اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت طیبہ کے متعلق بارہ تحقیقی اور تنقیدی مقالات جلدیاز دہم حصہ اول مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقالات سرسید سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کو حاصل ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے اور اپنے پیچھے نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مضامین جہاں ادبی لحاظ سے وقیع ہیں، وہاں وہ پر از معلومات بھی ہیں۔ ان کے مطالعے سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مذہبی مسائل اور تاریخ عقدے حل ہوتے ہیں اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں اور سیاسی و معاشرتی لحاظ سے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ نیز بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی ان میں موجود ہیں سرسید کے ان ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا ہدف رہے ہیں ان مضامین میں علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی، مزاح بھی ہے اور طنز بھی، درد بھی ہے اور سوز بھی، دلچسپی بھی ہے اور دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے اور سرزنش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اور ہر قسم کے خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے، وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اور کہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات و رسائل کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام کے لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اور نا مکمل، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ گزر گیا مگر کسی کے دل میں ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا اور کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا آخر کار مجلس ترقی ادب لاہور کو ان بکھرے ہوئے بیش بہا جواہرات کو جمع کرنے کا خیال آیا مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں پرونے کے لیے مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا انتخاب کیا جنہوں نے پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میں دور و نزدیک کے سفر کیے فراہمی مواد کے لیے ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا، مگر چونکہ ان کی طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری باحسن طریق پوری کی چنانچہ عرصہ دراز کی اس محنت و کاوش کے ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں’’ مقالات سرسید‘‘ کی مختلف جلدوں کی شکل میں فخر و اطمینان کے جذبات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اس کے متعلقات پربارہ تحقیقی اور تنقیدی مقالات ہندوستان کے صوبہ یو پی کے ایک لفٹننٹ گورنر سر ولیم میور نے ایک یورپین پادری پی فنڈر کی فرمائش پر ایک بہت ضخیم کتاب لائف آف محمد (Life of Mohammad) کے نام سے چار جلدوں میں لکھی جو پہلی مرتبہ 1861ء 1؎ میں شائع ہوئی چھپتے ہی اس کتاب کی انگلینڈ اور ہندوستان میں بڑی شہرت ہوئی اور کہا گیا کہ ’’ آج تک مسلمانوں کے نبی کے متعلق انگریزی میں ایسی بے مثل کتاب کوئی نہیں چھپی‘‘ سرسید نے یہ کتاب بڑے شوق سے منگوائی اور جب اس کے مضامین انہوں نے پڑھوا کر سنے تو ان کا دل جل کر کوئلہ ہو گیا۔ کیوں کہ اس کتاب میں مذہبی تعصب اور نا واقفیت کی بنا پر سر ولیم میور نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے متعلق نہایت رکیک، غلط اور بے بنیاد الزامات لگائے تھے اس پر سرسید نے ارادہ کر لیا کہ اس کتاب کا جواب لکھا جائے اور نہایت تحقیقی 1اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن1876ء میں چھپا۔ اور مستند بیانات سے ثابت کیا جائے کہ پاکوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقدس دامن ہر الزام سے پاک اور ہر اعتراض سے بری ہے اور کوئی سچا الزام آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر ہر گز نہیں لگ سکتا۔