن جانتا ہے اور کون شخص کتاب، اس صاحب کمال کی تصنیف ہی ہوتی ہے جس سے سمجھنے والے دریافت کر لیتے ہیں کہ اس شخص کو فن آتا ہے یا صرف کتاب۔ جو لوگ فن جانتے ہیں اگر تصنیف ہوتی ہے تو انہیں سے ہوسکتی ہے اورجو کتاب جاننے والے ہوتے ہیں ان کی تصنیف گو وہ کیسی ہی ہمدگی سے تصنیف کریں درا صل تالیف و انتخاب ہوتا ہے اورجو خوبی ایک جدید تصنیف میںہونی چاہیے وہ یہی ہے کہ اس سے ایک جدید فائدہ حاصل ہو اور نئی طرز کے نکات و دقائق ظاہر ہوں اور اس میں ذرا شبہ نہیں ہے کہ یہ بات اسی شخص کی تصنیف میںہوسکتی ہے جو فن کاماہر ہو، نہ اس شخص کی تصنیف میںجو صرف معمولی طرز عبارت کی تبدیلی کے سوائے اور کسی خاص فائدہ کو ظاہر نہیں کرسکتا اور ہم یقین کرتے ہیں کہ اس لائق شخص کی تصنیفات دیکھنے والے اس بات سے مطلع ہوں گے کہ اس کی تصنیف ہمیشہ ایک نئی خوبی پر مشتمل ہوتی ہے جس کے لحاظ سے باتامل یہ اقرار کیا جاتا ہے کہ یہ لائق مصنف اپنے فن کا بڑا ما ہر ہے۔ صرف ایک کتابی مدرس نہیں ہے جو اس کے حق میںنہایت بڑی تعریف ہے ۔ حال میں جو کتاب اس مصنف نے اپنی فیاضی سے مسلمانوں کے مدرسۃ العلوم کے ابتدائی سلسلہ خواندگی میںشامل کرنے کے واسطے تصنیف فرمائی ہے وہ ایک جغرافیہ طبعی ہے جو غالبا سات جزو کی کتاب ہوگی ۔ اس کتاب کی جہاں تک قدر کی جاوے نہایت بجا ہے اور اس کے سبب سے جو وقعت کا مستحق اس کا مصنف ہو وہ بے انتہا ہے۔ جس وقت کوئی شائق اس کتاب کو سلسلہ وار دیکھنا چا ہے گا تو پہلے پہل اس کی نظر اس کتاب کے عجیب و غریب اور ایک نئے ڈھنگ کے دیباچہ پر پڑے گی جس کو دیکھ کر ایک انشاء پرداز تو اس کی انشاء پردازی کے سبب سے غش ہو جائے گا اور اس کا طرز گذارش اس کے دل میںکھب جاوے گا اور ایک قصبہ گو اس کو مزے دار قصہ سمجھ کر لوٹ جاوے گا اور ایک جغرافیہ ماہر اس کو دیکھ کر اس کے ہر حرف سے فن جغرافیہ کے متعلق ایک فائدہ حاصل کرے گا اور اس کو اس دیباچہ کے دیکھنے سے جغرافیہ طبعی کی بنا اور اس کے اصول بخوبی منکشف ہو جاویں گے او ربلا شبہ اس کو منصا فانہ طو ر پر اس بات کے اعتراف کرنے کا موقع ملے گا کہ اس کا مصنف ایک ایسا ماہر فن ہے جو علمی مسائل کو ایسی زبانی روزمرہ کی باتوں سے حل کر سکتا ہے غرضیکہ جس عنوان سے اس بیدار شخص نے جغرافیہ کے اسباب اور اس کی ضرورتوں کو ثابت کیا ہے اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ وہ اسی کا حصہ ہے۔ زمین کی کرویت کے مسئلہ کو بھی نہایت خوبصورتی سے ثابت کیا ہے اوراس کے دلائل ایسے مسلمہ بیان کئے ہیں جن کو وہ شخص بھی تسلیم کرتا ہے جو اس کا منکر ہو اور چونکہ یہ جغرافیہ مبتدیوں کے واسطے ہے علاوہ اس سے عقلیات کی بہ نسبت حسیات ہمیشہ سریع الفہم ہوتے ہیں اس لحاظ سے ا س کے مصنف نے دلائل کرویت کو صرف انہیں عقلی امور میں منحصر نہیںرکھا جو بدقت سمجھ میںآویں بلکہ ان کو ایسے مشاہدات سے ثابت کیا ہے ۔ جس کے سبب سے گویا یہ مسئلہ بدیہات میں سے ہو گیا ہے ۔ رات دن کی حقیقت بیان کرنے میںبھی ایک عجیب دلچسپ طرز اختیار کیا ہے جو مبتدیوں کے بخوبی ذہن نشین ہوتا ہے اور اس کی حقیقت کے سمجھنے کے بعد در پردہ حرکت زمین کے مسئلہ کابھی اثبات ہوتا ہے جس کو آخر کار تصریح کے ساتھ بھی بیا ن کیا ہے ۔ ہو اکی کیفیت اور اس کی ماہیت اور اس کے مزاج کے بیان میںایسے سادہ اور پرلطف بیان کواختیار کیا ہے جو مبتدیوں کو ہر گز گراں نہ معلوم ہوگا اور ہوا کے عنصر بسیط ہونے کے خیال کو بھی اسی بحث میںردس کیا ہے اور جن اجزاء سے اس کی ماہیت مرکب ہے اس کی تفصیل کی ہے او ر ان اجزاء کے ثبوت پر ایسے آسان دلائل پیش کیے ہیں جو ایک تجربہ کار کے نزدیک ثابت اور مسلم معلوم ہوتے ہیں گو اس کو یونانی حکمت طبعی والا اپنی زبانی حجتوں سے باطل کر دے مگر جب اس کو بھی تجربیات کی طرف مضطر کیا جاوے تو اس کو بجز تسلیم کے اور کچھ چارہ نہ رہے گا۔ ہوا کے مزاج کی تصریح کرنے اور اس کی گرمی و سردی کے بیان کرنے میں ایک بے نظیر بات یہ کی ہے کہ اس چھوٹے سے رسالہ میںبعض ان عملی فائدوں کو بھی بیان کیا ہے جو دراصل اس علم طبعی کا ثمرہ ہیں اور جس سے ا س بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہ بے نظیر علم کیسی قدر کے لائق ہے۔ باراں کی کیفیت اور اس کی حقیقت اور اس کے فائدے اور زمین کے اندر اس کے اثر اور اس کے ثمرات ایسے حکیمانہ اور ماہرانہ طریقہ سے بیان کیا ہے کہ اس کے پڑھنے سے اس بات کا حق الیقین ہو جاتا ہے کہ وہ جوہر ایک انسان کے حق میں ایک بے انتہا نعمت ہے اور جس کا وجود باجود اس مبدا فیاض کی عام فیوض اور بخششوں کا ثبوت ہے جس کا ہر جگہ نیا رنگ ہے اور جس کا ہر موقع پر نرالا ڈھنگ ہے ۔ نہ گوہر میںہے اور نہ ہے سنگ میں و لیکن چمکتا ہے ہر رنگ میں غرضیکہ من اولہ الی آخر ہ یہ کتاب نہایت دلچسپ کتاب ہے اور ہر جگہ اس میں ذی ہوش کے واسطے فوائد کا ذخیرہ ہے۔ ذ فرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم کرشمہ دامن دل میشکد کہ جا ایں جا است پس ایسی بے نظیر کتاب کے لحاظ سے ایک بڑا احسان ان مسلمانوں پر کیا ہے جن کی اولاد اس کے فیض سے بہر ہ یاب ہوگی اور اگر اس بات سے قطع نظر کی جاوے کہ اس کے مصنف نے اپنی کتاب کو مدرسۃ العلوم کے واسطے مخصوص کیا ہے تو اس کا فیض عام ہندوستانیوں کے واسطے بھی ایسا ہی ہے جس کے لحاظ سے اس کا مصنف عام شکر گزاری کے لائق ہے او ر اسکی ذات فیض سمات نہایت وقعت کے لائق ہے۔ ……………… ’’تحفہ حسن ‘‘ پر ریویو (محر رہ نومبر ۱۸۷۸ ء ۔ مطبوعہ ۱۸۸۳ئ) ۱۲۶۰ ھ مطابق ۱۸۴۴ ء میں جب کہ سر سید کا دل مذہبی جو ش و خروش سے بھرا ہو ا تھا ۔ انہوں نے ’’تحفہ حسن ‘‘ کے نام سے ایک لمبا چوڑا مضمون لکھا ۔ وہ اس وقت مسلک کے لحاظ سے اہل حدیث تھے جن کو عام طور سے لوگ وہابی کہتے ہیں۔ اس زمانہ میںمباحثوں میں شمولیت کا شوق اور دوسرے فرقوں کی تردید کا ذوق سر سید کے نوجوان دل میںجوش مار رہا تھا ۔ کبھی وہ حنفیوں کے خلاف رسالہ لکھتے ۔ کبھی شیعوں کے ردمیں مضمون تحریر کرتے ۔ کبھی صوفیا ء اور مشائخ کے اوراد او وظائف پر اعتراض کرتے ۔کبھی پیری مریدی کے سلسلہ کو خلاف سنت بتاتے۔ غرض کسی نہ کسی فرقے سے ان کی چھیڑ چھاڑ برابر جاری رہتی تھی ۔ اسی دوران میںانہوں نے اپنے استاد حضرت حاجی حافظ مولوی محمد نور الحسن صاحب کی پر زور تحریک اور فرمائش پر ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ کا اردو کا ترجمہ شروع کیا یہ حضر ت شاہ عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کی مشہور کتاب ہے جس میں مسئلہ خلافت کے متعلق شیعوں کے اعتراضات کے جوابات بڑی تفصیل سے دیے گئے ہیں۔ اس کا دسواں باب مطا عن صحابہ ؓ کے جوابات پر مشتمل ہے اور بارہواں باب تولا و تبرا کے متعلق ہے۔ سر سید نے انہی دو باتوں کا ترجمہ کیا او راس پر بڑ ے فخر کا اظہار کیا۔ مگر بعد میںجب ان کے خیالات میں تبدیلی ہوئی تو انہوں نے ان مذہبی جھگڑوں کو بالکل فضول سمجھا اور اس قسم کے مناقشات کو ملت کی بربادی اور تباہی کا باعث یقین کیا۔ سر سید کی لکھی ہوئی اپنی تحریر کو دیکھتے ہوئے ہم یہ ترجمہ یہاں درج کرتے ، مگر چونکہ شیعہ سنی جھگڑوں میںپڑتا نہ کوئی دین و مذہب کی خدمت ہے ۔ نہ علم اور ادب کی ۔اس قسم کے مضامین سے نہ کوئی دنیوی فائدہ ہے نہ دینی۔ آپس میں منافرت اور دشمنی بڑھنے اور فرقہ دارانہ جذبات بھڑکنے کے سوا اس حرکت کا اور کوئی نتیجہ نہیں۔ اس لیے ہم وہ ترجمہ یہاں نقل نہیں کرتے ۔لیکن ا س مضمون کے لکھنے کے ۳۴ سال بعد جب سر سید کے قدیم خیالات میںعظیم انقلاب اور زبردست تغیر آچکا تھا تو انہوں نے اپنے اس مضمون پر خود ہی ایک ریویو کیا ۔ وہ ہم تصانیف احمدیہ جلد اول مطبوعہ ۱۸۸۳ ء سے لے کر یہاں درج کرتے ہیں اور اس سے ہمارا مقصد صر ف یہ ہے کہ ناظرین کرام کو دکھائیں کہ آخر عمر میں مسئلہ خلافت کے متعلق سر سید کے اپنے خیالات کیا تھے ۔ ہمیں ا س سے غرض نہیں کہ وہ خیالات صحیح تھے یا غلط۔جو کچھ بھی تھے وہ ہم پیش کر رہے ہیں۔ تاکہ سر سید کے عقائد کایہ پہلو بھی ان مجموعہ مضامین کے پڑھنے والوں کے سامنے آجائے۔ جیسا کہ سید صاحب مرحوم کے دوسرے خیالات وعقائد بھی ان اوراق میں موجود ہیں۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ریویو مورخہ نومبر ۱۸۷۸ء مذہب اہل سنت و جماعت اور شیعہ اثناعشریہ میں جو مباحث افضلیت اور استحقاق خلافت خلفائے اربعہ کے ہیں اور مذہب خوارج میںجو عقائد ختنین و اہل بیت او ر مذہب نواصب میں علی ؑ مرتضیٰ و اہل بیت کی نسبت ہیں۔ ان سے زیادہ لغو و بیہودہ مباحث و عقائد کوئی نہیں ہیں۔ استحقاق خلافت آنحضرت صلعم کا من حیث النبوۃ کسی کوبھی نہ تھا ۔ ا س لیے کہ خلافت فی النبوۃ تو محالات سے ہے۔ باقی رہ گئی خلافت فی ابقائے صلاح امت و اصلاح تمدن۔ اس کاہر کسی کو استحقاق تھا۔ جس کی چلی گئی وہی خلیفہ ہو گیا ۔ خلافت بعد آنحضرت کوئی امر منصو صی نہ تھا ۔ نہ کسی شخص خاص کی خلافت مذہب اسلام کاکوئی جزو یا کوئی حکم تھا۔ سیاست مدن کا جو طریقہ اس وقت پڑ گیا تھا۔ وہ سلطنت جمہوری کے نہایت مشابہ تھا اور اسی طرح پڑ گیا تھا ۔ وہ سلطنت جمہوری کے نہایت مشابہ تھا اور اسی طرح واقع بھی ہوا۔ یعنی جس کو بہت سے ذی اقتدار لوگوں نے تسلیم کر لیا۔ وہی خلیفہ ہوگیا ۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ابتدا ہی سے علی ؑ مرتضیٰ کو خلیفہ ہونے کا خیال نہ تھا اور تینوں مقدم خلافتوں کے زمانہ میں ان کو ان کے خلیفہ ہونے کا افسوس یا اپنے خلیفہ نہ ہونے کا رنج نہ تھا۔ مگر علیؑ مرتضیٰ کے خواہش زیادہ تر سلطنت شخصی کے مشابہ تھی ۔ جو اس وقت کے طریقہ تمدن کے موافق نہ تھی اور اسی لیے ان کی خواہش پوری نہ ہوئی جب ایسا وقت آگیا کہ ذی اقتدار لوگوں نے انکی طرف رجوع کی وہ خلیفہ ہوگئے ۔ نہ مقدم خلیفہ ہونے میںکوئی وجہ افضلیت تھی۔ نہ موخر خلیفہ ہونے میںکوئی وجہ منتصت ۔ یہ تمام واقعات اسی طرح پر واقع ہوئے تھے جیسے کہ ہمیشہ دنیا میں واقع ہوتے ہیں۔ اسلام سے ان واقعات کو کوئی تعلق نہ تھا ۔ کسی کو غاصب اور کسی کو برحق بلا فصل کہنا لغو باتیں ہیں۔ افضلیت کے مسئلہ کے مباحث اس سے زیادہ بیہود ہ ہیں۔ دو چیزوں میںایک کو افضل ٹھہرانا اس بات پر موقوف ہے کہ ان میںایک ہی حیثیت ہو۔ ایک سسراء ایک داماد ، ایک بھائی ، ایک غیر ، آپس میں حیثیت ہی متحد نہیں۔ پھر افضلیت وغیر افضلیت کیسی ؟ اعمال اور تقرب الی اللہ کے تول لینے کوہمارے پا س کوئی ترازو نہیں جس سے ہم ایک کو ہلکا ایک کو بھائی ٹھہراویں۔ ہم جس بات کا فیصلہ کر سکتے ہیں وہ صرف تاریخی واقعات ہیں کہ ان چاروں بلکہ پانچوں بزرگواروں کے زمانہ خلافت کس طرح گذرے؟حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا زمانہ خلافت تو شمار کرنا نہیں چاہیے۔ کیونکہ در حقیقت وہ زمانہ بھی حضرت عمر ہی کی خلافت کا تھا اور وہی بالکل دخیل و منتظم تھے ۔ حضرت عمر ؓ کا زمانہ کیا بنظر انتظام اور کیا بنظر فتوحات و امن و حکومت و رعب و داب جو ابقاء صلاح امت و اصلاح تمدن کے لیے ضرور تھا ۔ ایک بے نظیر زمانہ تھا ۔ حضرت عثمان ؓ کے زمانہ خلافت میں جو کچھ ہو ا وہ صرف حضرت عمر کے زمانہ خلافت کا اثر تھا۔ اصلی زمانہ خلافت حضرت عثمان کی خلافت کا اخیر زمانہ تصور کرنا چاہیے۔ جس میںتمام اصول سیاست مدن اور وہ اصول سلطنت جمہوری جس پر اس عالیشان محل کی بنیاد قائم ہوئی تھی ۔ سب کے سب سست اور برہم درہم ہوگئے تھے اور غدر کا ہونا اس کا ایک ضروری نتیجہ تھا جو ہوا۔ حضرت علی مرتضیٰ ؑ تک جب خلافت پہنچی تو ایسی ابتر و خراب ہوگئی تھی جس کا درست ہونا اگر ناممکن نہ تھا تو قریب قریب ناممکن کے تھا۔ اس کی اصلاح میں جہاں تک ممکن تھا کوشش کی گئی ۔ ملک دیے گئے۔ دوسری حکومتیں تسلیم کی گئیں مگر اصلاح نہ ہوئی اور رز بروز خرابی بڑھتی گئی ۔ حضرت امام حسن ؑ جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے تمام حالات اور واقعات پر غور کرکے یقین کیا کہ اس کی اصلاح ممکن نہیں۔ صرف ایک ہی علاج امت کی آسائش اور قتل و خوں ریزی اور فساد دور کرنے کا ہے کہ اس دو عملی سے یکسوئی کی جاوے انہوں نے نہایت دانائی اور نیکی اور امت کی بھلائی کی نظر سے جس کی نظیر دنیا میں نہیں ہے خلافت سے ہاتھ اٹھایا ۔ دراصل یہ کام حضرت امام حسن ہی جیسے کریم النفس شخص سے ہو سکتا تھا ۔ جس نے امت کے امن کے لیے ایسی خلافت کو چھوڑ دیا جس کے سامنے سلطنت قیصر وکسریٰ کی بھی کچھ حقیقت نہیں تھی ۔ مطاعن صحابہ ایک ایسا لغو اور بے ہودہ اور جھوٹا کام ہے جس کے برابر دنیا میںدوسرا نالائق کام نہیں ہے ۔ نہ ہمارے پاس صحیح صحیح واقعات موجود ہیں جو یقین کے لائق ہوں اور اگر بالفرض واقعات بھی ہون تو وہ کیفیت اور حالت جن پر باہم صحابہ کے مشاجرات واقع ہوئے۔ ہر گز ہماری آنکھ کے سامنے نہیں ہیں۔ پس جو لوگ صحابہ کے مطاعن پر بحث کرتے ہیں وہ بلا کافی شہادت اور بلا موجودگی روئداد کے اپنا فیصلہ قائم کرتے ہیں علاوہ اس کے انسان سے غلطی اور خطا کا واقع ہونا خصوصا ایک ایسی بڑی سلطنت کے انتظام میںجو صحابہ کے ہاتھ میںتھی ۔ ایک ایسا امر ہے جو ناگزیر ہے۔ صحابہ معصوم نہ تھے اگر بالفرض ان سے غلطیاں واقع ہوئیں تو کیا آفت ہوئی؟ او ر کیوں وہ بری سمجھی جاویں۔ اگر ان ہی روایتوں پر جو موجودہ ہیں نکتہ چینی کا مدار ہو۔ تو اس نکتہ چینی سے نہ حضرت علیؑ مرتضیٰ بچپتے ہیں نہ خلفائے ثلاثہ اور ہم تو باوجود تسلیم کر لینے ان تمام نکتہ چینیوں کے جو خوارج و نواصب اور شیعہ ان بزرگوں کی نسبت پیش کرتے ہیں۔ ان میںسے کسی بزرگ کو برا اور بد خیال نہیں کرتے ۔ وہ تمام واقعات ایسے ہی ہیں۔ جو دنیا میں ہمیشہ پیش آتے ہے ں وہ ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں۔ ان سے نہ ان بزرگوں کی بزرگی میں کچھ نقصان لازم آتا ہے اور نہ مذہب اسلام کو ان واقعات سے کچھ تعلق ہے۔ ہاں تبرا جس کا رواج ان شیعوں میںہو گیا ہے جو نامہذب ہیں۔ نہایت خراب چیز ہے اور انسان کے دل میں ایک بدی اور بد اخلاقی اور بد طینی پیدا کرنے والا ہے ۔ جو اسلام کے مقصد اعلیٰ کے برخلاف ہے۔ میری یہ رائے ہے کہ جو امور مذہب اسلام سے علاقہ رکھ سکتے تھے وہ آنحضرت صلعم کے بعد ختم ہوگئے اور جو واقعات ان کے بعد ہوئے ان کو مذہب اسلام سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ نہ وہ مذہب اسلام کا جزو ہیں۔ نہ اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد رسول اللہ کے بعد اشہد ان علیا ولی اللہ و وصی رسول اللہ و خلیفہ بلا فصلۃ ماننا ہم کو ضرور ہے بلکہ اسلام کے لیے پہلے ہی دو تشہد کافی ہیں۔ ……………… کتاب فضیلت یا معلم الطلباء منشی سراج الدین صاحب ایڈیٹر سر مور گزٹ ناہن (مشرقی پنجاب) نے ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ ’’کتاب فضیلت یا معلم الطلباء ‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا۔ جس میںطالب علموں کی علمی ترقی کے لیے یورپ کے بڑے ب ڑے فلاسفروں اور مشاہیر علماء کے مستند اقوال اور علمی کارنامے بیان کیے گئے تھے۔ منشی صاحب نے یہ کتاب سر سید کو اظہار رائے کے لیے بھیجی تھی ۔انہوں نے اس پر جو ریویو کیا وہ ہم اخبار سر مور گزٹ کے ۸ مارچ ۱۸۸۹ ء کے پرچہ سے لے کر یہاں درج کرتے ہیں ۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) یہ ایک کتاب نئے طرز اور نئے مضمون کی بوڑھے اور جواز باپ اور بیٹے ہر ایک کے لیے نہایت مفید ہے۔ اس کو منشی سراج الدین صاحب نے انگریزی سے اردو میں صرف ترجمہ نہیں بلکہ ایک معنی کو تصنیف کیا ہے اور عبارت نہایت پاکیزہ اور سلیس ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ ہر ایک طالب علم کے ہاتھ میںرہے اور ان لڑکوں کے باپ جو اپنے بچوں کوپڑھاناچاہتے ہیں وہ بھی اس کا سبق لیں۔ ہندوستانیوں کی عادت ہے کہ وہ لڑکوں کی نسبت چاہتے ہیں کہ صبح سے شام تک میاں جی کو گھیرے بیٹھا رہے ۔ کھیلنے اور کودنے نہ دے ۔ جب وہ سننتے ہیں کہ مدرسوں یا سکولوں میں چھٹی ہوگئی تو نہایت ناراض ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ برس پھر میں اس قدر چھٹیاں ہو جاتی ہیں ک پڑھنا خاک نہیں ہوتا۔ غرض کہ وہ چھٹیوں کے اورلڑکوں کے کھیلنے کے نہایت مخالف ہوتے ہیں مگر جب وہ اس کتاب کو پڑھیں گے ان کو معلوم ہوگا کہ لڑکوں کو چھٹیاں نہ دینا اور کھیل کود کی ورزش سے ان کی قویٰ کو قوی نہ کرنا ان کے حق میںزہر اور تعلیم کے حق میں زہر قاتل ہے۔ مصنف نے اس کتاب میںصرف خیالی باتیں نہیں لکھی ہیں بلکہ بڑے نامی علماء کی زندگی کے حالات اور ان کے اقوال اور افعال سے ہر ایک بات کو ثابت کیا ہے اور اسی وجہ سے اس کتاب ک وبہت بڑی عزت اور وقعت ہوگئی ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے لکھا ہے کہ باپ کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ اپنی اولاد کے لیے اس کے میلان طبیعت کی مناسبت کے لحاظ سے اس کی چھوٹی عمر ہی میں اس کے لیے کوئی پیشہ انتخاب کرے تاکہ تعلیم پاکر اوربڑاہوکر اس پیشہ کو طبعی لیاقت سے انجام دے۔ مگر ہم کو اس مقام پر اس بات کے کہنے سے نہایت افسوس ہے کہ ہماری قوم میںلڑکوں کے ماں باپ کی مدت دراز سے تعلیم کی خرابی اور تربیت کے نہ ہونے اور صحبت بد کے اثر سے لڑکوں کے دماغ ایسے پیدا ہونے لگے ہے ں کہ اس بات کی تشخیص کرنی کہ اس لڑکے کا میلان طبعی کس پیشہ کی مناسب ہے قریبا ناممکن ہوگیا ہے ۔ مسلمان لڑکوں کے دماغ ایک بندر کے دماغ سے زیادہ عمدہ نہیں رہے ہیں الا ما شا ء اللہ ریاضیات سے ان کے دماغ کو قطعا مناسب نہیں رہی۔لٹریچر میںجو ان کے بزرگوں کا بہت بڑا مایہ ناز تھا شاذو نادر ہی کسی کو مناسبت ہوتی ہے۔ زیادہ تعجب کی یہ بات ہے کہ جو لڑکا چھٹپن میںنہایت ہوشیار اور علی دماغ معلوم ہوتا ہے جو جوں بڑاہوتا جاتا ہے ووں ووں اس کا دماغ اس کا ذہن سب بھدا او رکند ہوتا جاتا ہے۔ یہ امور ایسے نہیں ہیں کہ ان کو سرسری سمجھا جائے بلکہ نہایت غور وفکر کے قابل ہیں کہ یہ حالت کیوں ہو گئی ہے۔ مگر جو کتاب کہ ہمارے دوست منشی سراج الدین صاحب نے لکھی ہے وہ بلا شبہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اگر اس کو غور سے پڑھا اورگنا جاوے اور اس پر عمل کیا جاوے تو بلاشبہ وہ ان خرابیوں کا جن کی ہم اپنی قوم کے بچوں کی شکایت کرتے ہیں پورا علاج ہے۔ مصنف نے جہاں باپ کا پہلا فرض اپنی اولاد کے لیے کسی پیشہ کے منتخب کرنے کا بیان کیا ہے وہا ں نہایت عمدہ یہ فقرہ لکھا ہے : ’’انسان کی طبائع ایسی ہی مختلف ہوتی ہیں جیسی ان کی قسمتیں ، بعض کو ہیرے کی طرح جلا کر کے ہاتھوں سے آہستہ آہستہ صاف اور چمکیلا بنانے کی ضرورت ہے اور بعض موتیوں کی طرح اول ہی اپنی طبعی آب و تاب کے ساتھ نکلتے ہیں‘‘ پھر مصنف نے مطالعہ کی عادت اور اس پربڑے بڑے عالموں کی زندگی کے واقعات ، تنہائی اور اس کی ضرورت، اس کے فوائد اور نقصانات اور ان کے اعتدال پر رکھنے کا طریقہ ، گفتگو میںغور اور فکر، حافظہ کی درستی اور اس کو مفید طرح پر کام میںلانے کی تدبیر ، قوائے ذہنی کی طاقت ، مطالعہ کے جسمانی اثرات ، صحت کے فوائد متعلق علم سونا اور جاگنا ، حصول کمال میں طریقہ مشغولی ، طبیعت کی شگفتگی بڑے بڑے عالموں کے اطوار مطالعہ اور بہت مفید مفید باتیں ایسی عمدگی سے بیان کی ہیں جس کا نقشہ اس چھوٹے سے ریویو میں دکھانا محالات سے ہے۔ سب سے زیادہ عمدگی اس کتاب کی ہر ایک امر کے ساتھ بڑے بڑے مشہور عالموں کی لائف کا بہ طور نظیر لکھ دینا ہے جو نہایت ہی دل پر اثر کرنے والا ہے۔ میرے نزدیک آج تک ایسی مختصر و مفید کوئی کتاب اردو میں نہیںلکھی گئی ہے مجھ کو تو یہ کتاب ایسی پسند ہے کہ جب سے آئی ہے اپنی میز پر رکھتا ہوں اور ہر روز تھوڑا تھوڑا پڑھ لیتا ہوں اور جب تک اس کے تمام مطالب کا نقشہ بخوبی ذہن میں نہ جم جائے گا ہمیشہ اس کو پڑھتا رہوںگا۔ میںاپنے سب دوستوں کو بھی صلاح دیتا ہوں کہ اس کتاب کو پڑھیں مگر نہ سرسری طورپر بلکہ ایسے طور پر کہ اس کا نقشہ ذہن میں جم جائے۔ منشی سراج الدین صاحب نہایت شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایسی عمدہ اور مفید کتاب اور نہایت صاف اور شستہ زبان میںاپنے ہم وطنوں کو بخشی ہے۔ یہ کتاب سرمور گزٹ پریس ناہن میںچھپی ہے جس صاحب کو اس کا شوق ہو منشی سراج الدین صاحب ایڈیٹر مذکور سے طلب فرما ویں۔ ……………… دیباچہ ’’المامون‘‘ شمس العلماء مولانا شبلی نعمانی کی سب سے پہلی کتاب ’’مامون الرشید عباسی‘‘ کی محققانہ سوانح عمری ہے جو ۱۸۸۷ ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب اس قدر مقبول ہوئی کہ اس کا پہلا ایڈیشن صرف تین مہینے میںنکل گیا ۔ مولانا نے اس کا حق اشاعت اپنی فیاضی سے مدرسۃ العلوم علی گڑھ کو دے دیا تھا اور کالج کی طرف سے یہ کتاب شائع ہوئی تھی ۔ جب اس کے پہلے ایڈیشن کاکوئی نسخہ باقی نہ رہا تو سر سید نے مولانا سے کہا کہ اس پر نظر ثانی کر دیں تاکہ اسے دوبارہ شائع کیاجائے۔ مولانا نے سر سید کی خواہش کے مطابق کتاب میں بہت کچھ ترمیم اور اضافہ کر دیا جس سے کتاب پہلے ایڈیشن کی نسبت بہت زیادہ مفید ہوگئی ۔ اس کے بعد سر سید نے کالج کمیٹی کی طر ف سے اس کو دوسری مرتبہ ۱۸۸۹ ء میں شائع کیا اور خود اس پر ایک دیباچہ لکھا ۔ یہ دیباچہ اگرچہ منحصر ہے مگر بہت جامع اور دلچسپ ہے۔ میںنے یہ دیباچہ ’’المامون‘‘ کے اس نسخہ سے نقل کیا ہے جو سید حسن شاہ مالک و مہتمم رسالہ اتحاد لکھنو نے ۱۹۰۲ ء میںرنگین پریس دہلی سے چھپوا کر شائع کیاتھا۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) قوم کی بد نصیبی کی علامت یہ نہایت سچامقولہ ہے کہ وہ قوم نہایت بد نصیب ہے جو اپنے بزرگوں کے ان کاموں کو یاد رکھنے کے قابل ہیں بھلادے یا ان کو نہ جانے۔ سلف کے کارناموں کو یاد رکھنے کی دو حالتیں بزرگوں کے قابل یادگار کاموں کو یاد رکھنا اچھا اور برا دونوں طرح کا پھل دیتا ہے۔ اگر خود کچھ نہ ہوں اور نہ کچھ کریں اور صرف بزرگوں کے کاموں پر شیخی کیا کریںتو استخوان جد فروش کے سوا کچھ نہیں اور اگر اپنے میں ویسا ہونے کا چسکا ہو پھر تو وہ امرت ہے۔ قدیم واقعات و حالات کی فراہمی مشکل ہے مگر ہم وہ کریںیا یہ کریںیہ تو پچھلی بات ہے پہلے ہم کویہ دیکھنا ہے کہ وہ دلچسپ حالات اور پر فخر جو واقعات ہم کو ملیں کہاں سے ؟ ہماری تاریخیں اس زمانے کی لکھی ہوئی ہیں جس میںزمانے نے تاریخ نویسی کے فن کو پوری طرح پر ترقی نہیں دی تھی ۔ اس لیے ہمارے بزرگوں کے کاموں کے گوہر آبدار کہیں بکھرے پڑے ہوئے ہیں اور کہیں کوڑے کرکٹ میںرلے ملے ہیں۔ ایک نہایت لائق شخص کاکام ہے جو ان چنے او رلڑی میں پرو کر سجاوے۔ المامون کا تعارف ہم کو نہایت خوشی ہے کہ ہمارے دوست مخدوم اور ہمارے مدرسۃ العلوم کے پروفیسر مولانا مولوی محمد شبلی نعمانی نے اس کا م کا بیڑا اٹھایا ہے اور سلسلہ ہیروز آف اسلام کالکھنا چاہا ہے۔ اسی سلسلے میں کی ایک یہ کتاب ہے جو ’’المامون‘‘ کے نام سے موسوم ہے ۔ انہوں نے خلفائے بنو عباس میں سے مامون الرشید کو عباسی خلفاء ہیرو قرار دیا ہے اور ا سکے تمام وہ کارنامے اچھے یا برے نہایت خوبی اور بے انتہا خوش اسلوبی اور بے انتہا خوش اسلوبی سے اس میںلکھے ہیں۔ تاریخانہ واقعات لکھنے چنداں مشکل نہ تھے مگر وہ باتیں جن کے لکھنے کا اس زمانے کے مورخوں کو بہت کم خیال تھا یا ان کی قدرکرتے تھے اور اس زمانے میںانہی کی تلاش اور انہی کی قدر کی جاتی ہے تلاش کرنی مشکل تھی ۔ مولانا نے اس میںپوری یا جہاں تک ممکن تھی کامیابی حاصل کی ہے۔ المامون کا پہلا حصہ پہلے حصے میںانہوں نے تاریخانہ واقعات لکھے ہیں اور نہایت خوبی و اختصار سے دکھایا ہے کہ خلافت کا سلسلہ کیونکر اور کیوں خاندان بنو امیہ کو برباد رکر کے عباسی خاندان میںپہنچا اور کیااسباب جمع ہوئے جن سے امن ا س کا بھائی محروم اور مقتول اور خود مامون تمام مملکت اسلامی کا مالک الملک لاشریک لہ بن گیا ۔ جا بجا واقعات دلچسپ سے بھی اسے حصے کو آراستہ کیا ہے جس کے سبب سے یہ روکھا اور پھیکا تاریخانہ حصہ نہایت دلچسپ ہو گیا ہے ۔ المامون کا دوسرا حصہ دوسرے حصے میںانتظام سلطنت ، آمدنی مملکت ، فوجی انتظام ، عدالت اور اسکی جزئیات کو جہاں جہاں سے ملیں چن چن کر ایک جگہ جمع کیا ہے اور مامون کی خصلت اور اس کی سوشل حالت ، اس کی پرائیویٹ زندگی ، اس کے مشغلوں اور اس کی مجلسوں کا ذکر کیا ہے اور ا س زمانے کی زندگی اور طرز معاشرت کا نقشہ کھینچ دیا ہے ۔ یہ حصہ نہایت ہی دلچسپ ہے۔ شان اور عظمت اور جلال خلافت کے ساتھ ایسی ایسی سادہ اور بے تکلف باتوں سے بھرا ہے کہ اس سے اس کو اور اس سے اس کو رونق ہوتی ہے۔ اس حصے میںلطائف و ظرائف کے ساتھ علمی اور خصوصا علم ادب کے ایسے ایسے نکتے مذکور ہیں جو ادیب کے لیے سرمایہ اور ظریف کے لیے سرایہ ظرافت ہیں۔ المامون کی خصوصیات اس قدر جز ئیات کو تلاش کرنا اور نظم اسلوب سے ایک جگہ جمع کرنا کچھ آسان کام نہ تھا، مصنف نے کوئی بات ایسی نہیںلکھی جس کا حوالہ کسی معتبر ماخذ سے نہ دیاہو۔ ہر ایک جزئی بات پر بھی اس کتاب کا جس سے وہ بات لی گئی ، حوالہ دیا ہے ۔ اس کے حاشیوں پر جس قدر کتابوں حوالے ہیں ان کو دیکھ کر اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس کتاب کے لکھنے میںکس قدر جانکاہی ہوئی ہوگی اور مصنف کو کتنے ہزار ورق تاریخوں کے الٹنے پر ے ہوں گے اور اسی کے ساتھ جب یہ خیال کیا جاوے کہ مصنف نے ان جزئیات کو ایسی کتابوں کے تلاش کر کے نکالا ہے جن کی نسبت یہ خیال نہ ہوتا تھا کہ ان میں مامون کے حالات ہوں گے تو اس محنت کی وقعت و قدر اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہ کتاب اردو زبان میںلکھی ہے اور ایسی صاف اور شستہ اور برجستہ عبارت ہے کہ دلی والوں کو بھی اس پر رشک آتا ہوگا۔ ہر فن کا طرز بیان جداگانہ ہو اردو زبان نے بہت کچھ ترقی کی ہے مگر اس بات کا بہت کم لحاظ رکھا گیا ہے کہ ہر فن کے لیے زبان کا طر ز بیان جداگانہ ہو۔ تاریخ کی کتابوں میںناول (قصہ ) اور ناول میں تاریخانہ طرز گو کیسی ہی فصاحت اور بلاغت سے برتا گیا ہو دونوں کو بربار کر تا ہے۔ میکالے کے مضامین کی نوعیت لارڈ میکالے جو انگریزی زبان کا بے نظیر ادیب ہے اس کے تاریخانہ اسے (مضامین) باعتبار فصاحت و بلاغت کے اپنا نظیر نہیں رکھتے مگر ایشیائی شاعرانہ طرز ادا سے تاریخانہ اصلیت کو بہت کچھ نقصان پہنچانے والے ہیں۔ المامون کی تالیف میں مصنف کی لیاقت ہمارے لائق مصنف نے اس کا بہت کچھ خیال رکھا ہے اور باوجود تاریخانہ مضمون ہونے کے ایسی خوبی سے اس کو ادا کیا ہے کہ عبارت بھی فصیح اور دلچسپ ہے اور تاریخانہ اصلیت بدستور اپنی اصلی صورت پر موجود ہے ۔ جو خوبصورت ہے خوبصور ت ہے ، جو بھونڈی ہے بھونڈی ہے ۔ نہ خوبصورتی کو زیادہ خوبصورت بنایا ہے نہ بھونڈے پنے کو زیادہ بھونڈا دکھایا ہے او ردر حقیقت یہی کمال تاریخ نویسی ہے ۔ کتاب کا حق تصنیف اس کتاب کا حق تصنیف مصنف نے اپنی فیاضی او ر قومی ہمدردی سے مدرسۃ العلوم علی گڑھ کو عطا کیا ہے۔ کتاب کا پہلا اور دوسرا ایڈیشن پہلا ایڈیشن اس کتاب کا اسی سال میںکمیٹی مدرسۃ العلوم نے کمیٹی کے فائدہ کے لیے چھاپا اور سب فروخت ہو گیا اور لوگوں کی طلب باقی رہی ۔ میں نے کمیٹی کی طرف سے اس کے فائدے کے لیے دوسرے ایڈیشن کے نکالنے کا ارادہ کیا اور اس کے لیے یہ دیباچہ لکھا۔ کتاب پر نظر ثانی مگرمجھ کو مصنف کا دوبارہ شکر ادا کرنا پڑا کہ انہوں نے مہربانی سے پہلے ایڈیشن پر نظر ثانی کی اور بعض نہایت مفید او رضروری مضامین اس میں اضافہ کیے اور حکمائے عہد مامون میں بالتخصیص نہایت مفید اضافہ کیا۔ مجھ کو امید ہے کہ یہ ایڈیشن پہلے ایڈیشن سے بھی زیادہ مطبوع طبع ہوگا۔ سید احمد خاں سیکرٹری کمیٹی مدرستہ العلوم علی گڑھ ۱۲ اکتوبر ۱۸۸۹ء ’’اعجاز التنزیل ‘‘ وزیر الدولہ ، مدبر الملک خلیفہ سید محمد حسن صاحب سی۔آئی ۔ ای ۔ وزیر اعظم ریاست پٹیالہ نے ایک کتاب موسوم پہ ’’اعجاز التنزیل‘‘ تصنیف کی تھی جس میںانہوں نے ثابت کیا تھا کہ قرآن مجید لفظا و معنا دونوں اعتبار سے معجز نما ہے اور اپنی تائید میںیورپ کے مستند اور مشہور مصنفون کے اقوال بھی درج کیے تھے۔ اس کتاب پر سر سید نے علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ میںایک طویل ریویو کیا تھا جسے ہم اخبار سر مور گزٹ ناہن مورخہ ۱۰ فروری ۱۸۹۰ ء سے لے کر درج کرتے ہیں (محمد اسماعیل پانی پتی ) اس زمانے کے مسلمان مصنف جب تائید اسلام پر کوئی مضمون لکھتے ہیں تو اکثر یو رپین مصنفوں کے اقوال جو اسلام کی حمایت میںہوتے ہیں، اپنے ادعا کی تائید میں نقل کرتے ہیں اس زمانے میں جس قدر کتابیں مسلمانوں نے تصنیف کی ہیں، سب نے کم و بیش یہ طریقہ اختیار کیا ہے۔ سید احمدخاں، مولوی چراغ علی، مولوی سید امیر علی ، سب کی تصنیفات میں اس قسم کی شہادتیں موجود ہیں اور سب سے اخیر تصنیف جو وزیر الدولہ خلیفہ سید محمد حسن صاحب کی ’’اعجاز التنزیل ‘‘ ہے اس میں تو سب سے زیادہ یورپین مصنفوں کے اقوال سے جو تائید اسلام میںہیں استدلال کیا گیا ہے ۔ اس طریقے پر بعض لوگ معترج ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس طریقے کے اختیار کرنے سے دو باتیں لازم آتی ہیں اول یہ کہ جن کے اقوال نقل ہوتے ہیں ، ان کوبہت بڑا عالم قابل استاد تسلیم کیاگیا ہے ، دوسرے یہ کہ وہ یوصف عیسائی ہونے کے نہایت منصف اور غیر متعصب ہیں۔ اگر اس لزوم کو صحیح مان لیا جائے تو کیا خیا ل کیا جائے گا اس وقت جب کہ وہ بہت کچھ اسلام کے بعض مقدم امور کی نسبت نہایت مخالفت کرتے ہیں اور اس کو بہت ہی برا بتلاتے ہیں ۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ اس مضمون نے جس طرح بعض امور میں اسلام کی بہت ثنا و صفت کی ہے اس طرح بعض باتوں میںبلکہ مقدم باتوں میں اسلام کے مسائل و عقائد کی نہایت حقارت و مذمت بھی کی ہے پس کیا وجہ ہے کہ ہم پہلی صورت میںتو ان کو منصف اور غیر متعصب قرار دیں اور دوسری حالت میں اس کے برخلاف اس کو سمجھیں۔ علاوہ اس کے اس طریقے کے اختیار کرنے میں ایک بڑا نقص یہ ہے کہ جب مسلمان نوجوان طالب علم مسلمانوں کی تصنیفات میں ان کے اقوال دیکھتے ہیں اور ان کو منصف اور غیر متعصب تسلیم کیا ہو اسمجھتے ہیں تو ان کی اصلی تصنیفات اور غیر متعصب تسلیم کیا ہوا سمجھتے ہیں تو ان کی اصلی تصنیفات کے پڑھنے پر مائل ہوتے ہیں اور جب ان مقامات پر پہنچتے ہیں جہاں انہوں نے اسلام کے مسائل کی مذمت کی ہے تو طالب علموں کے دلوں میں نہایت بد اثر پیدا ہوتا ہے کہ ان مسائل کی نسبت بھی انہوں نے بالکل سچ اور محض انصاف سے اور بغیر تعصب کے لکھا ہے: وہ کہتے ہیں کہ کسی شخص یا کسی چیز کی برائی کا لوگوں کے دلوں میںبٹھانے کا سب سے عمدہ طریقہ یہی ہے کہ اس کی برائیوں کے ساتھ اس کی کچھ خوبیاں بھی بیان کی جائیں تاکہ پڑھنے والوں کے دلوں پر یہ اثر پیدا ہو کہ اس کا لکھنے والا نہایت منصف اور غیر متعصب ہے ۔ جو بات اچھی تھی اس کو اچھا لکھا ہے۔ جو بات بری تھی اس کو برا لکھا ہے ۔ سر ولیم میور صاحب کی کتاب اسی قسم کی ہے۔ پس اگر انہوں نے کسی فروعی امر میں اسلام کی تعریف کی اور چند کلمات خاص اس امر میں اسلام کی نسبت لکھے تو ان کو نقل کرنے اور ان پر سند لانے سے کیا نتیجہ ہے ؟ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جن یورپین مصنفوں کو متعصب اور غیر متعصب کہا جاتا ہے د ر حقیقت وہ کوئی مذہب نہیں رکھتے ۔ عیسائی مذہب کے بھی ماند نہیں ہیں اور قرآن مجید کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں جیسے سولن او ر منو کے قوانین کو دیکھتے ہیں اور نبوت کی عجیب طاقت کی کچھ ضرورت نہیں سمجھتے ۔ پس قرآن یا اسلام کی تائید میں ان کے اقوال کی سند لانے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ مگرہم ان خیالات سے متفق نہیں ہیں۔ ’’اعجاز التنزیل‘‘ کو ہم اس لیے بھی نہایت قدر کے لائق سمجھتے ہیں کہ وہ یورپین مصنفوں کے تمام خیالات کا جو اسلام کی تائید میں ہیں ایک عمدہ مجموعہ ہے اور مصنف نے نہایت خوبی و سلیقہ سے ان کو اس کتاب میںجمع کیا ہے ۔ یورپین مصنف جنہوں نے اسلام کی نسبت کچھ لکھا ہے وہ تین قسم کے ہیں، اول زمانہ قدیم کے مصنف مثل بریدو وغیرہ۔ ان کی تصانیف کا موضوع تو بجز دشنام دہی اور آنکھ اور کان اور دل اور تمام قوائے ممیزہ کو معطل کرکے اسلام کی مذمت کرتا ہے اور اسی لیے ان کو متعصب کہا جاتا ہے ۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو خود مذہب عیسوی پر دل سے یقین رکھتے ہیں اور اپنے تئیں بطور ایک مورخ قراردے کر اسلام پر کوئی کتاب لکھتے ہیں مگر قبل اس کے کہ ایک حرف انہوں نے لکھا ہو اس ارادہ پر قلم اٹھایا ہے کہ اسلام کا غلط اور جھوٹ اور ایک حریفانہ دھوکا ہوناثابت کریں۔ اسی قسم کی تصنیفات سر ولیم میور اور ڈاکٹر اسپرنگر وغیرہ کی ہیں۔ مگریہ مصنف باوجود یکہ عیسائی ہونے اور مذہب اسلام کے مخالف ہونے کے تاریخانہ واقعات پر جن کی وہ تردید نہیں کر سکتے ، یا بعض مسائل پر جن کی مخالفت کوئی دانشمند نہیں کر سکتا یا ان بے مثل اور عجیب خوبیوں کے جاہل صحرائی اونٹ چرانے والے کو پہنچیں انکار نہیں کر سکتے ۔ وہاں اسلام کی مدح اور اس کی ان خاص خوبیوں کا اقرار کرتے ہے ں۔ پس کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کہ ہم ان کے ان اقوال کو بطور ایک مخالف کے اقرار کے نہایت استحکام سے اپنے دعوے کی تائید میں ، مگر نہ بطور ایک بنیاد اصلیت اسلام کے پیش نہ کریں۔ ہمارا دعویٰ حقیقت اسلام کا ان اقوال پر جن کو ہم پیش کرتے ہیں، مبنی نہیں ہے بلکہ ان اقوال کا پیش کرنا اس مراد سے ہے کہ وہ امر ایسا مستحکم اور صریح ہے کہ محالفین بھی اس کو تسلیم کرتے ہے یا اس کے تسلیم کرنے پر مجبور ہیں، وزیر الدولہ نے اپنی کتاب ’’اعجاز التنزیل ‘‘ میں اس قسم کے مصنفوں کے اقوال کو اسی منشاء سے اپنی کتاب میںنقل کیا ہے جس سے ا س کتاب کا حسن دوبالا ہوگیا ہے۔ تیسری قسم کے یورپین مصنف وہ ہیں جو منصف یاغیر متعصب کہے جاتے ہیں جیسے گبن یا ھگنزیا مسٹر کارلائل وغیرہ وغیرہ۔ ہم کو اس سے بحث نہیں کہ ہو کسی مذہب کے معتقد تھے یانہیں، اگر نہ ہوں تو ان کے اقوال مثل ایک پنچ کے جو نہ مدعی کا طرفدار ہو نہ مدعا علیہ کا ، ہمارے دعوے کے زیادہ تر مفید اور ان کی نسبت منصف اور غیر متعصب کالقب زیادہ تر زیبا ہے ، انہوں نے مذہب اسلام کی خوبیوں کی نسبت بہت کچھ لکھا ہے اور اسلام نے جو سچائی اور صداقت دنیا میں پھیلائی اس کی تاثیر برق کے مانند کرورڑوں آدمیوں کے دل میں بیٹھ گئی اور اب تک اسی استواری سے قائم ہے اور برابر اثر کرتی چلی جاتی ہے اور اسلام کی اور بہت سی باتوں کی انہوں نے بہت تعریف کی ہے اور ان سب کو تسلیم کیا ہے ، اس بلا شبہ ان کے اقوال زیادہ تر ہمارے دعوے کے موید ہیں مگر نہ ا س طور پر کہ ہمارے دعوے کی بنا ان اقوال پر ہے بلکہ صرف اس لیے کہ چند غیر متعصب عالموں ، مورخوں ، فلاسفروں نے بھی ان کو تسلیم کیا ہے ۔ ہاں یہ با ت سچ ہے کہ انہی مصنفوں نے جن کی ہم نے اس قدر تعریف کی، اسلام کے متعدد مسائل کوتحقیر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور ان کی مذمت کی ہے ۔ مگر ہم ہر گز ان کی نسبت یہ نہیںکہتے کہ وہ مذمت یا حقارت انہوں نے تعصب کی راہ سے کی ہے بلکہ بدبختی سے خود ہم نے یعنی مسلمان مصنفوں یا مورخوں نے غلط طور پر وہ مسائل انکو دکھائے ہیں اور اس لیے وہ مجبور ہوئے ہیں کہ غلط رائے ان پر قائم کریں۔ گو مسلمان تقلید سے یا تعصب سے ا س بات کو نہ مانیں مگر کوئی محقق ایسا نہیں جو اس کو تسلیم نہ کرے اور خود مسلمان محقق بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان مورخوں نے جو کتابیں اسلام کی تاریخ کی لکھی ہیں خواہ وہ سنی عالموں کی مکمل ہوئی ہوں یا شیعہ عالموں کی، لغویات و مہملات اور جھوٹے قصوں اور موضوع روایتوں سے بھری ہوئی ہیں اور غلو مذہبی نے اور اختلاف مذہبی ن ے ان کو زیادہ تر بدنما اور درجہ اعتبار سے ساقط کر دیا ہے بلکہ اصلی واقعات کو ایسا خراب کیا ہے کہ ان کی اصلی حالت دریافت کرنی مشکل ہے ۔ تاریخ کی کتابوں کے بعد حدیث کی کتابیں ہیں، جو درجہ بدرجہ معتبر گنی جاتی ہیں، شیعہ مذہب کی حدیث کی کتابوں کی بہ نسبت سنی مذہب کی حدیث کی کتابیں کسی قدر میری دانست میںزیادہ وقعت کی ہیں، مگر ہر ایک فرقے نے اپنے ہاں کی حدیث کی کتابوں کو واجب التسلیم قرار دیا ہے ۔ حالانکہ خود اصول علم حدیث اور عام اصول تنقید روایت کے مطابق ہر ایک حدیث ان کتابوں کی تنقیح و تنقید کے لائق ہے۔ ا ن کتابوں کے لکھیے جانے کے تھوڑے دن بعد تقلید کی گرم بازاری ہوئی اور تحقیق کا دروازہ مسدود ہوگیا اور جو باتیں لکھی گئی تھیں وہی مسلم سمجھی جانے لگیں، صرف کتاب اللہ یعنی قرآن مجید ایساتھا جو تمام آفات سے محفو ظ تھا مگرمفسرین نے اس پر بھی رحم نہیںکیا ور اپنی تفسیروں میںضعیف و موضوع روایتیں لکھنی شروع کیں اور بے اصل قصے جو اکثر بلکہ کلیۃ یہودیوں کے ہاںسے اخذ کیے تھے ان میں شامل کیے۔ اور رفتہ رفتہ وہ تفسیریں نہایت اعتبار اور وقعت کی نگاہ سے دیکھی جانے لگیں۔ پھر اس پر قیاسات اور اجتہا دات نے بہت کچھ اضافہ کیا اور مذہب اسلام ایک مجموعہ صحیح و غلط مسائل کا اور واقعی و غیر واقعی واقعات کا بن گیا۔ ان بے چارے یورپین مصنفوں کے پا س جن کو ہم منصف و غیرمتعصب کہتے ہیں ، خود ہماری تحریروں سے وہ مسائل اور واقعات پہنچے جو دراصل ٹھیٹ مذہب اسلام کے مسائل نہ تھے یا صحیح واقعات نہ تھے ۔ انہوں نے خود ہماری تحریروں سے دھوکا کھایا اور ان کو مسئلہ اسلامی سمجھا اور اس کو تحقیر کی نگاہ سے بھی دیکھا اور اس کی مذمت کی۔ پس یہ ہمارا گناہ ہے نہ ا ن کا قصور۔ ایک عیسائی پادری نے ایک شخص سے کہا کہ تم گبن کو بہت بے تعصب سمجھتے ہو کہ اسلام کی نسبت اس نے سچی رائیں ظاہر کی ہیں مگر فلاں امر کی نسبت اس نے یہ لکھا ہے اور ایسی مذمت کی ہے ۔ اس کی اس تحریر کوبھی تم بے تعصب سمجھتے ہو ؟ اس شخص نے جواب دیا کہ ہاں مگر گبن کو اس مسئلے کے سمجھنے میںغلطی ہوئی ہے اصل مسئلہ ٹھیٹ اسلام کایوں ہے۔ اگر صحیح مسئلہ اس کو معلوم ہوتا تو وہ ہر گز ایسا نہ لکھتا جیسا کہ اس نے لکھا۔ ایک فرنچ مصنف نے اپنی کسی تحریر میںجس کاپتہ مجھ کو یاد نہیںرہا اس بات پر نہایت تعجب و حیرت ظاہر کی ہے کہ جب قرآن میںلکھا ہے کہ ’’انما المومنون اخوۃ‘‘ تو پھر مسلمان کسی مسلمان کو کیوںکر غلام بنا سکتے ہیں یا جو غلام مسلمان ہوگئے ہیں وہ کیوں کر غلام رہ سکتے ہیں، اس کو یقین نہ تھا کہ اس آیت کے مطابق کوئی مسلمان غلام نہیں ہو سکتا ، اس پر اس نے اسلام کی تعریف کی ہے کہ اپنے ہم مذہبوں کو غلامی سے آزاد کر دیا مگر پھر مذمت کی ہے کہ بنی نوع انسان کے ساتھ اس نے اچھا سلوک نہیںکیا ، مگر جب آیت حریت عام ’’ فا ما منا بعد و ما فدائ‘‘ اس کو دکھائی جاتی تو وہ ضرور کہتا کہ اسلام نے جو برکت تمام بنی نوع انسان کو بخشی ہے کسی مذہب نے نہیں بخشی ہے۔ پس ہمارے نوجوان طالب علموں کا فرض ہے کہ جب وہ کسی ایسے یورپین عالم کی رائے کسی مسئلہ اسلام کے برخلاف دیکھیں تو اول اس بات کی تحقیق کریں کہ جو مسئلہ وہ سمجھا ہے یا ا س تک پہنچ ہے جس پر اس نے مسئلہ اسلام کی مذمت کی ہے درحقیقت وہ ٹھیٹ مذہب اسلام کا مسئلہ ہے بھی یا نہیں ۔ اگر ہے تو آیا خود اس مصنف کو غلطی ہوئی ہے یا نہیں ، کیونکہ منصف اور بے تعصب ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ا س سے کوئی غلطی بھی نہ ہو۔ ہم اس بات کو بھی تسلیم کر لیںگے کہ وہ یورپین مصنف قرآن مجید کوبھی اسی نظر سے دیکھتے ہیںجیسے سولن اور منو کے قوانین کو، مگر ان کا اس نظر سے دیکھنا اور پھر مذہب اسلام کی نسبت وہ کچھ لکھنا جو انہوں نے لکھا ہے۔ ہماری صداقت اسلام کو زیادہ مستحکم کرتا ہے ۔ اس لیے کہ ہم کہتے ہیں کہ اسلام انسانک کے لیے بنایا گیا ہے یا یوں کہو کہ انسان اسلام انسان کے لیے بنایا گیا ہے یوں کہو کہ انسان اسلام کے لیے بنایا گیا ہے۔ دونوں باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام انسانی فطرت کے موافق ہے اور یہی دلیل اس کی صداقت اور خالق انسان کی طرف سے ہونے کی ہے۔ پس اگر کسی ایسے عالم و فلاسفر نے بھی جو کسی مذہب کا معتقد نہیں ہے اس کی صداقت کو تسلیم کیا ہے تو اس سے زیادہ کوئی معتمد شہادت ہمارے دعویٰ کی تصدیق پر نہیں ہوسکتی ۔ غرض کہ ہماری دانست میںخلیفہ صاحب نے سب سے بڑا اور عمدہ کام اس کتاب میںیہی کیا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اہے یورپ کے عالموں کے اقوال جو تائید مذہب اسلام میںتھے یک جا جمع کر دیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے یہ کتاب نہایت عمدہ لکھی ہے ۔ باوجودیکہ وہ ایک عمدہ شیعہ ہیں مگر نہایت بے تعصبی سے انہوں نے یہ کتاب لکھی ہے ۔ سنی مذہب کی کتابوں میں سے بھی انہوں نے معتبر روایتوں کے اخذ کرنے میںتامل نہیںکیا ۔ علی مرتضیٰ و اہل بیت و ائمہ اطہار کے مناقب جس قدر بیان ہوں وہ ان کی شان کے مقابلہ میںکم ہین اور اہل سنت و جماعت بجز اس کے کہ ازیں ہم بالا تر بگو اور کچھ نہیں کہہ سکتے ، بقو ل ایک سنی کے جس نے ایک شیعہ سے کہا تھا کہ اگر محبت اہل بیت نزد شما جزو ایما است نزد ما عین ایمان است، شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام کی نسبت بطور ایک لطیفہ کے انہوں نے اس آیت ’’وقد یناہ بذبح عظیم‘‘ پر استدلال کیا ہے ، ورنہ کوئی شیعہ مثل عیسائیوں کے جو حضرت مسیح کے فدیہ ہونے کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں یہ اعتقاد نہیں رکھتا کہ حضر ت امام حسین ؑ تمام مومنیں کے بدلے فدیہ ہوگئے ۔ رہی یہ بات کہ اگر امام ؑ یزید سے بیعت کر لیتے اور وہ امام برحق تسلیم کیاجاتا تو امت محمدی میں صد ھا آفات پیدا ہوتیں۔ ان آفات سے امت کو بچانے کے لیے انہوں نے جان دی اور امت کے لیے فدیہ ہوگئے ۔ اس میں نہ کوئی سنی عذر کر سکتا ہے ۔ نہ کوئی شیعہ ، جو فعل کہ حضرت امام حسن ؑ نے معاویہ ابن ابی سفیان کے ساتھ کیا اور جو فعل کہ حضر ت امام حسین ؑ نے یزید کی بیعت سے انکار میںکیا اس سے جو تفاوت کہ دونوں بھائیوں میں ہے وہ علانیہ ظاہر ہوتا ہے ۔ فتد بر۔ …………………… ’’الفاروق‘‘ اور سرسید (علی گڑھ انسٹیٹیوٹ ۔ مورخہ ۱۰ مارچ ۱۸۹۳ ئ) مولانا شبلی نعمانی جب مدرسۃ العلوم علی گڑھ میںپروفیسر تھے۔ اس وقت ۱۸۹۲ ء میں انہوں نے حضرت امیر المومنین فاروق اعظم ؓ کی مفصل اور مکمل سوانح عمری لکھنے کا ارادہ فرمایا اور ’’الفاروق ‘‘ کے نام سے اس کا اعلان بھی اپنی مشہور کتاب ’’سیرۃ النعمان‘‘ کے دیباچہ میں کردیا ۔ جو جنوری ۱۸۹۲ء میںشائع ہوئی تھی ۔ مدرسۃ العلوم علی گڑھ کی مصلحتوں کے پیش نظر سر سید نہیں چاہتے تھے کہ مولانا شبلی جو کالج سے منسلک تھے ’’الفاروق‘‘ لکھیں۔ کیونکہ اس سے کالج کے شیعہ ہوا خواہوں او رہمدردوں کے ناراض ہوجانے کا اندیشہ تھا۔ لیکن جب مولونا شبلی اپنے خیال اور ارادہ سے باز نہ آئے تو سر سید نے نواب عماد الملک سید حسین بلگرامی کو خط لکھا کہ آپ مولانا شبلی کو اس کتاب کی تصنیف سے رکنے کا مشورہ دیں ۔ کیونکہ کالج کی مصلحتیں اس بات کی مقتضی نہیں ہیں کہ اس کے ایک پروفیسر کے قلم سے ایسی فرقہ وارانہ کتاب نکلے۔ اس وقت کالج کے ہمدردوں، معاونوں اور سر پر ستوں میں سب سے زیادہ قابل تعظیم یہی بزرگ تھے اور سر سید کو یقین تھا کہ چوں کہ نواب صاحب شیعہ ہیں اس لیے یہ کتاب علی گڑھ کالج سے ان کی بدمزگی، بیزارگی اور بے التفائی بلکہ بے تعلقی کا موجب ہوگی اور اسی وجہ سے سر سید کو اصرار تھا کہ یہ کتاب نہ لکھی جائے ۔ مگر بالکل خلاف توقع سر سید کے اس خط کا جواب نواب عماد الملک نے یہ دیا کہ ’’ اسلام میں دین ودنیا کی جامع ۔ کامل ذات صرف حضرت عمر کی ہے اور دنیا نے ایک ہی فاروق پیدا کیا ہے ۔ حیف ہے اگر اس کی سوانح عمری نہ لکھی جائے۔ آپ یہ سوانح عمری لکھنے سے مولوی شبلی کو نہ روکیے‘‘ اور ساتھ ہی مولانا شبلی کی بہت کچھ تعریف و تحسین بھی کی۔ مگر نواب عماد الملک کے اس خط کے باوجود سر سید کا یہی خیال تھا کہ بہتر ہو کر مولانا شبلی الفاروق نہ لکھیں اور اس ارادہ کو ترک کر دیں (حیات شبلی ، مرتبہ سلیمان ندوی صفحہ ۲۳۱)۔ اسی زمانہ میں جب ’’الفاروق ‘‘ کا غلغلہ ہر طرف بلند تھا او ر لوگ بہت بے صبری کے ساتھ اس کی اشاعت کے منتظر تھے ۔ خود سر سید ہی کے گروہ میں سے ایک صاحب منشی سراج الدین (راولپنڈی) نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر حضرت فاروق اعظم ؓ کی سوانح حیات شائع کرنے میں اولیت کا شرف حاصل کرنا چاہا اور (بقول خود) ’’پانچ چھ مہینے میں‘‘ جھٹ پٹ کچھ انختاب و اقتباس کے بعد ’’ سیرۃ الفاروق‘‘ کے نام سے ۳۰۸ صفحے کی ایک کتاب شائع کر دی یہ مطبوعہ کتاب جب سر سید نے دیکھی تو علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ میںانہوں نے اس پر ایک مضمون لکھا ۔ یہی مضمون ہم آج ہدیہ ناظرین کر رہے ہیں۔ متذکرہ بالا دونوں واقعات سے مولانا شبلی نے بد دل اور مایوس ہونے کی بجائے زیادہ مستقل مزاجی کے ساتھ ’’الفاروق ‘‘لکھنے کا پختہ عزم کر لیا اورکئی سال کی محنت اور کاوش کے بعد ’’ الفاروق‘‘ مرتب کی ۔ جو چھپنے کے بعد ہاتھوں ہاتھ لی گئی اور اب تک اس کے بیسیوں اڈیشن نکل چکے ہیں ۔ نصاب میں بھی داخل ہیں او راس کے فارسی اور انگریزی کی ’’سیرۃ الفاروق‘‘ ایسی گوشہ گمنامی میںچھپی کہ آج کہیں اس کا نام بھی سننے میں نہیںآتا ۔ (محمد اسماعیل پانی پتی ) ’’ اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ ہمارے کالج کے پروفیسر مولوی محمد شبلی نعمانی نے اپنی تصانیف سے ملک کوبہت فائدہ پہنچا یا ہے ۔ المامون ، سیرۃ النعمان ۔ کتب خانہ سکندریہ اور الجزیہ بے مثل اور بے نظیر کتابیںہیں۔ اگر وہ نعوذ باللہ اپنے رسالہ الجزیہ کی نسبت مسلمانوں کو مخاطب کر کے یہ کہیں کہ ’’فاتو ا بسورۃ من مثلہ‘‘ تو کچھ تعجب نہ ہوگا جزیہ کا ایسا بیجا اور غلط الزام اسلام پر تھا ۔ جس کا آج تک کسی نے ایسی عمدگی سے حل نہیں کیا تھا ۔ ان اجرہ الا علی اللہ بایں ہمہ انہوں نے مثل علمائے متقدمین با خدا الذین لا تنظرون الی الدنیا وحطا مھا بل ینظرون الی رحمتہ اللہ وبرکاتھا اولیٰ حالہ القوم واصلاحہا کوئی ذائی فائدہ ان کتابوں کی تصنیف سے نہیں اٹھانا چاہا۔ بلکہ بالکلیہ مدرسۃ العلوم دے دیا اور جب ان کی حالت معاش پر نظر کی جاوے تو ان کی یہ فیاضی بھی بہت زیادہ اور اعلیٰ درجہ کی با وقعت ہوجاتی ہے ذالک فضل اللہ یو تیہ من یشاء اور جب ایسے شخص نے جو کیابحثیت علم اور کیا بلحاظ عمدگی تالیف اور کیا بنظر طریقہ ترتیب مضامین میں یادگار سلف ہے ’’الفاروق ‘‘ لکھنے کا ارادہ کیا تھا اور بہت کچھ اس کا سامان بھی جمع کیا تھا ۔ جس کا جمع کرنا نہ آسان کام ہے ، نہ ہر ایک شخص کا کام ہے او رہنوز بہت کچھ جمع کرنا باقی ہے۔ توہمارے دوست منشی سراج الدین احمد صاحب کو بلاشبہ مناسب نہ تھا کہ اسی مضمون پر کتاب لکھ ڈالتے ۔ بلکہ اس رحمت کے منتظر رہتے جو خدا کو مولوی شبلی کے ہاتھ سے ملک کو پہنچاتی تھی ۔ ’’ہیروز آف اسلام‘‘ ( کے سلسلے ) میں حضرت عمر ؓ کی لائف کا لکھانا ایک بہت بڑا نازک کام ہے۔ ممکن ہے کہ ان کی لائف اس طرح پر لکھی جاوے جو انسانوں کے لیے باعث رحمت ہو ، یا اس طرح پر لکھی جاوے کہ باعث آفت ہو، یا اس طرح پر لکھی جاوے کہ دونوں فریق شیعہ و سنی کو بجز گمراہی کے او رکچھ حاصل نہ ہو۔ سب سے مقدم یہ بات ہے کہ اول اس کالکھنے والا شیعہ اور سنی دونوں مذہبوں کی قید سے اپنے تئیں آزاد سمجھے اور ہسٹورین (مورخ) بن کر ان کی لائف لکھیے ۔ یا یہ کرے کہ ان امور کو جو دونوں فریق میں متنازعہ قیہ ہیں مطلق نہ چھیڑے اور ان واقعات اور حالات کو اور ان کی اس خصلت اور انتظامی قوت کو اور اس برکت کو لکھے جو ان کے زمانہ خلافت میں اسلامی دنیا کو پہنچی ۔ جن سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ مشکل یہ ہے کہ کوئی شخص دنیا میں ایسا نہیںہے کہ اس کے ہر ایک فعل کو دو پہلو نیک او ربد سے تعبیر نہ کیا جا سکے ۔ یہ مشکل اس وقت زیادہ ہوجاتی ہے جب کہ کسی اکابر دین کی جیسے کہ خلفائے راشدین ؓ اجمعین ہیں ۔ لائف لکھی جاوے ، پس حضرت عمر ؓ کی لائف لکھنا ایسا آسان کام نہیںتھا جیسا کہ ہمارے دوست منشی سراج الدین احمد صاحب نے سمجھا۔ مگر ہم کو افسوس ہوتا ہے جب کہ ان کی نسبت کوئی الزام بد نیتی کا دیا جاتا ہے منشی سراج الدے احمد صاحب ایک نیک آدمی ہیں قو می بھلائی کا وہ خیال ظاہر کرتے ہیں۔ بے شک ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں کا وہ خیال ظاہر کرتے ہیں۔ بے شک ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے غلطی کی۔ جو کام ان کو نہ کرنا چاہیے تھا انہوں نے کیا ۔ بلکہ وہ کام ان کے قابو سے باہر تھا۔ بلکہ ہم تو سمجھتے ہیںکہ ہمارے مخدوم وحید العصر مولوی شبلی کے قابو سے بھی باہر ہے ۔ مگر کسی بدنیتی یا طمع نفسانی کا الزام جو لوگ منشی سراج الدین احمد کی طرف لگاتے ہیں۔ نہ ہم اسے پسند کرتے ہیں اور نہ درست سمجھتے ہیں۔ فرض کرو کہ ایک مضمون پر ایک شخص نے کتاب لکھنے کا ارادہ کیا ۔ اسی مضمون پر دوسرے شخص نے کتاب لکھنے کا ارادہ کیا۔ اس میں نقصان کیا ہوا ؟ بلکہ جب دونوں کتابیں موجود ہوں گی تو لوگوں کو دونوں میںتمیز کرنے کا نہایت عمدہ موقع ملے گا اور یہ صادق آوے گا فتقبل من احد اھما ولم یتقبل من الاخر۔ یہ سمجھنا کہ منشی سراج الدین کے سیرۃ الفاروق تحریر کرنے سے مولوی شبلی پیدل ہوگئے ہیں۔ اب نہ و ہ ’’ہیروز آف اسلام‘‘ لکھیں گے اور نہ ’’الفاروق ‘‘محض غلط خیال ہے ۔ اگر اہل ملک مولوی شبلی کی تصانیف کو سمجھتے ہوں تو وہ یقین کریں گے کہ اگر ایک ہی مضمون پر دس شخص بھی لکھیں تو مولوی شبلی کی تحریر نرالی ہوگی ۔ بس ان کو کیا پروا ہے کہ اور کسی نے بھی کچھ لکھا ہے ۔ مگر ہم مولوی شبلی کی اس رائے کو کہ بزرگان دین کو بھی ’’ہیروز آف اسلام‘‘ میں داخل کرکے ان کی لائف لکھیں ہر گز پسند نہیں کرتے اور نہ ان س متفق ہیں۔ وہ لوگ ’’ فادر آف اسلام‘‘ ہیں نہ ’’ہیروز آف اسلام‘‘ اور ہم دعا کرتے ہیں کہ خد کرے مولوی شبلی ’’الفاروق ‘‘ نہ لکھیں۔ ہم مولوی شبلی سے اصرار کر رہے ہیں کہ اپنا ’’سفر نامہ ‘‘ختم کرنے کے بعد ’’الغزالی ‘‘یعنی لائف امام غزالی کی لکھ دیں ، جو نہایت دلچسپ اور بے حد مفید ہوگی۔ خدا ان کو توفیق دے کہ ہماری بات کو مانیں۔ اس کے بعد جو خدا کو منظور ہو وہ کریں ۔ لیکن اگر اس کے بعد بھی انہوں نے ’’الفاروق ‘‘لکھی تو ہم اس وقت ان کوکہیں گے جو کہیں گے۔ …………… اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End