اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید نایاب رسائل و مضامین جلدشانز دہم حصہ اول مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقالات سرسید سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کو حاصل ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے اور اپنے پیچھے نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مضامین جہاں ادبی لحاظ سے وقیع ہیں، وہاں وہ پر از معلومات بھی ہیں۔ ان کے مطالعے سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مذہبی مسائل اور تاریخ عقدے حل ہوتے ہیں اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں اور سیاسی و معاشرتی لحاظ سے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ نیز بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی ان میں موجود ہیں سرسید کے ان ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا ہدف رہے ہیں ان مضامین میں علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی، مزاح بھی ہے اور طنز بھی، درد بھی ہے اور سوز بھی، دلچسپی بھی ہے اور دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے اور سرزنش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اور ہر قسم کے خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے، وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اور کہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات و رسائل کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام کے لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اور نا مکمل، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ گزر گیا مگر کسی کے دل میں ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا اور کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا آخر کار مجلس ترقی ادب لاہور کو ان بکھرے ہوئے بیش بہا جواہرات کو جمع کرنے کا خیال آیا مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں پرونے کے لیے مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا انتخاب کیا جنہوں نے پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میں دور و نزدیک کے سفر کیے فراہمی مواد کے لیے ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا، مگر چونکہ ان کی طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری باحسن طریق پوری کی چنانچہ عرصہ دراز کی اس محنت و کاوش کے ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں’’ مقالات سرسید‘‘ کی مختلف جلدوں کی شکل میں فخر و اطمینان کے جذبات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ تمہید میںمقالات سر سید کے اس سولہویں حصہ میں سر سید کے ایسے رسائل و مقالات قارئین کرام کی خد مت میں پیش کر رہا ہوں جو عام طور سے نایاب و نا پید ہیں اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیںجن کا عام طو ر پر پاکستان و ہندوستان کے علمی ذوق رکھنے والے بزرگوں اور سر سید کی تصانیف سے واقف اصحاب کو بھی پتہ نہیں۔ مجھے ان رسائل و مقالات کی تلاش و فراہمی میں بہ کافی مشکلات تکالیف برداشت کرنی پڑیں۔ بد معاملگی ، بخل اور بد طینتی کے بھی میں نے اس سلسلہ میں متعدد ناگوار مظاہرے دیکھے۔ سب و شتم اور بدکلامی و بد زبانی کے کڑوے گھونٹ بھی مجھے اس کوشش میں مجبورا پینے پڑے۔ روپیہ بھی میرا دو سو کے قریب ان گم شدہ موتیوں کی تلاش میں خرچ ہوا۔ انتظار کی بھی سخت گھڑیاں مجھے ان مسودات کے حصول میں سہی پڑیں ۔ پاک و ہند کی کئی معروف لائبریریوں کی بھی خاک چھاننی پڑی۔ مگر اللہ تعالیٰ کا ہزار شکر و احسان ہے کہ میری عرصہ دراز کی بھاگ دوڑ اور سعی و جستجو ا س بارے میں بیکار نہیں گئی ۔ اگرچہ ان درہائے نایاب کی تلاش میں دیر بہت لگی مگر الحمداللہ ثم الحمد اللہ کہ میں بلاآخر اپنی کوشش میں کامیاب ہوا اور آج اس کوشش کے شیریں پھل نہایت مسرت کے ساتھ اہل علم اور صاحبان ذوق کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ سر سید کے جو نادر و نایاب رسائل و مقالات میں کتاب کے اس حصہ میں درج کر رہا ہوں۔ ان کاسلسلہ ۱۸۴۰ء سے ۱۸۹۶ء تک پھیلا ہوا ہے۔ جو رسائل میں نے یہا ں جمع کیے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے۔ ۱۔ جام جم: یہ سرسید کی سب سے پہلی تصنیف ہے جسے انہوں نے ۱۸۴۰ء میں جب کہ ان کی عمر ۲۳ بر سکی تھی فارسی زبان میں لکھا۔ کیوں کہ اس وقت ہندوستان میں فارسی کا عام رواج تھا اور ہندو مسلمان اہل علم فارسی ہی میں خط و کتابت کرتے اور فارسی ہی میں تصنیف و تالیف کرتے تھے اردو کا اتان زیادہ رواج ابھی نہ ہوا تھا ۔ اگرچہ وہ بھی سرعت کے ساتھ پھیلی جا رہی تھی اور وہ وقت قریب نظر آرہا تھا جب یہ تمام ملک کی متحدہ زبان بن جائے گی ۔ اس کتاب میں سر سید نے خاندان مغلیہ کے تمام بادشاہوں کاحال جدولوں اور نقشوں کی صورت میںبیان کیا ہے امیر تیمور سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کل ۴۳ فرمانرواؤں کا اس میں مختصر مگر نہایت جامع تذکرہ کیا گیا ہے ۔ ہر بادشاہ کے متعلق جو خانے اس میںرکھے گئے ہیں وہ یہ ہیں۔ نام فرمانروا ، نام پدر، نام مادر ، قوم ، سال ولادت ، محل جلوس، عمر بر وقت جلوس ، سال جلوس ، تاریخ جلوس ، مدت سلطنت ، مدعت عمر ، سال وفات ، تاریخ وفات ، لقب بعد وفات، مدفن ، کیفیت ، یہ کتاب سر سید نے قریبا سات مہینے کی کوشش کے بعد ۱۰ صفر ۱۲۵۵ ھ مطابق ۲۵ مئی ۱۸۳۹ ء کو ختم کی۔ اس زمانہ میں عام دستور تھا کہ لوگوں کی وفات کے علاوہ کتابوں کی تصنیف و تالیف کے اقتام کی تاریخیں بھی کہی جاتی تھیں۔اسی دستور کے مطابق اس کتاب کی تاریخ تصنیف بھی اس وقت کے مشہور شاعر مرزا حاتم علی نے کہی جو سر سید کے کتاب کے آخر میں در ج کی ہے۔ تصنیف کے ایک سال کے بعد ماہ مئی ۱۹۴۰ ء میں ’’پچھاپہ سنگ لیتھو گرافک بقالب طبع در آمد‘‘ اس وقت سر سید آگرہ میں سرکاری ملاز م تھے۔ ۲۔تسہیل فی جرا الثقیل : یہ علم جر الثقیل کے متعلق ایک مختصر مگر جامع رسالہ ہے۔ جسے حکیم ابو ذر نامی علم جو الثقیل کے ایک فاضل نے جو یعمن کا رہنے والا تھا عربی زبان میں تصنیف کیا تھا ۔ بعد کے ایام میں ایران کے ایک فاضل اجل ابو علی نے اس کتاب کا خلاصہ فارسی زبان میں مرتب کیا اور معیار العقول اس کا نام رکھا۔ اس فارسی خلاصہ کا ذکر ایک مرتبہ سر سید نے کپتان جارج ولیم ہملٹن اور پادری جان جیمس مور سے کیا ۔ جن کو اس علم سے خاص دلچسپی تھی ۔ تو ان دونوں نے سر سید سے اس رسالہ کے اردو ترجمہ کی فرمائش کی۔ چنانچہ انہوں نے ۱۲۵۹ ھ مطابق ۱۸۴۳ ء میں اس کا اردو میں ترجمہ کیا اور اپنے استاد مولوی نور الحسن کی اصلاح اور درستی کے بعد آگرہ کے تییموں کے چھاپہ خانہ میں ۱۸۴۴ء میں چھاپ کر شائع کیا۔ اس رسالہ میں بھاری چیزوں کے اٹھانے ، سخت چیزوں کے چیرنے اور موٹی چیزوں کو دبانے کے لیے مشینیں بنانے کی ترکییبیں اور ان کے استعمال کے قاعدے بنائے گئے ہیں۔ ۳۔ترجمہ فوائد الافکار فی اعمال الفرجار علم ہیئت اور آلات رصد کے متعلق یہ رسالہ سر سید کے نانا دبیر الدولہ امین الملک خواجہ فرید الدین احمد خان بہادر مصلح ج نگ وزیر اکبر شاہ ثانی بادشاہ دہلی کی تصنیف تھا۔ خواجہ فرید الدین علم ریاضی کے بہت بڑے فاضل تھے اور آلات رصد کے علم میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے اس رسالہ کا ترجمہ بھی سر سید نے ولیم ہملٹن اور پادری جیمس مورکے کہنے سے اردو میں کیا تھا اور ڈاکٹر استنچر پرنسپل مدرسہ دہلی کے حکم سے چھاپہ خانہ سید الاخبار دہلی میں چھپا تھا سال طباعت ۱۸۴۶ء ہے۔ ۴۔ شاہ جہان آباد کے لوگوںکا بیان: سر سید کے زمانہ میں جو اہل علم ، صاحبان کمال، مشاہیر کرام ، صوفیائے عظام ، شعراء ، خطاط ، مصور اور ارباب موسیقی دہلی میں موجود تھے، سر سید نے ان میں سے بعض خاص خاص افراد کا ذکر اور ان کا حال اپنی مشہور تصنیف ’’آثار الصنادید ‘‘ کے آخر میں لکھا تھا۔ جو ۱۸۴۷ء میںپہلی بار چھپی تھی ۔ مگر آثار الصنادید کے بعد کے اڈیشنوں میںیہ بیان نہیں ہے ۔ چوں کہ یہ ایک نایاب اور معلوماتی چیز تھی۔ لہذا ہم نے تلاش کے بعد یہ حالات مہیا کیے اور آج اسے بعض کار آمد او رمفید حواشی کے ساتھ ہدایہ ناظرین کر رہے ہیں۔ ۵۔ قول متین در ابطال حرکت زمین: زمانہ قدیم کے تمام حکماء او ر فلاسفر اس بات کو مانتے تھے کہ زمین ساکن ہے اور سورج ا س کے گرد گھومتا ہے۔ مگر جدید سائنس نے یہ امر ثابت کر دیا کہ علماء کا پہلا نظریہ غلط تھا ۔ واقعہ یہ ہے کہ زمین ساکن نہیں ہے بلکہ سورج کے گرد گھومتی ہے اور یہ تمام نظام شمسی مععہ سورج کے ایک اور سورج کے گرد گھوم رہا ہے ۔ ق وقس ہذا یہ لا متناہی سلسلہ نہ معلوم کہاں تک جاری ہے۔ سر سید چوں کہ پرانے مکتبہ فکر کے تعلیم تافتہ تھے اس لیے فطرۃ اور تقلید ا قدیم عقائد اور پرانے نظریات پر قائم تھے ۔ اسی قدیم تعلیم اور پرانے خیال کا اثر تھا کہ جب انہوں نے پڑھا کہ موجودہ زمانہ کے سائنس دان اس پرانے عقیدہ کے قائل نہیں تو انہوں نے اس قدیم خیال کی تائید اور حمایت میںیہ رسالہ لکھا۔ جو آج تک سو سولہ برس کے بعد تبرک کے طور پر دوبارہ منظر عام پر لایا جار ہاہے ۔ تاکہ قارئین کرام کو پتہ لگے کہ ہمارے پرانے زمانہ کے فضلاء اور علماء زمین کے ساکن ہونے اور سورج کے متحرک ہونے کے کیا کیا دلائل دیا کرتے تھے۔ سر سید نے یہ رسالہ اپنے بھائی کے چھاپہ خانہ میں جس کا نام مطبع سید الاخبار تھا۔ بمقام دہلی ۱۲۷۶ ھ مطابق ۱۸۴۸ ء میں چھپوا کر شائع کیا تھا ۔ ۶۔ دیباچہ تاریخ فیروز شاہی: ضیاء الدین برنی ایک بلند پایہ ادیب ، نامور انشا پرداز اور بہت مشہور مورخ تھا جو ۶۸۳ ھ مطابق ۱۲۸۴ ء میںبمقام دہلی انتقال کیا۔ حضرت شاہ نظام الدین اولیاء رحمت اللہ علیہ کا مرید ارو فیروز شاہ تغلق بادشاہ دہلی کا ندیم تھا ۔ اس نے اپنے ممدوح کے لیے ہندوستان کی ایک مستند اور معتبر تاریخ فارسی میںلکھی ہے ۔ جس میں غیاث الدین بلبن سے لے کر فیروز شاہ تغلق تک کے حالات قلم بند کیے ہیں۔ اس تاریخ کا نام اس نے اپنے ممدوح کے نام پر ’’تاریخ فیروز شاہی ‘‘رکھا ۔ جو علمی طبقہ میں ’’تاریخ فیروز شاہی ضیائے برنی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس نایاب تاریخ کے جو قلمی نسخے مختلف جگہ ملتے تھے وہ جا بجا سے غلط بھی تھے اور ایک دوسرے کے مخالف بھی۔ جب ایشیاٹک سوسائٹی بنگال نے اس کتاب کو چھاپ کر شائع کرنا چاہا۔ تو چوں کہ سر سید کو اس قسم کی علمی تحقیق کا نہایت شوق تھا اور وہ ایسے کاموں میںبہت دلچسپی لیا کرتے تھے ۔ اس لیے سوسائٹی کے سیکرٹری نے ۱۸۶۱ ء میں سر سید کو لکھا کہ اگر آپ سوسائٹی کے لیے تاریخ فیروز شاہی کا ایک نہایت صحیح نسخہ مرتب کر دیں تو سوسائٹی آپ کی بہت ممنون ہوگی اوراسے فورا چھاپ کر شائع کر دے گی ۔ چوں کہ یہ سرسید کی نہایت دلچسپی کی چیز تھی ۔ لہذا نہایت خوشی کے ساتھ وہ اس علمی خدمت کے لیے تیار ہوگئے۔ اس کام کے لیے انہوں نے کتاب کے چار نسخے مختلف مقامات سے حاصل کیے۔ ۱۔ ایک نسخہ تاریخ فیروز شاہی کا ان کو کتب خانہ شاہ دہلی سے میسر ہوا ۔ مگر یہ نسخہ بہت ناقص تھا ۔ ۲۔ دوسر انسخہ انہوں نے وہ حاصل کیا جو مسٹر ایلیٹ نے اپنی مشہور کتاب ’’ہسٹری آف انڈیا ‘‘ لکھتے وقت بہم پہنچایا تھا۔ ۳۔ تیسرا نسخہ اس کتاب کا ان کو مسٹر ایڈورڈ ٹامس سے ملا۔ ۴۔ چوتھا نسخہ ان کو بنارس سے دستیاب ہوا۔ ان چاروں نسخوں میں جو سر سید نے فراہم کیے تھے غلطیاں بھی تھیں اور بعض نقائص بھی، تضاد بھی تھا او ر اختلاف بھی، سر سید نے بڑی کوشش ، جانکاہی اور عرق ریزی و دماغ سوزی کے بعد ان کا باہم موازنہ او رمقابلہ کرکے بڑی احتیاط کے ساتھ ایک صحیح اورمکمل نسخہ مرتب کیا۔ سر سید نے کتاب کو ایڈٹ کرنے کے بعد اس پر ایک مبسوط مقدمہ لکھا پھر اسے ایشیا ٹک سوسائٹی بنگال کو کلکتہ بھیج دیا ۔ اور سوسائٹی نے سر سید کے نہایت شکریہ کے ساتھ اسے ۱۸۶۲ء میں چھاپ کر شائع کر دیا۔ اس کے بعد جب ۱۸۶۶ء سر سید نے اخبار ’’سائنٹیفک سوسائٹی ‘‘علی گڑھ سے نکالا تو اس کے ۲۴ اگست ۱۸۶۶ ء کے شمارہ میں اس دیباچہ کو علیحدہ بھی شائع کیا جو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں تھا ۔ کیوںکہ اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھی اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں چھپا کرتا تھا۔ ۷۔ قدیم نظام دیہی ہندوستان: یہ ایک ایسی ناپید اور نایاب کتاب ہے کہ نہ اس کے متعلق مولانا حالی کو معلوم تھا کہ سر سید نے یہ کتاب بھی لکھی ہے اور نہ یہ کتاب مسلم یونیورسٹی علی گڑھی کی لائبریری میں موجو دہے ۔ نہ کسی تذکرہ نویس یامورخ نے آج تک سر سید کی تصنیفات میں اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب نہایت غیر معروف طور پر کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد دکن کی ایک الماری میںکسی مپرسی کے عالم میںپڑی تھی اور کسی کی بھی اس کیطرف توجہ نہ تھی ۔ میںنہایت ہی ممنون ہوں اپنے محترم دوست محمد اکبر الدین صاحب صدیقی ایم ۔ اے لکچرار عثمانیہ یونیورسٹی حید ر آباد دکن کا کہ انہوں نے کتب خانہ آصفیہ کنگھال کر وہاں سے یہ کتاب نکالی۔ نہ صرف انہوں نے اس نایاب چیز سے مطلع کیا بلکہ نہایت مہربانی فرماکر ا سکی مکمل نقل بھی مجھے بھیج دی۔ جسے میں محترمی پروفیسر صاحب کے نہایت درجہ شکریہ کے ساتھ اس مجموعہ میں شامل کر رہا ہوں۔ اگر صدیقی صاحب انتہائی تلاش اور کوشش کے ساتھ یہ نسخہ میرے لیے فراہم نہ کرتے تو واقعہ یہ ہے کہ مجھے اس کاکبھی بھی پتہ نہ لگتا اور نہ یہ کتاب منظر عام پر آسکتی۔ ہندوستان کے دیہات کے قدیم نظام پر یہ مقالہ سر سید نے ۱۸۷۸ء میں تصنیف کیا تھا اس کی عبارت نہایت دلچسپ بڑی خوبی کے ساتھ یہ بیان کیا ہے کہ ہندوستان میں دیہاتیوں نے قدیم زمانہ میںاپنی دیہی معاشرت، اپنی تجارت ، اپنی زراعت اور اپنے مختلف مشاغل کو ایسی خوبی اور عمدگی کے ساتھ مرتب اور مدون کیا تھا کہ اسکو اگرچہ صدیاں گزرگئیں مگروہ آج بھی اسی طرح بغیر تغیر اور بغیر تبدیلی کے قائم ہے ۔ اس کتاب کو پڑھ کر حیرتی ہوتی ہے کہ ایسے خشک مضمون کو سر سید نے اپنی قابلیت کے ساتھ کیسے شگفتہ طریقہ پر پیش کیا ہے اور کس خوبی کے ساتھ تمام متعلقہ امو ر کو نہایت تفصیل اور جامعیت سے بیا ن کیا ہے ۔ اس کتاب کو پڑھ کر اور سر سید کی دوسری تصنیفات کو دیکھ کر نہایت تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ قدرت نے سر سید کے وجود میں کس طرح مختلف قابلیتیں اور مختلف لیاقتیں ایسی خوبی کے ساتھ جمع کر دی تھیں۔ ۸۔ سیرۃ فریدیہ: سر سید کے نانا دبیر الدولہ، امین الملک خواجہ فرید الدین احمد ، خان بہادر ، مصلح جنگ ، وزیر اعظم اکبر شاہ ثانی بادشاہ دہلی نہایت دانش مند، صاحب الرائے، مدبر اور صاحب علم و فضل بزرگ تھے ۔ مختلف علو م وفنون میں کامل دستگاہ رکھتے تھے ۔ خصوصا ریاضیات اور علم ہیئت کے زبردست فاضل اور ماہر تھے۔ سر سید نے اپنے ا س نامور نانا کی سوانح عمری لکھی جو بہت دلچسپ اورعجیب حالات پر مشتمل ہے ۔ کتاب کے آخر میں سر سید نے اپنی والدہ کے مفصل حالات بہت ہی عمدگی کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ جن کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت عابدہ و زاہدہ، عقل مند و دانا، منتظم ، امور خانہ داری سے پوری واقف ، نہایت مہمان نواز ،ہمدرد اور مخیر خاتون تھیں۔ ان کے جتنے حالات سر سید نے لکھے ہیں وہ سب نہایت اثر انگیز ، لائق عمل اور قابل تقلید ہیں ۔ یہ کتاب ۱۸۹۶ ء میں مطبع مفید عام آگرہ میں چھپی۔ میںنے اس کتاب کے لیے علی گڑھ لکھا تھا کہ مسلم یونیورسٹی لائبریری سے نقل کر کے بھیج دی جائے۔ نقل کرائی کی اجرت بھی نہایت معقول (چار گنی زیادہ) پیشگی ادا کر دی تھی ۔ مگر بھیجنے والے صاحب نے روپیہ وصول کرنے کے بعد شروع کے د س صفحے بھیج دیے۔ جب میںنے ان کو لکھا کہ یہ آ پ نے کیا کام کیا؟ یہ دس صفحے میرے کس کام کے ہیں؟ تو ا نہوںنے نہایت مہربانی فرما کر کتاب کے آخر کے دس صفحے بھیج دیے اور درمیان کے صفحے خود رکھ لیے۔ میںاس عجیب و غریب حرکت سے بڑا پریشان ہوا اور میںنے ان صاحب کو بڑی زاری سے لکھا کہ ’’محترم ! یہ عجیب معمہ میری سمجھ میںنہیںآیا ۔ کتاب جب تک پوری نہ آئے اس وقت تک میرے لیے قطعا بیکار او ر ردی میںپھینک دینے کے قبال ہے۔ کتاب کے درمیانی صفحے بھی براہ کرم بھیج دیجئے تاکہ کتاب مکمل ہوجائے اور میرے کام آجائے ‘‘ میری اس التجا کا ان محترم نے کوئی جواب نہ دیا۔ میںنے بعد میںکئی خط ان صاحب کی خدمت میں روانہ کیے مگر ان کی مہر خاموشی نہیں ٹوٹی۔ نہایت ہی مایوس ہو کر اور کوئی چارہ کار نہ دیکھ کر میںنے محترمی پروفیسر محمد اکبر الدین صاحب ،ناظر ادبی ادارہ ادبیات اردو کو حیدر آباد دکن لکھا کہ ’’آپ کہیں سے اس کتاب کا نسخہ حاصل کرکے اس کی نقل مجھے بھجوا دیں۔ نقل میں جو کچھ بھی خرچ ہوگا میں ادا کر دونگا۔‘‘ پروفیسر صاحب کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ خوش رکھے ۔انہوں نے باوجود سخت مصروفیت اورعدییم الفرصتی کے ساری کتاب خود اپنے قلم سے نقل کی اور مجھے بھیج دی۔ میں ان کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس پر خلوص نیکی کی جزائے خبر دے۔ جس کے باعث میں اس کتاب کو اس مجموعہ میں شامل کر سکا۔ جب یہ مکمل نقل میرے پاس پہنچ گئی ۔ تو میں نے وہ نامکمل اوراق علی گڑھ واپس بھیج دے اور یہ کہہ کر خاموش ہو گیا کہ ’’ بھولے برہمن گٹو کھائی اب کھاؤن اب کھاؤں تورام دھائی۔‘‘ یہ ہے مختصر کیفیت ان نایاب اور ناپید رسائل و مقالات کی۔ جو میں اس مجموعہ میں شامل کر رہا ہوں۔ ان کی تلاش و جستجو میں جن محترم حضرات اور احباب نے میری دست گیری اور اعانت فرمائی ہے۔ ان میں اولین نام حضرت مولانا مولوی حاجی محمد مقتدی اور عنایتوں کی بدولت ان نایاب کتابوں کی نقول کاکام شروع ہوا۔ اگرچہ حضرت مولانا کی مہربانیوں اور نوازشوں کا سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔ تاہم میں حضرت حاجی صاحب کا نہایت ممنون اور شکر گزار ہوں ۔ حضرت مولانا نے اس معاملہ میںجس سرگرمی کا مظاہرہ فرمایا اس کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ کتابوں کی نقلوں کے متعلق حضرت حاجی صاحب نے نہایت پیرانہ سالی کمزوری اور عوارض کے باوجود وقتا فوقتا مجھ خاکسار کو اسی سے زیادہ خطوط لکھے ۔ جن میں سے اکثر خاصے طویل ہیں۔ ان سب مکتوبات عالیہ کو میںنے اپنے پاس نہایت احتیاط کے ساتھ بطور تبرک رکھا ہوا ہے۔ اس علمی کاوش و تلاش میں دوسرے معاون و مددگار میرے نہایت ہی شفق اور مخلص دوست جناب محمد اکبر الدین صاحب صدیقی ایم۔ اے لیکچرار جامعہ عثمانیہ اور ناظر ادبی ادیبات اردو حیدر آباد دکن ہیں۔ جنہوں نے نہایت درجہ خلوص و محنت کے ساتھ باوجود نے حد عدیم الفرصتی اور مشغولیت کے اپنا ہرجہ اور نقصان کر کے اس کام میں میری مدد اور اعانت فرمائی ۔ اگر جناب موصوف میری رہنمائی اور دست گیری اس کام میںنہ فرماتے تو میں ہرگز بھی مقالات سر سید کے اس حصہ کو مرتب نہ کر سکتا ۔ یوں سمجھوں کہ خدا نے غیب سے ایک فرشتہ محمد اکبر الدین کی شکل میںمیرے پاس بھیج دیا۔ جس نے میرے سارے کام بڑی خوش اسلوبی اور عمدگی سے فورا کر دیے۔ نہ صرف یہ کام بلکہ اور جس ضرورت کے لیے بھی میںنے ان کو دیکھا انہوں نے اپنے ہزار کام چھوڑ کر میری خواہش پوری کر دی۔ جزاء ہم اللہ احسن الجزا۔ میں اس سلسلہ میں اپنے اور محسن او رہمدرد کا بھی تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جن کی سعی و کوشش اس معاملہ میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور جنہوں نے بڑ ی فراخ دلی کے ساتھ میری ہر طرح کی بے انتہا مدد کی۔ لیکن صد ہزار افسوس کہ بعض خاص مصلحتوں کی وجہ سے میں مجبو رہوں کہ ان کا اسم گرامی ظاہر نہ کروں۔ مگر میرے دل میںان کے لیے احترام کا بے حد جذبہ موجود ہے۔ اور میرے دل کی گہرائی سے ان کے لیے دعا نکل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ خوش و خرم رکھے اور ان سے دنیا اپنی علمی پیاس بھجاتی رہے۔ اللہم آمین ۲۰ جنوری ۱۹۶۵ئ خاکسار محمد اسماعیل پانی پتی رام گلی نمبر ۳۔ لاہور جام جم تالیف منشی سید احمد خان دہلوی بماہ مئی ۱۸۴۰ء در چھاپہ خانہ مستقر الخلافہ اکبر آباد بقالب طبع درآمد بسم اللہ الرحمن الرحیم از انجا کہ کلزمین خیر البقاع دہلی کہ پارہ ازان از وقت کل کردن نہال دولت شاہ جہاں بادشاہ صاحب قران ثانی اسکنہ اللہ بحبوحتہ جنانہ بحضرت شاہ جہاں آباد موسوم است ہمیشہ دار الایالت راجہائے والا شان و دارلخلافت بادشاہان عالی دودمان بودہ و اکثرے از بلدہ ہائے شرقیہ و شہر ہائے شمالیہ وغیر ہ تحت حکومت این حکام ذوی الاقتدار ماندہ یکے ا ز سلسلہ ہائے فرماں روایان ابن افضل البلاد خاندان والا شان گور گانیہ است کہ حلقہ اطاعتش بگوش شاہان گیتی رشک ہلال است واز ریزش سحاب افضالش عالمے از زر وگوہر چون سینہ صدف و گنجینہ کان مالا مال۔ لہزا اندیشہ نارسائی پیشہ راقم این حروف کہ بہ سید احمد خان خاص و عام را زبانزد است بر ایں معنی قرار یافت کہ مجملے ا ز حال شاہان سلف و سلاطین خلف بطور جدولے در قید قلم آرد کہ طالبان حال و استقبال ا زورق گردانی مطولات تواریخ استراحت یابند و مقاصد ضروریہ را باسانی دریابند۔ چوںخواہش اطلاع حال والا نسبتان خاندان چغتائی دامن ضمیر اکثرے از شابندگان عرصہ روز گار می گرفت، ناگزیر آغاز این جدول را از اسم سامی و نام گرامی امیر تیمور صاحب قرآن حلیہ اعتبار دادہ بہ جام جم موسوم ساختم۔ و اسامی دیگران نیز بہ ترتیب حصول ثمرات کامیابی ہر یکے در تحت وضع گزاشتم و در تحقیق مراتب مندرجہ سعی را آن پایہ بہم رسید کہ تا صد قطرۃ عرق از پیشانی ذخیرہ دامان شود۔ یک نقطہ از خامہ بر روہے صفحہ می چکید و تاہزار بار آستین بہ چیدن عرق بر جبھہ رسد یک سط از زبان قلم نذر کاغذ می گردید کتب تواریخی کہ بجہت سر انجام ایں جدول بہمر سر سید لوح خاتمہ اش خزینہ نقد اسامی انہا ست تا ناظران ابن مختصر برکمال محنت مولف نظر گماشتہ در صحت ابن نسخہ تشکیلے را کار نفر مایند۔ سنبل رسانی خامہ در کلز مین تو صیف جناب خداوند نعمت فیاض زمان جناب صاحب کلاں بہادر مستقر الخلافہ اکبر آباد خدا را ہزاران ثنا خوانم و ستایش گویم کہ قلم بریدہ زبانم را بہ ثنا طرازی مسند طراز منصہ جاہ و جلال زیبندہ چار بالش تکیہ گاہ اقبال معدن جواہر دولت طرازی محیط گوہر معدلت پردازی گویا ساختہ و خامہ واسطین نثرادم را بہ ستایش گری آن والا بارگاہ در ررا ریز گردایندہ کہ اشارات گوشہ ابترولش مفتاح سعادات ابدیست و بشارت جنبش لبش قائد دولت ہای سرمدی متافت طبع نکتہ طراز ش بانی ایوان دقائق و بلندی فکر حقیقت پر دازش موسس اساس حقائق رشتہ نگاہ اثر ش کمند کردن معنی ہاے دور دست رسائی اندیشہ زود رمش پیش گیرخیالات تو حش پرست پیادہ ملک اقتدارش اسپ گیر قیل قدر تان عرصہ جہانبائی فرز بساط قدر تش شاہ مات دہ جم نسبتان معالم کشورستانی خدمت گری چا گرانش آرزوئے است ملازم حواشی خاطر ہائے گردن فرازان پابوسی خدامش تمنائے است زمین گیر فضائے سینہ حشمت طرازاں ذرہکر داستانش اند کے از جا جنید ظلمت سر تشی شبستان فلک بغنیمت شماری کواکب در پزیرفت ، خس و خاشاک کوچہ اش بر دوش صبا حرکت کرد، سادگی صفحات سپر بصنعت پردازی سطر کہکشاں در بغل گرفت، حکم نافذش شہاب ثاقبے سینہ شگاف شیاطین طینتان حلیہ آفرینی فرمان قضا جریانش حبل المتینی پابند رم آشنایاں صحاری وحشت کمینی نگاہ چشم التفا تش سعادت افزا تر از نظرات کواکب آسمان و ناخن انگشت بالش رشک فرماے انگشتری سلیمان ادنیٰ چاکر بارگاہش مرجع مارب اسکندر و جمشیدون و کمتر خادم ایوانش اجری دہ ضحاک و فریدون خاک آستانہ اش افسر گردن بلندان سجدہ بارگاہش ذریعہ ابروئے نخوت پسندان۔ مثنویٰ محیط گہر زیر لطف و سخا کز و گنج قارون است آز گدا فلک روز و شب حلقہ زن بردرش ملک تابع چاکر چاکرش چراغ شبستان جاہ و جلال فروز شکر شمع بزم کمال ہمہ حشمت و عز اجلال دہ ہمہ دولت و مثرد اقبال دہ ز قاہر بر آرندہ زور قہر کفیل مہم غریبان دہر منو چہر چہر و فریدون وقار سکندر شکوہ و جم اقتدار ہماں خون خصم است در رزم او غباری کہ خیز اندش عزم او ابد ساعت از مدت عصر او فلک خشتے از عتبہ قصر او بگلشن نگردد جو صیتش بلند زر گل نیاید اماں از گزند جو عدلش علم در گلستان کشید نزد موشک لالہ را گربہ بید صنوبر دل قمریاں چوں شکست دلش نیز از دست انصاف خست صبا نگہتے باشد از بزم او شفق مشت خونی است از رزم او فلک تدی از فرد دیوان کہش جہاں گردی از خاک جولان کہش در عرصہ جولان گاہش رستم را آز دہشت زبر دستیش رجعت قہقرا و درمیدان رزمش فریدون را درفش کاویانی زقف دست بر دعا کر نصرت لوا دراز دستی انصافش پر چہرہ ماہ در جرم تعلیمہاے کتان داغ کلف اثر طمانچہ انتقام و از اصایت رای کائش در اطراف گلشن زمان خرمی بہار علامت حسن انتظام صیت مہابتش از لعل و یاقوت آب در جگر خارا خون ساختہ و مشاہدہ ہمتش از صدف گوہر دیدہ محیط در گریہ انداختہ ، اگر صیت عدلش در اطراف عالم سر نتہا دے پروانہ و غضنفر دریک بیشہ و غنم و گرگ در یک صحرا آرام نگرفتے اگر شور انتقا مش در سواد جہاں و باد پر روئے ہمدیگر نشگفتے ، ریزش دست سخایش ابر نیساں را از غایت انفعال در بوتہ عرق گداختہ وکشادگی کف کرمش صدف را از خجالت سرنگوں د ر دریا انداختہ ، گدائی در ش قارون را صاحب نصاب نداند و آستان بومش ملک سلیمان را شایستہ تسخیر نخواند ، سکندر از خاک قدومش ہیبنے در خاطر یا جوج انداخت سد سکندرش شہرہ ساختند وفریدون شراک نعلینش ذخیرہ ساخت بشہرہ درفش کاویانش پر داختند اعنی دریا نوال خدایگاں ابر کف خاتم دوران مستر را برت نار تہہ کالی ہملتن صاحب بہادر صاحب کلان مستقر الخلافہ اکبرآباد دام اقبالہ کہ فلک را از اطاعتش بلندی مرتبہ ذخیرہ دامانست و زمین را از فیض قدومش ناز بر آسمان ، دست زنند گان دامنش را عقد ہ بستہ نہ ماند و بستگان کمند التفاتش را مشکلے بستہ نباشد ۔ من خاکسار کہ ذرہ آستانہ اش مہر سپہر من است از کجروی گردون دو ن طینت چہ باک دارم و از کجر فتاری سپہر بے مہر چہ اندیشہ ناک باشم کہ ہمچو امیر کبیر دستگیر من است و من ثنا خوان او۔ خدائے لایزال آں گیتی را با جاہ و جلال تا ابدالا آباد سر خوش بادہ عیش و نشاط داراد و غنچہ آرزوئے وابستگان دامنش را از نسیم پرورش آں دریا حوصلہ خداوند شگفتہ و شاداب کناد۔ حال مولف این رسالہ از آنجا کہ طبع روزگار اقتضائے آں دارد کہ ہر چہ ہمت در گذر و سو بسو بنا ہائے بلند فروریختہ و جابجا خاندا نہائے بزرگ بر افتادہ چوں چنیں است فالا نطرائے کہ آں بناہائے بلند فرو ریختہ را پایہ شناسد وآں خاندان ہائے بزرگ بر آفتادہ را اندازہ نگاہ دارند نیز بدہر نہ پایند وپی ہم در گزرند۔ ہر آئینہ روزگارے در رسد کہ بزرگ زاد گان بخود فرو مانند و فروغ گوہر این گروہ در نظر ہا ناپدید گردد و اگر خواہند کہ لخنے از گراں مانگے نثراد خود باز گویند شنو ندگان کمتر باور دارند و گویندہ را خود نما و خودستا انگارند ۔ لا جرم این بندہ کمترین را ہوائے آں در سر افتاد کہ چوں آباء و اجدادم بہ ذرگی آفتاب سلطنت روشناس شہریان بودہ اند باید کہ بزرگان خود را دریں صحیفہ بر شمارم تا یادگاری ماند و بزرگان انجمن را مشاہدہ آں آئینہ دار راز افتد۔ پنہاں مباد کہ سلسلہ نثراد اضعف العباد بجناب سید الشہداء امام حسین ؑ می پیو ندد۔ گرچہ خوردیم نسبتے ست بزرگ ذرہ آفتاب تا بانیم وطن اصلی بزرگانم دارلسلطنت ہرات حرس اللہ عن الافات است ہرگاہ جلال الدین محمد اکبر بادشاہ زیبندہ سر یر سلطنت گردید ہمت را برین معنی گماشت کہ سادات بزرگوار و شرفائے نامدار را ا ز ہر شہر و دیار طلب داشتہ منصبہائے جلیلہ بانہا ارزانی دارد۔ جناب سید شریف الدین حسین خاں بہادر جد نہمین بسبب اینکہ از ارکان سلنطت آندیار خیلی خلش ہا بمیان آمدہ بود رخت اقامت از انجا بر بستہ وارد ہندوستان شدند و از پیشگاہ خسرو ہندوستان بصوبہ داری وایالت بدر کہ بزبان انگریزی صاحب آن عہدہ را گورنر جنرل می تامند علم امتیاز بر افراختند و از بسکہ در آ ن دیار مماند بمیر بدری شہرت یافت و زان پس حافظ احمد الدین خان بہادر جد ہفتمین بعہد شہاب الدین محمد شاہ جہان بادشاہ بصوبہ داری مراد آباد فرمانروائی آن دیار ماندہ و میر محمد دوست جد پنجمین اوقات یا برکات خودرا برکاب حضرت محی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ بسر مے کردند، ناگاہ در اطراف دکہن مہمے درپیش آمد کہ فتح آن برارکان سلطنت دشوار افتاد ، آخر الامر از پیسگاہ سلطانی جناب موصوف جہت انفتاح آں مامور شدند بتائید ایزدی لشکر سلطانی منصور و سپاہ طرف ثا نی مقہور گردید بصلہ آن از بارگاہ سلطانی یکہ بہادر خطاب یافتہ حسب درخواست خود بصوبہ داری ہرات سر بلندی یافت و جد امجد میر ہادی در عہد عرش منزل محمد عز الدین عالمگیر ثانی بتاریخ نوزدہم ذی الحجہ سن ۲ جلوسی مطابق ۱۱۶۸ ھ نبوی ۔صلعم بخطاب جواد علی خان بہادر و منصب ہزاری ذات و پانصد سوار رخ امتیاز بر افروخت و در عہد حضرت فردوس منزل سلطان عالی گوہر شاہ عالم پادشاہ عہد احتساب و کرور ضمیمہ منصب سابق شدہ در ۱۵ جلوسی مطابق ۱۱۸۸ ھ بعہد قضا کہ درین زمانہ بزبان انگریزی صاحب آن عہدہ را سشن جج می نا مند پر مسند فرمانروائی وداوری نشتہ و پدرم سید محمد متقی خان در حیات پدر بزرگوار خویش ا زپیشگاہ حضرت فردوس منزل خطاب خانی یافتہ عمر مستعا ر را بعزت تمام بسر برد و از مقربان بارگاہ حضرت عرش آرامگاہ محمد اکبر بادشاہ ماند و دیگر بزرگانم ترک این دنیائے دون کردہ متوجہ عالم ثانی بودہ اند اکہ این مختصر گنجائش بیان کی آن ندارد و جد مادری احقر العباد خواجہ فرید الدین احمد بہادر در ۱۷۹۷ ء بکلکتہ رسیدہ بعنایت جان بیلی صاحب بہادر نخستین مدرس مدرسہ آنجا گردیدہ، در زمانیکہ حاجی خلیل خان سفیر قہر مان ایران در بنبئی بخانہ جنگی کشتہ شد و ازین معنی شاہ ایران از گورنر انگریزی بہم بر آمد گورنمنٹ کلکتہ مستر لوت صاحب بہادر و خواجہ فریدا لدین احمدخان را بصیغہ سفارت بایران فرستاد لیکن چون مستر لوت بہادر در بوشہر رنجور گشت خواجہ فریدا لدین احمد خان تنہا بشیراز رفت وصادق علی خان و چراغ علی خان بیلگر بیگی شاہزادہ حسن قلی میرزا را با خود متفق ساختہ غیار ملال خاطر شاہ ایران فرو نشاند و امر خطیر سفارت را بخودی خود سر انجام دادہ نہال مودت دولتین استوار گردایندہ با ز آمدو بضلع بودیل کہند در پرگنات اوکاسی وغیرہ تحصیلدارے دہ یکے یافت، چون بندوبست دہ یکی نماند و مشاہرہ تحصیداران مقرر شد آن مشاہرہ را فراخور خود ندیدہ ترک آن علاقہ کرد و بوطن مالوف کہ احسن البلاد شاہجہان آبا د است روی آورد و بوزارت خسرو ہند حضرت عرش آرامگاہ محمد اکبر شاہ سر افتحار بسپہر برین سود و دبیر الدولہ امین الملک خواجہ فرید الدین احمد خان بہادر مصلح جنگ خطاب یافت۔ آخر در ۱۲۴۴ ہجری ابن جہان فانی را پدرود ساخت: جہان اے برادر نماند بکس دل اندر جہان آفرین بند وبس سکندر شہ ہفت کشور نماند نماند کسے چون سکندر نماند ……… فہرست فرمانروایان کہ در دارلسطنت دہلی جلوہ فرمائے فرمانبرداری بودند۱ (از ابتدائے ۸۰۱ ہجری نبوی صعلم) ۱۔ امیر تیمور صاحبقران نام پدر : امیر طغرا خان۔ نام مادر : نگینہ خاتون۔ قوم : چغتائی سال ولادت: شب سہ شنبہ بست و ہفتم شعبان ۷۳۶ ہجری صعلم۔ محل جلوس : بلخ۔ عمر بوقت جلوس: ۳۵ سال ۱۵ یوم (در دہلی ۶۴ سال ۴ ماہ چند یوم) سال جلوس: روز چہار شنبہ ، دوازدہم رمضان ۷۷۱ ہجری۔ (در دہلی روز جمعہ ماہ محمر ۸۰۱ ہجری) تاریخ جلوس: سلطان تیمور کہ مثل او شاہ نبود درہفت صد و ہفتاد یکے کرد جلوس (۷۷۱ھ) ۱۔ بادشاہان دہلی کی یہ فہرست اصل کتاب میں جدولوں کی صورت میں تھی ۔ یعنی سر سید نے ۱۸ خانوں میںشاہان دہلی کے کوائف قلمبند کیے تھے ۔ مگر یہاں اس کی نقل کرتے ہوئے اس کی گنجائش نہ تھی کہ اس فہرست کو جدولوں میں شائع کیاجاتا بہت زیادہ غور و فکر کے بعد موجودہ شکل میں اس کی ترتیب مناسب معلوم ہوئی۔ جس سے یہ نسبت جدولوں کے ہر چیز نمایاں معلوم ہوتی ہے اورکتاب کی عبارت اور مطلب میںبھی قطعا فرق نہیں پڑتا۔ (اسماعیل) مدت سلطنت: ۳۵ سال ۱۱ ماہ ۵ یوم (در دہلی ۱۵ یوم) سکہ : یک طرف کلمہ و یک طرف نام۔ مدت عمر : ۷۰ سال ۱۱ ماہ ۲۰ یوم۔ سال وفات: شب چہار شنبہ، ہفتدہم شعبان ۸۰۷ ہجری صلعم۔ تاریخ وفات: سلطان تیمور کہ مثل او شاہ نبود۔ در ہفتصد وسی و شش آمد بوجود در ہشتصد وہفت کرد عالم پد رود لقب بعد وفات: علیین مکان۔ مدفن : سمرقند۔ کیفیت: بعد قتل عام بروز شانزدہم از دہلی کو چیدہ بہ لاہور رسید و تا دو ماہ دہلی بے چراغ ماند نصرت شاہ فرصت ر ا غنیمت شمردہ بردہلی متصرف شد۔ ۲۔ نصرت شاہ نام پدر: برومند خان۔ نام مادر: یافتہ نشد۔ قوم: لودہی۔ سال ولادت: نہم رجب ۷۶۲ ہجری۔ محل جلوس: در دہلی۔ عمربوقت جلوس: ۳۸ سال ۸ ماہ چندیوم۔ سال جلوس: ماہ ربیع الاول ۴۰۱ ہجری۔ تاریخ جلوس: زد چو نصرت شاہ براورنگ سلطانی قدم داد عقل و دانش افزونی فرہنگ داد فکر تاریخش ہمی کردم کہ ازروئے جلال ہاتفے گفتا بگو آرائش اورنگ داد ۸۰۱ ہجری مدت سلطنت : ۱۱ماہ سکہ: بہ لحاظ اینکہ مبادا از جانب امیر تیمور مخاصمنے بر خیزد زر و سم را بنام خود مسکوک ساخت۔ مدت عمر: ۴۶ سال۴ ماہ ۱۹ یوم ۔ سال وفات: بست و ہشتم ذیقعدہ ۸۰۸ ہجری۔ تاریخ وفات: نصرت شہ سپہر ملاذم چوشد بخلد در سرشک با سر مثرگان بسفت عقل بودم بفکر سال وفاتش کہ ناگہاں سال وفات گیرمکرر بگفت عقل ۸۰۸ ہجری لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: اطراف میوات۔ کیفیت: از اقبال خان جنگ نمودہ جانب میوات گریخت و بادشاہی برو قرار یافت۔ ۳۔ اقبال خان نام پدر: ظفر خان نام مادر: یافتہ نشد۔ قوم: لودہی۔ سال ولادت: ہفتم صفر ۷۵۹ ہجری۔ محل جلوس: دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۴۳ سال چند یوم۔ سال جلوس: ماہ صفر ۸۰۲ ہجری۔ تاریخ جلوس: شاہ اقبال خاں نصرت مند جایش تخت شد بزم شدی سال تاریخ گفت ہاتف شد محفل آرا اعز بزم شہی ۸۰۲ھ مدت سلطنت: ۶ سال ۲ ماہ چند یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طرف نام۔ مد ت عمر: ۴۹ سال ۲ ماہ چند یوم۔ سال وفات: بست و نہم جمادی الاول ۸۰۸ہجری ۔ تاریخ وفات: چوں شہ اقبال خاں فرماندہ کشورستان داور اقلیم گیر و پرورش فرمائے خلق یافت جار سایہ طوبیٰ و قصر حورعین سالش از روئے بکا شد آہ و واویلا بخلق ۸۰۸ ہجری لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: اطراف ملتان۔ کیفیت: بر خضر خان حاکم ملتان فوج کشی نمو د و ہما نجا بقتل در آمد، دولت خاں و اختیار خاںباہم متفق شدہ ملک را در قبضہ اختیار خود ہا داشتہ سلطان محمود را از قنوج طلب دا شنند و تا آمدش خودہا فرمانروا،کردند۔ ۴۔دولت خاں / اختیار خاں نام پدر: محمود خان۔ نام مادر: یافتہ نشد۔ قوم: لودہی۔ سال ولادت: ماہ صفر ۷۵۹ ھجری آخر ۷۶۱ ہجری۔ محل جلوس: اطراف ملتان۔ عمر بوقت جلوس: ۴۹ سا ۲ ماہ چند یوم (۴۷ سال) سال جلوس: بست و نہم جمادی الاول ۸۰۸ ہجری۔ تاریخ جلوس: چوں اینہا دعویٰ سلطنت نکردی بودند بلکہ صرف بنا بر مصلحت تا آمدن سلطان محمود فرمانروائی نمودند یقین کہ تاریخ جلوس اینہا از پردہ عدم بمنصہ شہود جلوہ گرنشدہ باشد۔ مدت سلطنت: ۲۳ یوم۔ سکہ: بوجہ مندرجہ خا تاریخ جلوس زر وسیم بکدام سکی مسکوک نشدہ باشد۔ مدت عمر: ۵۷ سال ۲ ماہ چند یوم۔ سال وفات: جمادی الاول ۸۱۷ ہجری۔ تاریخ وفات: گفت ہاتف سال او یک صاحب دولت بمرد ۸۱۷ ہجری۔ لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: سواد فیروز آباد یافتہ نشد۔ کیفیت: بعد از انکہ سلطان محمود بدہلی رسید بر تخت سلطنت جلوس نمود و سکہ و خطبہ بنام خود ساخت۔ ۵۔ سلطان محمود نام پدر: یافتہ نشد۔ نام مادر: یافتہ نشد۔ قوم: لودہی۔ سال ولادت: ہشتم رجب ۷۴۶ ہجری۔ جلوس: دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۶۱ سال۔ سال جلوس: بست و دوم جمادی الثانی ۸۰۸ ہجری۔ تاریخ جلوس: شد چوں برتخت شہ غازی سلطان محمود دولتش پیش و غلامانہ اش اقبال از پس ہاتف از منظر قدس آمدہ آواز کناں قدرت عدل بود سال جلوس اقدس ۸۰۸ ہجری۔ مدت سلطنت: ۷ سال ۵ ماہ ۷ یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طرف نام۔ مدت عمر: ۶۹ سال ۴ ماہ ۲۱ یوم۔ سال وفات: بست و نہم ذیقعدہ ۸۲۵ ہجری۔ تاریخ وفات: زد کوس فنا زبسکہ سلطان محمود آمد غم ازیں خادثہ از غم دلخوں ہاتف بغم والم شد و بگفت ازحیف ساز دالم و درد ہمیں روز افزوں ۸۱۵ ہجری لقب بعدوفات: ندارد۔ مدفن: نواح کیتھل کیفیت: برائے شکار بطرف کیتھل رفتہ بود۔ بروقت مراجعت مریض گشتہ در گذشت امراء بدولت خان کہ ہمراہ بود بعت کردہ بادشاہ ساختد تا آنکہ درماہ محرم ۸۱۶ ہجری بسکہ و خطبہ اش زر و منبر زیب و زینت یافت۔ ۶۔دولت خان نام پدر: محمود خان۔ نام مادر: یافتہ شد۔ قوم : لودہی سال ولادت: ماہ صفر ۷۵۹ ہجری۔ محل جلوس: سواد کیتھل ۔ عمر بوقت جلوس: ۵۶ سال ۹ ماہ چند یوم۔ سال جلوس: یکم ذی الحجہ ۷۱۵ ہجری۔ تاریخ جلوس: کرددولت خان بتائید خد اے ذوالمنن روئے عالم را بحسن سعی چوں روئے عروس گفت ہاتف از سر اقبال ما صد خرمی روزگار عیش آمد سال تاریخ جلوس ۸۱۵ ہجری مدت سلطنت: یک سال تین ماہ چند یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طرف نام۔ مدت عمر: ۵۸ سال ۲ ماہ چند یوم۔ سال وفات: جمادی الاول ۸۱۷ ہجری۔ تاریخ وفات: رہ چو دولت خان بسوئے جنت الماوا گرفت عالمی از درد غم صد نالہ را بر چرخ مجرد سر جیب فکر بردم بردم تاکہ تاریخ نظم گفت ہاتف سال اویک صاحب دولت بمرد ۸۱۷ھ لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: سواد فیروز آباد۔ کیفیت: در جنگ بچنگ خضر خان آفتاد و در قلعہ فیروز آباد محصور گشت و ہمانجا بعالم بقا شتافت و بادشاہی خضر خان یافت۔ ۷۔ خضر خان نام پدر: ملک سلیمان ۔ نام مادر: یافتہ نشد۔ قوم: سید۔ سال ولادت: دہم ربیع الاول ۷۵۹ ہجری۔ محل جلوس: دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۵۸ سال ۵ یوم۔ سال جلوس: پانزدہم ربیع الاول ۸۱۷ ہجری۔ تاریخ جلوس: چون خضر خاں بہ تخت کر د جلوس مرہم سینہ ہائے ریش آمد بہر تاریخ این جلوس سروش گفت جشن قباد پیش آمد ۸۱۷ ہجری مدت سلطنت: ۷ سال ۲ ماہ ۲ یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طرف نام امیر تیمور صاحبقران۔ مدت عمر: ۶۵ سال ۲ ماہ ۷ یوم۔ سال وفات: ہفتد ہم جمادی الاول ۸۲۴ ہجری۔ تاریخ وفات: چوں رخت ازیں جہاں خضر خان پر بست نخل طرب جہاں بیفتاد از بیخ ہاتف از جیب فکر سر برزدہ گفت درد ارزاں روز افزوں تاریخ ۸۲۴ ہجری لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: جوار دہلی۔ کیفیت: بمرض مبتلا گردیدہ در گذشت و پسرش بادشاہی یافت و بسبب عدل وانصاف ورعیت پروری او تمام رعایا سیاہ پوش شدند و بماتم نشستند و چوں خضر خان مرحوم یکے از متوسلان امیر تیمور صاحبقران بو د لہدا سکہ بنام خود نساختہ مگر آخر خطبہ اسمش می گرفتند و دعا میکردند۔ ۸۔ معز الدین ابو الفتح مبارک شاہ نام پدر: خضر خان۔ نام مادر: ملکہ جہاں۔ قوم: سید۔ سال ولادت: بستم شعبان ۷۹۵ ہجری۔ محل جلوس: دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۲۸ سال ۸ ماہ ۲۹ یوم۔ سال جلوس: نوزدہم جمادی الاول ۸۲۴ ہجری۔ تاریخ جلوس: گشت چوں بادشاہ مبارک شاہ شادی آمادہ گشت و برپا جشن سال تاریخ این خجستہ جلوس شد نگہبان عالم آرا جشن ۸۲۴ ہجری مدت سلطنت: ۱۳ سال ۳ ماہ ۱۶ یوم۔ سکہ: چندے بنام امیر تیمور داشت آخر بنام خود ساخت۔ مدت عمر: ۴۲ سال ۱۵ یوم۔ سال وفات: پنجم رمضان ۸۳۷ ہجری۔ تاریخ وفات: آمادہ چو شدپے سفر از دنیا سلطان مبارک برای تاریخ وفات سعی سفر روح مجسم ز سروش ۸۳۷ ہجری لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: جوار دہلی۔ کیفیت: سرور الملک وقاضی عبدالصمد و سدران کھتری شہید نمودہ محمد شاہ برادر زادہ سلطان شہید را بہ بادشاہی برداشتہ۔ ۹۔ محمد شاہ نام پدر : فرید خاں بن خضر خاں۔ نام مادر: یافتہ نشد۔ قوم: سید۔ سال ولادت: ربیع الاول ۸۲۵ ہجری ۔ محل جلوس: دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۱۲ سال ۶ ماہ چند یوم۔ سال جلوس: پنجم رمضان ۸۳۷ ہجری۔ تاریخ جلوس: شد محمد شاہ چوں برتحت دولت کامیاب تابع فرمان او شد بادشاہ روم و روس بودم اندر فکر تاریخش کہ ہاتف گفت زود آصف انصاف و سکندر عدل تاریخ جلوس ۸۳۷ ہجری مدت سلطنت: ۱۲ سال ۲ ماہ ۱۷ یوم ۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طرف نام۔ مدت عمر: ۲۴ سال سات ماہ چند یوم۔ سال وفات: بست و دویم شوال ۸۴۹ ہجری۔ تاریخ وفات: چوں محمد شہ یگانہ کہ بود دولتش بندہ چاکر اقبالش شد بجنت سروش غیبی گفت نوحہ و آہ عرش در سالش لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: جوار دہلی۔ کیفیت: مریض گشتہ درگذشت و پسرش بادشاہی یافت۔ ۱۰ ۔سلطان علاؤ الدین نام پدر: محمد شاہ۔ نام مادر: جہاں آرا بیگم ۔ قوم: سید۔ سال ولادت: بستم محرم ۸۴۰ ہجری۔ محل جلوس: دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۹سال ۹ ماہ ۲ یوم ۔ سال جلوس: بست و دوم شوال ۸۴۹ ہجری۔ تاریخ جلوس: سلطان علاؤالدین چوں در وقت سعید بر سر بنہا تاج از زور حسام گفتم کہ زسال او چگویم ہاتف فرمود کہ تاج بادشاہ اسلام ۸۴۹ ہجری مدت سلطنت: ۷ سال ۲ ماہ ۳ یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ ویک طرف نام۔ مدت عمر: ۴۲ سال چند ماہ چند یوم۔ سال وفات: آخر ۸۸۳ ہجری۔ تاریخ وفات: راقم را آزیں تاریخ آگہی دست نداد۔ لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: بداؤن۔ کیفت: سلطان بہلول لودہی بسازش حمید خان بالشکر در رسید سلطان بداؤں رفعت و برآن قناعت نمودہ و بعد مرتے در گذشت۔ ۱۱۔ سلطان بہلول لودہی نام پدر: کالابہادر نام مادر: یافتہ نشہ۔ قوم: لودہی۔ سال ولادت: ذیقعدہ ۸۲۴ ہجری۔ محل جلوس: اطراف پنجاب۔ عمر بوقت جلوس: ۳۱ سال چند یوم۔ سال جلوس: در دہلی بست وپنجم ذی الحجہ۔ تاریخ جلوس: شاہ بہلول چوںبہ تخت نشست عدل او ساززیب مملکت است گفت دل سال چیست ہاتف گفت کہ بہار جلوس سلطنت است ۸۵۶ ہجری مدت سلطنت: ۳۸ سال ۷ ماہ ۷ یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طرف نام ۔ مدت عمر: ۶۹ سال ۸ ماہ چند یوم۔ سال وفات: شاہنشہ عالم شہ بہلول کہ دیدی افتادہ در اطراف جہاں صیت جلالش در خلد شد و گفت سروش از سر جنت قصد سفر عالم ارواح ز سالش ۸۹۴ ہجری لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: جوار دہلی۔ کیفیت: مریض گشتہ در گذشت و نظام خان بسعی خانخاناں بادشاہی یافت۔ ۱۲۔ نظام الملقب بہ علاؤالدین سلطان سکندر شاہ نام پدر: سلطان بہلول نام مادر: پنا دختر زر گر المعروف بہ بی بی سناری۔ قوم: لودہی۔ سال ولادت: جمادی الاول ۸۲۹ ہجری۔ محل جلوس: قصبہ جلالی۔ عمر بوقت جلوس: ۶۵ سال ۳ ماہ چند یوم ۔ سال جلوس: دواز دہم شعبان ۸۹۴ ہجری۔ تاریخ جلوس: راقم از تاریخ جلوس ایں بادشاہ لاعلم ماند ۔ مدت سلطنت: ۲۱ سال ۳ ماہ یک یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طرف نام۔ مدت عمر: ۸۲ سال ۶ ماہ چند یوم۔ سال وفات: روز یک شنبہ ، سیزدہم ذیعقدہ ۹۱۵ ہجری۔ تاریخ وفات: چوکرد رخصت عالم نظام خان سلطان ز جان بہ تنک جہانی زآہ و زاری شد جہاں سید شدہ در چشم ہر کس از ہر کسی ز حال عالم بگفتا سروش تاری شد لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: دہلی۔ کیفیت: درزمان شاہی خود خواندن علم فارسی در ہند رواج دادہ کہ تاحال موجود آخر بموض مبتلا گردیدہ پسرش در گذشت و بادشاہی یافت۔ ۱۳ ۔ سلطان ابراہیم نام پدر: سکندر شاہ۔ نام مادر: یافتہ نشد۔ قوم: لودہی۔ سال ولادت: پنجم ذیقعدہ ۸۵۶ ہجری۔ محل جلوس: دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۵۹ سال ۱۶یوم۔ سال جلوس: بست و یکم ذیقعدہ ۹۱۵ ہجری۔ تاریخ جلوس: چوں افسر دولت از سر ابراہیم گر دید چو چتر او سعادت آمور سال تاریخ ایں ہمایوں ساعت ہاتف گفتا کہ تاج دولت آسود ۹۱۵ ہجری مدت سلطنت: ۱۶ سال ۷ اماہ ۱۵ یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طرف نام۔ مدت عمر: ۷۵ سال ۸ ماہ ۲ یوم۔ سال وفات: ہفتم رجب ۹۳۲ ہجری۔ تاریخ وفات: ایں تاریخ ا زقد ہست طبع زاد جناب مولوی امام بخش صہبائی است کہ یشعرے فرمودہ بود: کرد چوں سلطان ابراہیم کوچ ہفتم شہر رجب از ایں سرائے جست دل از ہاتف الہام کن سال وفات شہ گردوں گرائے گفت کہ در جنت والائے پاک یافتہ سلطان ابراہیم جائے ۹۳۲ ہجری۔ لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: پانی پت۔ کیفیت : در سواد پانی پت از ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ مقابلہ نمودہ جنگ کشتہ گشت و سلطنت بہ خاندان چغتائیہ گو گائیہ منتقل شد۔ ۱۴۔ ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ نام پدر: عمر شیخ مرزا۔ نام مادر: قتلق نگار خانم بنت یونس خان و بعضے قتلغ می گویند لیکن اول صحیح است۔ قوم: چغتائی۔ سال ولادت: شش محرم ۸۸۸ ہجری کہ ہمیں تاریخ ولادت است۔ محل جلوس: اند و جان سمر قند۔ عمر بوقت جلوس: ۱۱ سال ۷ ماہ یوم ،در دہلی ۴۴ سال ۶ ماہ۔ سال جلوس: پنجم رمضان المبارک ۸۹۱ ہجری روز سہ شنبہ در دہلی ، مقام پانی پت روز جمعہ ہفتم رجب ۹۳۲ ہجری۔ تاریخ جلوس:کشت در پانی پت ابراہیم را شاہ عادل بابر عالی نسب روز و ماہ سال وقت آں ظفر صبح بود و جمعہ و ہفت رجب …………… ظہیر الدین محمد شاہ بابر سکندر دولت بدولت کرد فتح خطئہ ہند کہ تاریخ آمدش فتح بدولت۔ مدت سلطنت: ۳۷ سال ۸ ماہ یک یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طرف نام۔ مدت عمر: ۴۹ سال ۴ ماہ۔ سال وفات: بروز دو شنبہ ششم جمادی الاول ۹۳۷ ہجری۔ تاریخ وفات: بادشاہ دہر بابر با کمال عدل و داد واقف اسرار عالم مصدر لطف الہ سال جان او کزیدن جائے فردوسش بگو جائے فردوس ابد بکزیدہ بابر بادشاہ ۹۳۷ ہجری لقب بعد وفات: فردوس مکاں۔ مدفن: اولا درباغ نور افشاں واقع سواد اکبر آباد کہ از عہد سورج مل جاٹ یہ رام باغ شہرت دارد تا شش ماہ امانت نہادہ بعدہ بکابل بردہ دفن کردند۔ کیفیت: در چار باغ اکبر آباد وفات یافت و پسرش بادشاہ شد۔ ۱۵۔ (مرتبہ اول) نصیر الدین محمد ہمایوں بادشاہ نام پدر: بابر بادشاہ۔ نام مادر: ماہم بیگم۔ قوم: چغتائی۔ سال ولادت: شب سہ شنبہ چہار دہم ذیقعدہ ۹۱۳ ہجری۔ محل جلوس: آگرہ۔ عمر بوقت جلوس: ۲۳ سال ۵ ماہ چند یوم۔ سال جلوس: روز دو شنبہ جمادی الاول ۹۳۷ ہجری، سال جلوس نظام سقہ در مستقر الخلافتہ آگرہ ۹۴۶ ہجری۔ تاریخ جلوس: محمد ہمایوں شہ نیک بخت کہ خیرالملوک است اندر ملوک چو بر مسند بادشاہی نشست شدش سال تاریخ خیر الملوک ۹۳۷ ہجری مدت سلطنت: ۱۱ سال ۵ ماہ چند یوم ۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طرف نام۔ مدت عمر: ۴۹ سال ۳ ماہ ۲۶ یوم۔ سال وفات: یاز دہم ربیع الاول ۹۲۳ ہجری۔ تاریخ وفات: ہمایوں بادشاہ آنشاہ عادل کہ فیض خاص او بر عالم افتادہ چو خورشید جہاں تاب از بلندی بہ پایاں در نماز شام افتاد جہاں تاریک شد در چشم عالم خلل درکار خاص و عام افتاد قضا از بہر تاریخش رقم زد ہمایوں بادشاہ از بام افتاد ۹۶۲ ہجری لقب بعد وفات: جنت آشیاں۔ مدفن: دہلی۔ کیفیت: تاب مقابلہ شیر شاہ نیارو دہ بلاہور رسید۔ شاہ طہماسپ والئی ایران بہمایوں بادشاہ نامہ نوشت کہ بقدوم میمنت لزوم خاک پاک ایران را اعزاز بخشند و بعنوانش ایں بیت مرقوم ساخت: ہمای اوج سعادت بدام افتد اگر ترا گزرے برمقام ما افتد بطور معائنہ نامہ ہمایوں نزدش رفت و در ماہ شوال شیر شاہ بردہلی گشت۔ ۱۶۔ شیر شاہ عرف فرید خان نام پدر: حسن۔ نام مادر: یافتہ نشد۔ قوم: افغان۔ سال ولادت: ماہ رجب ۸۷۸ ہجری۔ محل جلوس: سلطان پورہ )سواد بنگالہ) عمر بوقت جلوس: ۶۰ سال چند ماہ در دہلی ۶۹ سال ۴ ماہ چند یوم۔ سال جلوس: ۹۳۹ ہجری۔ در دہلی بست و ہفتم شوال ۹۴۸ ہجری۔ تاریخ جلوس: شاہنشہ شیر شاہ گردون رفعت کش ہست نسب رفیع و عالی دودہ بنشست بہ بست و ہفت شوال برتخت شاہان جہاں بہ پائے او سر نمودہ تاریخ جلوس گفت ہاتف از غیب زیب اورنگ سلطنت افزودہ ۹۴۸ ہجری مدت سلطنت: ۱۴ سال ۔ در دہلی ۴ سال ۴ ماہ ۱۵ یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طرف نام۔ سال وفات: دواز دہم ربیع الاول ۹۵۳ ہجری۔ تاریخ وفات: شیر شاہی کہ از مہابت او شیر و بز آب را بہم میخورد چوں برفت ا ز جہاں بدار بقا گشت تاریخ او ز آتش مرد ۹۵۳ ہجری لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: سہسرام۔ کیفیت: بمحاصرہ قلعہ کالنجر پر داخت و بداروی، تفنگ حقہ ہا اندرون قلعہ می انداخت اتفاقا یک حقہ بدیوار ضرب خوردہ شکست و آتش در حقہ ہای دیگر افتاد و اند ران آتش سوختہ شد در آں حالت ہم سپاہ را بہ محار بہ ہمت میداد و تاکید میکرد تاآنکہ قلعہ فتح شد و ہماں روز جان بحق تسلیم نمود۔ پسرش بادشاہی یافت، قلعہ شیر گڑھ بنائے ایں بادشاہ یادگار است فقط۔ ۱۷۔ اسلام شاہ عرف شہزادہ جلال خاں نام پدر: شیر شاہ۔ نام مادر: بی بی کمانے ۔ قوم: افغان۔ سال ولادت: صفر ۹۰۳ ہجری۔ محل جلوس: زیر قلعہ کالنجر۔ عمر بوقت جلوس: ۵۰ سال چند یوم۔ سال جلوس: ہفتدہم ربیع الاول ۹۵۳ ہجری۔ تاریخ جلوس: سلطان سلیم شاہ بادشاہ کہ عدلش ظلم در عدم محبوس است بنشست بتخت از رہ انصا فش در ملکش ظلم ز آمدن مایوس است تاریخ جلوس سعد او از بسر ہوش سلطان جلوس میمنت مانوس است ۹۵۳ ہجری مدت سلطنت: ۸ سال ۲ ماہ ۸ یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طرف نام مع اسماء اصحاب کرام ۔ مدت عمر: ۵۸ سال ۳ ماہ چند یوم۔ سال وفات: بست و پنجم جمادی الاول ۹۶۱ ہجری۔ تاریخ وفات: سلطان سلیم شاہ چوں از حسن عاقبت آرام زیر سایہ عرش خدائے یافت بودم بفکر سال وفاتش کہ ناگہاں ہاتف بزد نواکہ بجنات جائے یافت ۹۶۱ ہجری لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: سہسرام۔ کیفیت: وفات یافت و حسب و صیتش فیروز خاں کہ خورد سال بود بادشاہ شد یک قلعہ خورد متصل قلعہ معمرہ شاہجہاںواقع سواد دہلی بر لب دریائے جمن المعروف بسلیم گڑھ بنائے ایں بادشاہ تا حال موجود است۔ بعد از آنکہ تسلط خانداں چغتائیہ بار دیگر در دہلی شد و شاہجہاں قلعہ دہلی بنا ساخت نام آں قلعہ نور گڑھ شدہ۔ الحال مردان قلعہ آنرا نور گڑھ و شہریان سلیم گڑھ می گویند۔ ۱۸۔ فیروز خان نام پدر: اسلام شاہ ۔ نام مادر: بی مانی ۔ قوم: افغان سال ولادت: ربیع الثانی ۹۴۹ ہجری۔ محل جلوس: دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۱۲ سال چند یوم۔ سال جلوس: بست و ششم جمادی الاول ۹۲۱ ہجری۔ تاریخ جلوس: چوں شہ فیروز خان باشکوہ یافت تخت سلطنت جائے پدر کرد زیر چتر استظلال ہا سال تاریخش چنیں کر دم رقم بادشاہی یانت او اقبال ہا ۹۲۱ ہجری مدت سلطنت: ۳ یوم۔ سکہ: بکدامی سکہ زر و سیم مسکوک نشدہ بود کہ اجل در رسید۔ مدت عمر: ۱۲ سا ل چند یوم۔ سال وفات: بست و نہم جمادی الاول ۹۶۱ ہجری۔ تاریخ وفات: شہ دولت افروز فیروز خاں کہ میکرد ملک ستم را خراب زسیل اجل ناگہاں شد رواں بنیاد معمورہ عمرش آب چنیں گفت سال وفاتش بود جواں مرگ شدشاہ ہجا جواب ۹۶۱ہجری لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: یافتہ نشد۔ کیفت: مبارز خاںبرادر مادرش یعنی خال فیرو ز خان اور را شہید نمودہ خود بادشاہ شد۔ ۱۹۔ محمد عادل شاہ عرف مبارز خان نام پدر: نظام خاں۔ نام مادر: یافتہ نشد۔ قوم: افغان۔ سال ولادت: شعبان ۹۱۱ ہجری۔ محل جلوس: دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۴۹ سال ۱۰ ماہ چند یوم۔ سال جلوس: بست و نہم جمادی جمادی الاول ۹۶۱ ہجری۔ تاریخ جلوس: جابر مملکت مبارز خاں کہ شدے در رہ ستم سالک تخت فیروز خاں گرفت بظلم گشتہ بر ملک و دولتش مالک سال تاریخ دولتش گفتم بادشہ شد مبارز مہلک ۹۶۱ ہجری مدت سلطنت: ۱۱ماہ ۷ یوم۔ سکہ: راقم از سکہ ایں بادشاہ آگہی دست نداد لیکن در جائے دیدہ ام کہ از عہد محمد اورنگ زیب عالمگیر مسکوک شدن بیت برور اشرفی رواج یافتہ لہذا سکہ ایں بادشاہ ہم کلمہ باشد۔ مدت عمر: یافتہ نشد۔ سال وفات: یافتہ نشد۔ تاریخ وفات: این تاریخ در جائے بنظر راقم نرسید۔ لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: یافتہ نشد۔ کیفیت: بسبب بے انتظامی از ہر جانب فتنہ و دفساد بر خاست بادشاہ بہر طرف جنگ مینمور و دہلی خالی از لشکر و تدبیر گزاشت ابراہیم خاں نبی عم شیر شاہ لشکر فراہم آوردہ بر دہلی متصرف شد و سکہ و خطبہ بنام خود ساخت۔ ۲۰۔ سلطان ابراہیم نام پدر: یافتہ نشدند۔ نام مادر: تافتہ شد۔ قوم : افغان۔ سال ولادت: ۹۰۳ ہجری۔ محل جلوس: دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۵۹ سال۔ سال جلوس: ششم جمادی الاول ۹۶۲ ہجری۔ تاریخ جلوس: گشت چو تخت منور ز تن ابراہیم رفت بر دوت دلا سا و بدشمن توبیخ سال تاریخ جلومش ز خرد می جستم رونق کا بعد سلطنت آمد تاریخ ۹۶۲ ہجری مدت سلطنت: ۲ ماہ ۳ یوم۔ سکہ: معلوم می شود کہ سکہ ایں بادشاہ چندان رائج شدہ۔ مدت عمر: ۷۲ سال۔ سال وفات: ۹۷۵ ہجری۔ تاریخ وفات: در کدامی کتاب ایں تاریخ بنظر نیامد۔ لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: اودیسہ۔ کیفیت: باستماع خبر بادشاہی سلطان ابراہیم احمد خان پسر عم شیر نیز خود را بادشاہ ساخت و سکہ وہ خطبہ بنام خود کردہ بمقابلہ در آمد و سلطان ابراہیم را مغلوب ساختہ بر دہلی و آگرہ متصرف شد۔ ۲۱۔ سکندرر شاہ عرف احمد خاں نام پدر: حسین۔ نام مادر: یافتہ نشد۔ قوم: افغان۔ سال ولادت: ربیع الاول ۹۱۱ ہجری۔ محل جلوس: فرح۔ عمربوقت جلوس: ۵۱ سال ۲ ماہ ۔ در دہلی ۵۱ سال ۴ ماہ۔ سال جلوس: اول جمادی الثانی ۹۶۲ ہجری، در دہلی نہم رجب ۹۶۲ ہجری۔ تاریخ جلوس: راقم را جلوس ایں بادشاہ یافتہ نشد۔ مدت سلطنت: ۴ ماہ چندیوم۔ در دہلی ۲ ماہ چند یوم۔ سکہ: جائے ندیدہ ام کہ سکہ ایں بادشاہ رائم شدہ۔ مدت عمر: یافتہ نشد۔ سال وفات: دست نداد۔ تاریخ وفات: چشم در آرزوی دیدار تاریخ وفاتش ماند۔ لقب بعدوفات: ندارد۔ مدفن: سواد بنگالہ ۔ کیفیت: از محمد ہمایوں بادشاہ شکست خورد جانب بنگالہ گریخت و دوبارہ ہمایوں بادشاہ شاہ دہلی شد۔ ۲۲۔ (مرتبہ دویم) نصیر الدین محمد ہمایوں بادشاہ نام پدر: بابر بادشاہ۔ نام مادر: ماہم بیگم۔ قوم: چغتائی۔ سال ولادت: شب سہ شبہ چہار دہم ذیقعدہ ۹۱۳ ہجری۔ محل جلوس: دہلی۔ عمربوقت جلوس: ۴۸ سال ۹ ماہ چند یوم۔ سال جلوس: رمضان ۹۶۲ ہجری۔ تاریخ جلوس: منشی خرد طالع میمون طلبید انشائے سخن ز طبع موزون طلبید تحریر چو کرد فتح ہندوستان را تاریخ ز شمشیر ہمایوں طلبید مدت سلطنت: ۶ ماہ چند یوم کل سلطنت ۱۱سال ۱۰ ماہ چند یوم در دیگر ولایت ۱۳ سال ۱۰ ماہ چند یوم، در دہلی ۱۲ سال چند یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طر ف نام۔ مدت عمر: ۴۹ سال ۳ ماہ ۲۶ یوم۔ سال وفات: یاز دہم ربیع الاول ۹۶۳ ہجری۔ تاریخ وفات: ہمایوں بادشاہ آن شاہ عادل کہ فیض خاص او بر عام افتاد چو خورشید جہاں تاب از بلندی بہ پایاں در نماز شام افتاد جہاں تاریک شد درچشم مردم خلل درکار خاص و عام افتاد قضا از بہر تاریخش رقم زد ہمایوں بادشاہ از بام افتاد لقب بعد وفات: جنت آشیان۔ مدفن: در مقبرہ کہ بمعروف مقبرہ ہمایوں است۔ کیفیت: ا ز زینہ کمند قلعہ کہنہ بلغزش عصا بزیر افتاد و بعد چند روز و داع جان قرمود پسرش کہ کلانور بود بادشی یافت۔ ۱۳ ۔ ابو الفتح جلال الدین محمد اکبر بادشاہ نام پدر: ہمایوں بادشاہ۔ نام مادر: حمیدہ بانو بیگم کہ بعد وفات بمریم مکانی ملقب شدہ۔ : چغتائی ۔ سال ولادت: شب یکشنبہ پنجم رجب ۹۴۹ ہجری۔ جلوس: کلانور۔ عمر بوقت جلوس: ۱۳ سال ۸ ماہ ۳۷ یوم۔ سال جلوس: دویم ربیع الثانی ۹۲۳ ہجری۔ تاریخ جلوس: ا خطبہ شاہ رفعت منبر شد ور سکہ عدل کارہا چون زر شد بنشست بہ تخت سلطنت اکبر شاہ تاریخ جلوس نصرت اکبر شد مدت سلطنت: ۵۱ سال ۲ ماہ ۱۱ یوم۔ سکہ: اولا یک طر ف کلمہ و یک طرف نام مسکوک میشد و در آخر سلطنت بر اللہ اکبر جل جلالہ اکتفا شدہ۔ مدت عمر: ۶۴ سال ۱۱ ماہ ۸ یوم۔ سال وفات: چہار شنبہ سیزدہم جمادی الثانی ۱۰۱۴ ہجری۔ تاریخ وفات: فوت اکبر شد از قضائے الہ گشت تاریخ فوت اکبر شاہ ۱۰۱۴ ہجری لقب بعد وفات: عرش آشیاں۔ مدفن: بہشت آباد المعروف پہ سکندرہ (سواد مستقر الخلافہ اکبر آباد)۔ کیفیت: وفات یافت و پسرش منتقل شد قلعہ مستقر الخلافہ اکبرآباد وغیرہ مکانات تعمیر ایں بادشاہ عالی جاہ بروزگار یادگاراست۔ ۲۴ ۔ ابو المظفر نور الدین محمد جہانگیر بادشاہ نام پدر: اکبربادشاہ۔ نام مادر: صبیہ راجہ بہارامل۔ قوم: چغتائی سال ولادت: روز چہار شنبہ ہفتدم ربیع الاول ۹۷۷ ہجری۔ محل جلوس: مستقر الخلافہ اکبرآباد۔ عمر بوقت جلوس: ۳۷ سال ۲ ماہ ۲۷ یوم۔ سال جلوس: روز پنجشنبہ چہار دہم ربیع الاول الثانی ۱۰۱۴ ہجری۔ تاریخ جلوس: می گویند کہ ایں تاریخ از کشفی است: شاہ جہانگیر چوں از فربخت گشت فردرشکر عالم چو مہر گفت خرد سال جلوس سعید شاہ جہانگیر نصیب سپہر ۱۰۱۴ ہجری مدت سلطنت: ۲۱ سال ۸ ماہ ۱۳ یوم۔ سکہ: اولا کلمہ بعدہ ایں بیت:۔ سکہ زد بر احمد آباد از عنایات الہ روئے زر را ساخت نورانی برنگ و بعد آمدن نور جہان بیگم در محل معلی یک طرف تصویر بادشاہ و نور جہاں بیگم۔ سن و در آخر ایں بیت: ۔ بحکم شاہ جہانگیر یافت صد زیور بنام نور جہاں بادشاہ بیگم زر مدت عمر : ۵۸ سال ۱۱ ماہ ۱۰ یوم۔ سال وفات: بست و ہفتم صفر ۱۰۳۲ ہجری۔ تاریخ وفات: شہنشاہ جہاں شاہ جہانگیر کہ صیت عدل او بر آسمں رفت چو نورالدین محمد بود نامش ازان از رفنش نور جہان رفت ازیں ماتم سرا چوں رخت بر بست جہاں غمگین شد و او کامران است چوں تاریخ وفاتش جست کشفی خرد گفتا جہانگیر از جہاں رفت لقب بعد وفات: جنت مکان ۔ مدفن: شاہدرہ لاہور ، باغ معمرہ نور جہاں بیگم۔ کیفیت: ازیں جہان فانی بجہاں باقی شتافت و آصف خاں و اعظم خاںبرائے انتظام ملک سلطان داور بخش را بر قربانی تصور کر دہ بادشاہ ساختند و مکنون ضمیر شان چنیں بود کہ وقت آمدن شاہ جہاں از دکن اورا بادشاہ کردہ خواہد شد۔ ۲۵۔ سلطان داور بخش عرف مرزا بلاقی نام پدر: شہزاد سلطان خسرو۔ نام مادر: یافتہ نشد۔ قوم: چغتائی۔ سال ولادت: ذیقعدہ ۱۰۱۰ ہجری۔ محل جلوس: راجپوری۔ عمر بوقت جلوس: ۲۲ سال ۴ ماہ۔ سال جلوس: ربیع الاول ۱۰۳۶ ہجری۔ تاریخ جلوس: چو شد سلطان داور بخش از تخت بسان خور بروئے تخت والا بجیب فکر سر بردم بسالش خرد تاریخ گفتا بخت بالا ۱۰۳۶ ہجری مدت سلطنت: یک سال ۲ماہ چند یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طر نام مگر چندان رائج نشدہ۔ مدت عمر: ۲۶ سال ۳ ماہ چند یوم۔ تاریخ وفات: شہ سریر جہاںبادشاہ داور بخش چو رخت بست ز عالم سیا شد ملکت سپہر چادر نیکی بسر کشید و بگفت نماند مالک اقبال و یاوری دولت ۱۰۳۷ ہجری لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: سواد لاہور۔ کیفیت: آخر الامر حسب مکنون ضمیر خود آصف خاں ایں بیچارہ را در لاہور مسافر صحرائے عدم نمودہ شاہجہان خود را در لاہور سانید و بادشاہ شد۔ ۲۶ ۔ شہاب الدین محمد شاہجہاں بادشاہ نام پدر: جہانگیر بادشاہ۔ نام مادر: نواب جودہ بائی صبیہ راجہ بھگوانداس راجہ جودھپور۔ قوم: چغتائی۔ سال ولادت: شب پنجشنبہ یکم ربیع الاول ۱۰۰۰ ہجری۔ محل جلوس: لاہور۔ عمر بوقت جلوس: ۳۷ سال ۳ ماہ ۷ یوم۔ سال جلوس: ہشتم جما دی الثانی ۱۰۳۷ ہجری۔ تاریخ جلوس: بادشاہ زمانہ شاہجہان خورم و شاد و کامران باشد حکم او بر خلائق عالم ہمچو حکم قضا روان باشد بہر سال جلوس او گفتم در جہان باد با جہاں باشد ۱۰۳۷ ہجری مدت سلطنت: ۳۱ سال ۴ ماہ ۲۲ یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طر ف نام۔ مدت عمر: ۷۶ سال ۴ ماہ ۲۶ یوم۔ سال وفات: شب دو شنبہ بست و ششم رجب ۱۰۷۶ ہجری۔ تاریخ وفات: سال تاریخ فوت شاہجہان رضی اللہ گفت اشرف خان لقب بعد وفات: علیین مکان۔ مدفن: تاج گنج متصل قبر ممتاز الرمانی واقع سودا اکبر آباد۔ کیفیت: بسبب بیماری د رامور سلطنت اختلال افتاد محمد دارا شکورہ کہ ولی عہد بود نظم سلطنت بطور خود ساخت و راہ آمد و رفت اخبار مسدود نمود محمد عالمگیر از بنگالہ بطرف دارلخلافہ متوجہ شدہ با دارا شکوہ جنگ نمودہ فتح یافت و شاہجاں را بطو نظر بند داشتہ بر تخت سلطنت و فرمانروائی جلوس نمود و بعد مقابلہ و محاربہ بر دیگر برادران ظفر یافت۔ ۲۷۔ ابو المظفر محی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ نام پدر: شا ہجہان۔ نام مادر: ارجمند بانو بیگم مخاطب بہ ممتاز محل۔ قوم: چغتائی ۔ سال ولادت: شب یکشنبہ یاز دہم زیقعدہ ۱۰۲۸ ہجری۔ سال جلوس: غیر آباد۔ عمر بوقت جلوس: ۳۹ سال ۱۱ماہ ۲۰ یوم۔ سال جلوس: روز جمعہ، یکم ذیقعدہ ۱۰۶۸ ہجری۔ تاریخ جلوس: اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم ۱۰۶۸ ہجری۔ مدت سلطنت : ۵۰ سال ۲۷ یوم۔ سکہ: سکہ زد در جہاںچو بدر منیر۔ شاہ اورنگ زیب عالمگیر۔ مدت عمر: ۹۰ سال ۱۷ یوم سال وفات: روز جمعہ بست وہشتم ذیقعدہ ۱۱۱۸ ہجری۔ تاریخ وفات: روح و ریحان جنت نعیم ۱۱۱۸ ہجری۔ لقب بعد وفات: خلد مکان۔ مدفن: اورنگ آباد۔ کیفیت: در عہد خو د جبہ سائی بحضور بادشاہاں میشد و نیز کلمہ کہ بر روپیہ و بر اشرفی مسکوک میشد موقوف ساخت و بحکم اینکہ ازین دار فنا کسے را بقائے نیس بعالم باقی شتا قت۔ بعد وفا تش در امر خلافت اختلاف افتاد۔ ہر یکے خود را بادشاہ ساخت۔ مگر محمد معظم ملقب بہ شاہ عالم بہادر شاہ کہ در اطراف لاہور بود بہ سعی منعم خان کہ دیوان سرکار و ناظم لاہور بود بادشاہ کردہ در دہلی داخل شد و متصل جاجیو از عالی جاہ وغیرہ مقابلہ و محاربہ رو داد و آنہا در جنگ کشتہ شدند و محمد معظم فتح یافت۔ ۲۸۔ محمد معظم الملقب بہ شاہ عالم بہادر شاہ نام پدر: اورنگ زیب۔ نام مادر: نواب بائی۔ قوم: چغتائی۔ سال ولادت: سلخ رجب ۱۰۵۳ ہجری۔ محل جلوس: لاہور۔ عمر بوقت جلوس: ۶۵ سال ۵ ماہ۔ سال جلوس: غرہ ذی الحجہ ۱۱۱۸ ہجری۔ تاریخ جلوس: نشست چوں بسریر جہاں بہادر شاہ رسیدمثردہ دولت ز عالم بالا ز منظر فلک آوردہ سر برون ہاتف بگفت سال جلو سش نظام ملک ولا ۱۱۱۸ ہجری۔ مدت سلطنت: ۵ سال یک ماہ۔ سکہ: آوردہ اند کہ در اوائل سلطنت یک طرف کلمہ و یک طرف نام سکہ خود مقر رساختہ بعد و بعد آن کدامی بیت شدہ تضمین لیکن راقم را از آں آگاہی دست نداد۔ مدت عمر: ۷۰ سال ۶ ماہ۔ سال وفات: یکم محرم روز شنبہ ۱۱۲۴ ہجری۔ تاریخ وفات: در وفا تش بے سرو بے پا شدند فیض و فضل و نعمت وعدل و کرم ۱۱۲۴ ہجری لقب بعد وفات: خلد منزل۔ مد فن: موضع مہر ولی واقع سواد دہلی کہنہ۔ کیفیت: این جہان فانی را گذاشت و بعد وفاتش در امر خلافت اختلاف افتاد محمد عظیم الشان کہ از عہد جد خود نظامت صوبہ بنگالہ داشت بہماں طرف خود را بادشاہ ساخت و محمد معز الدین و شاہزادہ خجستہ اختر رو رفیع الشان باہم عہد و مواثیق بستہ بر فع عظیم الشان مستعد گر دیدند۔ ۲۹۔ محمد معزا لدین۔ شاہزادہ خجستہ اختر ۔ رفیع الشان نام پدر: محمد معظم ملقب بہاد ر شاہ۔ نام مادر: نظام بائی ۔ قوم: چغتائی ۔ سال ولادت: (۱) دہم رمضان ۱۰۷۲ ہجری ۔ (۲، ۳) محل جلوس: دارالسلطنت دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۵۱ سال ۳ ماہ ۲۷ یوم۔ سال جلوس: روز جمعہ ہفتم محرم ۱۱۲۴ ہجری۔ تاریخ جلوس: یقینکہ تاریخ جلوس آنہا بسبب عدم تفریق سلطنت تضمین نشدہ باشد۔ مدت سلطنت: یک ماہ یک یوم۔ سکہ: بسبب عدم تفریق سلطنت بکدامی سکہ زر و سیم مسکوک نشدہ۔ مدت عمر: (۱) ۵۲ سال ۳ ماہ ۲۸ یوم۔ (۲) معلوم نشد (۳) معلوم نشد۔ سال وفات: روز جمعہ ہشتم محرم ۱۱۲۵ ہجری۔ تاریخ وفات: راقم را تاریخ وفات اینہا دستیاب نگر دید۔ لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: دہلی۔ کیفیت: بعد جنگ بر عظیم الشان فتح یافتند و بعد فتح فیہا بین این ہرسہ برادر نفاق آفتاد، محمد معزالدین و شاہزادہ خجستہ اختر فیمابین خود ہا طرح جنگ انداختند و رفیع الشان کنارہ کردہ نظر بر انجام ہر دو برادر گماشت۔ ۳۰۔خجستہ اختر جہاں شاہ نام پدر: محمدمعظم ملقب بہ بہادر شاہ۔ نام مادر: بالتحقیق معلوم نشد بعضی میگو بند کہ نظام بائی است۔ قوم: چغتائی۔ سال ولادت: یافتہ نشد۔ محل جلوس: دہلی۔ عمر بوقت جلوس: بدریافت نرسید ۔ سال جلوس: ہشتم صفر ۱۱۲۴ ہجری۔ تاریخ جلوس: ہشتم صفر ۱۱۲۴ ہجری۔ مدت سلطنت: ۱۴ یوم۔ سکہ: میدانم کہ نوبت ترویج سکہ نرسیدہ باشد۔ مدت عمر: معلوم نشد ۔ سال وفات: بست و دویم صفر ۱۱۲۴ ہجری۔ تاریخ وفات: راقم ازین تاریخ لاعلم ماند۔ لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: دہلی۔ کیفیت: در جنگ محمد معز الدین بضرب گولہ تفنگ کشتہ شد و رفیع الشان باوصف سپاہ بمقابلہ در آمد۔ ۳۱۔ رفیع الشان نام پدر: محمد معظم ملقب بہ بہادر شاہ۔ نام مادر: بالتحقیق معلوم نشد بعضی میگویند کہ نظام بائی است۔ قوم: چغتائی۔ سال ولادت: معلوم نشد۔ محل جلوس: دہلی۔ عمربوقت جلوس: مطلع نشدم ۔ سال جلوس: بست و دویم صفر ۱۱۲۴ ہجری۔ تاریخ جلوس: راقم ازین تاریخ وقوف لیاقت۔ مدت سلطنت: ۸ یوم۔ سکہ: یقین است کہ سکہ قرار نیا فتہ باشد۔ مدت عمر: معلوم نشد۔ سال وفات: صفر ۱۱۲۴ ہجری۔ تاریخ وفات: راقم ازین تاریخ لاعلم ماند۔ لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: دہلی۔ کیفیت: در جنگ کہ با معزالدین پیش آمدہ بود کشتہ شد و محمد معز الدین خود را بجہاندار شاہ ملقب ساختہ مزاحمت دیگر پر تخت نشست۔ ۳۲۔ محمد معزالدین جہلدار شاہ نام پدر: محمد معظم ملقب بہ بہادر شاہ۔ نام مادر: نظام بائی ۔ قوم: چغتائی ْ۔ سال ولادت: رو ز چہار شنبہ دہم رمضان ۱۰۷۲ ہجری۔ محل جلوس: لاہور۔ عمربوقت جلوس: ۵۱ سال ۵ ماہ ۲۰ یوم۔ سال جلوس: غرہ ربیع الاول ۱۱۲۴ ہجری روز پنجشنبہ۔ تاریخ جلوس: راقم را تاریخ جلوس ایں بادشاہ بدست نیامد۔ مدت سلطنت: ۹ ماہ چندیوم۔ سکہ: بزد سکہ در ملک چوں مہر وما شہنشاہ غازی جہاندار شاہ مدت عمر: ۵۲ سال ۳ ماہ ۲۸ یوم۔ سال وفات: روز جمعہ ہشتم دم ۱۱۲۵ ہجری۔ تاریخ وفات: درکدامی کتاب بنظر نرسید۔ لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: مقبرہ ہمایوں واقع سواد دہلی۔ کیفیت: فیما بین جہاندار شا ہ و محمد فرخ سیر برادر زادہ اش جنگ واقع شد آخر الامر جہاندار شاہ اسیر و محمد فرخ سیر زیبندہ سر یر گر دید و بعد چند روز جہاندار شاہ در قلعہ دارالسلطنت دہلی بقتل رسید۔ ۳۳۔ جلال الدین محمد فرخ سیر نام پدر: عظیم الشان بن محمد معظم ملقب بہ بہادر شاہ۔ نام مادر: یافتہ نشد۔ قوم: چغتائی سال ولادت: روز پنجشنبہ ہجدہم رجب ۱۰۹۵ ہجری۔ محل جلوس: دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۲۹ سال ۵ماہ ۵ یوم۔ سال جلوس: روز جمعہ بست و سوم ذیقعدہ ۱۱۲۴ ہجری۔ تاریخ جلوس: شاہ فرخ سیر کہ افسر او آفتاب سپہر مملکت است گفت ہاتف کہ سال سلطنش آفتاب کمال سلطنت است ۱۱۲۵ ہجری۔ مدت سلطنت: ۶ سال ۳ ماہ ۱۵ یوم۔ سکہ: سکہ زد از افضل حق بر سیم و زر بادشاہ بحر و بررفرخ سیر مدت عمر: ۳۵ سال ۸ ماہ ۲۰ یوم۔ سال وفات: ہشتم ربیع الثانی ۱۳۱ ہجری روز سہ شنبہ۔ تاریخ وفات: فاعتبروا یا اولی الابصار ۱۱۳۱ ہجری۔ لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: مقبرہ ہمایوں واقع سواد دہلی۔ کیفیت: عبدا للہ خان ونواب حسین علی خان سادات بارہہ کہ میر بخشی وصوبہ دار دکن بودند اسیر کردہ از زہر ہلاک ساختہ و رفیع الدرجات را بر آوردہ بادشاہ نمودند۔ ۳۴۔ محمد ابو البر کات سلطان رفیع الدرجات نام پدر: رفیع الشان بن محمد معظم ملقب بہ بہادر شاہ۔ نام مادر: نورالنساء بیگم۔ قوم: چغتائی ۔ سال ولادت: ہفتم جمادی الاخر ۱۱۱۱ ہجری۔ محل جلوس: دہلی۔ عمربوقت جلوس: ۱۹ سال ۱۰ ماہ ۲ یوم۔ سال جلوس: روز چہار شنبہ نہم ربیع الثانی ۱۱۳۱ ہجری۔ تاریخ جلوس: بنشست بہ تخت چون رفیع الدرجات گوئی برعرش سر کشید از غرمات سپر خروش چودید با فرو شکوہ تاریخ آمد لقب رفیع الدرجات ۱۱۳۱ ہجری مدت سلطنت: ۳ ماہ ۱۱یوم۔ سکہ: محمد ابو البرکات سلطان رفیع الدرجات بادشاہ غازی۔ مدت عمر: ۲۰ سال یک ماہ ۱۳ یوم۔ سال وفات: روز شنبہ بستم رجب ۱۱۳۱ ہجری۔ تاریخ وفات: چوں خان شہنشہ رفیع الدرجات رہ جست بسایہ نہال طوبیٰ رضوان بدر بہشت اقدام کناں گفتا خلد بریں مقام و ماوا ۱۱۳۱ ہجری لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: سواد دہلی۔ کیفیت: چوں ایں بادشاہ مریض و نحیف بود و باستعمال کو کنار عادت داشت۔ درین نزدیکی داعئی اجل را لبیک اجابت مقبول کرد و ہمان عبداللہ خان و نواب حسین علی خان رفیع الدولہ را بر آوردہ بادشاہ ساختند۔ ۳۵۔ شمس الدین رفیع الدولہ محمد شاہ جہان بادشاہ ثانی نام پدر: رفیع الشان ابن محمد معظم ملقب بہ بہادر شا ہ۔ نام مادر: نورالنساء بیگم۔ قوم: چغتائی۔ سال ولادت: پنجم صفر ۱۱۱۳ہجری ۔ محل جلوس: دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۱۸ سال ۵ ماہ ۱۵ یوم۔ سال جلوس: بستم رجب ۱۱۳۱ ہجری۔ تاریخ جلوس: راقم را تاریخ جلوس ایں بادشاہ بدست نیامد۔ مدت سلطنت: ۳ ماہ ۲۸ یوم۔ سکہ: شمس الدین محمد شاہ جہان بادشاہ غازی۔ مدت عمر: ۱۸ سال ۹ ماہ ۱۲ یوم۔ سال وفات: ہفتدہم ذیقعدہ ۱۱۳۱ ہجری۔ تاریخ وفات: در کدامی کتاب بنظر نرسید۔ لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: مقبرہ ہمایوں واقع سواد دہلی۔ کیفیت: چون ایں بادشاہ نیز بدستور برادر خود عادی بخوردن کو کنار بود درین نزدیکی برحمت الہی پیوست وہمان عبداللہ خان و نواب حسین علی خان روشن اختر را از اسیری بر آوردہ بر تخت شاہی نشاندند۔ ۳۶۔ روشن اختر ملقب بہ ابو الفتح محمد شاہ بادشاہ نام پدر: جہان شاہ بن محمد معظم ملقب بہ بہادر شاہ ۔ نام مادر: معلوم نشد۔ قوم : چغتائی۔ سال ولادت: بست و ششم ربیع الاول ۱۱۱۴ ہجری ۔ محل جلوس: دہلی۔ عمربوقت جلوس: ۱۷سال ۷ ماہ ۲۱ یوم۔ سال جلوس: ہفتدہم ذیقعدہ ۱۱۳۱ ہجری ۔ تاریخ جلوس: شہ کشور ستانے روشن اختر گواہ آمد فروغ بخت را نام ہما یونش درین بودم کہ گویم نظم تاریخش کہ از ہاتف سریر آرائے جاہ و دولت آمد سال تاریخش ۱۱۳۱ ہجری مدت سلطنت: یک سال یک ماہ ۱۱یوم ۔ سکہ: اولا بر روپیہ مربع یک طرف کلمہ و یک طرف نام و بعدہ بر روپیہ مدور محمد شاہ بادشاہ غازی صاحبقران ثانی۔ مدت عمر: ۴۷ سال یک ماہ یک یوم۔ سال وفات: بست و ہفتم ربیع الثانی ۱۱۶۱ ہجری۔ تاریخ وفات: شہ فلک حشم روشن اختر آن کہ ازو چوں آفتاب جہاں جملگی فروغ گرفت چو شد بجادہ فردوس ازیں سرائے سپنچ سرود ہاتف غیبی کہ گو بجنت رقت ۱۱۱۶ ہجری لقب بعد وفات: فردوس آرامگاہ۔ مدفن: درگاہ حضرت سلطان المشائخ واقع سواد دہلی۔ کیفیت: بعد از آنکہ روشن اختر بادشاہ گردید نواب حسین علی خان او را ہمراہ گرفتہ بہ سر نظام الملک سعت دکہن نہفت نمود میر حیدر خان ہمراہی محمد امین خان بہادربموجب اشارہ شان نواب حسین علی خان را بضرب کارد ہلاک ساخت و برائے اخذ انتقام بر سر محمد امین خان نہفت نمود۔ ۳۷۔ سلطان محمد ابراہیم نام پدر: پسرسوئمی رفیع الشان بن محمد معظم ملقب بہ بہاد ر شاہ۔ نام مادر: نورالنساء بیگم۔ قوم: چغتائی ۔ سال ولادت: بست و ششم ربیع الاول ۱۱۱۵ ہجری۔ محل جلوس: دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۱۷ سال ۹ ماہ ۲ یوم۔ سال جلوس: بست و ہشتم ذی الحجہ ۱۱۳۲ ہجری۔ تاریخ جلوس: تاریخ جلوس در کتابے آشنائے چشمم نشد۔ مدت سلطنت: ۱۵ یوم۔ سکہ: بکدامی سکہ زر و سیم زینت نیافتہ۔ مدت عمر: معلوم نشد۔ سال وفات: بدریافت نرسید۔ تاریخ وفات: درکتابے تاریخ وفات ندیدم۔ لقب بعد وفات: ندارد۔ مدفن: معلوم نشد۔ کیفیت: در نواح شیر گڑھ با امرائے محمد شاہ مقابلہ شد و عبداللہ خان اسیر و محمد امین خان وزیر گردید و باز تسلط محمد شاہ بر دہلی شد۔ ۳۸۔ روشن اختر ابو الفتح محمد شاہ بادشاہ نام پدر: خجستہ اخترجہاں شاہ بن محمد معظم ملقب بہ بہادر شاہ۔ نام مادر: معلوم نشد۔ قوم: چغتائی۔ سال ولادت: بست و ششم ربیع الاول ۱۱۱۴ ہجری۔ محل جلوس: شیر گڑھ۔ عمر بوقت جلوس: ۱۸ سال ۹ ماہ ۱۷ یوم ۔ سال جلوس: یعنی تسلط بعد فتح سیز دہم محرم ۱۱۳۳ ہجری۔ تاریخ آمد نادر شاہ در دہلی شانزدہم ذیقعد ۱۱۵۱ ہجری۔ تاریخ جلوس: قطعہ تاریخ تسلط بعد فتح بر سلطان ابراہیم در کدامی کتاب بنظر نیامد۔ مدت سلطنت: ۱۸ سال ۳ ماہ ۱۴ یوم ، مدت ماندن نادر شاہ در دہلی ۲ ماہ ۲ یوم۔ سکہ: اولا بر روپیہ مربع یک طرف کلمہ و یک طرف نام و بعدہ بر روپیہ مدور محمد شاہ بادشاہ غازی صاحبقران ثانی۔ مدت عمر: ۴۳ سال یک ماہ یک یوم، تاریخ رفتن نادر شاہ از دہلی ہفتم صفر ۱۱۵۲ ہجری۔ سال وفات: بست و ہفتم ربیع الثانی ۱۱۶۱ ہجری۔ تاریخ وفات: شہ فلک حشم روشن اختران کہ از او چو آفتاب جہان جملگی فروغ گرفت چو شد بجادہ فردوس ازین سرائے سپنج سرود ہاتف غیبی کہ گو بجنت رفت ۱۱۶۰ ہجری لقب بعد وفات: فردوس آرامگاہ۔ مدفن: درگاہ حضرت سلطان المشائخ واقع سواد دہلی۔ کیفیت: بعارضہ جسمانی وفات یافت و پسرش بسعی نواب صفد ر جنگ خان بہادر شد۔ ۳۹ ۔ مجاہد الدین محمد ابو النصر احمد شاہ بہادر شاہ نام پدر: محمد شاہ۔ نام مادر: ادہم بائی مخاطب بہ ممتاز محل۔ قوم: چغتائی۔ سال ولادت: روز سہ شنبہ بست و ہفتم ربیع الثانی ۱۱۴۰ ہجری۔ محل جلوس: پانی پت۔ عمر بوقت جلوس: ۲۳ سال ۵ یوم۔ سال جلوس: دویم جمادی الاول ۱۱۶۱ ہجری۔ تاریخ جلوس: چوں شاہ جوان بخت از سر تخت چو خورشید از فلک بنمود جلوہ خرد سال جلوسش بر لب آوزد سریر سلطنت افرود جلوہ ۱۱۶۱ ہجری مدت سلطنت: ۶ سال ۳ ماہ ۸ یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طرف نام۔ مدت عمر: ۵۰ سال ۴ ماہ ۱۳ یوم۔ سال وفات: روز سہ شنبہ دہم شعبان ۱۱۸۸ ہجری۔ تاریخ وفات: بر بست چون مجاہد دین رخت زندگی ہر کس در سراشک یمثر گان خونش است ہاتف برائے سال وفاتش بصد بکا سال وفات سال وفات ہائی ہائی گفت ۱۱۸۸ ہجری۔ لقب بعد وفات: خلد آرامگاہ۔ مدفن: دہلی۔ کیفیت: وفات یافت و بمشیت ایزدی محمد عزیز الدین بر تخت نشست۔ ۴۰۔ عزیز الدین عالمگیر ثانی بادشاہ غازی نام پدر: معز الدین جہاندار شاہ۔ نام مادر: انوپ بائی ۔ قوم: چغتائی۔ سال ولادت: روز جمعہ ۱۰۹۹ ہجری ۔ محل جلوس: شالہ مار دہلی۔ ؎ عمر بوقت جلوس: ۶۸ سال چند ماہ چند یوم۔ سال جلوس: روز سہ شنبہ ۔ دہم شعبان ۱۱۶۷ ہجری۔ تاریخ آمدن احمد شاہ درانی در دہلی ہفتم جمادی الاول ۱۱۷۰ ہجری۔ تاریخ جلوس: شاہ والا نزاد عالمگیر از ازل نامور بفیض آمد گشت چوں جلوہ گر بروئے سریر گشت تاریخ مظہر ایزد ۱۱۶۷ ہجری مدت سلطنت: ۵ سال ۷ ماہ ۲۸ یوم۔ سکہ: یک طرف کلمہ و یک طرف نام۔ مدت عمر: ۷۳ سال چند ماہ چند یوم۔ سال وفات: رو ز پنجشبہ ہشتم ربیع الثانی ۷۳ ۱۱ ہجری ۔ تاریخ وفات: شاہ عالی نسب عزیز الدین کش بود در جوار رحمت جائے گفت ہاتف چو رفت در جنت داور عرس سمک مردای وائے ۱۱۷۳ ہجری لقب بعد وفات: عرش منزل۔ مدفن: مقبرہ ہمایوں واقع سواد دہلی۔ کیفیت: حسب اشارہ عمادالملک از دست تالح یاس خان و مہدی قلی خان بدرجہ شہادت رسید و پسرش بادشاہ شد۔ ۴۱۔ ابو المظفر جلال الدین سلطان عالی گوہر شاہ عالم بادشاہ نام پدر: عزیز الدین عالمگیر ثانی۔ نا م مادر: بی نئی۔ قوم: چغتائی۔ سال ولادت: ہفتدہم ذیقعدہ ۱۱۴۰ ہجری۔ محل جلوس: الہ آباد۔ عمر بوقت جلوس: ۳۲ سال ۵ ماہ ۱۷ یوم۔ سال جلوس: چہارم جمادی الاول ۱۱۷۳ ہجری۔ سال آمدن بہاؤ و شکستن سقف قلعہ ۱۱۷۳ ہجری۔ سال آمدن احمد شاہ درانی مرتبہ دویم تاریخ عملداری سرکار کمپنی ۱۲۱۸ ہجری مطابق پانزدہم ستمبر ۱۸۰۳ عیسوی۔ تاریخ جلوس: راقم را این تاریخ بدریافت نرسید۔ مدت سلطنت: ۴۸ سال ۴ ماہ ۳ یوم۔ سکہ: سکہ زد بر ہفت کشور سایہ فضل الہ حامی دین محمد شاہ عالم بادشاہ و یک طرف سن جلوس وغیرہ۔ مدت عمر: ۲۸ دسمبر ۱۸۰۶ عیسوی وقت صبح کاذب ، ہفتم رمضان ۱۲۲۱ ہجری۔ تاریخ وفات: طبعزاد جنا ب مولوی امام بخش صاحب صہبائی حضرت فردوس فنا و کرد در جنت مقام رفت ازین دار فنا و کرد در جنت مقام سال تاریخ وفات آں شہ عالی گوہر دل ز روے نالہ گفتا ہفتم شہر صیام ۱۲۲۱ ہجری لقب بعد وفات: فردوس منزل۔ مدفن: درگاہ حضرت قطب الاقطاب واقع سواد دہلی۔ کیفیت: این جہان را پدرود نمود و پسرش بادشاہ شد۔ ۴۲۔ ابو النظر معین الدین محمد اکبر شاہ بادشاہ نام پدر: شاہ عالم بادشاہ۔ نام مادر: مبارک محل در عہد شاہ عالم و نواب قدسیہ در عہد اکبر شاہ۔ قوم: چغتائی۔ سال ولادت: شب چہار شنبہ ہفتم رمضان ۱۱۷۳ ہجری۔ محل جلوس: دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۴۸ سال یک ماہ۔ سال جلوس: وقت صبح روز چہار شنبہ ہفتم رمضان ۱۲۲۱ ھ۔ تاریخ جلوس: طبعزاد جناب مولوی امام بخش صہبائی: ببر چو کرد لباس خلافت اکبر شاہ بشر ف دولت واقبال و عزت ناموس سروش غیب ز روئی بدیہہ یک ناگاہ جہیز عشرت پرویز گفت سال جلوس ۱۲۲۱ ہجری مدت سلطنت: ۳۱ سال ۹ ماہ ۲۱ یوم۔ سکہ: سکہ مبارک صاحبقران ثانی محمد اکبر شاہ بادشاہ غازی۔ مدت عمر: ۷۹ سال ۱۰ ماہ ۲۱ یوم۔ سال وفات: جمعہ بست و ہشتم جما دی الثانی ۱۲۵۳ ہجری بعد نماز مغرب۔ تاریخ وفات: طبعزادہ راقم آثم۔ چون برفت از جہاں شہ اکبر شد سیاہ آسمان زرد جگر پائے شادی شکست و احمد گفت سال تاریخ او غم اکبر ۱۶۲۳ ہجری لقب بعد وفات: عرش آرامگاہ۔ مدفن: درگاہ حضرت قطب الاقطاب واقع سواد دہلی۔ کیفیت: بمرض استسقا مبتلا گردیدہ در گذشت و بادشاہی بہ پسرش قرار یافت۔ ۴۳۔ ابو المظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ بادشاہ غازی نام پدر: محمد اکبربادشاہ۔ نام مادر: لال بائی۔ قوم: چغتائی۔ سال ولادت: روز سہ شنبہ بست و ہفتم شعبان ۱۱۸۹ ہجری قریب غروب آفتاب۔ محل جلوس: دارلسلطنت دہلی۔ عمر بوقت جلوس: ۶۳ سال ۱۰ ماہ۔ سال جلوس: شب جمعہ بست و ہشتم جمادی الثانی ۱۲۵۳ ہجری۔ تاریخ جلوس: طبعزاد جناب مولوی امام بخش صاحب صہبائی۔ از نشہ دولت بہادر شاہی شد پر زمے طرب ایاغ دہلی بنشست بتخت دولت روز افزون نزہت بفردر از و سماغ دہلی تاریخ جلوس آن شہ والا قدر آمد بلب خرد چراغ دہلی ۱۲۵۳ ہجری سکہ: بسیم و زر زدہ شد سکی بفضل الہ سراج دین ابو المظفر شہ بہادر شاہ کیفیت: تا امروز تحریر حضر ت ظل سبحانی جلوہ فرمائے اورنگ نشینی اند، اگرچہ در جملہ ممالک علمداری۔ سرکار کمپنی است۔ لیکن بزرگ کردہ ہائے ایزدے را پایہ کہ ہست درآں قصورے نیست۔ تفصیل ایں اجمال در تاریخ دیگر انشاء اللہ تعالیٰ نوکریز خامہ خواہد شد۔ بحسن توفیقہ مرزا دارا بخت بہادر کہ مہین پور خلیفہ الرحمانی اند و بروز دو شنبہ تاریخ نہم صفر ۱۲۰۸ ہجری وقت شش گھڑی روز باقیہاندہ از بطن ذکیتہ النساء بیگم بنت مرز اسلیمان شکوہ بہادر بوجود آمدہ قبائے ولی عہدی در بردارند و حضرت ظل سبحانی راہ پسر دیگر اند۔ یکے مرزا شاہرخ بہادر برادر حقیقی مرزا ولی عہد۔ دوئمی مرزا فتح الملک بہادر المعروف بمرزا غلام فخر الدین۔ سوئمی مرزا عبداللہ بہادر۔ چہارمی مرزا سید سو بہادر۔ پنجمی مرزافرخندہ ششمی قومائیں بہادر۔ ہفتمی مرزا بختاور شاہ بہادر۔ ہشتمین مرزا ابو النصر بہادر المعروف بمرزا بلاقی۔ نہمیں مرزا مہدی بہادر دہمیں مرزا خضر سلطان بہادر و مرزا ولی عہد را ہفت پسر اند یکے مرزا کاتی بہادر۔ دوئمی مرزا کریم الشجاع از بطن فخر الزمانی بیگم۔ سیومی مرزا عمر شیخ از بطن نوازش محل۔ چہارمی مرز ا احمد از بطن سہاگن بیگم۔ پنجمی مرزا محمد رئیس از بطن روشن آبادی محل۔ ششمیں مرزا محمود اختر از بطن دولت آبادی محل۔ ہفتم مرزاسکندر بخت از بطن وزیر النساء بیگم۔ تفصیل آمدنی زر نقد و دیہات و نزول بحساب سالانہ نقد از خزانہ سرکار کمپنی ۱۱ لاکھ ۸۸ ہزار بابت اضافہ کہ ترکہ شاہی نرسیدہ۔ تین لاکھ یک محال پر گنہ کوت قاسم۔ ۵۱ ہزار سو کانہہ مو وغیرہ۔ پر گنہ باغ پت ۳ م ۱۱ ہزار شمع پور باولی پرگنہ حویلی پالم ۲ م تین ہزار۔ کانہہ وارہ ۸۱ ہزار ۳ سو ۔ رائے پور پر گنہ حویلی پالم تین سو۔ ملک ربولنہ کلکرولہ ۶۰۰ ۔ ست پورہ پرگند سکندر آباد ۲۴ م ۱۶ ہزار۔ مرشد پورہ پرگنہ سونی پت ۸۱ ہزار۔براہی پرگنہ حویلی پالم ایک ہزار۔ باکسرہ پرگنہ حویلی پالم ۱۱ ہزار۔جکدیس پرگنہ سونی پت ۸۱ ہزار ۵ سو۔ علی پور وغیرہ پرگنہ حویلی پالم ۳ ہزار۔ موضع ۹۱ ہزار۔ اندھا ولی پر گنہ حویلی پالم ۸۱ہزار ۳ سو۔ ساندہل پرگنہ سونی پت ۸۱ ہزار ۵ سو۔ مولرین وغیرہ سونی پت ۳ م ۱۱ ہزار۔ روایت ککروہی وغیرہ ۷ م ۱۰ ہزار۔ مندورپرگنہ سونی پت۔ ۱۰ ہزار پلہ پرگنہ ہودل ۸۱ ہزار ۔کل آمدنی سالانہ ۱۶ لاکھ تین ہزار۔ و آمدنی مکانات و باغات کہ اندرون شہر و بیرون آن واقع اند علاوہ آن است۔ تفصیل آن در تاریخیکہ متضمن حال حضرت ظل سبحانی رقم مینمایم مندرجہ خواہد شد۔ فقط۔ خاتمہ ازان جا کہ تردد تلاش و سعی در فراہم آوردن این گرانمایہ گوہرحواس خمسہ ام را فرصت کار سازیہائے امرے دیگر بہیچ وجہ نمی بخشید ناگزیر چندے چون دیوانگان سلسلہ عطف دامن را پائے بند ہزرہ دویہا ساختہ و گوشہ عافیت را کہ عبا رت از کلبہ احزان است ماموں تراز خلوت عباد پرداختہ مصروف ور ق ورق کافتن نسخ تواریخ گشتم و از ہر یک انچہ بابروی گوہر اعتبار بر خود چیدہ در دامن این صحیفہ ذخیرہ ساختم تا ارباب روشن رائی از مطالعہ اش استعدادے بہم رسانید ہ ازیں کوزہ محیطے و ازین ذرہ آفتابے حاصل نمایند و ازان محیط سرمایہ گوہر صفا و ازان آفتاب دستگاہ ضیاء وار بایند۔ فہرست کتبے کہ خلاصہ آن نقد گنجینہ این اوراق و زبدہ آن مایہ اعتبار این سیاق است ازین جابر گرفتنی است کہ اعتبار مولف را اساس نہند و اعتماد راقم را بنیاد گزارند۔ تفصیل کتب تاریخ فرشتہ۔ تاریخ فیروز شاہی تصنیف مولانا عزیز الدین۔ تاریخ افاغنہ محتوی بہر حال سلطان بہلول و شیر شاہ وغیرہ تصنیف حسین خان افغان ، تاریخ مظفری ، تاریخ عالمگیری ، تیمور نامہ، تاریخ بابری ، اکبر نامہ۔ تاریخ اکبری ، طبقات اکبری، تاریخ اکبر شاہی۔ اقبال نامہ جہانگیری کہ بپہار گلشن ہم شہرت دارد، مرات آفتاب نما ، تاریخ محمد مہدی۔ تاریخ تصنیف شیخ عبد الحق محدث دہلو ی قدس سرہ، چغتائی، جنگ نامہ، تاریخ سکندری، خلاصۃ التواریخ ، تاریخ علی محمد بدا ؤنی، مسودہ تاریخ مبیضہ جناب خالو صاحب مولوی محمد خلیل اللہ خان بہادر مرحوم صدر امین خیر البلاد شا ہجہان آباد نور اللہ مرقدہ، شجرہ مولفہ جناب عبیداللہ خاں صاحب مرحوم طاب ثراہ کہ متضمن است پر ذکر جمیع انبیاء و اولیاء و بادشا ہان کہ از ظہور حضرت آدم علی نبینا وعلیہم الصلوۃ والسلام تا ایں دم دریں دہر نا پائیدار بوجود آمدہ اند و دران شجرہ اکثرے از تاریخ ہائے جلوس و وفات بادشاہان و شمہ ا زحال آنہا مندرج است و علاوہ آن مسودہ ہا کہ بعضے مردم ثقاۃ بطور انتخاب و تبریج تبییض فرمودہ بودند بدست آوردم و بعضے مراتب کہ ا ز اشخاص معتبر بسمع رسید آنہم جمع نمودم تا آنکہ در مدت شش ماہ و بست پنج روز کہ دہم صفر المظفر ۱۲۵۵ ہجری مطابق پست پنجم مئی ۱۸۳۹ عیسوی بود از تحریر این نسخہ فراغت حاصل شد مقبول طبع بزرگان نکتہ سنج باد۔ بحق النبی والہ الامجاد و اصحابہ زین العباد۔ قطعہ تاریخ کہ سرو جو ئبار سخندانی۔ گل گلستان معانی، یکتاگہر محیط شیریں کلامی، بعل شب چراغ شیوا بیانی اعنی مکرمی مرزا حاتم علی بیگ متخلص مہر بریں نگاریں نامہ ریختہ خامہ مہر شمامہ فرمودہ اند۔ تاریخ ترتیب یافت ہر گہ این نسخہ جام جم نام خامہ بعزم سالش بگرفت مہر مضطر ہم مہر و ہم قلم را تاریخ دلکش آمد آئینہ سکندرہ جام جم است بنگر ۱۲۵۵ھ ………… تسہیل فی جر الثقیل تالیف کیا ہوا جواد الدولہ سیداحمد خان بہادر عارف جنگ منصف فتحپور سیکری ضلع آگرہ بموجب حکم جناب فیضہاب پادری جان جیمس مور صاحب بہادر سیکرٹری آگرہ و سکول بک سوسائٹی کے اور چھاپ گیا آگرہ کے یتیموں کے چھاپہ خانہ میں ۱۸۴۴ عیسوی بسم اللہ الرحمن الرحیم آدمی کو لازم ہے کہ دن رات اپنے پروردگار کی تعریف کرے جس نے ایک چٹکی خاک سے طرح طرح کی مورتیں بنائیں اور اپنے بندوں کو دین کی سیدھی سیدھی راہیں بتائیں اور اللہ کی رحمت ہو ا سکے پاک پیارے محمد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کہ اس کے سبب سے ہم گمراہوں نے دوزخ کی آنچ سے نجات پائی اور پروردگار کی اسی نے راہ دکھائی اللہ اور اللہ کے رسول کی حمد اور نعت کے بعد سید احمد حسنی الحسینی المخاطب بخطاب جواد الدولہ سید احمدخان بہادر عارف جنگ فتح پور سیکری ضلع آگرہ کا منصف سب بزرگوں اور علقمندوں کی خدمت میںعرض کرتا ہے کہ جرثقیل کا علم بہت عجیب و غریب ہے ساری دنیا کے کارخانے اسی پر موقوف ہیں۔حق یہ ہے کہ اگر یہ علم نہ ہوتا تو دنیا کا کارخانہ نہ چلتا اور یہ علم بہت تھوڑا ہے کل اصل اصول اس کے پانچ کلیںہیں اور باقی سب صورتیں انہیں پانچوں کلوں کے توڑ جوڑ سے نکلتی ہیں اور اس علم میںپہلے پہل ابو در نام حکیم مخالیف یمن کے رہنے والے نے عربی زبان میں ایک رسالہ لکھاتھا بعدا س کے ابو علی نام ایک شخص عالم نے فارسی زبان میں اس کا ترجمہ بطور خلاصہ کے کیا اور معیار العقول اس کا نام رکھا ایک دفعہ کپتان جارج ولیم ہملٹن صاحب بہادر کہ برنچا کی پلٹن میں ۳۲ رجمنٹ کے کپتان اور بہت ذی علم اور رئیس دوست ہیں اور پادری جان جیمس مور صاحب بہادر سے کہ بہت خدا پرست ہیں اس علم کا کچھ ذکر آیا اور اس رسالہ کے بعض بعض قواعد میں ان دونو ں صاحبوں کے سامنے کہے انہوں نے بہت پسند کیے اور اس کے اردو میں ترجمہ ہونے کے باعث ہوئے چناں چہ میںنے ۱۲۵۹ ہجری نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مطابق ۱۸۴۳ عیسوی علی نبینا وعلیہ الصلواۃ والسلام میں اس رسالہ کے قواعد کا اردو میںترجمہ کیا اور اپنے استاد جناب مولوی محمد نورالحسن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی اصلاح سے صحیح اور درست کیا اور اس رسالہ کے نام تسہیل فی جراثقیل رکھا جانا چاہیے کہ چراثقیل سے علم کے تین کام پڑتے ہیں ایک یہ کہ بڑی بھاری بھاری بوجھل چیزوں کو تھوڑے زور سے اٹھانا یا کھینچ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جان دوسرے یہ کہ سخت سخت چیزوں کو چیرنا تیسرے یہ کہ جو چیزیں کہ ان کا دبانا یانچوڑنا مشکل ہو ان کو دبانا اور نچوڑنا ان تینوں کاموں کے واسطے کل پانچ کلیں ہیں ایک کا نام محور ہے کہ ہندی میں اس کو دھورا کہتے ہیں دوسرے کانام محل ہے کہ ہندی میں اس کو دبلک کہتے ہیں اور وہینکلی بھی اس قم سے ہے اور تیسری کا نام بکرہ ہے کہ ہندی میں اسکو چرخی کہتے ہیں اورگھرنی اورپہیہ بھی اس قسم سے ہے چوتھی کا نام لولب ہے کہ ہندی میں اس کو پہیچ کہتے ہیں اورچھٹی بھی اس قسم سے ہے حکیم ابو ذر نے اپنی کتاب میںلکھا ہے کہ اگرمیرے تئیں زمین کے سوا اورکوئی ایسی جگہ ملتی کہ اس پر جراثقیل کی کلیہ کھڑی ہو سکتیں تویہ ساری زمین کوادھر اٹھا لیتا۔ محور یعنی دھورے کابیان: محو ر ایک چیز ہے کاٹھ کی یا لوہے کی لمبی پیچ میں سے چوکہوٹی دو طرف سے گول کہ اس گولائی کا نام چولین ہے اوراس کے ایک طرف سے گول کہ اس گولائی کا نام چولین ہے اور اس کے ایک طرف کو چرخی ہوتی ہے اوروہ دھورا اس چرخی کے بیچوں بیچ میںبہت مضبوط جڑاہوتا ہے اور چرخی کے اپور گردا گرد چھوٹی چھوٹی لکڑیاں لگی ہوتی ہیں اور ان کا نام دستہ ہے اور ہندی میں اس کو ہتی کہتے ہیں اور زمین میں سیدھی دو لکڑیاں گاڑ کر اس دھورے کو ان پر رکھتے ہیں اور ہتیوں کو پکڑ کر پھراتے ہیں اور ان دونوں گڑی ہوئی سیدھی لکڑیوں نام قائمیں ہے اور ہندی میں اس کو ادا کہتے ہیں اور اس کل سے بوجھ اٹھانے کا طریق یہ ہے کہ جنتی قوت سے جتنے بوجھ کا اٹھانامنظور ہو تولازم ہے کہ دھورے کے قطر سے چرخی کا قطر اسی نسبت سے بڑا ہو جو نسبت بوجھ او رقوت میں ہے ، مثلا ہم نے چاہا کہ ک دس من کا بوجھ ہے اس کو ایک من کی قو ت سے اٹھاویں تو ہم نے اب کا دھورا بنایا بیچ میں سے جو کھونٹا دونوں طرف سے گول اب ہم نے حساب کیا کہ قوت کو بوجھ کے ساتھ کیا نسبت ہے معلوم ہو اکہ دسویں حصہ کی نسبت ہے اس سے ہم نے ع کی چرخی بنائی کہ دس کاقطر دھورے کے قطر سے دس گنا ہے اور اس دھورے کو چرخی کے بیچوں بیچ میں بہت مضبوط جڑا کہ ہلنے نہ پاوے اور چرخی کے اوپر گردا گرد ط ل م ن س ف کی ہتیاں لگائیں اور ع کا ادا زمین میں گاڑ کر دھوے کی چولیں ا س میں س طرح سے پہنا دیں کہ آسانی سے پھرے او رصہ کی ایک رسی کہ دس من بوجھ اٹھا سکے لا کر ایک سرا اس کا دھرے میں اور دوسرا سرا بوجھ میںباندھ اورہتھیوں کو پکڑ کر پھیر دیا کہ رسی دھرے پر لپٹ گئی اور بوجھ اٹھ آیا اور اس کی صورت یہ ہے۔ محل یعنی دبلک کابیان: اور بعضے اس کو بیرم بھی کہتے ہیں یہ کل بہت مشہور ہے سب بندھانے بیلدار اس کو خوب جانتے ہے اوردن رات اس سے کام لیتے ہیں لیکن اس کی اصل حقیقت اور تقسیم کے حساب سے واقف نہیں ہیں محل ایک چیز ہوتی ہے لمبی اور سخت مضبوط کہ مرتی برتی لچکتی نہیں اور بندھانے اس کو انکرہ کہتے ہیں اور اس پر آدھی اور تہائی اور چوتھائی اور مانند اس کی تقسیم کے نشان بنے ہوتے ہیں اور اس لمبی چیز کے نیچے ایک اور سخت چیز رکھ کر اس لمبی چیز کا ایک سرا بوجھ کے تلے دبا کر دوسرے سرے کو زمین کی طرف دباتے ہیں۔ بوجھ اوپر اٹھ آتا ہے اور جس جگہ پر کہ اس لمبی چیز کے تلے دوسری سخت چیز کر رکھتے ہیں اس جگہ کا نام مرکز ہے کہ ہندی میں اس کو ٹھہراؤ کہتے ہیں اور اس دوسری سخت چیز کا نام قاعدہ ہے کہ ہندی میں اس کو لا کہہ اور تیکن کہتے ہیں اور اس کی نسبت نکالنے کا حساب یوں ہے کہ جتنی قوت سے جتنے بوجھ کا اٹھانا منظور ہوتو لازم ہے کہ جو نستب بوجھ کو قوت کے ساتھ ہے وہی نسبت مرکز سے بڑی طر ف کو چھوٹی طرف کی جانب ہو مثلا ہم نے چاہا ج پانچ من کے بوجھ کو من بھر کی قوت سے اٹھاویں اب کے بیرم کے چھ حصہ کیے اس واسطے کہ بوجھ کو قوت کے ساتھ پانچویں حصہ کی نسبت ہے پانچ یہ اور ایک حصہ قو ت کا چھ ہوئے اور بیرم کا ب کا سرا بوجھ کے تلے رکھا اور پانچ حصہ ایک طرف چھوڑ کے چھٹے حصے کے نیچے لا کہہ رکھی اور اس جگہ کو مرکز کہتے ہیں اور اس مرکز کانام اور اس لا کہہ کا نام رکھا اب خیال کرنا چاہیے کہ مرکز سے جتنی مقدار کہ چھوٹے طرف کی ہے اور جتنی مقدار کہ بڑے طرف کے مرکز تک ہے ان دونوں میںوہی نسبت ہے جو نسبت کی بوجھ اور قوت میںہے اب ہم نے ا کے سرے کو زمین کی طرف دبایا اور بوجھ اوپر اٹھ آیا اور صورت اس کی اوپرہے۔ بکرہ یعنی چرخی کا بیان: کہ بعضے اس کو کثیر الرفع بھی کہتے ہین بکرہ کی گئی چرخیاں ہوتی ہیں اور الگ الگ دہروں پر پھرتی ہیں ان میںسے کچھ بوجھ سے اور کچھ اوپر مضبوط باندھتے ہیں اور ان میں رسی دال کر کھینچتے ہیں بوجھ اوپراٹھ آتا ہے اور اسکے حساب نکالنے کا قاعدہ یہ ہے کہ جتنی قوت سے اس بوجھ کا اٹھانا منظورہو اس قوت کے عدد کا جومخرج ہے اس کی تعداد کے موافق چرخیاں ہوں اس شرط سے کہ قوت اور بوجھ میں نسبت تالیفی یعنی دو مخرج سے نکلنے والی نسبت نہ ہو جیسے کہ تین کی نسبت دس کے ساتھ ک پانچوان حصہ اور دسواں حصہ مل کر دو مخرج سے اس کی نسبت نکلتی ہے ہاں البتہ اگر نسبت پوری ہوگئی جیسے کہ آدھی کی یا تہائی یاچوتھائی کہ تو البتہ اس کا حساب پورا ہوگا مثلا ہم نے چاہا کہ دس من کے بوجھ کو اس کے چوتھائی قوت سے کہ اڑھائی من ہے اٹھاویں دو لکڑیاں مضبوط زمین پر گاڑ کے تیسری لکڑی اس طرح اس کے اوپر باندھے کہ کسی طرف ذرا بھی خم نہ ہو اور س ہیت مجموعی کا نام اد ا ہے اور ہ ر ح ط کی چار چرخیاں بنائیں اور ان میں سے ھ ز کی دو چرخیاں کو ا ح کی لکڑی میں باندھا اور دوسرا سرا نیچے لا کر ح کی چرخی میں ڈالا اور پھر اوپر لے جا کر ہ کی چرخی پر ڈالا اور پھر نیچے لا کر ط کی چرخی میں ڈالا اور پھر اوپر لے جاکر ز کی چرخی پر ڈالا بعد اس کے ڈھائی من کی قوت سے رسی کو کھینچا بوجھ اوپر اوٹھ آیا اور جتنی چرخیاں زیادہ ہو جائیں گی اتنا ہی بوجھ آسانی سے اٹھے گا اس لیے کہ یہ قوت بوجھ پر غالب ہوجائے گی اور صورت اس کی صفحہ ۸۲ پر ہے۔ لولب یعنی پیچ کابیان: لولب ایک چیز ہوتی ہے لمبی گول خواہ لکڑی کی ہو خواہ لوہے کی ہو اور اس کے اوپر پیچ کٹاہوا ہوتا ہے اور اس کوایک دھرے میں پہناتے ہیں اوراس دھرے کے اندر پیچ کٹا ہوا ہوتا ہے اس ترکیب سے کہ اس کی نچان میں اس کی اوچان اور س کی اچان مین اس کی نچان منطبق ہوں اور اس کے سرے پر ایک ہتی لگاتے ہیں اس طور سے کہ جس وقت لولب کو سیدھا زمین پر کھڑا کریں تو وہی ہتی زمین کے متوازی ہو او ر اس کی نسبت نکالنے کا قاعدہ یہ ہے کہ جو نسبت بوجھ او ر قوت میں ہو وہی نسبت ہتھی اور لولب کے قطر میں ہو مثلا ہم نے چاہا کہ ک د س من کے بوجھ کو دومن کی قوت سے اوٹھاویں ہم نے ہ ز کا ایک لولب بنایا اور اسکو س ف کے دھرے میںپہنایا اور اب ہتھی کے لمبان لولب کے قطر سے پچگنی بڑی رکھیے اور ح ء ح ط کی دو لکڑیاں زمین میں گاڑیں اور ح ح تیسری لکڑی اس پر باندھیے کہ ان تینوں لکڑیوں کا نام ادا ہے اور اس لکڑی میں چھید کر کے لولب کا سرا ا سمیں سے اوپر نکال دیا اور اس سرے پر ہتھی لگائی بعد اس کے اڈے کی کھڑی ہوئی لکڑی میںع کا سوراخ کر کے م ء کی لکڑی کہ د س من بوجھ اٹھا سکے اس میں سے نکال کے ایک سرا اس کا دھرے من بوجھ اٹھا سکے اس میںسے نکال کے ایک سرا اس کا دھرے میںجڑ دیا اور ایک رسی لے کر ایک سرا اس کا ء م کی لکڑی میں باندھ کر دوسرا سرا بوجھ میںباندھ دیا اور ہتھی کودولٹے کی قوت سے پھیر ابوجھ اس دھرے کے ساتھ اوپراٹھ آیا اور صورت اس کی یہ ہے ۔ جاننا چاہیے کہ اگر کسی چیز کا نچوڑنا یا دبانا منظور ہو تو صرف اس اکیلی کل کو کام میں لاویں او ر اگر اس سے بوجھ کا اٹھانا نامنظور ہو تو مناسب ہے کہ اور کلموں کے ساتھ ملا کر کام کریں چناں چہ اس کا بھی بیان آگے آوے گا۔ اسفین یعنی پہیے کا بیان: کہ اس کے تئیں خانہ بھی کہتے ہیں یہ کل بھی بہت مشہور ہے سب بڑھیوں اور آرہ کشوں کے پاس ہوتی ہے او رحقیقت میں یہ ایک جسم ہے کہ دو مثلث اور تین مربع سے اس کو احاطہ کیا ہے اور حکیموں نے اس کا نام منشور رکھا ہے اور یہ کل پتھر اور لکڑی اور کرے کڑی چیزوں کے چیرنے اور جدا کرنے کے کام آتی ہے جس وقت اس کل سے کام کرنا چاہیں تو چاہیے کہ اس چیز میں جس کا چیرنا منظور ہے چھید کر ک پتلا سرا اس سرا اس چھید میں رکھ کے زور سے ایک ہتھوڑا ماریں وہ چر جاوے گی ۔ مثلا ہم نے چاہا کہ ایک پہاڑ میں سے پتھر الگ کریں اس پتھر کے گردا ایک خط کھڑا ڈال کے اس کے سرے پر چھید کیا کہ پہیے کا ب ز والا اس میںآگیا اور ء ا ح ہ والے سرے پر زور سے ہتھوڑا مارا پتھر جدا ہو جائے گا اور جتنا ب ز والا سرا تیز ہوگا اتنا ہی کام سوا کرے گا اور اس کی قوت کا حساب بیان نہیں ہو سکتا اس واسطے کہ اس کا کام کرنا ہتھوڑے لگنے کے بعد ہے کہ تیر یا گھوپھن کے پتھر کا لگنااور اثر کرنا تیر انداز یا گوپھن والے کی قوت پر موقو ف ہے ۔ (فائدہ) جاننا چاہیے کہ یہ پانچوں کلیں جو ہم نے اوپر بیان کیں ان میں سے لولب اور اسفین ایسی ہیں کہ جتنا بھاری کام ہو اس کے واسطے وہ کافی ہیں اور کچھ ترکیب اس میں ضرور نہیںلیکن محور اور بکرہ اور محل یہ تینوں کلیں ایسی ہیںکہ جس وقت بہت بڑا بھاری بوجھ ہو او ر اس کو اٹھانا چاہیں تو ان کلوں کو بنانا اور ان سے کام کرنا بہت مشکل ہو جاوے گا مثلا ہم نے چاہا کہ ہزار من بوجھ کو ایک من کی قوت سے اٹھاویںتو ایسی چرخی کہ اس کا قطر محور کے قطر سے ہزار درجہ بڑ اہو بنانی غیر ممکن ہے اس واسطے ہم ان تینوں کلوں کے بنانے کا طریقہ کرتے ہیں۔ محور بنانے کا طریق: جس وقت کہ ہم کو ایسا محور بنانا منظور ہوگا کہ ہزار من بوجھ کو ایک من کی قوت سے اٹھا لیوے تو جس طریق سے کہ ہم نے اوپر بیا ن کیاہے ایک محور بناویں گے لوہے کا کہ اس کاقطر کر کا آٹھوا ں حصہ ہو جیسے محور اب کا اور اب کی طرف ایک کی کی چرخی لگاویںگے کہ اس کا قطر محور کے قطر سے بیس گنا ہو اور اس چرخی کے گرد دانتے بناویں گے اور اور ح ء ہ ز کی دو لکڑیوں کا اڈا بان کر اور اسمیں دو چھید کر کے اب کے محور کو سیدھا اس میں رکھیںگے کہ آسانی سے پھرے بعد ا س کے ج ط کا ایک او ر محور بناویں گے کہ پچاس من بوجھ اٹھا سکے اور ط کی طرف ایک چو کھونٹا چرخ بناویں گے کہ اس کا قطر ایک گز کا چوتھا حصہ ہو جیسے چرخ ی اور ح طرف ایک چرخی لگاویں گے کہ اس کا قطر خ ی کے قطر سے دس گنا ہو جیسے ل کی چرخی بعدا سکے دوسرے محور کو انہیں د ء ہ ز کی لکڑیوں میں اس طرح رکھیں گے کہ پہلے محور کے موازی ہو اور ی کی چوکھوٹی چرخی ک کی چرخی کے دندانوں سے ملی ہوئی ہو بعد اس کے م ن ک کا ایک او رمحور بناویں گے کہ پانچ من بوجھ اٹھا سکے اور م کی طرف س کا ایک چو کھوٹنا چرخ بناویں گے اور اس تیسرے محور کو بھی انہیں ح ء ہ ز کی لکڑیوں میں اس طرح رکھیںگے کہ ان دونوں محوروں کے موازی ہو اور اس کی چرخی ل کی چرخی کے دندانوں میں ملی ہوئی ہو بعد اس کے اسی م ن کے محورپر ایک ہتھی ع ف کی لگاویں گے کہ اس کی لمبان س کی چرخی سے چھ گنی ہو جب کہ یہ سب کلیں بن گئیں تو ہم نے س کی رسی لی کہ ہزار من بوجھ اٹھا سکے اور سرا اس کا ا ب کے محور میں باندھ کر ع ف کی ہتھی کو ایک من کی قوت پھرایا اس سے س کی چرخی بھری اس نے ل کی چرخی کو پھرایا اور اس سے ی کی چرخی بھری اور اس نے ک کی چرخی کو پھرایا اور سی محور پر پھٹے اور بوجھ اٹھا۔ بکرہ بنانے کی طریق: اگر ہم چاہیں کہ اس کل سے ک ہزار من کے بوجھ کو پانچ من کی قوت سے اٹھاویں تو چاہیے کہ ایک جگہ مضبوط اوپر کے جانب بہم پہنچاویں جیسی ب کی جگہ اور اس پر ا د ء ہ ز کی پانچ چرخیاں جڑیں اور ح ط ی ل م کی پانچ چرخیاں بوجھ پر باندھیں اور ایک رسی لیں کہ سو من بوجھ اٹھا سکے اور اس کا ایک سرا ب کی جگہ مضبوط باندھیں اور دوسرا سرا ح کی چرخی کے نیچے نکال کر اوپر لے جاویں اور آگے چرخی پر ڈالیں اور پھر ی کی چرخی کے نیچے سے نکالیں اور پھر اوپر لے جا کر ء کی چرخی پر ڈالیں اور پھر نیچے لا کر ل کی چرخی کے نیچے سے نکالیں اورپھر اوپر لا کر ہ کی چرخی پر ڈالیں او رپھر نیچے لا کر م کی چرخی کے نیچے سے نکالیں اور پھر اوپر لا کر ز کی چرخی پر ڈالیں اس کے بعد اس سرے کو ا اور ن کے رکن پر باندھیں کہ اس پر ع ف کی د وچرخیاں جڑی ہوئی ہیں اور ا او رص کی مضبوط جگہ زمین پر اختیار کریں اور س ف ر کی تین چرخیاں اس پر جڑیں اور ایک رسی لیں کہ بیس من بوجھ اٹھا سکے اور ایک سرا اس کان کے رکن پر باندھ کر س کی چرخی کے نیچے نکالیں اور ع کی چرخی پر ڈالیں اور ق کی چرخی کے نیچے سے نکالیں او رف کی چرخی پر ڈالیں اور ر کی چرخی کے نیچے سے نکال کر ط کے رکن میںکہ اس پر خ کی دو چرخیاں کے نیچے سے نکال کر ط کے رکن میںکہ اس پر ء خ کی دو چرخیاں لگی ہوئی ہیں باندھیں اور اوپر کی جانب ایک اور مضبوط جگہ ہ کی اختیار کریں او ر اس پر تین چرخیاں ق ک ص کی لگائیں اور ایک رسی لیں کہ چار من بوجھ اٹھا سکے اور اسکا ایک سرا ط کے رکن میں باندھ کر اوپر لے جائیں اور ق کی چرخی پر ڈالیں اور ز کی چرخی کے نیچے نکال کر ک کی چرخی پر ڈالیں اور ح کی چرخی کے نیچے نکال کر س کی چرخی پر ڈالیں اور اس کو پانچ من کی قوت سے کھینچیں ہزار من کا بوجھ اٹھ آیا اور چاہیے کہ ب ہ کی دونوں جگہ اوپر والے مقابل اونچی نیچی نہ ہوں اور صہ کہ زمین پر ہ ی بوجھ کے برابر سامنے ہو او رن رکن ز کی چرخی کے برابر ہو اور ط کا رکن ر کی چرخی کے برابر ہو اس کی صورت صفحہ ۸۸ پر ہے۔ بیم بنانے کا طریقہ: ہم نے چاہا کہ ہ دس من کے بوجھ کو د س من کی قوت سے اٹھاویں ہم نے ایک بیرم اب کا بنایا لوہے کاخواہ لکڑی کا کہ دو ہزار من بوجھ اٹھا لے اور ب کے سرے کو ہ کے بوجھ کے تلے کر دیا اور ایک سخت چیز جیسے ط بیرم کے نیچے رکھی اور ط ا کی لمبان ط ب کی لمبان سے دس گنی ہے بعد اس کے ہ ء کا ایک اور بیرم میں جوڑ دیا اور اب کے بیرم کے اوپر اور ح ء کے بیرم کے نیچے ایک سخت چیز جیسے کہ اس طر ح پر رکھی کہ دوسرا بیرم اب کے بیرم کی سیدھ پر ہو اور یہ سخت چیز ان دونوں بیرموں کے بیچ میں رہے زمین پر نہ رہے اور ء ک کہ لمبان ک ح کی لمبا ن سے دس گنی ہے بعد اس کے ز ح کا ایک اور بیرم بنایا کہ سو من بوجھ اٹھا سکے اور جس طرح کہ ح ء کا بیرم اب کی بیرم ا ب کی بیرم پر جوڑا تھا اسی طرح اس کو دوسرے اور تیسرے بیرم کے بیچ میں رکھ دیں اور ز ص کی لمبان ص ح کی لمبان سے گیارہ گنی ہے بعد اس کے ز ح کے بیرم میں سے ز کے سرے کو دس من کی قوت سے زمین کی طرف دبا دیا ء کا بوجھ کہ دس ہزار من کا ہے اوپر اٹھ آئے گا (فائدہ) جاننا چاہیے کہ اگر ان کلوں سے بہت بھاری بوجھل چیزوں کا ذرا ذرا سے زور سے اٹھانا چاہیں تو بہتر ہے کہ ان کلوں کو ترکیب دے کر کام میں لاویں اس واسطے ان کلوں کاترکیب دینا بیان کرتے ہیں۔ محور اور بکرہ کی ترکیب: ہم نے چاہا کہ ک د س ہزار من کے بوجھ کو ایک من کی قوت سے اٹھاویں بہتر یہ ہے کہ ط کی ایک مستحکم جگہ اوپر کی جانب اختیار کریںاور پانچ چرخیاں اس میں جڑدیں اور اسطر ح نیچے کو پانچ چرخیاں لگائین کہ ہر ہر چرخی ان میں سے ہزار من بوجھ اٹھا سکے بعد اکے ہزار من بوجھ اٹھانے والی ایک رسی لے کر ایک سرا اس کا ط کی جگہ پر باندھیں اور دوسرا چرخیوں میں ڈالیں جس طرح کہ اوپر بتا چکے ہیں اب یہ ہزار من بوجھ د س ہزار من بوجھ کے برابر ہے قوت میں او روجہ اس کی اوپر بیان ہو چکی بعد اسکے محور بناویں اس طریق سے جو محور بنانے کے طریق میںبیان کیا ہے ایسا کہ ہزار من بوجھ ایک من کی قوت سے اٹھا لیوے اور ایک رسی کا سرا اس میں باندھ کے غ ف کی ہتھی کو پھر اویں رسی محور پرلپٹے گی اور بوجھ اٹھا کر اوپر لے جاوے گی اور اس کی صورت اوپر ہوچکی۔ محور اور بیرم کی ترکیب کا بیان: ہم نے چاہا کہ دس ہزار من بوجھ کو پانچ من کی قوت سے اٹھاویں تو ہم نے اب کا ایک بیرم بنایا کہ دس ہزار من بوجھ اٹھا سکے اور اسکا ایک سرا بوجھ کے نیچے دبا دیا اور اسکے نیچے ہ کی ایک چیز سخت جس کو قاعدہ کہتے ہیں رکھی اور ہ کی لمبان ہ ب کی لمبان سے د س گنی ہے بعد اس کے ص کی ایک رسی لی کہ ہزار من بوجھ اٹھاسکے اور اس کا ایک سرا ا ب کے بیرم کے آگے سرے میں باندھا اور دوسرا سرا ج ء کے ایک ایسے محور میں باندھا جو ہزار من بوجھ اٹھا سکے اور اس پر ع کے دانتیے دار ایک چرخی بنائی کہ اس کاقطر محور کا قطر سے بسبت گناہے بعد اسکے ح ز کا ایک او رمحور بنایا کہ سو من بوجھ اٹھا سکے اور ح کی طر ف کا ایک چوکھونٹا دانتے دار خراس کا سا چرخ بنایا کہ ع کے چرخ کے دانتیوں سے اسکی دانتی ملی ہوئی ہو اور ز کی طر ف ایک ط کی چرخی بنائی کہ اس کاقطر ف کی چوکھو نٹتی چرخی کے قطر سے دس گنا ہو او ر اس کے گرد ہتھیاں لگاویں کہ ان کو پکڑ کے کھنیچ سکیں اور چاہیے کہ یہ دونوں محور ایک ادھی پر لگی ہوئی ہوں کہ آسانی سے پھریں بعدا س کے ہتھیاں پکڑ کے کھینچیں کہ ز ح کا محور پھرے اور ف کی چرخی ع کی چرخی کو پھراوے اور اس کے پھرنے سے ح ء کا محور پھرے اور رسی اس پر لپیٹے اور بیرم کا سرا زمین کی طرف کھینچے اور دس ہزار من بوجھ پانچ من کی قوت سے اٹھے اور اسکی صورت صفحہ ۹۲ پر ہے۔ محور اور لولب کی ترکیب کا بیان: ہم نے چاہا کہ ان دونوں کلوں کی ترکیب سے دس ہزار من کا بوجھ دو من کی قوت سے اٹھا لیویں تو چاہیے کہ ا۔ ب ح ء کا اڈا زمین پر گاڑیں اور اس میں ح ز کا ایک محور لگاویں کہ اتنا بوجھ سہار سکے اور ز کی طرف ایک ح چرخی لگائیں کہ اس کاقطر امحور کے قطر سے دس گناہو اور اس چرخی کے گرد دانتیے ہوں بعد اس کے ایک اور محورط ی کا ہ ز کے محور کے سامنے لگاویں کہ ہزار من بوجھ اٹھا سکے اور ی کی طرف ک کی ایک چوکھونٹی چرخی بناویں کہ ح کی چرخی کے دندانوں سے ملی ہوئی ہو اور ط کی طرف ایک ل کی چرخی بناویں کہ اس کا قطر ک کی چو کھونٹی چرخی کے قطرسے دس گنا ہو بعد اسکے م ن کا ایک اور محور بناویں کہ سو من بوجھ سہارے اور م کی طرف س کی جو کھونٹی چرخی ل کی چرخی کے دندانوں سے ملی ہوئی بناویں اور ن کی طرف ف ع کی ایک چرخی بناویں کہ اس کا قطر س کی چوکھونٹی چرخی سے دس گنا ہو اور اس کے گرد پیچ کٹا ہوا ہو بعد اسکے ف کا ایک اور گول پیچ بناویں کہ اس کی ہتھی کا طول اس کے قطر سے چھ گناہو اور اس کو ع کی چرخی کے برابر ملا کر اس طرح کھڑا کریں کہ زمین پر سیدھا کھڑا ہو اور ان دونوں کے بیچ اس طرح مل جاویں کہ اس کی اونچان اس کی نچان میں اور اس کی نچان ا س کی اونچان میں منطبق ہو جاویں بعد اسکی ہتھی کی تئیں د ومن قوت سے پھراویںاس کے پھرانے سے ع کا چرخ پھرا اور ص کے چوکھونٹی چرخ نے ء کے چرخ کو پھرایا اور اس کی پھرانے سے ک کا چوکھونٹا چرخ پھرا اور اس نے ح کے چرخ ک وپھرایا اور رسی محور پر لپیٹی اور بوجھ اوپراٹھا اور صورت اس کی یہ ہے۔ ان چاروں کلوں کی ترکیب کا بیان: ہم نے چاہا کہ ان چاروں کلوں کی ترکیب سے دس ہزار من بوجھ کو ایک من کی قوت سے اٹھاویں تو چاہیے کہ اب کا ایک بیرم بناویں کہ اس قدر بوجھ اٹھا سکے اور اس کا ایک سرا بوجھ کے نیچے دبا دیں اور اس کے نیچے ایک سخت چیز رکھیں جیسے ہ اور ۱ ہ کالمبان ہ ب کی لمبان سے دس گنا ہو اور جس طرح کہ پہلے بیان کیا پانچ چرخیاں بنائیں اور بیرم کے سرے میں لگاویں اور ایک مضبوط جگہ زمین پر اختیار کر کے پانچ چرخیاں اس پر جڑیں بعدا سکے ایسی رسی لیویں کہ ہزار من بوجھ اٹھا سکے اور اسکا ایک سرا اس بیرم پر باندھیں جس پر پہلے پانچ چرخیاں باندھی ہیں اور پھر اس رسی کو نیچے اوپر لاکر سب چرخیوں میںڈال دیں اس کا طریقہ پہلے بیا ن ہو چکا ہے اور دوسرا سرا س کا ص ع کے محور میں باندھیں کہ وہ سو من بوجھ اٹھا سکتا ہے اور اس پر ف کا پیچ دار چرخ بنا ہوا ہے کہ اس کا قطر محور کے قطر سے بیس گناہو اور اس چرخی کے پاس برابر ہی ص کا ایک گول پیچ بنایا کہ ف کی چرخی کے پیچ کی اچان ص کے پیچ کی نچان میں منطبق ہو او ص کے پیچ میںہتھی لگی ہوئی ہے کہ اس کاقطر ا س پیچ کے قطر سے چھ گنا ہے بعد اس کے ایک من کی قوت سے ہتھی کوپھرایا س کے پیچ نے ف کی چرخی کو پھرایا اور ف کی چرخی نے پانچ من کی قوت سے س ع کے محور کو پھرایا اور س ع کے محور نے سو من کی قوت سے رسی کو کھینچا اور رسی اس پر لپیٹی اور ح ء ر ح ط کی چرخیاں ی ک ل م ن کی چرخیوں سے مل گئیں اور بیرم کا سرا نیچے جھکا اور بوجھ اوپر اٹھا اور صورت ا س کی صفحہ ۹۵ پر ہے۔ بعضی متفرق قاعدوں اور فائدوں کا بیان: جتنی کلوں کا حال ہم نے اوپر بتایا ہے چاہیے کہ وہ سب کلیں نہایت مضبوط اور سخت اور سیدھی اور ہموار اور چلتی ہوئے ہوں اور محور کے دونوں طرف کی گولائی ایک سی ہو بال بھرکا بھی ت فاوت نہ ہو او ر محور چرخی کے بیچوں بیچ میںجڑا ہو اہو اور وہ دونوں سوراخ جس مین دو محور رکھے جاتے ہیں موافق ہوںاور بکری کی سب چرخیاں ایک سی ہوں کہ وزن میں اور جرم میں کچھ فرق نہ ہو اور ان کے محوروں کے سوراخ بھی اسی طرح برابر ہوں اور بیرم بہت سیدھا چورس ہو اور جو سخت چیز کے بیرم کے نیچے رکھتے ہیں اور اس کی زمین پر رکھنے کی طرف چوڑی اور دوسری طرف جس پربیرم رہتا ہے ماہی پشت ہو اور جس قدر کہ اس کی پشت تیز نکیلی ہوگی اس کاعمل آسان ہوگا اور لولب کی سطح ظاہر کی بہت سیدھی ہموار اور جس قدر کہ پیچ پاس پاس ہوں گے اتنا ہی اس کا زور بہت وہو گا اور ان پیچوں کا بعد بھی آپس میں برابر ہو اور اس بات کے لیے ایک آلہ بنتا ہے کہ اس سے برابر بعد معلوم ہوجاتا ہے اور وہ آلہ ایک مثلث ہے قائم الزاویہ تانبے کا یا پیتل کا کہ اس کا ایک ضلع عموداور دوسرا ضلع برابر تمام دورہ اس چیز کے ہو جس پر پیچ بنانا چاہتے ہیں اور قاعدہ اس کا موافق اندازہ دوری ہر ایک پیچ کی ہو دوسرے سے جیسے کہ اب ح کا مثلث کہ اس کو اس چیز ر جس پر پیچ بنانا چاہتے ہیں لپیٹا اس طرح سے کہ ح کا زاویہ کہ حادہ ہے آگے زاویہ تک کہ قائمہ ہے جا پہنچے اور ا ح کے برابر کہ زاویہ قائمہ کا وتر ہے اس جسم پر ایک خط کھینچیں اسے ح تک بعد اس کے مثلث کو نیچے لاویں کہ زاویہ قائمہ خط اخیر کو پہنچے اور اسی طرح کرتے جاویں یہاں تک کہ سارے پیچوں کے نشان بن جاویں ان نشانوں پر کھود لیں اور بکری کی چرخیاں کہ ایک دوسرے کے پہلو میں جڑیں تورسی سیدھی رہے اس میں کچھ فرق نہ پڑے کہ اس سبب سے چرخیاں آسان پھریں اس واسطے واجب ہے کہ چرخیوں کو سیدھا سامنے جڑیں فقط۔ ترجمہ فوائد الافکار فی اعمال الفرجار مولفہ جواد الدولہ سید احمد خان بہادر عارف جنگ منصف خاص دہلی بموجب حکیم صاحب والا مناقب عالیجاہ بلندپائگاہ ڈاکٹر استنچر صاحب بہادر دام اقبالہ پرنسپل مدرسہ دہلی چھاپہ خانہ سید الاخبار میں بہ اہتمام سید عبدالغفور دلی میں چھپا ۱۸۴۶ء بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ او راللہ کے رسول کی حمد و نعت کے بعد کمترین سید احمد خاں بیٹا سید محمد متقی خان بہادر اور پوتا جواد الدولہ جواد علی خاں بہادر اور نواسہ وزیر اعظم دستور معظم نواب دبیر الدولہ امین الملک خواجہ فرید الدین احمد خان بہادر مصلح جنگ کا سب بزرگوں اور علقمندوں کی خدمت میںعرض کرتا ہے کہ پرکار متناسبہ ایک آلہ ہے قدیم اور اس سے اکثر نجوم کے عمل اورہندسہ کی شکلیں اور حساب کے مسئلے آسانی سے نکلتے تھے چناں چہ بعضے بعضے پچھلی کتابوں اور اگلے حاشیوں میں اس آلہ کا ذکرلکھا ہے لیکن اس سبب سے کہ اس آلہ کا بنانا اور عمل کرنا بہت کٹھن تھا یہ آلہ ہم لوگوں میں بالکل ناپید ہوگیا یہاںتک کہ یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ پرکار متناسبہ کسی ہتھیار کا نا م ہے جب کہ نانا صاحب مرحوم نے بعضی کتابوں میں اس آلہ کا ذکر دیکھاتو اس کے دیکھنے کے نہایت مشتاق ہوئے اور جو لوگ کہ بڑے ریاضی دان مشہور تھے ان سے اس آلہ کاحال پوچھا۔ انہوں نے کانوں پر ہات دھرے اور کہا کہ اس آلہ کو نہ ہم نے دیکھا نہ سنا ہم نہیں جانتے کہ پرکار متناسبہ کس جانور کا نام ہے۔ ۱۲۱۲ ھ مطابق ۱۷۹۶ ء کے ہمارے نانا صاحب مرحوم لکھنو میں وارد ہوئے اور جنرل مارٹین صاحب اور مسٹر گو راوزلی صاحب سے ملاقات ہوئی ان صاحبوں نے ایک آلہ دکھایا اور کہا کہ اس آلہ سے بہت عمل ہوتے ہیں مگر میرے تئیں د وتین عمل اس کے معلوم ہیں اور باقی عمل مجھ کو کیا بلکہ اکثر صاحبان انگریز کو بھی نہیں معلوم ۔ چناںچہ ان صاحبوں نے ہمارے نانا صاحب مرحوم کے روبرو تقسیم خط اور وتر اور جیب نکالنے کے عمل کیے اور کہا کہ ہم کو تو صرف اتنا ہی معلوم ہے ۔ تھوڑے دن بعد ہمارے نانا صاحب مرھوم مسٹر جان بیلی صاحب او رمسٹر لوٹ صاحب کے پا س کلکتہ میںگئے اور وہاں نیلام میں سے ایک گنج پرکاروں کا لیاکہ اسمیں یہ آلہ بھی تھا انہوں نے غور اور فکر کی اور سونچ سونچ کر اس آلہ کے اپنی فکر اور زہن سے سب اعمال نکالے اور جانا کہ پرکار متناسبہ یہی آلہ ہے کہ پہلے عرب اورعجب میںرائج تھے اب صرف انگریزوں اور فرانسیسیوں میں مروج ہے وہ مسودے ایک جگہ پڑے ہوئے تھے او ر ان کے سرے پر یہ نام لکھا ہوا تھا کہ فوائد الافکار فی اعمال الفرجار۔ اتفاقا ایک دفعہ کپتان جارج ولیم ہملٹن صاحب بہادر کہ مرد عالم اور بہت بااخلاق اور اشرف دوست او ر برنچا کی پلٹن کے ۳۴ ویں رجمنٹ کے کپتان ہیں اور پادری جس مور صاحب بہادر کہ بہت مرد خدا پرست اور صاحب علم او رآگرہ کے پادری ہیں میںنے اس رسالہ کا تذکرہ کیا انہوں نے بہت پسند کیا اور کہا کہ اگر یہ رسالہ اردو میں ترجمہ ہوجاوے تو اسکول بک سوسائٹی بہت پسند کرے۔ چنانچہ میں نے ان مسودوں کو جمع کر کے فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا اور مناسب طور پر مرتب کیا۔ مقدمہ اس رسالہ میں بعضے بعضے عربی کے الفاظ جو اس علم میں مستعمل ہیں آویں گے ان کا ترجمہ اردو میں کرنا مناسب نہ جانااس واسطے وہ الفاظ بہت مشہور ہیں او ر اس سے قطع نظر آدمی کو لازم ہے کہ جس علم کو پڑھے اس کی اصطلاحات سے واقف رہے ۔ اس لیے بعضے الفاظ کی تشریح اور پرکار متناسبہ کی صورت لکھتے ہیں۔ سطح: نرمی لمبان چوڑان ہے کہ خط پر ختم ہوتی ہے خط: نری لمبان ہے بن عرض کی کہ خط پر ختم ہوتی ہے۔ دائرہ: ایک ٹیڑھا خط ایک سط کے گرد اس طرح پھر جاوے کہ اگر اس سطح کے بیچوں بیچ میں ایک نقطہ فرض کرکے اس ٹیڑھے خط کی طرف سیدھے سیدھے خط کھینچیں تو وہ خط آپس میں سب برابر ہوں۔ اس سطح کا نام دائرہ ہے۔ محیط: اور اس ٹیڑھے خط کا نام محیط ہے۔ مرکز: اور اس نقطہ کا نام مرکز ہے۔ نقطہ: اسے کہتے ہیںجس کے ٹکڑے نہ ہوسکیں۔ قطر: ایک سیدھا خط جو مرکز پر گزر کر محیط کے دونوں طرف پہنچ جائے اس کانام قطر ہے اور اس سے دائرہ کے دو ٹکڑے برابر کے ہوجاتے ہیں۔ قوس: اور محیط کے ایک ٹکڑے کو قوس کہتے ہیں۔ وتر: ایک سیدھا خط جو مرکز پر نہ گزرے ارو محیط کے دونوں طر ف پہنچ جاوے اس کانام وتر ہے۔ اور جو خط کہ دائرہ کے مختلف دو ٹکڑے کرے اس کو وتر کہتے ہیں اور ا س سے بھی دائرہ کے دو ٹکڑے ہوجاتے ہیں اور اس شکل میں ان سب کی مثالیں موجود ہیں۔ فتامل۔ سہم: ایک چوتھائی دائر ہ ہو اور اس کے دونوں قطروں پر دو عمود نکالیں ان دونوں قطروں کا ٹکڑا جو قوس کی طرف باقی رہا سہم ہے۔ جیب: اور وہ دونوں عمود اپنے اپنے قوس کے جیب ہیں او ر ا س کی صورت یہ ہے۔ زاویہ: دو خط آن کر ایک نقطہ پر ملیں اور اسکے سبب ایک کونا ہے اس کونے کا نام زاویہ ہے اور اسکی صورت یہ ہے۔ اورپرکار متناسبہ کی دو صورتیں ایک بند اور ایک کھلی کھینچی جاتی ہیں۔ اور اس پرکار کے دونوں طرف بہت سے خط ہوتے ہیں منقسم او رہر ہر خط کے آخر کو ایک انگریزی حرف نشان کے واسطے لکھا ہوا ہوتا ہے چنانچہ سب خطوں کی تفصیل آگے آوے گی اور ابتدا سب خطوں کی مرکز کی طرف سے ہے۔ ایک طرف کے خطو ں کا بیان پہلا خط یہ خط پرکار کے دونوں پروں کے کنارے پر چوڑی طر ف ہوتا ہے اور اس خط کو انگریزی میں خط یار ڈ اور فوٹ کہتے ہیں اور ہم نے اس خط کا نام خط درعہ رکھا ہے اور یارڈ کے معنے انگریزی میں گز کے ہیں اور فوٹ کے معنی قدم کے اور تین فوٹ کاایک گز انگریزی ہوتا ہیاور بارہ انچہ کا ایک فوٹ اور متبوسط متن جو کہ لمبان کے موافق ایک انچہ ۔ یہ حساب بہت قدیم ہے اور انگریزوں نے ہمارے ہاں سے اخذ کیا ہے اور اگلے استادوں نے ظل کے ناپنے کو قدم کا حساب مقرر کیاتھا چنانچہ ظل اقدام کا حساب بہت مشہور ہے اور اس خط کے بارہ حصے ہوتے ہیں اور ہر ہر حصے کے دس دس حصے ہوتے ہیں کہ اس تقسیم کے سبب سارے خط کے ایک سو بیس حصے ہوجاتے ہیں اور بعضے پرکاروں میں اسی خط کے برابر ایک خط ہوتا ہے کہ اس کے دس ٹکڑے ہوتے ہیں اور ہر ہر ٹکڑے کے د س دس حصے کہ اس تقسیم کے سبب سارے خط کے سو حصے ہو جاتے ہیں اور دس سے سو تک رقمیں لکھی ہوتی ہیں اور یہ دونوں خط صرف ناپنے کے واسطے ہیں۔ دوسر اخط یہ خط بھی اسی طرف پرکار کے دونوں پروں پر مرکز سے اخیر تک ہوتا ہے اور ان کے آخر کو انگریزی حرفوں کا لام لکھا ہوا ہوتا ہے اور اسکی یہ صورت ہے L کہ انگریزی زبان میں اس کو ال کہتے ہیں اور اس خط کے مرکز سے آخر تک دس دس حصے برابر کے ہوتے ہیں اور ہر دس کے بعد مرکز سے آخر تک دس دس حصے برابر کے ہوتے ہیں اور ہر دس کے بعد مرکز کی طر ف سے رقم لکھی ہوئی ہوتی ہے ۔یعنی پہلے ۱۰ پھر ۲۰ پھر ۳۰ یہاں تک کہ آخر کو رقم ۱۰۰ کی لکھی ہوئی ہوتی ہے اور پھر ہر ہر حصے کے دس دس حصے ہوتے ہیں کہ اس تقسیم کے سبب سارے خط کے سو حصے ہو جاتے ہیں اور انگریزی میں اس خط کو خط لینLine کہتے ہیں خط کی تقسیم کا خط اور اسکو خط اجزائے متساوی کہتے ہیں اوراس کے ہر ہر حصہ کو بدرجہ اور اس خط سے پانچ عمل ہوتے ہیں۔ ۱۔مختلف طول کے مستقیم خطوں کی تقسیم میں جس خط کی تقسیم کرنی منظور ہے۔ اگر اس خط کا طول پرکار متناسبہ کے لمبان سے کم ہے تو اس کا طریق یہ ہے کہ سادی پرکار کو اس خط کے برابر کھولا اور اس کی ایک نوک پرکار متناسبہ کے ایک پرے کے اجزائے متساوی کے خط کے اخیر پر رکھے اور پرکار متناسبہ کو اتنا کھولا کہ سادی پرکار کی دوسری نوک پرکار متناسبہ کے دوسرے پرے کے اجزاء متساوی کے خط کے آخر پر آکر جاوے۔ اس وقت پرکار متناسبہ کو اسی کھولا ؤ کہ ناپ لیویں یہ کھلاؤ اس خط کا پورا آدھا ہے اور اگر چاہیں کہ اس خط کے چار ٹکڑے کریں تو پچیسویں درجہ کے کھلاؤ کو ناپ لیویں گے اور اگر پانچ ٹکڑے کرنے منظور ہوں تو بیسویں درجہ کے کھلاؤ کو ناپ لیویں گے۔ علی ہذا القیاس ، سو حصے تک۔ مثال: ہم نے چاہا کہ اب کہ خط کے دو ٹکڑے کریں مساوی پرکار کو اب کے خط کے برابر کھولا اور پرکار متناسبہ کو بھی اس کے برابر۔ دستور کے موافق خط اجزائے متساوی کے آخر سے کھولا اور پچاسویں کے درجہ کے کھولاؤ کو ناپ لیا کہ وہی اب کے خط کا آدھا ہے اور جب کہ چار یا پانچ حصہ کرنے کو منظور ہوئے تو پچیسویں اوربیسویں درجہ کے کھلاؤ کو ناپ لیا کہ وہی اب کے خط کا چوتھائی اور پانچواں حصہ ہے ۔ اور اگر ہم کو اس خط کی ایک ایسی تقسیم کرنی منظور ہوئی کہ وہ تقسیم سو کے عدد میں سے ہے کسر نہیں نکل سکتی مثلا تین کہ سو کی تہائی بے کسر نہیں ہے تو اس کا طریق یہ ہے کہ سو میں سے اس عدد کو اختیار کریں گے جس میں وہ تقسیم بے کسر نکلے اور اسی عدد کو اجزائے متساوی کے خط کا آخر فرض کرکے دستور کے موافق عمل کریںگے ۔ مثلا تین کے واسطے تیس کاعدد اور چھ کے واسطے ساٹھ کاا ور سات کے واسطے ستر کا اور آٹھ کے واسطے اسی کا اور نو کے واسطے نوے کا عدد اختیار کریں گے اور اسی طرح باقی کے واسطے خیا ل کرنا چاہیے اور اس مقام پر ہم نمونہ کے طور پر تین کی تقسیم کی شکل کھینچ دیتے ہیں تاکہ باقی نسبتوں کا سمجھنا آسان ہو جاوے۔ مثال: ہم نے چاہا کہ اب کے خط کے تین ٹکڑے کریں۔ پہلے سادی پرکار کو اب کے برابر کھول کر خط اجزاء متساوی کے تیسویں درجہ کو آخر خط فرض کیا اور اب کے برابر پرکار متناسبہ کو اسی نقطہ سے کھولا اور دسویں درجہ کا کھلاؤ کہ تیس کا تہائی ہے ناپ لیا کہ وہی اب کے خط کا تہائی ہے۔ اور اگر اس خط کا طو ل پرکار متناسبہ کے لمبان سے بڑا ہو توپہلے اس خط کے دو یاتین یا چار حصے کرکے اور ایک حصہ کو لے کر دستور کے موافق عمل کریں اور جس قدر کہ تقسیم میں حاصل ہوا اس کو ان حصوں کے موافق دوگنا یا تگنا یا چوگنا کر لیویں گے کہ اس قدر اس کا حصہ ہوگا۔ مثال: ہم نے چاہا کہ اب کے خط کے د س ٹکڑے کریں اور اب خط پر کار متناسبہ کے کھلاؤ سے بڑا ہے ۔ پہلے ہم نے اس کے سادی پرکار سے ح ک نقطہ پر دو حصے کیے اور ا ح کو سارا خط فرض کرکے دستور کے موافق عمل کیا پس ا ء تقسیم حاصل ہوئی۔ ا ب یہ ا ء ا ح کے خط کا دسواں حصہ اور اب کے خط کا بیسواں حصہ ہے جب کہ ا ء کو دوگنا کیا اس واسطے کہ پہلے ہم نے سارے خط کو آدھا کیاتھا تو دوگنا کرنے کے بعد ا ح حاصل ہوا کہ یہی سارے اب کے خط کا دسواں حصہ ہے۔ ۲۔ مستقیم دو خطوں کے آپس میں نسبت نکالنے میں اگر دو خط ہوں اور ہم چاہیں کہ آ پس میں ان دونوں کی نسبت معلوم کریں کہ کیا ہے تو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ بڑے خط کے برابر سادی پرکار کو کھولا اور پرکار متناسبہ کو بھی خط اجزاء متساوی کے سے اس کے برابر کھولا اور پھر سادی پرکار کو اس دوسرے چھوٹے خط کے برابر کھول کر خط اجزاء متساوی کے درجوں پر منطبق کیا۔ جس درجہ پر منطبق ہووے وہی نسبت ان دونوں خطوں میںہے اور اس صورت میںہمیشہ بڑے خط کے عدد سو فرض کیے جاویں گے۔ اس واسطے کہ اس خط کا طو ل پرکار متناسبہ کے سوویں حصے کے کھلاؤ کے برابر ہے اور اگر بڑے خط کے عدد معلوم ہوں تو ا سی درجہ سے پرکار متناسبہ کو کھولا جاوے گا۔ مثال: ہم نے چاہا کہ اب اور ح ء کے خطوں کی آپس میں نسبت نکالیں۔ پر کار متناسبہ کو دستور کے موافق خط اجزائء متساوی کے آخر سے بڑے خط کے برابر کھولا۔ بعدا س کے سادی پرکار کو ح ء کے برابر کھول کرخط اجزاء متساوی کے درجوں پر منطبق کیاکہ پچیسویں درجہ پر منطبق ہوا۔ پس معلوم کیا کہ اب اور ح ء میں نسبت سو کی پچیس کے ہے۔ اور اگر ا ب کے عدد معلوم ہوتے مثلا ا ب کے عدد اسی ہیں تو اس صورت میں خط اجزاء متساوی کے اسی درجہ سے ا ب کے برابر پرکار متناسبہ کو کھولا اور ج ء کو خط اجزاء متساوی کے درجوں پر منطبق کیا کہ بیسویں درجہ پر منطبق ہوا۔ پس معلوم کیا کہ ا ب او رح ء نسبت اسی کی ساتھ بیس کے ہیں۔ ۳۔ دو عدد کی نسبت کے موافق تیسرا عدد نکالنے میں جاننا چاہیے کہ دو عدد مختلف ہوتے ہیں ایک بہت اور ایک کم۔ بہت کو تو مقدم کہتے ہیں اور کم کو تالی اور تیسرے عددکو جس کا نکالنا منظور ہے اور اس کو مجہول کہتے ہیں اور اسکا قاعدہ یہ ہے کہ عدد تالی کے ج عدد ہیں اسی قدر درجہ پرکار متناسبہ کے خط اجزاء متساوی کے ناپ لے اورج عدد عدد مقدم کے ہیں اسی قدر درجے سے پرکار متناسبہ کو کھولا اور بعد اس کے عدد تالی ک موافق خط اجزاء متساوی کے اسی درجہ کا کھلاؤ ناپ لیا اور اس کھلاؤ کو خط اجزاء متساوی کی تقسیم پر ناپا ، ج درجے حاصل ہوئے وہی تیسرا عدد مجہول ہے۔ مثال: ا ب سو ، اور ج ء پچاس۔یہ دونوں عدد ہیں۔ اب مقدم اور ح ء تالی ور ہم یہ بات چاہتے ہیں کہ تیسرا عدد جو مجہول ہے ایسا نکالیں کہ ا س کی نسبت ج ء کے ساتھ ایسی ہو جیسی نسبت ج ء کو اب کے ساتھ ہے یعنی سو کو پچاس کے ساتھ۔ پس ہم نے عدد تالی کہ ح ء پرکار متناسبہ کے خط اجزاء متساوی پر حد کرکے سادی پرکار اس کے موافق کھولا اور پھر پرکار متناسبہ کو ععدد مقدم کے درجے سے کہ اب ہے دستور کے موافق کھولا اور ج ء یعنی پچاسویں درجہ کا کھلاؤ ناپ لیا اور اس کھلاؤ کو خط اجزائے متساوی کے درجوں پر رکھا کہ پچیس درجہ کے برابر ہوا وہی عد دمجہول ہے اور اس عد د مجہول کا نام ح ز ر کھا ہے۔ پس ج ز کی نسبت کہ پچیس ہے ح ء کے ساتھ کہ پچاس ہے ایسی ہے جیسی نسبت کہ ح ء یعنی پچاس کو اب کے ساتھ ہے یعنی سو کے ساتھ ہے ۔ ۴۔توالی ہندسی کے موافق چوتھا عدد نکالتے ہیں توالی ہندسی اسے کہتے ہیں کہ عددون کو جو نسبت آپس میں ہو او ر عدد ایسے نکلیں کہ ان میںبھی آپس میں وہی نسبت ہو جو ان پہلے عددوں میںہے اور جس وقت کہ چوتھا عدد نکالنا منظور ہوگا اس وقت تین عدد معلوم اورچوتھا مجہول ہو گا تو پہلے عدد کانام مقدم اول اور دوسرے کا نام تالی اور تیسرے کانام مقدم ثانی اور چوتھا مجہول جب کہ ہم کو توالی ہندسی کے موافق چوتھا عدد نکالنا منظور ہو تو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ عدد تالی کے جے عدد ہیں درجہ خط اجزائے متساوی سے ناپ کر اور عدد مقدم کے درجہ سے پرکار متناسبہ کو دستور کے موافق کھولیںگے ۔ بعدا سکے عدد مقدم ثانی کے درجہ کے موافق پرکار متناسبہ کا کھلاؤ ناپ کر خط اجزائے متساوی کی تقسیم پر ناپا جے درجے حاصل ہوئے وہی چوتھا عددیعنی عدد مجہول ہے۔ مثال: اب اسی اور مقدم اول ، ج، ء چالیس اور تالی اور ح ز بیس اور مقدم ثانی جب کہ چوتھا عدد نکالنا منظور ہوا تو ہم نے عد د تالی کے تئیں کہ ح ء اور چالیس ہے سادی پرکار کو خط اجزائے متساوی کے چالیس درجہ ناپ کر پرکار متناسبہ کو عدد مقدم اول کے درجہ سے کہ ا ب اور اسی ہے دستور کے موافق کھولا اور مقدم ثانی کے درجہ سے کہ ح ز اور بیس ہے پرکار متناسبہ کا کھولاؤ ناپ لیا اور اس کو خط اجزائے متساوی کے درجوں پر رکھا کہ دس درجے کے برابر ہو وہی عدد مجہول ہے اوراس عدد مجہول ک نام صہ ف رکھا ۔ پس صہ ف کی نسبت کہ دس ہے ح ز کے ساتھ کہ بیس ہے ایسی ہے جیسی نسبت ح کی کہ چالیس ہے اب کے ساتھ ہے یعنی اسی کے ساتھ۔ اب سمجھنا چاہیے کہ اس وقت جو پرکار متناسبہ کھولی ہوئی ہے تو اس میں توالی کی سب نسبتیں پہلی نسبت کے موافق موجود ہیں یعنی دس اور پانچ اور دھائی اور سوا درجہ کے کھلاؤ کو وہی نسبت توالی کی آپس میں ہے جو نسب کہ مقدم اول اور ثانی اور مقدم ثانی اور عدد مجہول میں ہیں۔ سونچنا سمجھنا شرط ہے۔ فائدہ: اگر عدد تالی اتنا ہو کہ پرکار متناسبہ میں اس کی تقسیم موجود نہ ہو مثلا دو سو چار سو وغیرہ تو اس کاآدھا یاپاؤ یا آٹھواں حصہ جیسا ۔ مقتضائے وقت ہوکر کے جس طرح کہ پہلے عمل کی تیسری شکل میں عمل کرتے تھے اسی طرح یہاں بھی کریں گے۔ ۵۔ خط اجزائے متساوی کو زاویہ قائمہ پر کھولنے اور زاویہ قائمہ بنانے میں خط اجزائے متساوی میںپرکار کھولنے کے وقت سب طرح کے زاویے نکلتے ہیں جب ک ہ ہم نے اس کو زاویہ قائمہ پر کھولنا چاہا تو سا کا قاعدہ یہ ہے کہ سادی پرکار کو خط اجزائے متساوی کے پچاس درجہ کے برابر کھول کر ایک پاؤں پرکار کا تیسویں درجہ پر رکھیں اورپرکار متناسبہ کو اتنا کھولیں کہ سادی پرکار کا دوسرا پاؤں چالیسویں درجہ پر منطبق ہو پس اس صورت میں خط اجزائے متساوی زاویہ قائمہ پر کھل جاوے گا اور اختیار ہے کہ اسی نسبت کے موافق جون سے درجہ کو چاہیں اختیار کریں مثلا سو کے لیے ساٹھ اور اسی وقس علی ہذا وتامل۔ اور اگر زاویہ قائمہ بنانا منظور ہوتوپہلے ایک سیدھی لکیر کھینچ کر اس پر پرکار متناسبہ کے چالیس درجہ کا نشان کیا اور پھر تیس درجہ کے برابر سادی پرکار کو کھولا اور خط کے سر ے پر رکھ کر ایک قوس کھینچی اورپھر پچاس درجہ کے برابر سادی پرکار کو کھولا اور چالیسویں درجہ کے نقطہ پر رکھ کر ایک قوس کھینچی جس نقطہ پر ان دونوں قوسوں نے تفاطع کیا اس نقطہ اور خط کے سرے پر ایک خط وصل بس زاویہ قائمہ بن گیا۔ تیسرا خط یہ خط بھی پرکار کے دونوں پروں پر مرکز سے محیط تک ہوتا ہے اور اس کے آخر کو انگریزی حرفوں کا کاف لکھا ہوا ہے اور اسکی صورت یہ ہے C کہ انگریزی زبان میں اس کو سی کہتے ہیں اور مخرج ہجے میں کاف کا ہوتا ہے اور اس خط کے چھ حصے ہوتے ہیں۔ مرکز کی طرف بڑے اور جوں جوں محیط کی طرف چھوٹے ہوتے جاتے ہیں اور ہرحصہ کے بعد دس کی رقم لکھی ہوئی ہوتی ہے یعنی پہلے ۱۰ پھر ۲۰ پھر ۳۰ یہاں تک کہ آخر کو رقم ۶۰ کی ہوتی ہے اور پھر ہر ہر حصے کے دس دس حصے مختلف ہوتے ہیں کہ اس تقسیم کے سبب سارے خط کے ساٹھ حصے مختلف ہوتے ہیں اور انگریزی میں اس خط کو خط کارڈ Cord کہتے ہیں اور کارڈ کے معنی انگریزی میں وتر کے ہیں اور ہم نے اس خط کانام خط اوتار رکھا ہے اور ا س کے ہر ہر حصے کا نام درجہ او ر اس خط سے چھ عمل ہوتے ہیں۔ 1 ۔ خط اوتار کو زاویہ مفروضہ پر کھولنے میں جس وقت کہ خط اوتار کوزاویہ مفروضہ پر کھولنامنظور ہو تو چاہیے کہ جے درجے کازاویہ ہے اتنے ہی درجہ سادی پرکار سے مر کز کیطرف سے خط اوتار کے ناپ کر پرکار متناسبہ کو خط اوتار کے آخر سے یعنی رقم ساٹھ سے دستور کے موافق اس کے برابر کھولا ۔ پس خط اوتار زاویہ مفروضہ کے موافق کھل جاوے گا۔ مثال: ہم نے چاہا کہ خط اوتار کو چالیس درجہ کے زاویہ پر کھولیں سادی پرکار سے خط اوتار کے مرکز کیطرف سے چالیس درجہ ناپیں کہ اب ک برابر ہوئے بعد اس کے پرکار متناسبہ کو خط اوتار کے ساٹھویں درجہ سے کھولا۔ پس خط اوتار چالیس درجہ کے زاویہ پر کھل گیا ۔ ۲۔یہ عمل پہلے عمل کا عکس ہے یعنی اگر پرکار کھلی ہو او رمعلوم کرنا چاہیں کہ خط اوتار کے درجہ کے زاویہ پر کھلا ہوا ہے تو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ خط اوتار کے ساٹھویں درجہ کا کھلاؤ سادی پرکار سے ناپ کر مرکز کی طرف سے خط اوتار کے درجوں پررکھیں۔ جے درجہ پرمنطبق ہووہی زاویہ کی مقدار ہے۔ مثال: پرکار متناسبہ ایک کھلاؤ پر کھلی ہوئی ہے ۔ مثلا اب کا کھلاؤ ہم نے اس کھلاؤ کو خط اوتار کے درجوں پرمرکز کی طرف سے ناپا ۔ دسویں درجہ پر منطبق ہوا۔ پس معلوم ہوا کہ خط اوتار کا زاویہ اس وقت دس درجہ کا ہے۔ ۳۔جو دائرہ کہ اس کا آدھا قطر خط اوتار کے برابر یا کم ہو اسکی تقسیم میں ایسے دائرہ کی تقسیم کا یہ طریق ہے کہ پرکار متناسبہ کو خط اوتار کے ساٹھویں درجہ سے اس دائرہ کے نصف قطر کے برابر کھولا۔ پس اس صورت میں ہر درجہ کا کھلاؤ اس دائرہ کے محیط میں سے اسی قدر درجہ کے قوس جد ا کرے گا ۔ مثلا دس درجہ کاکھلاؤ دس درجہ کے اور بیس درجہ کا کھلاؤ بیس درجہ کی قوس او رباقی کو ساٹھ تک اسی پر خیال کرنا چاہیے اور اگر ایک درجے کا کھلاؤ لیویں گے تو سارے دائرہ کے تین سو ساٹھ ٹکڑے ہو جائیںگے اور اگر پانچ درجہ کے برابر لیویں گے توبہتر ٹکڑے اور اگر دس درجہ کے برابر لیویں گے توچھتیس ٹکڑے اور اگر بیس درجہ کے برابر لیویں تو اٹھارہ ٹکڑے اوراگر تیس درجہ کے برابر لیویںگے تو بارہ ٹکڑے برابر کے ہو جاویں گے۔ مثال: ایک دائرہ ہے ا ب ح ء کا ہم نے چاہا کہ اس دائرہ کی تقسیم کریں۔ اس کے نصف قطر کو کہ ا ہ ہے متساوی پرکار سے ناپ کر پرکار متناسبہ کو خط اوتار کے ساٹھویں درجہ سے اس کے برابر کھولا اب ہر درجہ کا کھلاؤ اسی قدر درجہ کی قوس کا وتر ہے مثلا تیسویں درجہ کا کھلاؤ کہ از ہے تیس درجہ کی قوس کو جدا کرتاہے اور اسی کھلاؤ سے سارے دائرہ کے بارہ ٹکڑے برابر ہوجاتے ہیں۔ ۴۔اور طرح سے دائرہ کی تقسیم کرنے میں جس دائرہ کی تقسیم کرنی چاہیں پہلے اس کے نصف قطر کے برابر سادی پرکار سے ناپ کر پرکار متناسبہ کو ساٹھویں درجہ خط اوتار سے کھولیں بعد اسکے ساتویں کسر کے سوا کسور مکسور تسعہ میں سے جس کسر کو چاہیں خط اوتار سے لے کر دائرہ کی تقسیم کریں۔ مثال: ہم ا ب ح ء کے دائرہ کو کسور تسع پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اس دائرہ کے نصف قطر کو کہ ا ہ ہے سادی پرکار سے ناپ کر پرکار متناسبہ کوخط اوتار کے ساٹھویں درجہ س کھولا پس اگر دائرہ کاآدھا کرنا منظور ہے تو اسی نصف قطر سے تین دفعہ دائرہ کو ناپا اور اگر تین حصے کرنے منظور ہیں تو دو دفعہ اسی نصف قطر کو ناپا اور اگر چار حصے کرنے منظور ہوں تو ایک دفعہ ساٹھویں درجہ اور ایک دفعہ تیسویں درجہ کا کھلاؤ لے کرناپا اور اگر پانچ حصے کرنے منظور ہوں تو ایک دفعہ ساٹھویں اور یک دفعہ بارہویں درجہ کا کھلاؤ لے کر ناپا اورچھ حصے کرنے کے لیے خود نصف قطر موضوع ہے اور سات کا عمل لیکر صحیح نہیں ہوتا تو اس کے واسطے اکاون درجہ اور ایک درجہ کے تین ساتویں حصہ کے کھلاؤ کو لے کر ناپا اور آٹھویں حصے کے لیے پینتا لیسویں درجہ کے کھلاؤ کو ناپا اور نویں حصہ کے لیے چالیس درجہ کے کھلاؤ کو ناپا کہ اس عمل کے سبب ا ح نصف اور ا ز تہائی اور ا ب چوتھائی اور ا ح پانچواں حصہ اور ا ط چھٹا حصہ اور ا ص ساتواں حصہ اور اس آٹھواں حصہ ا صہ نوان حصہ حاصل ہوئے۔ ۵۔ زاویہ مفروض بنانے میں جس وقت کہ زاویہ مفروضہ بنانا منظور ہو تو پہلے جس بعد پر چاہیں ایک قوس کھینچیں اور اسکے نصف قطر کے برابر خط اوتار کو رقم آخر سے کھولیں بعد اس کے جے درجہ کا زاویہ بنانا ہو اتنے ہی درجہ کا کھلاؤ سادی پرکار سے ناپ کر اس قوس میںسے ایک قوس الگ کریں اور مرکز سے اس کے دونوں طرف خط کھینچیں۔ پس زاویہ مفروض بن جاوے گا۔ مثال: ہم چاہتے ہیں کہ تیس درجہ کا زاویہ بناویں پہلے ہم نے ا کے مرکز سے ب کے بعد پر ایک قوس ب ح کی کھینچی اور اسکے نصف قطر کے برابر کہ ا ب ہے خط اوتار کو ساٹھویں درجے سے کھولا اور تیسویں درجہ کا کھلاؤ ناپ کر اس کے موافق ب ج کی قوس میںسے ایک قوس الگ کی کہ ء کے نقطہ پر الگ ہوئی۔ بعد اس کے ب ء کی قوس کے دونوں طرف دو خط ا ب ا ء کے مرکز سے کھینچے پس ب ا ء کا زاویہ تیس درجہ کا بن گیا۔ ۶۔ ایک بنے ہوئے زاویہ کے درجے نکالنے میں اگر ایک زاویہ موجود ہو اور یہ بات جاننی چاہیں کہ یہ زاویہ کے درجے کا ہے تو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اس زاویہ کو مرکز ٹھہرا کر جس بعد پر چاہیں ایک قوس کھینچیں اور اس کے نصف قطر کے برابر خط اوتار کو ساٹھویں رقم سے کھولیں اور اس قوس کے وتر کو خط اوتار کے کھلاؤ پر منطبق کریںجس درجہ پر منطبق ہو اتنا ہی وہ زاویہ ہے۔ مثال: ا کا زاویہ ہے ہم چاہتے ہیں کہ اس کے درجے معلوم کریں ۱ کو مرکز ٹھہرا کر ا ب کے بعد پرایک قوس ب ج کی کھینچی اور اس کے نصف قطر کے برابر کہ ا ب ہے خط اوتار کو ساٹھویں درجہ پر کھولا اور ب ح کی قوس کا وتر سادی پرکار سے ناپ کر خط اوتار کے کھلاؤ پر منطبق کیا کہ تیسویں درجہ پر منطبق ہوا پس ہم نے جانا کہ ا کا زاویہ تیس درجہ کاہے۔ چوتھاحصہ یہ خط بعضے پرکاروں میں اندر کے کنارے کے برابر ہوتا ہے اور بعضے پرکاروں میں اس خط کو نہیں کھینچتے صرف اندر کے کنارے پر تقسیم کردیتے ہیں اور اس کنارے ہی کو خط فرض کرتے ہیں اور یہ خط محیط سے ملا ہوا اورمرکز کی طرف سے ناقص ہوتاہے۔ یعنی مرکز تک نہیں ہوتا اور اس خط کے مختلف بارہ حصے اس طرح گنے جاتے ہیں کہ پہلے حصہ پر محیط کی طرف رقم ۴ اور پھر رقم ۵ اور پھر ۶ یہاں تک کہ مرکز کی طر ف آخری حصہ پر رقم ۱۲ کی مندرج ہوتی ہے اور یہ خط دونوں پروں پر ہوتا ہے اور پہلے حصے کے بیچ میںدو بعدوں پر انگریزی حرفوں میں لفظ پول لکھا ہوا ہوتا ہے اور اسکی یہ صورت ہے POLَ اور یہ خط مختلف دائروں کے بارہ حصے کرتا ہے ۔ اس واسطے ہم نے اس خط کا نام تسقیم بروج رکھا ہے اور اس خط سے دو طرح کے عمل ہوتے ہیں۔ ۱۔دائرہ کے نصف قطر سے دائرہ کی تقسیم میں اس کا قاعدہ یہ ہے کہ دائرہ کے نصف قطر کو سادی پرکار سے ناپ کر پرکار متناسبہ کو خط تقسیم بروج کی چھٹی رقم سے اس کے برابر کھولا پس اس صورت میںہر حصہ کا کھلاؤ اسی قدر دائرہ کے حصے کر دے گا۔ یعنی رقم ۴ کا کھولاؤ دائرہ کے چار ٹکڑے اور پانچ کا کھلاؤ پانچ ٹکڑے کر دے گا اور باقی اسی طور سے خیال کرنا چاہیے۔ مثال: اب دائر ہ ہے۔ ا ب ح ء کا ہم ا ہ کی تقسیم کرنی چاہتے ہیں تو اسکے نصف قطر کو ا ہ ہے سادی پرکار سے ناپ کر خط تقسیم بروج کے چھٹے حصے سے پرکار متناسبہ کو اس کے برابر کھولا اور ہر حصہ کے کھلاؤ سے تقسیم حاصل ہونے لگی۔ چناں چہ رقم چار کے کھلاؤ س ا ب دائرہ چوتھائی اور رقم پانچ کے کھلاؤ سے ا ز پانچواں حصہ اور رقم چھ کے کھلاؤ سے ا ح چھٹا حصہ اور رقم سات کے کھلاؤ سے ا ط ساتواں حصہ اور رقم آٹھ کے کھلاؤ سے ا ی آٹھواں حصہ اور رقم نو کے کھلاؤ سے ا ک نواں حصہ اور رقم دس کے کھلاؤ سے ا ل دسواں حصہ اور رقم گیارہ کے کھلاؤ سے ام گیارہواں حصہ اور رقم بارہ کے کھلاؤ سے ا ھ بارہواں حصہ حاصل ہوا۔ ۲۔ چوتھائی دائرہ کے وتر سے دائرہ کی تقسیم میں ا س کا قاعدہ یہ ہے کہ جس دائرہ کی تقسیم کرنی منظور ہو پہلے ا س دائرہ کے چارٹکڑے کریں اور دونوں قطر کھینچیں بعدا سکے سادی پرکار کو چوتھائی دائرہ کے قوس کے وتر کے برابر کھولیں اور خط تقسیم بروج کوبھی رقم چار سے اس کے برابر کھولیں بعد اس کے ہر حصہ کاکھلاؤ دائرہ کے اتنے ہی حصے کر دے گا۔ مثال: ہم نے چاہا کہ ا ب ح ء کے دائرہ کی تقسیم کریں پہلے ہم نے اس کے چار ٹکڑے کیے جیسے ا ب ب ح ح ء ء ا اور دونوں قطر ا ج ب ء کے کھینچے اور ب چوتھائی دائرہ کا وتر ناپ لیا اور اس کے برابر خط خط مستقیم بروج کورقم چار سے کھولا کہ ہر حصہ کے کھلاؤ سے تقسیم حاصل ہونے لگی۔ چنانچہ رقم چار کے کھلاؤ سے اب چوتھائی اور رقم پانچ کے کھلاؤ سے ا ز پانچواں حصہ اور رقم چھ کے کھلاؤ سے ا ح چھٹا حصہ اور رقم سات کے کھلاؤ ا ط ساتواں حصہ اور رقم آٹھ کے کھلاؤ سے ی ی آٹھواں حصہ اور رقم نو کے کھلاؤ سے ا ک نواں حصہ اوررقم دس کے کھلاؤ سے ال دسواں حصہ اور رقم گیاہ کے کھلاؤ سے ا م گیارواں حصہ اور رقم بارہ کے کھلاؤ سے ا ھ یارہواں حصہ حاصل ہوا۔ پانچواں خط یہ خط بھی پرکار کے دونوں پروں پر ہوتا ہے۔ محیط سے ملا ہوا اورمرکز کی طرف سے ناقص اور اسی طرف رقم بیس کی لکھی ہوتی ہے۔ بعدا سکے ۳۰ کی اور پھر ۴۰ کی یہاں تک کہ آخر کو محیط کی طرف رقم ۷۸ کی ہوتی ہے اور اس خط کے حصے مختلف ہوتے ہیں مرکز کی طرف چھوٹے اور محیط کی طرف بڑے اور خط کے دونوں سرو ں پر انگریزی چھوٹے حرفوں کی سین لکھا ہوا ہوتا ہے اور اس کی صورت یہ ہے S کہ انگریزی زبان میں اس کو ایس کہتے ہیں اورانگریزی میں اس خط کا نام سیکنٹ Secant ہے اور سیکنٹ کے معنی قطر ظل کے ہیں۔ ا س واسطے ہم نے اس خط کا نام اقطار اظلال رکھا ہے اور اس خط سے ایک عمل ہوتا ہے۔ ۱۔ دائرہ کے ہر درجہ کی قوس کے قطر ظل نکالنے میں جب کہ دائرہ کی قوسوں کا ظل منظور ہو تو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ دائرہ کے نصف قطر کو سادی پرکار سے ناپ کر خط اقطار اظلال کو بیسویں رقم سے اس کے برابر کھولیں۔ پس جس درجہ کا کھلاؤ لیویں گے وہ اتنی ہی درجہ کی قوس کا قطر ظل ہوگا۔ مثال: ہم نے چاہا کہ ا ب ج ء کے دائرہ کی تیس درجہ کی قوس کا قطر ظل نکالیں پہلے پرکار متناسبہ کو ا ہ نصف قطر کے برابر خط اقطار اظلال کے بیسویں درجہ سے کھولا بعد اس کے تیسویں درجہ کا کھلاؤ نا پا کہ ہ ز کے برابر ہوا بس یہی تیس درجہ کی قوس کا قطر ظل ہے۔ فائدہ: اگر ایک دائرہ کا چوتھائی ٹکڑا ہو اور اسکے قطر کے ایک طرف اس طرح عمود کھینچیں کہ دوسرے قطر کے متوازی ہو اس عمود کے تئیں خط اظلال کہتے ہیں اور جب کہ اس چوتھائی دائرہ میں سے ایک قوس جدا کر کے مرکز سے اس عمود تک ایک خط اس طرح کھینچیں کہ اس قوس کے نشان پر جس کو جدا کیا ہے گذرے اس خط کا نام اس قوس کا قطر ظل ہے اور قطر سے اس قطر ظل تک اس عمود کا نام ظل ہے۔ مثال: ا کے مرکز سے ب ج کے ربع دائرہ ہے ا ب کے قطر پر ب کی طرف ایک عمود ب ء کا ایسا کھینچا کہ ا ج کے قطر کے متوازی ہے اور ب ہ کی قوس تیس درجہ کی ہے۔ پس ہم نے ایک خط ا ہ ز کا اس طرح کھینچا کہ مرکز سے شروع ہوا اور قوس کے نشان پر گزر کر عمود تک نقطہ زیر پہنچا ا ب اس خط ا ہ ز کا نام قطر ظل تیس درجہ کی قو س کا ہے اور ب ز کے عمود کا نام ظل۔ دوسری طرف کے خطوں کا بیان پہلا خط یہ خط بھی پرکار کے دونوں پروں پر مرکز سے محیط تک ہوتا ہے اور ان کے آخر کو انگریزی پڑے حرفوں کا سین لکھا ہوا ہوتا ہے اور اسکی صورت یہ ہے S اور انگریزی زبا ن میں اس کو ایس کہتے ہیں اور اس خط کے نوے حصے مختلف ہوتے ہیںمرکز کی طرف بڑے اور محیط کی طرف چھوٹے اور ہر دس کے بعد رقم لکھی ہوئی ہوتی ہے اور انگریزی زبان میں اس خط کو خط سین کہتے ہیں Sine اور ہم نے اس خط کا نام خط جیوب رکھا ہے اور اس خط سے نو عمل ہوتے ہیں۔ ۱۔ قوس مفروض کی جیب نکالنے میں۔ جس قوس کا جیب نکالنا منظور ہو تو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ سادی پرکار کو اس کے نصف قطر کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے آخر یعنی رقم نوی سے اس کے برابر کھولیں پس جے درجہ کی قوس ہو اتنے ہی درجہ کا کھلاؤ ناپ لیویں وہی اس کاجیب ہے۔ مثال: ہم نے چاہا کہ ا ب ح ء کے دائرہ میںسے ا ز کی قوس کا جیب نکالیں تو ا ہ دائرہ کے نصف قطر کے برابر پرکار متناسبہ خط جیوب کے آخر سے کھولا اور قوس مفروضہ بیس درجہ کی تھی پس بیسویں درجہ کا کھلاؤ لے کر اس دائرہ کے قطر پر مرکز سے نشان کیا جیسے ح بعد اس کے خط ز ح کھینچا اور اس کے برابر ا ہ کے قطر پر نشان کیا اور ایک خط ز ط کا کھینچا کہ یہی خط ا ز کی قوس کا جیب ہے اور اگر قوس کے درجے معلوم نہ ہوں تو تیسرے خط کے چھٹے عمل سے اس کے درجے معلوم ہو سکتے ہیں۔ ۲۔ منطقۃ البروج کے میل اول نکالنے میں اس عمل کے بیا کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ میل اول اور میل ثانی کی تشریح بیان کریں۔ جاننا چاہیے کہ آسمان گول ہے پس جس وقت کہ اس پر دائرہ فرض کیاجاوے تو دوحالت سے خالی نہین یا یہ کہ آسمان کے برابر دو حصے کرے یا مختلف اور جو دائرہ کہ آسمان کے برابر دو حصے کرے گا اس کا نام دارئہ عظیمہ ہے اور گول چیز پر اس سے بڑادائرہ کوئی نہیں کھینچ سکتا اور حکماہ نے آسمان کے دس دائرے فرض کیے اور ان دائروں کے تقاطع کے سبب قوسیں پیدا ہوتی ہیں ان قوسوں کا جدا جدا نام رکھا ہے اور اس کی صورت کرہ پر بخوبی ذہن میںآجاتی ہے مگر اس جگہ ہم سطح پر ان دائروں اور قوسوں کو بناتے ہیں تاکہ آگے کام آویں۔ سمجھو کہ ان دس دائروں میں سے پہلے دائرہ کا نام معدل النہار ہے اور اس کے دونوں قطبوں کو قطب عالم کہتے ہیں ایک قطب جو بنات النعش اور جدی کے پاس ہے اس کو قطب شمالی اور دوسرے کو قطب جنوبی او ریہ دائرہ کانام منطقۃ البروج ہے اور اس دائرہ کے دونوں قطب معدل النہار کے قطب سے ساڑے تیس درجہ کے زیج والے اس کی صورت اس طرح لکھتے ہیں لج لہٹ کر ہے او ر اسی سبب سے معدل النہار اور اس دائرہ میں دو لفظوں پر تقاطع ہوتا ہے اور ان دونوں نقطوں کا نام نقطہ اعتدالین ہے اور تیسرا دائرہ مارہ با قطاب اربع ہے او ریہ دائرہ معدل النہار اور منطقۃ البروج کے چاروں قطبوں پر گذرتا ہے اور اس دائرہ کے جو چھوٹی قوس کہ معدل النہار اور منطقہ البروج یا ان کے قطبوں کے درمیان میں واقع ہوتی ہے اس کا نام میلی کلی ہے اور وہ ہمیشہ لج ل ساڑے تیس درجہ کے برابر ہوتی ہے اور چوتھا دائرہ میل ہے اور یہ دائرہ معدل النہار کے دونوں قطبوں اور کسی ستارہ کے مرکز یا منطقۃ البروج کے کسی درجہ پر گزرتا ہے اور اس دائرہ کے جوچھوٹی قوس کے منطقۃ البروج کے درجہ اورمعدل النہار کے درمیان میں واقع ہوتی ہے اس کا نام میل اول ہے جو قوس کے معدل النہار او ر ستارہ کے مرکز میں واقع ہوتی ہے اس کا نام بعد کو کب ہے اور پانچواں دائرہ عرض کا ہے اور یہ دائرہ منطقۃ البروج کے دونوں قطبوں اور منطقۃ البروج کے دونو ں قطبوں اور منطقۃ البروج کے کسی درجہ یا کسی ستارہ کے مرکز پر گزرتا ہے اور اس دارئہ کی جو چھوٹی قوس منطقۃ البروج کے درجہ اور معدل النہار کے درمیان میں واقع ہوتی ہے اس کانام میل ثانی ہے اور جو قوس کہ منطقۃ البروج اور ستارے کے مرکز کے درمیان میں واقع ہوتی ہے اس کا نام عرض کوکب ہے اور چھٹا دائرہ افق کا ہے اور اس دائرہ کے دو قطب ہوتے ہیں ایک سمت الراس اور نیچے کے قطب کو سمت القدم کہتے ہیں اور اس دائرہ کے سبب آسمان کے دو حصے ہوتے ہیں اس میں سے ایک حصہ دکھائی دیتا ہے اور دوسرا حصہ پوشیدہ رہتا ہے اور یہ دائرہ معدل النہار کے بھی دو حصے کرتاہے دونقطوں پر ایک نقطہ کا نام نقطہ مشرق ہے او ردوسرے کا نام نقطہ مغرب او رمنطقۃ البروج کے بھی دو ٹکڑے کرتا ہے دو نقطوں پر ایک کا نام طالع اور دوسرے کا نام غارب اور سابع کہتے ہیں اور اس دائرہ کی جو چھوٹی قوس کہ منطقۃ البروج کے درجہ یا کسی ستارہ کے مرکز اور نقطہ مشرق کے درمیان میں واقع ہو اس کا نام سقہ مشرق ہے اور جوچھوٹی قوس کے منطقۃ البروج کے درجہ یا کسی ستارہ کے مرکز اور نقطہ مغرب کے درمیان میں واقع ہو اس کانام سقہ مغرب ہے اور ساتواں دائرہ نصف النہار کا ہے اور یہ دائرہ افق کے دونوں قطبوں پر گزرتا ہے اور افق کے دو ٹکڑے کرتاہے ۔ دو نقطوں پر ایک کا نام قطب شمالی ہے اور دوسرے کا نام قطب جنوبی اور نقطہ مشرق او رمغرب اس کے قطب ہیں اور منطقۃالبروج کے یہی دو ٹکڑے کرتا ہے دو نقطوں پر ایک کے تئیں جو اوپر ہے وتد السماء اور عاشر او ر دوسرے کے تئیں جو نیچے ہے وتد الارض اور رابع کہتے اور معدل النہار کے یہی دو ٹکڑے کرتا ہے اور اس دائرہ کی جوچھوٹی قوس کے معدل النہار کے قطب اور افق کے دائرہ یا قطب دائرہ افق میں واقع ہو اس کے تئیں عرض بلدکہتے ہیں اور آٹھواں دائرہ اول السموت کا ہے اور یہ دائرہ افق کے دونوں قطب اور نصف النہار کے دونوں قطبوں پر گذرتا ہے اور اس دائرہ کے قطب نقطہ شمالی اور جنوبی ہیں اور نواں دائرہ وسط المساء رویت کا ہے اور یہ دائرہ منطقۃ البروج کے دونوں قطبوں اور افق کے دونوں قطبوں پر گزرتا ہے اور ا سکے دونوں قطب نقطہ طالع اور غارب ہوتے ہیں اور منطقۃ البروج کو یہ دائرہ دو حصے کرتا ہے اور اس دائرہ کی جو چھوٹی قوس کہ افق اور منطقۃ البروج کے درمیان یا منطقۃ البروج اور قطب افق کے درمیان میں واقع ہو اس کے تئیں عرض اقلیم رویت کہتے ہیں او ر دسواں دائرہ ارتفاع کا ہ اور یہ دائرہ افق کے دونوں قطبوں او رمنطقۃ البروج کے درجہ مفروضہ پر گذرتا ہے اورافق دو نقطوں پر قطع کرتا ہے اور ان دونوں نقطوں کو نقطہ سمت کہتے ہیں اور اسی سبب اس دائرہ کو دائرہ سمت بھی کہتے ہیں اور اس دائرہ کی جو چھوٹی قوس نقطہ مفروضہ اور افق کے درمیان میں واقع ہو اس کے تئیں اس نقطہ کا ارتفاع کہتے ہیں۔ اگر وہ نقطہ اوپر ہو اور اگر نیچے ہو تو اس کے تئیں انحطاط کہتے ہیں اور جوچھوٹی قوس افق کی اس دائرہ اوردائرہ اول السموت کے درمیان میں واقع ہو اس کے تئیں قوس سمت اور سمت ارتفاع کہتے ہیں اگر وہ نقطہ اوپر ہو اور اگر نیچے ہو تو اس کے تئیں سمت انحطاط کہتے ہیں اور اس شکل مسطح سے ان دائروں کا اور قوسوں کا سمجھنا بوجھنا آسان ہوگا لیکن کرہ کرہ پر بہت آسانی سے سمجھ میں آتا ہے۔ اور جب کہ یہ سب باتیں ذہن نشین ہوگئیں۔ اب سنو کہ میل اول نکالنے کا قاعدہ یہ ہے کہ سادی پرکار کو خط جیوب کے درجوں سے میل کلی یعنی لح ل کے برابر کھولا اور پرکار متناسبہ کو جیوب کے نوے درجے سے اس کے برابر کھولا اور جس درجہ کا میل اول نکالنا ہے اس کا کھلاؤ لے کر مرکز کی طرف سے خط جیوب پر ناپا جے درجے حاصل ہوئے وہی میل اول ہے۔ مثال: ہم نے چاہا کہ عقرب کے دسویں درجہ کا میل اول معلوم کریں سادی پرکار کو مرکز کی طرف خط کے ساڑھے تیس درجہ برابر کھولا اور پرکار متناسبہ کو بھی خط جیوب کے نوے درجے سے اس کے برابر کھولا اب دیکھنا چاہیے کہ نقطہ اعتدال سے عقرب کے دسویں درجہ تک چالیس درجہ کا تفاوت ہے۔ اس واسطے کہ تیس درجہ میزان کے اور دس درجہ عقرب کے کل چالیس ہوئے ۔ ہم نے خط جیوب کے چالیسویں درجہ کا کھلاؤ لے کر خط جیوب کے درجوں پر مرکز کی طرف سے ناپا کہ پندرھویں درجہ پر منطبق ہوا۔ پس عقرب سے دسویں درجہ میل اور پندرہ درجہ کا اور زیچ والے اس کو اس صورت سے لکھتے ہیں۔ اورجب کہ پرکار متناسبہ کو ساڑھے تیس درجہ کے برابر کھول لیویں گے تو اس وقت نوے درجہ کی قوس کا ہر درجہ کے کھلاؤ ناپنے سے میل اول حاصل ہوگا اور نوے درجے کی قوس کا میل اول حاصل ہونا سارے دائرہ کی میل اول کو کافی ہے۔ اس واسطے جو نسبت میزان عقرب قوس کو نقطہ اعتدال سے ہے وہی نسبت جدی دلو حوت کو اور وہی نسبت حمل ثور جوزا کو اور وہی سرطان اسد سنبلہ کو نقطہ اعتدال سے ہے فتامل۔ ۳۔ منطقۃ البروج کے درجوں کی میل ثانی نکالنے میں جس درجہ کی میل ثانی نکالنی منظور ہو تو پہلے سادی پرکار کو خط اظلال کے درجوں سے جل لمیل کلی کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط جیوب سے نوے درجے سے اس کے برابر کھولا اور جس درجہ کا میل ثانی نکالنا منظور ہوا اسی درجہ کا کھلاؤ خط جیوب سے لے کر خط اظلال کے درجوں پر ناپا جے درجے حاصل ہوئے وہی میل ثانی ہے ۔ مثال: ہم نے چاہا کہ عقرب کے ستائیسویں درجہ کی میل ثانی نکالیں پہلے سادی کو خط اظلال کے درجوں سے ساڑھے تیس درجہ کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے نوے درجے کے اس سے برابر کھولا بعدا س کے ستاون درجہ کا کھلاؤ خط جیوب سے لیا اور خط اظلال کے درجوں پرناپا کہ سوا بیس درجے حاصل ہوئے اور یہی میل ثانی ہے۔ ۴۔ معدل النہار سے بعد کو کب نکالنے میں بعد کو کب نکالنے کا قاعدہ یہ ہے کہ ستارے کے درجہ کی میل ثانی اور عرض کو اگر دونوں ایک طرف ہوں جمع کریں ورنہ تقاضل لے لیویں اور حاصل یاباقی کے تئیںحصہ بعد کہتے ہیں۔ بعد اس کے سادی پرکار کو خط جیوب کے درجوں سے اس کو کب کے درجہ کی تمام میل منکوس کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے نوے درجے سے اس کے برابر کھولیں اور جتنا کہ حصہ بعد ہے اتنے ہی درجہ کا کھلاؤ ناپیں او ر اس خط جیوب کے درجوں پر مطابق کریں جے درجے حاصل ہوں وہی بعد کو کب ہے۔ معدل النہار سے اس طرف کو جس طرف کہ وہ حصہ بعد واقع ہے او رمیل منکوس کے معنی یہ ہیں کہ مثلا اگرکوئی شخص کہے کہ برج ثور کے پہلے درجہ کی میل منکوس کیا ہے تو جوزا کے پہلے درجہ کی کہ وہ آخر ثور ہے جو میل ہو وہی میل منکوس اول ثور کی ہے اور اسی طرح سے اگر میل منکوس دسویں درجہ ثور کی نکالنی منظور ہو تو دسویں درجہ جوزا کی میل نکالیں وہی میل منکوس دسویں درجہ ثور کی ہوگی۔ مثال: ہم نے چاہا کہ کف الخضیب کا بعد معدل النہار سے دریافت کریں ہم نے اس کو پہلے درجہ ثور میں اور اسکا عرض پچا س درجہ صمح اور اڑتالیس دقیقہ کا پایا اور ثور کے پہلے درجہ کا میل ثانی پرکار متناسبہ کے عمل سے سارے یب ل بارہ درجہ کا پایا اور عرض کوکب اور میل ثانی ایک طرف کو تھے اس واسطے ہم نے ان دونوں کو جمع کیا کہ تریسٹھ درجہ او ر تہائی درجہ کے قریب حاصل ہو اکہیہ حصہ بعد اور پہلے درجہ ثور کی میل منکوس بیس درجہ کی پائی اور تمام قوس میل منکوس کی ستر درجے کی باقی رہی اس لیے ہم نے سادی پرکار کو خط جیوب کے ستر درجے کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے نوے درجے سے اس کے برابر کھولا اور تریسٹھ درجے اور ایک تہائی درجہ کا کھلاؤ ناپ لیا اور خط جیوب کے درجوں پر مطابق کہ ستاون درجے پر منطبق ہو ا اور یہی کف الخضیب کا بعد معدل النہار سے ہے۔ ۵۔ منقطۃ البروج کے درجوں کے مطالع استوائی نکالنے میں اگر منطقۃ البروج کے کسی درجے کا مطالع نکالنا منظور ہو تو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ درجہ مفروضہ کو نقطہ اعتدال سے جو قریب تر ہے جتنا تمام بعد ہو اس بعد کو لیویں اور درجہ کی میل اول نکالیں اور اسی درججہ کی تمام میل اول کو معلوم کریں اور سادی پرکار سے اس جز کے تمام قوس کے موافق مرکز کی طرف سے خط جیوب کے درجے ناپیں اور اس کے برابر پرکار متناسبہ کو تمام میل اول کے درجے سے اس کے برابر کھولیں بعد اس کے خط جیوب کے نوے درجے کا کھلاؤ لے لیویں اور اسکو خط جیوب کے درجوں پر مطابق کریںجے درجوں پر منطبق ہو وہی مطلوب ہے۔ مثال: ہم نے چاہا کہ ثور کے پہلے درجے کا مطالعہ معلوم کریں ثورکے پہلے درجے کاتمام بعد حمل کے پہلے درجے سے کہ نقطہ اعتدال قریب ہے ساٹھ درجہ کا ہے اور اس کی میل اول ساڑھے گیارہ درجہ کی ہے اور تمام میل اول ساڑھے اٹھہتر درجے کی ہے اس واسطے ہم نے سادی پرکار سے خط جیوب کے ساٹھ درجے مرکز کیطرف سے ناپ کر پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے ساڑھے اٹھہتر درجے سے اس کے برابر کھولا اور نوے درجے کا کھلاؤ ناپ کر خط جیوب کے درجوں پر منطبق کیا کہ باسٹھ درجے پر منطبق ہوا کہ تمام ا س کے اٹھائیس درجے ہیں او ریہی مطلوب ہے۔ ۶۔ یہی عمل اور طریق سے سادی پرکار کومیل کلی کے برابر خط اظلال کے درجوں سے کھول کر پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے نوے درجے سے اس کے برابر کھولا بعد اس کے جز ء مفروض کی میل کے موافق خط اظلال کے درجوں پر سادی پرکار کو کھول کر پرکار متناسبہ کے کھلاؤ پر منطبق کیا جس درجہ پر مطابق ہوا وہی مطالع ہے۔ مثال: ہم نے چاہا کہ ثور کے پہلے درجے کا مطالع معلوم کریں سادی پرکار کو خط اظلال کے درجوں سے میل کلی کے برابر کھولا اور ثور کو پہلے درجہ کی میل ساڑے گیارہ درجہ کی ہے اس کے برابر بھی خط اظلال کے درجوں سے سادی پرکار کو کھولا اور پرکار متناسبہ کے کھلاؤ پر منطبق کیا کہ خط جیوب کے اٹھائیسویں درجہ پر مطابق ہو ااوریہی مطالع ہے ۷۔ سعۃ مشرق نکالنے میں جاننا چاہیے کہ جو شہر خط استوا پر واقع ہیں ان شہروں میں آفتاب کی سعۃ مشرق میل کلی سے سوا نہ ہوگی اور منطقۃ البروج کے درجہ کی سعۃ مشرق اس کی میل اول کے برابر ہوگی اور ہر ستارہ کی یہی سعۃ مشرق ا سکے بعد کے برابر ہوگی اور آفاق مائلہ میں یعنی ان شہروں میں جن کو عرض ہے وہ ستارہ جس کا عرض قطب ظاہرکی طرف تمام عرض بلد سے سوا ہے ہمیشہ دکھلائی دیوے گا اور اگر قطب خفی کی طرف ہوگا تو ہمیشہ چھپا رہے گا اور جو ستارہ کہ اس کا بعد معدل النہار سے تمام عرض بلد کے برابر ہو۔ اس کی سعۃ مشرق چوتھائی دور کے برابر ہوگی اور اگر اسکابعد معدل النہار سے تمام عرض بلد سے کم ہو تو سعۃ مشرق اس کی ربع دو ر سے کم ہوگی اور سعۃ مشرق کو پرکار متناسبہ سے نکا لنے کا یہ قاعدہ ہے کہ سادی پرکار کو خط جیوب کے درجوں سے تمام عرض بلد کے برابر کھول کر پر کار متناسبہ کو خط جیوب کے نوے درجے سے اس کے برابر کھولیں بعد اسکے درجہ مفروضہ کے میل یا ستارہ کے بعد کے موافق سادی پرکار کو خط جیوب کے درجوں سے کھول کر پرکار متناسبہ کے کھلاؤ پر منطبق کریں جس درجہ پر مطابق ہو وہی سعۃ مشرق ا س درجہ مفروضہ یا ا س ستارہ کی ہے۔ مثال: ہم نے چاہا کہ شاہجہان آباد کے افق میںثور کے تیسویں درجہ کی سعۃ مشرق معلو م کریں۔ شاہجہان آباد کا عرض بلد لح م اٹھائیس درجہ اور چالیس دقیقہ کا ہے اور تمام عرض بلد ساک ایکسٹھ درجہ اور بیس دقیقہ کا سادی پرکار کو خط جیوب کے درجوں سے تمام عرض بلد کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے نوے درجے سے کھولا بعد اس کے سادی پرکار کو خط جیوب کے ک یہ بیس درجہ اور پندرہ دقیقہ کے برابر کہ یہ ثور کے تیسویں درجہ کی میل ہے کھولا اورپرکار متناسبہ کے کھلاؤ پر منطبق کیا کہ لج تئیسویں درجہ پر منطبق ہو ا اور یہی ثور کے تیسویں درجہ کی تعدیل مشرق ہے۔ شاہجہان آباد کے عرض میں فائدہ عرض نکالنے میں ہم دیکھیں گے کہ اس شہر میںسایہ دوپہر کے وقت اگر ایک طر ف پڑتا ہے خواہ شمال کی طرف خواہ جنوب کی طرف تو ایسے شہر کو ذات ظل واحد کہیں گے او ر اگر دوپہر کے وقت سایہ کبھی شمال کی طر ف پڑے اور کبھی جنوب کی طرف تو یہ دو قسم ہے۔ ایک یہ کہ سایہ مقیاس کے بالکل گرد پھر جاوے اس کے تئیں تو ظل دایر کہتے ہیں دوسرے یہ کہ سایہ مقیاس کے بالکل گرد نہ پھرے اس کے تئیں ذات ظلیں کہتے ہیں پس اگر وہ شہر ذات ظل واحدہے تو ہم میل کلی کے تئیں آفتاب کے چھوٹے سے چھوٹے ارتفاع پر بڑھاویں گے تمام عرض بلد حاصل ہو جاوے گا او ر اگر وہ شہر ذات ظلین ہے تو میل کلی کے تئیں قطب خفی کی طرف کے چھوٹے سے چھوٹے ارتفاع پر بڑھاویں گے تمام عرض بلد حاصل ہو جاوے گا یا چھوٹے ارتفاع ک تمام کو جو قطب ظاہر کی طر ف سے میل کلی سے دور کریں باقی عرض بلد حاصل ہوگا اوراگروہ شہر ذات ظل دائر ہو تو میل کلی کے تئیں بڑے سے بڑے ارتفاع سے نکالیں تمام عرض بلد حاصل ہوگا اور اگر اس کو نہ نکال سکیںگے تو عرض بلد چوتھائی دور کا ہوگا اور جب کہ تمام عرض بلد کو نوے میں سے نکال ڈالیںگے جو کہ باقی رہے گا وہی عرض بلد ہے اور اگر ثوابت میں سے کوئی ستارہ کہ ہمیشہ دکھلائی دیتا ہو سمت الراس سے قطب خفی کی طرف نہ گزرے تو بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے ارتفاع کو ملا کر اس کا نصف کرلیںوہی عرض بلد ہوگا اور اگروہ ستارہ سمت الراس سے گذر جاوے تو بڑے ارتفاع کی جگہ تمام بڑے ارتفاع کا آدھی دو رتک لیکر عمل تمام کریں اور اگر جس دن کی میل آفتاب اور اسی دن کا بڑے سے بڑا ارتفاع پہلے معلوم کر لیویں اور میل کو اس بڑے ارتفاع پر بڑھاویں اگر وہ میل قطب خفی کیطرف ہوورنہ بڑے ارتفاع سے گھٹاویں یعنی اگر قطب ظاہر کی طرف ہو تو حاصل یا باقی تمام عرض بلد ہوگا۔ ۸۔ تعدیل النہار او رمطالع بلد اور قوس النہار اور ساعات النہار کے نکالنے میں جاننا چاہیے کہ خط استوا میں تعدیل النہار نہیں ہوتی اور نصف قوس النہار ہمیشہ چوتھائی دور ہوتی ہے اور ان شہروں میں جن کاعرض تمام میل کلی کے برابر ہے نہایت تعدیل النہار کی چوتھائی دورتک پہنچتی ہے اور باقی شہروں میں سے جو اس شہر اور خط استوا کے درمیان میں واقع ہیں تعدیل النہار چوتھائی سے کم ہوتی ہے اور ا سکے نکالنے کا قاعدہ یہ ہے کہ سادی پرکار کو خط جیوب کے درجوں سے تمام سعۃ مشرق کے برابر کھول کر جز مفروض کے تمام میل اول کے درجہ سے پرکار متناسبہ کو اس کے برابر کھولا اور نوے کی رقم کے کھلاؤ کو ناپ کر خط جیوب کے درجوں پر منطبق کیا۔ جس درجہ پر منطبق ہو اوہی تعدیل النہار ہے۔ مثال: ہم نے چاہا کہ سہ ساٹھ درجہ کے عرض بلد میںثور کے پہلے درجے کی تعدیل النہار نکالیں ثور کے پہلے درجہ کی سعۃ مشرق لح ل ساڑھے تئیس درجہ ہے اور تمام سعۃ مشرق سولہ ساڑھے چھیاسٹ درجہ کی اور اس کی میل اول ب بارہ درجہ کی او ر تمام میل اول عح اٹھہتر درجے کی ہے۔ اب ہم نے پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے اٹھہترویں درجہ سے تمام سعۃ مشرق کے برابر کھولا اور نوے درجے کا کھلاؤ ناپ کر خط جیوب پر منطبق کیا کہ عہ سترہویں درجہ پرمنطبق ہو ا اور اس قوس کا تمام ل تیس درجے ہیںاور یہی ثور کے پہلے درجے کی تعدیل النہار ساٹھ درجے کے عرض میںہے۔ اور اگرعرض بلد پنتالیس درجے سے کم ہو تو سادی پرکار کوخط اظلال کے درجوں سے عرض بلد کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے نوے درجہ سے اس کے برابر کھولیں اور سادی پرکار سے اس جز مفروض کے میل اول کے ظل سے کھلاؤ ناپ کر خط جیوب پر منطبق کریں جے درجے پر منطبق ہو وہی تعدیل النہار اس کی ہے۔ مثال ہم نے چاہا ککہ لح م شاہجہان آبا دکے عرض میں ثور کے پہلے درجے کی تعدیل النہار کریں خط اظلال کے درجوں سے عرض بلد کے موافق سادی پرکار کھول کر پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے نوے درجے سے ہٹا کر اس سے برابر کھولا بعد اس کے سادی پرکار سے تیسویں درجہ کا کھلاؤ کہ یہ ثور کے پہلے درجے کے میل اول کا ظل ہے ناپ کر خط جیوب کے درجوں پر منطبق کیا کہ پونے سولہ درجوں پر منطبق ہوا اور یہی تعدیل النہار ثور کے پہلے درجہ کی شاہجہان آبد کے عرض میں ہے۔ اور جس وقت جزو معروض کی تعدیل النہار اگرعرض بلد کی طرف واقع ہو اسی جزو کی مطالع استوائی میں سے نکال ڈالیں اور اگر عرض بلد کے خلاف جہت واقع ہو تو اس پر بڑھا دیویں مطالع اس جزو کا اس بلد میں حاصل ہوگا۔ مثال: شاہجہان آباد کا عرض بلد شمالی ہے اور ثور کی پہلے درجے تعدیل النہار پونے سولہ درجے کی ہے اور عرض بلد کی طرف واقع ہے اور ثور کے پہلے درجہ کا مطالع استوائی اٹھائیس درجہ کا ہے۔ اٹھائیس میں سے پونے سولہ کہ نکال ڈالا باقی رہی سوا بارہ درجہ اور یہی مطالع اول درجہ ثور کا شاہجہان آباد کے عرض میں ہے اور اگر عقرب کے پہلے درجہ کو فرض کریں تو یہ خلاف جہت عرض بلد واقع ہے ۔ اس کے تعدیل النہار کو مطالع استوائی میںبڑھا دیا ۔ حاصل ہوئے پونے چون تیس اور یہی مطا لع استوائی میں بڑھا دیا ۔ حاصل ہوئے پونے چون تیس اور یہی مطالع پہلے درجہ عقرب کا ہے شا ہجہان آباد کے عرض میںاور اگر تعدیل النہار کو جو قطب ظاہر کی طرف ہے چوتھائی دو ر پربڑھا دیویں اور اگر قطب خفی کی طرف ہے تو اس میں سے نکال ڈالیں۔ حاصل یا باقی قوس النہار ہوتی ہے مثلا ثور کے پہلے درجہ کی تعدیل النہار کو کہ قطب ظاہر کی طرف ہے نوے درجہ پر بڑھایا حاصل ہوئے ایک سو پونے چھ درجہ اور عقرب کے پہلے درجہ کی تعدیل النہار کو کہ قطب خفی کی طرف ہے نوے درجہ میںہے نقصان کیا باقی رہے۔ سوا چوہتر اب یہ حاصل او رباقی شاہجہان آباد کے عرض میں اس درجہ کی نصف قو س النہار ہے اگر نصف قوس النہار کو دوگنا کر کے بارہ پر تقسیم کریں تو اس دن کی ساعات معوجہ حاصل ہوں گی اور اگرپندرہ پر تقسیم کریں تو ساعات مستوی حاصل ہوںگی۔ اور قوس النہار کا تمام قوس اللیل ہوتا ہے او راگر ساعات مستوی کو لد میں سے نکال ڈالیں تو باقی ساعات مستوی رات کی ہوتی ہیں اور اگر ساعات معوجہ کو ل میں نکال ڈالیں تو باقی ساعات معوجہ رات کی ہوتی ہیں والعکس بالعکس فتامل ساعات مستوی ساعات معوجہ ۲۴ ۳۰ ۱۴ ۱۷ ۱ ۷ ۴ ۴ ۹ ۱۲ ۱۳ ۵ ۴ ۴ ۹۔ساعات سے طالع او رارتفاع سے ساعات نکالنے میں اس عمل کا قاعدہ یہ ہے کہ پہلے اس دن میں آفتاب کی غایت ارتفاع معلوم کریں بعد اس کے سادی پرکار کو خط جیوب کے درجوں سے غایت ارتفاع کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے نوے درجے سے اس کے برابر کھولیں اور پھر سادی پرکار کو خط جیوب کے درجوں سے ارتفاع وقت کے برابر کھو ل کر پرکار متناسبہ کے کھولاؤ پر منطبق کریں۔ جے درجے پر منطبق ہو اس کے تئیں پندرہ پر تقسیم کریں اور جتنا کہ باقی رہے اس کو چار میں ضرب کریں خارج قسمت او رحاصل ضرب ا س دن کی گزری ہوئی ساعتیں ہوں گی اگر ارتفاع شرقی ہوگا اور اگر ارتفاع غربی ہوگا تو وہ ساعتیں اس دن کی باقی ہوں گی اور اگر عدد ساعات معوجہ کو اسی کے اجزا ء میں ضرب کریں تو حاصل ضرب اس روز کا گذرا ہو دائر ہوگا۔ اگر ارتفاع شرقی ہو اور اگر ارتفاع غربی ہو تو حاصل ضرب کو قوس النہار سے نکال ڈالیں، جو باقی رہے وہ دائر ہے اور جب کہ دائر کو پندرہ پر تقسیم کریںاور اگر کچھ باقی رہے تو اس کے ہر ایک درجہ کو ساعت کے چار دقیقے تصور کریں تو ساعات مستوی اور دقیقے گذرے ہوئے اس دن کے معلوم ہوں گے اور اگر دائر کو آفتاب کے درجے کے مطالع بلد پر بڑھا دیویں گے تو اس بلد کے طالع وقت کا مطالع حاصل ہوگا۔ بعد اسکے طالع سے مطالع معلوم کریں۔ مثال: ہم نے تیس درجہ کے عرض بلد میں آفتاب کو اسد کے پانچویں درجے میںفرض کیا او رارتقاع وقت چالیس درجے شرقی ہم نے چاہا کہ پرکار متناسبہ سے اس وقت کی ساعات معلوم کریں۔ میل اول پانچویں درجہ اسد کی انیس ربط اس کے تئیںتمام عرض بلد پر کہ ساٹھ درجہ ہے بڑھایا کل ہوئے اوناسی درجے کہ اس دن کی غایت ارتفاع ہے۔ بعد اس کے سادی پرکار کو خط جیوب کے درجوں سے غایت ارتفاع کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط جیوب سے نو ے درجے سے اس کی برابر کھولا اور پھر سادی پرکار کو خط جیوب کے درجوں سے چالیس درجہ ارتفاع وقت کے برابر کھولا اور پرکار متناسبہ کے کھلاؤ پر منطبق کیا کہ چالیس درجے او رپنتالیس دقیقے پر منطبق ہوا اس کے تئیں پندرہ پر قسمت کیا اور باقی کو چار میں ضرب کیا حاصل ہوئیں دو ساعت اور پنتالیس دقیقہ اور یہی اس وقت کی گذری ہوئی ساعات معوجہ ہیں۔ اور جب کہ ہم نے چاہا کہ ان ساعتوں سے ساعات مستوی نکالیں تو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اس دن کی قوس النہار اس طریق سے حاصل کریں کہ مثلا اس دن کی نصف تعدیل النہار بارہ یب ہا درجے کی تھی اس کے تئیں نوے درجے پر بڑھایا ایک قب ہا سو دو درجے حاصل ہوئے کہ یہ نصف قوس النہار ہے اس کے تئیں دوگنا کیا دو کی دو رو سے چار درجے ہوئے۔ ان کے تئیں بارہ پر تقسیم کیا حاصل ہوئے سترہ یز ساعات معوجہ کے اجزا ۔ بعد اس کے ب مح کہ اس وقت کی گذری ہوئی ساعات معوجہ تھیں ایک ساعات معوجہ کے اجزا میںکہ سترہ ہیں ضرب کیا حاصل ہوئے چالیس تو یہ اور پاؤ یہ اس دن کی گذری ہوئی قوس دائر ہے اور جب کہ مو یہ دائرہ کو پندرہ پر تقسیم کیا اور باقی کو چار میں ضرب کیا تو حاصل ہوئی تین ساعتیں اور پانچ دقیقہ یہ ساعتیں مستوی ہیں۔ اس وقت کی گذری ہوئیں اور درجہ آفتاب کا مطالع بلد ہم نے پایا ایک سو قیوتا سولہ درجہ اور اکیاون دقیقہ اور دائر تھے چہالیس مویہ درجہ پندرہ دقیقہ۔ اس دائر کو آفتاب کے مطالع بلد پر بڑھایا حاصل ہوئے ایک سو تریسٹھ درجہ اور چھ دقیقہ یہ طالع کا مطالع ہے اس وقت اور اس شہر میں اور جب کہ مطالع سے طالع نکالنا چاہا تو زیچ کی جدول میںدیکھا ہ یہ لہ پایا سنبلہ کے پندرہ درجہ اور پچیس دقیقہ ۔ جاننا چاہیے کہ مطالع سے طالع کا نکالنا پرکار متناسبہ کے عمل سے بہت مشکل ہے اور نہایت دقت او ر تکلیف سے نکلتا ہے اس واسطے زیچ پر حوالہ کیا گیا کہ آسانی سے مشکل میں پڑنا کیا ضرور ہے۔ دوسر خط یہ خط بھی پرکار کے دونوں پروں پر مرکز سے محیط تک ہوتا ہے اور ان کی آخر کو انگریزی بڑے حرفوں کی ٹی لکھی ہوئی ہوتی ہے اور اس کی صورت یہ ہے T اور انگریزی میں اس کو ٹی کہتے ہیں اور اس خط کے مختلف پنتالیس حصے ہوتے ہیں مرکز کی طر ف چھوٹے او رمحیط کی طرف بڑے اور ہر دس کے بعد رقم لکھی ہوئی ہوتی ہے اور آخر کو ۴۵ کی رقم مرقوم ہوتی ہے اور انگریزی میں اس خط کو خط ٹینجنٹTangent کہتے ہیں اور ہم نے اس خط کا نام خط اظلال رکھا ہے او ر اس خط سے ایک عمل ہوتا ہے۔ ۱۔ پنتالیس درجہ تک کی قوس کا ظل معکوس نکالنے میں اگر پنتالیس درجہ تک کی قوس ہو اور اسکا ظل معکوس نکالنا چاہیں تو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ سادی پرکار کو اس قوس کے نصف قطر برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط اظلال کے پنتالیسویں درجہ سے اسی کے برابر کھولا پس اب درجہ کا کھلاؤ لیویں گے وہ اتنے ہی درجہ کی قوس کا ظل ہے ان درجوں کے حساب سے کہ نصف قطر کے ساٹھ درجے فرض کریں۔ مثال: ہم نے چاہا کہ اب بیس درجہ کی قوس کا ظل معکوس ہی معلوم کریں ہ ج نصف قطر کے ساٹھ درجے فرض کئے اور سادی پرکار کو ا سکے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط اظلال کے پینتالیسویں درجے سے اس کے برابر کھولا اور تیسویں درجہ کا کھلاؤ ناپ لیا کہ وہ بقدر ء ر کے ہے اور پہلی طرف کے دوسرے خط کے قاعدہ کے بموجب ء ر کو ہ ح نصف قطر کی طرف نسبت کیا اور نصف قطر کے ساٹھ درجے فرض کئے اس کے چھتیس پائے اور یہی تیس درجہ کی قوس کا ظل معکوس ہے تیسرا خط خط اظلال اور خط جیوب کے بیچ میں ایک خط اور ہوتا ہے مرکز کی طرف سے ناقص او رمرکز کی طرف سے محیط تک ا س خط کے پچھتر مختلف حصے ہوتے ہیں اور مرکز کی طرف سے رقمیںلکھی ہوئی ہوتی ہیں شروع رقم کی پنتالیس ہوتی ہے اور آخر کو محیط کی طرف پچھتر کی رقم لکھی ہوئی ہوتی ہے اور آخر کو انگریزی چھوٹے حرفوں کی ٹی لکھتے ہیں اور اسکی صورت یہ ہے t اور انگریزی میں اس کو ٹی اور اس خط کو خط ٹینجنٹTangent کہتے ہیں اور ہم نے اس خط کا نام خط تمام الظل رکھا ہے اور اس خط سے ایک عمل ہوتا ہے۔ ۱۔ پنتالیس درجہ سے پچھتر درجہ تک کی قوس کا ظل معکوس نکالنے میں اگر چاہیں کہ پینتالیس درجہ سے پچھتر درجے تک کی قوس کا ظل معکوس نکالیں تو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ سادی پرکار کو اس قوس کے دائرہ کے نصف قطر کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط تمام الظل کی ر قم اول سے یعنی مرکز کی طرف ا س مقام سے جہاں سے وہ خط شروع ہوا ہے اور ۴۵ کی رقم لکھی ہوئی ہے اس نصف قطر کے برابر کھولیں۔ بعد اسکے جس درجہ کا چاہیں کھولاؤ ناپ کر نشان کریں اور نصف قطر کے ساٹھ درجے فرض کر کے بدستور نسبت دیویں جو پاویں وہی ظل معکوس ہے۔ مثال: ہم نے چاہا کہ پچاس درجہ کی قوس کا ظل معکوس معلوم کریں جیسے قوس ا ء کی ا ء ج کے دائرہ میں سے ، تو ہم نے سادی پرکار کو ۱۵ نصف قطر کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط اظلال کی رقم اول سے اس کے برابر کھولا اورپچاس درجے کا کھلاؤ ناپ لیا اور ا ب کے خط پر نشان کیا کہ ا د کے برابر ہوا بعد اس کے ا ہ نصف قطر کو خط اجزائے متساوی کے ساٹھویں درجہ سے کھلاؤ اور ا د کو اس خط کے کھلاؤ پر منطبق کیا کہ نہتر درجہ پر منطبق ہوا اور یہی ظل معکوس ہے۔ اعمال مشترک کا بیان جتنے قاعدے کہ اوپر کئے گئے یہ سب مفرد تھے یعنی یعنی ایک خط ہوتے تھے اب یہاں سے ان عملوں کا بیان ہے جو کئی خطوں سے مل کر ہوتے ہیں اور یہ اعمال مشترکہ ہیں۔ ۱۔ قوس مفروض کا سہم نکالنے میں اگر کسی قوس کا سہم نکالنا منظور ہو تو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ سادی پرکار اس کے نصف قطر کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے نوے درجے سے کھولا اور اسی نصف قطر کے کھلاؤ کو خط اجزائے متساوی کے درجوں پر مرکز کی طرف سے ناپا جے درجے حاصل ہوں اس کانام مفروض قطررکھیں بعد اسکے سادی پرکار سے تمام قوس کی جیب کا کھولاؤ خط جیوب سے ناپیں اور خط اجزائے متساوی پر اس کھولاؤ کو منطبق کریں۔ جے درجے حاصل ہوں اس کی فاضل باقی مفروج نکالیں جے درجے باقی رہیں وہی قوس مفروض کا سہم ہے۔ مثال: اب کی قوس ا ب ح کے دائرہ سے ایک قوس مفروض ہے ہم چاہتے ہیںکہ اس کا سہم نکالیں تو سادی پرکار کوا ہ نصف قطر کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے نوے درجے سے اس کے برابر کھولا اور اسی کھلاؤ کو مرکز کی طرف سے خط اجزائے متساوی پر ناپا حاصل ہوئے بیس درجے اس کا نام مفروض قطر رکھا۔ بعد اس کے تمام قوس کی جیب کاکھلاؤ ناپا کہ وہ تمام قوس ب ح کی ہے اور جیب اس کی ء ہ ہے سادی پرکار کو ء ہ کے برابر کھول کر خط اجزائے متساوی کے درجوں پرنشان کیا حاصل ہوئے ساڑھے سترہ، اس کو بیس میںسے جو مفروض قطر ہے نکال ڈالا باقی رہے ڈھائی درجے اوریہی اب کے قوس کاسہم ہے او روہ سہم خط ا ء ہے۔ ۲۔ ایک شکل کی مانند ایک اور شکل اس سے بڑی یا چھوٹی بنانے میں پہلے اس کا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ خط اوتار کے اعمال سے اس شکل کے زاویہ اور خط اجزائے متساوی کے اعمال سے اس کے ضلعے معلوم کرلیں کہ کے کے درجے کے ہیں بعد اس کے شکل بنا ویں۔ مثلا ہم نے چاہا کہ ا ب ح ء کی شکل کی مانند ایک اور شکل اور اس سے چھوٹی بنائیں ہم نے معلوم کیا کہ آکا زاویہ چوراسی درجہ کا ہے اور ء کا زاویہ پچھتر درجہ کا او رح کا زاویہ ایک سو پچیس درجہ کا او ر ب کا زاویہ چھہتر کا اور ا ء کا ضلع چوبیس اور ا ب کا پچیس اور ب ح کا ضلع تیس اور ح ء کا ضلع سترہ درجہ کا ہے۔بعد اس کے ا ء کے ضلع کو کہ سب ضلعوں سے بڑا ہے خط اجزائے متساوی کے درجوں سے ناپ کر پرکار متناسبہ کو خط اجزائے متساوی کے چالیسویں درجے سے اسکے برابر کھولا اور چونتسیویں درجہ کا کھلاؤ ناپ کر اس کے برابر ہ ز کا خط کھینچا۔ اب یہ خط ا ء کے خط سے چھوٹا اور اس چھوٹی شکل کا بڑا ضلع ہے۔ پھر ہم نے اس خط کے انتہا پر ہ کے نقطہ ء پرا کے زاویہ کے برابر ہ کا زاویہ بنایا اور خط اجزائے متساوی کے پچیسویں درجے کا کھلاؤ ناپ کر خط ہ ح کو اس کے برابر کیا اور پھر ح کے نقطہ ب کے برابر زاویہ بنایا اور خط اجزائے متساوی کے تیسویں درجہ کا کھلاؤ ناپ کر ح ط کے خط کو اس کے برابر کیا اور پھر ط کے نقطہ برج کے برابر زاویہ بنایا اور خط اجزائے متساوی کے سترویں درجہ کا کھلاؤ نا پ کر ط ز کا خط وصل کر دیا اب اس وقت میں ہ کا زاویہ خو دبخود ء کے زاویہ کے برابر ہو جاوے گا اور اور ایک شکل ر ہ ح ط کی اب ح ء کی شکل کی مانند او ر اس سے چھوٹی بن گئی اور اگر اس س بڑی بنائی ہوتو عمل بالعکس کرتے ۔ فاقہم۔ اوریہ طریق عمارت بنانے او رباغ اور قلعے اور رستے اور چور خانے بنانے کے بہت کام آتا ہے۔ ۳۔ ایک قوس کا وتر نکالنے میں اس کا قاعدہ یہ ہے کہ پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے نوے درجے سے اس قوس کے نصف قطر کے برابر کھول کر جس قوس کا وتر نکالنا منظور ہو اس کے نصف کا جیب نکال کر خط اجزاء متساوی کے درجوں پر حد کریں جے درجے حاصل ہوں ا ن کو دوگنا کریں وہی اس قوس کا وتر ہوگا اور جیب کے نکالنے کا قاعدہ دوسری طرف کے خطوں کے پہلے خط کے پہلے عمل میں بیان کیا ہے ۔ فائدہ جاننا چاہیے کہ قوسوں کے وتر جو کہ ساٹھ درجے سے کم ہوں خط اوتار سے نکل سکتے ہیں اورجو قوس کہ ساٹھ درجے سے سوا ایک سو اسی درجہ تک ہو تو اس کے وتر خط جیوب سے نکل سکتے ہیں چنانچہ نوے درجے کی قوس کا جیب نصف قطر ہے۔ جب اس کودوگنا کریں گے تو تمام قطر اور ایک سو اسی درجہ کی قوس کا وتر حاصل ہوگا۔ ۴۔ پرکار متناسبہ کو جس زاویہ پر چاہیں اس زاویہ پر کھولنے میں اس کا قاعدہ یہ ہے کہ مرکز پرکار متناسبہ سے خط اجزاء متساوی پر ایک نقطہ مفروضہ پر نشان کریں خواہ وہ نقطہ تیس درجہ کا ہو خواہ چالیس خواہ پچاس خواہ ساٹھ درجے کا اور اس کا نصف قطر مفروض نام رکھیں۔بعد اس کے پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے نوے درجہ سے اس نصف قطر مفروض کے برابر کھولیں او ر جو زاویہ کہ منظور ہو اس کے نصف درجوں کی جیب نکال کر اس جیب کو خط اجزائے متساوی کے اوپر نشان کریں۔ جے درجے کہ حاصل ہوں اس کو دگنا کریں اور سادی پرکار کو اس خط مضاعف کے برابر کھول کر نصف قطر مفروض کے نقطہ سے پرکار متناسبہ کو کھولیں۔ پرکار متناسبہ زاویہ مطلوبہ پر کھل جاوے گی اور چوں کہ زاویے تین قسم کے ہیں اس واسطے ہم تین مثالیں بیان کرتے ہیں۔ پہلی مثال زاویہ حادہ میں ہم نے چاہا کہ پرکار متناسبہ کو چالیس درجے کے زاویہ پر کھولیں ساری پرکار کو خط اجزائے متساوی کے پچاس درجے تک کھول کر اس پچاسویں درجے کا نام نصف قطر مفروض رکھا اور خط جیوب کو نوے درجے سے اس کے برابر کھولا اور خط جیوب کے بیسویں درجہ کا کھلاؤ ناپ کر خط اجزائے متساوی پر نشان کیا۔ حاصل ہوئے سوا سترہ درجے اس کے تئیں دگنا کیا کہ ساڑھے چونتیس درجہ خط اجزائے متساوی کے حاصل ہوئے۔ اب سادی پرکار کو ساڑھے چونتیس درجہ کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط اجزائے متساوی کے پچاسویں درجہ سے کہ نصف قطر مفروض ہے کھولا۔ پرکار متناسبہ چالیس درجے کے زاویہ پر خط اجزائے متساوی پر سے کھل جاوے گی اور جس وقت خط اجزائے متساوی کے ساڑھے چونتیس درجہ کے برابر ایک خط کھینچیں جیسے خط ا ب ا س پر دو خط اور کہ نصف قطر مفروض کے برابر ہوں کھینچیں اور وہ دونوں خط ایک نقطہ پر ملیں جیسے کہ خط ا ء ا ب نقطہ ء پر ملے ہیں تو زاویہ ا ء ب کا چالیس درجہ کا بن جاوے گا اور جب کہ نقطہ ء کو مرکز بنا کر نصف قطر مفروض کے بعد پر ایک قوس ا ج ب کی کھینچیں تو وہ قوس چالیس درجہ کی ہوگی۔ دوسری مثال زاویہ قائمہ میں ہم نے چاہا کہ پرکار متناسبہ کو زاویہ قائمہ پر کھولیں تو سادی پرکار سے خط اجزائے متساوی کے تیسویں درجہ تک کے برابر کھول کر اس کا نام نصف قطر مفروض رکھا ۔ بعد اس کے پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے نوے درجہ سے اس کے برابر کھول کر خط جیوب کے پینتالیسویں درجہ کا کھولاؤ ناپ کر خط اجزائے متساوی پر ناپا ہاتھ لگے ساڑھے اکیس درجے ان کو دگنا کیا حاصل ہوئے تینتالیس درجے اب سادی پرکار کو خط اجزائے متساوی کے تینتالیس درجے کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط اجزائے متساوی کے تیسویں درجے سے اس کے برابر کھولا۔پرکار متناسبہ خط اجزائے متساوی سے زاویہ قائمہ پر کھل جاوے گی اور جب کہ تینتالیس درجہ کے برابر جو وتر حاصل ہو وہی ایک خط کھینچ کر دو خط اور تیس تیس درجہ برابر ایسی کھینچی کہ ء کے نقطہ پر ملیں جیسے کہ اب کے خط پر ا ء ب ء کے دو خط کھینچے ہیں اور ء کے نقطہ پر ملے ہیں تو ا ء ب کا زاویہ قائمہ بن جاوے گا اور جب کہ نصف قطر مفروض کے بعد پر ایک قوس کھینچیں جیسے قوس ا ب ح کی ہے تو یہ قوس نوے درجے کی ہوگی۔ تیسری مثال زاویہ منفرجہ میں ہم نے چاہا کہ پرکار متناسبہ کو زاویہ متفرجہ پر کھولیں کہ ایک سو بیس درجہ کا زاویہ قبول کرے تو سادی پرکار کو خط اجزائے متساوی کے بیس درجے کے برابر کھو ل کا اس کا نام نصف قطر مفروض رکھیں اور پرکار متناسبہ کو خط جیوب کے نوے درجے سے اس نصف قطر مفروض کے برابر کھولیں اور خط جیوب کے ساٹھویں درجہ کا کھلاؤ لے کر خط اجزائے متساوی پر ناپا حاصل ہوئے ساڑھے سترہ درجے۔ اس کے تئیں دگنا کیا ہاتھ لگے پینتیس درجے ۔ اب پرکار متناسبہ کو خط اجزائے متساوی کے بیسویں درجہ سے کہ نصف قطر مفروض ہے اس کے برابر پرکار متناسبہ خط اجزائے متساوی سے ایک سو بیس درجہ کے زاویہ متفرجہ پر کھل جاوے گی اور جب کہ پینتیس درجہ کے برابر ایک خط کھینچ کر اس کے دونوں طرف دو خط نصف قطر مفروض کے برابر اس طرح کھینچیں کہ ایک نقطہ مل جاویں جیسے ا ب کے خط ا ء ب ء کے دو خط کھینچے ہیں اور ء کے نقطہ پر ملے ہیں تو زاویہ ا ء ب کا ایک سو بیس درجہ کا بن جاوے گا اور جو قوس کہ اس کے اوپر ہوگی وہ بھی ایک سو بیس درجے کی ہوگی۔ ۵۔ ایک مربع ہے اور اسکا قطر اور ضلع معلوم نہیں کہ کس قدر ہے مگر اتنا معلوم ہے کہ ضلع قطر میں اتنا فضل ہے اس کے ضلع اور قطر نکالنے میں اس کا قاعدہ یہ ہے کہ فضل قطر کو خط اجزاء متساوی پر ناپ کر معلوم کریں کہ درجے ہے او رپرکار متناسبہ کو زاویہ قائمہ پر کھول کر خط اجزائے متساوی کے درجوں سے فضل قطر کے درجے کا کھولاؤ سادی پرکار سے ناپ لیویں او رپھر اس کو خط اجزائے متساوی کے درجوں سے ناپیں جے درجے حاصل ہوں اس کو فضل قطر پر بڑھا دیویں جو حاصل ہو وہ ضلع مربع کا ہے اور جتنا کہ حاصل ہو اسی درجہ کا کھلاؤ لے کر خط اجزائے متساوی کے درجوں سے ناپیں جے درجے حاصل ہوں وہی قطر ہے ۔ مثال: ایک مربع ہے کہ اس کا ضلع اور قطر معلوم نہیں مگر اتنا معلوم ہے کہ ضلع سے دس گز قطر بڑ اہے ۔ ہر گز کو پرکار متناسبہ میں ایک درجہ فرض کیا او رپرکار متناسبہ کو خط اجزائے متساوی سے زاویہ قائمہ پر کھولا اور دسویں درجہ کا کھلاؤ ناپ کر اجزائے مساوی کے درجوں پر منطبق کیا ہاتھ لگے چودہ درجے اور ایک تہائی اس کے تئیں دس پر جو فضل قطر ہے بڑھایا حاصل ہوئے چوبیس درجے اور ایک تہائی درجہ کی یہ مقدار ضلع مربع کی ہے اور چونتیس درجہ اور ایک تہائی درجہ کا کھولاؤ لے کر خط اجزائے متساوی کے درجوں پر ناپا حاصل ہوئے چونتیس درجے اور قریب نصف اور یہی مقداار قطر کی ہے۔ ۶۔ کوئی شکل ہر خواہ مربع خواہ مستطیل خواہ معین خواہ شبہ معین ایک نقطہ کی قید اور خط مستقیم سے اس کے نصف کرنے میں اور وہ نقطہ خواہ داخلی ہو خواہ وسطی ہو اور خواہ خارجی اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اس شکل کے قطر بقاعدہ تقسیم خط آدھا کریں او راس نقطہ معین او رنقطہ تنصیف پر خط کھینچیں وہ شکل نصف ہو جاوے گی۔ مثال: اب کی شکلوں کے قطر کو ح کے نقطہ پر تنصیف کرکے نقاط معین سے خطوط کھینچیں ب نے برابر شکلوں کے دو حصے کر دیے۔ مقصود یہ ہے کہ اگر اس قسم کی شکلوں میں جو مربع یا مستطیل یا معین یا شبہ معین ہو اگر ان کے بیچوں بیچ میں ایک نقطہ فرض کر کے ایک خط مستقیم کھینچا جاوے تو وہ شکل برابر آدھی ہو جاوے گی۔ َٔ۷۔ مثلث مجہول کے زاوے اور ضلع نکالنے میں ا س کا قاعدہ یہ ہے کہ خط اجزائے متساوی پر مثلث کے ضلعوں کو ناپ کر ان کی مقدار معلوم کریں یا مثلث کے بڑے ضلعے کے برابر سادی پرکار کوکھول کر پرکار متناسبہ کو خط اجزائے متساوی کے جس درجہ سے چاہیں کھولیں بعد اس کے خط اوسط کے برابر سادی پرکار کھول کر پرکار متناسبہ کے کھلاؤ پر منطبق کریں اور بڑے ضلعے سے اوسط ضلعے کی نسبت دریافت کریں اور پھر چھوٹے ضلع کے برابر سادی پرکار کو کھول کر پرکار متناسبہ کے کھلاؤ پر منطبق کریں اور بڑے ضلعے سے چھوٹے ضلع کی نسبت معلوم کریں بعد اس کے زاویہ حادہ کے چھوٹے ضلع کے برابر سادی پرکار کو کھول کر اسی زاویہ کے دوسرے ضلع پر نشان کریں او رپرکار متناسبہ کو خط اوتار کے ساٹھویں درجہ سے اس کے برابر کھولیں پھر ان دونوں نشانوں کے بعد کے برابر سلدی پرکار کو کھول کر پرکار متناسبہ کے کھلاؤ پر خط اوتار سے منطبق کریں۔ جس درجہ پر منطبق ہو اسی قدر وہ زاویہ ہے او ر اسی طرح دوسر ے حادہ زاویہ کو معلوم کریں اور ان دونوں کو ملاکر ایک سو اسی میں سے نکال ڈالیں باقی وہ مقدار تیسرے زاویہ متفرجہ کی ہے۔ مثال: ایک مثلث ہے اب ح کا کہ اس کے ضلعے اور زاوے معلوم نہیں۔ پہلے ہم نے سادی پرکار کو ناپ کے خط کے برابرکھول کر خط اجزائے متساوی کے درجوں پر ناپا ہاتھ لگے ساڑھے سترہ درجے اور اس طرح ب ح کے ضلع کو ناپا حاصل ہوئے بارہ درجے اور اسی طرح ا ح کے ضلع کو ناپا کہ دس درجے پائے۔ اب مقدار اضلاع کی معلوم ہوئی بعد اس کے سادی پرکار کو ا ح کے ضلع کے برابر کہ زاویہ حادہ کے ضلعوں میں سب سے چھوٹا ہے کھول کر اس کے برابر دوسرے ضلع پر کہ ا ب ہے ہ کا نشان کیا اور پرکار متناسبہ کو خط اوتار کے ساٹھویں درجہ سے اس کے برابر کھولا اور ان دونوں نقطوں کا بعد کہ ہ ح ہے سادی پرکار سے لے کر خط اوتار ک کھولاؤ پر منطبق کیا کہ چالیسویں درجہ پر منطبق ہوا۔ ہم نے جانا کہ یہ زاویہ ب ا ج کا چالیس درجے کا ہے اور اسی طرح ب ج کے ضلعے کو کہ زاویہ حادہ کا دوسرا ضلع ہے سادی پرکار سے ناپ کر ب ا کے ضلع پر ء کانشان کیا اور خط اوتار کو ساٹھویں درجے کے برابر کھول کر سادی پرکار کوج ء کے نقطوں کے برابر کھول کر خط اوتار کے درجوں پر ناپا تینتیسویں درجے کے کھلاؤ پر منطبق ہوا۔ ہم نے جانا کہ ا ب ح کا زاویہ تینیتیس درجہ کا ہے جب کہ ان دونوں حادہ زاویوں کو جمع کیاتو تہتر درجے ہوئے اس کے تئیں ایک سو آدمی اسی میں سے نکال ڈالا ایک سو سات درجے باقی رہے کہ یہ ہی ا ج ب تیسرے زاویہ کے درجے ہیں وہو المطلوب۔ ۸۔ خط مفروض پر ایک ایسی قوس رسم کرنے میں جس سے ایک زاویہ مفروضہ بن جاوے چاہیے کہ زاویہ مفروضہ کے درجوں کو ایک سو اسی میں سے نکال ڈالیں اور جو باقی رہے اس کو دگنا کریں او رپرکار متناسبہ کو خط اجزائے متساوی سے د س گنا کئے ہوئے عدد کے برابر دستور کے موافق کھولیں او رسادی پرکار کو خط مفروض کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کے کھلاؤ پر منطبق کریں جس جگہ کہ منطبق ہو وہاں سے پرکار متناسبہ کے مرکز تک اس دائرہ کا آدھا قطر ہے جس کی قوس سے خط مفروض پر زاویہ مفروضہ بن جاوے گا۔ یعنی یہ خط مفروض اس قوس کا وترہوگا۔ مثال: ہم نے چاہا کہ ا ب کے خط پر ایک ایسی قوس کھنیچیں کہ اس سے ایک سو پانچ درجہ کا زاویہ بن جاوے ایک سو پانچ کو ایک سو اسی میں سے نکالا پچھتر باقی رہے ۔ اس کے تئیں دگنا کیا ڈیڑھ سو ہوئے۔ خط اجزائے متساوی کو ڈیڑھ سو درجے کے زاویہ پر کھولا او ر سادی پرکار کو ا ب کے خط کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کے خط اجزائے متساوی کے کھولاؤ پر منطبق کیا پونے تیرہ درجہ پر منطبق ہوا۔ پونے تیرہ درجہ سے پرکار متناسبہ کے مرکز تک سادی پرکار کو کھولا کہ یہ مقدار اس دائرہ کا نصف قطرہے۔ اسی کھولاؤ سے ایک پاؤں پرکار کا آگے نقطہ پررکھا اور ایک قوس خاکے کے طور پر جو مٹ جاوے کھینچی اور پھر ب کے نقطہ پر ایک پاؤں پر کار کا پر رکھ کر اسی طرح کی ایک قوس اور کھینچی اور دونوں قوسوں کے تقاطع پر ء کا نقطہ فرض کریں اور اسکو مرکز فرض کرکے ا ج ب کی قوس ا ب کے خط پر کھینچیں اور یہ قوس ڈیڑھ سو درجہ کی او ر ا ح ب کا زاویہ ایک سو پانچ درجہ کا ہے کہ یہی مطلب تھا اور ا ء ب کا زاویہ ڈیڑھ سو درجہ کا ہے اور ا ہ ب کی قوس کھینچ کر دائرہ کو تمام کیا ۔ اب زاویہ ا ہ ب کا پچھتر درجہ کا اور ا ہ ب کی قوس دو سو بیس درجے کی ہے او رایک شک چار ضلعوں والی جو دائرہ کے اندر ہے اس کے مقابل کے دونوں زاویے د وقائموں کے برابر ہیں اصول کے تیسرے مقالہ کی اکیسویں شکل بموجب اور ا ء ب کا زاویہ جو مرکز پر ہے ا ہ ب محیط کی طرف کے زاویہ سے دگنا ہے اصول کے تیسرے مقالہ کی انیسویں شکل بموجب۔ تیسرے مقالے کی انیسویں شکل کا بیان مرکز کا زاویہ دگنا ہوتا ہے محیط کے زاویے سے ۔اگر یہ دونوں زاویے ایک قوس پر ہوں جیسے کہ ا ب ج کے دائرہ میںکہ ء اس کا مرکز ہے ب ء ج کازاویہ ب اج کے زاویے سے دگنا ہے۔ اس واسطے کہ جس وقت ہم نے ا ء کا خط کھینچا اور اس کو ہ تک کھینچ لائے تو ب ء ہ کا زاویہ دگنا ہے ب ا ہ کے زاویے سے اور اسی طرح ہ ء ح کا زاویہ دگنا ہے ح ا ہ کے زاویے سے تو ب ء ح کا زاویہ ب ا ح کے زاویے سے دگنا ہوگا اور یہی ہم چاہتے تھے۔ تیسرے مقالہ کی اکیسویں شکل کابیان جو چار ضلعوں کی شکل کہ دائرہ کے اندر ہوگی تو اس کے مقابل کے دو زاویے دو قائموں کے برابر ہوں گے جیسے ب ا ء اور ب ح ء کے دو زاویے ا ب ح ء کے چار ضلعوں کی شکل میں سے جو ا ج کے دائرہ میں واقوع ہے دو قائموں کے برابر ہیں اس واسطے کہ جب ہم نے ا ح اور ب ء کے دو خط کھینچے تو ء ا ح اور ء ب ج کے دونوں زاویے کہ ء ا ب ح کے ایک قطعہ واقع میںہیں اس مقالہ کی بیسویں شکل بموجب آپس میں برابر ہیں اور اسی طرح ب ا ح اور ب ء ح کے دونوں زاویے کہ اب ا ء ح کے ایک قطعہ میں واقع ہیں آپس میںبرابر ہیں تو سارا زاویہ ء ا ب کا ء ب ح اور ب ء ح کے دونوں زاویوں کا ملا کر برابر ہے اور ب ح ء کا زاویہ دونوں زاویوں میںجن کو ملایا ہے مشترک ہے تو ء ا ب اور ب ح ء کے دونوں زاویے مقابل کے ب ء ح کے مثلث کے سب زاویوں کے برابر ہیں اور ب ء ح کے مثلث کے تینوں زاویے مل کر پہلے مقالہ کی بتیسویں شکل بموجب دو قائموں کے برابر ہیں اور یہی ہمارا مطلب تھا۔ ۹۔خط مفروض پر ایک شکل کے مشابہ دوسری شکل بنانے میں اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اس شکل میں قطر کا خط کھینچا کہ اس شکل کے دو مثلث بن گئے ۔ اس کے بعد اس شکل کے ہر ایک ضلع کی اس قطر سے نسبت نکالی یا اس کے زاویے معلوم کرلیے کہ کتنے کتنے ہیں اسی نسبت سے اس خط کے لیے ضلع نکال لیں یا انہیں زاویوں کے مانند شکل بنا لیں۔ مثال: ا ب ج ء کے چار ضلعوں کی شکل ہے ۔ ا ب ہم چاہتے ہیں کہ ہ ز کے خط پر اس شکل کے مشابہ ایک شکل بناویں کہ یہ خط اس کاقطر ہو ہم نے اج کا قطر کھینچا اور ا ح کی نسبت ا ب کے ساتھ معلوم کی اور سی نسبت سے ہ و کا خط ہ ز کے خط کے ساتھ کھینچا تو یا ب ا ح کے زاویہ کو معلوم کیا کہ کتنا ہے اتناہی وہ کا زاویہ ہ ز کے خط پر بنایا اس کے بعد ب ج کی نسبت ا ج کے ساتھ معلوم کی اور اسی نسبت سے ہ ز کے خط کے ساتھ و ز کا خط کھینچا یا ہ ز وہ کا زاویہ ا ح ب کے زاویہ کے مانند ہ ز کے خط پر بنایا ہ و ز کا مثلث ہ ز کے خط پر ا ب ح کے مثلث کے مشابہ جو ا ج کے خط پر ہے بن گیا اور اسی طرح سے ہ ر ح کا مثلث ہ ز کے خط پر ا ج ء کے مثلث کے مشابہ جو ا ج کے خط پر ہے بنایا ہ و ر ح کی شکل ہ ز خط مفروض پر ا ب ج ء کی شکل کے مشابہ بن گئے او ریہی مطلب تھا۔ قاعدہ وسط نسبت نکالنے میں اس کا قاعدہ یہ ہے کہ شکل کے ایک ضلع پر نصف دائرہ کھینچیں اور موافق نسبت مفروض کے اس ضلع کو تقسیم کرکے اس نقطہ تقسیم سے نصف دائرہ کی طرف عمورد نکالیں اور جس جگہ کہ عمود اور دائرہ نقطع کرے اس قوس کاوتر کھینچیں وہ وتر وسط اس نسبت کاہوگا۔ مثال: ہم نے چاہا کہ وسط تہائی ا ب کے ضلع کے نکالیں ا ب کے ضلع پر ا ج ب کا نصف دائرہ کھینچا اور اب کے ضلع کے تین حصے کئے اور تیسرے حصہ کے نقطہ سے ء ح کا عمود نکالا اور ا ج کا وتر کھینچ دیا ا ب ہ ا ح پر جو مربع بناویں گے وہ اب کے مربع کا تہائی ہوگا ور اب ج کا مربع ا ب کے مربع کا دو تہائی ہوگا۔ ۱۰۔ ایک شکل کی شبیہ دوسری شکل ایک نسبت معین سے چھوٹے یا بڑے بنانے میں مثلا اس شکل سے آدھی یاتہائی یا چوتھائی یا پانچواں حصہ او ر سوائے اس کے یا اس شکل سے دوگنے یا تگنے یازیادہ ا س سے یا ا س شکل سے سوائے یاڈیوڑھے یا سوائے اس کے ۔ اس کاقاعدہ یہ ہے کہ جون سی شکل کہ موجود ہے پہلے اس کے زاویہ خط اوتار سے نکال کر اس کے ہر ا یک ضلع کا وسط نکالا اور موافق قرینہ کے اس شکل کے ضلع کی جگہ اس ضلع کا وسط اور اس کے زاویہ کی جگہ بعینہ اس کا زاویہ کہ دریافت کر لیا ہے کھینچا جو شکل کہ بنانی منظور ہے بن جاوے گی لیکن مربع اور مستطیل کے زاویے دریافت کرنے کی حاجت نہیں ہے اس واسطے کہ اس کے زاویے ہمیشہ قائمہ ہوتے ہیں اور مربع کے واسطے ایک ضلع کے وسط نسبت اور مستطیل کے لیے دو ضلعوں کی وسط نسبت کفایت کرتی ہے اور معین شکل میں دو زاویوں کو معلوم کرنا اورایک ضلع کا وسط نسب نکالنا چاہیے اور شبہ معین میں دو زاویوں کو معلوم کرنا اور دو ضلعوں کی وسط نسبت نکالنا ضرور ہے اور اور شکلوں میں ہر ایک زاویہ کومعلوم کرنا اور ہر ایک ضلع کی وسط نسبت لگانی چاہیے اور اسکی وجہ ذرا سے تامل سے معلوم ہو جاتی ہے ۔ کہ عاقلان را یک اشارہ بس است اور اگر اس شکل سے دگنی تا تگنی اور سوائی اس کے بنانی منظور ہو تو اس خط کو دگنا یا تگنا کرکے اس کل کا وسط نسبت نکالیں گے اور ہم اس جگہ ہر ایک کی ایک مثال لکھتے ہیں۔ پہلی مثال مربع شکل کی مثلا ا ب ح ء کا ایک مربع ہی ہم جاہتے ہیں کہ ایسا ہی دوسرا مربع بناویں کہ مساحت میں اب ح ء ک مربع سے تہائی ہو پہلے اس مربع کے ایک ضلع کو مثلا ا ب کے ضلع کو تین حصے وسط نسبت نکانے کو کر ڈالیں او راس ضلع پر ا ہ ب کا نصف دائرہ کھینچیں اور و تیسرے حصہ پر سے وہ ہ کا عمود نکالیں او ر تیسرے حصہ کی قوس کی طرف ا ہ کا وتر کھینچیں اب یہ وتر اس مربع کا ایک ضلع ہے ۔ پس جب کہ ایک ایسی شکل مربع بناویں کہ اس کے چاروں ضلعے ا ہ وتر کے برابر ہوں جیسے ز ح ط ی کی شکل تووہ مربع ا ب ح ء کے مربع کی تہائی ہوگا اور یہی ہمارا مطلب تھا۔ دوسری مثال مستطیل شکل کی مثلا اب ح ء کی ایک مستطیل شکل ہی ہم چاہتے ہیں کہ ایک ایسی ہی دوسری شکل بناویں کہ اب ح ء کی شکل سے تہائی ہو ہم نے ا ب کے ضلع پر ا ہ ب کا نصف دائرہ کھینچا اور اس ضلع کے تین حصے کر کر تیسرے حصے پر سے وہ کا عمود نکالااور تیسرے حصہ کی قوس کی طرف ا ہ کا وتر کھینچا ۔ یہ ا ہ وتر اس مسطیل کے بڑے د وضلعوں کا ایک ضلع ہے ۔ اس کے بعد ب ح کے ضلعے پر ب ز ح کا نصف دائرہ کھینچا اور ب ح کے تین حصے کر کر ح تیسرے حصے پر سے ح ز کا عمود نکالا اور تیسرے حصہ کی قوس کی طرف ب ز کا وتر کھینچا۔ یہ ب ز وتراس مستطیل کے چھوٹے دو ضلعوں کا ایک ضلع ہے۔ پس جب کہ ہم نے ایک ایسا مستطیل بنایا کہ اس کے بڑے دونوں ضلعے مقابل کے ا ہ کے برابر اور چھوٹے دونوں ضلعے مقابل کے ب ز کے برابر ہوں تو یہ مستطیل اب ح ء کے مستطیل سے تہائی ہوگا جیسے ط ی ک ل کا مستطیل ہے اور یہی ہمارا مطلب تھا۔ تیسری مثال معین شکل کی مثلا ا ب ح ء کی ایک معین شکل ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک ایسی شکل ہی دوسری شکل بناویں کہ ا ب ح ء کی شکل سے تہائی ہو ۔ پہلے ہم نے ا ب ح اور ب ح ء دوزاویوں کے مقدار خط اوتار کے عمل سے معلوم کئے ۔ معلوم ہو اکہ ب کا زاویہ نناوے درجے کااور ح کا زاویہ ۸۱ درجہ کا ہے۔ اس کے بعد ا ب کے ضلعے کے وسط نسبت نکالنے کے لیے تین حصے کیے اور ا ہ ب کا نصف دائرہ اس پر کھینچا اورتیسرے حصے پر سے وہ کا عمود نکالا اورتیسرے حصے کی قوس کی طرف ا ہ کا وتر کھینچا۔ ا ب ہم نے ا ہ کو اس شکل کا ایک ضلع قرار دے کر ایک معین شکل بنائی جیسے ز ح ط ی کی شکل ۔ پس یہ شکل ا ب ء ح کی شکل کی تہائی ہے اور اس کے زاویے اس کے زاویوں کے برابر ہیں اور یہی ہمارا مطلب ہے۔ چوتھی مثال شبہ معین شکل کی مثلا ا ب ح ء کی ایک شبہ معین شکل ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک ایسی ہی دوسری شکل بناویں کہ ا ب ح ء کی شکل سے تہائی ہو۔ پہلے ہم نے اب ح اور ب ج دو زاویوں کے مقدار خط اوتار کے عمل سے معلوم کیے ۔ معلوم ہوا کہ ب کا زاویہ ایک سو بارہ درجہ کا اور ج کا زاویہ اڑسٹھ درجہ کا ہے ۔ اس کے بعد ا ب کے ضلع کے وسط نسب نکالنے کے لیے تین حصے کئے اور ا ہ ب کا نصف دائرہ کھینچا او ر تیسرے حصہ پر سے وہ کاعمود نکالا او ر تیسرے حصہ کی قوس کی طرف ا ہ کا وتر کھینچا کہ یہ وتر ا ہ کا اس شکل شبہ معین کے بڑے دو ضلعوں میں ایک ضلع ہے۔ بعداس کے اسی طرح وسط نسبت نکالنے کو ب ح کے ضلع کے تین حصے کئے ب ز ح کا نصف دائرہ اس پر کھینچ کرتیسرے حصے پر سے ح زکا عمود نکالا او رتیسرے حصہ کی قوس کی طرف ب ز کا وتر کھینچا کہ یہ وتر ب ز کا اس کل شبہ معین کے چھوٹے د وضلعوں میں کا ایک ضلع ہے۔ اب ہم نے ایک ایسی شکل شبہ معین بنائی کہ اس کے بڑے د وضلعے مقابل کے ا ہ کے برابر اور چھوٹے دو ضلعے مقابل کے ب ز کے برابر اور اس کے زاویہ ا ب ج ء کی شکل کے برابر ہیں جیسے ط ی ک ل کی شکل ہے۔ پس یہ ط ی ک ل کی شکل تہائی ہے ا ب ح ء کی شکل کے اور یہی ہم چاہتے تھے۔ پانچویں مثال مختلف ضلعوں اور زاویوں کی شکل کی مثلا ہم چاہتے ہیں کہ اب ح ء منحرف شکل کے مشابہ کہ اس کے ضلعے اور زاویے سب مختلف ہیں ایک شکل بناویں کہ مساحت کے چاروں زاویے خط اوتار کے عمل سے نکالے۔ معلوم ہوا کہ ا کا زاویہ اسی درجہ کا اور ب کا زاویہ پچاسی درجہ کا اور ج اس کے بعد وسط نسبت نکالنے کے لیے ہرہر ضلعے کے تین تین حصے کر ڈالے اور ہر ہر ضلع پر نصف دائرہ کھینچ کر تیسرے حصہ سے ہرہر ضلعے پر عمود نکالا اور تیسرے حصہ کی قوس کی طرف وتر کھینچا جیسے ا ہ ب ر ح ح ء ط کے وتر تیسرے حصہ کی قوس کی طرف کھینچی ہوئی ہیں۔ اس واسطے کہ اگر دو تہائی کی طرف وتر کھینچے تو جو شکل کہ ان وتروں سے بنتی وہ ا ب ح ء کی شکل کے دو تہائی کے برابر ہوتی ۔ اب ہم نے و ہ کا خط ا ہ کے خط سے برابر کھینچ کر و کے نقطہ پر اسی درجہ کا زاویہ آ کے زاویہ کی مانند و ز کے خط کو کہ ب ز کے خط کے برابر ملا کر بنایا اور ز کا زاویہ پچاسی درجہ کا ب کے زاویہ کی مانند ز ح کے خط کو کہ ح ح کے خط کے برابر ہے ملا کر بنایا اور ح کا زاویہ ایک سو پندرہ درجہ کا ج کے زاویہ کی مانند ح ہ کے خط کو ملا کر کہ ء ط کے خط کے برابر ہے بنایا ہ کا زاویہ از خود اسی درجہ کا بن گیا اور ہ و ز ح کی شکل ا ب ح ء کی شکل کی تہائی بن گئی کہ دونوں کے زاویے آپس میں ایک دوسرے کے برابر ہیں اور ضلعے ان دونوں شکلوں کے بھی تہائی کی وسط نسبت سے مناسب ہیں اور یہی ہمارا مطلب تھا ۔ ۱۱۔ خط مفروض کو نسبت ذات وسط و طرفین پر تقسیم کرنے میں یعنی خط مفروض کو اس نسبت پر دو ٹکڑے کریں کہ سطح کل خط کی اس کے چھوٹے حصے میں بربار ہو۔ اس خط کے بڑے حصے کے مربع کے ۔ چاہیے کہ سادی پرکار کو خط مفروض کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط اوتار کے ساٹھویں درجہ سے کھولیں او رچھتیسویں درجہ کے کھلاؤ کو ناپ لیں او ر اس خط مفروض پر نشان کریں خط مفروض کے مختلف دو ٹکڑے ہو جاویںگے ۔ پس جس وقت کہ اس سارے خط کو ا سکے چھوٹے حصے میں مسطح کریںگے اور بڑے حصے کو مربع و ہ سطح اس مربع کے مثال ا ب خط مفروض ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کو ذات وسط و طرفین پر تقسیم کریں۔ سادی پرکار کو اب خط مفروض کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو خط اوتار کے ساٹھویں درجہ سے اس کے برابر کھولا اور چھتیسویں درجہ کا کھلاؤ ناپ کر خط مفروض پر ح کا نشان کیا اور آ کے نقطہ پر ا ج کے برابر ا ہ کا عمود نکالا اور ہ ز او رز ب د وخط کھینچ کر شکل تمام کی کہ یہ شکل ا ب کے خط پر ب ح کے برابر عمود ح ح کا نکالا او رح ط او رط ب کھینچ کر مربع تمام کیا اب سطح ا ب ز ہ کے برابر ہے مر بع ب ح ح ط کے اور یہی ہمارا مطلب تھا اور یہ دعویٰ ثابت ہے اصول کے چھٹے مقالے کی تیسویں شکل سے۔ چھٹے مقالہ کی تیسویں شکل کا بیان ہم چاہتے ہیں کہ ایک خط ذات وسط و طرفین کی نسبت پر تقسم کریں مثلا اب کا خط مفرو ض ہے ا ب کے خط پر ا ب ء ح کا مربع بنا کر ا ح کے خط پر ایک سطح متوازی الاضلاع ح ط ہ ز کے ملی ہوئی مربع ا ب ء ح کے اس طرح سے بڑھائی کہ زیادہ ہو سارے خط ا ح پر بقدر مربع ا ح ہ ز کے بموجب شکل انتیسویںاسی مقالہ کی۔ پس ا ب کا خط ح کے نقطہ پر نسبت ذات وسط و طرفین پر تقسیم ہوگیا۔ اس واسطے کہ ز ط ہ ط ج ء کی سطح برابر ہے ا ب ء ج کے مربع کے اور سطح ا ح ط ح کی دونوں میں مشترک ہے۔ اگر ا ح ط ح کی سطح دونوں میں نکال ڈالیں تو سطح ب ء ط ح اور مربع ا ح ہ ز کا برابر رہتا ہے اور ب ح ط او را ح ہ کا زاویہ ان دونوں میں برابر ہے تو ان دونوں کے ضلع متکافی ہوں گے یعنی نسبت ط ح کی ح ہ کے ساتھ ایسی ہے جیسی ا ح کی نسبت ح ب کے ساتھ ہے اور یہی ہمارا مطلب تھا۔ ۱۲۔ یہی عمل اور طریق ہے چاہیے کہ خط مفروض پر ایک قوس کھینچیں کہ اس سے ایک سو آٹھ درجہ کا زاویہ بن جائے او ر اس قوس کے مرکز کا زاویہ ایک سو چوالیس درجہ کا ہو جس طرح کہ ہم نے آٹھویں عمل میں بتایا ہے ۔ اس کے بعد اس قوس کے دو ٹکڑے کریں اور ان دونوں کے دو وتر کھینچ دیں اور ایک وتر کے برابر خط مفروض پر نشان کریں و ہ خط نسبت ذات وسط و طرفین پر منقسم ہو جاوے گا۔ مثال: اب خط مفروض ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کو نسبت ذات وسط و طرفین پر تقسیم کریں۔ ہم نے اس خط پر ا ح ب کی ایک ایسی قوس کھینچی کہ اس سے ایک سوآٹھ درجہ کا زاویہ بن جاوے اور اس قوس کو ح کے نقطہ پر دوٹکڑے کر کر ا ج او را ب ج کے دو وتر کھینچے کہ ان دونوں وتروں سے ج کا زاویہ ایک سو آٹھ درجہ کا زاویہ بن گیا اور ہ کا زاویہ ایک سو چوالیس اور ء کا زاویہ بہتر درجہ کا ہے ۔ اب ہم نے ا ج وتر کے برابر ا ب خط مفروض پر ز کا نشان کیا کہ اب خط مفروض کے ا ز اور ز ب دو ٹکڑے ہوگئے اور اب خط مفروض نسبت ذات وسط و طرفین پر تقسیم ہو گیا اور یہی ہم چاہتے تھے اور اس شکل سے چار دعووں کی دلیلیں تقسیم خط بہ نسبت ذات وسط و طرفین کی معلوم ہوتی ہے۔ پہلی مخمس کے زاویے کے وتر کا اگر اسی مخمس کے ضلع کے برابر کاٹ لیویں تو اسی نسبت سے جدا ہوتا ہے اور اس مخمس کے ضلع کے برابر بڑ اٹکڑا ہوتا ہے اور باقی چھوٹا۔ مثال: ا ب وتر ہے زاویہ ا ج ب کا کہ وہ زاویہ مخمس کا ہے اب وتر کو ء کے نقطہ پر ا ح مخمس ضلع کے برابر کاٹا ا ب کا خط نسبت ذات وسط و طرفین پر تقسیم ہو گیا ا ء بڑا ٹکڑا ہے اور ء ب چھوٹا ٹکڑا ہے او ر یہ دعویٰ ثابت ہے اصول کے تیرہویں مقالہ کی چودھویں شکل سے ۔ ترہویں مقالہ کی چودھویں شکل کا بیان جس وقت تقاطع کریں دو وتر دو زاویوں مخمس کے جو دائرہ کے اندر ہے تقسیم ہو جاویں گے دونوں وتر نسبت ذات وسط و طرفین پر اور بڑ اٹکڑا ہو گا برابر ضلع اس مخمس کے۔ مثلا تقاطع کریں د ووتر ا ء اور ب ح کے ز کے نقطہ پر مخمس ا ب ء ہ ح سے جو واقع ہے ا ب ء ہ ح کے دائرہ میں تو دونوں مثلث ا ب ز اور ب ح ا متشابہ ہیں اس واسطے کہ زاویہ ب ا ز اور ب ح ا کے آپس میں برابر ہیں اور ب کا زاویہ مشترک ہے بس نسبت ج ب کی ب ا کے ساتھ یعنی ا ح کے ساتھ ایسی ہے جیسی نسبت ا ج کی ب ز کے ساتھ اور اس سبب کہ زاویہ ز ب ا کا برابر ہے زاویہ ز ا ب کے ہوگا زاویہ ز ا کا دوگنا زاویہ ز ا ب سے اور سبب سے کہ قوس ح ہ ء کی دگنی ہ قوس ب ء سے ہوگا زاویہ ح ا ز کا دوگنا زاویہ ز ا ب سے پس دونوں زاویے ح ز ا اور ح ا ز آپس میں برابر ہیں پس ا ج برابر ہے ح ز کے اوراس سبب سے کہ نسبت ب ح کی ج ز کے ساتھ ایسی ہے جیسی نسبت ج ز کی ز ب کے ساتھ پس ہے ب ح تقسیم کیا گیا نقطہ ز پر نسبت مطلوبہ پر اور ز ح برابر ہے ا ح کے اور اسی طرح ا ء نقطہ ز پر اور یہی ہمارا ارادہ تھا۔ دوسری اگر ایک دائرہ کے نصف قطر کے برابر ایک ضلع معشر کے جو اسی دائرہ میںہو جدا کر لیں تو ضلع معشر کے برابر بڑا ٹکڑا ہو گا اور باقی چھوٹا اور نصف قطر دائرہ کا برابر ہے ضلع مسدس کے جو اسی دائرہ میں ہو۔ مثال: ا ب کا نصف قطر جو ا ہ ز کے دائرہ میںہے اس نصف میں سے ا ء کو ا ہ کے برابر جو ا ہ ز کے دائرہ میں معشر کا ضلع ہے جدا کیا تو ا ب نسبت ذات وسط و طرفین پر تقسیم ہوگیا اور ا ء بڑا ٹکڑا ہے اور ء ب چھوٹا ٹکڑا ہے اور یہ دعویٰ اصول کے چوتھے مقالہ کی پندرھویں شکل اور تیرھویں مقالہ کی تیرھویں شکل کے وجہ ثانی سے ثابت ہے۔ چوتھے مقالہ کی پندرھویں شکل کابیان ہم چاہتے ہیں کہ دائرہ میں مسدس بناویں جیسے ا ب ء کے دائرہ میں ء ح کا قطر ہے اور ہ اس کا مرکز ہے تو چاہیے کہ کھینچیں ح پر ح ہ کے بعد سے دائرہ ا ب ز کا اور ا ہ ب ہ کے دو خط کھینچیں اور ان کو کھینچ لاویں ح او رط تک اور کھینچ دیویں خط ا ج ح ب ب ح ح ء ء ط ط ا کے پس مسدس دائرہ میں بن گیا۔ اس واسطے کہ دونوں مثلث ا ہ ح اور ب ہ ج کے متساوی الاضلاع ہیں اور ہر ایک زاویہ ان میں سے قائمہ کے دو مثلث کے برابر ہے تو زاویہ ء ہ ط کا جو مقابل ہے ب ہ ح کے زاویہ کے یہ بھی قائمہ کے دو ثلث کے برابر ہے۔ باقی رہا زاویہ ا ہ ط کا یہ بھ برابر د وثلث قائمہ کے ہے۔ اس واسطے کہ یہ زاویہ ا ہ ط کا تمام کرنے والا ہے مجموعہ دونوں زاویوں ا ہ ح اور ط ہ ء کو برابر د وقائموں کے اور تمام کرنے والا ہے مجموع زاویہ ا ہ ب کو برابر دو قائموں ک بس سے زاویہ مسدس کے برابر ہیں اور اسی طرح اس دائرہ کی قوسیں او ران قوسوں کے وتر آپس میں سب برابر ہیں۔ اس واسطے کہ ہر ایک زاویہ ان زاویوں میں سے واقع ہو اہے چار قوس پر چھ قوسوں برابر کی میں سے پس ضلعے اور زاویے سب برابر ہوگئے اور یہی ہمارا ارادہ تھا۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ مسدس کا ضلع اس دائرہ کے نصف قطر کے برابر ہو تا ہے جس میں وہ مسدس واقع ہوئے۔ تیرھوین مقالہ کی تیرھویں شکل کی وجہ ثانی کا بیان جس وقت جد کر لیویں ضلع مسدس فی الدائرہ سے ضلع معشر فی الدائرہ کا تو تقسیم ہو جاوے گا ضلع مسدس کا نسبت ذات وسط و طرفیں پر ۔ مثلا اب ہ کا دائرہ کہ اس میں ا ب مخمس فی الدائرہ کے ضلع کے برابر ہے اور ہ ح ط ک کاقطر قائم ہے ا ب پر۔ ا ب ہم نے ا ح اور ا ہ اور ا ک کے خط کھینچے اور ح ح کو ا ک کے برابر جو ضلع معشر ہے جد ا کیا تو ح ک ج کے نقطہ پر نسبت ذات وسط و طرفین پر تقسیم ہوگیا ۔ اس واسطے کہ سطح ج ہ کی ک ج میں یعنی سطح ک ح کی ک ج میں برابر ہے مربع ح ح کے اور یہی ہم چاہتے تھے۔ تیسری اگردائرہ کے نصف قطر پر ضلع معشر فی الدائرہ کے ایک ضلع کو بڑھاویں تو یہ سارا خط نسبت ذات وسط و طرفین پر تقسیم ہو جاوے گا۔ مثال: ا ء ک نصف قطر پر ء ح ہ کے دائرہ میںسے ء ب برابر ء ح ضلع معشر کے بڑھایا کہ ا ء ب کا خط حاصل او ریہ خط ء کے نقطہ پر نسبت ذات وسط و طرفین پر تقسیم ہو گیا ہے کہ ا ء بڑا ٹکڑا اور ء ب چھوٹا ٹکڑا ہے او ریہ دعویٰ ثابت ہے اصول کے تیرھویں مقالہ کی بارھویں شکل سے۔ تیر ھویں مقالہ کی بارھویں شکل کابیان جس وقت د وضلعے ایک مسدس فی الدائرہ کا اور ایک معشر فی الدائرہ کا آپس میںملاویں تو یہ سارا خط نسبت ذات وسط و طرفین پر تقسیم ہو جاوے گا او ربڑا ٹکڑا ضلع مسدس او رچھوٹا ضلع معشر کا ہوگا جیسے ا ب ح کے دائرہ میں ب ح ضلع معشر اور ح ء ضلع مسدس ہے جو ملا ہوا ہے ب ح ضلع معشر کے ساتھ اور ہم نے ہ ب اور ہ ء کے دو خط کھینچے ۔ اب ہم کہتے ہیںکہ اس سبب سے کہ ا ب کی قوس ب ح کی قوس سے چوگنی ہے ا ہ ب کا زاویہ چوگنا ہوگا ب ہ ح کے زاویہ سے اور ا ہ ب کا زاویہ ب ح ہ کے زاویہ کے دوگنے کے برابر ہے جو دوگنا ہے ح ء ہ کے زاویہ سے اس واسطے کہ دونوں خط ح ء اور ح ہ کے آپس میں برابر ہیں تو زاویہ ا ہ ب کا چوگنا ہے زاویہ ح ء ہ سے تو ا ب زاویہ ب ہ ح کا ب ہ ح کے مثلث میں سے برابر ہے زاویہ ح ء ہ کے جو واقع ہے مثلث ب ء ہ میں اور ب کا زاویہ دونوں میں مشترک ہے ۔ پس دونوں مثلث آپس میں متشابہ ہیں۔ پس نسبت ء ب کی ہ ب کے ساتھ ایسی ہے جیسی نسبت ب ہ ب ح کے ساتھ اور ب ہ برابر ہے ح ء کے تو نسبت ب ء کی ء ح کے ساتھ ایسی ہے جیسی نسبت ء ح کی ح ب کے ساتھ ہے اور یہی مطلب ہمارا تھا ۔ چوتھی اگر کسی خط پر ایک مربع بناویں اور اس کے ایک ضلع کو تنصیف کر کر اس نقطہ اور زاویہ میں خط کھینچیں اور اس آدھے ضلع کو اتنا نکالیں کہ اس خط کے برابر ہو جاوے او رٹکڑے پر جو نصف زائد نکالا ہے مربع بناویں تو وہ خط نسبت ذات وسط و طرفین پر تقسیم ہو جاوے گا۔ مثال: ا ب کے خط پر ا ب ن ح کا مربع بنایا اور ا ح کو ط پر تنصیف کیا اور ط ب کا خط کھینچا او رط ب کے برابر ط ا کو ی تک نکالا اور ا ی پر ے م ء کا مربع بنایا ا ء ضلع اس مربع کا خط ا ب ء کے نقطہ پر نسبت ذات وسط و طرفین پر تقسیم کر دے گا اور یہ دعویٰ ثابت ہے اصول کے دوسرے مقالہ کی گیارھویں شکل سے۔ دوسرے مقالہ کی گیارھویں شکل کیا بیان ہم چاہتے ہیں کہ ایک خط کے ایسے دو ٹکڑے کریں کہ سطح اس سارے خط کے چھوٹے ٹکرے کے برابر ہو۔ مثلا ا ب کا خط کہ اس ا ب ء ح کا مربع بنایا ا ح کو ہ پر تنصیف کر کے ب ہ کا خط کھینچا اور ا ہ کو ا کی طرف اتنا نکالا کہ ہ ر ب ہ کے برابر ہوگیا اور ا ز پر ا ز ح ط کا مربع بنایا ۔ پس تقسیم ہوگیا اب کا خط ط کے نقطہ پر اسی نسبت سے اور تقسیم ہونے کا سبب یہ ہے کہ مجموع ا ہ اور ا ب کا بڑا ہے ہ ب سے یعنی ہ ز سے اور جب کہ ا ہ کو جو دونوں میں مشترک ہے نکال ڈالا تو باقی رہا ا ز یعنی ا ط چھوٹا ا ب سے پس ضرور تقسیم ہوگا اب کا خط ط کے نقطہ پر اسی نسبت سے اس واسطے کہ ا ج کے خط کو نقطہ ہ پر تنصیف کیا ہے اور ا ز کو اس پر بڑھایا ہے تو سطح ح ز کی ز ا میں ا ہ کے مربع سمیت ر ہ یعنی ہ ب کے مربع کے برابر ہے یعنی دونوں مربع ا ہ اور اب کے اور جب ا ہ کا مربع جو مشترک ہے دونوں میں سے نکال ڈالا تو ح ز کے سطح ا ز میں یعنی ز ح میں کہ وہ سطح ز ح ک ح کی ہے ا ب کے مربع کے برابر باقی رہی کہ وہ ا ب ء ح کا مربع ہے اور جب کہ سطح ا ح ک ط کی جو دونوں میں مشترک ہے نکال ڈالیں تو مربع ا ز ح ط کا برابر سطح ط ب ء ک کے باقی رہا کہ وہ ط ک کے یعنی ا ج کے بلکہ ا ب کی سطح ہے ط ب میں۔ پس سطح ا ب کے ط ب میں برابر ہے مربع ا ط کے اور یہی ہم چاہتے تھے۔ فائدہ جو کہ یہ چاروں عمل آپس میں قریب قریب ہیں اس واسطے ہم ایک شکل کہتے ہیں کہ اس میں ان میں ان چاروں کی مثالیں موجود ہیں۔ ۱۳۔ خط مفروض کو شکل ذوی الاضلاع کے ضلعوں میں سے ایک ضلع کے ساتھ تعلق دے کر شکل تمام کرنے میں یعنی اس خط پر ایک ایسا دائرہ کھینچیں کہ وہ خط اس دائرہ میں ذوی الاضلاع مفروض کا ایک ضلع ہو۔ اس کاقاعدہ یہ ہے کہ پہلی شکل مفروض کے مرکزی زاویہ کو دریافت کریں جیسے مثلث و متساوی الاضلاع کے مرکزی زاویہ ایک سو بیس درجہ کا ہوتا ہے اور مربع کا مرکزی زاویہ نوے درجہ کا اور مخمس کا مرکزی زاویہ بہتر درجہ کا او رمسدس کا مرکزی زاویہ ساٹھ درجہ کا اور مثمن کا مرکزی زاویہ پینتالیس درجہ کا اور ذی تسع الاضلاع کا چالیس درجہ کا او رمعشر کا چھتیس درجہ کا اور برابر کے بارہ ضلعے کی شکل کا مرکزی زاویہ تیس درجہ کا ہوتا ہے۔ یہ سب زاویہ کی کسر ہیں مگر سات ضلعوں او رگیارہ ضلعوں وغیرہ کی شکل کے زاویہ کی کسر کے نہیں نکلتے ۔ اب چاہیے کہ پہلے اس شکل مفروض کے مرکزی زاویہ کو دریافت کریں اور اس کے تئیں ایک سو اسی میں سے نکال ڈالیں جو باقی رہے اس کے دو حصے کر کر خط مفروض کے ایک سرے پر اس کے برابر زاویہ بناویں اور اتناہی دوسرے زاویہ پر بناویں او رمثلث متساوی الساقین کھینچیں کہ اس کا تیسرا زاویہ اس شکل مفروض کا مرکزی زاویہ ہوگا جب کہ اس تیسرے زاویہ کو مرکز کے اس مثلث کی ساقوں میں سے کہ وہ دونوں برابر ہیں ایک ساق کے بعد پر دائرہ کھینچیں وہ خط مفروض اس مرکزی زاویہ کا وتر اور اس مفروض شکل کا ایک ضلع ہوگا کہ اس دائرہ میں وہ شکل بن سکے گی۔ مثال: ہم چاہتے ہیںکہ اب خط مفروض آٹھ ضلعوں کی شکل بناویں ۔ پہلے ہم نے ا س شکل کے مرکزی زاویہ کو دریافت کیا ۔ معلوم ہوا کہ پینتالیس درجہ کا ہے اس کو ایک سو اسی میں سے نکال ڈالا ایک سو پینتیس باقی رہے۔ اسکو آدھا کیا ساڑھے باسٹھ ہوئے ا کے نقطہ پر ح ا ب کا زاویہ ساڑھے باسٹھ درجہ کا بنایا اور اسی طرح ب کے نقطہ پر ا ب ح کا زاویہ ساڑھے باسٹھ درجہ کا بنایا ۔ ا ح اور ب ح اس مثلث کی دونوں ساقیں ح کے نقطہ پر ملیں اور اج ب مرکزی زاویہ پینتالیس درجہ کا پیدا ہوگیا ۔ جب کہ ہم نے ا ج کے بعد پر ا ب ء کا دائرہ کھینچا تو اب کا خط ا ح ء کے دائرہ کے آٹھ ٹکڑے کر دے گا ۔ اس خط سے محیط دائرہ کے آٹھ ٹکڑے کر کے وتر کھینچ دیے آٹھ ضلعوں کی شکل بن گئی اور یہ ہی ہمارا مطلب تھا ۔ ۱۴۔ یہی عمل اور طریق سے شکل کے مرکزی زاویہ کو ایک سو اسی میں سے دور کیا اور جس قدر کہ باقی رہا اس کے برابر خط اجزائے متساوی کو اتنے ہی زاویہ پر کھولا بعداس کے خط مفروض کو خط اجزائے متساوی کے درجوں پر مرکز کی طرف ناپا۔ جس درجہ پر برابر ہو ا اسی درجہ کا کھلاؤ ناپ لیا یہ کھلاؤ اس شکل مفروض کے دو ضلعوں کا وتر ہوگا۔ مثال: ہم چاہتے ہیں کہ اب خط مفروض پر آٹھ ضلعوں کی شکل بناویں ہم نے اس شکل مفروض کا مرکزی زاویہ دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ پینتالیس درجہ کا ہے۔ پینتالیس کو ایک سو اسی میں سے نکال ڈالا ایک سو پینتیس باقی رہے۔ اسی زاویہ پر خط اجزائے متساوی کو کھولا اور اب خط مفروض کے برابر سادی پرکار کو کھول کر مرکز کی طرف سے خط اجزائے متساوی کے درجوں پر ناپا اکیس درجہ کے برابر ہوا۔ اکیسویں درجہ کا کھولاؤ ناپ لیا اور سادی پرکار کو اسی کھلاؤ کے برابر کھول کر ایک پاؤں پرکار کا آکے نقطہ پر رکھ کر ایک قوس خاکے کے طور پر کہ مٹ جاوے کھینچی بعد اسکے سادی پرکار ا ب خط مفروض کے برابر کھول کر ایک پاؤں پرکار کا ب کے نقطہ پر رکھ کر اسی طرف کو جس طرف کہ پہلی قوس کھینچی تھی ایک اور قوس خاکے کے طور پر کہ مٹ جاوے کھینچی کہ دونوں قوسوں نے ء کے نقطہ پر تقاطع کیا او رب ء کا خط کھینچ دیا کہ یہ ب ء کا خط اس شکل مفروض کا دوسرا ضلع ہے اور ا ء کے مثلث پر ہ کا مرکز پیدا کر کے ایک دائرہ ا ب ء ح کا کھینچا تو ا ب کا خط اس دائرہ کے محیط کے آٹھ ٹکڑے کر دے گا ۔ ان نقطوں میںجب خط کھینچ دیے کہ آٹھ ضلعوں کی شکل خط مفروض پر ہوگئی۔ ۱۵۔ مربع کو مستطیل بنانے میںکہ اس مستطیل کا بھی ایک ضلع مفروض ہو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر مستطیل کا مفروض ضلع چھوٹا ہے تو اس مستطیل کے ضلع مفروض کے لیے ایک عد دفرض کریں مربع کے ضلع سے کم اور اگر مستطیل کا مفروض ضلع بڑا ہو تو اس کے لے ایک عدد فرض کریں مربع کے ضلع سے زائد بعد اس خے خط اجزائے متساوی سے اسی نسبت کا تیسراعدد نکالیں۔ اب یہ عدد جو اختیار کیا ہے اس کے تئیں مربع مفروض کے ضلع کے ساتھ جو نسبت ہے وہی نسبت ضلع مربع مفروض کو مستطیل کے دوسرے ضلع سے ہے۔ پس اگر پہلے مستطیل کے چھوٹے ضلع کوفرض کر کر مربع کے ضلع کے ساتھ نسبت دی ہے تو تو اسی نسبت سے ضلع مربع سے اس مستطیل کا بڑا ضلع نکل آوے گا اور اگر پہلے مستطیل کے بڑ ے ضلع کو فرض کرکر مربع کے ضلع کے ساتھ نسبت دی ہے تو اسی نسبت سے مربع کے ضلع سے اس مستطیل کا چھوٹا ضلع نکلے گا۔ مثال: ا ب ج ء کا مربع مفروض او رچھتیس اور ا ب ضلع ا س کا چھ ہم چاہتے ہیں کہ اس مربع کو مستطیل بناویں کہ اس مستطیل کا چھوٹا ضلع ب ہ چا رہو۔ ہم نے ب ہ اورب ا کی نسبت کے موافق خط اجزائے متساوی کے تیسرے عمل سے تیسرا عدد اسی نسبت کا نکالا یعنی ہم نے ب ہ چار کو مقدم فرض کرکے پرکار متناسبہ کو خط اجزائے متساوی کے چوتھے درجہ سے ب ا چھ تالی کے برابر کھولا۔ بعد اس کے چھٹے درجہ کا کھلاؤ ناپ کر خط اجزائے متساوی پر ناپا کہ نو درجہ پر منطبق ہوا کہ وہ ب ط نو اور اس مستطیل کا بڑا ضلع ہے ۔ اب ہم کہتے ہیںکہ جونسبت چار مفروض کو چھ مربع کے ضلع کے ساتھ ہے وہی نسبت چھے مربع کے ضلع کو نو مستطیل کے بڑ ے ضلع کے ساتھ ہے اور یہی ہمارا مطلب تھا۔ اور اسی طرح اگر بڑے ضلع کو فرض کرتے تو چھوٹا ضلع اسی نسبت سے نکل آتا ۔ فافہم۔ اوراگر مربع کا ضلع اصم ہو تو مستطیل کے ضلع کے مربع کو مربع مفروض کے ساتھ نسبت دے کر تیسرا عدد اسی نسبت سے نکال لیںجذر اس کا ضلع مطلوب ہوگا۔ مثال: اب حء کا مربع مفروض اور ۲۰ کہ اب ضلع اس کا اصم ہے ۔ ہم چاہتے ہے کہ اس کو مستطیل بناویں کہ ایک ضلع اس کا چار ہو۔ ہم نے ۱۶ کو مقدم فرض کرکے پرکار متناسبہ کوخط اجزائے متساوی کے سولہویں درجہ سے بیس تالی کے برابر کھولا۔ بعد اسکے بیسویں درجہ کاکھلاؤ ناپ کر خط اجزائے متساوی پرناپا کہ پچیس پر منطبق ہو۔اب سولہ کو بیس کی طرف ایسی نسبت ہے جیسے بیس کو پچیس کی طرف اور چار سولہ کا جذر ہے ۔ ہم نے پچیس کا جذر نکالا وہ پانچ ہے۔ پس نسبت سولہ کی جذر کو یعنی چار کو پچیس کے جذر یعنی پانچ کے ساتھ ایسی ہے جیسی نسبت سولہ کونبیس کے ساتھ اور بیس کو پچیس کے ساتھ تھی ۔ اب یہ پانچ ضلع مفروض ہے اور جب کہ چار کو پانچ میںضرب کریں تو بیس حاصل ہوئے ہیں کہ یہ مساوی ہیں مربع مفروض کے لو ہوالمراد۔ ۱۶۔ یہی عمل اور طریق سے یعنی مربع کو مستطیل بنانے میں کہ ایک ضلع اس مستطیل کا مفروض ہو او روہ مربع منطبق ہو یا اصم ہو او روہ مستطیل کا مفروض ضلع اس کے ضلع کی کسروں میں سے کوئی کسر ہو یا اس کے سوا اور کوئی عدد ہو مگر مربع کے ضلع سے کم ہو بدون مدد پر کار متناسبہ کے۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اس مربع کے ایک ضلع کو نکالیں اور اس ضلع پر جو ضلع کہ عمود ہے اس کو اسی کسر کے موافق تقسیم کر ڈالیں یا وہ عدد جو فرض کیا ہے اس کے برابر عمود سرے کی طرف سے کاٹ لیں اور اس پر نشان کر دیں اور جو زاویہ کہ اس عمود کے زاویہ کے سامنے ہے اس زاویہ سے ایک خط اس نشان پر کھینچیں اس طرح سے کہ اس نشان پر گزر کر نکالے ہوئے ضلع تک آپہنچے ۔ پس ایک ضلع اس مستطیل کا جو مفروض اور چھوٹا ہے عمود کے سرے سے اس نشان تک ہوگا اور دوسرا ضلع اس مستطیل کا جو بڑا او رمجہول ہے مربع کے اس ضلع سمیت جس کو نکالا ہے اس مقام تک ہوگا جہاں اس زاویہ والے خط نے اس کو نقاطع کیا ہے ۔ مثال: ا ب ح ء کہ اب اس کا ضلع چھ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کو مستطیل بناویں کہ ایک ضلع اس کابرابر دو تہائی ضلع مربع کے ہو پہلے ہم نے ح ب ضلع مربع کو ز کی طرف نکالا اس کے بعد اب کے ضلع کو جو اس پر عمود ہے تین ٹکڑے کیے اور دو حصوں پر عمود سرے کیطرف سے ہ کانشان کیا اور ء ہ کا خط کھینچ کر اس کو ز تک نکالا اور ا ہ ضلع مربع مفروض کا دوتہائی ہے کہ وہ مستطیل کا چھوٹا ضلع ہے اور ح ب ز اک مستطیل کا بڑا ضلع حاصل ہوا۔ جب ہم نے ان ضلعوں کے موافق ء ط کا مستطیل بنایا تو وہ مستطیل اب ح ء مربع کے برابربن گیا اور یہی ہم چاہتے تھے۔ ۱۷۔ایک ایسی شکل بنانے مین جس کی مساحت کئی شکلوں مشابہ کی مجموع مساحت کے برابر ہو اور وہ شکل بھی مشابہ بنے اس کا قاعدہ یہ ہے کہ پہلے ان شکلوں کے ضلعوں کو خط اجزائے مساوی کے درجوں پر ناپ کر دریافت کریں کہ کے کے درجے کے ہیں اور اس کے زاویے بھی معلوم کریں۔ اس کے بعد خط اجزائے متساوی کے تئیں زاویہ قائمہ پر کھولیں او ر پہلے ان شکلوں کے بڑے ضلعوں میں سے ایک ضلع کو اس طرح پر نکالیں کہ ایک پاؤں سادی پرکار کا اس ایک ضلع کے درجوں کے مقدار پر رکھیں اور دوسرا پر کار کا اس ایک ضلع کے درجوں کے مقدار پر رکھیں اور دوسرا پرکار کا اس ایک ضلع کے درجوں کے مقدار پر رکھیں اور دوسرا پاؤں دوسری شکل کے بڑے ضلع کے درجوں کی مقدار پر لے جاویں اور اس کھلاؤ کو خط اجزائے متساوی کے درجوں پرناپیں اور پھر اس درجہ پر ایک پاؤں سادی پرکار کا رکھ کر دوسراپاؤں تیسری شکل کے ضلع کے درجوں کے مقدار پر لے جاویں اور اس کھلاؤ کو بھی خط اجزائے متساوی کے درجوںپر ناپیں اور علی ہذا القیاس جنتی کے شکلوں ہوں اسی طرح کرتے جاویں اور ان کے ضلعوں کو جمع کرکے اس شکل کا ضلع پید اکریں اور اسی طرح سے دوسرا ضلع نکالیں اور ان شکلوں کے زاویوں کے برابر ترتیب سے اس شکل کے زاویے بناویں ایک ایسی بڑی شکل متشابہ بن جاوے گی جس کی مساحت ان سب شکلوں کے برابر ہوگی۔ مثال: ا ب ح تین شکلیں متشابہ ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ایک ایسی شکل متشابہ بناویں کہ اس کی مساحت ان تینوں شکلوں کی مساحت کے برابر ہو۔ ہم نے ان تینوں شکلوں کے ضلعوں کو خط اجزائے متساوی کے درجوں پرناپا شکل آکا ایک ضلع بارہ درجہ کا اور اسی کے ساتھ کا ضلع ب کی شکل کا سولہ درجہ کا اور اسکے ساتھ کا ضلع ج کی شکل کا اکیس درجہ کا نکلا پھر ہم نے خط اجزائے متساوی کو زاویہ قائمہ پر کھول کر ایک پاؤں سادی پرکار کا بارھویں درجہ پر رکھ کر دوسرا پاؤں دوسری طرف کے سولہویں درجہ پر لے گئے اور اس کھلاؤ کو خط اجزائے متساوی کے درجوں پر ناپا کہ بیس درجہ کے برابر ہوا۔ پھر ہم نے ایک پاؤں پر کار کا بیسویں درجہ پر رکھ کر دوسرا پاؤں دوسری طرف کے اکیسویں درجہ پر لے گئے اور اس کھلاؤ کو خط اجزائے متساوی پر ناپا کہ انتیس درجہ کے برابر ہوا۔ اس کے برابر ء ز کا خط کھینچا اس کے بعد ہر شکل کے دوسرے ضلع کو اسی طرح خط اجزائے متساوی پر ناپا شکل ا کا دوسرا ضلع نو درجہ کا اور شکل ب کا دوسرا ضلع بارہ درجہ کا اور شکل ح کا دوسرا ضلع ۱۶ درجہ کا نکلا اور پرکار متناسبہ خط اجزائے متساوی سے زاویہ قائمہ پر رکھی ہوئی ایک پاؤں سادی پرکار کا خط اجزائے متساوی کے نویں درجہ پر رکھ کر دوسرے پاؤں کو دوسری طرف بارہویں درجہ پر لے گئے اور اس کھلاؤ کو خط اجزائے متساوی پر ناپا کہ پندرہ درجہ ہوا ایک پاؤں پرکار کا پندرھویں درجہ پر رکھ کر دوسرا پاؤں دوسری طرف کے سولہویں درجہ پر لے گئے اور اس کھلاؤ کو خط اجزائے متساوی کے درجوں پر ناپا کہ بائیس درجے ہوئے کہ یہ دوسرا ضلع ہے اور ان شکلوں کے سب زاویہ قائمہ تھے اس واسطے دوسرا ضلع اس شکل کا بائیس درجہ کے برابر مساحت ا ب ح تینوںشکلوں کے بن گئی اور ازروئے حساب کے ان تینوں شکلوں کی مساحت چھ سو تینتیس ہے اور مساحت بڑی شکل کی چھ سو اڑتیس اتنا سا فرق کچھ قابل اعتبار نہیں اس واسطے کہ زاویہ قائمہ کے بعضے وتر ا صم ہیں اس واسطے ے کسر عدد میں نہیںآسکتے تھے۔ ۱۸۔محیط دائرہ کے برابر خط مستقیم کھینچنے میں واضح ہو کہ یہ عمل اگرچہ تخمینا ہے مگر قریب تر بہ تحقیق ہے اور اس کا قاعدہ یہ ہے کہ دائرہ کے نصف قطرکو خط اجزائے متساوی کے درجوں پر ناپا جے درجے حاصل ہوئے اس کے بربار پرکار متناسبہ کو خط اجزائے متساوی کے ساتویں یا چودھویں یا اکیسویں یا اٹھائیسویں درجے سے کھولا بعد اسکے پہلی صورت میں بائیسویں اور دوسری صور ت میں چوالیسویں اور تیسری صورت میں چھیاسٹھویں اور چوتھی صورت میں اٹھا سی درجے کے کھلاؤ کو ناپ لیا اور اس کھلاؤ کو خط اجزائے متساوی کے درجوں پر ناپا جے درجے کے برابر ہوا وہی اس محیط کی مقدار ہے۔ اس واسطے کہ ان چاروں صورتوں میں نسبت سات اور بائیس کی نکل آتی ہے اور یہ نسبت دائرہ کے قطر کے دائرہ کے محیط کے ساتھ ہے بقول ارشمیدس کہ قریب تر بہ تحقیق ہے اور ابن ہشیم یہ بیان کرتا ہے کہ دائرہ کے نصف قطر کی نسبت دائرہ کے محیط کے سات مانند تین اور ایک ساتویں حصہ سے کچھ کم کی ہے اور ارشمیدس کے قول بموجب تین اورایک ساتویں حصہ کی ہے اور یہ بھی تخمیناََ ہے اور وہ بھی۔ اور ابن ہشیم کے قول میں تکلف اور تکلیف بہت ہے۔ اس واسطے ارشمیدس کے قول کو یہاں اختیار کیا ہے۔ ترجمہ قول ارشمیدس دائرہ کی مساحت برابر ہوتی ہے مثلث قائم الزاویہ کی مساحت کے ساتھ کہ ایک ضلع اس قائمہ کا نصف قطر اس دائرہ کے برابر ہو اور دوسرا ضلع اس قائمہ کا برابر خط محیط اس دائرہ کے ہو۔ حاصل یہ ہے کہ مساحت دائرہ کے برابر ہوتی ہے ۔ ساتھ اس سطح کے جو نصف قطر کو اس دائرہ کے نصف محیط میں مرتب کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ مثال: ہم چاہتے ہیں کہ اب کے دائرہ کے محیط کے برابر مستقیم خط کھینچیں۔ ہم نے اب کے قطر کو خط اجزائے متساوی پر ناپا اکیس درجہ کا نکلا۔ ہم نے پرکار متناسبہ کو خط اجزائے متساوی کے چودھویں درجہ سے اکیس درجہ کے برابر کھولا اور چوالیسویں درجہ کا کھلاؤ لے کر خط اجزائے متساوی کے درجوں پرناپا کہ چھیاسٹھ درجہ پر منطبق ہو اکہ وہ ح ء کا خط و ہوا المطلوب۔ قاعدہ مفروض دو خطوں میں وسط نسبت نکالنے میں اس کا قاعدہ یہ ہے کہ ان دونوں خطوں کو ایک دوسرے کے مجازی کھینچ کر ملاویں اور اس سارے خط پر آدھا دائرہ کھینچ دیں اور جس نقطہ پر کہ وہ دونوں خط ملے ہیں اس نقطہ پر دائرہ کی طرف ایک عمود نکالیں وہ عمود اس نقطہ سے نصف دائرہ کے محیط تک ان دونوں خطوں میں وسط ہوگا۔ مثال: ا ب او رح ء کے دو خط ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک تیسرا خط ان دو خطوں میں وسط نسبت پر نکالیں۔ ہم نے اب اور ح ء کو ایک دوسرے کے محاذی اس طرح پرکھینچا کہ ب کے نقطہ پربخط مستقیم مل گئے۔ ہم نے ہ کو مرکز قرار دے کر ا ح ز کا نصف دائرہ کھینچا اور ب نقطہ اتصال پر ب ز عمود کھینچا یہ عمود نقطہ ب سے نقطہ ز تک ان دونوں خطوں کا وسط ہے۔ ۱۹۔ ایک ایسا مربع بنانے میں کہ مساحت اس کی دائرہ مفروض کی مساحت کے برابر ہو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اس دائرہ کے محیط کے برابر ایک خط مستقیم کھینچیں اور ایک وسط نسبت درمیان نصف قطر دائرہ کے اور نصف محیط کے کہ اس کے برابر خط مستقیم کھینچ چکے ہیں نکالیں۔ وہ وسط کا خط ایسے مربع کا ایک ضلع ہوگا کہ اس مربع کی مساحت اس مفروض دائرہ کی مساحت کے برابر ہوگی۔ مثال: ہم چاہتے ہیں کہ ایک ایسا مربع بناویں کہ اسکی مساحت ا ب کے دائرہ کے برابر ہو ئء ہ کا خط محیط دائرہ کے برابر تھا اس کو نقطہ ح پر تنصیف کیا۔ بعد اس کے ح ہ جو ا ب کے دائرہ کے نصف کے برابر ہے اور ا ز کو جو اس دائرہ کا نصف قطر ہے ایک دوسرے کے محازی اس طرح پر کھینچا کہ ح کے نقطہ پر بخط مستقیم نکلے اور ا ہ کے سارے خط پر ا ط ہ کا آدھا دائرہ کھینچا اور ح کے نقطہ پر کہ دونوں خطوں کانقطہ اتصال ہے نصف دائرہ کی طر ف ح ط کا عمود نکالااور ح ط کو ایک ضلع ٹھہرا کر ح ط ے ک کا مربع بنایا کہ اس ح ط ے ک کے مربع کی مساحت ا ب کے دائرہ کی مساحت کے برابر ہے اس واسطے کہ جب ہم نے ا ز نصف قطر کو کہ ساڑھے دس ہے نصف محیط میں کہ تینتیس ہے ضر ب کیا تو تین سو ساڑھے چھیالیس حاصل ہوئے اور ہم نے ح ط کے عمود کو کہ مربع کا ضلع ہے پرکار متناسبہ پر ناپا تو اٹھارہ درجہ پورے اور ایک نصف اور تین ربع کے بیچ میں ایک کسر کے برابر ہوا اس واسطے کہ تین سوساڑھے چھیالیس اس واسطے عدد میں تخمینا آیا ہے اور خط میں تحقیقا ساڑھے اٹھارہ کا مربع تین سو بیالیس اور ایک چوتھائی ہوتا ہے ۔ ا ز کی سطح سے جو ہ ح میں ہو سوا چار کم اور اٹھارہ اور تین چوتھائی کا مربع تین سو ساڑھے اکیاون ہوتا ہے سطح مذکور سے پانچ زیادہ اور پانچ ثمن بھی درست نہیں ہوتے اس واسطے کہ جذر اصم ہے۔ ۲۰۔ یہی عمل اور طریق سے یعنی مربع بنانے میں کہ اس کی مساحت دائرہ مفروض کی مساحت کے برابر ہو خط اوتار کے عمل سے اس کا قاعدہ یہ ہے کہ پرکار متناسبہ کو خط اوتار کے ایک سو چوالیس درجہ اور اڑتالیس دقیقہ پر کھولیں اور اس دائرہ کے نصف قطر کو خط اوتار کے درجوں پر ناپیں جس درجہ کے برابر ہو اس درجہ کے کھلاؤ کو ساری پرکار سے ناپ کر اس کھلاؤ کو پھر خط اوتار کے درجوں پر ناپیں جے درجہ کے برابر ہووہی اس مربع کا ضلع ہوگا۔ مثال: ا ب کا ایک دائرہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کی مساحت کے برابر ایک مربع بناویں۔ ہم نے پرکار متناسبہ کو خط اوتار سے ایک سو چوالیس درجہ اور اڑتالیس دقیقہ کے زاویہ پر کھولا اور ا ح نصف قطر کو خط اوتار کے درجوں پر ناپا کہ پچیسویں درجہ کے برابر ہوا۔ ہم نے پچیسویں درجہ کا کھلاؤ لے کر خط اوتار کے درجوں پر ناپا کہ پینتالیس درجہ کے برابر ہوا تقریبا بنایا کہ اس مربع کی مساحت ا ب کے دائرہ کی مساحت کے برابر ہے و ہوا المطلوب۔ ۲۱۔ یہی عمل بطریق اربع متناسبہ کے اس کا قاعدہ یہ ہے کہ پرکار متناسبہ کو خط اوتار کے پچپن درجے اور بارہ دقیقے سے دائرہ مفروض کے نصف قطر کے برابر کھولیں اور ایک سو دس درجہ اور چوبیس دقیقہ کا کھلاؤ ناپ لیں کہ یہ ایک مربع ایک ضلع ہوگا۔ مثال: ا ب کا دائرہ ہے ہم چاہتے ہیں کہ اس دائرہ کی مساحت کے برابر ایک مربع بناویں۔ ہم نے پرکار متناسبہ کو خط اوتار کے پچپن درجے اور بارہ دقیقے سے ا ح نصف قطر کے برابر کھولا اور ایک سو دس درجہ اور چوبیس دقیقہ کا کھلاؤ ناپ لیا کہ ء ہ کے برابر ہوا ء ہ کو اس مربع کا ایک ضلع ٹھہرا کر اس پر ء ہ ز ح کا مربع بنایا کہ یہ مربع ا ب کے دائرہ کی مساحت کے برابر ہے۔ فائدہ جاننا چاہیے کہ یہ دونوں عمل پرکار متناسبہ سے اس وقت ہوں گے جب کہ خط اوتار کا تام کا تام ہو یعنی اس کی تقسیم ایک سو اسی درجہ کی پوری ہو اور جس پرکار میںکہ خط اوتار کے ساٹھ درجے کی تقسیم ہوگی اس سے یہ دونوں عمل اس طریق پر نہیں ہوسکیںگے۔ فائدہ جاننا چاہیے کہ ارشمیدس نے اپنی کتاب میں ثابت کیا ہے کہ دائرہ کی مساحت ایسی مثلث کی مساحت کے برابر ہوتی ہے جس کا ایک زاویہ قائمہ ہو اور اس زاویہ قائمہ کا ایک ضلع اس دائرہ کے نصف قطر کے برابر اور دوسرا ضلع اس دائرہ کے محیط کے برابر ہو کہ خط مستقیم اس محیط کے برابر کھینچ لیا ہو جیسے ب کا دائرہ ا کے مرکز پر اور مثلث ا ب ء کا کہ ا ب اس مثلث کا ایک ضلع ب ح کے دائرہ کے نصف قطر کے برابر ہے اور ب ء اس مثلث کا دوسرا ضلع ب ح کے دائرہ کے محیط کے برابر ہے کہ خط مستقیم اس کے مرکز پر کھینچ لیا ہے۔ ہم نے ا ب ء کے مثلث کے برابر ا ب ہ ز کا مستطیل بنایا اور اب نصف قطر دائرہ ب ح اور ب ہ ضلع مستطیل میں کہ ب ح کے دائرہ کے محیط کا آدھا ہے ایک نسبت وسط کی نکالی کہ ز ط کا خط ہے اور اس ز ط کو ایک ضلع ٹھہرا کر اس پر ایک مربع بنایا وہ مربع ا ب ہ ز کے مستطیل کے اور اب ء کے مثلث کے اور ب ح کے دائرہ کے جو مفروض تھا برابر ہے اور یہی ہمارا مطلب تھا۔ ۲۲۔ تربیع دائرہ میں۔ یعنی دائرہ مفروض کے برابر مربع بنانے میں پرکار متناسبہ کے عمل سے اس کا قاعدہ یہ ہے کہ سادی پرکار کو اس دائرہ کے نصف قطر کے برابر کھول لیں اور پرکار متناسبہ کو خط اجزاء متساوی کے ساتویں درجہ سے اس کے برابر کھولیں اور انیسویں درجہ کا کھلاؤ ناپ کر اس کے برابر ایک خط کھینچیں اور اس پر نصف دائرہ بناویں اس کے بعد بائیسویں درجہ کا کھلاؤ نا پ کر اس کے برابر ایک طرف سے اس خط پر نشان کریں اور اس نشان پر عمود کھینچیں وہ عمود اس مربع کا ضلع ہوگا۔ مثال: ا ب کا ایک دائرہ ہے ہ کے مرکز پر ہم جانتے ہیں کہ اس کے برابر ایک مربع بناویں۔ ہم نے سادی پرکار ا نصف قطر کے برابر کھو ل کر پرکار متناسبہ کو خط اجزائے متساوی کے ساتویں درجہ سے اس کے برابر کھولا او رپرکار متناسبہ کو اسی کھلاؤ پر رکھ کر انتیسویں درجہ کا کھلاؤ ناپا اور اس کے برابر ح ء کا خط کھینچا اس کو نقطہ ز پر آدھا کرکر اور ز کو مرکز کر کر اس خط پر نصف دائرہ ح ط کا بنایا اور بائیسویں درجہ کا کھلاؤ لے کر ح کی طرف اس خط پر ح کا نشان کیا اور اس نشان پر ح ط کا عمود کھینچا یہ ح ط کاعمود اس مربع کا ضلع ہے۔ ہم نے اس ضلع پر ح ط ے ک کا مربع بنایا ۔ یہ مربع ا ب کے دائرہ کے برابر ہے اور یہی ہم چاہتے تھے۔ ۲۳۔ مربع مفروض کے برابر دائرہ بنانے میں یہ عمل پہلے عمل کا عکس ہے یعنی اگر مربع ہو اور ہم چاہیں کہ اس کے برابر دائرہ بناویں پرکار متناسبہ کے عمل سے تو ا سکا قاعدہ یہ ہے کہ اس مربع کے ایک ضلع کے برابر سادی پرکار کو کھول کر پرکار متناسبہ کو گیارھویں درجہ سے اس کے برابر کھولیں اور خط اجزائے متساوی کے پچیسویں درجہ کا کھلاؤ ناپ لیں اور اس کے برابر ایک خط کھینچ کر اس خط پر نصف دائرہ کھینچیں اور پھر چودھویں درجہ کا کھلاؤ لے کر اس خط کے سرے پر سے ایک نشان کریں اور اس نشان پر سے نصف دائرہ تک عمود نکالیں۔ یہ عمود اس دائرہ کا سارا قطر ہوگا۔ مثال: اب ء ح کا ایک مربع ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کے برابر ایک دائرہ بناویںسادی پرکار کو ا ب اس مربع کے ضلع کے برابر کھول کر خط اجزائے متساوی کو گیارہویں درجہ سے اس کے برابر کھولا اور پچیسویں درجہ کا کھلاؤ ناپ کر اس کے برابر ز کا خط کھینچا اور ہ ز کو ن کے نقطہ پر تنصیف کر کر اور اس کومرکز ٹھہرا کر ہ ط ز کا نصف دائرہ کھینچا ۔ اس کے بعد چودھویں درجہ کا کھلاؤ ناپ کر ز پر ح کانشان کیا اور ح کے نقطہ پر ح ط کا عمود نکالا کہ یہ ح ط اس دائرہ کا سارا قطر ہے جب کہ ہم نے ح ط کو د کے نقطہ پر تنصیف کرکے اور د کو مرکز ٹھہرا کر ے ک کا دائرہ کھینچا تو یہ دائرہ ا ب ح ء کے مربع کے برابر ہے اور یہی ہم چاہتے تھے۔ ۲۴۔ ایک دائرہ مفروض کی مساحت نکالنے میںپرکار متناسبہ کے عمل سے اس کا قاعدہ یہ ہے کہ پرکار متناسبہ کے گیارہ درجہ کے برابر سادی پرکار کو کھول کر خط اجزائے متساوی کو چودھویں درجہ سے اس کے برابر کھولیں۔ بعد ا س کے دائرہ مفروض کے قطر کے مربع کے کھلاؤ کولے کر خط اجزائے متساوی کے درجوں پر ناپیں۔ جے درجے کے برابر ہو وہی اس مفروض دائرہ کی مساحت ہے۔ مثال: ہم چاہتے ہیں کہ ا ب ح ء کے دائرہ کی مساحت پر کار متناسبہ کے عمل سے نکالیں۔ مثلا قطر دائرہ کا چھ ہے ۔ پہلے سادی پرکار کو خط اجزائے متساوی کے گیارہ درجہ کے برابر کھول کر پرکار متناسبہ کو چودھویں درجہ سے اس کے برابر کھولا۔ اب ہم نے دیکھا کہ دائرہ کے قطر کا مربع چھتیس ہے۔ اس واسطے ہم نے پرکار متناسبہ کے چھتیسویں درجے کا لے کر اجزائے متساوی کے درجوں پر ناپا کہ اٹھائیس پورے اورچار حصہ کے چودہ حصے میں سے ایک کسر کے برابر ہوا کہ یہی دائرہ مفروض کی مساحت ہے۔ بقول ارشمیدس کے اس واسطے کہ نسبت چودہ کی گیارہ کے ساتھ ایسی ہے جیسی نسبت چھتیس کی کہ چھ قطر دائرہ کا اس کا مجذور ہے۔ مجہول کے ساتھ اوروہ اٹھائیس پورے اور چار حصہ کے چودہ میں سے ایک کسر ہے کہ وہ مساحت دائرہ کی ہے ار شمیدس کی اس دلیل سے جو اس کے مقالہ کی چوتھی شکل میں ہے۔ ارشمیدس کے مقالہ کی دوسری شکل کا بیان ارشمیدس نے اپنی کتاب میںثابت کیا ہے کہ مساحت دائرہ کی نسبت اس دائرہ کے قطر کے مربع کے ساتھ ایسی ہیک جیسی نسبت گیارہ کی چودہ کے ساتھ تقریبا کی باقل عددین اور نسبت بائیس کی اٹھائیس کے ساتھ اور جو کہ آپس میں دائروں کی نسبت ایسی ہوتی ہے جیسی ان کے قطروں کی ہے مثناۃ بالتکریر۔ بموجب شکل دوسرے مقالہ بارہویں اصول کے اس واسطے اگر قطر ایک دائرہ کا اور مساحت اس کی معلوم کر لیں تو تو مساحت ہر دائرہ کی معلوم ہوجاتی ہے اس طریق سے کہ شکل مسطح متشابہ کے باب میںبیان کیا ہے۔ مثال: ا ب ء کے دائرہ کا قطر دس او رمساحت اس کی اٹھہتر پوری اور چار ساتویں حصہ ہم چاہتے ہیں کہ ح ہ ز کے دائرہ کی مساحت معلوم کریں کہ قطر اس کا پانچ ہے ۔ انیس پورے اور نو چودھویں حصہ نکلے نسبت مثناۃ بالتکریر سے او رجو کہ قطر کی نسبت نصف کے تھی دائروں کی مساحت کی نسبت نصف النصف کے نکلی اور اگر اس کا قطر تہائی کا ہوتا تو مساحت اس کی تہائی کی تہائی نکلتی اور اگر اس کا قطر چوتھائی کا ہوتا تو مساحت اس کی چوتھائی کی چوتھائی نکلتی۔ اصول کے بارہویں مقالہ کی دوسری شکل کا بیان نسبت درمیان د و دائروں کے ہوتی ہے مانند نسبت مربعوں قطروں ان دائروں کے اور چاہیے کہ دو دائرہ ہوں ا ح ہ ح اور قطروں دونوں کے ب ء ز ط ۔ پس اگر نہ ہو نسبت مربع ب ء کی طرف مربع ز ط کی مانند نسبت دائرہ ا ح کی طرف دائرہ ہ ح کے ۔ پس چاہیے کہ ہو مانند نسبت دائرہ ا ح کی طرف ایک سطح کے جو چھوٹی ہو سطح دائرہ ہ ح کے سے بارے اور چاہیے کہ ہووے پہلی طرف چھوٹی کے اور وہ ث ہے اور چاہیے کہ ہو زیادتی دائرہ ہ ح کے اوپر ث کے بعد ر خ کے اور بحکم انتیسویں تیسرے مقالہ کے دو ٹکڑے کریںہم د و قوسوں ز ہ ط ر ح ط کو اوپر ہ ح کے او رملاویں ہم ر ہہ ط ط ح ح ز کو۔ پس سطح ہ ح کی بڑی ہی نصف دائرہ ہ کے سے جیسے بخوبی واضح ہوگا اور دو دو ٹکڑے کئے جائیں قوسیں چاروں اوپر ک ل م ز کے او رملاویں ہم وتر ان کے۔ پس پیدا ہوں گے چار مثلثیں کہ وہ پڑے ہیں آدھے آدھے چاروں قطعوں سے او راسی طرح تنصیف کریں قوسوں کو یہاں تلک کہ باقی رہیں قطعے کہ وہ چھوٹے ہوں ح س ۔ جیسے ثابت ہو ابیچ پہلی شکل دسویں مقالہ کے ۔ پس ہوگی کثیرا لاضلاع جو پیدا ہوئی ہے او روہ سطح ک م کی ہے بڑی سطح ث کے سے اور بناویں ہم بیچ دائرہ ا ح کے ایک کثیر الاضلاع کہ مشابہ ہو کثیر الاضلاع ک م کے اور وہ س ف ہے۔ پس بحکم پہلی شکل اس مقالہ کے نسبت مربع ب ء کی طرف مربع ر ط کے مانند نسبت کثیر الاضلاع سہ ف کے ہیں طرف کثیر الاضلاع ک م کے اور تھی تحت فرض کے مانند نسبت دائرہ ا ح کی طرف سطح ث کے ۔ پس بحکم گیارہویں پانچویں مقالہ کی نسبت کثیر الاضلاع سہ ف کی طرف کثیر الاضلاع ک م کی مانند دائرہ ا ح کے ہے طرف سطح ث کے اور بحکم سولہویں پانچویں مقالہ کے ساتھ ابدال کے نسبت کثیر الاضلاع سہ ف کی طرف دائرہ ا ح کی مانند نسبت کثیر الاضلاع ک م کی ہے طرف سطح ث کے اور کثیر الاضلاع کے م کی بموجب عمل کے بڑی ہے سطح ث کے سے ۔ پس بحکم چودھیں اور پانچویں مقالہ کے کثیر الاضلاع سہ ف کی بڑی ہے دائرہ ا ج کے سے یعنی جزء بڑاہے اپنے کل سے او ریہ باطل ہے اور یہی چاہیے کہ ہو نسبت مربع ب ء کی طرف مربع ر ط کی مانند نسبت دائرہ ا ج کی طرف ایک سطح ہے جو بڑی ہے سطح دائرہ ہ ح کے سے اور جب کہ مخالفت کریں ہم دونوں میںیعنی الٹ لیںدونوں کو تو ہوگی نسبت مربع ر ط کی طرف مربع ب ء کی مانند نسبت سطح کی جو بڑی ہے سطح دائرہ ح ہ کے سے طرف سطح دائرہ ا ح کے بلکہ نسبت سطح دائرہ ح ہ کی طرف سطح کے جو چھوٹی ہے دائرہ اح کے سے اور بیان کریں خلف یعنی باطل ہونا ساتھ تدبیر مذکور ک ۔ پس اس وقت حکم ثابت ہے اور یہی ہے جو ہم نے ارادہ کیا تھا ۔ ترجمہ قول ار شمیدس کا برہان مساحت دائرہ میں جب کہ دائرہ کا محیط اس کے قطر سے تگنا اور ایک ساتواں حصہ اس کے قطر کا ہوتا ہے کہ مساحت والوں کی اصطلاح میںبہ نسبت تقریبی ہے تو چاہیے کہ نسبت سطح دائرہ کی اس کے قطر کے مربع کے ساتھ ایسی ہو جیسی نسبت گیارہ کی چودہ کے ساتھ اس کے موافق چاہیے کہ دائرہ کا قطر ا ب ہو ا س نظر پر ح ح کا مربع بنایا او رچاہیے کہ ح ء کا خط ء ہ کے خط کاآدھا ہو اور ہ ز کا خط ح ء کے خط کا ساتواں حصہ ہو یعنی ح ز کا خط ح ء کے خط سے تگتا او رایک ساتویں حصہ کے برابر ہو۔ پس اس سبب سے کہ اح ہ کے مثلث کی نسبت ا ح ء کے مثلث کے ساتھ ایسی ہے جیسی نسبت اکیس کی سات کیساتھ اور ا ح ء کے مثلث کی نسبت ا ہ ز کے مثلث کے ساتھ ایسی ہے جیسی نسبت سات کی ایک کے ساتھ ۔ اس واسطے ہوجاتی ہے ا ح ز کے مثلث کی نسبت ا ح ء کے مثلث کے ساتھ نسبت بائیس کی سات کے ساتھ اور ح ح کا مربع چوگنا ہے ا ح ء کے مثلث سے اور مثلث ا ج ز کا سطح دائرہ کے برابر ہے۔ ا س واسطے کہ ا ح نصف قطر کے برابر ہے اور ج ز تقریبا محیط کے برابر ہے ۔ پس نسبت قطر کے مربع کی دائرہ کے سطح کے ساتھ نسبت اٹھائیس کی ہے بائیس کے ساتھ بلکہ نسبت چودہ کی ہے گیارہ کے ساتھ ۔ یہ ہے ارشمیدس کا قول مربع کی نسبت میں دائرہ کی مساحت کے ساتھ جو اس میں ہو۔ امتحان بطریق عدد ح ء ا ء مربع اس کا ح ح ا ۴۴ ا ج ۱۰ ح ز ۶۶ سطح ا ح کی بیچ ح ز کے ۶۹۳ آدھا اس کا کہ مثلث ا ج ز کا ہے ۳۴۶ جب کہ اس کو گیارہ پر تقسیم کیا تو خارج قسمت ۳۱ نکلے اور جب کہ ۴۴۱ مساحت مربع کو چودہ پر تقسیم کیا تو خارج قسمت وہی ۳۱ نکلے اور نسبت ۱۱ کی اور ۱۴ کی صحیح ہوئی۔ ۲۵۔ تین مفروض نقطوں پر کہ وہ نقطے خط مستقیم پر نہ ہوں اور جس طرح پر کہ واقع ہوں دائرہ کھینچنے میں اس کا قاعدہ یہ ہے کہ ان نقطوں پر خاکے کے طور پر جو مٹ جاویں مثلث کھینچیں اور ایک زاویہ کے درجے معلوم کریں او رخط اجزائے متساوی کو اس کے دگنے زاویہ پر کھولیں اور اس زاویہ کا کھلاؤ سادی پرکار سے لے کر خط اجزائے متساوی کے کھلاؤ پر منطبق کریں جس درجہ کے کھلاؤ پر منطبق ہو اس درجے سے پرکار متناسبہ کے مرکز تک ا س دائرہ کا نصف قطر ہے۔ پس اس درجے سے پرکار متناسبہ کے مرکز تک سادی پرکار کو کھول کر ایک پاؤں سادی پرکار کا ہر ہر مفروض نقطوں پر رکھ کر تین قوسیں خاکے کے طور پر مٹ جاویں کھپنچیں تاکہ یہ تینوں آپس میں تقاطع کریں جس جگہ کہ تقاطع کیا ہے اس کے تئیں مرکز کرکے اسی کھلاؤ پر دائرہ کھینچیں یہ دائرہ تینوں مفروض نقطوں پر گذرے گا۔ مثال: ا ب ح تین نقطے مفروض ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان پر ایسا دائرہ کھینچیں کہ ا ب ح تینوں نقطوں پرگذرے۔ ہم نے ا ب او ر ب ج او رح ا تین خط مستقیم کھینچ دیے او رب ا ح کے زاویہ کومعلوم کیا کہ کے درجہ کا ہے۔ معلوم ہوا کہ ۳۰ درجہ کا ہے ۔ خط اجزائے متساوی کو س کے دگنے زاویہ پریعنی ساٹھ درجہ کے زاویہ پر کھولا اور ا کے زاویہ کے وتر کے برابر کہ ب ح کا خط ہے سادی پرکار کو کھول کر خط اجزائے متساوی کے درجوں کے کھلاؤ پر منطبق کیا کہ بارہ درجہ اور ایک تہائی درجہ پر منطبق ہوا۔ اس مقام سے پرکار متناسبہ کے مرکز تک سادی پرکار کو کھول کر اور ہر ایک نقطہ مفروضہ کو مرکز کر کر تین قوسیں کہ آپس میں تقاطع کریں کھینچیں ء کا مرکز نکل آیا اسی کھلاؤ سے ء کے نقطہ کو مرکز کرکر ا ب ح کا دائرہ کھینچا کہ اب ح تینوں مفروض نقطوں پر گذرا اور یہی ہم چاہتے تھے۔ ۲۶۔ دائرہ مفروض میں کئی ضلعوں کا شکلیں بنانے میں اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اس دائرہ کے نصف کی برابر پرکار متناسبہ کو خط اوتار کے ساٹھویں درجہ سے کھولیں۔ بعد اس کے ا س شکل کے مرکزی زاویہ کے وتر کا کھلاؤ ناپ لیں کہ وہ ایک ضلع اس شکل مفروض کا اس دائرہ میں ہوگا اوراشکال ذوی الاضلاع کے مرکزی زاویوں کا بیان اوپر ہو چکا ہے۔ مثال: ا ب ح کا دائرہ ہ کے مرکز پر کھینچا ہوا ہے۔ ہم چاہتے ہیںکہ برابر کے ضلعوں کی شکل بناویں۔ ہم نے ا ہ نصف قطر کے برابر پرکار متناسبہ کو خط اجزائے اوتار کے ساٹھویں درجہ سے کھولا اور پینتالیسویں درجہ کا کھلاؤ ناپا کہ ا ب کے خط کے برابر ہوا ۔ اب ہم نے اب کے خط کے برابر ا ب ح ء کے دائرے میں ضلعے کھینچ دیے کہ آٹھ ضلعوں کی شکل ا ب ح کے دائرے میں بن گئی کہ اب اس کا ایک ضلع ہے تمت بعون الملک الوہاب شاہجہان آباد کے لوگوں کابیان مصنفہ سر سید احمد خاں مطبوعہ ۱۶۲۳ ہجری مطابق ۱۸۴۷ عیسوی شاہجہان آباد کے لوگوں کا بیان سر سید نے ۱۸۴۷ء میںایک نہایت مفید کام کیا۔ یعنی ان کے زمانہ میںمختلف علوم و فنون کے جس قدر ماہر اور مشاہیر دہلی میں موجود تھے اور جو کسی نہ کسی حیثیت سے مشہور تھے انکا ایک جامع او ر مبسوط تذکرہ مرتب کیا۔ ظاہر ہے کہ اس تذکرہ کو مرتب او رمدون کرنے میں سر سید کو دوڑ دھوپ، تگ و دو اور سعی و کوشش کرنی پڑی ہوگی اور حالات و واقعات کی تلاش میںکس کس کی خوشامدنہ کرنی پڑی ہوگی ۔ جب جا کر یہ بے نظیر تذکرہ مرتب ہوا ہوگا۔ اس میں سر سید نے د س قسم کے ایسے کملائے عصر کے سوانحی حالات جمع کیے تھے جو اپنے اپنے فن میںاپنے زمانہ میںیکتائے عصر تھے اور جن کا مثل دہلی کی خاک سے پھر پیدا نہ ہوسکا۔ اس تذکرہ میں کل ۱۱۹ لوگوں کا حال تھا ۔ جس کی تفصیل یہ ہے۔ ۱۔ مشائخ کرام اور صوفیائے عظام ۱۷ ۲۔ رسول شاہی بزرگ اور صلحائ ۴ ۳۔مجذوب اور خدا رسیدہ لوگ ۹ ۴۔ حکیم اور طبیب ۱۲ ۵۔ علماء اور فضلائ ۲۹ ۶۔ قراء اور حفاظ قرآن ۵ ۷۔ شعراء اور سخنوران ۱۶ ۸۔ خطاط اور خوش نویس ۱۴ ۹۔ مصور اور تصویر کش ۴ ۱۰۔ ارباب موسیقی اور ماہرین راگ و رنگ ۹ میزان ۱۱۹ یہ ۱۸۵۷ء کے انقلاب عظیم سے پہلے کے علمائے عصر، کہلائے فن، شاعران نواسنج اور طبیبان حاذق وغیرہ کے حالات کاحسین اور دلاویز مرقع تھا جسے سر سید کے شگفتہ قلم نے صفہ قرطاس پر بڑی روانی اور خوبی کے ساتھ کھینچا تھا۔ اگر سر سید کا یہ تذکرہ نہ ہوتا تو ہمارے پاس اس دور کے مشاہیر کے حالات اور دہلی مرحوم کے ان درخشندہ جواہر کا کچھ بھی پتہ نہ لگ سکتا۔ یہ حالات جس قدر ضروری اور اہم تھے ، اسی قدر نایاب اور ناپید تھے ۔ ان کو ایک مبسوط مضمون کی شکل میں سر سید نے ۱۳۶۳ ھ مطابق ۱۸۴۷ء میںاپنی مشہور عالم کتاب آثار الصنادید کے آخر میںلگایاتھا ۔ مگر بعد میں جب آثار الصنادید کا دوسرا ایڈیشن ۱۸۵۴ء میں شائع کیا تو نہ معلوم کس مصلحت کی بنا پر یہ حالات اس میں سے خارج کر دیے۔ میںنہایت ہی ممنون ہوںاپنے محترم دوست ملک احمد نواز صاحب انچارج شعبہ اردو یونیورسٹی لائبریری لاہور کا جن کی عنایت سے میںیہ حالات ناظرین کرام کی خدمت میںپیش کر رہا ہوں۔ ورنہ آثار الصنادید کا ۱۸۴۷ء والا پہلا او ر اولین اڈیشن دنیا سے قریباََ ناپید ہوچکا ہے ۔ صرف قدیم اور بڑی لائبریریوں میں شاید کہیں کہیں ہو۔ آثا الصنادید کے جو اڈیشن بعد میںنولکشور نے شائع کیے ان میںبھی یہ حالات ہیں لیکن نہایت درجہ غلط سلط اور لطف یہ ہے کہ یہ اڈیشن بھی آج کل نایاب ہیں۔ بعد میں قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی مرحوم نے ان حالات کو قسط وار رسالہ ’’اردو‘‘ اور زاں بعد رسالہ ’’تاریخ و سیاسیات‘‘ میں شائع کرایا۔ مگر چار سال تک چھپتے رہنے کے بعد بھی مکمل نہ ہوئے۔ پھر تذکرہ اہل دہلی کے نام سے انجمن ترقی اردو نے اسے علیحدہ شائع کیامگر غلطیوں اور اسقام سے بھرپور ہے مگر یہ بھی اب کہیں نہیںملتا۔ ان حالات میںبہت صحت کے ساتھ اس نادرہ روزگار تذکرہ کی اشاعت امید ہے نہایت پسندیدگی کی نظر سے دیکھی جائے گی۔ (خاکسار محمد اسماعیل پانی پتی) شاہجہان آباد کے لوگوں کا بیان مرقومہ ۱۸۴۷ء اگرچہ لوگ یہ خیال کریں گے کہ میں نے اس شہر کے لوگوں کو جو حال لکھا ہے وہ بد نظر حب الوطن ہوگا لیکن جن لوگوں کے مزاج میں انصاف ہوگا وہ اس کو دیکھ کر جان لیں گے کہ میں نے جو حال لکھا ہے وہ افراط اور تفریط سے خالی ہے حقیقت میںیہاں کے لوگ ایسے ہیں کہ شاید اور کسی اقلیم کے نہ ہوں گے ۔ ہر ایک شخص ہزار ہزار خوبی کا مجموعہ اور لاکھ لاکھ ہنروں کا گلدستہ ہے۔ ہر ایک کو علم و ہنر سے شوق اور دن رات لکھنے پڑھنے ہی سے ذوق ہے۔ ہر ایک کی جبلت میںاخلاق ایسا سمایا ہے کہ اگر ایک ایک بات ان کی لکھی جائے تو ہزار ہزار اخلاق کی کتاب بن جاوے اور اس پر حلم ویسا بھی ہے۔ مروت ویسی ہی ہے دوستی پرستی کا کچھ بیان نہیں۔ بغض اور حسد کانشان نہیں۔ کفر است در طریقت ماکینہ داشتن آئین ماست چو آئینہ داشتن ہزار ہا آدمی ہونگے جنہوں نے تمام مکروہات ترک کرکر اور خواہش نفسا تی کو چھوڑ کر طریقہ سنت محمد ی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اختیا رکیا۔ پس پھر خیال کرو کہ جو خوبی طریقہ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے وہی خوبی یہاں کے آدمیوں میںہے ۔ مردم اور جملہ فرشتہ سرشت خوش دل و خوش خوے چو اہل بہشت ہر ہمہ نزدیک دل و گرم خوں رفتہ چو چاں در تن مردم دروں ہر س مو برتن ایشاں ہنر دمد در موئی شگافی بسر ہرچہ بہ صنعت بہ ہمہ عالم ست ہست در ایشاں و زیادت ہم است وز قلمی ہر چہ بر آرد علم واں چہ ن گنجد بہ زبان قلم بیش تر از علم و ادب بہر ہ مند ز اہل سخن خود کہ شما رد کہ چند اگرچہ بعض بعض جواں ، آزاد مزاج ، آوارہ طبع بھی ہیں اور بقول سعدی علیہ الرحمتہ کے : ’’در ایام جوانی چناں کہ افتد دانی‘‘ آوارہ مزاج اور لہو و لعب میںبھی مصروف ہیں اور بجز عشق بازی اور واہیات کے اور کچھ کام نہیں کرتے ۔ لیکن ا س پر بھی سب باتیں ایک حیا کے ساتھ ہیں اورٹٹی کے اوجھل شکار کھیلتے ہیں۔ ایں ہم غنیمت است کہ کچھ تو حیا ہے اور ہزاروں جوان سادہ اور نیک جو ایسے ہیں کہ باوصف جوانی اور عالم شباب کے مطلق واہیات کی طرف متوجہ نہیں اور وہ طریقہ سلامت روی اور نیک طیتی اختیا ر کیا ہے کہ دیکھنے سے تعلق ہے۔ غزل اے دہلی وائے بتاں سادہ پگ بستہ و ریشہ کج نہادہ خون خوردن شان بہ آشکار است گرچہ پنہاں خوراند بسادہ فرماں نہ برند زاں کہ ہستند از غایت ناز خود مرادہ نزدیک دل آں چناں کہ جاںرا برداشتہ گوشہ نہادہ جائے کہ بہرہ کنندہ گل گشت درکوچہ دمد گل پسیادہ آسیب صبا رسید بردوش دستار چہ بر زمین فتادہ شان در رہ عاشقاں بہ دنبال خون ناب ہ زدیدگاں کشادہ ایشاں ہمہ باد حسن در سر وینہا ہمہ دل بباد دادہ خورشید پرست شد مسلماں زیں کج کلہاں شوخ و سادہ کردند مردا خراب و سرمست ہندو بچگاں تاک زادہ سر بستہ شان بموئے مرغول خسرو جو سگیست در ملادہ اب میں بزرگان معاصرین علیہ الرحمتہ کا جن کی فیض خدمت سے میں مشرف ہو اہوں یا اس زمانے میں ان کے وجود باجود سے عالم کو رونق تھی۔ حال لکھتا ہوں۔ ۱۔ ذکر کبار مشائخین ؓ اجمعین ۱۔ جناب حضرت شیخ الشیوخ مولانا شاہ غلام علی قدس سرہ، میرا کیا معذور ہے کہ آپ کے کمالات ظاہری اور مقامات باطنی کا حال لکھ سکوں کیوں کہ حالات آپ کے اس سے سوا ہیںجو بیان ہو سکیں او رمقامات اس سے بہت ہیں جو لکھنے میںآوین ۔ سبحان اللہ علم اور عمل اور فضل و کمال اور تجربہ اور تجرد اور حلم و کرم اور سخاوت اتم اورایثار و انکسار آپ کی ذات پر ختم تھے ۔ جو کچھ آیا اور جس قدر ہوا سب نام اللہ صرف کیا اور کبھی کل کا غم نہ کیا۔ دن رات اللہ اور اللہ کے رسول کے ذکر میںبسر کی اور دنیا و مافیہا کی خبر نہ رکھی میں آپ کے کس کس کمال کا ذکر کروں۔ علم ایسا تھا کہ کاہے کو ہوتا ہے۔ زہد اور مجاہدہ ایساکہ بیان اس کا نہیں ہوسکتا۔ تقویٰ اور درع اس درجہ پرکہ سوا اس سے ممکن نہیں او ر پھر اس پر عجز ویساہی انکسار ویسا ہی ۔ اتباع سنت اس درجہ پر کہ اچھے اچھے لوگ وہاں قدم نہ رکھ سکیں۔ آپ کی صحت سے اس قدر فیض حاصل ہوتا کہ بیٹھ کراٹھنے کو جی نہ چاہتا۔ وطن اصلی آپ کا موضع دتالہ۱ ہے جو پنجاب کے ملک میں انبرسر (امرت سر) کے پاس واقع ہے او رآپ سادات علوی سے ہیں ۔ والد ماجد آپ کے بھی بڑے زاہد او رعابد تھے اور جنگلوں میںجا کر ذکر خیر کیا کرتے تھے اور مہینوں بناسپتی پرقناعت فرماتے تھے۔ آپ کے پیدا ہونے سے پہلے ایک دفعہ آپ کے والد ماجد نے جناب امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کو خواب میںدیکھا کہ فرماتے ہیں کہ تمہارے ہاں عنقریب لڑکا پیدا ہونے والا ہے اس کو میرے ہم نام کرن اور آپ کی والدہ ماجدہ نے کسی بزرگ کو دیکھا کہ انہوں نے عبدالقادر آپ کا نام رکھا اور آپ کے عم بزگوار نے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اشارت سراپا بشارت سے عبداللہ آپ کانام رکھا اور اسی سبب سے ۱۔ ضمیمہ مقامات مظہری میںآپ کی جائے ولادت پٹیالہ لکھی ہے (اسماعیل) آپ کا اصلی نام عبداللہ اور عرف غلام علی تھا ۔ سنہ ۱۱۵۶ ہجری ۱ میں آپ نے اس عالم قدوم فیض توام رکھا اور اپنے جمال جہاں آرا سے عالم کو منور کیا۔ بعضے شعراء نے آپ کی ولادت باسعادت کی تاریخیں بھی منظور کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے: چو نجم چرخ ہدی حضرت غلام علی شدہ ظہور فگن درجہاں ، جہاں بشگفت سن ولاد شریفش چو جست رافت دل مہہ سپہر ہدایت شدہ طلوع بگفت غرض کہ آپ نے سولہ برس کی عمر تک تو اسی نواحی میں بسر کی۔ سنہ ۱۱۷۴ ہجری میںآپ کے والد ماجدنے اس ارادہ سے دہلی میں بلوایا کہ اپنے پیر شاہ ناصر الدین قادری سے جن کا مزار نئی عید گاہ کے پیچھے ہے بیعت کردی جائے۔ آپ کے پہنچنے سے پہلے شاہ ناصرالدین صاحب نے انتقال کیا او ر جو اللہ تعالیٰ کو اور ہی کچھ پردہ غائب سے ظاہر کرنا تھا یہ بات نقاب خفاد حیز التواء میںرہی تب آپ کے والد ماجد نے اجازت و اختیار دیا کہ جس سے چاہو بیعت کرو ۔ سنہ ۱۱۷۸ ہجری ۲ میں بائیس برس کی عمر میں آپ نے جناب مرزا جان جاناں مظہر علیہ الرحمتہ سے بیعت کی اور یہ شعر پڑھا۔ از برائے سجدہ عشق آستائے یافتم سرزمینے بود منظور آسمانے یافتم بعد بیعت کے سالہا آپ نے پیر مرشد اپنے کی خدمت ۱۔ ضمیمہ مقامات مظہری میںآپ کی تاریخ ولادت ۱۱۵۸ ھ لکھی ہے ۔ ۱۱۵۶ ھ ۱۷۷۳ ء کے مطابق ہے اور ۱۱۵۸ ھ ۱۷۷۵ ء کے ۔ (اسماعیل) ۲۔ ضمیمہ مقامات مظہری میںسال بیعت ۱۱۸۰ ھ لکھا ہے ۔ (اسماعیل) میںاوقات بسر کی اور وہ زہدو مجاہدہ اور ریاضت کی کہ بیان نہیں ہو سکتا۔ دن بدن عروج و کمال اور مشاہدہ جمال شاہد بے زوال اور مکاشفہ اور ترقیات فائقہ ہوئی۔ یہاں تک کہ اپنے وقت کے شیخ الشیوخ اور صاحب ارشاد ہوئے او ر تلقین و ارشاد سلسلہ ر وبروئے اپنے پیر و مرشد کے جاری فرمایا ۔ اگرچہ آپ نے بیعت سلسلہ قادریہ میںکی تھی لیکن ذکر و اذکار وشغل و اشغال طریقہ علیہ نقشبندیہ مجددیہ میںجاری کیا اور ہر طریقہ کی اجازت حاصل کی اور اپنے پیر و مرشد کے انتقال کے بعد سجادہ نشین ہوئے اور حقیقت میں میرے اعتقاد بموجب اپنے پیر پر بھی فوق لے گئے ۔ سبحان اللہ کیا آزادی تھی کہ مطلق دنیا کا لگاؤ نہ تھا۔ اللہ اللہ کیا اطاعت سنت تھی کہ سر موبھی فرق نہ تھا ۔ توکل تو اس درجہ پر تھا کہ کبھی کسی طرح کا خیال دل میں نہ آتا ۔ امراء اور بادشاہ آرزو رکھتے تھے کہ ہم خانقاہ کے فقراء کے لیے کچھ وظیفہ مقرر کریں، ہر گز آپ منظور نہ فرماتے ۔ ایک دفعہ آپ امیر الدولہ امیر محمد خان ولی ٹونک نے بہت التجا سے درخواست تقرر وظیفہ کی اس کے جواب میں آپ نے صرف یہ شعر لکھ بھیجا۔ ما ابروئے فقر و قناعت نمی بریم با میرے خاں بگوے کہ روزی مقرر است آپ کی ذات فیض آیات سے تمام جہاں میں فیض پھیلا اور ملکوں ملکوں کے لوگوں نے ان کی بیعت اختیا رکی ۔ میںنے حضرت کی خانقاہ میںاپنی آنکھ سے روم اور شام اور بغداد اور مصر اور چین اور حبش کے لوگوں کو دیکھا کہ حاضر ہوکر بیعت کی اور خدمت خانقاہ کو سعادت ابدی سمجھے اور قریب قریب کے شہروں کا مثل ہندوستان اور پنجاب اور افغانستان کا تو کچھ ذکر نہیں کہ ٹڈی دل کی طرح امنڈتے تھے۔ سچ ہے۔ جو کعبہ قبلہ حاجت شد از دیا بعید روند خلق بدیدارش از بسی فرسنگ حضرت کی خانقاہ میںپانچ سو فقیر سے کم نہیںرہتا تھا اور سب کا روٹی کپڑا آپ کے ذمہ تھا اور باوجودے کہ کہیں سے ایک حبہ مقرر نہ تھا اللہ تعالیٰ غیب الغیب سے سب کام چلاتا تھا اس پر فیاضی او رسخاوت ا س قدر تھی کہ کبھی سائل کو محرم نہ پھیرا جو اس نے مانگا وہی دیا۔ جو چیز عمدہ اور تحفہ آپ کے پاس آتی اس کو بیچ کر فقراء پر صرف کرتے اور گنری گاڑھا موٹا جیسا تما م فقیروں کو میسر ہوتا ویسا ہی آپ بھی پہنتے اور جوکھانا سب کو میسر ہوتا وہی آپ کھاتے۔ بھلا غور کرو کہ بشر کی طاقت ہے کہ ایسی بات کر سکے کہ اگر کوئی عرض کرتا کہ حضرت آپ اپنے لیے تو یہ کپڑا لے لیجیے۔ اور یہ آرام کی چیز بنا لیجیے تو آپ یہ قطعہ پڑھا کرتے۔ قطعہ خاک نشینی است سلیمانیم ننگ بود افسر سلطانیم ہست بسے سال کہ می پوشمش کہنہ نہ شد جامہ عر یانیم اور اگر کبھی کچھ اسباب او رسامان اور سامان دنیا کاذکر آتا تو ارشاد فرماتے۔ حرص قانع نیست بیدل ورنہ اسباب جہاں ہر چہ ماداریم زاں ہم اکثری درکار نیست آپ کی اوقات شریف نہایت منضبط تھی ۔کلام اللہ آ پ کو حفظ تھا اور تحقیق قرات بھی بہت خوب تھی۔ نما ز صبح اول وقت ادا فرما کر دس سپارہ کلام اللہ کے ختم فرماتے اور بعد اس کے حلقہ مریدین جمع ہوتا اور تا نماز اشراق سلسلہ توجہہ استغراق جاری رہتا۔ بعد اد ا کرنے نماز اشراق کے تدریس حدیث اور تفسیر کی شروع ہوتی۔ جو لوگ اس جلسہ کے بیٹھنے والے ہیں۔ ان سے پوچھا چاہیے کہ اس میںکیا کیفیت ہوتی تھی اور پڑھنے پڑھانے ، سننے سنانے والوں کا کیا حال ہوتا تھا ۔ جہاں نام رسول خدا آتا آپ بے تاب ہوجاتے اور اس بے تابی میں حاضرین پر عجیب کیفیت طاری ہوتی تھی ۔ سبحان اللہ کیا شیخ تھے باقی باللہ اور عاشق رسول اللہ۔ علم حدیث اور تفسیر نہایت مستحضر تھا۔ اگر باعتبار علوم نقلی ۔ خاتم المحدثین والمفسرین تعبیر کیاجاوے تو بھی زیبا ہے اور اگر بہ اعتبار علوم عقلی سر آمد فلسفیان متقدمین اور متاخرین لکھا جاوے تو بھی بجا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیا مجمع علوم پید اکیا تھا کہ ہر ایک علم ظاہری اور باطنی میںدرجہ بے انتہا کما ل حاصل تھا ۔ بعد اس درس تدریس کے آ پ کچھ تھوڑا سا کھانا کہ عبادت معبود کو کافی ہو تناول فرما کر بہ اتباع سنت نبوی قیلولہ استراحت میں آرام کرتے۔ تھوڑی دیر بعد اول وقت نما ز ظہر ادا فرما کر پھر درس و تدریس حدیث و تفسیر و فقہ اور کتب تصوف میں مشغول ہوتے اور نما ز عصر تا نما زمغرب حلقہ مریدین جمع ہوتا اور ہر ایک آپ کی توجہ سے علو مدارج حاصل کرتا۔ ہمیشہ تما م رات آپ شب بیداری فرماتے تھے شاید کہ گھڑی د و گھڑی بمقتضائے بشریت غفلت آجاتی ہو سو وہ بھی جاء نما ز پر۔ برسوں آپ نے چارپائی پر استراحت نہیں فرمائی۔ اگر نیند کا بہت غلبہ ہوا یونہی اللہ اللہ کرتے پڑ رہے۔ آپ کی خانقاہ میںعجب عالم ہوتا تھا بوریا کا فرش رہتا تھا اور اسی کے سرے پر ایک مصلیٰ کبھی بوریا کا اور کبھی اور کسی چیز کا پڑا رہتا تھا اور وہیں ایک تکیہ چمڑے کا رکھا رہتا تھا ۔ آپ دن رات اسی مصلے پر بیٹھے رہتے او رعبادت معبود کیا کرتے اور سب طالبین گردا گرد آپ کے حلقہ باندھے بیٹھے رہتے او رہر ایک کو جدا جدا فیض حاصل ہوتا۔ اگر کبھی کچھ فرش فروش کا ذکر آتا تو آپ ارشاد فرماتے کہ لنگلکے زیر و لنگلکے بالا نہ غم دزد و نے غم کالا گز کی بوریا و پوستکی دلکی پر ز درد دوستکی ایں قدر بس بود جمالی را عاشق رند لا ابالی را حق یہ ہے کہ ایسا برشتہ جان شیخ دیکھنے میںنہیںآیا اور میں تو اس بات پر عاشق ہوں کہ باوجود اتنی آزادی اور خود رفتگی کے سر مو احکام شریعت سے تجاوز نہ تھا اور جو کام تھا وہ باتباع سنت تھا لقمہ مشتبہ سے نہایت پرہیز کرتے اور مال مشتبہ ہر گز نہ لیتے جو شخص خلاف شرح اور سنت ہوتااس سے نہایت خفاہوتے اور اپنے پاس اس کا آنا گوارا نہ کرتے اور فرماتے۔ قطعہ یامرو بایا رارزق پیرہن یا بہ کشن بر خانماں انگشت فیل یا مکن با پیل باناں دوستی یا بنا کن خانہ در خورد پیل میرے تمام خاندان کو اور خصوصا جناب والد ماجد کو آپ سے نہایت اعتقاد تھا او رمیرے جنا ب والد ماجد اور میرے بڑی بھائی جناب احتشام الدولہ سید محمد خاں بہادر مرحوم کو آپ ہی سے بیعت تھی اور آپ کی میرے خاندان پر ا س قدر شفقت اور محبت تھی کہ میرے والد ماجد کو اپنے فرزند سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ میرے والد ماجد بھی آپ کی صحت کی برکت سے آزاد مزاج اور ووارستہ طبع تھے کبھی کبھی بموجب اس مصرع کے۔ ع کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ کوئی بات گستاخانہ عرض کرتے یا کوئی حرکت آپ کیخلاف مرضی سرزد ہوتی تو آپ بارہا ارشاد فرماتے کہ اگرچہ میں نے اپنے تئیں غم زن و فرزند سے دوررکھا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہوئی کہ اس شخص کی محبت اپنے فرزندوں سے سوادے دی۔ جو چاہو سو کہو اور جو چاہو کرو۔ میںہر روز آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور آپ اپنی شفقت اور محبت سے مجھ کو اپنے پاس مصلے پر بٹھا لیتے اور نہایت شفقت سے فرماتے ۔ لڑکپن میںکچھ تمیز توہوتی نہیں خصوصا صغر سن میںجو چاہا سو کیا جو چاہتا سو کرتا اور حرکات بے تمیزانہ مجھ سے سر زد ہوتیں اور اپ ان سب کو گوارا فرماتے ۔ میںنے اپنے دادا کو تو نہیں دیکھا آپ ہی کو داد حضرت کہا کرتا تھا ۔ آپ کے کمالات اور خرق عادات اس سے زاید کہ بیان میںآویں اس واسطے اس مختصر میں اس کی گنجائش نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ایسے شخص کی کرامت کابیان کرنا اس کے رتبہ سے کم ہے ۔ کیوں کہ فقیری کا رتبہ اس سے آگے ہے۔ غرض کہ سالہا سال تک آپ کی ذات گرامی آیا ت سے یہ عالم منور رہا او رجو کہ ہر ایک کو اس دارلفناء سے دارالبقا کو چلنا ہے آپ نے بھی ہفتہ کے دن صفر کی بائیسویں سنہ ۱۲۴۰ ہجری ۱ میں ا س جہاں سے انتقال کیا اور آپ کی خانقاء میں آپ کے پیر کے پہلومیں دفن کیا۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ نور اللہ مضجعہ۔ آپ کے انتقال کی تاریخ ہے۔ آپ نے وصیت ۱۔ عیسوی سن ۱۸۳۴ء تھا۔ (اسماعیل) فرمائی تھی کہ جس طرح خواجہ بزرگ نقشبند (۱) علیہ الرحمتہ کے جنازہ پر یہ شعر پڑھے گئے تھے اس طرح میرے جنازے پر بھی پڑھے جاویں اور وہ شعر یہ ہیں۔ مفلسا نیم آمدہ درکوئے تو شئی اللہ از جمال روئے تو دست بکشا جانب زنبیل ما آفریں بر دست و بر بازوئے تو اور آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ دو شعر عربی اور فارسی بھی میرے جنازہ پر بہ الحان خوش پڑھنا۔ شعر عربی وفدت الی الکریم بغیر زاد من الحسنات والقلب السلیم فان الزاد اقبح من قبیح اذا کان الوفود الی کریم اشعار فارسی بر سر خاک من بیا نغمہ ز عشق بر سرا کذ جذبات عشق تو نعرہ ز خاک بر زنم بعد ہزار سال اگر بر لحدم گذر کی مشک شود غبار من روح شود ہمہ تم جس وقت یہ اشعار پڑھے جاتے ہزارہا آدمی حاضر تھے اور سب لوگ بہ ہائے ہائے روتے تھے اور عجب لطف اور فیض اور کیفیت تھی ۔ آپ کے ملفوظات بھی بہت خوب خوب ہیں۔ ان میںسے ایک یہ بھی ہے کہ آپ فرما کرتے تھے کہ فقیری میں چار چیزیں چاہئیں ۔ دو ٹوٹے دو ثابت ۔ ہاتھ پاؤں تو ٹوٹے اور دین و یقین ثابت۱۔ ۲۔ جناب حضرت مولانا شاہ ابو سعید نور اللہ مضجعہ آ پ شاہ غلام علی صاحب کے خلیفہ اعظم ہیں اور آ پ کے انتقال کے بعد آپ ہی سجادہ نشین ہوئے تھے لیکن اس بات کو بھی خیال کر لو کہ آپ حضرت مجدد کی اولاد میںہیں جو حضرت شاہ صاحب کے پیران پیر تھے اور واقع میں حضرت شاہ صاحب بھی آپ کو ویسا ہی سمجھتے تھے اور نہایت تعظیم وتکریم فرماتے تھے۔ نسب آپ کا حضر ت مجدد تک اس طرح پہنچتا ۱ ہے کہ شاہ ابو سعید بیٹے حضرت صفی اللہ کے اور حضرت صفی اللہ بیٹے حضرت عزیز القدر کے اور حضرت عزیز القدر بیٹے حضر ت محمد عیسیٰ کے اور حضرت محمد عیسیٰ بیٹے حضرت سیف الدین کے اور حضرت سیف الدین بیٹے حضرت خواجہ ۱۔ آپ کے مزید سوانحی حالات کے لیے کتب ذیل ملاحظہ فرمائیں۔ (۱) تذکرہ علمائے ہند مترجمہ محترمی و مکرمی جناب محمد ایوب صاحب قادری ایم۔اے پروفیسر اردو کالج کراچی ص ۳۶۴۔ (۲) ضمیمہ مقامات مظہری مولفہ حضرت شاہ عبد الغنی مرید و خلیفہ شاہ غلام علی س ا۔ ۳۸ (۳) حکایات شریفہ از حضرت شاہ غلام علی ص ا۔۴۔ (۴) واقعات دارلحکومت دہلی جلد دوم مولفہ مولوی بشیر الدین فرزند مولوی نذیر احمد ص ۱۵۳ ۔ ۱۵۵۔ (۵) برکات اولا ص ۱۸۵ ۔ (۶) گلزار اولیاء ص ۴۷۔ ۵۴ ۔ (۷) تذکرہ اولیائے ہند و پاکستان ص۴۶۱ ۔۴۶۷۔ (۸) انوار العارفین ا زمولوی حبیب اللہ قنوجی ص ۴۷۔ ۴۸۔ (۹) رود کوثر ا زشیخ محمد اکرام ص ۶۴۳۔ ۶۵۳۔ (۱۰) علم و عمل مترجمہ مکرمی محمد ایوب صاحب قادری ایم۔ اے ۔ جلد اول ص ۲۶۳۰ ۔ (۱۱) نزہۃ الخواطر بہجۃ المسامح والنواظر از مولوی عبدالحی جلد ۷ ص ۳۵۶۔ (۱۲) خزینۃ الاولیاء از مفتی غلام سرور جلد اول ص ۶۹۳۔ ۶۹۸ ۔ (۱۳) جواہر علویہ از روؤف احمد۔ (۱۴) حالات مشائخ نقش بندیہ ص ۳۰۸۔ محمد معصوم کے اور حضرت خواجہ محمد معصوم بیٹے مجدد الف ثانی کے ، رحمتہ اللہ علیہم اجمعین اور حضرت مجدد شیخ فاروقی ہیں بہ شرافت اور علو مرتبہ تو از روئے نسب کے تھا اورعلاوہ اس کے صفات ذاتی اور کمالات ظاہری اور باطنی ایسے تھے کہ جن کا کچھ حد و حساب نہیں حافظ کلام اللہ او رعاشق رسول اللہ اورعلوم دینی آپ کوبہت مستحضر تھے اور دن رات انہیں کے درس میں گذرتے تھے۔ علم قرات میں یکتائے روزگارتھے۔ کلام اللہ ایسی خوش آواز اور کمال قرات سے پڑھتے کہ لوگ دور دور سے سننے آتے ۔ پہلے پہل تو آپ نے مولانا شاہ درگاہی صاحب علیہ الرحمتہ سے کہ بڑے اولیائے وقت تھے۔ سلسلہ قادریہ میںبیعت کی تھی اور نسبت باطن بخوبی حاصل کرکے پیری مریدی کی اجازت لی تھی لیکن اپنے خاندان کی نسبت نے زور کیا اور اسی نقشبندیہ کی طرف کھینچا کہ آپ نے دوبارہ حضرت شاہ غلام علی صاحب سے سلسلہ نقش بندیہ مجددیہ میںبیعت کی اور از سرنو تمام مقامات کو حاصل کیا۔ آپ کی شکل و شمائل بہت نورانی تھی بے اختیار آپ کی صحبت میںحاضر رہنے کو دل چاہتا اورجب تک بیٹھے وسوسہ شیطانی ایک نہ آتا ۔ اوقات آپ کی بعینہ حضرت شاہ صاحب کی تھی ۔ صرف خالصا اللہ مشق خط نسخ کلو خان صاحب سے کی اور کلام اللہ لکھ لکھ کر وقف کیے۔ اگرچہ تعلقات ظاہری مثل زن و فرزند آپ کے حضرت شاہ صاحب کی نسبت زائد تھے لیکن ویسی ہی بے تعلقی حاصل تھی ۔ یاہمہ اور بے ہمہ سے بھی کچھ زیادہ رکھا تھا۔ اتباع سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدرجہ کمال تھا۔ کوئی بات خلاف سنت نہ کرتے او رہر دم پیروی سنت ہی کا خیال رکھتے ۔ اخلاق محمدی اس وسعت سے تھا کہ ہر شخص ملنے والا بھی جانتا تھا کہ جیسی عنایت اور شفقت آپ کو میرے حال پر ہے اس سے سوا دوسرے پر نہیں۔ حقیقت میں تواضح کو بدرجہ کمال پر پہنچانا تھا اور سخاوت کو حد سے زیادہ اختیار کیا تھا۔ حضرت شاہ صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے کہ مجھ کو ابو سعید سے فخر ہے میں نے اگر فقیری کی تو کیا کسی کا کچھ غم نہیں رکھتا۔ ابو سعید کو دیکھو کہ با وصف علائق دنیاوی کے کیسا اپنے معبود کی عبادت میں مصروف ہے کہ گویا مطلق کچھ تعلق ہی نہیں رکھتا۔ آپ کی صحبت سے ہر شخص کو ایک فیض تھا اور اجماع خاطر اور توجہ الی اللہ حاصل ہوتا واہ واہ طریقہ پیر کو خوب نباہا، بلکہ اس سے بھی ایک آدھ قدم آگے رکھا آپ کی ذات سے بھی ہزار ہا آدمیوں کو فیض ہوا اور طرح طرح کا فیض ہر ایک کو آپ سے ملا بعد انتقال شاہ صاحب کے آپ ان کی جگہ مسند ارشاد پر بیٹھے اور مالہا سال لوگوں کو آپ کے فیض صحبت سے علو مراتب اور کمال مدارج حاصل ہوئی کہ اسی اثناء میں محبت رسول مقبول علیہ الصلواۃ والسلام نے بہت غلبہ کیا اور آپ نے زیارت حرمین شریفین کا ارادہ کیا اللہ نے وہ ارادہ بھی پورا کیا اور حج اور زیارت مدینہ منورہ نصیب ہوئی۔ بر وقت مراجعت کے یہ مقام ٹونک آپ کا انتقال ہوا آپ کے لاشہ مبارک کو دلی میں لا کر خانقاہ میں حضرت شاہ صاحب کے پہلو میں دفن کیا ولادت آپ کی سنہ 1192 ہجری میں ہوئی اور یہ مصرع تاریخ ولادت ہے۔ مصرع حافظ و عالم و ولی بادا وفات آپ کی سنہ 1250ہجری میں عید کے دن ہفتہ کو ہوئی اور بنور اللہ مضجعہ آپ کی وفات کی تاریخ ہے اور یہ قطعہ بھی تاریخ وفات میں ہے قطعہ۔ امام و مرشد ما شاہ بو سعید سعید بعید فطر چوشد واصل جناب خدا ولی شکستہ و مغموم گفت تاریخش ستون محکم دین نبی فتادہ زپا1؎ 3جناب حضرت مولانا شاہ احمد سعید صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ آپ شاہ ابو سعید صاحب کے بڑے بیٹے اور جانشین ہیں کمالات آپ کے اس سے سوا ہیں جو بیان میں آویں اور صفات آپ کی اس سے بہت ہیں جو کہی جاویں۔ حافظ کلام اللہ ہیں اور مطیع سنت رسول اللہ۔ اپنے پیروں کی طرح سلسلہ ارشاد و تلقین اور توجہ اور استغراق جاری ہے اور حق پوچھو تو اب انہیں کی ذات فیض آیات سے خانقاہ کو رونق ہے علم حدیث و فقہ و تفسیر بدرجہ کمال حاصل ہے دن رات مشغلہ درس و تدریس جاری ہے۔ مسائل دینی آپ کے فیض سے حل ہوتے ہیں اور فتویٰ شرع شریف 1 شاہ ابو سعید عمری دہلوی2 ذی قعدہ 1192 ھ (مطابق1780ئ) کو رام پور میں پیدا ہوئے تعلیم کے بعد1225ھ (مطابق1810ئ) میں حضرت شاہ غلام علی کی خدمت میںدہلی حاضر ہو کر بیعت کی 1239ھ (مطابق1823ئ) میں حج کو گئے وہاں سے واپسی پر ٹونک میں یکم شوال 1250ھ بروز عید الفطر انتقال فرمایا۔ عیسوی سن1835ء تھا ہدایۃ الطالبین، مرقاۃ السالکین، اربع النہار اور رفیق الطلاب آپ کی تصنیفات ہیں تذکرہ علمائے ہند مرتبہ محمد ایوب صاحب قادری ایم اے صفحہ75) حدائق الحنفیہ، تذکرہ کاملان رام پور، علم و عمل، یادگار دہلی، واقعات دار الحکومت دہلی، تذکرہ اولیائے ہندو پاکستان، مفتاح التواریخ، نزہۃ الخواطر جلد ہفتم، البانع الجنی، خزینۃ الصفیاء جلد اول، انوار العارفین، مزارات دہلی اور حدیقۃ الاولیاء میں آپ کے حالات مذکور ہیں (محمد اسماعیل پانی پتی) آپ کی مہر سے مسجل کیے جاتے ہیں ۔ قدم بہ قدم اپنے بزرگوں کے طریقے پر چلتے ہیں اور اپنے پیروں کا طریقہ برتتے ہیں نسبت باطنی بہت مستحکم ہے سینکڑوں آدمی آپ کے فیض توجہ سے مقامات مشکلہ سے نکلتے ہیں اور مدارج اعلیٰ کو پہنچتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے بزرگ کو سلامت رکھے جس سے خاندان مجددیہ قائم ہے آمین ثم آمین ولادت آپ کی سنہ 1217 ھجری میں ہوئی ہے اور ’’ مظہر یزداں‘‘آپ کی ولادت کی تاریخ ہے 1؎ اگرچہ عمر شریف چھیالیس مرحلہ سنین طے فرمائے ہیں۔ لیکن مدارج کمال کے ہزار در ہزار طے ہوئے ہیں۔ آپ نے بھی جناب حضرت شاہ غلام علی صاحب سے بیعت کی ہے اور انہیں سے خلافت پائی ہے لیکن آپ نے جناب والد سے بہت سا فیض حاصل کیا ترقی در ترقی پائی اور ان سے بھی خلافت حاصل کی اب ان کے انتقال کے بعد آپ ہی سجادہ نشین ہیں اور ارشاد و تلقین میں مصروف اللھم متع المسلمین بطول حاتہ وضاعف مدارج المومنین بطول بقائہ2؎ 4جناب حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ آپ بھی جناب شاہ ابو سعید صاحب کے فرزند اور ارجمند ہیں اور حقیقت میں فخر خاندان ہیں آپ کا طور ہی جدا ہے اور رنگ ڈہنگ ہی نرالا ہے آپ بھی حافظ کلام اللہ ہیں اور عالم احادیث رسول اللہ ولادت آپ کی شعبان سنہ 1234ہجری3؎ میں ہفتہ کے 1عیسوی سنہ 1802ء تھا (اسماعیل) 2آپ کی تاریخ وفات معلوم نہیں ہو سکی۔ (اسماعیل) 3 عیسوی سن 1819 ء تھا دن عشاء کے وقت ہوئی خورد سالی ہی میں جناب حضرت شاہ غلام علی صاحب آپ کو توجہ دیا کرتے تھے۔ جب بڑے ہوئے اپنے والد ماجد سے بیعت کی اور طرح طرح کا فیض حاصل کیا۔ بعد ان کے انتقال کے جناب مرزا شاہ غفور بیگ صاحب سے کہ بڑے خلفائے حضرت شاہ غلام علی صاحب سے تھے اور قوۃ نسبت بدرجہ کمال رکھتے تھے ہزار در ہزار فیض حاصل کیے۔ اوقات آپ کی ایسی خوب ہے کہ اگلے زمانہ کے اچھے اچھے دین دار لوگوں کی بھی شاید ایسی ہی ہو گی۔ مسجد میں بیٹھے رہنا اور طریقہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو برتنا دن رات آپ کا کام ہے خوشا حال اس شخص کا کہ جو اپنے نبی کے طریقہ کو برتے اور دنیا و ما فیہا سے خبر نہ رکھے۔ اس قدر اتباع سنت اختیار کیا ہے اگر آپ کو آسمان و زمین کے رہنے والے محی السنۃ و قامع البدعۃ کہہ کر پکاریں تو بجا ہے ان کے نزدیک سوائے انحراف کم تر حکم شریعت کے سخت سے سخت کوئی مصیبت نہیں ارتکاب اس امر خلاف سنت کا جس کو ہم کم بختلوگ بال سے کم جانتے ہیں ان کے نزدیک امر محال ہے اس تقویٰ اور درع کو خیال کروکہ صرف اس خیال سے کہ ہندوستان میں جو طریق بیع و شرا بعض بعض فواکہ وغیرہ کا جاری ہے وہ از روئے شرع شریف کے درست نہیں۔ ان چیزوں کے مزہ سے واقف نہیں۔ جب کوئی ایسا کرے تو معلوم ہو میری زبان نہیں جو میں آپ کی ادنیٰ سے ادنیٰ صفت کی تعریف کر سکوں۔ صرف اتباع سنت کے لیے ہزار ہا نعمت دنیائے دوں پر لات ماری اور گوشہ نشینی اختیار کی ملاقات اور مکالمات میں ہر گز پیروی سنت کی نہیں چھوڑتے اور ادنیٰ سنت کے ترک سے کسی چیز کو برا نہیں جانتے فنا فی السنۃ اور محو فی الشریعت اور شہسوار میدان طریقت اگر پوچھو تو آپ کی ذات فیض آیات ہے۔ پس جس شخص کا ادنیٰ ادنیٰ باتوں میں یہ حال ہو تو پھر خیال کرو کہ بڑی بڑی باتوں میں کیا درجہ احتیاط اور کیا رتبہ ارتقاء ہو گا۔ اللھم بارک فی عمرہ و ارفع درجتہ فی الدارین آمین یا رب العالمین1؎ 5 شاہ محمد آفاق طاب ثراہ آپ کے کمالات اور مجاہدہ اور زہد اور مکاشفہ تمام عالم میں مشہور ہیں۔ آپ بھی اس زمانے کے بڑے ولی اللہوں میں سے تھے نسبت باطنی اس قدر قوی تھی کہ بڑے بڑے صاحب نسبت اس کے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے مقامات فقیری بہت صاف تھے نسبت الی اللہ بہت درست تھی پیروی سنت رسول مقبول نہایت مد نظر رکھتے تھے۔ مسکینی اور شکستگی بدرجہ کمال حاصل تھی۔ اپنے تئیں بھی مثل اور نقش و نگار دیوار تصور فرمایا کرتے تھے نسب آپ کا بھی حضرت مجدد الف ثانی تک پہنچتا ہے اور آپ بھی حضرت مجدد کی اولاد میں ہیں حضرت خواجہ ضیاء الدین صاحب سے کہ بڑے زبردست فقیر تھے سلسلہ مجددیہ میں آپ نے بیعت کی تھی اور کمال مدارج حاصل کر کے اجازت پیری و مریدی کی حاصل کی تھی اور اپنے پیر کے انتقال کے بعد ان کے سجادہ نشین ہوئے اور ان کے اشعار سے آپ کا سلسلہ بخوبی معلوم ہو گا اشعار 1غدر 1857ء کے بعد آپ ہجرت کر کے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور مدینہ منورہ میں اقامت اختیار فرمائی سر زمین دہلی کا یہ گوہر نایاب دیار محبوب ؐ ہی میں اپنے مولا کو پیار ہوا۔ تاریخ وفات1292ھ مطابق1878ء ہے۔ ان کے مزید حالات کے لیے کتب ذیل ملاحظہ فرمائیں۔ حدائق الحنفیہ، نزہۃ الخواطر جلد7، خزنیۃ الاصفیاء جلد اول اور ابجد العلوم وغیرہ مولانا حالی نے بھی ان کی شان میں ایک عربی قصیدہ لکھ کر ان کو بھیجا تھا (اسماعیل) ہادی آفاق وانفس مثل اصحاب نبی آں ضیاء اللہ زبیر و نقش بند متقی خواجہ معصوم است و احمد خواجہ باقی خواجگی خواجہ درویش و محمد زاہد اصرار ولی خواجہ یعقوب، بہاء الدین، دیگر پیر کلال خواجہ با باداں دگر میر علی راتینی خواجہ محمود است عارف خواجہ عبدالخالق است خواجہ یوسف بعد شیخ فارمد آں بو علی بو الحسن پس با یزید و جعفر صادق بود قاسم و سلیمان ابو بکر و رسول ہاشمی اور علاوہ اس کے آپ کو سب سلسلوں میں اجازت پیری اور مریدی کی حاصل تھی آخر کو یہی مضمون صادق آیا کہ ع نفس فنا سو فنا ہو گیا۔ یعنی محرم سنہ 1251ہجری 1؎ کی ساتویں کو بدھ کے دن نماز مغرب کے بعد آپ نے اس جہان فانی سے عالم جاودانی کو رحلت فرمانی انا للہ وانا الیہ راجعون جمعرات کے دن آپ کو مغل پورہ میں دفن کیا۔ خواجہ بہاء الدین احمد صاحب نے جو بڑے بیٹے خواجہ علاء الدین احمد صاحب کے ہیں یہ شعر تاریخ وفات میں نظم کیا۔ از سر یاس گفت اہل جہاں شاہ آفاق رفت از دنیا 1عیسوی سنہ کے لحاظ کے آپ کی وفات5 مئی 1853 ء کو ہوئی (اسماعیل) 6حاجی علاء الدین احمد سلمہ اللہ تعالیٰ آپ شاہ آفاق صاحب کے خلیفہ اور سجادہ نشین ہیں اور حقیقت میں اپنے پیر کی نشانی ہیں اس زمانہ میں ایسے لوگوں کا ہونا مغتنمات سے ہے۔ ایسے لوگ کاہے کو پیدا ہوتے ہیں۔ تمام عمر فقیری میں صرف کی اور دنیا و ما فیہا سے خبر نہ رکھی۔ سچ ہے کہ السعید من سعد فی بطن امہ چھٹ پن سے آپ کو فقیری کا شوق تھا سولہ برس کی عمر میں بیعت کی اور طرح طرح کے زھد اور مجاہدہ کیے اور اپنے پیر کی خدمت میں ہمیشہ سفر اور حضر میں حاضر رہے۔ آپ کا نسب حضرت خواجہ یوسف ہمدانی سے ملتا ہے۔ توکل علی اللہ اور عشق رسول اللہ ہر وقت آپ کے برتاؤ میں ہے۔ عالم جوانی میں حج خانہ کعبہ ادا کیا اور زیارت روضہ منورہ رسول مقبول علیہ الصلواۃ والسلام حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین اب سن شریف آپ کا نوے برس کے قریب ہے۔ آنکھوں سے معذور ہیں اور پاؤں سے اٹھ نہیں سکتے۔ طاقت طاق ہے مگر ہر دم شغل جاری ہے اور صوم و صلواہ قائم سبحان اللہ کیا لوگ ہیں کہ کسی حالت میں اپنے معبود کی یاد سے غافل نہیں۔ غور کرو کہ جس شخص نے اپنا لڑکپن اور جوانی اور بڑھاپا صرف اللہ کی یاد میں صرف کیا ہو اس کو کیا علو مدارج حاصل ہوئے ہوں گے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو سلامت رکھے۔ 7 فخر الملت والدین مولانا محمد فخر الدین علیہ الرحمۃ سلالہ عظام زبدہ کرام، سر گروہ مقبولان بارگاہ صمدیت پیش رو تیز قدمان سالک عرفان احدیث، قدرہ شارعان شرع مبین مولانا محمد فخر الملۃ والدین آنحضرت با برکت کے مقامات اور خوارق اور کرامات لا تعداد لا تحصیٰ ہیں خامہ خام رقم طاقت نہیں رکھتا کہ ان کے شمار میں تکلیف مالا یطاق کو آپ نے اوپر گوارا کرے خلاصہ احوال ہدایت مال ان سرگروہ اہل قال اور پیشوائے ارباب حال کا یہ ہے کہ آپ کے والد بزرگوار مولان نظام الحق والملتہ والدین ساکن موضع مکراون ہیں کہ مضافات لکھنو سے ہے نسب آپ کا حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی تک پہنچتا ہے اور والدہ ماجدہ آپ کی زبدہ اولاد حضرت مخدوم سید محمد گیسو دراز سے ہیں اگرچہ مولد جناب موصوف کا اورنگ آباد ہے لیکن یمن قدوم میمنت نروم سے خاک دار الخلافت شاہجہاں آباد حرسا اللہ عن الفساد کی حضرت کے نفس واپسیں تک کنگرہ عرش بریں پر ناز کرتی رہی۔ والد ماجد حضرت مرحوم مغفور کے اوائل حال میں اورنگ آباد سے دلی میں وارد ہوئے اگرچہ اول میں فقط تحصیل علوم رسمی مد نظر تھی لیکن جو کہ خواستہ تقدیر اور مشیت کردگار قدیر یہ تھی کہ ان کا خاندان ارشاد حقائق معارف کے ساتھ موصوف ہو۔ حضرت فانی فی اللہ باقی باللہ حضرت شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی قدس سرہ العزیز کی خدمت میں جن کا سلسلہ حضرت نصیر الدین چراغ دہلی تک پہنچتا ہے فائز ہو کر شرف بیعت سے مشرف ہوئے از بس کہ ذات فائض البرکات ان کی جامع کمالات صوری و معنوی تھی تحصیل علوم ظاہری اور باطنی کی انہیں کی خدمت میں کر کر منصب خلافت سے سرفراز ہوئے اور آخر الامر معاودت کی اجازت پا کر اورنگ آباد کو تشریف لے گئے اور سالہا خلق کو فیض باطنی کی طرف ہدایت فرمائی اور سنہ 1142ھ میں عالم بقا کو راہی ہوئے۔ حضرت با برکت جناب جنت ماًب مولانا فخر الملتہ قدس سرہ نے اپنے پدر والا اقتدار کی خدمت میں علوم ظاہری اور باطنی کو تحصیل کر کے مرتبہ خلافت حاصل کیا اور بعد اس کے چند سال نواب نظام الدولہ ناصر جنگ اور ہمت یار خاں کی سرکار میں بسر کی اور وہاں بھی ان کے انفاس متبرکہ کی برکت سے بہت گم گشتگان بادیہ ضلالت نے راہ ہدایت کی از بس کہ قدیم الایام سے تعلق پر ترک غالب تھا وہاں سے دل برداشتہ ہو کر اجمیر شریف کی طرف تشریف فرما ہوئے اور چندے مزار مبارک قدوہ و اصلان بارگاہ ذوالجلال قطب الاقطاب خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے وسیلہ سے وہاں کا قیام اختیار کیا اور بعد اس کے سنہ احد جلوس احمد شاہی میں کہ مطابق سنہ 1160 نبوی کے تھا شاہجہان آباد میں تشریف لائے ان کی ہدایت و ارشاد سے ایک خلق بہرہ مند اور سعادت یاب ہوئی اور یہ عجب کرامت حضرت کی ذات فائض البرکات سے ظاہر ہوئی کہ آپ کے خلفائے باصفا اطراف ہندوستان میں باعث نجات سر گشتگان روزگار اور ہادی گمراہان تبہ کار ہوئے۔ چنانچہ اس زمانے میں نواح پاک پٹن میں حضرت شاہ سلیمان جن کا شہرہ قاف سے قاف تک پہنچا ہے۔ آپ ہی کے خلفا میں سے ہیں کہ ان کی برکت سے ہزار ہا خلق کو ہدایت اور فیض باطن نصیب ہوا اور از بس کہ حضرت ممدوح مقبول خدائے لا یزال تھے۔ خلق اللہ میں بھی ایسا قبول خاطر بہم پہنچایا کہ گروہا گروہ حصول نجات اور تحصیل ہدایت کے واسطے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور آپ کے ارشاد کو مانند حکم وحی کے راست اور درست جانتے جتنے امرائے ذوی الاقتدار اور سلطان عہد تھے آپ کی بیعت سے مشرف ہو کر آپ ہی کی خاک در کو وسیلہ آبرو اور آپ ہی کے غبار آستاں کو تاج عزت و اعتبار سمجھتے تھے لیکن سبحان اللہ نشان مقبولیت یہ ہے کہ حضرت باوجود اس ہجوم ارباب دنیا کے ہر ادنیٰ کے ساتھ وہ خلق محمدی خرچ کرتے کہ ان کا بیان خامہ راقم کی مجال نہیں۔ باوجود اس کمالات ظاہری اور باطنی کے ادنیٰ دنیاداروں کی نظر توجہ کے فیض سے ہزار درویش با کمال پر شرف رکھتا تھا۔ آپ سادہ وضعی کے ساتھ رہتے اور لباس درویشانہ وجبہ اور عمامہ فقیرانہ کے چنداں مقید نہ ہوتے۔ کیا خوب کہا شیخ شیراز علیہ الرحمۃ والغفران نے حاجت بہ کلاہ ترکی داشنت نیست درویش صفت باش و کلاہ تتری دار کتاب ’’ نظام القائد‘‘اور’’ رسالہ مرجیہ‘‘اور ’’ فخر الحسن‘‘حضرت کی تالیفات سے ہے۔ ان کا لکھنا آپ کی ممارست علمی پر دلیل قاطع اور برہان ساطع ہے۔ سن شریف تہتر تک پہنچا اور199 ہجری 1میں عالم بقا کو راہی ہوئے۔ خورشید دو جہانی آپ کی رحلت کی تاریخ ہے مزار آپ کا متصل دروازہ چار دیواری مرقد مبارک حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی (تغمدہ اللہ بغفرانہ) کے واقع ہے اور اس کا ذکر باب اول میں ہو چکا۔ ہر چند راقم نے مسلک یہ اختیار کیا تھا کہ جن بزرگوں کی خدمت میں خود پہنچا یا ان کے جمال با کمال سے اپنی نگاہ کو مشرف کیا ان کا حال اس تذکرہ میں مندرج کرے اور ان حضرت کے زمانہ سے اس عہد تک بہت فاصلہ ہے لیکن چوں کہ ان کے خاندان کے احوال سے مزین کرنا اس کتاب کا مد نظر تھا، کثرت عقیدت اور ارادت نے نہ چاہا کہ حضرت کے احوال کمالات اشتمال کے ساتھ زبان قلم کو گویا نہ کرے۔ 8 جناب مولانا قطب الدین علیہ الرحمۃ حضرت موصوف کے فرزند ارجمند ہیں اور حضرت کی وفات کے 1عیسوی سنہ 1784ء تھا (اسماعیل) بعد مسند خلافت پر متمکن رہے۔ آپ کی تعریف و توصیف لکھنے کی کچھ حاجت نہیں۔ یہی کافی ہے کہ ایسے چمن کے نونہال اور ایسے نونہال کے ثمر تھے۔ اصل و فرعی را کہ بینی حاصل یک ماہد اند آفتاب و پرتوش از ہم جدا نتواں گرفت سترہویں ماہ محرم الحرام سنہ 1200ہجری 2؎ میں عالم فانی سے ملک بقا کی طرف راہی ہوئے اور مزار مبارک خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمۃ کے جوار میں مدفون انا للہ وانا الیہ راجعوان 9 جناب حاجی غلام نصیر الدین عرف کالے صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ آپ جناب حضرت مولانا قطب الدین صاحب کے فرزند ارجمند ہیں۔ محامد آپ کے حیز تحریر اور حیطہ تقریر سے باہر ہیں۔ اخلاق اس وسعت سے ہے کہ جس کا کچھ بیان نہیں ہو سکتا مسکینی اس درجہ پر ہے کہ اس کا اظہار نہیں کر سکتا۔ اوقات آپ کی بہت خوب اور حرکات آپ کے نہایت محبوب، ہر دم و ہر لحظہ وظیفہ سے خالی نہیں رہتے۔ بات کرنی بھی آپ کو گویا مشکل ہوتی ہے جب کوئی کچھ پوچھے اس کا جواب لاچار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس وقت ظاہر میں زبان شغل سے باز رہتی ہے لیکن دل اسی طرح مشغول حق رہتا ہے۔ اس زمانہ میں ایسا نامی گرامی شیخ نہیں ہے حضور والا اور تمام سلاطین اور جمیع امراء عظام آپ کے نہایت معتقد ہیں جس مجلس میں آپ تشریف لاتے ہیں ہر شخص بے اختیار دوڑتا ہے اور قدموں پر گرتا ہے اور اپنی سعادت 2عیسوی سنہ 1785ء تھا(اسماعیل) ابدی سمجھتا ہے تھوڑی مدت ہوئی کہ آپ پر شوق الٰہی غالب ہوا اور اپنے دادا کے فیض حاصل کرنے کو دل چاہا۔ اگرچہ وہ فیض سینہ بسینہ اپنے والد ماجد مرحوم سے پایا تھا لیکن یہ شوق ایسا ہے اور یہ نعمت وہ ہے کہ طالب اس کا بس نہیں کرتا جتنا دیتے جاؤ اتنا ہی مانگتا ہے۔ آپ نے اختیار کیا اور زیارت حرمین شریفین سے مشرف ہوئے اور پاک پٹن میں تشریف لے گئے اور شاہ سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوئے کہتے ہیں کہ شاہ سلیمان صاحب اس بات کو نہایت غنیمت سمجھے اور ان کے قدوم میمنت لزوم سے ہزار ہا فخر کیے۔ چند گروہ استقبال کو آئے اور با عزاز و اکرام لے گئے۔ چند مدت آپ نے وہاں تشریف رکھی اور جو کچھ فیض اور برکات اپنے دادا صاحب کے تھے ان کو پھر تجدید کیا اور رخصت ہو کر شاہجہاں آباد میں تشریف لائے کہ اب یہیں رونق افروز رہیں سن شریف آپ کا پچاس سے متجاوز ہے۔ صحبت آپ کی غنیمت ہے اللہ تعالیٰ ایسے بزرگان حق پرست کو سلامت رکھے۔1؎ 10خواجہ محمد نصیر رحمۃ اللہ علیہ آپ کے صفات حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ اس سے سوا ہیں جو جو لکھنے میں آویں اور اس سے بہت ہیں جو کہے جاویںآپ نواسہ ہیں خواجہ میر درد علیہ الرحمۃ کے جو بڑے نامی مشائخ تھے اور ان کا نام تمام عالم میں مشہور ہے ولادت آپ کی سنہ 1189 ھجری2؎ میں ہوئی اور ابتداء سے طالب خدا ہوئے۔ 1آپ کی تاریخ وفات15صفر1262 ھ ہے (تذکرۃ الفقراء صفحہ20 )عیسوی سنہ 1846ء تھا۔ (اسماعیل) 2 عیسوی سنہ 1775ء تھا (اسماعیل) چھٹ پن ہی میں حضرت خواجہ میر درد علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر رہتے اور توجہ لیتے۔ بلکہ اسی زمانہ میں خواجہ میر درد علیہ الرحمۃ سے بیعت کی تھی جب کہ آپ کا سن شریف دس برس کا ہوا خواجہ میر درد علیہ الرمہ نے وفات پائی اور درد جدائی کا آپ کے نصیب ہوا۔ آپ ہمیشہ اپنے پیر کی جدائی میں دل شکستہ اور جاں خستہ رہا کرتے تھے سچ ہے۔۔۔۔۔ع یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو آپ کو اکثر علوم میں خصوصاً ریاضیات میں بہت دخل تھا۔ علم موسیقی بہت خوب جانتے تھے اور تال اور لے سے ایسے واقف تھے کہ بڑے بڑے استاد ان کے سامنے کان پکڑتے تھے اور خاک چاٹ کر نام لیتے تھے علم حساب کو اس سے زائد جانتے تھے اور مسائل حساب میں وہ مہارت بہم پہنچائی تھی کہ مسائل لا ینحل بہ آسانی حل فرماتے تھے۔ چناں چہ تال اور حساب میں ان کی تصنیفات سے رسالے موجود ہیں یہ توصفات ظاہر تھیں اور کمالات باطنی میں ان سب سے رتبہ بڑا تھا اور وہ مقام ہی اور تھا کمالات باطنی خواجہ میر اثر صاحب سے کہ خواجہ میر درد علیہ الرحمۃ کے چھوٹے بھائی تھے حاصل کیے جب کہ خواجہ میر اثر علیہ الرحمۃ کا انتقال ہوا خواجہ صاحب میر علیہ الحرمۃ خواجہ میر درد علیہ الرحمۃ کے فرزند ارجمند سجادہ نشین ہوئے۔ جب کہ ان کا بھی انتقال ہوا تو آپ کی ذات فیض آیات سے اس مسند جانشینی کو رونق تازہ حاصل ہوئی۔ ہر مہینہ دوسری اور چوبیسویں کو مجالس بین نوازی کی آپ کے روبرو ہوا کرتی آپ کو صبر میں درجہ کمال حاصل تھا اور دنیا سے مطلق لگاؤ نہ تھا اور آپ بڑے عالی خاندان ہیں۔نسب خواجہ میر درد علیہ الرحمۃ کا نواب ظفر خاں جہانگیری تک پہنچتا ہے ان کے پوتے خواجہ محمد ناصر صاحب منصب داران بادشاہی میں سے تھے کہ یکایک خدا طلبی کا شوق ہوا اور شیخ سعد اللہ المعروف بشاہ گلشن صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مدت تک فیض حاصل کیا اور اس دنیائے دوں کو چھوڑ چھاڑ کر بموجب ہدایت شاہ گلشن صاحب کے خواجہ محمد ؐ زبیر صاحب سے بیعت کی اور بہت جلد اور مجاہدہ کیے اور قطب وقت ہوئے کہ اب تک یہ سلسلہ، سلسلہ بسلسلہ چلا آتا ہے۔ والد ماجد آپ کے میر کلو صاحب اکبر آبادی بہت صحیح النسب سادات سے تھے اور نسبت داماری کی خواجہ میر درد علیہ الرحمۃ سے رکھتے تھے اور بیعت بھی انہیں سے کی تھی۔ اوصاف حمیدہ آپ کے لا تعداد ولا تحصیٰ ہیں، میری طاقت ان کے بیان کی نہیں آخر کو دوسری شوال سنہ 1261 ہجری کو آپ نے وفات پائی اور درد مفارقت مخلصان خاص کو دیا۔ کبھی کبھی آپ شعر بھی کہا کرتے تھے اور رنج تخلص کیا کرتے۔ چناں چہ یہ چند اشعار آپ ہی کی طبعزاد سے ہیں۔ اشعار ہندی خط دیکھ کر ادھر تو میر دم الٹ گیا قاصد ادھر بدیدہ پرنم الٹ گیا یقین ہو گیا دیکھ کر اس کا قامت کہ بے شک قیامت میں دیدار ہو گا کھڑخی نکال جانب دشمن نہ بام پر کوٹھے چڑھی جو بات کھلی خاص و عام پر یاد دلوا کے جو ہم بستری یار رلائے تو وہ تصویر نہالی ہے بغل کا دشمن 1عیسوی سنہ 1845ء تھا (اسماعیل) دل یہ جس کے لیے پہلو میں پنہاں رہتا ہے یوں سنا ہے کہ اسے بھی خفقاں رہتا ہے دیکھی نہیں حالت یہ خدائی میں کسی کی ہے طور جدا اپنا جدائی میں کسی کی 11مولوی یوسف علی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ سجادہ نشیں حضرت خواجہ محمد نصیر علیہ الرحمۃ کے ہیں، ان کے اوصاف حمیدہ لا تعداد ولا تحصی ہیں۔ خامہ راقم کو طاقت نہیں کہ ان کے مجامد اور مناقب کو لکھ سکے حضرت سادات کبار سے ہیں اور صاحب اخلاق پسندیدہ اور مرتاض۔ ان کی سجادہ نشینی سے اس خاندان کو زیب و زینت اور ہی ہو گئی ہے۔ سن شریف آپ کا قریب چالیس سال کے ہے۔ راقم نے ان حضرت کے جمال با کمال سے اپنی نگاہ کو گلچین نظارہ اور ان کی اوقات کو بچشم مشاہدہ کیا ہے۔ 12حضرت شاہ غیاث الدین قدس سرہ اولاد حضرت خواجہ مودود چشتی علیہ الرحمۃ سے ہیں اور عرف خواجہ کمہاری والہ بسبب حسن اوقات اور کثرت طاعات کے مغتنمات روزگار سے تھے۔ خلق مجسم کہنا چاہیے ان کے اوضاع و اطوار خلق محمدی کے مصداق تھے رات اور دن میں ایسا کم وقت ہو گا کہ عبادت و وظائف سے فارغ رہتے ہوں۔ خور و خواب کو بہ قدر ضرورت بشری کہ حیات مستعار کی بقاء کو کافی ہو، کام میں لاتے، والا اطاعت دادار بے ہمال میں مصروف رہتے۔ مریدان با اخلاص کو آپ کی ذات با برکات سے ارشاد راہ ہدایت اور رہبری سبیل سعادت ایسا ہوا کہ کم کسی سے متصور ہے مرجع انام اور مارب خاص و عام تھے۔ عرصہ انیس برس کا گذرتا ہے کہ جہان فانی سے راہی ملک بقا ہوئے1؎ 13جناب شاہ صابر بخش صاحب علیہ الرحمۃ زبدہ مقبولان بارگاہ الٰہی سید صابر علی معروف بہ سید صابر بخش چشتی۔ سلالہ سادات عظام اور زبدہ اھالی خاندان چشت تھے۔ والد ماجد آپ کے سید شاہ نصیر الدین ابن شاہ غلام سادات چشتی قدس سرہ بن شیخ عبدالواحد عرف نواب بشارت خاں برادر زادہ حقیقی قطب العارفین حضرت شیخ محمد چشتی قدس سرہ العزیز تھے۔ ہر چند حضرت مرحوم نے صحبت اکثر مشائخ کبار سے جو آپ کے معاصر تھے کسب فیض باطن کیا۔ لیکن کمال طریقت و حقیقت اپنے جد امجد شاہ غلام سادات قدس سرہ کی بیعت کے وسیلہ سے حاصل کر کے مرید با اخلاص اور سجادہ نشین با اختصاص ہوئے۔ تفصیل سلسلہ خاندان ہدایت نشان حضرت موصوف کی یہ ہے کہ شاہ غلام سادات خلیفہ تھے، حضرت شاہ محمد نصیر قدس سرہ کے اور وہ حضرت شیخ محمد چشتی کے اور وہ حضرت شیخ ابراہیم رام پوری کے (قدس سرہ العزیز) آپ کو حضرت با برکت شاہ غلام سادات جد امجد اپنے کی خلافت حاصل ہونے کی یہ وجہ ہے کہ شاہ نصیر الدین صاحب یعنی والد ماجدان حضرت کے بسبب اس کے کہ علم عرفان و ایقان میں ساری اولاد حضرت مرحوم و مغفور پر سبقت رکھتے تھے اپنے پدر بزرگوار کی حیات میں ان کی عین رضا سے مسند خلافت پر متمکن ہو مریدان اخلاص کیش کی ہدایت میں مصروف ہوئے اتفاقاً اپنے والد ماجد کی حین حیات ہی میں سفر آخرت کو اختیار کیا۔ 1آپ کا سال وفات1828ء ہے (اسماعیل) حضرت شاہ غلام سادات نے منصب خلافت جو اپنے فرزند ارجمند کو عطا کیا تھا ان کی وفات کے بعد اپنے پوتے سید شاہ صابر علی عرف صابر بخش علیہ الرحمۃ پر مسلم رکھا اور باوجود ہونے اور اولاد کے بسبب قابلیت مادہ کے انہیں کو شرف بیعت سے مشرف فرما کر اپنی سجادہ نشینی کے وسیلہ سے ارشاد ہدایت کا امر ان کو تویض کیا اور لنگر کا صرف اور انعقاد مجالس عرس اور خدمت مساکین اور خبر گیری صادر وارد کی ان کی ذات سے متعلق ہوئی۔ فی الحقیقت آپ کی سخاوت سے حاتم طائی کا نام صفحہ روزگار سے حک ہو گیا اور طاعت و عبادت کا حال ان بزرگ کا قلم دو زباں کی مجال نہیں کہ لکھ سکے تریسٹھ برس کی عمر میں 1237 ھ 1 ؎ میں چودھویں ربیع الاول کو چار گھڑی رات گئے راہی دار البقاء ہو کر درمیان خانقاہ کے جو شہر شاہجہاں آباد میں متصل دریا گنج واقع ہے اور آپ ہی نے واسطے ورود مساکین کے تعمیر کروائی تھی، مدفون ہوئے۔ ان حضرت کے بعد فرزند اور خلیفہ رشید آپ کے سید عبداللہ سلمہ اللہ تعالیٰ مسند خلافت پر متمکن ہو کر اسی طرح خدمت فقراء میں مصروف ہیں۔ 14 جناب میر محمدی صاحب غفرا للہ آپ کا سلسلہ نسب جناب غفران مآب مولانا مولوی فخر الملت والدین قدس سرہ العزیز تک پہنچتا ہے۔ مقبولان بارگاہ کبریائے الٰہی سے تھے قبول خاطر خاص و عام بھی یہاں تک حاصل تھا کہ امراء و سلاطین آپ کے دیدار فیض انوار کو نعمت کبریٰ اور آپ کی خدمت میں حاجر رہنے کو ایک موہبت عظمیٰ سمجھتے تھے از بس کہ جذب باطن کی تائید سے ساکنین 1 عیسوی سنہ 1821ء تھا (اسماعیل) تمام شہر کے، خصوصاً صادقین قلعہ مبارک کے علی الخصوص شاہزادگاں جلیل القدر آپ سے بہت رجوع رکھتے تھے عوام کالانعام عمل تسخیر کا گمان کرتے۔ ہر چند اعمال بھی آپ کے ایسے سریع الاثر تھے کہ کہ آپ کا نفس دم عیسیٰ تھا اور آپ کے ہاتھ کی خاک کی اچٹکی اکسیر کا کام رکھتی تھی ایک مدت ہوئی کہ جہان فانی سے عالم باقی کو راہی ہو کر اپنے ہی دیوان خانے میں جو متصل خیلی قبر کے ہے مدفون ہوئے 1؎ چند شاہزادے خصوصاً مرزا خجستہ بخت باہدر آپ کی خلافت کا دم بھرتے ہیں۔ 15جناب میراں شاہ ناتو علیہ الرحمۃ2؎ اصل وطن آپ کا تھانیسر ہے حضرت کا سلسلہ جناب برکت انتساب سر گروہ اہل اللہ شیخ جلال الدین تھانیسری علیہ الرحمۃ (3) تک کئی اور واسطوں سے پہنتا ہے بعد تحصیل کمال اور تحصیل فیوض باطنی کے شہر شاہجہاں آباد میں وارد ہو کر حرم مسجد فتح پوری میں ایک حجرہ واسطے سکونت کے اختیار کیا اور رفتہ رفتہ ان کی کرامت اور فیض باطن کا شہرہ ایسا پڑا کہ ومہ کو اعتقاد آپ کی خدمت میں بہم پہنچا۔ اکثروں کو آپ کے فیض ہدایت سے فوائد کثیرہ حاصل ہوئے۔ اسی برس کی عمر کے قریب وفات پائی او راسی مسجد کے حریم میں مدفون ہوئے۔ عرس آپ کا آج تک بد ستور ہوتا ہے۔ 1آپ کا اصلی نام عماد الدین تھا مگر میر محمدی کے نام سے مشہور ہیں1242 ھ مطابق 1826 ء میں وفات پائی (اسماعیل ) 2آپ حضرت شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر تھے جن کی وفات1130 ھ (مطابق1728ئ) میں ہوئی تھی (اسماعیل) 16 جناب شاہ جلال علیہ الرحمۃ یہ خلیفہ تھے حضرت میراں شاہ نانو صاحب مغفور کے اس اوقات کا آدمی اس حیز و زمان میں بہت کمیاب ہے۔ حضرت میراں شاہ نانو صاحب کے حجرہ میں مسند خلافت پر بیٹھ کر عمر بسر کی اور نفس واپسین تک اہل دنیا کی طرف رجوع نہ کی۔ باوجود توکل کے لنگر شام کے وقت مساکین اور فقراء کو آپ کی طرف سے تقسیم ہوتا تھا۔ یہ حضرت بھی بعد وفات کے اپنے پیر کی قبر کے قریب مدفون ہوئے۔ 17جناب مولانا محمد حیات سلمہ اللہ تعالیٰ وطن اصلی آپ کا ملک پنجاب ہے اسی نواح میں تحصیل علوم رسمی سے فراغ حاصل کر کے چندے اطراف ہندوستان میں بہ لباس طالب علمی بسر کی اور پھر شہر شاہجہان آباد میں وارد ہو کر اوائل حال میں شاہ سید صابر علی معروف بہ شاہ صابر بخش رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں فروکش ہو کر درس علوم معقول اور منقول میں مصروف رہے۔ چوں کہ علم و فضل آپ کا رشک اقران و امثال تھا۔ طلباء اطراف و جوانب سے تحصیل علم کے واسطے حاضر خدمت ہو کر آپ کی تعلیم کے فیض سے مرتبہ فضیلت کو پہنچے اور آپ کے یہاں کا ادنیٰ طالب علما ور جائے کے فضلا سے بہتر گنا جاتا تھا چند تلمیذ آپ کے فیض خدمت سے یکتائے عصر اور یگانہ دھر ہو گئے۔ خصوصاً حافظ عبدالرحمان کہ آپ کی تعریف اور توصیف علم و فضل کی حیز مقال اور حیطہ گفتگو سے باہر ہے باوجودے کہ یہ بزرگوار بصارت سے معذور ہیں کوئی علم عقلیہ اور نقلیہ سے ایسا نہیں کہ اس کو محققانہ نہ جانتے ہوں اور طرفہ تر یہ ہے کہ ہیئت اور ہندسہ باوجود بینائی نہ ہونے کے اس طرح بے تکلف پڑھاتے ہیں کہ ماہرین اس فن کے اگر ہزار چشم بمطالعہ شب و روز صرف کتاب کریں تو حیثیت خطوط و دوائر کی ویسی آپ نہ سمجھیں اور نہ دل نشین تلمیذ کے کر سکیں از بس کہ حضرت موصوف کے مزاج تقدس امتزاج پر قدیم الایام سے ترک غالب تھا۔ جب ایسے تلامذہ با کمال کو فارغ التحصیل اور لائق درس و تدریس کے پایا اپنی طبیعت کو اس طرف سے اٹھا کر ذکر و اشغال کی طرف مصروف کیا اور کمل فقراء اور عظمائے مشائخ کے فیض باطن کو کسب اور نعمائے معنوی کو حاصل کیا اور رنج سفر اپنی ذات موہبت آیات پر گوارا کر کے پاک پٹن میں جا کر حضرت شاہ سلیمان صاحب کی خدمت سے مشرف ہوئے اور ان کے فیض صحبت سے تصفیہ قلب اور تزکیہ نفس کو بکمال پہنچایا اور رخصت انصراف حاصل کر کے پھر وارد شاہ جہاں آباد ہوئے۔ ان دنوں میں شاہ صابر بخش صاحب جہان فانی سے راہی عالم باقی ہو چکے تھے ان کی خانقاہ کی بود و باش کو ترک فرما کر ایک اور مسجد میں کہ قریب قلعہ مبارک کے واقع ہے سکونت اختیار کی اور آج تک وہیں تشریف رکھتے ہیں آپ کی برکت قدوم سے اس مسجد کی مرمت ہر سال ہوتی رہتی ہے اور ایسی آباد ہو گئی ہے کہ اب اس کو با عتبار کثرت عبادات اور وقور طاعات خیر المساجد اور افضل المساجد کہنا چاہیے اب سن شریف آپ کا قریب ستر کے پہنچاہے خدائے عز و جل آپ کی عمر میں ترقی کرے کہ طالبان صادق کو آپ کے فیض باطن سے فوائد کثیرہ اور ہدایت موفورہ حاصل ہوتی ہے۔ 18حضرت سید احمد صاحب قدس سرہ جناب ہدایت انتساب زبدہ و اصلان درگاہ سید احمد صاحب (طالب تراہ وجعل الجنہ مثواہ) سادات عظام اور مشائخ کرام سے تھے مطوطن اصلی آپ کا بریلی اوائل حال میں شوق طالب علمی میں وطن سے وارد شاہجہاں آباد ہو کر حضرت با برکت مولانا عبدالقادر علیہالرحمۃ کی خدمت میں سرا سر افادت میں حاضر ہو کر مسجد اکبر آبادی میں فروکش ہوئے اور صرف و نحو میں فی الجملہ سواد حاصل کیا۔ از بس کہ ذوق درویشی اور مسکینی طینت میں پڑی ہوئی تھی اکثر خدمت مسجد اور اس مقام کے واردوں، خصوصاً درویشان پاک طینت کی جو دور و دراز سے تحصیل علم باطنی کے شوق میں جناب عبدالقادر صاحب مغفور موصوف کی خدمت میں حاضر رہتے۔ خاطر داری اور سر انجام مہام میں ایسے بدل سر گرم ہوتے گویا اس امر کو اہم مہام سمجھے ہوئے تھے اور اس زمانے میں بھی اپنی اوقات کو طاعات و عبادات میں ایسا معروف کیا تھا کہ جو لوگ صرف اسی امر کے واسطے کنج نشین اور گوشہ نشین تھے ان سے بھی اس طرح خاطر مجموع اور حضور قلب سے ظہور میں نہ آتے تھے اکثر مولانائے مغفور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اس بزرگ کے احوال سے آثار کمال ظاہر ہوتے ہیں اور مادہ اس سعادت منشن کا ترقی مدارج علیا کے قابل نظر آتا ہے اسی اثناء میں سر گروہ علمائے انام، اسوہ بلغائے عظام، جامع کمالات صوری و معنوی، خادم حدیث شریف نبوی، مولانا مولوی شاہ عبدالعزیز دھلوی، علیہ الرحمۃ سے بیعت کا ارادہ کیا جب ان کی خدمت میں گئے مولانائے ممدوح جو کہ ان کے حالات کے واقف تھے، فرمایا کہ حق جل و علیٰ نے اس صاف باطن کو اختیار طریقہ رشد و ہدایات کے باب میں واسطے کا محتاج نہیں رکھا اور وسیلہ کا نیاز مند نہیں کیا لیکن اصل ظاہر کے نزدیک ہر چیز کے لیے ایک سبب ضرور ہے، رفع حجت عوام کے واسطے کچھ مضائقہ نہیں۔ پھر آپ نے مولانائے موصوف سے بیعت کے بعد چند مدت کے سفر اختیار کیا اور اطراف و جوانب میں خدا شناسان پاک باطن سے فیض حاصل کرنے میں سر گرم رہے از بس کہ مقامات عالی روز بروز کھلتے جاتے تھے اور مراتب علیا آناً فاناً ترقی میں تھے اس دولت بے زوال سے اہل ظاہر کو آگاہی ہو چکی اور ہر طرف سے لوگوں نے ہجوم کیا اور کسی نے بیعت اور کسی نے روائے حاجات سے سوال کرنا شروع کیا چوں کہ اخفائے حال اور ستر احوال منظور تھا خیال میں یہ آیا کہ اگر اہل دنیا کے لباس سے ملبس ہو کر علم باطنی کی تحصیل کی جاوے تو یہ ہجوم عوام کو جمعیت اوقات میں خلل انداز نہ ہو گا۔ اس خیال سے ٹونک کی طرف تشریف لے گئے اور نواب امیر خاں کی رفاقت میں بسر کی اور از بس کہ شجاعت اور جواں مردی سادات صحیح النسب کا جوہر ہے اس اثناء میں ترددات عظیمہ آپ سے ظہور میں آئے اور بایں ہمہ تلاش اہل باطن کی روز و شب پیش نہاد تھی اور اکثروں کو ہدایت کی راہ بھی آپ سے حاصل ہوئی جب اس عرصہ میں جمیع مراتب کی تکمیل ہو گئی آپ ترک دنیا کر کر پھر شاہجہان آبادتشریف لائے اور مسجد اکبر آبادی میں وارد ہوئے اس اثناء میں مولانا عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہو چکا تھا اور مولوی محمد اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ قائم مقام علوم رسمی کے درس و تدریس میں مصروف تھے اور اہل باطن کی طرف چنداں ملتفت نہ ہوتے تھے جب اس دفعہ آپ کے تشریف لانے سے مردم شہر میں ایک غلغلہ پڑ گیا تھا اور طالب فیض باطن کے کثرت سے ہجوم کرنے لگے ایک بار مولوی صاحب موصوف نے بہ اتفاق مولوی عبدالحی رحمۃ اللہ علیہ کے آپ کی خدمت میں جا کر عرض کیا کہ ہم کو نماز حضور قلب سے کبھی میسر نہیں ہوئی اگر آپ کی ہدایت سے یہ امر حاصل ہو جائے تو عین مدعا ہے حضرت نے کشف باطن سے معلوم کیا کہ یہ بطریق امتحان اس طرح سے کہتے ہیں۔ تبسم کیا اور فرمایا کہ مولانا آج شب کو اس حجرہ میں تشریف لاؤ شاید یہ بات ظہور میں آ جاوے ان کو زیادہ استعجاب ہوا اور شب کو دونوں صاحب تشریف لے گئے اور آپ نے اپنے ساتھ ان کو نماز میںکھڑا کیا اور جب نماز پڑھوا چکے، فرمایا کہ اب جدا جدا نیت باندھ کر دو دو رکعت علیحدہ پڑھو۔ جب کھڑے ہوئے تو اس طرح کا استغراق ہوا کہ ان دونوں صاھبوں کو انہیں دو رکعت میں شب بسر ہو گئی۔ جب یہ فیض باطن مشاہدہ کیا صبح کو دونوں صاحبوں نے بیعت کی اور یہاں تک آپ کی کفش برادری میں حاضر رہے کہ آپ کی کفش برداری کو فخر سمجھتے تھے چند روز کے بعد آپ نے فرمایا کہ مولانا مشیت الٰہی میں یہ ہے کہ تم کو تکمیل اس علم کی اور تتمیم ان مراتب کی سفر میں حاصل ہو، ان کو ہمراہ لے کر مکہ معظمہ کا سفر کیا اور راہ میں قریب ہزار آدمی کے اپنے ہمراہ لے کر اور ان کے مایحتاج کے متکفل ہو کر حج ادا کیا اور وہاں سے پھر ہندوستان کی طرف تشریف لائے اور آپ جو ترویج رسوم شرعیہ اور امر بالمعروف بہت کرتے، منہیات کا رواج ان کے قدوم کی برکت سے اکثر اطراف سے اٹھ گیا، طرفہ یہ ہے کہ شہر کلکتہ میں جب تک آپ نے تشریف رکھی شراب مطلق نہ بکنے پائی اور کلال خانہ بند رہا اور اس نواح میں آپ کے مریدوں کی کثرت لکوک سے گذر گئی اور آپ کے اکثر خلفاء کو قطب اور اوقار کا مرتبہ حاصل ہوا اور جو کچھ ازروئے کشف باطن کے معلوم ہو گیا تھا کہ آپ کو مع اکثر مومنین پاک اعتقاد کی شہادت حاصل ہونے والی ہے مولانا اسماعیل اور مولانا عبدالحی کو اجازت ہوئی کہ اطراف ہندوستان میں وعظ کہو اور بیش تر جہاد اور فضیلت شہادت بیان کرو۔ ہر چند یہ اس کا منشا نہ جانتے تھے اور پے نہ لے گئے کہ اس ارشاد کا سبب کیا ہے لیکن جو کہ مرید با اخلاص تھے سر مو تجاوز نہ کیا اور فرمان بجا لائے ان کے وعظ سے لکھو کھا مردم شاہراہ ہدایت پر آئے اور شوق ما ھو الحق دل میں جم گیا اور جہاد کی افضیلت ذہنوں میں بیٹھ گئی اور خود بخود چاہنے لگے کہ اگر جان و مال راہ الٰہی میں صرف ہو تو عین سعادت ہے۔ بعد مدت کے ان بزرگوں کو حضرت نے لکھا کہ اب ہمارے پاس چلے آؤ۔ یہ تو جان نثار تھے بہ مجرد حکم کے مشتاقین وعظ کو نیم جان چھوڑ کر خدمت با برکات میں راہی ہوئے اور حضرت ان کو ہمراہ لے کر کوہستان چلے گئے اور یہ ہنوز اس کے منشاء سے واقف نہیں۔ جب پنجتار میں وارد ہوئے قوم افغان با آں کہ و حوش سے کم نہیں، حضرت کے ایسے معتقد ہوئے کہ آپ کے ہاتھ پر بیعت امامت کی اور عہد کیا کہ اگر حضرت جہاد کریں تو ہم سر فروشی کو حاضر ہیں آپ نے سکھوں کی قوم پر جہاد قائم کیا1؎ مردم 1 اس زمانہ میں بعض حضرات یہ کہنے لگے ہیں کہ ’’ دراصل حضرت سید احمد شہید کا مقصد انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا تھا، سکھ تو ویسے ہی درمیان میں آ گئے ‘‘یا’’ اگر سکھ آزادی وطن کے جہاد میں حضرت سید احمد کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوتے تو خود ان سے رزم و پیکار کی کوئی وجہ نہ ہوتی ‘‘یا’’ سکھوں سے فارغ ہونے کے بعد حضرت شہید کا پختہ ارادہ انگریزوں سے جہاد کا تھا‘‘مگر واقعہ یہ ہے کہ ان تینوں بیانات کا کوئی حقیقی ثبوت موجود نہیں اور صاف اور سچی بات یہی ہے کہ ہر گز ہر گز حضرت کا ارادہ انگریزوں سے جہاد کا نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو سرسید (جو حضرت شہید کے سب سے قریب العہد مورخ ہیں) ضرور اس کا ذکر کرتے۔۔۔۔۔ سر کا یہ بیان اس لحاظ سے بھی۔ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر) ہندوستان اس خبر کے سننے سے اطراف و جوانب سے رہی ہوئے اور سوائے قوم افاغنہ کے مردم ہندوستان لاکھ آدمی کے قریب نہایت معتبر و مستند اور محکم ومضبوط ہے کہ حضرت شہید سرسید کے زمانہ میں تھے اور ان کی شہادت کے صرف چودہ پندر برس بعد ہی سرسید نے ان کا یہ تذکرہ لکھا۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس سے پہلے کا کوئی بیان حضرت شہید کے ضمن موجود نہیں۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ حضرت شہید کے متعلق اس اولین بیان کو جو ان کے ایک ہم عصر نے دیا ہے ہم معتبر اور مستند نہ سمجھیں۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب کے جواب میں جو مضمون سرسید نے 1871ء میں لکھ کر انگریزی میں اخبار پانیر الہ آباد میں اور اردو میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع کرایا تھا اس سے بھی نہایت واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت شہید کے جہاد کا رخ صرف اور صرف سکھوں کے خلاف تھا (ملاحظہ فرمائیں ’’ مقالات سرسید‘‘حصہ نہم صفحہ141 تا143) دوسرا ہم عصر مورخ فرانس کا مشہور مستشرق گارسن دتاسی ہے جس کی ’’ تاریخ ادب اردو‘‘کی تلخیص اردو میں ’’ طبقات الشعرائے ہند‘‘کے نام سے مولوی کرم الدین پانی پتی اور ایک انگریز ایف فیلن نے 1848 ء میں شائع کی جس میں گارسن دتاسی حضرت سید احمد رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق صاف طور پر لکھتا ہے کہ ’’ وہ بیس برس کا عرصہ ہوا کہ سکھوں کے خلاف جہاد کرتا ہوا مارا گیا‘‘(طبقادت الشعرائے ہند صفحہ295 مطبوعہ 1848ئ) اور اس بات کا اشارۃً بھی کوئی ذکر نہیں کرتا کہ وہ (یعنی حضرت سید احمد شہید) انگریزوں کا بھی دشمن تھا اور ان کے خلاف جہاد کرتا یا جہاد کا ارادہ رکھتا تھا نیز نواب صدیق حسن خاںنے بھی ترجمان وھابیہ کے صفحہ21 و 88 پر یہی بات لکھی ہے کہ حضرت شہید کا جہاد انگریزوں کے خلاف نہ تھا۔ ان ہم عصر مورخوں کے واضح بیانات کی موجودگی میں اب117 برس کے بعد یہ کہنا کہ ’’ نہہیں حضرت شہید انگریزوں کے خلاف جہاد کا عزم بالجزم رکھتے تھے‘‘ایک ایسا دعویٰ ہے جو اپنے ساتھ کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہیں رکھتا۔ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر) جمع ہوئے اور خطبہ آپ کے نام کا پڑھا گیا دور دورہ امام ہو گیا۔ چند منزل تک عشر جو طریقہ اسلام میں ایک نوع خراج علاوہ ازیں ایک معمولی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر حضرت شہید انگریزوں کے دشمن ہوتے اور ان کے خلاف جہاد کا ارادہ رکھتے یا اس سلسلہ میں کوئی جد و جہد کرتے یا لوگوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے کے لیے آمادہ عمل کرتے یا عوام و خواص میں اس ارادہ کا اظہار کرتے تو انگریز ہر گز ایسے بے وقوف اور نا واقف نہیں تھے کہ اپنے دشمن کو کھلی چھٹی دے دیتے کہ ہمارے ملک میں بیٹھ کر ہمارے خلاف بے فکری سے جہاد کی تیاری کرو وہ تو فوراً ان کا قلع قمع کر کے رکھ دیتے۔ جیسا انہوں نے ان سب لوگوں کا کر دیا جن کو انہوں نے اپنا مد مقابل اور دشمن سمجھا۔ بر خلاف اس کے حضرت سید احمد شہید سے انگریز شروع سے آخر تک نہایت نرمی و ملائمت، نہایت ہمدردی و اعانت، نہایت شفقت و مروت اور نہایت تعظیم و تکریم سے پیش آتے رہے۔ چنانچہ انگریزوں نے ان کی دعوتیں کیں۔ سکھوں کے خلاف ان کے جہاد کو نہایت پسند کیا اور اس پر خوشی کا اظہار کیا ان کی جہادی سرگرمیوں پر اپنے علاقہ میں ہر گز کوئی پابندی عائد نہیں کی بلکہ جب ایک انگریز مجسٹریٹ نے ایسا اقدام کرنا چاہا تو انگریزی حکومت نے سختی سے اسے روک دیا اور مجسٹریٹ کو حکم دیا کہ حضرت سید احمد اور ان کے لشکر سے کوئی تعرض نہ کیا جائے اور ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے پھر جب تک مجاہدین سرحد پر سکھوں سے بر سر پیکار رہے۔ پٹنہ، بنگال اور دوسرے انگریزی علاقوں سے برابر ان کے پاس روپیہ اور سامان بلا روک ٹوک پہنچتا رہا۔ جب جمع شدہ چندہ میں ایک ہندو مہاجن نے تغلب اور بد دیانتی کی تو اس کا دعویٰ بھی مہاجن پر شاہ محمد اسحاق نے انگریزی عدالت میں کیا انگریزی عدالت نے مجاہدین کے حق میں فیصلہ دیا اور روپیہ مجاہدین کو دلوایا جو فوراً سرحد پر بھیج دیا گیا (ان متذکرہ بالا ساری باتوں کے نبوت مستند تاریخوں اور معتبر بیانوں میں موجود ہیں جن سے انکار کی جرأت کوئی شخص نہیں کر سکتا اختصار کی وجہ سے ہم نے یہاں حوالے۔ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر) کی ہے آپ کے پاس آنے لگا پشاور اور بعض اور مکان سکھ کی عمل داری سے نکل کر غازیان اسلام کے تصرف میں آ گئے۔ نہیں دیے) اگر ذرا سا بھی شبہ انگریزوں کو ہوتا کہ حضرت سید احمد ہم پر جہاد کا مقصد رکھتے ہیں اور اس غرض کے لیے فوج، سامان اور روپیہ جمع کر رہے ہیں تو وہ آپ کو فوراً ہی گرفتار کر کے پھانسی پر لٹکا دیتے۔ اس سلسلہ میں یہ امر بھی خاص طور سے غور طلب ہے کہ جب حضرت شہید بعزم جہاد صوبہ سندھ اور سرحد کے علاقہ میں داخل ہوئے ( جو اس وقت انگریزی عمل داری میں نہ تھے) تو ان کے متعلق عام طور سے یہ شبہ کیا گیا کہ یہ انگریزوں کے جاسوس ہیں اور یہ شبہ محض اس بنا پر کیا گیا کہ حضرت شہید کے تعلقات انگریزوں سے نہایت درجہ خوشگوار تھے۔ اگر حضرت شہید انگریزوں کے دشمن ہوتے اور علی الاعلان اس کا اظہار کرتے اور ان کے خلاف جہاد کی تیری کرتے تو ان پر انگریزوں کے جاسوس ہونے کا شبہ کبھی نہ کیا جاتا اس بات کو مثالاً یوں سمجھیے کہ اگر رئیس الامراء مولانا محمد علی جوہر مرحوم روس جاتے تو کیا روسی یہ شبہ کرتے کہ ہندوستان سے انگریزوں کا یہ جاسوس یہاں آیا ہے۔ ایک بڑا پختہ ثبوت اس بات کا کہ حضرت سید احمد اور آپ کے مجاہدین کی نیت یا ارادہ یا خیال ہر گز نہ تھا کہ انگریزوں سے جہاد کیا جائے یہ ہے کہ حضرت سید احمد کے شہید ہونے کے صرف26 برس بعد جب 1857ء میں ہر طرف انگریزوں کے خلاف بغاوت کے شعلے زور شور سے بھڑکے، ہندوستان کی سر زمین انگریزوں پر تنگ ہو گئی ان کو اپنی تباہی اور ہلاکت سامنے میں نظر آنے لگی اور ہر جگہ وہ بے دردی سے قتل کیے جانے لگے تو اس قیامت خیز ہنگامہ میں ’’ حضرت سید احمد شہید کے گروہ کا ایک شخص بھی شریک نہ ہوا‘‘(مقالات سرسید حصہ نہم صفحہ123) علاوہ ازیں مولوی عبدالرحیم صادق پوری جو اس زمانہ کے ایک مصنف اور انگریزوں کے سخت مخالف تھے۔ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر) سکھوں کے باوجود اس شوکت و شان ظاہری کے آپ کا ایسا رعب دل میں بیٹھ گیا کہ کچھ ملک دینے پر راضی ہوئے سچ ہے۔ ہیبت حق است ایں از خلق نیست لیکن حضرت کو جو کہ ترویج اسلام منظور تھی قبول نہ کیا۔ کئی سال تک یہی سلسلہ یونہیں چلا گیا اور مولانا مولوی عبدالحی علیہ الرحمۃ نے بیماری بدنی سے سفر آخرت اختیار کیا بعد اس کے جو کہ قوم افاغنہ بندہ زر اور نہایت اپنی کتاب میں لکھتے ہیں’’ اتباع سید احمد صاحب کی یہ روش رہی کہ وہ ایک طرف لوگوں کو سکھوں کے خلاف آمادہ جہاد کرتے اور دوسری طرف حکومت برطانیہ کی امن پسندی جتا کر لوگوں کو انگریز کے مقابلہ سے روکتے تھے (الا والمنشور صفحہ135) اگر حضرت سید احمد شہید کی جماعت انگریزوں کی دشمن ہوتی تو یہ موقع اس جماعت کے لیے انگریزوں کے خلاف کھڑے ہونے کا بہترین تھا کیوں کہ اس وقت بظاہر یہی نظر آ رہا تھا کہ انگریزوں کی حکومت اب گئی اور اب گئی ایسی حالت میں مجاہدین سید احمد بڑی خوشی اور بڑی آسانی سے انگریزوں کے خلاف جنگ میں شریک ہو جاتے۔ پس معلوم ہوا کہ نہ حضرت سید احمد کا یہ منشا تھا، نہ انہوں نے اپنی جماعت کو اس کی تلقین کی، نہ ان کی جماعت نے انگریزوں سے خلاف کبھی کسی ہنگامہ میں کسی قسم کی مدد دی اس موقع پر بڑے تماشے کی بات یہ ہے کہ ہنگامہ 1857ء میں پورے جوش کے ساتھ انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینے والے وہ سب کے سب علمائے کرام شامل تھے جو عقیدہ حضرت سید احمد اور حضرت شاہ اسماعیل کے شدید ترین دشمن تھے اور جنہوں نے حضرت شاہ اسماعیل کے رد میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں اور اپنے شاگردوں کو لکھنے کی وصیت کی ہے۔ اگر انہیں ذرا سا بھی شبہ ہو جاتا کہ سید احمد اور شاہ اسماعیل انگریزوں کے مخالف تھے اور ان سے جنگ کرنا چاہتے تھے تو باہم دشمنی اتنی شدید تھی کہ فوراً وہ سب علماء و فضلاء سید احمد کی دشمنی میں انگریزوں سے صلح کر لیتے اور ہر گز ان کے خلاف کھڑے نہ ہوتے۔‘‘ (محمد اسماعیل پانی پتی) طامع ہیں، سکھوں کے اغوا سے آپ سے منحرف ہو گئے اور عین معرکہ جنگ میں آپ سے دغا کی۔ از بس کہ مشیت الٰہی میں دولت شہادت آپ کے نصیب میں تھی، قریب بالاکوٹ کے حضرت نے مع مولوی محمد اسماعیل اور اکثر مومنین صاف اعتقاد کے شہادت پائی انا للہ وانا الیہ راجعون حضرت کی شہادت کو چودہ پندرہ برس کا عرصہ گذرتا ہے1؎ رسول شاہیوں کا بیان اس سلسلہ کا بیان کسی کتاب میں مبسوط نہیں اس واسطے مجھ کو معلوم ہوا کہ تھوڑا تھوڑا اس سلسلہ کا حال رسول شاہ صاحب سے لکھ دوں اگرچہ رسول شاہ صاحب جن کے نام سے یہ سلسلہ جاری ہے میرے زمانہ کے بہت پہلے تھے اور میں نے بجز شاہ فدا حسین صاحب کے اور کسی کو نہیں دیکھا تھا لیکن اول سے حال لکھنے میں بہت اچھی توضیع ہو جاوے گی اور آئندہ کو یادگار رہے گی۔ 1 حضرت سید احمد بریلوی اپنے وقت کے مجدد اور نہایت درویش صفت بزرگ تھے اسلام کا حقیقی جذبہ اپنے اندر رکھتے تھے اس جذبہ کے تحت آپ نے اس ملک میں سکھوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا آپ 1201ھ مطابق1782 ء میں پیدا ہوئے اور جماعت مجاہدین کے ساتھ سکھوں سے جہاد کرتے ہوئے 24 ذی قعدہ 1242ھ (مطابق ماہ مئی 1831ء ) کو بمقام بالا کوٹ شہید ہوئے۔ آپ کا مزار آج کل زیارت گاہ خاص و عام ہے آپ کے حالات جن کتابوں میں لکھے گئے ہیں ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں1 سوانح احمدی مولفہ مولوی محمد جعفر تھانیسری 2 سیرۃ سید احمد از مولوی ابو الحسن ندوی 3 سید احمد شہید از مولانا غلام رسول مہر 4 حیات طیبہ از میرزا حیرت دھلوی (اسماعیل) 1رسول شاہ صاحب آپ کا سلسلہ خانوادے سہروردیہ میں ہے اور حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ تک پہنچتا ہے آپ پر جذب بہت غالب تھا اور ہمیشہ کوہستان الور میں پھرا کرتے تھے۔ دوسرے تیسرے دن اگر کوئی ٹکڑا روٹی کا ہاتھ لگ گیا ورنہ کچھ پرواہ نہیں اور جس طرح کہ اہل جذب کا دستور ہے اسی طرح اپنے معبود کی عبادت میں مصروف رہتے اور دنیا و ما فیہا سے خبر نہ رکھتے تھے کثرت جذب اس قدر تھی کہ تکالیف شرعیہ ان پر سے سب کی سب ساقط ہو گئی تھیں۔ لباس کی کچھ قید نہ تھی کوئی چتھیڑا سر کو باندھا نہ باندھنا اور اسی طرح اگر کچھ ہوا تو اس کا لنگوٹ کر لیا ورنہ اس کی بھی کچھ پرواہ نہیں غرض کہ عالم جذب میں رہتے اور صدھا کرامات اور خرق عادات اسی عالم میں اور اسی حال میں ان سے صادر ہوتیں آپ سادات بہادر پور مضافات الور سے ہیں اور اصلی نام آپ کا سید عبدالرسول ہے وہاں کے لوگ نہایت معتقد تھے اور روائے حاجات ان کے انفاس متبرکہ سے جانتے۔ راجہ الور نشونما اپنی ریاست کا آپ ہی کی ذات فیض آیات سے سمجھتا تھا اور نہایت اعتقاد آپ کی جناب میں رکھتا تھا سلسلہ آپ کا حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی تک اس طرح پہنچتا ہے کہ رسول شاہ دیکھنے والے نعمت اللہ شاہ کے اور وہ دیکھنے والے شاہ داؤد مصری کے اور وہ دیکھنے والے سخی جیب کے اور وہ دیکھنے والے شاہ اسماعیل کے اور وہ دیکھنے والے شاہ مرتضیٰ انند کے اور وہ دیکھنے والے شاہ رزاق پاک کے اور وہ دیکھنے والے شاہ اللہ داد کے اور وہ شاہ بیرن بندگی کے اور وہ شاہ سجن گوشہ نشین کے اور وہ شاہ محمد کے اور وہ شاہ حضرت اسحاق کے اور وہ شاد داؤد طائی کے اور وہ شاہ راجو قتل کے اور وہ مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے اور وہ حضرت سید جمال بخاری کے اور وہ حضرت سید احمد کبیر کے اور وہ سید جلال شاہ بزرگ کے اور وہ سید مخدوم شاہ بہاؤ الدین کے اور وہ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کے رحمۃ اللہ علیہم اجمعین آپ کو ابتداء سے ایک جذب تھا بارہ برس کی عمر میں شاہ نعمت اللہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایک دم میں جذب الی اللہ حاصل ہوا اور جنگل اور پہاڑوں میں نکل گئے اور دن رات اللہ کی یاد میں بسر کی اور بائیسویں جمادی الثانی سنہ 11ہجری1؎ کو انتقال کیا اور سواد الور میں اس مقام میں جہاں تکیہ رسول شاہیوں کا ہے ان کودفن کیا پھر بہ سبب ایک سانحہ کے کہ اس کا بیان اس مختصر میں نہیں ہو سکتا آپ کے استخواں کو اکھاڑ کر فیروز پور جھرکہ میں مدفون کیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون 2مولوی شاہ حنیف صاحب آپ کا اصلی نام مولوی مظفر حسین ہے اور وطن آپ کا قصبہ میرٹھ بڑے عالم زبردست اور امرائے خاندانی ہیں نسب آپ کا نواب خیر الدین خاں اور فرحت اندیش خاں تک پہنچتا ہے ہمیشہ درس و تدریس میں مصروف رہے اور مسجد میں بیٹھے رہتے کہ یکایک رسول شاہ صاحب کا ایک فقیر پہنچا اور آپ سے کہا کہ چلو رسول شاہ بلاتے ہیں یہ سنتے ہی آپ سب کچھ چھوڑ چھاڑ ساتھ ہوئے اور اپنے پیر کی خدمت میں حاضر ہو کر وہی عالم ہو گیا او راسی طرح عالم جذب میں بسر کی اور صدھا کرامات اور خرق عادات اسی عالم میں ظاہر ہوئیں آخر سترھویں شعبان 1اس جگہ سرسید نے سن11 ہجری میں لکھا تھا مگر یہ صحیح نہیں دراصل 1211ہجری ہے (اسماعیل) 1200 ہجری میں انتقال کیا اور اپنے پیر کی طرح پہلے الور میں اور بعد اس کے فیروز پور جھرکہ میں مدفون ہوئے کبھی کبھی آپ اسی عالم میں اشعار بھی فرماتے تھے اور ایک گیان چوسر بطریق تصوف اور ایک شرح گلستاں آپ کی یادگار ہے اور یہ چند اشعار آپ کے ہیں۔ دل بے خطرہ مظہر ذات است بحر بے موج عین مرات است خدا را چہ جوئی تو خود را بجو چو خود را بیابی توی جملہ او تو مبین خود را سر مویک نفس تا بہ دانی خالق خود ہر نفس گرنہ بودی خود مقیم اندر بدن کے شدی قایم ز خود دیوار تن گر نہ بودی باغباں در باغ تن کے شدی رونق بہار ایں چمن 3شاہ فدا حسین صاحب آپ کا اصلی نام خواجہ نجیب الدین احمد ہے اور آپ کی اولاد حضرت خواجہ یوسف ہمدانی سے ہیں اٹھارہ برس کی عمر سے فقیری اور خاکساری اختیار کی اور اپنے پیر کی خدمت میں فراغت تحصیل علوم سے کی۔ تصوف میں بہت بڑا ملکہ تھا اور فصوص الحکم وغیرہ کتب مشکلہ تصوف کوبہت آسانی سے پڑھاتے تھے دنیا سے مطلق لگاؤ نہ تھا۔ اخلاق و خاکساری بدرجہ کمال تھی۔ گوشہ نشینی اور زاویہ گزینی حد سے سوا تھی صحبت عوام الناس کی بہت نا پسند فرماتے اور ہمیشہ تنہا بیٹھے رہتے۔ تمام عمر خاک بدن سے ملی اور اینٹ سرہانے رکھی اور زمین یا پتھر پر پڑ رہتے۔ اگرچہ آپ کے مزاج میں سلوک جذب پر غالب تھا لیکن کبھی شان جذب بھی ظہور کرتی تھی بیس برس تک الور میں اپنے پیر کی خدمت میں رہے اور طرح طرح کی ریاضت کی اور اپنے پیر مولوی محمد حنیف صاحب کی وفات کے بعد ان کی جگہ سجادہ نشین ہوئے۔ اور پھر بہ سبب بعض سوانح کے دلی تشریف لائے اور چالیس برس ایک حجرہ میں بیٹھے رہے بعد اس کے راجہ بنے سنگھ الور والے نے نہایت تمنا کی کہ پھر اسی تکیہ میں آن کر رہیں اگرچہ آپ کو اس زمانہ میں بسبب لحوق امراض متعدد کے حواس ظاہری نہ تھے لیکن آپ کے مرید اسی حال میں وہاں لے گئے اور چند مدت بعد وہاں جا کر اٹھارویں محرم1259 ھ میں جمعرات کے دن انتقال کیا اور وہی مدفون ہوئے آپ کی ذات بھی مغتنمات روزگار سے تھی اور بیسیوں خرق عادات آپ سے ظہور میں آئی ہیں حقیقت میں خاتم سلسلہ رسول شاہیہ ہوئے اور آپ کی ذات فیض آیات سے اس سلسلہ کی رونق تازہ ہو گئی تھی۔ خلفاء آپ کے بلاد دور دراز گئے ہیں چناں چہ تبت اور سراندیپ اور مشہد وغیرہ بلاد میں آپ کے فقیر موجود ہیں کبھی کبھی آپ اپنے پیر کی طرح عالم جذب میں شعر بھی فرماتے تھے اور مثنوی بن سو سر آپ کی طبع زاد سے موجود ہے کہ بعض معتقدین نے جمع کی ہے۔ اشعار فارسی مراجز دیدن دیدار وجہ اللہ کارے نیست در دنیا شفاعت ما بجز ذات رسول اللہ یارے نیست در عقبیٰ خویشتن را خود عیاں فرمودہ صورتے از جسم و جاں بنمودہ کل نفس واحد فرمودۃ واحد فی کل نفس بودہ اگر بخلوت دل یک زمانہ بنشینی درون کعبہ دل صورت خدا بینی نسبت طاعت بخود عصیان بود نسبت عصیاں بخود عرفاں بود چوں بہر صورت بہ بینی یار را خود بخود واقف شوی اسرار را خویشتن را نیست دانستن وجود حق بود از وجودش ہست دانستن شہود حق بود عین ذات تو بود وحدت وجود این صفات تو بود وحدت شہود غیر وحدت نیست کثرت را وجود غیر کثرت نیست وحدت را شہود 4 شاہ توکل حسین صاحب آپ کے خلفاء میں سے ہیں اور آپ کے انتقال کے بعد آپ کے نسب سے راقم کو اطلاع نہیں ہوئی مگر اس قدر جانتا ہوں کہ فنا فی الشیخ تھے اپنے پیر کی اطاعت میں ایسے فنا ہوئے کہ بہت مشکل ہے آپ کو اپنے پیر سے بہت فیض حاصل ہوئے۔آخر کار سنہ 1226 ھجری1؎ میں انتقال کیا اور الور ہی میں مدفون ہوئے اب رنگ علی شاہ کو آپ کی جگہ بٹھایا ہے۔ 3مجذوبوں کا بیان 2سید عسکری یہ حضرت جناب سید حسن رسول نما علیہ الرحمۃ کے نواسوں میں ہیں ابتداء میں سپاہی پیشہ تھے اور نوکری چاکری کیا کرتے تھے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کا گذر الور کی طرف ہوا اور مولوی محمد حنیف صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ شعر پڑھا مستم چناں بکن کہ ندانم ز بے خودی در عرصہ خیال کہ آمد کدام رقت یہ شعر سن کر آپ نے ایک نگاہ بھر کر دیکھا اور کہا کہ جاؤ اپنے نانا کی قبر پر جا بیٹھو۔ اس وقت سے ایک جذب غالب ہوا اور بالکل مست الست ہو گئے۔ میں نے بچشم خود دیکھا ہے کہ آپ حضرت سید حسن رسول نما ے مزار کے پاس زنجیروں سے جکڑے ہوئے بیٹھے رہتے تھے مجال نہ تھی کہ آپ کی طرف نگاہ بھر کر دیکھ سکے تھوڑے دن ہوئے کہ اس جہان فانی سے انتقال فرمایا۔ 2جناب میر قطی صاحب سادات کبار سے تھے اوائل میں کسی وقت عبادت سے فارغ نہیں رہتے تھے اور چوں کہ ہمیشہ سے سلوک جذب تھا رفتہ رفتہ نوبت از خود رفتگی کی پہنچی اور ترک لباس کر کر قیود ستر عورت سے فارغ ہو گئے اکثر اوقات خرق عادات و کرامات جلی آپ سے سر زد ہوتیں عرصہ گذرتا ہے کہ جہاں نا پائدار سے سفر آخرت کیا۔ 1 عیسوی سن 1864 ء تھا (اسماعیل 3 شاہ عبدالنبی کملائے دھر سے تھے اوائل حال میں مکان سکونت معین نہ رکھتے تھے کبھی کسی گوشہ میں اور کبھی کسی سایہ دیوار میں پڑ رہتے جب تک کہ اعلم العلماء افضل الفضلاء سر آمد اہل قال عمدہ اہل حال مولانا بالفضل اولانا مولوی عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ قید حیات میں اور مسجد اکبر آبادی میں ساکن تھے ان کے مادام الحیات لزوم اس امر کا تھا کہ شب کو کسی گوشہ میں بسر کیا اور صبح سے شام تک مسجد مذکور کے سامنے ایک منبع پر کہ نہر پر واقع ہے بیٹھے رہتے۔ سالہا سال اسی طرح سے کٹے اور اکثر اہل حاجت اپنی روائے حاجات کے واسطے وہیں آپ کی خدمت میں پہنچتے اور منتظر دعائے خیر رہتے۔ مولوی صاحب مرحوم بھی طالبان اخلاص کے سامنے اکثر آپ کی تعریف بیان فرماتے۔ حتیٰ کہ مولوی صاحب بیمار ہوئے اور صاحب فراش ہوئے۔ جب کہ نوبت نفس واپسیں کی پہنچی یہ بزرگ اپنا بستر کندھے پر ڈال کر کسی طرف کو روانہ ہوئے اور جو کہ یہ امر خلاف عادت تھا لوگ اس حرکت سے بہت متعجبت ہوئے جب آپ کے قریب گئے تو کلمات تاسف آپ کی زبان پر جاری تھے اور یہ کہتے تھے کہ ’’ اب قدر دان ہمارا دنیا سے چلا گیا ہم یہاں رہ کر کیا کریں گے اور اس طرح سے چلے کہ کسی نے نہ جانا کہ کس طرف راہی ہوئے بعد کتنی دیر کے حضرت مولانا جہاں گذران سے ملک بقا کی طرف راہی ہوئے جو کہ وہ بزرگ کبھی مسجد کے اندر نہیں جاتے تھے اور باہر سر راہ بیٹھتے تھے مولانا کے انتقال پر آگاہ ہو جانا صرف آپ کے کشف سے علاقہ رکھتا ہے۔ بعد چند روز کے یکایک پیدا ہو گئے اور مسجد جامع کے ایک حجرہ میں سکونت اختیار کی کرامتیں آپ کی اکثر مشاہدہ اور معائنہ ہوتیں باوجود غلبہ جذب کے نماز کی طرف بھی اکثر مصروف رہتے لیکن پابند اوقات معینہ کے نہ تھے اور اکثر ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے قرآن مجید بخط نسخ لکھا کرتے اور کسی سے بات نہ کرتے نفس واپسیں تک یہی ایک حالت آپ سے مشاہدہ ہوئی اکثر روسائے ذی مقدور آپ کی خبر گیری سے غافل نہ رہتے تھے خصوصاً بخشی بھوانی شنکر کہ ایک امرائے شاہجہاں آباد سے تھا، شب و روز خدمت گزاری میں مصروف رہتا تھا آپ کی خوراک دونوں وقت دہی اور پیڑے تھی اور تعجب یہ ہے کہ کبھی یہ خوراک آپ کو مضرت نہ پہنچاتی تھی اور کبھی بیمار نہ پڑتے تھے باوجودے کہ عمر قریب ستر برس کے تھی لیکن رنگ ایسا سرخ و سفید تھا کہ جیسا عالم جوانی میں ہوتا ہے تمام عمر میں ایک دفعہ بیمار ہوے جو مرض الموت تھا مدت ہوئی کہ سر زمین نورانی سے عالم بقا کی طرف راہی ہوئے۔‘‘ 4 میر احمد دیوانہ آپ کے اوائل حال سے کچھ واقفیت نہیں ہمیشہ از خود رفتگی اور جنون زدگی میں رہتے مگر اس پر بھی اکثر مردم اپنی روائے حاجات کے واسطے آپ کے پاس آتے اور بہت سے لوگوں کو منفعت کلی آپ کے کچھ فرما دینے سے ہوئی شب و روز چتلی قبر کے نواح میں رہتے تھے جس دکان کو خالی دیکھتے اس میں شب بسر کرتے باوجود از خود رفتگی کے کسی نے برہنہ آپ کو نہیں پایا جہان فانی کو چھوڑے ایک عرصہ ہوا۔ 5 دین علی شاہ شب و روز جذب کی حالت میں رہتے ہیں پہلے زمانہ میں موتیا کھان کی طرف پھرا کرتے ار وہیں کہیں گوشہ میں پڑ رہتے۔ اب چند مدت سے قدم شریف کی نواح میں ایک گنبد میں سکونت اختیار کی ہے بہ سبب کمال از خود رفتگی کے برہنہ مطلق رہتے ہیں اور ہجوم مردم کے وقت کلمات بے صرفہ زبان پر بہت جاری ہوتے ہیں لیکن اہل حاجات جب ان کلمات کی طرف توجہ کرتے ہیں تو وہ باتیں جو اہل ظاہر کے نزدیک لا طائل اور بے محل ہیں ان سب کے مطالب اور حاجات کا جواب ہوتی ہیں اور طرفہ یہ ہے کہ سوالات مختلف کا جواب انہیں باتوں سے ہر ایک کو حاصل ہو جاتا ہے اکثر اوقات خوارق عادت آپ سے ظاہر ہوئی ہیں۔ 6 خانم صاحب ایک عورت با خدا تھیں باعتبار صفائی باطن کے ہزار مرد سے بہتر۔ بلی ماروں کے محلہ کے قریب شیرافگن خاں کی بارہ دری میں رہتی تھیں ہر چند جذب مزاج غالب تھا لیکن نہ اس قدر کہ از خود رفتگی تک نوبت پہنچے بیشتر لوگ خواص و عام سے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی روائے حاجات کے واسطے سوال کرتے اور بیش تر مشاہدہ ہوا کہ جس امر میں آپ کی زبان سے کچھ نکلا بے کم و کاست وہی ہوا دو چار مہینے کا عرصہ ہوا کہ جہان فانی کو رخصت کیا۔ 7 بائی جی یہ ایک عورت تھیں باکمال، شہر شاہجہاں آباد کے باہر قریب عید گاہ قدیم کے چھپر میں تمام عمر بسر کر دی۔ معلوم نہیں کہ اصلی نام کیا تھا لیکن لوگ بائی جی کے نام سے مشہور کرتے تھے اثنائے کلام میں اکثر آیات قرآنی جاری ہوتی تھیں خصوصاً انا اعطیناک الکوثر دیکھا کہ جب کوئی اپنے مطلب کے واسطے ان کے پاس گیا تو ستر کوڑیاں اس مال میں سے جو ان کے پاس لے جاتا علیحدہ کر کے ستر دفعہ زمین پر رکھ کر کے زمین سے اٹھاتیں اور ہر دفعہ آیت انا اعطینا کی پڑھتی جاتیں اور بعد جو کچھ دل میں آتا سائل کو کہہ دیتیں، لیکن قدرت الٰہی کا تماشا کرنا چاہئے کہ جو اس وقت ان کی زبان سے نکلتا بعینہ وہی امر بے کم و کاست وقوع میں آتا قریب ایک سال کے ہوا کہ جہان فانی سے رحلت کی۔ 8 حاجی غلام علی نقیب الاولیا بادشاہی عہد میں نقیب الاولیائی کا بہت معزز عہدہ تھا اور خبر گیری تمام فقیروں اور گوشہ نشینیوں کی اور تقرر وظیفہ ان لوگوں کا اس سے متعلق تھا۔ اگرچہ اس زمانہ میں وہ بات نہیں رہی مگر نام چلا جاتا ہے غرض کہ خواجہ غلام علی اس زمانہ میں اس عہدہ پر تھے اور نہایت صاحب کمال آدمی تھے اور واقع میں نقیب الاولیائی کے لائق تھے نسبت باطن کے بہت درست، عشق رسول مقبول میں چور تھے۔ نماز وظیفہ میں بہت مستعد فیض صحبت درویشوں نے ایسی تاثیر کی تھی کہ ایسا مذاق ان کو حاصل ہوا تھا کہ کاہے کو ہوتا ہے اسی شوق میں زیارت حرمین شریفین کی اور ہمیشہ رسول مقبول علیہ الصلواۃ والسلام کی یاد میں رویا کرتے تھے۔ آپ حضرت خواجہ ناصر الدین عبید اللہ احرار کی اولاد میں سے تھے جن کی تعریف میں مولانا حاجی فرماتے ہیں۔ چو فقر اندر لباس شاہی آمد بتدبیر عبداللہی آمد آپ کے بزرگ محمد شاہ کے وقت میں ہندوستان میں آئے اور پہلے یہ عہدہ خواجہ رفیع الدین صاحب کو ملا ان کے انتقال کے بعد خواجہ محمد مرادان کے بھانجے اس منصب پر سرفراز ہوئے ان کے انتقال کے بعد یہ بزرگ صاحب اس منصب کے ہوئے ’’ غلام علی‘‘تاریخ ولادت ہے اور یہ مسجعہ مہر نما: علی امام من است و منم غلام علی آخر کار پندرھویں تاریخ ذی الحجہ کی سنہ 1261 ھجری1؎ میں وفات ہوئی اور ترکمان دروازہ کے باہر چوسٹھ کھنبہ میں مدفون ہوئے۔ 9خواجہ احمد علی نقیب الاولیا ان کے انتقال کے بعد ان کے بڑے بیٹے خواجہ احمد علی صاحب اس منصب پر سرفراز ہوئے اللہ ان کو سلامت رکھے۔ 4 ذکر حکمائے کرام ذوی المجد والاحترام 1حکیم احسن اللہ خاں حکمت مآب، کمالات اکتساب، جامع نفائس علوم، مبانی مفہوم، حاکم، محاکم حکم حکیم مسیحا دم حکیم محمد احسن اللہ خاں المخاطب بخطاب احترام الدولہ، عمدۃ الحکمائ، معتمد الملک حاذق الرفاں حکیم محمد احسن اللہ خاں بہادر ثابت جنگ، یہ سر گروہ ارباب کمال شیخ صدیقی اور ہراتی الاصل ہیں۔ سلسلہ ان کے نصب کا حضرت خواجہ زین الدین ہراتی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے کہ عرفائے دہر اور کملائے روزگار سے تھے اور طریقہ پیری مریدی کا ان کے خاندان میں جاری تھا اور مردم روزگار ان کی ذات فیض سمات سے استفادہ فیض باطنی اس کثرت سے تھا کہ ملتزمان صحبت پر غوث اور قطب کا احتمال ہوتا تھا آخر الامر والئی ہرات کی سوء مزاجی سے عزم غربت مصمم فرما کر کشمیر جنت نظیر میں تشریف لائے اور وہاں قیام 1عیسوی سنہ 1845ء (اسماعیل) اختیار کیا اور وہیں فضائے ربانی کے تقاضا سے گلگشت حدائق کشمیر سے سیر ہو کر سیر گلستان جناں کے واسطے راہی عالم بقا ہوئے۔ ان حضرات کا مزار برکت آثار چشمہ ڈل کے کنارے پر واقع ہے اور بنام ’’ زمیندار شاہ‘‘ موسوم ہے وہاں کے رہنے والے ان کی روح مطہر سے بہ سبب کمال اعتقاد کے امیدوار امداد باطنی اور اعانت معنوی کے رہتے ہیں جب یہ معلوم ہو گیا اب سنا چاہئے کہ حکیم صاحب موصوف کے اجداد ہمیشہ روزگار پیشہ رہے اور عمائد روزگار کی سرکار میں مناسب عہدہ سے سرفراز، والد ماجد ان کے حکیم محمد عزیز اللہ خاں مرحوم، کہ کمالات ان کے حیز تحریر اور حیطہ تقریر سے خارج ہیں۔ اپنی ذات سے تحصیل علم طب کی طرف متوجہ ہوئے اور اس فن شریف کو احکم الحکماء حاذق الملک حکیم محمد ذکاء اللہ خاں مرحوم و مغفور سے حاصل کیا اور اطبائے نامی شہر شاہ جہاں آباد سے اس فن میں سبقت لے گئے۔ انہوں نے فنون حکمت و ہندسہ و ہیت خدمت فضلائے عصر سے حاصل کر کر فن طبابت کو اپنے والد ماجد سے حاصل کیا اور از بس کہ حافظہ پارہ لوح محفوظ تھا اور طبیعت خبر و تقدیر تھی، چند مدت سے مدارج کمال سے کوئی باقی نہ رہا کہ طے نہ کیا ہو اور شفائے مرضا داد الٰہی ہے جس کی زندگی سے مسیحا نے ہاتھ دھوئے ان کے نسخے سے جی گیا اسی واسطے ساکنین شہر اور قاطبین دہر سوائے اس زبدہ اہل کمال کے اور کسی طرف رجوع نہ کرتے جب کہ شہرہ فضل و کمال کا گوش فلک تک پہنچا اوائل حال میں خلاصہ روسائے نامدار فخر الدولہ نواب احمد بخش خاں مرحوم والی فیروز پور جھرکہ کی ملازمت میں کمال عزت و توقیر کے ساتھ منصب طبابت پر مامور رہے اور ان کی رحلت کے بعد اسد الدولہ نواب فیض محمد خاں مرحوم والی جھجھر کے پاس اسی منصب عمدہ پر مقرر ہوئے از بس کہ مزاج دانی اس صاحب ذہن رسا کے حصے میں ہے۔ اس سردار ذی الاقتدار کا اعتقاد ان کی طرف استوار ہو گیا کہ اپنی زیست انہیں کی توجہ سے جانتا تھا اس رئیس کے انتقال کے بعد ترک روزگار کر کے چندے خانہ نشینی اختیار کی لیکن از بس کہ ہر حرف ان کے نسخے کا ہو الشافی ہے اور ان کا نفس نفس عیسیٰ کا خواص رکھتا ہے حضرت معین الدین محمد اکبر شاہ بادشاہ عرش آرام گاہ نے نہ چھوڑا کہ فیض ملازمت سے بہرہ اندوز نہ ہوں اور جس طرح سے ہو سکا اپنے پاس بلا کر عطائے خلعت اور عنایت خطاب عمدۃ الملک حاذق الزماں سے مشرف فرما کر اپنے معالجے کے واسطے معین کیا اور تادم زیست یہ سمجھے کہ اگر یہ سلالہ کرام ایک دم الگ ہو تو زندگی اس بادشاہ گردوں جاہ کی محال ہے اور ان کے انتقال کے بعد بندگان گردوں تو امان حضرت ظل الٰہی فلک بارگاہی ابو ظفر محمد سراج الدین بہادر شاہ غازی خلد اللہ ملکہ و سلطنۃ، و افاض علی العالمین برہ واحسانہ نے کمال قدر دانی و رتبہ شناسی سے اپنے سند جلوس میں طلب کیا اور سعادت نبض گیری سے مستعد فرما کر احترام الدولہ اور ثابت جنگ خطاب سابق پر زیادہ کیا اور از بس کہ حضور فیض گنجور حضرت ظل اللہ کے مزاج اقدس میں ان کے کمالات جائے گیر ہوئے روز بروز ترقی مدارج اور اتفاع مناصب ہور میں آنے لگا چناں چہ رفتہ رفتہ یہاں تک بادشاہ جم جاہ کی طبیعت پر تصرف ہوا کہ کوئی امر جزوی و کلی سے بے مشورہ و صلاح اس صاحب تدبیر صائب کے وقوع میں نہیں آ سکتا وہ امر اگرچہ متعلق منصب وزارت ہی ہو لیکن سبحان اللہ اس حوصلہ فطرت عالی پر ناز کرنا چاہئے کہ ہر چند ترقی مدارج یہاں تک ہے کہ فقیر و قطمیر قلعہ مبارک صرف اسی والا درجہ کی ذات پر موقوف اور مدارج جمیع امور سرکار بادشاہی کا اسی بلند اقتدار پر منحصر ہے۔ خلق کو اس مرتبہ پر وسیع کیا ہے کہ ہر ادنیٰ کی کارروائی میں وسعت سے زیادہ مصروف ہونا اور ہر صاحب غرض کے التماس کو بدل متوجہ ہو کر سماعت کرنا اہالی شہر سے کم ہو گا کہ ان کو اپنا محسن نہ سمجھتا ہو۔(حکیم محمد احسن اللہ خاں نے جنگ آزادی 1857ء میں انگریزوں کی مخبری کے فرائض سر انجام دئیے تھے اس لئے ان کی شہرت و نیک نامی کو سخت نقصان پہنچا آپ 1873ء میں فوت ہوئے) (محمد اسماعیل) 2حکیم غلام نجف خاں سلالہ کرام نقاوہ عظام، زبدہ جہانیاں حکیم غلام نجف خاں ابن حافظ محمد مسیح الدین شیخوپوری ساکن شیخوپور کہ بدایوں کے مضافات سے ہے۔ اصل میں شیخ فاروقی ہیں اور بسبب عنایت سرکار شاہی کے خطاب خانی سے سرفراز ہوئے۔ جلد ششمین ان کے شیخ فرید الخاطب محتشم خاں امرائے جلیل الشان عہد جہاں گیری شاہ جہاں سے تھے کہ منصب پنچ ہزاری ذات و پانچ ہزاری سوار سے سرفراز تھے بموجب آپ کی استدعا کے حضرت جہاں گیر بادشاہ سے چار ہزار بیگھہ اراضی موضع مولیا میں سے آبادی و سکونت کے واسطے مرحمت ہوئی اس سر زمین میں ایک قطعہ کی بنیاد ڈالی اور اس کا نام جہاں گیر کے نام پر شیخوپور رکھا۔ کس واسطے کہ حضرت جہاں گیر کا نام ایام شاہ زادگی میں مرزا شیخو بہت مشہور تھا اور والد شیخ فرید کے نواب قطب الدین خاں نبیرہ حضرت سلیم چشتی فتح پوری کے، اولاً حضرت اکبر کے عہد میں پنج ہزاری ذات و سوار و خلعت خاصہ و شمشیر و اسب خاصہ بازین مرصع اور عنایات شاہانہ سے سرفراز ہو کر دار الملک بنگالہ اور اڑیسہ کی صوبہ داری سے کہ پچاس ہزار سوار کی جائے ہے، مامور ہوئے۔ جب ان کے سبب اسلاف کا حال معلوم ہو چکا اب ان کا حال سنا چاہئے کہ شیخوپور سے ہمراہ اپنے خالوی بزرگوار میر سید علی صاحب کے حکام عہد یعنی صاحبان انگریز بہادر کی خدمت میں عہدہ جلیلہ تحصیل داری پر مامور رہے اور آخر کو نواب گورنر بہادر کی خدمت میں عہدہ میر منشی سے سرفراز ہوئے پانچ برس کی عمر میں شاہ جہاں آباد میں وارد ہوئے جب سن تمیز کو پہنچے یہیں کی سکونت اختیار کی اور از بس کہ فن طب اشرف فنون اور اعزہ علوم ہے اس فن کی طرف متوجہ ہو کر کتب درسیہ اس فن کی حکیم صادق علی خاں ولد حکم الحکماء حکیم شریف خاں سے تحصیل کی اور مشق نسخہ نویسی اور معالجہ مرضا کی حاذق الملک حکیم احسن اللہ خاں کی خدمت میں بہم پہنچائی جو کہ ان کو حاذق الملک موصوف سے قرابت قرینہ بھی تھی، ان کی تعلیم میں کمال کوشش و سعی کو کار فرمایا، یہاں تک کہ یہ حضرت شہر شاہ جہاں آباد کے مشاہیر اطباء سے ہوئے اور حضور بادشاہ ظل اللہ سراج الدین بہادر شاہ سے خطاب عضد الدولہ حکیم غلام نجف خاں بہادر پایا اور اب سرکار کمپنی بہادر سے عہدہ طبابت پر واسطے معالجہ مرضا کے مامور ہیں راقم ان کو بسبب کمال شفقت اور مخلص نوازی کے اپنے مہین برادر سے زیادہ تصور کرتا ہے اور اکثر اوقات بل جمیع حالات میں اپنی نسبت وہ الطاف و مرحمت مشاہدہ کی ہے کہ اگر اس کو قلمبند کروں تو مادہ ایک کتاب کا بہم پہنچے واقعی مروت جبلی اور لطف طبعی ایک امر خدا داد ہے جس کو دیا دیا اور جس کو عطا کیا کیا، کسی کے بانٹے نہیں آیا اور ان کے اوصاف حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ چیز تحریر سے خارج ہیں قدرت الٰہی ہے ایسا شفا نہیں دیکھا کہ وہ امراض جن کو لادوا اور لا علاج کہتے ہیں، اندک توجہ اور تھوڑے سے التفات میں اس طرح سے زائل ہو گئے کہ پھر تمام عمر اس بیماری کا نام و نشان باقی نہیں رہا۔ مردم روزگار مردہ پسند ہیں کہ ایسے طبیب حاذق اور حکیم دانا کے ہوتے بقراط اور سقراط کا نام لیتے ہیں۔ وہ بھی اگر اس زمانہ میں ہوتے تو اس حکیم یا فرہنگ کے مجربات کو سرمایہ اپنے کمال کا ٹھہراتے اور ان کے قوانین علاج کو اپنا دستور العمل مقرر کرتے ادنیٰ نسخہ نویس ان کے مطب کا علوی خاں کے نسخے پر حرف رکھ سکتا ہے ان کے ہاتھ سے خاک کی چٹکی حکم اکسیر کا رکھتی ہے او ران کی زبان سے نفرین خاصیت نفس عیسیٰ کی ہر چند جی چاہتا ہے کہ ان کے حامد و مناقب کو جہاں تک زمانہ مساعد ہو بیان کئے جاؤں، لیکن قلم شکستہ زبان کو طاقت نہیں کہ اس کا عشر عشیر بھی لکھ سکے۔ 3 حکیم صادق علی خاں حکیم خداقت منش، طبیب عیسوی روش، سر گروہ کملائے زماں، حکیم صادق علی خاں ولد سرآمد حکمائے روزگار حکیم شریف خاں آج اس کمالات ظاہری و باطنی کا جامع عرصہ روزگار میں جلوہ گر نہیں علم عمل کے ساتھ اس بزرگ بلند فطرت کی ذات میں جمع ہے۔ ان کے والد ماجد اپنے عمر میں سر آمد حکماء اور سر حلقہ اطباء تھے۔ آج تک ان کے کمالات کا شہرہ گنبد دوار میں از بس بلند ہے۔ جالینوس و ارسطو کا غلغلہ اس کے سامنے ایسا ہے جیسے طوطی کی آواز نقار خانے میں اور فی الحقیقت اس روزگار کے اکثر اطبائے نامی انہیں کی نسبت شگار دی سے سرمایہ اعتبار کا رکھتے ہیں جو کہ اچھوں کے اچھے ہی ہوتے ہیں حضرت ممدوح بھی اپنے زمانے میں یکتا اور بے مثل ہیں نہ ان کے علم کی صفت زبان قلم پر آ سکتی ہے اور نہ ان کے عمل کی تعریف اندیشہ میں سما سکتی ہے سارے زمانے کے کملا کو جس کے خاندان کی نسبت شاگردی سے فخر ہو اس کی تعریف اسی قدر کافی ہے1؎ 4 حکیم امام الدین قطع نظر کمالات طبی سے جامع معقول و منقول، حاوی، فروع و اصول درس ویسا ہے نبض شناسی ویسی ہے اگر بالفرض انقلاب روزگار سے تمام عالم سے نسخ معتبرہ گاؤ خورد ہو جاویں اور سارے جہاں سے کتب سلف دریا برد ہو جاویں اس سہ گروہ ارباب فضل کی حافظہ کی مدد سے پھر کتب خانہ روزگار کا معمور ہو سکتا ہے حرکت نبض موج سے پیچش گرداب کو معلوم کیا اور رگ ابرنیساں سے استسقائے صدف کو دریافت صنوبر علاج خفقان کے واسطے ان سے رجوع لاتا ہے اور گل نرگس چارہ یرقان ان سے چاہتا ہے ان کے بزرگان والا نژاد کو سرکار بادشاہی سے مناصب ارجمند اور مراتب بلند عطا ہوتے رہے ہیں اور یہ بھی حضرت جہانبانی کی طرف سے عہدہ طبابت پر مامور ہیں۔ 5 حکیم غلام حیدر خاں ارشد تلامذہ حکیم شریف خاں مقامات کتب طب موافق زعم راقم کے جیسے ان کی خدمت میں حل ہوتے ہیں، غالب یوں ہے کہ اس جزو زماں میں اور کہیں نہ ہوتے ہیں۔ خدمت اساتذہ کرام مثل مولانا مخدومنا مولوی عبدالعزیز دھلوی اور مولوی رفیع الدین اور مولوی عبدالقادر صاحب ارفع اللہ درجاتہم سے سالہا سال استفادہ کیا اور انواع فیوض حاصل کئے۔ شفائے کامل ان کے دست حق پرست میں ودیعت ہے۔ راقم کو حضرت موصوف کی خدمت میں نسبت شاگردی حاصل ہے۔ 1حکیم صادق علی خاں نے 1264 ھ میں دہلی میں انتقال کیا اور دو بیٹے 1حکیم غلام مرتضیٰ خاں 2 حکیم محمود خاں اپنی یادگار چھوڑ گئے۔ حکیم محمود خاں نے بے حد شہرت و عزت حاصل کی اور ان کے فرزندوں میں سے حکیم عبدالمجید خاں اور مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں نے جو مقام و مرتبہ حاصل کیا وہ محتاج بیان نہیں۔ حکیم صادق علی خاں اعلیٰ درجہ کے مصنف بھی تھے آپ کی تصانیف کے نام یہ ہیں1شرح تشریح اعضائے مرکبہ 2 مخازن التعلیم (فارسی) 3طریق تعلیم طفلاں (محمد اسماعیل) 6 حکیم نصر اللہ خاں علوم متداولہ مثل منطق اور معانی و فلسفہ و ہیئت و ہندسہ کے حضرات ثلاثہ یعنی مولوی عبدالعزیز اور مولوی رفیع الدین اور عبدالقادر صاحب قدس سر ہم العزیز کی خدمت سراپا برکت سے حاصل کئے اور علم طب کو احکم الحکماء حکیم شریف خاں مرحوم و مغفور سے تحصیل کیا۔ کتاب داتی و حدس صائب اور مرض شناسی میں بے مثل و مانند ہیں۔ رسائل متعددہ بحران اور دریافت مزاج نسخہ مرکب وغیرہ میں تصنیف کئے ہیں ان رسائل سے ان کے تبحر کا حال معلوم ہوتا ہے اوائل حال میں نواب فیض محمد خاں رئیس جھجھر کی سرکار میں عہدہ طبابت پر مامور تھے بعد اس کے اور عہدہ ہائے روزگار کی سرکار میں منسلک رہے اب پھر بنظر قدامت کے نواب عبدالرحمان خاں رئیس جھجھر کی خدمت میں جو نواب مغفور کا نبیرہ اور جھجھر کا مسند نشین ہے اسی عہدہ سے سرفراز ہیں۔ 7 حکیم فتح اللہ خاں کہیں برادر حقیقی حکیم نصر اللہ خاں صاحب کے ہیں تحصیل فن طب حکیم صاحب موصوف کی خدمت سے کی ہے۔ اب اس فن میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں مدت مدیر سے نواب اکبر علی خاں رئیس پٹودی کی سرکار میں عہدہ طبابت پر مامور ہیں۔ 8 حکیم پیر بخش صاحب ذہن رسا خدیو فطرت والا حکیم پیر بخش خاں حضرت بادشاہ خلد آرام گاہ محمد اکبر شاہ کی پیش گاہ عنایت سے بخطاب حکیم دوراں مخاطب ہیں سلسلہ نسب کا ان کے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے طرف والد ماجد سے اور حضرت غوث الثقلین سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تک طرف والدہ معظمہ سے اگرچہ وطن آباؤ اجداد کا شہر تھانیسر ہے لیکن ان کا مولد و مسکن یہی خاک پاک ہے یعنی حضرت شاہ جہاں آباد حرسہا اللہ عن الفساد تحصیل علم طب حکیم نصر اللہ خاں سے اور مشق نسخہ نگاری اور معالجی مرضیٰ حکیم احسن اللہ خاں کی خدمت میں کی اور اس فن میں دست گاہ کامل بہم پہنچائی راقم کے ساتھ رابطہ محبت کا برادرانہ سلوک رکھتے ہیں نہ ان کے خلق کی صفت بیان میں آ سکتی ہے اور نہ کمال کی تعریف لکھی جا سکتی ہے ایک عرصہ دراز سے نواب بہادر جنگ رئیس بہادر گڑھ کی سرکار میں عہدہ طبابت پر مامور ہیں اور اس نواح میں ان کا وجود مغتنم ہے وہاں کے لوگوں کی ذات سے وہ منافغے حاصل ہیں جو نفس عیسویٰ سے بھی متصور نہ ہوں۔ 9 حکیم حسن بخش خاں سرگروہ کملائے شہر، بل زبدہ افاضل وہر اسوء دانش منداں زماں حکیم حسن بخش خاں، وطن ان کے آباؤ اجداد کا شہر تھا نیسر اور مولد و مسکن ان کا شہر شاہ جہاں آباد جمیع فنون اور علوم میں مثل معقول اور منقول و حکمت و ہندسہ و ہیئت مہارت تمام رکھتے تھے اور کتب طبیہ بسبب کمال حافظہ کے فانونچہ سے قانون شیخ الرئیس تک بلا تشبیہ مثل عبارت قرآن مجید از برو یاد تھیں علم عقلیہ کی معاونت سے کسی کو معاصرین سے ان کے ساتھ یارائے مناظرہ نہ تھا۔ بارھا مشاہدہ ہوا کہ جس مجلس میں اس زبدہ ارباب کمال کا ہنگامہ گفتگو گرم ہوا جمیع حضار مجلس مثل تصویر کے ساتک اور صامت رہ گئے۔ اوائل حال میں نواب فیض محمد خاں رئیس جھجر کی سرکار میں منسلک رہے اور اس رئیس کی وفات کے بعد چندے خانہ نشیں اور بعد اس کے حضور سراج الدین بہادر شاہ میں صاحب عالم مرزا فخر الدین بہادر کی سرکار میں عہدہ طبابت پر مامور ہوئے۔ دو تین سال کا عرصہ گزرتا ہے کہ جہان فانی کو وداع کیا۔ 10 حکیم غلام حسن خاں برادر حقیقی حکیم غلام حیدر خاں موصوف بصفات کمال، کتب طبیہ میں مہارت تام اور علاج معالجہ میں دست گاہ تمام رکھتے تھے تحصیل فن طب حکیم شریف خاں کی خدمت سے کی تھی اب عرصہ چند سال کا ہے کہ اس جہاں سے عالم باقی کی طرف راہی ہوئے۔ 11حکیم محمد یوسف خاں فرزند ارجمند حکیم غلام حسن خاں کے کتب درسیہ سے فارغ اور فن طب میں مہارت تمام رکھتے ہیں باوجود اس کمالات کے اخلاق پسندیدہ میں یگانہ روزگار ہیں۔ 12حکیم عبدالحکیم معروف بہ ابو خاں برادر حقیقی حکیم یوسف خاں کے کتب درسیہ کو نہایت تحقیق و تدقیق سے آخون شیر محمد کی خدمت میں اور کتب طب اپنے والد ماجد سے تحصیل کیا۔ معالجہ ان کا اکثر معاصرین پر فائق ہے اور باوجود کمالات ظاہری اور باطنی کے دست گاہ اخلاق کو کس قدر وسیع کیا ہے کہ اس کا کچھ بیان نہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو دست شفا ایسی عنایت کی ہے کہ جن بیماروں کے علاج سے مسیحا بھی عاجز ہو وہ ان کے ہاتھ سے شفا پاتے ہیں۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حصہ اول اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید نایاب رسائل و مضامین جلدشانز دہم حصہ دوئم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی 5 ذکر علمائے دین رضی اللہ عنہم اجمعین 13 جناب مولانا مولوی شاہ عبدالعزیز قدس سرہ العزیز اعلم العلماء افضل الفضلا اکمل الکملاء عرف العرفا شرف الا فاضل فخر الا ماجد والا ماثل رشک سلف داغ خلف افضل المحدثین اشرف علماء ربانین مولانا و بالفضل اولانا شاہ عبدالعزیز دھلوی قدس سرہ العزیز ذات فیض سمات ان حضرت با برکت کی فنون کسی ووھبی اور مجموعہ فیض ظاہری و باطنی تھی اگرچہ جمیع علوم مثل منطق و حکمت و ہندسہ و ہیئت کو خادم علوم دینی کا کر کر تمام ہمت و سرا سر سعی کو تحقیق غوامض حدیث نبوی و تفسیر کلام الٰہی اور اعلائے اعلام شریعت مقدسہ حضرت رسالت پناہی میں مصروف فرماتے تھے اور سوا اس کے جو کہ جلائے آئینہ باطن صیقل عرفان و ایقان سے کام کو پہنچی تھی، طالبان صافی نہاد کی ارشاد و تلقین کی طرف توجہ تمام تھی، اس پر بھی علوم عقلیہ میں سے کون سا علم تھا کہ اس میں یکتائی اور یک فنی نہ تھی۔ علم ان کے خانوادہ میں بعطناً بعد یطن اور صلباً بعد صلب اس طرح سے چلا آتا ہے جیسے سلطنت سلاطین تیموریہ کے خاندان میں چودہ پندرہ برس کی عمر میں اپنے والد ماجد اشرف الاماجد عمدہ علمائے حقیقت آگاہ شاہ ولی اللہ قدس سرہ کی خدمت میں تحصیل علوم عقلی و نقلی اور تکمیل کمالات باطنی سے فارغ ہوئے تھے اس کے چند مدت کے بعد حضرت شاہ موصوف نے وفات پائی اور آپ کی ذات فائض البرکات سے مسند خلافت نے زینت و بہا اور وسادہ ارشاد و ہدایت نے رونق بے منتہا حاصل کی، کیوں کہ مولانا رفیع الدین اور مولانا عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہما کہیں، برادر حقیقی آپ کے جن کا ذکر بعد اس کے بتفصیل آئے گا، والد ماجد کے روبرو سن صغیر رکھتے تھے، تمام علوم اور فیوض کو انہیں حضرت کی خدمت میں کسب کیا علم حدیث و تفسیر بعد آپ کے تمام ہندوستان میں مفقود ہو گیا۔ علمائے ہندوستان کے خوشہ چیں اسی سرگروہ علماء کے خرمن کمال کے ہیں اور جمیع کملا اس دربار کے چاشنی گرفتہ اسی زبدہ ارباب حقیقت کے مائدہ فضل و افضال کے یہ آفت جو اس جزو زمان میں تمام دیار ہندوستان خصوصاً شاہ جہاں آباد، حرسہا اللہ عن الشرو الفساد، میں مثل ہوائے وبائی کے عام ہو گئی ہے کہ ہر عامی اپنے تئیں عالم اور ہر جاہل اپنے آپ کو فاضل سمجھتا ہے اور فقط اسی پر کہ چند رسالے مسائل دینی اور ترجمہ قرآن مجید کو اور وہ بھی زبان اردو میں کسی نے استاد سے اور کسی نے اپنے زور طبیعت سے پڑھ لیا ہے، اپنے تئیں فقیہ و مفسر سمجھ کر مسائل و وعظ گوئی میں جرأت کر بیٹھا ہے، آپ کے ایام حیات تک اس کا اثر نہ تھا، بلکہ علمائے متبحر اور فضلائے مفضی المرام باوجود نظر غائر اور احاطہ جزئیات مسائل کے جب تک اپنا سمجھا ہوا حضرت کی خدمت میں عرض نہ کر لیتے تھے اس کے اظہار میں لب کو وا نہ کرتے تھے اور اس کے بیان میں زبان کو جنبش نہ دیتے تھے حافظہ آپ کا نسخہ لوح تقدیر تھا۔ بارہا اتفاق ہوا کہ کتب غیر مشہورہ کی اکثر عبارات طویل اپنی یاد کے اعتماد پر طلبا کو لکھوا دیں او رجب اتفاقاً کتابیں دستیاب ہوئیں تو دیکھا گیا کہ جو عبارت آپ نے لکھوا دی تھی اس میں من اور عن کا فرق نہ تھا۔ باوجود اس کے کہ سنین عمر شریف قریب اسی کے پہنچ گئے تھے اور کثرت امراض جسمانی سے طاقت بدن مبارک میں کچھ باقی نہ رہی تھی خصوصاً قلت غذا سے، لیکن برکات باطنی اور حدت قوائے روحانی سے حسب تفصیل مسائل دینی اور تبیین دقائق یقینی پر مستعد ہوتے تو ایک دریائے زخار موج زن ہوتا تھا اور فراط افادات سے حضار کو حالت استغراق بہم پہنچتی تھی۔ اوائل حال میں فرقہ اثنا عشریہ نے شورش کو بلند کیا اور باعث تفرقہ خاطر جہال اہل تسنن کے ہوئے، حضرت نے بسبب التماس طالبین کمال کے کتاب تحفہ اثنا عشریہ کے غایت شہرت محتاج بیان نہیں بدل توجہ قلیل بصرف اوقات و جیز سے بایں کثرت ضخامت تصنیف کی کہ ہر طالب علم بے مایہ بھی علمائے شیعہ کے ساتھ مباحثہ و مناظرہ میں کافی ہو گیا۔ ثقات بیان کرتے ہیں کہ آپ تصنیف کے وقت عبارت اس کتاب کی اس طرح سے زبانی ارشاد کرتے جاتے تھے کہ گویا از بر یاد ہے اور حوالہ کتب شیعہ کے جن کو علمائے فرقہ مذکور نے شاید بجز نام کے سنا نہ ہو گا، باعتماد حافظہ بیان ہوتے جاتے تھے اور اس پر متانت عبارت اور لطائف و ظرائف جیسے ہیں ناظرین پر ہویدا ہے۔ یہ امور جو آپ سے ظہور میں آتے تھے مجال بشر سے باہر ہیں ہفتہ میں دو بار مجلس وعظ منعقد ہوتی تھی اور شائقین صادق القیدت و صافی نہاد خواص و عوام سے مور و ملخ سے زیادہ جمع ہوتے تھے اور طریقہ رشد و ہدایت کا استفاضہ کرتے 1248 ھ 1؎ میں اس جہان فانی سے سفر آخرت کو اختیار کیا بعض موزوں طبیعتان نے دو تین قطعہ تاریخ وفات میں موزوں کئے ہیں ان میں سے ایک قطعہ لکھتا ہوں: 1: 1248 ء غلط تاریخ ہے آپ نے 1239 ھ میں وفات پائی ہے دیکھو تذکرہ علمائے ہند مترجمہ مکرمی و محبی محمد ایوب قادری ایم اے پروفیسر اردو کالج کراچی صفحہ302 قطعہ تاریخ کے مادہ سے بھی 1239ھ برآمد ہوتے ہیں فرمائی وگراہ وہ 1248 ھ ہر گز نہ لکھتے اصل کتاب میں مادہ تاریخ کے نیچے اعداد درج نہیں تھے اب میں نے لکھے ہیں: (محمد اسماعیل) قطعہ حجت اللہ ناطق و گویا شاہ عبدالعزیز فخر زمن روز شنبہ و ہفتم شوال درمیان بہشت ساخت وطن مہر نصف النہار در عرفان مثل بد منیر در ہمہ فن از سر لطف وھلم تاریخش ’’رضی اللہ عنہ‘‘ گفت حسن 1201+38=1239 زبان عربی میں نظم و نثر نہایت و فصاحت و بلاغت کے ساتھ ریختہ کلک عدن سلک ان حضرات سے بہت یادگار ہیں، اگرچہ وہ نثر عربی جس کو آپ نے دل لگا کے لکھا ہو راقم کو دستیاب نہیں ہوئی، مگر دو چار رقعے جو آپ نے قلم برداشتہ نہایت سرسری طور پر لکھ دیے تھے ہاتھ لگے، ان میں سے ایک رقعہ تمیناً لکھ دیتا ہوں اور اگرچہ نظم آپ کی دفتر دفتر ذخیرہ ذخیرہ لیکن احترازاً عن الاطناب دو قطعوں پر کہ حضرت شاہ جہاں آباد کی تعریف میں اور شفیع احمد عرب1؎ کے مناقب حیدریہ2؎ کی تقریظ میں لکھے تھے انہیں پر قناعت کرتا ہوں۔ رقعہ عربی سلام علیکم قد قرائت کتابکم بقرۃ عینی فاق فضل خطابکم 1یہ صاحب عربی علم ادب کے بڑے فاضل تھے اور یمن سے آ کر کلکتہ میں مقیم ہو گئے تھے نفحۃ الیمن، المناقب الحیدریہ، شمس الاقبال، انشائے عجب العجائب، منہج البیان، بحر النفائس، حدیقۃ الافراح، الثافی وغیرہ ان کی تصنیفات ہیں 1258 ھجری مطابق1842 عیسوی میں وفات پائی۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) 2المناقب الحیدریہ شیخ احمد نے سلطان غازی الدین حیدر شاہ اودھ کے کہنے پر لکھی تھی۔ اردت صلات النظم لکن نفسیۃ وانفس ما عندی دعاء لبابکم فقلت بقلب خاشع متضرع بضاعف ربنا فی لبکم و لبابکم و یعطیک فی الدارین خیراً عطیۃ ویصرف عنک السوء ما یہابکم ویفتح ابواب الکمال جمیعہا ففیہا یکون ذھابکم وایابکم ویجعلک الرحمن مثل ولیہ بخیر الدین والدنیا وحسن مآبکم وقد لاع ما بشرتنی من بشارۃ جزاک اللہ عنی و شیب شابکم ’’ وبعد فقد وصل الینا کتابکم مرۃ بعد اخری و کرۃ بعد الاولیٰ و کان فیہ عدم انتفاء الکلی بقرۃ عینی، فلالہ وھذا مماشوش خواطری ندعواللہ سبحانہ ان یشفیہا عاجلاً کاملاً معلوم ان اخوانکم کلہم فیہم مادۃ سوء القنیۃ کانت تقیہم فی ایام الصبا، فلما کبروا ذالت عنہم، وما عرضت لاحد منہم الا وقد اوجبت ان یمشی بین اتنین ویہاوی بین الرجلین یستخلل المادۃ المنزلیۃ ونزول الا خلاط المورمۃ و ھذا التدبیر کثیراً ما یقع مفیدۃ و فائدۃ بینۃ عاجلۃ ینبغی ان یداعی ھذالامر حیثما امکن واینما یتصور واللہ ھو الشافی و یقرہ عنی السلام اخوانکم کانہم و والدنکم الماجدۃ و خواجہ محمد امین، و یقرہ الشیخ محمد امیر بصد السلام ان فی قدم والدکم تشبت شوکۃ تورمت بھا القدم و تقیحت حتیٰ احتاجت الی الشتن نشقت ولم تبرء بعدو ھو منتظر لقد ومک فان امکن فھو الاولیٰ‘‘ ستۃ ابیات فی تقریظ المناقب الحیدریہ للشیخ احمد ابن محمد انصاری الیمنی الشروانی: رایت و ریقات تدل بنثرھا علی فضل نحریر الیہ یسند وممدوحہ فی ذالک الطرس حیدر سمی امیر المومنین الموید ولا غروان فاہ الکرام بمدحہ اذا الفضل محمود و منشیہ احمد لہ قدم فی النثر عالی وان ابوا علیہ براہین البراعۃ تشہد وفی نظمہ لطف و حسن سلاسۃ یذل لدیہ کل نظم و یحسد فدام علی مرا الدھور حلاوۃ یزید علی الاکیاس طراً و یزید عدۃ ابیات فی وصف الدھلی یا من یسائل عن دھلی و رفعتہا علی البلاد و ما حازتہ من شرف ان البلاد اماء وھی سیدۃ وانہا درۃ والکل کالصدف فاقت بلاد الوریٰ عزاً و منقبۃ غیر الحجاز و غیر القدس والنجف سکانھا (ہم) جمال الارض قاطبۃ خلقاً و خلقاً بلا عجب ولا سلف بھا مدارس لوطاف البصیر بہا لم تنفتح عینہ الا علی الصحف کم مسجد زخرفت فیہا منارۃ لو قابلتہ شموس الضحو تنکسف لا غرو ان زینت الدنیا یزینتہا کم من اب قد علا بابن ذوی شرف وماء جون جریٰ من تحتہا فحکی انہار خلد جرت فی اسقل الغرف1 2جناب مولانا مولوی محمد صدر الدین خان بہادر سلمہ اللہ تعالیٰ ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبیست رسم ہے کہ جب مداحان ادب سرشت کو ا ثنائے سخن میں احتیاج ہوتی ہے کہ اپنے ممدوح کی طرف اشارت کریں، سخن کو 1حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ 1159 ہجری مطابق1746 عیسوی میں بمقام دہلی پیدا ہوئے غلام حلیم آپ کا تاریخی نام ہے 7 شوال 1239 ہجری مطابق 5 جون 1824 عیسوی کو ہفتے کے دن انتقال فرمایا سر الشہادتین، بستان المحدثین، تحفہ اثنا عشریہ، عجالہ نافعہ، تفسیر فتح العزیز، عزیز الاقتباس، رسالہ بلاغت، وسیلہ نجات، تحقیق الرویائ، سیر الجلیل، میزان الکلام، حاشیہ میر زاہد وغیرہ آپ کی مشہور تصانیف ہیں ان کے مفصل حالات کے لیے مندرجہ ذیل کتابیں دیکھئے:مجموعہ حالات عزیزی، تذکرہ عزیزیہ، تذکرہ علمائے ہند اردو ترجمہ، کمالات عزیزی، تذکرہ شاہ ولی اللہ، حدائق الحنفیہ، تراجم علمائے اہل حدیث، قدر حیات عزیزی، علم و عمل اور تراجم الفضلائ، نزہتہ الخواطر جلد ہفتم وغیرہ (محمد اسماعیل پانی پتی) اس طرح پر ادا کرتے ہیں کہ ادا فہیان معنی رس ان کے مطلب پر لے جاتے ہیں اور اگر اس سے زیادہ توضیح کے نیاز مند ہوتے ہیں، ایسے چند اوصاف حمیدہ اورمحامد گزیدہ یاد کرتے ہیں کہ سامع کا ذہن اس برگزیدہ انفس و آفاق کی طرف منتقل ہو جاوے اور غرض اس سے یہ ہے کہ جو جاہ بلند اور مرتبہ ارجمند ممدوح کا ارفع ہے اس امر سے کہ اس کے نام والا مقام کو زبان پر لاویں، چاہتے ہیں کہ حتی الوسع ترک تصریح کریں اور جو کہ بعض محل کا اقتضا بھی ہوتا ہے کہ اس کے نام نامی واسم گرامی کو مذکور کرنا چاہئے، بمقتضائے الاسماء تنزل من السماء کے ایسے اکابر عظام اور ایسے عمائد والا مقام کو نام بھی موافق علو شان کے مرحمت ہوتا ہے۔ پس جیسا ان کی رفعت جاہ اور والا دست گاہ اور بلندی قدر و مقدار اور بزرگی شان و اقتدار پر یہ نام دلالت کرے گا، ان صفات سے ایسی کون سی صفت ہے کہ اس کے قائم مقام ہو سکے اسی واسطے حق جل و علیٰ بھی کبھی اپنے نام پاک کو مصرع یاد فرماتا ہے ذرہ بے مقدار اول از راہ ادب کے طریقہ صفات میں رہ گزار ہوتا ہے اور چوں کہ سرتا سر اخلاق پسندیدہ کے اوصاف حمیدہ حد تحریر اور اندازہ تقریر سے متجاوز ہیں، عنان ادب کو ہاتھ سے دے کر دست توسل کو ذیل اسم سامی میں متثبت کرتا ہے کہ ایسے نام کا لینا گویا صفات غیر متناہیہ کا حصر اور دریا کو کوزے میں بند کرنا ہے۔۔۔۔ع چہ نامی کہ مولائے نام توام 3آغاز مدح اکمل کملائے روزگار، افضل فضلائے ہر دیار حاکم محاکم جاہ و جلال، متکی ارایک اقبال، اقلید در دائرہ علم، لوح طلسم حلم، عالم محقق تجوید، مدقق سر جملہ علمائے متالہین، رافع مناقشات حکماء و متکلمین، مجبول الفضلی، خصومات العدل بفیصل مقدمات مجلی آئینہ ناظر صور تقدیر، نجلبند حدائق فضل و افضال، مظہر صفات جلال و جمال، جامع محاسن صوری و معنوی مستجمع کمالات ظاہری و باطنی، کاشف دقائق معقول و منقول واقف حقائق فروع و اصول، تونگر صورت درویش سیرت، انسان پیکر ملک سریرت، مرجع مارب جہاں و جہانیاں مولانا مخدومنا مفتی محمد صدر الدین خان بہادر، قلم کو کیا طاقت کہ ان کے اوصاف حمیدہ سے ایک حرف لکھے اور زبان کو کیا یارا کہ ان کے محامد پسندیدہ سے ایک لفظ کہے، قطع نظر اس سے کہ اس زبدہ جہاں و جہانیان کی صفات کا احصار محالات سے اور کمالات کا حصر مرتبہ متعسرات سے ہے، جس وقت قلم چاہتا ہے کہ کوئی صفت صفات میں سے لکھے، یا زبان ارادہ کرتی ہے کہ کوئی مدح مدائح میں سے کہے جو کہ ہر صفت قابلیت اول لکھنے کی اور مدح لیاقت پہلے بیان کرنے کی رکھتی ہے، مدت تک یہی عقدہ بند زبان تحریر اور گرہ لسان تقریر رہتا ہے کہ کون سی صفت سے آغاز اور کون سی مدح سے ابتدا کرے: مجلس تمام گشت و بیابان رسید عمر ماہم چنداں در اول وصف تو ماندہ ایم بے شائبہ تکلف و بے آمیزش مبالغہ ایسا فاضل اور ایسا کامل کہ جامع فنون شتیٰ اور مستجمع علوم بے منتہا ہو، اب سوا اس سر گروہ علمائے روزگار کے بساط عالم پر جلوہ گر نہیں ان حضرات کی طبع رسا شکل رابع سے پہلے اس سے نتیجہ حاصل کرتی ہے کہ بدیہی الانتاج ہے ارباب فہم و ذکا اور ناخن فکر عقدہ لا ینحل کو پہلے اس سے وا کرتا ہے کہ گرہ حباب کو انگشت موج دریا معنی فہمی اس درجہ کہ راست و درست سمجھ لیا کہ زبان سوسن نے کیا کہا، اور رمز شناسی اس مرتبہ کہ واقعی معلوم ہو گیا کہ نگاہ نرگس نے کیا اشارہ کیا اگر ان کا حدس صائب مصحف گل پر تصنیف نہ لکھتا، بلبل امی محض رہتی، اور اگر ان کا فکر رسا سطر شمشاد کے معنی نہ بیان کرتا، قمری سسجح خواں نہ ہوتی۔ ان کی دقت طبع اور حدت فہم کے سامنے لالہ کے داغ دل اور سنبل کی پریشانی اور ارغوان کی جگر خونی کی وجہ سے مضمون پیش با افتادہ ہے اگران کی رائے روشن معجز نما ہو نقطہ موہوم کو اشارہ انگشت سے تقسیم کرے اور جزو لا یتجزی کو دو نیم قلب المومن عرش اللہ گویا انہیں کے دل کی شان میں ہے کہ حامل وحی ان کے انفاس فیض اقتباس کے واسطے گوش بر آواز رہتا ہے اور لی مع اللہ ان پر علی الدوام صادق ہے کیوں کہ کوئی وقت ایسا نہیں ہے کہ جبرئیل بارگاہ قرب الٰہی پر دیر تک اجازت بار کا منتظر نہ رہے راہ حق میں تیز رو اور مسلک دنیا میں کامل کوش، لیکن تو نگری ظاہری درویشی معنوی کی پردہ پوش ہے۔ کسانیکہ راہ خدا داشتند چنیں خرقہ زیر قبا داشتند اگر مولوی جامی زندہ ہوتے یہ بیعت: چو فقر اندر لباس شاہی آمد بہ تدبیر عبید اللہی آمد سوا اس برگزیدہ انفس و آفات کے اور کسی کی شان میں نہ کہتے جو کہ ارباب معنی پر یہ بات ظاہر ہے کہ لباس فقر میں مصروف اطاعت ہونا اور گوشہ خلوت کو واسطے فراغ عبادت کے اختیار کرنا موجب شہرت ہے اور صیت بلند بسبب کثرت اہل دنیا کے اس شغل کے اہم سے باز رکھتی ہے، لباس اہل ظاہر کو اختیار کیا اور از بس کہ احقاق حق اور فریاد رسی عباد اور عدل و انصاف افضل عبادات ہے ۔ منصب صدارت کو اپنے ذمہ پر لیا سبحان اللہ کیا طریقہ داد ہے اور کیا سرشتہ انصاف ہے کہ نوشیرواں ان کے دیوان عدالت میں عہدہ پیش کاری کے لائق بھی نہیں سمجھا جاتا باقی رہا عدل عمر یہاں بسبب ادب کے کچھ نہیں کہا جاتا شوکت ظاہری سے ان کے دربار میں دارا کو گزار نہیں اور جلالت باطنی سے ان کی خلوت میں فرشتے کو بار نہیں باوجود ان مراتب بلند اور اس منصب ارجمند کے خلق محمدی اختیار کیا ہے کہ افادہ علوم اور افاضت مسائل دین کے وقت ہر ادنیٰ کو اجازت سخن ہے بفحواے اطیعواللہ واطیعو الرسول کے موزونی سخن کی طرف بھی متوجہ ہو کر نظم و نثر میں اوقات شریف کو مصروف فرماتے ہیں زہے امت خاتم المرسلین اس جگہ بقدر گنجائش کاغذ کچھ نظم اور کچھ نثر آپ کا درج کرتا ہوں تاکہ معلوم ہو کہ فصاحت و بلاغت کو کیا رتبہ عطا کیا ہے۔ دیباچہ رسالہ لا تشد الرحال الحمد اللہ الذی جعل البیت امنا و مثابۃً للناس اجمعین وجعلہ ھدیً و مبارکاً للعالمین و فضل المدینۃ علی سائر البلاد، و شہر فہا بحلول خیر العباد و جمیع لہا بین طریف الفضل والتلید، وھی تنفی الناس کما ینفی الکبر خبث الحدید، فیہا روضۃ من ریاض الجنۃ ، والنزول فیہا من الماثم جنۃ و شرف بیت المقدس و بارک حولہ واشہر بین الناس مجدہ و طولہ وجعلہ مہبط الوحی و متعبد الانبیاء و مستقر عبادۃ المکرمین والصلحا، وفضل المساجد الثلثہ علی نائر العالم و عظمہا وکرم فضایلہا تحل ان تحد بحد او تعد بعد او تحصر بکلام او تحصی بنظام تشد الرحال الیہا من کل بلدۃ و قریۃ و فلاۃ والصلواۃ فیہا بماثہ الف او الف او خمسائہ صلواۃ والصواۃ علی سیدنا محمدن الذی ھوا فضل من کل راکع و ساجد وعلیٰ آلہ واصحابہ الطاھرین العزالاً ماجد ما ذکر المسجود لہ فی المساجد ورضو اللہ علی المتقین باثارھم الذین بذلوا جہدہم فی استنباط الاحکام و تحقیق عقائد الاسلام اقبلوا علی تمہیدا اصولہا وقوانینہا و تلخیص حجحہا وابر موا قواعد الدین و مھدوہا و رفعوا میاینہا و شیدوہا وارشد و المسترشدین بایضاح المحجۃ الزموا المعاندین باقامۃ الحجۃ وحفظوا قواعد الشریعۃ الحنیفۃ السمحۃ البیضا من ان تزلزھا شبہ اہل البدع والا ھوا شکر اللہ سعیہم واعاد الینا نفعہم اما بعد فیقول العبدا لمستکین محمد صدر الدین وفقہ اللہ للعمل فی یومہ لغدہ قبل ان یخرج الامر من یدہ ان العلم فی ھذا الزمان قد اندرس آثارہ و سقط عن القلوب محلہ و مقدارہ و نصبت انہارہ و قلعت اشجارہ و غارماعہ وھواء و ظلم فضاء و تغیرت خضرتہ و تبدلت نظریہ و ذھبت طراوتہ و بیت نداوتہ و غربت شموسہ واقمارہ دولت اصحابہ وانصارہ وافلت ثوابتہ و سیارہ و رحلت اخبارہ واخیارہ حتیٰ صار الیوم عیباً فاضحا و نقماً فاضحیٰ العلم مغلوباً والجہل مطلوباً والنقص کمالاً والحمق جمالاً والکمال وبالاً والحکمۃ ضلالاً والعقل فضولا والہزل مقبولاً والبدعۃ سنۃ سنۃ والضلالۃ حکمۃً وانصرفت الیہم عن تحصیل الحق بالتحقیق زلت الاقدام عن سواء للطریق، بحیث لا یوجد راغب فی العلم ولا خاطب للفضیلۃ وصارت الطباع کانہا مجبولۃ علی الجہل والرزیلۃ وما بقی من العلم الا الاسم ولا من الدین الا الرسم واما الذین لقبوھم الجھلۃ بالعلماء وہم فی غیر ہذہ البلدۃ فاکثرھم کما تریٰ ما علی قلوبھم اکنۃ فلا یکادون یفقھون حدیثا او یجدون الناس علی ما انتہم اللہ من فضلہ فاذا جاء ھم ما عرفوا من الحق کفروا بہ واردادوا تلبیساً و تدلیسا طائفۃ منہم یضعون الاعمار ولا یتضیئون بالانوار و یحسبون انہم یحسنون صنعا ہی ما یر تفع الیہ نظرہم ھو النقل عن لاکقی وما الکفایۃ من غیر التفات الی درایۃ واستبصار فی روایہ والقوا شراشرھم علی تصفح الروایات من الفتاویٰ غیر المعتمدۃ والعقل من شخص معین او مجہول من غیر ان یخطر ببالھم تحصین فی الادلۃ والاصول لم یعلموا ان الذاھل عنہ کبنیان علی غیر اساس واذا سئل عما ہو علیہ لم یقدر علی ایراد حجۃ او قیاس، فیا حسرۃ علی ابناء الزمان انہم قد اتخذوہ ظہریا و صار طلبہ عند ھوء لاء شیئاً فریا۔ والمختار عند جماعۃ منہم الاخذ بالقول المرجوع الذی لا نغنی من جوع ولا ننفع من یوح و منہم من تمسک بروایۃ فقیہ نادرۃ قذہ زعما منہم ان لکل جدید لۃ کل بضاعتہم الطعن فی الائمۃ المجتہدین وجل صناعتہم القدح فی الاولیاء المقربین الصراط لمستقیم والمحلی ماخذھم واساسہم وابن تیمیۃ وابن حزم رئیسہم و راسہم یا یہتدون الیٰ طریق الحق بل یترددون فی تبۃ بلاھا دو دلیل وہم اضلوا کثیر وضلو عن سو السبیل دفئۃ منہم یقلدون آباؤہم فہم علی اثارہم مقتدون او لو کان آباؤہم الا یعقلون شیئاً ولا یہتدون و بعضہم یستنبطون الا حکام عنا الا حادیث والقرآن ولا یعلمون شیئاً من العلوم حتیٰ علم اللسان وہم اذا وقعوا فی معظلۃ عمیاہ حبطووا فیہا۔ خبط عشوا، والذین معہم عابثون عن الاتباع والتقلید، ویقولون ان ھذا لیس بسواء السبیل واذا رجعوا الی شھدائھم ینقلون قولہم بلا حجۃ ولا دلیل ولقد من اللہ سبحانہ علی ہذہ الا مامۃ لوجہ العلماء فی کل عصر الذین عضوا فی العلم نبو جذہم ورموا غرض الا صابۃ بنو افذہم و صرفوا فی التحصیل العلوم اعمارہم واحیوا لکسب الفضل لیلہم و نہارہم فالفوا وافادوا و صنفوا واجادوا فطوبیٰ لمن راجع الیہم و نزل رباعہم ورای الحق حقا، و رزق اتباعہم و سحقا لقوم الذین لا یتردون الیہم ولا یرجعون اما تلیت علیہم قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون وکفیٰ لنا مستندا علی غوایۃ کبرا عہم انہم حرموا لسفر الی زیارۃ قبور الانبیاء والاولیقاء متسکین بحدیث لا تشد الرحال فاملیت علیہم فی شرحہ ما ینجیہم عن الضلال مع تفرق البال و تشتت الحال فضلت اعناقہم خاضعین وقالوا آمناً بما جاعنا من الحق المبین وللہ سبحانہ ہو المسول ان لوفقہا للصدق والصواب ویصون عقولنا عن الزیغ ولا رتیاب ویجعلنا ممن شرح بالحق صدرا و شرح فی فتح باب الاشکال فرفع قدراً وھو علی ما یشاء قدیر وبالا جابۃ جدید۔ اشعار عربی وکنا کغصنی بانۃ قد تالفاً علی دوحۃ حتی استطالا واینعا یغنیہما حدح الحمایم مرجعاً ویقیہما کاس السحائب منزعا سلیمین من خطب الزمان اذا سطا خلیلین من قول الحسوو اذا سعا ففارقنی من غیر ذنب حبیبۃ والقی بقلبی حرقۃ و توجعا عفا اللہ عنہ ما جناہ فاننی حفظت لہ العہد القدیم وضیعا ٭٭٭٭٭٭ نثر فارسی رہین منت بخت بیدارم کہ من بہیچ در حساب را کہ چوں حرف باطل بغلط بر زباں گوہر فشاں نمی گذشت از روستائی بے اعتباری بر آوردہ روشناس شہر ستان صحبت خطاب گردانید، واز نشیب گاہ فراموشی بالا دادہ و بر فراز والا یایگی یاد آوری رسانید یاوری طالع را گذری بسر وقت بیدلان افتاد کہ دور گردان بزم دل فروز را کہ چوں غبار شکست در کنار آں راہ نتوانستندی یافت از رہ سپری وادی بے آرامشی رہانیدہ از نزدیکی بساط حضور گزیدہ سامانے فراہم داد و کارواں نسیم مصر در بیت الحزن بار اقامت بر کشاد و ساربان زمام ناقہ لیلیٰ را بکف اختیار قیس شکستہ پا داد قطرہ ام دریا، مسم کیمیا خزفم گوہر، خار خسکم گل تر، شامم روکش روز، بامدادم رشک نوروز، دردم دوا، گردم توتیا، خوشہ ام خرمنے، سبزہ ام سمنی، یاسم امید، خزانم بہار جاوید گردید پستم را بلندی طالعم را ارجمندی شیم را سحر نفسیم را اثر سر افگندیم را سر فرازی شکستہ خاطرم را دل نوازی پدید آمد ہمانا ہمایوں فال طائر سایہ اقبال بگسترد کہ خطاب سلیمان بہ مور ناتواں رسانید و زبان حال را بروان پرور کریمہ انی القی الی کتاب کریم گویا ساخت سراپائی دل را شگرف کشایشی رو آورد بیش گاہ سینہ بو العجب انشراحی فردا گرفت ناظر پریشاں را پیرایہ فزونی جمعیت و مایہ تنو مندی آرامش حاصل شد نسیم الطاف قدیم بتازگی و زید و گلشن عاطفت از سر نو شگفت چوں از دور افتادگان از یاد رفتہ و فراموشان از طاق دل افتادہ پرس و جوے بسامان بود، خاطر حسرت اندوز بگونا گون کامرانی ہا برآمودو بدیع انبساطی روزی روزگار اخلاص سرشت گردید۔ بیت نیافت صبح دم آغوش دوست از بر دوست تمتعی کہ دل از ذکر ایں پیام گرفت ازان باز کہ بار فصل خصومات را بر گردن گرفتہ انفاس گرامی را نبا بایست دادہ ام نقوش سخن گذاری و نکتہ سرائی از ساحت ضمیرم یک قلم ستردہ و تار عنکبوت نسیان بر زوایائے سراد قات آں یکسر تنیدہ آمد، و راس المال متخیلات آن کہ در خزانہ خیال داشت بتاراج اختلاط مشی از پست منشان سست فطرت، کہ حفظ ضوابط معمولہ عدالت را عرش المعرفہ بالغ خردی و سردۃ المنتہائے دانش پژوھی شمردہ اند، دادہ، وافزونی تعلق وافراوانی شعل ہائے دیگر ضمیمہ آنست و دست مایہ آسودگی چندانی بدست نیار ستم آورد کہ لختی آئین سخن طرازی و نکتہ سنجی را بکار برم، مگر چوں آہنگ ایں صناعت را با گوھرم سرشتہ اند گاہ گاہ پسیچ آں تار بود نسیج ابن علائق را از ہم می گسلاند و ہر گاہ بہمین ہدیۃ نو آزاد گان طبع از احیائے نورانی برفراز اعتبار منزل می گیرد، ہمچو بلبلی کہ بدستان سرائی بلبل دیگر در چمن بخروش آید و آہنگ نالہ ساز دھد، بی اختیار نوائے جاں خراش از خاطر بریان بر میزند و بسر جوش شوق بے خودی جوش بی ہنگام ناز از جا میرود ہر چند از آشوب درونی و برونی بی راہہ میروم و سخن را بآئینے کہ باید گذاردہ ام و گزین کاری بسزا برنخواستہ ام، اما فروہیدہ فراہنگان انصاف گوہر و سخن سرایان دیدہ وران رامر مرسلۃ الصدر روح و رواں توانم فہمیدہ اکنون از حال عم بزرگوار می نویستم شفائے ایشان از نادرہ حکمت دادا ارجان آفرین است و مایہ حیرت دراں دوریات بکار ساز حقیقی روی نیاز آوردند جلائل نعم الٰہی را دریافتند، شرح آں بکالبد گفتار در نگنجد فی الجملہ بسر نوشت آسمانی طلیستان صحت بر دوش گرفتہ رو بحصار آوردہ اند در حصار حراست علی الاطلاق منزل گرفتہ والسلام حررہ محمد صدر الدین ختم اللہ بالحسنیٰ۔ غزلیات فارسی آتش عشق فلک در دل و در جانم سوخت ز آں کہ از داغ د گردید کہ نتوانم سوخت دل زخوں تاب جگر سوخت و مژگانم سوخت آخر ایں شعلہ بہ پیدایم و پنہانم سوخت پنبہ مرہم او مہر قیامت باشد عشق آں داغ کہ در سینہ سوزانم سوخت روز ہجراں تو می سوخت مرا حسرت وصل در شب وصل تو اندیشہ و ہجرانم سوخت ہیچ کہ چرخ جفا پیشہ نمی ساخت یمن شکر ایزد کہ ز آہ شرر افشانم سوخت زحمت ا بہر عذابم مکش ای نار جحیم کہ سراپائی مرا خجلت عصیانم سوخت شرر دوزخ جان تاب بسی بود بلند چوں مقابل شدہ با سینہ سوزانم سوخت برگ و جمعیت دیوان جزا برہم خورد جنت از حسن تو و دوزخ از افغانم سوخت باز آں بستر خارست و ہماں بالش سنگ بزم افروز شبستان نشدم آں شمعھم بحت خوابیدہ سر خاک شہیدانم سوخت دل پر درد بخون ناب جگر سوخت مرا آں کہ یک عمر بہ او ساختہ ام آنم سوخت ہر نگہ کاں بت ترسا بچہ در کارم کرد آتشی بود کز و خرمن ایمانم سوخت کونسیمی کہ زیثرب و زد و سبز کند خاست از ہند سمومے کہ گلستانم سوخت کرز آتش سخنی ہیچ کمالم نفزود لیکن آزردہ ازو جان حسو دانم سوخت ٭٭٭٭٭٭ ولہ حسن کے راہ زن کافر و دیندار نبود آفت سبحہ بلائی بت و زنار نبود یاد روزیکہ جز او ہیچ پدیدار نبود پردہ دیدہ مرا مانع دیدار نبود ہر دری بر رخم از روضہ، رضوان وا بود خواہش بوی گل از رخنہ دیوار نبود ایں شر و شور نہ در صحبت رنداں بودہ جملہ بد مست دے حوصلہ بردار نبود بود از گردش چشم تو گلستاں دل ما درمیان واسطہ ثابت و سیار نبود رب ارنی ز لب مستی من سرمی زد لن ترانی ادب آموز طلب گار نبود مست در گوشہ مے خانہ وحدت بودیم کار تا بادہ کشی بود و دگر کار نبود عشق بے پردہ تماشائے جمالش می کرد ہمچو بے خود زمئی وعدہ دیدار نبود بود سر رشتہ کارم بسر زلف سیاہ قصہ کش مکش سجدہ و زنار نبود شکر للہ چو بطوف جرمم آوردند روی دل جز طرف خانہ خمار نبود دست تا بند نقابش برساندم مردم سعی خوش بود مگر بخت مددگار نبود صحبتی بود و عجب دوش میان من ویار صد شکایت بلب و رخصت اظہار نبود دل خون گشتہ مدد کرد و گرنہ صد بحر خرچ یک روزہ ایں چشم تلف کار نبود گرد غم جز دل ناشاد محلیٰ نگزید ورنہ آئینہ ما قابل زنگار نبود سہل و آسان شدہ امروز بعہد تو چنیں ورنہ دشوار تر از ترک وفا کار نبود از کساد ہنرست ایں کہ بہیچم فخرند جنس تا بود گراں ناز خریدار نبود لطف ساقی بنگر دور بمن آخر کرد چوں مرا حوصلہ ساغر سرشار نبود در دلم آں مژہ صد خنجر الماس شکست زہر چشم تو بآن گرچہ مددگار نبود از علاج دل بیمار چرا دست کشید گر مسیح بتمنائی تو بیمار نبود طرز آتش سخنی طبع من ایجاد نبود پیش ازیں ایں روش و شیوہ و اشعار نبود آہ از خجلت آزردہ ببازار جزا ہیچش از جنس گراں مرتبہ دربار نبود ٭٭٭٭٭ ولہ خواہم دم دعا بدعا نا گریستن شد بس کہ بی اثر بدعا ہا گریستن سوز دلم نمود دوبالا گریستن ایں درد را نگشتہ مداوا گریستن دل قطرہ قطرہ خون شدہ از چشم برچکید تا راج داد مشغلہ ما گریستن پیشش بضبط گریہ بکوشم ز رشک غیر بر رحم تا نیاورد او را گریستن جز چوں تو سنگ دل نتواند شد از دگر نگریستن بحال من و نا گریستن از اشک ریزی مژہ خالی نشد دلم خواہم چو زخم از ہمہ اجزا گریستن بی عندلیب خوش نبود نالہ در چمن خواہیم در خزاں بہ تمنا گریستن واعظ اگر بیاد قدی گریہ نارواست باز از چہ روست از پی طوبی گریستن شوید ز دیدہ لذت خوابی کہ دیدہ بود پیشت ازاں گرفت زلیخا گریستن ای چشم دجلہ ریز ادب را نگاہ دار اینست در مدینہ و بطحا گریستن رسوا شدن چو برق بود یا بچشم نم ای ابر با گریستن ما گریستن ابر آب شد ز گریہ ام و برق خندہ زن آہی کجا کہ جمع کنم با گریستن از سوز سینہ خوف نداریم کار ماست از کا و کا و آں مژہ دریا گریستن آوردمش برحم بطرزی مگر نسیم خوش صرفہ برد از لب گویا گریستن طوفان نوح بود حدیثی شنیدہ چشم ترم ثمود ز رسوا گریستن در عیش بے قرارم و در غم بہ پیچ و تاب خندیدنم مشبیہ بود با گریستن دل را ہمیشہ خندہ من خون کند چوگل بشگافدم جگر قلم آسا گریستن موچے بزن کہ ترکنم ابر بہار را ای دیدہ تا کجا بمدارا گریستن ای دل غمیں مباش بالفت کہ شمع وار باخندہ ہم عناں بود ایں جا گریستن یا رب نگاہ بوالہوسم دہ کہ شد مرا در بزم او حجاب تماشا گریستن سیراب تا زمین غزل کرد گریہ ام بینم کہ می رسد بکجا ہا گریستن اے دل بیا کہ خاک کنم ابرو برق را از تو بخون تپیدن و از ما گریستن اشعار تر دریں غزل آمد کہ ربط داشت چوں چشم من قوافی آں با گریستن آزردہ خیز کامدہ عرفی و طالبا از تو قصیدہ خواندن و زینہا گریستن ٭٭٭٭٭ غزل ریختہ نالوں سے میرے کب تہ و بالا جہاں نہیں کب آسمان زمین و زمیں آسماں نہیں مجھ سا بھی کوئی عشق میں ہے بد گماں نہیں کیا رشک دیکھ کر مجھے رنگ خزاں نہیں جانے ہے دل فلک کا مری تلخ کامیاں ان ناتوانیوں کو پہنچتی تواں نہیں قاتل کی چشم تر نہ ہو یہ ضبط آہ دیکھ جیوں شمع سر کٹی پہ اٹھا یہاں دھواں نہیں آنکھوں سے دیکھ کر تجھے سب ماننا پڑا کہتے تھے جو ہمیشہ چنیں ہے چناں نہیں کہتا ہوں اس سے کچھ میں نکلتا ہے منہ سے کچھ کہنے کو یوں تو ہیگی زباں اور زباں نہیں اے بلبلان شعلہ دم ایک نالہ اور بھی گم کردہ راہ باغ ہوں یاد آشیان نہیں اٹھ کر سحر کو سجدہ مستانہ کے سوا طاعت قبول خاطر پیر مغاں نہیں مہکا ہوا بیت حزن دیکھنا کوئی آیا نسیم مصر کا ہو کارواں نہیں اس بزم میں نہیں کوئی آگاہ ورنہ کب وہاں خندہ زیر لب ادھر اشک نہاں نہیں افسردہ دل نہ ہو در رحمت نہیں ہے بند کس دن کھلا ہوا در پیر مغاں نہیں لب بند ہو تو روزن سینہ کو کیا کروں تھمتا تو مجھ سے نالہ آتش عیاں نہیں اے دل نفع ہے سودائے عشق میں اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں اے جذب شوق رحم کہ مد نظر ہے یار جا سکتی وہاں تلک نگہ ناتواں نہیں کیا کچھ نہ کر دکھاؤں پر اک دن کے واسطے ملتا بھی ہم کو منصب ہفت آسماں نہیں ناز و نگہ روش سبھی لاگو ہیں جان کے ہے کون ادا وہ تیری کہ جو جانستاں نہیں شب اس کو حال دل نے جتایا کچھ اس طرح ہیں لب تو کیا نگہ بھی ہوئی ترجماں نہیں وہ شاخ نخل خشک ہوں میں کنج باغ میں دیکھے ہے بھول کر بھی جسے باغباں نہیں ملنا ترا یہ غیر سے ہو بہر مصلحت ہم کو تو سادگی سے تری یہ گماں نہیں اچھا ہوا نکل گئی آہ حزیں کے ساتھ اک قہر تھی، بلا تھی، قیامت تھی جان نہیں بے وقت آئی دیر میں کیا شورشیں کریں ہم پیر دیر مے کدہ بھی نوجواں نہیں آزردہ نے پڑھی غزل اک مے کدہ میں کل وہ صاف تر کہ سینہ پیر مغاں نہیں ٭٭٭٭٭٭ ولہ شب جوش گریہ تھا مجھے یاد شراب میں تھا غرق میں تصور آتش سے آب میں کیا جانو جو اثر ہے دم شعلہ تاب میں یہ وہ ہے برق آگ لگا دے نقاب میں قسمت تو یکھ کھولی گرہ کچھ تو رہ گئے ناخن ہمارے ٹوٹ کے بند نقاب میں یا رب وہ خواب حق میں میرے خواب مرگ ہو آوے وہ مست خواب اگر میرے خواب میں حال اس نگہ کا اس کی سراپا میں کیا کہوں مور ضعیف پھنس گئی جا شہد ناب میں ہر وقت آرزوئے عذاب جحیم ہے ہاتھوں سے ہجر کے ہوں میں کیا کیا عذاب میں یا رب یہ کس نے چہرے سے الٹا نقاب جو سو رخنہ اب نکلنے لگے آفتاب میں ذکر وفا وہ سنتے ہی مجلس سے اٹھ گئے کچھ گفتگو ہی ٹھیک نہ تھی ایسے باب میں خورشید زار ہوئے زمین دے جھٹک ذرا سو آفتاب ہیں تری گرد نقاب میں کیا عقل محتسب کی ہے لایا ہے کھینچ کر سودا زدوں کو محکمہ احتساب میں کیا پوچھتے ہو چارہ از خویش رفتگاں سو جا سے چاک جاء ہے سوزن خلاب میں بے اعتدالیاں مری ظرف تنک سے ہیں تھا نقص کچھ نہ جوہر صہبائے ناب میں ہم جان و دل کو دے چکے موہوم امید پر اب ہو سو ہو ڈبو دی یہ کشتی شراب میں آواز صور تیرے شہیدوں کی روز حشر لگتی تھی اک بھنک سی جو کانوں کو خواب میں اٹھنے میں صبح کے یہ کہاں سرگرانیاں زاہد نے مے کا جلوہ یہ دیکھا ہے خوبا میں کچھ بھی لگی نہ رکھی ڈبو دی رہی سہی دل کو نہ ڈالنا تھا سوال و جواب میں جو دیکھتے ہیں اس سے یہ گزرا کبھو نہیں یعقوب کے خیال و زلیخا کے خواب میں تحقیق ہو تو جانو کہ میں کیا ہوں قیس کیا لکھا ہوا ہے یوں تو سبھی کچھ کتاب میں الفت میں ان کی اب تو ہے جانوں کی پڑ گئی دل کس شمار میں ہے جگر کس حساب میں ہر ہر روئیں سے خرقہ کی میرے ہے مے چکاں غوطے تو سو دیے اسے زمزم کے آب میں مے اور ذوق بادہ کشی لے گئی مجھے یہ کم نگاہیاں تری بزم شراب میں تھی جہاں میں روز ال جائے درد کی آیا پسند دل میرا اس انتخاب میں اس چشم اشک بار کے کیوں کر ہو سامنے رونے کا مادہ ہی نہیں ہے سحاب میں امداد چشم کیا ہو لگی دل کو آگ جب جلنے کے بعد خون نہیں رہتا کباب میں ہیں دونو مثل شیشہ پہ سامان صد شکست جیسا ہے میرے دل میں نہیں ہے حجاب میں انوار فکر سے نہ ہوا کچھ بھی انکشاف جتنا پڑے ہم اور پڑے جا حجاب میں یہ عمر اور عشق ہے آزردہ جای شرم حضرت یہ باتیں پھبتی ہیں عہد شباب میں ٭٭٭٭٭٭ ولہ حسن کی شان سے ہے یہ رہے مستور نہیں ورنہ ہوتا کبھو یوں جلوہ سر طور نہیں عذر کرتے ہی بنی ان کو تجھے جب دیکھا جو کہا کرتے تھے رسوا تر معذور نہیں ہیں تو ہم جنس فراہم نہ ہو سامان طرب بزم ماتم سہی گو انجمن سور نہیں لاکھ ہنگامہ منصور دکھا دیں دم میں پر ہم افشائے سرائر میں ہیں مامور نہیں خانہ غیر تجلی کدہ ہو اور نصیب ہم کو جز رو سیاہ و شب دیجور نہیں مژدہ اے چرخ کہ اب میری طرح سے رکھتا طاقت اٹھنے کی ذرا نالہ رنجور نہیں چارہ اب کیا ہو جو ہو نشتر و مرہم یکساں کون سا داغ ہے سینے میں جو ناسور نہیں دل پر رخنہ ہی کو آگ لگا دی ہم نے چارہ جز شعلہ پئی خانہ زنبور نہیں محتسب کو کیا بے کار تری آنکھوں نے ایک مے خانہ بھی اس دور میں معمور نہیں پرزے پرزے نہ کرو نامہ مرا بن دیکھے یہ بھی چھاتی سے لپٹتا ہے کہ منظور نہیں ہے نیا تاعدہ یہاں ذبح کا قاتل کی طرف دیکھنا بھر کے کنکھیوں سے بھی دستور نہیں دامن اس کا تو بھلا دور ہے ہاں دست جنوں کیوں ہے بے کار گریباں تو مرا دور نہیں ریختہ یہ ہے کہ جیوں آیت محکم ہے صاف معنی دور نہیں لفظ بھی مہجور نہیں میں ہوں اور گوشہ یثرب یہ تمنا ہے اب خواہش سلطنت قیصر و فغفور نہیں مدد اے پر تو لطف نبوی کوئی عمل شمع تنہائی ظلمت کدہ گور نہیں آستان ہے ترے در کا وہ تجلی پر تو پہنچے پاسنگ کو جس کی جبل طور نہیں کون سا دن ہے کہ خورشید جہاں تاب سحر خاک در سے ترے در یوزہ گر نور نہیں پایہ عشق بڑھانا تھا وگرنہ یہ نام لوح پر عرش کی ہوتا کبھو مسطور نہیں ہوں ادا نظم میں کس طرح مناقب تیرے سلسلہ یہ متناہی ہے وہ محصور نہیں ترک روی خوش آزردہ محالات سے ہے یوں خدا کی تو خدا سے ہے کچھ دور نہیں (کشمیری الاصل مولانا مفتی صدر الدین خاں بڑے پائے کے عالم، ادیب اور شاعر تھے ۔ آزردہ تخلص کرتے تھے۔ اردو، فارسی، عربی تینوں کے فاضل اور شہر دہلی کے رؤسا میں تھے۔ 1204 ھ مطابق1789ء میں پیدا ہوئے۔ علم و ہنر اور فضل و کمال میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے۔ دہلی کے صدر الصدور اور مفتی اعظم تھے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز، شاہ عبدالقادر، شاہ محمد اسحاق اور مولوی فضل امام خیر آبادی سے علم کی تحصیل کی۔ مولانا محمد قاسم نانوتو ی بانی مدرسہ دیوبند، نواب صدیق حسن خاں بھوپال، مولوی رشید احمد گنگوھی اور سرسید احمد خاں جیسے مشاہیر زمانہ ان کے شاگرد تھے دوستوں میں مرزا غالب، مومن، نواب مصطفی خاں شیفتہ اور مولانا فضل حق خیر آبادی کے نام خاص طور سے مشہور ہے 1857ء کی جنگ آزادی میں فتویٰ جہاد پر دستخط کرنے کے الزام میں جائیداد ضبط ہوئی اور چند ماہ جیل میں بھی رہے 1285ء مطابق1868 ء میں انتقال کیا) (محمد اسماعیل) ٍ 3 جناب مولوی رشید الدین خاں رحمۃ اللہ علیہ جامع معقول و منقول، حادی قروع و اصول یگانہ روزگار، یہیں نتیجہ قرون وادوار، یکتائے زمان قدوہ دوران، مولوی محمد رشید الدین خاں طالب ثراہ و جعل اللہ الجنۃ مثواہ۔ شاگرد رشید اور مخلص خالص العقیدت جناب جنت مآب زبدہ اکابر روزگار مولانا رفیع الدین رضوان اللہ علیہ کے تھے اور ان کی خدمت میں ایسا اخلاص وافر رکھتے تھے کہ حضرت موصوف آپ کی تربیت میں مادام الحیات ایسے مصروف تھے جیسے کہ باپ فرزند کی تربیت میں اگرچہ کسب و کمال ان حضرت کے دونوں بھائی یعنی مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہا کی خدمت سے بھی کیاتھا، لیکن تکمیلجمیع فنون انہیں کی خدمت میں انصرام کو پہنچائی۔ ہر چند سب علوم متداولہ میں یک فنی تھے، لیکن علم ہیئت اور ہندسہ میں علم یکتائی بلند کیا تھا۔ مدت العمر فرقہ امامیہ سے مباحثہ و مناظرہ کیا اور باہم تحریر رہی، اس بحث میں رسالہ ہائے متعددہ فراہم ہو گئے۔ طریق مناظرہ کا یہ دیکھا گیا کہ تقریر یا تحریر میں میں خصم کو بجز اعتراف عجز کے چارہ نہ تھا تقویٰ اور زہادت اور تشرع اور عبادت کا بیان خامہ بریدہ زبان کی جمال نہیں کہ ایک شمہ اس کا لکھ سکے۔ ہر چند حکام وقت چاہتے تھے کہ ان کو عہدہ قضا سپرد کر دیں تاکہ ان کی نیک نیتی اور عدل و انصاف سے عباد اللہ کی حق رسائی ہوتی رہے۔ لیکن از بس کہ اپنی اوقات کو بیشتر تربیت مستفیضان کمال میں مصروف رکھتے تھے، قبول نہ کیا۔ جب تقاضائے موفور احیان مختلفہ میں حکام کی طرف سے وقوع میں آیا اور بجد ہوئے، بسبب کمال قناعت کے ایک امر جزوی پر قانع ہو کر عہدہ مدرسی مدرسہ شاہ جہاں آباد قبول فرمایا۔ از بس کہ ایثار و کرم جبلی تھا سو روپیہ کی تنخواہ ان کو ہر گز کفایت نہ کرتی تھی اور خدمت فقرا اور مساکین سے کسی وقت اپنے تئیں معذور نہ رکھتے تھے، بقدمے و درمے و سخنے میرزا بیدل علیہ الرحمۃ نے خوب کہا ہے۔ رباعی بیدل دارد ز طبع اہل ہمت آثار سخا جلوہ پخیدن صورت با بے خرداں پند و بمحتاں جان سیم با خوردان لطف و با بزرگاں خدمت عمر آپ کی قریب ستر برس کی تھی اور آخر عمر میں ارادہ بیت اللہ کا کیا۔ چوں کہ ہر ارادہ پر ارادت اللہ غالب ہے، مرض صعب میں مبتلا ہوئے اور احرام کعبہ معنوی یعنی دیدار فیض انوار شاہد حقیقی باندھ کر دار آخرت کو راہی ہوئے۔ آپ ک وفات کو تیرہ چودہ برس کا عرصہ گذرتا ہے۔ بسبب کثرت توغل علوم دینیہ اور مباحثات علمی کے انشائے نظم کی طرف کبھو متوجہ نہ ہوتے تھے، مگر تکلیف خطاب اور بہانہ جواب سے گاہ گاہ نثر عربی کا اتفاق ہوتا تھا ازاں جملہ یہ رقعہ دستیاب ہوا کہ لکھا جاتا ہے۔ رقعہ عربی اسرب القطاھل من یعیر جناحہ لعلی الی من قد ھویت اطیر من جوی او فدۃ البعد، و شجی اکمدۃ الوجد، الی جانب الجیب الذی تنزہ قدحہ المعلی عن القدح والنسیب، الذی استوعب نسبہ صنوف المدح الذی اذا نظم خجل قلائد القلائد، واذا نثر غبط فوائد الفرائد، ذو خلق عظیم و طبع کریم و سحیۃ سریۃ و ہمہ علیہ ما من علم الصاب مشکلاتہ وما من فن الاغاص فی بحار تحقیقاتہ اما الادب فقد شید ارکانہ، وما الفقہ فقد ابرم بنیانہ واما العقول فمنا دالیہ ومعول ارباب الصناعۃ علیہ، ذخر المفضائل فخر الاماثل صدر الا فاضل زین المحافل مولانا المولوی محمد صدر الدین لازال ظل افاضتہ علی روس المستفیدین اما بعد اھداء ہدایا السلام و اداء مناسک الاحترام والاعظام، فیہنئی ورود مشرقہ و مشرفہ ہبت عند فتہا النسائم مصریہ و تجلت کلمات بیض الوجود الا انہا دریۃ، فقبلتہا مرارا و قابلتہا بالا جلال اکثارا واستشقت منہا رایح سحیق الصندل، و نظرت الی معانیہا فاذا ہی لا لی رطبہ و ما سواہا من المعانی جندل واما ما فیہا من الا لفاظ فہو انمق من غمرات الا لحاظ ہذا ثم ما اصف من الزمان مذ اصطلیت نیران الہجران فو الذی حبانا بمجتک وجعلنا من صفوۃ احبک، انی مذفا رقتک، ما اطبقت مقعلتی بالنوم وما لاقت لیلتی عن الیوم یسرلنا اللہ لقاک و یسرک للحسنی فی آخر تک و دیناک والسلام بالوف الاکرام۔ (مولانا رشید الدین خاں علم کلام اور فن مناظرہ میں اپنا جواب نہ رکھتے تھے علم ہیئت اور فن ہندرسہ میں بھی کمال حاصل تھا 70 سال کے قریب عمر ہوئی اور 1249 ھ مطابق1833ء میں وفات پائی اپنے زمانہ کے زبردست فضلاء میں ان کا شمار ہوتا ہے محمد اسماعیل پانی پتی) مولی الکرام مخدوم الانام، عالم با عمل فاضل اجل اسوہ افاضل عرب و عجم، زبدہ ارباب ہحم، سند اکابر روزگار فخر کملائے شہر و دیار، محی الشرع والسنۃ’’ ما ہی ہوی و بدعۃ، موسس اساس دین مبین، ہادینا و مولانا حضرت شاہ رفیع الدین قدس سرہ العزیز یہ حضرت خلف الصدق حضرت شاہ ولی اللہ غفر اللہ لہ کے اور چھوٹے بھائی مولانا و مخدومنا حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی کے تحصیل علوم عموماً اور سند حدیث نبوی کی خصوصاً اپنے والد ماجد کی خدمت میں لی۔ علوم و فنون میں مستند الیہ ارباب استعداد تھے چوں کہ مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب مرحوم و مغفور کیرسن اور ضعف مزاج و کثرت امراض کے دماغ تعلیم و تدریس طلبا نہ رکھتے تھے، سلسلہ تدریس کا حضرت کی ذات با برکات سے جاری تھا۔ فضلائے نامی ہر دیار کے کہ ارباب کمال سے منشور یکتائی حاصل کر چکے تھے، جب آپ کی خدمت میں پہنچے اپنے تئیں طفل امجد خواں اور مبتدی محض سمجھ کر ابتداء سے انتہا تک پھر تحصیل علم پر کمر باندھتے۔ اسی واسطے دیار ہندوستان کے جمیع فضلائے نامی انہیں حضرت فیض موہبت کے مستفیضوں میں سے ہیں ہر فن کے ساتھ اس طرح کی مناسبت تھی کہ ایک وقت میں فنون متباینہ اور علوم مختلفہ درس فرماتے تھے جب ایک کی تعلیم سے دوسرے کی تعلیم کی طرف متوجہ ہوتے، حضار خدمت کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا اسی فن میں جامہ یکتائی ان کے قامت استعداد پر قطع ہوا ہے۔ باوجود ان کمالات کے افاضہ فیض باطن کا یہ حال تھ اکہ جنید بغدادی اور حسن بصری کہ اگر ان کے وقت میں ہوتے تو بے شک وریب اس میں اپنے تئیں کمترین مستفیدان تصور کرتے اور سخا و کرم کا یہ حال تھا کہ زرورد اور گلی درمنہ کو گل دستہ میں محبوس مشاہدہ کرنا سخت ناگوار ہوتا تھا۔ الغرض ملک تھے صورت بشر میں کوئی زبدہ کملائے دہر کے اوصاف میں کہاں تک زبان قلم کو فرسودہ کرے کہ اگر بالفرض ایک حرف اس دفتر سے لکھا جاوے، ایک کتب خانہ تیار ہو سکتا ہے حضرت کے نظم و نثر زبان عربی میں بہت ہیں، مگر چند اشعار پر قناعت کرتا ہوں۔‘‘ ھذہ ابیات فی بیان معراج النبی علیہ الصلواۃ والسلام یا احمد مختار یا زین الوریٰ یا خاتم الرسل ما اعلا کا یا کاشف الزراء من مستنجذ یا منجی فی الحشر من والا کا ھل کان غیرک فی الانام من لستویٰ فوق البرق و جاوز الافلا کا واستمسک الروح الامین رکابہ فی سیرہ واستخدم الافلا کا عرضت لک الدنیا و ذاعوا ملۃ نسخت ببعثک طامعین روا کا فرددتہم فی خیبۃ عن قصدہم اللہ صانک عنہم و وقا کا واخترت من لبن و خمر فطرۃ الاسلام با لہدی الیہ ہدا کا قعدت لک الرسل العظام ترقباً فعدوت مغبوطا لہم سرا کا واممتہم فی القدس بعد تجاوز منہم بامر اللہ اد ولا کا وبکی الکلیم لما راک علوتہ ومنا فسوک بحق فیہم ذا کا وتنزینت حور الجنان بشاشہ بک سیدی شوقاً الی لقیا کا و تبتشبش العرش المظم لا ثما رجلیک فال الفضل اذ آوا کا خلفت روح القدس عند السدرۃ القصویٰ یخاف من الجلال علا کا ادناک ربک فی منازل قربہ جلیٰ لک الاکوان ثم ہبا کا واتم نعمۃ علیک فلم تسل ان توثر الانفاق والاملا کا القی الیک کنوز اسرار سمت عن حیطہ الافہام اذ ناجا کا وسالت فینا العغومنہ شفاعہ فاجاب ربک قد وہبت منا کا حتیٰ اذا تم الدنو تسرت منک الویہ فی منا مولا کا فراتیہ جہراً بعینی نورہ ما کان الا اللہ فی مجلا کا فکساک نوراً من اشعہ ذاتہ افناک عنک اذا بہ القا کا فکساک نوراً من الشعۃ ذاتہ افناک عنک اذا بہ القا کا فلک المناصب والسادۃ للوریٰ و خلافۃ الرحمنا یا بشرا کا جعلت لک الاقدار والا نوارو الجنات والنیران فی مرا کا اعطاک تخفینا و تیسیرا الیٰ دین قویم محکم لقوا کا وسواہ من نعم جسام مالہا عد و حذ ینتہی اولا کا فرجعت مسروراً بہا فی لمحہ و جمیع خلق اللہ قدہنا کا اجریت دین اللہ بعد نضوبہ ومحوت راس الجہل والاشرا کا فلقد اتیتک سیدی مستجدیا من سیبک المدرار حسن ولا کا یا لیتنی قد فزت منک بنظرۃ فی بدر وجہ نور الاحلا کا (حضرت شاہ رفیع الدین اپنے زمانہ کے نہایت ممتاز علماء میں سے تھے علاوہ دیگر تصنیفات کے قرآن کریم کا اردو ترجمہ آپ کی یادگار ہے 1123 ھ کے مطابق1749ء میں پیدا ہوئے اور 1233 ھ مطابق1817 ء میں وفات پائی) (محمد اسماعیل پانی پتی) 5 جناب مولوی مخصوص اللہ سلمہم اللہ تعالیٰ عالم با عمل مبرا از حرص وامل، زبدہ فقہائے زبان اسوہ صلحہائے جہان، معارف دستگاہ مولوی مخصوص اللہ، فرزند رشید مولانا رفیع الدین مرحوم مغفور ہیں جن کا ذکر سابق ہو چکا ہے علم و فضل میں گوی سبقت اقران و امثال سے لے گئے ہیں ایک مدت دراز تک تدریس و تعلیم طالبان کمال میں مصروف تھے اور علوم دینی اور یقینی کے مشاغل میں شب و روز اوقات گرامی کو خرچ کرتے چوں کہ بیس پچیس برس تک مولانا شاہ عبدالعزیز قدس سرہ العزیز کی خدمت میں روز وعظ وقرأت کلام الٰہی و حدیث رسالت پناہی کے کرتے تھے اور تقاریر سرا سر افادت مولانائے موصوف کو ذخیرہ گوش ہوش فرماتے تھے، حدیث و تفسیر میں ایسا مایہ کمال بہم پہنچایا کہ ان دونوں فن کے نکات جو ان حضرات کے سینہ بے کینہ میں ہیں اور کہیں نہیں۔ لیکن از بس طبیعت عبادت دوست اور مزاج ذہادت پرست واقع ہوا ہے، ایک عرصہ ہوا کہ سر رشتہ تدریس کو ہاتھ سے دیگر گوشہ نشین ہیں اور اوقات آپ کی ایسی مجموع ہے کہ شاید سلف میں اولیاء کرام کی اوقات ایسی ہی ہو گی۔ از بس کہ توجہ عبادت اور تقویٰ شعاری کی طرف مصروف ہے، نظم عربی اور انشائے تازی کی طرف میل نہیں اس واسطے کلام آپ کا اس کتاب میں مندرج نہیں ہوا (آپ کا انتقال 1273ھ مطابق1856ء میں ہوا) (محمد اسماعیل پانی پتی) 6 جناب جنت مآب مولوی عبدالقادر قدس سرہ حضرت با برکت کثیر الافادت جناب غفران مآب کامل واصل زبدہ علمائے متالہین اسوہ کملائے ربانین، محقق مسائل دین موسس معانی شرع مبین، ہادی شریعت پیر طریقت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب غفر اللہ لہ آپ خلف الرشید ہیں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے اور کہیں برادر مولوی شاہ عبدالعزیز صاحب اور مولوی شاہ رفیع الدین قدس سرہما کے آپ کے علم و فضل کا بیان کرنا ایسا ہے کہ کوئی آفتاب کی تعریف فروغ اور فلک کی مدح بلندی کے ساتھ کرے۔ زبان کو کیا طاقت کہ ایک حرف حضرت کی صفات سے لکھ سکے اور قلم کی کیا مجال کہ آپ کی مدانح سے ایک ذرہ لکھ سکے۔ کسب فیض باطن سوائے والد ماجد کے اور بزرگوں کی خدمت سے بھی اتفاق ہوا، اب اس جز و زمان میں ایسا مکاشف صحیح کم کسی اہل کمال سے اتفاق ہوا ہے۔ بارہا ثقات کی زبان سے سنا گیا کہ جس امر میں کچھ فرمایا ویسا ہی بے کم و کاستہ ظہور میں آیا۔ باوجود اس کے کہ بسب کثرت اخلاق کے کسی کے حق میں کچھ ارشاد نہ کرتے اور کسی کو نہ فرماتے کہ ادھر بیٹھ یا ادھر، لیکن من جانب اللہ لوگوں کے دل میں آپ کا ایسا رعب چھایا ہوا تھا کہ روسائے شہر جب اپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، بسبب ادب کے دور دور خاموش بیٹھتے اور بدون آپ کی تحریک کے مجال سخن نہ پاتے اور ایک دو بات کے سوا یارا نہ دیکھتے کہ کچھ اور کلام کریں کرامت حضرت مجد تواتر پہنچ گئی ہیں اگر ان کا بیان کیا جاوے کتاب میں گنجائش نہیں۔ بیت مردان خدا خدا نباشند لیکن ز خدا جدا نباشند از بس کہ ترک حضرت کے مزاج میں بہت تھا، تمام عمر اکبر آبادی مسجد کے ایک حجرے میں بسر کی آپ کا کچھ کلام نظر و نثر سے راقم کو دستیاب نہیں ہوا۔ غالب یہ ہے کہ جو آپ کی اوقات منزہ تھی اس سے کہ اپنی طبع اقدس کو ان امور کی طرف متوجہ فرماتے ادھر ملتفت نہیں ہوئے ہوں گے۔ تیس پینتیس برس سے زیادہ گزرتے ہیں کہ حضرت نے جہان فانی سے رخصت سفر عالم نورانی جاودانی کی طرف باندھ کر جوار رحمت الٰہی میں آسائش کی1؎ 1 حضرت شاہ صاحب1167 مطابق 1753 ء میں پیدا ہوئے اور 1230 ھ مطابق 1814 ء میں وفات پائی اردو زبان میں آپ نے قرآن مجید کا ترجمہ فرمایا جو آج تک مشہور ہے نہایت عالم فاضل اور متقی و پرہیز گار بزرگ تھے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) 7 جناب مولانا عبدالحی غفر اللہ لہ افضل الفضلا اکمل الکملا قامع بینان بدع و اہواء بانی زہد و تقویٰ فضائل دستگاہ فواضل پناہ جامع صفات جلال و جمال قامع اساس کفر و ضلال، مولانا عبدالحی صاحب غفر اللہ لہ، مولانا عبدالعزیز قدس سرہ کی خدمت میں نسبت دامادی اور شاگردی کی رکھتے تھے۔ ہر فن کے ساتھ نسبت خدا داد تھی کہ جس فن میں جس نے آپ سے بحث و نظر چاہا اسی فن کو جانا کہ شاید دوسرا ان کا نظیر نہیں پیدا ہوا۔ ایک مدت درس و تدریس علوم میں صرف ہمت کی۔ اواخر میں زبدہ سادات کرام اسوہ اولیائے عظام سید احمد (بریلوی) مغفور مبرور کی خدمت میں، جن کا ذکر اس سے پہلے ذیل اولیا و صلحاء میں ہو چکا ہے۔ پہنچ کر بیعت کی اور تادم زیست ان کے سایہ عاطفت سے کبھی علیحدہ نہ ہوئے۔ سفر و حضر میں مثل سایہ کے ان کی طبیعت میں حاضر رہتے، انہیں کی خدمت میں سفر بیت اللہ کو اختیار فرما کر فرض حج ادا کیا اور وہاں سے مراجعت فرما کر چندے بموجب ارشاد پیر طریقت کے وعظ گوئی میں اوقات شریف کو بسر کیا اور لوگوں کو نہایت ہدایت حاصل ہوئی اور با تفاق مولوی محمد اسماعیل صاحب کے جن کا ذکر بعد اس کے بہ تفصیل آتا ہے، ترغیب جہاد فی سبیل اللہ میں سرگرم رہے۔ جب سید صاحب مغفور اس ارادے پر کوہستان کی طرف تشریف فرما ہوئے اسی نواح میں چند سال تک رفیق رہے اور پھر مرض بواسیر کی شدت سے سفر نا گزیر اختیار کیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون (آپ کا انتقال 8 شعبان1243 ھجری کو ہوا۔ عیسوی سن 1828 تھا۔ ہندوستان کے چوٹی کے علماء میں سے تھے۔) (محمد اسماعیل) ٭٭٭٭٭٭ 8 محی السنۃ قامع البدعۃ مولانا مولوی محمد اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ علم برکش ای آفتاب بلند خراماں شو ای ابر مشکیں پرند بنال اے دل رعد چوں کوس شاہ بخند ای لب برق چوں صبح گاہ بیا رای ہوا قطرہ ناب را بگیرای صدف در کن ایں آب را برآ ای در از قصر دریای خویش بتاج سر شاہ کن جاری خویش یعنی شاہ کشور شریعت گستری ملک الموک دیار دین پروری، تامع بنیاں شرک و طغیان حادی موجبات علم و ایقان، موسس اساس کمال مہذب اوضاع حال و قال، سالک مسالک ہدایت و ارشاد مجلی آئینہ صافی اعتقاد، مرکز دائرہ علوم، منطقہ آسمان فہوم، مرتقی مدارج درجات عالی بیشوائی ادنیٰ و اعالیٰ، مرجع و مآب فضائل، کامروائے طبائع فاضل، رموز فہم سرائر تفسیر قرآنی دقیقہ یاب معالم تقدیرات ربانی، جامع کمالات صوری و معنوی نکتہ سنج کلام الٰہی و حدیث نبوی، قدوہ اہالی پیش گاہ قبول، جلال غوامض معقول و منقول، بانی و مبانی فضل و افضال ممہد قواعد تکمیل و اکمال، جاہد حق و یقین مثبت دلائل دین، مولائی مخدومی مخدوم الانامی، مولوی محمد اسماعیل قدس سرہ آپ کو حضرات ثلثہ یعنی مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی اور مولانا شاہ رفیع الدین اور مولانا شاہ عبدالقادر غفر اللہ لہم کے ساتھ نسبت برادر زادگی کی تھی اور بسبب اس کے کہ جناب جنت مآب مولانا شاہ عبدالقادر صاحب نے بعد انتقال والد ماجد ان کے، بجائے فرزندوں کے پرورش کیا تھا اور حضرت مبرور مغفور کی نواسی بھی ان کے ساتھ منسوب تھیں، ان کی تربیب اپنے ذمہ پر لے کر روز شب حضرت کی تکمیل میں ساعی تھے۔ از بسکہ جوہر قابل محتاج تربیت اور نیاز مند تعلیم نہیں ہوتا، آپ کے آئینہ خاطر نے مصقلہ تائید الٰہی سے ایسی صفا اور جلا حاصل کی تھی کہ اسرار ازل بے حجاب آپ پر منکشف تھے۔ اسی واسطے اوائل حال میں مطالعہ کتب کی طرف چنداں اتفاقات نہ فرماتے تھے، اور حال یہ تھا کہ حضرت مبرور کی خدمت میں زانوے سبق خوانی تہ کر کر بیٹھتے۔ از بس کہ بہ سبب استغنا کے یہ محفوظ نہ رہتا تھا کہ سبق کس جاے سے شروع ہو گا، کبھی اس کے ما بعد کی عبارت سے شروع کر دیتے۔ جب حضرت مغفور وہاں سے امتناع فرماتے کہ اس مطلب کو آسان سمجھ کر نہیں پڑھا اور فی الواقع اگرچہ مطلب عقدہ مالا ینحل ہوتا۔ اس طرح اس کی تقریر کرتے کہ موجب حیرت اعالی و ادانی ہوتا اور کبھی اس کے ما قبل سے آغاز کرتے جب حضرت اس سے متنبہ فرماتے تو آپ اس میں کچھ شبہ کر دیتے، اور وہ شبہ ایسا ہوتا کہ حضرت استاد کو اس کے دفع میں بہت متوجہ ہونے کی حاجت ہوتی۔ اس استعداد و خدا داد کی اعانت سے پندرہ سولہ برس کی عمر میں تحصیل معقول و منقول سے فراغت حاصل ہو گئی جو کہ آپ کی ذہانت کی دھوم تمام شہر میں تھی، اکثر فضلائے کمل کہ دعویٰ کتاب دانی و دقیقہ شناسی کار کھتے تھے، وہ مقامات باریک کہ جن کے صاف کرنے میں روزگار دراز فکر کرنا چاہئے، آپ سے سر راہ ملاقی ہو کر با عتبار ظاہر کے بطور مناظرہ کے اس کا استفسار کرتے، اس لحاظ اگر ان کے مکان پر جاویں گے تو شاید مطالعہ کتاب یا اعانت شروح اور حواشی سے ان کو بیان کریں اور آپ بے تامل اس کو اس طرح سے تقریر فرماتے کہ ان کو اس جرأت سے کمال حجانت حاصل ہوتی۔ ذکر اس زبدہ ارباب کمال کا داعی ہے کہ ہزار ہزار محامد پسندیدہ کو زبان پر لا کر اندکے آتش شوق کو تسکین دے۔ ٭٭٭٭٭٭ بیت گہر نثار کند برسر زبان چشم مرا چو نام شریف تو بر زبان آید لیکن کیا کرے کہ نہ زبان کو طاقت تقریر ہے اور نہ قلم کو یاراے تحریر معقولات میں آپ کا نتیجہ وہم مثل یقنیات و معقولات میں آپ کی تنہا نقل مانند متواترات فقہ کا یہ حال تھا کہ ہر مسئلہ کو آیات و حدیث کے ساتھ مستند فرماتے تھے بیشتر کتب علم معقول پر حواشی تحریر کئے، اور از بس کہ طبیعت دقا دحدت دثار کی طرف مائل تھی، ایک رسالہ منطق میں لکھا اور اس میں مشکل اول کے بعد الطبائع اور شکل رابع کی ابدہ البدیہات ہونے کا دعویٰ کیا اور اس کے دلائل اس قوت و استحکام کے ساتھ مذکور فرمائے کہ اگر معلم اول موجود ہوتا، اپنی براہین کو تار عنکبوت سے سست تر سمجھتا اور ایک رسالہ اثبات رفع بدین میں مسمیٰ ’’ بقرہ العینین فی اثبات فی رفع الیدین‘‘تالیف کیا اور حدیثیں اشہر اور نہایت فوی سے اس کا استدلال کیا ہے اور دلائل فقہائے سابق جو اس کے مقابل میں ہیں، اپنے سوالاات سے اس طرح پر اٹھایا ہے کہ مصنف غیر متعصب کو سوا تسلیم کے اور چارہ نظر نہیں آتا اور رسائل کثیرہ فنون شتی میں آپ سے یادگار ہیں جی چاہتا ہے کہ آپ کے حال ہدایت اشتمال میں سے قدرے ہدیہ ارباب کمال کیا جاوے تاکہ خلق ہونا ایسے فرد کامل کا نمونہ قدرت رب ذوالجلال سمجھا جاوے اوائل حال میں از بس کہ کسب فیض باطن کا بہت اچھا تھا، جناب غفران مآب زبدہ اولاد حضرت خیر الانام سمی جد امجد علیہ السلام میر احمد1؎ 1یعنی حضرت سید احمد شہید بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (اسماعیل) قدس العزیز کی خدمت میں اعتقاد بہم پہنچایا اور ان سے فیض باطن کو کسب کیا اور پیر کی رفاقت میں سفر حجاز اختیار کر کے مناسک حج کو ادا کیا اور وہاں سے ہندوستان کو مراجعت کر کے حضرت کی خدمت میں اطراف و جوانب میں بسر کی اور ہدایت و ارشاد سے عباد اللہ کو راہ راست دکھائی۔ اس اثنا کے احوال تو اس قدر ہیں کہ زبان قلم اس کے تصور سے شق ہوتی ہے، مگر اواخر میں بارشاد سید الطائفہ پیر طریقت کے احوال مردم شاہجہان آباد کی طرف ملتفت ہو کر راہ رشد و ہدایت کو وا کیا اور وعظ و نصائح سے اہل غفلت کے کان کھول دیے جو جو مسائل کہ ان پر مواظبت کرتی ضروریات دین سے تھی اور بہ سبب سستی اور کاہلی کوئی علمائے وقت کے، عوام روزگار کیا بل خواص کے، گوش وہم تک بھی نہ پہنچے تھے آپ کی سعی جدوجہد سے سب پر کھل گئے، اور آوازہ اعلام سنت اور ہدم بنیان شرک و بدعت کا وضیع و شرف کے کان تک پہنچ گیا باوجودیکہ ارباب مشیخت اور صاحبان تشخیص کہ سلسلہ اعتقاد و سر رشتہ ارادت خاص و عام کا ان کے ساتھ مستحکم تھا، اور کسی کو ان کی مداہنت کا گمان نہ ہوتا تھا، اس گمان سے کہ اگر مسائل حقہ گوش مردم روزگار تک پہنچا تو ہمارے حق میں موجب ضعف اعتقاد کا ہو جائے گا، علم منازعت اور لوائے مخالفت بلند کر کے درپے اذیت و اہانت ہوئے، لیکن چوں کہ موید بتائید اللہ تھے، اس ہدایت و ارشاد سے باز نہ آئے اور خلق کو یہاں تک توفیق اختیار سنت نبوی اور ترک بدعات و احداث کے ہوئے کہ ایک اور ہی طرح کا نور ہر ایک کی پیشانی احوال سے چمکنے لگا اور ان مفسدان مضل کا بازار کاسد ہو گیا اور لوگوں نے جان لیا کہ یہ بزرگ بطمع اخذ و جر کے امور حق کو آج تک چھپاتے رہے۔ اور بچشم خود دیکھا گیا کہ وضیع و شریف کو توفیق نماز کی ایسی ہوئی کہ مسجد جامع میں نماز جمعہ کے واسطے ایسی کثرت ہونے لگی جیسے عید گاہ میں نماز عیدین کے واسطے ہوا کرتی ہے۔ اور تائید الٰہی اور ان کی صدق نیت اور خلوص طریقت کی برکت سے الیٰ الان وہی حال چلا جاتا ہے اور یہ ثواب انہیں حضرت کے جریدہ اعمال میں لکھا گیا اور آج تک اس کا اجر ان کی روح پر فتوح کو پہنچتا جاتا ہے الحمد للہ ذالک فالحمد للہ علی ذالک آپ کی عادت یوں تھی کہ روز جمعہ اور روز سہ شنبہ کو مسجد جامع میں مجلس وعظ کو مرتب فرماتے تھے، طرفہ تر یہ ہے کہ سامعین کو کہ ہزار ہا سے متجاوز ہوتے تھے اس چار روز کے عرصہ میں بہ سبب اغوائے مغویان ضلالت نہاد کے یا بہ سبب انحراف نفس امارہ کے اگر شبہ پیدا ہوتے اور ارادہ کرتے کہ اپنے وعظ میں آپ کی حسن تقریر سے اس کو دفع کریں گے، جب درس کی مجلس میں آن کر حاضر ہوتے تو حضرت ابتداء وعظم میں کلمات چند بطریق تمہید کے ارشاد کرتے اور ان کی تقریر کی جامعت سے وہ چیزیں مذکور ہوتیں کہ ہر شخص اپنے شبہ کا جواب پا لیتا اور کچھ خدشہ باقی نہ رہتا یہاں تک کہ بعد اختتام درس کے کسی کو یہ خلجان نہ رہتا، یہاں تک کہ بعد درس کے کسی کو یہ خلجان نہ رہتا کہ ان شبہات کو پھر اپنی زبان سے بیان کر کے دلیل کرے اور عمدہ مقاصد تردید شرک و بدعت اور احیائے سنت تھا کہ آپ کی حسن تقریر سے وہ مسائل غامضہ کہ طالب علم کو بعد رد و قدح کے ذہن نشین ہو، جہلائے ہامی کو بمجرد استماع کے سمجھ میں آ جاتے تھے اور اس طرح منقوش خاطر ہوتے تھے کہ مخالفین سے بعضے اہل علم چاہتے کہ کچھ دلائل علمی سے اس کو رد کر کے اس ذہن سے نکالیں ممکن نہ ہوتا جب یہ مطالب خوب چھن گئے بموجب ارشاد سید اصفیا یعنی پیر طریق ہذا کے اس طرح سے تقریر وعظ کی بنا ڈالی کہ مسائل جہاد فی سبیل اللہ بیشتر بیان ہوتے اور یہاں تک آپ کی صیقل تقریر سے مسلمانوں کا آئینہ باطن مصفا اور مجلا ہو گیا اور اس طرح سے راہ حق میں سرگرم ہو۔ کہ ہر شخص بے اختیار چاہنے لگا کہ سر ان کا راہ خدا میں فدا ہو اور جان ان کی اعلائے لواے دین محمدی میں صرف ہو۔ بعد مدت کے پیر دستگیر نے طلب کیا اور آپ معتقدین کوتشنہ چھوڑ کر ان کی خدمت میں راہی ہوئے اور بالا تفاق حضرت ممدوح کے جہاد پر کمر باندھی اور کوہستان میں لے جا کر اطراف ہندوستان میں خطوط طلب بھیجے اس نواح سے جوق در جوق روانہ ہوئے اور حضرت کی خدمت میں سوائے مردم کوہستان ہندوستانیوں میں سے لاکھ آدمی سے زیادہ مجتمع ہو گئے، اور کار ہائے نمایاں راہ خدا میں ظہور میں آئے تائید الٰہی سے ان حضرت کا رعب کفار1؎ کے دل میں ایسا متمکن ہوا کہ جس جگہ گروہ قلیل غزات مسلمین سے متوجہ ہوتا اور اس کا سر گروہ یہ حضرت ہوتے، لشکر کفار اگرچہ مور و ملخ سے زیادہ ہوتا، بے سروپا فراری ہوتا اور وہاں کے معاملات کی تفصیل حضرت با برکت زبدہ اولاد سید المرسلین2؎ کے احوال کے ضمن میں ہو چکی ہے چوں کہ مشیت الٰہی میں سلسلہ اس کام کا یہیں تک تھا، اتفاق تقدیر سے لشکر کفار کو غلبہ ہوا اور یہ حضرت قلعہ بالا کوٹ کی نواح میں ہمراہ پیر طریقت اور اکثر مسلمین غزاۃ کے جنت اعلیٰ کی طرف راہی ہوئے، انا للہ وانا الیہ راجعون اس واقعہ کو چودہ پندرہ برس گذرتے ہیں اور چوں کہ یہ طریقہ آخر الزماں میں بنیاد ڈالا ہوا ان حضرت کا ہے، اب تک اس سنت کی پیروی عباد اللہ نے ہاتھ سے نہیں دی اور ہر سال مجاہدین اوطان مختلفہ سے بہ نیت جہاد اسی نواح کی طرف راہی ہوا کرتے ہیں اور اس امر نیک کا ثواب آپ کی روح مطہر پر ہمیشہ پہنچتا رہتا ہے 1؎ بہر کیف اگرچہ 1یعنی سکھ 2حضرت سید احمد شہید ؒ 1 جناب خلیق احمد نظامی نے ’’ 1857 ء کا تاریخی روزنامچہ‘ ‘ کے دیباچہ میں ص15 پر سرسید احمد خاں مرحوم کے یہ چند فقرے نقل کر کے اور ان کی تائید میں ’’ ہنٹر‘‘کے بے بنیاد الزامات کو پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی سعی فرمائی ہے کہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف پیدا ہونے والی تحریکوں کے بانی دراصل حضرت سید احمد شہیدؒ اور حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ ہی تھے اور 1857 ء میں جو کچھ ہوا وہ ان دونوں حضرات کی تبلیغ کا ہی نتیجہ تھا مگر اس بیان کو حقیقت سے کچھ بھی تعلق نہیں حضرت سید احمد بریلوی اور حضرت شاہ صاحب کی عملی زندگی سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہے چناں چہ ان حضرات کے انگریزوں سے جیسے اچھے تعلقات تھے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اور سرسید کی اس عبارت کا سیاق و سباق یہی بتاتا ہے کہ یہ لوگ صرف اسی خیال سے سرحد جاتے تھے کہ سکھوں کے خلاف جس تحریک کو ہمارے پیر و مرشد نے شروع کیا تھا اسے جاری رکھا جائے۔ چناں چہ 1845 ء میں مولوی ولایت علی صادق پوری جہاد کی غرض سے بالا کوٹ گئے اور اس وقت مجاہدین کشمیر کے راجہ گلاب سنگھ سے مصروف پیکار تھے اگر یہ لوگ انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے کے لیے جاتے تھے تو انگریزوں نے روکا کیوں نہیں؟ اور پھر سرسید نے ان انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے والوں کو کیوں سراہا جب کہ وہ اس وقت انگریز کے ملازم بھی تھے نیز اس وقت تک پنجاب انگریزوں کے قبضے میں بھی نہیں آیا تھا۔ یہ بات دوسری ہے کہ 1857 ء کے چند سال بعد سید صاحب متعین نے سرحد پر لڑائیاں شروع کر دیں مگر اس کا ذمہ دار سید احمد اور شاہ صاحبؒ کو قرار نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ تحریکوں کے بانیوں کے مر جانے کے بعد پسماندگان اپنی اپنی راہیں خود متعین کر لیا کرتے ہیں اسی طرح اگر بعد والوں نے (بقیہ حاشیہ اگلے صفحے پر) نظم و نثر عربی بھی آپ سے یادگار ہو گا، لیکن راقم کو دستیاب نہیں ہوا۔ اس واسطے یہ کتاب اس زیور سے خلیع الفدا رہی1؎ 9 زبدۃ المحدثین جناب مولانا محمد اسحاق غفر اللہ لہ مخدومی مخدوم الانامی افضل الکرام اشرف العظام ملک سیرت فرشتہ صورت، جامع رموز حقیقت و طریقت مواظب اوامر شریعت، فخر علمائے دین مسند المحدثین، یگانہ آفاق مولانا مولوی محمد اسحاق آپ نواسہ ہیں مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب مرحوم قدس سرہ کے علم حدیث کو شاہ صاحب مبرور و مغفور کی خدمت میں (بقیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ) انگریزوں کے خلاف کچھ کیا تو یہ ان کا اپنا معاملہ ہے سید صاحب اور شاہ صاحبؒ نے جو کام نہیں کیا اور جس کے کرنے کا نہ کبھی اظہار کیا اس کو خواہ مخواہ ان کے ذمے لگانا تاریخ کے ساتھ ظلم کرنا ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ ملک کے آزاد ہو جانے کے بعد ہر مذہبی جماعت اپنے اپنے اکابر کو انگریز دشمن ثابت کرنے میں مصروف ہے اور یہی جذبہ شاہ صاحب اور سید صاحب کو انگریز دشمن ثابت کرنے کے لیے مجبور کر رہا ہے اور یہ جذبہ پیدا بھی ایسے مصنفوں میں ہوا ہے جن کے قلم کے حسن کی کرشمہ سازیاں خاص شہرت رکھتی ہیں اس سلسلے میں میں نے ایک نوٹ حضرت سید احمد شہیدؒ کے حالات کے تحت بھی لکھا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمایا جائے 1حضرت شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ نے حسب ذیل کتب تصنیف فرمائیں ایضاح الحق الصریح فی احکام المیت والغریح، منصب امامت، عبقات، صراط مستقیم کا پہلا حصہ، رسالہ ایک روزی، تقویت الایمان تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین، اصول فقہ، رسالہ منطق حضرت شاہ صاحبؒ نے اپنے مرشد حضرت سید احمد شہیدؒ کے ساتھ 24 ذی قعدہ 1246 ھ مطابق 6 مئی 1831 ء کو بمقام بالا کوٹ جام شہادت نوش فرمایا رحمہا اللہ تعالیٰ (محمد اسماعیل) حاصل کیا اور بیس برس کامل تک یہ فن شریف اور علم منیف ان کے حضور میں بیٹھ کر طلبہ جدید الفکر کو پڑھایا۔ امتناع سنت سے کوئی کام آپ سے سر زد نہ ہوتا چوں کہ حق جل و جلا نے صورت اور سیرت دونوں عطا کی تھیں۔آپ کی صورت سے آثار صحابت ظاہر ہوتے تھے اور یقین ہوتا تھا کہ سید الثقلین صلواۃ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کا فیض جنہوں نے پایا ہو گا ان کی یہی صورت و سیرت ہو گی۔ زہی امت خانم المرسلین بعد وفات شاہ صاحب موصوف کے ان کا فرق مبارک دستار خلافت سے مزین اور تمام معتقدین صافی اعتقاد کی رجوع آپ کی طرف ہوئی۔ ناز اور فخر کرنا چاہیے ایسی خدا جوئی پر کہ سب کچھ چھوڑ کر سفر حجاز اختیار کیا اور وہاں مع قبائل و عشائر پہنچ کر فرض حج ادا کیا اور پھر تشریف لا کر مواعظ و نصائح سے خلق کو راہ ہدایت دکھاتے رہے۔ بعد ایک مدت کے از بس کہ شعائر اسلام میں ضعف اور رسوم کفر و بدعات سے قوت آتی جاتی تھی نیت ہجرت کو مصمم کر کے تمام قبائل کو ہمراہ لے کر راہی مکہ معظمہ ہوئے اور با وصف کہ تمام سکنائے شہر اور سلطان وقت بہ سماجت تمام مانع آئے چوں کہ شوق ما ھو الحق غالب تھا، آپ ممتنع نہ ہوئے اور مکہ معظمہ جا کر توطن اختیار کیا اور بہ سبب کثرت کرم کے آپ کا کیسہ ہمیشہ خالی رہتا تھا، خصوصاً ان لوگوں کی مراعات کے سبب جو ہندوستان سے ادائے حج کو وارد مکہ شریفہ ہوتے تھے وہاں کے لوگوں نے حضرت کے وجود مطہر کو از جملہ مغتنمات سمجھا اور ان کا وہاں ہونا موجب برکت جانا شاہجہان آباد سے جدا ہو کر اس دیار میں چھ برس کامل تشریف رکھی اب ایک برس کا عرصہ ہوتا ہے کہ اسی دیار میں جہان فانی کو وداع کیا اور عالم باقی کی طرف راہی ہوئے چوں کہ حضرت با برکت کو حدیث نبوی کی خدمت سے ایک لمحہ فرصت نہ تھی نظم و نثر کی طرف ہر گز التفات نہ کرتے تھے اس واسطے آپ سے اس قسم کا کلام کچھ یادگار نہیں1؎ 10جناب مولانا مولوی محمد یعقوب سلمہ اللہ تعالیٰ صاحب خلق محمدی تابع شریعت احمدی محامد صفات عادی حمائد اوقات خالق کے محب اور خلائق کے محبوب مولوی محمد یعقوب کہیں برادر حقیقی مولوی محمد اسحاق مرحوم کے ہیں علم و فضل میں اقران روزگار سے پایہ کم نہیں رکھتے الا خلق جمیل اور صفات جزیل اور قناعت اور استغنا میں اپنا نظیر نہیں رکھتے اکثر دیکھا گیا کہ جب کوئی بطریق پیش کش و ہدیہ کے کچھ لایا کبھی قبول نہ کیا۔ جو سرمایہ اپنے پاس رکھتے ہیں اس میں اوقات بسر کرتے ہیں خواہ بہ تنگی اور خواہ بہ وسعت اور حسب استعداد اپنے مال کے زکوۃ نکالتے رہتے ہیں اس کم استعدادی میں توفیق امور خیر کی ایسے ہی مردان خدا کا کام ہے آپ نے بھی ہمراہ اپنے برادر مرحوم کے ہندوستان سے ہجرت کی اور مکہ معظمہ میں توطن اختیار کیا جب تک شاہجہاں آباد میں رہے اپنے گوشہ عزلت میں پابدامن رہتے تھے اور ابنائے روزگار 1 حضرت شاہ صاحب نے 1841 ء میں ہجرت کی اور 1846 ء میں مکہ معظمہ میں وفات پائی آپ کا بڑا علمی کارنامہ مشکوۃ شریف کا اردو ترجمہ ہے آپ کی تصنیفات میں سے ماۃ مسائل اور مسائل اربعین بھی قابل ذکر ہیں (تذکرہ علمائے ہند مترجمہ پروفیسر محمد ایوب قادری ص 409 و 410 ) (محمد اسماعیل) کی طرف کبھی رجوع نہ رکھتے تھے اور یہی حال اس بلاد میں بھی ہے کہ کچھ وجہ قلیل میں جو کسی کسب حلال سے بہم پہنچتا ہے اپنی اوقات گذارا کرتے ہیں اور اوقات شبانہ روزی کو عبادت خالق زمین و آسمان میں بسر کرتے ہیں حق جل و علا ایسے زبدہ اھالی روزگار کو تا دیر سلامت رکھے کہ اپنے خاندان عالی شان کی یادگار ہیں آمین رب العالمین 11 جناب مولانا نواب قطب الدین خاں سلمہ اللہ تعالیٰ تحصیل علم و فضل خصوصاً فقہ و حدیث خدمت با برکت مولانا اسحاق صاحب مرحوم مغفور مبرور سے کی، اتباع شریعت میں سب پیش روان مسلک دین سے آپ کا قدم آگے بڑھا ہوا ہے۔ وضع و لباس میں اپنے استاد عالی نہاد سے ایسے مشابہ ہیں کہ جس نے ان کو نہ دیکھا ہو ان کو دیکھے۔ اخلاق و حلم علاوہ فضل و کمال علمی کے ایسا آپ کی ذات میں جمع ہے کہ اوروں میں بہت کم پایا گیا ان دونوں فنون میں توغل مکمل بہم پہنچایا تقویٰ اور ورع کا تو حساب نہیں آپ کے اجداد والا تبار عالیٰ خاندان والا دودمان تھے ہمیشہ پیش گاہ سلطنت سے مناصب جلیلہ رکھتے تھے اب اس جز و زمان میں بھی آپ کو تقرب حضرت سلطانی سے وہ عزت و جاہ حاصل ہے جو چاہے، چوتھے دن اپنے استاد کی پیروی اور خلق کی رہنمائی کے لیے مجلس وعظ منعقد فرماتے ہیں اکثر رسائل زبان ریختہ میں واسطے فوائد علم کے تحریر کیے اور اس میں مسائل ضروریہ ہر طرح کے مندرج فرمائے اور حق یہ ہے کہ ان رسالوں سے خلق کو بہت فائدہ ہوا کہ ضروریات دین سے ہر شخص مطلع اور آگاہ ہو گیا۔ کتب حدیث سے مشکواۃ کا ترجمہ زبان اردو میں بہت صاف و شستہ و فائدہ مند کیا ہے اور اکثر فوائد و کتب متداولہ و غیر متداولہ سے اس پر بڑھایا۔ جب اس کتاب کا چھاپہ ہوا باوجود مبسوط ہونے کے خلق نے ہاتھوں ہاتھ خرید لیا اور ہر روز رواج دین اور تقویت شرع مبین میں مصروف رہتے ہیں۔ اللھم زدخزد۔ اب جو شخص راہ ہدایت پر چلے گا ثواب اس کا انہیں کے جریدۂ اعمال میں مرقوم ہو گا۔ ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین۔ 1 12۔ جناب مولانا عبدالخالق سلمہ اللہ تعالیٰ آپ کا شہرہ علم فضل کا اوائل حال سے آج تک شہر شاہجہاں آباد میں ایسا بلند ہے کہ اس سے گوش فلک کر ہے ۔ دین دار اور تقویٰ شعار ترویج ملت میں ساعی ہیں اور اعلاء دین پر داعی بہت لوگ ان کے ارشاد ہدایت سے راہ راست پر آئے اور بہت شاثقان تحصیل کمال کو ان کی خدمت میں فوائد علمی سے بہرہ حاصل ہوا۔ وضع بہت متین اور کلام بہت زرین، اخلاق 1نواب صاحب1804 ء (1219ھ)میں بمقام دہلی پیدا ہوئے اور 1827 ء (1289ھ) میں بمقام مکہ معظمہ وفات پائی صاحب حدائق الحنفیہ ان کے متعلق لکھتے ہیں’’ اپنے زمانہ کے عالم اجل، فاضل اکمل، فقیہ، محدث، مفسر، جامع معقول و منقول، حاوی فروع و اصول، قاطع شرک و بدعت عابد، متورع اور صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔ آپ کی تصانیف کی فہرست یہ ہے مظاہر حق (اردو ترجمہ و شرح مشکوۃ شریف) جامع التفاسیر در دو جلد ظفر جلیل (ترجمہ شرح حصن حصین) مظہر جمیل، مجمع الخیر، جامع الحسنات، خلاصہ جامع صغیر، ہادی الناظرین، تحفہ سلطان، معدن الجواہر، وظیفہ مسنونہ، تحفۃ الزوجین، احکام الضحیٰ، فلاح دارین، تنویر الحق، توفیر الحق، تحفۃ العرب والعجم، احکام العیدین، رسالہ مناسک، خلاصۃ النصائح، گلزار جنت، تنبیہہ النسائ، حقیقت الایمان مراد المعاد، تذکرۃ الصیام، تذکرۃ الربائ، (حدائق الحنفیہ صفحہ488 ، تاریخ داستان اردو صفحہ194 ترجمہ تذکرہ علمائے ہند صفحہ392)‘‘ (محمد اسماعیل پانی پتی) ویسا ہی ہے امانت اور دیانت ویسی ہی۔ اس جامعیت کے ساتھ کوئی کم نظر سے گذرا ہے۔ 13 جناب مولوی نذیر حسین سلمہ اللہ تعالیٰ زبدہ اہل کمال اسوہ ارباب فضل و افضال مولوی نذیر حسین صاحب بہت صاحب استعداد ہیں۔ خصوصاً فقہ میں ایسی استعداد کامل بہم پہنچائی ہے کہ اپنے نظائر و اقران سے گوئے سبقت لے گئے ہیں روایت کشی میں آج بے نظیر ہیں باوجود اس کمال اور اس استعداد کے مزاج میں خاکساری اور حلم گویا کوٹ کوٹ کر بھرا ہے باعتبار سن کے جوان اور باعتبار طبیعت کے حلیم اور باعتبار وضع متین کے پیر1؎ 14 جناب مولوی محبوب علی سلمہ اللہ تعالیٰ اجلہ سادات کبار سے ہیں علم حدیث و فقہ میں اقران و 1مولوی نذیر حسین سورج گڑھ ضلع مونگیر کے رہنے والے تھے جہاں1805ء میں پیدا ہوئے 1828 ء میں دہلی آ گئے اور یہیں 1902ء میں انتقال کیا۔ جماعت اہل حدیث کے امام اور شیخ الکل کے لقب سے مشہور تھے گورنمنٹ برطانیہ کی خیر خواہی کے صلہ میں شمس العلماء کا خطاب بھی ملا۔ آپ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے جماعت احمدیہ کے بانی پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ پنجاب میں مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السنہ ان کے خاص شاگردوں میں سے ہوئے ہیں حیات بعد المات ان کی مفصل سوانح عمری ہے جوایک صاحب فضل حسین نے لکھی ہے 1857 ء کے ہنگامہ میں سرکار انگریزی کی خدمات بڑے خلوص قلب سے انجام دیں جن کے صلہ میں تیرہ سو روپے نقد انعام میں پائے اور خوشنودگی سرکار کا ایک پروانہ بھی کمشنر دہلی نے عطا فرمایا مگر اس کے باوجود ان پر غداری کا شبہ کیا گیا اور ایک برس تک جیل کاٹی جب ’’ بے گناہی‘‘ثابت کر دی گئی تو رہا ہو گئے۔ (محمد اسماعیل) امثال ہے پیش جہاں دیدہ و سفر کردہ، تحصیل علوم عقلیہ اور نقلیہ کی جناب مولوی شاہ عبدالعزیز دہلوی قدس سرہ العزیز کے خاندان رفیع الارکان سے کی۔ ان فنون میں ایسی مہارت رکھتے ہیں کہ مسائل جزئیہ مثل لوح محفوظ کے ان کے تختہ حافظہ پر منقوش ہیں جو کہ راقم کے والد ماجد مرحوم کے ساتھ اتحاد قدیم تھا اسی نظر سے اس احقر کو بھی نظر الطاف سے منظور فرما کر بزرگانہ عنایت کرتے ہیں۔ (آپ1785 ء میں پیدا ہوئے اور 1864 ء میں انتقال کیا تاریخ دہلی از سید احمد صفحہ92) (محمد اسماعیل) 15 جناب مولوی نصیر الدین شافعی مذہب سلمہ اللہ تعالیٰ شاگردان جناب مولانا محمد اسحاق مغفور مرحوم سے ہیں کتب درسیہ خصوصاً دینیات میں بہت اچھی مہارت رکھتے ہیں۔ با وصف کہ بسبب علوم دینی مرجع عوام و خواص ہیں خصوصاً تقرب بادشاہی سے سرفراز ہیں لیکن امر حق کے اظہار میں کچھ پاس و لحاظ مطلقاً نہیں رکھتے بالفرض اگر اس کے اظہار میں اپنا ہی نقصان ہو پروا نہ کر کے امر واجبی کو کبھی نہیں چھپاتے اس امر میں گویا شمشیر برہنہ کا حکم رکھتے ہیں ایسے زمانہ نا پرسان میں ایساحق گو بس غنیمت ہے اور پھر قناعت اور استغنا اور قناعت وضع اور سلامت روی ایسی ہے کہ کچھ بیان میں نہیں آ سکتی۔ 16 جناب مولوی کریم اللہ سلمہ اللہ تعالیٰ جامع فنون ہیں خصوصاً دینیات میں دست گاہ کامل ہے۔ توکل و قناعت میں اپنا نظیر نہیں رکھتے باوجود عیال داری اور تاہل کے اہل دنیا کی طرف کم رجوع رکھتے ہیں پیشتر اوقات گرامی کو تدریس طلبا شائق میں مصروف اور عنان ہمت افادہ طالبین کی طرف معطوف رکھتے ہیں1؎ 17 حبر محقق تحریر مدقق مولانا فضل امام طاب ثراہ اکمل افراد نوع انسی مہبط انوار فیوض قدسی سراب سرچشمہ عین الیقین موسس اساس ملت و دین، ماحی آثار جہل ہا دم بنای اعتساف محی مراسم علم بانی مبانی انصاف قدوہ علمای فحول حاوی معقول و منقول، سند اکابر روزگار مرجع اعالی و ادانی ہر دیار۔ مزاج دان شخص کمال جامع صفات جلال و جمال مورد فیض ازل وابد مطرح انظار سعادت سرمد، مصداق مفہوم تمام اجزائی، واسطۃ العقد سلسلہ حکمت اشراقی و مساعی، زبدہ کرام اسوہ عظام مقتدائی انام، مولانا و مخدومنا مولوی فضل امام ادخلہ اللہ المفعام فی الجنۃ النعیم بلطفہ العمیم مجال نہیں کہ آپ کے اوصاف حمیدہ اور محامد پسندیدہ تقریر کر سکے۔ اگر ہزار برس مشق سخن کرے اور اسی ذکر میں زبان سخن سنجی سے معاف نہ رکھے یقین ہے کہ ہزار سے ایک نہ ادا ہو سکے علوم عقلیہ اور فنون حکمیہ کو ان کی طبع و قاد سے اعتبار تھا اور علوم ادبیہ کو ان کی زبان دانی سے افتخار اگر ان کا ذہن رسا دلائل قطعہ بیان نہ کرتا۔ فلسفہ کو معقول نہ کہتے اور اگر ان کا فکر صائب براہین ساطعہ قائم نہ کرتا اشکل ہندسی تار عنکبوت سے سست تر نظر میں آتی اس نواح میں ترویج علم حکمت و معقول کی اسی خاندان سے ہوئی گویا اس دودہ والا تبار سے اس علم نے یک جہتی 1 آپ مولوی لطف اللہ فاروقی کے فرزند، حضرت شاہ عبدالعزیز کے شاگرد اور حضرت اچھے میاں مارہروی کے مرید اور خلیفہ تھے 90 سال کی عمر پا کر1874 ء میں وفات پائی کثیر الدرس والتصانیف تھے (ترجمہ تذکرہ علمائے ہند صفحہ397) (محمد اسماعیل) بہم پہنچائی ہے باوجود ان کمالات کے خلق اور حلم کا کچھ حساب نہ تھا۔ ہمیشہ سرکار حکام وقت میں مناصب بلند سے سرفراز اور ابنائے عہد سے ممتاز رہے۔ پایہ ہمت آپ کا بلند تھ ااور سلوک آپ کا حق پسند بہ سبب کثرت ایثار کے تنگی دست خلائق دیکھ نہ سکتے تھے اور بہ سبب خلق وسیع کے ہر عاجز و زبوں کو عرض و نیاز سے ممتنع نہ کرتے۔ اگرچہ وطن اصلی آپ کا خیر آباد ہے لیکن چند در چند اسباب سے حضرت شاہجہاں آبادمیں اس طرح سے توطن اختیار کیا کہ گویا یہیں کے رؤسا میں سے محسوب ہونے لگے۔ ایک مدت مدید ہوئی کہ ترک روزگار کر کے بذات خود وطن مالوف کی طرف تشریف لے گئے اگرچہ سب اہل و عیال کی یہاں بد ستور بود و پاش رہی اور جب سے گئے پھر معاودت نہ فرمائی عرصہ انیس بیس برس کا ہوتا ہے کہ عالم فانی سے ملک باقی کی طرف سفر نا گزیر اختیار کیا اور یہ واقعہ جانکا پانچویں ذیقعدہ سنہ 1244 ھ میں سانح ہوا اگرچہ نظم و نثر تازی و دری آپ کا بہت ہے لیکن ترتیب کتاب کے وقت راقم کے پاس موجود نہ تھا اس واسطے یہ نسخہ اس شرف سے مشرف نہ ہوا1؎ 1 آپ فاروقی النسل فاضل تھے مولوی عبدالواحد خیر آبادی کے شاگرد اور مولانا فضل حق اور مفتی صدر الدین آزردہ کے استاد ہیں علم و فضل میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے دہلی کے صدر الصدور انگریزوں کی طرف سے مقرر تھے آپ نے میر زاہد رسالہ اور میر زاہد ملا جلال پر حواشی لکھے ہیں آمد نامہ کے بھی آپ ہی مصنف ہیں آپ کا سال وفات اکثر لوگوں نے غلط لکھا ہے صحیح تاریخ1244 ھ مطابق 1829 ء ہے (اسماعیل) 18 جناب مولانا مخدومنا مولوی فضل حق مستجمع کمالات صوری و معنوی جامع فضائل ظاہری وباطنی بنا بنای فضل و افضال بہار آرائی چمنستاں کمال، متکی ارایک اصابت رائی مسند نشیں دیوان افکار رسائی، صاحب خلق محمودی مورد سعادات ازلی و ابدی، حاکم محاکم مناظرات فرماں روائی کشور محاکمات عکس آئینہ صافی ضمیری ثالث اثنین یدیعی و حریری المعی وقت و لوزعی آوان فرزدق عہد و لبیدوران مبطل باطل و محقق حق مولانا محمد فضل حق یہ حضرت خلف الرشید ہیں جناب مستطاب مولانا فضل امام غفر اللہ لہ المنعام کے اور تحصیل علوم عقلیہ اور نقلیہ کی اپنے والد ماجد کی خدمت بابرکت سے کی ہے زبان قلم نے ان کے کمالات پر نظر کر کے فخر خاندان لکھا ہے اور فکر دقیق نے جب سرکار کو دریافت کیا فخر جہاں پایا۔ جمیع علوم و فنون میں یکتائے روزگار ہیں اور منطق و حکمت کی تو گویا انہیں کی فکر عالی نے بنا ڈالی ہے علمائے عصر بل فضلائے دھر کو کیا طاقت ہے کہ اس گروہ اہل کمال کے حضور میں بساط مناظرہ آراستہ کر سکیں۔ بارہا دیکھا گیا کہ جو لوگ آپ کو یگانہ فن سمجھتے تھے جب ان کی زبان سے ایک حرف سنا دعویٰ کمال کو فراموش کر کے نسبت شاگردی کو اپنا فخر سمجھے بہ ایں ہمہ کمالات علم ادب میں ایسا علم سرفرازی بلند کیا ہے کہ فصاحت کے واسطے ان کی عبارت شستہ محضر عروج معارج ہے اور بلاغت کے واسطے ان کی طبع رسا دست آویز بلندی مدارج ہے سحبان کو ان کی فصاحت سے سرمایہ خوش بیانی اور امراء القیس کو ان کے افکار بلند سے دستگاہ عروج معانی الفاظ پاکیزہ ان کے رشک گوہر خوش آب اور معانی رنگین ان کے غیرت لعل ناب سرو ان کی سطور عبارت کے آگے پا بہ گل اور گل ان کی عبار ت رنگیں کے سامنے خجل، نرگس اگر ان کے سواد سے نگاہ کو ملا دیتی مصحف گل کے پڑھنے سے عاجز نہ رہتی اور سوس اگر ان کی عبارت فصیح سے زبان کو آشنا کرتی صفت گویائی سے عاری نہ ہوتی۔ دل متردد ہے کہ اگر ان اوصاف نا محصور کا شمار بھی ہو سکا تو ظرف تنگ سخن میں کیوں کر گنجائش ہو گی اور بالفرض اگر حوصلہ سخن میں بھی سمایا قلم فرسودہ زبان اتنا طی لسان اور کاغذ بے چارہ اس قدر وسعت کہاں سے لاوے اور علاوہ اس کے اندیشہ اپنی جان پر لرزاں ہے کہ اس سرخیل سر کردگان روزگار کے اوصاف جمیلہ میں مثلاً بلندی شان کے مدح کے در پے ہو تو بالضرور تلاش معنی بلند میں منتہائے عالم بالا کی طرف صعود کرنا چاہیے اگر خدانخواستہ ایسے مقام سے پاؤں رپٹا تو گو کہ جس جگہ گرے گا وہ بھی معنی بلند ہی ہو گا لیکن از بس کہ اس سے اس تک ہزار رسالہ راہ بالا ہے اس بے چارگی پاؤں سر کی خیریت کا ٹھکانا نہیں لگتا۔ نا گزیر عنان تفکر کو اس وادی بے منتہا سے پھیر کر کچھ حال سعادت اشتمال لکھتا ہوں مولود میمنت آمود آپ کا سنہ 1211 ہجری میں ہوا ہے سبحان اللہ وہ کیا زمانہ سعید اور وقت حمید تھا ایسے طالع پر عطارد کو غیرت ہے اور اس کی سعادت پر مشتری کو حسرت اب سن شریف آپ کا باون تک پہنچا گو طبیعت کو ویسی ہی رسائی اور ذہن کو ویسی ہی ترقی ہے اس ترقیات روز افزوں کے ساتھ یہ آرزو ہے کہ ایسے صاحب کمال کے خزانہ عمر میں بھی ترقی روز بہ عطا ہو آمین رب العالمین اگرچہ آپ کا کلام لطیف اور سخن پاکیزہ حد تحریر سے افزوں ہے لیکن ناظرین کتاب کے واسطے قدرے اس میں سے درج قرطاس کرتا ہوں۔1؎ 1یہ بزرگ عجیب و غریب اور متضاد قابلیتوں اور لیاقتوں کے مالک تھے نہایت عالم و فاضل، بڑے منفی و قاضی، بے نظیر شاعر، بے مثل ادیب، اعلیٰ پایہ کے مدرس، چوٹی کے شطرنج باز، مشہور (بقیہ حاشیہ اگلے صفحے پر) نثر عربی اما بعد فان الدنیا غرور ما لہا قرور بل قرورھا مرور و ظلہا حرور لا یوازی ہمومہا سرورہا ولا یوازن خیورہا شرورہا ولا تتکا فی معافاتہا ولا تتادی افراحہا واتراحہا ولا محنہا وراحتہا ولا یتلاقی سمومہا نعیمہا ولا سمومہا فسیمہا ولا ضنکہا رخاعہا ولا زعزعہا رخاء ہا تریاقہا ثمالہا و نقصانہا کمال عاقبۃ عافہتا اوصاب و حلویہا و سویہا حلاقئقم اوضاب اولہا حبور وآخرہا قبور۔ و صفائہا غبار و بقائہا عبور واہلوہا بور و قصورہم قبور کل من غمرفیہا مرموس و کل ما عمر فیہا مطموس و کل الوریٰ وان اثری فان مصیرہ والی الثری مبادیہا آمال و مناد عواقبہا آجال و منا ما فیہا من صفوعیش (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) حقہ نوش : کبھی انگریز کے پکے وفادار، کبھی جہاد حریت کے علم بردار 1897 ء میں پیدا ہوئے۔ 1857 ء کے ہنگامہ میں انگریزوں کے خلاف سخت حصہ لیاجس کے نتیجہ میں گرفتار کر کے کالے پانی بھیج دیے گئے جہاں اس فاضل اجل اور عالم بے یدل نے نہایت کس مپرسی اور بے بسی و لاچاری کی حالت میں 20 اگست1861 ء کو انتقال کیا اور علم و دانش اور فضل و ہنر کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ بہت سی بلند پایہ تصانیف اور تین صاحبزادے اپنی یادگار چھوڑے۔ یہ قدرت کی کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ آزادی و حریت کے اس عظیم رہنما اور انگریزوں کے سخت ترین مخالف کے نامور فرزند مولوی عبدالحق نے اپنے محترم والد کے خلاف انگریزوں کی اس قدر زیادہ وفاداری اور خوشامد کی کہ بالآخر گورنمنٹ انگریزی نے ان کو اپنی خوشنودی کا پروانہ شمس العلماء کے خطاب کی شکل میں مرحمت فرمایا انقلابات ہیں زمانے کے تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو علماء ہند کا شاندار ماضی جلد چہارم اور تذکرہ علمائے ہند مرتبہ ایوب قادر ی (محمد اسماعیل) الا ویکدرہ نوازل الاحداث وما علیہا من ذی نفس و نفس الا و مبواۃ منازل الاجداث الا ان البقیاء ستجیلۃ فان الدنیا محال مستحیلۃ لا یعنی عن حوالہا و تغیر احوالہا حیلۃ فصبا و شباب و شیبۃ و تیاب واتراف و اثراب و لھو و اتراب، ثم فقر و اتراب ثم فقر و ثراب۔ ویتمتعون ثم یمنون و یمنعون یا یتمنون، فکل ما یمنون بہ انفسہم منون و کل ما یظنون یزیحیہ الیقین و ریب المنون فانما للمسنون ما یمنون و للخراب ما یبنون و للترک اموالہم والبنون لا یغنی فائقا عند فواقہ بنفسہ فواق، ولا یقیہ عن فراقہ ابناء انسہ وانشاء جنسہ واق ولا یجدیہ عند بلوغ التراق و حضور القائض والراق اس ولا راق لا یفید المرء عند صمامہ حمیم ولا یزید العمر عند تمامہ تمیم والناس لا جل الامل للاجل ناسون ویعلل العلل یواسون حولا یرقون اویاسون ثم عند الیاس ماسون، ثم لا یقاس ما یقاسون، ما یلون یا ملون فیالمون ولا یعلمون فسوف یعلمون اری الموت لقیام الکرام ویخص الخاصہ بالاخترام فکم اغتال مثیلاً و عدلاً یعقب عدیلا و کریما بدلا لم تخلف بدیلا، سنۃ اللہ التی قد خلت من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا کلا بل السامۃ طامہ، عامہ، غامۃ والسامۃ بل لا تذرہا مۃ و ہامتد کل من علیہا فان فمالبنات من ثبات، ولا لحیوان دوام، ولا تابید للا وابد، بل لیست الخوالد بخوالد فمانشا ناشی، الا ھویٰ، وما انشاء بناء الاخوی، وما زہرنجم الا ھوی، وما نجم زہر الاذوی، ولما لم تدم بسایط العناصر علی حال، بل لا یزال یستحیل بعضہا بعصا، کالنار ھواء والمہواء ماء والماء ارضا۔ فالمر کبات التی منہا تخلق بالبلی والخلوقۃ اخلق واسرعہا الی البواد، ما اتفق اجتماعہ من ما اختلف من الوماد و اقربہ الی الفنائ، ما خص بالتولید والانما والاغتذاء من الارض والماء واسبقہ الی الرمس ما اعظی قوۃ اللمس واخصہ باخترام المنیۃ، من خص بالنفس الواہیۃ، المجردۃ السنیۃ، والبنیۃ الواہیۃ المطردۃ الدنیہ فالنفس متطلعہ، الی الانسلال، والسنیۃ متسرعہ الی الانحال، فلا بدلہ من البد والا ضمحلال، وما لہ بالا حتیال عن الاغتیال محیص و محید، فلن یجد عند ما یفید و ما یفید۔ ولن یقیہ ما یتردی اذا تردیٰ فاذ جاعہ الردی لن تستطیع لہ ردا۔ فالقضاء حکم حتم لا یحولہ حول و حزم، فانما سمی الموت یقیناً لانہ حق جزم، فلیس امرہ لبشر مقدوراً، وانما ھو امر اللہ۔ وکان امر اللہ قدراً مقدوراً بل ما من صفو او تکدیر او قدراً و تقدیر، الا وھو بتقدیر عزیز قدیر لا بتدبیر و تقدیر۔ واذا القضاء لا یرد فالرضاء بہ ارد والانسان، کما قال عز من قائل، خلق ہلوعا، اذا مسہ الشر جزوعاً و اذا مسہ الخیر منوعاً ’’ لکنہ سبحانہ خص خواص عبادہ بالاستثناء و کرمہم بذکرہم فی اثناء آیات کلامہ بالاثنائ، واعد حسن الجزاء بازاء حسن العزاء و ووعد الاجر الجزیل من اضاء الصبر الجمیل، واصاب من اناب الیہ و تاب عند خطب ناب اصاب من جزع بما اصاب فمن نحب نحباً لن یقضی نحبا ولن یدفع نحبا ومن تجمل بالاصطبار و تحمل عند الاختیار، وتاسی بالاعتبار فقد تاسی بکبار الاخیار فی حسن الاختیار۔ ولجزع ینقلب عجزاً و زعجا والصبر یستوجب فرجاً یعلیٰ درجا ومن قاسی وبالا وبیلالم یجد سوی التجلد سبیلا ومن لم یستطیع جلداً عند کابہ کبداً لم یفلح ابدا۔ فاصبر صبراً جمیلا وان کان رزی اصابک جلیلا فان الوالد اذا ترک مولودہ لا یترک لہ مجلودہ واذا تالم ازل مذانبئت بمنعاتہ اتلہف علی مسعاتہ و ندبنی خبر وفاتہ الی ان اند بہ بصفاتہ فبا للہ ای خیر ذہب بہ الوفاۃ وای خبر ذہب وفات وای بار بار وای سار سار وای ضار ضار فقد کان من الثقات الاثبات والدھاۃ الہداۃ یعامل بالمصافات ویحامل بالمواسات، ویتعدی عن التعدی والمعادات متعودا باحسن العادات، متردداً بالالتفات والعادات مواظباً علی العبادات والبقیات الصالحات فلو اباح الشارع التوجع والتجع مکروبا کان الندب الی ندب مثل ذالک الندب المندوب مندویا لکن الحمد للہ علی انہ خلف خلفا اعلی منہ زلفا واسی منہ شرفا والا نجع الناس نفسہم علیہ اسفا فکیف یکون المولی الداہیہ ’’ فما اصابہ من الداہیہ‘‘‘‘فابشر علی البلغ مفطور ولو انہ رزین صبور، لکن الحیواۃ الدنیا عند اہل الزور، والزور زور ذرور وانت تعلم یامولای ان الصابر ماجور، وان الجازع ما زور، فلم الامر القادر المقدور، واصبر علی ما اصابک، ’’ ان ذالک لمن عزم الامور‘‘خلف اللہ علیک و خلف علیک بخیر ابقاک و وقاک کل ضرر و ضیر والسلام قصیدہ لا تتصلغ یہوی ابیض اما لید فاخمر الموت فی اجفا نہا السود فی غمز الحاظہا فتک الاسود وان حاکین زیم الفلا بالطرف والجید قد خاب من غازل الغزلان یاملہا وباد من رام انس الریم فی البید دع المراشف و استعذ بہن ففی تلک العذاب عذاب غیر مردود لا تنتظر نظرۃ من احور برج ولا ترح سوی ابخل من الجود کم فی ہوی الحور من حوروکم بھوی نواعس الطرف من ہم و تسہید فلا یروقنک لین فی معاطفہا ان القلوب لمن اقسی الجلا مید یبکی المشوق بعبرات موردۃ مافی میاسمہا مسن حسن تورید بشر البشیر نذیر بالعذاب فلا تغرک غرۃ غرمن مہاً عنید الظلم ظلم کما عدل انقوام فکم جیب بجفوۃ عدل القد مقدود ان العقائل یعقلن العقول ولا یعتلن مقتولہن المہلک المودی اشفارہن شفار بل احدظبا و مرسل الصدغ احبول التتئید فیہن قبل التصابی ذل مبتہل وبعد صید المعنی غرۃ الصید لا ضحوقط لمفتون یصرعہ ما فی عیون النشاوی من عرابید قدصا دنی نایل یرمی بلا خطا ویلاہ من عامد فی قتل معمود مود فمود بمعمود بمتقضب من صارم اللحظ فی الاجفان معمود اللحظ فی الجفن مضاء الظبات ولا تمضی القواضب الا عند تجرید لا یقضب الیف الا اذیسن وما لقاضب اللحظ من سن و تحدید حسناء ضمت شتاب الحسن اجمعہ فبددت شمل عقلی ای تبدید قسیۃ للقلب والا عطاف لینہ جسم کماء لہ قلب کجلمود اذا تجلت یخر المجتلی صعقا خرور موسیٰ فویق الطور اذ نودی سبت فوادی بغودیہا فلیس لہ فاد و ان کان یفدیٰ کل مصغود ہندیۃ ہندتنی ثم ہندت الا سیاف ظلماً لقتلی ای تہنید مالت علی بثد عادل و جفت وفترت بفتور الطرف مجلودی لم النسہا اذا لمت بی بحیج و جئی کانہا بدر تم فوق املود عنت فعنت فوادی واختفت و شفت منت فمنت بانجاز المواعید عادت قلی ثم عادت و ہی عایدۃ فعاد عید سقامی موسم العید ماست تجرز نشوی ذیلہا مرحاً فقددت جیب صبری ای تقدید شفت سقامی من حمر الشقاوۃ من عذب الرضاب بعناب و قندید رشفت و ارتشفت خمر الرضاب کما سقیتہا و سقتی ماء عنقود ثم انتشبنا فلا ندری اذلک من خمر المراشف ام من خمر راقود وطبت روحا برباہا وناظرۃ بحسنہا و سماعاً بالاناشید ثلثۃ ہی طیب العیش ما جمعت الا لمرء سعید الجد محسود وصل الغوافی و کاس البابلی ورنا ت الا غانی بضرب الوتر والعود ما اطیب العیش لولا ان مرجعہ عماً قریب الی قبر و ملحود صرفت ریعان عمری فی ہوی ودد وما لذالک من عذر و تمہید فلا ملاذ سوی خیر الوری جمعاً فی الخلق والخلق والاحسان والجود لذیا نجید بمغناہ الرحیب تفز فکم بمعناہ من جود لمنجود جداہ تقد لمن یاتیہ معتفیاً فکم ہنالک من قود لمنقود ماضی الحدود مراعیہا یجود علی المحدود عفواً بعفو غیر محدود احمی الصنادید ماوی الناس مفزعہم از یفزعون لاحوال الصنادید ہوا الشہید علیہم والشفیع لہم فی یوم ہول شدید الہم مشہود ان زاد آدم قدراً عند مولدہ فکم اب یعتلی قدراً بمولود اختارہ اللہ محبوباً و ارسلہ لرحمۃ والارشاد و تشدید لامۃ قد تمنی الرسل لو حسبوا منہا علی ما روی اہل المسانید فاق النبیین طراً فی الکمال و فی الجمال والعزم والاجمال والسود فلا یدانیہ موسیٰ فی العروج ولا فی الیمن عیسیٰ و فی الملک ابن داؤد ولا ابن یعقوب حسناً والخیل قری ونوح عزماً لدی نصیح و تہدید بر المحاسن بل بحر و عترتہ سفینۃ مستواہا الجود لا انجووی اصحابہ بذلوا فی نصر ملتہ اذ جاہدوا فی المغازی کل مجہود افدیک یا خیر موداً و مختبطاً قد طردتہ المعاصی ای تطرید حر الشمس تدنو فی القیامہ ان تظلہ تحت ظل منک ممدود وان تبواہ تحت اللواء غداً یاذا لواء بعز النصر معقود انشد تک فا قبل مدحتی کرماً حتیٰ افوز بانشادی بمنشودی اہدی الیک مدیحاً کلہ غرر ونیل نولک بالتقصید مقصودی لاشک انک غوث الحق اجمعہم ولا تبالیٰ اباطیل المناکید علیک ازکیٰ صلواۃ اللہ ما صدحت فی مورق البان ورقاء و بتغرید قصیدہ فوادی ہائم والدمع ہام و سہدی دائم و الجفن دام فقلب ما فتی بجوی ولوء ولوع فی اضطراب و اضطرام ودمعی بل دم صرف جری من نیاطی ساجماً ای انسجام وطرف ارمد یوذیہ غمض ولیل سرمد ساجی الظلام طویل لا یقاس بہ زمان فساعتہ کشہر بل کعام کان کواکب الجوزاء نیطت باجفان دوام بالدوام حمامی حاضر والوجد باد وجسمی ذایل والشوق نام برانی الحب حتی لن ترانی فلسولا اننی جہلوا مقام اذاب الشوق احشائی واوری لظی فی اضلعی وابلی عظامی اتہضمنی ہوی کشح ہضیم ومال علی معدلۃ القوام سری فی الغرام فصار غرما وذاک الغرم من اوہی الغرام مرا می نظرۃ من ذات لحظ مصیب لیس یخطی فی المرام کلمت بعضب لحظ مالجرحی ظباہ من التحام و التیام فہل سقیت مضاربہ بسم فلا یلتام بالی من کلام جروح السیف قد تنتام لکن ظبا الا لحاظ غیر ظبا الحسام فکم سیف لہ ثلم و نبو وما لشبا اللحاظ من افتلام جراحات الجوارح غیر جرح بخد بہ قلوب قبل ہام رضت لاجل الحاظ مواض ولکن الشفاہ شفت مقامی فلحمۃ ناظر ثمل ثمال وخمر الریق تریاق السمام شفانی حین ہم الہم جسمی ملی یفتر ہن برد ہمام تحا مانی لحالاتی حماتی کماندم الندام علی ندامی وصدعنی الطبیب و صد عنی حمیمی وابتغی صحی حمامی یشفعنی العداۃ و یزدرینی اودائی و یشمت بی خصامی فمن زاربری انی خلیع ومن لاح رمانی باتہام وما یسند ہم ایای الا عماء او عمی اور للتعامی الا من مخبر عنی عذولی بان ملامہ یربی ہیامی وان جوی الہوی فی القلب نار وقدحک فیہ نفخ فی الضرام وانی قد اخدت العشق دیناً وملکت المحبۃ من رمامی وانی لست اعتراف من دبیر تبیلاً او وراء عن امام وانک لست اول من لحانی وانی لست اول مستہام فکم جاف کمثلک ظن جدال ھویٰ ہزلا مجداً فی ملامی فصاغوا لی مواعظ لقفوہا بتبیین الحلال عن الحرام ولو عدلوا لماعذلوا واغفوا وما عنفوا بمضنی مستضام ولو عنت لہم عذرا عنت فوادی من معاذیر اکتتام لکشف فی الہوی العذری عذری لہم کشف البراقع واللثام ولو طلعت من الاخدار لیلاً طلوع الشمس من تحت الغمام لما ارتابوا وتابوا عن تقاہم وخروا للسجود وللسلام واصمتہم بقوسی حاجبیہا بارشاق بلا رشق السہام بغی الباغون صحوی عن ہواہا وہل اصغی الی لوم اللشام فکبف الصحو عن ثمل سکور کان رضا بہ صفو المدام رفیق عاتق عذب ہنی زکی النشو مسکی الختام بریی فرعہا فوق المحیا دجی لیل علی بدر اہتمام جمال ظاہر کالمروض غض بنود بالاقاح لدی ابتسام بنفسی من تلافی طول ہجری فوافی باختیال د احتسام تضن اصلبی وجعاً فوافی فعافی ما تضمن بالتزام شفی من کان قداشفی لغرط لا اسی واسی کلامی بالکلام وبات یدلقی برداً و برداً شفی لوعی و یسرلی منامی تحاملنی و قد عقلت بداہا ید بمقلدی و ید بجام و بات یدی لکشحیا و شاحا و بتنا فی التزام واضطحام بدانا باعتناق واغتباق وکان صبوحنا خیر اختتام فبتنا ثم صلینا و لذنا بجاہ محمد خیر الانام شفیع الخلق احمد ہم جمیعا حمید الخلق محمود الفئام ملا ذ الناس اذ لاذوا خلال لفاد بہم ولا جان وحام و خیمہم ابوہم ثم نوح و ابراہیم عن نیل المرام و موسیٰ المسیح و من سوا ہم اذ ارتاعوا باہوال عظام فجاؤا لائدین بہ فاوی ونجاہم من الداء العقام ابر الناس اندم یمینا و اوفا ہم جمیعاً بالندام سما من فی السما والارض فخرا فلیس لہ سمی او مسامی مشاع الفضل منقسم العطایا وما للفضل فیہ من انقسام فلیس لہ عدیل فی اعتدال و عدل او قسبم فی قسام محی و حمی ابا طبلاً و حقاً فما اعلاہ من ماح و حام حمی و سما فما حام و سال بلیہ فی بنی حام و سام تقدم آدماً خلقاً و موسیٰ بمعراج و نواحا باعتزام و ابراہیم اکراماً و عیسیٰ بیمنتہ و یوسف بالوسام و داؤداً و وراثہ بملک و حکم بین ارباب الخصام و اقدم علی الجلی و جد وجد فی المغازی با قتحام محی الادیان طراً اذ اتانا بدین کامل قیم مدام کشمس اشرقت ضحواً فضل ال کواکب فی الظماس و انغمام و سحر لجہ الجیاش طام فطم علی الکواکب بالتطام ہمام یستغاث لکل ہم فیکشف کل ہم باہتمام بلوذ بہ العصاۃ غدا فتنجی شفاعتہ الاثیم عن الاثام اتی فہدی صراطاً مستقیما عمن عودا حیاری فی موامی بشیر مندر نور بشیر حباہ الٰہہ اسمی الاسامی رحم رحمۃ اللہ روف ہدی ہاد صفوح ذوانتقام شواہد صدقہ حجج رواہا مسلسلہ امام عن امام کلام بہائم و حنین جذع ونطق حصی و تسبیح الطعام رمی ابطال کفار غزاہم بحصباء فولوا بانہزام وافحم کل منطبق بذکر حکیم لا یعارض فی النظام بمولدہ دہی ایوان کسرے و اشرف سابناہ علی انہدام فعاد بسدعہ کسریٰ کسیرا والصق انف کسری بالرغام بدا نور فبصر دور بصریٰ لا عین قاطنی البلد الحرام الا یا عاصعی من کل ہول و یا من حبل رافتہ عصامی تصرم جل عمری فی الملاہی و ما لہوای بعد من انصرام قد انفصمت عرای ورم عظمی وما لعری ہوای من انفصام فما لی غیر لطفک من ملاذ یکون بہ اعتضادی و اعتصامی فسل ربی لیو دینی شہیدا بطیبۃ عند عزیک الکرام ویو زعنی بحج و اعتمار فارغب فی الحطیم عن الحطام وید خلنی از ورک فی حیاتی مزارک مستکینا باستلام و کن لی فی ثری قبری انیسا و کن لی شافعاً یوم القیام انا الساوی فناولنی شرابا طہوراً سائفا یروی آوامی الام احوام عطشاناً ہیوماً و بحر تداک غمر اللج طامی علیک صلواۃ ربک ماتغنت علی ورق الفضا ورق الحمام 19 جناب مولانا مولوی محمد نور الحسن سلمہ اللہ تعالیٰ فضائل پناہ کمالات دستگاہ، رنگ چہرہ فضیلت آب روی شریعت، دقائق آگاہ حقایق و معارف پناہ، خازن گنجینہ اسرار ازل جامع شرائف علم و عمل، ارسطو فطرت فارابی فطنت، بانی مبانی فضل و افضال و موس اساسی تکمیل و اکمال، قطب سمالے ہدایت و ارشاد منطقہ، فلک راسی و سداد، عضادہ اضطر لاب دانش و حکم، بہ نکتہ سنجی ہا معروف و بدقیقہ فہمی علم، موشگاف دقائق علم و فن مولوی محمد نور الحسن سلمہ اللہ تعالیٰ، شاگرد رشید مولانا محمد فضل حق زادت فضیلتہ، کمالات علم اور فضائل خلق و علم میں یگانہ، روزگار، حدت ذہن اور رسائی فہم میں یکتائے قرون و ادوار، فاضل اجل سر گروہ فضلائے کمل، خلق جبلی سے یہین فرد و افراد امت محمدی اور سعادت ذاتی سے سرگروہ نزدیکان بارگاہ صمدی، اس جزو زمان میں معقول و منقول میں ایسی مہارت تامہ رکھتے کہ اگر موجودگی معدوم اور جائز کے ناجائز ہونے کا دعویٰ کریں تو خصم کو بدلیل عقلی و نقلی دل نشین کر سکتے ہیں وجود ایسے فرد کامل کا ایسے روزگار نا پرساں میں دلیل قدرت پر وردگار ہے۔ کمالات ظاہری تو آپ کی ذات بابرکات میں جس طرح مجتمع ہیں وہ نہایت ظہور اور غایت وضوع سے احتیاج بیان کی نہیں رکھتے۔ جلائل باطنی اور شرائف معنی جس قدر ان کی طرف استعداد میں فراہم ہیں۔ اگر خامہ دو زبان ان کے بیان میں سرگرم ہو تو ایک قرن تک چاہئے کہ سوا اس ذکر کے اور کسی حرف کو زبان پر نہ لاوے، تو شاید اس کے ایک حرف کے بیان سے عہدہ برآ ہو سکے۔ سبحان اللہ خلق مجسم علم مصور، وقار مشکل خلق ایسا کہ بندگان الٰہی کی دل شکنی آپ کے اعتقاد میں خانہ خدا کی بنیاد کے گرانے سے کم جرم نہیں رکھتی اور علم ایسا کہ اگر اس کو ایک جگہ فراہم لا کر فرق فلک نہم پر رکھ دیں تو بہ سبب گرانی بار کے طبقات کرات کو اس طرح توڑتا ہوا پستی کو مائل ہو اور محیط کے دوسری طرف سے گذر جانے کو اوج سے حضیض تک نگاہ کو ایک جادہ مستقیم محسوس ہو اور وقار اس درجہ میں کہ فلک دوار کی ہزار گردشیں ان کی تمکین کی ایک نشست میں سومو تفاوت پیدا نہیں کر سکتیں اور ان کمالات پر مزید ہے تقوی د ثاری و زہد شعاری نقل کسی صحابی کی کہ وہ کہتے تھے۔ اگر مال تمام عالم کا مجھ کو دے کر چاہیں کہ ایک اذان نہ سنوں مجھ سے نہ ہو سکے گا۔ بے کم و کاست و بے اغراق مبالغہ ان کے حق میں صادق آتی ہے۔ بمقتضائے اس کے کہ: بداں را بہ نیکاں بہ بخشد کریم راقم آثم کے حال پر ان حضرت کی نگاہ توجہہ کو اب معروف کر دیا ہے کہ بدرجہ غایت نظر تربیت استادانہ، اسے منظور فرماویں تاکہ شاید یہی نظر عنایت بارگاہ کریم میں اس احقر کی نجات کا سبب ہو جاوے۔ کوتاہ شب و فسانہ بسیار، زبان قلم قاصر ہے کہاں تک کہے اگر زمانہ مساعد ہو گا تو ایک دفتر علیحدہ ان سرگروہ کملائے دہر کے محامد میں لکھوں گا۔1؎ 1یہ بزرگ دراصل کاندھلہ کے رہنے والے، تحصیل علم کے لیے دہلی آئے اور پھر یہیں رہنے لگے، آخر عمر میں وطن چلے گئے تھے اور معقولات میں وہیں مولانا فضل حق خیر آبادی کے اور منقولات میں حضرت خاتم المجدثین شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے 11 محرم 1285 ھ کو انتقال کیا (تذکرہ علمائے ہند مرتبہ ایوب قادری ص268) محمد اسماعیل 20مولوی کرامت علی سلمہ اللہ تعالیٰ خلقت الرشید ہیں مولوی حیات علی خوش نویس علیہ الرحمہ کے اور شاگرد رشید ہیں مولانا فضل امام صاحب کے فضل و کمال ان کا حد تقریر اور حیطہ تحریر سے زیادہ ہے۔ استحضار مسائل اس رتبہ کو پہنچا ہے کہ حصولی ان کے ذہن میں حکم حضوری کا رکھتا ہے۔ عرصہ چند سال کا ہوا کہ شہر شاہجہاں آباد کو تلاش معاش کی تقریب سے چھوڑا ار حیدر آباد کی طرف راہی ہوئے۔ چوں کہ ’’ السفر وسیلۃ الظفر‘‘ حدیث مشہور ہے، گردش فلک نے وہاں ان سے موافقت کی اور بالفعل ہزار روپیہ ماہیانہ کے منصب سے سرفراز ہیں اس نواح میں معہ قبائل اور عشائر کے بسر کرتے ہیں نظم و نثر ان کا کچھ راقم کو بہم نہیں پہنچا۔ (مولوی کرامت علی کا انتقال 1832 عیسوی میں ہوا محمد اسماعیل) 21 جناب مولوی مملوک العلی سلمہ اللہ تعالیٰ شاگرد رشید مولوی رشید الدین خان صاحب علم معقول و منقول میں استعداد کامل اور کتب درسیہ کا ایسا استحضار ہے کہ اگر فرض کرو کہ ان کتابوں سے گنجینہ عالم خالی ہو جاوے تو ان کی لوح حافظہ سے پھر نقل ان کی ممکن ہے ان سب کمال اور فضیلت پر خلق و علم احاطہ تقریر سے افزوں ہے اگرچہ ظاہری زندگی دنیا داروں کی سی ہے لیکن سیرت اور سریرت میں درویشانہ اگرچہ چودہ پندرہ برس سے مدرسہ شاہجہان آباد میں عہدہ مدرسی رکھتے تھے لیکن اب کئی سال سے سر گروہ مدرسین ہیں کہ مدرسی اول اس سے عبارت ہے۔ انشاہ، نظم و نثر کی طرف کم توجہہ ہے۔ اگر ایسا فاضل اس طرف بھی متوجہہ ہوتا تو یقین ہے کہ اس فن میں اپنے اقران و امثال سے ممتاز ہوتا۔1؎ 22 جناب مفتی سید رحمت علی خاں عرف میر لال سلمہ اللہ تعالیٰ جامع صفات پسندیدہ مستجمع اوصاف حمیدہ زبدہ ارباب فضل و افضال جامی ہنر و کمال، سید رحمت علی خاں عرف میر لال کہ حضور سلطانی سے بخطاب سراج العلماء ضیاء الفقہاء سید رحمت علی خاں بہادر کے ممتاز ہیں۔ کمالات ظاہری و باطنی آپ کے حد تقریر اور احاطہ تحریر سے متجاوز ہیں۔ علاوہ کمال توغل مشاغل علمی کے شائستگی اوضاع و پسندیدگی اطوار حسن خلق اور کمال بردباری و حلم اس مرتبہ پر ہے کہ بیان اس کا مجال خامہ و حوصلہ نامہ نہیں۔ قدیم الایام سے عہدہ استفتا کا سلاطین سلف کی طرف سے انہیں کے خاندان عالی شان میں منتخر ہے۔ آبا و اجداد راقم کو ان کے خاندان بلند مکان کے ساتھ رابطہ اتحاد قدیمی چلا آتا ہے اور یہی سبب ہے کہ توجہہ ان حضرت کی راقم آثم کے حال پر یکحال مبذول ہے۔ بسبب کثرت شرائف مشاغل یعنی توغل علمی کے نظم و نثر کی طرف مطلق توجہہ نہیں۔ 23 جناب آخون شیر محمد رحمۃ اللہ علیہ عالم با عمل و ارستہ آز و امل مہبط فیض ازل و ابد آخون شیر محمد طالب ثراہ و جعل الجنۃ مثواہ مولد آپ کا افغانستان 1 تاریخ یمنی کے مصنف اور دہلی کالج کے پروفیسر تھے حضرت مولانا قاسم ناتوتوی، مولوی رشید احمد منگوہی اور قاری عبدالرحمان محدث پانی پتی جیسے فضلائے عصر ان کے شاگرد تھے 1267 ھ مطابق1851ء میں بمقام دہلی انتقام کیا (تذکرہ علمائے ہند مرتبہ ایوب قادری ص261) (محمد اسماعیل) تھا لیکن ایک عرصہ دراز سے بارادہ تحصیل علم و فضل کے وارد ہندوستان جنت نشاں ہو کر اطراف و جوانب میں علمائے کرام کی خدمت سے فیض علم و ادب حاصل کیا اور جب شاہجہاں آباد میں وارد ہوئے مولانا شاہ عبدالقادر قدس سہرہ کی خدمت سراسر افادیت میں علم حدیث کو تحصیل کیا اور مولانا و بالفضل اولانا مولوی محمد اسمعیل رحمتہ اللہ علیہ کے ہم سبق رہے۔ جو کہ قناعت اور توکل ایک جامہ تھا کہ خیاط قضا نے انہیں کے قامت استعداد پر سیا تھا۔ حکیم غلام حسن خاں مرحوم کے مکان پر سکونت اختیار کی اور مدت العمر ہر گز اخوان زمان اور ابنائے روزگار کی طرف روئے التفات نہ لائے اور شب و روز شغل ظاہری تدریس علوم عقلی و نقلی رہے اور مشغلہ باطن توجہہ الی اللہ زبان خلق کے ساتھ گفتگو میں رہتے اور دل خدا کے ساتھ مشغول یہ دو کام ان واحد میں اقوال سر سر اختلال حکیم فلسفی کے واسطے مبطل ہیں۔ سچ ہے: پائے استد لالیاں چوبین بود پائے چوبین سخت بے تمکین بود سوائے علوم ظاہری کے کسب و فیض باطن خدمت حضرت با برکت شاہ غلام علی صاحب قدس سرہ سے کیا اور مرتبہ خلافت کا پایا۔ اگرچہ سلسلہ پیری مریدی کا آپ نے جاری نہیں کیا لیکن استحقاق اس امر کا ہزار در ہزار مرتبہ میں رکھتے تھے اور آخر میں سکونت ہندوستان سے دل برداشتہ ہو کر بارادہ ہجرت اور ارادے حج بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اتنائے راہ میں انتیسویں ماہ صفر1257 ھجری1؎ میں نقد حیات کو متقاضیان اجل کے سپرد کیا۔ اس واقعہ کو چھ برس کا عرصہ ہوتا ہے۔ 1 آپ کا سنہ وفات1257ھجری، سنہ1841 عیسوی کے مطابق ہے (اسماعیل) 24 جناب مولوی امان علی سلمہ اللہ تعالیٰ عامل اکمل فاضل اجل صاحب اطوار صدق و صفا، زبدہ کملا و اسوہ اتقیا، مولوی امان علی سادات صحیح النسب سے ہیں اور تحصیل علم خدمت فیض موہبت مولانا شاہ عبدالقادر قدس سرہ سے کی ہے بہ سبب قناعت و استغنا کے کبھی اہل روزگار کی طرف رجوع نہیں کی اور ہمیشہ بے پروایانہ زیست کرتے ہیں اور جو کہ رزاق انس و جان کے خزانہ تقدیر سے وظیفہ روز و شب ہے اسی پر قانع ہو کر اغراض دنیوی کو وسیلہ تعلق و خوشامد زمان نہیں کیا۔ جو کہ علم و عمل و طب میں مہارت نامہ رکھتے ہیں اس بہانہ سے لطف رب جلیل نے شفائے اسقام ان کے خامہ فیض علامہ کی زبان میں ودیعت رکھی ہے اور اس حیلہ سے نقود ثواب اخروی ان کے گنجینہ اعمال میں تودہ تودہ جمع ہوتے جاتے ہیں راقم کو ان کی خدمت میں نیاز و اعتقاد بدرجہ کمال حاصل ہے اور ان کی طرف سے راقم پر بھی مراتب الطاف اندازہ سے زائد وقوع میں آتے ہیں۔ غرض کہ ان کی صفات حمیدہ حوصلہ اندیشہ میں نہیں گنجائش رکھتے اور بیان کرنے کا تو کیا محل ہے۔ 25 جناب مولوی محمد جان غفر اللہ لہ کتب تحصیل کو اچھی طرح سے پڑھا تھا اور مسائل علمی نہایت مستحضر تھے، فاضل اجل تھے اور عالم اکمل طبیعت نظم و نثر فارسی کی طرف بہت مائل تھی نثر متین اور نظم رنگین ان سے یادگار ہیں اور اس کمال پر اخلاق ایسا کہ کسی میں اس کا نمونہ نہیں دیکھا گیا اور متانت وضع اور پاس آشنائی اور لحاظ ایسا تھا کہ کسی اور میں اس کا عشر عشیر مشاہدہ نہیں ہوا۔ مدت تک سرکار انگریزی میں عہدہ سرشتہ داری، فوجداری پر مامور رہے، اور امور مرجوعہ کو نہایت ہوشیاری اور دیانت کے ساتھ سر انجام دیا چند سال کا عرصہ ہوتا ہے کہ اس جہان فانی کو رخصت کیا راقم سے بسبب قریب قرابت کے محبت مفرط رکھتے تھے اگرچہ نظم و نثر ان کے طبعزاد بہت ہیں لیکن اکتصاراً مخمس کے دو بند پر قناعت کرتا ہوں کہ غزل شفائی پر لکھا تھا۔ ناظرین بفحوائے مشتے نمونہ از بسیار سے ان کی جودت طبع اور تیزی فکر پر دلیل ہو سکتا ہے: مخمس درد عشق بے وفائی کہ در آزارت کند ایں ہمہ آسود گیہار جملہ دشوارت کند بے خبر از خویش و بر حالم خبر دارت کند گو حریفی تا نگاہ تیز در کارت کند انتقال من کشد جائی گرفتارت کند امے بہ بیتابانہ داری ہر زمان گفتار عشق دانمت بے تاب و طاقت داشتہ آزار عشق تاکجا آخر صبوری باید اندر کار عشق میری از حد شفائی پیش یار اظہار عشق ترسم ایں بے طاقتی ہا عاقبت خوارت کند ٭٭٭٭٭٭ 26 مولوی نوازش علی سلمہ اللہ تعالیٰ شاہجہاں آباد کے علماء کی خدمت میں کتب تحصیلی کو حاصل کیا اور حدیث نبوی کو حضرت بابرکت مولوی محمد اسحاق محدث دہلوی غفر اللہ سے پڑھا استعداد کامل رکھتے ہیں۔ از بس کہ طبیعت ہدایت و ارشاد کی طرف مائل ہے۔ اکثر اوقات مجلس وعظم بھی ان کے ہاں منعقد ہوتی ہے اور ساکنین شہر شاہجہاں آباد اکثر بشوق اہتداء و استر شاد وعظ کہنے کے واسطے اپنے اپنے گھر میں ان کو تکلیف دیتے ہیں خلق و حلم میں یگانہ روزگار اور قناعت و توکل میں شہرہ آفاق ہیں1؎ 27 مولوی محمد رستم علی خاں سلمہ اللہ تعالیٰ تحصیل سے فارغ اور کتب ہیئت و ہندسہ کی راقم کے نانا صاحب مرقوم نواب دبیر الدولہ امین الملک خواجہ فرید الدین احمد خاں بہادر مصلح جنگ سے اچھی طرح پڑھا اور حدیث و فقہ جناب مولوی اسحاق علیہ الرحمۃ سے اور طب میں مہارت معقول رکھتے ہیں اور مریض ان کے علاج سے شفا پاتے ہیں اور کتب فارسیہ کو بھی بہت تحقیق کے ساتھ پڑھاتے ہیں غرض کہ عالم مستعد اور فاضل اجل ہیں بالفعل خدمت و وقائع نگاری پر حضرت بادشاہ جم جاہ سراج الدین محمد بہادر شاہ خلد اللہ ملکہ و سلطنتہ کی سرکار میں مامور ہیں اور خطاب مصلح الدولہ حکیم محمد رستم علی خاں بہادر سے ممتاز۔ راقم سے بھی رابطہ محبت بکمال رکھتے ہیں۔ انشائے نظم و نظر کی طرف کم متوجہ ہوتے ہیں 1یہ بزرگ بہت بڑے عالم کتب متداولہ کے نہایت فاضل اور علم الفرائض میں نہایت شہرہ آفاق تھے موضع ھابڑی (تحصیل کیتھل کرنال) ان کا وطن تھا تحصیل علم کے لیے دہلی آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے علم الفرائض میں ایک منظوم کتاب ان سے یادگار ہے عسہ حسین بخش، دہلی میں انہوں نے مدتوں قرآن، حدیث، فقہ اور اصول منطق اور فلسفہ کا درس دیا ہے خود سرسید نے ان سے پڑھا ہے حضرت شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی بھی ان کے شاگرد تھے (تذکرہ حالی ص41 علم و عمل جلد اول، صفحہ80) محمد اسماعیل اخبار سلطانی1؎ ہر ہفتہ ان کی نثر طبع زاد کا نمونہ ہے۔ 28 حاجی محمد سلمہ ربہ ساکن ہیں نواح جون پور کے اور بعد ادائے بیت اللہ کے شہر شاہجہان آبا میں وارد ہوئے اور مولانا محمد اسحاق صاحب سے کتب حدیث کو تحصیل کیا۔ا گرچہ اور فنون سے بھی آگاہ ہیں، لیکن فن حدیث کو اچھی طرح جانتے ہیں ورس و تقویٰ میں مستثنیٰ ہیں راقم نے جناب مستطاب مولانا مخدومنا مولوی محمد صدر الدین خاں بہادر کی خدمت میں ان کو حاضر ہوتے دیکھا اور ان کے جوہر سے مطلع ہوا۔ اس واسطے کہ حاجی صاحب موصوف مولانائے ممدوح کی طرف سے مدرسہ دار البقا میں مدرس ہیں۔ 29 ملا سرفراز سلمہ یہ بھی بڑے مستعد شخص ہیں کتب معقول و منقول و حکمت و ہندسہ و ہیئت بہت تحقیق سے پڑھاتے ہیں حدیث اور تفسیر جناب مولانا مولوی صدر الدین خاں بہادر سے پڑھی ہے اور اب جناب ممدوح کی طرف سے مدرسہ دار البقا میں مدرس ہیں۔ 6 ذکر قراء و حفاظ شکر اللہ سعیہم اگرچہ اس شہر کرامت بہر میں فضل الٰہی سے حافظ اس کثرت سے ہیں کہ رمضان شریف میں با وصف کثرت مساجد کے کہ 1 یہاں اخبار سلطانی سے مراد سراج الاخبار ہے۔ جو آخری مغل بادشاہسراج الدین ظفر کا سرکاری گزٹ تھا اور ہفتہ وار دہلی سے شائع ہوا کرتا تھا 1841 ء میں جاری ہوا تھا یہ فارسی میں نکلا کرتا تھا۔ اس کی زبان فارسی تھی قلعہ معلی دہلی کی خبریں اس میں خاص طور سے درج ہوتی تھیں۔1857 ء بھی سلطنت مغلیہ کی طرح اس کا بھی چراغ گل ہو گیا۔ (تاریخ صحافت اردو جلد اول ص170) اسماعیل حد شمار سے باہر ہیں، کوئی مسجد ایسی نہیں ہوتی کہ اس میں دو دو تین تین شخص کلام اللہ تراویح میں ختم نہ کرتے ہوں اور مسجد جامع میں تو شمار سے باہر کلام اللہ تراویح میں ختم ہوتے ہیں لیکن تیمناً چند اشخاص نامی کا ذکر کرتا ہوں۔ 1قاری قادر بخش سلمہ اللہ تعالیٰ حروف کو مخارج سے ادا کرنا جیسا کہ حق ہے اور پھر الحان داؤدی کے حق اسی حق رسیدہ خدا شناس کا ہے اور ورع و تقویٰ کا حال تو جیسا ہے اس کے بیان میں زبان قاصر ہے کمال قناعت سے وجہ قلیل پر اکتفا کر کے گوشہ مسکنت میں بسر کرتے ہیں عمر شریف آپ کی قریب ستر برس کے پہنچی ہے۔ 2 حافظ احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کہیں برادر حقیقی قاری صاحب موصوف کے اگرچہ قرأت میں وہ مرتبہ کمال کا نہیں، لیکن کلام اللہ کو اس صحت کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ مافوق اس کے متصور نہیں اور اوراد و وظائف میں اوقات شبانہ روزی صرف ہوتی اور صورت سے للہیت ظاہر ہوتی ہے۔ 3 قاری محمد بیگ غفر اللہ لہ علم قرأت میں اقران و امثال سے گوئے سبقت لے گئے تھے اور مخارج حروف کو اس خوبی سے ادا کرتے تھے کہ حروف کو خود اس امر پر ناز تھا۔ غرض کہ جامع علم و عمل تھے اور از بس کہ قناعت و توکل سے ان حضرت کا خمیر تھا تمام عمر اغنیا کے دروازہ کا نام نہیں لیا دو تین برس کا عرصہ گذرتا ہے کہ دنیائے فانی سے رحلت کی انا للہ وانا الیہ راجعون 4 قاری احمد سلمہ اللہ تعالیٰ ایسے عامل علم قرأت میں کہ جس کا بیان نہیں ہو سکتا اور زبان اس کی اوصاف سے قاصر ہے دین داری اور اتباع شریعت اور اکل حلال اور اکتساب خیرات اور اجتناب از نواہی سب ایک ذات ستودہ صفات میں جمع ہیں اس جامعیت کے ساتھ افراد شر سے کم نظر میں گذرا ہے۔ 5 حافظ عبدالرحیم سلمہ اللہ تعالیٰ اگرچہ علم قرأت حاصل نہیں اور تجوید حروف جس قدر چاہیے اور اس کا نام قرأت رکھا جاوے ان کے پڑھنے میں محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن فضل واہب العطیات سے آواز خوش اور طیب لہجہ اس طرح عطا ہوا ہے کہ طیور کو طیران اور پانی کو جریان سے باز رکھتا ہے اس کا ایک ادنیٰ وصف ہے جس مجلس میں اس مرد خدا نے قدم رکھا اور بارادہ قرأت قرآن لب ہلایا۔ اہل مجلس سراپا گوش اور گوش سراپا نیوش ہو کر متوجہ ہو جاتے ہیں بلکہ جس وقت خاص و عام کے گوش زویہ ہوتا ہے کہ آج فلاں مجلس میں اس صاحب کمال کا گذر ہو گا۔ اجتماع خلائق سے وہ مجلس حکم میلہ کا بہم پہنچاتی ہے اور ان کے قرآن پڑھنے میں وہ اثر ہے کہ وقت استماع کے سامعین کو دنیا و مافیہا فراموش ہو جاتے ہیں ذالک فضل اللہ بوتیہ من یشائ۔ 7 ذکر بلبل نوایاں سواد جنت آباد حضرت شاہجہاں آباد بہر کجا کہ دوم وصف دوستاں گویم برائے یار فروشی دکان نمی باید 1 جناب مرزا اسد اللہ خاں غالب مدظلہ العالیٰ ہمارے اوج مفاخر و معالی جاگزین سدرۃ المنتہیٰ مراتب بلند و مدارج عالی موس اساس شیوا بیائی بانی بنائے الفاظ و معانی، عندلیب، بہرستان سخن گستری، طوطی شکر ستان، معنی پروری، اوج سمائے برتری و والاتباری، مہر سپر بلندی اختری و گردوںاقتداری، شاگرد رحمان استاد سبحان المعی زمان، لوزعی بیان، فروزق دھر و لبید آواں، شمی وصی رسول اللہ جناب مستطاب مرزا اسد اللہ غالب تخلص دیوان حافظ ان کی لسان الغیبی کے عہد میں دلوں سے فراموش، زبان خلاق المعانی ان کے معنی ایجاد کے زمانہ میں خاموش، زبان خلاق المعانی ان کے معنی ایجاد کے زمانہ میں خاموش، چراغ انوری انہیں کے شعلہ فکر سے روشن اور سینہ آذری انہیں کی آتش حسرت سے گلخن عنصری، ان کے رشک افکار سے ایسا جل گیا کہ گویا اس کا پیکر فقط عنصر آتش سے متکون ہوا تھا اور سجنائی ان کی حسرت کمال سے ایسا رویا کہ مگر اس کی بینائی چشم فقط عنصر آپ سے بنی تھی۔ زلالی ان کے چشمہ ہنر کا تشنہ لب اور ابو اسحاق اطعمہ ان کے خوان استعداد سے نعمت طلب، خاقانی اس خسرو معلی کی کم تر رعیت اور خسرو اس بادشاہ سخن کے آگے سرگرم خدمت۔ ملاحت کلام سعدی ان کے خوان فیض کی نمک خوار ار شیرینی زبان حافظ ان کی نعمت مقال سے روزینہ دار۔ رنگینی معنی سے صفحہ کو گلرنگ اور طراحی فکر سے کاغذ کو ارژنگ کرنا خاصہ اسی چمن طراز سخن وری اور نقاش صحیفہ ہنر پروری کا ہے۔ اگر الفاظ ثقیل سے گرانی اٹھائے تو کوہ کاہ کا حکم پیدا کرے اور اگر سخن میں متانت صرف کرے تو ورق بیاض صدمہ صر صر سے جگہ سے نہ ملے۔ قلم ان کا معنی روشن کی تراوش سے فوارہ نور اور عبادت پاکیزہ ان کی لطف کیفیت سے شراب انگور، اگر اس سخن طراز کے کمال استعداد کو جو طرف حصر و شمار سے افزوں ہے۔ خامہ دو زبان بیان کرے، اول چاہیے کہ ملکہ عقل فعال سے عاریت مانگے اور زبان قلم تقدیر سے مستعار لے۔ میں ارادہ کرتا ہوں کہ اس حضرت کے اوصاف حمیدہ اور محامد پسندیدہ کو دفتر کتاب میں درج کروں اور عقل فریاد کرتی ہے کہ ہر گاہ میں نے اس تقدس جوہر اور امداد مبدا فیاض کے ساتھ جب اس امر کا قصدکیا کارکنان بارگاہ جلال سے کسی استعداد کا طعنہ سنا اور سوء ادب کی سرزنش کی تو با ایں ہمہ نقصان عقل و ہوش کس شمار میں ہے۔ فی الحقیقت اگر لنگ لنگان اپنے تئیں جاوہ مقصود میں ڈال دیا ہو تو ہوس حق السعی یعنی شاباش کی متوقع ہوئی اور حال یہ ہے کہ دشوار پسند ان بلند فکر بلکہ دقیقہ یا بان انصاف طینت کے آگے حصول صلہ آفرین تو کیا خجلت نارسائی اور طعنہ نا عاقبت بینی سے سر اٹھانے کو جگہ نہ رہے گی۔ ظہوری نے سچ کہا ہے ’’ کسے کہ از عہدہ عمدہ ثنانے کسی بیرون نیا بد چرا اول بعجز اعتراف نہ نماید‘‘ بہتر یہ ہے کہ فکر کو اس اندیشہ محال سے باز رکھے اور اپنی فارسائی کا پردہ فاش نہ کرے۔ بیت بامئی است بصد بلند و پستی ہاں پائے نہ لغزدت ز مستی نام نامی اور اسم سامی ان کے والد ماجد کا عبداللہ بیگ خاں تھا۔ آپ اتراک سے ہیں اور سلسلہ آپ کے نسب کا افراسیاب و پشنگ تک پہنچتا ہے۔ آپ کے بزرگ سلجوقیوں کے عہد میں بسبب اس کے کہ ان کے ہم جنس و ہم گھر تھے فرماں روائی رکھتے تھے جب سلجوقیوں کے عہد سلطنت کا دورہ تمام ہوا ان کے آبا و اجداد نے سمرقند میں توطن اختیار کیا۔ اس حضرت کے جد امجد اپنے پدر مشفق سے ایک امر سہل پر قدرے شکر رنج بہم پہنچا کر ہند میں تشریف لائے اور لاہور میں معین الملک کے رفیع ہوئے اور اس کے تباہ ہونے کے بعد وارد دہلی ہو کر سلطان عہد کی سرکار میں سر رشتہ ملازمت کو ہاتھ میں لا کر سلسلہ چاکری کو استحکام دیا۔ حضرت ممدوح کے والد ماجد دہلی میں متولد ہوئے اور یہیں نشوونما حاصل کی۔ پھر کسی سبب سے بود و باش اکبر آباد میں اختیار کی اور حضرت ممدوح کو والدہ مشفقہ کے کنار شفقت اور آغوش عاطفت میں پانچ برس کا چھوڑ کر جنات نعیم کے گلگشت کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ کے چچا حقیقی نصر اللہ بیگ خاں کہ اس عہد میں میرٹھ کی طرف سے اکبر آباد کے صوبہ دار تھے، آپ کی پرورش اور تربیت میں مصروف ہوئے جب ہندوستان میں تصرف حکام انگریز کا ہوا۔ نصر اللہ بیگ خاں لارڈ لیک بہادر کے رقیق ہو کر چار سو سوار کے رسالہ سے اعادی بار پیما کے ساتھ سر گرم جنگ رہے۔ جرنیل لیک صاحب نے اس کار نمایاں کے صلہ میں دو پرگنہ مضافات اکبر آباد سے ان کی حین حیات تک جاگیر میں عطا کیے۔ پھر ان کے سانحہ ناگزیر کے بعد جو سنہ 1801 ء میں پیش آیا اور جاگیر موافق قرار داد کے ضبط ہوئی اور جاگیر کے عوض میں اس حضرت کے واسطے نقدی مقرر ہو گئی پھر وہاں سے بسبب انس طبیعت اور میل خاطر کے شاہجہاں آباد میں تشریف لائے اور اس معاش پر قناعت کر کے گوشہ نشینی اختیار کی ہے اور بہترین شغل آپ کا اس عالم تنہائی میں سخن سنجی اور معنی پروری ہے۔ حق یہ ہے کہ جان سخن پر منت اور سر معنی پر بار احسان رکھتے ہیں ہر دائرہ الفاظ دہن شکر اور ہر حرف زبان سپاس ہے ان کی نعمت تربیت کا ہے راقم آثم کو جو اعتقاد ان کی خدمت میں ہے اس کا بیان نہ قدرت تقریر میں ہے او ر نہ احاطہ تحریر میں آ سکتا ہے اور چوں کہ ’’ دلہا را بدلہا راہ باشد‘‘آں حضرت کو بھی وہ شفقت راقم کے حال پر ہے کہ شاید اپنے بزرگوں کی طرف سے کوئی مرتبہ اس کا مشاہدہ کیا ہو گا میں اپنے اعتقاد میں ان کے ایک حرف کو ایک بہتر کتاب سے اور ان کے ایک گل کو بہتر ایک گلزار سے جانتا ہوں اور اگر دیکھا جائے تو حق بھی یہی ہے خوشا حال ان لوگوں کا جو آپ کا خدمت با برکت سے مستفید ہوتے ہیں اور جو ہر گراں مایہ کہ آپ سے حاصل کرتے ہیں اس کو مغتم جان کر بھی جزوداں حافظہ میں محفوظ اور بھی صندوق بیاض میں امانت رکھتے ہیں اس طرح کے مضامین عطائی پر مستفید کے پاس خروار خروار آ گے ہیں اور چوں کہ مثل مبدأ فیاض کے آپ کی طبیعت فیض موہبت نسبت بخل سے مبرا ہے آپ کو ان جواہر بے بہا کے اعطا میں کچھ دریغ نہیں، آرے۔ نطقش کہ بدست جان توانا چوں بادہ خرد فزائے دانا آپ کا جواہر خانہ نفاست سخن حد شمار سے افزوں اور ظفر حصر سے بیروں ہے۔ ایک دیوان قصائد سے غزلیات کاتیس جزو سے زیادہ مرتب اور منطبع ہوا ہے اور اسی طرح سے نثر اور ایک کتاب پنج آہنگ نام نہایت فوائد جلیلہ پر مشتمل قریب چودہ پندرہ جزو کے آپ کے نتائج فکر سے ہے کہ منتہیان معنی رس کے واسطے مغتنمات عظمیٰ سے ہے اور ایک مثنویٰ مشتمل اوپر غزوات حضرت رسالت دستگاہی ختمی پناہی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اگرچہ ہنوز نا تمام ہے لیکن پھر بھی قریب پندرہ سولہ جزو کے ہو چکی ہے انشاء اللہ تعالیٰ جس وقت اتمام کو پہنچے گی گلدستہ بزم احباب ہو گی راقم تیمناً و تبرکاً کچھ نظم اور کچھ نثر اس کتاب میں لکھ کر ہدیہ نظر ارباب شوق کرتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ نظم کس رتبہ کی ہے اور نثر کس شان کے ساتھ۔ آرائش گفتار در ظہور ہوا و نموداری صبح دمیکہ سرہنگ سیاستگاہ روزگار بہ باز خواست خاتم سلیمانی گلوئے اہرمن شب درہم افشرد وآں رخشندہ گوہر یزدانی را بداں روشنی کہ تو پنداری آفتاب است از دہانش بدر آورد گلزار زندگی را کہ بشکنجہ خزاں خواب برگ و بار فرو ریختہ بود ہنگام کشائیشی نو بہار فراز آمد و قدح و شیشہ میخانہ آب رفتہ بجوی و خمار آلودگان شبانہ را رنگ پریدہ بروی باز آمد۔ تو بتو پردہ ہائے ظلمت کہ بر روئے آفاق فرو ہشتہ بود از میان برداشتند و شاد روانی از نود بداں درازی کہ پہنای گیتی را فرو گیرد در جہان بر افراشتند۔ سحر ز نور رقیبانہ بر کشاد بساط شب از نہیب غریبانہ در نوشت گلیم خسرو زرین افسر ز مردیں او رنگ چوں خواست کہ نوائے جہاں کشا بہ تسخیر ہفت کشور افراز و نخست لشکریاں را بچشم داشت، ہمواری راہ بتاراج گنج گوہر پروین، صلازد، بخونگر می او باش گرسنہ چشم لوامع سحری آتش فتنہ بد انساں در گرفت کہ کالای ناروای تنک مایگان شبنم نیز دراں دستبرد بہ یغمارفت بسپاس فیروزی و شکرانہ بہروزی خمستان نور را در کشادند و دزہ را باندازہ گنجای وقت ازاں بادہ روشن در دادند خاک زیر درختاں آبروی صافی آشامی و طالع روشناسی شہر یارش نبود ہم بداں درد سایہ کہ بحسب تقسیم دراں صلائی عام بوی رسید سیہ مستی آغاز نمود سایہ با ایں ہمہ کہ در آفرینش از روشنی دور است ہم از اسباب شوکت جہانگیری حضرت نور است حقا کہ اگر ایں مایہ تیرگی باقی نمی گذاشتند پروانہ معزولی ظلمت شب بکدام مداد می نکاشتند ٭٭٭٭٭٭٭ مثنوی بامداداں کہ شب رواں سپہر نقد جان باختند در رہ مہر دہشت دزد از میان برخاست از سر کوچہ پاسبان برخاست بستگی روی تافتہ از در رفت پیوند بالشش از سر گرد از راہ کاروانہا جست گونہ گوں مرغ ز آشیانہا جست در نہانخانہای سوز و گداز دل ز اندوہ رست و شمع از کاز مہر آنماید فروغ و فراغ خون بہائی ہزار شمع و چراغ کشت شمع و چراغ ہر خانہ ذرہ سر کرد رقص پروانہ نو عروسان خویشتن آرائی گوہریں پارہ نگارین پائی پیش ازاں دم کہ دشت و روشتند دست و پا از حنا فروشتند شاہد باغ را بجلوہ گری تازہ گردید رسم پردہ دری تا دم صبح دم بگوشہ باغ نفتد چشم نیم باز بہ زاغ بر لب آب جوہر آئینہ دید روئے خود اندر آئینہ چرخ نیرنگ ساز شعبدہ زای کردہ از زاغ آشکار ہمای تیرگی از میان کنار گرفت کار بر روشنی قرار گرفت صبح صادق برات نور آوردہ روشنی مژدہ سرور آوردہ سخن در ہجوم ظلمت شب ہنگامی کہ روشنی روز کہ جان جہانی زندہ با دست از ہنگامہ روی بر تافت و تاریکی شب کہ نموداری انجم رخشندہ با دست بر آفاق دست یافت آفتاب جہاں تاب را روزگار یکہ تازی سر آمد۔ و خیل خیل خفاش از ہر گوشہ و کنار بہ پرواز اندر آمد۔ شب باز سپہرپس از آں کہ در آں سیاہی پردہ برا فراخت، بازی چند از پس آں پردہ نمودار ساخت۔ رباعی شام آمد و رفت سر بیا بوس خیال بر تختک شہی نشست کاؤس خیال از گردش گونہ گونہ اشکال نجوم گردید دماغ دہر فانوس خیال بدل گشتن خرام تدورد سایہ سرو (بچراغ افروختہ) ببال افشانی پروانہ پر سوختہ و پر تو شمع افروختہ بینوا ماندن روشناساں باغ دو آشیانہ و بچراغ رسیدن گمنامی چند از دودمان پروانہ سر انداختن خسرو روز در ستیزہ و خندہ، دنداں نمائی زندگی شب بریں آویزہ چیرہ دستی سپاہ زنگبار بر لشکر روم و خموشی بلبل بمشاہدہ غوغای یوم، ہم چشمی شاہ در خفتن بہ بخت دزداں گرفتار و ہمطرحی دزد در بیداری بطالع شاہاں کامگار، از پس پردہ سر بر آوردن دو شیزگان شوی نا دیدہ آسمانی و فروختن کشادہ رویاں رسوا۔ شیوہ چمن بہ پاکدامنی، بدر جستن ما ہی و خرچنگ و برہ کا و از ہر کرانہ، ودم لا بہ کنان خرامیدن شہر اندراں میانہ و شکستہ شدن طلسم روز برہ نمای لوح ماہ و رخ نمودن صد ہزار پریزاد از یک پرند سیاہ، بداں بو العجبی با روزگار درمیان نہاد کہ چرخ پیر از کہکشاں انگشت حیرت بدہان نہاد۔ مثنوی شام بگو جادوی مشکیں لباس ہم بہ ہنر ہم بہ اثر روشناس تازگی کسوت عباسیاں تیرگی خاطر شباسیاں غالیہ ساے نفس مقبلاں پردہ کشای ہوس بے دلاں ہم سبق پردہ کشایان راز ہم نفس پردہ نشینان ناز نکتہ وراں را بہ سخن جانفزای راہ رواں را دم راحت کشای رہبر دزداں بہ نحا نخا نہا قاسم مہتاب بہ ویرانہا سرمہ آواز خراباتیاں شپر برونہ مناجاتیاں راہ کن شوخ عروساں بشوی غازہ نہ شمع شبستاں بروی بربط آوازہ شبگیر ہا رشتہ شیرازہ زنجیر ہا خجستگی آئین شب را نازم کہ اگرچہ تیرہ و ظلماتی است لیکن جمعیت بروز گارش بداں فراوا نیست کہ ہر چند دیدہ وراں بجست و جوشتافتند جز طرہ مہوشاں و خواب عاشقاں، کہ آں ببالیں پریشاں است و ایں بہ بستر ہیچ جا از پرا گندگی نشان نیافتند۔ رباعی شب چیست سویدای دل اہل کمال سرمایہ دہ حسن بزلف و خط و خال معراچ نبی بشب ازاں بود کہ نیست وقتی شایستہ تر ز شب بہر وصال عبارت در صنعت مقطع الحروف رواں را داد داور ورزش راز در آورد از رواں دل را در آواز رواں در دل روش زاں راز دارد درون دل روش آواز دارد رواں آوارہ دادی دردش رہ آورد رہ دل روی زردش وداغ روح دارد دل دراں راہ ز روح آوخ ز دل درد و زرد آہ راز دار رب و رود و دروازہ وارث آں دری درج دو درا درود، وزن: ذات اورا وزارت دا دار در او راز دان و دل زوار دی روز از راہ ارادت روی دل زاد زی داور روزی دہ آوردم و داری دل دران راہ آواز درای درای در داد او داود داوراں درای آرای راز آوراں، وزن: روزی دہ آدم و دو و دوام دردش دل زار را دل آرام در روز ازل آدم را دل داد و رواں داد و ادراک را در روزن دل روداد، آدم زاد از زای زر و رای رز آورد، و در دل زد، دل را دو داغ آرزد، داد، آب رز درد درد آورد و از زردی زرد آں داد از دل درودہ، و آں ادراک از رواں ز دودہ ، زر و رز در درون دل ارہ، و دل ازاں ارہ و دل ازاں ارہ دزہ دزہ، دزہ۔ آز در دل آب دروغ، و آرام دل در آز و آرزو دروغ، دل دادہ آز و آرزو از در دم اژ در رود آزادہ رو را از ذوق آزادی در ارم در روی دل دادم، ودرم داوری درد دل و دل از درد دوری دام و درم در آزار ار زر داری و روی در راہ آری از درد دزد و رہ زن در آزادی (اوزان): دوزخ آں از دود داغ آوازہ اش ارزد آز و آزرو دروازہ اش راہ رو دل از زاغ و ذوق راغ راہ رو آزردہ از آواز زاغ وہ وہ ای آدم زاد از درد، ای از داد و از آزرم و رای زر و رد وار از دروی زر زر دروی روا داری دل آزادہ در دام آرزوی درم در آوردن و رواں را از زاری دل آزردن داور را رازق داں و داغ آز از دل زادی و دل را از زاری دور دار۔ انتخاب غزلیات آشنا یانہ کشد خار رہت دامن ما گوئی ایں بود ازیں پیش بہ پیراہن ما بے تو چوں بادہ کہ در شیشہ ہم از شیشہ جداست تود و آمیزش جاں در تن ما با تن ما سایہ د چشمہ بصحرا دم عیسیٰ دارد اگر اندیشہ منزل نشود رہزن ما تا رود شکوہ تیغ ستم آساں از دل بخیہ بر زخم پریشاں فتد از سوزن ما دوست باکینہ ما مہر نہاں می ورزد خود ز رشک است اگر دل برد از دشمن ما می پرد مور مگر جاں بسلامت برد تاچہ برق است کہ شد نامزد خرمن ما دعویٰ عشق ز ما کیست کہ باورنہ کند می جہد خون دل ما زرگ گردن ما سخن ما ز لطافت نپذیرد تحریر نشودگر نمایاں ز رم توسن ما طوطیاں را نبود ہرزہ جگرگوں منقار خوردہ خون جگر از رشک سخن گفتن ما ما بنودیم بدیں مرتبہ راضی غالب شعر خود خواہش آں کرد کہ گرد د فن ما ٭٭٭٭٭٭٭ نقشی ز خود بہ راہ گزر بستہ ایم ما بر دوست راہ ذوق نظر بستہ ایم ما با بندہ خود ایں ہمہ سختی نمی کند خود را بزور بر تو مگر بستہ ایم ما فرمان در تا چہ روائی گرفتہ است حمد جا چونے بہ نالہ کمر بستہ ایم ما ٭٭٭٭٭٭ نیرزم الفتات دزد و رہزن بی نیازی بیں متاعم را بغاوت دادہ اند از ناروائی ہا کدوی چوں زمی یابم چناں بر خویشتن مالم کہ پندارم سر آمد روزگار بی نوائی ہا ٭٭٭٭٭٭ سوزد ز بسکہ تاب جمالش نقاب را دانم کہ درمیاں نہ پسندد حجاب را رسید نہای منقار ہما بر استخواں غالب پس از عمرے بیادم داد رسم و راہ پیکاں را ٭٭٭٭٭٭ طرہ درہم و پیراہن چاکش نگرید اگر از ناز بخود مہم نگراید چہ عجب ٭٭٭٭٭٭ بے خود بوقت ذبح تپیدن گناہ من دانستہ دشنہ تیز نکردن گناہ کیست ٭٭٭٭٭٭ نازم بہ زود یابی تازد بگوش و گردن چنداں کہ ابر نیساں در گوہر آفرینی است ٭٭٭٭٭٭ گمان زیست بود بر منت ز بے دردی بدا ست مرگ ولے بد تر از گمان تونیست ٭٭٭٭٭ ہر چہ فلک نخواستست ہیچ کس از فلک نہ خواست ظرف فقبہ می نجست بادہ ما گزک نخواست جاہ ز علم بے خبر علم ز جاہ بے نیاز ہم مہک تو زر نہ دید ہم زر من مہک نخواست خرفہ خوق است در برم پردہ چنیں خشن خوش است عشق بہ خار خار غم پیرہنم تنک نخواست رند ہزار شیوہ را طاعت حق گراں نہ بود لیک صنم بسجدہ در ناصیہ مشترک نخواست سہل شمرد و سرسری تا تو زعجز نشمری غالب اگر بہ داوری داد خود از فلک نخواست ٭٭٭٭٭ می رنجد از تحمل ما بر جفائی خویش ہاں شکوہ کہ خاطر دلدار نازک است ٭٭٭٭٭٭ در کشاکش ضعفم نگسلد رواں از تن ایں کہ من نمی میرم ہم ز ناتوانی ہاست ٭٭٭٭٭ از دوست میل قرب بکشتن غنیمت است گر تیع در کماں بہ نشاط کمند نیست ٭٭٭٭٭ لذت عشقم ز فیض بی نوائی حاصل است آں چناں تنگ است دست من کہ پنداری دل است دوسنیہ بد مستی کہ میکدست بش را کامروز بہ پیمانہ می در شکر آب است ٭٭٭٭٭ رسید تیغ توام بر سر ز سینہ گذشت زہی شگفتگی دل کہ از جبیں پیداست ٭٭٭٭٭٭ درد روغن بچراغ و کدرمی بہ ایاغ تا خود از شب چہ بجا ماندکہ مہماں شدہ است چشم بد دورچہ خوش می تپم امشب کہ بہ روز نفس سوختہ در سینہ پریاں شدہ است ٭٭٭٭٭٭ اگر نہ بہر من از بہر خود عزیزم دار کہ بندہ خوبی او خوبی خداوند است ٭٭٭٭٭ شد فگا از نازکی چنداں کہ رفتارش نماند نازنیں پایش بکوی غیر بوسیدن نداشت ٭٭٭٭٭ درازی شب و بیداری من ایں ہمہ نیست زبخت من خبر آرید تا کجا خفت است غنمت بشہر شیخون زناں بہ بنگہ خلق عسس بخانہ و شہ در حرم سرا خفت است ٭٭٭٭٭٭ حاجت افتاد بہ روزم ز سیاہی بہ چراغ دل بہ بی رونقی مہر درخشانم سوخت نہ بدرجستہ شرار و نہ بجا ماندہ رماد سوختم لیک ندانم بہ چہ عنوانم سوخت ٭٭٭٭٭٭ رضواں چو شہد و شیر بہ غالب حوالہ کرد بے چارہ باز داد ومئی مشکبو گرفت ٭٭٭٭٭٭ خود اولیں قدح می بنوش و ساقی شو کہ آخر از طرف تست گر حجابی ہست ٭٭٭٭٭ بروی صید تو از ذوق استخواں تنش ہما ز تیزی بسمل افتاد است ٭٭٭٭٭ کہنہ نخل تازہ از صر صر ز پا افتادہ ام خاکم ارکاوی ہنوزم ریشہ در گلزار ہست ٭٭٭٭٭ نشاط جم طلب از آسماں نہ شوکت جم قدح مپاش زیاقوت بادہ گر عنبی است میان غالب و واعظ نزاع شد ساقی بیا بہ لابہ کہ ہیجان قوت غضبی است ٭٭٭٭٭ جیحون و نیل نیست دلت از خدا بہ ترس گر نیست خون دیدہ بہ دامن دریں چہ بحث ٭٭٭٭٭ آہ از شرم و و ناکامی ما زود باش در تلافی پایہ مہر و وفائے مسنج ٭٭٭٭٭ حق آں گرمی ہنگامہ کہ دارم بشناس ای کہ در بزم تو مانم پہ چراغ دم صبح ٭٭٭٭٭ قاصد من براہ مردہ و من ہم چناں در شمارہ فرسخ ٭٭٭٭٭٭ کفیل ہوش خودم وقت می بہ بزم حبیب بشرط آں کہ زیک قلزمم فزوں نہ دہد فغان من دل او آب کرد ورنہ ہنوز نگفتہ ام کہ مرا کار با فلاں افتاد مست عطائے خود کند ساقی ما نہ مست مے بادہ زیار می برد بس کہ زیاد می دہد نازم بامتیاز کہ بگزشتن از گناہ با دیگراں ز عفو بما از غرور بود ای آنکہ از غرور بہ ہیچم نمی خری زاں پایہ باز گوی کہ پیش از ظہور بود ٭٭٭٭٭ چہ عیش از وعدہ چوں باور ز عنوانم نمی آید بنوعی گفت می آیم کہ میدانم نمی اید ٭٭٭٭٭ بسخن پیچم و اندوہ گسارش گردم برم از غیر دلی را کہ حزین تو شود ٭٭٭٭٭ در بغل دشنہ نہاں ساختہ غالب امروز بگزارید کہ ماتم زدہ تنہا ماند ٭٭٭٭٭٭ ما را نبود ہستی و او را نبود صبر دستی کہ ز ما شست بخوں کہ فرو برد یک گریہ بس از ضبط دو صد گریہ رضا دہ تا تلخی آں زہر توانم ز گلو برد ٭٭٭٭٭٭ بوصل لطف باندازہ تحمل کن کہ مرگ تشنہ بود آب چوں ز سرگزرد ٭٭٭٭٭ دوری درد ز درمان نشناسی ہش دار کن تپیدن دل افگار بہ مرہم نہ رسد می بہ زہاد مکن عرض کہ ایں جوہر ناب پیش ایں قوم بہ شورا بہ زمزم نہ رسد ٭٭٭٭٭ بر خویشتن بیفشای گفتم دگر تو دانی دارم دلی کہ دیگر تاب جفا ندارد ٭٭٭٭٭ یہ التفات نگارم چہ جائی تہنیت است دعا کنید کہ نوعی ز امتحان نبود ٭٭٭٭٭ پی عتاب ہمانا بہانہ می طلبد شکایتی کہ ز مانیست ہم بہ ما دارد ٭٭٭٭٭ نازم فریب صلح کہ غالب زکوی تو ناکام رقت و خاطر امیدوار برد ٭٭٭٭٭٭ سرت گردم اگر آں پای نازک درمیاں نبود تنم از لاغری صد خردہ بر موی کمر گیرد ٭٭٭٭٭ دلم در کعبہ از تنگی گرفت آوارہ خواہم کہ بامن وسعت بتخانہای ہند و چیں گوید ٭٭٭٭٭ بدیں قدر کہ لبے ترکنی و من بمکم ترا زبادہ نوشین چہ مایہ کم گردد ٭٭٭٭٭ ساقی دگرم برد بہ میخانہ ز مسجد می یک دو قدح بود فریبم بہ سبو داد ٭٭٭٭٭ ز بیتابی رقم سویش دود چوں نامہ بنویسم بعنوانی کہ دانی دود دل میخیزد از کاغذ ٭٭٭٭٭٭ بی دوست ز بس خاک فشاندیم بسربر صد چشمہ ردانست بداں راہگزر بر از خلد و سقر تا چہ دہد دوست کہ دارم عیشی بخیاں اندر و داغی بجگر بر ٭٭٭٭٭٭ بالد بخود آں مایہ کہ در باغ نگنجد سروی کہ کشندس بہ تمنای تو در بر مطرب بغزل خوانی و غالب بسماع است ساقی من و آلات می از حلقہ بدر بر ٭٭٭٭٭ در گریہ از بس نازکی رخ ماندہ پر خاکش نگر وان سینہ سودن از تپش برخاک نمناکش نگر ٭٭٭٭٭٭ برق کہ جانہا سوختی دل از جفا سردش ببیں شوخی کہ خونہا ریختی دست از حنا پاکش نگر ٭٭٭٭٭٭ رقیب یافتہ تقریب رخ بپا سودن ترا کہ گفت کہ از بزم سر گراں بر خیز ٭٭٭٭٭٭ نا یافتہ بارم بہ نراندن چہ شکیبم گیرم کہ خود از تست دری را چہ کندکس ٭٭٭٭٭ پیچد بخود ز وحشت من پیش بین من تشبیہہ من ہنوز بہ مجنوں نہ کردہ کس ٭٭٭٭٭٭ مفت یاران وطن کز سادگیہای منست در غریبی مردن و از جور باز آوردنش ٭٭٭٭٭ فرسودہ رسمہای عزیزاں فرو گزار در سو نوحہ خواں و بہ بزم عزا برقص ٭٭٭٭٭ پاداش ہر وفا بجفائی دگر کند غالب بہ بیں کہ دوست چناں میدہد عوض ٭٭٭٭٭ ہمدم نمک بہ زخم دلم مشت مشت ریز آخر نہ پرستشی بسنرا بودہ ہست شرط ٭٭٭٭٭٭ ہے ہے چہ خوش باشد بہ دی آتش بہ پیش و مرغ و مے از بذلہ سنجاں چند کس دریک نشین گشتہ جمع ٭٭٭٭٭٭ زیں دود و زیں شرارہ کہ در سینہ من است سازم سپہر گر نہ بساماں خورم دریغ ٭٭٭٭٭٭ گیرم امروز دہی کام دل آں حسن کجا اجر ناکامی سی سالہ ما گشت تلف ٭٭٭٭٭٭ حدیث تشنگی لب بہ پیر رہ گفتم ز پارہ جگرم در دہن نہاد عقیق ٭٭٭٭٭٭ منمائی رخ بما کہ بدعویٰ نشستہ ایم در خلوتی کہ ذوق تماا شود ہلاک ٭٭٭٭٭ گیرم ز تو شرمندہ آزرم نباشم تا رفین مہر تو ز دل چوں رود از دل ٭٭٭٭٭ غالب نام آورم نام و نشانم مپرس ہم اسد اللہم و ہم اسد اللہم ٭٭٭٭٭٭ بخشش خداوندی گر فرا خور ظرف است ہم بہوش بیشی دہ ہم بمی تونگر کن ٭٭٭٭٭ آزادیم نخواہی و ترسم کزیں نشاط بالم بخود چناں کہ نگنجم بہ بند تو ٭٭٭٭٭ خجلت نگر کہ در حسناتم نیافتند جز روزہ درست بصہبا کشودہ ٭٭٭٭٭ با ہیچ کافر ایں ہمہ سختی رود اے شب بمرگ من کہ تو فردائی کیستی ٭٭٭٭٭ رباعی اے دادہ بیاد عمر در لہو و فسوس زنہار مشو ز رحمت حق مایوس ہش دار کز آتش جہنم حق را تہذیب غرض بود نہ تعذیب نفوس ٭٭٭٭٭٭ چوں درد تہ پیالہ باقی است ہنوز شادم کہ بہار لالہ باقیست ہنوز در کیش توکل غم فردا کفر است یک روزہ می دو سالہ باقیست ہنوز ٭٭٭٭٭٭ اشعار ریختہ کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا تھی نو آموز فنا ہمت دشوار پسند سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آسان نکلا تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا آڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اوس زود پشیماں کا پشیماں ہونا دوست غمخواری میں میری سعی فرماویں گے کیا زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا وائے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو اب تلک تو یہ توقع ہے کہ وہاں ہو جائے گا دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا سر پھوڑنا وہ غالب شوریدہ حال کا یاد آ گیا مجھے تری دیوار دیکھ کر جان ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی غالب کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاں نہیں قاصد کے آتے آتے خط ایک اور لکھ رکھوں میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں میں اور خط وصل خدا ساز بات ہے جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں بلا سے گر مژہ یاد تشنہ خوں ہے رکھوں کچھ اپنی بھی مژگاں خونفشاں کے لیے گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ ہے ہے خدا نکردہ تجھے بے وفا کہوں مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالب یار لائے مری بالیں پہ اسے پر کس وقت شب کو کسو کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں دکھتے ہیں آج اس بات نازک بدن کے پاؤں کہتے ہیں جیتے ہیں امید پہ لوگ ہم کو جیتے کی بھی امید نہیں منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے نقش کو اس کے مصور پر بھی کیا کیا ناز ہے کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے گرچہ ہے طرز تغافل پردہ دار راز عشق پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے یاں تلک میری گرفتاری سے وہ خوش ہے کہ بس زلف گربن جاؤں تو شانوں میں الجھا دے مجھے1؎ 1نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ مرزا، اسد اللہ خاں غالب شاعری میں نہایت بلند اور ارفع مقام کے مالک ہیں۔ مولانا حالی کے استاد اور سرسید کے دوست تھے 1797 ء میں بمقام آگرہ پیدا ہوئے 1810 ء دہلی چلے آئے اور پھر یہیں کے ہو رہے یہاں تک کہ بعمر73 سال 1869 میں انتقال کیا اور درگاہ حضرت شاہ نظام الدینؒ میں دفن ہوئے۔ عود ہندی، اردوئے معلی، لطائف غیبی، تیغ تیز، مہر نیم روز، دستنبو، سبد چین، کلیات نظم و نثر فارسی ان کی تصانیف ہیں مگر جو شہرت اور مقبولیت ان کے اردو دیوان کو نصیب ہوئی ایسی شہرت کسی اور شاعر کے دیوان کو نہیں ہوئی ان کے حالات خود سرسید نے تفصیل سے لکھے ہیں اس کے علاوہ مولانا حالی کی یادگار غالب اور مولانا غلام رسول مہر کی غالب اس شاعر اعظم کی مفصل اور تحقیقی سوانح عمریاں ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے نامور اہل قلم نے غالب پر تحقیقی کتابیں لکھی ہیں (مقتبس از دلی کا دبستان شاعری ص234 ) محمد اسماعیل 2 نواب محمد ضیاء الدین احمد خاں بہادر نیر و رخشاں تخلص سلمہ اللہ تعالیٰ بہار افروز دولت و اقبال بانی مبانی جاہ و جلال، سپہر پہر فلک پائگی و آسماں اقتداری محور چرخ والا ہمتی گردوں مداری، زبدہ، بلند پایگاں آفاق نو بہار گلشن اخلاق، نخل بند حدیقہ حشمت بلند چمن پیرائے مراتب ارجمند، مسند نشیں دولت خدا داد عظمت نہاد اقبال نژاد، یگانہ عماید روزگار وحید اراکین شہر و دیار مرجع آمال عالم و مآب مارب جہاں نواب محمد ضیاء الدین خاں بہادر نیر رخشاں تخلص دام اجلالہ ان کی رفعت شان کے سامنے بلندی آسمان کی کمتر ہے۔ پستی زمین سے اور ان کی حشمت و اقبال کے آگے جاہ سکندر اور دستگاہ دارا ادنیٰ ہے مرتبہ بندہ کہیں سے ذرے ان کے آستان کے بسبب بلندی کے دور سے فروزاں ہیں، عوام کی نظر میں کواکب آسمان ہیں فلک نے داغ غلامی ان کا اپنی پیشانی پر جلایا، اس نے عالم میں آفتاب نام پایا ابرنیساں ان کی گھر باری سے عرق آلود انفعال اور دریا ان کی جود سے مالا مال، اگر ان کے بہر کف سے سمن کو آب دیویں مانند گل کے زر دار ہو جاوے اور اگر ان کی سحاب عشرت سے لالہ کو سیراب کریں مانند یاسمین کے بے داغ نظر آوے، ان کی سخاوت نے صدف کو مٹھی بھچنے کے جرم سے دریا میں غرق کر دیا اور ان کی جود نے لعل و جواہر چھپانے کے گناہ سے کوہ بدخشاں کو سنگسار کیا۔ ذرہ اگر ان کی رائے سے استعانت کرے ریگ زمین چشمہ خورشید سے موج زن ہو۔ صر صر اگر ان کے خلق سے مدد چاہے، موسم خزاں رشک گلشن ہو، دولت ان کی بدولت بلند پایہ اور اقبال ان کے اقبال سے رفعت سرمایہ، ان کی کثرت جود سے قارون اپنی تہی دستی سے حیران اور ان کی افراط بخشش ابر نیساں اپنی بے مایگی پر گریاں ان کی سخاوت کے دور میں حاتم کو سخی کہنا سخن استہزا ہے اور ان کی شجاعت کے سامنے رستم کو شجاع ٹھہرانا کلام ظرافت انتما صبح ان کے خندہ لطف سے نمایاں اور آفتاب ان کے ضمیر سے درخاں سخاوت ان کی طبیعت جیسے موج اور دریا لطف اور ان کا مزاج جیسے خضر اور آب بقا ان کے صیت کرم نے حاتم سر گرم دریوزہ کیا اور ان کے انعام عام نے جعفر کو سرمایہ جود و کرم دیا، ان کی گرمئی عزم کے آگے سرعت آسمان خاک سے افسردہ تر اور ان کے اخلاق کے سامنے بہار خزاں سے پژ مردہ تر ان کی شمشیر سے مصاف اعدا ارغوان کار اور ان کے لطف سے بزم احباب زعفران زار۔ سبحان اللہ ان کی رفعت مرتبہ آسمان سے ہم پہلو اور ان کی رسائی تدبیر تقدیر کے ساتھ ہم بازو۔ لطف سخن سے نفس ان کا رشتہ گوہر اور صفائی عبارت سے کلام ان کا موج کوثر سخن کو اس صاحب قدرت کی زبان سے وہ رتبہ حاصل ہوا ہے کہ اگر ہر حرف کو دعویٰ دو حرف کن کا ہو تو لائق ہے اور کلام کو اس والا فطرت کی طبیعت سے وہ پایہ بہم پہونچا کہ ہر نکتہ اس کا الہام سے اور ہر دقیقہ اس کا کشف سے فائق ہے مضامین غزل کی شوخی بعینہ خرام آہو اور عبارت کی متانت بلند و قاروں کی اوضاع سے مشابہ ہے۔ موبمو بہار طبیعت کی گلفشاں اور نسیم نفس کی خیال نشاں فکر ان کا مثل ملایک کے آسمان پیما اور اندیشہ ان کا مانند دعائے مستجاب کے تا عرش رسا۔ سبحان اللہ بے پایانی محیط فنا کی اس مرتبہ میں کہ اگر فکر رسا ہزار برس شنا کرے کنارہ پیدا نہ ہو، اور صحرائے محمدت کی بے انتہائی اس درجہ کہ اگر اندیشہ بلند تمام عمر سیاحت کرے منزل مقصود آ شکارا نہ ہو اور ہوس نارسا اور طبع خام یہ چاہتی ہے کہ افتاں و خیزاں اسی دریا میں دست و پا مارے اور اسی صحرا میں قدم رکھے۔ شعر مراست طبع رواں لیک نام تست بلند چگونہ آب رود از نشیب سوئے فراز بہتر یہ ہے کہ اس وادی ناپید کنار میں قدم نہ رکھے اور کچھ احوال دولت اشتمال کو بر سبیل احمال لکھے۔ آپ خلف الرشید ہیں نواب جہانیاں مآب گردوں جناب معلی القاب فخر الدولہ نواب احمد بخش خاں بہادر مرحوم والی فیروز پور جھرکہ کے اور علاوہ قرابت قریبہ کے نسبت تلمذ کی مرزا اسد اللہ خاں غالب تخلص کی خدمت میں رکھتے ہیں کمال توجہ استاد سے کلام ان کا سخن قدما کے ہم پایہ ہے اور نہایت علوشان سے فکر ان کا رفعت سرمایہ کمالات اس قدر اور پھر وسعت خلق کا یہ حال ہے کہ اگر اس کو خلق محمدی سے تعبیر کریں تو بجا ہے راقم کو اس سرکردہ اراکین روزگار کی خدمت میں بہت اخلاص اور کمال اختصاص ہے اور دعویٰ اتحاد پر نازاں اور اس قدوہ اہل کمال کی طرف سے بھی کمترین عباد پر مراسم الطاف اور مدارج اعطاف اس طرح سے مبذول ہیں کہ زبان تقریر کو نہ طاقت سخن ہے اور نہ یا رائے بیان احقر اس کتاب میں کچھ نظم اور کچھ نثر کا مندرج کرتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ سخن کو ان کی طبع والا سے کس قدر اعتبار ہے اور کمال کو ان کے فکر بلند سے کتنا افتخار۔ تقریظ دیوان ریختہ مرزا اسد اللہ خاں غالب بنا میزد سہی بالا ناظورہ ایست از قدسی خانوادہ فکر سر برزدہ گرم جلوہ گری لا ابالی خرام محجوبہ ایست مقنعہ از رخ برداشتہ و دامن بکمر برزدہ در انداز پردہ دری یوسفستا نیست حورا نژادان معافی دردے دوش بدوش عہبر زادیست جلوہ گاہ حیرتیاں باختہ ہوش پنہاور پرندیست مانند سپہر ثوابت گوہر آ گیں خورنق رونق شادما نیست بار نامہ شکز صد نگار خانہ چیں فروغانی چراغیست پری پروانہ سماوی ہیکلے است حرز بازوی فرزانہ گوئی میکائیل نوال موکلے فراخ سماطے نہادہ است و گرسنہ چشمان سخن را صلائے عام دو دادہ۔ بیت اللہ تقدس معبدیست کہ کلیدش بدست فہم درست دادہ اند ودرش بر احرام بندان مزدلفہ دل کشادہ۔ و مناتیست یک صمنستاں ز نار بنداں خیال و روی جبیں سانی۔ ارتنگی است بہ نمائش نقشہائے بدیع پشت دست مانی و ارژنگ بر زمیں سانی صفحہ ازیں اوراق برہمنے است بید خواں ہر ورق ازیں کتاب موبدی است استاداں آئینہ خانہ ایست گیتی نما صفوتکدہ ایست مصفا پرد گیا نند حجلہ نشیں سرادق مریم کرداری شوخ چشمانند پردہ در تراز شاہدان بازاری تہید ستانند تونگر دل آزاد گانند پا در گل عشاق طینتانند بخویشتن مایل سادہ پیکر انند نگاریں دل ہاروت پیشگانند زہرہ فن بربنی گوہر انند بابل مسکن سمندرانند قلزم کش نہنگانند سینہ پر آتش بر شتگانند پختہ مغز ہم بمغز پختہ وہم بپوست نغز بادہ آشامند سیہ مست از خود رفتگاند باشیکبائی ہمدست۔ ہمتدی صنمانند پارسی گرد دہلی نژدان اند صفاہان پرورد ہاں وہاں ترسم کہ انچہ سرو دم ریختہ باشی ہمانا منتخب دیوان اردو زبانست ریختہ کلک مسیحی فرتاب خدام قسطاس دانش اسطرلاب بینش جوہر آئینہ آفرینش، معیار نقد گراں مایگی معراج مسلم بلند بایگی قہر مان قلمرو معنی پروری فرمائی فرمائی گیہان سخنوری گیتی خدایگان نو آئیں نگاری۔ جہاں سالار تازہ گفتاری رواں بخش کالبد سخن گستری بینائی فزائے چشم دیدہ وری فرازندہ نوائے شوکت خامہ گروزندہ چراغ دودہ امہ آیہ ناسخ شہرت ہمداستانان سرخیل انجمن نکتہ داناں: سخن را از خیالش ارجمندی معانی را ز فکرش سر بلندی صریر خامہ اش بس دل پذیر است ہشتی عندلیباں را صفیر است مہیں فرزند نہ آبائے علوی بہیں شاگرد روح القدس عالی جہاں را بے دریغ آموزگار است کزیں معنی شناس روزگار است سرو سر دفتر شبوا بیاناں دریں فن افتخار ہم زباناں بجولانگاہ معنی یکہ تازے طلاطوں فطرتے حکمت طرازے نہ کلکش ریزش گنج معانی چو ابر آزری در درفشانی ز صہبائے سخن سر شار گشتہ ورق از فکر او گلزار گشتہ موحد کیش صاقی منش ستودہ خوئی فروہیدہ کنش، بزرگ نہاد پاکیزہ گوہر فرشتہ سرشت آزرم گستر، کیں گزار مہر پرور خورشید فروغ کیواں فرنکوہش نکوہ ستائش ستائے کشور معنی را دہ خدائے، سر تا سر وفا و فتوت دیدہ تا دل حیا و مروت درک مصور روح مجسم عالم جان و جان عالم والا حسب عالی نسب سمی وصی و واپسیں و خشور داش حضرت چارمین دستور اعنی استاذی مرشدی مولائی اخی مرزا اسد اللہ خاں بہادر غالب اللہم کمل الکلام بدیمومہ بقامہ و حصل الحرام بحینونہ لقلمہ پوزش آئین نیاز گستر محمد ضیاء الدین نیراز دبو بار والائے اندیشہ پست دراں اندیشیدے و گرانی قدر سبک اندراں سنجیدی کہ ابن گرامی برادر زادہ ہا را کہ یگاں یگاں خلف الصدق دودمان ضمیر۔ بل ابو لابآی مضامین دلپذیر است بہ تعلیم نو آموزان نکو از بدنشناس بر انگیزد و ایں ارزندہ جواہر پارہا را کہ ہر یک ازاں سیمن ساعد شخص خرد را پارہ و نازنین پیکر ہوش را گوشوارہ است برسمہ پیش طاق شناسائی بر آویزد باری کار ساز ایزد بزرگ را ہزاران سپاس کہ دریں زماں کہ سنہ مقدسہ ہجریہ نبویہ علی صاحبہا افضل التحیات و اکمل الصلواۃ بہ یک ہزار و دویست و پنجہ و چار رسیدہ آن دیریں پسیچ و دلنشیں آرزو بمساعدت روزگار است ہنجار و قلاوری بخت بیدار خوشتر ازاں کہ میخواستم روائے گرفت شادکامی در دل جا گزیر و اندوہ و تردد گرد آوری بدر رفت چوں باحصامے افراد ایں ہمایوں صحیفہ شنافتم ہمگی اشعار شعری شعار غزل و قصیدہ و قطعہ و رباعی یک ہزار و ہفتاد دو اند یافتم الا با توانا ہوشاں ہوشی و شنوا گوشاں گوشی بو شاہراہ شناخت فراوانی نیکو معانی باید رفت نہ در پیغولہ بیغارہ زنی خردہ بر قلت ابیات گرفت چناں کہ خود آں والا آموزگار در گذارش ایں ہنجار بہ پارسی نامہ خویشتن در پردہ سازاں گفتار خود می سراید آری راست می فرماید شعر نگویم تا نباشد لغز غالب۔ چہ غم گر ہست اشعار من اندک از من یادگاری و برائے دیگراں تذکارے باد اشعار فارسی بس است طول خدایا شبان تار مرا بیاض صبح مدہ چشم انتظار مرا مکن ہلاک کہ شادم بہ ناروائی خویش بروئے من بکشا چشم اعتبار مرا نمود تیرہ چو شب روی روشنان سپہر بخاک سائی سر نخوت غبار مرا دلش بسوخت چو برکار ہائے بسیزدم وفا نتیجہ بہ از مزد داد کار مرا نمود تیرہ چو شب روی روشناس سپہر بخاک سائی سر نخوت غبار مرا دلش بسوخت چو برکار ہائے بیمزدم وفا نتیجہ بہ از مزد داد کار مرا کنی نہ گر قدم رنجہ خنجرے بفرست مخواہ در شب ہجراں تہی کنار مرا بوجہ زر دئے رویم شمرد از عشاق رواج داد زر کامل العیار مرا نمودہ سعی بہ بی بر گئے من و خجلم بکیسہ نیست چو پا مزد روزگار مرا فرشتہ خوش نبود عیب جوے شرم آید ز رسم و راہ توائے کاتب یسار مرا ز تیرہ روزے و آشفتگی و رنجوری بسنج خال رخ و زلف و چشم یار مرا کشود گر خم زلفی دلے دراں بستم کہ دادہ اند دریں جبر اختیار مرا اگر نیامدن دوست ماتمے دارد سفید بہر چہ شد چشم انتظار مرا سرے و شور نشور و نشور و نفخہ صور فلک ز پہلوے تیزش نگاہ دار مرا وعدہ فرمود با آبادی ویرانہ ما چشم ما حلقہ زنجیر در خانہ ما وعدہ روز بما عیش شبان گاہ بغیر آہ از تیرگی نالہ روزانہ ما اشک زو موج بود زادہ دریا گوہر طرفہ کا بستن دریا شدہ در دانہ ما نیر امشب بفروغ مہ خورشید لقا خاورستان شدہ ہر ذرہ کاشانہ ما خوش می برد بخواب عدم قصہ مختصر افسانہ درازی شبہائے تار ما اسرار غنچہ دل مضطر بروں فتاد افتاد جام می زکف رعشہ دار ما پیمانہ در کفے و دل شاہ در کفے بہر خدائے لغزش پا اے ایاس چیست جام شراب بر کف و نوشین لبے ببر دیگر ز حق بگو کہ ترا التماس چیست نیر نقاب گرنفگند از رخش نسیم وجہ بیاد دادن ہوش و حواس چیست می نترسی زاہ نیم شبی اے فلک تیر در کماں منست دیدہ اشک ریز دریا بار برسرم ابر درفشاں منست در شبستان سینہ از تپ غم شمع روشن ہر استخواں منست گر ستم در کرشمہ افزوں باد ہر چہ بر من زدلستان منست بنشاند ز سوز جگرم دوش بر خود خواہم کہ بخنجر بشگافم جگر خود پیچیدہ غبارم بہوا در گزر دوست آں بہ کہ زنم آب ہم از چشم تر خود چوں آمدہ ایم از عدم آساں بود اکنوں پیمودن راہے کہ بود بے سپہر خود خواہم کہ برم نام تو در نزع و لبم خشک در یاب بیک بوسہ گل برگ تر خود رد خشم مکن ہرزہ چہ بندی پئے قتلم بر دیدہ وراں عرض کن اول کمر خود دل میشکنی کج کلہاں را مشکن ہائے طرف کلہ کج بسر خود بسر خود نیر گزر از رشک و بر نامہ دشمن تا دوست بدیں وجہ نراند ز در خود کہ وا نمود خم و پیچ جعد مشکیں را کہ بوی نافہ مشک تتار مے آید شکستہ طرف کلاہ و کشودہ بند قبا چہ بے خودانہ بت میگسار مے آید مگر بروی گل امروز تیز دیدہ کسے کہ بوی خوں زفغاں ہزار مے آید گاہی از رخصت خوابی بکمانم دادند بالشی از پر سیمرغ نشانم دادند بعد دعویٰ ورع بادہ ناب آوردند تا سبک قدر شدم رطل گرانم دادند کنش آنگو نہ کز و سود تواں برد نبود دانش آنمایہ کہ در باغ توانم دادند تا شکستم قفس تن بجناح ارواح در فضای ملکوتی طیرانم دادند دجلہ دجلہ گہر اشک ز چشم ستدند تا در افشانئے نیساں بزبانم دادند دست در غارت کالای خودم بکشودند بہر ایں گرمئے بازار دکانم دادند رشک بر دامن من تانبرد صفحہ دہر خامہ ہمچوں مژہ خوننابہ چکانم دادند نیر اندر شب تاریک بجسم عریاں ماہ از دشنہ و از سینہ کتانم دادند رفت دوری کہ پیاپے زد مے جام صبوح مہلت از دہرسیہ کاسہ نہ آنست کہ بود بر عرق ریزی بے فائدہ بخیہ گراں ہم چناں زخم جگر خندہ زنانست کہ بود گو رسیدم بحرم لیک سپاس اصنام ہم چناں شکر خدا ورد زبانست کہ بود روش دہر بیک گونہ نباشد نیر نہ چنیں بود کہ ہشت ونہ چنانست کہ بود تا نقاب از روئے چوں خورشید او برداشتم دیدم آندولت کہ چشم از چرخ و اختر داشتم رستن نرگس ز اطراف مزارم بعد مرگ آگہی می بخشند از چشمے کہ بردر داشتم ایں سر شوریدہ برخشت لحد خوش آرمید شد فرو درد سرے کزبالشش برداشتم بعد ازیں برخود شدم مفتوں صفائے سینہ بین تا دے دلرا بدلبر در برابر داشتم کرد خاکستر سراپائے مرا سوز دروں شد غلط چشمے کہ من از دیدہ ترا داشتم آندم کہ بخش چشم و دہاں کرد روزگار خندیدن از تو بودہ و از ما گریستن در نظم گربہ جائزہ کزلک دہی بچشم زیں بعد ما و از ہمہ اعضا گریستن نا خواندہ ترسم افگند اے اشک بازماں تر کرد نامہ را دم انشا گریستن من ماندہ محو روی وی و گریہ کردہ کم او ماندہ محو روئے من از ناگریستن ہاں ابرچشم قیس نہ خارج از حیاست بر مرقد مطہر لیلیٰ گریستن زیں پس بضبط کوشم و سوزم بسوز دوست فرسودہ شیوہ ایست ہما ناگریستن وہ نگاراں و خوش آمیختہ باجاں غم شاں نوش داروی جہانست بکمامم شم شاں داد از پرسش خوباں دم تودیع حیات کہ نمک پاش جراحات بود مرہم شاں فرخا بادہ کشانے کہ ز صاحب نظرے ساتگین مے ناب آمدہ جام جم شاں گوش کن نالہ عشاق پریشاں آہنگ کہ سپہر آمدہ در رقص ز زیر و بم شاں تا زنم آتشے بچرخ آہ مرا شرار کو تا دہم ایں جہاں باب دیدہ اشک بار کو راہ رو گستہ دم خفتہ بدشت بر مغیل مرد فراغ جوی را کاوش خار خار کو تا تو ستیزہ آوری من رہ عجز بسپرم جور ترا کراں کجا شوق مرا کنار کو بر لحدم نبرد کس شمع و چراغ بعد مرگ سوخت تنم ز سوز عشق سوختہ را مزار کو شیوہ شرم بر نتافت کش مکش نیاز و ناز شوق زیادہ جوی را حسن ستیزہ کار کو ارہمہ دشت روزگار داشتہ تیز نوک خار پائے پر آبلکہ کجا رہر و پا فگار کو نیز خستہ پائے را از عرفات سوی دیر تا ببرد بدوش خویش ہمرہ حق گزار کو پائی در قطع رہ شوق ز سر بایستے بگذر از پائی ز سر قطع نظر بایستے پنبہ از زخم جگر پیش کہ برداشتمے جگر دیدن ایں زخم جگر بایستے داد ازاں رشک کہ پرستش داور دارم ریخت ہر خون کہ بے داد ہدر بایستے دید چوں مردہ بنا چاری من رحم آورد صورت زندگی از مرگ بتر بایستے ہست آویختہ زلف کسنے می شنوم از دل زارم ازیں بیش خبر بایستے ٭٭٭٭٭٭ پردہ دل گر کشود می چہ غمستے لالہ ستانی نمود می چہ غمستے راہ غلط کردم و بہ کعبہ فتادم گر بدرست جبہ سود مے چہ غمستے رباعی از کوری خود بروز انور عقرب نیشی زردہ بپائی نیر عقرب برمد رسد از تو چشم زخمے نہ بمہر من نیر اعظمم نہ اصغر عقرب ٭٭٭٭٭٭ نیر امشب طلوع بدرین بودہ شمع کاشانہ روی صدرین بودہ از مقدم ہر در محتشم در یک شب فرخندگی شبان قدرین بودہ اشعار ریختہ ممنون نہیں ہے برق و سموم شرار کا رکھتا ہے حکم جلنے میں عاشق چنار کا جب اپنے شغل سے دل خونین نہ باز آئے پھر کیا گناہ دیدہ خوننابہ بار کا آنکھوں میں بو الہوس کے کھٹکتا ہوں مثل خار احسان ہے یہ مجھ پہ مرے جسم زار کا ہے طی ارض ہم کو یہ ضعف تواں نہیں کل اس کے گھر گئے یہ قدم کا نشان نہیں جب چاہو آؤ دل میں کہ ہے آپ کا مکاں یہاں خوف شحنہ و خطر پاسباں نہیں گر انتہا نہیں ستم و جور یار کو شوق زیادہ جو کو مری بھی کراں نہیں حیرت میں ہوں کہ نوک مژہ نیشتر مثال گھستی ہیں گر جگر میں تو کیوں خونچکاں نہیں ہے دوست صدق دشمن و دشمن دروغ دوست کیا رشک صلح جس میں صفا درمیاں نہیں پاس ہے رجعت ایام گزشتہ سے ہمیں گردش دہر ہے یہ گردش دو لاب نہیں نکلے آنکھوں سے وہیں جذب ہو دامن میں بجز اشکوں کے کوئی گوہر نایاب نہیں جتنے ہو نغمہ سرا اتنے ہی خونریز بھی ہو چھیڑ نشتر کی چلی جائے جو مغراب نہیں کعبہ کو دیر سے چلے نشہ شراب میں مستوں کو کیا تمیز خطاؤ صواب میں دار القضا کہاں رہی مے خانہ بن گیا ہیں مست جمع محکمہ احتساب میں پیری و مفلسی میں نہ لو نام مے کہ اب لطف ارتکاب میں ہے نہ اجر اجتناب میں لے سادہ نامہ دوسرے سے کاتب یسار پاتا نہیں بیاض گر اپنی کتاب میں آتی ہے بو تراب لحد سے عبیر کی رخشاں ہوئے جو خاک غم بو تراب میں مے کے گرنے کا ہے خیال ہمیں ساقیا لیجیو سنبھال ہمیں شب نہ آئے جو اپنے وعدہ پر گزرے کیا کیا نہ احتمال ہمیں تیرے غصہ نے ایک دم میں کیا مردہ صد ہزار سال ہمیں دل میں مضمر ہیں معنی باقی کسی صورت نہیں زوال ہمیں طالع بد سے نیر رخشاں اپنے ہی گھر میں ہے وبال ہمیں کیا پہنچے تو فرشتہ کا جس جا گزر نہ ہو بیت الصنم ہے شیخ خدا کا یہ گھر نہ ہو چل کر خرام ناز سے برپا کرے وہ حشر گر باز پرس کا اسے خوف و خطر نہ ہو آنسو اگرچہ رکھتے نہیں لیکن آہ گرم ہے تجھ سے چشم داشت کہ یہ نامہ بر نہ ہو رخشاں جو آتے آتے ابھی رک گئے ہیں اشک آنکھوں میں آ گیا کوئی لخت جگر نہ ہو چاک بیکسر مرا گریباں ہے دل کا مضر مرا گریبان ہے لاغری میں بریدہ ناخن سے مختصر ترا مرا گریباں ہے رات سینہ سے سینہ کس کا ملا کہ معظر مرا گریبان ہے سینہ کا چاک کرنا سکھلایا میرا رہبر مرا گریبان ہے کر کے نومید ہمیں قتل سے پہلے یکسر خون رلوا چکے کیا خون کا دعویٰ کیجئے بعد ایک عمر جو آئے تو خجل ہوں کیوں کر آنکھیں پتھرائی ہوئیں ان کے تہ پا کیجئے ہے تصور مرا اس خاطر نازک پہ گراں جتنا ہو اپنے کو ہر غم سے گھلایا کیجئے نقش بر سنگ ہے دہیان اپنا تمہارے دل پر خوش ہوں مٹنے کا نہیں لاکھ مٹایا کیجئے تلخامی سے مذاق اپنے میں یکساں ہے تو پھر عوض زہر نہ کیوں قند ہی کھایا کیجئے بو الہوس اور بھی مرنے کی کریں گے خواہش لے کے گل قبر پہ رخشاں کی نہ آیا کیجئے1؎ 1 نواب صاحب فارسی اور اردو کے بڑے قادر الکلام شاعر تھے۔ فارسی میں نیر اور اردو میں رخشاں تخلص کرتے تھے 1821 ء میں پیدا ہوئے۔ تفسیر و حدیث، ادب و فقہ اور فلسفہ و منطق میں اپنا جواب نہ رکھتے تھے یہ علوم انہوں نے مولوی کریم اللہ، مفتی صدر الدین آزردہ اور مولوی فضل حق خیر آبادی سے حاصل کیے تھے۔ فن شعر میں غالب کے شاگرد تھے ان کا کتاب خانہ بے نظیر اور نایاب کتابوں کا مخزن تھا۔ ایلیٹ نے ان ہی کے کتب خانے سے اخذ و انتخاب کر کے اپنی مشہور تاریخ ہند لکھی ہے حضرت شمس العلماء مولانا حالی نے ان ہی سے سفر نامہ خسرو کا قلمی نسخہ لے کر1882 ء میں شائع کیا تھا دہلی کے مشہور شاعر نواب سعید الدین اور خان طالب ان ہی کے فرزند تھے آپ کا مجموعہ کلام جلوہ صحیفہ زرین نیر رخشاں کے نام سے 1910 ء میں شائع ہوا۔ 27 جون 1885 ء کو دہلی میں وفات پائی اور مرہ ولی میں دفن ہوئے (تلامذہ غالب) (اسماعیل پانی پتی) 3 نواب زیں العابدین خاں بہادر عارف تخلص نہال حدیقہ دوات بانی مبانی حشمت بلبل چمنستان سخنوری طوطی شکرستاں معنی پروری مہر سپہر کمال روشنکر آنیہ اقبال سخن سنج معنی پناہ ہنر پرور کمال دستگاہ بلند پایہ رفعت سرمایہ رکن بنائی چاہ و ثروت معراج عروج لبہت و زبدہ اراکین روزگار قدوہ ارباب دولت ملک و دیار اقبل جہاں مقبول جہانیاں نواب زین العابدین خاں بہادر عارف خلف رشید نواب غلام حسین خان بہادر ابن شرف الدولہ نواب فیض اللہ بیگم خان بہادر سہراب جنگ مرزا اسد اللہ خاں غالب کی خدمت میں مشق سخن پہنچائی ہے اور تحقیق دقائق علمی اور تفتیش محاورات پارسی انہیں کی خدمت فیض منقبت میں کی ہے۔ باوجود ناز و نعم ثروت کے اس فن میں محنت و مشقت کو اس درجہ تک پہنچایا کہ عرق سعی سے دامن گرداب ہو گیا اور آستین محیط اور فی الحقیقت اس فن میں وہ کمال حاصل کیا کہ شعرائے زمانہ قدیم میر و سودا و قائم و کلیم اگر اس زمانہ میں ہوتے بے شک اس زبدہ اہل کمال کے سامنے زانوی شاگردی تہہ کرتے غزل وہ کہ ناز و انداز معشوقوں کا ہر نکتہ پر جان فدا کرتا ہے اور قصائد وہ کہ جاہ و جلال سلاطین کا ہر لفظ پر نثار ہوتا ہے جب مضامین عاشقانہ غزل میں خرچ ہوتے ہیں ہر دائرہ کے دہن سے آہ و نالہ آسمان تک پہنچتا ہے اور جب وصف معشوق اس میں ادا ہوتا ہے تو مدات حروف سے اشارہ ابرو اور چشم صاد سے غمزہ دل جو ٹپکتا ہے مضمون سوز غم سے کشش ہر حرف کی شعلہ جوالہ اور معنی رنگیں سے ہر لفظ رشک گل و لالہ بہار زمیں میں سخن سبز و اوراق بیاض رنگیں اور رزمیہ میں زبان قلم سناں اور خط ژوبین اگر بزم کا حال لکھا ہر دائرہ زمزہ سنج ہوا اور اگر غم کا ذکر کیا ہر شکن کاغذ کا شانہ درد و رنج بن گیا۔ ٭٭٭٭٭٭٭ بیت گر خار نوشت در دل خصم خلید ورگل بنگاشت بر رخ دوست شگفت فی الحقیقت کمال کی علامت اس سے زیادہ کیا ہو گی کہ شاگرد پر استاد کو ناز ہے اور کیوں نہ ہو کہ ان کی وضع جدید نے اسلاف کی کہنہ طرزوں کو آب عرق سے دھویا اور مضامین بیگانہ نے طبیعت اہل علم کو ان طرزوں سے مطلقاً نا آشنا کر دیا۔ اب وہ روزگار ہے کہ ہر سمت میں علم کمال و ہنر اس صاحب سخن کا بلند ہے بلبل اگر چمن میں کچھ بولتی ہے یا غزلہائے عاشقانہ اس زبدہ کمال کی پڑھ کر چاہتی ہے کہ اس کے اثر کے وسیلہ سے گل کو مہربان کرے یا زمزمہ اسی قدوہ ارباب معنی کی ثنا کا وقف زبان رکھتی ہے قمری کو زمزمہ کو کو سے اسی سخن سنج کی تلاش مطلوب ہے اور نرگس کو چشم باز رکھنے سے اسی صاحب کمال کا انتظار طبیعت کے مرغوب ہے نغمہ منقبت بے نہایت ہے اب انہیں دو کلمہ پر اکتفا کر کر چند شعر لکھتا ہوں تاکہ حقیقت ان کے کمال و ہنر کی اہل ہنر پر واضح ہو جاوے۔ ایں نامہ صد جلال بکشا دیباچہ صد خیال بکشا اشعار ریختہ سخت شرمائے میں اتنا نہ سمجھتا تھا انہیں چھیڑنا تھا تو کوئی شکوہ بیجا کرتا دل میں اتر گئی پہ نہیں دل کو کچھ گزند کیا یہ نیام ہے تری تیغ نگاہ کا ہم نے اس تدبیر سے اس کو کیا شب بے حجاب کچھ کہا ایسا کہ وہ جامے سے باہر ہو گیا نہ آئے سامنے میرے اگر نہیں آتا مجھے تو اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا لکھیں وہ ہمیں نامہ سمجھ میں نہیں آتا کیا اور ہمارا کوئی ہم نام نہ ہو گا گر ازل میں مجھ کو دیتے مانگنے کا اختیار خضر کی عمر اور میخانہ کی خدمت مانگتا دیوانگی میں غیر کو دوں خاک گالیاں اب مانتا ہے کون برا میری بات کا عارف شراب بہر صبوحی نہیں نصیب مقبول ہو تو کیا ہو ہماری دعائے صبح وفور شوق سے جاتا ہوں آگے آگے میں مجھے سمجھیو نہ اے پیر رہنما گستاخ اسی انداز پہ ٹھہری جو قیامت آئی ہے خدا کو بھی کہیں کیا تری رفتار پسند دی ہم کو جان اور کیا ہم سے زر عزیز زر جان سے زیادہ ہے وہاں بھی مگر عزیز ان کے آنے کی جنازہ پہ توقع کس کو دہم کرتے ہیں جو آتے ہوئے بیمار کے پاس بند ہو جاتے ہیں شیرینی سے لب قاصد کے بھیجنا کیجئے پیغام ربا موقوف ہوئیں جو چرخ کی بھی برابر تمہی کہو کوئی ستم اوٹھائے تمہارے کہاں تلک جان ٹھیرایا ہے تم کوہائے کیا کہتے ہیں لوگ ہم مرے جاتے ہیں تم کو بیوفا کہتے ہیں لوگ جس کے طالع میں ہو جو کچھ وہی ملتا ہے اسے عقل حیراں ہے میسر مجھے کیوں خواب نہیں خوف ہے جس نفس سے کہیں بڑھ جائے نہ عمر سانس لینے کی جو فرقت میں مجھے تاب نہیں کنج لحد میں رکھتے ہو راحت کی تم امید عارف مگر زمین کے تلے آسماں نہیں تا ایک وضع پر رہوں دائم عذاب میں ضد سے مری زمانہ نہیں انقلاب نہیں غصہ میں ان کو کچھ نہ تن بدن کا ہوش کیا لطف ہم نے شب کو اوٹھائے عتاب میں شوخی ہے ان کا شیوہ تو کھلتا نہیں ہے راز گو وہ کسی کے واسطے ہوں اضطراب میں نازک ہے بس کہ عہد اسے شکل ہے توڑنا ہوں شاد دل لگا کے بت نازنیں کے ساتھ میں ہوں بیتاب و توان کیونکر نہ وہ بیباک ہو صبر اب دل میں کہاں ہے میرے جو اس پر نہ آئے نہ تو روزن کوئی سینہ میں نہ پہلو میں شگاف دل سے ارمان مرے نکلے بھی تو کیونکر نکلے نہ قتل کر مجھے جب تک کروں نہ غیر کو قتل کہ شرع میں تجھے دینا نہ خوں بہا پہونچے1 ٭٭٭٭٭٭ 4 نواب غلام حسن خاں بہادر متخلص بہ محوسلمہ اللہ تعالیٰ محی مراسم سخنوری بانی بنائے ہنر پروری نخلبند حدیقہ معنی پیرائے صورت گر لفظ طرازی و عبادت آرائی بلبل خوش لہجہ گلزار کمال طوطی خوش سخن۔ نیشکر زار جلال زبدہ ارباب و دولت واہالی حشمت قدوہ اصحاب ثروت و خداوندان مکنت یگانہ جہاں و فرید آواں نواب غلام حسن خاں بہادر متخلص بہ محو خلف رشید نواب غلام حسین خاں بہادر بن شرف الدولہ نواب فیض اللہ بیگ خاں سہراب جنگ طبع معنی آفریں اور فکر دشوار گزیں رکھتے ہیں۔ ان کے اشعار گوہر نثار سے فکر بلند اور اندیشہ عالی پر پے لے جا سکتے ہیں۔ الفاظ ترتیب اور نکتہ ہائے باریک اور تشبیہات لطیف اور استعارات غریب اور تلمیحات دور آہنگ اس انداز سے ان کے کلام پاکیزہ و عبارات شستہ میں دیکھی گئیں کہ اگر سامع بے اختیار وجد کریں تو کچھ بعید نہیں۔ طبع ان کی خوئی 1نواب مرزا زین العابدین خاں عارف1817 عیسوی میں پیدا ہوئے والد اور والدہ میں ناچاقی کے باعث عارف کی تربیت اور تعلیم کا سارا بار ان کی والدہ پر پڑا اور انہوں نے اس بڑی خوبی سے پورا کیا۔ بیٹے کو مروجہ علوم کی بہت عمدہ تعلیم دلائی۔ خوشنویسی کا فن خاص طور سے تھا جس میں انہوں نے کمال کا درجہ حاصل کیا تھا بہت کم عمر میں شعر کہنا شروع کیا غالب نے جوہر قابل دیکھ کر اپنا متنبی بنا لیا فن شعر میں نصیر اور غالب کے شاگرد ہیں افسوس کہ اس نہایت ہونہار نوجوان اور خش نسخ کے فاضل شخص نے صرف35 برس کی عمر پائی اور عین نوجوانی میں غالب کو جنہوں نے اسے بڑی محبت سے پالا تھا داغ مفارقت دے گیا۔ غالب نے ان کا نہایت پر درد مرثیہ لکھا ہے وفات سنہ 1852 ء ہے (تلامذہ غالب از مالک رام ص220) (محمد اسماعیل) دلبران سے ناز کتر اور فکر ان کا بالائی خوش قداں سے بلند تر اس کمالات ظاہری و معنوی پر خلق و حلم کا مرتبہ ایسا بلند ہے کہ اس کا کچھ بیان نہیں ہو سکتا اس یکتائے روزگار کی ذات اقبال آیات کو جامع ضدین کہا چاہیے کہ با عتبار سال کے جوان اور با عتبار کمال کے پیر ہے ۔ سبحان اللہ زبان کو بار آور اور قلم کو تاب نہیں کہ دفتر اوصاف حمیدہ سے ایک حرف لکھ سکے۔ چند اشعار ان کی نتائج طبع سے درج کتاب ہوتی ہیں تاکہ بلندی افکار پر دلیل ہوں۔ اشعار ریختہ قید ہستی سے رہائی غیر ممکن تھی ہمیں آج دم دے کر اجل کو ہو گئے آزاد ہم بیٹھتا ہے کھینچنے جس محو وہ تصویر یار مسکرا کر دیکھتے ہیں صورت بہزاد ہم گھر سے نکالنا ہے اگر ہاں نکالیے نا حق کی حجتیں نہ میری جاں نکالیے موجود ہوں میں سامنے تیغ و کفن لیے جو جو تمہارے دل میں ہیں ارماں نکالیے سخت جاں صحبت سے تیری اے ستمگر ہو گیا بت پرستی کرتے کرتے میں بھی پتھر ہو گیا گھبرائے ہوئے پھرتے ہیں اب بام پہ وہ بھی اتنا تو ہوا ہے مرے نالوں کے اثر سے1 1 یہ صاحب نواب زین العابدین عارف کے علاتی بھائی تھے۔ انگریز انہیں ایک سو روپیہ ماہوار وظیفہ دیتے تھے ذوق اور غالب کے شاگرد تھے۔ حادثہ1857 ء کے متعلق ایک کتاب ’’ نصرت نامہ گورنمنٹ‘‘ان کی یادگار ہے۔ (تلامذہ غالب صفحہ258) (اسماعیل پانی پتی) 5 نواب ذوالفقار علی متخلص بہ آذر سخن ور شیریں زبان نواب ذوالفقار علی خاں متخلص بہ آذر بیٹے نواب حیات علی خاں کے پوتے معتمد الدولہ نواب احمد علی خاں کے پڑوتے نواب یعقوب علی خاں کے جو بھائی تھے شاہ ولی خاں وزیر احمد شاہ بادشاہ کے اور بادشاہ دہلی کی جانب سے منصب قلعہ داری شاہ جہاں آباد سے سرفراز تھے چوں کہ بسبب گرمی فکر و تیزی طبع کے آتش زبان واقع ہوئے ہیں اور تخلص بہت مناسب پڑا ہے الحق اسم با مسمیٰ ہیں اور فکر رسا رکھتے ہیں یہ چند شعر ان کی عالی فکری پر دال ہیں۔ اشعار ریختہ مرے ستارنے نے کام اس سے جہاں کے لیے جو میں نہ ہوں تو نہ ہو گردش آسماں کے لیے شکر پر وہاں زبان کٹتی ہے شکوہ کرنے کی کیا مجال ہمیں ہوئے نا خوش تپاں جو مجھ کو خدنگ غمزہ نے گویا خطا کی 6 جناب مولوی عبداللہ خاں متخلص بہ علوی غفر اللہ لہ، زنگ زدئے آئینہ معنی نمای سخن رنگ افروز معانی تازہ و الفاظ کہن جلوہ دہ عرائس افکار بلند آرایش گراں کار معانی ارجمند ہم آغوش شاہد مضامین دور ہم کنار نگار لطائف حضور ساقی خمکدہ اسرار ابد و ازل واقف سرائر علم و عمل نظر باز حسن صافی نہادی جلوہ طراز محفل پاک نزادی آئینہ دار کمالات صوری و معنوی مولوی عبداللہ خاں متخلص بعلوی سن شریف آپ کا چالیس سے اور کمال ظاہری اور باطنی ہزار سے متجاوز تھا اگرچہ اصل وطن مولد شمس آباد تھا لیکن چونکہ ایام طفلی سے بود و باش حضرت شاہجہاں آباد میں رہی تھی گویا یہ ہی وطن ہو گیا تھا بہ سبب استعداد خدا داد کے ہر فن میں یدطولیٰ رکھتے تھے خصوصاً نظم و نثر تازی ودری میں اور چونکہ فن فارسی میں خواہ باعتبار انشاء نظم و نثر کے خواہ بہ اعتبار درس و تدریس کے مزاولت بکمال اور مشغولی اوقات بہت رہی تھی اسی فن کے نسبت سے شہرت پائی تھی اگر اعتساف و کجی سے دور اور حسد و رشک سے خالی ہو کر اس زبدہ ارباب کمال کا حال دیکھا جاوے اور رتبہ سخن پر نظر کی جاوے تو معلوم ہو کہ ذات تقدس آیات اس صاحب استعداد خدا داد کی کیا جوہر قدسی تھی کہ پرکار دور فلکی بعد ہزار گردش کے بھی ایسا نقش پیدا نہیں کر سکتی اگر نظم ہے رنگین تراز گل ہے اور اگر نثر ہے مطبوع تراز مل ہے کاغذ ان کی بیاض کا بہ سبب شگفتگی معانی کے گل سے خنداں تر اور قلم بسبب رفتار دل کش کے سرو سے خراماں تر سطور تازگی مضامین سے موج سبزہ سیراب اور نقاط بسبب کیفیت معنی قطرات شراب زبان قلم ترانہ ہائے شیریں سے بلبل اور اوراق سفینہ مضامین رنگین سے برگ گل بلبل اگر ان سے تعلیم نہ پاتی شیوا بیان نہ ہوتی اور قمری اگر ان سے فیض نہ لیتی سجع خواں نہ ہوتی ان کے معنی نازک سے خوئی دلبراں خجل اور ان کے مضامین پاکیزہ سے مزاج لطیف طبعاں منفعل زبان جس کمال کو بیان کرے چاہئے کہ دفتر دفتر کہے اور فکر جس من میں تامل کرے غالب ہے کہ ایک عمر تک اس میں الجھا رہے اور حال یہ ہے کہ حیلہ سازی سے زمانہ بخیل مزاج رو نہیں رکھتا کہ ایک دم بھی ایسے کار شریف میں مصروف ہو کر تدارک مافاتکرے ایک مدت گذرتی ہے کہ شاہجہاں آباد سے بامید تلاش معاش دل برداشتہ ہو کر یورپ کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں کسی انگریز جلیل القدر نے کمال قدر دانی سے ان کی صحبت فیض موہبت کو معتنمات عظمیٰ سے جان کر التزام کیا کہ چندے اوقات کو اس صحبت میں صرف کرے اتفاقاً کئی مہینے کے بعد ان کو اس سے مفارقت کا اتفاق پڑا اور چونکہ فن طبابت میں معجزہ مسیحا اور بد بیضا رکھتے تھے اس نواح میں اکثر آدمیوں نے ان کے علاج کی برکت سے امراض صعب سے نجات پائی اور وہاں کے باشندوں نے ان کی بود و باش کو غنیمت سمجھا اور چاہا کہ کسی طرح یہ نعمت غیر مترقیات سے نہ جاوے اسی طرف کے ایک رئیس نے ان کی خدمت میں رجوع کی اور بعد امتحان کے جب دیکھا کہ بہانہ جوئی لطف شافی حقیقی یہ چاہتی ہے کہ مرضائے جان بلب انہیں کے انفاس فیض اقتباس کی برکت سے جان تازہ پاویں اصرار کیا کہ نظر بمروت ذاتی اگر اور جگہ نان توقع روغن میں پڑے، یہاں کی نان جویں پر فضل نہ دیا جاوے، چونکہ خلق طبعی اور کرم جبلی ان کی طبیعت فیض موہبت میں مستقر تھا اس رئیس کی رفاقت اختیار کی اور غربا و مساکین کو ان کی ذات کمالات سمات سے ایسا فیض ہوا کہ نفس عیسوی کو اگر اس پر رشک ہو تو کچھ عجب نہیں جو کہ فلک دوار نہیں چاہتا کہ ایسے افراد کامل صفحہ روزگار پر چندے موجود رہ کر موجب استفادہ خاص و عام رہیں سنہ 1262 ھ میں عالم باقی کی طرف راہی ہوئے اور ان کی تاریخ وفات بعضے از کیا نے یہ پائی تاریخ علوی کو چو او نداد کس داد سخن چوں او نرسیدہ کس بفریاد سخن ناگہ ز جہاں رخت اقامت بربست ہاتف گفتا فتاد بنیاد سخن نظم و نثر ان سے صفحہ عالم پر بہت یادگار ہے۔ تفریحاً للناظرین کچھ نثر عربی اور کچھ نثر فارسی اس کتاب میں مندرج کرتا ہوں تاکہ ارباب انصاف کو معلوم ہو کہ نظم عبارت اسی نظم سے ہے اور نثر اشارات اسی نثر سے۔ رقعہ عربی یا اہل نجد اصگوا نقصتی نشرت منازل حتے النعائم عذلت نفسی فی ما تضیعت تقد الحیواۃ بکسب الذمائم ناولتہا بطواف الکعبۃ ارجو بذلک عفو الجرائم ہی آم رحم و داعی عکوفہا بلغت لہم رحمۃ من کرائم بیت عتیق و صاوی نخیلہا احسی بسیغ من ذکر صائم قالت صدقت ولکن طالما عاد المحب بفتح الغرائم واللہ کیف اجازوا لواجد ان یترک الحب من لوم لائم کلب الجیب جیب لعاشق امظبی بیت و صوت الحمائم قصر فضلی و براعتی و کلت لسکان براعتی لیلاً حضات النبراس، واخذت القرطات لا شرح ہیمانی وانمق نو قانی الی البارع الکامل البدئ، الحلاحل واماء العلو سماء السمو، عقوب احرار الرجال یعقوب کنعان الجمال، یعسوب میدان الکمال، باسط الیدین عطاء غامض العینین حیاء ابی النفس رضی الشمائل، شدید الباس سدید الخصائل، رائض العاوات بالاحسان والسماحۃ، راکض العادیات فی رہان اشجاعہ، لہ سابقۃ فی الکیاسۃ و حادقۃ فی الریاستہ، بہر الاتراب نکراً و دہا، وفاق الافاق ذکراً و ثناہ۔ قطعہ لازوال عذبہ سوطہ متحر کا یوم العطاء و یوم حرب القعصب ولہ سنان اللحظ دون کماتہ لو القیت لتری الحسود مقرعب قام البرایا حولہ متدانیاً لجنوبہم کا الصاثمین لمشرب وسعی کباش القوم حسین رکوبہ ملقی الایادی فی موخر فیقب للہ در الواصفین لہ بان قدفقت معناً بالجواد العشرب والقائلین بانہ لما سری فالشمس لا تتمیز عن کوکب شبع الجیاح من مائدۃ نوالہ، وسعی النساع من معین عونہ و ینا بیع افضالہ، علی الجد فی الاعصار، ولی المجد فی الاثار، احد سنانا و لسان واکد موثقاً و ضمان، وجود مثلہ فی الجود اغر من نیفتہ افوق۔ واما الحاتم فما ہو الافخار بوابک النوق، نجیب الطرفین سعید الکونین، حاجی الحرمین الشریفین، صاحب السطوۃ والصولۃ والتحجر، نواب محمد مصطفیٰ خاں بہادر، رفسع اللہ کعبہ و سہل صعبہ، واذہب ہیثہ و بصر جیشہ، نصبر نعیمہ و ارغد عیشہ ما دام تملاً کئوس السما من صبوح الصبح و غبوق الماء و اوصل الکلام الی ان ایہا الامیر المنعام، حیاک السلام بالسلام، و نصرک علی نیل المرام، انک مذ تحریت زیارت الحرام، و رمت الی السمت المحترم و تراکضت خیول الارادۃ، و انتہضت الیہا بالخیر والسعادۃ، حثنی الفراق علی المنیتہ واجبت الہلاک بالا منیۃ فانست، بسدنہ بابہا والقیت اسحات الدنیا الی وجوہ اصحابہا، فانت دسیر النیاق الرافلات فی الیطحاء کان فی محاملہا اللیلیٰ، وانا فی صقع ہذا الصحراء کالغریب الضال فی الظلمائ، تجافی جنبی، عن الضجوع ویلت عینی من الدموع ولا ہیرمن ہذہ الوصب ولا راحۃ من تلک النصب، و ذروۃ سنام ماجری من الا لام، خسران صفقتی بما ساقنی المقدود من محاریب الا دمائ، و بعدنی من مجالس الاربائ، فانی بعد تودیع الخدام الا مجاد مکثت مدۃ ایام فی شاہ جہاں آباد، ثم لما اصابنی من الدہر کلبتہ و کربتہ فسمت سنام الغربۃ و ترکت رباع الدہلی و دیارہا و نجویت الارض انجادہا و اغوارہا، حین یبکی السمائ، علی حالی ویضحک البرق علیٰ بلبالی، فجرحت من اکل الجواد وانضوت مراکب الاجتہاد حتی نزلت فرخ آباد، تعزرونی اہل ہذا لبلاد، وجانی کل قاروبار اشرابت الی احابیشہا و حفت علی تالیہا و مجثیہا، واکرموا مثویٰ حتی نزعت حفی والقیت عصای، فلبثت یلتا و تجست مکاناً علیا و بعد زمان یسیر تقربت الی الامیر الکبیر الطالب للخیر والثواب الراغب الی الحق والصواب، المعروف بالدولۃ والشہامۃ، الموصوف بالصولہ والصرامۃ، حسن الظہار، والبطان رفیع المحل والمکان انفاسہ مسک سحیق اخلاقہ خمر عتیق صعد علی ذری العلامنذ استنزل من حجرامہ وفاح السماء والغبراء بفوائح ما فی حبیبہ و کمہ، قد خلق علی فتوۃ من الابرار فکان راساً علی العبید والاحرار، الزہرۃ النضرۃ فی الریاض المرتضویٰ السید الامجد محمد علی خاں الصفویٰ الموسوی لا زال دوحہ فضلہ متفرعاً بالاجلال وینعۃ جودہ ہنیا سائفا فی مذاق اہل الکمال، فاستبقت البدری علی جنابہ و کنت الی ہذہ الایام عاکفاً علی سدۃ بابہ ہی مخرفۃ النعم، ولکن لا احظ منہا الا بالامم وہولی انفع لان الرشف انقع، ازاح علی معاناۃ الزمان الا معونۃ ہجران الاحباب والاقارب والا قران فانہا تزید یوماً بعد یوم تشغلنی عن الاکلم والنوم، وملاک ذلکالصعاب و راس کل کلال وانعاب بعدی عن عتبتک الشریفۃ التی ہی میقات اہل الفضل والنہاہۃ میعاد اصحاب المجد والوجاہۃ، فلوۃ قلبی بتذکرہا و عمد عینی تصورہا، ثم واغو ثاہ ثم اغوثاہ طالت مقالتی و لم تنفذ ملالتی الان ابین مالا یدور حولہ شوابت التکلف و غوائل التصلف، لان الناس عند العنین والا غراق یتحمل الکذب والمین۔ وھوانی عبد المفتقر مقر واردت نقیعۃ عودک من سفر، فشادرت العلب و تفحصت الامکان والصاقۃ قال حسبک ہذہ البطاقۃ فقط اعجل السفیر حتی یلجلج اللسان فی التقریر و تحیر القلم فی التحریر۔ فالعفو مسول من مثلک الحبر النحریر فقط۔ وانا ارجو من فضلک العمیم ان تسلم منی علی المولی المفضال السید المتعال البارع الباہر الحاذق الماہر صعد علی مدارج العلوم صعود اسعاد النجوم ونزل فی فقار الحکم نزول المطر من الغیم بدر الملۃ صدر الشریعۃ بحر البر و بر الامتنان نہر الفضل و ینبوع الاحسان، مفتی محمد صدر الدین خاں حرر فی العشرین من الجمادی الاولیٰ۔ نثر فارسی ا ز صحبت نامہ در روز عسلش حمامی چرخ بفروختن گرمایہ صبح دوید، و آفتابچی دوراں آفتابہ رزین خورشید باچلانچی دایرہ افق در پیش کشید، پیشکاراں عرق خانہ گلشن دست بہ تہیہ اسباب غسل بر آوردند، ارغوان غسول شبنم در پیالہ گذاشت و گل پیالہ سرخاب بدست برداشت، شمشاد شانہ در آب کرد و چنار بہ دلاکی دست بر آورد پنجہ لالہ کیسہ از دست کشید و بہار آفتابی ابر بدوش رسید تجلی باصلاح خط عارضش سوسی طلید و موسی بہ شوق نورہ مالیدن دست از بغل بر کشید خنک ازیں شادی کہ بادای خدمت آب کشی آب خود را روشن ساختہ آب پیوست انداختہ غنچہ آب از رائحہ بدنش ببوسید و سنگ پا بشرف پا بوش لعل را ہم سنگ خویش ندید پا خراماں و دامن کشاں بجامہ خانہ در آمد، ایں رباعی از زبان ملہم غیب برآمد۔ رباعی ای جود تو خلعت دہ عریانی یاس زود او برون کن از برخویش لباس از مہر تو آتش بدل حمام است در شوق تو آب گشتہ در دیدہ طاس آرایش گر بہار بقبا گردانی سہی قامتان گلزار دوید و خیاط نامیہ قبای محرمات را بر قامت سرو آزاد بدید، نسیم بہاری بقرطق دوزی اطفال چمن سوزی بنفشہ از بقچہ زمین بر آورد و ابر آذری بشبستان بامہای چرک تاب نو رسیدگان گلشن از گل کوزہ صد کلیزہ بر آب کرد، آزادہ دلان قید تقطیع و فار غبالان تغییر لباس از ہمہ بریدہ بر خلاف باران لباسی از تہ دل بساط نشاط انداختند، و مرغان خوش الحان در ہر گوشہ غلغل نو روزی بلند ساختند، عندلیب راہ جامہ دران برنگی سر نکر دہ کہ گل جامہ برتن دریدہ سراپای خود را گوش نسازد و قمری بامول فاختہ نشیدے بلند نساختہ کہ صنوبر بانداز نثارش صد لخت دل از سینہ بیروں نہ اندازد ساربان لحنے غم گسار فقرات این زمزمہ سیررنگ را باہنگ راست بکوش بینوایان دایرہ عشرت انداخت باز بر آتش گل یاد صبا زد دامن باز برخاک چمن ریخت ہوا در عدن نامیہ کرد دگر جامہ خورشید رفو دوخت مہ برتن اشجار دگر پیراہن آب بکشاد جو از خدمت گلزار کمر باد بشتافت ز جنت کہ بر ستارش فن صبح برخاست کہ گلہائے چمن خنداند ابر بنشست کہ بارد بہوائی گلشن صبح آن قابلہ کانگشت زندہ بر لب طفل ابر آں دایہ کہ تیرا دوش از مہر لبن وقت آں شد کہ کنوں نامیہ چوں رنگ رزاں کہ بقم بر سرکار آرد گاہے روین گر نہ از فراط طرب تن بفزاید بر خویش ورنہ از فیض ہوا روح ببالد ور تن چیست آخر کہ بآن لاغر و ز بخوری بید گردید چنیں فربہ ونرگس بہکن اے حریفان چمن عہد شباب است بلے بوسہ از ما و لب از جام و ز مطرب تن تن از پی تہنیت عیش خراماں دوناں بلبلہ سوے سبو رفت و سبو جانب دن شیشہ بندی کندش ساقی شیریں حرکات بگذدر گر بچمن زاہد شیشہ گردن بلبلان رنگ صدا بہ کہ بود بستہ نگار غنچہ دیگر بچمن آمدہ انگشتک زن خوش خوش آن آتش سیال کہ از تاثیرش خشک دامن شدہ رندی وورع تر دامن بخ بخ آن دلبر رقاص کز افشاندن دست پشت دستی بزند بر رخ اندوہ و محن و خامہ طاؤس رفتار طوطی منقار بصریر دلپذیر ایں ترانہ تازہ را آویزہ گوش عرب و عجم ساخت۔ اشعار فارسی نخواست غارت دست زمانہ باغ مرا درون سینہ نہاں داشت عشق داغ مرا وفا پرست سر کاکل توام مگذار کہ بوی مشک پریشاں کند دماغ مرا فلک ز اختر پرویں سپند برد و بسوخت شبے کہ آتش ہجراں فروخت داغ مرا ولے ز گردچ چشمش خدا نگہدارد کہ گرد باد بود آستیں چراغ مرا اسیر عہد غم ای خزاں عیش برو کہ نیست رنگ شکستن بہار باغ مرا دلم ز کم نگہی ہائی اوپر است مگر خمار چشم تو خالی کند ایاغ مرا امیر قافلہ دشت و حشتم علوی نموں ز رنگ رخم میکند سراغ مرا ٭٭٭٭٭٭ اسیر تؒکئی تزعست جان بسمل ما کہ زہر چشم بتاں می تراود از دل ما ہزار قلزم خوں می کشیم و تشنہ لبیم ز آب تیغ تو گویا سرشتہ شد گل ما گذشت عمر در آمد شد وجود و عدم قضابہ گردش چشم کہ بست محمل ما نصیب حاصل ما نیست گر ہمیں جز برق نصیب برق شود کاش جملہ حاصل ما بہ فتنہ گرمئی ہنگامہ طرب داریم فروزد از نفس صبح شمع محفل ما دلم شکست ستمہائے زلف او یا رب شکستہ تر شود آنکس کہ بشکند دل ما نم سرشک قرارم دہد چوریک رواں بروی آب مگر ساخت عشق منزل ما ستم ظریفی و علوی مزاج دان تو بود وگرنہ ننگ طپیدن نخواست بسمل ما ٭٭٭٭٭٭ اشکم رود از دیدہ و حقدار نداند ایں نو قدم اندازہ رفتار نداند گر جیب نماند است بزنجیر در آویز آں کن کہ کسی بیند و بیکار نداند داغم ز دل سادہ کہ خوش کردہ بہر خواب ارباب تماشا ز خریدار نداند یا قصہ زنجیر بگو یا سخن زلف واعظ دل من سبحہ و زنار نداند گہ بر رخ و گہ بر مژہ خوب توافتد دیوانہ نگاہم کہ از خار نداند بی ہمر ہی غیر نیاید بگلستاں ایں سادہ تو گوئی رہ گلزار نداند غیر آید و صدر از بپرسد ز نگاہت پس با منت ایں حیلہ کہ گفتار نداند جاں میطلبد ور بدل نیم نگاہے نقصان خود و سود خریدار نداند دشوار کہ آئی تو بہ نعش وی و علوی مردن بسر کوئے تو دشوار نداند ٭٭٭٭٭٭ 7 جناب مولانا مولوی امام بخش صہبائی تخلص سلمہ اللہ تعالیٰ رنگ زدائے آئینہ سخنوری مصقل مرات معنی پروری نخلبند حدیقہ کمالات صوری، پردہ کشائے حسن جلائل معنوی معجزہ طراز طرز تازہ بزم افروز حمائد بے اندازہ، ساقی خمکدہ سخن سرائی مولوی امام بخش متخلص بہ صہبائی۔ نسب آپ کا والد ماجد کی طرف سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تک اور والدہ مشفقہ کی جانب سے حضرت غوث الثقلین سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے کمالات ظاہری اور جلائل باطنی اور حسن خلق اور حمائد اطوار میں پسندیدہ خالق و مقبول خلائق ہیں۔ خلق نوش آپ کا آئینہ بہار اور اوضاع حمیدہ آپ کے محمود روزگار۔ اس جزو زمان میں ایسی جامعیت کے ساتھ کم کوئی نظر سے گزرا ہے اور طرفہ یہ ہے کہ فنون متعارفہ سخنوری مثل تحقیق لغت و اصطلاحات زبان دری اور تدقیق مقامات کتابی اور تکمیل عروض و قافیہ و استکمال فن معما و غیر ہا میں ایسا کمال بہم پہنچایا ہے کہ ہر فن میں یک فنی کہنا چاہئے بیت پذیر فتہ از ہر فتے روشنی جدا گانہ در ہر فتنے یک فنی۔ شروح کتب اور رسائل قواعد زبان فارسی اور رسائل علم عروض و قافیہ اور معما جو جو آپ کے ریختہ قلم نزاکت قلم میں ایسے نفائس مقاصد اور جلائل مطالب پر مشتمل ہیں کہ متبعان فنون مذکور کو ان فوائد جلیلہ کا حصول بعد ایک عمر دراز کے بھی متعسر ہے، خصوصاً رسالہ گنجینہ رموز کہ صنعت معما میں آپ کے خامہ معنی طراز سے جلوہ پرداز ہوا ہے ہر چند رسائل متعددہ اس فن میں اساتذہ سلف سے یادگار ہیں لیکن جو کہ ہر کار رہیں روزگارے است احسن اس کمال کا اب تک گنجینہ تقدیر میں سر بمہر امانت تھااور ان پیشوایان فن دقیقہ یابی کو اس طرز و انداز سے سوائے آرائش سہل کے نصیب نہیں ہوا تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ وہ رسالہ مشتمل ہے ایک معما کی شرح پر کہ شرح و متن دونوں آپ ہی کی نتائج طبع فیاض سے ہیں وہ بیت با عتبار ظاہر کے۔ سوائے چند کلمات معدود جو ظرف بحور متعارف میں گنجائش پذیر ہو سکتی ہیں اور کیا رکھتی ہے، لیکن اگر چشم بصیرت سے دیکھا جاوے وہ بیت ایک عالم ہے کہ جلوہ ہائے ہزار در ہزار سے دیدہ فریب اہل کمال ہے ارباب دانش و اہل خرد پر ظاہر ہے کہ فن معما اگرچہ اصول شانزدہ گانہ سے زائد نہیں رکھتا، لیکن فروع متکژہ اور شعب متوافرہ اس سے اس قدر متفرع اور منشعب ہیں کہ ظرف حصر و شمار اس کی گنجائش سے عاجز و زبوں ہے۔ اس بیت نے باوجود ایسی تنگ ظرفی کے اس دریائے ذخار کو اپنے آغوش میں چھپایا ہے، یعنی ذیل بیان اعمال میں یہ ہی ایک بیت مثال ہے اور اس سے تین سو ساٹھ مختلف اسامی مستخرج ہوتے ہیں اور طرفہ تر یہ ہے کہ استخراج اس کا نہایت سہولت و بے تکلفی کے ساتھ ہے اگر انصاف یاران سخن فہم کی طبیعت سے گوشہ گیر نہ ہو تو ارشاد کریں کہ اس کیفیت کے ساتھ کوئی رسالہ عہد آدم اس دم تک کس صاحب استعداد کی پردہ فکر سے جلوہ گر ہوا ہے؟ اور ایک رسالہ جواہر منظوم نام مشتمل رباعیات پر کہ ہر رباعی سے ایک نام نامہائے باری عزشانہ کا مستخرج ہوتا ہے باوجود لطافت اعمال معمای کے معنی شعری اس لطف کے ساتھ ہے کہ ناز و انداز خوباں خلخ و نوشاد اس کے آگے طبائع عشاق سے ہزار کوس پرے رہتا ہے سوائے اس کمال کے نثر و نظم زبان دری سے خرد گیر ہائے متعدد مملو ہیں۔ نثر ایسی کہ نثر ثریا اس پر نثار ہے، اور نظم ایسا کہ نظم جواہر اس پر فدا۔ ایک نثر چار پانچ جزو کی مسمیٰ بریزہ جواہر سلطان عہد والی عصر محمد سراج الدین بہادر شاہ خلد اللہ ملکہ و سلطانہ کی مدح میں اس آب و تاب کے ساتھ ریختہ قلم نزاکت رقم کی ہے کہ اگر رشک و حسد ہم عہدی چشم پوش نہ ہو تو اس کی جلوہ گا ہ میں سہ نثر ملا نور الدین ظہوری کو ہر گز پردہ خفا سے جلوہ گر نہ کریں، اور ظہوری کو اس کے عہد میں خفائی بنا دیں اور ایک انشائے مکاتیب نہایت متانت عبارت اور لطافت معانی کے ساتھ ہے کہ اکثر اس کا بطرز نثر مرزا بیدل علیہ الرحمہ ہے اور نظم میں غزلیات کثیرہ اور قصائد متعددہ بعضے بطرز متقدمین اور بعض بطرز متاخرین نہایت لطف عبارت و کمال حسن معانی کے ساتھ موجود ہیں الغرض احاطہ آپ کے محاسن و محامد کا اندازہ تقریر اور احاطہ تحریر سے افزوں ہے۔ ان کے نظم ونثر کے الفاظ لالی شاہوار اور معانی یا قوت آبدار کی برابری کرتے ہیں ۔ قلم کو انہیں کی عبارت انتساخ سے نستعلیق گوئی میسر اور صفحہ انہیں کے معنی رنگین کے فیض سے بساط کل کا ہمسر ہر دائرہ طراوت معانی رنگین سے ساغر مل اور ہر سطر رنگینی مضامین سے شاخ گل ان کمالات پر حلم ایسا ہی خلق ویسا ہی زبان ان کی ورق نسخہ اخلاق اور سینہ ان کا صندوق خزائن وفاق ہر چند اس گروہ ارباب وفاق اور اس سر جملہ نیکو کاران آفاق اور راقم میں سر رشتہ محبت و اخلاق ایسا مستحکم ہے کہ گویا دو قالب میں ایک جان جاری و ساری ہے اور یہ امر دال ہے اس بات پر کہ ذکر اوصاف حمیدہ اس یگانہ روزگار کا شاید نتیجہ افراط محبت کا ہو، لیکن راقم نے مرتب دوستی و مدارج اتحاد کو اس امر میں کچھ مدخل نہیں دیا اور جو کچھ بیان واقعی تھا۔ اسی کو لکھا ، وگرنہ محبت کا اقتضا یہ تھا کہ جس وقت ان کی محامد و اوصاف میں زبان کھولتا اور تحریر مناقب میں قلم کو ہاتھ میں لیتا شاید سوالات محشر کے جواب کی تقریب ہی ایک دو لمحہ کے واسطے زبان کو اس ذکر سے باز رکھتی اور صدمۂ زلزلہ قیامت قلم کو ایک دو دفعہ ہاتھ سے گرا دیتا۔ جو کہ اوصاف نفس الامری بھی غیر متناہی ہیں اور ان کا حصہ ظرف اعداد نامتناہی میں بھی محال ہے ، بالفرض اگر ہمت ان کے بیان سے عاجز نہ ہوزبان کوشتیں کا درماندہ اور قلم چوبیں کا فرسودہ ہونا ممکن ہے۔ ناگزیر انہیں ایک دو کلمہ پر قناعت کر کر قدرے ان کے کلام بلاغت نظام سے بطریق یادگار کے درج کتاب کرتا ہوں۔ نثراز ریزۂ جواہر تواضع را با نہادش چوں موج و دریا ہم آغوشی و بزرگی را باسرش چوں رفعت آسمان گرم جوشی ۔ فیض در طببعتش چوں ریزش در سحاب و صفا در ضمیرش چوں پر تو در آفتاب۔ اوامر قضا را با مشایعت امرش اندیشہ پا بر تر نیفتادن و اندازۂ قد را در مقابلۂ تخمینش سر رشتہ حساب از دست دادن ۔ رفعت از سر بلندیش با فلک ہمدوش و فروغ از ضمیر ش بآفتاب ہم آغوش ، مہابت را از پیشتیبانی جلالش جرأت شیر افگنی و سیاست را از دستباری قہرش اقدام در گردن زنی ، حیا در پیشانیش چوں صفا در آئینہ ، و مروت در دلش چوں می در آبگینہ ، دریا را از کرمش گوہر در گنجینہ و معاون را از جودش زر در خزینہ ، از ریزش بے فاصلہ اش موج دریا دست دراز کردہ در فزاہم آور دن گوہر ناصبور است ، و از انعام متواترش محیط فراخ دامن درتنگی حوصلہ آرزو مجبور ، صبح از خورشید آتش در دل افروختہ ، غیرت ضمیر انوار دفینہ اش ، و شام از شفق خون در جگر انداختہ ، رشک راز داریہائے سینۂ اسرار گنجینہ اش گل با شگفتگی خاطرش جگر خوار تر از بلبل و گلشن با رنگینی طبعش افسردہ تر از بزم بے مل ، ظفر بآوازہ موکب سعادت کو کبش دو سہ منزل پیشتر در انداز استقبال ، و نصرف بتوجہ رایات شرف آیاتش مہیای پیشکشی تحائف اقبال ۔ مجملات خوبی گل رادر مصحف رخسارۂ شاہدان مفصل تفسیر نمودہ ، و مبہمات موزونی سرو را در مصرع قامت خوباں مصرح تقریر فرمودہ ، وقت فکرش دریافتہ کہ کوری چشم نرگس از پاس عصمت ابکوار چمن جائز داشتہ اند ، و گرفتگی زبان سوزن بلحاظ بے د ما غیبہائے رنگیں ، و سادگی کا غذ در پیش چشمش عینک دوربین ، با لطف کلامش سجع بلبل نالۂ نراغ ، و باخوبی رقمش خط خوباں پائے کلاغ خ نظم انصاف را حرف شمشیرش مقطع ، و قصیدۂ عدل را سخن تدبیر ش مطلع ، تیرارش در برابر خدند نگشن چوں سہم نگاہ اعمیٰ از تر کش برنیاید ، و کمان رستم در جنب کبادہ اش چوں حلقۂ قامت ضعیفان زورین نہ نہاید ، تبغ ابرو را پیش شمشیرش در نیام بیکار یہا ز نگار خوردہ و سلسلۂ زلف را و عہد کمندش از بے قدری با د بردہ ، جنگ آزمائے کہ تہمتن قواعد رزم را از کمترین چاکرش یاد کردہ و بختیارے کہ سکندر کوس فتح را چرم از نعلینش بردہ ، شبستانش از ساغر طرب غیرت گلشن ، و ایوانش از مینای عشرت رشک چمن ، اہل وفاق را چہرہ از زعفرانی ، عہدش ارغوانی ، و ارباب نفاق را رخ از ار غوان کار تیغش زعفرانی ، لمحۂ ، تیغش بر خرمن ہستی اعدا برق ، و نالۂ رعد باطنطنۂ کوسش زرق ، درہوائے عرصۂ جنگش از جان رمیدہ ، اسدا عالم ارواج در نظر ، از صدمۂ گزرش گاو آسمان را اندیشہ جستن شیر مضطرب میگرداند ، و از احاطۂ کمندش ماہی نوبین رابیم گزاشتن شست بز خود می جنباند ، خدنگش آنسوی فلک گزر آن ترا از تیر آہ ، و کمندش پیچان تر اند مد نگاہ ، بلندی مراتبش قبہ منار جلال ، و رفعت مدار جش سلم بام کمال ، فلک را از مرتبۂ بخشش معراج بلندی پایگی ، و محیط را از دستگاہ جو دش اعتبار گراں مایگی ، و صف عموم فیضش ذکر طوبی ، و سخن سر بلندیش خرف سدرۃ المنتٰہی ، از رفعت سدہ بارگاہش فرق کمترین چاکر فلک سا ، واز بلندی پایۂ آستانش پائے ادنی خادم عرش پیما ، بصلائے غریب نوعازیش معنیائے نادر اہل سخن در تردد جادۂ نفس بیتاب ، و از آوازہ تعمیم سخایش مضامین بیگانہ شعرا در کافر منشیہاری شارع قلم سراپا اضطراب ، توانائی را از نسبت سر پنجہ اش در بردن نام شیر رو درہم کشیدن و خجستگی را از انتساب ذاتش در تصور بال ہما بر خود پیچیدن ۔ شہنشاہئی کہ از بس ارجمندی گزارد پائے بر فرق بلندی فلک جاہی کہ از والایٔ قدر تگاور راندہ بر پیشانی بدر ملک قدری کہ از وی دوش شاہی طرازش جستہ از فضل الہٰی نہیبش گرزند بر سنگ خارہ رگش در جنبش آید چوں شرارہ شرر را قہر او گربر فروزد چو کاغذ سنگ خارا را بسوزد چو شیر از صیت عزمش رفتہ از ہوش گریز آورد در سوراخ خرگوش فلک گفتی سپر خود را عدویش ہلال از نعل تو سن رد برویش سطر تبغ بہر زینت حرف ز خون دشمنانش رنگ شنجرف ز تیرش زخم اعدا تادم صور برنگ چشم عاشق گشتہ ناسور ہنوزش تبغ بر کف نا رسیدہ بفرق دشمنش عمداً رسیدہ اشعار فارسی یا رب آں کن بجنوں دل دیوانۂ ما کہ شود بال پری نالۂ مستانۂ ما حسن بر خود غلط و عشق نظر باز غیور شمع داغ است ز خود داری پر وانۂ ما ہستی اہل فنا وقف شتاب دگر است رفتن رنگ بود شمع بکاشانۂ ما طرفہ کان بت برخ کعبہ رواں ہم خندد دست در گردن غیر است ز جانانۂ ما ٭……٭……٭ کن آشنائے لب دو سہ حرف عتاب را از بہر ما دو آتشہ ساز ایں شراب را رنگ رختم چوگل پر پرواز میزند دارم خزاں رسیدہ بہار شباب را دارد اثر ز چین جبیں موج خندہ ات یک رنگ کردہ ناز تو لطف و عتاب را امروز تا کرشمۂ لطفش چہ می کند رحمت فگندہ است بفردا حساب را چوں شمع آرمیدن عمر است اضطراب دارد بہر رنگ بہارم شباب را وحدت ہزار جلوہ فتادہ است دیدہ ام در دیر و کعبہ رنگ عذاب و ثواب را صبہائیا بہ وسعت رحمت نگاہ کن یکسو بنہ شمار گناہ و ثواب را ٭……٭……٭ آرامہا زطبع جھاں شد زدرد ما خیزد خزاں عالمی از رنگ زرد ما مشق جنوں نکردہ بوادی قدم مزن ای گرد باد بادل صحرا نورد ما صبحم ضعف ما منگرو از اثر بترس آتش نہفتہ زیر بغل آہ سرد ما چوں صبح بار خاطر عالم نبودہ ایم تمکین نداشت خبر نفسی زنگ گرد ما صہبائی از جفای فلک دم نمی زنیم ای کاش پر حدر شدی از آہ سرد ما چہ گل کہ در کف پا نشکند ز خارمرا جنوں بفصل خزاں می کند بہار مرا چناں کہ بادہ در انگور و نیست بادہ بنام بہر کجا کہ توی نیست اعتبار مرا برنگ لالہ در آغوش نو بہار نہ ہشت زدست داغ دل آسودہ روزگار مرا قبول خاطر کونین را نمی ارزم زبیکسی لحد آورد در کنار مرا ہر آنکھ دید مرا دید خویش را در من بحیرتم کہ بدل نیست غیر یار مرا فلک بماتم یاراں رفتہ صہبائی سپرد داغ دل و چشم اشکبار مرا شد دلم جلوہ گہ حسن قد و جانم سوخت آتش از خانۂ من سرزدہ سامانم سوخت آتشے بود کہ جز کعبہ نباشد سنگش برق آں کفر کہ در خرمن ایمانم سوخت بوئی پیراہن اگر چارہ گر آید وقت است دل بہ بیتابی غمدیدۂ کنعانم سوخت ہمچو شبنم خویش را فارغ ز عالم ساختم محرم خورشید گشتم باحساں کم ساختم مردم و در چشم مردم عالمے تاریک شد من مگر شمعم چو رفتم بزم برہم ساختم عیش عالم نیست باب من در ماتم زدم در خورم نبود نشاط دہر باغم ساختم رنج و ارحت ہر دو بے درد سرمنت نمود نے نمک بردم بزخم ولی بمرہم ساختم کفر در کیشم سپاس نعمت دیدار اوست جلوہ در ہم رنگ دیدم گردنے خم ساختم نیست صہبائی چوجام جم نسیم گو بماد می ز خون دل کشیدم خویش را جم ساختم دارم دلے دیوانۂ صد داغ ہجراں در بغل چشمی و چندیں نسخۂ خواب پریشاں دربغل نازم بہ کار کیشی زلف سیہ کارش کہ او ہم راہ ایمان میزندہم کردہ قرآن در بغل درسینہ آتش مشتعل در یدیدہ دریا موج زن ہر شعلہ دوزخ آفریں ہر موج طرفان در بغل بحیرتم کہ چوں از من بمرگ راضی نیست بزندگانی دشمن چہ گوند خرسند است بکفر من منگر عذر اضطرارم نہ کہ شوق در طلب و بت بدوست مانند است یاد آنروز کہ کس محرم اسرار نبود حسن را جلوہ گہ و جوش خریدار نبود پردہ برداشت گہ ازر یوسف و گامے ز رخت عشق آں خانہ خراب است کہ بے کار نبود عشق و حسن اند غیور ایں قدر افزود نزاع ورنہ رنج من و او آں ہمہ بسیار نبود غفلت از جلوۂ مطلوب نسازد محروم دیدۂ آئینہ یوسف شد و بیدار نبود معمیات از جواہر منظوم عزیز خورشید بخویش داشت زیں پیش گماں اکاین چرخ نیاوردہ بطنزش بجہاں چوں قصۂ آفتاب رویش گفتم خور یافت رخ چو خویش را نام و نشاں خورعبارت ازع است و خویش کنایہ از آفتاب کہ دریں مقام مراد ازاں زر است و مثل آں رز بمعنی انگور و رخ آں رائے مہملہ و چوں رائے مہلمہ را نام یا بند ری شود و نشان یا بد زی بزاے معجمہ گردد و زاے معجمہ کہ در زر بود باقی است پس ریزسہ و باغ عزیز گردید۔ ایضاً بیگانہ زمن نگار جادو فن من از حلیہ خصم دوست شد دشمن من چوں دیدۂ غیر اشک بر دامن ریخت دامن دیگر زد از پی کشتن من دیدۂ ع مہملہ است و چوں دیدہ ع معجمہ چوں غ معجمہ غیر اشک یعنی نقطہ مد دامن کہ رای مہملہ باشد بریزد زائے معجمہ گردد و غ معجمہ عین مہملہ شود و چوں اکنوں دامن زائے معجمہ باشد دامن دیگر عبارت از زائے معجمہ دیگر خواہد بود و چوں زائے معجمہ دیگر در اول یائے تحتانی در آید عزیز صورت نمیاد و اول یاے تحتانی در آمدن زائے معجمہ از بھر آنست کہ دامان زدن عبارت است از پیچیدن در من بر کمر۔ خافض حسنش کہ برنگ ماہ انور بینی چوں خور بینی اگر مکرر بینی آخر زاں شوخ بیں تمام اندازش زانگونہ کہ ہر دمش فزوں تربینی آخر از شوخ حرف خ است واں تمام بود خاگردد ازاں گونہ یعنی مثل آں ح مہملہ است و واو ازاں عدد آنست کہ ہشت است و ہندسہ آں چوں آنرا ہردم فزوں تر بینند اول آنراہشتاد بینند کہ حرف ف باشد و دیگر بار آن را ہشت صد بیند پس فض شود با اول خافض گردد۔ رافع چوں رفت ز خلوتم سحرگہ آں یار بنمود خور از منظر مشرق دیدار دیدم از شوق تا بدل گردد ازو گردید چو اژ در آفتاب آخر کار اژدر را دو جزو است ازد در و بمثل از اراست و چوں بگردد را شود و درب معنی فی است رافی شد و آفتاب کہ عین مکتوبی باشد اخواست یعنی یائے آں بدل باع است رافع شد۔ غفور یا رب گنہ ز بسکہ از حد افزود گفتی لا تقنظوا و یا سم نزدود آرے ناجی شد آنکسے کش از شرم باعفو تو راز دیدہ جز اشک نبود راز تحلیل یافتہ و حرف زے بمعنی از حاصل شدہ یعنی بالفظ عفو حرف را است عفور شد و از آں دیدہ کہ عین عفور است اشک شود غفور گردد۔ مجیب آں لعل اگرچہ جاں فزا و دلجوست اما ز نفس سید دل وافعی خوست گر زلف دہد دہن نہادن بلبش گیرم زلب آں ہمہ کہ آں زلف آبروست زلف جیم است و دہن اندراں میم و لب آں حرف جیم است چوں میم برج بیامد مجی بہمرسید از لفظ لب آنچہ زلف بر اوست حرف ب است چہ لام کہ تشبیہ بزلف دارد بر حرف ب است آں گرفتہ شود مجیب ظاہر گردد۔ حق عالم چو بعشق آں ستم گر آشفت او خواست کہ جنس دل ازو گیرد مفت چوں دیدۂ خصم آں تمام عیاری درہا ز میاں نمود و آخر بنہفت دیدہ خصم صاد است و مثل آں ضاد است یعنی مکتوبی و تمام آں ضاد است ملفوظی و در ہائے آں باعتبار ہندسہ آں کہ ہشتصد است دو است بدیں صورت 800 وایں نقطۂ ہا از میان ضاد کہ الف است کہ دو پس ہر گاہ دو نقطہ بر الف آید صد گردد کہ قاف است و ہشتصد ہشت ماند و آں حرف ح است و آذر کہ دال است ہفت اسم حق بمنصۂ ظہور پیوست۔ باطن گرد ر شب ماہ آں شہ حسن و جمال از پردہ نماید رخ خورشید مثال از بسکہ ز خود تہی شود از شرمش از بام رباط مہ نماید چو ہلال از بام رباط مہ نماید چو ہلال گفتہ و تبدیل حرف راکہ در اول رباط است بنوں خواستہ و از عبارت نماید چو ہلال مراد آنست کہ آں نون در آخر رباط باشد چہ ہر گاہ از بام بہ بیند ہلال در مغرب نماید پس لفظ باطن صورت بندد۔ مالک الملک آنراکہ زداغ عشق نقدی اندوخت در مکتب عقل نسخہ ہا باید سوخت شد باہر لا ولم دل اندر صد بحث آخر زکتاب عشق حرفی آموخت باقلب شد اب گردید مراد ازاں مااست دہر یعنی کل قلب شد لک گشت و کلاقلب شد ال گردید دلم قلب شد مل گردید و آخر ایں ہمہ حروف حرفے از کتاب کہ کاف باشد از مجموع مالک الملک صورت بست۔ ذوالجلال و الاکرام آں دل کہ چو خورید مصفا دیدے از روشنی بادہ و صہبا دیدے برگیر کدو نہ دل جلا گیرد اگر در دورۂ ما نہ کار دل را دیدے برگیر کدو یعنی مثل ذوکہ ذو است و نہ کہ لاہست دل پس ال باشد ذوال شد و لفظ جلا اگر را گیرد یعنی نورا ذوالجلال و شدو درہ ما ام است درآں نہ یعنی لا و کار کہ دل ان حرف راست کہ کرا باشد پس الاکرام شدہ۔ امام بخش اسم مصنف در دورہ حسنت اے ہلالین غبغب خورشید و قمر کشودہ در دعوی لب بر بام تو نیز جلوہ کن وقت سحر یا آن رخ خود نما میان دل شب یا آں تیہ یا است و ازاں تکرار ام مراد است پس امام شود و درمیان مقلوب شب کہ بش است حرف خاے معجمہ کہ رخ لفظ خود است در آید بخشش گردد۔ صہبائی تخلص مصنف داغ دل تست لالہ گوں صہبائی چاک جگرت گل جنوں صہبائی دل بہ در دیدہ تا بہاری شگفد آخر گوی دل است خون صہبائی چوں بہ قلب شود ہب گردد و آں در دیدہ یعنی صاد آید صہباد گردد و آخر را کہ دال مسمیٰ است ئی بگوں بہ ی بدل کن کہ صہبائی شود۔ 8۔مولوی محمد حسن ہجر بلبل شاخسار سخنوری طوطئی شکر ستان معنی پروری مولوی محمد حسین ہجر شاگرد رشید مولوی امام بخش صہبائی تمام کتب منشور و منظوم فارسی انہیں کی خدمت میں تحصیل کیں اور مشق سخنوری بھی 1۔مولوی امام بخش صہبائی فارسی ادب کے بے نظیر فاضل سر سید کے گہرے دوست ، غالب کے ہمحصر ، شمس العلماء مولوی محمدحسین آزاد اور رائے بہادر ماسٹر پیارے لال آشوب کے استاد تھے۔ قلعہ معلی دہلی کے بھی اکثر شہزادے ان کے شاگرد تھے۔ قدیم دلی کالج میں پروفیسری کے عہدہ پر فائز تھے۔ سہ نثر ظہوری کی فارسی میں شرح لکھی۔ حدائق البلاغت کا آردو میں ترجمہ کیا اور 1857ء میں بے گناہ مارے گئے اور گھر کھدوا کر پھینک دیا گیا ۔ مفتی صدر الدین آزردہ بڑے درد سے کہتے ہیں ؎؎ کیوں کہ آزردہ نکل جائے نہ سودائی ہو قتل اس طرح سے جو بے جرم صہبائی ہو (تاریخ داستان اردو صفحہ 200) آپ کا سن ولادت 1789ء ہے۔ (اسماعیل) انہیں کے التفات سے بہم پہنچائی۔ تحقیق مقامات اور تدقیق رموز مکتومہ کتب متداولہ خوب طرح سے کی ہے لغت و اصطلاح فارسی پر نظر اور زبان دری کا تتبع بکمال ہے۔ انشائے نظم و نثرد میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں۔ یہ چند شعر بطریق یادگار لکھ کر ہدیۂ ارباب شوق کرتا ہوں۔ اشعار در جواب شکوہ ہای کم نگاہیماے ناز سرمہ گویا میکند چشم ترا نازم حیا ندارد تاب بینش دیدہ حسن بے ججا بش را کہ باشد حیرت چشم نقابی آفتابش را ز شوقش صد تپش فرسودہ دل اندر بغل دارم رم آہو عناں درکف سپارد اضطرا بش را بروی ماہ تاباں رنگ در پرواز می آید عید انم کہ از رخ برکشید امشب نقابش را نگہ دزدیدہ نرگس میدمداز خاک تامحشر شہید ناز چشم سحر ساز نیم خوابش را کنم گرعرض حال ایں دل صد پارہ در پیشش بخاموشی سپارد ہجر آں بد خو جوابش را چناں ضعیف شد از غم تن نزار مرا کہ بار خاطر من میکند غبار مرا تو نیز چارۂ حرماں نمیتوانی کرد بجلوہ آئی ز حیرت بروگار مرا بیاد روی اور خلوص در انجذمن دارم من و خیال تو با دیگرے چہ کار مرا چناں زخویش نفورم کہ خاکم از پس مرگ دہی بیاد نیاید بدل غبار مرا 9۔ میر نثار علی نثار ابن مولوی عبداللہ ، یہ بڑے خاندانی اور آو اجداد ان کے ہمیشہ صاحب اعتبار رہے۔ چنانچہ مولوی رحمت اللہ کہ ان کے جدا اعلیٰ تھے ، استاد تھے محمد شاہ بادشاہ کے اور ان کے پر نانا مولوی اشرف صاحب استاد عالمگیر کے تھے۔ انہوں نے تحصیل کتب فارسی اورمشق سخن ملوی امام بخش صہبائی سے کی ہے فر خوش اور سلیقہ کتب دانی کا اچھا رکھتے ہیں۔ علاوہ اس کے خط نستعلیق ایسا خوب لکھتے ہیں کہ ان کی کشش مدات سے ابروئے شاہدان چین و چگل پر اشارت اور ان کے سرعین سے نرگس شمشاد قدوں پر کتابت ہے ، الف کی راستی کے آگ سرو کا قد خمیدہ اور ب کی خوبی کے سامنے لب خوباں دندان حسرت سے گزیدہ ۔ چشمہ ہ کا آب حیات سے لبریز ۔ صفحہ تحریر کا رنگینی رقم سے کل خیز ۔ دندان سمن رویاں دندانۂ سین سے شرمندہ اور کاکل سنبل رویاں رویاں دنبالۂ میم کا بندہ۔ یہ کمال ان کا مقتضی تھا اس امر کا کہ ان کو خوش نویسوں کے ذیل میں لکھتا ، لیکن سخنوری کی مناسبت سے شعراء کی ذیل میں انسب معلوم ہوا ہے۔ یہ چند شعر ان کی خوش فکری پر گواہ عادل ہیں۔ اشعار مانع گریہ شود حوصلۂ عشق ارنہ ہست در دربدۂ من مایۂ طوفانے چند ٭……٭……٭ چساں بندم بمژگاں تندسیل چشم گریاں را کہ سد راہ تنواند شدن خس جوش طوفاں را ٭……٭……٭ دراں وادی کہ رفتم کس نشاں من نمی داند صبا خود کیست عنقا آشیاں من نمی داند بزنعش گفتم آخر بند و ا کن سخت پیچیدش چہ دشوار است کان ہندو زبان میں نمیداند ٭……٭……٭ داغہا برسینہ دارم لالہ زار کیستم خون دل از چشم می ریزم بہار کیستم 10۔ جناب محمد مومن خاں مومن سلمہ اللہ تعالیٰ زنگ زدائے آئینۂ سخندانی مصقل مرات نکتہ رانی ، محی مراسم کمال ماہی کساد فضل و افضال ، جلوہ دہ عرائس مضامین تازہ زیب و سادۂ کمالات بے انداز ، سر مست نشۂ سخنوری نظر باز شاہد معنی پروری ، غواض محیط تدقیق آشنائے بحر تحقیق ، پیرایہ پیرائے محامد پسندیدہ حلیہ طراز اطوار گزیدہ ، غازہ پرداز چہرہ خلق محمدی مظہر آثار سعادت ازلی و ابدی ، یگانۂ جہاں محمد مومن خاں مومن تخلص۔ ان کے کمالات کا اندازہ ظرف شمار سے افزوں اور حیطۂ تعداد سے بیرون ہے۔ معنی تازہ سے قالب الفاظ میں جان ڈالنا اور انفاس عیسوی سے معنی پژمردہ کو تازہ تراز گل اور سیراب تراز مل کرنا ایک شیوہ ہے خاصہ اسی سخن سنج معافی پناہ کا۔ ان کے فروغ ضمیر سے دری کوکب دری اور ان کی متانت طبع سے سخن ریختہ ایوان ریختہ ۔ اگر یہکہا جاوے کہ شیرینی زبان حافظ اور نمک سخن سعدی اور متانت تراکیب انوری اور نشست الفاظ خاقانی اور آیاتی عبارات ابو الفضل ہندی اور تازگی معانی کمال الدین اصفہانی اور سوا اس کے جو خوبی صنف شعرا سے کسی کے ساتھ مختص ہے۔ سب ان کے کلام معجز نظام میں صرف ہے ، حق شناسی اور مرتبہ سیبہت بعید اور نہایت دو از کار ہے۔ حق یہ ہے کہ قسام ازل نے سب کو انہیں کے خوان استعداد سے منصف ریزہ چینی اور انہیں کے دیگ کمال سے وظیفۂ چاشی گیری عطا کیا ہے۔ زبان ریختہ میں وہ کمال مبدء فیاض سے حاصل ہوا ہے کہ سودا کو ان کے سخن کے رشک سے جنوں اور میر ان کے کلام کی خجلت سے مرقد میں سرنگوں ۔ سخن گوئی کو بحد اعجاز پہنچایا اور شعر نے ان سے مرتبہ حکمت کا پایا۔ نکات سخن اور دقائق فن ان کی قلم سے اس طرح گرتے ہیں جیسے ابر سے باران لطافت ۔ ان کی طبیعت اور فروغ ان کے ضمیر میں ایسی ہے جیسے آئینہ میں صفا اور مشرق میں خورشید رخشاں۔ ابیات ان کی مثل بیت ابرو سراپا انتخاب اور اشعار ان کے مانند مصرع زلف مجموعۂ آب و تاب۔ سخن ان کا با وصف پر گوئی کے رکاکت سے خالی اور فکر ان کا باوجود غور کے عالی۔ دیوا ن ریختہ کا مشتمل ہے اصناف سخن اور شعب فن پر۔ غزلیات سے لے کر تا مخمسات و مسسات اور فرد سے لے کر تا رباعیات و قطعات جس پر نظر پڑے اگر وہ عاشقانہ ہے ہر حرف اس کا گردۂ تصویر آہ ہے اور اگر انداز معشوقانہ کا بیان ہے تو ہر دائرہ اس کا ایک چشم سرما سا ہے مستعد نگاہ۔ الحاصل کلام بلاغت نظام ان کا حصر و شمار سے افزوں ہے۔ چھ مثنوی اور قصائد متعدد اور انشائے نثربا عبارات متین و بامضمین رنگین ۔ اگر سب کو بتفصیل لکھا جائے ایک دفتر ہو جائے۔ اسی قدر پر کفایت کر کر کچھ نثر اورکچھ نظم لکھتا ہوں تاکہ ارباب شوق کو اس سے استفادہ ہو۔ رقعۂ فارسی بخدمت حکیم اے مرگ بدور چار ات در آزاد جز چشم بتاں کسے ندیدم بیار دانم کہ شفاخانہ شود گورستاں گررنجہ کنی قدم پے استغفار حال برادر نزار شنیدہ و تعلل اسباب رسیدہ لبے پہ پرسش نکشادن ایں عقد کشاد ، و گامی بطریق عبادت نہادن رو براہ تفہیم نہاد۔ چوں راز پنہاں پنہاں نماند و باسر مکتوم ، سزائے کتماں ، اگر نالۂ بیمارانہ سر کنم زبان بوم است اگر چنیں و صایا بر لب آرم نفس و اپسیں صواب انجام ، ورنہ مداواے مریض عشق بہ نسخۂ معجز ایسر منقول نیست ، دعویٰ بیمار درد مند محبت از لقمان مقبول نہ۔گیرم کہ رائے اصابت قرین بجان داروے وصال پے برد۔ جانانۂ عاشق کش را بغم خانہ کہ تواند آورد ، دریں حال ہم شرح احوال و تفصیل ملال بیصرفہ نخواہد بود۔ شغل دم شماری مفت نیست ، بعد مرگ ہم با گاہیدندوت غم گساری تواں نمود۔ فی الجملہ گردن کشی اخلاط ستۂ ضروریہ را ضمان ، قارورۂ تبتی و رنگ کا ہی دلیل گرازش تن بغداب جر جبیس است و نبض نملی از یاد آمدن حکایت سلیمان و بلقیس ۔ افسانہ قصہ لیلیٰ باعث غلیان دم است و حکایت جوے شیر شیریں سبب ہیجان رطوبت و بلغم ۔ شعلہ زدن آتش شوق را حمی لثغہ نام بردہ ام و جگر سوزی حرارت عشق را بہ تشخیص تپ محرقہ غلط کردہ ام۔ صداع در اندیشۂ سر گرانی است و شقیقہ بفکر رو گردانی۔ عصا بہ آنکہ سراز اطاعت بت نگوں نتواں برداشت و قرانیطس از آنکہ روز گارے فارغ ازحیص و بیص غمخواراں باید گزاشت۔ نیسان از ژاژ خای طبیبان ست و آفۃ التخییل چناں۔ تقرب رقیباں دوار ہمہ دم بیم گردش سپہر نا ہنجار است و سدۂ برہان حزن روز سیاہ و شب تار۔ از یاران میگیریزم قطرب ہمیں باشد ، کمتر برطالع دوں میخندم دا عنالکلب چنیں بود۔ سہر خواب بر عاشق حرام است ، ثبات ہماں بیخودی مدام ، خیال طول امل ایلیمیا باشد و بجوش آمدن خون مورث ابو بلقیسیا ۔ کابوس در بیخودی ہائے غیرت ملبوس ، نعاس در مستی رسدن عسس ۔ امیثۂ چشم جلوہ گاہ و فراست سکتہ بہ ثبوت رسیدہ و گردن از فرمان اطبا پیچیدن مثبت تشنج و کزاز گردیدہ ۔ لقوہ بزبان کنج از خم زلف سخن گفتن ، خدر روح حساس و از صحبت اعضا بر آشفتن رعشہ بے اختیار یہاے اشتیاق خیالات بحسرت نگریستن ، صحبت نبان و عشاق گمان یرقان از رنگ زرد ، برد اطراف از ضبط دم سرد ۔ سل از نظارۂ غیر پردہ بر چشم گذاشتن ، شعر المنقلب تصور برگشتہ مژگان نگہداشتن ۔ ظفر ہ تخیل ناخن نگار بستہ یار ، سلاق تراوش پارہ ہاے دل از دیدۂ خونبار۔ نزول الماء پیہم گریستن ، ضیق النفس مزد بے یار زیستن۔ طنین از مکالمت با تصور ناہید سر ائیست جوش عطاس از سر گرمی یاد شمع لقائے۔ زکام بہ تہیہ۔ گلگشت بہشت آفریں گوی ، خرس لب گزیدن از دت ترش ابروی۔ ثبور الشفہ از گرمی تقریر ، شقاق اللسان ، از نالہ ہائے الماس تاثیر۔ بطلان الذوق از غم و غصہ خوردن ۔ خناق راز دل برزبان نیاوردن ، سوال ببہانۂ جواب نصیحت گر ، نفث الدم معازیہائے دشنہ اثر۔ عسر البلع در فرد بردن جرعۂ تبرید ، وقروح المری از ناگواری لقمہ ہائے ثرید۔ علامت شوصہ برہیئتے نمی تواں خفت ، جفاف اللسان بایں تر زبانیہائے ہیچ نتواں گفت۔ خار خار دشت گردیہا باعث خفقان ، تشتہ کامیہائے وصال باعطش مفرط توامان۔ غشی از ضعف دل است ، و ضعف دل از کشمکش شوق تاب کسل ۔ سوعا الہضم از کباب جگر بجوع کا ذب خوردن و جشاء حامض گلۂ ترش روی برلب آوردن۔ تہوع و غشیان از بے مزگی رشک اعداست ۔ و اختلاج معدغ در خواہش نیم خوردۂ دلربا۔ لذع زہراب ہجران است ، و دفع آں از کثرت حسرت خوردن ۔ می ترسم کہ تنگ ظرفی ما ساریقا برداء کیموس نکشد ، و از تخالف مذہب اندیشہ ناکم کہ سر اثنا عشری بایلاؤس نہ انجامد۔ قولنج است کہ در ہواے دل پہلو بہ پہلو می طپم ، استقات است کہ بصد سبوے آب ہماں نشنہ لبم۔ از شکایت کدورت نفس بر نیاور دہ ۔ ام ریگ در مثانہ فراہم گردیدہ و با متلائے جنون اگر سنگ طفلاں نخوردہ ام حضاۃ کلیتین از کجا بہم رسیدہ۔ سرکشی فریسموس بضرر حکۃ الرحم یار است ، و بر خود مالیدن بارادۂ کون دریدن اغیار ۔ وجع المفاصل از جریان ملاقات و عرق النساء ۔ پابر پازدن از التفات ۔ اورام نوبت تا بدست و پاکشیدہ باقرار سلامت اعضاء رئیسہ رئیس الحمقا پندارم ، حرارت غریبی قلب تا مغز استخواں رسیدہ انکار دق آخرین درجۂ جھل مرکب انگارم ۔ مادۂ بحران ہر روز جلوہ ہائے بے ہنگام است ، و علت غائی ہذیان آہنگ خواب ادا ہائے بیمحل و بے مقام ، درچنیں وقت کہملک املوت نشتر برگ جان سپردہ ، و مسیحا فریا دان تعذ بہم فانہم عبادک از عرش بریں بالا تر بردہ ، غسال کا فور بگلاب آلودہ و نجار تخت و تابوت درودہ ، خیاط گریبان کفن درید چارہ فرمابہ ہائے ہائے نالید ، گور آغوش تمنا باز کرد ، و نوحہ گرزبان واویلا دراز۔ صواۃ جنازہ از جواب غفلت دلکشا تر است و دعائے مغفرت از صغیر نوم جانفراتر ۔ حاشا ثم حاشا زینہار مباد ۔ لب بہ تلقین و استغفار بکشاد ، غفر اللہ لمن قال : زتاب رشک ملائک بدوزح اندازند تو بر جنازۂ مومن اگر نماز کنی والسلام اشعار فارسی چساں بر نالہ ام گوشے نہد بیدرد میداند محبت ہائے پنہاں راشکایت ہائے پیدارا خوش نیست دورہ چرخ و مہ و آفتاب را از سر بنانہید جہاں خراب را امشب عسس ز کوی توام چوں برد کہ دوش فریاد من زدیدہ شد و برد خواب را ہم تاب وصل نیست من بے نصیب را خود دشمن خودم نشناسم رقیب را ٭……٭……٭ خندہ چہ خوش شیوہ ایست ازپس خشم و عتاب لذت دیگر بود زخم نمک سود را ٭……٭……٭ گریہ بر حال خودم آمد و طوفان آورد کردہ آئینہ خراب ایں ہمہ کاشانۂ ما ٭……٭……٭ از کف دشمن گرفتم جام را می شناسم گردش ایام را ٭……٭……٭ سر بخشش اگر ای داور محشر داری مومنم مومنم از گبر و مسلمان دریاب ٭……٭……٭ وصل است اگر شمع کشم چہرہ میفروز از سایۂ خود نیز حذرمی کنم امشب ٭……٭……٭ فزوں ززلف کشد خط سبز تو دل را بدیدہ بیش خلد سبزۂ کہ نو خیز است ٭……٭……٭ دشمن فغاں نکردہ و اہم اثر نداشت ایں نیلگوں لباس فلک داد خواہ کیست ٭……٭……٭ باکفروآستاں کلیسا تراچہ کار مومن بدین بہانہ نشستن برای کیست ٭……٭……٭ کار ہمت نہ باندازۂ طاقت باشد مرغ بسمل شدہ راہم سر پروازی ہست ٭……٭……٭ دم جان پرور تو ہر چہ کہ دارد دانیم از ادب گرچہ نگوئیم کہ اعجازی ہست خواجہ راشوق نظر بازی و من می ترسم کہ درین جمع حریفی قدر اندازی ہست ٭……٭……٭ سخن آمد و آورد تفاوت دارد صور را گرمی ہنگامۂ افغانم سوخت ٭……٭……٭ برطرۂ پر شکن چہ نازی آخر آخر ز دلم شکستہ تر نیست آغاز محبت است ای چشم ہنگام تراوش جگر نیست ٭……٭……٭ دی شب کہ گوش در پس دیوار داشتم گفتی حکایتی و شنیدم دریں چہ بحث ٭……٭……٭ خواہم شب وصال تو خندیدن آں قدر کاندر زمانہ خندہ نماند برای صبح ٭……٭……٭ فریب لطف نہانی نخوردہ کس چون من زبزم راند و نشستم بر آستان گستاخ ٭……٭……٭ مومن آہنگ حرم کرد ز بیداد بتان بس بجاں آمدہ شاید دو سہ منزل برود ٭……٭……٭ باناتوانئے کہ کف از دست رفتہ بود چاکی ز دم بجیب کہ از کس رفو نشد ٭……٭……٭ کو دست کہ یک بار زنم بر دل دشمن آں دشنہ کہ صد بار زدم بر جگر خود ٭……٭……٭ پامال ندامت شدم از طعنۂ بلبل دیگر نزنی گل بسر خود بسر خود ٭……٭……٭ صد پردہ بروی دوست بستند زانجملہ یکے جمال باشد ٭……٭……٭ شیوۂ ناز تو انبار نمبی داشت روا لاجرم از ستم دہر امانم دادند ٭……٭……٭ سالہا باز بکفارہ ستم می ورزد دل من شاد اگر یکدو زمانے دارد ٭……٭……٭ واعظم ایں گونہ صنم رانگذارد مومن یا بخلدم بہ برو یا بجہان حور بیار ٭……٭……٭ جانم بلب رسیدہ و چشمم براہ تست دارم ز عمر رفتہ امید وفا ہنوز ٭……٭……٭ آہ از تیغ رشک و تیزی او آرزوئے برید ، ام کہ مپہرس ٭……٭……٭ تو خوش کہ دل بردی زمن من خوش کہ از روز ازل جان دشمنے در خانہ بود از خانہ بیرون کردمش ٭……٭……٭ یا فلک آدم نداند غیر را یا حدیث مردم آزاری غلط ٭……٭……٭ از خدا خواری دشمن خواہم داند از حسرت شداد چہ حظ ٭……٭……٭ اگر بہ پیش تو نالم ز جور معذورم نگنجدم بدل آشتی شعار نزع ٭……٭……٭ مشتری کو مایۂ بیداد کو سرفروشم بر سر بازار عشق ٭……٭……٭ عمر کو تاہ دادہ اند مرا گوشب غم بود دراز چہ باک ٭……٭……٭ بپائے آں صنم آخر چہ کردہ ام مومن کہ پیش کعبہ ام از طوف و از نماز خجل ٭……٭……٭ مردم و مشکلش آساں کردم رحم بربازوی جاناں کردم ٭……٭……٭ عصمتم طعنہ بتقدیس ملائک میزد بتمنائے قبولت ہمہ تقصیر شدم ٭……٭……٭ فردا حذر ز نالۂ محشر گداز کن امروز فکر کار من ای کار ساز کن گر پائے نازنین تو رنجد میا میا از دور بر جنازۂ مومن نماز کن ٭……٭……٭ جذبۂ شوق الفتم بار مرا بتربتم میکشد و بخجلتم جان زپی نثار کو ٭……٭……٭ جوش رحمت کار بر ماتنگ کرد توبہ بر لب رفت باران آمدہ ٭……٭……٭ ای چشم چہ دیدی از نگاہش بی وعدہ در انتظار چونی ٭……٭……٭ اشعار ریختہ خود ہو گئی ہجراں میں تڑپنے کی شب وصل گو چین ہو دل کو مجھے آرام نہ ہو گا منقوش دل خلق ہے پرہیز کی خوبی کتنا ہی کرے ظلم وہ بدنام نہ ہو گا ٭……٭……٭ عشق کیوں در پے ان شوق ہے کیوں سینہ شگاف دشمنی دل شکنی شیوۂ احباب نہیں گلۂ چرخ عبث شکوہ ٔ جاناں بے جا یاس و حرماں کو میری حاجت اسباب نہیں ٭……٭……٭ گزرے ہیں میری خاک سے غیروں کے ساتھ وہ فتنہ اٹھا ہے گرد پس کارواں نہیں لگ جائے شاید آنکھ کوئی دم شب فراق ناصح ہی کو لے آؤ گر افسانہ خواں نہیں اوس بت کی ابتداے جوانی مراد ہے مومن کچھ اور فتنۂ آخر زمان نہیں ٭……٭……٭ تاثیر صبر میں نہ اثر اضطراب میں بے چارگی سے جان پڑی کس عذاب میں کھولا جو دفتر گلہ اپنا زیاں کیا گذری شب و صال ستم کے حساب میں کہتے ہیں تم کو ہوش نہیں اضطراب میں سارے گلے تمام ہوے اک جواب میں دونوں کا ایک حال ہے یہ مدعا ہو کاش وہ ہی خط اس نے بھیج دیا کیوں جواب میں پیہم سجوں پائے صنم پر دم وداع مومن خدا کو بھول گئے اضطراب میں ٭……٭……٭ ای آہ آسماں میں عبث رخنہ گرنہ ہو ڈرتا ہوں میں نزول بلا بیش تر نہ ہو ٭……٭……٭ لبوں پہ جان ہے ایسی بھی کیا ہے بے دردی نہ قرض دیتے ہو بوسہ نہ مستعار مجھے ٭……٭……٭ اگر غفلت سے باز آیا جفا کی تلافی کی بھی ظالم نے توکیا کی کہا اوس بت سے مرتا ہوں تو مومن کہا میں کیا کروں مرضی خدا کی ٭……٭……٭ 1 ۔ حکیم مومن خاں مومن 1800 ء میں پیدا ہوئے۔ پیدائش کے وقت حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ نے بچے کے کان میں (بقیہ حاشیہ اگلے صفحے پر) 11۔ جناب نواب محمد مصطفی خاں بہادر حسرتی و شیفتہ سلمہ اللہ تعالیٰ مسند آرائے جاہ و جلال ، زیب و سادۂ مکنت و اقبال۔ عمدۂ اراکین دولت ، اسوۂ اساطین حشمت ،بانی ایوان رفیع البنان ایوان خانی ، موسس اساس بلند پایۂ والا مکانی۔ چمن آرائے طالع بلند ، حدیقہ طراز مدارء ارجمند شراب زلال سر چشمہ ، بلنداقبالی خدیو درجۂ والا و صاحب مرتبۂ عالی ۔ مہبط انوار سعادت ازلی ، مورد انظار مراحم لم یزلی ۔ نبض شناس شخص سخن فہمی و سخن دانی ، قانون دان پردہ نکتہ سنجی و نکتہ دانی ۔ حاتم کرم عطارد رقم ،رستم تواں نواب محمد مصطفی خاںبہادر ، ریختہ میں شیفتہ اور فارسی میں حسرنی تخلص کرتے ہیں۔ اگر ان کے جاہ و (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ ) اذان کہی۔ آپ کا نام بھی ان ہی کا رکھا ہوا ہے ۔ عربی ادب میں حضرت شاہ عبدالقادرؒ کے اور طب میں حکیم غلام حسن کے شاگرد ہیں۔ شاعری میں شاہ نصیر سے تلمذ ہے۔ نجوم کا بھی بڑا شوق تھا اور شطرنج کا بھی۔ رنگین طبع ، رنگین مزاج ، خوش وضع اور خوش لباس تھے۔ نہایت غیور اور بیحد خود دار واقع ہوئے تھے۔ نہ کبھی کسی کا قصیدہ کہا ، نہ کبھی کسی کا احسان اٹھایا۔ اردو شاعری میں ان کا پایہ بڑا بلند ہے۔ آب حیات کی تدوین کے وقت مومن کے حالات آزاد کو نہیں ملے۔ انہوں نے مولانا حالی سے حالات کی فراہمی کی درخواست کی۔ حالی نے مفصل حالات لکھ کر بھیج دیے جو آب حیات کے دوسرے اڈیشن میں اس اعتراف کے ساتھ آزاد نے شائع کیے کہ ’’ ایک صاحب کے الطاف و کرم کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے یہ حالات لکھ کر عنایت فرمائے ‘‘ ۔ لفظ ’’ الطاف ذ‘ سے مولانا حالی کے نام الطاف حسینکی طرف اشارہ ہے(شعرائے متغزلین و نقوش غزل نمبر صفحہ 692)مومن حضرت سید احمد شہید کے نہایت مخلص مریدتھے۔ 1851ء میں کوٹھے سے گر کر انتقال فرمایا۔ کلیات طبع ہو چکا ہے۔ (علم و عمل جلد اول ص 273)۔ (اسماعیل) جلال و حشمت و اقبال کی مد ح لکھوں کہ پاس بار گاہ کے ندیشہ کو مانع بار ہے ، اور اگر ان کی شجاعت ذاتی اور جرأت جبلی کے اوصاف ذکر کروں اس تہمتن تواں کی ہیئت شیری سے فکر لرزۂ دہشت میں بے اختیار۔ اور اگر بالفرض ان سب چیزوں سے ہاتھ اٹھا کر چاہوں کہ مناسبت مقام سے ذکر سخن وری و معنی پروری کا کروں تاکہ بسبب فی الجملہ ممارست کے خامۂ قاصر البیان کچھ طی لسان کر سکے۔ جب اس جگہ قدم رکھا ہر مضمون پست کو اس درجۂ بلند پر دیکھا کہ کنگرۂ عرش بایں ہمہ سر بلندی اوس ذروہ سے ہزار پایہ نیچے تھا ، اور طائر بلند پرواز سدرہ سو برس کی پرواز کے بعد وہاں تک پہنچ نہ سکتا تھا۔ اندیشۂ کوتاہ اس بلند پروازی سے عاجز اور بالا روی سے زبون ہو کر ایک سیدھے راستہ پر پڑ لیا، یعنی کچھ احوال سعادت اشتمال اس حضرت کا لکھ کر چاہتا ہے کہ اپنے تئیں روشناس اہل سخت کرے۔ یہ زبدۂ اراکین روزگار حلف الرشید ہیں۔ اعظم الدولہ سرفراز الملک نواز مرتضیٰ خاں بہادر مظفر جنگمرحوم کے ، اور باعتبار کمالات ظاہری اور جلالت باطنی کے فخر خاندان اور شرف دودمان ہیں۔ خاک اون کے دروازہ کی معدن زر اور سنگ ان کے آستاں کا کان گھر۔ اگر ابرنیساں کو ان کے بحر کف سے ایک نم حاصل نہ ہوتی گوہر بار نہ ہوتا اور اگر آفتاب کو ان کے چہرۂ شگفتہ کا فیضنہ ملتا عالم اس کے اثر سے گلزار نہ ہوتا۔ بہار ان کے خلق سے نگہت آمیز اور موج گوہر ان کے بحر عطا سے طوفان خیز۔ زہے شجاعت کہ اگر مصور طراحی کے وقت ان کا نام لے تصویر رستم میں لرزہ پڑ جائے ، اور عجب عدالت کہ اگر ان کی مد ح کے وقت نوشیرواں کے نام لینے کا ارادہ کریں زبان کو اس حرف سے ننگ آوے بلند پایگی حشمت و جاہ کا وہ عالم کہ عماید روزگار ان کے خاک آستاں کو بہ از تاج دار جاتے ہیں ، اور ہزار اسلام بیجواب کو بہتر خلعت دارائی سے سمجھتے ہیں۔ اور خلق و حلم کا وہ حال کہ احوال ہر خاکسار جب تک نظر شفقت سے نہ گزرے نسخۂ مراحم کو نا تمام اور دفتر تلطف کو ابتر تصور کتے ہیں۔ سبحان اللہ انک لعلیٰ خلق عظیم کا مظہر اس سے زیادہ ہونا محال ہے۔ و تخلق با خلاق اللہ اس سے بڑھ کر ہونا و ہم و خیال۔ باوجود ناز و نعم ثروت کے مشق سخن کو اس مرتبہ پر پہنچایا ہے۔ کہ قلم تردد سے نہیں آسودہ ہوتا ، اور فگکر تلاش سے بلبل کی سجع خوانی اور قمری کی فصیح بیانی انہیں کی نستعلیق گوئی سے مستفاد ہے۔ اگر رنگینی مضامین کے گل کو رنگ اور عبارت کی لطافت گوہر کو آب نہ دے۔ بلبل کا عشق کا مل اور تاج سلاطین کی زیب تمام نہ ہو۔ مصرع غزل شعلۂ آہ عشاق ، اور بیت مثنویابروی خوبان آفاق۔ انتخاب ان کے کلام بلاغت نظام کا اس مقام پر سرمایۂ فرحت ارباب نظر ہے اوہر مشغلۂ اہل ہنر۔ رقعہ بنام جناب مرزا اسد اللہ خاں غالب اے از نفس خامۂ مشکین رقم تو نسرین کدہ در جیب و بغل باد صبا را بورود والا نامۂ دلا آمود بانثر نثرہ نثار و اشعار شعریٰ شعار ، اندازۂ اعتبار خویش بر گرفتم حد مرتبہ نظم و نثرد دانستم ، آں سینہ را بیک ایمن نور انپاشت ، وایں دل را بیک سحر فروغ شیدکی ساخت ۔ آں بیخود شوق نمود و این مستی دانش افزود ۔ براں سرم کہ پارۂ از وصف ہمایوں نظم و خجستہ نثرد رقم کنم کہ عرصہ سخن فراخ است و طبع من چالاک ۔ ایک دوسہ جولان شوخ را وقت است ولے ترسم کہ بکیش اغراق گوید و دیگر یش غلو خواند ، ونداند کہ اگر مہر را مہر و ماہ گفتگو شود چہ غلو و کدام اغراق تواند بود۔ گل را رنگینی و بوئی ہست و دل را اثرے و ذوق۔ اگر آنچہ در آنست برلب آید چرا شگفت نماید۔ باالجملہ از طرز شاعرانہ میگزرم کہ چنیں نیرنگی احتمالہا با اوست ۔ سخن سادہ و بے رنگ میگزارم کو دربار نامۂ راستاں نخستین بنام او توشیح یافتہ۔ دہاں دہاں طرفہ ارج و جاہے در بار گاہ مبد ، فیاض نصیب بخت بلند حضرت است کہ نہ ہمیں یک رہ کہ صدرہ دیدہ ام تشریف تان دیگر است و تشریف دیگر ان ، عرفی مطالب را دریں زمین نظمی است و ہم شمارا نظمی ، این دیگر است و آں دیگر۔ سیرابی معین در سخن عرفی مسلم است ولی لفظ شگفتہ و ، شاد ابی الفاظ در گفتار طالب بجاست اما معانی تازہ کجا ، ہمانا چنیں نغز گوئی و نادرہ سنجی در بخش صاحب افتادہ است و بس خوش گفتہ آنکہ گفتہ۔ کم افتد چنیں نکتہ پرداز کم کہ نازند از و لفظ و معنی مہم نازم بدم گیر اونفس با اثر کہ افسردۂ طبع مرا گرم گفتار ساخت ، تااین خورش انگیزسخن از دیدہ بدل رفت ، دل چناں نعل در آتش گشت کہ تادیدہ ہنگامۂ گریستن بلند آوازہ نکرد و مژہ راہ و رسم ابر بہاری تاز نکرد ، از بیقراری نہ نشست و ازبر نخاست ۔ بیخبران چشمک می ز نند میدانم در مجلس اعجاز دم از افسوں باطل زدن نہ رواست۔ اما چہ کنم چکیدۂ دل است و تراویدۂ جگر۔ نہفتش نیز نوعی از جفاست ، لاجرم عناں ادب رہا میکنم ولب بہ تکلم آشنا میکنم۔ رقعہ دیگر خورشد پایہ صاحبا ! شبی اندیشۂ جہان پیما فراز فلک خرامید تانظری برخوب و زشت کیشی تواند افگند ، از ذرہ تا مہر و از خار تا گل ہمہ را سر بسر در نگریست ، نہ نگربستنی بے حضور بلکہ بدیہی را در لباس نظری جلوہ گر ساختند ، نظارگی آمد۔ ہر چند اگر برعکس رفتنی ہم بہ نیروی حدس خدا داد بیراہہ نشستافتی و بیجا و حرام نبفتادی ، اما پاس زبان بندی کوتہ نگاہان و بجا آورد فرمان حزم با ینطریق چالش فرمود ، خشکیدہ ورق درختی نماند کہ برنگ سبزہ خرم مطرح صد نظر نشد و در تہ دریا نہفتہ خزفی نبود کہ گوہر یک دانۂ نمط ہوائی دیدنش بدل دوربین نہ پیچیدہ ، چوں امیر خیسالیس ایں پایہ دریافتی کہ دیو دژم ہیکل بکرشمۂ شاہد نازنین و آتشیزہ بلمعۂ اسپندار بود ، چہ پرسی از شرائف و جلالئل کہ ہریکے ازاں بنگاہ غنج و دلال یوسفی داشت و ہر کدام بنظر قریبی و دل آرائے حوری بود۔ از فردوس فردو آمدۂ یا پری نقاب از رخ برگرفتہ۔ ولی ازیں میانہ متاعی کہ بادوستی ہم ارزش و کالائے کہ بامحبت ہم بہا باشد مشہور نشد ۔ گوہر بایں تابانی و اختری بایں رخشانی منظور نگشت ، خورشید پیش قرہ نور شب تیرہ شناس و از ماہ کمتر بریں محیط در جنب جزرو مد طغیانش شبنم گیرد از عمان کمتر۔ گوئی کہ اگر پرتوی از فروغش دریا بد ھد شعلۂ آذر گمان دود جیم برد ، و بلبل اگر لمعۂ ازاں تجلی کسب کند آتش گل را ہم جلوۂ انگشت شناسد ، تاازایں نافہ شمیمی مشکین نہ باتست ۔ اگر ہمہ مجنونستی خود را در چشم لیلی نو فل شمار۔ و تا ازاں شکر ستان ذوقی بکام تو نیست ، گوہمہ پرویزستی شیریں را ازان حریف پندار۔ فذلکۂ سخن چوں نگاہ بخود افگند ، دریافت پیش ازاں کہ روز نہ از سیستاں آگہی کشادہ گردد۔ مہبط این نور و مورد و این تجلی بود۔ بسجدہ افتاد و بسپاس رفت و ترانۂ شادمانی برکرد و زمزمۂ نشاط بلند آوازہ گردانید و افزونیورزش ایں فرخ شیوہ از خداے درخواست و پیش آورد ضوابط و رسم آں را بحی تمامتر خواہند آمد روشنی پذیرفت کہ علاوہ علاقۂ معنوی مراسم صوری را در افزایش مدارج اتحاد و دستگا ہے دیگر است ۔ لاجرم بنگارشنامۂ گستاخ گشت ، میدانہ کہ مراتب عطوفت را سرمایۂ والاست ، حضرت مخدوم باینگونہ زلت خواہد بخشود ۔ دل آزدر و طبع حریص است کہ لختی گلہ از درد دوری سر دھد ودلی خالی کند ، اما بسی بی نسبت است چہ آنجا کہ مجرد رقم سنجی در بیم و امید دارد ایں مایہ جرأت را نبرد از کجا خیزد ۔ بیت حسرتی تو نامہ آرائی و من پاسخ طلب زود بر بال کبوتر بند مکتوب مرا والسلام اشعار فارسی خوش آندم کز ہجوم شکوہ تلخی زیر لب گویاں تو بر خیزی ز ناز و حسرتی در دامن آویزد ٭……٭……٭ پہلوی غیر بہ بزمش نکنم جاریٔ کہ نیست چشم آنم کہ نگاہ غلط انداز کند ٭……٭……٭ جایٔ رحم است بران بسمل مسکین کہ ہنوز نیم جانی بہ تنش باشد و قاتل برود ٭……٭……٭ بیقراری اگر اینست چہ قاصد چہ ندیم آسمان از پی آوردن محمل برود ٭……٭……٭ لبسناں تو ہوسناک فرستد پیغام بکمند تو سلام از دل آزاد رسد ٭……٭……٭ خاکم بسر کہ عاشق کار او فتادہ ام دانم کہ یا رقیب بخلوت چہا رود ٭……٭……٭ بیاد طاعت مقبول را بیغما بر خلل بکار دعا ہائے مستجاب انداز ٭……٭……٭ شب فراق بمہتاب و گل ستیزہ کنم بروز وعدہ بہاراں و یاد زیں دارم جواب طعنۂ حرماں و طنز ناکامی ہمیں بس است کہ معشوقہ نازنیں دارم ٭……٭……٭ نی سجودم را قبول و نی سلامم را جواب رایگان بود اینکہ عمرے جابراں در داشتم ظلمت شب برقرار و صبح ناپیدا ہنوز حسرتی بیجا سر از خواب عدم برداشتم ٭……٭……٭ مرابخشید و گاہی جز بدی نیکی ندید از من نمیدانم کدامین جرم ایزد برگزید از من سخن بے ربطہ گوئی حسرتی لیکن نمیگیرم ہمیں روداد من ہم بود چوں یارم برید از من ٭……٭……٭ ای کہ تلخ از سخن تلخ تو شد عیش مرا میتوانی کہ تلافی بشکر خند کنی حسرتی مرد اگر فایدہ ات چیست جزایں کہ دل غیر بایں واقعہ خورسند کنی ٭……٭……٭ کونین رونمائے خجالت نمی شود مارا چہ دادۂ کہ خریدار می کنی اشعار ریختہ ای مرگ آکہ میری بھی رہ جائے آبرو رکھا ہے اوس نے سوگ عدو کی وفات کا ہائے اس برق سوز پر آنا دل کا سمجھے جو گرمی ہنگامہ جلانادل کا شکل مانند پری اور یہ افسون وفا آدمی کا نہیں مقدور بچانا دل کا ٭……٭……٭ نقش تسخیر غیر کو اس نے خون لیا تو میرے کبوتر کا میری ناکامی سے فلک کو حصول کام ہے یہ اسی ستمگر کا ٭……٭……٭ خوبیٔ بخت کہ پیمان عدو اس کو ہنگام قسم یاد آیا اس سے میری شکوہ کی جا شکر ستم کر آیا کیا کرو تھا میرے دل میں سو زبا ن پر آیا آپ مرتے تو ہیں پر جیتے ہی بن آئیگی شیفتہ ضد پہ جو اپنی وہ ستمگر آیا ٭……٭……٭ کوئی بیجان جہاں میں نہیں جیتا لیکن تیرے مہجور کو جیتے ہوئے بیجاں دیکھا اس طرح کو بھی نگہ تا سر مژگاں آئی باربے کچھ کچھ اثر گریۂ پنہاں دیکھا ٭……٭……٭ نہ لکھنا تھا غم ناکامئی عشق جواب نامۂ بے مدعا کیا کب طالع خفتہ نے دیا خواب میں آئے وعدہ بھی کیا وہ کہ وفا ہو نہیں سکتا ٭……٭……٭ گور میں یاد قدیار نے سونے نہ دیا فتنۂ حشر کو رفتار نے دہونے نہ دیا شب ہجراں نے کہا قصۂ گیسوئے دراز شیفتہ کو بھی دل زار نے سونے نہ دیا ٭……٭……٭ بسکہ آغاز محبت میں ہوا کام اپنا پوچھتے ہیں ملک الموت سے انجام اپنا تاب بوسہ کی کسے شیفتہ وہ دیں بھی اگر کر چکی کام یہاں لذت دشنام اپنا ٭……٭……٭ سود زدہ کہتے ہیں ہوا شیفتہ افسوس تھا دوست ہمارا بھی سنبھل جائے تواچھا ٭……٭……٭ دل زار کا ماجرا کیا کہوں فسانہ ہے مشہور سیہاب کا نکیجو غل ای خوشنوایان صبح یہ ہے وقت اون کے شکرخواب کا محبت نہ ہرگز جتائی گئی رہا ذکر کل اور ہر باب کا پڑے صبر آرام کی جان پر میری جان بے صبر و بے تاب کا ٭……٭……٭ کیا چال تمہارا ہے ہمیں بھی تو بتاؤ بے وجہ کوئی شیفتہ اف اف نہیں کرتا ٭……٭……٭ تم لوگ بھی غضب ہو کہ دل پر یہ اختیار شب موم کر لیا سحر آہن بنا دیا مشاطہ کا قصور سہی سب بناؤ میں اس نے ہی کیا نگہ کو بھی پر فن بنادیا ٭……٭……٭ شکایت کو اس نے سنا ہی نہیں کھلا غیر پرراز پنہاں عبث نہ سمجھاکسی نے مجھے کل نہ صبح ہوا ٹکڑے ٹکڑے گریبان عبث ٭……٭……٭ جاتے ہیں اور منع کی طاقت نہیں مگر رہ جائیں آپ وہ مجھے ناچار دیکھ کر ٭……٭……٭ خیر جو گزری سو گزری پر یہی اچھا ہوا خط دیا تھا نامہ برنے اس کو تنہا دیکھ کر ٭……٭……٭ کیا ہو سکے کسی سے علاج اپنا شیفتہ اس گل پہ غش ہیں جس میں محبت کی بونہیں ٭……٭……٭ دشمن کہیں گیا نہ ہو آنکھیں سے شیفتہ اس کی گلی میں آج نشان قدم نہیں ٭……٭……٭ 1۔ نواب محمد مصطفی خاں رئیس دھلی و جہانگیر آباد ، فن شعر کا نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ مذاق رکھتے تھے۔ 1806ء میں بمقام دھلی پیدا ہوئے۔ تجوید ، حدیث ، تفسیر ، فقہ اور ادب کی تعلیم ہندوستان ، مکہ شریف اور مدینہ منورہ کے نامور فضلا سے حاصل کی۔ نہایت عابد و زاہد ، نیک نفس اور پاک باطن بزرگ تھے۔ پہلے مومن سے اور ان کے انتقال کے بعد غالب سے مشورہ سخن کرتے تھے۔ اردو اور فارسی دونوں کے مسلم الثبوت استاد تھے۔ اردو میں شیفتہ اور فارسی میں حسرتی تخلص کرتے تھے۔ مگر سفر حج کے بعد شعر گوئی بہت کم کر دی تھی اور بیش تر وقت آپ کا ذکر الہٰی میں بسر ہوتا تھا۔ 1857ء سن کے قیامت خیز حادثہ میں ان پر بھی بڑی آفت پڑی جائیداد ضبط ہوئی ، قید ہویئ۔ بہزار مشکل چھٹکارا ملا۔ 1862ء میں حضرت مولانا حالی کو دہلی سے اپنا ادبی مصاحب اور اپنے بچوں کا اتالیق بنا کر جہانگیر آباد لے گئے جو نواب صاحب کے انتقال تک ان کے ساتھ رہے۔ آپ کی کلیات غلباً 1910ء 1911ء میں نظامی پریس بدایوں سے شائع ہوئی تھی۔ 1869ء میں وفات پائی۔ (نقوش غزل نمبر صفحہ 682)۔(اسماعیل ) 12 ۔ نواب محمد اکبر خاں بہادر سلمہ اللہ (المتخلص بہ اکبر) نخلبند حدیقۂ بخت مندی نو نہال گلشن طالع بلندی ، عارج معارج اقبال صاعد مصاعد جاہ و جلال بہین نتیجہ ادوار فلک ، کارفر مائے ملک و ملک ، یگانہ دوراں نواب محمد اکبر خاں اکبر تخلص ، کہیں برادر نواب محمد مصطفی خاں بہادر کی طبیعت نہایت رسا اور ذہن نہایت جودت کے ساتھ رکھتے ہیں ہر چند فکر سخن مومن خاں مومن سے کی ہے۔ ہر بیت ان کی مضمون رنگین سے دکان گل فروش ، مصرع ان کا ناز کی کیفیت سے میناے بادہ سر جوش ، لطف سخن سے خط خوبان خجل اور خوبی سطور سے سنبل جنت منفعل ۔ یہ چند شعر ان کے بطریق یادگار نذر احباب ہوتے ہیں۔ اشعار یختہ نہ تھا سارا جہاں دشمن عبث تو نے جہاں پھونکا جہاں کو تو نے کیوں ای نالۂ آتش فشاں پھونکا اثر لیلیٰ کو کیا ہو جب تیری فریاد نے مجنوں جلایا پاے ناقہ کو نہ دست ساربان پھونکا ٭……٭……٭ جاکر فلک پہ نالۂ شور آفریں کے ساتھ سیر بہشت کرتے ہیں ہم حورعین کے ساتھ اللہ رہے سوز سینہ کہ دامان چرغ میں شعلہ لپٹ گیا نفس آتشیں کے ساتھ ہم مر گئے اور اس نے نہ جانا کہ مر گئے ہر زخم پر جو ہلتے تھے لب آفریں کے ساتھ وہاں رسم اختلاط سے انکار و عذر تھا یہاں جان ہی نکل گئی اپنی نہیں کے ساتھ طوفان نوح و گریہ اکبر میں فرق ہے یعنی کہ آسماں کو ڈبویا زمین کے ساتھ 13۔ پنڈت نرائن داس ضمیر سخن شناس معنی اساس ، محو جلوہ شاہد نکتہ دانی ، نظر باز عرائس معانی ، صاحب طبع روشن ، و افکار منیر ، پنڈت نرائس داس متخلص بضمیر ، دقائق سخن سے کماہی آگاہ اور فنون شتیٰ میں صاحب دستگاہ ۔ لو ازم سخنوری مثل بیان معنی بد یع ، عروض و قوافی سے ماہر اور خفایائی رموز ہنر بتمامہ اس صاحب کمال کے سامنے ظاہر۔ زبان فارسی میں ہم نظم متین و ہم نثرد دل نشین ان کے خامۂ معنی طراز سے جلوہ گر ہے۔ اگر نظم ہے مثل نظم جواہر کے مقبول طباع اہل ہنر اور اگر نثر ہے مانند نثرد نشرہ کے منظور اہل نظر ۔ ہر مصرع ان کا رشک مصرع زلف خوبان اور ہر بیت غیرت بیت ابروی محبوباں ، رنگینی عبارت کی رنگینی گل سے بالاتر اور صفائی الفاظ صفائی گوہر سے والا تر۔ یہ چند شعر ان کی بلندی فکر اور رسائی طبع پر دال ہیں۔ اشعار فارسی تو و شوخی و تبسم بہزار ناز کردن من و عجز جانفشانی ز سر نیاز کردن شب تیرہ ٔ فراقت چہ غم اربسر نیاید بیک آہ میتوانم در صبح باز کردن چوخمار زور آرد چہ خوش است سوی ساقی پے جام بادہ دستے بہوس دراز کردن بہ محبتش ندارم خبری ز کفر و ایمان نہ خیال بت پرستی نہ سر نماز کردن تو اگر بجور سوزی ز جفا کشاں نیاید بجز از دعای جانت ز سر نیاز کردن چہ دوا ضمیر جویم بکہ درد خویش گویم کہ نمیتواں علاج غم جاں گداز کردن 14 ۔ میر نظام الدین مرحوم متخلص بہ ممنون فرید عصر و حید آوان مصداق الشعرأ ، تلامیذ الرحمان ، جلوہ طراز معانی بکر ، زنگ زدائے آینہ فکر ، نخلمبند حدائق افکار بلند ، بزم افروز شبستان مضامین ارجمند ، محک امتحان طبائع موزوں ، میر نظام الدین متخلص بممنون ، خلف ملک الشعرا میر قمر الدین منت ، پیش گاہ خلافت و بارگاہ سلطنت ، دارائے ہند سے مخاطب بخطاب فخر الشعرا ، سخن میں ایک طرز تازہ کو ایجاد اور ابیات بلند کو معافی ارجمند سے آباد کیا۔ متانت کلام صفائی عبارت اور تازگی مضمون اور غرائب تشبیہ اور نوی استعارت جیسے اس گروہ اہل کمال کے سخن میں موجود ہیں۔ کسی اہل فن کے سخن میں متصور نہیں ہیں۔ الحق ریختہ کو فارسی اور اردو کو دری کر دیا۔ نہ ان کے قصیدہ کے سامنے قصائد قدما کو رتبہ ہے اور نہ ان کی غزل کے آگے غزلیات متاخرین کو مرتبہ ۔ ہر نقطہ ان کے سخن کا گوہر آبدار اور ہر لفظ ان کے کلام کا لولوی شاہوار ۔ طبع بلند ان کی دریائے ذخار ہے اور خامۂ معنی طراز ابر گوہر بار۔ موہبت فیض حقیقی سے مرتبہ اس یگانۂ روزگار کا مستغنی ہے۔ اس سے کہ قلم ان کی تعریف میں کچھ لکھے یا زبان ان کی توصیف میں کچھ کہے۔ بے تکلف تشریح بدن اشعار کے باب میں جالینوس اور نگہبانی چراغ معنی کے واسطے طبیعت ان کی فانونس ۔ عرصہ تین برس کا ہوتا ہے کہ اس جہان نا پائدار سے رخت سفر کو باند کر راہی جنت ہوئے۔ کسی شاعر نے یہ دو شعر ان کی تاریخ وفات میں پائے۔ میر ممنون از جہان بگنشت و نزد عالمی زندگی را از ممات اور بود حکم محات سر بجیب فکر بردم گفت ناگہ پیر عقل ’’شاعر شیریں زبان ہند ‘‘ تاریخ وفات ٭……٭……٭ 1260ھ یہ چند شعر ان سے بطریق یادگار لکھتا ہوں تاکہ معلوم ہو متانت عبارت اسی سے ہے جو ان اشعار میں ہے اور صفا وہ ہی ہے جو ان لالی ابدار میں ہے۔ اشعار برا مانیے مت مرے دیکھنے سے تمہیں حق نے ایسا بنایا تو دیکھا ٭……٭……٭ اوڑی سو شور محشر گرد ہو یہاں ایک جنبش میں کیا تو نے غبار ای چرخ ہم کو کس کے داماں کا ٭……٭……٭ قربان ناز نعش میری دیکھ کر کہا گردن پہ کس کی خون ہے اس بے گناہ کا ٭……٭……٭ ہاتھ میں جنبش محمل کے عناں ہے اپنی ورنہ یہاں کس کو ہے سر آبلہ فرسائی کا ٭……٭……٭ غموں کی گر یہی بالیدگی ہے تو آخر دل گرفتہ نہیں سینہ میں سمانے کا ٭……٭……٭ صبح تک کیا کیا نہ مجھ کو تھی سماجتہائے شوق رات رکھ کر روبرو صفحہ تیری تصور کا لے لیا بوسہ تو اس نے دیں نہ کیا کیا گالیاں یہاں گنہ سے بھی زیادہ ہے مزا تعزیر کا ٭……٭……٭ بے تابی دل تیرے شہیدوں کی کہاں جائے کچھ کم رگ بسمل سے نہیں تار کفن کا ٭……٭……٭ بد گمانی سے ڈرا اور نہ لیا تیرا جو نام دیکھنا بوسہ کی خاطر میں لب لالہ بنا ٭……٭……٭ ممنون قضا نے ہم کو دیا کیا بغیر دل سو وہ بھی نذر کاہش و تشویش ہو گیا ٭……٭……٭ نہیں دیتی دکھائی صورت زیست غضب صورت ہوں آیا دیکھ کر آج ٭……٭……٭ یوں تو ہے وہ فرشتہ خود لیکن ہے ذرا آدمی کشی کا شوق ٭……٭……٭ بس حنا زور آزمائی ہو چکی دلبروں سے ہاتھا پائی ہو چکی ٭……٭……٭ رات تھوڑی حسرتین دل میں بہت صلح کیجیے بس لڑائی ہو چکی ٭……٭……٭ تفاوت قامت یار اور قیامت میں ہے کیا ممنون وہی فتنہ ہے لیکن یہاں ذرا سانچے میں ڈھلتا ہے 15۔ شاہر نصیر رحمۃ اللہ علیہ یگانہ سخن سنجان روگار ، فرید عصر و حید قرون و ادوار۔ پاک نہاد و صافی ضمیر میاں شاہ نصیر رحمۃ اللہ علیہ۔ شعرائے قدیم شاہ جہاں آباد سے تھے۔ شعر ریختہ کو بطرز صائب مد عا مثل اکثر فرماتے تھے۔ مشکل زمینوں کی طرف سے جس میں سخن طرازوں کو قدم رکھنا دشوار ہوتا ، بیشتر توجہ کرتے اور حق یہ ہے کہ ان زمینوں میں سیر غزل قریب بقصیدہ بل دو غزلہ فکرکرتے اور اکثر ابیات غزل بیت الغزل ہوتی۔ باوجود اس کے کہ علم شعر سے بہرہ کم تھا۔ لیکن جن زمینوں میں وہ قدم رکھتے اور ان کو بزور طبع خدا داد سر انجام دیتے مدیعان کمال کو مجال نہ ہوتی کہ اس میں جرآت کریں۔ اکثر ریختہ گویاں شاہ جہاں آباد نے کہ اپنے زعم میں کوس لمن الملکی کو بلند آوازہ کرتے ہیں۔ اوائل سال میں ان ہی سے تلمذ کیا تھا۔ گوبعد مدت مشق کمال کو پہنچا کر کبھی مباحثہ 1 ۔ میر نظام الدین ممنون دہلی کے بڑے مشہور شاعروں میں سے ہیں میر قمر الدین منت کے فرزند ۔ ذوق و غالب کے ہمعصر مفتی صدر الدین آزردہ کے استاد تھے۔ اکبر شاہ ثانی نے فخر الشعراء کا خطاب دیا تھا۔ ہنگامہ 1857ء کے بعد دہلی سے نکل کر لکھنؤ پہنچے۔ ریٹائر ہونے کے بعد واپس دہلی چلے آئے اور یہی 1844 ء میں انتقال کیا۔ ایک ضغیم اردو دیوان ان کی یاد گار ہے ۔ (دلی کا دبستان شاعری ص 260 ۔ 261)(اسماعیل) اور کبھی طنز و تشنیع پر مستعد ہوئے۔ اشعار آبدار اس پیس رو سخنوران روزگار کے دو لاکھ سے زیادہ ہیں اور یہ بے مبالغہ و اغراق ہے۔ صدہا آدمی جو کہ کچھ نہ جانتے تھے۔ اور بتقریب مشاعرہ صرف ان ہی غزل کہلوا لیتے تھے۔ ہر ایک دیوان اپنے اپنے نام کا مرتب رکھتا ہے۔ اپنی زندگی میں ترتیب دیوان کی طرف توجہ نہ کی۔ ان کی وفات کے بعد مہاراج سنگھ نامی ایک شخص نے کہ ان کا شاگرد ہے جس قدر ہاتھ لگا جمع کر کر ایک دیوان ترتیب دیا ہے۔ اس پر پچاس ساٹھ جزو سے کم نہیں۔ دو بار لکھنؤ میں تشریف لے گئے اور سامنے مرزا قتیل کے مصحفی اور انشاء الہ خاں کے ساتھ بساط مشاعرہ آراستہ کیا۔ تین بار حیدر آباد کو گئے اور وہاں کے رئیس نہایت قدر دانی سے ہر بار ہزار ہا روپے کا سلوک کیا۔ خصوصاً راجہ چندو لال نے کہ اس سرکار کا مختار کل اور مرد سخن فہم اور قدر شناس اہل کمال تھا۔ اس بزرگ کو مالا مال کر دیا ۔ تیسری بار چونکہ خمیر ان کا وہیں کی خاک سے تھا۔ شاہجہاں آباد کو آنا نصیب نہ ہوا اور اسی سر زمین میں وفات پاکر مد فون ہوئے۔ ان کے انتقال کو آٹھ سات برس کا عرصہ ہوتا ہے۔ ہر چند اس قدر ذخیرہ میں سے قدرے کا لکھنا نہایت نا زیبا ہے لیکن احتراز عن الاطناب ان ہی چند اشعار پر کفایت کی جاتی ہے۔ 1 ۔ شاہ نصیر الدین نام ، نصیر تخلص ، شاہ محمدی المتخلص بہ مائل کے شاگرد اور ذوق و مومن جیسے قادر الکلام شعراء کے استاد ہیں۔ نیک نفس ، لطیف طبع ، باوضع اور خوش پوشاک بزرگ تھے۔ ظرافت اور زندہ دلی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ ان کا کلیات مدت ہوئی میرٹھ (یو ۔ پی) میں چھپا تھا۔ آج کا نایاب ہے(نقوش غزل نمبر ص 696)(اسماعیل) اشعار ریختہ پشت لب پر ہے یہ تیرے خط ریحاں ایسا منہ تو دیکھو لکھے یا قوت رقم خاں ایسا ٭……٭……٭ نکلی تھی دم تیشہ زنی سنگ سے آواز فرہاد یہ دشمن ہے تیری جان کا لوہا ٭……٭……٭ قیامت آپ کا قد اس کے دل پذیر ہوا چھڑی سرو چمن بینوا فقیر ہوا ٭……٭……٭ کمان و تیر نمط ربط تھامجھے اس سے جب اس نے آپ کو کھینچا میں گوشہ گیر ہوا خود بخود طاق سے شیشہ جو گرا اے ساقی روح تھی کس کی یہ مینای می ناب میں بند ٭……٭……٭ قدم نہ رکھ مرے چشم پر آپ کے گھر میں بھرا ہے نوح کا طوفان حباب کے گھرمیں ٭……٭……٭ کبھو نہ اس رخ روشن پہ چھائیاں دیکھیں گھٹائیں چاند پہ سو بار چھائیاں دیکھیں ٭……٭……٭ سب سے ملاؤ ابروہم سے نفاق رکھو اس دوستی کو اپنی بالائے طاق رکھو ٭……٭……٭ دیجے دل میں کیوں جگہ اس آہ بے تاثیر کو جس میں پیکاں بھی نہ ہو رکھنا ہے کیا اس تیر کو ٭……٭……٭ یہ عالم اس کے خط سبز نے دکھایا ہے کہ جس کو دیکھ کے عالم نے زہر کھایا ہے ٭……٭……٭ شوق نظارہ تیرا کھینچ کے لایا تھا اسے گرچہ تھی قیس کے پاؤں میں سلاسل بھاری ٭……٭……٭ دیکھ لیتی جو اٹھا کر ترے کیا ٹوٹتے ہاتھ لیلیٰ ایسا تو نہ تھا پردۂ محمل بھاری ٭……٭……٭ دل کا کیا مول بھلا زلف چلیپا ٹھیرے تیری کچھ گانٹھ گرہ میں ہو تو سودا ٹھیرے ٭……٭……٭ جنبش لب پہ قیامت ہے کہ جی اٹھے ہم آج یک بات میں تم رشک مسیحا ٹھیرے ٭……٭……٭ دل یہ کہتا ہے کہ مت یاد بتاں دلواؤ چھیڑنے کا مرے پھر آپ مزا دیکھیں گے ٭……٭……٭ در پردہ آنکھ یار سے لڑتی ہے رات سے تارنگہ کو رشتہ ہے چاک قنات سے ٭……٭……٭ 16 ۔ شیخ محمد ابراہیم ذوق المخاطب بہ خاقانی ہند شاہ کشور سخنوری ، مالک رقاب مملکت معنی پروری ، والی قلمر و تکمیل و اکمال ، موسس اساس فضل و افضال جامع دقائق فن ، حلال مشکلات سخن ، قادر الکلام ، زبدۂ کملائے انام ، رجع مآرب ارباب شوق ، شیخ محمد ابراہیم ذوق ، عہدۂ استادی سلطان عصر محمد سراج الدین بہادر شاہ ظفر سے ممتاز اور پیشگاہ سلطانت سے خطاب خاقانی ہند سے سر فراز ہیں۔ مشق سخنوری اس درجہ کو پہنچی ہے کہ کوئی بات اس صاحب سخن کی غالب ہے کہ پیرایۂ وزن سے معرانہ ہو گی۔ پر گو اور خوش گو غزل ویسی ہی اور قصائد ویسے ہی۔ غزل گوئی میں سعدی و حافظ و قصیدہ میں انوری و خاقانی ، مثنوی میں نظامی کو اگر اس سخن گو کی شاگردی سے فخر ہو تو کچھ عجب نہیں۔ شمار ان کے اشعار گوہر نثار کا بجز عالم الغیب کے اورکوئی نہیں کر سکتا۔ دقیقہ سنجان روزگار پے لے جا سکتے ہیں کہ جس کا کلام وحی نظام فخر متقدمین اور شرف متاخرین میں ہو اس کی ذات فائز البر کات بنی نوع میں کس قدر فضل و شرف رکھتی ہو گی۔اس قدر جامعیت کہ فصاحت عبارت اور متانت تراکیب اور تازگی طرز اور جدت معنی اور غرابت تشبیہہ اور حسن استعارہ اور خوش اسلوبی کنایہ اور لطف تلمیح اور پاکی الفاظ اور تنک ورزی کلمات اور بست قافیہ اور نشست ردیف نظم و نسق کلام اور حسن آغاز و انجام ایک جائے میں جمع ہیں۔ متقدمین سے متاخرین تک کسی اور فرد بشر کو حاصل نہیں ہوئی۔ اگرچہ اصناف سخن خصوصاً غزلیات اور قصاید سے دفتر دفتر ہے اور ہر شر نقطۂ انتخاب سے مزین۔ لیکن اس مختصر کا حوصلہ تاب نہیں لاتا کہ ان کو درج اوراق کر کر ارباب شوق و اہل فضل کی خدمت میں گزرانوں ۔ اس واسطے مشتے نمونہ از خرمنے چند شعر ہدیۂ شائقان با کمال کے کرتا ہوں۔ اشعار یختہ ہم ہیں اور سایہ ترے کوچہ کی دیواروں کا کام جنت میں ہے کیا ہم سے گنہ گاروں کا ٭……٭……٭ مجھ کو ہر شب ہجر کی ہونے لگی جوں روز حشر مجھ سے یہ کس دن کے بدلے آسماں لینے لگا ٭……٭……٭ مذکور تیری بزم میں کس کا نہیں آتا پر ذکر ہمارا نہیں آتا نہیں آتا ٭……٭……٭ کہے ہے خنجر قاتل سے یہ گلو میرا کمی جو مجھ سے کرے تو پیئے لہو میرا ٭……٭……٭ لبوں پر جاں عبث ہے منتظر وہ شوخ کب آیا اگر چہلم کو بھی آیا تو ہم جانیں کہ اب آیا قائل کیجیو ذوق تپیدن دیکھتے کیا ہو کہ اب تک ذبح کرنے کا نہیں قاتل کو ڈھب آیا ٭……٭……٭ ہاتھ تو ہلکا پڑا تھا یار کی شمشیر کا زخم پر قسمت سے میری کارگر اچھا ہوا ٭……٭……٭ لکھئے اس خط میں کہ ستم آٹھ نہیں سکتا پر ضعف سے ہاتھوں میں قلم آٹھ نہیں سکتا ٭……٭……٭ دل تو لگتے ہی لگے گا حوریان عدن سے باغ ہستی سے چلا ہوں ہائے پریاں چھوڑ کر ٭……٭……٭ ٹھیری ہے ان کی آنے کی یہاں کل پہ جا صلاح اے جان برلب آمدہ تیری ہے کیا صلاح ٭……٭……٭ مجھ میں کیا باقی ہے جو دیکھے ہے تو ان کے پاس بد گمان وہم کی دارو نہیں لقمان کے پاس ٭……٭……٭ نہیں تدبیر کچھ بنتی پڑے سر کو پٹکتے ہیں نہ دل چھوڑے ہے اسکو اور نہ ہمدل چھوڑ سکتے ہیں ٭……٭……٭ مر گئے پھر بھی تغافل ہی رہا آنے میں بیوفا پوچھے ہے کیا دیر ہے لے جانے میں ٭……٭……٭ خط پڑھ کے اور بھی وہ ہوا پیچ و تاب میں کیا جانے لکھ دیا اسے کیا اضطراب میں ٭……٭……٭ وہ جنازے پر مرے کس وقت آئے دیکھنا جب کہ اذن عام میرے اقربا کہنے کو تھے ٭……٭……٭ ہاں تامل، دم ناوک فگنی خوب نہیں ابھی چھاتی مری تیروں سے چھنی خوب نہیں ٭……٭……٭ اس حور وش کا گھر مجھے جنت سے سوا ہے پر وہاں رقیب ہو تو جہنم سے کم نہیں ٭……٭……٭ دیکھا دم نزع دل آرام کو عید ہوئی ذوق ولے شام کو ٭……٭……٭ عبث تم اپنا لگاوٹ سے منہ بناتے ہو وہ لب پر آئی ہنسی ، دیکھو مسکراتے ہو ٭……٭……٭ کھانے پینے کی قسم کھائی ہے تجھ بن ہم نے ورنہ ہے زہر تو ہر طرح گوارا ہم کو ٭……٭……٭ تو جان ہے ہماری اور جان ہے تو سب کچھ ایمان کی کہیں گے ایمان ہے تو سب کچھ ٭……٭……٭ رخصتاے زندان جنوں زنجیر در کھڑکائے ہے مژدہ خار دشت پھر تلوا میرا کھجلائے ہے ٭……٭……٭ کون وقت اے وائے گذرا دل کو گھبراتے ہوئے موت پڑتی ہے اجل کو یہاں تلک آتے ہوئے ٭……٭……٭ وہ نہ آئے رات ہم کو ضد سے بخت خفتہ کے بج گیا آخر گجر زنجیر کھڑکاتے ہوئے ٭……٭……٭ قطرہ قطرہ آنسو جس کی طوفاں طوفاں شدت ہے پارہ پارہ دل ہے جس میں تودہ تودہ حسرت ہے ٭……٭……٭ قسمت برگشتہ دیکھو اک نگہ کی تھی ادھر سوبھی آکر تاسر مژگاں حیا سے پھر گئی ٭……٭……٭ زخمی میں ہوا ہوں تری دزدیدہ نظر سے جانے کا نہیں چور مرے زخم جگر سے ٭……٭……٭ وہ اپنے سینہ میں ہے آہ آتشیں اے ذوق کہ برق دیکھے تو فی النار والسقر ہو جائے ٭……٭……٭ نگہ کا وار تھادل پر پھڑکنے جان لگی چلی تھی برچھی کسی پر کسی کے ان لگی ٭……٭……٭ الفت کا نشان جب کوئی مر جائے تو جائے یہ درد سر ایسا ہے کہ سر جائے تو جائے ٭……٭……٭ کہتے ہیں لوگ موت تو سب جائے جائے ہے پر تیرے پاس اسی کو کوئی کھائے جائے ہے ٭……٭……٭ ذکر کچھ چاک جگر کا سن سن اپنے کر کے میں ضبط ہنسی دیکھوں ہوں ناخن اپنے ٭……٭……٭ زخم دل پر کیوں مرے مرہم کا استعمال ہے مشک اگر مہنگا ہے تو کیا لون کا بھی کال ہے ٭……٭……٭ جوش گریہ کا مرے تم کچھ پوچھو ماجرا چادر آب رواں منہ پر مرے رومال ہے ٭……٭……٭ زباں پیدا کروں جوں آسیا اب منہ میں پیکاں سے دہن کا ذکر کیا یاں سر ہی غائب گریباں سے ٭……٭……٭ فلک کیا فتنہ سازی میں ہو ہمسر چشم فتاں سے گراتھا یہ بھی اشک سرمہ آلود اس کی مژگاں سے ٭……٭……٭ یہاں تک ناتواں ہیں ہم گزر جائیں اگر جاں سے اٹھانے مور لاشہ کو ہمارے دست مژگاں سے ٭……٭……٭ صراط عشق پر از بس کہ ہے ثابت قدم میرا دم شمشیر قاتل پر بھی خوں جاتا ہے جم میرا ٭……٭……٭ 1 ۔ محمد ابراہیم ذوق دہلی کے ایک بہت غریب گھرانہ میں پیدا ہوئے غلام رسول شوق اور شاہ نصیر کے شاگرد اور بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے۔ اکبر شاہ ثانی نے خاقانی ہند کا خطاب دیا۔ اپنے دور کے بزرگ ترین شعراء میں سے تھے۔ شعر و ادب کے علاوہ علم وفضل کے بھی مالک تھے۔ طب سے بھی بخوبی واقف تھے۔ علم نجوم میں کافی دخل رکھتے تھے ۔ شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد ، استاد السطان نواب مرزا داغ ، سید ظہیر الدین ظہیر ، شجاع الدین انور ، الہٰی بخش معروف ، غلام رسول ویران ان کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد آزاد نے ان کادیوان مرتب کیا۔ علامہ برج موہن کیفی نے اس کی شرح لکھی ۔ 1789ء میں پیدا ہوئے اور 1854 ء میں وفات پائی (نقوش غزل نمبر ص 672 ) ۔ (اسماعیل) 17۔ حافظ عبدالرحمان خاں احسان سخن سنج ، دقیقہ گزیں ، معنی رس ،خوردہ بین ، یگانہ جہان ، فرید آوان ، حافظ عبدالرحمان خاں احسان استعداد کتابی نہایت اور تحقیق مصطلحات بغایت ریختہ گوئی کو کمال اور زبان اردو کو نہایت جمال بخشا۔ ساٹھ ستر برس کی مشق سخن دلالت کرتی ہے کہ کیا ملکہ اصناف سخن میں بہم پہنچایا ہو گا۔ صنعت تجنیس و اشتقاق بیشتر ان کے کلام بلاغت نظام میں مستعمل ہے اور حق یہ ہے کہ ان صنعتوں کو اپنے سخن میں اچھی طرح سے نبھایا ہے قلعہ معلی میں بیشتر سلاطین ان ہی کے شاگرد ہیں۔ باوجود صعف پیری کے سخن میں ہنوز شوخی جوانی کی موجود ہے۔ چند شعران سے بطریق یاد گار لکھے جاتے ہیں۔ اشعار یختہ دو دن سے میں جدا ہوں اس مو کمر سے احسان ایک سو طرح کا صدمہ اس درمیان میں لکھا ٭……٭……٭ کہاں وہ گریہ وہ نالہ وہ جاں بلب رہنا کسی کا کام ہمیشہ بنا نہیں رہتا ٭……٭……٭ گلے سے لگتے ہی جتنے گلے تھے بھول گئے و گرنہ یاد تھیں مجھ کو شکایتیں کیا کیا ٭……٭……٭ میں تو اس نوجواں پہ غشی ہوں ہائے عالم تری جوانی کا ٭……٭……٭ سخت نادانی کی احسان جو کہا عاشق ہوں بھید کہتا ہے کسو سے کوئی دانا دل کا ٭……٭……٭ ہے وہ مرید آبلہ پائی عاشقاں پانی پہ ٹھہرے کیونکہ نہ بستر حباب کا ٭……٭……٭ میرے آتے ہی بس نیند آئی تو اب یہ اپنی چشم پوشی دیکھتا جا ٭……٭……٭ یارو سبھوں کو میرے گریباں کی فکر ہے ناصح کے منہ کو ان کے کوئی نہ سی گیا ٭……٭……٭ (8)خوشی نویسان اپنے زمانہ کے دہلوی خوش نویسوں کے حالات سرسید نے بہت ہی مختصر لکھے ہیں۔ ان کو ایڈٹ کرنے کے لیے مجھے کافی دقت پڑی۔ مگر پھر بھی مشکل حل نہ ہوئی اور اکثر خوش نویسوں کے مزید حالات مختلف تذکروں کی ورق گردانی کے بعد بھی نہیں ملے ۔ 1 ۔ نواب اعغظم الدولہ میر محمد خاں سرور اپنی کتاب عمدۂ منتخبہ میں لکھتے ہیں ’’ حافظ عبدالرحمان احسان خلف الرشید حافظ غلام رسول پیش امام حضور والا (یعنی شاہ عالم بادشاہ دہلی) از صغر سن یہ شعر گوئی فارسی و ریختہ ذوقے داشت رفتہ رفتہ اشعارش بہ پایہ پختگی رسید۔ بہ صحت محاورہ شعر بر جستہ می گوید و نزاکت لفظ و معنی در اجارۂ اقلیم بدیع رقم اوست و بلند تلاشاں ایں فن طبع زادش را مقبول می دارند۔ ید حضور انور در سلک شعرا ممتاز است ‘‘ ۔(عمدہ منتخبہ ص 15) عمدہ منتخہ کا آغاز تالیف 1801ء ہے اور اختتام 1809میں ہوا۔ احسان اسی زمانہ میں ہوئے ہیں۔ (اسماعیل) مگر اس وقت جبکہ میں بالکل مایوس ہو چکا تھا ، اتفاق سے ایک بڑی بے نظیر اور نہایت محققانہ کتاب ’’ صحیفہ خوش نویسا ں ‘‘مجھے مل گئی جس کے مطالعہ کے بعد میری ساری مشکلات دور ہو گئیں اور مجھے اس کتاب سے دہلی کے اس وقت کے خوش نویسوں کے مزید حالات لکھنے میں بڑی قابل قدر مدد ملی اور میں فاضل مؤلف اور قابل پبلشر دونوں کا نہایت ممنون ہوں کہ ان کی وجہ سے میں ان حالات کو تفصیل کے ساتھ ایڈیٹ کر سکا۔ یہ محققانہ اور فاضلانہ کتاب مولوی احترام الدین احمد صاحب شاغل عثمانی جمالی (تسلیم منزل ۔ جے پور) کی سالہا سال کی تلاش و محنت کا نتیجہ ہے۔ جسے انجمن ترقی اردو (ہند) نے 1963ء میں علیگڑھ سے چھپا کر شائع کیا۔ بہت بڑی تقطیع کے 266 صفحات میں لائق مؤلف نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے اور اس فن پر ایسی جامع کتاب لکھ دی ہے جو بلا مبالغہ حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے اور فن کی جملہ اصطلاحات اور خوش نویسوں کے حالات کے متعلق ایک انسائیکلو پیڈیا کا حکم رکھتی ہے۔ کتاب کو لائق مولف نے چار ابواب میں تقسیم کیا ہے اور ان ابواب میں ہر وہ بات بیان کردی ہے جوفن خوش نویسی سے تعلق رکھتی ہے۔ خوش نویسی کی تاریخ ، مختلف خطوں کی تفاصیل ، اطلاحات کے معنی خوش نویسی کے قدیم بہترین قطعات کے فوٹوز کے علاوہ بڑا قابل قدر کام مؤلف نے یہ کیا ہے کہ انتہائی تلاش کے بعد ساڑھے پانچ سو کے قریب اعلیٰ پایہ کے خوش نویسوں کے حالات بھی اس کتاب میں جمع کر دیے ہیں غرض موجودہ عہد میں یہ کتاب علمی ریسرچ کا بہترین نمونہ ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) 1 ۔ جناب سید محمد امیر سلمہ اللہ تعالیٰ یہ جناب سادات کبار سے ہیں۔ خط نستعلیق کو جزو زمان میں ان کے قلم کی صدائے صریر نے مثل صور ثانی کے دوبارہ زندہ کیا۔ ہر دائرہ حروف کا ان کے اوصاف حمید کے ذکر میں سراپا دہان اور مدات الفاظ کی ان کے محامد حمید کے بیان میں سراسر زبان۔ ان کی خوش نویسی کے دور میں میر عماد کی خوش قلمی پر اعتماد نہیں رہا اور اان کی صالحی کے زمانہ میں آغا رشید بندہ ہو گیا۔ باوویکہ ورزش پنجہ اور بکیتی میں ان کا کوئی نظیر نہیں جس پر ہاتھ ایسا سبک ہے کہ قلم کو ایک ان میں ہزار حرف لکھنا اور پھر اس خوبی کے ساتھ کچھ گراں ہیں۔ 2۔ سید محمد امیر رضوی دہلی کے نہایت با کمال خوشنویسوں میں تھے۔ جن پر اس فن کا خاتمہ ہو گیا۔ عام طور پر میر پنجہ کش کے لقب سے مشہور تھے۔ کیوں کہ جو قدرت ان کو فن خوش نویسی میں حاصل تھی وہی کمال ان کو پنجہ کشی میں تھا۔ مولوی احترام الدین احمد اپنی کتاب صحیفہ خوش نویساں میں لکھتے ہیں کہ ’’ ہندوستان میں بادشاہت کا خاتمہ ابوظفر سراج الدین بہادر شاہ ظفر پر ہو گیا اور خوش نویسی کا آخری تاجدار میر پنجہ کش کو خیال کیا جاتا ہے۔ شمالی ہند میں جو شہرت اور مقبولیت ان کے خط کو حاصل تھی وہ اور کسی کو نہیں تھی۔ ‘‘ اس سے آگے میر پنجہ کش کے اوصاف مولوی اخترام الدین بڑے احترام کے ساتھ اس طرح بیان کرتے ہیں ’’ میر پنجہ کش کے والد کا نام ’’ صاحب میر ‘‘ تھا۔ آپ صحیح النسب سید تھے۔ مہذب و با اخلاق اور خصائل پسندیدہ و شمائل حمیدہ سے آراستہ تھے۔ نیک نفس ، خوش وضع ، زندہ دل ، یار باش اور دوست نواز بزرگ تھے۔ خوش نویسی کے علاوہ پنجہ کشی ، کشتی ، بانک بنوٹ ، مصوری ، نقاشی ، لوج نویسی ، جدول کشی ، صحافی (جلد سازی) علاقہ بندی اور سنگ تراشی میں بھی پوری مہارت رکھتے تھے۔ ‘‘ زاں بعد مولوی احترام الدین لکھتے ہیں ’’ میر صاحب نے اپنے کمال کا اظہار صفحہ قرطاس کے علاوہ اپنے مکان کی کٹریوں اور ’’ یافتاح ‘‘ اور ’’ بسم اللہ ‘‘ لکھ کر بھی کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ میر صاحب کے پاس جب کوئی سائل جاتا تو بجائے نقدی یا کوئی چیز دینے کے اسے کوئی حرف خوش خط لکھ کر دے دیتے تھے اور یہ کاغذ (نوٹ کے طور پر) بازار میں فوراً فروخت ہو جاتا تھا۔ اسی طرح میر صاحب کا یہ بھی قاعدہ تھا کہ جب کوئی شاگرد ہونے کے لیے ان کے پاس آتا تو وہ اس سے کوئی عبارت کا غذا پر لکھوا کر اپنے پاس رکھ لیتے تھے اورجب اس کو (مشق کے بعد) اپنے رنگ میں رنگ لیتے تھے تو وہ پہلی تحریر اسے دکھاتے اور کہتے کہ دیکھو میاں تم نے کتنی ترقی کی ہے ‘‘ (صحیفہ خوش نویسان صفحہ 151 و 152)۔ میر صاحب 1767ء میں پیدا ہوئے اور 1858ء کے قیامت خیز ہنگامہ میں جب کہ ان کی عمر 90 سال کی تھی کسی سپاہی نے گولی مار کر ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ان کے صاجزادے کا نام ’’ میر قطب عالم ‘‘ تھا ، ان کی اولاد 1914ء تک دہلی میں آباد تھی۔ پھر پتہ نہیں چلا۔ ان کے خط کے دوفوٹو صحیفہ خوش نویسان میں دیے ہوتے ہیں۔ 2 ۔ جناب آغا صاحب یہ صاحب کمال شاگرد رشید ہیں سید امیر صاحب موصوف کے اور اس فن میں ایسا کمال پہنچایا ہے جکہ استاد کو ان کے کمال پر کمال ناز ہے اور اس فن کی تکمیل کے سبب سے اساتذہ سف سے ممتاز ہیں۔ علاوہ اس کمال کے فن بکیتی می بھی اقران روزگار سے گوئے سبقت لے گئے ہیں اور اہلیت و صلاحیت ایسی ہے کہ جس کا بیان نہیں اور وہ اعتقاد کہ اپنے استاد کے حق میں رکھتے ہیں خامہ دو زبان کی مجال نہیں کہ لکھ سکے۔ مولوی محمد ہفت قلمی کی فارسی کتاب تذکرہ خوش نویساں میں بھی آپ کے کچھ حالات دیے ہوئے ہیں جو چشم دید واقعات پر مشتمل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ اس شریف طبع سید زادہ کو میں نے مشہور خوشنویس آقا عبدالرشید کی وصلیاں دے کمر خط کی مشق کرائی۔ چوں کہ یہ سید زادہ نہایت صباع و زہین اور صاحب ذوق و جفا کش تھا اس لیے تھوڑے ہی دنوں میں ایسا لکھنے لگا کہ آغا صاحب اور اس کے خط میں تمیز کرنی مشکل ہو گئی۔ میں نے اس کی رہنمائی اور امداد میں کوئی کسر نہ چھوڑی یہاں تک کہ استاد کامل ہو گیا۔ ‘‘ خط و خطاطی صفحہ 65ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے تمدنی کارنامے صفحہ 335 ۔ صحیفہ خوش نویسان صفحہ 151و 152)۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) 1۔ ان کا نام آغا مرزا تھا اور وطن دہلی۔ ارمنی النسل تھے اور میر پنجہ کش کے ممتاز شاگرد۔ اپنے استاد کی ایسی عمدہ نقل انہوں نے مسلسل مشق سے بہم پہنچائی تھی کہ استاد شاگرد کے خط میں تمیز مشکل ہو گئی تھی۔ آغا عبدالرشید دیلمی کی طرز پر نستعلیق بہت اچھا لکھتے تھے۔ خط شفیعہ بھی ان کا بہت عمدہ تھا۔ لچجھمن سنگھ۔ رحیم اللہ اور میر مدد علی ان کے مشہور شاگردوں میں سے تھے جنہوں نے خط نستعلیق میں بڑا نام پیدا کیا اور اس فن میں بڑی شہرت حاصل کی۔ 1857ء کے خونی ہنگامے سے بہت عرصہ پہلے دہلی سے الور آگئے تھے اور وہیں مستقل طور پر رہنے لگے تھے ۔ فن خوش نویسی میں ان کی اعلیٰ درجہ کی مہارت سے 3۔ مرزا عبداللہ بیگ شاگرد ہیں سید محمد امیر صاحب ممدوح کے ، ان کے رتبہ کو نستعلیق نویسی میں بعد آغا صاحب کے کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ سوائے اس کے اہلیت اور سعادت مندی جو ان کے مزاج میں ہے قلم و زبان کی طاقت نہیں کہ اس کا بیان کر سکے۔ 4۔ امام الدین احمد خاں فرزند ارجمند نواب دبیر الدولہ خواجہ زین العابدین خاں بہادر مصلح جنگ اور نستعلیق نویسی میں شاگرد ہیں اخوند ٭……٭……٭ متاثر ہو کر مہاراجہ بنے سنگھ والی ریاست الور نے ان سے شیخ سعدی کی مشہور عالم کتاب گلستان نہایت خوش خط لکھوائی جو پندرہ سال کے طویل عرصہ میں ختم ہوئی۔ اس کی تصویریں الور کے با کمال مصوروں نے بنائیں اس گی تیاری میں ایک لاکھ پچیس ہزارروپے خرچ ہوئے اور 1840ء میں بہمہ جہت مکمل ہوئی اور آج کل عجائب خانہ الور کی رزینت ہے۔ آغا صاحب نے 1274ہجری میں وفات پائی۔ عیسوی سن 1858ء تھا ’’ آغا مر گیا ‘‘ ان کی تاریخ، وفات ہے جس سے 1274 برآمد ہوتے ہیں۔ ان کی تحریر کا عکس صحیفہ خوش نویسان میں دیا گیا ہے ۔ (صحیفہ خوش نویسان باب چہارم صفحہ 75) (اسماعیل پانی پتی) 1۔بعض کتابوں میں ان کا نام عباد اللہ اور ان کے والد کا نام عبداللہ لکھا ہے۔ شاہی خوش نویسوں کے زمرہ می شامل اور زمرد رقم کے خطاب سے سر فراز تھے۔ دہلی میں خط نستعلیق کے استاد کامل سمجھے جاتے تھے۔ 1857ء کے خونی ہنگامہ کے بعد دہلی چھوڑ کر پٹیالہ چلے گئے تھے اور وہیں انتقال ہوا ان کا ایک لقب اعجاز رقم بھی تھا۔ (خط و خطاطی ص 68ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کے تمدنی کارنامے ص 335 صحیفہ خوشنویساں ص 122)۔(محمد اسماعیل ) عبدالرسول قندھاری سلمہ اللہ تعالیٰ اور سید محمد امیر صاحب موصوف کے ۔ ہاتھ ان کا ایسا قابل ہے کہ تھوڑی سی محنت اور زمانہ قلیل میں اپنے اقران و امثال سے قصب السبق لے گئے۔ 5۔ محمد جان صاحب مرحوم مغفور شاگرد میر کلن خوش نویس بے بدل اور خوش فلم بے نظیر تھے۔ جب تک یہ قید حیات میں تھے اان کے سامنے کسی خوشنویس کو یارائے دم زدن نہ تھا۔ عرصہ پندرہ بیس برس کا ہوتا ہے کہ روح پر فتوح کو عالم فانی سے رہا کیا اللھم اغفرلی ولہ ۔(میاں محمد عاشوری کے فرزند اور شاہ عالم ثانی کے ہاں ملازم تھے۔ اپنی طرز خاص کے موجد ہیں۔ صحیفہ خوش نویساں ص 155 ۔ 156۔(اسماعیل) 6۔ اخوند عبدالرسول قندہاری سلمہ اللہ تعالیٰ یہ زبدۂ اہل کمال متوطن ہیں قندہار کے اور عرصہ چند سال سے بود و باش شہر شاہجہاں آباد کی اختیار کی ہے اور اس خاک پاک سے ایسی دل بستگی بہم پہنچائی کہ گویا یہیں کے ساکن تھے اور جب وطن کو یک قلم دل سے بھلا دیا۔ خط نستعلیق و شفیعہ میں بے نظیر ہیں۔ 7۔ حافظ کلو خان صاحب مغفور خط نسخ میں استاد یگانہ اور مشہور زمانہ۔ اس خط کو شان یاقوت پر لکھتے تھے بلکہ یا قوت کو ان کے سامنے یاقوت جرم دار کی مانند کچھ قدر نہ رہی تھی۔ عرصہ چند سال سے عالم باقی کی طرف خرام کیا۔ انا للہ و انا علیہ راجعون۔ (ان کا نام غلام حسین تھا لیکن کلو خاں کے نام سے مشہور تھے۔ عصمت اللہ برادر زادہ یاقوت رقم خاں کے شاگرد تھے۔ حافظ قرآن اور نہایت متقی اور پرہیز گار بزرگ تھے۔ تیر ہویں صدی کے مشہور خوش نویسوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ صحیفہ خوش نویسان ص 146۔ (اسماعیل) 8 ۔ میرامام الدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ خط نسخ میں استاد میں سلطان عصر حضرت ظل اللہ سراج الدین محمد بہادر شاہ کے اور خط نسخ کو قاضی کی شان پر لکھتے ہیں اور باتفاق زبان خلائق پر ہے کہ اس شان پر ان سے بہتر کیا اس سے انیس بیس بھی لکھنا محال ہے۔ (اپنے زمانہ میں خط نسخ کا ماہر اور فاضل ان سے بڑا اور ان سے بہتر کوئی اور نہ تھا۔ ہندوستان کے مسلم حکمرانوں تمدن کارنامے ص 336)۔ 9۔ مولوی حیات علی صاحب مغفور خط شکستہ میں وہ کمال بہم پہنچایا تھا کہ ان کے ہر حرف کے خم و پیچ سے زلف خوباں شکستگی وام کرتی تھی کہ خط نستعلیق میں ایک شان نئی اختراع کی تھی اور طرفہ یہ ہے کہ اس شان کی صدہا کتابیں مختصر اور سطول ان کی قلم اعجاز رقم سے نکلی ہوئی ہیں کہ ہر حرف ان کتابوں ا ایک قطعہ شمار میں آتا ہے۔ قدرت خدا کی ہے کہ ایسے فرد کا مل بھی صفحۂ روز ہ پر بہم پہنچے۔ ان اللہ علیٰ کل شئی قدیر۔ مدت دراز ہوئی کہ اس جہان فانی سے راہی ہوئے۔ 10 ۔ پنڈت شنکرناتھ خط شکستہ میں شاگرد رشید تھے مولوی حیات علی صاحب ممدوح ۔ بعد ان کے ان سے بہتر شہرشاہجہاں آباد میں کوئی نہیں ہوا اور نہ اب ہے۔ چھ سات برس کا عرصہ ہوا کہ جہان فانی سے راہی ہوئے۔ 11 ۔ بدرالدین علی خان مہرکن خط نستعلیق لکھنے میں شاگرد ہیں سید امیر صاحب ممدوح کے اورو مہر کنی کے فن میں تمام ہندوستان میں اس سرکردہ اہل کمال کا نظیر نہیں ۔مہر حکام وقت کی علی الخصوص نواب گورنر جنرل بہادر کی اسی یگانۂ روزگارکے ہاتھ سے کھدا کرتی ہے جو دائرہ کہ ان کے قلم سے نکلتا ہے ہزار حرف ان کی یگانگی پر اپنے دہن سے ادا کرتا ہے۔ 1۔ شنکر ناتھ کشمیری پنڈت تھے اور دہلی میں آکر آباد ہو گئے تھے۔ شاعر بھی تھے اورق ادر تخلص کرتے تھے ۔ نیک ، خلیق اور مؤدب تھے۔ خط نستعلیق مولوی غلام محمد دہلوی مؤلف تذکرہ ،خوش نویسان سے سیکھا۔ خط شکستہ کی مشق مولوی حیات علی سے کی۔ قریباً 1844ء میں وفات پائی (خط و خطاطی ص 66)تذکرہ خوش نویسان میں ان کا نام شنکر نوساری لکا ہے۔ رائے گوپی ناتھ کے پوتھے تھے جو نواب عبدالاحد خاں کی سرکار میں دیوان و مختار تھے۔ صحیفہ خوش نویساں ص 18۔ (اسماعیل) 2۔ بدر الدین علی خاں مہر کنی کے ساتھ اعلیٰ درجہ کے خوش نویس بھی تھے۔ ’’ مرصع رقم ‘‘ ان کا لقب تھا۔ نہایت ذہین و طباع اور صاحب علم و ہنر تھے۔اگرچہ چھ قسم کے خطوط نہایت خوش خط لکھ سکتے تھے مگر نستعلیق میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے ۔ مہر کنی میں ایسا کمال حاصل کیا تھا کہ ان کے معاصرین میں کوئی ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ عربی ، فارسی ، ہندی ، سنسکرت اور انگریزی کی بے نظیر مہریں کھودنے اور دریبہ کلاں دہلی میں اپنے مکان پر کام کرتے تھے اور سارے ملک میں بڑی عزت کے ساتھ شہرت رکھتے تھے ۔ باوجود صاحب کمال ہونے کے ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کے شائق رہتے تھے۔ اس غرض کے لیے انہوں نے تمام مشہور خوش نویسوں کے خطوطط کے نمونے بڑی تلاش سے فراہم کر کے اپنے پاس رکھے تھے اور ان سے ہمیشہ بصیرت حاصل کرتے رہتے تھے۔ تیرہویں صدی ہجری کے مایہ ناز خوش نویس تھے ۔ صحیفہ خوش نویساں ص 92۔ (اسماعیل) (9)مصوران 1۔۔ غلام علی خان مصور بے مثال و مانند و پیکر آرائے بے شبہ و نظیر ، رنگینی ارژنگ مانی ان کے نقش سادہ کے مقابل خجل اور آب و رنگ کارنامۂ بہزاد ان کی سیاہ قلم کے سامن منفعل ، نقاش بہار نے ہر چن تصویر چمن کی لعلی شقائق اور سفید آب نسترن سے بنائی ان کے گروہ نے نقش و نگار کے آگے رونق نہ پائی ۔ ایسا قادر اس فن میں صفحۂ روزگار پر نہیں پیدا ہوا کہ دیدۂ نرگس کی تصویر کا بویا اور مردم چشم ان کے مرقع نہر میں آشنا۔ دیدۂ مور کے پردہ پر کرۂ عالم کی تصویر اس طرح بنائی کہ منجمان رصد بند گردش افلاک و اوضاع کوا کب کو بہ تفصیل اس میں مشاہدہ کر سکتے ہیں اور نقطۂ موہوم پر نقشہ کون و فساد کا ایسا کھینچا ہے کہ فکر حکیم استحالۂ اجسام اور تکون موالید اور حصول ترکیب اور تغیر فصول کو کماہی اس سے دریافت کر سکتا ہے۔ گل کی نرمی اور خار کی درشتی ان کی تصویر سے مشہود حیوان کی حرکت اور نبات کا نمو ان کے نقشے میں موجود ۔ (یہ مصوری کے ساتھ دہلی کے مشہور خوش نویس بھی تھے اور شاہی ملازمت میں منسلک تھے۔ خوش اخلاق ، خوش وضع ، علم مجلسی کے ماہر اور نہایت خوش تقریر تھے۔ بارہویں صدی ہجری کے خوش نویس اور مصور تھے۔ (صحیفہ خوش نویسان ص 142)(اسماعیل) 2۔ فیض علی خاں کہیں برادر حقیقی ہیں غلام علی خاں موصوف کے ۔ مانی ان کا قلم بند و صدف دار اورب ہزاد ان کی طرح کا چربہ شمع ان کی تصویر کی بزم افروز اور آتش ان کے نقشہ کی عالم سوز۔ ازبسکہ مزاج صلاح و تقویٰ کی طرف بہت مائل ہے۔ جان دار کی تصویر سے تائب ہو کر فقط نقشۂ مکانات پر قناعت کی۔ سبحان اللہ اس کام کو اس طرح سے سر انجام دیا اور اس امر کو ایسا انصرام پہنچایا کہ بیان اس کا احاطۂ تحریر سے باہر ہے۔ 3۔ مرزا شاہ رخ بیگ فن تصویر میں نہایت کامل اور اقران و امثال سے اس کام میں گو ۔ سبقت لے گئے۔ مژۂ چشم حور اگر ان کا موقلم بنے بجا ہے اور بیاض گردن پری اگر ان کا صفحہ ہو تو زیبا ہے۔ کل نقشے اس کتاب کے فیض علی خاںموصوف اور ان کی استعانت سے مرتب ہوئے ہیں۔ کام ان نقشوں کا نمونہ ان کی صنعت کا ہے۔ 4۔ محمد عالم استاد فن ہے اور اس امر کے دقائق سے آگاہ ، وضع قدیم کی تصویر جیسی اس سر کردہ اہل کمال کے قلم سے کھینچ سکتی ہے اور کی مجال نہیں۔ (10)ارباب موسیقی 1 ۔ ہمت خاں باربدان کا شاگرد کہیں اور نکیسا اس کا تلمیذ کمترین ، یہ زبدۂ کملائے روزگار اس صنعت میں اپنے عہد میں کوس لمن الملکی مارتا تھا۔ سب ارباب نغمہ اس کے نام سے اپنا کان پکڑتے تھے۔ دہرپد کے گانے میں اس کا نظیرنہ تھا ۔ اگر تان سین زندہ ہوتا زانوئے شاگردی تہ کرتا اور اگر بیجوبا ورا قید حیات میں ہوتا خط غلامی لکھ دیتا۔ ہر چند اطراف عالم سے رؤسائے ذوی الاقتدار اور راجہ ہائے عالی تبار نہایت آرزو سے بہ طمع زر خطیر خط لکھ کر تمنا کرتے تھے کہ یہ صاحب کمال قصد ان کی ملازمت کا کرے ، باستعانت استغنائے خدا داد جو ارباب کمال کے لوازم ذاتیہ سے ہے ، تمام عمر ان کی طرف منہ نہ کیا اور دلی سے قدم باہر نہ رکھا۔ جو نغمہ سرا کہ ممالک دور دست سے مدعی اس فن کا ہو کر وارد شاہجہاں آباد ہوا اس کی ایک تان کے سنتے ہی نہ تال کی خبر رہی نہ سر کی اور اس کے قدم کی خاک کو اپنی آنکھ کا کحل الجواہر بنایا۔ حضرت بابرکت شاہ محمد نصیر صاحب مرحوم سجادہ نشین خلافت حضرت خواجہ میر درد علیہ الرحمۃ کے سامنے بنا پر رسم مستمرہ کے دوسری اور چوبیسویں ہر مہینے کو مجلس نغمہ گرم کیا کرتا تھا اور درو دیوار اس کے الحان داؤدی سے مست ہو جاتے تھے اور از بسکہ درد باطن اور لذت فقر کی چاشنی اس مستغنی الاوصاف کے گلوی حال میں پہنچی ہوئی تھی اس نغمہ کو ایک اور ہی کیفیت بہم پہنچی تھی اور یہ کلام مولانا روم علیہ الرحمۃ۔ بشنو از نے چوں حکایت می کند وز جدائی ہا شکایت می کند کز نیستان تا مرا ببریدہ اند از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند اسی ماہر کامل کے نائے گلو کی شان میں صادق آتا تھا۔ عرصہ چند سال کا ہوتا ہے کہ اس عالم عنصری سے انقطاع تام کیا اور بزم جنت میں خرامان ہوا۔ 2۔ راگ رس خان فن بین نوازی میں یکتائے روزگار اور یگانۂ شہرو دیار ، اس کی بین کا ہر تار شیرازۂ کتاب معرفت تھا۔ جیسا ہمت خاں فن نغمہ میں اپنا مثل نہ رکھتا تھا یہ صاحب کمال بین نوازی میں اپنا نظیر نہ رکھتا تھا۔ ہمت خاں کے ساتھ دوسری چوبیسویں حضرت موصوف مرحوم کے روبروی صحبت بین نوازی سے گوش شوق کو ممنون اور سامعۂ تمنا کو مرہون کرتا تھا۔ چند سال گزرے کہ عالم فانی سے عالم باقی کو راہی ہوا۔ 3۔ میر ناصر احمد والد ان کے سادات عظام سے تھے اور اتفاق زمانہ سے ہمت خاں مرحوم موصوف کی دختر بلند اختر سے منسوب ہوئے چونکہ اس صاحب کمال نے اپنے نانائے مرحوم کی صحبت میں رشد و بلوغ بہم پہنچایا۔ اس کے فیض تربیت سے فن موسیقی میں یکتائے عہد ہو گیا۔ وہ مغفور فن نغمہ سرائی میں مشہور روز گار تھا ، یہ یکتائے زمانہ نغمہ سرائی اورب ین نوازی دونوں میں معروف روزگار ہوا اور ان دونوں کاموں کو ایسا کیا کہ گوش اہل روزگار نے کہن ترانہ ہائے سابقین کو فراموش کیا اور کملائے دہر کو یہ اعتقاد ہے کہ جیسا ان چیزوں کو انہوں نے برتا اساتذہ ٔ سلف کو مجال نہ تھی کہ اس کے عشر عشیر پر بھی قادر ہو سکتے۔ اپنے نانا کی وفات کے بعد بدستور قدیم حضرت خواجہ محمد نصیر صاحب مرحوم کے سامنے یہ بھی نغمہ سرائی اور بین نوازی انہیں دونوں تاریخوں میں کرتے رہے اورب عد ان کی وفات کے حضرت سراسر افادیت جانشین شاہ محمد نصیرغفر اللہ لہ شرف خلف یادگار سلف مولانا و بالفضل اولانا مولوی یوسف علی کے سامنے جو لائق سجادہ نشین خاندان موصوف بل اس امر کے واسطے الیق ہیں ، وہ ہی مجلس اس کامل کے وجود سے مزین ہوتی رہی۔ اگ گردش آسیائے گردون سے بہ تقریب تلاش رزق نواح صوبۂ اودھ کی جانب روانہ ہوئے ہیں۔ 4 ۔ بہادر خاں ستار زن فن ستار نوازی میں یگانۂ روزگار۔ اس کی صدا سے در و دیوار تصویر کا عالم بہم پہنچاتے تھے۔ یہ فقرہ کہ ’’ مرغ از طیران و آب از جریان باز دارد ‘‘ اسی ماہر کامل کی ذات پر صادق آتا تھا۔ پانچ چھ برس کا عرصہ ہوا کہ عالم باقی کی طرف سفر آخرت اختیار کیا۔ 5۔ رحیم سین ستار زن یہ صاحب کمال اشرف اولاد میاں تان سین ہے ، صدائے تار اس کے ستار کی الحان داؤدی سے خبر دیتی ہے ۔ چھ راگ اور چھتیس راگنی اس کے تار ساز کے بال باندھے غلام و کنیز ہیں۔ نواب فیض محمد خاں والی جھجر نے کمال قدردانی سے اپنی ملازمت میں رکھا تھا اور بعد اس کی وفات کے نواب فیض علی خاں مرحوم نے کہ بذریعۂ وراثت والی اس ریاست کا ہوا ، بدستور قدر شناسی اس زبدۂ کملائے عصر کی کرتا رہا۔ اب جو وہ ریاست عبدالرحمان خاں پسر نواب مرحوم تک منتقل ہوئی یہ رئیس بھی اس صاحب کمال کی قدر دانی میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتا۔ واقع میں ایسے یکتائے روزگار عرصہ عالم میں کم جلوہ گر ہوتے ہیں۔ 6۔ نظام خاں دہرپد سرائی میں بے مثل و مانند ادنی شاگردان کا تان سین و بیجوباورے کو خیال میں نہیں لاتا تھا۔ عرصہ قلیل ہوا کہ شبستان عالم بغیر اس کے وجود عشرت آمود کے ماتم سرا ہو گئی۔ 7 ۔قائم خاں دہرپد نوازی میں ایسا کامل تھا کہ مقامات دوازدہ گانہ راگ کو کہ کمال صعوبت سے ہفت خوان رستم کا حال رکھتے ہیں ، اس کے انفاس معجزہ اساس نے بآسانی سر کیا تھا۔ عہد آدم سے اس دم تک ایسا ماہر پیدا نہیں ہوا اور اس زمانہ سے نفخ صورتک اس کے نظیر کا پیدا ہونا متصور نہیں۔ عرصہ چند سال سے عالم فانی سے کوچ کیا۔ 8۔ گلاب سنگھ پکھاوجی جامع تھا فنون شتیٰ موسیقی کا ، ہاتھ اس صاحب کمال کا پکھاوج کے بجانے میں ایسا طیار تھا کہ اس کے ہاتھ کی ایک جنبش میں سوراگ آنکھوں کے سامنے پھر جاتے تھے اور ستار نوازی کو گویا اسی نے از سر نو زندہ کیا تھا۔ سوا اس کے جلترنگ کے بجانے میں ید طولیٰ رکھتا تھا۔ عرصہ دراز ہوا کہ سفر آخرت کا اختیار کیا اور عین جوانی میں داغ مرگ سینہ پر لے گیا۔ کار بسیار و اندک است حیات عمر در خورد کار بایستی 9۔ مکھوا پکھاوجی پکھاوج بجانے میں یکتائے عصر اور یگانۂ دہر ، باتفاق کہتے ہیں جو صحت اس کے ہاتھ میں ہے نہ سلف کو میسر ہوئی نہ خلف کو۔ الحمدللہ کو یہ کتاب تمام ہوئی اور دست و قلم جو گردش دائمی اور گریۂ مدام سے فارغ نہ تھے ، آسودہ ہوئے۔ فکر کو تسکین اور طبیعت کو اندیشہ سے آسودگی بہم پہنچی۔ خدا کرے کہ مقبول طبع صاحب نظر ان پرہنر ہو۔ صد شکر کہ ایں نگار خانہ بگرفت طراز جاودانہ بت خانۂ ہند را دراست ایر ناقوس ہزار پیکر است این ٭……٭……٭ قول متین در ابطال حرکت زمین مصنفہ سید احمد خان منصف شاہجہاں آباد حرسہا اللہ عن الفساد مطبوعہ مطبع سید الاخبار باہتمام سید عبدالغفور 1265ہجری نبوی صلعم (مطابق ) 1848عیسوی ٭……٭……٭ قول متین در ابطال حرکت زمین زمانہ قدیم کے حکماء اور علماء شروع سے متفقہ طور پر یہ یہ مانتے آئے تھے کہ ہماری یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں بالکل ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے۔ مگر جدید سائنس نے جہاں اور بہت سے قدیم نظریات کو باطل کر دیا وہاں قوی ترین اور جدید ترین آلات رصد کے ذریعہ یہ بات بھی ثابت کر دی کہ سورج کی گردش اور زمین کے ساکن ہونے کا مسئلہ غلط تھا۔ اب معاملہ بالکل الٹ ہے یعنی اب علم الارض کے ماہر اور علمائے سائنس یہ کہتے ہیں کہ زمین مع اپنے تمام متعلقات کے بڑی تیزی کے ساتھ سورج کے گرد گھوم رہی ہے اور سورج ساکن ہے۔ سرسید نے چونکہ قدیم ماحول میں آنکھ رکھولی تھی ، لہذا سورج اور زمین کی گردش کے متعلق قدیم نظریہ پر مضبوطی سے قائم تھے۔ نئے ماحول میں جب انہوں نے یہ پڑھا کہ زمانہ حال کا سائنس داں زمین کو متحرک مانتا ہے۔ اور سورج کو ساکن ، تو چونکہ قدیم خیالات دل میں رچے ہوئے تھے لہذا انہوں نے فوراً یہ رسالہ لکھا جس میں دلائل کے ساتھ زمین کی حرکت کا بطلان ثابت کیا۔ مگر زمانہ کا اثر اتنا زبردست تھا کہ بالآخبر سر سید کو اپنا پہلو خیال بدلنا پڑا اور وہ بعد میں حرکت زمین کے قائل ہو گئے تھے۔ یہ رسالہ جس کا نام قول متین در ابطال حرکت زمین ہے۔ سر سید نے اس وقت لکھا تھا جب کہ جدید خیالات کا ان پر بالکل اثر نہ پڑا تھا اور وہ قدیم رنگ میں رنگین تھے۔ اس رسالہ کی تصنیف کے وہ قدیم رنگ میں رنگین تھے۔ اس رسالہ کی تصنیف کے وقت ان کی عمر 31 برس کی تھی اور یہ ان کی قدیم ترین تصنیف ہے۔ یہ رسالہ قطعاً نایاب تھا۔ بڑی تلاش کے بعد ملا ہے اور سر سید کی یاد گار کے طور پر شائع کیا جا رہا ہے۔ (محمد اسماعیل) اللہ اور اللہ کے رسول کی حمد و نعمت کے بعد یہ التماس ہے کہ ان دنوں میں بعضے احباب نے یہ خواہش کی کہ گردش زمین کے بطلان پر کچھ دلیلیں لھی جاویں تاکہ لوگ اس سر گردانی سے کہ آیا زمین کو گردش ہے یا آسمان کو کنارہ سکون پر پہنچ کر آرام سے بیٹھیں۔ اس واسطے یہ خاکسار ایک تقریر مختصر بطلان حرکت زمین پر بیان کرتا ہے اس کو کان دہر کر سنئے اور یہ بھی جان لیجئے کہ بعضی کتابوں میں جو یہ بات لکھی ہے کہ زمین کی وضعی بطی حرکت کے بطلان پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوئی تو اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ قواعد علم ہیئت یا اعمال رصد سے بطلان حرکت ارض پر کوئی دلیل نہیں بلکہ موافق قواعد عقلید ، حکمیہ ، طبیعیہ کے زمین کی مطلق حرکت کے بطلان پر دلیلیں قائم ہیں جن مرتفع ہونا نہایت کٹھن بلکہ غیر ممکن ہے اور یہی سبب ہے کہ یونانی حکیم زمین کی گردش کے قائل نہیں ہوئے الاماشاء اللہ ، اور جو لوگ کہ گردش زمین کے قائل ہیں ان کے کان تک وہی اعتراض پہنچے ہیں جن کو خود یونانی حکیموں یا ان کے متبعوں نے رد کر کردیا ہے اور یہامر زیادہ تر ان کے یقین کا باعث ہوا۔ اس واسطے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ان اعتراضوں کو مع ان کے جوابوں کے بیان کر دوں تاکہ پھر کوئی اس مغالطہ میں نہ پڑے۔ بعضے لوگ کہتے تھے کہ اگر زمین کو گردش ہے تو چاہیے کہ جو پتھر سیدھا اوپر کو اوچھالیں تو پھر وہ پتھر سیدھا وہاں انکر نہ پڑے جہاں سے کہ اچھالا تھا بلکہ مغرب کی طرف گرے کیوں کہ جتنی دیر میں کہ پتھر اوپر گیا اور نیچے آیا اتنی دیر میں زمین مشرق کی طرف چلی گئی ہے اور اسی طرح اگر دو پتھر ایک جانب شمال اور ایک جانب جنوبی بخط مستقیم پھینکے اور جہاں کہ وہ پتھر جا کر گریں تو ان دونوں کے گرنے کی جگہ اور پھینکنے کی جگہ پر خط مستقیم نہ کھینچ سکے گا کیوں کہ جتنی دیر میں کہ دونوں میں پتھر جا کر زمین پر گرے ہیں اتنی دیر میں زمین حرکت کر گئی ہے اور اسی طرح جو چیز کہ زمین کی اس سمت کو اڑ کر حرکت کرے جس سمیت کو زمین حرکت کرتی ہے تو چاہیی کہ اس اڑنے والی متحرک چیز کی حرکت سست معلوم ہو اور جو چیز کہ اس کی مخالف سمت پر اڑ کر حرکت کر ے تو چاہیے کہ اس کی حرکت بہت تیز اور جلد معلوم ہو ، بلکہ زمین کی حرکت ماننے سے یہ لازم آتا ہے کہ کوء یچیز اڑتی ہوء یمشرق کی طرف متحرک ہی معلوم نہ ہو کیوں کہ مشرق کی طرف تو اڑان چیز کا جانا جب معلوم ہوا تب اس کی حرکت زمین کی حرکت سے بڑھتی ہو اور جہان میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ زمین سے زیادہ تیز رو ہو کیوں کہ اگر زمین کی حرکت مان لی جاوے تو ایک گھنٹہ میں ہزار میل زمین کا چلنا مانا جاوے گا۔ پس ایسی تیز رو کون سی چیز ہے جو اس سے بھی زیادہ جلد چلے بلکہ اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ جو چیز کہ اڑ کر مشرق کو جاوے مغرب کی طرف چلتی ہوئی معلوم ہو کیوں کہ اڑنے والی چیز زمین کے جس مقام پر سے اڑی ہے وہ مقام بسبب تیز رفتار زمین کے بہت آگے بڑھ جاوے گا۔ اور وہ اڑنے والی چیز پیچھے رہتی جاوے گی اور مغرب کی طرف چلتی ہوئی معلوم ہو گی اور یہ سب باتیں تجربہ کے خلاف ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ لازم باطل ہے تو ملزوم یعنی گردش زمین کی جس سے یہ سب باتیں لازم آتی تھیں وہ بھی باطل ہے ۔ اور اسی قسم کی اور بہت سی باتیں بنایا کرتے ہیں لیکن ان لوگوں کے ان سب اعتراضوں کو خود حکمائے یونان اور ان کے متبعوں نے نہیں مانا اور یہ جواب دیا کہ ہو سکتا ہے کہ زمین کی حرکت کے سبب ہوا بھی ان سب چیزوں سمیت جو کہ اس میں ہیں حرکت کرتی ہو تو یہ سب چیزیں جو کہ ہوا میں ہیں زمین کی حرکت کے برابر اسی طرف کو جس طرف کہ زمین حرکت کرتی ہے بالعرض حرکت کرتی ہوں جیسے کہ فلک الافلاک کی حرکت سے ذوات الاذناب کی حرکت مانی گئی ہے اور جو جواب سوال کہ ان کی حرکت پر ہیں ان کے بیان کرنے کا یہ موقعہ نہیں غرض کہ زمین کی حرکت قبول کرنے کے سبب وہ سب چیزیں زمین کے جس مقام سے جدا ہوئی ہیں اس کے محاذات کو نہ چھوڑیں گی مگر بقدر اپنی ذاتی حرکت کے ۔ اور جب یہ بات ٹھہر گئی تو اب ان اعتراضوں میں سے کوئی اعتراض بھی باقی نہیں رہا ۔ اس جواب پر بعضے لوگوں نے پھر اعتراض بھی باقی نہیں رہا۔ اس جواب پر بعضے لوگوں نے پھر اعتراض کیا ہے کہ ہم یہ بات نہیں مانتے کہ زمین کے ساتھ ہوا اور جو کچھ کہ ہوا میں ہے چلا چلتا ہے ، اس واسطے کہ اگریہ بات ہوتی تو چھوٹے بڑے پتھر ایک حال پر نہ گرتے۔ اس واسطے کہ بڑے پتھر میں تو ہوا کی حرکت کم اثر کرتی اور چھوٹے پتھر میں بہت اثر کرتی تو بڑا پتھر چھوٹے پتھر کی بہ نسبت غرب کی طرف گرتا اور یہ بات نہیں ہوتی۔ تو معلوم ہوا کہ زمین کے ساتھ ہوا بھی حرکت نہیں کرتی اور جب ہوا نے حرکت نہ کی تو جو کچھ کہ اس میں ہے وہ بھی حرکت نہیں کرتی مگر اس اعتراض کو بھی حکمائے یونان نے نہیں مانا اور یوں اس کا جواب دیا کہ یہ تفاوت جب ہوتا جب ان دونوں پتھروں کی حرکت قسری جو ذاتی کی قسم ہے مانی جاتی ہے حالاں کہ ان کی حرکت عرضی مانی گئی ہے جو ذاتی کے مقابل ہے یعنی یوں کہا گیا ہے کہ ہوا کے ساتھ چلے چلتے ہیں اور عرضی حرکت میں کچھ تفاوت چھوٹے بڑے ہونے میں نہیں ہو سکتا کیوں کہ اگر ایک کشتی میں بہت اچھا تیز رو گھوڑا ہو اور اسی کشتی میں ایک بچاری شکستہ پا جوں بیٹھی ہو تو وہ دونوں کشتی کے چلنے کے سبب برابر چلیں گے۔ کچھ تفاوت نہیں ہونے کا۔ علاوہ ان قدیم اعتراضوں کے ان دنوں میں ایک نیا اعتراض بطلان حرکت ارض پر سننے میں آیا کہ نہ کبھی اس اعتراض کو کسی کتاب میں آنکھ نے دیکھا تھا اور نہ کبھی کان نے سنا تھا۔ آنکھ اور کان تو در کنار کچھ وہم و گمان بھی نہ آتا تھا معلوم نہیں کہ کس معلم اول اور حکیم اکمل نے یہ اعتراض کیا ہے اگرچہ اس اعتراض کا اعادہ بھی خالی نادانی سے نہیں مگر لاچار تقریباً بیان کیا جاتا ہے کہ بعضے معترض یہ اعترض کرتے ہیں کہ اگر زمین کو گردش ہوتی تو تمام شہر اور مکانات بھی متحرک ہو جاتے اور گردش میں آجاتے اور دلی اکبر آباد میں چلی جاتی اور اکبر آباد الہ آباد میں اور دلی کی جامع مسجد متھرا میں چلی جاتی اور متھرا کی عبدالنبی خاں کی مسجد اکبر آباد میں جا پہنچتی اور اکبر آباد تاج بی بی کا روضہ الہ آباد جا داخل ہوتا ہے یہ اعتراض کا ہے کو ہے ظرافت ہے اور اس کے جواب کی طرف متوجہ ہونا سفاہت۔ اس واسطے صرف اسی بیان پر اکتفا کیا گای مگر ہاں البتہ اتنا دل چاہتا ہے کہ اگر اس اعتراض کا معترض ملے ، اس سے پوچھوں کہ میاں صاحب تمہارے چلنے میں کبھی ایسا ہی ہوا ہے کہ تمہارا سر پاؤں میں آگیا ہو اور تمہاری ناک منہ میں اور تمہارا ہاتھ کولے میں اور تمہاری ٹانگ مونڈے میں … اگر یہ نہیں ہوا تو آپ بچاری غریب ڑی زمین کے انجر پنجر کیوں ہلا دیتے ہیں۔ ہیں غرض کہ جو باطل اعتراض بطلان حرکت زمین کے لوگوں کے ذہن میں ہیں ان کے باطل ہونے کے سبب ان لوگوں کو حرکت زمین پر زیادہ یقین ہوتا جاتا ہے اور یوں سمجھتے ہیں کہ ان اعتراضوں کا بطلان یونانی حکماء کے ذہن میں نہیں آیا اور یہ بات غلط ہے۔ بلکہ ان اعتراضوں کو خود حکماء یونان نے باطل سمجھ رکھا ہے اور جس سبب سے کہ وہ لوگ حرکت ارض کے قائل نہیں ہوئے وہ اور ہی سبب ہے کہ اگر اس پر انصاف سے نظر کی جاوے تو حرکت ارض کا باطل ہونا ایسا صاف روشن ہو جاویے جیسے کہ چلچلاتی دھوپ میں آفتاب۔ سنا گیا ہے کہ جناب غفران مآب مولانو مولوی شاہ رفیع الدین علیہ الرحمۃ کہیں برادر جناب جنت مآب مولانا شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بطلان حرکت ارض پر ایک سو دس دلیلیں قائم کی ہیں مگر افسوس ہے کہ وہ رسالہ ملتا نہیں باوجود ے کہ ان دنوں میں بہت سعی کہ مگر دستیاب نہیں ہوا افسوس صد افسوس کہ اگر وہ رسالہ مل جاتا تو اس رسالہ کو اور ہی لطف حاصل ہوتا اور حق یہ ہے کہ اگر تمام حالات کو جو ہیئت میں پیش آتے ہیں خصوصاً حالات خمسہ متحیرہ پر غور کی جاوے تو حرکت زمین کے ماننے پر بہت سے عقدہ پیش آتے ہیں جن کی گرہ کشائی ناخن عقل سے غیر ممکن ہوتی ہے مگر میرے ذہن میں جو دو تین دلیلیں صرف بطلان حرکت زمین پر اس وقت موجود ہیں ان کو بیان کرتا ہوں اور اگرچہ دلیلیںتعداد میں قلیل ہیں لیکن دوربینوں کے نزدیک یقین ہے کہ بسبب بلند مرتبہ ہونے کے کثیر التعداد سے اعلیٰ اور افضل اور بہتر ہوں فقط۔ پہلی دلیل آپ میری بات سنئے کہ اگر زمین کو متحرک مانا جاوے تو قوۃ محرکہ بھی ضرور ماننی پڑے گی کیوں کہ فعل کا بغیرفاعل کے ہونا محالات سے ہے اور خود اس جسم کا جسم ہونا اپنا محرک ہونا نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر جسم بسبب جسم ہونے کے متحرک ہو تو لازم آتا ہے کہ جتنے جسم جہان میں ہیں وہ ہمیشہ متحرک رہا کریں اور پچھلی بات تو غلط ہے پس پہلی بات بدرجہ اولی غلط ہو گی اور جب قوۃ محرکہ زمین کے لیے مان لی گئی اور زمین کو متحرک بھی مانا تو اب دو حال سے خالی نہیں یا یہ کہ وہ حرکت فی الحقیقۃ زمین ہی کو حاصل ہوتی ہے یا نہیں ہوئی بلکہ در حقیقت تو اس چیز کو حاصل ہوئی ہے جو اس سے ملی ہوئی ہے اور اس کی حرکت کے سبب زمین بھی حرکت کرتی ہے پہلی حرکت تو ذاتی ہے اور دوسری عرضی اور ذاتی حرکت کی تین قسمیں قسری ، ارادی ، طبعی۔ اس واسطے کہ قوۃ محرکہ یا تو خارج سے حاصل ہوئی ہے یا نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی ہے تو وہ قسری ہے اور اگر نہیں ہوتی تو وہ دوو قسم ہے یا یہ کہ اس متحرک کو خود شعور اور ارادہ ہے کہ سونچ سمجھ کر اور جان بوجھ کر اپنے قصد اور ارادہ سے حرکت کرتا ہے یا نہیں ہے اگر ہے تو حرکت ارادی ہے اور اگر نہیں ہے تو وہ حرکت طبعی ہے پس اس دلیل عقلی انحصاری سے جو دائر ہے درمیان نفی اور اثبات کے ثابت ہو گیا کہ حرکت ان چار قسموں کے سوا نہیں ہو سکتی۔ اب اگر زمین کی حرکت مانی جاوے تو چار حال سے خالی نہ ہو گی یا عرضی مانی جاوے گی یا ارادی یا قسری یا طبعی۔ اب ہم کہتے ہیں کہ تم نے یوم بلیلہ مغرب سے مشرق کو زمین کی مانی ہے اور کہتے ہو کہ زمین رات دن میں اپنے مرکز ثقل کے گرد مستدیر حرکت کر کر دورہ تمام کرتی ہے ، تو اب ہم کہتے ہیں کہ یہ حرکت ارض کی حرکت عرضی تو نہیں ہو سکتی کیوں کہ تمہارے نزدیک بھی یہ بات مسلم ہے کہ زمین کسی دوسری چیز پر دہری ہوئی ہے کہ اس دوسری چیز کی حرکت کے سبب حرکت کرتی ہو پس مسلم ہو گیا کہ ارض کو حرکت عرضی تو نہیں۔ اب ہم کہتے ہیں کہ زمین کو حرکت ارادی بھی نہیں ہو سکتی کیوں کہ اس بات کو تم بھی مانتے کہ زمین کو شعور اور ارادہ اور قصد نہیں ہے اور جب اس کو ارادہ نہ ہوا تو ثابت ہوا کہ اس کو حرکت ارادی بھی نہ ہو گی اس واسطے کہ جب ارادہ بھی نہ ہوا تو ارادی حرکت کہاں سے ہو گی۔ پس یہ ہی مسلم ہو گیا کہ زمین کو حرکت ارادی بھی نہیں۔ اب ہم کہتے ہیں کہ یہ حرکت یو بلیلہ کی جو تم نے زمین کو مانی ہے حرکت قسری بھی نہیں ہو سکتی اس واسطے کہ اس بات کو بھی مانتے ہو کہ زمین کواپنے محوورں پر حرکت دینے والی کوئی چیز خارج سے نہیںہے۔ یعنی زمین کو اس شبانہ روزی حرکت کے لیے قوۃ محرکہ خارج سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی طبیعت میں یہ بات رکھ دی ہے پس یہ بھی مسلم ہو گیا کہ زمین کو حرکت شبانہ روزی کی حرکت قسری بھی نہیں۔ اب باقی رہ گئی حرکت طبعی وضعی ، اب ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ زمین کو حرکت طبعی وضعی بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ زمین کی ذات مبدۂ میل مستقیم کا ہے اور جس چیز کی ذات میں مبدء میل مستقیم کاہوتا ہے وہ مستد پر حرکت نہیں کر سکتی۔ تو اب نتیجہ یہ نکلے گا کہ زمین بھی مستدیر حرکت نہیں کر سکتی اور یہی ہمارا مطلب ہے مگر اس مطلب کے مستحقق ہونے کو ہمارے تئیں لازم ہے کہ دو باتوں کو دلیل عقلی سے ثابت کر دیں۔ ایک یہ کہزمین کی ذات میں مبدء میل کا مستقیم کا ہے دوسری یہ کہ جس کی ذات میں مبدء میل مستقیم کا ہوتا ہے وہ مستدیر حرکت نہیں کر سکتی۔ پہلی بات کے ثابت کرنے کو ہم یہ بات کہتے ہیں کہ زمین بالطبع مرکز کی طرف سیدھی حرکت کرنے پر مائل ہے جیسے کہ ہم ظاہر میں اس کے اجزاء میں دیکھتے ہیں کہ جب مٹی کے ڈھیلے کو اوپر سے چھرڑیں تو سیدھا نیچے جو جاتا ہے اور اگر یہ بات کہو کہزمین میں بالطبع سیدھی حرکت کرنے کامیل نہیں ہے تو ہم کہتے ہیں کہ مٹی کے ڈھیلے کا اوپر سے نیچے آنا تین حال سے خالی نہیں ۔یا یہ کہ کوئی چیز اسے دفع کرتی ہے یا کلیۃ زمین کی اسے کھینچتی ہے یا وہ خود کلیۃ ارض کا طالب ہے۔ اب ہم کہتے ہیں کہ کسی چیز کا دفع کرنا یا کلیۃ ارض کا اسے کھینچنا یہ دو باتیں تو باطل ہیں۔ نہیں تو لازم آتا ہے کہ چھوٹا ڈھیلا بڑے ڈھیلے سے جلد گر پڑتا کیوںکہ قوۃ دفع دافع کی یا جذب زمین کی تو ہر ایک کی نسبت برابر ہے پس تو چاہیے کہچھوٹی چیز میں وہ قوۃ زیادہ اثر کرے اور بڑی میں کم جیسے کہ قوۃ پتھر پھینکنے والے یا گھسیٹنے والے کی میں مشاہدہ ہوتا ہے کہ اگر پتھر پھینکنے والا چھوٹے پتھر کو پھینکے تو دور جاوے گا اور اگر بڑے کو پھینکے تو ورے کو گرے گا ، یا یہ کہ اگر پتھر کھینچنے والا چھوٹے پتھر کو کھینچے تو جلد کھچ آوے گا اور بڑے پتھر کو کھینچے تو دیر کو کھینچے گا حالاں کہاس کے برخلاف ہوتا ہے یعنی بڑا ڈھیلا جلد گرتا ہے اور چھوٹا دیر کر اور اگر یہ بات کہو کہ چھوٹے ڈھیلے کو جلد گرنے سے ہوا مانع آتی ہے اور بڑے کو نہیں آتی تو ہم کہیں گے کہ یہ تمہاری دلیل اس جگہ باطل ہو جاوے گی کہ جب ہم کسی آلہ کی استعانت سے ہوا کو حتی المقدر ایک جگہ سے نکال لیں گے یہاں تک کہ ہوا اتنٓی ضعیف اور خفیف رہ جاوے گی کہ وہ کسی ثقل کو مانع نہ آسکے گی تو چھوٹی چیز اور بڑی چیز دونوں برابر گریں گے اور حالاں کہ اس وقت یہ بات چاہیے تھی کہ چھوٹی چیز بسبب اس کے کہ قوۃ دفع دافع یا جذب زمین کی اس میں زیادہ تاثیرکرتی ہے جلد زمین پر گرتی اور یہنہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ ڈھیلے کا میل زمین کے مرکز کی طرف نہ دفع کسی دافع سے ہے اور نہ جذدب زمین سے بلکہ خود اس میں مبدء میل طبعی کا ہے اور جب یہ دونوں باتیں باطل ہو چکیں تو اب تیسری بات بھی باطل ہو گئی یعنی ڈھیلا خود بھی کلیۃ ارض کا طالب نہیں ہے اس واسطے کہ اگر یہ بات ہوتی تو لازم آتا کہ جب ڈھیلا کنوئیں کے کنارے کے برابر پہنچا کرتا تو ٹھہر جاتا کیوں کہ جس چیز کا طالب تھا اس کی حد تک پہنچ چکا اور یہ نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ وہ خود بھی کلیہ زمین کا طالب نہیں ہے اورجب یہ تینوں باتیں باطل ہو گئیںؒ تو ہمارا مطلب ثابت ہو گیا کہ ڈھیلوں میں بالطبع مبدء میل مستقیم کا مرکز کی طرف ہے اور جو کہ کل اجزاء سے مرکب ہوتا ہے اور اس واسطے ساری زمین میں بھی بالطبع مبدء میل مستقیم کا مرکز کی طرف ہے۔ اس دلیل سے ہماری پہلی بات ثابت ہو گئی۔ اب ہم دوسری بات کو ثابت کرتے ہیں کہ جس میں مبدء میل مستقیم کا ہے اس میں مبدء میل مستدیر کا نہیں ہو سکتا یعنی وہ شے مستدیر حرکت نہیں کر سکتی اور نہیں تو لازم آتا ہے کہ ایک طبیعت دو مخالف اثروں کو چاہیے۔ اس واسطے کہ حرکت مستقیم جسم کو کسی طرف لے جانا چاہتی ہے اورحرکت مستدیر جسم کو کسی طرف لے جانا نہیں چاہتی اور یہدونوں آپس میں مخالف ہیں اور ایک طبیعت سے دو مخالف اثروں کا ہونا محال ہے۔ پس اس دلیل سے ہماری دوسری بات بھی ثابت ہو گئی اور جب یہ دونوں مقدمے ثابت ہو چکے تو صاف ہمارا مطلب ثابت ہو گیا کہ زمین مستدیر حرکت نہیں کر سکتی۔ پس تم نے جو زمین کی حرکت شبانہ روزی مستدیر مانی تھی وہ غلط ہو گئی۔ دوسری دلیل : ہم کہتے ہیں کہ زمین کے لیے ارادہ نہیں ہے اورجس چیز کے لیے ارادہ نہیں ہوتا وہ حرکت مستدیرہ نہیں کیا کرتی۔ اس سے نتیجہ یہ نکلا کہزمین بھی حرکت مستدیرہ نہیں کرتی اور یہی ہمارا مطلب ہے مگر اس مطلب کے مستحق ہونے کو ہمارے تئیں لازم ہے کہ دو باتوں کو عقل سے ثابت کر دیں۔ ایک یہ کہ زمین کو ارادہ نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ جس چیز کو ارادہ نہیں ہوتا وہ حرکت مستدیرہ بھی نہیں کرتی پہلی بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ زمین کو ارادہ نہیں ہے چناں چہ اس کا بیان صدر رسالہ میں بمقام بیان حرکت ہو چکا۔ رہی دوسری بات کہ جس چیز کو ارادہ نہیں ہوتا وہ حرکت مستدیرہ بھی نہیں کرتی۔ اس بات کو ہم اس دلیل سے ثابت کریت ہیں کہ حرکت مستدیرہ بغیر ارادہ کے نہیں ہوتی اس واسطے کہ اگر وہ حرکت ارادی نہ ہو گی تو یا طبعی ہو گی یا قسری ہو گی کہ یہی تین قسمیں ذاتی حرکت کی ہیں اور طبعی اور قسری حرکت کا مستدیر ہونا محال ہے ۔ اس واسطے کہ حرکت طبعی اس کو کہتے ہیں کہ حالت متنافرہ سے بھاگے اور حالت ملائمہ کو طلب کرے اور حرکت مستدیرہ میں جس نقطہ سے کہ جسم حرکت کرتا ہے اسی نقطہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور جس طرف سے کہ وہ جسم بالطبع بھاگے پھر اس کی طرف بالطبع متوجہ ہونا محال ہے اور یہ یھی چاہیے کہ وہ جسم جب حالت ملائمہ پر پہنچے تو ٹھہر جاوے اورجسم جسم کو حرکت مستدیرہ ہوتی ہے وہ کسی جانب نہیں ٹھہرتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حرکت مستدیرہ طبعی نہیں ہوسکتی اور قسری حرکت کا مستدیر ہونا اس واسطے محال ہے کہ قسری حرکت اس کو کہتے ہیں کہ بسبب قسر کسی قاسر کے برخلاف میل طبعی کے ہو اور جہاں طبع نہیں ہے وہاں قسر بھی نہیں ہے۔ پس جب کہ یہ دونوں حرکتیں باطل ہو گئیں تو وہی حرکت ارادی باقی رہ گئی اور ثابت ہو گیا کہ حرکت مستدیرہ نہیں ہوتی مگر ارادی ۔ تو بس یہ بھی ثابت ہو گیا کہ جس چیز کے لیے ارادہ نہیں ہے اس کے لیے حرکت مستدیرہ بھی نہیں ہے اور یہی ہمارا مطلب تھا اور جب کہ یہ دونوں مقدمے ثابت ہو گئے تو ہمارا یہ مطلب صاف ثابت ہو گیا کہ زمین کو حرکت مستدیرہ نہیں ہے اور تم نے جو زمین کو حرکت مستدیرہ مان رکھی ہے وہ تمہارا ماننا غلط ہو گیا۔ تیسری دلیل ۔ ہیئت جدید میں علاوہ اس حرکت طبعی وضعی شبانہ روزی کے جس کا بطلان دو دلیلوں سے ہو گیا زمین کے لیے ایک اور حرکت مانی ہے یعنی حرکت سالانہ دائرہ طریق الشمس پر ، جس کو ہم منطقۃ البروج کہتے ہیں اور طریق اس حرکت کے ماننے کا ہیئت جدید میں یہ ہے کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ زمین تو بھاگتی ہے اور آفتاب اس کو جذب کرتاہے ا س سبب سے ز مین کرہ آفتاب کا دورہ کر جاتی ہے یعنی یہ حرکت بسبب قوۃ محرکہ کے جو خارج سے یعنی جذب آفتاب سے زمین کو پہنچتی ہے ہوا کرتی ہے۔ یعنی یہ حرکت سالانہزمین یک حرکت قسری ہے اور مستدیر حرکت کا قسری ہونا ابھی باطل ہو چکا ہے ۔ اس دلیل سے کہ جب اس کی طبع نہیں تو قسر بھی نہیں لیکن یہ دلیل اس مقام پر مکرر آتی تھی اس واسطے ہم نے اس کو پسند نہ کیا اور ایک اور دلیل اس کے بطلان پر یہاںبیان کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ قوی ہے اور اس دلیل کے بیان کرنے کو ہم کہتے ہیں کہ زمین کی سالانہ حرکت غیر متناہی حرکت ہے اور جو غیر متناہی حرکت ہوتی ہے وہ جسمانی قاسر سے صادر نہیں ہو سکتی تو اب نتیجہ یہ نکلا کہ زمین کی سالانہ حرکت بھی جسمانی قاسر سے صادر نہیں ہو سکتی اور یہی ہمارا مطلب ہے مگر اس مطلب کے متحقق ہونے کو ہمارے تئیں دو باتوں کا ثابت کرنا چاہیے۔ اول یہ کہ زمین کی سالانہ حرکت غیر متناہی حرکت ہے۔ دوسری یہ کہ جو غیر متناہی حرکت ہے وہ جسمانی قاسر سے صادر نہیں ہو سکتی۔ پہلی بات تو ثابت ہے اس واسطے کہ اگر زمین کی غیر متناہی حرکت نہ مانی جاوے تو متناہی مانی جاویے گی ، نہیں تو ارتفاع نقیضین لازم آوے گا اور جب متناہی مانی جاوے گی تو اس کا ختم ہونا ضروری ہو گا اور جب حرکت ختم ہو جاوے گی تو زمین ساکن ہو گی اور انقلاب فصول اور گردش ایام میں فتور عظیم واقع ہو جاوے گا اور یہ خلاف واقع ہے اور تمہارے نزدیک بھی غلط ، تو اس دلیل سے ہماری پہلی بات تو ثابت ہو گئی رہی دوسری بات۔ اس کو ہم اس دلیل سے ثابت کرتے ہیں کہ قوۃ محرکہ جسمانی اس بات پر قادر نہیں ہوتی ہے کہ دوسری چیز کوغیر متناہی حرکتیں دے سکے کیوں کہ ہر جسم قابل تجزیہ کے ہے پس قوۃ جسمانی بھی قابل تجزیہ کے ہو گی اور جب قوت جسمانی کا ہم تجزیہ فرض کریں تو اس کا ہر ایک جزو اس چیز کے کسی جزو کے حرکت دینے پر قادر ہو گا اور وہ ساری قوت اس ساری چیز کو حرکت دینے پر قادر ہو گی اور نہیں تو جزو تاثیر میں کل کے برابر ہو جاوے گا اور یہ نہیں ہو سکتا کیوں کہ جزہ ضعیف ہے اور کل قوی اور ضعیف قوی کے برابر نہیں ہوتا اور جب کہ اس طرح پر بات ٹھہر گئی تو اب وہ ساری قوۃ جسمانی غیر متناہی حرکت پر قادرنہیں ہو سکتی کیوں کہ دو حال سے خالی نہیں رہا یہ کہ اس قوۃ کا ایک جزو سب متناہی حرکت پر قادر ہے یا غیر متناہی حرکتوں پر اور غیر متناہی حرکتوں پر قادر ہونا باطل ہے کیوں کہ ساری قوت تو اس سے زیادہ پر قادر ہے اور جس پر جزو قادر تھا اگر وہ غیر متناہی ہوں تو زیادہ غیر متناہی پر لازم آتی ہے اور یہ بات محال ہے۔ اس واسطے کہ اگر غیر متناہی پر زیادتی مانی جاوے تو وہ غیر متناہی ، غیر متناہی نہیں رہتا۔ پس تو اس سے ثابت ہوا کہ جزو قوۃ جسمانی کا متناہی حرکتوں پر قادر ہے اور جب ایک جزو متناہی حرتوں پر قادر ہوا تو اس قوۃ جسمانی کا ہر ایک جزو اسی طرح حرکت متناہی پر قادر ہو گا اور جو کہ اجزاء سے مل کر کل بنتا ہے تو ساری قوۃ جسمانی بھی متناہی حرکتوں پر قادر ہو گی۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ قوۃ محرکہ جسمانی جیسا کہ شمس تھا غیر متناہی حرکتیں نہیں دے سکتی اور یہی ہمارا مطلب تھا اورجب کہ یہ دونوں مقدمے ثابت ہو گئے تو ہمارا مطلب بخوبی متحقق ہو گیا کہ زمین کی سالانہ حرکت جسمانی قاسر سے نہیں ہو سکتی اور تم نے جو زمین کی سالانہ حرکت قاسر جسمانی یعنی آفتاب سے مان رکھی ہے غلط ہو گئی ۔ فقط یہ اعتراض تو روزانہ اور سالانہ حرکت پر تھے اور ہیئت جدید نے جو تیسری حرکت زمین کی مانی ہے جس سے ثوابت کا دورہ پورا ہوتا ے ، اس کی امتناع پر اور نیز بہ نظر حالات خمسہ متحیرہ کے امتناع حرکت ارض پر دلیلیں قائم ہو سکتی ہیں لیکن بسبب عدم الفرصتی کے اسی پر اکتفا کیا گیا۔ اگر پھر کبھی زمانہ فرصت دے گا تو وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ لکھی جاویں گی۔ اب تو اس بات پر کلام ختم کرتے ہیں کہ : ربنا ماخلقت ہذا باطلا ، سبحانک فقنا عذاب النار ٭……٭……٭ دیباچہ تاریخ فیر وز شاہی ضیاء الدین برنی مصنفہ سید احمد خاں در 1861 ء تمہید ضیا ء الدین برنی ایک بلند پایہ ادیب ، نامور انشا پر داز اور نہایت مشہور و معروف مؤرخ گزرا ہے جو 683ہجری مطابق 1284ء عیسوی میں بمقام برن (ضلع بلند شہر یو ۔ پی) پیدا ہوا ۔ حضرت شاہ نظام الدین اولیاء رحمت اللہ علیہ کا مرید خاص اور بادشاہ فیروز شاہ تغلق کا ندیم تھا۔ اس نے اپنے ممدوح کے لئے ناصر الدین محمود سے فیروز شاہ تعلق تک جتنے بادشاہ ہوئے ہیں ان کی تاریخ لکھی ہے ۔ یہ کتاب ہندوستان کے عہد اسلامیہ کی فارسی تاریخوں میں نہایت مستند اور معتبر سمجھی جاتی ہے ۔ فیروز شاہ کے حالات اس میں سال ششم جلوس تک کے ہیں ۔ اس کتاب کا نام مؤلف نے اپنے ممدوح کے نام پر ’’ تاریخ فیروز شاہی ‘‘ کرکھا جو اہل علم کے طبقہ میں ’’ تاریخ فیروز شاہی ضیائے برنی ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت شمس العلماء مولانا حالی اپنی مشہور کتاب ’’ حیات جاوید ‘‘ میں اس کے متعلق اس رائے کا اظہار فرماتے ہیں کہ ’’ یہ مؤرخ بہت بڑا فاضل اور راست بیانی میں ضرب المثل ہے۔ ‘‘ 1 ۔ اس کا سنہ وفات بہت لاش کے بعدبھی مجھے کسی کتاب میں نہیں ملا۔ سر سید نے بھی لکھا ہے کہ اس مؤرخ کے انتقال کا سال معلوم نہیں ہوا۔ اس مشہور و معروف تاریخ کے جو قلمی نسخے مختلف مقامات پر اور مختلف اشخاص کے پاس موجود تھے وہ بہت حد تک غلط بھی تھے اور ایک دوسرے سے مختلف بھی ، چوں کہ یہ کتاب فارسی لٹریچر میں کافی شہرت رکھتی ہے اس لئے ایشیاٹک سو سائٹی بنگال کو اس کے چھاپنے کا خیال پیدا ہوا ، مگر اس کی راہ میں یہ مشکل پیش آئی کہ چھاپنے کے لئے کس نسخے کو سامنے رکھا جائے ؟ چوں کہ ہر نسخہ ایک دوسرے سے مختلف تھا اور وہ اس سے پہلے دہلی کے آثار قدیمہ کی تاریخ ’’ آثار الصنادید ‘‘ کے نام سے شائع کر چکے تھے اور ’’ آئین اکبری ‘‘ کی تصحیح بھی نہایت قابلیت سے کر چکے تھے اور ا ن کی شہرت ہندوستان سے نکل کر فرانس اور انگلینڈ تک پہنچ چکی تھی۔ اس لئے بنگال ایشیاٹک سو سائٹی کے سیکرٹری نے 1861ء میں سر سید کو لکھا کہ اگر آپ سو سائٹی کے لئے تاریخ فیروز شاہی کا نہایت صحیح اور مکمل نسخہ مرتب کر دیں تو سو سائٹی آپ کی نہایت شکر گزار ہو گی اور اہل علم کی خدمت میں ایک بہترین چیز پیش کی جا سکے گی۔ سو سائٹی کی تحریک پر سر سید بہت خوشی کے ساتھ اس علمی خدمت کے لئے بغیر کسی معاوضہ کے تیار ہو گئے۔ کام شروع کرنے کے لئے انہوں نے اس کتاب کے مختلف نسخوں کی تلاش شروع کی تاکہ ان کے مطالعہ اور مقابلہ کے بعد ایک صحیح نسخہ مرتب کیا جا سکے۔ چناں چہ بہت تگ و دو کے بعد انہوں نے اس کتاب کے مندرجہ ذیل چار مختلف نسخے فراہم کئے : 1۔ پہلا نسخہ دہلی کے شاہی کتب خانہ سے لیا۔ 2۔ دوسری نسخہ وہ فراہم کیا جو مسٹر الیٹ نے اپنی مشہور ’’ تاریخ ہندوستان ‘‘ لکھتے وقت مہیا کیا تھا۔ 3 ۔ تیسرا نسخہ ان کو مسٹر ایڈورڈ ٹامس نامی ایک انگریز سے ملا۔ 4 ۔ چوتھا نسخہ بنارس کے ایک قدیم ذخیرہ کتب سے دستیاب ہوا۔ ان چاروں نسخوں کا باہم موازنہ اور مقابلہ کرنے کے بعد سر سید نے نہایت جاں کا ہی سے ’’ تاریخ فیروز شاہی ‘‘ کا ایک صیح ترین اور مکمل نسخہ مرتب کیا ۔ اس پر ایک مبسوط دیبا چہ لکھا اور پھر اس صحیح شدہ نسخہ کو ایشیاٹک سو سائٹی بنگال کو کلکتہ بھیج دیا۔ چناں چہ سو سائٹی مذکور نے سر سید کی اس کاوش و محنت کو نہایت احتیاط اور نفاست کے ساتھ 1862عیسوی میں چھاپ کر شائع کر دیا۔ جب 1866 عیسوی میں سر سید نے اخبار سائنٹیفک سو سائٹی علی گڑھ سے جاری کیا تو اس کے 24 اگست 1866ء کے شماراہ میں اس دیبا چہ کو دوبارہ علیحدہ طور پر چھاپا جو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں تھا ۔ کیوں کہ اخبار سائنٹیفک سو سائٹی اکثر دونوں زبانوں میں شائع ہوا کرتا تھا۔ چوں کہ یہ دیباچہ سر سید کا ایک قدیم تریخی مضمون ہے لہذا س مختصر تمہید کے ساتھ اخبار سائنٹیفک سو سائٹی علی گڑھ سے لے کر ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ٭……٭……٭ دیباچہ تاریخ فیروز شاہی ضیاء الدین برنی (اخبار سائنٹیفک سو سائٹی جلد 1 شمار 22 بابت 24 ۔ اگست 1866ئ) جب کہ مسلمان بادشاہوں کی فتوحات ہندوستان میں شروع ہوئیں تو مؤرخوں نے ان کا حال کتب تواریخ میں لکھنا شروع کیا سب سے پہلے تاریخ یمینی تصنیف ابوالنصر عبتی مازنی 410ھ مطابق 1019ء میں بعہد سلطان محمود عربی زبان میں لکھی گئی۔ اس تاریخ میں ابتدائے ظہور دولت غزنویہ اور عروج امیر ناصر الدین سبکتگین سے سنہ مذکور تک جو جو فتوحات اس کو اور اس کے بیٹے سلطان محمود کو ہندوستان اور اور ملکوں میں ہوئیں وہ سب مندرج ہیں۔ بعد اس کے خواجہ الوفضل بیہقی نے 556ھ مطابق 1160ء میں بعہد سلطان ابراہیم غزنوی بن سلطان مسعود بن سلطان محمود فارسی زبان میں کتاب تاریخ لکھی اور اس میں ابتدائے جلوس سلطان محمود سے تمام فتوحات کا حال جو ہندوستان اور اور ملکوں میں ہوئیں لکھا ہے : بعد اس کے جب کہ سلطنت غزنویہ آخر ہوئی اور دولت غوریہ نے ترقی پکڑی اور سلطان شہاب الدین غوری نے 587ھ مطابق 1191ء کے تخت گاہ ہندوستان یعنی دارالخلافہ دہلی کو فتح کیا تو اس کے عہد میں خواجہ صدر الدین محمد بن حسن نظامی نے 602ھ مطابق 1205ء کے کتاب تاج المآثر لکھنی شروع کی اور 614ھ مطابق 1217ء تک کا یعنی اواسط عہد سلاطن شمس الدین یلتمش تک کا اس میں لکھا ہے اور اس کا ضمیمے میں حال فتح اوچہ و ملتان اور آنے خلعت اور فرمان خلیفہ بغداد امام مستنصر باللہ عباسی کا سلطان شمس الدین یلتمش کو زیادہ کیا ہے۔ اس کے بعد مولانا سدید الدین عوفی نے کتاب جامع الحکایات بنام نظام المکل جنیدی وزیر سلطان شمس الدین یلتمش لکھی اور اس میں بھی کچھ کچھ حال فتوحات یلتمش مندرج ہے۔ اس کے بعد 658ھ مطابق 1260 ء میں بعہد سلطان ناصر الدین محمود بن سلطان شمس الدین یلتمش قاضی منہاج السراج الجربانی نے طبقات ناصری جو نہایت عمدہ کمیاب کتا ہے ، لکھی اور اس میں ابتدائے ظہور سلطنت غوریہ سے اپنے زمانے تک ان کی تمام فتوحات اور ان کے شعبے اور انساب بہت درستی اور شائستگی سے لکھی ہیں۔ اس کے بعد 758ھ مطابق 1356ء کے بعہد سلطان فیروز شاہ مولانا ضیاء الدین برنی نے یہ کتاب لکھی جس کا نام تاریخ فیروز شاہی ضیاء برنی ہے۔ اس کتاب میں سلطان ناصر الدین محمود کے بعد سے جو بادشاہ ہوئے ہیں اور جو واقعات کہ سال ششم جلوس فیروز شاہ تک گزرے ہیں مندرج ہیں۔ حقیقت میں یہ کتاب تتمہ ہے طبقات ناصری کا اور ان دونوں کتابوں کو ملا کر ایک کتاب سمجھنا چاہیے۔ اس کتاب میں آٹھ بادشاہوں کا حال ہے جن کے نام حاشیے پر ثبت ہیں۔ واقعی یہ کتاب نہایت عمدہ اور بہت معتبر ہے۔ اکثر حالات اس میں خود مصنف کے دیکھے ہوئے مندرج ہیں اور باقی حالات میں وہ ہیں جو مصنف نے اپنے بزرگوں سے سنے اور انہوں نے بچشم خود دیکھے تھے۔ 1۔ غیاث الدین بلبن۔ 2۔ معزالدین کیقباد۔ 3 ۔ جلال الدین فیروز خلجی۔ 4۔ علاء الدین خلجی۔ 5۔ قطب الدین مبارک شاہ۔ 6 ۔ غیاث الدین تغلق شاہ۔ 7۔ سلطان محمد تغلق شاہ۔ 8 سلطان فیروز شاہ۔ جو لوگ کہ کتب تواریخ کی سیر کرتے ہیں ان کو معلوم ہو گا کہ ممالک ایشیا کی تواریخ میں بہت بڑا عیب یہ ہے کہ بادشاہوں کی بیجا تعریف اور خوشامد سے پر ہیں ، مگر اس تاریخ کی بہت بڑی عمدگی یہ ہے کہ اس کے مصنف ۔ جس بادشاہ کا حال لکھا ہے اور جہاں اس کی خوبیاں اور بھلائیاں مذکور کی ہیں ، وہیں جو جو عیب اور برائیاں اس بادشاہ میں یا اس کی سلطنت میں تھیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ اکثر جگہ تدابیر ملک داری جو ان بادشاہوں کے مد نظر تھیں وہ بھی مذکور کی ہیں اور اس باب میں کوئی تاریخ ان ملکوں کی اس کی ہمسری نہیں کر سکتی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سلطان فیروز شاہ کاحال بھی اس مصنف نے ایسا ہی لکھا ہے کیوں کہ میں اس کے حال میں اس طریقہ کو گھٹا ہوا پاتا ہوں۔ سچ ہے کہ کسی بادشاہ کی تاریخ اسی بادشاہ کے عہد میں بغیر طرفداری کے لکھنی نہایت مشکل ہے۔ اس مصنف نے ارادہ کیا تھا کہ سلطان فیروز شاہ کا حال ایک سوایک مقدمہ یعنی ایک سو ایک باب میں لکھے ، مگر اس نے صرف سال ششم جلوس فیروز شاہ تک کا حال گیارہ مقدموں میں لکھا ہے اور باقی مقدموں کے لکھنے کا وعدہ کیا تھا ، مگر پھر اس مصنف نے نہیں لکھے مگر شمس سراج عفیف نے اوائل نویں صدی ہجری مطابق سولہویں صدی عیسوی میں ایک تاریخ بنام تاریخ فیروز شاہی شمس سراج عفیف لکھی۔ اس کتاب کو اس نے پانچ حصوں پر تقسیم کیا اور ہر حصہ کو اٹھارہ مقدموں پر کہ مجموع ان کے نوے مقدمے ہوئے ۔ گویا اس مصنف نے ضیاء برنی کے ارادہ کو پورا کیا ہے اس کتاب میں ابتدائے ولادت فیروز شاہ سے اس کے آخر عہد تک کا حال مندرج ہے۔ یہ دونوں کتابیں تاریخ فیروز شاہی کے نام سے مشہور ہیں مگر پہلی ضیاء برنی کی کہلاتی ہے اور دوسری شمس سراج عفیف کی۔ علاوہ ان کے ایک از نام فتوحات فیروز شاہی مشہور ہے۔ اس کتاب کو خود فیروز شاہ نے لکھا ہے ۔ یہ بہت چھوٹی کتاب ہے اور اس میں صرف حال امور رفاہ عام اور بیان قواعد جدید کا جو اس بادشاہ نے اپنے عہد میں جاری کیے ، مندرج ہے۔ یہ تمام کتاب مسجد جامع فیروز شاہی واقع دہلی کے برجوں پر کندہ تھی مگر اب وہ مسجد اور اس کے برج سب ٹوٹ گئے ہیں اور کوئی پتھر کندہ کیا ہوا دستیاب نہیں ہوتا۔ تاریخ فیروز شاہی ضیاء برنی بہت کمیاب کتاب ہے۔ بہت تلاش کے اور تجسس سے مجھ کو ایک نسخہ بہم پہنچا تھا اس کے مقابلہ اور صحت میں مجھ کو بہت دقت اٹھانی پڑی۔ ایک ناقص نسخہ کتب خانہ شاہ دہلی سے مجھے میسر ہوا تھا اور ایک نسخہ جو مسٹر ایلیٹ صاحب بہادر نے بہم پہنچایا تھا وہو میں نے لیا اور ایک نسخہ اڈورڈ طامس صاحب بہادر کے پاس تھا وہ بھی میں نے لیا اور ایک نسخہ بنارس سے ہاتھ آیا۔ ان چار نسخوں سے میں نے اپنی کتاب کا مقابلہ کیا اور جہاں تک ممکن تھا اس کے صحیح کرنے پر کوشش کی۔ اب ہماری ایشیا ٹک سوسائٹی نے اس نایاب اور عمدہ کتاب کا چھاپنا چاہا اور میری کتاب اور میری صحت اور مقابلہ سے یہ کتاب چھپی۔ اس دفعہ میں نے زیادہ تر اس کتاب کی صحت پر توجہ کی اور جہاں تک ممکن تھا اس کے صحیح کرنے میں دریغ نہیں کیا۔ مناسب ہے کہ اس مقام پر کچھ مختصر حال اس کتاب کے مصنف کا بھی لکھوں۔ واضح ہو کہ نام اس کتاب کے مصنف کا ضیاء الدین ہے دیکھو کتاب اخبار الاخیار اور تاریخ فیروز شاہی ضیاء برنی اور قصبہ برن جو اب بلند شہر کے نام سے مشہور ہے ، اس کا مسکن ہے۔ آدمی ذی علم تھا اور تاریخ سے بہت شوق رکھتا تھا اور بہت سی پرانی نقلیں اور حکایتیں اس کو یاد تھیں ۔ شعر سے بھی بہت شوق تھا اور امیر خسرو اور میر حسن سے بہت صحبت اور ملاقات تھی ، اس کا باپ اور دادا سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد میں صاحب خدمت تھے۔ اسی بادشاہ کے عہد میں اس کا نانا حسام الدین سپہ سالار تھا اور سلطان علاء الدین کے عہد میں میں اس کا چچا ملک علاء الدین دہلی کا کوتوال اور بادشاہ کا مقرب تھا۔ اس مصنف کو بھی سلطان محمد تغلق کے دربار میں بہت تقرب حاصل تھا مگر اس کے بعد پھر کوئی خدمت اس مصنف کو ہاتھ نہیں آئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس مصنف نے یہ تاریخ اس ارادہ سے لکھی تھی کہ اس کے ذریعہ سے سلطان فیروز شاہ کے دربار میں تقرب حاصل کرے، مگر یہ امید اس کی بر نہیں آئی اور اس نے خالہ نشینی اختیار کی اور غیاث پور میں ، جہاں اب درگاہ حضرت نظام الدین کی متصل دہلی کے ہے ، رہنا اختیار اختیار کیا اور وہیں مر گیا اور متصل درگاہ حضرت موصوف کے دفن ہوا۔ سال وفات اس کا معلوم نہیں ۔ کہتے ہیں کہ جب یہ مصنف مرا تو ایسے تنگ حال میں تھا کہ اس کے جنازہ پر بجز بوریہ کے اور کچھ نہ تھا مگر یہ عمدہ کتاب اس کی یادگار باقی ہے۔ قدیم نظام دیہی ہندوستان سر سید احمد خاں مطبوعہ 1878ء (موجود در کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد دکن) قدیم نظام دیہی ہندوستان یہ کتاب جس کے متعلق عام طور سے کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ سرسید کی تصنیف ہے ، کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد دکن کی ایک الماری میں کس مپر سی کی حالت میں پڑی تھی اور 26-20کی تقطیع پر ٹائپ میں چھپی ہوئی تھی۔ میرے نہایت ہی محترم اور محسن و مخلص دوست جناب پروفیسر محمد اکبر الدین صاحب صدیقی ایم ۔ اے لیکچرار عثمانہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن نے نہ معلوم کس طرح اس کا پتہ چلایا اور مجھے اس کے متعلق لکھا۔ میں نے بہت ہی شوق کے ساتھ اس کی نقل کی خواہش کی ۔ تاکہ میں اس کو سرسید کی نگارشات میں شامل کر سکوں۔ الحمد للہ صدیقی محترم نے میری خواہش پوری کر دی اور کتاب لائبریری سے حاصل کر کے اس کی نقل مجھے بھجوا دی۔ جسے میں صاحب موصوف کے نہایت درجہ شکریہ کے ساتھ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ یہ کتاب 1878ء میں سر سید نے شائع کی تھی۔ مولانا حالی نے بھی حیات جاوید میں اس کا ذکر نہیں کیا۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ٭……٭……٭ تمہید جب کہ ہم کسی گاؤں کو دیکھتے ہیں کہ نہایت آباد اور سر سبز درخت اور میوے کے باغات اس میں موجود ہیں جابجا کنویں اور تالاب زراعت میں پانی پہنچانے کے لیے بقدر ضرورت یا بقدر طاقت وہاں کے باشندوں کے بنے ہوئے ہیں اور کثرت سے ہر قسم کے لوگ جو درجے اور اختیار اور امتیاز میں مختلف ہیں ، باہم ایک جگہ آباد ہیں اور ہر ایک کے پاس بہ لحاظ تفاوت امتیاز کے رہنے ، بیٹھنے ، مویشی باندھنے کے مکانات موجود ہیں۔ ہر ایک کے پاس کچھ زمین زراعت کو اور کچھ غیر مزروعہ چراگاہ کو موجود ہے۔ ہر قسم کے پیشہ ور ان کی خدمات بجا لانے کو آباد ہیں اور یہ تمام انتظام سالہا سال سے بجز اس کے کہ کسی حادثہ یا آفت ناگہانی نے ان کو برباد نہ کر دیا ہو ، ایک طرح چلے آتے ہیں تو ہم کو تعجب ہوتا ہے کہ یہ انتظام کیوں کر اور کن اصولوں پر قائم ہوئے تھے اور بالطبع ہماری طبیعت ان کے دریافت کرنے پر مائل ہوتی ہے۔ ہندوؤں کے قایم زمانے کی اس قسم کی تحریرات ، جن سے اس قسم کی حالات کی تفصیل پائی جاوے ہمارے پاس موجود نہیں ہیں۔ صرف منو کی کتاب موجود ہے جس میں کچھ اشارہ نظام دیہی کا ملتا ہے مگر کچھ تفصیل حالات نہیں پائے جاتے۔ مسلمانوں کے عہد کی یاریخیں اس قسم کے بیانات سے بالکل خالی ہیں۔ ان کے عہد میں کسی ایسے صدر دفتر کا بھی ہونا نہیں پایا جس میں ان حالات کی یادداشت مندرج ہوتی ہو۔ مالگذاری کے حالات کے لیے صرف ہر ایک مقام کے قانون گویوں کا دفتر موضوع تھا۔ حالات دیہی کے لیے بجز وہاں کے باشندوں کے سینوں کے کوئی دفتر نہیں تھا۔ قدیم سے جو رسم و رواج قائم ہو گیا تھا وہی سینہ بہ سینہ لوگوں کی یاد میں چلا آتا تھا اور اسی پر عمل درآمد ہوتا تھا۔ سلطنت انگریزی کے اوسط زمانے میں بعض ملکوں کے حالات دیہی دریافت کرنے پر توجہ ہوئی اس تحقیقات کا بڑا ذخیرہ محکمہ بندوست کا دفتر ہے مگر اس میں بہ نسبت اس کے کہ نظام دیہی کے قدیم حالات دریافت کیے جاویں ، زیادہ تر موجود رسم و رواج کے دریافت پر توجہ کی گئی ہے۔ یورپین مصنفوں نے اس باب میں رسالے لکھے ہیں اور لیکچر دیے ہیں جن میں سے سر جارج کیمبل کی وہ تحریر جو طرز قبضہ داری اراضی پر ہے اور وہ حصہ ولیج کی وہ تحریر جو طرز قبضہ داری اراضی پر ہے اور وہ حصہ ولیج کم میونٹی کا جو ہندوستان سے متعلق ہے اور جس کو سرہنری سمنر منی کے ۔ سی ۔ ایس آئی ، ایل ۔ ایل ۔ ڈی نے تصنیف کیا ہے ، مشہور ہے ۔ مگر اس میں زیادہ تر ہندوستان کے نظام دیہی کو یورپ کے قدیم نظام دیہی سے مشابہت دکھانے میں کوشش کی گئی ہے۔ اس رسالے میں ہمارا مقصد اس بات پر بحث کرنے سے کہ وہ نظام دیہی کس اصول پر قائم ہوئے تھے نہیں ہے۔ بلکہ اس بات کا دکھانا مقصود ہے کہ وہ نظام دیہی کس طرح پر تھے تاکہ جو لوگ مال گذاری و بندوست کے کام سے علاقہ رکھتے ہیں ، ان کو اپنے کام کے انجام میں ایک نوع کی زیادہ تر بصیرت حاصل ہو۔ ذکر جماعت ہائے دیہی جب کہ ہم بالا جمال قدیم نظام دیہی پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کو ایک نہایت عجیب سلطانت کا نمونہ پاتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں کہ ایسی جاہل قوم نے جو کسی قسم کے علوم سے واقف نہ تھی اور نہ علم انتظام و سیاست مدن اور علم کفایت شعاری اور علم تقسیم محنت سے واقف تھی ۔ کس طرح پر ایسے عمدہ طریقہ سے نظام دیہی قائم کیے تھے۔ جو لوگ باہم متفق ہو کر گاؤں میں سکونت رکھتے ہیں اور جن کو جماعت ہائے دیہی کے نام سے ہم نے اس رسالے میں موسوم کیا ہے وہ دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ اول وہ گروہ ہے جو اس تمام قطعہ زمین کا جو موضع کے حدود کے اندر داخل ہے ، اپنے تئیں مالک اور تمام دیگر باشندگان دیہہ سے اپنے تئیں فائق اور اپنے حقوق کو سب سے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ یہ گروہ اکثر ان لوگوں کی اولاد یا ان کے جانشین ہوتے ہیں ، جنہوں نے ابتداء اس تمام قطعہ زمین پر قبضہ حاصل کیا تھا جو موضع کے حدود کے اندر داخل ہے اور جو زمین دار کے نام سے یا اور کسی نام سے جو حسب رواج ملک ان کو دیا گیا ہو موسوم ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ گروہ ان لوگوں کی اولاد یا جانشینوں میں سے نہیں ہوتے جنہوں نے ابتداء اس قطعہ اراضی پر جو موضع کے حدود کے اندر داخل ہے قبضہ کیا تھا ، مگر کسی سبب سے موضع میں وہ اقتدار حاصل کر لیا تھا جو ان لوگوں کو حاصل تھا جو ابتداء قبضہ کرنے والوں کی اولاد یا ان کے جانشینوں کو حاصل تھا اور یہی گروہ مقدم کے نام سے یا اور کسی نام سے جو حسب رواج ملک ان کو دیاگیا ہو موسوم ہوتے تھے۔ دوم وہ گروہ ہے جو رعیت کے نام سے موسوم ہے اور یہ گروہ چار قسم کے فرقوںمیں منقسم ہے۔ اول کاشت کار۔ دوم اہل حرفہ ۔ سوم مزدوری پیشہ ۔ چہارم خوش باش ۔ پس اگر گروہ اول کو بھی شمار میں داخل کر لیا جاویے تو کل پانچ قسم کے گروہ ہوتے تھے جو گاؤں میں سکونت رکھتے تھے اور ہر ایک گروہ مختلف قسم کے انتظامات کا پابند تھا جس کو علیحدہ علیحدہ بیان کیا جاتا ہے۔ نظام باہمی گروہ اول یعنی زمینداران اندازہ حقیت اگر اس تمام قطعہ زمین کا جو موضع کے حدود کے اندر واقع ہے ایک ہی شخص قابض اول یا قابضان اول کا جانشین ہوتا تھا تو اس وقت اندازہ حقیت کی کچھ ضرورت نہ ہوتی تھی ، کیوں کہ وہی ایک خص تنہا کل اراضی اور اس کی حقوق معینہ کا مالک گنا جاتا تھا اور وہی ایک شخص انتظام دیہی میں مختار کل اور خدمات سرکاری کے انجام کا جواب دہ ہوتا تھا اور جن سلطنتوں میں اس قسم کے مالکان اراضی کو کسی قسم کے حقوق ملنے کا دستور تھا ، یہی ایک شخص ان حقوق کے پانے کا مستحق تھا اور جہاں کہیں یہ رواج تھا کہ اس قسم کے مالکان اراضی سے زرمال گزاری سرکاربھی وصول کی جائے تو یہی شخص کل موضع کی ادائے مالگزاری کا ذمہ داری ہوتا تھا۔ لیکن جب قابضان اول یا ان کے جانشین متعدد اشخاص ہوتے تھے تو اس وقت ہر ایک کے حق کے اندازہ کی ضرورت پیش آتی تھی ، اس ضرورت کو اس جاہل گروہ۔ ایک نہایت عمدہ علمی قاعدہ سے حل کیا تھا یعنی کا موضع کو ایک روپیہ اور اس کی کسرات کو آنہ و پائی یا کل موضع کو ایک گز اور اس کی کسرات کو بسوہ و بسوانی قرار دیا تھا۔ ایک روپیہ کو وہ سولہ آنے اور ایک گز کو بیس بسووں پر تقسیم کرتے تھے اور ہر ایک شخص کا حصہ اسی حساب سے قرار دیتے تھے۔ مثلا جو شخص موضع میں سولہویں حصہ کا مالک ہوتا تھا اس کو حقیت دار ایک آنہ یا سوار بسوہ قرار دیتے تھے اور چوتھائی کے مالک کو حقیت دار چار آنہ یا پانچ بسوہ تصور کرتے تھے اور ہر ایک آنہ اور بسوہ کے لیے بھی کسرات در کسرات مقر ر کی تھی اور چھوٹے حقیت داروں کی حقیت کا اندازہ اسی کسرات پرکرتے تھے۔ اس علمی حسابی قاعدہ سے اندازہ حقیت کی تمام مشکلات رفع ہو گئی تھیں اور ہر مالک کے اندازہ حقیت قرار دینے میں گو وہ کیسی ہی جز و قلیل کا مالک ہو گئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔ اس بات کا کھوج لگانا کہ یہ علمی حسابی قاعدہ کس زمانہ سے اس جاہل قوم میں رائج ہوا تھا نہایت مشکل ہے مگر اس میں شک نہیں کہ یہ قاعدہ اس قدر زمانہ دراز سے رائج چلا آتا ہے جو مؤرخوں کی یاد سے بھی پیشتر کا ہے۔ جن ملکوں میں حقوق زمینداری کا رواج قائم اور بحال ہے ان میں اب تک بھی یہی قاعدہ اندازہ حقیت کا رائج ہے۔ حالت اجمالی گروہ زمینداران یہ گروہ کبھی اپنی حقیت کو بالا جمال رکھتے تھے اور کبھی آپس کے جھگڑوں اور نزاعوں کے سبب جدا جدا کر لیتے تھے ۔ حالت اجمالی ان کی بھی متعدد طرح کی ہوتی تھی۔ اول ۔ اور سب سے عمدہ اور بے نقص طریقہ اجمالی حالت کا یہ تھا کہ موضع کی کل اراضی کو چار قسم پر تقسیم کرتے تھے اول عمدہ قسم کی زمین مزروعہ ۔ اس زمین کو وہ لوگ بقدر اندازہ اپنی حقیت کے آپس میں بانٹ لیتے تھے مثلا جو شخص ایک آنہ یا سوا بسوہ کا حقیت دار ہے اس نے ایک بیگھ زمین لی تو جو شخص دو آیہ یا اڑھائی بسوہ کا حقیت دار ہے تو وہ دو بیگھ زمین لے گا اور علی ہذا القیاس اس زمین میں وہ لوگ خود کھیتی کرتے تھے اور یہی زمینیں زمینداروں کی سیر کاشت کہلاتی تھیں۔ دوم۔ درجہ دوم کی زمین مزروعہ ۔ اس قسم کی زمین کو وہ لوگ دیگر اشخاص کو اس کی پیداوار میں سے کوئی معین حصہ قرار دے کر کاشت کر دیا کرتے تھے اور جو کچھ اس سے محاصل ہوتا تھا اس میں ہر ایک زمین دار کا بقدر اندازہ اس کی حقیت کے حصہ ہوتا تھا۔ سوم ۔ وہ اراضی جو بافعل مزروعہ نہیں ہے مگر قابل زراعت ہے۔ وہ زمین علیحدہ رکھی جاتی تھی اور کبھی خود زمیندار بمقدار اپنی اپنی حقیت کے اس کے مزروعہ کرنے پر کوشش کرتے تھے اور کبھی دیگر اشخاص کو نہایت خفیف معاوضہ پر مزروعہ کرنے کو دیتے تھے۔ چہارم ۔ وہ زمینیں تھیں جو واسطے مشترکہ باغات لگانے اور مشترکہ چراگاہ رکھنے کو چھوڑی جاتی تھیں اور ہر ایک زمیندار کو باندازہ اپنی حقیت کے اس میں حصہ ہوتا تھا۔ جو اراضی کہ ناقابل زراعت تھی وہ بطور ایک مشترکہ زمین کے افتادہ پڑی رہتی تھی اور اس اراضی پر جہاں موضع آباد ہے مشترکہ حقیت تمام زمینداروں کی بقدر اندازہ ان کی حقیت کے تسلیم ہوتی تھی اور تمام وہاں کے باشندے جو زمیندار نہیں تھے ، زمینداروں کی رعیت کہلاتے تھے۔ اس کے سوا قدرتی تالاب اور جھیلیں اور خود رو خود رودرخت اور خود رو اشیاء جو موضع کی حدود کے اندر پیدا ہوتی تھیں اور ان سب میں ہر ایک زمیندار کا بقدر اندازہ اس کی حقیت کے حصہ ہوتا تھا۔ اس کے سوا رعایا باشندگان دیہہ سے بھی کچھ جنس یا نقد بطور سالانہ لیا جاتا تھا یا ان کے ذمہ کچھ خدمتیں معین تھیں۔ اس سالانہ میں بھی ہر ایک زمین دار کو بقدر انداز اپنی حقیت کے حصہ لینے اور رعایا سے بھی بقدر انداز اپنی حقیت کے خدمت لینے کا اختیار تھا۔ دوسری قسم حالت اجمالی کی اول قسم سے ناقص تھی اور باہمی نفاق اور حسد کی بنیاد تھی اور وہ یہ تھی کہ تمام گروہ زمینداران کے یکساں تمول اور قدرت نہیں رکھتے تھے ۔ کسی کے پاس اس قدر سامان کاشتکاری کا ہوتا تھا کہ وہ اپنے اندازہ حقیت سے بھی زیادہ زمین کو کاشت کر سکتا تھا اور کسی کے پاس اتنا بھی نہ ہوتا تھا کہ بقدر اندازہ اپنی حقیت سے زمین کو کاشت کر سکے اور نتیجہ اس کا یہ ہوتا تھا کہ ذی مقدور زمینداروں کی سیر کاشت میں ان کے اندازہ حقیت سے بہت زیادہ زمین سیر کاشت میں آجاستی تھی اور متوسط حالت کے زمینداروں کی سیر کاشت میں بقدر اندازہ ان کی حقیت کے زمین سیر کاشت میں رہتی تھی اور مفلس زمینداروں کی سیر کاشت میں یا تو کچھ زمین نہ ہوتی تھی اور یا اندازہ حقیت سے بھی بہت کم اور اس اختلاف کے سبب بعضے زمیندار اپنے اندازہ حقیت سے بہت زیادہ فائدہ اٹھاتے تھے اور بعضے مساوی اور بعض بہت کم اور یہی امر باہمی نفاق اور حسد کی بنیاد ہوتا تھا۔ اس تفاوت کے رفع کرنے میں اس جاہل فرقے نے نہایت قابلیت سے تدبیریں اختیار کیں۔ سب سے عمدہ تدبیر یہ تھی کہ کل زمینداروں کی اراضی سیر کی پیداوار میں سے بھی انہوں نے ایک حصہ اپنا تجویز کیا ، جس میں کل زمینداران موضع کاحصہ بقدر اندازہ ان کی حقیت کے ہوتا تھا۔ مگر یہ حصہ بہ نسبت اس حصے کے جو کاشتکاروں سے لیا جاتا تھا، خفیف تھا۔ گو اس تدبیر سے جو تفاوت منافع کا تھا کسی قدر رفع ہو گیا تھا مگر بالکل زائل نہیں ہوا تھا اور اس سبب سے جو اصلی بنیاد تفاق اور حسد کی باہم زمینداروں کے تھی وہ قائم اور موجود تھی۔ حالت افتراقی گروہ زمینداران یعنی تقسیم اراضی انہیں تمام واقعات سے جن کا ہم نے ابھی اوپر ذکر کیا تھا اور نیز بعضی دفعہ اس تنازع یا بے اعتباری سے جو ایک دوسرے پر نسبت وصول مشترکہ پیداوار کے ہوتی تھی حالت اجمالی زمینداروں میں تفریق واقع ہوئی ، نتیجہ اس تفریق کا تقسیم اراضی تھا۔ مگر اس تقسیر اراضی نے متعدد طرح پر ظہور پکڑا جس میں بعض صورتیں انصاف اور پورا پورا حق علیحدہ ہونے پر مبنی تھیں اور جن کے سبب تمام تنازعات آئندہ رفع ہو گئے تھے اور بعض ایسی تھیں کہ جو ناانصافی سے قائم ہو گئی تھیں اور باوجود تقسیم اراضی کے باہمی نزاع بدستور قائم تھی اور مکرر تقسیم اراضی کی ضرورت موجود تھی۔ عمدہ طریق تقیم کا یہ تھا کہ گروہ زمینداران میں متعدد گروہ قائم ہوئے یعنی ہر ایک شاخ قرابت داران قریبہ آپس میں اکٹھے ہو گئے اور ایک گروہ بن گئے اور جس قدر ان کا حصہ بموجب قاعدہ وراثت کے تھا اسی قدر ٹھیک ٹھیک حصہ کے موافق ہر قسم کی اراضی انہوں نے بانٹ لی اور جدا جدا قبضہ کر لیا اور اراضی منقسمہ پٹی کے نام سے کہلائی اور رشتہ داران قریب کے افسر خاندان کے نام سے موسوم ہو گئی۔ مثلا پٹی ہری سنگھ ، پٹی بہادر علی اور علی ہذا القیاس۔ یہی تقسیم پٹی داری دیہات کے پیدا ہونے کی بنیاد ہے۔ مگر یہ تقسیم کبھی تو بالکل مکمل ہوتی تھی یعنی اراضی مزروعہ اور غیر مزروعہ ، جنگل اور چراگاہ ، آبادی دیہہ سب تقسیم ہو جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ باغات مشترکہ بھی تقسیم ہو جاتے تھے اور تالاب اور جھیل جو آبپاشی کے لئے تھے ان کی سمتیں پانی دینے کی معین ہو جاتی تھیں۔ مشترکہ کنوؤں میں سے جو تقسیم نہیں ہو سکتی تھی پانی دینے کے لئے اوسرے یعنی دن مقرر ہو جاتے تھے اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ آبادی تو مشترکہ رہتی تھی اور اور اراضی تمام تقسیم ہو جاتی تھی اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ صرف اراضی مزروعہ تقسیم ہوتی تھی اور باقی اراضیات مشترکہ رہتی تھیں۔ پہلی قسم کی تقسیم ایسی مکمل تھی کہ مکرر تقسیم کی اس میں حاجت نہ ہوتی تھی باقی قسم کی تقسیموں میں بھی تمام اراضی مزروعہ کی تقسیم کی حاجت نہیں ہوتی تھی بلکہ جو چیزیں کہ مشترکہ ہوتی تھیں بروقت وقوع کسی تنازعہ کے انہیں کی تقسیم ہو جاتی تھی۔ یہ تقسیم اراضی مزروعہ کی ایسی کامل ہوتی تھی کہ زمینداروں کو اپنے حصے کی یادداشت بسوہ و بسوانسی یا آنہ و پائی کے رکھنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی بلکہ ہر ایک کی اراضی مقبوضہ ہیں اس کا حصہ معین تصور ہوتا تھا اور ایسے دیہات میں حصہ داری کا حساب جو حالت اشترکہ میں بحساب بسوہ و بسوانسی لگایا جاتا تھا بالکل معدوم اور نیساً منسیاً ہو جاتا تھا اور اس لیے جب اراضی مشترکہ کی تقسیم کی ضرورت ہوتی تھی تو اس کی تقسیم بمقدار اراضی مقبوضہ ہر فریق کے عمل میں آتی تھی۔ بعض دیہات میں وہ فریق رشتہ داران قریب کا بھی جنہوں نے متفق ہو کر اراضی کو تقسیم کروا لیا تھا۔ اراضی منقسمہ کی بھی تقسیم چاہتے تھے اور اسی تقسیم در تقسیم کے سبب ہر ایک شخص کے حصے کی ارضای نہایت چھوٹے چھوٹے قطعوں میں جداگانہ تقسیم ہو جاتی تھی اور یہی تقسیم دیہات بھیا چارہ کے وجود پذیر ہونے کی بنیاد ہے مگر یہ تقسیم چھوٹے چھوٹے قطعات میں صرف اراضی مزروعہ میں ہوتی تھی کیوں کہ اراضی غیر مزروعہ و چراگاہ کی تقسیم ایسے چھوٹے چھوٹے قطعوں میں غیر ممکن تھی۔ تقسیم مکرر کی ضرورت بعض دفعہ تقسیم اراضی مزروعہ کی ایک ناواجب طریقہ پر ہوتی تھی یعنی گروہ یا زبردست شخص نے یا ایسے شخص نے جس کے پاس سامان کاشتکاری زیادہ تھا۔ اپنے حصے کے انداز سے جو ازروئے وارثت اس کو پہنچتا زیادہ اراضی پر قبضہ کر لیا اور غریب اور کمزور حصہ داروں کے قبضے میں ان کے واجبی حصے سے بہت کم اراضی رہ گئی۔ اگلے زمانے میں انصاف کی عدالتیں غریبوں کی حق رسی کے لئے معدوم تھیں اور زور اور طاقت ہی انصاف تھا اس لئے ان غریب اور کمزور حق داروں کو بجز اس کے کہ ناانصافی کو صبر کے ساتھ جھیلیں اور کچھ چارہ نہ تھا اور اس سبب سے نامنصفانہ تقسیم مدت دراز تک قائم رہتی چلی آتی تھی۔ یہ نامنصفانہ تقسیم اکثر صرف اراضی مزروعہ پر محدود ہوتی تھی کیوں کہ منافع حاصل کرنے کے لئے وہی زمین ایک بڑا مخزن ہوتا تھا۔ مگر باوجود اس تقسیم کے وہ حصہ کشی جو از روئے حصہ وراثت کے بحساب بسوہ وبسوانسی یا آنہ و پائی ہوتے تھے کبھی فراموش نہیں ہوتے تھے اور اراضیات مشترکہ کے منافع کی تقسیم اکثر اسی حصہ داری کے حساب سے ہوتی تھی اور حصہ داران غریب اور کمزور وقت کے منتظر رہتے تھے اور جب کبھی ان کو موقع ملتا تھا اور کوئی زبردست گروہ ان کا جمایتی ہو جاتا تھا یا عامل کی مہربانی حاصل کرنے کا موقع ملتا تھا یا گاؤں کا افسر ان کا طرف دار ہوتا تھا تو وہ مکرر تقسیم کے خواہاں ہوتے تھے اور چاہتے تھے کہ یا تو اراضی مشترکہ میں سے ان کو اس قدر زمین دلوا دی جاوے تاکہ ان کے پور حصے کی اراضی ان کے قبضے میں آجاوے یا جن لوگوں کے قبضہ میں حصہ سے زیادہ اراضی ہے ان سے چھین کر ان کو دلوا دی جائے۔ عجیب تقسیم انسانوں کی بعض دیہاتوں میں انسانوں کی تقسیم کا عجیب قاعدہ جاری تھا۔ جن دیہاتوں میں کثرت سے اراضی کاشتکاروں کی کاشت میں ہوتی تھی تو بعض دفعہ اس گاؤں کے زمیندار بجائے اراضی کی تقسیم کے کاشتکاروں کو تقسیم کر لیتے تھے یعنی ہر ایک گروہ اسی قدر کاشتکاروں کو جو بقدر اس کے حصے کی اراضی کا محصول دیتے ہیں منتخب کر کے اپنے حصے میں لگا لیتا تھا اور اس سے زمین کا محصول اپنے حصے میں لیتا تھا بعض دفعہ ایک کاشتکار دو گروہوں کے حصہ میں آتا تھا اور اپنی اراضی کے محصول کا ایک حصہ ایک گروہ کو اور دوسرا حصہ دوسرہ گروہ کو دیتا تھا۔ یہ تقسیم اکثر ان دیہات میں ہوتی تھی جہاں کاشت کاروں سے بہ عوض پیداوار زمین کا حصہ لینے کے نقد روپیہ لینے کا رواج تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم کے سبب دیہات میں تھوک داری کا رواج ہوا تھا بعضے دیہات میں اس تقسیم نے ایسا رواج پایا تھا کہ اہل حرفہ اور مزدوری پیشہ جو گاؤں میں رہتے تھے وہ بھی تقسیم ہو جاتے تھے اور وہ صرف اسی تھوک کے کام کی خدمت بجا لاتے تھے جس تھوک میں تقسیم ہو کر شامل ہوتی تھی۔ طریقہ ادائے مالگزاری کا حاکم وقت کو جیسے مختلف طریقے تقسیم کے تھے ویسے ہی مختلف طریقے حاکم کو زور مالگذاری ادا کرنے کے تھے۔ گاؤں کا افسر اعلیٰ عامل سے مالگذاری کا معاملہ کرتا تھا اور اس کی بانٹ ہر ایک کی اراضی مقبوضہ پر ہو اتی تھی کبھی تو یہ ہوتا تھا کہ ہر شخص صرف اپنی اراضی مقبوضہ کی مالگذاری ادا کرنے کا ذمہ داری ہوتا تھا اور اگر دوسروں کی اراضی مقبوضہ پر باقی رہتی تھی تو اس سے اس کو کچھ سروکار نہیں ہوتا تھا اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ کل زمیندار باوجود تقسیم اراضی کے کل مالگذاری کے ادا کے ذمہ داری ہوتے تھے اور جس شخص پر اس کی اراضی مقبوضہ کی بابت مالگذاری باقی رہتی تھی یا تو اس سے وصول کرتے تھے یا منافع مشترکہ میں سے دیتے تھے یا آپس میں باچھ ڈال کر حاکم کی مال گذاری کو پورا کر دیتے تھے۔ گورنمنٹ انگریزی کی جب عمل داری ہندوستان میں ہوئی اور ہر ایک امر کے لیے قوانین جاری کرنے کا رواج ہوا تو گورنمنٹ انگریزی نے انہی رواجوں کے مطابق جو دیہات میں جاری تھے۔ تقسیم اراضی کے لیے قوانین جاری کیے جو قوانین بٹوارہ کے نام سے مشہور ہیں۔ سائنٹیفک سو سائٹی علی گڑھ کے سیکرٹری نے 1864ء میں قوانین بٹوارہ پر ایک لکچر دیا تھا جو نہایت مفید ہے اور جس میں بہت سے اصول اور رواج بٹوارہ کی نسبت بیان ہوئے ہیں۔ ہمارے اس رسالہ کے پڑھنے والوں کو اس کا پڑھنا بہت مفید ہو گا۔ اس لیے ہم اس کو لکچر کو بجنسہ اپنے اس رسالہ کے اخیر میں مندرجہ کرتے ہیں۔ طریقہ ادائے مالگذاری قدیم طریقہ ادائے مالگذاری یہی تھا کہ گاؤں کا افسر حاکم سے مالگذاری کی بابت قرار دمداد کر لیتا تھا اور گاؤں پر باچھ ڈال کر وصول کرتا تھا اور اس اہتمام کے معاوضہ میں بھی کچھ حق پاتا تھا۔ مسٹر لیتھبرج اپنے تارخ میں لکھتے ہیں کہ ’’ راجا کے ماتحت ہزار ہزار گاؤں کے سردار اور پھر ان کے ماتحت سو سو گاؤں کے سردار ہوتے تھے اور یہ سو سو گاؤں کے حلقہ ایسا ہوتا تھا جیسے آج کل پر گنہ ہوتا ہے ۔ پھر ان کے ماتحت گاؤں کے نمبر دار ہوتے تھے جو منڈی یا پٹیل کہلاتے تھے اور یہ سب راجا کے ملازم خیال کیے جاتے تھے۔ ‘‘ ’’ گاؤں کے زمینداروں کا طریقہ انتظام بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ ہند میں صدہا سال سے چلا آتا ہے۔ گاؤں کے نمبر دار راجا سے رقم مالگذاری کی بابت قرار مدار کر لیتا تھا اور گاؤں والوں پر اس کی باچھ ڈالتا تھا اور ادائے مالگذاری اور اہل دیہہ کی نیک چلنی کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ کسی قدر ارضی لاخراج اس کے قبضے میں ہوتی تھی اور گاؤں والوں سے بھی کچھ حق المحنت لیتا تھا اور بعض اوقات راج سے بھی کچھ تنخواہ مقرر ہوتی تھی۔ ‘‘ مگر معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے عہد میں اس طریقے میں کچھ تبدیل ہوئی اور انہوں نے چاہا کہ ہر ایک اراضی کی پیداوار میں سے حصہ لیا جاوے اور اس لیے ضروری ہوا کہ وہ ہر ایک کات کرنے والے سے اس زمین کا محصول یا خراج وصول کریں۔ ٹھیک دریافت نہیں ہو سکتا کہ یہ طریقہ کب سے رائج ہوا۔ صرف اس قدر پتہ لگ سکتا ہے کہ شیر شاہ کے عہد میں اس حصہ کی مقدار نہایت انصافانہ طور پر قرار دی گئی تھی جو زمین کی پیداوار سے حاکم کو لینا چاہیے۔ مگر اس پر کبھی انصافانہ عمل درآمد نہیں ہوا بلکہ کاشت کاروں سے اس قدر حصہ پیداوار کا وصول کیا جاتات ھا کہ اسکے پاس بجز کاشت کاری اور گذران کے وسیلوں کے اور کچھ نہ چھوڑتے تھے پھراکبر کے عہد کی تاریخود میں اس امر کی کہ کاشتکاروں سے بھی مالگذاری لی جاتی تھی زیادہ تر پتہ لگتا ہے آئین اکبری میں لکھا ہے کہ ’ عامل کو کاشت کار کے ساتھ یہ معاہدہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنا لگان خود لایا کرے تا کہ کسی خود غرض درمیانی شخص کے نوکر رکھنے کے واسطے کوئی حیلہ نہ ہو سکے اور جس وقت کوئی کاشتکار اپنا لگان لاوے تو خزانچی کو ایک رسید اس کو دے دینی چاہیے ‘‘ بعض انگریزی محققوں نے تسلیم کیا ہے کہ اکبر کے عہد کا بندوبست شرع شریف کے اس اصول پر مبنی تھا۔ جس کو ’’ مقاسمہ ‘‘ یعنی ’’ بٹائی ‘‘ اور بعض ملکوں میں ’’ بھاولی ‘‘ کہتے ہیں وہ علانیہ تسلی کرتے ہیں کہ ٹوڈرمل اور مظفر خان کا بندوبست زمینداروں کے ساتھ نہیں بلکہ کاشت کاروں کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اس قسم کے بندوبست کا اثر ہندوستان میں بجز دکن کے صوبہ جات کے کہیں نہیں پایا جاتا۔ ان صوبہ جات میں سلطنت انگریزی نے اپنی اور اراضی کے حقیقی کاشت کاروں کے مابین کسی کو قرار نہیں دیا اور انہیں سے اپنا حصہ پیداوار بلا تو سل غیر لے لیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمینداری کاشت کاراں پیدا ہو گئی اس طریقہ بندوبست کا جس کو ’’ رعیت واری ‘‘ بندوبست کے نام سے مشہور کتے ہیں مقر اصلی صوبہ مدراس ہے۔ بایں ہمہ یہ امر نہایت مشتبہ ہے کہ در حقیقت اس گروہ کا جس کو ہم زمیندار کہتے ہیں اس انتظام کی رو سے کاشتکاروں پر سے تحکم اور مداخلت اور کاشت کاروں کی غلامی کی حالت مرتفع ہو گئی تھی یا نہیں بلکہ اس بات کا یقین کرنے کی بہت سی وجوہ ہیں کہ باوجود اس انتظام کے اس گروہ کی وقعت اور اختیار و حکومت میں کچھ فرق نہیں آیا تھا۔ نسبت حقیقت یا ملکیت اراضی یا حق زمیندار کی ہم جداگانہ رسالہ میں بحث کریں گے۔ زمانہ قدیم میں زمین داروں کا اقتدار ہندوستان میں اکثر قریب رشتہ دار بطور خاندان مشترکہ کے رہتے تھے یہاں تک کہ جو آمدنی ایک قوت بازو سے ہوتی تھی اس میں سب شریک رہیت تھے تمام آمدنیاں سرمایہ مشترکہ متصور ہوتی تھیں اور تمام اخراجات بطور اخراجات مشترکہ خیال کیے جاتے تھے اور اس لیے ضروری تھا کہ ہر گھر کا ایک شخص افسر خاندان اور تمام خاندان پر حکم راں ہو پس ہر گھر میں ضرور ایک شخص بطور افسر یا سرگروہ کے ہوتا تھا اور تمام خاندان کے لوگاس کے تابع اور ماتحت گنے جاتے تھے اور وہ افسر ہر طرح اختیار اس گھر پر رکھتا تھا۔ گھر سے مراد احاطہ یا مکان نہیں تھا بلکہ ایک گھر سے وہ گروہ مراد تھے جو ایک شامل روٹی کھاتے تھے۔ اور کاروبار کرتے تھے۔ پس یہ کہنا نہایت زیبا ہے کہجن کا ایک چولہا تھا وہ ایک گھر تھا۔ باشندگان دیہہ کا وہ گروہ جو تمام باشندوں پر فوق رکھتا تھا اور سب سے اعلیٰ اپنا حق سمجھتا تھا اور اکثر یہ تھا کہ وہ سب ایک خاندان کی شاخیں تھیں اور جن کو ہم مختصر لفظوں میںزمیندار کہتے ہیں۔ ان سب میں بھی ایک شخص افسر اور سب پر حکمران ہوتا تا اور تمام گاؤں پر اس کا حکم چلتا تھا اورتمام جھگڑے جو گاؤں میں پیدا ہوتے تھے ان کے فیصلے کے لئے اسی سے فریاد کی جاتی تھی اور جو پنچایت جمع ہوتی تھی گویا وہ افسر اس کا صدر انجمن ہوتا تھا۔ یہ عہدہ افسری کا اکثر موروثی ہوتا تھا اورکبھی تمام مردوں میں جو سب سے زیادہ حسین ہوتا تھا اس کو ترجیح دی جاتی تھی بشرطیکہ وہ نالائق یا ناقابل کاروبار کے نہ ہو اور کبھی انتخابات سے اس افسر کا تقرر ہوتا تھا مگر یہ انتخاب کسی نہ کسی خاص خاندان کے لوگوں سے مخصوص ہوتا تھا۔ دیہاتی پنچایت یہ اعلیٰ روہ جن کو ہم نے زمیندار کہا گاؤں کی پنچایت کے ممبر ہوتے تھے اس گروہ میں جو نزاع قومیت یا ذات برادری کی یا بیاہ شادی کی یا آپس میں اراضی کی تقسیم کی یا مالگذاری یا اور قسم کے ڈانڈ کی باچھ ڈالنے کی یا آپس میں تالا بوں کا جھیلوں یا کنوؤں سے آبپاشی کی یا اور کسی قسم کی جو زمین سے یا اس کی پیداوار سیعلاقہ رکھتی ہے بلکہ تمام تنازع جو باہم ہوتے تھے ، پنچایت میں آتے تھے اکثر یہ پنچایت چوپال میں یا کسی مندر کے میدان میں یا تالاب کے کنارے پر جمع ہوتی تھی۔ افسر گاؤں صدر انجمن ہوتا تھا اور ہر خاندان کے سرگروہ اس میں جمع ہوتے تھے اور ہر شخص کو ان میں رائے دینے کا اختیار ہوتا تھا اور اس کی رائے کی مقدار کا اندازہ بلحاظ مقدار اس کے حصہ زمینداری کے ہوتا تھا۔ جب کہ دونوں فریق مخاصم مساوری درجہ اور قوت رکھتے تھے ۔ بلاشبہ یہ پنچایت نہایت منصفانہ اور واجبی فیصلہ کرتی تھی مگر غریب اور کم زور فریق ہمیشہ مظلوم رہتا تھا خود اس گروہ کی طاقت اس بات پر منحصر تھی کہ طاقت ور گروہ ساتھی و متفق رہیں اور اس لیے ممکن نہ تھا کہ غریب اور کمزورفریق کی مدد کی جا سکے۔ ہاں جو لوگ اس غریب پر رحم کھاتے تھے ، فریق ظالم سے جو درحقیقت زبردست بھی ہوتا تھا رحم کرنے اور کسی قدر اس پر مہربانی کرنے کی سفارش کرتے تھے۔ بعض دیہات ایسے تھے جو بڑے بڑے گاؤں سے نکل کر آباد ہوئے تھے اور بعض ایک ہ قوم کے متعدد ایک ہی جگہ آباد تھے مگر کوئی گاؤں کمزور اور تھوڑی آباد کا تھا اور کوئی گاؤں زبردست اور کثیر آبادی کا اس لیے چھوٹے گاؤں کسی بڑے گاؤں کے ماتحت قرار دیے جاتے تھے اور جب کوئی نزاع باہمی زمینداران کا اس چھوٹے گاؤں کی پنچایت سے فیصلہ نہ ہوتا تھا تو اس بڑے گاؤں کے پنچ آکر فیصلہ کے لیے شریک ہوتے تھے اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ شخص مظلوم اس بڑے گاؤں کے پنچوں کے سامنے اپنے مظلوم ہونے کی شکایت لے جاتا تھا۔ ہندی میں مثل مشہور ہے کہ ’’ میرے بیل کی بڑی بڑی آنکھیں ‘‘ اس زمانہ میں لوگ خیال کرتے ہیں کہ گاؤں کی پنچایت بہت عمدہ چیز تھی اور مظلوم کی حق رسی خوب ہوتی تھی مگر میں اس کا قائل نہیں ہوں کچھ شک نہیں ہے کہ اس زمانہ میں ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ کی مثال ٹھیک صادق آتی تھی۔ جس قدر خوبی ان پنچایتوں میں تھی ’’ تیتر کیمنہ میں لچھمی ‘‘ کوئی دوسرا سننے والا نہ تھا کوئی عدالت و حکومت مظلوم کا حق دلوانے والی نہ تھی جو کچھ تھی یہی پنچایت تھی پھر اس نے جو کچھ بھی کر دیا حق یا ناحق وہی انصاف تھا اور مظلوم کو چار و ناچار اسی کو سہنا پڑتا تھا۔ جو ظلم یا زیادتی کاشت کاروں پر یا اہل حرفہ اور مزدوری پیشہ پر ہوتی تھی اس کی فریاد کو بھی یہی پنچائت تھی مظلوم اکثر افسر گاؤں کے سامنے آکر اور منہ میں تنکالے کر ہاتھ جوڑ کر ایک ٹانگ سے کھڑا ہو جاتاتھا۔ منہ میں تنکا لینے سے یہ اشارہ تھا کہ ہم تمہاری گئو میں ہم پر مہربانی کرو افسر گاؤں کا اس کی فریاد سنے یا نہ سننے کا مختار کل تھا کبھی اس نے مظلوم کو دو چار گالیاں سنا دیں اورنکال دیا اور وہروتا ہوا اپنے جھونپڑے میں صبر کر کے جا بیٹھا اور کبھی اس نے اس کو دلاسہ دے دیا اور ظالم کو سمجھایا کہ اس قدر سختی نہ کرے یہ واقعات اکثر ایسے موقع پر ہوتے تھے جب کہ ظالم زمین داروں کے گروہ میں سے اور مظلوم رعیت کے گروہ میں سے ہوتا تھا لیکن جب دونوں گروہ رعیت کے گروہ میں سے اور مساوی درجہ کے ہوتے تھے اور کوئی زبردست گروہ کسی کا حامی اور مددگار بھی نہ ہوتا تھا تو فریقین کی رضا مندی یا انصافانہ طور پر فیصلہ ہو جاتاتھا۔ دیوانی اور فوجداری اور سخت جرائم سنگین کے مقدمے شاذو و نادر ہی گاؤں کی سرحد سے باہر جاتے تھے گروہ زمین داران میں باہم جو فساد اور فوجداری ہو جاتی تھی اس کا بیچ بچاؤضرور آپس کے گروہ کے لوگوں سے ہو جاتا تھا رعیت علی الخصوص وہ رعیت جو پیشہ وروں یا کمین قوم میں داخل تھی وہ جانوروں سے بھی کم رتبہ تھی ان پر جو ظلم ہوتے تھے اور جو کام خدمت بطور بیگار کے ان سے لیے جاتے تھے ان کی داد فریاد تو سننے کے قابل ہی نہ تھی کیوں کہ وہ ایسے ظلموں کی برداشت کے لیے مخلوق ہی خیال کیے جاتے تھے البتہ خوش باش رہنے والوں میں سے وہ لوگ جو بقالی اور مہاجنی کرتے تھے کسی قدر خوشی رہتے تھے ان سے تمام گاؤں کے باشندوں کو اور نیز زمین داروں کو گروہ کو غرض پڑتی تھی اور اسی لیے سب کا مقصد ہوتا تھا کہ ایسا بندوبست کیا جاوے کہ بقال اور مہاجن گاؤں میں آباد اور گاؤں والوں کے مددگار رہیں۔ بقال اور مہاجن افسر گاؤں سے اور زبردست گروہ سے نہایت دب کر موافقت رکھتے تھے اور روپیہ پیسہ سے اور تخفیف یا معافی سود سے ہمیشہ بطور رشوت ان کے ساتھ سلوک کرتے رہے تھے اور وہ گروہ بقالو ں اور مہاجنوں کی جان اور مال کا محافظ ہوتا تھا اور انہیں کی تقویت پر وہ لوگ گاؤں میں آباد رہتے تھے اور جو داد ستد کہ ان کی گاؤں والوں سے ہوتی تھی اس روپے کے وصول کرانے اور ناواجب سود دلوانے میں مددگار ہوتے تھے اور جب رعایت روپیہ اور سود کی مہاجن اپنے حامی زبردست گروہ کے ساتھ کرتے تھے اس سے زائد غریب رعایا سے وصول کر لیتے تھے۔ لیکن جب کسی مہاجن اور بنئے کی گروہ زمین داران سے ناموافقت ہو جاتی تھی تو اس کو بجز اس کے کہ گاؤں چھوڑ کر بھاگ جاوے اور کچھ چارہ نہ تھا یہ طریقہ مدقمات داد ستد کے تصفیہ ا تھا جو ایک نہایت جابرانہ اور نامنصفانہ طریقہ پر انجام پاتا تھا۔ ان تمام ظالمانہ اقتدار و حکومت کا اب بھی بہت جگہ نشان پایا جاتا ہے جہاں کے زمیندار زبردست اور قابو یافتہ اور شورہ پشت میں وہاں اب بھی رعایا پر بہت کچھ ظلم ہوتے ہیں۔ سرکار انگریزی کی عمل داری میں جہاں اکثرت سے عدالتیں موجود ہیں اور ہر ایک مظلوم کو ہر قسم کی فریاد کا موقع ہے۔ اور عدالتیں اور حکومت بھی ایسی قوی ہے کہ ہر ایک حاکم چھوٹی اور بڑی عدالت کا اپنے حاکم ک تعمیل اعلیٰ سے اعلیٰ رئیس اور شورہ پشت سے شورہ پر پوری پوری کر سکتا ہے یہ تمام ظلم نہایت گھٹ گئے ہیں مگر پھر بھی زمین داروں کو بہت کچھ ظلم کرنے کا مواقع باقی ہیں۔ انسداد واردات دیہی گاؤں میں اس کے باشندوں کے باہم بجز لڑائی جھگڑے مار کٹائی کے جو کسی تکرار و نزاع سے واقع ہو جاتے تھے اور کسی قسم کی واردات مثل دزدی و ڈاکہ زنی کے وقوع میں نہیں آتی تھی آپس میں ایک گاؤں کے باشندے دوسرے گاؤں والوں سے اور خصوصا ان دیہات سے جہاں کے زمیندار ایک قوم کے تھے اس بات کا آپس میں معاہدہ رکھتے تھے کہ ایک دوسرے کے گاؤں میں کوئی واردات نہ کرے بایں ہمہ اگر کوئی واردات دزدی مویشی یا کسی اور قسم کی ہو جاتی تھی تو اس بات کا دریافت کرنا کہ کس گاؤں والوں نے کی ہے چنداں مشکل نہ تھا اور ہمیشہ اسی گاؤں کے زمیندار جہاں چوری کا مال گیا ہے مال وپس دلوا دیتے تھے۔ مویشی کی چوری کا سراغ لگانے کو کھوجیے ہوتے تھے جو مویشی کے پاؤں کے نشان سے سراغ لگاتے تھے کہ کس گاؤں میں وہاں کا زمیندار یا آگے سراغ چلاتا تھا یا اپنے گاؤں میں دریافت کرتا تھا اور مال مسروقہ واپس دلا دیتا تھا۔ اس آپس کے معاہدے سے دیہات میں چوری وغیرہ کی واردات کا نہایت امن رہتا تھا مگر کبھی کبھی ایک گاؤں کے دوسرے گاؤں سے بہ وجہ نہ ملنے مال مسروقہ کے یا عورت کے بھگالے جانے کے نزاع قائم ہو جاتی تھی اور ایک گاؤں دوسرے سے بدلہ لیتا تھا کبھی کبھی ایک گاؤں دوسرے گاؤں پر چڑھائی کر دیتا تھا اور جو غالب و زبردست ہوتا تھا ، گویا حق اسی کی طرف ہوتا تھا۔ عورتوں کے متعلق مقدمات کمتر ہوتے تھے بعض قومیں ایسی تھیں جن میں عورت کے نکال دینے کا یا شوہر اول کی وفات کے بعد دوسرے خاوند کے کر لینے کا رواج تھا پس اس میں ان لوگوں کی برادری کی اجازت درکار تھی۔ جاٹوں میں عورت کا دوسرے کے ساتھ چلا جانا اور پھر اپنے خاوند کے پاس چلا آنا چنداں عیب نہ تھا مگر صرف برادری کی رضا مندی درکار تھی۔ جو قومیں ایسی تھیں کہ ان باتوں کو نہایت ناگوار سمجھتی تھیں ، ان کے ہاں عورتوں کو اپنی جان کی حفاظت کی بہت ہی کم طمانیت تھی اور اس قوم کی عورتیں جو ناجائز فعل کی مرتکب ہوتی تھیں ان کو مار ڈالنا کو جرم نہیں تھا بلکہ تمام لوگ اس کو اچھا سمجھتے تھے اس لیے اس قسم کی وارداتوں کی کوئی پرسش نہ تھی بلکہ وہ جرم ہی نہیں سمجھا جاتاتھا۔ جن قوموں میں بیٹی کا ہونا نہایت ہی شرم کی بات سمجھا جاتاتھا ان قوموں میں بیٹیوں کا مارا ڈالنا کوئی جرم نہ تھا بلکہ اس پر نہایت فخر کیا جاتا تھا۔ رسم دختر کشی کی ہندوستان میں اب تک جاری ہے۔ گورنمنٹ انگریزی نے چند سال سے اس کے انسداد میں کوشش کی ہے اور خاص قانون جاری کیے ہیں اور نہایت نگرانی کی ہے تب بھی نہایت شبہ ہے کہ پوری کام یابی ہوئی ہو۔ تعجب یہ ہے کہ دختر کش قومیں جو مسلمان ہو گئی ہیں ان میں بھی اکثر یہ رسم بد اب تک جاری ہے۔ کسی مندر پر یا دیبی (دیوی) کے نام پر انسان کا قربانی کرنا اورستی ہوتا نہایت پاک اور مقدس فعل گنا جاتا تھا بہت ہی کم گاؤں ہندوستان میں ایسے ہوں گے جہاں ستی کا مٹھ یا ڈھیر نہ ہو۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اشرف قوموں میں ستی کا رواج بہت کثرت سے ہو گیا تھا اور متوفی کی عزت اور ستی ہونے والی عورت کا نہایت مقدس ہونا سمجھا جاتا تھا۔ یہ دونوں رسمیں ہندوستان سے سرکاری انگریزی کی عمل داری میں بالکل معدوم و مفقود ہو گئی ہیں برسوں میں کہیں اتفاقیہ اور دفعۃ ایسی واردات اب بھی واقع ہو جاتی ہے مگر اس کے تدارک اور مجرموں کو سزا دیہی میں ذرا بھی غفلت و سستی نہیں ہوتی۔ گورنمنٹ انگریزی کے رعب و داب کے سبب اکثر ہندوستانی عمل میں سے یہ رسم ستی کی جاتی رہی ہے۔ مال غنیمت ایک بڑا ذخیرہ زمینداروںکی آمد نی کا لوٹ کا مال تھا۔ جاٹ ، گوجر ، حیواتی ، پھانسیہ ، مینے اور چند قومیں ہندوستان کی ایسی ہیں جن کا اصلی آبائی پیشہ چوری کرنا ، لوٹنا ڈاکہ ڈالنا ہے۔ چند گاؤں کے لوگ آپس میں شرکت رکھتے تھے اور ڈاکہ زنی کیا کرتے تھے۔ اکثر بڑے بڑے قصبوں یا شہروں میں جہاں مال دار آدمی رہتے تھے اورجو اس سلسلہ دیہاتی اتفاق سے خارج تھے ، ڈاکہ ڈالتے تھے۔ مسافروں کے قافلوں کول وٹتے تھے جب تک کوئی مضبوط فاقلہ ہتھیار بند جمع نہ ہو جاتا تھا رستہ چلنا مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ جو لوگ شریک ڈاکہ زنی اور چوری کے ہوتے تھے وہ مال مسروقہ میں حصہ بانٹتے تھے مگر اس گاؤں کے زمینداروں کا جہاں کے رہنے والے ڈاکہ مارنے والے ہوں ضرور حصہ ملتا تھا خواہ وہ ڈاکہ مارنے میں شریک ہوں یا نہ ہو۔ ٹھگوں کا فرقہ ایک علیحدہ فرقہ تھا جس کو باشندگان موضع سے کوئی تعلق نہ تھا اور اس لیے اس کا ذکر اس مقام پر ضرور نہیں۔ اگلی عمل داریوں میں اس قسم کی وارداتوں پر باقاعدہ توجہ نہ ہوتی تھی۔ بعض عاملوں نے کچھ انتظام کیا اور اس میں کچھ کمی ہو گئی بعض سست عاملوں نے کم توجہ کی واردات کی کثرت ہو گئی۔ گورنمنٹ انگریزی کی عمل داری میں جہاں تک ممکن ہوا اس کے معدوم کرنے میں کوشش کی گئی ہے اور در حقیقت ڈاکہ زنی معدوم ہو گئی ہے گو کہ اب بھی کبھی کبھی واردات سخت واقع ہو جاتی ہے جس کا تدارک بھی قرار واقعی کیا جاتا ہے۔ گورنمنٹ انگریزی کی فوجداری عدالتوں کے نقشوں میں جو ڈاکہ زنی کی وارداتیں مندرج ہوتی ہیں ان میں اکثر وہ وارداتیں ہیں جو حقیقت میں خفیف ہیں اور ہندوستانی عہد کی ڈاکہ زنیاں نہیں ہیں بلکہ انگریزی قانون نے ڈاکہ زنی کے جرم کی ایک تعریف قرار دی ہے پس اس قسم کا جو جرم واقع ہوتا ہے گو اس کے مرتکب تین ہی آدمی ہوں اور ہتھیار بند ہوں یا لٹھ بندیا نہتے۔ اس کو جرم ڈاکہ زنی میں داخل کیا جاتا ہے مگر ان کو خارج کر دیا جاوے تو اصل ڈاکہ زنی جیسا کہ ہندوستانی عمل داریوں میں ہوتی ہے شاذ و نادر ہی واقع ہوتی ہیں۔ ہندوستانی عمل داریوں میں جہاں پولیس کا انتظام انگریزی قاعدہ پر ہو گیا ہے ، ڈاکہ زنی کی وارداتیں بہت کم ہو گئی ہیں بلکہ نہیں رہیں۔ اس کے سوا اور ہندوستانی عمل داریوں میں بھی ڈاکہ زنی کی وارداتیں انگریزی حکومت کے اس رعب و انتظام جس کا عکس ان ہندوستان عمل داریوں پر پڑتا ہے بہت کم ہیں۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حصہ دوئم اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید نایاب رسائل و مضامین جلدشانز دہم حصہ سوئم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی محصولات قدیم زمانے میں اس گروہ کو جس کو ہم نے زمین دار کے نام سے موسوم کیا ہے ، ایک عجیب اختیار محصولات کی تحصیل کا حاصل تھا اور تین قسم کی محصول تھے جو وہ تحصیل کرتے تھے اول ۔ محصول راہ ۔ دوم ۔ محصول آمد و رفت مال ۔ سوم ۔ محصول میر بحر۔ قدیم زمانے میں میں رستہ چلنے کی سٹرکیں ناپیدا تھیں کسی کسی بادشاہ نے کوئی عام سٹرک کلاں بنوائی تھی مگر ملک میں اندرونی سفر کے لیے کوئی سٹرک نہ تھی صرف پگڈنڈیوں اور گاڑی کو لیکھ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں ، دوسرے گاؤں سے تیسرے گاؤں کو اور علی ہذا القیاس جاتی تھی چناں چہ ہندوستانی عمل داریوں میں اب بھی اس مقس کے نمونے موجود ہیں اس راہ کا کھلا رکھنا زمینداروں کے زمہ تھا اور اس لیے جو مسافر ان کے گاؤں میں ہو کرگزرتا اس رستے سے چلنے کا محصول لیتے تھے یہ محصول ہاتھ ہلائی یا خاک اڑائی کے نام سے مشہور تھا یعنی پیادہ آدمی سے کہتے تھے تم ہمارے گاؤں میں ہاتھ ہلاتے ہوئے چلے ہو اس کا محصول دو اور جو شخص سواری پر جاتا تھا اس سے کہتے تھے کہ ہمارے گاؤں کی جو خاک اڑائی اس کا محصول دو ۔مسافر کو ایک منزل طے کرنے میں متعدد جگہ محصول دینا پڑتا تھا۔ ہاں غریب محتاج فقیروں پر یہ محصول چھوڑ دیتے تھے۔ سٹرک نہ ہونے سے اکثر مسافر رستہ بھول جاتے تھے اور گاؤں کا افسر گاؤں میں سے کسی چمار یا چوڑے کو رستہ بتانے کو ساتھ کر دیتا تھا جو اگوا کے نام سے نام زد تھا یہ خدمت غریب رہنے والے گاؤں کے بطور بے گاہ کے کیا کرتے تھے اور ان لوگوں نے آپس میں باریاں باندھ رکھی تھیں اسی باری کے مطابق اس خدمت کو انجام دیتے تھے مگر مسافر بطور انعام کے دوپیسے ان کو دے دیتے تھے ۔ یہ اگوا مسافروں کو اپنے گاؤں کی سرحد سے دوسرے گاؤں تک پہنچا دیتا تھا اور اگرضرورت ہوتی تو اس گاؤں سے پھر اگوا مل جاتا تھا۔ عامل یا کوء یذی رعب شخص یا سپاہی فوج کا یہ کوئی چوہدری گاؤں کا سفر کرتا تھا تو اس کا اسباب لے جانے کو گاؤں سے بے گار نکالی جاتی تھی اور جتنے آدمی در کار ہوتے تھے ، حاضر کیے جاتے تھے اور ان کا اسباب اپنے گاؤں سے ڈھو کر دوسرے گاؤں تک پہنچا دیتے تھے اور اس گاؤں سے اور بیگاری ان کو مل جاتے تھے اکثر ہندوستانی عمل داریوں میں طریقہ بیگار کا اب تک جاری ہے سرکار انگریزی کی عمل داری میں بھی برسوں تک یہ ظالمانہ طریقہ جاری رہا مگر گورنمنٹ انگریزی نے اس کے موقوف کرنے میں نہایت کوشش کی اور اب غالبا یہ طریقہ انگریزی عمل داری میں عموما موقوف ہو گیا ہے گو کبھی کبھی ظالم عامل یا جبر حاکم بعض اوقات بطور بیگار کے گاؤں کے غریب آدمیوں سے اب بھی کام لیتے ہیں ۔ مال کی آمد و رفت پر ہو گاؤں میں کچھ محصول لیا جاتا تھا جو راہ داری کا محصول کہلاتا تھا اسی محصول کے لیے کوئی تعداد یا اندازہ مقرر نہیں تھا مگر ہر ایک بیو پاری کو جس کا مال کسی گاؤں میں ہو کر گزرتا تھا کچھ نہ کچھ محصول دینا پڑتا تھا اور جو کہ ہر جگہ یہ محصول لیا جاتاتھا اس لیے ہر ایک مقام پر نہایت قلیل محصول دینا ہوتا تھا۔ میر بحر کا محصول عام نہ تھا بلکہ جس گاؤں کی سرحد میں کوئی چھوٹا سا نالہ یا ندی وقاع ہوتی تھی جس میں کوئی کشتی یا گھرنائی مسافروں کے پار اتارنے کے لیے رکھنے کی ضرورت ہوتی تھی ان دیہات میں مسافروں سے میر بحری کا محصول لیا جاتا تھا یہ محصول در حقیقت کچھ ناواجب نہ تھا اور اب بھی گورنمنٹ انگریزی کی عملداری میں بھی جہاں سرکاری انتظام میر بحری کا نہیں ہے وہاں زمیندار آئندہ وروند سے یہ محصول یتے ہیں مگر قریباً کل ایسے مقامات پر گورنمنٹ انگریزی نے خود میر بحری کا اپنے عمال اور حکام کی نگرانی میں انتظام کیا ہے اور خود یہ محصول وصول کرتی ہے۔ صرف حال کے زمانہ میں اور اگلے زمانہ میں جو فرق ہو گیا ہے کہ جو محصول زمیندار تحصیل کرتے تھے وہ ایک اپنی آمدنی اور اپنا ذاتی فائدہ سمجھتے تھے اور مسافروں کی آسائش اور گھاٹوں اور کشتیوں کی درستگی پر کچھ توجہ نہ کرتے تھے بر خلاف اس کے گورنمنٹ انگریزی اور تمام محصول کو لوگوں کے فائدے کے لیے گھاٹوں اور پلوں اور کشتیوں کی درستی میں صرف کرتی ہے اور جو روپیہ بچتا ہے وہ خود نہیں لیتی بلکہ متعدد اضلاع میں سٹرکوں اور شارع عام کی درستی کے لیے بطور حصہ رسدی تقسیم کر دیتی ہے۔ نظام آبادی دیہہ اس جاہل گروہ نے جس نے کہ ابتداء اس زمین پر قبضہ کیا تھا جو گاؤں کے حدود کے اندر داخل ہے نہایت عمدہ اصول پر اس کی آبادی کا انتظام کیا تھا اور عمدہ سے عمدہ جو اصول کفایت شعاری کے ہو سکتے ہیں وہ کام میں لانے تھے مگر غریب لوگ ظلم اٹھانے سے نہیں بچتے تھے اور وہ بھی ان ظلموں کے برداشت کرنے کے ایسے عادی ہو گئے تھے جیسے جنوبی امریکہ کے غلام ۔ اور اسی میں خوش تھے حقیقت میں وہ باشندے گاؤں کے جو رعیت کہلاتے تھے گروہ زمینداروں کے غلاموں کے مانند تھے ان کی ان و مال و محنت پر گروہ زمینداران کا پورا پورا اختیار تھا صرف اتنا فرق تھا کہ جو گروہ رعیت کا کسی قدر ذی وقعات اور ذی وجاہت تھا اس پر غلامی کی حالت کمتر طاری تھی اور اس گروہ پر جو کمینہ قوم کی کہلاتی تھی پوری پوری حالت غلامی کی رہتی تھی۔ گاؤں کے آباد کرنے کے لیے متعدد اشخاص اور متعدد گروہوں کے گاؤں میں بسانے اور بعض مشترکہ کام انجام دینے کی ضرورت پڑتی تھی اور غالباً وہ معتدد اشخاص اور متعدد گروہ اور مشترکہ کام یہ ہوتے تھے۔ اول ۔ رسومات مذہبی ادا کروانے والے اشخاص ۔ دوم تاریخانہ واقعات اور سلسلہ انساب کے محفوظ رکھنے والے اشخاص واسطے محفوظ رکھنے حصہ داری اور وراثت کے ایک ضروری امر تھا۔ سوم ۔ گروہ کاشتکاروں کا جن کی ضرورت رقبہ گاؤں کی کاشت کرنے کے لیے تھی کیوں کہ ممکن نہ تھا کہ وہی لوگ جنہوں نے ابتداء گاؤں کے رقبہ پر قبضہ کیا تھا اس سب میں زراعت کر سکتے۔ چہارم ۔ اہل حرفہ ۔ پنجم ۔ مزدوری پیشہ ۔ ششم ۔ مہاجن و بقال۔ ہفتم ۔ ارباب نشاط ۔ ہشتم ۔ محاسب۔ مشترکہ کام جو گاؤں کی آبادی کے لیے ضروری تھے وہ غالباً تین قسم کے تھے۔ ایک ایسے مکان کا ہونا جو بطور ٹاؤں ہال کے سب کی ملکیت مشترکہ ہو ۔ دوم ۔ گاؤں میں آبپاشی کے ذریعے مہیا کیے جانے۔ سوم ۔ گاؤں کی سر سبزیوں اور گاؤں کے رہنے والوں کے فائدے کے لیے میوے کے باغات لگانے ان سب چیزوں کو اس جاہل گروہ زمینداروں نے نہایت عمدگی و ترتیب سے مہیا کیا تھا جس کی تفصیل آگے بیان کی جاتی ہے۔ رسوم مذہبی ادا کروانے والے اشخاص اکثر ہر بڑے گاؤں میں پوجا کرنے کے لیے ایک یا ایک سے زیادہ مندر ہوتا تھا یہ مندر گاؤں کے رہنے والوں کی مشترکہ امداد سے بنایا جاتا تھا اور اس کے لیے کوئی برھمن بطور پجاری کے مقرر ہوتا تھا۔ اس برہمن کو بعوض پوجا پاٹ کرانے کے مشترک اراض میں سے کچھ زمین کاشت کے لیے دی جاتی تھی اور وہ زمین محصول یا اور کسی قسم کے لگان سے معاف رہتی تھی۔ یہ برہمن اکثر جاہل ہوتا تھا اور بجز دیوتا پر پانی چڑھانے کے یا بھوگ لگانے کے اور کچھ نہیں جانتا تھا مگر گاؤں میں ایسے پنڈت کی بھی ضرورت ہوتی تھی جو جوتش جانتا ہو اور سعد اور نحس اوقات کو بتا سکتا ہو، شادی بیان کے لیے لگن نکال سکتا ہو، مرنے کی رسومات کو ادا کر سکتا ہو ۔ اس لیے ایک اور پنڈت جو جو ان کاموں کے لائق ہوتا تھا گاؤں میں مقرر کیا جاتا تھا اور وہ ان سب کاموں کو انجام دیتا تھا اور اس کو بہ عوض اس خدمت کے فصل کی تیاری پر ہر ایک کھلیان میں سے کچھ غلہ ملتا تھا اور شادی بیان میں بھی کچھ دیا جاتا تھا یہ عالم پنڈت کسی ایک گاؤں میں رہتا تھا اور آس پاس کے متعدد گاؤں اس کے متعلق ہوتے تھے اور اس کی برت ان سب گاؤں میں بطور ایک حق کے تسلیم کی جاتی تھی اور ان دیہات میں سوائے اس پنڈت کے اور کسی پنڈت کو ان کاموں کے انجام دینے کا استحقاق نہ ہوتا تھا۔ یہ قدیم انتظام مذہبی رسومات ادا کرنے کا اب تک تمام ہندوستان کے گاؤں میں نہایت استحکام کے ساتھ قائم اور بحال ہے۔ تاریخانہ واقعات اور سلسلۂ انساب کے محفوظ رکھنے والے اشخاص تاریخانہ واقعات کے یاد رکھنے والے جداگانہ اشخاص ہوتے تھے جو بھاٹ کہلاتے تھے۔ یہ بھاٹ بھی کسی ایک گاؤں میں سکونت رکھتے تھے اور آس پاس کے متعدد گاؤں ان کے متعلق ہوتے تھے اور وہ سب گاؤں انہیں کی برت کے گاؤں کہلاتے تھے ان بھاٹوں کے پاس بھیاں ہوتی تھیں اور وہ ہر ایک گاؤں کے گروہ زمینداران کا نسب نامہ اس میں لکھتے تھے اور جو لڑکا پیدا ہوتا تھا اس کا نام اس میں بڑھا دیتے تھے اور جو مرتا تھا اس کی تاریخ وفات لکھ دیتے تھے اور بعض بڑے بڑے واقعات کی یادداشت بھی اس میں ہوتی تھی مجھ کو متعدد دیہات کے بھاٹوں کے بھیاں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے اور اس میں بد سلیقگی اور جاہلانہ طور پر پرانے واقعات کا پتہ لکھا ہوا پایا ہے۔ ان بھاٹوں کو ہر فصل میں ہر ایک کھلیان سے کچھ غلہ ملتا تھا اور جب لڑکا پیدا ہوتا تھا اور بیاہ شادی میں اور فصل کے تیار ہونے پر یہ بھاٹ گاؤں میں اپنا معمول لینے کو آتے تھے اور افسر گاؤں کے سامنے کبت پڑھتے تھے اور ان کا نسب نامہ بیان کرتے تھے اور ان کے بزرگوں نے جو بڑے بڑے کام کیے تھے اس کو بطور تعریف کے بیان کرتے تھے اور ان کا یہ بیان کڑکا کہلاتا تھا جو شخص ان کا حق نہ دیتا تھا اس کا گڈا بنا کر ایک لمبی بانس میں لٹکاتے تھے اور اور دیہہ بہ دیہہ اس کو فضیحت کرتے پھرتے تھے اس زمانے میں ان بھاٹوں کا انتظام مستحکم نہیں رہا ہے بہت کم ایسے گاؤں ہوں گے۔ جہاں بھاٹوں کا انتظام قائم ہو۔ سنا جاتا ہے کہ بعض ہندوستانی عملداریوں میں اب بھی بھاٹوں کا انتظام اکثر جگہ قائم ہے۔ گروہ کاشت کاران ان لوگوں نے جو ابتداء اس رقبہ پر قبضہ کیا تھا جو موضع کے حدود کے اندر واقع ہے۔ ان کو سب سے بڑی ضرورت ایک ایسے معاون گروہ پیدا کرنے کی تھی جو اراضی کی کاشت میں ان کو مدد دے۔ اسی ضرورت نے گروہ کاشتکاران کو ہر ایک موضع میں پیدا کیا تھا۔ قابضان اول ایسے لوگوں کو گاؤں میں لا کر آباد کرتے تھے جو زمین کو کاشت کریں اور پیداوار زمین میں سے کوئی معین مقدار بہ معاوضہ اپنی محنت کے وہ لوگ لیں اور کوئی معین مقدار قابضان اول مالگداری سرکار ادا کریں اور جو بچے خود متفع ہوں۔ کچھ شبہ نہیں ہے کہ ابتداء میں عموماً کاشت کاروں سے از روئے بٹائی یا بھاولی کے جنس پیداوار زمین میں سے ہر ایک حصہ معین لیا جاتا تھا مگر جب غلہ پیداوار زمین کا کھلیان میں جمع ہوتا تھا تو زمیندار کو اس کی حفاظت کرنی پڑتی تھی۔ ان مشکلات کے رفع کرنے کو بعض دیہات میں کنکوت کا رواج ہو گیا تھا یعنی جب غلہ تیار ہوتا تھا تو کچھ لوگ زمیندار کی طرف سے اور کچھ لوگ کاشتکار کی طرف سے کھیت پر جمع ہوتے تھے اور کھڑے کھیت میں اناج کا اور بھوسہ کا تخمینہ کر لیتے تھے اور اس تخمینہ پر جو مقدار غلہ اور بھوسہ کی زمیندار کے حصہ کی ہوتی تھی بعد درو ہونے غلہ کے کاشت کار سے لے لیتے تھے خواہ بعد درو ہونے کے غلہ اس تخمینہ سے زیادہ نکلے یا کم۔ کنکوت کرنے والے لوگ جن کو کھڑے کھیت کے غلہ کے تخمینہ کرنے میں نہایت معارت ہوتی تھی گاؤں اور پرگند میں مشہور ہوتے تھے اور کنیئے کہلاتے تھے اور اکثر وہی لوگ کھڑے کھیت کا تخمینہ کرنے کے لیے بلائے جاتے تھے۔ بعض دیہات ایسے بھی تھے جہاں کے زمیندار بعوض حصہ پیداوار کھیت کے نقد روپیہ ادا کرتے تھے۔ عمل داری انگریزی میں اکثر دیہات ایسے ہیں جن میں بروقت بندوبست کی شرح نقدی مقرر ہو گئی ہے اور ایسے بھی ہیں جہاں اب تک بٹائی یا بھاولی کا رواج جاری ہے۔ جو وجہ کہ کاشت کاروں کی ضرورت کی بیان ہوئی اس سے پایا جاتا ہے کہ نسبت قبضہ اس اراضی کے جو ان کی کاشت میں ہے اور نسبت ادائے حصہ پیداوار یا ادائے زر نقد کے کاشت کاروں کے مختلف حقوں ہوں گے۔ بہت سے کاشت کار ایسے نکلیں گے جن کے مورثوں نے ناقص یا افتادہ زمین میں کاشت شروع کی ہو گی اور اپنا سالہا سال کی محنت سے اور بعض دفعہ اپنا روپیہ خرچ کر کے اس زمین کو قابل عمدہ پیداوار کے کیا ہو گا اور ضرور ہے کہ ایسے کاشت کاروں کو اس زمین کو اپنے قبضہ کاشت میں رکھنے اور اس کی پیداوار میں سے ایک تھوڑا حصہ مثلا چوتھائی یا تہائی ایک خفیف لگان زمیندار کو دینے کا حق ہو اور بہت سے ایسے کاشت کار بھی نکلیں گے جو ایک مدت دراز سے پشت در پشت زمین کو کاشت کرتے چلے آتے ہیں اور پیداوار زمین میں سے حصہ معین یا لگان معین میں بلحاظ حیثیت اراضی کے بھی واجبی ہے نہ کم ہے نہ زیادہ ، ادا کرتے آتے ہیں اور بلاشبہ ان کا حق بہ نسبت اول قسم کے کاشت کاروں کے کسی قدر کم ہو گا۔ لیکن ان کے اس حق میں کہ بہ ادائے حصہ پیداوار معین یا لگان واجب اپنی اراضی کاشت پر قابض رہیں کسی کو کچھ کلام نہیں ہو سکتا اور بہت سے ایسے کاشت کار بھی نکلیں گے کہ صرف جو چند سال سے یا بہ اجازت و رضا مندی زمین داران اراضی کو کاشت کرتے ہوں اور ہر سال بموجب اس معاہدہ کے جو سال بہ سال یا چند سال کے لیے زمین دار سے ٹھہرا ہو حصہ پیداوار اراضی یا زر نقد ادا کرتے ہوں اور آئندہ ان کا کاشت کرنے یا اراضی کاشت کاروں کو بلا مرضی زمین دار اراضی کے کاشت کرنے یا اراضی کاشت کاری کو قبضہ میں رکھنے کا کوئی حق حاصل نہ ہو۔ کاشت کاروں کی مذکورہ حالت ایک لازمی حالت ہے اور کوئی ملک اور کوئی گاؤں ایسا نہیں نکلنے کا کہ جہاں گروہ کاشت کاران کی حالت مذکورہ جو ان کے حقوق کی بناء ہے موجود نہ ہو۔ انہیں حالات میں اور رواج کی بناء پر اقسام کاشت کاران جو موروثی اور اور مستحق قبضہ اور غیر مستحق قبضہ کے نام سے نام زد ہیں ، نکلے ہیں کوئی ملک ایسا نہیں ہے کہ جو یہ کہہ سکے کہ فی الحقیقت اس میں حقوق کاشت کاران موجود نہیں ہیں یا کبھی موجود نہ تھے ۔ ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ ہندوستانی عمل داربوں میں جیسا کہ اودھ کی عمل داری تھی رعایا کے حقوق کی حفاظت کا کوئی ذریعہ موجود نہ تھا اور تمام کاشت کار زمینداروں کے یا عاملوں اور چکلہ داروں کے غلام تھے اور جو کچھ ظلم اور زیادتی زمیندار اور عامل اور چکلہ دار ان پر کرتے تھے اس کا کوئی فریاد رس نہ تھا اور کاشت کاروں کی جان و مال اور ان کے حقوق ظالم زمینداراں اور عاملوں اور چکلہ داروں کے ہاتھ میں تھے اور وہ جس کاشت کار کی چاہتے تھے حق تلفی کر دیتے تھے اور اسی کی موروثی کاشت کو جس پر وہ قبضہ رکھنے کا مستحق تھا چھین لیتے تھے اور اس کے کھیت کی تمام پیداوار کو لوٹ لیتے تھے مگر یہ ظالمانہ حرکتیں تھیں ان ظلموں کے واقع ہونے سے ان اصلی حقوق کا جو ان کے تھے بطلان لازم نہیں آتا۔ ان حالات کے بیان کرنے سے ظاہر ہوا ہو گا کہ سرکار اور کاشت کار کے درمیان ایک تیسرا شخص یعنی زمیندار واسطہ تھا مگر جن ملکوں میں رعیت داری بندوبست ہے جیسا کہ بمبئی اور مدارس اور سرکار عالی آصفیہ کی مملکت برار اور اورنگ آباد ان میں سرکار اور کاشت کار میں کوئی واسطہ نہ رہے مگر ہم کو نہایت شبہ ہے کہ در حقیقت ایسا ہوا بھی تھا اور حقیقت زمینداری یا حقوق زمینداران اور اختیار اور اقتدار زمینداران معدوم ہو گئے تھے اکثر دیہات بندوبست رعیت داری ایسے پائے جاتے ہیں جہاں ایک گروہ ایسا موجود ہے جو تمام اقتدار اور اختیار اسی قسم کا رکھتا ہے جیسے کہ دیہات زمیندار میں وہ گروہ رکھتا ہے ، جو زمینداران کے نام سے موسوم ہے صرف اتنا فرق ہے کہ دیہات بندوبست رعیت داری میں ان کا نام تبدیل ہو گیا ہے زمیندار کے نام سے موسوم نہیں ہیں۔ ہندوستان میں پرانی دستاویزیں اس بات کی شاہد موجود ہیں کہ گو مغلیہ سلطنت میں سرکار اور کاشت کار میں واسطہ نہ رکھنے کی کوشش کی گئی ہو ۔مگر حقوق زمیندار کبھی معدوم نہیں ہوئے ہم اس بحث کو کسی رسالہ میں باللستیعاب بیان کریں گے۔ گروہ اہل حرفہ گاؤں کی آبادی کے لیے اہل حرفہ کے گروہ کا علی الخصوص ان لوگوں کا جو لوہاری اور بخاری اور چمڑے کا کام کرتے ہیں موجود ہونا نہایت ضروری تھا گو ہندوستان کے زمینداروں اور کاشت کاروں کے پاس آلات کشا ورزی نہایت سادی ہیں لیکن ان کے لیے بھی ہمیشہ لوہار بڑھئی اور چمڑے کا کام کرنے والوں کی ضرورت پڑتی ہے اور اسی سبب سے ان کے آباد کرنے کی ضرورت پڑی۔ اگر ان کو ہر کام کی اجرت دی جاتی تو خرچ کثیر پڑ جاتا ہے جس کے ادا کے متحمل زمیندار اور کشت کار نہ ہو سکے۔ پس انہوں نے کفایت شعاری کے اصول پر انتظام کیا اہل حرفہ کو آبادی دیہہ میں رہنے اور مکان بنانے کے لیے زمین دی بعض دیہات میں ہر کھلیان میں سے معین مقدار کا غلہ ان کو دینا قرار پایا بعض دیہات میں اراضی مشترکہ میں سے کسی قدر زمین ان کو کاشت کرنے کے لیے دی اور بعض دیہات دونوں قسم کے حق ان کو دیے گئے وہ لوگ گاؤں میں آباد ہوئے اور اپنی نفعت کے لیی اپنے پیشہ کا کام وہاں جاری کیا اور یہ معاوضہ اس رعایت کے جو ان کے ساتھ کی گئی معمولی آلات کشا ورزی کی حرمت اور درستی ان کے ذمہ قوار پائی۔ چھوٹے چھوٹے دیہات میں جہاں آبادی کم تھی اور اس قسم کے اہل حرفہ وہاں آباد نہیں ہو سکتے تھے انہوں نے قرب و جوار کے دیہات ملکوں کے اہل حرفہ سے اسی اصول پر انتظام کر لیا تھا یہ انتظام اب تک بدستور جاری و قائم ہے۔ علاوہ اس قسم کے اہل حرفہ کے جو زراعت کے لیے مفید ہیں اور بہت قسم کے اہل حرفہ مثلا کوء یجلا ہے کمبل بننے والے گڈریے اور کمہار اس خیال سے کہ ان کے پیشے کا کام گاؤں میں نہایت کفایت سے چلتا ہے اور وہ خود بھی نہایت کفایت سے گاؤں میں اپنی اوقات بسر کرتے ہیں گاؤں میں آباد ہو گئے تھے زمینداروں نے بعض دیہات میں ان لوگوں کو صرف بد نظر رونق اور آبادی گاؤں کے آباد کر لیا تھا اور بعض زمینداروں نے ان کے آباد ہونے کے معاوضہ میں ہر گر پیچھے کچھ لینا مقرر کیا تھا جو گھر دیواروں اور محترفہ کی آمدنی کے نام سے نام زد ہے۔ گروہ مزدوری پیشہ رزیل قومیں بھی ، جیسے چمار اور چوڑے جن کی اصل گزران مزدوری پر ہے گاؤں میں آباد ہو گئی تھیں اصل وجہ ان کی آبادی کی یہی تھی کہ گاؤں میں نہایت کفایت سے ان کی گزران ہو سکتی تھی مگر ان کے ذمہ بہت سے کام خدمت زمینداروں کے اور کھیت کیار کے متعلق تھے ، کھیتوں کے نلانے میں جس کے عوض میں ان کو ارزاں قیمت کا غلہ دیا جاتاتھا ان سے بڑی مدد پہنچتی تھی تمام بیگار کے کام ان سے لیے جاتے تھے۔ اگرچہ فصل پر کھلیانوں میں سے لپ بھر کر تھوڑا تھوڑا غلہ بھی ان کو دیا جاتا تھا مگر بمقابلہ اس کار و خدمت کے جو زمیندار ان سے لیتے تھے اس کی کچھ حقیقت نہیں تھی۔ سرکار انگریزی کی عملداری میں جبریہ رسم بیگار کی قریباً قریباً بالکل معدوم ہو گئی ہے۔ دیہات میں چماروں کو ایک اور ذریعہ آمدنی کا تھا اور وہ یہ تھا کہ ہر گاؤں کے چماروں نے اپنی برت کی حدود معین کی تھی۔ ان حدود کے اندر جو مویشی مرتے تھے اس کی اٹھا لے جاتے تھے اور اس کے چمڑے کو درست کر کے بیچ لیتے تھے اور سال بھر میں ایک تعداد کھالوں کی اس زمیندار کو دیتے تھے۔ جہاں آبادتھے ۔ ان رسم و رواجوں میں سے ایک تک بہت سے رسم و رواج جاری ہیں۔ مہاجن اور بقال زمینداروں کی ضرورت اور کاشتکاروں کی حاجت براری کے لیے بنیوں اور مہاجنوں کا گاؤں میں موجود ہونا نہایت ضروریات سے ہے۔ جہاں تک ہو سکا ہے زمینداروں نے ان کے آباد کرنے میں کوشش کی ہے۔ زمیندار لوگ اس فرقے کے ساتھ بہت خاطر داری اور تواضع سے پیش آتے ہیں اور یہ ایک معزر فرقہ باشندگان دیہہ کا گنا جاتا ہے۔ غلہ پدیاوار گاؤں کو یہ لوگ خود بھی خریدتے ہیں اور دوسروں کے ہاتھ بکواتے بھی ہیں۔ زمینداروں کو اور کاشت کاروں کو بروقت ضرورت روپیہ قرض بھی دیتے ہیں اور کاشت کاروں کو بروقت ضرورت روپیہ قرض بھی دیتے ہیں اور کاشت کے زمانے میں بیج کے لیے اور جب کھیت زراعت سے خالی ہوتے ہیں تو کھانے کے لیے غلہ دیتے ہیں۔ نہایت سخت سود اپنے قرضے پر وصول کرتے ہیں اور جو غلہ دیتے ہیں فصل پر کم سے کم اس سوایا لے لیتے ہیں۔ اگر ایک فصل پر غلہ ادا نہ ہوا تو رقم سوائے اصل میں شامل کر کے دوسری فصل پر اس سوائے پر سوائے لیتے ہیں سود کو بھی ہر فصل پر اصل میں ملا لیتے ہیں اور اس مجموعہ و سود پر سود لیتے ہیں۔ اگلی عملداریوں میں مہاجن زمینداروں کے قومی گروہ کو اپنا حامی و مددگار بنا لیتے تھے اور انہیں کی قوت اور زور اور اختیار اور اقتدار کے ذریعے سے اپنا روپیہ اور سود وصول کرتے تھے۔ یہ ایسا ذریعہ تھا جو گاؤں میں نہایت اقتدار اور قوت رکھتا تھا اور زیر دست رعایا بخوشی یا نا خوشی ان تمام جبروں کو سہتی تھی جو ان پر اس روپیہ کے وصول کرنے میں گزرتی تھی ایک مشہور رسم روپیہ وصول کرنے کی دہرنا دینا تھا۔ دہرنا دینے کی یہ رسم تھی کہ مہاجن مقروض کے دروازے پر اپنے آدمی بٹھا دیتا تھا اور مقروض کے گھر پانی دانہ دانا بند کر دیتا تھا۔ عورتوں کو رفع ضروریات کے لیے باہر نکلنے نہیں دیتا تھا۔ اور اور طرح طرح کی تکلیفیں ان کو پہنچاتا تھا۔ مگر سرکار انگریزی کی عملداری میں رسم دہرنا دینے کی بالکل موقوف ہو گئی ہے بلکہ دہرنا دینا ایک جرم فوجداری کا قرار پایا ہے۔ مہاجن اور بقال دیہات میں ایسے مسلط تھے کہ غریب کاشتکاروں کی محنت اور ان کے کھیت کی پیداوار در حقیقت مہاجنوں اور بقالوں کے گھر جاتی تھی۔ کاشت کار نہایت محنت سے زمین جوتتے تھے اور اس میں کاشت کرتے تھے اور اس کی پیداوار کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے مگر سب غلہ زمیندار و مہاجن اٹھا لے جاتے تھے۔ اس زمانہ میں زمینداروں کا تو وہ زور نہیں رہا مگر مہاجنوں اور بقالوں کا ویسا ہی قابو ہے۔ تمام پیداوار و محنت کاشتکاروں کی مہاجنوں کے گھر جاتی ہے اور کاشتکار کھانے کے غلہ کے لیے بھی مہاجنوں اور بقالوں کے محتاج رہتے ہیں۔ مہاجن ہی بیج کے لیے اور کھانے کے لیے دیتے ہیں اور اس سبب سے کاشتکاران سے دبے ہویء ہیں جو غلہ مہاجن کاشتکاروں کو دیتے ہیں کم سے کم سوایا فصل پر ان سے لے لیتے ہیں جو روپیہ نقد ان کو دیتے ہیں ان کا نہایت گراں سود ان سے لیتے ہیں اور پھر سود در سود اضافہ کرتے جاتے ہیں یہ نوبت پہنچ گئی ہے کہ جس کاشت کار نے تھوڑا سا روپیہ بھی ایک دفعہ کسی مہاجن سے قرض لے لیا پھر تمام عمر اس کے پنجہ سے نہیں چھوٹتا۔ ارباب نشاط جس طرح اور سب باتوں کا انتظام دیہات میں تھا اسی طرح ارباب نشاط کا انتظام بھی تھا۔ ہندوستان میں عورتوں کا ایک فرقہ ہے جس کو بعضے نٹنی ، بعضے کنجریاں اور کبوتریاں کہتے ہیں یہ عورتیں ناچتی گاتی ہیں اور ان کے ساتھ ڈھول بجانے والے اور نچانے والے انہیں کے رشتہ دار مرد ہوتے ہیں ۔ جس گاؤں میں شادی بیانہ ہوتا تھا یہ نٹنیاں وہاں پر جا کر ناچتی اور گاتی تھیں اورف صل کے تیار ہونے پر بھی گاؤں میں ناچنے کو جاتی تھیں اور کچھ غلہ اور سیدھا ان کو ملا کرتا تھا۔ ان کے گوارو گیت اور بے ڈول ناچ اور ان کے ڈھول کی مہیب آواز ان گنواروں کو خوش کرنے کے لیے کافی تھی۔ عمدہ صفت جو ان عورتوں کے فرقے میں تھی وہ یہ تھی کہ وہ بد کار نہیں تھیں اور کسب کرنا ان کے پیشے میں داخل نہیں تھا۔ وہ شوہر والی اور گھر والی ہوتی تھیں ۔ صرف گانا اور ناچنا بطور پیشہ کے انہوں نے اختیار کیا تھا اور گو وہ نہایت ذلیل اور کمینہ قوم کی تھیں مگر اس صفت سے جو ابھی بیان کی گئی ہے نہایت عزت اور قدر کے لائق تھیں۔ یہ فرقہ اب بھی ہندوستان میں موجود اور اپنے قدیم پیشے میں مصروف ہے۔ چوپال گاؤں میں مشترکہ محنت اور مشترکہ مال سے اور مناسب مقام پر جو اکثر وسط آبادی میں ہوتا تھا ایک مکان بنایاجاتا تھا۔ جس کو چوپال کہتے ہیں۔ یہ مکان بڑے بڑے مہذب شہروں کے ٹاؤں ہال کے مشابہہ ہے۔ اس مکان میں گاؤں کے معزز لوگ نشست برخاست کرتے تھے اور کسی پنچایت کے لیے جمع ہوتے تھے اور جو کوئی مسافر ان کے گاؤں میں آ جاتا تھا یا کوئی عامل یا کوئی سرکاری اہلکار آتا تھا چوپال میں ٹھہرتا تھا۔ مسافر نوازی کا نہایت عمدہ طریقہ دیہات میں جاری تھا۔ افسر گاؤں سرمایہ مشترکہ میں سے اس کو ھانا دیتا تھا۔ گاؤں کی کمین قوم اس کی خدمت کرتی تھی ، گھوڑے کے لیے گھاس لا دیتی تھی ، کمہار کے گھر سے برتن آتے تھے اور مسافر نہایت آرام سے شب بسر کر کے آگے روانہ ہوتا تھا۔ یہ سب چیزیں مفت مسافر کو ملتی تھیں اورگاؤں والے ہر طرح سے اس کی خاطر کرتے تھے۔ آبپاشی کے ذریعے سب سے عمدہ اور سب سے مقدم گاؤں کی آبادی کے لیے جو چیز مطلوب تھی وہ آبپاشی کے ذریعے تھے۔ جو گاؤں ایسے تھے جہاں بجز کنوؤں کے اور کوئی ذریعہ آبپاشی نہ تھا وہاں زمینداروں نے بمقدور اپنے مشترک کنویں آبپاشی کے لیے مناسب مناسب مقامات پر بنائے۔ دیہات کی سیر کرو تو معلوم ہو گا کہ دیہات میں ایسیے قدم زمانے کے کنویں زراعت کی آبپاشی کے لیے بنے ہوئے ہیں جن کے بننے کی تاریخ خود گاؤں کے رہنے والوں کو بھی یاد نہیں رہی۔ ان کنوؤں کی تعداد زمینداروں کے مقدور کی مناسبت سے ہوتی ہے۔ لیکن جب خوب تفتیش کیا جاوے تو معلوم ہو گا کہ یہ مشترک کنوئیں انہیں لوگوں نے یا ان کی اولاد نے بنائے تھے جنہوں نے ابتداء اس قطع زمین پر قبضہ کیا تھا جو موضع کے حدود کے اندر واقع ہے جہاں زمینیں تقسیم ہو گئی تھیں وہاں خاص خاص کنوئیں بھی بنے تھے جو اس اراضی کے قابضین نے بنائے تھے۔ جن دیہات میں کنوئیں نہیں بن سکتے تھے اور کوئی خزانہ پانی جمع کرنے کا بھی میسر نہیں آتا تھا وہاں زمینداروں نے متفرق تالاب اور تلیاں اور جوہڑکھود لئے تھے جن میں برسات کا پانی جمع ہو جاتاتھا اور مویشیوں کے پانی پینے اور بعض اوفات زراعت میں پانی دینے کے کام میں آتا تھا۔ جو زمینیں یا دیہات نشیب میں واقع تھے جہاں بلند مقامات سے بکثرت پانی آتا تھا وہاں متعدد دیہات میں پانی جمع رکھنے کے لیے متعدد تالاب مسلسل بنائے جاتے تھے اور ایک تالاب سے دوسرے تالاب میں اور اسی سلسلے سے پانی پہنچایا جاتاتھا اور پھر ہر ایک گاؤں کے لوگ اپنی زراعت میں پانے لے جانے کے لیے برہے بنا لیتے تھے اور موافق اس رسم و رواج کے جو بلحاظ محنت یا وسعت اراضی یا مقدار حقیت کے قرارپ اتا تھا۔ ہر ایک شریک اس میں آبپاشی کرتا تھا۔ بعض ایسے ملک ہیں جیسے کہ سرکار عالی کا ملک تلنگانہ ہے جن میں آبپاشی کے تالابوں ، کنٹوں ، باوڑیوں کا نہایت عظیم الشان سلسلہ بنا ہوا پایا جاتا ہے جو کروڑھا روپے کے خرچ اور لاگت سے تیار ہوا ہو گا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ سلسلہ آبپاشی کا زمینداروں کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ حکام وقت نے اپنے خزانے کے کروڑوں روپیہ صرف کر کے ملک کی آبادی اور زراعت کی آبپاشی اور افزونی کے لئے بنائے تھے اس قسم کے ذریعہ آبپاشی کی بابت کاشت کرنے والوں سے جو اپنی زراعت کے لیے پانی لیتے تھے محصول لیا جاتاتھا اسی اصول پر گورنمنٹ انگریزی نے جو زراعت کی آبپاشی کے لیے نہریں بنائی ہیں ان کا محصول بھی ان لوگوں سے جن کے کھیتوں میں پانی جاتا ہے لیا جاتا ہے۔ یہ بات نہیں معلوم کہ اگلے زمانے میں اس قسم کی آبپاشی کا محصول کس طرح پر ہوتا تھا مگر اس زمانہ میں یہ ایک بڑا بحث طلب مسئلہ قرار پایا ہے کہ آبپاشی کا محصول کس طرح پر لیا جائے۔ بعضوں کی یہ رائے ہے کہ زمین کا محصول جو بندوبست مالگزاری کے وقت قرار پاتا ہے جداگانہ لیا جائے اور محصول آبپاشی کا جداگانہ اور بعضوں کی یہ رائے ہے کہ دونوں محصولوں کو یکجا جمع کر کے زر مالگزاری قرار دیا جائے اور وصول کیا جائے۔ پچھلی رائے پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ کاشتکار خواہ مخواہ پانی لینے پر مجبور نہیں کیے جا سکتے ۔ پس اگر دونوں محصولوں کو شامل کر کے زمین پر بڑھا دیا جاوے تو کاشتکاروں کو یا تو خواہ مخواہ پانی لینا پڑے گا یا لینے پر مجبور ہونا پڑے گا یا جن لوگوں نے پانی لیا ہے اور جن لوگوں نے نہیں لیا سب کو اضافہ شدہ محصول دینا پڑے گا جو انصاف کے بالکل خلاف ہے۔ جن ملکوں میں مصنوعی ذریعے آبپاشی کے ایسے بنائے گئے ہیں جن سے ہمیشہ ہر قطع زمین میں پانی پہنچنے میں کچھ شبہ نہیں ہے جیسا کہ گورنمنٹ انگریزی کی عملداری میں عظیم الشان دریاؤں میں سے علمی قادعے پر نہریں نکالی گئی ہیں اورپ انی پہنچانا بالکل اختیار میں ہو گیا ہے ان ملکوں میں تو یہ بحث ہو سکتی ہے کہ مالگزاری اور آبپاشی کا محصول یکجا جمع کر دیا جاوے یا نہیں مگر جن ملکوں میں کہ مصنوعی ذریعے آبپاشی کے ایسے بنائے گئے ہیں جن پر کچھ اختیار نہیں ہے بلکہ بخت و اتفاق پر موقوف ہیں۔ جیسے کہ ایسا سلسلہ آبپاشی کے تالابوں کا جن کا کام میں لانے کے لائق ہونا بارش کے ہونے یا نہ ہونے پر موقوف ہے وہاں یہ مسئلہ کہ زمین اور آبپاشی کا محصول یکجا کیا جاوے بحث میں نہیں آسکتا بلکہ ایسے ملک میں زیادہ تر پہلا قاعدہ آبپاشی کے محصول کا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ زمین پر بروقت بندوبست اس قدر محصول مقرر ہونا چاہیے جو آبپاشی کے نہ ہونے کی حالت میں وصول کے لائق ہو اور آبپاشی کا محصول اس سے علیحدہ ہونا چاہیے اور جن زمینوں میں آبپاشی کی جاوے اس کا محصول جس کی شرح پہلے سے معین کر دینی چاہیے علاوہ محصول مالگزاری کے وصول کیا جاوے۔ میوے کے باغات بڑی بڑی سلطنتوں میں بادشاہ اور امراء اپنے عیش و خوشی کے لیے عمدہ عمدہ باغ بناتے تھے اور ان میں عیش و آرام سے بسر کرتے تھے اس جاہل گروہ نے بھی اس میں سے کھ حصہ لیا ہے یہ گروہ بھی اپنے گاؤں میں گاؤں کی رونق اور سر سبزی کے لیے مشترکہ باغ لگاتے تھے۔ ہندوستان میں سب سے عمدہ میوہ آنبہ ہے اس کا درخت بھی نہایت پائیدار ہوتا ہے اور سینکڑوں برس تک رہتا ہے اور جب خشک ہو جاتا ہے تو اس کی لکڑی مکانات کی تعمیر میں اور اور بہت سی ضروریات میں کام آتی ہے۔ اس کا پھل علاوہ مزیدار ہونے کے سوکھی روٹی کے ساتھ ایک نفیس نان خورش ہونے کا کام دیتا ہے۔ صرف اس کا پھل بھی ضرورت کے وقت غذا کے لیے کافی ہوتا ہے اس لیے زمیندار اکثر آنبہ ہی کے درختوں کے باغ لگاتے تھے۔ اس کے سائے میں اونچی اونچی کھاٹیں بچھا کر گرمی کا موسم بسر کرتے تھے اور فصل کے موسم میں اس کے پھل سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ نہایت قلیل گاؤں ملیں گے جو ایسے باغات سے خالی ہوں۔ محاسب موضع یعنی پٹواری گاؤں میں تمام حساب و کتاب کا درست رکھنے والا اور ہر ایک کاشت کار کے ذمہ کی زر واجب الادا کا حساب رکھنے والا ضرور درکار تھا اس کام کے لیے قدیم الایام سے ہر ایک موضع میں پٹواری ہوتا تھا۔ جو ہر ایک قسم کا حساب متعلق گاؤں کے اپنے پاس رکھتا تھا۔ یہ عہدہ اگلے زمانے میں موروثی قرار پایا تھا اور اس کے خاندان سے دوسرے کے خاندان میں منتقل نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ نابالغ اولاد پٹواری کی اس کے عہدہ پر مقرر ہوتی تھی اور اس اولاد کے بالغ ہونے تک کوئی دوسرا شخص جو اکثر اس کے رشتہ داروں میں سے ہوتا تھا بطور سر براہی کے اس کام کو انجام دیتا تھا۔ پٹواری کا حق مقرر تھا اور ہر کھلیان میں سے اس کو غلہ دیا جاتا تھا اور کسی قدر زمین بہ تخفیف محصول یا بطور معافی بعوض اس خدمت کے اس کی کاشت میں ہوتی تھی یہ عہدہ اب تک قائم ہے اور ہر گاؤں میں پٹواری ایک ایسا شخص ہے جس سے ہر ایک باشندہ دیہہ کو غرض پڑتی ہے۔ گورنمنٹ انگریزی کے عملداری میں نہایت عملدہ اصول پر پٹواری کے دفتر کی اصلاح کی گئی ہے اور خاص کتابوں جن میں معین نقشہ جات حساب کے ہیں اس کو دیے گئے ہیں اور نہایت درستی سے گاؤں کا حساب اس میں لکھا جاتا ہے پٹواری کے حق کے بابت بھی بہت کچھ اصلاح کی گئی ہے اور ایسا انتظام کیا گیا ہے جس سے ایک مقدار مناسب بلا کسی اندیشہ کے پٹواری کو ملا کرے تاکہ وہ اپنے عہدہ کا کام طمانیت اور دلدہی سے انجام دے۔ یہ تمام وہ انتظام ہیں جو قدیم زمانے سے چلے آتے ہیں اور جن پر دیہات کی آبادی ہوئی ہے اور مختلف گروہ ہیں گاؤں میں یک شامل آباد ہیں جو انگریزی زبان میں ’’ ولیچ کم میونٹی ‘‘ کے نام سے موسوم ہیں۔ تمام شد لکچرز اوپر یکٹ 1863 19ء کے یعنی ایکٹ متعلقہ بٹوارہ محالات مالگاری سرکار عظمت مدار انگریزی واقع ممالک مغربی و شمالی۔ یہ ایکٹ جن پر میں تم کو لکچر دیتا ہوں متعلق بٹوارہ محالات مالگزار سرکاری واقعہ ممالک شمالی و مغربی ہے۔ لفظ بٹوارہ مخالات سے تم سمجھو گے کہ صرف اسی اراضی مالگزار سرکار کا بٹوارہ ہو سکتا ہے جس پر لفظ محال کا اس ایکٹ کی رو سے اطلاق ہو سکے نہ کسی دوسری اراضی کا۔ روزمرہ کی بول چال میں اکثر ہماری زبان پر لفظ موضع یا گاؤں کا آتا ہے اور لفظ محال کمتر بولا جاتا ہے اور در حقیقت یہ ایک لفظ ہے جو بلحاظ انتظام وصول مالگزاری سرکام قدیم سے وضع کیا گیا ہے اور واقع میں بھی محال اور موضع کے معنی میں تفاوت ہے اور اس وقت اس کا بیان کرنا خالی از فائدہ نہ ہو گا۔ موضع ایسا قطعہ یا قطعات اراضی کو کہتے ہیں جو علیحدہ نام سے دفتر سرکاری میں مندرج ہوا یہ تین قسم کے ہوئے ہیں ایک موضع اصلی ، دوم موضع داخلی ، سوم ، موضع مرکبہ ۔ جس موضع کا سرکاری دفتر کی فہرست میں بہ اعتبار شمار کے کوئی ایک نمبر مقرر ہے اس کو موضع اصلی کہتے ہیں اور جو چھوٹے مواضع بعد اس کے اسی موضع میں قائم ہوں ۔ جیسے نگلے یا پورے ان کو مواضع داخلی کہتے ہیں ۔ موضع مرکبہ ۔ ان کئی مواضح ملحقہ کا نام ہے جن کا ایک شخص ایک ہی حقیت سے مالک ہو اور ان سب کی حد بندی اور پیمائش یکجائی ہوئی ہو اور اس کل حلقہ کا نام مواضح مشتملہ کے نام سے مرکب ہو کر نیا موضع ٹھہرا ہو۔ مثلا بندوبست سے پہلے سلیم پور ایک موضع تھا اور ماکھن دوسرا موضع ۔ اب دونوں کی ایک حلقہ میں پیمائش ہوئی اور اس کا نام سلیم پور ماکھن رکھا گیا اور سرکاری دفتر کی فہرست میں کسی ایک نمبر پر از نام سلیم پور ماکھن مندرج ہوا تو یہ نیا موضع مرکبہ کہلاوے گا۔ محال میں اور موضع میں یہ فرق ہے کہ محال اسی قطعہ یا قطعات زمین کو کہیں گے جس کو جمع علیحدہ مشخص ہوتی ہو اور جس کے زمینداروں کی کل حقیت جو اس میں ہو بلکہ خود وہ محال اپنی ذات سے سرکاری مالگزاری میں مستغرق ہو اور اس کا نمبر جداگانہ رجسٹر مالگزاری میں مندرج ہوا ہو۔ 1 ۔ دفعہ 5 ہدایت نامہ بندوبست۔ 2 ۔ دفعہ 45 ہدایت نامہ بندوبست۔ 3 ۔ دفعہ 75 ہدایت نامہ بندوبست۔ 4 دفعہ 7 ہدایت نامہ بندوبست۔ 5 دفعہ 6 ہدایت نامہ بندوبست۔ پس ممکن ہے کہ ایک موضع موضع بھی ہو اور حال بھی ہو جب کہ اسی موضع پر مالگزاری سرکار مشخص ہوئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی قطعہ یا قطعات ارضی محال ہو اور موضع نہ ہو یعنی جب کہ موضع کا کوئی جزو تقسیم ہو کر اس جزو پر جداگانہ مالگزاری مشخص ہوئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی قطعہ یا قطعات اراضی موضع ہو اور محال نہ ہو یعنی جب کہ چند مواضع پر یک شامل مالگزاری سرکاری مشخص ہوئی ہو۔ محالات پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ان کو ایک چھوٹی سی بادشاہت ایک چھوٹی سی حکومت کا نمونہ پاتے ہیں اس کی اس چھوٹی سی مملکت کی حدود معین اور معلوم ہوتا ہیں ان کی حفاظت اور قیام پر ہمیشہ سعی رہتی ہے اس میں مختلف رجوں کے لوگ آباد ہوتے ہیں۔ وہاں کے باشندے مختلف قسم کے حقوق رکھتے ہیں ۔ ہر ایک اس چھوٹی سی مملکت کی بھلائی اور بحالی کے لیے کچھ نہ کچھ کام کرتا ہے یا کچھ نہ کچھ حق دیتا ہے۔ ان میں سے چند ایسے ہوتے ہیں جو بہ نسبت دیگر باشندگان کے حق اعلیٰ اور ایک قسم کا تفوق رکھتے ہیں ، جن کو ہم زمیندار کہتے ہیں۔ پھر وہ بھی اس میں مساوی حقوق نہیں رکھتے۔ کوئی زیادہ حق رکھتا ہے کوئی کم اور کمی اور بیشی کی مقدار ہمیشہ زیادتی اور کمی مقدار حقیت زمینداری پر ہوتی ہے۔ وہ سب اپنی اس چھوٹی سی مملکت کے انتظام کے لیے بموجب اپنی قدیم رسم و رواج کے کسی کو اپنا افسر بناتے ہیں جو بہ اعتبار اختاف اقسام حقیت کے نمبر دار یا پدھاں یا مقدم یا چوہدری کہلاتا ہے۔ اگرچہ کہ اس افسر کہ اختیار انتظام دیا جاتا ہے۔ الادیگر حقیت دار بھی اس التظام سے بے دخل نہیں رہتے ۔ جب کوئی امر پیش آتا ہے تو وہ اپنے دیوان عام میں جس کو چوپال کہیت ہیں اجلاس کرتا ہے اور تمام حقیت دار شریک ہوتے ہیں۔ ہر ایک کو رائے دینے کا اختیار ہوتا ہے اور اکثر وقعت اور مقدار رائے کی بقدر مقدار اس کی حقیت کے لحاظ سے کی جاتی ہے۔ دیگر باشندگان کو بھی ایسے امور میں جو ان کے حقوق سے متعلق ہیں اپنی رائے ظاہر کرنے کا اختیار ہوتا ہے پس یہ حالت محالات کی نہایت تعجب انگیز ہ کیوں کہ بڑے بڑے عقلانے جو نہایت غورو فکر سے عمدہ عمدہ قواعد اصول گورنمنٹ کے مقرر کیے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ سب ان دہقانوں میں قدیم سے رائج ہیں۔ مگر یہ دہقانی عاقلانہ انتظام جیسا کہ عمدہ ہے ویسا ہی مشکل ہے کیوں کہ ہر ایک موضع میں جو ہر وقت اور ہر حالت ایسا افسر ملنا جس پر سب کو اعتماد ہو اور وہ نہایت دیانت داری سے تمام حقوق لوگوں کے محفوظ رکھے اور تمام منافع محال کے بقدر ہر ایک کے حصے کے بلا دقت ادا کرتا رہے اور نقصانات سے مساوی طور پر سب سے لیتا رہے ، ہاتھ آنا نہایت دشوار ہوتا ہے اور اسی سبب سے باہم نااتفاقی اور قضایا اور فساد برپا ہوتا ہے اور یہ تنازعات ایک دفعہ نہیں ہو چکتے بلکہ ہر سال بلکہ ہر فصل پر پیش آتے ہیں اور ان کے دفع کرنے کا کوئی علاج بجز اس کے کہ شریکان حقیت اپنی اپنی حقیت کو علیحدہ تقسیم کر کر خود اپنے اپنے حصہ کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھیں اور کسی طرح پر نہیں ہو سکتا اور یہی امر باعث ہوتا یہ جس کے سبب تقسیم محالات کی باہم شریکان کے عمل میں آتی ہے۔ یہ امر یعنی تقسیم ہونا محالات کا ایک ایسا امر ضروری ہے کہ اگر حاکم وقت کی طرف سے کوئی قاعدہ اور قانون نہ بنایا گیا ہو تو خود مالکان محال کو موافق اپنای اقتضائے طبیعت کے محالات کی تقسیم کرنی پڑتی ہے اور اسی سبب سے ہم دیکھتے ہیں کہ بہ سبب آپس کی تقسیم کے محالات مشترکہ زمینداری کئی قسم کی ہو گئی ہیں جن کا نام ہم زمینداری مطلق یا بھیا چارہ مکمل یا بھیا چارہ نامکمل رکھتے ہیں۔ دیہات زمینداری مطلق وہ ہیں جن میںقدیمی دہقانی عاقلانہ قاعدہ اب تک بحال ہے بعنی جن کی کل ز مینداری کا قبضہ اور اہتمام یک شامل ہوتا ہے اور کاشت کاروں سے جو تحصیل وصول ہوتی ہے مالک ہوں یا نہ ہوں اور جو کچھ اور منافع محال سے حاصل ہو سب شاملات میں جمع کیا جاتا ہے اور گاؤں کے اخراجات مجرا دے کر جو بچے شریکوں میں ایک قاعدہ مقررہ پر بانٹا جاتا ہے۔ دیہات بھیا چارہ نا مکمل وہ ہیں جن کی زمین منقسم ہے اور شرکاء اپنے اپنے حصے پر جدا جدا قابض ہیں اور ہر ایک شخص اپنی زمین کا انتظام اور مال گزاری کا حصہ معین ادا کرتا ہے مگر تاہم بالاشتراک باقی کے ذمہ دار ہیں اگر کوئی حصہ دار اپنے حصہ کے دینے میں قاصر ہو۔ دیہات بھیا چارہ نامکمل وہ ہیں جن میں کچھ زمین مشترک ہے اور کچھ جداگانہ قبضے میں ہے اور تحصیل کی صورت یہ ہے کہ پہلے تو شاملات زمین کے منافع سے گاؤں کا خرچہ اور مالگزاری ادا کی جاتی ہے پھر جو باقی رہے باچھ کے بموجب ہر ایک حصہ سے تحصیل کی جاتی ہے اور جو فاضل بچے تو اسی حساب سے شریکوں میں بٹ جاتا ہے ایسی صورت میں بولا جاتا ہے کہ دعار باچھ یا بیگہ دام کے موافق مال گزاری ادا کی گئی۔ 1۔ دفعہ78 ہدایت نامہ بندوبست۔ 2 ۔ دفعہ 88 ہدایت نامہ بندوبست۔ 3 ۔دفعہ 89 ہدایت نامہ بندوبست۔ ان پچھلی قسم کے دیہات کو پٹی داری مکمل اور پٹی داری نامکمل بھی کہتے ہیں مگر یہ ایک پرانی غلطی ہے جس نے اول اول کاغذات سرکاری میں رواج پایا ہے اس لیے کہ ان لفظوں سے جو اصل مراد ہے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ پٹی داری کوئی قسم مستقل نہیں ہے کیوں کہ وہ ہر ایک قسم میں پائی جاتی ہے مثلا موضع زمینداری میں جب کہ وہ کئی پٹیوں پر تقسیم ہو گیا ہو اور اس کی ہر ایک پٹی میں اس کے شرکاء کا قبضہ بالا جمال ہو اور موضع بھیا چارہ مکمل میں اس کے شرکاء کا قبضہ بالا جمال ہو اور موضع بھیا چارہ مکمل میں جب کہ وہ چند پٹیوں میں تقسیم ہو گیا ہو اور ہر ایک پٹی کے شرکاء اپنی اپنی اراضی پر جداگانہ قبضہ رکھتے ہوں اور موضع بھیا چارہ نامکمل میں جب کہ وہ چند پٹیوں میں تقسیم ہو گیا اور ہر ایک پٹی میں اس کے شرکاء کچھ اراضی مقبوضہ جداگانہ اور کچھ شاملات بھی رکھتے ہوں مگر جب کہ اس غلطی کا مدت سے رواج چلا آتا ہے تو اب اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا اور بطور غلط العام کے صحیح تسلیم کیا جاتا ہے اور اسی سبب سے میں کہتا ہوں کہ دیہات بھیا چارہ مکمل اور پٹی داری مکمل اور دیہات بھیا چارہ نامکمل اور پٹی داری نا مکمل اور پٹی داری نامکمل کو متحد اور ہم معنی تصور کرنا چاہیے۔ بہت سے دیہات بھی نکلیں گے جن میں ایک محال میں کسی قسم کی ملکیت منجملہ اقسام ملکیت مذکورہ بالا موجود ہوں مثلا تھوک اور پٹی کہاس عبارت سے بڑی اور چھوٹی قسمیں مراد ہیں ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ ہوں حالاں کہ ہر ایک تھوک اور پٹی کہ اس عبارت سے بڑی اور چھوٹی قسمیں مراد ہیں ، ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ ہوں حالاں کہ ہر ایک تھوک اور پٹی کے سب حصہ دار زمین پر بالا شتراک قابض ہوں اس طرح ممکن ہے کہ ایک تھوک پٹی داری خالص خواہ غیر مکمل ہو اور دوسرا تھوک زمینداری شاید اسی تھوک کے سب سیر کی زمین پر ایک ہ شرح سے محاسبہ کیا جاتا ہو اور اس تھوک میں ہر ایک کا لگان بالمقطع مقرر ہو۔ اکثر دیہات ایسے ہیں جن میں باوجود بالا جمال کے ہر ایک حقیقت دار چند آسامیوں کو اپنا تصور کر لیتا ہے اور روپیہ خواہ بٹائی جو ان سے واجب الادا ہے لیتا ہے اور سرکار کی مالگزاری جو اس کو اپنے حصہ کی دینی اور ادا کرتا ہے اور در حقیقت اسی قسم کے دیہات ہیں جن پر صحت سے دیہات تھوک داری کا اطلاق کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی ایک قسم کے دیہات زمینداری شمار کیے جاتے ہیں۔ جو ضرورت تقسیم کی میں نے بیان کی جب وہ پیش آتی ہے تو خواہ مخواہ حقیت داروں کو اپنے اپنے حصہ کو علیحدہ علیحدہ تقسیم کرنا پڑتا ہے اور اسی سبب سے دیہات بھیا چارہ مکمل خواہ نامکمل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ تقسیم حسب اقتضا رائے مالکوں کے کئی طرح پر عمل میں آتی ہیں۔ اول ۔ قاعدہ شرعی اور یعنی حقوق جدی پر ایسی تقسیم میں جو حصہ موروثی ہر ایک مالک کا بحساب بسوہ و بسوانسی گاؤں میں ہوتا ے اسی کی مناسبت سے کل رقبہ محال میں سے اپنے حصہ کی اراضی علیحدہ کر لیتا ہے اور سرکاری جمع کا حصہ حق وراثت کے بموجب ہر ایک مالک کو دینا پڑتا ہے اسی قدر سرکاری جمع اپنے ذمہ کر لیتا ہے اور اسی کے مطابق زمین بھی اپنے قبضہ میں رکھتا ہے۔ دوم ۔ رسمی قاعدہ پر ایسی تقسیم میں لحاظ حقوق جدی کا کچھ نہیں ہوتا بلکہ ہر مالک بموجب اس رسم و رواج کے جو ان کے گاؤں میں مروج ہے زمین پر علیحدہ قبضہ رکھتا ہے اور بقدر اپنی اراضی مقبوضہ کے مالگذاری مناسب بھی ادا کرتا ہے مگر وہ زمین 1 ۔ دیکھو اصول محاصل سرکاری مؤلفۂ پوٹرس صاحب۔ کسی خاص قاعدہ سے مقرر نہیں ہوئی امتیاز ان دونوں قسم کی تقسیم میں یہ ہے کہ جہاں تقسیم بموجب قاعدہ شرعی کے ہوتی ہے وہاں زمین کا قبضہ مالک کے حصہ مالگذاری کے اندازہ پر ہوتا ہے اور جہاں تقسیم بموجب قاعدہ رسمی کے ہوتی ہے وہاں مالگذاری کا حصہ زمین مقبوضہ کے اندازہ پر ہوتا ہے۔ جن دیہات میں تقسیم بموجب قاعدہ رسمی کے ہوتی ہے ان میں بھی دو طرح کی صورتیں نکلتی ہیں ایک یہ کہ حق وارثت شرعی کا نشان ان دیہات میں بالکل محو اور نسیا اور منسیا ہو جاتا ہے اور حق ملکیت کا اندازہ طرف اس کی زمین مقبوضہ کی مقدار پر ہوتا ہے جو صرف بلحاط کسی رسم و رواج کے اور بھائی بندی کی ریت کے تقسیم ہوئی تھی۔ دوسرے یہ کہ باوجود تقسیم ہونے اراضی کے بلحاظ کسی رسم و رواج کے اور ہر مالک کے قبضہ میں کسی قدر اراضی ہونے کے حقوق شرعی یعنی حصہ داری موروثی بھی معلوم اور مقبول ہوتی ہیں گو منافع کی تقسیم اور سرکاری مالگذاری کا ادا کرنا ان کے حق کے بموجب نہ ہوتا ہو بلکہ صرف اراضی مقبوضہ کے لحاظ سے ہوتا ہے مگر پھر بھی حقوق مذکور معلوم اور ملحو ظ ہوں اور ان کے پھر جاریکرنے کا امکان مد نظر ہو اور اسی لیے باوجودیکہ ادائے زر مالگذاری سرکار رسمی قاعدہ کے بموجب ہوتی ہے مگر سائر کی رقومات کی تقسیم اور افتادہ زمین کا استحقاق حق جدی پر قائم ہو ایسی تقسیم مالکوں میں اکثر بہ نظر آسانی ادائے مالگذاری سرکاری کے عمل آتی اور یہ مقصود ہوتا ہے کہ جب مالک چاہیں گے اراضی کو اپنے اپنے حقوق شرعی کے موافق از سر نو تقسیم کر لیں گے ۔ علاوہ اس کے منقسم ہو جانے اراضی کے درمیان مالکوں کے ایک اور صورت بھی پیش آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر ایک مالک بقدر اپنے حصہ موروثی کے زر مالگذاری سرکار ادا کرتا ہے مگر ہر ایک مالک کے قبضے میں اراضی بلحاظ حصہ موروثی یا حصہ مالگذاری کے کم و بیش ہوتی ہے اس کمی بیشی کا سبب کبھی تو آپس کی رضا مندی سے ہوتا ہے اور کبھی زبردست مالک کے کمزور مالک کی اراضی پر قبضہ کر لینے سے اور یہ ایک ایسی نامنصفانہ تقسیم ہوتی ہے جس کا تدارک فی الفور کرنا پڑتا ہے۔ ان تمام حالات سے جو مذکور ہوئے ثابت ہوتا ہے کہ تقسیم ہونا محال کا درمیان شرکاء کے ایک ایسا امر ہے جو ناگزیر ہے اور ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے اور یہ امرصرف ایسا ہی نہیں ہے کہ اغراض رعایا ہی اس پر موقوف ہوں بلکہ وصول ہونا مالگذاری سرکار کا بھی اس پر موقوف ہوتا ہے اس لیے ایسی گورنمنٹ کو جو قوانین معینہ کے بموجب کار بند ہوتی ہے ضرور ہوتا ہے کہ واسطے بٹوارہ محالات کے کوئی قانون ایجاد کرے جس سے رعایا کو بھی آسائش اور سرکاری مالگذاری کے وصول میں بھی آسانی ہو اسی بنیاد پر ہماری گورنمنٹ کی کونسل سے ابتداء سے در باب ایجاد قانون بٹوارہ کی طرف توجہ کی ہے۔ قانون 9 ، 1811ء جو زیادہ تر بٹوارہ دیہات بھیا چارہ سے علاقہ رکھتا تھا تو کونسل سے جاری ہوا اور پھر بموجب قانون 11 میعاد زیادہ بڑھائی گئی اور قانون نوزد ہم 1814 ء واسطے بٹوارہ ان محالات کے جاری ہوا تھا جو دیہات زمینداری کے کہلاتے ہیں مگر یہ قوانین حصہ حقیت واسطے جمیع اقسام کے محالات کے جن کا بیان میں نے اوپر کیا کافی نہ تھے علی الخصوص جو دیہات بھیا چارہ نامکمل کے تھے ان کے بٹوارے سے کوئی قانون بھی ان قانونوں میں سے متعلق نہیں ہو سکتا تھا اس لیے جناب آنریبل ہیرنگٹن صاحب بہادر نے جو ہماری پریسیڈنسی کے ممبر مقرر ہیں بصلاح صاحبان صدر بورڈ اور بہ ایمائے جناب نواب لفٹنٹ گورنر بہادر ممالک مغربی و شمالی اس ایکٹ کا مسودہ مرتب کیا مسودہ پیش کرتے وقت جو گفتگو جناب ممدوح نے کونسل میں کی اور جس سے وجوہ اور منشاء اس ایکٹ کے پائے جاتے ہیں تم کو سناتا ہوں۔ جناب ممدوح نے یہ فرمایا کہ ’’ قانون مجاریہ حال جس کے بموجب بٹوارہ ایسے محالات کا جو قبضہ مشترک میں ہوں معرفت سرکاری عہدہ داران مال کے پریزیڈنسی فورٹ ولیم بنگالہ میں ہوتا ہے نسبت ایک بڑی قسم محالات واقع ممالک مغربی و شمالی یریزیڈنسی مذکور کے بہت ناقص پایا گیا ہے یعنی نسبت ان محالات کے جن میں جائیداد دو یا زیادہ اشخاص کی قدرے قبضہ جدگانہ میں قدرے قبضے مشترک میں ہو عبارت قانون مجاریہ حال کی مانع اس امر کی ہے کہ قسم مذکور کے محالات سے احکام اس قانون کے متعلق کیے جائیں یہاں تک کہ ارضیات واقع محالات مذکور جو قبضہ مشترک میں ہوں بموجب اس قانون کے ناقابل تقسیم تصور کیے جاتے ہیں۔ اور زیادہ قابل لحاظ کے اعتراض نسبت قانون مجاریہ حال کے یہ ہے کہ جو کارروائی واسطہ بٹوارہ محال مشترک غیر منقسم کے اس کے بموجب مقرر ہے وہ نہایتدیر طلب ہے اور وہ کارروائی اس نوع کی ہے کہ جو شخص بٹوارہ میں خلل اندازی یا مزاحمت سے اپنا فائدہ سمجھتا ہو وہ ہمیشہ اس کی تعمیل کا سد راہ ہو سکے کہ یہ باعث اس کے اکثر مقدمات میں اس قدر دیر ہو جاتی ہے کہ نہایت ناروا ہے پس بڑی غرض مسودہ ایک ہذا کی یہ ہے کہ قانون مجاریہ کی سقم مذکورہ بالا رفع کیے جاویں اور ایک زیادہ تر سہل طور پر کارروائی کا جس سے تقستم محال قبضہ مشترک کی بالعموم بہ نسبت سابق تھوڑے عرصہ میں ہو سکے مقرر کیا جاوے اور جیسا کہ بالفعل اکثر ہوا کرتا ہے ایک عمر دراز اگر ایک عمر دراز نہیں تو سال ہائے سال تک کام ممتد نہ ہو۔ یہ امر قابل غور ہے کہ آیا بٹوارہ بہت چھوٹے محالات کا بھی جائز رکھا جائے نسبت بٹوارہ ایسے محالات کے ایک اعتراض یہ ہے کہ بہت سی چھوٹی چھوٹی جائداد کی مالگذاری سرکاری کو تحصیل کرنے میں دقت ہو گی لیکن پچاس برس سے زیادہ ہوئے کہ ایک قانون (قانون 5 ، 1810ئ) جاری ہوا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حق ہر حصہ دار محال مشترک غیر منقسم کا کسی قدر حصہ اس کا ہو درباب اس امر کے مسلم رکھا گیا ہے کہ وہ اپنے حصہ محال کو باقی محال سے جدا کر کے اسے اپنے قبضہ جداگانہ میں لائے اور جب کہ یہ استحقاق دیا گیا ہے تو یہ قرین انصاف اور مناسب ہے کہ از روئے قانون کے اس استحقاق کو بلا دشواری اور بعرصہ مناسب اور بصرف واجبی دلاپانے کے وسیلے مقرر کیے جائیں پس امید ہے کہ وہ وسیلے مسودہ ایکٹ ہذا سے حاصل ہوں گے۔ صاحب ممدوح نے یہ بھی فرمایا کہ دفعہ 53 میں یہ تجویز کی گئی ہے کہ حسب صوابدید لوکل گورنمنٹ کے احکام مسودہ مذکور ان محالات کے بٹوارے سے بھی متعلق کیے جاویں گے جو مالگذاری سر کار سے معاف ہیں مگر قانون مجاریہ حال صرف محالات مالگذار سرکار سے متعلق ہے توسیع قانون کی بعض حالات میں بطریق مجوزہ نسبت محالات کے معافی کے بلحاظ ان محالات یا حصص محالات کے مناسب معلوم ہوتی ہے جو کہ بجلدوی خدمات سفین پر آشوب 1857ء و 1858ء سرکار سے عطا کیے گئے ہیں۔ صاحب ممدوح نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مسودہ جس نہج پر کہ بالفعل ہے نظر سے حاکہان صدر بورڈ روینیو مقام الہ آباد کے گزر چکا ہے اور انہوں نے پسند کیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ نواب لفٹیننٹ گورنر بہادر ممالک مغربی و شمالی نے بھی جن کے ایما سے پیش کیا جاتا ے منظور کیا ہے۔ اگرچہ یہ ایکٹ اس لائق تھا کہ تمام پریزیڈنسی بنگالہ میں جاری کیا جاتا مگر جو کہ جناب لفٹیننٹ گورنر بہادر بنگالہ کے ساتھ ایک جدا کونسل مقرر ہونے والی تھی اور نیز اضلاع بنگالہ کے لیے پیش کرنا ایسے ایکٹ کا اس ممبر کو زیادہ تر مناسب تھا جو اضلاع بنگالہ کی طرف سے ممبر مقرر تھا اس لیے جناب ہیر نگٹن صاحب بہادر نے اس ایکٹ کو اضلاع مغربی و شمال سے متعلق ہونے کے واسطے پیش کیا تھا اب ہماری یریزیڈنسی کے نہایت آزمودہ کار اور ذہین اور نہایت عقل مند ممبر نے بنایا ہے۔ لفظ بٹوارہ سے خود اس کے معنی اور مراد پائے جاتے ہیں یعنی ایک محال کو کئی اجزاء پر تقسیم کر ڈالنا بٹوارہ کہلاتا ہے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ بٹوارہ دو قسم کا ہوتا ہے ایک بٹوارہ مکمل اور دوسرا بٹوارہ غیر مکمل جس کو بٹوارہ رکٹھا بھی کہتے ہیں۔ اگر محال کے اجزاء ایک دوسرے سے اس طرح سے منقطع کر کے علیحدہ محال بنائے جاویں کہ جمع مالگذاری اس جزو کی بھی علیحدہ کر دی گئی ہو اس کو بٹوارہ مکمل کہتے ہیں اور جب محال اس طرح پر بٹوارہ کیا جاوے گا تو ضرور ہو گا کہ رجسٹر مالگذاری میں نمبر جداگانہ مندرج کیا جاوے۔ بٹوار ہ غیر مکمل وہ ہوتا ہے کہ باوجودیکہ محال کے اجزاء علیحدہ منقسم ہو گئے ہوں اور ہر قسمت پر جمع کا حصہ مناسب باندھا گیا ہو مگر تاہم محال منقسم نہیں ہو جاتا اور ذمہ داری مشترکہ بحال و برقرار رہتی ہے اور اسی کو بٹوارہ اکٹھا بھی کہتے ہیں ۔ امتیاز دونوں قسم کے بٹواروں میں صرف یہ ہے کہ پہلی قسم کا بٹوارہ ایک ایسا محال جداگانہ تصور ہوتا ہے کہ گویا ایک کو دوسرے سے کچھ علاقہ نہ تھا ایک کی باقی میں دوسرا محال نیلام نہیں ہو سکتا اور حقوق شفع جو مبنی اوپر حقوق مشترکہ کے ہوتے ہیں ایک دوسرے سے ساقط ہو جاتے ہیں بٹوارہ اکٹھا اس کے برخلاف ہوتا ہے وہاں باوصف منقسم ہو جانے اراضی اور تقسیم ہو جانے جمع علیحدہ کی ذمہ داری مشترکہ بحال و برقرار رہتی ہے اور حق شفع بھی جو مبنی اوپر اشتراک کے ہے بحال و برقرار رہتا ہے۔ محال کی تعریف میں جو یہ الفاظ داخل کیے جاتے ہیں کہ اس کا نمبر جداگانہ رجسٹر مالگذاری میں بھی مندرج ہوا ہو اس سے مراد اس محال سے ہوتی ے جس کا بٹوارہ مکمل ہو گیا ہو یا ابتداء ہی سے ایک محال جداگانہ ہو مگر محال بٹوارہ اکٹھا پر بھی عام معنی بٹوارہ کے جس سے مراد صرف منقسم ہو جانا زمین اور جمع کا ہے صادق آتے ہیں اس ایکٹ میں جو لفظ محالات کا استعمال کیا گای ہے اس سے یہی عام معنی مراد ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی محال بذریعہ بٹوارہ مکمل کے محال جداگانہ بنایا گیا ہو تو جس طرح اس محال کے شرکاء آپس میں بٹوارہ کرا سکتے ہیں اسی طرح اس محال میں بھی بٹوارہ کرا سکتے ہیں جو بذریعہ بٹوارہ اکٹھا کے ایک محال بنایا گیا ہو۔ ان دونوں قسم کے بٹواروں کا ذکر دفعہ 3 قانون 19 ، 1814ء سے مستخرج ہو سکتا تھا الا کوئی خاص نام ان دونوں بٹواروں کا جدا جدا قرار نہیں پایا تھا ابتداء میں صدر بورڈ نے اپنے سرکلر مورخہ 10 جولائی 1846 ء میں بٹوارہ مکمل کو بلفظ بٹوارہ قانون نوزدہم 1814ء نامزد کیا اور بٹوارہ نامکمل کو بلفظ بٹوارہ بموجب درخواست طرفین موسوم کیا ہدایت نامہ مالگذاری میں جس کو آنرمیبل طامسن صاحب لفٹیننٹ گورنر بہادر سابق نے جاری کیا پہلی قسم کے بٹوارہ کو بلفظ بٹوارہ مکمل اور دوسری قسم کا بلفظ بٹوارہ نامکمل نامزد کیا ہے مابعد کے سرکلروں میں پہلا بٹوارہ بلفظ بٹوارہ قانونی اور دوسری قسم کا بٹوارہ بلفظ بٹوارہ اکٹھا موسوم ہوا ہے۔ مگر مجھ کو شبہ ہے کہ اس ایکٹ کی رو سے جو بٹوارے ہوں گے وہ صرف بٹوارے مکمل ہی ہوں گے یا بٹوارے نامکمل بھی کیونکہ اس کی دفعہ 44 سے مجھ کو یہ شبہ پڑتا ہے کہ اس ایکٹ کی رو سے جوب ٹوارے عمل میں آئیں گے ہمیشہ وہ بٹوارے عکمل ہوا کریں گے کوچھ عجب نہیں کہ اس ایکٹ کے یہ معنی سمجھنے میں کسی قدر میں غلطی میں پڑا ہوں کیوں کہ مجھ کو کوئی وجہ اس بات کی مانع نہیں معلوم ہوتی کہ اگر مالکان محال بٹوارہ اکٹھا چاہتے ہوں تو یہ ایکٹ اس کا مانع ہو مگر امید ہے کہ چند روز میں جب اس قسم کے مقدمات حاکمان اعلیٰ تک پہنچیں گے تو کوئی مراد دفعہ 44 کی منقح ہوجائے گی اور جو شبہ کی اس وقت لکچر دیتے وقت مجھ کو پڑا ہے آئندہ کسی وقت مرتفع ہو جائے گا۔ قانون بٹوارہ جب ایجاد کیا جائے تو لازم ہے کہ وہ ایسی طرز پر بنایا جائے کہ جس سے حقوق مالکان میں یا ان کے رسم و رواج میں جس کو وہ بمنزلہ قانون سمجھتے آئے ہیں یا ان مراتب میں جن کی تعمیل پانے کی ان کو کسی آئند زمانے میں مدنظر ہے تفاوت نہ آنے پاوے کیوں کہ اگر قانون بنانے میں ان امور کا لحاظ نہرہے تو ایک اختلاف عظیم اور ابتری بے حد حقوق ملکیت میں واقع ہو چناں چہ یہ ایکٹ ان تمام امور پر لحاظ کر کے بنایا گیا ہے جس طرح کہ میں تم کو اس کی دفعات پر لکچر دینے سے بتاتا ہوں ان اقسام زمینداریوں کے بٹوارہ سے جن کا میں نے اور بیان کیا کس طرح اس ایکٹ کی دفعات متعلق کی جاتی ہیں۔ اس ایکٹ کی دفع میں دفع نوعیت محال کا اور اس طریق بٹوارہ کا جس طریق سے درخواست کنندگان بٹوارہ کو منظور ہو کر لکھے جانے کا حکم ہے اس نوعیت محال سے انہیں اقسام زمینداری کا لکھا جانا مراد ہے جو میں اوپر بیان کر چکا اور طریق بٹوارہ کے لکھنے سے یہ مراد ہے کہ درخواست کنندگان کو لکھنا چاہیے کہ کس قاعدہ پر بٹوارہ ہونا چاہتے ہیں آیا قاعدہ شرعی پر باقاعدہ رسمی پر تاکہ طرف ثانی کا اعتراض جو نسبت اس طریق بٹوارہ کے ہو علانیہ تجویز میں آسکے۔ دفعہ 8 میں صاحب کلکٹر کو حکم ہے کہ بعد تحقیقات اور تصفیہ امورات ضروری کے ایک روبکاری مشعر نوعیت اور تعداد ان حقوق کی جن کے بموجب بٹوارہ عمل میں آئے گا تحریر کریں یہ روبکار بنیاد طریق بٹوارہ ہوتی ہے اور مقدمات بٹوارہ میں صاحب کلکٹر کا یہ کام نہایت نازک اور نہایت عمدہ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ صاحل کلکٹر نوعیت محال کو جس کی تفصیل میں نے اوپر بیان کی خیال کر کے اس بات کی تجویز کریں کہ آیا تقسیم محال کی بحساب حصہ جدی یعنی حقوق شرعی کے ہو گی یا بلحاظ حقوق رسمی یعنی بلحاظ قبضہ اراضی مقبوضہ ہر ایک مالک کی ، سمجھنا چاہیے کہ اس روبکاری پر مدار صحت اور عدم صحت بٹوارہ کا ہے اگر تشخیص نوعیت محال اور طریق بٹوارہ اس روبکاری میں بہ صحت لکھا جائے گا امور بٹوارہ بخوبی انجام پاویں گے ورنہ تمام کارروائی بٹوارہ کی ابتر اور خراب ہو جائے گی۔ یہ دفعہ ایسی عمدہ اور ایسی جامع ہے کہ تمام مختلف نوعیت کی ملکیتوں کے بٹوارے سے متعلق ہو سکتی ہے اور ہر قسم کی ملکیت کے بٹوارہ کو بہ شائستگی انجام دیتی ہے تمام حقوق مالکان کی اور نیز ان کی آپس کی بھائی بندی کی رسم و رواج اور نیز وہ مراتب جن کی تعمیل ہونے کی مالکوں کو آئندہ زمانے میں مدنظر تھی سب بحامل اور قائم رہتی ہیں اور کسی طرح حقوق ملکیت میں اختلاف واقع ہونے نہیں پاتا اور یہ ایک نہایت عمدہ صفت اس ایکٹ کی ہے۔ دفعہ 30 اس ایکٹ کی بالتخصیص دیہات بھیا چارہ نامکمل سے علاقہ رکھتی ہے اور دفعہ 32 دیہات بھیا چارہ مکمل سے اب تم سے ایک مختصر گفتگو نسبت بٹوارہ مختلف اقسام حقیت دیہات کے بیان کرنا ہوں۔ دیہات زمینداری مطلق میں جہاں قبضہ بالا جمال ہے اور ہر ایک مالک اپنی حقیت کو بحساب قاعدہ شرعی موروثی خیال کر کے بحساب بسوہ و بسوانسی یا آنہ و پائی شمار کرتا ہے وہاں تعین طریقہ بٹوارہ میں کچھ مشکلات پیش نہیں آتیں کیوں کہ تمام اراضی بالا جمال ہے اور بحساب کسوری اس کی تقسیم کرنے میں کچھ مشکل نہیں ہے۔ دیہات بھیا چارہ میں جہاں ابتداء ہی سے اراضی مقبوضہ ہر ایک مالک کی بقدر اس کے حصہ شرعی کے قبضہ میں آئی تھی قواعد تقرر بٹوارہ کچھ مشکل نہیں ہے اور اسی طرح ان محالات میں بھی جہاں تقسیم اراضی کی گو اوپر کسی قاعدہ رسمی کے ہوئی تھی مگر اب حق ملکیت کا اندازہ صرف رسم و رواج تھا اور صرف اراضی مقبوضہ ہر ایک مالک کی حق ملکیت کا اندازہ تھا اور حق وراثت کا نشان بالک محو ہو گیا تھا وہاں بھی قواعد تقرر بٹوارہ چنداں مشکل نہیں بلکہ صرف اسی قدر کافی ہو گا کہ رسم اور اس کے جملہ حالات خوب تحقیق کر کے روبکار طریقہ بٹوارہ میں مندرج کی جاویں۔ الا ان محالات میں جہاں قبضہ اراضی کا گو بموجب کسی رسمی قاعدہ کے ہوا ہو کہ کسی مالک نے کسی اور سبب سے مثل زبردستی وغیرہ اپنے حق شرعی سے زیادہ اراضی پر قبضہ کر لیا ہو اور باوجود مقبوضہ ہونے اراضی ہر ایک مالک کے حقوق شرعی معدوم نہ ہوئے ہوں ان محالات میں البتہ طریقہ تقسیم مقرر کرنا اور روبکار تنقیح طریقہ بٹوارہ کا لکھنا جس کا ذکر اس ایکٹ کی دفعہ 8 میں ہے نہایت مشکل اور نہایت نازک کام ہے۔ بعض محالات ایسے ہوتے ہیں کہ ہر ایک مالک کے قبضہ جداگانہ میں بلا لحاظ مناسبت اس کے حق شرعی کے کسی قدر ہوتے ہیں گو منافع معمولی کی تقسیم اور شرکاری مالگذاری کے ادا کے واسطے مدت سے ان حقوق پر کسی سبب سے رجوع نہیں کیا جاتا پھر بھی حقوق مذکور معلوم اور ملحوظ ہوتے ہیں اور جو لوگ حق وراثت سے کم قبضہ رکھتے ہیں وہ اپنے حقوق بموجب دعویٰ کرنے کو تیار اور جو لوگ زائد پر قابض ہوتے ہیں منافع کے لیے تقسیم کا انکارر تو نہیں کر سکتے مگر اس سے بچنے کی امید رکھتے ہیں منافع کی تقسیم میں حق جدی کی طرف رجوع کرنا بالکل موقوف نہیں ہوتا گو ادائے مالگذاری رسمی قاعدہ کے بموجب ہوتی ہو الاسائر کی رقومات اور افتادہ زمین کا استحقاق حق جدی پر ہوتا ہے اور اسی سبب سے خواست گار بٹوارہ چاہتا ہے کہ از سر نو تقسیم محال کی بلحاظ حصہ شرعی کے کرا دی جاوے۔ بعض محالات ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں مالک اپنے اپنے حق اورحصہ کا شمار بحساب بسوہ و بسوانسی یا آنہ و پائی ، بموجب حصہ شرعی کے کرتے ہیں اور زر مالگذاری سرکار بھی بقدر اپنے حصہ کے دیتے ہیں مگر زمین ان کے قبضے میں ان کے حصہ سے کم خواہ کم قدر ہوتی ہے ان کی درخواست یہ ہوتی ہے کہ میرے قبضہ کی زمین حصہ کے برابر پوری کر دی جاوے ایسے تنازعات میں قوانین سابق کی بموجب صاحب کلکٹر کو بجز تغیر و تبدیل مقدار مالگزاری کے اور کچھ اختیار نہ تھا مگر اس ایکٹ کی رو سے اس قسم کے تمام تنازعات کے تصفیہ کا صاحب کلکٹر کو اختیار ہوا ہے اور یہ ایک عمدہ صفت اس ایکٹ کی ہے جس کی بموجب مالکان اراضی کی درخواست بٹوارہ میں بھی تاخیر اور تساہل نہیں ہونے پاتا اور نیز ایک درجہ یعنی محکمہ ابتدائے عدالت دیوانی کے اخراجات سے تخفیف حاصل ہوتی ہے۔ غرض کہ دونوں قسم کے مقدمات میں جو فرق ہے وہ ظاہر یعنی قبضہ اراضی کا بلحاظ حقیت جدی ہوا ہے یا جہاں حقوق جدی نیست و نابود اور نیسا منسیا ہو گئے ہیں وہاں طریقہ بٹوارہ کا بلحاظ اراضی مقبوضہ ہوتا ہے اور جہاں وہ حقوق موجود اور ملحوظ ہوتے ہیں وہاں طریقہ بٹوارہ کا بلحاظ حصہ جدی کے ہوتا ہے۔ بٹوارہ کرنے کا ایک عمدہ اصول یہ کہ حتی المقدور اراضیات اس مالک کی جو خواستگار بٹوارہ اور جو اپنی حقیت کا چھوٹا سا ایک محال جداگانہ بنانا چاہتا ہو یکجا جمع کیے جاویں اس ایکٹ کی دفعہ 35 میں اس طریقہ پر جہاں تک ممکن ہے عمل کرنے کا اور تبادل اراضیات سے اس عمدہ مطلب کے حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس ایکٹ کی یہ بھی ایک ایسی عمدہ بات ہے کہ منجملہ صفات اس ایکٹ کے شمار کی جاوے۔ اس ایکٹ کی دفعہ 31 میں نامنظوری بٹوارہ کا بحالت یکجا نہ جمع ہونے اراضیات مقبوضہ جداگانہ کے حکم دیا گیا ہے یہ دفعہ زیادہ تر ان محالات سے علاقہ رکھتی ہے جہاں کھیت بٹ واقع ہوتا ہے کھیت بٹ اس کو کہتے ہیں کہ دو گاؤں کے کھیت آپس میں خلط ملط ہو گئے ہوں اور ہر ایک اپنے اپنے گاؤں کے نام سے مشہور ہو میں نے ایک پر گنہ کا پرگنہ دیکھا ہے جس کے تمام موضع آپس میں مختلطہو کر کھیت بٹ کی طرح واقع ہو گئے ہیں ایک موضع کے کھیت تین تین اور چار چار موضعوں میں واقع ہوئے ہیں پس بلاشبہ اگر ایسی حالت میں مالکان اراضی تبادل اراضی پر راضی نہ ہوں اور اپنی حقیت کے کھیتوں کو یکجا جمع کرنا نہ چاہیں تو بٹوارہ محض بے سود بلکہ غیر ممکن ہوتاہے۔ اصول تحصیل محاصل گورنمنٹ میں جن لوگوں نے کتابیں تصنیف کی ہیں وہ لکھتے ہیں کہ گورنمنٹ کو درباب تقسیم اراضیات کے جو آپس میں مالکان اراضی کرتے ہیں زیادہ تر نگرانی رکھنے سے غرض یہ ہے کہ جس قدر اجزاء محال کے بطور محال جداگانہ تقسیم ہوں ان پر جمع مناسب مقرر کی جاوے تاکہ گورنمنٹ کو ہر ایک محال علیحدہ شدہ سے جو بعد علیحدہ ہو جانے کے خود ذمہ دار مالگذاری سرکار ہوتا ہے زر مالگذاری وصول ہو سکے اور مالکوں کے اس فریب سے کہ اراضی عمدہ پر کم جمع تفریق کر کر اور اراضی ناقص پر سنگین جمع تفریق کر کر گورنمنٹ کو نقصان پہنچاویں ! محفوظ رہے اور نیز دوسرے لوگ جو کسی سبب سے مشتری یا قائم مقام مالکان اس محال کے ہوں اس فریب نقصان دہندہ سے محفوظ رہیں اس سے لازم آتا ہے کہ تشخیص ہر ایک محال کی گورنمنٹ اپنے ہاتھ میں رکھے اور اپنی منصفانہ تجویز سے ہر ایک محال تقسیم شدہ کی جمع تجویز کرے مگر ایسا اختیار خاص گورنمنٹ کو اپنے ہاتھ میں رکھنے سے ایک قباحت عظیم پیدا ہوتی تھی کہ جس طرح مالک اپنی اپنی اراضیات کے نفع و نقصان سے واقف ہوتے ہیں اس طرح پر گورنمنٹ کا واقف ہونا نہایت مشکل امر ہے اور اس لیے ممکن ہے کہ گورنمنٹ کیسی ہی نیک نیتی اور منصفانہ تجویز سے تشخیص جمع ہر ایک محال کی کرتی اس پر بھی غلطی میں پڑنا ممکن ہے یہ دونوں امر آپس میں ایسے مخالف اور ایک دوسرے کی ضد تھے کہ ان کی اصلاح کے لیے ایسا قانون بنانا جس سے یہ دونوں سقم رفع ہو جائیں نہایت مشکل تھا مگر اس ایکٹ میں ہماری پریسیڈنسی کے ممبر مقررہ نے نہایت ذہانت سے اور بے انتہا خوبی سے ان دونوں سقموں کو رفع کیا ہے دیکھو اس کی دفعہ 18 میں مالکان اراضی کو اپنی رضا مندی سے خواہ ثالثوں کے تقرر سے اختیار تفریق جمع ہر ایک محال کا دیا گیا ہے اور اس کی منظوری صاحب کلکٹر کو رائے اور حکام بالا دست کی منظوری پر مشروط کی گئی ہے جس سے دونوں سقم رفع ہو گئے اگر مالکان محال یا ثالثان مقررہ نیک نیتی سے تفریق جمع کی ہر ایک محال پر کریں تو صاحب کلکٹر کو اس کی منظوری میں کچھ عذر نہیں ہو گا اور اگر اس میں وہ لوگ کچھ فریب اور بے ایمانی کریں تو صاحب کلکٹر کو اس کی نامنظوری کا اختیار حاصل رہے گا پس یہ مراتب اس ایکٹ میں ایسی عمدگی سے قائم کیے گئے ہیں کہ اگر مالکان محال نیک نیتی سے کار بند ہوں تو سراسر ان کا فائدہ اور خود ان کو بطور حاکم کے خود اپنے حقوق کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ باوجود ان سب احتیاطوں کے جو اس ایکٹ میں قرار دی گئی ہیں کہ کسی سبب یا غفلت سے تشخیص مالگذاری ہر ایک محال میں غلطی یا فریب واقع ہوا ہو اس کے انسداد کے لیے بھی ایک معیاد کثیر بارہ سال کی از روئے دفعہ 45 اس ایکٹ کی دی گئی ہے اور اس سے توقع ہے کہ اگر کسی بٹوارہ میں ایسا فریب ہوا ہو تو اس قدر عرصہ تک اس کا مخفی رہنا نہایت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ ایک محال کو متعدد محالات جداگانہ پر تقسیم کرنے سے جیسے فوائد متصور ہیں ویسے ہی نقصانات بھی خیالات میں آتے ہیں علی الخصوص ایسی حالت میں کہ جب احکام وصول باقی مالگذاری جو در صورت یکشامل ہونے محال کے متحد جاری ہوتے تھے اب جداگانہ جاری ہوں گے اور جو اخراجات کہ ایسی حالت میں کل گاؤں پر پڑتے وہ محالات جداگانہ تقسیم شدہ کی ہر ایک محال پر پڑنے ممکن ہیں اگرچہ اس قسم کے اخراجات کا پڑنا نتیجہ غفلت اور تساہل مالکان حقیت کا ہوتا ہے مگر پھر بھی جب کہ کسی سبب سے اس قسم کے متعدد محالات ایک ہی شخص کے قبضہ میں آجائیں تو اس پر ایسے متعدد اخراجات عائد کرنے ناانصافی سے خالی نہیں ہوتے یہ نقصان دفعہ 47، 49اس ایکٹ نے رفع کر دیا جہاں اجازت دی ہے کہ جب ایسے محال ایک شخص کی ملکیت ہو جاویں تو پھر اس کو محالات کے شامل کر لینے کا استحقاق دیا گیا ہے۔ عمدہ فائدہ جو اس ایکٹ سے مالکان حقیت کو حاصل ہوا ہے وہ یہ ہے کہ بعض صورتوں میں باوجود تنازعات حقیت کے ان کا تصفیہ کلکٹری سے بہ تخفیف ان اخراجات کے جو در صورت رجوع ہونے نالش کے دیوانی عدالت میں پڑتے ہیں ہو جاتا ہے اور پھر جو حقوق کو از روئے قوانین دیوانی عدالت کے عموماً رعایا کو دیے گئے ہیں وہ بھی بدستور بحال رہتے ہیں کیوں کہ ایسی حالت میں صاحب کلکٹر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ تصفیہ ایسے تنازعات کا ان ہی قواعد پر کریں جو مقدمات دیوانی میں قوانین ضابطہ عدالت دیوانی مقرر ہیں۔ یادداشت بابت ترقی حیثیت اراضی و امداد کاشتکار ان تقرر بنک ہائے زراعتی مؤلفہ و مرتبہ سید احمد خاں مرقومہ 1879ء بمقام شملہ تمہید کاشتکاروں اور مزارعان کی فلاں و بہبود اور رزراعتی بنکوں کے قیام کے متعلق سر سید احمد خاں نے اس وقت کے لحاظ سے یہ نہایت مفید رسالہ شملہ (مشرقی پنجاب) میں بیٹھ کر لکھا تھا اور 9ستمبر 1879ع کو ختم کیا تھا اور اسی وقت یہ یادداشت گورنمنٹ کی خدمت میں پیش کر دی گئی تھی مگر پبلک میں اس کی نقل سر سید احمد خاں نے 2 جنوری 1883ع کے اخبار سائنٹیفک سو سائٹی علیگڈہ میں شائع کی۔ ملا حظہ ہو اخبار مذکور از صفحہ 619تا 634۔ یہ رپورٹ مولوی مشتاق حسین صاحب فاضل ادب عربی لکھنؤ یون یورسٹی ۔ اورئنٹل اسسٹنٹ مسلم یونیورسٹی علیگڈہ نے اس اخبار کے فائل سے نقل کر کے اپنے پاس رکھی ہوئی تھی ۔ جب مجھے اس کا پتہ لگا تو میں نے مولوی مشتاق حسین صاحب کو لکھا کہ سر سید کے اس رسالہ کو جو قدیم اور نایاب ہے۔ مقالات سر سید میں شامل کرنے کے لیے مجھے مرحمت فرماویں۔ بہت معقول معاوضہ پر مولوی صاحب میری درخواست منظور فرمانے پر آمادہ ہو گئے ۔ مگر اسی دوران میں وہ بیمار ہو گئے اور ہزار افسوس کہ اسی بیمار ی میں 13۔ اپریل ۔ 1965ء کو ان کا انتقال ہو گیا ۔ بعد میں مرحوم کے محترم دوست مولوی عبدالشاہد خاں صاحب شروانی نے ان کے ورثاء سے یہ مسودہ لے کر مجھے بھجوا دیا۔ میں شروانی صاحب کا نہایت ممنون ہوں کہ ان کی مہربانی اور عہایت کی بدولت یہ نایاب مضمون مقالات سر سید میں شامل ہو سکا اگر شروانی صاحب نہایت اخلاص کے ساتھ اس مضمون کو ان کے ورثاء سے لے کر مجھے نہ بھجواتے تو میرے لیے اس کا حاصل کرنا قریباً ناممکن ہوتا اللہ تعالیٰ اس نیکی کی ان کو جزاے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔(محمد اسماعیل پانی پتی) ٭……٭……٭ یادداشت بابت نسبت ترقی حیثیت اراضی و امداد کاشتکاران و تقرر بنک ہاے زراعتی اس یادداشت میں پانچ حصے شامل ہیں : ۔ (1)ترقی آراضی پر۔ (2)کاشتکاروں کی حالت پر بہ لحاظ ان کے لین دین کے مہاجنوں کے ساتھ۔ (3)زراعتی بنکوں کے تقرر پر۔ (4)قحط کی نسبت بعض رائیں۔ (5)مروجہ قوانین میں بعض ترمیموں کے کرنے اور جدید قوانین کے اجرا کی ضرورت پر۔ حصۂ اول 1 ۔ زمین کی حیثیت کی ترقی تین طریقوں میں ہو سکتی ہے۔ اول ۔ آبپاشی کے ذریعوں کے قائم کرنے سے۔ دوم ۔ آبپاشی کے واسطے سہولتوں کے مہیا کرنے سے۔ سوم ۔ زمین کی قوت پیداوار کے قائم رکھنے یا اس کو ترقی دینے سے۔ 2 ۔ پہلے امر کی نسبت میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ جن مقامات میں نہروں کے ذریعہ سے آبپاشی ناممکن ہے ، وہاں زمین کی حیثیت کو ترقی دینے اور ملک کو قحط کی مصیبتوں سے محفوظ رکھنے کے واسطے صرف کنوؤں کا ایک ذریعہ ہے۔ صرف وہ بات جس میں بحث کی گنجائش ہے ، وہ طریقہ ہ۔ جس میں کنوئیں ان مقامات میں بنائے جا سکتے ہیں ، جہاں ان کی ضرورت ہو اور اس میں تین امر کی بحث لازم آتی ہے۔ اول ۔ قسم کنوؤں کی بہ لحاظ اس طریقہ کے جس میں وہ بنائے جا سکتے ہیں اور بہ لحاظ اس سرمایہ کے جس کے ذریعے سے وہ بنائے جاویں۔ دوم ۔ ان کا موقع اور لاگت اور یہ کہ ان سے کس قدر فائدہ حاصل ہو گا۔ سوم ۔ امور متعلق ان شخصوں کے جو کنوؤں سے فائدہ اٹھائیں۔ 3 ۔ نسبت امر اول کے کنوے چار اقسام منقسم کیے جا سکتے ہیں۔ (الف) وہ کنوئے جوایک زمیندار یا کاشت کار نے خاص اپنے سرمایہ سے اور خاص اپنی مرضی سے بنائے ہوں۔ (ب) وہ کنوئے جو ایک زمیندار یا کاشت کار نے اس قرضہ سے جو اس مقصد کے واسطے لیا گیا ہو اس معاہدے کی رو سے بنائے ہوں کہ وہ اصل اور نیز سود کو ادا کرے گا۔ یا (ج) وہ کنوئے جو ایک قرضہ سے بموجب اس معاہدہ سے بنائے گئے ہوں کہ وہ دوام کے واسطے صرف سود ادا کیا کرے گا۔ (د) وہ کنوئے جو گورنمنٹ یا کسی مجاز کمیٹی نے ایک لازمی طریقہ میں بنائے ہوں۔ 4 ۔ مذکورہ بالا امر دوم کی نسبت بہت کچھ بحث و گفتگو ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے بہت سی رپورٹیں لکھی گئی ہیں جو اس قسم کے کنوؤں کی لاگت اور جس قدر رقبہ میں ان کے ذریعہ سے آبپاشی ہو اور جو منافع ان سے حاصل ہو اس کے تخمینہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے نہایت مختلف ہیں۔ میں خیال کرتا ہوں کہ آنریبل مسٹر کننگ ہیم نے یہ صحیح رائے ظاہر کی ہے کہ ’’ کنوئیں کی لاگت مختلف مقامات میں مختلف ہو گی اور جس قدر رقبہ میں اس کے ذریعہ سے آبپاشی ہو سکے گی اس کی مقدار پانی کی سطح کے قریب ہونے اور پانی کی مقدار اورفصل پر جس کی آبپاشی کی جاوے اور زمین کے پیاسے ہونے پر منحصر ہوگی ‘‘ پس مجھ کو کنوئیں کی لاگت اور ان کی فائدہ مندی کے ایک ایسے عام تخمینہ کے امکان کی نسبت شبہ ہے جو تمام مقامات میں تمام کنوؤں سے برابر متعلق ہو سکے۔ 5۔ آنریبل مسٹر کننگ ہیم نے اپنی یادداشت میں اور صاحب سیکریٹری گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب و اودھ نے اپنی چٹھی نمبر 3503 حرف اے مورخہ 2 دسمبر 1878ء میں اس بات کو نہایت ضروری سمجھا ہے کہ زمین کنوں کے بنانے کے لائق ہو اور ان کے واسطے ہوشیاری کے ساتھ موقعے منتخب کیے جاویں چناں چہ آنریبل مسٹر کننگ ہیم بیان کرتے ہیں کہ : ’’ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تمام عمدہ مقامات پہلے ہی سے لے لیے گئے ہیں اور جن قطعات میں اب کنوے نہیں ہیں وہ وہ قطعات ہیں جن میں کاشت کاروں کو کنوؤں کا بنانا ناممکن یا غیر منفعت بخش معلوم ہوا ہے۔ کیا اس بات کا گمان ہے کہ گورنمنٹ کو ان کی بہ نسبت زیادہ تر کام یابی حاصل ہو گی ؟ جن صورتوں میں بعض مقامات میں اور مقامات کی بہ نسبت کنوں کا کھودنا زیادہ تر دشوار معلوم ہوا ان کی نسبت کیا اطلاع حاصل ہے ؟ کیا کسی سر رشتہ یا کسی عہدہ دار کو اراضی کے مسئلہ کی نسبت یاجن طبقات اراضی سے پانی نکلتا ہے ان کی خاصیت اور حالت کی نسبت باقاعدہ واقفیت حاصل ہے ؟ کیا سر رشتہ تعمیرات بذریعہ کسی آلہ کے جو زمین کی تہوں کی خبر دے یاکسی سادہ اوزار کے پھلے سے یہ بات کہہ سکتا ہے کہ ایک پکا کنواں کس مقام پر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ یقین کیا جا تا ہے کہ دریائے نگن کی وادی میں پانی ہر ایک مقام پر یا جاسکتا ہے اورصرف برمہ کے لگانے اور پانی کے نکل آنے سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ پانی سوت میں سے آتا ہو یا وہ کوئی رستا ہو ایک سوراخ ہو۔ علاوہ اس کے کنوے کے بنانے میں خاص مشکل اندر کی مٹی کی نرمی یا سختی سے پیدا ہوتی ہے ۔ اس بات کا معلوم کرنا ضروری ہے کہ اسے ریتلے طبق کی گہرائی کس قدر ہے جس میں سوت لگایا جاوے گا اور آیا ریت مضبوط اور خشک ہے یا ڈھیلا اور تر مثل با لو کے ہے۔ کیا سر رشتہ تعمیرات کے پاس اس قسم کے آلات ہیں جن کے ذریعے سے یہ اطلاع حاصل ہو۔ اگر موجود ہیں تو کیا کوئی ناواقف شخص ان کو استعمال کر سکتا ہے یا صرف سر رشتہ مذکور کے تجربہ کار عہدہ دار ان کو استعمال کر سکتے ہیں ؟ اور کیا سر رشتہ مذکور اس قسم کے چند عہدہ دار سر رشتہ سول کو ایسے کنوؤں کے واسطے موقعوں کے منتخب کرنے کی غرض سے مستعار دے سکتا ہے۔ ‘‘ 6۔ صاحب سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب نے اپنی چٹھی مذکورہ بالا میں یہ بیان کیا ہے کہ جناب نواب لفٹیننٹ گورنر بہادر کو نسبت انداز اس ضرورت کے کنوؤں کی تعمیر کے واسطے ظاہر کی جاتی ہے ، بہت کچھ اخلاف رائے اور نسبت طریقہ اور لاگت عمیر کنوؤں کے بہت کچھ مشتبہ قیاسات اور نسبت اس امر کے کس درجہ تک کنوؤں کی ضرورت ہے اور کس مقام پر ان کی سب سے زیادہ حاجت ہے قریباً کامل اور لاعلمی معلوم ہوئی ہے ۔ پس اس وجہ سے جناب ممدوح نے یہ تجویز کی کہ : ’’ صوبہ کے مختف حصوں میں دو ایسے قطعات جن میں ایک یا ایک سیزیادہ دیہات گورنمنٹ کے زیر اہتمام ہوں اور اس بات پر یقین کرنے کے لیے بادی النظر میں وجوہات موجود ہوں کہ کنوئے مناسب لاگت پر بنائے جا سکتے ہیں اور ان سے کاشت کاروں کو فائدہ حاصل ہو سکتا ہے ، منتخب کیے جاویں ۔ ‘‘ چناب ممدوح کی رائے میں اس معاملہ کی نسبت خاص تحقیقاتوں کا کرنا معلوم ہوتا ہے ۔ گو جناب ممدوح اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ زمین کے ایک قطعہ کی ضرورتوں سے واقف ہونا ایک دوسرے قطعہ کی ضرورتوں سے واقف ہونا ایک دوسرے قطعہ کی ضرورتوں سے واقف ہونے کے واسطے گو وہ اس کے آس پاس کیوں نہ واقع ہو ، ایک کافی رہنما نہیں ہے ، جناب ممدوح خیال فرماتے ہیں کہ جن امور کی نسبت اس قسم کی تحقیقات کرنی چاہیے وہ یہ ہیں : ’’ گہرائی جس پر پانی نکلے گا ، افراط پانی کی ، حالت اس طبق زمین کی جو کھودا جاوے یا جس میں پانی واقع ہو ، خاصیت خاص پانی کی ، لاگت اور رسد سامان اور مزدوری کی ہر ایک مقام میں ، وسعت کنوئے کی جو اس مقام کے نہایت مناسب ہو ، قسم زمین کی جس میں آبپاشی کی جاوے ، قسم فصل کی جو اس میں پیدا ہو ، قسم کاشت کاروں یک جو اس سے فائدہ اٹھاویں ، تعلقات جو وہ مصالحت کے ساتھ یا اور طرح پر ایک دوسرے سے یا اپنے زمینداروں سے رکھتے ہوں ، فاصلہ جہاں تک پانی کنوئیں سے لے جایا جاوے اور یہ بات کہ قرب و جوار میں بالفعل کس حد تک آبپاشی کے واسطے پانی مل سکتا ہے اور علی ہذا لقیاس ۔‘‘ جناب ممدوح یہ رائے ظاہر فرماتے ہیں کہ اگر ’’ اس قسم کے مختص المقام تحقیقاتوں سے مقصد مطلوبہ حاصل ہو جاوے تو ایک علیحدہ عملدہ قائم کیا جاوے جس کا خاص فرض یہ ہو گا کہ وہ ہر ایک مقام کی زراعتی حالتوں پر جہاں کنوئیں کے بنانے کی تجویز کی جاوے ، غور کیا جائے گا ، شاید جس کا خاص فرض ہر ایک مقام کی زراعتی حالتوں پر غور کرنا ہو گا جس میں بخوبی آبپاشی نہ ہوتی ہو تاکہ وہ اس بات کا فیصلہ کر سکے کہ آیا کنوؤں کی ضرورت ہے یا نہیں۔ جناب ممدوح خیال فرماتے ہیں کہ ایک عہدہ دار کسی ضلع کا دو یا تین برس سے کم میں معائنہ نہیں کر سکتا ہے جس میں تخمینا پچیس ہزار روپیہ سے لے کر پچاس ہزار روپیہ تک فی ضلع خرچ ہو گا۔ 7 ۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ آنریبل مسٹر کننگ ہیم نے بیان کیا ہے کہ گورنمنٹ کو ان قطعات میں کنوئے کے بنائے میں کامیابی کی کوئی عمدہ توقع نہیں ہو سکتی ہے۔ جہاں تک کاشتکاروں کو کنؤں کا بنانا ناممکن یا غیر منفعت بخش معلوم ہوا ہے کہ بلکہ کنؤں کی تمیر کو صرف ان مقامت پر محدود رکھنا چاہئے جہاں اس تجویز کی کامیابی کی معقول توقع ہو۔ اس قسم کے مقامات اب بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں اور کنوئے کی تعداد کے زیادہ ہونے سے ان کو نہایت فائدہ پہنچے گا۔ جن دیہات میں کوئی مزروعہ یا قابل زراعت رقبہ موجود ہو ان میں قحط کے دفعیہ کی تدابیر کے عمل میں لانے کی بخوبی گنجائش ہے بشرطیکہ وہ رقبہ اس قسم کا نہ ہو جس کے باعث سے کنؤں کا بنانا ناممکن یا غیر منفعت بخش نہ ہو۔ اس قسم کے دیہات اضلاع شمال و مغرب میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ 8 ۔ زمین کی قابلیت کے معاملہ میں جس کا ذکر آنریبل مسٹر کننگ ہیم نے اپنی یادداشت میں کیا ہے اور ان تحقیقاتوں میں جن کا ذکر صاحب سکرٹری گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب کی چٹھی میں ہے ، کوئی سخت دشواری پیش نہیں آتی ہے ۔ مجوزہ تجویز کا مقصد ان دیہات میں کنؤں کی تعداد کا بڑھانا ہے جہاں قحط کی مصیبتوں کے رفع کرنے کے واسطے ان کی کافی تعداد نہ ہو۔ ہم کو ان قطعات میں شاذ و نادر ہی کنوئیں بنانے پڑیں گے جہاں زمیندار یا کنوئے کھود نے والے جن کا یہ پیشہ موروثی ہو ، زمین کی خاصیت سے بخوبی واقف نہ ہوں ، یا جن کے قرب و جوار میں اس قسم کے کنوئیں موجود نہ ہوں جن سے اس مقام کی زمین کے حالات معلوم ہوتے ہیں ۔ یہ ایک امر واقعی ہے اور ہر ایک پرگنہ میں تحقیقات کرنے سے وہ پایہ ثبوت کو پہنچ سکتا ہے کہ تمام دیہات میں زمیندار اور کنوئیں کھودنے والے اور کنوئیں چلانے والے بہ سبب اس تجربہ کے جو انہوں نے اور ان کے بزرگوں نے حاصل کیا تھا، زمین کے مختلف طبقوں اور اس مقام میں پانی کی گہرائی سے عمدہ واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ ان مختلف طبقات زمین کو بخوبی بتا سکتے ہیں جو اس مقام میں پانی سے اوپر ہوں اور اس ترتیب کو جس میں وہ واقع ہوتے ہیں اور نیز ہر ایک طبق کی موٹائی کو بتا سکتے ہیں۔ گو وہ ان چیزوں کی کوئی باقاعدہ واقفیت نہیں رکھتے ہیں لیکن ان کی واقفیت تجربہ سے پیدا ہوتی ہے جو ہر ایک قسم کے علم کی خاص بنیاد ہے۔ قرب و جوار کے کنوؤں سے اس بات کا سچا ثبوت حاصل ہوتا ہے کہ پانی سطح زمین سے کس قدر قریب اور کس قدر افراط سے پانی نکلے گا اور زمین کس قدر پیاسی ہے اور کس قسم کے کنوئیں سے کس قدر رقبۂ زمین میں آبپاشی ہو سکتی ہے اور ہم کسی خاص مقام میں ایک کنوئیں کی لاگت کا تخمینہ بدرجہ اوسط صحت کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ یہ وہ باتںی ہیں جو کنوئے کی تعمیر شروع کرنے سے پہلے معلوم ہونی چاہئیں اور وہ ہندوستانی عہدہ داروں کی معرفت معمولی لوکل افسروں کی نگرانی میں بہ آسانی تحقیق ہو سکتی ہیں۔ 9 ۔ ان سوالات میں کوئی سخت دشواری نظر نہیں آتی ہے اور وہ یہ آسانی حل ہو سکتے ہیں لیکن اس سوال کے حال ہونے میں کہ آیا زمیندار اور کاشتکار اس طریقہ میں کنوؤں کے بنانے پر راضی ہو جاویں گے جو دفعہ 3 کی ضمن (الف) (ب) اور (ج)میں مذکور ہے کسی قدر دشواری نظر آتی ہے ۔ چند کنوئیں اس طریقہ میں بنائے جا سکیں گے ۔ جو قابل تعریف کوشش پر گنہ گھاٹم پور ضلع کانپور میں اس تجربہ کے آزمانے کے واسیط کی گئی ہے اس پر میں نے بخوبی غور کیا ہے لیکن میں نہیں خیال کرتا ہوں کہ اس تدبیر میں کبھی کوئی بڑی کامیابی حاصل ہو گی۔ اگر کسی عہدہ دار کے رعب و داب یا ترغیب سے اس قسم کے کنوئیں تعمیر ہو جاویں تو اس سے یہ اصل مقصد کہ وہ قحط کے دفعیہ کا ایک ذریعہ ثابت ہوں ، حاصل نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ خود زمیندار اور کاشتکار زیادہ تر زبردست اغراض اور لالچوں سے ان کی تعمیر کی جانب مایل نہ ہوں۔ 10 ۔ میں نے اس معاملہ کی نسبت چند معزز اور دولت مند زمینداروں کے ساتھ گفتگو کی ہے اور ان دریافت کیا ہے کہ وہ کس سبب سے اپنے دیہات میں اپنے خاص سرمایہ یا زر تقاوی کے ذریعہ سے جو گورنمنٹ سے دیا جاوے کنوئیں نہیں بناتے ہیں اور اس کی مندرجہ ذیل و جوہات مجھ کو معلوم ہوئی ہیں : (الف) وہ اپنے روپیہ کو ان تجارتوں میں جو کنؤں کے بنانے کی نہ نسبت زیادہ تر منفعت بخش ہیں صرف کر سکتے ہیں ۔ (ب) ان کو اس بات کا مضبوط یقین ہے کہ اگر وہ کنوئیں بناویں گے تو جس وقت بندوست کی میعاد ختم ہو گی تو گورنمنٹ کی مال گزاری بھی زمین کی قوت پیداوار کی مناسبت بڑھ جاوے گی اور جو منافع اب تک ان کو حاصل ہوتا تھا اس میں بڑی کمی ہو جاوے گی۔ جو کوشش گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب نے اپنے سرکلر مؤرخہ 14 نومبر 1877ع میں زمینداروں کے دلوں سے اس اندیشہ کے کسی قدر رفع کرنے کے واسطے کی ہے اس سے ان کی دلجمعی نہیں ہوئی ہے اور وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے ہیں کہ ان کے اندیشے کس وجہ سے بے بنیاد ہیں۔ ان کی دلجمعی اس دلیل سے نہیں ہوتی ہے کہ جس وقت بندوبست ختم ہو گا اس وقت تک ان کو کافی منافع حاصل ہو جاوے گا۔ جو نفعان کو وقتاً فوقتاًحاصل ہوتا ہے وہ جمع نہیں کیا جاتا ہے یا جو رقم انہوں نے خرچ کی ہو اس کا بدلہ نہیں سمجھا جاتا ہے اورجو نقصان ان کو سرکاری مالگزاری کے اضافہ سے ہو گا اس کو وہ رقم پر جو انہوں نے خرچ کی ہو بطور نقصان کے تصور کریں گے۔ 11۔ ایک معزز زمیندار نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ اگر مندرجہ ذیل تدابیر عمل میں لائی جاویں تو ان کا یہاثر ہو گا کہ زمینداروں کو اپنے دیہات میں کنوں کے بنانے کی ترغیب ہو گی : (الف) ان دیہات میں جن میں تمام رقبہ کی نست بہ فرض کیا گیا ہو کہ اس میں کاشت ہو گئی ہے اور جن کی مالگزاری کی مقدار اپنی مناسب حد پر پہنچ گئی ہو اور جو ریلوے کی ایک لائن کے قرب و جوار میں واقع ہو جہاں نہروں کے جاری ہونے کا کبھی کوئی گمان نہ ہو اور جن میں ترقی کے اور ذریعے پورے پورے طور پر کام میں آچکے ہوں ، زمینداروں کے ساتھ اس شرط پر استراری بندوبست کیا جاوے کہ وہ چند کنوئیں بنوا دیں یعنی یہ کہ بندوبست مروجہ اس شرط پر استمراری کر دیا جاوے کہ زمیندار ایک عرصہ معین کے اندر اپنے گاؤں میں چند کنوؤں کے بنانے کا وعدہ کرے۔ (ب)جن دیہات میں میعاد بندوبست کے خاتمہ پر اضافہ مالگزاری کی توقع ہو وہاں اس قسم کے اضافہ کے واسطے ایک حد مقرر کر دی جاوے اور زمینداروں کے ساتھ اس مضمون کا معاہدہ کر لیا جاوے کہ اگر وہ ایک میعاد معین کے اندر چند کنوئیں بنا دیں گے تو جب تک بندوبست حال قائم رہ گا اس وقت تک گورنمنٹ ان سے زیادہ مطالبہ نہیں کرے گی اور اس میعاد کے ختم ہو جانے پر ان کے ساتھ استمراری بندوبست ایک ایسی رقم پر کیا جاوے گا جس کی حد اس طرح پر مقرر کی گئی ہو۔ (ج) اگر ان میں سے کوئی تدبیر گورنمنٹ کو پسند نہ ہو تو سب سے اخیر تدبیر یہ ہونی چاہیے کہ جو زمیندار کسی گاؤں میں کنواں بنانا چاہے اس پر یہ بات لازمی قرار دی جاوے کہ وہ کلکٹر ضلع کو اپنے ارادہ سے مطلع کرے جو اس رقبہ کی حدود کو قرار دے گا جس میں اس قسم کے کنوئیں سے آبپاشی ہوسکے گی اور بٹوارہ کے قواعد کے بموجب اس رقبہ کو باقی ماندہ آراضیات سے علیحدہ کر دے گا اور اس کے واسطے ایک علیحدہ مقدار مالگزاری کی ، یعنی وہی مقدار جو اب اس کی بابت آبپاشی نہ ہونے کی حالت میں لی جاتی ہے ، ہمیشہ کے واسطے قرار دے گا اور وہ رقبہ ایک جداگانہ استمراری پٹہ کے نام سے موسوم ہو گا۔ 12۔ جن تدابیر کے عمل میں لانے کی اس لائق زمیندار نے رائے دی ہے وہ انتظام ملک کے نہایت اہم معاملات سے متعلق ہیں جن کا حل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن ان سے ہم صاف صاف یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ پرائیویٹ سرمایہ کے ذریعہ سے یا اس سرکاری روپیہ کے ذریعہ سے جو زمینداروں کو اس مقصد کے واسطے پیشگی دیا جاوے ، کنوؤں کے بنانے کے انتظام میں کامیابی کی توقع کرنا گویا ان باتوں کی توقع کرنا ہے جو ناممکن الوقوع ہیں ، پس اگر اس بات کی ضرورت ہو (اور میں تسلیم کرتا ہو کہ اس کی ضرورت ہے) کہ کنوؤں کی تعمیر کا انتظام احتیاطاً اس خیال سے کہ اس کے ذریعہ سے قحط کا دفعیہ ہو جاوے گا ، جاری کای جاوے تو سوائے اس کے اور کوئی چارہ باقی نہیں رہتا ہے کہ گورنمنٹ ان کنوؤں کو خاص اپنی طرف سے تعمیر کرائے یا کسی ذی اختیار جماعت کو جو اس کام کواپنے ذمہ لینا چاہتی ہو اس کے پورا کرنے کی اجازت دے۔ 13 ۔ ملک کے قوانین مروجہ میں اس بات کی بھی اجازت نہیں ہے کہ گورنمنٹ یا کوئی مجاز جماعت بطور تجربہ کے اس کام کو شروع کر سکے۔ اس بات کا خیال کرنا کہ گورنمنٹ ان دیہات میں جوخاص اس کے زیر اہتمام ہیں اس تجربہ کی آزمائش کر سکے گی ، میرے نزدیک ایک ناواجب توقع معلوم ہوتی ہے ۔ اگر یہ توقع پوری بھی ہو جاوے تو بھی اس سے وہ نتیجہ حاصل نہ ہو گا جس کو ہم مناسب طور پر ایک کامل اور مؤثر تجربہ کا نتیجہ کہہ سکیں ۔ پس ان وجوہات سے میری رائے میں ایک ایسے قانون کا بنانا ضروری ہے جس میں کامن طور پر تجربہ کرنے کے باب میں سہولت دی جاوے۔ 14 ۔ اس قسم کے قانون کے منظور ہونے سے خواہ نخواہ یہ بات لازم نہ آوے گی کہ گورنمنٹ یا کوئی ذی اختیار جماعت تمام ملک میں فوراً اس کام کو شروع کردے۔ بخلاف اس کے گورنمنٹ ملک کے کسی قطعہ میں اور اس حد تک جہاں تک کہ وہ مناسب سمجھے اس قانون کے نافذ کرنے کی مجاز ہو گی۔ پس اس قسم کے قانون کے نافذ ہونے سے جس کا جاری کرنا بالکل گورنمنٹ کے اختیار میں ہو گا ، کوئی وجہ اندیشہ کی پیدا نہیں ہو سکتی ہے۔ 15 ۔ جو مسودہ قانون محکمۂ بورڈ آف ریونیو اضلاع شمال و مغرب نے اس معاملہ کی نسبت ماہ ستمبر 1878میں مرتب کیا تھا ، اگرچہ اس میں بہت کچجھ ترمیم کی ضرورت ہے ۔ تاہم وہ خاص توجہ کے لائق ہے اور وہ اس لائق نہیں ہے کہ اس کو ایک ڈیڈ لیٹر سمجھ کر پھینک دیا جاوے۔ 16۔ تیسرے امر کی نسبت جس کا دفعہ 2 میں مذکور ہے میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو معاملات ان آراضیات کے قابضوں سے متعلق ہیں جو کنوؤں کے ذریعہ سے آبپاشی کے لائق ہیں ، ان کے فیصلہ میں کوئی بڑی دشواری پیش نہیں آتی ہے۔ میں نہیں خیال کرتا ہوں (جیسا کہ آنریبل مسٹر کننگ ہیم کی یادداشت سے اور نیز محکمۂ بورڈ آف ریونیور اضلاع شمال و مغرب کے مسودہ قانون سے واضح ہوتا ہے) کہ اس آراضی کے قابضوں کو جس کی آبپاشی سرکاری کنوؤں سے ہو سکے ، پانی کا محصول ادا کرنا پڑے گا۔ یہ امر پسندیدہ ہے کہ وہ آراضی کے زمیندار کو اس بناء پر کہ وہ قابل آبپاشی ہے ، آبپاشی کا لگان ادا کریں ،خواہ وہ اپنی سے کام لیں یا نہ لیں۔ 17۔ آنریبل مسٹر کننگ ہیم اپنے یادداشت میں یہ تحریر فرماتے ہیں کہ : ’’ جس صورت میں کنوؤں کی تعمیر کا لازمی طریقہ اختیار کیا جاوے تو گورنمنٹ واجبی طور پر زمیندار سے یہ بات نہیں کہہ سکتی ہے کہجو آراضیات کنوئے کے گرد واقع ہوں ان کے کاشتکاروں سے اپنے خرچ کے پورا کرنے کے واسطے تم کو اپنا خاص بندوبست کرنا چاہیے ، بلکہ گورنمنٹ کو ان آراضیات سے ایک لازمی شرع لگان کے دلانے کے واسطے بندوبست کرنا چاہیے۔ لیکن سنا جاتا ہے کہ گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب نے قطعی طور پر یہ رائے ظاہر کی ہے کہ نہر کے معاملہ میں لازمی شرع لگان کی نہیں قرار دینی چہیے اور میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ ان دونوں معاملات کی نسبت کیوں کر مختلف طور پر بحث کی جا سکتی یا کنوؤں کے معاملہ میں اس قسم کی لازمی شرح قرار دینے کے کون سے دلائل استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ 18۔ محکمہ بورڈ آف ریونیور اضلاع شمال و مغرب نے اپنے مسودہ قانون کی دفعہ 10 میں یہ بیان کیا ہے کہ : ’’ تمام آراضیات پر جو قابل آبپاشی ہوں۔ لوکل گورنمنٹ کے عام یا خاص حکم کے بموجب ایک محصول آبپاشی لگایا جا سکتا ہے جس کی مقدار لوکل گورنمنٹ تجویز کرے گی اور یہ محصول وقتاً فوقتاً لوکل گورنمنٹ کے حکم سے تبدیل کای جا سکتا ہے ‘‘۔ 19 ۔ میری دانست میں ان آراضیات میں جو کنوئے کے ذریعہ سے قابل آبپاشی کے ہوں ، محصول آبپاشی نہیں لگانا چاہیے اور کاشت کاروں سے اس کو وصول نہیں کرنا چاہیے۔ کنوئے کی تعمیر ہونے سے زمین کی خاصیت بغیر اس کے کہ کاشت کاروں کو ذرا بھی خرچ کرنا پڑے بالکل بدل جاوے گی یایوں کہو کہ جو رقبہ اول ناقابل آبپاشی تھا وہ اس طرح پر قابل آبپاشی ہو جاوے گا اور اسی وجہ سے زمین کا لگان اس حد تک بڑھ جاوے گا جو آراضی قابل آبپاشی سے اس حالت میں قابل وصول ہو کہ کنوے کا نہانے والا خود کاشت کار نہ ہو۔ جو تفاوت لگان کی ان دونوں شرح کے درمیان ہو گا وہ بعد مجرا کرنے معمولی شرح کے بطور حق التحصیل اس نمبر دار کے جو کاشت کاروں سے محصول وصول کرے ، سرکاری مالگذاری میں زیادہ کر دیا جاوے گا۔ یہ بیشتی جو اصل سرکاری مالگذاری میںہو گی ، اس فریق کو واجب اولاد اہو گی۔ جس کے خرچ سے کنواں بنایا گیا ہے ، خواہ وہ زمیندار ہو یا کوئی ذی اختیار کمپنی یا گورنمنٹ ۔ اس صورت میں ان معاملات میں ان معاملات کے تصفیہ میں جو ان آراضیات کے کاشت کاروں سے متعلق ہوں جو کنوے کے ذریعے سے قابل آبپاشی ہوں ، کوئی دشواری نظر نہیں آتی ہے۔ 20 ۔ زمین کی حیثیت کو ترقی دینے کا دوسرا طریقہ جو آبپاشی کے معاملہ میں سہولتوں کے مہیا کرنے کا ہے کہ اس کا ذکر کسی غذاتہ میں جو زمین کی ترقی یا قحط کے دفعیہ کی تدابیر کی نسبت لکھے گئے ہیں ، جہاں تک کہ میں نے ان کو دیکھا ہے ، نہیں کیا گیا ہے ۔ میں خیال کرتا ہوں کہ ان تدبیروں کے استعمال میں لانے سے جن سے آبپاشی کی سہولت متصور ہے ، زمین کی حیثیت کو ترقی دینے اور قحط کی سختیوں کے کم کرنے میں بہت کچھ مدد مل سکتی ہے۔ 21 ۔ یہ بات تسلیم کی جاوے گی کہ جو طریقہ کنؤں سے پانی کھینچنے کا بالفعل جاری ہے ، اس کی بہ نسبت ایک زیادہ تر آسان اور کم خرچ طریقہ کا ایجاد کرنا قریب ناممکن کے ہے لیکن دریاؤ ں اور نہروں کے کناروں پر ایسے وسیع قطعات آراضی کے موجود ہیں جو پانی کی سطح سے طرف چند فٹ اونچے ہیں اوربعض ایسے ہیں جن کے قریب نہریں گزرتی ہیں لیکن ان کے ذریعہ سے ان کے زیادہ تر بلند آبپاشی نہیں ہو سکتی ہے۔ ایسی خفیف اونچائی تک کسی کل کے ذریعہ سے پانی کی کافی مقدار کے پہنچانے میں کوئی بڑی دشواری نہیں معلوم ہوتی ہے۔ ایسے پمپ موجود ہیں جو ایسی خفیف اونچائی تک اسٹیم یعنی بھاپ کے ذریعے سے کثرت سے پانی پہنچا سکتے ہیں۔ میری رائے میں اس قسم کی کل کے استعمال کی لاگت بمقابلہ اس فائدہ کے جو حاصل ہو گا اور اس آمدنی کے جو اس سے پیدا ہو گی ، نہایت قلیل ہو گی ۔ علاوہ اس کے میں خیال کرتا ہوں کہ اندریاؤں اور نہروں اور چشموں کے کناروں پر جن کا پانی کافی تیز روی کے ساتھ بہتا ہے ، اس قسم کی کلیں لگائی جا سکتی ہیں جو بغیر زیادہ خرچ کے پانی کی دھار کے زور سے چل سکتی ہیں ۔ میرے نزدیک یہ تجویز بھی مناسب غور کے لایق معلوم ہوتی ہے اور اس کا اختیار کرنا یا نہ اختیار کرنا ایک کامل تحقیقات کے نتیجہ پر منحصر ہونا چاہئے۔ 22۔ زمیندار لوگ اس تجربہ کو نہیں کر سکتے ہیں لیکن گورنمنٹ یا کوئی ایسوسی ایشن جو اس کام کے کرنے پر مایل ہو، اس کو کر سکتی ہے لیکن خاص مشکل اس بات میں ہے کہ اگر بالفرض کوئی شخص ایک کمپنی قایم کرنا چاہے (جیسی کہ کچھ عرصہ ہوا ضلع علی گڑھ میں کوشش کی گئی تھی (تو اس) قسم کا کوئی قانون موجود نہیں ہے جس میں اس کو اس طرح پر کارروائی کرنے کی اجازت ہو۔ اس قسم کے تجربہ کے واسطے یہ بات لازم ہو گی کہ ایک مناسب قطع زمین کا آبپاشی کے واسطے منتخب کیا جاوے اور کسی قدر رقبہ میں واسطے لگانے کل کے ہمیشہ کے لیے یا عارضی طور پر قبضہ کر لیا جاوے اور کمپنی کو کو اراضیات ملحقہ کو پانی دینے اور محصول آبپاشی کے وصول کرنے کی اجازت دی جاوے۔ 23۔ اس امر ہیں کچھ شبہ نہیں ہے کہاس کام کی کامیابی یا ناکامیابی تجربہ کے نتیجہ پر منحصر ہو گی لیکن جس حالت میں کہ کوئی ایسا موجود نہ ہو جس میں اس قسم کی کارروائی کی اجازت ہو تو کسی تجربہ کی آزمایش نہیں کی جا سکتی ہے۔ 24 ۔ زمین کی حیثیت کو ترقی دینے کا تیسرا طریقہ بذریعہ قایم رکھنے یا ترقی دینے اس کی قوت پیداوار کے منجملہ ان معاملات کے ہے جو خاص توجہ کے لایق ہیں اور وہ بیشتر کاشتکاروں کی حالت پر مؤثر ہوا ہے ۔ در حقیقت یہ ایک امر واقعی ہے کہ زمین کی قوت پیداوار میں پچھلے چند دنوں سے ہندوستان کے بعض حصوں میں بظاہر تنزل ہو گیا ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ زمین کی قوت پیداوار کو نہایت عمدہ طور پر کام میں لانے کے واسطے جو کوششیں کی جاتی تھیں ان میں سستی ہو گئی ہے جو مندرجہ ذیل سببوں سے منسوب کی جا سکتی ہے۔ : (الف) زمین میں کافی مقدار کھاد کی نہیں ڈالی جاتی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ مزارعہ رقبہ کی مقدار کو بہت وسعت ہو گئی ہے اور بہ نسبت سابق کے کھاد کی زیادہ قلت ہو گئی ہے ۔ کھاد کی اس قلت کی وجہ یہ ہے کہ جنگلوں کے کٹ جانے کی وجہ سے اس لکڑی کا نرخ جو بطور ایندھن کے کام میں آتی ہے ، نہایت گراں ہو گیا ہے اور مزروعہ قطعات میں بڑی بیشی ہو گئی ہے۔ گوبر جو سابق میں بہ قطعات میں بڑی بیشی ہو گئی ہے۔ گوبر جو سابق میں بہ نسبت ایندھن کے زیادہ تر بطور کھاد کے کام میں آتا ہے اور اس وجہ سے غریب کاشتکار گوبر کو بطور ایندھن کے فروخت کرنے پر بہ نسبت اس کے کہ وہ اس کو کھاد کے مقاصد کے واسطے رکھ چھوڑیں ، زیادہ تر مایل ہوتے ہیں۔ (ب) زمین اتنی دفعہ نہیں جوتی جاتی ہے جو اس کے واسطے کافی ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فصل کے ساتھ گھاس کثرت سے پیدا ہو جاتی ہے جس سے فصل کو نقصان پہنچتا ہے اور درخت چھوٹے رہ جاتے ہیںاوربالیں پتلی پڑ جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ گھاس وقتاً فوقتاً کاٹی جاتی ہے تاہم اس کی جڑیں زمین کے اندر رہ جاتی ہیں اور ان سے نئے کلے پھوٹ آتے ہیں۔ (ج) جہاں کہیں کنوئیں ہوتے ہیں وہاں فصل کی آبپاشی کافی طور پر نہیں کی جاتی ہے اور اناج عموماً پتلا پڑ جاتا ہے۔ 25۔ یہ دو آخر الذکر نقصانات عموماً بیلوں کی قلت سے منسوب کیے جا سکتے ہیں ۔ جو بیل کاشتکاروں کے پاس ہوتے ہیں ان میں جسمانی قوت بہت کم ہوتی ہے۔ جو کہ کاشتکاروںکے واسطے نہایت ضروری ہوتی ہے ، بہ نست سابق کے مویشیوں کی تعداد اب کم ہو گئی ہے اور اسی وجہ سے ان کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے ۔ مزروعہ رقبہ میں بڑی بیشی کے ہونے کی وجہ سے جس قدر تعداد چراگاہوں کی کمی ہو گئی ہے اسی قدر مویشی کی نسل کو ترقی دینے اور ان کی پرداخت کا خرچ بھی بہت زیادہ ہو گیا ہے ۔ یہ تمام واقعات ان شخصوں کی مناسب توجہ کے لائق ہیں جو قحط کی مصیبتوں کے دفعیہ کے واسطے تدابیر کے سوچنے میں مصروف ہیں ۔ اب ان تدابیر کے عمل میں لانے کے واسطے زمانہ نہایت منامسب ہے جن کے ذریعہ سے مصنوعی کھاد کو روج ہو اور مویشی کی نسل بڑھانے میں سہولت ہو۔ اس قسم کی تدابیر کا عمل میں لانا کچھ گورنمنٹ کے اختیار میں نہیں ہے بلکہ خاص لوگوں کے اختیار میں ہے جن کو اس مقصد کے واسطے کمیٹیاں مقرر کرنا اور گورنمنٹ کو حتی الامکان ان کی کوششوں میں مدد دینا اور ان کے ارادوں کو سہولت دینا چاہیے۔ حصہ دوم 26۔ قرض داری اور سود کی بڑی شرح کی وجہ سے کاشتکار کی حالت تباہ اور قابل افسوس ہو گئی ہے جو رعایت وقت بندوبست کے اس کے ساتھ کی گئی تھی اور جو عرق ریزی اور جانفشانی اس کو کرنی پڑتی ہے اس سب کا ثمرہ بغیر کسی خطرہ کے مہاجن کو حاصل ہوتا ہے اور پھر بھی وہ اپنے تئیں قرض داری سے سبکدوش نہیں کر سکتا ہے۔ 27 ۔ لیکن یہ حالت مہاجنوں کی کسی بددیانتی یا فریب سے منسوب نہیں کی جا سکتی ہے ، بلکہ مختلف اسباب ایسے جمع ہو گئے ہیں جن سے سود کی شرح اس قدر زیادہ ہو گئی ہے۔ روپیہ کی بڑی خواہش ہونے اور تمام کاشت کاروں کو ایک ہی وقت پر روپیہ قرض لینے کی ضرورت کے واقع ہونے اورقرضہ کے واسطے ناقص کفالت کے ہونے سے سود کی شرح اس قدر زیادہ ہو گئی ہے۔ زمانہ سابق میں قرض خواہ اپنے قرض دار کے دروازہ پر دہرنا دے کر بیٹھتے اور اس کی جائیداد منقولہ اور اس کے کھیتوں اور کھڑی فصل پر قبضہ کر لینے کا مجاز ہوتا تھا۔ یہ تمام کارروائی ایک قانونی طریقہ میں سرپنچوں اور نمبرداروں بلکہ عاملوں (کلکٹروں) کی منظوری سے بھی عمل میں آتی تھی اور عدالت میں چارہ جوئی کرنے کا ضابطہ بھی پورا نہیں کیا جا تا تھا۔ اس زمانہ میں اس قسم کے افعال بمنزلہ ایسے جرائم کے تصور کیے جاتے ہیں جن کی سزا ایک شائستہ اور عادل گورنمنٹ کو دینی واجب ہے اور قرض خواہ اپنا قرضہ بجز اس کے کہ عدالت دیوانی میں نالش کرے اور کسی طریقہ میں وصول نہیں کر سکتا ہے۔ اس بات کے کہنے سے میری یہ مراد ہے کہ ناجائز زبردستی اور سختی جو قرضہ کے وصول کرنے کا ایک زیادہ تر آسان طریقہ تھا ، اب نہیں کی جا سکتی ہے۔ دہرنا سے مراد صرف قرضدار کے دروازہ پر بیٹھنے سے ہی نہیں ہوتی تھی ، بلکہ تمام ضروریات زندگی مکان کی اندر نہیں ہوتی تھی ، بلکہ تمام ضروریات زندگی مکان کے اندر نہیں آنے پاتی تھیں اور عورتیں حوایج ضروری کے واسطے مکان سے باہر نہیں جانے پاتی تھیں۔ قرضہ کی کفالت بہ نسبت سابق کے ظاہراً بہت کم ہو گئی ہے اور جو دقت و پریشانی اس کام میں اٹھانی پڑتشی ہے۔ وہ ایک بڑا سبب سود کی شرح کی زیادتی کا ہے۔ 28۔ گو اس کا سبب کچھ ہی کیوں نہ ہو لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ کاشتکار اپنی قرضداری کی وجہ سے بہت برباد ہو گئے ہیں جو لین دین اب کاشتکار اور مہاجن کے درمیان ہوتا ہے ۔ وہ مندرجہ ذیل صورتوں میں سے ایک نہ ایک صورت میں ہوتا ہے : (الف) ایک فصل سے دوسری فصل تک کاشتکار کے کھانے پینے کے لیے اناج کا دینا۔ (ب)ایک مدت کے واسطے مابین تخم ریزی اور درو ہونے فصل کے بیج کا دینا۔ (ج) کاشتکار کو مویشی کا ادھار فروخت کرنا۔ (د) مویشی کی خرید اور لگان کے ادا کرنے یا کسی اور خانگی کام کے واسطے روپیہ کا قرض دینا۔ 29۔ جس مدت کے واسطے اناج ادھار لیا جاتا ہے وہ چھ مہینہ سے ہرگز زیادہ نہیں ہوتی ہے۔ اس قسم کے ادھار پر مدت مذکور کی بابت پچیس روپیہ فی صدی سالانہ کے حساب سے سود لیا جاتا ہے۔ یعنی اگر ایک من غلہ قرض لیا جاوے تو اس کے عوض میں دوسری فصل پر ایک من دس سیر غلہ اسی قسم کا ادا کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ شرح بظاہر پچیس روپیہ فی صدی ہے لیکن جب کہ اس اختلاف کا لحاظ کیا جاتا ہے جو غلہ کے نرخ میں ان دو زمانوں پر ہوتا ہے تو وہ قریب بیس روپیہ فی صدی کے رہ جاتی ہے ۔ اگر قرضہ مناسب وقت پر ادا نہ کیا جاوے تو سود اصل میں اضافہ کیا جاتا ہے اور تمام مقدار بمنزلہ اصل کے متصور ہو کر سود کی اسی شرح پر فصل آئند میں واجب الادا ہوتی ہے اور ہر مرتبہ جب کہ اس کے ادا کرنے میں خطا ہو ، اسی طرح پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ 1۔ چٹھی قائم مقام سیکرٹری بورڈ آف ریونیو بنام قائم مقام سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب مؤرخہ 22جولائی 1876ئ۔ 30۔ اگرچہ اس قسم کے معاہدہ کی شرائط نہایت سخت اور کسی قدر نامعقول ہوتی ہیں تاہم ان کو فریب آمیز یا خلاف دیانت نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ان معاملات میں مہاجن کی طرف سے ناواجب بات صرف یہ ہے کہ جو غلہ وہ کاشت کار کو اس کے کھانے پینے کے واسطے ادھار دیتا ہے وہ علی العموم نہایت خراب قسم کا ہوتا ہے اور جو غلہ بیج کے واسطے دیا جاتا ہے اگرچہ وہ پہلے غلہ کی بہ نسبت کسی قدر زیادہ عمدہ ہوتا ہے ، تاہم وہ بھی اس مقصد کے واسطے بخوبی لائق نہیں ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اس کے کھیت کی پیداوار خراب قسم کی ہوتی ہے۔ 31 ۔ جو مویشی کاشت کار لوگ مہاجن کو ان کے قبضہ کی بابت حوالہ کرتے ہیں وہ علی العموم اور کاشت کار کو ادھار فروخت کی جاتی ہیں جن کو اس معاملہ سے بڑا نقصان ہوتا ہے کیوں کہ ان کو ایسے نکمے جانوروں کے واسطے جن کی محنت سے وہ ایک فصل تک بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں ، بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ 32 ۔ نقد روپیہ جو مویشی کے خرید کرنے یا اور خانگی کاروبار کے واسطے قرض دیا جاتا ہے ، عموماً سود کی ایسی شرح پر دیا جاتا ہے جو تین روپیہ سے لے کر تین روپیہ دو انہ فی صدی ماہوار تک ہوتی ہے اور جو روپیہ لگان کے ادا کرنے کے واسطے دیا جاتا ہے اور اکثر اوقات سوا چھ روپیہ فی صدی ماہواری سوہ پر قرض دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ پچھلا قرضہ ایک مہینہ سے زیادہ عرصہ کے واسطے قائم نہیں رہتا ہے کیوں کہ وہ بہت جلد بذریعہ غلہ کے ادا کر دیا جاتا ہے۔ 33 ۔ کاشت کار کو مویشی اور زر نقد کے ادھار لینے سے ایک اور طریقہ میں بھی نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ یعنی اس کے پاس فصل کے وقت کچھ روپیہ نہیں ہوتا ہے اور مہاجن کو کاشت کار سے غلہ یا مویی اس کی اصلی قیمت بہ نسبت نہایت کم قیمت پر لے کر اپنا قرضہ وصول کرنا پڑتا ہے۔ اکثر اوقات ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ جس وقت غلہ کٹتا ہے اور کھلیان میں جمع ہو جاتا ہے تو مہاجن ایک کاشت کار کی زمین کی تمام پیداوار کو اٹھا لے جاتا ہے اور کاشت کار اور اس کے کنبہ کے واسطے کچھ نہیں چھوڑتا ہے ۔ جب کہ کاشتکار اس طرح پر اپنی محنت کے ثمرہ سے محروم ہو جاتا ہے تو وہ مجبور ہو کر پھر مہاجن کے پاس اور روپیہ قرض لینے کے واسطے جاتا ہے۔ کاشت کار علی العموم اپنے قرض خواہ کے ساتھ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ہے اور اپنے معاہدوں کی ایمان داری کے ساتھ تعمیل کرتا ہے اور جو رقم سود مرکب کے قاعدہ سے واجب نکلتی ہے جس سے کاشت کار برابر پستا ہوا چلا جاتا ہے ، اس کا ادا کرنا اپنے ذمہ لازم سمجھتا ہے ۔ اس کو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنے اقرار کے پورا کرنے میں خطا کرے گا تویہ مہاجن کی ناراضی کا باعث ہو گا اور اس کے ساتھ اس کا لین دین بند ہو جاوے گا اور ہمیشہ کے واسطے اس کی ساکھ جاتی رہے گی ۔ وہ اپنے قرض خواہوں کو زیادہ ستانے کی نسبت صرف اس حالت میں اعتراض کرنے کی جرأت کرتا ہے جب کہ کوئی دوسرا مہاجن اس کو روپیہ قرض دینے پر آمادہ ہوتا ہے۔ 34 ۔ جن دیہات میں دولت مند زمیندار اور کاشت کار باہم اتفاق اور رضا مندی کے ساتھ رہتے ہیں وہاں کاشت کاروں کو زمیندار سے بلا شبہ بہت مدد ملتی ہے۔ ایک ہندو زمیندار کاشت کاروں کے ساتھ اپنے معاملات میں نہایت نرم نہیں ہوتا ہے تاہم وہ اس سود کے معاملہ میں جو وہ اپنے قرضہ پر لیتا ہے مہاجن کی بہ نسبت بہت زیادہ نرم اور اپنے قرضہ کے وصول میں کم سخت ہوتا ہے۔ دولت مند مسلمان زمیندار دو فرقوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں یعنی ایک تو وہ جو روپیہ پر علانیہ سود لیتے ہیں اور دوسرے وہ جو در پردہ ایسا کرتے ہیں ۔ دونوں سود کی شرح کے لحاظ سے نہایت نرم ہوتے ہیں۔ وہ عموماً اس روپیہ کے عوض میں جو وہ قرض دیتے ہیں ، فصل کے وقت ایک شرح معین پر غلہ کا لینا قبول کر لیتے ہیں جو بازار کی معمولی شرح کی بہ نسبت صرف کسی قدر زیادہ ارزاں ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے وہ حساب کے تصفیہ کے وقت سود کی مقدار کے معاف کرنے میں زیادہ حجت نہیں کرتے ہیں ۔ 35 ۔ درحقیقت یہ امر صحیح ہے کہ اضلاع شمال و مغرب کے اکثر زمینداروں نے پچھلے قحط میں اپنے کاشتکاروں کو کار آمد مدد دی تھی۔ میں اس بات کی مثالیں بیان کر سکتا ہوں کہ انہوں نے صرف اس لگان کو وصول کرنا ہی ملتوی نہیں کر دیا جو کاشتکاروں سے واجب تھا انہوں نے ان کو واسطے غلہ اور مویشی کے مہیا کرنے کے واسطے اپنے زیورات کو بھی فروخت کر دیا۔ اسی کے ساتھ افسوس سے اس بات کا اقرار کیا جاتا ہے کہ زمینداروں نے ان کاشتکاروں کی نسبت جن کو حق مقابضت حاصل تھا ، ہمیشہ بڑی مدد مہری ظاہر کی اور کاشتکاروں کے اسی فرقہ نے اس عام مصیبت کے زمانہ میں سب سے زیادہ تکلیف اٹھائی۔ 36 ۔ عدالت ہائے موجودہ عدل و انصاف کے نہایت اعلیٰ اصولوں پر قایم کی گئی ہیں اور اس وجہ سے ان پر ان تمام اقرار ناموں اور معاہدوں کا لحاظ کرنا فرض ہے جو لوگوں کے درمیان ان کی باہمی رضا و رغبت سے ہوئے ہوں ، ان پر اس رقم کو قانوناً منظور کرنا جو کسی شخص کو واجب ہو اور اس کو اس طرح پر تسلیم کرنا فرض ہے ۔ ان کے قرضہ کا یہ کوئی جز نہیں ہے۔ کہ جو اختیار ان کو دیا گیا ہے اس کو کام میں لا کر یا شاید بے جا طور پر لا کر کسی جائز قبضہ کو صرف اس وجہ سے کہ قرض دار ایک غریب آدمی ہے ، منسوخ کر دیں۔ اگر اس قسم کی کارروائی کبھی عمل میں لائی جاوے گی تو وہ بہ نسبت قرض خواہ کے قرض دار کے حق میں زیادہ تر مضر ثابت ہو گی۔ جب کہ قرض خواہ اپنے کو اپنے قرض دار کے معاہدوں کے ناجائز ہونے کا یقین ہو گا تو واجبی طور پر یہ توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ پھر اس قسم کی قرار داد کرے گا۔ اگر ایک جائز قرضہ کے قرض لینے میں بھی مشکلات پیدا ہوں گی۔ ان تمام صورتوں میں نقصان کا برداشت کرنے والا کاشت کار بھی ہو گا جو بغیر روپیہ کے اپنا کام نہیں چلا سکتا ہے۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے جیسا کہ میں نے چند مرتبہ دیکھا ہے کہ جب کبھی کوئی مقدمہ جس میں کوئی قرض خواہ بلاشبہ روپیہ کی کسی رقم کے دعویٰ کرنے کا استحقاق رکھتا تھا جو ایک کاشتکار کو دی گئی تھی ، کسی قانون بنا پر ڈسمس کیا گیا تو جب قرض خواہ پھر مہاجن کے پاس روپیہ قرض لینے کے لیے 1۔ ہماری عدالتیں بلاشبہ حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جس امر کا اس دفعہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ وہ بلاشبہ وقوع میں آتا ہے لیکن اس ذاتی اختیار اور زبردستی کے معدوم ہو جانے سے جو ایک قرضہ کے وصول کرنے میں لائی جاتی تھی اور جس کا ذکر دفعہ 27 میں ہے اور جس کے ذریعہ سے زیادہ تر آسان اور پسندیدہ طریقہ میں وصول ہو جایا کرتا تھا ، ان ضابطوں کے پورا کرنے میں جو ہماری عدالتوں نے قرضہ کے وصول کرنے کے واسطے قرار دی ہیں ، مشکل اور خرچ اور توقف بلکہ بعض اوقات مایوسی کا سبب پیدا ہو گیا ہے اور ان سب باتوں سے قرضہ کا ملنا نہایت دشوار ہو گیا ہے۔ گیا تو اس نے اس قرضہ و بھی جو ڈسمس کر دیاگیا تھا ، اس رقم میں زیادہ کر دیا جو اس نے اب در حقیقت قرض لی اور کل کے واسطے ایک جدید تمسک لکھ دیا۔ بہت سے معاملات ایسے ہیں جو ازوئے قانون کے بوجہ گزرجانے میعاد کے قابل سماعت نہیں رہے ہیں۔ لیکن باوجود اس کے فریقین ان کو جائز سمجھتے ہیں اور اسی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ کاشتکار کو یہ فکر ہوتی ہے کہ اس کی ساکھ میں کسی طرح پر بٹہ نہ لگے اور اس کو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر ایک مرتبہ اس کی ساکھ جاتی رہے گی تو وہ پھر اپنے کاروبار کے چلانے کے قابل نہ رہے گا۔ 37۔ پس یہ امر ظاہر ہے کہ عدالت کو یہ بات نہ تو جائز اور نہ واجب ہے کہ وہ ایک باہمی قرار داد کومنسوخ کر دے کہ اس کے باعث سے ایک غریب آدمی برباد ہو جاوے گا۔ اس قسم کی کارروائی صرف ان صورتوںمیں جائز ہو سکتی ہے جب کہ وہ انصاف کے مقاصد کے پورا کرنے کی غرض سے کی جاوے اور خود قرض خواہ اس کی نسبت اعتراض نہ کرے۔ انصاف کا یہ طریقہ ان اصولوں کے مطابق ہے جن پر قانون دیوالہ مبنی ہے۔ قانون دیوالہ کا سب سے اول ایک اصول یہ ہے کہ قرض دار کی تمام جائداد ہر ایک قرض خواہ کے قرضہ کی حصہ رسدی کی مناسبت سے اس کے قرض خواہوں کے درمیان بغیر اس کے کہ ان کہ باہمی قرار داد میں کچھ خلل واقع ہو ، تقسیم کر دی جاوے اور دیوالیہ زاید مطالبوں سے بالکل بری کر دیا جاوے اور ہر ایک شخص بلا تامل اس بات کو تسلیم کرے گا کہ عدالت اس سے زیادہ تر واجبی کارروائی نہیں کر سکتی ہے۔ پس انصاف کے اصولوں میں تبدیلی کرنا مفلس کاشتکاروں کے حق میں کسی طرح پر مفید ثابت نہیں ہو سکتا ہے اور دیوالیہ کے قانون کو زیادہ تر وسعت دینا بلاشبہ انصاف کے برخلاف نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 38 ۔ کوئی باقاعدہ انتظام ایسا موجود نہیں ہے جس کے بموجب کاشتکار گورنمنٹ سے ان مقاصد کے واسطے جن کے لیے ان کو مہاجن سے روپیہ قرض لینا پڑتا ہے ، امداد حاصل کر سکیں۔ یہ بات سلیم کی جا سکتی ہے کہ چند اضلاع ایسے ہیں جن میں کاشتکاروں کو اس قسم کی امداد دی جاتی ہیں لیکن چوں کہ یہ قلیل امداد صرف متعدد شخصوں کو دی جاتی ہے اور یقیناً ایسے وقت پر نہیں دی جاتی ہے جب کہ اس کی نہایت ضرورت ہوتی ہے ، اس لیے اس سے ایک ایسے بڑے فرقہ کو جیسا کہ کاشتکاروں کا فرقہ ہے ، کسی اصل فائدہ کے حاصل ہونے کی توقع نہیں ہوسکتی ہے۔ 39 ۔ اضلاع شمال و مغرب ہیں یا شاید مجھ کو یہ کہنا چاہیے کہ تمام ہندوستان میں کاشتکاروں کی حالت ایسی نہیں ہے ہے کہ ان کو اس قسم کی ناکافی کوششوں سے کچھ مدد پہنچ سکے ، جو گورنمنٹ اب ان کی حالت کو ترقی دینے کو واسطے کر رہی ہے اور نہ ان کوششوں سے قحط کی مصیبتیں کم ہو سکتی ہیں۔ کاشتکاروں کے واسطے بغیر اس کے کہ اس مقصد کے واسطے ہر ایک ضلع میں ایک خاص اور جدا گانہ محکمہ قایم کیا جاوے ، کامل امداد کے پہنچنے کا بندوبست نہیں ہو سکتا ہے۔ 40 ۔ میں یہ سفارش کرتا ہوں کہ یہ نیا سر رشتہ ایک زراعتی بنک کی صورت میں قائم کیا جاوے اور میں یقین کرتا ہوں کہ اس کے سرمایہ کا سود حصہ داروں کو خواہ وہ گورنمنٹ ہو یا کوئی اور کمپنی اس ضروری خرچ کے ادا کرنے کے بعد جو اس کے قائم کرنے میںہو ، ایک مناسب نفع پہنچانے کے لیے کافی ہو گا۔ جس طریقہ میں کاشتکار امداد حاصل کریں گے اور جس کا ذکر میں مختصر طور پر حصہ سوم میں کرنا چاہتا ہوں و اس بائی لاز میں قرار دیا جاوے گا ۔ اگر میری رائے غلطی پر نہ ہوت و صرف یہی ایک طریقہ ایسا ہے جس کے ذریعہ سے غریب کاشتکار مہاجنوں کے سخت پھندے سے بچ سکتے ہیں اور افزوں مطالبوں کے دباؤ سے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔ 41 ۔ گورنمنٹ کے زراعتی ترقیوں یا قرضوں کے ادا کرنے کے واسطے کاشتکاروں یا چھوٹے چھوٹے زمینداروں کو روپیہ کے قرض دینے یا مویشی کے مہیا کرنے کے تجربہ کا امتحان کسی قدر ضلع الہ آباد اور باندہ اور مراد آباد اور تھرا میں کیا ہے اور جو رائیں محکمہ بورڈ آف ریونیو اضلاع شمال و مغرب اور گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب و اودھ نے اس تجربہ کی نسبت تحریر کی ہیں وہ ذیل میں بیان کی جاتی ہیں یعنی محکمہ بورڈ آف ریونیو لکھتا ہے کہ : ’’ اس تجربہ کی کامیابی کی نسبت حاکم اول کی یہ رائے ہے کہ اب تک اس کی آزمائش شاید اچھی طرح پر نہیں ہوتی ہے اور ہنوز اس بات کا کہنا بے موقع ہے کہ اس انتظام میں کامیابی ہوئی ہے یا نہیں ۔ مگر جس وقت دوسرے سال کی بابت رپورٹیں آجاویں گی ، اس وقت ایک رائے قائم کی جا سکے گی ۔ ‘‘ صاحب سیکرٹری اضلاع شمال و مغرب تحریر فرماتے ہیں کہ : جناب نواب لفٹیننٹ گورنر بہادر محکمہ بورڈ کے حاکم اول سے اس بات میں اتفاق فرماتے ہیں کہ ابھی اس بات کا کہنا بے موقع ہے کہ آیا اس تجویز میں کامیابی ہوئی ہے یا نہیں۔ 1۔ چٹھی قائم مقام سیکرٹری محکمہ بورڈ آف ریونیو بنام صاحب سیکرٹری گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب و اودھ نمبر 4-37ب 21 مورخہ 23 جنوری 1878ئ۔ لیکن اگر اس بات پر لحاظ کیا جاوے کہ جن کاشتکاروں کو زرتقاوی دیاگیا ہے انہوں نے اپنی اقساط ٹھیک وقت پر ادا کر دی ہیں اور تقاوی کے لینے کا شوق ظاہر کیاگیا ہے اور یہ بات نہیں پائی گئی ہے کہ زر دار کاشتکاروں کا اعتبار گاؤں کے بنیہ کے نزدیک صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے گورنمنٹ سے روپیہ قرض لینے کے فائدوں کو ترجیح دی ہے ، جاتا رہتا ہے ، تو جناب ممدوح خیال فرماتے ہیں کہ اس وقت ک کارروائی نہایت تقویت بخش ہوئی ہے۔ ‘‘ اگرچہ رائے مندرجہ صدر ناکامل ہے تاہم اس سے زراعتی بنکوں کے قائم کیے جانے کی تائید ہوتی ہے۔ جو نہایت بڑے فائدے زراعتی بینکوں کے قائم کرنے سے پیدا ہوں گے منجملہ ان کے ایک فائدہ یہ ہو گا کہ مہاجن لوگ ضرور بالضرور اپنے سود کی شرح کم کر دیں گے اور کاشتکاروں کی شکایت کا سبب ، یعنی یہ کہ مہاجن لوگ بہت زیادہ سودلیتے ہیں ، بغیر دقت رفع ہو جاوے گا اور جو کاشتکار اپنے خاص ساہو کاروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو جاری رکھنا چاہیں گے وہ ان صورتوں میں ان تعلقات کو بخوبی قائم رکھ سکیں گے۔ حصہ سوم 42 ۔ ہر ایک ضلع میں زمین کی حیثیت کی ترقی اور کاشتکاروں کے امداد کے ذریعوں کے مہیا کرنے کی اس درجہ ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ مجھ کو اندیشہ ہے کہ گورنمنٹ کسی معمولی طریقہ میں سرکاری محاصل سے اس ضرورت کو رفع نہیں 1 ۔ چٹھی سیکرٹری اضلاع شمال و مغرب و ادھ بنام قائم مقام بورڈ آف ریونیو اضلاع شمال و مغرب نمبر 588 حرف الف سورخہ 2مارچ 1878ء ۔ کر سکتی ہے ۔ اس مقصد کے پورا کرنے کے لیے گورنمنٹ کو یا تو روپیہ قرض لینا چاہیے یا کوئی اور تدبیر ایسی سوچنی چاہیے جو زیادہ تر پسندیدہ ہو اور جس سے وہی مقصد حاصل ہو۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ لمیٹیڈ کمپنیاں قائم کی جاویں اور زراعتی ترقیوں کے مقاصد کے واسطے فنڈ جمع کیا جاوے اور گورنمنٹ ان کی ایک شریک ہو جاوے۔ 43 ۔ ان کمپنیوں کے بعد نام قرار دیے جا سکتے ہیں : (1)کاشتکاروں کی امداد کی بنک ، جو علیحدہ علیحدہ ہر ضلع میں قائم کیے جاویں۔ اس قسم کے ایک بنک کے قائم کرنے کا اشارہ آنریبل سرجان اسٹریچی نے 1876ع میں کیا تھا جب کہ صاحب ممدوح اضلاع شمال و مغرب کے لفٹننٹ گورنر تھے۔ (2)آراضی کی حیثیت کو ترقی دینے کی بنک۔ (3)آراضی کی حیثیت کو ترقی دینے کی کمپنیاں۔ 44 ۔ کاشتکاروں کی امداد کے بنک مندرجہ ذیل مقاصد کے واسطے قائم کیے جا سکتے ہیں ۔ (الف) کاشتکاروں کو روپیہ قرض دینے کے لیے ۔ (1) زمین کی کاشت یا فصل کے بونے کے لیے بیج اور مویشی اور ہل اور اور آلات کشاورزی کے خرید کرنے کے واسطے۔ (2) کاشتکاروں اور ان کے عیال و اطفال اور ایسے رشتہ داروں کی پرورش کے واسطے جو ان کاشتکاروں کی زمین کی کاشت میں شریک ہوں۔ (ب) کاشتکاروں کے ہاتھ فروخت کرنے کی غرض سے غلہ اور مویشی اور ہل اور دیگر آلات کشا ورزی کے مہیا کرنے کے واسطے ان مقاصد کے لیے جو اس دفعہ کی ضمن (الف) میں بیان کیے گئے ہیں۔ 45 ۔ جو بنک آراضی کی حیثیت کو ترقی دینے کے واسطے قائم کیے جاویں وہ کاشتکاروں یا زمینداروں کو مندرجہ ذیل مقاصد کے لیے روپیہ قرض دیں گے۔ (الف) کنوں اور تالابوں اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے بغرض جمع کرنے اور مہیا کرنے یا تقسیم کرنے پانی کے مقاصد کاشتکاری کے واسطے۔ (ب) آبپاشی کے واسطے زمین کے تیار کرنے کے لیے۔ (ج) عمارت کے تعمیر کے لیے : (1) واسطے نکاس پانی کے زمین سے۔ (2) دریاؤں یا اور پانیوں سے زمین کے درست کرنے کے لیے ۔ (3) دریاؤں یا اور پانیوں سے زمین کی حفاظت کرنے کے لیے ۔ (4 ) سیلاب یا پانی کی وجہ سے جو اور نقصان ہو اس سے زمین کو محفوظ رکھنے کے لیے ۔ (د) زمین کے درست کرنے یا صاف کرنے یا مقاصد آبپاشی کے واسطے زمین کے گرد احاطہ کھینچنے کے لیے۔ (ہ) جو عمارت اس ضمن میں مذکورہیں ان میں سے کسی عمارت کو ازسر نو بنانے یا اس میں ترمیم کرنے یا اضافہ کرنے کے لیے ۔ (و) ان عمارات کے بنانے کے واسطے جو ان مقاصد کے لیے ضروری ہوں جن کی تصریح اس دفعہ کی گئی ہے۔ 46 ۔ زمین کی حیثیت کو ترقی دینے کی کمپنیاں ان مقاصد کو جو ذیل میں بیان کیے گئے ہیں ، اپنے خاص سرمایہ سے سر انجام دینے کے لیے قائم کی جاویں گی۔ (الف) کنوں اور تالابوں کا زراعت کے مقاصد کے واسطے تعمیر کرنا۔ (ب) ایک نہر یا منبع کا کسی دریا یا چشمہ یا نہر یا تالات سے کسی کھیت کی آبپاشی کرنے کے لیے بنانا۔ (ج) ایک مناسب مقام پر پانی جمع کرنے کے واسطے عمارت کا بنانا اس غرض سے کہ وہ کسی کھیت یا کھیتوں کی نہر یا منبع کے ذریعہ سے آبپاشی کرنے میں کام میں لایا جاوے۔ (د) ایک دریا یا چشمہ یا نہر یا تالاب کے کناروں پر زیادہ تر بلند قطعات میں پانی پہنچانے کے لیے کل کا کھڑا کرنا۔ 47 ۔ ان تمام کمپنیوں کا انتظام اس قانون کی روسے ہونا چاہیے جو لمیٹیڈ کمپنیوں کے قائم کرنے سے متعلق ہے اور جس سرمایہ کے ذریعے سے ہر ایک کمپنی اپنا کام شروع کرے اس کو چند حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ ہر ایک شخص مجاز ہو گا کہ جس قدر حصے چاہے خرید لے اور گورنمنٹ کو بھی ان میں سے چند حصوں کا خریدنا لازم ہو گا۔ 48۔جو خاص عملہ کاشتکاروں کی امداد کے بنک کے واسطے مقرر کیا جاوے جس میں معتبر مہاجنوں کو خاص خاص مقامات میں بطور ایجنٹوں کے مقرر کرنا بھی شامل ہو گا ، تحصیلدار اور پیشکار اور قانون گو اور تحویلدار تحصیل اور ہر ایک گاؤں کا پٹواری اور ضلع کا خزانچی بنک کے عہدہ دار متصور ہوں گے۔ گورنمنٹ ایک ڈپٹی کلکٹر یا ڈپٹی کلکٹروں کو عام نگرانی کرنے اور بنک کے مطالب سے متعلق اور کاموں کے انجام دینے کے واسطے خاص کر نامزدگی کرے گی اور گورنمنٹ اس بات کی مجاز ہو گی کہ وہ اس ڈپٹی کلکٹر یا ڈپٹی کلکٹروں کی کل تنخواہ یا اس کا کوئی حصہ بن کی آمدنی میں سے ادا کرے۔ 49۔ ہر ایک فصل کے خاتمہ پر ڈپٹی کلکٹر جو کار خاص پر مامور ہو یا تحصیلدار یا پیشکار یا قانون گو پٹواری کی مدد سے تمام کاشتکاروں کی ایک فہرست اس امر کے تحقیق کرنے کی غرض سے تیار کرے گا کہ ان میں سے کس کو قرضہ دینا چاہیے۔ فہرست مذکور میں امور مندرجہ ذیل درج ہونے چاہئیں۔ : (1) آیا کاشتکار ایک زمیندار ہے جو اپنی خاص زمین کو پٹہ پر اٹھاتا ہے اور رقبہ اس کی کاشت کا۔ (2) آیا وہ کاشتکار ایسا ہے جس کو حق مقابضت حاصل ہے اور اس کو اس قسم کے حقوق کے منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں ۔ (3) آیا وہ ایک کاشتکار ایسا ہے جس کو حق مقابضت حاصل نہیں ہے۔ (4) آیا وہ کوئی کاشتکار ذیلی رکھتا ہے۔ (5) رقبہ زمین کا جس کی وہ کاشت کرتا ہو۔ (6) قسم زمین کی۔ (7) مقدار لگان کی جو وہ ادا کرتا ہو۔ 1۔ قواعد بابت قرض دینے روپیہ کے کاشتکاری اور چھوٹے چھوٹے زمینداروں کو مناسب سود پر واسطے مقاصد کاشتکاری کے جن کو بورڈ آف ریونیو اضلاع شمال و مغرب نے ماہ جولائی 1876ع میں مرتب کیا تھا ، قواعد نمبر 2 ، 3۔ (8) تعداد مویش اور آلات کشاورزی کی جو اس کے قبضہ میں ہوں۔ (9) قسم قرضہ کی جو وہ لینا چاہتا ہے۔ (الف) بیج مع اس کی قسم اور مقدار اور تخمینی قیمت کے : (ب) مویشی مع اس کی تعداد اور تخمینی قیمت کے ۔ (ج) آلات کشاورزی مع ان کی تعداد اور تخمینی قیمت کے۔ (د) غلہ واسطے خوراک مع اس کی قسم اور مقدار تخمینی قیمت کے۔ (ہ) وقت جب کہ ان کی ضرورت ہو گی۔ (و) نقدروپیہ مع اس کی تعداد اور اس مقصد کے جس کے واسطے وہ درکار ہے۔ (10) تعداد اس قرضہ کی جو اس کے ذمہ ہو۔ (11) اس کی خصلت بلحاظ ایک عمدہ کاشت کار ہونے کے۔ (12) بیان اس امر کا کہ آیا زمیندار اس قرضہ کی بابت جو کسی کاشت کار کو دیا جاوے ، ضامن ہونے پر راضی ہے یا نہیں اور آیا کاشت کار اس طریقہ میں روپیہ لینا پسند کرتا ہے یا نہیں۔ 50 ۔ ڈپٹی کلکٹر متعینہ کار خاص تحصیل دار اور اور شخصوں کی مدد سے ان فہرستوں کی صحت کی تحقیق کرے گا ، جس قرضہ کی درخواست کاشت کاروں نے کی ہو۔ اس کی مقدار میں مناسب ترمیم کرے گا ، اس قرضہ کی مقدار قرار دے گا ، جو ہم ایک کاشت کار کو عموماً اس کے حالات کے لحاظ سے دینا چاہیے ، اور ان 1۔ قواعد و محکمہ بورڈ آف ریونیور اضلاع شمال و مغرب نے ماہ جولائی 1876ء میں مرتب کیے تھے ، قاعدہ نمبر 2۔ شخضوں کی درخواست کو نامنظور کرے گا جن کی نسبت یہ بات ثابت ہو کہ انہوں نے بغیر ضرورت کے قرضہ کی درخواست کی تھی۔ 51 ۔ جوقرضہ ان کاشت کاروں کے ذمہ واجب ہو ، جن کو قرضہ کا دیا جانا قرار پاوے وہ تحقیق کیا جاوے گا اور جب حساب ان کا مہاجنوں کے ساتھ ہو اس کو بنک تیار کرے گا اور بیباق کرے گا اور ان کو وقتاً فوقتاً زائد قرضہ دیا جاوے گا ، مگر شرط یہ ہے کہ : (1)ان میں سے ہر ایک اس مضمون کی ایک دستاویز کا تحریر کرنا قبول کر لے کہ اس نے اپنے حقوق زمینداری یا کاشت کاری جیسی کہ صورت ہو ، بنک کو حوالہ کر دیے ہیں اور جب تک وہ بنک قرض دار ہے اس وقت تک اس کو ان حقوق کے منتقل کرنے یا کسی قرضہ میں ان کو مکفول کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ (2)جب تک کہ قرضہ یا اس کا کوئی جز واجب رہے اس وقت تک اس کو بغیر اجازت بنک کے کسی مویشی یا آلات کاشت کاری کے منتقل کرنے کاجو بنک سے لیے گئے ہوں ، کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ (3)وہ بغیر اجازت بنک کے اس فصل کی پیداوار کے کسی حصہ کو جو اس قرضہ کے ذریعہ سے کاشت کی گئی ہو ، جو بنک سے لیا گیا ہ اس وقت تک کہ جو لگان یا قرضہ بنک کو واجب الادا ہو وہ کلا یا جزاً باقی رہے ، ہر گز اپنے تصرف میں نہیں لاوے گا۔ 52 ۔ جو قریشی بنک دے یا جو اس روپیہ سے خرید کی جاوے جو بنک نے قرض دیا ہو وہ داغی جاوے گی اور درصورتیکہ اس مویشی کے علیحدہ کرنے کی اجازت حاصل ہو جاوے تو وہ دوسری مرتبہ داغی جاوے ی۔ 53 ۔ محکمہ بورڈ آف ریونیو اضلاع شمال و مغرب نے اپنے ان قاعدوں میں جو کاشت کاروں اور چھوٹے چھو ٹے زمینداروں کو مناسب سود پر زراعتی مقاصد کے واسطے روپیہ قرض دینے کی غرض سے جولائی 1876ء میں مرتب کیے تھے ، یہ قرار دیا ہے (قاعدہ نمبر 3 )کہ ’’ جن شخصوں کی نسبت یہ بات ثابت ہو کہ ان کے ذمہ بہ نسبت اس کیزیادہ قرض ہے جو ادھار دینے کی اس شرح کے بموجب جائز ہو جو قاعدہ دوم کی رو سے قرار دی گئی ہے ، ان کی درخواست یہ سمجھ کر کہ وہ دیوالیہ ہیں نامنظور کی جاوے گی۔ ‘‘ میں اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا ہوں اور میرا میلان اس رائے کی جانب ہے کہ کسی کاشت کار کی درخواست کو ایسی بنا پر نامنظور نہیں کرنا چاہیے۔ 54۔ اس قسم کے کاشت کاروں کے واسطے بلا شبہ ایک قانون دیوالیہ کی ضرورت ہو گی جس کی بموجب ان کو اس بات کی درخواست کرنی پڑے گی کہ وہ دیوالیہ قرار دیے جاویں۔ عدالت دیوالیہ تمام قرضوں کی تحقیقات کرے گی اور اس مقدار کو قرار دے گی جو ہر ایک قرض خواہ کو واجب الادا ہو اور قرض دار کی جائداد کی قیمت قرار دے گی۔ اس کے بعد بنک اس مالیت کی مقدار کو جو اس طرح پر قرار پاوے ، قرض خواہوں کے درمیان اس قرضہ کے اندازہ سے تقسیم کرے گا جو ہر ایک کو واجب ہو اور دیوالیہ کو زائد مطالبوں سے بری کرے گا۔ قرض دار کی کاشت بنک کی مالیت متصور ہو گی جو بعدازاں اس کو کاشت کار کے حوالہ کرے گا اور اپنا روپیہ اسی طرح پر وصول کرے گا گویا وہ ایک ایسا قرضہ تھا جو کاشت کار کو دیا گیا تھا ۔ جو مالیت اس طرح پر کاشت کار کو حوالہ کی جاوے گی وہ اس قرضہ کی کفالت سمجھی جاوے گی جو اس کو دیا جاوے۔ 1۔ قواعد جو محکمہ بورڈ آف ریونیو اضلاع شمال و مغرب نے جولائی 1876ء میں مرتب کیے تھے ۔ قاعدہ نمبر 5 ضمن (الف)۔ 55 ۔ بنک اس بات کا مجاز ہو گا کہ جو چیزیں ضمن 9دفعہ 49 کی (الف) و (ب) و (ج) و (د) میں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کوئی چیز بجائے اس کے کہ نقد روپیہ ان کی خرید کے لیے دے ، کاشت کار کے واسطے مہیا کر دے یا اس رقم کو کسی اور معتبر شخص کو ان چیزوں کے خرید کرنے کے واسطے حوالہ کرے جوکاشت کار کو مطلوب ہوں۔ 56۔ بنک کو لازم ہو گا کہ روپیہ یا غلہ یا اور کوئی چیز کسی کاشتکار کے واسطے اس وقت پر جب کہ ان کی ضرورت ہو اور اس گاؤں میں جہاں کاشتکار رہتا ہو یا کسی آس پاس کے قصبہ میں یا بازار یا منڈی میں جہاں لوگ علی العموم جلسوں کے تبادلہ کے واسطے آتے جاتے ہوں ، مہیا کرے۔ 57 ۔ کاشتکاروں کو ان چیزوں کی بابت جو اس طرح پر ان کے لیے مہیا کی جاویں ، رسید دینی پڑے گی اور مناسب عہدہ دار اور معتبر اشخاص ا ن معاملات کی تصدیق کے واسطے متعین کیے جاویں گے اور وہ رسیدوں پر اپنے خاص دستخط کر کے ان کو مناسب حکام کے حوالہ کریں گے۔ پٹواری کی موجودگی ، کہ وہ رسیدات کی تصدیق کرے گا اور تمام معاملات کی یادداشت اپنے روزنامچہ میں درج کرے گا ، لازمی ہو گی۔ 58۔ ایسے بہت سے کاشتکار ہوں گے جن کو زمیندار کی ضمانت پر روپیہ قرض دیا جا سکے گا۔ اس صورت میں قواعد مندرجہ صدر معطل متصور ہوں گے اور زمیندار کو باضابطہ ایک ضمانت پر دستخط کرنے ہوں گے اور یہ رقم اس قسم کی دستاویز کی شرائط کے بموجب قابل وصول ہو گی۔ 59 ۔ جہاں تک کہ مجھ کو تجربہ سے معلوم ہے ، مجھ کو اس بات کا یقین ہے ۔ جیسے کہ بورڈ آف ریونیور اضلاع شمال و مغرب کی بھی رائے ہے کہ ’’ کاشتکار علی العموم عمداً بے ایمانی نہیں کرتا ہے ‘‘ وہ اپنے معاملات میں ہمیشہ ٹھیک وقت کا پابند ہوتا ہے اور اپنے معاہدوں کے پورا کرنے کے واسطے کوشش کرتا ہے گو وہ کیسے ہی سخت اور ناواجب کیوں نہ ہوں۔ اس کی وعدہ خلافیاں محض اس وجہ سے کہ وہ روپیہ کے ادا کرنے کے ناقابل ہوتا ہے ، پیدا ہوتی ہیں۔ پس میں اس بات پر یقین کرنے کی بڑی وجہ رکھتا ہوں کہ جو لین دین بنک کاشتکاروں کے ساتھ کریں گے اس میں ان کے روپیہ کو بہت کم جو کھوں ہوگی۔ 60 ۔ جو زر تقاوی اس طرحپ ر کاشتکاروں کو دیا جاوے گا۔ اس پر سود لیا جاوے گا جس کی شرح وقتاً فوقتاًگورنمنٹ قرار دے گی۔ جو روپیہ کاشتکار ادا کرے گا وہ اول اس سود کے حساب میں جمع کیا جاوے گا جو اس تاریخ تک اس کے ذمہ واجب ہو ، اور اگر کچھ روپیہ باقی رہے گا ،تو وہ اصل میں جمع کیا جاوے گا۔ سود ہمیشہ زر اصل کی بقایا جو واجب ہو ، لگایا جاوے گا ، اور سود مرکب کے قاعدہ کا ہرگز برتاؤ نہیں کیا جاوے گا۔ 61 ۔ جو بنک حیثیت آراضی کی ترقی کی غرض سے قائم کیا جاوے گا اس کی کارروائی میں کوئی بڑی دقت پیش نہ آوے گی۔ 1۔ چٹھی نمبر 755 حرف (ن) 4مورخہ 22 ۔ جولائی 1876۔ یہ کارروائی پیشتر 1871ء کے قانون ترقی آراضی کے احکام کے مطابق ہوگی لیکن ان قواعد کو کسی قدر سہولت دینی پڑے گی جو زر تقاوی کے دینے سے متعلق ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ اس بنک کی کامیابی کی بہت کم توقع معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس میں وہ مشکلات بھی پیش آویں گی جو 1871ء کے قانون ترقی آراضی کے خاطر خواہ عملدر آمد میں پیش آتی ہیں۔ 62 ۔ جو کمپنی حیثیت آرضی کی ترقی کے واسطے قائم کی جاوے وہ بلاشبہ اپنا کاروبار بڑی وسعت کے ساتھ انجام دے سکتی ہے اور جس قدر سرمایا اور اس کے پاس موجود ہو ،اس کے موافق اس کو ترقی دے سکتی ہے۔ اس قسم کی کمپنی کو زمین کے قطعات ان مقاصد کے لائق منتخب کرنے پڑیں گے جو اس کو مد نظر ہوں۔ کنوؤں یا تالابوں کے بنانے سے پہلے وہ ان موقعوں کو جو بغرض آبپاشی ان کے بنانے کے واسطے نہایت مناسب ہوں اور نیز اس بات کو تحقیق کرے گی کہ ہر ایک مقام پر کنوؤں کے چلانے میں کس قدر خرچ ہو گا اور وہ کس درجہ تک کار آمد ہوں گے اور کس قدر رقبہ کی ان کے ذریعہ سے حفاظت ہو سکے گی اور ان سے کس قدر فائدہ حاصل ہو گا۔ کمپنی مذکور یہ بات بھی تحقیق کرے گی کہ آیا مختص المقام دریا یا چشمے یا نہریں ان مقاصد کے واسطے کام میں آسکتے ہیں یا نہیں اور اگر آسکتے ہیں توانہیں کیا خرچ پڑے گا اور ان سے کیا فائدہ حاصل ہو سکے گا۔ اسی طرح پر وہ ان مقامات کو منتخب 1۔ اگر میری یاد صحیح ہے تو ضلع بجنور میں اس قسم کی دو مختص المقام نہریں بنائی گئی ہیں۔ 1855ع میں میں نے ان کاغذات کو جو ان نہروں سے متعلق تھے ، ضلع مذکور کی ایک تواریخ تالیف کرنے کی غرض (بقیہ حاشیہ اگلے صفحے پر) کرے گا جو باندھ کے بنانے کے واسطے مناسب ہوں۔ کلوں کے ذریعہ سے آراضیات کی آبپاشی کرنا درحقیقت ایک خطر ناک کام ہے لیکن کمپنی بہ آسانی اس تجربہ کی آزمائش کر سکے گی۔ بشرطیکہ اس کو اس میں کامیابی کی کوئی صورت نظر آوے گی۔ 63 ۔ کمپنی کے کاروبار کی کامیابی کے واسطے عہدہ داران ضلع کا اتفاق نہایت ضروری ہو گا۔ تمام تجویزوں کا اجراء کلکٹر ضلع کے مشورہ سے کیا جاوے گا اور جو رپورٹیں کمپنی تیار کرے گی وہ گورنمنٹ کے پاس معرفت کمشنر قسمت کے ارسال کی جاوے گی جن کاموں کی سفارش کی گئی ہے ان کا جاری کرنا یا ان کا ملتوی کرنا ان احکام پر منحصر ہو گا جو گورنمنٹ سے موصول ہوں۔ 64 ۔ ضلع کا کلکٹر ہمیشہ ان تمام بنکوں کا پریزیڈنٹ ہو گا جو اس طرح پر قائم کیے جاویں اور فنڈ ضلع کے خزانہ میں جمع کیا جاوے گا۔ 65 ۔ ان بنکوں کو اسی طریقہ میں اپنے قرضوں کے وصول کرنے کا اختیار دینا چاہیے جو اس روپیہ کے وصول کرنے کے واسطے قرار دیا گیا ہے جو گورنمنٹ قرض دے ، صرف یہ فرق ہونا چاہیے۔کہ بنک اپنی طرف سے کسی کارروائی کے عمل میں لانے کے مجاز نہ ہوں گے۔ بلکہ وہ اپنے حسابات کو تیار کریں گے۔ (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) سے (جو پوری ہو گئی تھی مگر غدر میں گم ہو گئی )ملاخطہ کیا اور مجھ کو یاد ہے کہ جو نفع ان میں سے ایک نہر سے حاصل ہواتھا اس سے اس کی لاگت مع اس کے سود کے بہت جلدی پوری ہو گئی اور دوسری نہر سے بھی ایک واجبی شرح سود کی حاصل ہوئی۔ ان وجوہات پر میں خیال کرتا ہوں کہ اور اضلاع بھی ایسے ضرور ہوں گے جن میں آبپاشی کے واسطے اس قسم کے کاموں کے جاری کرنے کی اسی طرح معقول توقع ہو گی۔ اور ان کو ایک درخواست کے ساتھ کلکٹر ضلع کی خدمت میں پیش کریں گے جو ان کے وصول کرنے کے واسطے معمولی تدابیر عمل میں لاوے گا۔ 66 ۔ جو زر تقاوی گورنمنٹ لوگوں کو دے اور جو یہ بنک دیں ، چوں کہ اس کے درمیان کسی قسم کا فرق نہیں ہے اور یہ بنک ہر ایک ضلع کے کلکٹر کی نگرانی اور حکومت کے تابع ہوں گے اور ان کے حسابات کی صحت کی نسبت شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہ ہو گی ، اس لیے یہ کوئی ناانصافی نہ ہو گی کہ وہ بطور مستثنیات کے عدالتوں کی تحقیقاتوں کے ضابطہ سے خارج کر دیے جائیں ، یہی وہ اصول ہے جس پر گورنمنٹ خاص اپنی بقایا مالگزاری اور تقاوی کے وصول کرنے میں عمل کرتی ہے۔ پس اس قاعدہ کو اس تقاوی سے متعلق کرنے میں جو بنک دے کوئی واجبی بنیاد اعتراض کی نہ معلوم ہو گی۔ 67 ۔ جو آبپاشی کے کام کمپنی تیار کرے گی وہ خاص کر دو اقسام کے ہوں گے یعنی کنوئیں یا نہریں ۔ کنوں کے معاملہ میں اس معاوضہ کی نسبت جس کی کمپنی مستحق ہو گی ، کوئی دشواری پیش نہ آوے گی۔ جیسا کہ دفعہ 19 میں بیان کیا گیا ہے ۔ البتہ جو نہریں اس طریقہ میں بنائی جاویں گی ، ان کے معاملہ میں کسی قدر دقت پیش آوے گی۔ گورنمنٹ کو بلاشبہ ان آراضیات پر جن کی آبپاشی ان کے ذریعہ سے ہوتی ہو ، محصول آبپاشی قرار دینا پڑے گا۔ اس بات کی ضرورت کہ کاشتکار لوگ اپنی آراضیات کی آبپاشی نہر کے پانی سے کرنے اور محصول آبپاشی کے ادا کرنے پر مجبور کیے جاویں ، غالباً ہرگز واقع نہ ہو گی ، کیوں کہ لوگوں نے ان مختص المقام نہروں سے فائدہ اٹھانے پر جو ضلع بجنور میں جاری ہیں اور محصول آبپاشی کے ادا کرنے پر صاف صاف اپنی آمادگی ظاہر کی ہے۔ 68 ۔ ان کمپنیوں کے واسطے چندہ دینے والوں کی ایک کافی تعداد کے بہم پہنچانے میں ابتدا میں غالباً کسی قدر دشواری واقع ہو گی اور گورنمنٹ شاید بہت سے حصوں کے لینے پر مجبور ہو گی۔ مگر میں اس بات پر یقین کرنے کی ہر ایک وجہ رکھتا ہوں کہ یہ بنک بہت جلد عام پسند ہو جاویں گے۔ اور چندہ دینے والے حاجت سے زیادہ بکثرت بہم پہنچ جاویں گے کیوں کہ اس بات کے موقعے کہ مہاجن لوگ بغیر شریک ہونے ان بنکوں کے اپنا روپیہ سود میں لگا سکیں ، بہت کم رہ جاویں گے اور بنکوں کو اپنے قرضوں کے وصول کرنے میں بہت زیادہ آسانی اور خطرہ بہت کم ہو گا۔ علاوہ اس کے جو قرضہ پر لوٹ شخص کاشتکاروں کے دیں گے اس پر سود کی شرح بہت کم ہو جاوے گی اور جو مشکلات اس کے وصول کرنے میں اور جو خطرات اس کے ساتھ لگے ہوتے ہیں ، وہ بدستور قائم رہیں گے۔ لیکن اگر وہ وہ حق جس کا ذکر دفعہ 65 میں ہے ، بنکوں کو نہ دیا جاوے گا ، تو لوگ شاید ہی ان کے حصوں کے خریدنے پر مائل ہوں گے۔ حصہ چہارم 69 ۔ قحط کی نسبت کچھ تحریر کرنا بے فائدہ ہو گا کیوں کہ اس امر کی نسبت اس سے پہلے بہت سی تحقیقاتیں ہو چکی ہیں۔ لیکن جو اثر اس تجویز سے جو معرض غور میں ہے ، قحط کی سختیوں کے کم کرنے میں ہو گا ، اس کی نسبت کچھ بیان کرنا میں مناسب سجھتا ہوں۔ 70 ۔ جو مدد زمانہ قحط میں دی جاتی ہے وہ عموماً دو صورتوں پر محدود ہوتی ہے یعنی محتاج خانوں کا قائم کرنا یا تعمیرات یا امدادی کاموں کا جاری کرنا ، ان دونوں صورتوں میں سے ہر ایک صورت میں اس قسم سے انتظام کا کرنا واقعی ناممکن ہے ، جن کے باعث سے کاشتکاروں کو اپنے گھروں سے باہر نہ نکلنا پڑے ۔ گھر سے ان کے جدا ہونے کا ان پر نہایت سخت اثر ہوتا ہے ، ان کی تمام خانگی اشیاء گو وہ کیسی ہی نکمی یا ناچیز کیوں نہ ہوں ، بسبب نہ ہونے خبر گیری کے برباد ہو جاتی ہے ۔ ان کے مکانات قریباً مسمار ہو جاتے ہیں ، ان کے مویشی ضائع ہو جاتے ہیں اور قبل اس سے کہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑیں وہ خود نہایت لاغر ہو جاتے ہیں۔ جب کہ وہ اپنے گھروں کو مصیبت کے ختم ہونے کے بعد واپسے آتے ہیں ، تو ان کو یہ سب چیزیں ازسر نو مہیا کرنی اور اس مقصد کے واسطے روپیہ قرض لینا پڑتا ہے کیوں کہ پھر آباد ہونے کا وہ اور کوئی ذریعہ نہیں رکھتے ہیں ۔ کوئی تدبیر جس سے ان غریب لوگوں کی امداد بغیر اس کے وہ اپنے گھروں کے چھوڑنے پر مجبور کیے جاویں ، متصور ہو ، غالباً ان کے حق میں نہایت مفید ثابت ہو گی۔ 71 ۔ دفعہ 49 میں یہ بات قرار دی گئی ہے کہ جو بنک کاشتکاروں کی امداد کے واسطے قائم کیا جاوے۔ اس کو ہر فصل کے خاتمہ پر کسی گاؤں کے تمام کاشتکاروں کی ایک فہرست تیار کرنی چاہیے اور گورنمنٹ کے واسطے یہایک آسان بان ہو گی کہ وہ قحط کے زمانہ میں بنک کو کسی قدر روپیہ اس غرض سے سپرد کر دے کہ وہ محتاج کاشتکاروں کی امداد میں صرف کیا جاوے ۔ بنک کاشتکاروں کو بغیر اس کے کہ ان کو اپنے گھروں سے باہر جانا پڑے۔ ان کی پرورش کے واسطے غلہ دے سکے گا۔ لیکن اس قسم کی امداد بطور قرضہ کے متصور نہ ہو گی، بلکہ صرف ایک خیرات کا کام متصور ہوگی۔ 72 ۔ سب سے بڑی مصیبت جو قحط کے زمانہ میں کاشتکاروں پر پڑتی ہے ، وہ ان کے مویشی کا ضائع ہونا ہوتی ہے۔ یہ بنک مویشی کے حفاظت کے واسطے اس طرح پر بخوبی تدابیر عمل میں لاسکے گا کہ وہ مختلف جنگلوں میں بعض قطعات کو بطور چراگاہوں کے محفوظ رکھنے کے واسطے جن کے ذریعے سے خشکی کے موسم میں مویشی سچ سکیں ، گورنمنٹ سے درخواست کرے گا اور ہر ایک کاشتکار کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنے مویشی (بلاشبہ اپنی خاص ذمہ داری پر) بنک کی نگرانی میں سپرد کر دے اور بنک مویشی مذکور کو اسچراگاہ میں بھیج دے گا جو اس مقصد کے واسطے مقرر کیا گیا ہو۔ اور جس وقت مصیبت نکل جاوے گی تو مویشی کو قوراً واپس بلا لے گاے اور اس کو مالک کے حوالہ کر دے گا جو خرچ بنک کا ان انتظامات میں ہو گا، اس کو گورنمنٹ فیمن ریلیف فنڈ سے ادا کرے گی۔ کوئی تدبیر جس کے ذریعہ سے خشکی کے زمانہ میں کاشتکاروں کے مویشی محفوظ رہیں ، میری رائے میں امداد کا نہایت معقول طریقہ ہے۔ حصہ پنجم 73 ۔ ان تجویزوں کے جاری کرنے کی غرض سے قوانین مروجہ میں اس قسم کی ترمیم کرنی لازم ہو گی جس میں مطالب مندرجہ ذیل حاصل ہو سکیں : (الف) یہ کہ کاشتکاروں کا ہر ایک فرقہ اپنی کاشت میں آبپاشی کے ذریعوں کے قائم کرنے کا اس حالت میں کہ زمیندار اس کے کرنے سے انکار کرے ، مستحق ہو جاوے۔ (ب) یہ کہ جب کہ آبپاشی کے ذریعے اس طرح پر قائم ہو جاویں تو اس کے بعد وہ حق مقابضت کے مستحق ہو جاویں۔ (ج) یہ کہ اس قسم کے کاشتکار اس حالت میں کہ زمیندار ان کو بیدخل کر دے معاوضہ کے مستحق ہو جاویں۔ جیسا کہ اودھ اور پنجابمیں ہوتا ہے۔ (د) یہ کہ بنک کے قرضوں میں اس قسم کے حقوق کا مکفول کرنا جائز ہو۔ 74 ۔ مذکورہ بالا ترمیموں کے علاوہ مندرجہ ذیل خاص قوانین کا نافذ کرنا ان تجویزوں کے مقصد کیپ ورا کرنے کی غرض سے ضروری ہو گا: (الف) ایک قانون جو کاشتکاروں کے دیوالہ سے متعلق ہو۔ (ب) ایک قانون جس کی رو سے کاشتکاروں کی امداد کے واسطے بنکوں کا قائم کرنا جائز ہو۔ (ج) ایک قانون جس کی رو سے آراضی کی حیثیت کی ترقی کے واسطے بنکوں کا قائم کرنا جائز ہو۔ (د) ایک قانون جس کی رو سے آراضی کی حیثیت کی ترقی کے واسطے کمپنیوں کا قائم کرنا جائز ہو۔ شملہ 9 ستمبر 1879ئ سید احمد ٭……٭……٭ سیرۃ فریدیہ یعنی حالات زندگی نواب دبیر الدولہ امین الملک خواجہ فرید الدین احمد خاں بہادر مصلح جنگ وزیر ابو النصر معین الدین محمد اکبر شاہ ثانی مؤلفہ ڈاکٹر سر سید احمد خاں بہادر ایل ، ایل ، ڈی ، کے ، سی ، سی ، آئی موروثی خطاب شاہی جوادالدولہ سید احمد خاں بہادر عارف جنگ درمطبع مفید عام آگرہ باہتمام قادر علی خاں صوفی طبع شد 1896ء تمہید جب مجھے سر سید کے نایاب مقالوں اور کمیاب چھوٹے چھوٹے رسالوں کی تلاش ’’ مقالات سر سید‘‘ کے لیے ہوئی اور پاکستان میں کہیں ان کا سراغ نہ ملا۔ تو اپنے محترم دوست پروفیسر محمد ایوب صاحب قادری ایم اے کی تحریک پر میں نے جناب مولانا مولوی حاجی محمد مقتدیٰ خاں صاحب شروانی کو علیگڑھ کی لائبریری سے فلاں فلاں رسائل کی نقلیں کرا کے مجھے بھیج دیں ۔ (سیرۃ فریدیہ بھی ان ہی میں سے ایک تھی) حضرت حاجی صاحب مد ظلہ العالی نے مجھے تحریر فرمایا کہ نقول بھیج دی جائیں گی مگر نقل کرائی ایک روپیہ فی صفحہ ہو گی اور ایک سو روپیہ پیشگی بھیج دو۔ میں نے بڑی مشکل کے ساتھ سو روپے نقد ان کو بھیج دیے (کیوں کہ ہندوستان منی آرڈر نہیں جا سکتا) جس پر بعض دوسرے رسائل کے آدھے آدھے حصوں کے ساتھ سیرۃ فریدیہ کے بھی ابتدائی دس صفحے حضرت محترم نے مجھے بھیج دیے اور لکھ دیا کہ ایک سو روپے اور بھیج دو۔ میں نے مزید سو روپے بھیجنے کا بھی انتظام کیا مگر حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں ادب کے ساتھ عرض کیا کہ یہ جو آپ نے رسائل کے آدھے آدھے ٹکڑے نقل کرا کے بھیجے ہیں۔ یہ میرے لیے قطعاًبیکار ہیں جب تک پوری کتاب نہ ہو ۔ سو روپے میں 100صفحے آپ مسلسل بھیج دیں ۔ اس میں جتنے بھی رسالے آجائیں ۔ آجائیں ۔ ان متفرق ٹکڑوں کا میں کیا کروں اور یہ میرے کس کام آسکتے ہیں ؟ میں خطوط لکھتے لکھتے تھک گیا مگر حضرت حاجی صاحب نے جواب ہی نہیں دیا۔ جب میں بالکل ہی مایوس ہو گیا تو میں نے اپنے نہایت ہی محسن دوست جناب پروفیسر محمد اکبر الدین صاحب صدیقی ایم اے لکچرار عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن کو اپنی مصیبت کی کہانی لکھی۔ میں کسی زبان سے ان کا شکریہ ادا کروں کہ انہوں نے کتب خانہ آصفیہ سے سیرۃ فریدیہ لے کر باوجود سخت عدیم الفرصتی اس کی نقل خود کی اور فوراً مجھے بھیج دی ۔ بعد میں سر سید کے بعض دوسرے نایاب رسائل کی نقلیں بھی ان کے ذریعے سے مجھ تک پہنچ گئیں اور میری مشکل الحمد اللہ حل ہو گئی ۔ آج میں سیرۃ فریدیہ کو جناب صدیقی صاحب نہایت درجہ شکریہ ادا کے ساتھ ناظرین کرام کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ اس کے بعد جون 1964ء میں یہ مختصر کتاب کراچی سے بھی شائع ہوئی جسے جناب حکیم محمود احمد صاحب برکاتی نے مرتب فرمایا ہے ۔مگر اس کا مقصد سوائے سر سید کو بد نام کرنے ، اس کی لیاقت اور قابلیت میں کیڑے ڈالنے ان پر اور ان کے نانا خواجہ فرید الدین احمد پر خواہ مخواہ کے اعتراض کرنے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ کتاب کے ابتدائی صفحات میں جناب حکیم صاحب نے نہایت بے معنی الزامات سر سید پر لگائے ہیں اور لکھا ہے کہ لیاقت وغیرہ ان میں معمولی سی تھی لیکن ’’ وہ مصنف کہلاء جانے کے آرزو مند تھے ‘‘ اور اسی لیے انہوں نے بہت سی کتابیں لکھ ڈالیں۔ جناب علامہ محمود احمد صاحب برکاتی کا حال بالکل شیش محل میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکنے والے کا سا ہے۔ انہوں نے سر سید کی ادبیت پر سخت اعتراض کیے ہیں مگر خود حضرت علامہ کی علمیت کا یہ حال ہے کہ آپ نے کتاب کے صفحہ 18پر اردو لفظ ’’ زمین ‘‘ پر عربی کا الف لام لگا کر اسے ’’ الزمین ‘‘ بنا ڈالا ہے۔ حضرت علامہ جیسے فاضل اجل ہی سے ادب میں ایسی عجیب و غریب ’’ جدت ‘‘ کی توقع ہو سکتی ہے۔پھر ’’ ابتدائیہ ‘‘ کی عبارت بھی حضرت علامہ کی ادبیت کی شان کو نہایت روشن اور نمایاں کر رہی ہے۔ مثلا لکھا ہے : ’’ مجھے سر سید سے کوئی نفرت نہیں ہے ۔ہاں بہت سی ہستیوں سے محبت ہے ۔ ‘‘ (صفحہ 11 )’’ میں نے سر سید سے اختلاف کیا ہے اور بے محابا کیا ہے ۔ ‘‘ (صفحہ 12 ) ’’ میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ سر سید سے مجھے نفرت نہیں ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ محبت بھی نہیں ہے نظیری کو بھی نہیں تھی ۔ ‘‘ (صفحہ 12)نیز ملاحظہ ہو ۔ ’’ کمپنی کا دائرہ غضب و استحصال ۔ ‘‘ (صفحہ 15 ) اور زبان انگریزی میں بھی انہیں شد و مد تھی۔ صفحہ 15 جن بزرگوں نے (جن میں سر سید سب سے پیش پیش ہیں) قوم کی بے لوث خدمت کی ہے اور خلوص کے ساتھ مسلمانوں کی ہمدردی میں اپنی عمریں گزاری ہیں اور قوم کی ترقی اور خوش حال کے لیے ہو ممکن کوشش کی ہے ۔ ان کو چند معمولی معمولی باتوں اور فروگزاشتوں پر لعنت ملامت کرنا کوئی محمود فعل نہیں اور نہ اس کا کوئی فائدہ اور منافع ہے ۔ اس لیے اگر ایسی باتوں سے احتراز ہی کیا جائے تو زیادہ مناسب ہے ؎ نام نیک رفتگاں ضائع مکن تا بماند نام نیکت برقرار سعدی کا بڑا ہی سچا مقولہ ہے کاش ! حضرت حکیم صاحب اس پر غور فرمائیں ۔ سر سید پر اعتراضات اور الزامات سے قطع نظر ، میں یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ اس کتاب کو مرتب کرتے وقت حضرت حکیم صاحب نے دو بہت اچھے کام کیے ہیں۔ ایک تو کتاب کی فہرست مضامین محنت کے ساتھ مرتب کی ہے جو اصل کتاب میں نہیں تھی۔ دوسرے اصل کتاب میں جن نمایاں اشخاص کے نام آئے ہیں ۔ ان کے حالات کی تلاش کر کے آخر میں لکھ دیے ہیں ۔ یہ دونوں اس کتاب میں قابل قدر اضافے ہیں اور میں نے بھی ان سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ تمہید کو ختم کرتے ہوئے ناظرین کرام کی اطلاع کے لیے یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ ’’ سیرۃ فریدیہ ‘‘ کا پہلا اڈیشن 1896عیسوی میں 26/20/2کی تقطیع کے 57 صفحات پر بہت خوشخط مطبع ، مفید عام آگرہ میں باہتمام قادر علی خاں صوفی چھپا تھا اور پیش کر دہ یہ رسالہ اس کی نقل ہے۔ جنوری 1912 ء میں مولوی محمد دین صاحب فوق ایڈیٹر کشمیری میگزین لاہور نے ’’ حالات دبیر الدولہ ‘‘ کے نام سے 54 صفحات کی ایک کتاب شائع کی۔ میں نے بہت ہی شوق سے اس کتاب کو دیکھا مگر نہایت افسوس اس امر کا ہوا کہ اس میں کوئی بھی نئی تحقیق نہیں (جس کادیباچہ میں ذکر ہے) بلکہ پوری کتاب سیرۃ فریدیہ کی تلخیص ہے اور فوق صاحب نے آخر کتاب میں جو حالات والدہ سر سید کے لکھے ہیں ۔ وہ بھی تمام تر سیرۃ فریدیہ سے نقل ہیں کوئی بھی نئی بات بیان نہیں کی۔ (اسمماعیل پانی پتی) ٭……٭……٭ سیرت فریدیہ یعنی حالات زندگی نواب دبیر الدولہ امین الملک خواجہ فرید الدین احمد خان بہادر مصلح جنگ وزیر اکبر شاہ ثانی خواہ فرید الدین احمد خاں جن کو اکبر شاہ ثانی کے عہد میں عہدہ وزارت اور مذکورۂ بالا خطاب ملا تھا۔ حضرت خواجہ یوسف ہمدانی کی اولاد میں ہیں۔ جن کا مزار مرو میں ہے اور شاہ ہمدان کے لقب سے مشہور ہیں ۔ ہمدان عراق عجم مملکت ایران کا ایک شہر طہران سے ایک سو ساٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ شہر نہایت آباد اور تجارت گاہ تھا۔ تیمور نے اس کو تباہ کر دیا۔ معجم البلدان میں اس کا عرض بلد 306درجہ اور طول بلد مغرب سے 73 درجہ لکھا۔ انگریزی مہندسوں نے اس کا عرض بلد 34 درجہ 50 دقیقہ اورطول شرقشی گرینچ سے 48درجے 32 دقیقے قرار دیا ہے۔ خواجہ یوسف ہمدانی : خواجہ یوسف ابن ایوب ابن یوسف الہمدانی اولیائے کبار میں سے تھے ان کا لقب ابو یعقوب ہے وہ 440ھ مطابق 1048ء 1 ۔ خواجہ ابو یعقوب یوسف ہمدان کے ایک بزرگ تھے۔ جنہوں نے دوسرے صوفیا کے علاوہ حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی سے بھی کسب فیض کیا تھا۔ 1048 عیسوی میں پیدا ہوئے اور 1040عیسوی میں وفات پائی۔ (اسماعیل) میں پیدا ہوئے اور 535ھ مطابق 1140ء میں بمقام یامن جو مرو کے راستہ پر ہے انتقال کیا ہے۔ اول ان کے جنازہ کو وہیں دفن کر دیا گیا اورپھر مرو میں لے جا کر اس مقبرہ میں جو ان کے نام سے مشہور ہے دفن کیا۔ پچانوے برس کی عمر ہوئی۔ بغداد میں انہوں نے تعلیم پائی اور ابو اسحاق فقیہ سے علم فقہ پڑھا۔ ان کا مذہب حنفی تھا اور شیخ عبداللہ جوبنی کے مرید تھے اور ان ہی سے خرقہ خلافتً پایا تھا۔ عراق عجم اور خوارزم اور خراسان اور ماوراء النہر میں ان کی کمال شہرت تھی۔ مرو میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ خواجہ عبداللہ برقی ، خواجہ حسین انداقی ، خواجہ احمد بسوی ، خواجہ عبدالخالق غنجدانی ان کے خلفائے کبار میں سے ہیں (تاریخ یافعی ، نفحات الانس جامی ، سفینۃ الاولیا ، انوار لعارفین ، طبقات الکبریٰ عبدالوہات شعرانی)۔ خواجہ یوسف کی اولاد کی ہجرت وطن: ان کے انتقال کے بعد ان کی اولاد مرو سے کشمیر میں جا بسی تھی۔ کشمیر میں اور ملکوں سے بھی مسلمانوں آکر آباد ہوئے مگر وہ کشمیری الاصل نہیں ہیں بلکہ نزیل کشمیر ہیں کشمیری الاصل وہی ہیں جو وہاں کے اصل باشندے تھے اور مسلمان ہو گئے ہیں۔ کشمیر کے باشندے : کشمیر کے اصل باشندے اپنے گوت کا ایک لقب رکھتے ہیں اور اس کو آل کہتے ہیں۔ اس زمانہ میں بھی تمام کشمیری ہندو جو کشمیری پنڈت کہلاتے ہیں اپنے نام کے ساتھ اپنا ال لگاتے ہیں ان میں سے جو مسلمان ہو گئے ہیں وہ بھی نسل در نسل اپنی ال کو یاد رکھتے ہیں اور گویا وہ نشانی ان کے کشمیری الاصل ہونے کی ہے۔ جو نزیل مسلمان مدت دراز سے کشمیر میں رہنے لگے ہیں اور وہاں ان کی پیشتیں گزر گئیں وہ بھی کشمیری کہلاتے ہیں مگر ان کے ساتھ کوئی ال جو کشمیری الاصل ہونے کی علامت ہے نہیں ہوتا ۔ خواجہ یوسف ہمدانی کی اولاد اور خواجہ عداللہ احرار کی اولاد جو کشمیری میں آباد ہو گئی دراصل انہیں کا لقب خواجہ تھا مگر ہندوستان میں بہت سے مسلمان کشمیریوں نے بھی جو کشمیر الاصل ہیں یہ لقب اختیار کرلیا ہے۔ سر سید کے نانا کی ولادت اور خاندان: خواجہ فرید الدین احمد 1161ہجری مطابق 1747ء کے دل میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام خواجہ اشرف تھا۔ ان کے دادا خواجہ عبدالعزیز کشمیر سے بطریق تجارت دلی میں آئے تھے اور کشمیری مال کی تجارت کرتے تھے ان کا ریشم کی جارت کا بہت بڑا کارخانہ تھا۔ اخیر کو انہوں نے دلی ہی میں توطن اختیار کر لیا تھا۔ برادران خواجہ فرید : خواجہ اشرف کے آٹھ بیٹے تھے۔ خواجہ فرید الدین ، خواجہ علاؤالدین ، خواجہ شہاب الدین ، خواجہ نور الدین ، خواجہ محی الدین ، خواجہ نجیب الدین ، خواجہ حسام الدین ، خواجہ کمال الدین۔ (1)خواجہ نجیب الدین : ان میں جو سب سے بفیے نامی ہوئے اور جن کو ہزاروں آدمیوں نے سجدہ کیا اور معبود اللہ کہا وہ خواجہ نجیب الدین تھے وہ ابتدائی عمر سے رسول شاہی قفیر ہو گئے تھے جو سہروردی خاندان میں ایک نیا فرقہ رسول شاہ جی 1۔ حضرت رسول شاہ کا سام گرامی سید عبدالرسول تھا ، حضرت شاہ نعمت اللہ کے مرید خاص اور رسول شاہی فرقہ کے باقی ہیں۔ بہادرپ ور ان کا وطن تھا جو مضافات الور میں واقع ہے۔ 1796عیسوی میں وفات پائی۔ (اسماعیل) کے پیروؤں کا پیدا ہو گیا تھا اور مولوی محمد حنیف جو رسول شاہ جی کے جانشین تھے۔ خواجہ نجیب الدین ان کے چیلے ہو گئے تھے اور ان کے پیر نے فدا حسین ان کا نام رکھ دیا تھا۔ شاہ فدا حسین نے تمام علمی کتابیں اپنے پیر سے پڑھیں اور جب تحصیل پوری ہو گئی تو اپنے مرشد کے حکم سے کل کتابیں کنوئیں میں ڈال دیں۔ ان کا مشرب اور عمل وحدت وجود پر تھا اور وضع یہ تھی کہ داڑھی مونچھ کا صفایا۔ ایک لنگوٹی باندھے اور سارے بدن پر کوئلہ کیراکھ ملے ہوئے جو بھبھوت کہلاتی تھی بیٹھے رہتے تھے ۔ اگرحجرہ سے باہر نکلتے تو ایک تہمت گھٹنوں تک لپیٹ لیتے تھے۔ اور سر پر ایک مثلث رومال باندھ لیتے تھے۔ انہوں نے اٹھارویں محرم روز پنجشنبہ 1259ھ مطابق 1843ء میں انتقال کیا ۔ ان کا مزار الورمین رسول شاہیوں کے تکیہ میں ہے جو چمیلی باغ کہلاتا ہے۔ شاہ فد حسنی بہت مستعد عالم تھے اور کبھی کبھی کسی کو فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ اور دیگر تصنیفات محی الدین ابن عربی اور دیگر اہل و حدت و جود کی نہایت عمدگی اور خوبی سے پڑھاتے تھے۔ 1 ۔ مولوی محمد حنیف کا اصل نام مظفر حسین تھا اور وطن میرٹھ ۔ رسول شاہ کے خاص الخاص مریدوں اور معاونین میں سے تھے 1217ھ میں وفات پائی۔ (اسماعیل) 2 ۔ شاہ فد حسین کے متعلق علامہ محمود احمد برکاتی سیرۃ فریدیہ کے صفحہ 173پر ایک شخص کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ نہایت بد دین تھا مگر حضرت شاہ امداد اللہ مہاجر مکی اس کے بالمقابل فرماتے ہیں کہ فدا حسین رسول شاہی نام جو شخص دہلی میں تھا وہ کہ صاحب باطن تھا (امدادالمشتاق الیٰ اشرف الاخلاق مطبوعہ 1929ء صفحہ 81سطر 11۔ 12 مرتبہ حضرت حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی ۔ طبع شدہ تھانہ بھون ضلع مظفر نگر)اب بتلائیے ہم جیسے عامی جناب علامہ محممود احمد برکاتی کا یقین کریں یا حضرت شاہ امداد اللہ مہاجر مکی کا۔ (اسماعیل پانی پتی) (2)خواجہ علاؤالدین: خواجہ علاؤ الدین صاحب نے بھی مثل بزرگان دین کے درویشی اختیار کی تھی اور طریقہ علیا نقش بندیہ میں شاہ محمد آفاق صاحب کے مرید اور خلیفہ تھے اور حج بیت اللہ اور زیادہ مدینہ منورہ ادا کی تھی اگرچہ انہوں نے تاہل کیا تھا مگر تمام عمر گزشتہ نشینی اور ذکرو اذکار و زہد و مجاہدہ میں گزرانی اور 20 جہادی الاول روز یکشنبہ 1272ھ مطابق 1855ء کے انہوں نے اتقال کیا۔ ان کے تین بیٹے تھے خواجہ ضیاء الدین صاحب جو ایک مشہور و اعظ تھے اور خواجہ کمال الدین صاحب ، ان دونوں صاحبوں نے انتقال کیا مگر ان کے سب سے بڑے بیٹے حکیم خواجہ بہاؤ الدین صاحب جاورہ میں موجود اور اس وقت تک زندہ ہیں۔ (3)خواجہ حسام الدین: خواجہ حسام الدین نے اپنی جوانی میں دریائے چنبل میں ڈوب کر جان دی۔ (4)خواجہ کمال الدین : خواجہ کمال الدین نے عالم شباب میں مرض موت میں مبتلا ہو کر انتقال کیا۔ (5)خواجہ شہاب الدین : خواجہ شہاب الدین عربی نسخ خط لکھنے کے استاد تھے اور انگریزی عملداری میں کسی محکمہ میں ناظرہو گئے تھے۔ (6)خواجہ محی الدین : خواجہ محی الدین کو سرکار بادشاہی میں تعلق ہو گیا تھا اور خواصان شاہی کے سو چوکی ہو گئے تھے۔ (7)خواجہ نورالدین : خواجہ نور الدین کو چند روز تک دربار سیندہیہ میں فوج سواروں میں کوئی عہدہ افسری کا مل گیا تھا۔ خواجہ فرید : ان بھائیوں میں خواجہ فرید الدین احمد بہت زیادہ اقبال مند ہونے والے تھے ان کو ابتدائے عمر سے تحصیل علم کا بہت شوق تھا اور علوم ریاضیہ سے ان کو طبعی مناسبت تھی۔ وہ علم کی تحصیل کی طرف متوجہ تھے۔ دلی میں انہوں نے درسی کتابوں کو تمام کیا۔ تحصیل علم کے لیے لکھنؤ کا سفر : دل میں اس وقت کوئی شخص علوم ریاضیہ میں زیادہ مشہور نہ تھا مگر علامہ تفضل حسین خاں لکھنوی تمام علوم میں اور خصوصاً علوم ریاضیہ میں نہایت مشہور تھے اور لوگوں نے علامہ کا لقب ان کو دیا تھا۔ خواجہ فرید الدین احمد ریاضیہ کی تحصیل اور تکمیل کے لیے لکھنؤ گئے اور انتہا درجہ تحصیل کی جو کتابیں علوم ریاضیہ کی ہیں ، ان سے پڑھیں اور دو تین سال وہاں رہ کر دلی واپس آئے۔ یہ زمانہ نواب آصف الدولہ کا تھا کیوں کہ نواب آصف الدولہ 25 ذیقعدہ 1188ھ مطابق 1774ع کے مسند نشین ہوئے تھے اور 1195ھ مطابق 1780ع کے انہوں نے لکھنؤ کو دارالریاست قرار دے لیا تھا۔ نواب آصف الدولہ کا انتقال 28ربیع الاول 1212ھ مطابق ماہ ستمبر 1797ع کو ہوا۔ نواب آصف الدولہ کے انتقال کے بعد 3 شعبان 1212ھ مطابق یکم جنوری 1798ع نواب سعادت علی خاں مسند نشین ہوئے۔ 1۔ علامہ تفضل حسین خاں ریاضیات کے بہت بڑے فاضل تھے۔ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ تیرہ سال کی عمر میں تحصیل علم کے لیے دہلی آئے۔ پھر لکھنؤ جا کر علمائے وقت سے استفادہ کیا ۔ پھر شجاع الدولہ والی اودھ کے دربار سے منسلک ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد اس کے وزیر ہو گئے ، 1860ع میں بمقام ہزاری باغ (بہار) دوران سفر میں بعاوضۂ فالج انتقال کیا۔ ہیئت و ہندسہ میں قابل قدر تصانیف یادگار چھوڑیں ۔ (اسماعیل ) علامہ تفضل حسین خاں پہلے جنرل پامہ کے پاس منشی تھے پھر ان کے سفارش سے نواب آصف الدولہ نے ان کو اپنا سفیر کر کے کلکتہ بھیجا تھا اور وہ جب لکھنؤ میں آئے تو عہدہ نیابت بھی ان کو مل گیا تھا۔ نواب سعادت علی خاں کے عہد میں علامہ تفضل حسین خاں دوبارہ عہدہ سفارت کے امیدوار ہو کر کلکتہ گئے مگر نواب سعادت علی خاں نے سند سفارت ان کے پاس نہ بھیجی اس لیے وہ کلکتہ سے واپس ہوئے اور اثنائے راہ میں بمقام ہزاری باغ (بہار) 1215ھ مطابق 1799ع کے انہوں نے انتقال کیا۔ شادی خانہ آبادی : دل میں ایک اور کشمیری خاندان خواجہ عبداللہ احرار کی اولاد میں کشمیر سے آکرآباد ہوا تھا۔ خواجہ فریدالدین احمد کی شادی غالباً 1193ھ مطابق 1779ع میں خواجہ محمد مراد احراری کی بیٹی سے ہوئی۔پادشاہان دہلی کے عہد میں چار معزز عہدے تھے۔ ایک ملک العماء کا ، جس قدر علماء بادشاہ کے سامنے پیش ہوتے تھے ۔ اور ان کو جو انعام و اکرام یا جاگیر و منصب ملتا تھا وہ سب ملک العلماء کے ذریعے سے ملتا تھا۔ دوسرا ملک الحکماء کا ، جو شخص یہ عہدہ رکھتا تھا اسی کے ذریعے سے تمام طبیب دربار شاہی میں پیش ہوتے تھے۔ تیسرا ملک الشعراء کا، اس عہدہ دار کے ذریعے سے تمام شعراء بادشاہ کے دربار میں حاضر ہو سکتے تھے۔ چوتھا ، ایک عہدہ تھا جس کی وساطت سے درویش اور مشائخ بادشاہ کے پاس جا سکتے تھے اور وظائف اور ادرار اسی کے ذریعے سے ان کو دیے جاتے تھے اور تمام درگاہوں کا سالانہ خرچ اور درگاہوں کے عرس اور فاتحہ وغیرہ کے اخراجات اسی کے ذریعے سے ہوتے تھے۔ اس عہدہ کا نام ملک الاولیا تو نہیں قرار پا سکتا تھا اس لیے اس عہدہ کا نام نقیب الاولیا قرار دیا گیا تھا۔ خواجہ محمد مراد احراری اسی عہد ہ پر مامور تھے جو ایک نہایت بزرگ اور عالی رتبہ تھے۔ 1۔ اگر 1215ہجری کو صحیح سال وفات تصور کیا جائے تو یہ سن 1800عیسوی کے مطابق ہوتا ہے۔ 1799عیسوی نہیں۔ علامہ محمود احمد صاحب برکاتی نے 1801عیسوی لکھا ہے جو قطعاً غلط ہے۔ (دیکھو تقویم ہجری و عیسوی از محمد خالدی صفحہ 62)اسماعیل واجہ فرید کی اولاد خواجہ فرید الدین احمد کی ایک ہی بیوی تھی اور ان سے پانچ اولادیں پیدا ہوئیں تھیں۔ دو بیٹے اور تین بیٹیاں اور یہ اولادیں تین تین برس کے فاصلے سے غالباً ۱۲۰۷ھ مطابق ۱۷۹۲ء کے پیدا ہو چکی تھیں۔ پھر لکھنؤ میں ورود ۱۲۱۳ھ مطابق ۱۷۹۷ء کے خواجہ فرید الدین احمد پھر لکھنؤ گئے۔ یہ زمانہ بھی نواب آصف الدولہ کا تھا مگر چند روز بعد ہی نواب آصف الدولہ کا انتقال ہو گیا اور نواب سعادت علی خاں مسند نشین ہوئے۔ دیباچہ فوائد الافکار اس دفعہ کے سفر لکھنؤ میں جو نہایت دل چسپ امر پیش آیا وہ خواجہ فرید الدین احمد کے ہاتھ کا لکھا ہوا ان کا رسالہ مسمیٰ فوائد الافکار فی اعمال الفرجار کے دیباچہ میں ہمارے پاس موجود ہے جس کو ہم بعینہٖ نقل کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ چنیں گوید مؤلف ایں رسالہ فرید الدین احمد کہ چوں فقیر را از ایام طفولیت شوق بود بعلوم ریاضی و در حال تحصیل چیزے ازیں علم حاصل نمودہ اکثر بمطالعہ کتب ریاضی می پرداخت در بعضے حواشی بہ نظر آمد کہ پرکار متناسبہ از جملہ آلات ریاضی بود کہ ازاں اکثر اعمال نجومی و بعضے اشکال ہندسی و مسائل حسابی بآسانی استخراج می شد حالا علم و عمل آں بہ سبب نایابی آں آلہ مفقود است و نیز زبا نی بعضے استاداں خود ہمیں شنیدہ بودم۔ پس ازاں اشتیاق آں بدل داشتم و از ہر کس ریاضی داں۔ کہ تذکرہ آں می کردم می گفت کہ ماندیدہ ایم و نہ شنیدہ ایم۔ اغلط باشد پرکار ہمیں است کہ براے سم دائرہ و پیمائش خطوط بکار می آید۔ دیگر قسم پرکار نیست بعد آنکہ در ۱۲۱۲ھ ایں فقیر در لکھنؤ وارد شدہ و از جنرل مارٹین و مستر گوراوزلی کہ حکیم مشرب بود ملاقات شدہ نزد اوشاں یک آلہ عجیب و غریب دیدم از برنج و آھن مرکب و دو پرہ نوکدار برھم نہادہ و در کمر آں میخ مثل مقراض بند کرد۔ مگر میخ ایں آلہ از جائے خود حرکت می کرد تا آں را از جا حرکت دادہ دور و نزدیک از سر آں بدارند و بر ھر دو سطح آں خطوط چند بود چوں گاھے ایں قسم چیز ندیدہ بودم استفسار کردم گفتند کہ نام ایں در زبان انگریزی بمعنی پرکار تقسیم است وہ ایں آلہ تقسیم خطوط و دوایر و سطوح و اجسام مختلفہ بہ آسانی می شود۔ چوں آں آلہ از جنرل مارٹین بود از اوشاں عاریت گرفتم و دانستم کہ پرکار متناسبہ ہمیں باشد چوں ہر چہار عمل کہ دراں موزوں بود مستر اوزلی روبروے من کردہ بود بمکان خود آوردہ اعمال آں کردم و بسیار فکر کردم کہ چیزے از اعمال نجومی ازاں استخراج شود ہیچ نہ شد دانستم کہ پرکار متناسبہ نیست مگر چند روز محنت کردہ بدلائل اصول طور صنعت آں مستنبط کردم و مانند آں یک پرکار نقرہ تیار کردم۔ مستر اوزلی از من گرفتہ بہ نواب وزیر سعادت علی خاں بہادر گذرانید و از دیدن ایں پرکار بسیار متعجب شد۔ گفت کہ اکثر مردم از اعمال ایں پرکار آشنا نیستند چہ جائے صنعت آنکہ دریں جا کسے نم داند و در ولایت ہم ہرکس از صنعت ایں آگاہ نیست و من ایں قدر می دانم کہ یک آلہ در گنج پرکارھا می باشد بہ استعانت آں ایں پرکار درست می کنند مگر وضع درست کردن آن نمی دانم شما بدون آن چہ طور ساختید چوں ایں جانب گنج پرکارھا ندیدہ بود مشتاق دیدن آں شدم۔ اوشاں گنج پرکارھا از صندوقچۂ خود بر آوردہ بمن ملاحظہ کنانیدند و چوں بر آں آلہ خطوط و رقوم بسیار دیدم و از اوشاں استفسار حال آں نمودم گفتند کہ عمل دو سہ خط میدانم چنانچہ رو بروے بندہ عمل تقسیم خط و استخراج وتر و جیب کردہ گفتند کہ من ہمیں قدر می دانم لیکن شنیدہ ام کہ ازیں آلہ اعمال بسیار از قسم دریافت ظل و قطر آں و خطوط متوالیہ و اکثر اعمال نجوم می شود مگر من نمی دانم بلکہ اکثر صاحباں انگریز ھم نمی دانند الا مہندساں، دانستم کہ پرکار متناسبہ ہمی باشد و چوں آں گنج بسیار عمدہ تحفہ بود نخواستم کہ آں بعاریت بگیرم اگرچہ دلم بسیار آرزو مند شد بعد آن چند پرکار تقسیم برنجی مرتب کردہ رقوم آں بجائے انگریزی، فارسی کندہ کردم و بہ آشنایان خود دادم بعد چندے وارد کلکتہ شدم و یک گنج پرکار ھا خرید نمودم کہ در آں آلہ مذکور ھم بود پس در پے دریافت اعمال آں شدم وفکر و سعی بسیار نمودہ عمل استخراج ظل و قطر ظل و اکثر اعمال و نجومی و ہندسی استنباط کردم چنانکہ مسودات بسیار شدند پس یقین شد کہ پرکار متناسبہ ہمیں است کہ سابق در عرب و عجم مروج باشد و حالا ایں کسے نمی داند و مختص در صاحبان انگریز و فرانس مروج است۔ پس آں مسودات اعمال را بطور قیاس خود مرتب نمودہ صاف کنانیدم و برائے یادگار و فائدہ شایقان ایں علم رسالہ درست نمودم و نام ایں رسالہ فوائد الافکار فی اعمال الفرجار نہادم ۔ انتہیٰ سپرنٹنڈنٹ مدرسہ کلکتہ پر تقرری اس زمانہ میں مدرسہ کلکتہ1 میں جس کو حکام انگریزی نے قائم کیا تھا ایک سپرنٹنڈنٹ مقرر کرنے کی ضرورت تھی۔ جس کی تنخواہ سات سو روپے تھی۔ لکھنؤ میں جو حکام انگریزی تھے انھوں نے خواجہ فرید الدین احمد کی سفارش اس علدہ کے لیے کی اور اس پر ان کا تقرر ہو گیا اور وہ اسی سنہ میں یا اس کے تھوڑے زمانے بعد کلکتہ میں پہنچے جیسا کہ خود انھوں نے اپنی اس کتاب کے دیباچہ میں بعد ذکر حالات لکھنؤ لکھا ہے کہ ’’بعد چندے وارد کلکتہ شدم‘‘ اس زمانہ میں مارکوئیس آف ولزلی گورنر جنرل تھے۔ خواجہ فرید الدین احمد نے کلکتہ میں پہنچ کر اپنے عہدہ کا چارج لیا اور اپنا کام کرتے رہے۔ 1۔ اس کا پورا نام مدرسہ عالیہ کلکتہ تھا اسے انگریزوں نے 1780ء میں جاری کیا تھا۔ (اسماعیل) زمان شاہ والی کابل کا ہندوستان پر حملے کا خطرہ اس زمانے میں دلی میں شاہ عالم پادشاہ تھے اور ایران میں فتح علی شاہ۔ اور مشہور ہو رہا تھا کہ زمان شاہ کابلی1 نے ہندوستان پر حملہ کرنے اور اس کے فتح کرنے کا ارادہ مصمم کر لیا ہے اور اس کے فرمان بھی راجگان پنجاب کے نام اس مضمون کے آ گئے تھے کہ برسات کے بعد دہلی پر جو تخت گاہ سلاطین تیموریہ ہے، یورش کروں گا اور سرکار انگریزی اس فکر میں تھی کہ کسی طرح زمان شاہ کا ہندوستان پر یورش کرنا روکا جائے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور حکومت ایران کے درمیان عہد نامہ اس زمانے میں انگریزوں کی طرف سے مسٹر مینسٹی بوشہر میں۔ بطور سفیر کے متعین تھے۔ اور سر برفرڈ چیس بارونٹ بغداد میں۔ اور نواب مرزا مہدی علی خاں بہادر حشمت جنگ گورنر بمبئی کی طرف سے دربار ایران میں سفیر مقرر ہوئے تھے۔ وہ بو شہر میں آئے اور حاجی محمد خلیل خاں کے ذریعہ سے فتح علی شاہ پادشاہ ایران ار وزرائے ایران سے اس امر میں خط و کتابت جاری کی اور زمان شاہ کے بھائیوں محمود شاہ اور فیروز شاہ کو افغانستان پر حملہ کرنے کو آمادہ کیا۔ اس خبر کے سنتے ہی زمان شاہ اطراف پشاور سے 1۔ زمان شاہ، احمد شاہ ابدالی کا پوتا اور کابل کا حکمران تھا۔ ساری عمر ہندوستان کی فتح کا خواب دیکھتا رہا۔ آخر اپنے بھائی محمود سے لڑتا ہوا مارا گیا۔ (اسماعیل) ھرات کو چلا گیا اور ہندوستان پر حملہ کرنا ملتوی ہو گیا اور کپتان مالکم سے جو بطور سفارت ایران پہنچ گئے تھے اور فتح علی شاہ سے رمضان ۱۲۱۵ھ مطابق ۲۸ جنوری ۱۸۰۱ء کے ایک عہد نامہ تحریر ہو کر حاجی ابراہیم خاں وزیر اعظم شاہ ایران اور کپتان مالکم صاحب کے دستخط سے مکمل ہوا اور جب کپتان جان مالکم دربار ایران سے واپس آئے تو فتح علی شاہ نے حاجی محمد خلیل خاں کو سفیر مقرر کر کے بمبئی کو روانہ کیا۔ سفیر ایران کی بمبئی میں وفات حاجی محمد خلیل خاں ۲۲ مئی ۱۸۰۲ء مطابق ۱۲۱۷ھ کے بمبئی میں پہنچے۔ نہایت تعظیم و تکریم سے انگریزوں کی جاب سے استقبال ہوا اور جس مکان میں ٹھہرائے گئے وہاں ایک کمپنی سپاہیوں کی بطور اظہار تعظیم تعینات کی گئی۔ اتفاقاً ایک دن حاجی محمد خلیل خاں کے ساتھیوں اور کمپنی متعینہ کے سپاہیوں میں کسی امر میں تکرار ہوئی اور ہتھیاروں تک نوبت پہنچی۔ حاجی محمد خلیل خاں اس جھگڑے کو رفع دفع کرنے کو اندر سے باہر نکلے اور اتفاقیہ ایک گولی ان کے لگی اور وہ مارے گئے۔ یہ واقعہ ۲۰ جولائی ۱۸۰۲ء مطابق ۱۲۱۷ھ کے واقع ہوا۔ گورنر جنرل کا اظہار افسوس گورنر جنرل نے جس کا نام مارکوئیس آف ولزلی تھا۔ اس اتفاقیہ حادثہ پر بہت رنج اور افسوس ظاہر کیا اور میجر مالکم اور مسٹر لوٹ کو جو کلکتہ میں تھے واسطے تشفی و دلدہی پس ماندگان حاجی محمد خلیل خاں کے بمبئی کو روانہ کیا۔ مسٹر لوٹ راہ میں بیمار ہو گئے اور میجر مالکم ۱۹ ستمبر کو مچھلی بندر میں اور ازراہ خشکی حیدر آباد دکن ہو کر ۱۰ اکتوبر کو بمبئی پہنچے اور پس ماندگان حاجی محمد خلیل خاں کی بخوبی تسلی و تشفی کی اور نومبر ۱۸۰۲ء کو کلکتہ واپس چلے گئے۔ علاوہ اس کے مارکوئیس اف ولزلی نے ایک تعزیت نامہ مسٹر مینسٹی کے ہاتھ جو بصرہ میں بطور سفیر مقرر تھے۔ فتح علی شاہ کے پاس بھیجا اور فتح علی شاہ، شاہ ایران نے بھی اس واقعہ کا اتفاقیہ واقع ہونا تسلیم کیا۔ سفیر ایران کی معزولی اس زمانہ میں نواب مہدی علی خاں حشمت جنگ سرکار انگریزی کی طرف سے بو شہر میں سفیر تھے مگر سرکار انگریزی نے کسی سبب سے ان کو اس عہدہ سے علیحدہ کر کے واپس بلا لیا۔ چناں چہ تاریخ سفارت حاجی محمد خلیل خاں و محمد نبی خاں میں جو ۱۸۸۶ میں بمبئی میں چھپی ہے۔ بصفحہ ۱۶ و ۱۷ پر یہ فقرہ لکھا ہے: ’’و قونسل گری بندر ابو شہر دریں آوان بہ نواب مرزا مہدی علی خاں حشمت جگ بہادر حوالہ و چوں اور می خواست کہ بدولت خود حسن خدمتی نماید و می خواست کہ مسئولیت و بار و تہمت مہماں کشی را از دوش دولت انگلیسی بردارد لہٰذا بعقل ناقص خود تدبیرے اندیشید و از واقعہ قتل حاجی خلیل خاں خبرھائے دروغ بولایات اطراف انتشار می داد و ایں بطریقیکہ مسئولیت آں بخود آں مرحوم عاید می گردید و حالانکہ ھیچ حاجتی بانتشار آں نوع خبر ھائے دروغ نماندہ بود حادثہ مذکور را مردم ایران بہ نظر تعجب ملاحظہ می کردند کہ آیا دریں کار چرا دولت انگلیس ایں ہمہ اصرار می کند و بجائے ایں ہمہ مصارف گزاف ہر گاہ یک سفیرے دیگر بہ دربار ایران فرستادہ بود ہر آئینہ ازیں بدنامی ھا بیروں می آمد و رضایت نامہ دربار ایران را حاصل می نمود و جماعت انگلیسیہ بدیں سبب نواب ممدوح را مقصر نمودہ از بوشہر عزلش نمودند و مواجب دادند۔ گورنر جنرل کا اظہار معذرت ان واقعات کے بعد گورنر جنرل مارکوئیس آف ولزلی نے ایک خط معذرت کا بنام شاہ ایران اور ایک سفارت کا دربار ایران میں جس کا صدر مقام بو شہر میں رہتا تھا، بھیجنا تجویز کیا اور مسٹر لوٹ جو بمبئی میں تھے، خط معذرت لے جانے کو تجویز ہوئے اور میجر مالکم کے پاس بمبئی میں وہ خط بھیجا گیا کہ مسٹر لوٹ کے ہاتھ روانہ کیا جائے مگر وہ بہ سبب بیماری کے نہ جان سکے اور میجر ماکم نے جو اس وقت بمبئی میں تھے بذریعہ اپنے چٹھی بنام چراغ علی خاں لکھا کہ مسٹر لوٹ کے بیمار ہو جانے کی وجہ سے مسٹر پازلی کو نواب گورنر جنرل کا خط بنام شاہ سپرد کیا گیا ہے کہ وہ لے جائیں اور پھر اپنی چٹھی مورخہ ۲۷ اکتوبر ۱۸۰۲ء میں مسٹر ایڈمنسٹن پولیٹیکل سیکریٹری کو لکھا کہ مسٹر لوٹ کا عقب سے جانا ضرور ہے۔ مگر یہ خط معذرت گورنر جنرل کا بذریعہ مسٹر مینسٹی جو سفیر بصرہ میں تھے شاہ کی خدمت میں پہنچایا گیا جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں اور اس کا ذکر تاریخ سفارت حاجی خلیل خاں و محمد نبی خاں میں جو ۱۸۸۶ء میں بمبئی میں چھپی ہے بصفحہ ۱۵ حسب ذیل مندرج ہے۔ ’’مارکوئیس ولزلی یک معذرت مصحوب مسٹر مینسٹی بالیوز بصرہ و دیگراں باجامہ ہائے سیاہ کہ نشان عزاداری است بدربار ایران فرستاد و نامہ و ہدایائے فوق را ایشاں برداشتہ بحضور اعلیٰ حضرت فتح علی شاہ رفتند کہ یکتن از مامورین نظام و یک کمپنی سپاہ نظام از تاریخ وقوع ایں حادثہ در بندر بمبئی محبوسند و ایں حادثہ ناگاہ روئے دادہ و اعلیٰ حضرت پادشاہی نیز از راہ مراحم بیکراں شاہانہ برھائی محبوسین فرمان داد و نامہ و ہدایاے ایشاں را پذیرفتہ و مسٹر مینسٹی بمحل ماموریت خویشتن برگشت۔‘‘ خواجہ فرید کا تقرر بحیثیت سفیر ایران مارکوئیس آج ولزلی نے مسٹر لوٹ اور خواجہ فرید الدین احمد دونوں کا بھیجنا تجویز کیا۔ ان کی تاریخ روانگی ٹھیک طور پر معلوم نہیں ہوتی مگر غالباً ۱۸۰۳ء مطابق ۱۲۱۸ھ کے روانہ ہوئے ہوں گے۔ کسی انگریزی تاریخ سے جہاں تک ہم نے تلاش کی، مسٹر لوٹ کا ایران یا بو شہر پہنچنا معلوم نہیں ہوتا بلکہ ان کی روانگی بھی معلوم نہیں ہوتی۔ خواجہ فرید الدین احمد کا دستور تھا کہ وہ برابر اپنا روزنامچہ لکھا کرتے تھے اور عہد شباب سے ان کے انتقال سے دو ہفتے پیشتر کا روزنامچہ لکھا ہوا موجود تھا اور راقم نے بارھا اس کو بطور ایک دلچسپ تاریخ کے پڑھا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ زمانۂ غدر ۱۸۵۷ء میں وہ روزنامچہ تلف ہو گیا۔ راقم کو یاد پڑتا ہے کہ اس روزنامچہ میں لکھا تھا کہ مسٹر لوٹ بیمار ہو گئے اور گورنر جنرل کے حکم سے خواجہ فرید الدین احمد بطور سفیر مستقل کے روانہ ہوئے۔ خواجہ فرید احمد ایران میں بو شہر پہنچنے کے بعد وہ شیراز اور طہران میں گئے اور کئی دفعہ فتح علی شاہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور فتح علی شاہ کی مہربانی ان کے حال پر خصوصاً بلحاظ ان کے اعلیٰ درجہ کے علوم ریاضیہ کے جاننے کے بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ بوشہر اور شیراز اور طہران میں جو واقعات گزرے ہوں ان کے بالتفصیل لکھنے کا بہ سبب تلف ہو جانے روزنامچے کے کوئی ذریعہ نہیں رہا۔ مگر جہاں تک کہ راقم کو بالا جمال یاد ہے وہ اس قدر ہے کہ خواجہ فرید الدین احمد، شاہزادہ حسین علی مرزا اور صادق علی خاں اور چراغ علی خاں نوائی بیگاربیگی (یہ وہی چراغ علی خاں ہیں جن کے نام میجر مالکم نے چٹھی لکھی تھی) سے جو دربار شاہی میں رسوخ رکھتے تھے بہت زیادہ دوستی پیدا کی تھی اور ان ہی لوگوں کے ذریعے سے جو مقاصد سفارت کے تھے ان کو بخوبی انجام دیا جاتا تھا۔ سلطنت ایران کی طرف سے ہندوستان میں سفیر کا بھیجا جانا بڑا مقصد اس سفارت کا یہ تھا کہ شاہ ایران کو بجائے حاجی خلیل خاں مقتول کے ہندوستان میں دوسرے سفیر کے بھیجنے کی ترغیب دی جاوے تاکہ دوستی اور ارتباط دونوں سلطنتوں میں قائم رہے اور شاہ کو اس بات کا یقین دلایا جائے کہ در حقیقت حاجی خلیل خان کے مارے جانے کا واقعہ ایک امر اتفاقی تھا اور گورنمنٹ انگریزی کوئی الزام اس کا اس مرحوم کی نسبت خیال نہیں کرتی جیسا کہ نواب مہدی علی خاں نے اس کو شہرت دی تھی اس مقصد میں بخوبی کامیابی ہوئی اور شاہ نے دوسرا سفیر ہندوستان میں بھیجنا منظور کر لیا اور محمد نبی خاں کا شاہ کی طرف سے بطورسفیر کے ہندوستان میں بھیجنا تجویز کیا گیا۔ سفیر ایران اور خواجہ فرید خواجہ فرید الدین احمد کی محمد نبی خاں سے بھی دوستی تھی اور جب کہ ان کا ہندوستان میں بطور سفیر کے بھیجنا تجویز ہوا تو محمد نبی خاں نے بہت زیادہ راہ و رسم خواجہ فرید الدین احمد سے بڑھا لی تھی۔ محمد نبی خاں کی سفارت ہندوستان کا مفصل حال تاریخ سفارت حاجی خلیل خاں و محمد نبی خاں مطبوعہ بمبئی میں مندرج ہے۔ محمد نبی خاں کو شعر کا بھی مذاق تھا اس کی دوستی کا خواجہ فرید الدین احمد سے یہ بڑا ثبوت ہے کہ جب خواجہ فرید الدین احمد امور سفارت کے انجام دینے کے بعد شیراز سے بو شہر کو روانہ ہونے لگے تو محمد نبی خاں نے چند اشعار الوداعی بطور علامت دوستی کے تصنیف کر کے خواجہ فرید الدین احمد کو پیشکش کئے وہ اشعار ہمراہ دیگر اشعار محمد نبی خاں کے تاریخ سفارت مذکورہ بالا میں بصفحہ ۱۰۳چھاپہ ہوئے ہیں جن کو ہم بلفظہٖ مع اس عبارت کے جو ان کے عنوان پر لکھی ہے ذیل میں مندرج کرتے ہیں۔ قطعہ کہ بخواجہ فرید الدین احمد در شب روانگی ایشاں از شیراز بہ بندر را بو شہر بدیہہ نوشتہ شد مشفقا امشب چو زلف گل رخاں خاطر جمعم پریشاں گشتہ است حیرت افزاید مرا از خویشتن کز چہ روا حوالم ایں ساں گشتہ است خاکدان دھر را ز آب و ہوا آتشی گوئی فروزاں گشتہ است بر دلم نہ از گلے خارے خلید تا بگویم اینم ازآن گشتہ است ہم یک امشب بندہ را مسرور دار دل ترا از جاں چہ خواہاں گشتہ است ہجر تو بس مشکل آید بر سفیر از چہ رو پیش تو آساں گشتہ است خواجہ فرید کی ہندوستان میں واپسی اور برما کو روانگی اس سفارت کے انجام دینے کے بعد خواجہ فرید الدین احمد بو شہر سے کلکتہ واپس آئے۔ اس وقت کوئی پولیٹیکل امر گورنمنٹ انگریزی اور سلطنت اوا واقعہ برھما میں درپیش تھا اس کے طے کرنے کو خواجہ فرید الدین احمد گورنمنٹ انگریزی کی طرف سے بطور ایجنٹ مقرر ہو کر اوا میں گئے اور اس کو انجام دے کر پھر کلکتہ میں واپس آئے۔ تحصیلداری بندھیل کھنڈ ان کی واپسی کے تھوڑے عرصہ پیشتر یعنی ۱۸۰۳ء مطابق ۱۲۱۸ھ میں ملک بندھیل کھنڈ فتح ہو چکا تھا اور واسطے وصول مال گزاری کے دہ یکی پر تحصیلداروں کا تقرر ہوتا تھا۔ اس زمانے میں وہ عہدہ نہایت معزز اور ذی اختیار تھا، ان تحصیلداروں کو تنخواہ نہیں ملتی تھی بلکہ ایک حصہ ملک کا سپرد ہو جاتا تھا اور جس قدر روپیہ وہ اس ملک سے مال گزاری کا وصول کرتے تھے دس روپے سیکڑا حق التحصیل اس میں سے لیتے تھے۔ خواجہ فرید الدین احمد اوا سے واپس آنے پر بندھیل کھنڈ میں اس عہدہ پر مقرر ہوئے اور پرگنات اوگاھی وغیرہ جو اب ضلع باندہ میں شامل ہیں ان کے سپرد ہو گئے۔ جب یہ انتظام شکست ہو گیا اور کلکٹر اور معمولی تحصیلدار مقرر ہوئے اس وقت خواجہ فرید الدین احمد اس عہدہ سے کنارہ کش ہو کر دلی میں واپس آئے۔ برما سے دلی واپسی خواجہ فرید الدین احمد ۱۲۱۲ہجری مطابق ۱۷۹۷عیسوی کے دلی سے نکلے تھے اور ۱۲۲۵ہجری مطابق ۱۸۱۰عیسوی کے بارہ تیرہ برس کے بعد واپس آئے ۔ اس عرصہ میں دلی میں بہت سے واقعات گزر چکے تھے۔ شاہ عالم کی خستہ حالی جب وہ گئے تو شاہ عالم پادشاہ تھے۔ ان کی آنکھیں نکل چکی تھیں 1 اور ان کی حالت نہایت خستہ اور خراب تھی۔ انھوں نے اپنی خستہ حالی کے بیان میں ایک غزل لکھی ہے اور ہر ایک سے اور نیز انگریزوں سے مدد چاہی ہے۔ ہم اس غزل کو بطور تاریخانہ یادگار کے اس مقام پر لکھتے ہیں یہ غزل مفتاح التواریخ مؤلفہ ولیم بیل میں بھی چھپی ہے، مگر 1۔بدنصیب بادشاہ دہلی شاہ عالم کی آنکھیں غلام قادر روھیلہ نے ۱۰ اگست ۱۷۸۸ عیسوی کو نکالی تھیں۔ اس کی کیفیت بڑی ہی دردناک ہے، لیکن اس ظالم کا انجام بھی کچھ کم الم ناک نہیں ہوا۔ (محمد اسماعیل) نہایت غلط چھپی ہے۔ ہم اس کو صحیح کی ہوئی چھاپتے ہیں اور جو اشارات اس غزل میں ہیں حاشیہ پر اس کی تصریح بھی لکھ دیتے ہیں وہ غزل یہ ہے: شاہ عالم کی دردناک غزل صر صر حادثہ برخاست پیٔ خواریٔ ما داد برباد سر و برگ جہاں داریٔ ما آفتاب فلک رفعت شاہی بودیم برد در شام زوال آہ سیہ کاریٔ ما چشم ما کندہ شد از دست فلک بہتر شد تا نہ بینم کہ کند غیر جہانداریٔ ما داد افغاں۱ بچۂ شوکت شاہی برباد کیست جز ذات مبرا کہ کند یاریٔ ما بود جاں کاہ زر و مال جہاں ھمچو مرض دفع از فضل الٰہی شدہ بیاریٔ ما کردہ بودیم گناھے کہ سزایش دیدیم ھست امید کہ بخشند گنہگاریٔ ما کردہ سی سال نظارت۲ کہ مرا داد بہ باد زود تر یافتہ پاداش ستم گاریٔ ما عہد و پیماں بمیاں دادہ نمودند دغا مخلصاں خوب نمودند وفاداریٔ ما شیر دادم افعی بچہ را پروردم عاقبت گشت مجوز بگرفتاریٔ ما حق طفلاں کہ بسی سال فراھم کردیم ۱۔ مراد ازاں غلام قادر است۔ سرسید ۲۔ مراد ازاں منظور علی خان ناظر است۔ سرسید۔ کردہ تاراج و نمودند سبکباریٔ ما قوم مغلیہ و افغان ہمہ بازی دادند بسکہ گشتند مجوز بہ گرفتاریٔ ما ایں گدازادۂ ہمداں کہ بہ دوزخ برود بانی جور و ستم شد بہ دل افگاریٔ ما گل محمد کہ ز مرواں بہ شرارت کم نیست چہ قدر کرد وکالت پیٔ آزادیٔ ما آن نیاز و و سلیماں و بدل بیگ لعیں ہر سہ بستند کمر بہر گرفتاریٔ ما شاہ تیمور کہ دارد سر نسبت با من زود باشد کہ بیاید بمددگاریٔ ما مادھو جی سندھیہ فرزند جگر بند منت ھست مصروف تلافی ستم گاریٔ ما آصف الدولہ و انگریز کہ دستور من اند چہ عجب گر بنمایند مددگاریٔ ما راجہ و رائو و زمیندار امیر و چہ فقیر حیف باشد کہ نسازند بہ غم خواریٔ ما نازنینان پری چہرہ کہ ھمدم بودند نیست جز محل مبارک بہ پرستاریٔ ما گر چہ ما از فلک امروز حوادث دیدیم باز فردا دھد ایزد سر سرداریٔ ما دہلی پر انگریزی تسلط اور ھلکر کا حملہ اس عرصہ میں ۱۵ ستمبر ۱۸۰۳ مطابق ۱۲۱۹ھ کے لارڈ لیک نے دلی کو فتح کر لیا اور انگریزی عملداری دلی میں ہو گئی اور ۲۴ ستمبر ۱۸۰۳ء کو دلی کا انتظام جنرل اختر لونی کے سپرد کیا گیا۔ جنرل اختر لونی بطور ریذیڈنٹ کے وہاں تھے اور کرنل برن بطور اعلیٰ افسر فوج کے، لارڈ لیک مرھٹوں کے مقابلے میں مصروف تھے ھلکر نے ۶ اکتوبر ۱۸۰۳ ء کو نواح متھرا میں لارڈ لیک سے شکست پائی اور دہلی کا محاصرہ کر لیا۔ ایک میرے معزز بزرگ جو اس وقت میں جوان تھے مجھ سے کہتے تھے کہ انھوں نے دہلی کی فصیل پر چڑھ کر ھولکر کی فوج کو دیکھا ایک لہراتا ہوا دریا سواروں کی فوج کا معلوم ہوتا تھا اور یقین نہیں ہوتا تھا کہ دلی کے اندر جو قلیل فوج ہے وہ دلی کو بچا سکے گی اور اس فوج کو شکست دے گی۔ جرل اختر لونی کو اس بات کی خبر پہنچ گئی تھی کہ ھولکر کا ارادہ دلی پرآنے کا ہے انھوں نے نہایت دانش مندی سے اس کا کافی بندوبست کیا تھا۔ کرنل برن کو مع فوج کے سہارن پور سے بلایا تھا اور دولت رائو وائی پلٹن جو بزیر کمان کپتان بیربٹ کے رھتک میں تھی اور نجیبوں کی پلٹن کو جو بزیر حکم لفٹننٹ برج کے پانی پت میں تھی دلی میں جمع کر لیا تھا۔ ھولکر نے ۸ اکتوبر ۱۸۰۴ء مطابق 1219ھ کے دلی پر حملہ کیا۔ دھلی کی فوج نے گولہ باری شروع کی۔ کئی دن لڑائی رہی اور ھولکر کو شکست ہوئی اور بھاگ گیا۔ وہی میرے دوست کہتے تھے کہ ھولکر کے بھاگ جانے کے بعد میدان صاف دیکھ کر تعجب آتا تھا کہ ھولکر کی اس قدر کثیر فوج کہاں غائب ہو گئی اور کون اس کو کھا گیا۔ پادشاہ نے جنرل اختر لونی کو نصیر الدولہ معز الملک وفادار خاں بہادر ظفر جنگ کا خطاب عنایت فرمایا۔ شاہ عالم کی وفات اس کے بعد شاہ عالم ۷ رمضان 1221ھ مطابق 18دسمبر 1806ء کے مر گئے اور اکبر شاہ ثانی تخت نشین ہوئے۔ اکبر شاہ ثانی کا عہد اکبر شاہ ثانی کے عہد میں ایک سخت واقعہ پیش آیا۔ نواب ممتاز محل نے جو اکبر شاہ کی نہایت چہیتی بیوی اور مرزا جہانگیر اور مرزا بابر کی ماں تھیں یہ بات چاہی کہ مرزا ابوالظفر عرف مرزا ابن جو سب سے بڑے بیٹے پادشاہ کے تھے اور جو اخیر کو بہادر شاہ ہوئے ولی عہد نہ بنائے جاویں۔ بلکہ مرزا جہانگیر ولی عہد ہوں۔ پادشاہ بھی اپنی چہیتی بیوی کی مرضی کے تابع تھے مگر حکام انگریزی اس کو جائز نہیں رکھتے تھے۔ مرزا جہانگیر نے فساد کرنا چاہا اور قلعہ میں کچھ مسلح آدمی جمع کیے۔ اس زمانہ میں مسٹر سیٹن ریذیڈنٹ تھے وہ مرزا جہانگیر کے سمجھانے کوقلعہ میں گئے۔ مرزا جہانگیر نے ان پر تپنچہ کی گولی چلائی وہ بچ گئے اور ان کی ٹوپی میں لگی۔ وہ واپس آئے اور مرزا جہانگیر نے قلعے کے دروازے بند کر لیے۔ مسٹر سیٹن ریذیڈنٹ تھوڑی سی فوج لے کر گئے قلعہ کا دروازہ اکھاڑ کر اندر گھس گئے اور مرزا جہانگیر کو گرفتار کر کے قلعہ الہ آباد میں رہنے کے لیے روانہ کر دیا۔ یہ واقعہ 1809ء مطابق 1224ھ کے وقوع میں آیا۔ اس وقت مرزا جہانگیر کی عمر انیس یا بیس برس کی تھی اور اسی زمانہ سے قلعہ کے دروازوں پر ایک کمپنی انگریزی فوج کی متعین ہو گئی اور ایک کپتان قلعہ کے لاہوری دروازہ پر رہنے لگا۔ مرزا جہانگیر کا انتقال 1821ء مطابق 1236ھ کے الہ آباد میں ہوا۔ اول ان کی لاش خسرو باغ میں دفن ہوئی پھر دلی لائی گئی۔ جس کا ذکر ہم آیندہ لکھیں گئے۔ شاہان مغلیہ انگریز کے وظیفہ خوار جب یہ واقعہ ہوا لارڈ منٹو گورنر جنرل تھے اور اکبر شاہ کی متعدد درخواستیں نسبت اپنے استحقاق اور اختیارات کے لارڈ منٹو کے سامنے پیش تھیں۔ مگر اس واقعہ کے بعد لارڈ منٹو نے سب کو نامنظور کیا اور صرف چھہتر ہزار پانسو ماھواری جس کا اقرار لارڈ ولزلی نے کیا تھا بطور پنشن کے مقرر کر دیا۔ جس کا اضافہ ایک لاکھ روپے ماھواری تک ہو گیا۔ بہادر شاہ کے وقت میں سوا لاکھ تک اضافہ کی تجویز ہوئی تھی مگر وہ جاری نہیں ہوئی۔ ایک دفعہ اضافہ کا روپیہ بھی پادشاہی خزانہ میں آ گیا تھا۔ پھر واپس کر لیا گیا۔ خواجہ فرید کا سفر کلکتہ خواجہ فرید الدین احمد بندھیل کھنڈ سے واپس آ نے کے بعد پھر کلکتہ کو چلے گئے ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک رسالہ مسمی (تحفہ نعمانیہ1) صنعت اصطرلاب میں ہمارے پاس موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ 1231ھ مطابق 1815ء کے دلی میں آئے ۔ پادشاہ کی ملازمت کی۔ اکبر شاہ ثانی کی ابتر مالی حالت اکبر شاہ اگرچہ تخت نشین ہوئے مگر اخراجات کی تنگی کا وہی حال تھا جو شاہ عالم کے وقت میں تھا۔ شاہ عالم ہی کے وقت میں اخراجات کی نہایت تنگی تھی۔ تمام کارخانے ابتر ہو گئے تھے۔ شاہزادوں کو جو قلعے کے نو محلے میں رہتے تھے ماھواری روپیہ نہیں ملتا تھا اور وہ چھتوں پر چڑھ کر چلاتے تھے کہ ’’بھوکے مرتے ہیں، بھوکے مرتے ہیں۔‘‘ اکبر شاہ کے عہد میں بھی یہی ابتری تھی۔ خرچ آمدنی سے بہت زیادہ تھا۔ قرضہ ہو گیا تھا اور تنخواہیں ملازمین اور ۱۔ یہ کتاب خواجہ فرید کی اولاد نے بعد میں ’’جو ھریۂ فریدیہ‘‘ کے نام سے شائع کی۔ (اسماعیل) شاھزادوں کی دو دو تین تین مہینے تک نہیں تقسیم ہوتی تھیں۔ اکبر شاہ کو ان خرابیوں کے رفع ہونے کی نہایت فکر تھی اور اس بات کا بھی خیال تھا کہ دلی اور اس کے مفصلات میں خالص پادشاہ کی حکمرانی رہنی چاہیے اور انگریزوں کو محاصل ملک سے تین لاکھ روپے ماھواری دینا لازم ہے۔ سید متقی کے مشورہ سے خواجہ فرید اکبر شاہ کے وزیر مقرر ہوئے سید محمد متقی خان ابن جواد الدولہ جواد علی خاں مؤلف اس رسالہ کے والد اور خواجہ فرید الدین احمد کے داماد کو دربار شاہی میں پشتینی رسوخ تھا اور اکبر شاہ سے ان کے زمانۂ شاھزادگی سے بہت زیادہ راہ و رسم تھی اور پادشاہ کبھی کبھی ان کو بھائی متقی کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔ اکبر شاہ نے سید محمد متقی سے چاہا کہ وہ انتظام امور بادشاہت اپنے ہاتھ میں لیں اور ان خرابیوں کا انتظام کریں۔ سید محمد متقی نے تو اس سے عذر کیا مگر اپنے خسر خواجہ فرید الدین احمد کا اور ان کی سفارت ایران اور اس کی کامیابی کا ذکر کیا اور یہ صلاح دی کہ ان کو بلا کر وزیر کیا جائے تو غالباً سب امور انتظام ہو جائے۔ اکبر شاہ نے اس صلاح کو پسند کیا اور خواجہ فرید الدین احمد کو کلکتہ سے بلانے کا حکم دیا اور وہ کلکتہ سے اسی سال یعنی 1231ھ مطابق 1815ء کے دلی میں آئے۔ پادشاہ کی ملازمت کی۔ بادشاہ کی طرف سے خطاب کا ملنا اکبرشاہ نے ان کو وزیر مقرر کیا، خلعت وزارت اور خطاب دبیر الدولہ امین الملک مصلح جنگ کا عطا کیا۔ ایام وزارت میں خواجہ فرید کا حسن انتظام خواجہ فرید الدین احمد نے اپنے ایام وزارت میں اس وجہ سے کہ پادشاہ قرض دار ہو گئے تھے قرضہ ادا کرنے اور اخراجات برابر کرنے کی تین تدبیریں کیں۔ تمام شاہزادگان و بیگمات و ملازمان و عملہ شاہی کی تنخواھوں سے دس روپے فی صدی تنخواہ کم کر دی اور دو مطبخ یعنی شاہی باورچی خانے جو بڑے 1 خاصہ اور اور چھوٹے 2 خاصہ کے نام سے موسوم تھے اور جن کا روزانہ صرف کثیر تھاا ور اسی کے ساتھ بعض دیگر غیر ضروری کارخانجات کو موقوف کر دیا اور تیسرا کام یہ کیا کہ دیوان عام کی چھت جس کی تانبے کی موٹی چادریں بطور چھت گیری کے لگا کر اس پر پیتل کی ڈنڈیوں و پھولوں سے جن پر سنہری ممع تھا بطور خاتم بندی کے بنائی گئی تھی اور جس کو بعہد شاہ عالم 1173ھ مطابق 1759ء کے بھائو مرھٹہ نے اکھاڑ ڈالا تھا اور لے نہ جا سکا تھا اور وہ سب اکھڑی ہوئی پڑی تھی اور پھر اس کا بنانا بنظر حالات شاہی غیر ممکن تھا اس کا سونا الگ اتروا لیا اور جس قدر تانبا تھا شاہی ٹکسال میں اس کے پیسے بنوا ڈالے (غدر سے پہلے تک یہ پیسے دلی میں مروج تھے) اور پیتل فروخت کر دیا اور اس تدبیر سے کئی لاکھ روپے قرض شاہی ادا کیا ان انتظاموں سے آمدنی اور خرچ برابر ہو گیا اور تنخواہیں ماہوار ملنے کا انتظام ہو گیا۔ مگر شاہزادے اور بیگمات اور درباری سب اس بات سے کہ ان کی تنخواہیں کم ہو گئی تھیں نہایت ناراض تھے اور خاصوں اور کارخانجات کی موقوفی عام شکایت کا باعث تھی ان اسباب سے ہر شخص ۱۔ بڑا حاصہ وہ کھانا کہلاتا تھا جو تمام ملازموں، عہدہ داروں، خواصوں اور باری داروں کو جو چوکی پہرہ دن رات اپنی اپنی باری سے دیوان خاص اور خاص ڈیوڑھی اور دیگر مقامات خاص میں حاضر رہتے تھے پادشاہ کی طرف سے تیار ہو کر دیا جاتا تھا۔ (سید احمد) ۲۔ چھوٹا خاصہ وہ کھانا کہلاتا تھا جو تیار ہو کر محل میں بھیجا جاتا تھا اور بڑے بڑے امیر یا حکیم جو اپنی اپنی باری یا کسی ضرورت سے قلعہ میں رہ جاتے تھے ان کو بھیجا جاتا تھا۔ (سید احمد) نے پادشاہ کے پاس شکایتیں شروع کیں۔ دیوان عام کی چھت کی نسبت جو کچھ کیا گیا تھا وہ پادشاہ کی اجازت اور مرضی سے کیا گیا تھا مگر تمام لوگ چرچا کرتے تھے کہ دیوان خاص کی چاندی کی چھت نادر شاہ نے لوٹ لی اور دیوان عام کی تانبے چھت خواجہ فرید نے۔ وزارت سے علیحدگی رفتہ رفتہ ان شکایتوں کا اثر پادشاہ کے دل پر بھی ہوا اور دبیر الدولہ نے عہدۂ وزارت کو اپنے ہاتھ میں رکھنا مناسب نہ جانا۔ یا یہ کہ وہ زیادہ اپنے ہاتھ میں نہ رکھ سکتے تھے۔ انھوں نے اس عہدہ سے استعفا دے دیا اور چند روز بعد پھر کلکتہ کو چلے گئے۔ سلطنت مغلیہ کی باگ ایک عورت کے ہاتھ میں ان کے بعد تمام اختیارات وزارت نواب ممتاز محل کے جو پادشاہ بیگم تھیں قبضۂ اقتدار میں چلے گئے1 اور انھیں کی طرف سے مختلف اشخاص وزارت کا کام انجام دیتے تھے۔ وزارت پر دوبارہ تقرر ان واقعات کے چند روز بعد پادشاہ نے پھر واسطے اضافہ پیش کش کے تحریک کرنی چاہی اور اس باب میں ایک مراسلہ بنام گورنر جنرل تیار کیا گیا جس میں زیادہ تر شکایت اس بات کی تھی کہ آمدنی واسطے اخراجات ضروری کے کافی نہیں ہے۔ سید محمد متقی خاں نے موقع پا کر پادشاہ سے عرض کیا کہ ۱۔ یعنی اس وقت سلطنت مغلیہ کی حالت بالکل مولانا حالی کی اس رباعی کے موافق ہو رہی تھی۔ ع دیکھو جس سلطنت کی حالت درہم سمجھو کہ وہاں ہے کوئی برکت کا قدم یا تو کوئی بیگم ہے مشیر دولت یا ہے کوئی مولوی وزیر اعظم (اسماعیل) دبیر الدولہ کلکتے میں موجود ہے اور آمدنی اور اخراجات کا حال ان کو معلوم ہے اور کاغذات جمع خرچ کی یادداشتیں بھی ان کے پاس ہیں اور در حقیقت آمدنی و خرچ برابر ہو گیا ہے اور قرضہ بھی ادا ہو گیا ہے۔ اگر گورنر جنرل ان سے دریافت کرے تو بجز اس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ بالفعل آمدنی اور خرچ برابر ہے۔ قرضہ بھی نہیں ہے، اس وقت جو مراسلہ کا بھیجنا تجویز کیا گیا ہے وہ کیوں کر تسلیم ہو سکے گا۔ بادشاہ کے دل میں اس بات نے جگہ کی اور کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو مگر اس کی تدبیر کیا ہے۔ سید محمد متقی خاں نے عرض کیا کہ خواجہ فرید کا علیحدہ کر دینا مصلحت نہیں تھا۔ اگر اس میں کچھ سعی و کوشش ہو سکے گی تو دبیر الدولہ ہی کی تدبیر و کوشش سے ہو سکے گی۔ پادشاہ نے تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد اس بات کو پسند کیا اور دبیر الدولہ کے کلکتہ سے بلانے کو حکم دیا۔ چنانچہ وہ کلکتہ سے آئے اور دوبارہ 1235ھ مطابق 1819ء کے بدستور اپنے عہدہ سابق پر مامور ہوئے۔ وزارت سے استعفا اس دفعہ کے تقرر میں بھی نواب دبیر الدولہ نے در حقیقت ماھواری پنشن کے اضافہ کی جو بنام پیشکش پادشاہ کے لیے مقرر تھی کوئی کوشش نہیں کی اور ہمیشہ لیت و لعل کرتے رہے جس کے سبب سے پادشاہ کی کبیدگی خاطر بڑھتی جاتی تھی۔ جو لوگ ان کے مخالف تھے انھوں نے پادشاہ کے دل میں یہ بات جمائی کہ دبیر الدولہ انگریزوں سے سازش رکھتے ہیں اور اس لیے اس میں کوشش نہیں کرتے اور لوگوں کو بھی تعجب تھا کہ وہ کیوں اس میں تساہل کرتے جاتے ہیں۔ آخر کار پادشاہ نے یہ بات چاہی کہ وزارت کے کام میں اور شخصوں کو بھی دبیر الدولہ کے شریک کیا جاوے اس شراکت کے تین شخص خواہاں ہوئے، ایک نواب محمد میر خاں جن کے باپ شاہ جی اس زمانہ میں دہلی کے صوبہ دار تھے جب کمپنی انگریز نے دہلی پر قبضہ کیا تھا۔ دوسرے راجہ کیدار ناتھ اور تیسرے راجہ جی سکھ رائے۔ یہ واقعہ جولائی 1820ء کا ہے جو مطابق 1236ھ کے (واضح ہو کہ اس واقعہ کا سال ہم کو جنرل گارڈر کے روزنامچے سے جو ان کے خاندان میں محفوظ ہے اور جو کاسگنج ضلع ایٹہ میں ہے دستیاب ہوا ہے) مگر نواب ممتاز محل راجہ جی سکھ رائے کی طرف دار تھیں اور وہ چاہتی تھیں کہ سب کو نکال کر راجہ جی سکھ رائے کو مقرر کیا جائے۔ دبیر الدولہ ان کی شرکت میں کام کرنا منظور نہیں کرتے تھے چند روز اسی طرح فقرہ بازیاں اور تدبیریں رہیں آخر کار بصلاح جنرل اکٹرلونی سے جو ریذیڈنٹ تھے اور دبیر الدولہ سے نہایت دوستی رکھتے تھے 1822ء مطابق 1238ھ کے دبیر الدولہ نے استعفیٰ دے دیا۔ اس دفعہ غالباً تین برس یا ساڑھے تین برس تک انھوں نے وزارت کا کام سرانجام دیا۔ بادشاہی دربار کی ایک نادر تصویر اس زمانہ کی ایک عمدہ یادگار ایک تصویر کا فوٹو گراف ہمارے پاس موجود ہے جو زمانۂ وزارت دبیر الدولہ میں پادشاہی مصوروں نے اکبر شاہ کے دربار کی بنائی تھی اور یہ تصویر اس کتاب میں بھی چھاپی گئی ہے جس کو مولوی سید احمد ارمغان دہلی کے مصف نے تصنیف کیا ہے اور بزم آخر جس کا نام ہے۔ اس میں شاہزادوں اور امراء کے دو گروھوں میں جو پادشاہ کے روبرو کھڑے ہیں دو شکلیں جنرل اکٹر لونی اور وزیر اعظم خواجہ فرید الدین احمد کی ہیں جو برابر کھڑے ہیں۔ جنرل پوری پوشاک پہنے آڑی ٹوپی رکھے جریب1 یا عصائے عزت پر جھکے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کے پاس بھی جریب ہے۔ یہ تصویر جشن کے دربار کی ہے جو دیوان خاص میں ہوتا تھا دیوان عام کا دربار بہت دنوں سے موقوف ہو چکا تھا۔ بادشاہ تخت طائوس پر بیٹھے ہوئے ہیں جو اصلی تخت طائوس 2 شاہجہانی کی نقل بنایا گیا تھا۔ جنرل اختر لونی اور خواجہ فرید کی دوستی جنرل اکٹر لونی اور وزیر اعظم دبیر الدولہ خواجہ فرید الدین احمد میں بڑی دوستی تھی۔ جنرل اکٹر لونی اکثر دبیرالدولہ کے پاس جب چاہتے آیا کرتے تھے اور اس لیے دبیر الدولہ کی مسند کے پاس ہمیشہ ایک نہایت عمدہ لال مخمل کی آرام کرسی رکھی رہتی تھی کہ جب وقت بیوقت جنرل صاحب آویں تو اس پر بیٹھیں۔ دبیر الدولہ اپنی مسند پر اور جنرل اکٹرلونی اس کرسی پر بیٹھتے تھے۔ جنرل اختر لونی اور سرسید کی ملاقات ایک دن جنرل اکٹر لونی آئے ہوئے تھے اتفاقاً راقم کسی سبب سے وہاں گیا اور جنرل صاحب کو دیکھ کر واپس آنے لگا مگر انھوں نے بلا لیا ۱۔ جریب کا ملنا بادشاہی دربار میں تعزز اور تقرب کی علامت تھی۔ دربار میں کھڑے رہنے کے لیے سہارے کے واسطے عصا ملتا تھا کیوں کہ دربار شاہی میں جملہ حاضرین ہر قسم کو کھڑا رہنا پڑتا تھا۔ (سرسید احمد) ۲۔ یہ تخت طائوس وہ تھا جو اصلی تخت طائوس کے نادر شاہ کے زمانہ میں لٹ جانے کے بعد محمد شاہ کے وقت میں بنایا گیا تھا۔ نہایت خوبصورت تخت تھا اور بالکل شاہجہان کے تخت کی نقل تھا مگر لکڑی کا تھا اور نگینے جو بجائے جواہرات کے جڑے گئے تھے وہ بھی اصلی نہ تھے۔ بہادر شاہ نے اپنے زمانۂ سلطنت میں ایک دوسرا تخت چاندی کا بنوایا تھا۔ (سید احمد) اور کچھ بات کی۔ راقم نے جنرل سے جو فل ڈریس (پوری پوشاک یا وردی پہنے ہوئے) تھے پوچھا کہ ’’آپ نے ٹوپی میں پر کیوں لگا رکھے ہیں اور کوٹ میں دوہرے بٹن کیوں لگائے ہیں؟‘‘ جنرل اس سوال سے بہت خوش ہوئے اور مسکرا کر خاموش ہو رہے۔ اس وقت راقم کی عمر پانچ یا چھ برس کی ہو گی۔ راجہ رام موہن رائے کا اکبر شاہ ثانی کا وکیل ہو کر لندن جانا دبیر الدولہ کے استعفیٰ کے بعد راجہ جی سکھ رائے زیادہ محیط ہو گئے اور کارکنان سلطنت نے پادشاہ کے مقاصد پورا ہونے کو زیادہ تدبیر کرنی چاہی جو محض نادانی کا کام تھا، یعنی انھوں نے رام موہن رائے1کو جو کلکتہ کے ایک بابو اور نہایت لایق اور ۱۔ راجہ رام موھن رائے اپنے وقت کے بہت بڑے آدمیوں میں سے تھے۔ 24مئی 1774 عیسوی کو رادھا نگر (کلکتہ ) میں پیدا ہوئے عربی و فارسی کی انتہائی تحصیل کے بعد سنسکرت بھی سیکھی۔ بت پرستی سے تائب ہو کر برھمو سماج کی بنیاد ڈالی۔ سولہ برس کی عمر میں عربی آمیز فارسی میں ایک بے نظیر کتاب تحفۃ المواحدین لکھی۔ 1810ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت شروع کی اور انگریزی میں زبردست مہارت حاصل کی۔ 1815ء میں پنشن لینے کے بعد کلکتہ میں سکونت اختیار کی۔ ستی کی رسم کی سخت مخالفت کی اور آخر 1828ء میں اسے بند کرا کے چھوڑا ۔ اسی سن میں 20 اگست کو برھمو سماج کی بنیاد ڈالی۔ 1830ء میں اکبر ثانی نے ان کو راجہ کا خطاب دے کر اور اپنا سفیر بنا کر انگلستان بھیجا اور 70ہزار روپیہ سفر خرچ عطا فرمایا۔ 15نومبر 1830ء کو راجہ رام موہن رائے انگلستان روانہ ہو گئے اور 8 اپریل 1831 ء کو وہاں پہنچے مگر ان کو واپس آنا نصیب نہ ہوا اور وہیں بمقام برسٹل 27دسمبر 1121 ء میں دیسی اخبار سمبد کمودی بنگالی زبان میں ہفتہ وار جاری کیا۔ ہندوستان میں فارسی زبان کا پہلا (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر) ذی علم اور متین،مہذب و بااخلاق شخص تھے اور وہی برھمو سماج مذہب کے جو اب بنگالیوں میں نہایت کثرت سے رائج ہے بانی ہیں، بلایا۔ اس ارادہ سے کہ پادشاہ کی طرف سے وکیل کر کے لندن بھیجا جائے۔ چنانچہ وہ دلی میں آئے اور پادشاہ کی ملازمت کی اور ان کو راجہ کا خطاب پادشاہ کی طرف سے دیا گیا اور آخر کار وہ پادشاہ کے وکیل ہو کر لندن میں بھیجے گئے اور 1831ء مطابق 1247ھ کے لندن پہنچے اور 1833ء مطابق 1249ھ کے وہیں مر گئے۔ (راقم نے ان کو متعدد دفعہ دربار شاہی میں دیکھا ہے اور دلی کے لوگ یقین کرتے تھے کہ ان کو مذہب اسلام کی نسبت زیادہ رحجان خاطر ہے) مگر اس کارروائی سے بھی مقصد حاصل نہ ہوا۔ ایک دوسری سفارت لندن کو بہادر شاہ کے عہد میں بھی اس باب کی کوشش کی گئی اور حکیم احسن اللہ خاں1 صاحب جو پادشاہی (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) اخبار بھی راجہ رام موہن رائے ہی نے جاری کیا تھا۔ جس کا نام مراۃ الاخبارتھا۔ اس کا پہلا شمارہ 20اپریل 1822ء کو شائع ہوا۔ ان دونوں اخباروں کے علاوہ راجہ صاحب نے انگریزی اور بنگلہ میں ایک ماہنامہ برھم نی کل میگزین کے نام سے 1821ء میں جاری کیا یہ رسالہ عیسائیت کی تردید اور ہندو مذہب کی تائید میں شائع ہوتا تھا۔ تحفۃ المواحدیں کے علاوہ راجہ صاحب نے اور بھی کئی کتب انگریزی میں لکھیں۔ (ہندوستانی اخبار نویسی۔ تاریخ صحافت جلد اول۔ قاموس المشاہیر جلد اول۔ انسائیکلوپیڈیا فیروز سنز) اسماعیل۔ ۱۔ حکیم احسن اللہ خاں، مغلیہ دور کے دو آخری فرمانروائوں اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفر کے درباروں میں نہایت معززا ور صاحب اقتدار شخص گذرے ہیں۔ سرسید احمد خاں کو ان ہی کی تحریک سے بہادر شاہ ظفر نے جواد الدولہ عارف جنگ کا خطاب 1842ء میں دیا (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر ) امور کے کارکن تھے۔ خود کلکتہ گئے اور وہاں سے ایک انگریز کو اپنے ساتھ لائے اور پادشاہ کی طرف سے اس کو وکیل کر کے لندن کو روانہ کیا۔ مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ (اس انگریز کا نام جارج طامس تھا۔ اسماعیل)۔ اس ناکامی کا اصل سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہ عالم اور لارڈ لیک سے جو اقرار اور معاہدے ہوئے تھے اس کے برخلاف شاہ عالم نے کوئی شقہ مرھٹوں کے نام لکھاتھا جب کہ مرھٹوں اور لارڈ لیک میں لڑائی ہو رہی تھی، وہ شقہ لارڈ لیک کے ہاتھ آگیا تھا اور اس سبب سے جو معاہدے کہ لارڈ لیک نے اس سے قبل شاہ عالم سے کئے تھے وہ سب زایل اور ساقط (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) تھا۔ بڑے ذی علم اور باخبر انسان تھے۔ ہندسہ و ہیئت، تاریخ و فلسفہ کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ طب میں اپنے زمانہ میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ غالب سے بہت گہرے تعلقات تھے اور ان کے نام کئی خط ان کے مجموعہ کے مکاتیب میں موجود ہیں۔ ہند کے اسلامی دور کی ایک تاریخ مراۃ الاشباہ کے بھی آپ مؤلف ہیں۔ مومن کا فارسی دیوان اور مومن کے فارسی خطوط انھوں نے ہی مرتب کر کے چھپوائے تھے۔ مخدوی حکیم محمود احمد صاحب برکاتی کے پاس حکیم صاحب کی ایک مضبوط بیاض بھی موجود ہے۔ جو بہت سے صدری نسخہ جات کا نادر مجموعہ ہے۔ ان کا ایک روزنامچہ بھی انگریزی میں موجود ہے۔ غدر 1857ء میں نہایت زبردست طریقہ پر انگریزوں کا ساتھ دیا۔ یہاں تک کہ فوجی عدالت میں بدنصیب شاہ ظفر کے خلاف گواہی بھی دی۔ جس کے صلہ میں انگریزی حکومت نے ماہانہ دو سو روپے صلہ وفاداری کے طور پر عطا کیے۔ جو ان کی وفات تک گھر بیٹھے ان کو ملتے رہے۔ 1290ھ مطابق 1873ء میں بمقام دہلی انتقال کیا۔ سرسید نے ان کا تذکرہ بڑے عمدہ الفاظ میں اور بہت تفصیل سے کیا ہے، ملاحظہ ہو اسی کتاب کا صفحہ 264 تا 267۔ (اسماعیل)۔ ہو گئے تھے اور اس لیے در حقیقت شاہ عالم اور کمپنی انگریز میں کوئی معاہدہ باقی نہیں رہا تھا اور انگریز کمپنی کو اختیار کلی حاصل تھا کہ پادشاہ اور خاندان شاہی کے ساتھ بلحاظ مصلحت ملکی جس طرح پر چاہے کارروائی کرے۔ اگرچہ انگریزوں نے اس کو علانیہ ظاہر نہیں کیا۔ مگر یہی وجہ تھی کہ تمام درخواستیں اور خواہشیں پادشاہ کی جو بر بنائے عہد اور میثاق لارڈ لیک کے تھیں ان پر کچھ التفات نہیں ہوتا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ملازمت سے انکار وزارت سے استعفیٰ دینے کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنے معتمد اور تیس ہزار روپیہ بطور سفر خرچ دبیر الدولہ کے پاس بھیجا اور لاہور بلایا۔ سب لوگوں کی کمال خواہش تھی کہ وہ منظور کر لیں مگر ان کی بڑی بیٹی یعنی والدۂ راقم نے کہا کہ خدا نے آپ کو اس قدر دیا ہے کہ جس طرح پر چاہیں آپ آرام کر سکتے ہیں اور اگر اس سے کچھ اور زیادہ ہو جائے تو بھی جو آرام و آسایش آپ کو اب ہے اس میں کچھ زیادتی نہیں ہو سکتی۔ خود لاہور میں جانا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کے اختیارات لینا اور ہم سب کا انگریزوں کی عمل داری میں رہنا اچھا نہیں ہے نہ معلوم کیا اتفاقات پیش آویں اور کیا انقلابات ہوں اور کس قسم کی مشکلات پیش آ جاویں۔ پس اس زمانہ ضعیفی میں کہ آپ کی طبیعت بھی علیل رہتی ہے وہاں جانا میں پسند نہیں کرتی۔ دبیر الدولہ کے دل پر اس بات نے ایسا اثر کیا کہ جانے سے انکار کر دیا اور سفر خرچ واپس کیا اور پھر اخیر عمر تک باوجودیکہ پھر بادشاہ کی طرف سے ایک دفعہ تحریک ہوئی مگر کوئی تعلق اختیار نہیں کیا۔ وفات غرض کہ خواجہ فرید الدین احمد نے ایسی خوش زندگی بسر کر کے 14 محرم 1244ھ مطابق 1828ء کے انتقال کیا بیرون ترکمان دروازہ چونسٹھ کھمبے میں جو ایک مشہور تکیہ شاہ فدا حسین کا تھا دفن کئے گئے۔ ان کی قبر پر نہایت عمدہ و نفیس عمارت بنائی گئی ان کے بیٹوں نے ان کی رسم سوم و چہلم میں ہزارھا روپیہ خرچ کیا۔ ان کے مزار پر سالہا سال تک بسنت چڑھتی تھی اور ایسا عمدہ و نفیس میلہ بہ سبب قرب شہر کے ہوتا تھا کہ تمام درگاہوں میں جو بسنتیں ہوتی تھیں۔ سب مات ہو گئی تھیں۔ سرسید کی فرمائش پر مولانا حالی نے تاریخ وفات کہی ان کے چھوٹے بیٹے نواب زین العابدین خاں نے مادہ تاریخ وفات ’جا بہ بہشت یافتم‘ نکالا اور اس کو بطور قطعہ کے موزوں بھی کیا تھا جو راقم کو یاد نہیں رہا۔ زمانۂ تحریر اس رسالہ میں یعنی 25 اگست 1893 ء کو میں نے اس کا ذکر مولانا خواجہ الطاف حسین حالی سے کیا انھوں نے اس مادہ تاریخ کو اس طرح پر موزوں کر دیا۔ رخت سفر چو از جہاں خواجہ فرید دین بہ بست ان پے سال رحلتش سوئے بہ سو شتافتم روئے نمود ناگہاں خواجہ شبی بخواب در دید و بخندہ باز گفت جا بہ بہشت یافتم 1244ھ انگریزوں کی تعزیت ان کے انتقال کے کئی دن بعد مسٹر کول بروک جو اس زمانہ میں دہلی میں ریذیڈنٹ تھے اور مسٹر ٹرولین جو اسٹنٹ ریذیڈنٹ تھے بطور ماتم پرسی کے آئے۔ اس وقت دبیر الدولہ کے بیٹے اور داماد اور پوتے اور نواسے سب موجود تھے ان سب کو مخاطب کر کے کلمات تعزیت کہے اور بذریعہ پیغام کے کلمات محل سرا میں ان کی بیٹیوں کو کہلا بھیجے۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ جو اس وقت موجود تھے نہایت مہربانی سے پیش آئے اور دبیر الدولہ کی وفات پر نہایت تاسف ظاہر کیا۔ خواجہ فرید کے اخلاق و عادات اور علم و فضل نواب دبیر الدولہ نے نہایت عمدگی و خوبی و شان و شوکت، امیری و نام آوری میں آخر عمر تک اپنی زندگی بسر کی۔ تمام رئوسا و امراء اور شرفائے شہر ان کا نہایت ادب اور اعزاز کرتے تھے۔ ان کے مزاج میں بہت زیادہ نفاست تھی۔ جس قدر ان کا لباس۔ فرش اور تمام چیزیں اجلی رہتی تھیں۔ ان کا بیان مشکل ہے۔ علم سے اور بالتخصیص ریاضیات سے نہایت شوق تھا۔ شاگرد ان کا معمول تھا کہ دو تین طالب علموں کو سبق پڑھایا کرتے تھے۔ متعدد طالب علموں میں سے ذہین اور سمجھدار منتخب کر لیتے تھے اور اگر کوئی امداد کا مستحق ہوتا تھا اس کا وظیفہ مقرر کر دیتے تھے۔ مولوی کرامت علی صاحب 1ابن مولوی حیات علی صاحب جو دلی کے مشہور عالم تھے اور اخیر کو ۱۔ مولوی کرامت علی، مولوی حیات علی خوش نویس کے فرزند اور خود بھی اعلیٰ درجہ کے خوش قلم اور اچھے عالم و فاضل بزرگ تھے۔ دہلی سے تلاش معاش کی غرض سے حیدرآباد دکن پہنچے اور وہاں ہزار روپے ماہوار پر ملازم ہو گئے اور غالباً وہیں انتقال کیا۔ علوم شرعیہ میں کامل اور فنون ادبیہ کے ماہر تھے۔ مذہبی حیثیت سے خاندان عزیزیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ (اسماعیل) حیدر آباد چلے گئے اور مولوی رجب علی صاحب 1 شیعہ مذہب جنھوں نے آخر کو پنجاب میں نہایت عروج پایا اور خواجہ محمد ناصر جان جو بعد خواجہ محمد نصیر 2 کے سجادہ نشین حضرت خواجہ میر درد علیہ الرحمۃ ہوئے اور حکیم رستم علی خاں 3 ان کے مشہور شاگردوں میں سے تھے۔ ان کے چھوٹے بیٹے نواب زین العابدین خاں نے جو اپنے وقت میں علم ہیئت اور زیچ دانی اور علم اور صنعت آلات رصد میں بے مثل تھے۔ انھیں سے وہ سب علوم سیکھے تھے۔ علم ریاضی گویا ہمارا خاندانی علم ہو گیا تھا۔ ۱۔ مولوی رجب علی 1806ء میں ضلع لدھیانہ کے ایک موضع تلونڈی میں پیدا ہوئے۔ 1818ء میں حصول علم کے لیے لاہور آئے اور یہاں رہ کر ملا مہدی خطائی سے شیعہ مذہب کی تعلیم اور حکیم سید خیر شاہ سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ 1825ء میں دہلی کالج میں داخل ہوئے اور تکمیل کے بعد وہیں پروفیسر ریاضی مقرر ہو گئے۔ مگر دل نہ لگا اور استعفیٰ دے کر ہوشنگ آباد اور بھوپال کا سفر اختیار کیا۔ پھر وہاں سے بھی نوکری چھوڑ دی اور مختلف مقامات پر پھرتے رہے پھر مستقل طور پر دہلی چلے آئے اور یہاں انگریزی ملازمت اختیار کر لی۔ غدر 1857ء کی وفادارانہ خدمات کے صلہ میں ارسطو جاہ کا خطاب ملا۔ جاگیر بھی عطا ہوئی اور پانچ ہزار نقد بھی۔ 1869ء میں وفات پائی اسی سال غالب اور شیفتہ کا بھی انتقال ہوا۔ (اسماعیل) ۲۔ خواجہ محمد نصیر، حضرت خواجہ میر درد کے نواسے تھے۔ 1775ء میں پیدا ہوئے اور 1845ء میں انتقال کیا۔ خواجہ میر اثر کے شاگرد تھے اور ریاضی اور موسیقی میں کمال رکھتے تھے۔ (اسماعیل) ۳۔ حکیم رستم علی خاں، بہادر شاہ ظفر کے دربار میں ایک بڑے فاضل اور جید عالم تھے۔ طب میں بھی کافی دستگاہ رکھتے تھے۔ بادشاہ نے مصلح الدولہ کا خطاب دیا تھا۔ قلعہ دہلی کے سرکاری گزٹ یعنی سراج الاخبار کے ایڈیٹر تھے۔ درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا اور نہایت لیاقت اور قابلیت کے ساتھ طلباء کو فارسی پڑھاتے تھے۔ (اسماعیل) کتب بینی کا شوق کتاب بینی کا اس قدر شوق تھا کہ ان کے بہت بڑے کتب خانہ کی کوئی کتاب کسی قسم کی اور کسی فن کی ایسی نہ تھی جو ان کی نظر سے نہ گذری ہو ان کا دستور تھا کہ جو نئی کتاب آتی تھی یا لی جاتی تھی۔ جب تک کہ وہ نہ پڑھ لیں کتب خانہ میں داخل نہ ہوتی تھی۔ ان کے کتب خانہ کی کتابوں کی بڑی شناخت یہ تھی کہ ان پر کسی نہ کسی جگہ ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا تھا۔ حاشیہ ہو یا کسی لغت کے معنی ہوں یا کسی مسئلہ کی تحقیق ہو۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ انگریزی بھی جانتے تھے مگر ان کے کتب خانہ کی انگریزی کتابوں میں پر بھی کسی لفظ کے معنی لکھے ہوئے ان کے ہاتھ کے پائے جاتے تھے اور نیز بعض اور وجوہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کو کسی نہ کسی قدر انگریزی آتی تھی کم سے کم یہ کہ بول لیتے اور پڑھ لیتے تھے۔ تصانیف ان کے تصنیف کیے ہوئے متعدد چھوٹے چھوٹے رسالے علم ہیئت اور آلات رصد میں تھے جو غدر میں ضائع ہو گئے مگر ان کے تصنیف کیے ہوئے اور ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے تین رسالے ایک صنعت اصطرلاب کا دوسرا صفت پرکار متناسبہ کا اور تیسرا اعمال پرکار متناسبہ کا بعنایت وزیر الدولہ مدبر الملک خلیفہ سید محمد حسن خاں بہادر سی۔ آئی۔ ای وزیر اعظم ریاست پٹیالہ ہم کو دستیاب ہوئے ہیں جن کو ہم نے کتب خانہ مدرسۃ العلوم میں داخل کر دیا ہے۔ خدا کرے صدھا سال تک اس کتب خانہ میں محفوظ رہیں۔ خواجہ فرید کی پر وقار مجلس نواب دبیر الدولہ کی مجلس ایسی مؤدب اور شائستہ ہوتی تھی کہ جس میں جا کر ایک عظمت و شان معلوم ہوتی تھی۔ تمام لوگ نہایت ادب اور شائستگی سے خاموش بیٹھے ہوا کرتے تھے۔ کوئی فضول بات بجز کام کی باتوں کے یا کسی علمی مسئلہ کے اور بعض دفعہ تصوف کے مسائل کے اور کچھ ذکر نہیں ہوتا تھا۔ بخشی المالک بخشی محمود خاں بھی جو مثل ہزار داستاں کے گویا اور نہایت خوش مزاج اور ظریف شخص تھے وہ بھی ان کی مجلس میں نہایت مؤدب رہتے تھے اور کہتے تھے کہ میں ہندوستان میں نواب دبیر الدولہ کو نہایت ادب کے لائق سمجھتا ہوں مگر ان کے بیٹوں کے ساتھ دوستانہ ملاقات رکھتے تھے اور اکثر آیا کرتے تھے اور ہر وقت ظرافت آمیز باتیں کیا کرتے تھے۔ خواجہ فرید کا ایک مصاحب بخشی محمود خاں بخشی محمود خاں ایرانی نژاد تھے ان کی زبان سے ہندوستانی لفظوں کا جس میں ٹ اور ڈ ہوتی، تلفظ نہیں ہو سکتا تھا۔ جب بخشی محمود خاں آتے تو اکثر ہم لڑکوں کو جو پوتے اور نواسے دبیر الدولہ کے تھے اور مکتب میں پڑھتے تھے، بلواتے اور ٹوپی ٹوپی کی شرط بد کر کسی فارسی لفظ کے تلفظ کی فرمائش کرتے۔ جب وہ پورے طور پر تلفظ نہ ہوتا تو اس لڑکے کی ٹوپی لے لیتے۔ لڑکے بھی ان سے ہندوستانی لفظوں کی فرمائش کرتے۔ ٹٹو بہر دوتائے ثقیل کا تلفظ ان سے نہیں ہو سکتا تھا ہمیشہ تتو یا تتہ کہتے تھے۔ لڑکے شرط جیت جاتے اور ان کی ٹوپی لے لیتے اور جب تک وہ لڑکوں کی ٹوپیاں نہ دیتے لڑکے بھی ان کی ٹوپی نہ دیتے۔ غرضکہ بخشی محمود خاں نہایت خوش مزاج اور ظریف آدمی تھے۔ بادشاہ کے دربار میں نہایت خوش بیانی سے جھوٹے سچے قصے بیان کرتے تھے۔ جب بادشاہ ان سے ہم کلام ہوتے تھے تو ایسے مصروف ہو جاتے تھے کہ کسی دوسرے کو کلام کرنے کا موقع نہ ملتا تھا۔ با ایں ہمہ نواب دبیر الدولہ کی مجلس میں نہایت ہی ساکت اور مؤدب رہتے تھے۔ گھریلو زندگی نواب دبیر الدولہ کا معمول تھا کہ صبح کا کھانا محل سرا میں جا کر کھاتے تھے۔ ایک بہت بڑے نعمت خانے میں بہت وسیع دستر خوان بچھا ہوا ہوتا تھا اور کل بیٹے اور بیٹیاں اور پوتے اور پوتیاں، نواسے اور نواسیاں اور بیٹوں کی بیویاں اور چھوٹے بڑے سب ان کے ساتھ کھاتے تھے۔ چھوٹے بچوں کے آگے خالی رکابیاں ہوتی تھیں اور وہ ہر ایک سے پوچھتے تھے کہ کون سی چیز کھائو گے۔ جب وہ بتاتا تو اس کے آگے خالی رکابی میں اپنے ہاتھ سے وہی چیز چمچہ سے اٹھا کر بقدر مناسب عنایت فرماتے تھے۔ تمام لڑکے نہایت ادب و صفائی سے ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ بڑی احتیاط رہتی تھی کہ کوئی چیز گرنے نہ پائے اور زیادہ ہاتھ کھانے میں بھرنے نہ پاویں۔ نوالہ چبانے کی آواز منہ سے نکلنے نہ پاوے۔ رات کا کھانا وہ باہر دیوانہ خانہ میں کھاتے تھے۔ زنانہ ہو جاتا تھا۔ ان کی بڑی بیٹی یعنی راقم کی والدہ اور چھوٹی بیٹی فخر النساء بیگم کھانا کھلاتی جاتی تھیں۔ اولاد کی تعلیم کا خیال یہ بھی دستور تھا کہ شام کو چراغ جلنے کے بعد ان کے پوتے اور نواسے جو مکتب میں پڑھتے تھے سبق سنانے جاتے تھے ان کی مسند کے آگے دو سفید رنگ کے شیشے کی فانوسیں جو مردنگیں کہلاتی ہیں۔ موم بتی سے روشن ہوئی رکھی رہتی تھیں اور ان کے سامنے لڑکے بیٹھتے تھے۔ اول مشکل یہ تھی کہ نہایت سفید چاندنی کا فرش بچھا ہوا ہوتا تھا۔ لڑکے اپنے پائوں نہایت صاف رکھتے تھے اس خوف سے کہ کہیں چاندنی پر دھبہ نہ لگ جائے۔ اگر اتفاق سے کسی لڑکے کے پائوں کا دھبہ لگ گیا تو نہایت خفگی سے اس کو بھگا دیتے تھے ’’کتے سے پائوں کیوں رکھتا ہے۔‘‘ دوسری مشکل یہ تھی کہ کپڑے پر کسی قسم کا دھبہ یا روشنائی گری ہوئی نہ ہو اگر اسی وقت دوسرے سفید کپڑے پہن کر جاتے تو ناراض ہوتے اور کہتے کہ کیا تو چماروں کے سے کپڑے پہنے ہوئے تھا کہ بدل کر آیا ہے۔ سب لڑکے باری باری سے سبق سناتے اور جس کا سبق یاد ہوتا اس کو کسی قسم کی نفیس مٹھائی اکثر بادام کی خانہ ساز لوازتیں ملتی تھیں اور جس کو یاد نہ ہوتا تھا اس کو نہیں دی جاتی تھیں اور گھرک دیتے تھے۔ نہایت سخت اور خفتگی کا لفظ جو ان کی زبان سے کسی کی نسبت نکلتا تھا وہ لفظ بے پیر تھا۔ سرسید کا نانا سے پڑھنا راقم جس زمانے میں بوستاں پڑھتا تھا حسب دستور سبق سنانے گیا اس سبق میں یہ شعر بھی تھا: طمع را سہ حرفست و ہر سہ تہی وزاں نیست مر مطعماں را بہی پہلے مصرعہ کا میں نے ترجمہ کیا کہ طمع کے تین حرف تینوں خالی۔ انھوں نے کہا و ھونہ، میں سمجھا کہ میں نے غلط پڑھا۔ پھر غور کیا پھر وہی معنی کہے۔ انھوں نے پھر ٹوکا۔ تیسری دفعہ بھی وہی معنی کہے وہ خفا ہوئے اور کہا بے پیر سبق یاد نہیں کرتا۔ نہ کچھ بتایا اور نہ مجھ کو کچھ دیا۔ جس قدر مجھ کو رنج ہوا اور برابر آنسو آنکھوں سے جاری ہوئے وہ اب تک مجھ کو یاد ہے بہت دیر کے بعد میں سمجھا کہ ’’است‘‘ کے معنی میں نے نہیں کہے تھے۔ ہمارے بھائیوں نے ہم کو چڑایا اور کہا کہ ’’مشتے کہ بعد از جنگ یاد آید بر کلہ خود باید زد۔‘‘ خواجہ فرید صوفی مشرب شخص تھے نواب دبیر الدولہ در حقیقت حکیم مشرب یا صوفی مذہب تھے۔ کسی زمانے میں مکا شاہ کے جو نہایت معزز چیلے رسول شاہ جی کے تھے، مرید ہوئے تھے۔ رسول شاھیوں کے جو مرید تھے ان کو خواہ مخواہ یہ ضرور نہ تھا کہ تجرد اختیار کریں اور داڑھی مونچھ کا صفایا کر دیں بلکہ وہ بھی ان کے مریدوں میں داخل تھے جو تاھل کرتے تھے اور دنیا داروں کی سی زندگی بسر کرتے تھے۔ یہی حال نواب دبیر الدولہ کا تھا مگر دو برس قبل اپنی وفات کے ان کو خیال ہوا کہ ایک دفعہ تو اپنے مرشد کے طریقے میں پورے طور پر داخل ہونا چاہیے۔ حجام جو حاضر ہوا توق اس سے کہا کہ ڈاڑھی مونچھ کا صفایا کر دے۔ اس نے اس نورانی اور نہایت خوبصورت ڈاڑھی اور مونچھ کو مونڈ دیا۔ شہر میں اس کا بڑا چرچا ہوا اور لوگوں نے نہایت تعجب کیا مگر ان کو اس کی پروا نہ تھی۔ ایک دفعہ کے سوا پھر ڈاڑھی مونچھ کا صفایا نہیں کیا اور جب انتقال ہوا تو ڈاڑھی کسی قدر بڑھی ہو گئی تھی۔ دیوان خواجہ فرید کا حال نواب دبیر الدولہ کے ذکر کے ساتھ ان کے نہایت قدیم اور پرانے دیوان لالہ ملوک چند کا ذکر نہ کرنا نہایت ناانصافی ہو گی۔ یہ ان کے بہت قدیم دیوان تھے اور نہایت فہمیدہ اور سنجیدہ تھے۔ نواب دبیر الدولہ کے مزاج میں بھی کسی قدر دخل تھا اور وقت بے وقت ہر ایک بات عرض کر سکتے تھے۔ نواب ممدوح بھی ان کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ قبل انتقال جب نواب صاحب نے اپنی جائداد تقسیم کی تو جس قدر روپیہ اپنے بھائیوں کو دیا اسی قدر اس قدیم ملازم کو بھی دیا۔ نواب صاحب کے انتقال کے بعد لالہ ملوک چند تا روز مرگ نواب زین العابدین خاں کے ملازم رہے۔ باوجودیکہ ان کے بیٹوں کو بہت عروج ہو گیا تھا مگر انھوں نے اپنی قدیم ملازمت کو نہیں چھوڑا تھا۔ خواجہ فرید کی اولاد دبیر الدولہ کے دو بیٹے تھے۔ بڑے کا نام خواجہ وحید الدین احمد اور چھوٹے کا نام خواجہ زین العابدین خاں تھا۔ ۱۔ خواجہ وحید الدین جب مرزا جہانگیر کا الہ آباد میں انتقال ہوا اور وہ زمانہ نواب دبیر الدولہ کی وزارت کا تھا تو مرزا جہانگیر کی لاش الہ آباد سے دلی میں لانے کو خواجہ وحید الدین احمد تجویز ہوئے وہ الہ آباد گئے اور مرزا جہانگیر کی لاش وہاں سے لے آئے جو متصل مزار حضرت سلطان نظام الدین مدفون ہوئے۔ اس وجہ سے نواب ممتاز محل کو وحید الدین احمد خاں پر حد سے زیادہ مہربانی ہو گئی اور کہا کرتی تھیں کہ ’’وحید الدین خاں کو مرزا جہانگیر کے برابر سمجھتی ہوں اور مرزا تیمور شاہ جو ایک صغیر سن بیٹے مرزا جہانگیر کے تھے ان کی گود میںدیا اور مرزا تیمور شاہ کی سرکار بجائے مرزا جہانگیر کی سرکار نہایت شان و شوکت سے قائم ہوئی اور وحید الدین خاں اس کے مختار کل مقرر ہوئے اور مختار الدولہ کا ان کو خطاب ہوا۔ یہ واقعہ 1238ھ مطابق 1822ء کا ہے مگر اس وقت نواب دبیر الدولہ بدستور وزیر تھے۔ اس کے بعد نواب دبیر الدولہ نے استعفیٰ دیا اور بہت سے انقلابات سرکار بادشاہی میں ہوئے مگر جو عروج اور رسوخ نواب مختار الدولہ کو سرکار تیمور شاہ اور نواب ممتاز محل میں تھا اس میں کچھ فرق نہیں ہوا۔ نواب ممتاز محل کے انتقال کے برس ڈیڑھ برس پہلے کسی بات سے ناراض ہو کر لکھنؤ چلے گئے جبکہ نواب علی نقی خاں نائب تھے۔ چند سال وہاں بھی نہایت عروج سے رہے۔ پھر وہاں سے واپس آئے اور دلی میں رہنے لگے۔ جب غدر 1857ء کے بعد دہلی فتح ہوئی تو چیلوں کے کوچہ میں بعض لوگوں نے فوج انگریزی سے کچھ فساد کیا۔ سپاہی مکان میں گھس پڑے اور نواب مختار الدولہ کے مکان میں بھی، جس کا ایک دروازہ چیلوں کے کوچہ کی طرف تھا گھس آئے۔ اس وقت نواب وحید الدین خاں جو ضعیف ہو گئے تھے نماز عصر پڑھ رہے تھے۔ کسی سپاہی نے عین نماز کی حالت میں ان کے گولی ماری اور ان کا انتقال ہو گیا۔ ۲۔ خواجہ زین العابدین خواجہ زین العابدین احمد ان کے چھوٹے بیٹے نے اپنی تمام زندگی نہایت خوبی اور امیری سے بسر کی۔ اپنے والد کے مرنے کے بعد انھوں نے اپنے والد کا خطاب حاصل کرنے کی کچھ پروا نہ کی مگر 1263ھ مطابق 1846ء کے بہادر شاہ نے ان کو دبیر الدولہ خواجہ زین العابدین احمد خاں بہادر مصلح جنگ کا خطاب عطا کیا اور قبل غدر 22اکتوبر 1856ء مطابق 1273ھ کے ان کا انتقال ہوا۔ ان کی زندگی عجیب مختلف شوقوں میں بسر ہوئی۔ زمانہ تعلیم کے گذرنے اور اپنے باپ سے علم ہیئت اور ریاضیات کو پورے طور پر پڑھنے کے بعد ان کو گانے اور بین بجانے کا شوق ہوا اور یہ شوق کسی نہ کسی قدر اخیر عمر تک رہا۔ بین جو ایک نہایت عجیب اور عمدہ باجا ہندوستان کا ہے اس کو خود اپنے ہاتھ سے بناتے تھے اور اس کے تونبوں اور ٹھاٹ میںایسی ایجادیں کی تھیں کہ لوگ متعجب ہو گئے تھے۔ ٹھاٹ کے پردوں کے مقامات، جن سے سر پیدا ہوتے ہیں۔ ہندسی قاعدہ سے نسبتیں نکالیں تھیں اور انھیں نسبتوں سے ڈنڈی کو تقسیم کر کے پردے بٹھا دیتے تھے۔ بین میں ٹھاٹ کے پردے موم سے جمائے جاتے تھے جب انھوں نے اس کی نسبتیں نکالیں تو پیتل کی کمانیوں سے ان کو مقامات معین پر کس دیتے تھے، یہ ایک ایسی ایجاد تھی کہ اگر یورپ کے کسی باجے میں اس قسم کی ایجاد ہوتی تو شاید ہمیشہ کو اس کا یہ کمال یاد رہتا۔ ایک زمانہ ایسا آیا تھا کہ ان کو بجز ان چیزوں کے شغل کے اور طرف توجہ نہیں ہوتی تھی۔ بڑے بڑے نامی گویے دھرپت و خیال گانے والے نوکر ہیں۔ بینیں تیار ہو رہی ہیں۔ میر ناصر احمد1 جو مشہور بین بجانے والے ہمت خاں2 اور راگ رس خاں3کے نواسوں میں تھے مگر ان کے باپ نہایت صحیح النسب سید تھے وہ آتے ہیں اور بین بجانے کے فن کے کمال کو دکھایا جاتا ہے۔ اس زمانہ کی بعض مجلسیں بھی قابل یادگار میں، خواجہ میر درد علیہ الرحمۃ کے جانشین ہر مہینے کی چوبیسویں کو رات کے وقت ایک جلسہ درویشانہ کیا کرتے تھے۔ اس میں بڑے بڑے گویے آتے تھے۔ دھرپت و خیال گاتے تھے اور میر ناصر احمد بین بجاتے تھے۔ نواب زین العابدین خاں ہمیشہ جاتے تھے۔ راقم بھی بہت دفعہ ان کے ساتھ ان جلسوں میں گیا ہے۔ خواجہ محمد نصیر صاحب جو نہایت بزرگ و مقدس تھے اس زمانہ میں سجادہ نشین تھے۔ اور ایک جلسہ مگر اس جلسہ سے مختلف قسم کا ہر مہینے کی سترھویں ہوا کرتا تھا۔ رائے پران کشن ایک معزز رئیس اور نہایت ہی وضع دار دولت مند تھے اور اسی زمانہ میں ایک طوائف جو نہایت خوش آواز اور دھر پت و خیال گانے اور بین بجانے میں بے مثل تھی اس کا نام ’’جَنّا‘‘ تھا۔ اس نے اپنا تمام پیشہ چھوڑ دیا تھا اور رائے پران کشن کے گھر میں پڑ گئی تھی اس کی خاطر سے وہ ہر مہینے کی سترھویں کو ایک جلسہ کیا کرتے تھے۔ ۱۔ میر ناصر احمد کے والد سید تھے اور نانا ایک مشہور گویے۔ فن موسیقی کی تعلیم اپنے نانا سے پائی بین بجانے میں یگانہ روزگار تھے۔ (اسماعیل) ۲۔ ھمت خاں اور ۳۔ راگ رس خاں دونوں دہلی کے مشہور گویے تھے۔ (اسماعیل) مکان نہایت عمدہ فرش و فروش سے آراستہ ہوتا تھا۔ شیشہ آلات سے جو اس زمانہ میں مروج تھے بہت ہی عمدگی اور خوبصورتی سے سجایا جاتا تھا۔ شہر کے رئیس خصوصاً وہ جن سے رائے پران کشن سے دوستی تھی بلائے جاتے تھے۔ بڑے بڑے گویے اور بہادر خاں ستارن جو ستار بجانے میں بے مثل تھا اور میر ناصر احمد جو بین بجانے میں اپنا مثل نہیں رکھتے تھے سب جمع ہوتے تھے۔ بی جنا کے لیے صدر کے مقابل پائیں سمت میں مسند تکیہ لگتا تھا اور لوگ ان کے آنے کا انتظار کرتے تھے۔ جب وہ کوٹھے پر سے اترتیں اور ان کے پائوں کے زیور کی آواز آتی تو لوگ زیادہ مشتاق ہوتے تھے۔ وہ نہایت متانت اور غرور سے آ کر مسند پر بیٹھتی تھیں۔ اول دھرپت و خیال گاتی تھیں اور پھر بین بجاتی تھیں اور پھر اٹھ کر کوٹھے پر چلی جاتی تھیں۔ لوگ ان کے گانے بجانے کی نہایت تعریف کرتے تھے۔ نواب زین العابدین خاں ہمیشہ اس جلسہ میں جاتے تھے راقم بھی متعدد دفعہ ان کے ساتھ ان جلسوں میں گیا ہے۔ کبھی ان کو فن ریاضی سے شوق ہوتا تھا۔ دن رات بجز آلات رصد کے بنانے اور کواکب کے رصد کرنے اور کوئی شغل نہ تھا۔ جوکہ خود بہت بڑے دستکار تھے تمام آلات رصد اپنے ہاتھ سے بناتے تھے۔ نہایت بڑے قطر کا برنجی کرہ اور برنجی اصطرلاب اپنے ہاتھ سے ایسا عمدہ بنایا تھا جو عجائب روزگار سے تھا۔ اس کے سوا بہت سے آلات مثل ذات الحلقتین اور ذات الحلق۔ ربع مجیب، ربع مقنطر، ھلزون جریب الساعۃ، مقیاس الساعۃ، افقی و افاقی، پرکار تقسیم، پرکار متناسبہ اور اسی طرح جر ثقیل کے آلات اور آلات رصد برجندی کے تمام نمونے خود ان کے ہاتھ کے بنائے ہوئے تھے۔ ان کا وہ کمرہ جس میں یہ آلات رکھے جاتے تھے ایک رصد خانہ معلوم ہوتا تھا۔ کسی زمانہ میں ان کو پتنگ بازی کا شوق ہوتا تھا۔ اس زمانہ میں بجز اس کے اور کسی چیز کا چرچا نہ رہتا۔ اپنے ہاتھ سے پتنگ بناتے تھے۔ اور خود لڑاتے تھے۔ پتنگ بنانے کو بھی انھوں نے ایک علمی چیز کر دیا تھا اور ایک رسالہ صفت پتنگ میں لکھا تھا اور اقلیدس کی طرح اس کی شکلیں اور اس کی نسبتیں قایم کی تھیں اور ان کی ہر ایک قسم کی خاصیتیں لکھی تھیں کہ فلاں قسم کا پتنگ اتنی دور جا کر یہ کام کرے گا اور فلاں قسم کا وہ کام کرے گا۔ مگر افسوس ہے کہ وہ رسالہ غدر میں ضایع ہو گیا۔ کسی زمانہ میں ان کو تیر اندازی کا شوق ہوتا تو بجز تیر اندازی اور کمانوں اور تیروں کے بننے اور سہ پہر کو تیر اندازی کے جلسوں کے اور کچھ نہ ہوتا تھا۔ مگر وہ جلسے ایسے نہیں ہیں جن کی خوبی اور عمدگی اور شان کو اور ان امرا اور سلاطین کے تزک کو جو تیر اندازی کے جلسوں میں آتے تھے بیان کیا جا سکے۔ تیر اندازی کا فن انھوں نے سید متقی خاں راقم کے والد سے جو اس فن میں بے نظیر تھے، سیکھا تھا اور اس میں ایسا کمال پید اکیا تھا کہ خود اپنے ہاتھ سے کمانیں اور ہر قسم کے تیر بناتے تھے۔ ان کے ہاتھ کی بنائے ہوئی کمانیں کشمیر کی بنی ہوئی کمانوں سے زیادہ عمدہ سمجھی جاتی تھیں۔ بڑی خوبی ان کمانوں میں یہ تھی کہ برسات میں رخ نہ کرتی تھیں۔ تیر اندازی کے لیے گھر میں تو یہ اہتمام ہوتا تھا اور تیسرے پہر کو شہر کے اکثر امرا اور رئیس اور بعض سلاطین جمع ہوتے تھے اور نہایت نفیس جلسہ ہر روز ہوا کرتا تھا اور جو صفت اور خوبی تیر اندازی کی ظاہر ہوتی تھی وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس زمانہ میں آیا سنگھ ایک تیر انداز تھا جو نہایت کڑی کمان کھینچتا تھا۔ مگر جب ان لوگوں کا جو اس سے نرم کمان کھینچتے تھے تیر زیادہ تودہ میں کارگر ہوتا تھا تو بڑا لطف ہوتا تھا۔ اس زمانہ میں ایک پیر مرد مسلمان تھے۔ ان کو تیر اندازی کا بڑا شوق تھا۔ میر الا اللہ ان کا نام پڑ گیا تھا کیوں کہ وہ تیر لگاتے وقت الا اللہ کہا کرتے تھے۔ وہ غریب آدمی تھے سامان تیر اندازی کا ان کو نواب زین العابدین خاں دیتے تھے وہ تیر لگانا بھی اچھا نہیں جانتے تھے مگر تیر اندازی کی مجلس میں وہ سب لوگوں کو ہنسانے اور خوش کرنے والے تھے۔ ایک ذی عزت ہندو مرصع ساز کو بھی تیر اندازی کا بہت شوق تھا اور تیر لگاتے وقت اللہ غنی کہتا تھا۔ اس کا نام اللہ غنی ہی پڑ گیا تھا۔ ان باتوں کے لکھنے سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو معلوم ہو کہ اس زمانہ میں کیسی عمدہ صحبتیں تھیں۔ اب وہ سب خواب و خیال ہیں۔ آخر عمر میں ان سب چیزوں کا شوق نہیں رہا تھا کبھی کبھی کسی کو اور خصوصاً خواجہ ہاشم علی خاں اپنے بیٹے کو جو بے مثل ذہین اور لایق اور نیکی اور سعادت مندی میں فرشتہ خصلت تھے ریاضیات میں سے کسی کتاب کا سبق پڑھا دیتے تھے۔1 1۔ نواب زین العابدین احمد خاں صاحب کی اولاد کا حال سرسید نے نہیں لکھا۔ جب 1912ء میں مولوی محمد دین صاحب فوق نے حالات دبیر الدولہ کے نام سے ایک مختصر کتاب لکھنی چاہی تو نواب زین العابدین احمد خاں صاحب کی اولاد کے متعلق انھوں نے عطا اللہ صاحب کو دہلی خط لکھا عطا اللہ اردو کے مشہور مترجم مولوی عنایت اللہ کے بھائی اور خان بہادر شمس العلماء منشی ذکاء اللہ کے فرزند تھے۔ عطاء اللہ صاحب نے دہلی میں نواب صاحب کے خاندان کے آدمیوں سے (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر) اولاد اناث خواجہ فرید الدین احمد کی تین بیٹیاں تھیں۔ ایک عزیز النسا بیگم والدہ راقم کی دوسری فاطمہ بیگم اور تیسری فخر النساء بیگم۔ (بقیہ حاشیہ صفحہ گذشتہ) پوچھ پوچھ کر اولاد کے جو نام دریافت کیے اسے انھوں نے حیات دبیر الدولہ کے صفحہ 41و42 پر تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ حالات محمد عطا اللہ صاحب نے مولوی محمد دین فوق کو یکم ستمبر 1911ء کو لکھ کر بھیجے تھے مطلب یہ ہے کہ نواب زین العابدین کی اولاد کا حال صرف 1911ء تک معلوم ہو سکا۔ اس کے بعد کچھ پتہ نہیں کہ اب ان کی اولاد میں سے کون کون اشخاص موجود ہیں اور کہاں ہیں؟ ہم فوق صاحب کے شکریہ کے ساتھ نواب زین العابدین صاحب کی اولاد ذکور کے حالات یہاں نقل کرتے ہیں۔ ’’نواب زین العابدین احمد خان کے چار بیٹے تھے۔ ا۔ سب سے بڑے خواجہ حاتم علی خان۔ ان کے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ ۲۔ ان سے چھوٹے خواجہ ہاشم علی خاں تھے وہ غدر 1857ء میں شہید ہو گئے۔ ان کے ایک لڑکا اور دو لڑکیاں تھیں۔ تینوں کا انتقال ہو گیا۔ لڑکے کا آگے ایک لڑکا ہوا تھا۔ وہ بھی فوت ہو گیا۔ ۳۔ خواجہ امام الدین خاں۔ یہ دہلی کے بہت مشہور خوش نویس تھے۔ ۴۔ چوتھے صاحبزادے کا نام نواب خواجہ قاسم علی خاں عرف نواب خواجہ شرف الدین خاں تھا ان کے دو لڑکے تھے۔ خواجہ فخر الدین احمد اور خواجہ مصلح الدین احمد مالک مصلح المطابع دہلی۔ 1911عیسوی میں اول الذکر کی عمر 50سال اور مؤخر الذکر کی 48 سال تھی۔ بعد کا حال معلوم نہ ہو سکا۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) عزیز النساء والدہ سرسید علمی لیاقت عزیز النساء بیگم نہایت لایق، ذہین۔ قدرتی نہایت عالی دماغ تھیں۔ وہ صرف قرآن مجید پڑھی ہوئی تھیں اور کسی زمانہ میں فارسی کی بھی کچھ ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں۔ سرسید کی ماں سے گلستان پڑھنا میں نے خود گلستان کے چند سبق ان سے پڑھے ہیں اور اکثر ابتدائی فارسی کتابوں کے سبق ان کو سنائے ہیں۔ مجھ کو خوب یاد ہے کہ جب میں ان کو سبق سناتا یا نئے سبق کا مطالعہ ان کے پاس بیٹھ کر دیکھتا تو وہ سوت کی گوندھی ہوئی تین لڑیں ایک لکڑی میں بندھی ہوئی میری تنبیہ کو اپنے پاس رکھ لیتی تھیں اگرچہ وہ خفا تو کئی دفعہ ہوئی ہوں گی مگر ان سوت کی لڑوں سے مجھے کبھی مار نہیں پٹی۔ عالی حوصلگی ان کی تعلیم اور ان کی نصیحتیں نہایت ہی حکیمانہ اور دل پر اثر کرنے والی تھیں۔ مجھ کو یاد ہے کہ ایک شخص نے جس کے ساتھ میں نے نیکی کی تھی میرے ساتھ نہایت بدی کی اور تمام وجہ ثبوت جن سے اس کو فوجداری عدالت سے کافی سزا مل سکتی تھی میرے ہاتھ آ گئی۔ میرے نفس نے مجھے بہکایا اور انتقام لینے پر آمادہ کیا۔ میری والدہ مرحومہ نے یہ خبر سن کر مجھ سے کہا کہ اگر تم اس کو معاف کر و تو اس سے عمدہ کوئی کام نہیںہے۔ اگر تم کو اس کی بدی کی حاکم سے سزا دلوانی ہے تو نہایت نادانی ہے کہ اس قوی اور زبردست احکم الحاکمین کے چنگل سے جو ہر ایک کے اعمال کی سزا دینے والا ہے اپنے دشمن کو چھڑا کر ضعیف و ناتواں دنیا کے حاکموں کے ہاتھ ڈالنا چاہو۔ پس اگر دشمنی اور انتقام ہی منظور ہے تو قوی حاکم کے ہاتھ میں اس کو رہنے دو۔ اس نصیحت کا میرے دل پر ایسا اثر ہے کہ کبھی دور نہیں ہوا اور نہ ہو گا، اور جیسے میرے دل میں کسی شخص سے، گو اس نے میرے ساتھ کیسی ہی دشمنی کی ہو انتقام لینے کا خیال تک نہیں آیا بلکہ ان کی نصیحت پر غور کرنے سے میرے دل میںیہ بات پیدا ہو گئی ہے کہ اب میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ آخرت میں خدا بھی اس سے میرا بدلہ لے۔ نوکروں سے حسن سلوک جس زمانہ میں میری عمر گیارہ بارہ برس کی تھی میں نے ایک نوکر کو جو بہت پرانا اور بڈھا تھا کسی بات پر تھپڑ مارا۔ جس وقت میری والدہ کو خبر ہوئی اور تھوڑی دیر کے بعد میں گھر میں گیا تو میری والدہ نے ناراض ہو کر کہا کہ ’’اس کو گھر سے نکال دو جہاں اس کا دل چاہے چلا جائے۔ یہ گھر میں رہنے کے لائق نہیں رہا۔ چناں چہ ایک ماما میرا ہاتھ پکڑ کر گھر سے ہاہر لے گئی اور باہر سڑک پر چھوڑ دیا۔ اسی وقت ایک ماما دوسرے گھر سے یعنی میری خالی کے گھر سے جو قریب تھا نکلی اور مجھ کو میری خالہ کے گھر میں لے گئی۔ میری خالہ نے کہا کہ ’’دیکھو، تمہاری والدہ تم سے کس قدر ناراض اور غصے ہیں اور اس سبب سے جو تم کو گھر میں رکھے گا اس سے بھی خفا ہوں گی مگر میں تم کو چھپا رکھتی ہوں‘‘ اور کوٹھے پر کے ایک مکان میں مجھ کو چھپا دیا۔ تین دن تک میں اس کوٹھے پر چھپا رہا۔ میری خالہ میرے سامنے نوکروں اور میری بہنوں کو کہتی تھیں کہ ’’دیکھنا، آپا جی یعنی میری والدہ کو خبر نہ ہو کہ یہاں چھپے ہوئے ہیں۔‘‘ تین دن بعد میری خالہ، جن کو میں آپا جان کہا کرتا تھا میری والدہ کے پاس قصور معاف کرانے کے واسطے گئیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر اس نوکر سے قصور معاف کرا لے تو میں معاف کر دوں گی۔ وہ نوکر ڈیوڑھی پر بلایا گیا میں نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے، جب تقصیر معاف ہوئی۔ بلاشبہ ایک اچھی ماں ہزار استادوں سے بہتر ہے۔ بوڑھی عورتوں کی خبر گیری ان کی چند خاص عادتوں میں سے ایک یہ امر تھا کہ لاوارث بڑھیا عورتوں کی ہمیشہ خبر گیری کرتی تھیں۔ زنانہ مکان کے باہر بطور جلو خانہ کے ایک میدان تھا اور اس کے ایک طرف متعدد کوٹھڑیاں اور یک درے ملازموں کے رہنے کے لیے بنے ہوئے تھے۔ غریب اور لاوارث بڑھیا عورتوں کو اس میں رکھتی تھیں۔ ایک بڑھیا کے ساتھ ہمدردی کا عجیب سلوک من جملہ ان کے ایک لاوارث بڑھیا مسماۃ زیبا تھی۔ اتفاق سے ایک زمانہ میں میری والدہ بھی بیمار ہوئیں اور زیبا بھی بیمار ہوئی۔ بیماری بھی قریب قریب ایک ہی تھی۔ جو دوا ان کے لیے تیار ہوتی تھی اسی میں سے زیبا کو پلاتی تھیں۔ دونوں کو صحت ہو گئی۔ مگر حکیم معالج نے میری والدہ کے لیے ایک نسخہ معجون کا جو قیمتی تھا تجویز کیا۔ جس قدر تیار ہوا وہ مقدار میں ایک ہی شخص کے لیے چند روز کھانے کے لائق تھا۔ میں اس زمانے میں دلی میں منصف تھا۔ میں اس معجون کو تیار کرکے لے گیا اور کہا کہ یہ اتنے دنوں کی خوراک ہے۔ اس کو استعمال فرمائیے انھوں نے اس کولے لیا اور اس خیال سے کہ وہ معجون زیبا کے لیے بھی ایسی ہی مفید ہو گی جیسی کہ مجھ کو۔ اور ان کو یقین نہ تھا کہ زیبا کے لیے بھی ایسی معجون تیار کر دی جائے گی اس لیے خود انھوں نے اس معجون کو نہیں کھایا اور خفیہ خفیہ زیبا کو کھلایا اور اس معجون سے زیبا کی صحت میں بہت ترقی ہوئی۔ اسی کے ساتھ ان کی صحت میں بھی زیادہ ترقی ہو گئی۔ چند روز بعد میں نے ان سے کہا۔ اس معجون نے آپ کو بہت فائدہ کیا۔ وہ ہنسیں اور کہا ’’تمہارے نزدیک بغیر دوا کے خدا صحت نہیں دیتا۔ ‘‘ میں متعجب ہوا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ وہ معجون ان کے عوض زیبا نے کھائی اور خدا نے دونوں کو صحت عطا کی۔ ایک کو بحیلہ دوا کے اور ایک کو محض اپنے فضل و کرم سے۔ غریبوں کی امداد کا عجیب طریقہ ان کا دستور تھا کہ جو کچھ گھر میں آتا۔ روپیہ، پیسہ، گائوں کا یا ملک کا غلہ، مکانوں کا کرایہ، تنخواہ قلعہ کی، باغوں کا میوہ۔ سب میں سے بحساب پانچ فیصدی کے خدا کے نام پر علیحدہ کر دیتی تھیں۔ اپنی بہنوں اور بھانجیوں پر بھی تاکید تھی کہ اسی طرح پانچ فیصدی کے حساب سے خدا کی راہ پر دیا کریں اور جس قدر روپیہ اس طرح پر جمع ہوتا اس کو نہایت عمدگی اور خوبی اور ایک انتظام سے خیرات میں صرف کرتیں۔ اس طرح پر ان کے پاس ایک معقول سرمایہ جمع ہو جاتا تھا اور اس میں سے غریب پردہ نشین عورتوں کی جو معاش سے تنگ ہوتیں امداد کرتیں۔ غریب عورتوں کی جوان لڑکیوں کے نکاح کو دیتی تھیں اور اس طرح پر بہت سی جوان لڑکیوں کا ان کی امداد سے نکاح ہوا ہے۔ نوکری پیشہ یا غریب اور مفلس خاندانوں کی جوان لڑکیاں جو بیوہ ہو جاتی تھیں ان کا دوسرا نکاح کر دینے کی نصیحت کرتیں اور ان کے نکاح کر دینے کو روپیہ سے امداد کرتیں۔ وہ عموماً لوگوں کو سمجھاتیں کہ نکاح ثانی نہ کرنا دوسری چیز ہے مگر نکاح ثانی کو معیوب سمجھنا یا جس نے نکاح ثانی کیا ہے اس کو حقیر و ذلیل سمجھنا سخت گناہ ہے۔ غریب رشتہ داروں کے ساتھ سلوک غریب رشتہ داروں کے گھر میں جاتیں اور خفیہ طور پر یا کسی حیلہ سے ان کی امداد کرتیں۔ بعض رشتہ دار ایسے بھی تھے کہ انھوں نے ایسی عورتوں سے شادی کر لی تھی جن سے ملنا لوگ معیوب سمجھتے تھے مگر ان کا قول تھا کہ خدا کے حکم سے صلۂ رحم سب پر مقدم ہے۔ وہ خود ان کے گھر جاتیں اور ان کی اولاد کے ساتھ شفقت سے پیش آتیں اور ان کے ساتھ سلوک کرتیں۔ خدا پر کامل بھروسہ ان کو ہر ایک بات میں خدا پر بہت توکل تھا۔ وہ یہ کہا کرتی تھیں کہ ’’دکھ بیماری میں علاج کرنا دوا دینا صرف ایک حیلہ ہے، شفا دینے والا خدا ہے۔ اگر دوا اور حکمیوں کے علاج سے لوگ مرا نہ کرتے تو سب لوگ خد اکو بھول جاتے۔‘‘ وہ کہتی تھیں کہ ’’اگر سیتلا کے پوجنے سے لڑکیاں لڑکے سیتلا کی بیماری سے نہ مرتے تو تمام دنیا بجز ان کے جن کو خدا بچاتا کافر ہو جاتی۔‘‘ نذر نیاز اور گنڈے تعویذ کی قائل نہ تھیں کبھی کوئی منت و نذر و نیاز کسی امر کے لیے انھوں نے نہیں مانی ۔ گنڈے تعویذ پر اور تاریخوں یا دنوں کی سعادت یا نحوست پر ان کو مطلق اعتقاد نہ تھا۔ لیکن اگر کوئی کرتا تو اس کو منع نہ کرتیں اور کہتیں کہ اگر ان لوگوں کو اس سے منع کیا جائے اور نہ کرنے دیا جائے اور اتفاق سے وہ امر پیش آ جاوے جس کے خوف سے وہ گنڈہ تعویذ کرتے ہیں یا سعادت و نحوست دیکھتے ہیں تو ان کے ایمان میں زیادہ خلل آ جاوے گا اور وہ یقیں کریں گے کہ ایسا نہ کرنے سے یہ ہوا اور اگر ایسا کیا جاتا تو یہ نہ ہوتا۔ ان کا قول تھا کہ ’’ہر بات کے لیے صرف خدا سے دعا کی جاوے پھر وہ جو چاہے گا وہ کرے گا۔‘‘ وہ کہتی تھیں کہ ’’مصیبتیں جو انسانوں پر پڑتی ہیں اس میں بھی خدا کی کچھ حکمت ہوتی ہے مگر بندے اس حکمت کو نہیں سمجھ سکتے۔‘‘ حضرت شاہ غلام علی سے بیعت تھیں میری ننہیال کو شاہ عبدالعزیز سے اور ان کے خاندان سے بہت عقیدت تھی۔ مگر میری والدہ کو حضرت شاہ غلام علی 1 سے بیعت و عقیدت تھی اور شاہ صاحب کے ہاں اس قسم کی باتوں کا پتہ بھی نہ تھا۔ ان کی عادت تھی کہ جب کوئی ان کے پاس کوئی حاجت لے جاتا تو وہ اسی وقت ہاتھ اٹھاتے اور سب حاضرین سے کہتے کہ ’’دعا کرو کہ خدا اس کی آرزو پوری کرے۔‘‘یہی عقیدہ میری والدہ کو بھی مستحکم تھا۔ میری ننہیال کے بعض لوگ توھمات میں مبتلا تھے اور شاہ عبدالعزیز 2 کے ہاں جو کچھ ہوتا اس پر اعتقاد رکھتے تھے۔ شاہ عبدالعزیز اور ان کے خاندان کے بزرگ لڑکوں کو بعض بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک گنڈہ دیا کرتے تھے، جس میں ایک تعویذ ہوتا تھا اور اس تعویذ میں ایک حرف یا ہندسہ سفید مرغ کو ذبح کر کے اس کے خون سے لکھا جاتا تھا اور جس لڑکے کو پہنایا جاتا تھا بارہ برس کی عمر تک انڈا یا مرغی کھانے کا اس کو امتناع ہوتا تھا۔ ۱۔ حضرت شاہ غلام علی دہلی کے ایک بزرگ اور صوفی انسان اور بڑے عارف کامل شخص تھے۔ علوم ظاہری و باطنی کے جامع اور حضرت مرزا مظہر جان جاناں کے مرید تھے۔ 1773ء میں پیدا ہوئے اور 1824ء میں وفات پائی۔ (اسماعیل) ۲۔ حضرت شاہ عبدالعزیز، مجدد وقت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فرزند اور بہت بڑے عالم و فاضل بزرگ تھے۔ ہزاروں تشنگان علم آپ کے فیوض و برکات سے مستفید ہوئے ۔ زہد و تقویٰ اور فضل و کمال میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے۔ اپنے مقدس باپ کے نہایت صحیح جانشین تھے۔ تحفہ اثنا عشریہ ان کی مشہور کتاب ہے۔ تفسیر فتح العزیز بھی قرآن پاک کی تفاسیر میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ 1746ء میں بمقام دہلی پیدا ہوئے اور وہیں 1824ء میں انتقال فرمایا۔ (اسماعیل) توھمات سے نفرت تھی سید حامد اور سید محمود میرے دونوں بیٹوں کو بھی ان کے ننہیال والوں نے وہ گنڈہ پہنایا مگر میری والدہ کو یہ خیال تھا کہ اس گنڈہ کے سبب سے انڈا یا مرغی نہ کھانا اور یہ سمجھنا کہ اگر کھاویں گے تو کوئی آفت آوے گی، خدا پر ایمان رکھنے کے برخلاف ہے۔ وہ ان دونوں لڑکوں کو جب کبھی وہ ان کے ساتھ کھاتے اور کوئی ایسی چیز بھی موجود ہوتی جس میں انڈا پڑا ہو یا مرغی کا سالن یا مرغ پلائو ہوتا تو بے تامل ان کو کھلا دیتیں ۔ وہ لڑکے پراٹھے اور انڈا پسند کرتے تھے۔ بے تامل ان کو پکوا کر کھلا دیتی تھیں۔ والدہ کی ایک قابل قدر نصیحت میں جب دلی میں منصف تھا تو میری والدہ مجھ کو نصیحت کرتی تھیں، جہاں جہاں تم جانا لازمی سمجھتے ہو اور ہر حالت میں تم کو وہاں جانا لازمی ہو گا تو تم وہاں کبھی سواری پر جایا کرو کبھی پیادہ پا۔ زمانہ کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ کبھی کچھ ہے اور کبھی کچھ۔پس ایسی عادت رکھو کہ ہر حالت میں اس کو نباہ سکو۔ چنانچہ میں نے جامع مسجد اور حضرت شاہ غلام علی صاحب کی خانقاہ میں جانے کا یہی طریقہ اختیار کیا تھا کہ اکثر دونوں جگہ پیدل جاتا تھا اور کبھی سواری پر۔ دوستی کو نبہانے کی وصیت میرے بھائی سید محمد خاں1 اور ۱۔ سید محمد، سرسید کے بڑے بھائی اور نہایت زندہ دل، خوش وضع اور شگفتہ مزاج شخص تھے۔ 1810ء میں پیدا ہوئے اور 1846ء میں انتقال کیا۔ ہنگام ضلع فتح پور میں منصف تھے۔ ریٹائر ہونے کے بعد دہلی سے سید الاخبار نامی ایک اعلیٰ درجہ کا اردو اخبار 1837ء میں جاری کیا جو 1850ء تک جاری رہا۔ سرسید کی صحافتی زندگی کی ابتدا اسی اخبار سے ہوئی اور بھائی کے انتقال کے بعد سرسید ہی اسے نکالتے رہے۔ (اسماعیل) حکیم غلام نجف1 سے بہت دوستی تھی۔ آپس میں بھائی بھائی کہتے تھے۔ میں بھی ان کو اپنے بڑے بھائی کے برابر سمجھتا تھا۔ سید محمد خاں کے انتقال کے بعد جب میں دہلی میں منصف ہو کر آیا تو میں اسی طرح حکیم غلام نجف صاحب سے ملتا تھا۔ ہفتہ میں دو روز ان کے پاس جاتا تھا اور وہ بھی وقت معین میں میرے پاس ہوتے تھے۔ اتفاقاً حکیم غلام نجف صاحب کچھ ناراض ہو گئے۔ میں بدستور ان کے پاس جاتا رہا اور ملتا رہا مگر انھوں نے آنا چھوڑد یا۔ بہت دنوں تک میں نے اس کا کچھ خیال نہ کیا۔ آخر کو میں نے بھی ان کے ہاں جانا بہت کم کر دیا۔ ایک دفعہ میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ ’’ میں سمجھتی ہوں کہ تم اب حکیم غلام نجف کے پاس بہت کم جاتے ہو اس کا کیا سبب ہے۔‘‘ میں نے جو بات تھی وہ کہی۔ انھوں نے کہا ’’نہایت افسوس ہے کہ جس بات کو تم اچھا نہیں سمجھتے وہی بات تم بھی کرتے ہو۔ جہاں دوستی ہے اس کو پورا کرنا چاہیے۔ یہ تمہارا فرض ہے اور اس دوست کو دوستی کا پورا برتائو کرنا اس کا فرض ہے تم دوسرے شخص کے فرض کے ادا کرنے کے کیوں ذمہ دار ہوتے ہو۔ تم کو بدستور ملنا اور اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ اس سے تم کو کیا کہ دوسرا بھی اپنا فرض ادا کرتا ہے یا نہیں۔‘‘ مذہبی عقائد کی پاکیزگی اس زمانہ میں کہ میرے خیالات مذہبی محتقانہ اصول پر ہیں اس وقت بھی میں اپنی والدہ کے عقائد میں حکیم غلام نجف خاں اپنے عہد کے بہت بڑے طبیب اور فضلائے عصر میں سے تھے۔ بہادر شاہ ظفف نے آپ کو عضہ الدولہ کا خطاب دیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے دارالسلطنت دہلی کے سرکاری طبیب مقرر ہوئے۔ غالب سے بہت گہرے تعلقات تھے اور آپ فن شعر میں ان کے شاگرد بھی تھے۔ 1869ء میں زندہ تھے۔ (اسماعیل) کوئی ایسا عقیدہ جس پر کسی قسم کے شرک یا بدعت کا اطلاق ہو سکے نہیں پاتا۔ بجز ایک عقیدہ کے کہ وہ سمجھتی تھیں کہ عبادت بدنی یعنی قرآن مجید پڑھ کر بخشنے کا یا فاتحہ دے کر کھانا تقسیم کرنے کا ثواب مردے کو پہونچتا ہے۔ میں ان دونوں باتوں کا قائل نہیں ہوں۔ عبادت بدنی میں تو میں نیابت کا قایل نہیں ہوں اور عبادت مالی میں بھی بجز اس صورت کے کہ متوفی اپنی زندگی میں کچھ مال کسی کار خیر کے لیے کسی کے سپرد کر جاوے نیابت کا قائل نہیں ہوں۔ تعجب ہے کہ میرا عقیدہ اس زمانے کے وھابیوں یا اہل حدیث سے بھی زیادہ سخت ہے۔ کیوں کہ گو وہ عبادت بدنی کے ثواب پہنچنے میں مختلف ہیں مگر ہر حالت میں عبادت مالی کے ثواب پہونچنے میں سب کو اتفاق ہے۔ صبر و استقلال کی عادت ایک امر جو نہایت صبر و استقلال کا ان سے ظہور میں آیا وہ نہایت ہی عجیب ہے اور بہت کم اس کی نظر مل سکتی ہے۔ سید محمد خاں ان کے بڑے بیٹے نے سینتیس (37) اڑتیس (38) برس کی عمر میں انتقال کیا۔ میری والدہ اور تمام لوگ چھوٹے بڑے ان کے زمانۂ بیماری میں بیمار داری اور علاج معالجہ میں مصروف تھے۔ میری والدہ ہر وقت ان کے پاس بیٹھی رہتی تھیں۔ قریب ایک مہینے کے وہ بیمار رہے آخر کار ایک دن صبح کے وقت ان کا انتقال ہو گیا۔ سب لوگ گریہ وز اری کرنے لگے۔ جو رنج و غم ان کو ہوا ہو گا ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ کسی کو نہ ہوا ہو گا۔ بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو نکلتے تھے۔ لیکن اسی حالت میں انھوں نے کہا کہ ’’خدا کی مرضی‘‘ اور وضو کر کے صبح کی نماز پڑھنے لگیں اور اشراق تک مصلے پر سے نہیں اٹھیں۔ میں اس زمانہ میں فتح پور سیکری میں منصف تھا۔ اس واقعہ کے بعد میں دہلی میں اپنی تبدیلی کرا لی۔ اتفاق سے بعض رشتہ داروں کی ایک بیٹی کی شادی اسی زمانہ میں قرار پا چکی تھی اور صرف چار دن شادی کے باقی رہے تھے اور وہ تمام سامان شادی کا کر چکی تھیں کہ سید محمد خاں کا انتقال ہو گیا اور جیسا کہ دستور ہے ان لوگوں نے اس لڑکی کی شادی کو ملتوی کرنا چاہا۔ میری والدہ تیسرے دن اپنے بڑے بیٹے کے انتقال کے بعد اور ایسے سخت صدمہ کی حالت میں خود ان رشتہ داروں کے گھر میں گئیں اور کہا کہ ’’میں تمہاری بیٹی کی شادی میں آئی ہوں۔ تین دن سے زیادہ ماتم رکھنے کا حکم نہیں ہے۔ شادی کے ملتوی کرنے سے تمہارا بڑا نقصان ہو گا اور جو امر خدا کو منظور تھا وہ ہو چکا تم ہر گز شادی کو ملتوی مت کرو اور جب کہ میں خود تمہارے گھر میں آئی ہوں اور شادی کی اجازت دیتی ہوں تو اور کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔‘‘ دیگر خصائل حمیدہ اگر لوگ ان باتوں پر غور کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ میری والدہ کیسی عالی خیال اور نیک صفات اور عمدہ اخلاق ، دانش مند اور دور اندیش ، فرشتہ صفت بی بی تھیں اور ایسی ماں کا ایک بیٹے پر جس کی اس نے تربیت کی ہو کیا اثر پڑتا ہے۔ درگزر کرنے کی نصیحت وہ مجھ کو نصیحت کرتی تھیں کہ ’’اگر کسی نے ایک دفعہ تمہارے ساتھ نیکی کی اور پھر برائی کرے یا دو دفعہ نیکی کی ہو اور دو دفعہ برائی کرے تو تم کو آزردہ نہ ہوا چاہیے۔ کیوں کہ ایک یا دو دفعہ کی نیکی اور ایک یا دو دفعہ کی برائی برابر ہو گئی۔ مگر نیکی ایسی چیز ہے کہ اس کے بعد نیکی کرنے والا کیسی ہی برائی کرے اس کی نیکی کے احسان کو بھلایا نہیں جا سکتا۔‘‘ غدر 1857ء کی المناک مصیبت مگر افسوس ہے کہ ایسی نیک بی بی کو اخیر عمر میں تکلیف پہنچی۔ جس زمانہ میں غدر ہوا میں بجنور میں صدر امین تھا اور میری والدہ اور گھر کے لوگ اور بچے اور سب عزیز و اقارب دہلی میں تھے۔ وہ زمانۂ غدر میں لوگوں سے کہتی تھیں کہ ’’انگریز تھوڑے دنوں میں پھر آ جاویں گے۔ تم سب خاموش اپنے گھروں میں بیٹھے رہو۔ جو لوگ فساد میں شریک نہ ہوں گے انگریز ان کو کچھ نہیں کہنے کے۔ ‘‘ ان کو یقین کامل تھا کہ ’’انگریز بجز ان کے جنھوں نے فساد کیا ہے کسی کو کچھ تکلیف نہیں دینے کے، جب زمانہ فتح دہلی قریب ہوا اور کشمیری دروازہ فتح ہو گیا، سب زن و مرد شہر سے باہر چلے گئے مگر وہ اور ان کی ایک بہن جو نابینا تھیں اسی یقین پر کہ انگریز بے گناہوں کو نہیں ستانے کے، اپنے گھر سے نہیں گئیں۔ مگر افسوس کہ ان کا خیال غلط نکلا اور جب دہلی فتح ہوئی تو سپاہی گھروں میں گھس آئے۔ تمام گھر لوٹ لیا۔ وہ معہ اپنی بہن کے حویلی کو چھوڑ کر اس کوٹھڑی میں چلی آئیں جس میں زیبا لاوارث بڑھیا رہتی تھی۔ آٹھ دس دن انھوں نے نہایت تکلیف سے بسر کیے۔ اس عرصہ میں راقم جو میرٹھ میں آ گیا تھا۔ میرٹھ سے دہلی پہنچا اور اپنی والدہ کے پاس گیا۔ اس وقت تین دن سے ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔ گھوڑے کا دانہ کچھ مل گیا اسی پر بسر تھی۔ دو دن سے پانی بھی ختم ہو چکا تھا اور پانی کی نہایت تکلیف تھی۔ میں نے کوٹھڑی کا دروازہ کھٹکھٹایا اور آواز دی۔ انھوں نے دروازہ کھولا۔ پہلا لفظ جو ان کی زبان سے نکلا یہ تھا کہ ’’تم یہاں کیوں آ گئے۔ یہاں تو لوگوں کو مار ڈالتے ہیں۔ تم چلے جائو ہم پر جو گذرے گی ، گذرے گی۔‘‘ میں نے کہا آپ خاطر جمع رکھیے مجھے کوئی نہیں مارے گا۔ میرے پاس سب حاکموں کی چٹھیاں ہیں اور میں ابھی قلعہ کے انگریزوں اور دہلی کے گورنر سے مل کر آیا ہوں۔ ان کو طمانیت ہوئی اور معلوم ہوا کہ دو دن سے پانی مطلق نہیں پیا ہے۔ میں پانی کی تلاش کو نکلا۔ اس طرف کہیں پانی نہیں ملا۔ کنوئوں پر کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے پانی نکالا جا سکے۔ ناچار پھر قلعہ میں گیا اور وہاں سے ایک صراحی پانی کی لے کر چلا۔ جب اپنے گھر کے قریب کے بازار میں پہنچا تو دیکھا کہ وہی لاوارث بڑھیا سڑک پر بیٹھی ہے اور اس کے ہاتھ میں مٹی کی صراحی اور آبخورہ ہے اور کسی قدر بدحواس ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ بھی پانی کی تلاش کو نکلی تھی۔ تھوڑی دور چل کر بیٹھ گئی اور پھر اٹھا نہ گیا۔ مجھ کو معلوم تھا کہ وہ بھی پیاسی ہے۔ دو دن سے پانی نہیں ملا۔ میں نے اس کے آبخورے میں پانی دیا اور کہا، پانی پی لے۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے آبخورہ کا پانی صراحی میں ڈالا اور کچھ گرا دیا اور گھر کی طرف اشارہ کیا اور کچھ کہا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ بیگم صاحب پیاسی ہیں ان کے لیے پانی لے جائوں گی اور اسی غرض سے پانی صراحی میں ڈالتی تھی۔ میں نے کہا ’’میرے پاس پانی بہت ہے میں لے آیا ہوں تو پانی پی لے، پھر آبخورہ میں پانی دیا اس نے پیا اور لیٹ گئی۔ میں جلدی جلدی گھر کی طرف آیا اور اپنی والدہ اور خالہ کو تھوڑا تھوڑا پانی پینے کو دیا۔ انھوں نے خدا کا شکر کیا۔ اب میں گھر سے نکلا کہ کچھ سواری کا بندوبست کر کے ان کو میرٹھ لے جائوں۔ جب اس مقام پر پہنچا جہاں بڑھیا زیبا لیٹی تھی تو معلوم ہوا کہ وہ مر چکی ہے۔ سارے شہر میں باوجودیکہ حکام نے بھی احکام جاری کیے لیکن کہیں سواری نہ ملی۔ آخر کار حکام قلعہ نے اجازت دی کہ شکرم جو سرکاری ڈاک میرٹھ کو لے جاتی ہے، مجھ کو دے دی جائے۔ میں وہ شکرم لے کر گھر پر آیا اور اپنی والدہ اور خالہ کو اس میں بٹھا کر میرٹھ لے آیا۔ منشی الطاف حسین صاحب سررشتہ دار کمشنری میرٹھ نے جو میرے ساتھ بچپن سے کھیلے ہوئے تھے اور ان کے خاندان اور میرے خاندان سے ارتباط قدیمی تھا، میرے رہنے کو ایک مکان خالی کر دیا۔ میں ہمیشہ ان کے اس احسان کو یاد رکھتا ہوں۔ وفات اس تکلیف سے میری والدہ کی طبیعت جادۂ اعتدال سے منحرف ہو گئی اور صفرا کی نہایت شدت ہو گئی۔ جو دوا یا غذا دی جاتی وہ قے ہو جاتی تھی۔ کبھی اس مرض میں کچھ تخفیف ہو جاتی کبھی شدت ہو جاتی۔ آخر کار اسی مرض میں یکم ربیع الثانی 1274ھ مطابق 1857ء کے انھوں نے بمقام میرٹھ انتقال کیا۔ مگر ان کی نیک نیتی کا یہ نتیجہ تھا کہ انتقال سے چند روز پیشتر ان کی بیٹی اور نواسیاں اور پوتے اور پوتیاں اور بہوویں جو مختلف مقامات میں چلی گئی تھیں، سب ان کے پاس میرٹھ میں جمع ہو گئی تھیں اور انھوں نے سب کو صحیح و سالم اور خیر و عافیت سے دیکھ کر نہایت خوشی ظاہر کی تھی۔ آخری وصیت انھوں نے انتقال سے ایک روز پہلے صرف دو وصیتیں مجھ کو کیں۔ ایک یہ کہ ان کو بغلی قبر میں جو مسنون ہے دفن کیا جائے۔ دوسری یہ بات کہی کہ ان کے ذمہ نہ تو کوئی روزہ قضا ہے اور نہ کوئی نماز قضا کی ہے۔ صرف ان ہی دنوں کی نمازیں اگرچہ میں نے پڑھی ہیں لیکن اگر میں زندہ رہتی تو ان کی بھی قضا پڑھتی ۔ میرے مرنے کے بعد تم اس قدر دنوں کی نمازوں کا حساب کر کے کفارہ کے گیہوں غریبوں کو دے دینا۔ جب کہ دوسرے دن انھوں نے قضا کی تو میں نے ان کی دونوں وصیتوں کو پورا کیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ تمت بالخیر اطلاع اگرچہ یہ کتاب قلیل الاجزاء ہے مگر اس کی قمیت ایک روپیہ قرار پائی ہے اس لیے کہ جس قدر کتابیں فروخت ہوں گی ان کی قیمت مدرستہ العلوم مسلمانان علیگڑھ کو دی جائے گی پس خریدار اس کی قیمت کو گراں نہ سمجھیں گے بلکہ یہ کہیں گے ؎ سفال چند دادم جاں خریدم تعالیٰ اللہ زھے ارزاں خریدم سید احمد ضمیمہ چند متفرق تحریریں ۔ نوٹ اور یادداشتیں مرقومہ سرسید احمد خاں مرحوم جب میں ’’مقالات سرسید‘‘ کا یہ سولھواں اور آخری حصہ مرتب کر رہا تھا تو اس دوران میں مجھے سرسید مرحوم کی چند ایسی نادر و نایاب تحریریں اور یادداشتیں دستیاب ہوئیں جو اس سے قبل ’’مقالات سرسید‘‘ کے کسی حصہ میں شامل نہیں ہوئی تھیں۔ چونکہ ’’مقالات سرسید‘‘ کی ترتیب کا مقصد یہ تھا کہ سرسید کے وہ تمام مضامین یک جا جمع کر دیے جائیں جو کسی نہ کسی موضوع پر سرسید نے کسی وقت لکھے تھے۔ اس لیے یہ فراہم شدہ تحریریں بھی ’’مقالات سرسید‘‘ حصہ شانز دھم کے آخر میں بطور ضمیمہ شامل کی جا رہی ہیں۔ اگر کسی صاحب ذوق بزرگ کے پاس سرسید کی کوئی ایسی تحریر محفوظ ہو جو ان مقالات میں درج نہیں ہوئی، تو براہ کرم مجھے اس کی نقل مع حوالہ کے بھیج دیں تاکہ مقالات کے آئندہ ایڈیشن میں وہ کتاب میں درج کر دی جائے۔ اس عنایت کے لیے میں ایسے تمام حضرات کا نہایت درجہ شکر گزار ہوں گا۔ 15 اکتوبر 1965ع خاکسار محمد اسماعیل پانی پتی رام گلی ۳۔ لاہور۔ ایک تعلیمی اعلان از طرف صدر کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان ہندوستان (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۲ بابت 15شوال 1287ھ) اس کمیٹی کو یہ مطلوب ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس بات کے وجوہ و اسباب کو کما ینبغی دریافت کرے کہ سرکاری کالجوں اور اسکولوں اور تحصیلی اور حلقہ بندی مکتبوں میں مسلمان طالب علم کس لیے نہایت کم پڑھتے ہیں اور نیز عموماً مسلمانوں میں تحصیل علوم قدیمہ کیوں گھٹ گئی ہیں اور تحصیل علوم جدیدہ نے کیوں نہیں رواج پایا۔ اور یہ بھی کمیٹی کی خواہش ہے کہ جو وجوہ امور مذکورہ بالا کے تجویز ہوں ان میں سے ہر ایک کے رفع کرنے اور اصلاح کرنے کی تدبیریں بھی دریافت کرے اور ان کے عمل درآمد ہونے پر کوشش کرے تاکہ موانع ترقی تعلیم مسلمانان مرتفع ہو جاویں۔ اس لیے ہر ایک مسلمان شخص سے جو امور مذکورہ بالا پر تحریری رائے دینی چاہے کمیٹی کی یہ درخواست ہے کہ وہ ایک رسالہ مضمون مذکورہ بالا پر مطابق ہدایات اور شرائط مندرجہ ذیل کے لکھ کر سیکرٹری کمیٹی کے پاس بھیج دے اور تمام رسالے جو اس طرح پر سیکرٹری کے پاس پہنچیں گے روبرو ممبران سلیکٹ کمیٹی کے پیش ہوں گے اور ممبران سلیکٹ کمیٹی ان رسالوں کو خوب امتحان کر کر اور حسب دل خواہ جانچ کر اس کے مصنفوں میں سے اس مصنف کو جس نے سلیکٹ کمیٹی کی رائے میں سب سے عمدہ رسالہ لکھا ہو گا انعام اول تعدادی پانچ سو روپیہ کا اور اس مصنف کو جس کا رسالہ اس سب سے عمدہ رسالہ کے بعد کا درجہ رکھتا ہو گا انعام دوم تعدادی تین سو روپیہ کا اور اس مصنف کو جس کا رسالہ اس دوسرے درجہ کے بعد درجہ رکھتا ہو گا انعام سوم تعدادی ڈیڑھ سو روپیہ کا مستحق قرار دیں گے اور یہ کمیٹی انعام مجوزہ ان مصنفوں کو عطا فرماوے گی اس لیے اشتہار کیا جاتا ہے کہ جس مسلمان شخص کو ایسا رسالہ لکھنے کی خواہش ہو لکھ کر بھیج دے۔ ہدایات اور شرائط جن کے مطابق وہ رسالہ لکھا جاوے گا یہ ہیں۔ ۱۔ ضرور ہے کہ مصنف رسالہ کا مسلمان ہو۔ ۲۔ ضرور ہے کہ وہ رسالہ اردو زبان اور صاف خط میں لکھا جاوے۔ ۳۔ تقطیع اس کاغذ کی جس پر رسالہ لکھا جاوے بہ قدر ت تقطیع فل سکیپ کاغذ کے ہو اور اس کا دایاں حاشیہ یعنی پشتی ایک انچھ سے اوپر اور نیچے کا اور بایاں حاشیہ ڈیڑھ ڈیڑھ انچھ سے زیادہ نہ چھوڑا جاوے اور فی صفحہ اکیس سطر سے کم نہ ہو اور کتابی قلم سے تحریر کیا جاوے اور مقدار رسالہ کی سو صفحہ یعنی پچاس ورق سے کم نہ ہو۔ ۴۔ اس رسالہ کے چار حصے ہونے چاہئیں پہلے حصہ میں گورنمنٹ کالجوں اور سکولوں کے متعلق بحث ہو جہاں تعلیم علوم بہ زبان انگریزی ہوتی ہے اور نیز درسی زبان اردو، فارسی، عربی، سنسکرت بھی سکھائی جاتی ہے۔ دوسرے حصے میں تحصیلی اور حلقہ بندی مکتبوں کی بحث ہو، جن میں غالباً بذریعہ اردو یا ہندی زبان کے تعلیم ہوتی ہے۔ حصہ تیسرے میں مسلمانوں میں عموماً تحصیل جدیدہ کے نہ رواج پانے سے بحث کی جاوے اور ہر بحث کے متعلق جو موانع ترقی تعلیم مسلمانان ہیں اور جو ان کے علاج ہیں سلسلہ وار ایک نہایت عمدہ ترتیب سے جس طرح کہ مصنف کی رائے اقتضاء کرے تحریر کی جاویں۔ ۵۔ ہر ورق پر مصنف کو اپنا دستخط اور خاتمہ پر اپنا پورا نام و لقب صاف خط میں مع قید مقام پر گنہ و ضلع یعنی جس پتہ سے کہ اس کو جواب پہنچ سکے تحریر کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص بلا تحریر نام و نشان کوئی رسالہ بھیجے گا وہ بھی کمیٹی میں پیش ہو گا اور اس کے وجوہات پر بھی لحاظ کیا جاوے گا۔ الا مصنف کسی حالت میں مستحق انعام نہ ہوگا۔ ۶۔ ہر مصنف کو لازم ہو گا کہ اپنے رسالہ کو لفافہ مستحکم میں بند کر کے اور کل محصول ادا کر کے سیکرٹری کمیٹی کے نام اس طرح پر روانہ کرے کہ یکم جولائی 1871ء تک یا اس کے قبل سیکرٹری کے پاس پہنچ جاوے۔ ۷۔ اگر کوئی مصنف شرائط مذکورہ بالا کی تعمیل میں قاصر ہو گا تو وہ مستحق انعام تصور نہ کیا جاوے گا۔ ۸۔ جو ممبران سلیکٹ کمیٹی ہوں ان میں سے کوئی ممبر رسالہ مذکورہ بالا نہ لکھے گا اور نہ کسی مصنف کو اپنی رائے نسبت مراتب مذکورہ بتلاوے گا اور نہ کوئی مصنف جس نے مذکورہ بالا رسالہ لکھا ہو سلیکٹ کمیٹی کا ممبر ہو سکے گا الا اس کے سوا اور کسی کو بھی رسالہ مذکوہ لکھنے سے امتناع نہیں ہے۔ ۹۔ سلیکٹ کمیٹی کے ممبر بھی اگر بلا ثبت نام کہ جس کے سبب وہ مستحق انعام نہ رہیں گے رسالہ لکھ کر پیش کرنا چاہیں تو اس سے ممتنع نہیں ہیں۔ ۱۰۔ رسالہ ھائے انعامی کے حق تصنیف کی مالک کمیٹی ہو گی اور اس کو ان کے چھپوانے کا یا اور کسی طرح پر مشتہر کرنے کا اور ان سے فائدہ اٹھانے کا جس طرح کہ وہ چاہے بالکلیہ اختیار ہو گا۔ سرسید احمد خاں سیکرٹری کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان ہندوستان بمقام بنارس۔ مرقوم ۲۶ دسمبر7 187َََََََ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تہذیب الاخلاق کا پہلا سوا برس سرسید نے اپنے ماہوار رسالہ تہذیب الاخلاق کا پہلا شمارہ یکم شوال 1287ھ کو نکالا تھا۔ 15ذی الحجہ 1287ھ کو اس کی پہلی سہ ماہی ختم ہو گئی اور یکم محرم 1288ھ سے دوسری جلد کا آغاز ہوا اور 15ذی الحجہ 1288ء کو ختم ہوئی۔ اس سوا برس کے عرصہ میں تہذیب الاخلاق نے جو کام کیا اس کی پوری تفصیل سرسید نے مندرجہ ذیل مضمون میں بیان کی ہے۔ جو رسالہ تہذیب الاخلاق جلد 2نمبر بابت ذی الحجہ 1288ھ کے صفحہ 188، 189پر شائع ہوئی ہے اور اردو صفحات کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے پر از معلومات ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ہمارا یہ پرچہ 1288ہجری نبوی صلعم کا اخیر پرچہ ہے اس پرچہ کے اجرا کو پورا سوا برس ہوا اور خدا کی عنایت سے مضامین مفید اس میں مندرج ہوئے اور ایک گونہ نفع بھی اس سے ہوا۔ یہ بات ظاہر ہے کہ جو مضامین اس پرچہ میں مندرج ہوتے ہیں وہ رسم قدیم یا غلط خیالات مذہبی کے برخلاف ہوتے ہیں اور اس سبب سے توقع تھی کہ یہ پرچہ زمانہ حال میں نہایت درجہ پر نامطبوع بلکہ مبغوض عام ہو گا۔ گو تھوڑے زمانہ بعدلوگ اس کی قدر کریں گے اور اس کے ایک ایک پرچہ کو کاغذ زر سے بھی زیادہ قیمتی سمجھیں گے مگر ہم کو اس بات کے دیکھنے سے کہ بعض صاحب اسی زمانہ میں اس کو پسند کرنے لگے ہیں نہایت تعجب اور حد سے زیادہ خوشی ہوئی ہے اور ہماری دعا خدا تعالیٰ سے یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس پرچہ کے اصلی مقاصد و مطالب کی طرف متوجہ کرے تاکہ وہ اپنے مذہب اسلام کی اصلی خوبی اور خوبصورتی سے واقف ہوں اور ایمان تقلیدی آبائی سے ایمان تحقیقی قلبی تک ان کی رسائی ہو اور حسن معاشرت و تہذیب و شائستگی کے اعلیٰ درجہ پر بھی عروج کریں۔ از من دعا و ازخدائے جہاں آمین باد۔ بالنبی و الہ الامجاد۔ اب ہم اس پرچہ میں ان مضامین کی فہرست مندرج کرتے ہیں جو اس سوا برس کے عرصہ میں طبع ہوئے ہیں تاکہ ہر شخص کو ان پر نظر ڈالنے اور اوراق اخبار میں سے نکالنے میں آسانی ہو۔ فہرست مضامین سہ ماہی سنہ 1287ہجری نمبر نام مضمون نام مصنف نمبر صفحہ ۱۔ تمہید سید احمد ۱ ۲۔ رسم و رواج سید احمد ۳ ۳۔ تعصب سید احمد ۵ ۴۔ تکمیل سید احمد ۷ ۵۔ مذہب اور عام تعلیم سید احمد ۹ ۶۔ انسان کے خیالات سید احمد ۱۲ ۷۔ ٹرکی یعنی روم کی مجلسیں سید احمد ۱۴ ۸۔ ہمدردی سید احمد ۱۷ ۹۔ رسم و رواج کے نقصانات سید احمد ۱۹ ۱۰۔ ہیئت جدیدہ اور اسلام منشی مشتاق حسین ۲۳ ۱۱۔ اسلام مولوی مہدی علی ۲۵ ۱۲۔ انظر الی ما قال مرزا عابد علی بیگ ۳۴ ۱۳۔ توکل منشی مشتاق حسین ۳۵ ۱۴۔ آزادی رائے سید احمد ۳۷ ۱۵۔ خیر دائم سید احمد ۴۶ ۱۶۔ آپ کام مہا کام منشی مشتاق حسین ۴۶ ۱۷۔ دیباچہ خطبات احمدیہ سید احمد ۴۹ ۱۸۔ کن کن چیزوں میں تہذیب چاہیے سید احمد ۵۸ ۱۹۔ مصر اور اس کی تہذیب سید احمد ۶۱ ۲۰۔ تربیت اطفال سید احمد ۶۵ ۲۱۔ نظامیہ سلسلہ تعلیم سید احمد ۶۷ ۲۲۔ نماز عیدالفطر بمقام لندن منشی مشتاق حسین ۶۸ فہرست مضامین سنہ 1288ہجری ۲۳۔ دنیا اور دین کا رشتہ سید احمد ۱ ۲۴۔ دوستی سید محمود ۳ ۲۵۔ تقلید مروجہ کی مضرت محمد عبدالغفور ۴ ۲۶۔ طلب علم مرزا عابد علی ۶ ۲۷۔ تدبیر فلاح عنایت الرحمن ۸ ۲۸۔ طبقات علوم الدین سید احمد ۹ ۲۹۔ عبادت سید احمد ۱۱ ۳۰۔ شیریں زبانی منشی مشتاق حسین ۱۴ ۳۱۔ امام حجتہ الاسلام غزالی مولوی مہدی علی ۱۷ ۳۲۔ تقویٰ منشی مشتاق حسین ۲۴ ۳۳۔ سید خیر الدین وزیر اور ان کی کتاب اقوم المسالک سید احمد ۲۵ ۳۴۔ تعلیم قومی مرزا خدا داد ۳۰ ۳۵۔ حکایت ایک نادان خدا پرست اور ایک دانا دنیا دار کی سید احمد ۳۳ ۳۶۔ دین کی تحریف مولوی مہدی علی ۳۷ ۳۷۔ تقلید و عمل بالحدیث مولوی مہدی علی ۴۱ ۳۸۔ شدت اتقا سید محمود ۷۸ ۳۹۔ عام تعلیم پرشیا میں سید احمد ۸۰ ۴۰۔ غلا می سید احمد ۸۱ ۴۱۔ عورتوں کے حقوق سید احمد ۸۷ ۴۲۔ مصلحان معاشرت مسلمانان سید احمد ۸۹ ۴۳۔ غیر مفید تعلیم سید احمد ۹۳ ۴۴۔ علم اور اس کی تعلیم عنایت الرحمن ۹۴ ۴۵۔ تعلیم سید محمود منشی مشتاق حسین ۹۵ ۴۶۔ ترک سید احمد ۹۷ ۴۷۔ خدیو مصر کی محل سرا سید احمد ۹۹ ۴۸۔ طریقۂ زندگی سید احمد ۱۰۱ ۴۹۔ ترقی تہذیب الاخلاق منشی مشتاق حسین ۱۰۲ ۵۰۔ اعتدال منشی مشتاق حسین ۱۰۵ ۵۱۔ دوستی کا برتائو سید محمود ۱۱۰ ۵۲۔ ابطال غلامی یعنی تبریۃ الاسلام عن شین الامۃ و الغلام سید احمد ۱۱۵ ۵۳۔ کتب احادیث سید احمد ۱۶۱ ۵۴۔ تفسیر بالرائے مولوی سید مہدی علی ۱۶۴ ۵۵۔ وجود آسمان مولوی سید مہدی علی ۱۶۴ ۵۶۔ طعام اھل کتاب مولوی سید مہدی علی ۱۶۸ ۵۷۔ احادیث غیر معتمد سید احمد ۱۶۹ ۵۸۔ نطبیق منقول با معقول مولوی سید مہدی علی ۱۷۲ ۵۹۔ ترقی علوم سید احمد ۱۷۸ ۶۰۔ اعتقادی باللہ سید احمد ۱۸۰ ۶۱۔ اقسام حدیث سید احمد ۱۸۱ ۶۲۔ تعلیم مذہبی سید احمد ۱۸۵ ۶۳۔ علوم جدیدہ سید احمد ۱۸۶ حساب جمع خرچ بابت سوا برس کے ہمارے ناظرین اس پرچہ کی اس بات سے واقف ہیں کہ یہ پرچہ بہ طور کار خیر واسطے فلاح اور بہبودی مسلمانوں کے جاری کیا گیا ہے۔ اس کے اجرا سے کسی کو فائدہ ذاتی یا مالی مقصود نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے قاعدہ اول میں یہ بات قرار پائی ہے کہ جس قدر روپیہ بابت اس پرچہ کے بہ طور چندہ خواہ بہ طور قیمت وصول ہو وہ کسی شخص کی ملکیت نہ ہو گا بلکہ اس پرچہ کے اجراء و ترقی میں صرف کیا جاوے گا۔ اس لیے سالانہ حساب جمع خرچ اس پرچہ کا مشتہر کیا جاتا ہے تاکہ تمام ممبر اور ناظرین پرچہ کے اس سے واقف ہوں۔ اس سوا برس کے عرصہ میں یعنی ابتدا شوال سنہ 1288 ہجری لغایت آخر سال 1289ہجری 1694روپے 12آنے 6پائی بابت چندہ و قیمت پرچہ ھذا وصول ہوئے اور 1118روپے 3آنے 6پائی خرچ ہوئے اور 576روپے 9آنے باقی ہیں۔ جس کی تفصیل حساب مندرجہ ذیل میں ثبت ہے۔ ہم نے یہ دستور رکھا ہے کہ حساب جمع خرچ سالانہ پندرھویں ذی قعدہ کو کہ وہ تاریخ اس سال کے اخیر پرچہ کے اجرا کی ہوتی ہے بند کر دیتے ہیں تاکہ اسی تاریخ کے پرچہ میں حساب سالانہ مندرج ہو جایا کرے۔ اس تاریخ کے بعد کچھ آمدنی یا خرچ ہو تو سال آئندہ کے حساب میں شامل ہو جاوے گی۔ زر باقی جو اوپر مذکور ہوئی اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ واقعی اور حقیقی بچت آمدنی سال گذشتہ کی ہے بلکہ اس آمدنی میں وہ روپیہ بھی شامل ہے جو خریداروں نے پیشگی لغایت آخر سنہ 1289 ہجری بھیج دیا ہے۔ پس گویا ان خریداروں کا روپیہ پیشگی ہم پر قرض ہے اور اس کا ادا جب ہو گا کہ ہم برابر اس پرچہ کو لغایت آخر سال مذکور ان کے پاس بھیجتے رہیں گے۔ زر بقیہ مذکورہ کسی طرح واسطے اجرائے پرچہ لغایت آخر سنہ 1289ہجری کافی نہیں ہے اس لیے اس پرچہ کے مربیون اور ممبروں سے یہ درخواست ہے کہ بدستور اپنی امداد واسطے اجرائے اس پرچہ کے جاری رکھیں اور اور مسلمانوں سے بھی درخواست کی جاتی ہے کہ اس پرچہ کے اجرا میں خواہ بذریعہ خریداری خواہ بذریعہ شرکت بہ طور ممبری اعانت فرماویں۔ گذشتہ سال میں اس پرچہ کے ممبروں نے اپنا زر چندہ یک سالہ ابتدائے شوال سنہ 1287 ہجری لغایت آخر رمضان سنہ 1288ہجری ادا کیا تھا۔ مگر جو کہ کسی قدر آسانی آمدنی قیمت اخبار کی بھی ہوئی اس لیے سہ ماہی آخر سنہ 1288 ہجری یعنی شوال اور ذی قعدہ اور ذوالحجہ سنہ 1288 ہجری کا چندہ ممبروں سے لینا ضروری معلوم نہیں ہوا اور اس لیے یہ بات مناسب معلوم ہوئی کہ آیندہ سے جو ممبر اپنا چندہ عنایت فرماویں گے وہ ابتدائے محرم سنہ 1289 ہجری سے آخر سال مذکور تک شمار میں آوے گا اور اس تدبیر سے گویا پندرہ روپیہ کی ہر ایک ممبر کو تخفیف ہو جاوے گی۔ ہم کو خدا سے امید ہے کہ ہمارا یہ پرچہ مدتوں تک جاری رہے گا اور مسلمان اس سے بہت کچھ دینی اور دنیوی فائدہ اٹھاویں گے۔ گو اس وقت اس پرچہ کے مضامین بہت لوگوں کو برے معلوم ہوتے ہوں گے لیکن وہ زمانہ بہت قریب ہے کہ ان ہی مضمونوں کو لاکھوں مسلمان اپنی نجات کا وسیلہ سمجھیں گے اور گو یہ پرچہ اس زمانے میں جاری ہے مگر در حقیقت اس آنے والے زمانہ کے لیے جاری کیا گیا ہے۔ واللہ ولی التوفیق۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روئداد اجلاس صدر کمیٹی خواستگار ترقیٔ تعلیم مسلمانان ہندوستان واقع 12 مئی سنہ 1872ع (تہذیب الاخلاق۔ جلد سوم ۔ نمبر8۔ 15 ربیع الثانی 1289 ہجری) ممبران موجودہ مولوی اشرف حسین خاں صاحب۔ رئیس بنارس۔ سید ظہورحسین صاحب وکیل ہائی کورٹ۔ الہ آباد۔ مرزا محمد رحمت اللہ بیگ صاحب۔ وکیل عدالت دیوانی۔ بنارس۔ منشی محمد سبحان صاحب۔ سررشتہ دار کلکٹری ۔ بنارس۔ حافظ محمد فضل الرحمان صاحب۔ وکیل عدالت۔ بنارس۔ مولوی محمد عبدالستار صاحب۔ وکیل ہائی کورٹ ۔ الہ آباد۔ مولوی شجاع الدین حیدر صاحب۔ وکیل عدالت۔ بنارس۔ منشی مصطفی بخش صاحب۔ پیش کار۔ مولوی عظیم اللہ صاحب۔ ڈگری نویس۔ عدالت دیوانی۔ بنارس۔ شیخ عبداللہ صاحب۔ محرر عدالت دیوانی۔ بنارس۔ شیخ غوث علی صاحب۔ وکیل عدالت دیوانی۔ بنارس۔ خواجہ عبداللہ صاحب۔ وکیل عدالت۔ بنارس۔ سید غلام نجف صاحب۔ وکیل عدالت۔ بنارس۔ حافظ مجتبیٰ کریم صاحب۔ محرر اول محکمہ صفائی۔ شہر بنارس۔ سید عبدالعزیز صاحب۔ مولوی سید عبداللہ صاحب۔ اتالیق مہاراجہ دربھنگا۔ مولوی امین الدین صاحب۔ وکیل عدالت دیوانی ۔ بارس۔ سید احمد خاں۔ سی ۔ ایس۔ آئی۔ سب آرڈنیٹ جج۔ بنارس۔ قاضی محمد باقر صاحب۔ سب انسپکٹر پولیس۔ منشی ممتاز علی صاحب۔ محرر فوجداری، بنارس۔ حافظ عنایت الرحمان صاح۔ طالب العلم، کوئنز کالج، بنارس۔ شیخ امید علی صاحب۔ ڈگری نویس ۔ محکمہ سب آرڈینٹ جج، بنارس۔ مولوی قطب الدین صاحب۔ وکیل عدالت دیوانی۔ شاہزادہ مرز ا زور آور بخت بہادر۔ شاہزادہ محمد مرزا کرامت شاہ صاحب بہادر۔ سید سجاد علی صاحب۔ وکیل عدالت دیوانی۔ بنارس۔ مولوی محمد محمود اشرف صاحب۔ رئیس بنارس۔ شاہزادہ مرزا شمس الدین بخت بہادر۔ سید مظہر علی صاحب۔ رئیس بنارس۔ مولوی محمد عارف صاحب۔ ناظر کلکٹری ، بنارس۔ سید فدا حسین صاحب۔ انسپکٹر پولیس۔ تھانہ مرزا مراد ۔ شیخ غلام علی صاحب ، رئیس بنارس۔ منشی فضل الدین صاحب، پیش کار۔ منشی رعایت حسین صاحب، محافظ دفتر عدالت دیوانی ۔ بنارس۔ محمد یار خاں صاحب۔ رئیس مراد آباد۔ مولوی اشرف حسین خاں صاحب۔ رئیس بنارس نے صدر انجمن کی کرسی پر اجلاس کیا۔ سید احمد خاں سیکرٹری نے رپورٹ سلیکٹ کمیٹی کی اجلاس کے روبرو پیش کر کے تمام کارروائی سلیکٹ کمیٹی کی مختصر طور پر بیان کی اور تیسرا حصہ رپورٹ کا، جس میں مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا طریقہ ممبران سلیکٹ کمیٹی نے تجویز کیا ہے، پڑھ کر سنایا اور یہ خواہش کی کہ ممبران موجودہ اس طریقہ تعلیم پر غور فرماویں اور اگر پسند ہو تو اس کی پسندیدگی ظاہر کی جاوے تاکہ اسی بناء پر آئندہ عمل درآمد ہو۔ سید ظہور حسین صاحب نے اولاً سلیکٹ کمیٹی کی تمام کارروائی کی پسندیدگی ظاہر کی اور نسبت طریقہ مجوزہ تعلیم کے بیان کیا کہ نہایت لائق اور قابل شخصوں کے بہت سے غور و مباحثہ کے بعد یہ طریقۂ تعلیم تجویز ہوا ہے اور در حقیقت نہایت عمدہ اور مفید ہے۔ اس لیے میں اسی طریقۂ تعلیم کی منظوری کی تحریک کرتا ہوں۔ منشی محمد ممتاز علی صاحب نے مذکورہ بالا تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ سید احمد خاں سیکرٹری نے بعد منظور ہو جانے رپورٹ کے کہا کہ اب تک جو کچھ تدبیریں کمیٹی نے کی ہیں وہ سب بخوبی انجام کو پہنچیں۔ یعنی اسباب اور موانع اھل اسلام کی تعلیم و تربیت کے اور ان کے علاج جو کمیٹی نے معلوم کرنے چاہے تھے۔ ان کی اچھی طرح تحقیقات ہو گئی اور اس زمانے میں جس طرز پر کہ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت ہونی چاہیے اس کا نہایت عمدہ اور مناسب طریقہ ممبران سلیکٹ کمیٹی نے تجویز کر دیا جو ابھی اس اجلاس سے منظور ہوا۔ مگر اس کے عمل درآمد کے لیے بہت سا روپیہ درکار ہو گا۔ اس لیے اب ہم کو ضرور ہے کہ روپیہ بہم پہنچانے کی تدبیریں کریں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اس طریقہ تعلیم کے اجراء کے لیے لاکھوں روپے درکار ہوں گے۔ لاکھوں روپیہ کا نام سننے سے البتہ ایک حیرت سی ہوتی ہے مگر میں خیال کرتا ہوں کہ تمام ہندوستان کے مسلمان نہیں بلکہ صرف ممالک مغربی و شمالی کے مسلمان بھی اگر انسانیت حاصل کرنے کو جو صرف تعلیم و تربیت کے ذریعے سے حاصل ہو سکتی ہے، ایسا ہی ضروری سمجھیں جیسا کہ زندہ رہنے کے واسطے سامان معیشت کو ضروری سمجھتے ہیں تو اس قدر روپیہ جمع ہو سکتا ہے۔ ایک مدرستہ العلوم کیا متعدد مدرستہ العلوم قائم ہو سکتے ہیں اور اگر وہ اس کو اپنے معمولی، فضول اور بے فائدہ رسموں ہی کے برابر سمجھیں بلکہ اس سے بھی کسی قدر کم تر تو بھی اس قدر روپیہ جمع ہو سکتا ہے جس سے یہ مدرستہ العلوم مسلمانان بخوبی قائم ہو سکے۔ پس میں تحریک کرتا ہوں کہ ایک کمیٹی قائم کی جاوے جو لوگوں سے چندہ وصول کرتی رہے اور چندہ وصول کرنے کی تدبیریں کیا کرے اور جس قدر چندہ وصول ہوتا جائے اس کو نہایت حفاظت سے رکھے اور اس سے کچھ آمدنی کی تدبیر کرے تاکہ جس وقت ایسا سرمایہ جس کی آمدنی مدرسہ کے لیے کافی ہو جمع ہو جاوے تو مدرسہ قائم ہو۔ منشی محمد سبحان صاحب نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ اس کے بعد سید احمد خاں سیکرٹری نے تحریک کی کہ اس کمیٹی کی کارروائی کے لیے قواعد تجویز کئے جائیں تاکہ ان قواعد کے بموجب کمیٹی قائم ہو۔ حافظ مجتبیٰ کریم صاحب نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ سید احمد خاں سیکرٹری نے مسودہ قواعد کمیٹی پیش کیا اور اس کی منظوری کی تحریک کی اور بیان کیا کہ یہ مسودہ چند نہایت لائق اور قابل ممبروں کی صلاح اور مشورے سے مرتب کیا گیا ہے جس میں سے چند ممبر اس وقت اجلاس میں بھی شریک ہیں۔ پس اور ممبر بھی اس پر غور فرماویں اور اگر پسند ہو تو اجلاس سے منظور کیا جاوے۔ مرزا رحمت اللہ بیگ صاحب نے اس تحریک کی تائید کی اور مسودہ پیش شدہ پسند اور منظور کیا گیا۔ مولوی عبدالستار صاحب نے تحریک کی کہ بموجب دفعہ ۳ قواعد کمیٹی کے جو ابھی منظور ہوئے ہیں،ممبروں کا تقرر بھی اجلاس سے عمل میں آوے اور تحریک کی کہ صاحباں مندرجہ ذیل اس کمیٹی کے ممبر مقرر ہوں۔ یعنی: ۱۔ خلیفہ سید محمد حسن صاحب۔ وزیر اعظم ریاست پٹیالہ۔ ۲۔ مولوی محمد عثمان خاں صاحب بہادر۔ نائب ریاست رام پور۔ ۳۔ نواب محمد حسن خاں صاحب بہادر۔ جاگیردار سنوانی۔ ۴۔ حضرت مولوی سید امداد علی صاحب۔ رئیس بھاگل پور۔ سب آرڈینٹ جج گیا، عرف صاحب گنج۔ ۵۔ مولوی محمد حیدر حسین صاحب۔ رئیس اعظم جون پور، وکیل ہائی کورٹ، الہ آباد۔ ۶۔ مولوی سید فرید الدین احمد صاحب۔ رئیس کڑا مانک پور۔ وکیل ہائی کورٹ ۔ الہ آباد۔ ۷۔ مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب۔ رئیس دہلی، وکیل ہائی کورٹ، الہ آباد۔ ۸۔ سید ظہور حسین صاحب۔ رئیس مراد آباد، وکیل ہائی کورٹ ، الہ آباد۔ ۹۔ محمد عنایت اللہ خاں صاحب۔ رئیس و تعلقہ دار، بھیکم پور، ضلع علی گڑھ۔ ۱۰۔مولوی محمد اسماعیل صاحب۔رئیس علی گڑھ۔ اسٹنٹ سیکرٹری سین ٹیفک سوسائٹی۔ علی گڑھ۔ ۱۱۔ خواجہ محمد یوسف صاحب۔ رئیس علی گڑھ۔ وکیل عدالت دیوانی۔ علی گڑھ۔ ۱۲۔ مولوی سید مہدی علی صاحب رئیس اٹاوہ۔ ڈپٹی کلکٹر ضلع مرزا پور۔ ۱۳۔مولوی سید زین العابدین صاحب۔ رئیس مچھلی شہر ۔ صدر امین بلند شہر۔ ۱۴۔مرزا رحمت اللہ بیگ صاحب۔ رئیس بنارس۔ وکیل عدالت دیوانی۔ بنارس۔ ۱۵۔مولوی اشرف حسین خاںصاحب۔ رئیس بنارس۔ ۱۶۔ شیخ غلام علی صاحب۔ رئیس بنارس۔ ۱۷۔ حافظ احمد امین صاحب۔ رئیس بدایوں۔ سفیر نواب صاحب سابق والی ٹانک۔ ۱۸۔ شیخ خیر الدین احمد خاں صاحب۔ رئیس رمضان پور ڈپٹی کلکٹر۔ بریلی۔ ۱۹۔ خواجہ فضل احمد خاں صاحب۔ رئیس دہلی۔ ڈپٹی کلکٹر۔ شاہجہان پور۔ ۲۰۔ سید محمد میر بادشاہ صاحب۔ رئیس دہلی۔ منصف کان پور۔ ۲۱۔ منشی محمد صدیق صاحب بہادر۔ ڈپٹی کلکٹر نہر۔ ۲۲۔ منشی محمد یار خاں صاحب۔ رئیس مراد آباد۔ ۲۳۔ سید احمد خاں سی۔ ایس۔ آئی۔ رئیس دہلی۔ سب آرڈینٹ جج، بنارس۔ ۲۴۔ سید محمد احمد خاں صاحب بہادر۔ رئیس دہلی۔ اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر، ہردوئی۔ ۲۵۔ سید محمد حامد خاں صاحب۔ ریس دہلی۔ ۲۶۔ سید محمد محمود خاں صاحب۔ رئیس دہلی ۔ لنکن ان کے بار سٹر ایٹ لاء اور طالب علم کریسنٹ کالج۔ یونیورسٹی کیمبرج۔ حافظ مجتبیٰ کریم صاحب نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ مولوی محمد عارف صاحب نے تحریک کی کہ بموجب دفعہ ۹ قواعد کمیٹی کے جو ابھی منظور ہوئے ہیں تقرر عہدہ داروں کا اس کمیٹی کے لیے عمل میں آوے اور تحریک کی کہ نواب محمد حسن خاں صاحب جاگیر دار سنوانی میر مجلس اور سید احمد خاں سی۔ ایس۔ آئی اس کمیٹی کے لائف آنریری سیکرٹری مقرر ہوں۔ سید ظہور حسین صاحب نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ اس کے بعد سید احمد خاں سیکرٹری نے تحریک کی کہ یہ کمیٹی خواستگار ترقیٔ تعلیم مسلمانان ہمیشہ کے لئے قائم رہے اور ترقی تعلیم مسلمانان میں جو امور پیش آویں ان پر بحث اور کوشش کرتی رہے۔ خواجہ عبداللہ صاحب نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ اس کے بعد سید احمد خاں نے اس بات کی تحریک کی کہ اس کمیٹی کے تحت میں ایک اسپیشل کمیٹی مقرر ہو، جو ان علوم کی کتابوں کو سلسلہ درست کرے، جن کا تعلیم دینا ممبران سلیکٹ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں تجویز کیا ہے۔ مولوی شجاع الدین حیدر صاحب نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ حافظ فضل الرحمان صاحب نے تحریک کی کہ اس اسپیشل کمیٹی کے لیے صاحبان مندرجہ ذیل ممبر قرار دیئے جاویں۔ مولوی سید فرید الدین احمد صاحب۔ مولوی سید مہدی علی صاحب۔ منشی ذکاء اللہ صاحب۔ مولوی محمد احسن صاحب۔ مدرس بریلی کالج۔ سید احمد خاں سی ۔ ایس ۔ آئی۔ مولوی سمیع اللہ خاں صاحب۔ مولوی محمد اسماعیل صاحب۔ اسٹنٹ سیکرٹری سین ٹیفک سوسائٹی۔ علی گڑھ۔ مولوی نذیر احمد صاحب ڈپٹی کلکٹر۔ مولوی محمد مظہر صاحب۔ اور اس اسپیشل کمیٹی کے سیکرٹری کا کام سید احمد خاں سے متعلق رہے اور ممبروں کی جو کچھ تجویزیں ہوا کریں ان کو بذریعہ رپورٹ کے واسطے تصفیہ اجلاس میں پیش کیا کریں۔ میر سجاد علی صاحب نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ میر ظہور حسین صاحب نے تحریک کی کہ ممبران سلیکٹ کمیٹی کا جنھوں نے کمال کوشش اور جاں فشانی سے نہایت عمدہ اور مفید رپورٹ مرتب کی ہے، شکریہ ادا کی جاوے۔ منشی ممتاز علی صاحب نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ منشی محمد سبحان صاحب نے تحریک کی کہ تمام ممبروں کا جو اس کمیٹی میں شریک ہوئے اور چندہ سے تائید کی، شکریہ ادا کیا جاوے۔ مولوی محمد عارف صاحب نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ بعد اس کے شکریہ صدر انجمن کا ادا کیا گیا اور مجلس برخلاست ہوئی۔ سید احمد خاں سی۔ ایس۔ آئی سیکرٹری کمیٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قواعد کارروائی مجلس خازن البضاعۃ لتاسیس مدرستہ العلوم للمسلمین سنہ1872ء مطابق سنہ 1289ہجری نام اور مقصد (تہذیب الاخلاق۔ جلد سوم۔ نمبر 8۔ مورخہ 15ربیع الثانی 1289 ہجری۔ صفحہ 81تا 83) دفعہ ۱۔ یہ مجلس ’’مجلس خازن البضاعتہ لتاسیس مدرستہ العلوم للمسلمین‘‘ یعنی ’’ دی محمدن اینگلو اورینٹل کالج فنڈ کمیٹی‘‘ کے نام سے موسوم ہو گی۔ دفعہ ۲۔ مقصد اس مجلس کا یہ ہو گا کہ واسطے قائم کرنے اس قسم کے مدرستہ العلوم کے جس کی تجویز صدر کمیٹی خواستگار ترقیٔ تعلیم مسلمانان یعنی کمیٹی فار دی بیٹرڈ فیوزن اینڈ ایڈوانس منٹ آف لرننگ امنگ محمڈنز آف انڈیا نے کی ہے اور وہ تجویز رپورٹ سلیکٹ کمیٹی مورخہ 15اپریل 1872ع میں مندرج ہے اور اس میں بالتخصیص مسلمانوں کی تعلیم کے لیے مدرستہ العلوم کا قائم کرنا تجویز تجویز کیا ہے۔ ایسا سرمایہ جس کی آمدنی سے وہ مدرسہ قائم ہو سکے جمع کرے۔ تقرر ممبران دفعہ ۳۔ صرف اشخاص مسلمان ممبر اس مجلس کے ہوں گے۔ پہلی دفعہ ان کا تقرر حسب تجویز ممبران کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان کے ہو گا۔ جو اس تجویز کے وقت موجود اور شریک ہوں اور آیندہ ان کا تقرر خود اسی مجلس کے ممبروں کی تجویز سے ہو گا۔ دفعہ ۴۔ ممبران مجلس کا انتخاب ہمیشہ بیلٹ بکس کے ذریعے سے کیا جاوے گا اور اگر ہاں اور ناہ کے قرعے برابر نکلیں گے تو اس وقت صدر انجمن کو ہاں یا ناہ کے قرعوں کے لیے رائے ترجیح دینے کا اختیا رہو گا۔ دفعہ ۵۔ جو اشخاص کہ اس مجلس کے ممبر مقرر ہوں گے وہ لائف ممبر یعنی تمام عمر کے لیے ممبر متصور ہوں گے۔ جب تک کہ وہ خود استعفیٰ دے دیں یا کسی جرم قابل العزل میں سزایاب ہوں۔ دفعہ ۶۔ عہدہ ممبری موروثی نہ ہو گا بلکہ بحالت وفات یا استعفیٰ یا معزول ہونے کسی ممبر کے دیگر ممبروں کو اختیار ہو گا کہ بموجب احکام ان قواعد کے جس کو مناسب سمجھیں اس کے بجائے دوسرا شخص ممبر مقرر کریں۔ دفعہ ۷۔ اس مجلس کے ممبروں کی تعداد کچھ محدود نہ ہو گی۔ بلکہ ممبران مجلس کو اختیار ہو گا کہ جس شخص کو لائق سمجھیں اس کو ممبروں میں منتخب کریں۔ مگر ممبران مجلس انتخاب کرتے وقت خود اس بات پر خیال کریں گے کہ ایسے اشخاص کو جس سے کچھ تائید یا کار براری یا مدد انتظام و کاروبار متعلق مجلس میں متصور نہ ہو۔ ان کا ممبروں میں منتخب کرنا محض بے فائدہ ہو گا۔ دفعہ ۸۔ جو لوگ ممبر مقرر ہو ں گے، ان کو مجلس کی طرف سے ایک سند جس میں ان کے فرائض اور اختیارات مندرج ہوں گے مع نقل قواعد مجسل مروجہ وقت کے دی جاوے گی اور اس کے ذریعے سے ان کو تمام اختیارات جو ممبروں کو ہونے چاہئیں ، حاصل ہوں گے۔ عہدہ داران دفعہ ۹۔ من جملہ ممبروں کے ایک ممبر جس کو ممبران موجودہ منتخب کریں گے۔ میر مجلس اور ایک ممبر لائف آنریری سیکرٹری ہو گا اور جو ممبر کہ میر مجلس مقرر کیا جاوے اس کو ہر اجلاس میں صدر انجمن ہونے کا حق ہو گا اور اس کی غیر حاضری میں ممبران موجودہ میں سے جو ممبر پہلا ہو وہ صدر انجمن ہو گا مگر ان عہدہ داروں کا پہلی دفعہ تقرر حسب تجویز ممبران کمیٹی خواستگاہ ترقیٔ تعلیم مسلمانان کے ہو گا جو اس تجویز کے وقت موجود اور شریک ہوں۔ دفعہ ۱۰۔ ممبران مجلس کو کسی شخص یا اشخاص کو بہ طور اسٹنٹ سیکرٹری مقرر کرنے کا اختیار ہو گا اور در صورتیکہ وہ ممبر نہ ہو تو اس کے لیے وظیفہ مناسب بھی مقرر کرنا جائز ہو گا۔ دفعہ ۱۱۔ عہدہ داران مذکورہ کا تقرر صرف ایک سال کے لیے ہو گا اور ہر سالانہ اجلاس میں ممبران شریک اجلاس کی تجویز سے تقرر جدید بذریعۂ بیلٹ بکس حسب قاعدہ مندرجہ دفعہ ۴ ہوا کرے گا۔ دفعہ ۱۲۔ ہر عہدہ دار تا تقرر عہدہ داران جدید اور ہر ایک ممبر یا وہ شخص جو لائف سیکرٹری مقرر ہوا ہے مادام الحیات اپنے عہدہ پر مقرر رہیں گے۔ مگر جب کہ وہ کسی عدالت کے فیصلہ اخیر سے بہ جرم خیانت مجرمانہ یا زنا یا سرقہ یا حلف دروغی یا جعلسازی یا فریب یا رشوت ستانی یا بغاوت کے مجرم ہو کر سزایاب ہوں تو وہ از خود معزول متصور ہوں گے اور تمام اختیارات اور حقوق جو ان کو بذریعہ اس منصب کے حاصل ہوں گے، سب معدوم ہو جاویں گے۔ دفعہ ۱۳۔ ہر ایک ممبر یا عہدہ دار کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اختیار ہو گا۔ دفعہ ۱۴۔ کوئی ممبر یا عہدہ دار سوائے اسٹنٹ سیکرٹری کے جو بموجب دفعہ ۹ کے وظیفہ دار مقرر ہوا ہو، اپنے عہدے کے انجام میں کسی اجرت یا کسی قسم کے معاوضہ کا مستحق نہ ہو گا۔ دفعہ ۱۵۔ جو عہدہ دار کہ سال گزشتہ میں مامور رہے ہوں، جائز ہو گا کہ وہ سال آئندہ کے لئے بھی منتخب کیے جاویں۔ کام ممبروں کا دفعہ ۱۶۔ ممبروں کا اول کام جمع کرنے سرمایہ کا ہے ان کو اختیار ہو گا کہ مسلمانوں سے جن کی قومی بہتری کے لیے مدرسہ قائم ہوتا ہے اور عیسائیوں سے ( جو اہل کتاب ہیں اور نیز اس سبب سے کہ وہ ہندوستان پر حکومت رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی بھلائی اور بہتری میں بھی ان کو ایسی ہی مدد کرنی فرض ہے جیسے کہ اور قوموں کی) چندہ دینے کی درخواست کریں اور سوائے ان دو قوموں کے اور کسی قوم سے چندہ کی درخواست کرنا ممبران مجلس کو جائز نہ ہو گا۔ الا اگر کوئی اور قوم اور مذہب کا شخص اپنی خوشی سے بلا درخواست کچھ چندہ دے تو ممبران مجلس کو نہایت شکر گزاری سے اس کا قبول کرنا جائز ہو گا۔ دفعہ ۱۷۔ چندے میں زر نقد و جنس اور جائداد غیر منقولہ جو کوئی دے، قبول ہو سکے گا۔ لیکن اگر ممبران مجلس اس جنس یا جائداد غیر منقولہ کو واسطے مقاصد تقرر مدرسہ مفید نہ سمجھیں تو ان کو اسے بیچ کر زر نقد کر لینے کا اختیار ہو گا اور اس کا بیع نامہ سیکرٹری کی جانب سے حسب قوانین گورنمنٹ تحریر ہو گا اور مجلس کی جانب سے بہ طور دستاویز مکمل تصور کیا جاوے گا۔ دفعہ ۱۸۔ اس مجلس کے ممبرا پنے ماتحت جہاں جہاں مناسب سمجھیں ماتحت مجلسیں مقرر کر سکتے ہیں۔ مگر ان ماتحت مجلسوں کے ممبروں کو بہ جز اس کے کہ زر چندہ وصول کر کر اس مجلس کے سیکرٹری کے پاس بھیج دیں اور کسی قسم کی کارروائی کا اختیار نہ ہوگا۔ زر چندہ دفعہ ۱۹۔ جس قدر روپیہ کہ بذریعہ چندہ یا قیمت جائداد یا منافع سرمایہ وصول ہو وہ سب بنک آف بنگال میں اس مجلس کے حق میں جمع ہو گااور صرف واسطے اغراض متذکرہ آئندہ کے سیکرٹری مجلس کی رسید سے طلب ہو سکے گا۔ دفعہ ۲۰۔ جس قدر سرمایہ کہ مذکورہ بالا طریق پر جمع ہو گا اس سرمایہ سے گورنمنٹ پرامیسری نوٹ یا روزیں ھائے دوامی جن کا ذکر ایکٹ ۲۳ سنہ 1871ع میں ہے یا بنک آف بنگال کے حصہ یا اراضی معافی دوامی بحق مجلس خریدی جاویں گی۔ تاکہ اس کی آمدنی سے مدرسہ مطلوبہ قائم ہو اور جب تک کہ کل ممبران مجلس کی صلاح نہ ہو اور کثرت رائے سے اجازت نہ ہو لے اس وقت تک اور کوئی جائداد سوائے جائداد مذکورہ بالا کے خریدی نہ جاوے گی اور ممبران مجلس میں سے جو شخص کہیں چلا گیا ہو یا رائے مطلوبہ کا جواب وقت معین تک نہ بھیجے تو اس کی رائے انکاری تصور کی جاوے گی۔ مگر مذکورہ بالا جائداد میں سے ایک جائداد کا دوسری جائداد میں تبدیل کرنا جائز ہوگا۔ دفعہ ۲۱۔ چندہ دینے والا متعین کر سکتا ہے کہ مذکورہ بالا جائداد میں سے فلاں قسم کی جائداد اس کے روپیہ سے خریدی جاوے۔ دفعہ ۲۲۔ جس قدر زر چندہ جمع ہوتا جاوے اسی قدر روپیہ کی جائداد مذکورہ بالا واسطے مجلس کے وقتاً فوقتاً خریدی جاوے گی اور دستاویز پرامیسری نوٹ یا بیع نامہ روزینہ یا اراضی معافی کا یا کاغذ حصہ بنک جو کچھ خریدا جاوے بنک بنگال میں رکھے جاویں گے اور نیز اس کو حسب ضابطہ اس کا محاصل وصول کرنے کی اجازت دی جاوے گی۔ دفعہ ۲۳۔ سوائے خریدنے اس جائداد کے جس کا ذکر اوپر ہوا اور کسی کام میں زر سرمایہ خرچ نہ کیا جاوے گا لیکن اگر سرمایہ دس لاکھ روپیہ سے زیادہ جمع ہو جاوے تو زر زائد دس لاکھ میں سے صرف تین لاکھ روپیہ تک واسطے تیاری مدرسہ اور اس کے مکانات متعلق کے صرف ہوسکے گا۔ دفعہ ۲۴۔ جو سیکرٹری یا کوئی ممبر یا کوئی اجلاس بر خلاف دفعہ ۲۲ کے زر سرمایہ صرف کرے گا وہ مجرم خیانت مجرمانہ کا متصور ہو گا اور ہر شخص اس پر دعویٰ خیانت مجرمانہ کرنے کا حق رکھے گا۔ دفعہ ۲۵۔ ممبران مجلس کو واسطے قائم کرنے اغراض مدرستہ العلوم کے جس کے لیے سرمایہ جمع کیا جاتا ہے۔ منافع زر سرمایہ کے خرچ کرنے کا اختیار ہو گا اور ان کو یہ بھی اختیار ہو گا کہ زر منافع کو بہ طور اصل سرمایہ کے جمع کر دیں لیکن جب زر منافع بہ طور اصل سرمایہ کے جمع ہو جاوے گا تو پھر وہ خرچ نہ ہو سکے گا اور اس سے تمام احکام اور قواعد دفعہ ۲۲ و ۲۱ قواعد ھذا کے متعلق ہو جاویں گے۔ دفعہ ۲۶۔ کم سے کم ہر شش ماہی پر اجلاس ممبران مجلس کا ہو گا اور اس شش ماہی میں جس قدر زر چندہ جمع ہوا ہو گا اس کی کیفیت اور جو جو کارروائی نسبت فراہمی سرمایہ اور خرید جائداد متذکرہ دفعہ ۲۰، ۲۲ عمل میں آئی ہو گی۔ سب ایک روئداد میں مندرج ہو کر مشتہر ہو ا کرے گی۔ دفعہ ۲۷۔ ہر ایک ممبر کو اختیا رہو گا کہ اجلاس ہونے کی تحریک سیکرٹری سے کرے اور اس وقت سے دو ہفتہ کے اندر اجلاس کا منعقد ہونا ضرور ہو گا۔ دفعہ ۲۸۔ کم سے کم تین ممبر اور ایک صدر انجمن اور ایک سیکرٹری کی شرکت کامل نصاب اجلاس کی متصور ہو گی اور ان سب کو رائے دینے کا استحقاق ہو گا اور کارروائی مجلس کے لیے کثرت رائے کا فیصلہ ناطق سمجھا جاوے گا۔ مگر سیکرٹری کو تنہا یا بہ شرکت کسی ممبر کے اپنی ذمہ داری و جواب دہی پر کسی نہایت ضروری امر متعلقہ کا انجام دے لینا بہ شرط منظوری اجلاس جائز ہو گا اور پھر اجلاس سے یا وہ منسوخ ہو گا یا بحال رہے گا۔ دفعہ ۲۹۔ تمام روئدادیں اجلاسوں کی بہ دستخط اصل صدر انجمن و سیکرٹری کے بنک آف بنگال میں جہاں تمام سرمایہ جمع ہوگا، بھیج دی جاویں گی اور وہ روئدادیں علیحدہ یا بذریعہ کسی اخبار کے ہمیشہ مشتہر ہوں گی اور ایک یا دو کاپی مطبوعہ بھی بنک آف بنگال میں بھیجی جایا کریں گی۔ دفعہ ۳۰۔ تمام روئدادیں اور حساب مجلس کے انگریزی اور فارسی میں مرتب ہو ں گے اور ہر ششماہی پر ایک کاپی تمام حساب کی بنک آف بنگال میں واسطے امانت رہنے کے بھیج دی جاوے گی اور بنک آف بنگال کو اس کے دیکھنے اور اپنی یہاں کے حساب کی کتابوں سے اس کا مقابلہ کرنے کا اختیار کلی ہو گا۔ دفعہ ۳۱۔ ہر ششماہی پر حسابات مجلس کے واسطے اطلاع عام کے علیحدہ یا کسی اخبار می مشتہر ہوا کریں گے۔ مہر مجلس کی دفعہ ۳۲۔ یہ مجلس اپنے لیے ایک گول مہر بنائے گی۔ جس کے سرے پر کوئن کے تاج کا نقش ہو گا اور اس پر بہ خط انگریزی یہ لفظ کھودے جائیں گے۔ ’’وکٹوریا رجینا‘‘ اور اس کے نیچے کے دائرہ میں بہ خط انگریزی یہ الفاظ کھودے جائیں گے ’’دی محمدن اینگلو اورینٹل کالج فنڈ کمیٹی 1872ع‘‘ اور اس کے نیچے کے دائرہ میں جو بہ شکل ہلال نمودار ہو گا، عربی خط میں یہ الفاظ کھودے جائیں گے۔ ’’مجلس خازن البضاعۃ لتاسیس مدرستہ العلوم للمسلمین 1289ہجری۔‘‘ مقام مجلس دفعہ ۳۳۔ بعد جمع ہو جانے اس قدر سرمایہ کے جس کی آمدنی مدرسہ جاری کرنے کے لائق ہو جاوے، ممبران مجلس تجویز کریں گے کہ کس مقام پر وہ مدرسہ جاری ہو اور جس جگہ اس کا اجرا تجویز کریں گے۔ اسی جگہ اس مجلس کا بھی مقام قرار پاوے گا اور جب تک کہ اس قدر سرمایہ جمع نہ ہو اس وقت تک مقام مجلس وہی ہو گا جس جگہ کہ لائف سیکرٹری کا مقام ہو اور تمام حسابات اور کتابیں متعلق مجلس کی اسی مقام پر لائف سیکرٹری کے پاس رہیں گی۔ دفعہ ۳۴۔ بہ شرکت رائے جملہ ممبران کمیٹی ان قواعد کی ترمیم جائز ہو گی۔ الا تجویز مندرجہ دفعہ ۲۳ و ۲۴ کبھی تغیر و تبدل نہ ہو سکے گی اور جب ترمیم قواعد کی ضرورت معلوم ہو ۔ تو بموجب دفعہ ۲۰ قواعد ھذا کے ممبروں سے رائے طلب کرنی اور کثرت رائے قرار دینے کی پابندی کی جاوے گی۔ دفعہ ۳۵۔ تمام کاغذ اور روئدادیں اور قواعد مجوزہ اور رسیدیں اور بل اور ہر قسم کی دستاویزیں جو اس مجلس سے متعلق ہوں لائف سیکرٹری کے دستخط سے مستحکم اور مستند متصور ہوں گی اور لائف سیکرٹری کو یہ بھی اختیار ہو گا کہ کوئی خاص وجہ پیش ہونے پر کسی شخص کو اجازت دے کہ اس کے لیے دستخط کرے مگر شرط یہ ہے کہ قبل ایسی اجازت دینے کے لائف سیکرٹری کو اجلاس میں اس وجہ خاص کو پیش کرنا اور جس شخص کو ایسی اجازت دینا چاہتا ہے، اجلاس سے اس کی منظوری حاصل کرنا ضروری ہو گا۔ دفعہ ۳۶۔ ایسی حالت میں اگر کسی قسم کا ہرج یا نقصان پیش آئے گا تو لائف سیکرٹری اور وہ شخص جس نے اس کے واسطے دستخط کیا ہے، دونوں جواب دہ اور ذمہ دار متصور ہوں گے۔ دفعہ ۳۷۔ یہ قواعد کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان کے اجلاس سے سنہ 1872ع مطابق سنہ 1289ہجری میں منظور کیے گئے۔ سید احمد خاں سی۔ ایس ۔ آئی۔ سیکرٹری مجلس۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خط نواب وقار الملک متعلق چندہ مدرستہ العلوم مسلمانان (تہذیب الاخلاق جلد سوم۔ نمبر 9۔ مورخہ یکم جمادی الاول 1289 ہجری۔ صفحہ 87،88) منشی محمد مشتاق حسین صاحب نے سیکرٹری کمیٹی خازن البضاعۃ کے نام ایک خط بھیجا ہے اس کو ہم بجنسہٖ چھاپتے ہیں اور جو تدبیر فراہمی چندہ کی انھوں نے اس میں ارقمام فرمائی ہے اور خود اس پر عمل بھی کیا ہے۔ اس کا شکر کرتے ہیں اور تمام مسلمانوں سے امید رکھتے ہیں کہ ہر ایک مسلمان مثل منشی مشتاق حسین صاحب کے بہ دل وجان اس مدرسہ کے واسطے چندہ فراہم کرنے کے لیے کوشش کرے گا ۔ سید احمد نقل خط سیکرٹری کمیٹی خازن البضاعۃ ۔ سلامت بعالی خدمت مولوی سید احمد خاں صاحب بہادر سی۔ ایس ۔ آئی۔ تسلیم میری عزت اور میرا فخر ہوگا اگر آپ میری ایک تنخواہ جس کی تعداد ساٹھ روپیہ ہے میری طرف سے خازن البضاعۃ میں جمع فرماویں۔ میں پانچ روپیہ مہینے کے حساب سے کمیٹی میں جمع کر دوں گا جس کی پہلی قسط مئی کی تنخواہ سے شروع ہو گی۔ آج یکم جون ہے اس لیے پہلی قسط اس عریضہ کے ساتھ بھیجتا ہوں۔ یہ بہت ہی ناچیز رقم ہے جو ایسے بڑے کام میں میں پیش کرتا ہوں اور بلا شبہ اگر سب مسلمان ایک ایک مہینے کی آمدنی دے دیں تو غالباً کروڑوں روپیہ جمع ہو جانے کی نوبت پہونچ جاوے۔ لیکن دفعتاً ایسا ہونا فی الجملہ مشکل معلوم ہوتا ہے۔ خصوصاً اس لیے کہ جملہ مسلمانوں کو اس کمیٹی کے مقاصد سے مطلع ہوتے ہوتے ایک عرصہ چاہیے۔ تاہم جس قدر مسلمان اس کے مقاصد سے مطلع ہو گئے ہیں اور ہوتے جاتے ہیں ان کو صرف اسی قدر امداد پر اکتفا نہ کرنا چاہیے کہ ایک رقم یک مشت عنایت کریں۔ اگرچہ بہت ہی قدر کے قابل ہیں وہ بیش بہا ڈونیشن جو اس کار خیر میں پیش کیے جاویں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ کوئی ایسی سبیل نکالیں جس سے اس کمیٹی کی سالانہ آمدنی نہایت استحکام کے ساتھ اور بڑے افراط کے ساتھ قائم ہو جاوے۔ میں نے اپنے ہاں ایک مریض کے مرض سے صحت پانے کے شکریے میں جناب باری میں اس کمیٹی کے واسطے ایک مختصر سی منت مانی تھی بجائے مصلی کھلانے کے۔ چنانچہ پانچ روپیہ اس منت کی بابت اس کمیٹی کے لیے بھیجتا ہوں۔ میں نے ایک چنگی اپنے روزمرہ کے ہر ایک قسم کے صرف پر اس کمیٹی کے واسطے اس طرح سے مقرر کی تھی کہ اگر ایک بڑھیا اور نادار سے نادار اور ایسا شخص بھی اس کو اپنے اوپر لازم کر لے۔ جس کو دو دو وقت میں روٹی ملتی ہو تو بھی کچھ ناگوار نہ ہو گی۔ اس چنگی سے مجھ کو مہینے مئی میں ایک روپیہ دو آنے وصول ہوئے، وہ بھی میں اس عریضہ کے ساتھ بھیجتا ہوں اور آئندہ انشاء اللہ یہ چنگی میں ہمیشہ بھیجتا رہوں گا۔ اور بھی میں نے بہت سے ارادے دل میں ٹھان لیے ہیں۔ اگر خدا نے پورے کیے تو کمیٹی کو ان کی اطلاع دوں گا۔ میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ اولاد کی تقریب اور خصوصاً مکتب کی تقریب میں جو روپیہ فضول صرف ہوتا ہے اس صرف کو روکاجاوے اور اس میں سے ایک بڑا حصہ اس کمیٹی میں دیا جایا کرے۔ جب تک یہ کمیٹی عام مدارس قائم کرنے کے بخوبی لائق ہو جاوے تویہ چندہ جو ہر ایک مقام سے وصول ہو اسی مقام یا اس کے قریب تر مقاموں میں جیسا موقع ہو مسلمانوں کی ترقی تعلیم میں صرف کی جاوے۔ مکتب کی تقریب کا جو حوالہ میں نے دیا ہے میں نہیں سمجھتا کہ وہ کون مسلمان ہو گا جو اپنی اولاد کی مکتب کی تقریب اس نیت سے کراتا ہے کہ آئندہ اس کی تعلیم کامل اور عمدہ ہو اور پھر وہ اس کمیٹی میں اس فضول صرف میں سے ایک بڑا حصہ نہ دے اور گئے گذرے درجہ پر فی صدی بیس روپیہ یا پچیس روپیہ سے بھی دریغ کرے۔ گیارہ روپیہ دو آنہ میں بھیجتا ہوں۔ جس کا تذکرہ اوپر ہوا اور یہ درخواست کرتا ہوں کہ میرے روپیہ سے جو اس وقت میں نے بھیجا ہے اور جو آئندہ میں بھیجوں، جائداد خریدی جاوے یا مکان بنایا جاوے، وہ پرامیسری نوٹوں کی خریداری میں صرف نہ کیا جاوے۔ اس لیے کہ میں پرامیسری نوٹوں کے سود کومسلمانوں کے واسطے اچھا نہیں سمجھتا ۔ زیادہ حد ادب۔ کمترین مشتاق حسین عفی عنہ از علی گڑھ۔ یکم جون 1872ء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشتہار صدر کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان ہندوستان (تہذیب الاخلاق۔ جلد سوم۔ نمبر ۹ ۔ مورخہ یکم جمادی الاول 1289ہجری۔ صفحہ 92) واضع ہو کہ کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان کی رپورٹ بنارس میں چھپ چکی ہے اس رپورٹ کے تخمیناً تین سو بیس صفحے ہیں اور اس میں تین حصے ہیں۔ پہلے حصے میں جو رسالے انعام کے لیے منتخب ہوئے، ان کا ذکر ہے۔ دوسرے حصے میں چار بحثیں ہیں۔ بحث اول میں گورنمنٹ کالجوں اور اسکولوں میں مسلمان طالب علموں کے کم داخل ہونے کے اسباب سے بحث ہے۔ بحث دوم میں تحصیلی و حلقہ بندی مکتبوں میں مسلمان طالب علموں کے کم داخل ہونے کے اسباب سے بحث ہے۔ بحث سوم میں مسلمانوں میں علوم قدیمہ کے گھٹ جانے کے اسباب سے بحث ہے۔ بحث چہارم میں مسلمانوں میں علوم جدیدہ کے رواج نہ پانے کے اسباب سے بحث ہے۔ تیسرے حصے میں مسلمانوں کی ترقی تعلیم کی تدبیریں اور طریقہ جس طرح پر کہ ان کی تعلیم و تربیت اس زمانہ میں ہو نی چاہیے اور جس طرح کہ مدرسہ اور مکتب ان کی تعلیم کے مقرر ہونے چاہئیں ان کا بیان ہے۔ خاتمہ میں ان پچیس رسالوں کا خلاصہ مندرج ہے جو حسب اشتہار کمیٹی تصنیف ہوئے تھے اور جن کے ہر ایک مضمون پر کمیٹی نے بحث کی ہے۔ اس رپورٹ کی قیمت پانچ روپیہ مقرر ہوئی ہے۔ جس صاحب کو اس کا خریدنا منظور ہو راقم آثم پاس زر قیمت ارسال فرما کر رپورٹ مذکور طلب فرما لے۔ واضع ہو کہ بموجب تجویز کمیٹی منعقدہ 31 جولائی 1871ع اس رپورٹ کے چھپنے کے لیے جداگانہ چندہ ہونا تجویز ہوا ہے۔ پس جن ممبروں نے خاص اس رپورٹ کے چھپنے کے لیے زر چندہ بہ قدر پانچ روپیہ یا ا س سے زیادہ نہ دیا ہو گا۔ ان کے پاس یہ رپورٹ بموجب تجویز کمیٹی منعقدہ 7 مارچ 1872 ع مرسل نہ ہو گی۔ سید احمد خاں سی۔ ایس ۔ آئی۔ سیکرٹری کمیٹی۔ مقام بنارس۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روئداد اجلاس مجلس خزنۃ البضاعۃ لتاسیس مدرسۃ العلوم للمسلمین منعقدہ 31جولائی 1872ع مقام بنارس (تہذیب الاخلاق ۔ جلد سوم ۔ نمبر 12۔ مؤرخہ 15 جمادی الثانی 1289ہجری ۔ صفحہ 116 تا 118) صدر انجمن مولوی عنایت رسول صاحب ممبران موجودہ مولوی محمد عارف صاحب شیخ غلام علی صاحب سید محمد حامد صاحب منشی محمد یار خاں صاحب سیکرٹری سید احمد خاں سی۔ ایس۔ آئی روئداد ہائے اجلاس منعقدہ ۳۰ جون 1872 ء و جولائی 1872ء جو بہ دستخط سیکرٹری مرتب اور کتاب روئداد میں مندرج تھیں، ملاحظہ ہوئیں۔ اس کے بعد بموجب دفعہ ۷ قواعد مجلس مرتبہ 1872ع کے صاحبان مندرجہ ذیل مجلس خزنتہ البضاعت کے ممبر مقرر ہوئے۔ جناب عالی نواب محمد فیض علی خاں صاحب بہادر سی ۔ ایس ۔ آئی۔ رئیس پھاسو ضلع بلند شہر وزیر اعظم راج جے پور۔ نواب محمد احمد اللہ خاں صاحب رئیس میرٹھ۔ پترول۔ ہوشنگ آباد۔ منشی محمد الیٰ بخش صاحب رئیس دیو بند۔ ضلع سہارن پور۔ سب انجینئر اور ڈپٹی مجسٹریٹ نہر گنک ڈویژن ۔ بلند شہر۔ منشی محمد اکرم صاحب۔ رئیس محمد آباد۔ ضلع اعظم گڑھ۔ گورنمنٹ وکیل۔ ضلع اعظم گڑھ۔ حضرت مولوی محمد امانت اللہ صاحب۔ رئیس غازی پور۔ حاجی مولوی محمد عبدالاحد صاحب۔ رئیس قصبہ پھتیا ۔ ضلع غازی پور۔ وکیل عدالت غازی پور۔ شیخ محمد جان صاحب۔ رئیس قصبہ پھتیا۔ ضلع غازی پور۔ وکیل عدالت غازی پور۔ شیخ فیاض علی صاحب۔ رئیس قصبہ مؤ قاضی طبیب۔ پرگنہ سورام ۔ گورنمنٹ وکیل و آنریری مجسٹریٹ درجہ اول۔ ضلع الہ آباد۔ مولوی محمد نجم الدین صاحب۔ رئیس چڑیا کوٹ۔ ضلع اعظم گڑھ۔ مولوی محمد حامد حسن خاں صاحب بہادر۔ رئیس بریلی ۔ سب آرڈینٹ جج۔ اعظم گڑھ۔ منشی محمد ذکاء اللہ صاحب رئیس دہلی۔ پروفیسر سیور کالج۔ الہ آباد۔ حکیم محمد حکمت اللہ صاحب۔ رئیس بدایوں۔ سیکرٹری نے چٹھی پرائیویٹ سیکرٹری حضور عالی جناب ویسرائے اور گورنر جنرل لارڈ نارتھ بروک صاحب دام اقبالہ مؤرخہ 19جولائی 1872ع پیش کی، جس میں حضور ممدوح نے عام دنیاوی علوم کی ترقی کے لیے یہ چند شرائط مندرجہ چٹھی مذکور اس مدرسہ کے لیے دس ہزار روپیہ چندہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ صدر انجمن نے اس بات کی تحریک کی کہ حضور ویسرائے نے جو توجہ اور اپنا شوق واسطے تعلیم مسلمانوں کے بذریعہ عطا فرمانے اس فیاضانہ ڈونیشن کے ظاہر فرمایا ہے۔ اس کا دلی شکر کمیٹی کی جانب سے ادا کیا جاوے۔ صدر انجمن نے یہ بھی تجویز کی کہ حضور ویسرائے کو اس بات کی بھی اطلاع دی جاوے کہ تمام مسلمانان ہندوستان جن کی حکومت و محافظت کے لیے حضور ملکہ معظمہ نے آپ کو مامور کیا ہے۔ آپ کی سخاوت کے نہایت ممنون ہیں اور جب یہ مدرسہ قائم ہو جاوے گا تو مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کے لیے یہ بے نظیر سخاوت ہمیشہ کو یاد رہے گی۔ سید محمد حامد نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ اس کے بعد سیکرٹری نے چٹھی ہز ہائی نیس مختار الملک سر سالار جنگ بہادر، کے۔ سی۔ ایس۔ آئی وزیر اعظم حیدر آباد دکھن، مؤرخہ 26جولائی 1872ع پیش کی اور کمیٹی کو اطلاع دی کہ ہز ہائی نیس نے چار ہزار روپیہ واسطے مدرستہ العلوم مسلمانان کے مرحمت فرمایا ہے۔ دو ہزار روپیہ بالفعل اور دو ہزار روپیہ بر وقت قیام مدرسہ۔ صدر انجمن نے تحریک کی کہ ہز ہائی نیس کا اس فیاضانہ چندہ کے لیے کمیٹی کی جانب سے دلی شکر ادا کیا جاوے اور یہ بھی اطلاع دی جاوے کہ کمیٹی کا خاص مقصد اور کوشش یہی ہے کہ اس مدرسہ میں طالب علم ایسی ہی علمیت اور فضیلت حاصل کریں جیسی کہ انگلستان میں آکسفورڈ اور کیمبرج کی یونیورسٹیوں میں طلبا حاصل کرتے ہیں۔ صرف اتنا فرق رہے کہ انگلستان کی یونیورسٹیوں میں جو عیسائی مذہب کی تعلیم ہوتی ہے بہ عوض اس کے ہمارے مدرستہ العلوم میں ( جو انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن محمدن یونیورسٹی کے نام سے پکارا جاوے گا) مذہب اسلام کی تعلیم ہو۔ ایک کمرہ میں اہل سنت و جماعت کی اور ایک کمرہ میں شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کی ۔ صدر انجمن نے اس بات کی بھی تحریک کی کہ ہز ہائی نیس کا اس تحریک کی نسبت بھی شکر کیا جاوے، جو انھوں نے خیال فرمایا ہے کہ اگر یہ مدرسہ درستی سے قائم ہو جاوے تو حضور ممدوح بھی حیدرآباد سے چند رئیسوں کے لڑکوں کو اس مدرسہ میں تعلیم کے لیے بھیجیں گے۔ کیونکہ اس بات سے کمیٹی کو نہایت تقویت ہوئی ہے۔ سید محمد حامد نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ بعد اس کے سیکرٹری نے آنریبل آرا سپینکی صاحب بہادر جسٹس ہائی کورٹ الہ آباد کی چٹھی مؤرخہ 30جون 1872ع پیش کی اور اطلاع کی کہ صاحب ممدوح نے تین سو روپیہ واسطے مدرسہ کے عنایت فرمایا ہے۔ صدر انجمن نے تحریک کی کہ صاحب ممدوح کا دلی شکریہ بابت ڈونیشن اور بالتخصیص اس طرز تحریر کی نسبت جس طرز میں صاحب ممدوح نے چٹھی لکھی ہے اور جس سے ایک فیاضانہ نیکی اور ہمدردی مسلمانوں کی تعلیم میں پائی جاتی ہے، ادا کیا جاوے۔ سید محمد حامد نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ بعد اس کے سیکرٹری نے چٹھی بابو شیوا پرشاد صاحب سی۔ ایس۔ آئی۔ انسپکٹر محکمہ تعلیم قسمت سوم ممالک مغربی و شمالی مؤرخہ 29جولائی 1872ع پیش کی، جس میں بابو صاحب ممدوح نے انھی شرائط پر جو حضور ویسرائے نے مقرر کی ہیں اور چٹھی پرائیویٹ سیکرٹری مؤرخہ 19جولائی 1872ع میں مندرج ہیں اور نیز اس شرط پر کہ مدرسہ الہ آباد میں قائم ہو، مدرسہ کے لیے ہزار روپیہ چندہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ صدر انجمن نے تحریک کی کہ بابو صاحب نے جو ہمدردی مسلمانوں کے ساتھ بہ سبب سچی حب وطنی کے، کی اس کا شکریہ کمیٹی کی طرف سے ادا کیا جاوے۔ منشی محمد یار خاں صاحب نے کہا کہ میں صاحب صدر انجمن کی اس تجویز سے کہ بابو صاحب ممدوح کا شکریہ ادا کیا جاوے، اتفاق کرتا ہوں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ بابو صاحب نے سچی حب وطنی کے خیال سے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کی ہے مگر مجھ کو ایسے ڈونیشنوں کی منظوری میں اور ایسے چندہ دینے والوں کے نام فہرست چندہ میں مندرج ہونے سے جو مشروط بہ شرائط چندہ دیتے ہیں، عذر و انکار ہے۔ مقصد کمیٹی کا یہ ہے کہ سرمایہ جمع کرتی جاوے جب تک کہ مدرسہ قائم کرنے کے لیے کافی ہو۔ اگر لوگ ایسی شرطوں کے ساتھ چندہ دیں اور وہ منظور ہو تو سرمایہ کا جمع ہونا مدرسہ کے قائم ہونے پر اور مدرسہ کا قائم ہونا چندہ کے جمع ہونے پر موقوف اور منحصر ہو گا اور یہ ایک ایسا نقص ہے کہ جس سے میری رائے میں مقصد کمیٹی کا بالکل ضائع ہو جاوے گا۔ پس میری یہ رائے ہے کہ جو چندہ ساتھ کسی شرط و قید کے آوے (سوائے کسی خاص حالت کے) فوراً نامنظور ہو۔ سیکرٹری نے کہا کہ مجھے اس گفتگو کے سننے سے افسوس ہے۔ حضور ویسرائے نے انھی شرطوں سے چندہ عطا فرمایا ہے اور کمیٹی نے اس کو قبول کرنے میں کچھ عذر نہیں کیا۔ حضور نواب لفٹنٹ گورنر بہادر کا چندہ بھی قریب قریب انھی شرطوں پر مشروط ہے جن پر کچھ عذر نہیں ہوا۔ پس میں کوئی وجہ نہیں پاتا کہ بابو صاحب کے چندے پر اس قدر اعتراض ہوتا ہے۔ مولوی محمد عارف صاحب نے منشی محمد یار خاں کی رائے سے اتفاق کیا اور کہاکہ جو کچھ سیکرٹری مجلس نے ابھی فرمایا ہے وہ سب سچ ہے۔ مگر حضور ویسرائے اور جناب نواب لفٹنٹ گورنر بہادر کی شرائط چندہ کے قبول کرنے اور بابو صاحب کی شرائط چندہ کی منظور کرنے میں بڑا فرق ہے۔ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کمیٹی دل و جان سے چندہ جمع کرنے میں کوشش کر رہی ہے اور اگر لوگوں کا شوق ایسا ہی رہے جیسا کہ اس وقت تک ہے اور وہ لوگ زر نقد دینے سے ایسی ہی مدد کریں جیسی کہ وہ اس وقت کر رہے ہیں تو امید قوی ہے کہ برس دو برس کے اندر کمیٹی اپنے مقصد یعنی مدرستہ العلوم قائم کرنے پر کامیاب ہو جاوے گی اور انشاء اللہ تعالیٰ ضرور مدرسہ قائم ہو جاوے گا اور اگر بالفرض اس زمانہ میں کمیٹی کی کوششوں سے مدرسہ قائم ہونے میں توقف ہوا تو ہماری نسلیں اور ہمارے جانشین مدرسہ قائم کرنے کی کوشش کو کبھی ترک نہ کریں گے۔ حضور ویسرائے اور جناب لفٹنٹ گورنر بہادر کا چندہ اس یقین پر قبول کیا گیا ہے کہ جب کبھی مدرسہ قائم ہو وہ چندہ ضرور ملے گا۔ اگر ہماری موجودہ کمیٹی اپنی زندگی میں مدرسہ قائم کر لے تو وہ خود وہ دونوں چندے پاوے گی اور اگر اپنی زندگی میں قائم نہ کر سکے تو ان کے جانشین حضور ویسرائے اور جناب لفٹنٹ گورنر بہادر سے یا ان کے قائم مقاموں سے بہ مجرد قائم ہونے مدرسہ کے چندہ پاویں گے۔ لیکن اور لوگوں سے ایسے زمانہ دراز اور پشتوں تک چندہ وصول ہونے کی کیا توقع ہے۔ پس میری رائے میں چندہ کی فہرست میں ایسا چندہ مندرج کرنا جس پر خود کمیٹی کو یقین نہیں ہے محض فضول ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ میری گفتگو تو عموماً ایسے چندوں کی نسبت ہے جو مشروط بہ شرائط ہوں۔ لیکن بابو شیرا پرشاد صاحب کے چندہ کی نسبت مجھ کو اور بھی اعتراض ہے۔ بابو صاحب نے مدرسہ کے الہ آباد میں قائم ہونے پر چندہ کا دینا مشروط کیا ہے اور یہ شرط برخلاف دفعہ 33 قواعد مجلس مرتبہ 1872ع کے ہے۔ اگر اس شرط پر چندہ قبول کیا جاوے تو کمیٹی کی آزادی نہ رہے گی اور گویا اسی وقت مقام مدرسہ کا تصفیہ ہو جاوے گا اور یہ کاروائی خلاف قاعدہ مذکور کے ہے، جس کو میں پسند نہیں کرتا۔ سیکرٹری نے کہا کہ افسوس ہے کہ بابو صاحب نے حضور ویسرائے کی شرطوں سے بھی ایک شرط اور زیادہ کر دی۔ پس بہ لحاظ ان وجوہات کے جو میرے دوست مولوی محمد عارف نے فرمائیں میں ان سے بہ مجبوری اتفاق کرتا ہوں۔ مگر اس خیال سے کہ آئندہ نسبت منطوری یا نامنظوری چندوں کے ممبروں میں اختلاف رائے نہ ہو، میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ نسبت قواعد چندہ کے کچھ تشریح کر دی جاوے۔ کمیٹی نے اس تحریک کو پسند کیا اور دفعہ ۱۶، ۱۷ قواعد مجلس مرتبہ 1872ع کے حسب تفصیل ذیل تشریح کی۔ تشریحات ۱۔ کسی شخص کا چندہ یا عطیہ کسی ایسی شرط پر جو برخلاف قواعد مرتبہ 1872ع کے ہو منظور نہ ہو گا اور نہ داخل فہرست چندہ کیا جاوے گا۔ ۲۔ کسی مسلمان کا چندہ (سوائے کسی صورت خاص کے جس کو کمیٹی منظور کرے) اس شرط پر کہ جب مدرسہ قائم ہو جاوے گا اس وقت چندہ دیا جاوے گا نہ منظور ہو گا نہ درج فہرست چندہ کیا جاوے گا۔ کیوں کہ مسلمانوں کا فرض اس وقت چندہ جمع کرنا ہے تاکہ مدرسہ جاری ہو، نہ کہ اس کے اجرا پر چندہ دینے کا وعدہ کرنا۔ علاوہ اس کے جو کچھ مسلمان مدرسہ کے لیے دیتے ہیں وہ بموجب ان کے مذہب کے خیرات اور وقف فی سبیل اللہ ہے اور وقت دینے چندہ سے ان کو اس وقف کا مذھباً ثواب ملتا ہے گو کہ مدرسہ کتنی ہی مدت کے بعد کیوں نہ جاری ہو۔ ۳۔ البتہ مسلمان چندہ دینے والے اپنے چندوں میں مفصلہ ذیل شرطیں قائم کر سکتے ہیں: (الف) ان کا زر چندہ سود میں نہ لگایا جاوے بلکہ اس سے کوئی جائداد خریدی جاوے جس کا ذکر قواعد مجلس مرتبہ 1872ع میں مندرج ہے اور ممبران کمیٹی ان کی اس شرط کے بجا لانے کے پابند ہوں گے۔ (ب) زر چندہ قسط وار ایک میعاد مناسب معین میں ادا کیا جاوے گا۔ ۴۔ سوائے مسلمانوں کے اور جو صاحب براہ فیاضی چندہ دیں وہ مجاز ہوں گے کہ مفصلہ ذیل شرطوں میں سے اگر کسی شرط کا مقرر کرنا چاہیں تو مقرر کر دیں۔ (الف) ان کو اختیار ہو گا کہ اپنا چندہ صرف دنیاوی علوم کی تعلیم کے لیے مخصوص کر دیں اور کمیٹی کا لازم ہو گا کہ اس روپیہ کو اسی کام میں لگاوے۔ (ب) وہ بھی اپنا چندہ بذریعہ اقساط وقت مناسب اور معین میں دے سکیں گے۔ (ج) وہ اس شرط کے مقرر کرنے کے بھی مجاز ہوں گے کہ بعد قائم ہونے مدرسہ کے ان کا چندہ ادا کیا جاوے گا۔ مگر کمیٹی کو اختیار ہو گا کہ بہ لحاظ مقدار زر چندہ اور نیز بہ لحاظ چندہ دینے والے کے کہ اس سے امید قوی چندہ وصول ہونے کی بر وقت قیام مدرسہ (گو کہ وہ کسی وقت قائم ہو) ہے یا نہیں۔ اس چندہ کو منظور یا نامنظور کرے۔ سیکرٹری کو ہدایت ہوئی کہ اس قسم کا چندہ بلا منظوری کمیٹی درج فہرست چندہ نہ ہوا کرے۔ بعد اس کے بالاتفاق رائے ممبران کمیٹی یہ امر قرار پایا کہ بابو شیوا پرشاد صاحب نے جو سچی حب وطنی سے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کی ہے اس کا دلی شکر کمیٹی کی طرف سے کیا جاوے اور اس بات کی بھی اطلاع دی جاوے کہ چوں کہ ان کی اخیر شرط خلاف دفعہ ۳۳۔ قواعد کمیٹی کے ہے۔ اس لیے کمیٹی ان کا نام نامی اور فیاضانہ چندہ فہرست میں مندرج کرنے سے معذور ہے۔ اگر بابو صاحب اس شرط کو موقوف کر دیں تو کمیٹی نہایت شکر کے ساتھ ان کا چندہ قبول کرے گی۔ بعد اس کے شکریہ صدر انجمن کا ادا کیا گیا اور مجلس برخاست ہوئی۔ سید احمد سیکرٹری مجلس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اہم غلطی کی اصلاح سرسید نے ایک بہت اہم اور محققانہ مضمون ’’ابطال غلامی‘‘ کے عنوان سے تہذیب الاخلاق جلد دوم کے چھ شماروں میں بڑی تفصیل سے لکھا تھا۔ جو تہذیب کے 15رجب ۔ یکم شعبان۔ یکم رمضان۔ 15رمضان اور یکم شوال 1288ھ کے چھ پرچوں میں بڑی تشریح اور تحقیق کے ساتھ شائع ہوا۔ مگر اس میں ایک حدیث نقل کرتے ہوئے سرسید سے غلطی ہو گئی اسی غلطی کی اصلاح کے لیے سرسید نے اپنے رسالہ تہذیب الاخلاق جلد ۳ نمبر ۱۰ بابت 15جمادی الاول 1289ھ کے صفحہ 202 پر یہ مضمون لکھا جو ذیل میں ھدیہ ناظرین کیا جا رہا ہے۔ ’’ابطال غلامی‘‘ کا آرٹیکل جو تہذیب الاخلاق کے متعدد پرچوں میں چھپا ہے اور جس کا نام تبریۃ الاسلام عن شین الامۃ والغلام ہے اس آرٹیکل میں ایک بڑی غلطی ہم سے ہو گئی ہے۔ یعنی اس کے باب ہفتم میں بذیل بیان ازواج مطہرات کے ہم نے ایک حدیث صحیح مسلم سے نسبت حضرت جویریہ کے نقل کی ہے۔ افسوس ہے کہ جس کتاب سے ہم نے حدیث کو نقل کیا۔ اس میں غلطی تھی، یعنی بجائے اس لفظ کے ’’فاخبر فاطمہ فجاء ت وھی جو یریۃ‘‘ یہ غلط لفظ لکھے ’’فاخبر فاطمہ فجاء ت وھی و جویریۃ‘‘ افسوس ہے کہ ہم نے اپنی جہالت سے اسی غلط عبارت کی پیروی کی۔ اسی کو نقل کیا اور اسی کو بطور ایک اختلاف کے لکھ دیا۔ پس ہم اس خط کا اور اپنی جہالت کا اقرار کرتے ہیں اور ناظرین تہذیب الاخلاق سے امید کرتے ہیں کہ پرچہ مطبوعہ یکم شوال سن 1288 ہجری کے صفحہ 156 کے کالم اول کی سطر اول لفظ ’’صحیح مسلم‘‘ سے پانچویں سطر کے لفظ ’’ہو سکتا ہے‘‘ تک اور سولھویں سطر سے اخیر کالم تک جو عبارت لکھی ہے اس کو کاٹ دیں۔ اب ہم اپنے شفیق مولوی علی بخش خاں صاحب سب آرڈینٹ جج کو رکھ پور کا شکر ادا کرتے ہیں جن کے فرمانے سے ہم اس غلطی سے متنبہ ہوئے‘‘ راقم سید احمد خاکسار محمد اسماعیل نے یہ مضمون مقالات سرسید جلد چہارم میں صفحہ 390 سے صفحہ 536 تک نقل کیا ہے اس میں وہی غلطی ہو گئی جس کا اشارہ سرسید نے اوپر کی سطور میں کیا ہے۔ سرسید کے لکھنے کے مطابق جو سطور کاٹنی ہیں وہ مقالات سرسید جلد چہارم کے صفحہ 519سطر ۲ ’’صحیح مسلم‘‘ سے سطر ۸ ’’ ھو سکتا ہے‘‘ ہیں اور اس کے بعد اسی صفحہ کی آخری چھ سطریں کاٹ دیں۔ پھر صفحہ 520 کی اولین ۲۰ سطریں کاٹ دیں تو مضمون ٹھیک ہو جائے گا۔ جس وقت مقالات سرسید کا حصہ چہارم مرتب ہو رہا تھا۔ اس وقت میری نظر اس غلطی کی طرف نہیں گئی بعد میں میں نے دیکھا تو اب سرسید کا اعتذار اور اپنا نوٹ شائع کر رہا ہوں۔ ناظرین کرام اپنی اپنی کتابوں میں اس مقام کو درست فرما لیں۔ (خاکسار محمد اسماعیل پانی پتی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کی قسمت (تہذیب الاخلاق جلد سوم نمبر ۱۳ بابت یکم رجب 1289ھ صفحہ 120۔121) یہ سچ ہے کہ زمانہ کبھی یکساں نہیں رہتا۔ کبھی خوش نصیبوں کو بد نصیب کر دیتا ہے اور کبھی بدنصیبوں کو خوش نصیب۔ مگر ہر ایک تغیر و تبدل کے آثار شروع ہو جاتے ہیں ، جس سے آئندہ کے نتیجے کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ اس زمانہ میں ہم مسلمانوں کی قسمت کو دیکھتے ہیں کہ تقدیر ان کی قسمت کو کچھ بلند کرتی ہے یا ایسا گراتی ہے، جس کے سنبھلنے کی پھر کچھ تدبیر نہ ہو۔ اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ تمام مسلمان تمام ہندوستان کے، ا س بات کو دل سے قبول کرتے ہیں کہ ترقی، دولت و حشمت و عزت و مذہب سب عمدہ تعلیم پر منحصر ہے اور اس بات کو بھی تمام ہندوستان کے لوگ قبول کرتے ہیں کہ مسلمانون کی اور ان کی اولاد کی تربیت کے لیے کسی عمدہ طریقۂ تعلیم کے قائم کرنے اور اس کے اسباب و لوازم کے بہم پہنچانے کی نہایت اشد ضرورت ہے اور اس بات کا بھی سب کو یقین ہے کہ اگر ایسا ہی زمانہ چلا گیا اور کچھ تدبیر نہ کی گئی تو یہ مرض لا علاج ہو جاوے گا اور اس بات پر بھی سب کی رائے متفق ہے کہ اس کا علاج صرف یہی ہے کہ ایک بہت بڑا مدرستہ العلوم خاص مسلمانوں کے لیے قائم کیا جاوے، جس میں جمیع علوم و فنون دینی اور دنیوی کی بدرجہ کمال تعلیم ہو۔ اس دوائے جاں بخش کی خواہش سب کو تھی اور اب بھی ہے۔ مگر اس خیال سے کہ کیوں کر حاصل ہو، ایک مایوسی ہوتی تھی۔ اس دوا کا حاصل ہونا چنداں مشکل نہ تھا۔ ہاں البتہ اس کے حاصل کرنے کو سعی اور کوشش اور ہمت درکار تھی۔ پس اس زمانے میں اس کام پر کوشش شروع ہوئی ہے اور بلاشبہ اس کا کامیاب ہونا یا نہ ہونا پوری نشانی خوش نصیبی یا بدنصیبی مسلمانوں کی ہو گی۔ پس اے مسلمانوں! تم اس بات پر غور کرو کہ ہمیشہ موقع اور وقت ہاتھ نہیں آتا۔ جیسی کوشش اس وقت تک مدرسہ کے لیے ہو رہی ہے، کبھی ایسی کوشش ہونے کی توقع تھی؟ دیکھو خدا کی مہربانی سے کیسے اچھے سامان نظر آتے ہیں حضور جناب لارڈ نارتھ بروک صاحب ویسرائے و گورنر جنرل بہادر نے اپنی جیب خاص سے ہم مسلمانوں کی تعلیم کے لیے دس ہزار روپیہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ حضور نواب لفٹنٹ گورنر بہادر نے اپنی جیب خاص سے عطیہ عطا فرمانے کے علاوہ گورنمنٹ کی جانب سے گرانٹ ان ایڈ دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ یہ وعدہ کچھ کم نہیں ہے بلکہ ہمارے سرمایہ کو یک لخت دو گنا کر دیتا ہے اگر ہم پانچ لاکھ روپیہ جمع کر لیں تو وہ اس عطیہ گرانٹ ان ایڈ سے حقیقت میں دس لاکھ ہو جاتے ہیں اور اگر دس لاکھ جمع کریں تو بیس لاکھ ہو جاتے ہیں۔ پس ایسی بڑھتی دولت کی ہم کو کب توقع تھی؟ دور دور کے مسلمان بھی اپنی قوم کی ترقی کے سامان دیکھ کر خوش ہوئے ہیں اور چندہ وصول کرنے اور دینے میں کوشش و فیاضی دونوں کو کام میں لا رہے ہیں۔ ہندوئوں نے بھی ہمارے ساتھ ہمدردی و فیاضی کی ہے، چند غریب آدمیوں نے اور بعض بڑے آدمیوں نے بھی چندہ دیا ہے۔ پس اس وقت جو کوشش ہو رہی ہے، وہ ایسی کوشش ہے جس کی توقع ہر گز نہ تھی۔ پس اب سب مسلمانوں کو زیادہ ہمت اور زیادہ کوشش کرنی چاہیے تاکہ یہ سعی حسب مرا دکامیاب ہو۔ اے مسلمانوں! اس بات کو بھی تم خیال کرو کہ اگر اس وقت تم نے ہمت نہ کی اور سعی و کوشش میں کوتاہی کی اور خدانخواستہ یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو پھر کبھی تمہاری بھلائی اور تمہاری بہبودی کی توقع نہ ہو گی۔ کہاں سے یہ وقت پھر ہاتھ آوے گا، جو اس وقت ہاتھ میں ہے۔ کہاں سے یہ موقع باقی رہے گا، جو اس وقت ہے۔ کون تمہارے لیے اپنی جان، اپنا مال، اپنا وقت، اپنا آرام تم پر فدا کرنے والا پیدا ہوگا، جو پھر تمہارے لیے کوشش و سعی کرے گا۔ کس کو ایسی ہمت و جرأت ہو گی کہ اس کوشش کو خدا نخواستہ ناکامیاب دیکھ کر پھر آئندہ کسی قسم کی سعی و کوشش کرنے کی ہمت کرے۔ اے مسلمان بھائیوں! میں خوب جانتا ہوں کہ تم میری حرکات و افعال ناشائستہ سے اس وقت ناراض ہو۔ میرے افعال و اقوال کو تو خدا پر چھوڑ دو اور میرے حق میں یہ شعر حافظ کا پڑھو۔ یکے از عقل می لافد دگر طامات می بافد بیا کین داوری ھا را بہ پیش داور اندازیم مگر اس بات کو سوچو کہ جس کوشش و سعی سے مسلمانوں کے دینی و دنیوی علوم کی تعلیم کے لیے مدرسہ قائم کیا جاتا ہے، اس سے اور میری ان باتوں سے کیا تعلق ہے۔ مدرسہ کے لیے جو تم چندہ دیتے ہو، میرے لیے نہیں ہے۔ بلکہ ان کے لیے ہے، جن کو تم عزیز رکھتے ہو۔ پس کیا تم میرے لیے اپنی قوم کو اور اپنی اولاد کو اور اپنی قوم کی اولاد کو ڈوبنے اور مرنے دو گے۔ اے ناصحان شفیق! میں آپ کی نصیحتوں کا بڑا احسان مند ہوں ۔ مگر اس دفتر کو اس وقت رہنے دو اور اپنی قوم اور اپنے اہل مذہب کی خبر لو اور جو کوشش ان کی بھلائی کے لیے ہو رہی ہے اس میں مدد کرو۔ اے مجھ پر طعنہ کرنے والے بھائیوں! تم ذرا سوچو اور انصاف کرو کہ مجھ کو تو اتنی بھی توقع نہیںہے کہ اگر یہ کوشش کامیاب بھی ہو جاوے اور مدرسہ قائم بھی ہو جاوے تو بھی اس کے نتیجے دیکھنے تک میں زندہ رہوں۔ پھر کیامیری ذات کو اس مدرسے سے کچھ تعلق ہے۔ میں تو صرف انھی لوگوں کی بھلائی کے لیے جن کو تم اچھا اور پیارا جانتے ہو، کوشش کرتا ہوں۔ میں تمہارا ددکارا سہی، مگر تم اپنے پیاروں کے لیے کوشش کرو۔ اے بھائی مسلمانوں! تم خوب جان لو کہ یہ وقت عین تمہاری قسمت آزمائی کا ہے۔ اگر تم ہوشیار نہ ہو گے اور اس مدرسہ کے قائم ہونے میں دل و جان سے مدد نہ کرو گے، تو تم یقینا جان لینا کہ کیا کیا کچھ مصیبتیں نہ ہوں گی جو تم پر اور تمہاری اولاد پر نہ پڑیں گی۔ گو ہم اس وقت نہ ہوں گے، مگر ہمارے یہ چند کلمے محبت و درد آمیز تمہارے سامنے موجود ہوں گے۔ الٰہی! تو اپنے بندوں مسلمانوں کو توفیق نیک دے اور ان کے دل کی آنکھوں کو روشن کر تاکہ وہ موجودہ حالت کو دیکھیں اور آئندہ کی حالت کو سمجھیں۔ سچ ہے، تعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر۔ انک علیٰ کل شئی قدیر۔ راقم سید احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روئداد اجلاس مجلس خزنتہ البضاعتہ لتاسیس مدرستہ العلوم للمسلمین منعقدہ 26اگست 1872ء (تہذیب الاخلاق۔ جلد سوم۔ نمبر 14۔ بابت 20رجب 1289ہجری) صدر انجمن مولوی محمد عارف صاحب ممبران موجودہ سید محمد حامد خاں صاحب مرزا رحمت اللہ بیگ صاحب منشی محمد یار خاں صاحب سیکرٹری سید احمد خاں سی۔ ایس۔ آئی روئدادیں اجلاس ہائے منعقدہ جولائی و 8اگست 1872ء جو بہ دستخط سیکرٹری مرتب اور کتاب روئداد میں مندرج تھیں، ملاحظہ ہوئیں۔ سید محمد حامد خاں صاحب نے کہا کہ ہماری کمیٹی کے قواعد وصول چندہ میں جو یہ امر قرار پایا ہے کہ چندہ صرف مسلمانوں اور عیسائیوں سے طلب کیا جاوے اور ہندوئوں کی نسبت یہ بات تجویز ہوئی کہ اگر وہ مہربانی سے دیں تو نہایت شکر گزاری سے لیا جاوے، مگر درخواست نہ کرنی چاہیے۔ جس اصول پر یہ قاعدہ قرار پایا ہے، وہ بلاشبہ صحیح اور عمدہ ہے۔ بے شک عیسائی گورنمنٹ جو ہم پر حاکم ہے، اس کا فرض ہے کہ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے جو مثل اور قوموں کے اس کی رعایا ہیں، مدد کرے۔ پس اس سے درخواست چندہ کی کرنا کچھ بے جا نہیں تھا اور مسلمانوں کا تو خاص فرض ہے کہ وہ اپنے ہم قوم و ہم مذہب لوگوں کی تعلیم اور بھلائی میں جہاں تک ممکن ہو مدد کریں۔ اگر بہ عوض درخواست کرنے کے کوئی ایسا قاعدہ جاری کرنا ممکن ہوتا کہ بہ جبر ان سے لیا جاوے تو بھی مضایقہ نہ ہوتا اور میں سمجھتا ہوں کہ ہندوئوں سے درخواست نہ کرنے کی تجویز اس لیے کی گئی تھی کہ اس مدرسہ میں کوئی خاص طریقہ ان کی تعلیم کا قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔ بلاشبہ عام طور پر ان کا بھی تعلیم پانا ممکن ہے۔ مگر جب کہ ان کی تعلیم عام طور پر ہوتو ان سے خاص چندہ طلب کرنا غیر مناسب تھا اور اس لیے یہی بات مناسب تھی کہ جو ہندو رئیس ہم وطن ہونے کی ہمدردی سے چندہ دے تو نہایت شکر گزاری سے قبول کیا جاوے۔ یہ پچھلا اصول عام لوگوں سے بالکل مناسبت رکھتا ہے۔ الا ان راجائوں سے جو صاحب ملک ہیں اور ہزاروں مسلمان ان کے ملک میں بہ طور ان کی رعیت کے بستے ہیں کسی طرح مناسبت نہیں رکھتا۔ مجوزہ مدرستہ العلوم کسی خاص ملک کے مسلمانوں کو ہی فائدہ نہیں پہنچانے کا بلکہ تمام ہندوستان کے مسلمانوں کو فائدہ پہنچاوے گا اور کچھ شبہ نہیں ہے کہ راجائوں کے ملک کے مسلمان جو ان کی رعیت ہیں، وہ بھی اس مدرسہ میں تعلیم پانے کو آویں گے اور جو کتابیں علوم کی بذریعہ اس مدرسہ کے جاری ہوں گی اور مشتہر ہو ں گی اور ہر ہر ملک میں پھیلیں گی، ان سے راجائوں کے ملک کے تمام مسلمانوں کو بھی فائدہ پہنچے گا اور جو طالب علم اس مدرسہ میں تعلیم پا کر اطراف میں جاویں گے، ان سے بھی ہندوستانی ریاستوں کی مسلمان رعایا کو بہت کچھ فائدہ ہو گا۔ پس کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان راجائوں سے جو والیان ملک ہیں، جن کی عمل داری میں مسلمان بہ طور رعیت کے بستے ہیں، چندہ کی درخواست نہ کی جاوے۔ کچھ شبہ نہیں ہے کہ بر وقت مرتب کرنے قواعد کے اس امر پر لحاظ نہیں ہوا تھا اس واسطے میں تحریک کرتا ہوں کہ دفعہ 16 قواعد کی ترمیم کی جاوے تاکہ ممبران مجلس کو ان راجائوں سے بھی جن کی عمل داری میں مسلمان بہ طور رعایا کے بستے ہیں چندہ کی درخواست کرنے کی اجازت ہو۔ صدر انجمن نے اس تحریک کی تائید کی اور سب نے اتفاق ظاہر کیا جو کہ بلا طلب رائے جملہ ممبران کمیٹی کے قواعد مذکورہ کی ترمیم نہیں ہو سکتی۔ اس لیے بالاتفاق یہ تجویز ہوئی کہ باقی ممبران کمیٹی سے بھی جو اس وقت شریک جلسہ نہیں ہیں۔ نسبت اس ترمیم کے رائے طلب کی جاوے۔ بعد اس کے شکریہ صدر انجمن کا ادا کیا گیا اور مجلس برخواست ہوئی۔ سید احمد خاں سیکرٹری مجلس خزنتہ البضاعۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روئداد اجلاس مجلس خزنتہ البضاعۃ لتاسیس مدرستہ العلوم للمسلمین منعقدہ 25ستمبر 1872ع (تہذیب الاخلاق ۔ جلد سوم۔ نمبر 14۔ بابت20 رجب 1289ہجری صفحہ 131تا 133) صدر انجمن نواب محمد حسن خاں صاحب بہادر۔ ممبران موجودہ مرزا رحمت اللہ بیگ صاح۔ سید محمد حامد خاں صاحب۔ مولوی اشرف حسین خاں صاحب۔ شیخ غلام علی صاحب۔ مولوی محمد عارف صاحب۔ منشی محمد یار خاں صاحب۔ سیکرٹری سید احمد خاں سی۔ ایس۔ آئی۔ روئداد اجلاس منعقدہ 26اگست 1872ع جو بہ دستخط سیکرٹری مرتب اور کتاب روئداد میں مندرج تھی، ملاحظہ ہوئی۔ سیکرٹری نے چٹھی سیکرٹری حضور نواب لفٹنٹ گورنر بہادر اضلاع شمال و مغرب مورخہ 28 اگست 1872ئ، جس کے ساتھ نقل چٹھی سیکرٹری حضور عالی جناب گورنر جنرل بہادر مورخہ 9 اگست 1872 ء نمبر 339شامل تھی پیش کی۔ جو توجہ کہ حضور نواب گورنر جنرل بہادر نے مدرستہ العلوم مسلمانان کی نسبت فرمائی اور یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جو مدد کہ گورنمنٹ سے اس مدرستہ العلوم کے لیے ہو سکتی ہے وہ کی جاوے گی اور دلی توجہ حضور نواب لفٹنٹ گورنر بہادر نے فرمائی ہے اس سبب سے مطلع ہو کر تمام ممبروں کو ایک بڑی تقویت ہوئی اور حضور عالی جناب نواب گورنر جنرل بہادر اور حضور جناب نواب لفٹنٹ گورنر بہادر کا شکریہ بالاتفاق مجلس نے ادا کیا۔ بعد اس کے سیکرٹری نے اطلاع کی کہ واسطے ترمیم دفعہ 16 قواعد کمیٹی کے حسب تجویز اجلاس گزشتہ میں نے تمام ممبران کمیٹی سے سوائے ان دو ممبروں کے جو ہندوستان میں موجود نہیں ہیں، رائے طلب کی تھی۔ جس کا نتیجہ حسب ذیل تفصیل ہے: مفصلہ ذیل ممبروں نے ترمیم منظور کی ۱۔ مولوی محمد عارف صاحب۔ ۲۔ سید محمد حامد خاں صاحب۔ ۳۔ مرزا محمد رحمت اللہ بیگ صاحب۔ ۴۔ منشی محمد یار خاں صاحب۔ ۵۔ سید احمد خاں سی۔ ایس۔ آئی۔ ۶۔ منشی محمد سبحان حیدر صاحب۔ ۷۔ مولوی اشرف حسین خاں صاحب۔ ۸۔ نواب محمد حسن خاں صاحب۔ ۹۔ شیخ غلام علی صاحب۔ ۱۰۔ مولوی سید فرید الدین احمد صاحب۔ ۱۱۔ شیخ محمد جان صاحب۔ ۱۲۔ شیخ محمد فیاض علی صاحب۔ ۱۳۔ مولوی محمد اکرام صاحب۔ ۱۴۔ مولوی فضل احمد خاں صاحب۔ ۱۵۔ سید محمد میر بادشاہ صاحب۔ ۱۶۔ مولوی محمد حیدر حسن صاحب۔ ۱۷۔ مولوی خواجہ محمد یوسف صاحب۔ ۱۸۔ مولوی سید زین العابدین صاحب۔ ۱۹۔ مولوی محمد عنایت رسول صاحب۔ ۲۰۔ نواب محمد احمد اللہ خان صاحب۔ ۲۱۔ مولوی سید مہدی علی صاحب۔ ۲۲۔ مولوی محمد حامد حسن خاں صاحب۔ ۲۳۔ مختار الدولہ نواب محمد فیض علی خاں بہادر سی۔ ایس ۔ آئی ۲۴۔ سید ظہور حسین صاحب۔ ۲۵۔ مولوی محمد اسماعیل صاحب۔ ۲۶۔ جناب خلیفہ سید محمد حسن صاحب۔ ۲۷۔ مولوی سید امداد علی صاحب۔ ۲۸۔ حکیم محمد حکمت اللہ صاحب۔ ۲۹۔ منشی محمد صدیق صاحب۔ ۳۰۔ سید محمد احمد خاں صاحب۔ مفصلہ ذیل ممبروں نے ترمیم کو نامنظور کیا مفصلہ ذیل ممبروں کے پاس سے جواب نہیں آیا ۱۔ جناب مولوی محمد عثمان خاں صاحب۔ ۲۔ مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب۔ ۳۔ محمد عنایت اللہ خاں صاحب۔ ۴۔ شیخ خیر الدین احمد صاحب۔ ۵۔ منشی محمد الٰہی بخش صاحب۔ ۶۔ مولوی محمد امانت اللہ صاحب۔ ۷۔ حاجی مولوی محمد عبدالاحد صاحب۔ ۸۔ مولوی محمد نجم الدین صاحب۔ ۹۔ منشی محمد ذکاء اللہ صاحب۔ مفصلہ ذیل ممبر ہندوستان میں موجود نہیں ہیں ۱۔ حافظ احمد حسن صاحب۔ ۲۔ سید محمد محمود صاحب۔ صدر انجمن نے تحریک کی کہ جو کہ کثرت رائے ممبروں کی اس دفعہ کی ترمیم پر ہو گئی۔ اس لیے اس کی ترمیم عمل میں آوے۔ چناں چہ مندرجہ ذیل ترمیم کی گئی۔ دفعہ ۱۶۔ موجودہ حال ممبروں کا اول کام جمع کرنے سرمایہ کا ہے۔ ان کو اختیار ہو گا کہ مسلمانوں سے جن کی قومی بہتری کے لیے مدرسہ قائم ہوتا ہے اور عیسائیوں سے (جو اہل کتاب ہیں اور نیز اس سبب سے کہ وہ ہندوستان پر حکومت رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی بھلائی اور بہتری میں بھی ان کو ایسی ہی مدد کرنی فرض ہے، جیسی کہ اور قوموں کی ) چندہ دینے کی درخواست کریں اور سوائے ان دو قوموں کے اور کسی قوم سے چندہ کی درخواست کرنا ممبران مجلس کو جائز نہ ہوگا۔ الا اگر کوئی اور قوم اور مذہب کا شخص اپنی خوشی سے بلا درخواست کچھ چندہ دے تو ممبران مجلس کو نہایت شکر گزاری سے اس کا قبول کرنا جائز ہوگا۔ دفعہ ۱۶ ترمیم شدہ ممبروں کا اول کام جمع کرنے سرمایہ کا ہے۔ ان کو اختیار ہو گا کہ مسلمانوں سے جن کی قومی بہتری کے لیے مدرسہ قائم ہوتا ہے اور عیسائیوں سے (جو اہل کتاب ہیں اور نیز اس سبب سے کہ وہ ہندوستان پر حکومت رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی بھلائی اور بہتری میں بھی ان کو ایسی ہی مدد کرنی فرض ہے، جیسی کہ اور قوموں کی )اور ان راجائوں اور مہاراجائوں سے (جو صاحب ملک اور حکومت ہیں اور ان کی عمل داری میں مسلمان بہ طور رعایا بستے ہیں) چندہ دینے کی درخواست کریں اور سوائے ان لوگوں کے اور کسی سے چندہ کی درخواست کرنا ممبران مجلس کو جائز نہ ہوگا۔ اگر کوئی اور قوم اور مذہب کا شخص اپنی خوشی سے بلا درخواست کچھ چندہ دے تو ممبران مجلس کو نہایت شکر گزاری سے اس کا قبول کرنا جائز ہوگا۔ مرزا محمد رحمت اللہ بیگ صاحب نے کہا کہ 31جولائی 1872ء کو جو اجلاس ہوا اس میں میں شریک نہ تھا۔ اس اجلاس میں دفعہ ۱۶، ۱۷ قواعد مجلس کی جو تشریح کی گئی ہے، اس میں مجھ کو کچھ عذر ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ ممبران مجلس کو قواعد مجلس کی کسی دفعہ کے معنی اور مراد بیان کرنے اور اس کی تشریح کرنے کا اختیار ہے۔ مگر کوئی ایسے معنی یا تشریح بیان کرنے کا جو اصول قواعد مجلس کے برخلاف ہو یا جس سے ترمیم قواعد مجلس لازم آتی ہو، اختیار نہیں ہے۔ تشریحات مذکورہ کی تشریح دوم میں کمیٹی کو اجازت دی گئی ہے کہ صورت خاص میں مسلمانوں کا چندہ اس شرط پر کہ جب مدرسہ قائم ہو گا اس وقت چندہ دیا جاوے گا ، منظور کرے۔ اور تشریح چہارم کی ضمن سوم میں سوائے مسلمانوں کے اور شخصوں کو مجاز کیا گیا ہے کہ وہ بہ شرط منظوری کمیٹی شرط مذکورہ بالا پر اپنا چندہ منحصر کر سکتے ہیں۔ یہ تشریحیں بالکل مخالف اصول قواعد مجلس کے ہیں، کیوں کہ قواعد مجلس کا یہ منشاء ہے کہ قبل قیام مدرسہ چندہ جمع کیا جاوے تاکہ چندہ کافی جمع ہو جانے کے بعد مدرسہ جاری ہو، نہ یہ کہ چندہ کا وصول ہونا قیام مدرسہ پر منحصر ہو۔ اس لیے میں تحریک کرتا ہوں کہ ان تشریحات کو منسوح کیا جاوے یا ان کی ترمیم عمل میں آوے ۔ منشی محمد یار خاں صاحب نے بیان کیا کہ اگرچہ میں اس تاریخ کے جلسہ میں شریک تھا اور میری شرکت رائے سے تشریحات مذکورہ قائم ہوئی تھیں۔ لیکن میں اپنے دوست مرزا محمد رحمت اللہ بیگ صاحب کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں اور اس کی تائید کرتا ہوں۔ اس پر قلیل مباحثہ درمیان ممبران موجودہ کے ہوا اور آخر کار ان تشریحات کی ترمیم پر سب نے اتفاق کیا اور ان کی ترمیم حسب تفصیل ذیل ہوئی۔ تشریح موجودہ حال تشریح ۲۔ کسی مسلمان کا چندہ (سوائے کسی صورت خاص کے، جس کو کمیٹی منظور کرے) اس شرط پر کہ جب مدرسہ قائم ہو گا، اس وقت چندہ دیا جاوے گا، نہ منظور ہو گا، نہ درج فہرست چندہ کیا جاوے گا۔ کیوں کہ مسلمانوں کا فرض اس وقت چندہ جمع کرنا ہے تاکہ مدرسہ جاری ہو۔ الخ تشریح ترمیم شدہ تشریح ۲ ۔ کسی شخص کا چندہ، عیسائی ہو یا مسلمان یا ہندو۔ اس شرط پر کہ جب مدرسہ قائم ہو گا، اس وقت چندہ دیا جاوے گا، نہ منظور ہو گا، نہ درج فہرست چندہ کیا جاوے گا۔ کیوں کہ ہر چندہ دینے والے کا فرض ہے کہ اس وقت چندہ دے تاکہ مدرسہ جاری ہو۔ الخ تشریح ۳ میں سے لفظ (البتہ) نکال ڈالا گیا اور تشریح ۳ حرف الف میں سے الفاظ (جن کا ذکر قواعد مجلس مرتبہ 1872ع میں) نکالے گئے۔ اس کی جگہ یہ الفاظ قائم ہوئے (جن کی تفصیل ان قواعد میں) تشریح ۴ کی ضمن ۳ میں بالکل منسوخ اور خارج کی گئی۔ بعد اس کے سیکرٹری نے بیان کیا کہ جن صاحبوں نے چندہ پر دستخط کیے ہیں انھوں نے چندہ بھیجنا شروع کیا ہے۔ جن لوگوں نے اپنے چندہ کو مشروط بہ خرید جائداد کیا ہے۔ اس کی تفصیل میں علیحدہ رکھتا ہوں اور جن صاحبوں نے کوئی شرط نہیں کی اس کی تفصیل علیحدہ میرے پاس موجود ہے۔ زر چندہ غیر مشروط میں سے دو پرامیسری نوٹ ہزار ہزار روپیہ کے میں نے خریدے ہیں اور عنقریب اور پرامیسری نوٹ اور بعض موضع معافی خریدا جاوے گا۔ اگر یہ کمیٹی حسب ایکٹ 21 سنہ 1860 ع رجسٹری نہ ہو گی تو تمام جائداد خاص میرے نام پر خریدی جاوے گی اور میرے اور میرے وارثوں کی طرف منتقل ہو سکے گی۔ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمام جائداد کمیٹی کے نام خریدی جاوے اور اس لیے ضرور ہے کہ کمیٹی کی رجسٹری حسب ایکٹ 21 سنہ 1860ع ہو جاوے۔ پس مجھے اجازت دی جاوے کہ اس سب کمیٹی کی رجسٹری ہونے کی حسب ضابطہ درخواست کروں۔ مرزا محمد رحمت اللہ بیگ صاحب اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ سیکرٹری نے کمیٹی سے کہا کہ زر چندہ جو مشروط بہ خرید جائداد ہے وہ بھی وصول ہونا شروع ہو گیا ہے اور روپیہ کو بیکار پڑا رکھنا مناسب نہیں ہے اور یہ بھی میری رائے ہے کہ اگر دیہات معافی ہاتھ آویں تو ان کا خریدنا بہ نسبت پرامیسری نوٹوں کے زیادہ مفید ہو گا۔ کیوں کہ ان دیہات سے منافع بہ نسبت پرامیسری نوٹوں کے زیادہ حاصل ہو گا۔ پس ہم کو جائداد خریدنے کی فکر درپیش ہے۔ لیکن جائداد کا خریدنا حتی المقدور اسی ضلع میں مناسب ہو گا جہاں کہ مدرسہ قائم ہو اور اگر اس خاص ضلع میں کوئی جائداد نہ ملے تو اس کے قریب تر ضلعوں میں خرید کرنی ہو گی اور اس لیے مقام مدرسہ کے تصفیہ کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ پس میں تحریک کرتا ہوں کہ ممبروں سے رائے پوچھی جاوے کہ کس ضلع میں قائم کرنا مناسب ہو گا تاکہ اس ضلع یا اس کے قرب و جوار کے ضلعوں میں جائداد خریدی جاوے۔ سید محمد حامد صاحب نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ مرزا رحمت اللہ بیگ نے یہ بات کہی کہ صرف ایک دو حرفی خط متضمن طلب رائے ممبروں کے پاس بھیج دینا کافی نہ ہوگا۔ بلکہ میں اس بات کی تحریک کرتا ہوں کہ سیکرٹری کو اجازت دی جاوے کہ اس باب میں وہ ایک کیفیت تحریک کریں کہ کس ضلع میں مدرسہ قائم ہونا مناسب ہو گا اور جس ضلع میں وہ اس کا مقام تجویز کریں۔ اس کی وجوہ اور دیر اضلاع پگر اس کی ترجیح کی وجوہ تحریر کر کر کمیٹی کے اجلاس میں پیش کریں اور ممبران شریک جلسہ اس پر بحث کر کر اپنی اپنی رائے ظاہر کریں اور وہ کیفیت اور مباحثہ اور رائے ممبران شریک جلسہ کی ان ممبروں کے پاس بھیجی جاوے، جو شریک جلسہ نہ ہوں۔ تاکہ وہ سب لوگ ان مباحثوں پر غور کر کر اپنی رائے دیں۔ صدر انجمن صاحب نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ بعدہ بموجب دفعہ ۷ قواعد مجلس کے جناب محمد محمود علی خاں صاحب خاں بہادر رئیس چھتاری ضلع بلند شہر مجلس خزنۃ البضاعۃ کے ممبر مقرر کیے گئے۔ بعد اس کے شکریہ صدر انجمن کا ادا کیا گیا اور مجلس برخاست ہوئی۔ (دستخط) سید احمد خاں سی۔ ایس۔ آئی سیکرٹری مجلس خزنۃ البضاعۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انڈین آبزرور اور مسلمان (تہذیب الاخلاق۔ جلد سوم ۔ نمبر 16 ۔ بابت 15رمضان المبارک 1289 ہجری۔ صفحہ 156،157) ہماری یہ رائے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کی ایسی حالت ہے کہ جو لفظ سخت سے سخت اور خراب سے خراب، ان کی نسبت استعمال کیے جاویں۔ وہ سب درست و بجا ہیں اور اسی سبب سے ان ان سویلائزڈ الفاظ سے جو انڈین آبزرور میں آرٹیکل لکھنے والے نے ہم مسلمانوں کی نسبت لکھے ہیں۔ ہم کو کچھ ناراضی نہیں ہوتی بلکہ اس قسم کی تحریر سے ہم کو توقع ہوتی ہے کہ ہماری قوم کو اور غیرت اور شرم آوے گی اور وہ اپنی حالت کی درستی اور اصلاح پر متوجہ ہو گی۔ پس اس آرٹیکل میں ہمارا مطلب اسی قدر ہے کہ ہم اپنی قوم کو جتلا دیں کہ ہمارے زمانے کے علم کے دیوتا نے ہماری نسبت کیا کہا ہے۔ سلیکٹ کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان میں یہ سوال بحث میں آیا تھا کہ ’’ہندوستان میں انگریزی تعلیم کا اثر ایسا کیوں نہیں ہوتا جیسا کہ انگستان میں ہوتا ہے‘‘ پس اس کا جواب انڈین آبزرور کا آرٹیکل لکھنے والا یہ دیتا ہے کہ ’’ان کو (یعنی مسلمانوں کو ) گورنمنٹ کی ذات سے یہ توقع بھی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ سؤر کے بالوں سے ریشم کی تھیلی بنا دے۔‘‘ پس اب ہم اپنی قوم سے پوچھتے ہیں کہ علم کے دیوتا نے ہم کو سؤر کا خطاب دیا ہے۔ پس ہم کو اسی خطاب میں خوش رہنا چاہیے یا کوشش کر کر اور اپنی حالت کو درست کر کر دینا کو بتلانا چاہیے کہ اس خطاب کا مستحق کون تھا۔ دوسرا جواب اسی سوال کا اس آرٹیکل کے لکھنے والے نے یہ دیا ہے کہ ’’جس شے پر اس کا (یعنی تعلیم کا) اثر ہوتا ہے، وہ دونوں ملکوں (یعنی ہندوستان اور انگلستان ) میں مختلف ہے۔ گو آلہ دونوں کا ایک ہی ہو۔ ہر سنگریز یا کنکر سے ایک روشن ہیرا یا لعل نہیں بن سکتا۔‘‘ پس اب ہم پوچھتے ہیں کہ آیا ہماری قوم کو سنگریزوں میں اور کنکروں میں پڑا رہنا اور ہر ایک کی ٹھوکریں کھانا اور دشنام سننا ہی پسند ہے یا اپنی حالت میں کچھ ترقی کرنے کا بھی ارادہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ جو شخص بد زبان کسی کی نسبت استعمال میں لاتا ہے، وہ خود اولاً اپنے آپ کو ان سویلائزڈ ثابت کرتا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ اس آرٹیکل کا لکھنے والا ہم کو متکبر اور سخت متعصب بتاتا ہے۔ حالانکہ وہ ہم سے بھی زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر ہم کو اس پر خیال نہیں کرنا چاہیے بلکہ جو لفظ ہمارے دشمن نے بھی ہمارے حق میں کہے ہوں، ان سے بھی ہم کو نصیحت پکڑنی چاہیے۔ ایک مقام پر اس آرٹیکل کا لکھنے والا لکھتا ہے کہ ’’کمیٹی کو مناسب ہے کہ ……اس امر کی تفتیش کرے کہ آیا اس قوم میں ( یعنی مسلمانوں میں ) کبھی کوئی بڑا فلسفی یا شاعر پیدا بھی ہوا ہے، جو ایمان دار کے ساتھ اپنی نسبت خود یہ باتیں بیان کرے، جو کمیٹی نے بیان کی ہیں‘‘۔ اگر اس عبارت کا یہ مطلب ہو کہ ہمارے ملک کے ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن کے وقت میں کوئی شخص ہماری قوم کا ایسا ہوا ہے یا نہیں تو اس کا تو جواب صاف ہے کہ نہیں اور اگر کبھی کے لفظ سے غیر مقید زمانہ مراد ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آرٹیکل کے لکھنے والے کو دوبارہ کیمبرج یونیورسٹی میں جا کر ہسٹری آف فلاسفی اور ہسٹری آف اورینٹل لٹریچر پڑھنی چاہیے۔ راقم سید احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روئداد اجلاس مجلس خزنۃ البضاعۃ لتاسیس مدرستہ العلوم للمسلمین منعقدہ آٹھویں نومبر 1872ع مقام بنارس (تہذیب الاخلاق۔ جلد سوم۔ نمبر 16 ۔ بابت 15رمضان المبارک 1289 ہجری صفحہ 157تا 159) صدر انجمن شیخ غلام علی صاحب۔ ممبران موجودہ مرزا محمد رحمت اللہ بیگ صاحب۔ منشی محمد سبحان حیدر صاحب۔ منشی سید علی حسن صاحب۔ مولوی محمد عارف صاحب۔ سید محمد حامد خاں صاحب۔ منشی محمد یار خاں صاحب۔ سیکرٹری سید احمد خاں سی۔ ایس۔ آئی۔ اجلاس شروع ہوا اور روئداد اجلاس منعقدہ 19اکتوبر 1872ع نمبر 8 جو بہ دستخط سیکرٹری مرتب اور کتاب روئداد میں مندرج تھی، ملاحظہ ہوئی۔ سیکرٹری نے کہا کہ 25ستمبر 1872ع کے اجلاس میں مجھ کو ہدایت ہوئی تھی کہ میں ایک کیفیت اس امر کی نسبت پیش کروں کہ مدرستہ العلوم مسلمانان کس ضلع میں قائم کرنا مناسب ہے ۔ بر طبق اس کے میں کیفیت مطلوبہ پیش کرتا ہوں اور اطلاع دیتا ہوں کہ میں نے مدرستہ العلوم مسلمانان کے لیے علی گڑھ کو منتخب کیا ہے۔ بعد اس کے سیکرٹری نے اپنی رپورٹ ممبروں کے سامنے پڑھی، جو روئداد کے اخیر میں شامل ہے اور یہ بیان کیا کہ ممبران مفصلہ ذیل نے بذریعہ تحریر اور نیز زبانی مجھ سے بر وقت ملاقات کے اس تجویز سے اتفاق کیا ہے اور علی گڑھ میں مدرستہ العلوم مسلمانان قائم ہونا منظور فرمایا ہے۔ ۲۔ جناب خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر اعظم ریاست پٹیالہ۔ ۳۔ جناب حافظ احمد حسن صاحب سفیر نواب صاحب سابق والی ٹونک مقیم لندن۔ ۴۔ سید محمد محمود صاحب بیرسٹر ایٹ لاء جو عنقریب لندن سے ہندوستان میں آنے والے ہیں۔ ۵۔ مولوی سید مہدی علی صاحب، ڈپٹی کلکٹر بہادر مرزا پور۔ ۶۔ مولوی سید زین العابدین صاحب۔ صدر امین ، بلند شہر۔ ۷۔ نواب محمد محمود علی خاں صاحب۔ رئیس چھتاری ۔ ۸۔ راجہ سید محمد باقر علی خاں صاحب۔ رئیس پنڈراول۔ ۹۔ کنور محمد لفط علی خاں صاحب۔ رئیس چھتاری ۔ ۱۰۔ مسعود علی خاں عرف معشوق علی خاں صاحب۔ رئیس دان پور۔ ۱۱۔ مرزا محمد عابد لی بیگ صاحب، منصف درجہ اول ، ھاتھرس۔ ۱۲۔ منشی محمد مشتاق حسین صاحب۔ نائب سررشتہ دار کلکٹری۔ علی گڑھ۔ ۱۳۔ محمد مسعود شاہ خاں صاحب۔ منصرم منصفی۔ ھاتھرس۔ ۱۴۔ مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب۔ وکیل ہائی کورٹ۔ الہ آباد۔ ۱۵۔ محمد عنایت اللہ خاں صاحب۔ رئیس بھیکم پور۔ ۱۶۔ مولوی محمد اسماعیل صاحب۔ رئیس علی گڑھ۔ ۱۷۔ خواجہ محمد یوسف صاحب۔ رئیس علی گڑھ۔ بعد سماعت رپورٹ سیکرٹری کے ممبران موجودہ مفصلہ ذیل نے بھی اس بات کو کہ مدرستہ العلوم مسلمانان علی گڑھ میں قائم ہو۔ بالاتفاق قبول و منظور کیا۔ ۱۸۔ سید محمد حامد خاں صاحب۔ ۱۹۔ منشی محمد یار خاں صاحب۔ ۲۰۔ مرزا رحمت اللہ بیگ صاحب۔ ۲۱۔ مولوی محمد عارف صاحب۔ ۲۲۔ منشی محمد سبحان حیدر صاحب۔ ۲۳۔ منشی سید علی حسن صاحب۔ ۲۴۔ شیخ غلام علی صاحب۔ ۲۵۔ واضح ہو کہ بعد ختم اجلاس نواب محمد حسن خاں صاحب تشریف لائے اور بعد ملاحظہ کاغذات و رپورٹ سیکرٹری انھوں نے بھی تجویز مذکورہ بالا سے اتفاق کیا۔ بعد اس کے بالاتفاق یہ تجویز ہوئی کہ نقل اس روئداد کی معہ نقل رپورٹ سیکرٹری بقیہ ممبران کی خدمات عالیات میں اس امید سے بھیجی جاوے کہ صاحبان ممدوح بھی اپنی اپنی رائے سے نسبت اتفاق یا اختلاف تجویز مذکورہ بالا مطلع فرماویں۔ بعد اس کے شکریہ صدر انجمن کا ادا کیا گیا اور مجلس برخاست ہوئی۔ دستخط سید احمد خاں سی۔ ایس۔ آئی سیکرٹری رپورٹ بعالی خدمت پریزیڈنٹ و ممبران (تہذیب الاخلاق ۔ جلد سوم۔ نمبر 16 ۔ بابت 15رمضان المبارک 1289ہجری۔ صفحہ 159تا 162) میں بموجب اس تجویز کمیٹی کے جو 25ستمبر 1872ع کو ہوئی تھی۔ اپنی رپورٹ اس امر کی نسبت کہ مدرستہ العلوم مسلمانان کس جگہ ہونا چاہیے، کمیٹی میں پیش کرتا ہوں۔ وہ مباحثات جو اس باب میں اخباروں میں چھپی، ان کو بھی میں نے بہ غور دیکھا اور اس تعطیل میںجن جن دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں، ان سے بھی میں نے گفتگو کی اور بالآخر میری رپورٹ یہ ہے کہ علی گڑھ سے بہتر کوئی جگہ مدرستہ العلوم کے مقرر کرنے کے لیے نہیں ہے۔ جس قسم کا مدرستہ العلوم مقرر کرنا تجویز کیا گیا ہے اور جس سے یہ مقصد ہے کہ طالب علموں کے اخلاق درست ہوں اور ان کے خیالات پریشانی سے محفوظ رہیں اور جمعیت اور تسکین کی طرف مائل ہوں اور جذبات انسانی کو اعتدال پر لایا جاوے اور حسن معاشرت ان میں پیدا ہو، اس قسم کے مدرسہ کے لیے ضرور ہے کہ وہ ایسے مقام پر مقرر کیا جاوے، جو من جملہ شہر ھائے کلاں کے نہ ہو۔ جہاں بہت سی ترغیبیں ان مقاصد کے برخلاف موجود ہوتی ہیں اور نہ بہت چھوٹا گائوں ہو، جہاں اشیائے ضروری بھی بہ مشکل دستیاب ہوتی ہوں۔ یہ صفات مطلوبہ نہایت خوبی کے ساتھ علی گڑھ میں موجود ہیں۔ اس کے بعد ہم کو اس مقام کی آب و ہوا کی خوبی پر خیال کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ جہاں مدرستہ العلوم کا مقرر کرنا تجویز ہو۔ کیوں کہ ہمارے لڑکے وہاں رہیں گے، وہیں کی آب و ہوا سے پرورش پاویں گے۔ ان کی صحت و تندرستی اور نیز ان کے ذہن اور دل و دماغ کی قوت پر وہاں کی آب وہوا کا بہت کچھ اثر ہوگا۔ علی گڑھ اپنی آب و ہوا کی خوبی میں مشہور و معروف ہے۔ اگر میں کہوں کہ تمام شمال و مغربی اضلاع سے وہ آب و ہوا میں عمدہ ہے تو کچھ بے جا اور ناواجب نہ ہوگا۔ میں نے اس باب میں جناب ڈاکٹر جیمس آر جیکسن صاحب بہادر ایم۔ ڈی۔ سول سرجن علی گڑھ سے مشورہ کیا تھا اور جو رائے کہ انھوں نے نسبت علی گڑھ کی آب و ہوا کی خوبی و عمدگی کے دی ہے، وہ میری اس رپورٹ کے ساتھ شامل ہے۔ اس کے بعد ہم کو اس با ت پر خیال کرنا چاہیے کہ ہرگاہ بالفعل یہ ایک ہی مدرسہ اس قسم کا قائم ہوتا ہے (خدا کرے کہ آیندہ بیسیوں ایسے ہی مدرسے قائم ہوں) تو جہاں تک ممکن ہو، ہم کو ایسی جگہ قائم کرنا چاہیے، جو مسلمانوں کے لیے زیادہ تر مفید ہو۔ اس لحاظ سے جو شخص کوئی جگہ تجویز کرے گا، علی گڑھ ہی کو تجویز کرے گا۔ علی گڑھ، دہلی اور اضلاع مشرقی پنجاب سے بہت دور نہیں ہے۔ میرٹھ و سہارن پور روڈ کی وغیرہ ان اضلاع کی جو شمال مغربی کونے پر واقع ہیں، ریلوے کے سلسلہ سے اپنے ساتھ ملاتا ہے۔ روھیل کھنڈ ریل جو خاص علی گڑھ میں آن کر ملی ہے، اس کے ذریعے سے یہ مقام اور بھی زیادہ مفید ہو گیا ہے اور تمام روھیل کھنڈ کو اپنے میں ملا لیا ہے۔ جنوبی سمت جس میں آگرہ متھرا ور بھرت پور کے علاقہ کی مسلمان سادات کی بستیاں اور علاقہ دھول پور و گوالیار ہے۔ اس کے لیے بھی مناسب دوری پر واقع ہے۔ لکھنؤ اور اپنے مشرقی اضلاع کو بھی ریلوے کے سلسلے سے جدا نہیں ہونے دیتا۔ پس اس مدرستہ العلوم کے مقرر کرنے کے لیے علی گڑھ سے زیادہ مناسب کوئی جگہ واقع میں نہیں ہے۔ اس کے بعد ہم کو اس بات پر خیال کرنا ہے کہ اس مقام میں یا اس کے گرد و نواح میں کس قسم کے لوگ بستے ہیں، جن سے ہم کو اس بات کی توقع کرنے چاہیے کہ وہ لوگ اور ان کی اولاد اس مدرسہ کی ہمیشہ معین و مددگار و سرپرست و پرساں حال رہیں گے۔ اس خیال سے جب میں آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہوں تو چاروں طرف اندھیرا معلوم ہوتا ہے۔ پھر جو کچھ تھوڑی بہت توقع پڑتی ہے تو علی گڑھ ہی کے نواح کے لوگوں سے پڑتی ہے۔ علی گڑھ اور اس کے گرد کے تمام قصبات مسلمانوں کی آبادی کے ہیں اور علی گڑھ میں اور بلند شہر میں، جو بالکل اس سے ملا ہوا ہے تمام مسلمان رئیس بڑے بڑے تعلقہ دار ذی مقدور ہیں اور بعض ان میں سے روشن ضمیر اور سمجھ دار اور مال کار پر غور کرنے والے اور اپنی قوم کی خراب ھالت پر افسوس کرنے والے بھی موجود ہیں (گر بعض کی طبیعتیں اس کے برخلاف بھی ہیں) اور ایک نہایت عمدہ ریاست پنڈراول کی اس کے قریب ہے، جس کے رئیس شیعہ ہیں اور ان تمام لوگوں سے اور ان کی اولاد سے ان سے بھی زیادہ توقع ہے کہ یہ سب نہایت دل سے ہمیشہ اس مدرسہ کے حامی و سرپرست رہیں گے۔ یہ خاص صفت جو میں نے علی گڑھ کی نسبت بیان کی (اور جس کو سب سے اعلیٰ اور مقدم سمجھنا چاہیے) میں نہایت مضبوطی اور تقویت سے کہہ سکتا ہوں کہ تمام اضلاع شمال و مغرب میں کسی دوسری جگہ نہیں ہے۔ پس ان وجوہات سے میں نے علی گڑھ کو دارالعلم بنانے کے لیے عمدہ مقام تجویز کیا ہے۔ ممبران کمیٹی اس بات کو یقین تسلیم کرتے ہوں گے کہ اس مدرستہ العلوم کے لیے الہ آباد کا مقام تجویز کرنا کیا بہ نظر وہاں کی آب و ہوا کے اور کیا بہ لحاظ اس کے موقع کے، کہ زیادہ تر جانب شرق واقع ہے اور کیا بہ نظر کلانی شہر کے، جو روز بروز زیادہ ہوتی جاتی ہے اور کیا یہ سبب اخراجات کثیر کے، جو لوازمات روزمرہ کے سر انجام میں وہاں واقع ہوتے ہیں اور کیا بنظر اس بات کے کہ خاص اس مقام پر حال میں ایک مدرسہ اعظم گورنمنٹ کی جانب سے قائم ہوا ہے، کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ روھیل کھنڈ بھی کیا بہ نظر آب و ہوا کے اور کیا اس سبب سے کہ ایک طرف کو پڑا ہے، جو اور اضلاع کی نسبت بہ منزلہ امریکا کے لیے۔ اس مدرستہ العلوم کے لیے جو اور ابھی صرف ایک ہی قائم ہونا تجویز ہوا ہے، کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ آگرہ البتہ غور کے قابل تھا۔ مگر اس کی آب وہوا ہمیشہ سے بہت ناقص ہے اور انسان کے مزاج کو چنداں مناسب نہیں ہے۔ جہانگیر بادشاہ نے اپنی توزک میں لکھا ہے ’ ’ ھوائے آگرہ گرم و خشک است سخن اطباء آنست کہ روح را بہ تحلیل مے برد و ضعف مے آردو بہ اکثر طبائع ناسازگار است مگر بلغمی و سوداوی مزا جان را کہ از ضرران ایمن اندد ازیں جہت است کہ حیواناتے کہ ایں مزاج و طبیعت دارند مثل فیل و گائومیش وغیر آں دریں آب و ہوا خرش میشوند‘‘۔ علاوہ اس کے موقع آگرہ بھی خوب نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ جنوب کو زیادہ مائل ہے اور ان ملکوں سے، جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ایک طرف کو پڑتا ہے اور نیز ایک قدیم پرانا بڑا شہر ہے، جو ہمارے اصول موضوعہ کے بموجب ایسا مدرسہ قائم ہونے کے لیے مناسب نہیں ہے۔ لوگوں کا یہ بھی قول ہے کہ یہ مدرسہ کسی نامی شہر میں ہونا چاہیے، جس کے سبب سے مدرسہ اعلیٰ نام ہو اور شہرت پاوے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ خود یہ مدرسہ اس مقام کو جہاں قائم ہو گا، ایسا نامی کر دے گا کہ وہ تمام ہندوستان میں مشہور و نامی شہر اس کے آگے پست ہو جاویں گے۔ کیا آکسفورڈ اور کیمبرج کی چھوٹی سی آبادی تمام انگلینڈ کے نامی مقاموں سے زیادہ نام آور نہیں ہے۔ ویران دلی میں (جہاں بہ جز چند دیوار ھائے لنبیدہ و بزرگان گور خوابیدہ کے کچھ اور نہیں ہے) مدرستہ العلوم قائم کرنے پر لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ مگر جو کہ کمیٹی کو معلوم ہے کہ ابتدا ہی سے شمال مغرب اضلاع ہی میں مدرسہ کے تقرر کے خیال سے سب کارروائی ہوئی ہے اور شمال مغربی اضلاع ہی کی گورنمنٹ نے تمام امدادوں کا وعدہ کیا ہے تو ان مقاموں کی نسبت بحث کرنا، جو حدود اضلاع شمال و مغرب سے خارج ہیں، محض بے فائدہ ہے۔ علاوہ اس کے بہت سے وجوھات ہیں، جن کے سبب سے دلی اس مدرستہ العلوم کے لیے مناسب بھی نہیں ہے۔ اب میں اپنی رپورٹ کو اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ علی گڑھ ایک پیارا نام ہے۔ ہمارے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول مشہور ہے کہ ’’انا مدینتہ العلم و علی بابھا‘‘ پس یہ پہلا مدرسہ ہم مسلمانوں کا جو درحقیقت علم کا دروازہ ہو گا، علی گڑھ ہی میں ہونا چاہیے۔ سید احمد خاں سی۔ ایس۔ آئی۔ سیکرٹری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روئداد اجلاس ممبران مجلس خزنۃ البضاعۃ لتاسیس مدرستہ العلوم للمسلمین منعقدہ دسویں فروری 1873ع نمبر 10 (تہذیب الاخلاق ۔ جلد سوم ۔ نمبر 21۔ بابت 15ذی الحجہ 1289 ہجری ۔ صفحہ 203، 204) صدر انجمن نواب محمد حسن خاں بہادر۔ ممبران موجودہ مرزا محمد رحمت اللہ بیگ صاحب۔ مولوی اشرف حسین خاں صاحب۔ مولوی محمد عارف صاحب۔ منشی سید علی حسن صاحب۔ شیخ غلام علی صاحب۔ سید محمد حامد صاحب۔ سید محمد محمود صاحب۔ سیکرٹری سید احمد خاں سی۔ ایس۔ آئی۔ اجلاس شروع ہوا اور روئداد اجلاس منعقدہ آٹھویں نومبر 1872ع نمبر 9 جو بہ دستخط سیکرٹری مرتب اور کتاب روئداد میں مندرج تھی، ملاحظہ ہوئی۔ جو رائے کہ نسبت مقام مدرستہ العلوم کے ممبران کمیٹی سے طلب ہوئی تھی، اس کے کاغذات پیش ہوئے، جن کی کیفیت حسب تفصیل ذیل ہے۔ پچیس ممبروں نے اس سے پہلے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ مدرستہ العلوم علی گڑھ میں قائم کیا جاوے ۔ ان کے علاوہ مفصلہ ذیل ممبروں نے بھی اسی جگہ کو پسند کیا ہے۔ ۲۶۔ مولوی اشرف حسین خاں صاحب۔ ۲۷۔ سید میر بادشاہ صاحب۔ ۲۸۔ حافظ محمد نظام الدین صاحب۔ ۲۹۔ مولوی محمد امانت اللہ صاحب۔ ۳۰۔ مولوی فضل احمد خاں صاحب۔ ۳۱۔ حضرت مولوی امداد علی صاحب۔ ۳۲۔ نواب محمد احمد اللہ خاں صاحب۔ ۳۳۔ منشی محمد ذکاء اللہ صاحب۔ ۳۴۔ حکیم محمد حکمت اللہ صاحب۔ ۳۵۔ مولوی محمد حامد حسن خاں صاحب۔ ۳۶۔ سید محمد احمد خاں صاحب۔ ۳۷۔ شیخ محمد فیاض علی صاحب۔ ۳۸۔ میر سید تراب علی صاحب۔ ۳۹۔ مولوی محمد عنایت رسول صاحب۔ ۴۰۔ شیخ خیر الدین احمد صاحب۔ ۴۱۔ مولوی سید فرید الدین احمد صاحب۔ ۴۲۔ منشی محمد اکرام صاحب۔ ۴۳۔ مولوی نجم الدین صاحب۔ ۴۴۔ شیخ محمد جان صاحب۔ ۴۵۔ نواب محمد فیض علی خاں صاحب بہادر سی۔ ایس۔ آئی۔ ۴۶۔ منشی محمد صدیق صاحب۔ ۴۷۔ جناب مولوی محمد عثمان خاں بہادر نے اگرچہ کوئی صاف رائے نہیں دی۔ مگر علی گڑھ کے پسندیدہ ہونے کو تسلیم کیا ہے۔ ممبران مفصلہ نے اختلاف رائے کیا ۱۔ مولوی محمد حیدر حسین صاحب نے الہ آباد تجویز کیا۔ ۲۔ میر سید ظہور حسین صاحب نے مراد آباد تجویز کیا۔ مفصلہ ذیل ممبروں کے پاس سے جواب نہیں آیا ۱۔ محمد عبدالشکور خاں صاحب۔ ۲۔ مولوی عبدالاحد صاحب۔ ۳۔ منشی محمد الٰہی بخش صاحب۔ صدر انجمن نے فرمایا کہ ہر گاہ باون ممبروں میں سے سینتالیس ممبروں نے علی گڑھ میں مدرستہ العلوم قائم ہونے پر اتفاق رائے کیا تو اب اس بات کا تصفیہ قطعی ہو گیا کہ علی گڑھ میں مدرستہ العلوم قائم ہو گا اور اس بات کی تحریک کی کہ سیکرٹری کو اجازت دی جاوے کہ علی گڑھ میں، خواہ اس کے قریب و جوار کے اضلاع میں مدرستہ العلوم کے لیے جائداد خرید کریں۔ مرزا رحمت اللہ بیگ صاحب نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ بعد اس کے سیکرٹری نے کہا کہ دفعہ 20 قواعد کمیٹی میں زر چندہ سے صرف گورنمنٹ پرامیسری نوٹ یا روزینہ ہائے دوامی، جن کا ذکر ایکٹ 23۔ 1871ع میں ہے یا بنک آف بنگال کے حصہ یا اراضی معافی دوامی کے خریدنے کی اجازت ہے۔ مگر سوائے پرامیسری نوٹ کے جس کو ہم خود اس وجہ سے کہ اس سے منافع بہت قلیل حاصل ہوتا ہے، خریدنا نہیں چاہتے اور کسی قسم کی جائداد اقسام جائداد مذکورہ بالا میں سے دستیاب نہیں ہوتی یا قدر قلیل بہت گراں قیمت پر ملتی ہے۔ تمام تجربہ کار آدمیو ںکی یہ رائے ہے کہ دیہات زمینداری مال گذاری کے خریدنے میں بھی کچھ نقصان و ہرج متصور نہیں ہے۔ پس میں تحریک کرتا ہوں کہ دفعہ مذکورہ ترمیم ہو اور دیہات زمینداری مال گذاری کے خریدنے کی بھی اجازت دی جاوے۔ مولوی اشرف حسین خاں صاحب نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق یہ رائے قرار پائی کہ واسطے ترمیم دفعہ مذکورہ کے جملہ ممبران کمیٹی سے حسب منشاء دفعہ 20 قواعد کمیٹی کے رائے طلب کی جاوے۔ سید محمد محمود نے کمیٹی سے مخاطب ہو کر یہ کہا کہ جب میں ولایت میں تھا اور اس کمیٹی کے اس ارادہ کا حال سنا کہ بعد تحقیقات اسباب موانع ترقی تعلیم مسلمانان یہ ٹھہرا ہے کہ مدرسہ خاص مسلمانوں کے لیے بنایا جاوے، جس میں تعلیم مسلمانوں کے حال سے مناسب ہو اور نیز اس بات کی اطلاع پا کر کہ کمیٹی نے مجھ کو حقوق ممبری سے مشرف کیا ہے، میں نے اس بات پر توجہ کی کہ ولایت کے اسکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے انتظام اور طریقہ تعلیم کو دیکھوں اور ایک تدبیر جو کہ میری رائے میں ہماری قوم کے حالات کے مناسب ہو، بہ صلاح و مشورہ ولایت کے نامی و قابل احباب کے، اس مدرستہ العلوم کے لیے تیار کر کے کمیٹی میں پیش کروں۔ چناں چہ وہ تجویز میں نے مرتب کی ہے اور کمیٹی کے سامنے اس امید سے پیش کرتا ہوں کہ اگر اور ممبر بھی اس کو پسند کریں تو اس تجویز کے موافق عمل کیا جاوے۔ اس تجویز میں میں نے مدرسوں کو دو حصوں پر منقسم کر دیا ہے۔ ایک صیغہ اسکول کا ہے، جس کا نام مدرسہ رکھا ہے اور ایک صیغہ کالج کا ہے، جس کا نام مدرستہ العلوم رکھا ہے اور یہ دونوں صیغے علیحدہ علیحدہ قائم کیے ہیں اور قبل قائم ہونے مدرستہ العلوم کے اور مدرسوں کا جو اس کے تحت میں ہوں گے، قائم ہونا ممکن ہے۔ پس اگر ممبران کمیٹی اس تجویز کو پسند کریں تو میں یہ بھی تحریک کرتا ہوں کہ بہت جلد مدرسہ مقام مجوزہ میں قائم کیا جاوے اور جب کہ روپیہ کافی جمع ہو جاوے گا، اس وقت مدرستہ العلوم بھی قائم ہو جائے گا۔ میری تجویز میں، جو میں نے پیش کی ہے، اس میں میں نے بھی خواہش کی ہے کہ اس کمیٹی کا نام بجائے کمیٹی مدرستہ العلوم کے کمیٹی دارالعلوم رکھا جاوے اور میں تحریک کرتا ہوں کہ اس تھوڑے سے تبدیل نام کے لیے بھی اور ممبروں سے رائے طلب کی جائے۔ بعد اس کے سید محمد محمود صاحب نے اپنی تجویز پیش کی، جو روئداد کے اخیر میں مندرج ہے۔ اس کے سننے کے بعد ممبران موجودہ نے اس کو پسند کیا اور صدر انجمن نے اس با ت کی تحریک کی کہ امور مذکورہ بالا کی نسبت ممبروں سے رائے طلب ہو اور یہ تجویز چھاپہ ہو کر جملہ ممبروں کے پاس اور نیز جن اخبار نویسوں کے پاس مناسب ہو، ان کے پاس بھی بھیجی جاوے اور جو کہ گورنمنٹ شمال مغربی اضلاع اور نیز گورنمنٹ ہندوستان نے بذریعہ اپنی چٹھیات کے اس مدرسہ کے لیے گرانٹ ان ایڈ مرحمت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس لیے چند کاپیاں ان دونوں گورنمنٹوں میں بھیجی جاویں۔ اس امید سے کہ گورنمنٹ بھی یہ تجویز پسند فرماوے گی اور اگر اس تدبیر کے موافق کالج یا اسکول قائم ہو تو اس کو گرانٹ ان ایڈ سے مدد دے گی۔ مولوی محمد عارف صاحب نے اس تحریک کی تائید کی اور بالاتفاق منظور ہوئی۔ بعد اس کے شکریہ صدر انجمن کا ادا کیا گیا اور مجلس برخاست ہوئی۔ سید احمد خاں سی۔ ایس۔ آئی سیکرٹری ندوۃ العلماء (تہذیب الاخلاق بابت یکم محرم 1313ھ مطابق 24جون 1895ع نمبر 10) مولانا حاجی قاری سید شاہ محمد سلیمان قادری چشتی قصبہ پھلواری ضلع پٹنہ صوبہ بہار کے ایک نہایت عالم فاضل بزرگ۔ نیک نفس صوفی۔ خوش بیان خطیب۔ بہت بڑے ادیب۔ بہت سی کتابوں کے مصنف۔ عربی اور فارسی کے جید عالم اور اپنے زمانہ کے نہایت مشہور اور مقبول پیر طریقت تھے۔ ان کے ہزارہا مرید ملک کے ہر حصہ میں موجود تھے۔ اپنے زمانہ کے تمام بڑے بڑے کے مشاہیر اور معززین سے ان کی ملاقات اور خط و کتابت تھی۔ 11محرم 1276 ہجری (مطابق 10اگست 1859ئ) کو پھلواری میں پیدا ہوئے۔ 27صفر 1354 ہجری مطابق 31 مئی 1935 ء کو وہیں وفات پائی۔ گروہ علماء اور مشائخ صوفیہ میں سے یہ ایک ممتاز بزرگ تھے جو سرسید کی تعلیمی اور اصلاحی تحریک میں ان کے نہایت مددگار و معاون تھے مگر مذہبی خیالات میں ان سے بالکل الگ بلکہ سخت مخالف تھے۔ ایک مرتبہ ندوۃ العلماء کے ایک جلسہ میں ایک اصلاحی تقریر کر رہے تھے کہ مخالف مولویوں نے شور مچانا شروع کر دیا اور تقریر ناتمام رہی۔ اس پر سرسید نے تہذیب الاخلاق میں ایک مضمون لکھا اور اس میں وہ تقریر بھی نقل کی جو ناتمام رہی۔ ذیل میں سرسید کا مضمون شاہ صاحب کے متعلق پیش کیا جاتا ہے۔ (محمد اسماعیل) جناب مولوی محمد سلیمان شاہ صاحب نے جو بہت بڑے عالم اور سجادہ نشین صوفیائے کرام پھلواری ہیں ایک نہایت عمدہ اور مفید لکچر مجلس ندوۃ العلماء میں دیا تھا۔ جس کی نسبت ہم نے سنا ہے کہ بعض مولویوں نے پورا پڑھنے نہیں دیا۔ در حقیقت وہ لکچر حسب حال زمانہ ہے اور اس لیے ہم اس کو جس طرح نجم الاخبار اٹاوہ میں چھپا ہے اپنے تہذیب الاخبار میں درج کرتے ہیں، اس لکچر میں جناب مولوی صاحب نے نیچریوں کا بھی نام لیا ہے۔ مگر وہ بھول گئے۔ جو کچھ انھوں نے فرمایا ہے اس سے تو وہ خود نیچری معلوم ہوتے ہیں۔ وجدو منع بادہ صوفی ایں چہ کافر نعمتی است منکر مے بودن و ھم رنگ مستاں زیستن سید احمد اپنی اس تمھید کے بعد سرسید نے تہذیب الاخلاق میں شاہ سلیمان صاحب کی پوری تقریر نقل کی ہے۔ چوں کہ وہ تقریر سرسید کی نہیں اس لیے اس کا یہاں درج کرنا بے کار تھا۔ کیونکہ یہ اوراق صرف سرسید کی تحریروں کے لیے وقف ہیں۔ اسماعیل آہ مولوی چراغ علی سرسید کے دوستوں میں سے نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی فنانشل سیکرٹری نظام حیدرآباد دکن نہایت فاضل اور عالم شخص گذرے ہیں۔ ان کا مطالعہ نہایت وسیع تھا اور وہ عربی، فارسی، انگریزی ، سریانی اور عبرانی اور کالڈی زبانوں کے ماہر کامل تھے۔ تہذہب الاخلاق میں انھوں نے بعض بہت اعلیٰ پایہ کے مضامین لکھے۔ تحقیق الجہاد اور اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام ان کی بہت مشہور کتابیں ہیں۔ اگرچہ انھوں نے اور بھی متعدد کتابیں اسلام کی تائید میں بزبان انگریزی لکھی ہیں۔ 1844ع میں پیدا ہوئے اور 1895ع میں انتقال کیا۔ سرسید کے مخلص احباب میں مولوی چراغ علی کا خاص درجہ ہے اور ان کے انتقال پر سرسید کو بڑا رنج ہوا تھا۔ اپنے اس غم کا اظہار انھوں نے اپنے مشہور رسالہ تہذیب الاخلاق بابت یکم محرم الحرام 1313ھ کے پرچہ میں کیا ہے جسے ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں: (اسماعیل) ’’افسوس ۔ صد افسوس۔ ہزار افسوس: کہ پندرھویں جون 1895ع کو نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی نے بمقام بمبئی چار ہفتہ کی بیماری کے بعد انتقال کیا۔ ان کا خط خود ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا مورخہ نہم جون مقام حیدر آباد سے ہمارے پاس آیا تھا جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ’’تین ہفتہ سے بیمار ہوں۔ ڈاڑھ کے نیچے ایک گلٹی نکلی ہے۔ ڈاکٹروں نے اس اندیشہ سے کہ مغز میں ورم نہ ہو جائے کلوروفارم کا عمل کر کے کاٹا اور بعد میں پھر دوبارہ کلوروفارم کا عمل کیا۔ بہت ہی کمزور ہو گیا ہوں۔ کھاتا پیتا نہیں۔ چلنا پھرنا موقوف ۔ مگر اب زخم بھرتا چلا آتا ہے اور ارادہ ہے کہ تبدیل آب و ہوا کے لیے بمبئی جائوں۔ ‘‘ اس کے بعد بارھویں جون کا بمبئی سے ان ہی کا بھیجا ہوا تھا۔ ہمارے پاس آیا کہ ’’ میں بمبئی آ گیا ہوں‘‘ افسوس کہ پندرھویں تاریخ کو جب کہ ہم بعض کاغذات ان کے نام روانہ کر رہے تھے اور خیر و عافیت چاہ رہے تھے۔ اسی وقت انھوں نے بمبئی میں انتقال کیا۔ مولوی چراغ علی مرحوم ایک بے مثل اور مرنج و مرنجان شخص تھے۔ ہمارے کالج کے ٹرسٹی اور بہت بڑے معاون تھے حیدرآباد دکن میں سالار جنگ اعظم نے ان کو بلایا تھا۔ اس زمانہ سے اس وقت تک متعدد انقلابات حیدرآباد میں ہوئے اور پارٹیاں بھی قائم ہوئیں۔ مگر ان کو بجز اپنے کام کے کسی سے کچھ کام نہ تھا۔ ان کو بجز اپنے کام یا علمی مشغلے کے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ حیدر میں یا دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ متعدد علوم میں نہایت اعلیٰ درجہ کی دست گاہ تھی۔عربی علوم کے عالم تھے۔ فارسی نہایت عمدہ جانتے تھے اور بولتے تھے عبری و کالڈی میں نہایت اچھی دست گاہ رکھتے تھے۔ انگریزی زبان میں بھی انھوں نے کتابیں تصنیف کی ہیں۔ مذہب اسلام کے ایک زبردست فلاسفر تھے۔ ہمارے بڑے دوست تھے۔ ایسی خوبیوں کے شخص کا انتقال کرنا ایسے زمانہ میں کہ ان کی عمر کچھ زیادہ نہ تھی۔ نہایت افسوس اور رنج کے لائق ہے۔ انا للہ و انا انا الیہ راجعون افسوس ہے کہ وہ مضمون اور لاحل سوال کا جواب جو انھوں نے تہذیب الاخلاق میں لکھنا چاہا تھا ناتمام رہ گیا اور اب امید نہیں کہ کوئی شخص اس لاحل سوال کو حل کرے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحفۂ حسن ترجمہ مطاعن حضرت ابوبکر صدیق از باب دھم تحفۂ اثنا عشریہ و ترجمہ باب دوازدھم ۔ تولاً و تبراً مرقومہ 1844ع مترجمہ سرسید احمد خاں تمہید یہ رسالہ جو حضرت شاہ عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کی مشہور عالم کتاب تحفہ اثنا عشریہ کے دو نہایت ضروری بابوں کا اردو ترجمہ ہے، سرسید نے آج سے ایک سو اکیس سال پہلے 1844عیسوی میں کیا تھا ہم نے چند وجوہ سے اس کو سرسید کے مقالات میں پہلے شائع نہیں کیا تھا۔ مگر بعد میں سوچا کہ جب سرسید کے ہر قسم اور ہر طرز کے مضامین مقالات میں جمع کر دیے گئے ہیں تو جو آج سے سوا سو برس پہلے کی یادگار ہے کیوں شائع نہ کی جائے؟ اس لیے اس کو آج یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ اس سے سرسید کے ان مذہبی معتقدات پر خاصی روشنی پڑتی ہے جو جوانی میں سرسید کے تھے۔ اس کے شائع کرنے سے ہمارا ہر گز یہ منشا نہیں کہ کسی فریق کی تنقیص کریں یا کسی گروہ کی تائید کریں ۔ بلکہ ہم یہاں صرف سرسید کا ایک قدیم ترین ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ جو ان کی ایک ادبی یادگار ہے اور ناظرین کرام بھی اسے محض اسی نظر سے دیکھیں۔ اس مضمون پر تنقید یا تبصرہ کا نہ ہم کوئی حق رکھتے ہیں۔ نہ اس کی ضرورت ہے۔ اپنے اس مضمون پر جو ریویو سرسید نے خود نومبر 1878ع میں کیا تھا وہ ہم ’’مقالات‘‘ میں پہلے شائع کر چکے ہیں۔ لہٰذا یہاں اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) تحفۂ حسن (مؤلفہ سن 1260ہجری مطابق سن 1844ع) اس خداوند مقدس ہی کو سب تعریفیں پھبتی ہیں جو ہر عیب اور نقصان سے پاک ہے، اور اس کے کسی کام میں طعنہ تشنہ کا مقام نہیں، جو کیا وہ عین حکمت ہے، اور جو کرتا ہے وہ عین مصلحت ہے، اپنے بندوں کے لیے کیا کیا کچھ کیا، رسول بھیجے، سیدھی راہ بتائی، بھلے برے کی سمجھ سکھائی، اور درود اور رحمت پہونچے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کو کہ ان کے نور ہدایت سے عالم روشن ہوا، گمراھوں نے سیدھی راہ سیکھی، دوزخ کے عذاب سے بچے، اپنے معبود کو پہچانا، اور اپنے پیدا ہونے کا سبب جانا، اور ان کی آل اور اصحاب اور خلفائے راشدین پر اللہ کی رحمت ہو، کہ انھوں نے دین کے چمکنے کے لیے اپنی جان اور مال اللہ کی راہ میں فدا کی۔ طرح طرح کے دکھ اٹھائے، انواع انواع کی مصیبتیں سہیں، دنیا کے مزوں کو چھوڑا، خدا کی راہ کو پکڑا۔ اما بعد ۔ دنیا میں وہی بات اچھی ہے جس سے کسی کو فائدہ پہونچے، اور وہی شخص اچھا ہے جس سے لوگ نفع اٹھاویں، اور سب سے بڑا نفع دین کا ہے، اور جس سے دین کی بات رواج پاوے۔ اور مسلمان اسے سیکھیں وہی شخص بھلا ہے۔ اس خیال سے اس گنہگار سید احمد حسینی الحسنی غفر اللہ ذنوبہ کے دل میں یہ بات آئی کہ کوئی کتاب ایسی لکھی جاوے جس سے سب کو نفع پہونچے، اور ثواب عظیم ہووے، جب کہ میں نے غور کیا تو اس زمانہ کے عوام کو خلفائے راشدین کے حال سے غافل پایا، اور شیعوں نے جو خلفائے راشدین کی نسبت جھوٹی جھوٹی باتیں بنائی ہیں وہ سب باتیں ان کے مذہب کا لڑکا لڑکا چوھا چوھا نوک زبان رکھتا ہے 1 اور عوام ان باتوں کو سن کر حیران ہوتے ہیں اور ڈگمگانے لگتے ہیں اور جناب مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب قدس سرہ العزیز نے جو تحفہ اثنا عشریہ لکھی ہے اس سے تحفہ کوئی کتاب ہو نہیں سکتی، اور بن نہیں آتی، اس واسطے میں نے اس کتاب کے دسویں باب سے مطاعن حضرت ابوبکر صدیق کا جو خلیفہ اول ہیں صاف صاف اردو زبان میں ترجمہ کیا کہ چھوٹے سے بڑے تک اور جاھل سے عالم تک کو فائدہ پہونچے، اور شیعوں کی اوچھی اوچھی باتیں سب کو معلوم رہیں، اور اس ترجمہ کا نام تحفہ حسن رکھا، اگر ظاہر ۱۔ ایک میرے نہایت دوست شیعہ مذہب تھے۔ ان کے ہاں ایک چھوٹا بچہ تھا جس کو ایک بکری کا بچہ پال دیا تھا اور وہ خوب اس سے ھل گیا تھا۔ ایک دن اس بکری کے بچے کو ذبح کر ڈالا۔ وہ چھوٹا بچہ خوب رویا۔ اس کے باوا نے اس سے کہا کہ عمر یہ کام کر گیا۔ وہ بچہ عمر کو برا بھلا کہتا تھا۔ یہ کام صرف اس لیے کیا تھا کہ بچپن ہی سے ان کے دل میں عمر کی عداوت اور ان کے نام سے نفرت پیدا ہو۔ اسی واقعہ کو دیکھ کر میں نے یہ ترجمہ شروع کیا تھا۔ دل ایک ایسی چیز ہے کہ جب اس میں عداوت کی گو کہ وہ یزید ہی سے ہو اور نفاق کی گو وہ کسی حالت میں ہو جڑ بندھتی ہے تو اس کی نیکی و صفائی گندی و گدلی ہو جاتی ہے۔ اس لیے جیسے کہ میں شیعوں کے مسئلہ حب اھل بیت کو پسند کرتا ہوں وہسا ہی ان کے مسئلہ تبراً و تقیہ کو ناپسند کرتا ہوں اور دلی نیکی اور صفائی اور سچائی کے بالکل برخلاف جانتا ہوں۔ مورخہ سن 1878ع۔ ہے کہ اس ھیچمدان کو اتنی کہاں استعداد تھی کہ تحفہ کے ترجمہ کا نام لیتا بلکہ اس کا خیال بھی دل میں لاتا، لیکن جناب استاذی اور ملاذی حضرت مولوی محمد نورالحسن1 صاحب کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے، اور دین دنیا میں ان کا بھلا کرے کہ انھوں نے میرے دل کو تقویت دی، اور سب طرح کی ذمہ داری لی، جب میں نے اس پر ہاتھ ڈالا اور ترجمہ کا ارادہ کیا، شکر خدا کا کہ یہ سارا ترجمہ ان کی اصلاح سے درست ہوا اور ان کے ملاحظہ سے گذرا ہے ۔ اب اللہ سے یہ امید ہے کہ سب کے پسند آوے اور اس کے سبب سے لوگوں کو ہدایت ہووے، اور مجھے اور مولانا کو ثواب ملے۔ وآخر دعٰونا ان الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علیٰ خیر خلقہ محمد و آلہ و اصحابہ اجمعین۔ دسواں باب اصحاب ثلٰثہ اور اور اصحابوں اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کے مطابق میں جو شیعوں نے اپنی دانست میں سنیوں کی کتابوں سے نکالے ہیں اور ہر ہر طعنہ کے جوابات کے بیان میں یہ جان لو کہ دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے کہ اس کے اوپر عیب چینوں اور دشمنوں نے عیب نہ لگائے ہوں بلکہ خدا کو بھی نہیں چھوڑا اور معتزلہ نے حضرت آدم سے لے کر ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تک سب نبیوں کی طرف صغیروں اور کبیروں کی تہمت لگا کر آیتوں اور حدیثوں سے ثابت کیے ہیں اور یہودیوں نے فرشتوں کو اور خارجیوں اور ناصبیوں نے جناب ۱۔ جناب مولانا و حبیبنا حاجی حافظ محمد نور الحسن صاحب کاندھلوی نے ۱۱ محرم سن 1287 ہجری کو انتقال فرمایا انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ علی مرتضیٰ اور اہل بیت اطہار کی نسبت ایسا کچھ بکا ہے کہ کیا کہیے۔ لیکن عقلمندوں پر ظاہر ہے کہ یہ سب کتوں کا بھونکنا ہے۔ جب چاندنی نکلتی ہے کتے بھونکا ہی کرتے ہیں۔ ایسی باتوں سے ان بزرگوں کے مرتبہ میں کچھ نقص نہیں ہوتا، خلفائے ثلاثہ کی بزرگی میں ایک یہ بات بس ہے کہ شیعوں نے باوجود اس دشمنی اور عداوت کے اتنی مدت میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر چند شبہے کہ ان کی بھی کچھ حقیقت نہیں نکالے ہیں۔ خیال کرنا چاہیے کہ جو شخص صرف اپنے گھر کے اہتمام میں ہوتا ہے اس سے دن بھر میں دس طرح کی بھول چوک ہوتی ہے۔ یہ بزرگ ملکوں کی ریاست اور شریعت کے احکام جاری کرتے تھے۔ ان سے تمام عمر میں دشمنوں کی آنکھوں میں دس بارہ کام برے ہوئے کہ ان کی بھی کچھ اصل نہیں اور باقی سب اچھے، خیال کرو کہ یہ لوگ کیسے بزرگ اور محتاط ہوں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطاعن اور وہ پندرہ ہیں پہلا طعنہ ایک دن حضرت ابوبکر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ممبر پر چڑھے کہ خطبہ پڑھیں۔ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام نے فرمایا کہ اے ابابکر ہمارے نانا کے ممبر پر سے اتر۔ پس معلوم ہوا کہ ابوبکر اس کام کے لائق نہ تھے۔ جواب سب کے نزدیک ثابت ہے کہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیمہا السلام حضرت ابوبکر کی خلاف میں بہت چھوٹے تھے، اس واسطے کہ رمضان کے مہینے میں ہجرت سے تیسرے برس حضرت امام حسن علیہ السلام اور شب برات کے مہینے میں چوتھے برس حضرت امام علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارھویں برس کے شروع میں انتقال فرمایا ہے، اب دو حال سے خالی نہیں یا یہ کہ شیعہ ان دونوں اماموں کے قول اور فعل جو لڑکپن میں صادر ہوئے معتبر جان کر ان پر شرع کے حکم جاری کریں، یا چھٹپن کے سبب معتبر نہ رکھ کر حکم جاری نہ کریں، پہلی صورت میں تقیہ کا چھوڑنا کہ ان کے نزدیک واجبات سے ہے لازم آتا ہے، اور رسول کے خلاف ہوتا ہے، اس واسطے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بدھ سے پیر تک پانچوں وقت کی نماز میں حضرت ابوبکر کے تئیں اپنا خلیفہ کیا تھا اور اس عرصہ میں خطبہ اور جمعہ کی نماز بھی ان ہی کی خلافت سے ہوئی، اور جناب علی مرتضیٰ کے بھی برخلاف ہوتا ہے، اس واسطے کہ حضرت نے بھی ان کے پیچھے نماز پڑھی، اور جمعہ کی نماز اور خطبہ کو درست رکھا، اور دوسری صورت میں کچھ نقصان نہیں ہوتا، اور کچھ طعنہ اور برا کہنے کا مقام نہیں بلکہ لڑکوں کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر کسی کے تئیں اپنے بزرگ کی یا جس سے ھلے ہوئے ہیں اس کی جگہ پر بیٹھا یا اس کی کچھ چیز اور کسی کے پاس دیکھیں گو اس کی مرضی ہی سے کیوں نہ ہو تو بھی مچلتے ہیں کہ یہ دے دو۔ پس یہ قول دلیل نہیں ہو سکتا، اور اگرچہ نبی اور امام اپنی بزرگی کے سبب اور سب لوگوں سے ممتاز ہیں، لیکن بشریت اور لڑکپن کی عادتیں ان میں بھی باقی ہیں، بلکہ چالیس برس سے پہلے سوائے ایک آدھ شخص کے نبوت نہیں ملی اور ایک آدھ کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے، مثل مشہور ہے کہ ’’الصبی صبیی و لو کان نبیاً‘‘ یعنی لڑکا لڑکا ہے اگرچہ نبی ہو۔ دوسرا طعنہ یہ ہے کہ مالک بن نویرہ کی جورو بہت خوبصورت تھی۔ خالد بن ولید نے کہ حضرت ابوبکر کے ہاں امیر الامرا تھا اس سے نکاح کرنے کے لیے مالک کے تئیں کہ مرد مسلمان تھا مارا اور اسی رات اس سے نکاح کر کے مجامعت کی اور چار مہینے دس دن عدت کے گذرنے کی راہ نہ دیکھی اور اس سے زنا ہوا۔ اس واسطے کہ عدت کے دنوں میں نکاح درست نہیں اور حضرت ابوبکر نے خالد پر نہ حد زنا ماری نہ قصاص لیا۔ حالاں کہ قصاص اور حد زنا لینا ابی بکر پر واجب تھا اور حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کی اس بات کو ناپسند کیا اور خالد سے کہا کہ اگر میرے ہاتھ یہ کام ہوتا تو میں تجھ سے قصاص لیتا۔ جواب اس طعنہ کا جواب اس قصہ کے بیان کرنے پر موقوف ہے۔ جاننا چاہیے کہ تاریخ کی معتبر کتابوں سے ثابت ہے کہ ۔ طلیحۃ 1 بن خویلد اسدی متنبی کی مہم سے فراغت کرنے کے بعد خالد بطاح کی طرف گئے اور سب طرف لشکر بھیجا اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کے موافق فرمایا کہ اگر کسی قوم سے لڑو اور اس قوم سے اذان کی آواز سنو تو مارنا اور لوٹنا موقوف کرو اور اگر تمہارے کان تک اذان کی آواز نہ پہنچے تو اس جگہ کو دارالحرب سمجھ کر لوٹو اور مارو۔ اتفاقاً ایک لشکر کہ اس میں ابو قتادہ انصاری بھی تھے۔ مالک بن نویرہ کو کہ پیغمبر خدا کے حکم کے بموجب بطاح کی ریاست اور وہاں کے باشندوں سے صدقہ لینا اس سے متعلق تھا خالد پاس پکڑ لایا۔ ابو قتادہ نے گواہی دی کہ میں نے اس کی قوم میں سے اذان کی آواز سنی ہے اور باقی سب ۱۔ طلیحہ خویلد اسدی وہ شخص ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ لشکر کے آدمیوں نے برخلاف اس کے کہا اور آس پاس کے باشندوں کی گواہی سے یہ بات ثابت ہو گئی تھی کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر پہنچنے کے وقت اس مالک بن نویرہ کی عورتوں نے مہندی لگائی تھی اور دایرہ بجایا تھا اور جتنی باتیں خوشی کی تھیں سب کی تھیں اور مسلمانوں پر ہنسیں تھیں اور مالک نے خالد کے سامنے سوال جواب کے وقت پیغمبر خد اکے حق میں یہ کلمہ کہا۔ قال رجلکم او صاحبکم کذا۔ یعنی کہا تمہارے آدمی یا تمہارے ساتھی نے ایسا۔ اور اس طرح آنحضرت علیہ السلام کو مسلمانوں کی طرف نسبت کرنا اس وقت کے کافروں اور مرتدوں کا شیوہ تھا اور اس سے پہلے یہ بات بھی تحقیق ہو گئی تھی کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر پہنچنے کے وقت اسی مالک بن نویرہ نے جتنے صدقے کہ اس قوم سے لیے تھے سب پھیر دیے اور کہا کہ اب اس شخص کی تکلیف سے چھوٹے اور پھر خالد کے سامنے بھی اس سے بے ایمانی کی باتیں صادر ہوئیں۔ خالد نے حکم دیا کہ اس کے تئیں مار ڈالو، جب کہ یہ خبر مدینہ منورہ میں پہنچی اور خالد کی اس حرکت سے ابوقتادہ انصاری خفا ہو کر دارالخلافہ میں آئے اور خالد پر تہمت خطا کی لگائی، حضرت عمر نے پہلے یہ بات جانی کہ یہ ناحق خون ہوا اور خالد پر قصاص چاہیے، جب کہ حضرت ابوبکر نے خالد کو طلب کیا اور اس سے حال پوچھا تب اصل حقیقت معلوم ہوئی اور خالد کو حق پر جان کر چھوڑ دیا اور پھر اسی امیر الامرائی کے منصب پر بحال فرمایا، اب اس قصہ کو سوچ کر شرع کے موافق حکم کرنا چاہیے کہ اس صورت میں خالد پر کیوں کر قصاص ہو سکتا ہے اور کس طرح زنان کی حد واجب ہوتی ہے اور اگر یہ بات کہو کہ حربی کی عورت کے لیے بھی ایک حیض کی راہ دیکھنی چاہیے، اور بغیر گذرنے ایک حیض کے اس سے صحبت درست نہیں اور خالد نے اتنا بھی انتظار نہ کیا، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ طعنہ خالد پر ہے نہ حضرت ابوبکر پر اور خالد کچھ معصوم اور سب مسلمانوں کا امام نہ تھا اور سوائے اس کے یہ روایت کہ خالد نے اسی رات اس عورت سے صحبت کی کسی معتبر کتاب میں نہیں ہے۔ اور اگر بعضی غیر معتبر کتابوں میں پایا جاتا ہے تو اس کے ساتھ یہ بھی روایت موجود ہے کہ مالک نے اس عورت کو مدت سے طلاق دے کر کفار کی رسم کے موافق قید کر رکھا تھا اوراسی بات کے موقوف کرنے واسطے یہ آیت نازل ہوئی ہے، و اذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن۔ یعنی اور جب طلاق دی تم نے عورتوں کو پھر پونچ چکیں اپنی عدت تک تو اب نہ روکو ان کو، پس اس صورت میں اس کی عدت ہو چکی تھی اور نکاح اس کا حلا ل تھا اسی واسطے خالد نے اور عدت کا انتظار نہ کیا اور سب سنیوں کا یہ ہی مذہب ہے اور شیعہ جو اہل سنت کے الزام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور صحابہ کے طعن ان کے مذہب اور ان کی روایتوں سے ثابت کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ روایات اور مسائل اس مذہب کے ملحوظ رکھیں اور نہیں تو مقصد حاصل نہ ہوگا، فی الاستیعاب و امرہ ای خالداً ابوبکر الصدیق علی الجیوش ففتح اللہ علیہ الیمامۃ و غیر ھا و قتل علی یدیہ اکثر اھل الردۃ منھم مسیلمہ و مالک بن نویرہ الیٰ اخر ما قال۔ یعنی استیعاب 1 میں لکھا ہے کہ حاکم کیا خالد کے تئیں ابوبکر نے اوپر لشکر کے پس فتح ہوا اس کے ہاتھوں پر ملک 2 یمامہ کا اور سوائے اس کے اور مارا خدا تعالیٰ نے اس کے ہاتھ سے اکثر مرتدوں کو، ان میں سے مسیلمہ اور مالک بن نویرہ ہے۔ ۱۔ استیعاب سنیوں کی کتاب ہے ابن عبداللہ اس کا مصنف ہے۔ ۲۔ یمامہ چند شہر ہیں مدینہ کے مشرق کی طرف بصرہ سے سولہ منزل۔ مسیلمہ نے وہاں دعویٰ نبوت کا کیا تھا۔ اور جواب یہ بات ہم نے مانی کہ مالک بن نویرہ مرتد نہ تھا ، لیکن خالد کے تئیں بے شک اس کے مرتد ہونے کا شبہ تھا والقصاص ینذزی بالشبہات، یعنی قصاص جاتا رہتا ہے شبوں سے۔ اور سنی اور شیعوں کے عالم اور مفتی اس بات میں کیا فتویٰ دیتے ہیں، کہ اگر کسی شخص سے یہ باتیں جو مالک بن نویرہ سے ہوئیں واقع ہوں، یا عشرہ کے دن خوشی کرے اور حضرت امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت اطہار اور اولاد بتول 1 کی نسبت کہ اس دن مصیبت میں گرفتار تھے بری بری باتیں کہے، اس کے تئیں کیا کہناچاہیے، اگر اس کو مرتد کہو تو بہتر اور اگر کوئی شخص ان حرکتوں کواور ایسی باتوں کو دیکھ کر اس شبہ سے اس کے تئیں مار ڈالے یہ کہ مرتد ہو گیا،تو اس سے قصاص لینا چاہیے یا نہیں۔ اور جواب حضرت ابوبکر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے کچھ شیعہ اور سنی کے خلیفہ نہ تھے اور ان کے تئیں ان کی خواہش اور مطلب کے موافق کام کرنا نہیں پہنچتا بلکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کام کرنا چاہیے اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساممنے اسی خالد بن ولید نے صدھا مسلمانوں کے تئیں مرتد ہونے کے شبہ سے مفت مارا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر گز معترض نہ ہوئے کہ یہ سب تاریخوں سے ثابت ہے اور اس کا قصہ یوں ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد کے تئیں ایک لشکر پر سردار کر کے بھیجا اور ایک قوم سے ۱۔ اولاد بتول جناب فاطمہ علیہا السلام کی اولاد کو کہتے ہیں کہ بتول حضرت فاطمہ کا لقب تھا۔ مقابلہ ہوا اور وہ قوم مسلمان ہو گئی تھی، لیکن ابھی اسلام کے قاعدے اچھی طرح نہیں جانتی تھی، جس وقت ان کو مارنے لگے، اس وقت اس بات کے کہنے کی جگہ کہ ہم مسلمان ہیں ان لوگوں نے یہ بات کہی کہ ’’صباء نا صباء نا‘‘ یعنی ہم نے دین چھوڑا ہم نے دین چھوڑا اور اس سے مراد یہ تھی کہ ہم نے اپنے پہلے دین کو چھوڑا اور اسلام قبول کیا، خالد نے کہا کہ ان سب کو مار ڈالو۔ عبداللہ 1 بن عمر نے کہ وہ خالد کے ساتھ متعین تھے اپنے یاروں اور رفیقوں کو تاکید کی کہ ان کے تئیں نہ مارو اور قید رکھو، جب کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پہنچے اور یہ ماجرا کہا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم خفا ہوئے اور بہت افسوس کیا اور فرمایا کہ ’’اللھم انی ابرء الیک مما صنع خالد‘‘ یعنی اے خدا میں پاک ہوں اس سے جو خالد نے کیا ہے اور پھر نہ خالد پر قصاص جاری فرمایا اور نہ اس سے دیت 2 دلوائی، اس واسطے کہ خالد کے تئیں ان کے کفر کا شبہ تھا، پس ابوبکر صدیق نے ایک شخص کے خون کے لیے کہ اس شبہ سے اس کا شبہ قوی تھا خالد سے کچھ تعرض نہ کیا تو کیا برا کیا، بلکہ ابوبکر نے بہ مزید احتیاط بیت المال سے مالک کی دیت بھی دلوائی۔ اور جواب اگر مالک بن نویرہ کا قصاص نہ لینے سے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت جاتی رہی تو جناب علی مرتضیٰ علیہ السلام کی خلافت حضرت عثمان کے قصاص نہ لینے سے بدرجہ اولیٰ جاتی رہے گی اس ۱۔ عبداللہ بن عمر حضرت عمر کے جو دوسرے خلیفہ بر حق ہیں، بیٹے تھے نہایت بزرگ اور زاہد تھے۔ ۲۔ دیت اس مال کو کہتے ہیں کہ اگر کسی کے ہاتھ سے کوئی بھولے سے مارا جائے تو مارنے والے کے ذمہ اس کا دینا آتا ہے۔ واسطے کہ حضرت عثمان میں کوئی وجہ قتل کی نہ تھی پس جس صورت میں سنی اس بات کے تئیں جناب علی مرتضیٰ علیہ السلام کی خلافت کا قادح نہیں جانتے تو اس کے تئیں کیوں جاننے لگے تھے اور کچھ ان پر الزام نہیں ہو سکتا۔ اور جواب مالک بن نویرہ کا قصاص خالد سے لینا حضرت ابوبکر پر اس وقت واجب ہوتا کہ مالک کے وارث قصاص طلب کرتے اور یہ بات ہر گز ثابت نہیں کہ اس کے وارثوں نے قصاص طلب کیا، بلکہ متمم بن نویرہ مالک کے بھائی نے کہ مالک سے عشق اور اس سے بہت محبت رکھتا تھا اور جب تک جیا، رویا پیٹا کیا اور مرثیہ کہے کہ عرب میں مشہور ہیں اور یہ دو بیتیں اسی میں سے ہیں۔ بیت و کنا کلد ما نی جذیمۃ حقیقۃ من الدھر حتی قیل لن یتصدعاً فلما تفرقنا کانی و مالکاً لطول اجتماع لیلۃ لم نبت معاً یعنی تھے ہم مانند دو مصاحبوں جذیمہ 1 کے ایک مدت دراز تک یہاں تک کہ کہا جاتا تھا کہ یہ کبھی جدا نہ ہوں گے پھر جب جدا ہوئے گویا کہ میں اور مالک بایں درازی صحبت نہیں رہے کبھی ایک رات ساتھ۔ حضرت عمر کے سامنے اس کے مرتد ہونے کا اقرار کیا، پھر تو حضرت عمر بھی اس انکار سے جو حضرت ابوبکر کے زمانہ میں کیا کرتے تھے، نادم ہوئے اور معترف ہوئے کہ حضرت صدیق نے جو کچھ کیا وہ ہی عین صواب اور حق تھا اور اس بات پر بڑی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر نے باوجود اس شدت کے کہ حد اور قصاص کے جاری کرنے میں ۱۔ جذیمہ اپرش نام ایک بادشاہ کا تھا، ملک حیمرہ میں۔ رکھتے تھے اپنی خلافت میں خالد سے معترض نہ ہوئے اور نہ اس پر حد ماری اور نہ قصاص لیا۔ تیسرا طعنہ یہ ہے کہ اسامہ1 کے لشکر سے جدا ہو گئے اور اس کے ساتھ نہ گئے حالاں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کو آپ رخصت فرمایا تھا اور ہر شخص کو نام بنام متعین کیا تھا اور مرتے دم تک اس لشکر کے سامان درست کرنے میں بہت تاکید کی تھی اور فرمایا تھا کہ جہزوا جیش اسامۃ لعن اللہ من تخلف عنہ یعنی سامان کرو تم لشکر اسامہ کو، لعنت ہے اللہ کی اس شخص پر ہو جو بیٹھ رہے اس سے۔ جواب اس طعنہ کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابوبکر پر کسی وجہ سے طعن کرتے ہیں سامان نہ دینے کے سبب یا نہ جانے کے سبب سے، اگر پہلی وجہ سے ہے تو بالکل جھوٹ ہے، اس واسطے کہ حضرت ابوبکر نے باوجودے کہ اور اصحاب کی مرضی نہ تھی جب بھی اسامہ کے لشکر کو آراستہ کیا، اس کی تفصیل یوں ہے کہ صفر کی چھبیسویں تاریخ پیر کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ رومیوں کی لڑائی اور زید 2 بن حارثہ کا بدلہ لینے کو لشکر تیا رکرو اور پیر کو اسامہ بن زید کے تئیں لشکر کا سردار کیا اور صفر کی اٹھائیسویں تاریخ بدھ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور دوسرے دن باوجود بیماری کے اپنے دست مبار ک سے ۱۔ نام صحابی کا ہے زید بن حارث کے بیٹے ہیں اور زید حضرت کے لے پالک تھے، حضرت کو ان دونوں کے ساتھ کمال الفت تھی۔ ۲۔ زید بن حارث اسامہ کے باپ تھے اور لے پالک تھے آپؐ کے۔ اس کے واسطے نشان درست کر کے فرمایا۔ اغز بسم اللہ و فی سبیل اللہ و قاتل من کفر باللہ یعنی جہاد کر اللہ کے نام کی برکت سے اور اللہ کی راہ میں مار اس شخص تئیں جو منکر ہو اللہ کا، اسامہ اس نشان کو اپنے ہاتھ میں لے کر باہر آیا اور بریدہ 1بن الحصیب اسلمی کے تئیں دیا کہ لشکر میں نشان بردار وہ ہو اور موضع جرف 2 میں منزل کی اور سب بزرگوار کیا مہاجر اور کیا انصار مثل ابوبکر صدیق اور عمر بن الخطاب اور عثمان اور سعد بن وقاص اور ابوعبیدہ بن الجراح اور سعید بن زید اور قتادہ بن النعمان و سلمہ بن اسلم 3 نے ڈیرے اور خیمہ باہر بھیجے اور چاہتے تھے کوچ کریں کہ بدھ کے اخیر دن اور جمعرات کی اول شب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض نے زیادتی کی اور اس سبب سے ایک تھلکہ ہوا اور عشا کے وقت جمعرات کی رات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو نماز میں اپنا خلیفہ کر کے اس خدمت پر مامور کیا اور ربیع الاول کی دسویں کو ہفتہ کے دن آنحضرت کے مرض میں افاقہ ہوا، جتنے مسلمان کہ اسامہ کے ہمراہ متعین ہوئے تھے سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہو کر باہر آئے اور اسامہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بغل گیر ہوئے اور دعا دے کر رخصت کیا، اتوار کے دن پھر مرض نے شدت کی، اس واسطے اسامہ نے اور اس کے لشکر والوں نے پھر توقف کیا، جو کہ اس مہم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تاکید تھی۔ اس واسطے پیر کے دن اسامہ نے چاہا کہ سوار ہو، یکایک ام ایمن اسامہ کی ماں کا آدمی پہنچا اور کہا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو نزع کی حالت ہے، ۱۔ بریدہ بن الحصیب صحابی کا نام ہے۔ ۲۔ جرف عتق کے وزن پر ایک مکان ہے مدینہ منورہ سے پاس اس کا نام ہے۔ ۳۔ یہ سب بزرگ صحابی تھے۔ اس بات کے سنتے ہی اسامہ اور سب صحابہ گرتے پڑتے پھرے اور اور بریدہ بن الحصیب نے نشان کے تئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ کے دروازے پر کھڑا کر دیا، جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین سے فراغت ہوئے اورخلافت حضرت ابوبکر کے واسطے مقرر ہوئی، تب حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ اس نشان کو اسامہ کے دروازہ پر کھڑا کرو اور بریدہ کے تئیں حکم دیا کہ آپ اسامہ کے دروازہ پر جا کر لشکر جمع کرے اور جاوے اور اسامہ بھی کوچ کرے۔ اسامہ نے کوچ کر کے جرف میںمقام کیا، اس عرصہ میں مدینہ سے خبر آئی کہ بعضی قومیں عرب کی مرتد ہو گئیں اور چاہتی ہیں کہ مدینہ پر چڑھ آئیں۔ اکثر صحابہ نے حضرت ابوبکر سے عرض کیا۔ کہ اس وقت میں اتنے بڑے لشکر کو اس دور دراز مہم پر بھیجنا مصلحت وقت نہیں، اس واسطے کہ مبادا عرب مدینہ کو خالی جان کر فساد کریں اور ایک ناحق کا دنگہ ہو اور مدینہ کے رہنے والوں کو کچھ آسیب پہنچے۔ حضرت ابوبکر نے ہر گز قبول نہ کیا اور فرمایا۔ کہ اگر اسامہ کے لشکر بھیجنے کے سبب سے میں یہ بات جانوں کہ مدینہ میں درندوں کا کھاجا ہو جائوں گا تو بھی حضرت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے برخلاف جائز نہ رکھوں گا۔ مگر اسامہ سے یہ درخواست کی کہ حضرت عمر کے تئیں پروانگی دو کہ میرے پاس رہے تاکہ مدینہ کی حفاظت اور مشورہ میں شریک اور صلاح کار ہو، حضرت عمر اسامہ کی اجازت کے بموجب پھرے، اور ربیع الثانی کی پہلی کو اسامہ نے کوچ کیا اور ابنی 1 کی طرف گیا، یہ حال روضۃ الصفا اور روضۃ الاحباب اور حبیب السیر ۱۔ ابنی۔ شام کی سرحد میں ایک گائوں ہے۔ اس کا نام ہے۔ اور زید بن حارث وہیں شہید ہوئے تھے۔ اور شیعہ اور سنی کی معتبر تاریخوں میں موجود ہے اور اگر دوسری وجہ سے یعنی اسامہ کے ساتھ نہ جانے سے ہے تو اس کے کئی جواب ہیں۔ پہلا جواب یہ ہے کہ اگر ایک سردار ایک شخص کے تئیں ایک لشکر میں متعین کرے اور پھر اس شخص کے تئیں اپنے پاس کی ایک اور خدمت پر مامور کرے، تو صاف یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس شخص کو تعیناتیوں میں سے موقوف کیا اور وہ پہلا حکم اس کا منسوخ ہوا اور اس جگہ یہی بات ہوئی ہے، اس واسطے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع مرض میں اس لشکر کو جدا کر کے اسامہ سے ساتھ متعین کیا اور جب مرض زیادہ ہوا اور اسامہ اور اس کے ساتھیوں نے کوچ میں توقف کیا، حضرت ابوبکر کے تئیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت نماز میں اپنا نائب کیا اور یہ خدمت دی اور اس بڑے کام میں مشغول فرمایا، بعد اس کے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ حضرت ابوبکر کی تعیناتی خود موقوف ہو گئی تھی، جانا اور نہ جانا ان کا دونوں برابر تھے اور شروع میں یہ بات ثابت ہے کہ پہلے پہل جہاد اپنی طرف سے شروع کرنا فرض بالکفایہ ہے، یعنی اگر تھوڑے آدمی بھی اس میں مشغول ہوں تو کفایت کرتا ہے اور اسامہ کے لشکر کا سامان تیار کرنا بھی اسی قبیل سے تھا اس صورت میں اسامہ کے لشکر کے ساتھ نہ جانے میں حضرت ابوبکر کے تئیں کچھ نقص لازم نہیں آتا اور مدینہ پر سے کافروں اور مرتدوں کا فتنہ دفع کرنا فرض عین تھا، اگر حضرت ابوبکر یہ نہ کرتے تو ترک فرض عین لازم آتا تھا، اس واسطے حضرت ابوبکر نے فرض عین ادا کرنے کے لیے فرض بالکفایا کو ترک کیا اور یہی حکم شرع کا ہے اور جب کہ تمام لشکر کو حضرت ابوبکر نے سامان درست کر دیا اور وہ لشکر ان کی تاکید اور تقلید کے سبب سے روانہ ہوا اس فرض بالکفایا کا ثواب بھی ان کو ہوا: چہ خوش بود کہ براید بیک کرشمہ دوکار دوسرا جواب یہ ہے کہ جہاد کے واسطے کسی شخص کو کسی امیر کے ساتھ متعین کر نا بندوبست ملکی کی قسم سے ہے اور یہ بات رئیس وقت کی مصلحت پر ہے، کچھ احکام الٰہی سے نہیں ہے اور جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی، تدبیر مملکت کی جتنی باتیں تھیں حضرت ابوبکر سے متعلق ہوئیں۔ اب یہ سب باتیں ان کی صلاح سے علاقہ رکھتی تھیں، کہ جس کے تئیں چاہیں اسامہ کے ساتھ کریں اور جس کو چاہیں نہ کریں اور خواہ آپ جاویں ، خواہ نہ جاویں، اس کی مثال یہ ہے کہ مثلاً ایک بادشاہ کسی طرف ایک لشکر متعین کرے اور سب سامان درست ہونے اور لشکر کے روانہ ہونے سے پہلے وہ بادشاہ مر جائے اور ایک اور بادشاہ اس کی جگہ بیٹھے، اس نئے بادشاہ کے تئیں اختیار ہے کہ ان تعیناتیوں میں سے بعضوں کو اپنے کو اپنے پاس رکھے، اس واسطے کہ مصلحت ملک اور دولت کی اسی میں جانتا ہے اور اتنی سی بات میں پہلے بادشاہ کی مخالفت اور اس کی فرمانبرداری کا ترک لازم نہیں آتا۔ مخالفت وہ ہے کہ اس امیر کی جگہ اور امیر کرے، یا اس مہم کو چھوڑ دے، یا ان دشمنوں سے مل جائے۔ غرض کہ یہ ذرا ذرا سی باتیں مصلحت وقت کے اور تدبیر ملک کے اور دین کے رئیس وقت کی صلاح سے متعلق ہیں اور اس کے تئیں ایسی باتوں میں اپنی عقل کے موافق تصرف جائز ہے اور ایسی باتوں میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہر گز وحی اور تشریع کی قسم سے نہیں ہے اور یہ جملہ ’’لعن اللہ من تخلف عنہا‘‘ ہر گز سنیوں کی کتابوں میں نہیں ہے اور بالفرض اگر صحیح بھی ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اسامہ کے تئیں اکیلا چھوڑنا اور رومیوں کی مہم پر نہ جانا اور زید بن حارث کے بدلہ لینے سے آنکھ چرانی حرام ہے اور جب کہ حضرت ابوبکر خدمت امامت پر متعین ہوئے ان سب باتوں سے بے شک بری ہوئے، قال الشھر ستانی فی الملل والنحل ان ھذالجملۃ موضوعۃ و مفتراۃ یعنی شہر ستانی نے ملل اور نحل 1 میں یہ بات کہی ہے کہ تحقیق یہ جملہ بنایا ہوا اور افترا ہے اور بعضے فارسی پڑھے ہوئے جو اپنے تئیں سنیوں کا محدث گنتے ہیں، انھوں نے اپنی کتابوں میں اس جملہ کو لکھا ہے، تو یہ بات سنیوں کے الزام کو کافی نہیں ہوتی۔ اس واسطے کہ سنیوں کے نزدیک حدیث کا اعتبار اس وقت ہوتا ہے، جب محدثین کی معتبر کتابوں میں ہو اور انھوں نے اسے صحیح کہا ہو اور ان کے نزدیک بے سند حدیث شتر بے مہار ہے، کہ ہر گز اس پر کان نہیں رکھتے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت ابوبکر کا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد منصب بدل گیا۔ پہلے ایک مسلمانوں میں سے تھے اب خلیفہ ہوئے اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ بیٹھے اور جب کہ منصب بدل جائے تب شرع کے موافق اس منصب کے احکام جاری ہوتے ہیں نہ پہلے منصب کے۔ جیسے کہ لڑکا جس وقت بالغ ہو جاوے اور دیوانہ جس وقت اچھا ہو جاوے اور مقیم جس وقت مسافر ہو اور مسافر جس وقت مقیم ہو اور غلام جس وقت آزاد ہو اور رعیت جس وقت حاکم ہو اور عامی آدمی جب ۱۔ کتاب کا نام ہے۔ قاضی ہو اور فقیر جس وقت دولت مند ہواور دولت مند جس وقت فقیر ہو اور لڑکا جس وقت پیدا ہو اور زندہ جب مر جاوے اور قریب جب مر جاوے قریب تر اس ے باب ولایت نکاح میں اور ارث میں، علیٰ ھذا القیاس۔ اس صورت میں جس وقت حضرت ابوبکر پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہوئے اسامہ کے ساتھ کیوں جاتے۔ اس واسطے کہ اگر خود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم جیتے ہوتے تو وہ بھی نہ جاتے اور نہ جانے کا ارادہ تھا۔ البتہ لشکر کا سامان دینا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تھا اور وہ حضرت ابوبکر کے ذمہ ہوا اور اس کو سرانجام کر دیا۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ اگرفرض کیجئے کہ حضرت ابوبکر کو بھی اسامہ کے ساتھ رومیوں کی لڑائی میں جانے کا حکم تھا اور ان کا نماز میں خلیفہ ہونا استثناء کا سبب نہ ہو اور خلافت کے کاموں میں مصروف ہونا اور مدینہ کی اور ناموس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا عذر بھی نامقبول ہو، تو آخر کار یہ ہے کہ اس کی عصمت 1 میں خلل ہو گا اور امامت میں عصمت شرط نہیں ہے، بلکہ عدالت ضرور ہے اور دو ایک صغیرہ گناہ کرنے سے عدالت نہیں جاتی رہتی اور بالاتفاق حضرت ابوبکر فاسق نہ تھے اور شیعہ اور سنیوں کے نزدیک گناہ کبیرہ ان سے ثابت نہیں۔ پانچواں جواب یہ ہے کہ یہ دو ایک طعنے جو شیعہ سنیوں کی کتابوں سے حضرت ابوبکر کے حق میں ثابت کرتے ہیں، اول تو یہ ثابت ۱۔ عصمت سنیوں کے نزدیک یہ ہے کہ کسی شخص کے ہاتھ پر گناہ نہ پیدا ہو اور شوق عبادت اور گناہ سے بچنے کا دل میں ہو۔ نہیں ہوتے اور بالفرض اگر ثابت بھی ہوئے تو سنیوں کی سب روایتیں جو حضرت ابوبکر کے فضائل اور مناقب اور جنت میں بڑا درجہ ملنے کے باب میں کہ آیتوں اور حدیثوی اور اماموں اور اہل بیت کے قولوں سے ہیں اور بعضے ان میں سے شیعوں کی کتابوں میں بھی موجود ہیں اور صحیح ہیں، ترازو کے ایک پلہ میں رکھو اور ان دو تین طعنوں کو دوسرے پلہ میں اور تولو، بعد اس کے جواب چاہو۔ چھٹا جواب یہ ہے کہ شیعوں کے نزدیک پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم وجوب کے واسطے متعین نہیں ہے، چناں چہ در غرر میں شریف 1 مرتضیٰ نے کہا ہے۔ پس اگر خاص کر حضرت ابوبکر کی نسبت اسامہ کے ساتھ جانے میں حکم صریحاً ثابت بھی ہو اور ابوبکر نہ جاوے تو بھی کچھ خلل نہیں ہوتا، اس واسطے کہ شاید یہ حکم حضرت کا اولویت کے واسطے ہو اور ایسے حکم کا چھوڑنا گناہ نہیں، اب باقی رہا جملہ ’لعن اللہ من تخلف عنہا‘‘ پس یہ جملہ سنیوں کی کتابوں میں نہیں کہ جواب کا محتاج ہو اور اگر بالفرض موجود بھی ہو تو لفظ من شیعوں کے نزدیک عام ہے۔ چناں چہ اس کاحال اصول کی کتابوں میں موجود ہے۔ اس صورت میں جناب علی مرتضیٰ اور اور مسلمان بھی اس گناہ میں شریک ہوتے ہیں اور جو جواب ان کی طرف سے ہو گا وہی جواب حضرت ابوبکر کی طرف سے ہے اور اگر یہ بات کہیں کہ یہ گناہ اسامہ کے متعینوں کے واسطے ہے نہ سب کے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ’’جہزوا جیش اسامہ‘‘ یعنی سامان کرو تم لشکر اسامہ ۳۔ شریف مرتضیٰ شیعوں کے ہاں کا بڑا عالم ہے اور لرضی اس کا بھائی ہے۔ کو یہ خطاب متعینوں کی طرف نہیں ہو سکتا، اس واسطے کہ اسامہ کے لشکر کا سامان کرنے کو اسامہ ہی کے لشکر کو کہنا بے معنی ہے۔ اس صورت میں خطاب عام ہے سب مسلمانوں کی طرف اور جملہ ’’لعن اللہ‘‘ بھی اسی کلام کے ساتھ ہے ، متعینوں کے ساتھ تخصیص نہیں۔ ساتواں جواب یہ ہے کہ شیعوں سے نزدیک خدا کے بلاواسطہ حکم سے مخالفت کرناحضرت آدم 1 اور حضرت یونس2 پر ثابت ہے، چناں چہ ۱۔ سنیوں کے نزدیک حضرت آدم صفی اللہ حسد اور بغض اور اللہ کی نافرمانی سے پاک تھے، شیعہ اس کے برخلاف جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ توبہ توبہ جیسے کہ شیطان میں حسد اور بغض ہے ایسا ہی حضرت آدم علی نبینا علیہم الصلواۃ والسلام میں تھا اور کہتے ہیں کہ جس طرح شیطان کو حضرت آدم کے سجدہ کرنے میں حسد اور بغض ہوا اور سجدہ نہ کیا اور ملعون ہوا اس طرح حضرت آدم نے ائمہ اطہار سے حسد اور بغض کیا کہ اس سبب سے اللہ تعالیٰ ان پر خفا ہوا اور ہمیشہ خفگی میں رہیں گے ایسے لوگوں سے جو اپنے باپ دادا کو گالیاں دیویں خدا بچاوے، چناں چہ محمد بن بابر یہ عیون الاخبار میں حضرت علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام سے اور معانی الاخبار میں مفصل بن عمر سے روایت کرتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو فرشتوں سے سجدہ کروایا تب حضرت آدم نے کہا کہ میں ساری خلقت سے اچھا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سر اٹھا کر عرش کو دیکھو۔ حضرت آدم نے سر اٹھا کر دیکھا کہ عرش پر لکھا ہے لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ علی وی اللہ امیر المومنین و زوجۃ فاطمۃ سید النساء العالمین و الحسن والحسین سیداً شباب اھل الجنہ۔ حضرت آدم نے عرض کیا کہ یا اللہ یہ کون ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیری اولاد میں سے ہیں اور تجھ سے اور ساری خلقت سے اچھے ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو میں کچھ نہ پیدا کرتا۔ یہ بات سن کر حضرت آدم نے حسد کی آنکھوں سے گھورا اور اس کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے شیطان سے بہکوایا اور بہشت سے نکالا اور غضب میں ڈالا۔ ۲۔ امامیہ حضرت یونس کی نسبت یہ لم لگاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر) نبوت کے باب میں گذرا، پس رسول کے ایک حکم سے امام نے بھی خلاف کیا تو کیا مضائقہ ہے، اس واسطے کہ امام نبی کا نائب ہے اور نائب کتنا ہی اچھا ہو ، منیب سے کم ہو گا۔ چوتھا طعنہ یہ ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو کبھی کسی دین اور شرع کے کاموں میں سردار نہیں کیا اور جو شخص کہ ایک کام کی سرداری کے لائق نہ ہو، سب مسلمانوں پر کیوں کر سردار ہو سکتا ہے۔ جواب اس طعنہ کا جواب کئی وجہ سے ہے ۔ پہلے یہ کہ یہ بات بالکل جھوٹ ہے، اس واسطے کہ شیعہ اور سنی کی تاریخوں سے ثابت ہے کہ جب جنگ احد کے بعد خبر پہنچی کہ ابو سفیان نے مدینہ پر چھڑنے کا ارادہ کیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو اس سے لڑنے کے واسطے بھیجا اور وہ لڑے اور چوتھے برس میں بنی نصیر کی لڑائی میں رات کو حضرت ابوبکر کے تئیں لشکر میں اپنی جگہ سردار کر کے آپ اپنے گھر تشریف لائے اور چھٹے برس میں جب بنو لحیان کی لڑائی کے واسطے چلے اور وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کی خبر پا کر پہاڑوں میں چھپ رہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ایک دن مقام فرما کر ہر طرف لشکر بھیجے ان لشکروں میں سے سب سے (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) کے بغیر حکم اپنی قوم کو چھوڑ کر بھاگ گئے اور اپنی قوم کو بلا حکم کوسا اور ان کی تکلیفوں پر صبر نہ کیا اور ان کو نہ جھٹلایا۔ چناں چہ کلیفی نے ابن ابی یعقوب سے یہ روایت کی ہے۔ بڑے لشکر میں حضرت ابوبکر صدیق کو سردار کر کے کراع العمیم1 کی طرف بھیجا تھا اور تبوک کی لڑائی میں پیغمبر خدا نے حکم دیا تھا کہ سب لشکر مدینہ کے پاس ثنیۃ الوداع2 میں جمع ہو اور لشکر گاہ کے سردار حضرت صدیق ہوں اور سارے لشکر کی موجودات ان سے متعلق ہو اور خیبر کی لڑائی میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو آدھا سیسی کا درد ہوا اور قلعہ پر حملہ کے وقت آنحضرت صلعم نے حضرت ابوبکر کو اپنا نائب کر کے قلعہ کی فتح کو بھیجا اور اس دن حضرت ابوبکر سے بڑی لڑائی ہوئی اور ساتویں برس میں بنی کلاب سے لڑنے کو بھیجا کہ سلمتہ بن الاکوع کا رسالہ بھی حضرت ابوبکر کے ساتھ تھا کہ بنو کلاب سے لڑائی ہوئی اور بہتوں کو مارا اور بہتوں کو پکڑ لائے اور بنو فزارہ 3 کی لڑائی میں بھی لشکر کے سردار حضرت ابوبکر تھے۔ چناں چہ حاکم سلمۃ بن اکوع سے روایت کرتا ہے کہ امر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابابکر فغزونا ناسا من بنی فزارۃ فلما دنونا من الماء و امرنا ابوبکر فعرسنا فلما صلینا الصبح امرنا ابوبکر فسننا الغارۃ الی آخر الحدیث۔ یعنی حکم کیا حضرت ابوبکر کو پھر جہاد کیا ہن نے بنی فزارہ کے آدمیوں سے، جب پانی کے نزدیک پہنچے حکم کیا ابوبکر نے تاکہ آرام لیں ہم، پھر جب نماز پڑھی صبح کی حکم کیا ابوبکر نے اور لوٹا ہم نے اور شب خون مارا اور معارج النبوت اور حبیب السیر میں لکھا ہے کہ تبوک کی لڑائی کے بعد ایک اعرابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ عربوں میں سے ایک قوم وادی الرمل 4 میں جمع ہوئی ہے اور شب خون مارنے کا ۱۔ ایک جگہ ہیں تین منزل غسفان سے۔ ۲۔ ثینۃ الوداع نام ہے ایک جگہ کا مدینہ شریف کے قریب کہ مکہ کی راہ میں ہے۔ ۳۔ فزارہ قبیلہ ہے عطفان میں سے۔ ۴۔ نام جنگل۔ ارادہ رکھتی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نشان حضرت ابوبکر کو دے کر اور لشکر کا سردار کر کے ان لوگوں پر بھیجا اور جب کہ بنی عمر بن عوف میں خانہ جنگی ہوئی اور ظہر کی نماز کے بعد آنحضرت کو خبر پہنچی اور آپؐ صلح کے واسطے اس محلہ میں تشریف لے گئے، بلال کو فرمایا کہ اگر نماز کا وقت ہو جائے اور میں نہ آئوں تو ابوبکر کو کہنا کہ وہ نماز پڑھاویں۔ چناں چہ عصر کے وقت حضرت ابوبکر نے نماز پڑھائی اور نویں برس جب حج فرض ہوا اور بعضے سببوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانا نہ ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر صدیق کے تئیں امیر حج کر کے بہت سے صحابہ کے ساتھ مکہ کو بھیجا کہ وہاں جا کر لوگوں کو حج کراوے اور مرض موت میں جمعرات کی رات سے پیر کی صبح تک نماز میں خلیفہ کرنا خود مشہور ہے کچھ بیان کی حاجت نہیں۔ اب غور کرنا چاہیے کہ سردار سے دین کی یہی تینوں باتیں متعلق ہوتی ہیں: پہلے جہاد، دوسرے حج، تیسرے نماز اور ان تینوں چیزوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سامنے حضرت ابوبکر کو اپنا خلیفہ کیا۔ اب دین کی کون سی بات باقی رہ گئی کہ جس میں حضرت ابوبکر خلیفہ اور امام ہونے کی لیاقت نہیں رکھتے تھے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ہم نے یہ بات مانی، کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو کبھی کسی کام میں سردار کر کے نہیں بھیجا۔ لیکن اس کا سبب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر کو اپنا وزیر جانتے تھے اور بغیر حضرت ابوبکر کے کوئی کام سرانجام نہ ہوتا تھا اور ہمیشہ سے بادشاہوں کی رسم اور عادت یہ ہے کہ وزیروں اور بڑے بڑے آدمیوں کو پرگنوں اور قصبوں میں عامل کر کے نہیں بھیجتے اور لشکروں کے سردار نہیں کرتے، اس واسطے کہ ان کے نہ ہونے سے حضوری کے بڑے بڑے عمدہ کام ابتر ہو جاتے ہیں اور اس بات کے تئیں خود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ حاکم حذیفہ بن الہمان سے روایت کرتا ہے۔ کہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میرا ارادہ ہے کہ دین سکھانے کے واسطے لوگوں کو دور دور ملکوں میں بھیجوں۔ جیسے کہ حضرت عیسیٰ نے اپنے حواریوں کو بھیجا تھا۔ جو لوگ حاضر تھے انھوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کے ہاں اس طرح کے لوگ جیسے ابوبکر اور عمر موجود ہیں۔ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہ لا عننیٰ لی عنھما انھما من الدین کا لسمع والبصر یعنی میرا گذارہ نہیں ہوتا ہے یہ ان کے دونوں دین کے کان اور آنکھ کی مانند ہیں اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاہے کہ میرے تئیں اللہ تعالیٰ نے چار وزیر دیے ہیں، ابوبکر اور عمر دو وزیر زمین میں اور جبرائیل اور میکائیل دو وزیر آسمان میں۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ اگر کسی کام پر نہ بھیجنا امامت کی لیاقت جاتے رہنے کا باعث ہو، تو لازم آتا ہے کہ جناب حسین علیہا السلام بھی امامت کے لائق نہ ہوں، اس واسطے کے حضرت امیر المومنین نے ان دونوں صاحبوں کے تئیں کسی لڑائی پر اور کسی کام میں نہیں بھیجا اور محمد بن حنفیہ کو کہ ان کے بے مان بھائی تھے بہت سے کاموں پر بھیجا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے محمد بن حنفیہ 1 سے پوچھا کہ تمہارے باپ لڑائیوں میں اور جہاں کہ اندیشہ کی جگہ ۱۔ محمد بن حنفیہ حضرت علی مرتضیٰ کے بیٹے ہیں، حنفیہ ان کی ماں تھی۔ ہوتی ہے تمہارے تئیں بھیجتے ہیں اور جناب امام حسین علیہا السلام کے تئیں اپنے سے جدا نہیں کرتے، اس کا کیا سبب ہے۔ اس امام زادہ منصف نے فرمایاکہ میرے باپ کی اولاد میں جناب امام حسن اور جناب امام حسین علیھما السلام دو آنکھوں کی مانند ہیں اور باقی اولاد بمنزلہ ہاتھ پائوں کے اور جب تک ہاتھ اور پائوں سے کام ہو آنکھوں کو کیوں تکلیف دی جاوے، بلکہ آدمی کی خاصیت یہ ہے کہ جس وقت آنکھ پر کچھ آفت پہنچتی ہے تو ہاتھ سے بچاتا ہے۔ پانچواں طعنہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے عمر بن خطاب کے تئیں مسلمانوں کے سب کام کا متولی کر کے سب امت کا خلیفہ کیا۔ حالاں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایک برس صدقہ لینے کی خدمت پر مقرر ہو کے موقوف ہو چکے تھے اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کو موقوف کیا ہو اس کو مقرر کرنا صریح پیغمبر کی برعکسی ہے۔ جواب اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر کے تئیں موقوف سمجھنا بڑی بے وقوفی ہے، اس واسطے کہ اگر کوئی شخص ایک خدمت پر کسی کام کے انجام کرنے کو مقرر ہو اور وہ کام ہو چکے اور اس کی خدمت بھی تمام ہ وجاوے اس شخص کے تئیں معزول نہیں کہہ سکتے اور حضرت عمر کی بھی خدمت اسی طرح کی تھی۔ جب صدقہ لینے کا کام تمام ہو چکا ان کی خدمت بھی تمام ہو چکی اور اگراس کے تئیں موقوفی کہیں تو لازم آتا ہے کہ ہر نبی اور امام مرنے کے بعد موقوف ہو جاوے۔ دوسرا جواب ہم نے یہ بات مانی کہ حضرت عمر کے تئیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے موقوف کیا، لیکن اس کی موقوفی حضرت ہارون کی طرح تھی، کہ جب حضرت موسیٰ طور سے پھرے ہیں حضرت ہارون ان کی خلافت سے موقوف ہو گئے، لیکن اس سبب سے کہ وہ بالاستقلال نبی تھے اس موقوفی سے ان کی لیاقت امامت میں کچھ نقصان نہ ہوا۔ اسی طرح حضرت عمر کے تئیں کہ ان کے حق میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ ’’لو کان بعدی نبی لکان عمر‘‘ یعنی اگر ہوتا میرے بعد کوئی نبی تو ہوتا عمر۔ اس موقوفی نے بھی ان کی امامت کی لیاقت میں کچھ نقصان نہ کیا۔ تیسرا جواب مخالفت پیغمبر کی وہ ہے، کہ جس چیز کو اس نے منع کیا ہے اس کو کریں، نہ یہ کہ جس کو موقوف کیا ہے اس کے بحال کرنے میں بھی مخالفت ہو جاوے۔ ہاں اگر جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت عمر کے مقرر کرنے سے منع کرتے اور حضرت ابوبکر اس کو بحال کرتے، تو البتہ مخالفت ہوتی۔ جب کہ یہ بات نہیں ہوئی تو مخالفت کہاں سے ہوئی اور اگر یہ بات کہو کہ جو کام کہ آنحضرت نے نہیں کیا اس کا کرنا بھی مخالفت ہے، تو یہ بات لازم آتی ہے کہ جناب علی مرتضیٰ نے بھی حضرت عائشہ سے لڑنے میں مخالفت رسول کی کی ہو۔ چھٹا طعنہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے تئیں عمرو بن العاص کا تابع اور فرماں بردار اور اس کے تئیں ان پر سردار کیا اور اسی طرح اسامہ کے تئیں ان پر سردار کیا، اگر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سرداری کی لیاقت رکھتے تھے اور اس بات میں بہتر تھے، تو کس واسطے ان کو سردار نہ کیا اور اور لوگوں کو ان کے تابع۔ پہلا جواب اس طعنہ کے کئی جواب ہیں، پہلا جواب یہ ہے کہ اگر ان کا سردار کرنا نالائق ہونے اور اچھے نہ ہو نے پر دلالت کرتا ہے، تو لازم ہے کہ سردار کرنا لیاقت اور اچھے ہونے پر دلالت کرے پس اگر شیعہ اس بات کے قائل ہوویں، کہ عمر بن العاص اور اسامہ بن زید اچھے اورامامت کے لائق تھے، اس وقت سنی اس کا جواب دیں گے اور نہیں تو نہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ، اگر ایک خاص کام میںایک کم رتبہ آدمی کو اچھے آدمیوں پر سردار کریں، تو یہ بات امامت کے لائق اور بہت اچھے ہونے پر دلالت نہیں کرتی، اس واسطے کہ کبھی ایک خاص کام میں سردار کرنا ایک ایسی بات کے واسطے ہوتا ہے، کہ وہ بات ایسے ہی آدمی سے ہو سکتی ہے اور اچھے آدمی سے نہیں ہو سکتی ہے، جیسے کہ عمرو بن العاص کے سردار کرنے میں ہوا، کہ وہ ایک دو فنون اور حیلہ باز تھا اور یہی بات منظور تھی کہ دشمنوں کو مکر اور حیلہ سے خراب اور تباہ کرے، یا ان کے فریب سے آگاہ ہو اور اوروں کے تئیں اس کام میں اس کے برابر آگاہی نہ تھی اور اس واسطے چوروں کو پکڑنے اور راھوں کے صاف کرنے اور راتوں کو گشت دینے کی خدمت ایسے ہی لوگوں کو دیتے ہیں اور بڑے بڑے امیروں سے یہ خدمتیں سرانجام نہیں ہو سکتیں اور یا ایک خاص کام میں سردار کرنے سے یہ مقصد ہوتا ہے، کہ کسی مصیبت زدہ اور ماتم کشیدہ کی تسلی اور تشفی ہو ، جیسے کہ اسامہ کے واسطے ہوا کہ اس کا باپ روم و شام کی فوج سے شہید ہوا تھا، اگر اس لشکر کا سردار جو رومیوں سے لڑنے کو جاتا تھا اسامہ کو نہ کرتے اور اس کے باپ کا بدلہ لینے کا اس کے تئیں مقرر نہ کرتے، تو اس کی تسلی اور تشفی اور اس کو نام اور مرتبہ حاصل نہ ہوتا۔ تیسرا جواب یہ ہے، کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں یہ منظور تھا، کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ان باتوں سے بھی واقف ہو جاویں، جو تابعوں کو اپنے سرداروں کے ساتھ کرنی ہوتی ہیں۔ اور سردار کسی طرح سے اپنے تابعین کی حال پرسی کرتے ہیں اور یہ بات جب تک کہ دو ایک دفعہ کسی کے تابع نہ ہوں بالیقین معلوم نہیں ہو سکتی، یہ بات بھی آنحضرت کی سرداری اور خلافت سکھانے کے واسطے تھی، اس کی مثال یہ ہے کہ بادشاہ جب تک کہ سپاہ گیری سے امیری اور امیری سے وزارت اور وزارت سے سلطنت پر نہ پہنچے بادشاہت کا کام اچھی طرح سے سرانجام نہیں دیتا، جیسے کہ تیمور اور نادرشاہ ، پس یہ بات صاف اس بات پر دلالت کرتی ہے، کہ اس طرح کی تعلیم سے آں حضرت کو ان کے حق میں بڑی ریاست دینی منظور تھی اور اسی تربیت سے جو آںحضرت نے ان دونوں صاحبوں کے حق میں کی تھی، یہ دونوں صاحب اپنی خلافت میں لشکریوں اور امیروں کو اس طرح رکھتے تھے کہ اس سے بہتر انتظام متصور نہیں، کہ ان کے امیروں کو نہ پھر جانے اور نہ مقابلہ کرنے کا خیال تھا، نہ ان کے لشکریوں کو لڑنے بھڑنے کٹنے مرنے میں سستی اور نہ لوٹنے اور مارنے میں بیباکی تھی اور امیروں کو لشکر پر اور لشکر کو امیروں پر کچھ ظلم اور زور نہ تھا اور رعیت چین چان امن امان سے رہتی تھی اور دن بدن ملک و مال ہاتھ لگتا تھا، اور یہ بات تاریخوں سے چاند کی طرح چمکتی ہے، کہ اس پر خاک پڑ نہیں سکتی اور کچھ شیعہ پن اس میں پیش نہیں جاتا اور شیعوں نے امور مرھومہ میں دھوم دھام کی ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو خوب ہوتا اور ویسا ہوتا تو خوب ہوتا۔ ساتواں طعنہ یہ ہے، کہ حضرت ابوبکر نے اپنا خلیفہ کرنے میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی، اس واسطے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سب امت کا نیک و بد خوب جانتے تھے، انھوں نے تو اپنا خلیفہ کسی کو نہیں کیا تھا، پھر حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کو کیوں خلیفہ کیا۔ پہلا جواب اس طعنہ کے بھی کئی جواب ہیں، پہلا جواب یہ ہے کہ یہ بات کہنی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو اپنا خلیفہ نہیں کیا تھا بالکل جھوٹ ہے، اس واسطے کہ اگر شیعوں کے مذہب پر بحث کی جاوے، تو شیعہ اس بات کے خود قائل ہیں، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب علی مرتضیٰ علیہ السلام کو اپنا خلیفہ کیا تھا، اس صورت میں اگر حضرت ابوبکر بھی جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلے تو کیا برا کیا اور اگر سنیوں کے مذہب پر گفتگو کی جاوے بتو سنیوں کے نزدیک بھی ثابت ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اور حج میں حضرت ابوبکر کو خلیفہ کیا تھا اور صحابہ کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج داں اور عقل مند تھے ان کے تئیں اتنا اشارہ کافی تھا، مثل مشہور ہے کہ ’’عاقلاں را یک اشارہ بس است‘‘ اور حضرت ابوبکر نے یہ بات سوچی کہ عرب اور عجم کے بہت سے لوگ ابھی مسلمان ہوئے ہیں، اگر ان کے تئیں صاف صاف نہ کہہ دیا جاوے گا، تو یہ لوگ اس باریکی کو نہیں سمجھیں گے، اس واسطے لکھ پڑھ دیا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر فرض کیجئے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ نہیں کیا تھا تو اس کا یہ سبب تھا کہ ان کے تئیں اللہ کی طرف سے وحی اور الہام سے یقین تھا، کہ میرے بعد ابوبکر ہی خلیفہ ہو گا اور سب صحابہ ان سے رجوع کریں گے اور سوائے ان کے اور کسی کو دخل نہ دیں گے، چناں چہ یہ حدیثیں جو سنیوں کی کتابوں میں موجود ہیں اس بات پر صاف دلالت کرتی ہیں۔ فابی علی الا تقدیم ابی بکر یعنی پھر نہ چاہا مگر مقدم ہونا ابوبکر ہی کا۔ اور حدیث یابی اللہ و المومنون الا ابابکر یعنی نہ چاہے گا خدا اور سب مومن مگر ابوبکر ہی کو۔ اور حدیث انہ خلیفۃ من بعدی یعنی البتہ وہ خلیفہ ہے میرے بعد۔ اور جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا یقین تھا تو لکھنے کی کچھ حاجت نہ تھی، بلکہ صحیح مسلم میں یہ بات لکھی ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں حضرت ابوبکر اور ان کے بیٹے کو بلایا کہ خلافت کا عہد نامہ لکھوا دیں اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور سب مسلمان آپ سے آپ ابوبکر کے سوائے کسی کو خلیفہ نہیں کریں گے، کچھ لکھنے کی حاجت نہیں اور حضرت ابوبکر کو کچھ وحی نہ آتی تھی کہ انکو یقین کامل ہوتا اور نہ ان کی عقلاً یہ بات معلوم ہوتی تھی کہ میرے بعد بلاشک حضرت عمر ہی کو خلیفہ کر دیں گے۔ اور حضرت ابوبکر اپنے نزدیک حضرت عمر کو خلافت کے لائق جانتے تھے، اس واسطے ان کو ضرور پڑا تھا ، کہ امت کے واسطے جو بہتر ہو وہ کریں اور شکر خدا کا کہ حضرت ابوبکر کی عقل خوب پہنچی، کہ حضرت عمر کے وقت میں جیسا کہ انتظام اور شوکت دین کی ہوئی اور کافر مارے گئے ایسا کسی نبی کے خلیفہ سے نہیں ہوا۔ تیسرا جواب یہ ہے، کہ خلیفہ نہ کرنا اور چیز ہے اور منع کرنا اور چیز ہے، اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ کرنے سے منع کر دیتے اور حضرت ابوبکر خلیفہ کرتے تب مخالفت ہوتی، نہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ نہیں کیا اور حضرت ابوبکر نے خلیفہ کر دیا، تو بس مخالفت ہو گئی اور اگر یہ بات نہیں ہے تو یہ بات لازم آتی ہے، کہ توبہ توبہ جو حضرت علی مرتضیٰ نے حضرت امام حسن علیہ السلام کو خلیفہ کیا، تو یہ بھی پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہو گئی۔ آٹھواں طعنہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر کہتے تھے۔ ان لی شیطاناً یعترینی فان استقمت فاعینونی و ان زغت فقومونی یعنی میرے لیے بھی ایک شیطان ہے کہ سامنے آ جاتا ہے پھر اگر میں حکم شرعی میں سیدھا رہا کروں تو میری مدد کیا کرو اور جو کجی کروں تو مجھے راست و درست کر دیا کرو اور جس شخص کو کہ شیطان وسوسہ میں ڈالے اور بہکاوے وہ امامت کے قابل نہیں ہے۔ پہلا جواب یہ ہے، کہ سنیوں کی معتبر کتابوں میں یہ روایت صحیح نہیں ہے کہ اس سے الزام ہو، بلکہ اس کے سوائے ایک اور روایت صحیح اور ثابت ہوئی ہے، کہ حضرت ابوبکر نے مرتے وقت حضرت عمر کو بلایا اور وصیت کی اور یہ باتیں کہیں۔ واللہ مانمت فحلمت وما شبہت فتو ھمت و انی لعلی السبیل ما زغت ولم آل جہداً و انی اوصیک بتقوی اللہ الی آخر الکلام یعنی قسم خدا کی میں کبھی غافل نہیں ہوا کہ خیال پریشان دیکھتا اور نہ شبہ میں پڑا ہوں کہ بہکتا، میں سیدھی راہ پر ہوں اور ذرا بھی نہیں بھٹکا اور کچھ قصور نہیں کیا کوشش میں اور تجھے بھی یہی وصیت کرتا ہوں کہ خدا سے ڈرتے رہو، ہاں البتہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے تو جو خطبہ کہ آپ نے سب سے پہلے پڑھا وہ یہ خطبہ تھا، کہ اے رسول خدا کے دوستوں میں! پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں، لیکن دو چیزوں کا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے واسطے ہیں مجھ سے مت چاہنا، ایک وحی اور دوسری عصمت 1 شیطان سے اور یہ خطبہ مسند امام احمد اور سنیوں کی کتابوں میں موجود ہے کہ اس خطبہ کے آخر میں یہ بھی ہے، کہ میں معصوم نہیں ہوں، تمہارے تئیں میری اطاعت انھیں باتوں میں فرض ہے جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اللہ کی شریعت کے موافق ہوں اور اگر خدا نخواستہ میں تمہارے تئیں خلاف اس کے کہوں تو ہر گز نہ مانو اور میرے تئیں اطلاع کرو اور سب مسلمانوں کو یہی عقیدہ ہے اور سبحان اللہ کہ حضرت نے کیا انصاف کی بات کہی ہے، پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں سب لوگوں کے تئیں عادت پڑی ہوئی تھی کہ جو مشکل ہوتی تھی وحی کی طرف رجوع کرتے تھے اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم دیتے تھے ان کی عصمت کے سبب بے تامل مانتے تھے، خلیفوں کے تئیں لازم ہے کہ سب سے پہلے ان دونوں 1چیزوں سے آگاہ کریں کہ یہ خاصہ پیغمبر کا ہے اور کسی کا نہیں ۔ ۱۔ عصمت سنیوں کے نزدیک یہ ہے کہ کسی شخص کے ہاتھ پر گناہ نہ پیدا ہو اور شوق عبادت کا اور گناہ سے بچنے کا دل میں ہو۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ کلینی جو شیعوں کے ہاں بہت معتبر کتاب ہے اس میں حضرت امام جعفر صادق سے صحیح روایتیں موجود ہیں، کہ ہر مسلمان کے ساتھ ایک شیطان ہے کہ اس کے بہکانے کا ارادہ رکھتا ہے اور صحیح حدیث میں بھی ہے ما من منکم من احد الا و قد و کل بہ قرینہ من الجن یعنی نہیں کوئی تم میں سے مگر یہ کہ اس پر مقرر ہے ایک ہمراہی جنوں میں سے، یہاں تک کہ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے واسطے بھی شیطان قرین ہے، فرمایا کہ ہاں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے تئیں اس پر غلبہ دیا ہے کہ اس کے فریب سے بچا رہتا ہوں، پس جس صورت میں کہ نبیوں کے پاس بہکانے کے واسطے شیطان کے آنے اور رہنے سے نبوت میں کچھ نقصان نہ ہو تو حضرت ابوبکر کی امامت میں کیوں قصور ہونے لگا تھا، اس واسطے کہ امام کے تئیں متقی ہونا ضرور ہے اور متقیوں کے بھی دل میں شیطان شبہ ڈالتا ہے، مگر وہ خبردار ہو جاتے ہیں اور اس کے موافق کام نہیں کرتے قولہ تعالیٰ ان الذین التقو اذا مسھم طائف من الشیطان تذکروا فاذاھم مبصرون یعنی جو لوگ ڈر رکھتے ہیں جہاں پر کیا ان پر شیطان کا گذر چونک گئے پھر تب ہی ان کو سوجھ آ گئی، البتہ اس شخص کی امامت میں قصور ہوتا ہے کہ شیطان سے مغلوب ہو جائے اور اس ۱۔ یعنی وحی اور عصمت۔ کے بہکانے پر کام کرے اور جھٹ پٹ توبہ نہ کرے، قولہ تعالیٰ و اخوانھم یمدونھم فی الغی ثم لا یقصرون یعنی اور بھائی ہیں وہ ان کو کھینچے جاتے ہیں غلطی میں پھر وہ کمی نہیں کرتے اور یہ مرتبہ فسق اور فجور کا ہے کہ سب کے نزدیک امامت میں خلل انداز ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے ، کہ اگر حضرت ابوبکر نے اس طرح کی بات کہی تو بھی ان کی امامت میں کچھ نقص نہیں اس واسطے کہ جناب علی مرتضیٰ کہ سب کے نزدیک امام برحق ہیں اپنے دوستوںسے اسی طرح کی باتیں کہتے تھے، چناں چہ نہج البلاغۃ میں کہ شیعوں کے ہاں بہت صحیح کتاب ہے لکھا ہے، و ھو قولہ ’’لا تکفوا عن مقالۃ بحق او مشورۃ بعدل فانی لست یفوق ان اخطی ولا امن ذالک من فعلی الی آخر ما سبق نقلہ‘‘ یعنی نہ چوکو تم سچ کہنے سے اور اچھے مشورے سے کہ میں بھی خطا کر سکتا ہوں اور میرے کام میں بھی خطا کا خطر ہے اور جس شخص نے کہ قرآن میں سے الف لام میم کا سپارہ پڑھا ہو گا وہ بھی جانتا ہے، کہ حضرت آدم کے تئیں شیطان نے وسوسہ ڈالا اور بہشت سے نکالا اور کلام اللہ سے ثابت ہے کہ حضرت آدم خلیفہ تھے قولہ تعالیٰ انی جاعل فی الارض خلیفہ یعنی مجھ کو بنانا ہے زمین میں ایک نائب اور جس شخص نے کہ قرآن میں سے سورہ ص پڑھی ہو گی وہ بھی جانتا ہے، کہ حضرت دائود کے تئیں جورو کے مقدمہ میں شیطان نے کس قدر وسوسے ڈالے، یہاں کہ اللہ تعالیٰ کی خفگی ہوئی اور توبہ استغفار کی نوبت پہنچی اور کلام اللہ سے ثابت ہے، کہ حضرت دائود خلیفہ تھے قولہ تعالیٰ یا دائود انا جعلناک خلیفۃ فی الارض یعنی اے دائود تحقیق کیا ہم نے تیرے تئیں خلیفہ زمین میں۔ اور جس شیعہ نے حضرت سجاد1 کا صحیفہ کاملہ دیکھا ہو گا اور سمجھاہو گا ، تو جانتا ہو گا کہ حضرت سجاد نے اپنے حق میں کیا فرمایاہے کہ قد ملک الشیطان غنانی فیء سوء الظن و ضعف الیقین و انی اشکو سوء مجاورۃ لی وطاعۃ نفسی لہ یعنی پھرتا ہے شیطان باگ میری بدگمانی میں اور سستی اعتقاد میں اور شکوہ کرتا ہوں اس کی بد ہمسائیگی سے، اور نفس کی تابع داری کرنے سے شیطان کے لیے ، اب اس عبارت کے تئیں اور حضرت ابوبکر کی عبار ت کے تئیں تولنا چاہیے اور الفاظ ’’یعترینی و ان زغت‘‘کو ایک پلہ میں رکھو اور الفاظ ’’ملک عنانی و طاعۃ نفسی‘‘ کو ایک پلہ میں رکھو اور اس کو غور کرو کہ حضرت امام فرماتے ہیں کہ پھیرتا ہے شیطان باگ میری بدگمانی اور سستی اعتقاد میں، اور حضرت ابوبکر کہتے ہیں کہ اگر میں کجی کروں تو مجھے داست و درست کر دو ، یعنی حضرت امام کا کلام یقین پر دلالت کرتا ہے کہ بے شک یہ بات ہوئی اور کلام حضرت ابوبکر احتمال پر، کہ اگر یوں ہو تو ایسا کرو اور ان ’’زغت‘‘ سے ہر گز یہ بات نہیں پائی جاتی کہ طرفین میں سے کوئی بات واقع ہوئی ہو اور یہ بھی سمجھو کہ اگر کسی شخص کے تئیں شیطان بہکاوے اور وہ نہ بہکے تو کچھ نقصان نہیں۔ بلکہ بہت بڑائی کی بات ہے۔ اور سورہ یوسف میں سے وما ابرء نفسی ان النفس لامارۃ بالسوء الا ما رحم ربی کو یعنی اس آیت کو کہ ’’میں پاک نہیں کہتا اپنے جی کو جی تو سکھاتا ہے برائی مگر جو رحم کیا میرے رب نے‘‘ تلاوت کرو اور حضرت ابوبکر کو اس ذرا سی بات سے امامت کے مرتبہ سے نہ گرائو۔ ۱۔ سجاد لقب ہے امام زین العابدین کا اور نام مبارک ان کا علی ہے۔ نواں طعنہ یہ ہے کہ حضرت عمر کہتے تھے کہ الا ان بیعت ابی بکر کانت فلتتہ و فی اللہ المومنین شرھا فمن عاد الیٰ مثلھا فاقتلو یعنی ہوشیار رہو اور سمجھو کہ بیعت ابوبکر کی جلدی میں ہو گئی، خدا مسلمانوں کو اس کی آفت سے بچاوے پھر اگر کوئی ایسا کام کرے تو اسے مار ڈالیو اور بخاری میں اور الفاظ ہیں کہ ان کے معنی بھی یہی ہیں۔ اس سے صاف ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر سے بیعت کرنی یکایک بے سمجھے بوجھے ہو گئی، اور ان کو بے تامل بغیر دلیل کے خلیفہ کر دیا، اس صورت میں ان کا خلیفہ ہونا بے جا ہوا اور ان کی خلافت برحق نہ ہوئی۔ جواب اس طعنہ کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر نے یہ بات ایک شخص کے جواب میں کہی تھی کہ وہ شخص حضرت عمر کے زمانہ میں کہتا تھا کہ اگر حضرت عمر مر جاویں گے تو میں فلانے شخص کے ساتھ بیعت کر کے اس کو خلیفہ کروں گا، اس واسطے کہ حضرت ابوبکر کے ساتھ بھی دو ایک آدمیوں نے بے سمجھے بوجھے یکایک بیعت کی تھی اور آخر کو وہی خلیفہ ہوئے اور سب صحابہ ان کے تابع ہو گئے، چناں چہ بخاری میں یہ بات موجود ہے، پس حضرت عمر کے قول کے یہ معنی ہیں کہ ایک دو آدمیوں کی بیعت کرنی بے تامل اور بے مشورہ رئیسوں اور مجتہدوں کے صحیح نہیں، اور اگرچہ ابوبکر کے ساتھ بھی یکایک بیعت ہوئی تھی لیکن معلوم ہوا کہ حق حقدار کو پہنچا اور یہ بیعت ٹھیک ٹھیک ہوئی۔ اس لیے کہ ان کی خلافت کی دلیلیں ، جیسا نماز میں امام کرنا اور ان کا سب صحابہ سے بہتر ہونا بہت ظاہر تھا۔ ہر شخص کے تئیں حضرت ابوبکر پر قیاس نہ کرنا چاہیے، بلکہ اگر اور کوئی اس طرح پر بیعت کرے اس کو مار ڈالنا چاہیے، اس واسطے کہ ایسی بات میں جو سوچنا سمجھنااور اجماع ضرور ہے اس نے نہ کیا اور مسلمانوں میں فتنہ اٹھایا اور اس قول کے آخر میں ’’و ایکم مثل ابی بکر‘‘ بھی ہے کہ شیعوں نے اس کے تئیں چھپا رکھا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ کون ہے تم میں ابوبکر کی مانند بزرگی میں کہ اسے بیعت کرنے میں مشورہ کی حاجت نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ ’’وقی اللہ شرھا‘‘ کے معنی یہی ہیں کہ اگرچہ حضرت ابوبکر خلافت سقیفہ1 بنی ساعدہ میں اس سبب سے کہ انصاری بر سر پرخاش تھے اور لمبے چوڑے مشورہ کی فرصت نہ تھی بہت جلدی ہوئی اور جلدی بیعت کرنے میں صرف یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ مبادا بیعت بے جا ہو اور ایک نالائق امام ہوجائے لیکن اللہ کی عنات سے نہ ہوا اور حق حقدار کو پہنچا اور ظاہر ہے کہ حضرت عمر کا یہ مطلب نہ تھا کہ حضرت ابوبکر کی بیعت صحیح نہ تھی اور خلافت درست نہ ہوئی۔ اس واسطے کہ حضرت عمر اور عبیدۃ بن الجراح نے حضرت ابوبکر کے ساتھ سقیفہ میں سب سے پہلے بیعت کی اور ان کے بعد اوروں نے، اور جس وقت کہ ان دونوں صاحبوں نے بیعت کی تھی اس وقت فرمایاتھا کہ ’’انت خیرنا و افضلنا‘‘ یعنی تحقیق تو اچھا ہے ہم میں اور بہتر ہے ہم میں، اور اس کلمہ کو سب صحابہ مہاجرین اور انصار نے جو حاضر تھے سنا اور انکار نہ کیا بلکہ مانا۔ اس صورت میں حضرت ابوبکر کا اچھا ہونا اور بہتر ہونا سب صحابہ کے نزدیک مسلم الثبوت تھا اور انصاری اس بات پر پرخاش کرتے تھے کہ ہم میں سے بھی ایک خلیفہ ہو اور یہ نہیں کہتے تھے کہ حضرت ابوبکر خلافت کے لائق نہیں ہیں، اور سنیوں کے ہاں صحیح روایتوں سے ثابت ہے کہ سعد 1 بن عبادہ اور امیر المومنین علیہ السلام اور حضرت زبیر نے بھی حضرت ابوبکر سے بیعت کی، اور پہلے دن بیعت نہ کرنے کا غدر کر کے یہ شکایت کی کہ تم نے اس باب میں ہم سے بھی کیوں نہ صلاح لے لی، حضرت ابوبکر صدیق نے اس کے جواب میں انصاریوں کی پرخاش اور ان کی جلدی بیان کی، اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اور حضرت زبیر نے یہ بات پسند کی، چنانچہ سنیوں کی معتبر کتابوں میں بہت جگہ ثابت ہے، اور اگر حضرت عمر کی اس بات کو حضرت ابوبکر کی نسبت دلیل پکڑتے ہو، تو لازم ہے کہ حضرت عمر کے سب قولوں کو جو حضرت ابوبکر اور ان کی خلافت کے حق میں ہیں سمجھو اور اس قول کے ساتھ تولو، اور دیکھو، کہ یہ کتنا ہے اور وہ کتنے، غرض کہ حضرت عمر کے تئیں حضرت ابوبکر کی خلافت کا معتقد نہ جاننا عجب تماشے کی بات ہے، کہ کہیں اور سننے میں نہیں آتی۔ ۱۔ نام مقام دسواں طعنہ یہ ہے ، کہ حضرت ابوبکر کہتے تھے کہ لست بخیر کم و علی فیکم یعنی میں کچھ تم سے اچھا نہیں ہوں اور علی مرتضیٰ تم میں موجود ہیں، پس اگر یہ بات سچ ہے تو بھی حضرت ابوبکر امامت کے لائق نہ تھے، اس واسطے کہ باوجود اس کے کہ اچھا شخص موجود ہو پھر کم رتبہ آدمی امام نہیں ہو سکتا، اور اگر جھوت ہے تو بھی حضرت ابوبکر امامت کے قابل نہ تھے، اس واسطے کہ جھوٹا فاسق ہے اور فاسق امامت کے قابل نہیں۔ ۱۔ سعد بن عبادہ انصار کے رئیس تھے اور وہ لوگ چاہتے تھے کہ انھیں اپنا خلیفہ کریں ایک امیر مہاجروں میں رہے اور ایک انصار میں جب کہ حضرت ابوبکر نے کہا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خلیفہ قریش میں سے ہو۔ انصار چپ ہو رہے اور سعد بن عبادہ نے اس وقت حضرت ابوبکر سے بیعت نہ کی مگر آخر کو بیعت کر لی۔ پہلا جواب یہ ہے، کہ یہ روایت سنیوں کی کسی کتاب میں نہیں ہے، پہلے سنیوں کی کسی کتاب میں سے اس روایت کو ثابت کرو بعد اس کے جواب چاہو، اور جھوٹا بتنگڑ بنا لینے سے کچھ سنیوں کو الزام نہیں ہوتا۔ دوسرا جواب یہ ہے، کہ ہم نے شیعوں کے لکھنے سے اس روایت کو مانا ، اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت امام سجاد فرماتے ہیں جیسا کہ صحیفہ کاملہ میں ہے کہ شیعوں کے نزدیک بہت معتبر کتاب ہے موجود ہے کہ انا الذی افنت الذنوب عمرہ الخ یعنی میں وہ ہوں کہ کھو دیا ہے گناھوں نے میری عمر کو، اگر حضرت امام سجاد اس باب میں سچے تھے تو امامت کے قابل نہ تھے، اس واسطے کہ جو شخص گناہ کرے امامت کے قابل نہیں ہو سکتا، اور اگر جھوٹے تھے تو بھی امامت کے لائق نہ تھے، اس واسطے کہ جھوٹا فاسق ہے اور فاسق امامت کے قابل نہیں ہوتا، اس صورت میں شیعہ جو جواب کہ حضرت سجاد کی طرف سے دیں، وہی جواب حضرت ابوبکر کی طرف سے سمجھ کر تخفیف تصدیعہ کریں، اور شیعوں کے بعضے عالموں نے اس روایت میں دو لفظ اور بڑھائے ہیں کہ ’’اقیلونی اقبلونی‘‘ یعنی میں اس خلافت سے باز آیا مجھے معاف رکھو، اور کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر امامت چھوڑتے تھے، اور جو شخص کہ امامت چھوڑے وہ امامت کے لائق نہیں، اور عجب تماشے کی بات ہے کہ شیعہ خود اس بات کے معتقد ہیں، کہ حضرت موسیٰ پیغمبری چھوڑتے تھے، اور حضرت ہارون کو دیتے تھے، پس اگر یہ بات ثابت بھی ہو تو حضرت ابوبکر کا امامت کو چھوڑنا ایساہی تھا جیسا کہ حضرت موسیٰ کا پیغمبری کو چھوڑنا، بلکہ اس سے بھی کم اس واسطے کہ پیغمبری کا چھوڑنا باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ نے بلاواسطہ ان کو دی تھی بہت بڑا ہے، اور ایسی امامت کا چھوڑنا کہ بقول شیعوں کے چند لوگوں نے جمع ہر کر انصاریوں کی پرخاش کے ڈر سے اور مدینہ کی نگہبانی کی مصلحت سے ان کو امام کر دیا، اور خد اکی طرف سے ان کو امامت نہ تھی، چنداں بڑا نہیں، اس واسطے کہ جب لوگوں نے ایک شخص کے تئیں سردار کر دیا تو کیا ضرور ہے کہ تمام عمر اس کو قبول رکھے، اور دین دنیا میں محنت لے، اور پہلی دفعہ جو قبول کی تھی انصاریوں کی پرخاش دفع کرنے کے واسطے تھی، جب وہ بات جاتی رہی تو چاہا کہ اپنے چین سے زندگی بسر کریں، اور غور کرو کہ خود شیعوں کی روایت سے یہ بات ثابت ہے کہ ابوبکر کو کچھ امامت کی طمع نہ تھی اور خود چھوڑتے تھے اور صحابہ قبول نہ کرتے تھے، اور ادنیٰ سے اعلیٰ تک نے زبردستی سے حضرت ابوبکر کو خلیفہ کیا، اور اگر یہ بات نہ تھی تو آپ ایسی بات کاہے کو کہتے، اگر ایک بادشاہ ہو کہ بالکل سلطنت کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اور بڈھا اور اندھا اور بہرا ہو گیا ہو، اور چند آدمیوں پر حکم کرنے کے سوا اور کچھ دنیا کی لذت اسے سلطنت سے نہ ہو، اور اس سے کہا جاوے کہ اس سلطنت کو اپنے چاہیتے سے چاہیتے بیٹے کو دے دے تو بھی قبول نہ کرے گا، بلکہ بادشاہ تو درکنار ایک گائوں کا نمبردار اور ایک محلے کا محلے دار بھی ایسا نہ کرے گا۔ خیال کرو کہ حضرت ابوبکر کو اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی ریاست دی تھی، کہ دنیا میں اچھے سے اچھا درجہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نصیب کیا تھا، ایسی اچھی چیز کو چھوڑتا تھا اور لوگوں کو دیتا تھا کس قدر بے طمع اور زاہد ہو گا اور شیعوں کی کتابوں میں صحیح روایتوں سے ثابت ہے، کہ حضرت عثمان کے شہید ہونے کے بعد جناب علی مرتضیٰ خلافت قبول نہ کرتے تھے، جب کہ مہاجرین اور انصار نے بہت سی منتیں کیں تب قبول کیا، حضرت ابوبکر نے بھی اس نظر سے کہ سب لوگ اچھی طرح میری امامت کا اقرار اور اسے قبول کریں کہا تو کیا مضائقہ ہوا۔ گیارھواں طعنہ یہ ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کے تئیں سورہ برات1 دے کر مکہ بھیجا تھا، اتنے میں جبرئیل آئے اور کہا کہ ابوبکر سے برات چھین لے۔ اور حضرت علی کو دے، جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی مرتضیٰ کو حضرت ابوبکر کے پیچھے بھیجا، اور کہا کہ برات چھین لے، اور آپ مکہ والوں کو جا کر سنا، پس جس صورت میں کہ حضرت ابوبکر اللہ تعالیٰ کے ایک حکم کے بھی پہونچانے کی لیاقت نہ رکھتے ہوں، تو سب مسلمانوں کی ریاست کے لیے اور سارے قرآن اور شریعت کے احکام بجا لانے کے واسطے کیوں کر امام ہو سکتے ہیں۔ جواب اس طعنہ کا جواب یہ ہے، کہ شیعوں نے اس روایت میں عجیب تماشا کیا ہے، کسی کا سر اور کسی کا پائوں لے کر ایک صورت بنائی ہے، اور یہ شعر انھی کے مناسب حال ہے: ۱۔ کلام اللہ کی سورۃ کا نام ہے اور وہ سورۃ دسویں سیپارہ میں ہے۔ چہ خوش گفت است سعدی در ذلیخا الا یا ایہا الساقی ادر کاساً و ناولہا یہ تو وہی نقل ہوئی کہ ایک شخص نے مسئلہ پوچھا تھا، کہ خشن اور خشین معاویہ کی تینوں بیٹیوں کے واسطے کیا حکم ہے۔ ’’ببیں تفاوت رہ از کجاست تابہ کجا‘‘ اس ماجرے کی حقیقت یہ ہے، کہ سنیوں کے ہاں اس قصہ میں مختلف روایتیں ہیں، اور اکثر روایتوں میں یہ بات تحقیق ہے، کہ حضرت ابوبکر کو حج کی امارت دے کر بھیجا تھا، نہ سورہ برات پہونچانے کو، اور جب کہ حضرت ابوبکر روانہ ہو چکے اس کے بعد سورہ برات نازل ہوئی، اس لیے حکم کو پہونچانے کے واسطے جنا ب علی مرتضیٰ کو روانہ کیا، اس صورت میں ہر گز حضرت ابوبکر کی موقوفی نہ ہوئی، بلکہ یہ دونوں شخص دو کاموں کے واسطے مقرر ہوئے، ان روایتوں میں شیعوں کو کچھ اعتراض کی جگہ نہیں، اس واسطے کہ جب حضرت ابوبکر کا مقرر ہونا نہ ثابت ہوا تو موقوفی کیوں کر ہو سکتی ہے، چناں چہ تفسیر بیضاوی اور مدارک اور زاھدی اور تفسیر نظام نیشا پوری اور جذب القلوب اور مشکواۃ شریف کی کی شرحوں میں یہ روایت ہے، اور محدثوں کے نزدیک بھی یہ بات قوی ہے ، اور معالم اور حسینی اور معارج النبوت اور روضۃ الاحباب اور حبیب السیر اور مدارج النبوت میں یہ بات لکھی ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو سورہ برات کے پڑھنے کو بھی فرمایاتھا، اور بعد اس کے جناب علی مرتضیٰ کو اس بات کے واسطے مقرر کیا، اس میں دو احتمال ہیں، ایک یہ کہ حضرت ابوبکر کو سورہ برات پڑھنے کی خدمت سے موقوف کر کے جناب علی مرتضیٰ کو مقرر کیا، دوسرے کہ یہ حضرت علی مرتضیٰ کو حضرت ابوبکر کے شریک کیا کہ دونوں مل کر اس کام کو کریں، اور روایتیں روضۃ الاحباب اور بخاری اور مسلم اور سب محدثوں کی دوسرے احتمال کی تائید کرتی ہیں،اس واسطے کہ ان سبھوں نے متفق ہر کر روایت کی ہے، کہ حضرت ابوبکر صدیق نے ابو ہریرہ اور چند آدمیوں کو جو جناب علی مرتضیٰ کے متعین تھے نحر 1 کے دن حکم دیا کہ پکار دیں کہ لا یحج بعد العام مشرک ولا یطوف بالبیت عریانا یعنی نہ حج کریں اس برس کے بعد سے مشرک اور نہ طواف کریں ننگے لوگ، اور ان روایتوں سے صاف ثابت ہو اکہ حضرت ابوبکر اس خدمت سے موقوف نہ ہوئے تھے، ورنہ دوسرے کے کام میں کیوں دخل کرتے، اور پکارنے کے لیے لوگ کاھے کو مقرر کرتے، پس اس صورت میں کہ معزولی نہ ہوئی شیعوں کا اعتراض اٹھ گیا، اب پہلا احتمال باقی رہا کہ ’’لا یؤدی عنی الا رجل منی‘‘ یعنی نہ پہنچاوے یہ حکم میری طرف سے مگر کوئی آدمی میرے گھر کا ، اس کو تقویت دیتا ہے، اور جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بھی ، کہ سورہ برات کو ابوبکر سے لے اور اس کو پڑھ اگر صحیح گنا جاوے تو اسی کی تائید کرتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابوبکر کی موقوفی ان کی بے لیاقتی یا اس کام کے قابل نہ ہونے کے سبب نہ تھی، اس واسطے کہ سب کے نزدیک ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر حج کی سرداری سے موقوف نہ ہوئے تھے، اور حج کی سرداری کی لیاقت رکھتے تھے، اور اس میں لاکھوں مسلمانوں کی عبادت کی درستی ہوتی ہے اور بہت سے حکم ادا کیے جاتے ہیں اور خطبے پڑھے جاتے ہیں اور مسئلے سکھانے ہوتے ہیں اور اس انبوہ میں جو ۱۔ نحر کا دن بقر عید کی دسویں تاریخ کو کہتے ہیں کہ اس روز قربانی ذبح کی جاتی ہے۔ نئی نئی باتیں ہوتی ہیں اس کے فتوے دیے جاتے ہیں، کہ ان باتوں کے لیے بڑا اجتہاد اور بہت سا علم چاہیے، جب کہ اتنی اتنی بڑی باتیں حضرت ابوبکر سے متعلق ثابت ہوئیں، تو قرآن کی کئی آیتوں کو پکار کر پڑھنے کی لیاقت کہ ہر قاری اور حافظ اس کو پڑھ سکتا ہے کیوں کر نہ ہو گی اور حضرت ابوبکر کے خطبوں کی اور حج کروانے کی تعریفیں، جو حضرت ابوبکر سے اس وقت ہوئیں تھیں، صحیح نسائی اور حدیث کی کتابوں میں بہت جگہ موجود ہیں اور سب مؤرخین کے نزدیک ثابت ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ اس سفر میں حضرت ابوبکر کی پیروی کرتے تھے اور ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور حج کے کاموں میں ان کی تابعداری کرتے تھے اور تاریخ کی کتابوں سے اور حدیثوں سے ثابت ہے، کہ جب کہ حضرت علی مرتضیٰ مدینہ منورہ سے جلدی جلدی چلے اور جھٹ پٹ حضرت ابوبکر کے پاس پہنچے اور جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی آواز حضرت ابوبکر نے سنی بے قرار ہوئے اور جانا کہ شاید پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم آپ حج کروانے کو تشریف ملائے اور سارے لشکر کو کھڑا کیا اور ٹھہرے، جب کہ حضرت علی مرتضیٰ سے ملاقات ہوئی تو پوچھا کہ ’’امیر او مامور‘‘ یعنی تو سردار ہے اور میں سرداری سے موقوف ہوا یا تو تابع ہے اور میں سردار۔ حضرت علی مرتضیٰ نے جواب دیا کہ میں تابع ہوں، بعد اس کے حضرت ابوبکر روانہ ہوئے اور ترویہ 1 کے دن سے پہلے خطبہ پڑھا اور اسلام کے طریقہ کے موافق حج کے قاعدے لوگوں کو سکھانے شروع کیے، اب ضرور ہے کہ حضرت ابوبکر کی موقوفی جو قرآن کی چند آیا ت کے پڑھنے سے ہوئی بے لیاقتی اور ناقابلیت کے سوا اس موقوفی کی اور کوئی وجہ ہو، ۱۔ ترویہ کا دن بقر عید کی آٹھویں تاریخ کو کہتے ہیں۔ اور نہیں تو حضرت ابوبکر کو اتنے بڑے کام پر بحال رکھنا اور چھوٹے آسان کام سے موقوف کرنا صریحاً عقل کے برخلاف ہے اور جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ سب سے بڑے عقل مند تھے ان سے بھی یہ بات نہیں ہو سکتی چہ جائے کہ اللہ تعالیٰ حکمت کے برخلاف حکم بھیجتے اور وہ وجہ یہ ہے کہ عرب کے لوگوں کے عہد و پیماں کرنے یا لڑنے اور صلح کرنے میں یہ عادت تھی کہ ان باتوں کو خود قوم کے سردار سے کیا کرتے تھے، یا اس شخص سے کرتے تھے جو اس کے بمنزلہ جان و جگر کے ہو جیسے بیٹا یا داماد یا بھائی اور اوروں کے کہنے کو گو وہ کیسا ہی بزرگ اور ذی عزت ہو باور نہ کرتے تھے، چناں چہ اب بھی عرب میں یہی رواج ہے، کہ جب آپس میں بادشاہوں یا امیروں یا زمینداروں کے کسی ملک یا سرحد کی بابت جھگڑا ہوتا ہے، تو دونوں طرف کے وزیر اور امیر اور فوجیں اور لشکر لڑنے بھڑنے میں کوشش کرتے ہیں اور جب کہ عہد و پیمان قول قسم کی نوبت پہونچتی ہے، تو جب تک کہ بادشاہ زادہ نہ آوے اور اپنی زبان سے اس بات کو نہ کہے اس وقت تک باور نہیں کرتے اور اگر غور کر کے دیکھو تو اس انبوہ میں کہ چھ لاکھ آدمیوں کے قریب اس جنگل میں جمع ہوتا ہے، سورہ برات کا پکار پکار کر پڑھنا اور ہر شخص کے کان تک آواز پہونچانی اس بات پر موقوف ہے کہ آدمی بہت محنت کرے اور پڑا پھرے اور ہر بازار اور کوچہ میں اور ہر ہر خیمہ کے پاس پکار پکار کر پڑھتا پھرے اور امیر حج سے یہ بات ہر گز نہیں ہو سکتی ، اس واسطے کہ وہ شخص حاجیوں کو ارکان حج سکھانے میں اور ان کو قصہ و فساد سے اور ہر طرح کے گناہوں سے بچانے میں مشغول رہے گا، پس ضرور ہے اس کام کے لیے ایک اور بزرگ شخص جیسے کہ حضرت ابوبکر تھے چاہیے، اس نظر سے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی مرتضیٰ کو اس کام پر مقرر کیا اور حضرت ابوبکر کو حج میں، تاکہ دونوں کام بہت اچھی طرح سے انجام ہوں اور لوگ یہ بات جانیں کہ یہ دونوں کام بڑے اور جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو دل سے منظور تھے اور اگر صرف اسی بات پر اکتفا کیا جاتاکہ حضرت ابوبکر اپنے آدمیوں سے عہد کا موقوف کرنا بھی کہوا اور بگڑوا دیں، تو لوگوں کو گمان ہوتا کہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک عہد و پیمان کی بات چنداں ضروری نہ تھی، نہیں تو اس بات کے لیے بھی خاص کر ایک بڑے شخص کو بھیجتے اور اس بات سے سنیوں کے عالموں نے ایک خوب لطیفہ نکالا ہے، کہ حضرت ابوبکر میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی صفت کی شان تھی اس واسطے ان کی شان میں فرمایا ہے کہ ’ارحم امتی بامتی ابوبکر‘‘ یعنی میری ساری امت میں سے بہت مہربان امت کے حق میں ابوبکر ہے اور مسلمان کہ مورد رحمت الٰہی ہیں ان کا کام تو حضرت ابوبکر کے سپرد کیا اور جناب علی مرتضیٰ شیر خدا میں اللہ تعالیٰ کا جلال اور قہر کی شان تھی، کہ کافروں کا مارنا حضرت کا شیوہ تھا اور کافر کہ مورد غضب الٰہی ہیں ان کی عہد شکنی کا کام حضر ت علی مرتضیٰ کے حوالہ کیا، تاکہ اللہ تعالیٰ کے جمال اور جلال کی دونوں شانیں ظاہر ہوویں اور تماشا یہ ہے کہ حضرت ابوبکر سورہ برات کے کام میں بھی حضرت علی مرتضیٰ کے مددگار تھے، چناں چہ بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ سے روایت موجود ہے، کہ حضرت ابوہریرہ کو اور ایک اور جماعت کو حضرت علی مرتضیٰ کے ساتھ معین کیا اور کبھی کبھی آپ بھی اس کام میں شریک ہوتے تھے چناں چہ ترمذی نے اور حاکم 1 ۱۔ حاکم نام محدث کا ہے اور مستدرک اس کی کتاب ہے۔ نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ کان علی ینادی فاذا اعییٰ قام ابوبکر فنادی بہا یعنی حضرت علی پکارتے تھے جب تھک جاتے تھے تو اٹھ کر حضرت ابوبکر ان لفظوں کو پکارنے لگتے تھے اور ایک روایت میں ہے کہ فاذابح قام ابو ہریرہ فنادی بہا یعنی جب آواز بیٹھ جاتی تھی تو حضرت ابوہریرہ ان لفظوں کو کھڑے ہو کر پکارتے تھے، غرض کہ حضرت ابوبکر کی موقوفی سے یہی غرض تھی کہ عرب کے لوگوں کی عادت کے موافق عہد شکنی کو ظاہر کر دیا جاوے، تاکہ آئندہ عرب کے لوگوں کو کچھ عذر نہ ہووے، کہ ہمارے تئیں ہماری عادت کے موافق عہد شکنی سے خبردار نہیں کیا، کہ ہم اپنی راہ پکڑتے اور اپنے کام کی سوچ کرتے، چناں چہ معالم 1 اور زاہدی 2 اور بیضاوی 3 اور شرح تجرید 4 اور شرح مواقف 5 اور صواعق 6 اور شروح مشکواۃ شریف7 سنیوں کی اور کتابوں میں یہی بات لکھی ہے اور اس واسطے جب جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ 8 میں صلح ہونے کے بعد اوس انصاری 9 کو لکھنے میں بہت مہارت رکھتا تھا عہد نامہ لکھنے کے واسطے بلایا سہل ابن عرو نے کہ مشرکوں کی طرف سے مصالحہ کے واسطے آیا تھا، عرض کیا ، کہ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم مناسب ہے کہ یہ عہد نامہ حضرت علی مرتضیٰ آپ کے چچیرے بھائی لکھیں اور اس کے لکھنے کو منظور نہ کیا کہ مدارج اور معارج اور اور بھی تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ ۱۔ ۲۔ ۳۔ کلام اللہ کی تفسیریں ہیں۔ ۴۔ ۵۔ عقاید کی کتابیں ہیں۔ ۶۔ ایک کتاب ہے رد شیعہ کی، عربی زبان میں، ۷۔ حدیث کی کتاب ہے۔ ۸۔ حدیبیہ مقام کا نام ہے کہ وہاں مکہ کے لوگوں سے صلح ہوئی تھی۔ ۹۔ نام صحابی۔ دوسرا جواب ہم نے مانا کہ حضرت ابوبکر کو سورہ برات کے پہنچانے سے ایک جزوی مصلحت کے واسطے موقوف کیا، لیکن ایسے شخص کی موقوفی جو صاحب عدالت ہو اور ہزاروں حدیثیں اور قرآن کی آیتیں اس کی عدالت پر گواہ ہوں، اس بات پر دلیل نہیں ہو سکتی کہ وہ ریاست کی لیاقت اور صلاحیت نہیں رکھتا، خصوصاً اس وقت میں کہ جس خدمت سے معزول ہوا اس میں کچھ تقصیر اور چوری نہ ہوئی، اس واسطے کہ حضرت علی مرتضیٰ نے عمرو ابن ابی سلمہ کو کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص ربیب 1 اور حضرت علی مرتضیٰ کے خاص دوستوں میں سے اور عابد اور زاہد اور دیانت دار اور عالم اور فقیہ اور پرہیز گار تھا، ولایت بحرین سے موقوف کیا اور اس کے عذر میں خط لکھا کہ نہج البلاغہ میں جو شیعوں کے ہاں بہت صحیح کتاب ہے موجود ہے اما بعد فانی ولیت النعمان بن عجلان الذورقی علی البحرین و نزعت یدک بلاذم لک ولا تتریب علیک فقد احسنت الو لایتہ وادیت الا مانۃ فاقبل عینی ظنین ولا ملوم ولا متہم ولا وما ثوم یعنی تحقیق میں نے سردار کیا نعمان بیٹے عجلان ذروقی کو بحرین پر اور تیرے ہاتھ سے نکالا بغیر تیری برائی کے اور بغیر افرام کے تجھ پر پس تحقیق تو نے اچھی حکومت دیانت اور امانت سے کی پس تو چلا آ اور میں تجھ پر کچھ گمان بد نہیں لے جاتا اور تجھے کچھ تہمت اور گناہ نہیں لگاتا اور کچھ ملامت نہیں کرتا اور یقینی ثابت ہے کہ عمر بن ابی سلمہ نعمان بن ۱۔ ربیب جورو کا بیٹا دوسرے خاوند سے اور یہ عمرو بن ابی سلمہ حضرت ام سلمہ کے بیٹے تھے۔ عجلان ذروقی سے اچھا تھا، دین میں بھی اور حسب میں بھی اورحکومت میں بھی جیسا کہ چاہیے دیانت اور امانت سے کی اور اگر حضرت ابوبکر قرآن کی چند آیتیں پڑھنے کی بھی لیاقت نہ رکھتے تھے تو ان کے تئیں امیر حج کرنے کے کہ اس کام سے ہزاروں درجہ بڑا ہے کیا معنی اور جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ سب کے نزدیک معصوم ہیں ایسی بات کیوں کر ہوتی۔ بارھواں طعنہ یہ ہے، کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جناب فاطمہ علیہا السلام کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں سے کہ ان کے باپ تھے کچھ نہ دیا، حضرت فاطمہ علیہا السلام نے فرمایا، کہ۔ اے ابوقحافہ 1 کے بیٹے تو اپنے باپ کی میراث لے اور میں اپنے باپ کی میراث نہ لوں یہ کون سا انصاف ہے اور جناب فاطمہ کے مقابلے میں ایسی حدیث کو کہ جسے آپ ہی اکیلی روایت کرتی تھیں دلیل پکڑا، اور کہا کہ میں نے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، کہ ہم نبی نہ کسی سے میراث لیتے ہیں اور نہ کوئی ہم سے میراث لیتا ہے، باوجودیکہ یہ بات صریحاً قرآن کے برخلاف ہے۔ یوصیکم اللہ فی اولاد کم للذکر مثل حظ الانثین یعنی کہہ رکھتا ہے تم کو اللہ تمہاری اولاد میں مرد کو حصہ برابر دو عورت کے۔ اس واسطے کہ یہ آیت عام ہے اور سب لوگوں کے واسطے ہے خواہ نبی ہوں خواہ نہ ہوں، اور ایک اور آیت کے بھی برخلاف ہے، و ورث سلیمان دائود یعنی اور وارث ہوا سلیمان دائود کا فھب لی من لدنک ولیاً یرثنی، و یرث من آل یعقوب یعنی سو بخش مجھ کو اپنے پاس سے ایک کام اٹھانے والا جو میری جگہ بیٹھے اور یعقوب کی اولاد کے، اس سے معلوم ہوا کہ نبی وارث بھی ہوتے ہیں اور ان کے وارث ان سے میراث بھی لیتے ہیں۔ ۱۔ حضرت ابوبکر کے باپ کا نام ہے۔ جواب اس طعنہ کا جواب یہ ہے ، کہ حضرت ابوبکر نے جو حضرت فاطمہ کو ترکہ نہ دیا تو اس کا صرف یہ سبب ہے، کہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے حکم قطعی سنا تھا ، اور یہ بات نہ تھی کہ جناب فاطمہ سے ان کو کچھ بغض اور عداوت تھی، اور اس کی دلیل صاف ہے کہ اگر جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ تقسیم ہوتا تو ان کی ازواج مطہرات کہ ان میں سے جناب حضرت عائشہ صدیقہ حضرت ابوبکر کی بیٹی بھی تھیں ان کو بھی ترکہ پہنچتا، اگر حضرت ابوبکر کو جناب فاطمہ سے بغض اور عداوت تھی تو اور ازواج مطہرات سے اور ان کے باپ بھائیوں سے خصوصاً اپنی بیٹی حضرت عائشہ صدیقہ سے کیا عداوت تھی، کہ ان سب کے تئیں ترکہ سے محروم رکھا اور جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں سے آدھے کے قریب حضرت عباس پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو پہنچتا تھا، اور حضرت عباس حضرت ابوبکر کے خلیفہ ہونے کے وقت سے ان کے رفیق اور صلاح کار تھے، ان کو کیوں ترکہ سے محروم رکھتے، اور یہ بات کہ حضرت فاطمہ علیہا السلام کے مقابلہ میں ایسی روایت کی کہ خود اس کے قائل تھے اور کوئی واقف نہ تھا جھوٹ ہے، اس واسطے کہ یہ حدیث سنیوں کی کتابوں میں حذیفہ بن الیمان اور زبیر بن العوام اور ابودرداء اور ابوہریرہ اور عباس اور علی اور عثمان اور عبدالرحمان بن عوف اور سعد بن ابی وقاص کی روایت سے ثابت ہے اور یہ لوگ بہت بڑے صحابی ہیں اور بعضوں کے واسطے بہشتی ہونے کی خبر ہے، اور حذیفہ کے حق میں ملا عبداللہ مشہدی نے اظہار الحق میں یہ حدیث پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کی ہے، کہ ما حدثکم حذیفہ فصد قوہ یعنی جو حدیث کہ تم سے حذیفہ کہے اس کے تئیں سچ جانو، اور ان ہی میں سے حضرت علی مرتضیٰ ہیں کہ سب شیعوں کے نزدیک معصوم اور سب سنیوں کے نزدیک صادق ہیں، اور جناب عائشہ صدیقہ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی روایت کو ایسے مقام پر کاھے کو مانیں گے، اخرج البخاری عن مالک بن اوس بن الحدثان النصری، ان عمر بن الخطاب قال یمحضر من الصحابۃ فیھم علی والعباس و عثمان و عبدالرحمان بن عوف و الزبیر بن العوام و سعد بن ابی وقاص ان شد کم باللہ الذی باذنہ تقوم السماء والارض اتعلمون ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لا نورث ما ترکناہ صدقۃ قالوا اللھم نعم ثم اقبل علی علی والعباس فقال انشد کما باللہ ھل تعلمان ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قد قال ذالک قال اللھم نعم یعنی بخاری میں مالک بن اوس بن حدثان نصری سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے سب صحابہ کے روبرو کہ ان میں علی اور عباس اور عثمان اور عبدالرحمان اور زبیر اور سعد بھی تھے یہ بات کہی کہ تم کو اس خدا کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان زمین کھڑا ہے تم جانتے ہو کہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری میراث نہیں ہے جو کچھ میں نے چھوڑا وہ صدقہ ہے سب نے کہا کہ بخدا اسی طرح ہے بعد اس کے حضرت علی مرتضیٰ اور حضرت عباس کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ تم دونوں کو خدا کی قسم دیتا ہوں تم جانتے ہو کہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا ہے۔ ان دونوں نے کہا کہ بخدا ایسا ہی ہے، اب ثابت ہوا کہ حکم ناطق ہونے میں یہ حدیث بھی کلام اللہ کی آیۃ کے برابر ہے، اس واسطے کہ یہ سب صحابی جن کے نام اوپر لیے گئے ان میں سے ایک کے بھی کہنے سے یقین ہو جاتا ہے، چہ جائے کہ یہ سب لوگ مل کر کہیں اور خصوصاً حضرت علی مرتضیٰ کہ شیعوں کے نزدیک معصوم ہیں اور معصوم کی روایت یقین میں قرآن کے برابر ہے اور بھلا ان روایتوں کو جانے دو شیعوں کی صحیح کتابوں میں امام المعصوم سے روایت موجود ہے۔ روی محمد بن یعقوب الرازی فی الکافی عن ابی البختری عن ابی عبداللہ جعفر بن محمد صادق علیہ السلام، قال ان العلما ورثۃ الانبیاء و ذالک ان الا انبیاء لم یورثوا و فی نسخۃ لم یرثوا در ھما ولا دیناراً و انما اورثو احادیث من احادیثھم فمن اخذ بشییٔ منھا فقط اخذ بحظ وافر یعنی جناب امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تحقیق علماء نبیوں کے وارث ہیں اور یہ بات اس طرح سے ہے کہ نبیوں کا ترکہ نہیں ہوتا اور بعضی کتابوں میں یوں ہے کہ نبیوں کا ترکہ روپیہ پیسہ نہیں ہوتا اور اگر ترکہ ہوتا ہے تو چند نصیحتیں ہوتی ہیں اپنی نصیحتوں میں سے۔ پس جس شخص نے کہ ان میں سے کچھ لیا تو بے شک اس نے بڑا کامل حصہ لیا اور انما کے لفظ سے شیعوں کے نزدیک بالکل حصر ہو جاتا ہے جیسے کہ ’’انما ولی کم اللہ ‘‘کے بیان میں گذرا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی علم اور حدیثوں کے سوا کچھ ترکہ نہیں چھوڑتے اب ہمارا مطلب امام معصوم کے کلام سے ثابت ہوا یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جو شخص جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اپنے کان سے ایک بات سنے تو وہ بات بلاشک و شبہ یقینی ہے اور اس پر عمل کرنا اس کے تئیں واجب ہے خواہ دوسرے سے سنے خواہ نہ سنے اور سب شیعہ اور سنی علمائے علم اصول کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حدیث کی تقسیم متواتر اور غیر متواتر پر انھیں لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے پیغمبر کو نہ دیکھا ہو اور اوروں کی زبانی حدیث سنی ہو اور جس نے کہ خود پیغمبر کو دیکھا ہو اور بلا واسطہ ان سے حدیث سنی ہو تو وہ حدیث اس شخص کے لیے حدیث متواتر کے حکم میںہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اور جو کہ حضرت ابوبکر نے اس حدیث کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا تو ان کو دوسروں سے پوچھنے کی حاجت نہ تھی، اب یہ بات رہی کہ یہ حدیث قرآن کی آیت کے بر خلاف ہے یہ بھی غلط ہے، اس لیے کہ اس آیت میں ’’کم ‘‘ کا خطاب امت کی طرف ہے نہ پیغمبر کی طرف، پس یہ حدیث لفظ خطاب کی مراد کو ظاہر اور معین کر دیتی ہے آیت کو خاص نہیں کرتی اور اگر خاص بھی کرتی ہو تو اس سے آیت کی تخصیص لازم آتی ہے مخالفت کہاں سے ہوئی اور اس آیت میں بہت سے تخصیصیں ہوئی ہیں، مثلاً کافر کی اولاد وارث نہیں ہوتی ۔ غلام وارث نہیں ہوتا، قاتل بھی وارث نہیں ہوتا اور شیعہ بھی اپنے اماموں سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے باپ کے بعض وارثوں کو اپنے باپ کے ترکہ کی بعض چیزوں کا مثل تلوار اور قرآن اور انگشتری اور باپ کے پہننے کے کپڑوں کو ترکہ نہیں دیا اور خود لے لیا اور اس روایت کے تنہا وہ خود ہی بیان کرنے والے تھے اور اہل سنت کے نزدیک امام کا معصوم ہونا ثابت نہیں ہے اور ان باتوں کی صحت اور ثبوت کی دلیل تمام اہل بیت کی نسبت علی مرتضیٰ سے لے کر اخیر تک یہ ہے ، کہ جب آنحضرت کا ترکہ ان کے ہاتھ میں آیا تو انھوں نے حضرت عباس اور ان کی اولاد کو خارج کیا اور دخل تک نہیں دیا اور آنحضرت کی ازواج کو بھی ان کا حصہ نہیں دیا، پس اگر پیغمبر کے ترکہ میں میراث جاری ہوتی تو یہ سب بزرگ کہ شیعوں کے نزدیک معصوم اور اہل سنت کے نزدیک محفوظ ہیں کس طرح ایسی صریح حق تلفی روا رکھے، اس لیے کہ تمام اہل سیر و تواریخ اور علماء حدیث کے نزدیک بالاجماع ثابت ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ خیبر و فدک وغیرہ جو کچھ تھا حضرت عمر بن خطاب کے عہد میں علی مرتضیٰ اور حضرت عباس کے ہاتھ میں تھا، علی مرتضیٰ نے حضرت عباس پر قابو پا کر لے لیا اور علی مرتضیٰ کے بعد حسن بن علی پاس اور پھر حسین بن علی پاس اور پھر علی بن الحسین اور حسن بن حسن پاس آیا اور یہ دونوں بزرگ باری باری سے تصرف کرتے تھے، اس کے بعد زید بن حسن بی علی حسن بن حسن علیہم السلام کے بھائی متصرف ہوئے اس کے بعد مروان کے ہاتھ جو امیر تھا پڑا اور مروانیوں کے ہاتھ میں رہا، جب عمر بن عبدالعزیز بادشاہ ہوا توق اس نے بہ سبب اپنے عدل کے جو اس کی طبیعت میں تھا کہا کہ میں اس چیز کو نہیں لیتا جس کے لینے سے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ علیہا السلام کو منع کیا اور نہ دیا، مجھ کو اس میں کچھ حق نہیں ہے میں اس کو پھیر دیتا ہوں، پھر اس نے حضرت فاطمہ کی اولاد کو پھیر دیا، پس ائمہ معصومین اہل بیت کی کارروائی سے معلوم ہوا کہ آنحضرت کے ترکہ میں میراث جاری نہیں ہوتی اور وراثت کی آیت اس حدیث سے جو اوپر بیان ہوئی ہے خاص ہو گئی ہے، اب یہ بات رہی کہ آیت ’’ورث سلیمان دائود‘‘ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انبیا وارث بھی ہوتے ہیں اور انبیاء کے وارث بھی اس کی میراث لیتے ہیں اور اس کے برخلاف قطعی حدیث ہے جو معصومین کی روایت سے ثابت ہوئی ہے، اس مشکل کے حل کرنے میں بھی معصوم ہی کے قول پر ہم رجوع کرتے ہیں اور شیعہ ہی کتابوں سے اس کا حل چاہتے ہیں، کلینی نے ابی عبداللہ سے روایت کی ہے کہ ’’ان سلیمان ورث دائود و ان محمداً ورث سلیمان ‘‘ یعنی سلیمان وارث ہوا دائود کا اور محمد صلعم وارث ہوئے سلیمان کے، پس معلوم ہوا کہ یہ وراثت علم و نبوت اور کمالات نفسانی کی تھی نہ وراثت مال اور متروکہ کی، اور قرینہ عقلی بھی قول معصوم کے مطابق اسی وراثت پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے کہ باجماع مؤرخین حضرت دائود کے انیس بیٹے تھے۔ پس چاہیے تھا کہ وہ سب حضرت دائود کے وارث ہوتے، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کے اختصاص اور امتیاز کے لیے وہ آیت فرمائی ہے اور جو وراثت کہ حضرت سلیمان کے لیے مخصوص ہے اور اور بھائیوں کو جس میں شرکت نہیں ہو سکتی وہ وراثت علم اور نبوت کی ہے کیوں کہ یہی چیز اور بھائیوں کو حاصل نہ تھی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر ایک بیٹا اپنے باپ کی میراث لیتا ہے اور اپنے باپ کے مال کا وارث ہوتا ہے۔ پھر اسی بات کو بتلانا محض لغو ہوتا اور خدا کے کلام میں لغو نہیںہو سکتا اور حضرت سلیمان کو ایک ایسی چیز میں جس میں تمام عالم شریک ہے۔ شریک بتلانا بزرگی کی کون سی بات ہے کہ خدا تعالیٰ ان کی فضیلت اور بزرگی بیان کرنے میں اس عام وراثت کا بیان فرماتا اور اس کے بعد جو یہ کلام ہے کہ و قال یا ایہا الناس علمنا منطق الطیر یعنی حضرت سلیمان نے کہا کہ اے لوگو مجھ کو جانوروں کی بولی سمجھنی بھی بتائی گئی ہے۔ اس کلام سے صاف ظاہر ہے کہ وراثت سے مراد علم کی وراثت ہے اور اگر یہ کہیں کہ علم کی نسبت وراثت کا لفظ بولنا مجازاً ہے اور مال کی نسبت حقیقتاً ہے، پھر لفظ کے حقیقی معنی چھوڑ کر بغیر ضرورت کے مجاری معنی کیوں لیے جاویں تو ہم یہ کہیں گے کہ قوم معصول کو جھوٹ ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے اور یہ بھی ہم نہیں مانتے کہ وراثت کا لفظ مال کی نسبت حقیقتاً بولا جاتا ہے بلکہ فقہا نے جو کثرت سے وراثت کے لفظ کا مال میں استعمال کیا ہے۔ اس سبب سے مال کی نسبت اس کا استعمال خاص کر ہو گیا ہے، جیسے کہ بہ طور عرف عام کے کوئی لفظ ایک معنی سے دوسرے معنی میں بولا جاتا ہے اور حقیقت میں اس کا اطلاق علم اور منصب سب طرح کی وراثت پر صحیح ہے۔ ہم نے مانا کہ علم میں وراثت کا استعمال کرنا مجاز ہے لیکن یہ مجاز متعارف اور مشہور ہے۔ خصوصاً قرآن میں اس کا استعمال اس قدر ہوا کہ حقیقی معنوں کے برابر پہنچ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ثم اورثنا الکتاب الذی اصطفینا من عبادنا فخلف من بعدھم خلف ورثوا الکتاب یعنی ہم نے کتاب کا وارث ان لوگوں کو کیا جن کو اپنے بندوں میں سے ہم نے چن لیا پھر ان کے جانشین ان کے بعد اچھے جانشین ہوئے کہ کتاب کے وارث ہوئے اور دوسری آیت میں ہے کہ یرثنی و یرث من آل یعقوب یعنی میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو۔ پس یقینی بہ بداھت عقل معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ منصب کی وراثت مراد ہے کیوں کہ اگر لفظ آل یعقوب سے خاص یعقوب کی ذات بطور مجاز کے مراد ہو تو لازم آتا ہے کہ یعقوب کا مال ان کے وقت سے حضرت ذکریا کے وقت تک جس کو دو ہزار برس سے زیادہ گذر گئے تھے بغیر تقسیم کے باقی تھا اور حضرت ذکریا کے مرنے کے بعد اس کی تقسیم ہو کر حضرت یحییٰ کا حصہ حضرت یحییٰ کو پہنچے اور یہ نہایت بیہودگی کی بات ہے کیوں کہ اگر وہ مال حضرت ذکریا کی وفات سے پہلے بٹ گیاہو تو وہ مال حضرت ذکریا کا مال ہو گا اور یرثنی کے لفظ میں داخل ہوگا اور اگر آل یعقوب سے اولاد یعقوب مراد ہو تو لازم آتا ہے کہ حضرت یحییٰ تمام بنی اسرائیل کے کیا جیتے اور کیا مرے سب کے وارث ہوں اور یہ بیہودگی پہلی بیہودگی سے بھی زیادہ تر بدتر ہے۔ پھر اس آیت کو علمائے فرقہ شیعہ کا اس مقام پر لانا ان کی کمال خوش فہمی ہے اور حضرت ذکریا نے دو لفظ فرمائے ہیں ’’ولیا اور یرثنی‘‘۔ پس انھوں نے جناب الٰہی سے ایسا ولی مانگا ہے جس میں وراثت کی صفت بھی ہو پھر اگر وراثت سے خاص کوئی علمی وراثت مراد نہ ہو تو یہ صفت محض لغو ہو جاتی ہے اور اس کے بیان کرنے میں کچھ فائدہ نہیں ہوتا اس لیے کہ تمام شریعتوں میں بیٹا اپنے باپ کا وارث ہوتا ہے اور لفظ ولی سے بے تکلف مال کی وراثت سمجھی جاتی ہے اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ انبیاء کی ہمت عالی اور ان کے نفوس قدسیہ کی نظر میں جو اس دنیا بے ثبات کے تعلقوں سے بے تعلق ہوتے ہیں اور بجز خدا تعالیٰ کے اور کسی سے تعلق نہیں رکھتے اور دنیا کے تمام مال و دولت کو ایک جو کے بدلے میں بھی نہیں خریدتے۔ خصوصاً حضرت ذکریا کہ دنیا کی چیزوں سے نہایت بے تعلقی اور آزادی میں مشہور و معروف ہیں تو یہ بات عادتاً محال ہے کہ مال و متاع کی وراثت نہ ہونے سے جس کی کچھ بھی حقیقت اور قدر ان کی آنکھ میں نہ تھی ڈرے ہوں اور اس سبب سے اپنی آزردگی اور رنج و غم اور خوف خدا کی جناب میں ظاہر کیا ہو کہ یہ باتیں صریح مال و متاع کی محبت اور دلی تعلق ہوتے ہیں۔ (افسوس ہے کہ باقی اوراق اس باب کے ترجمہ کے ضائع ہو گئے)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بارھواں باب تولاً و تبرا کے بیان میں تولا کے معنی محبت کے ہیں اور تبرا کے معنی عداوت کے یہ بحث بہت نازک ہے اس میں کئی مقدموں کو بہ ترتیب سنو کہ علماء شیعہ کے قول اور قرآن کی آیتوں سے ثابت ہوتے ہیں، اور ان پر غور کر کے جانو، کہ شیعوں کے اصول کے موافق قابل تولا کے کون ہیں، اور قابل تبرا کے کون ہیں اور سنیوں کے قول کو اس میں کچھ دخل نہیں۔ پہلا مقدمہ مخالفت اور عداوت میں یہ فرق ہے کہ مخالفت کو عداوت لازم نہیں ہے، اور اگرچہ یہ بات صریح ہے لیکن اور دو وجہ سے ثابت کرتے ہیں، پہلے یہ کہ ملا محمد رفیع واعظ صاحب ابواب الجناں نے جو اثنا عشریہ کے ہاں بہت معتبر شخص ہیں، یہ بات لکھی ہے کہ دو مسلمانوں میں دنیا کی باتوں میں مخالفت ہو سکتی ہے، حالاں کہ بہ سبب ایمان کے آپس میں محبت ہو، دوسرے یہ کہ شیعوں کے اعتقاد کے موافق آپس میں شیخ ابن بابویہ اور سید مرتضیٰ علم الہدیٰ کی بعض شرح کے مسئلوں اور کی روایتوں صحت میںمثل خبر میثاق وغیرہ مخالفت متحقق ہے اور یہ سبب اتحاد مذہب کے ـآپس میں محبت رکھتے تھے، اس صورت میں مخالفت عام ہوئی عداوت سے، پس یہ ضرور نہیں کہ جہاں مخالفت ہو وہاں عداوت بھی ہو، بلکہ جہاں عداوت ہو گی وہاں مخالفت ضرور ہو گی۔ دوسرا مقدمہ محبت اور عداوت کبھی جمع بھی ہوتی ہیں، تفسیر اس کی یہ ہے کہ عداوت دو قسم ہے: ایک دینی جیسے عداوت مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ ہے، کہ اصول اور عقیدوں کے مختلف ہونے کے سبب سے آپس میں دشمنی رکھتے ہیں، دوسرے دنیوی جیسے ایک مسلمان کی عداوت دوسرے مسلمان بھائی کے ساتھ دنیا کے نفع و نقصان یا اس کے بدوضعی کے سبب ہو، اس صورت میں دو طرح کی محبت اور عداوت کا جمع ہونا ہر گز مشکل نہیں، بلکہ اکثر ہوتا ہے، باقی رہی ایک جنس کی محبت اور عداوت کہ اس کی نوع مختلف ہو، یا ایک نوع کی عداوت کہ اس کی صنف مختلف ہو، پس یہ بھی ہوتی ہے، جیسے مسلمان اور فاسق، کہ بموجب قول اللہ تعالیٰ کے ایمان کی رو سے محبوب ہے۔ المؤمنین و المؤمنات بعضھم اولیاء بعض یعنی مسلمان مرد اور عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور فاسق ہونے کی رو سے بہ موجب قول اللہ تعالیٰ کے محبوب نہیں ان اللہ لا یحب الخائنین واللہ لا یحب الظالمین یعنی تحقیق اللہ تعالیٰ نہیں دوست رکھتا ہے خیانت والوں کو، اور اللہ تعالیٰ نہیں دوست رکھتا ظالموں کو، اور اس وجہ سے کہ بری چیزسے منع کرنا فرض ہے اور اس کا ادنیٰ مرتبہ یہ ہے کہ اس کو دل سے دشمن رکھے، اور اگر کوئی یہ بات کہے کہ کافر بھی اچھے کام خیرات اور انصاف اور مروت اور جوانمردی اور اپنی بات میں پورا ہونے اور سچ بولنے کے سبب دین کی محبت سے محبوب ہو سکتا ہے یا نہیں، اگرچہ ظاہر میں محبت اور عداوت جمع ہونے پر حکم ہو سکتا ہے جس طرح مومن اور فاسق میں جیسے حاتم کی محبت سخاوت اور نوشیرواں کی محبت عدالت کے سبب سے، لیکن جب غور سے دیکھا جاوے تو ان کی محبت اور عداوت کا جمع ہونا دینی نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ کی راہ میں عملوں کا قبول ہونا اعتقاد درست ہونے پر ہے، اور جب کہ ان لوگوں کا اعتقاد درست نہیں ہے تو ان کے عمل بھی دین کی راہ میں بے اعتبار اور خدا کے نزدیک فاسد ہیں، چہ جائے محبت، اس صورت میں جو مصیبت کہ کافر محسن اور کافر عادل ساتھ ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے قولی کے بموجب دنیا کی محبت ہے نہ دین کی والذین کفروا اعمالھم کسراب بقیعۃ یحسبہ الظمأن مآء حتی اذا جاء لم یجدہ شیا و وجد اللہ عندہ فوفاہ حسابہ واللہ سریع الحساب یعنی جن لوگوں نے کفر کیا ان کے عمل مثل ریگ رواں کے ہیں کہ پیاسا اس کو پانی گمان کرتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو جانتا ہے کہ وہ تو کچھ نہ تھا اور اللہ تعالیٰ کو وہاں پاوے گا کہ اس سے پورا حساب لے گا اور اللہ تعالیٰ جلدی حساب لینے والا ہے، اس صورت میں معلوم ہوا کہ ایک شخص کے ساتھ جمع ہونا محبت اور عداوت کا ایک حیثیت سے محال ہے، اور دو ’حیثیت سے جائز، اور ہوتا بھی ہے، چناں چہ ملا محمد رفیع واعظ صاحب ابواب الجان نے دو سیدوں کے قصہ میں حضرت ائمہ سے نقل کی ہے، اور اس طرح کا جمع ہونا جیسا کہ عوام امت میں ممکن ہے خواص امت بھی محال نہیں ہے، اس واسطے کہ بشریت سب میں ہے اور خواص و عوام میں جو فرق ہے اس سبب سے نہیں ہے کہ خواصوں میں بشریت نہیں ہے اور عوام میں بشریت ہے، بلکہ اس سبب سے ہے کہ ان میں بزرگیاں کم ہیں اور ان میں زیادہ اور ان کا ایمان ضعیف ہے اور ان کا قوی، چنانچہ ایمان کے درجوں میں حضرت امام جعفر صادق سے بہ روایت کلینی گذرا اور سب کے نزدیک خواص امت تین طرح پر ہیں، ایک اہل بیت یعنی پیغمبر کی اولاد اور رشتہ دار، اور دوسرے ازواج مطہرات ، اور تیسرے اصحاب خاص مہاجر اور انصار، اب اتنی بات ہے کہ دونوں طرف جو مقابل میں آپس میں نسبت رکھتے ہیں، مثلاً ایک امتی کو نہیں چاہیے کہ خواہاں امت کے ساتھ اس طرح سے پیش آوے جس طرح وہ آپس میں پیش آتے ہیں، اور اس پر بہت سی شرعی دلیلیں ہیں کہ ان میں سے یہ حدیث بھی ہے۔ اللہ اللہ فی اصحابی لا تتخذوا ھم عرضناً من بعدی الی آخرہ یعنی خدا سے ڈرو میرے اصحاب کے معاملہ میں ان کو نہ بنا لو تم نشانہ میرے بعد، اور اس میں سے اصل بیت اور انصار کے حق میں یہ حدیث ہے۔ اقبلوا عن محسنھم و تجاوزوا عن مسیھم یعنی پسند کرو اور قبول کرو ان میں سے اچھے کو اور درگذر کرو ان کے برے سے، اور اسی میں سے ازواج کے حق میں یہ آیت ہے۔ وازواجہ امھاتھم یعنی رسول کی ازواج مسلمانوں کی مائیں ہیں، اور پیغمبر خدا نے فرمایا ہے ان امر کن فیما یہمنی بعدی و لن یصبر علیکن الا الصابرون یعنی تمہاری اطاعت اور فرماں برداری پر صبر نہ کریں گے اور تمہاری تعظیم کے حقوق کی رعایت نہ کریں گے مگر وہ لوگ جو صبر کامل رکھتے ہیں اور اس پر بہت دلیلیں ہیں جیسی کہ اولاد کے تئیں اپنے ماں باپ کے ساتھ ہر گز یہ بات درست نہیں ہے کہ جس طرح کہ آپس طعنہ تشنہ اور عیب جوئی کرتے ہیں گو ان میں وہ باتیں موجود ہوں اسی طرح ان کے ساتھ کریں، اور اسی طرح ہر بادشاہت میں خاص لوگ ہوتے ہیں جیسے بادشاہ زادے اور بیگمات اور وزیر اور امیر کہ ان کے ہی سبب بادشاہت چمکتی ہے اور باقی رہتی ہے اور ان کی ہی محنت کے سبب بادشاہت نے ایک صورت پکڑی ہے ان لوگوں کی خدمتوں کا حق ان لوگوں پر جو اس بادشاہت سے فائدہ مند ہیں ثابت ہے اور جو لوگ کہ نئے نوکر ہوں جس طرح آپس میں معاملہ کرتے ہیں اگر بادشاہ زادوں اور بیگموں اور وزیروں اور امیروں کے ساتھ کریں تو بے شک بادشاہ ان پر خفا ہو اور اگر اپنے معاملہ کو ان خاصوں کے معاملہ پر قیاس کریں کہ وہ کبھی عیب پکڑتے ہیں اور کبھی خفا ہوتے ہیں اور کبھی صلاحوں میں برخلاف کہتے ہیں بلکہ کبھی لڑائی کی نوبت پہنچتی ہے تو وہ لوگ بے شک بے ادب اور مردود گنے جائیں گے اور اسی طرح سے کوئی شخص کمینہ ایک اشراف کے ساتھ وہ بات کرے جو اس اشراف نے دوسرے اشراف کے ساتھ دشمنی اور برا کہنے سے کیا ہو تو عقلمند نہ چھوڑیں گے بلکہ تنبیہ کریں گے اور کہیں گے کہ تو اپنے تئیں دیکھ اور اس کے تئیں دیکھ کہ اشرافوں سے ایسی بات کرتا ہے۔ تیسرا مقدمہ اگر دو مسلمانوں میں آپس میں دنیا کے سبب عداوت ہو تو ایمان میں کچھ خلل نہیں ہوتا، لیکن البتہ بری ہے، اور اگر اس میں مرتبہ کی رعایت نہ ہو تو بہت بری ہے اور مرتبہ کی رعایت وہ ہے کہ دونوں خاصان امت میں سے ہوں یا عوام امت میں سے اور بے رعایت مرتبہ کے یہ معنی ہیں کہ ایک عام خاص کے ساتھ الجھے اور وہ باتیں کرے کہ آپس میں کرتا ہے، اور خاصان امت کو اوپر بیان کر چکے ہیں کہ تین گروہ ہیں اصحاب۔ ازواج اور اہل بیت اور آخر زمانہ میں بھی تین گروہ ہیں، سید ، عالم، ولی، اب اس جگہ دو باتیں ہوئیں ایک یہ کہ ایمان میں خلل نہیں ہوتا، دوسرے یہ کہ بری ہے، اور ان دونوں کے ثابت کرنے کے لیے کافی کلینی کی ایک روایت کافی ہے، ملا محمد رفیع واعظ نے حضرت ابو عبداللہ کے آزردہ ہونے کا قصہ صفوان حمال سے روایت کر کے آخر کو یہ بات کہی ہے کہ’’ حضرت ابو عبیداللہ گفتگو سے ایک رات گذرنے کے بعد خود عبداللہ بن الحسن کے گھر گئے اور صلح کی اور کافی سے نقل کی ہے کہ لا یفترق رجلان علی الھجران الا استوجب اھدھما البراء ۃ واللعنۃ و ربما استحق ذالک کلاھما قال الراوی و ھو معتب جعلت فذاک ھذا الظالم فما بال المظلوم قال لانہ لا یدعوا خاہ الی صلح ولا یتعامس لہ یعنی نہیں جدا ہوتے دو آدمی ایک دوسرے کو چھوڑنے کی غرض سے مگر ان میں سے ایک مستحق لعنت اور تبرا کا ہوتا ہے اور اکثر تو اس کے مستحق دونوں ہی ہوتے ہیں۔ راوی نے کہا اور وہ غصہ میں تھے کہ میں آپ پر قربان ہوں یہ تو ظالم کا حال ہے اور مظلوم کا کیا قصور ہے۔ فرمایا اس لیے کہ وہ اپنے بھائی کو صلح کے لیے نہیں بلاتا۔ اور اس سے چشم پوشی نہیں کرتا، پس معلوم ہوا کہ ایسی آزردگیاں خاصان امت میں ہوئی ہیں اور توبہ توبہ طرفین سے کسی کی مخل ایمان نہیں، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس طرح کی آزردگی بری ہے، جلدی سے اس کا علاج کرنا چاہیے اور بہ سبب بشریت کے باوصف برابر ہونے درجہ کے خواصاں امت میں آزردگی ہونے پر جناب فاطمہ اور حضرت امیر المومنین میں آزردگی ہونی اور حضرت کا ابوتراب نام ہونا گواہ کامل ہے اور اس قصہ کو بھی ملا رفیع نے بیان کر کے مقتضائے بشریت کے حوالہ کیا ہے۔ چوتھا مقدمہ دین کی عداوت کا مدار کفر ہے، اس صورت میں ہر کافر کو دشمن سمجھنا چاہیے، اس واسطے کہ دین کی عداوت کا سبب قرآن کے بہ موجب کفر ہے، اور جب کہ سبب ایک ہو تو حکم بھی ایک ہوتا ہے، قولہ تعالیٰ لا تجد قوما یؤمنون باللہ والیوم الآخر یوادون من حاد اللہ و رسولہ ولو کانوا آباء ھم او اخوانہم او عشیرتہم یعنی نہیں پاوے گا تو اس گروہ کو جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے ہیں کہ دوستی رکھتے ہوں ایسے شخص سے جو دشمن ہے اللہ اور اس کے رسول کا اگرچہ یہ ان کے باپ یا بھائی یا کنبے کے ہوں۔ و قولہ تعالیٰ یا ایھا الذین آمنوا لا تتخذوا الیھود والنصاریٰ اولیاء بعضبنہم اولیاء بعض و من یتولہم منکم فانہ منھم ان اللہ لا یھدی القوم الظالمین یعنی اے ایمان والو نہ بنائو یہود اور نصاریٰ کو دوست وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو ان کو دوست بناوے گا تو وہ انھیں میں سے ہو گا ۱۔ اس مقام پر شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے شیعوں کے مقابلہ میں وہ آیتیں لکھ دی ہیں جو خاص واقعات سے متعلق ہیں کفار و اہل کتاب سے عموماً عداوت یا محبت رکھنے سے ان آیتوں کو کچھ تعلق نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ مسئلہ ہم کو صاف صاف بتا دیا ہے اور تمام مسلمانوں کو اسی حکم پر عمل کرنا چاہیے اور وہ حکم یہ ہے: لا ینہا کم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین و لم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم و تقسطوا الیہم ان اللہ یحب المقسطین انما ینہاکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین و اخرجوکم من دیارکم و ظاہروا علی اخراجکم ان تولوھم و من یتولہم فاولٰئک ھم الظالمون۔ (سورہ ممتحنہ) یعنی اللہ تعالیٰ نے سورہ ممتحنہ میں فرمایا ہے کہ اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جنھوں نے دین یعنی مذہب کے لیے تم سے لڑائی اور قتل و قتال نہیں کیا اور نہ تم کو تمہارے ملک سے نکالا ہے۔ اس بات سے کہ تم ان پر احسان کرو اور ان کے ساتھ انصاف برتو، بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اللہ تعالیٰ صرف اسی بات کو منع کرتا ہے کہ جن لوگوں نے دین یعنی مذہب کے سبب تم سے لڑائی کی اور قتال کیا اور تم کو ملک سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے پر جبر کیا ان سے دوستی کرو اور جو لوگ ان سے دوستی کریں ، وہی ظالم ہیں۔ اس آیت سے صاف پایا جاتا ہے کہ وجہ عداوت صرف مقاتلہ فی الدین ہے اور مقاتلہ فی الدین کی قید سے وہ تمام لڑائیاں بھی خارج ہو گئی ہیں جو ملکی فتوحات کے سبب واقع ہوئی ہوں۔ نہ مذہبی عداوت کے سبب سے پس خدا کے حکم کے بموجب جنھوں نے مذہب کی وجہ سے لڑائی کی ہے صرف انھی سے دوستی رکھنی منع ہے۔ مرقوم نومبر سنہ 1878ع اللہ تعالیٰ نہیں ہدایت کرتا ہے قوم ظالم کو و قولہ تعالیٰ لا یتخذ المومنون الکافرین اولیاء من دون المؤمنین و من یفعل ذالک فلیس من اللہ فی شییء یعنی مومنوں کو نہیں چاہیے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست بنائیں اور جو ایسا کرے وہ خدا کے نزدیک کچھ نہیں ہے اور پہلی آیت سے صاف پایا جاتا ہے کہ کافروں کے ساتھ دنیا کی محبت کے اسباب جیسے باپ ہونا بیٹا ہونا، اپنا ہونا، دوست ہونا ہوں، تو ان سب کے تئیں کافر ہونے میں نہ سمجھنا چاہیے اور عداوت کا مدار کفر پر رکھنا چاہیے، اور دین کی محبت کا مدار ایمان پر ہے۔ اس صورت میں سب ایمان والوں کے تئیں خواہ نیک بخت ہوں خواہ گناہ گار ایمان کے سبب محبت رکھنی واجب ہے۔ اس واسطے ایمان کے محبت کے واجب ہونے کا سبب ہی ہر شخص میں موجو دہے، اور جس وقت کہ سبب موجود ہو تو حکم کا موجود ہونا بھی واجب ہے، قولہ تعالیٰ والمومنون والمومنات بعضبنہم اولیاء بعض یعنی مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں سب ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور قاعدہ مقرر ہے کہ ایک چیز کا دوست رکھنے والا اسی چیز کے دوست رکھنے والے کا بھی دوست ہے، اور اس دوست کا بھی دوست ہے، اور اللہ تعالیٰ کو سب مسلمان دوست رکھتے ہیں اور اس کی محبت سب مسلمانوں کے دلوں میں اوروں کی محبت سے سوا ہے، قولہ تعالیٰ والذین آمنوا اشد حبا للہ یعنی جو ایمان لائے کہ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو مطلق دوست رکھتا ہے تو لازم ہے کہ ہر مسلمان سب مسلمانوں کو دوست رکھے، نہیں تو اللہ تعالیٰ کے دوست نہ ہو ں گے قولہ تعالیٰ اللہ ولی الذین آمنوا یخرجہم من الظلمات الی النور یعنی اللہ دوست ہے ان کا جو ایمان لائے نکالتا ہے ان کو اندھیرے سے روشنی میں، و قولہ تعالیٰ ذالک بان اللہ مولی الذین آمنوا و ان الکافرین لا مولیٰ لھم یعنی اللہ مولی اور کار ساز ہے ان کا جو ایمان لائے اور کافروں کا کوئی مولی نہیں ہے، و قولہ تعالیٰ الذین آمنوا و عملوا الصالحات سیجعل لھم الرحمن ودا یعنی جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کرے گا اللہ ان سب میں دوستی ۔ اور کلام اللہ سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کی دوستی کسی صغیرہ اور کبیرہ گناہ سے جاتی نہیں رہتی ۔ قولہ تعالیٰ اذ ھمت طائفتان منکم ان تفشلا و اللہ ولیھما یعنی جب ارادہ کیا تمہارے دو گروہ نے کہ نامردگی کریں اور ان دونوں کا دوست ہے اور سب کے نزدیک ان دونوں گروہ سے مراد بنو مسلمان اور بنو حارث ہیں کہ احد کے دن کافروں کی لڑائی میں عبداللہ ابن ابی رئیس منافقین کے بہکانے سے لڑائی سے پہلے بھاگنے کا ارادہ کیا تھا اور یہ بات سب کے نزدیک گناہ کبیرہ ہے خصوصاً اس جہاد میں کہ پیغمبر خدا اپنی ذات مبارک سے موجود ہوں اور بھاگنے میں آپ کے ہلاک ہونے کااندیشہ بلکہ گمان ہو اور ابھی اسلام کے بڑھنے کا وقت ہو، کہ اگر مدد میں اور لڑنے میں ذرہ سے تقصیر ہو تو بالکل جاتا رہے، باوجود ان سب باتوں کے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں گروہوں کی دوستی سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور ان کے تئیں مسلمان فرمایا کہ علی اللہ فلیتوکل المومنون یعنی چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کریں مومن اور اس قدر محبت بہ سبب ایمان کے ضرور ہے اور جب کہ اچھے اچھے عمل جیسے جہاد کرنا اور مرتدوں سے لڑنا اور توبہ اور طہارت اور پرہیزگاری اور اخلاق مسلمانوں میں ہوں تو بہ درجہ اولیٰ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوں گے، و قولہ تعالیٰ ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانہم بنیان مرصوص یعنی اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے ان کو جو خدا کی راہ میں صف باندھ کر لڑتے ہیں جیسے بنیان گچ کی ہوئی۔ قولہ تعالیٰ یا یہا الذین آمنوا من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبہم و یحبونہ یعنی اے وہ جو ایمان لائے جو تم میں سے پھر جاوے گا اپنے دین سے لاوے گا اللہ ایک قوم کو جنھیں وہ دوست رکھتا ہے اور وہ اس تو کو دوست رکھتے ہیں۔ اورقو لہ تعالیٰ اللہ بحب التوابین و یحب المتطہرین یعنی اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے توبہ کرنے والوں کو ، اور طہارت والوں کو۔ و قولہ تعالیٰ یحب المتقین یعنی اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے پرہیز گاروں کو ۔ قولہ تعالیٰ واللہ یحب المحسنین اللہ دوست رکھتا ہے بھلائی کرنے والوں کو۔ پانچواں مقدمہ محبت اور عداوت کے مسلمان اور کافر کے ساتھ جدا جدا مرتبے اور الگ الگ درجے ہیں چناں چہ ہر عقل مند کے تئیں دنیا کی محبت میں جو اپنے عزیزوں باپ بیٹا بھائی چچا ماموں ماں بہن کے ساتھ ہوتی ہے یہ حال تفاوت اور اختلاف کا معلوم ہے، اسی طرح دنیا کے دشمنوں میں عداوت کے قوی ہونے اور ضعیف ہونے اور اس کے اسباب بہت ہونے اور تھوڑے ہونے کے سبب عداوت میں تفاوت اور اختلاف ہونا طبعی بات ہے، اسی طرح دین کی محبت کہ ایمان کے سبب سے ہے ایمان کے زیادہ ہونے اور قوی ہونے اور مسلمانوں کی محبوبیت اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں مختلف ہونے کے سبب مختلف ہوں گے، اس صورت میں جو شخص کہ زیادہ تر محبوب ہے اس کی محبت بھی زیادہ تر رکھنی چاہیے اور سب کے نزدیک دین کی محبت کا بڑے سے بڑا درجہ وہ ہے جو کہ جناب پیغمبر خدا کے ساتھ ہے، بعد اس کے ان مسلمانوں کے ساتھ جو پیغمبر خدا کے مقرب ہیں اور وہ لوگ تین گروہ ہیں پہلا گروہ اولاد اور پیغمبر خدا کے رشتہ دار کہ پیغمبر خدا کے پارہ جگر ہیں اور ان کے حق میں فرمایا ہے: احبو اللہ لما یغدوکم من نعمتہ و احبونی لحب اللہ و احبوا اھل بیتی لحبی یعنی خدا کو دوست رکھو مجھ کو خدا کی دوستی کی وجہ سے اور دوست رکھو میرے اہل بیت کو میری دوستی کی وجہ سے ، دوسرے ازواج مطہرات کہ پیغمبر خدا کے اجزا اور ابغاض کا حکم رکھتے ہیں اور خود اللہ تعالیٰ نے ان کی شان میں فرمایا کہ النبیی اولی بالمومنین من انفسھم و ازواجہ امہاتہم کہ نبی دوست زیادہ ہے مسلمان کو ان کی جانوں سے اور اس کے ازواج ان کی مائیں ہیں اور جتنے بنی آدم ہیں سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ازواج بہ سبب کمال خلت اور محبت کے ایک شخص کی مانند ہوتے ہیں، اسی واسطے شرع شریف میں سمدھانے کو حقیقی رشتہ داروں کی طرح محرمیت اور میراث میں گنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان دونوں کے تئیں ایک درجہ میں فرمایا ہے۔ ھو الذی خلق من الماء بشرا فجعلہ نسبا وصھرا یعنی اللہ وہ ہے جس نے پانی سے آدمی کو بنایا پس ان میں کیا نسب اور سمدھانا تیسرے گروہ پیغمبر خدا کے اصحاب ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اختیار کی اور اس کی مدد میں اپنی جان کو نثار کیا اور اپنے مال کو ضائع کیا اور اپنے بدن کو مشقت میں ڈالا اور اپنے خانماں اور اپنے عزیز بھائی بیٹا باپ جورو ماں بہن کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کے واسطے چھوڑا چناں چہ اللہ تعالیٰ بھی ان کے عملوں کی قدر دانی کر کے ان کی شان میں فرماتا ہے للفقراء المہاجرین الذین اخرجوا من دیارھم و اموالھم یبتغون فضلا من اللہ و رضوانا و ینصرون اللہ و رسولہ اولئک ھم الصادقون والذین تبووا الدار والایمان من قبلہم یحبون من ھاجر الیھم ولا یجدون فی صدورھم حاجۃ مما اوتوا و یوثرون علی انفسہم ولو کان بہم خصاصہ یعنی ان فقیروں کے لیے جو نکالے گئے اپنے گھروں سے اور اپنے مال سے جب کہ وہ چاہتے ہیں خدا کا فضل اور رضامندی اور مدد کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی وہ ہی ہیں سچے اور وہ جنھوں نے مرتبہ حاصل کیا گھر میں اور ایمان میں ان سے پہلے دوست رکھتے ہیں جو ان کے پاس ہجرت کر کے آیا ہے اور نہیں پاتے اپنے دل میں کچھ حاجت اس کی جو ان کو دی جاتی ہے اوروں کو ترجیح دیتے ہیں اپنی ذات پر اگرچہ ان کو تنگی ہو، تمام عالم کے نزدیک۔ کہ اس طرح کی محبت اور اخلاص اور قرب اور اتفال بہت بڑا ہے اس سے جو صرف ایک نسبت ہو کما قال القائل القوم اخوان صدق بینہم بہ سبب من المودۃ لم یعدل بہ نسب اس صورت میں ان تینوں گروہوں میں اور مسلمانوںکی نسبت محبت کے اسباب دو وجہ سے بہت ہیں پہلی وجہ ان لوگوں کے قرب اور منزلت پیغمبر خدا کے ساتھ کہ سب بنی آدم میں محبوبیت سے زیادہ تر مخصوص ہیں، دوسری وجہ ان تینوں گروہوں کے حق میں شریعت کے رواج دینے اور جہاد اور پرہیز گاری میں بڑے سے بڑا درجہ ہوتا ہے ہاں ان میں سے اگر بعضے لوگ ایسے ہوں کہ ان میں ایمان نہ ہو یا ایسی بات کریں کہ جتنی ان کی اگلی نیکیاں ہیں سب جاتی رہیں اور قرآن کی آیت کے بموجب عداوت واجب ہو جاوے ان کی ساری قرب اور منزلت جو پیغمبر خدا کے ساتھ تھی جاتی رہے، اس وقت البتہ وہ لوگ اس حکم سے باہر ہیں جیسے ابولہب اور مانند اس کے، اب ان بزرگوں کے ایمان اور عدم ایمان اور حبط عمل یعنی ان کی سب نیکیاں اور اچھے اچھے عمل جاتے رہنے اور باطل ہوجانے میں تفتیش کرنی چاہیے اور خواجہ نصیر الدین کی تجرید العقاید میں سے جو شیعوں کے ہاں بہت معتبر کتاب ہے ایمان اور کفر اور حبط عمل کا مسئلہ سننا چاہیے خواجہ نصیر طوسی نے لکھا ہے الایمان التصدیق بالقلب یعنی از روئے اعتقاد ’’واللسان‘‘ یعنی از روئے اقرار کے، بکل ما جاء بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم و علم من دینہ ضرورۃ ولا یکفی الاول ‘‘ یعنی تصدیق بدون اقرار ’’لقولہ تعالیٰ واستیقنتھا انفسہم ، ولا الثانی‘‘ یعنی اقرار بدون تصدیق بھی کافی نہیں ہے لقول تعالیٰ قل لن تومنوا ولکن قولوا اسلمنا یعنی نہ کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ کہو کہ ہم نے تسلیم کر لیا اور یہ بھی کہا ہے کہ الکفر عدم الایمان یعنی کفر نہ ہونا ایمان کا ہے اور یہ اشارہ ہے اس بات کا کہ درمیان ایمان اور کفر کے کچھ واسطہ نہیں اور معتزلہ کا یہی مذہب ہے، امامع الضد او بدونہ اور یہ بھی کہا ہے وہ الفسق الخروج من طاعۃ اللہ مع الایمان یعنی فسق سے خارج ہوتا ہے بندگی اللہ تعالیٰ سے ساتھ ایمان کے یعنی فسق گناہ کرنا ہے منافی ایمان نہیں اور مسلمان فاسق ہو سکتا ہے اور یہ بھی کہا ہے والنفاق اظہار الایمان باخغاء الکفر والفاسق مومن مطلقا یعنی نفاق ظاہر کرنا ایمان کا ہے ساتھ چھپانے کفر کے۔ اور فاسق مسلمان ہے مطلق یعنی دنیا اور آخرت کے حکم میں جیسے گاڑنا اور کفن دینا اور مغفرت کی دعا مانگنی اور صدقہ دینا اور تبرا اور لعنت کا حرام ہونا اور ایمان کے سبب محبت کا واجب ہونا اور جنت میں داخل ہونا گو عذاب کے بعد اور اس کے حق میں پیغمبر کی شفاعت کا ہونا اور اس بات ممکن ہونا کہ اللہ تعالیٰ سب گناہ اس کے بخش دے۔ لقولہ علیہ السلام اذ خرت شفاعتی لاھل الکبائر ولو جود جدہ یعنی بہ سبب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے میں نے ذخیرہ کر رکھی شفاعت اپنی کبیرہ گناہ والوں کے لیے اور نیز فاسق میں ایمان کی تعریف پائی جاتی ہے۔ والکافر مخلد فی النار و عذاب اہل الکبیرۃ ینقطع لا استحقاق الثواب بایمانہ فمن یعمل مثقال ذرۃ خیراً یرہ ولقبحہ عند العقلاء و السمعیات متوالۃ و دوام العقاب مختص بالکافر والعفو واقع لانہ حقہ تعالیٰ فجاذ و قوعہ یعنی کافر ہمیشہ آگ میں رہیں گے اور کبیرہ گناہ والوں کا عذاب منقطع ہو جاوے گا بہ سبب استحقاق ثواب کے جو ایمان کی وجہ سے ہے پس جس نے کی ہے بہ قدر ذرہ کے نیکی اس کو دیکھے گا اور نیز مومن فاسق کا ہمیشہ عذاب میںرہنا عقلا کے نزدیک بھی اچھا نہیں ہے اور جو سمعیات اس بارہ میں ہیں وہ تاویل کی گئی ہیں (کہ ان کے ظاہری معنی مراد نہیں ہیں) اور ہمیشہ عذاب کا ہونا کافر ہی کے لیے خاص ہے اور عفو بھی ہو سکتا ہے اس لیے کہ وہ خدا کا حق ہے۔ اس صورت میں خواجہ نصیر طوسی کے سارے کلام سے معلوم ہوا کہ فاسق پر لعنت کرنی اور اس سے تبرا کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اس کی شان اور مسلمانوں کی شان کی مانند ہے کہ اس کے واسطے مغفرت کی دعا کریں اور صدقے دیں تاکہ عذاب سے چھوٹے اور بخشش اور رسول خدا کی شفاعت کی امید اس کے حق رکھنی چاہیے اور جب تک کہ اس میں ایمان موجود ہے اس کی محبت واجب اور عداوت اس کی دین کے سبب حرام، اس واسطے کہ تبرا اور برا کہنا ہے اس وقت درست ہوتا ہے کہ اس شخص میں کوئی وجہ محبت کی موجود نہ ہو اور جب تک کہ آدمی کافر نہ مرے تب تک یہ بات نہیں ہوتی اور کافر ہونے میں اچھے عملوں کا اعتبار نہیں رہتا اور فاسق ہونے اور گناہ کبیرہ کرنے سے اس شخص کی ذات سے تبرا جائز نہیں ہاں اس کے فسق اور گناہ گاری سے تبرا ہونا اور برا جاننا چاہیے اور خواجہ نصیر نے تجرید میں یہ بھی کہا ہے: والاحباط باطل لاستلزامہ الظم و یقولہ تعالیٰ فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ یعنی عمل نیک کا حبط کرنا باطل ہے اس سے ظلم لازم آتا ہے اور نیز خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کرے گا بھلائی بہ قدر ذرہ کے تو پاوے گا، پس جب تک کہ کسی شخص کا کفر متحقق نہ ہو اس کے عمل حبط نہیں ہو سکتے۔ (باقی اوراق اس ترجمہ کے دستیاب نہیں ہوئے) سید احمد تمہید تصانیف احمدیہ سن 1300ہجری موافق 1313نبوی مطابق 1883 عیسوی میں سرسید احمد خاں نے اس بات کا ارادہ کیا کہ اپنی تمام سابقہ مستقل تصانیف اور تالیفات کو ایک سلسلہ کے طور پر متعدد جلدوں میں یکجا شائع کرنا چاہیے۔ چناں چہ اس سلسلہ کا حصہ اول جلد اول جو آٹھ عدد مبسوط رسائل پر مشتمل تھا انھوں نے علی گڑھ انسٹیٹیوٹ پریس میں چھپوا کر فوراً شائع کر دیا۔ ان حصوں اور جلدوں کی تقطیع بڑی تھی اور چھپائی ٹائپ کی تھی۔ اس سلسلہ کی جو تمہید انھوں نے حصہ اول کے شروع میں لکھی تھی وہ سرسید کی ایک یادگار تحریر کے طور پر یہاں شائع کی جاتی ہے۔ چوں کہ مقالات سرسید میں سرسید کی ہر قسم کی تحریریں اور مضامین جمع کیے گئے ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ اس ’’تمہید ‘‘کا شامل کرنا بھی ضروری تھا۔ سرسید کے مذہبی عقائد و خیالات میں بعد کے زمانہ میں جو عظیم انقلاب برپا ہوا۔ یہ کتاب اس کی بہت عمدہ عکاسی کرتی ہے۔ کسی مسئلہ کے متعلق سرسید کے جو اعتقادات پہلے تھے اس کے مطابق سرسید نے اپنے بعض قدیم مذہبی رسائل لکھے۔ لیکن بعد میں جب خیالات نے پلٹا کھایا تو سرسید نے ان تمام مسائل و رسائل کو جدیدنقطہ نگاہ سے سوچا۔ جس پر انھیں ضرورت محسوس ہوئی کہ اپنے پہلے خیالات و معتقدات کا محاسبہ کریں اور مزید مطالعہ کے نتیجہ میں خیالات میں جو تبدیلی پیدا ہوئی ہے اسے واضح طور پر بیان کر دیں اور نہایت صفائی کے ساتھ اس امر کا اقرار کر لیں کہ ’’میرا پہلا خیال غلط تھا۔ اب میں اس مسئلہ کو اس طرح سمجھتا ہوں اور اس کے دلائل یہ ہیں۔‘‘ تصانیف احمدیہ حصہ اول جلد اول میں سرسید نے یہی طریق اختیار کیا ہے۔ یعنی پہلے اپنا وہ قدیم رسالہ شائع کیا جو پرانے خیالات و معتقدات کا حامل تھا۔ بعد میں اسی مضمون پر خود ایک ریویو لکھا جس میں بتایا کہ اس مسئلہ کے متعلق اب میرے خیالات میں کیا تبدیلی واقع ہوئی ہے؟ ہمارے علمائے کرام اور ہمارے ادبائے عظام میں سے اکثر کا یہ قاعدہ ہے کہ کسی مسئلہ کے متعلق جو خیال انھوں نے ایک مرتبہ ظاہر کر دیا۔ خواہ وہ نظریہ بعد میں کتنا ہی لغو اور فضول ثابت ہو مگر وہ اس پر یہ کہہ کر بڑی مضبوطی سے قائم رہتے ہیں کہ ۔ ع مستند ہے میرا فرمایا ہوا اپنی غلطی کو تسلیم کرنا یا اپنے خیالات کو بدلنا ہمارے علمائے کرام اپنی توہین اور ہتک سمجھتے ہیں مگرسرسید اس خیال کے ’’مولوی‘‘ نہیں تھے، اپنے بعض قدیم خیالات کے متعلق جب تحقیق و مطالعہ کے بعد ان پر واضح ہو گیا کہ میرا خیال غلط تھا تو انھوں نے فوراً بلا جھجک اس امر کا اقرار کر لیا کہ ’’ میں غلطی پر تھا۔ مسئلہ کی صحیح صورت اب میری سمجھ میں آئی ہے۔‘‘ کتنا بے نظیر اور لاجواب شعر ہے جو سرسید کے حال پر پورے طور سے صادق آتا ہے یعنی : جب کھل گئی سچائی پھر اس کو مان لیا نیکوں کی ہے یہ خصلت۔ راہ حیا یہی ہے اپنے جھوٹے وقار کو قائم رکھنے کے لیے اپنی غلطی پر اصرار سرسید کا شیوہ نہ تھا، اس کا ثبوت ’’تصانیف احمدیہ‘‘ میں ہمیں بہت عمدگی سے ملتا ہے۔ جس میں انھوں نے اپنی ہر غلطی کا صاف طور پر اقرار کیا ہے۔ لاریب یہی اعتراف و اقرار ان کی بڑائی و بزرگی کی دلیل ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) بہت لوگ ہیں جو دنیا کے انقلابوں کو دیکھتے ہیں اور کم ہیں جو اس پر غور کرتے ہیں۔ مگر بہت کم ہیں جو خود اپنے خیالات کے انقلابوں کو دیکھیں اور ان کے سببوں کو سمجھیں سوچیں۔ اگر کوئی شخص اپنی تمام زندگی کی باتوں کو یاد کرے اور سمجھے تو جانے گا کہ اس کے خیالات میں ایسے عجیب عجیب انقلاب ہوئے ہیں کہ ویسے دنیا کی کسی اور چیز میں نہیں ہوئے۔ اگر پہلا خیال بغیرسوچے سمجھے تقلید و اعتقاد و تمدن و معاشرت کی وجہ سے قائم ہوا تھا۔ پھر اسی طرح اور ان ہی اسباب سے اس میں انقلاب ہوا ہے تو خیال ہو سکتا ہے کہ دونوں بے ہودہ اور بے بنیاد تھے اور اگر دونوں کے لیے یا دونوں میں سے ایک کے لیے کوئی معقول بنا تھی تو اس کے سببوں پر غور کرنا اور اس بات کو سمجھنا کہ پہلے خیالات کس بات پر مبنی تھے اور حال کے خیالات کس پر مبنی ہیں اور ان دونوں بنائوں میں سے کون سی بنا زیادہ تر سچ اور زیادہ تر مستحکم ہے تو انسان کے لیے نہایت مفید ہے۔ دنیا کے تمام خیالوں میں مذہبی خیال ایسا ہے جو انسان کے دل پر سب سے زیادہ اثر کرتا ہے۔ بہت کم برائیاں (جو دنیا میں عموماً برائیاں مان لی گئی ہیں) ایسی ہوں گی جن کا کرنے والا کبھی نہ کبھی ان کی برائی کو خیال نہ کرے۔ مگر یہ مذہبی خیال ایسا ہے کہ اس کے سبب سے انسان ہزاروں برائیاں کرتا ہے اور پھر کبھی اس کو برا نہیں سمجھتا۔ ایسے خیال میں کسی قسم کا انقلاب پیدا ہونا سب سے زیادہ توجہ کے قابل ہے۔ گو مجھ کو علمی لیاقت کچھ نہیں ہے اور میرا درجہ ایک جاھل آدمی سے شایدہی کچھ زیادہ ہو۔ لیکن اللے پن ہی سے سوچنے والی طبیعت تھی۔ جب حیوانی زندگی سے طبیعت نے دوسری طرف پلٹا کھایا۔ تو اس کی کروٹ بجز مذہب کروٹ کے اور کیا ہو سکتی تھی اور وہ پہلو بجز اس پہلو کے جو عام تھا اور جس پر سب کا یقین تھا اور کیا ہو سکتا تھا؟ مگر سوچنے والی طبیعت ہر دم ساتھ تھی اور وہی تمام انقلابوں کا باعث ہوئی اور اسی نے اس سچائی تک پہنچایا جس کو میں ٹھیٹ اسلام یقین کرتا ہوں۔ گو کہ رسمی مسلمان اس کو ٹھیٹ کفر سمجھتے ہوں۔ اس عرصہ میں متعدد مذہبی کتابوں کے لکھنے کا اتفاق ہوا جو ہر ایک وقت کے خیالات کے مطابق ہیں۔ ان سب کا بہ ترتیب جمع کرنا گویا ان تمام زمانوں کے خیالات کو بہ ترتیب سامنے رکھنا ہے۔ جس سے شاید خود مجھ کو اور آئندہ آنے والی نسلوں کو فائدہ ہو۔ پس میں اپنی تصنیفات کے اس حصہ میں مذہبی کتابوں اور رسالوں کو ایک جگہ جمع کرتا ہوں۔ (سید احمد) تمت بالخیر اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔TheEnd