اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید متفرق مضامین جلدپانز دھم حصہ اول مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقالات سرسید سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کو حاصل ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے اور اپنے پیچھے نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مضامین جہاں ادبی لحاظ سے وقیع ہیں، وہاں وہ پر از معلومات بھی ہیں۔ ان کے مطالعے سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مذہبی مسائل اور تاریخ عقدے حل ہوتے ہیں اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں اور سیاسی و معاشرتی لحاظ سے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ نیز بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی ان میں موجود ہیں سرسید کے ان ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا ہدف رہے ہیں ان مضامین میں علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی، مزاح بھی ہے اور طنز بھی، درد بھی ہے اور سوز بھی، دلچسپی بھی ہے اور دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے اور سرزنش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اور ہر قسم کے خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے، وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اور کہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات و رسائل کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام کے لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اور نا مکمل، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ گزر گیا مگر کسی کے دل میں ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا اور کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا آخر کار مجلس ترقی ادب لاہور کو ان بکھرے ہوئے بیش بہا جواہرات کو جمع کرنے کا خیال آیا مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں پرونے کے لیے مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا انتخاب کیا جنہوں نے پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میں دور و نزدیک کے سفر کیے فراہمی مواد کے لیے ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا، مگر چونکہ ان کی طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری باحسن طریق پوری کی چنانچہ عرصہ دراز کی اس محنت و کاوش کے ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں’’ مقالات سرسید‘‘ کی مختلف جلدوں کی شکل میں فخر و اطمینان کے جذبات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ نوروز یعنی شروع سال نبوی (تہذیب الاخلاق،بابت ۱۲۹۸ھ ، صفحہ ۱ تا ۴) شوال کا مہینہ اور عید کا دن تیرہ سو گیارھویں سالگرہ ظہور مذہب اسلام کی ہے۔ تمام مسلمان عید کرتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں، عید گاہ میں دوگانے پڑھتے ہیں، خیر خیرات کرتے ہیں، فطرہ دیتے ہیں، دودھ سویاں کھاتے ہیں، ایک دوسرے کو تحفہ بھیجتے ہیں، لڑکوں کو چھٹی ملتی ہے، عیدیاں لے کر خوش ہوتے ہیں، مگر اس مختلف گروہ کے مختلف خیالات ہیں۔ بزرگ اور خدا پرست زاھد و عابد الوداع کے دن ماہ مبارک کی مفارقت میں گریہ و زاری کر چکتے ہیں۔ پھر عید کے دن فرض کے ادا کرنے اور بہشت میں اعلیٰ درجات ملنے کا استحقاق حاصل کرنے کے خیال سے خوشیاں مناتے ہیں۔ جوان کہتے ہیں کہ خدا خدا کر کے رمضان تشریف لے گئے۔ مر مر کے روزے پورے کئے۔ اب خدا نے عید کا دن دکھلایا۔ برس بھر کو نجات ملی۔ بڈھے سیدھی سادی طبیعت کے آدمی شکر کرتے ہیں کہ اب کے سال تو خدا نے روزے رکھوا دیے۔ عید کا دن دکھلا دیا۔ دیکھیے اگلے سال بھی ہم ہوں گے یا نہیں۔ ؎ دنیا کے جو مزے ہیں ہر گز یہ کم نہ ہوں گے چرچے یہی رہیں گے، افسوس ہم نہ ہوں گے لڑکے چھٹی کی دھن میں، کھیل کود کی امنگ میں عیدیاں لے لے کر خوش ہوتے ہیں کہ دو دن کے لیے تو پڑھنے کی مصیبت، استاد کی دہشت سے نجات ملی، ہماری عمر کا جو مقتضیٰ ہے اس کے برتنے کا موقع ہاتھ آیا۔ مگر جو پکے مسلمان ہیں اور ٹھیٹ مذہب اسلام کے پیرو ہیں وہ کہتے ہیں کہ عید ، عید کا دن تو ہے، مگر عید کے کچھ سامان بھی ہیں، جب کچھ سامان نہیں پاتے تو گو خوشیاں منانا چاہتے ہیں مگر کچھ منا نہیں سکتے۔ ہلال عید ان کی آنکھوں میں ہلال تو نظر نہیں آتا بلکہ ہلال آخر ماہ دکھائی دیتا ہے جو بدر ہو کر گھٹتے گھٹتے ہلال ہو گیا ہے۔ تمام قوموں نے اپنے لیے مختلف نشان اختیار کیے تھے مگر مسلمانوں نے ہلال کا نشان اختیار کیا تھا جو ظہور مذہب اسلام کی نشانی اور ہونہار بدر کی نیک شگونی تھی مگر وہ یہ نہ سمجھے تھے کہ بدر کو پھر ہلال ہونا اور کمال کو پھر زوال آنا ہے۔ وہ تو بدر کی چاندنی دیکھ کر خوش خوش سدھارے۔ اب ہم محاق کی اندھیری میں ٹکراتے ہیں۔ اس وقت دنیا کے پردہ پر جہاں جہاں مسلمان ہیں ایک سی ابتر حالت میں ہیں، تعصب کو دینداری سمجھتے ہیں، تعصب نے ان کو ایسا غلیظ القلب کر دیا ہے کہ کسی طرح پسیجتا ہی نہیں۔ خدا تو اپنے حبیب کو فرماتا ہے۔ ولو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک۔ مگر اس حکم کو انھوں نے چھوڑا ہے اور تعصب کو پکڑا ہے، مفلسی نے مسلمانوں کا گھر ہی پسند کیا ہے۔ بے دولت کا اطلاق اگر ہو سکتا ہے تو مسلمانوں ہی پر ہو سکتا ہے۔ چند آدمی اگر با دولت ہیں تو قوم کی بھلائی کی کچھ پروا نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ مرا ہست بط راز طوفاں چہ باک قوم کی قوم بے علم و بے ہنر ہوتی جاتی ہے، انھوں نے اپنے سلف کی اس ناموری کو جو علوم و فنون میں انھوں نے حاصل کی تھی بالکل ڈبو دیا ہے۔ دنیاوی علوم و فنون کو جانے دو، اگر دینی ہی علوم میں انھوں نے ترقی کی ہوتی تو بھی صبر آتا کہ خیر دنیا گئی تو دین ہاتھ آیا، علمائے دین کی زبان حال پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ کبرنی موت الکبراء اجتہاد و استنباط کو جانے دو، روایت کشی جو ادنیٰ ترین درجہ علماء ہے وہ بھی باقی نہیں رہی ہے۔ واقعہ سے روایت کا اور روایت سے واقعہ کا تطبیق دنیا نہایت ہی کم پایا جاتا ہے۔ اس کے مآخذ و استنباط تک پہنچنا تو دوسری بات ہے۔ ہم اس علم پر بھی خاک ڈالتے ہیں اور اخلاق پر نظر کرتے ہیں تو بھی بجز افسوس کہ کچھ نہیں پاتے، اتقیاء کو دیکھتے ہیں کہ دن رات اس خیال میں مبتلا ہیں کہ مسواک کتنی لمبی اور ازار کتنی اونچی رکھنی چاہیے۔ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے ہوں یا چھاتی کے اوپر، آمین آہستہ سے کہی جاوے یا ایسے پکار کر جس سے مسجد گونج جاوے۔ جب اس سے بھی فارغ ہو تے ہیں تو ایک دوسرے کی تکفیر کے فتوے لکھنے پر مصروف ہو تے ہیں، جب اس کا بھی محل نہیں پاتے تو ان کی نسبت جن کو وہ اپنا ساتھی نہیں سمجھتے افترا پردازی اور بہتان بندی کرنے پر متوجہ ہوتے ہیں۔ غرض کہ بلبلوں کی طرح اسی طرح بولتے رہتے ہیں، دل کی نیکی اور اندرونی حالت کی درستی پر مطلق خیال بھی نہیں جاتا، تمام احکام شرعیہ کا مقصد جو روح کا پاک کرنا، دل کو درست کرنا، اخلاق کا پیدا کرنا، محبت کا ترقی دینا، قومی ہمدردی کو جوش میںلانا اور قوم کے ساتھ ہمدردی کرنا ہے اس کا ذرہ برابر اثر بھی دل میں پیدا نہیں ہوتا۔ ’’مولوی صاحب ‘‘سننے کی خوشی، پیش امام بننے کا فخر، منبر پر چڑھ کر خوش الحانی سے عید کے خطبہ پڑھنے کا افتخار، لوگوں کے قدم چومنے، ہاتھ چومنے کی خوشی دل کو ایسا پھلا دیتی ہے جس کی انتہا نہیں۔ یہی سبب ہے کہ اندرونی حالت عالم و جاہل سب کی یکساں ہیں۔ جو کچھ ہے باہر کی ٹیپ ٹاپ ہے۔ مشکلے دارم ز دانشمند مجلس باز پرس توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر میکنند جو لوگ شبلی و جنید کی ہمسری کا دعویٰ کرتے ہیں کیا کچھ افتخار ہے جو ان کو اپنی بوریا نشینی پر نہیں ہے۔ سجادہ نشینی دین و دنیا دونوں پر فتح یابی ہے۔ جو کچھ چاہو سو کرو مگر صورت و حالت ایسی بناتے جائو جس سے لوگ کھنچتے جاویں، بناتے جانے کی حاجت نہیں وہ خود ہی بنتی جاتی ہے۔ بوریے پر بیٹھنا جب ان کو تخت طائوس پر بیٹھنے سے زیادہ لطف دکھاتا ہے تو وہی لطف دوسرے دن ان کو زمین پر بٹھا کر عرش پر بیٹھنے کا مزا چکھاتا ہے۔ مگر جو چیز کہ اسلام کی انسان میں پیدا ہونی چاہیے تھی اس کا نشان نہیں ملتا۔ ہاں مگر ان میں مثل پہلوئوں کے مردم آزاری نہیں ہے۔ جب قوم کا یہ حال ہے تو ہلال عید کیا خوشی دے سکتاہے، بلکہ محرم کے ہلال سے زیادہ دل فگار ہے، ایسے ہلال سے کیا خوشی ہو سکتی ہے جو محلق میں آنے والا ہو، ہاں اگر ہر سال قوم کی روحانی، ایمانی، اخلاقی، تمدنی ترقی ہوتی رہے تو پھر عید کا چاند تو عید کا چاند ہے، مگر افسوس ہے کہ اس کی توقع نہیں۔ بالفعل تو قوم تمام قوموں کی مورد نفرین بن رہی ہے اور قوم اس پر فخر کرتی ہے اور کچھ نہیں سمجھتی ، اور کیوں کر سمجھے کہ جو کچھ ہوا ہے اور ہوتا ہے خود اس نے کیا ہے اور کرتی ہے۔ تو بخویشتن چہ کر دی کہ بماکنی نظیری بخدا کہ واجب آمد ز تو احتراز کردن پس جب ہماری قوم کا یہ حال ہے جس کے لئے ہلال عید ہے تو پھر عید کیسی، مگر ہاں اس زمانہ میں ان پکے مسلمانوں اور ٹھیٹ اسلام پر چلنے والوں کی بدولت (جن کو اس زمانہ کے مقدس لوگوں نے، جو تیرھویں صدی کے مقدس لوگ گنے جاتے ہیں، اسی خیال سے نیچری کا خطاب دیا ہے جس خیال سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں نے حضرت عیسیٰ کو ناصری کا خطاب دیا تھا اور انھوں نے اس خطاب کو اسی خوشی سے منظور کیا ہے جس طرح حضرت عیسیٰ نے نہایت خوشی سے ناصری کے خطاب کو منظور کیا تھا) ہماری قوم میں کچھ ترقی کا خیال پیدا ہوا ہے اور نئی روشنی اور پرانی روشنی والے دونوں کہتے ہیں کہ قوم کو تنزل ہے، قومی ترقی ہونی چاہیے۔ بہت سے دلوں میں گو قدیم اقوال سے لغزش آئی ہو مگر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ان کے دل کو پختہ یقین ہو گیا ہے ۔ اس وقت یہاں تک تو ہوا ہے، آئندہ دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مبارک باد عید (تہذیب الاخلاق، جلد ۷ ، نمبر۱، بابت یکم شوال ۱۲۹۳ھ صفحہ ۴ تا ۸) السلام علیکم! وعلیکم السلام۔ حضرت مبارکا باشد، مل تو لیجیے۔ معانقہ تو فرمائیے، آئیے آئیے تشریف رکھیے۔ دل ملے ہوئے ہوں تو معانقہ کی کیا ضرورت ہے۔ کیا آپ معانقہ عید کو جائز نہیں سمجھتے؟ جناب میں کوئی مولوی ملاں، مفتی تو ہوں نہیں کہ جائز ناجائز سے بحث کروں۔ اس جھگڑے کو جانے دیجئے۔ بیٹھیے مزے مزے کی دل خوش کن باتیں کیجئے۔ نہیں صاحب پہلے اسی بات کا تصفیہ کر لیجئے کہ عید کا معانقہ جائز و مستحب ہے یا نہیں۔ حضرت میری رائے جب آپ سنیں گے تو چوکیں گے اور متعجب ہوں گے اور فرماویں گے کہ یہ تو سب سے انوکھی بات ہے، خیال کیجئے کہ جائز و ناجائز، مستحب و غیر مستحب یہ سب قسمیں افعال مذہبی کی ہیں۔ عید کا معانقہ کوئی مذہبی افعال میں سے نہیں ہے جس پر جائز یا ناجائز کا اطلاق ہو سکے، یہ بات صرف باہم معاشرت کی ہے۔ اگر اس پر بحث ہو سکتی ہے تو یہ ہو سکتی ہے کہ آیا یہ طرز معاشرت قابل پسند اور مہذب ہے یا نہیں، اس کا حال یہ ہے کہ جب تک قوم کے خیالات نہیں بدلنے اور تعصب دور نہیں ہوتا اس وقت تک جو رسمیں اس قوم کی ہیں گو وہ کیسی ہیں نامہذب ہوں مہذب ہی معلوم ہوتی ہیں، اس کا فیصلہ کرنے کے لئے کوئی پیمانہ نہیں ہے جس سے اس رسم کا مہذب یا نامہذب ہونا ناپ لیا جاوے۔ اگر کوئی پیمانہ اس کے لیے ہو سکتا ہے تو صرف ترقی علوم و فنون سے ہو سکتا ہے گو یہ مثل مشہور ہے کہ ’’لیلیٰ را بچشم مجنوں باید دید‘‘ ہر ایک شخص اپنے معشوق کو سب سے زیادہ خوب صورت سمجھتا ہے مگر خوب صورتی بھی در حقیقت کوئی شے ہے جو فی الواقع حسن ہے۔ اس کے تصفیہ کا پیمانہ اگر ہو سکتا ہے تو یہی ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں نے علم مصوری میں کمال بہم پہنچایا ہے اور انسان کے اعضاء اور چہرہ کی مناسبتوں پر کامل غور کی ہے اس کے لیے اصول اور مقداریں قائم کی ہیں اور اس کی ساخت و خط و خال کے قواعد مقرر کیے ہیں۔ وہ جس نقشہ کو خوب صور ت بتاویں وہ خوب صورت ہے جس کو بدصورت بتائیں وہ بدصورت ہے گو کہ حبشی اپنے کالے چمکول رنگ اور ناند کے کناروں سے موٹے ہونٹ اور پستہ کی سی چھوٹی زرد آنکھوں کو خوب صورت سمجھا کریں، اسی طرح حسن معاشرت نتیجہ ہے تمام دنیا کے علوم و فنون کے نتائج کے مجموعہ کا ، پس اگر حسن معاشرت کے اچھے یا برے ہونے کا کوئی اندازہ ہو سکتا ہے تو اسی قوم کی معاشرت سے ہو سکتا ہے جس میں ہر قسم کے علوم و فنون اعلیٰ درجہ کی ترقی پر ہوں۔ یہ پیمانہ کچھ آج کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ ہمیشہ سے حسن معاشرت کا یہی پیمانہ رہا ہے۔ ایک زمانہ میں یہ پیمانہ مصریوں کے گھر میں تھا پھر یونانیوں اور ہندوئوں کے گھر میں آیا۔ چند روز مسلمانوں کے گھر میں رہا اب ان لوگوں کے گھر میں ہے جو ہر قسم کے علوم و فنون میں ترقی کیے ہوئے ہیں۔ اگر آپ میرے اس اصول کو صحیح تصور فرماتے ہوں تو خود ہی اس طرز معاشرت کے حسن و قبح کا فیصلہ فرما لیویں۔ کسی طرز معاشرت پر عیب نکالنا (مثلاً معانقہ ہی کی نسبت یہ کہنا کہ یہ تو دو سانپوں کا سا گتھنا یا دو کھڑے نیولوں کی آپس میں لڑنا سا ہے) میں پسند نہیں کرتا۔ کیوں کہ ہر ایک طرز کی حسن معاشرت پر نکتہ چینی ہو سکتی ہے مگر جب ہمارے پاس بجز اس پیمانہ کے جو مذکور ہوا اور کوئی پیمانہ ہی نہیں ہے تو ہم کو اسی طرز معاشرت کے اچھا کہنے میں مجبوری ہے جو اس پیمانہ کے مطابق ہے۔ یہ بات کہ ہر ایک ملک کے لئے حسن معاشرت جداگانہ ہے میری سمجھ میں ایک محض غلط خیال ہے۔ معاشرت بشرطیکہ اس کے معنی سمجھنے میں غلطی نہ کرو تو ایک امر حقیقی ہے امر نسبتی نہیں ہے۔ پس وہ کسی ملک میں مختلف نہیں ہو سکتا گو کہ اس کے حصول کے ذریعے مختلف ہوں اسی غلط فہمی کے سبب لوگوں کے خیال میں ہے کہ یہ رسم فلاں ملک کی ہے ہمارے ملک کی نہیں۔ اگر یہ اصول تسلیم نہ کیا جاوے تو ایک ہی شے کا ایک ہی حیثیت سے ایک جگہ اچھا اور ایک جگہ برا ہونا لازم آتا ہے۔ دیکھیے دیکھیے معاشرت کے معنی سمجھنے میں کچھ غلطی نہ کیجئے گا۔ پہلے اس کے معنی خوب سمجھ لیجیے پھر اگر کچھ کہنا ہو تو کہیے۔ بہت اچھا آپ معانقہ نہ کیجئے مصافحہ تو کیجئے یہ تو سنت ہے۔ دیکھیے پھر آپ نے دوبھاسی بات کی۔ اگر لفظ سنت سے آپ کی مراد یہ ہے کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے اصحاب اور احباب سے مصافحہ فرمایا ہے۔ اور اس لیے یہ سنت عادی یا رسم ملک عرب کی ہے تو میں اس کو تسلیم کرتا ہوں اور اگر آپ نے اس کو کسی مذہبی خیال سے سنت فرمایا ہے تو میں مصافحہ کو داخل مذہب نہیں سمجھتا بلکہ اس کو حسن معاشرت میں داخل سمجھتا ہوں مگر آپ مذہبی خیال سے عید کا مصافحہ کرنا چاہتے ہیں اس لیے میں ہاتھ نہیں بڑھاتا آپ مہربانی سے معاف فرماویں۔ خیرجناب اس کو جانے دیجئے۔ آپ تو جھاڑ ہو کر الجھ گئے۔ یہ تو فرمائیے کہ آپ نے عید کی نماز کہاں پڑھی؟ مسکرائے! اور کہا کہ حضرت میں تو کہیں نہیں گیا۔ دلی میں جب تھا جب بھی کچھ التزام نہ تھا۔ کبھی عید گاہ اور کبھی جناب مولانا مولوی محمد مخصوص اللہ مرحوم کے سبب سے قاضی واڑہ کی مسجد میںچلا جاتا تھا۔ غدر کے بعد سے بلکہ برس دو برس پہلے سے مجھے یاد نہیں آتا کہ عید کی نماز کو کہیں گیا ہوں آپ کہاں تشریف لے گئے تھے؟ جناب میں تو عید گاہ میں گیا تھا۔ جب تک میں نہ جاتا نماز کیسے ہوتی۔ امام کو گیارہ روپیہ اور دوشالہ ۔ متولی کو سات روپیہ اور پگڑی۔ مؤذن کو پانچ روپیہ اور دوپٹہ کون دیتا۔ میں تو گیارہ ہی بجے چلا گیا تھا۔ اگر میں شام تک نہ جاتا تو نماز نہ ہوتی۔ آپ کو نہیں معلوم کہ اس قصبے کا میں ہی رئیس گنا جاتا ہوں۔ جب میں امام کو پگڑی باندھ لیتا ہوں۔ تب اور ہمہ شما پگڑیاں باندھتے ہیں اور نذریں دیتے ہیں۔ امام کو، متولی کو، مؤذن کو خدا کے فضل سے بہت کچھ مل جاتا ہے۔ افسوس اگر ہم بھی امام ہوتے تو آج خوب کماتے! بھلا صاحب۔ وہاں اور کیا کیا ہوا۔ حضرت بڑا اژدھام خلائق کا تھا۔ تل رکھنے کو جگہ نہ تھی۔ مجھ کو جانے میں ذرا دیر ہو گئی تھی۔ دھوپ میں ذرا تیزی آ گئی تھی۔ عید گاہ میں پورا فرش تو ہے نہیں۔ لوگوں کو اتنا مقدور نہیں کہ مصلے خریدیں۔ ہزاروں آدمی زمین پر دھوپ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ دھوپ میں بھی بلا کی تیزی تھی۔ گرد بھی اڑنی شروع ہو گئی تھی۔ اس وقت میرا پہنچنا لوگوں کو غنیمت ہو گیا۔ معلوم نہیں اتنے آدمی کہاں سے امنڈ آئے تھے۔ حضرت ان میں ہندو بھی تو بہت ہوں گے۔ واہ کیا آپ کا بھی ذہن رسا ہے۔ ماشاء اللہ عید کی نماز میں اور کہتے ہیں کہ ہندو بھی ہوں گے۔ اے جناب سب مسلمان تھے اور مسلمانوں ہی کی یہ کثرت تھی ہاں دو چار نوجوان ہندو بھی نہایت عمدہ گھوڑوں پر سنہری روپہلی ساز لگائے ہوئے کارچوبی غاشیہ گھوڑوں پر ڈالے نہایت عمدہ و نفیس کپڑے پہنے زمرد و یاقوت اورموتیوں کی مالائیں اور کنٹھے گلے میں ڈالے ہوئے نہایت نفیس دو اشرفی کا ولایت کا بنا ہوا بوٹ۔ سفید پتلون اور کالا کوٹ اور دفلیا ٹوپی۔ ہاتھ میں خوب صورت پتلی سی پھوندنا پڑی چھڑی لیے انگریزی میں غٹ پٹ کرتے لوگوں کو دیکھ کر مسکراتے پڑے پھرتے تھے۔ آہ۔ ایک ٹھنڈی لمبی سانس بھری اور کہا کہ ہاں صاحب ثواب تو ہوا خدا تیسوں روزے اور دونوں دوگانیں اور فطرہ کے گیہوں اور آنے جانے کی ڈگیں سب قبول کرے مگر دل تو خوش نہیں ہوا۔ کیوں خیر باشد۔ کیا امام نے نماز اچھی طرح نہیں پڑھائی۔ خطبہ اچھا نہیں پڑھا۔ نہیں صاحب یہ تو کچھ بات نہیں۔ امام کم بخت تو ہمیشہ کا بد آواز ہے۔ جاہل الحمد بھی تو صحیح نہیں پڑھتا نماز پڑھانے میں ادھر ادھر کن آنکھوں سے دیکھتا جاتا ہے کہ کتنے آدمی پگڑیاں لائے ہیں م یرے خدمت گار کو تکتا جاتا ہے کہ دوشالہ بھی آ گیا یا نہیں۔ خطبہ وہ نہیں پڑھتا متولی صاحب پڑھتے ہیں۔ وہ تو عالم آدمی ہیں اور نہایت خوش آواز ہیں۔ دور تک آواز جاتی ہے مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہتے ہیں۔ کبھی اونچی کبھی نیچی۔ کبھی موٹی ار کبھی پتلی آواز تو آتی تھی مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ توبہ توبہ خدا معاف کرے کبھی راگ رس خان الاپتے تھے جس میں صرف آواز ہی آواز ہوتی تھی ویسا ہی سماں معلوم ہوتا تھا۔ ارے میاں توبہ کرو توبہ کرو۔ خطبہ میں تو خدا کے اوصاف نماز روزہ کے احکام۔ علم و اخلاق کی باتیں لوگوں کو سمجھائی جاتی ہیں۔ یہ تم نے کیا کہا۔ جناب خدا کسوں کچھ جو سمجھ میں آتا ہو لوگ کہتے تھے خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ خطبہ پڑھا جاتا ہے عربی زبان میں پڑھا جاتا ہے۔ عربی میں پڑھنا ثواب بتاتے تھے۔ میں نے کہا کہ ثواب کیا خاک پتھر ہے سمجھ میں تو ایک حرف بھی نہیں آتا لوگوں نے کہا چپ چپ گناہ ہوتاہے۔ میں چپ ہو رہا اور متعجب ہوا کہ کہوں سچی بات اور ہووے گناہ۔ ایسے گناہ سے بھی خدا کی پناہ ۔ مگر جناب مسئلے کی بات میں کون دم مارے۔ جو بولے وہی کافر ہو۔ پھر آپ کا دل کیوں خوش نہیں ہوا؟ ارے میاں وہاں ہزاروں مسلمان تھے مگر ایک سے ایک بدتر حالت میں۔ آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں میں عید کا دن بڑی خوشی کا ہے ۔ہر ایک مسلمان اپنے مقدور بھر اچھے سے اچھے کپڑے پہنتا ہے۔ پسنہاری بھی دو دو کوڑی جمع کر کر عید کے لئے اپنے بچے کو نیا جوڑا بنا دیتی ہے لیکن اگر تم جانتے اور مسلمانوں کے غول کو دیکھتے تو ان کی تباہی کا حال جانتے۔ میاں میں نے ہزاروں پر نظر ڈالی۔ کسی کے گلے میں بجز گزی اور ادھوتر کے اور کچھ نہیں دیکھا۔ کپڑے تو سب کے دھوئے اور اجلے تھے مگر ہزاروں آدمیوں کے انگرکھے میں پیوند لگے ہوئے تھے اگر کسی کے گلے میں گزی کا نیا انگا تھا تو یقین جانیے کہ پرانا پاجامہ تھا جس میں چھلنی کے سے چھید تھے۔ جوتے تو کسی کے پائوں میں ثابوت نہ تھے۔ بہتوں نے رسی یا چیتھڑے سے باندھ لیے تھے کیوں کہ پائوں سے نکل نکل جاتے تھے۔ بھلا بڑے بوڑھوں کا کچھ ذکر نہیں بچوں کو عید کے دن اچھے اچھے کپڑے پہننے کا، کھلونوں کے لینے کا بڑا شوق ہوتا ہے کسی بچے کا یکساں لباس نہ تھا۔ اگر سر پر جھوٹے گونٹے کی ٹوپی ہے تو پائوں میں جوتہ نہیں ۔ پاجامہ نیا ہے تو انگا پرانا ہے۔ لنگ لاٹ کا پاجامہ ہر ایک پر ایسے مبارک اور خوشی کے دن میں بھی نہایت افلاس اور مصیبت برستی تھی۔ کسی کا دن اندر سے خوش نہ تھا۔ ہر ایک غم گین، روتی صورت، بسورتی شکل، تیوری چڑھی ہوئی، ڈاڑھی پر گرد پڑی ہوئی، پیادہ پا چلنے سے پسینے میں شور بور ، نہایت پریشان و متفکر نظر آتے تھے۔ چند قصائی جو چمڑا چربی بیچتے ہیں اور چند ملانے جو وعظ کہہ کہہ کر لوگوں کا مال مارتے ہیں اور دو ایک ڈپٹی کلکٹر اور صدر الصدور اور وکیل جو انگریزوں کے صدقے سے روٹی کماتے ہیں آسودہ حال دکھائی دیتے تھے۔ ہاں تین چار مسلمان جو گھوڑوں کے آگے دوڑتے جاتے تھے وہ بھی آسودہ حال معلوم ہوتے تھے۔ جب میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں تو معلوم ہوا کہ لالہ چھنا مل کے بیٹے سیر کو آئے ہیں ان کے سائیس ہیں۔ انھوں نے عید سے پہلے کہا تھا کہ مہاراج ہمارا تہوار ہے اگر تنخواہ پیشگی مل جاوے تو بڑی پرورش ہو گی۔ مہاراج نے روکڑئے کو کہا تھا کہ یہ مسلا تہوار تہوار پکار رہا ہے آنہ روپیہ بیاج کاٹ کر اس مسلے کو پیشگی تنخواہ دے دو۔ سن بے اگر تو دوسرے ظلمی تہوار 1کو کچھ مانگنے آیا تو ناک کاٹ لوں گا۔ میں نے سنا ہے کہ دلی کے ہندوئوں نے بھی مسلمانوں کی خستہ حالی پر بڑی مہربانی کی ہے اور یہ ٹھہرایا ہے کہ گھوڑوں پر تمام مسلمان سائیس رکھے جاویں۔ عید گاہ کے باہر جو میں نکلا تو ایک غول بھیک منگوں کا نظر آیا جو دو دو کوڑی مانگتے تھے اور پیچھا نہیں چھوڑتے تھے۔ بیسیوں مسلمان سڑک پر کپڑا بچھائے بیٹھے تھے اور پکار رہے تھے کچھ خیرات دیتے جائو تیسوں روزے قبول۔ ایک طرف سینکڑوں عورتوں کا غول تھا اور ان میں بیسیوں برقعہ اوڑھے ہوئے چلا رہی تھیں کہ ایک بیٹا ہم سیدانی ہیں فاطمہ بی بی کا دانہ کھانے والی ہیں۔ اشراف گھرانے کی ہیں، ہم پر مصیبت پڑی ہے۔ اپنے بال بچوں کا صدقہ۔ خاتون جنت 2 کا صدقہ کچھ دیتا جا۔ جب تمام قوم کا یہ حال تھا تو مجھ کو عید اور عید میں جانے کی کیا خوشی ہوتی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ظلمی تہوار کا مطلب بقر عید ہے یعنی ہندوئوں کے نزدیک اس رو ز بڑا ظلم ہوتا ہے کہ بکرے اور گائیں ناحق ذبح ہوتی ہیں۔ (اسماعیل) ۲۔ ’’خاتون جنت‘‘ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا لقت ہے۔ (اسماعیل) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی اس وقت تو میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اس کا فرمرتد سید احمد کی جو علی گڑھ میں آن کر بیٹھا ہے بات یاد آ گئی۔ بھائی خدا مارے یا چھوڑے۔ وہ مسلمان ہو یا کرسٹا ن۔ مگر کہتا سب سچ ہے۔ میرے دل میں تو اس کی سب باتیں بیٹھتی جاتی ہیں۔ میرا تو کئی دفعہ دل چاہا کہ اس کے پاس جائوں اور اس کے کاموں کی جو مسلمانوں کی قومی ترقی کے لیے کر رہا ہے مدد کروں۔ مگر جناب مولوی محمد یعقوب آٹھویں خاتم النبیین پاس حضرت جبرائیل خدا کے پاس سے وحی لائے ہیں کہ وہ تو دجال ہے۔ میرے دل سے پوچھو تو ایسے نبیوں سے تو دجال ہی بہتر ہے۔ اجی یہ آٹھویں خاتم النبیین کیسے؟ آپ نے نہیں سنا کہ مولوی یعقوب صاحب اور ان کے ساتھی سات ختم النبیین تو زمین کے اوپر اور اندر بتلاتے ہیں اور اب ان پر وحی آنی شروع ہوئی ہے پھر آٹھویں ہوئے کہ نہیں۔ حضرت آپ اتنے کیوں رنجیدہ ہوئے۔ آپ نے اپنے مسلمان بزرگوں کی اور واعظ مولویوں کی نصیحتیں نہیں سنیں وہ کہتے ہیں کہ مسلمان اسی لئے دنیا میں پیدا ہوئے ہیں کہ تکلیفیں اور مصیبتیں بھگتیں۔ آپ نے سنا ہے کہ دنیا مسلمانوں کے لئے دوزخ ہے اور کافروں کے لئے بہشت۔ پس جس قدر مسلمان مفلس محتاج تباہ ہوتے جاویں اتنی ہی خوشی کی بات ہے کہ اب پورے مسلمان ہوئے۔ یہ سن کر بہت خفا ہوئے اور درشتی سے بولے کہ میاں یہ کون کہتا ہے؟ حضرت مولوی۔ خفا ہو کر بولے کہ جھوٹے ہیں۔ تمام دھنے جولاہوں قصابوں نے نذریں لے لے کر مال مارتے ہیں روپیہ جمع کرتے ہیں۔ چار چار جوروئیں کرتے ہیں۔ ان کے لئے گہنے پر گہنا بناتے ہیں مکانات تعمیر کرتے ہیں۔ دن رات پلائو قورمہ خیرات کی روٹیاں کھاتے ہیں اور لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ مسلمانوں کے دنیا دوزخ ہے۔ جھوٹے مکار یقولون ما لا تفعلون۔ مگر یہ تو بتلائیے کہ آپ نماز کو تو گئے نہیں مگر عید کے دن آپ نے اپنا مکان تو خوب سجایا ہے جناب یہ تو خدا کی عنایت سے ہمیشہ یوں ہی رہتا ہے۔ یہاں تو دن عید و رات شب برات رہتی ہے۔ کیا آپ کے نزدیک عید کے دن کو کچھ فوقیت نہیں ہے اور مسلمانوں کے لئے خوشی کا دن نہیں ہے؟ جناب کیوں نہیں مگر جس طرح آپ سمجھتے ہیں اس طرح نہیں۔ یہ اور ہوئی ہے۔ ہم کس طرح سمجھتے ہیں؟ حضرت آپ تو عید کو یہی سمجھتے ہیں کہ ماہ مبارک رمضان تشریف لے گئے خدا خدا کر کر تیسوں روزے پورے ہوئے۔ دن کو نہ حقہ پی سکتے تھے نہ پان کھا سکتے تھے۔ سستی سے جان تنگ تھی۔ کچھ کام نہیں ہو سکتا تھا۔ جبائیوں پر جبائیاں آتی تھیں۔ ہاتھ پائوں میں غوث و ابدال کا مرتبہ تھا۔ خدا خدا کر کر وہ دن کٹے لو اب عید کرو۔ جو حضرات مقدس اور خدا پرست ہیں انھوں نے ماہ مبارک کو غنیمت سمجھا تھا۔ دن کو روزہ رکھتے تھے رات کو تراویح پڑھتے تھے۔ شب قدر کی تلاش میں راتوں جاگتے تھے ملے یا نہ ملے۔ دوگانہ پر دوگانہ پڑھ کر ایک ایک کے ستر ستر گنتے تھے۔ ثواب کی گٹھڑیاں باندھ باندھ کر رکھتے جاتے تھے جیسے کہ تجارت کے موسم میں سوداگر اپنا مال بیچ کر دوگنے چوگنے کما لیتا ہے۔ جب خوب مال یا ثواب جمع ہو لیا تو اب برس بھرکو نچنت ہو لیے اور عید منائی۔ سارے دن کہیں قطرہ گیہوں بٹ رہے ہیںکہیں اس کے عوض نقد بھیجا جاتا ہے، کہیں سویاں بٹ رہی ہیں۔ پیروںکو۔ مولویوں کو۔ واعظوں کو نذریں دی جاتی ہیں۔ یہ تو آپ کی عید ہے۔ ایام جاہلیت میں بھی رمضان آتا تھا۔ اسی مہینہ میں تیس روزے رکھے جاتے تھے۔ اسی طرح چاند دیکھ روزوں کے ختم ہونے کی خوشی ہوتی تھی۔ پس آپ کی عید میں اور زمانہ جاہلیت کی عید میں تقصیر معاف ہو کچھ فرق نہیں معلوم ہوتا۔ بھلا صاحب آپ کی عید کس طرح کی ہوتی ہے؟ طرح کیا میاں سورج نکلا یکم شوال آئی عید ہوئی۔ بھلا اپنا خیال تو بتلائیے کہ عید کیا ہے؟ میاں یکم شوال کا نام عید ہے۔ اجی حضرت آپ نے کہا تھا کہ عید خوشی کا دن ہے وہ کیسی خوشی ہے؟ ہاں آپ یہ پوچھتے ہیں جناب رمضان کے روزوں کا حکم ہے جس نے روزے رکھے اس نے خدا کے حکم کی اطاعت کی۔ رمضان کے بعد دوسرا مہینہ شروع ہوا اس خیال سے تو عید کے دن کو خوشی کا دن قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ ہاں اگر ہم کو یہ خیال ہو کہ برس میں کا یہ وہ پہلا دن ہے جس میں رسول خدا صلعم نے فرمایا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ تمام دنیا کے لیے خدا نے میرے پاس رحمت بھیجی ہے۔ مجھ پر وحی نازل کی ہے اور قرآن اتارا ہے۔ ایک خدا کو مانو اور اسی پر ایمان لائو۔ خدا کے سوا کسی کو مت پوجو تو بلاشبہ یہ اس اصلی دن کی یادگاری کا جو سنہ ایک نبوی میں آیا تھا دن ہے۔ اس کی یادگاری میں ہم کو خدا کا شکر کرنااور اپنا نیاز بذریعہ دوگانہ نماز کے اس جناب میں ادا کرنا لازم ہے۔ مگر ابھی تک خوشی کی کوئی بات نہیں ہوئی کیوںکہ یہاں تک جو خیال میں نے بتایا وہ تو صرف شکر کا تھا نہ خوشی کا۔ اب ہم کو یہ خیال کرنا چاہیے کہ اس پچھلے برس میں اس گروہ کا جس نے اس پیغمبر رحمتہ للعالمین کی بات کو مانا تھا کیا حال رہا۔ ا س کی امانت کو انھوں نے کس طرح برتا۔ اس کے مقاصد کو کس طرح پورا کیا۔ رحمت اور شفقت اور محبت، سچائی نیکی، خدا ترسی، ہمدردی، قومی ہمدردی، رحم، کرم، صبر، تحمل نے کس طرح ان کے دلوں میں ترقی کی۔ تہذیب و شائستگی میں کسی طرح انھوں نے قدم بڑھایا۔ علوم و فنون میں جو سب سے اعلیٰ ذریعہ قدرت کاملہ صانع حقیقی پر یقین کرنے کا ہے کیا ترقی کی۔ انھوں نے اپنی حالت ، اپنی عادت، اپنی عبادت سے کس طرح دنیا میں اسلام کی صورت کی تصویر بنا کردکھائی۔ اگر اس طرح پر گزشتہ سال کا ریویو کرنے سے قوم کی حالت اچھی معلوم ہو تو عید کا دن خوشی کا دن ہے ورنہ محرم سے بدتر ہے۔ ظاہری حالت قوم کی جو تھی و ہ تو خود آپ نے ہی بتا دی۔ اگر باطنی حالت قوم کی پوچھو گے تو شیطان بھی پناہ مانگے گا۔ کینہ و نخوت اپنے تقدس و بزرگی و خدا پرست ہونے کا گھمنڈ مقدس لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا پائیے گا۔ اگر دنیا میں شیطان کو ڈھونڈتے پھرو تو بجز مقدسین کے جبہ و دستار مبارک کے اور کہیں پتہ نہیں ملے گا۔ ان سے اتر کر جو لوگ ہیں اگرچہ ان کے پاس شیطان کے آنے کی ضرورت نہیں ہے مگر سب کو کذب و افترا۔ دغا و نفاق میں بھرا پائیے گا۔ ہم بچارے دنیا کے کتوں، کافر، مرتد، دجالوں کا تو کچھ ذکر ہی نہیں۔ پس جب کہ یہ حالت ہے تو عید کے دن خوشی کیسی۔ ہر ایک کو جو خدا اور اس کے رسول کو اور اس کی امت کو دوست رکھتا ہے اپنے اپنے گھر بیٹھ کر رونا چاہیے۔ خوشی منانا کیسی۔ یہ سن کر میرے خیالی دوست آنسو بھر لائے اور کہا میاں تم کہتے تو سچ ہو پھر چاہے کوئی مانے یا نہ مانے۔ والسلام۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امید کی خوشی (تہذیب الاخلاق، بابت یکم جمادی الثانی ۹۰ھ) اے آسمان پر بھورے بادلوں میں بجلی کی طرح چمکنے والی دھنک، اے آسمان کے تارو، تمہاری خوشنما چمک، اے بلند پہاڑوں کی آسمان سے باتیں کرنے والی دھندلی چوٹیو! اے پہاڑ کے عالی شان درختو! اے اونچے اونچے ٹیلوں کے دل کش بیل بوٹو! تم بہ نسبت ہمارے پاس کے درختوں اور سر سبز کھیتوں اور لہراتی ہوئی نہروں کے کیوں زیادہ خوشنما معلوم ہوتے ہو؟ اس لیے کہ ہم سے بہت دور ہو۔ اس دوری ہی نے تم کو یہ خوب صورتی بخشی ہے ۔ اس دوری ہی سے تمہارا نیلا رنگ ہماری آنکھوں کو بھایا ہے تو ہماری زندگی میں بھی جو چیز بہت دور ہے وہی ہم کو زیادہ خوش کرنے والی ہے۔ وہ چیز کیا ہے؟ کیا عقل ہے؟ جس کو سب لوگ سے سے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ کیا وہ ہم کو آئندہ کی خوشی کا یقین دلا سکتی ہے؟ ہر گز نہیں! اس کا میدان تو نہایت تنگ ہے۔ بڑی دوڑ دھوپ کرے تو نیچر تک اس کی رسائی ہے جو سب کے سامنے ہے۔ اور نورانی چہرہ والے یقین کی اکلوتی خوب صورت بیٹی۔ امید! یہ خدائی روشنی تیرے ہی ساتھ ہے۔ تو ہی ہماری مصیبت کے وقتوں میں ہم کو تسلی دیتی ہے۔ تو ہی ہمارے آڑے وقتوں میں ہماری مدد کرتی ہے۔ تیری ہی بدولت نہایت دور دراز خوشیاں ہم کو نہایت ہی پاس نظر آتی ہیں۔ تیرے ہی سہارے سے زندگی کی مشکل مشکل گھاٹیاں ہم طے کرتے ہیں۔ تیرے ہی سبب سے ہمارے خوابیدہ خیال جاگتے ہیں۔ تیری ہی برکت سے خوشی خوشی کے لئے نام آوری، نام آوری کے لیے بہادری۔ بہادری کے لیے فیاضی، فیاضی کے لئے محبت، محبت کے لئے نیکی، نیکی کے لئے تیارہے۔ انسان کی تمام خوبیاں اور ساری نیکیاں تیری ہی تابع اور تیری ہی فرماں بردار ہیں۔ وہ پہلا گنہگار انسان جب شیطان کے چنگل میں پھنسا اور تمام نیکیوں نے اس کو چھوڑا اور تمام بدیوں نے اس کو گھیرا تو صرف تو ہی اس کے ساتھ رہی۔ تو ہی نے اس ناامید کو ناامید ہونے نہیں دیا۔ تو ہی نے اس موت میں پھنسے دل کو مرنے نہیں دیا۔ تو ہی نے اس کو اس ذلت سے نکالا اور پھر اس کو اسی اعلیٰ درجہ پر پہنچایا جہاں کہ فرشتوں نے اس کو سجدہ کیا تھا۔ اس نیک نبی کو جس نے سینکڑوں برس اپنی قوم کے ہاتھ سے مصیبت اٹھائی اور مار پیٹ سہی۔ تیرا ہی خوب صورت چہرہ تسلی دینے والا تھا۔ وہ پہلا ناخدا جب کہ طوفان کی موجوں میں بہا جاتا تھا اور بجز مایوسی کے اور کچھ نظر نہیں آتا تھا تو تو ہی اس طوفان میں اس کی کشتی کھینے والی اور اس کا بیڑا پار لگانے والی تھی۔ تیرے ہی نام سے جودی پہاڑ کی مبارک چوٹی کو عزت ہے۔ زیتون کی ہری ٹہنی کو جو وفادار کبوتر کی چونچ میں وصل کے پیغام کی طرح پہنچی، جو کچھ برکت ہے تیری ہی بدولت ہے۔ اے آسمانوں کی روشنی اور اے ناامید دلوں کی تسلی امید! تیرے ہی شاداب اور سرسبز باغ سے ہر ایک محنت کا پھل ملتا ہے۔ تیرے ہی پاس ہر درد کی دوا ہے۔ تجھی سے ہر ایک رنج میں آسودگی ہے۔ عقل کے ویران جنگلوں میں بھٹکتے بھٹکتے تھکا ہوا مسافر تیرے ہی گھنے باغ کے سر سبز درختوں کے سایہ کو ڈھونڈتا ہے۔ وہاں کی ٹھنڈی ہوا، خوش الحان جانوروں کے راگ، بہتی نہروں کی لہریں اس کے دل کو راحت دیتی ہیں۔ تمام فکریں دل سے دور ہوتی ہیں اور دور دراز زمانہ کی خیالی خوشیاں سب آ موجود ہوتی ہیں۔ دیکھ نادان بے بس بچہ گہوارہ میں سوتا ہے اس کی مصیبت زدہ ماں اپنے دھندے میں لگی ہوئی ہے اور اس گہوارہ کی ڈوری بھی ہلاتی جاتی ہے۔ ہاتھ کام میں اور دل بچے میں ہے اور زبان سے اس کو یوں لوری دیتی ہے۔ سو رہ میرے بچے سو رہ، اے اپنے باپ کی مورت اور میرے دل کی ٹھنڈک سو رہ۔ اے میرے دل کی کونپل سو رہ، بڑھ اور پھل پھول، تجھ پر کبھی خزاں نہ آنے پاوے، تیری ٹہنی میں کوئی خار کبھی نہ پھوٹے، کوئی کٹھن گھڑی تجھ کو نہ آوے، کوئی مصیبت جو تیرے ماں باپ نے بھگتی تو نہ دیکھے، سو رہ میرے بچے سو رہ۔ میری آنکھوں کے نور اور میرے دل کے سرور میرے بچے سو رہ، تیرا مکھڑا چاند سے بھی زیادہ روشن ہو گا، تیری خصلت تیرے باپ سے بھی اچھی ہو گی، تیری شہرت، تیری لیاقت، تیری محبت جو تو ہم سے کرے گا آخر کار ہمارے دل کو تسلی دے گی۔ تیری ہنسی ہمارے اندھیرے گھر کا اوجالا ہو گی۔ تیری پیاری پیاری باتیں ہمارے غم کو دور کریں گی۔ تیری آواز ہمارے لیے خوش آئند راگنیاں ہوں گی، سو رہ میرے بچے سو رہ۔ اے ہماری امیدوں کے پودے سو رہ۔ بولو جب اس دنیا میں ہم تم سے جدا ہو جاویں گے تو تم کیا کرو گے۔ تم ہماری بے جان لاش پاس کھڑے ہو گئے۔ تم پوچھو گے اور ہم کچھ نہ بولیں گے۔ تم روئو گے اور ہم کچھ رحم نہ کریں گے۔ اے میرے پیارے رونے والے۔ تم ہمارے ڈھیر پر آ کر ہماری روح کو خوش کرو گے آہ ہم نہ ہوں گے اور تم ہماری یادگاری میں آنسو بہائو گے۔ اپنی ماں کی محبت بھرا چہرہ اپنے باپ کی نورانی صورت یاد کرو گے۔ آہ ہم کو یہی رنج ہے کہ اس وقت ہماری محبت یاد کر کر تم رنجیدہ ہو گے۔ سو رہ میرے بچے سو رہ۔ سو رہ میرے بالے سو رہ۔ یہ امید کی خوشیاں ماں کو اس وقت تھیں جب کہ بچہ غوں غاں بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مگر جب وہ ذرا اور بڑا ہوا اور معصوم ہنسی سے اپنی ماں کے دل کو شاد کرنے لگا اور اماں اماں کہنا سیکھا اس کی پیاری آواز ادھورے لفظوں میں اس کی ماں کے کان میں پہنچنے لگی۔ آنسوئوں سے اپنی ماں کی آتش محبت کو بھڑکانے کے قابل ہوا۔ پھر مکتب سے اس کو سروکار پڑا۔ رات کو اپنی ماں کے سامنے دن کا پڑھا ہوا سبق غم زدہ دل سے سنانے لگا اور جب کہ وہ تاروں کی چھائوں میں اٹھ کر ہاتھ منہ دھو کر اپنے ماں باپ کے ساتھ صبح کی نماز میں کھڑا ہونے لگا اور اپنے بے گناہ دل، بے گناہ زبان سے، بے ریا خیال سے خدا کا نام پکارنے لگا تو امید کی خوشیاں اور کس قدر زیادہ ہو گئیں۔ اس کے ماں باپ اس معصوم سینہ سے سچی ہمدردی دیکھ کر کتنے خوش ہوتے ہیں اور ہماری پیاری امید تو ہی ہے جو مہد سے لحد تک ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ دیکھو وہ بڈھا آنکھوں سے اندھا اپنے گھر میں بیٹھا روتا ہے۔ اس کا پیارا بیٹا بھیڑوں کے ریوڑ میں سے غائب ہو گیا ہے۔ وہ اس کو ڈھونڈھتا ہے پر وہ نہیں ملتا۔ مایوس ہے پر امید نہیں ٹوٹی۔ لہو بھرا دانتوں پھٹا کرتا دیکھتا ہے پر ملنے سے ناامید نہیں۔ فاقوں سے خشک ہے۔ غم سے زار نزار ہے۔ روتے روتے آنکھیں سفید ہو گئیں ہیں۔ کوئی خوشی اس کے ساتھ نہیں ہے مگر صرف ایک امید ہے جس نے ا س کو وصل کی امید میں زندہ اور اس خیال میں خوش رکھا ہے۔ دیکھ وہ بے گناہ قیدی اندھیرے کنوئیں میں سات تہہ خانوں میں بند ہے۔ اس کا سورج کا سا چمکنے والا چہرہ زرد ہے۔ بے یار و دیار غیر قوم غیر مذہب کے لوگوں کے ہاتھ میں قید ہے بڈھے باپ کا غم اس کی روح کو صدمہ پہنچاتا ہے۔ عزیز بھائی کی جدائی اس کے دل کو غمگین رکھتی ہے۔ قید خانے کی مصیبت، اس کی تنہائی ، اس گھر کا اندھیرا اور اس پر اپنی بے گناہی کا خیال اس کا نہایت ہی رنجیدہ رکھتا ہے۔ اس وقت کوئی اس کا ساتھی نہیں ہے۔ مگر اے ہمیشہ زندہ رہنے والی امید۔ تجھ ہی میں اس کی خوشی ہے۔ وہ دلاور سپاہی لڑائی کے میدان میں کھڑا ہے، کوچ پر کوچ کرتے کرتے تھک گیا ہے، ہزاروں خطرے درپیش ہیں مگر سب میں تقویت تجھ ہی سے ہے۔ لڑائی کے میدان میں جب کہ بہادروں کی صفیں کی صفیں چپ چاپ کھڑی ہوتی ہیں اور لڑائی کا میدان ایک سنسان کا عالم ہوتا ہے دلوں میں عجیب قسم کی خوف ملی ہوئی جرأت ہوتی ہے۔ اور جب کہ لڑائی کا وقت آتا ہے اور لڑائی کے بگل کی آواز بہادر سپاہی کے کان میں پہنچتی ہے اور وہ آنکھ اٹھا کر نہایت بہادری سے بالکل بے خوف ہو کر لڑائی کے میدان کو دیکھتا ہے۔ اور جب کہ بجلی سی چمکنے والی تلواریں اور سنگینیں اس کی نظر کے سامنے ہوتی ہیں اور بادل کی سی کڑکنے والی اور آتشیں پہاڑ کی سی آگ برسانے والی توپوں کی آواز سنتا ہے۔ اور جب کہ اپنے ساتھی کو خون میں لتھڑا ہوا زمین پر پڑا ہوا دیکھتا ہے تو اے بہادروں کی قوت بازو۔ اور اے بہادری کی ماں۔ تیرے ہی سبب سے فتح مندی کا خیال ان کے دلوں کو تقویت دیتا ہے۔ ان کا کان نقارہ میں سے تیرے ہی نغمے کی آواز سنتا ہے۔ وہ قومی بھلائی کا پیاسا اپنی قوم کی بھلائی کی فکر کرتا ہے۔ دن رات اپنے دل کو جلاتا ہے ہر وقت بھلائی کی تدبیریں ڈھونڈتا ہے۔ ان کی تلاش میں دور دراز کا سفر اختیار کرتا ہے یگانوں بے گانوں سے ملتا ہے۔ ہر ایک کی بول چال میں اپنا مطلب ڈھونڈھتا ہے۔ مشکل کے وقت ایک بڑی مایوسی سے مدد مانگتا ہے۔ جن کی بھلائی چاہتا ہے انھیں کو دشمن پاتا ہے۔ شہری وحشی بتاتے ہیں۔ دوست آشنا دیوانہ کہتے ہیں۔ عالم فاضل کفر کے فتوئوں کا ڈر دکھاتے ہیں۔ بھائی بند عزیز اقارب سب سمجھاتے ہیں اور پھر یہ شعر پڑھ کر چپ ہو رہتے ہیں: وہ بھلا کس کی بات مانے ہیں بھائی سید تو کچھ دیوانے ہیں ساتھی ساتھ دیتے ہیں مگر ہاں ہاں کر کر محنت اور دل سوزی سے دور رہ کر۔ بہت سی ہم دردی کرتے ہیں۔ پر کوٹھی کٹھلے سے الگ کر کر۔ دل ہر وقت بے قرار ہے۔ کسی کو اپنا سا نہیں پاتا۔ کسی پر دل نہیں ٹھہرتا۔ مگر اے بے قرار دلوں کی راحت اور اے شکستہ خاطروں کی تقویت۔ تو ہی ہر دم ہمارے ساتھ ہے تو ہی ہمارے دل کی تسلی ہے تو ہی ہماری کٹھن منزلوں کی ساتھی ہے تیری ہی تقویت سے ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچیں گے۔ تیری ہی سبب گوہر مراد کو پاویں گے او ہمارے دل کی عزیز اور ہمارے مہدی کی پیاری ’’امید ‘‘تو ہمیشہ ہمارے دل کی تسلی رہ۔ اے ہمیشہ زندہ رہنے والی امید۔ جب کہ زندگی کا چراغ ٹمٹماتا ہے اور دنیاوی حیات کا آفتاب لب بام ہوتا ہے۔ ہاتھ پائوں میں گرمی نہیں رہتی۔ رنگ فق ہو جاتا ہے۔ منہ پر مردنی چھاتی ہے۔ ہوا ہوا میں، پانی پانی میں، مٹی مٹی میں ملنے کو ہوتی ہے تو تیرے ہی سہارے سے وہ کٹھن گھڑی آسان ہوتی ہے۔ اس وقت اس زرد چہرے اور آہستہ آہستہ ہلتے ہوئے ہونٹوں اور بے خیال بند ہوتی ہوئی آنکھوں اور غفلت کے دریا میں ڈوبتے ہوئے دل کو تیری یادگاری ہوتی ہے۔ تیرا نورانی چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ تیری صدا کان میں آتی ہے۔ اور ایک نئی روح اور تازہ خوشی حاصل ہوتی ہے اور ایک نئی لازوال زندگی کی جس میں ایک ہمیشہ رہنے والی خوشی ہو گی، امید ہوتی ہے۔ یہ تکلیف کا وقت تیرے سبب سے ہمارے لئے موسم بہار کی آمد آمد کا زمانہ ہو جاتا ہے اس لازوال خوشی کی امید تمام دنیاوی رنجوں اور جسمانی تکلیفوں کو بھلا دیتی ہے۔ اور غم کی شام کو خوشی کی صبح سے بدل دیتی ہے۔ گو کہ موت ہر دم جتاتی ہے کہ مرنا بہت خوف ناک چیز ہے۔ او ہماری آنکھوں سے چھپی ہوئی دوسری دنیا جس میں ہم کو ہمیشہ رہنا ہے۔ جہاں سورج کی کرن اور زمانے کی لہر بھی نہیں پہنچتی۔ تیری راہ تین چیزوں سے طے ہوتی ہے: (۱)ایمان کے توشے۔ (۲) امید کے ہادی اور (۳) موت کی تیاری سے مگر ان سب میں جس کو سب سے زیادہ قوت ہے وہ ایمان کی خوب صورت بیٹی ہے جس کا پیارا نام ’’امید‘‘ ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ بے یقینوں کو موت کی کٹھن گھڑی میں کچھ امید نہیں ہوتی مگر میں دیکھتا ہوں کہ تیری بادشاہت وہاں بھی ہے۔ قیامت پر یقین نہ کرنے والا سمجھتا ہے کہ تمام زندگی کی تکلیفوں کا اب خاتمہ ہے اور پھر کسی تکلیف کے ہونے کی توقع نہیں ہے۔ وہ اپنے اس بے تکلف آنے والے زمانے کی امید میں نہایت بربادی سے اور رنجوں کے زمانے کے اخیر ہونے کی خوشی میں نہایت بشاشت سے یہ شعر پڑھتا ہوا جان دیتا ہے۔ ؎ بقدر ہر سکون راحت بود بنگر تفاوت را دویدن، رفتن، استادن، نشستن، خفتن و مردن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا باُمید قائم ہے (تہذیب الاخلاق، بابت ۱۵ شوال ۱۲۸۹ھ) موجودہ حالت گو وہ کیس ہی اچھی یا بری ہو۔ انسان کے دل کے مشغلہ کو کافی نہیں ہوتی۔ موجودہ رنج و خوشی، محبت و دوستی کی چیزیں اتنی نہیں ہوتیں کہ انسان کے دل کی قوتوں کو ہمیشہ مشغول رکھیں۔ اس لئے اس بڑے کاریگر نے جس نے انسان کے پتلے کو اپنے ہاتھ سے اور اپنی ہی مانند بنایا۔ اس میں چند اور قوتیں دی ہیں جن کے سبب سے دل کے مشغول رہنے کا سامان مہیا اور موجود رہتا ہے۔ ان ہی قوتوں کے ذریعہ گزری ہوئی باتیں پھر دل میں آتی ہیں اور آئندہ کی باتوں کا ان کے ہونے سے پیشتر خیال ہوتا ہے۔ وہ عجیب قوت جس کو ہم یاد رکھتے ہیں ۔ ہمیشہ پیچھے دیکھتی رہتی ہے۔ جب کوئی موجودہ چیز ہم کو شغل کے لئے نہیں ملتی تو وہ قوت پچھلی باتوں کو بلا لاتی ہے اور اسی کے ذکر یا خیال سے ہمارے دل کو بہلائے رکھتی ہے اس کی مثال جگالی کرنے والے جانوروں کی ہے کہ وہ پہلے تو گھاس دانہ سب کھا لیتے ہیں او ر جب ہو چکتا ہے تو ایک کونے میں بیٹھ کر پھر اسی کو پیٹ میں سے نکال کر چبائے جاتے ہیں۔ جس طرح کہ یاد پچھلی باتوں کو خالی وقت میں ہمارے دل کے مشغلہ کو بلا لاتی ہے اسی طرح ایک اور قوت ہے جو آئندہ ہونے والی باتوں کے خیال میں دل کو مشغول کر دیتی ہے اور جس کا نام امید و بیم یا خوف و رجا ہے۔ انھی دونوں قسم کے خیالوں سے ہم آئندہ زمانہ میں پہنچ جاتے ہیں اور جو باتیں کہ دور زمانہ شاید ہونے والی ہیں ان کو ایسا سمجھتی ہیں کہ ابھی ہو رہی ہیں ان کے ہونے سے پہلے ان کی خوشی کی زمین ہو گی نہ آسمان۔ اور ہر چہار طرف سے لمن الملک الیوم یا آواز آتی ہو گی ابھی خیال کر لیتے ہیں۔ پھر کون کہہ سکتا ہے کہ انسان کی زندگی صرف موجودہ وقت پر محدود ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ میں اس تحریر میں صرف اسی کا کچھ بیان کروں جس کو امید کرتے ہیں۔ ہماری خوشیاں اس قدر کم و چندر وزہ ہیں کہ اگر وہ قوت ہم میں نہ ہوتی جس سے انسان ان عمدہ اور دل خوش کن چیزوں کا ان کے ہونے سے پہلے مزہ اٹھاتا ہے جن کا کبھی ہو جانا ممکن ہے تو ہماری زندگی نہایت ہی خراب اور بدمزہ ہوتی۔ ایک شاعر کا قول ہے کہ ’’ہم کو تمام عمدہ چیزوں کے حاصل ہونے کی امید رکھنی چاہیے کیوں کہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کی امید نہ ہو سکے اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو خدا ہم کو دے نہ سکے۔ ‘‘ فارسی زبان میں مشہور مقولہ ہے کہ ’’تمنا را عیبے نیست‘‘ ایک ظریف نے کہا کہ دنیا میں مجھے کسی چیز کا رنج نہیں ہے کیوں کہ امید مجھے ہمیشہ خوش رکھتی ہے۔ دوستوں نے پوچھا کہ کیا تم کو مرنے کا بھی رنج نہیں ہے اس نے کہا کہ کیا عجب ہے کہ میں کبھی نہ مروں کیوں کہ خدا اس پر بھی قادر ہے کہ ایک ایسا شخص پیدا کرے جس کو موت نہ ہو اور مجھ کو امید ہے کہ شاید وہ شخص میں ہی ہوں۔ یہ قول تو ایک ظرافت کا تھا۔ مگر سچ یہ ہے کہ زندگی کی امید ہی موت کا رنج ہم سے مٹاتی ہے۔ اگر ہم کو زندگی کی امید نہ ہوتی تو ہم سے زیادہ بدتر حالت کسی کی نہ ہوتی۔ زندگی ایک بے جان چیز کی مانند ہے جس میں کچھ حرکت نہیں ہوتی۔ امید اس میں حرکت پیدا کرتی ہے۔ امید ہی کے سبب سے انسان میں سنجیدگی اور بردباری اور خوش مزاجی کی عادت ہو جاتی ہے۔ گویا امید انسان کی روح کی جان ہے۔ ہمیشہ روح کو خوش رکھتی ہے اور تمام تکلیفوں کو آسان کر دیتی ہے۔ محنت پر رغبت دلاتی ہے اور انسان کو نہایت سخت اور مشکل کاموں کے کرنے پر آمادہ رکھتی ہے۔ امید سے ایک اور بھی فائدہ ہے جو کچھ کم نہیں ہے کہ ہم موجودہ خوشیوں کی کچھ بہت قدر نہیں کرتے اور اسی میں محو نہیں ہوجاتے۔ سیزر نے جب اپنا تمام مال اسباب اپنے دوستوں کو بانٹ دیا تو اس سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے اپنے لیے کیا رکھا۔ اس نے کہا کہ امید۔ اس کی عالی طبیعت ان چیزوں کی کچھ قدر نہیں کرتی تھی جو اس کے پاس تھیں بلکہ ہمیشہ اس کا خیال کسی بہتر چیز کی طرف رہتا تھا۔ اگلے زمانے کے لوگ بغیر امید کے زندگی کو نہایت ہی برا سمجھتے تھے۔ نقل ہے کہ خدا نے انسان کے پاس ایک صندوقچہ بھجوایا۔ جب اس کو کھولا تو اس میں سے ہر ایک قسم کی بلائیں اور مصیبتیں اور بیماریاں جو انسان کو ہوتی ہیں سب نکل پڑیں۔ امید بھی اسی صندوقچہ میں تھی وہ نہ نکلی بلکہ ڈھکنے میں چمٹ رہی اور صندوقچہ ہی میں بند ہو گئی تاکہ مصیبت کے وقت انسان کو تسلی دے۔ پس جس زندگی میں امید ہے اس سے بڑھ کر کوئی خوش زندگی نہیں ہے خصوصاً جب کہ امید ایک عمدہ چیز کی اور اچھی بنا پر ہو اور ایسی چیز کی ہو جو امید کرنے والے کو حقیقت میں خوش کر سکتی ہو۔ اس بات کی حقیقت وہی لوگ خوب جانتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ خوش حال آدمی کے لئے بھی زمانہ موجودہ میں کافی خوشی نہیں ہے۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ مذہبی زندگی میں عمدہ عمدہ چیزوں کی بہت سی امیدیں ہوتی ہیں اور ایسی چیزوں کی ہوتی ہیں جو ہم کو پورا پورا خوش کر سکتی ہیں۔ دینی چیزوں کی امیدیں دنیوی چیزوں کی امیدوں سے بہت زیادہ قوی اور مضبوط ہوتی ہیں کیونکہ ان میں عقل کے علاوہ مذہبی اعتقاد کی بھی نہایت قوتہوتی ہے۔ اس قسم کی امیدوں کا خیال ہی ہم کو پورا پورا خوش رکھتا ہے۔ بلا شبہ امید کے اثر سے انسان کی زندگی نہایت شیریں ہو جاتی ہے۔ اگر وہ موجودہ حالت سے خوش نہیں رہتا تو اس پر صبر تو ضرور آ جاتا ہے۔ مگر مذہبی امیدیں اس سے بھی زیادہ فائدہ مند ہیں۔ تکلیف کی حالت میں دل کو سنبھال لیتی ہیں بلکہ اس کو اس خیال سے خوش رکھتی ہیں کہ شاید یہی تکلیف اس امید کے حاصل ہونے کا ذریعہ ہو۔ مذہبی امید گویا مردہ کو زندہ کر دیتی ہے اور اس کے دل کو غایت درجہ کی خوشی بخشتی ہے۔ انسان اپنی تکلیفوں میں خوش رہتا ہے اور روح اس بری چیز کے لپک لینے کو اچھلتی ہے جو ہمیشہ اس کی نظر میں رہتی ہے۔ اور آخر کار اس امید کی خوشی میں اس فانی جسم کو چھوڑ دیتی ہے کہ قیامت کے دن اس سے مل جاوے گی۔ حضرت دائود علیہ السلام نے اپنے نہایت مصیبت اور تکلیف کے وقت میں خدا کی مناجات میں اس مضمون کا گیت گایا تھا۔ ’’میں ہمیشہ خدا کو اپنے سامنے رکھتا ہوں۔ وہ میری دائیں طرف ہے اسی لیے میں گھبراتا نہیں۔ میرا دل خوش ہے۔ میرا گوشت بھی اسی امید میں رہے گا کہ میری روح کو جہنم میں نہ ڈالے۔ تو اپنی چیز کو خراب ہوتے ہوئے نہ دیکھے گا۔ تو ہی مجھ کو زندگی کے طریق دکھلائے گا۔ تیرے ہی حضور میں خوشی کا کمال ہے۔ تیرے ہی دائیں طرف ہمیشہ کی خوشی ہے ۔ آمین ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عیسائیوں اور مسلمانوں میں باہمی مودّت اور اتحاد مسلمانوں اور عیسائیوں میں گو اختلاف مذہب ہے مگر اگلے زمانے میں باہمی عداوت کا ہونا تاریخ سے ثابت نہیں ہوتا۔ قرآن مجید میں تو خود یہ آیت موجود ہے۔ ولتجدن اقربھم مردۃ للذین آمنوا الذین قالوا انا نصاریٰ ذالک بان منھم قسیسین و رھبانا و انھم لا یستکبرون۔ یعنی اے پیغمبر تو مسلمانوں کے ساتھ محبت کرنے میں ان کو سب سے زیادہ قریب پاوے گا جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ اس لیے کہ ان میں عالم اور درویش ہیں وہ تکبر نہیں کرتے۔ (مائدہ۔۸۵) سر ولیم میور اپنی کتاب میں جو خلفائے راشدین کے حال میں لکھی ہے ۔ لکھتے ہیں کہ خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیحی قبائل سے عہد نامے کیے تھے۔ جن میں آپ نے عیسائیوں کی حفاظت کا ان کو ان کے مذہب میں آزاد رہنے کا اور پادریوں کے پرانے حقوق اور اختیارات کے بحال رہنے کا وعدہ فرمایا تھا۔ علاوہ اس کے عیسائی بھی مسلمانوں کے ساتھ ہر طرح سے معاشرت اور معاونت میں شریک رہتے تھے۔ ۱۳ ہجری میں جب جسر کے مقام پر لڑائی ہوئی ۔ جس میں مسلمانوں کا سپہ سالار مثنیٰ بن حارثہ تھا۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کو کچھ دقت پیش آئی۔ تو اس وقت قبلیہ بنی طے کا ایک عیسائی سردار مسلمان سپہ سالار کے پاس آیا اور دریا کے پل کی حفاظت کی۔ تاکہ عرب بسہولت اس پل سے اتر جائیں۔ اور جب کہ دوبارہ فوج کشی ہوئی۔ تو بنی نمر کے قبیلے کا ایک عیسائی سردار جو رومیوں کی حد میں رہتا تھا۔ کمک کے طور پر لشکر اسلام میں آ کر شامل ہوا اور اسی سن میں جب یوھب کی لڑائی ہوئی۔ تو اسی قبیلہ بنی نمر کا عیسائی سردار دشمنوں پر دھاوا کرنے میں مسلمانوں کا شریک ہوا اور مسلمانوں کے سردار اور اس عیسائی سردار نے شامل ہو کر دھاوا کیا اور اسلام کی فتح ہوئی۔ میور صاحب اپنی اسی کتاب میں لکھتے ہیں ۔ کہ اس معرکہ میں جو شجاعت کے کام ہوئے۔ ان سب میں بڑھ کر ایک مسیحی نوجوان کا کام تھا۔ جو اپنی بدوئوں کی ایک قلیل جماعت لے کر اسلام کے لشکر میں اس وقت داخل ہوا۔ جب کہ خوب گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی۔ اور وہ مسلمانوں کے ساتھ ہو کر مخالفوں سے لڑا اور اپنے گھوڑے کو دوڑا کر دشمنوں میں گھس گیا اور مخالف لشکر کے سردار کو قتل کیا۔ اور پھر اپنے گھوڑے کو دوڑا کر مسلمانوں کے لشکر میں پکارتا ہوا داخل ہوا کہ بنی تغلب میں سے ہوں اور میں وہ ہوں، جس نے دشمن کے سردار کو قتل کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بنو تغلب کی نسبت جو عیسائی تھے حکم دیا کہ ان پر کسی طرح کا دبائو نہ ڈالا جائے اور وہ اپنے مذہب کی پیروی میں بالکل آزاد رہیں۔ جزیہ جو عیسائیوں سے لیا جاتا تھا بنی تغلب اس کا ادا کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ اس لیے انھوں نے درخواست کی کہ ان سے بھی اس طرح پر محصول لیا جاوے۔ جس طرح مسلمانوں سے لیا جاتا ہے اور حضرت عمرؓ نے ان کی درخواست منظور کر لی۔ سر ہنری لیرڈ نے اپنے سفر نامہ میں لکھا ہے کہ گر کے قریب جو بحیرۂ لوط کے مشرق میں ہے۔ ان کا گزر ایک خیمہ گاہ میں ہوا جو عیسائی عربوں کا تھا اور یہ عیسائی عرب لباس اور آداب معاشرت میں مسلمان عربوں سے کسی بات کا فرق نہ رکھتے تھے۔ مسٹر برخارت جو ایک نہایت نامی عیسائی سیاح ہیں لکھتے ہیں۔ کہ پلماٹرا کے قریب بارہ سو آدمی رہتے ہیں۔ جن میں سے نصف عیسائی ہیں۔ جو اپنے مسلمان ہمسایوں کے ساتھ نہایت درجہ کے ملاپ سے رہتے ہیں اور مسلمان بدوئوں کا لباس پہنتے ہیں۔ کہ عیسائیوں اور مسلمانوں میں کوئی ظاہراً تمیز نہیں ہو سکتی۔ بنو غسان جو عیسائی ہیں۔ وہ اب تک اپنی عبادات میں عربی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ ہرقل کی جب شکست ہوئی اور اس کی فوج شہر حمص کے قریب آئی۔ تو شہر والوں نے جو عیسائی تھے۔ فصیل کے دروازے بند کر لیے۔ اور مسلمانوں سے کہا کہ ہم تمہاری حکومت اور تمہارے انصاف کو یونانیوں کی بے انصافی اور ظلم کے مقابلے میں بہتر جانتے ہیں۔ یہ تو اگلے زمانے کا حال ہے۔ مگر ہم اس زمانے میں دیکھتے ہیں کہ جو عیسائی مسلمان سلطنتوں میں رہتے ہیں۔ ان کے اور ان کے ہمسایہ مسلمانوں میں کسی قسم کی مذہبی عداوت نہیں ہے۔ آپس میں سوشل برتائونہایت خوبی سے ہے۔ عیسائیوں اور مسلمانوں میں مذہبی عداوت ہو ہی نہیں سکتی۔ کیوں کہ مذہب کی رو سے مسلمانوں کو عیسائیوں کے ساتھ ہر قسم کی معاشرت کی کھانے پینے میںہو یا شادی بیاہ میں سوائے چند جزئی اور خفیف باتوں کے عام طور پر اجازت ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں سوائے چند متعصب اور ناعاقبت اندیش بادشاہوں مثل متوکل باللہ وغیرہ کے ایسے بادشاہوں کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔ جنہوں نے عیسائیوں کے ساتھ عمدہ برتائو کیا۔ ان کے مذہبی رسول اور مذہبی حقوق میں دخل اندازی نہیں کی اور ٹھیک اسی طرح برتائو کیا۔ جس طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں ہوا تھا۔ مذہب اسلام نہایت وسیع مذہب ہے۔ جس میں تحمل اور ادب کا حکم ہے۔ تمام پیغمبر خواہ ان کو یہودی مانتے ہوں یا عیسائی، ان سب کو تسلیم کرتا ہے اور ان کی تعظیم کرتا ہے اور ان مذہب کے لوگوں کے ساتھ ٹالریشن کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ جب وہ بلند آواز سے پکارتا ہے کہ کوئی ملک اور قوم ایسی نہیں ہے۔ جس میں خدا کے کسی پیغمبر نے اس کی حجت کو پورا نہ کیا ہو۔ تو کون شخص شبہ کر سکتا ہے کہ عیسائیوں کے ساتھ کسی موقع پر بھی مسلمانوں کو سختی کرنے کا صراحتاً یا اشارتاً حکم دیا گیا ہے اور کون شخص ہے جو بعض ظالم مسلمان حکمرانوں کی بے جا متعصبانہ سختیوں کے لیے مسلمانوں کی مذہبی کتابوں سے جواز کا فتویٰ نکال سکتا ہے۔ بلکہ میں پھر کہتا ہوں کہ مذہب اسلام خاص کر عیسائیوں کے ساتھ اور عیسائیوں کے پیغمبر اور بزرگوں کے ساتھ تحمل اور ادب و تعظیم کی تعلیم دیتا ہے۔ سوائے مذہب اسلام کے دنیا میں اور کون سا مذہب ہے۔ جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اور ان کی ہدایات کا ایسا ادب کیا ہو۔ اور ایسی عزت کی ہو۔ جیسی کہ مسمان کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ اور ان کو نبی برحق اور رسول خدا کا مانتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ ہم میں اور عیسائی مذہب میں جو کلمۃ الحق ہے وہ ایک ہی ہے۔ اور اس میں کچھ فرق نہیں۔ کہ خود خدا نے قرآن مجید میں فرمایا ہے۔ یا اھل الکتاب تعالوا الیٰ کلمۃ سواء بیننا و بینکما لا تعبد الا اللہ۔ یعنی اے عیسائیو ایک بات پر آ جائو جو ہم میں اور تم میں یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنے کے۔ پس دنیا میں سوائے اسلام کے اور کوئی مذہب ایسا نہیں ہے۔ جو حضرت عیسیٰؑ کو رسول برحق اور مرسل من اللہ مانتا ہو۔ مسلمانوں نے مذہب کی بنا پر جو کچھ عیسائیوں سے چاہا ہے۔ وہ صرف یہی بات ہے کہ ہم اور تم دونوں مل کر ایک خدا کی عبادت کریں۔ خود عیسائی مذہب میں مختلف فرقے ہیں۔ جو مسئلہ تثلیث اور اقانیم ثلاثہ کی نسبت اس امر میں مختلف الرائے والاعتقاد ہیں۔ کہ ان اقنوموں کا ظہور کس طرح سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات مبارک میں ہوا تھا۔ مسلمان بھی یقین کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کلمۃ اللہ ہیں۔ خود قرآن مجید میں خدا نے فرمایا ہے۔ انما المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ و کلمتہ القاھا الی مریم و روح منہ۔ یعنی حضرت عیسیٰ خدا کا کلمہ ہے۔ جو مریم میں ڈالا گیا اور اس کی روح ہے۔ بایں ہمہ مسلمان مثل یونیٹرین کے جو ایک فرقہ عیسائیوں کا ہے۔ لا الہ الا اللہ پر یقین کرتے ہیں اور حضرت عیسیٰؑ کو بندہ اور خدا کا رسول جانتے ہیں۔ پس جو اختلاف کہ مسلمانوں کی مذہب کی راہ سے ہے۔ وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ خود عیسائی فرقے اس میں مختلف ہیں۔ نہایت نالائق ہیں ۔ وہ عیسائی جو مذہب اسلام اور بانی اسلام کی نسبت نعوذ باللہ کلمات توہین استعمال کرتے ہیں اور نہایت نالائق ہیں وہ مسلمان جو حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی نسبت یا ان کے اصلی مذہب کی نسبت ایسے ہی کلمات استعمال میں لاتے ہیں۔ مذہب کی روسے اور اس برتائو سے جو اس وقت بھی مسلمان عیسائیوں سے کرتے ہیں۔ بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں کوئی مذہبی عداوت نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ عیسائی مسلمانوں کے ساتھ یا مسلمان ازروئے مذہب کے عیسائیوں کے ساتھ مذہبی عداوت رکھتے ہیں۔ میرے نزدیک محض غلط اور سر تا پا ناواجب ہے۔ ہاں اس میں شبہ نہیں کہ مسلمان اور عیسائیوں میں لڑائیاں ہوئیں اور مخالفتیں بھی پیدا ہوئیں اور عداوتیں بھی ہوئیں۔ مگر ان کی بناء پولٹیکل امور پر مبنی تھی۔ پولیٹیکل امور پر لڑائی جھگڑوں، فسادوں اور عداوتوں کاہونا کچھ غیر مذہب یا غیر قوم پر منحصر نہیں ہے۔ بلکہ پولیٹیکل امور ایسے ہوتے ہیں۔ کہ آپس میں ایک قوم اور ایک مذہب کے لوگوں میں لڑائیاں اور عداوتیں ظہور میں آتی ہیں۔ سینکڑوں لڑائیاں آپس میں مسلمانوں کی انھیں پولیٹکل امور کے سبب سے ہوتی ہیں۔ اسی طرح باہم عیسائیوں کے اور آپس میں ایک ہی قوم کے انھیں پولیٹکل امور کے سبب سے بہت سی لڑائیاں ہوئیں۔ مگر جب یہ لڑائیں ایسے لوگوں میں واقع ہوتی ہیں۔ جن کا مذہب بھی مختلف ہوتا ہے۔ تو ان میں مذہبی جوش کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ عیسائیوں نے جنگ صلیبی میں جو ایک پولیٹکل یا قومی لڑائی تھی۔ مذہب عیسوی کے جوش کو بھی شامل کر لیا تھا۔ جو صلیبی جہاد کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی جب دوسرے مذہب والوں سے لڑائی کی تو مذہبی جوش کو اس میں شامل کر لیا۔ ۱۸۵۶ء میں ترکوں اور روسیوں سے لڑائی ہوئی۔ تو انگریز اور فرانس سلطان ترکی کے طرف دار ہوئے اور برابر نہایت بہادری اور عمدگی سے سلطان ترکی کے طرف دار ہو کر روسیوں سے لڑے۔ پس یہ تمام کارروائی بجز پولیٹکل امور کے کسی دوسرے امر پر مبنی تصور نہیں ہو سکتی۔ ۱۸۷۶ء میں جب دوبارہ ترکوں اور روسیوں سے لڑائی ہوئی۔ اس وقت فرانس کو وہ شان و شوکت جو زمانہ بادشاہت میں تھی نہیں رہی تھی۔ اور ری پبلک کو قائم ہوئے بہت تھوڑا زمانہ گزرا تھا۔ اس میں اتنی طاقت نہ تھی کہ روسیوں کے مقابلے میں ترکوں کی مدد کرے۔ انگریزوں نے بھی کسی مصلحت ملکی سے تنہا بلا شمول کسی دوسری سلطنت کے ترکوں کی مدد کرنا اور ان کے ساتھ شامل ہو کر روسیوں سے لڑنا مناسب نہیں سمجھا اور صرف ترک روسیوں سے لڑتے رہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے ملک سطان کے قبضے سے نکل گئے۔ مگر یہ تمام کارروائی پولیٹکل امور پر مبنی تھی نہ مذہبی عداوت پر۔ حال کے زمانے میں جو آرمینیا والوں نے بغاوت اور شرارت کی اور یونانیوں نے سر اٹھایا۔ جس کی سزا وہ پار ہے ہیں اور خدا نے چاہا تو اپنے کیے کی اور سزا پاویں گے۔ اس فساد کو مذہبی عداوت پر مبنی کرنا محض غلطی اور سراپا دھوکا ہے۔ بلکہ در حقیقت یہ بھی پولیٹکل امور پر مبنی ہے۔ جس کے سبب سے آرمینیا والوں نے بغاوت کی اور یونانی جنگ پر آمادہ ہوئے۔ ہاں ان فسادات کے ساتھ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا۔ آرمینیا والوں اور ان کے مغویوں نے اور یونانی اور ان کے طرف داروں نے مذہبی جوش کو بھی شامل کر لیا۔ جو محض ایک جھوٹا بہانہ ہے۔ اگر ہم تسلیم کر لیں کہ سلطان کی عمل داری میں انتظام نہایت خراب ہے اور آرمینیا والوں نے اس خراب انتظام کے سبب سے بغاوت کی ہے تب بھی یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی۔ کہ یہ فساد مذہبی عداوت کے سبب سے نہیں ہوا بلکہ بدانتظامی کے سبب سے ہوا اور یہ کہنا کہ سلطان کی عمل داری میں عیسائیوں پر ظلم ہوتا ہے۔ ایسا جھوٹ ہے جس سے بڑھ کر کوئی نہیں ہو سکتا۔ عیسائی، سلطان ترکی کی عمل داری میں نہایت مذہبی آزادی سے رہتے ہیں اور جتنی رعایتیں ان کے ساتھ کی جاتی ہیں، مذہبی آزادی جو ترکوں کی عمل داری میں عیسائیوں کو حاصل ہے کسی عمل داری میں عیسائیوں کو حاصل نہیں۔ سلطان ان کے مذہبی مراسم میں مطلق دست اندازی نہیں کرتا بلکہ ان کی خواہش پر ان کے لیے بشپ یعنی سردار مذہب مقرر کرتا ہے اور جو اعزاز کے درجے سلطنت ترکی میں ہیں۔ وہ سب ان کو عطا فرماتا ہے۔ خود عیسائی سلطنتوں میں ان عیسائیوں کو جو اس چرچ کے نہیں ہیں، جس چرچ کی سلطنتیں ہیں، ایسی مذہبی آزادی نہیں ہے جیسی کہ سلطان کی عمل داری میں تمام عیسائیوں کو خواہ کسی چرچ کے ہوں، حاصل ہے اس وقت جو لڑائی یونان اور ترکی میں ہو رہی ہے، تمام عیسائی سلطنتیں خاموش ہیں اور کسی سلطنت نے یونان کی مدد نہیں کی ہے اور کچھ شبہ نہیں ہے کہ آخر کو عیسائی سلطنتوں کو جو ترکی کے اردگرد ہیں بیچ بچائو کرنے اور صلح ہو جانے میں بالاتفاق دست اندازی کرنی پڑے اور معلوم نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہو۔ ترکی کے مفید یا یونانیوں کے مفید۔ مگر اس سب کی بنا پولیٹکل امور پر مبنی ہو گی نہ مذہبی امور پر۔ پس نہایت افسوس ہے کہ مسلمان یا عیسائی ان ملکی فسادوں کو مذہبی لباس پہنا کر لوگوں کو مشتعل اور برانگیختہ کریں۔ جس سے سراسر ان لوگوں کا نقصان ہے جو ایسی باتوں سے مشتعل ہوں اور ملکی امور کو مذہبی لباس پہنا کر مذہب مذہب پکاریں اور ایسا کرنے سے بجز اس کے کہ ان کی حماقت ثابت ہو اور ہونا کیا ہے؟ بجز اس کے کہ ان کی حماقت سے انھیں کے اہل مذہب کا کچھ نہ کچھ نقصان ہو اور کچھ نتیجہ نہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ترکی ایک مسلمانی سلطنت ہے اگر اس کو واجبی خواہ ناواجبی کچھ نقصان پہنچے تو یہ ایک قدرتی امر ہے کہ ہم مسلمانوں کو نہایت دلی رنج ہو گا اور یہ بات ترکی پر ہی موقوف نہیں ہے اگر ایران کی سلطنت کو، مراکو کی سلطنت کو افغانوں کی سلطنت انہیں کی نادانی اور حماقت اور بدنظمی سے کچھ نقصان پہنچے تو بھی ہم مسلمانوں کو قدرتی رنج ہو گا اور یہی حال تمام قوموں کا ہے کہ اپنی اپنی قومی سلطنت کے زوال یا نقصان سے رنج ہوتا ہے۔ پس ان سے زیادہ ان واقعات کو وقعت دینا اور مذہبی لباس پہنانا محض بیجا اور ناواجب ہے۔ مسلمانوں میں ایک مدت دراز سے بلحاظ نسل اور ملک کے ایک قوم ہونے کا اطلاق بہت کم ہو گیا ہے۔ بلکہ صرف مسلمان ہونا قومیت کی علامت ہو گیا ہے اور ’’کل مومن اخ‘‘کا خیال تمام ملک کے مسلمانوں کو ایک قوم بناتا ہے۔ اس لیے وہ ہر ایک ملک کے مسلمانوں کو اپنی قوم سمجھتے ہیں اور اس کی خوشی سے خوش اور اس کے رنج سے رنجیدہ ہوتے ہیں اور اس لیے ہم کو، اگر خدا نخواستہ ترکوں کو نقصان پہنچے تو مثل قومی نقصان کے رنج ہو گا گو وہ نقصان کسی پرلیٹکل سبب سے ہی ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندو اور مسلمانوں میں ارتباط جس قدر سوشل برتائو اور باہمی محبت و ارتباط ہندو اور مسلمانوں میں ترقی پکڑتا جاوے۔ ہم کو نہایت خوشگوار معلوم ہوتا ہے۔ ہندوئوں کی آریہ قومیں بھی خاص ہندوستان کی رہنے والی نہیں ہیں۔ دوسرے ملکوں سے آ کر ہندوستان میں فتح مندی کے ساتھ آباد ہوئی ہیں۔ ان کے ہندوستان میں آباد ہونے کو زمانہ کثیر گذر گیا جس کے سبب وہ ہندوستان کے متوطن اور ہندوستان کے رہنے والے ہندو کہلائے۔ مسلمانوں کو بھی ہندوستان میں آئے ہوئے کچھ کم زمانہ نہیں ہوا۔ ان کی بھی متعدد پشتیں ہندوستان ہی کی زمین پر گزری ہیں۔ بہت سے ایسے مسلمان ہیں جن میں آریائوں کے خون کا میل ہے بہت سے ایسے ہیں جو خالص آریہ کہلائے جا سکتے ہیں۔ صدیاں گذر گئیں کہ ہم دونوں ایک ہی زمین پر رہتے ہیں۔ ایک ہی زمین کی پیداوار کھاتے ہیں ۔ ایک ہی زمین کا یا دریا کا پانی پیتے ہیں۔ ایک ہی ملک کی ہوا کھا کر جیتے ہیں۔ پس مسلمانوں اور ہندوئوں میں کچھ مغائرت نہیں ہے جس طرح آریہ قوم کے لوگ ہندو کہلائے جاتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان بھی ہندو یعنی ہندوستان کے رہنے والے کہلائے جا سکتے ہیں۔ ہم نے متعدد دفعہ کہا ہے کہ ہندوستان ایک خوب صورت دلہن ہے اور ہندو اور مسلمان اس کی دو آنکھیں ہیں۔ اس کی خوب صورتی اس میں ہے کہ اس کی دونوں آنکھیں سلامت و برابر رہیں۔ اگر ان میں سے ایک برابر نہ رہی تو وہ خوب صورت دلہن بھینگی ہو جاوے گی اور اگر ایک آنکھ جاتی رہی تو کانی ہو جاوے گ۔ ہم دونوں کی سوشل حالت قریب قریب ایک ہی سی ہے۔ بلکہ بہت سی عادتیں اور رسمیں ہم مسلمانوں میں ہندوئوں کی آ گئی ہیں۔ پس جس قدر ان دونوں قوموں میں زیادہ تر محبت، زیادہ تر اخلاص، زیادہ تر ایک دوسرے کی امداد بڑھتی جاوے اور ایک دوسرے کو مثل بھائی کے سمجھیں۔ کیوں کہ ہم وطن بھائی ہونے میں تو کچھ شبہ نہیں ۔ اسی قدر ہم کو خوشی ہوتی ہے۔ اس زمانہ میں تین باتوں سے محبت و اخلاص ا علانیہ ثبوت دیا گیا ہے۔ سب سے اول یہ بات ہے کہ ان دنوں میں سلطان (روم) کی یونان پر فتح ہونے کی اکثر جگہ مسلمانوں نے خوشی کی اور مجلسیں آراستہ کیں شہر میں چراغاں روشن کیے۔ سلطان کو مبارک باد کے تار بھیجے۔ ہم نے سنا ہے کہ دکن کے ہندوئوں نے بھی اسی طرح خوشی منائی اور سلطان کو مبارک باد کے تار بھیجے۔ جو کافی ثبوت دونوں قوموں میں اخوت کا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے سنا ہے کہ بریلی میں ہندو مسلمانوں نے نہایت خوبی سے ایک دوسرے کی محبت کا ثبوت دیا ہے۔ یعنی بقر عید کے روز مسلمانوں نے گائے کی قربانی نہیں کی۔ بلکہ ہندوئوں کی خاطر سے بکرے اور بھیڑوں کی قربانی کی اور ہندوئوں نے بھی اس بات کا خیال اٹھا لیا کہ کوئی مسلمان گائے کی قربانی کا خیال کرتا ہے ۔ یا بکرے بھیڑی کی۔ اور ہندوئوں نے محرم کے زمانہ میں سبیلیں لگانے اور مسلمانوں کے ساتھ غم میں شریک ہونے کا اقرا ر کیا ہے ہماری بھی مدت سے یہی رائے ہے۔ کہ اگر گائے کی قربانی ترک کرنے سے آپس میں ہندو اور مسلمانوں کی دوستی اور محبت قائم ہو ۔ تو گائے کی قربانی نہ کرنا اس کے کرنے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ تیسری بات یہ ہے ۔ کہ سول ڈویژن مانک پور گنج ضلع ڈھاکہ میں ایک مسجد بنانے کی ضرورت ہے اور اس مسجد کی تعمیر کے لیے روپیہ جمع کرنا چاہیے اس کے لئے ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہو کر کمیٹی بنائی اور ہندو و مسلمان مل کر اس کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کر رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے مسلمان زیادہ غریب اور زیادہ ذلیل ہیں۔ اس لیے ہندو اس مسجد کی تعمیر کے لئے زیادہ کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اس محبت اور ہمدردی اور باہمی بھیا چارہ پر جو ہندوئوں نے ظاہر کی ہے۔ دونوں قوموں کو مبارک باد دیتے ہیں۔ ہماری رائے میں جس طرح کہ اختلاف مذہب جیسا کہ مسلمانوں اور ہندوئوں میں ہے۔ سوشل برتائو اور باہمی محبت و اخلاص اور ایک دوسرے کی ہمدردی کا مانع نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح پولیٹکل امور کا اختلاف بھی سوشل برتائو اور باہمی محبت و اخلاص اور ایک دوسرے کی ہمدردی کا مانع نہیں ہے۔ اس زمانہ میں ہندو اور مسلمان دونوں گورنمنٹ انگلشیہ کی رعایا ہیں اور اس کے سایہ عاطفت میں ہر قسم کی خوشی اور امن و آزادی سے بسر کرتے ہیں۔ لیکن اس میں کچھ شبہ نہیں۔ کہ دونوں قوموں کے باہم پولیٹکل امور مین اختلاف رائے ہے۔ ہندو اس پولیٹکل پالیسی کے طرف دار ہیں۔ جو کانگرس کے اعلیٰ ممبروں یا اس کے حامیوں اور طرف داروں کی ہے اور جس کا ہر سال مختلف مقامات میں کانگرس کے نام سے اعلان کیا جاتا ہے اور اس پر زور دیا جاتا ہے۔ مسلمان اس پالیسی کے برخلاف ہیں۔ لوگ ان پر اتہام لگاتے ہیں۔ کہ گورنمنٹ کے خوشامدی ہیں۔ لیکن یہ اتہام غلط ہے۔ بلکہ مسلمانوں کے نزدیک ملک کے انتظام اور امن میں اس پالیسی سے خلل پڑنے کا اندیشہ ہے اور کسی طرح وہ پالیسی ہندوستان کی حالت کے مناسب نہیں ہے۔ پس اس اتحاد و یک جہتی سے جو اس وقت ہندوئوں نے مسلمانوں کے ساتھ ظاہر کی ہے۔ اگر یہ مقصود ہو کہ مسلمان بھی ہندوئوں کے ساتھ کانگرس میں اور ان کی پالیسی میں شریک ہو جائیں گے۔ تو ہمارے نزدیک اس مقصد کا حاصل ہونا محالات سے ہے اور ملک کے انتظام اور امن میں نہات خلل ڈالنے والا ہے۔ گو بعض ناعاقبت اندیش اور امور مملکت سے ناواقف اور ناشدنی باتوں پر یقین کرنے والے مسلمان ہندوئوںکی پالیسی میں شریک اور کانگرس کے جلسوں میں شامل ہو جاویں۔ مگر عموماً مسلمان اس میں شریک نہیں ہو سکتے۔ بلاشبہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح ہم اختلاف مذہب سے قطع نظر کر کے ہندو مسلمانوں میں دوستی و محبت و یگانگت اور آپس میںہمدردی کا برتائو چاہتے ہیں۔ اسی پولیٹکل اختلاف رائے سے بھی قطع نظر کر کے سوشل امور میں باہم دوستی و محبت و ہمدردی و بھائی بندی کا برتائو چاہتے ہیں اور ہم یقین کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں جو غیر معمولی طریقہ پر ہندوئوں نے مسلمانوں کے ساتھ بھائی بندی و ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ وہ ایک دھوکا مسلمانوں کو کانگرس میں شامل کرنے کا نہیں ہے۔ بلکہ سچی بھائی بندی۔ سچی ہمدردی اور سچی ہم وطنی کا سبب ہے اور ہم خدا سے دعا کرتے ہیں۔ کہ ایسا ہی ہو اور ہم دونوں قوموں میں نہایت محبت و اخلاص سے گورنمنٹ انگلشیہ کے سایۂ عاطفت میں اپنی زندگی نہایت وفاداری سے بسر کریں اور ملکہ معظمہ وکٹوریا قیصر انڈیا کی سلامتی اور درازی سلطنت کی دعا کرتے رہیں۔ جس کی بے نظیر سلطنت کے ساٹھویں سال کا جلوس عنقریب جشن ہونے والا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ہمارے بعد ہمارا نام رہے گا‘‘ یہ ایک نہایت لغو اور بے ہودہ خیال ہے جس کا کچھ نتیجہ سمجھ میں نہیں آتا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ بہت لوگ اس لغو خیال میں مبتلا ہیں ۔ کوئی اولاد چاہتا ہے کہ (اس کے ذریعہ )اس کا نام چلے۔ کوئی محل بناتا ہے کہ اس کے بعد اس کا نام قائم رہے۔ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ اس سے فائدہ کیا ہے؟ اگر اس کے بعد لوگوں نے کہا کہ یہ قلعہ اکبر کا بنایا ہوا ہے اور وہ قلعہ شاہ جہاں کا۔ تو اس سے مرنے والے کو کیا فائدہ؟ مرنے والا تو مر گیا۔ اپنی کرنی اپنی بھرنی اپنے ساتھ لے گیا۔ اب لوگ کچھ ہی کہا کریں۔ جو ہونی تھی وہ ہو گئی۔ سعدی فرماتے ہیں۔ ؎ زندہ ست نام فرخ نوشیرواں بہ عدل گرچہ بسے گزشت کہ نوشیرواں نماند اس شعر کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ نوشیرواں کے بعد لوگ کہا کرتے تھے کہ نوشیرواں بہت عادل تھا۔ مگر یہ نہ کھلا کہ اس سے نوشیرواں کو کیا فائدہ ہوا؟ پس لوگوں کو جو یہ تمنا ہوتی ہے کہ ہمارے بعد ہمارا نام قائم رہے۔ یہ کیوں ہوتی ہے؟ اور اس سے ان کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ ہمارے نزدیک تو یہ محض خیال خام ہے اور انسان کے بودے پن کی دلیل ہے۔ انسان کو یہ خیال رہنا چاہیے کہ میں کوئی ایسا کام کر جائوں جس سے انسانوں کو (اور) قوم کو فائدہ پہنچتا رہے۔ مثلاً کسی علم کا ایجاد کرنا، کسی ہنر کا پیدا کرنا یا کوئی ایسی بات ایجاد کرنا جو لوگوں کو فائدہ مند ہو۔ یہ خیال بہت صحیح ہے۔ کیوں کہ اپنی ذات کے واسطے نہیں ہے۔ خصوصاً جب کہ وہ ذات بھی فنا ہو جائے۔ بلکہ زندہ لوگوں کے لیے ہے اور ایسوں کے لیے ہے جن کا سلسلہ برابر قیامت تک جاری رہے گا۔ پس ہمارے خیال میں اس سے زیادہ انسان کے لیے کوئی بے وقوفی نہیں ہے جو یہ خیال کرے کہ میں ایسا کام کر جائوں جس سے میرے بعد میرا نام جاری رہے ؎ گزشتم از سرے مطلب تمام شد مطلب حجاب چہرۂ مقصود بود مطلبہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر دائم (تہذیب الاخلاق، جلد اول، نمبر ۵ بابت ۲۰ ذی قعدہ ۱۲۸۷ھ) غالباً تمام دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ نیکی بلاشبہ نیک ہے اور اس لیے اس بات کا ماننا بھی لازم آتا ہے کہ ہمیشہ رہنے والی نیکی سب نیکیوں سے افضل اور اعلیٰ نیکی ہو۔ انسانوں میں نیک وہی ہو گا جس نے بہت سی نیکیاں کی ہوں گی۔ مگر سب سے زیادہ نیک وہی ہو گا جس نے ایسی نیکیاں کی ہوں جو سب نیکیوں سے افضل اور اعلیٰ ہوں۔ مسلمانوں کے عقائد کے مطابق انبیاء علیہم الصلواۃ والسلام نیک ترین بندگان خدا ہیں اور اس لیے ضرور ہے کہ وہ ایسی نیکیوں کے منبع یا مخزن ہوں جو تمام نیکیوں سے اعلیٰ اور افضل ہوں ورنہ ترجیح بلا مرجع ہو گی۔ اس لیے ہر ایک انسان کو ایسی نیکی کی جو ہمیشہ رہنے والی ہے تلاش اور تجسس لازم ہے۔ بعضوں نے پل اور مسجد، چاہ و مہمان سرائے چندہ روزہ رہنے والی چیزوں کو خیر دائم سمجھا اور بہت بڑی غلطی کی۔ کیوں کہ یہ تمام چیزیں ادنیٰ حوادث سے فنا اور معدوم ہونے والی ہیں۔ اب کہاں ہے وہ چاہ یوسفؑ اور کہاں ہے وہ مسجد اقصیٰ۔ سب معدوم ہو گئیں اور اسی طرح ہزاروں بنیں گی اور معدوم ہوں گی۔ نہایت فہمیدہ اور دقیقہ رس لوگوں نے خیر و خیرات میں زہد و تقویٰ اور عبادت کو خیر دائم خیال کیا۔ مگر اس کی صحت بھی مشتبہ ہے۔ تمام اعمال حسنہ آنکہ موندی اور منقطع ہوئے۔ جب کہ انسان موت کی خواب راحت میں استراحت فرماتا ہے تو تمام اعمال حسنہ کا انقطاع ہو جاتا ہے۔ زاہد کی تسبیح ہمہ تن دانہ اشک بن کر روتی ہے کہ وہ کیا ہوا جو مجھ کو شمار وظائف سے زندہ رکھتا تھا۔ مصلی محراب مسجد میں چت پڑا ہائے ہائے کرتا ہے کہ وہ کہا ں ہے جو اپنی پیشانی سے مجھ کو جان تازہ بخشتا تھا۔ منبر فراق واعظ سے دل شکستہ ہے کہ میرا واعظ کہاں ہے۔ ملائکہ مقربین جو اس کے ذکر و شغل کی مجلس کی خیر و برکت لینے کو آتے تھے اس کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور یہ یک مشت خاک ہزاروں من مٹی کے نیچے دبے پڑے ہیں نہ اپنی کچھ کہتے ہیں اور نہ کسی کی سنتے ہیں صرف زبان حال ان میں باقی ہے سو وہ یہ کہتی ہے کہ جو ہونا تھا سو ہو لیا اور جو کرنا تھا سو کر لیا۔ غرض کہ ہر ایک قسم کی نیکی کو جب خیال کرو گے تو وہ اسی شخص کی ذات پر منحصر ہو گی اور اس کی فنا کے ساتھ ہی منقطع ہو گی اس لیے زہد و تقویٰ ، عبادت و سخاوت خیر دائم نہیں ہو سکتی۔ اگر غور سے دیکھا جاوے اور ٹھیک ٹھیک سمجھا جاوے تو بجز رفاہ عام اور انسان کی بھلائی چاہنے کے اور کوئی نیکی خیر دائم نہیں ہے انسان کی بھلائی نہ نیکی کرنے والے کی موت سے ختم ہوتی ہے اور نہ اس زمانے کے انسانوں کے فنا ہونے سے فنا ہوتی ہے بلکہ نسل در نسل اور پشت در پشت آئندہ انسانوں میں چلی آتی ہے اور قیام دنیا تک قائم رہتی ہے اور اس لیے صرف وہی ایک نیکی ہے جس کو خیر دائم کہہ سکتے ہیں۔ یہی نکتہ تھا جس کے سبب خدا تعالیٰ نے انسان کی بھلائی چاہنے کی خدمت انبیاء علیہم الصلواۃ والسلام کو دی تاکہ برترین بندگان خدا نیک ترین نیکیوں کے منبع اور مخزن ہوں اور خیر دائم ان سے باقی رہے پس انسان کی بھلائی میں سعی کرنا انبیا کا ورثہ لینا ہے اور تمام نیکیوں میں سے افضل اور اعلیٰ نیکی کا اختیار کرنا۔ پس فلاح عام کے کاموں کو عبادات دینی میں سے نہ سمجھنا اور صرف نوافل اور مندوبات اور تسبیح اور تہلیل ہی کو عبادت سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔ یہ خیر دائم جس کا میں نے ابھی ذکر کیا اور بھی زیادہ نیک تو اس وقت ہو جاتی ہے جب کہ اس کی ضرورت ہو اور میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانہ میں اور بالتخصیص مسلمانوں کے لیے اس کی بہت ضرورت ہے اور اس لیے میری خواہش مسلمانوں سے یہ ہے کہ وہ صرف تسبیح و تہلیل و زہد و تقویٰ ہی پر تکیہ نہ فرماویں اور صرف ادائے زکواۃ و نماز ہی پر قناعت نہ کریں بلکہ تھوڑا سا وقت اور دو چار درم رفاہ و فلاح حال مسلمانان کے لیے بھی نکالیں اور خیر دائم کی نیکی کو بھی حاصل کریں کہ صرف یہی ایک نیکی ہے جو ہمیشہ رہے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زاہد اور فلاسفر کی کہانی اور دوسلطنتوں کا مقابلہ (تہذیب الاخلاق (دور سوم) جلد اول، نمبر۱، بابت یکم شوال ۱۳۱۱ھ صفحہ۸،۹) شہر اور آبادی سے دور جنگل اور میدان سے پرے ایک نہایت خوشنما پہاڑ تھا۔ چوٹی سے نیچے تک جا بجا قدرتی پھول کھلے ہوئے ۔ بلندی پر دن کو بھی پھول آسمان کے تاروں کا لطف دکھاتے اور پستی کے پھول گلستان یاد دلاتے تھے۔ چوٹی برف سے سفید تھی، سر جیون پانی کی لئیں بہتی تھیں۔ جن سے قیاس ہوتا تھا کہ یہ نہایت پیرانہ سال مقدس پہاڑ ہے۔ اس کے ایک ٹیلہ کی اندھیری کھوہ میں ایک زاہد آنکھیں بند کیے خدا کو ڈھونڈ رہا تھا اور تسبیح و تہلیل میں مصروف تھا۔ نماز اور مراقبہ کے سوا دنیا اور مافیہا سے کچھ خبر نہ تھی۔ ایک فلاسفر دوسرے ٹیلے کی چوٹی پر بیٹھا ہوا خدا کی صنعتوں کو دیکھ رہا تھا اور ان سے واحدہ لا شریک، قادر و صانع خالق کی صفات اور اس کی حکمت کو دیکھ کر اس پر ایسا یقین رکھا تھا کہ لو کشفت الغطاء لما ازددت یقینا۔ اتفاقاً دونوں آپس میں ملے کہ چلو ملکوں کی کچھ سیر کریں۔ پھرتے پھراتے ایک ملک میں پہنچے۔ وہاں ایک بادشاہ کی سلطنت تھی جو شان و شوکت، رعب و دبدبہ اور فیاضی میں مشہور تھا۔ اس کے تحت کے اردگرد امیر وزیر، ھالی موالی سب دست بستہ کھڑے تھے اور جو حکم دیتا تھا اس کو بجا لاتے تھے۔ اس کے مصاحبوں میں بعض لوگ ایسے تھے کہ جو چاہتے تھے بادشاہ سے حکم لے آتے تھے اور بادشاہ کے جس حکم کو چاہتے تھے بدلوا دیتے تھے۔ جو نہ ہونی تھی بادشاہ اس کو کر بیٹھتا تھا اور جو ہونی تھی اس کو ان ہونی کر دیتا تھا۔ ملک خوش حال تھا، لوگ آسودہ تھے، جو مقرب بارگاہ تھے وہ اس خیال میں خوش تھے کہ سلطنت کی کنجی گویا انھی کے ہاتھ میں ہے۔ جو ان مصاحبوں کے متوسل تھے اور ان کی خوشامد میں رہتے تھے وہ یوں خوش تھے کہ ہماری تمام حاجتیں ان کی سفارشوں سے نکل جاویں گی۔ بادشاہ کی بادشاہت میں کوئی قانون نہیں تھا۔ جس کو چاہتا تھا نوازتا تھا۔ جس کو چاہتا تھا بگاڑتا تھا۔ جو چاہتا حکم دیتا اور جس حکم کو چاہتا بدل دیتا۔ گاہے بسلامنے میر یجندو گاہے بدشنامے خلعت می بخشید۔ اس کی تمام رعیت خوف و رجا، امید و بیم میں بسر کرتی تھی۔ نہ خدمت کرنے والوں کو توقع تھی کہ ضرور بادشاہ ہماری خدمت کی قدر کرے گا اور نہ شریر اور شورہ پشتوں کو یہ خیال تھا کہ ضرور بادشاہ ہم کو سزا دے گا۔ کیا عجب ہے کہ خدمتیوں کی خدمت قبول نہ کرے اور ان سے خفا ہو جاوے اور کیا عجب ہے کہ ہماری شرارت سے درگزرے اور ہم کو نواز دے۔ بادشاہ کے وعدوں کے پورا ہونے پر کسی کو یقین نہ تھا۔ نہ کوئی وعدوں کی وقعت کرتا تھا۔ زاہد نے کہا کہ بادشاہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ کیوں کہ ہمارا خدا بھی ایسا ہی ہے۔ پھر وہ اس ملک سے دوسرے ملک میں پہنچے۔ وہاں ایک بادشاہ تھا۔ باوجود مہذب ہونے کے نہایت شاندار، تمام ملک آراستہ، تمام عہدیدار مہذب، اپنے درجے اور قرینے سے کھڑے۔ ہر ایک کے لیے وزیر سے، امیر سے، غریب تک قانون مقرر۔ سب کی نسبت بادشاہ کا یہ حکم کہ میرے قانون کی اطاعت کرو اور اسی پر چلو اور طمانیت سے زندگی بسر کرو۔ اس کا قانون گویا خدائی قانون تھا جو کبھی تبدیل ہونے والا نہ تھا۔ اس کے وعدے ایسے مستحکم تھے کہ کبھی ان میں تخلف نہیں ہوتا تھا۔ ہر ایک یہ سمجھتا تھا کہ ہمارا فرض ہے اور فرض کے ادا کرنے پر جو انعام کا وعدہ بادشاہ نے کیا ہے وہ ضرور ہم کو دے گا۔ اگر ہم اس کے حکم کی تعمیل نہ کریں گے اور شرارت اور شورہ پشتی کریں گے تو وہ اپنے قانون اور وعدہ کے موافق ضرور ہم کو سزا دے گا۔ اگر باوجود کوشش کے ہم سے اس کی پوری خدمت ادا ہونے میں قصور ہو تو اس کی معافی کا اس نے وعدہ کیا ہے۔ وہ ضرور ہم کو معاف کرے گا۔ کیوں کہ تخلف وعدہ اس سے ہونا محالات سے ہے، جو ہم کمائیں گے اس کا نتیجہ پائیں گے۔ ہاں اگر ہم کوشش میں قصور کریں اور بقدر اپنی طاقت کے اس کے حکم بجا نہ لائیں تو قصور وار ٹھہریں گے۔ وہاں کوئی ایسے مصاحب بھی نہ تھے کہ جو چاہیں بادشاہ سے حکم لے آویں۔ یا بادشاہ کے جس حکم کو چاہیں بدلوا دیں۔ جو ہونی تھی وہ ضرور ہوتی تھی، ان ہونی کبھی نہ ہوتی تھی۔ ملک آباد اور خوش حال تھا۔ سب طمانیت سے رہتے تھے۔ نہ کسی کی سفارش کی خواہش نہ کسی کی چغل خوری کا ڈر۔ سب کو بجز اس خیال کے کہ بادشاہ کے قانون کی اطاعت کریں اور کچھ خیال نہ تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ بادشاہ قادر مطلق اور خود مختار ہے۔ جو قانون کہ اس نے اپنی مرضی اور اپنے اختیار کامل سے بنایا ہے۔ اسی کامل قدرت اور اختیار سے اس کو قائم بھی رکھتا ہے۔ یہی نشان اس کے کمال قدرت اور پورے اختیار کا ہے۔ اگر وہ اس میں تغیر ڈالے تو اس کے قانون کی قدر و منزلت باقی نہ رہے اور اس کا متلون المزاج ہونا ثابت ہو اور پھر کسی کو اس کے قانون اور اس کے وعدوں پر طمانیت نہ رہے۔ زاہد نے کہا کہ اس بادشاہ نے تو اپنے تئیں قانون میں جکڑ دیا ہے اور وعدوں سے تخلف نہ کرنے سے اپنے اختیار کو اور اپنی قدرت کو ساقط کر لیا ہے۔ کسی کی کاربراری کا بجز قانون کے کوئی راستہ ہی نہیں رہا۔ ایسا بادشاہ تو ایک کاٹھ کی مورت ہے۔ میں تو ایسے بادشاہ کو بادشاہ نہیں مانتا۔ فلاسفر نے کہا کہ جو کچھ اس نے کیا ہے اپنے اختیار اور قدرت سے کیا ہے اور ایسا کرنا ہی اس کے بادشاہ ذی اقتدار اور حکیم علی الاطلاق ہونے کی دلیل ہے اور اپنی قدرت کاملہ سے اس قانون کو لازوال کر دیا ہے۔ اگر تو اسے پسند نہیں کرتا تو جا اپنے اس متلون المزاج خدا کو اندھیری کھوہ میں آنکھیں بند کر کے ڈھوند۔ مگر وہ نہ کبھی تجھ کو ملا ہے نہ ملے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشرقی علوم و فنون ہم کو نہایت ہوشیار ی سے دیکھنا چاہیے کہ جو کچھ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہماری اور ہمارے ملک کی بہبودی اور ترقی کے لیے ایسا نہ ہو کہ صرف دھوکا ہو ہم کو اس وقت پچھلے زمانے کے قصے اور کہانیوں کو یاد دلانا اور کہنا کہ ایشیا میں ایشیائی سلطنت کے زمانے میں علوم و فنون کیا تھے اور ان کے وقت میں ان کو کیسی ترقی اور کیسی سرسبزی تھی محض بے فائدہ ہے۔ ہم کو اپنے زمانے کے حالات پر جو گورنمنٹ انگلشیہ کی حکومت کا زمانہ ہے غور کرنا اور اس کو ہندوستان ہی کی حدود میں محدود رکھنا ہمارے لیے زیادہ تر مفید اور زیادہ تر بکار آمد ہے۔ جب سے ایک روشن ضمیر و تربیت یافتہ گورنمنٹ یعنی گورنمنٹ انگلشیہ کے ہاتھ میں ہماری قسمتیں سپرد ہوئی ہیں اس وقت سے ہماری تعلیم نے مختلف طرح سے پلٹے کھائے ہیں۔ آنریبل ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت جب ہندوستان میںہوئی تو ایک مدت تک اس نے اس بات کو نہیں جانا کہ ہندوستان کے لوگوں کی نسبت اس معاملے میں اس کا کیا فرض ہے۔ مگر جب اس نے اس فرض کو جانا تو یہ مشکل پیش آئی کہ وہ ان کی تعلیم کا کون سا طریقہ اختیار کرے۔ جنوری ۱۸۶۳ء کے ایڈنبرا ریویو میں ایک نہایت لائق اور مدبر مصنف نے اپنے آرٹیکل میں اس مشکل کو نہایت خوبی سے بیان کیا ہے کہ ہندوستان کے لوگوں میں علمیت اور انسانیت بہ نسبت انگریزوں کے زیادہ قدیم تر تھی۔ وہ ایک ایسی علمیت تھی جس کی بنیاد اس زبان پر (یعنی سنسکرت و عربی پر) تھی جو یورپ کی تمام زبانوں کا (اور میں کہتا ہوں کہ یورپ کے بڑے بڑے علوم کا) مآخذ تھی۔ اس لیے یہ مشکل سوال حل طلب تھا کہ وہ کون سی تعلیم ہے جو ہندوستانیوں کو دی جاوے۔ کیا ان کو انگریزی کی تعلیم دی جاوے جو انگریزوں کے مذہب سے مخلوط ہے؟ یا انھیں کی قدیم زبانوں اور قدیم فنون اور مذہبی علوم میں تعلیم دی جاوے۔ اس زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کچھ قوی نہ تھی۔ اس پر بہ نسبت اس کے کہ وہ دلیری سے وہی کام کرے جو در حقیقت کرنا چاہیے، خوف زیادہ غالب تھا۔ اس کو ہندوستان کے لوگوں کے تاریک تعصبات کا ایسا خوف تھا کہ وہ سچے کام کرنے میں بھی خوف کرتے تھے اس لیے اس کی یہ رائے تھی کہ کوئی ایسی تعلیم جو ہندوستانیوں کی آنکھوں یا کانوں تک بھی ان باتوں کو پہنچاوے جو ان کے قدیم علوم یا مذہبی روایات کے برخلاف ہو اختیار نہ کرنی چاہیے۔ اس ناواجب اور نااستوار اور خوف زدہ اصول پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں مشرقی قدیم علوم اور قدیم حکمت کے تروتازہ کرنے میں کوشش نہ کی۔ اہل ہند کی بد نصیبی کا یہ دورہ ۱۸۳۵ء تک نہایت استحکام سے قائم رہا۔ آخر کار ایک نیک اور سچا مدبر یعنی لارڈ میکالے ہندوستان میں پیدا ہوا جو اس زمانے میں ہندوستان کی تعلیم کے بورڈ کا میر مجلس تھا۔ اس نے دھوکا دینے والے طریقہ تعلیم کو علانیہ ناپسند کیا اور کہا کہ اگر گورنمنٹ کی رائے بندوبست موجودہ کے تبدیل کرنے کی نہ ہو تو اس میر مجلسی سے میرا استعفیٰ منظور ہو کیوں کہ میں اس میں کچھ کام نہیں آ سکتا۔ مجھ کو اس کام میں تقویت دینی ہوتی ہے جس کی نسبت مجھ کو خوب یقین ہے کہ وہ صرف دھوکا ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ موجودہ بندوبست سچ کے ترقی کرنے کی طرف نہیں بلکہ معدوم ہونے والی طبعی غلطیوں کی طبعی موت کے توقف کرنے پر رجوع کرتا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ لارڈ میکالے ایک مذہبی شخص تھا۔ وہ ایشیا کی تواریخ کو ایشیا کی الٰہیات کو، ایشیا کی طبابت کو، ایشیا کے مذہب کو، نامعقول سمجھتا تھا اور اس لیے مذہبی خیال سے اس قدیم طریقہ تعلیم کا تبدیل ہونا چاہتا تھا۔ فرض کیا جاوے کہ وہ ایسا ہی تھا مگر جو عزت کہ اس کو اپنی سچی رائے ظاہر کرنے سے اور جس کووہ دھوکا سمجھتا تھا اس کو دلیری سے دھوکا کہہ دینے سے حاصل ہوئی ہے وہ ہمیشہ قائم رہے گی۔ جس زمانے میں کہ لارڈ میکالے نے اپنی یہ سچی رائے ظاہر کی اس وقت لارڈ ولیم بینٹنگ گورنر جنرل تھے۔ لارڈ میکالے کی اس دلیرانہ و فصیح و بلیغ تقریر نے کافی اثر کیا اور ہندوستان کی تعلیم کے آفتاب کا جو بالکل گہن میں تھا کچھ کچھ گہن چھوٹنے لگا اور گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ ہندوستانیوں میں یورپ کے علوم اور یورپ کی حکمت کو ترقی دینا گورنمنٹ کا مقصد ہونا چاہیے۔ درحقیقت انگریزی عہد سلطنت میںہندوستانیوں کو خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان جو کچھ درکار تھا وہ یہی تھا کہ وہ اس علم و حکمت سے واقف ہوں جو اس قوی اور فتح مند قوم کی جان تھی جو ان پر حکومت کرتی تھی اور اس کی تمام دانائی، تمام قوت، تمام خوبیوں کوبتلانے والی تھی اور میں کہتا ہوں کہ اب بھی سو برس کے قریب گورنمنٹ انگریزی کی حکومت کو گزر گئے جو کچھ ہندوستانیوں کو درکار ہے وہ یہی ہے۔ انھی تحریروں اور تحریکوں کے بعد گورنمنٹ نے ہندوستان میں تین یونی ورسٹیوں کا مقرر کرنا اور بڑے بڑے شہروں میں انگریزی زبان کے ذریعے سے اعلیٰ درجے کی تعلیم علوم کے کالجوں کا مقرر کرنا جن میںیورپ کے علم و حکمت و تاریخ کی تعلیم ہو منظور کیا اور علم تعلیم کے لیے دیسی زبانوں کو ذریعہ ٹھہرایا جس کی بنا جناب ٹامسن صاحب کے وقت میں پڑی اور جناب سر ولیم میور صاحب نے اس کو ہمارے ملک میں اعلیٰ درجے کی ترقی پر پہنچا دیا۔ اس انتظام سے کچھ شبہ نہیں کہ ہندوستانیوں نے بہت کچھ فائدہ اٹھایا۔ ان میں جس قدر نقص رہا وہ یہی تھا کہ جو کام خود ان کو اپنی قومی قوت سے اپنے لیے اور اپنی قوم کے لیے، اپنی قوم کے بچوں کے لیے کرنا تھا اس کی نسبت چاہا کہ گورنمنٹ ہی کرے جس کو فی الواقع گورنمنٹ نہیں کر سکتی تھی۔ ہم کو توقع تھی کہ ہم روز بروز زیادہ روشنی میں آتے جاویں گے اور ہماری تعلیم کے آفتاب کا گہن جو چھوٹا تھا وہ ایک دن نصف النہارپر پہنچے گا مگر ہم نہایت افسوس سے دیکھتے ہیں کہ وہ پھر گہن میں آیاہی نہیں چاہتا بلکہ نصف النہار تک پہنچنے سے پہلے ڈوبنا چاہتا ہے۔ چند روز ہوئے کہ ہم نے حضور عالی جناب لارڈ لٹن کی اسپیچوں کو جو پنجاب کے بعض مقامات پر انھوں نے کی تھیں اور جن میں علوم مشرقی کی ترغیب دلانے کی بو آتی تھی نہایت افسوس سے پڑھا تھا اور حال میں ان ایڈریسوں کو جو پنجاب میں حضور ایکسیلینسی مارکوئیس آف رپن کے حضور میں پیش کی گئی ہیں اور ان کے جوابوں سے نہایت افسوس ہوا ہے۔ یونی ورسٹی کالج لاہور کی بنیاد مردہ علوم مشرقی کو پھر زندہ کرنے کے مقصد سے قائم ہوئی تھی جن کا زندہ کرنا بقول ایک بڑے مدبر کے ماسٹروں کے پھر زندہ کرنے کے قصد کے برابر ہے۔ جو ایڈریس سینٹ نے پیش کیا ہے اور جس کے جلو میں ایسے بڑے بڑے نامی ہندوستانی سردار تھے جوشاید ہی کسی اور ایڈریس کے ساتھ ہوں گے اس میں لکھا ہے کہ ’’ساڑھے تین لاکھ روپیہ جو عطیہ یونی ورسٹی کالج ہے والیان ریاست ہائے و دیگر رئوسائے پنجاب نے دراصل زبان ہائے دیسی کی تکمیل سے تعلیم کو رواج دینے کی غرض سے عطا کیا تھا۔ سینٹ کو اس بارے میں کچھ بھی شک نہیں ہے کہ علم کو زبان ہائے دیسی کے توسل سے ترقی دینا تعلیم کی ضروریات کو ملک کے حسب حال بنانے کا بہترین طریقہ ہے اور سینٹ و گورنمنٹ ہند کا بھی یہی مقصد ہے۔‘‘ ہز ایکسیلینسی وائسرائے نے اس کے جواب میں فرمایا ہے کہ ’’ترقی و اشاعت زبان ہائے مشرقی و علوم مشرق نہایت ہی کار احسن ہے۔ میرا اس میں ان لوگوں سے اتفاق کامل ہے کہ یہ مقصد بطور خود قابل تعریف ہے اور جہاں تک میری محدود واقفیت معاملات ہندوستان میں ہے، میں ان خیالات سے اتفاق رکھتا ہوں جو میرے یقین میں آپ لوگ رکھتے ہیں کہ اس ملک میں صرف زبان ہائے دیسی کے توسل سے علوم و فنون کی ترقی و اشاعت بہترین سہولیت سے ہو سکتی ہے۔ ‘‘ ہم صاحبان کورٹ آف ڈائریکٹرز کے اس مشہور مراسلے سے جو ۱۸۵۴ء میں جاری ہوا، دل سے اتفاق کرتے ہیں کہ عام تعلیم کی اشاعت کا ذریعہ دیسی زبان کو قرار دینا نہایت عمدہ ہے۔ مگر وہ طریقہ صرف اعلیٰ دیہاتی مکاتب اور تحصیلی اسکولوں میں محدود رہ سکتا ہے نہ اعلیٰ تعلیم میں اور اس تعلیم میں جو یونی ورسٹی کی تعلیم کہلاوے اور ایسی تعلیم جو بی اے یا بالغ العلوم اور ایم اے یا مالک العلوم کا لقب حاصل کرنے کی مستحق ہو۔ اگر یوی ورسٹی پنجاب کا مقصد اس پچھلے طریقے میں مشرقی علوم کو ترقی دینا ہے کہ بعوض اس کے کہ ہم کچھ روشنی میں آویں تاریکی میں پڑنے والے ہیں اور بعوض اس کے کہ ہم کچھ ترقی کریں ایسے پیچھے ہٹنے والے ہیں کہ ہم کو پھر ایک لارڈ میکالے کی ضرورت ہو گی جو ہم کو اس تاریکی سے نکالے اور آگے بڑھاوے۔ ہم صاف کہتے ہیں جیسا کہ لارڈ میکالے نے کہا کہ ایسا کرنا دھوکا ہے۔ علوم مشرقی کی ترقی کاغل پنجاب میں ہر ایک کی زبان پر ہے مگر ہم نہیں جانتے کہ علوم مشرقی سے کون سے علوم مراد ہیں۔ دینیات تو یقینی اس میں شامل نہ ہوں گے کیوں کہ وہ اس بحث سے خارج ہیں۔ پس اب ان لوگوں سے جو ’’علوم مشرقی کی ترقی‘‘ ، ’’علوم مشرقی کی ترقی‘‘ پکارتے ہیں، پوچھتے ہیں کہ وہ کون سے علوم ہیں؟ سنسکرت یا عربی و فارسی۔ اگر ان کو بلحاظ عمدہ زبان ہونے کے خیال کیا جائے تو ہم تسلیم کرتے ہیں مگر صرف زبان پر علم کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ ہاں جب اس کو بحیثیت لٹریچر یعنی علم ادب کے دیکھا جائے تو بلاشبہ اس پر علم کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ اب ہم علم ادب عربی و فارسی کی ترقی پر غور کرتے ہیں اور سنسکرت کو چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں جانتے۔ عربی و فارسی کی لٹریچر تمام تر یا ھزلیات یا عاشقانہ مضامین یا ناپاک قصص و حکایات یا سلاطین و امراء کی جھوٹی تعریف یا ایسے الفاظ اور فقرات کی قافیہ بندی سے جس کے الفاظ عمدہ اور مطلب کچھ نہیں بھری پڑی ہے۔ وہ انسان کے دل پر ، انسان کے اخلاق پر کوئی نیک اثر پیدا نہیں کر سکتی۔ وہ انسان کی کسی فطرقی قوت کو تحریک میں نہیں لا سکتی۔ اس کا پڑھنے والا شروع ہی سے جانتا ہے کہ یہ سب جھوٹ اور مبالغہ اور شاعرانہ اور منشیانہ ہے اور اسی لئے اس کے دل پر کوئی لفظ بھی اثر نہیں کرتا۔ وہ لٹریچر ایسے مبالغہ آمیز جھوٹ سے مخلوط ہے کہ پڑھنے والا یہ بھی تو نہیں جان سکتا کہ اصل واقعہ اس میں کیا ہے۔ سینکڑوں کتابیں عربی و فارسی لٹریچر کی اس وقت موجود ہیں جن میں سلاطین کا، مصنفوں کا، شاعروں کا حال مندرج ہے۔ اصلی اشخاص عاشق و معشوق کی حکایات مندرج ہیں۔ ان کی حسن و خوبی کی تعریفیں لکھی گئی ہیں۔ پھر کوئی ان کو پڑھ کر یہ تو بتلا دے کہ واقعی سلاطین و مصنفوں یا شاعروں کی کیا حالت اور کیا طبیعت تھی یا وہ معشوقہ درحقیقت کیسی صورت، کیسی سیرت، کیسا ناز اور کیسا انداز رکھتی تھی۔ کوئی فطرتی بات اور نیچرل خوبی اور ان کا بیان جو انسان کے دل میں اثر کرتا ہے، ان میں نہ ملے گا۔ پس ایسے لٹریچر کو ترقی دینا ہمارے ساتھ کچھ نیکی کرنا نہیں ہے بلکہ ہم کو اسی اندھیرے میں لے جانا ہے جس میں ہم سینکڑوں برس سے پڑے ہوئے تھے۔ زبان صرف ذریعہ ہے انسان کے خیالات کے ظاہر کرنے کا اور جب انسان کے خیالات درست ہوتے ہیں اس کی اندرونی طینت تعلیم یافتہ ہو جاتی ہے اور اس کو ہر قسم کی معلومات علوم کی اور واقعات کی اور انسانی طبیعت کی حاصل ہوتی ہے۔ تب اس کے خیالات علمی پیرایہ حاصل کرتے ہیں اور جب وہ کسی زبان میں ادا کیے جاتے ہیں تو وہ اس زبان کا علم ادب کہلاتا ہے۔ اسی کی ترقی سے انسان کی ترقی ہوتی ہے۔ مگر جب مشرقی لٹریچر ان سب امور سے خالی ہے تو اس کی ترقی دینے کا مفہوم ہماری سمجھ ہی میں نہیں آ سکتا۔ بجز اس کے کہ ہم دھوکہ میں رہیں اور حقیقت تک نہ پہنچیں۔ اگر یوں تعبیر کیا جائے کہ ہندوستانیوں کے خیالات دوسری طرح پر درست و مہذب کیے جائیں اور پھر وہ ان مہذب خیالات کو مشرقی زبانوں میں ادا کریں جس سے مشرقی لٹریچر کو ترقی ہو گی تو ہم پوچھتے ہیں کہ وہ کیا دوسرا طریقہ ہے جس سے ان کے خیالات شائستہ و مہذب کیے جائیں گے۔ آیا ہومیا پیتھی قاعدے سے یا ایلو پیتھی قاعدے سے۔ یعنی اسی مشرقی لٹریچر سے یا مغربی لٹریچر سے۔ اول سے تو محال ہے اور جب دوسرے سے مہذب کیے جاویں تو پھر مشرقی علوم و لٹریچر کی ترقی محض بے معنی لفظ رہ جاتے ہیں۔ اب ہم لٹریچر کا ذکر اس خوف سے چھوڑ دیتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص گلستان و بوستان سعدی میں سے قریب ایک نصف یا ایک تہائی کے خارج کر کے اور ان کی کلیات میں سے تمام ھزلیات کو دریا میں بہا کر چند ورق ہمارے سامنے پیش کر دے کہ یہ مشرقی لٹریچر ہے اور علوم مشرقی کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مقدم مشرقی علوم فلسفہ، منطق، علم ہیئت، علم کیمیا، علم معدنیات، علم نباتات، علم حیوانات، علم جرثقیل، علم حساب و جبر مقابلہ، علم تاریخ ہیں اور وہ بھی وہ علوم ہیں جن سے انسان کے خیالات کو ، اس کی معلومات کو، اس کی عقل کو ترقی ہوتی ہے۔ فلسفہ و منطق نے یورپ میں ایسی ترقی کی ہے اورایسے پھل پھول و پتے شاخیں نکالی ہیں کہ کیا ہم صرف قدیم مشرقی فلسفہ و منطق کو پڑھ کر اپنے تئیں مفید بنا سکتے ہیں؟ جو لوگ مشرقی علوم کی ترقی کو پکارتے ہیں اور خود پنجاب یونیورسٹی کالج کے ممبران سینیٹ جو یورپین اور عالم ہیں کیا وہ یقین کرتے ہیں کہ مشرقی علم ہیئت مشرقی علم طب کے اصول صحیح ہیں۔ اگر وہ ان کو صحیح نہیں سمجھتے اور یقینا صحیح نہیں سجھتے تو کیوں ایسی راہ پر ہم کو چلانا چاہتے ہیں جو درحقیقت بقول لارڈ میکالے کے صرف دھوکہ ہے۔ کیا ہماری ترقی کے لیے وہ علم کیمیا جو مشرق میں تھا اور جس کو ہندوستان میں رسان کہتے تھے، کافی ہے؟ علم نباتات میں، علم حیوانات میں ہم کیا پڑھیں؟ کیا عجائب المخلوقات پڑھنی ہماری ترقی کے لیے کافی ہے؟ علوم مشرقی کی کتابوں میں علم جرثقیل میں ایک مختصر رسالہ اصول پنجگانہ کے سوا ہم نے نہیں دیکھا۔ کیا ہمارے لیے علم حرکت و سکون پڑھا اور اس کی ترقیات کو جو اس زمانہ میں عجیب حد تک پہنچ گئے ہیں سیکھنا محض بے فائدہ ہے۔ کیا حساب و جبر و مقابلہ جو خلاصۃ الحساب میں ہے، وہی کافی ہے اور ہم کو بنیے سے اپنے کھانے کی روٹی دال کا حساب کر لینے کو۔ پٹواری سے حساب سمجھ لینے کو بس ہے؟ اور کیا ہم کو کرنا ہے۔ ہمارے علوم مشرقی کی ترقی ہی ہم کو نہایت مفید ہے۔ علم تاریخ تو جیسا صحیح ہمارے ہندوستان میں ہے تمام دنیا اس کی مقر ہے اسی علم تاریخ کی ترقی ہماری رفاہ و فلاح کو بس ہے۔ ہم صاف صاف کہنا چاہتے ہیں کہ ہم کو علوم مشرقی کی ترقی کے پھندے میں پھنسانا ہندوستانیوں کے ساتھ نیکی کرنا نہیں ہے بلکہ دھوکے میں ڈالنا ہے۔ ہم لارڈ میکالے کو دعا دیتے ہیں کہ خدا اس کو بہشت نصیب کرے کہ اس نے اس دھوکہ کی ٹٹی کو اٹھا دیا تھا۔ کیا وہ ٹٹی ہماری آنکھوں کے سامنے پھر لگائی جاتی ہے؟ ایڈریس کے ساتھ بڑے بڑے ہندوستانی سرداروں کا ہونا اور بہت بڑی فیاضی سے بڑے بڑے چندوں کا دے دینا مثل ایسی ہی فیاضی کے ہے جو ہمیشہ وہ اصلی مقصد سے ناواقف رہ کر دیگر اسباب سے کیا کرتے ہیں۔ ان کی شان و شوکت ایسے امر کی جو فی الحقیقت کچھ وقعت نہیں رکھتا، وقعت نہیں بڑھا سکتی۔ چند ناعاقبت اندیش ہندوستانی شاید ان باتوں سے خوش ہوتے ہوں گے اور گورنمنٹ کا احسان مانتے ہوں گے مگر دور اندیش آدمی ان تمام باتوں سے بہت رنجیدہ ہوتے ہیں اور نہایت افسوس و مایوسی سے گورنمنٹ کی اور ان یورپین اعلیٰ درجہ کے حکام کی کارروائی کو جو اس میں شریک ہیں دیکھتے ہیں۔ ہم نہایت سچائی سے اور گورنمنٹ کی دلی خیر خواہی سے بتانا چاہتے ہیں کہ سمجھ دار اور دور اندیش ہندوستانی ان تمام کارروائیوں سے گورنمنٹ کی نسبت کیا خیال رکھتے ہیں۔ نہایت بد خیال ان کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ چند سال گذرے کہ ان کو یقین کامل تھا کہ گورنمنٹ کودر حقیقت ہم کو واقعی تعلیم دینا منظور نہیں ہے اور وہ ہم کو اسی قدر تعلیم دینا چاہتی ہے جس قدر کی اس کو ضرورت ہے۔ ہم کو وہ ایسا مرکب سواری بنانا چاہتی ہے کہ اسباب لاد کرایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دے۔ اس کو انتظام ملک اور انتظام دفتر کے لیے چند ایسی پتلیوں کی درکار ہے جو انگریزی لکھ سکتی ہوں مگر سمجھ نہ سکتی ہوں۔ جیسے کہ مانچسٹر میں سوت کاتنے کے لئے پتلیوں کی ضرورت ہے۔ جو کچھ کہ وہ ہندوستان میں تعلیم کی نسبت کرتے تھے کوئی اس کا شکر گزار نہ تھا اس لیے کہ اس کو خود غرضی پر محمول کیا جاتا تھا نہ رعایا پروری پر۔ کچھ بہت عرصہ نہیں گزرا کہ ہندوستانیوں میں سے یہ بد خیال دور ہوا تھا اور ہندوستانی یہ یقین کرتے تھے کہ گورنمنٹ نے اپنی پالیسی بدل دی ہے اور در حقیقت گورنمنٹ کو اعلیٰ درجہ کی تعلیم دینا اور ہندوستانیوں کو انھی کے فائدے کے لیے تعلیم دینا مقصود ہے مگر ہندوستانی خوب جانتے ہیں کہ تھوڑے دنوں سے بعض مدیران سلطنت کی پالیسی بدلی ہے اور ہندوستانیوں کو اعلیٰ درجے کی حقیقی تعلیم دینا وہ مناسب نہیں سمجھتی۔ ان کو اب تک یقین نہیں ہے کہ یہ پالیسی در حقیقت مستحکم ہو گئی ہے اور اس پر عمل کرنا فی الواقع قرار پا چکا ہے ۔ مگر ایسے واقعات جو پیش آتے ہیں جیسے کہ حضور عالی لارڈ لٹن کے وقت میں انڈین سول سروس کے قواعد قرار پائے اور جیسے کہ جناب ممدوح نے بعض اسپیچوں میں علوم مشرقی کی ترقی کی ترغیب دی یا جیسے کہ یہ حال میں واقعہ پنجاب یونیورسٹی کالج کو کامل یونیورسٹی بنانے کی درخواست کے وقت پیش آیا دور اندیش ہندوستانیوں کو نہایت تردد میں ڈالتا ہے اور وہ خوف زدہ ہو کر خیال کرتے ہیں کہ شاید وہ پالیسی مستحکم ہو گئی ہے اور وہی دھوکہ کی ٹٹی پھر ہماری آنکھوں کے سامنے کھڑی کی جاتی ہے جس کو مرحوم ہمارے محسن لارڈ میکالے نے اپنی نہایت سچی تحریروں اور زبردست ہاتھوں سے اٹھایا تھا۔ ہم نے کوئی مجلس لائق ہندوستانیوں کی ایسی نہیں پائی جو اس میں ان خیالات کی روز بروز ترقی نہ ہوتی ہو۔ ہمارا دلی مقصد ہے کہ ہم اصلی حال ان ہندوستانیوں کی فیلنگ (احساسات) کا جن کی فیلنگ در حقیقت قدرو غورکے لائق ہے، گورنمنٹ سے مخفی نہ رکھیں اور اس میں کوشش کریں کہ گورنمنٹ ایسی جماعت کی باتوں سے جن کے ظاہری بدن زر و جواہر سے جگمگاتے ہیں اور جن کے تمام کام درحقیقت دیگر اسباب پر مبنی ہیں نہ واقعی واقعات پر دھوکہ میں نہ آوے۔ کیا ہندوستان کی ترقی علوم مشرقی کی ترقی سے ہو سکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔ کیا دو ر اندیش ہندوستانی علوم مشرقی کے ترقی دینے سے گورنمنٹ کے احسان مند ہوں گے؟ ہر گز نہیں۔ کیا ہندوستانی ایسے نادان و بے وقوف ہیں جو اپنے انجام کو نہیں سمجھتے؟ ہر گز نہیں۔ سخت سے سخت متعصب مسلمان جو انگریزی زبان اور انگریزی علوم پڑھنے کو کفر و الحاد جانتا ہے وہ بھی یقین کرتا ہے کہ ہماری ترقی صرف مغربی علوم میں اعلیٰ درجے کی تعلیم پانے میں منحصر ہے۔ مگر وہ یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دیتا ہے کہ ہم کو اپنی ترقی سے اپنا مذہب پیارا ہے۔ اس خیال سے اگر وہ اپنی ترقی سے دست بردار ہو تو گورنمنٹ کی شکایت کا اس کو موقعہ نہیں ہے مگر برخلاف اس کے جب کہ گورنمنٹ ایسی کارروائی کرے جو ہندوستانیوں کی اصلی ترقی کی معاون نہیں ہے تو پھر صورت معاملہ کی منقلب ہو جاتی ہے۔ بذریعہ ترجموں کے علوم مغربی کے ہندوستان میں پھیلانے کا قصد ایک ہنسی کی بات ہے۔ بہت مدت ہوئی کہ یہ پالیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں اختیار کی گئی تھی اور اسی بہادر اور محسن شخص لارڈ میکالے نے اس کو بھی ویسا ہی بے سود اور دھوکا ثابت کر دیا جیسے کہ اس زمانہ کی دوسری پالیسی کو ثابت کیا اور بالآخر اس دھوکہ کی ٹٹی کو اٹھا دیا۔ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ ہم کو صاف صاف، سیدھا و سچا راستہ ہمارے فائدے کے لئے ہم کو بتائے۔ پھر جو کوئی اس پر نہ چلے اس کو جہنم میں جانے دے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں روز بروز علم کی ترقی ہوتی جاتی ہے۔ تمام نئی تصنیفات اور نئی تحقیقات ایک عظیم الشان دریا کی موج کی مانند بہتی چلی آتی ہیں۔ کیا پنجاب یونیورسٹی (خدا نخواستہ جب کہ وہ یونیورسٹی انھی اصول پر ہو جائے جن پر وہ اب یونیورسٹی کالج ہے) ان کے ترجموں کا اور ہندوستان میں اس کی اشاعت کا بندوبست کر سکتی ہے اور درحقیقت ان علوم کی اشاعت کر سکتی ہے۔ ہم اس بات کے مخالف نہیں ہیں کہ پنجاب میں بھی ایک یونیورسٹی قائم ہو جیسے کہ کلکتہ ، مدراس، بمبئی میں قائم ہے مگر جن اصول پر وہ یونیورسٹی قائم ہونا چاہتی ہے اس کے برخلاف ہیں۔ جو شخص اپنی قومی ہمدردی سے اور دور اندیش عقل سے غور کرے گا وہ جانے گا کہ ہندوستان کی ترقی کیا علمی اور کیا اخلاقی، صرف مغربی علوم میں اعلیٰ درجہ کی ترقی حاصل کرنے پر منحصر ہے۔ اگر ہم اپنی اصلی ترقی چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی مادری زبان تک کو بھول جائیں۔ تمام مشرقی علوم کو نسیاً منسیاً کر دیں۔ ہماری زبان یورپ کی اعلیٰ زبانوں میں سے انگلش یا فرنچ ہو جائے۔ یورپ ہی کے ترقی یافتہ علوم دن رات ہمارے دست مال ہوں۔ ہمارے دماغ یورپین خیالات سے (بجر مذہب کے) لبریز ہوں۔ ہم اپنی قدر، اپنی عزت کی قدر خود آپ کرنی سیکھیں۔ ہم گورنمنٹ انگریزی کے ہمیشہ خیر خواہ رہیں اور اس کا اپنا محسن و مربی سمجھیں۔ مگر غلامی و حیوانی کی حالت جو ہمارے پر طاری ہے اس سے ہم نکلیں۔ ایک فیاض اور نیک دل گورنمنٹ کا جو کسی قوم پر اس کی بھلائی کے لیے بلکہ انسانی بھلائی کے لیے حکومت کرتی ہے یہی منشاء ہونا چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی زبان ہائے قدیم کی ترقی میں نامور ہے مگر زبان دوسری چیز ہے اور علوم دوسری چیز ہیں۔ بلاشبہ ہم اس بات کو کہ پنجاب یونیورسٹی قدیم مشرقی زبانوں کو ترقی دے پسند کرتے ہیں کیوں کہ قدیم لینگویج ماڈرن لینگویج کی زیور ہیں مگر ہم علوم مشرقی کی ترقی کے معنی نہیں سمجھتے۔ نہ علوم مغربی کا دیسی زبانوں کے ذریعے سے اعلیٰ درجہ کی تعلیم تک شائع ہونا ممکن جانتے ہیں جو اصلی مقاصد پنجاب یونیورسٹی کالج کے ہیں اور اس لیے اس کو کوئی ذریعہ اپنی ترقی کا بجز ایک دھوکہ کے قرار نہیں دے سکتے۔ کسی قوم کی ترقی خطوط متوازی کی مانند نہیں ہوتی کہ سب کے سب ایک مقام سے دوسرے مقام تک چلے آویں۔ ہمیشہ اس کی ترقی مثلث کی شکل پر ہوتی ہے جس کا ایک گونہ آگے بڑھا ہوا ہوتا ہے اور اس کی پچھلی سطح اسی مناسبت سے آگے بڑھتی جاتی ہے۔ تعلیم کی یہ خاصیت ہے کہ وہ انسان کو روشنی میں لاتی ہے اور اس کو اپنی اور غیر قوم کی تمام برائیاں بھلائیاں ۔ سوشل و مارل کی دکھاتی ہے اور پھر وہ ان کو دیکھ کر بلا لحاظ اس بات کے کہ وہ کس قوم کی ہیں کسی کے اختیار کرنے میں اور کسی کے ترک کرنے میں مجبور ہوتا ہے اور ایسی قوم میں جو سکون کی حالت میں تھی ابتداء میں بوقلموں فرقے پیدا کرتا ہے اور مثلث کی مانند ایک گونہ آگے بڑھتا ہے اور اس کے بعد اسی کی مناسبت کے قوم آگے بڑھتی جاتی ہے۔ ہمارے لیے یہ خیال کرنا کہ ہم میں فرقہ ہائے بوقلموں پیدا نہ ہوں اس خیال کے مساوی ہے کہ ہمارے دل علوم کی روشنی سے منور نہ ہوں۔ ہم اگر اپنی ترقی چاہتے ہیں لازم ہے کہ ہم اپنی سوشل و مارل حالت پر غور کریں۔ اس کو اعلیٰ درجہ کی حقیقی کاملیت پر پہنچاویں اور علوم کے جو نتائج ہیں اس سے فائدہ اٹھاویں اور بو قلموں فرقوں کے پیدا ہونے کا جو ترقی کا لازمہ ہے کچھ پروا نہ کریں اور یقین جانیں کہ جب ہم میں کامل ترقی ہو گی وہ سب رفتہ رفتہ اپنے لیول پر آ جاویں گے۔ گورنمنٹ کا ہم یہ فرض سمجھتے ہیں کہ ایسی ترقی میں ہماری معین و مددگار ہو اور اگر یہ منشاء ہو کہ ہم اسی لیول پر رہیں جس پر اب ہیں اور سوشل و مارل حالت میں کچھ ترقی نہ کریں تو ہم کو کسی قسم کی تعلیم دینا محض بے سود ہے۔ ابھی تو ہم سوشل و مارل کی عمدہ حالت سے ناواقف ہیں اور اس لیے بہت سے ہم میں ایسے موجود ہیں جو اس کے نہ ہونے سے کچھ رنجیدہ نہیں ہیں۔ ہم کو تعلیم دے کر اور ان کی خوبیوں سے واقف کر کے ان کے حاصل کرنے سے روکنا ہم کو بہت زیادہ رنج دینے والا ہوگا۔ ہم نہایت افسوس سے علانیہ کہنا چاہتے ہیںکہ ہندوستانیوں کا جو کونا ترقی کرنے کی خواہش سے آگے بڑھا ہے اس کو یہ رنج لاحق ہوتے ہیں ۔ بہت سے تعلیم یافتہ اور دانش مند ہندوستانی اس بات کا یقین کرتے ہیں کہ ہمارے حکام ہمارے سوشل و پولیٹکل و مارل حالت کی ترقی ہونا پسند نہیں کرتے اور ہر وسیلہ سے اس کو دبانا اور پیچھے ہٹانا چاہتے ہیں۔ یہ خیالات ان لوگوں کے ہیں جن کے خیالات وقعت کے قابل نہیں اور گورنمنٹ کو ان پر غور کرنا اور ان کو دور کرنا نہایت ضرور ہے۔ ہز اکسیلنسی مارکوئیس آف رپن نے اپنی اسپیچ میں اس امر کو کہ مابین ساکنان ملک یورپ اور ساکنان اس ملک کے وہ اتحاد دوستانہ نہیں ہے جو پہلے تھا، قابل غور کے قرار دیا ہے۔ بلاشبہ ہم کو اس پر شکر گزار ہونا چاہیے۔ بے شک یہ امر نہایت قابل غور ہے مگر یہ اسی وقت رفع ہو سکتا ہے کہ جو شخص ہم میں سے اپنی سوشل و پولیٹکل و مارل حالت میں ترقی کرنا چاہے ساکنان ملک یورپ اس کا ہاتھ تھام کر اس کو اس کی ترقی میں مدد دیں مگر جب کہ ہمارا اسی لیول میں رکھنا مدنظر ہو جس میں اب ہم ہیں تو اس اتحاد دوستانہ کی توقع کرنا ایسی توقع ہے کہ بغیر تخم ریزی کے ہم فصل دور کرنے کی توقع رکھیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مختصر تاریخ عیسائی مذہب کی مسلمانوں کے مذہب کے نکلنے تک مولفہ ۱۲۷۸ہجری ، مطابق ۱۸۶۲ء (تبیین الکلام، حصہ سوم، از صفحہ ۱ تا صفحہ ۱۵) قریب زمانہ حضرت مسیح علیہ السلام کے یہودیوں کے تین فرقے بہت کثرت سے تھے۔ فروسی، صدوقی، اسینی، فروسی توریت کے ظاہری اور باطنی دو معنی کہا کرتے تھے اور توریت کے سوا کچھ روایتیں بطور حدیث کے بھی بتاتے تھے اور صدوقی اور اسینی توریت کے سوا اور روایتوں کو نہیں مانتے تھے اور صرف ظاہری معنوں پر عمل کرتے تھے۔ فروسی معاد کے ہونے پر یقین کرتے تھے اور قیامت کے عذاب و ثواب کو بھی مانتے تھے اور اس کو جسم اور جان دونوں سے متعلق سمجھتے تھے۔ صدوقی معاد کے قائل نہ تھے اسینی قیامت کے عذاب و ثواب کے قائل تھے مگر کہتے تھے کہ صرف روح سے متعلق ہے نہ جسم سے علاوہ اس کے ان سب کے افعال اور اعتقادات نہایت درجہ پر بگڑ گئے تھے ان کی ایسی 1مثل ہو گئی تھی جیسے اندھوں کو اندھا رہنما ہو۔ حضرت موسیٰؑ کی شریعت میں بھی بہت سی بدعتیں داخل کر دی تھیں۔ شومرونیوں کا مذہب بھی بہت خراب تھا اور بت پرستوں 2 ؎کی رسمیں اس میں داخل تھیں غرض کہ ایک ایسا زمانہ آ گیا تھا کہ روحانی تقدس کسی میں نہیں رہا تھا۔ اس لیے ضرورتھا کہ کوئی ایسا شخص پیدا ہو جو روحانی تقدس اور روحانی روشنی لوگوں کو سکھاوے۔ پھر وہ کوئی نہیں ہو سکتا تھا مگر وہ جو صرف روح سے پیدا ہوا ہو نہ کسی ظاہری سبب سے۔ چناں چہ اس روحانی روشنی کے چمکانے کو حضرت مسیح علیہ السلام صرف روح خدا سے پیدا ہوئے۔ جیسا کہ نص عیسوی میں امام محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ متی ۱۵۔۱۴۔ ۲۔ یوحنا ۴۔۲۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا مریم کے پانی اور جبرئیل کی پھونک سے جو آدم خاکی کی صورت میں ہو کر آئے تھے ٹھہر گئی روح ایسی ذات میں جو پاک تھی طبیعت کی باتوں سے جس کو قید خانہ کہتے ہیں یعنی حضرت عیسیٰؑ میں؟ عن ماء مریم او عن نفخ جبرین۔ فی صورۃ البشر الموجود من طین۔ تکون الروح فی ذات مطہرۃ۔ من الطبیعۃ تدعوھا بسجین ۔ نہیں بلکہ روح تھی اللہ کی نہ اور کسی کی اس لیے زندہ کیا مردوں کو اور پیدا کیا چڑیا کو مٹی سے تاکہ صحیح ہو اس کا نسب اس کا اللہ سے اسی سبب سے اثر ہوتا تھا اعلیٰ چیز یعنی انسان اور ادنیٰ چیز یعنی مٹی میں۔ روح من اللہ لا من غیرہ فلذا۔احیی الموات و انشاء الطیر من طین۔ حتیٰ یصح لہ من ربہ نسب۔ بہ یوثر فی العالی و فی الدون۔ اللہ نے پاک بنایا عیسیٰؑ کے جسم کو اور پاکیزہ کیا عیسیٰؑ کی روح کو اور کیا عیسیٰؑ کو ایک مثال پیدا کرنے میں۔ اللہ طہرہ جسماً نزعہ۔ روھا و صیرہ مثلا بتکوین۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی چھبیس برس کی عمر تھی جب حضرت یحییٰ سے دریائے یردن میں اصطباغ پایا اور اکتیس برس کی عمر تھی جب حضرت یحییٰ کو ھیروڈ بادشاہ نے قید کیا اور حضرت مسیح علیہ السلام نے وعظ فرمانا شروع کیا۔ یہودیوں کی بارہ قومیں تھیں اس لیے حضرت مسیح 1 نے بارہ حواری مقرر 2 کیے مگر ان میں سے یہودا خارج ہوا اور بعد رجع ہونے حضرت مسیحؑ کے مقدس متی بارھویں 3 حواری ہوئے۔ یہودیوں میں سترا میووں کی ایک مجلس تھی اور سین ھدرم کہلاتی تھی اسی تعداد کے مطابق حضرت مسیحؑ نے ستر شاگرد اپنے منتخب کیے تاکہ وہ لوگوں کو وعظ اور نصیحت کریں۔ حضرت 4 عیسیٰ مسیحؑ نے صرف یہودیوں کو نصیحت کی اور یہودیوں کے سوا اور کسی کو نصیحت نہیں کی اور اپنے شاگردوں کو بھی اپنی زندگی میں یہودیوں کے سوا اور کسی کو نصیحت کرنے کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ لوک ۲۲۔ ۳۰۔ ۲۔ نام بارہ حواریوں کے۔ ۱۔ شمعون عرف پیٹر۔ ۲۔ اندریاہ۔ ۳۔یعقوب بن زبدی ۴۔یوحنا بن زبدی ۵۔فلپ۔ ۶۔برتھلمی۔ ۷۔تھوماہ۔ ۸۔متی باجدار۔ ۹۔یعقوب ابن الفی۔ ۱۰۔لبی عرف تمدی۔ ۱۱۔ شمعون کنعانی۔ ۱۲۔متی۔ ۳۔اعمال ۱۔۲۶۔ ۴۔ متی ۱۰۔۵،۶،۱۵۔۲۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں فرمایا مگر بعد کو بہت سی قومیں حضرت پر ایمان لائیں اور خدا کی بادشاہت میں داخل ہوئیں۔ تینتیسواں سال حضرت کی عمر کا تھا کہ یہودا ایشکر یوتی نے یہودیوں کے ہاتھ حضرت کو گرفتار کروایا اور انھوں نے اپنی دانست میں صلیب پر کھینچ کر ہمیشہ کے لیے مار ڈالا مگر وہ مردوں میں سے اٹھے اور آسمان پر گئے۔ حواری حضرت مسیح علیہ السلام کی روح قدس1 سے معمور ہو کراپنے کام میں مشغول ہوئے سب کی نصیحت ایک سی تھی اور کسی میں کچھ اختلاف نہ تھا۔ اگرچہ عیسائی مؤرخ اس بات کو قبول نہیں کرتے مگر ہم مسلمان یقین کرتے ہیں کہ سب کی تعلیم یہی تھی۔ کہ ایک خدا کی پرستش کرو اور عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا یعنی روح اللہ اور کلمتہ اللہ اور رسول اللہ جانو اور اس پر ایمان لائو ہم مسلمانوں کے نزدیک ان میں سے کسی کی یہ تعلیم نہ تھی کہ باپ بیٹا اور روح القدس تینوں غیر مخلوق ہیں اور باپ اور بیٹا اور روح القدس تینوں خدا ہیں مگر عیسائی اس کے برخلاف ہیں اور تعجب یہ ہے کہ اسی انجیل سے عیسائی وہ دیکھتے ہیں اور اسی انجیل سے ہم یہ پاتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ پہلی ہی صدی میں حضرت مسیح علیہ السلام کے باب میں اختلاف شروع ہوا اور یہ اختلاف ہونا ضروری تھا۔ پیدائش اور بناوٹ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایسی تھی کہ وہ خود اس اختلاف کا ہونا چاہتے تھے جو شخص ان کی ظاہری صورت کو دیکھتا تھا وہ یقین جانتا تھا کہ وہ انسان و ابن مریم ہیں اور جب یہ خیال کرتا تھا کہ وہ کسی ظاہری سبب سے پیدا نہیں ہوئے تو یقین کرتا تھا کہ وہ روح ہیں اور یہ ظاہری انسانی صورت صرف اس سبب سے حاصل ہوئی ہے کہ جبرئیلؑ فرشتہ خدا کا انسان کی صورت میں خدا کا پیغام مریم کے پاس لے کر آیا۔ اگر وہ کسی اور صورت میں لے کر آتا تو بلاشبہ حضرت عیسیٰؑ اسی صورت میں پیدا ہوتے اور جب کوئئی شخص ان کے اس مقتدرانہ معجزہ کو دیکھتا تھا کہ مردوں کو زندہ کرتے ہیں جو خدا کا کام ہے تو ان کو خد ا اور خدا کا حقیقی بیٹا کہتا تھا پس جس شخص نے ان کی ظاہری صورت پر نظر کیا اس نے ان کو نرا انسان جانا اور جس نے انسانی صورت بننے کی وجہ پر خیال کیا اس نے ان کو صرف روح جانا اور جس نے ان کے معجزہ پر نظر کی اس نے اللہ اور ابن اللہ مانا اور ان سب چیزوں کو خدائے واحد سے جانا اور پھر سب کو ایک مانا جیسا کہ حضرت محی الدین فرماتے ہیں: یعنی اگر نہ خدا ہوتا اور نہ ہم اللہ کے علم میں ہوتے تو یہ جو کچھ کہ ہے یہ بھی نہ ہوتا۔ فلو لاہ ولو لا نا لما کان اکان ۔ پس ہم بے شک بندے ہیں اور بے شک اللہ ہمارا مالک ہے۔ فانا اعبد حقا وان اللہ مولانا۔ اور ہم وہی تو ہیں جو ہمارا مالک ہے پھر جب تو انسان کا نام لے تو جان لے کہ اس کی اصلیت کیا ہے۔ و انا عینہ فاعلم اذا ما قلت انسانا۔ پھر جب تجھ کو انسان کہیں تو تو شرمندہ نہ ہو کیوں کہ تجھ کو تو دلیل دی گئی ہے کہ تو اور تیرا مالک ایک ہے۔ فلاتعجب بانسان فقد عطاک برھانا۔ پس جب کہ تو بہ نظر اصل حقیقت کے خدا ہے اور صرف بہ سبب اس چیز کے جس کے سبب تجھ کو تو کہتے ہیں پیدا کیا ہوا بندہ ہے تو تجھ کو واسطے خدا کے رحمان ہی ہوناچا ہیے۔ فکن حقا وکن خلقا تکن باللہ رحمانا۔ اور خدا کی مخلوقات کا بقا خدا ہی سے جان اور تو روح یعنی پاک اور تمام راحت ہو۔ وغذ خلقہ منہ تکن روحا و ریحانا۔ پس دی ہم نے خدا کو وہ چیز جس سے ظاہر ہوتا ہے خدا ہم میں اور خدا نے وہی چیز ہم کو دی۔ فاعطیناہ ما یبد بہ و قینا و اعطانا۔ پس وہ بات جس کو وجود کہتے ہیں خدا میں اور ہم میں بٹ گیا۔ فصار الامر مقسوما بایاہ و ایانا۔ پس جو چیز کہ میرے دل میں جان والی ہے اس کو زندہ کیا ہے جب کہ ہم کو زندہ کیا۔ فاحیاہ الذی بدری بقلبی حین احیانا۔ اور ہم ہی تھے اللہ کے علم میں اور ہم ہی تھے ہونے والے اور ہم ہی ہوئے ہیں۔ و کنا فیہ اکوانا و اعیانا و ازمانا۔ اور ہم میں وہ چیز ہمیشہ نہیں ہے مگر اسی نے ہم کو زندہ کیا ہے۔ و لیس بدایم فینا ولکن ذاک احیانا۔ اس واسطے ہمارے مذہب کے بعضے اماموں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں فرمایا ہے۔ ھو لا ھو یعنی وہ انسان ہے اور انسان نہیں اگرچہ عیسائی بھی ابن اللہ کے لفظ سے اس کے لغوی حقیقی معنی مراد نہیں لیتے جو عموماً اس لفظ سے سمجھے جاتے ہیں۔ بلکہ حاصل ان کے عقاید کا یہ ہی کہ ۔ خدا ایک ہے اور وہ باپ ہے اور اس کے سوا اور کوئی خدا نہیں ۔ مگر جب کہ خدا تعالیٰ ازلی یعنی ہمیشہ سے ہے تو چاہیے کہ اس کی صفات بھی ذاتی ازلی ہوں اور پیدائش بھی صفات ذاتی ازلی خدا تعالیٰ میں سے ایک صفت ہے۔ اس صفت کے سبب باپ سے بیٹا یعنی حضرت مسیح علیہ السلام ازل سے صادر ہوا مگر باپ کی ذات میں یا بیٹے کی ذات میں کچھ تقسیم نہیں ہوئی بلکہ بیٹے کی ذات وہی باپ کی ذات ہے مگر اس سبب سے کہ باپ نے اپنی الٰہیہ ذات کسی اور سے حاصل نہیں کی ہے بلکہ بیٹے نے اپنی الٰہیہ ذات باپ سے حاصل کی ہے۔ باپ کو علت ازلی اور بیٹے کو معلول ازلی کہتے ہیں اور باپ پر جدا کام اور بیٹے پر جدا کام قرار پاتے ہیں اور باپ سے رتبہ میں کم سمجھتے ہیں لیکن بہ سبب اس کے کہ دونوں کی ذات ایک ہے بیٹا وہی خدا ہے اور خدا وہی بیٹا ہے (اسی کی طرف اشارہ ہے قرآن مجید میں جہاں فرمایا کہ لقد کفر الذین قالو ان اللہ ھو المسیح ابن مریم) اور اسی سبب باپ اور بیٹے کی مرضی میں فرق نہیں بلکہ ایک ہے صرف اتنی بات ہے کہ باپ کی مرضی اصلی ہے اور کسی کے پاس سے آئی ہوئی نہیں اور بیٹے کی مرضی بہ سبب ایک ہونے کے ذات کے باپ کے پاس سے آئی۔ باپ کی بھیجی ہوئی ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کی ازلی صفات میں سے ایجاد بھی ایک صفت ہے۔ اس ازلی صفت کے سبب باپ ار بیٹے سے کہ انکی ایک ہی ذات تھی روح القدس صادر ہوا مگر باپ اور بیٹے یا روح القدس کی ذات میں کچھ تقسیم نہیں ہوئی۔ بلکہ روح القدس کی ذات وہی باپ اور بیٹے کی ذات ہے۔ مگر اس سبب سے کہ باپ نے ذات الٰہیہ کسی سے حاصل نہیں کی باپ اور بیٹا علت ازلی اور روح القدس معلوم ازلی ہوا اور اسی صفت ایجاد کے سبب روح القدس کا جدا کام ہوا اور تینوں میں یہی حقیقی امتیاز ہے اور اسی سبب سے روح القدس باپ اور بیٹے سے رتبہ میںکم ہے۔ لیکن بہ سبب متحد ہونے ذات کے روح القدس وہی خدا ہے اور اسی سبب سے باپ اور بیٹے اور روح القدس کی مرضی میں کچھ فرق نہیں۔ البتہ اتنی بات ہے کہ باپ کی مرضی اصلی ہے اور روح القدس کی مرضی بہ سبب ایک ہونے ذات کے حاصل کی ہوئی ہے۔ عیسائی ان تینوں کو علیحدہ علیحدہ اور غیر معلول خدا نہیں مانتے بلکہ اس کو شرک سمجھتے ہیں۔ صرف ان تینوں میں ایسا امتیاز سمجھتے ہیں جس سے الفاظ متکلم اور مخاطب کا اطلاق ہو سکے مثلاً بیٹا کہے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں یا باپ نے بیٹے کو دنیا میں بھیجا ہے۔ مگر ایسے طرز کلام کا استعمال جائز نہیں سمجھتے جس سے وہ تمیز جاتی رہے اور باپ اور بیٹے کا متحد ہونا بلاتمیز کے پایا جاوے۔ مثلاً یوں کہنا ان کے نزدیک صحیح ہے کہ بیٹا باپ سے ہے اور یہ کہنا صحیح نہیں کہ بیٹا باپ ہے۔ اس تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ در باب حقیقت عیسویہ کے ہم میں اور عیسائیوں میں کچھ اختلاف نہیں ہے خواہ اس کو ابن اللہ کر کر تعبیر کریں خواہ اس کو روح اللہ کہہ کر بیان کریں۔ اختلاف اس قدر ہے کہ ان میں باوجود تمیز قائم رکھنے کے ان کو خدا مانتے ہیں اور تمیز کی حالت میں بھی خدا کہتے ہیں اور باوصف قائم رکھنے اس تمیز کے ان کی پرستش بجا لاتے ہیں کیوں کہ اس ذات واحد مطلق کا جب کسی 1 چیز کے ساتھ کسی طرح تعلق ہو تو اس تعلق کی حیثیت سے اس کی پرستش کرنا جائز نہیں بلکہ اس ذات واحد مطلق کی بحیثیت اس کے اطلاق یعنی ہر طرح پر بے تعلق ہونے کے پرستش کرنی چاہیے ۔ جیسا کہ مسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’تو اس کو 2 جو تیرا خدا ہے سجدہ کر اور فقط اسی کی بندگی کر‘‘ پس ہم مسلمانوں کا مذہب عیسائیوں کے برخلاف یہ ٹھہرا کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو جس طرح چاہو اس طرح مانو مگر الٰہیہ پرستش کا مستحق نہ جانو۔ عیسائی مذہب میں جس قدر اختلاف ابتدا ابتدا میں ہوئے اس کی تاریخ ہمارے پاس نہایت تاریک ہے پھر اس اختلاف کے منشا کو اگر ہم اپنی رائے کے بموجب قرار دیں تو بلاشبہ ہم غلطی میں ہیں کیوں کہ جس طرح ہم اس اختلاف کو ایک برے منشا پر قائم کرتے ہیں اسی طرح ممکن ہے کہ ہم اس کو ایک اچھے منشا پر قائم کریں ۔ پس جب تک کہ ہم کو خود انھی لوگوں کے کلام سے نہ ثابت ہو کہ ان کا منشا اس اخلاف میں کیا تھا اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ا۔ استثنا ۴۔۱۵۔ لغایت ۱۹۔ ۲۔ متی ۴۔۱۰۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت تک ہم کو اپنے خیالات سے ان کے اختلافات کا منشا قرار دینا ایک ناانصافی ہی نہیں ہے بلکہ ایک خیالی بات کو واقعی مان لینا ہے۔ اس واسطے ہر ایک فرقہ کے اختلاف کے منشا نہ بیان کرنے میں عیسائی مورخوں کی پیروی چھوڑنے کی مجھ کو ضرورت پڑی پس میں ہر ایک مختلف فرقہ کو اور جو ان میں اختلا ف تھا اس کو بیان کرتا ہوں۔ مگر اس بات کے بیان کرنے سے کہ وہ اختلاف کس منشا سے واقع ہو ا چپ رہتا ہوں۔ عیسائی مورخ اس بات کے قائل ہیں کہ ابتدا سے اصلی عیسائی 1 تثلیث کے قائل چلے آئے ہیں اور باپ اور بیٹے اور روح القدس تینوں کو خدا مانتے رہے ہیں۔ اس فرقہ کو کیتھلک نام دیا گیا ہے۔ یعنی عام مذہب جو اصلی اور قدیم عیسائیت پر مضبوط اور مستحکم تھا۔ مگر مسلمان مورخ اس کے برخلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ مقتدمین عیسائی خدائے یکتا کے قائل تھے اور تثلیث نے صرف تیسری یا چوتھی صدی میں رواج پایا تھا۔ بہر حال متفق گواھی سے اس قدر ثابت ہے کہ ابتدا ہی سے عیسائیوں میں ایسے فرقے بھی تھے جو یکتائی خدا کے قائل تھے جیسا کہ آگے آنے والے بیانوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ عیسائی مورخ اس بات کے قائل ہیں کہ پہلی صدی میں ایک فرقہ تھا3 جو حضرت مسیح علیہ السلام کو نہ حقیقتاًخدا مانتا تھا اور نہ حقیقتاً انسان کہتا تھا بلکہ خدا کا بیٹا (یعنی روح اللہ) اور پیغمبر یعنی (رسول اللہ ) مانتا تھا۔ اسماعیل ابوالفدا اپنی تاریخ میں اس فرقہ کا عانانیہ نام بتاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ فرقہ کا تہلک۔ ۲۔موشم مطبوعہ ۱۸۶۰ئ، صفحہ ۴۶ دفعہ ۶۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے اور لکھتا ہے کہ ’’اس فرقہ کا مذہب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرتے ہیں اور آپؑ کی تمام نصیحتیں اور اشارات مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے خلاف توریت کے کبھی کوئی حکم نہیں دیا بلکہ اسی کے احکام کو مضبوط کیا اور لوگوں کو توریت ہی کی ترغیب فرمائی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام مثل اور نبیوں کے نبی تھے جو توریت کو مانتے چلے آئے ہیں مگر یہ فرقہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا نہیں کہتا۔ ‘‘1 عیسائی مورخوں کے بیان کے بموجب اسی صدی میں ایک فرقہ تھا جو ای پوکلپٹی کل نکولی ٹنز کہلاتا تھا۔ اور ایک اور فرقہ اسی صدی میں تھا جو نکولی ٹنز پکارا جاتا تھا اور وہ اس شخص کے پیرو تھے جس کا نام نکولاس تھا بعض مورخوں نے ان دونوں فرقوں کو ایک سمجھا ہے بہرحال یہ لوگ توریت کے احکام کو مانتے تھے اور اپنے تئیں 2 تھیودس کا جو سینٹ پال کے شاگرد تھے اور مقدس متی کا جو حواری تھے پیرو بیان کرتے تھے۔ ان فرقوں کا مقدس کتابوں میں ذکر ہے اور ان کی بعض غلطیاں بھی مذکور ہوئی ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی غلطی اعتقادات سے متعلق نہیں ہے صرف زنا کاری3 اور بتوں کے چڑھاوے کے گوشت کھانے کا اعتراض ہے پھر میں نہیں سمجھتا کہ پچھلے مورخوں نے کس طرح ان کے اعتقادات پر برخلاف مقدس کتابوں کے الزام لگایا ہے۔ عیسائی مورخ بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگ حشر اجساد 4 کے قائل نہ تھے اور اکثر ان میں کے کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم مادی نہ تھا اور اسی سبب سے انھوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ ؑ ہمارے لیے صلیب پر نہیں کھینچے گئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۴۹ دفعہ ۱۵۔ ۲۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۴۷ دفعہ ۸۔ مشاھدات ۲۔۶، ۱۴ اعمال ۱۵۔۱۹۔ ۴۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۴۹ دفعہ ۵، ۶۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عیسائی مورخوں کی گواہی سے ثابت ہے کہ یہ فرقے پہلی صدی میں بلکہ دوسری صدی کے شروع تک کبھی گرجا سے جدا نہیں ہوئے۔ مگر بعد کو جدائی ہوئی۔ موشم صاحب 1 اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ ’’جن لوگوں نے یہودی احکام شریعت کو نجات ابدی قائم رکھنے کے لیے ضرور جانا وہ پہلی صدی میں اس قدر دور نہ نکل گئے تھے جس سے ایسے لوگوں سے جو مختلف طور سے خیال رکھتے تھے۔ مذہبی ملاپ نہ رکھا ہو البتہ وہ بھائی گنے جاتے تھے مگر کمزور تر بھائی۔‘‘ اس صدی میں 2 ایک فرقہ تھا جو سرنتھس کی پیروی کرتا تھا۔ ان کا اعتقاد یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بہت نیک اور پاک آدمی تھے۔ جو یوسف اور مریم سے معمولی طور پر پیدا ہوئے تھے خدا تعالیٰ نے ایک پاک روح کو جس کا نام مسیحؑ تھا فاختہ کی شکل میں ان میں ڈال دیا۔ جب صلیب پر کھینچنے کے لیے یہودیوں نے گرفتار کیا تب مسیحؑ نکل کر آسمان پر چلاگیا اور یہودیوں نے اس آدمی کو جس کا نام عیسیٰؑ تھا مار ڈالا۔ اس فرقے کو بھی عیسائی مورخوں نے عیسائی فرقوں میں شمار کیا ہے۔ مگر درحقیقت یہ بڑی غلطی کی ہے۔ کیوں کہ اس فرقہ کو کافروں میں داخل کرنا چاہیے نہ عیسائیوں میں۔ اسماعیل ابوالفدا ایک اور فرقہ کا ذکر کرتا ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کو نہ روح اللہ اور نہ کلمتہ اللہ مانتے تھے اور نہ نبی جانتے تھے بلکہ ایک بزرگ اور نیک بخت آدمی خیال کرتے تھے جو معمولی طریقے سے پیدا ہوا تھا اور انجیل کا بطور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۵۰۔۱۷ ۲۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۴۹ دفعہ ۱۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وحی کے حضرت مسیحؑ پر اترنا تسلیم نہیں کرتے تھے میں کبھی رضامند نہیں ہو سکتا کہ یہ فرقہ عیسائیوں میں شمار کیا جاوے بلکہ ضرور کافروں میں داخل رہے۔ اسی صدی میں یا دوسری صدی کے شروع میں 1 ای بی اونیٹس ایک فرقہ تھا جو حضرت مسیح علیہ السلام کو پیغمبر خدا اور روح القدس سے موید یقین کرتے تھے مگر عیسائی مورخ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰؑ کو یوسفؑ اور مریم کا بیٹا معمولی طور سے جانتے تھے اگر یہ بات سچ ہو تو کسی طرح وہ عیسائی فرقوں میں داخل نہیں ہو سکتے۔ بلکہ کافروں میں شمار ہوں گے مگر میں اس میں نہایت شک رکھتا ہوں کہ اس فرقے کے پاس اور اس فرقے کے پڑوس جو نظارین یعنی ناصری یا نصرانی کہلاتا تھا ایک سی انجیل نہ تھی اور یہ خیال کرنا کہ وہ انجیل ہماری موجودہ انجیل سے مختلف تھی ہر گز صحیح نہیں ہے۔ کچھ شبہ نہیں ہے کہ ان کے پاس مقدس متی کی اصلی عبرانی انجیل تھی۔ نہایت درجے پر یہ بات ہے کہ اس میں پہلا باب نہ تھا مگر جب کہ نظارین اسی انجیل سے یقین کرتے تھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ایک کنوری سے پیدا ہوئے ہیں تو کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کہ ای بی اونیٹس کیوں ان سے مختلف تھے۔ بہر حال اگر ان کا اعتقاد ایسا ہو جیسا کہ نظارین کا تھا تو میں ان کو عیسائی فرقوں میں داخل رکھنے سے رضامند ہوں۔ نظارین بھی اسی زمانے کا ایک فرقہ تھا۔ حقیقت میں یہ نام 2 کسی خاص فرقے کا نہ تھا بلکہ عیسائی اور نظارین کے ایک معنی تھے۔ جن لوگوں کو یونانی لوگ عیسائی کہتے تھے انھی لوگوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۷۵۔۲۔ ۲۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۷۵۔ ۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو یہودی حقارت سے نظارین یعنی ناصری یا نصرانی کہتے تھے۔ یہ فرقہ حضرت مسیح علیہ السلام کو روح اللہ اور کنوری کے پیٹ سے ہونے کا یقین کرتے تھے اور یہودی شریعت کے احکام کو ایک معتدل طور پر استعمال میں لاتے تھے۔ ان لوگوں نے نظارین ہی اپنا نام رہنے دیا کیوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں پر بھی یہی نام رکھا گیا۔ ایک اور فرقہ تھا جو نوئی ٹس سمرنا والہ کا پیرو تھا1 وہ یہ اعتقاد کرتے تھے کہ خود خدا نے جو درحقیقت یکتا اور قیاس سے باہر ہے اور جو باپ کہلاتا ہے ایک آدمی میں جو عیسیٰؑ ہے اور بیٹا پکارا جاتا ہے۔ حلول کیا تھا ان لوگوں کو نام پیٹری پیشینز رکھا گیا تھا یعنی وہ لوگ جو مانتے تھے کہ خود خدائے یکتا نے جسم انسانی میں حلول کیا ہے نہ الٰہیت کی تین چیزوں میں سے کسی ایک چیز نے۔ ایک اور فرقہ تھا جو سبیلیس کا پیرو تھا۔ 2 وہ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ خدا کی الٰہیت کا ایک حصہ نکل کر انسان بیٹے خدا یعنی حضرت عیسیٰ ؑ میں آ ملا تھا اور روح القدس الٰہیت کا ایک ویسا ہی جزو ہے۔ سنہ ۲۴۴ء میں ایک اور فرقہ تھا جو بلمس کی پیروی کرتا تھا۔ 3 وہ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ حضرت عیسیٰؑ کا اپنے پیدا ہونے سے پہلے خدا کے سوا کچھ وجود نہ تھا جب حضرت عیسیٰؑ پیدا ہوئے تو ایک روح خدا سے نکل کر ان میں آن ملی کہ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۱۱۰۔۱۲ ۲۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۱۱۱۔۱۳ ۳۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۱۱۱۔۱۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جزو الٰہیت تھی اور اسی واسطے حضرت عیسیٰؑ کی روح اور آدمیوں کی روح سے اعلیٰ تھی۔ سنہ ۲۶۹ء میں ایک اور فرقہ تھا جو پال سیموسٹا والے کی پیروی کرتا تھا۔ 1ان کا یہ اعتقاد تھا کہ بیٹا اور روح القدس خدا میں اس طرح پر تھے جیسے انسان میں عقل اور قوت محرکہ اور عیسیٰؑ صرف آدمی پیدا ہوئے تھے مگر باپ کی دانائی ان میں اتر آئی اور اسی سبب سے ممکن ہے کہ عیسیٰؑ کو خدا کہہ سکیں۔ گو ٹھیک مناسبت نہ ہو۔ حاصل یہ کہ ان لوگوں نے خدا کو یکتا ہی مانا اور بیٹے کا اور روح کا ہونا بھی مانا یہ فرقہ پالی نیز کہلاتا ہے۔ جو لوگ تثلیث کے قائل تھے ان میں ایک اور فرقہ تھا جو نووی شین کہلاتا تھا۔2 ان کے اصول اور کاتھلک کے اصول مذہب میں کچھ فرق نہ تھا صرف اتنا تفاوت تھا کہ یہ فرقہ ان لوگوں کو جو بعد عیسائی ہو جانے کے ان اعتقادات میں مبتلا ہوتے تھے، جن کو ان لوگوں نے غلط ٹھہرا رکھا تھا، تو پھر ان کو اپنے گرجے میں داخل نہ کرتے تھے۔ مگر نجات سے ناامید بھی نہ رکھتے تھے یہ لوگ کیتھری یعنی پاک لوگ کہلاتے تھے ان کا یہ قاعدہ تھا کہ کیتھولک والے جو ان کے فرقے میں آتے تھے ان کو دوبارہ عیسائی کرتے تھے اور اصطباع دیتے تھے۔ عیسائی مورخین کا قاعدہ ہے کہ جو لوگ الوھیت حضرت مسیح علیہ السلام سے انکار کرتے ہیں ان سب کو ناستک کا لقب دیتے ہیں اور جو لوگ خدا میں تین چیزوں کے ہونے کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۱۱۲۔۱۵ ۲۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۱۲۲۔ ۱۷۔۱۸۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکار کرتے ہیں ان کو یونی ٹیرین کہتے ہیں، یعنی یکتائی خدا کے ماننے والے اور جو لوگ تثلیث کے قائل ہیں ان کو ٹیرینی ٹیرین کہتے ہیں اور کرسچین یعنی عیسائی ان ہی لوگوں کو جانتے ہیں۔ ان تینوں صدیوں میں تثلیث کی سب باتوں کی نسبت کوئی کافی تصفیہ نہ ہوا تھا۔1 اس لیے چوتھی صدی میں یعنی سنہ ۳۱۷ء میں تثلیث کے باب میں ایک بہت بڑا جھگڑا اٹھا اب تک صرف اتنی بات مانی گئی تھی کہ باپ اور بیٹے میں ایک اصلی تفاوت ہے اور ان دونوں میں روح قدس میں بھی ایک اصلی تفاوت یعنی الوہیت میں تین جدی جدی چیزیں ہیں مگر ان تینوں چیزوں میں جو آپس میں علاقہ ہے اور جو اصلی تمیز ہے اس پر کچھ بحث نہ ہوئی تھی مصر کے اور اس کے قرب و جوار کے عیسائی اور یجن کے قول کی پیروی کرتے تھے اس کا قول یہ تھا کہ بیٹا خدا میں ایسا تھا جیسی کہ انسان میں عقل اور روح قدس بجز الٰہیہ قوت کے جس سے معجزے ہوتے تھے اور کچھ نہ تھی اور اگر اس قول میں کچھ تاویل نہ کی جاوے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ الوہیت میں جو تین چیزیں ہیں ان میں کچھ تمیز یا علیحدگی نہیں ہے جیسی کہ سبلنز کا مذہب ہے۔ الگزنڈر بشپ سکندریہ نے اس سے اختلاف کیا2 اور یہ ٹھہرایا کہ بیٹا نہ صرف ویسا ہی درجہ رکھتا ہے جیسا کہ باپ رکھتا ہے بلکہ اصلیت میں بھی اس کے برابر ہے۔ مگر ایریس نے جو اسی گرجے کا ایک عہدہ دار تھا الگزنڈر کے قول کو نہ مانا اور یہ کہا کہ بیٹا باپ سے بلکہ اصلیت میں جدا ہے بلکہ وہ خدا کی مخلوقات میں جن کو خدا نے بغیر کسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۶۰۔۹ ۲۔موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۶۰۔۱۰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چیز کے پیدا کیا تھا نہایت عمدہ اور سب سے اول مخلوق ہے اور اس کے ذریعے سے تمام دنیا کو پیدا کیا اس لیے باپ سے اصلیت میں اور درجے میں دونوں میں کم تر ہے اور نسبت روح قدس کے جو اس کی رائے تھی وہ اچھی طرح معلوم نہیں۔ یہ اختلاف بہت بڑھ گیا اور یوسیبیس بشپ نکومیڈیا کا اور اور بہت مشہور اور ذی استعداد عالم ایریس کی رائے کے شریک ہو گئے اس لیے سنہ ۳۲۵ء میں شہنشاہ کانسٹین ٹین یعنی قیصر قسطنطین نے مقام نئیس واقع بنتنہیا میں گرجے کی کونسل مقرر ہونے کا حکم دیا اس کونسل میں ایریس کی رائے در کی گئی اور یہ مانا گیا کہ عیسیٰ ؑ باپ کی اصلیت کے برابر ہیں اور سب کو حکم ہوا کہ جو اس کونسل نے اعتقاد ٹھہرایا ہے اسی کو قبول کریں مگر سنہ ۳۳۰ء میں پھر ایریس اور اس کے اعتقادات کا نشو ونما شروع ہوا۔ یہاں تک کہ سنہ ۳۵۷ء میں بعہد بادشاہت کانسٹین ٹین کے لیے بیربس رومی پوپ کو جبراً اسی عقیدے پر لایا گیا ۔ مگر سنہ ۳۶۴ء میں نئیس کی کونسل والا عقیدہ شہنشاہوں کی مدد سے پھر چمک گیا۔ کونسل نئیس کے بعد ایریس والے فرقے میں بھی باہم اختلاف ہو گیا تھا1 اور یہ سبب زیادہ تر ان کی مغلوبی کا ہوا بعضوں نے ان میں سے صاف صاف بیان کیا کہ بیٹا باپ سے پیدا نہیں ہوا اور نہ کسی چیز میں سے بنایا گیا۔ بعضوں نے یہ قرار دیا کہ بیٹا خدا باپ سے اصلیت میں مشابہت رکھتا ہے، خاصیت میں مشابہت نہیں رکھتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۱۶۶۔۱۶ ۲۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۱۶۷۔۱۷ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان فرقوں کے مقابلہ کو ایک اور نیا فرقہ پیدا ہوا۔2 جو بشپ اپال لی نیرس کا تابع تھا۔ انھوں نے یہ عقیدہ ٹھہرایا کہ عیسیٰؑ نے صرف ایک ایسا انسانی جسم اختیار کیا تھا کہ جس میں ظاہری جان یعنی روح حیوانی تو تھی مگر فہم نہ تھا یعنی نفس ناطقہ نہ تھا ۔ الٰہی خاصیت بطور نفس ناطقہ اس میں مل گئی اس قول کا نتیجہ یہ ہوا کہ الٰہی خاصیت نے جسم انسانی میں حلول کیا تھا۔ سنہ ۳۴۳ء میں ایک اور فرقہ پیدا ہوا جو فوتی نس بشپ سرمی ام کے پیرو تھے۔1 اس نے یہ اعتقاد کیا کہ عیسیٰ مسیحؑ کنواری مریم سے روح قدس کے ذریعہ سے پیدا ہوا اور ایک الٰہیہ نور جس کو وہ لفظ پکارتات ہے اس میں شامل ہو گیا عیسیٰؑ کو خدا اور بیٹا خدا کا کہا جاتا ہے اور روح قدس صرف ایک قوت ہے جو خدا سے نکلی ہے نہ کسی جسم سے مگر یہ فرقہ بہت زیادہ پھیلنے نہیں پایا اور سنہ ۳۷۲ء میں فوتی نس جلاوطنی کی حالت میں مر گیا۔ سنہ ۳۶۰ء میں میسی ڈونیس نے ایک اور فرقہ کی بنیاد ڈالی۔ 2 جو یومی ٹومیشی کہلاتا ہے۔ اس نے بیان کیا کہ روح قدس ایک الٰہیہ قوت ہے جو دنیا میں پھیلائی گئی ہے اور روح قدس باپ اور بیٹے سے کوئی جدا چیز نہیں ہے۔ چوتھی صدی کے آخیر میں ایک فرقہ پیدا ہوا۔ 3 جو کولی ری ڈینس پکارا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے باپ اور بیٹے کے سوا حضرت مریم کو بھی خدا مانا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۱۶۸۔ ۱۹۔ ۲۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۱۶۸۔ ۲۰۔ ۳۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۱۷۰۔۲۵۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان جھگڑوں کے سوا پانچویں صدی میں ایک اور نیا جھگڑا برپا ہوا1 اور یہ خیال کیا گیا کہ پچھلی بحثوں سے یہ بات تو طے ہو گئی کہ عیسیٰؑ حقیقت میں خدا تھا اور حقیقت میں انسان بھی تھا۔ مگر اسباب میں کہ یہ دونوں خاصیتیں کس طرح شامل ہو گئیں اور ان کا نتیجہ کیا ہے۔ کچھ بحث نہیں ہوئی اور نہ کوئی فیصلہ کونسلوں کا اسباب میں ہے۔ اس لیے بعض عیسائی اس طرح پر گفتگو کرتے تھے جس سے پایا جاتا تھا کہ ابن اللہ اور ابن آدم میں بہت فرق ہے اور عیسیٰؑ میں دونوں جسم ہیں اور بعض عیسائی ابن اللہ اور ابن آدم کو ملاتے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں دونوں خاصیتوں کو شامل کر کر ایک مرکب خاصیت بناتے تھے۔ نستوریس نے پہلی رائے کی طرفداری کی اور جو لوگ اس کے مطیع ہوئے ان کا نام نستورنیز ہو گیا۔ اس تنازع سے پہلے بعضے عیسائی حضرت مریم علیہ السلام کو خدا کی ماں کہا کرتے تھے مگر اس فرقہ نے حضرت مریم کوخدا کی ماں کہنا چھوڑ دیا اور حضرت مریم کو عیسیٰؑ کی ماں کہا کیوں کہ نہ خدا پیدا ہو سکتا ہے اور نہ مر سکتا ہے پس صرف بیٹا انسان مریم سے پیدا ہوا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۱۹۹۔۵۔ ۲۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۲۰۳۔۱۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس فرقہ میں بھی باہم اختلاف تھا۔ 2 بعضے کہتے تھے کہ جس طور سے عیسیٰ ؑ کی دونوں خاصیتیں ملی ہیں بالکل نامعلوم ہے بعضے کہتے تھے کے بجز اس کے کہ خدا کی مرضی اور اس کی شان اور کام مل گئے ہیں اور کچھ نہیں ملا ہے مگر یہ نااتفاقی چند روز میں جاتی رہی اور یہ قرار پایا کہ حضرت عیسیٰؑ میں دو جسم ہیں ایک الٰہیہ جو خدا ہے اور دوسرا انسانی جو جسم عیسیٰؑ ہے ان دونوں سے ایک شکل بنی ہے اور یہ شمول حمل کے لحظہ سے ہوا اور یہ کبھی ختم نہ ہو گا کیوںکہ یہ شمول جسموں کا سا شمول نہ تھا بلکہ صرف مرضی اور محبت کا شمول تھا۔ اس لیے عیسیٰؑ کو خدا سے جو عیسیٰؑ میں اس طرح پر تھا، جیسے کہ اپنے معابد میں خبرداری سے تمیز کرنا چاہیے اور مریمؑ کو خدا کی ماں نہ کہنا چاہیے۔ بلکہ عیسیٰؑ کی ماں کہنا چاہیے۔ سنہ ۴۴۸ء میں یوتائی چس 1 نے گویا حضرت مسیحؑ کی انسانیت سے انکار کیا اور یہ کہا کہ عیسیٰؑ میں صرف ایک خاصیت ہے یعنی خاصیت خدا جو اس میں اوتار ہوا ہے یعنی خدا نے اس میں حلول کیا ہے اور سنہ ۴۴۹ء کی کونسل میں جس کو شہنشاہ تھیوڈوسیس نے جمع کیا تھا یہ مذہب ایک حکمت سے فتح مند ہو گیا مگر سنہ ۴۵۱ء کی کونسل میں جس کو شہنشاہ مارسین نے بنام کیسلی ڈن جمع کیا تھا پھر مغلوب ہوا اور یہ بات تصفیہ پا گئی کہ عیسیٰ مسیحؑ میں ایک جسم ہی تاہم دو علیحدہ علیحدہ خاصیتیں ہیں جو نہ کسی طرح سے مرکب یا باہم آمیز ہیں۔ چھٹی صدی میں ذرباب جسم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سکندریہ میں ایک اور جھگڑا برپا ہوا۔2 جو لین ھیلی کارنیس والے نے ۵۱۹ء میں رائے قائم کی کہ الٰہیہ خاصیت نے عیسیٰؑ کے جسم میں حمل کے لحظہ سے اپنے تئیں اس طرح شامل کیا تھا کہ اس جسم نے اپنی خاصیت کو تبدیل کیا اور انسانی خرابیوں سے وہ جسم آزاد ہو گیا جو لوگ اس رائے کے پیرو تھے وہ کی ای نسٹس کہلاتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۲۰۴۔۱۳۔ ۲۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۲۳۷۔۸۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ان میں بھی تین فرقے ہو گئے تھے دو فرقے اس سوال پر کہ آیا عیسیٰؑ کا جسم پیدا ہوا تھا یا پیدا نہ ہوا تھا۔ متفق نہ تھے اور تیسرا فریق یہ کہتا تھا کہ عیسیٰؑ کا جسم خرابی اور زوال انسانی سے البتہ آزاد نہ تھا مگر بہ سبب الٰہیہ خاسیت کے اثرکے حقیقت میں اس کو زوال یا خرابی نہ آئی جو لوگ جولین کی رائے سے متفق تھے۔ ایف تھارٹو دوسیٹی اور دوسیٹی اور فین تی سی السٹی اور مینی شیز پکارے جاتے تھے کس واسطے کہ ان کی رائے سے یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ عیسیٰؑ نے حقیقت میں نہ اذیت اٹھائی اور نہ بھوک کی خواہش معلوم کی اور نہ سویا اور نہ انسان کی دیگر خواہشوں کو عمل میںلایا مگر یہ کہ عیسیٰؑ صرف ظاہر میں ایسا معلوم ہوا کہ گویا اس نے اذیت اٹھائی اور سویا اور بھوک اور پیاس وغیرہ معلوم کی۔ بعضوں نے ان دونوں رائوں کے سوا تیسری رائے اختیار کی اور کہا کہ حضرت عیسیٰؑ نے انسان کی تمام معمولی باتوں کو درحقیقت سہا مگر یہ اس سبب سے نہ تھا کہ اس میں الٰہیہ خاصیت کا اثر نہ تھا بلکہ اس نے اپنی مرضی سے ان سب باتوں کو اختیار کیا تھا۔ فرقہ کرب ٹیکولی نے 1 یہ بھی رائے دی کہ عیسیٰؑ الٰہیہ کی خاصیت جس طرح تمام چیزوں سے پر آگاہ ہے اسی طرح اس کی انسانی خاصیت بہت سی چیزوں سے ناواقف ہے ان پر الزام دیا گیا کہ وہ لوگ الٰہیہ خاصیت کو جہالت میں شریک کرتے ہیں۔ فرقہ ٹری تھی اسٹس2 نے یہ کہا کہ خدا میں تعداد کی روسے تین چیزیں علیحدہ علیحدہ ہیں اور سب کاملیت میں برابر ہیں اور کوئی عام علامت اصلیت کی ملی ہوئی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۲۳۷۔۹۔ ۲۔ موشم مطبوعہ سنہ ۱۸۶۰ء ، ص ۲۳۸۔۱۰۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرقہ ڈیمی ای نسٹس الٰہیہ خاصیت میں اور باپ اور بیٹے اور روح قدس کے تین جسموں میں تمیز کرتے تھے۔ یعنی وہ ہر ایک جسم کے خود اور خاصیت میں خدا ہونے سے منکر تھے بلکہ یہ کہتے تھے ایک نامنقسم شرکت کی رو سے جس میں ہر ایک خدا تھا۔ یہ تین جسم ایک عام الٰہیت رکھتے تھے اور باپ، بیٹے اور روح قدس پر جسموں کا اطلاق کرتے تھے اور جو کچھ کہ ان جسموں میں عام شے تھی اس کو خدا اور اصلیت اور خاصیت کہتے تھے۔ یہ اختلافات جن کا اثر اس چیز پر پہونچتا تھا جس سے نجات ابدی حاصل ہوتی ہے ایسے بڑھ گئے تھے کہ ان کا اصلی اور سچی بات پر ختم ہونا بغیر اس کے کہ خدا کی طرف سے کچھ ہدایت ہو ممکن نہ تھا۔ اس لیے ضرور ہوا کہ وہ نبی جس کا ذکر موسیٰؑ نے کیا اور جس کی خبر عیسیٰؑ نے دی، ظاہر ہو اور ان تمام جھگڑوں کا فیصلہ کرے اور سب کو راہ راست بتاوے۔ چناں چہ سنہ ۶۱۲ء میں وہ آخری نبی ظاہر ہوا جس نے تمام اندھیروں کو اجالا کیا اور جس طرح پر سچائی سے خدا اور حضرت عیسیٰؑ پر ایمان لانا چاہیے اس کو بتایا۔ اللھم صل و سلم دایما ابدا علی نبیک خر الخلق کلھم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یادداشت نسبت ترقی حیثیت اراضی و امداد کاشتکاران و تقرر بنک ہائے زراعتی (علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، ۲ جون ۱۸۸۳ئ) یہ مضمون خالص ٹیکنیکل نوعیت کا ہے اور اسے پڑھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ سرسید کو مذہبی، ادبی اور علمی امور کے علاوہ پیشہ ورانہ امور پر بھی کس قدر مہارت حاصل تھی اور وہ انہیں کس طرح بخوبی ادا کر سکتے تھے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) اس یادداشت میں پانچ حصے شامل ہیں: ۱۔ ترقی اراضی پر۔ ۲۔ کاشت کاروں کی حالت پر بھی بہ لحاظ ان کے لین دین کے مہاجنوں کے ساتھ۔ ۳۔ زراعتی بنکوں کے تقرر پر۔ ۴۔ قحط کی نسبت بعض رائیں۔ ۵۔ مروجہ قوانین میں بعض ترمیموں کے کرنے اور جدید قوانین کے اجرا کی ضرورت پر۔ حصہ اول ۱۔ زمین کی حیثیت کی ترقی تین طریقوں میں ہو سکتی ہے: اول۔ آب پاشی کے ذریعوں کے قائم کرنے سے۔ دوم۔ آب پاشی کے واسطے سہولتوں کے مہیا کرنے سے۔ ۳۔ زمین کی قوت پیداوار کے قائم رکھنے یا اس کو ترقی دینے سے۔ ۲۔ پہلے امر کی نسبت میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ جن مقامات میں نہروں کے ذریعہ آب پاشی ناممکن ہے وہاں زمین کی حیثیت کو ترقی دینے اور ملک کو قحط کی مصیبتوں سے محفوظ رکھنے کے واسطے صرف کنوئوں کا ایک ذریعہ ہے۔ صرف وہ بات جس میں بحث کی گنجائش ہے وہ طریقہ ہے جس میں کنوئیں ان مقامات میں بنائے جا سکتے ہیں جہاں ان کی ضرورت ہو اور اس میں تین امر کی بحث لازم آتی ہے: اول ۔ قسم کنوئوں کی بہ لحاظ اس طریقہ کے جس میں وہ بنائے جا سکتے ہیں اور بہ لحاظ اس سرمایہ کے جس کے ذریعہ سے وہ بنائے جاویں۔ دوم۔ ان کا موقع اور لاگت اور یہ کہ ان سے کس قدر فائدہ حاصل ہو گا۔ سوم ۔ امور متعلق ان شخصوں کے جو کنوئوں سے فائدہ اٹھاویں۔ ۳۔ نسبت امر اول کے کنوئیں چار اقسام میں منقسم کیے جا سکتے ہیں: الف ۔ وہ کنوئیں جو ایک زمین دار یا کاشت کار نے خاص اپنے سرمایہ سے اور خاص اپنی مرضی سے بنائے ہوں۔ ب۔ وہ کنوئیں جو ایک زمین دار یا کاشت کار نے اس قرضہ سے جو اس مقصد کے واسطے لیا گیا ہو اس معاہدہ کی رو سے بنائے ہوں کہ وہ اصل اور نیز سود کو ادا کرے گا۔ یا ج۔ وہ کنوئیں جو ایک قرضہ سے بموجب اس معاہدہ کے بنائے گئے ہوں کہ وہ عوام کے واسطے صرف سود ادا کیا کرے گا۔ د۔ وہ کنوئیں جو گورنمنٹ یا کسی مجاز کمیٹی نے ایک لازمی طریقہ میں بنائے ہوں۔ ۴۔ مذکورہ بالا امر دوم کی نسبت بہت کچھ بحث و گفتگو ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے بہت سی رپورٹیں لکھی گئی ہیں جو اس قسم کے کنوئوں کی لاگت اور جس قدر رقبہ میں ان کے ذریعہ سے آب پاشی ہو اور جو منافع ان سے حاصل ہو اس کے تخمینہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے نہایت مختلف ہیں۔ میں خیال کرتا ہوں کہ آنریبل مسٹر کننگ ھیم نے یہ صحیح رائے ظاہر کی ہے کہ ’’کنوئیں کی لاگت مختلف مقامات میں مختلف ہو گی اور جس قدر رقبہ میں اس کے ذریعہ سے آب پاشی ہو سکے گی اس کی مقدار پانی کے سطح کے قریب ہونے اور پانی کی مقدار اور فصل پر جس کی آب پاشی کی جاوے اور زمین کے پیاسے ہونے پر منحصر ہو گی۔‘‘ پس مجھ کو کنوئوں کی لاگت اور ان کی فائدہ مندی کے ایک ایسے عام تخمینے کے امکان کی نسبت شبہ ہے جو تمام مقامات میں تمام کنوئوں سے برابر متعلق ہو سکے۔ ۵۔ آنریبل مسٹر کننگ ھیم نے اپنی یادداشت میں اور صاحب سکرٹری گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب و اودھ نے اپنی چٹھی نمبر ۳۵۰۳ حرف اے، مورخہ ۲ دسمبر ۱۸۷۸ء میں ا س بات کو نہایت ضروری سمجھا ہے کہ زمین کنوئوں کے بنانے کے لائق ہو اور ان کے واسطے ہوشیاری کے ساتھ موقعے منتخب کیے جاویں۔ چناں چہ آنریبل مسٹر کننگ ھیم بیان کرتے ہیں کہ: ’’یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تمام عمدہ مقامات پہلے ہی سے لے لیے گئے ہیں اور جن قطعات میں اب کنوئیں نہیں ہیں وہ وہ قطعات ہیں جن میں کاشت کاروں کو کنوئوں کا بنانا ناممکن یا غیر منفعت بخش معلوم ہوا ہے۔ کیا اس بات کا گمان ہے کہ گورنمنٹ کو ان کی بہ نسبت زیادہ تر کام یابی حاصل ہو گی؟ جن صورتوں میں بعض مقامات میں اور مقامات کی بہ نسبت کنوئوں کا کھودنا زیادہ تر دشوار معلوم ہوا ان کی نسبت کیا اطلاع حاصل ہے؟ کیا کسی سر رشتہ ا کسی عہدہ دار کو اراضی کے مسئلہ کی نسبت یا جن طبقات اراضی سے پانی نکلتا ہے ان کی خاصیت اور حالت کی نسبت باقاعدہ واقفیت حاصل ہے؟ کیا سر رشتہ تعمیرات بذریعہ کسی آلہ کے جو زمین کی تہوں کی خبر دے یا کسی سادہ اوزار کے پہلے سے یہ بات کہہ سکتا ہے کہ ایک پکا کنواں کس مقام پر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ یقین کیا جاتا ہے کہ دریائے گنگ کی وادی میں پانی ہر ایک مقام میں پایا جا سکتا ہے اور صرف برمہ کے لگانے اور پای کے نکل آنے سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ پانی سوت میں سے آتا ہو یا وہ کوئی رستا ہوا ایک سوراخ ہو۔ علاوہ اس کے کنوئیں کے بنانے میں خاص مشکل اندر کی مٹی کی نرمی یا سختی سے پیدا ہوتی ہے۔ اس بات کا معلوم کرنا ضروری ہے کہ اس ریتیلے طبق کی گہرائی کس قدر ہے جس میں سوت لگایا جاوے گا اور آیا ریت مضبوط اور خشک ہے یا ڈھیلا اور تر مثل بالو کے ہے۔ کیا سررشتہ تعمیرات کے پاس اس قسم کے آلات ہیں جن کے ذریعہ سے یہ اطلاع حاصل ہو۔ اگر موجود ہیں تو کیا کوئی ناواقف شخص ان کو استعمال کر سکتا ہے یا صرف سررشتہ مذکور کے تجربہ کار عہدہ دار ان کو استعمال کر سکتے ہیں؟ اور کیا سررشتہ مذکور اس قسم کے چند عہدہ دار سر رشتہ سول کو ایسے کنوئوں کے واسطے موقعوں کے منتخب کرنے کی غرض سے مستعار دے سکتا ہے۔‘‘ ۶۔ صاحب سکرٹری گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب نے اپنی چٹھی مذکورہ بالا میں یہ بیان کیا ہے کہ جناب نواب لفٹننٹ گورنر بہادر کو نسبت انداز ہ اسی ضرورت کے جو کنوئوں کی تعمیر کے واسطے ظاہر کی جاتی ہے، بہت کچھ اختلاف رائے اور نسبت طریقہ اور لاگت تعمیر کنوئوں کے بہت کچھ مشتبہ قیاسات اور نسبت اس امر کے کہ کس درجہ تک کنوئوں کی ضرورت ہے اور کس مقام پر ان کی سب سے زیادہ حاجت ہے قریباً کامل لاعلمی معلوم ہوئی ہے ۔ پس اسی وجہ سے جناب ممدوح نے یہ تجویز کی کہ ’’صوبہ کے مختلف حصوں میں دو ایسے قطعات جن میں ایک یا ایک سے زیادہ دیہات گورنمنٹ کے زیر اہتمام ہوںاور اس بات پر یقین کرنے کے لیے بادی النظر میں وجوہات معلوم ہوں کہ کنوئیں مناسب لاگت پر بنائے جا سکتے ہیں اور ان سے کاشت کاروں کو فائدہ حاصل ہو سکتا ہے منتخب کیے جاویں۔‘‘ جناب ممدوح کی رائے میں اس معاملہ کی نسبت خاص تحقیقاتوں کا کرنا معلوم ہوتا ہے۔ گو جناب ممدوح اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ زمین کے ایک قطعہ کی ضرورتوں سے واقف ہونا ایک دوسرے قطعہ کی ضرورت سے واقف ہونے کے واسطے گو وہ اسی کے آس پاس کیوں نہ واقع ہو ایک کافی رہ نما نہیں ہے۔ جناب ممدوح خیال فرماتے ہیں کہ جن امور کی نسبت اس قسم کی تحقیقات کرنی چاہیے وہ یہ ہیں۔ ’’گہرائی جس پر پانی نکلے گا۔ افراط پانی کی۔ حالت اس طبق زمین کی جو کھودا جاوے یا جس میں پانی واقع ہو۔ خاصیت خاص پانی کی۔ لاگت اور رسد سامان اور مزدوری کی ہر ایک مقام میں۔ وسعت کنوئیں کی جو اس مقام کے نہایت مناسب ہو۔ قسم زمین کی جس میں آب پاشی کی جاوے۔ قسم فصل کی جو اس میں پیدا ہو۔ قسم کاشت کاروں کی جو اس سے فائدہ اٹھاویں۔ تعلقات جو وہ مصالحت کے ساتھ یا اور طرح پر ایک دوسرے سے یا اپنے زمین داروں سے رکھتے ہوں۔ فاصلہ جہاں تک پانی کنوئیں سے لے جایا جاوے اور یہ بات کہ قرب و جوار میں بالفعل کس حد تک آب پاشی کے واسطے پانی مل سکتا ہے اور علیٰ ھذا القیاس‘‘ جناب ممدوح یہ رائے ظاہر فرماتے ہیں کہ اگر ’’ اس قسم کی مختص المقام تحقیقاتوں سے مقصد مطلوبہ حاصل ہو جاوے تو ایک علیحدہ عملہ قائم کیا جاوے جس کا خاص فرض یہ ہو گا کہ وہ ہر ایک مقام کی زراعتی حالتوں پر جہاں کنوئوں کے بنانے کی تجویز کی جاوے، غور کیا کرے گا۔ شاید جس کا خاص فرض ہر ایک مقام کی زراعتی حالتوں پر غور و فکر کرنا ہو گا جس میں بخوبی آب پاشی نہ ہوتی ہو تاکہ وہ اس بات کا فیصلہ کر سکے کہ آیا کنوئوں کی ضرورت ہے یا نہیں۔ ‘‘ جناب ممدوح خیال فرماتے ہیں کہ ایک عہدہ دار کسی ضلع کا دو یا تین برس سے کم میں معائنہ نہیں کر سکتا ہے جس میں تخمیناً پچیس ہزار روپیہ سے لے کر پچاس ہزار روپیہ تک فی ضلع خرچ ہو گا۔ ۷۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ آنریبل مسٹر کننگ ھیم نے بیان کیا ہے کہ گورنمنٹ کو ان قطعات میں کنوئوں کے بنانے میں کامیابی کی کوئی عمدہ توقع نہیں ہو سکتی ہے جہاں کہ کاشت کاروں کو کنوئوں کا بنانا ناممکن یا غیر منفعت بخش معلوم ہوا ہے، بلکہ کنوئوں کی تعمیر کو صرف ان مقامات پر محدود رکھنا چاہیے جہاں اس تجویز کی کامیابی کی معقول توقع ہو۔ اس قسم کے مقامات اب بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں اور کنوئوں کی تعداد کے زیادہ ہونے سے ان کو نہایت فائدہ پہنچے گا۔ جن دیہات میں کوئی مزروعہ یا قابل زراعت رقبہ موجود ہو ان میں قحط کے دفعیہ کی تدابیر کے عمل میں لانے کی بخوبی گنجائش ہے بہ شرطیکہ وہ رقبہ اس قسم کا نہ ہو جس کے باعث سے کنوئوں کا بنانا ناممکن یا غیر منفعت بخش نہ ہو۔ اس قسم کے دیہات اضلاع شمال و مغرب میں بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ ۸۔ زمین کی قابلیت کے معاملہ میں جس کا ذکر آنریبل مسٹر کننگ ھیم نے اپنی یادداشت میں کیا ہے اور ان تحقیقاتوں میں جن کا ذکر صاحب سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب کی چٹھی میں ہے کوئی سخت دشواری پیش نہیں آتی ہے۔ مجوزہ تجویز کا مقصد ان دیہات میں کنوئوں کی تعداد کا بڑھانا ہے جہاں قحط کی مصیبتوں کے رفع کرنے کے واسطے ان کی کافی تعداد نہ ہو۔ ہم کو ان قطعات میں شاذ و نادر ہی کنوئیں بنانے پڑیں گے جہاں زمین دار یا کنوئیں کھودنے والے جن کا یہ پیشہ موروثی ہو زمین کی خاصیت سے بہ خوبی واقف نہ ہوں یا جن کے قرب و جوار میں اس قسم کے کنوئیں موجود نہ ہوں جن سے اس مقام کی زمین کے حالات معلوم ہوتے ہوں۔ یہ ایک امر واقعی ہے اور ہر ایک پرگنہ میں تحقیقات کرنے سے وہ پایہ ثبوت کو پہنچ سکتا ہے کہ تمام دیہات میں زمین دار اور کنوئیں کھودنے والے اور کنوئیں چلانے والے بسبب اس تجربہ کے جو انھوں نے اور ان کے بزرگوں نے حاصل کیا تھا زمین کے مختلف طبقوں اور اس مقام میں پانی کی گہرائی سے عمدہ واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ ان مختلف طبقات زمین کو بہ خوبی بتا سکتے ہیں جو اس مقام میں پانی سے اوپر ہوں اور اس ترتیب کو جس میں وہ واقع ہوتے ہیں اور نیز ہر ایک طبق کی موٹائی کو بتا سکتے ہیں۔ گو وہ ان چیزوں سے کوئی باقاعدہ واقفیت نہیں رکھتے ہیں لیکن ان کی واقفیت تجربہ سے پیدا ہوتی ہے جو ہر ایک قسم کے علم کی خاص بنیاد ہے۔ قرب و جوار کے کنوئوں سے اس بات کا سچا ثبوت حاصل ہوتا ہے کہ پانی سطح زمین سے کس قدر قریب ہے اور کس قدر افراط سے پانی نکلے گا اور زمین کس قدر پیاسی ہے اور کس قسم کے کنوئیں سے کس قدر رقبۂ زمین میں آب پاشی ہو سکتی ہے اور ہم کسی خاص مقام میں ایک کنوئیں کی لاگت کا تخمینہ بدرجہ اوسط صحت کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو کنوئیں کی تعمیر شروع کرنے سے پہلے معلوم ہونی چاہئیں۔ اور وہ ہندوستانی عہدہ داروں کی معرفت لوکل افسروں کی نگرانی میں بآسانی تحقیق ہو سکتی ہیں۔ ۹۔ ان سوالات میں کوئی سخت دشواری نظر نہیں آتی ہے اور وہ بآسانی حل ہو سکتے ہیں لیکن اس سوال کے حل ہونے میں کہ آیا زمین دار اور کاشت کار اس طریقہ میں کنوئوں کے بنانے پر راضی ہو جاویں گے جو دفعہ ۳ کی ضمن (الف)، (ب) اور (ج) میں مذکور ہے کسی قدر دشواری نظر آتی ہے۔ چند کنوئیں اس طریقہ میں بنائے جا سکیں گے۔ جو قابل تعریف کوشش پرگنہ گھاٹم پور ضلع کانپور میں اس تجربہ کے آزمانے کے واسطے کی گئی ہے اس پر میں نے بہ خوبی غور کیا ہے لیکن میں نہیں خیال کرتا ہوں کہ اس تدبیر میں کبھی کوئی بڑی کام یابی حاصل ہو گی اگر کسی عہدہ دار کے رعب و داب یا ترغیب سے اس قسم کے کنوئیں تعمیر ہو جاویں تو اس سے یہ اصلی مقصد کہ وہ قحط کے دفعیہ کا ایک ذریعہ ثابت ہوں حاصل نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ خود زمین دار اور کاشت کار زیادہ تر زبردست اغراض اور لالچوں سے ان کی تعمیر کی جانب مائل نہ ہوں۔ ۱۰۔ میں نے اس معاملہ کی نسبت چند معزز اور دولت مند زمین داروں کے ساتھ گفتگو کی ہے اور ان سے دریافت کیا ہے کہ وہ کس سبب سے اپنے دیہات میں اپنے خاص سرمایہ یا زر تقاوی کے ذریعہ سے جو گورنمنٹ سے دیا جاوے کنوئیں نہیں بناتے ہیں اور اس کی مندرجہ ذیل وجوہات مجھے معلوم ہوئی ہیں: (الف) وہ اپنے روپیہ کو ان تجارتوں میں جو کنوئوں کے بنانے کی بہ نسبت زیادہ تر منفعت بخش ہیں صرف کر سکتے ہیں۔ (ب) ان کو اس بات کا مضبوط یقین ہے کہ اگر وہ کنوئیں بنا دیں گے تو جس وقت بندوبست کی معیاد ختم ہو گی تو گورنمنٹ کی مال گزاری بھی زمین ک قوت پیداوار کی مناسبت سے بڑھ جاوے گی اور جو منافع اب تک ان کو حاصل ہوتا تھا اس میں بڑی کمی ہو جاوے گی۔ جو کوشش گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب نے اپنے سرکار مورخہ ۱۴ نومبر ۱۸۷۷ء میں زمین دار کے دلوں سے اس اندیشہ کے کسی قدر رفع کرنے کے واسطے کی ہے اس سے ان کی دل جمعی نہیں ہوئی ہے اور وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے ہیں کہ انکے اندیشے کس وجہ سے بے بنیاد ہیں۔ ان کی دل جمعی اس دلیل سے نہیں ہوتی ہے کہ جس وقت بندوبست ختم ہو گا اس وقت تک ان کو کافی منافع حاصل ہو جاوے گا۔ جو نفع ان کو وقتاً فوقتاً حاصل ہوتا ہے وہ جمع نہیں کیا جاتا ہے یا جو رقم انھوں نے خرچ کی ہو اس کا بدلہ نہیں سمجھا جاتا ہے اور جو نقصان ان کو سرکاری مال گزاری کے اضافے سے ہو گا اس کو اس رقم پر جو انھوں نے خرچ کی ہو بطور نقصان کے تصور کریں گے۔ ۱۱۔ ایک معزز زمین دار نے مجھ سے بیان کیاہے کہ اگر مندرجہ ذیل تدابیر عمل میں لائی جاویں تو ان کا یہ اثر ہو گا کہ زمین داروں کو اپنے دیہات میں کنوئوں کے بنانے کی ترغیب ہو گی۔ (الف) ان دیہات میں جن میں تمام رقبہ کی نسبت یہ فرض کیا گیا ہو کہ اس میں کاشت ہو گئی ہے اور جن کی مال گزاری کی مقدار اپنی مناسب حد پر پہنچ گئی ہو اور جو ریلوے کی ایک لائن کے قرب و جوار میںواقع ہوں جہاں نہروں کے جاری ہونے کا کبھی کوئی گمان نہ ہو اور جن میں ترقی کے اور ذریعے پورے پورے طور پر کام میں آ چکے ہوں زمین دار کے ساتھ اس شرط پر استمراری بندوبست کیا جاوے کہ وہ چند کنوئیں بنوا دیں یعنی یہ کہ بدوبست مروجہ اس شرط پر استمراری کر دیا جاوے کہ زمین دار ایک عرصہ معین کے اندر اپنے گائوں میں چند کنوئوں کے بنانے کا وعدہ کرے۔ (ب) جن دیہات میں معیاد بندوبست کے خاتمہ پر اضافہ یا مال گزاری کی توقع ہو وہاں اس قسم کے اضافے کے واسطے ایک حد مقرر کر دی جاوے اور اگر زمین داروں کے ساتھ اس مضمون کا معاہدہ کر لیا جاوے کہ وہ ایک معیاد معین کے اندر چند کنوئیں بنا دیں گے تو جب تک بندوبست حال قائم رہے گا اس وقت تک گورنمنٹ ان سے زیادہ مطالبہ نہیں کرے گی اور اس معیاد کے ختم ہو جانے پر ان کے ساتھ استمراری بندوبست ایک ایسی رقم پر کیا جاوے گا جس کی حد اس طرح پر مقرر کی گئی۔ (ج) اگر ان میں سے کوئی تدبیر گورنمنٹ کو پسند نہ ہو تو سب سے آخیر تدبیر یہ ہونی چاہیے کہ جو زمین دار کسی گائوں میں کنواں بنانا چاہے اس پر یہ بات لازمی قرار دی جاوے کہ وہ کلکٹر ضلع کو اپنے ارادہ سے مطلع کرے جو اس رقبہ کی حدود کو قرار دے گا جس میں اس قسم کے کنوئیں سے آب پاشی ہو سکے گی اور بٹوارہ کے قواعد کے بموجب اس رقبہ کو باقی ماندہ اراضیات سے علیحد ہ کر دے گا اور اس کے واسطے ایک علیحدہ مقدار مال گزاری کی (یعنی وہی مقدار جو اب اس کی بابت آب پاشی نہ ہونے کی حالت میں لی جاتی ہے ہمیشہ کے واسطے قرار دے گا اور وہ رقبہ ایک جداگانہ استمراری پٹہ کے نام سے موسوم ہو گا)۔ ۱۲۔ جن تدابیر کے عمل میں لانے کی اس لائق زمین دار نے رائے دی ہے وہ انتظام ملک کے نہایت اہم معاملات سے متعلق ہے جن کا حل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن ان سے ہم صاف صاف یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ پرائیویٹ سرمایہ کے ذریعہ سے یا اس سرکاری روپیہ سے جو زمین داروں کو اس مقصد کے واسطے پیشگی دیا جاوے کنوئوں کے بنانے کے انتظام میں کام یابی کی توقع کرنا گویا ان باتوں کی توقع کرنا ہے جو ناممکن الوقوع ہیں۔ اس اگر اس بات کی ضرورت ہو (اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کی ضرورت ہے) کہ کنوئوں کی تعمیر کا انتظام احتیاطاً اس خیال سے کہ اس کے ذریعہ سے قحط کا دفعیہ ہو جائے گا جاری کیا جاوے تو سوائے اس کے اور کوئی چارہ باقی نہیں رہتا ہے کہ گورنمنٹ ان کنوئوں کو خاص اپنی طرف سے تعمیر کرائے یا کسی ذی اختیار جماعت کو جو اس کام کو اپنے ذمہ لینا چاہتی ہو اس کے پورا کرنے کی اجازت دے۔ ۱۳۔ ملک کے قوانین مروجہ میں اس بات کی بھی اجازت نہیں ہے کہ گورنمنٹ یا کوئی مجاز جماعت بطور تجربہ کے اس کام کو شروع کر سکے۔ اس بات کا خیال کرنا کہ گورنمنٹ ان دیہات میں جو خاص اس کے زیر اہتمام ہیں اس تجربہ کی آزمائش کر سکے گی میرے نزدیک ایک ناواجب توقع معلوم ہوتی ہے۔ اگر یہ توقع پوری بھی ہو جاوے تو بھی اس سے وہ نتیجہ حاصل نہ ہوگا جس کو ہم مناسب طور سے ایک کامل اور موثر تجربہ کا نتیجہ کہہ سکیں۔ پس ان وجوہات سے میری رائے میں ایک ایسے قانون کا بنانا ضروری ہے جس میں کامل طور کے تجربہ کرنے کے باب میں سہولت دی جاوے۔ ۱۴۔ اس قسم کے قانون کے منظور ہونے سے خواہ مخواہ یہ بات لازم نہ آوے گی کہ گورنمنٹ یا کوئی ذی اختیار جماعت تمام ملک میں فوراً اس کام کو شروع کردے۔ بخلاف اس کے گورنمنٹ ملک کے کسی قطعات میں اور اس حد تک جہاں تک کہ وہ مناسب سمجھے اس قانون کے نافذ کرنے کی مجاز ہو گی۔ پس اس قسم کے قانون نافذہونے سے جس کا جاری کرنا بالکل گورنمنٹ کے اختیار میں ہو گا کوئی وجہ اندیشہ کی پیدا نہیں ہو سکتی ہے۔ ۱۵۔ جو مسودہ قانون محکمہ بورڈ آف ریونیو اضلاع شمال و مغرب نے اس معاملہ کی نسبت ماہ دسمبر ۱۸۸۷ء میں مرتب کیا تھا اگرچہ اس میں بہت کچھ ترمیم کی ضرورت ہے تاہم وہ خاص توجہ کے لائق ہے اور وہ اس لائق نہیں ہے کہ اس کو ایک ڈیڈ لیٹر سمجھ کر پھینک دیا جاوے۔ ۱۶۔ تیسرے امر کی نسبت جس کا دفعہ ۲ میں مذکور ہے میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو معاملات ان اراضیات کے قابضوں سے متعلق ہیں جو کنوئوں کے ذریعہ سے آب پاشی کے لائق ہیں ان کے فیصلہ میں کوئی بڑی دشواری پیش نہیں آتی ہے میں نہیں خیال کرتا ہوں (جیسا کہ آنریبل مسٹر کننگ ھیم کی یادداشت سے اور نیز محکمہ بورڈ آ ف ریونیو اضلاع شمال و مغرب کے مسودہ قانون سے واضح ہوتا ہے) کہ اس اراضی کے قابضوں کو جس کی آب پاشی سرکاری کنوئوں سے ہو سکے پانی کا محصول ادا کرنا پڑے گا۔ یہ امر پسندیدہ ہے کہ وہ اراضی کے زمین دار کو اس بنا پر کہ وہ قابل آب پاشی ہے آب پاشی کا لگان ادا کریں خواہ وہ پانی سے کام لیں یا نہ لیں۔ ۱۷۔ آنریبل مسٹر کننگ ھیم اپنی یادداشت میں یہ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’جس صورت میں کنوئوں کی تعمیر کا لازمی طریقہ اختیار کیا جاوے تو گورنمنٹ واجبی طور پر زمین دار سے یہ بات نہیں کہہ سکتی ہے کہ جو اراضیات کنوئیں کے گرد واقع ہوں ان کے کاشت کاروں سے اپنے خرچ کے پورا کرنے کے واسطے تم کو اپنا خاص بندوبست کرنا چاہیے بلکہ گورنمنٹ کو ان اراضیات سے ایک لازمی شرح لگان کے دلانے کے واسطے بندوبست کرنا چاہیے۔ لیکن سنا جاتا ہے کہ گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب نے قطعی طور پر یہ رائے ظاہر کی ہے کہ نہر کے معاملہ میں لازمی شرح لگان کی نہیں قرار دینی چاہیے اور میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ ان دونوں معاملات کی نسبت کیوں کر مختلف طور پر بحث کی جا سکتی ہے یا کنوئوں کے معاملہ میں اس قسم کی لازمی شرح قرار دینے کے واسطے جو نہروں کے معاملہ سے بھی برابر اسی طرح پر متعلق نہ ہوں کون سے دلائل استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ۱۸۔ محکمہ بورڈ آف ریونیو اضلاع شمال و مغرب نے اپنے مسودہ قانون کی دفعہ ۱۰ میں یہ بیان کیا ہے کہ ’’تمام اراضیات پر جو قابل آب پاشی ہوں لوکل گورنمنٹ کے عام یا خاص حکم کے بموجب ایک محصول آب پاشی لگایا جا سکتا ہے جس کی مقدار لوکل گورنمنٹ تجویز کرے گی اور یہ محصول وقتاً فوقتاً لوکل گورنمنٹ کے حکم سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ ۱۹۔ میری دانست میں ان اراضیات پر جو کنوئیں کے ذریعے سے قابل آب پاشی کے ہوں محصول آب پاشی نہیں لگانا چاہیے اور کاشت کاروں سے اس کو وصول نہیں کرنا چاہیے۔ کنوئیں کی تعمیر ہونے سے زمین کی خاصیت بغیر اس کے کہ کاشت کاروں کو ذرا بھی خرچ کرنا پڑے بالکل بدل جاوے گی یا یوں کہو کہ جو رقبہ اول ناقابل آب پاشی تھا وہ اس طرح پر قابل آب پاشی ہو جاوے گا اور اسی وجہ سے زمین کا لگان اس حد تک بڑھ جاوے گا جو اراضی قابل آب پاشی سے اس حالت میں قابل وصول ہو کہ کنوئیں کا بنانے والا خود کاشت کار نہ ہو۔ جو تفاوت لگان کی ان دو شرح کے درمیان ہو گا وہ بعد مجرا کرنے معمولی شرح کے بطور حق التحصیل اس نمبردار کو جو کاشت کاروں سے محصول وصول کرے سرکاری مال گزاری میں زیادہ کر دیا جاوے گا۔ یہ بیشی جو اصلی سرکاری مطالبہ مال گزاری میں ہو گی اس فریق کو واجب الادا ہو گی جس کے خرچ سے کنواں بنایا گیا ہے خواہ وہ زمیندار ہو یا کوئی ذی اختیار کمپنی یا گورنمنٹ۔ اس صورت میں ان معاملات کے تصفیہ میں جو ان اراضیات کے کاشت کاروں سے متعلق ہوں جو کنوئیں کے ذریعہ سے قابل آب پاشی ہوں کوئی دشواری نظر نہیں آتی ہے۔ ۲۰۔ زمین کی حیثیت کو ترقی دینے کا دوسرا طریقہ جو آب پاشی کے معاملہ میں سہولتوں کے مہیا کرنے کا ہے اس کا ذکر کسی کاغذات میں جو زمین کی ترقی یا قحط کے دفعیہ کی تدابیر کی نسبت لکھے گئے ہیں جہان تک کہ میں نے ان کو دیکھا ہے نہیں کیا گیا ہے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ ان تدبیروں کے استعمال میں لانے سے جن سے آب پاشی کی سہولت متصور ہے زمین کی حیثیت کو ترقی دینے اور قحط کی سختیوں کے کم کرنے میں بہت کچھ مدد مل سکتی ہیں۔ ۲۱۔ یہ بات تسلیم کی جاوے گی کہ جو طریقہ کنوئوں سے پانی کھینچنے کا بالفعل جاری ہے اس کی بہ نسبت ایک زیادہ تر آسان اور کم خرچ طریقہ کا ایجاد کرنا قریب ناممکن کے ہے لیکن دریائوں اور نہروں کے کناروں پر ایسے وسیع قطعات اراضی کے موجود ہیں جو پانی کی سطح سے صرف چند فٹ اونچے ہیں اور بعض ایسے ہیں جن کے قریب سے نہریں گزرتی ہیں۔ لیکن ان کے ذریعہ سے ان کے زیادہ تر بلند حصوں میں آب پاشی نہیں ہو سکتی ہے۔ ایسی خفیف اونچائی تک کسی کل کے ذریعہ سے پانی کی کافی مقدار کے پہنچانے میں کوئی بڑی دشواری نہیں معلوم ہوتی ہے۔ ایسے پمپ موجود ہیں جو ایسی خفیف اونچائی تک اسٹیم یعنی بھاپ کے ذریعہ سے کثرت سے پانی پہنچا سکتے ہیں۔ میری رائے میں اس قسم کی کل کے استعمال کی لاگت بمقابلہ اس فائدہ کے جو حاصل ہو گا اور اس آمدنی کے جو اس سے پیدا ہو گی نہایت قلیل ہو گی۔ علاوہ اس کے میں خیال کرتا ہوں کہ ان دریائوں اور نہروں اور چشموں کے کناروں پر جن کا پانی کافی تیز روی کے ساتھ بہتا ہے اس قسم کی کلیں لگائی جا سکتی ہیں جو بغیر زیادہ خرچ کے پانی کی دھار کے زور سے چل سکتی ہیں۔ میرے نزدیک یہ تجوز بھی مناسب غور کے لائق معلوم ہوتی ہے اور اس کا اختیار کرنا یا نہ اختیار کرنا ایک کامل تحقیقات کے نتیجہ پر منحصر ہونا چاہیے۔ ۲۲۔ زمین دار لوگ اس تجربہ کو نہیں کر سکتے ہیں لیکن گورنمنٹ یا کوئی ایسوسی ایشن جو اس کام کے کرنے پر مائل ہو اس کو کر سکتی ہے لیکن خاص مشکل اس بات میں یہ ہے کہ اگر بالفرض کوئی شخص ایک کمپنی قائم کرنا چاہے (جیسی کہ کچھ عرصہ ہوا ضلع علی گڑھ میں کوشش کی گئی تھی) تو اس قسم کا کوئی قانون موجود نہیں ہے جس میں اس کو اس طرح پر کارروائی کرنے کی اجازت ہو۔ اس قسم کے تجربہ کے واسطے یہ بات لازم ہو گی کہ ایک مناسب قطع زمین کا آب پاشی کے واسطے منتخب کیا جاوے اور کسی قدر رقبہ میں واسطے لگانے کل کے ہمیشہ کے لئے یا عارضی طور پر قبضہ کر لیا جاوے اور کمپنی کو اراضیات ملحقہ کو پانی دینے اور محصول آب پاشی کے وصول کرنے کی اجازت دے دی جاوے۔ ۲۳۔ اس امر میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ اس کام کی کام یابی یا ناکام یابی تجربہ کے نتیجہ پر منحصر ہو گی لیکن جس حالت میں کہ کوئی قانون ایسا موجود نہ ہو جس میں اس قسم کی کارروائی کی اجازت ہو تو کسی تجربہ کی آزمائش نہیں کی جا سکتی ہے۔ ۲۴۔ زمین کی حیثیت کو ترقی دینے کا تیسرا طریقہ بہ ذریعہ قائم رکھنے یا ترقی دینے اس کی قوت پیداوار کے منجملہ ان معاملات کے ہے جو خاص توجہ کے لائق ہیں اور وہ بیشتر کاشت کاروں کی حالت پر موثر ہوا ہے۔ در حقیقت یہ ایک امر واقعی ہے کہ زمین کی قوت پیداوار میں پچھلے چند دنوں سے ہندوستان کے بعض حصوں میں بہ ظاہر تنزل ہو گیا ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ زمین کی قوت پیداوار کو نہایت عمدہ طور پر کام میں لانے کے واسطے جو کوششیں کی جاتی تھیں ان میں سستی ہو گئی ہے جو مندرجہ ذیل سببوں سے منسوب کی جا سکتی ہے: (الف) زمین میں کافی مقدار کھاد کی نہیں ڈالی جاتی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ مزروعہ رقبہ کی مقدار کو بہت کچھ وسعت ہو گئی ہے اور بہ نسبت سابق کے کھاد کی زیادہ قلت ہو گئی ہے ۔ کھاد کی اس قلت کی وجہ یہ ہے کہ جنگلوں کے کٹ جانے کی وجہ سے اس لکڑی کا نرخ جو بطور ایندھن کے کام آتی ہے نہایت گراں ہو گیا ہے اور مزروعہ قطعات میں بڑی بیشی ہو گئی ہے۔ گوبر جو سابق میں بہ نسبت ایندھن کے زیادہ تر بطور کھاد کے کام میں آتا تھا اب کثرت سے بطور ایندھن کے کام میں آتا ہے اور اسی وجہ سے غریب کاشت کار گوبر کو بطور ایندھن کے فروخت کرنے پر بہ نسبت اس کے کہ وہ اس کو کھاد کے مقاصد کے واسطے رکھ چھوڑیں زیادہ تر مائل ہوتے ہیں۔ (ب) زمین اتنی دفعہ نہیں جوتی جاتی ہے جو اس کے واسطے کافی ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فصل کے ساتھ گھاس کثرت سے پیدا ہو جاتی ہے جس سے فصل کو نقصان پہنچتا ہے اور درخت چھوٹے رہ جاتے ہیں اور بالیں پتلی پڑ جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ گھاس وقتاً فوقتاً کاٹی جاتی ہے تاہم اس کی جڑیں زمین کے اندر رہ جاتی ہیں اور ان سے نئے کلے پھوٹ آتے ہیں۔ (ج) جہاں کہیں کنوئیں ہوتے ہیں وہاں فصل کی آب پاشی کافی طور پر نہیں کی جاتی ہے اور اناج عموماً پتلا پڑ جاتا ہے۔ ۲۵۔ یہ آخر الذکر نقصانات عموماً بیلوں کی قلت سے منسوب کیے جا سکتے ہیں۔ جو بیل کاشت کاروں کے پاس ہوتے ہیں ان میں جسمانی قوت بہت کم ہوتی ہے جو کہ کاشت کاری کے واسطے نہایت ضروری ہوتی ہے ۔ بہ نسبت سابق کے مویشی کی تعداد اب بہت کم ہو گئی ہے اور اسی وجہ سے ان کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ مزروعہ رقبہ میں بڑی بیشی کے ہونے کی وجہ سے جس قدر تعداد چراگاہوں کی کم ہو گئی ہے اسی قدر مویشی کی نسل کو ترقی دینے اور ان کی پرداخت کا خرچ بھی بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ یہ تمام واقعات ان شخصوں کی مناسب توجہ کے لائق ہیں جو قحط کی مصیبتوں کے دفعیہ کے واسطے تدابیر کے سوچنے میں مصروف ہیں۔ اب ان تدابیر کے عمل میں لانے کے واسطے زمانہ نہایت مناسب ہے جن کے ذریعہ سے مصنوعی کھاد کو رواج ہو اور مویشی کی نسل کے بڑھانے میں سہولت ہو۔ اس قسم کی تدابیر کا عمل میں لانا کچھ گورنمنٹ کے اختیار میں نہیں ہے بلکہ خاص لوگوں کے اختیار میں ہے جن کو اس مقصد کے واسطے کمیٹیاں مقرر کرنا اور گورنمنٹ کو حتی الامکان ان کی کوششوں میں مدد دینا اور ان کے ارادوں کو سہولیت دینا چاہیے۔ حصہ دوم ۲۶۔ قرض داری اور سود کی بڑی شرح کی وجہ سے کاشت کار کی حالت تباہ اور قابل افسوس ہو گئی ہے۔ جو رعایت وقت بندوبست کے اس کے ساتھ کی گئی تھی اور جو عرق ریزی اور جاں فشانی اس کو کرنی پڑتی ہے اس سب کا ثمرہ بغیر کسی خطرہ کے مہاجن کو حاصل ہوتا ہے اور پھر بھی وہ اپے تئیں قرض داری سے سبک دوش نہیں کر سکتا ہے۔ ۲۷۔ لیکن یہ حالت مہاجنوں کی کسی بددیانتی یا فریب سے منسوب نہیں کی جا سکتی ہے بلکہ مختلف اسباب ایسے جمع ہو گئے ہیں جن سے سود کی شرح اس قدر زیادہ ہو گئی ہے۔ روپیہ کی بڑی خواہش ہونے اور تمام کاشت کاروں کو ایک ہی وقت پر روپیہ قرض لینے کی ضرورت واقع ہونے اور قرضہ کے واسطے ناقص کفالت کے ہونے سے سود کی شرح اس قدر زیادہ ہو گئی ہے۔ زمانہ سابق میں قرض خواہ اپنے قرض دار کے دروازہ پر دھرنا دے کر بیٹھنے اور اس کی جائداد منقولہ اور اس کے کھیتوں اور کھڑی فصل پر قبضہ کر لینے کا مجاز ہوتا تھا۔ یہ تمام کارروائی ایک قانونی طریقہ میں سرپنچوں اور نمبرداروں بلکہ عاملوں (کلکٹروں) کی منظوری سے بھی عمل میں آتی تھی اور عدالت میں چارہ جوئی کرنے کا ضابطہ بھی پورا نہیں کیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں اس قسم کے افعال بمنزلہ ایسے جرائم کے تصور کیے جاتے ہیں جن کی سزا ایک شائستہ اور عادل گورنمنٹ کو دینی واجب ہے اور قرض خواہ اپنا قرضہ بجز اس کے کہ عدالت دیوانی میں نالش کرے اور کسی طریقہ میں وصول نہیں کر سکتا ہے۔ اس بات کے کہنے سے میری یہ مراد ہے کہ ناجائز، زبردستی اور سختی جو قرضہ کے وصول کرنے کا ایک زیادہ تر آسان طریقہ تھی اب نہیں کی جا سکتی ہے۔ دھرنا سے مراد صرف قرض دار کے دروازے پر بیٹھنے سے ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ تمام ضروریات زندگی مکان کے اندر نہیں آنے پاتی تھیں اور عورتیں حوائج ضروری کے واسطے مکان سے باہر نہیں جانے پاتی تھیں۔ قرضہ کی کفالت بہ نسب سابق کے ظاہراً بہت کم ہو گئی ہے اور جو دقت و پریشانی اس کام میں اٹھانی پڑتی ہے وہ ایک بڑا سبب سود کی شرح کی زیادتی کا ہے۔ ۲۸۔ گو اس کا کچھ ہی سبب کیوں نہ ہو لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ کاشت کار اپنی قرض داری کی وجہ سے بہت برباد ہو گئے ہیں۔ جو لین دین اب کاشت کار اور مہاجن کے درمیان ہوتا ہے وہ مندرجہ ذیل صورتوں میں سے ایک نہ ایک صورت میں ہوتا ہے: (الف) ایک فصل سے دوسری فصل تک کاشت کار کے کھانے پینے کے لیے اناج کا دینا۔ (ب) ایک مدت کے واسطے مابین تخم ریزی اور ورود ہونے فصل کا بیچ دینا۔ (ج) کاشت کاروں کو مویشی کا ادھار فروخت کرنا۔ (د) مویشی کی خرید اور لگان کے ادا کرنے یا کسی اور خانگی کام کے واسطے روپیہ کا قرض دینا۔ ۲۹۔ جس مدت کے واسطے اناج ادھار لیا جاتا ہے وہ چھ مہینے سے ہر گز زیادہ نہیں ہوتی ہے۔ اس قسم کے ادھار پر مدت مذکور کی بابت پچیس روپے فی صدی سالانہ کے حساب سے سود لیا جاتا ہے۔1 یعنی اگر ایک من غلہ قرض لیا جاوے تو اس کے عوض میں دوسری فصل پر ایک من دس سیر غلہ اسی قسم کا ادا کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ شرح بظاہر پچیس روپیہ فی صدی ہے لیکن جب کہ اس اختلاف پر لحاظ کیا جاتا ہے جو غلہ کے نرخ میں ان دو زمانوں پر ہوتا ہے تو وہ قریب بیس روپیہ فی صدی کے رہ جاتی ہے۔ اگر قرضہ مناسب وقت پر ادا نہ کیا جاوے تو سود اصل میں اضافہ کیا جاتا ہے اور تمام مقدار بمنزلہ اصل کے متصور ہو کر سود کی اسی شرح پر فصل آئندہ میں واجب الادا ہوتی ہے اور ہر مرتبہ جب کہ اس کے ادا کرنے میں خطا ہو، اسی طرح پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ ۳۰۔ اگر چہ اس قسم کے معاہدے کی شرائط نہایت سخت اور کسی قدر نامعقول ہوتی ہیں تاہم ان کو فریب آمیز یا خلاف دیانت داری نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ان معاملات میں مہاجن کی طرف سے ناواجب بات صرف یہ ہے کہ جو غلہ وہ کاشت کار کو اس کے کھانے پینے کے واسطے ادھار دیتا ہے وہ علی العموم نہایت خراب قسم کا ہوتا ہے اور جو غلہ بیج کے واسطے دیا جاتا ہے اگرچہ وہ پہلے غلہ کی بہ نسبت کسی قدر زیادہ عمدہ ہوتا ہے تاہم وہ بھی اس مقصد کے واسطے بخوبی لائق نہیں ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اس کے کھیت کی پیداوار اور خراب قسم کی ہوتی ہے۔ ۳۱۔ جو مویشی کاشت کار لوگ مہاجن کو ان کے قرضہ کی بابت حوالہ کرتے ہیں وہ علی العموم اور کاشت کاروں کو ادھار فروخت کی جاتی ہیں جن کو اس معاملے سے بڑا نقصان ہوتا ہے کیوں کہ ان کو ایسے نکمے جانوروں کے واسطے جن کی محنت سے وہ ایک فصل تک بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ چٹھی قائم مقام سیکرٹری بورڈ آ ج ریونیو بنام قائم مقام سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب مؤرخہ ۲۲ جولائی ۱۸۷۶ئ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۳۲۔ نقد روپیہ جو مویشی کے خرید کرنے یا اور خانگی کاروبار کے واسطے قرض دیا جاتا ہے عموماً سود کی ایسی شرح پر دیا جاتا ہے جو تین روپیہ سے لے کر تین روپیہ دو آنہ فی صدی ماھوار تک ہوتی ہے اور جو روپیہ لگان کے ادا کرنے کے واسطے دیا جاتا ہے وہ اکثر اوقات سوا چھ روپے فی صدی ماہواری سود پر قرض دیا جاتا ہے، لیکن یہ پچھلا قرضہ ایک مہینے سے زیادہ عرصہ کے واسطے قائم رہتا ہے کیوں کہ وہ بہت جلد بذریعہ غلہ کے ادا کر دیا جاتا ہے۔ ۳۳۔ کاشت کار کو مویشی اور زر نقد کے ادھار لینے سے ایک اور طریقہ میں بھی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یعنی اس کے پاس فصل کے وقت کچھ روپیہ نہیں ہوتا ہے اور مہاجن کو کاشت کار سے غلہ یا مویشی اس کی اصلی قیمت کی بہ نسبت نہایت کم قیمت پر لے کر اپنا قرضہ وصول کرنا پڑتا ہے۔ اکثر اوقات ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ جن وقت غلہ کٹتا ہے اور کھلیان میں جمع ہو جاتا ہے تو مہاجن ایک کاشت کار کی زمین کی تمام پیداوار کو اٹھا کر لے جاتا ہے اور کاشت کار اور اس کے کنبے کے واسطے کچھ نہیں چھوڑتا ہے۔ جب کہ کاشت کار اس طرح پر اپنی محنت کے ثمرہ سے محروم ہو جاتا ہے تو وہ مجبور ہو کر پھر مہاجن کے پاس اور روپیہ قرض لینے کے واسطے جاتا ہے۔ کاشت کار علی العموم اپنے قرض خواہ کے ساتھ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ہے اور جو رقم سود مرکب کے قاعدہ سے واجب نکلتی ہے، جس سے کاشت کار برابر پستا ہوا چلا جاتا ہے، اس کا ادا کرنا اپنے ذمے لازم سمجھتا ہے۔ اس کو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنے اقرار کے پورا کرنے میں خطا کرے گا تو یہ مہاجن کی ناراضی کا باعث ہو گا اور اس کے ساتھ اس کا لین دین بند ہو جاوے گا اور ہمیشہ کے واسطے اس کی ساکھ جاتی رہے گی۔ وہ اپنے قرض خواہوں کو زیادہ ستانے کی نسبت صرف اس حالت میں اعتراض کرنے کی جرأت کرتا ہے جب کہ کوئی دوسرا مہاجن اس کو روپیہ دینے پر آمادہ ہوتا ہے۔ ۳۴۔ جن دیہات میں دولت مند زمین دار اور کاشت کار باہم اتفاق اور رضا مندی کے ساتھ رہتے ہیں وہاں کاشت کاروں کو زمین دار سے بلا شبہ بہت مدد ملتی ہے۔ ایک ہندو زمین دار گو کاشت کاروں کے ساتھ اپنے معاملات میں نہایت نرم نہیں ہوتا ہے تاہم وہ اس سود کے معاملہ میں جو وہ اپنے قرضہ پر لیتا ہے مہاجن کی بہ نسبت بہت زیادہ نرم اور اپنے قرضہ کے وصول میں کم سخت ہوتا ہے۔ دولت مند مسلمان زمین دار دو فرقوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ یعنی ایک تو وہ جو روپیہ پر علانیہ سود لیتے ہیں اور دوسرے وہ جو درپردہ ایسا کرتے ہیں۔ دونوں سود کی شرح کے لحاظ سے نہایت نرم ہوتے ہیں۔ وہ عموماً اس روپیہ کی عوض میں جو وہ قرض دیتے ہیں فصل کے وقت ایک شرح معین پر غلہ کا لینا قبول کر لیتے ہیں جو بازار کی معمولی شرح کی بہ نسبت صرف کسی قدر زیادہ ارزاں ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے وہ حساب کے تصفیہ کے وقت سود کی مقدار کے معاف کرنے میں زیادہ حجت نہیں کرتے ہیں۔ ۳۵۔ درحقیقت یہ امر صحیح ہے کہ اضلاع شمال و مغرب کے اکثر زمین داروں نے پچھلے قحط میں اپنے کاشت کاروں کو کارآمد مدد دی تھی۔ میں صرف اس بات کی مثالیں بیان کر سکتا ہوں کہ انھوں نے صرف اس لگان کو وصول کرنا ہی ملتوی نہیں کر دیا جو کاشت کاروں سے واجب تھا بلکہ انھوں نے ان کے واسطے غلہ اور مویشی کے مہیا کرنے کے واسطے اپنے زیورات کو بھی فروخت کر دیا۔ اسی کے ساتھ افسوس سے اس بات کا اقرار کیا جاتا ہے کہ زمین داروں نے ان کاشت کاروں کی نسبت جن کو حق مقابضت حاصل تھا ہمیشہ بڑی سرد مہری ظاہر کی اور کاشت کاروں کے اسی فرقہ نے اس عام مصیبت میں سب سے زیادہ تکلیف اٹھائی۔ ۳۶۔ عدالت ہائے موجودہ عدل و انصاف کے نہایت عالی اصولوں پر قائم کی گئی ہیں اور اس وجہ سے ان پر ان تمام اقرار ناموں اور معاہدوں کا لحاظ کرنا فرض ہے جو لوگوں کے درمیان ان کی باہمی رضا و رغبت سے ہوئے ہوں ان پر اس رقم کو قانوناً منظور کرنا جو کسی شخص کو واجب ہو اور اس کو اس طرح پر تسلیم کرنا فرض ہے۔ ان کے فرض کا یہ کوئی جز نہیں ہے کہ جو اختیار ان کو دیا گیا ہے اسی کو کام میں لاکر یا شاید بے جا طور پر کام میں لا کر کسی جائز قرضہ کو صرف اس وجہ سے کہ قرض دار ایک غریب آدمی ہے منسوخ کر دیں۔ اگر اس قسم کی کارروائی کبھی عمل میں لائی جاوے گی تو وہ بہ نسبت قرض خواہ کے قرض دار کے حق میں زیادہ تر مضر ثابت ہو گی۔ جب کہ ایک قرض خواہ کو اپنے قرض دار کے معاہدوں کے ناجائز ہونے کا یقین ہو گا تو واجبی طور پر یہ توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ پھر اس قسم کی قرارداد کرے گا۔ 1 اگر ایک جائز قرضہ کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ہماری عدالتیں بلاشبہ حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جس امر کا اس دفعہ میں ذکر کیا گیا ہے وہ بلاشبہ وقوع میں آتا ہے۔ لیکن اس ذاتی اختیار اور زبردستی کے معدوم ہوجانے سے جو ایک قرضہ کے وصول کرنے میں عمل میں لائی جاتی تھی اور جس کا ذکر دفعہ ۲۷ میں ہے اور جس کے ذریعہ سے روپیہ زیادہ تر آسان اور پسندیدہ طریقہ میں وصول ہو جایا کرتا تھا ان ضابطوں کے پورا کرنے میں جو ہماری عدالتوں نے قرضہ کے وصول کے واسطے قرار دی ہیں مشکل اور خرچ اور توقف بلکہ بعض اوقات مایوسی کا سبب پیدا ہو گیا ہے اور ان سب باتوں سے قرضہ کا ملنا نہایت دشوار ہو گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وصول کرنے میں مشکلات پیدا کی جاویں گی تو روپیہ کے قرض لینے میں بھی مشکلات پیدا ہوں گی۔ ان تمام صورتوں میں نقصان کا برداشت کرنے والا کاشت کار ہی ہو گا جو بغیر روپیہ کے اپنا کام نہیں چلا سکتا ہے۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے جیسا کہ میں نے چند مرتبہ دیکھا ہے کہ جب کوئی مقدمہ جس میں کوئی قرض خواہ بلاشبہ روپیہ کی کسی رقم کے دعویٰ کرنے کا استحقاق رکھتا تھا جو ایک کاشت کار کو قرض دی گئی تھی کسی قانونی بنا پر ڈسمس کیا گیا تو جب قرض خواہ پھر مہاجن کے پاس روپیہ لینے کے لیے گیا تو اس نے اس قرضہ کو بھی جو ڈسمس کر دیا گیا تھا اس رقم میں زیادہ کر دیا جو اس نے اب درحقیقت قرض لی اور کل کے واسطے ایک جدید تمسک لکھ دیا۔ بہت سے معاملات ایسے ہیں جو ازروئے قانون کے بوجہ گزر جانے معیاد کے قابل سماعت نہیں رہے ہیں لیکن باوجود اس کے فریقین ان کو جائز سمجھتے ہیں اور اسی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ کاشت کار کو یہ فکر ہوتی ہے کہ اس کی ساکھ میں کسی طرح بٹہ نہ لگے اور اس کویہ اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر ایک مرتبہ اس کی ساکھ جاتی رہے گی تو وہ پھر اپنے کاروبار کو چلانے کے قابل نہ رہے گا۔ ۳۷۔ پس یہ امر ظاہر ہے کہ عدالت کو یہ بات نہ تو جائز اور نہ واجب ہے کہ وہ ایک باہمی قرار داد کو منسوخ کر دے کہ اس کے باعث سے ایک غریب آدمی برباد ہو جاوے گا۔ اس قسم کی کارروائی صرف ان صورتوں میں جائز ہو سکتی ہے جب کہ وہ انصاف کے مقاصد کے پورا کرنے کی غرض سے کی جاوے اور خود قرض خواہ اس کی نسبت اعتراض نہ کرے۔ انصاف کا یہ طریقہ ان اصولوں کے مطابق ہے جن پر قانون دیوالہ مبنی ہے۔ قانون دیوالہ کا سب سے اول ایک اصول یہ ہے کہ قرض دار کی تمام جائداد ہر ایک قرض خواہ کے قرضہ کی حصہ رسدی کی مناسبت سے اس کے قرض خواہوں کے درمیان بغیر اس کے کہ ان کے باہمی قرار داد میں کچھ خلل واقع ہو تقسیم کر دی جاوے اور دیوالیہ زائد مطالبوں سے بالکل بری کر دیا جاوے اور ہر ایک شخص بلاتامل اس بات کو تسلیم کرے گا کہ عدالت اس سے زیادہ تر واجبی کوئی کارروائی نہیں کر سکتی ہے۔ پس انصاف کے اصولوں میں تبدیلی کرنا مفلس کاشت کاروں کے حق میں کسی طرح پر مفید ثابت نہیں ہو سکتا ہے اور دیوالہ کے قانون کو زیادہ تر وسعت دینا بلاشبہ انصاف کے برخلاف نہیں خیال کیا جا سکتا ہے۔ ۳۸۔ کوئی باقاعدہ انتظام ایسا موجود نہیں ہے جس کے بہ موجب کاشت کار گورنمنٹ سے ان مقاصد کے واسطے جن کے لیے ان کو مہاجن سے روپیہ قرض لینا پڑتا ہے امداد حاصل کر سکیں۔ یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ چند اضلاع ایسے ہیں جن میں کاشت کاروں کو اس قسم کی امداد دی جاتی ہے لیکن چوں کہ یہ قلیل امداد صرف متعدد شخصوں کو دی جاتی ہے اور یقینا ایسے وقت پر نہیں دی جاتی ہے جب کہ اس کی نہایت ضرورت ہوتی ہے اس لیے اس سے ایک ایسے بڑے فرقہ کو جیسا کہ کاشت کاروں کا فرقہ ہے کسی اصلی فائدہ کے حاصل ہونے کی توقع نہیں ہو سکتی ہے۔ ۳۹۔ اضلاع شمال و مغرب میں یا شاید مجھ کو یہ کہنا چاہیے کہ تمام ہندوستان میں کاشت کاروں کی حالت ایسی نہیں ہے کہ ان کو اس قسم کی ناکافی کوششوں سے کچھ مدد پہنچ سکے جو گورنمنٹ اب ان کی حالت کو ترقی دینے کے واسطے کر رہی ہے اور نہ ان کوششوں سے قحط کی مصیبتیں کم ہو سکتی ہیں۔ کاشت کاروں کے واسطے بغیر اس کے کہ اس مقصد کے واسطے ہر ایک ضلع میں ایک خاص اور جداگانہ محکمہ قائم کیا جاوے کامل امداد کے پہنچنے کا بندوبست نہیں ہو سکتا ہے۔ ۴۰۔ میںیہ سفارش کرتا ہوں کہ یہ نیا سررشتہ ایک زراعتی بنک کی صورت میں قائم کیا جاوے اور میں یقین کرتا ہوں کہ اس کے سرمایہ کا سود حصہ داروں کو خواہ وہ گورنمنٹ ہو یا کوئی کمپنی اس ضروری خرچ کے ادا کرنے کے بعد جو اس کے قائم کرنے میں ہو ایک مناسب نفع پہنچانے کے لیے کافی ہو گا جس طریقہ میں کاشت کار امداد حاصل کریں گے اور جس کا ذکر میں مختصر طور پر حصہ سوم میں کرنا چاہتا ہوں وہ اس بائی لاز میں قرار دیا جاوے گا جو بنک کے واسطے مرتب کیا جاوے گا۔ اگر میری رائے غلطی پر نہ ہو تو صرف یہی ایک طریقہ ایسا ہے جس کے ذریعہ سے غریب کاشت کار مہاجنوں کے سخت پھندے سے بچ سکتے ہیں اور افزوں مطالبوں کے دبائو سے سبک دوش ہو سکتے ہیں۔ ۴۱۔ گورنمنٹ نے زراعتی ترقیوں یا قرضوں کے ادا کرنے کے واسطے کاشت کاروں یا چھوٹے چھوٹے زمین داروں کو روپیہ کے قرض دینے یا مویشی کے مہیا کرنے کے تجربہ کا امتحان کسی قدر ضلع الہ آباد اور باندھ اور مرادآباد اور متھرا میں کیا ہے اور جو رائیں محکمہ بورڈ آف ریونیو اضلاع شمال و مغرب اور گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب اودھ نے اس تجربہ کی نسبت تحریر کی ہیں وہ ذیل میں بیان کی جاتی ہیں۔ یعنی محکمہ بورڈ آف ریونیو لکھتا ہے کہ ’’ اس تجربہ کی کام یابی کی نسبت حاکم اول کی یہ رائے ہے کہ اب تک اس کی آزمائش شاید اچھی طرح پر نہیں ہوئی ہے اور ھنوز اس بات کا کہنا بے موقع ہے کہ اس انتظام میں کام یابی ہوئی ہے یا نہیں۔ مگر جس وقت دوسرے سال کی بابت رپورٹیں آ جاویں گی اس وقت ایک رائے قائم کی جا سکے گی۔‘‘1 صاحب سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب تجویز فرماتے ہیں کہ ’’جناب نواب لفٹنٹ گورنر بہادر محکمہ بورڈ کے حاکم اول سے اس باب میں اتفاق فرماتے ہیں کہ ابھی اس بات کا کہنا بے موقع ہے کہ آیا اس تجویز میں کام یابی ہوئی ہے یا نہیں۔ لیکن اگر اس بات پر لحاظ کیا جاوے کہ جن کاشت کاروں کو زر تقاوی دیا گیا ہے انھوں نے اپنی اقساط ٹھیک وقت پر ادا کر دی ہیں۔ اور تقاوی کے لینے کا شوق ظاہر کیا گیا ہے اور یہ بات نہیں پائی گئی ہے کہ زردار کاشت کاروں کا اعتبار گائوں کے بنیے کے نزدیک صرف اس وجہ سے کہ انھوں نے گورنمنٹ سے روپیہ قرض لینے کے فائدوں کو ترجیح دی ہے، جاتا رہتا ہے تو جناب ممدوح خیال فرماتے ہیں کہ اس وقت تک کارروائی نہایت تقویت بخش ہوئی ہے۔‘‘ 2 اگرچہ رائے مندرجہ صدر ناکامل ہے تاہم اس سے زراع۳تی بنکوں کے قائم کیے جانے کی تائید ہوتی ہے۔ جو نہایت بڑے فائدے زراعتی بنکوں کے قائم کرنے سے پیدا ہوں گے، من جملہ ان کے ایک فائدہ یہ ہو گا کہ مہاجن لوگ ضرور بالضرور اپنے سود کی شرح کم کر دیں گے اور کاشت کاروں کی شکایت کا سبب یعنی یہ کہ مہاجن لوگ بہت زیادہ سود لیتے ہیں بغیر دقت کے رفع ہو جاوے گا اور جو کاشت کار اپنے خاص ساہو کار کے ساتھ اپنے تعلقات کو جاری رکھنا چاہیں گے وہ ان صورتوں میں ان تعلقات کو بہ خوبی قائم رکھ سکیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ چٹھی قائم مقام سیکرٹری محکمہ بورڈ آ ج ریونیو بنام صاحب سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب و اودھ نمبر ۳۷۔۴ ب ۲۱۔ مؤرخہ ۲۳ جنوری ۱۸۷۸ئ۔ ۲۔ چٹھی سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب و اودھ بنام قائم مقام بورڈ آف ریونیو اضلاع شمال و مغرب نمبر ۵۸۸ حرف اول مؤرخہ ۲ مارچ ۱۸۷۸ئ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حصہ سوم ۴۲۔ ہر ایک ضلع میں زمین کی حیثیت کی ترقی اور کاشت کاروں کے امداد کے ذریعوں کے مہیا کرنے کی اس درجہ ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ مجھ کو اندیشہ ہے کہ گورنمنٹ کسی معمولی طریقہ سے سرکاری محاصل سے اس ضرورت کو رفع نہیں کر سکتی ہے۔ اس مقصد کے پورا کرنے کے لیے گورنمنٹ کو یا تو روپیہ قرض لینا چاہیے اور یا کوئی اور تدبیر ایسی سوچنی چاہیے جو زیادہ تر پسندیدہ ہو اور جس سے وہی مقصد حاصل ہو۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ لمیٹڈ کمپنیاں قائم کی جاویں اور زراعتی ترقیوں کے مقاصد کے واسطے فنڈ جمع کیا جاوے اور گورنمنٹ ان کی ایک شریک ہو جاوے۔ ان کمپنیوں کے یہ نام قرار دیے جا سکتے ہیں: ۱۔ کاشت کاروں کی امداد کی بنک۔ جو علیحدہ علیحدہ ہر ضلع میں قائم کیے جاویں۔ اس قسم کے ایک بنک کے قائم کرنے کا اشارہ آنریبل سرجان اسٹریچی نے ۱۸۷۶ء میں کیا تھا۔ جب کہ صاحب ممدوح اضلاع شمال و مغرب کے لفٹنٹ گورنر تھے۔ ۲۔ اراضی کی حیثیت کو ترقی دینے کا بنک۔ ۳۔ اراضی کی حیثیت کو ترقی دینے کی کمپنیاں۔ ۴۳۔ کاشت کاروں کی امداد کے بنک مندرجہ ذیل مقاصد کے واسطے قائم کیے جا سکتے ہیں: (الف) کاشت کاروں کو روپیہ قرض دینے کے لیے: ۱۔ زمین کی کاشت یا فصل کے بونے کے لیے بیج اور مویشی اور ہل اور آلات کشاورزی کے خرید کرنے کے واسطے۔ ۲۔ کاشت کاروں اور ان کے عیال و اطفال اور ایسے رشتہ داروں کی پرورش کے واسطے جو ان کاشت کاروں کی زمین کی کاشت میں شریک ہوں۔ (ب) کاشت کاروں کے ہاتھ فروخت کرنے کی غرض سے غلہ اور مویشی اور ہل اور دیگر آلات کشاورزی کے مہیا کرنے کے واسطے ان کے مقاصد کے لیے جو اس دفعہ کی ضمن (الف) میں بیان کیے گئے ہیں۔ ۴۴۔ جو بنک اراضی کی حیثیت کو ترقی دینے کے واسطے قائم کیے جاویں وہ کاشت کاروں یا زمین داروں کو مندرجہ ذیل مقاصد کے لیے روپیہ قرض دیں گے: (الف) کنوئوں اور تالابوں اور اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے بغرض جمع کرنے اور مہیا کرنے یا تقسیم کرنے پانی کے مقاصد کاشت کاری کے واسطے۔ (ب) آب پاشی سے واسطے زمین کے تیار کرنے والے۔ (ج) عمارات کی تعمیر کے لیے۔ ۱۔ واسطے نکاس پانی کے زمین سے۔ ۲۔ دریائوں یا اور پانیوں سے زمین کے درست کرنے کے لئے۔ ۳۔ دریائوں یا اور پانیوں سے زمین کی حفاظت کرنے کے لئے۔ ۴۔ سیلاب یا پانی کی وجہ سے جو نقصان ہوا اس سے زمین کو محفوظ رکھنے کے لیے۔ (د) زمین کے درست کرنے یا صاف کرنے یا مقاصد آب پاشی کے واسطے زمین کے گرد احاطہ کھینچنے کے لیے۔ (ہ) جو عمارات اس ضمن میں مذکور ہیں ان میں سے کسی عمارت کو از سر نو بنانے یا اس میں ترمیم کرنے یا اضافہ کرنے کے لیے۔ (و) ان عمارات کے بنانے کے واسطے جو ان مقاصد کے لیے ضروری ہوں جن کی تصریح اس دفعہ میں کی گئی ہے۔ ۴۶۔ زمین کی حیثیت کو ترقی دینے کی کمپنیاں ان مقاصد کو جو ذیل میں بیان کیے گئے ہیں اپنے خاص سرمایہ سے سرانجام دینے کے لئے قائم کی جاویں گے۔ (الف) کنوئوں اور تالابوں کا زراعت کے مقاصد کے واسطے تعمیر کرنا۔ (ب) ایک نہر یا منبع کا کسی دریا یا چشمہ یا نہر یا تالاب سے کسی کھیت کی آب پاشی کرنے کے لئے بنانا۔ (ج) ایک مناسب مقام پر پانی جمع کرنے کے واسطے عمارت کا بنانا، اس غرض سے کہ وہ کسی کھیت یا کھیتوں کی نہر یا منبع کے ذریعہ سے آب پاشی کرنے میں کام میں لایا جاوے۔ (د) ایک دریا یا چشمہ یا نہر یا تالاب کے کناروں پر زیادہ تر بلند قطعات میں پانی پہنچانے کے لئے کل کا کھڑا کرنا۔ ۴۷۔ ان تمام کمپنیوں کا انتظام اس قانون کی رو سے ہونا چاہیے جو لمیٹڈ کمپنیوںکے قائم کرنے سے متعلق ہے اور جس سرمایہ کے ذریعہ سے ہر ایک کمپنی اپنا کام شروع کرے اس کو چند حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ ہر ایک شخص مجاز ہو گا کہ جس قدر حصے چاہے خرید لے اور گورنمنٹ کو بھی ان میں سے چند حصوں کا خریدنا لازم ہوگا۔ ۴۸۔ جو خاص عملہ کاشت کاروں کی امداد کے بنک کے واسطے مقرر کیا جاوے جس میں معتبر مہاجنوں کو خاص خاص مقامات میں بطور ایجنٹوں کے مقرر کرنا بھی شامل ہو گا تحصیل دار اور پیش کار اور قانون گو اور تحویل دار تحصیل اور ہر ایک گائوں کا پٹواری اور ضلع کا خزانچی بنک کے عہدہ دار متصور ہوں گے۔ گورنمنٹ ایک ڈپٹی کلکٹر یا ڈپٹی کلکٹروں کو عام نگرانی کرنے اور بنک کے مطالب سے متعلق اور کاموں کے انجام دینے کے واسطے خاص کر نام زد کرے گی اور گورنمنٹ اس بات کی مجاز ہو گی کہ وہ اس ڈپٹی کلکٹر یا ڈپٹی کلکٹروں کی کل تنخواہ یا اس کا کوئی حصہ بنک کی آمدنی میں سے ادا کرے۔ ۴۹۔ ہر ایک فصل کے خاتمہ پر ڈپٹی کلکٹر جو کار کاص پر مامور ہو یا تحصیل دار یا پیش کار یا قانون گو پٹواری کی مدد سے تمام کاشت کاروں کی ایک فہرست اس امر کے تحقیق کرنے کی غرض سے تیار کرے گا کہ ان میں سے کس کو قرضہ دینا چاہیے۔ فہرست مذکور میں امور مندرجہ ذیل ہونے چاہئیں1۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ قواعد بابت قرض دینے روپیہ کے کاشت کاروں اور چھوٹے چھوٹے زمین دار کو مناسب سود پر واسطے مقاصد کاشت کاری کے جن کو بور ڈ آف ریونیو اضلاع شمال و مغرب نے ماہ جولائی ۱۸۷۶ء میں مرتب کیا تھا قواعد نمبر ۲ و ۳۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ آیا کاشت کار ایک زمین دار ہے جو اپنی خاص زمین کو پٹہ پر اٹھاتا ہے اور رقبہ اس کی کاشت کا۔ ۲۔ آیا وہ کاشت کار ایسا ہے جس کو حق مقابضت حاصل ہے اور اس کو اس قسم کے حقوق کے منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ ۳۔ آیا وہ کاشت کار ایسا ہے جس کو حق مقابضت حاصل ہے یا نہیں۔ ۴۔ آیا وہ کوئی کاشت کار ذیلی رکھتا ہے۔ ۵۔ رقبہ زمین کا جس کی وہ کاشت کرتا ہو۔ ۶۔ قسم زمین کی۔ ۷۔ مقدار لگان کی جو وہ ادا کرتا ہے۔ ۸۔ تعداد مویشی یا اور آلات کشاورزی کی جو اس کے قبضہ میں ہوں۔ ۹۔ قسم قرضہ کی جو وہ لینا چاہتا ہے۔ (الف) مویشی معہ اس کی تعداد اور تخمینی قیمت کے۔ (ب) آلات کشاورزی مع ان کی تعداد اور تخمینی قیمت کے۔ (ج) غلہ واسطے خوراک کے مع اس کی قسم اور مقدار تخمینی قیمت کی۔ (د) وقت جب کہ ان چیزوں کی ضرورت ہو گی۔ (ہ) نقد روپیہ مع اس کی تعداد اور اس مقصد کے جس کے واسطے وہ درکار ہے۔ ۱۰۔ تعداد اس قرضے کی جو اس کے ذمے ہو۔ ۱۱۔ اس کی خصلت بلحاظ ایک عمدہ کاشت کار ہونے کے۔ ۱۲۔ بیان اس امر کا کہ آیا زمین دار اس قرضے کی بابت جو کسی کاشت کار کو دیاجاوے ضامن ہونے پر راضی ہے یا نہیں اور آیا کاشت کار اس طریقے میں روپیہ لینا پسند کرتا ہے یا نہیں۔ ۵۰۔ ڈپٹی کلکٹر متعینہ کار خاص تحصیل دار اور ان شخصوں کی مدد سے ان فہرستوں کی صحت کی تحقیق کرے گا، جس قرضے کی درخواست کاشت کاروں نے کی ہو اس کی مقدار میں مناسب ترمیم کرے گا۔ اس قرضے کی مقدار قرار دے گا جو ہر ایک کاشت کار کو عموماً اس کے حالات کے لحاط سے دینا چاہیے1 اور ان شخصوں کی درخواست کو نامنظور کرے گا جن کی نسبت یہ بات ثابت ہو کہ انھوں نے بغیر ضرورت کے قرضے کی درخواست کی تھی۔ ۵۱۔ جو قرضہ ان کاشت کاروں کے ذمے واجب ہو جن کو قرضے کا دیا جانا قرار پاوے، وہ تحقیق کیا جاوے گا اور جو حساب ان کا مہاجنوں کے ساتھ ہو اس کو بنک تیا رکرے گا اور بے باق کرے گا اور ان کو وقتاً فوقتاً زائد قرضہ دیا جاوے گا مگر شرط یہ ہے کہ: ۱۔ ان میں سے ہر ایک اس مضمون کی ایک دستاویز کا تحریر کرنا قبول کر لے کہ اس نے اپنے حقوق زمین دار یا کاشت کاری، جیسی کہ صورت ہو بنک کو حوالے کر دیے ہیں اور جب تک وہ بنک کا قرض دار ہے اس وقت تک اس کو ان حقوق کے منتقل کرنے یا کسی قرضے میں ان کو مکفول کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ قواعد محکمہ بورڈ آف ریونیو اضلاع شمال و مغرب نے ماہ جولائی ۱۸۷۶ء میں مرتب کیے تھے۔ قاعدہ نمبر ۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۔ جب تک کہ قرضہ یا اس کا کوئی جز واجب رہے اس وت تک اس کو بغیر اجازت بنک کے کسی مویشی یا آلات کاشت کار کے منتقل کرنے کا جو بنک سے لیے گئے ہوں کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ ۳۔ وہ بغیر اجازت بنک کے اس فصل کی پیداوار کے کسی حصے کو جو اس قرضے کے ذریعے سے کاشت کی گئی ہو، جو بنک سے لیا گیا ہو، اس وقت تک کہ جو لگان یا قرضہ بنک کو واجب الادا ہو وہ کسلاً یا جزاً باقی رہے ہر گز اپنے تصرف میں نہیں لائے گا۔ ۵۲۔ جو مویشی بنک دے یا جو اس روپیہ سے خرید کی جاوے جو بنک نے قرض دیا ہو وہ داغی جاوے گی۔1 ۵۳۔ محکمہ بورڈ آف ریونیو اضلاع شمال و مغرب نے اپنے ان قاعدوں میں جو کاشت کاروں اور چھوٹے چھوٹے زمین داروں کو مناسب سود پر زراعتی مقاصد کے واسطے روپیہ قرض دینے کی غرض سے جولائی ۱۸۷۶ء میں مرتب کیے گئے تھے یہ قرار دیا ہے (قاعدہ نمبر ۳) کہ ’’جن شخصوں کی نسبت یہ بات ثابت ہو کہ ان کے ذمے بہ نسبت اس کے زیادہ قرضہ ہے جو ادھار دینے کی اس شرح کے بموجب جائز ہو جو قاعدہ دوم کی روسے قرار دی گئی ہے ان کی درخواست یہ سمجھ کر کہ وہ دیوالیہ ہیں نامنظور کی جاوے گی۔‘‘ میں اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا ہوں اور میرا میلان اس رائے کی جانب ہے کہ کسی کاشت کار کی درخواست کو ایسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ قواعد جو محکمہ بورڈ آف ریونیو اضلاع شمال و مغرب نے جولائی ۱۸۷۶ء میں مرتب کیے تھے۔ قاعدہ ۵ ضمن (الف) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بنا پر نامنظور نہیں کرنا چاہیے۔ ۵۴۔ اس قسم کے کاشت کاروں کے واسطے بلاشبہ ایک قانون دیوالہ کی ضرورت ہو گی جس کے بموجب ان کو اس بات کی درخواست کرنی پڑے گی کہ وہ دیوالیہ قرار دیے جاویں۔ عدالت دیوالہ تمام قرضوں کی تحقیقات کرے گی اور اس مقدار کو قرار دے گی جو ہر ایک قرض خواہ کو واجب الادا ہو اور قرض دار کی جائداد کی قیمت قرار دے گی۔ اس کے بعد بنک اس مالیت کی مقدار کو جو اس طرح پر قرار پاوے قرض خواہوں کے درمیان اس قرضہ کے اندازے سے تقسیم کرے گا جو ہر ایک کو واجب ہو اور دیوالیہ کو زائد مطالبوں سے بری کرے گا۔ قرض دار کی کاشت بنک کی مالیت متصور ہو گی جو بعد ازاں اس کو کاشت کار کے حوالے کرے گا اور اپنا روپیہ اس طرح پر وصول کرے گا گویا وہ ایک ایسا قرضہ تھا جو کاشت کار کو دیا گیا تھا ، جو مالیت اس طرح پر کاشت کار کے حوالے کی جاوے گی وہ اس قرضے کی کفالت سمجھی جاوے گی جو اس کو دیا جاوے۔ ۵۵۔ بنک اس بات کا مجاز ہو گا کہ جو چیزیں ضمن ۹ دفعہ ۴۹ کی مد (الف) و (ب) و (ج) و (ہ) میں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کوئی چیز بجائے اس کے کہ نقد روپیہ ان کی خرید کے لیے دے کاشت کار کے واسطے مہیا کر دے یا اس رقم کو کسی اور معتبر شخص کو ان چیزوں کے خرید کرنے کے واسطے حوالے کرے جو کاشت کار کو مطلوب ہوں۔ ۵۶۔ بنک کو لازم ہو گا کہ روپیہ یا غلہ یا اور کوئی چیز کسی کاشت کا ر کے واسطے اس وقت پر جب کہ ان کی ضرورت ہو اور اس گائوں میں جہاں کاشت کار رہتا ہو یا کسی آس پاس کے قصبے میںیا بازار ا منڈی میں جہاں لوگ علی العموم جنسوں کے تبادلے کے واسطے آتے جاتے ہوں، مہیا کرے۔ ۵۷۔ کاشت کاروں کو ان چیزوں کی بابت جو اس طرح پر ان کے لیے مہیا کی جاویں رسید دینی پڑے گی اور مناسب عہدہ دار یا اور معتبر اشخاص ان معاملات کی تصدیق کے واسطے متعین کیے جاویں گے اور وہ رسیدوں پر اپنے خاص دستخط کر کے ان کو مناسب حکام کے حوالے کریں گے۔ پٹواری کی موجودگی کہ وہ بھی رسیدات کی تصدیق کرے گا اور تمام معاملات کی یادداشت اپنے روزنامچے میں درج کرے گا لازمی ہو گی۔ ۵۸۔ ایسے بہت سے کاشت کار ہوں گے جن کو زمین دار کی ضمانت پر روپیہ قرض دیا جا سکے گا۔ اس صورت میں قواعد مندرجہ صدر معطل متصور ہوں گے اور زمین دار کو باضابطہ ایک ضمانت پر دستخط کرنے ہوں گے اور یہ رقم اس قسم کی دستاویز کی شرائط کے بموجب قابل وصول ہو گی۔ ۵۹۔ جہاں تک کہ مجھ کو تجربے سے معلوم ہے، مجھ کو اس بات کا یقین ہے جیسے کہ بورڈ آف ریونیو اضلاع شمال و مغرب کی بھی رائے 1 ہے کہ ’’کاشت کار علی العموم عمداً بے ایمانی نہیں کرتا ہے‘‘ وہ اپنے معاملات میں ہمیشہ ٹھیک وقت کا پابند ہوتا ہے اور اپنے معاہدوں کے پورا کرنے کے واسطے کوشش کرتا ہے گو وہ کیسے ہی سخت اور ناواجب کیوں نہ ہوں۔ اس کی وعدہ خلافیاں محض اس وجہ سے کہ وہ روپیہ ادا کرنے کے ناقابل ہوتا ہے پیدا ہوتی ہیں۔ پس میں اس بات پر یقین کرنے کی بڑی وجہ رکھتا ہوں کہ جو لین دین بنک کاشت کاروں کے ساتھ کریں گے اس میں ان کے روپیہ کو بہت کم جوکھوں ہو گی۔ ۶۰۔ جو زر تقاوی اس طرح پر کاشت کاروں کو دیا جاوے گا اس پر سود لیا جاوے گا جس کی شرح وقتاً فوقتاً گورنمنٹ قرار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ چٹھی نمبر ۷۵۵ حرف (ن) ۴ مورخہ ۲۲ جولائی ۱۸۷۶ئ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دے گی۔ جو روپیہ کاشت کار ادا کرے گا وہ اول اس سود کے حساب میں جمع کیا جاوے گا جو اس تاریخ تک اس کے ذمہ واجب ہو اور اگر کچھ روپیہ باقی رہے گا تو وہ اصل میں جمع کیا جاوے گا۔ سود ہمیشہ زر اصل کی بقایا پر جو واجب ہو، لگایا جاوے گا اور سود مرکب کے قاعدہ کا ہر گز برتائو نہیں کیا جاوے گا۔ ۶۱۔ جو بنک حیثیت اراضی کی ترقی کی غرض سے قائم کیا جاوے گا اس کی کارروائی میں کوئی بڑی دقت پیش نہ آوے گی۔ یہ کارروائی بیش تر ۱۸۷۱ء کے قانون ترقی اراضی کے احکام کے مطابق ہو گی لیکن ان قواعد کو کسی قدر سہولت دینی پڑے گی جو زر تقاوی کے دینے سے متعلق ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اس بنک کی کام یابی کی بہت کم توقع معلوم ہوتی ہے کیوں کہ اس میں وہ مشکلات بھی پیش آویں گی جو ۱۸۷۱ء کے قانون ترقی اراضی کے خاطر خواہ عمل درآمد میں پیش آتی ہیں۔ ۶۲۔ جو کمپنی حیثیت اراضی کی ترقی کے واسطے قائم کی جاوے وہ بلاشبہ اپنا کاروبار بڑی وسعت کے ساتھ انجام دے سکتی ہے اور جس قدر سرمایہ اس کے پاس موجود ہو اس کے موافق اس کو ترقی دے سکتی ہے۔ اس قسم کی کمپنی کو زمین کے قطعات ان مقاصد کے لائق منتخب کرنے پڑیں گے جو اس کو مدنظر ہوں۔ کنوئوں یا تالابوں کے بنانے سے پہلے وہ ان موقعوں کو جو بغرض آب پاشی ان کے بنانے کے واسطے نہایت مناسب ہوں اور نیز اس بات کو تحقیق کرے گی کہ ہر ایک مقا م پر کنوئوں کے چلانے میں کس قدر خرچ ہو گا اور وہ کس درجہ تک کارآمد ہوں گے اور کس قدر رقبے کی ان کے ذریعہ سے حفاظت ہو سکے گی اور ان سے کس قدر فائدہ حاصل ہو گا۔ کمپنی مذکور یہ بات بھی تحقیق کرے گی کہ آیا مختص المقام دریا یا چشمے یا نہریں ان مقاصد کے واسطے کام میں آ سکتے ہیں یا نہیں اور اگر آ سکتے ہیں تو ان میں کیا خرچ پڑے گا اور ان سے کیا فائدہ حاصل ہو سکے گا1۔ اسی طرح پر وہ ان مقامات کو منتخب کرے گا جو باندہ کے بنانے کے واسطے مناسب ہوں۔ کلوں کے ذریعہ سے اراضیات کی آب پاشی کرنا درحقیقت ایک خطرناک کام ہے لیکن کمپنی بہ آسانی اس تجربہ کی آزمائش کر سکے گی بہ شرطیکہ اس کو اس میں کام یابی کی کوئی صورت نظر آوے گی۔ ۶۳۔ کمپنی کے کاروبار کی کام یابی کے واسطے عہدہ داران ضلع کا اتفاق نہایت ضروری ہو گا۔ تمام تجویزوں کا اجراء کلکٹر ضلع کے مشورہ سے کیا جاوے گا اور جو رپورٹیں کمپنی تیار کرے گی وہ گورنمنٹ کے پاس معرفت کمشنر قسمت کے ارسال کی جاویں گی۔ جن کاموں کی سفارش کی گئی ہے ان کا جاری کرنا یا ان کا ملتوی کرنا ان احکام پر منحصر ہو گا جو گورنمنٹ سے موصول ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ اگر میری یاد صحیح ہے تو ضلع بجنور میں اس قسم کی دو مختص المقام نہریں بنائی گئی ہیں۔ ۱۸۵۵ء میں میں نے ان کاغذات کو جو ان نہروں کے متعلق تھے ضلع مذکور کی ایک تواریخ تالیف کرنے کی غرض سے (جو پوری ہو گئی تھی مگر غدر میں گم ہو گئی) ملاحظہ کیا اور مجھ کو یاد ہے کہ جو نفع ان میں سے ایک نہر سے حاصل ہوا تھا اس سے اس کی لاگت معہ اس کے سود کے بہت جلد پوری ہو گئی اور دوسری نہر سے بھی ایک واجبی شرح سود کی حاصل ہوئی۔ ان وجوہات پر میں خیال کرتا ہوں کہ اور اضلاع بھی ایسے ضرور ہوں گے جن میں آب پاشی کے واسطے اس قسم کے کاموں کے جاری کرنے کی اسی طرح پر معقول توقع ہو گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۶۴۔ ضلع کا کلکٹر ہمیشہ ان تمام بنکوں کا پریذیڈینٹ ہو گا جو اس طرح پرقائم کیے جاویں اور فنڈ ضلع کے خزانے میں جمع کیا جاوے گا۔ ۶۵۔ ان بنکوں کو اسی طریقہ میں اپنے قرضوں کے وصول کرنے کا اختیار دینا چاہیے جو اس روپیہ کے وصول کرنے کے واسطے قرار دیا گیا ہے جو گورنمنٹ قرض دے۔ صرف یہ فرق ہونا چاہیے کہ بنک اپنی طرف سے کسی کارروائی کے عمل میں لانے کے مجاز نہ ہوں گے بلکہ وہ اپنے حسابات تیار کریں گے اور ان کو ایک درخواست کے ساتھ کلکٹر ضلع کی خدمت میں پیش کریں گے جو ان کے وصول کرنے کے واسطے معمولی تدابیر عمل میں لاوے گا۔ ۶۶۔ جو زر تقاوی گورنمنٹ لوگوں کو دے اور جو یہ بنک دیں، چوں کہ اس کے درمیان کسی قسم کا فرق نہیں ہے اور یہ بنک ہر ایک ضلع کے کلکٹر کی نگرانی اور حکومت کے تابع ہوں گے اور ان کے حسابات کی صحت کی نسبت شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہ ہو گی اس لیے یہ کوئی ناانصافی نہ ہو گی کہ وہ بطور مستثنیات کے عدالتوں کی تحقیقاتوں کے ضابطہ سے خارج کر دیے جاویں۔ یہی وہ اصول ہے جس پر گورنمنٹ خاص اپنی بقایا مال گزاری اور تقاوی کے وصول کرنے میں عمل کرتی ہے۔ پس اسی قاعدہ کو اس تقاوی سے متعلق کرنے میں جو بنک دے کوئی واجبی بنیاد اعتراض کی نہ معلوم ہوگی۔ ۶۷۔ جو آب پاشی کے کام کمپنی تیار کرے گی وہ خاص کر دو اقسام کے ہوں گے یعنی کنوئیں یا نہریں۔ کنوئوں کے معاملہ میں اس معاوضہ کی نسبت جس کی کمپنی مستحق ہو گی کوئی دشواری پیش نہ آوے گی۔ جیسا کہ دفعہ ۱۹ میں بیان کیا گیا ہے البتہ جو نہریں اس طریقہ میں بنائی جاویں گی ان کے معاملہ میں کسی قدر دقت پیش آوے گی۔ گورنمنٹ کو بلاشبہ ان اراضیات پر جن کی آب پاشی ان کے ذریعہ سے ہوتی ہو محصول آب پاشی قرار دینا پڑے گا۔ اس بات کی ضرورت کہ کاشت کار لوگ اپنی اراضیات کی آب پاشی نہر کے پانی سے کرنے اور محصول آب پاشی کے ادا کرنے پر مجبور کیے جاویں غالباً ہر گز واقع نہ ہو گی کیوں کہ لوگوں نے ان مختص المقام نہروں سے فائدہ اٹھانے پر جو ضلع بجنور میں جاری ہیں اور محصول آب پاشی کے ادا کرنے پر صاف صاف اپنی آمادگی ظاہر کی ہے۔ ۶۸۔ ان کمپنیوں کے واسطے چندہ دینے والوں کی ایک کافی تعداد کے بہم پہنچانے میں ابتدا میں غالباً کسی قدر دشواری واقع ہو گی اور گورنمنٹ شاید بہت سے حصوں کے لینے پر مجبور ہو گی مگر میں اس بات پر یقین کرنے کی ہر ایک وجہ رکھتا ہوں کہ یہ بنک بہت جلد عام پسند ہو جائیں گے اور چندہ دینے والے حاجت سے زیادہ بہ کثرت بہم پہنچ جاویں گے۔ کیوںکہ اس بات کے موقعے کہ مہاجن لوگ بغیر شریک ہونے ان بنکوں کے اپنا روپیہ سود میں لگا سکیں بہت کم رہ جاویں گے اور بنکوں کو اپنے قرضوں کے وصول کرنے میں بہت زیادہ آسانی اور خطرہ بہت کم ہو گا۔ علاوہ اس کے جو قرضہ پرائیویٹ شخص کاشت کاروں کو دیں گے اس پر سود کی شرح بہت کم ہو جاوے گی اور جو مشکلات اس کے وصول کرنے میں اور جو خطرات اس کے ساتھ لگے ہوتے ہیں وہ بہ دستور قائم رہیں گے۔ لیکن اگر وہ حق جس کا ذکر دفعہ ۶۵ میں ہے بنکوں کو نہ دیا جاوے گا تو لوگ شاید ہی ان کے حصوں کے خریدنے پر مائل ہو ں گے۔ حصہ چہارم ۶۹۔ قحط کی نسبت کچھ تحریر کرنا بے فائدہ ہو گا کیوںکہ اس امر کی نسبت اس سے پہلے بہت سی تحقیقاتیں ہو چکی ہیں لیکن جو اثر اس تجویز سے جو معرض غور میں ہے قحط کی سختیوں کے کم کرنے میں ہو گا اس کی نسبت کچھ بیان کرنا میں مناسب سمجھتا ہوں۔ ۷۰۔ جو مدد زمانہ قحط میں دی جاتی ہے وہ عموماً دو صورتوں پر محدود ہوتی ہے یعنی محتاج خانوں کا قائم کرنا یا تعمیرات عام یا امدادی کاموں کا جاری کرنا۔ ان دونوں صورتو ںمیں سے ہر ایک صورت میں اس قسم کے انتظامات کا کرنا واقعی ناممکن ہے جن کے باعث سے کاشت کاروںکو اپنے گھروں سے باہر نہ نکلنا پڑے۔ گھر سے ان کے جدا ہونے کا ان پر نہایت سخت اثر ہوتا ہے۔ ان کی تمام خانگی اشیا گو وہ کیسی ہیں نکمی یا ناچیز کیوں نہ ہوں بہ سبب نہ ہونے خبر گیری کے برباد ہو جاتی ہیں۔ ان کے مکانات قریباً مسمار ہو جاتے ہیں۔ ان کے مویشی ضائع ہو جاتے ہیں اور قبل اس کے کہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑیں وہ خود نہایت لاغر ہو جاتے ہیں۔ جب کہ وہ اپنے گھروں کو مصیبت کے ختم ہونے کے بعد واپس آئے ہیں تو ان کو یہ سب چیزیں ازسرنو مہیا کرنی اور اس مقصد کے واسطے روپیہ قرض لینا پڑتا ہے کیوں کہ پھر آباد ہونے کا وہ اور کوئی ذریعہ نہیں رکھتے ہیں۔ کوئی تدبیر جس سے ان غریب لوگوں کی امداد بغیر اس کے کہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور کیے جاویں متصور ہو غالباً ان کے حق میں نہایت مفید ثابت ہو گی۔ ۷۱۔ دفعہ ۴۹ میں یہ بات قرار دی گئی ہے کہ جو بنک کاشت کاروں کی امداد کے واسطے قائم کیا جاوے اس کو ہر فصل کے خاتمے پر کسی گائوں کے تمام کاشت کاروں کی ایک فہرست تیار کرنی چاہیے اور گورنمنٹ کے واسطے یہ ایک آسان بات ہو گی کہ وہ قحط کے زمانے میں بنک کو کسی قدر روپیہ اس غرض سے سپرد کر دے کہ وہ محتاج کاشت کاروں کی امداد میں صرف کیا جاوے۔ بنک کاشت کاروں کو بغیر اس کے کہ ان کو اپنے گھروں سے باہر جانا پڑے ان کی پرورش کے واسطے غلہ دے سکے گا لیکن اس قسم کی امداد بطور قرضہ کے متصور نہ ہو گی بلکہ صرف ایک خیرات کا کام متصور ہو گی۔ ۷۲۔ سب سے بڑی مصیبت جو قحط کے زمانے میں کاشت کاروں پر پڑتی ہے وہ ان کے مویشی کا ضائع ہونا ہوتی ہے۔ یہ بنک مویشی کی حفاظت کے واسطے اس طرح پر بخوبی تدابیر عمل میں لا سکے گا کہ وہ مختلف جنگلوں میں بعض قطعات کو بطور چراگاہوں کے محفوظ رکھنے کے واسطے جن کے ذریعہ سے خشکی کے موسم میں مویشی بچ سکیں، گورنمنٹ سے درخواست کرے گا اور ہر ایک کاشت کار کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنے مویشی ( بلاشبہ اپنی خاص ذمہ داری پر) بنک کی نگرانی میں سپرد کر دے اور بنک مویشی مذکور کو اس چراگاہ میں بھیج دے گا جو اس مقصد کے واسطے مقرر کیا گیا ہو اور جس وقت مصیبت نکل جاوے گی تو مویشی کو فوراً واپس بلا لے گا اور اس کو مالک کے حوالے کر دے گا۔ جو خرچ بنک کا ان انتظامات میں ہو گا اس کو گورنمنٹ فیمن ریلیف فنڈ سے ادا کرے گی۔ کوئی تدبیر جس کے ذریعہ سے خشکی کے زمانہ میں کاشت کاروں کے مویشی محفوظ رہیں میری رائے میں امداد کا نہایت معقول طریقہ ہے۔ حصہ پنجم ۷۳۔ ان تجویزوں کے جاری کرنے کی غرض سے قوانین مروجہ میں اس قسم کی ترمیم کرنی لازم ہو گی جس سے مطالب مندرجہ ذیل حاصل ہو سکیں: (الف) یہ کہ کاشت کاروں کا ہر ایک فرقہ اپنی کاشت میں آب پاشی کے ذریعوں کے قائم کرنے کا اس حالت میں کہ زمین دار اس کے کرنے سے انکار کرے مستحق ہو جاوے۔ (ب) یہ کہ جب کہ آب پاشی کے ذریعے اس طرح پر قائم ہو جاویں تو اس کے بعد وہ حق مقابضت کے مستحق ہو جاویں۔ (ج) یہ کہ اس قسم کے کاشت کار اس حالت میں کہ زمین دار ان کو بے دخل کر دے معاوضہ کے مستحق ہو جاویں جیسا کہ اودھ اور پنجاب میں ہوتا ہے۔ (د) یہ کہ بنک کے قرضوں میں اس قسم کے حقوق کا مکفول کرنا جائز ہو۔ ۷۴۔ مندرجہ بالا ترمیموں کے علاوہ مندرجہ ذیل خاص قوانین کا نافذ کرنا ان تجویزوں کے مقصد کے پورا کرنے کی غرض سے ضروری ہو گا۔ (الف)ایک قانون جو کاشت کاروں کے دیوالہ سے متعلق ہو۔ (ب) ایک قانون جس کی رو سے کاشت کاروں کی امداد کے واسطے بنکوں کا قائم کرنا جائز ہو۔ (ج) ایک قانون جس کی رو سے اراضی کی حیثیت کی ترقی کے واسطے بنکوں کا قائم کرنا جائز ہو۔ (د) ایک قانون جس کی رو سے اراضی کی حیثیت کی ترقی کے واسطے کمپنیوں کا قائم کرنا جائز ہو۔ (سید احمد) شملہ ۹ ستمبر ۱۸۷۹ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سراب حیات (تہذیب الاخلاق، جلد ۷، نمبر۷، بابت یکم رجب ۱۲۹۳ھ صفحہ ۸۵) صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے کیوں! کس خیال میں ہو؟ آج آپ کی طبیعت کچھ متفکر معلوم ہوتی ہے۔ نہیں کوئی بات نہیں ہے۔ یوں ہی سست ہے۔ آدمی کو کبھی کچھ خیال ہوتے ہیں کبھی کچھ۔ ان ہی خیالات سے کبھی آپ ہی آپ خوش ہوتا ہے، کبھی آپ ہی آپ متفکر ہوتا ہے۔ بھلا کہیے تو سہی کہ کن خیالات نے آپ کو متفکر کیا ہے؟ ہم بھی تو سنیں! چند روز ہوئے کہ میں نے ایک گھنٹہ اپنے کمرے میں لگایا ہے۔ اس کا لنگر ٹوٹ گیا تھا، وہ بند تھا، نہ چلتا تھا، نہ آواز دیتا تھا۔ ایک دوست نے مہربانی سے اس کو بنا دیا۔ وہ چلنے لگا اور آواز دینے لگا۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہ دن رات چلتا ہے۔ ایک سے اپنا دورہ شروع کرتا ہے اور بارہ پر ختم کر دیتا ہے۔ اس کی ایک الٹ پھیر میں دن رات ختم ہو جاتا ہے۔ جب ہم خیال کرتے ہیں کہ ہم نے کیا کیا؟ تو معلوم ہوتا ہے، کچھ نہیں۔ یہی دھن کئی دن سے مجھے لگی ہوئی تھی اور اسی خیال میں غلطاں پیچاں تھا کہ یکایک ہمارے دوست پادری رجب علی صاحب نے ایک کتاب بھیجی جس کے سرے پر لکھا تھا ’’سراب حیات‘‘ میں بہت خوش ہوا اور سمجھا کہ شاید اس سے کچھ عقدہ حل ہو گا۔ یہ کتاب دراصل انگریزی میں ہے اور جانسن نے بڑی فصاحت و بلاغت سے لکھی ہے۔ اس کا ترجمہ پنڈت بشمبر ناتھ نے کچھ کمی بیشی کے ساتھ نہایت قابلیت سے اردو زبان میں کیا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے نہایت لائق اور مشہور اور عقل مند اور فصیح و ظریف و شاعر، فیاض و بخیل آدمیوں کا جو ہمارے زمانہ سے تھوڑے ہی دن پہلے اسی دنیا میں موجود تھے ذکر کیا ہے اور پھر دکھایا ہے کہ کس طرح حسرت و افسوس سے اس دنیا سے گئے۔ تمام مال و دولت چھوڑ گئے۔ نہ وہ عقل مندی کام آئی اور نہ وہ متاع دنیا۔ زبان حال سے یوں کہتے کہتے مر گئے۔ کس لیے آئے تھے کیا ہم کر چلے تہمتیں چند اپنے ذمہ دھر چلے اس کتاب نے بعوض سلجھانے کے میرے خیالات کو اور الجھا دیا اور یہ سوال دل میں پیدا ہوا کہ ’’کس لیے آئے تھے؟‘‘ اسی سوچ میں تھا کہ میں نے اپنے کمرہ کا دروازہ کھولا۔ ایک خوش نما ندی اور سر سبز درخت اور شاداب کھیتی پر میری نظر پڑی۔ میں نے دیکھا کہ ندی کا پانی بہا چلا جاتا ہے۔ پچھلا آتا ہے اور اگلا چلا جاتا ہے۔ درختوں کو میں نے دیکھا کہ پرانے جاتے ہیں اور نئے آتے ہیں۔ پکی کھیتی کاٹی جاتی ہے اور نئی بوئی جاتی ہے۔ یہی آواگون لگ رہا ہے۔ یہ کس لیے آئے تھے اور کس لیے گئے۔ کیا یہ بھی کچھ حسرتیں لے گئے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا مگر میں نے غور کیا کہ شاید یہ مسئلہ کہ ’’کس لیے آئے تھے اور کیا کر چلے‘‘ متحرک جان داروں سے متعلق ہو گا۔ میں نے سب کی حالت پر اپنا خیال دوڑایا۔ میں نے شیر کا خیال کیا جو سب سے زیادہ خوبصورت ، سب سے زیادہ شاندار ، سب سے زیادہ شجاع، سب سے زیادہ غیور ہے۔ مگر سب میں موذی اور زند بار آزار مشہور ہے۔ جب اس کی مردہ لاش کا میں نے دھیان کیا تو دیکھا ایک بے حرکت لاشہ پھول کر پیٹ پھٹا ہوا انتڑیاں گیدڑوں کی کھائی ہوئی سنہری کھال خاک میں ملی ہوئی گوشت گل کر زمین پر پڑا ہو اہڈیوں کا ڈھانچا ہی ڈھانچا تھا اور غالباً وہ بھی چندر وز کو۔ میں سمجھا کہ یہ تو اسی قسم کا جانور تھا جس قسم کے آدمیوں کا ’’سراب حیات‘‘ میں جانسن نے ذکر کیا ہے، کسی اس سے عمدہ جانور کو دیکھو۔ اتنے میں کتے کا مجھے خیال آیا۔ میں سمجھا کہ سب جانوروں میں یہی خدا رسیدہ ہے۔ قناعت، محبت، رفاقت، دوستی، وفاداری، اپنے مالک کی اطاعت اور سب سے زیادہ کسر نفسی اسی پر ختم ہے۔ سب دور دور کرتے ہیں۔ مثلاً مولوی تو نجس العین بتاتے ہیں مگر یہ غریب سب کے سامنے عاجزی اور کسر نفسی سے دم ہلاتا اور سر جھکاتا ہے۔ مگر جب وہ بھی مرا تو ایک لاشہ بے حرکت تھا نہ وہ دم کا ہلانا تھا نہ سر کا جھکانا، نہ وہ رفاقت تھی نہ وہ اطاعت۔ چند روز میں اسی طرح ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا۔ منہ کھلا، جبڑا ننگا، دانت اور کچلیاں کھلی ہوئیں اور ہزاروں چیونٹیاں اس میں گھسی ہوئی۔ میں نہایت متعجب ہوا، کہا کہ میاں انجام تو دونوں کا ایک سا ہی ہوا۔ میں نے کہا نہیں کسی مقدس جانور کو لو۔ میں نے کبوتر کا خیال کیا جو دنیا میں سب سے زیادہ مقدس شمار ہوتا ہے۔ بھولی بھالی صورت، پیاری پیاری باتیں، جورو خصم نہایت محبت، دونوں کا سوشیل برتائو نہایت میٹھا، تقدس میں بھی سب سے بڑھا ہوا۔ نوحؑ کے لیے زیتون کی مبارک ٹہنی لانے والا، مسیح کے لیے روح القدس بن کر اترنے والا، مکہ معظمہ میں کعبہ کا طواف کرنے والا، تمام خانقاہوں کا مجاور ہر کر رہنے والا، اپنے پروں کی ہوا سے بیماروں کو شفاء بخشنے والا، ہندوئوں اور بود ہست لوگوں کو جی کے بچائو کی ہدایت کرنے والا۔ مگر جب اس کا بھی انجام دیکھا تو اس سے زیادہ کچھ نہ پایا کہ پر نچے ہوئے کہیں پڑے ہیں، چونچ کہیں اور پنجے کہیں، چند روز تک سینہ ڈھانچا پڑا ہے ، پھر وہ بھی نہیں۔ میں نے اپنے خیال کو انسان کی طرف پلٹا کہ یکایک میرے سامنے سلطان عبدالعزیز خان کا ماجرا آ موجود ہوا جو نہایت مشہور اور بہادر شخص تھا۔ لڑائیوں میں نہایت دلیری و دانائی سے لڑا تھا۔ پندرہ برس سے قسطنطنیہ کے تخت شاہی پر جلوس کرتا تھا لوگ کہتے ہیں کہ نہایت فضول خرچ تھا۔ عورتوں پر بہت فریفتہ تھا چناں چہ ۵۳ عورتیں اس حرم سراء میں تھیں۔ ملک میں روپیہ کی کمی تھی۔ شاہی خزانہ خالی تھا۔ باغیوں سے سلطنت میں آفت برپا تھی۔ مگر اس نے کئی کروڑ روپیہ اپنے خزانہ میں عیاشی کے لیے چھپا رکھا تھا۔ اپنی پیاری جورو کی خوشی کے لیے ترکوں کی ولی عہدی کی پرانی رسم کو توڑنا چاہتا تھا۔ اس جورو سے جو بیٹا تھا۔ اس کو ولی عہد بنانا چاہتا تھا اور ملک کی بربادی کا کچھ خیال نہ کر کر اس کام کے پورا ہونے کو ملک کے دشمن آدمیوں کو اپنا دوست بناتا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے جرموں میں اسی کی سلطنت کے لوگوں نے اس پر یورش کی۔ تخت سے اتار دیا اور محل سے نکال ایک چھوٹے سے مکان میں قید کر دیا۔ سلطنت جانے کی حسرت نے اس کے دل کو بیتاب کر دیا اور اپنے تئیں آپ مار مرا۔ میرے خیال نے جھٹ ہاتھ دوڑایا۔ پہلے تو ماتھے پر رکھا پھر نتھنوں کے سامنے لے گیا کہ شاید کچھ سانس چلتی ہو۔ سینہ کو ٹٹولا، ہاتھ کو دیکھا، پائوں کو دیکھا، چاروں طرف غور کی، بجز ایک لاش کے کچھ نہ پایا، سینہ پر کان لگایا کہ شاید وہ ہڈیاں اچھل رہی ہوں مگر کچھ پتا نہ لگا۔ میں سمجھا کہ اب اس میں کچھ نہیں۔ چند روز میں یہ گوشت و پوست بھی نہ ہو گا صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ جاوے گا اور چند روز بعد وہ بھی نہ ہو گا۔ مجھے جانسن کی ’’سراب حیات‘‘ یاد آئی اور سمجھا کہ دنیا کی حسرت میں مرا۔ اس لیے اس کا یہ حال ہوا۔ مجھ کو اشتیاق ہوا کہ کسی بڑے خدا رسیدہ دنیا کی طرف سے پژمردہ مرے ہوئے کا حال دیکھوں۔ پنجاب کا ایک نہایت متبرک شخص میری آنکھوں میں پھر گیا۔ اس کے دیکھنے سے میں بہت خوش ہوا۔ خد اکے سوا اور کچھ کلام نہ تھا، عبادت کے سوا کچھ کام نہ تھا، دنیا اور اس کا عیش محض بے حقیقت تھا۔ جو لو تھی وہ خدا و عقبیٰ سے لگی ہوئی تھی۔ اتفاقات سے ان کا بھی آخری وقت آ پہنچا۔ اپنی اول منزل کی انھوں نے وصیت کی اور اپنے دوستوں کو نصیحت۔ نہایت شاداں و فرحاں سفر کی تیاری کی اور بغیر کسی ارمان و حسرت کے جان دی۔ میرے خیال نے جھٹ ہاتھ بڑھایا، ماتھے پر رکھا، نتھنوں کے سامنے کیا، دل ٹٹولا، سینہ ٹٹولا، ہاتھ دیکھا، پائوں دیکھا، کچھ نہ تھا، سینہ پر ٹکٹکی باندھی کہ اس کے اندر سے ضرور کچھ روشنی جھلکتی ہو گی پر کچھ نہ تھی۔ میں گھبرایا اور بے اختیار بول اٹھا کہ اجی حضرت کچھ بولو تو سہی، وہاں کیا تھا، سانس بھی نہ تھی۔ میں نے کہا کہ یہ تو ویسا ہی معاملہ ہو گیا جیسا کہ ان سے پہلوں کے ساتھ ہوا تھا۔ دنیا کی حسرت لے جانے اور عبادت کے شوق میں مر جانے میں تو اب تک کچھ فرق نہیں دکھائی دیا۔ اتنے میں لوگ ان کی تجہیز و تکفین کرنے لگے۔ قدیم خانقاہ میں اگلے سجادہ نشینوں کی قبروں کے برابر قبر کھودنے لگے۔ میں نے گھبرا کر کہا کہ دو چار دن رہنے تو دو۔ مجھے سمجھ تو لینے دو کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ لوگوں نے کہا باولا ہوا ہے، کوئی مردوں کو رکھتا بھی ہے تمام کھال بکس جاوے گی، گوشت گل پڑے گا، ہڈیوں کا ڈھانچہ نکل آوے گا، کوے اور چیلیں منڈلانے لگیں گی، ہڈیوں کے ڈھانچہ سے لوگ ڈر کر بھاگنے لگیں گے۔ یہ سن کر تو میں ششدر رہ گیا۔ تمام اگلے لاشے میری آنکھوں کے سامنے پھر گئے۔ میں نے کہا کہ میاں اور سب کا بھی تو یہی حال ہوا تھا۔ کیا یہی بات سچ ہے۔ چو آھنگ رفتن کند جان پاک چہ بر تخت مردن چہ بر روئے خاک میں نہایت متردد و متفکر، حیران و ششدر وہاں سے اٹھا اور دل بہلانے کے لیے اپنے باغ میں گیا جو ایک بہت بڑا باغ تھا۔ اور جوانی اور ولولہ کے زمانے میں میں نے اس کو ازسرنو نہایت خوب صورت و خوش نما آراستہ کیا تھا اور وہاں اکثر دوستوں کا اور بڑے بڑے نامی اور باکمال لوگوں کا مجمع وہتا تھا۔ غالب کی دل کش و محبت آمیز بزرگانہ باتوںسے، آزردہ کی دل چسپ و دل ربا فصاحت سے، شیفتہ کی متین و نیم خندہ زن وضع سے، صہبائی جانواز کے میخانہ محبت سے دل شاد شاد رہتا تھا۔ ادھر ادھر پھر رہا تھا، ایک چمن میں پہنچا جس کی نئی کھدائی ہوئی تھی، مٹی میں ایک ہڈی دکھائی دی جس کو میں بکرے کی سری سمجھا۔ میں نے ٹھوکر مار کر پرے پھینک دیا جب وہ نکلی تو بکرے کی سری نہ تھی بلکہ آدمی کی کھوپڑی تھی۔ میں نے اپنے دل سے کہا کہ ایک دن اس طرح کوئی شخص میری کھوپڑی کو بھی ٹھوکر مارے گا۔ میں نے دوڑ کر اسے اٹھا لیا اور دیکھا کہ صرف ہڈیاں جوڑی رہ گئی ہیں۔ پیشانی کی ہڈی پر خط خط میں شاید وہی نوشتہ تقدیر ہو پر پڑھی نہیں گئی۔ آنکھوں کی جگہ ایک گڑھا اور حلقہ تھا، انگلی ڈالو تو کچھ نہیں، ناک کی خوب صورتی بالکل نہ تھی ایک شکستہ تھوڑی سی اونچی نہایت بدنما ہڈی کا نشان تھا اور اس کا سوراخ نہایت ہی برا معلوم ہوتا تھا وہ دانت جن کو موتی اور اولوں کی باڑ کہتے تھے، ایسے ہیبت ناک دکھائی دیتے تھے کہ دل کانپتا تھا۔ میں نے اپنی بے ادبی کی جو نادانستہ ہوئی، معافی چاہی اور پوچھا کہ تم کون ہو؟ کیا مذہب تھا؟ عالم تھے، فقیر تھے، دنیا کی حسرت میں مرے یا خدا کی عبادت میں، ہر چند پوچھا، کچھ جواب نہیں ملا۔ پھر میں اس کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا کہ شاید کچھ نشان بھلائی برائی کا ملے، کچھ نہ ملا۔ ایک بڈھا باغبان میری ان سب باتوں کو دیکھ رہا تھا کہ میاں کیا دیکھتے ہو؟ اچھے بروں کا، گیدڑ بھیڑیے کا، مرے پر سب کا ایک سا حال ہو جاتا ہے۔ میں سخت متعجب ہوا اور جانسن کی ’’سراب حیات‘‘ کو یاد کیاکہ پھر اس نے کیا کہا۔ میرے دوست نے کہا کہ تمہارے خیال بھی نہایت خام ہیں اور تمہارے متفکر ہونے پر بھی نہایت افسوس ہے۔ تم اس مٹی کے ڈھیر اور سڑنے والے گوشت اور گلنے والی ہڈیوں میں کیا ڈھونڈتے تھے، جو چیز دیکھنے کی تھی وہ تو اس میں تھی ہی نہیں۔ میں نے پوچھا کہ پھر وہ کہا تھی اس نے کہا کہ معلوم نہیں پھر پوچھا کہ کیسی تھی بولاکہ معلوم نہیں۔ پھر پوچھا کہ دیکھائی دیتی تھی کہا نہیں پھر پوچھا کہ کہاں گئی، کہا معلوم نہیں۔ اس جواب سوال سے میں اور بھی متحیر ہوا کہ جس چیز کا کسی طرح پر علم نہیں اس کی نسبت کہتا ہے کہ تھی۔ بولا کہ خدا نے کہا ہے۔ میں نے کہا سچ ’’ولکن لیطمئن قلبی‘‘ یہ سنا اور سن کر خاموش ہو رہا۔ میں نے کہا کہ یہ سب تمہارے خیالات ہیں کہ وہ شخص دنیا کی حسرت میں مرا اور وہ شخص خدا کی عبادت میں مرے۔ پر سب برابر ہیں۔ جو بات سچ ہے وہ آپس کی ہمدردی، قومی اعانت، قومی بھلائی ہے۔ جب کہ ہماری قوم کا دنیا میں یہ حال ہے کہ ذلت و خواری، نکبت و جہالت میں مبتلا ہے تو اگر کوئی دنیا کی حسرت میں مر کر جہنم میں گیا تو ہماری جوتی سے اور عبادت کر کر بہشت میں گیا تو ہماری بلا سے، ان کا کیا رونا ہے۔ جیتوں کو رو جو مردوں سے بھی بدتر ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندوئوں میں ترقیِ تہذیب (تہذیب الاخلاق، بابت یکم ذی قعدہ ۱۲۸۹ھ) یہ ایک نہایت عمدہ قول ایک بڑے فلاسفر کا ہے کہ زمانہ سب سے بڑا رفامر یعنی مصلح امورات ہے۔ ہندوئوں کا حال دیکھ کر ہم کو اس قول کی تصدیق ہوتی ہے۔ انھیں دنوں میں ہز ھائنس مہاراجہ صاحب ویجے نگرام کے بیٹے کی شادی ہز ھائنس مہاراجہ جے پور کے ہاں ہوئی ہے وہ اور ان کے احباب جے پور بیاھنے کو گئے تھے اور چند رئیسان بنارس بھی ان کے ساتھ تھے۔ جب سب لوگ شادی کر کر واپس آئے تو دو صاحبوں نے جو نہایت عالی خان دان رئیس ہیں، مجھ سے دعوت کا یہ حال بیان کیا کہ وہاں کئی سو راجپوت نے جو نہایت عمدہ قوم کے ہیں اور جن میں مہاراجہ جے پور و مہاراجہ ویجے نگرام بھی شامل تھے، اس طرح پر کچی رسوئی کھائی کہ ایک نہایت پرتکلف مکان فرش فروش سے آراستہ تھا، شطرنجی اور نہایت عمدہ دھوئی ہوئی سفید چاندنی بچھی ہوئی تھی اور اس پر بہت بڑی لمبی خوب صورت مہاگنی کی میز لگی ہوئی تھی اور ہر چہار طرف کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ تمام راجپوت اپنی پوشاک، دستار و قبا پہنے ہوئے اور پائوں میں جوتیاں پہنے ہوئے، ہتھیار لگائے ہوئے سب کرسیوں پر آن بیٹھے۔ میز پر سب کے سامنے انواع و اقسام کا کھانا چنا گیا جس میں دال بھات بھی تھا اور سب نے بے تکلف ایک میز پر بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا۔ زیادہ تعجب یہ ہے کہ چوکہ کی بھی کچھ قید نہ تھی۔ کچی رسوئی بھی چل کر بہت دور فاصلہ سے آتی تھی اور سب راجپوت بلا عذر کھاتے تھے۔ اس بات کے سننے سے البتہ ہم کو افسوس ہے کہ میز پر بجائے نفیس نفیس برتنوں کے پتوں کی رکابیاں تھیں جس کو ہندی میں تپل کہتے ہیں اور صرف یہی ایک چیز تھی جو اس زمانہ کو یاد دلاتی تھی جب کہ دنیا کی قوموں کو برتن بنانے کا فن نہیں آتا تھا۔ مگر ہم کو امید کرنی چاہیے کہ ہمارے ہندو بھائی اپنے دھرم کو قائم رکھ کر بہت جلد تہذیب و شائستگی میں ترقی کریں گے۔ در حقیقت ہمارے لیے اور خصوص میرے لیے یہ بات نہایت خوشی کی ہے۔ اس لیے کہ میں ہمیشہ یہ خیال رکھتا تھا کہ ہمارے ہندو بھائیوں میں سویلزیشن کی ترقی مع قیام ان کے مذہب کے نہیں ہو سکتی۔ مگر اس حال کے سننے سے جو جے پور میں ہوا مجھے یقین ہو گیا کہ میرا یہ خیال غلط تھا اور میں اپنے اس خیال کے غلط نکلنے سے بے انتہا خوش ہوا ہوں اور خود اپنے کو آپ مبارک بادی دیتا ہوں۔ میری یہ سمجھ ہے کہ ہندوستان میں دو قومیں ہندو اور مسلمان ہیں۔ اگر ایک قوم نے ترقی کی اور دوسری نے نہ کی تو ہندوستان کا حال کچھ اچھا نہیں ہونے کا، بلکہ اس کی مثال ایک کانڑے آدمی کی سی ہو گی۔ لیکن اگر دونوں قومیں برابر ترقی کرتی جاویں تو ہندوستان کے نام کو بھی عزت ہو گی اور بجائے اس کے کہ وہ ایک کانڑی اور بڈھی بال بکھری دانت ٹوٹی ’بیوہ‘ کہلاوے ایک نہایت خوب صورت پیاری دلہن بن جاوے گی۔ او خدا تو ایسا ہی کر ۔ آمین۔ نیچر (تہذیب الاخلاق، ۱۲۹۶ھ، از صفحہ ۱ تا ۵) اچھے لفظ بھی جب بری نیت سے استعمال کیے جاویں تو برے ہو جاتے ہیں۔ ’’آپ بڑے عالم ہیں۔‘‘ کہنے والے کی نیت سے بڑے جاھل کے معنوں میں ہو جاتا ہے مگر ہم کیوں کسی کی نیت کو بد قرار دیں۔ ہم کو تعجب ہے کہ وہ لوگ جو ائمہ اربعہ کے مذہب پر نہیں چلتے غیر مقلد یا لامذہب کہنے کو کیوں گالی سمجھتے ہیں1، حالاں کہ در حقیقت وہ ائمہ اربعہ کی تقلید نہیں کرتے اور ان کے مذہب پر نہیں چلتے۔ پھر سچ بات سے کیوں برا مانتے ہیں اور اوروں کی نیت کو کیوں برائی پر لے جاتے ہیں۔ وہی لوگ اور ان کے چھوٹے بڑے بھائی ہم کو ’’حضرات نیچریہ‘‘ کہتے ہیں۔ ہم تو نہ ان کے کہنے سے برا مانتے ہیں نہ ان کی نیت میں برائی لگاتے ہیں بلکہ ان کا احسان مانتے ہیں کہ سچ بات کہتے ہیں اور جس مذہب کو خدا نے اپنا مذہب بتایا ہے نہایت نیک نیتی سے اسی مذہب کی طرف ہم کو منسوب کرتے ہیں۔ خدا کہتا ہے: فاتم و جھک للدین حنیفا فطرۃ اللہ التی فطر الناس اکثر الناس لا یعلمون۔ (سورۃ الم الروم) ’’سیدھا کر اپنا منہ خالص دین کے لیے جو نیچر خدا کا ہے جس پر لوگوں کو بنایا ہے، خدا کی پیدائش میں کچھ تبدیل نہیں ہے۔ یہی مستحکم دین ہے و لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ شاہ ولی اللہ صاحب نے، صاحب تفسیر ابن عباس نے ’’فطرت اللہ‘ کا ترجمہ دین خدا کا کیا ہے، پس جو ہمارے خدا کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے۔ خدا نہ ہندو ہے، نہ عرفی مسلمان، نہ مقلد، نہ لامذہب، نہ یہودی ، نہ عیسائی۔ وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے۔ وہ خود اپنے کو نیچری کہتا ہے۔ پھر اگر ہم بھی نیچری ہیں تو اس سے زیادہ ہم کو کیا فخر ہے۔ ’’لاتبدیل لخلق اللہ‘‘ کی تفسیر میں قاضی بیضاوی نے لکھا ہے ’’لا یقدر احدان یغیرہ‘‘ یعنی کسی کا مقدور نہیں ہے کہ اس کو بدل دے۔ پس یہ خدا کا دین ضرور پھیلے گا۔ نہ میرے روکنے سے رکے نہ تمہارے روکنے سے۔ نہ نور الآفاق کی تحریریں اس کا مٹا سکیں، نہ اشاعۃ السنہ کی تحریریں اس کو مٹا سکیں گی اور نہ تیرھویں صدی اس کو نقصان پہنچائے گی۔ نیچر خدا کا دین ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ مذہب اسلام ان بندشوں کو توڑنے کو آیا تھا جو فطرت یا نیچر پر لوگوں نے باندھی تھیں۔ وہ کوئی نئی بندش نیچر یا خدا کے دین پر باندھنے نہیں آیا۔ اس نے قیدیوں کی بیڑیوں کو توڑا ہے اور کوئی نئی بیڑی یا ہتھکڑی نہیں ڈالی ہے۔ اس نے پورا حق آزادی کا فطرت، نیچر کے مطابق لوگوں کو دیا ہے اور اسی کو ان کا دین بلکہ خدا کا دین بتایا ہے۔ پس اوپر کی بندشوں کو توڑنے دو اور ٹھیٹ مذہب اسلام کو ، نیچر کو ، خدا کے دین کو، خدا کے مذہب کو چمکنے دو۔ وہ چمکے گا اور کسی کے چھپائے سے نہیں چھپنے کا۔ کسی نے خدا کو اور کسی طرح نہیں جانا۔ اگر جانا تو نیچر ہی سے جانا۔ موسیٰؑ نے رب ارنی کے جواب میں کیا سنا۔ لن ترانی و لکن انظر الی الجبل، پہاڑ پر کیا تھا؟ وہی نیچر قانون قدرت کا نمونہ تھا۔ خود خدا بھی اپنے آپ کو کچھ نہیں بتلا سکا اور جو بتایا تو نیچر ہی کو بتلایا۔ بولا کہ جس نے زمین کو تمہارے لیے بچھونا اور آسمان کو دیرہ بنایا اور آسمان سے پانی برسایا۔ جس نے تمہارے کھانے کے لیے طرح طرح کے میووں کو اگایا، وہی خدا ہے۔ بولا کہ ’’سمجھ داروں کے لیے آسمان و زمین کے پیدا کرنے، رات دن کے مختلف ہونے، کشتی کے دریا میں چلنے ، آسمان سے پانی برسنے، زمین سے مر کر زندہ ہونے، اس پر چلنے والوں کے پھیلنے، ہوائوں کے ادھر ادھر ہونے بادلوں کے آسمان و زمین میں ادھر ہونے ہی میں نشانیاں ہیں۔ جب پوچھو کہ تو کون ہے؟ اس کا جواب تو کچھ نہ دے اور اپنے قانون قدرت کو بتا دے اور بولے کہ وہ جو رات کو دن میں اور دن کو رات میں ادل بدل کر دیتا ہے، زندہ سے مردہ، مردہ سے زندہ نکالتا ہے۔ وہ وہ ہے کہ جس نے تم سب کو ایک جان سے پید اکیا، تمہارے لیے جوڑا بنایا، ان سے عورت مرد پھیلا دیے۔ خدا کون ہے؟ بیجوں اور گٹھلیوں کو پھوڑ کر اس میں سے بڑی ٹہنی اگانے والا، رات کو پھاڑ کر دن نکالنے والا، رات کو آرام سے سونے کے لیے بنانے والا، چاند سورج سے حساب کا اندازہ سکھانے والا، ستاروں سے جنگلوں اور دریائوں میں اندھیری رات کو راستہ بتانے والا، آسمان سے مینہ برسا کر ہر چیز کو اور ہری ہری گھانس کا اگانے والا، ان میں دانوں سے بھری ہوئی بالیں، کھجوروں میںلدے ہوئے زمین پر جھکے ہوئے خوشے پیدا کرنے والا۔ انگور، زیتون اور انار کے باغ لگانے والا کہ جب وہ پھلتے ہیں اور پکتے ہیں تو دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں، یہ خدا ہے جو آنکھوں سے دکھائی نہیں دے سکتا۔ خدا وہی تو ہے جو مینہ سے پہلے ٹھنڈی ہوا لاتا ہے جو مینہ آنے کی خوش خبری دیتی ہے۔ جب وہ بادلوں کے دل کو ہنکا لاتی ہے تو مردہ زمین پر برساتی ہے جس میں سے ہر طرح کے میوے نکلتے ہیں۔ کیا آسمان و زمین میں اور ہر چیز میں جس کو خدا نے پیدا کیا اس کی قدرت، بادشاہت، سطوت کو نہیں دیکھتے؟ پھر اس کے بعد کون سی بات ہے جس پر ایمان لائو گے۔ کون آسمان سے رزق پہنچاتا ہے؟ کون زمین سے رزق اگاتا ہے؟ کون کان اور آنکھ کا مالک ہے۔ کون مردہ میں سے زندہ اور زندہ میں سے مردہ نکالتا ہے؟ کون اس تمام کاموں کو سنوارے رکھتا ہے؟ تم بھی کہہ اٹھو گے کہ اللہ۔ بے شک وہی خدا ہے جس نے آسمانوں کو بغیر دکھائی دیتے ستونوں پر اونچا کر رکھا ہے چاند سورج کو اپنا تابع دار کیا ہے، زمین کو پھیلایا ہے، پہاڑوں کو اس میں بنایا ہے ، نہروں کو اس میں بہایا ہے، ہر قسم کے میووں کو اس میں اگایا ہے، دن کو رات سے ڈھانکا ہے، ایک زمین میں طرح طرح کے ٹکڑوں کو بنایا ہے، کہیں انگور کے باغ ہیں، کہیں کھجوروں کے کھیت، کسی میں گھنی شاخیں ہیں کسی میں چھدری، کھانے میں ایک دوسرے سے مزے دار ہے۔ سمجھ داروں کے لیے خدا کے ہونے کی اسی میں تو نشانیاں ہیں۔ وہی تو خدا ہے جو بجلی کی چمک سے ڈراتا ہے اور مینہ سے لالچ دلاتا ہے، بھاری بھاری بادل اٹھاتا ہے، رعد سے تسبیح پڑھواتا ہے، جس پر چاہتا ہے اس پر بجلی گراتا ہے اور پھر خدا پر جھگڑا کرتے ہو۔ آسمان و زمین کو ٹھیک پیدا کیا، نطفہ سے آدمی بنایا، چوپائوں کو تمہارے لیے پیدا کیا، ان سے فائدہ اٹھاتے ہو، ان کی پوستینیں پہنتے ہو، ان کا گوشت کھاتے ہو، جب صبح کو چرنے جاتے ہیں اور شام کو چرکر آتے ہیں تو ان سے تمہاری شان و شوکت معلوم ہوتی ہے، ایک شہر کے دوسرے شہر کو تمہارا اسباب پہنچا دیتے ہیں، گھوڑے اور خچر اور گدھے تمہاری سواری کے لیے ہیں۔ آسمان سے پانی برساتا ہے جس کو تم پیتے ہو، درخت سینچے جاتے ہیں ، کھیتی اور زیتون اور کھجور اور ہر قسم کے پھل پیدا ہوتے ہیں، چاند سورج ستارے سب تم کو کام دیتے ہیں، رنگ برنگ کی چیزیں زمین سے پیدا ہوتی ہیں۔ وہی تو خدا ہے جس نے تمہارے لیے مچھلیوں کا مزے دار گوشت کھانے کو اور بے بہا موتی نکال کر زیور بنانے کو دریا پیدا کیا۔ تم دیکھتے ہو کہ کس طرح کشتیاں اس کا پانی چیرتی ہوئی چلتی ہیں۔ زمین کے مرکز ثقل پر تلے رہنے کو پہاڑ بنائے اور تمہارے چلنے کو نہریں اور راستے نکالے، نشان بنائے کہ ستاروں کو دیکھ کر تم چلتے ہو۔ بھینسوں اور گایوں پر غور کرو، ان کے پیٹ میں خون اور گوبر کے سوا کیا ہے۔ مگر وہ کیا مزے دار دودھ پلاتی ہیں۔ کھجوروں اور انگوروں سے کس طرح پیٹ بھرتے ہو اور نشہ دار شرابیں بناتے ہو۔ خدا ہی نے مکھی کو سکھایا کہ پہاڑوں میں ، درختوں میں، اونچے مکانوں میں، اپنے گھر بنائے اور ہر قسم کے میووں کو چوسے اور پھر اپنے پیٹ میں سے رنگ برنگ کے شہد نکالے اور خدا ہی نے تم کو بھی تو پیدا کیا ہے پھر تم کو مار ڈالے گا۔ تم میں سے کسی کو نہایت بڈھا کر دیتا ہے۔ خدا نے تم کو تمہاری مائوں کے پیٹ سے پیدا کیا، کان دیے، آنکھیں دیں، دل دیا تاکہ تم شکر کرو۔ پرند جانوروں کو نہیں دیکھتے جو اکاش میں ادھر تھمے ہوئے ہیں کوئی ان کو نہیں تھامتا بجز خدا کے۔ اسی میں تو ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ خدا ہی نے تمہارے رہنے کے گھر اور جانوروں کی کھال کے ڈیرے، ان کی اون سے اور ان کے بالوں سے اسباب، گرمی سو بچنے ، لڑائی میں زخموں سے محفوظ رہنے کا لباس بنایا ہے۔ اس پر بھی اگر وہ پھر جاویں تو اے پیغمبر! الٰہی (یعنی نیچر کے ) پیغاموں کا پہنچا دینا تیرا کام ہے۔ خدا ہی حباب سے بادلوں کو ہنکاتا ہے، پھر ان کو اکٹھا کرتا ہے، پھر تہ بہ تہ جماتا ہے، پھر ان میں سے بوندیں گرتی ہیں، آسمانی کالے پہاڑوں میں سے سفید سفید اولے پڑتے ہیں، بجلی چمک کر آنکھوں میں چکا چوند کر دیتی ہے، خدا ہی رات کو دن کر دیتا ہے، انھی باتوں میں عقل مندوں کے لیے نصیحت ہے۔ خدا کی یہ نشانی ہے کہ تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر تم چلتے پھرتے آدمی ہو، خدا کی یہ نشانی ہے کہ تمہیں میں سے تمہارا جوڑا بنایا اور ان میں محبت ڈالی۔ خدا کی یہ نشانی ہے کہ آسمان پیدا کیے، تمہاری بولیاں اور تمہارے رنگ جدا جدا بنائے۔ خدا کی یہ نشانی ہے کہ رات کو تم سو رہتے ہو اور دن کو روزی ڈھونڈتے پھرتے ہو۔ خدا نے آسمان سے مینہ برسایا پھر اس سے رنگ برنگ کے میوے پیدا کیے۔ پہاڑ میں سے سفید، سرخ ، چتکبرے،کالے ، بھنور، پتھر کے ٹکڑے نکالے، آدمیوں اور جانوروں کے بھی طرح طرح کے رنگ بنائے۔ فرعون نے موسیٰ سے پوچھا کہ خدا کون ہے؟ موسیٰ نے نیچر ہی سے سمجھایا اور کہا کہ آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ کہ ان میں ہے ان کا خدا۔ فرعون نے اپنے ہالی موالی سے کہا کہ تم سنتے ہو یہ کیا کہتا ہے۔ موسیٰ نے کہا کہ تمہارا اور تمہارے باپ دادا کا خدا۔ فرعون بولا کہ یہ پیغمبر جس کو ہمارے پاس بھیجا ہے یہ تو کچھ دیوانہ ہے۔ موسیٰ پر کیا موقوف ہے۔ جتنے پیغمبر گزرے ہیں سب نیچری تھے۔ خدا خود نیچری ہے۔ جب لوگوں نے نیچر کے قوانین کو چھوڑا تب ہی اس نے پیغمبر بھیجا۔ جو پیغمبر آیا اس نے کیا کیا۔ پھر لوگوں کو نیچر کا رستہ بتایا اور جتنا بگاڑا تھا اتنے کو پھر سنوارا، جب موسیٰ سے نیچر لسٹ کو لوگوں نے مجنون کہا تو پھر ہم کس گنتی میں ہیں ہم کو جو چاہیں کہیں۔ خدا نے ہم کو، ہماری جان کو، ہماری سمجھ کو، ہمارے قیاس کو، ہمارے دل و دماغ کو، ہمارے روئیں روئیں کو، نیچر سے جکڑ دیا ہے، ہمارے چاروں طرف نیچر ہی نیچر پھیلا دیا ہے، نیچر ہی کو ہم دیکھتے ہیں ، نیچر ہی کو ہم سمجھتے ہیں، نیچر سے خدا کو پہنچانتے ہیں، پھر نیچری نہ ہوں تو کون ہوں، کوئی کیسا ہی مسلمان ہو ہم تو بلاشبہ فطرتی مسلمان ہیں، ہمارے باپ دادا بھی کچھ کرشمہ و کرامات دیکھ کر ایمان نہیں لائے تھے، وہ بھی فطرتی مسلمان تھے۔ ہمارا ہی دادا تھا جس کے دل میں فطرتی ایمان نے جب جوش کیا تو گھبرا گیا اور نیچر کو، فطرت کو، خدا کے دین کو، ڈھونڈنے لگا۔ خدا ہی نے اس کو ’’ملکوت السموات و الارض‘‘ دکھلا دی۔ وہ ملکوت کیا تھی۔ وہی نیچر، فطرت، خدا کا دین تھا، رات کے اندھیرے میں ایک روشن ستارہ نیچر کا پرکالہ دیکھا، جانا کہ یہی خدا ہے، چاند کو نور کا ٹکڑا پایا اسی پر خدا ہونے کا دھوکا کھایا، سورج کو سب سے زیادہ چمکیلا دیکھا اسی پر خدا ہونے کا گمان کیا۔ مگر جب دیکھا کہ یہ سب تو ڈوب جاتے ہیں تو بول اٹھا کہ میں اس پر ایمان لایا جس نے فطرت نیچر کو بنایا اور پکا فطرتی مسلمان ہوا۔ پس جب ہمارا دادا ابراہیم نیچری تھاتو ہم اس کی ناخلف اولاد نہیں ہیں جو نیچری نہ ہوں۔ نیچر ہمارے خدا کا، ہمارے باپ دادا کا تمغہ ہے۔ ہم نیچری، ہمارا خدا نیچری، ہمارے باپ دادا نیچری۔ اگر کوئی اس مقدس لفظ کو بری نیت سے استعمال کرتا ہے، وہ جانے اور اس کا دین ایمان۔ وہ صرف ہم ہی کو نہیں کہتا بلکہ خدا کو، پیغمبر کو، ابراہیم کو سب کو کہتا ہے۔ پھر لوگوں کو جو وہ چاہیں کہنے دو۔ ہم کو ان کی نسبت بھی حسن ظن رکھنے دو۔ ان کو ان کی راہ پر، ہم کو اپنی راہ پر ، اپنے خدا کی راہ پر، اپنے باپ دادا کی راہ پر، پیغمبروں کی راہ پر ، رسولوں کی راہ پر، آزر کے بیٹے ابراہیم کی راہ پر چلنے دو۔ بیت: تو و طوبیٰ و ما و قامت یار فکر ہر کس بہ قدر ہمت اوست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیچری (تہذیب الاخلاق ، بابت ۱۲۹۶ھ، از صفحہ ۱۸ تا ۲۱) ہمارے دوست ہم سے کہتے ہیں کہ نیچری اور دھریہ مترادف الفاظ ہیں۔ پھر ہم نے اپنی طرف سے اس کا منسوب ہونا کیوں گوارا کیا اور کیوں اس کو مقدس لفظ کہا اور جس لفظ کے معنی ہیں اچھے نہیں ہیں اس کے استعمال میں اچھی و بری نیت کو کیا دخل ہے۔ مگر سمجھنا چاہیے کہ ’’نیچرلسٹ‘‘ کا لفظ جب وضع ہوا تو اس کو مذہب سے کچھ لگائو نہ تھا۔ وہ ایک علمی اصطلاح تھی اور نیچر لسٹ اس شخص کو کہتے تھے جو نیچر کی اور اس کے قوانین کی چھان بین کرتا تھا اور علم نیچر کے عالم کو بھی نیچر لسٹ کہتے تھے۔ جس نے حیوانات، نباتات اور معدنیات کی پیدائش کے قوانین جانا ہو اور مادہ کے قوانین اور اس کی صورتوں کی تبدیل کے اصول کو تحقیق کیا ہو۔ ابتداء میں یہ علم محدود تھا۔ مگر جس قدر زیادہ تحقیقات ہوتی گئی اسی قدر زیادہ وسیع ہوتا گیا اور ثابت ہوتا گیا کہ جس قدر چیزیں دکھائی دیتی ہیں یا جانی گئی ہیں یہاں تک کہ انسان کے کام اور انسان کے خیالات اور اس کے اعتقادات، سب کے سب نیچر کے قوانین کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں۔ جس طرح کہ تمام انسان اس خیال سے جس کو کبھی مذہب سے اور کبھی لامذہب سے تعبیر کرتے ہیں خالی نہیں۔ اسی طرح اس علم کے عالم بھی اس خیال سے خالی نہ تھے۔ بعض لوگوں کو یہ خیال ہوا کہ جب ہم نیچر ہی کو تمام چیزوں میں، ان کے پیدا ہونے میں، ان کی بقا میں، ان کی فنا میں پاتے ہیں تو جو کچھ ہے نیچر ہی نیچر ہے اور اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ انھوں نے اس کا بھی جس کو ہم تم خدا کہتے ہیں انکار کیا اور کہا کہ یہ دنیا آپ ہی آپ ہوئی اور آپ ہی آپ قائم ہے اور ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ بعضوں نے کہا کہ وہ جس کو ہم تم خدا کہتے ہیں شاید ہو نہ ہو کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ شاید انھیں کے مشابہ وہ لوگ ہوں گے جن کو ہمارے علماء اسلام نے دھریہ کا خطاب دیا ہے۔ ان ہی عالموں میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ انھوں نے جس قدر زیادہ نیچر کی اور اس کے قوانین کی تحقیقات کی اسی قدر اس کو ایسی ترتیب اور ایسی مناسبت اور ایسے انتطام سے پایا جس سے وہ حیران رہ گئے اور انھوں نے یقین کیا کہ یہ سب چیزیں آپ ہی آپ ایسی عمدگی سے نہیں ہو سکتیں۔ بے شک ان کو کسی بڑے کاری گر نے سمجھ بوجھ کر بنایا ہے انھوں نے اس علۃ العلل کا جس کی یہ سب چیزیں معلول ہیں یا نیچر کے قوانین بتانے والے کا یا ان سب چیزوں کے پیدا کرنے والے کا۔ یا اس کا جس کو ہم تم خدا کہتے ہیں اقرار کیا اور ٹھیک وہی رستہ چلے جو ’’اور کلدانیاں‘‘ کے رہنے والے ایک نوجوان نے جس کو ابراہیم کہتے ہیں اختیار کیا تھا۔ یہی لوگ مذہبی خیال سے نیچرلسٹ ہیں۔ وہ خود بھی مقدس ہیں اور وہ لفظ بھی مقدس ہے۔ اسی لیے میں نے اس کو مقدس کہا اور نیچر لسٹ ہونا اپنا فخر سمجھا اور یہ کہا کہ ’’اگر کوئی اس مقدس لفظ کو بری نیت سے استعمال کرتا ہے وہ جانے اور اس کا دین ایمان۔‘‘ خدا کی شان اور خدا کی عظمت اور اس کا جاہ و جلال اور انبیاء کی شان اور ان کی قدر و منزلت بھی بغیر نیچرلسٹ کے کوئی نہیں جان سکتا۔ تھوڑی دیر کے لیے خدا کا اور انبیاء کا اس طریقہ پر جیسا کہ علماء اسلام نے قرار دیا ہے تصور باندھو۔ اگر مسجمیہ ہو تو اس کو ایک نہایت قوی ہیکل، گراں ڈیل لمبے لمبے ہاتھ پائوں، بلور کی سی پنڈلیاں، انسان کی سی صورت، گوری گوری رنگت، نورانی چہرہ، سفید داڑھی، سر پر تاج یا لال پھندنے دار ٹوپی، تخت پر بیٹھا ہوا، اردگرد ھالی موالی دست بستہ کھڑے ہوئے خیال کرو۔ اگر ان کو گم راہ سمجھو تو اتنا تو ضرور یقین کرو کہ قیامت میں ضرور اس کو دیکھیں گے، گو صورت شکل نہ معلوم ہونے سے پہچاننے میں مشکل پڑے۔ اس کا دربار لگا ہو ا ہو گا وہ تخت پر بیٹھا ہوا ایک خوشی و غرور سے کہتا ہو گا۔ ’’لمن الملک الیوم‘‘ اس کے ھالی موالی کہتے ہوں گے ’’للہ الواحد القھار‘‘ عدالت لگی ہو گی، انصاف ہو رہا ہوگا، مجرم پیش ہوتے ہوں گے، گواہ گواہی دے رہے ہوں گے، ہر ایک کا اعمال نامہ پڑھا جاتا ہو گا، ترازو میں کچھ تل رہا ہو گا۔ ایک طرف کالی کالی بدہیئت ڈرائونی صورت دوزخ کے فرشتے اور دوسری طرف گورے گورے جنت کے فرشتے صف باندھے کھڑے ہوں گے۔ ادھر دوزخ جوش مار رہی ہو گی۔ اس کی آتشیں زبانیں ھل من مزید، ہم من مزید کہہ کر چلا رہی ہوں گی۔ ادھر جنت میں میوے لٹک رہے ہوں گے، پھول کھلے ہوئے ہوں گے، دودھ و شراب کی نہریں بہ رہی ہوں گی، حوریں اور غلمان اپنے اپنے دوستوں کے انتظام میں ٹہل رہے ہوں گے۔ انصاف بھی بے مثل ہو گا۔ تقدیر کا مسئلہ اگر صحیح ہو تو جو کام خود حضرت نے کیے ہیں اس کی سزا دوسروں کو دی جاوے گی۔ چھوٹے بچوں کو اس لیے سزا ملے گی کہ تم کافروں کے ہاں کیوں پیدا ہوئے۔ غرض کہ آخر کار فی صدی دو تین بہشت میں جاویں گے1 باقی سب دوزخ میں۔ بلکہ ان میں سے بھی کچھ کسی الزام سے کچھ کسی الزام سے۔ کچھ نیچری ہونے کے الزام سے چھنٹ جاویں گے۔ صرف دو چار اہل حدیث، یا دس پانچ مقلد وہابی جاویں گے۔ دوزخ بھرپور اور بہشت خالی ویران رہ جاوے گی۔ نیچری اس وقت بھی پکاریں گے کہ بہشت میں جانا نہ یہودی ہونے پر موقوف ہے، نہ عیسائی ہونے پر، نہ وہابی ہونے پر موقوف ہے ، نہ اور کچھ ہونے پر، بلکہ اصل یہ ہے کہ ’’من اسلم وجحہ للہ و ھو محسن فلہ اجرہ عند ربہ ولا خوف علیھم ولا ہم یحزنون‘‘ پھر دیکھئے ان کی یہ صدا سنی جاتی ہے یا نہیں۔ ہم کوتو یقین ہے کہ ضرور سنی جاوے گی۔ اگر سنی گئی تو پھر نیچریوں ہی کی بدولت سب کا بیڑا پار ہے۔ انبیاء کو انھوں نے ایک ایسا شخص سمجھا جو اپنی بہادری سے، یا اتفاق سے سلطنت کو پہنچ گیا ہو اپنے ہی سے ایک گروہ پر حکومت کرتا ہو اور کہتا ہو کہ یہ کرو اور یہ مت کرو یا وہ خود کچھ نہ ہو بلکہ بانسلی کی طرح صرف بجانے والے کی اس میں سے آواز نکلتی ہو، مگر نیچریوں نے انبیاء کی قدر و منزلت اس سے بہت زیادہ سمجھی ہے۔ انھوں نے انبیاء کو انسان مگر دوسرے نیچر کا سمجھا ہے۔ انھوں نے خود اس بانسلی ہی کی کو بولنے والی جانا ہے مگر انھیں لفظوں کی جو بانسلی بنانے والے کے لفظ تھے نہ اور کسی کے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ اس زمانہ میں دنیا کی مردم شماری سے بھی مسلمانوں کے اور مذہب کے لوگوں کے ساتھ یہی نسبت نکلتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں نے اس سیدھے سادھے مذہب کو دیو پری کا قصہ بنا دیا۔ عجائبات و کرشمہ کرامات سے بھر دیا اور جو خوبی اس کی تھی اسی کو مٹا دیا۔ یہ کاٹ کی ہنڈیاں بہت دنوں سے جل چکی ہوتی مگر علماء کے اقتدار اور سلاطین وقت کو اپنا تابع دار کر لینے سے اس پر خاک پڑتی گئی۔ سچائی پر انھوں نے خاک ڈالی اور مثل آتش زیر خاک اس کو چھپا دیا۔ متعدد طرح سے کبھی کبھی اس نے خاک کے نیچے سے سر نکالا۔ مگر جس سوراخ سے سر نکلا پھر اسی کو خاک سے بھر دیا۔ کفر کے فتوے دیے گئے، قتل کیے گئے، کتابیں جلائی گئیں، ایذائیں دی گئیں، جو کچھ ہو سکا سب کچھ کیا گیا۔ اسرار اسلام کے سمجھانے والے سب مٹ گئے اور صرف اسلام کا بھجن گا کر روٹی کمانے والے اور اپنا دوزخ بھرنے کو تمام دنیا کو دوزخ میں بھیجنے والے باقی رہ گئے، جو بہشت کو خاص اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، کفر کے خزانے کے مالک ہیں۔ ۔اس میں سے ہر ایک کو جتنا جتنا مناسب سمجھتے ہیں تحفہ دیتے ہیں۔ یہ حالت کسی وقت ظاہر میں سلطنت کے مناسب معلوم ہوتی تھی مگر در حقیقت ایک دق کی بیماری تھی جس کا اثر بہت دیر بعد ظاہر ہوتا ہے۔ اس حالت کا قدرتی نتیجہ قومی ہم دردی کا زوال آپس میں عداوت اور ایک دوسرے کی حسد تھا، جو مسلمانون میں پیدا ہوا اور اس زمانہ میں مذہب اسلام کا خاصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس نئی پیداوار کا لازمی نتیجہ زوال سلطنت و اقتدار تھا جو تاریخ کی کتابوں میں اور زندہ تاریخ میں بھی موجود ہے۔ جس سے میری مراد سلطنت عثمانیہ ترکی ہے۔ ایسی حالت میں اس کاٹ کی ہنڈیا کو کوئی بجانے والا نہ رہا اور علوم و فنون کے شعلہ عالم افروز نے اس کو جلانا شروع کیا۔ ان لوگوں نے جن کے باپ دادا اس کو فولاد یا اسپات کی ہنڈیا سمجھتے تھے اپنی آنکھ سے جلتے ہوئے دیکھا اور بعضوں نے ہاتھ سے اور بعضوں نے دل سے اس کو پھینک دیا اور الگ کھڑے ہو گئے۔مگر وہ یہ نہ سمجھے کہ یہ تو جعلی ہنڈیا تھی اصل ہنڈیا تو فولاد اور اسپات سے بھی زیادہ مستحکم ہے۔ ہمارا مطلب نہ کسی ملکی معاملہ سے ہے نہ کسی مذہبی جھگڑے سے بلکہ ہم کو صرف یہ دیکھنا ہے کہ ہماری موروثی ہنڈیا کون سی تھی۔ وہی کاٹ کی جو جل رہی ہے یا اور کوئی۔ اس کی شناخت کو وہی قانون قدرت ہماری آنکھ کے سامنے ہے۔ اس سے ہم اس کو پر تالتے جاتے ہیں اور خوش ہو کر کہتے ہیں کہ وہ کاٹ کی ہنڈیا جو جل رہی ہے اور جس نے ہمارے دین کو ہماری دنیا کو، ہماری معاشرت کو، ہمارے اخلاق کو، ہماری عزت کو، ہمارے علم کو، ہمارے ہنر کو، ہمارے بزرگوں کے نام کو، خاک میں ملایا ہماری موروثی نہیں ہے۔ اس کو جلنے دو۔ جب کہ ہمارے پاس نیچر ہی سچائی کی معیار ہے تو ہم نیچری ہونا کیوں نہ گوارا کریں اور کیوں علماء زمانہ کی طرح لوگوں سے التجا کریں کہ ہم کو وہابی مت کہو، حنفی کہو۔ ہم کو لامذہب و غیر مقلد مت کہو، موحد و اہل حدیث کہو۔ ہم تو سب کو اجازت دیتے ہیں کہ ہم کو جو چاہو سو کہو، پھر نیچری ہونے میں کیا برائی ہے جس کو ہم گوارا نہ کریں۔ سید کے لفظ کا استعمال غیر بنی فاطمہ پر (تہذیب الاخلاق ، جلد دوم ، نمبر ۱۰ (دور سوم) بابت یکم رجب ۱۳۱۳ھ) سید کا لفظ بنی فاطمہ علیہا السلام پر بطور اظہار سلسلۂ نسب عام طور پر مستعمل ہے اور اس لفظ کا ان معنوں میں ایسا عام استعمال ہے کہ کوئی شخص اس کے سوا دوسرے معنی اور دوسرا مطلب سمجھتا ہی نہیں اور عرف عام دلیل شرعی ہے۔ پس اس لفظ کا استعمال اپنے نام کے ساتھ ایسے شخص کو جو بنی فاطمہ نہیں ہے جائز نہیں اور جو شخص بنی فاطمہ نہ ہو اور اس لفظ کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرے وہ وعید داخل النسب اور خارج النسب میں داخل ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گریجویٹ اور تجارت (تہذیب الاخلاق ، جلد دوم، نمبر۴ (دورسوم) بابت یکم محرم الحرام ۱۳۱۳ھ) یہ امر بلاشبہ غور طلب ہے کہ مسلمان نوجوانوں کو جو انگریزی تعلیم پاتے ہیں ایک خاص اسٹینڈرڈ تک پہنچنے کے بعد آئندہ زندگی کے واسطے کیا بہتر ہو گا۔ اول تو ہم کو یہ کہنا چاہیے کہ ہندوستان میں بی ۔ اے ڈگری تک تعلیم پانے کو جو اعلیٰ اسٹینڈرڈ تعلیم کا سمجھا گیا ہے محض غلط ہے۔ بی۔ اے اسٹینڈرڈ کی تعلیم کو معمولی عام درجہ کی تعلیم کا اسٹینڈرڈ سمجھنا چاہئے کہ بغیر وہاں تک تعلیم پائے کوئی شخص دنیا کے معمولی کاروبار کے بھی لائق نہیں ہوتا۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں ہے کہ سرکاری نوکریاں بغیر انگریزی تعلیم کے نہیں مل سکتیں اس وقت جو اسٹینڈرڈ انگریزی تعلیم کا گورنمنٹ نے سرکاری عام نوکروں کے لیے قرار دے رکھا ہے وہ نہایت ادنیٰ درجہ کا ہے۔ جس دن گورنمنٹ اس اسٹینڈرڈ کو بی۔ اے ڈگری تک اور کم سے کم ایف۔ اے کی ڈگری تک بڑھا دے گی اس وقت ملک کو، گورنمنٹ کو، ہماری قوم کو نہایت فائدہ ہو گا۔ چند روز ان کو مشکل پڑے گی مگر وہ مشکل ہی انجام کار ان کو نہایت مفید ہو گی۔ جو لوگ انگریزی پڑھتے ہیں اور روز بروز اس تعلیم کو ترقی ہوتی جاوے گی اسی کے ساتھ وہ بہ خوبی اور بہ یقین کامل جانتے ہیں کہ گورنمنٹ کے پاس اس قدر نوکریاں نہیں ہیں کہ ان سب لوگوں کو دے سکے جو انگریزی میں تعلیم پاتے ہیں۔ ہاں بے شک یہ بات ضرور ہے کہ ہر ایک انگریزی خواں سرکاری عہدوں کی تمنا رکھتا ہے اور ایسا ہونا ایک نیچرل امر ہے۔ لندن میں اگر کوئی سرکاری عہدہ خالی ہوتا ہے تو اس سے زیادہ اس کے امیدوار موجود ہوتے ہیں جتنے کہ خالی عہدہ کے لیے ہندوستان میں امیدوار ہوتے ہیں۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ہر ایک انگریزی خواں اپنا حق سمجھتا ہے کہ گورنمنٹ اس کو کوئی عہدہ دے محض غلطی ہے۔ کیوں کہ خود انگریزی خواں یہ یقین جانتے ہیں کہ گورنمنٹ کے پاس اس قدر عہدے نہیں ہیں جو ہر ایک انگریزی خواں کو دے سکے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ گورنمنٹ نے یہ تصور کیا ہے ہر ایک انگریزی داں سرکاری نوکریوں کا گورنمنٹ سے خواست گار ہوتا ہے اور جب گورنمنٹ نہیں دے سکتی تو ایک قسم کی ناراضی پھیلتی ہے اس لیے گورنمنٹ یہ چاہتی ہے کہ امتحانات میں سختی کی جاوے تاکہ زیادہ تر لوگ پاس نہ ہو سکیں اور نیز فیس تعلیم میں اضافہ کیا جاوے تاکہ کثرت سے لوگ انگریزی تعلیم میں داخل نہ ہو سکیں۔ ہمارے نزدیک یہ خیال صحیح نہیں ہے اور گورنمنٹ کا کبھی ایسا منشاء نہیں ہو سکتا کہ انگریزی تعلیم کی اشاعت میں ہرج ڈالے۔ لوگوں کا یہ خیال کہ گورنمنٹ ادنیٰ درجہ کی تعلیم کے شائع ہونے کی طرف دار ہے مگر اعلیٰ درجہ کی انگریزی تعلیم کی طرف دار نہیں ہے۔ ہم کو اس میں بھی شبہ ہے۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ بعض حکام کی ایسی رائے تھی مگر بعد بحث و مباحثہ کے جو پالیسی کہ گورنمنٹ نے اختیار کی ہے وہ اعلیٰ درجہ کی انگریزی تعلیم کے مخالف نہیں ہے۔ اگر گورنمنٹ کی یہ خواہش ہے کہ خواست گاران ملازمت کی تعداد کم ہو جاوے تو اس کے لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ اسٹینڈرڈ ملازمت کو ایف ۔ اے یا بی ۔ اے تک بڑھا دے۔ اس کے سبب خواست گاران ملازمت کی تعداد از خود کم ہو جاوے گی اور ملک میں تعلیم زیادہ پھیلے گی نہ یہ کہ ایسی تدبیر اختیار کرے جس سے ملک میں اشاعت تعلیم کو نقصان پہنچے۔ مسلمانوں میں انگریزی تعلیم نے اب تک کافی رواج نہیں پایا ہے۔ یہ بحث بے فائدہ ہے کہ یہ کس کا قصور ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اس وقت امر واقع کیا ہے اور جب تک مسلمانوں میں کافی سے بھی زیادہ اعلیٰ درجہ کی انگریزی تعلیم رائج نہ ہو گی اس وقت تک کوئی معتدبہ فائدہ دنیاوی اور بعض حالتوں میں دینی بھی حاصل نہ ہوگا۔ مسلمانوں میں بی ۔ اے ڈگری پائے ہوئوں کی تعداد اس قدر کثرت سے ہونی چاہیے کہ اگر کوئی شخص زمین پر سے ڈھیلا اٹھاوے تو وہ بھی گریجویٹ ہو۔ مگر اسی کے ساتھ مجھ کو یہ بھی کہنا لاز م ہے کہ علاوہ اس کے جو اور نقص مسلمانوں میں ہیں وہ بھی اس تعلیم کے ساتھ ہی ساتھ رفع ہونے لازم ہیں۔ ہم اپنی تمام قوم کو مردہ دلی کی حالت میں پاتے ہیں، اعلیٰ اور ادنیٰ غریب اور امیر سب کو دیکھتے ہیں کہ ان میں بشاشی کا نشان تک نہیں ہے۔ سب کے دل مردہ اور چہروں پر مردنی چھائی ہوئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سستی اور کاہلی، پست ہمتی اور مایوسی گویا ان کے خمیر میں پڑ گئی ہے اور اس سبب سے کسی کام کی جرأ ت اور ہمت اور اولولعزمی ان میں نہیں رہی اور قومی ترقی کی فیلنگ ان میں سے معدوم ہو گئی ہے۔ یہ نقص صرف تعلیم سے رفع نہیں ہو سکتا بلکہ اس چیز سے رفع ہو سکتا ہے جس کو ہم تربیت کے لفظ سے تعبیر کیا کرتے ہیں اور ہم کو یقین کامل ہے کہ جب تک مسلمانوں کی یک جائی تعلیم اور یک جائی سکونت کا نہ بطور خیرات خوروں کے بلکہ بطور اشراف باغیرت لوگوں کے انتظام نہ ہو گا اس وقت تک یہ نقص رفع نہ ہو سکے گا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں تو کچھ شک نہیں کہ بعض مدبران سلطنت انگریزی کی یہ رائے تھی کہ ہندوستانیوں کو اعلیٰ درجہ کی انگریزی تعلیم نہ دی جاوے اور بعض کی رائے اس کے برخلاف تھی۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پچھلوں کی رائے غالب آئی اور گورنمنٹ نے یہی پالیسی اختیار کی کہ ہندوستانیوذں کو انگریزی میں اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی جاوے اور اسی بنا پر ہندوستان میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں مگر اس بات کا تجربہ باقی تھا کہ اس تعلیم کا نتیجہ کیا ہو گا اچھا یا برا۔ اب تجربہ سے ثابت ہو گیا کہ اچھا نتیجہ نہیں ہوا۔ تعلیم یافتہ لوگوں میں بے جا آزادی اور ناواجب خود سری پیدا ہو گئی، جا بیجا گورنمنٹ کی مذمت ہر ایک کی زبان پر جاری ہو گئی، گورنمنٹ سے ان حقوق کے دعویدار ہوئے جو گورنمنٹ ان کو نہیں دے سکتی۔ پس جب تجربہ سے ایسا خراب نتیجہ اس تعلیم کا حاصل ہوا تو اعلیٰ درجہ کی تعلیم میں سختی امتحانات یا اضافہ فیس تعلیم سے یا لوگوں کو مشرقی تعلیم یا بے سود ٹیکنیکل ایجوکیشن پر توجہ دلا کر اعلیٰ درجہ کی تعلیم کو گھٹانا ضرور تھا۔ اگر چہ مسلمان ان لوگوں کے ساتھ جو اس طوفان بے تمیزی میں پڑے تھے بالفعل شامل نہیں ہوئے مگر جب وہ بھی اس درجہ تعلیم پر پہنچ جاویں گے تو وہ بھی ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے جیسے کہ اب بھی بعض تعلیم یافتہ مسلمان علانیہ یا خفیہ ان میں شریک ہیں۔ مگر ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کیوں کہ ہمارے نزدیک جو حالت جہالت اور بے تعلیمی کی بالفعل مسلمانوں کی ہے جو نہ ملکی انتظام سے واقف ہیں اور نہ اپنی حالت آئندہ کو سمجھ سکتے ہیں، اس کے سبب سے زیادہ تر اندیشہ تھا کہ وہ بھی اس طوفان بے تمیزی میں طوفان زدہ لوگوں کے ساتھ شریک ہو جاویں گے۔ لیکن جب ان میں اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ کثرت سے ہو جاویں گے اور اپنے ملک کی حالت کو دیکھیں گے جس میں مختلف قومیں بستی ہیں اور جن کی اغراض اور سوشل حالت مختلف ہے اور اپنی قوم کی آئندہ حالت کو سوچیں گے تو ممکن نہیں ہے کہ اس طوفان بے تمیزی میں شامل ہوں۔ اس وقت جو چند تعلیم یافتہ مسلمان اس طوفان بے تمیزی میں شامل ہو گئے ہیں (وکیل یا بیرسٹر) انھوں نے اپنے ذاتی فائدہ پر نظر کی ہے اور اپنے ذاتی فائدہ پر ملکی اور قومی فائدہ کو قربان کر دیا ہے۔ ایک یا دو ایسے بھی ہیں جو دل سے اور سچائی سے ان طوفان زدہ لوگوں کے ساتھ شریک ہیں مگر ان کی مثال اس شخص کی مانند ہے جو فاروقی شیخ تھا اور شیعہ ہو گیا اور اس نے کہا کہ گو مجھے اپنے باپ دادا پر تبرا کرنا پڑے گا مگر میں تو شیعہ ہی ہوں گا۔ اس قدر بیان کرنے پر بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ مسلمان نوجوانوں کو جو انگریزی تعلیم پاتے ہیں ایک خاص اسٹینڈرڈ تک پہنچنے کے بعد آئندہ زندگی کے واسطے کیا بہتر ہو گا اس کے جواب میں ایک دانا دہقان نے جو اپنے نوجوان بیٹے کو جواب دیا تھا وہی جواب دینا مناسب ہے۔ ایک دہقان کے بیٹے نے بہت اضطراب سے اپنے باپ سے کہا کہ گائوں کے تالاب میں پانی چلا آتا ہے۔ جب تالاب بھر جاوے گا تو پانی کہاں جاوے گا۔ اس کے باپ نے کہا کہ بیٹا اندیشہ مت کر، جب تالاب بھر جاوے گا تو پانی اپنے نکاس کا آپ رستہ نکال لے گا یہی حال مسلمان تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ہے۔ ابھی ان کی ایسی قلت ہے کہ وہ کوئی راستہ آئندہ زندگی کے واسطے نکال نہیں سکتے۔ ہاں جب کثرت سے ہوں گے تو کوئی نہ کوئی رستہ نکال لیں گے، رستوں کی کمی نہیں ہے مگر ابھی تک تالاب بھرا نہیں ہے۔ ہندوستان بہت وسیع ملک ہے۔ اس میں جان و مال کا امن ہے، تجارت کے لیے بہت کچھ وسعت ہے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ اگر مسلمان نوجوان لائق اور صفات حمیدہ سے معمور اور ان عادات و افعال سے بری ہو جاویں جو تجارت کے منافی ہیں تو اس سے کیوں فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ میمن، بوھرے، خوجے، پنجابی سب مسلمان ہیں اور تجارت سے ایسے فائدے اٹھاتے ہیں کہ سرکاری نوکریوں کی کچھ حقیقت نہیں سمجھتے نہ اس کی پروا کرتے ہیں۔ مگر تجارت دو قسم کی ہے۔ ایک سویلائزڈ اور ایک ان سویلائزڈ ۔ ان سویلائزڈ تجارت سے ہماری مراد شخصی سے ہے جو کوئی شخص اپنا ذاتی روپیہ لگا کے تجارے کرے گو اس کو کیسی ہی ترقی ہو جاوے اور کتنا ہی بڑا کارخانہ اس کا پھیل جاوے وہ ان سویلائزڈ تجارت ہی کہلاوے گی، کیوں کہ اس سے خاص اسی شخص کو فائدہ ہے نہ ملک اور قوم کو اور نہ اس قسم کی تجارت کو بہت زیادہ وسعت ہو سکتی ہے۔ بلکہ وہ چند ذی مقدور اشخاص میں محدود رہتی ہے۔ سویلائزڈ تجارت وہ ہے جس میں قوم کے مختلف سرمایہ کے لوگ شریک ہوں اور ہر ایک کو بقدر اس کے سرمایہ کے منافع پہنچے۔ اس قسم کی تجارت ملک کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی ہے اور رفتہ رفتہ اس قدر وسیع ہو سکتی ہے کہ کوئی شخصی تجارت کرنے والا، گو وہ کیسا ہی دولت مند ہو، اس کی برابری نہیں کر سکتا۔ مسلمانوں میںجو لوگ دولت مند ہیں وہ تجارت کی طرف مائل نہیں ہیں اور نہ ان کو ضرورت ہے کہ تجارت کے ذریعہ سے کچھ روپیہ پیدا کریں۔ ضرورت ہے ان مسلمانوں کو جو قلیل سرمایہ رکھتے ہیں اور جب تک کہ کثرت سے لوگ آپس میں شریک نہ ہوں اس وقت تک کوئی کام تجارت کا جاری نہیں کر سکتے۔ دوم۔ تجارت کے کام کے لیے مستعدی اور وقت کی پابندی اور اپنی ڈیوٹی کا پورا کرنا سب سے زیادہ مقدم چیز ہے۔ میں اکثر مسلمانوں کو ان فرائض کے پورا کرنے میں قاصر پاتا ہوں۔ سوم۔ تجارت صرف گھر بیٹھے بیٹھے نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے لیے سفر کرنا اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانا بھی لازمی اور ضروری ہے۔ اس بات میں بھی میں مسلمانوں کو نہایت کاہل اور سست پاتا ہوں۔ چہارم۔ تجارت میں ایک بہت بڑا کام ایجنٹی کا ہے۔ یعنی کسی ملک سے کوئی چیز خرید کر کے لانا اور کسی چیز کو کسی ملک میں لے جا کر بیچنا اور اس بات کا یقین کہ جس چیز کے خریدنے یا بیچنے کی وہ قیمت بتلاتا ہے وہ بالکل صحیح اور سچی ہے اور کچھ دغا اور فریب اس میں نہیں ہے، اس ایجنٹ کی ایمان داری پر منحصر ہے۔ اکثر تجارت پیشہ مجھ سے بیان کرتے ہیں کہ ایجنٹ کا ہاتھ آنا تجارت میں سب سے مشکل کام ہے اور اس لیے ہم اپنے بیٹے بھائیوں کو ایسے کاموں کے لیے متعین کرتے ہیں۔ وہ شخصی تجارت میں ایسا کر سکتے یہں مگر جس تجارت کی، میں مسلمان نوجوانوں کے لیے سفارش کرتا ہوں وہ شخصی تجارت نہیں ہے اور اس لیے ان کو ایسا ایمان دار ایجنٹ ملنا نہایت مشکل کام ہے۔ یہ صفت میں ان نوجوانوں میں جنھوں نے انگریزی تعلیم پائی ہے اور نیز عمدہ اصول پر ان کی تربیت بھی ہوئی ہے اور قومی فیلنگ ان میں پیدا ہو گئی ہے ، بہ نسبت ان کے جو انگریزی خواں نہیں ہیں، زیادہ پاتا ہوں۔ اس مقام پر میں مدرستہ العلوم کے طالب علموں کاذکر کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے صرف قومی ہمدردی سے بغرض اعانت اپنے غریب قومی بھائیوں کے دو سوسائٹیاں قائم کی ہیں ایک کا نام فری بورڈنگ ہائوس سوسائٹی ہے اور ایک کا نام الفرض ہے۔ اور اس کے ممبر مختلف طرح پر اس کام کے لیے چندے جمع کرتے ہیں اور اس خوبی اور ایمان داری سے اس کام کو انجام دیتے ہیں جس سے توقع ہو سکتی ہے کہ مستعدی اور ایمان داری اور قومی ہمدردی ان کے خمیر میں پڑ گئی ہے۔ اور اس نمونہ پر میں یقین کرتا ہوں کہ جب ہمارے نوجوان انگریزی تعلیم یافتہ سویلائزڈ تجارت میں شریک ہوں گے تو نہایت خوبی اور ایمان داری سے کام انجام دیں گے۔ تجارت کی بہت شاخیں کھلی ہوئی ہیں اور میں ان انگریزی خواں طالب علموں کو جو خاص اسٹینڈرڈ تک یعنی بی۔ اے کی ڈگری تک پہنچ گئے ہیں، صلاح دیتا ہوں کہ وہ اپنے تئیں سویلائزڈ یعنی متفقہ تجارت میں مشغول کریں۔ اس سے بہتر ان کے لیے کوئی بات نہیں اور جب ایسے تعلیم یافتہ کثرت سے ہو جاویں گے تو خواہ مخواہ ان کو یہی کام کرنا پڑے گا۔ مگر اس کام کے کرنے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کو ان پر اعتماد ہواور ہم کو خدا سے امید ہے کہ ہمارے کالج سے ایسے نوجوان تعلیم یافتہ نکلیں گے جو اس قسم کے کاموں میں نہایت خوبی اور مستعدی اور ایمان داری سے مصروف ہوں گے۔ اس وقت چوں کہ مسلمان تعلیم یافتہ قلیل ہیں اس لیے اس قسم کے کام نہیں کر سکتے۔ اور بہ مجبوری نوکریوں کی تلاش میں ہیں۔ بنگالی اور ہندو اس قسم کے کاموں کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں اور ملک کو اور قوم کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ انھوں نے نیشنل بنک بھی قائم کی ہے اور میوچل فیملی پنشن فنڈ کا کارخانہ بھی قائم کیا ہے، نوکریوں کی تلاش میں ہیں، مگر اس اصلی ترقی سے بھی غافل نہیں ہیں۔ ہمارے عزیز دوست مولوی سید ممتاز علی نے جو متعدد سرکاری نوکریاں کر چکے ہیں، ملازمت سرکاری سے ہاتھ اٹھایا ہے اور دیو بند میں سوت کی تجارت کا کارخانہ کھولا ہے۔ اگرچہ وہ بھی ان سویلائزڈ یعنی شخصی کام ہے، مگر ہم سنتے ہیں کہ بہت فائدہ اٹھاتے ہیں اور بہ نسبت ملازمت کے نہایت خوش حال ہیں۔ یہ بھی ہم کو معلوم ہوا ہے کہ دو نوجوان انگریزی خواں گریجویٹ نے مکھن بنانے کا کام سیکھا اور چاہا کہ مکھن کا کارخانہ جاری کریں۔ ان کے بزرگوں نے کہا کہ مکھنئے کہلائو گے اور وہ مجبور ہو گئے۔ مگر یہ بے ھودہ خیالات چند روزہ کے مہمان ہیں اور بہت جلد جاتے رہیں گے۔ ہم نے خود اپنے ایک حقیقی بھانجے کے لیے جو کسی قدر دوائوں اور دوا سازی سے واقف تھا، عطاری کی دوکان کرنا پسند کیا ہے۔ چناں چہ وہ دوکان کرتا ہے اور کافی فائدہ اس سے اٹھاتا ہے۔ بنگالیوں نے لائف انشورنس سوسائٹی اور میوچل فیملی پنشن فنڈ قائم کیا ہے جس سے قوم کو فائدہ ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ کایتھوں نے بھی خاص اپنی قوم کے لیے میوچل فیملی فنڈ قائم کیا ہے۔ یہ بھی ہم کو معلوم ہوا ہے کہ حکیم فضل الدین صاحب نے پنجاب میں بھی مسلمانوں کے لیے ایسا ہی فنڈ قائم کیا ہے۔ مگر ہم کو اس کا کچھ زیادہ حال معلوم نہیں ۔ پس ہم اپنے نوجوان تعلیم یافتہ گریجویٹوں کو صلاح دیتے ہیں کہ اول وہ بی۔ اے تک کی ڈگری حاصل کریں اور اسی کے ساتھ وہ صفتیں بھی اپنے میں پیدا کریں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اور اس تجارت میں جس کا ہم نے سویلائزڈ تجارت نام رکھا ہے مشغول ہوں۔ اس سے بہتر کوئی طریقہ ان کی اور قوم کی اور ملک کی بھلائی کا نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرسید کے خواب تفسیر القرآن لکھتے ہوئے جب سرسید سورۃ یوسف کی تفسیر پر پہنچے تو اس مشہور تاریخی خواب کی تشریح کی ضرورت پڑی جو فرعون مصر نے دیکھا تھا اور جس کی تعبیر بتلانے پر حضرت یوسف کو سلطنت کا اعلیٰ ترین منصب ملا تھا۔ اس موقع پر سرسید کو اس امر کے معلوم کرنے کا شوق پیدا ہوا کہ خواب کی اصلیت اور حقیقت کیا ہے اور ان پر کہاں تک واقعات کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے؟ چناں چہ اس سلسلے میں غور و فکر کے بعد وہ جس نتیجہ پر پہنچے اس پر اطمینان حاصل کرنے کے لیے انھوں نے اپنے دوست احباب اور ملنے والوں سے ان کے خوابوں کا حال پوچھنا شروع کیا تاکہ وہ خواب کے فلسفہ پر غور کر سکیں۔ اس دوران میں ان کو ایک دن یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ان خوابوں کو یک جا کر کے ان پر غور کیا جائے، جو میں نے وقتاً فوقتاً دیکھے ہیں۔ اس پر سوچ سوچ کر انھوں نے اپنے خواب کاغذوں پر لکھے اور جب وہ سب جمع ہو گئے، تو پھر ان کو ایک کاتب سے صاف اور خوش خط لکھوایا۔ انیسویں صدی کے آخر میں جب حضرت شمس العلماء مولانا خواجہ الطاف حسین حالی نے، جو سرسید کے بہت بڑے رفیق اور دوست تھے، ان کی مفصل سوانح عمری لکھنے کا کام شروع کیا تو سرسید سے یہ خواب بھی مانگ لیے، مگر اتفاق ایسا ہوا کہ ’’حیات جاوید‘‘ میں کہیں ان کو درج کرنے اور ان پر اظہار خیال کرنے کا مولانا حالی کو موقع نہ ملا۔ جب کتاب ۱۹۰۱ء میں چھپ کر شائع ہونے لگی تو مولانا کو ان خطوط کا خیال آیا۔ چوں کہ یہ خواب سرسید کی سوانح کا دلچسپ حصہ تھے، لہٰذا مولانا ان کو چھوڑنا نہ چاہتے تھے، مگر کتاب میں انھیں درج کرنے کا کوئی موقع باقی نہ رہا تھا۔ اس لیے مولانا نے ان سب خوابوں کو کتاب کے آخر میں بطور ضمیمہ شامل کر دیا لیکن جب ۱۹۰۳ء میں مولانا نے ’’حیات جاوید‘‘ کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا، تو ا س میں سے یہ ضمیمہ بھی دوسرے ضمیموں کے ساتھ کتاب کا حجم زیادہ ہونے کے خیال سے خارج کر دیا۔ اس کے بعد مختلف ایڈیشن ’’حیات جاوید‘‘ کے شائع ہوئے۔ ان میں بھی یہ ضمیمہ نہیں ہے۔ (سوائے انجمن ترقی اردو کے ایڈیشن کے) حال میں جو ایڈیشن اس قابل قدر کتاب کا مولانا صلاح الدین احمد صاحب نے اکادمی پنجاب کی طرف سے بڑے اہتمام اور نفاست کے ساتھ شائع کیا ہے اس میں بھی یہ ضمیمہ نہیں ہے۔ میں سرسید کا یہ دل چسپ مضمون ’’حیات جاوید‘‘ میں سے لے کر یہاں درج کر رہا ہوں۔ اگر خواب انسان کے اندرونی خیالات کا آئینہ ہوتے ہیں تو ان سے سرسید کی شخصیت پر کافی روشنی پڑے گی۔ یہ سارے خواب سرسید نے اس طریقے سے قلم بند کیے تھے، جیسے کوئی دوسرا آدمی ان کے خواب لکھ رہا ہے اس لیے یہاں بھی یہ خواب اسی طرز سے بیان کیے گئے ہیں۔ میں نے سرسید کے ان الفاظ یا عبارت میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور نہ مجھے اس کا حق تھا۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) پہلا خواب انھوں نے اپنے نہایت چھٹپن کے زمانے میں پہلے ہی پہل حالت بے داری میں قیدیوں کو دیکھا، جو جیل خانہ کے کپڑے پہنے ہوئے اور بیڑیاں پائوں میں پڑی ہوئی پریشان، سر کے بال الجھے ہوئے، سڑک بنانے کا کام کر رہے تھے۔ اس پر رات کو انھوں نے خواب دیکھا کہ وہ باہر سے محل سرا کے اندر آتے ہیں۔ جب وہ ڈیوڑھی کے چھتے میں پہنچے تو ایک نہایت سیاہ رنگ کا دیو جس کے دانت بڑے بڑے اور سر پر کھڑے بال تھے پائوں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں، ایک کونے میں سے نکلا اور ان کو دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر اور سر سے اونچا کر کے زمین پر پٹک دیا۔ ان کی آنکھ کھل گئی۔ ان کو ایسا خوف چڑھا کہ جاگنے کے بعد بھی کئی گھنٹے تک ان کا دل کانپا کیا اور مدت تک یہ حال رہا کہ جب رات کو اس چھتے میں جاتے تو ان کو خوف معلوم ہوتا اور ایک آدمی ساتھ لے کر جاتے۔ دوسرا خواب ان کی دس بارہ برس کی یا کچھ زیادہ عمر ہو گی کہ انھوں نے دیکھا کہ وہ اپنے رہنے کی حویلی میں سے اپنے نانا کی حویلی میں جس میں صرف ایک سڑک بیچ میں تھی جاتے ہیں۔ سامنے سے ایک بہت بڑا ہاتھی جس پر گدی کسی ہوئی ہے، ان کے مارنے کو دوڑا۔ وہ بھاگے اور اپنے نانا کی حویلی میں گھس گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک بارہ دری میں جس کی ایک طرف بازار یا سڑک پر مشرف تھی، گئے تاکہ دیکھیں کہ اگر وہ ہاتھی چلا گیا ہو تو اپنے گھر جاویں۔ اتفاق سے وہ ہاتھی عین اسی بارہ دری کے نیچے کھڑا تھا۔ اس نے ان کو جھٹ سونڈ میں لپیٹ گدی پر جو اس کی پیٹھ پر کسی ہوئی تھی، ڈال دیا۔ گدی پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ان کو چت لٹا کر چھری سے گلا کاٹنا شروع کیا، مگر نہ کٹا۔ فیل بان نے کہا یہ سید ہیں۔ سیدھی طرف سے گلا نہیں کٹے گا۔ گردن کی طرف سے کاٹو۔ اس نے ان کو پلٹ کر گردن پر چھری رکھی۔ سید نے اس وقت پورا کلمہ پڑھا۔ وہ ظالم چھری چلانے نہ پایا تھا کہ قبلہ کی طرف سے ایک شخص سبز پوش سبز جریب ہاتھ میں لیے نمودار ہوئے اور زور سے اس ظالم کو جریب ماری۔ وہ مع ہاتھی کے معدوم ہو گیا اور سید گویا اس کی پیٹھ پر سے زمین پر گر پڑے اور آنکھ کھل گئی۔ اگر سچ مچ وہ ظالم مار ڈالتا تو کیا اچھی موت ہوتی۔ تیسرا خواب ان کی چودہ پندرہ برس کی عمر ہو گی، یا کم و بیش، مگر اس زمانے میں تیر اندازی کا چرچا تھا اور بعض رشتہ دار حج سے واپس آئے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ وہ بازار میں چلے جاتے ہیں۔ لوگوں نے ان سے کہا کہ تم حج کو جانے والے تھے، گئے نہیں؟ انھوں نے کہا کہ ابھی حج کے بہت دن باقی ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ تین چار دن ہی تو رہ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا تو میں جاتا ہوں اور وہ اڑے اور زمین سے بلند ہو گئے۔ مکہ کی طرف اڑتے ہوئے جانے لگے۔ شہر کو طے کیا، میدان ملا، اس کو طے کیا، سمندر ملا، اس کو طے کیا اور ایک مسجد کا دالان تھا اور اس کے آگے لکڑی کے ستونوں کا سائبان تھا اور بوریا کا فرش بچھا ہوا تھا۔ وہاں کوئی بزرگ سر جھکائے، سیاہ داڑھی، سفید چادر اوڑھے بیٹھے تھے۔ سید ان کے پاس جا کر بیٹھے۔ انھوں نے کچھ بات نہیں کی، مگر تین چیزیں ان کو دیں۔ ایک تو سرخ عقیق کی شست تیر لگانے کی تھی، جو انگوٹھے میں پہن کر تیر لگانے کے لیے تھی اور دو چیزیں اور دیں جو سید کو یاد نہیں رہیں۔ وہ ان چیزوں کو لے کر چلے۔ نصف صحن مسجد میں ایک اور شخص دراز قد، چھریرا بدن کھڑے ہوئے تھے۔ ان سے سید نے پوچھا کہ مسجد میں جو بیٹھے ہیں وہ کون ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہیں؟ تم نہیں جانتے کہ یہ حضرت علیؓ ہیں! سید پھرے اور دوڑے کہ جا کر ان کے پائوں کو بوسہ دوں، مگر دوڑنے میں آنکھ کھل گئی اور خواب ہی میں از خود ان کو یہ خیال ہوا کہ جن سے میں نے پوچھا تھا وہ عمر ؓ تھے۔ چوتھا خواب جس زمانے میں ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا اور تنخواہ قلعہ کی بند ہو گئی تھی، سید کو یہ خیال ہوا کہ جس قدر روپیہ ان کی والدہ کے پاس ہے وہ لے کر سود میں لگایا جائے تو آمدنی معقول ہو سکتی ہے۔ بعض مکانات اور کٹڑے جن سے آمدنی کم ہے اگر فروخت کر کے ان کا روپیہ بھی سود میں لگایا جائے تو کثیر آمدنی ہو سکتی ہے۔ اس پر انھوں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ وہ جامع مسجد کے حوض میں تیر رہے ہیں۔ اس کا نصف پانی نہایت صاف اور ٹھنڈا ہے، مگر کم گہررا ہے، جس میں اچھی طرح تیرا نہیں جاتا ۔ دوسرا نصف پانی کسی قدر گرم اور میلا ہے، مگر بہت گہرا ہے جس میں بخوبی تیرا جا سکتا ہے۔ سید نے ارادہ کیا کہ اس نصف پانی میں جا کر تیروں۔ انھوں نے دیکھا کہ کنارے پر سفید لباس پہنے ہوئے سیاہ ڈاڑھی والے ایک شخص کھڑے ہیں اور انھوں نے خواب ہی میں جانا کہ علی مرتضیٰ ہیں۔ انھوں نے خواب ہی میں کہا کہ اس نصف میں مت نہائو۔ یہ پانی خراب ہے۔ جہاں ہو وہی پانی اچھا ہے اور زیادہ ہو جائے گا۔ اس کے بعد آنکھ کھل گئی اور جو خیال ان کے دل میں پیدا ہوا تھا اس سے باز آئے۔ پانچواں خواب سید بجنور میں تھے کہ انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص سفید پوش آئے ہیں اور ان کو ایک قلم دان کشمیر کا بنا ہوا نہایت نفیس دے کر چلے گئے اور خواب ہی میں ان کو یقین ہوا کہ وہ علی مرتضیٰ تھے۔ چھٹا خواب بجنور ہی میں انھوں نے ایک عجیب خواب دیکھا کہ چاندنی رات ہے اور چاند نکلا ہوا ہے اور وہ اپنے مکان کے سامنے صحن کے چبوترے پر بیٹھے ہیں۔ سید کی نگاہ اپنے بائیں پائوں پر پڑی تو دیکھا کہ ان کے پائوں کی انگلیوں کی ایک ایک پور کٹ گئی ہے، مگر کچھ درد نہیں ہے اور نہ اس سے لہو بہتا ہے مگر کٹی ہوئی پوروں کے سرے جہاں سے کٹے ہیں، نہایت سرخ لہو کی مانند ہو رہے ہیں۔ سید نہایت حیران ہوئے کہ اب کیا کروں۔ اتنے میں ایک بزرگ آئے اور انھوں نے ان کٹی ہوئی انگلیوں کے سروں پر اپنا لب مبارک لگا دیا۔ اسی وقت ان انگلیوں میں نمو شروع ہوا اور سب انگلیاں درست ہو گئیں اور ان میں چاند سے زیادہ روشنی تھی۔ سید چاند کو دیکھتے اور ان نئی انگلیوں کو دیکھتے اور ان میں چاند سے زیادہ روشنی پاتے تھے۔ خواب ہی میں ان کو کسی طرح یقین ہوا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلعم تھے جنھوں نے لب مبارک لگایا تھا۔ ساتواں خواب مراد آباد میں ان کی بیوی کا انتقال ہوا۔ چند روز بعد انھوں نے خواب دیکھا کہ وہ ایک نہایت عمدہ مکان میں بیٹھی ہیں اور نہایت عمدہ سبز لباس پہنے ہوئے ہیں اور ان کا بدن اور چہرہ چاند کے مانند روشن ہے۔ سید نے ان کو ہاتھ سے چھونا چاہا ۔ انھوں نے کہا یہ جسم ہاتھ میں نہیں آ سکتا۔ یہ نورانی جسم اور لباس ہے۔ دنیا میں جو جسم اور لباس تھا وہ نہیں ہے۔ آٹھواں خواب جب سید دہلی میں منصف تھے، انھوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت شاہ غلام علی صاحب کے کمرے میں موجود ہیں اور جس طرح وہ خانقاہ میں بیٹھے تھے، اسی طرح ایک سوزنی پر جو صدر مقام پر بچھی ہوئی تھی، سید ان کے پاس بیٹھے ہیں۔ شاہ صاحب ان پر اسی طرح جیسی کہ ان کی عادت تھی، مہربانی فرماتے ہیں اور یہ کہا کہ اب تم بھی بیعت کر لو۔ نواں خواب دھلی میں انہوں نے دیکھا کہ وہ خانقاہ میں گئے ہیں۔ وہاں ان کے والد اور شاہ ابو سعید صاحب جو بعد میں حضرت شاہ غلام علی صاحب کے سجادہ نشین ہوئے اور جن کا اس زمانے میں انتقال ہو چکا تھا اور لوگ جو خانقاہ میں ہوتے تھے، موجود ہیں اور شاہ احمد سعید صاحب جو بعد شاہ ابو سعید صاحب کے سجادہ نشین ہوئے علیحدہ ایک طرف بیٹھے ہوئے ھاشم علی خان کو جو سید کے ماموں کے بیٹھے تھے، حدیث کی کسی کتاب کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ سید کے والد نے یا شاہ ابو سعید صاحب نے سید سے کہا کہ تم بھی ھاشم علی خان کے ساتھ سبق میں شریک ہو جائو۔ دسواں خواب سید دہلی میں منصف تھے اور ان کو کچھ ترددات اور رنج تھے۔ انھوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ تم بیس رکعتیں نما ز کی تین دن تک بطور تراویح پڑھو اور پہلی رکعت میں فلاں سورہ اور دوسری میں فلاں سورہ پڑھو اور رکعتوں کے بعد کے جلسے میں یہ آیت پڑھو۔ کوئی رنج و تردد کی بات نہیں، مگر سید جب اٹھے تو بھول گئے کہ کون سی سورتیں اور کون سی آیت پڑھنے کو بتلائی تھی۔ انھوں شاہ سعید صاحب کو ایک رقعہ لکھا کہ میں وہ سورتیں اور آیت بھول گیا ہوں۔ چار پانچ روز تک شاہ احمد سعید صاحب نے کچھ جواب نہیں بھیجا اس کے بعد ایک پرچے پر ان سورتوں کے نام اور ایک آیت لکھ بھیجی اس وقت سید کے خیال میں یہ بات آئی کہ یہی سورتیں اور آیت بتلائی تھی۔ سید نے جس طرح خواب میں دیکھا تھا نماز پڑھی۔ چند روز بعد جب سید شاہ احمد سعید صاحب سے ملے تو پوچھا کہ آپ کو کیوں کر معلوم ہوا کہ وہ سورتیں اور آیتیں بتلائی تھی۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں نے حضرت شاہ صاحب کی روح سے پوچھا اور ان کی روح نے بتلایا کہ یہ سورتیں اور آیت بتائی تھی۔ گیارھواں خواب وہ دلی میں منصف تھے کہ انھوں نے (خواب میں) دیکھا کہ وہ گویا بیعت کے ارادے سے خانقاہ جانے کو اپنے کمرے پر سے اترے ہیں۔ تھوڑی دور چلے تھے کہ ان کو خیال ہوا کہ نذر کے لیے کچھ لے لینا چاہیے اس وقت انھوں نے دیکھا کہ ایک ہندو دوست ان کے پاس کھڑا ہے۔ سید نے پندرہ روپے اس سے قرض لیے اور خانقاہ میں گئے۔ وہاں دیکھا کہ شاہ ابو سعید صاحب اور ان کے پاس شاہ احمد سعید صاحب اور ان کے پاس شاہ عبدالغنی صاحب اور سب کے پیچھے میاں محمد مظہر بیٹھے ہیں شاہ ابو سعید صاحب نے بیعت کر لینے کو فرمایا۔ سید نے کہا میں تو اسی ارادے سے آیا ہوں، لیکن بالکل جو طریقہ مسنون ہے اسی طرح پر بیعت کرنی چاہتا ہوں۔ فرض کرو کہ اس قسم کے زہد و مجاہدہ میں جو مسنون نہیں ہیں۔ صفائی قلب جلد حاصل ہوتی ہے اور جو طریقہ مسنون ہے اس میں یہ دیر میں حاصل ہوتی ہو تو مجھے وہ جلدی نہیں بلکہ دیر پسند ہے۔ ھنوز شاہ صاحب نے جواب نہیں دیا تھا کہ میاں مظہر بولے کہ دیکھیے حضرت! یہ کیسی وہابیوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ شاہ ابو سعید صاحب نے ناراضی سے جواب دیا کہ ایک شخص اتباع سنت چاہتا ہے اور تم اس کی نسبت کہتے ہو کہ وہابیوں کی سی باتیں کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ سید کی طرف متوجہ ہوئے اور سید سے کہا کہ نقش بندی طریقے میں کوئی امر بھی خلاف سنت نہیں ہے سید نے کہا کہ بہت اچھا۔ اس وقت سید نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر بعد بیعت نذر دی جائے گی۔ تو گویا اس کا معاوضہ ہو گا۔ بہتر ہے کہ پہلے نذر دی جائے اور اس کے بعد بیعت ہو ۔ پس سید نے پانچ روپیہ نکال کر شاہ ابو سعید صاحب کے نذر کیے اور پانچ روپیہ شاہ احمد سعید صاحب کے۔ دونوں صاحبوں نے نذریں لیں۔ جب شاہ عبدالغنی صاحب کو نذر دی تو انہوں نے کہا کہ تم انگریزوں کے نوکر ہو میں نہیں لیتا۔ سید نے کہا میری تنخواہ کا روپیہ نہیں ہے۔ میں تو ایک ہندو سے قرض لے کر آیا ہوں۔ اس پر بھی انھوں نے لینے سے انکار کیا۔ شاہ ابو سعید صاحب نے فرمایا کہ یہ نہیں لیتے تو ان کی والدہ کے پاس بھیج دو۔ اس گفتگو کے بعد نوبت بیعت نہیں پہنچی کہ آنکھ کھل گئی۔ دہلی میں جو لوگ مقدس تھے وہ انگریزوں کی ایسی نوکری کو جس میں انفعال مقدمات کا کام نہیں ہوتا تھا بلکہ عملہ کے طور پر کام کرنا ہوتا تھا اور نیز پولیس کی نوکری کو جائز سمجھتے تھے اور صدر الصدوری۔ اس نوکری کو ناجائز سمجھتے تھے۔ کیوں کہ خلاف شرع بہ موجب انگریزی قانون کے مقدمات فیصل کرنے کرنے پڑتے تھے۔ شاہ عبدالغنی صاحب کا بھی یہی حال تھا اور اسی سبب سے انھوں نے نذر لینے سے انکار کیا تھا۔ بارھواں خواب چند مہینے ہوئے کہ علی گڑھ میں سید نے دیکھا کہ وہ دہلی میں کسی مقام پر ہیں اور شاہ غلام علی صاحب کی نسبت جو کہ بیمار ہیں لوگ کہتے ہیں کہ اب اخیر وقت ہے۔ سید نہایت بے قرار ہوئے اور اس خیال سے کہ ان کی اخیر زیارت کر لیں۔ اس جگہ گئے۔ جہاں شاہ غلام علی صاحب تھے۔ دیکھا کہ پلنگ پر لیٹے ہیں منہ اور پائوں کھلے ہوئے ہیں اور سارا بدن کپڑے سے ڈھکا ہوا ہے۔ سید کہتے تھے کہ میں نے بعینہٖ وہی حالت دیکھی اور ویسا ہی پلنگ اور تمام چیزیں دیکھیں جیسے کہ حضرت کے انتقال کے دو ایک روز پہلے میں نے دیکھا تھا۔ غرض کہ سید مضطرب ہو کر ان کے پائوں کی انگلیوں سے اپنی آنکھیں ملنے لگے۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ تم سید ہو ایسا مت کرو۔ ایک عجیب بات سید نے یہ کی کہ اس خواب کے چند روز بعد جب وہ دہلی گئے تو شاہ غلام علی صاحب کے مزار پر گئے اور کہا کہ دادا حضرت اب آپ تو زندہ نہیں ہیں ورنہ میں آپ کے پائوں سے آنکھیں ملتا۔ مگر میں آپ کی قبر سے آنکھیں ملتا ہوں۔ یہ کہہ کر قبر کی پائینتی سے آنکھیں ملیں۔ سید کی اس حرکت کو سن کر لوگ نہایت متعجب ہوں گے۔ مگر ان کی یہ حرکت صرف محبت کی وجہ سے تھی، نہ کسی اور خیال سے۔ سرسید نے ایک دفعہ شاہ صاحب کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے سامنے یہ کہا تھا کہ ’’گو اس قسم کی عقیدت جیسی مریدوں کو اپنے شیخ کے ساتھ ہوتی ہے۔ مجھ کو نہیں ہے لیکن نہایت قوی تعلق اور رابطۂ اخلاص میرے دل میں شاہ صاحب کے ساتھ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میری لائف میں اس کی تصریح کر دی جائے۔‘‘ اس کے سوا سرسید کی تصنیفات کی فہرست میں جو ایک رسالہ موسوم یہ ’’نمیقہ‘‘ بہ زبان فارسی تصور شیخ کے بیان میں ہے اس کی نسبت سرسید کہتے تھے کہ ’’میں نے اسے شاہ احمد سعید صاحب کو دکھایا تھا۔ انھوں نے اس کو دیکھ کر یہ فرمایا کہ جو باتیں اس میں لکھی گئی ہیں وہ اہل حال کے سوا کوئی نہیں لکھ سکتا۔ پس یہ اس توجہ کی برکت ہے جو شاہ صاحب کو تمہارے ساتھ تھی اور اب تک ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نمیقہ بیان مسئلہ تصور شیخ (تصانیف احمدیہ، جلد اول ، حصہ اول، مطبوعہ ۱۳۰۰ھ مطابق ۱۸۸۳ء ، صفحہ ۱۳۸) ملاذا، انچہ در باب تصور شیخ ازیں ھیچمداں استفسار رفتہ منکہ ازیں مقام آگاہ نیستم کدام زمزمہ توانم سرود و چوں دریں وادی گامی نرفتہ ام ازیں نشیب و فرازچہ باز توانم نمود، کار آگاھان میگویند کہ این رمزیست کہ بگفت در نگنجد و بہ شنیدن راست نیاید۔ تا نہ بینی باور نکنی و تا در برنگشی بوصال ترسی۔ ایں جلوہ را بہ چشم سر نتواں دید و ایں جادہ را بپائے خاکی نتوان برید۔ لذت ایں بادہ وجدانی است نہ بیانی۔ گفت را دریں پردہ بہ خاموشی بناہ بریں است و سخن را دریں خلوت بہ سکوت بر خوردن دریں صورت من کجا و ایں حرف زدن از کجا۔ اما چوں مرا در بجا آوری او امر بزرگان مجبور داشتہ اند۔ ہر چہ از نتائج افکار نارسا، ورہ آوردہ اندیشہ جادہ پیمائے من است بعرض می آرم و اند کہ از بسیار می نگارم چوں پیش از تحریر مطلب از تمہید مقدمات چند ناگزیر است زبان قلم را بتقریر آں رخصت میدھم کہ بے بدرقہ ایں رھبر ھا گام بہ منزل زدن دشوار و پے بہ مقصود بردن دور از کار است۔ مقدمۂ اول از مسلمات کرام و متفق علیہ خواص و عوام است کہ صحبت را اثرے ھست اگر بانیک بنشینی نیک برآئی و اگر با بدھمنشیں گردی نقاب از چہرہ قبح بر کشای و ایں معنیٰ است کہ ازیں سر تا آں سرکس زبان بحرف انکارش نیا لا بد خواہی از گیرد ترسا باز پرس و خواھی از زاھد و پارسا باز جو۔ واللہ در من قال۔ ’’صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالح ترا طالح کند‘‘ وما را حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کہ دلم خاک راہ و جانم فدائے فرق آں عرش دستگاہ باد دریں باب بس است۔ اخرجہ البخاری عن ابی موسیٰ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثل الجلیس الصالح و السوء کحامل المسک و نافخ الکیر فحامل المسک اما ان یخدیک و اما ان تبتاع منہ و اما ان تجد منہ ریحا طیبتہ و نافخ الکیر اما ان یحرق ثیابک و اما ان تجد منہ ریحا خبیثتہ پس در اثر صحبت کہ آں را بہ عرف عام فیض صحبت نامند کسی را جائے گفت نماند۔ مقدمۂ دوم ھر گاہ فیض صحبت را قبول نمودی بہ بداھبت خواھی دانست کہ ایں فیض نہ در جوارح می شود و نہ از جوارح کہ آنرا بچشم ظاہر می بینی و یکے را چشم و یکے را دست و یکے را با نام می تہی در تہ باید کہ از نابینا ھیچ نکشاید و از بے دست و پا ھیچ نیابد و ایں بر باطل است نزد آنکہ عالم باشد با جاھل کسی را کہ ایزد بے ھمتا چشم بصیرت کشادہ باشد از بستگی ایں دو چشم ابلق چہ زباں زاید و کسے کہ دست گرفتہ ید قدرت قادر حقیقی باشد از بے دست و پائے ناکام نیابد دریں پردہ خاک آلود و دریں نمود بے بود شاھدیست نورانی کہ اینہمہ نیرنگیہائے اوست و ایں ھمہ بوالعجبی ھا از دست ایں فیض ھم از دست و ھم در دست حکماء آنرا بہ نفس ناطقہ بر گزارند و کبراے ما آنرا روح نام گزراند چوں ایں دریافتی دانستی کہ ایں فیض صحبت ھم از روح است وہ ھم دو روح ایں دست و پا و چشم ظاہر نما را در آں مدخلی نیست۔ مقدمۂ سوم مسلم جمیع امم است کہ تا تحسین فاعل در تو جائے نگیرد فعل فاعل در تو اثر نکند و ھمیں تحسین فاعل را بحسب مراتب جداگانہ نام نہادہ اند سوختہ جاناں آتش عشق آنرا محبت دانند و آداب داناں طریق ارادت آنرا عقیدت نامند و در حقیقت مدار وصول فیض ھا بر آنست و ملاک حصول لذتہا ھماں چہ نفس ناطقہ موثر بمنزلہ باراں رحمت الٰہی است و نفس ناطقہ موثر بمنزلہ کشت و محبت و موثر با موثر مادہ قابل آں تا آں مادہ قابل خواہ آنرا محبت خوانی و خواہ عقیدت دانی در تو پیدا نشود صحبتی در تو اثر نکند۔ ’’باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست‘‘ ’’در باغ لالہ روید و در شور بوم خس‘‘ ’’عن انس ابن مالک انہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یومن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من نفسہ و ولدہ والناس اجمعین و فی حدیث عمرانت احب الی یا رسول اللہ من کل شیئی الا من نفسی التی بین جنبی فقال لہ علیہ الصلوۃ و السام لا تکون مومنا حتیٰ اکون احب الیک من نفسک فقال عمرولذی انزل علیہ الکتاب لانت احب الی من نفسی التی بین جنبی فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الان یا عمر قد تم ایمانک۔‘‘ ادنی فیض صحبت بنی حصول ایمان کامل است و آں بے حصول محبت صورت نہ بندد صدیق را رضی اللہ عنہ کہ بہ بلندی درجات برداشند و ابو جہل را بہ پستی درکات انداختند منشا و آں و چود و عدم گوھرشب چراغ داغ محبت رسول مقبول بودہ است صلی اللہ علیہ وسلم ورنہ صحبت آنحضرت را کہ ہر دور دریافتہ بودند یکی را کہ ایں حبل المتیں بدست آمد بہ بلند تریں مراتب ترقی کرد و دیگرے کہ ایں عروۃ الوثقی را از کف فروھشت کمترین مرتبہ کہ حصول ایمان کامل است نیز بدست نیامد پس مستفیض را باید کہ محبت مفیض بر خود واجب داند تا در نفس ھر دو مناسبتی پیدا آید و تاثیر در ھر دو رو نماید و شاید ھمیں مقام را سالکان طریقت فنا فی الشیخ نام نہادہ باشند وارفتہ راہ مقصود داند کہ بے وصول ایں مقام کارے بر نیاید و اثرے رخ نکشاید ما بے بصران بسر رشتہ ازیں کار گاہ پے بردہ ایم دیگر کار آگاھان دانند۔ ’’رموز مصلحت ملک خسرواں دانند‘‘ ’’گدائی گوشہ نشینی تو احمدا مخروش‘‘ مقدمہ چہارم اصل اصول بہم رسیدن محبت مفیض تذکر اوست، قال اللہ تبارک و تعالیٰ و فاذکرونی اذکرکم و احادیث بے شمار مثبت ایں مدعا است کہ ایں مختصر کنجائے آں را بر نتابد و ایں مدعا را بہ بداھت۔ عقل نیز تواں دریافت لیلیٰ را کہ بر سر مجنوں آورد و شیریں را در غم فرھاد گہ سیاہ پوش ساخت مذاق اشنایاں عشق مجازی روزی نیست کہ لذت یا گورہ تذکر را بکام در نیابند آرے ایں ھم آغوشی خیالی و ایں وصال فکری محبوب را بر سر بازار آورد و آں چناں ھم رنگ خود سازد کہ معشوق عاشق گردد۔ ’’عشق آں خانماں خرابی ھست‘‘ ’’کہ ترا آورد بہ خانۂ ما‘‘ و تذکر را خیال مذکر کا ھو لازم است کہ گاھی ازاں منفک نہ شود بہ نفس خود در آی و خیال کن آنگاہ مے توانی دریافت کہ او در دل تو باشد و او را بہ یاد آوری و محبت و ذوق و شوق و عشق تو در جوش باشد و صورت خیالیہ آں بتعینہ و تشخصہ در خیال تو نہ باشد حاشا و کلا و ھم چناں کہ تذکر متلزم تصور است ہم چناں تصور کہ مستلزم تذکر است باعث محبت مہ بہ شود فی الحدیث عن حسن ابن علی قال سلت خالی بند بن ابی ھالتہ و کان و صافا عن حلیۃ النبی صل اللہ علیہ وسلم و انا اشخصی ان یصف لی منھا شیئا اتلعق بہ۔ یعنی محبت گزینم بہ سبب آں اے بہ سبب تصور جمال با کمال حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ھرگاہ این مقدمات را دانستی بداں و آگاہ باش کہ حضرات نقش بند یہ ما رضوان اللہ علیھم اجمعین بہ ھمیں مراقبہ امر فرمودہ اند کہ طالب را تصور شیخ لازم است ہم در حال ذکر و ھم غیر آں تا بہ آں تذکر دلی و خیالی محبت شیخ در دل طالب بہ جوش آید و رفتہ رفتہ مرتب فنا فی الشیخ صورت گیرد و در نفس ناطقہ شیخ و طالب مناسبتی پیدا شود تا فیض محبت و ارشاد در نفس ناطقہ طالب جائے گیرد و از رزائیل پاک و صاف نمودہ بمدارج اعلیٰ رساند دریں مقام ایں تصور را ھر چہ بگویم رواست اگر بگویم کہ تصور شیخ انبوب رحمت الٰہی است حق گفتہ باشم و اگر بدانم کہ بدوں تصور شیخ راھی بجناب الٰہی و درگاہ رسالت پناھی نمی یابم ھم حق دانستہ باشم وایں محبت شیخ غالب است کہ دو قسم بود باشد یکی وھبی و دویم کسبی کہ بتصور قصدی و تذکر ارادی دست دادہ باشد ما اول را رابطہ مے دانم و ثانی را تصور اگرچہ در مال ہر دو فرقی نسبت واں چہ کذاباں بر بستہ اند کہ ایں بزرگاں در حالت مراقبہ شیخ را حاضر و ناظر و عالم دانا در ھر وقت و ہر حال می دانند و مراد از مراقبہ ھمیں می گوین کہ شیخ موجود است و بے آلہ و واسطہ ما را می نہ گردد از حال ذار بے سبب و وسیلہ واقف و آگاہ بہ شود حاشا کہ دامن پاک ایں بزرگاں ازیں اعتقاد آلودہ باشد بل چناں کہ دانستی ایں مراقبہ بالکلیہ از حال و ارادت صحابہ تابعین و تبع تابعین ماخوذ است و اقوال سرور ما و سرور انبیا صلی اللہ علیہ وسلم برآں دال است و علما ھم در خطاب الصلواۃ والسلام علیہ ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ بہ ھمیں معنی تصریح کردہ اند پس چگونہ بدعت و ممنوع باشد با آں کہ ایں بزرگاں ایں مراقبہ را ھم آلہ و واسطہ ترقی بہ اعلیٰ مے دانند ما فی الجملہ نزکیہ نفس بہم رسد و فنا فی الرسول کہ نصیب کافہ مومناں پاک دین باد حاصل آید ما را تعرض یا کسی نیت آں چہ دانستہ ایم ما را کافی است گونافہماں سر بہ سنگ زدہ باشند و آں چہ مولانا اسماعیل علیہ الرحمۃ در صراط المستقیم فرمودہ اند ایں ھم مقتضائے مقامی است کہ بہ دانست من بندہ کیفیت آں مقام در رگ و پے مولانا سرایت کردہ بود و جملہ تصانیف شان مبنی بر ھماں کیفیت معھذا مولانائے مرحوم با آں کہ نوشتن آں چناں بود خدمت کسانی کہ مراقبہ و مواظبت رابطہ وظیفہ شبا روزی شان بود تا نفس واپسیں پیشوا و مقتدائے خود شان دانستہ اند و کاھی راہ سوء ظن نسبت بہ آں بزرگاں نہ رفتہ۔ ’’والسلام علی من التبع الھدیٰ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحقیق لفظ نصاری (حیات جاوید، صفحہ ۱۶۰) ’’غدر ۱۸۵۷ئ‘‘ میں جہاں اور ہزاروں مصیبتیں انگریزوں کی طرف سے ہندوستان کے غریب اور مظلوم مسلمانوں پر نازل ہوئیں، وہاں ایک آفت یہ بھی تھی کہ اس زمانہ میں جن جن مسلمانوں نے اپنی کتابوں اور تحریروں میں انگریزوں کو ’’نصاریٰ‘‘ لکھا تھا، یا اپنی تقریروں میں بیان کیا تھا، انگریزوں نے اپنے تعصب اور دشمنی کے جوش میں جو ان کو اس وقت مسلمانوں سے تھے، اپنی سخت توہین سمجھا اور یہ خیال کیا کہ ’’مسلمان باغیوں‘‘ نے ہمیں ذلت اور حقارت کے طور پر ’’نصاریٰ‘‘ لکھا اور کہا ہے۔ چناں چہ بعض مسلمانوں کو اس ’’جرم‘‘ میں پھانسی کی سزا دی گئی اور بعض کو دوسری سخت سخت سزائیں دی گئیں جو ان بدقسمتوں کی قسمت میں تھیں۔ اس لفظ کے استعمال کے متعلق اس وقت کے انگریزوں کا کہنا تھا کہ جس طرح یہودی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حقارت کے ساتھ ناصری (یعنی قصبہ ناصرہ کا باشندہ) کہتے تھے، اسی طرح یہودیوں کی تقلید میں مسلمان بھی انگریزوں کو حقارت سے ’’نصاریٰ‘‘ (منسوب بہ ناصرہ) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ سرسید کو جب انگریزوں کے اس تعصب کا حال معلوم ہوا تو انھوں نے فوراً ایک مختصر رسالہ ’’تحقیق لفظ نصاریٰ‘‘ کے نام سے لکھا اور اسے اردو اور انگریزی میں چھپوا کر پبلک میں بھی تقسیم کیا اور گورنمنٹ حکام اور بعض معزز انگریزوں کو بھی بھیجا، تاکہ گورنمنٹ انگریزی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر مسلمانوں پر ظلم کرنے سے باز رہے۔ مگر یہ مضمون اس قدر نایاب اور ناپید ہے کہ مولانا حالی کو بھی ’’حیات جاوید‘‘ لکھتے وقت دستیاب نہیں ہو سکا۔ خود سرسید کے پاس بھی اس کا کوئی نسخہ موجود نہیں تھا۔ نہ وہ کہیں سے مہیا کر کے ’’حیات جاوید‘‘ کی تصنیف کے وقت مولانا کو دے سکے۔ مجبوراً مولانا حالی نے سرسید سے اس مضمون کا خلاصہ زبانی پوچھا اور اسی خلاصہ کو ’’حیات جاوید میں درج کر دیا ا س لیے ہم بھی سرسید کا بیان کردہ وہی خلاصہ یہاں نقل کرتے ہیں تاکہ یہ تحریر محفوظ ہو جائے۔ (شیخ محمد اسماعیل پانی پتی) سرسید نے مولانا حالی سے بیان کیا کہ ’’نصاریٰ‘‘ کا لفظ ’’ناصرہ ‘‘ کے قریہ سے مشتق نہیں بلکہ لفظ ’’نصر‘‘ سے مشتق ہے ( جس کے معنی مدد اور نصرت کے ہیں) چناں چہ قرآن شریف میں صاف طور پر آیا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: ’’من انصار الی اللہ‘‘ تو حواریوں نے فوراً لبیک کہا اور جواب دیا کہ ’’نحن انصار اللہ‘‘ اس لیے ان حواریوں کی پیروی کرنے والوں کو اس صفت کے ساتھ جس کی حواریوں نے حامی بھری تھی، موصوف کیا گیا ہے۔ اور ان پر ’’نصاریٰ‘‘ کا اطلاق کا اعلان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں کہیں قریہ ناصرہ کا ذکر نہیں آیا اور نہ کہیں قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ’’ناصری ‘‘ کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عیسائی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خود اپنے تئیں ’’نصاریٰ‘‘ کہتے تھے۔ جیسا کہ سورۃمائدہ کی اس آیت میں بیان ہوا ہے: ولتجدن اقربھم مودۃ للذین آمنوا الذین قالوا انا نصاریٰ۔ یعنی اے محمد! تو پائے گا اھل کتاب میں سب سے زیادہ مسلمانوں کا دوست ان لوگوں کو جو اپنے تئیں نصاریٰ کہتے ہیں۔ اس خلاصہ کو درج کتاب کرنے کے بعد مولانا حالی آخر میں اپنی طرف سے تحریر فرماتے ہیں کہ ’’جہاں تک کہ معلوم ہوا ہے اس رسالہ (تحقیق لفظ نصاریٰ) کی اشاعت کے بعد پھر کسی سے اس لفظ پر مواخذہ نہیں ہوا۔ ہم نے سنا ہے کہ جب رسالہ شائع ہوا تو کسی انگریزی اخبار میں یہ لکھا گیا تھا کہ ’’سرسید احمد خاں کا یہ بیان غلط ہے۔ کسی شخص کو ’’نصاریٰ‘‘ کا لفظ لکھنے پر سزا نہیں ہوئی۔‘‘ اس پر ایک معزز یورپین افسر نے اس کا یہ جواب دیا اور لکھا کہ ’’خود ہمارے سامنے ایک شخص کو اسی جرم میں کان پور میں پھانسی دی گئی۔ ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رائے در باب تعلیم اھل ھند (حیات جاوید، صفحہ ۱۴۳) ۱۸۵۹ء میں جب کہ سرسید یو۔ پی کے مشہور شہر مراد آباد میں صدر الصدور تھے ایک یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ ہندوستانیوں کو تعلیم کس زبان میں دی جائے۔ آیا اردو میں جو اکثر و بیش تر اہل ہند کی مادری زبان ہے، یا انگریزی میں جو حکومت کی زبان ہے اور جس میں ہر قسم کے علوم و فنون کا کافی ذخیرہ موجود ہے؟ اس پر سرسید نے ایک مضمون اردو اور انگریزی میں چھاپ کر بطور پمفلٹ عام طور سے تقسیم کیا اور حکومت کو بھی اس کی کاپیاں بھیجیں۔ اس مضمون میں سرسید نے اپنے خیال کے مطابق اس امر پر زور دیا کہ ہندوستانیوں کو ابتدائی تعلیم انگریزی زبان میں دینی چاہیے۔ تاکہ وہ ایک طرف تو حکمران قوم کے افکار و خیالات اور جذبات و محسوسات سے واقف ہوں۔ دوسرے اس عظیم علمی ذخیرے سے بھی باخبر ہوں جو انگریزی زبان میں موجود ہے اور جس سے اردو کا دامن ابھی تک خالی ہے۔ افسوس ہے کہ ہمیں یہ پورا مضمون نہیں مل سکا۔ البتہ مولانا حالی نے اس مضمون کا خلاصہ حیات جاوید میں شائع کیا ہے جو ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔ (شیخ محمد اسماعیل پانی پتی) ’’گزشتہ چند سالوں سے گورنمنٹ نے جو انتظام رعایائے ہندوستان کی تعلیم کا کیا ہے۔ سب سے اول اس میں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ آیا فی نفسہ وہ انتظام ایسا ہے یا نہیں کہ رعایا کا اس سے ناراض ہونا اور خواہ مخواہ بد گمانی کرنا ضرور ہے؟ ہماری رائے یہ ہے کہ بلاشبہ ایسا ہی ہے گورنمنٹ نے یہ خیال کیا کہ جب کسی قوم کی تربیت کا ارادہ کیا جائے تو جو اس کی قوم کی زبان ہے اسی میں اس کی تربیت ہو تو آسانی ہو گی اور دوسری زبان کی لغت اور محاورے سیکھنے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے وہ بچے گا۔ بظاہر اس کی نظیریں بھی موجود تھیں کیوں کہ تمام اہل یورپ اور اہل عرب نے اپنی ہی زبانوں میں علوم سیکھے ہیں مگر یہ رائے غلط تھی۔ کل زبانوں پر ایسا خیال کر لینا صحیح نہیں ہے۔ بلکہ ہم کو چاہیے کہ اس بات پر غور کریں کہ جس زبان میں ہم کسی قوم کی تعلم تعلیم چاہتے ہیں۔ آیا اس زبان کی حالت ایسی ہے یا نہیں کہ اس زبان میں تعلیم کا ہونا ممکن ہو؟ ہمیشہ تعلیم سے مقصود یہ رہا ہے کہ انسان میں ایک ملکہ اور اس کی عقل اور ذہن میں ایک جودت پیدا ہو، تاکہ جو امور پیش آئیں ان کے سمجھنے کی، برائی بھلائی جاننے کی اور عجائب قدرت الٰہی پر فکر کرنے کی اس کو طاقت ہو، اس کے اخلاق درست ہوں، وہ معاملات معاش کو نہایت صلاحیت سے انجام دے اور امور معاد پر غور کرے۔ گورنمنٹ کا یہ کہنا کہ ’’ہم کو اس قدر تربیت سے کچھ علاقہ نہیں بلکہ ہم اس قدر تعلیم کے خواہاں ہیں جو امور معاش سے علاقہ رکھتی ہے اور جو منحصر ہے صرف جغرافیہ، حساب اور ہندسہ پر نہایت بے جا ہے۔ سررشتہ تعلیم جو چند سال سے جاری ہے وہ تربیت کے لیے ناکافی ہی نہیں بلکہ خراب کرنے والا تربیت اہل ہند کا ہے۔ اردو زبان جس کے وسیلے سے اکثر جگہ تعلیم جاری ہے۔ اس کی حالت ایسی نہیں ہے جس سے تعلم کا ہونا ممکن ہو۔ کیوںکہ جس زبان میں ہم کسی قوم کی تعلیم کا ارادہ رکھتے ہیں، اس زبان کی نسبت اول ہم کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس میں علمی کتابیں کافی موجود ہیں یا نہیں؟ کیوںکہ اگر یہ نہ ہو تو تعلیم ممکن نہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ زبان فی نفسہ اس قابل ہے یا نہیں کہ اس میں علمی کتابیں تصنیف ہو سکیں؟ کیوں کہ پہلی بات کا تو علاج ہو سکتا ہے مگر دوسری بات لاعلاج ہے۔ تیسرے یہ کہ آیا وہ ایسی زبا ن ہے یا نہیں کہ اس میں علوم پڑھانے سے جودت طبع، جدت ذہن، سلامتی فکر، ملکۂ عالی، قوت ناطقہ، پختگی تقدیر اور تربیت نفس کا سلیقہ پیدا ہو سکے؟ ان تینوں باتوں میں سے اردو زبان میں کوئی بات بھی نہیں۔ پس گورنمنٹ پر واجب ہے کہ اس طریقہ تعلیم کو جو درحقیقت تربیت انسان کو خراب کرنے والا ہے اور خود بخود لوگوں کے دلوں میں بدگمانی پیدا کرنے والا ہے، بالکل بدل دے اور اس زبان میں تربیت جاری کرے جس سے تربیت کا جو اصلی نتیجہ ہے، وہ حاصل ہو۔ میری صاف رائے ہے کہ اگر گورنمنٹ اپنی شرکت دیسی زبان میں تعلیم دینے سے بالکل اٹھاوے اور صرف انگریزی مدرسے اور سکول جاری رکھے تو بلاشبہ یہ بدگمانی جو رعایا کو گورنمنٹ کی طرف سے ہے، جاتی رہے۔ صاف صاف لوگ جان لیں کہ سرکار انگریزی زبان کے وسیلے سے تربیت کرتی ہے اور انگریزی زبان بلاشبہ ایسی ہے کہ انسان کی ہر قسم کی علمی ترقی اس میں ہو سکتی ہے۔‘‘ سرسید کے مضمون کا خلاصہ بیان کرنے کے بعد مولانا حالی نے سرسید کے اس خیال پر حیات جاوید میں نہایت دل چسپ تبصرہ بھی کیا ہے۔ جو اگرچہ انتہائی طور پر مختصر ہے مگر ہے بالکل مبنی بر حقیقت ۔ مولانا فرماتے ہیں: ’’یہاں سرسید کے ان فقروں کو نقل کرنے سے ہمارا صرف یہ مدعا ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ انگریزی زبان کی تعلیم کو دیسی زبان کی تعلیم پر ترجیح دینے کی نسبت جو کچھ سرسید کی رائے اس زمانہ میں تھی۔ یہی رائے اب سے ۳۶ برس پہلے تھے۔ کہ انگریزی زبان میں بھی ایسی تعلیم ہو سکتی ہے جو دیسی زبان کی تعلیم سے بھی زیادہ نکمی، فضول اور اصلی لیاقت پیدا کرنے سے قاصر ہو۔ ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خطاب بہ طرف مسلمانان ہندوستان (برائے مدرسۃ العلوم علی گڑھ) وہ زمانہ یاد ہو گا جب کہ ہم سب پڑے سوتے تھے اور قوم کی بہتری کا کسی کو خیال بھی نہ تھا۔ اس وقت ضرورت تھی کہ قوم کو جگایا جاوے اور قوم پر جو زوال آ گیا ہے اور جو زوال شدید آنے والا ہے اس کو جتلایا جاوے۔ لوگوں نے تابمقدور اس پر کوشش کی اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ کوشش کام یاب ہوئی۔ لوگ جاگے اور ہر ایک گوشۂ ہندوستان سے قومی ہم دردی کی صدا آنے لگی۔ لوگ جاگے اور اٹھے مگر اچھی طرح ہوشیار نہ ہوئے۔ نیند کے خمار میں راہ راست اور شارع عام کو چھوڑ کر بٹیا کا رستہ چلنے لگے۔ یعنی بجائے اس کے کہ سب لوگ اپنی قوت کو ایک جگہ جمع کر کے کسی کام کو تکمیل پر پہنچاتے، انھوں نے اپنی قوتوں کو متفرق کرنا شروع کیا اور ہر ایک نے پانی کا ایک ایک بندھنا ہاتھ میں لے کر ایک وسیع چٹیل ریگ کے بیابان کے مختلف کونوں میں ڈالنا شروع کیا اور خیال کیا کہ ہم اس پانی سے اس ریت کے بیابان میں نہایت عمدہ سرسبز اور پرثمر باغ لگا لیں گے۔ یہ خیال محال تھا اور محال ہے۔ ان کی کوششیں ضائع ہوئیں اور ضائع ہوتی ہیں اور ضائع ہوں گی اور وہی مثل صادق آئی کہ ریت میں پانی ڈالا نہ آسمان کا رہا نہ زمین کا۔ ہم کو مدت سے خیال تھا کہ اس بے سود کام سے قوم کو متنبہ کریں اور سمجھاویں کہ اس طرح اپنی قوتوں کو متفرق کر کے ضائع نہ کریں، مگر مجھ کو ہمیشہ یہ خیال ہوا کہ لوگ بجائے اس کے کہ ہمارے اس کہنے کو نیک نیتی اور قومی ہمدردی سمجھیں ہماری بد نیتی اور خود غرضی پر محمول کریں گے اس لیے ہم نے اس مطلب کو مگہم مگہم طور سے تو بیان کیا مگر صاف صاف اور بلاخوف لومتہ لائم کبھی بیان نہیں کیا۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ مجھ سے بلاشبہ یہ قومی گناہ ہوا کہ میں نے اپنی نسبت بدگمانی پیدا ہونے کے خوف سے قومی بھلائی کی جو بات تھی اس کو صاف صاف بیان نہیں کیا اور قوم کو اس طرف متوجہ کرنے پر کما حقہ، کوشش نہیں کی لیکن میرا کانشنس مجھ کو ملامت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ : مصرع از خدا شرم دار د شرم مدار اب میں تمام پردوں کو اٹھائے دیتا ہوں اور اپنی قوم کے لیے جو بہتر سمجھتا ہوں، وہ کہتا ہے: ہس کسے ہر چہ خواہد بد اند و ھر چہ خواھد بگوید بادل آرا مے مرا خاطر خوش است کزدلم یک بارۂ برد آرام را قوم ما اے قوم ما از بہر تو دادہ ام برباد ننگ و نام را میں صاف صاف قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ قوتوں کے متفرق کرنے سے قوم کو نقصان شدید پہنچتا ہے ان کو ایک جگہ جمع کرو۔ میں قوم سے صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ جو چھوٹے چھوٹے کام انھوں نے قوم کی بھلائی کے خیال سے شروع کیے ہیں وہ قوم کو بجائے نفع کے شدید نقصان پہنچا رہے ہیں اور بعوض اس کے کہ قوم کے خیالات کو اس کی ہمتوں کو اور اس کے جوشوں کو ایک جگہ جمع کریں پریشان و متفرق کر رہے ہیں اور بے سود ضائع کرتے ہیں۔ میں صاف صاف جتلانا چاہتا ہوں کہ جو کام تم نے بغرض ثواب آخرت اختیار کیے ہیں ہر شخص کو ثواب کمانے کا اختیار ہے کوئی مانع نہیں مگر تم نے جو اس کو قومی ہم دردی اور قومی بھلائی کا لباس پہنایا ہے وہ صرف دھوکا ہے اور قوم کو دھوکا دیا جا تا ہے۔ قوم کو دھوکا مت دو وہ قوم کے ساتھ دغا بازی اور مکر ہے جس سے قوم دھوکے میں پڑ کر برباد ہو جاوے گی۔ میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ قوم کے لیے بہت کچھ کرنا ہے قوم کو بہت چیزوں کی ضرورت ہے اس کی مثال ایسے مریض کی ہے جو متعدد امراض میں مبتلا ہو بعض ایسے امراض ہیں جن سے اس کی ہلاکت کا اندیشہ نہیں۔ بعض ایسے ہیں جن سے اس کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ پس اگر تم ان امراض کے علاج پر متوجہ ہو گئے جن سے ہلاکت کا اندیشہ نہیں ہے اور سب مل کر اس مہلک مرض کے علاج پر متوجہ نہ ہو گے جو ایسا مرض ہے کہ بغیر اس کے کہ سب یک دل ہو کر اس کے علاج پر متوجہ ہوں علاج پذیر نہیں ہے اور چند آدمیوں کے متوجہ ہونے سے اس کا علاج نہیں ہو سکتا تو اس بیمار کو شفا ہونے کی توقع نہیں ہے بلکہ آخر کار یقینی اس کے لیے موت ہے۔ پس اگر تم اس کی شفا چاہتے ہو تو ایک دانا طبیب کا سا کام کرو۔ چھوٹے چھوٹے امراض کو جو درحقیقت اصلی مرض نہیں بلکہ اصلی مرض کے سبب سے پیدا ہوئے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور سب متفق ہو کر اصلی مہلک مرض کے علاج پر پوری پوری متفقہ ہمت مصروف کرو تاکہ اصلی مرض زائل ہو اور بیمار شفا پاوے۔ وہ چھوٹے چھوٹے مرض بھی مہلک مرض سے شفا پانے کے ساتھ از خود زائل ہو جاویں گے۔ اب غور کرو کہ قوم کی فلاح اور بہبودی کے لیے ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی قوم کر انگریزی زبان کی جس کو خدا نے اپنی مرضی سے ہم پر حکومت دی ہے اور جس کے جانے بغیر ہم دنیا کا کوئی کام نہیں کر سکتے، تعلیم دینا ہے مگر ایسی تعلیم جس سے قوم کو کڑ مڑ انگریزی آ جاوے اور اس طرح سے وہ انگریزی بولنے لگیں جیسے ہندوستان میں کمپو کے خدمت گار یا سوداگر یا انگلستان کے قلی اور کیپ مین، تو قوم کو کچھ فائدہ نہیں۔ ان کو پوری تعلیم اور اعلیٰ درجہ کی انگریزی زبان کی تعلیم ہونی چاہیے کہ خود اپنی لٹریچر دانی سے ان کو عزت ہو اور اس کو قومی، دنیاوی، مذہبی کاموں میں کام میں لا سکیں اور لوگ اس کی قدر کریں اسی قدر ہمارے لیے کافی نہ ہو گا بلکہ یہ بھی ضرور ہو گا کہ ان ہی میں چند ایسے بھی ہوں جو فرنچ، جرمن، لیٹن اور گریک کو بخوبی جانتے ہوں۔ اسی کے ساتھ ہم کو عربی کی بھی تعلیم دینی ضرو ر ہے جو قطع نظر اس کے کہ وہ مسلمان کی زبان ہے ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی زبان ہے جس کی قدر کی جا سکتی ہے اور کسی طرح علمی زبان کے دائرے سے علیحدہ نہیں رہ سکتی اور مسلمانوں کی ضروریات سے خارج نہیں ہو سکتی اور اگر مذہبی خدمت کا بھی لحاظ ہو تو عربی کے ساتھ عبری زبان سے بھی واقفیت پیدا کرنی لازم آ جاتی ہے۔ ایک مجمع میں مولانا شاہ عبدالعزیز مرحوم نے چار سطریں توریت کے شروع کی نہایت فخر سے عربی زبان میں پڑھیں اور نواب فتح اللہ بیگ خاں نے جو شاہ صاحب کے نہایت معتقد تھے ان کو یاد کر لیا تھا اور کبھی کبھی شاہ صاحب کے حالات بیان کرنے میں ان کو پڑھا کرتے تھے۔ فارسی کو ہم نہیں چھوڑ سکتے جس کا تعلق بہت کچھ مسلمانوں کی تربیت اور مذاق کے ساتھ ہو گیا ہے اور وہ فی نفسہ خود بھی نہایت لطیف و بامذاق زبان ہے اور مسلمانوں کے علوم اور تواریخ کا اس قدر سرمایہ اس میں موجود ہے جس سے مسلمان قطع نظر نہیں کر سکتے۔ مسلمانوں کو مذہبی تعلیم دینا بھی ادنیٰ درجہ کی یا اوسط درجہ کی یا اعلیٰ درجہ کی ہم پر فرض ہے کیوں کہ مختلف اقوام کو جس چیز نے ایک قوم بنا دیا ہے وہ صرف اسلام ہے۔ اگر ہم اسی کا فکر نہ کریں تو قومیت قائم نہیں رکھ سکتے کم سے کم یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو ضروری عقائد مذہبی اور احکام مذہبی کی تعلیم دیں جس کو ہم نے ادنیٰ تعلیم سے تعبیر کیا ہے۔ ان سب باتوں کے ساتھ ہمیں ان کو مختلف علوم میں اور بالتخصیص علوم جدیدہ میں تعلیم دینا ہے جو ایک بہت بڑا امر اہم ہے اور فی الواقع جو اس کی ضرورت اور عظمت ہے وہ مافوق البیان ہے۔ مختصراً اس طرح بیان ہو سکتی ہے کہ بغیر اس کے نہ قوم بن سکتی ہے نہ دنیا میں کوئی درجہ اور عزت اور قدر حاصل کر سکتی ہے اور اگر سچ پوچھو تو نہ دین کی خدمت کر سکتی ہے۔ یہ حالت تو صرف تعلیم کی تھی مگر صرف تعلیم سے ہمارا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ کیا صرف تعلیم سے انسان انسان بن جاتا ہے اور کمثل الحمار یحمل اسفارا سے بھی زیادہ رتبہ پا سکتا ہے کیا صرف تعلیم سے قوم قوم بن جاتی ہے۔ کیا صرف تعلیم سے کوئی قوم دنیا کی قوموں میں عزت پا سکتی ہے؟ ہر گز نہیں ۔ بلکہ جب تک وہ انسان نہ بنیں اور قوم قوم نہ بنے اس وقت تک معزز نہیں ہو سکتی۔ پس ہم کو مسلمانوں کے لیے تعلیم سے زیادہ وہ چیز کرنی ہے جس کو ہم تربیت کہتے ہیں اور جو قوم کو قوم بننے کے لیے ایسی ہے جیسے جان بدن کے لیے اور بغیر اس کے قوم کا قوم بننا اور زندہ قوم بننا محالات سے ہے۔ اس مطلب کے لیے ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ اول ہمارا کام یہ ہونا چاہیے کہ قوم کے بچوں اور نوجوانوں کو جس قدر ہو سکے ہم ایک جگہ جمع کریں وہ ساتھ رہیں۔ ایک جگہ پڑھیں ایک جگہ کھاویں، ایک جگہ جاگیں، ایک جگہ سوئیں، ایک جگہ کھلیں اور ایک جگہ جئیں، ایک جگہ مریں اسی کے ۔ ساتھ ان کی تربیت کا کافی سامان مہیا کریں۔ ان کی صحت جسمانی کا خیال رکھیں علاوہ تمام اسباب و سامان معالجہ کے مہیا رکھنے کے ایک مکان وسیع خوش آب و ہوا پر فضا مہیا کرنا چاہیے جس میں ان کو رکھا جاوے۔ ان کو ایسے کھیلوں اور ورزشوں کی رغبت دلائی جاوے جو صحت جسمانی کے لیے ضرور ہوں۔ پھر ان کے قویٰ پر نظر ڈالی جاوے اور ایسی ورزشیں ان کو بتائی جاویں جو ان کے قویٰ کے مناسب ہوں۔ جو کم زور ہوں ان کے لیے ایسی ورزشیں تجویز کی جاویں جو ان کی جسمانی قوت کی کمی کو پوررا کریں اور جو قوی اور طاقت ور ہیں ان میں زیادہ قوت اور طاقت پیدا ہو۔ گھوڑے کی سواری کی تعلیم ہو اور ان میں جرأت اور دلیری پیدا کی جاوے جس کے بغیر انسان نہ دین کے کام کا ہوتا ہے نہ دنیا کے کام کا۔ پھر ان کے لیے تفریح کے سامان مہیا رکھنے چاہئیں تاکہ ان کی طبیعت پژمردہ نہ ہونے پاوے اور ان کی امنگیں مٹ کر معدوم نہ ہو جاویں۔ صرف ان پر اس قدر بندش رہے کہ ان کی امنگیں بد راہ پر نہ پڑنے پاویں اور سیدھے اور نیک رستے پر پڑ جاویں۔ پھر اس سب کے ساتھ اس کا خیال رہے کہ یہ کھیل و کود اور ورزشیں تعلیم اور لکھنے پڑھنے میں حارج نہ ہوں بلکہ اس کے ممدو معاون ہوں۔ تعلیم کے ایسے سامان مہیا کرنے چاہئیں جن سے ان کو شوق اور رغبت اور ان کے دل کو خوشی ہو اور اس میں شریک ہونے کا اور جو کچھ انھوں نے پڑھا ہے اس کو ترقی دینے کا ان کو شوق پیدا ہو۔ درخت کو صرف پانی ہی دیے جانا کافی نہیں ہے جب تک کہ اس کے پتے اور ٹہنیاں ہوا کے جھونکوں سے ملتی جلتی اور لہلہاتی اور ہوا۔ محیط کو اور اس کے اجزاء کو جذب کرتی نہ رہیں، کبھی پھول پھل نہیں لا سکتے۔ ان کے اخلاق اور مذہبی خیالات درست رکھنے کو اور فرائض مذہبی ادا کرنے کو اس خوبی کے ساتھ ایک یا دو مقدس با وقار پاکیزہ صورت پاکیزہ سیرت سمجھ دار مقدس عالم کا رکھنا چاہیے جس کا ادب لوگوں کے دلوں پر ہو تاکہ اس کے فیض صحبت سے ان کی طبیعتیں از خود نیکی اور دین داری کی طرف مائل ہوں۔ اگر ہم اپنی قوم کے نوجوانوں کی نسبت چاہتے ہیں کہ نیکی اور راہ راست اختیار کریں تو یہ مطلب تاکید و تنبیہ سے اور ان پر قیود مالایطاق کے لگانے سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ پروفیسر مارلیسن کا نہایت عمدہ قول ہے کہ ’’کوئی شخص اس کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ہزار نوجوانوں کے خیالات و خواہشوں کو اپنی مرضی کا بالکل تابع کرے۔ ہم انسان کے خیالات کو، جو اپنے احاطہ غیر متناہی میں کہیں کے کہیں پہنچ سکتے ہیں، اس طرح سے اپنا مطیع نہیں کر سکتے۔ جس طرح ایک فوجی افسر قواعد دان سپاہیوں کی ایک جماعت کو اپنے حکم کو تابع رکھتا ہے اس لیے ہماری یہ خواہش ہونی چاہیے کہ ہم اپنے طلباء کے واسطے ایسے اسباب مہیا کریں اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے ایسی عمدہ صحبتیں پیدا کر دیں جس سے ان میں نیکی کی طرف رغبت اور برائی سے نفرت پید اہوتی رہے۔ وللہ در من قال۔ صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالح ترا طالح کند و ھذا ما وعظنی جدی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حیث قال مثل الجلیس الصالح والسوئکحامل المسک و نافخ الکیر فحامل المسک اما ان یھدیک ان تتباع منہ و اما ان تجد منہ ریحا طیبۃ و نافخ الکیر اما ان یحرق ثیابک و اما ان تجد منہ ریحا خبیثۃ۔ پس ہم کو اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے اور ان کو انسان بنانے کے لیے اور اپنی قوم کو قوم بنانے کے لیے ان کو دین و دنیا دونوں میں معزز کرنے کے لیے ایسے سامانوں کا جمع کرنا اور اس طرح پر ان کو تربیت کرنا لازم و ضرور ہے۔ پھر اے محبان قوم اور اے فاروقان قوت قوم و اے مدعیان صلاح و فلاح قوم تم انصاف کرو، دیکھو اور سمجھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو کیا اس سے قوم کو یہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ کیا اس سے قوم قوم ہو جاوے گی۔ کیا اس سے قوم خاک مذلت سے اٹھ کھڑی ہو گی۔ حاشا و کلا۔ سمجھو!تم نے جو جا بجا چھوٹے چھوٹے اسکول یا بے وقعت اور بے حقیقت کالج کھولے ہیں کیا ان سے تم قوم کو کچھ بھلائی پہنچا سکتے ہو، قوم کی تعلیم اور تربیت کے لیے جو سامان ضروری ہیں ان کو تم اسکولوں و کالجوں میں مہیا کر سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ تم اپنی قوم کے ساتھ سلوک نہیں کرتے بلکہ قوتوں کو متفرق کر کے اس کو نقصان پہنچاتے ہو اپنی قوم کے بچوں کے ساتھ بھلائی نہیں کرتے بلکہ سخت دشمنی کرتے ہو۔ ان کی عمر کو ضائع کرتے ہو جو کچھ وہ بغیر تمہارے اس نادان دوستی اور ناسمجھ مہربانی کے کر سکتے تھے اس کو بھی تم برباد کرتے ہو۔ مثلاً کسی ضلع میں گورنمنٹ کالج یا اسکول ہے یا کوئی مشنری کالج و اسکول ہے جس میں ماسٹر و ٹیچر پرنسپل و پروفیسر نہایت عمدہ لیاقت کے اور عالم ولایت کی یونیورسٹی کے ڈگری یافتہ تعلیم دیتے ہیں ان کالجوں اور اسکولوں کا عمدہ انتظام ہے باقاعدہ ان کی نگرانی ہوتی ہے۔ اب تم نے اس ضلع میں ایک کالج یا اسکول چندہ کے لوگوں کو اسلام کی چمک دکھا کر کھولا اور مسلمان لڑکوں کو گھیر گھار کر اس میں داخل کیا جس میں نہ اعلیٰ درجہ کے ماسٹر ہیں، نہ ٹیچر، نہ پرنسپل، نہ پروفیسر اور نہ ان میں انتظام ہے نہ باقاعدہ نگرانی تو درحقیقت تم نے اپنی قوم کے بچوں کے ساتھ دشمنی کی ہے نہ دوستی کہ ان کو اچھی تعلیم سے محروم رکھ کر ناقص تعلیم میں ڈالا اور ان کی عمر کو ضائع کیا۔ اگر تم اسی درجہ کا کالج یا اسکول قائم کر سکتے ہو جس درجہ کا گورنمنٹ یا مشنری اسکول اس ضلع میں ہے تب بھی صبر آتا مگر تم نے جو کیا اس سے رہی سہی قومی تعلیم کو بھی خاک میں ملا دیا۔ پھر کیا یہ قوم کے ساتھ بھلائی و نیکی ہے؟ بے شک تمہاری نیت بخیر ہے اور تم نہایت نیک نیتی اور قوم کی بھلائی کے لیے کام کرتے ہو مگر مثل نادان دوست کے تم اپنے بچوں کو نیم ملا و نیم حکیم کے سپرد کر کے ان کو خطرہ میں ڈالتے ہو۔ انجمن ہائے اسلامیہ جو جا بجا قائم ہوئی ہیں اگر وہ کسی مرض کی دوا ہیں تو ایسے مرض کی ہیں جو قوم کے لیے مرض مہلک نہیں ہے۔ اگر تم نے ان ہی پر بس کیا اور جو مہلک مرض ہے، اس کے علاج اور افسوس کہ آخر کار وہ مرض مہلک لاعلاج ہو جاوے گا پھر نہ کسی ہم درد کی ہم دردی کام آوے گی اور نہ کسی مسیحا کی مسیحائی۔ اب تم آئو اور مدرسۃ العلوم علی گڑھ کو دیکھو کہ وہ ان تمام باتوں پر غور کر کے قائم کیا گیا ہے، جو مسلمانوں کے لیے ضرور ہیں اور جن کو میں نے ابھی بیان کیا ہے اور جن سے قوم قوم بن سکتی ہے۔ تم مت سمجھو کہ میں کچھ شیخی کرتی چاہتا ہوں مگر سچ اور بالکل سچ اور نیک نیتی اور قومی بھلائی کی نظر سے کہتا ہوں کہ قوم کے معززین اور فیاض لوگوں کی اعانت سے اب وہ ایسی حالت پر پہنچ گیا ہے کہ اگر تم جا بجا اور متفرق مقامات میں کتنی ہی کوشش کرو، اس کے دسویں حصہ تک بھی کسی کالج یا اسکول یا بورڈنگ ہائوس کو نہیں پہنچا سکتے۔ جو سامان کہ ہماری قوم کی تعلیم و تربیت کے لیے درکار ہے بہت کچھ اس میں جمع ہو گیا ہے۔ میں قبول کرتا ہوں کہ اس میں کچھ نقصان بھی ہے اور بہت کچھ کرنے کو باقی ہے۔ جس کے لیے زر کثیر کی حاجت ہے۔ پس تم سب اپنی قوتوں کو ایک جگہ جمع کرو اس میں جو نقص ہو اس کو دور کرو اور جو کچھ اس میں کرنا باقی ہے اس کے پورا کرنے کو سب متفق ہو کر اور قوتوں کو جمع کر کے روپیہ فراہم کرو۔ بھیک مانگ کر آپس میں چندہ کر کے جس طرح ہو سکے اس کو مکمل کر دو۔ میں قبول کرتا ہوں کہ ایک علی گڑھ کا مدرستہ العلوم تمام قوم کے لیے کافی نہیں ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو کام شروع ہو گیا ہے اور ایسے درجہ تک پہنچ گیا ہے جس کو دیکھ کر تعجب آتا ہے کہ کیوں کر پہنچا۔ اول اس کو متفق ہو کر پورا کر دو اور اس کے بعد دوسرا شروع کر دو اور سب متفق ہو کر اسے پورا کر دو اور پھر اسی طرح تیسرا شروع کر دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا اور اپنی قوتوں کو متفرق رکھا تو کوئی ایک کام بھی پورا نہ ہو گا اور سب کے سب ناقص رہیں گے اور سب کے سب برباد و معدوم ہو جاویں گے۔ سچ ہے کہ مدرستہ العلوم کی تکمیل کے لیے زر کثیر درکار ہے اور شاید اس کے خیال سے لوگوں کی ہمت پست ہو جاوے مگر درحقیقت یہ صحیح نہیں ہے۔ اگر قوم متفق ہو اور اپنی قوتوں کو مجتمع کرے اور صحیح رستہ پر چلے تو ایسے ایسے دس کالج یکے بعد دیگرے قائم کر سکتی ہے پس اس تحریر سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ تمام قوم متفق ہو کر اول مدرستہ العلوم کو پورا پورا مکمل کر دے اس کے بعد دوسرے کام پر ہاتھ ڈالے۔ اس کی تدبیر اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ہم اپنی تمام قوم سے اور اس کے ہر متنفس زن و مرد سے ایک ایک جو کے برابر بھی چاندی ابیض نورانی علیہ الرحمتہ تحصیل کریں تو کروڑوں روپیہ جمع کر سکتے ہیں اور قوم کی تمام حاجتوں کو پورا کر سکتے ہیں پس میں کہتا ہوں: چرا نستانم از ھر یک جوئے سیم کہ گرد آید مرا فی الحال گنجے ہاں جیسا یہ طریقہ آسان ہے اتنا ہی اس کا عمل درآمد ہونا نہایت مشکل ہے لیکن اگر قوم متفق ہو جاوے تو کچھ مشکل نہیں۔ مثل مشہور ہے کہ مشکل کشا علیؓ سب مشکلوں کو آسان کر دیتے ہیں۔ ؎ مشکلے نیست کے آساں نشود مرد باید کہ ہراساں نہ شود ایک باہمت شخص کا قول ہے کہ جب کوئی کام شروع کرو تو یقین کر لو کہ ’’نا ممکن کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ پس اگر ہر شہر و قصبہ میں دو چار باہمت شخص مستعد ہو جاویں جو ’’بینی فیکٹر‘‘ قوم کے ہوں اور ہر ایک مسلمان زن و مرد باشندۂ اس شہر و قصبہ سے شیئا للہ یا شیئا للقوم وصول کریں تو چند روز میں لاکھوں روپیہ جمع ہو جاتا ہے اور مدرستہ العلوم کی تمام ضروریات پوری ہو جاتی ہیں۔ پس خدا ہر شہر و قصبہ کے مسلمانوں کو ایسا کر نے کی توفیق دے۔ ہیضہ کا علاج ھومیو پیتھک طریقہ سے (سرسید کا ایک نایاب اور ناپید مضمون) (اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ، بابت ۱۸۶۸ئ) دنیا میں جس قدر مشاہیر گزرے ہیں وہ سب کے سب قریباً ایک ایک علم یا ایک ایک فن کے ماہر تھے۔ بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مختلف علم و فنون میں یکساں مہارت رکھتے ہوں۔ سرسید موخر الذکر مشاہیر میں سے ایک نمایاں فرد تھے۔ ’’آثار الصنادید‘‘ کی تصنیف کے وقت وہ ایک ماہر آثار قدیمہ کی حیثیت سے دنیا میں ظاہر ہوئے۔ سرکاری ملازمت کے ایام میں وہ ایک نہایت عادل، منصف اور قانون سے واقف مجسٹریٹ کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ قرآن کریم، حدیث نبوی اور فقہ کی واقفیت میں وہ ایک عالم دین کی شان سے جلوہ گر ہوتے ہیں ۔ تحقیق اور تنقید کے میدان میں وہ ایک بالغ نظر فلسفی معلوم ہوتے ہیں ۔ وہ بیک وقت مصنف بھی تھے اور شاعر بھی۔ وہ مؤرخ بھی تھے اور تذکرہ نویس بھی وہ معلم الاخلاق بھی تھے اور مصلح قوم بھی۔ وہ اعلیٰ درجہ کے ادیب بھی تھے اور بلند پایہ خطیب بھی۔ ان کی سیاسی حیثیت بھی مسلم تھی اور ان کی لیڈرانہ شان بھی عیاں تھی۔ علی گڑھ کالج کی تعمیر کے وقت وہ ایک اعلیٰ درجہ کے انجینئر معلوم ہوتے ہیں اور محمدن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاسوں میں ایک ماہر تعلیم کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ بہت بڑے صحافی بھی تھے اور نہایت زود نویس مضمون نگار بھی۔ چناں چہ وہ مختلف موضوعات اور مختلف عنوانات پر ٹھوس اور بہترین مضامین کا اس قدر عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے ہیں۔ جو مجھ ناتواں اور ضعیف انسان سے سمیٹے نہیں سمٹتا۔ نہ معلوم ان کو مختلف النوع علمی مشاغل کی کثرت میں اتنے لمبے لمبے تحقیقی اور تنقیدی مضامین لکھنے کی فرصت کس طرح مل جاتی تھی۔ سخت تعجب ہوتا ہے کہ اس قدر مختلف اور متضاد قابلیتیں سسرسید میں کس طرح جمع ہو گئی تھیں؟ ؎ ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ من جملہ بہت سی مختلف لیاقتوں کے ہومیو پیتھک علاج کی جو اس زمانہ میں نیا نیا ایجاد ہوا تھا، واقفیت بھی سرسید میں حیرت انگیز تھی۔ اس علم سے ان کو دل چسپی بھی بہت تھی اور اس فن کی ترویج و اشاعت میں انھوں نے کوشش بھی بہت کی۔ اس کی کیفیت مولانا حالی اپنی مشہور کتاب ’’حیات جاوید‘‘ میں اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’۱۵ اگست ۱۸۶۷ء کو سرسید عہدۂ جج سمال کاز کورٹ پر ترقی پا کر علی گڑھ سے بنارس چلے گئے۔ غالباً بنارس پہنچ کر ان کو یہ خیال پیدا ہوا کہ ہومیو پیتھک علاج کے طریقے سے بہتر کوئی طریقہ علاج کا عمدہ اور بے خطر نہیں ہے اور جیسا کہ ان کی طبیعت کا خاصہ تھا کہ جو کام یا جو بات یا جو تجویز ملک کے لیے مفید سمجھی، اس کے پورا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔ ہومیو پیتھک علاج کو مفید سمجھ کر انھوںنے اس کی بھی حمایت کرنے اور اسے تقویت دینے کا ارادہ کر لیا۔ چناں چہ اسی ۱۸۶۷ء میں انھوں نے ایک کمیٹی قائم کی۔ جس کا مقصد ہومیو پیتھک طبابت کا ہندوستان میں پھیلانا اور ہندوستانیوں کو اس کی طرف مائل کرنا تھا۔ اس کمیٹی کے پریذیڈنٹ مہاراجہ بنارس اور سیکریٹری سرسید قرار پائے اور کمیٹی کی تجویز سے ۲۵ ستمبر ۱۸۶۷ء کو بنارس میں ایک شفا خانہ بنام ’’ہومیو پیتھک ڈسپنسری اینڈ ہوسپٹل ‘‘ کھولا گیا اور سرسید نے ہر طریقہ سے جو ان کے اختیار میں تھا۔ لوگوں کو اس ڈسپنسری کی طرف توجہ دلائی۔ انھوں نے بعضے اپنے دوستوں کو جو کسی مرض مزمن میں مطتلا تھے۔ بنارس بلانے کے لیے خط لکھے اور جو وہاں نہ پہنچ سکے ان کے لیے دوائیں بھجوائیں۔ اس طرح اس شفا خانہ کا چرچا چند دن میں دور و نزدیک ہو گیا۔ انگریزی اخبار پایونیر الہ آباد کے پرچہ مورخہ ۴ دسمبر ۱۸۶۷ء میں اس شفا خانہ کی نسبت یہ چھپا تھا کہ ’’پہلے ہی مہینے میں ۵۱۶ بیمار معالجہ کے لیے ہوسپٹل میں آئے‘‘ حالاں کہ اس سے پہلے کوئی اس طریقہ علاج سے مطلق واقف نہ تھا۔ ۱۷ دسمبر ۱۸۶۷ء کو سرسید نے ایک طول طویل لیکچر ہومیو پیتھک طبابت کی تاریخ اور اس کے اصول پر اور اس بات پر کہ یہ طریقہ علاج تمام طریقوں سے زیادہ مفید اور بے خطر ہے۔ کمیٹی کے عام جلسے میں دیا اور ۱۸۶۷ء میں ایک رسالہ ہیضہ کے علاج پر بموجب اصول ہومیو پیتھک کے لکھا۔ یہ لیکچر اور یہ رسالہ سوسائٹی اخبار کی جلدوں میں چھپا ہوا موجود ہے۔‘‘ (حیات جاوید، صفحہ ۱۹۱۔۱۹۲) ہومیو پیتھک طریق علاج کی تاریخ اور اس کے فوائد پر جو لیکچر سرسید نے ۱۸۶۷ء میں دیا تھا، وہ میں مقالات سرسید کے بارہویں حصہ میں درج کر چکا ہوں۔ اس کے علاوہ ہومیو پیتھک طریقہ سے ہیضہ کے علاج پر جو مضمون سرسید نے اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑ ھ میں چھپوایا تھا۔ وہ عرصہ دراز کی تلاش کے بعد بھی مجھے نہیں مل سکا۔ خوش قسمتی سے پچھلے دنوں میرے نہایت ہی محترم بزرگ جناب مولانا محمد مقتدیٰ خان صاحب شروانی نے علی گڑھ سے مشتاق حسین صاحب کا مرتبہ مکاتیب سرسید کا ایک نسخہ مجھے بھجوایا۔ اس کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ یہ مضمون رسالہ ہومیو پیتھک میگزین لاہور میں بھی چھپا تھا اس پر میں نے اس رسالہ کے ایڈیٹر صاحب کو خط لکھا کہ اگر رسالہ مذکور کا وہ پرچہ از راہ عنایت مرحمت فرماویں تو نقل کے بعد فوراً واپس کر دوں گا۔ وہاں سے جواب آیا کہ پرچہ نایاب ہے، دیا نہیں جا سکتا۔ یہاں بیٹھ کر نقل کر لو۔ چناں چہ میں نے اپنے لڑکے مبارک محمود کو بھیجا اور وہ نہایت احتیاط کے ساتھ سارے مضمون کی نقل کر لایا۔ یہی وہ مضمون ہے جو میں آج قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ امید ہے ناظرین اس سے عملی فائدہ بھی اٹھائیں گے اور سرسید کے ایک نایاب مضمون کی حیثیت سے اسے محفوظ بھی رکھیں گے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ’’دوا ذریعہ ہے اور خدا شفا دینے والا ہے‘‘ ’’دنیا میں اس سے زیادہ سخت، تیز اور تھوڑی سی دیر میں ہلاک کرنے والا کوئی مرض نہیں ہے۔ بعض دفعہ طبیب کو بلاتے بلاتے اور دوا لاتے لاتے مریض کا کام تمام ہو جاتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر فی الفور ا س کی روک تھام کی دوا نہ دی جائے تو چند لمحہ کی دیر میں یہ مرض ایسے درجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ پھر لاعلاج ہوتا ہے، یا نہایت مشکل میں پڑ جاتا ہے۔ پس سب سے بڑی تدبیر یہ ہے کہ اس مرض کے علاج میں جہاں تک ممکن ہو دیر نہ کی جاوے۔ ان چند سطروں کے لکھنے سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ لوگ اس مرض کے حالات سے اور تھوڑا بہت اس کے ابتدائے علاج سے اور ان دوائوں سے، جو فی الفور اس مہلک مرض میں بموجب علاج ہومیو پیتھی کے دی جاتی ہیں، واقف ہو جائیں۔ تاکہ جب کسی کو یہ مرض لاحق ہو، فی الفور ان دوائوں کو جو بیان کی جاتی ہیں، استعمال کرے اور ان تدبیروں کو جو لکھی جاتی ہیں، عمل میں لاوے تاکہ علاج میں تاخیر ہونے کے سبب سے یہ مرض ایسے درجہ کو نہ پہنچ جاوے کہ لاعلاج ہو جاوے، بلکہ اگر زیادہ مشکل اور سختی پیش آوے تو طبیب کے بلانے اور زیادہ موثر علاج کرنے کی بخوبی فرصت ملے۔ ہیضہ وبائی کے شروع ہونے کے سبب جس مطلب سے کہ ہم یہ چند سطریں لکھتے ہیں اس کے لیے ہیضہ وبائی کے پیدا ہونے کے اسباب کا بیان کرنا کچھ ضروری نہیں ہے اور نہ چند سطروں میں وہ بحث ختم ہو سکتی ہے۔ مگر غالباً باعث ہیضہ وبائی کا ہوا کی برقی حالت میں ایسا تغیر آ جانا ہے جس سے ہیضہ وبائی پیدا ہوتا ہے۔ ہوا کی برقی حالت میں تغیر ہو جانے کے بہت سے سبب ہوتے ہیں۔ کبھی کثرت امراض متعدیہ کی اور کبھی صعود آبخروں کا جو گندی اور سڑی ہوئی بدبو دار چیزوں سے پیدا ہوتے ہیں اور کبھی بکثرت ایک جگہ آدمیوں کا جمع ہونا اس کے سبب ہوتے ہیں۔ اولاً یہ حالت متغیرہ ایک جگہ پیدا ہوتی ہے اور جس طرف ہوا جاتی ہے اس طرف پھیلتی جاتی ہے اور جب ہوا ٹھہری ہوئی ہوتی ہے تو وہ ایک ہی ضلع یا شہر میں رہ جاتی ہے اور جس جگہ سے وہ ہوا نکل جاتی ہے وہاں وبا نہیں رہتی۔ یہی سبب ہے کہ ایک محلہ یا شہر یا ضلع میں ہیضہ شروع ہوتا ہے اور دور دور تک پھیلتا جاتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شہر کے ایک محلے میں شروع ہوتا ہے اور دوسرے محلہ سے نکلا چلا جاتا ہے اور باقی محلے اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ انہی سببوں سے ہم یہ بات سنتے ہیں کہ آج ہیضہ فلاں محلہ میں ہے اور کل فلاں محلہ میں اور آج فلاں شہر یا گائوں میں ہے اور کل فلاں شہر یا گائوں میں اور ایسا خیال کرتے ہیں کہ گویا وبائی ہیضہ منزل بہ منزل اور کوچ بہ کوچ چلا آتا ہے۔ ہیضے سے محفوظ رہنے کی تدبیریں جب ہیضہ پھیل رہا ہو تو پیٹ کو سردی سے بچانا چاہیے۔ فلالین کی ایک پیٹی یا پیٹی دافع ہیضہ پیٹ پر لپیٹے رکھنی چاہیے۔ پیٹی دافع ہیضہ میں تانبے کا پترہ لگا ہوتا ہے جس سے تمام پیٹ ڈھکا رہتا ہے۔ سردی سے اپنے تئیں بچانا چاہیے اور برسات اور جاڑے کے موسم میں اگر ہوا میں سردی یا رطوبت ہو تو مکان میں آگ جلانی چاہیے۔ مکان کو اندر سے اور چاروں طرف سے صاف رکھنا چاہیے تاکہ ہوا صاف رہے اور تغیر قبول نہ کرے۔ ہر روز موریوں اور پاخانوں میں اور جہاں پیشاب کرنے کی جگہ ہو تھوڑا سا کلورائڈ آف لائم (Chloride of Lime) یا کنسن ٹریٹڈ سلوشن آف لائم (Concentrated Solution of Lime) ڈالنا چاہیے۔ چونا جو پان میں کھایا جاتا ہے وہ بھی اس کام میں آ سکتا ہے ۔ بن بجھا چونا پاخانوں کی کھڈیوں میں اور موریوں میں چھلنی سے ہر روز چھان دینا چاہیے اور جو لمبی لمبی پٹی ہوئی موریاں ہیں، ان میں چونے کو پانی میں گھول کر بہا دینا چاہیے۔ زمین پر ہر گز سڑنا نہ چاہیے۔ اگر بدن سرد معلوم ہو تو فی الفور رومال یا فلالین سے رگڑ کر گرم کر لینا چاہیے۔ غذا میں بہت احتیاط کرنی چاہیے دیر ہضم اور بہت قوی گوشت اور نہایت عمدہ اور امیرانہ غذا اور کچے پھل اور ساگ پات اور اقسام کے بقولات اور کھیرے ککڑی اور تربوز ہر گز نہ کھانا چاہیے۔ غذا نہایت اعتدلال سے ہمیشہ کسی قدر بھوک رکھ کر کھانی چاہیے۔ اگر طبیعت پر سستی اور کمزوری معلوم ہوتو جو لوگ شراب پیتے ہیں ایک چمچہ برانڈی شراب کا استعمال کریں لیکن اگر حرارت یا بخار معلوم ہوتو اس کا استعمال نہ کرنا چاہیے۔ سوکھا یا باسی یا سڑا ہوا گوشت یا ایسے جانوروں کا گوشت جس میں بہ شدت بساند ہوتی ہو، ہر گز نہ کھانا چاہیے۔ پانی کو کوئلہ اور ریت سے چار گھڑوں کو اوپر تلے رکھ کر جیسا کہ سب جانتے ہیں، چھان کر پینا چاہیے۔ پانی چھاننے کی ایک نہایت عمدہ انگریزی کل ہے اس میں اوپر تلے کوئلہ وغیرہ کی تہہ بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے اوپر کے خانے میں پانی بھر دیتے اور خود سب سے نیچے کے خانے میں پانی چھن کر آجاتا ہے اس کا نام کاربن فلٹر (Carbon Filter) ہے۔ بیس روپے سے سو ڈیڑھ سو تک کو آتی ہے۔ جو لوگ امیر ہیں وہ اس کل کو خرید کر ہمیشہ چھنا ہوا پانی پی سکتے ہیں۔ تانبا ہیضے سے محفوظ رہنے کے لیے نہایت عمدہ چیز ہے۔ یہ بات کہتے ہیں کہ پہلی دفعہ جو ہیضہ پھیلا تو جو لوگ تانبے کے کارخانوں میں کام کرتے ہیں وہ لوگ ہیضہ سے بالکل محفوظ رہے۔ اس لیے گلے میں تانبے کی تختی بطور تعویز کے ڈال دینی مفید ہے۔ جس مقام پر ہیضہ وبائی کی کثرت ہو وہاں ان لوگوں کو جو صحیح اور تندرست ہیں اور اپنی معمول عادتوں کے موافق رہتے ہیں، یہ بات مناسب ہے کہ صبح کو ایک دن ٹنکچر آف کیوپرم (Tincture of Cuprum) اور دوسرے دن ٹنکچر آف وریٹرم (Tincture of Veratrum) کی چوتھائی بوند سے ایک بوند تک کھا لیا کریں۔ تیسرے دن کچھ نہ کھاویں۔ چوتھے دن ٹنکچر آف وریٹرم اور پانچویں دن ٹنکچر آف کیوپرم کھاویں۔ چھٹے ساتویں دن کچھ نہ کھاویں، آٹھویں دن پھر ٹنکچر آف کیوپرم اور نویں دن ٹنکچر آف وریٹرم کھاویں۔ دسویں گیارویں دن کچھ نہ کھاویں بارہویں دن ٹنکچر آف وریٹرم اور تیرھویں دن ٹنکچر آف کیوپرم کھاویں۔ پھر چھ سات دن تک کچھ نہ کھاویں۔ سات دن بعد ٹنکچر آف کیوپرم اور پھر ساتویں دن ٹنکچر آف وریٹرم کھاویں اور جب تک ہیضے کا زور رہے سات سات دن پر باری باری سے یہ دوا کھاتے رہیں اور اگر چاہیں تو ان دوائوں کے بدلے ہر روز ایک بوند سے پانچ بوند تک ٹنکچر آف کیمفر (Tincture of Camphor) کھالیا کریں ہیضہ کی بہت شدت میں ٹنکچر آف کیمفر کو صحیح تندرست آدمی دن میں کئی دفعہ استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر یہ دوائیں نہ ہوں تو ایک رتی سے پانچ رتی تک بقدر عمر و طاقت آدمی کے کچا کافور ہر روز کھا لینا بھی ہیضہ سے محفوظ رکھتا ہے۔ کافور کی ڈبی ہر وقت ساتھ رکھنی اور کبھی کبھی اس کو سونگھ لینا بھی ہیضہ سے محفوظ رہنے کو نہایت مفید ہے، مگر جب ان دوائوں کا استعمال کریں تو گرم مصالحوں سے اور خوش بو دار چیزوں سے اور ساگ پات کھانے اور قہوہ اور چائے اور شراب پینے سے اور دانتوں میں ایسا منجن ملنے سے جس میں دوائیں پڑی ہوں پرہیز کریں۔ ہیضہ وبائی کی علامت اسہال ابتدائی: جب ہیضہ پھیلا ہوا ہوتا ہے تو بعض دفعہ ہیضہ سے پہلے ایک قسم کے صفراوی دست آتے ہیں اور سبزی یا زردی مائل ہوتے ہیں۔ وہ دست ہیضہ کے تو نہیں ہوتے لیکن اگر بند نہ ہوں تو انھی دستوں سے ہیضہ لاحق ہوتا ہے اور اسی لیے ان کو اسہال ابتدائی یعنی ہیضہ کے پہلے دست کہتے ہیں مگر چوں کہ ان دستوں کا عام دستوں سے پہچاننا اور خصوصاً ہیضہ کے موسم میں نہایت مشکل ہے، اس لیے ان کو سہل نہ سمجھنا چاہیے۔ اس کا علاج ہم آگے بیان کریں گے۔ خاص ہیضے کی علامتیں: جس کسی کو ہیضہ کی بیماری ہوتی ہے تو پہلا درجہ اس کا یہ ہے کہ وہ یکایک گر پڑتا ہے اور سرد ہو جاتا ہے، ہاتھ پائوں برف کی طرح ٹھنڈے ہو جاتے ہیں، چہرے کا رنگ زرد اور کبھی سیسہ کی مانند ہو جاتا ہے اور ناخن نیلے پڑ جاتے ہیں، آنکھیں بیٹھ جاتی ہیں اور ان کے گر د نیلے یا کالے حلقے پڑ جاتے ہیں۔ ہاتھ پائوں اور ہاتھوں اور پائوں کی انگلیاں سکڑ جاتی ہیں اور ان کی رگیں تن جاتی ہیں، نبض نہیں معلوم دیتی، بدن ٹھنڈا اور پوست سخت ہو جاتا ہے، بدن کا چمڑا نم دار چمڑے کے مانند ہوتا ہے، سانس بھی ٹھنڈی آتی ہے اور زبان اور منہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ صورت ایسی بدل جاتی ہے کہ دیکھا بھالا آدمی پہچانا نہیں جاتا۔ پھر دوسرے درجہ میں اکثر دست اور قے شرو ع ہوتی ہے اور بہت بڑے بڑے دست و قے آتے ہیں۔ بعض دفعہ چاولوں کی پتلی پیچ کی صورت کے دست ہوتے ہیں اور کبھی پچکاری کی طرح زور سے دست و قے نکلتی ہے اور بعض دفعہ دھار باندھ کر آہستہ سے ۔ تمام بدن کی رگیں تن جاتی ہیں، اینٹھن اور تشنج معلوم ہوتا ہے، بدن ٹوٹنے لگتا ہے، پیشاب بند ہو جاتا ہے، پیاس کی شدت ہوتی ہے اور آواز ایک عجیب قسم کی دھنسی ہوئی ہوتی ہے، جیسے کوئی کنوئیں میں بولتا ہے۔ جب آرام آنے لگتا ہے تو آہستہ آہستہ پھر گرمی آنے لگتی ہے اور دست اور قے بند ہو جاتی ہے اور دستوں کی رنگت بدل جاتی ہے اور پیشاب کھل جاتا ہے، مگر ابھی تک اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ ہیضہ تیسرے درجہ تک نہ پہنچ جاوے۔ تیسرے درجہ میں ایک قسم کا بخار لاحق ہوتا ہے جس کو ٹائی فائڈ کہتے ہیں یعنی ہمیشہ رہنے والا بخار، لیکن ہومیو پیتھی کے قاعدہ پر علاج کرنے میں تیسرے درجے تک ہیضہ کے پہنچنے کا بہت ہی کم اندیشہ ہوتا ہے۔ یہ کم بخت بیماری ایسی سخت ہے کہ بعض دفعہ لاحق ہوتے ہی پہلے ہی درجہ میں جان نکل جاتی ہے اور کبھی دوسرے درجہ تک نوبت پہنچتی ہے اور بدن کی رطوبت نکل جانے سے آدمی مر جاتاہے اور کبھی تیسرے درجہ تک نوبت پہنچتی ہے اور بخار آ کر آدمی مر جاتا ہے۔ مرتے دم تک آدمی کے ہوش درست رہتے ہیں مگر دل میں خوف اور مزاج میں تشویش اور فکر اور مرنے کا ہول ہوتا ہے اور ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ جیسے کوئی کیس بات، سوچ میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ موت کسی سے نہیں رکتی، مگر یہ بات ضرور ہے کہ ہومیو پیتھی کے قاعدہ کے مطابق علاج کرنے میں بہ نسبت اور طرح کے علاجوں کے زیادہ آدمی صحت پاتے ہیں اگر اور طرح کے علاج میں آدھے آدمی یا اس سے زیادہ مرتے ہیں تو ہومیو پیتھی کے قاعدہ پر علاج کرنے میں چوتھائی بلکہ چوتھائی سے بھی کم مرتے ہیں۔ طریق علاج علاج اسہال ابتدائی: جب کسی شخص کو اس قسم کے دست آویں اور کوئی علامتیں خاص ہیضے کی نہ ہوں تو اول دست آنے کا سبب خیال کرناچاہیے۔ اگر بدہضمی اور غذا کے ثقیل کھانے کے سبب ہوں توں ٹنکچر آف پلیسٹلا (Tincture of Pulsatilla) کا اور اگر کسی قسم کا میوہ کھانے سے دست آتے ہوں تو ٹنکچر آف آرسینیکم (Tincture of Arsenicum) کا اور اگر غصہ اور غصہ میں رنج اٹھانے کے سبب سے ہوں تو ٹنکچر آف کموملا (Tincture of Chamomilla) کا اور اگر رات کے جاگنے یا کسی نشہ آور چیز کے پینے کے سبب ہوں تو ٹنکچر آف نیکس وامیکا (Tincture of Nex Vomica) اور اگر کسی غم کے سبب آتے ہوں تو ٹنکچر آف اگنیشیا (Tincture of Ignatia) اور اگر اس قسم کے رنج سے ہوں جو رنج ہتک عزت ہو جانے سے ہوتا ہے تو فاسفورک ایسڈ (Phosphoric Acid) کا استعمال کرنا چاہیے۔ اگر یہ دوائیں فائدہ نہ دے ویں تو ٹنکچر آف مرکیوریس کروسیو تھرڈ ڈلوشن (Tincture of Mercurius Corrosive 3rd Dilution) دینا چاہیے اور جب اس سے بھی فائدہ نہ ہو تو یوں تصور کرنا چاہیے کہ اب اسہال ابتدائی نہیں رہا بلکہ ہیضہ شروع ہو گیا۔ پس خاص ہیضہ کا علاج کرنا چاہیے۔ ہیضہ کا خاص علاج ۱۔ یہ مجرد لاحق ہونے کے ہیضہ کے مریض کو پلنگ پر لیٹ جانا اور بدن پر کمبل یا لوئی یا طوس لپیٹ دینا چاہیے اور فی الفور ٹنکچر آف کمیفر (Tincture of Camphor) دیا جائے اور پانچ پانچ منٹ یا دس دس منٹ کے فاصلے پر اس دوا کو برابر دیتے رہیں۔ اگر بیماری گھٹنے لگے اور اس دوا سے دو تین چار گھنٹے بعد بخار آ جائے اور پسینہ آنے لگے تو یہ علامتیں صحت کی ہیں اور ضرور آرام ہونے کی توقع ہے۔ ۲۔ اگر یہی دوا اسہال ابتدائی میں بھی شروع ہی سے دی جائے تو بجز اس کے کہ بخار کی شدت ہو جانے کا شبہ ہے اور کسی چیز کا اندیشہ نہیں بلکہ اس اسہال کو بھی اور اگر ہیضہ کے دست ہوں تو ان کو بھی یہ دوا نہایت مفید ہے۔ ۳۔ صحت کی علامتیں جو اوپر بیان ہوئیں ان کے ظاہر ہونے کے بعد تھوڑا تھوڑا سا ٹھنڈا پانی یا برف کا ٹھنڈا کیا ہوا پانی دینا چاہیے۔ جب بخار جاتا رہے، یخنی یا سوجی یا روہ کا حریرہ جس میں گھی یا تیز مٹھاس نہ ہو بہ طور غذا کے دیناچاہیے۔ ۴۔ اس دوا کے پے در پے پینے سے کبھی کبھی چونک اٹھنا اور زیادہ پسینہ آنا اور معدہ میں سوزش اور سستی اور کم زوری اور ہاتھ پائوں کا سن ہونا زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ ان کے دفعیہ کے لیے ٹنکچر آف کافی (Tincture of Coffea) یا ٹنکچر آف اوپیم (Tincture of Opium) دینا چاہیے۔ اگر یہ دوائیں نہ ہوں تو بھنی ہوئی بن کر کوٹ کر اور جوش دے کر اس کا ایک چمچہ پلا دیا جائے یا منمنہ برابر افیون کھلا دینی چاہیے۔ ۵۔ اگر ٹنکچر آف کیمفر کے دینے سے قے اور دست بند نہ ہوں تو دس دس منٹ پر یا پائو پائو گھنٹہ پر باری باری ٹنکچر آف آرسینیکم (Tincture of Arsenicum) اور ٹنکچر آف وریٹرم (Tincture of Veratrum) دینا چاہیے، یعنی ایک دفعہ آرسینیکم دیں اور دس منٹ بعد وریٹرم اور پھر دس منٹ بعد آرسینیکم اور اسی طرح باری باری دیتے رہیں۔ ۶۔ اگر بیماری میں اعضا شکنی اورتشنج بہ نسبت دست اور قے کے زیادہ ہوں تو بجائے آرسینیکم کے ٹنکچر آف کیوپرم اسیٹیکم (Tincture of Cuprum Aceticum) اسی طرح باری باری دینا چاہیے۔ ۷۔ اگر دستوں کے بہ نسبت قے زیادہ ہوتی ہو تو ٹنکچر آف اپیکاک (Tincture of Ipecac) دینا چاہیے۔ ۸۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک دو دست آتے ہیں تو برا حال ہو جاتا ہے اور نبض جاتی رہتی ہے یعنی اس کی حرکت نہیں معلوم ہوتی ۔ ایسی حالت میں فی الفور ھائڈروسیانک ایسڈ (Hydrocyanic Acid) دس دس پندرہ پندرہ منٹ پر دینا چاہیے۔ ۹۔ اس دوا کے دینے سے اگر دست اور اینٹھن دفعتہ بند ہو جائے اور قے بھی کم ہو جاوے اور تنفس ہونے لگے یا سانس رک کر آنے لگے اور بدن ٹھنڈا پڑ جاوے اور نبض بھی جاتی رہے تو اسی دوا کو دو تین مرتبہ دیے جاویں کہ اسی سے دست جاری ہو جاویں گے اور یہ علامت صحت ہونے کی ہے، مگر جب دست جاری ہو جاویں تو پھر دست اور قے بند کر نے کے لیے ٹنکچر آف وریٹرم (Tincture of Veratrum) دینا چاہیے۔ ۱۰۔ اگر مرض میں زیادتی ہو جاوے، علامت روی بڑھتے جاویں اور مریض نچڑ جاوے اور بدحواس ہو نے لگے اور بدن کا ناخنوں کا رنگ زیادہ نیلا ہو جاوے اور بدن زیادہ سرد معلوم ہونے لگے تو ٹنکچر آف وریٹرم (Tincture of Veratrum) اور ٹنکچر آف کاربو ویجی ٹیبلس (Tincture of Carbo Vegetabilis) باری باری سے دینا چاہیے۔ اگر دیکھیں کہ بیماری اچھی ہوتی جاتی ہے اور چہرے کا رنگ درست ہوتا جاتا ہے اور بدن پر گرمی آتی جاتی ہے اور اعضاء شکنی اور تشنج موقوف ہوتا جاتا ہے اور آواز بھی اصلی حالت پر آتی جاتی ہے اور نبض بھی معلوم ہوتی ہے اور سانس میں بھی گرمی آتی جاتی ہے اور پاخانہ کی صوت بھی بدلتی جاتی ہے اور پیشاب بھی ہوتا ہے اور طبیعت پر جو سوچ اور فکر تھا اور دل غوطہ میں پڑا جاتا تھا وہ بھی کم ہوتا جاتا ہے، تو یہ سب علامتیں صحت کی ہیں تو ایسی صورت میں دوا بیس منٹ بعد پھر آدھ گھنٹہ بعد پھر ایک گھنٹہ بعد پھر دو گھنٹے بعد دینی چاہیے، مگر جب تک دست و قے بند نہ ہو جاویں اور پیشاب نہ آوے سوائے ٹھنڈے پانی کے کوئی غذا نہ دینی چاہیے۔ ۱۱۔ اگر اصل بیماری میں آرام ہو مگر تمام بدن میں اینٹھن معلوم ہو تو سکیل کارنیوٹم (Secale Cornutum) دینا چاہیے۔ ۱۲۔ اگر قے میں یا دستوں میں کوئی کیچوا نکلے یا چہرہ تمتماتا ہو اور آنکھیں چڑھی ہوئی اور الٹی اور سرخ ہوئی ہوں اور ابکائی آتی ہوں اور منہ سے پانی یا رال بہتی ہو، زیر ناف درد رہتا ہو، گلے میں رکاوٹ معلوم ہوتی ہو یا سوزش اور پیاس اور طبیعت پر انتشار اور بے چینی ہو، آنکھیں بیٹھی ہوئی معلوم ہوں، چھاتی میں اور پیٹ میں سوزش معلوم ہو تو ٹنکچر آف آرسینیکم (Tincture of Arsanicum) کھلانا چاہیے۔ ۱۳۔ اگر آنکھیں سرخ ہو جاویں اور سرسام کی علامتیں معلوم ہوں اور دم رک رک کر آتا ہو تو ٹنکچر آف لاروسیریسس (Tincture of Laurocerasus) دینا چاہیے۔ ۱۴۔ اگر پسینہ بہت زیادہ آوے جس سے مریض ضعیف ہو جاوے اور نبض جاتی رہے تو ٹنکچر آف کاربو ویجی ٹیبلس (Tincture of Carbo Vigetabilis) چوتھائی بوند سے ایک بوند تک بہ لحاظ زیادہ اور کمی مرض کے دس دس پندرہ پندرہ منٹ کے فاصلے پر دینا چاہیے۔ ۱۵۔ اگر پیشاب نہ ہو یا قطرہ قطرہ سوزش سے آتا ہو اور ناف کے نیچے پیڑو میں دود ہو تو ٹنکچر آف کنتھریس (Tincture of Cantharis) دینا چاہیے۔ ۱۶۔ اگر اس دوا سے ہچکی کو کچھ فائدہ نہ ہو تو ٹنکچر آف کریوسوٹ (Tincture of Kerosote) دیناچاہیے۔ ۱۷۔ اگر دست اور قے کے بعد کیفیت بخار کی ہو، خواہ پہلے ہی سے دست اور قے کے ساتھ جسم میں حرارت ہو تو ٹنکچر آف ایکونائٹ (Tincture of Aconite) دیناچاہیے۔ ۱۸۔ اگر مریض کو سرسام لاحق ہو، آنکھیں سرخ ہو جاویں اور بے ہوش ہو اور ہذیان بکنے لگے تو ٹنکچر آف بیلا ڈونا (Tincture of Belladonna) دینا چاہیے۔ ۱۹۔ اگر چھاتی پر خون جم کر چھاتی بھاری معلوم ہونے لگے تو ٹنکچر آف فاسفورس دینا چاہیے۔ ۲۰۔ اگر حرکت کرنے سے چھاتی میں درد معلوم ہوتا ہو تو ٹنکچر آف برائی اونیا (Tincture of Bryonia) دینا چاہیے ۔ ۲۱۔ اگر باوصف جاتے رہنے ہیضے کے علامتوں کے معدہ درست نہ ہو، پیڑو یا ناف کے نیچے سختی ہو تو اس کے لیے بھی وہی دوا مفید ہے۔ ۲۲۔ اگر ہیضہ کی علامتیں سب جاتی رہیں اور نقاہت اور بخار جو ہمیشہ چڑھا رہے اور جس کو ٹائی فائڈ کہتے ہیں۔ معلوم ہو تو ٹنکچر آج برائی اونیا (Tincture of Bryonia) اور ٹنکچر آف رسٹوک (Tincture of Rhustox) باری باری سے ایک ایک یا دو دو گھنٹہ کے بعد دیا جاوے۔ ۲۳۔ اگر نیند نہ آئے اور بچھونے پر سے بے قراری کے سبب اٹھ اٹھ بیٹھے تو ٹنکچر آف ہیوسیامس (Tincture of Hyoscyamus) دینا چاہیے۔ ۲۴۔ بعض دفعہ ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ آدمی بے قراری سے بچھونے پر سے اٹھ کر دوڑنا چاہتا ہے اور کاٹنے کو دوڑتا ہے اور اسی قسم کی حرکتیں کرنے لگتا ہے ایسی حالت میں ٹنکچر آف اسٹرمونیم (Tincture of Stramonium) دینا چاہیے۔ ۲۵۔ اگر دست نہ ہونے کے سبب سے پیٹ میں نفخ یا قراقر ہو یا دست کے بعد بھی نفخ معلوم ہو تو ٹنکچر آف کیپسیکم (Tincture of Capcicum) کا استعمال کرنا چاہیے۔ ۱۶۔ اگر ہیضہ سے اچھا ہو جانے کے بعد نقاہت رہے اور دست پتلا آوے یا غذا بغیر تحلیل کے نکلے تو ٹنکچر آف چینا (Tincture of China) دینا چاہیے۔ ۲۷۔ اگر سدے پڑ جاویں اور دست بے خبر نکل جاوے تو فاسفورک ایسڈ (Phosphoric Acid) دینا چاہیے۔ نتیجہ ۲۸۔ ٹنکچر آف کیمفر Tincture of Camphor نہایت عمدہ چیز ہے اگر یہ سب دوائیں کہ جن کا ذکر اوپر ہوا، موجود نہ ہوں تو صرف Tincture of Camphor کے استعمال کرنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ہر شخص کو ایک یا دو شیشی اس کی اپنے پاس رکھنی چاہیے۔ ۲۹۔ یہ بھی خیال رہے کہ اگر ہیضہ میں قبل استعمال کرنے ہومیو پیتھی دوائوں کے اور کوئی دوا کھائی ہو تو سب سے پہلے دو تین دفعہ پانچ پانچ منٹ کے فاصلہ سے ٹنکچر آف کیمفر (Tincture of Camphor) کھلا دینا چاہیے اور بعد اس کے بہ حسب حال مریض کے ہومیو پیتھی دوائوں کا جن کا بیان اوپر ہوا استعمال کرنا چاہیے۔ ۳۰۔ اگر شروع ہی سے علامتیں ہیضہ کی معلوم ہوں اور ہیضہ کا ہونا بہ سبب بدہضمی کے ہو تو اول گرم پانی سے قے کروانا چاہیے اور جب معدہ صاف ہو جاوے تو دس دس منٹ کے فاصلہ پر سب سے اول ٹنکچر آف اپیکا کیوانا (Tincture of Ipecacuanha) دینا چاہیے۔ اگر اس سے دست و قے بند نہ ہوں تو جس طرح کہ اوپر بیان ہوا ہیضہ کا علاج کرنا چاہیے۔ ۳۱۔ خدا سے امید ہے کہ انھیں تدبیروں سے شفا ہو جاوے گی۔ اگر ان تدبیروں سے بھی صحت نہ ہو یا ہیضہ رفع ہونے کے بعد کسی قسم کا مرض محسوس ہو تو علاج کے لیے کسی ہومیو پیتھی حکیم سے رجوع کرنی چاہیے۔ ان چند سطروں میں وہ سب علاج بیان نہیں ہو سکتے۔ اس جگہ صرف ہیضہ کے اس طرح علاجوں کا بیان کرنا مقصود ہے جو فی الفور کیے جاویں اور علاج میں تاخیر ہونے کے سبب کچھ نقصان نہ پہنچنے پاوے۔ تدابیر خارجہ جب کسی کو ہیضہ ہو تو اس کو کپڑے کے اوڑھنے بچھونے میں لپٹانا نہ چاہیے۔ اونی اوڑھنے بچھونے میں مثل کمبل یا لوئی یا طوس کے رکھنا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو مکان کی ہوا صاف رکھی جاوے اور کوٹھڑیوں اور آمدورفت کے راستوں میں کانڈیز فلویڈ (Condy's Fluid) یا کاربولک ایسڈ (Carbolic Acid) چھڑکنا چاہیے اور پیشاب کرنے کے مقاموں اور پاخانوں میں کلورائڈ آف لائم (Chloride or Lime) یا چونا یا چونے کا پانی ڈالنا چا ہیے۔ مکان کے دروازے کھول دیے جاویں اگر برسات کا موسم ہو تو مکان کی تاریک کوٹھڑیوں میں یا تہ خانوں میں جہاں خراب ہوا گھستی رہتی ہے، آگ جلا دینی چاہیے۔ اور بیمار جس چیز میں پیشاب یا پاخانہ کرے اس میں کانڈیز فلوئڈ (Condy's Fluid) یا کاربولک ایسڈ (Carbolic Acid) پڑا ہوا ہو اور فی الفور اس برتن کو اس مکان سے باہر لے جانا چاہیے۔ برف موجود رہے اور بیمار کو برف کے ٹکڑے منہ میں رکھنے کو دیتے جاویں اور برف کا ٹھنڈا پانی تھوڑا تھوڑا پیاس بجھانے کو دینا چاہیے۔ اور ہاتھ پائوں کو برف کے پانی سے مل کر ملا لیں اور کوئی اونی کپڑا لپیٹ دینا چاہیے آگ سے سینک کر فلالین پیٹ پر رکھنی چاہیے اور جہاں جہاں اینٹھن ہو، ان مقاموں پر گرم پانی کی بھری ہوئی بوتل سے یا گرم اینٹ سے اور سیلفیٹ آف کاپر (Sulphate of Copper) یعنی نیلا تھوتھا گرم پانی میں گھول کر پیٹ اور ریڑھ کی ہڈی کو سینکنا چاہیے۔ پیشاب بند ہو اور پیڑو میں درد ہو تو ٹھنڈے پانی سے کپڑا بھگو کر پیڑو پر اور زیر سے ناف رکھنا اور چار چار منٹ بعد بدلنا چاہیے۔ سرسام کی حالت میں سر کے بالوں کو کتروانا یا منڈوا ڈالنا چاہیے۔ جو لوگ افیم کھانے کی عادت رکھتے ہیں ان کو آدھی خوراک افیم ٹنکچر آف ایکسٹریکٹ آف کافی (Tincture of Extract of Coffee) میں ملا کر دینی چاہیے۔ اگر دوا گلے سے نیچے نہ اترتی ہو تو ٹنکچر آف بیلا ڈونا (Tincture of Belladonna) ، ٹنکچر آف کیمفر (Tincture of Camphor) سونگھنا چاہیے۔ اس کی بو سے تھوڑی دیر میں دوا گلے سے اترنے لگے گی۔ اطلاع یہ دوائیں ہم بھی منگوا کر دے سکتے ہیں اور کلکتہ سے مندرجہ ذیل پتہ سے دستیاب ہو سکتی ہیں۔ Messrs. BERIGNY & Co. No. 21, Lall Bazar, CALCUTTA. دوائوں کے نام جو اس مرض میں کام آتی ہیں۔ 1. Tincture of Pulsatilla. 2. Tincture of Arsenicum. 3. Tincture of Chamomilla. 4. Tincture of Nux Vomica. 5. Tincture of Ignatia. 6. Phosphoric Acid. 7. Tincture of Mercurius Corros 3 Dec. Dilution. 8. Tincture of Camphor. 9. Tincture of Coffea. 10. Tincture of Veratrum. 11. Tincture of Cuprum Aceticum. 12. Tincture of Opium. 13. Tincture of Corbo Vegetabilis. 14. Ipecacuanaha. 15. Hydrocyanic Acid. 16. Secale Cornutim Jart. 17. Cicuta Virosa. 18. Laurocerasus. 19. Cantharis. 20. Antimonium. 21. Kreasote. 22. Aconite. 23. Belladonna. 24. Phosphorus. 25. Bryonia. 26. Hyosiamus. 27. Stramonium. 28. Capsicum. 29. China. 30. Extract Coffea. 31. Spirit Nitre Dulc. وہ دوائیں جو خارجیہ تدابیر میں کام آتی ہیں: 1. Condy's Fluid 2. Carbolic Acid 3. Chloride of Lime. 4. Consentrated Solution of Chloride of Lime. 5. Sulphate of Copper. 6. Acetic Acid. 7. Vinegar. دوا دینے کا طریقہ جس قدر دوائیں کھلانے کی اس رسالے میں بیان ہوئی ہیں وہ دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک تو صرف عرق ہوتا ہے اور شیشیوں میں بھرا ہوا ہوتا ہے۔ سب کی صورت سفید نتھرے ہوئے پانی کی ہوتی ہے اور شیشوں پر نام لکھے ہوئے ہوتے ہیں اگر نام مٹ جاویں یا پرچے اکھڑ جاویں تو پھر پہچان کرنے میں نہیں آتی۔ دوسری انھیں دوائوں کی گولیاں ایک خاص قسم کی مصری میں بنی ہوئی ہوتی ہیں اور شیشوں میں رہتی ہیں، چھوٹی گولیاں بھی ہوتی ہیں اور بڑی گولیاں بھی ہوتی ہیں۔ ان سب کی صورت بھی ایک سی ہوتی ہے اور شیشیوں پر نام لکھے رہتے ہیں۔ مگر ٹنکچر آف کیمفر کی گولیاں نہیں ہوتیں اس کا صرف عرق ہی ہوتا ہے۔ ان دوائوں کو بڑی احتیاط چاہیے، روشنی اور گرمی اور دھوپ ان دوائوں کی تاثیر کھو دیتی ہے۔ پس چاہیے کہ ان دوائوں کے صندوقچے کو فلالین یا بنات میں لپیٹ کر ٹھنڈی کوٹھڑی میں جہاں ٹھنڈک تو ہو، مگر سیل نہ ہو، بہت احتیاط سے رکھیں ۔ کافور اور ٹنکچر آف کیمفر (Tincture of Camphor) ان دوائوں کا اثر بالکل کھو دینے والا ہے۔ اس لیے کافور ان کے پاس نہ رہے اور ٹنکچر آف کیمفر علیحدہ صندوقچہ میں اور ان دوائوں سے الگ رکھا جاوے۔ دوائوں کو جب استعمال کے لیے نکالیں تو دھوپ سے اور دن کی روشنی سے حتی المقدور محفوظ رکھیں۔ ایک دوا جب دے چکیں اور دوسری دوا دینے کی ضرورت ہو تو دوسرے چمچہ یا چینی یا کانچ کے دوسرے برتن میں دیں۔ جس برتن میں یا چمچہ میں ایک دوا بنائی ہو، دوسری دوا اس میں نہ بنائیں نہ اس سے پلاویں کیوں کہ ایک دوا دوسری دوا کے اثر کو کھو دیتی ہے۔ جتنی دوائیں کھانے کی اس رسالے میں مذکور ہوئی ہیں ان کی مقدار ایک دفعہ کھلانے کے لیے چوتھائی بوند سے چار بوند تک ہے۔ بقدر عمر و طاقت آدمی کے شدت مرض کے اس کی تعداد مقرر کرنی چاہیے۔ مگر خیال رہے کہ دفعتہ کسی کو چار بوند دی جاوے بلکہ اگر زیادہ دینے کی ضرورت ہو تو جو مقدار ثابت رہنے کی ہے وہاں تک ہر دفعہ میں بڑھاتا جاوے، مگر ٹنکچر آف کیمفر (Tincture of Camphor) زیادہ مقدار سے دیا جاتا ہے۔ اس کی مقدار پندرہ بوند تک دینے کی ہے۔ گولیاں جو چھوٹی ہیں وہ آدھی سے دو تین گولی تک اور جو بڑی ہیں وہ ایک گولی تک دی جاتی ہیں۔ گولی کو نکالنے میں حتی المقدور ہاتھ نہ لگاویں۔ کسی موچنا یا چمچہ یا چپٹی سلائی سے الگ نکالیں۔ مگر چھوٹی عمر کے بچوں کی دوا کی مقدار کا یعنی قدر شریت کا یہ قاعدہ ہے کہ چھ مہینہ سے ایک برس تک کے بچے کو ایک بوند کا آٹھواں حصہ اور ایک برس سے پانچ برس تک کی عمر کے بچے کو ایک بوند کا چھٹا حصہ دینا چاہیے اور اگر گولیاں چھوٹی ہوں تو برس بھر کے بچے کو آدھی گولی اور تین برس تک کے بچے کو ایک گولی اور اس سے زیادہ عمر کے بچے کو دو گولی چمچہ بھر پانی میں دینی چاہیے۔ گولی یا بوند کا آدھا یا چوتھائی حصہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک بوند کو یا گولی کو دو تین چار چمچہ پانی میں گھول لے اور جب خوب مل جائے تو اس پانی کو آدھا یا چوتھائی کر لے اور وہی پانی مریض کو پلا دے۔ دوا اگر عرق ہے تو اس میں سے بقدر ایک خوراک کے لے کر چمچہ بھر پانی میں ڈال دے اور وہ پانی پلا دے۔ اور اگر گولیاں ہیں تو ان کو نگل لے خواہ ان کو بھی پانی میں گھول کر منہ میں ڈالے۔ جس پانی میں یہ دوا دی جائے بہتر یہ ہے کہ ٹپکایا ہوا پانی ہو، اگر ایسا پانی نہ ہو تو پینے کے پانی کو چار تہ کپڑے میں چھان لے اور ضرورت کے وقت جیسا پانی ملے بہ مجبوری کام میں لاوے۔ جو دوا دینی شروع ہو وہ پانچ پانچ منٹ بعد دی جاوے۔ جب دس بارہ مرتبہ دوا دے چکیں تو مریض کا حال دیکھیں کہ مرض میں کچھ تخفیف ہے یا نہیں۔ اگر تخفیف ہو تو وہی دوا بعوض پانچ پانچ منٹ کے دس دس منٹ بعد پھر پائو پائو گھنٹہ کے بعد پھر گھنٹہ گھنٹہ کے بعد اور اسی طرح فاصلہ، دوا کی ضرورت پڑے تو دوسری دوا کا استعمال کریں۔ اگر باری باری دوائیں دی جاتی ہوں تو ہر ایک کا برتن اور چمچہ جدا جدا رہے۔ جن کو سوائے ٹنکچر آف کیمفر کے اور کوئی دوا دی جاتی ہو تو کافور یا ٹنکچر آف کیمفر اس مکان میں نہ رہے نہ اس کی بو مریض کو آنے پاوے۔ غذائوں کا بیان سب لوگ جانتے ہیں کہ ہیضہ میں غذا دینے کی بڑی احتیاط ہے۔ جب تک بالکل علامتیں ہیضہ کی رفع نہ ہو جاویں اور بالکل ہیضہ کے مرض سے صحت نہ ہو جاوے۔ اس وقت تک کوئی غذا نہ دینی چاہیے۔ مگر اس مرض میں پانی دینا کچھ نقصان نہیں کرتا۔ ٹھنڈا پانی یا برف کا پانی یا برف کی ڈلی منہ میں رکھنے کو دینی چاہیے اگر کاغذی لیموں میسر ہوں تو پانی میں ملا کر دینے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ کانجی کا پانی جو ہندو پیتے ہیں اگر نہایت نتھرا ہوا نسوت پانی ہو تو تھوڑا سا دینے کا مضائقہ نہیں۔ جب غذا دینے کی نوبت آئے تو تھوڑی تھوڑی اور نہایت سبک غذا دی جاوے۔ آب گوشت یا یخنی، روے یعنی سوجی کا حریرہ، شوربا پھلکا، بنگالیوں کے مچھلی کا شوربا، ساگو دانا پانی یا دودھ میں پکا ہوا اور اراروٹ ، اس قسم کی غذا دینا مناسب ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنحضرت ؐ کی پیشین گوئیاں اور بشارات توریت اور انجیل میں میں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارات پر ایک مفصل خطبہ ’’خطبات احمدیہ‘‘ میں لکھا ہے جس میں موافق اصول مذہب کے مقلدانہ یعنی بعد تسلیم ان امور کے جو عیسائی و مسلمان نسبت بشارات کے تسلیم کرتے ہیں، بحث کی ہے اور توریت و انجیل سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارات کو ثابت کیا ہے۔ اس مقام پر بلا کسی بحث کے توریت و انجیل کی وہ آیتیں لکھ دی جاتی ہیں جن میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارات لکھی ہیں۔ ابو الفرح مالطی یعنی مالتا کا رہنے والاجو ایک عیسائی عالم ہے اس نے ایک کتاب عربی زبان میں لکھی ہے جس کا نام ’’تاریخ مختصر الدول‘‘ ہے اور وہ کتاب ۱۶۶۳ء میں آکسفورڈ میں چھپی ہے اس کے صفحہ ۱۶۵ میں یہ عبارت درج ہے: و قد ادعی علماء الا سلاطین درود ذکرہ فی کتاب اللہ المنزلۃ اما فی التوریہ فقیٰ آیۃ جاء اللہ من سینا و اشرف من ساعیروا متعلق من حیل فامان۔ قالوا ھذہ اشارۃ الیٰ نزول للتوراۃ علی موسیٰ والانجیل علی عیسیٰ و القرآن علیٰ محمدؐ۔ و اما فی لزبور فقی آیۃ ۔ یظہر اللہ من صیہون اکلیلا محمودا ۔ قالوا لا کلیل رمز علی الملک والمحمود علی محمدؐ و اما فی الانجیل فقی آیئہ۔ ان انا لم اذھب۔ الغار قلیط لا یحبیکم۔ توریت سفر پنجم باب ھژدھم آیت ۱۵۔۱۸ میں یہ لکھا ہے۔ ’’قائم کرے گا تیرا معبود تیرے لیے نبی تجھ میں سے تیسرے بھائیوں میں سے مجھ سا مانیو۔ ان کے بھائیوں میں سے نبی تیرا سا قائم کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں دوں گا اور جو کچھ میں اس سے کہوں گا وہ ان سے کہہ دے گا۔ ‘‘ بنی اسرائیل کے بھائی بنی اسماعیل ہیں جس سے اشارہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے اور سوائے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی دوسرا نبی موسیٰ کی مانند نہیں ہوا اور ان الفاظ سے کہ اپنا کلام اس کے منہ میں رکھوں گا، قرآن مجید کے نزول کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ توریت سفر پنجم باب سی و سوم آیت ۲ میں لکھا ہے ’’اور کیا خدا سینا سے نکلا اور سعیرہ سے چمکا اور فاران کے پہاڑ سے ظاہر ہوا۔ اس کے دھنے ہاتھ میں شریعت روشن ساتھ لشکر ملائکہ کے آیا۔‘‘ کتاب حبقوق باب سوم ، آیت ۳۔ ’’آئے گا اللہ جنوب سے اور قدس فاران کے پہاڑ سے آسمانوں کو جمال سے چھپا دیا اس کی ستائش سے زمین بھر گئی۔ ‘‘ فاران خاص مکہ معظمہ کے پہاڑوں کا قدیم نام ہے پس ان آیتوں میں نبی حجازی کا ذکر لکھا ہے۔ سرود سلیمان باب پنجم کی دسویں آیت سے سولھویں آیت تک یہ لکھا ہے۔ ’’میرا دوست نورانی گندم گوں ہزاروں میں سردار ہے اس کا سر سرے کا سا چمک دار ہے اس کی زلفیں مسلسل مثل کوے کے کالی ہیں ۔ اس کی آنکھیں ایسی ہیں جیسے پانی کے کنڈ پر کبوتر۔ دودھ میں دہی ہوئیں۔ نگینہ کی مانند جڑی ہوئیں خانہ میں۔ اس کے رخسار ایسے ہیں جیسے ٹٹی پر خوش بو دار بیل چھائی ہوئی اور چکلے پر خوش بو رگڑی ہوئی۔ اس کے ہون پھول کی پنکھڑیاں جن سے خوش بو ٹپکتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں سونے کے ڈھلے ہوئے جواہر سے جڑے ہوئے۔ اس کا پیٹ جیسے ہاتھی دانت کی تختی، جواہر سے لپی ہوئی۔ اس کی پنڈلیاں ہیں جیسے سنگ مرمر کے ستوں، سونے کی بیٹھکی پر جڑے ہوئے۔ اس کاچہرہ مانند ماھتاب کے۔ جوان مانند صنوبر کے۔ اس کا گلا نہایت شیریں اور وہ بالکل محمدیم (محمد) یعنی بہت تعریف کیا گیا ہے۔ یہ ہے میرا دوست اور میرا محبوب اے بیٹو یروشلم کے۔‘‘ عبری زبان کے قاعدے میں نام کو بھی بلحاظ تعظیم جمع بنا دیتے ہیں جیسے لعل کو بعالیم لیکن محمدیم کو اگر صفت ہی کیا جاوے تو بھی اس سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ ہے۔ کتاب ھجی باب یازدھم آیت ۷۰ میں لکھا ہے۔ ’’سب قوموں کو ملا دوں گا اور ’’ھمدث‘‘ (احمد) سب قوموں کا آوے گا اوراس گھر کو بزرگی سے بھر دوں گا۔ کہا خداوند خلائق نے۔ ھمدث عبری لفظ میں حرف (ث) مبالغہ کے لیے ہے یعنی سب قوموں کا بہت بڑا محمود اور اس عبری لفظ کے مقابلہ میں احمد کا صیغہ جو حمد کے مادہ سے نکلا ہے بالکل درست آتا ہے۔ پس خواہ اس لفظ کو صرف نام قرار داد و خواہ صفت اس آیت میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر لکھا ہے۔ کتاب اشعیاہ نبی باب بست و یکم آیت ۷۔ ’’اور ایک جوڑی سواروں کی دیکھی ایک سوا گدھے کا اور ایک سوار اونٹ کا اور خوب متوجہ ہوا۔‘‘ حضرت اشعیا نبی نے اپنے مکاشفہ سے دو نبیوں کے پیدا ہونے کی خبر دی۔ ایک کو گدھے کے سوا سے تعبیر کیا ہے جس سے حضرت عیسیٰ مراد ہیں کیوں کہ جب حضرت عیسیٰ بیت المقدس میں داخل ہوئے تو گدھے پر سوار تھے۔ دوسرے کو اونٹ کے سوار سے تعبیر کیا ہے جس سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں کیونکہ جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ہیں تو اونٹ پر سوار تھے۔ انجیل یوحنا باب شانزدھم آیت ۷۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہ بھلا ہے تمہارے لیے یہاں سے میں چلا جائوں کیوں کہ اگر میں نہ جائوں تو فارقلیط (احمد) تمہارے پاس نہ آوے گا۔ فاقلیط اصل میں یونانی لفظ نہیں ہے بلکہ دراصل کالدی زبان کا لفظ ہے جو عبرانی کی مانند زبان ہے۔ مسلمانوں میں اس کا املا اور تلفظ عربی زبان کے موافق ہے جو کالدی یا عبری زبان سے چنداں بعید نہیں ہے مگر حضرت یوحنا نے اپنی انجیل یونانی میں لکھی تھی، اس لیے اس لفظ کا تلفظ اور املا یونانی زبان کے موافق لکھا تھا جو کالدی یا عبری زبان سے نہایت بعید ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یونانی زبان میں اس کا تلفظ مختلف طرح پر ہوا اور اسی سبب سے قدیم و جدید یونانی نسخوں میں اس کا املا بھی مختلف طور پر لکھا گیا جس کے سبب تلفظ بھی او ر معنی بھی کسی قدر بدل جاتے ہیں۔ مسلمان تو اس لفظ کا ترجمہ موافق قدیم یونانی تلفظ و املا کے احمد کرتے ہیں، مگر اس زمانے کے عیسائی اس قدیم املا کو تسلیم نہیں کرتے اور موافق جدید تلفظ و املا کے اس کے متعدد ترجمے کرتے ہیں۔ نہایت قدیم عربی ترجمہ جو روم کبیر میں ۱۶۷۱ء میں چھپا اس میں تو اس لفظ کا ترجمہ ’’فارقلیط‘‘ ہی کیا ہے۔ ایک عربی ترجمہ میں جو بطور خلاصہ چاروں انجیلوں کے فلارنس میں ۱۷۷۴ء میں چھپا ہے اس میں بھی اس لفظ کا فارقلیط ہی ترجمہ کیا ہے۔ ایک عربی ترجمہ میں جو ۱۸۱۱ء میں چھپا اس کا ترجمہ ’’مسلی ‘‘ کیا ہے یعنی تسلی دھندہ اور حاص اس آیت میں اس کا ترجمہ ہی نہیں کیا بلکہ لفظ ’’المغری، بطور اشارہ ‘‘ کے لکھا ہے۔ اس کے بعد جس قدر ترجمے فارسی اردو کے چھپے ہیں ان سب میں ا س کا ترجمہ تسلی دینے والا کیا گیا ہے۔ لیکن اس املا کے تغیر و تبدل اور ترجموں یا معنی کے اختلاف سے مسلمانوں کے اس دعوے میں کہ اس آیت میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت ہے کچھ فرق نہیں آتا۔ کیوں کہ کسی بشارت میں اس کا جس کی بشارت ہے خاص نام بتایا نہیں جاتا بلکہ اس کی صفت بیان کی جاتی ہے۔ پس اس لفظ کے کوئی صفتی معنی کو وہ سوائے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی پر صادق نہیں آتے کیوں کہ حضرت عیسیٰ کے بعد کوئی اور نبی موسیٰ کی مانند سوائے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہوا قرآن مجید میں بھی خاص نام آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان نہیں ہوا بلکہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک صفت احمد بیان ہوئی ہے یعنی ’’یاتی من بعدی اسمہ احمد‘‘ ای اسمہ یحمدہ لان افعل یحیی لمبالغۃ الفاعل والمفعول۔ بالفرض اگر اس سے نزول روح القدس مراد ہو تو بھی حضرت عیسیٰ کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر نازل ہوئی ہے کیوں کہ حواریوں پر جیسا کہ انجیلوں میں بیان ہے قبل اس کے نازل ہو چکی تھی۔ انجیل لوقا باب بستم و چہارم آیت ۴۹۔ ’’اور دیکھو میں بھیجتا ہوں وعدہ اپنے باپ کا تم پر لیکن تم ٹھہرو شہر یروشلم میں جب کہ کہ عطا ہو تم کو قوت اوپر سے۔‘‘ روح القدس تو حواریوں میں آ چکی تھی اور یروشلم میں ٹھہرا رہنا یعنی اس کو معبد سمجھنا معرفت تھا اور وہ تبدیل ہو گیا اور اس کے معبوث ہونے پر جس نے کعبہ معبدقرار دیا پس جس کے بھیجنے کا اس آیت میں ذکر ہے اس سے مراد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ انجیل یوحنا باب یکم آیت بیس سے پچیس تک میں لکھا ہے۔ ’’اس نے یعنی حضرت یحییٰ نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا اور اقرار کیا کہ میں کرسٹاس یعنی مسیح نہیں ہوں اور انھوں نے پوچھا اس سے کہ پھر کون؟ کیا تو الیاس (یعنی خضر ) ہے اور اس نے کہا کہ میں نہیں ہوں۔ تو وہ نبی ہے؟ اور اس نے جواب دیا نہیں تب انھوں نے اس سے کہا کہ کون ہے تو تاکہ ہم جواب دے سکیں ان کو کہ جنھوں نے ہم کو بھیجا ہے۔ اپنے تئیں تو کیا کہتا ہے؟ اس نے کہا میں آواز اس کی جو کہ جنگل میں چلاتا ہے۔ سیدھا کرو رستہ خداوند کا جیسا کہ نبی اشعیاہ نے کہا۔ اور وہ جو بھیجے گئے تھے فردوسی تھے اور انھوں نے اس سے پوچھا اور اس سے کہا کہ تو کیوں اصطباغ کرتا ہے۔ جب کہ تو نہ کرسٹاس یعنی عیسیٰ مسیح ہے اور نہ الیاس اور نہ وہ نبی۔ حضرت یحییٰ سے یہودیوں نے الیاس کو اس لیے پوچھا کہ یہودی ان کو زندہ مانتے تھے۔ مسیح کے آنے کے متوقع تھے اور علاوہ حضرت مسیح کے ایک اور نبی کے آنے کے متوقع تھے پس ’’وہ‘‘ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کسی کی طرف اشارہ نہیں ہو سکتا جس کی نسبت خدا نے موسیٰ سے کہا تھا کہ میں بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے مثل موسیٰ کے ایک نبی پیدا کروں گا۔ امام غزالی کے خطوط حجتہ الاسلام حضرت ا مام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے زمانہ میں بعض بادشاہان اسلام ، بعض وزرائے سلطنت، بعض روسا و اعیان دولت اور بعض اپنے زمانہ کے بعض علماء و فقہا کو متعدد پر معارف خطوط وقتاً فوقتاً لکھے تھے۔ ان بیش بہا جواہرات کو جو وعظ و نصیحت اور پند و موعظت کا گنجینہ تھے حضرت امام کی وفات کے بعد ان کے لائق برادر حضرت امام احمد غزالی نے جمع کیا۔ یہ نایاب مجموعہ مکاتیب و مواعظ قلمی حالت میں کسی طرح سرسید کے ہاتھ لگ گیا۔ سرسید اسے دیکھتے ہی پھڑک اٹھے اور انھوں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ ان قلمی جواہرات کو افادۂ عام کے لیے شائع کر دیا جائے۔ مگر مشکل یہ تھی کہ جو مخطوطہ سرسید کو ملا وہ اکثر جگہ سے غلط نقل کیا گیا تھا اور کوئی دوسرا مخطوطہ موجود نہیں تھا جس سے مقابلہ کر کے صحت کی جاتی۔ لہٰذا ہر طرف سے مایوس ہر کر سرسید نے ایک ادبی اور علمی خدمت سمجھ کر یہ تکلیف خود ہی برداشت کی اور بڑی محنت و کاوش کے بعد اسے درست کیا۔ جہاں جہاں مسودہ میں غلطیاں نظر آئیں ان کی اصلاح کی۔ کہیں کہیں وضاحت کے لیے اپنی طرف سے حواشی بھی لکھے اور پھر اسے ’’فضائل الامام من رسائل حجتہ الاسلام‘‘ کے نام سے شائع کر دیا۔ یہ وہی خطوط ہیں جو سرسید کی یادگار کے طور پر جہاں نقل کیے جا رہے ہیں اور اب بالکل نایاب ہو چکے ہیں سرسید کے علمی کارناموں میں سے یہ ایک خاص کارنامہ ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) بسم اللہ الرحمن الرحیم نسالہ الجنۃ و نعوذ بہ من الجحیم شکر و سپاس بے حد گذشتہ از حصر وعد۔ و سپاسے کہ آں نہایت مطلب صد یقانست ، و غایت مقصد طالبانست، و راہ ہر ھمہ متحیر انست، سپاسے کہ آں را غایت نہ، مرآں خداے را کش بدایت و نہایت نہ۔ خداے کہ سپاس او طراز جملہ کتابانست۔ و آخر دعویٰ اھل جنانست۔ خداے کہ رافت و رحمت و تقرب از فضل اوست و سطوت عذاب و جزاے نکال از عدل اوست۔ زمام ھمہ خلایق در قبضہ قدرت اوست۔ و انجام کار ھمہ سالکان راہ در عنایت اوست۔ بزرگی و منقبت صاحب شریعت صلواۃ اللہ و سلامہ علیہ از اصطفا و محبت اوست۔ ورستگاری عاصیان بشفاعت او ھم از کمال رافت اوست۔ و تخصیص یاران او بکمال فضل و مرتبت ہم از خلعت اوست۔ و صدق ابوبکرؓ و عدل عمرؓ و حیا عثمانؓ و شجاعت علی رضی اللہ عنہم از مقتضاے حکمت و مشیت اوست۔ یفعل اللہ ما یشاء و یحکم ما یرید۔ چوں عیانت الٰہی در حق امام عصر و مقتداے دہر۔ امام الائمہ حجۃ الاسلام محمد ابو الھامد غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ برضوا نہ و مہد لہ فی اعلیٰ جنانہ و تغمدہ بغفررانہ ظاہر گشتہ بود۔ تا دل او بداں سبب محل انوار الٰہی گشت۔ افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ۔ و سینہ او چشمہ آب حکمت وخزانہ اسرار شریعت و الفاظ او صدف جواھر بے نظیر و در یتیم۔ الفاظ او عذب تر از ماء زلال و معانیش دقیق تر از سحر حلا۔ در نظر چوں لفظ او الزام کر دے خصم را گربدی گردوں نہادی گردن آں الزام را معاون کالعیون یبین سحرا و الفاظ موردۃ الخدود پس لا جرم ہمکناں شفاء در و خویش در سخن او یافتند و داروئے علت از آنجا طلبدند و تفصیل تریاق اکبر کہ نافق از زہر ہائے کشندہ مثل کفر و شرک و حسد و بخل و ریا و عجب و دیگر اوصاف مزموم است از رموز و اشارات و الفاظ و معانی وے گرفتند۔ و کبریت احمر کہ آں کیمیاے سعادت است در تصانیف او یافتند ۔ و مخ آں کیمیا و لباب معانی در نامہاے یافتند کہ او نبشتہ است و بہر وقتے و بہر کارے تنبیہہ کردہ و حالت حال بدیں جملہ بود کہ بہر وقت سالکان راہ و طالبان شفا و خداوندان علت و ارباب حاجت در طلب نامہا و وصیتہاے او مبالغہ کردند و جدھا نمودند تا آں را قدوہ سازند و بداں اقتدا کنند و بواسطہ آں سعادت ابد حاصل کنند و از شہوات نفس خلاصی یابند و آں را کحل بصر ظاہر و نور بصیرت باطن سازند و ایں رسالہاے اوپراگندہ و متفرق بود اما از براے سد حاجت و کفایت مہم سالکان راہ را۔ و قضا حق اخویت دین را۔ و تابرک و تیمن بکلام ان صدر سعید و تمسک بحبل و رایت را و صلہ رحم را آنچہ یافتم از نامہاے اوراق جمع کردم۔ و ایں کتاب را بہ فضایل الامام من رسایل حجۃ الاسلام نام نہادیم و ایں را در سلک پنج باب در آوردیم و متوقع جود الٰہی آنست کہ توفیق را رفیق کند و سعادت مساعد گرداند تا ایں جمع تمام کردہ شود۔ باب اول۔ در سلطانیات و نامہاے ملوک و غیر آں۔ باب دوم۔ در آنچہ بوز را نوشتہ۔ باب سوم۔ در آنچہ بہ امر او بزرگان دولت نوشتہ۔ باب چہارم۔ در آنچہ بہ آیمہ و فقہاے دین نوشتہ۔ باب پنجم۔ در فصول کہ دراں مواعظ پراگندہ نوشتہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باب اول در سلطانیات و نامہاے ملوک و غیر آں چوں صدر سعید حجۃ الاسلام اکرمہ اللہ برضوانہ در ابتداء عہد و مبداء ترقی کار کہ بشہر نیشا پور طالب علمی می کرد از تعلیق اصول خویش مختصرے بیروں کردہ بود و ترتیبے دادہ و آں را المنخول من تعلیق الاصول نام نہادہ در آخر آں کتاب قریب دہ کاغذ از مثالب مذہب امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ جمع کردہ از کتاب طہارت و نماز و غصب و سرقہ و قصاص و غیر آں چیز ھا کہ شنیع می نمود از مذہب او جمع کردہ چوں جماعتے از اصحاب راے آں را بدیدند عرق تعصب و حسد در ایشاں بجنید و جماعتے ہم از اصحاب شافعی و اصحاب مالک رضی اللہ عنہما بایشاں یار شدند و بروے عیبہاے عظیم زدند و نزدیک سلطان اسلام شدند و بروے آں عرضہ کردند کہ حجۃ الاسلام در امام ابو حنیفہ طعن و قدح میکند و مثالب او جمع کردہ و وے ا در اسلام ہیچ عقیدہ نیست بلکہ اعتقاد فلاسفہ و ملحداں دارد و جمہ کتابہاے خویش بہ سخن ایشاں ممزوج کردہ است و مکر و اباطیل بہ اسرار شرع آمیختہ و خداے را جل جلالہ نور حقیقی می گوید و ایں مذہب مجوس است کہ بہ نور و ظلمت میگویند و چند کلمہ از کتاب مشکواۃ الانوار تغیر و تبدل کردند و آں را بہ سلطان اسلام عرضہ کردند و یکے را از مغار بہ اعزا کردند و گفتند کہ حجۃ الاسلام در مال قاضی ابوبکر باقلانی طعن کردہ است و قدح و قطع کردہ است بخطاے قاضی ابوبکر تا آنکہ او بہ سبب آں بروے تشنیع زدن گرفت و نزدیک ارکان دولت تخیلات و تصویرات فاسد کرد و من یستمع یختل و پس بداں سبب سلطان عالم برو متغیر گشت و قصد رنجانیدن او کرد و دراں حال کس فرستاد بہ حجۃ الاسلام و بہ نزدیک خویش خواند حجۃ الاسلام از شدن امتناع نمود و عذرات نزدیک سلطان نوشت و بفرستاد و آں نامہ اینست۔ نامہ حجۃ الاسلام بہ ملک الاسلام ایزد تعالیٰ ملک الاسلام را از مملکت دنیا برخوردار کناد و انگہ در آخرت بادشاہی دہا و کہ بادشاہے روے زمین دروے حقیر و مختصر گردد کہ کار بادشاہی آخرت دارد۔ کہ مملکت روے زمین از مشرق تا بمغرب بیش نیست و عمر آدمی در دنیا صد در اغلب احوال بیش نیست جملہ زمین نسبت با بادشاہی کہ ایزد تعالیٰ کسے را در آخرت دھد کلوخے است و ہمہ ولایت ہاے روے زمین گرد و غبار آں کلوخست کلوخی و گرد کلوخے را چہ قیمت می باشند و صد سال را درمیان ملک ازل و ابد بادشاہی جاوداں چہ قدر باشد کہ بداں شاد باید بود۔ ہمت بلند دار چناں کہ اقبال و دولت و نسب بلند است۔ و از خداے تعالیٰ جز ببادشاہی جاودان قناعت مکن و ایں بر ہمہ اہل جہان دشوار است و بر ملک مشرق آسان۔ کہ رسول علیہ الصلواۃ والسلام می گوید یک روز عذل از عدل سلطان عادل فاضل تر از عبادت شصت سالہ است چوں ایزد آن ساز دولت بداد کہ آنچہ دیگرے بہ شصت سال تواں کرد تو بیک روز بتوانی کرد چہ اقبال و دولت باشد زیارت ازیں و حال دنیا چنانکہ ہست بداں تا در چشم تو مختصر گردد کہ بزرگان چنیں گفتہ اند کہ اگر دنیا کو زہ زرین بودے کہ نماندے و آخرت کوزہ سفالین بودے کہ بماندے عاقل کوزہ سفالین باقی اختیار گردے بر کوزہ زرین فانی۔ فکیف کہ دنیا کوزہ سفالین است کہ نماند و آخرت چوں کوزہ زرین کہ ہر گز نہ بشکند عاقل چگونہ بود کسیکہ دنیا اختیار کند و ایں مثل اندیشد و ہمہ پیش چشم خود می دارد۔ و امروز بناحیتی رسیدہ است کہ عدل ساعت بعبادت صد سالہ است بر مردمان طوس رحمتے بکن کہ ظلم بسیار کشیدہ اند و غلہ بسرما و بے آبی تباہ شدہ است و درختہاے صد سالہ از اصل خشک شدہ و ہر روستاے را ہیچ نماندہ مگر پوستے و مشتے عیال گرسنہ و برھنہ بافرزندان در تنورے شوند۔ رضا مدہ کہ پوست شاں باز کنند۔ و اگر از ایشاں چیزے خواہند ھمگناں بگریزند و درمیان کوہ ہا ہلاک شوند و ایں پوست بار گردن باشد۔ اے بادشاہ اسلام بدانکہ ایں داعی را پنجاہ سہ سال عمر گذشتہ است چہل سال در دریا علم غواصی کرد تا بجائے رسید کہ سخن او از اندازہ فہم بیشتر از اہل روزگار در گزشت۔ بست سال در ایام سلطان شہید روزگار گذاشت و ازو بہ اصفہان و بغداد اقبالہا دید و چند بارمیان سلطان و امیر المومنین رسول بود درکار ہاے بزرگ و در علوم دین نزدیک ہفتاد کتاب تصنیف کرد پس دنیا را چنانکہ بود بدید و بجملگی بینداخت و مدتے در بیت المقدس و مکہ قیام کرد و برسر مشہد ابراہیم خلیل اللہ صلوات اللہ و سلامہ ، علیٰ نبینا و علیہ عہد کرد کہ ہر گز پیش ہیچ سلطان نرود و مال ہیچ سلطان نگیرد و مناظرہ و تعصب نکند و دوازدہ سال بریں وفا کرد و امیر المومنین و ہمہ سلطانان دعا گوے را معذور داشتند اکنوں شنیدم کہ از مجلس عالی اشارتے رفتہ است بحاضر آمدن۔ فرمان را بمشہد رضا آمدم و نگاہداشت عہد خلیل را بلشکر گاہ نیامدم و بر سر ایں مشہد میگویم کہ اے فرزند شفیع۔ شفیع باش تا ایزد ملک اسلام را در مملکت دنیا از درجہ پدران خویش بگزراند و در آخرت بدرجہ سلیمان علیہ السلام رساند کہ ہم ملک بود و ہم پیغمبر و توفیقش دہ تا حرمت عہد ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نگہدارد و دل کسے را کہ روے از خلق بگردانید و بسوے خداے آوردہ بشولیدہ نکند و چنیں دانستم کہ ایں بہ نزدیک مجلس عالی پسندیدہ تر و مقبول تر است از آمدن بشخص و کالبد کہ آں کارے و رسمے بیفائدہ است و ایں کاریست کہ روے در حق دارد اگر پسندیدہ است فمرحبا و اگر بخلاف ایں فرمانے بود در عہدہ عہد شکستن نباشم کہ فرمان سلطانے باضطرار لازم بود فرمان را بضرورت منقاد باشم ایزد تعالیٰ بر زبان و دل آں عزیز آں را نادکہ فرداے قیامت ازاں خجل نباشد و امروز اسلام را ازاں ضعف و شکستگی نباشد۔ انتہیٰ۔ چوں ایں نامہ بر سلطان اسلام عرضہ کردند عقیدہ او از آنچہ بود بر گشت و گفت لابداست کہ من او را بہ بینم و چوں او بمشہد مقدس رضوی است علیٰ ساکنہ السلام و لشکر گاہ بیروخ و مسافت نزدیک آمدن آسان بود او را بہمہ حال حاضر باید آمدن تا او را بہ بینم و سخن او بشنوم و صفا را اعتقاد او بدانم و حاسدان و متعصبان راز جرو تعزیر کنم۔ و دریں جماعتے از متعصبان او از فحول۔ ایمہ تا بلشکر گاہ جمع شدہ بودند و می گفتند او را تکلیف باید کرد تا حاضر شود تا باد مناظرہ کنیم و سخن او بشنویم و او از عہدہ خود بیروں آید۔ البتہ او را رہا مکنید کہ پیش سلطان شود کہ او در ساعت سلطان را بمنظر و مجرد سخن خویش صید کند۔ پس دریں حال جماعتے از ایمہ طوس برخاستند و بلشکر گاہ رفتند و مجمع ساختند و متعصبان حجۃ الاسلام را حاضر کردند و ایمہ طوس گفتند کہ ما شاگردان اوئیم اگر کسے را شبہتے افتادہ است یا اشکالیست در سخن او القا باید کرد تا حل آں کردہ آید پس اگر ما عاجزائیم بوے نویسیم و شرح تقریر آں ازو در خواہیم تا آں اشکال برداشتہ شود اما شما را منصب و اہلیت آں نباشد کہ ازو مناظرہ خواہید کرد کہ شما با شاگردان او مقا و مت نتوانید کرد پس چوں ایں سخناں بشنیدند مبہوت گشتند و بار دیگر با سلطان گشتند و گفتند او مردیست ناموسی و ایں ناموسی وے انگہ ظاہر شود کہ با ما مناظرہ کند سلطان اسلام معین الملک را رحمۃ اللہ گفت لابد او را الزام باید کرد تا پیش تخت حاضر شود تا ما سخن او بشنویم پس آنگاہ اگر بداں حاجت بود کہ مناظرہ کند او را بمناظرہ فرمائیم و یا عذر آریم و با کرام تمام باز گردانیم۔ پس معین الملک کس بمشہد فرستاد و گفت کہ لا بد ترا میباید حاضر آمدن او بحکم فرمان بلشکر گاہ رفت و در و ثاق معین الملک نبشت تا معین الملک او را بہ نزدیک سلطان برد۔ سلطان چوں او را بدید بر پاے خاست و در بر گرفت و بر کنار تخت نشاند و حجۃ الاسلام را استقشعرارے میبود اندک۔ مقریٔ باوے بہم بود گفت بیار او آیتے از قرآن بر خواند۔ الیس اللہ بکاف عبدہ گفت بلے و آں خوف بکلی از وے زایل گشت و سخن آغاز کرد و ایں فصل در پیش سلطان گفت۔ تقریرے کہ امام حجۃ الاسلام پیش ملک اسلام گفتہ بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ علی رسولہ محمد و ٰالہ اجمعین و العاقبۃ للمتقین ولا عدوان الا علی الظالمین۔ بقاء ملک اسلام باد عادت علماء اسلام بمجلس ملوک اسلام و سنت آنست کہ فصلی گویند مشتملبر چہار چیز دعا و ثنا و نصیحت و رفع درجات اما مذہب من آنست کہ شب تاریک در خلوت خالی دست برداشتن و باحق در سر مناجات کردن اولی کہ ہر چہ برملا بود بر یا آمیختہ بود و در حضرت حق سبحانہ تعالیٰ ہر چہ خالص نیست مقبول نیست و اما ثناء ایں مضلس ہم چنیں است کہ آفتاب سخت بے نیاز است ازانکہ بلندی و روشنی وی بانگشت اشارہ کنند چوں جمال بغایت کار رسد بازار مشاطہ بشکند و دست مشاطہ بیکار شود و مقصود از ثناء بالا دادن کار باشد و چگونہ بالا دھند حضرتے را کہ ہر چہ در جہان بالا و بلندی و رفعت است کسے را آں ازیں حضرت یافتہ است پس مہم نصیحت است و غرض حاجت اما نصیحت ولایتست کہ منشور آں جز از حضرت رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ننویسند و وے گفتہ است ترکت فیکم واعظین صامتا و ناطقا الصامت الموت والناطق القرآن۔ نگاہ کن تا ایں نصیحت کہ خاموش است بر زبان حال چہ میگوید و آں کہ گویا است بزبان مقال چہ می گوید۔ مرگ خاموش چنیں می گوید کہ ہر کہ را آفریدہ اند بدانند کہ من در کمین شما ام و کمین خویش ناگاہ کشایم و از پیش ہیچ رسول نفرستیم و اگر خواہید کہ نمود کار و پا داشت و عمل من بہ بیند با ہمہ تان نہ گفتم کہ با ہمہ چہ خواہم کرد ملوک باید کہ از جملہ ملوک گذشتہ نہ گردند و امرا از امرا گذشتہ نگردند و سلطان ملک شاہ و الپ ارسلان و طغرل بیگ رحمہم اللہ تعالیٰ از زیر خاک بزبان حال می گویند و منادی می کنند کہ یا ملک یا قرۃ العین با فرزند عزیز زنہار زینہار اگر بدانی کہ ما بر چہ کار رسدیم و چہ کار ہاے باہول دیدیم ہر گز یک شب سیر نخوری و بکام خویش ہیچ جامہ نپوشی و در دعیت تو یک کس تن برہنہ و گرسنہ ماند و ہیچ خزانہ ننہی مگر آں کہ در قیامت بر تو عرضہ کنند و کردار تو بر تو عرضہ کنند کہ نصیحت قرآن چنین است فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ و من یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ ہر چہ خواہی کن کہ ذرہ ذرہ باز خواہی دید و در خبر است کہ ایں شبان روز بست و چہار ساعت است بر ہو بندہ عرضہ کنند بر ہر بست و چہار ساعت خزینہ یکے بلند پر ضیاء و نور و ایں ساعت طاعت بود چنداں شادی بدل وے رسد کہ ھشت بہشت در آں مختصر شود کہ مبشر بود بخوش نودی حق تعالیٰ خزانہ دیگر بروے عرضہ کنند خالی و آں ساعت غفلت و خواب و مشغول بودن بمباحات بود چنداں حسرت و غبن بدل وے در آید کہ آں را نہایت نہ بود کہ چرا ایں آں چناں دیگر نبود و یکے دیگر بروے عرضہ کنند پر ظلمت و آں ساعت معصیت بود چنداں ھول و فزع در دل وے در آید کہ گوید کاشکے مرا ہر گز نیا فریدندے۔ اے ملک دنیا را بسیار دولت و لشکر و خزانہ ساختے آخرت را نیز بساز و بر قدر مقام و مدت آخرت بساز مدت دنیا پیداست کہ چند است بود کہ روزے یا نفسے بیش نماندہ است۔ مدت آخرت را نہایت نیست اگر ہفت آسمان و ہفت زمین پرکاورس کنند و مرغے را فرمایند کہ ہر ہزار سال یکے دانہ بیش نخور ایں ہم پرسد و از ابد ہیچ کمتر نشود خزانہ بر مقدار مدت باید نہاد و بدانکہ ہیچ بندہ نیست کہ وے را بہ دوزخ گذرے نیست از ساعتے کہ باہفت ہزار سال برابر بود و ایں کسے را بود کہ ایمان بسلامت بودہ باشد و از بہر آں نیز بساز کہ ایمان در ختیست کہ آب از اطاعت خورد و ہیچ وے از عدل بود و بدوام ذکر حق راسخ شود و چوں ایں تربیت نیابد در سکرات مرگ یفتد کہ بیخ ندارد یک وصیت از من قبول کن کلمہ لا الہ الا اللہ ہمیشہ ورد زبان دار۔ چناں کہ کس نشنود و بگوئی اگر در شکار گاہ باشی اگر برتخت پایہ باشی و اگر در خلوت باشی یک ساعت ازیں خالی مباش کہ ایمان راسخ بدیں شود و یا ملک اگر از عذاب آخرت خلاص یابی از سوال قیامت خاص نیابی کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیۃ و اگر ترا در سیاست بدارند و گویند بندگان خویش را و گویند گان لا الہ الا اللہ را رعیت تو کردیم و ترا ستورے چند بدادیم۔ بملکی ہمہ دل در ستوران خویش خوش بستی تا ہر کجا مرغزارے سبز تر بود چراگاہ ایشاں بود۔ و از بندگان ما غافل ماندے چرا عزیزان حضرت ما را از ستوران خویش باز بس داشتے و گفتہ بودیم کہ حرمت مومن بحضرت ما بیشتر از کعبہ است ازیں سوال چہ جواب داری۔ عمر خطاب رضی اللہ عنہ چناں بود کہ اشتر درویشے در شب تاریک گم شد پاے برہنہ در طلب آں میدوید و میگفت لو ترک جرب علی سیفۃ الفرات ولم یطلاء بالدہن لمنسئول عنھا یوم القیامۃ ویرا رضی اللہ عنہ یکے از صحابہ بخواب دید پس از سوازدہ سال کہ غسل کردہ بود و جامہ روشن و وفید پوشیدہ چنانچہ کسے از کارے فارغ شدہ باشد گفت یا امیر المومنین خداے تعالیٰ با تو چہ کرد گفت چند سال است تا از دنیا رفتہ ام۔ گفت دوازدہ سال است۔ گفت تا اکنوں در حساب بودم کار عمر پر خطر بود اگر نہ آں بادے کہ خداے کریم بودے۔ حال عادل ترین خلق ایں بود حال خود بریں قیاس کن و در جملہ راہ نصیحت دراز برھمہ ملوک و لیکن بر ملک اسلام کو تہ کنم لوحی بنشتہ در پیش تو نہم در آں لوح مے نگر سیرت پدر خویش ملک شاہ فراپیش گیر اگر ترا گویند پدرت از فلاں دہ دام بستدے تو دہ دانگے بستاں بگو کہ ایں زیادت چرا بستانم او از خداے تعالیٰ می ترسید من نمی ترسم او عاقل بود نام نیکو و خوش نودی رعیت دوست میداشت و چنیں من عاقل نیم اگر گویند در ولایت تو مثلاً جہود است او را از ولایت بیروں کن گو در روزگار پدرم کجا بود گویند در ولایت وے بود گو بس چرا قاعدہ کو نہاد من باطل کنیم و بدانکہ ہر کہ قاعدہ و راہ پدر خویش باطل کند در عدل و انصاف عاقل نباشد و عاقبت وے بہشت نشود اگرچہ بوے بہشت از پان صد سالہ راہ بشنوند یا ملک شکر نعمت حق تعالیٰ بگزار کہ نعمت چہار است ایمان و اعتقاد و درست و روے نیکو وفعل نیکو ایں یکے باختیار تو است و ایں ہر سہ ہدیہ خداے عز و جل است چو حق تعالیٰ آں ہر سہ از تو دریغ نداشت تو نیز ایں چہارم از خویشتن دریغ مدار کہ بر ایں ہر سہ زبان بر ناسپای دراز کردہ باشی و یا امیران نو دولت کہ بر پاے ایستادہ آید اگر خواہید کہ دولت پایندہ و مبارک بود باید کہ دولت ازلی دولت باز شناسید کہ شما را ملک یکے نیست بلکہ دو است ایں یکے ملک خراسان و آں یکے ملک زمین و آسمان است کہ ملک شماست فرد اے قیامت ہمہ رابا وے بہم بدارند و در مقام سیاست با شما گویند کہ حق نعمت چوں گذار دید کہ قلوب الملوک خزائن اللہ تعالیٰ دل ملوک خزانہ خداوند تعالیٰ است کہ ہر چہ در دنیا پدید آورد از رحمت و عقوبت بواسطہ دل ملوک بود گوید خزانہ خود بشما سپردم و زبان شما کلید آں خزانہ کردم امانت نگاہ داشتید در آں خزانہ یا خیانت کردید ہر کہ حال یک مظلوم بریں ملک پوشیدہ دارد در خزانہ خیانت کردہ باشد ہمہ گوش فرا خویش دارید کہ دولت شدہ گیر و خجلت روز قیامت ماندہ گیر آمدیم بعرض کردن حاجت کہ دواست یکے عام و یکے خاص اما عام آنست کہ مردمان طوس ہوش باختہ و پراگندہ بودہ اند در ظلم قسمت و ہرچہ بود از سر ما و بے آبی تباہ شد و ہر چہ درخت صد سالہ بود خشک شد بدیشاں رحمتے کن تا خدا تعالیٰ بر تو رحمت کند پشت و گردن مومنان ازبلا و محنت گرسنگی بشکست چہ باشد اگر گردن ستوران تو از ساخت زر فرونشکند اما حاجت خاص آنست کہ من دوازدہ سال در زوایہ خانہ بنشستیم و از خلق اعراض کرم پس فخر المک رحمۃ اللہ مرا الزام کرد کہ نیشا پور باید شد گفتم ایں روزگار سخن من احتمال نکند ہر کہ دریں وقت کلمۃ الحق بگوید در و دیوار بمعاداۃ بر خیزد و من دنیا را بااھل دنیا تسلیم کردہ ام۔ وے گفت کہ ملکے است عادل و من در پیش وے بنصرت تو برخیزم امروز کار بجاے رسید کہ سخنہاے شنوم کہ اگرچہ در خواب دید مے گفتمے اضغاث احلام است اما آنچہ بعلوم عقلی تعلق دارد اگر کسے را براں اعتراض است عجب نیست کہ در سخن من غریب و مشکل کہ فہم کسے بداں نرسد بسیار است لکن و الحمد اللہ کہ من مدام بشرح ہر چہ گفتہ ام باہر کہ در جہانست درست می کنم و از عہدہ آں بیروں می آیم ایں سہل است اما آچہ حکایت می کنند کہ در امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ طعن کردہ ام ایں احتمال نتوانم کرد باللہ الطالب الغالب المدرک المہلک الضار النافع الذی لا الہ الا ہوا کہ اعتقاد من است کہ امام ابو حنیفہ بخواص ترین امت مصطفیٰ است صلی اللہ علیہ وسلم در حقایق معافی فقہ و ہر کہ جز ایں از عقیدہ من و یا از خط و لفظ من حکایت کند دروغ می گوید و عقیدہ من آنست کہ در کتاب احیاء در اول سیرت علماء شرح دادہ ام مقصود آنست کہ ایں حال معلوم شود و حاجت آنست کہ مرا از تدریس نیشا پور و طوس و شہرھا معاف دارد تا باز او بہ سلامت خویش شوم کہ ایں روزگار سخن من احتمال نکند۔ جواب ملک اسلام چوں ایں فصل بگفت جواب ملک اسلام آں بود کہ مارا چناں بایستے کہ جملہ علماء خراسان و عراق حاضر بودند تا سخن تو بشنوندے و اعتقاد تو بدانستندے اکنوں التماس آنست کہ ایں فصل کہ رفتہ است بخط خویش بنویسی تا بر ما میخوانند و ما نسخہ آں باطراف جہان بفرستیم کہ خبر آمدن تو در جہان معروف بود تا مردمان اعتقاد ما در ھق علماء بدانند اما معاف کردن از تدریس ممکن نیست فخر الملک چاکر ما بود کہ ترا نیشا پور برد و ما براے تو مدرسہا کنیم و بفرمائیم تا جملہ علماء اسلام ہر سال یک بار پیش تو آیند و ہر چہ براں پوشیدہ باشد بیاموزند از تو و اگر کسے را با تو خلاف است دندان کناں پیش تو آید و پرسد تا اشکال وے برداری چوں ملک اسلام از وے در خواست کہ ایں فصل بخط خویش بنویس حجۃ الاسلام رحہم اللہ بشہر در آمد از لشکر گاہ جملہ اہل طوس باستقبال وے شدند و آں روز جشنے عظیم ساختند و نثارھا کردند حجۃ الاسلام رحمۃ اللہ ایں فصل را بخط خویش بنوشت و نزدیک او فرستاد و ملک اسلام فرمود بوقتے بروے خواندند آں کہ بعد ازاں ملک اسلام بشکار رفت حجۃ الاسلام را شکارے فرستاد۔ بقرب آں روزگار۔ و حجۃ الاسلام در مقابل آں نصیحت الملوک تصنیف کرد و نزدیک او فرستاد و آں کتابیست بلیغ در انواع نصیحت و تحریص بر عدل و انصاف حجۃ الاسلام بخط خویش بر ظہر جز وے نوشتہ بود کہ در آں جز و فصل نصیحت ملک اسلام بود۔ اتفاق افتاد کہ در شہو سنہ تسع و تسعین دار بعمائتہ نویسندہ ایں حرفہا غزالی را تکلیف کردند پس از انکہ دوازدہ سال عزلت گرفتہ بود زوایہ ملازمت کردہ تا بدانجا پس امتثال فرمان را ایں سخنہا اثبات افتاد۔ حجۃ الاسلام چوں باعزازے و اکرامے ہر چہ تمام تر و بنواخت ملک باطوس آمدہ و متعصباں او را در لشکر گاہ بدیدند خجل و تشویر زدہ شدند و جماعتے برخاستند و بہ نزدیک او آمدند بطوس و او در خانقاہ نشستہ بود وے را پرسدیند و گفتہ ما را از تو سوالیست اگر دستورے دھی بہ پرسم دستورے داد ایشاں گفت تو مذہب کہ داری گفت در معقولات مذہب برہان و آنچہ دلیل عقل اقتضا کند و اما در شرعیات مذہب من قرآن و ہیچ کس را از ائمہ تقلید نمیکنم نہ شافعی بر من خطی دارد نہ ابو حنیفہ براتی چوں ایں سخن از وے بشنیدند نیز مجال سخن گفتن نیافتند برخاستند و چند الفاظ کہ آں محل اعتراض ایشاں بود از کتب او بنوشتند و بوے فرستادند حجۃ الاسلام جواب ایں بر یدیہہ باز نوشت و بدیشاں فرستاد۔ وآں مسائل ایں بود چہ گوید امام الائمہ حجۃ الاسلام در کسانیکہ اعتراض میکنند بر بعضے از سخنہا کہ در کتاب مشکواۃ الانوار و کیمیاست مثل ایں سخن کہ لا الہ الا اللہ توحید العوام است ولا ہو الا ہو توحید الخواص و آں سخن کہ نور حقیقی خداست و آں سخن کہ روح آدمی اندریں عالم غریب است و وے از عالم علوی است و شوق وے بداں عالم است چہ میگویند کہ ایں سخن فلاسفہ و نصاریٰ است و امثال ایں سخنہا است کہ آں را بشرح حاجت است تا اعتراض متعندان کوتاہ شود و معنی ایں سخن پیدا شود۔ بجواب نوشت باللہ التوفیق بدانکہ سوال کردن از مشکلات عرضہ کردن۔ بیماری و علت دلست بر طبیب و جواب دادن سعی کردن است در شفا بیمار و جاھلاں بیمارانند فی قلوبھم مرض و علماء طبیبانند و عالم ناقص طبیبی را نشاید و عالم کامل ہر جاے طبیبے نکند لکن جاے طبیبے کند کہ امید شفا بود اما چوں علت مزمن بود و بیمار بے عقل استادے طبیب آں بود کہ بگوید کہ ایں بیمار علاج پذیر نیست و مشغول شدن بمعالجہ وے جز روزگار ضائع کردن نیست و ایں بیماران جہل بر چہار گونہ اند یکے ازیں علاج پذیر است و سہ علاج نپذیرند اول کسے است کہ اعتراض وے از حسد بود و حسد بیماریٔ مزمن است کہ علاج را بوے راہ نیست چہ جواب کہ از اعتراض وے جواب دہی ہر چند نیکوترو روشن تر بود ویرا خشم بیش آید و آتش حسد درون وے افروختہ شود۔ پس بجواب وے مشغول نباید شد۔ ؎ کل العداوۃ قد یرجیٰ اما تتھا الا عداوۃ من عاداک من حسد پس تدبیر آں بود کہ وے را بداں علت بگزارند و از وے اعراض کنند و اعرض عمن تولے عن ذکرنا ولم یردا الا الحیواۃ الدنیا ذالک مبلگھم من العلم و حسود ہرچہ میگوید آتش اندر خرمن خود میزند الحسد یا کل الحسنات کما تاکل النار الحطب۔ پس وے بجاے رحم است نہ بجاے مجادلہ و خصومت۔ بیمار دوم آں بود کہ علت وے از حماقت و بے عقلی بود و ایں نیز علاج نپذیرد و عیسیٰ صلواۃ اللہ و سلامہ علیہ مردہ زندہ کرد و از معالجہ احمق عاجز آمد۔ و ایں کسے بود کہ عمر در علوم عقلی صرف نکردہ بود انگہ اعتراض کند بر کسے کہ ہمہ عمر دراں صرف کردہ باشد و ایں مقدار نداند کہ آں اعترراض کہ عامی را بخاطر آید عالم را نیز آمدہ باشد پس ایں سخن غورے دارد کہ عالم ندانستہ باشد و عامی بداند و ہمہ فقہاء و ادباء و مفسران و محدثان و مشغولان بانرارع علوم عامی باشند در علوم عقلی و بیشتر متکلمان نیز ہمچنیں باشند کہ ظاہرا از علم کلام برخواندہ باشند و غور و تحقیق آں نشناختہ چوں اعتراض ایں قوم بالتفات نیرزد اعتراض کسان دیگر کہ ہر گز در ہیچ علوم خوض نکردہ باشند۔ جواب چوں آید۔ و قصہ موسیٰؑ و حضر صلواۃ اللہ و سلامہ علیہا در قرآن تنبیہ راست بریں دقیقہ چوں سفینہ یتیمان کسے از عوام سوراخ کند بمحل اعتراض بود اما چوں عالمے کامل کند اعتراض نشاید کردہ چوں حفظ مال ایتام ہر کسے داند عالم نیز داند چوں میکند۔ آنست کہ در اوان چیزے دیگر میداند کہ ایں حال با اضافت با آں علم منکر نیست بلکہ معرفت حق تعالیٰ و معرفت ربوبیت و ملکوت آسمان و زمین دانستن کمتر از جولاھگی نیست اگر کسے ہمہ علوم روے زمین بر خواند و ہمہ صناعات بیا موزد و در جولاھگی رنج نبردہ باشد ویرا نرسد کہ بر جولاہہ اعتراض کند و اگر رنج بردہ باشد ویرا نرسد کہ بر کسے کہ از وے استاد تر باشد بلکہ ہر چہ او را منکر آید باید کہ بر قصور خویش حمل کند چوں ایں قدر عقل ندارد ازوے اعراض باید کرد و بجواب مشغول نباید شد۔ بیمار سوم آں بود کہ مستر شد بود و آنچہ فہم نکند بر قصور علم خویش حمل کند و اعتراض نکند بلکہ خواہد کہ بداند و سوال براے استرشاد کند لکن بلید باشد و جہم وے از ادراک دقائق علوم قاصر باشد بجواب وے نیز مشغول نباید شد قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نحن معاشر الانبیاء امرنا ان نکلم الناس علی قدر عقولھم و معنی آنست کہ ایں نہ آنست کہ بایشاں سخن گویند بر خلاف راستی لکن معنی بایشاں آں گویند کہ طاقت فہم آں دارند آنچہ طاقت آں ندارند خود نگویند و تنبیہ کنند کہ ایں کار تو نیست چہ اگر گفتہ آید جز انکار و تکذیب حاصل نیاید و اذ لم یھتدوا بہ فسیقولون ھذا افک قدیم بل کذبوا بما لم یحیطوا یعلمہ ولما یاتھم تاویلہ اشارت بدیں قوم است۔ بیمار چہارم آنست کہ مستر شد باشد و با آں ہم زیرک و تیز فہم بود و عقل بروے غالب بود یعنی مغلوب غضب و شہوت و حب مال و جاہ نبود ایں یک علاج پذیر بود براے وے جواب ایں مسائل گفتہ آمد بقدر فہم وے پس اگر کسے را بینی کہ ازیں جواب شفا حاصل نشود عجب مدار باشد کہ از جملہ آں سہ قوم دیگر بود و بیشتر خلق ازاں سہ گروہ اند و ایں چہارم عزیز و نا درست مسئلہ پر سیدی کہ ایں سخن کہ لا الہ الا اللہ توحید العوام ولا ہو الا ہو توحید الخواص چہ معنی دارد دریں سخن دو اعتراض است یکے آنکہ چوں طعنہ می نماید در کلمہ لا الہ الا لہ۔ و اشار تیست بہ نقصان ایں و ایں چگونہ بود و سبب سعادت ہمہ خلق اینست و قاعدہ و اصل ہمہ ملتہا این است و دیگر اعتراض آنکہ لا ہو الا ہو متناقص می نماید کہ ایں استثناء عین مستثنیٰ منہ است یک چیز ہم مستثنیٰ و ہم مستثنیٰ منہ چوں بود بدانکہ اعتراض اول کہ پنداشتی کہ ایں سخن در معرض طعن و نقصان است در کلمہ لا الہ الا اللہ خطا پنداشتے بلکہ معنی آنست کہ مجرد معنی لا الہ الا اللہ عام است و جملہ مومنان دراں شریک اند ناقص و کامل و خاص و عام بلکہ جہود و ترسا کہ ایشاں نیز گویند و ترسایان کہ میگویند ثالث ثلٹہ نہ آں میخواہند کہ خداے سہ است بلکہ میگویند یکے است لکن ایں یکے بذات یکے است و باعتبار صفات سہ و لفظ ایشاں ایں بود کہ واحد بالجواہریۃ ثلث بالا قنومیہ با قنوم صفات را خواہند و تفہیم ایں دراز شود اما لا ہو الا ہو معنی لا الہ الا ہو اللہ و بتمامی در وے مضمر است لکن در وے زیادتیست کہ جز خواص بداں نرسند و بر اندازہ عقل عوام نیست اما مینی لا الہ الا اللہ ہمہ عوام فہم توانند کرد۔ فصل۔ چوں بدانستی کہ معنی ایں سخن تفاوت درجات توحید است بدانکہ توحید را درجات است و وے را ظاہریست کہ ہمکنان بداں برسند و آں چوں قشریست و وے را حقیقتے است و آں چوں لب است و آں لب را نیز لبے است دیگر و تشبیہ ایں بجوز تواں کرد کہ ویرا پوستی است و پوست ویرا پوستے است و ویرا مغزیست و مغز ویرا مغزے۔ دیگر است و آں روغن است پس اگر خواہی کہ تفاوت در درجات توحید است بدانی بدانکہ درجہ اول وی گفتن لا الہ الا اللہ است بزبان بی اعتقاد دل و ہمہ منافقان اندریں شریک اند و این توحید را نیز حرمتی است کہ سعادت ایں جہاں بداں حاصل آید تا مال و خون وے معصوم شود و اہل و فرزند وی ایمن شوند درجہ دوم اعتقاد معنی ایں کلمہ است بر سبیل تقلید بے معرفت حقیقی وہمہ عوام خلق بدیں درجہ رسیدہ اند و ایں چوں بہ تحقیق نزدیک تر است ایں ہر دو جہان ثمرہ ویست چوں تصدیق جلمہ انبیا بآں بود پس ایں قوم اہل نجات اند اندر آں جہان نیز اگرچہ بکمال سعادت اہل معرفت نرسند درجہ سوم آں بود کہ معنی ایں کلمہ ببرہان محقق و مکشوف شود تاز ہمچناں کہ بشناسند مثلاً سیزدہ۔ ثلث سی و نہ بود۔ ببرہان حسابے ہمچنیں وحدانیت حق سبحانہ تعالیٰ بدانند نہ چوں کسے باشند کہ حساب خود نداند لکن از کسے شنیدہ بود کہ سیزدہ ثلث سی و نہ بود و اعتقاد کردہ باشد و بہ تقلید تصدیق کردہ ایں سہ درجہ متفا و تست۔ اول صاحب مقالہ است۔ دوم صاحب عقیدہ است۔ سوم صاحب معرفت است و ازیں ہر سہ ہیچ صاحب حالات نیستند و ارباب احوال دیگراند و ارباب معارف و اقوال دیگر۔ درجہ چہارم آنست کہ با معرفت ہم صاحب حالت بود کہ وے را ہیچ معبود نبود جز یکے و ہر کہ را ہواے وے غالب بود معبود وے ہوا بود افرائت من اتخذ الھہ، ھواہ الہ آں بود کہ ویراں پرستند و در بند وے باشند و بندہ وے باشندو ہر چہ در بند آنی ازیں گویند کہ فلاں خربندہ است و فلاں شکم بندہ است و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گفت تعس عبدالدرھم و تعس عبدالدینار ایں ہمہ را بندہ گفت کہ در بند آنست کہ طلب میکند پس ہر کہ ہوا و شہوت وے زیر دست وے بعد و طوع فرمان حق بود کلمہ لا الہ الا اللہ از وے درست بود و توحید وے ہم حالت بود و ہم مقالت۔ اگر چنیں نبود از مقصود ایں کلمہ محروم بود و نصیب گفتن زباں بود و اندیشہ دل۔ و اگرچہ ایں کلمہ راست بود وے دروغ زن است دریں کلمہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یزال لا الہ الا اللہ دافعا عن الخلق عذاب اللہ ما لم یوثر واصفقۃ دنیاہم علی صفقۃ دینہم فاذا اثروا ثم قالوا لا الہ الا اللہ قال اللہ تعالیٰ لھم کذبتم لستم بھا صادقین پس ایں کس اگرچہ ایں کلمہ میگوید و معنی وے میداند چوں روے دل وے بجانب دنیا و جاہ و شہواتست و ہمہ احوال بودن فرمان خداے نیست دریں کلمہ دروغ زن است بلکہ اول دروغ وے آنست کہ در نماز ایستد گوید اللہ اکبر گویند دروغ مگوی اگر در دل تو خداے تعالیٰ بزرگتر بودے طاعت وے داشتے نہ طاعت شیطان و طلب ویرا کردے نہ دنیا و شہوات را و چوں گوید انی وجھت وجھی للذی فطر السموات گویند دروغ مگوی کہ اگر بدیں روے ظاہر میخواہی روے بوے نیا وردۂ کہ وے دریں جہت نیست و اگر روے دل میخواہی روی دل تو ہم بسوی دنیا جاہ و مال و حشمت و شہواتست دروغ چرا میگوئی و با کسیکہ سر ترا میداند و داند کہ روے دل از کدام جانب است و چوں گوید ایاک نعبد باوے ہمیں تکذیب رود و گوید انت عبدالدینار و الدرھم و عبدالجاہ والحشمۃ فا یا ھا تعبد کہ نہ عبادت آں بود کہ تو در بند آنی پس ایں مرد کہ اہل لا الہ الا اللہ است لکن حال و درجہ وے آنست ہر گز برابر نبود با کسیکہ لجام تقویٰ برسر ہمہ شہوات خویش کردہ است و جز بر وفق فرمان ہیچ کارے نکند و بدانکہ مثال توحید و معرفت چوں مسہل است کہ مقصود از وے پاک کردن درونست از اخلاط چوں مسہل بخورد و کار نکرد از وے شفاء و سلامت حاصل نیاید بلکہ در وے خطر بود مسہل توحید چوں در دل فرود آمد اگر علت ہوا و شہوت را کسر نکند چون مسہل بود کہ کار نیاید ایں کس چوں برابر بود با کسیکہ توحید ویرا از ہمہ بند ہا بیروں کرد و ویرا یک صفت و یک ہمت و یک معبود گردانید ایشاں و زمین فرق است و درجہ پنجن آنست کہ ایں مسہل توحید در باطن وے بداں اقتصار نکند کہ شہوت مغلوب گرداند و ہوا را زیر دست کند بلکہ بکلیت ہوا و شہوت را محو کند تا در ہیچ کار متبع شہوت باشد نہ بر وفق شرع نہ بر خلاف شرع بلکہ یک عزم و یک ہمت شود ولا یتحرک الا للہ ولا یسکن الا للہ ولا یتکلم الا للہ۔ پس اگر مرد نان خورد نہ از براے آں خورد نہ از براے آں خورد تا لذت طعام بیا بد لکن بضرورت خورد تا قوت طاعت و عبادت بیابد و اگر بقضاء حاجت رود براے فراغ عبادت رود تا مانع از خویشتن باز کند و فرق نکند میان آنکہ طعام بمعدہ رساند یا از معدہ بیروں کند بلکہ ہر دو بضرورت فراغت و قوت عبادت را کند و اگر بخسپد براے آسائش نبود لکن براے تجدید قوت عبادت را بود و اگر نکاح کند براے شہوت نکند لکن براے سنت و تکثر امت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کند تا بایشاں مباہات کند و ہمہ احوال وے ہمچنیں بود اگر گوید و بشنود و بنگرد ہمہ براے حق تعالیٰ بود و تفاوت میان ایں درجہ و درجہ چہارم بسیار است چہ توحید آں مرد را از دست شہوات بکلی بیروں نکردہ و لیکن از دست شہوات کہ خلاف شرع بود بیروں کرد اما ایں مرد را مطلق از دست شہوات بیرون کردہ است درجہ ششم آنست کہ توحید ویرا اولاً از دست وے بکلیت و از دست ہر چہ در عالم است بیرون کند بلکہ ویرا از دست آخرت بہمگی بیرون کند چنانکہ از دست دنیا در پیش ہمت و نظر ادراک وے نہ نفس وے ماند و ہر چہ در عالمست و دنیا و آخرت جز خدا تعالیٰ نماند و خود را فراموش کند و ہرچہ جز حق است فراموش کند و از ہمہ غائب شود و ہمہ از وہے غائب شوند نہ وے ماند نہ عالم حق ماند و بس قل اللہ ثم ذرھم حال وے بود کل شئی ہالک الا وجہ نقد وقت وے بود اہل بصیرت ایں حالت را الفنا فی التوحید گویند کہ جز از حق آنہمہ فانی بود بداں معنی کہ اگر بفنا خود التفات کند بدیں التفات از حق تعالیٰ مشغول شود و ہر کہ طاقت ادراک ایں ندارد پندارد کہ ایں طاعت بیحاصل است و کمال توحید خود ایں است و آنچہ گفت لا یزال العبد یتقرب الی بالنوافل حتی احبہ فا ذا احببۃ کنت سمعہ الذی یسمع بہ و یصیرہ الذی یبصر بہ و لسانہ الذی ینطق بہ پس صاحب درجہ پنجم بخود بود و بخود گوید و شنود و بیند و لکن براے حق نہ از براے خود اما ایں مرد با خود نبود و بخود نہ بیند و نشنود و نگوید و لکن بد و گوید و ازو شنود و او را بیند و ہرچہ بیند و آں مرد ہمہ چیز ھا می بیند لکن خدای را بآں ہم می گوید ما ررایت شیئاً الا ورایت اللہ عز و جل معہ ایں مرد خود جز خداے را نہ بیند و می گوید ما اری الا اللہ و لیس فی الوجود غیر اللہ آں مرد گوید معبود نیست جز خداے و ایں مرد گوید موجود نیست جز خداے پس توحید آں مرد جز ویست از توحید ایں مرد کہ آں مرد معبود جز وی نفی کرد و ایں مرد از موجود جزوی نفی کرد و در نفی موجود نفی معبود زیادہ است پس چنانکہ درجات توحید در توحید ایں مرد مضمر بود و در ضمن طی وی را حاصل بود توحید وے باہمہ توحید ہاے دیگران در طریق توحید ایں مرد حاصل است پس آں مرد عامی گشت در حق ایں خاص الخاص چنانکہ ارباب دیگر درجات عامی بودند در حق آں مرد۔ و کمال درجہ توحید ایں درجہ ششم است و ارباب ایں مقام را در غلبات ایں حالت شبہ سکری پیدا آید و دراں سکرد و گونہ غلط کنند یکے پندارد کہ اتحاد حاصل آمد و او خود حق گشت و ہر دو یکے شدند و دیگر داند کہ اتحاد محالست لکن پندارد کہ اتحاد حاصل آمد وز آں بحلول عبارت کنند۔ پس صاحب خیال اتحاد باشد کہ گوید انا الحق و سبحانی و اما اعظم شانی و چوں آں سکر بصحو بدل شود بدانند کہ آں غلط بود کہ حلول عرضی را بود در جوہر یا جسمے را در باطن جسمی مجوف و ایں ہر دو برحق تعالیٰ محال است و اتحاد دو چیز خود مجال است اگرچہ ہر دو محدث باشند زیرا کہ چوں متحد شود از سہ حال خالی نشود یا ہر دو موجود باشند پس متحد نہ اند کہ ہر دو ہستند یا ہر دو معدوم باشند پس ہر دو نیستند با یکے موجود و دیگرے معدوم پس اتحاد نبود پس کمال توحید ایں بود کہ موجود نیست جز یکے نہ آنکہ معبود نیست جز یکے آں نیز درست است لکن ایں بداں مشتمل است و زیادہ ازاں است سوال ہمانا گوی ایں برآں مشتمل است و زیادہ لکن ایں محال آمدہ است و نامعقول چہ آسمان و زمین و کواکب و ملائکہ و شیاطین ہمہ موجود اند پس معنی چہ دارد کہ موجود نیست جز یکے جواب ایں بشنو و بداں کہ اگر روز عید ملکے بصحرا شود با غلامان خویش و ہمہ را اسپ و ساخت و تجمل و علم دھد چنانکہ خود دارد پس کسیکہ ہمہ را بیند گوید ایں ہمہ در توانگری برابر اند و ہمہ تونگرند سخن وی راست نماید در حق کسیکہ از سرکار خبر ندارد و پس کسیکہ از سرکار خبر دارد گوید کہ ایں ملک ایں نعمت را بعاریت بایشاں دادہ است چوں نماز عید بکنند باز خواہد ستد پس اندریں صورت آں غلامان تونگر نیستند بجز ملک و راست بہ حقیقت ایں باشک کہ وے گفت کہ اضافت عاریت با مستعیر مجازی بود و بحقیقت مستعیر ہماں درویش است کہ بود و تونگری بداں مال مستعار زا مستعیر منقطع نشد۔ اکنوں بداں کہ وجود ہمہ چیزھا عاریتی است و از ذات چیزھا نیست بلکہ از حق است و وجود حق ذاتی است نہ از جاے دیگر آمدہ است ہست بحقیقتوے است و دیگر چیزھا ہست نمایست در حق کسیکہ نداند عاریتی است پس آنکہ حقیقت کارہا بشناخت کل شئی ہالک الا وجھہ وے را عیاں گشت ازلاً و ابداً نہ آنکہ وقت مخصوص چنیں باشد۔ بلکہ ہمہ چیزھا در ھمہ وقت ہا از انجا کہ ذات ویست معدوم است و ہستی ویرا از ذات خود نیست بلکہ از ذات حق است پس ایں موجود مجازی بود نہ حقیقی پس ایں سخن کہ موجود نیست جزوی درست باشد پس انگہ لا ہو الا ہو درست بود کہ ہو اشارت بموجود است پس اگر موجودے بود کہ جزوی موجود است موجود نیست جزوے در حق وے درست نیست و اشارت جز بوے راست نیست معنی لا الہ الا ہو اینست کہ اگر کسے فہم نکند معذور است کہ ایں بر اندازہ ہر فہمی نیست مسئلہ پرسیدی کہ معنی سخن کہ اللہ ہو النور چیست و نور آں بود کہ آں را روشنی بود و شعاعے جواب بدانکہ معنی ایں ہم در کتاب چناں پیدا کردہ است کہ ہر کہ تامل کند ایں معنی وے را ظاہر شود و اگر نور جز ایں نور محسوس نبودے کہ شعاعے دارد خدا تعالیٰ قرآن شریف و رسول را نور نگفتے و انزلنا علیکم نورا ً مبینا ہیچ معنی نداشتے و نگفتے اللہ نور السموات والارض پس بدانکہ نور عبارتست از چیزے کہ وے را نہ بینند و پس چیزھاے دیگر را بوے بینند و ایں اضافت با چشم ظاہر است کہ آں را بصر گویند و دل را چشمے است و آں چشم را نوریست با اضافت باوے و ہم چوں نور مبصر است باضافتہ چشم ظاہر و ازیں سبب بود کہ عقل را نور گویند و قرآن را نور گویند و رسول را نور گویند۔ بداں کہ وے را بتواں دید بچشم دل و دیگر چیزہاے بتواں دید و او خود را نیز نہ بیند پس اسم نور بوے اولیٰ تر از انکہ بنور چشم ظاہر کہ قوت ابصار نور را گویند کہ چیز ھا بیند از انکہ وے خود را نہ بیند و عقل خود را نہ بیند و دیگر چیزہا را بیند پس شعاع و روشنی چشم ظاہر دیگر است و روشنی چشم باطن دیگر و قرآن نور است و رسول نور است باضافت با چشم باطن پس چوں روا بود کہ عقل را نور گویند بداں سبب کہ سبب دیدار چیزہا ست آں کہ عقل و دید ازویست و ہمہ چشمہا باطن و ظاہر ازویست و ہر ظہور و نور و دیدار او کہ در عالم است ازویست ایں اسم بروے صادق تر و چوں معنی درست بود و لفظ در کتاب و سنت آمدہ باشد چہ مانع باشد و شرح ایں در کتاب مشکواۃ الانوار تمام تر ازیں گفتہ آمدہ است اعتراض اگر بر لفظ است ایں لفظ در قرآن است کہ اللہ نور السموات والارض و در خبر است کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم را از شب معراج پر سیدند کہ حق را دیدی گفت نور انی آرے و اگر اعتراض بر معنی است چوں شرح آں گفتہ آمد و دراں ہیچ شک نیست اعتراض پس ازیں سخن جہل بود مسئلہ پر سیدی کہ معنی ایں سخن کہ روح آدم غریب است و شوق او بعالم علویست چیست کہ می گویند کہ ایں سخن نصاریٰ و فلاسفہ است جواب بدانکہ لا الہ الا اللہ عیسیٰ رسول اللہ سخن نصاریٰ است ولکن حق است باطل نیست سخن حق بدانکہ مبطلی بگوید باطل نشود و غایت جہل ایں باشد کہ کسے پندارد کہ ہر یک باطل بگفت ہر چہ دیگر بگوید باطل شود اگر چنیں باشد پس مبتدعان و کفار قادر اند بر انکہ بہر چہ حق است اعتراف نمایند مگر بداں یک چیز کہ کافر و مبتدع بدانند و ہمہ حقہا باطل شود لکن طریق عقلا آنست کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ گفت لا تعرف الحق بالرجال اعرف الحق تعرف اہلہ پس ایں سخن کہ روح آدمی غریب است ایں جا و اصل وی از بہشت و کار وی موافقت ملاء اعلی است و قرار گاہ و وطن وی ازاں عالم است کہ وی را بہشت گویند و عالم علوی گویند و ہمہ قرآن و کتاب بریں دلیل است و بدانکہ فلسفی یا نصرانی بدیں قرار دھند باطل نشود ایں از وے آیات و اخبار ظاہر است اما از روے بصیرت ہر کہ حقیقت روح را آدمی بشناخت بدانست کہ خاصیت وی معرفت حضرت الٰہی است و غذاء وے آنست و ہرچہ خاصیت ایں عالمست از ذات با وی غریب است و عارض روا بود کہ بشود و با وے جز معرفت حق تعالیٰ و معرفت حضرت ربوبیت نماند و وے بداں زندہ باشد و باقی و متنعم و شرح و تحقیق آں در کتاب احیا و کیمیا گفتہ آمدہ است ہر کہ خواہد کہ بداند دراں کتب تامل کند و ہر کہ بچشم عناد و تعنت نگرد چوں آں کتب او را شفاندھا ایں مختصر نیز ندھد و زبان حسد و عناد ہر گز منقطع نشود و دل دراں بستن ہیچ معنی ندارد و اگر کسے را طلب حقیقت ایں علم است و از کتب حاصل نمی شود و استقلال فہم آں ندارد بباید آمدن و بباید خواندن فالعلم ما یوخذہ من افواہ الرجال کہ در پنج کتاب ہیچ سخن نہ گفتہ ام کہ نہ بہ برہان قطعی اثبات آں توانم کرد و باہر کسے کہ او فہم دارد و از بیماری حسد و عناد خالی باشد نہ با کسے کہ در حق وی چنیں آمدہ باشد انا جعلنا علیٰ قلوبھم اکنۃً ان یفقھوہ و فی اذانھم و قرا و تدغھم الی الھدی فلن یھتدوا اذا ابدا۔ اما آں چہ درخواستہ است کہ ہر چہ ازیں جنس سخنہا مشکل است شرح کند تا آشکارا شود بدانکہ در ہیچ کتابے سخن نیست الا کہ شرح آں بآں بہم است کسے را کہ فہم کند و ہر کہ بداں فہم نکند جز بدانکہ بباید و بیاموذد و بمشافہ بشنود ہیچ تدبیر ندارد و اعتراض جاہل محصور نبود کہ از کجا خیزد تا ازاں جواب تواں داد کہ اسباب جہل و بیماری دلہا مختلف است و در حصر نیاید دل دراں نباید بست کہ اگر سخنے از اعتراض نگہ توانستے داشت قرآن را نگہ داشتند چوں اعتراض جہال از قرآن قطع نکردند تا صد ہزار اشکال درد دل ہاے جہال بماندہ است کہ علاج نمی پذیرد و در دیگر سخنہا ایں جمع محال بود۔ شعر و من یک نافم مر مریض یجد مراً بہ الماء الز لا لا مسئلہ پرسیدی کہ معنی ایں سخن کہ افشاء سرالربوبیہ کفر است چہ باشد کہ اگر ایں سر راست باشد کفر چرا بود و اگر دروغ بود در سر ربوبیت دروغ چوں بود۔ جواب بدانکہ ایں سخن ابو طالب در قوت القاب حکایت کردہ است از بعضے سلف و من در کتابے پیش ازیں گفتہ ام قال بعض العارفین افشاء سرالربوبیۃ کفر ۔ و معنی ایں سخن آنست کہ در اسرار ربوبیت چیز ہاست کہ بیشتر افہام احتمال آں نکند و بداں سبب شنوندہ طاقت آں حق ندارد و در حق وی باطل بود و معنی ایں سخن کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گفتہ است نحن معاشر الانبیاء امرنا ان نکلم الناس علی قدر عقولھم ایں بود و یک مثال ایں سر قدر است و یکی سر روح و علماء راسخ ہر دو را دانند و نگویند کہ خلق فہم ندارند و بداں نیز در کفر افتد و در خبر است کہ القدر سراللہ فلا تفشوہ و بر مذہب گروہے یک مثال تنزیہ است از جہت ازانکہ چوں ایں سر بگوی کہ خداے بجہت نیست و بعالم متصل نیست و منفصل نیست و داخل عالم نیست و خارج نیست و ہر شش جہت از وی ۱۲ خالی است بیشتر خلق طاقت شنیدن ایں ندارد کافر شوند و گویند کہ چوں چنین است خود نیست کہ ہر چہ بیرون عالم و درون عالم نیست آں معدوم است یا گویند ایں باطل است و نشاید کہ چنیں بود و در تشبیہہ افتذ و ایں یکے از جملہ اسرار آلٰہیست از جملہ تقدیس کہ ہر گز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ رضیٰ اللہ عنہم بدیں صریحی نگفتند با آں کہ دانستند کہ چنین است ایں مثال ایں مسئلہ است بر مذہب گروہے و ہر کہ طریق سلف دارد مثال دیگر نزدیک گروہے آنست کہ گویند نشاید کہ گوئی ہر چہ ما کنیم و گوئیم از ذکر و طاعت کفر و معصیت خدا را ازاں خوش نودی بود یا خشم بلکہ ہر دو نزدیک وے برابر بود کہ ویرانہ خشم است نہ خشنودی پس چرا خویشتن را ما نجہ داریم پس گویند تاویل رضا و غضب نشاید گفتن تا آں کہ معلوم است کہ خداے خشمگین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۲ لکنہ قال اللہ تعالیٰ اینما تولوا فثم وجہ اللہ۔ سید ۱۲ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نشود کہ نقصانے بود و خشم بر کسے روا رود کہ دیگرے بروے چیزے تواند کرد بخلاف مرد وے آں کہ جزوے فاعل نبود خشم چوں گیرد و باکہ گیرد و خشنود کسے شود کہ مراد وے حاصل کنند و ویرا ہیچ غرضے نبود کہ حاصل شدن آں وے را اولیٰ تر بود از ناشدن پس خوش نودی وے محال بود و گفتن ایں خلق خلق را از طاعت باز دارد و در کفر و اباحت افگند و مثال ایں بسیار است و سر قدر نگوئیم نہ سر روح و وجہ ضرر رسیدن بخلق در شنیدن ایں مسئلہ مفہوم تر شود لکن چوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم را دستوری ندادند کہ بیش ازیں گفتن رخصت نیست اما سلیم دل مردے بود کہ پندارد کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت روح بدانستہ باشد کہ ہر کہ حقیقت روح ندانست خدا را ندانستہ باشد یا خداے را دشوار تواند دانست۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حصہ اول اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید متفرق مضامین جلدپانز دھم حصہ دوئم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی باب دوم در آنچہ بوز را توشتہ و آں دوازدہ نامہ است پنج بصاحب شہید نظام الدین فخر الملک و یکے جواب صدر الوازرا احمد بن نظام الملک و سہ بشہاب الاسلام پیش از وزارت و سہ بوزیر شہید مجیر الدین تغمد اللہ بغررانہ و ہر یک ازیں نامہا گنجے است از گنجہاے حکمت و صد فیست مشحون باسرار شریعت۔ نامۂ اول کہ بنظام الدین فخر الملک نوشتہ است مشتمل بر تحذیر و تذکیر اسرار و حقائق شرح و عقل بسم اللہ الرحمن الرحیم امیر و حسام و نظام و ہر چہ بدیں ماند ہمہ خطاب و القابست و از جملہ رسم و انا و اتقیاء امتی براء من التکلف معنی امیر بدانستن و حقیقت او را طلب کردن مہم تر ہر کہ باطن و ظاہر او بمعنی امیری آراستہ است امیر است اگرچہ او را امیر نگویند و ہر کہ ازیں معنی عاطل است امیر نیست اگر ہمہ جہان او را امیر گویند و معنی امیر آں بود کہ امر او بر لشکر او رواں باشد و اول لشکرے کہ در آدمی کردہ اند جنود باطن اوست و ایں جنود اصناف بسیار اند و اما یعلم جنود ربک الا ہو و روساء ایشاں سہ اند یکے شہوت است کہ بقاذ و رات و مستقبحات گر اید و یکے غضب است کہ قتل و ضرب و تہجم فرماید و دیگر کر بزیست کہ بمکر و حیلت و تلبیس فرماید و ایں معانی را اگر از عالم شکل و صورت کسوتے بوشیدندے بسزا یکے خنزیرے بودے و دیگر کلبی و دیگر شیطانی و خلق دو گروہ اند گروہے کہ ایں ہر سہ را مقہور و مسخر کردہ اند و فرمان بر ایشاں رواں کردہ ایں قوم امیران و پادشاہانند و گروہے اند کہ کمر خدمت ایشاں برمیان بستہ اند و شب و روز در طاعت و متابعت ایشاں ایستادہ و ایں قوم اسیرانند و نابینایان ایں عالم باشند کہ امیر و بادشاہ را گدا و مسکین گویند و آں اسیر فرو ماندہ را امیر و وزیر و بادشاہ گویند و اھل بصیر تان ہم چناں شوند کہ سیاہان را کافور گویند و بادیہ مہلک را مفادہ گویند و ازیں تعجب نکنند کہ دانستہ داند کہ ایں عالم عالم التباس و انعکاس است و ایں چہ عجب کہ اصل آفرینش ہر دو عالم کہ یکے عالم حقائق و معانی است و آں را عالم ملکوت گویند و یکے عالم صورت آں را عالم شہادت گویند بنا بر التباس دارد ہر چہ عالم شہادت است نیست ہست نمایست ولاشے در صورت شے و ہر چہ عالم حقیقت است ہست نیست نمایست و ایں باضافت با ایں چشم است کہ خلق ایں را دیدار می دانند بوقت مرگ چوں ایں چشم فرا شود حقیقتے از غشاوہ ایں عالم بیروں آید قصہ قلب افتد ہر چہ را ہست پنداشت ہمہ نیست نماید و ہر چہ را نیست پنداشت خود ہست ہمہ آں بیند گوید بار خدایا ایں چہ حالت است کارہا معکوس گشت خطاب آید کہ فکشقا عنک غطائک فبصر ک الیوم حدید گوید آں ندانستم کہ چنیں بود و گوید ربنا ابصرنا و سمعنا فارجعنا نعمل صالحاً جواب دہند اولم نعمرکم ما یتذکر فیہ من تذکر و جاء کم النذیر فذوقوا فما للظالمین من نصیر گویند در مصحف قدیم نشنیدید کہ گفت کسر آب بقیعۃ یحسب الظمان ماء حتی اذا جاء ہ لم یجدہ شیئا و وجد اللہ عندہ فوقاہ حسابہ و ہمہ نا کسے گوید کہ ہست نیست نمائی و نیست ہست نمائی مفہوم نیست وحقائق معانی بافہام ضعیفہ بمثالے تواں رسیدانید گرد بادے کہ در ہواے ضافی از زمین بر خیزد و بر صورت منارہ مستطیل بہ خویشتن می پیچد کسے در نگرد پندارد کہ خاک خود را مے پیچاند و می جنباند و نہ چنانست کہ با ذرہ خاک ذرہ ہواست کہ محرک اوست لیکن ہوا را نتواں دید خاک را بتواں دید پس خاک در محرکی نیست ہست نمایست و ہوا ہست نیست نمایست کہ خاک را در حرکت جز مسخری و بے چارگی نیست در دست ہوا و سلطنت ہمہ ہموار راست و سلطنت ہوا ناپید است بل مثالے کہ بہ تحقیق نزدیک تر است روح بہ قالب تست کہ روح ہست نیست نمایست کہ کس را بد و راہ بنود و سلطان و قاہر و متصرف وے بود و قالب اسیر بے چارہ است او ہر چہ بیند از قالب بیند و قالب ازاں بے خبر بل کل عالم را با قیوم عالم ہمیں مثالست کہ قیوم عالم ہست نیست نمایست در حق اکثر خلق کہ ہیچ ذرہ را از عالم قوام وجود نیست بخود بل بقیوم اوست و قیوم ہر چیز بضرورت باوے بہم باشد و حقیقت وجود وے را باشد و وجود مقوم از و بر جبیں عاریت بود وہو معکم اینما کنتم ولکن کسیکہ معیت نداند الا معیت جسم با جسم یا معیت عرض با عرض یا معیت عرض یا جسم و ایں ہر سہ در قیوم محال باشد ایں معیت فہم نتواند کرد و معیت قیومیت جسمے را نیست بلکہ معیت بہ حقیقت این است و ایں ہست نیست نمایست کسانیکہ ایں معیت را نشناسد قیوم را بجویند و می باز نیایند و کسانیکہ ایں بشناختند خود را بجویند و می باز نیابند بلکہ ہمہ حق را می بینند و می گویند لیس فی الوجود الا القیوم و بسیار فرق بود میان کسی کہ خود را بجوید و می باز نیابد و میان کسے کہ قیوم را می جوید و می باز نیابد و ایں سخن از اندازہ بلکیت بیرون است اما فرا سر قلم آمد نا ساختہ و ہما نا سبب آنست کہ او را کیاستے ہست زیادت از انکہ ابناے جنس وے را باشد زنہار زنہار کہ بخداے تعالیٰ استعاذت کند از قصور کیاست خویش کہ بیشتر خلق کہ ہلاک شدند از کیاست ناقص شدند و اکثر اہل الجنۃ البلہ و اہل العلیین ذو الالباب و خلق سہ گروہ اند یکے عوام کہ بہ تقلید قناعت کردہ اند و راہ فراتصرف درکار خویش ندانند بلکہ از دیگرے آموذند و اگرچہ بسے رتبہ نیست ایں قوم از اہل نجات اند و یکے ذوالالباب و ایشاں اہل اہل علیین اند و در ہر عصری از ایشاں یکے باشد یا دو بسیار نہ بود و سیوم اہل تصرف اند بکیاست خویش و ایں قوم ہلاک شدگانند طبیب بکمال شفا نزدیک است و مقلدوی چوں تصرف در باقی نہ کند اما نیم طبیب در خون و جان بیماران بود و ہر کہ او فرا تصرف آمد کہ بکیاست ناقص او تصرف می کند ہم نیم طبیب است و سر چنیں زیر کان ابلیس است کہ نوعے زیرکی و تصرف کہ او را مخالف داشت و بقیاس و برہان گفتن مشغول شد و گفت انا خیر منہ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین و حسن بصری رضی اللہ عنہ را پرسیدند کہ ابلیس فقیہہ و زیرک ہست گفت ہست و اگر نبودے زیر کان و فقہا را از راہ نتوانستے برد و علامت اولوالالباب آنست کہ شیطان را بدیشاں ہیچ دست نبود چناں کہ گفت ان عبادی لیس لک علیھم سلطان و ہر کہ او را کسل یا شہوت براں دارد کہ خلاف فرمان حق کند وے شاگرد شیطانست و نایب او فاتخذتموہ عدوا انما یدعوا حزبہ لیکونوا من اصحاب السعیر۔ و اگر سعادت آخرت می خواہی فرمان حق تعالیٰ پیش گیر و مپرس و مجوی و تصرف مکن الا در فرمان حق تعالیٰ اگر دلت قرار نمی گیرد تاشمہ از حقیقت کار ہا بشناشی از کتاب کیمیاء سعادت طلب کن و صحبت کسے اختیار کن کہ وے از دست شیطان برستہ باشد تا ترا نیز برہاند والسلام۔ نامۂ دوم کہ بفخر الملک نوشتہ است در معنی قضا و تحریص کردہ او را بر تقلید قضا کسے را در صلاحیت شایستگی آں دارد بسم اللہ الرحمن الرحیم مجلس عالی بتوفیق آراستہ باد تا درمیان مشغلہدنیا نصیب خویش را فراموش نکند قال اللہ تعالیٰ ولا تنس نصیبک من الدنیا و نصیب ہر کس از دنیا آنست کہ زاد آخرت بر گیرد چہ ہمہ خلق مسافرند بحضرت الٰہیت و دنیا منزلیست بر سر بادیہ آں سفر نہادہ و مثل غافلاں نگرفتہ زاد مثل حاجیانست کہ بہ بغداد رسند و بتماشا مشغول شوند پس یکے پاے در بادیہ نہند بے زاد و اشتر پندارد کہ روے بکعبہ دارد و غلط پندارد کہ روے بہلاک خویش دارد و زاد آخرت تقویست و اساس تقویٰ دو چیز است التعظیم للامر اللہ والشفقۃ علی خلق اللہ و ہر سلطان کہ ریاست و عمل وشحنگی بکسے نا شایستہ دھد دراں چنداں خطر نباشد کہ ولایت قضا بنا شایستہ دھد چہ ریاست و عمل از دنیاست و اگر با اہل دنیا دہند لائق باشد اما چار بالش قضا مقام نبوت است و منصب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ولیحکم بما انزل اللہ ہر کہ مصطفیٰ را دل دل او قدرے ہست در منصب او متشاند الا کسے را کہ در قیامت از و خجل نباشد چوں ایں نگاہ ندارد التعظیم لامر اللہ رفت کہ تعظیم او در تعظیم منصب نبوت است والشفقۃ علی خلق اللہ رفت کہ املاک و دماء و فروج در خطر نہاد کسے کہ چنیں کند چہ پندارد کہ آخرت را چہ بگذاشتہ است چہ از یکے از خطرہاے کار قضا مال ایتام است چوں صاحب تقویٰ نباشد مال ایتام باقطاع دادہ باشد و قد قال اللہ تعالیٰ ان الذین یاکلون اموال الیتامی ظلما انما یاکلون فی بطونہم نارا و سیصلون سعیرا چوں کسے ازیں و عید باک ندارد دیگر کارہا ہم باک ندارد و ایں و عید در قرآن بداں مخصوص نیست کہ ایں می کند بلکہ دو شریک دارد یکے آں دستور مبارک کہ آں را تمکین کند و دیگر از مسلمانان کسے کہ تواند کہ ایں باز نماید و تقصیر کند ہمہ شریک باشند و چوں بکسی متدین تفویض کند دماء و فروج و املاک مسلمانان در حصن حصین کردہ باشد و امروز فلاں کس در حسن سیرت و دیانت بے نظیر است و شایستگی وی ایں شغل را بر صدر وزارت پوشیدہ نیست چہ ناحیہ جرجان امروز بد و زندہ است وراے عالی بدانچہ بیند صوابتر و الخیر بضع اللہ تعالیٰ والسلام۔ نامۂ سویم کہ بصاحب شہید فخر الملک نوشتہ است مشتمل بر زجر وردع بلیغ از ارتکاب محذور و حث و تحریص تمام بر انصاف و معدلت و تخفف مؤن از اہل طوس و حمل بر اقتدار بہ پدر خویش نظام الملک بر سرنامہ نوشتہ بود شربت تلخ با منفعت فرستادہ آمد بخلوت خالی تامل کند و بسمع دین بشنود کہ شربت تلخ با منفعت از دوستان حقیقی رود و شربت شیریں با مضرت از دست دوستان ظاہر و دشمنان حقیقی۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انا واتقیاء امتی براء من التکلف و القاب بہم باز نہادن راہ تکلف و عادتست و سخنے کہ از سر دیانت رود باید کہ از عادت دور بود و در راہ عادت نیز منصبے کہ بکمال رسید از پیوند القاب مستغنی بود و چوں جمال بنہایت رسید مشاطہ پیکار شود و اگر کسے گوید ’’خواجہ امام شافعی‘‘ یا ’’خواجہ امام ابو حنیفہ‘‘ قدحی بود کہ کردہ باشد و کاری بکمال را از جہتہ خویش پیوندے ساختہ بود و الزیادہ علی الکمال نقصان کار تو نیز در خواجگی دنیا بمحلے رسیدہ است کہ با تو گفتن کہ تو چنیں و تو چنانی بے خطاب ہیچ نقصان ندارد آمدیم بخواجھی کار دین کہ بہتر ازیں میباید بدانکہ روز گار فتراتست و آخر زمانست و کارہاے دینی بآخر کشیدہ است اقترب للناس حسابھم و ہم فی غفلۃ معرضون و ہر کسے را در وقت فترت بحصنے حصین حاجت بود و گروہے حصن خویش از خیل و لشکر و شمشیر و تبر ساختند و گروہے از جمع نعمت و مال و دیوار بلند و در آہنین ساختند و گروہے از دوریشان و دعاء مسلمانان ایزد سبحانہ تعالیٰ از حال و برسبق دار عین و قسمین و غیر ایشاں برہانی ساخت بر خطاے فریق اول تا بدانند کہ خیل و لشکر بلاے آسمان را دفع نکند و از حال عمید طوس و غیر او برہانی ساخت بر خطاے فریق دیگر تا بدانند کہ دیوار بلند و در آہنین و جمع نعمت دفع بلا نکند بلکہ سبب بلا گردد تا بذوق ایں معنی از آیت ہاے قرآن بدانند کہ گفت جمع مالا و عددہ یحسب ان مالہ اخلدہ کلا الی اخوالسورہ و ما اغنی عنی مالیہ ہلک عنی سلطانیہ وما یغنی عنہ ما لہ اذا تر دی و از حال حمید خراسان برہانی ساخت برصواب فریق سہیم تا بدانند کہ کاسہ شوربا و قرص جوین کہ بدرویشی رسد آں کند کہ صد ہزار دینار و صد ہزار سوار نکند کارد زدہ و جرأت کردہ را باطل کند تا خلائق را معلوم شود کہ لشکر از سہام اللیل باید ساخت نہ از سہام الخیل و بدیں معجزہ صدق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بدانند کہ گفت الدعا یرد البلاء و گفت الدعاء والبلاء یتعالجان فرزند نجیب آن بود کہ چہار بالش و دولت خویش بچا کر خویش تسلیم کند آں پدر شہید تو قدس سرہ و دفقک الاقتدا بہ چوں شنیدی کہ صاحب کرمان خیرات کند ہفت اندام او بلرزہ آمدی نہ ازانکہ خیرات را کارہ بودے لکن گفتے کہ نباید کہ از مشرق تا مغرب کسے بود کہ در خیرات او برمن سبقت گیرد و فی ذالک فلیتنافس المتنافسون حسد در ہمہ چیزہاے حرامست مگر در دین کہ واجبست قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا حسد الا فی اثنین رجل اتاہ اللہ ما لا فھو ینفقہ فی سبیل اللہ و رجل اتاہ اللہ علما فہو یعمل و یدعوا الخلق الیہ بہ حقیقت بدانکہ ایں شہر از قحط ظلم ویران بود و تاخیر تو از اسفر این و دامغان بود ہمہ ہی ترسیدند دہقانان از بیم غلہ میفروختند و ظالمان از مظلومان عذر می خواستند اکنوں کہ اینجا رسیدی ہمہ ہراس و خوف برخاست و دھقانان و خبازان بند برغلہ دوکان نہادند و ظالمان دلیر گشتند و دست فرا دزدی و مکابرہ بشب چند دکان و سراے قصد کردند و تہمت کالاے عمید عمدہ خویش ساختند و مردمان زاہد مصلح بے جرم را بہ تہمت زدن گرفت اگر کسے کار ایں شہر بخلاف ایں حکایات می کند دشمن دین تست رعیت را دریاب لابل کار خویش را دریاب و برسرے خویش رحمت کن و خلق خدا ضائع مگزار و از یا رب درویشان کہ شب و روز میکنند بترس اگر ایں کار بجہد تو باصلاح آید و اگر باز نیاید بدیں ماتم و معصیت بنشیں کہ خداے تعالیٰ میگوید خلقت الخیر و خلقت لہ یدا فطوبیٰ لمن خلقۃ للخیر و تشرت الخیر علی یدیہ ویل لمن خلقۃ للشر و نشرت الشر علی یدیہ علاج ایں چنیں مصیبت آب چشم بود نہ آب انگور ہمہ دوستداران بدر نظامی بدیں مصیبت خویش بے خبر باشند و بنشاط مشغول و بدانکہ دعاے مردمان طوس بہ نیکی و بدی مجرب است و عمید را ایں نصیحت بسیار کردم نپذیرفت تا حال وے عبرت ہمہ گشت۔ وما ظالم الا وببلی بظالم۔ ثم ینتقم اللہ منہما جمیعا و بہ حقیقت بدانکہ ہیچ خداوند مال و ولایت نیست کہ نہ ویرا ہمیں فرا پیش است قطعاً و یقیناً کہ ہر کہ دل خویش در عشق مال و ولایت بسوخت بضرورت در فراق آں بسوزد لکن ایں برسہ درجہ بود یکے درجہ سعد او و ایں آں بود کہ مال و ولایت باختیار خویش بیفگند وبا مظالم دہد و بصدقہ دھد و ایں توبہ و تفرقہ اگرچہ باختیار بود دل وے را بسوزد ولکن بسازد و منہم سابق بالخیرات ایں بود و دوم درجہ آں بود کہ کسے را بروے مسلط کنند تا بقہر از وی بستاند و ایں از وجہے نکال و عقوبت بود و ازوجہے کفارت و طہارت و منہم مقتصد ایں بود و سوم درجہ اشقیا است کہ مال در دنیا از و جدا نکنند نہ بقہر نہ باختیار و کار بآخر بملک الموت فگنند والعیاذ باللہ و ایں از ہمہ عظیم تر بود و لعذاب الاخرۃ اکبر لو کانوا یعلمون فمنھم ظالم لنفسہ ایں بود و من عجلت عقوبتہ فی الدنیا فھو سعید جہد کن تا از سابقان باشی بخیرات کہ آں دو درجہ دیگر درجہ شقا و تست و از سہ شربت چشیدن یکے ضرورت است قطعاً و یقیناً بشنو ایں سخنہاے تلخ با منفعت از کسیکہ او طمعگاہ خویش را بہمہ سلاطین وداع گردہ است تا ایں سخن می بتواند گفت و قدر ایں سخن بشناس کہ نہ ہمانا از کسے دیگر شنوی بدانکہ ہر کس کہ جز ایں میگوید با تو طمع وی حجابست میان او و میان کلمۃ الحق و بحق خداے و بحق آں پدر شہید بر تو کہ امشب درمیان آنکہ خلق خفتہ باشد برخیز و جامہ پاک درپوش و طہارتے کن و پاکیزہ جای خالی طلب کن و دو رکعت نماز بکن و روے بر زمین نہ پس از سلام بتضرع و زاری و گریستن از ایزد تعالیٰ در خواہ تا راہ سعادت بر تو کشادہ کند و دراں سجود بگو یا ملکا لا یزول ملکہ ارحم ملکا قارب الزوال ملکہ وایقظہ من غفلۃ و وقفہ لا صلاح رعیتہ انگہ پس ازیں دعا یک ساعت اندیشہ درکار رعیت کن دریں قحط و ظلم تا بہ بینی کہ راہ مصالح چوں کشادہ شود و مدد خیر آں چوں پیوستہ گردد والسلام۔ نامۂ چہارم کہ بفخر الملک نوشتہ در حق امام شہید ابراہیم مبارک بسم اللہ الرحمن الرحیم مجلس عالی نظامی بضیاء سعادت و سیادت اخروی آراستہ باد و آں دل عزیز بضیاء انوار الٰہی منور آں ضیاے و نوری کہ سبب انشراح صدور بود چنانکہ خداے تعالیٰ گفت فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ للاسلام افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علی نور من ربہ و آں نور و ضیا چوں پیدا شد علامت آں بود کہ چوں در دنیا نگہ کند ہمہ خلق از وے ظاہر آراستہ بیند و وی باطن آلودہ بیند و چوں در عمر نگہ کند ہمہ خلق از و طراوۃ ہدایت بیند و وی خطر و حسرت آخرت بیند و چوں در مرگ نگہ کند ہمہ خلق آں را و عدو نسیہ دانند و وے آں را نقد وقت بیند و یعلم ان ما ہوات قریب و ان الموت اقرب الی کل احد من شراک نعلہ و چوں در امثال و اقران خویش نگاہ کند مسرح نظر ہمگناں انواع توقع و تمتع ایشاں بود و مطمع نظر و ہمت وے انواع تفجع بود از خوف خاتمت و باخوشتین میگوید افرایت ان متعناہم سنین ثم جاء ہم ما کانوا یوعدون ما اغنے عنھم ما کانوا یمتعون و اگر صدر وزارت را ایں نور و ضیا ارزانی دراند علامت آن بود کہ از دل خود لوحے سازد و عاقبت و خاتمت کار وزراے کہ در عمر خود یاد دارد در آں لوح نقش کند و مطالعہ آں بکند نظام الملک تاج الملک فخر الملک اولم یروکم اھلکنا قیلھم من القرون یمشون فی مساکنہم ان فی ذالک لا یات لاؤلی النھیٰ الم نہلک الاولین ثم نتبعھم الاٰخرین و قال علیہ الصلوٰۃ والسلام ایہا الناس کان الموت علی غیر ما کتب و کان الحق فیہا علیٰ غیر و وجب و کان الذین نشیعم من الاموات سفر عما قلیل الینا راجعون نبوئہم اجداسم و تاکل تارثہم کانا مخلدون بعد ہم قد نسیا کل واعظ و اتھمنا کل صایحۃ ہر یکے از وزراء از خاتمت کار آں دیگر غافل بودند ہمہ علت و ولایت کار وے دیدند و ایں قدر ندانستند کہ ضعیف کارے بود بکاروے تباہ شود مثل الذین اتخذوا من دون اللہ اولیاء کمثل العنکبوت اتخذت بیتا الاٰیۃ ایزد سبحانہ تعالیٰ صدر وزارت را بضیاء ایں نور آراستہ دارد تا از کارھا سر و حقیقت ببیند نہ ظاہر و صورت و مبداء و منبع ایں نور دو خصلت است عدل و عدالت۔ عدالت آں بود کہ در بندگی خداے تعالیٰ چناں باشی کہ خواہد کہ بندگان وے باشند در خدمت او و عدل آں بود کہ با خلق آں کند کہ اگر او رعیت باشد دیگرے صاحب ولایت پسندد کہ باوے آں کند و ایں دو کلمہ را قبلہ خویش سازد و در ہر معاملہ کہ پیش آید باخلق و باخالق با ایں دو اصل رجوع کند و سلطان عادل کہ مخدوم است بدیں دو کلمہ مختصر دعوت می کند و نگذارد کہ حال خرابی ولایتہا از نظر میمون او پوشیدہ دارند کہ در قیامت بدیں مداہنہ ماخوذ باشد و ہر چند کہ راہ انقباس در مخالطت و مکاتبت پیش گرفتہ ام الا بقدر ضرورت ایں حرفہا نوشتہ آمد بر سبیل تہنیت وزارت و آنہاء آسایش اہل دین بدیں نعمت و بر چیزے دیگر نیئز تنبیہہ کردہ می آید تہنیت از تحف خالی نبود انما تحفۃ العلماء بعد وظیفہ الدعاء الا رشاد الیٰ مصالح العباد شہر گرگاں مدتے بود تا نہ عالمے عامل خالی بود کہ وجود او اقتدا را شابد اکنوں کہ ناصح المسلمین ابراہیم مبارک باوطن خویش معاودت کرد و آں ناحیہ بعلم و ورع وے زندہ شد و فواید او در تذکیر و تدریس منتشر شد و اہل سنت را بتازگی حیواتے و انتعاشے حاصل آمد و آں خواجہ قریب بست سال در صحبت من بودہ است بطوس و نیشا پور و بغداد و در سفر شام و سفر حجاز و زیادہ از ہزار کس از طلبہ علم بر من گذر کردہ اند نظیر وے در جمع میان و نور علم و صدق و ورع و تقویٰ کمتر دیدہ ام و در ہر شہر کہ چوں او عالمی باشد آں شہر آبادان بود وے را از اعداء دین متعنتان پیدا آمدہ اند و ممکن باشد کہ بنوعے از حیلہ و تلبیس توسلے سازند و التماس کنند کہ وہنے بکار او راہ یا بد فرض دین صدر وزارت آنستہ کہ وے را در کنف حمایت و عنایت خود دارد و دعاء وے ذخیر قیامت سازد و ہر چہ بتمشیت و تربیت کار او باز گردد مبذول دارد ایزد تعالیٰ ہدایت کار و نہایت کار وے بسعادت دینی و دنیوی آراستہ دارد و آفات و نوائب روز گار از حواشی آں مجلس مصروف یمنہ وفضلہ والسلام۔ نامۂ پنجم کہ بفخر الملک نوشتہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان للہ عباداً اختصہم باالنعم لمنافع العباد فاد و ھا فہم و کلاء الرحمن طوبی لھم و حسن ماٰب مطلوب ایزد عزو علیٰ از افاضہ نعمت بر اشقیاء مکر و استدرا جیست چناں کہ گفت سنستدر جہم من حیث لا یعلمون واملی لھم ان کیدی متین و ہیچکس کائناً من کان از اہل نعمت ازیں دو حال بیرون نہ اند انا ہدیناہ السبیل اما شاکرا و اما کفورا اما شکر نعمت و ولایت و تائید از و نصرت دنیا و آخرت افاضہ عدل است و اقامت حق و اماتت ظلم و اظہار عطیت و رحمت و شفقت بر رعیت و بدیں فرمودند انبیاء را علیہ الصلواۃ والسلام یا داؤد انا جعلناک خلیفۃ فی الارض الایۃ و علامت کسیکہ مقصود از نعمت دنیا در حق او شقا و تست آنست کہ ہر چند رفعت و نصرف و دولت و نعمت بیشتر بیند تمادی بر بے شفقتی و بے رحمی بر خلق بیشتر بود و قرآن مجید فراوی میگوید الم نھلک الاولین ثم نتبعھم الاخرین کذالک نفعل بالمجرمین۔ چندانی غفلت و کفران نعمت در سینہ او متراکم شدہ باشد کہ با خویشتن میگوید وما اظن ان تبید ہذہ ابداً و نشان کسیکہ مقصود از نعمت دنیا در حق وی سعادت بود آنست کہ او را توفیق در احسان با خلق خداے تعالیٰ و چندانی کمال عقل و رزانت دین و دیانت دھند وے را کہ ہر کجا ادعیہ فاسدہ و اطماع کاذبہ بود و مادہ ظلم و غبار حوادث ہمہ بدست شفقت و رحمت از مرکز عالم بردارد و شوایب بدعت از اکناف دین و دنیا دفع کند ہر چند درجہ او مترقی تر میشود او بر خلق خداے رحیم تر و مشفق تر میگردد تا اینجا رسد کہ عزت ایں سرای بسعادت آں سراے پیوندد و ایں خلعت یابد کہ عطاء غیر مجذوذ و ایں مثوبت و عطیت مدخراست مجلس سامی اجل را لازال سامیاً والسلام۔ نامہاے وزراء و نامہ حجۃ الاسلام کہ نوشتہ است در جواب صدر الوزراء احمد بن نظام الملک وزیر عراق رحمہم اللہ کہ وے در آخر عہد حجۃ الاسلام اکرمہ اللہ برضوانہ مثالی فرستادہ بود برانواع تبجیل و اعزاز و اکرام و مبالغہا کردہ چنانکہ نوشتہ آید انشا اللہ تعالیٰ بوزیر خراسان صدر الدین محمد بن فخر الملک و ویرا فرمودہ تا وی مثالی دیگر بآں ضم کند و نزدیک حجۃ الاسلام فرستد در معنی تدریس بغداد تا وی بزودی ایں مہم دین را منتہض شود از موافق تقدس نبوی مستظہر انار اللہ برہانہ صدر الوزراء بریں معنی تحریص نمودہ بودند و حجۃ الاسلام را بدین مجد بزرگ کہ خلافت صاحب شرع است تخصیص و تعین کردہ چوں مثالہا بہ حجۃ الاسلام رسید مزین بانواع تبجیل و اکرام و نشر مناقب وی موشح بتوقیعات وزراء و سلاطین مکرم بذکر انتظار و نہادن چشم ائمہ عراق و بغداد و لشکر عراق و امام مقدس نبوی مستظہری قدوم وے را ہر ساعت حجۃ الاسلام گت ما را وقت سفر فراقست نہ سفر عراق و جواب نامہ باز نوشت و عذر امتناع از قبول باز نمود نامہ غریب مشتمل بر انواع وعظ و تذکیر و انذار و تحذیر کالہ در یتیم اذا لخاطر بمثلہ عقیم۔ نامۂ وزیر عراق بوزیر خراسان بسم اللہ الرحمن الرحیم زندگانی خواجہ اجل سید صدر الدین نظام الاسلام ظہر الدولت نصیر الملۃ و بہاء الامۃ قوام الملک شمس الوزراء در عز و نعمت و سعادت و رفعت و بسطت و رضاء ایزد تعالیٰ دراز باد معلوم راے کریم است کہ نیکو ترین توفیقے و بزرگ ترین غنیمتے کہ یافتہ شود تازہ گردانیدن آثار اسلاف رضوان اللہ علیہم اجمعین است و احیاء معالم خیرات ایشاں و رفتن بر صورتہاء نیکو کہ نہادہ باشند از احکام و دواعی دین و صلاح کہ جملہ مسلمانان را شامل بود خاصہ ایں مکرمت کہ بتمہید قواعد دین تشئید ارکان اسلام و طراوت علم شرع باز گردد و غایت منقبت آں دو جہان را حاصل و مدخر شود و پوشیدہ نیست کہ مدرسہ نظامی قدس اللہ روحہ آں را ابتنا فرمودہ است در مقر خلافت منعظم و جوار زعامت مقدس چناں جاے است کہ معدن علم دین و منبع فضل و موضع تدریس و ماواے آئمہ و علماء و مقصد مستفیدان و طلبہ علم است و اگرچہ آثار خداوند شہید برد اللہ ضریحہ در جہان منتشر است اما ہیچ ماثرے بموضع تر ازاں نیست بحکم مجاورت سراے عزیز مقدس نبوی ضاعف اللہ جلالہ و تا جہان باشد ایں خیر مخلد خواہد بود و ایں منقبت موبد برما و جملہ اہل البیت فریضہ است در تاسیس مبانی ایں مجد مبالغہ نمودن ودر نظر کار و حفظ نظام آں بہر غاینے رسیدن۔ و بر صدر الدین ایدنا اللہ ببقائہ معین تراست در مدادن بہر چہ ایں بقعہ مقدسہ پیوندد واہزار صادق نمودن ازانچہ او مادر ایں خاندان را قرۃ العین است و از دو ایں وجہ فرخندہ شاخے قویست و در بث خیرات و نیل مکرمات بسلف صالح مقتدی و معلوم است کہ مقدم ترین اسبابے کہ مدرسہ را بداں حاجت است مدرس با علم و فضل و استعداد آلات افادہ و اضافہ علمست۔ و ہر چہ ہست از دیگر اسباب فرع باشد و مدرس اصل۔ و طراوت علم و تیزی بازار درس بدوست و چوں مدرسہ از مدرس خالی ماند در فواید در بستہ شود و ہر عدتے و آلاتے و اسبابے کہ بمدرسہ بود اگرچہ بسیار بود عاطل گردد و تا ایں غایت از بودن کا امام ہراسی و طبری رحمۃ اللہ کار ایں مدرسہ با نظام تمام بود و درسی متواتر میرفت چنانکہ بسیار مستفیدان از وے بدرجہ افادہ رسیدہ اند و فقہاء مناظر فراخاستہ و علم را بازاری روان و رونقے وافر پدید آمدہ و درمیان چشم زدگی افتاد چنانکہ شخصے ناگاہ ربودہ باشد و برحمت ایزد عز ذکرہ رسیدہ و آں قاعدہ واہی گشت و بازار افادہ و استفادہ بشکست و در عراق کسے نماندہ است کہ بجاے آں سعید رحمۃ اللہ بتواند نشست و براں منوال درس گفتن و افاضہ علم کردن و بحکم آنکہ ما را برخاطر ہیچ مہمی نبود برابر آنکہ تدارک ایں کردہ شود و نیز از سراے عزیز مقدس نبوی ظاہر اللہ انوارہ ذریعت نمودند و تدبیر آں را مبالغہا فرمودند و ایں خطاب صادر شد تا صدر الدین اطال اللہ بقایہ بہ تحفظ ایں خیر جز بخواجہ امام اجل زین الدین حجۃ الاسلام فرید الزمان ابو حامد محمد بن محمد بن الغزالی ادام اللہ تمکنہ اہتمام نگیرد زانچہ او یگانہ جہان و قدوہ عالم و انگشت نمایٔ روزگار است او در زمرہ آئمہ دین تقدم و زعامت او را مسلم است و ہمہ زبانہا بدیں اوصاف کہ ا ز وے نشر افتاد متفق است و از موافق مقدس نبوی امامی ظاہر اللہ جلالہا ایں منصب بد و مفوض شدہ و بروے تنصیص کردہ آمد و بروے مخطور و محرم گردانیدہ آمد کہ از مبادرت بدیں صوب و تصدی ایں شغل و اعتناق خیر ہیچ امتناع ننمایند یا عذرے پیش گیر و توقع چنانست از جانب کریم صدری ادام اللہ علوہ کہ ہیچ مہم را بدیں قویم ندارند و در حال حجۃ الاسلام را حاضر آرند و ایں شرح معلوم او کنند تا ساز آمدن کند بے ہیچ توقفے چہ ایں بقعہ مبارک کہ معطل ماندہ است و مستفیدان منتظر استدرار فواید او اند و فقہا و اصحاب مدرسہ و فقہم اللہ جز متابعت او را تن نمیدہند و فرمان اشرف نبوی لازال جلالہ کہ امتثال آں فرض واجب و حتم لازم است باستدعا او متواتر شدہ است و وقت تانی نمی دہد و اگر چناں باشد کہ حجۃ الاسلام ادام تمکینہ عذرے آرد یا امتناعی نماید از وی قبول نکنند و بداں ہم داستان نشوند و او را تکلیف کنند و عذرات او ازاحت فرمایند از خویشتن از وجہی کہ در نامہ موید الدین معین الملک ادام اللہ تائیدہ تعین افتادہ است و اسباب آمدن او راست کنند و ہر چہ زود تر او را گسیل کنند یعنی روانہ سازند با صحبت مامون چہ انتظار رسیدن او را ساعت شمردہ می آید تا ایں بیرونقی کہ پدید آمد است از فقد مدرس بر خیزد بمکان حجۃ الاسلام ادام اللہ تائیدہ واں رونق تازہ گردد و ایں منقبت طراوت تمام پزیرد و ہیچ امری کہ نمایند در احیا سنتہ سلف صالح و سپردن طریق ایشاں و ربط ایشاں بخیر بر آید ترتیب ایں کار بدیں جملہ کہ یاد کردہ آمد بشناسند و بزودے از کنہ حال اعلام فرمایند تا بداں اعتماد افتد و رای الشیخ الاجل السید صدر الدین نظام الاسلام شمس الوزراء ادام اللہ تمکینہ یرمی و یحقق ہذہ الجملۃ و نبلھا امضیٰ انشاء اللہ تعالیٰ جدہ۔ توقیع وزیر عراق احوال مدرسہ بغداد و رنجی کہ خداوند شہید قدس اللہ روحہ، در آں بردہ است پوشیدہ نباشد و دل عزیز او مصروف بودے در ترتیب آں فرمودن از جہت آنکہ در جوار سراے عزیز نبوی امامی است و تا ایں غایتہ رونقی داشت بمکان متوفی نور اللہ ضریحہ اکنوں خلل راہ یافست بفقد وے و برما جملہ متعین است ایں اندیشہ داشتن و مجدے را کہ آں خداوند شہید انار اللہ برہانہ فرمودہ است ترتیب آں کردن و جملہ آئمہ عراق و فقہا چشم نہادہ اند و طمع می دارند کہ زین الدین حجۃ الاسلام حرکتہ کند و ایں مدرسہ را بمکان خویش بیار اید باید کہ از جہت صدر الدین اہتزازے باشد و مبالغہ رود و ایں بزرگ را نزدیک خویش حاضر فرماید کردن و الزام کردن در آمدن و رضا ندادن کہ تقصیر کند از جملہ مہمات باید دانستن ۔ والسلام۔ نسخۃ الکتاب الذی کتبہ نظام الدین احمد ابن الصاحب الشہید نظام الملک اسحاق ابن علی ابن اسحاق الی الامام حجۃ الاسلام یدعاہ فیہ الی تدریس النظامیہ ببغداد ذللک بعد وفات الامام کیا ہراس رحمہ اللہ۔ نامۂ وزیر عراق بنام حجۃ الاسلام بسم اللہ الرحمن الرحیم خواجہ امام حجۃ الاسلام اطال اللہ تعالیٰ بقاہ بداند کہ عرفان قدر نعمتہای ایزدی عز ذکرہ و اداء شکر آں برہمہ روزگار واجب است و استدامتہ فیض آں جز شکر نتواں کردن چناں کہ ایزد تعالیٰ در محکم تنزیل یاد کردہ است لئن شکرتم لا زیدنکم و چوں از نعمتہا کہ حق تعالیٰ در حق بندگان خویش کند واز موھبتہا کہ ارزانی دارد ہیچ چیز شریف تر و بزرگوار تر از علم نیست چناں کہ ایزد عالیٰ می گوید یوتی الحکمۃ من یشاء الایۃ آں کس را کہ بدیں کرامت مخصوص گردانیدہ باشند و بہ پیرایہ علم آراستہ گشتہ متعین بود بر او شکر گزاردن و شکر آں نیست مگر افادہ مستفیدان و افاضہ علم بر سر مسلمانان ایزد تعالیٰ حجۃ الاسلام را بہرہ وافر ترین دادہ است و بمزیتہ ایں فضل موسوم گردانیدہ و او را در علم کہ بزرگ ترین منقبتہا است بدرجہ رسانیدہ است کہ قدوہ جہان ویگانہ وقت و قایم روزگار شدہ است و ہم چناں گہ بدیں ماثر عدیم المثل منقطع النظیر است بروے متعین باشد اوقات خویش را مقصود گردانیدن بر تزکیہ آں و آں زکواۃ جز نشر علم و ارشاد متعلمان نیست و ہر چند ایام وے بدیں خیر آراستہ بودہ است و ہر کجا کہ او باشد و مسلمانان از فواید و برکات انفاس او خالی نباشد اما معلوم ہست کہ ہم چناں کہ او فرید زمانہ است مقام و ما وے و مسکن وے مقدم ترین و بزرگ ترین دنیا را اسلام باید کہ باشد کہ تا مقصود جملہ متعلمان روے زمین گردد و در واسطہ بلاد مسلمانان قرار گیرد و آں بغداد است و ایں اندیشہ مدتہاست تا کردہ شدہ است و بصواب مقرون و موصول اگر ایں التماس با جابت مشفوع گردانند بروں ازانکہ در فضیلت و مزید مثوبت کوشیدہ باشند خوش نودی و مراضی ایں جانب نیز جستہ باشندہ و ایں نہضت و حرکت و موجب ثواب جزیل و ممامدو ثناء جمیل گردد انشاء اللہ تعالیٰ۔ نامہ بنام صدر الوزراء جواب عن الامام حجۃ الاسلام روح اللہ روحہ فی دار السلام بسم اللہ الرحمن الرحیم قال اللہ الکل وجہۃ ہو مولیھا فاستبقو الخیرات حق تعالیٰ می گوید ہیچ آدمی نیست مگر روی بکاری دارد کہ آں مقصد و قبلہ ویست فاستبقو الخیرات شمار وے بداں آورید کہ بہترین است و اندراں مسارعت و مسابقت نمایند پس خلق در خیرے کہ قبلہ خویش ساختند سہ قسم شدند۔ یکے عوام کہ اہل غفلت بودند۔ دیگر خواص کہ اہل کیاست بودند۔ سیوم خواص خواص کہ اہل بصیرت بودند اما اہل غفلت نظر ایشاں بر خیرات عاجل مقصور بود چناں پنداشتند کہ نعیم بزرگترین نعیم دنیا است کہ ثمرہ آں منبع جاہ و مال است و روے بدیں دو منبع آوردند و ہر دو را قوۃ العیون پنداشتند و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چنیں گفت ما ذئبان ضاریان ارسلافی ذریہ غنم باکثر فسادا فیھا من حب الشرف والمال فی دین المرء المسلم پس آں غافل گرگ را از صید باز نداشتند و قرۃ العین از سخنتہ العین باز نشناختند و راہ نگونساری اختیار کردند و رفعت پنداشتند و از نگونساری ایشاں بود کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدیں عبارت گفت تعس عبدالدینار تعس عبدالدرھم تعس ولا انتعش و اذا شیک فلا انتقش پس خواص اہل کیاست دنیا را بآخرت نسبت کردند و ترجیح آخرت را متفطن شدند و ایں آیۃ ایشاں را مکشوف شد والاخرۃ خیر و ابقی و بس کیاستے نباید تا کسے بداند کہ ابدے از منقضی فانی بہتر پس رویٔ از دنیا بتافتند و آخرت را قبلۂ خود ساختند و ایں قوم نیز بہتر مطلق طلب نکردند و لکن بہ بہتر از دنیا چیزے قناعت کردند اما خواص خواص کہ اہل بصیرت بودند بشناختند کہ ہر چہ در ازاے آں چیزیست آں چیز مطلق نیست و ہرچہ فوق آں ہست از جملہ آفلانست والعاقل لا یحب الافلین پس بدیدند کہ دنیا و آخرت ہر دو آفریدہ است و مطعم و منکح است کہ بہایم را دراں شرکت است و بادشاہ و آفریدگار دنیا و آخرت از دو بہتر است و ایں کلمہ ایشاں را مکشوف شد کہ واللہ خیر و ابقیٰ و آں مقام کہ فی مقعد صدق عند ملیک مقتدرا اختیار کردند برآں مقام کہ ان اصحاب الجنۃ الیوم فی شغل فاکھون ۔ بل ایں قوم را حقیقت لا الہ الا اللہ مکشوف شد و بدانستند کہ ہر چہ آدمی در بند آنست بندۂ آنست و آں چیز اللہ و معبود ویست و ازیں گفت سید صلی اللہ علیہ وسلم تعس عبدالدرھم۔ پس ہر کرا جز حق تعالیٰ مقصوذیست توحید وے تمام نیست و از شرک خفی خالی نیست پس ایں قوم ہر چہ در وجود بود دو قسم متقابل نہادند اللہ و ما سواہ و ازیں دو کفہ متعادل ساختند گلفتی المیزان از دل خود لسان المیزان ساختند چوں دل خود را بطوع وے بکفۂ بہترین مائل دیدند حکم کردند کہ قد ثقلت کفۃ الحسنات و چوں از وی مایل دیدند حکم کردند کہ قد ثقلت کفۃ السیات و دانستند کہ ہر کہ بریں ترازو برنیاید تر از وے قیامت برنیاید و چنانکہ طبقہ اول در حق طبقہ دوم عوام بودند طبقہ دوم در حق طبقہ سوم عوام بودند سخن ایشاں فہم نکردند و ندانستند کہ النظر الی وجہہ اللہ بہ حقیقت خود چہ باشد اگرچہ بزبان ہمی گفتند چوں صدر الوزراء یبلغہ اللہ اعلی المقامات مرا از جاے نازل تر بجاے رفیع تر میخواند من او را نیز از اسفل السافلین یا علی علیین میخوانم و اسفل السافلین مقام گروہ اول است و اعلی العلیین مقام گروہ سیوم و قد قال الرسول علیہ الصلواۃ والسلام من احسن الیکم فکافیئوہ چوں ازاں جانب عاجز آمدم ازیں مکافات و مجازات چارہ نیافتم پسیج آں کند تا بزودی از درجہ عام ببقاع درجہ خواص انتقال کند کہ از طوس و ببغداد و از جملہ عالم بحق تعالیٰ یکے است بعضے نزدیکتر نیست و بعضی دور تر وراہ ازیں مقام بحق تعالیٰ برابر ہست و بحقیقت بداند کہ اگر یک فرض از فرائض دین بگزارد یا یک کبیرہ از مخطورات شرع ارتکاب کند یا یک شب آسودہ بخسپد یا در ہمہ ولایت او یک مظلوم رنجور ماند درجہ جز حضیض مقام او نیست و از جملہ اہل غفلت است اولیئک ہم الغافلون لا جرم انھم فی الآخرۃ ہم الخاسرون اسال اللہ ان یوقظہ من نوم الغفلۃ لینظر فی یومہ لغدہ قبل ان یخرج الامر من یدہ آمدیم بحدیث مدرسہ بغداد و عذر تقاعد از امتثال اشارت صدر وزارت و عذر آنست کہ از عاج وطن میسر نشود الا در طلب زیادت دین یا زیادت دنیا اما زیادت دنیا و اقبال طلب آں الحمد للہ از پیش برخاستہ است کہ اگر بغداد بطوس آورند بسے حرکتے ازینجانب و بملک و ملک مہنا و صافے دارند اگر دل بداں التفات کند مصیبت ضعف بود کہ آں التفات نتیجہ آں بود کہ وقت را منقضی کند و پرواے ہمہ کار ھا بہ برد اما زیادت دینی بعمری استحقاق حرکت و طلب دارد و شک نیست کہ افاضہ علم ازانجا میسر تر و اسباب ساختہ تر و زحمت طلبہ آنجا بیشتر لکن در مقابلہ ایں زیادت اعذار است ہم دینی کہ بخلل میشود کہ آں زیادت ایں نقصان را جبر نکند یکے آں کہ ایں جا قریب صد و پنجاہ مرد محصل و متورع حاضر اند و بہ استفادہ مشغول و Page No. 290 & 291 are missing from the book in printing i.e. due to the publisher's mistake not binded with the book or not printed in the book. the book has been completed upto page no.289 and the next page starts from page no. 292 of the printed book. الابہ محبت حق تعالیٰ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب و ہر چہ نہ بذکر حق تعالیٰ زندہ است دل وی مردہ است ان فی ذالک لذکری لمن کان لہ قلب و نہ ہر کسے از دل خبردارد و یا غذا و سم وی بشناسد و ان اللہ یحول بین المرء قلبہ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا تجالسوا الموتی قیبل ومن ہم یا رسول اللہ قال الاغنیاء و نہ غنی عبارتست از کسے کہ مال دارد بلکہ از کسیکہ دل دی ہمہ مال دارد و آں کسی بود کہ خوداز مداوات مرض قلب خود دریغ دارد و از مقصود مداوات بصدقہ مال نہ عین مال ہست بلکہ بداں و سیاست در حمایت طبیبے شود کہ علاج دل شناسد و مریض نباشد و چنیں طبیب در چنیں عصر عزیز شدہ است و فلاں کس از اطباء وے است و از جملہ ارباب القلوب است و اعلیٰ مقامات دل درجہ توحید است نہ بزبان لکن بمعرفت و حالت وی اندریں معنی صاحب معرفت و صاحب حالت است والکامل الذی لا یطفی نور معرفتہ ولا نور ورعہ و وی بدیں صفت است و سبب ضرورت حال و کثر عیال حرکتے کردہ است و ویرا براں مجلس بزرگ دلالت کردہ ام و یکی از اسرار حق تعالیٰ در تسلیط حاجت و فقر بر اولیاء خویش آست تا ایشاں را بزمام حاجت نزدیک اغنیا کشد و اغنیا را بہ برکت مشاہدہ در فراغ ایشاں بدرجات سعادت برساند واللہ لطیف بعبادہ از عین فقر بوتۂ سازد تا اولیاء خویش را بآتش مذلت بسوذد و از ہمہ آلایشہا پاک کند و از سوال ایشاں لطیف سازد تا اغنیا را بداں تلطف بحمایت ایشاں کشد و در کنف شفاعت ایشاں بسعادت رساند لائق باقبال مجلس سامی آں است کہ بفراغ دل او قیام کند و در خلوت سخن وی بشنود کہ نفع ایں بزرگ بود و برکات آں وافر والسلام۔ Page no. 289 and 292 are printed duplicate. Therefore these pages are not written in duplicate now. And the next page No. 293 is written in this text. نامۂ دویم کہ شہاب الاسلام نوشتہ در حق کسی بعنایت بسم اللہ الرحمن الرحیم اسال اللہ تعالیٰ ان یخص المجلس السامی بتمام النعمۃ و دوام النعمۃ و الشکر علی النعمۃ و معرفۃ حقیقۃ النعمۃ و تمام النعمۃ ان یکون ہو بعد ہذہ الحیوٰۃ فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر فان استمرت ہذہ الحالۃ فھو دوام النعمۃ فان لم برد نالک الا من اللہ تعالیٰ فھو معرفۃ حقیقۃ النعمۃ والمقاعد قسمان مقعد صدق و مقعد زور فمن قصر لمخاطبۃ علی الحضرۃ الالھیۃ فھو فی مقعد صدق و من اقام مع ماسویٰ اللہ فھو فی مقعد زور قال اللہ تعالیٰ انا جلیس من نکرنی و قال تعالیٰ و من یعش عن ذکر الرحمن نقیض لہ شیطانا فھو لہ قرین و فی حق جلساء اللہ تعالیٰ قیل و اذا رایت ثم رایت نعیماہ و ملکا کبیرا و فی حق المغربین بغیرہ کسراب بقیعۃ بحسبہ الظلمان ماء حتی اذا جاء ہ لم یجدہ شیئا الا یتہ ولا یلیق بعلوا لھمۃ استبدال الذی ہو ادنی بالذی ہو خیر قال الشاعر ولم ارفی عیوب الناس غیبا کنقص القادرین علی التمام ۔ و عن عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ انہ کان کلما یشتری لہ الثواب قبل الخلافۃ یالف فیقول ما احسنہ لو لا خشونۃ فیہ و کان یشتری لہ الثوب بعد الخلافۃ بخمسۃ فیقول ما احسنہ لو لا لین فیہ فقیل لہ فی ذلک فقال ان لی نفسا Page no. 294 & 295 are not printed in the book. That is why that pages are not being composed. page No. 293 and page No. 296 are printed in duplicate but here not composed in Duplicate. starting from page 296 تنس نصیبک من الدنیا و احسن کما احسن اللہ الیک متعین بر رراے مجیر در معنی ایں سرکلمہ الٰہی تامل کردن کہ ہر یکے بحریست و مضمون آں فواید بے نہایت است و بہ بصیرت دین دریں بحار غواصی مقدر است وہر کراہت بعاجلہ دنیا مستغرقست یا عاجلت دنیا اغلب ہمت اوست از سر ایں کلمہ محروم است و گفت وابتغ فیما اتک اللہ الدار الآخرۃ و در حق او گفت من کان یرید الحیواۃ الدنیا و زینتھا نوف الیہم اعمالھم فیھا و ہم فیھا لا یبخسون اولئک الذین لیس لھم فی الآخرۃ الا النار و حبط الآیتہ و ہر کہ بہ کنز و ادخار و استظہار و استکثار مشغول است ازسر ایں کلمہ محجوبست کہ گفت ولا تنس نصیبک من الدنیا کہ در شرح نصیب مصطفیٰ علیہ الصلواۃ والسلام چنین گفتہ است کہ لیس لک من مالک الا ما اکلت فا ننیت او تصدقت فابقیت و ہر کرا چیزے جز حق تعالیٰ در پیش ہمت بایستاد اگر ہمہ فردوس اعلیٰ است ازیں آیہ محروم است کہ گفت احسن اللہ الیک و مصطفیٰ علیہ الصلوات والسلام شرح احسان چنیں کردہ کما قال جبریل علیہ السلام ما الاحسان قال ان تعبداللہ کانک تراہ ہر کرا ایزد سبحانہ تعالیٰ آں نعم بروے افاضہ کرد کہ براں شخص کریم کردہ است شکر نعمت گذاردن واجب بود و شکر آں بود کہ درجات نعیم بشناسد و ہر نعمتی کہ وراے آں نعمتی دیگر ممکن بود بداں قناعت نکند و تشوق ہمت وے بدرجہ اقصی نعمتہا بود و ہر روز معرفت دو سیاست وے در زیادت بود تا کار در ترقی بود ایں حقیقت شکر بود کہ ہر چہ از راہ ازدراک زیادت است نہ شکر است کہ در مصحف مجید رقم شکر چنیں زدہ اند کہ لئن شکرتم لا زید نکم و چنیں شکر بحقیقت عمر بن عبدالعزیز کرد رضی اللہ عنہ کان یستری لہ الثوب قبل الخلافۃ بالف و یقول ما احسنہ لو لا خشو فیہ و کان یشتری لہ الثوب بعد الخلافۃ بخمس فیقول ما احسنہ لو لا لین فیہ فقیل لہ فی ذالک فقال ان لی نفسا تواقۃ ذواقۃ ما ذاقت الاشیاء الا تافت الی ما فوقھا حتی ذاقت الخلافۃ و ہی اعلیٰ مراتب الدنیا فتاقت الی ما عند اللہ تعالیٰ و اذا رایت ثم رایت نعیما و ملکا کبیراً و شکر نعمت دنیا نہ گذارد بحقیقت الا کسی کہ دنیا را با کسے بشناخت کہ در دنیا ہیچ منصب نیست الا کہ ترفع و استغنا ازاں بزرگتر ازانست ولکن معرضان از دنیا برسہ درجہ اند گروہے اند کہ چشم ایشاں جز بر آفات و عیوب دنیا نیفتاد آں قوم گفتند ترکنا الدنیا لسرعۃ فنایھا و کثرۃ عنایہا و خسۃ شرکائھا و ایں ہر چند نازل ترین درجات است و لیکن باضافہ باکسانیکہ ازیں غافل اند درجہ کمال است گروہے دیگر رار بصیرت ازیں ناقد تر بود کہ چشم ایشاں بر کمال مملکت آخرت افتاد گفتند اگر دنیا مثلاً مہنے و مصفے از آفات مسلم باشد ہم نخواہیم کہ حجابست از مملکت آخرت و آں بکمال تراست و بہ ناقص قناعت کردن عین نقصان است و سر ایں آیت ایشاں را مکشوف شد کہ گفت و الآخرۃ خیر و ابقی و ازیں معنی عبارت کردند و گفتند لو کانت الدنیا من ذہب لا یبقی والاٰخرۃ من خزف یبقی لو جب علی العاقل ان یوثر خزفاً یبقی علی ذہب لا یبقی فکیف والدنیا من خزف لا یبقی والاٰخرۃ من ذہب یبقی و گروہے دیگر ازیں درجہ آیۃ ایشاں را مکشوف شد کہ واللہ خیر و ابقی و جلال ایں منصب بدیدند کہ گفت فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر و ازیں Page no. 298 & 299 are not printed in the book. That is why that pages are not being composed. page No. 297 and page No. 300 are printed in duplicate but here not composed in Duplicate. starting from page 300 دعای ایشاں حصنے حصین باشد و آفت ناحیہ آنست کہ سخنہا بغرض و متفاوت براحیان ناحیہ غالب بود بحکم حسدے بغصے کہ سجیہ اکثر خلق است و در ہر چہ در راہ دین توقفی و تلبثے تمام نمایند و تفصیل ایں احوال فلاں بگوید کہ بمحل اعتماد است از مجلس فلاں و از دیگر جوانب و چشمہاے اہل ناحیہ بر را ہست تا بزودی وے را باز گرداند مضمون بفرمانہای میمون تا فراغت دل اہل ناحیہ را حاصل آید و مدد دعای پیوستہ گردد واللہ تعالیٰ یستجیب ادعیۃ المسلمین فی الجناب العالیٰ المجیری الذی ہو کہف الدنیا والدین والسلام۔ نامۂ دویم کہ بمجیر الدین نوشتہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قال اللہ استجیبو الربکم من قبل ان یاتی یوم لا مردلہ من اللہ مالکم من ملجاء یومئذ و مالکم من اللہ نکیر فان اعرضوا فما ارسلناک علیھم حفیظا ان علیک الا البلاغ یوم لا مرد لہ روز مرگست کہ تحسر و ندامت سود ندارد فلم ینفعھم ایمانھم لما رائوبا سنا و بلاغ آں است کہ گفت الکیس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت و الا حمق من اتبع نفسہ ہوا ہا تمنے وعلی اللہ واستجابت آنست کہ بتدبیر زاد آخرت مشغول شود ولا یاخذ من الدنیا الا قدر زاد الراکب و زاد آخرت آنست کہ اولاً خود را فریاد رسید و سپس خلق خدای را و خلق خدا در دست ظالمان اسیر شدند ہر کہ ایشاں را فریاد رسد لقب وی در آسمان مجیر الدولہ است و الالقاب تنزل من السما کما قال عیسیٰ علیہ السلام من علم و عمل و علم فذاک یدعی عظیما فی ملکوت السماء و ہر کسے را در آسمان نقبے است بر وفق حال وے۔ فریاد رسیدن خود آں بود کہ خویشتن را از شر ہوا و غضب و شہوت و شرہ و کبر و رعونت خلاص دھد کہ ظالمان جنود شیطان اندو عقل کہ آں حزب خدای تعالیٰ و از جنود اوست در دست ایں ظالمان اسیر شدہ است و کمر خدمت ایشاں بر بستہ و سعی و اندیشہ خویش بآں آوردہ تا استنباط حیلت قضای شہوت و غضب چوں کند و ہر عقلے را کہ از رق و بندگی آں خلاص دادند شایستہ مطالعہ حضرت ربوبیت گشت قال علیہ السلام لو لا ان الشیاطین بحومون علی قلوب بنی آدم لنظروا الی ملکوت السماء و ہر کہ عقل خود را ازیں صفات خلاص دادو شایستند حضرت ربوبیت گردانید لقب وی در آسمان مجیر الحضرہ بود منتظر است از کمال عقل صدری کہ ممیز ترین و بصیر ترین صدور روزگار است۔ کہ خویشتن را بداں معانی عرضہ کند و تحقیق لقب خود از خود طلب کند قیل ان یاتی یوم لا مردلہ فان ما ھو آت قریب والبعید ما لیس بآت اما فریاد رسیدن خلق بر عموم واجب است کہ کار ظلم از حد در گزشتہ و بعد ازانکہ من مشاہد ایں حال می بودم قریب یک سال است کہ از طوس ہجرت کردہ ام تا باشد کہ از مشاہدہ ظالماں بے رحمت و بے حرمت خلاص باید چوں بحکم ضروری معاودت افتاد ظلم ہمچناں متواتر است و رنج خلق متضاعف بماند آں دیگر وجہ کہ خود را اخلاص از صفات بشری کہ آں سبب مذلت دنیا و عذاب آخرت است و ذاک ہوالجہاد الاکبر و علامت ظفر دریں جہاد آں بود کہ ہر کہ را ایں فتح بر آید بادشاہے گردد کہ استخدام ملوک عالم توفع کند بل بداں رسد کہ خدمت ترکی کند حقیقت آں ترک Page no. 302 & 303 are not printed in the book. That is why that pages are not being composed. page No. 301 and page No. 304 are printed in duplicate but here not composed in Duplicate. starting from page 304 سببش دو چیز بیش نباشد یکے آنکہ اسیر صفتے باشد از صفات نفس کہ بترک مال و خواجگی شماتت اعدا نتوانند گفت ولا علاج لہ الا عزمتہ من عزمات الرجال والنظر الی النفس العاجزۃ بعین الا ستحقار والترفع بعلوا الھمۃ عن مضاہاۃ الارذال و یکفی صارفا عن الدنیا کثرۃ عنائھا و سرعۃ فنائھا و خسۃ شرکائھا و دیگر صارف آں بود کہ بحکم شبہتی یا قصور بصیرتی در کار آخرت متوقف بود و نہ عجب اگر کسی آخرت را بر قیاس محسوسات و متخیلات راست کند راست نیاید کہ متوقف باشد کہ گروہی نیز در مدبر عالم متوقف بودند و علاج آں کس آنست کہ خویشتن را مہم دارد و گمان نبرد کہ بصیرت وے بہمہ غوامض محیط است و بسوال و استکشاف مشغول شود فاسالوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون و ہم چناں کہ طبیبے را ببرہان معلوم شود کہ روح آدمی را بمدتی بقا باشد و اطعمہ غذاے ویست و سموم ہلاک وے ہم چنیں ما را محقق شدہ است بہ برہان نہ بطریق تقلید اخبار و آثار کہ حقیقت آدمی را بقاست ایدی کہ عدم را بوے راہ نیست اصلا و نجات وی در حریت است از صفات بشری و سعادت در معرفت حقیقیست بحضرت ربوبیت علی ماہی علیھا من الجلال والعظمۃ و نجات دیگر است و سعادت دیگر و شرح کودن میسر شدہ است نہ بطریق طاماتی کہ اکثر آں تخیلے بود شاعر و ار کہ طعمہ عوام را شاید یا اقناعی واعظ و ارکہ قوت خواص و عوام را شاید بل بہ برہان حقیقی عقلی کہ شربت خواص محققان را شاید واجب است بر صدر عقلی کہ حساب خویشتن را بکند تا صارف وی چیست و بعلاج آں مشغول شود تا باری خود را فریاد رسیدہ باشد اگر خلق را نمی رسد ۔ والسلام۔ نامۂ سویم کہ بہ مجیر الدین نوشتہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قال علیہ الصلوٰۃ والسلام من احسن الیکم فکافئوہ الحدیث صبر کردن بر سماع کلمہ حق احتسابی تمام است و بدیں سبب مجلس عالی مستوجب دعاست و انا ارسال اللہ تعالیٰ ان یرزقہ معرفۃ حقیقۃ السعادۃ ان یخصہ بھا و اقول الا ان السعید من وعظ بغیرہ اول کسے کہ ازیں سعادت محروم ماند تاج الملک بود کہ خاتمۂ حال نظام الملک بر زبان حال باد می گفت کہ ان امرا ہذا آخرہ لجدیر بان تبرک اولہ بدیں اعتبار نگرفت و آمال دراز فراپیش گرفت و با خویشتن گفت کہ نظام الملک پسر بود و مہلتی دراز یافت و ما را از عمر فراپیش است پس تقدیر آسمان فی اسرع زمان غرور ویرا کشف کرد پس بایستی کہ مجد الملک عبرت گرفتی و متعظ بودی۔ باخویشتن گفت کہ ویرا غلاماں نظامی حصم بودند کہ وے بخیانتی و مخالفتی منسوب بود ما ازیں فارعیم داد از روزگار بستانیم و ولایت بمراد خویش برانیم پس روزگار بمدتی قریب غرور ویرا نیز کشف کرد و باری لفت اولم نعم کم ما یتذکر فیہ من تذکر الایہ پس بایستے کہ موید الملک عادت روزگار بشناختے کہ ہر چیز کہ مکرر گشت و سہ بار تمام شد بغایت رسید لکن وی نیز با خویشتن گفت کہ ایں قوم بحکم نست مستحق ایں منصب نبودند بریشاں ازاں زوال آمد بزودی و مرا آں مورث و مستحق است و ایں منصب در نصاب خویش دانم روزگار بزودی از حال وی برہانے ظاہر بساخت کہ آں ہمہ غرور است اکنوں نوبت رسید بمجیر الدولہ کہ در اقالیم جزوے وزیر نماند و از حضرت ربوبیت ندا می کنند باوے اولم یھدلکم کم اہلکنا قبلھم من القرون یمشون فی مساکنھم ان فی ذالک لایات لاولی النھی و می گویند ای آنکہ عاقل ترین وزراے زینہار کہ نسب خویش از اولنھیٰ قطع نکنی کہ ان فی ذالک لایات لکن لاولی النھی کہ ایں طبقہ گزشتند ایں نسب قطع کردند تائلے تمام کن در حال ایشاں و انظر کم ترکوا من جنات و عیون الایہ باخود ایں حساب بکن کہ اگر روزگاری نیز بمراد بگزارد بمثل و ہیہات آخر چہ خواہد بود افرایت ان متعناہم سنین ثم جاء ہم ما کانوا یوعدون ما اغنیٰ عنھم ما کانوا یمتعون و بہ حقیقت شناسد کہ ہیچ وزیر بدیں بلا مبتلے نبود کہ ویست در روزگار ہیچ وزیر آں ظلم و خرابی نرفت کہ اکنوں میرود و اگرچہ وی کارہ است و لکن در خبر چنیں است کہ چوں ظالمان را روز قیامت مواخذہ کنند ہم متعلقان را و ہم ایشاں را بداں ظلم بگیرند تا بداں کس کہ قلم ایشاں تراشیدہ باشد یا دوات ایشاں راست کردہ و بہ حقیقت شناسند کہ ہیچکس را اندوہ وی نخواہد بود خود تدبیر خویش کند و سعادت دین و دنیا خود بانقطاع ازیں حاصل کند و اگر ایں میسر نیست امروز سلامت دنیا فوت شد ہمہ ہمت خود در تدبیر زاد آخرت صرف کند و ہیچ زا دنیا بد نافع تر از منع ظلم ایشاں چندانکہ تواند دفع کند خصوصاً ازیں اہل ناحیہ کہ مسلمان را کارد باستخوان رسید و مستاصل گشتند و ہر دینارے کہ قسمت کردند اضعاف آں از رعیت بشد و بسلطان نرسید و درمیانہ ارزال عوامان و ضعفا ظالمان بیردند و ہر کہ بتعرف و تدارک بیاید طمع ظلم وی از گزشتگان در گزرد امید از تلافی گزشتہ منقطع است اما امید از شفقت و عاطفت مجیری منقطع نیست کہ جدے تمام نماید در جسم ایں مادہ در مستقبل و ارشادی کہ اہل ناحیہ را بر طریق استعانت ممکن شود از ترتیب و تمشیت ذخیرتی سازد و حصنے از آفات روزگار خود را از دعاء ایں مسلمان واللہ تعالیٰ ینصرہ و ایدہ و یرشدہ الی طلب سعادۃ الدین بالدنیا و یسددہ بمنہ و فضلہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باب سوم در نامہای کہ بمشایخ و ارکان دولت نوشتہ است نامۂ اول کہ بمعین الملک نوشتہ است بسم اللہ الرحمن الرحیم قال اللہ تعالیٰ تلک الدار الاخرۃ نجعلھا الایہ نجات آخرت بد و شرط بستہ است طلب علو کردن و از فساد دور بودن ہر کہ طلب ولایت دوست دارد و طلب علو وی معلوم است و ہر کہ بلہو و نشاط چو ناداناں و بخیرداں مشغول بود بفساد موسوم است و بے شرط نجات امید نجات داشتن عین غرور است و انکار کردن کہ ایں شرط نجات است تکذیب قرآن است و دل از آخرت برداشتن و بشقاوت رضا دادن نہ کار عاقلانست اما کسیکہ میاں ہر دو جمع کند و طمع نجات برد بلہو و نشاط چی می اندیشد ہمانا گوید خداوند رحیم است و کریم ایں سخن درست است و لکن باکرام۔ ہم راست گویست کہ می گوید ان الابرار لفی نعیم و ان الفجار لفی جحیم و یا میگوید کہ فردا توبہ کنم و می داند کہ چند سال است کہ شیطان او را بعشوہ فردا از توبہ باز میدارد ولابد چند سال دیگر دریں وعدہ شود مگر قبالہ دارد بر عمر مقدر ویا مے داند کہ اجل بمدتے بماندہ است و یا از ملک الموت عہدے و میثاقی بستدہ است و شناختہ است کہ شیطان بعشوہ تسویف چند خرمن سوختہ است ہیہات قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صاحم اہل النار من سوف در آخر عمر در چنیں خطرے بودن ہیچ سبب ندارد مگر امن و غفلت کہ مایہ ہمہ شقاوتہا است افا من اہل القریٰ ان یاتیھم باسنا ضحی و ہم یلعبون اقامتوا مکر اللہ فلا یا من مکر اللہ الا القوم الخاسرون ایزد سبحانہ و تعالیٰ ما را و ہمگنانرا از خواب غفلت بیدار گرداناد و آں دل عزیز موید الدین را بلطایف تنبیہ تخصیص کناد کہ یکی از اولیاء ادام اللہ ایامہ دریں ایام چنانی حکایت کرد در حق وی کہ مشعر بود بخطرے عظیم در کار آخرت و بغایت دل مشغول شدم و بدست من چیزے نیست الا دعاے بدل و تنبیہہ بزبان و نصیحت بقلم و اگر آں مرا مسلم دارد کہ بر روئے شفقتی کنم کہ او بر خود آں شفقت نمی کند یک حکم بوے مے بکنم کہ دست از سکر بدارد اگر نمی تواند کہ دست از عمل ظالمان بدارد کہ رشتہ فسق با ظلم چوں دو تا شود و برہم افتد نادر بود کہ پیش از مرگ گستہ بود شیبت سفید و شربت نبیذ سخت نالایق بود نظام الملک رحمہم اللہ چوں پیر شد از کبایر توبہ کرد کہ از فسق و فساد و سر بازی می در نخورد۔ براں توبہ اثبات کرد تا آخر عمر۔ ہمانا گوید کہ ملک خراسان نمی گزارد۔ ایں عذر بنزدیک ملک زمین و آسمان مقبول نیست۔ ع لوصح منک الھوی ارشذت للحیل چوں وی عزمی صادق بکند امیدوار بود کہ ملک مشرق بواسطہ توبہ وی توبہ کند و الا او را مسلم دارد از توبہ۔ آنچہ شرط دوستی بود گفتہ آمد الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین و صلی اللہ علی محمد و آلہ و اجمعین۔ نامۂ دویم کہ بسعادت خاں نوشتہ است بسم اللہ الرحمن الرحیم قال اللہ تعالیٰ وان من شی الا عندنا خزاینہ وما ننزلہ الا بقدر معلوم خزاین ہمہ ملوک متناہی است و خزاین ملک الملوک را نہایت نیست یکی از خزاین ملک الملوک سعادت است و یکی شقاوتست و ایں ہر دو در غیب پوشیدہ است و ایں ہر دو را دو کلید است یکی را طاعت گویند و یکی را معصیت و ایں دو کلید در دو خزانہ است از خزاین غیب الغیب کہ یکی را توفیق گویند و یکی را خذلان و جوہر توفیق و خذلان دو دو خزانہ دیگر است از ہمہ غیب تر یکی را رضا گویند و دیگری را سخط و ایں جوہر رضا و سخط در دو خزانہ است کہ اوہام عوام و افہام خواص الا الصدیقون و العلماء الراسخون ازاں قاصر است و عبارت رابوے راہ نیست و استنباط علماء و صدیقان را مجال نیست چہ عبارت ایشاں نیز قاصر است و عبارت از یکی چنیں آید کہ ان الذین سبقت لھم منا الحسنیٰ و عبارت ازاں خزانہ دیگر چنیں آید کہ لقد حق القول علی اکثرھم و در سراین معنی کہ ایں دو آیت عبارت از انست اعجوبہ قضا و قدر تعبیہ است و ہر کہ معراج وی چنیں گویند کہ گنگ و لال باش و زبان نگہدار کہ القدر سر اللہ فلا تفشوہ و وراء ایں سرالاسرار و خزانۃ الخزاین است کہ مصدر و منبع ایں ہمہ خزاین است و عبارت ازاں نیک تنگ آمد کہ رسول علیہ الصلواۃ والسلام در ترقی دریں مقامات چنیں گفت کہ آعوذ بعفوک من عقابک پس ترقی کرد گفت آعوذ برضاک من سخطک پس ترقی کرد و گفت اعوذبک منک پس خواست کہ ترقی کند راہ بحجاب عزت بستہ دید گفت لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک و تا بدیں مقام کہ اعوذ بک منک جز انبیاء را راہ نیست و وراء ایں عالمی است کہ نہ انبیاء را بداں را ہست نہ علماء را ہمہ صدیقان و انبیاء چوں بداں مقام رسند جز دہشت و حیرت نصیب ایشاں نباشد ہمہ در دل عجز میگزارند و در آتش عشق و شوق میسوزند و سبوع قدوس میزنند و سید الانبیاء علیہ الصلواۃ والسلام نوحہ عجز خویش بدیں عبارت میکند لا احصیٰ ثناء علیک انت کما اثنیت علیٰ نفسک و سید الصدیق اندوہ عجز و شادی دولت بہم بر می آمیزد و منادی دولت و ماتم خویش بدیں لفظ کنند کہ العجز عن درک الادراک ادراک گہ در ماتم عجز میگذارد و گاہ بدیں شادی کہ ایں عجز تمام ادراک است می افروزد۔ حال خزاین ملک الملوک و نظارگیان خزاین اینست اما زر و سیم کہ در خزاین ملوک دنیا بود کلید دوزخ است تعس عبالدینار تعس عبدالدرہم روز قیامت چوں منادی براید کہ جریدہ خزانہ کلید دوزخ باز کنید و ایشانرا در زمین صعید سیاست حاضر کنید اگر در صدر آں جریدہ نام سعادت 1 بر آید بیچارا سعادت کہ ویرانہ ملک مشرق فریاد رسد نہ وزیر مشرق دست گیرد کہ ایشاں را خود بہزاراں دستگیر حاجت بود۔ نامۂ سوم کہ نوشتہ است الی واحد من الاکابر در معنی صدقہ دادن و طریق آں بسم اللہ الرحمن الرحیم دل را مشغولی تمام است بسبب ایں عارضی و رنجی کہ می ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1۔ نام مکتوب الیہ، ۱۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باشد از جہت قصور و حیرت اطبا و بہ حقیقت بباید دانست کہ الذی انزل الداء انزل الدواء ولکن خلق چنیں دانند کہ چوں دازو از دکان صید لانی بیاورید و طبیب بکار داشت کفایت افتاد و ایں خطا است کہ بیشتر باید کہ مریض را الہام دہند در اختیار طبیب انگہ طبیب را الہام دہند در اختیار دار و کہ خاطر وی در جنس دارو و مقدار آں و وقت استعمال آں بجانب صواب متصرف شود کہ دریں ہر سہ معنی خطا بصواب مشتبہ بود بغایت۔ پس کار الہام مریض است و الہام طبیب و ایں دواہا در دوکان ہیچ صید لانی نیابد کہ کلید آں در ملکوت آسماں نہادہ اند در خزانہ ملائکہ کہ ہر ہدایت کہ خلق را باشد بصواب کار ہا از خزانہ ملائکہ ود وما کان لبشران یکلم اللہ الا وحیا او من وراء حجاب الایہ و بہیچ ممکن نیست خرید ایں الہام را الا بہمت و دعاء عزیزان اہل دین کہ ہر چہ ہمم ایشاں بداں متصرف شود اسباب آں از جہت ملائکہ مبذول بود و ان من شئی الا عندنا خزاینہ وما ننزلہ الا بقدر معلوم و ہمم اہل دین تحریک نتواں کرد الا باحسان و صدقہ پس صدقات سبب حرکت ہمم بود و حرکت ہمم سبب فیضان ہدایت از خزاین ملکوت بر دل مریض و طبیب بود و ہدایت ایشاں سبب استعمال دوا بود بر قانون صواب۔ و استعمال دوا سبب شفا بود و سر ایں کہ داووا امرضاکم بصدقۃ ایں بود و اما آں کہ بچہ سبب بود کہ حرکت ہمم و ارواح عزیزان باعث روحانیت ملائکہ باشد بر افاضہ ہدایت سبب آں مناسبتے است کہ میان ارواح و روحانیات است کہ استمداد آں ازیں بحراست کہ ویسئالونک عن الروح قل الروح من امر ربی و ایں غوری دارد عمیق و رخصت نیست در کشف ایں سر الا ایں قدر بشناسند کہ ارواح و روحانیات متناسب اند ازاں کہ ہمہ امور ربانی اند چنانکہ گفت قبل الروح من امر ربی و للہ الخلق والامر و عالم امر از عالم خلق جداست و نماندہ است در عصر ہیچ غواص کہ ایں نمط از علم طلب کند یاداند کہ ایں طلب کرد نیست و مقصود آنست کہ ارتباط شفا بدعا بواسطہ صدقہ معلوم شود براے ایں گفت الدعاء یردالبلاء و الدعاء والبلاء یتعالجان و دعوات و ہمم چوں از جمعی باشد غالبا بود کہ مجحج بود و سر نماز استسقاء و اجتماع صلوات اینست و آنچہ طبیعی گفت کہ علتی کہ از حرارت برذیزد و برودت باید کہ آں را ہزیمت کند و صدقہ بآں چہ مناسبت دارد راست گفت یک نیمہ۔ و بدیں سبب است کہ طبیعت حقست ولٰکن بصر تیز طبیعے بر طبیعت مقصور است و قاصر است ازانچہ طبیعت و مستعمل طبیعت مسخر آنست و مثال وی چوں مورچہ ایست کہ بر کاغذ می بیند کہ خطی حاصل می شود از حرکت قلم پندارد کہ موجب خط قلم است کہ بصر وی قاصر بود از انکہ دست کاتب بیند بصیرت وی ازاں قاصر بود کہ دل کاتب کہ محرک دست است بیند وی بہیچ حال نداند کہ دل کاتب را چوں صید باید کرد تا کارفرماید طبیعت چوں قلم است و ملائکہ چوں اصابع و ملک اعظم کہ ہمہ ملائک متابع وی اند چوں دست و صاحب الید والقلم والا صابع وراء الکل و ھو متفرد بالجبروت و انما قلوب المؤمنین بین اصبعین من اصابع الرحمان صورت کنایت آدم مثال صورت حضرت ربوبیت است فان اللہ تعالیٰ خلق آدم علی صورتہ و من عرف نفسہ فقد عرف ربہ چناں کہ دل و دست و اصابع فوق قلم است ہمہ اسباب آفرینش فوق طبیعت است و طبیعت در اسفل السافلین۔ و بصیرتے ناقد باید تا اسفل بعلو رسد و نظر ہمہ خلق بر طبیعات و جسمانیات مقصور است اگرچہ در اصل انسان را از عالم روحانیات آوردہ اند و برایٔ ایں گفت لقد خلقنا الا انسان فی احسن تقویم ثم رددناہ اسفل سافلین پس تائید در ہمہ علاجھا از عالم روحانیات باید خواست و آں عالم علواست و مال و جاہ را جناح صعود نبود بداں عالم بلکہ ہمت و دعا را باشد ایں صعود الیہ یصعدا لکم الطبیب بود و رافع و حمال ایں ادعیہ عمل باخلاص بود والعمل الصالح یرفعہ بیک نمازاں و گدایاں را بر در سراے جمع کردن و نان و گوشت تفرقہ کردن آں حمالے را نشاید کہ ایں وداعی اہل مصطبہ را جنباندھم اہل دین را چیزے کہ بروی عزیز تراست کہ در دل دارد کہ ہر گز از خود جدا نیفگند از دست ہوا و شیطان بروں کند و بفروشد در وجہ خویش صرف کند و بعضی بکسانے دھند کہ قدر ایشاں را در دین شناختہ باشند و بعضے بفرما پند پنچ جس را از اہل صلاح تا بدر ویشاں پوشیدہ و متعفف معیل رسانند و ازیں ہمتہا مدد خواہد تا از راہ صواب در علاج صورت و معنی ظاہراً و باطناً میسر کنند طبیب بالہام و تائیدان آسمانی کہ علت مشکل و طبیب متحیر را جزیں علاج نیست و بر قول طبیبان جاھل اعتماد کردن روا نبود بلکہ بر قول طبیبے حاذق روا بود کہ بمناسبت علت و علاج اشارت کند انگہ اعتماد والسلام۔ نامۂ چہارم کہ علی اطلاق نوشتہ بجملہ بزرگان و ارکان دولت در حق بعضی از مختلفہ خویش بسم اللہ الرحمن الرحیم قال اللہ تعالیٰ فمن یعمل مثقال ذرۃ خیراً یرہ و من یعمل مثقال ذرۃ شراً یرہ بر آدمی ہیچ گفت و کرد و سکوت و عطا و منع نبود الا کہ گنج سعادتست کہ می نہد یا تخم شقاوتست کہ می پراگند و وی ازاں غافل و موکلان ملائکہ ذرہ ذرہ اثبات می کنند و ایشاں نگہہ می دارند احصاء اللہ و نسوہ چوں ازیں عالم بیروں شود و جریدہ عمر او از اول تا آخر در یک لحظہ یروی عرضہ کنند یوم تجد کل نفس ما اعملت من خیر محضرا الایۃ پس ذرات خیر را دریک کفہ نہند و ذرات شر را در یک دیگر فذلک حساب بوی نماند و دریں وقت از ھول آں خطر ہمہ عقلہا مدھوش شود و جانہا در خطر افتد تا کدام کفہ را حج خواھد بود فاما من ثقلت موازینہ فھو فی عیشۃ راضیہ و اما من خفت موازینہ فامہ ھاویہ حال ارباب اموال در خرج و انفاق ہمیں خواہد بود کہ ہر چہ در متابعت ہوا و موافقت او خرج کنند در کفہ شرور باشد و ہر چہ در طاعات خدای تعالیٰ و موافقت او کنند در کفہ خیرات بیند اگر بیشتر مال خویش در خیرات صرف کردہ باشد نجات یافت وگرنہ رفت بھاویہ فامہ ھاویہ وما ادراک ماھیہ و ازیں خطر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلاص یافت کہ جملہ مال نزدیک رسول علیہ السلام آورد رسول علیہ السلام گفت زن و فرزند را چہ بگذاشتی گفت اللہ و رسولہ کہ وی را ایں خطر بود کہ رسول را صلی اللہ علیہ وسلم گفت ہلاک شدند تو نگرران الا کسبی کہ مال خویش می فشاند در خیرات از پس و پیش و از چپ و راست کہ ہلک الا کثرون الا من قال بالمال ھکذا و ھکذا و ھکذا چوں طبع آدمی برشح و بخل محبوب است مسامحت صرف نکند باری باید کہ آنچہ بدھد اول بخل استحقاق نہند تا صواب آں مضاعف باشد۔ باشد کہ یک درم بر ہزار سبقت گیرد در قیامت و آں آں بود کہ بہ اھل دین و زمرہ علم رسد۔ از وجہ حلال بود۔ بخوش دلی بود و بے منت قال اللہ تعالیٰ لا تبطلوا صدقاتکم بالمن و الا ذی والسلام۔ نامۂ پنجم کہ بہ قضاۃ مغرب نوشتہ است بتازی بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد اللہ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین ولا عدوان الا علی الظالمین والصلواۃ علی سید المرسلین و آلہ اجمعین اما بعد فقد اسح بینی و بین الشیخ الاجل السید السدید معتمد الملک و امین الدولۃ حرس اللہ تائیدہ بواسطہ القاضی الجلیل الامام مردان زادہ اللہ توفیقا من الوداد و حسن الاعتقاد ما یجری مجری القرابۃ و یقتضی دوام المکاتبت ولموصلۃ و انی لا اواصلہ بصلۃ افضل من نصیحۃ ھی ھدیۃ العلماء و انہ لن یھدی الی تحفۃ اکرم من قبولہ و اصغایہ بقلب فارغ ظلمات الدنیا الیھا و انی احذرہ اذ امیزت عند ارباب القلوب احزاب الناس ان یکون الا فی زمرۃ الکرام الا کیاس و قد قیل لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من اکرم الناس فقال اتقاھم فقیل من اکیس الناس فقال اکثرھم للموت ذکرا و اشدھم لہ استدادا و قال علیہ الصلواۃ والسلام البکیس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت والا حمق من اتبع نفسہ ھواہا و تمنی علی اللہ و اشد الناس غیاۃ و جھلا من یھمہ امور دیناہ التی تحقرھا عندالموت الا یھمہ ان یعرف انہ من اھل الجنہ او من اھل النار و قد عرف اللہ تعالیٰ ذلک حیث قال ان الابرار لفی نعیم و ان الفجار لفی جحیم و قال اللہ تعالیٰ فاما من طغیٰ و آثر الحیواۃ الدنیا فان الجحیم ہی السماویٰ و اما من خاف مقام ربہ و نھی النفس عن الھویٰ فان الجنۃ ھی الماوی و قال اللہ تعالیٰ من کان یرید الحیواۃ الدنیا و زینتھا نوف الیھم اعمالھم فیھا و ھم فیھا لا یبخسون اولئک الذین لیس لھم فی الآخرۃ الالنار و حبط ما صنعوا فیھا و باطل ما کانو یعملون‘‘ و انی احب ان یصرف الی ھذا ھمہ و ان یحاسب نسفہ قبل ان یحاسب و یراقب سریرتہ و علانیتہ و قصدہ و ان یطالع اقوالہ و افعالہ و اصدارہ و ایرادہ اوھی مقصورہ علی ما یقربہ الی اللہ تعالیٰ و یوصلہ الی سعادۃ الابد اوھی مصروفۃ الی ما یعمر دیناہ و یصلہا لہ اصلاحا منغنصا مشوبا بالکدورات مشحونا بالھموم والغموم ثم یستتبع الشقاوۃ والعیاذ باللہ فلیفتح عین بصیرتہ والتنظر نفسہ ما قدمت لغد ولیعلم انہ لا مشفق ولا ناظر لنفسہ سواہ و لیتدبر ما ھو بصددہ فان کان مشغولا بعمارۃ ضیعۃ فلینظر کم من قریۃ اھلکھا اللہ وھی ظالمہ فھی خاویہ علیٰ عروشھا بعد عمارتھا و ان کان مقبلا علی استخراج ماء و عمارۃ نھر فلیتفکر کم بئر معطلۃ بعد اعمالھا و ان کان مھما تباسیس نباء فلیتامل کم من قصور مشیدۃ البنیان محکمۃ القواعد والارکاں اظلمت بعد سکانھا و ان کان مفتتا بعمارۃ الحدایق والبساتین فکم ترکوا من جنات و عیون و زروع و مقام کریم و نعمۃ کانوا فیھا فاکھین کذالک و او اثناھا قوما آخرین فما یکت علیھم السماء والارض وما کانوا منظرین ولیقرء قولہ افرایت ان متعناھم سنین ثم جائھم ما کانو یوعدوں ما اغنی عنھم ما کانوا یمتعون و ان کان مشغوفا والعیاذ باللہ بخدمۃ سلطان فلیقرء ما ورد فی الخیر الامراء والروساء تحشرون یوم القیامۃ فی صور الذر تحت اقدام الناس یطو و ھم باقدامھم ولیقراء ما قال اللہ تعالیٰ فی کل متکبر جبار و قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکتبۃ الرجال حیا اولا یملک اھل بیتہ ای اذا طلب الریاسۃ بینھم و تکبر علیھم و قال علیہ الصدواۃ والسلام ماذئبان ضاریان ارسلا فی ذریۃ غنم باکثر فساد من حسب الشرف والمال فی دین الرجال المسلم و ان کان فی طلب المال و جمعہ فلیتامل قول عیسیٰ علیہ الصلواۃ والسلام یا معشر الحواریین الغنی مسرۃ فی الدنیا مضرۃ فی الاخری بحق اقول لا یدخل الاغنیاء ملکوۃ السماء و قال نبیا صلی اللہ علیہ وسلم یحشر الاغنیاء یوم القیامۃ اربع فرق رجل جمع مالا من حلال و انفقہ فی حلال فقال فعوا ھذا و اسالوہ لعلہ ضیع بسبب غناشیا مما فرضنا علیہ او قصر فی الصلواۃ او فی وضوھا او رکوعھا او سجودھا او خشوعھا او ضیع شیا من الذکواۃ والحج فیقول الرجل جمعت المال من حلال وما ضعیفت شیا من حدود الفرائض بل ایتتھا بتمامھا فیقال لعلک ما ہنئت بمالک واختلف فی ثباتی فیقال العلک فرطت فیما امرناک بہ من صلۃ الرحم و حق الجیران والمساکین و قصرت فی التقدیم والتاخیرہ والتفضیل و التعدیل و یحیط ھٰولاء فیقولون ربنا اغنیۃ بین اظھرنا و احوجتنا الیہ فقصر فی حقنا فان ظھر تقصیر ذھب بہ الی النار والاقیل لہ قف ھات الان شکر کل لقمۃ و کل شربتہ و کل اکلتہ و کل لذۃ فلا یزال یسال فھذا حال الاغنیا الصالحین المصلحین القایمین بحقوق قال اللہ تعالیٰ اذ بطول وقوفھم للحساب فی عرضات القیٰمۃ فکیف حال المفرطین المنھمکین فی الآثام و الشبھات المکاثرین بہ المشغمین بشھواتہم الذین قیل فیہم الہٰکم التکاثر حتی ذرتم المقابر کلا سوف تعلمون فھذہ المطالب الفاسدۃ ھی التی استولت علیٰ قلوب الخلق فسخرھا للشیطان و جعلھا ضحکتہ لہ علیہ و علیٰ کل متشمر فی عداوۃ نفسہ ان یتعلم علاج ھذا المرض الذی حل بالقلوب فعلاج مرض القلوب اھم من علاج مرض الابدان ولا یبخوا الا من اتی اللہ بقلب سلیم ولہ دوا آن احدھما ملازمۃ ذکر الموت و طول التامل فیہ الاعتبار بخاتمۃ الملوک و ارباب الدنیا انھم کیف جمعوا کثیرا و بتو قصورا و فرحوا بالدنیا بطرا و غرورا فصار قصورھم قبورا و اصبح جمعھم ھباء منثورا و کان امر اللہ قدرا مقدورا اولم یبدلھم کم اھلکنا من قبلھم من القرون یمشون فی مساکنہم ان فی ذلک لآیات افلا یسمعون قصورھم و املاکھم و مساکنہم صوامت ناطقہ بلسان حالہا علی غرور اعمالہا فانظر الآن جمیعھم ھل تحسن منھم من احد او تسمع لھم مرکزا الدواء الثانی التدبر فی کتاب اللہ تعالیٰ ففیہ شفاء رحمۃ اللعالمین وقد اوصی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بملازمۃ ھذا الواعظین فقال ترکت فیکم واعظین صامتا و ناطقا القرآن و قد اصبح اکثر الناس امواتا عن کتاب اللہ و ان کانوا احیا فی معایشھم و بکما عن کتاب اللہ تعالیٰ و ان کانوا یتلونہ بالسنتہم و صما عن سماعہ و ان کانوا یسمحون باذاہم و عمیا عن عجائبہ و ان کانوا ینظرون الیہ فی مصاحفھم و ایمین فی اسرارہ و معانیہ و ان کانوا یسرحون فی تفاسیرھم فاحذر ان تکون منھم تدبر امرک و امر من لم یتدبر امر نفسہ کیف ندم و تحسروا نظر فی امرک و امر من لم نظر فی امر نفسہ کیف خاب عند الموت و خسروا لفظ آیاتہ و احدۃ فی کتاب اللہ تعالیٰ ففیہا مقنع و بلاغ لکل ذی بصیرۃ لا یلھکم اموالکم ولا اولاد کم عن ذکر اللہ و من یفعل ذلک فاولٰئک ھم الخاسرون فایاک ثم ایاک ان تشغل یجمع المال فان فرحک بہ یسنیکم امر الآخرۃ و ینزع حلاوۃ الایمان من قبلک قال علیہ الصلواۃ والسلام لا تنظروا الی اموال اھل الدنیا فان یریق اموالھم یذھب حلاوۃ ایمانکم ھذہ ثمرۃ مجرد النظر فکیف عاقبۃ الجمع والطغیان والبطر و اما القاضی الجلیل الامام مردان کثر اللہ فی اھل العلم مثلہ فھو قرۃ العین و قد جمع بین الفضلین العلم والتقویٰ ولکن الاتمام بالدوام ولایتم لہ الدوام الا بمساعدہ من جھتہ و معاونۃ لہ علیہ بما یزید فی رغبتہ ومن العم علیہ بمثل ھذا ولد النجیب فینبغی ان یتحدہ ذخر الآخرۃ و وسیلۃ عند اللہ تعالیٰ وان یسعی فی فراغہ لعبادۃ اللہ تعالیٰ فلا یقطع علیہ الطریق الی اللہ تعالیٰ و ان الطریق الی اللہ تعالیٰ طلب الحلال و القناعۃ بقدر القوۃ من المال و النزع و عن ترجوا مات اھل الدنیا التی ھی مصاید الشیطان ھذا مع الذب عن مخالطۃ الامراء و السلاطین ففی الخبران الفقہاء امناء اللہ عالیٰ ما لم یدخلوا فی الدنیا فاذا دخلوا فیھا فاعوھھم علیٰ دینکم و ھذہ امور قد ھداہ اللہ تعالیٰ الیھاد و یسرھا علیہ فینبغی ان بمدد بر کہ الرضا و یمدہ بالدعا فدعاء الولد اعظم ذخر وعد فی الدنیا والآخرہ و ینبغی اں یقتدی بہ فیما یوثرہ من النزوع عن الدنیا فالو ولد ان کان فرعا فربما صار بمذید العمل اصلا و لذلک قال ابراھیم علیہ الصلواۃ والسلام یا ابت انی قد جاء فی من العلم مالم یاتک فابتغی احدک صراطا سویا و لیجتہد ان یجر تقصیرہ فی القیمہ بتوقیر فیہ ولدہ الذی ھو فلذۃ کبدہ فاعظم حسرۃ اھل الدنیا فی الآخرۃ ان یعتمد حمیما یشفع لھم قال اللہ تعالیٰ فلیس لہ الیوم ھہنا حمیم اسال اللہ تعالیٰ ان یصغر فی عینہ الدنیا التی ھی صغیرۃ عند اللہ و ان یعظم فی عینہ الدین الذی ھو عظیم عندہ و ان یوفقنا و ایاہ لمرضاتہ و یحلہ الفردوس الاعلیٰ و جناتہ و بفضلہ انشاء اللہ تعالیٰ۔ چنیں شنیدم کہ قاضی مروان بدار السلام آمدہ بود تا منشوری از دارالخلافت حاصل کند بتولیت قضا از جہت پدر خویش و بحشمت حجۃ الاسلام توسیل کردہ در عہدے کہ وے مدرس بغداد بود مگر حجۃ الاسلام بروی ثنا گفتہ بود و التماس کردہ تا قضا بادے دھند رایٔ اشرف امامی نبوی چناں تقاضا عزیز کرد کہ گفت تا کسی را کہ ندانیم و بر حال و صفات وی مطلع نباشیم قضا بوی ندھیم اما بحکم التماس حجۃ الاسلام قضا بہ پدر وی دھیم کہ حاضر است قاضی مروان ازاں ادا کرد حق پدر را و التماس کرد از حجۃ الاسلام تا شرح حال بہ پدر وے نویسد حجۃ الاسلام گفت اگر حقیقت حال نویسم غمزی نمایند در دار الخلافہ لکن نامہ علی الاطلاق بنویسم و تعرض ایں معنی بکنم پس ایں نوشت و بوی فرستاد مکتوب الیہ چوں نامہ بوی رسیدہ بود و بر حقیقت حال مطلع گشتہ گفتہ بود کہ خدای را شکر می کنم کہ قضا بمن ندادند تا حجۃ الاسلام بمن ایں نہ نوشت۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باب چہارم در انچہ بفقہا و آیمۂ دین نوشتہ است نامۂ اول بخواجہ امام احمد از عباسی کہ از مختلفہ حجۃ الاسلام بود نوشتہ است بسم اللہ الرحمن الرحیم اصل ہمہ وصیتہا در دو کلمہ جمع کرد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی را کہ از وی وصیت درخواست گفت قل ربی اللہ ثم استقم حقیقت ربی اللہ آنست کہ نیستیٔ خود بہ بیند و ہستیٔ حق تعالیٰ غالب شود پس نیستی ہر چہ جزویست بیند تا ہستی بروی مقصور بود و کلیت وجود وی را باشد ہر چند التفات وی از اغیار منقطع تر می شود وجود حق را مسلم تر می شود تا خود جز ویرانہ بیند و دل وی بر ہیچ چیز اعتماد نکند و ’’استقم‘‘ ایں استقامت در سہ اصل است در دل و در اخلاق و صفات دل و در جوارح استقامت در جوارح آن است کہ حرکات و سکنات ہمہ برفق سنت بود و استقامت در اخلاق آنست کہ انیعات شہوات بہ نفس خود نبود بلکہ با شارت دین بود و قوت وی باید کہ ازاں فاصر بود کہ جوارح بجنباند الا یفرمان و منتظر باشد تا پیشتر آں چہ مشتہی ویست عقل آں را بسنجد و مقدار و وقت کیفیت آں بداند کہ صواب آں چیست چوں مقرر شد و دستوری یافت انبعاث وی بداں قدر بود و طبع شہوت آنست کہ چوں مشتہی پیش آید حیلت کند گوید ایں یک فراگیرم تا بار دیگر امتناع کنم و علاج وی آنست کہ گوید ایں یک بار بادب باش و آرام گیر تا دیگر بار فراگذارم چوں بدیگر بار رسد ہمیں عشوہ بدھد وے را چناں کہ وی ہر بار عشوہ دھد کہ مرا فرو گذار ایں بار کہ دیگر بار فروایستم و اما استقامت دل آنست کہ قرار گاہ ذکر حق تعالیٰ بود و مراقب می باشد تا ھیچ چیز دیگر بروی گذر نکند و اگر گذر کند ولاید باشد کہ گذر کند جہد آں کند تا گذر آں بر حواشی بود در صمیم دل متمکن نشود بلکہ صمیم دل ذکر را مسلم بود و دیگر ضرورات بظاہر دل می گذرد و ھمگی دل بہیچ چیز ندھد الا بذکر حق تعالیٰ و چوں واقعہ بیوفتد کہ لشکر جرار ھمہ دل را غصب کند بزودی دل ازاں باز بسناند و با سر ذکر شود و واذکر ربک اذا نسیت و چوں ذکر بر دل غالب شود فی اکثر الاحوال وے بر شہوت غالب بود فی اکثر الامور و حرکات بوزن سنت باشد الا علی الندور فقد ترجحت کفۃ الحساب و حصل باستحقاق العفو والنجاۃ ان سلم فی دوامہ عن ھوا جم الافات۔ نامۂ دوم جواب ابو الحسن مسعود بن محمد بن غانم کہ حجۃ الاسلام نوشتہ است بسم اللہ الرحمن الرحیم رسید عزیز نوشتہ فلاں حرس اللہ تائیدہ و ادام توفیقہ و تسدیدہ معرب از کرم عہد و عزارت علم و وفور فضل مسلے از لوعت اشتیاق چہ عہد بمشاھدہ و بمکاتبہ وی دراز گشتہ بود و در جملہ اسفار دل بجانب وی نگراں بود پیوستہ تنم اخبار وی می رفت و بہ اکبابی کہ کردہ بود بر تحصیل و اقبالی کہ مشاھدت می کرد در مواظبت اعتداد و استبشار تمام حاصل می آمد و خود بدانچہ بمشاہدہ دیدہ بودم از عقل و کیاست وی و تفرس کردہ از متانت و دیانت و حسن عقیدہ وی واثق بودم کہ در جملہ احوال جز سمت استقامت را ملازم نباشد و جز کار ہایٔ دینی را متشمر نہ بود چہ او ایل و مبادی کا رہا بر اواخر دلیل بود درخصال خیر و اکنوں در علم و فقہ و ادب درجہ استقلال حاصل کرد ایستادن بر مدارج فضل کار عاجزاں باشد باید کہ بعلمی اعلیٰ کہ درجات علومست ترقی کند و از فرض کفایت روی بفرض عین آورد و از علمی کہ بیشتر روی در خلق دارد یا علمی انتقال کند کہ جملگی آں روی در آخرت دارد بدانکہ حاصل علم مذہب فی ما وراء ربع العبادات قانون و قساطیس است میان رسا میان و عوام چوں بحکم شہوات و جہالت و بتنازع و تجاذب حظوظ دینوی مشغول شوند و آں چہ مناسبت دارد با علمی کہ ثمرہ آں معرفت اسرار ربوبیت باشد۔ و حاصل علم خلافی رجم ظنی است در طلب صواب در کاری کہ خطای آں را یک اجر بود و صواب آں را دو اجر در حق کسی بود کہ بدرجہ اجتہاد رسد فان اخطاء فلہ اجر واحد و ان اصاب فلہ اجران۔ علمی کہ مصارفت میان صواب و خطای او پیش ازیں نبود چہ مناسبت دارد با علمی کہ مصارفت میان خطا و صواب وی سعادت ابد و شقاوت اید بود و ایں معرفت اسرار جوہر آدمی است کہ بشناسد کہ صفات مہلکات وی چیست و آں چہ منجیات و مسعدات ویست چیست و آں چہ کیمیا است اگر بر جوھر دل تابد ویرا از اسفل السافلین بحضرت الٰہیت رساند کہ آں را اعلی العلیین گویند و آں را چہ را ہست کہ سلوک آں راہ بدیں درجہ رساند جوہر آدمی را و زاد آں راہ عبقات آں راہ چیست و اگر وے را راہ دھند تا شمہ ازیں علم بیابد علوم دگر ہمہ در چشم وی حقیر و مختصر شود و لیکن تا نچشد نداند ؎ مرغے کہ خبر ندارد از آب زلال منقار در آب شود رارد ہمہ حال و بحکم آنکہ اعتقادے ہست در کیاست وے و وصف جوہر وے کہ دانستہ ام کہ قابل باشد ہر علم را کہ با سرار دین تعلق دارند تنبیہ کردہ آمد والسلام۔ نامۂ سوم کہ در حق بعضی از مختلفہ خویش نوشتہ در معنی عنایت و تیمار داشت علیٰ نعت الاطلاق الی کل من یصل بسم اللہ الرحمن الرحیم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الدنیا ملعونۃ و ملعون ما فیہا الا ما کان للہ منھا آں ارتفاع رتبت و جاہ و اتساع ثروت و مال ہمہ تخم شقاوتست و سبب دمار الا آں چہ مال چنیں گفت صاحب شرح علیہ السلام نعم المال الصالح للرجل الصالح و مبرور ترین قربتی و مقبول ترین براتے بموضع ترین اکرامی آں بود کہ مصیب آں اھل علم و دین و ورع بود والسلام۔ نامۂ چہارم کہ نوشتہ است در معنی اخوانیات بخواجہ عباس بخوارزم بسم اللہ الرحمن الرحیم سلام اللہ تعالیٰ علیہ اخوت دین و قرابت علم از ھمہ وسایل راسخ تر است و اگرچہ بظاہر تعارفی نرفتہ است تعارف باطن موکد است و الارواح جنود مجندۃ والنظر الی القلوب لا الا القوالب و تا ہمت و سیرت وی بہ تفصیل شنیدہ ام دل قوتے و انتعاشے بر گرفتہ است و شکر می گویم کہ الحمد للہ کہ روی زمین ھنوز خالی نیست از کسی کہ میان علوم شرع و سیرت تصوف و اقتداء بصحابہ جمع کردہ است کہ با حاد آں قیام نمودن غریبست و جمع کردن میان ایں ھمہ عزیز و اگر طریق دعوت خلق در دست گرفتے و ایشاں را برضا و طریق سعادت خواندی و بگذاشتے تا مردمان ویٔ را سلام گفتندی اقتداء وی بصحابہ تمام شدی و غایت کمال بودی و من احسن قولا ممن دعا الی اللہ و عمل صالحا و قال اننی من المسلمین اسال اللہ تعالیٰ ان لا یجرمنا عن برکات القاسہ و حرکاتہ۔ نامۂ پنجم کہ نوشتہ در جواب ابن العامل بسم اللہ الرحمن الرحیم والصلوٰۃ علی رسولیہ محمد و الہ اجمعین سلام اللہ تعالیٰ علی الشیخ الامام و رحمۃ اللہ و برکاتہ و رافتہ نوشتہ کریم وی محتشم رسید مشتمل بر انواع تفضل و اکرام و معرب از غزارت فضل و وفور علم و خلوص اعتقاد و بداں استظہار و اعتداد حاصل شد و اسال اللہ تعالیٰ ان یکثر فی اھل العلم و زمرۃ الفضل مثالہ و ان یعرفہ عوالم العلم و اغوارہ فکل علم و فضل اثم شیئا سوی اللہ تعالیٰ و متابعۃ رسولہ فھو و بال علیٰ صاحبہ و قد قال رسول اللہ صلی علیہ وسلم من از داد علما و لم یزدد ھدی لم یزدد من اللہ تعالیٰ الا بعدا العلم الھادی ھو الذی یدعوک من الخلق الی الخالق و من الدنیا الی الآخرۃ و من التکبر الی التواضع و من الحرص الی الزھد و من الریأ الی الاخلاص و من انشک الی الیقین و من اسرۃ المترفین الی سیرۃ المتقین و بیش تر خلق چنیں دانند کہ ہر کہ بعلم دین مشغول است سالک راہ دین است و سیہات فقد روی فی المسند علی الصحیحین ان النبیی علیہ الصلوٰۃ والسلام قال من طلب علما مما یبتغی بہ وجہ اللہ لینال بہ عرض الدنیا لم یجد عرف الجنۃ و بہ حقیقت اھل علم را ایں مصیبت بسندہ است کہ خطر جمع فضل و علم بیشتر از خلق مال است کہ مال از دنیا است و شاید کہ بداں دنیا طلب کند اما علم دین از دین است چوں وسیلہ دنیا سازند از جملہ کبایر بود یکی را از بزرگان می آرند کہ گفت من طلب الدین یا قبح ما یطلب بہ الدنیا کان اعذر ممن طلب الدنیا باحسن ما یطلب بہ الآخرۃ چہ دنیا را برایٔ دین آفریدہ اند نہ دین را از برای دنیا دنیا تبعست و خادم و دین مخدوم و متبوع ہر کہ مخدوم را وسیلہ خادم سازد و وضع الٰہی را معکوس و منعکوس گردانیدہ بود و وضح الٰہی خود نگردد اما وی بصورت و عمل خویش منکوس بود ہم دریں عالم لکن ایں چشم ھا ظاہر انکاس وی نہ بیند چوں ایں چشم فرا شود و عالم دیگر پدید آید کہ حقائق معانی را از غطا و کسوت صورت برھنہ کنند و صورت تبع صفت شود و ھر کسے را بصورتی کہ ملایم صفت وی بود بیروں آورند تا صاحب شرہ خویشتن را بر صورت خری بیند و صاحب کبر خویشتن را بر صورت پلنگے بیند و صاحب غضب خویشتن را بر صورت گرگی بیند و صاحب دنیا بعلم دینی خویشتن را منکوس و معکوس بیند و با وے گویند فکشفنا عنک غطاء ک فبصرک الیوم حدید ولو تریٰ اذ المجرمون ناکسو رؤسھم عند ربھم ربنا ابصرنا و سمعنا فارجعنا نعمل صالحا انا موقنون جواب چنیں آید کہ اولم نعمرکم ما یتذکر فیہ من تذکرو جائکم النذیر فذوقوا فلما للظالمین من نصیر و ایں مصیبتی است جملہ علما را و اھل علم دیں برسہ قسم اند گروھی ازیں مصیبت غافل اند و بے خبر و اسم علما بریشاں مجاز محض است اولئک ھم الغافلون لا جرم انھم فی الآخرۃ ھم الخاسرون و گروہی دیگر دریں ماتم نشستہ اند و ازیں مصیبت خلاص نیافتہ اند و ایں نیز در روزگار ما نادر است و گروہے دیگر ازیں خاص و ھم السابقون السابقون اولیک المقربون و طوبی لعین راتھم اورات من رآھم و لیتنا کنا ممن اکتحلت ابصارھم بلقیا ھم فمنھم ظالم نفسہ و منھم مقتصد و منھم سابق بالخیرات باذن اللہ ایں سہ گروہ اند اسال اللہ تعالیٰ ان یجعلنا و ایاہ من المخلصین و ان یعیدنا من غرور العالمین بکرمہ و سعۃ جودہ والسلام۔ نامۂ ششم کہ نوشتہ است در حق بعضی از مختلفہ خویش تا وی را بطلب علم و تحصیل رھا کند و قاطع راہ وی نیابد بسم اللہ الرحمن الرحیم بداں کہ ایزد سبحانہ تعالیٰ تقدیر چناں کردہ است کہ طلاب سعادت بوسیلہ علم و تقویٰ عزیز باشند و بزرگ و از ھزاراں عددی اندک بود کہ روی بہ تحصیل آورند و روی از اشغال و اعمال دنیوی بگدانند و ازاں طبقہ کہ توفیق یابند کہ روی بعلم آورند اند کے باشند کہ قریحت و فہم ایشاں مہیا بود ادراک غوامض علوم را و ازاں قوم کہ ذکا و قریحت ایشاں تمام بود اند کے باشند کہ اخلاق ایشاں چناں باشد کہ علم ایشاں آلت شوق جمع دنیا و طلب حطام نگردد تا میان علم و عمل جمع کنند و راہ آلت تقویٰ را ملازمت کنند و راھبری خلق را شایند و ازاں قوم باشند کہ حق تعالیٰ گفت و جعلنا ھم آیمۃ یھدون بامرنا لما صبروا و کانوا بآیاتنا یوقنون نہ ازاں قوم کہ گفت و اتل علیھم نباء الذی اتبأہ آیاتنا فانسلح منھا الایتہ و ایں قوم اندک کہ فطنت ایشاں استعداد کمال علم دارد و فطرت ایشاں استعداد قبول تقویٰ دارد تقدیر چناں رفتہ است کہ شیاطین را بریشاں مسلط کنند تا عوایق می انگیزد تا بوجہے کہ ممکن بود ایں راہ را قبل الاستکمال بر ایشاں قطع کند و یکی از عوائق قرابت است و یکی مال و ضیعت است ویکی مناقشت و خصومت و اینہمہ از شیطانست در قطع طریق ایں طالب و فلاں از جملہ ایں اندک است کہ بفطنت و فطرت استعداد کمال علم و تقویٰ دارد اگر تواند کہ اسباب فراغت وی ساختہ دارد تا بذروہ کمال رسد ثمرہ آں در دین و دنیا ہم گناں بہ بینند و اگر ہر ساعتی تقاضا باز آمدن می کند و در اسباب فراغت وی فتوری می نماید و در شفقت عین بی شفقتی می ورزد قاطع راہ وی بودہ باشد و قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تکن عونا للشیطان علیٰ اخیک و ھمانا گوید باز آمدن روزی چند بر طریق صلہ رحم قطع ایں طریق نبود بیش تر از طلب علم منقطع بدیں شدہ اند کہ بدیں قصد و اندیشہ با وطن شوند و عتبہ خانہ بلند بود و وطن آستانہ علایق و عوایق بود تا کار نا ساختہ بعائقی مقید شود و از سرکار برخیزد آں چہ نصیحت بود گفتہ آمد کل میسر لما خلق لہ فطوبی لمن خلق للخیر و الاعانۃ علیہ۔ نامۂ ہفتم کہ بقاضی امام سعید عماد الدین محمد وزاں نوشتہ درحق کسی بر سبیل عنایت و تیمار داشت و شفقت بسم اللہ الرحمن الرحیم اعتداد بد آں چہ میرسد از اخبار و انتظام اھل وی و افرست و بحکم شمول ایمان و المومنون کنفس واحدۃ و قربت علم مساھمت در سر او خر واجب است و ھر چہ از احوال علم مناسبت دارد سیرت علماء سلف بود و زاد آخرت و ذخیرہ قیامت و اقتداء امت را شاید نعمتی بزرگ بود و ہمہ را بداں شاد باید بود و تہنیت باید کرد و ہر چہ بخلاف ایں بود مصیبتی بزرگ بود ہمہ را در ماتم ایں مصیبت شریک باید بود و بحکم آں کہ مکاتبہ بے فایدہ نوعی از تصنع و رسم باشد قلم نگاہ میدارم مگر بوقت حاجت قال اللہ تعالیٰ لا خیر فی کثیر من نجویھم الا من امر بصدقتہ او معروف او اصلاح بین الناس و مکاتبہ و مراسلہ ھم دریں معنی مناجات و مشافہت بود و سبب تحریر ایں دلالتست بر شرح حال فلاں کہ از فاضلاں و مبارزاں اصحاب رائے است و با نواع فضل آراستہ است و دریں وقت قصد آں ناحیہ کرد بفلاں مہم از عنایت وی مستغنی نباشد آں چہ در حق وی تقدیم کند از عنایت و اکرام و قضاء حق و فضل وے در احترام بثواب جزیل و دعاء صالح و شکر و ثناء فاتح مقابل بود۔ نامۂ ھشتم کہ نوشتہ است علی نعت الاطلاق الی کل من یضل در حق بعضی از مفوضہ خویش بر سبیل عنایت و شفقت بسم اللہ الرحمن الرحیم شعب و مقامات راہ دین ہر چند کہ بسیار است لکن جملہ آں از دو ورق بیروں نیست اول ورق معاملہ است دوم ورق معرفت و معاملہ مقدمہ معرفت است و بدایت معاملہ لقمہ حلال است و نہایت معاملہ اخلاص در جملہ اعمال چوں ازیں نہایت در گذرد بدایت ورق معرفت رسد و اول خط ایں ورق حقیقت لا الہ الا اللہ است کہ بصفتے پدیدار آید قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اول ما خط اللہ تعالیٰ فی الکتب الاول لا الہ الا انا وسعت رحمتی علی غضبی و در ورق معاملہ ھمیں کلمہ ھست لکن عقیدہ باشد و بدرجہ صفتے نرسیدہ باشد وچوں آں کلمہ بصفتی پدیدار آید کہ عقید ھائے دیگر ھمہ توابع آں اصل است از قشور الفاظ بروں آمدن گیرد و لباب از قشور مکشوف شدن گیرد در ورق معرفت سخن کوتاہ اولتر چہ ہر کلمہ ازیں ورق کہ سالک راہ بداں رسید از شرح مستغنی شد و ہر کہ بداں نرسیدہ بود ھنوز نزدیک وی منکر بود ثمرہ گفتار با وی خصومت کردن بود ھنوز نزدیک وے نہ ھدایت اما ورق معاملہ سخن در وی ھر چند مشروح تر نافع تر و گفتیم کہ اول ایں ورق لقمہ حلال است و ورع در طلب حلال بر چہار وجہ است اول ورع عدل است کہ با نعدام آں عدالت شہادت و روایت و قضا حاصل نشود و ہر چہ از اموال دنیا در فتویٰ علماء شرح حرامست آں ورع را باطل کند دوم درجہ ورع صالحانست کہ نیک مرداں از مواقع شبہات احتراز کنند اگرچہ در ظاہر شرع حرام نباشد چناں کہ رسول گفت صلی اللہ علیہ وسلم بعضے از اصحاب را استبفت عن قبلک و ان افتوک المفتون و گفت دع ما یریبک الی ما لا یریبک و آں از فضایل است نہ از فرائض و سوم ورع متقیان است قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یکون المرء من المتقین حتی یدع ما لا باس بہ مخافۃ ما بہ بس و ازیں بود کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ در دھان سنگے نہادی تا سخن مباح نیز نگوید کہ نباید کہ درمیان آں چہ نشاید نیز گفتہ آید و عمر خطاب رضی اللہ عنہ بویٔ مشک شنید از مقنعہ اھل خویش کہ مشک بیت المال سختہ بود و انگشت در مقنعہ مالیدہ عمر مقنعہ می شست و در خاک می مالید تا بویٔ جملہ از وی بشد ھر چند آں در محل تسامح بود لکن ترسید کہ چوں راہ کشادہ گردد بزیادت ایں ادا کند و چہارم درجہ ورع صدیقانست کہ ہمہ مباحات بر خویشتن حرام کند الا آں چہ بر ای حق تعالیٰ بود و ھو لاء قوم لا یاکلون الا للہ ولا یشربون الا للہ ولا ینطقون الا للہ ولا یسکنون الا للہ طعام بر ای قوت طاعت خورند و قیلولہ بر ای تہجد کنند و خواب اول شب بر ای وقت سحر کنند نطق ایشاں ذکر بود و سکوت ایشاں فکر بود و نظر ایشاں عبرت بود و اغماض ایشاں ھیبت و حرمت بود و ھمہ احوال ھمچنیں پس کسانیکہ ایشاں را از ورق معاملہ حلال و حرام خبر بود در سہ مقام فرود آمدند چناں کہ حق تعالیٰ گفت ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبدنا الایۃ کسانیکہ بر درجہ ورع عدول اقتصار کردند از مقتصد انند و گروھی کہ بداں وفا نکردند لکن بندور۔ و از قیام بداں تقاعد نمودند ظالمانند و کسانیکہ بداں قناعت نکردند لکن بدرجاتے کہ وراء آنست ترقی کردند سابقانند و کسانیکہ قصد علو درجہ چہارم کردند سابقان سابقانند و درجہ سابقان در آخر زمان ممتنع است یا عزیز و متعذر لکن امیدوار است کہ کسانیکہ دریں اعصار بورع عدل قیام نمایند و شرط آں بجای آورند کہ ایشاں را درجۂ سابقان دھند قال علیہ الصلوٰۃ والسلام سیاتی علی الناس زمان من تمسک بعشر ما انتم علیہ بخا فقیل ولم ذلک قال لا نکم تجدون علی الخیر اعوانا پس اگر کسی گمان ببرد کہ ہر کہ بمال دھقاناں و بازاریاں قناعت کنند از سابقانست و آں کہ مال سلطان قبول کند بہمہ احوال از ظالمانست خطا پندارد بلکہ چناں کہ مال بازاریاں امیختہ است و تفصیل دارد مال سلاطین ہمچنیں تفصیلے دارد و مال سلاطین بر سہ قسم است یکی مالی کہ مغصوب و مصادر است و قسمت و خراج از کسیکہ معروف و معیں نیست و ایں حرام محض است و ستانندہ ایں اگر با خداوند آں ندھد از ظالمان است دوم مالی کہ آں از ارتفاع ایشاں بود از مالکی کہ خریدہ باشد احیا کردہ و تخم خریدہ باشد یا ازاں بزرگر بود ستانندہ از مقتصدانست نہ از ظالماں و اگر در بہایٔ ملک شبہتے راہ یافتہ باشد بدیں شبہت ورع سابقاں فوت شود نہ ورع عدول و مقتصداں و سوم آں کہ مغصوب حرامست لکن مالک را نشناسند فتویٰ شرع دریں مال آنست کہ ازیشاں ستدن و بمصالح و بدرویشاں رسانیدن اولیٰ تر از آں کہ در دست ایشاں بگذاشتن تا آلت ظلم و فساد سازند لکن ستانندہ باید کہ یا درویش بود و بقدر حاجت ستاند یا توانگر بود و ھیچ چیز در وجہ خویشتن صرف نکند لکن بدرویشاں و مصالح رساند و ہر کہ بضرورت عیال ازیں مال از قدر حاجت بین نستاند از مقتصدانست و ظالم نیست و فلاں مدتے بخانقاہ ما مقام کرد و سیرت وی پسندیدہ بود و اگر برای ضرورت عیال از خیرات موسع و اوقاف و مال سلطان چیزی طلب کرد اول بر فتویٰ شرع عرضہ کرد و بر محل رخصت اختصار کرد و عزیز باشد کہ کسی دریں روزگار با اقلال و کثرۃ اعیال احوال و اعمال بمیزان فتویٰ شرع سختہ دارد و چنیں مردی دریں روزگار مستحق دخار بود نہ مستحق مہاجرت و انکار تا فلاں برادر و دیگر مشایخ کثر اللہ فی الدنیا فی الدین امثالھم ایں معنی از احوال وی بشنوند مقدم ویرا با قبال و قبول تلفی کنند والسلام علیٰ سید المرسلین۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باب پنجم در فضول و مواعظ کہ بر وقت گفتہ است و نوشتہ فصل اول از انشاء او در ذکر آفات علم و مناظرہ و تذکیر و بیان خط نفس در وے و کیفیت استدراج و استغوا ابلیس اھل علم را بواسطہ مناظرہ و تذکیر بسخط حق تعالیٰ و بشقاوت ابد و بیان جل وے بسم اللہ الرحمن الرحیم نصیحت کردن و نصیحت خواستن ھر دو آسان است دشوار قبول کردن است خاصہ بر کسیکہ بطلب علم و فضل علم مشغول بود کہ پندارد کہ علم مجرد وسیلہ وی خواھد بود و از عمل مستغنی است و حاجت وی بیشتر ست کہ حجت بروے موکد تر است و اشد الناس عذابا یوم القیمۃ عالم لا ینفعہ اللہ بعلمہ پس اگر سعادت آخرت میخواھی و نمی باید کہ علم بر تو حجت گردد از چہار کار حذر کن اول آنکہ مناظرہ مکن کہ فایدہ بیش از ریاضتی و کسب قوتی در طبع نیست و آفات او بسیار است فاثم اکبر من نفعہ چہ وی منبع اخلاق ذمیمہ است چوں ریا و حسد و مباھات و غیر آں پس اگر چیزی مشکل شود و محتاج شود بدانکہ آنچہ حق است بداند بدیں نیت روا بود۔ ایں را دو علامت است یکی آنکہ فرق نکند میان آنکہ حق بر زبان او مکشوف شود یا برزبان خصم و دیگر آنکہ تذکیر مکن و ازیں سخن بیندیش کہ با عیسیٰ علیہ السلام گفتند یا ابن مریم عظ نفسک فان اتعظت فعط الناس و الا فاستحی منی پس اگر بای مراعات اقارب بدیں مبتلی شود از دو چیز احتراز کن یکی آنکہ از تفاصح و عبارت بسیار و اسجاع متوالی حذر کن کہ خدای تعالیٰ متکلفاں را دشمن دارد و تکلف سجع خاصہ کہ از یکی در گزشتہ دلیل خرابی باطن و غفلت دل بود چہ معنی تذکیر آنست کہ آتش مصیبت خطر آخرت در دل افتد ومرد را بے قرار کند جوش آں آتش و نوحہ آں مصیبت را تذکیر گویند اگر سیلابی بدر سرائے کسی رسد و فرزندان وی را ہلاک کند منادی ندا در سرای در دھد کہ الحذر الحذر بگریزید کہ سیل آمد دریں وقت وی را ھیچ سجع و تفاصح تکلف نباشد مثال بذکریا خلق ھمیں است و دیگر آنکہ دل بآں ندارد کہ تا خلق نعرہ زنند و حال کنند و شود در مجلس افگنند تا مردمان گویند کہ مجلس خوش بود کہ ایں ہم دلیل غفلت و ریا بود و لکن ہمت بآں دارد کہ قبلہ ایشاں بگرداند از دنیا بآخرت و از حرص بزھد و از غفلت بہ بیداری چنانکہ چوں بیروں شوند چیزے از صفات باطن ایشاں بگردیدہ باشد و یا در معاملہ ظاہر پیدا گشتہ بود در طاعتے کہ فاتر بودہ اند راغب شوند و بر معصیتی کہ دلیر بودہ اند ازاں باز گردند تذکیر ایں بود وگرنہ ایں ہمہ و بال بود بر گویندہ و شنوندہ۔ سوم آنکہ بہ ھیچ سلطان ملام مکن و بایشاں البتہ مخالطہ مکن کہ فتنۂ مجالست سلاطین بزرگ است و کسیکہ مبتلے شود بدیدار ایشاں باید کہ قضای مداحی و اطناب در ثنائے ایشاں در باقی کند و چوں از مجلس آیند ہمچنیں فان اللہ تعالیٰ یغضب اذا مدح الفاسق و من دعا لظالم بطور البقاء فقد احب ان یصیٰ اللہ فی الارض۔ چہارم آنکہ از سلطان ھیچ چیز مستاں و اگرچہ مثلاً حلال بود۔ طمع بمال و جاہ ایشاں سبب فساد دین بود و ازاں مداھنۃ و مراعات و موافقت بر ظلم و غیر آں لازم آید و ایں ہمہ ہلاکت بود ایں چہار مخطور است کہ ایں احتراز باید کرد کہ نا کرد نیست اما آنچہ کرد نیست چہار اصل است دراں ملازمت کند۔ اول آنکہ ہر معاملہ کہ میان او و میان خلق است چناں کند کہ اگر با وی کنند پسند و روا دارد فلا یکمل ایمان عبد حتی یحب لسائر الناس ما یحب لنفسہ دوم آنکہ ہر معاملہ کہ میان او و خالق است تعالیٰ و تقدس چناں کند کہ اگر بندہ وی در حق وی کند پسندد و ہر چہ از بندہ خویش در حق خود نہ پسندد با آنکہ وی را بہ حقیقت بندہ نباشد از خویشتن در بندگی حق تعالیٰ نہ پسندد و سوم آنکہ چوں بتربیت علم مشغول شود بداں علم مشغول شود کہ اگر بدانستی کہ تا یک ہفتہ دیگر وفات وے خواہد بود با ہماں مشغول شدی و ایں نہ شعر بود و نہ ترسل و نہ خلاف و نہ مذہب و نہ اصول و نہ کلام آنکس کہ بدانست کہ تا یک ہفتہ دیگر بخواہد مرد اگر موفق بود جز بمراقبہ دل و معرفت صفات وے مشغول نشود تا وے را پاک گرداند از علائق دنیا و ہر علاقہ کہ جز حق تعالیٰ۔ و آراستہ گرداند بہ محبت حق تعالیٰ و صفاتے کہ مرضی بود عنداللہ و اگر کسے را خبر دھند کہ بادشاہ اسلام بسلام تو خواہد آمدن دریں ہفتہ بہیچ دیگر مشغول نشود جز بدانکہ مطرح نظر بادشاہ بود و تن و جامہ و سراے خویش پاک بکند از مکارہ و بیار آید بمحاسن و ان اللہ تعالیٰ لا ینظر الیٰ صورکم ولا الی اعمالکم و انما ینظر الیٰ قلوبکم و علم احوال دل از ربع مہلکات و منجیات بتواند شناخت از کتاب احیا یا کیمیا یا جواہر قرآن۔ علم مہم تر و فرض عین ایں است بروی۔ باقی یا فضل است چوں خلاف مذہب یا فضول چوں شعر و ترسل و چہارم آنکہ مال دنیا چنداں کسب کند کہ اگر بآسانی بداں عالم خواہد رفت بسندہ کند و ذلک قدر الکفاف لہ الذی ارتضاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا ھل بیتہ اذ قال اللھم اجعل قوت آل محمد کفافا و قال علیہ الصلواۃ والسلام من اخذ من الدنیا فوق ما یکفیہ اخذ جیفۃ و ھو لا یشعر۔ فصل دوم در حق کسی گفت کہ بدایتہ الہدایتہ نوشتہ بود در معنی شرایطی و اوصافے کہ می باید در متعلم تا اہلیت آں دارد کہ بدایتہ الہدایتہ بر خواند بسم اللہ الرحمن الرحیم آنچہ دریں کتاب نوشتی بدایت ہدایت است نہ نہایت و نشان ہدایت آنست کہ یک نفس باشی و یک ہمت و یک اندیشہ و یک دیدار یک نفس آنست کہ دل در گذشتہ و نہ آمدہ نہ بندد و ویرانہ فردا بود نہ دی نہ برگذشتہ تاسف خورد و نہ ناآمدہ را تدبیر کند بلکہ جز یک نفس را کہ نقدست مراعات نکند کہ گذشتہ نیست و بہ یقین است و آنکہ مستقبل است ممکن است کہ نیست بود بہ یقین جزیں یک نفس نیست و یک ہمت آں بود کہ دریں یک نفس وی را ھیچ قبلہ و مقصد نبود جز حق تعالیٰ۔ روی بوے آرد لازم بود ذکر وی را بل شہود وی را بل دیدار وی را و ایں ہمہ را یک درجہ دیگر است و یک اندیشہ آں بود کہ خود را بآسانی کند تا ہر خاطر کہ جز حق تعالیٰ است و جز کاری کہ بوی تعلق دارد از دل نفی کند الدنیا معلونۃ و معلون ما فیھا الا ذکر اللہ وما و الاء و ہر چہ جز حق تعالیٰ است دریں معنی است و یک دیدار آنست کہ در ہرچہ نگرد حق را بآں بہم بیند کہ در وجود خود حقیقت جز وی نیست دیگر آں ہمہ نیست ہست نمایست و ایں ہر یک را نیز درجہ ایست و ہم درجات عنداللہ ہر کہ در درجہ باشد ازیں درجات از بدایت بہ نہایت ہدایت رسد والسلام۔ فصل سوم در حق اباحتیان زندیق و بیان غوایت ایشاں و طریق استیلاء شیطان بریشاں و بیان آنکہ ایشاں بد ترین خلق اند بسم اللہ الرحمن الرحیم ستفترق امتی بینف و سبعین فرقہ الناجیہ منھا واحدۃ گفت امت من ہفتاد و دو فرقہ باشند و رستگاران از جملہ ایشاں یک فریق باشد و دیگر ہمہ ہلاک شوند و سبب ایں افتراق آں بود کہ امت بسہ گروہ شدہ اند دراصل۔ بہترین و بد ترین و میانہ۔ بہترین امت صوفیاں بودند کہ ہمہ مراد و شہوت خویش در مراد حق بگذاشتند و بد ترین فاسقاں بودند و کسانیکہ ظلم کنند و شراب خورند و زنا کنند و عنان شہوت فراگذارند بدانچہ خواہند و توانند و خویش را غرور دھند کہ خدای تعالیٰ کریم و رحیم است و بریں اعتماد کنند و میان اھل صلاح بوند از جملہ عوام خلق پس ہر قسمی بست و چہار قسم گشتند بدانکہ با یک دیگر بیا میختند و جملہ ھفتاد و دو فریق شدند و سبب زیادت ایں قسم ھا آں بود کہ شیطان حسد کرد صوفیاں را کہ بہترین خلق بودند ہیچ معصیت و شہوت آلودہ نبودند و حسد کرد فاسقاں را و گفت اگرچہ ایشاں بد ترین امت اند لکن امید آنست کہ رسوائی خویش بدانند و بچشم نقصان در خویشتن نگرند و توبہ کنند و چوں ایزد و سبحانہ تعالیٰ بپزیرد کہ گفتہ است و انی لغفار لمن تاب پس طریقی باید ساخت تا ایں پاکاں آلودہ گردند و ملوث گردند بمعاصی و ایں فاسقاں ناپاکاں کور گردند تا آلودگی و رسوائی خویش نہ بیند پش خواست کہ از میان صوفیاں و فاسقاں ترکیبی سازد و بیامد و صوفیاں را گفت شما آرامید و خویشتن را مربخانید بیفادہ۔ و خدای را بہ طاعت شما چہ حاجت و از معصیت شما چہ زیان و خدای رحیم و کریم است و آمر زندہ و مقصود از تکالیف ضبط عوام خلق است تا بسبت اموال دنیا خصومت نکنند و مقصود از طاعت قربت است بخدای تعالیٰ و شمارا ایں قربت ہست پس نفس را ربخانیدن و از شہوات دنیا دست بداشتن جز ابلہی نبود۔ ایں جماعت چوں وسواس در دل ایشاں اثر کرد و طبیعت برای طلب شہوت دنیا مدد فرستاد ایں راسخ و مستحکم گشت سر در سر معاصی نہادند زن و فرزند را مباح کردند و بجامہ و لباس صوفیاں می بودند و الفاظ بو زن می گفتند و ندانستند کہ خدای اگرچہ کریم است شدید العقاب است و قربت ایشاں بیش از قربت و درجہ پیغمبران نباشد و جملہ پیغمبران از طاعت و عبادت دست نداشتند و بدیں شبہ مغرور نشدند پس شیطان چوں آں درخت در دل ایشاں نشاند از کار ایشاں فارغ شد و دانست کہ بعد ازیں نیز با صلاح نیایند و قابل علاج نباشند چہ جملہ شہوات دنیا را اسیر گشتند و بزی صوفیاں زندگانی می کنند و خویشتن را از مقربان درگاہ عزت می دانند پس بحقیقت باید دانست کہ ایں قوم بد ترین خلق اند و بد ترین امت اند و علاج ایشاں مایوس شدن است و بایشاں مناظرہ کردن و نصیحت گفتن سود ندارد بلکہ قمع و استیصال ایشاں و ریختن خون ایشاں واجب است و جز ازیں طریق نیست در اصلاح یفعل اللہ بالسیف والسنان ما لا یفعل بالبرھان والقرآن۔ فصل چہارم در نصیحت چنیں شنیدہ ام کہ کسے از دور بنزدیک حجۃ الاسلام آمدہ بود و ازو نصیحت خواستہ حجۃ الاسلام ایں نصیحت کرد قال اللہ تعالیٰ و ذکر فان الذکرے تنفع المؤمنین اگر طالب راہ سعادتی بدانکہ اصول سعادت سہ است ملازمت و مخالفت و موافقت۔ ملازمت ذکر حق تعالیٰ در ہمہ احوال چنانکہ ہیچ ازاں خالی نباشی تا توانی۔ و مخالفت نفس و ھوا را تا شکستہ شود و اسیر تو گردد و ترا از ملازمت ذکر باز ندارد و چہ اگر غالب شود ترا اسیر گیرد و بداں مشغول دارد کہ ھواے وے باشد و از حق تعالیٰ حجاب کنند۔ و موافقت با حدود شرع و سنن و آداب در ہمہ حرکات و سکنات ظاہر و در ہمہ اندیشہائے و ظن چوں توفیق ہر سہ دادند تا دل ہمہ ذکر گشت و جوارح ہمہ بصفت فرمان گشت و صفات نفس ہمہ مقہور شد خلقت سعادت تمام شد و بزرگ ترین کرامات حاصل شد پس ازیں اگر چیزے نماید و صورتے بینی یا نورے نمایشے کند در بدایت کند دل دراں مبند و بداں التفات مکن و آں را بس وزنی مداں و اگر نہ بینی دل مشغول نیز مدار چوں ایں سہ است کہ گفتہ آمد آبادان بود و السلام۔ فصل پنجم در حق شہاب الاسلام گفت در مشافہہ در وقتی کہ از قلعہ ترمذ خلاص یافت و بطوس نزول کرد روز آدینہ در جامع بود حجۃ الاسلام سلام نماز باز داد و فرا نزدیک وی رفت و وی را پرسید و گفت قال اللہ تعالیٰ ولنذیقنھم من العذاب الا دنی دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون الطاف حق تعالیٰ در حق دوستان خویش بسیار است و انواع مکروی در حق دشمنان وی بسیار و مکروا مکرا و مکرنا مکرا و ھم لا یشعرون چہار صد سال فرعون را درد سر ندھد تا در غوایت بحدیش رساند کہ گوید انا ربکم الا علیٰ قلعہ ترمذ و غیر آں از انواع منتبہ کمند الطاف حضرت حق است کہ بندگان و دوستان را با خود میخواند لعلھم یرجعون تا باشد کہ بدیں سبب از شقاوت ابد خلاص یا بند و متنبہ شوند و چوں در حق تو آں کمند بینداخت و ظاہر گشت اثر تنبہ باید کہ ظاہر شود بر جملہ اعضا و اثر آں متنبہہ آں بود کہ چوں بر چشم ظاہر شود ہمہ عبرت بیند و آیت حق و الٰہیت و توحید بیند و اگر بر زبان ظاہر شود ہمہ ذکر حق شود و اگر بر دل مستولی شود ہمہ در شہود حق بود و ہرچہ جز حق بود ازاں اعراض کند و بداں التفات نکند و اگر بر قدم ظاہر شود ہمہ در راہ حق بر گیرد پس اگر چیزے از جملہ ایں آثار بر یکے از اعضا ظاہر شود آں تنبیہ افگندہ باشد بغنیمت باید دانست و اگر نہ تن در باید داد و عقوبت اکبر را انتظار باید کرد دون العذاب الاکبر و آں نہ عذابست با آتش دوزخ بل عقوبت دل بود بآتش روحانی نار اللہ الموقدۃ التی تطلع علی الافئدۃ حجاب بود از حضرت الٰہیت کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون ثم انھم لصالوا الجیم ایزد تعالیٰ ہمہ بزبان و دل آں را ناد کہ سبب نجات شود از ھر دو نوع عذاب و سبب سعادت ابدی بود و نزدیکی بہ حق تعالیٰ و رضاء وی۔ فصل ششم در حث و تحریص بر اخلاص در دعاء استسقا و نماز استقا آفات متراکم است و بلا ھای آسمان متواتر و خواطر مشوش و ہمت ھا بکار دنیا مشغول و اندیشہا از راہ حق مصروف و بر زخارف دنیا و تحصیل آں مقصور ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم چوں مردمان بکلی بر طلب دنیا اقبال کردند و براں اکباب نمودند دنیا بیک بار پشت پریشان داشت کل یتبوع ممنوع والحریص محروم طریق معالجہ آنست کہ بر طاعت و عبادت مواظبت کنند و بداں مشغول شوند و از دنیا و طلب آں اعراض کنند و طاعت بہر اخلاص دنیا و ثناء مردمان و ثواب منتظر نکنند بلکہ از برای حق تعالیٰ کنند و طاعت ایشاں سمت اخلاص بود برضاء حق تعالیٰ نزدیک گردند و شایستہ حضرت الٰہیت شوند و مناسبتے میان ارواح و روحانیات محققق شود انگہ اگر دعائے کنند یا از حق تعالیٰ چیزی در خواہند آں را اجابت بزودی ظاہر شود و ادعونی استجب لکم در حق ایں قوم بود و الا دعا کردن بے ایں شرایط الغائی بلا فایدہ بود والسلام۔ کفار سے موالات خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: لا یتخذ المؤمنون الکفرین اولیاء من دون المومنین و من یفعل ذالک فلیس من اللہ فی شئی الا ان تتقوا منھم تقٰہ و یحذرکم اللہ نفسہ و الی اللہ المصیر قل ان تخفوا ما فی صدورکم او تبدوہ یعلم اللہ و یعلم ما فی السموات وما فی الارض واللہ علیٰ قل شیء قدیر۔ نہ بناویں دوست مسلمان کافروں کو دوست سوائے ایمان والوں کے اور جس نے ایسا کیا تو اللہ سے اس کے لیے کچھ نہیں مگر یہ کہ تم (ان کے شر) سے بچنے کے لیے ایک بچائو کرو۔ اور اللہ اپنے سے تم کو ڈراتا ہے اور اللہ کے پاس جانا ہے کہ وے (اے پیغمبر) اگر تم چھپائو گے جو کچھ تمہارے دل میں ہے یا اس کو ظاہر کرو گے اس کو خدا جانتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس آیت کی نسبت مسلمان عالموں نے بہت بحث کی ہے اور متعدد معنی نکالے ہیں، مگر تمام آیت پر غور کرنے سے ظاہر ہے کہ اس میں کافروں کے ساتھ محبت یا دوستی فی الدین ممنوع ہے، یعنی کافروں سے اس وجہ سے دوستی و محبت کرنی کہ ان کا دین اچھا ہے منع بلکہ کفر ہے اور اس کے سوا اور قسم کی دوستی و محبت ممنوع نہیں ہے۔ بہ تخصیص خود اس آیت سے ظاہر ہے کیوں کہ اسی میں فرمایا ہے۔ ’’و من یفعل ذالک فلیس من اللہ فی شی‘‘ جس سے اس دوستی کرنے والے کا کفر لازم آتا ہے اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ محبت منجر بکفر نہ ہو اور وہ منجر بکفر نہیں ہو سکتی جب تک کہ تحسین فی الدین نہ ہو۔ اصل یہ ہے کہ جب مسلمان کافران مکہ کے پنجے میں پھنس جاتے تھے تو وہ ان کو ایذا دیتے تھے اور اسلام سے پھیر کر پھر اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتے تھے۔ اس مصیبت کے سبب یہ حکم نازل ہوا ہے جس میں یہ ہدایت ہے کہ کافروں سے دوستی و محبت فی الدین مت کرو لیکن اگر ان کے شر سے بچنے کے لیے بچائو کر لو تو کچھ گناہ نہیں ہے۔ کیوں کہ دل کی بات اور ظاہر کی بات سب خدا جانتا ہے۔ یہ آیت مثل سورہ نحل کی آیت کے ہے جہاں کافروں کے عذاب کی نسبت خدا نے فرمایا ہے کہ ’’الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان‘‘ یعنی جس شخص نے جبر سے کفر کی بات کہہ دی ہے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہے تو اس کو کچھ عذاب نہ ہو گا۔ علمائے مفسرین نے اگرچہ متعدد تاویلیں اس آیت کی کی ہیں مگر وہ مطلب بھی جو ہم نے بیان کیا ہے انھوں نے تسلیم کیا ہے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کا سبب یہ ہے کہ چند یہودیوں نے مسلمانوں سے میل جول اس غرض سے شروع کیا کہ ان کو ان کے دین سے پھیر دیں۔ رخاعۃ بن المنذر اور عبدالرحمن بن جبیر و سعد بن خثیمہ نے ان مسلمانوں سے کہا کہ تم ان سے بچے رہو کہ تم کو تمہارے دین سے نہ پھیر دیں اس پر آیت نازل ہوئی۔ اسی تفسیر میں ’’الا ان تتقوا منھم تقاہ‘‘ کے ذیل میں ایک قصہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابیوں کو مسیلمہ کذاب نے پکڑ لیا۔ مسیلمہ کہتا تھا کہ قوم قریش کے لیے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر ہیں اور بنی حنیفہ کے لیے میں پیغمبر ہوں۔ اس نے ایک صحابی سے پوچھا کہ محمد پیغمبر ہیں انھوں نے جواب دیا کہ ہاں، ہاں ، ہاں۔ پھر اس نے پوچھا کہ میں بھی پیغمبر ہوں۔ انھوں نے کہا ہاں۔ جب دوسرے صحابی سے پوچھا کہ محمد پیغمبر ہیں انھوں نے کہا کہ ہاں اور جب یہ پوچھا کہ میں بھی پیغمبر ہوں تو انھوں نے کہا کہ میں بہرا ہوں۔ اس پر مسیلمہ نے ان کو مروا ڈالا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو اپنے یقین پر مارا گیا اور اس نے رخصت پر عمل کیا۔ اسی تفسیر میں لکھا ہے کہ کافروں کی دوستی تین طرح پر ہو سکتی ہے ایک یہ ہے کہ اس کے کفر کو پسند کرتا ہو اور کفر کے سبب اس سے دوستی رکھتا ہو۔ ایسی دوستی تو منع بلکہ کفر ہے۔ دوسرے یہ کہ دنیاوی امور میں بحسب ظاہر معاشرت جمیلہ یعنی اچھا میل جول ہو اور یہ ممنوع نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ کافروں کے ساتھ میلان ہوتا اور ان کی اعانت اور مدد اور نصرت کرنا بسبب قرابت کے یا محبت کے اس اعتقاد کے ساتھ کہ ان کا مذہب باطل ہے ممنوع ہے مگر کفر نہیں۔ مگر ممنوع ہونے کی جو وجہ لکھی ہے وہ محض ناکافی ہے یعنی اس میں لکھا ہے کہ ممنوع اس لیے ہے کہ اس طرح کا برتائو کبھی ان کی کفر کی پسندیدگی پر منجر ہو جاتا ہے، مگر یہ بات محض لغو اور خود اپنے خیال سے پیدا کی ہوئی ہے جو مذہبی مسئلہ کی بنیاد نہیں ہو سکتی۔ پس ان تمام روایتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ کفار سے محبت اور دوستی من حیث الدین ممنوع ہے اس کے سوا کسی قسم کی دوستی اور معاشرت و محبت و وفاداری اور امداد اور کسی طرح کی راہ و رسم مذہب اسلام کی رو سے ممنوع نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمت قبلہ کی تحویل تحویل قبلہ کا ذکر شروع کرنے سے پہلے ہم کو یہ بات بتانی چاہیے کہ حضرت ابراہیم کے وقت میں قبلہ یا سمت قبلہ کا کیا حال تھا۔ اس امر کا بیان اس بات پر موقوف ہے کہ حضرت ابراہیم کے زمانہ میں نماز کے کیا ارکان تھے۔ غالباً اس نماز میں بھی رکوع و سجدہ ہو، مگر ہمارے پاس کوئی ثبوت اس امر کا نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم کے زمانہ میں نماز کے بعینہٖ یہی ارکان تھے۔ جو اب مذہب اسلام میں ہیں نہ یہ ثابت ہے کہ اس نماز میں جیسے کہ وہ ہو اسی طرح پر رکوع و سجدہ تھا جیسے کہ ہماری نماز میں ہے بلکہ اگر اس زمانے کے حالات اور اس زمانے کی وحشی قوموں کی عبادت پر خیال کریں تو بجز اس کے اور کچھ نہیں پایا جاتا کہ وہ لوگ آپس میں حلقہ باندھ کر کھڑے ہو جاتے تھے اور کودتے اچھلتے تھے اور وہ حلقہ کا حلقہ اسی طرح چکر کھاتا جاتا تھا اور اسی جوش و خروش میں کھڑے ہو جاتے تھے اور سر ٹیک دیتے تھے اور اس کا نام پکارتے جاتے تھے۔ یا اس کی تعریف کے گیت گاتے تھے جس کی وہ عبادت کرتے تھے اسی نماز کا نشان اسلام میں طریقہ ابراہیمی پر موجود ہے جس کا نام مذہب اسلام میں طواف کعبہ قرار پایا ہے۔ ابن عباس سے مشکوۃ میں روایت ہے کہ ’’ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال الطواف حول البیت مثل الصلواۃ الا انکم متکلمون فیہ فمن تکلم فیہ فلا یتکلمن الا بخیر‘‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کعبہ کے گرد طواف کرنا مثل نماز کے ہے۔ گو یہ طریقہ نماز کا وحشیانہ ہو مگر اس میں کچھ شبہ نہیں کہ حال کی مودب اور باوقار نمازوں سے زیادہ پرجوش اور زیادہ تر محبت معبود کا برانگیختہ کرنے والا اور معبود کے شوق کو زیادہ تر جوش میںلانے والا اور دل کو خالص اس کی یاد میں مشغول کرنے والا تھا۔ یہ حرکتیں انسان میں بالطبع مجنون کا سا جوش پیدا کر دیتی ہیں اور جس طرح مجنون کسی بات میں مشغول ہو اسی طرح خدا کی یاد میں انسان کو مشغول کر دیتی ہیں۔ حضرت ابراہیم کے زمانہ میں جو طریقہ نماز کا ہو اس سے زیادہ اور کچھ نہیں تھا۔ ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ کوئی سمت قبلہ کی معین نہیں ہوتی۔ یہ تمام ذوق و شوق اور اچھل کود اس شے کے گرد ہوتا تھا جس کو وہ بطور خدا کی نشانی کے قائم کرتے تھے۔ اسی قسم کی پرستش اب بھی بعضی بعضی وحشی قوموں میں پائی جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم خدا کی نشانی کے لیے ایک بن گھڑا پتھر کھڑا کر لیتے تھے اور جو عبادت یا نماز ہوتی تھی وہ اسی کے گرد ہوتی تھی۔ اس نے حضرت ابراہیم کے زمانہ میں کوئی خاص سمت کا قبلہ ہونا بجز اس نشان کے جس کو وہ قائم کر لیتے تھے اور کچھ نہیں پایا جاتا۔ حضرت ابراہیم کی اولاد کا حال جہاں تک ہم کو ملا ہے اس سے پایا جاتا ہے کہ وہ بھی کعبہ کی جانب کو سمت قبلہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ ہر جگہ پتھر کھڑا کر کے اسی کے گرد اسی وحشیانہ طریقہ پر عبادت کرتے تھے چناں چہ ارزقی نے کتاب اخبار مکہ میں لکھا ہے کہ بی اسماعیل اور جرھم جو مکہ میںرہتے تھے۔ ان کو گنجائش نہ ہوئی تو وہ ملک میںنکلے اور معاش کی تلاش میں پڑے۔ پس لوگ خیال کرتے ہیں کہ اولاً پتھر کا پوجنا بنی اسماعیل میں اس طرح شروع ہوا کہ جب ان میں سے کوئی مکہ جاتا تو حرم کے پتھروں میں سے ایک پتھر اٹھا لیتا تھا۔ حرم کو بزرگ سمجھ کر اور مکہ اور کعبہ کے شوق میں جہاں اترتے تھے تو اس پتھر کو رکھ لیتے تھے اور اس کے گرد مثل کعبہ کے طواف کرتے تھے۔ پھر اس کی یہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ جو پتھر اچھا دیکھتے اور جو حرم کا پتھر عجیب اور اچھا معلوم ہوتا اس کی عبادت کرتے۔ اسی طرح پشتوں پر پشتیں گزر گئیں اور بھول گئے جو بات پہلی تھی اور ابراہیم اور اسماعیل کے دین کو بدل دیا اور بتوں کو پوجنے لگے۔ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ اسماعیل اور جرھم کی اولاد میں پشت در پشت کبھی کعبہ کی جانب سمت قبلہ نہیں قرار پائی تھی اور ان کا طریقہ عبادت ہی کا ایسا تھا کہ کوئی سمت قبلہ قرار نہیں پا سکتی تھی۔ قرآن مجید میں بھی کہیں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ خدا نے اسماعیل یا اس کی اولاد کے لیے کعبہ کو سمت قبلہ مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔ زمانہ جاھلیت میں جب کہ عرب کی قوم نے کعبہ میں بت رکھ دیے تھے۔ اس زمانہ میں بھی جو کچھ ان کی پوجا ہوتی ہو گی و ہ کعبہ میںہوتی ہو گی، لیکن یہ بات کہ جب وہ کعبہ سے دور چلے جاتے تھے اور اور مقاموں میں ہوتے تھے جب بھی کعبہ کی طرف منہ کر کے پوجا کرتے تھے کسی طرح ثابت نہیں۔ بنی اسرائیل میں جب بیت المقدس کی تعمیر ہو گئی تو وہ بھی بطور ایک مسجد کے بنائی گئی تھی اور تمام رسومات عبادت کی جو کچھ کہ بنی اسرائیل ادا کرتے تھے اسی معبد یا مسجد میں جا کر ادا کرتے تھے، مگر اس زمانہ تعمیر بیت المقدس میںان کے وحشیانہ طریق عبادت یا نماز میں کافی اصلاح ہو گئی اور ایک باقاعدہ ارکان نماز کے جس میں قیام اور رکوع بھی تھا قرار پائے۔ ہم کو عہد عتیق کی کوئی ایسی آیت نہیں ملی جس سے یہ ثابت ہو کہ خدا نے بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا تھا کہ جب تم بیت المقدس سے دور ہو تو اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو مگر جب بنی اسرائیل کی نماز باقاعدہ ہو گئی تھی اور اس کے ادا کرنے میں کسی نہ کسی طرف منہ کا ہونا ایک لازمی امر تھا۔ اس لیے بالطبع بنی اسرائیل اس بات پر مائل ہوئے ہوں گے کہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور اس طرح پر بیت المقدس ان کا سمت قبلہ قرار پایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد نبوت قریب تیرہ برس کے مکہ میں تشریف رکھی۔ اس بحث کو چھوڑ دو کہ نماز پنج گانہ فرض ہو چکی تھی یا نہیں اور جو ارکان نماز کے بالفعل مسلمانوں میں مقرر ہیں وہ مقرر ہو چکے تھے یا نہیں۔ مگر اس میں کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ اس زمانہ دراز میں بھی کوئی طریقہ عبادت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرور اختیار کیا تھا۔ خواہ یہی ارکان نماز کے اختیار کیے ہوں جو بالفعل موجود ہیں خواہ بعد کو ان میں کچھ اصلاح ہو گئی ہو، لیکن یہ بات نہیں ہے کہ ایسی حالتوں میں جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ سے بعید ہوں تو انھوں نے نماز یا عبادت ادا کرنے میں کعبہ کی طرف منہ کر کے ادا کرنا بطور ایک امر لازمی کے جس سے ثبوت سمت قبلہ کا ہو اختیار فرمایا ہو بلکہ ہر طرح قرینہ و قیاس اس بات کا مقتضی ہے کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں تشریف رکھی کوئی سمت قبلہ اختیار نہیں کی۔ جب کہ حضرت مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے جہاں یہودی کثرت سے تھے اور ان کی نماز بھی قریباً قریباً اسی قسم کی تھی جیسی کہ مسلمانوں کی تھی، تو بالطبع آنحضرت کو اسی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنے کی رغبت ہوئی۔ بلاشبہ یہ امر مشرکین کو شاق گزرا ہوگا، لیکن بیت المقدس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنے میں ایک بڑی حکمت یہ تھی کہ مشرکین میں سے جو لوگ منافق تھے وہ اصلی ایمان والوں سے بالکل ممیز ہو جاتے تھے۔ یہی بات خدا تعالیٰ نے بھی فرمائی ہے کہ ’’وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ‘‘ یعنی ہم نے اس قبلہ کو کو جس پر تو تھا بہ جز اس مطلب کے اور کسی لیے نہیں مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں اس شخص کو جو پیروی کرتا ہے رسول کی اس شخص سے جو پھر جاتا ہے اپنی ایڑیوں پر۔ مدینہ میں اور اس کے گرد و نواح میں کثرت سے یہودی رہتے تھے اور انھوں نے بھی اسلام کی طرف رغبت ظاہر کی چند نے دل سے اسلام کو برحق جانا اور بہت سے ایسے تھے جو بطور منافقوں کے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ پس جو ضرورت منافقین مشرکین کو اصلی ایمان والوں کو ممیز کرنے کی پیش آئی تھی وہی ضرورت منافقین یہود کو اصلی ایمان والوں سے ممیز کرنے کی پیش آئی۔ ہر ایک شخص ظاہرداری کے لیے دوسرے مذہب کی جس کو کہ وہ حق نہیں سمجھتا جھوٹی باتوں میں منافقانہ طور پر شریک ہو سکتا ہے، لیکن کسی ایسی بات میں جو ایک امر عظیم ہو اور خاص عبادت سے علاقہ رکھتا ہو اور ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب میں داخل ہونے کی بطور ایک نشانی کے ہو اس کو بطور ایک نفاق کے ادا کرنے سے بالطبع نفرت اور پرہیز کرتا ہے اور جب تک کہ دل ہی سے اس دوسرے مذہب کو نہ قبول کر لیا ہو اس وقت تک اس کو ادا نہیں کرتا۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر ہوئی کہ سمت قبلہ کو تبدیل کیا جائے اور اس پر خدا سے وحی آئی کہ کعبہ کی طرف سمت قبلہ بدل دو۔ اسی کی طرف خدا تعالیٰ نے اشارہ کیا ہے جہاں فرمایا ہے۔ ’’قد نری تقلب وجھک فی السماء فلنولینک قبلۃ ترضھا قول وجھک شطر المسجد الحرام‘‘ یعنی ہم نے دیکھا تیرا منہ کا پھیرنا آسمان کی طرف پھر ضرور ہم تجھ کو ایک ایسے قبلہ کی طرف پھیریں گے جس کو تو پسند کرے گا۔ پس پھیر اپنا منہ مسجد حرام کی طرف۔ بیت المقدس اور بیت الحرام دونوں مسجدیں تھیں اور دونوں میں سے کسی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا برابر تھا، مگر ایسا کرنے سے منفاقین یہود کی اصلی ایمان والوں سے تمیز ہو گئی۔ یہ امر ایک ایسا ممیز قرار پایا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ ’’من استقبل قبلتنا فھو مسلم‘‘ یعنی جس شخص نے کہ ہمارے قبلہ کی طرف نماز پڑھی وہ مسلمان ہے اور در حقیقت یہ امر ایسا ہے کہ جب تک کوئی یہودی دل سے مسلمان نہ ہو گیا ہو بیت المقدس چھوڑ کر کعبہ کی طرف نماز پڑھنے پر بالطبع اس کو جرأت نہیں ہو سکتی۔ اسی نشان کے قائم مقام اور مستحکم رہنے کو خدا نے یہ حکم دیا کہ جہاں کہیں تم ہو اور جہاں کہیں جائو تو کعبہ ہی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو ، مگر سمت قبلہ قرار دینے میں ایک بڑا نقص یہ لازم آتا ہے کہ لوگوں کے خیال میں یہ بات جمتی ہے کہ اس سمت کو یا اس مکان کو جو سمت کے لیے مخصوص کیا گیا ہے خد اکی ذات سے کوئی خاص خصوصیت ہے اور اس سمت میں یا اس مکان میں بالتخصیص خدا ہے۔ اس خیال کے باطل کرنے کو صاف صاف ہدایتیں خدا نے تحویل قبلہ کے ساتھ ہی بتلا دیں۔ جہاں فرمایا ہے ’’و للہ المشرق والمغرب فاینما تولوا فثم وجہ اللہ‘‘ یعنی خدا کے لیے ہے مشرق اور مغرب۔ پس جدھر منہ کرو ادھر ہی خدا کا منہ یعنی اس کی ذات ہے اس ہدایت نے صاف صاف لوگوں کو شرک سے نجات دی اور جس طرح کہ مشرکین اپنے بتوں یا معبدوں کو سمت قبلہ بناتے ہیں اور جس طرح کہ مسلمانوں نے سمت قبلہ ٹھیرایا ہے ان دونوں کے فرق کو بخوبی سمجھا دیا ہے اور ہر شخص سمجھتا ہے کہ مشرکین کی سمت قبلہ میں کیا فرق ہے۔ مسلمانوں کے مذہب کے مطابق کوئی خصوصیت یا وقعت بیت المقدس یا بیت الحرام کو قبلہ ہونے کے لیے نہیں ہے۔ بجز اس کے کہ وہ صرف ابتداء ً واسطے تفریق درمیان منافقین اور مومنین کے ٹھیرایا گیا اور انتہاء ً بطور مسلمانوں کی ایک نشانی کے قرار پایا۔ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا اسلام کا کوئی اصلی حکم نہیں ہے اور جو احکام اسلام میں ہیں لوگ ان کو بخوبی نہیں سمجھتے۔ اس بات میں تو بہت لوگوں نے کوشش کی ہے کہ کون سا حکم فرض ہے اور کون سا واجب اور کون سا سنت اور کون سا مستحب۔ جو صرف ایک فرضی یا خیالی یا اصلاحی امور ہیں اور تفریق کو اصل مذہب اسلام سے کچھ چنداں تعلق نہیں ہے۔ اسلام کی حقیقت اوراس کے اسرار جاننے والے کو صرف اسی تفریق کا جاننا کافی نہیں ہے بلکہ اس کو اس امر کا تحقیق کرنا ضرور ہے کہ در حقیقت اصلی احکام اسلام کے جن پر اسلام قائم ہے کون سے ہیں اور ان کے سوا کون ہے۔ بالفعل مذہب اسلام جو ایک مجموعہ حقیقی اور فرضی یا واقعی اور قیاسی یا اجتہادی اور استنباطی احکام کا گنا جاتا ہے وہ دو قسم کے احکام پر منقسم ہو سکتا ہے: اول حقیقی اور واقعی۔ دوم فرضی اور قیاسی اور اجتہادی اور استنباطی۔ پچھلی قسم کو مذہب اسلام کے احکام قرار دینا صرف ایک فرضی یا اصطلاحی بات ہے اور صرف اس وجہ سے کہ آئمہ اسلام اور علمائے اسلام نے ان کو استخراج کیا ہے احکام اسلام کا بطور ایک اصطلاح کے ان پر اطلاق ہوتا ہے ورنہ درحقیقت وہ اصلی احکام مذہب اسلام کے نہیں ہیں۔ ہر شخص کو اختیار ہے کہ ان احکام کو تسلیم کرے خواہ نہ کرے۔ دونوں حالتوں میں اس کے اسلام میں کچھ فرق نہیں آتا۔ اگر در حقیقت وہ واقعی اصلی احکام اسلام کے ہوتے تو ان کے نہ ماننے سے اسلام سے خارج ہونا ایک امر لازمی ہوتا۔ جہاں تک کہ خرابیاں مذہب اسلام میں مخالفین بیان کرتے ہیں وہ اسی غلطی پر مبنی ہیں کہ انھوں نے ان احکام و مسائل کو جن کو علماء اور آئمہ نے استنباط اور استخراج کیا ہے جزو اسلام سمجھا ہے۔ حالاں کہ اسلام کو ان سے کچھ علاقہ نہیں۔ اگر وہ صحیح اور ٹھیک ہیں فہو المراد اور اگر ان میں کوئی غلطی اور خطاہے تو وہ ان کی ہے جنھوں نے ان کو استخراج کیا ہے۔ نہ مذہب اسلام کی۔ ہمارا مقصد اس بیان سے کسی عالم یا امام کی حقارت کرنے کا یا کسی شخص کی جو ان کی پیروی کرتا ہے تحقیر کرنے کا یا اس کو برا جاننے کا نہیں ہے۔ بلکہ صرف اصلی احکام اور استخراجی میں فرق بتانا اور ان لوگوں کو جو حقائق یا اسرار اسلام پر غور کرنا۔ یا مخالفین اسلام کو جو اس پر اعتراض کرنا چاہتے ہیں حقیقت احکام اور تفرقہ ان دونوں قسم کے احکام میں بتانا مقصود ہے تاکہ پہلے تحقیق حقائق یا اسرار اسلام میں اور پچھلے غلط بناء پر اعتراض کرنے میں غلطی نہ کریں۔ پہلی قسم البتہ بیان کے لائق ہے۔ مذہب اسلام میں جو اصلی اور واقعی احکام ہیں وہ دو قسم کے ہیں: ایک اصلی اور دوسرے محافظ احکام اصلی جس کو ہم اس زمانہ میں قانون اور ضابطہ کارروائی سے اصطلاح قانونی میں تعبیر کرتے ہیں۔ مذہب اسلام کے احکام اصلی جس قدر ہیں انھی پر اسلام کی بنیاد قائم ہے اور ان میں سے کوئی حکم بھی ایسا نہیں ہے جو قانون قدرت اور انسان کے نیچر کے خلاف ہو۔ بلکہ ان پر غور کرنے سے اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ مذہب انسان کے لیے بنایا گیا ہے نہ انسان مذہب کے لیے۔ احکام محافظ سے صرف احکام اصلی کی حفاظت مقصود ہے اور وہ خود مقصود بالذات نہیں ہیں۔ یہ احکام ایسے عام قاعدہ پر صادر ہوتے ہیں جو قریباً کل افراد کے مناسب حال ہیں اور ممکن کے کہ کسی شاذ و نادر فرد کے مناسب حال نہ ہوں، مگر ایسا ہونا ان احکام کے نقصان کا باعث نہیں ہے۔ کیوں کہ تمام احکام عام کا خاصہ یہ ہے کہ قریباً کل افراد کے مناسب حال ہوتے ہیں گو کہ کوئی شاذ و نادر فرد ایسے بھی نکلتے ہیں کہ اس کے مناسب حال نہ ہوں، مگر اس مطلب سے کہ قاعدہ کلیہ ٹوٹنے نہ پائے تمام افراد کے ساتھ یک ساں عمل کرنا واجب ہوتا ہے۔ احکام محافظ کی نسبت کسی نادان کا کوئی اعتراض کرنا اور ان کی نسبت اس بحث کا پیش کرنا کہ ان میں نیچر کی کیا مطابقت ہے اور ان احکام کو قانون قدرت سے کچھ تعلق نہیں معلوم ہوتا۔ ایک محض بے وقوفی کا اعتراض ہو گا۔ کیوں کہ وہ احکام بالذات اس اعتراض اور بحث کے کہ وہ نیچر کے مطابق ہیں یا نہیں مورد نہیں ہو سکتے۔ بلکہ ان پر یہ بحث ہو سکتی ہے کہ آیا وہ احکام ان اصلی احکام کے جو بالکل قانون قدرت کے مطابق ہیں محافظ ہیں یا نہیں۔ اگر ان کا محافظ ہونا ثابت ہو تو وہ بھی ضمناً داخل احکام اصلی اور مطابق قوانین قدرت اور صحیح تصور ہوں گے اور اگر ان سے اصلی احکام کی محافظت ثابت نہ ہو تو بلاشبہ وہ غلط ہوں گے۔ ہاں ایک بحث ان پر اور ہو سکتی ہے کہ جو طریقہ ان احکام اصلی کی حفاظت کا احکام محافظ میں قرار دیا ہے مثل اس کے دوسرا طریقہ بھی حفاظت کا موجود تھا حالاں کہ اس کے ترک اور اس کے اختیار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے یا یہ کہ ان احکام اصلی کی حفاظت کا دوسرا طریقہ اس سے بھی اچھا موجود تھا۔ پہلا شبہ اگر وہ تسلیم بھی کر لیا جاوے تو بھی لغو اور مہمل ہو گا۔ کیوں کہ یہ شبہ بطور ایک شبہ عامۃ الورود کے ہو گا جس کو تمام عقلا لغو اور بے ہودہ سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ اگر بالفرض دو مساوی چیزوں میں سے ایک کے ترک اور ایک کے اختیار کی کوئی وجہ نہ ہو تو جو شبہ اس پر وارد ہوتا ہے وہی شبہ اس وقت بھی وار د ہوگا کہ جب مختار کو ترک اور متروک کو اختیار کیا جاوے۔ دوسرا شبہ اگر وارد ہو تو البتہ تسلیم کے قابل ہو گا ، لیکن ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ مذہب اسلام میں جو طریقہ حفاظت احکام اصلی کا قرار دیا گیا ہے اس کے مساوی بھی کوئی طریقہ ان کی حفاظت اصلی کا نہیں ہے۔ چہ جاے اس کہ کہ اس سے افضل کوئی طریقہ دوسرا ہو۔ ہم اس مطلب کو دو ایک مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔ مثلاً نماز۔ قرآن مجید میں صرف نماز کا مقرر ہونا آیا ہے۔ اصلی حکم خدا کا اس سے صرف اس کے بندہ کا خدا کی طرف خلوص اور خضوع اور خشوع سے متوجہ ہونا اور عجز عبدیت کا ظاہر کرنا۔ اور شان خالقیت کا تسلیم کرنا اور اس کے سامنے اپنے تئیں عاجز اور ذلیل اور مسکیل بنانا ہے۔ ارکان نماز کے جو قرار دیے گئے ہیں وہ اس تمام خضوع و خشوع ظاہری اور باطنی کے محافظ ہیں۔ پس ان احکام محافظ پر اعتراض کرنا کہ نماز میں اٹھنا اور بیٹھنا اور سر ٹیکنا نیچر کے برخلاف ہے۔ ایک بیوقوفی کا اعتراض ہے۔ کیوں کہ ان احکام میں ایک یہ بات دیکھنی ہے کہ درحقیقت وہ اصلی حکم کے محافظ ہیں یا نہیں۔ ان احکام اصلی اور احکام محافظ کا تفرقہ ایسے مقام پر بخوبی واضح ہوجاتا ہے جب کہ کوئی حکم احکام محافظ میں سے ساقط ہو جاتا ہے اور اس کا سقوط ثابت کرتا ہے کہ وہ اصلی حکم نہیں تھا۔ جیسے نماز میں قیام اور قعود اور رکوع اور سجود اور قرأت یہ سب احکام محافظ ہیں۔ جب انسان ان پر قادر نہیں ہوتا تو کسی کا ادا کرنا بھی اس پر لازم نہیں ہوتا۔ بر خلاف اس اصلی نماز کے کہ وہ کسی حالت میں انسان سے جب تک کہ اس پر مکلف ہونے کا اطلاق کیا جاتا ہے ساقط نہیں ہوتا۔ اس سے جو تمیز کہ ان دونوں قسم کے احکام میں ہے وہ بخوبی واضح ہوتی ہے یا مثلاً اسلام نے ایک اخلاقی امر کی نسبت یہ حکم دیا ہے کہ جو عورت کہ اس کا خاوند مر جاوے یا اس کو طلاق دے تو اس کو دوسرا شوہر کرنے میں اس قدر توقف کرنا چاہیے جس سے معلوم ہو جاوے کہ وہ اس شوہر سے حاملہ ہے یا نہیں اور اس امر کے دریافت کرنے کو ایک معیاد مقرر کی ہے جو عورتوں کے نیچر سے مناسبت رکھتی ہے۔ یہ حکم احکام محافظ میں سے ایک حکم ہو گا اور بلاشبہ ایسی عورت نے جس نے اس مدت سے بھی زیادہ عرصہ سے اپنے شوہر سے مقاربت نہ کی ہو مناسب حال نہ ہو گا، مگر یہ حکم تمام افراد سے از روئے عمل کے لیے متعلق ہو گا کہ عام قاعدہ جو اکثر افراد سے متعلق ہے ٹوٹنے نہ پائے۔ پس اس حکم محافظ پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ قانون قدرت کے مطابق نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ حکم اس قانون قدرت کا محافظ ہے جس کے اولا د کو اپنے باپ پر اور باپ کو اپنی اولا د پر قانون قدرت کے موافق حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ مگر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اگرچہ احکام اصلی اور احکام محافظ اپنی اصلیت میں مختلف درجہ اور حقیقت رکھتے ہیں، لیکن عملاً دونوں کا درجہ برابر ہے اور اس لیے جس طرح احکام اصلی کی تعمیل لازم ہے اسی طرح احکام محافظ کی بھی تعلیم لازم ہے۔ کیوںکہ وہ دونوں لازم و ملزوم یا موقوف و موقوف علیہ ہیں اور اس لیے عملاً دونوں میں کچھ فرق نہیں۔ نماز میں سمت قبلہ کوئی حکم اصلی مذہب اسلام کا نہیں ہے اور اس لیے ایک ادنیٰ سے عذر پر ساقط ہو جاتا ہے۔ مثلاً سمت مشتبہ ہونے پر سہواً کسی دوسری سمت نماز پڑھ لینے پر بعض صورتوں میں گھوڑے کی سواری پر دریا کے سفر میں اور اس چودھویں صدی نبوی میں ریل کے سفر میں اور علیٰ ھٰذا القیاس۔ مگر چوں کہ یہ حکم بطور ایک نشان اور تمیز ان لوگوں کے قرار دیا گیا ہے۔ جنھوں نے اسلام قبول کیا ہے اس لیے اس کا بھی بجا لانا مثل احکام اصلی کے ضرور ہو گا اور قصداً ترک نہ کیا جائے گا۔ ہاں ان لوگوں پر تعجب ہو گا جو غلبہ اوھام سے سمت قبلہ کے لیے دوپہر میں باہر نکل کر سورج کو دیکھتے پھرتے ہیں کہ کس طرف سے نکلا ہے اور کس طرف ڈوبے گا اور اپنی جیبوں اور تسبیحوں میں قطب نما یا قبلہ نما رکھے لٹکائے پھرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ٹھیک ہماری ناک کعبہ کے سامنے ہو جائے اور اسی میں ایک بڑا ثواب اور ٹھیک نماز کا ادا کرنا سمجھتے ہیں۔ سمت قبلہ کی تحویل پر یہودی جو طعنہ دیتے تھے اس کا ذکر بھی خدا نے اس مقام پر کیا ہے اور ان کی نادانی کو بتلایا ہے کہ باوجود اس بات کے جاننے کے کہ تحویل قبلہ ٹھیک ہے۔ پھر اس پر طعنہ کرتے ہیں ۔ جہاں فرمایا کہ ’’یعرفونہ کما یعوفون ابناء ھم‘‘ یعنی یہودی تحویل قبلہ کا حق ہونا ایسا ہی جانتے ہیں جیسے کہ وہ اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں۔ ’’یعرفونہ‘‘ میں جو ضمیر ہے اس کی نسبت مفسروں میں اختلاف ہے اکثر تو اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف راجع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہودی رورایت کی بشارات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی بر حق ہونا ایسا ہی یقینی جانتے تھے جیسے کہ وہ اپنے بیٹوں کو جانتے تھے اور ابن عباس اور قتادہ اور ربیع اور ابن زید کا یہ قول ہے کہ ’’یعرفونہ‘‘ کی ضمیر امر قبلہ کی طرف راجع ہے اور یہی رائے صحیح معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ یہاں اول سے آخر تک امور متعلق قبلہ کا ذکر ہے۔ نہ آنحضرت ﷺ کے نبی ہونے کی بشارات کا۔ توریت میںحضرت ابراہیم کا اور حضرت اسماعیل کا اور ان کے فاران میں یعنی حجاز میں آباد ہونے کا ذکر موجود ہے ۔ جس پر یہودی مذہبی اعتقاد سے بھی یقین رکھتے تھے۔ یہودی توریت کی رو سے اس بات کو بھی یقینی جانتے تھے کہ حضرت ابراہیم کا طریقہ عبادت کے لیے مذبح قائم کرنے اور بیت ایل یعنی بیت اللہ بنانے کا تھا۔ ان کو اپنی قومی اور پشتینی روایتوں سے کامل یقین تھا کہ کعبہ حضرت ابراہیم کا بنایا ہوا بیت اللہ ہے اور من وجہ بیت المقدس سے ترجیح رکھتا ہے اور اس کی طرف سمت قبلہ ہونا عین حق اور درست ہے۔ انھی وجود پر خدا نے فرمایا کہ ’’یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم‘‘ اور یہی وجہ ان کے الزام کی ہے کہ باوجود ان سب باتوں کے جاننے کے حق بات کو چھپاتے ہیں اور پھر تحویل قبلہ پر طعنہ دیتے ہیں۔ یہ سب باتیں جو ہم نے بیان کیں ایسی صاف و صریح ہیں کہ ہر شخص جو قرآن مجید کی سیاق و سباق عبارت پر غور کرے گا بلاشبہ ان کوتسلیم کرے گا۔ اس سلسلے میں ہمیں ایک اور روایت بیان کرنی ہے کہ اختیار کرنا سمت قبلہ کا گو وہ کیس ہی خدا پرستی پر مبنی ہو خوف اور اندیشہ سے خالی نہیں ہوتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تردد تھا کہ کہیں کعبہ بت پرستوں کی مانند نہ پجنے لگے۔ اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے متعدد طرح سے اس کو رفع کیا ہے۔ ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’و للہ المشرق و المغرب فاینما تولوا فثم وجھہ اللہ‘‘ اور اس آیت میں فرمایا کہ ’’لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق و المغرب‘‘ اور پھر بتایا کہ خدا کو، قیامت کو، فرشتوں کو، نبیوں کی کتابوں کو۔ نبیوں کو ماننا خدا کی محبت سے غریب قرابت مندوں ، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور قیدیوں کو کچھ دینا۔ غلاموں کو آزاد کرنا، نماز پڑھنی، زکواۃ دینی، اقرار پورا کرنا، سختی اور مصیبت میں اور لڑائی میں صبر کرنا دراصل نیکی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسئلۂ قصاص قرآن مجید میں ’’کتب علیکم القصاص‘‘ والی آیت میں تین حکم ہیں۔ پہلا حکم اسلام میں قصاص کا قائم کرنا ہے۔ دوسرا حکم جو معاوضہ خون کا زمانہ جاہلیت میں یعنی قبل اسلام کے تھا بعد اسلام اس کا باطل کرنا ہے۔ تیسرا حکم ان معاہدوں کا قائم رکھنا ہے جو باہم قبل اسلام کے خونوں کی بابت ہوئے تھے۔ عرب کے مختلف قبیلے جب مسلمان ہو گئے تو ان میں ایسے بھی لوگ تھے، جنھوں نے ایک دوسرے کو مار ڈالا تھا اور اس وقت تک مقتول لوگوں نے قاتل سے بدلا نہیں لیا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں بدلا لینے کا یہ دستور تھا کہ جو قومیں زبردست اور شریف تھیں وہ اپنے تئیں دوسری قوموں سے اس طرح بدلا لینے کا مستحق سمجھتی تھیں کہ اپنے غلام کے بدلے ان میں کے ایک فرد کو اور اپنی عورت کے بدلے ان کے مرد کو اور اپنے مرد کے بدلے ان کے دو مردوں کو ماریں اور نیز زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ مقتول کے وارث خون کو معاف کر دیتے تھے اور کبھی قتل کے بدلے میں کچھ روپیہ یا مال قاتل سے یا قاتل کے قبیلہ سے لے کر راضی ہوتے اور دعوے قتل سے دست بردار ہو جاتے۔ پچھلے دو حکم اسی رسم جاہلیت سے علاقہ رکھتے ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد ۱، صفحہ ۶۳۱ و معالم التنزیل صفحہ ۶۷)۔ پہلا حکم جو اسلام میں قصاص قائم کرنے کا ہے وہ اس آیت کے پہلے جملہ میں موجود ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ۔ ’’یا ایھا الذین امنوا کتب علیکم القصاص فی القتلے‘‘۔ یہ ایک مستقل جملہ ہے اور تفسیر کبیر میں بھی بعض مفسرین کا یہ قول لکھا ہے کہ ’’کتب علیکم القصاص فی القتلے حجلہ تا مہ مستقلہ بنفسھا‘‘ اور اس جملہ سے مطلقاً یعنی بغیر کسی قید کے قصاص کا حکم پایا جاتا ہے۔ یعنی قاتل بعوض مقتول کے مارا جائے گا۔ کوئی شخص قاتل ہو اور کوئی شخص مقتول ہو ، مرد ہو ، عورت ہو، آزاد ہو، کافر ہو ، مسلمان ہو، یا لازمی قصاص غالباً ان لوگوں کو جو نئے مسلمان ہوئے تھے اور جن کے ہاں معافی اور خون کے بدلے مال لینا بھی جائز تھا۔ سخت گراں گذرا ہو گا اوراسی لیے اس کے بعد خدا تعالیٰ نے قصاص میں جو حکمت ہے وہ بتلائی اور فرمایا کہ ’’ولکم فی القصاص حیات یا اولی الالباب لعلکم تتقون‘‘ اور اخیر آیت سے زیادہ تر اس رائے کو تقویت ہوتی ہے کہ قرآن مجید میں صرف خون کے بدلے خون کا حکم ہے۔ اگرچہ مسلمانوں میں دیت اور معافی کا رواج جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں تھا موقوف نہیں ہوا۔ اور اس کی بنا حدیثوں پر قائم کی ہے۔ مگر مجھ کو اس مقام پر ان سے بحث نہیں کی ہے، صرف یہ بیان کرنا ہے کہ قرآن مجید کی اس آیت سے کیا حکم نکلتا ہے سو وہ حکم یہی ہے کہ بلا کسی قید اور تفرقہ کے مقتول کے بدلے قاتل مارا جائے۔ قصاص کے لفظ سے بعض علماء نے جو یہ مطلب سمجھا ہے کہ جس طرح قاتل نے مقتول کو مارا ہے اسی طرح قاتل بھی مارا جاوے۔ یہ بھی اس آیت سے ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ صرف مقتول کے بدلے قاتل کا بے جان کر دینا ثابت ہوتا ہے۔ قصاص کے معنی دو آدمیوں کا ایک سا کام کرنے کے ہیں۔ جیسے کہ عرب کہتے ہیں کہ ’’اقتص فلان اثر فلان‘‘ جب کہ کوئی شخص ویسا ہی کام کرے جیسا کہ دوسرے نے کیا ہو۔ اہل شرح نے اس کے معنی یہ قرار دیے ہیں کہ کسی انسان کے ساتھ ایسا ہی کیا جاوے جیسا کہ اس نے دوسرے انسان کے ساتھ کیا ہو۔ مگر ایسی تعلیم قصاص کے معنی کی اس آیت کے لفظوں سے نہیں پائی جاتی۔ کیوں کہ اس آیت میں قصاص کے لفظ کے ساتھ ’’فی القتلیٰ‘‘ کی بھی قید لگی ہوئی ہے اور اس قید سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کے مقتول ہوجانے میں مساوات چاہیے۔ نہ کیفیت مقتول ہونے میں۔ کیوں کہ مقتول ہو جانا یعنی جان کا بدن سے مفارقت کرنا ایک چیز ہے اور جس طرح اور جس ذریعہ سے اس نے مفارقت کی ہے وہ دوسری چیز ہے اور اس آیت میں لفظ قصاص سے مقتول ہونے میں یعنی جان کے بدن سے مفارقت کرنے میں مساوات چاہی گئی ہے نہ کیفیت قتل میں۔ پس آیت کا حکم صرف اتنا ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی کو بے جان کر دی اہو تو وہ بھی ویسا ہی یعنی بے جان کر دیا جاوے۔ اس بیان سے ظاہر ہے کہ بعض علماء کا لفظ قصاص سے یہ سمجھنا کہ اگر کسی نے پتھر سے سر پھوڑ کر کسی کو مارا ہو تو اس کو بھی پتھر سے سر پھوڑ کر مارا جاوے۔ اور اگر کسی نے آگ سے جلا کر مارا ہو تو اس کو بھی آگ سے جلا کر مارا جاوے۔ اور اگر کسی نے پانی میں ڈبو کر مارا ہو تو اس کو بھی پانی میں ڈبو کر مارا جاوے صحیح نہیں ہے معذان علما کا یہ خیال بھی کہ ایسا کرنے میں ٹھیک ٹھیک مساوات ہو جاوے گی غلط ہے۔ کیوں کہ ان افعال کو اس طرح پر عمل میں لانا کہ بالکل ان افعال کے فعل میں اور اثر میں مساوی ہوں جو قاتل نے مقتول کے ساتھ کیے ہیں محض ناممکن ہے۔ منطوق آیت کا صرف اس بات پر دلالت کرنا ہے کہ مقتول کے بدلے قاتل بھی مار ڈالا جاوے۔ دوسرا حکم جس طرح زمانہ جاہلیت میں معاوضہ خون لیا تھا اس کا باطل کرنا ہے اور وہ ان الفاظ سے باطل ہوتا ہے۔ ’’الحر بالحر والعبد بالعبد والانثیٰ بالانثیٰ‘‘ اگرچہ علماء نے ان لفظوں کی نسبت بہت بحث کی ہے جو ایک تطویل لا طائل ہے۔ مگر صآف و صریح مطلب یہ ہے کہ اسلام میں قصاص تو لیا جاوے گا لیکن یہ طریقہ جو جاہلیت میں تھا کہ قاتل کو چھوڑ کر دوسرے شخص کومارتے تھے اور غلام کے بدلے حر کو مارتے تھے اور عورت کے بدلے مرد کو مارتے تھے اور ایک مرد کے بدلے دو مردوں کو مارتے تھے۔ یہ طریقہ اسلام میں نہیں رہا بلکہ اگر کسی حر نے حر کو مارا ہے تو وہ حر ہی مارا جائے گا اور کسی غلام نے غلام کو مارا ہے تو غلام ہی مارا جائے گا اور اگر کسی عورت نے عورت کو مارا ہے تو عورت ہی ماری جائے گی اور حر اور عبد اور انثیٰ پر الف لام ہے۔ اس سے قصاص میں قاتل و مقتول کی تخصیص لازم آتی ہے اس بیان سے اوپر کے جملہ کی جس میں قصاص کا حکم ہے تفصیل مقصود نہیں ہے بلکہ جاہلیت میں جو رواج تھا کہ عورت کے بدلے مرد کو اور غلام کے بدلے حر کو مارتے تھے اس کا موقوف کرنا مقصود ہے۔ جن علماء نے غلطی سے ان الفاظ کو حکم قصاص کی تفصیل سمجھا ہے انھوں نے ایک بے فائدہ بحث کی ہے اور نتیجہ اپنی بحث کا یہ نکالا ہے کہ اگر حر نے کسی عبد کو مار ڈالا ہو۔ ایک عبد نے کسی حر کو مار ڈالا ہو یا ایک مرد نے کسی عورت کو یا ایک عورت نے کسی مرد کو مار ڈالا ہوتو ان سے قصاص لینے کا حکم اس آیت میں پایا نہیں جاتا اور اس لیے ان کی قصاص میں مختلف رائے ہو گئی ہیں۔ بعضو ں نے کہا کہ اگر کسی عبد نے حر کو یا عورت نے مرد کو مار ڈالا ہو تو ان سے قصاص لینا قیاس پر مبنی ہے۔ کیوں کہ ادنیٰ نے اعلیٰ کو مار ا ہے اور اگر ایک حر نے عبد کو یا مرد نے عورت کو مار ڈالا ہو تو ان سے قصاص لینا اجماع پر مبنی ہے۔ مگر کچھ شبہ نہیں ہے کہ یہ سب رائے غلط ہے اور جملہ اول سے عموماً قصاص لینے کا حکم ثابت ہے۔ تیسرا حکم ایام جاہلیت کے کہ خونوں کی بابت معاہدہ کا قائم رکھنا ہے۔ وہ ان الفاظ سے پایا جاتا ہے کہ ’’فمن عفی لہ من اخیہ شیئی قاتباع بالمعروف و اداء علیہ باحسان ذالک تخفیف من ربکم و رحمۃ فمن اعتدی بعد ذالک فلہ عذاب الیم‘‘ یہ جملہ بھی اسی پہلے جملہ کے تابع ہے جو ھجاہلیت کے خونوں سے علاقہ رکھتا ہے، اس جملہ کا یہ مطلب ہے کہ ایام جاہلیت کے خونوں کی بابت اگر کسی نے کچھ معاف کر دیا ہو یا اس کے عوض میں کچھ دینے کا اقرار کیا ہو تو وہ اسی اقرار کے موافق ادا کر دیا جاوے۔ قتل ایک ایسی چیز نہیں ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد بھی اس کے مواخذہ سے کوئی شخص بری ہو سکے مگر زمانہ جاہلیت میں جو بے انتہا خون ہوتے تھے اور بدلہ لینے کے لیے قتل و قتال قائم تھے اس نے ابتدائے اسلام میں ان تمام جھگڑوں کے مٹانے کے لیے وہ معاہدے جو زمانہ جاہلیت میں قصاص سے بری ہونے کی بابت قرار پائے تھے اسی طرح جائز رکھے گئے۔ اس خاص آیت کے استدلال سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اسلام میں بھی قتل عمد کا معاف کر دینا یا دیت کا لینا جائز کر دیا گیا ہے۔ قتل خطائ، قتل عمد سے کچھ مناسبت نہیں رکھتا اور اس میں آیت کا قرار پانا اور کسی معاوضہ کا ٹھہرانا انصاف کے برخلاف نہیں ہے۔ حرام اشیاء کھانا اس آیت میں ان مضر چیزوں کا بالتخصیص ذکر کیا ہے جن کے کھانے کا رواج عرب کی قوموں میں تھا۔ عرب کے لوگ مرے ہوئے جانور کو اور سور کو کھاتے تھے اور جانوروں کا گلا کاٹنے میں جو خون نکلتا ہے اس کو ایک برتن میں جمع کرتے تھے اور جب وہ جم کر لوتھڑا ہو جاتا تھا تو بھون کر کھاتے تھے اور یہ تینوں چیزیں انسان کے لیے مضر ہیں، گو کہ مثل زہر کے فی الفور ان کی مضرت ظاہر نہ ہو۔ مرے ہوئے جانور کے مضر ہونے میں جو اپنی موت سے مر جاتاہے کسی کو کلام نہیں اور دم مسفوح کا مضر ہونا تسلیم کیا گیا ہے، سور کے گوشت کے مضر ہونے پر علی الخصوص گرم ملکوں میں بہت سے مباحثے ہوئے ہیں اور انجام کار مضر ہونا تسلیم ہوا ہے۔ پس ان تینوں چیزوں کے حرام ہونے کی وجہ ان کے مضر ہونے پر مبنی ہے۔ علاوہ اس کے اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ غذا کی تاثیر انسان کے اخلاق پر ضرور ہوتی ہے۔ سور میں بعض خصائل دمیمہ ایسے پائے جاتے ہیں جو عام اخلاق انسانی کے بر خلاف ہیں اور اس لیے اس کا کھانا بہ لحاظ حفظ اخلاق انسانی ممنوع کرنا بلاشبہ انسان کو اخلاق ذمیمہ سے محفوظ رکھنا ہے۔ البتہ چوتھی چیز یعنی، و ما اھل بہ لغیر اللہ، کی حرمت قابل بحث ہے۔ پس اس کی حرمت نفس مذبوح کے مضر ہونے یا نجس ہو جانے کے سبب سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کی حرمت واسطے مٹانے رسم شرک کے ہے۔ مشرکین عرب کا دستور تھا جیسے کہ ہندوئوں کا ہندوستان میں دستور ہے کہ جانوروں کا گلا بتوں اور دیویوں کا نام لے کر کاٹتے تھے جس کا یہ مقصود تھا کہ اس کی نذر اور اس کے تقرب کے لیے جانور کو مارا ہے۔ یہاں تک کہ جو جانور اپنے کھانے کے لیے بھی مارتے تھے اس کو بھی کسی بت یا کسی دیبی کی نذر مقرر کر کے اور اسی کا نام لے کر مارتے تھے۔ ہندوستان میں اب تک یہ رسم ہندوئوں میں ہے اور کوئی ہندو کسی بکرے کا بغیر دیبی کے نام کے جھٹکا نہیں کرتا بہت گوشت خور ہندو ایسے ہیں کہ اگر کوئی جانور دیبی کے نام پر جھٹکا نہ کیا جاوے تو اس کا گوشت نہیں کھاتے اسلام میں تقرب الٰہی غیر اللہ شرک اور کفر قرار پایا ہے۔ پس رسم شرک ہر طرح پر مٹانے کے لیے یہ حکم ہوا ہے کہ جو جانور اس رسم پر مارا جاوے وہ بھی نہ کھایا جاوے۔ پس حرمت مذبوح لغیر اللہ کی احکام محافظ حکم اصلی میں سے ہے جس کی تفصیل ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ علماء کا یہ قول ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی جانور کو بقصد تقرب الٰہی غیر اللہ کے ذبح کرے تو وہ مرتد ہو جاتا ہے اور ذبیحہ اس کا مرتد کا ذبیحہ ہے اور یہ حکم اہل کتاب کے ذبایح کے سوا اوروں کے ذبیحہ سے متعلق ہے اور اہل کتاب کے ذبایح ہمارے لیے حلال ہیں جیسا کہ خدا نے فرمایا ہے کہ طعام ان بزرگوں کا جن کو کتاب دی گئی ہے تمہارے لیے حلال ہے۔ پس اس آیت سے جس کی ہم تفسیر لکھتے ہیں اس میں تو کچھ شبہ نہیں کہ جو مسلمان کسی جانور کو تقرباً غیر خد اکے نام پر ذبح کرے اس کا کھانا اس وجہ سے کہ وہ ایک فعل شرک پر ذبح کیا گیا ہے حفظاً لحکم التقرب الیٰ اللہ وحدہ ممنوع و حرام ہے مگر یہ بات باقی ہے کہ اگر غیر مسلم اس طرح پر کرے تو اس کا کھانا بھی ممنوع و حرام ہے یا نہیں۔ امام فخر الدین رازی نے جو قول علمائے اسلام کا نقل کیا ہے۔ اس میں ذبیحہ اہل کتاب کو مستثنیٰ کیا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ گو اہل کتاب نے تقرباً الیٰ غیر اللہ ہی ذبح کیا ہو مگر وہ حلال ہے اور یہی قول بعض فقہا کا بھی ہے اور انھوں نے تصریح کر دی ہے۔ کہ ’’ولو ذبح باسم المسیح‘‘ مگر یہاں یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ تو پھر دیگر اہل مذاہب کا بغیر اللہ ذبح کیا ہو کیوں نہ حلال ہو۔ اس کا جواب بقاعدہ اہل نقل یہ ہو سکتا ہے کہ آیت طعام اہل کتاب سے ان کا ذبیحہ مستثنیٰ ہو گیا ہے اور دیگر اہل مذاہب کا ذبیحہ مستثنیٰ نہیں۔ مگر پھر اس پر یہ سوال ہو گا کہ کیوں دیگر اہل مذاہب کا ذبیحہ مستثنیٰ نہیں ہوا۔ ہاں اگر اس استثنیٰ کی یہ وجہ بیان کی جاوے کہ اہل کتاب میں کبھی بغیر اللہ جانور کے ذبح کرنے کی رسم و عادت نہ تھی، یا وہ خدا کے نام پر قربانی کرتے تھے یا خدا کا نام لے کر ذبح کرتے تھے جیسے کہ یہود کی عادت ہے یا کسی کا نام لیے بغیر ذبح کرتے تھے، جیسے کہ عیسائیوں کی عادت ہے تو صرف ذبایح اہل کتاب کے مستثنیٰ کرنے کی اور دیگر اہل مذاہب کے ذبایح کے مستثنیٰ نہ کرنے کی وجہ کافی ہو گی اور اس لیے دیگر اہل مذاہب کا ذبیحہ یا جھٹکا حفظاً الحکم التقرب الیٰ اللہ وحدہ حرام اور ممنوع الاکل رہے گا۔ البتہ ایک سوال اور باقی رہتا ہے کہ اگر کسی غیر اہل کتاب نھ کسی جانور کو لا بغیر اللہ ذبح کیا ہو تو وہ بھی حرام اور ممنوع الاکل ہے یا نہیں۔ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہو گا۔ کیوں کہ آیت ’’کلو مما ذکر اسم اللہ علیہ ولا تاکلوا مما لم بذکر اسم اللہ علیہ‘‘ کا حکم عام نہیں ہے۔ پس نص صریح قرآن مجید سے اس کی حرمت ثابت نہ ہو گی الاً اجتہاد سے جس کی تسلیم خود مجتہد یا اس کے متبعوں پر لازم ہو گی۔ نہ ہر شخص پر۔ (اہل بہ لغیر اللہ) اس کے معنی میں بھی لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ خدا کے سوا اور کسی کے نام پر پکارے جانے سے کیا مطلب ہے اصمعی کا قول ہے کہ اھلال کے معنی پکارنے کے ہیں۔ احرام باندھنے والے پر مہل کا لفظ اس لیے بولا جاتا ہے کہ وہ احرام باندھنے والے پر مہل کا لفظ اس لیے بولا جاتا ہے کہ وہ احرام باندھتے وقت لبیک کہہ کر پکارتا ہے اور ذبایح پر بھی مہل کا لفظ بولتے ہیں۔ کیوں کہ عرب جانوروں کو ذبح کرتے وقت بتوں کا نام لے کر پکارتے تھے اور ’’استھل الصبی‘‘ کا لفظ بھی اسی سے نکالا ہے کہ پیدا ہونے کے بعد چلاتا ہے اس لیے ’’ما اھل بہ لغیر اللہ‘‘ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جو بتوں کے لیے ذبح کیے جاویں۔ یہ مذہب تو مجاہد ضحاک اور قتادہ کا ہے اور دوسرا قول ربیع بن انس اور ابن زید کا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’اھل بہ لغیر اللہ‘‘ سے یہ مطلب ہے کہ جو خدا کے نام کے سوا اور کسی کے نام سے پکارا جاوے یعنی وہ ذبح کے وقت پکارے جانے کی قید نہیں لگاتے۔ بلکہ صرف غیر خدا کے نام موسوم کر دینے ہی کو ’’اھل لغیر اللہ‘‘ میں داخل کرتے ہیں۔ جیسے کہ ہندوستان میں مسلمان بکرے کو شیخ سدو اور گائے کو سیرا اور مرغے کو مدار کے نام سے موسوم کر دیتے ہیں ۔ ان مفسروں کی رائے کے مطابق جو جانور کہ غیر خدا کے نام تقرباً موسوم ہو گیا ہو اور گو بر وقت ذبح خدا ہی کا نام لیا جاوے تب بھی وہ حرام ہو جائے گا اور پہلی رائے کے موافق حرام نہ ہو گا۔ بشرطیکہ خدا کا نام لے کر ذبح کیا جاوے۔ شاہ عبدالعزیز صاحب نے اپنی تفسیر میں پہلی رائے اختیار کی ہے مگر درحقیقت وہ صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ صرف نام رکھ دینا کہ شیخ سدو بکرا ہے اور سیراں کی گائے یا مدار کا مرغا۔ اقدام بالشرک ہے۔ نہ وقوع شرک اور جب تک شرک کا وقوع مذبوح کے اوپر نہ ہو اس وقت تک وہ مذبوح ممنوع الاکل نہیں ہو سکتا۔ پس اگر ذبح کے وقت خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہے تو اس کا کھانا حرام نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وصیت کی ضرورت اور اہمیت ’’کتب ‘‘ کے لفظ سے علمائے اسلام فرض کے معنی لیتے ہیں جس سے لازم آتا ہے کہ والدین اور اقربا کے لیے وصیت فرض تھی۔ مگر کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تھا جب کہ آیات توریث نازل نہیں ہوئی تھی۔ اتنی بات بلاشبہ تسلیم کے لائق ہے کہ آیت توریث کے نازل ہونے کے بعد جو شدید ضرورت وصیت کی تھی وہ باقی نہیں رہی۔ کیوں کہ ایک عام قاعدہ مقرر ہو گیا اور ہر شخص نے جان لیا کہ میرے بعد میرے اقربا میں اس طرح مال تقسیم ہو جاوے گا۔ لیکن فقہائے اسلام نے دو مسئلے وصیت کے متعلق قرار دیے ہیں۔ ایک یہ کہ آیت توریث میں جو لوگ وارث قرار پائے ہیں ان کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔ ’’لقولہ علیہ الصلواۃ والسلام ان اللہ قد اعطی کل ذی حق حقہ فلا وصیۃ لوارث‘‘ دوسرے یہ کہ ثلث مال سے زیادہ میں وصیت جائز نہیں جو کچھ فقہا نے اپنے اجتہاد سے یا کسی حدیث کی بناء پر مسئلہ ٹھیرایا ہے اس میں بحث ضرور نہیں ہے۔ کیوں کہ بحث حدیث کی صحت و غیر صحت پر جا پڑتی ہے۔ بحث اس میں ہے کہ قرآن مجید سے وصیت کا کسی قید سے مقید ہونا پایا جاتا ہے یا نہیں سو نہیں پایا جاتا۔ قرآن مجید سے وصیت کرنا ایک فعل جائز ثابت ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وصیت کرنے والے کے مرنے کے بعد اس طرح پر کیا جاوے جس طرح کہ خود اس نے اپنی زندگی میں مقرر کر دیا ہے۔ جب کہ کسی شخص کو کسی سبب سے ہلاک ہونے کا اندیشہ پیدا ہو جو مطلب ’’اذا حضر احد کم الموت‘‘ کا ہے تو اس کو ضرور ہے کہ وصیت کر دے کہ اس کا مال اس کے والدین اور قرابت مندوں کو کیوں کر دیا جاوے۔ آیت توریث سے اس حکم کا منسوخ ہونا لازم نہیںآتا۔ کیوں کہ آیت وصیت کے نازل ہونے کے بعد یہ ضرور نہ تھا کہ کوئی شخص بلا وصیت مرے ہی نہیں پس جو لوگ کہ باوجود حکم وصیت کے بلاوصیت مر جاویں ان کے مال کی تقسیم کے لیے کوئی قاعدہ مقرر ہونا چاہیے تھا وہ قاعدہ آیت توریث میں قرار پایا پس قرآن مجید کی دونوں آیتوں کے ملانے سے نتیجہ نکلتا ہے کہ مرنے والے نے اگر کوئی وصیت کی ہے تو اس کا مال اس کی وصیت کے مطابق تقسیم کیا جاوے گا اور اگر اس نے کچھ وصیت نہیں کی یا جس قدر کہ وصیت کی ہے اس سے زیادہ مال چھوڑا ہے تو اس کے مال کی یا اس قدر کی جو وصیت سے زیادہ ہے آیت توریث کے مطابق تقسیم ہو جاوے گی۔ پس دونوں آیتوں کا حکم بحال اور قائم ہے۔ ثلث سے زیادہ میں اور وارث کے حق میں وصیت کا جائز نہ ہونا ایک ایسا امر ہے جو قرآن مجید کی کسی آیت سے نہیں پایا جاتا اور جن حدیثوں سے اس پر استدلال کیا ہے اگر وہ تسلیم بھی کر لی جاویں تو بھی نہایت شبہ ہے کہ ان سے اس امر پر استدلال ہو سکتا ہے یا نہیں۔ بلاشبہ وصیت کو غیر مقید رکھنے میں بد اخلاقی یا حق تلفی کا احتمال ہو سکتا ہے اس کا انسداد جہاں تک کہ بمقتضائے فطرت انسانی ممکن تھا و قرآن مجید میں کیا گیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ ’’بالمعروف‘‘ یعنی نیکی اور نیک دلی سے وصیت کرے نہ یہ کہ بدنیتی سے کسی کا حق تلف کرنے اور ذی حق کے محروم کرنے کے لیے۔ پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی دیکھے کہ وصیت کرنے والا کسی کے حق میں ظلم اور زیادتی کرتا ہے تو اس کو سمجھا دے اور اس کی وصیت کو یا ارادہ کو بدلوا دے تاکہ حق تلفی نہ ہو اور اس بداخلاقی یا حق تلفی کے روکنے کا طریق بجز اس کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ منقول ہے کہ ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن مالک کی بیماری میں خبر پرسی کو تشریف لے گئے۔ سعد بن مالک نے عرض کیا کہ میں اپنے کل مال کی وصیت کر دوں (یعنی سوائے اپنے قرابت مندوں کے اوروں کے لیے جیسا کہ حدیث کے مضمون سے پایا جاتا ہے) آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ نصف مال کی وصیت کر دوں۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک ثلث مال کی وصیت کر دوں۔ آپ نے فرمایا کہ تہائی کی اور تہائی بھی بہت ہے۔ اگر تو اپنے وارثوں کو دولت مند چھوڑے تو اس سے بہتر ہے۔ کہ ان کو مفلس چھوڑے اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر خیرات لیتے پھریں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ سے ایک شخص نے پوچھاکہ میں اپنے مال کی وصیت کر دینا چاہتا ہوں (یعنی سوائے اولاد کے) حضرت عائشہ نے پوچھا کہ تیرے پاس کتنا مال ہے اور کتنی اولا د ہے۔ اس نے کہا کہ تین ہزار درہم ہیں اور چار اولاد ہیں۔ حضرت عائشہ نے کہا کہ یہ تو بہت مال نہیں ہے بہتر ہے کہ اپنی اولاد کے لیے رہنے دے اور روایتوں میں ہے کہ حضرت علی فرماتے تھے کہ میں پانچواں حصہ مال کی وصیت کرنے والے کو چوتھائی مال کی وصیت کرنے والے سے اور چوتھائی مال کی وصیت کرنے والے کو تہائی مال کی وصیت کرنے والے سے زیادہ پسند کرتا ہوں اور جس نے کہ تہائی مال کی وصیت کر دی اس نے تو کچھ چھوڑا ہی نہیں۔ حسن بصری نے چھٹے حصے یا پانچویں حصے یا چوتھے تک وصیت کو پسند کیا اور اس زمانہ کے لوگ اکثر پانچواں حصہ یا چوتھا حصہ وصیت کرتے تھے۔ یہ سب روایتیں اگر صحیح تسلیم ہوں تو بھی ان سے نا جوازی وصیت کی ثلث سے زائد کی نسبت ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ ان روایتوں سے صرف صلاح اور فہمائش پائی جاتی ہے جس کی نسبت خود خدا نے قرآن مجید میں فرمایا کہ اگر کوئی دیکھے کہ وصیت کرنے والا کسی کے حق میں ظلم اور زیادتی کرتا ہے تو اس کو سمجھاوے۔ وصیت کو کسی قید سے مقید کرنے سے بداخلاقی و ظلم کی بندش نہیں ہو سکتی جب کہ ھبہ کرنے میں کچھ قید اور بندش نہیں ہے وصیت و ھبہ در حقیقت ایک شے ہے صرف اتنا فرق ہے کہ ھبہ عطا بالفعل ہے اور وصیت عطا بعد الموت۔ حدیث ’’فلا وصیۃ لوارث‘‘ کو تسلیم کرنے کے بعد بھی وارث کے حق میں وصیت کا بطلان تسلیم نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ نفی ضرورت کی طرف منسوب ہو گی نہ نفس وصیت کے بطلان تسلیم نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ نفی ضرورت کی طرف منسوب ہو گی نہ نفس وصیت کے بطلان کی طرف علاوہ اس کے حدیث سے نسخ حکم قرآن مجید کسی طرح تسلیم نہیں ہو سکتا۔ آیت وصیت کو آیت توریث سے یا حدیث سے منسوخ قرار دینا ایک ایسا امر ہے جس کو علماء نے تسلیم نہیں کیا۔ تفسیر کبیر (جلد ۱ صفحہ ۶۴) میں لکھا ہے کہ ابو مسلم اصفہانی کا یہ مزہب تھا کہ آیت وصیت آیت توریث سے منسوخ نہیں ہوئی ہے۔ جو لوگ کہ اس کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں ان کی بڑی دلیل یہ بیان کی گئی ہے کہ اس حدیث کی رو سے ’’الا وصیۃ لوارث ‘‘ آیت وصیت منسوخ و مسترد ہو گئی ہے اور پھر لکھا ہے کہ اس میں بڑی دقتیں ہیں۔ کیوں کہ یہ حدیث خبر احاد ہے اورخبر احاد سے نسخ قرآن جائز نہیں۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ اگرچہ خبر احاد ہے لیکن آئمہ نے اس کو تلقی کیا ہے اور اس لیے یہ حدیث حدیث متواتر سے مل گئی ہے۔ مگر اس جواب پر کوئی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ یہ دعویٰ کہ آئمہ نے اس کو تلقی بالقبول کیا ہے بطور ظن کے یا بطور یقین کے ہے پہلی بات مسلم ہے لیکن ان کا یہ اجماع خبر احاد کی بناء پر ہو گا اور جو اجماع کہ خبر احاد کی بناء پر ہو اس سے نسخ قرآن جائز نہیں اور دوسری بات تو ممکن نہیں کیوں کہ اگر انھوں نے اس حدیث کو قطعی سمجھ کر اجماع کیا ہے باوجود یکہ وہ خبر احاد ہے تو ان کا اجماع خطاء پر مبنی ہو گا جو ناجائز ہے اور اگر یہ کہا جاوے کہ یہ آیت اجماع سے منسوخ ہو گئی ہے تو بھی اجماع سے قرآن کا منسوخ ہونا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ اجماع اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی دلیل آیت کے منسوخ ہونے کی موجود ہے مگر انھوں نے اس دلیل کو تو بیان نہیں کیا اور اجماع ہی پر اکتفا کیا، تو وہ کیوں کر ناسخ قرآن ہو سکتا ہے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب ایسے لوگ بھی امت میں موجود ہیں جو اس نسخ کے منکر ہیں تو اجماع کا نسخ پر کیوں کر دعویٰ ہو سکتا ہے۔ غرض کہ قرآن کی رو سے پایا جاتا ہے کہ وصیت کا ہر شخص کو بلا کسی قید کے اختیار ہے۔ اگر اس نے ظلم اور حق تلفی کے ارادہ سے وصیت کی ہو گی تو اس کا وبال اس کی گردن پر ہو گا۔ مگر وصیت کے نافذ ہونے میں کچھ کلام نہیں ہو سکتا۔ ہاں جن لوگوں نے وصیت نہیں کی یا وصیت سے زیادہ مال چھوڑا تو ان کا مال مطابق حکم آیت توریث کے وارثوں پر تقسیم ہو گا۔ روزہ کا بیان قرآن کریم کی روشنی میں (یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام) اس آیت میں جو یہ حکم ہے کہ تم پر روزہ لکھا گیا جس طرح کہ تم سے پہلوں پر لکھا گیا تھا۔ اس کا مطلب قرار دینے کو چار باتوںکی تنبیح چاہیے: اول یہ کہ ان روزوں سے کون سے روزے مراد ہیں، دوسرے یہ کہ ’’تم سے پہلوں‘‘ سے کون لوگ مراد ہیں، تیسرے یہ کہ ان پہلوں پر کون سے روزے لکھے گئے تھے، چوتھے یہ کہ ’’جس طرح‘‘ کے لفظ سے کس بات میں تشبیہ مرا دہے۔ پہلی بات کی نسبت مفسرین میں اختلاف ہے، معاذ و قتادہ عطا اور بہ موجب ایک روایت کے ابن عباس کے نزدیک یہ روزے ایام ببض کے اور روز عاشورہ کا تھا۔ یعنی وہ تین روزے تھے جو ہر مہینے کی تیرھویں ، چودھویں ، پندرھویں کو رکھے جاتے تھے اور ایک روزہ وہ تھا جو دسویں محرم کو رکھا جاتا تھا اور اکثر محققین کے نزدیک جن میں ابن عباس اور حسن اور ابی مسلم بھی شامل ہیں۔ ان روزوں سے رمضان ہی کے روزے مراد ہیں اور اس صورت میں لفظ ’’شھر رمضان‘‘ جو اگلی آیت میں ہے وہ بدل واقع ہو گا۔ لفظ ’’صیام‘‘ سے جو اس آیت میں ہے ’’کتب علیکم الصیام صیام شھر رمضان۔‘‘ جو لوگ کہ کہتے ہیں کہ ان روزوں سے رمضان کے روزے مراد نہیں ہیں وہ یہ دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ اول یہ کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رمضان کے روزوں سے اور باقی روزوں کے رکھنے کا حکم منسوخ ہو گیا ہے۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کے سوا اور بھی روزے تھے اور اس مقام پر ’’صیام‘‘ سے وہی روزے مراد ہیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان روزوں کے ذکر کے بعد بھی مریض اور مسافر کی نسبت حکم بتایا ہے اور اگلی آیت میں جہاں خاص رمضان کے روزوں کا نام لیا ہے اس کے بعد بھی مریض اور مسافر کی نسبت حکم بتایا ہے۔ پس اگر یہ دونوں روزے ایک ہی ہوتے تو دوبارہ حکم بتانے کیا حاجت تھی۔ تیسرے یہ کہ ان روزوں کی نسبت ان لوگوں کو بھی جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں خدا نے اختیار دیا تھا کہ چاہیں روزہ رکھیں اور چاہیں فدیہ دیں۔ مگر رمضان کے روزوں کی نسبت یہ اختیار نہیں دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روزے رمضان کے سوا تھے۔ اس رائے کی تائید ان روایتوں سے بھی ہوتی ہے جو معالم التنزیل میں لکھی ہیں کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے ہر مہینے میں تین روزے اور عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا اور سترہ مہینے تک قبل فرض ہونے روزہ رمضان کے اسی طرح رکھے گئے اور حضرت عائشہ سے ایک روایت لکھی ہے کہ آنحضرت نے مدینہ پہنچنے کے بعد عاشورہ کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی رکھنے کا حکم دیا اور زمانہ جاہلیت میں قریش اور آنحضرت بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا گیا اور ابن عباس سے ایک روایت لکھی ہے کہ ہجرت کے بعد جو حکم اول منسوخ ہوئے وہ بیت المقدس کی طرف قبلہ ہونے اور روزہ رکھنے کے تھے۔ مگر یہ روایتیں ایسی ہیں جن کی صورت نہایت مشتبہ ہے۔ جو لوگ اس رائے کے بر خلاف ہیں اور لفظ ’’صیام‘‘ سے جو اس مقام پر ہے رمضان ہی کے روزے مراد لیتے ہیں وہ ان دلیلوں کااس طرح پر جواب دیتے ہیں کہ اولاً خدا نے فرمایا کہ تم پر روزے لکھے گئے۔ یہ ایک مجمل حکم تھا۔ جس سے نہیں معلوم ہوتا تھا کہ ایک روزہ یا دو روزے یا کئی روزے۔ پھر اس کے بعد فرمایا کہ ’’گنے ہوئے دنوں کے‘‘ اس قول سے کچھ اجمال رفع ہوا۔ پھر فرمایا کہ ’’ماہ رمضان کے‘‘ جس سے ہر ایک بات متعین ہو گئی۔ پس اس ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’صیام‘‘ اور ’’ایام معدودات‘‘ اور ’’شھر رمضان‘‘ تینوں کی ایک ہی مراد ہے، تو لفظ ’’صیام ‘‘ سے سوائے رمضان کے اور روزوں کے مراد لینے کی کچھ ضرورت نہیں ہے اور یہ جو دلیل ہے کہ آں حضرت نے فرمایا ہے کہ ’’ان صوم رمضان نسخ کل صیوم‘‘ اس سے یہ متحقق نہیں ہوتا کہ جو روزے منسوخ ہوئے وہ اسلام میں فرض تھے۔ بلکہ ممکن ہے کہ وہ روزے ہوں جو اور شریعتوں میں فرض تھے اور اگر فرض کیا جائے کہ وہ وہی روزے تھے جو اسلام میں فرض تھے تو کیوں کر متحقق ہو گا کہ وہ وہی روزے تھے جو اس آیت کی رو سے فرض کیے گئے ہیں اور یہ جو دلیل ہے کہ اگر یہ دونوں روزے ایک ہوتے تو بیمار اور مسافر کا حکم مکرر نہ بیان کیا جاتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں رمضان کے روزے رکھنے یا فدیہ دینے کا اختیار تھا مگر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور مسافر اور مریض کے لیے جو حکم تھا وہ بدستور باقی رہا، اس شبہ کے رفع ہونے کے لئے آیا تھا کہ آیا بیمار و مسافر کے حق میں بھی وہ حکم منسوخ ہو گیا ہے یا نہیں اس حکم کو مکرر بیان کیا گیا اور جب کہ فدیہ دینے کا حکم منسوخ ہو گیا تو یہ حجت کہ ان روزوں میں فدیہ دینے کا اختیار تھا اور رمضان کے روزوں میں فدیہ دینے کا اختیار نہیں ہے اس لیے وہ روزے رمضان کے علاوہ تھے پیش نہیں ہو سکتی۔ ان دونوں رایوں میں سے کوئی سی رائے تسلیم کی جائے اس کا نتیجہ کسی نہ کسی آیت کا منسوخ ماننا ہو گا۔ کیوں کہ جو لو گ یہ کہتے ہیں کہ لفظ ’’رمضان‘‘ سے رمضان کے سوا اور روزے مراد تھے۔ تو ان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس آیت میں خاص رمضان کے روزوں کا ذکر ہے اس سے پہلی آیت منسوخ ہو گئی اور جو لوگ کہتے ہیں کہ لفظ ’’صیام‘‘ سے رمضان ہی کے روزے مراد ہیں تو وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جس آیت میں روزے رکھنے یا فدیہ دینے کا حکم تھا وہ رمضان کے روزوں کی آیت سے جس میں یہ اختیار نہیں رہا منسوخ ہو گئی ہے۔ اس طرح پر ناسخ و منسوخ ماننے میں یہ مشکل پیش آتی ہے کہ ایسی آیتوں کو جو بالکل مفصل اور سلسلہ وار ہیں کس طرح ایک دوسری کاناسخ تسلیم کریں۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ تلاوت میں آیتوں کا متصل ہونا اس بات کا مستلزم نہیں ہے کہ وہ اسی طرح مفصل نازل بھی ہوئی ہوں۔ بلکہ ایسا بھی ہے کہ منسوخ آیت نزول میں اول ہے اور ناسخ بعد، مگر تلاوت میں ناسخ مقدم ہو گئی ہے اور منسوخ بعد ’’و انا اقول فیہ نظر‘‘۔ دوسری بات کی نسبت مفسرین نے ایک مبہم بات لکھ دی ہے۔ تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ ’’من قبلکم‘‘ سے مراد ’’من الانبیاء و الامم‘‘ ہے اور تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ ’’من قبلکم‘‘ یعنی ’’الانبیاء والامم من لدن آدم‘‘ مگر یہ بیان محض ناکافی ہے۔ کیوں کہ صاف بتانا چاہیے کہ ’’من قبلکم‘‘ سے کون سے نبی یا کون سی امت مراد ہے۔ اس واسطے کہ اس بات کا کچھ ثبوت نہیں ہے کہ حضرت آدم سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک کوئی نبی اور کوئی امت ایسی نہیں گزری جس پر روزہ فرض نہ ہوا ہو۔ اس لیے اس امت کا تعین کرنا ضرور ہے۔ مشرک قومیں جو روزے رکھتی تھیں ان کی نسبت تو کہا ہی نہیں جا سکتا کہ خدا نے ان پر روزے فرض کیے تھے۔ کیوں کہ اکثر روزے غیر خدا کے لیے ہوتے تھے۔ قرآن مجید میں اکثر جگہ ’’من قبلکم‘‘ کا اشارہ اہل کتاب کی طرف ہوا ہے یعنی یہود اور نصاریٰ کی طرف اور اس لیے ’’من قبلکم‘‘ سے اہل کتاب مراد لیے جاتے ہیں اور ان کی نسبت خدا کی طرف سے کسی حکم کا مقرر ہونا صادق بھی آ سکتا ہے۔ تیسری بات کی نسبت مفسرین نے یہود اور نصاریٰ کے روزوں کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہود اور نصاریٰ پر بھی خدا تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کیے تھے۔ نصاریٰ نے اس مہینے کو بدل کر معین موسم میں روزوں کا رکھنا مقرر کیا اور اس تبدیلی کے معاوضہ میں دس روز بڑھا دیے۔ اس کے بعد ان کا کوئی بادشاہ بیمار ہوا اور اس کے اچھا ہونے کے لیے سات روزوں کی نذر مانی۔ جب وہ اچھا ہوا تو سات روزے اور بڑھا دیے۔ سینتالیس ہو گئے پھر ان میں ایک بادشاہ ہوا اس نے کہا کہ تین روزوں کے چھوڑنے سے کیا فائدہ ہے اس لیے انہوں نے پورے پچاس کر لیے۔ بعضوں نے لکھا ہے کہ نصاریٰ احتیاطاً رمضان کے اول اور رمضان کے بعد بھی ایک روزہ رکھتے تھے تاکہ رمضان کے مہینے میں کچھ نقصان نہ پڑے۔ ان کے بعد کے لوگ اسی طرح ایک ایک بڑھاتے گئے۔ یہاں تک کہ پچاس تک نوبت پہنچ گئی اور بعضوں کا یہ قول ہے کہ دو بادشاہ نصاریٰ کے مر گئے تھے اس لیے انھوں نے رمضان سے پہلے دس روزے اور رمضان کے بعد دس روزے اور بڑھا لیے۔ ایک اور روایت بیان کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ نے رمضان کے روزے یہود اور نصاریٰ پر فرض کئے تھے۔ یہودیوں نے اس کو چھوڑ دیا اور بجائے ان کے برس بھر میں صرف ایک روزہ اس دن رکھنا اختیار کیا جس دن فرعون کا غرق ہونا وہ خیال کرتے تھے اور اس دن کے اختیار کرنے میں بھی انھوں نے غلطی کی کیوں کہ فرعون دسویں محرم کو غرق ہوا تھا۔ یہ تمام اقوال مفسرین کے ایسے لغو اور بے ہودہ ہیں جیسے کہ ان کی اور باتیں متعلق قصص اور حکایات کے لغو اور بے بنیاد ہوتی ہیں۔ جن کی نہ کوئی سند ہوتی ہے اور نہ کوئی ثبوت ہوتا ہے۔ یہود اور نصاریٰ کے روزوں کے حالات جو ان کی کتابوں سے معلوم ہوتے ہیں و ہ حسب تفصیل ذیل ہیں۔ کتاب خروج کے (جو توریت کی دوسری کتاب ہے) باب ۳۴، ورس ۲۸ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ کوہ سینا پر تھے تو چالیس دن اور چالیس رات وہاں رہے اور نہ روٹی کھائی نہ پانی پیا۔ توریت کی کتاب استثنا باب ۹، ورس ۹ و ۱۸ و ۲۵ کی تفسیر (ہنری اسکاٹ) میں نہ روٹی کھانے اور نہ پانی پینے کی نسبت لکھا ہے کہ لوگوں کی معصیت کی وجہ سے موسیٰ نے دوسری دفعہ چالیس دن کا روزہ رکھا تھا اور بعضوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت موسیٰ نے تین مرتبہ چالیس چالیس دن کا روزہ رکھا ہے۔ کتاب لویا ن کے (جو توریت کی تیسری کتاب ہے) باب ۱۶ ، ورس ۲۹ اور باب ۲۳، روس ۲۷ و ۲۹ سے پایا جاتا ہے کہ یہودیوں پر ساتویں مہینے کی دس تاریخ کو کفارہ کے روزے رکھنے کا حکم تھا اور اس میں لکھا ہے کہ جو کوئی اس دن روزہ نہ رکھے گا اپنی قوم سے منقطع ہو جائے گا اور اعمال حواریان باب ۲۷، ورس ۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی بھی یہ روزے رکھا کرتے تھے۔ انجیل لوقا، باب ۱۸ ورس ۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ فردوسی ہفتہ میں دو دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ ایک پانچویں دن جب کہ حضرت موسیٰ کوہ سینا پر چڑھے تھے اور ایک دوسرے دن جب کہ اترے تھے۔ کتاب زکریا باب ۸ ، ورس ۱۹ سے پایا جاتا ہے کہ یہودی چوتھے مہینے اور پانچویں مہینے اور دسویں مہینے میں بھی روزہ رکھتے تھے۔ چوتھے مہینے یعنی تموز میں سترھویں تاریخ کو بیت المقدس کی تباہی کے غم میں جو بخت نصر کے ہاتھ سے ہوئی تھی۔ پانچویں مہینے یعنی اب میں نویں تاریخ کو بیت المقدس کے شہر کے جلنے کے غم میں جس کو بنوز روان بادشاہ بابل کے افسر نے جلایا تھا۔ ساتویں مہینے یعنی تشری کی دسویں تاریخ کو جدلباہ کے قتل ہونے کے غم میں جو بمقام مصباہ مارا گیا تھا۔ دسویں مہینے یعنی ثبت کی دسویں تاریخ کو بیت المقدس کے غم میں جس روز بخت نصر نے بیت المقدس کا محاصرہ شروع کیا تھا۔ کتاب اول ملوک باب ۲۱، ورس۹ و کتاب دوم تواریخ ایام باب ۲۰، ورس ۳ میں ایک دن کا روزہ ہے جس کو ملکہ ایزبل نے اپنے شوہر احاب کی خاطر سے منادی کرا کے مقرر کرایا تھا۔ کتاب قضاۃ باب ۲۰، ورس ۲۶ سے ایک اور روزہ مقرر ہونا پایا جاتا ہے جب کہ بنی اسرائیل نے قوم بنیامین سے شکست پائی تھی اور بیت المقدس میں آن کر فتح کے لیے دعا مانگی تھی۔ کتاب اول شموئل باب ۳۱، ورس ۱۳ سے پایا جاتا ہے کہ شاول یعنی طالوت کے مرنے کے غم میں سات روزے مقرر ہوئے تھے جو اس کی ہڈیوں کے دفن کرنے کے بعد رکھے گئے تھے۔ کتاب یوناہ باب ۳، ورس ۵ میں ایک اور روزہ مقرر ہونا پایا جاتا ہے جب کہ تنبوہ کے لوگ ایمان لائے تھے۔ کتاب دانیال باب ۱۰، ورس ۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت دانیال نے تین ہفتہ تک روزے رکھے تھے۔ کتاب اول ملوک باب ۱۹، ورس ۸ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت الیاس کوہ حوریب کو گئے تھے تو انھوں نے چالیس دن رات رکھے تھے۔ علاوہ ان کے اور روزے بھی مثلاً خدا تعالیٰ کی خفگی دور کرنے کے لیے یا اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یا کسی بلا یا مصیبت کو ٹالنے کے لیے یا کسی ذاتی یا خاندانی امور کے متعلق جس طرح کے منت وغیر ہ کے ایفا میں ہوتا ہے روزے رکھا کرتے تھے۔ انجیل متی باب ۴، ورس ۱ تا ۱۱ اور انجیل لوقا باب ۴، ورس ۱۳ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے بھی جب کہ وہ بیابان میں تھے چالیس دن اور رات روزے رکھے تھے۔ علاوہ اس کے انجیل متی کے باب ۲۷، ورس ۲۱ سے جس میں یہ لکھا ہے کہ ’’بہرنج اس قسم کا شیطان بجز نماز اور روزے کے نہیں جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں روز بعض امور خاص مین اثر بد کے دفع کرنے کا ایک ذریعہ خیال کیا جاتا تھا۔ انجیل متی باب ۹، ورس ۱۴ کے مضمون سے عیسائی خیال کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ نے روزوں کا رکھنا موقوف کر دیا مگر اس کے ساتھ یہ بھی اشارہ ہے کہ بعد حضرت عیسیٰ کے رکھنے ہوں گے۔ ان تمام حالات پر جو اوپر بیان ہوئے غور کرنے سے اتنی بات تو ضرور ثابت ہوتی ہے کہ یہودیوں پر ایک روزہ جو ساتویں مہینے کی دس تاریخ کو رکھا جاتا تھا اور جو کفار کا روزہ کہلاتا تھا بلاشبہ فرض تھا اور جو کہ عیسائی بھی یہودی شریعت کے تابع ہیں اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ وہ روزہ ان پر بھی فرض تھا۔ چالیس دن کے روزے حضرت موسیٰ نے کوہ سیناہ پر اور حضرت عیسیٰ نے بیابان میں رکھے۔ ممکن ہے کہ فرض ہوں مگر توریت یا انجیل میں کوئی ایسا لفظ موجودنہیں ہے جس سے فرضیت ان روزوں کی ثابت کی جا سکے ۔ علاوہ اس کے جس قدر روزوں کا بیان ہے وہ سب روزے کیا یہودی مذہب میں اور کیا عیسائی مذہب میں فرض روزے نہیں معلوم ہوتے بلکہ بطور نفل روح کے تزکیہ اور عبادت کے ثواب حاصل کرنے کے لیے معلوم ہوتے ہیں۔ چوتھی بات کی نسبت بھی مفسروں میں اختلاف ہے جن لوگوں کی یہ رائے ہے کہ لفظ ’’کما‘‘ کی تشبیہ سے روزوں کے عدد میں مشابہت مراد تھی ان کی رائے کی غلطی تو صریح ظاہر ہے کیوں کہ یہود اور نصاریٰ پر نہ ایام ببض کے روزوں کا فرض ہونا پایا جاتا ہے۔ نہ رمضان کے تیس یا انتیس روزوں کا اور جن لوگوں کی یہ رائے ہے کہ اس تشبیہ سے روزے کی مدت میں مشابہت مرا د ہے یعنی جس وقت سے جس وقت تک یہودی روزہ رکھتے تھے اسی وقت سے اسی وقت تک مسلمانوں پر بھی روزہ فرض ہوا ہے۔ یہ رائے بھی صحیح نہیں معلوم ہوتی، اس میں کچھ شک نہیں کہ یہودی دن کے ختم ہونے کے بعد روزہ کھول کر کچھ کھا پی لیتے تھے اور پھر اسی وقت ان کا روزہ شروع ہو جاتا تھا اور اسی وجہ سے توریت اور انجیل میں دن رات کا روزہ رکھنا بیان ہوتا ہے کیوں کہ رات بھی روزہ میں داخل تھی مسلمان بھی ان باتوں میں جن کی نسبت کوئی خاص حکم نہیں ہوتا تھا اکثر یہودیوں کی پیروی کرتے اور اس لیے وہ بھی یہودیوں کی طرح روزہ رکھتے تھے۔ لیکن کوئی خاص حکم اس طرح پر روزہ رکھنے کا مسلمان کے لیے نہ تھا۔ ’’کما‘‘ کے لفظ کے ساتھ جو اس آیت میں ہے کوئی ایسا اشارہ نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ مشابہت روزہ کی مدت میں تھی۔ اس آیت میں صرف اس قدر بیان ہوا ہے کہ جس طرح اگلوں پر روزے مقرر کیے گئے تھے اسی طرح تم پر بھی مقرر کیے گئے ہیں اور اس تشبیہ سے مدت میں مشابہت قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے، اکثر مفسرین کی یہ رائے ہے کہ صرف نفس فرضیت میں تشبیہ مراد ہے۔ چناں چہ تفسیر کبیر میں زجاج کا قول لکھا ہے کہ ’’موضع کما نصب علی المصدرلان المعنی فرض علیکم فرضاً کالذی فرض علی الذین من قبلکم‘‘ اور ابو علی کا قول لکھا ہے کہ ’’ھو صفۃ لمصدر محذوف تقدیرہ کتابۃ کما کتب علیھم فخذف المصدر واقیم نعتہ مقامہ‘‘۔ مگر جب کہ یہ بات اب تک ثابت نہیں ہوئی کہ در حقیقت خدا کی طرف سے یہودیوں اور عیسائیوں پر روزے فرض تھے تو ’’کما‘‘ کے لفظ سے نفس فرضیت میں تشبیہ کیوں کر تسلیم کی جاوے۔ ان چاروں مباحثوں کی نسبت جو میری سمجھ ہے وہ یہ ہے کہ : (۱) ان روزوں سے جو کتب علیکم الصیام کی آیت میں ہیں رمضان ہی کے روزے مراد ہیں۔ (۲) ’’من قبلکم‘‘ سے اہل کتاب مراد ہیں۔ (۳) اس آیت میں اس بات کی کہ اہل کتاب پر کوئی روزے فرض تھے یا نہ تھے کچھ علاقہ نہیں ہے۔ (۴) ’’کما‘‘ کے لفظ سے نہ عدد میں تشبیہ مراد ہے نہ مدت میں اور نہ نفس فرضیت میں بلکہ صرف سبب صیام میں تشبیہ مراد ہے۔ زمانہ نزول وحی میں حضرت موسیٰ نے چالیس دن پہاڑ میں اور حضرت عیسیٰ نے چالیس دن بیابان میں بسر کیے۔ توریت اور انجیل دونوں سے پایا جاتا ہے کہ ان دونوں میں وہ روزہ دار تھے۔ بعد کو ان کی امت نے ان کی متابعت کے خیال سے ان دونوں میں ہر سال روزے رکھنے اختیار کیے تھے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کو جو نزول وحی کا مہینہ تھا کوہ حرا میں بسر کیا اور آپ بھی اس زمانہ میں روزہ دار تھے۔ پس خدا نے فرمایا کہ جس طرح یہودیوں اور عیسائیوں نے بہ مطابعت اپنے نبی کے اس زمانہ میں روزے اختیار کیے تھے اسی طرح تم بھی اختیار کرو پس جو سبب کہ اہل کتاب کے روزے اختیار کرنے کا تھا وہی سبب مسلمانوں پر روزوں کے مقرر ہونے کا ہے اور ’’کما‘‘ کے لفظ سے اسی سبب صیام میں تشبیہ دی گئی ہے۔ مگر میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ ان تینوں آیتوں میں سے کوئی آیت منسوخ ہے۔ یہ کہنا کہ پہلی آیت میں جن روزوں کا ذکر ہے وہ روزے رمضان کے سوا تھے اور پھر یہ تسلیم کرنا کہ اس کے بعد کی آیت نے جس میں رمضان کے روزوں کا ذکر ہے پہلی آیت کے حکم کو منسوخ کر دیا ہے ایسا ہی مشکل ہے جیسے کہ اس رائے کو تسلیم کر کے پہلی آیت میں جن روزوں کا ذکر ہے وہ رمضان ہی کے روزے ہیں مگر پچھلی آیت سے جو اختیار کہ روزہ رکھنے یا فدیہ دینے میں تھا منسوخ ہو گیا ہے تسلیم کرنا مشکل ہے پچھلی آیت میں جس کو ناسخ قرار دیا جاتا ہے کوئی اشارہ کسی قسم کا پہلی آیت کے حکم کے منسوخ ہونے کا نہیں ہے صرف قیاساً یہ بات قرار دی جاتی ہے کہ پہلی آیت کے روزے رمضان کے روزوں سے علیحدہ تھے۔ نہ جن کی نسبت قرآن میں بیان ہے کہ وہ کے تھے اور کون سے تھے اور اس قیاس کے قرار دینے کے بعد کہا جاتا ہے کہ رمضان کے روزوں کی آیت نے اس حکم کو منسوخ کر دیا جس میں کچھ بھی اشارہ منسوخ کرنے کا نہیں ہے۔ حدیث پر جو استدلال کیا گیا ہے اول تو اس کی صحت میں کلام ہے پھر اس بات میں کلام ہے کہ حدیث اور خصوصاً خبر احاد سے قرآن کا حکم منسوخ ہو سکتا ہے یا نہیں۔ یا قیاساً یہ بات قرار دی جاتی ہے کہ پہلی آیت میں جن روزوں کا ذکر ہے وہ وہی رمضان کے روزے ہیں جن کا پچھلی آیت میںذکر ہے اور پھر بغیر کسی اشارے کے کہا جاتا ہے کہ جو اختیار کہ روزہ رکھنے یا فدیہ دینے میں تھا وہ پچھلی آیت سے منسوخ ہو گیا۔ اگر قرآن میں اس طرح پر ناسخ و منسوخ کو تسلیم کیا جاوے تو اس کے احکام کا منسوخ ہونا اور قائم رہنا صرف لوگوں کے قیاس پر منحصر رہ جاتا ہے جو کسی طرح تسلیم کے لائق نہیں۔ فدیہ دینے کی آیت میں جو حکم ہے وہ منسوخ نہیں ہوا اور وہ آیت یہ ہے ۔ و علی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین فمن تطوع خیر فھو خیر لہ و ان تصومو خیر لکم ان کنتم تعلمون، اس آیت میں جو لفظ ’’یطیقون‘‘ کا ہے اس کی اور بھی قرآئتیں مثلاً ’’یطوقونہ‘‘ یے کے پیش اور وائو کے تشدید سے یا ’’یے کے زبر اور ط اور وائو‘‘ دونوں کی تشدید سے جس کے معنی کسی کام کے تکلیف اٹھا کر ہونے کے ہیں مگر جو مشہور قرأ ت ہے ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں بعض علمائے مفسرین کی یہ رائے ہے کہ فدیہ کا حکم بھی مسافر اور مریض سے علاقہ رکھتا ہے۔ کیوں کہ بعض مریض اور مسافر ایسے ہوتے ہیں جو مطلق روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ پہلی قسم کے مسافر اور بیمار کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اور دنوں میں روزہ رکھ لیں اور دوسری قسم کے مسافر اور بیمار کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ چاہیں روزہ رکھیں اور چاہیں فدیہ دے دیں۔ مگر یہ معنی صحیح نہیں ہو سکتے۔ کیوں کہ ’’علی الذین‘‘ سے بالتخصیص بیمار اور مسافر مراد لینے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور جو رعایت اول قسم کے بیمار اور مسافر کی ہونی چاہیے تھی وہ دوسری قسم کے بیمار اور مسافر کی ہوتی ہے۔ بعض علماء کا یہ قول ہے (تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۶۵۰) کہ ’’یطیقون‘‘ کے معنی بھی مشکل اور تکلیف سے کسی کام کے انجام ہونے کے ہیں۔ دو لفظ ہیں ایک ’’وسع‘‘ اور ایک ’’طاقت‘‘ ۔ ’’وسع‘‘ اس شخص کی نسبت بولا جاتا ہے جو کسی کام کرنے پر آسانی سے اور بغیر تکلیف کے قادر ہو اور طاقت اس شخص کی نسبت بولا جاتا ہے جو کسی کام کرنے پر مشکل تکلیف اٹھا کر قادر ہو اور شاذ و قرائین جن کا ذکر کیا ہے اسی مطلب کی تائید کرتی ہیں پس ’’یطیقونہ‘‘ کے معنی ’’یستصعبونہ‘‘ کے ہوں گے جو لوگ کہ روزہ رکھنے کی تکلیف اور سختی اٹھا کر طاقت رکھتے ہیں ان کو اجازت ہے کہ روزہ رکھنے کے بدلے فدیہ دے دیں پس یہ آیت منسوخ نہیں ہے اور اپنے حکم پر بحال ہے۔ بعض علمائے مفسرین نے بھی جیسا کہ تفسیر کبیر میں مندرج ہے اس بات کو تسلیم کیا ہے مگر یہ بحث پیش کی ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو نہایت تکلیف اور سختی اٹھا کر روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں سعدی کا قول ہے کہ وہ لوگ وہ ہیں جو بہت بوڑھے ہو گئے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت انسؓ اپنے مرنے سے پہلے روزہ نہیں رکھتے تھے۔ ان کو روزہ رکھنے میں سختی اور دشواری معلوم ہوتی تھی اور ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتے تھے۔ مگر میں نہیں سمجھتا کہ بڈھے آدمی کی کیوں قید لگائی ہے۔ قرآن مجید میں کوئی ایسا اشارہ نہیں ہے جس سے ’’الذین‘‘ سے صرف بڈھا ہی آدمی مخصوص کیا جائے۔ تمام انسان بڈھے ہوں یا جوان ان کی حالت باعتبار خلقت اور موسم اور ملک کے مختلف ہوتی ہے۔ بہت سے جوان آدمی بلحاظ اپنی خلقت کے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو روزہ میں بے انتہا تکلیف اور مشقت ہوتی ہے اور بعض بڈھے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو روزہ معلوم بھی نہیں ہوتا۔ پھر موسم کے اختلاف کے سبب سے بہت اختلاف پڑ جاتا ہے۔ وہی لوگ جو ایک موسم میں نہایت آسانی روزہ رکھ سکتے ہیں دوسرے موسم میں روزہ رکھنے میں نہایت سختی اور تکلیف اٹھاتے ہیں۔ ایک ملک کے لوگ جب کہ دن ایک معتدل مقدار کا ہوتا ہے آسانی سے روزہ رکھیں گے اور وہی لوگ جب کہ دن بڑا ہوتا ہے نہایت تکلیف اور سختی روزہ رکھنے میں اٹھاویں گے بلکہ بعض ملکوں میں کبھی دن اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ انسان کی طاقت سے روزہ رکھنا خارج ہوتا ہے جیسے کہ عرض تسعین میں جہاں چھ مہینے کا دن ہوتا ہے اور عرض ستین میں جہاں بعض موسموں میں غروب اور طلوع میں اس قدر فاصلہ ہوتا ہے جس کی نسبت یہ کہا جا سکتا ہے کہ رات ہوتی ہی نہیں۔ پس خدا تعالیٰ نے ان تمام حالات کے لحاظ سے جو اس کے علم میں تھے نہایت عمدہ ترتیب سے جو فطرت انسانی کے بالکل مطابق ہے یہ حکم دیا ہے کہ ’’علی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین‘‘ پھر اس کو شخص دون سے شخص مقید کرنا ایک غلطی اور زیادتی علی الکتاب ہے۔ پہلی آیتوں میں جہاں بیمار اور مسافر کا اور ان لوگوں کا جو بہ دشواری روزہ برداشت کر سکتے ہیں حکم ہے ان آیتوں کا علانیہ منشا تھا کہ مریض اور مسافر کو روزے کا نہ رکھنا بہتر ہے۔ مگر ان لوگوں کی نسبت جو بہ دشواری روزہ رکھ سکتے تھے یہ منشا تھا کہ ان کو روزہ رکھنا بہتر ہے۔ جیسا کہ ان لفظوں سے کہ ’’و ان تصوموا خیر لکم‘‘ پایا جاتا ہے۔ اسی منشاء سے پچھلی آیتوں میں جن میں روزوں کو رمضان کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ مریض اور مسافر کا مکرر ذکر کیا اور ان لوگوں کا جو بہ دشواری روزہ برداشت کر سکتے تھے ذکر چھوڑ دیا ہے کیوں کہ ان کے حق میں فدیہ دینے سے روزہ رکھنا بہتر تھا۔ ان تمام بحثوں کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ پہلی آیت میں جن روزوں کا ذکر ہے وہ رمضان ہی کے روزے ہیں اور کوئی حکم اور کوئی آیت منسوخ نہیں ہے اور تمام آیتوں پر لحاظ کرنے کے بعد روزوں کی نسبت مفصلہ ذیل حکم پائے جاتے ہیں: (۱) روزے رمضان کے ہر مسلمان پر لکھے گئے ہیں جس کو شرعی اصلاع میں فرض کہتے ہیں۔ (۲) روزوں کے رکھنے سے یہ فرض ادا ہوتا ہے۔ (۳) اگر رمضان کے مہینے میں کوئی شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اس کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور اور دنوں میں جب کہ تندرست ہو اور سفر ختم ہو جاوے تو اس کے بدلے روزے رکھ دے۔ (۴) جن لوگوں کو روزہ رکھنے میں زیادہ سختی اور تکلیف ہوتی ہے اور بمشکل روزہ رکھ سکتے ہیں ان کو اجازت ہے کہ روزوں کے بدلے فدیہ دیں مگر ان کے حق میں فدیہ دینے سے روزہ رکھنا بہتر ہے۔ جو لوگ کہ روزہ پر اعتراض کرتے تھے کہ وہ انسان کی تکلیف کا باعث ہے اور صحت جسمانی کا نہایت مضر ہے اور بعض ملکوں میں اس کا ادا کرنا غیر ممکن ہے ان کو تو معلوم ہو گیا ہو گا کہ جس ترتیب اور خوبی سے خدا نے روزوں کا حکم دیا وہ تکلیف کا باعث ہے اور نہ صحت جسمانی کو مضر ہے اور نہ خلاف فطرت انسانی ہے اور نہ کسی ملک کے رہنے والوں کے خلاف طاقت ہے مگر ایک بحث البتہ باقی ہے کہ آیا وہ فی نفسہٖ عبادت بھی ہے یا نہیں اور اگر عبادت ہے تو کیوں؟ چناں چہ اس بحث کو ہم شروع کرتے ہیں۔ جس قدر کثرت سے یہود اور متقدمین میں عیسائی روزے رکھتے تھے اس سے ظاہر ہے ان کا خیال روزہ رکھنے سے تزکیہ نفس اور خدا کی رضامندی اور خدا کی عبادت کا تھا۔ ابتدائے زمانہ میں جب کہ انسان نے شائستگی کی طرف میلان شروع کیا تھا تمام لوگوں کو یہ خیال تھا کہ خدا اپنی مخلوق سے نہایت راضی ہوتا ہے اگر مخلوق قصداً اپنے بدن کو اپنی روح کو خدا کی خوشنودی کی نیت سے تکلیف و مصیبت میں ڈالے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض قوموں نے تکالیف مشاقہ اپنے پر گوارا کی ہیں۔ کسی نے ایک غار میں اپنی تمام زندگی بسر کر دی۔ جب ہم ہندو جوگیوں اور قدیم عیسائی فقیروں کے رہنے کے غار اور پہاڑوں کی تنگ و تاریک کھوئیں دیکھتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے اور مذہبی خیالات کا جو غلبہ انسان پر ہوتا ہے اس کا اندازہ کیا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ انھی خیالات کے سبب سے انسان نے کس قدر تکلیفیں اپنے پر گوارا کی ہیں۔ کوئی اپنا ہاتھ اونچا کر کے سکھا دیتا ہے۔ کوئی بیٹھنا اور لیٹنا چھوڑ دیتا ہے اور تمام عمر کھڑے رہ کر گذار دیتا ہے۔ کوئی لذیذ غذا چھوڑ دیتا ہے اور تمام عمر صرف نہایت حقیر اور کثیف غذا پر زندگی بسر کرتا ہے۔ کوئی پلنگ پر سونا اور شادی کرنا چھوڑ دیتا ہے جس کی بہت سی مثالیں اب بھی ہم کو ہزاوں عیسائی، نانک اور نن میں دکھائی دیتی ہیں۔ غرض کہ تمام جسمانی ریاضتوں کا اسی غلط خیال پر رواج ہوا ہے اسی خیال سے جان کی قربانی مروج ہوئی اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ انسان نے اپنی جان کی اور اپنی اولاد کی جان کی گناہ سے روح کو پاک کرنے سے قربانی کی۔ یہ ایک عجیب خیال تھا کہ خدا یا دیوتا انسان کی زندگی کو آسائش سے بسر کرنا پسند نہیں کرتا۔ تمام یونانی اور رومی مذہبی افسانوں سے یہ خیال مترشح ہوتا ہے کہ دیوتا یا خدا انسان کے عیش کو روا نہیں رکھتا۔ ابتدا میں جب کہ انسان کی غذا صرف زمین کی قدرتی پیداوار اور جنگل کے جانوروں کے شکار پر منحصر تھی کبھی کبھی فاقہ گذر جانا لازمی امر ہو گا ۔ نیم وحشی انسانوں کو غذا سے زیادہ کوئی چیز حظ دینے والی نہ ہو گی۔ جب انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ دیوتا یا خدا انسان کی جسمانی تکلیف سے راضی ہوتا ہے تو اس وقت روزے نے مذہبی امر ہونے کا درجہ پایا ہوگا ۔ توریت میں جہاں روزہ رکھنے کا حکم ہے وہاں بھی حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا ہے کہ ’’اپنی روحوں کو مبتلا کرو۔ عبری زبان کے قدیمی محاورہ کے مطابق روح کے مبتلا کرنے سے روزہ رکھنا مراد ہے پس کچھ شبہ نہیں ہے کہ روزہ رکھنا اسی خیال سے کہ خدا ریاضت بدنی سے راضی ہوتا ہے مذہبی امر قرار پایا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال کو کہ خدا انسان کی ریاضت بدنی یعنی جسم اور روح کو تکلیف میں ڈالنے سے راضی ہوتا ہے ۔ متعدد طرح سے باطل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ رھبانیت اسلام میں نہیں ہے۔ اس لیے یہ خیال نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال پر رمضان کے روزوں کا حکم دیا ہو۔ مگر انبیاء کا کام صرف سمجھ دار ہی لوگوں پر منحصر نہیں ہے بلکہ ان کو تمام لوگوں سے کام پڑتا ہے اور عام لوگوں کو ایسے امور کی نسبت جس سے ان کو خدا کے رضا مند کرنے کا خیال پیدا ہو زیادہ خیال ہونا ہے۔ عرب کے لوگ یہودیوں اور عیسائیوں کو دیکھتے تھے کہ خدا کے خوش کرنے کے خیال سے اور اپنے پیغمبر کی پیروی کی نظر سے روزہ رکھتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رسم کو جاری رکھنے کی ایک عمدہ اور آسان اور غیر مخالف فطرت انسانی کے طریقہ میں اجازت دی۔ چنانچہ الفاظ ’’کما کتب علی الذین من قبلکم‘‘ صاف اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس رسم کے موجد نہ تھے بلکہ اس رسم کو صرف بدستور قائم رہنے دیا تھا۔ باینہمہ اس رسم کی سختی کو نہایت عمدگی سے نرم اور قابل برداشت کر دیا کہ بیماروں اور مسافروں کو اور دنوں میں اور جو لوگ روزے سے زیادہ تکلیف اٹھاتے ہیں ان کو روزہ رکھنے اور فدیہ دینے میں مجاز کر دیا۔ باوجود ان سب باتوں کے جب کہ روزہ حد اعتدال سے نہ گذر جاوے اور وبال جان نہ ہو جائے اور انسان پر صعوبت نہ ڈالے جس کا اشارہ ’’بطیقونہ‘‘ کے لفظ میں ہے تو بلاشبہ تزکیہ نفس اور روح میں نیکی اور صلاحیت پیدا ہونے کا ذریعہ ہے۔ کم کھانا بلاشبہ انسان کے دل اور دماغ کو زیادہ صحیح اور درست رکھتا ہے اور انسان کے دل کو خدا کی طرف زیادہ تر متوجہ کرتا ہے اور جو عبادت خدا کی غیر روزہ کی حالت میں کی جاتی ہے روزہ کی حالت میں زیادہ تر دلی توجہ سے ہوتی ہے۔ اس کا یہ سبب نہیں ہے کہ انسان کو اپنے تئیں تکلیف میں ڈالنا خدا کو پسند آتا ہے۔ بلکہ یہ سبب ہے کہ انسان میں یہ ایک فطرتی امر ہے کہ جب کسی خاص امر کی طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے تو اس کو غذا کی طرف کم رغبت یا کم توجہ ہوتی ہے۔ اسی طرح قلیل غذا انسان کو اس طرف جس پر وہ توجہ کرنی چاہتا ہے زیادہ تر متوجہ کر دیتی ہے۔ یہی باعث ہے کہ روزہ کی حالت میں خدا کی عبادت غیر روزہ کی حالت کی بہ نسبت زیادہ تر توجہ اور خلوص سے ہوتی ہے۔ اسی سبب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کی رسم کو ایک نہایت اعتدال سے جاری رہنے دیا۔ حضرت موسیٰ نے کوہ سینا پر یا حضرت عیسیٰ نے بیابان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ حرا میں جب کہ زمانہ نزول وحی قریب تر تھا روزے رکھنے اختیار کیے یا غذا سے پرہیز کیا یا معمولی غذا میں کمی کی اس کا یہی سبب تھا۔ پس جب کہ روزہ ایسی حالت میں کہ اس کا رکھنا شاق نہ گذرے تزکیہ نفس اور روحانی نیکی کا ذریعہ ہے۔ تو اس رسم کا نہایت اعتدال کے ساتھ قائم رکھنا جس طرح کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم رکھی فطرت انسانی کے بالکل مطابق و موافق ہے۔ ’’احل لکم‘‘ یہودی اور عیسائی دن رات کا روزہ رکھا کرتے تھے یعنی روزہ افطار کرنے کے بعد ہی سے دوسرا روزہ شروع ہو جاتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ توریت اور انجیل میں جہاں روزہ کا ذکر ہے دن رات کا روزہ بیان ہوا ہے۔ رمضان کے روزوں کا جب حکم ہوا تو کوئی حد روزے کی مقرر نہ تھی۔ مسلمان بھی یہودیوں کی دیکھا دیکھی دن رات کا روزہ رکھتے تھے جو ان پر نہایت شاق گذرتا تھا اور جس منشاء سے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسم کو قائم رکھا تھا اس کے بھی مخالف تھا۔ اس لیے اس آیت میں خدا کی طرف سے یہ حکم ہوا کہ صرف دن ہی کا روزہ رکھنا چاہیے رات جو آرام کے لیے ہے وہ روزہ میں داخل نہیں ہے۔ اس آیت سے یہ سمجھنا کہ پہلے مسلمانوں کو بھی دن رات کے روزے رکھنے کا حکم تھا اور وہ حکم اس آیت سے منسوخ ہو گیا محض غلطی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حج کی حقیقت اور اس کی تفصیلات واتموا الحج والعمرۃ للہ، اس آیت سے حج کے احکام شروع ہوتے ہیں مگر قبل اس کے کہ ہم حج کی ماہیت اور اس کے اسرا ر پر بحث کریں پہلے سیدھی سادھی طرح سے بتا دینا چاہیے کہ مسلمان عمرہ اور حج کیوں کر کرتے ہیں اور یہ بتا دینا چاہیے کہ جو کچھ حج میں کیا جاتا ہے اس میں سے قرآن مجید میں کس کس چیز کا ذکر ہے۔ حج میں اتنی چیزیں ہیں، احرام و نیت، طواف قدوم، سعی بین الصفاء والمروہ، خروج منیٰ، وقوف مزدلفہ، منیٰ اور رمے جمار، طواف الزیارت، طواف الصدر۔ چناں چہ ہم ان میں سے ہر ایک چیز کو علیحدہ علیحدہ بیان کرتے ہیں۔ احرام اور نیت حج احرام باندھنے کے لیے مقامات معین ہیں جو میقات کہلاتے ہیں۔ مکہ کے رہنے والوں کے لیے خاص حرم کعبہ میقات ہے اور مدینہ کی طرف سے آنے والوں کو ذوالحلیفہ اور عراق کی طرف سے آنے والوں کے لیے ذات عرق، اور شام کی طرف سے آنے والوں کے لیے حجفہ اور نجد کی طرف سے آنے والوں کے لیے قرن۔ اور یمن کی طرف سے آنے والوں کے لیے جس میں ہندوستان کے جانے والے بھی داخل ہیں یلملم۔ میقات پر پہنچ کر صرف حج کی یا صرف عمرہ کی یا حج اور عمرہ دونوں کی نیت سے احرام باندھا جاتا ہے احرام کے معنی ایسے بزرگ اور مقدس کام کے شروع کرنے کے ہیں جس کا ادب نہ توڑا جا سکے۔ احرام میں صرف ایک چادر بطور تہ بند کے باندھتے ہیں اور ایک چادر اوڑھنے کے لیے ہوتی ہے مگر سر پر چادر نہیں اوڑھی جاتی۔ سر کھلا رہتا ہے۔ چادر ایک پاٹ کی ہو خواہ دو پاٹ کی سی ہوئی کچھ مضائقہ نہیں قطع کیا ہوا کپڑا جو قینچی سے قطع کرکے سیتے ہیں پہننا منع ہے۔ میقات پر پہنچ کر غسل کیا جاتا ہے یا وضو اور اس کے بعد نیت کر کے احرام باندھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں ’’لبیک الھم لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمتہ لک والملک لک لا شریک لک لبیک‘‘ اور ہر نماز کے بعد یا جب اونچی جگہ پر چڑھے یا نیچے اترے تو وہی جملہ کہنا چاہیے۔ زمانۂ احرام میں سر کو ڈھانکنا یا ایسا کپڑا جو قطع ہو کر سیا گیا ہو پہننا۔ موزہ یا جراب سے پائوں کو ڈھانکنا، شکار کھیلنا یا دوسرے کو شکار بتانا، سر منڈانا، ناخن ترشوانے، عورت کے پاس جانا منع ہے۔ طواف قدوم جب مکہ میں پہنچے اور حرم کعبہ دکھائی دے تو کہے ’’اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و للہ الحمد‘‘ جب حرم کے اند جائے حجر اسود کے سامنے کھڑا ہو۔ اگر ممکن ہو تو اس کو بوسہ دے ورنہ ہاتھ سے بوسہ لینے کا اشارہ ہی کر لے اور کعبہ کے گرد گھومنا شروع کرے اور جب حجر اسود کے سامنے آوے یا اس کا بوسہ لے یا اسی طرح اشارہ کرے سات مرتبہ گھومے اور کوئی دعا جو اس کا جی چاہے پڑھتا رہے اور اس گھومنے میں تیز مونڈھے ہلا کر چلے۔ سات دفعہ گھومنے کے بعد جس کو طواف کہتے ہیں مقام ابراہیم میں دو رکعت نماز کی پڑھے۔ سعی بین الصفا والمروہ اسی دن طواف کعبہ کے بعد صفا و مروہ میں جو نہایت چھوٹے چھوٹے پہاڑ ہیں سات دفعہ پھرے صفا کی پہاڑی پر چڑھے اور کعبہ کی طرف منہ کر کے کہے ’’اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر و للہ الحمد۔ اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم انک حمید مجید‘‘ اس کے بعد جو دعا چاہے مانگے اور صفا پر سے اتر کر مروہ کو جاوے۔ اس رستے میں دو نشان بنے ہوئے ہیں ان نشانوں کے بیچ میں دوڑ کر چلے۔ جب مروہ پر چڑھے تو کعبہ کی طرف منہ کر کے وہی تمام جملہ جو صفا پر پڑھا تھا پڑھے۔ یہ ایک دوڑ ہوئی جس کو ایک شوط کہتے ہیں۔ اسی طرح سات دفعہ کرے۔ ساتویں دوڑ مروہ پر ختم ہو گی۔ اگر احرام باندھتے وقت صرف عمرہ کی نیت کی ہے تو عمرہ ختم ہو گیا احرام کھول دے اور پھر آٹھویں ذی الحجہ کو حرم کے اندر جا کر حج کا احرام باندھے اور اگر حج اور عمرہ دونوں کی اکٹھی نیت کی یا صرف حج کی نیت کی ہو تو بدستور احرام باندھے رکھے۔ خروج منیٰ جو لوگ عمرہ ادا کر کے احرام سے خارج ہو گئے ہیں ان کو چاہیے کہ حرم میں جا کر صبح کی نماز پڑھیں اور حج کا احرام باندھیں اور منیٰ کو روانہ ہوں اور جن لوگوں نے احرام نہیں کھولا وہ صبح کی نماز کے بعد منیٰ کو روانہ ہوں اور رات کو منیٰ میں رہیں نویں تاریخ صبح کی نماز کے بعد علی الصباح عرفات کے میدان میں جاویں اور غروب آفتا ب تک اسی میں رہیں اور جو دعا چاہیں مانگتے رہیں۔ وہاں امام اونٹنی پر چڑھ کر خطبہ پڑھتا ہے اور لوگوں کو نیکی اور خدا پرستی کی نصیحت کرتا ہے اور ہزاروں لوگ اس کے گرد کھڑے ہو کر سنتے ہیں اور جو نہیں سن سکتے وہ اپنی ہی جگہ دعا وغیرہ پڑھتے ہیں۔ وقوف مزدلفہ مغرب کی نماز کے بعد اس میدان سے لوگ روانہ ہوتے ہیں اور مزدلفہ کے میدان میں آ کر رات بسر کرتے ہیں۔ منیٰ اور رمی جمار دسویں ذی الحجہ کو مزدلفہ سے چل کر منیٰ میں پہنچتے ہیں۔ منیٰ کے میدان میں تین ستون بطور نشان کے بنے ہوئے ہیں ۔ ہر ایک ستون پر سات سات کنکریاں ایک ایک کر کے مارتے ہیں اور ہر کنکری کے مارنے کے وقت پڑھتے ہیں۔ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔ جب تینوں ستونوں پر یہ کنکریاں مار لیں تو ہر بلندی و پستی پر اور نماز کے بعد جو لبیک کہتا تھا وہ کہنا موقوف کر دے اور جمرۃ العقبہ کے پاس ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے وہاں قربانی کرے اور سر منڈوائے یا بال کتروا ڈالے اور احرام کھول دے اور کپڑے پہن لے۔ مگر عورت کے پاس جانے کی اب تک اجازت نہیں۔ گیارھویں اور بارھویں کو بدستور منیٰ میں رہے اور دونوں دن بھی ان تینوں ستونوں کو سات سات کنکریاں اسی طرح مارے جس طرح کہ دسویں تاریخ کو ماری تھیں۔ طواف الزیارت انھی تاریخوں میں یعنی دسویں یا گیارھویں یا بارھویں کو قربانی کے بعد منیٰ سے حرم میں آوے اور خانہ کعبہ کا طواف اسی طرح کرے جس طرح اوپر بیان ہوا اور پھر منیٰ میں چلا جاوے۔ بعد اس کے اپنے کام میں لے اور جو چاہے سو کرے۔ اگر کسی نے طواف قدوم کے بعد سعی بین الصفا و المروہ نہ کی ہو تو اس کو اس طواف کے بعد کر لینی چاہیے۔ طواف الصدر جو لوگ اور ملکوں سے حج کرنے کو آتے ہیں اور حج کے بعد واپس جانا چاہتے ہیں تو ان کو صرف طواف کر کے روانہ ہونا چاہیے۔ اقسام حج حج تین قسم ہے افراد، قران ، تمتع اگر صرف حج کی نیت سے احرام باندھا ہے اس کا نام تو حج افراد ہے اور اگر حج اور عمرہ دونوں کی نیت سے احرام باندھا ہے اس کا نام قران ہے اور اگر صرف عمرہ کی نیت سے اور عمرہ کے بعد پھر حج کی نیت سے احرام باندھا ہے تو حج تمتع ہے۔ حج افراد اور تمتع کی تو بالکل وہی صورت ہے جو بیان ہوئی الا حج قران میں اس قدر فرق ہے کہ طواف قدوم اور سعی بین الصفا والمروہ دو دفعہ کرنی لازم ہے۔ ارکان حج جو قرآن مجید میں مذکور ہیں میقات کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے۔ غالباً جو لوگ باہر سے کعبہ کی زیارت کو یا حج کو آتے تھے اور جب قریب پہونچے تھے تو حج کی نیت سے ایسی باتوں کے کرنے سے جن کو تقدس اور ادب کے برخلاف سمجھتے تھے۔ اجتناب کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ وہ مقامات بطور میقات قرار پا گئے اور زمانہ کے گذرنے پر انھی مقامات سے مسافروں کا احرام میں داخل ہونا ایک امر لازمی اور ضروری قرار پا گیا اگر کوئی شخص بلا ارادہ حج اور بغیر باندھے احرام کے میقات پر مکہ میں چلا جاوے اور مکہ میں پہنچنے کے بعد حج کا ارادہ کرے اور احرام باندھے تو اس کے حج میں بھی کوئی نقص نہیں ہونے کا۔ احرام کے وقت تہ بند اور بغیر قطع کیا ہوا کپڑا پہننے کا بھی قرآن مجید میں ذکر نہیں ہے مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ اس کا رواج زمانہ جاہلیت سے برابر چلا آتا تھا اور اسلام میں بھی قائم رہا یہ پوشاک جو حج کے دنوں میں پہنی جاتی ہے ابراہیمی زمانہ کی پوشاک ہے حضرت ابراہیم کے زمانہ میں دنیا نے سویلزیشن میں جو تمدنی امور سے علاقہ رکھتی ہے کچھ ترقی نہیں کی تھی۔ وہ قطع کیا ہوا کپڑا بنانا نہیں جانتے تھے۔ اس زمانہ کی پوشاک یہی تھی کہ ایک تہ بند باندھ لیا۔ کسی کو اگر زیادہ میسر ہوا تو ایک ٹکڑا کپڑے کا بطور چادر کے اوڑھ لیا۔ سر کو ڈھانکنا اور قطع کا ہوا کپڑا پہننا کسی کو نہیں معلوم تھا جس نے بہت سوچ بچار کر کہا تھا ’’انی وجھت وجہی للذی فطر السموات والارض حنیفا وما انا من المشرکین‘‘ تو اس عبادت کو اسی طرح اور اسی لباس میں ادا کرنا قرار پایا تھا جس طرح اور جس لباس میں اس نے کی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع سویلزیشن کے زمانہ میں بھی اسی وحشیانہ صورت اور وحشیانہ لباس کو ہمارے بڈھے دادا کی عبادت کی یادگار میں قائم رکھا۔ احرام میں داخل ہونے اور حج کی نیت یعنی حج کے قصد کرنے کا قرآن مجید کے ان لفظوں سے کہ ’’فمن فرض فیھن الحج ‘‘ پایا جاتا ہے۔ احرام کے دنوں میں جنگل کے جانوروں کے شکار کی ممانعت بھی قرآن سے پائی جاتی ہے۔ جہاں خدا نے فرمایا ہے ’’یا یھا الذین امنوا لا تقتلوا الصید و انتم حرم۔ احل لکم صید البحر و طعامہ متاعاً لکم والسیارۃ و حرم علیکم صید البر ما دمتم حرما‘‘۔ احرام کے دنوں میں لڑائی اور فساد اور عورت کے پاس جانے کی بھی ممانعت قرآن کی اس آیت سے پائی جاتی ہے ’’فمن فرض فیھن الحج فلا رفث ولا فسوف ولا جدال فی الحج۔‘‘ احرام اور ارکان کے ختم ہونے تک سر منڈانے کی ممانعت کا بھی اشارہ اس آیت سے نکلتا ہے ’’ولا تحلقوا روسکم حتیٰ یبلغ الھدی محلہ‘‘۔ طواف کا اور اس میں ذکر اللہ کرنے اشارہ بھی قرآن سے پایا جاتا ہے جیسا کہ ان آیتوں میں ہے ’’ولیطوفوا بالبیت العتیق‘‘۔ ’’فاذکر اللہ عند المشعر الحرام‘‘ مگر سات دفعہ پھرنے کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ غالباً ایام جاہلیت سے برابر چلا آتا ہے۔ سعی بین الصفا والمروہ جس طرح ایام جاہلیت میں لوگ کرتے تھے اسی طرح اب بھی کرتے ہیں اس کا بھی اشارہ قرآن میں موجود ہے جہاں فرمایا ہے ’’ان الصفا والمروہ من شعائر اللہ فمن حج البیت اوعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بہما۔‘‘ عرفات میں جانے کا بھی قرآن کی اس آیت سے اشارہ پایا جاتا ہے۔ ’’فاذا افضتم من عرفات فاذکروا للہ عند المشعر الحرام‘‘۔ مزدلفہ میں رہنے اور منیٰ میں ایام تشریق میں ٹھیرنے کا بھی اشارہ ان آیتوں سے پایا جاتا ہے ’’ثم افیضو من حیث افاض الناس‘‘ واذکرو اللہ فی ایام معدودات۔ فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ و من تاخر فلا اثم علیہ۔ قربانی جو حج میں کی جاتی ہے اس کا ذکر بھی قرآن میں ہے وہ قربانی تین طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو جانور کو ساتھ لے کر جاتے ہیں اس ارادہ سے کہ مکہ میں جا کر ذبح کریں گے۔ اس کا ذکر تو اس آیت میں ہے ’’والبدن جعلنا لکم من شعائر اللہ لکم فیھا خیر وما ذکروا اسم اللہ علیھا صواف فاذا وجبت جنوبھا فکلوا منھا واطعموا القانع و المعتر‘‘۔ دوسری قسم قربانی کی وہ ہے جو حج تمتع میں کی جاتی ہے اور اس کا ذکر اس آیت میں ہے ’’فاذا امنتم فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج کما استیسر من الھدی فمن لم یجد ثلثۃ ایام فی الحج دسبعۃ اذا رجعتم‘‘۔ تیسری قربانی عام طور پر حج کے بعد ہے اور اس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ ’’و یذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی ما رزقھم من بھیمۃ الانعام فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیر‘‘۔ حجر اسود اور رمے جمار کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ حجر اسود کعبہ کے ایک کونے میں لگایا گیا تھا اس سے مقصد صرف یہ تھا کہ طواف کی تعداد معلوم رہے۔ اسی کونے سے طواف شروع ہوتا ہے اور اسی مقام پر ختم ہوتا ہے اور حجر اسود کو چھو لیا جاتا ہے یا بوسہ دیا جاتا ہے یا اس کی طرف اشارہ کر لیا جاتا ہے جس سے معلوم ہو کہ ایک طواف ختم ہوا۔ رمے جمار کی کوئی ٹھیک وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ تمام ارکان حج اسلام میں وہی بحال رہے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں تھے اور اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہی رسم رمے جمار کی جو زمانہ جاہلیت میں تھی اسلام میں بھی مثل دیگر ارکان حج کے عملدرآمد رہی۔ حج کی حقیقت جب کہ حضرت اسماعیل مکہ میں آباد ہوئے اور ابراہیم اور اسماعیل نے کعبہ کو بنایا تو اور قومیں جو گرد و نواح میں خانہ بدوش پھرتی تھیں وہاں آ کر آباد ہوئیں اور جیسا کہ دستور ہے اسی مقدس مسجد کی زیارت کو لوگ آنے لگے۔ وہاں کوئی زیارت کی چیز بجر بے چھت کی مسجد کی دیواروں کے اور کچھ نہ تھی اور جو کچھ زیارت تھی وہ یہی تھی کہ لوگ جمع ہو کر اس زمانہ قدیم کے وحشیانہ طریقہ پر خدا کی عبادت کرتے تھے۔ ننگے سر ، تہ بند بندھا ہوا، ننگ دھڑنگ ان دیواروں کے گرد جو خدا کے نام سے بنائی گئی تھیں اچھلتے اور کودتے اور حلقہ باندھ کر چوگرد پھرتے تھے۔ جس کا اب ہم نے طواف نام رکھا ہے۔ حضرت ابراہیم نے بغرض آبادی مکہ اور ترقی تجارت یہ بات چاہی کہ لوگوں کے آنے اور زیارت کرنے اور اس مقام پر عبادت معبود کے بجا لانے کے لیے ایام خاص مقرر کیے جاویں تاکہ لوگوں کے متفرق آنے کے بدلے موسم خاص میں مجمع کثیر ہوا کرے اور سب مل کر خدا کی عبادت بجا لاویں اور مکہ کی آبادی اور تجارت کو ترقی ہو۔ اس امر کا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے جہاں حضرت ابراہیم کو کہا ہے کہ حج کو لوگوں میں مشہور کر دے تیرے پاس پیدل اور دبلی اونٹنیوں پر سوار ہو کر ہر ایک دور و دراز رستے سے لوگ آویں گے تاکہ اپنے فائدوں کے لیے موجود ہوں۔ تفسیر ابن عباس میں ’’لیشھدوا منافع لہم‘‘ کی تفسیر میں لکھا ہے ’’منافع الدنیا والآخرہ و منافع الآخرۃ بالدعاء والعبادۃ منافع الدنیا بالریح والتجارۃ‘‘ یعنی منافع سے دنیا و آخرت دونوں کے منافع مراد ہیں۔ آخرت کا منافع دعا مانگنے اور عبادت کرنے سے حاصل ہوتا ہے اور دنیا کا منافع فائدہ اٹھانے اور تجارت سے ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رسم کو انھی اغراض کے لیے جاری رکھا۔ جس غرض سے کہ حضرت ابراہیم نے مقرر کی تھی جس کا اشارہ اس آیت میں ہے ’’لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم‘‘ یعنی حج کے دنوں میں اگر تم تجارت سے روزی کمانے کی تلاش کرو تو تم پر کچھ گناہ نہیں ہے۔ پس یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بانیٔ اسلام نے کعبہ شریف کو مثل پارس پتھر کے قرار دیا تھا کہ جس نے اس کو چھوا اور سونا ہو گیا یہ ایک غلط خیال ہے۔ ابراہیم اور اسماعیل کی بنائی ہوئی مسجد میں لوگ نماز پڑھنے کو آتے تھے اور ابراہیمی طریقہ پر نماز پڑھتے تھے جو سختی اور اضطراب کہ اسماعیل اور اس کی ماں ہاجرہ پر صفا و مروہ کے مقام پر پانی کی تلاش میں گذرا تھا اور اس بے قراری کی حالت میں جس طرح اس نے اپنے خدا کو یاد کیا تھا اور دعا مانگی تھی اس کی یادگاری میں وہی حالت اپنے پر طاری کرتے ہیں اور خدا کی عبادت کا اپنے دل میں جوش پید اکرتے ہیں موسم حج کا صرف تجارت کی نظر سے مقرر کیا گیا تھا تاکہ قوم اس سے فائدہ اٹھاوے اور ان ایام میں عرب کی قومیں قافلوں کو لوٹنے اور آپس میں لڑائی جھگڑوں سے باز رہیں۔ وہی تمام طریقے جو حج کی نسبت ابراہیم کے وقت سے چلے آتے تھے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قائم رکھے۔ اس میں دنیاوی منفعت کے سوا روحانی بھی بہت بڑی تربیت ہے۔ اول اس بزرگ کی سالانہ یادگاری ہے جو دنیا کی قوموں کے لیے اور خدائے واحد کا نام دنیا میں پھیلانے اور فطرت اللہ یا دین اللہ کو تمام دنیا میں شائع کرنے کا باعث ہوا۔ ایسے بزرگوں کی یادگاری قائم رکھنا اور ان کے پرانے تاریخی واقعات کو زندہ کرنا ان کے دائمی احسانوں کا اعتراف کرنا ہے اور اس بات کا ہمیشہ یاد رکھنا ہے کہ خدا نے کس طرح انسان تک اپنی برکت اور اپنا فضل پہونچایا تھا یہ یادگار آئندہ انھی نیکیوں اور قوائد کے جاری رکھنے میں بہت بڑی مددگار ہوتی ہے اور انسان کے دل کو نرم اور نیکیوں کی طرف راغب رکھتی ہے۔ ہمت بندھتی ہے، دل اور روحانی قوت نیکیاں کرنے پر تازہ ہو جاتی ہے۔ دوسرے تمام ارکان حج میں بجز ابراہیمی طریقہ کی نماز اور دعا اور خدا کی عبادت کے اور کچھ نہیں ہے اور جب وہ ایسے مقام پر کی جاتی ہے جس کے تاریخی واقعات صرف خیال ہی سے دل پر بہت بڑا اثر پیدا کرتے ہیں اور جب کہ وہ ایک بہت بڑے جم غفیر کے ساتھ ادا کی جاتی ہے جو دور و دراز رستوں اور مختلف ملکوں سے آ کر خد اکی عبادت کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ تو صرف اس ہیئت مجموعی میں ہے جو اثر دل پر اور انسانوں کی روح پر پڑتا ہے وہ کسی اور طرح ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ایک عملی طریقہ روحانی تربیت کا ہے جس کی مثل کوئی دوسرا طریقہ دنیا میں نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ چند روز کے لیے اس وحشیانہ حالت میں زندگی بسر کرنی جو اس بڈھے داد ا کے زمانے میں تھی بہت قوی اثر خدا کی محبت کا دل میں پیدا کرتی ہے۔ سویلزیشن کے زمانہ میں جب کہ نیک دلی اور سچائی اور خدا پرستی اور خدا کے احسانات کی یادگاری میں وہی وحشیانہ سوانگ بھرا جاوے تو اس کا نہایت قوی اثر دل پر ہوتا ہے۔ خصوصاً جب کہ وہ ایک گروہ کثیر کے مجمع کے ساتھ ہو اورع مجمع کا مجمع ایک شخص یا ایک ذات پاک کی یادگاری میںدیوانہ وار مستغرق ہو۔ انسویلزڈ زندگی بھی ایک طرح پر نہایت عمدہ ہوتی ہے اور دل کی سادگی اور بے گناہ زندگی کے سبب سے تقدس کی طرف زیادہ میلان رکھتی ہے اور خیالات کو بن سمجھے خدا کی طرف زیادہ رجوع کرتی ہے۔ بے سمجھا یقین دل پر بہت بڑا اثر رکھتا ہے۔ اس کے بعد شک کا دور دورہ آتا ہے جب تک کہ وہ نہ مٹ جاوے اور سمجھنے کے بعد دل پر یقین کا تسلط نہ ہو پس اس پاک خدا کی چند روزہ عبادت کے لیے اسی مقدس زندگی کو اختیار کرنا روحانی تربیت کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتا ہے۔ حقیقت حج کی ہماری سمجھ میں یہ ہے جو ہم نے بیان کی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایک ایسی متعدی برکت ہے کہ جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے یہ ان کی خام خیالی ہے کوئی چیز سوائے خدا کے مقدس نہیں ہے۔ اسی کا نام مقدس ہے اور اسی کا نام مقدس رہے گا۔ اس چوکھونٹے گھر کے گرد پھرنے سے کیا ہوتا ہے۔ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھرتے ہیں۔ وہ تو کبھی حاجی نہیں ہوئے۔ پھر دو پائوں کے جانور کو اس کے گرد پھر لینے سے ہم کیوں کر حاجی جانیں ہاں جو حقیقتاً حج کرے وہ حاجی ہے۔ اس بیان سے حج کے ارکان کی بھی حقیقت بہ خوبی واضح ہوئی ہو گی۔ احرام باندھنا ابراہیمی زمانہ کی صورت بنانا ہے۔ طواف کرنا کعبہ کی دیواروں کے گرد صدقے ہونا نہیں ہے۔ بلکہ درحقیت وہ اس طریقہ پر نما ز ہے ۔ جو ابراہیمی زمانہ میں اس چوکھونٹے گھر کے گرد پڑھی جاتی تھی۔ صفا و مروہ میں سعی کرنا اسماعیل اور ہاجرہ کے استقلال اور خدا پر کامل یقین کو یاد کرنا ہے کہ اس اضطرار اور اضطراب کی حالت میں بھی جو پانی کی تلاش میں وہاں ان پر گذری تھی انھوں نے نہیں چھوڑا تھا اور ایسی حالت میں بھی خدا ہی پر انھوں نے بھروسہ کیا۔ پس اس یقین کو یاد کر کے اپنے دل کو خدا کی محبت میں زیادہ تر ترقی کرنا ہے۔ حج میں قربانی کی کوئی مذہبی اصل قرآن مجید سے نہیں پائی جاتی۔ مکہ ایک بیابان غیر ذی ذرع تھا اس قدر لوگوں کے جمع ہونے سے خوراک کا میسر آنا مشکل تھا اس لیے اکثر لوگ خوراک کے لیے جانور اپنے ساتھ لے جاتے تھے جو بدن اور قلائد کے نام سے مشہور تھے اور جو نہ لے جاتے تھے وہ مکہ میں خریدتے تھے ان کو ذبح کر کے خود بھی کھاتے تھے اور لوگوں کو بھی کھلاتے تھے حج میں صرف یہی اصل قربانی قرآن مجید سے پائی جاتی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ’’فکلوا منھا و اطمعوا البائس الفقیر لکم فیھا منافع الی اجل مسمی ثم محلھا الی البیت العتیق‘‘ والبدن جعلنا ھالکم من شعائر اللہ لکم فیھا خیر فاذکر اسم اللہ علیھا صواف فاذا او جبت جنوبھا فکلوا منھا و اطمعوا القانع والمعتر‘‘ وہاں پر نہ کوئی دیوتا ہے نہ کوئی دیبی ہے نہ پہاڑ پر کوئی چیز ہے جس پر بکرا یا مینڈھا یا اونٹ چڑھایا جاوے۔ نہ خدا کو اس کی بو خوش آتی ہے نہ ان کا خون پیتا ہے نہ ان کی جان لینے سے خوش ہوتا ہے بلکہ وہ تو صرف نیکی اور بھلائی چاہتا ہے جیسے کہ خود اس نے کہا ہے ’’لن ینال اللہ لحومھا ولا دماء ھا ولکن ینالہ الثقویٰ منکم‘‘ پس اس زمانہ میں جو حج کے دنوں میں حاجت سے زیادہ قربانی کی رسم ہے اور لاکھوں جانور ذبح کر کے جنگل میں ڈالتے ہیں جن کو گیدڑ اور کوے بھی نہیں کھاتے اس کا کچھ بھی نشان مذہب اسلام میں نہیں ہے۔ ’’خدا نے حج ادا کرنے کی زیادہ سختی انسان پر نہیں کی‘‘ اور ہر شخص کی استطاعت پر اس کو منحصر کیا ہے جو نہایت وسیع معنی رکھتا ہے۔ وہ بھی تمام عمر میں ایک دفعہ اگر ہو سکے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اسلام زبردستی اور جبر سے پھیلا؟ اور کیا آنحضرت نے دین حق کی اشاعت تلوار سے کی؟ اہل یورپ کا غلط اور فضول اعتراض آنحضرت صلعم کے غزوات و سرایا کا تفصیلی تذکرہ قرآن کریم کی سورۂ انفال اور سورۂ توبہ دونوں میں کافروں سے لڑنے اور ان کو قتل کرنے اور مغلوب کرنے کا ذکر ہے۔ اس کی نسبت مخالفین اسلام نے اپنی غلطی اور ناسمجھی سے اسلام کی نسبت مختلف پیرایوں میں اعتراض قائم کیے ہیں۔ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کافروں کے ساتھ جو کچھ کیا اور جس قدر اور جس طرح انھوں نے خدا کے حکم سے کافروں کو قتل اور غارت کیا۔ اگر اس کا مقابلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کی لڑائیوں سے کیا جاوے تو معلوم ہو گا کہ وہ لڑائیاں بمقابلہ حضرت موسیٰ کی لڑائیوں کے خدا کی رحمت تھیں۔ پس جو لوگ توریت کو اور حضرت موسیٰ کو مانتے ہیں ان کے لیے تو حضرت مسیح کا یہ قول کافی ہے کہ ’’تو اس تنکے کو جو تیرے بھائی کی آنکھ میں ہے کیوں دیکھتا ہے اور جو شہتیر کہ تیری آنکھ میں ہے اسے دریافت نہیں کرتا‘‘ مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے کہ ہم صرف حجت الزامی پر اکتفا کریں بلکہ ہمارا مقصود ہر امر کو تحقیق کرنا اور اس کی اصلیت کو ظاہر کرنا ہے اس لیے ہم اس امر کو بخوبی تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔ اس امر پر جو اعتراض جامع جمیع اعتراضات ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک بانئے مذہب کو جس کا موضوع سچی اور سیدھی راہ کا بتانا اور اس کے نتیجوں کی خوش خبری دینا اور بد راہ کی برائی کو جتلانا اور اس کے بد نتیجوں سے ڈرانا اور اپنی نصیحت اور وعظ سے انسانوں میں نیکی اور نیک دلی، رحم اور صلح، آپس میں محبت و ہمدردی کا قائم کرنا اور تمام مصیبتوں اور تکلیفوں کو جو اس راہ میں پیش آویں صبر و تحمل سے برداشت کرنا زیبا ہے یا زبردستی سے اور ہتھیاروں کے زور سے اور قتل خون ریزی سے اس کو منوانا لازم ہے۔ پس اب ہم کو اسی امر کا تحقیق کرنا مقصود ہے کہ کیا قرآن مجید میں ہتھیار اٹھانے کا حکم زبردستی اسلام منوانے کے لیے تھا؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ قرآن مجید سے اور تمام لڑائیوں سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوئی بخوبی ثابت ہے کہ وہ لڑائیاں صرف امن قائم رکھنے کے لئے ہوئی تھیں نہ زبردستی سے اور ہتھیاروں کے زور سے اسلام منوانے کے لیے۔ مکہ میں اہل مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کو اور ان مرد اور عورتوںکو جو مسلمان ہو گئے تھے ایذا پہنچانے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اور ان کے پیرو مسلمان مرد عورت نے ان تمام مصیبتوں اور تکلیفوں کو نہایت صبر و تحمل کے برداشت کیا تھا جن کے خیال سے تعجب آتا ہے کہ کیوں کر برداشت ہوئی تھیں۔ اغروا بہ (محمد صلعم) سفھاء ھم و عبید ھم و یصیحون بہ حتی اجتمع الیہ الناس و الجوؤہ الی حایط۔(ابن ہشام، صفحہ ۲۸۰) خاص آنحضرت کی نسبت منہ در منہ دشنا م دھی کرنا اور برا کہنا اور تذلیل کرنا یہ تو ایک عام بات تھی جو روز مرہ ہوتی تھی۔ معززین قریش کمینہ لوگوں کو اور اپنے غلاموں کو اشارہ کرتے تھے اور وہ اس طرح سے آنحضرت کو ایذا پہنچاتے تھے۔ ایک دفعہ اسی طرح ان کمینہ لوگوں اور قریش کے غلاموں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا اور گالیاں دینی اور سخت سست الفاظ کہہ کر غل مچانی شروع کی۔ بہت سے آدمی جمع ہو گئے اور ایسی دھکا پیل ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک احاطہ میں پناہ لینی پڑی۔ ابو لھب کان یطرح العذرۃ والنتن علی باب النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ (تاریخ ابن الاثیر، جلد ۲ صفحہ ۲۸) ابو لہب ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر نجاست اور نجس و بدبودار چیزیں ڈلوا دیتا تھا۔ انھا (ام جمیل امراۃ ابی لھب) کانت فیما بلغنی تحمل الشوک فتطرحہ علی طریق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حیث یمز۔ (ابن ہشام، صفحہ ۲۳۳) ام جمیل ابی لہب کی بیوی اس رستہ پر جہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدو رفت تھی کانٹے ڈلوا دیتی تھی۔ اعترضہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سفیہ من سفھاء قریش فتثر علی رسہ ترابا۔ (ابن ہشام، صفحہ ۲۷۷) راہ چلنے کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر لوگ مٹی، کوڑا کرکٹ ڈال دیتے تھے۔ وکان عقبۃ قد جلس الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و سمع منہ فبلغ ذلک ابیا فاتی عقبۃ فقال لہ الم یبلغنی انک جالست محمد او سمعت منہ ثم قال وجھی من وجھک حرام ان اکلمک و استغلظ من الیمین ان انت جلست الیہ و سمعت منہ۔ اولم تا تہ فتتفل فی وجھہ ففعل ذلک عدو اللہ عقبۃ بن ابی معیط۔ (ابن ہشام صفحہ ۲۳۸) قریش نے آپس میں نہایت سخت عہد کیا تھا کہ کوئی شخص آنحضرت کے پاس نہ جاوے، ان کے پاس نہ بیٹھے، ان کی بات نہ سنے ایک دفعہ عقبہ جا کر آنحضرت کے پاس بیٹھا اور کچھ کلام سنا اس کی خبر ابی کو پہنچی جو اس کا بڑا دوست تھا وہ اس کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تو آنحضرت کے پاس جا کر بیٹھا تھا اور ان کی باتیں سنی تھیں تیری صورت مجھ سے دیکھنی اور تجھ سے بات کرنی حرام ہے اور میں اپنی قسم کو زیادہ سخت کروں گا اگر تو اب گیا اور ان کے پاس بیٹھا اور ان کی بات سنی کیا تجھ سے یہ نہ ہو سکا کہ ان کے منہ پر تھوک دیتا چناں چہ اس خدا کے دشمن نے ایسا ہی کیا۔ و ثب کل قبیلۃ علی من فیہا من مستضعفی المسلمین فجعلوا یجسونھم و یعذبونھم بالضرب و الجوع والعطش و رمضاء مکۃ والنار لیفتنونھم عن دینہم۔ (تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحہ ۲۶) جو لوگ مسلمان ہو گئے تھے ان پر بھی نہایت ظلم ہوتا تھا اور سخت ایذا پہنچائی جاتی تھی۔ جہاں بے کس مسلمانوں کو دیکھتے تھے پکڑ لیتے تھے قید کرتے تھے ، مارتے تھے، بھوکا پیاسا رکھتے تھے، جلتی ریت میں ڈال دیتے تھے آگ سے جلا کر ایذا پہنچاتے تھے۔ فصار بلال لامیۃ بن خلف الجمحی فکان اذا حمیت الشمس وقت الظہیرۃ یلقیہ فی الرمضاء علی وجھہ و ظہرہ ثم یامر بالصخرۃ العظیمۃ فتلقے علی صدرہ و یقول لاتزال ھکذا حتی تموت او تکفر بمحمد۔ (تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحہ ۲۶) حضرت بلال کو عین دوپہر میں سورج کی تپش کے وقت امیہ بن خلف کبھی منہ کے بل اور کبھی پیٹھ کے بل جلتے ریت پر ڈال دیتا تھا اور چت کر کے ان کی چھاتی پر بھاری پتھر رکھ دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میں تیرے ساتھ اسی طرح کیے جائوں گا جب تک کہ تو مر جاوے یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ کفر کرے۔ کانو۔ ایخرجون عمار اواباہ و امہ الی الابطح اذا حمیت الرمضاء یعذبونھم بحر الر المضاء فمر بھم النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال صبرا ال یاسر فان موعد کم الجنۃ فمان یاسر فی العذاب واغلظت امراتہ سمیۃ القول لابی جھل فطعنہا فی قبلھا بحربۃ فی یدہ فماتت وھی اول شہید فی الاسلام و شدد والعذاب علی عمار بالحر تارۃ و بوضع الصخر احمر علی صدرہ اخری و بالتغریق اخری فقالو الا نترکک حتی تسب محمدا و تقول فی اللات خیرا ففعل فترکوہ ولکن قلبہ مطمئن بالایمان۔ (تاریخ ابن اثیر صفحہ ۲۶) ایک دفعہ انھوں نے عمار بن یاسر کو اور اس کے باپ اور ماں کو جو مسلمان ہو گئے تھے پکڑ لیا اور دھوپ میں جلتے ریت پر ڈال دیا۔ اتفاقاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف سے گذرے اور ان سے کہا کہ اے یاسر کے خاندان کے لوگو صبر کرو تمہاری جگہ جنت میں ہے۔ حضرت یاسر تو اسی سختی کی حالت میں مر گئے اور ان کی بیوی سیمہ نے ابو جہل کے ساتھ سخت کلامی کی ابو جہل نے وہ ہتھیار جو اس کے ہاتھ میں تھا حضرت سیمہ مظلومہ کی شرم گاہ میں مارا کہ وہ مر گئیں اور اس طرح وہ سب سے اول شہید ہوئی ہیں۔ اس کے بعد ابوجہل نے حضرت عمار کو ایذا پہنچانے میں زیادہ سختی کی۔ کبھی دھوپ میں ڈالتا تھا کبھی آگ سے گرم کیا ہوا پتھر ان کے سینے پر رکھواتا تھا۔ کبھی ان کو پانی میں ڈال کر ڈبواتا تھا۔ آخر کار ان سے کہا کہ ہم تجھ کو نہ چھوڑیں گے جب تک کہ تو محمد کو دشنام نہ دے اور لات کی تعریف نہ کرے لاچار انھوں نے ایسا ہی کیا تب ان کو چھوڑا۔ مگر ان کے دل میں ایمان مستحکم تھا۔ اخذہ الکفار (خباب ابن الارث) و عذبوہ عذابا شدیدا فکانو یعرونہ و یلصقون ظہرہ بالورمضاء ثم بالرضیف و ھی الحجارۃ المحماۃ بالنار و لو واراسہ فلم بجیہم الی شئی مما اراد و امنہ۔ (تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحہ ۲۷) خباب ابن ارث کو کافروںنے پکڑ لیا اور نہایت سخت ایذا پہنچائی اس کو ننگا کر کے منہ کے بل گرم جلتے ریت پر لٹاتے تھے اور پھر پتھر کی کتلوں کو آگ سے گرم کر کے اس پر لٹاتے تھے اور اس کا سر مروڑ کے الٹا پھیر دیتے تھے مگر وہ خاموش تھا اور جو کچھ وہ کہتے تھے مطلق اس کا جواب نہیں دیتا تھا۔ اخذہ (ابو فکیھۃ) امیۃ بن خلف و ربط فی رجلہ حبلا و امر بہ فجر ثم القاہ فی الرمضاء و مربہ جعل فقال لہ امیۃ الیس ھذا ربک فقال اللہ ربی و ربک و رب ھذا فخفتہ خنقا شدیدا و معہ اخوہ ابی بن خلف یقول زدہ عذابا حتی یاتی محمد فیخلصبہ لسحرہ و لم یزل علی تلک الحال حتی ظنوا انہ قدمات۔ (تاریخ ابن اثیر جلد ثانی صفحہ ۲۷) ابو فکیہ کو امیہ بن خلف نے پکڑا اور اس کے پائوں میں رسی بندھوائی اور کھنچوایا اور جلتی ریت میں ڈال دیا۔ اتفاقاً ایک بدصورت کالا پائوں والا چھوٹا سا کیڑا اس کے قریب نکلا تو امیہ نے طعنہ سے کہا کہ یہ تیرا خدا ہے اس نے کہا کہ اللہ میرا رب ہے اور تیرا رب اور اس کیڑے کا بھی۔ یہ سن کر امیہ نے نہایت زور سے اس کا گلا گھونٹنا شروع کیا اس وقت ا س کا بھائی ابی ابن خلف بھی موجود تھا اور کہتا تھا زور سے تاکہ محمد آ جاویں اور اپنے جادو سے اس کو چھڑا لیں۔ غرض کہ اس کا گلا گھونٹتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے خیال کیا کہ وہ مر گیا۔ مگر وہ مرا نہیں تھا۔ کان عمر (قبل اسلامہ) یعذبہا (لبینۃ) حتی تفتن ثم یدعھا و یقول انی لم ادعک الاسامۃ فتقول کذلک یفعل اللہ بک ان لم تسلیم۔ (تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحہ ۲۷) خود حضرت عمر نے اپنے مسلمان ہونے سے پہلے لبینہ ایک مسلمان عورت کو پکڑ لیا اور اس کو ایذا پہنچائی اور مارنا شروع کیا جب تھک جاتے تھے تو چھوڑ دیتے تھے اور کہتے تھے میں نے تجھے چھوڑا نہیں ہے میں تھک گیا ہوں اس لیے ٹھیر گیا ہوں۔ اس نے جواب دیا کہ اسی طرح خدا بھی تیرے ساتھ کرے گا اگر تو مسلمان نہ ہوا۔ بلغہ (ای عمر) ان اختہ فاطمۃ اسلمت مع زوجھا سعید ابن عمہ زید و ان خباب بن الارث عند ھما یعلمھا القرآن فجاء الیھما منکرا و ضرب اختہ فشبھا فلما رات الدم قالت قدا سلمنا۔ (ابن خلدون جلد ۲ صفحہ ۹) حضرت عمر کو خود مسلمان ہونے سے پہلے معلوم ہوا کہ فاطمہ ان کی بہن مع اپنے شوہر کے مسلمان ہو گئی ہے اور خباب بن الارث ان کو قرآن سکھاتا ہے حضرت عمر ان کے پاس آئے اور خوب مارا کہ ان کا سر پھٹ گیا جب خون بہنے لگا تو ان کی بہن نے کہا کہ ہاں ہم تو مسلمان ہو گئے ہیں۔ کان ابو جھل یعذبھا (زنیرۃ) حتیٰ اعمیت فقال لھا ان اللات و العزی فعلا بک فقالت و ما یدری اللات و العزی من یعبد ھما ولکن ھذا امر من السماء و ربی قادر علی رد بصری۔ (تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحہ ۲۷) اسی طرح ابو جھل نے زنیرہ مسلمان عورت کو اس قدر ایذا دی کہ وہ اندھی ہو گئی اور جب اس نے جاناکہ وہ اندھی ہو گئی تو کہا لات اور عزی نے تجھ کو اندھا کیا ہے اس نے کہا کہ لات اور عزیٰ تو خود ہی نہیں جانتے کہ ان کو کون پوجتا ہے مگر یہ ایک آسمانی امر ہے اور میرا خدا قادر ہے کہ پھر میری آنکھوں میں روشنی دے دے۔ کانت (ای امرأۃ من بنی عبدالدار تعذبھا) (النھدیۃ) و تقول واللہ لا اقلعت عنک او یبتاعک بعض اصحاب محمد۔ (تاریخ ابن الاثیر جلد ثانی صفحہ ۲۷) کان الاسود بن عبد یغوث بعذبھا (ای امام عبیث)۔ (تاریخ ابن الاثیر جلد ثانی صفحہ ۲۷) کان ابوجھل یاتی الرجل الشریف و یقول لہ اتترک دینک و دین ابیک و ھو خیر منک و یقبح رایہ و فعلہ و یسفہ حلمہ و یضع شرفہ و ان کان تاجرا یقول ستکسد تجارتک و یھلک مالک و ان کان ضعیفا اعری بہ حتی یعذب۔ (تاریخ ابن الاثیر جلد ثانی صفحہ ۲۷) نہدیہ نے ایک مسلمان عورت بنی عبدالدار کو اور اسود بن عبد یغوث نے ایک مسلمان عورت ام عبیث کو سخت ایذا ئیں دی تھیں یہ طریقہ ایذا دینے کا برابر جاری تھا۔ ابوجہل جب کسی شریف آدمی کو دیکھتا کہ مسلمان ہو گیا ہے تو اس سے کہتا کہ کیا تو اپنا مذہب اور اپنے باپ کا مذہب جو تجھ سے اچھا تھا چھوڑتا ہے اور اس کی عقل پر نفرین کرتا، اس کو حماقت کا کام بتلاتا اور اس کو بے عقل کہتا اور اس کو ذلیل کرتا اور اگر کوئی سوداگر ہوتا تو کہتا کہ تیری تجارت ڈوب جاوے گی اور تیرا مال برباد ہو جاوے گا اور اگر وہ مسلمان کوئی کمزور قبیلہ کا آدمی ہوتا تو اس کے پیچھے لوگوں کو لگا دیتا کہ اس کو ایذا دو۔ وکانت قریش انما تسمی رسول اللہ صلعم مذمما ثم یسبرنہ۔ (ابن ھشام، صفحہ ۳۳۴) و امیہ ابن خلف اذا رأی رسول اللہ صلعم ھمزہ والمزہ۔ الھمزۃ الذی یشتم الرجل علانیۃ و یکسر عینیہ علیہ واللمزۃ الذی یعیب الناس سراو یوذبھم۔ (ابن ھشام صفحہ ۲۳۴) کفار قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بجائے محمد کے مذمم بطور ھجو کے رکھ دیا تھا اور ابن امیہ خلاف علانیہ منہ در منہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم بدزبانی و دشنام وھی کرتا رہتا تھا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھتے تھے تو لوگ غل مچاتے تھے اور قرآن کے الفاظ کے ساتھ اپنے الفاظ ملا دیتے تھے۔ ففدا ابن مسعود حتی اتی المقام فی الضحیٰ و قریش فی اندیتہا حتی قام عند المقام ثم قرء بسم اللہ الرحمن الرحیم رافعا بھا صوتہ الرحمن علم القران قال ثم استقبلہا یقرء ھا قال فتا ملوہ فجعلوا یقولون ما قال ابن ام عبید قال ثم قالوا انہ لیتلوا بعض ماجاء بہ محمد فقاموا الیہ فجعلوا یضربون فی وجھہ و جعل یقرء حتی ابلغ منہا ماشاء اللہ ان یبلغ ثم انصرف الی اصحابہ۔ (ابن ہشام صفحہ ۲۰۲) ایک دفعہ ابن مسعود کعبہ کے پاس گئے اور سورہ الرحمان پڑھنی شروع کی اورقریش جو کعبہ کے آس پاس بیٹھے تھے ہجوم کر آئے اور جب جانا کہ وہ قرآن پڑھتے ہیں جو آنحضرت پر نازل ہوا ہے تو ان کے منہ کو پیٹنا شروع کیا کہ ان کا منہ نیلا ہو گیا اور مارنے کے نشان منہ پر پڑ گئے مگر جہاں تک ان سے بن پڑا وہ بھی پڑھے گئے۔ پانچ برس تک اسی قسم کی تکلیفیں اور ایذائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان مرد اور عورتوں کو جو مسلمان ہو گئے تھے پہنچتی رہیں اور خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اور تمام مسلمان مرد اور عورتوں نے نہایت صبر و تحمل سے ان کو برداشت کیا۔ مگر کوئی ایسی صورت جس سے مسلمان امن میں رہیں پیدا نہ ہوئی۔ اس وقت امن حاصل ہونے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اپنا عزیز وطن چھوڑ دیں اور حبشہ کو چلے جاویں جہاں کا بادشاہ نجاشی عیسائی مذہب کا تھا۔ پہلی ہجرت مسلمانوں کی بہ جانب حبشہ سن ۵ نبوی میں اس اجازت پر تھوڑے مسلمان مرد اور عورتوں نے رجب سن ۵ نبوی میں حبشہ کو ہجرت کی۔ گیارہ بارہ مرد اور چار پانچ عورتیں اس قافلہ میں تھیں۔ مردوں میں حضرت عثمان ابن عفان اور عورتوں میں رقیہ بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیوی حضرت عثمان کی شامل تھیں۔ مشورہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ولما رات قریش عزۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بمن معہ واسلام عمر و عزۃ اصحابہ بالحبشۃ و نشرا الاسلام فی القبائل اجمعوا علی ان یقتلوا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فبلع ذلک اباطالب فجمع بنی ھاشم و بنی المطلب فادخلوا رسول اللہ شعبھم و نمعوہ ممن راد قتلہ فا جابوہ لذلک حتی کفارھم فعلوا ذلک حمیۃ علیٰ عادۃ الجاھلیۃ۔ (مواھب لدنیہ صفحہ ۳۰ و ۳۱) جب قریش مکہ نے یہ بات دیکھی کہ جو مسلمان حبشہ میں گئے و ہ آرام سے رہتے ہیں اور حضرت عمر بھی مسلمان ہو گئے ہیں اور اسلام عرب کے قبیلوں میں پھیلتا جاتا ہے تو انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا اور سب لوگ اس بات پر متفق ہو گئے۔ مگر اس زمانہ میں ابو طالب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت علی مرتضیٰ کے والد زندہ تھے اور ان کا رعب بھی عرب قبیلوں پر کچھ کم نہ تھا۔ جب انھوں نے یہ بات سنی تو انھوں نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کو جمع کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گروہ کی حفاظت میں لے لیا۔ اجتمعوا اوئتمروا بینہم ان یکتبو اکتابا یتعاقدون فیہ علی بنی ہاشم و بنی المطلب علی ان لا ینکحوا الیھم ولا ینکحو ہم ولا یبیعوھم شیئاً ولا یبتا عوا منہم فلما اجتمعوا لذلک کتبوہ فی صحیقۃ ثم تعاھدوا وتواثقوا علیٰ ذلک ثم علقوا الصحیفۃ فی جوف الکعبۃ توکید اعلی انفہم۔۔۔۔ فا قاموا اعلیٰ ذلک سنتین او ثلاثا حتی اجہدوا الا یصل الیہم شئی الاسرا مستخفیا بہ من اراد صلتہم من قریش و کان ابوجھل بن ھشام فیما یذکرون لقی حکیم بن خرام بن خویلد بن اسد معہ غلام یحمل قحا یرید بہ عمتہ خدیجۃ بنت خویلد وھی عند رسول اللہ عم و معہ فی الشعب فتعلق بہ وقال اتذہب بالطعام الی بنی ہاشم واللہ لا یترح انت و طعامک حتی افضحک بمکۃ۔ (ابن ھشام ، صفحہ ۲۳۲) جب کہ قریش اپنے اردہ پر کامیاب نہ ہوئے اور انھوں نے دیکھا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کی ہے وہ پھر جمع ہوئے اور باہم مشورہ کر کے ایک عہد نامہ لکھا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب سے شادی اور بیاہ موقوف کیا جائے نہ کوئی ان کی بیٹیاں لے اور نہ کوئی ان کو بیٹیاں دے اور نہ کوئی ان کے ہاتھ کوئی چیز بیچے اور نہ ان سے کچھ خریدے اور اس پر سب نے اتفاق کر کے عہد نامہ لکھا اور اس کو خانہ کعبہ میں لٹکا دیا۔ اس معادہ سے بے انتہا تکلیف پہنچی۔ قریش میں سے بعض لوگ بسبب قرابت کے چھپ چھپا کر کچھ پہنچا دیتے تھے لیکن اگر کھل جاتا تھا تو نہایت فضیحت کیے جاتے تھے۔ ایک دفعہ حکیم بن خرام معہ اپنے غلام کے حضرت خدیجہ کے لیے جو اس کی پھوپھی اور آنحضرت کی بیوی تھیں کچھ ستو لوارے جاتا تھا ابوجہل راستہ میں مل گیا اور ان سے الجھ پڑا اور کہا کہ تو بنی ہاشم کے لیے کھانا لیے جاتا ہے میں ہر گز تجھ کو اور تیرے کھانے کو نہ چھوڑوں گا جب تک کہ تجھ کو مکہ میں فضیحت نہ کر لوں۔ یہ مصیبت کی حالت دو تین برس تک برابر جاری رہی۔ دوسری ہجرت مسلمانوں کی بجانب حبشہ سن ۷ نبوی میں اس قسم کی مصیبتیں مسلمانوں پر برابر جاری تھیں اور کسی طرح کا امن مسلمانوں کو مکہ میں نہیں ہوتا تھا اور جو لوگ حبشہ میں ہجرت کر گئے تھے وہ وہاں امن میں تھے اس لیے اور مسلمانوں کو بھی ہجرت کر جانے کی اجازت ہوئی چناں چہ بہت سے مرد اور عورتیں ہجرت کر گئے۔ مجموعی دونوں دفعہ کے ہجرت کرنے والوں کی تعداد بیاسی یا تراسی تھی۔ ہجرت مسلمانوں کی طرف مدینہ کے سن ۱۰ نبوی میں فکان احدھم فیما ذکر لی یطرح علیہ رحم الشاۃ و ھو یصلی و کان احدھم بطرحھام فی برمتہ اذا نصبت لہ حتی اتخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجرا یستربہ منہم اذا صلی فکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا طرحو علیہ ذلک الاذی کما حدثنی عمرو بن عبداللہ بن عروہ بن الزبیر یحرج بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی العود فیقف بہ علی بابہ ثم یقول یابنی عبد مناف ای رھذا ثم یلقیہ فی الطریق۔ (ابن ھشام صفحہ ۲۷۶ و ۲۷۷) جب حضرت خدیجہ کے بعد ابو طالب آنحضرت کے چچا کا بھی جن کے رعب داب سے کسی قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو امن تھا انتقال ہو گیا اور قریش کو بہت زیادہ تکلیف اور ایذا پہنچانے کا موقع ہاتھ آیا۔ یہاں تک کہ رسول خدا کے نماز پڑھنے کی حالت میں بکرے کی اوجھڑی ان پر ڈال دیتے تھے لاچار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپ کر نماز پڑھنی اختیار کی تھی اور کھانا پکاتے وقت کھانا پکنے کی ہنڈیا میں اوجھڑی کے ٹکڑے ڈال دیتے تھے۔ راستہ چلنے میںان کے سر مبارک پر مٹی اور کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے اور آنحضرت سب کو برداشت کرتے تھے اور ان سے فرماتے تھے کہ تم کیا اچھے میرے ہمسایہ ہو۔ جب یہاں تک حالت پہنچ گئی تو آپ بنی ثقیف کے پاس گئے تاکہ وہ ان کی مدد کریں مگر ان میں سے کوئی آمادہ نہ ہوا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں واپس چلے آئے اسی طرح عرب کے اور قبیلوں نے بھی ایمان لانے سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے سے انکار کیا۔ اسی درمیان میں مدینہ سے چند لوگ حج کرنے آئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قرآن سنایا اور مسلمان ہونے کو کہا سات آدمی ان میں سے مسلمان ہوئے جب وہ واپس گئے تو مدینہ کے لوگوں میں اسلام کا چرچا ہوا اور وہاں سے ستر آدمی خفیہ رات کو آنحضرت کے پاس آئے اور اسلام لائے اور جان و مال سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد کا معاہدہ کیا اور واپس چلے گئے۔ جب قریش نے یہ خبر سنی تو مسلمانوں کو طرح طرح سے ایذا دینی اور تنگ کرنا شروع کیا اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبور ہو کر مسلمانوں کو مدینہ میں ہجرت کرنے کی اجازت دی اور بہت سے مسلمانوں مرد اور عورتیں جس طرح جس کو موقع ملا مدینہ چلا گیا انھی ہجرت کرنے والوں میں حضرت عمر اور حضرت عثمان کہ حبشہ سے واپس آ چکے تھے اور عیاش ابن ربیعہ بھی تھے مگر با ایں ہمہ کچھ مسلمان مرد اور عورت جن کو قریش کے خوف سے یا اور کسی طرح پر جانے کا موقع نہیں ملا مکہ میں رہ گئے۔ قریش کا دوبارہ آنحضرت کے قتل کا ارادہ کرنا اور آنحضرت کا مدینہ کو ہجرت فرمانا سن ۱۳ نبوی میں جب کہ اس طرح پر مسلمان رفتہ رفتہ مکہ سے ہجرت کر گئے تو آنحضرت کی رفاقت میں بہ جز حضرت علی مرتضیٰ اور حضرت ابو بکر کے کوئی نہیں رہا تھا۔ قریش مکہ کو مسلمانوں کے اس طرح نکل جانے سے تردد پیدا ہوا اور انھوں نے یقین کیا کہ وہ امن پا کر اور متفق ہو کر ان پر حملہ کریں گے۔ اس باب میں انھوں نے پھر مجلس جمع کی اس غرض سے کہ اب کیا کیا جاوے۔ بعضوں نے یہ صلاح دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ابھی تک مکہ ہی میں تشریف رکھتے تھے گرفتار کر کے طوق و زنجیر ڈال کر ایک مکان محفوظ میں قید کر دیا جاوے۔ بعضوں نے یہ رائے دی کہ آنحضرت کو مکہ سے نکال دیا جاوے۔ ابو جہل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کی رائے دی اور کہا کہ بہتر یہ ہے کہ عرب کے ہر ایک قبیلہ سے ایک ایک جوان آدمی منتخب کیا جاوے اور ہر ایک کو تلوار دی جاوے اور سب مل کر ایک ساتھ تلواریں مار کر آنحضرت کو قتل کر ڈالیں اور جب تمام قومیں اس قتل مین شریک ہو ں گی تو قبیلہ بنو عبد مناف کو جس قبیلہ میں آنحضرت تھے جھگڑا کرنے کی طاقت نہ ہو گی۔ اس امر پر سب نے اتفاق کیا اور سب اٹھ کھڑے ہوئے تاکہ اس تجویز کو پورا کریں۔ اسی امر کا ذکر قرآن مجید میں ہے جہاں فرمایا ہے۔ اذ یمکر بک الذین کفرو الیثبتوک ااو یقتلوک او یخرجوک۔ الاٰیہ۔ اسی دن کی رات کو جب قریش مکہ نے یہ تجویز ٹھیرائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کی حضرت علی مرتضیٰ کو اپنا خلیفہ یا قائم مقام کر کے اپنے بچھونے پر سلا دیا تاکہ کافر جانیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سوتے ہیں اور حضرت ابو بکر کو اپنے ساتھ لیا اور مکہ سے نکل کر ثور پہاڑ کے ایک غار میں جا چھپے تین دن تک وہاں چھپے رہے اور پھر موقع پا کر مدینہ منورہ میں تشریف فرما ہوئے۔ صبح کو کفار قریش کو معلوم ہوا کہ آنحضرت تشریف لے گئے اور ان کی جگہ حضرت علی مرتضیٰ سوتے ہیں ان کو پکڑ لیا اور پوچھا کہ آنحضرت کہاں گئے انھوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا ان کو خوب مارا اور قید کر دیا مگر تھوڑی دیر کے بعد چھوڑ دیا اور اعلان کیا کہ جو کوئی آنحضرت صلعم کو پکڑ لاوے اس کو سو اونٹ انعام دیا جاوے گا۔ حضرت علی مرتضیٰ نے بھی مکہ سے ہجرت کی اور افتاں و خیزاں بڑی مشکل سے دن کو چھپے رہ کر اور راتوں کو چل کر مدینہ پہنچے۔ پیادہ چلنے سے پائوں سوج گئے تھے جب مدینہ میں پہنچے تو اس قدر طاقت نہ تھی کہ آنحضرت کے پاس آویں اس لیے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے دیکھنے کو ان کے پاس تشریف لے گئے۔ کافروں سے لڑنے کا حکم اور لڑائیوں کے واقعات و خرجت قریش فی آثار الاولین (الی الذین ھاجروا اولاد الی حبشہ) الی البحر فلم یدرکوھم۔ و قدموا الی ارض الحبشہ فکانوا بھا۔ (ابن خلدون جلد ۲ صفحہ ۸) ہجرت کرنے پر بھی قریش مکہ مہاجرین کو اور جو لوگ ان کو پناہ دیتے تھے امن سے رہنے نہیں دیتے تھے۔ جن مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی ان کے گرفتار کرنے کو سمندر کے کنارے تک ان کا تعاقب کیا۔ مگر وہ ان کے ہاتھ نہ آئے اور حبشہ میں پہنچ گئے۔ اس پر ابھی انھوں نے بس نہ کیا اور عمرو بن العاص اور عبداللہ ابن ابی امیہ کو بہت سے تحفے ہدیہ دے کر نجاشی کے پاس بھیجا اس غرض سے کہ مسلمان جو وہاں چلے گئے ہیں انہیں قریش کو دے دے مگر نجاشی نے ان کے دینے سے انکار کیا۔ و علمت قریش صحۃ الخبر (ای خبر بیعۃ الانصار اللنبی صلی اللہ علیہ وسلم) فحرجوا طلبہم فادرکو اسعد بن عبدۃ فجاؤا بہ الی مکہ یضربونہ و یجرونہ بشعرہ۔ (ابن خلدون، جلد۲، صفحہ ۳۱) مدینہ کے لوگوں کے ساتھ بھی جو آنحضرت پاس آئے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے اور آنحضرت کی نصرت کا وعدہ کیا تھا قریش مکہ نے برائی کرنے میں کچھ کمی نہیں کی تھی جب ان کو معلوم کہ در حقیقت مدینہ والے جو آئے تھے وہ مسلمان ہو گئے ہیں اور انھوں نے آنحضرت کی نصرف کا وعدہ کیا ہے تو ان لوگوں کا تعاقب کیا وہ تو ہاتھ نہ آئے مگر سعد ابن عبادہ ان کے ہاتھ لگ گئے ان کو مکہ میں پکڑ لائے اور ان کو مارتے تھے اور ان کے بال پکڑ کر گھسیٹتے پھرتے تھے۔ و جاء ابو جھل ابن ھشام فخادع عیاش بن ابی ربیعہ و ردہ الی مکۃ فجسوہ۔ (ابن خلدون، جلد ۲ ، صفحہ ۱۴) اسی عداوت کے سبب جو قریش مکہ کو مہاجرین سے ہو گئی تھی ابو جہل ابن ھشام مدینہ میں آیا اور عیاس ابن ابی ربیعہ کو فریب دیا کہ تیری ماں تیرے لیے روتی ہے اور کھانا پینا چھوڑ دیا ہے تو مکہ کو چل اور دھوکہ دے کر مکہ لے آیا اور جب مکہ میں پہنچا تو ان کو قید کر دیا۔ فقال بعضھم اجسوہ فی الحدید و اغلقوا علیہ بابا ثم تربصوا بہ ما اصحاب الشعراء قبلہ فقال النجدی ما ھذا لکم برأی لو حبستموہ یخرج امرہ من وراء الباب الی اصحابہ فلا و شکرا ان یثبوا علیکم فینزعوہ من ایدکم فقال آخر نکرجہ و ننفیہ من بلدنا ولا نبالی این وقع اذا غاب عنا فقال النجدی الم تروا حسن حدیثہ و حلاوۃ منطقہ لو فعلتم ذلک لحل علی حی من احیاء العرب فیغلب علیھم بحلاوۃ منطقہ ثم یسیر بھم الیکم حتی یطاء کم و یاخذ امرکم من ایدیکم۔ (تاریخ ابن اثیر ، جلد ۲ صفحہ ۴۲) ولا یزالون یقاتلونکم حتی یردوکم عن دینکم ان استطاعوا۔ (سورہ بقر آیت ۲۱۴) ان تمام حالات سے جو عداوت کہ قریش کو مسلمانوں سے ہو گئی تھی اور ہر طرح پر ان کے معدوم کرنے اور ایذا پہنچانے کی تدبیریں کرتے تھے بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔ قریش مکہ کو مدینہ کے لوگوں سے بھی جو مسلمان ہو گئے تھے اور آنحضرت کی نصرت کا وعدہ کیا تھا ویسی ہی عداوت تھی جیسی کہ مکہ کے مہاجرین سے تھی ۔ سب سے بڑا خوف قریش مکہ کو یہ تھا کہ اگر یہ لوگ زیادہ قوی ہو جاویں گے تو مکہ پر حملہ کریں گے۔ چناں چہ جب دوبارہ آنحضرت کے قتل کا مشورہ کیا تھاتو اس مشورہ میں جس شخص نے یہ رائے دی تھی کہ آنحضرت کو طوق اور زنجیر ڈال کر قید کر دیا جائے اس کی رائے اسی دلیل پر مانی نہیں گئی تھی کہ آنحضرت کے اصحاب جو مکہ سے نکل گئے ہیں جمع ہو کر مکہ پر حملہ کریں گے اور ان کو چھوڑا لے جاویں گے اور جس شخص نے رائے دی تھی کہ آنحضرت کو جلاوطن کر دیا جاوے اس کی رائے بھی اسی وجہ پر رد کی گئی تھی کہ آنحضرت اپنی فصاحت سے لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیں گے اور قریش مکہ کو کچل ڈالیں گے یہی سبب تھا کہ قریش مکہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے۔ چناں چہ قرآن مجید میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ اہل مکہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے جہاں تک کہ وہ تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں اگر وہ ایسا کر سکیں۔ مدینہ والے بھی قریش کے حملہ سے مطمئن نہیں رہے تھے اس لیے کہ مدینہ کے ان لوگوں میں سے جو ایمان نہیں لائے تھے اور آنحضرت کے مدینہ میں تشریف لانے کو پسند نہیں کرتے تھے اور مدینہ کے ان لوگوں سے جنھوں نے آنحضرت کی نصرت کا وعدہ کیا تھا بہت ناراض تھے چند معزز لوگ مدینہ کو چھوڑ کر مکہ چلے گئے تھے اور قریش سے جا ملے تھے۔ اب دیکھنا چاہیے کہ ایسی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مہاجرین اور انصار کو اپنی اور مدینہ کی حفاظت اور امن و امان قائم رہنے کے لیے کیا کرنا لازم تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے چار امر لازمی تھے کہ بغیر ان کے کبھی امن اور مطلوبہ حفاظت کسی طرح قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ اول۔ اس بات کی خبر رکھنی کہ قریش مکہ کیا کرتے ہیں اور کس منصوبہ میں ہیں۔ دوم۔ جو قومیں کہ مدینہ میں یا مدینہ کے گرد رہتی تھیں ان سے امن کا اور قریش کی مدد نہ کرنے کا معاہدہ کرنا۔ لیکن عہد شکنی کی حالت میں ان سے مقابلہ کرنا اس منصوبہ کے لیے ایسا ہی ضروری تھا جیسا کہ امن کا معاہدہ کرنا کیوں کہ اگر عہد شکنی کی مکافات نہ قائم کی جاوے تو کوئی معاہدہ اپنے عہد پر قائم نہیں ہو سکتا۔ سوم۔ جو مسلمان کہ مکہ میں بہ مجبوری رہ گئے تھے اور موقع پا کر وہاں سے بھاگ آنا چاہتے تھے ان کے بھاگ آنے پر جس قدر ہو سکے ان کی اعانت کرنا۔ جو قافلہ مکہ سے نکلتا تھا ہمیشہ احتمال ہوتا تھا کہ شاید اس کے ساتھ بہانہ کر کے کوئی مسلمان مدینہ میں بھاگنے کے ارادہ سے نکلا ہو۔ چہارم۔ جو گروہ قریش کا مکہ سے مدینہ پر حملہ کرنے کو نکلے یا کسی طرح پر احتمال ہو کہ وہ مدینہ پر آنے والا ہے ہتھیاروں سے اس کا مقابلہ کرنا۔ کیوں کہ ایسا کرنا اسی امن کے قائم رکھنے کے لیے لازمی و ضروری ہے ان چاروں باتوں میں سے کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کی نسبت کہا جا سکے کہ اس سے زبردستی اور ہتھیاروں کے زور سے اسلام کا منوانا مقصود ہے۔ ان کے سوا دو امر اور ہیں جو ہتھیاروں کے اٹھانے کا باعث ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ۔ کافر ان مسلمانوں کو جو ان کے قبضہ میں ہوں تکلیف اور ایذا دیتے ہوں ان کی مخلصی کے لیے یا ان کو ان کے ظلم سے نجات دلوانے کے لیے لڑائی کی جاوے جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وما لکم لا تقاتلون فی سبیل للہ و المستضعفین من الرجال و النساء و الولدان الذین یقولون ربنا اخرجنا من ھذہ القریۃ الظالم اھلھا واجعل نا من لدنک ولیا و اجعل لنا من لدنک نصیرا۔ (سورۃ النسائ، آیت ۷۷) کیا ہوا ہے تم کو کہ نہیں لڑتے ہو اللہ کی راہ میں اور کمزوروں کے بچانے کے لیے مردوں اور عورتوں اور بچوں میں سے جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو نکال اس شہر سے کہ ظلم کرنے والے ہیں ان کے لوگ اور کر ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی والی اور کر ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی مددگار۔ کون شخص ہے جو اس لڑائی کو انسانی اخلاق اور انسانی نیکی کے برخلاف کہہ سکتاہے اور کون شخص ہے جو اس لڑائی کی نسبت یہ اتہام کر سکتا ہے کہ وہ زبردستی اور ہتھیاروں کے زور سے مذہب قبلوانے کے لیے ہے۔ دوسرے یہ کہ ۔ کافر مسلمانوں کو ان کے مذہبی احکام ادا کرنے کے لیے مانع ہوں بشرطیکہ وہ ان کی عمل داری میں رہتے نہ ہوں کیوں کہ اس صورت میں ان کو وہاں سے ہجرت لازم ہے نہ لڑائی کرنی۔ اگرچہ اس لڑائی کی بنیاد ایک مذہبی امر پر ہے لیکن اس کا مقصد اپنی مذہبی آزادی حاصل کرنا ہے نہ کہ دوسروں کو جبر و زبردستی اور ہتھیاروں کے زور سے مذہب کا منوانا۔ اگر ہندو کسی قوم سے اس بات پر لڑیں کہ وہ قوم ان کو ان کے احکام مذہبی ادا کرنے نہیں دیتی تو کیا یہ کہا جاوے گا کہ ہندوئوں نے دوسری قوم کو بہ جبر اور ہتھیاروں کے زور سے ہندو کرنا چاہتا ہے۔ ایک اور امر ہے جو انھی قسم کی لڑائیوں کا ضمیمہ ہے یعنی جس ملک اور یا قوم سے انھی امور کے سبب مخالفت ہے اور لڑائی انھی امور کے سبب مشتہر ہو چکی ہے اس ملک یا قوم پر چھاپہ مارنا یا ان کا اسباب اور ان کی رسد اور ان کے ہتھیاروں کو لوٹ لینا ۔ اس زمانہ تہذیب میں بھی کون سی مہذب سے مہذب قوم ہے جو اس فعل کو نا مہذب و ناجائز قرار دے سکتی ہے۔ اور کون شخص ہے جو اس کو بہ جبر و زبردستی ہتھیاروں کے زوروں سے مذہب کا قبلوانا قرار دے سکتا ہے۔ تمام لڑائیاں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوئیں وہ انھی امور پر مبنی تھیں۔ ایک لڑائی بھی اس غرض سے نہیں ہوئی کہ مخالفوں کو زبردستی اور ہتھیاروں کے زور سے اسلام منوایا جاوے۔ اس دعویٰ کا ثبوت دو طرح پر ہو سکتا ہے۔ اول ان احکام سے جو قرآن مجید میں لڑائیوں کی نسبت وارد ہیں اور جن سے ظاہر ہو گا کہ لڑائی کا حکم صرف امن قائم کرنے کے لیے تھا نہ زبردستی سے اسلام قبلوانے کے لیے۔ دوسرے ان لڑائیوں کے واقعات پر غور کرنے سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں واقع ہوئیں چناں چہ ہم اب انھیں کے بیان پر متوجہ ہوتے ہیں اس کے بعد ایک امر اور بحث طلب باقی رہ جاوے گا کہ ایک پیغمبر کو اس قسم کی لڑائیاں لڑنا بھی زیبا ہے یا خموشی سے گردن کٹوا کر اور اپنے سر کو طشت میں رکھوا کر دشمن جانے دینا۔ یا کافروں کے ہاتھوں میں اپنے تئیں ڈلوا کر صلیب پر چڑھنا اور جان دینا۔ چناں چہ ہم اس پر بھی اخیر کو بحث کریں گے۔ آیات قرآنی کا بیان جن میں مذہب کی آزادی کا حکم ہے قرآن مجید کی کسی آیت میں کسی شخص کو زبردستی سے یا ہتھیاروں کے زور سے مسلمان کرنے یا اسلام قبلوانے کا حکم نہیں ہے بلکہ مسلمان کرنے کے لیے صرف وعظ اور نصیحت کرنے کی ہدایت ہے اور صاف صاف بتلایا ہے کہ اسلام میں جبر و زبردستی نہیں ہو سکتی۔ سورۂ نحل میں خدا نے فرمایا ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ و جادلھم بالتی ھی احسن۔ یعنی (اے پیغمبر) بلا اپنے رب کی راہ پر پکی بات سمجھا کر اور اچھی نصیحت کر کر اور ان سے بحث کر ایسے طریقہ سے کہ وہ بہت اچھا ہے۔ اور سورۂ نور میں فرمایا ہے قل اطیعو اللہ و اطیعو الرسول فان تولوا فانما علیہ ما حمل و علیکم ما حملتہم و ان تطیعوہ تھتداو وا وما علی الرسول الاالبلاغ۔ یعنی کہہ دے (اے پیغمبر) کہ فرماں برداری کرو اللہ کی اور فرماں برداری کرو رسول کی پھر اگر وہ پھر جاویں تو اس کے سوا کچھ نہیں ہے پیغمبر پر وہی ہے جو اس پر بوجھ ڈالا گیا ہے (یعنی ہدایت و نصیحت) اور تم پر وہی ہے جو تم پر بوجھ ڈالا گیا ہے (یعنی بہ سبب نہ قبول کرنے ہدایت و نصیحت کے) اور اگر اس کی فرماں برداری کرو گے تو ہدایت پائو گے اور پیغمبر کے ذمہ اور کچھ نہیں ہے مگر حکم کا صاف صاف پہنچا دینا۔ اور سورہ تغابن میں فرمایا ہے۔ اطیعو اللہ واطیعو الرسول فان تولیتم فانما علی رسولنا البلاغ المبین۔ یعنی فرماں برداری اللہ اور فرماں برداری کرو پیغمبر کی پھر اگر تم پھر جائو تو اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہمارے پیغمبر کے ذمہ حکموں کا پہنچا دینا ہے صاف صاف۔ سورہ ق میں خدا نے فرمایا ہے ۔ وما انت علیھم بجبار فذکر بالقرآن من یخاف وعید۔ یعنی توان پر زور کرنے والا نہیں ہے پھر نصیحت کر قرآن سے اس کو جو ڈرتا ہے عذاب کے وعدہ سے۔ اور سورہ غاشیہ میں فرماتا ہے۔ فذکر انما انت مذکر لست علیھم بمصیطر۔ یعنی پھر تو ان کو نصیحت کر اس کے سوا کچھ نہیں کہ تو نصیحت کرنے والاہے اور ان پر کڑوڑا نہیں ہے۔ اور سورہ یونس میں فرمایا ہے۔ ولا شاء ربک لامن من فی الارض جمیعا افا انت تکرہ الناس حتی یکونوا مومنین۔ یعنی اگر تیرا پروردگار چاہے تو بے شبہ ایمان لے آویں جو زمین پر ہیں اکٹھے پھر کیا تو زبردستی کرتا ہے جہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جاویں۔ اس سے زیادہ وضاحت سے سورہ بقر میں اسلام میں زبردستی کے ہونے کی نفی فرمائی ہے جہاں فرمایا ہے ۔ لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی فمن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقیٰ لا انفصام لھا واللہ سمیع علیم۔ یعنی کچھ زبردستی نہیں ہے دین میں بلاشبہ ظاہر ہو گئی ہے ہدایت گمراہی سے پھر جو کوئی منکر ہوا غیر خد اکی پرستش کا اور ایمان لاوے اللہ پر تو بے شک اس نے پکڑ لیا مضبوط ذریعہ جس کے لیے ٹوٹنا نہیں ہے اور اللہ سننے والا ہے جاننے والا۔ مخالفین اسلام یہ حجت پکڑتے ہیں کہ اس قسم کی نصیحتیں آنحضرت صلعم کی اسی وقت تک تھیں جب تک کہ آپ مکہ میں تشریف رکھتے تھے مگر جب مدینہ میں چلے آئے اور انصار اہل مدینہ مسلمان ہو گئے اور مہاجرین اور انصار ایک جگہ جمع ہو گئے اور آنحضرت کو بہت بڑی قوت ہو گئی اس وقت تک ان نصیحتوں کو بدل دیا اور لڑنے اور قتل کرنے کا اور تلوار کے زور سے اسلام قبولوانے کا حکم دیا مگر یہ حجت محض غلط ہے اول تو اس لیے کہ انہیں سورتوں میں سے جن کی آیتوں کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے سورہ نور اور سورہ بقر ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں جب کہ آنحضرت صلعم کو بخوبی قوت ہو گئی تھی اور انھیں سورتوں میں حکم ہے کہ رسول کا کام صرف حکموں کا پہنچا دینا ہے اور دین میں کچھ زبردستی نہیں ہے۔ پھر یہ کہنا کہ آنحضرت نے مدینہ میں آنے کے بعد ان نصیحتوں کو بدل دیا تھا صریح جھوٹ ہے۔ دوسرے یہ کہنا کہ خدا کے احکام جو بطور اصل اصول کے نازل ہوئے ہیں وہ جگہ کی تبدیلی یا قوت اور ضعف کی تبدیلی سے تبدیل نہیں ہو سکتے۔ خدا کا حکم یہ ہے کہ زبردستی سے کسی کو مسلمان نہیں کیا جاسکتا پس جب آنحضرت مکہ میں تھے اس وقت بھی کوئی شخص زبردستی سے مسلمان نہیں ہو سکتا اور جب آپ مدینہ میں تشریف لے آئے اس وقت بھی کوئی زبردستی سے مسلمان نہیں ہو سکتا تھا۔ ہاں جب آپ مدینہ میں تشریف لے آئے تو لڑائی کا حکم ہوا مگر وہ لڑائیاں لوگوں کو جبر و زبردستی سے اور ہتھیاروں کے زور سے مسلمان کرنے کے لیے نہ تھیں بلکہ امن قائم کرنے کے لیے تھیں جس کو ہم آئندہ بالتفصیل بیان کریں گے۔ آزادی مذہب کی صلح اور معاہدہ کی حالت میں خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو کافروں سے صلح اور معاہدہ کرنے کی اجازت دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ کافروں کے مذہب میں کچھ دست درازی نہ کی جائے وہ اپنے مذہب پر رہیں صرف مسلمانوں کو ایذا نہ دیں۔ ان سے لڑیں نہیں اور ان کے دشمنوں کی مدد نہ کریں اور ان معاہدوں پر قائم رہنے کی نہایت تاکید کی اور معاہدہ کرنے والوں سے جو اپنے معاہدہ پر قائم رہے ہوں لڑنے کی ممانعت فرمائی۔ صلح اور معاہدہ کی اجازت ہی صاف دلیل اس بات کی ہے کہ مذہب کی آزادی میں خلل ڈالنا مقصود نہ تھا اور نہ لڑائی سے کسی کو زبردستی سے اور ہتھیاروں کے زور مسلمان کرنا مقصود تھا بلکہ صرف امن کا قائم رکھنا مقصود اصلی تھا۔ سورہ نحل میں خدا نے فرمایا۔ و اوفوا بعھد اللہ اذ عاھدتم ولا تنقضوا الا یمان بعد توکیدھا وقد جعلتہم اللہ علیکم کفیلا ان اللہ یعلم ما تفعلون۔ یعنی اور پورا کرو تم عہد اللہ کا (یعنی جو خدا کو درمیان میں دے کر عہد کیا ہے) جب تم نے عہد کیا اور نہ توڑو اپنی قسموں کو ان کے مضبوط کرنے کے بعد اور بے شک تم نے اللہ کو کیا ہے اپنا ضامن بے شک اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ خود سورہ توبہ میں نہایت خفگی سے لڑائی کا حکم ہے خدا نے فرمایا ہے ۔ الا الذین عاھدتم من المشرکین ثم لم ینقضوکم کم شیئا ولم یطاھر و اعلیکم احدا فاتموا الیہم عہدھم الی مدتہم ان اللہ یحب المتقین۔ یعنی جن مشرکوں سے تم نے عہد کیا ہے پھر انھوں نے اس کے پورا کرنے میں کچھ کمی نہیں کی اور نہ تمہارے بر خلاف کسی کی مدد کی تو پھر تم پورا کرو ان کے ساتھ ان کا عہد ان کی میعاد تک بے شک اللہ دوست رکھتا ہے پرہیز گاروں کو۔ پھر اسی سورہ میں فرمایا۔ الذین عاھدتم عند المسجد الحرام فما استقاموا لکم فاستقیموا لھم ان اللہ یحب المتقین۔ یعنی جن مشرکوں نے مسجد حرام کے پاس تم سے عہد کیا تھا پھر جب تک کہ وہ تمہارے لیے عہد پر قائم رہیں تو تم بھی ان کے لیے عہد پر قائم رہو بے شک اللہ دوست رکھتا ہے پرہیز گاروں کو۔ اس سے زیادہ معاہدہ کی رعایت کفار اور مشرکین کے ساتھ کیا ہو سکتی ہے جتنی کہ قرآن مجید میں کی گئی ہے۔ سورہ نساء مدینہ میں ہجرت کے بعد اتری ہے اس میں حکم ہے کہ وما کان لمومن ان یقتل مومنا الا خطا ومن قتل مومنا خطا فتحریر رقبۃ مومنۃ ودیۃ مسلمۃ الی اھلہ الا ان یصدقوا فان کان من قوم عدولکم و ھو مومن فتحریر رقبۃ مومنۃ و ان کان من قوم بینکم و بینہم میثاق فدیۃ مسلمۃ الی اھلہ و تحریر رقبۃ مومنۃ فمن لم یجد فصیام شہرین متتابعین توبۃ من اللہ و کان اللہ علیما حکیما۔ (سورہ نساء آیت ۹۴) اگر کسی مسلمان کے ہاتھ سے کوئی مسلمان دھوکے سے مارا جائے تو قاتل کو ایک غلام آزاد کرنا چاہیے اور اگر مقدور نہ ہو تو ساٹھ روزے رکھنے چاہئیں اور اس کے سوا مقتول کی دیت اس کے کنبے کو دی جائے۔ پھر اگر وہ مقتول ایک ایسی قوم کا ہے جن سے اور مسلمانوں سے دشمنی ہے اور وہ مقتول مسلمان ہے تو قاتل کو صرف غلام ہی کا آزاد کرنا ہو گا اور اگر مقتول ایسی قوم کا ہے کہ اس قوم سے اور مسلمانوں سے معاہدہ ہے تو قاتل کو غلام بھی آزاد کرنا ہو گا اور مقتول کی دیت اس کے کنبہ کو بھی دینی ہو گی۔ اس سے زیادہ معاہدہ کی رعایت جس کا حکم خدا تعالیٰ نے دیا ممکن نہیں کیوں کہ جو حق تعالیٰ نے ایسی حالت میں مسلمانوں کے لیے مقرر کیا تھا وہی حق ان کفار اور مشرکین کے لیے بھی قرار دیا ہے جن سے اور مسلمانوں سے امن کا معاہدہ ہو گیا ہو۔ ولما تخافن من قوم خیانۃ فانبذ الیھم علی سواء ان اللہ لا یحب الخانین۔ (سورہ انفعال آیت ۶۰) جن لوگوں سے معاہدہ ہوا ہے اگر معلوم ہو کہ وہ دغا بازی کرنا چاہتے ہیں تو معاہدہ توڑنے کی اجازت دی گئی ہے مگر ایسی احتیاط اور انصاف سے اس کے توڑنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ ان لوگوں کو کسی طرح نقصان نہ پہنچ سکے یعنی یہ حکم ہے کہ اس طرح پر معاہدہ توڑا جائے کہ دونوں فریق برابری کی حالت پر رہیں اس میں کچھ دغا بازی نہ ہونے پاوے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ و ان احد من المشرکین استجارک فاجرہ حتی یسمع کلام اللہ ثم ابلغہ منہ ما ذلک بانھم قوم لا یعلمون۔ (سورہ توبہ آیت ۶) عین لڑائی کے زمانہ میں اگر کوئی مشرک کافر پناہ مانگے تو اس کو پناہ دینے کا حکم ہے اور صرف پناہ ہی دینے کا حکم نہیں بلکہ یہ حکم بھی ہے کہ اس کو اس کے امن کی جگہ پہنچا دیا جاوے ۔ اس سے زیادہ مذہب کی آزادی اور معاہدہ کی احتیاط کیا ہو سکتی ہے۔ اسی بنا پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین عرب کے بہت سے قبیلوں سے اور قبائل یہود سے جو مدینہ میں رہتے تھے امن کے معاہدے کئے جو دلیل واضح اس بات کی ہے کہ مقصود یہ تھا کہ ملک میں لوگ امن سے رہیں مسلمانوں کو ایذا نہ دیں اور خدا کے کلام کو سنیں۔ کما قال ’’حتی یسمع کلام اللہ‘‘ پھر جس کا دل چاہے ایمان لاوے جس کا دل نہ چاہے نہ لاوے۔ کما قال اللہ تعالیٰ ’’لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی‘‘وقال فی موضع آخر ’’فمن شاء فلیو من و من شاء فلیکفر‘‘۔ لڑائی کے احکام اور اس حالت میں بھی آزادیٔ مذہب سب سے پہلے ہم کو یہ بیان کرنا چاہیے کہ کن لوگوں سے لڑنے کا حکم ہوا ہے اور کس مقصد سے، ہم اس سے پہلے بالتصریح بیان کر چکے ہیں کہ جو لوگ اپنے معاہدوں پر قائم ہیں اور مسلمانوں سے نہیں لڑتے اور نہ ان کے دشمنوں کو لڑنے میں مدد دیتے ہیں ان سے لڑنے کا حکم نہیں ہے۔ پس لڑائی کا حکم تین قسم کے لوگوں سے ساتھ ہوا ہے۔ اول۔ ان لوگوں سے جو مسلمانوں سے لڑائی شروع کریں۔ و قاتلو فی سبیل اللہ الذین یقاتلوکم ولا تعتدوا ان اللہ لا یحب المعتدین۔ (سورہ بقرہ آیت ۱۸۶) اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں فرمایا ہے کہ لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑیں اور زیادتی مت کرو بے شک اللہ دوست نہیں رکھتا زیادتی کرنے والوں کو ۔ دوسری جگہ فرمایا۔ فرن انتھو فلا عدو ان الا علی الظالمین۔ (سورہ بقر آیت ۱۸۹) اگر وہ لڑائی موقوف کر دیں تو دست درازی کرنی نہیں چاہئیے کیوں کہ دست درازی صرف ظالموں پر کرنی ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ۔ فمن اعتدی علیکم ففاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم واتقوا اللہ واعلمو ان اللہ مع المتقین۔ (سورہ بقرہ آیت ۱۹۰) جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر زیادتی کرو جتنی کہ اس نے تم پر زیادتی کی ہے اور خدا سے ڈرو اور جان لو اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔ قدیم زمانہ سے عرب میں یہ دستور چلا آتا تھا کہ حرم کعبہ میں جدال و قتال نہیں کرتے تھے۔ اس کی نسبت خدا نے فرمایا کہ واقتلوھم حیث ثقفتموھم و اخرجوھم من حیث اخرجوکم والفتنۃ اشد من القتل۔ (سورہ بقر آیت ۱۸۷) لڑائی کی حالت میں ان کو جہاں پائو (حرم کے اند ر یا حرم کے باہر ) قتل کرو کیوں کہ فساد مچانا قتل سے بھی زیادہ ہے۔ مگر اس حکم میں بھی احتیاط کی اور فرمایا کہ ولا تقاتلوھم عند المسجد الحرام حتی یقاتلو کم فیہ فان قاتلوکم فاقتلوھم کذلک جزاء الکافرین۔ تم مسجد حرام کے پاس ان کو مت مارو جب تک کہ وہ وہاں تم کو نہ ماریں۔ پھر اگر وہ وہاں بھی تم کو ماریں تو تم بھی ان کو مارو یہ ہے بدلا کافروں کا۔ اس کے بعد فرمایا کہ فان انتہوا فان اللہ غفور رحیم۔ (سورہ بقرہ آیت ۱۸۸) اگر وہ باز رہیں یعنی لڑنا موقوف کر دیں تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ یعنی تم بھی ان کو معاف کر دو اور لڑنا موقوف کر دو۔ سورۃ نحل میں خدا نے فرمایا کہ و ان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم ولئن صبر تم لھو خیر للصابرین۔ اگر تم کافروں کے ایذا پہنچانے کا بدلا لینا چاہتے ہو تو اسی قدر ایذا کا بدلا لو جس قدر کہ انھوں نے تم کو ایذا پہنچائی ہے اگر تم صبر کرو تو بے شک و ہ بہتر ہے صبر کرنے والوں کو۔ پھر سورہ حج میں اس سے بھی زیادہ تصریح فرمائی ہے کہ اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا و ان اللہ علی نصرھم لقدیر۔ الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللہ۔ (سورۂ حج ۳۸ و ۳۹) ان لوگوں کو لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جن سے کفار مکہ لڑتے ہیں اس لیے کہ کفار مکہ کے ہاتھ سے مسلمان مظلوم ہوئے ہیں انھوں نے مسلمانوں کو بغیر کسی حق کے ان کے گھروں سے نکال دیا ہے اس لیے کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے۔ الا الذین یصلون الی قوم بینکم و بینہم میثاق او جاؤکم حصرت صدورھم ان یقاتلوا قومھم ولو شاء اللہ لسلطھم علیکم فلقاتلوکم فان اعتزلوکم فلم یقاتلوکم والقوا الیکم السلم فما جعل اللہ لکم علیہم سبیلا۔ (سورہ نساء آیت ۹۲) سورہ نساء میں خدا نے فرمایا ہے کہ کافروں سے لڑو اور ان کو قتل کرو جہاں پائو۔ مگر ان لوگوں سے نہ لڑو اور نہ ان کو قتل کرو جو ایسے لوگوں سے جا ملیں جن سے اور تم سے امن کا معاہدہ ہے اور ان سے بھی مت لڑو اور ان کو بھی قتل مت کرو جن کا دل لڑنے سے تنگ ہو گیا اور نہ وہ تم سے لڑنا چاہتے ہیں اور نہ اپنی قوم سے لڑنا چاہتے ہیں پھر جب وہ لڑائی سے الگ ہو جاویں یعنی نہ تم سے لڑیں اور نہ تمہارے ساتھ شامل ہو کر اپنی قوم سے لڑنا چاہیں اور تمہارے پاس صلح کا پیغام بھیجیں تو ان سے مت لڑو کیوں کہ اللہ نے ان پر تم کو لڑنے کا کوئی قابو نہیں دیا ہے۔ ستجدون آخرین یریدون ان یامنوکم و یامنوا قومھم کلما ردو الی الفتنۃ ارکسوا فیہا فان لم یعتزلوکم ویلقوا الیکم السلم و یکفوا ایدیہم فخذوھم و اقتلوھم حیث ثقفتموھم و اولئک جعلنا لکم علیہم سلطانا مبینا۔ (سورہ نسائ، آیت ۹۳) اس کے بعد اسی سورہ میں فرمایا ہے کہ بعض قومیں چاہتی ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں اور فتنہ و فساد میں نہ پڑیں پھر اگر تمہارے ساتھ لڑنے سے علیحدہ نہ ہو جاویں اور پیغام صلح نہ بھیجیں اور اپنے ہاتھ لڑنے سے نہ روکیں تو ان کو پکڑو اور مارو جہاں پائو یہی لوگ ہیں جن پر خدا نے تم کو غلبہ کرنے کا حق دیا ہے۔ پس لڑنا اسی پر موقوف ہے جب کہ کافر لڑائی شروع کریں۔ لا ینہاکم اللہ عن الذین لم یقاتلو کم فی الدین و لم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم و تقسطوا الیہم ان اللہ یحب المقسطین۔ انما ینہاکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین و اخرجوکم من دیارکم و ظاہر و اعلیٰ اخراجکم ان تولوھم ومن یتولھم فاولئک ھم الظالمون۔ (سورہ الممتحنہ آیت ۷ و ۸) سورہ ممتحنہ میں نہایت صفائی سے اور بطور قاعدہ کلیہ کے بیان فرمایا ہے کہ کافروں سے کس طرح پیش آنا چاہیے اور یہ فرمایا ہے کہ جو لوگ تم سے لڑے نہیں اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے ان کے ساتھ سلوک اور احسان کرنے سے خد اتم کو منع نہیں کرتا بلکہ اللہ سلوک کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے صرف ان سے دوستی رکھنے کو منع کرتا ہے جو تم سے لڑتے ہیں تمہارے دین کے سبب سے اور تم کو تمہارے گھروں سے نکال دیا ہے اور جنھوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکال دینے پر نکالنے والوں کی مدد کی ہے۔ ان تمام آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑائی کا حکم کسی کو زبردستی اسلام قبول کروانے کے لیے نہیں ہے بلکہ جو لوگ مسلمانوں کو قتل کرنا اور ان سے لڑنا چاہتے تھے ان سے محفوظ رہنے کے لیے لڑائی کا حکم ہوا ہے اور لڑائی میں یا لڑائی کے موقوف ہو جانے اور امن قائم ہو جانے پر کسی کے مذہب سے کسی قسم کا تعرض مقصود نہیں ہے۔ مخالفین اسلام چند آیتیں اس امر کے ثابت کرنے کو پیش کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں عموماً کافروں کے قتل کرنے کا حکم ہے اور نیز بہ جبر ہتھیاروں کے زور سے ان کو مسلمان کرنے کی ہدایت ہے۔ مگر ان کا یہ کہنا محض غلط اور صریح ہٹ دھرمی ہے جس کو بالتفصیل ہم بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء میں آیا ہے کہ ’’واقتلو ھم حیث ثقفتموھم‘‘ اس میں صاف حکم ہے کہ کافر جہاں ملیں وہاں ان کو قتل کرو۔ مگر یہ صریح ان کی غلطی ہے۔ حرم کعبہ میں قتل و قتال زمانہ جاہلیت سے منع تھا مگر جب قریش مکہ سے لڑائی ٹھنی تو خدا نے حکم دیا کہ ان کو جہاں پائو یعنی حرم کعبہ میں یا اس کے باہر ان سے لڑو اور ان کو قتل کرو پس اس آیت سے عموماً کافروں کا قتل کرنا کہاں سے نکلتا ہے خصوصاً ایسی صورت میں کہ قرآن مجید سے انھی سے لڑنے کا حکم ہے جو مسلمانوں سے لڑتے ہوں نہ ان سے کہ جو لڑنا نہیں چاہتے۔ وہ کہتے ہیں کہ سورۂ نساء میں صاف حکم ہے کہ جب تک کافر مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں نہ چلے آویں ان کو جہاں پائو قتل کر ڈالو۔ کافروں کے مدینہ میں ہجرت کر کے آنا اور مسلمان ہو جانا برابر ہے پس اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جب تک کافر مسلمان نہ ہو جاویں ان کو جہاں پائو مار ڈالو۔ مگر یہ دلیل محض غلط ہے یہ آیت مکہ کے منافقوں کے حق میں ہے جیساکہ اس آیت کے اوپر بیان کیا گیا ہے ’’فما لکم فی المنافقین الخ‘‘ مکہ کے بہت سے لوگ نفاق سے اپنے تئیں مسلمان کہتے تھے اور مسلمانوں کو تردد تھا کہ ان کے ساتھ لڑائی میں کس طرح کا معاملہ کریں۔ ان کی نسبت خدا نے فرمایا کہ و دوالو تکفرون کما کفروا فتکونون سواء فلا تختذوا منہم اولیاء حتی یھاجروا فی سبیل اللہ فان تولوا فخذ وا ھم واقتلوھم حیث وجد تموھم ولا تتخذوا منھم ولیا نصیر۔ (سورہ نساء آیت ۹۱) ان کا یہ کہنا کہ ہم مسلمان اور تمہارے طرف دار ہیں ہر گز نہ مانو اگر وہ سچے ہیں تو ہجرت کر کے چلے آویں پھر اگر وہ نہ آئیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جھوٹے اور منافق تھے تو لڑائی میں ان کو بھی جہاں پائو حرم کے اندر یا حرم کے باہر مارو اور قتل کرو پس ہجرت کا حکم کسی ایسے شخص کی نسبت جو مسلمان ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا تھا نہیں دیا گیا ہے۔ فلعقاتل فی سبیل اللہ الذین یشرون الحیوۃ الدنیا بالاخرۃ و من یقاتل فی سبیل اللہ فیقتل او یغلب فسوف نؤتیہ اجرا عظیما۔ (سورہ نساء آیت ۷۶) فقاتل فی سبیل اللہ لا تکلف الا نفسک و حرض المومنین عسی اللہ ان یکف باس الذین کفروا واللہ اشد باسا و اشد تنکیلا۔ (سورہ نسائ، آیت ۸۶) وہ دلیل لاتے ہیں کہ سورہ نساء کی بعض آیتوں میں مطلقاً کافروں سے لڑنے کا حکم ہے مگر ہم نہیں سمجھ سکتے کہ ان آیتوں سے ان کا کیا مطلب ثابت ہوتا ہے بلاشبہ ان آیتوں میں اور اور بہت سی آیتوں میں لڑنے کا حکم ہے مگر لڑا بھی انھی لوگوں سے جاوے گا جن سے لڑنے کا حکم ہے اور وہ وہی لوگ ہیں جو مسلمانوں سے بخصومت دین لڑتے ہیں۔ علاوہ اس کے ان آیتوں میں بھی کسی کو بہ جبر ہتھیاروں کے زور سے مسلمان کرنے کا اشارہ تک نہیں ہے۔ یا ایھا النبی جاھد الکفار و المنافقین و اغلظ علیھم وما واھم جھنم بئس المصیر۔ (سورہ تحریم آیت ۸) فلا تطع الکافرین و و جاھد ھم بہ جھادا کبیرا۔ (سورہ فرقان آیت ۵۳) قاتلو الذین لا یؤمنون باللہ ولا بالیوم الاخر ولا یحرمون ما حرم اللہ و رسولہ ولا یدینون دین الحق من الذین اوتوا الکتب حتی یعطوا الجزیۃ عن یدوھم صاغرون۔ (سورہ توبہ آیت ۲۹) وقاتلو المشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ۔ (سورہ توبہ آیت ۳۶) یا یھا الذین آمنوا قاتلوا الذین یلونکم من الکفار ولیجد وا فیکم غلظۃ۔ (سورہ توبہ آیت ۱۲۴) اسی قسم کی آیتیں سورہ تحریم اور سورہ فرقان اور سورہ توبہ میں بھی آئی ہیں جن میں کافروں سے لڑنے اور لڑائی میں ان کے قتل کرنے کا حکم ہے مگر جن لوگوں سے لڑنے کا حکم ہے انھی سے لڑنے کا حکم ان آیتوں میں ہے نہ عموماً ہر ایک کافر یا عام کافروں سے لڑنے کا۔ پس یہ کہنا کہ ان آیتوں میں لڑنے کا حکم ہے اور اس بات چھپا لینا اور نہ بیان کرنا کہ کن لوگوں سے منجملہ کفار سے لڑنے کا حکم ہے صریحاً ہٹ دھرمی ہے۔ قرآن مجید میں کسی کافر سے بحیثیت کفر اس سے لڑنے کا حکم نہیں ہے صرف تین قسم کے کافروں سے لڑنے کا حکم ہے ایک وہ جو مسلمانوں سے لڑتے ہیں۔ دوسرے وہ جنھوں نے عہد شکنی کی ہو اور مسلمانوں سے لڑنے والوں کے ساتھ جا ملے ہوں۔ تیسرے وہ جن کے ہاتھ میں مسلمان عورت و مرد و بچے بطور قیدی کے ہوں اور وہ ان کو ایذا پہنچاتے ہوں ایک قسم کو تو ہم ابھی بیان کر رہے ہیں اور باقی قسموں کو بھی عنقریب بیان کریں گے پھر کون شخص یا مہذب سے مہذب قوم اس قسم کی لڑائی کو ناواجب یا ظلم کہہ سکتی ہے اور کیوں کر اس قسم کی لڑائیوں کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ وہ بہ زور شمشیر اسلام قبول کروانے کے لیے کی گئی تھیں۔ و قاتلوھم لا تکون فتنۃ و یکون الدین اللہ۔ (سورہ بقرہ آیت ۱۸۹) ہاں چند آیتیں ہیں جن پر بحث کرنا ہم کو ضرور ہے سورہ بقر اور سورہ انفال میں خدا نے فرمایا ہے کہ کافروں سے لڑو تاکہ فتنہ مٹ جاوے اور دین بالکل اللہ کے لیے ہو جاوے۔ قل للمخلفین من الاعراب ستدعون الی قوم اولی بأس شدید تقاتلونھم او یلمون۔ (سورہ فتح آیت ۱۶) و قاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ و یکون الدین کلہ اللہ فان انتھوا فان اللہ بما یعملون بصیر۔ (سورہ انفال آیت ۴۰) اور سورہ فتح میں فرمایا ہے کہ اے پیغمبر تو ان گنوار عربوں سے جو پیچھے رہ گئے تھے کہہ دے کہ تم ایک سخت لڑنے والی قوم سے لڑنے کو بلائے جائو گے پھر تم ان سے لڑو گئے یا وہ مسلمان ہو جاویں گے معترض کہہ سکت اہے کہ ان آیتوں سے اس بات کا اشارہ نکلتا ہے کہ جب تک کافر مسلمان نہ ہو جاویں ان سے لڑے جانا چاہیے اول تو یہ کہنا غلط اس لیے ہے کہ ان لفظوں سے کہ ’’ویکون الدین کلہ اللہ ‘‘ کسی طرح یہ مطلب نہیں نکلتا کہ جب تک کافر مسلمان نہ ہوں ان سے لڑے ہی جائو کیوں کہ ان لفظوں کے صرف یہ معنی ہیں کہ ’’دین خدا کے لیے ہو جاوے‘‘ یعنی کافروں کی مزاحمت احکام مذہبی کے بجا لانے میں جاتی رہے۔ فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم و خذوھم واحصروھم واقعدوالھم کل مرصد فان تابوا واقامو الصلواۃ وآتو الذکوٰۃ فخلوا سبیلھم ان اللہ غفور رحیم۔ (سورہ توبہ آیت ۵) سورہ توبہ میں بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ مشرکوں کو مارو جہاں پائو اور پکڑو ان کو اور گھیرو ان کو اور ان کی گھات میں بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز پڑھیں اور زکواۃ دیں تو ان کا رستہ چھوڑ دو بے شک اللہ بخشنے والا ہے مہربان۔ معترضین کو اس مقام پر نہایت موقع ہے اگر وہ کہیں نماز ادا کرنے اور زکوۃ دینے کو مشروط کرنا صاف ایسا ہے جیسے کہ اسلام لانے کو شرط کرنا۔ مگر جب اس کی تفریع پر خیال کیا جاوے تو معلوم ہو گا کہ اس شرط کو لڑائی سے کچھ تعلق نہیں ہے بلکہ ان کی آمدورفت کی روک ٹوک موقوف ہونے سے تعلق ہے جب تک کہ وہ کافر تھے بلاشبہ روک ٹوک و خبر گیری کی ضرورت تھی کیوں کہ ان سے اندیشہ تھا مگر مسلمان ہونے کے بعد وہ اندیشہ نہیں رہا اس لیے فرمایا کہ ’’فخلوا سبیلھم‘‘ ان سب باتوں سے قطع نظر کر کے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان آیتوں میں ان الفاظ سے مسلمان ہو جانا ہی مقصود ہے تو بھی منجملہ اسباب موقوفی لڑائی کے اسلام بھی ایک سبب ہے مگر اس تسلیم سے بھی بہ جبر و بزور شمشیر کافروں کا مسلمان کرنا لازم نہیں آتا۔ ہم نے بالتفصیل اوپر بیان کیا ہے کہ کفار سے لڑائی کا حکم صرف مسلمانوں کے لیے امن قائم کرنے کا تھا اور وہ امن صرف تین طرح پر قائم ہو سکتا تھا۔ اول۔ قبل جنگ یا بعد جنگ آپس میں صلح ہونے اور امن کا معاہدہ ہونے سے جس کے کرنے کا خد انے حکم دیا ہے جہاں فرمایا ہے۔ فان اعتزلوکم فلم یقاتلوکم والقو الیکم السلم فما جعل للہ لکم علیکم سبیلا۔ اور خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی کافر قوموں سے امن کے معاہدے کئے ہیں جن کا ذکر آوے گا۔ دوسرے۔ فتح پانے اور کافروں کا مغلوب ہو کر جزیہ دینا قبول کرنے سے جس کے بعد وہ اپنے دین و مذہب پر بدستور قائم رہتے ہیں جیسے کہ خدا نے فرمایا ہے۔ حتی یعطو الجزیۃ عن یدوھم صاغرون۔ تیسرے۔ مسلمان ہو جانے سے۔ پس یہ تینوں صورتیں امن قائم ہونے کی ہیں ان تینوں صورتوں میں سے کوئی صورت پیش آوے تو لڑائی قائم نہیں رہتی تھی پس ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ لڑائی سے بزور شمشیر کافروں کو مسلمان کرنا مقصود نہ تھا بلکہ صرف امن کا قائم کرنا مقصود تھا۔ دوم۔ ان لوگوں سے لڑنے کا حکم ہے جنہوں نے دغا بازی کی ہو اور معاہدوں کو توڑ دیا ہو۔ خدا نے سورہ توبہ میں فرمایا ہے کہ و ان نکثوا ایمانھم من بعد عہدھم و طعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمۃ الکفر انہم لا ایمان لہم لعلھم ینتہون۔ (سورہ توبہ آیت ۱۲) اگر عہد کرنے کے بعد اپنی قسم کو توڑ دیں تو جو کفر کے سردار ہیں ان سے لڑو کیوں کہ ان کی قسم کچھ نہیں ہے۔ اور ایک جگہ فرمایا ہے کہ الا تقاتلوا۔ قوما نکثوا ایمانہم و ھموا باخراج الرسول و ھم بدؤکم اول مرۃ۔ (سورۃ توبہ آیت ۱۳) کیوں نہیں لڑتے ایسی قوم سے جس نے اپنی قسم توڑ دی اور رسول کو نکالنا چاہا اور ان ہی نے پہل کی۔ اور سورہ انفال میں فرمایا ہے کہ الذین عاھدت منہم ثم ینقضون عہدھم فی کل مرۃ و ھم لا یتقون ۔ فاما نثقفنہم فی الحرب فشرف بھم من خلفہم لعلہم یذکرون۔ (سورہ انفال آیت ۵۸ و ۵۹) جن لوگوں کے شامل تم نے عہد کیا ہے پھر انھوں نے ہر دفعہ اپنا عہد توڑ دیا ہے اور پرہیز گاری نہیں کرتے۔ پھر اگر تو ان کو لڑائی میں پاوے تو ان کو ایسا مار کہ ان کے پیچھے جو لوگ ہیں متفرق ہو جاویں۔ پس معاہدہ توڑنے کے بعد ان سے لڑنا امن قائم رکھنے کے لیے ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ معاہدہ کرنا۔ کیوں کہ بغیر اس کے نہ امن قائم رہ سکتا ہے اور نہ معاہدہ۔ مگر ایسی حالت میں لڑنا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اس سے بزور شمشیر ان کو مسلمان کرنا مقصود ہے اور نہ ایسی لڑائی مہذب سے مہذب قوم کے نزدیک بھی ناواجب ہے۔ سوم ۔ ان لوگوں سے لڑنے کا حکم ہے جنہوں نے مسلمانوں کو اور ان کے بچوں اور عورتوں کو عذاب میں اور تکلیف میں ڈال رکھا ہے۔ اس کا ذکر سورہ نساء میں ہے۔ جس کو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں اور ترتیب قائم رکھنے کے لیے اس آیت کو دوبارہ لکھتے ہیں ۔ خدا نے فرمایا کہ وما لکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ والمستضعفین من الرجال و النساء والولدان الذین یقولون ربنا اخرجنا من ھذہ القریۃ الظالم اھلہا واجعل لنا من لدنک ولیا واجعل لنا من لدنک نصیرا۔ (سورہ نساء آیت ۷۷) کیا ہوا ہے تم کو کہ نہیں لڑتے ہو اللہ کی راہ میں اور کمزوروں کے بچانے کے لیے۔ مردوں اور عورتوں اور بچوں میں سے جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو نکال اس شہر سے کہ ظلم کرنے والے ہیں ان کے لوگ اور کر ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی والی اور کر ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی مددگار۔ کیا یہ انسانیت اور رحم کی بات نہیں ہے کہ لاچار بے بس مسلمان مردوں اور عورتوںاور بچوں کو کافروں کے ظلم سے بچایا جاوے اور ان کی فریاد رسی کے لیے ہتھیار اٹھایا جاوے۔ کون شخص ہے جو اس لڑائی کو ناواجب کہہ سکتا ہے۔ اب ہم ان واقعات کا ذکر کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں واقع ہوئے تھے اور غزوہ اور سریہ کے نام سے مشہور ہیں اور یہ بات دکھلاتے ہیں کہ کوئی غزوہ یا سریہ اس مقصد سے نہیں ہوا تھا کہ بہ جبر و بزور شمشیر لوگوں کو مسلمان کیا جاوے ۔ بلکہ ہر ایک غزوہ یا سریہ کا کوئی سبب انھی اسباب میں سے تھا جن کی تفصیل ہم نے ابھی بیان کی ہے۔ ہم نے ان غزووں اور سریوں اور ان کے مقاموں کا حال ان کتابوں سے جن کا نام اس مقام پر لکھتے ہیں اخذ کیا ہے۔ سیرت ھشامی، کامل ابن اثیر جرزی، مواھب لدنیہ ، علامہ قسطلانی، ابن خلدون مغربی، تاریخ اسماعیل ابو الفدا، مراصد الاطلاع، سیرت ابن اسحاق، مغازی و اقدی، مشترک یاقوت حموی، فتوح البلدان، تاریخ یافعی، سیرت المحمدیہ مولوی کرامت علی، معجم البلدان، زاد المعاد ابن القیم، صحیح بخاری، صحیح مسلم۔ ان کتابوں میں ان لڑائیوں کے زمانہ میں اختلاف ہے۔ کوئی واقع کسی لڑائی کا کسی سن میں اور کوئی کسی سن میں بیان کرتا ہے اور ہم کو کچھ چارہ نہیں ہے بجز اس کے کہ ان میں سے ایک سلسلہ اختیار کر لیں۔ ان واقعات کے سنہ بیان کرنے میں محرم سے سال کی تبدیلی نہیں قرار دی گئی ہے بلکہ واقعی زمانہ ہجرت سے برس کا شمار کیا گیا ہے۔ ان واقعات کا ہم نہایت مختصر طور پر بیان کریں گے اور صرف اس قدر واقعات کا ذکر کریں گے جس سے معلوم ہو کہ ان لڑائیوں کا کیا سبب تھا آیا ان سے بزور شمشیر اسلام قبلوانا مقصود تھا یا صرف امن کا قائم رہنا اور دشمنوں کے حملوں کو روکنا۔ ہم نے تمام واقعات کو جن پر مورخین نے سریہ یا غزوہ کا اطلاق کیا ہے بالاستیعاب اس مقام پر ذکر کیا ہے حالاں کہ ان میں ایسے بھی واقعات ہیں جو نہ سریہ تھے نہ غزوہ مگر ہم نے ان کو بھی اس لیے لکھ دیا تاکہ یہ خیال نہ کیا جاوے کہ ہم نے کسی واقعہ کو چھوڑ دیا ہے۔ سریۂ سیف البحر، رمضان سن ۱ہجری سیف البحر۔ یعنی ساحل البحر۔ یہ ایک جگہ بحر فارس کے کنارہ پر بنی زھیر کے متعلق جو سامہ بن لوی بن غالب کے قبیلہ سے ہیں۔ اس سریہ میں کل تیس سوار تھے اور حمزہ بن عبدالمطلب بن ھاشم اس کے سردار تھے اور ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نشان بھی عنایت کیا تھا۔ جب یہ لوگ سیف البحر میں پہنچے تو ابوجہل بن ھشام مکہ والوں کے تین سو سوار لیے ہوئے ملا مگر کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ مجدی بن عمرو الجہنی بیچ میں پڑا اور لڑائی نہ ہونے دی۔ ظاہر ہے کہ تیس سواروں کا بھیجنا کسی سے لڑنے یا حملہ کے لیے نہیں ہو سکتا۔ مگر ایسی قلیل جماعت کا خبر رسانی کے لیے اور مکہ کے لوگوں کے ارادہ کی تفتیش کرنے کے لیے جو ایک ضروری امر تھا بھیجنا ممکن ہے چناں چہ وہ نتیجہ حاصل ہوا اور مکہ کے لوگوں کی آمادگی اور حملہ آوری کی نیت کی خبر ملی۔ سریۂ رابغ ، شوال سن ا ہجری رابغ۔ ایک میدان ہے درمیان ابواء اور جحفہ کے۔ اس سریہ میں ساٹھ یا اسی سوار تھے اور عبداللہ بن الحارث اس کے سردار تھے اور ان کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نشان عنایت کیا ہے۔ جب یہ لوگ ثنیۃ المرہ میں پہنچے تو وہاں قریش کا لشکر بسرداری عکرمہ بن ابی جہل یا مکرزبن حفض موجود تھا۔ اسی لشکر میں مقداد بن عمرو حلیف بن زہرہ اور عتبہ بن غزوان حلیف بن نوفل جو دل سے مسلمان تھے موجود تھے اور موقع پا کر مسلمانوں کے لشکر میں چلے آئے۔ غالباً اسی سبب سے لڑائی نہیں ہوئی کیوں کہ اگر ہوتی تو قبائل بنی زہرہ اور بنی نوفل جو مقداد اور عتبہ کے حلیف تھے قریش سے برگشتہ ہو جاتے۔ یہ سریہ خواہ بقصد دریافت حالات اہل مکہ بھیجا گیا ہو یا بارادہ مقابلہ لشکر قریش کے مگر حملہ آوری کے طور پر بھیجنا کسی طرح قرار نہیں پا سکتا۔ انتہا یہ ہے کہ قریش کے حملہ کے روکنے کے لیے جو امن قائم رہنے کے لیے لازمی تھا بھیجا گیا تھا۔ سریۂ خرار ، ذیقعد سن ا ہجری خرار حجفہ کے نزدیک ایک مقام ہے جس کا یہ نام ہے۔ اس سریہ میں اسی آدمی مہاجرین میں سے تھے اور سعد ابن ابی وقاص ان کے سردار تھے۔ ان کو کہیں کسی دشمن کا پتا نہیں ملا اور خرار تک جا کر واپس آ گئے۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ صرف خبر رسانی کی غرض سے روانہ ہوئے تھے۔ غزوۂ ودان یا غوزۂ ابواء صفر، سن ۱ ہجری ودان۔ فعلان کے وزن پر ایک بستی مکہ و مدینہ کے درمیان فرع کی طرف حجفہ کے پاس تھی ھرشی وہاں سے چھ میل اور ابواء آٹھ میل تھا۔ ابوائ۔ فرع کے متلقات سے ہے اور وہاں حضرت آمنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کی قبر ہے۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سفرمیں تشریف لے گئے اور بنی ضمرہ بن بکر بن عبد مناف بن کنانہ سے جن کا سردار مخشی بن عمرو الضمیری تھا اس بات پر معاہدہ کیا کہ وہ نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کریں گے نہ قریش مکہ کی۔ یہ معاہدہ کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ والوں کو قریش مکہ کے حمکہ کا کس قدر خوف تھا۔ غزوۂ یواط، ربیع الاول سن ۲ ہجری یواط۔ ایک پہاڑ ہے جہینہ کے پہاڑوں میں سے رضوی کے پاس۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر فرمایا اور رضوی کی طرف سے یواط میں ہو کر واپس تشریف لے آئے۔ یہ صرف ایک سفر تھا خواہ اس سے مقصد لوگوں میں وعظ کرنا ہو یا قریش مکہ کے ارادوں کا پتا لگانا یا دونوں۔ غزوۂ سفوان یا بدر اولیٰ ، ربیع اول سن ۲ ہجری سفوان۔ بدر کے پاس جو ایک میدان ہے سفوان اس کا نام ہے۔ بدر۔ ایک چشمہ کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان وادی صفراء کے اخیر واقع ہے اور وہاں سے سمندر کا کنارہ ایک رات بسے کا رستہ ہے۔ کرز بن جابر الفہری نے مدینہ والوں کے مویشی لوٹ لیے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خاص ان کا تعاقب کیا اور سفوان تک تشریف لے گئے مگر وہ ہاتھ نہ آیا۔ غزوۂ ذی العشیرہ، جمادی الآخر سن ۲ ہجری ذوالعشیرہ۔ ایک جگہ ہے مکہ اور مدینہ کے درمیان ینبع کی طرف اور بعضوں نے کہا ہے کہ وہاں ایک چھوٹا سا قلعہ بھی تھا۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کیا اور بنی مدلج اور ان کے حلیف بنی ضمرہ سے امن کا معاہدہ کر کے واپس تشریف لے آئے ۔ اس سفر میں ایک رات حضرت علی مرتضیٰ زمین پر سو رہے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جگایا اور حضرت علی مرتضیٰ کو مٹی میں بھرا ہو ا دیکھ کر فرمایا۔ ’’مالک یا ابو تراب‘‘ اور جب سے حضرت علی مرتضیٰ کا لقب ’’ابو تراب ‘‘ ہو گیا۔ سریۂ نخلہ، رجب سن ۲ ہجری نخلہ۔ جس کو نخلہ محمود بھی کہتے ہیں ایک جگہ ہے مکہ کے پاس درمیان مکہ و طائف کے۔ وہاں کھجور اور انگور بہت ہوتے تھے اور وہ پہلی منزل ہے مکہ سے۔ اس سریہ میں مہاجرین میں سے اسی آدمی تھے اور ان کے سردار عبداللہ بن جحش تھے اور مکہ کے قریب بھیجے گئے تھے جہاں جان جانے کا نہایت اندیشہ تھا اور صرف قریش مکہ کے ارادوں کی خبر لینے کو بھیجے گئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پرچہ پر لکھ دیا تھا کہ امض حتی تنزل نخلۃ فترصد بھا قریشا و تعلم لنا من اخبارھم۔ جب یہ لوگ نخلہ میں پہنچے اتفاقاً قریش کا ایک قافلہ مال تجارت لے کر آ پہنچا۔ عبداللہ بن جحش نے ان پر حملہ کیا اور واقد بن عبداللہ کے تیر سے اس قافلہ میں سے عمرو بن الحضرمی مارا گیا اور عثمان بن عبداللہ اور حکم بن کیساں قید ہو گئے۔ جب عبداللہ بن جحش لوٹ کا مال اور قیدیوں کو لے کر مدینہ میں آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم کو لڑنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا اور قیدیوں کو سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان کے واپس آنے پر جو پیچھے رہ گئے تھے چھوڑ دیا اور عمرو بن الحضرمی کی دیت یعنی خون بہا اپنے پاس سے اد اکیا۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ سریوں کے بھیجنے سے صرف قریش کے ارادوں کا حال دریافت کرنا مقصود تھا نہ لڑنا اور کسی پر حملہ کرنا۔ غزوۂ بدر الکبریٰ ، رمضان سن ۲ ہجری اس غزوہ کا حال ہم سورہ انفال کی تفسیر میں مفصل لکھ چکے ہیں اور اس میں بتایا ہے کہ یہ غزوہ قریش کے قافلہ کے لوٹنے کے لیے جو شام سے آتا تھا نہیں ہوا تھا بلکہ قریش مکہ جو لشکر جمع کر کے حملہ کے ارادے سے نکلے تھے اس کے دفع کرنے کے لیے ہو ا تھا۔ لیکن اگر اس مقام پر اسی بات کو تسلیم کر لیں کہ قافلہ ہی کے لوٹنے کو حملہ ہوا تھا تو بھی کچھ الزام نہیں ہو سکتا ۔ جس قدر کہ حالات اوپر لکھے گئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ قریش مکہ مدینہ والوں کے پورے دشمن تھے اور وہ مدینہ پر حملہ کرنے کے موقع دیکھ رہے تھے اور حملہ کر کے مدینہ والوں کے مویشی لوٹ چکے تھے پس اگر مدینہ والوں نے اس خیال سے کہ مکہ کے دشمنوں کو زیادہ قوت نہ ہو جاوے ان کے اسباب کو لوٹ لینا چاہا تو کیا الزام ہو سکتا ہے دو قوموں میں دشمنی جب علانیہ ہو جاوے جو بمنزلہ اشتہار جنگ کے ہے اور ہر ایک آمدہ جنگ ہو تو ایسے امور کا مرتکب ہونا کسی طرح خلاف اخلاق یا خلاف قدرنی قانون اقوام کے نہیں ہے۔ مگر ہمارا یہ بیان بطریق تنزل کے ہے کیوں کہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ یہ غزوہ قافلہ کو لوٹنے کے لیے نہ تھا۔ سریۂ عمرو بن عدی الخطمی، رمضان سن ۲ ہجری سریۂ سالم بن عمرو، شوال سن ۲ ہجری تعجب ہے کہ علامہ قسطلانی نے ان دونوں واقعوں کو سریہ کر کے لکھا ہے حالاں کہ نہ وہ سریہ تھے نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے کسی کو کہیں بھیجا تھا۔ عمر بن عدی نے از خود ایک عورت عصماء بنت مروان کو جو جورو یزید بن الخظمی کی تھی اور اس کی رشتہ دار تھی، رات کو مار ڈالا اور سالم بن عمیر نے ایک بڈھے یہودی کو مار ڈالا۔ یہ معمولی واقعات ہیں جو دنیا میں ہوتے رہتے ہیں۔ ان کو اس خیال سے کہ دو کافر مارے گئے، سریہ میں داخل کرنا محض غلطی ہے۔ بالفرض اگر پہلے واقعہ کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی اور اس پر کچھ مواخذہ نہیں کیا جس کے کچھ اسباب ہوں گے تو بھی اس کا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سریۂ بنی قینقاع ، شوال سن ۲ ہجری بنی قینقاع۔ یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ میں رہتے تھے اور ایک بازار ان کے نام سے موسوم تھا اور سوق بنی قینقاع کہلاتا تھا۔ ان سے بھی امن کا معاہدہ تھا مگر جب بدر کی لڑائی ہوئی تو انھوں نے اظہار 1 بغاوت کیا۔ اسی درمیان میں ایک مسلمان عورت سے جو سوق بنی قینقاع میں ایک کام کو گئی تھی نالائق طور پر ہنسی کی اور اس کا کپڑا اٹکا کر اس کا ستر عورت کھول ڈالا۔ اس پر ایک مسلمان غصہ میں آیا اور اس یہودی کو جس نے عورت کو بے ستر کیا تھا مار ڈالا۔ یہودیوں نے اس مسلمان کو گھیر کر مار ڈالا۔ اس پر یہودیوں اور مسلمانوں میں نزاع قائم ہو گئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1۔ دیکھو تاریخ کامل بن الاثیر۔ جلد ثانی صفحہ ۵۶ مطبوعہ مصر۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظاہرا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب واقعات اس وقت ہوئے ہیں جب آنحضرت بدر کی لڑائی میں مصروف تھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو ان یہودیوں نے علانیہ معاہدہ توڑ دیا اور عہد نامہ واپس بھیج دیا۔ 1 اس واقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی قینقاع کے محلہ کا محاصرہ کر لیا۔ کیا عجب ہے کہ اس محاصرہ میں کسی سے کچھ لڑائی بھی ہوئی ہو۔ لیکن ضرور تھا کہ قبل شروع کرنے لڑائی کے بطور قطع حجت ان کو دعوت اسلام کی جاوے۔ چناں چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھیر کر فرمایا۔ کہ تم اسلام قبول کرو ورنہ تمہارا بھی وہی حال ہو گا جو بدر والوں کا ہوا۔ اس پر انھوں نے سخت کلامی سے جواب دیا۔ مگر عبداللہ ابن ابی ابن سلول درمیان میں پڑا اور یہ ٹھیرا کہ یہودی مدینہ سے چلے جاویں۔ چناں چہ عبادہ بن صامت ان کی حفاظت کو متعین ہوئے اور وہ لوگ بامن و امان معہ مال و اسباب مدینہ سے چلے گئے۔ ان کے ہتھیار لے لئے گئے اور زمینیں ضبط کر لی گئیں اور وہ لوگ خیبر میں جا کر آباد ہوئے۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ واقعہ آنحضرت کی طرف سے حملہ تھا یا بہ جبر مسلمان کرنا مقصود تھا یا صرف امن کا قائم رکھنا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1 ۔دیکھو تاریخ کامل جلد ثانی صفحہ ۵۵ مطبوعہ مصر۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزوۃ السویق، ذوالحجہ سن ۲ ہجری یعنی جس حملہ میں قریش مکہ اپنی خوراک کے لئے ستو اپنے ساتھ لائے تھے۔ ابو سفیان دفعتہ دو سو سوار لے کر رات کو خفیہ مدینہ میں آیا اور سلام بن مشکم یہودی قبیلہ بنی نضیر سے ملا اور مسلمانوں کے حالات کی جاسوسی کر کے چلا گیا۔ مکہ پہنچ کر قریش مکہ کی ایک جماعت مدینہ پر بھیجی اور مدینہ کے ایک محلہ پر جس کا نام عریض ہے آ پڑی اور اس نواح کے باغوں کو جلا دیا اور ایک مسلمان انصاری کو اور ایک مکہ کے رہنے والے اس کے حلیف کو مار ڈالا۔ 1 اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آدمی لے کر ان کا تعاقب کیا اور قرقرۃ الکدر تک تشریف لے گئے مگر کوئی ہاتھ نہ آیا۔ غزوۂ قرقرۃ الکدر یا غزوۂ بنی سلیم ، محرم سن ۲ ہجری قرقرۃ الکدر۔ ایک چشمہ کا نام ہے جہاں یہود بنی سلیم رہتے تھے مدینہ سے آٹھ منزل ہے۔ بعض اسباب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف تشریف لے جانا مناسب سمجھا اور آپ قرقرۃ الکدر تک تشریف لے گئے اور تین دن وہاں مقام فرمایا مگر کسی سے مقابلہ یا لڑائی نہیں ہوئی۔ سریۂ محمد بن سلمہ ، ربیع الاول سن ۲ ہجری کعب ابن اشرف ایک یہودی تھا جو کفار قریش کا تھانگی تھا اور مسلمانوں کو اور آنحضرت کو ایذا پہنچاتا تھا اور قریش مکہ کو حملہ کرنے کی ترغیب دیتا تھا2۔ اس کو محمد سلمہ نے چند اپنے ساتھیوں کی مدد سے مار ڈالا۔ واقعہ تو اس قدر ہے اب رہی یہ بات کہ ان لوگوں نے خود مارا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ایک ایسا امر ہے جس کا قابل اطمینان تصفیہ نہیں ہو سکتا۔ مگر ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آنحضرت کے حکم سے مارا اور اس بات کا تصفیہ کہ ایسی حالت میں کہ وہ دشمنوں سے سازش رکھتا تھا اور مدینہ پر حملہ کی ترغیب دیتا تھا اس کا قتل کروا دینا بہ لحاظ ان اصولوں کے جو انتظام جنگ اور دشمنوں کے جاسوسوں اور تھانگتوں سے علاقہ رکھتے ہیں واجب تھا یا ناواجب ان لوگوں کے تصفیہ پر چھوڑتے ہیں جو اصول جنگ سے واقف ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1۔ کامل صفحہ ۵۷۔ زاد المعاد میں خود ابو سفیان کی نسبت درختوں کا جلانا اور انصاری کا قتل کرنا لکھا ہے۔ 2۔ واقعہ بدر کے بعد یہ خود مکہ گیا اور قریش کو جنگ پر آمادہ کیا۔ مقتولین بدر کے مرثیے لکھے اور قریش کو نہایت جوش دلایا۔ کامل ۔ ۵۸۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزوۂ ذی امر، ربیع الاول سن ۳ ہجری امر۔ رائے مشدد مفتوحہ سے ایک موضع کا نام ہے جو نواح نجد میں واقع ہے۔ یہ صرف ایک سفر تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد اورغطفان کی طرف فرمایا تھا اس سفر میں نہ کسی سے مقابلہ ہوا نہ کسی سے لڑائی ہوئی ایک مہینہ تک اس نواح میں آپ نے قیام کیا پھر واپس تشریف لے آئے۔ غزوۂ فرع من بحران، جمادی الاول سن ۳ ہجری فرع۔ ایک گائوں کا نام ہے ربذ پہاڑ کے پاس مدینہ سے آٹھ منزل مکہ کی طرف۔ بحران۔ ایک میدان ہے اسی کے پاس ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خاص قریش مکہ کا حال دریافت کرنے کو سفر کیا اور دو مہینہ تک اس نواح میں قیام فرمایا اور پھر مدینہ میں چلے آئے کوئی جھگڑا قضیہ کسی سے نہیں ہوا۔ غزوۂ قردہ۔ جمادی الآخر سن ۳ ہجری قردہ۔ ایک چشمہ کا نام ہے جو نجد میں ہے۔ قریش مکہ کی تجارت کا روکنا جن سے ہر وقت اندیشہ جنگ تھا ایک ضروری امر تھا۔ انھوں نے قدیم رستہ تجارت کا چھوڑ کر ایک نیا راستہ عراق میں ہو کر نکالنا چاہا اور ابوسفیان بن حرب قافلہ لے کر نکلا اور فرات بن حیان رستہ بتانے والا تھا۔ جب اس کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو زید ابن حارثہ کو ان پر بھیجا۔ اس نے قافلہ کو لوٹ لیا اور فرات ابن حیان کو پکڑ لایا جو بعد اس کے مسلمان ہو گیا۔ یہ تمام واقعات ایسے ہیں جو ایک جنگ جو دشمن کے مقابلہ میں ہر ایک قوم کو کرنے پڑتے ہیں ان واقعات سے اس بات پر استدلال نہیں ہو سکتا کہ یہ لڑائیاں بہ زور مسلمان کرنے کے لیے تھیں۔ غزوۂ احد، شوال سن ۳ ہجری احد۔ مدینہ سے کچھ فاصلہ پر سرخ پہاڑ ہے اس کا نام ہے۔ ابو سفیان مکہ سے تین ہزار لڑنے والوں کے ساتھ لڑنے کو اور مدینہ پر حملہ کرنے کو روانہ ہوا جب کہ وہ لوگ عینین میں جو بطن سنجہ میں مدینہ کے مقابل ایک پہاڑ ہے پہنچے تو آنحضرت بھی مدینہ سے روانہ ہوئے اور احد کے پاس مقام کیا۔ نہایت سخت لڑائی ہوئی مسلمانوں کی فتح کامل ہونے کو تھی کہ لوگ لوٹنے میں مشغول ہوئے اور فتح کی شکست ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چار دانت پتھر کے صدمہ سے ٹوٹ گئے مشہور ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے اس پر بہت لوگ بھاگ نکلے جب معلوم ہوا کہ آنحضرت صحیح و سالم ہیں تب سب لوگ ایک محفوظ جگہ میں اکٹھے ہو گئے۔ دوسرے دن قریش مکہ نے وہاں سے کوچ کیا اور مکہ کو چلے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدا کو دفن کیا اور مدینہ میں چلے آئے۔ غزوۃ حمراء الاسد۔ شوال سن ۳ ہجری حمراء الاسد۔ ایک جگہ ہے مدینہ سے آٹھ میل پر ۔ احد سے واپس آنے کے دوسرے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی لوگوں کو ساتھ لے کر جو احد کی لڑائی میں شریک تھے مدینہ سے کوچ کیا اور حمراء الاسد میں پہنچ کر تین دن تک مقام کیا اور پھر واپس آ گئے۔ غالباً یہ اس لیے تھا کہ لوگ یہ نہ خیال کریں کہ احد کے واقعہ کے سبب سے مسلمانوں میں اب کچھ قوت باقی نہیں رہی۔ سریۂ عبداللہ ابن انیس، محرم سن ۳ ہجری عبداللہ بن انیس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی کہ سفیان بن خالد ھدزلی نے عربہ وادی عرفہ میں کچھ لوگ آنحضرت سے لڑنے کے لیے جمع کیے ہیں یہ سن کر وہ مدینہ سے غائب ہو گیا اور سفیان کے پاس پہنچا اس نے پوچھا کہ تو کون ہے اس نے کہا کہ میں بنی خزاعہ کا ایک شخص ہوں میں نے سنا ہے کہ تم نے محمد ﷺ سے لڑنے کو لوگ جمع کئے ہیں میں بھی تمہارے ساتھ ہوا چاہتا ہوں اس نے کہا اچھا آئو۔ عبداللہ ابن انیس تھوڑی دور اس کے ساتھ چلے اور اس کو دھوکا دے کر مار ڈالا اور اس کا سر کاٹ کر آنحضور کے پاس لے آئے مگر کسی کتاب مں یہ بات نہیں لکھی ہے کہ آنحضرت نے اس کو ایسا کرنے کو کہا تھا۔ سریۂ قطن یا سریۂ ابی سلمہ، محرم سن ۳ ہجری قطن۔ ایک پہاڑ کا نام ہے جو قید کی طرف واقع ہے اور قید ایک پانی کا چشمہ ہے بنی عمرو بن کلاب کے متعلق ابی سلمہ ڈیڑھ سو آدمی لے کر جس میں مہاجرین اور انصار دونوں شامل تھے طلحہ اور سلمہ پسران خویلد کی تلاش میں نکلے اور قطن پہاڑ تک تلاش کی مگر ان میں سے کوئی دست یاب نہیں ہوا اور نہ کسی سے کچھ لڑائی ہوئی۔ سریۃ الرجیع، صفر سن ۳ ہجری رجیع ایک چشمہ کانام ہے جو حجاز کے کنارہ پر قوم ھذیل سے متعلق ہے۔ چند لوگ قوم عضل اور قوم فازی کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ہم لوگوں میں اسلام پھیل گیا ہے آپ کچھ لوگ مذہب کے مسائل سکھانے کو ساتھ کر دیجئے آپ نے چھ آدمی ساتھ کر دیئے جب رجیع میں پہنچے تو انھوں نے دغا بازی کی اور چھوئوں آدمیوں کو تلواروں سے گھیر لیا۔ اخیر کو یہ کہا کہ اگر تم قریش مکہ کے قبضہ میں جانا قبول کرو تو ہم تم کو مارنے کے نہیں قریش نے ہمارے آدمی قید کر لیے ہیں ان کے بدلے تم کو دے کر اپنے آدمی چھوڑا لاویں گے۔ ان چھ میں سے مرثد ابن مرثد اور خالد بن البکر و عاصم بن ثابت نے نہ مانا اور نہایت بہادری سے وہیں لڑ کر شہید ہو گئے اخیر کو عاصم بھی لڑنے پر تیار ہوا اور لوگوں نے پتھروں سے مار کر ان کو کو بھی شہید کیا باقی دو شخصوں کو مکہ میں لے جا کر قریش کے ہاتھ بیچ ڈالا قریش نے ان کے ہاتھ پائوں باندھے اور ان کو شہید کیا۔ سریۂ بیر معونہ، صفر سن ۳ ہجری بیر معونہ ۔ یہ ایک کنواں ہے درمیان بنی عامر اور حرہ بنی سلیم کے۔ ابو براء عامر بن مالک اگرچہ مسلمان نہیں ہوا تھا مگر مذہب اسلام کو ناپسند بھی نہیں کرتا تھا اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر آپ کچھ لوگ اسلام کا وعظ کرنے کو نجد کی طرف بھیجیں تو غالباً اس طرف کے لوگ اسلام قبول کر لیں گے۔ حضرت نے فرمایا کہ اہل نجد سے اندیشہ ہے ابوبراء نے کہا کہ وہ ہماری حمایت میں ہیں۔ آنحضرت نے چالیس شخص جو قرآن کے قاری تھے اور دن رات قرآن پڑھنا ان کا کام تھا ساتھ کر دیا۔ بیر معونہ پر یہ لوگ ٹھیرے اور حرام بن ملحان کے ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط جو عامر بن طفیل نجد والے کے نام کا تھا بھیجا اس نے عامر کو قتل کر ڈالا اور بہت بڑی جماعت سے بیر معونہ پر چڑھ آیا اور سب مسلمانوں کو گھیر کر مار ڈالا صرف ایک شخص مردوں میں پڑا ہوا بچ گیا۔ غزوۂ بنی نضیر، ربیع الاول سن ۳ ہجری بنی نضیر یہودیوں کے ایک قبیلہ کا نام ہے۔ عمرو بن امیۃ الضمیری مدینہ کو آتا تھا رستہ میں دو شخص قبیلہ بنی عامر سے ملے جس قبیلہ سے کہ آنحضرت سے عہد تھا۔ عمرو بن امیۃ نے ان دونوں کو سوتے میں مار ڈالا۔ جب آنحضرت کو خبر ملی تو آپ نے فرمایا کہ میں ان دونوں کی دیت دوں گا۔ آنحضرت نے ان دو۳نوں کی دیت کے لیے بنی نضیر سے بھی مدد چاہی کیوں کہ بنی نضیر اور آنحضرت کے درمیان میں بھی معاہدہ تھا اور بنی نضیر اور بنی عامر آپس میں حلیف تھے۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ بنی نضیر میں دیت کے پورا کرنے میں مدد کے مانگنے کو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار کے تلے جا بیٹھے۔ بنی نضیر نے آپس میں مشورہ کیا کہ ایسے وقت میں آنحضرت کو مار ڈالا جائے اور یہ تجویز کی کہ دیوار پر چڑھ کر ایک بڑا پتھر ان پر ڈال دیا جائے اور یہ تجویز کی کہ دیوار پر چڑھ کر ایک بڑا پتھر ان پر ڈال دیا جائے اور عمرو بن حجاش اس کام کے لیے مقرر ہوا۔ اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مدینہ میں چلے آئے۔ جب کہ یہ دغا بازی بنی نضیر کی محقق ہو گئی تو آنحضرت نے ان پر چڑھائی کی وہ قلعہ بند ہو گئے اور آنحضرت نے ان کا محاصرہ کر لیااور یہ بات ٹھیری کہ وہ لوگ مدینہ سے چلے جائیں اور ان کے اونٹ سوائے ہتھیاروں کے جس قدر مال و اسباب اٹھا سکیں لے جاویں۔ چناں چہ انھوں چھ سو اونٹوں پر اپنا اسباب لادا اور اپنے مکانوں کو خود توڑ دیا اور خیبر میں جا کر آباد ہو گئے۔ غزوۂ بدر موعودہ یا بدر الاخریٰ، ذیقعدہ سن ۳ ہجری ابوسفیان نے وعدہ کیا تھا کہ میں تم سے پھر لڑوں گا اس وعدہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے کوچ کیا اور بدر میں پہنچ کر مقام فرمایا۔ ابوسفیان بھی مکہ سے نکل کر ظہران یا عسفان تک آیا مگر آگے نہیں بڑھا اور کہا کہ یہ سال قحط کا ہے اس میں لڑنا مناسب نہیں اور سب لوگوں کو لے کر مکہ کو واپس چلا گیا۔ غزوۂ ذات الرقاع، محرم سن ۴ ہجری ذات الرقاع۔ اس غزوہ کا یا تو اس لیے نام ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے جھنڈوں میں جو پھٹ گئے تھے پیوند لگائے تھے اور بعض کا قول ہے کہ جہاں مسلمانوں کا لشکر ٹھیرا تھا وہاں ایک درخت تھا جس کا نام ذات الرقاع تھا۔ بنی محارب اور بنی ثعلبہ نے جو قبیلہ غطفان سے تھے لڑائی کے لیے کچھ لوگ جمع کئے تھے ان کے مقابلہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کیا تھا۔ جب آپ غطفان میں پہنچے تو ایک بہت بڑا گروہ دشمنوں کا نظر آیا۔ دونوں طرف کے لوگ لڑنے کے ارادے سے آگے بڑھے مگر لڑائی نہیں ہوئی اور ہر ایک گروہ واپس چلا گیا۔ غزوۂ دومتہ الجندل، ربیع الاول سن ۴ ہجری دومتہ الجندل۔ ایک قلعہ کا نام ہے جو مدینہ اور دمشق کے بیچ میں ہے اور اس کے قریب ایک پانی کا چشمہ ہے۔ اس بات کا خیال ہونے پر کہ یہاں کے لوگوں نے بھی لڑائی کے لیے کچھ لوگ جمع کیے ہیں اس طرف کوچ کیا مگر اثنائے راہ میں سے واپس تشریف لے آئے۔ غالباً اس لیے کہ اس خیال کی صحت نہ پائی گئی ہو گی۔ غزوۂ بنی المصطلق یا غزوہ مریسیع ، شعبان سن ۵ ہجری بنی المصطلق۔ عرب کے ایک قبیلہ کا نام ہے۔ مریسیع۔ ایک چشمہ کا نام ہے جو قدید کی طرف واقع ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ حارث بن ابی ضرار نے لڑائی کے ارادہ پر لوگوں کو جمع کیا ہے۔ آنحضرت نے ان کے مقابلہ کے لیے کوچ کیا اور مریسیع کے مقام پر دونوں لشکروں کے مقابلہ ہوا اور لڑائی ہوئی اور بنی المصطلق کو شکست ہوئی اور ان کی عورتیں اور بچے سب قید ہو گئے۔ اس وقت تک یہ آیت حریت ’’فاما من ابعد و اما فدائ‘‘ نازل نہیں ہوئی تھی۔ غزوۂ خندق، ذیقعدہ سن ۵ ہجری بنی نضیر کے یہودی جو جلاوطن کیے گئے تھے ان میں سے چند سردار اور بنی وائل کے چند سردار مکہ میں قریش کے پاس گئے۔ ان کو مدینہ پر حملہ کرنے پر آمادہ کیا اور روپیہ اور سامان اور ہر طرح سے مدد دینے کا وعدہ کیا۔ قریش مکہ اس پر راضی ہوئے اور ابوسفیان کو سردار قرار دیا اور لوگوں کو جمع کیا اور قبیلہ غطفان میں پہنچے اور اس قبیلہ میں سے بھی لوگ ساتھ ہوئے اور دس ہزار آدمیوں کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کرنے کو روانہ ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خبر کو سن کر مدینہ سے باہر جا کر لڑنا مناسب نہ سمجھا اور مدینہ کے گرد خندق کھود کر مورچہ بندی کی۔ یہود بنی قریظہ جن سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے امن کا معاہدہ تھا، انھوں نے بھی اپنا معاہدہ توڑ دیا اور دشمنوں سے مل گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس لوگوں کو بھیجا اور معاہدہ یاد دلایا مگر علانیہ مخالفت کی۔ اس واقعہ سے اور بنی قریظہ کے دشمنوں کے مل جانے سے مدینہ والوں پر نہایت سخت وقت تھا اور ایک شخص کے بچنے کی بھی توقع نہ تھی۔ غرض کہ یہ تمام لشکر مدینہ پر آ پہنچا اور مدینہ کا محاصرہ کر لیا۔ ایک مہینہ تک محاصرہ رہا اور لڑائیاں ہوتی رہیں۔ محصور مسلمان بھی خوب دل توڑ کر دشمنوں کے حملہ کو دفع کرتے تھے۔ آخر کار دشمن غالب نہ آ سکا اور محاصرہ اٹھا کر نہایت ناکامی کے ساتھ واپس چلا گیا۔ غزوۂ عبداللہ ابن عتیک، ذیقعدہ سن ۵ ہجری جس زمانہ میں مدینہ پر چڑھائی کرنے کو تمام قومیں جمع ہو رہی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے گرد خندق کھودنے میں مصروف تھے اسی زمانہ میں رافع بن عبداللہ جس کو سلام ابن ابی الحقیق کہتے تھے ایک سردار یہودی تھا وہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے قوموں کو جمع کرنے میں بہت کوشش کر رہا تھا۔ عبداللہ ابن عتیک اور عبداللہ بن انیس اور ابو قتادہ اور اسود بن خزاعی اور مسعود بن سناد خیبر کو گئے جہاں وہ رہتا تھا اور کسی طرح رات کو اس کی خواب گاہ میں چلے گئے اور اس کو مار ڈالا۔ مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ پیغمبر خدا نے ان کو اس یہودی سردار کے قتل کو بھیجا تھا۔ شاید ایسا ہوا ہو مگر ہم اس لیے شبہ میں ہیں کہ ایشیائی مؤرخوں کی عادت ہے کہ خواہ مخواہ ہو چیز کو پیغمبر سے منسوب کر دیتے ہیں۔ علاوہ اس کے یہ قصہ ایسی عجیب باتوں کے ساتھ ملا کر لکھا ہے کہ وہی باتیں اس کے سچ ہونے پر شبہ ڈالتی ہیں۔ نہایت شبہ ہے کہ یہ واقعہ ہوا بھی یا نہیں مگر ہم کو مناسب ہے کہ جو طرف ضعیف ہے اسی کو اختیار کریں۔ پس تسلیم کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے وہ گئے اور انھوں نے اس یہودی کو جو قوموں کو مدینہ پر حملہ کرنے کو جمع کر رہا تھا مار ڈالا۔ مگر اس واقعہ سے ہمارے اس دعویٰ میں کہ تلوار کے زور سے اسلام قبلوانا ان لڑائیوں سے مقصود نہ تھا کچھ خلل واقع نہیں ہوتا۔ غزوۂ بنی قریظہ، ذی حجہ سن ۵ ہجری و ھم یہود بنی قریظۃ عاھدھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لا یمالئوا علیہ فاعا نوا المشرکین بالسلاح (یوم بدر) و قالوا انسینا ثم عاھدھم فنکثوا و ما لئوھم علیہ یوم الخندق۔ (بیضاوی و کبیر) بنی قریظہ۔ ایک قبیلہ یہود کا تھا جو مدینہ میں رہتا تھا۔ ان سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے امن کا معاہدہ تھا ۔ مگر جب بدر کی لڑائی ہوئی تو بنی قریظہ نے معاہدہ توڑا اور دشموں کو ہتھیار دینے سے مدد کی۔ جب ان سے مواخذہ ہوا تو کہا ہم بھول گئے اور ہم سے خطا ہوئی معاف کیجئے اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ان سے معاہدہ کیا ۔ اس کو بھی انھوں نے توڑ دیا اور خندق کی لڑائی میں دشمنوں سے جا ملے۔ دشمنوں نے مدینہ پر حملہ کیا تھا اور مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی تھی اور بنی قریظہ مدینہ میں رہتے تھے پس خاص شہر کے رہنے والوں کا محاصرہ کی حالت میں ہونا سخت واقعہ تھا کہ ایک مسلمان کو بھی زندہ بچنے کی توقع نہ رہی ہو گی۔ جب دشمنوں نے مدینہ کا محاصرہ اٹھا لیا اور واپس چلے گئے اس وقت آنحضرت صلعم نے بنی قریظہ کو ان کی بغاوت اور عہد شکنی کی سزا دینی چاہی اور بنی قریظہ جہاں رہتے تھے ان کا محاصرہ کر لیا۔ پچیس دن تک محاصرہ رہا اسی درمیان میں انھوں نے کعب ابن اسد سے جو ان کا سردار تھا صلاح کی کہ کیا کرنا چاہیے اس نے صلاح دی کہ تین کاموں میں سے ایک اختیار کرو۔ یا ہم سب اسلام قبول کر لیں۔ یا خود اپنی آل اولاد اور عورتوں کو قتل کر کے محمدﷺ سے لڑ کر مر جاویں۔ یا آج ہی کہ سبت کا دن ہے ان پر حملہ کر دیں کیوں کہ وہ آج کے دن غافل ہو ں گے اور سمجھتے ہوں گے کہ سبت کے دن یہودی نہیں لڑنے کے مگر وہ ان تینوں باتوں میں سے کسی پر راضی نہ ہوئے۔ اب وہ صلح کی طرف متوجہ ہوئے اس کا یہ جواب تھا کہ بلا کسی شرط کے وہ اپنے تئیں سپرد کریں اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم جو چاہیں گے وہ ان کی نسبت حکم دیں گے۔ تب انھوں نے درخواست کی کہ تھوڑی دیر کے لئے ابولبانہ کو جو اس قوم سے تھا جو بنی قریظہ کے حلیف تھے۔ ہمارے پاس بھیج دیا جاوے وہ گئے اور تمام لوگوں نے ان سے پوچھا کہ ہم پیغمبر کے حکم پر اپنے تئیں سپرد کر دینا قبول کر لیں یا نہیں انھوں نے جواب دیا کہ ہاں مگر اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا جس سے یہ اشارہ تھا کہ سب قتل کیے جاویں گے ۔ تب ا نھوں نے جیسا کہ تفسیر کشاف میں لکھا ہے اس بات پر اپنے تئیں سپرد کرنے سے کہ آنحضرت جو چاہیں گے ان کی نسبت حکم دیں گے انکار کیا۔ فحاصر ھم خمساً و عشرین لیلۃ حتی جہدھم الحصار فقال لھم رسول اللہ تنزلون علی حکمی فابوا فقال علی حکم سعد بن معاذ فرضوابہ۔ (تفسیر کشاف صفحہ ۱۱۲۷) ابو لبانہ خوب جانتے تھے کہ بنی قریظہ دو دفعہ اپنا عہد توڑ چکے تھے اور ان کا کوئی معاہدہ آئندہ کے لیے کریں قابل اعتبار نہ ہو گا اور اگر وہ اسلام قبول کرنے پر راضی ہوں تو بھی پر یقین نہیں ہو گا اور وہ منافق سمجھے جاویں گے جن کی نسبت جب وہ علانیہ کوئی دشمنی کر چکے ہوں وہی حکم ہے جو ان لوگوں کی نسبت ہے جو علانیہ کافر ہیں۔ علاوہ اس کے ابولبانہ کو معلوم تھا کہ وہ بغاوت کی سزا کے مستحق ہیں اگر ان کی جگہ کوئی مسلمان قوم ہوتی تو وہ بھی بغاوت کی سزا سے بچ نہیں سکتی تھی۔ اسی سبب سے انھوں نے اشارہ کیا تھا کہ سب قتل کیے جاویں گے۔ اس پر بنی اوس جو بنی قریظہ کے حلیف تھے درمیان میں پڑے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جس طرح آپ نے یہود بنی قینقاع سے جو بنی خزرج کے حلیف تھے معاملہ کیا وہی ان کے ساتھ بھی کیجئے اس پر آنحضرت نے کہا کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری قوم میں کا ایک شخص یعنی سعد ابن معاذ جو حکم دے دے وہ منظور کیا جائے۔ بنی اوس اور بنی قریظہ دونوں اس پر راضی ہو گئے اور بنوقریظہ نے اپنے تئیں سپرد کر دیا۔ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ بنی قریظہ نے اول اپنے تئیں اسی بات پر سپرد کر دیا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نسبت جو چاہیں حکم دیں اور بعد کو سعد ابن معاذ حاکم قرار دیے گئے تھے مگر یہ قول صحیح نہیں ہے۔ بخاری میں جو سب سے زیادہ معتبر کتاب ہے ابن سعد خدری سے دو روایتیں منقول ہیں اور ان میں اور ہشامی میں صاف بیان ہوا ہے کہ بنی قریظہ نے اس بات پر اپنے تئیں سپرد کر دیا تھا کہ سعد ابن معاذ جو ان کی نسبت حکم دیں کیا جاوے۔ قال لما نرلت بنو قریظۃ علی حکم سعد ابن معاذ بعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و کان قریبا منہ فجاء الی حماء فلما دنا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قوموا الی سید کم فجاء فجلس الے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال لہ ان ھولاء نزلوا علی حکمک قال فاتی احکم ان تقتل المقاتلۃ و ان نسبی الذریۃ قال لقد حکمت فیھم بحکم الملک۔ (بخاری) نزل اہل قریظۃ علی حکم سعد بن معاذ فارسل النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی سعد فاتی علی حمار فلما دنا من المسجد قال للانصار قوموا الی سید کم او قال خیر کم ھولاء قریظۃ علی حکمک فقال تقتل منھم مقاتلتھم و تسبی ذراریھم قال قصیت بحکم اللہ او قال بحکم الملک۔ (بخاری) غرضیکہ سعد ابن معاذ بلائے گئے اور انھوں نے یہ حکم دیا کہ لڑنے والوں کو قتل کر دیا جائے اور ان کی عورتیں اور بچے قید کر لیے جاویں اور ان کا مال تقسیم کر دیا جائے مگر بخاری کی حدیث میں عورتوں اور مال کی تقسیم کا کچھ ذکر نہیں ہے۔ بہر حال اس حکم کی تعمیل ہوئی تمام عورتیں اور بچے اور لڑکے جن کی داڑھی مونچھ نہیں نکلی تھی قتل سے محفوظ رہے اور تمام مرد بجز تین شخصوں کے جن کی نسبت ثابت ہوا تھا کہ اس بغاوت میں شریک نہ تھے۔ قتل کیے تھے۔ ایک عورت جس کا نام بنانہ تھا اور جس نے خلاد بن سوید بن الصامت کو مار ڈالا تھا بطور قصاص ماری گئی 1 جو عورتیں اور بچے قتل سے بچے تھے وہ لونڈی غلام بنا لیے گئے اور تمام جائداد بنی قریظہ کی ضبط ہو کر تقسیم کی گئی مگر یہ یاد رہے کہ اس وقت تک آیت حریت جس میں ان لوگوں کے قتل کا جو لڑائی میں قید ہو جاویں اور ان کے لونڈی اور غلام بنانے کا امتناع ہے نازل نہیں ہوئی تھی۔ معہذا ان لوگوں کو بطور قیدیان جنگ سزا نہیں دی گئی تھی بلکہ باغیوں کے لیے جو سزا ہونی چاہیے وہ دی گئی تھی۔ قال ابن ھشام حد ثنی من اثق بہ من اھل العلم ان علیا بن ابی طالب صلح و ھم محاصر و بنی قریظۃ یا کتیبۃ الایمان و نقدم ھو الزبیر و قال واللہ لا ذوقن ما ذاق حمزۃ اولا فتحن حصنھم فقالوا یا محمد ننزل علی حکم سعد۔ (ھشامی صفحہ ۶۸۹) مقتولین کی تعداد میں نہایت مبالغہ معلوم ہوتا ہے۔ بعضوں نے کہا ہے کہ چار سو تھے اور بعضوں نے کہا کہ چھ سو اور بعضوں نے کہا سات سو اور بعضوں نے کہا آٹھ سو اور بعضوں نے کہا نو سو۔ مگر بہ لحاظ اس آبادی کے جو اس زمانہ میں مدینہ میں تھی یقین نہیں ہو سکتا کہ چار سو آدمی بھی لڑنے والے بنی قریظہ کے محلہ میں ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1۔ابن خلدون صفحہ ۳۲۔ مگر کامل میں ایک اور عورت کا قتل ہونا لکھا ہے جس کا نام ارفہ بنت عارضہ تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ یہ واقعہ نہایت خوف ناک تھا۔ مگر کون سا زمانہ ہے اور کون سی قوم ہے جس کے ہاتھ سے باغیوں کی نسبت اس سے بھی سخت سزائیں نہ دی گئی ہوں۔ جن لوگوں نے بغاوت کی تاریخیں پڑھی ہیں یا اپنی آنکھوں سے اس انیسویں صدی عیسوی میں بھی جو سولیزیشن کا زمانہ کہلاتا ہے یا اس سے تھوڑے زمانہ پہلے بغاوت کے واقعات دیکھے ہیں ان کی آنکھوں میں کی سو آدمیوں کا بجرم بغاوت قتل ہونا کوئی بڑا واقعہ معلوم نہ ہو گا۔ رہی یہ بات کہ اس قسم کی لڑائیوں اور ایسی خون ریزی کو حضرت موسیٰ نے اپنے زمانہ میں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں کیوں جائز رکھا۔ اور مثل حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے کیوں نہ اپنی جان دی اس کی نسبت ہم اخیر کو بحث کریں گے۔ اس مقام پر ہم کو صرف یہ بات دکھانی ہے کہ جو لڑائیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوئیں وہ اس بنا پر نہ تھیں کہ لوگوں کو بہ جبر اور ہتھیار کے زور سے مسلمان بنایا جاوے سو اس عظیم واقعہ سے بھی جو بنی قریظہ کے قتل کا واقعہ ہے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ صرف بزور شمشیر امن کا قائم رکھنا مقصود تھا نہ کسی کو بہ جبر مسلمان کرنا۔ سریۂ قریظاء یا محمد بن مسلمہ، محرم سن ۶ ہجری قریظائ۔ ایک قبیلہ ہے بنی بکر بن کلاب میں کا۔ یہ لوگ ضربہ کی طرف رہتے تھے جو مدینہ سے سات منزل ہے اور عمرہ کے لیے مکہ جانے کو نکلے تھے جیسا کہ ان کے سردار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا ان کا ارادہ عمرہ ادا کرنے کا تھا۔ غالباً ان کے نکلنے سے شبہ ہوا ہو گا اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ کو تیس سوار دے کر اس طرف روانہ کیا مگر وہ لوگ ان سواروں کو دیکھ کر بھاگ گئے۔ مگر ان میں سے ثمانیہ بن اثال پکڑا گیا۔ جب محمد بن مسلمہ مدینہ میں میں آئے تو اس کو بھی لائے اور مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس کو چھوڑ دیا گیا اور بعد کو وہ مسلمان بھی ہو گیا۔ غزوۂ بنی لحیان، ربیع الاول سن ۶ ہجری غزوہ رجیع میں ذکر ہو چکا ہے کہ رجیع کے مقام پر لوگوں نے دغا بازی سے مسلمانوں کو مار ڈالا تھا اور اس کا بدلا لینے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کیا اور مختلف رستہ اختیار کیا۔ تاکہ بنی لحیان یہ نہ سمجھیں کہ ان پر چڑھائی ہوتی ہے۔ مگر جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کو خبر پہنچ گئی تھی اور پہاڑوں میں جا چھپے تھے۔ دو سو سوار آپ کے ساتھ تھے آپ نے معہ سواروں کے غسفان پر مقام کیا اور پھر واپس تشریف لے آئے۔ غزوۂ ذی قرد یا غزوہ غابہ ، ربیع الآخر سن ۶ ہجری غابہ ایک گائوں ہے مدینہ کے پاس شام کی طرف۔ عیینہ بن حصن الفراری نے بنی غطفان کے سوار لے کر مقام غابہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کو لوٹ لیا اور وہاں ایک آدمی بنی غفار میں کام معہ اپنی جورو کے تھا اس کو مار ڈالا اور اس کی جورو اور اونٹوں کو لے گئے۔ سلمہ بن عمرو بن الاکوع نے ان کا تعاقب کیا اور اونٹوں کو چھین لیا۔ جب یہ خبر مدینہ میں پہنچی تو لوگ آنحضرت کے پاس جمع ہو گئے تاکہ ان کو سزا دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن زید کو سردار کر کے ان لوگوں کے تعاقب میں بھیجا ۔ کچھ خفیف سی لڑائی ہوئی اور چند آدمی مارے گئے۔ ان لوگوں کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ گئے۔ سعد ابن زید کے روانہ ہونے کے بعد آنحضرت خود بھی روانہ ہوئے اور ذی قرد تک جو ایک چشمہ کا نام ہے پہنچے اور پھر سب لوگ واپس چلے آئے۔ سریۂ عکاشہ، ربیع الآخر سن ۶ ہجری غمر مرزوق۔ ایک چشمہ پانی کا ہے بنی اسد میں قید سے دو منزل۔ عکاشہ ابن محصن الاسدی چالیس آدمیوں کے ساتھ اس طرف روانہ ہوئے۔ اس طرف اعراب یعنی گنوار و عرب رہتے تھے۔ غالباً انہی کی تنبیہ و تادیب کو گئے ہوں گے وہ لوگ بھاگ گئے اور عکاشہ ان کے دو سو اونٹ پکڑ لائے۔ سریۂ ذی القصہ یا سریہ بی ثعلبہ ، ربیع الآخر سن ۶ ہجری ذی القصہ۔ ایک گائوں ہے مدینہ سے چوبیس میل۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمی بنی ثعلبہ کے پاس روانہ کیے تھے اور محمد بن مسلمہ ان کے سردار تھے یہ لوگ ذی القصہ میں رات کو رہے مگر رات کو وہاں کے سو آدمیوں نے ان کو گھیر کے تیروں سے مار کر مار ڈالا صرف محمد بن مسلمہ بچے مگر زخمی ہوئے صبح کو ایک شخص انھیں اٹھا کر مدینہ میں لے آیا۔ سریۂ ذی القصہ ، ربیع الآخر سن ۶ ہجری اس واقعہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہ بن الجراح کو چالیس آدمی دے کر ان لوگوں کو سزا دینے کے لیے بھیجا مگر وہ سب پہاڑوں میں بھاگ گئے ان کا گلا سڑا اسباب جو رہ گیا تھا اس کو ابو عبیدہ لوٹ لائے۔ سریۂ جموم، ربیع الآخر سال ششم جموم۔ ایک مقام ہے بطن نحل میں مدینہ سے چار میل۔ زید ابن حارث بطور گشت کے اس طرف گئے۔ قوم مدینہ کی ایک عورت نے جس کا نام حلیمہ تھا بنو سلیم کی کچھ مخبری کی جس پر زید نے اس محلہ کو گھیر لیا ان کے اونٹ چھین لیے اور چند کو قید کر لیا جن میں حلیمہ کا شوہر بھی تھا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شوہر کو چھوڑ دیا۔ سریۂ عیص، جمادی الاول سال ششم عیص۔ ایک موضع ہے مدینہ سے چار میل پر۔ قریش مکہ کا ایک قافلہ جس میں تجارت وغیرہ کا سامان تھا شام سے آتا تھا آنحضرت صلعم نے زید ابن حارثہ کو بھیجا کہ قریش مکہ تک اس سامان کو نہ جانے دے۔ زید گئے اور انھوں نے قافلہ کا مال و اسباب چھین لیا اور چند آدمی قید کر لئے۔ سریۂ طرف، جمادی الآخر سال ششم طرف۔ ایک چشمہ کا نا م ہے مدینہ سے چھتیس میل۔ زید بن حارثہ پندرہ آدمیوں کے ساتھ بطور گشت کے بنو ثعلبہ کی طرف گئے جو اعراب میں سے تھے مگر وہ لوگ بھاگ گئے اور اپنے اونٹ بھی چھوڑ گئے جن کو زید لے کر چلے آئے۔ سریہ جسمی، جمادی الآخر سال ششم جسمی ۔ وادی القریٰ سے دو منزل و رے ہے اور وادی القریٰ مدینہ سے چھ میل ہے۔ وحیہ بن خلیفتہ الکلبی شام سے واپس آتے تھے۔ جب ارض جذام میں پہنچے تو ھنید بن عوص اور اس کے بیٹے نے ان کو لوٹ لیا۔ دحیہ نے مدینہ میں آ کر یہ حال بیان کیا اس درمیان میں بنو نصیب نے جو رفاعہ کی قوم سے تھے اور مسلمان ہو چکے تھے ھنید پر حملہ کیا اور مال و اسباب واپس کر لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید ابن حارثہ کو ان کی سزاد ہی کو مقرر کیا۔ وہ گئے اور لڑائی میں ھنید اور اس کا بیٹا مارا گیاان کا اسباب لوٹ لیا گیا اور کچھ لوگ قید ہوئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس ہنگامہ میں بنی نصیب کا بھی کچھ اسباب لوٹا گیا اور ان کے کچھ آدمی بھی قید ہو گئے۔ جب انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر یہ حال بیان کیا تو آپ نے حضرت علی مرتضیٰ کو متعین کیا انھوں نے جا کر بنی نصیب کا سب مال و اسباب واپس دلا دیا اور قیدیوں کو چھڑوا دیا۔ سریۂ وادی القریٰ، رجب سال ششم وادی القریٰ۔ ایک میدان ہے مدینہ اور شام کے درمیان میں وہاں بہت سی بستیاں ہیں۔ زید ابن حارثہ کچھ آدمی لے کر بطور گشت کے اس طرف گئے وہاں کے لوگوں سے لڑائی ہوئی زید کے ساتھ کے آدمی جو مسلمان تھے مارے گئے اور زید بھی سخت زخمی ہوئے۔ سریۂ دومتہ الجندل، شعبان سال ششم دومتہ الجندل کے لوگ ہمیشہ حملہ کا موقع تکتے تھے چناں چہ ہجرت کے چوتھے سال میں بھی ان کے حملہ کا احتمال ہوا تھا اور خود آنحضرت نے کوچ فرمایا تھا۔ انھی اسباب سے اس سال عبدالرحمن بن عوف کو سردار کر کے ان لوگوں پر بھیجا اور کہا کہ کوئی دغا کی بات مت کرو اور خدا کی راہ میں لڑو اور کسی نابالغ بچے کو مت مارو اور یہ بھی فرمایا کہ اگر وہ تیری اطاعت کر لیں تو ان کے سردار کی بیٹی سے شادی کر لے (وہ لوگ عیسائی تھے اور ان کی بیٹیوں سے شادی کرنا جائز تھا) ۔ عرب میں قوموں کو اپنا پورا پورا ساتھی یا حمایتی بنا لینے کے صرف دو طریق سب سے عمدہ تھے ایک حلیف ہو جانا۔ دوسرا رشتہ مندی کر لینا۔ اسی پولیٹکل مصلحت سے آنحضرت نے عبدالرحمن کو وہاں کے سردار کی بیٹی سے شادی کر لینے کی ہدایت کی تھی اور یہی ایک بڑا سبب تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اخیر عمر میں متعدد قبیلہ کی عورتوں کو اپنے ازواج مطہرات میں داخل کیا تھا باوجودیکہ عالم شباب میں بجز ایک بیوی کے کوئی اور نہ تھی۔ بہر حال عبدالرحمان بن عوف وہاں گئے تین دن قیام کیا اور اسلام کا وعظ کیا کئے اور مسلمان ہو جانے کی ان کو ہدیات کی اصبح بن عمرو الکلبی جو وہاں کا سردار اور عیسائی تھا مسلمان ہو گیا اور اس کے ساتھ اور بہت سے آدمی مسلمان ہو گئے اور جو مسلمان نہیں ہوئے انھوں نے اطاعت اختیار کی اور جزیہ دینا قبول کر لیا۔ عبدالرحمان نے وہاں کے سردار اصبح کی بیٹی سے شادی کر لی اور اسی سے ابوسلمہ پیدا ہوئے۔ سریۂ فدک، شعبان سال ششم فدک۔ ایک گائوں حجاز میں مدینہ سے دو منزل۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ قبیلہ بنو سعد بن بکر لوگوں کو جمع کر رہے ہیں اور خیبر میں جو یہود جلا وطن کئے گئے تھے ان کو مدد دینے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ آنحضرت نے علی مرتضیٰ کو سو آدمی دے کر ان پر روانہ کیا۔ علی مرتضیٰ نے ان کر چھاپہ مارا اور ان کے سو اونٹ اور دو ہزار بکریاں لوٹ لائے اور کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ سریۂ زید ابن حارثہ یا سریۂ ابی ام قرفہ، رمضان سال ششم زید ابن حارثہ مسلمانوں کا بہت سا مال لیے ہوئے تجارت کے لیے شام کی طرف جاتے تھے۔ جب وہ وادی القریٰ میں پہنچے تو قوم فرارہ نے جو بنی بدر کی ایک شاخ ہے اور جن کی سردار ام قرفہ تھی اور جس کا نام فاطمہ بنت ربیعہ بن زید الفراریہ تھا سب اسباب لوٹ لیا وہ مدینہ واپس چلے آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی آپ نے زید ہی کو ان کے سزا دینے کو متعین کیا زید نے دفعتہ ان پر چھاپہ مارا اور ام قرفہ اور اس کی بیٹی کو پکڑ لیا۔ قیس ابن محسر نے جو زید کے لشکر میں تھے اس ضعیف عورت ام قرفہ کو نہایت بری طرح سے مار ڈالا۔ اس کا ایک پائوں اونٹ سے اور دوسرا پائوں دوسرے اونٹ سے باندھ کر اونٹوں کو مختلف سمت میں ھانکا کہ اس کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ تاریخوں سے یہ بات قابل اطمینان نہیں معلوم ہوتی کہ ام قرفہ کے مار ڈالنے کے بعد اس کے پائوں اونٹوں سے باندھے تھے یا وہ زندہ تھی اور اونٹوں کے پائوں سے باندھ کر اس کو مارا تھا۔ مورخین نے اس کا ذکر بھی فروگذاشت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بے رحم واقعہ کو اگر در حقیقت وہ ہوا تھا سن کر کیا فرمایا ضرور قیس ابن محسر پر نہایت درجہ پر خفگی فرمائی ہو گی کیوں کہ عموماً آپ کی یہ نصیحت تھی کہ عورتیں اور بچے نہ مارے جاویں۔ معہذا اس سریہ کے متعلق ایسی مختلف روایتیں ہیں جن میں سے کسی پر بھی اعتماد نہیں ہو سکتا کامل ابن اثیر میں لکھا ہے کہ اس سریہ کے سردار حضرت ابو بکرؓ تھے اور سلمۃ بن الاکوع لڑے تھے اور اس میں ایک ضعیف عورت معہ اس کی بیٹی کے پکڑے جانے کا ذکر ہے مگر اس کے مارے جانے کا ذکر نہیں۔ اس کا نہ مارا جانازیادہ تر یقین کے قابل ہے کیوں کہ صحیح مسلم میں جو حدیث کی نہایت معتبر کتاب ہے اور بخاری کے برابر سمجھی جاتی ہے اس عورت کا پکڑا جانا بیان ہوا ہے مگر مارے جانے کا ذکر نہیں ہے۔ پھر ایک روایت میں ہے کہ اس کی بیٹی حزن بن ابی وھب کو دے دی گئی اور اس سے بن حزن پیدا ہوئے اور ایک روایت میں ہے کہ وہ لڑکی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لی اور اس کو مکہ میں بھیج دیا اور اس کے بدلے میں چند مسلمانوں کو جو قریش مکہ کے پاس قید تھے چھڑا لیا۔ غزوۂ ابن رواحہ، شوال سال ششم ابو رافع سلام بن ابی الحقیق یہودی کے مرنے یا مارے جانے کے بعد جس کا ذکر ہم نے بہ تحت غزوہ عبداللہ ابن عتیک کیا ہے اسیر ابن رزام یہودی یہودیوں کا سردار قرار پایا۔ اس نے غطفان کے یہودیوں کو اپنے ساتھ ملایااو رلڑائی کی تیاری کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر ملی تو آپ نے عبداللہ ابن رواحہ کو معہ تین اور آدمیوں کے اس خبر کی تحقیق کرنے کو بھیجا۔ جب عبداللہ واپس آئے تو آپ نے تیس آدمی ان کے ساتھ کیے اور اسیر ابن رزام پاس روانہ کیا۔ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا بھیجنا کسی معاہدہ یا صلح یا اور کسی قسم کی گفتگو کے لیے تھا نہ لڑائی کے لیے کیوں کہ لڑائی کے لیے تیس آدمی نہیں بھیجے جا سکتے تھے۔ عبداللہ ابن رواحہ نے اس سے گفتگو کی اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پاس آنے پر اس لالچ میں راضی ہوا کہ خیبر کی سرداری اس کو مل جاوے وہ بھی تیس آدمی اپنے ساتھ لے کر چلا یہ سب اونٹوں پر سوار ہو کر چلے یہودی آگے اور مسلمان ان کے پیچھے بیٹھے۔ جب قرقرہ میں پہنچے تو اسیر کے دل میں کچھ شبہ ہوا جیسا کہ زاد المعاد میں لکھا ہے اور اس نے عبداللہ کی تلوار پر ہاتھ ڈالا عبداللہ کو بھی شبہ ہوا اور وہ اونٹ پر سے کود پڑے اور اس کے پائوں پر تلوار ماری۔ اسیر بھی کود پڑا اور خار دار سونٹا عبداللہ کے منہ پر مارا وہ زخمی ہوئے اس ہنگامہ کو دیکھ کر ہر ایک مسلمان نے اپنے ساتھی پر حملہ کیا اور مار ڈالا۔ سریۂ عرنین، شوال سال ششم عرنہ۔ مدینہ کے میدانوں میں سے ایک میدان میں ایک باغ تھا، جس کا یہ نام ہے۔ چند کسان عکل اور عرنہ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، نہایت مفلس اور تباہ حال اور بیمار تھے، شاید استسقاء کی بیماری تھی، جس کا علاج اونٹ کا دودھ اور پیشاب پینا اور جہاں اونٹ بندھتے ہوں وہیں پڑے رہنا تھا۔ انھوں نے جھوٹ بیان کیا کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں، ہماری مدد کرو۔ آنحضرت نے اپنی چند اونٹنیاں اور چرواھے ان کے ساتھ کر دئیے۔ مگر جب وہ حرم کے مقام پر پہنچے، ان لوگوں نے جیسا کہ صحیح مسلم میں بیان ہوا ہے، ان چرواہوں کی آنکھیں پھوڑ دیں اور ان کو بری طرح پر مار ڈالا اور اونٹنیاں لے کر چل دئیے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی، ان کے تعاقب میں لوگ بھیجے گئے، جن کا سردار کرز بن جابر تھا، وہ پکڑے گئے۔ ان کی بھی آنکھیں پھوڑی گئیں اور ہاتھ پائوں کاٹ کر ڈال دیے گئے کہ وہ مر گئے۔ بخاری میں ہے کہ اس کے بعد آپ نے مثلہ کرنے سے منع کیا1۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ جس طرح ان لوگوں نے چرواہوں کو مارا تھا اسی طرح وہ کس کے حکم سے مارے گئے۔ مگر اس بات کی بہت سی دلیلیں ہیں کہ ابتدائی زمانۂ اسلام میں جن امور کی نسبت کوئی خاص حکم نازل نہیں ہوتا تھا تو اکثر یہودی شریعت کے مطابق عمل کیا جاتا تھا، اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ توریت میں لکھا ہے کہ ’’واگر اذیت دیگر رسیدہ باشد آں گاہ جان عوض جان باید داد، شود، چشم بعوض چشم، دنداں بعوض دنداں، دست بعوض دست، پا بعوض پا، سوختن بعوض سوختن، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1۔ بہت سے لوگ قائل ہیں کہ رسول اللہ کا یہ فعل قرآن کی رو سے منسوخ ہوا۔ مگر امام شافعی ایک دوسری حدیث سے منسوخ ہونا ثابت کرتے ہیں دیکھو تفسیر کبیر اس آیت کے متعلق ’’انما جزاء الذین یحاربون اللہ و رسولہ‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زخم بعوض زخم لطمہ بعوض لطمہ‘‘ (سفر خروج باب ۲۱ آیت ۲۳ و ۲۴، ۲۵) غالباً اسی خیال سے ان لوگوں نے بطور قصاص کے ان کو اسی طرح مارا جس طرح کہ ان لوگوں نے چرواھوں کو مارا تھا۔ سریۂ عمرو بن امیہ ، شوال سال ششم ابو سفیان ابن حرب نے مکہ سے ایک آدمی مدینہ میں بھیجا کہ کسی بہانہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دے۔ وہ معہ خنجر جو اس کے پاس چھپا ہوا تھا پکڑا گیا۔ مگر آنحضرت نے اس شرط پر کہ سچ بتا دے اس کو امن دیا۔ چناں چہ اس نے بتا دیا اور اس کو چھوڑ دیا کہ وہ مکہ چلا گیا۔ مواھب لدنیہ میں لکھا ہے کہ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی سفیان کے قتل کے لیے عمرو بن امیہ اور سلمتہ بن اسلم کو متعین کر کے بھیجا۔ وہ مکہ میں پہنچے لیکن ان کا وہاں جانا کھل گیا۔ لوگ ان پر دوڑے مگر وہ وہاں سے بچ کر نکل آئے۔ غزوۂ حدیبیہ، ذیقعدہ سال ششم حدیبیہ۔ ایک گائوں ہے اور اس گائوں میں اس نام کا ایک کنواں ہے، اسی کنوئیں کے نام سے وہ گائوں مشہور ہو گیا ہے۔ یہاں سے مکہ ایک منزل ہے۔ اس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جا کر حج و عمرہ ادا کرنے کا ارادہ کیا اور کسی سے لڑنے کا مطلق ارادہ نہ تھا۔ قربانی کے لیے اونٹ اپنے ہمراہ لیے تھے اور کل آدمی جو ساتھ تھے ان کی تعداد ایک ہزار چار سو تھی۔ سو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو قریش مکہ کو اندیشہ ہوا اور مکہ میں آنے سے روکا۔ دونوں طرف سے پیغام سلام ہوئے اور لوگ آ گئے۔ مگر قریش نے نہ مانا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو قریش مکہ کے پاس بھیجا۔ قریش ان کی فہمائش پر بھی راضی نہ ہوئے بلکہ ان کو بھی قید کر رکھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ حضرت عثمان کو قتل کر ڈالا۔ اس پر آنحضرت نے لڑنے کا ارادہ کیا اور سب لوگوں سے لڑنے پر اور مارنے مرنے پر بیعت لی۔ یہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی اور بیعۃ الرضوان کے نام سے مشہور ہے مگر بعد کو معلوم ہوا کہ حضرت عثمان کے قتل ہونے کی جو خبر مشہور ہوئی تھی وہ غلط تھی۔ اس کے بعد قریش مکہ نے سہیل ابن عمرو کو صلح کا پیغام دے کر بھیجا اور صلح اس بات پر منحصر تھی کہ اس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں عمرہ کرنے کو نہ آویں اور واپس چلے جاویں۔ بعد لمبی گفتگو کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر راضی ہو گئے اور حضرت علی مرتضیٰ کو عہد نامہ لکھنے کو بلایا۔ جب وہ آئے تو آپ نے فرمایا کہ لکھ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سہیل نے کہا کہ ہم تو اس کو نہیں جانتے۔ صرف یہ لکھو ’’باسمک اللھم‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی لکھو۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی مرتضیٰ کو فرمایا کہ لکھ ’’ھذا ما صالح علیہ محمد رسول اللہ‘‘ سہیل نے کہا کہ اگر ہم اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں تو آپ سے لڑتے ہی کیوں۔ آپ اپنا اور اپنے والد کا نام لکھوائیے۔ آنحضرت نے فرمایا کہ لکھ ’’ھذا ما صالح علیہ محمد بن عبداللہ‘‘ ۔ غرض کہ اس سال واپس چلے آنے کے علاوہ اس بات پر صلح ہوئی کہ دس برس تک لڑائی موقوف رہے۔ سب لوگ امن میں رہیں اور لڑائی نہ ہو۔ اور یہ بھی معاہدہ ہوا کہ اگر کوئی شخص قریش مکہ میں کا بلا اجازت اپنے ولی کے آنحضرت کے پاس چلا آئے تو آپ اس کو قریش مکہ کے پاس بھیج دیں گے اور اگر آنحضرت کے ساتھی قریشیوں میں سے کوئی شخص مکہ میں قریشیوں کے پاس چلا جاوے تو اس کو قریش مکہ واپس نہیں دینے کے۔ بہر حال دونوں طرف سے عہد نامہ کی تصدیق ہو گئی۔ آنحضرت نے اسی مقام پر قربانی کے اونٹ ذبح کیے اور ارادہ عمرہ کا موقوف کیا اور مدینہ کو واپس تشریف لے آئے۔ غزوۂ خیبر، جمادی الآخر سال ہفتم خیبر۔ ایک معروف و مشہور بہت بڑا شہر ہے اور اس میں متعدد قلعے نہایت متسکم تھے۔ مدینہ سے آٹھ منزل شام کی طرف ہے۔ اھل خیبر جن میں وہ تمام یہودی بھی جا ملے تھے جو مدینہ سے جلا وطن کیے گئے تھے ، ہمیشہ مسلمانوں سے لڑنے کی تیاریاں کرتے رہتے تھے اور انھوں نے بنی اسد اور بنی غطفان کو اپنا حلیف کر لیا تھا اور اپنے مضبوط قلعوں پر نازاں تھے جب ان لوگوں کی آمادگی جنگ نے زیادہ شہرت پائی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فساد کے مٹانے کا ارادہ کیا اور مدینہ سے معہ لشکر کے خیبر کی طرف کوچ کیا۔ بنی اسد جن کا سردار طلیحہ بن خویلد اسدی تھا اور بنی غطفان جن کا سردار عینیہ بن حصن بن بدر فزاری تھا ، خیبر والوں کی مدد کو پہنچے۔ خیبر والوں کے پاس دس 1 مستحکم قلعے تھے اور ان سب نے اپنے قلعوں کو بند کر لیا اور لڑائی پر مستعد ہو گئے۔ آنحضرت صلعم بھی معہ لشکر کے وہاں پہنچے اور ایک مہینہ تک لڑائی جاری رہی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1۔ حصن نطا، حصن الصعبہ، حصن ناعم، حصن قلعہ البربر، حصن الثق، حصن ابی، حصن البرائ، حصن القموص، حصن الرطیح، حصن السلالم یا حصن ابی الحقیق۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب سے پہلے حصن ناعم فتح ہوا اور پھر بعض اور قلعے بھی فتح ہوئے۔ اس درمیان میں بنی اسد اور بنی غطفان خیبر والوں سے علیحدہ ہو گئے اور صرف اہل خیبر برابر لڑتے رہتے اور سخت لڑائیاں ہوتی رہیں۔ حصن الوطیح اور حصن السلالم نہایت مضبوط قلعے تھے جن کو حضرت علی مرتضیٰ نے فتح کیا۔ اس وقت یہودیوں نے امن چاہا اور تین امر پر صلح ہوئی کہ تمام اہل خیبر کو اور ان کے اہل و عیال کو جان کی امان دی جاوے۔ دوسرے یہ کہ تمام اہل خیبر اپنا مال و اسباب بطور معاوضہ جنگ کے دے دیں، لیکن اگر کوئی شخص اپنا مال چھپا رکھے تو اس سے یہ معاہدہ یعنی جان کے اور اہل و عیال کے امن کا قائم نہ رہے گا۔ تیسرے یہ کہ تمام زمینیں خیبر کی ان کی ملکیت نہ رہیں گی مگر وہ لوگ اپنے گھروں میں آباد رہیں گے اور زمینوں پر بھی قابض رہیں گے اور ان کی پیداوار کا نصف حصہ بطور خراج کے دیا کریں گے اور کسی بدعہدی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار ہو گا کہ انکو جلاوطن فرمائیں۔ صرف کنانہ بن ربیع بن ابی الحقیق نے مال کے دینے میں دغا بازی کی اور نہایت بیش قیمت مال چھپا رکھا جو کہ بعد تلاش کے دستیاب ہوا وہ مارا گیا اور اس کے اہل و عیال قید ہو گئے۔ غزوہ وادی القریٰ جمادی الآخر سال ہفتم جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر سے مراجعت کی تو وادی القریٰ میں پہنچے اور وہاں چار دن ٹھیرے اور اہل تیما نے اسلام قبول نہیں کیا اور جزیہ دینے پر صلح کر لی۔ سریۂ تربہ شعبان، سال ہفتم تربہ۔ مکہ کے قریب دو منزل پر ایک جگہ ہے۔ حضرت عمر تیس آدمی لے کر اس طرف کو گئے مگر وہاں کے لوگ بھاگ گئے کوئی نہیں ملا اور حضرت عمر واپس آ گئے۔ سریۂ حضرت ابوبکر، شعبان سال ہفتم اس سریہ میں حضرت ابوبکر کچھ آدمی لے کر بنی کلاب کی طرف گئے کچھ خفیف سی لڑائی ہوئی کچھ آدمی مرے کچھ قید ہو گئے۔ سریۂ بشیر ابن سعد، شعبان سال ہفتم اس سریہ میں بشیر ابن سعد بنی مرہ پر جو فدک میں رہتے تھے تیس آدمی لے کر گئے اور خفیف سی لڑائی کے بعد واپس آ گئے۔ سریۂ غالب بن عبداللہ اللیثی، رمضان سال ہفتم یہ سریہ نجد کی طرف منفغہ پر جو مدینہ سے آٹھ منزل ہے بھیجا گیا تھا اور دو سو تیس آدمی لشکر میں تھے مگر وہاں بہت ہی خفیف سی لڑائی ہوئی اور پھر لوگ واپس آ گئے۔ سریۂ اسامہ بن زید، رمضان سال ہفتم یہ سریہ خربہ کی طرف بھیجا گیا تھا جو ضربہ کی طرف ہے۔ یہاں کسی سے لڑائی نہیں ہوئی مگر ایک شخص اسامہ کو ملا جس پر انھوں نے تلوار کھینچی مگر اس نے کلمہ پڑھا اور کہا لا الہ الا اللہ مگر اسامہ نے اس کو مار ڈالا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اس بات پر نہایت خفگی ظاہر فرمائی۔ سریہ بشیر بن سعد الانصاری، شوال سال ہفتم یہ سریہ یمن اور حیاب جس کو قزارہ اور عذرہ کہتے ہیں اور بنی غطفان سے علاقہ رکھتے ہیں جو خیبر والوں کے ساتھ لڑائی میں شریک ہوئے تھے بھیجا گیا تھا مگر وہاں کے لوگ بھا گ گئے اور ان کا مال و اسباب ہاتھ آیا اور صرف دو آدمی قید کیے گئے۔ بعد اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لے گئے اور عمرہ قضا ادا کیا۔ سریۂ ابن ابی العوجاء السلمی، ذالحجہ سال ہفتم یہ سریہ بنی سلیم کی طرف بھیجا گیا تھا وہاں سخت لڑائی ہوئی اور دشمن چاروں طرف سے ٹوٹ پڑے اور سب لوگ مارے گئے اور ابن ابی العوجاء بھی زخمی ہوئے اور مردوں میں پڑے رہ گئے اور پھر ان میں سے اٹھا لائے گئے۔ سریۂ غالب بن عبداللہ اللیثی، صفر سال ہشتم یہ سریہ بنی الملوح پر جو کدید میں رہتے تھے کیا گیا تھا۔ وہاں کچھ لڑائی نہیں ہوئی مگر کچھ اسباب ہاتھ آیا۔ اسی مہینے میں خالد بن الولید اور عثمان بن ابی طلحہ اور عمرو بن العاص مکہ سے مدینہ میں چلے آئے اور مسلمان ہو گئے۔ سریۂ غالب بن عبداللہ، صفر سال ہشتم یہ سریہ بھی فدک کی جانب بھیجا گیا تھا انہیں لوگوں پر جن پر بشیر بن سعد بھیجے گئے تھے ان سے لڑائی ہوئی کچھ لوگ مارے گئے اور کچھ اسباب لوٹ لیا گیا۔ سریۂ شجاع بن وھب الاسدی، ربیع الاول سال ہشتم یہ سریہ ذات عرق کی طرف بھیجا گیا تھا جو مدینہ سے پانچ منزل ہے اور جہاں ھوازن نے لوگ جمع کئے تھے۔ وہاں کچھ لڑائی نہیں ہوئی مگر ان کے اونٹ لوٹ لائے۔ سریۂ کعب ابن عمیر الغفاری، ربیع الاول سال ہشتم یہ سریہ ذات الطلع کی طرف بھیجا گیا تھا جو ذات القریٰ کے قریب ہے ۔ ذات الطلع میں نہایت کثرت سے لوگ لڑنے کے لئے جمع تھے نہایت سخت لڑائی ہوئی اور جو لوگ بھیجے گئے تھے وہ سب مار ڈالے گئے۔ جب یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو ایک بڑا لشکر بھیجنے کا ارادہ کیا مگر معلوم ہوا کہ وہ لوگ اور سمت کو چلے گئے۔ سریۂ موتہ یا سریۂ زید ابن حارثہ، جمادی الاول سال ہشتم موتہ۔ ایک قصبہ ہے شام کے علاقہ میں دمشق سے ورے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن عمیر الازدی کو ھرقل شہنشاہ روم کے نام ایک خط دے کر بصرے کو روانہ کیا تھا جب کہ وہ موتہ میں پہنچے تو شرجیل بن عمرو الغسانی نے تعرض کیا اور ان کو مار ڈالا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ہزار آدمیوں کا لشکر جس کے سردار زید بن حارثہ تھے موتہ پر روانہ کیا وہاں نہایت سخت لڑائی ہوئی اور زید ابن حارثہ اور جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ جن کے ہاتھ میں فوج کا نشان تھا یکے بعد دیگرے لڑ کر مارے گئے اس پر فوج کا نشان خالد بن ولید نے لیا اور نہایت سخت لڑائی کے بعد خالد نے فتح پائی۔ اس لڑائی میں تمام عیسائی قومیں جو اس نواح میں رہتی تھیں شامل تھیں اور ہرقل کی فوج بھی جو اس زمانہ میں روم یعنی قسطنطنیہ کا شہنشاہ تھا اور تمام صوبہ شام پر اس کی حکومت تھی اور اسی زمانہ میں فارس کو بھی فتح کر چکا تھا ان لوگوں کے ساتھ لڑائی میں شریک تھی۔ سریۂ عمرو بن العاص، جمادی الآخر سال ہشتم یہ سریہ ذات السلاسل کے نام سے مشہور ہے۔ سلسل ایک چشمہ کا نام تھا ذات القریٰ کے نزدیک مدینہ سے دس منزل پر۔ بنی قضاعہ نے کچھ لوگ لڑنے کے لیے جمع کیے تھے۔ جب یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے عمرو بن العاص کو تین سو آدمی دے کر اس طرف روانہ کیا۔ جب وہ سلاسل کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ دشمنوں نے بہت کثرت سے لوگ جمع کیے ہیں اس کی خبر آنحضرت کو بھیجی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو بھی روانہ کیا اور دو سو آدمی اور بھیجے ۔ مگر بنی قضاعہ آخر کار بھاگ گئے اور جمعیت متفرق ہو گئی۔ سریۂ ابن عبیدہ ابن جراح، رجب سال ہشتم اس سریہ کا نام سریہ خبط بھی ہے۔ کیوں کہ اس میں بہ سبب نہ رہنے رسد کے خبط کو جو غالباً کسی درخت کا پھل ہے پانی میں بھگو کر کھایا تھا۔ اسی سریہ میں لوگوں کو دریا کے کنارہ سے ایک بڑی مچھلی ہاتھ آ گئی تھی جس کو لوگوں ے کئی دن تک کھایا تھا۔ بخاری نے اس غزوہ کا نام سیف البحر بیان کیا ہے مگر تمام تاریخوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سیف البحر جو سال اول میں ہوا تھا وہ علیحدہ سریہ ہے اور یہ علیحدہ سریہ ہے۔ اس سریہ میں تین سو آدمی تھے اور دریا کے کنارہ پر چند روز ٹھیرے رہے کسی سے کچھ لڑائی نہیں ہوئی اور سب لوگ واپس آ گئے۔ سریۂ ابی قتادۃ الانصاری، شعبان سال ہشتم اس سریہ میں صرف پندرہ آدمی تھے اور بمقام خضرہ جو نجد میں ہے بنی غطفان کے لوگوں کی طرف بھیجا گیا تھا کچھ لڑائی ہوئی اور کچھ لوگ قید کر لیے گئے اور دو سو اونٹ اور ہزار بکریاں غنیمت میں ہاتھ آئیں۔ سریۂ ابی قتادہ، رمضان سال ہشتم اس سریہ میں صرف آٹھ آدمی تھے اور یہ اضم کی طرف بھیجا گیا تھا جو ایک چشمہ ہے درمیان مکہ اور یمامہ کے اور مدینہ سے تین منزل ہے۔ یہ سریہ صرف اس لیے بھیجا گیا تھا کہ قریش مکہ کی کچھ خبر ملے اور نیز مکہ والے خیال کریں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف تشریف لے جاویں گے حالاں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ قریش پر حملہ کرنے کا تھا۔ ان آٹھ آدمیوں میں محلم بن جسامہ بھی تھا اس سے ایک شخص نے آن کر مسلمانوں کی طرح سلام علیک کی اس نے) اس کو مار ڈالا۔ اس پر خدا تعالیٰ کی خفگی ہوئی اور حکم ہوا جو کوئی مسلمانوں کی طرح سلام علیک کرے اس کو کافر نہ سمجھو۔ بعض کتابوں میں اس سریہ کو ابن ابی حدور کی طرف منسوب کیا ہے مگر وہ صحیح نہیں ہے۔ غزوۂ فتح مکہ،رمضان سال ہشتم حدیبیہ میں جو قریش مکہ سے صلح ہوئی تھی اور یہ بات ٹھہری تھی کہ دس برس تک آپس میں لڑائی نہ ہو اور امن رہے اس وقت یہ بھی معاہدہ ہوا تھا کہ جو قومیں چاہیں اس معاہدہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہو جائیں اور جو قومیں چاہیں قریش کے معاہدہ میں داخل ہو جائیں ۔ بنو خزاعہ جو مسلمان ہو گئے تھے یا اسلام کی طرف راغب تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ میں شریک ہوئے اور بنو بکر قریش کے معاہدہ میں داخل ہوئے۔ اسلام سے پہلے ان دونوں قوموں میں نہایت عداوت اور جنگ و جدل تھی مگر شروع زمانہ اسلام میں وہ جنگ و جدل موقوف ہو چکی تھی۔ اس معاہدہ کے بعد بنو بکر نے اور ان کے ساتھ قریش نے اس معاہدہ کو توڑ دیا اور نوفل بن معاویۃ الدیلمی ایک جماعت لے کر نکلا اور بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور کچھ آدمی مارے گئے اور باہم لڑائیاں ہوتی رہیں۔ قریش مکہ نے علانیہ بنو بکر کو ہتھیاروں کے بھیجنے سے مدد کی اور قریش کے لوگ بھی خفیہ جا کر لڑائی میں شریف ہوئے۔ منجملہ ان کے صفوان بن امیہ اور حویطب بن عبدالعزیٰ اور مکرز بن حفص بھی تھا۔ بنو خزاعہ نہایت عاجز ہو گئے اور انھوں نے حرم کعبہ میں پناہ لی اور نوفل نے وہاں بھی ان کا تعاقب کرنا چاہا۔ بنو بکر کے قبیلہ کے لوگوں نے نوفل سے کہا کہ اللہ کے حرم کا پاس کرنا ضرور ہے۔ نوفل نے کہا کہ آج کے دن خدا کوئی چیز نہیں ہے، ہم کو اپنا بدلہ لینا چاہیے۔ بنو خزاعہ نے لاچار بدیل بن ورقاء کی پناہ لی اور ایک شخص عمرو بن سالم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عہد کے توڑنے کے حالات بیان کیے اور بنی خزاعہ کی امداد کا خواہاں ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کے جمع کرنے کا حکم دیا اور قریش سے لڑنے اور ان کو ان کی عہد شکنی کی سزا دینے کو آمادہ ہوئے۔ یہ خبر سن کر ابوسفیان مدینہ میں آیا اور یہ بات چاہی کہ اس عہد شکنی سے درگذر کی جائے اور پھر نیا عہد نامہ کیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور نہ فرمایا۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش نے بنو خزاعہ کے بہت سے لوگوں کو قتل کر دیا تھا اور ان پر بے انتہا زیادتی کی تھی۔ پس ممکن نہیں تھا کہ اس ظلم سے درگذر کی جاتی اور اس کی سزا نہ دی جاتی اور تمام خون ریزی سے جو بنی خزاعہ نے کی تھی در گذر کر کے نیا عہد نامہ کیا جاتا۔ تاریخوں میں لکھا ہے کہ ابو سفیان کو معلوم ہوا کہ قریش مکہ پر ضرور لشکر کشی ہو گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کو دیکھ کر وہ حیران ہو گیا تو اس کو یقین ہوا کہ قریش مارے جاویں گے اور مکہ فتح ہو جاوے گا ۔ غالباً اسی خوف سے اس نے اپنا مسلمان ہو جانا بھی ظاہر کیا اور شاید دل میں بھی باتیں سننے سے اور حضرت عباس کی نصیحت سے کچھ کچا پکا مسلمان ہو بھی گیا ہو مگر جب وہ مکہ کو واپس جانے لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہہ دیا کہ لڑائی کے زمانہ میں جو شخص تیرے گھر میں پناہ لے گا اس کو امن دیا جاوے گا۔ غرض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ فرمایا اور تمام لشکر روانہ ہوا۔ جب لشکر قریب مکہ کے پہنچا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشتہر کر دیا اور مکہ میں بھی لوگوں نے مشتہر کیا کہ جو شخص ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے گا اور جو شخص حرم کعبہ میں پناہ لے گا اور جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے اپنے گھر میں بیٹھا رہے گا ان سب کو امن دیا جاوے گا مگر نو آدمیوں کے نام بتائے کہ وہ قتل کیے جاویں گے۔ ان نو آدمیوں کے نام یہ ہیں: ۱۔ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح۔ ۲۔ عکرمہ بن ابی جہل۔ ۳۔ عبدالعزیٰ بن خطل۔ ۴ طارث بن نفیل بن وھب۔ ۵۔ مقیس بن صبابہ ۶۔ ھبار ابن الاسود (۷و۸) دو گانے والی عورتیں ابن خطل کی۔ ۹۔ سارہ مولاۃ بنی عبدالمطلب۔ غرض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے فتح عظیم عنایت کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہ فتح و نصرف مکہ میں داخل ہوئے۔ جو تکلیفیں کہ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھیں ان کے سبب لوگوں کو خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ کیا کریں گے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب لوگوں کو امن دیا اور کسی سے بدلہ نہیں لیا اور ایک ایسا فصیح اور بلیغ اور رحم کا بھرا ہوا خطبہ پڑھا جو زمانہ میں یادگار ہے۔ جن نو آدمیوں کے قتل کا حکم دیا تھا ان میں سے ابن ابی سرح کو حضرت عثمان لے کر آئے اور امن کی درخواست کی۔ اس کو امن دیا اور وہ مسلمان ہو گیا ۔ عکرمہ بن ابی جہل کو جو مفرور ہو گیا تھا، امن دینے کے لیے اس کی جورو نے عرض کی۔ آپ نے اس کو بھی امن دیا۔ وہ واپس آیا اور مسلمان ہو گیا۔ ھبار ابن الاسود بھی بھاگ گیاتھا اور یہ وہ شخص تھا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب کو دھکا دیا تھا اور وہ ایک پتھر پر گر پڑی تھیں اور اسقاطہ حمل ہو گیا تھا۔ اس کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امن دیا اور سارہ اور ان دو گانے والیوں میں سے ایک کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امن دیا اور دونوں گانے والیاں مسلمان ہو گئیں اور ان میں سے صرف چار شخص مارے گئے۔ ایک ابن خطل، ایک الحارث، ایک مقیس اور ایک دونوں گانے والیوں میں سے۔ عبداللہ ابن خطل پہلے مسلمان ہو گیا تھا۔ پھر مرتد ہو گیا۔ اس نے حالت اسلام میں ایک مسلمان غلام کو مار ڈالا تھا اور اس کا خون اس پر تھا۔ اور مقیس بن صبابہ بھی پہلے مسلمان ہو گیا تھا ۔ پھر مرتد ہو گیا تھا اور کافروں سے جا ملا تھا اور اس نے ایک انصاری کو مار ڈالا تھا اور اس کا خون اس پر تھا۔ الحارث اور ان دونوں گانے والیوں میں سے ایک گانے والی کے مارے جانے کی وجہ ہم کو معلوم نہیں ہوئی۔ بعض علما سے میں نے سنا کہ ان دونوں کو بھی بعوض کسی خون کے قصاصاً مار ڈالا گیا تھا، الا ہم کو کہیں اس کی تصریح نہیں ملی۔ مگر یقین ہے کہ ان دونوں پر کوئی ایسا جرم تھا کہ جس کی سزا بجز قتل کے اور کچھ نہ تھی۔ خصوصاً ان دونوں گانے والیوں میں سے ایک کے مارے جانے کی ضرور کوئی ایسی وجہ ہو گی جس سے اس کا قتل کرنا لازمی ہو گا کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشہ ہدایت تھی کہ کوئی عورت بجز قصاص کے اور کسی طرح پر نہ ماری جاوے۔ فتح مکہ کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب حتیٰ اذا اثختموھم فشدوا لوثاق فاما منا بعد و اما فداء حتیٰ تضع الحرب او زارھا۔ جس نے تمام انسانوں کو لونڈی اور غلام ہونے سے آزادی دی ہے اور لڑائی کے تمام قیدیوں کی جانوں کو بچایا ہے کہ اس کے بعد لڑائی کا کوئی قیدی قتل نہیں ہو سکتا اور کوئی قیدی زن و مرد لڑکا اور لڑکی لونڈی اور غلام نہیں بنائے جا سکتے اور لڑائی کے قیدیوں کے ساتھ بجز اس کے کہ ان پر احسان کر کے یا فدیہ لے کر، چھوڑ دیا جائے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کے لیے یہ ایک ایسا فخر ہے کہ کسی اور مذہب کے لیے نہیں ہے۔ سریۂ خالد بن الولید، رمضان سال ہشتم فتح مکہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کو عزیٰ بت کے توڑنے کے لئے، جو بنی کنانہ کا بت تھا، بھیجا اور وہ توڑ کر چلے آئے۔ سریہ عمرو بن العاص ، رمضان سال ہشتم سواع جو ھذیل کی قوم کا ایک بت مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر تھا اس کے توڑنے کو عمرو بن العاص مقرر ہوئے اور وہ توڑ کر چلے آئے۔ سریۂ سعد بن یذید الاشہلی، رمضان سال ہشتم منات جو ایک نہایت مشہور بت ہے بنی اوس اور خزرج کا مسلل میں تھا اس کو توڑنے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کو مقرر کیا اور وہ بیس سوار لے کر وہاں گئے اور اس کو توڑ کر چلے آئے۔ ان بتوں کے توڑنے کے وقت جو قصے کتابوں میں لکھے ہیں وہ محض کہانیاں ہیں او ر نہ ان کی کوئی معتبر سند ہے اور مطلق اعتبار کے لائق نہیں ہیں۔ سریۂ خالد ابن ولید، شوال سال ہشتم جب کہ خالد بن ولید عزیٰ بت کو توڑ کر مکہ میں واپس آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو پچاس آدمیوں کے ساتھ ان کو بنی جذیمہ کی طرف اسلام کی ہدایت کرنے کے لیے بھیجا۔ لڑنے کے لیے نہیں بھیجا تھا۔ مگر بنی جذیمہ پہلے سے مسلمان ہو گئے تھے اور انھوں نے ایک آدھ مسجد بھی اپنے ہاں نماز پڑھنے کے لیے بنا لی تھی مگر وہ ہتھیار بند ہو کر مقابلہ کو آئے۔ جب ان سے پوچھا کہ تم مسلح ہو کر کیوں آئے ہو تو انھوں نے کہا کہ عرب کی ایک قوم کو ہم سے دشمنی ہے، ہم کو خوف ہوا کہ وہی قوم ہم پر چڑھ کر نہ آئی ہو۔ ان سے کہا گیا کہ ہتھیاررکھ دو۔ انھوں نے ہتھیار رکھ دیے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ تم مسلمان ہو گئے ہو تو انھوں نے بجائے اس کے کہ کہتے ’’اسلمنا‘‘ انھوں نے کہا ’’صبانا صبانا‘‘ ۔ اس کہنے سے ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے اپنا پہلا مذہب چھوڑ دیا ہے لیکن جب کوئی مسلمان اس لفظ کو کہے تو اس کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم کافر ہو گئے ہیں۔ چناں چہ مسلمانوں نے یہی اس کا مطلب سمجھا اور ان کو قید کر لیا اور رات کے وقت مسلمانوں کے ہر گروہ نے علیحدہ علیحدہ چند چند قیدی اپنی اپنی حفاظت میں کر لیے۔ صبح کو خالد ابن ولید نے حکم دیا کہ جس کے پاس جو جو قیدی ہیں ان کو مار ڈالے بدر سلیم کے پاس جتنے قیدی تھے ان کو انھوں نے مار ڈالا۔ مگر مہاجرین اور انصار کے پاس جس قدر قیدی تھے، انھوں نے قتل نہیں کیا۔ ان سب کو چھوڑ دیا۔ جب یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی تو آپ خالد بن ولید کے کام سے نہایت ناراض ہوئے اور آپ نے فرمایاکہ اے خدا جو کچھ خالد نے کیا، میں اس سے بری ہوں اور حضرت علی مرتضیٰ کو مقرر فرمایا کہ جو لوگ مارے گئے ہیں ان کی دیت ادا کریں۔ غزوۂ حنین یا غزوہ اوطاس یا غزوہ ھوازن، شوال سال ہشتم حنین اور اوطاس دو مقاموں کا نام ہے جو مکہ اور طائف کے بیچ میں ہیں اور ھوازن کی قوم سے اس مقام پر لڑائی ہوئی تھی۔ اسی سبب سے اس غزوہ کے یہ نام ہوئے ہیں۔ فتح مکہ کے بعد مالک ابن عوف نضری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے لوگوں کو جمع کیا اور ھوازن اور بنی ثقیف اور بنی مضر اور بنی جشم اور کچھ لوگ بنی ھلال کے اور اور بہت سے لوگ مختلف قبائل کے اس کے پاس جمع ہو گئے۔ یہ خبر سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لڑائی کی تیاری کی اور بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر لے کر کوچ فرمایا۔ مالک ابن عوف نضری بھی اپنا لشکر لے کر چل چکا تھا اور اوطاس کے میدان میں پہنچ گیا تھا۔ وہ ایک ایسی تنگ اور پتھریلی اور ریتلی زمین تھی کہ وہاں گھوڑوں کا جانا اور لڑنا نہایت مشکل تھا۔ انھوں نے وہیں اپنا لشکر ڈالا اور اس کے گڑھوں میں اور ان تنگ رستوں کے ادھر ادھر جن میں گزرنا نہایت مشکل تھا، چھپ بیٹھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر جب وہاں پہنچا تو بغیر ترتیب لڑائی کے اور بغیر کسی خیال کے اس دشوار گذار رستہ میں سے گذرنا شروع کیا اور کچھ لوگ اس سے آگے بڑھ گئے اور ھوازن والوں کی جہاں بھیڑ اور عورتیں اور مال و اسباب تھا اس طرف جانے کا ارادہ کیا۔ اس وقت دشمن اپنے کمین گاہوں میں سے جہاں وہ چھپے ہوئے تھے، نکل پڑے اور دفعتہ سب نے مل کر حملہ کیا اور مارنا اور قتل کرنا شروع کیا۔ مسلمانوں کے لشکر میں نہایت ابتری پڑی اور لوگ بھاگ نکلے، یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی بہت تھوڑے آدمی رہ گئے۔ غالباً لوگوں کو یہ خیال ہوا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی قتل ہو گئے۔ جب یہ حال دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف اونچی جگہ پر جا کھڑے ہوئے اور لوگوں کو پکارا کہ میں موجود ہوں اور حضرت عباس نے بھی نہایت بلند آوز سے لوگوں کو ڈانٹا اور کہا کہ کہاں بھاگے جاتے ہو۔ حضرت عباس نے یہ بھی کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں۔ ان کا یہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل ہو جانے کا خیال کیا تھا۔ غرض کے سب لوگ پھر پڑے اور اکٹھے ہو گئے اور نہایت سخت لڑائی کے بعد دشمنوں کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ نکلے۔ سریۂ ابی عامر الاشعری، شوال سال ہشتم اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عامر اشعری کو ان لوگوں کے تعاقب میں بھیجا جو اوطاس کی جانب بھاگے تھے۔ ان لوگوں سے بھی کچھ لڑائی ہوئی اور ابو عامر ایک تیر کے زخم سے مر گئے اور مالک بن عوف نے ثقیف کے ایک قلعہ میں جا کر پناہ لی اور بہت سے قیدی اور مال اسباب مسلمانوں کے ہاتھ آیا قیدیوں کی تعداد چھ ہزار لکھی ہے اور اونٹوں اور بکریوں کی تعداد بہت زیادہ بیان کی گئی ہے۔ قیدیان حنین کی مناً رہائی کئی دن بعد ھوازن کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور چاہا کہ ان کے تمام قیدی ’’مناً‘ ‘ یعنی احسان رکھ کر بغیر کسی معاوضہ لینے کے چھوڑ دیے جاویں۔ یہ بات کسی قدر مشکل تھی کیوں کہ تمام لڑنے والوں کا جیسا حق غنیمت کے مال میں حصہ لینے کا تھا ویسا ہی ان قیدیوں کے معاوضہ میں فدیہ لینے کا حق تھا اور وہ لوگ ایسے نہ تھے کہ فدیہ نہ دے سکتے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیدیوں کو بغیر فدیہ لینے چھوڑ دینے کی خواہش رکھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل نماز کے وقت سب لوگ آئو۔ غالباً یہ سب اس لیے فرمایا کہ سب لوگ ایک جگہ جمع ہوں گے اور جب نماز ہو چکے تو تم قیدیوں کے چھوٹنے کی درخواست کرو۔ ان لوگوں نے اسی طرح پر کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ کہ میرا اور بنی عبدالمطلب کا ہے یعنی ان کا حصہ ہے وہ تمہارے لیے ہے۔ مہاجرین اور انصار نے کہا کہ جو ہمارا حصہ ہے وہ بھی رسول اللہ کے لیے ہے۔ بعض لوگوں نے اس طرح پر قیدیوں کے دے دینے سے انکار کیا مگر آخر کو سب لوگ راضی ہو گئے اور تمام قیدی بغیر معاوضہ لیے احساناً چھوڑ دیے گئے۔ سریۂ طفیل بن عمرو الدوسی، شوال سال ہشتم ذوالکفین نام لکڑی کا ایک بت عمرو بن جمتہ کا تھا اس کے توڑنے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طفیل ابن عمرو کو روانہ کیا وہ وہاں گئے اور اس بت کو توڑ دیا اور جلا دیا۔ غزوۂ طائف، شوال سال ہشتم حنین سے واپس آنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کی طرف کوچ فرمایا کیوں کہ بنی ثقیف نے طائف کے قلعوں میں جاکر پناہ لی تھی اور لڑائی کا سامان کیا تھا۔ ایک مہینہ تک یا کچھ زیادہ طائف کا محاصرہ رہا اور لڑائی بھی ہوتی رہی مگر ابھی فتح نہیں ہوئی تھی کہ ذیقعدہ کے مہینہ کا چاند دکھائی دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ ادا کرنا منظور تھا، اس لیے محاصرہ اٹھا لیا اور فرمایا کہ ماہ حرم گذر جانے کے بعد پھر لڑا جاوے گا اور مکہ کو واپس تشریف لائے اور عمرہ ادا کرنے کے بعد مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے۔ کئی مہینوں کے بعد طائف کے لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اطاعت قبول کریں۔ پھر انھوں نے چھ شخصوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ میں بھیجا اور چار باتوں پر صلح چاہی۔ ایک یہ کہ ’’لات‘‘ جو ان کا بت ہے وہ تین برس تک نہ توڑا جاوے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور نہ فرمایا تو انھوں نے چاہا کہ ایک برس تک نہ توڑا جاوے۔ جب اس کو بھی منظور نہ فرمایا تو انھوں نے چاہا کہ ایک مہینے تک جب سے کہ یہ لوگ واپس جاویں نہ توڑا جاوے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی نامنظور فرمایا۔ دوسرے یہ کہ ان کے لیے نماز معاف کر دی جاوے۔ حضرت نے فرمایا کہ جس دین میں نماز نہیں ہے اس میں کچھ بھلائی نہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ اپنے بت اپنے ہاتھوں سے نہ توڑیں۔ چوتھے یہ کہ جو عامل محصول وصول کرنے کے لیے مقرر ہو اس کے سامنے وہ نہ بلائے جائیں اور نہ ان کی زمینوں کا عشر لیا جاوے اور نہ کوئی جرمانہ۔ ان پچھلی دو شرطوں کو آپ نے منظور فرمایا اور اسی پر صلح ہو گئی۔ بھیجا جانا ابو سفیان ابن حرب اور مغیرہ بن شعبہ کا واسطے توڑنے لات کے طائف کو اس صلح کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان اور مغیرہ بن شعبہ کو طائف میں لات بت کے توڑنے کے لیے بھیجا اور مغیرہ بن شعبہ نے اپنے ہاتھ سے اس کو توڑ دیا۔ جب وہ توڑا جاتا تھا تو بنی ثقیف کی عورتیں اس کے گرد جمع ہو گئی تھیں اور لات کی موت پر گریہ و زاری کرتی تھیں۔ سریۂ عینیۃ بن حصن انفراری ، محرم سال نہم اس سریہ میں پچاس سوار تھے اور بنی تمیم پر جنھوں نے ابھی تک اطاعت نہیں قبول کی تھی، بھیجا گیا تھا۔ وہ لوگ جنگل میں اپنے مویشی چرا رہے تھے کہ دفعتہ عینیہ معہ اپنے سواروں کے ان پر جا پڑے۔ وہ لوگ بھاگ گئے اور گیارہ مرد اور اکیس عورتیں اور تیس بچے گرفتار ہوئے۔ ان کو مدینہ میں لے آئے۔ اس کے بعد بنی تمیم کے چند سردار مل کر مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اطاعت قبول کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قیدیوں کو ’’منا‘‘ یعنی بغیر کسی معاوضہ کے ان کو دے دیا۔ سریۂ قطبہ بن عامر بن حدیدہ، صفر سال نہم یہ سریہ قبیلہ خثعم پر بھیجا گیا تھا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس سریہ کو حکم تھا کہ بنی خثعم کو لوٹ لیں مگر کسی نے نہیں لکھا کہ ایسا حکم دینے کی کیا وجہ تھی۔ وہ قبیلہ کچھ مال دار نہ تھا، نہ ان کے پاس بہت سا اسباب یا مویشی تھے کہ کوئی بدظنی سے کہہ سکے کہ مال اور لوٹ کے لالچ سے ایسا حکم دیا تھا۔ بہر حال اگر درحقیقت ایسا حکم دیا گیا تھا تو ضرور اس کے لیے کوئی جائز سبب ہو گا۔ اس سریہ میں کل بیس آدمی بھیجے گئے تھے اور جو واقعہ ہوا اس کا بیان بھی مختلف ہے۔ ’’زاد المعاد‘‘ میں لکھا ہے کہ قبیلہ خثعم کے گائوں کا ایک آدمی ملا۔ اس سے کچھ حال پوچھا، وہ چلایا، غالباً اس غرض سے کہ گائوں والوں کو خبر ہو جاوے۔ اس کو لوگوں نے مار ڈالا۔ مگر ’’مواھب لدنیہ ‘‘میں اس کے قتل ہونے کا کچھ ذکر نہیں۔ پھر ’’زاد المعاد‘‘ میں لکھا ہے کہ رات کو سوتے میں گائوں پر حملہ کیا مگر ’’مواھب لدنیہ‘‘ میں رات کو حملہ ہونا بیان نہیں ہوا۔ بہرحال یہ لوگ اس گائوں پر جا پڑے۔ گائوں والے خوب لڑے اور طرفین کے آدمی مارے گئے اور زخمی ہوئے اور کچھ بھیڑ بکریاں جو ہاتھ لگیں اور کچھ عورتیں جو گرفتار ہوئی تھیں، ان کو مدینہ میں لے آئے۔ کسی نے نہیں لکھا کہ ان عورتوں کی نسبت کیا ہوا اور اس کا ذکر نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ چھوڑد ی گئیں کیوں کہ اگر وہ بطور لونڈیوں کے تقسیم کی جاتیں تو اس کا ضرور ذکر ہوتا۔ سریۂ ضحاک بن سفیان الکلابی، ربیع الاول سال نہم یہ سریہ بنو کلاب پر بھیجا گیا تھا۔ انھوں نے بھی اطاعت نہیں کی تھی۔ وہاں پہنچ کر اول ان کو مسلمان ہو جانے کو سمجھایا گیا۔ انھوں نے نہ مانا اور لڑے اور شکست کھا کر بھاگ گئے۔ سریۂ عبداللہ ابن حذافہ یا سریۂ علقمہ بن المحرز المدلجی، ربیع الاول سال نہم اس بات میں اختلاف ہے کہ اس سریہ کے سردار عبداللہ تھے یا علقمہ سیرت ھشامی میں لکھا ہے کہ علقمہ کے بھائی وقاص بن محرز المدلجی ذو قرد کی لڑائی میں مارے گئے تھے اس لیے علقمہ نے آنحضرت سے اجازت چاہی کہ وہ حبشہ کی قوم سے، جنھوں نے ان کو مارا تھا، ان کے خون کا بدلہ لے۔ اور کچھ عجب نہیں ہے کہ آنحضرت نے پہلے عبداللہ کو سردار قرار دیا ہو اور پھر علقمہ کو سردار کر دیا۔ یہ سریہ قوم حبشہ کی طرف بھیجا گیا تھا جن کی بغرض فساد کے جمع ہونے کی خبر پہنچی تھی۔ تین سو آدمی اس سریہ میں تھے۔ یہ لوگ دریا کی طرف جمع تھے اور جب علقمہ دریا کے ایک جزیرے میں جا کر اترے تو وہ لوگ بھاگ گئے اور علقمہ معہ اپنے لوگوں کے بغیر کسی جنگ کے واپس آ گئے۔ سریۂ حضرت علی بن ابی طالب الیٰ بنی طے ، سال نہم قبیلہ بنی طے کا سردار عدی بن حاتم تھا اور اس قبیلہ میں بطور بادشاہ کے سمجھا جاتا تھا اور سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند کرتا تھا اور کسی قسم کی اطاعت بھی نہیں کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی مرتضیٰ کو متعین کیا کہ اس قبیلہ میں جاویں اور ان کے پوجنے کا بت، جس کا نام فلس تھا، توڑدیں۔ یہ بت حاتم کے محلہ میں تھا۔ یہ لوگ دفعتہ وہاں پہنچے۔ عدی ابن حاتم بھاگ گیا اور ان لوگوں نے اس محلہ کو گھیر لیا اور لوٹ لیا اور بت کو توڑ ڈالا اور کچھ قیدی پکڑ لیے اور مدینہ میں واپس چلے آئے۔ انھیں قیدیوں میں حاتم کی بیٹی بھی تھی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف گذرے تو حاتم کی بیٹی نے اپنا حال عرض کیا۔ آپ نے کہا کہ عدی تیرا بھائی ہے جو بھاگ گیا ہے اور کچھ جواب نہیں دیا۔ دوسرے دن پھر اس نے کہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں اس بات کا منتظر ہوں کہ کوئی شخص تیری قوم کا ملے تو میں اس کو تیرے ساتھ کر کے آرام سے تیرے گھر تجھ کو بھیج دوں۔ عدی اس کا بھائی عیسائی تھا اور شام کی طرف بھاگ گیا تھا۔ انھیں دنوں میں ایک قافلہ شام کو جاتا تھا۔ حاتم کی بیٹی نے درخواست کی کہ اس کو اس قافلہ کے ساتھ شام میں اس کے بھائی کے پاس بھیج دیا جاوے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور کیا اور اس کو زاد راہ اور کپڑے عطا کیے اور روانہ کر دیا۔ وہ اپنے بھائی پاس پہنچ گئی۔ اس کے چند روز بعد عدی ابن حاتم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور مسلمان ہو گیا۔ اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ قبیلہ طے کے جس قدر قیدی تھے وہ سب چھوڑ دیے گئے۔ غزوۂ تبوک، رجب سال نہم تبوک۔ ایک قصبہ ہے شام اور وادی القریٰ کے درمیان۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی تھی کہ اہل روم نے شام میں بہت کثرت سے لوگ جمع کیے ہیں اور ہرقل نے ایک برس کے خرچ کے لائق رسد ان کو دے دی ہے اور بنی نحم اور بنی جذام اور بنی عاملہ اور بنی غسان سب ان کے ساتھ شریک ہو گئے ہیں۔ اہل روم سے مراد ہرقل کے لشکر سے ہے جو قسطنطنیہ کا شہنشاہ تھا اور شام اسی کے تحت حکومت میں تھا اور اسی زمانہ کے قریب اس نے ایران کو بھی فتح کر لیا تھا۔ اس خبر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لوگوں کے جمع ہونے اور لڑائی کا سامان مہیا کرنے کا حکم دیا اور مدینہ سے معہ لشکر کے روانہ ہوئے مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں پہنچے تو جس قدر مجمع کی خبر سنی تھی اس قدر کا مجمع ہونا صحیح نہیں تھا۔ بہرحال آپ نے تبوک میں قیام فرمایا۔ یوحنا بن روبہ جو ایلہ کا سردار اور عیسائی تھا اور اذرج اور جریا اور مقنا کے لوگ وقتاً فوقتاً آئے اور جزیہ دینے پر راضی ہوئے اور ان کو عہد نامہ لکھ دیا گیا۔ یوحنا کے نام ایلہ والوں کے لیے جو فرمان لکھا گیا تھا اس کا یہ مطلب تھا کہ ’’ایلہ والوں کو خدا اور رسول نے پناہ دی ہے۔ ان کی کشتیوں کو ، ان کے مسافروں کو ’خشکی و تری میں‘ ان کے لیے اللہ و رسول کی ذمہ داری ہے اور جو لوگ اہل شام و اہل یمن اور اہل بحرین ان کے ساتھ ہوں وہ بھی ان کے ساتھ امن میں ہیں اور اگر ان سے کوئی نئی بات پیدا ہو گی (یعنی دشمنی و عداوت کی ) تو ان کا مال (یعنی جزیہ دینا) ان کو بچا نہیں سکنے کا اور ہر ایک شخص کو ان کا پکڑ لینا جائز ہو گا۔ اور (اس حالت کے سوا) کسی کو جائز نہیں ہے کہ جہاں وہ جانا چاہیں اور جس رستہ سے جانا چاہیں تری کے یا خشکی کے ، ان کو منع کرے۔‘‘ غالباً اسی قسم کا یا اس کی مانند باقی لوگوں سے بھی، جنھوں نے جزیہ قبول کیا تھا، معاہدہ ہوا ہو گا۔ دومۃ الجندل کا سردار جس کا نام اکیدر بن عبدالملک تھا اور اس نواح کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا اور عیسائی مذہب رکھتا تھا اور کندی قوم کا تھا جو عرب کی ایک قوم ہے حاضر نہیں ہوا۔ اس کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید کو روانہ کیا۔ وہ اپنے محل سے معہ اپنے بھائی حسان کے گھوڑوں پر سوار ہو کر نکلا اور اس کے ساتھ اس کے سوار بھی تھے۔ خالد کے سواروں سے مقابلہ ہوا۔ حسان اس کا بھائی مارا گیا اور اکیدر گرفتار ہو گیا جب اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو اس نے بھی جزیہ دینے پر صلح کر لی اور اس کو چھوڑ دیا اور غزوہ تبوک ختم ہو گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کو واپس تشریف لے آئے۔ تبوک ہی کے مقام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل شہنشاہ روم کے نام خط روانہ کیا اور اپنا ایلچی بھیجاجس کی نسبت مسٹر گبن نے اپنی معروف و مشہور تاریخ میں یہ فقرہ لکھا ہے کہ ’’جب ہرقل جنگ فارس سے توزک اور شان کے ساتھ لوٹا تو اس نے مقام حمص میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ایلچیوں میں سے ایک کی ضیافت کی جو روئے زمین کے شاہزادوں اور اقوام کو دین اسلام کی دعوت کرتے پھرتے تھے۔ اسی بناء پر عرب والوں نے تعصب سے یہ خیال کیا کہ اس عیسائی بادشاہ نے خفیہ اسلام قبول کر لیا۔ ادھر یونانی یہ شیخی بگھارتے ہیں کہ ہرقل سے خود بادشاہ مدینہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے آ کر ملاقات کی اور روم کے بادشاہ یعنی ہرقل نے فیاضی سے صوبہ شام میں ایک عمدہ مقام آپ کو عطا کیا۔‘‘ مسٹر گبن نے بھی یہ مضمون رومیوں کی نسبت بطور طعن کے لکھا ہے اور ہر مورخ سمجھ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرقل کے پاس تشریف لے جانا اور اس کا کسی زمین کا دینا محض غلط ہے مگر ایشیا کے مورخوں اور رومی مورخوں کے بیان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کا ہرقل سے ملنا اور اس کا ایلچی کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا ثابت ہوتا ہے۔ بحث نسبت جزیہ کے جو لوگ مسلمان نہیں ہوتے تھے اور اپنے قدیم مذہب پر قائم رہتے تھے ان پر جو جزیہ مقرر ہوتا تھا اس کا مقصد سمجھنے میں لوگوں نے بڑی غلطی کی ہے۔ اور جو لوگ مخالف اسلام کے ہیں انھوں نے جزیہ مقرر کرنے پر بہت سا طعن کیا ہے۔ مسٹر لین نے اپنی کتاب مدالقاموس میں لکھا ہے کہ جزیہ قتل سے محفوظ رہنے کا معاوضہ تھا اور یہ ان کی نہایت غلطی ہے کیوں کہ امن کا ہو جانا یعنی لڑائی کا موقوف ہونا یا صلح کا ہو جانا یا کسی قسم کا معاہدہ ہونا گو کہ اس میں جزیہ کا دینا نہ قرار پایا ہو، قتل سے محفوظی کا سبب ہوتا تھا، نہ کہ جزیہ دینا۔ جزیہ ان لوگوں سے لیا جاتا تھا جو مسلمانوں کی زیر حکومت بطور رعیت کے رہنا قبول کرتے تھے۔ جو لوگ رعیب ہو کر رہتے تھے وہ ’’ذمی‘‘ کہلاتے تھے، یعنی مسلمانوں کی حکومت میں ان کے امن سے رہنے کے ذمہ دار ہیں۔ جیسے کہ اہل ایلہ کے نام فرمان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا تھا کہ ’’لھم ذمۃ اللہ و محمد النبی‘‘ پس جزیہ قتل سے محفوظ رہنے کا معاوضہ نہیں ہے۔ جزیہ دینے والے مسلمانوں کے ساتھ ہو کر مخالفوں سے لڑائی کو جانے سے بالکل بری تھے۔ لڑائی کی ضرورت سے جو خاص جہاز یعنی نقد و جنس مسلمانوں سے مانگا جاتا تھا اور لیا جاتا تھا اس سے وہ بری تھے۔ مسلمانوں سے نہایت سخت سالانہ ٹیکس یعنی چالیسواں حصہ مال کا لے لیا جاتا تھا، اس سے وہ لوگ بری تھے۔ ان سب امور کے عوض ایک نہایت خفیف سالانہ ٹیکس جو فی کس تین روپیہ کئی آنے سال ہوتا ہے، ان سے لیا جاتا تھا۔ پس اس تخفیف و رعایت کی جو ذمیوں کے ساتھ کی گئی تھی، حد نہیں۔ فرض کرو کہ ایک ذمی کے پاس چالیس ہزار روپیہ نقد موجود ہے اور اس کو اور قسم کی آمدنیاں تجارت وغیرہ سے بھی ہیں اور ایک مسلمان پاس بھی چالیس ہزار روپیہ نقد موجود ہے اور اس کے پاس اور کوئی آمدنی تجارت وغیرہ سے نہیں ہے۔ سال بھر کے بعد اس ذمی کو تو صرف تین روپے کئی آنے اور اگر اس کی جورو یا اور کنبہ ہے جس کی پرورش اس کے ـذـمہ ہے تو ہر ایک کی طرف سے بھی اسی قدر دینا ہو گا جس کی مقدار ایک عام طریقہ پر تیس چالیس روپیہ سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ مگر مسلمان کو بلا عذر اپنے صندوق خزانہ میں سے ایک ہزار روپیہ نقد نکال کر دینا ہو گا۔ جزیہ مسلمان ہونے پر کسی طرح رغبت دلا نہیں سکتا۔ بلکہ جس کسی کو ایمان سے زیادہ مال کی محبت ہو تو اس کو مسلمان ہونے سے باز رہنے پر رغبت دلا سکتا ہے۔ با ایں ہمہ جو ذمی غریب و مسکین تھے وہ جزیہ سے بھی معاف کر دیے جاتے تھے۔ جو خیال کہ مخالفین اسلام نے جزیہ کی نسبت کیا ہے اس کے غلط ہونے کی شہادت ایک اور حال کے زمانہ کے بڑے عیسائی عالم کی کتاب سے ثابت ہوتی ہے۔ وہ عالم عیسائی ’’معلم بطرس البستانی‘‘ ہے اور اس کی کتاب کا نام محیط المحیط ہے جو عربی زبان کی لغت میں اس نے لکھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ الجزیۃ خراج الارض وما یوخذ من اہل الذمۃ قیل لانھا تجزی عنہم ای تکفیہم معاملۃ الحربیین و قیل لانھا تکفیہم مؤنۃ الجہاد کالمسلمین۔ بحث نسبت محاربات کے ان تمام واقعات سے جو بیان ہوئے ، ظاہر ہوتا ہے کہ جو لڑائیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوئیں وہ چار طرح پر ہوئی تھیں: ۱۔ یا تو دشمنوں کے حملہ کے روکنے اور ان کے حملوں کے دفعہ کرنے کے لیے تھیں۔ ۲۔ یا دشمنوں کے ارادہ لڑنے اور حملہ کرنے اور لڑائی کے لیے لوگوں کے جمع کرنے کی خبر پا کر اس فساد کے مٹانے اور ان لوگوں کے منتشر کرنے کے لیے ہوئی تھیں۔ ۳۔ یا ان لوگوں پر حملہ کیا گیا تھا جنہوں نے عہد شکنی یا دغا بازی یا بغاوت کی تھی۔ ۴۔ یا خبر رسانی اور ملک کی اور قوموں کے حالات دریافت کرنے کو جو لوگ بھیجے جاتے تھے ان سے لڑائی ہو گئی تھی۔ پس یہ تمام لڑائیاں ایسی تھیں جو معمولاً ملکی انتظام میں اور امن و امان قائم کرنے میں واقع ہوئی تھیں اور دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ جس نے ملکی انتظام ہاتھ میں لیا ہو اور اس کو اس قسم کی لڑائیاں نہ پیش آئی ہوں۔ ان لڑائیوں کی نسبت یہ کہنا کہ زبردستی سے ہتھیاروں کے زور سے مسلمان کرنے کے لیے تھیں، ایک ایسا غلط قول ہے جس کو کوئی ذی عقل بجز اس کے جس کے دل میں تعصب بھرا ہو ، سچ تسلیم نہیں کر سکتا۔ یہ سچ ہے کہ جس قوم کی کسی ملک میں سلطنت اور حکومت ہوجاتی ہے، قدرتی طور پر اس قوم کے مذہب کو ، اور نہ صرف مذہب کو بلکہ رسم و رواج و عادات و اطوار کو، ترقی ہوتی ہے اور لوگ اس طرف مائل ہو جاتے ہیں اور یہ مقولہ کہ ’’الملک والدین توامان‘‘ ہر ایک قوم اور ہر ایک مذہب پر صادق آتا ہے۔ اسی طرح اسلامی حکومت کے سبب اسی قدرتی قاعدہ سے اسلام کی ترقی کو بھی مدد پہنچی۔ مگر ان لڑائیوں کو جو ملکی ضرورت اور امن قائم کرنے کے لیے ہوئیں، یہ کہنا کہ وہ اسلام پھیلانے کے لیے اور بہ جبر ہتھیاروں کے زور سے اسلام قبلوانے کے لیے تھیں، محض غلط ہے۔ بلکہ صرف اسلام ہی کی تاریخ میں ایک نہایت عجیب واقعہ پایا جاتا ہے جو اور کسی مذہب کی تاریخ میں نہیں ہے کہ فاتح قوم نے فتح کامل حاصل کرنے اور استقلال کامل پانے کے بعد اپنی مفتوح قوم کا دفعتہ مذہب اختیار کر لیا ہو۔ مذہب اسلام میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو مفتوح ملک کے باشندوں کو مذہبی آزادی کی مانع ہو۔ جزیہ جو ایک قسم کا ٹیکس ہے اس کی نسبت ہم بیان کر چکے کہ مسلمان سے بہ نسبت اس کے بہت زیادہ ٹیکس لیا جاتا تھا جو زکواۃ کے نام سے موسوم ہے اور اس لیے مسلمانی سلطنت میں غیر مذہب والے مسلمانوں کی بہ نسبت زیادہ آسودہ حال اور دولت مند رہتے تھے اور لڑائی میں شریک ہونے کی مصیبتوں سے بالکل محفوظ تھے۔ تسلیم کیا جاوے کہ بعض مسلمان بادشاہوں نے غیر مذہب والوں پر ظلم کیا اور ان کی مذہبی آزادی کو برباد کر دیا مگر ایسا کرنا ان کا ذاتی فعل تھا جس کے وہ خود ملزم ہیں نہ مذہب اسلام۔ بلاشبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد قوم عرب کے بتوں کو توڑ دیا مگر اس بت شکنی کی نظیر محمود غزنوی کی یا عالمگیر کی اور کسی بادشاہ کی بت شکنی کی نہیں ہو سکتی۔ کعبہ ایک مسجد تھی حضرت ابراہیم کی بنائی ہوئی خدائے واحد کی عبادت کے لیے۔ اس کے بعد جب عرب بت پرست ہو گئے تو اس مسجد میں انھوں نے بت رکھ دیے تھے جن کا برباد کرنا اوردین ابراہیم کا اس میں جاری کرنا ابراہیم کے پہلونٹے بیٹے کے بیٹے کو لازم تھا۔ قوم عرب جس کا غالب حصہ ابراہیم کی نسل سے تھا اور جس قوم و نسل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے، اس قوم کو بتوں کی پرستش سے چھڑانا اور ابراہیم کے خد اکی پرستش سکھانا ضرور تھا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی قوم کے بت توڑے تھے۔ اس سے دیگر اقوام کے مذہب کی آزادی کو ضائع کرنا لازم نہیں آتا۔1 مسلمانوں کی تاریخ میں جہاں بت شکنی اور غیر مذہب کے معبدوں کے برباد کرنے کی مثالیں ملتی ہیں، اسی طرح ہزاروں مثالیں اس کے برخلاف بھی موجود ہیں۔ مسلمانوں کی سلطنت دنیا کے ایک بہت بڑے وسیع حصے میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی حکومت میں مختلف مذہب کی قومیں رہتی تھیں۔ تمام سنیگاگ (یہودیوں کے گرجا) اور تمام گرجے جو زیادہ تر رومن کیتھلک مذہب کے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ صاف اور سیدھی بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حقیقی وارث تھے اور کعبہ حضرت ابراہیم نے بنایا تھا۔ جب اس مکان کا اصل وارث اور مالک پیدا ہوا تو اس نے اپنے باپ کے مکان میں سے بتوں کو نکال کر پھینک دیا۔ جو ناجائز طور پر اس میں رکھے گئے تھے۔ اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ کون شخص اپنے مکان میں غیر کا دخل برداشت کر سکتا ہے جو آنحضور کرتے۔ جس مقصد کے لیے حضرت ابراہیم نے یہ گھر بنایا تھا۔ ان کے فرزند محمد نے اس غرض کے لیے اس کو خاص کر دیا۔ یعنی محض خدا کی عبادت کے لیے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدستور قرنائے اور گھنٹے بجا لاتے تھے۔ تمام ملک میں ناقوس کی آواز گونجتی تھی۔ مندروں میں بت موجود تھے۔ ہر ایک قوم اپنے مذہب میں آزاد تھی۔ پس ان تمام حالات کو جو نہایت کثرت سے تھے بھول جانا اور چند واقعات کو جو اس کے برخلاف شخصی طبیعت سے واقع ہوئے تھے، نظیر پیش کر کے یہ کہنا کہ اسلام نے مذہبی آزادی کو مٹایا تھا، محض ناانصافی ہے اور اصول مذہب اسلام کے بالکل برخلاف ہے۔ رہی یہ بات کہ انبیاء کو اس قسم کی لڑائیاں کرنی زیبا ہیں یا نہیں، اس سے انکار کرنا اور اس کو نازیبا قرار دینا قانون قدرت کے برخلاف ہے۔ تمام انبیاء جب کہ قوم کی اصلاح اور ان کے مذہب کی درستی کو کھڑے ہوتے ہیں تو ابتدا میں عموما ً ان کے دشمن چاروں طرف ہوتے ہیں ۔ اگر وہ اپنی حفاظت اور مخالفوں سے محفوظ رہنے کی کوشش نہ کرتے تو دنیا میں نہ آج یہودی مذہب کا وجود ہوتا اور نہ اور کسی مذہب کا اور نہ عیسائی مذہب کا اگر بعد حضرت مسیح کے اس کے لیے ایسا زمانہ نہ آتا جس میں اس کے پیروئوں کے مخالفوں سے حفاظت کی گئی اور بزور حکومت اس کو ترقی دی گئی۔ قرآن مجید میں نہایت عمدہ اور بالکل سچ بات خدا نے فرمائی ہے کہ ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلواۃ و مساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا۔ (سورہ حج ۲۲۔ آیت ۴۱) اگر نہ ہوتا دفع کرنا اللہ کا آدمیوں کو ایک دوسرے سے تو ضرور ڈھا دی جاتیں عیسائیوں اور درویشوں کی خانقاہیں اور گرجے اور یہودیوں کے معبد اور تمام نماز گاہیں اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں بہت زیادہ خدا کا ذکر کیا جاتا ہے پس یہ کہنا کہ انبیاء کو ایسی لڑائیاں نازیبا ہیں ایک ایسا قول ہے جس کو قانون قدرت مردود کرتا ہے۔ لوگ حضرت موسی کے کاموں کو تو بھول جاتے ہیں اور غریبی اور مسکینی اور مظلومی کی مثال میں حضرت مسیح کو پیش کرتے ہیں۔ مگر حضرت مسیح نے جب اپنے تئیں خلقت کے سامنے پیش کیا اس وقت سے اور حضر ت مسیح کی وفات تک نہایت قلیل زمانہ قریب تین برس کے گذرا تھا اور صرف ستر آدمیوں کے قریب ان پر ایمان لائے تھے۔ ان کو مطلق ایسی قوت جس سے وہ اپنے دشمنوں کو دفع کر سکیں، حاصل نہیں ہوئی تھی اور اسی سبب سے کاڈوری کی پہاڑی پر وہ افسوس ناک واقعہ ہوا۔ اس کے بعد اگر اس کے ایسے حامی نہ پیدا ہو جاتے جو دشمنوں کو دفع کر سکے تو آج دنیا میں ایک بھی گرجا اور ایک بھی خانقاہ نہ دکھائی دیتی۔ علاوہ اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو روحانی بادشاہی کے سوا سلیمان جیسی سلطنت کے انتظام میں داخل ہو جانے میں ایک بہت بڑی مجبوری تھی۔ عرب میں بادشاہت کا وجود نہ تھا۔ ہر ایک قبیلہ کا سردار ان کا حاکم ہوتا تھا اور جس کو سب لوگ بڑا سمجھتے تھے اس کو بہ مجبوری افسر بننا اور تمام ملکی انتظام کرنا لازم تھا۔ جب کہ تمام قبائل رفتہ رفتہ مسلمان ہو گئے تو امکان سے خارج تھا کہ وہ لوگ سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی کو اپنا سردار تسلیم کرتے اور تمام حالات ملکی بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے اور کسی کے حکم سے تعمیل پاتے۔ پس ہر بات پر انصاف سے غور کرنا چاہیے نہ تعصب سے۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End