مگر مشکل یہ آ پڑی کہ تحقیقی جواب دینے کے لیے جن کتابوں کی ضرورت تھی ہندوستان کے کتب خانے ان سے محروم تھے اور وہ صرف انگلینڈ کی لائبریریوں سے مل سکتی تھیں اس لیے سرسید نے 1869ء میں لندن کا سفر کیا اور وہاں پہنچ کر کتابیں فراہم کرنے کے بعد اس کتاب کے جواب کا ایک حصہ نہایت تحقیق و تدقیق اور تشریح و وضاحت کے ساتھ مرتب کیا یہ جواب بارہ مختلف اور مبسوط مقالات پر مشتمل تھا اور بے انتہا محنت اور کاوش اور بڑی تلاش و تجسس کے بعد لکھا گیا تھا ہر مقالہ کو سرسید نے ’’ خطبہ‘‘ کا نام دیا تھا، جن کے عنوانات کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ 1الخطبۃ الاولی فی جغرافیہ جزیرۃ العربیہ وامم العرب العاربہ والمستعربہ (یعنی ملک عرب کا جغرافیہ اور اس کی قوموں کا حال) 2الخبطۃ الثانیہ فی مراسم العرب و عاداتھم قبل الاسلام (یعنی اسلام سے قبل عربوں کی رسمیں اور ان کی عادتیں) 3 الخطبۃ الثالثہ فی الادیان المختلفہ التی کانت فی العرب قبل الاسلام (یعنی اسلام سے پہلے عرب کے مختلف مذاہب وادیان کا ذکر) 4الخطبۃ الرابعہ فی ان الاسلام رحمۃ للانسان و جنۃ الادیان الانبیاء با وضح البرھان (یعنی اسلام انسان کے لیے رحمت ہے اور تمام انبیاء کے مذاہب کی پشت و پناہ) 5الخطبۃ الخامسہ فی حالات کتب المسلمین یعنی مسلمانوں کی مذہبی کتابوں (کتب حدیث، کتب سیر، کتب تفسیر اور کتب فقہ) کے بیان میں 6الخطبۃ السادسہ فی الروایات فی الاسلام (یعنی مذہب اسلام کی روایتوں کی اصلیت اور ان کے رواج کی ابتدا) 7الخطبۃ السابعہ فی القرآن وھو الہدیٰ والفرقان (یعنی قرآن کریم آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کس طرح نازل ہوا)؟ 8 الخطبۃ الثامنہ: احوال بیت اللہ الحرام والسوانح اللتی مضت فیھا قبل الاسلام (یعنی خانہ کعبہ اور اس کے گذشتہ حالات اسلام سے قبل) 9 الخطبۃ التاسعہ فی حسبہ و نسبہ علیہ الصلواۃ والسلام (یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب نامہ کے بیان میں) 10 الخطبۃ العاشرہ فی البشارۃ المذکورۃ فی التوراۃ والانجیل (یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارات کے بیان میں جو توریت اور انجیل میں مذکور ہیں) 11الخطبۃ الحادی عشر فی حقیقۃ شق الصدر و ما حیۃ المعراج (یعنی شق صدر کی حقیقت اور معراج کی ماہیت کے بیان میں 12الخطبۃ الثانی عشر فی ولادتہ وطفولیۃ علیہ الصلواہ والسلام (یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور حضورت کے بچپن کے حالات (12برس کی عمر تک) جب سرسید نے اردو میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بارہ مقالات مفصل طور پر مرتب اور مدون کر لیے تو ان کا ایک خلاصہ انگریزی میں تیار کروایا اور اس کو وہیں لندن میں1870ء میں نہایت مشکل اور نا گزیر حالات میں چھپوا دیا اس کا نام انہوں نے Essays on the life of Mohammad (آں حضرت کی سیرت کے متعلق مضامین) رکھا مگر اردو کے مضامین اس وقت نہ چھپ سکے اور ان کا مسودہ سرسید کے پاس پڑا رہا لندن سے واپسی کے بعد بھی سرسید ان مضامین کو جو انگریزی کی نسبت بہت زیادہ مفصل اور مکمل تھے، نہ چھپوا سکے اور 17سال یونہی گزر گئے 1887ء میں سرسید کو ان مضامین کے شائق کرنے کا خیال آیا چناں چہ ’’ تصنیفات احمدیہ‘‘ کے سلسلہ میں ان بارہ مقالات کو بھی سرسید نے چھاپ کر شائع کر دیا۔ مگر ان مقالات کا یہ اڈیشن آج کل قطعاً نایاب اور نا پید ہے۔ اتفاق سے مجھے یہ مقالات پرانی کتابوں کے ایک تاجر کے ہاں سے مل گئے جو ایک علمی تبرک کے طور پر میری لائبریری میں محفوظ ہیں ان مقالات کی اہم خصوصیات حسب ذیل ہیں: 1سرسید سے پہلے کسی مسلمان نے عیسائیت کی تردید میں کوئی مقالہ عیسائیوں کے مرکز میں بیٹھ کر انہی کی زبان میں نہیں لکھا تھا۔ 2مناظرانہ رنگ کی عام کتابوں کے بر خلاف ان مقالات کی زبان بجائے مخاصمانہ کے ناصحانہ اور بجائے سب و شتم کے متین و سنجیدہ ہے۔ 3اس قسم کے دوسرے مضامین کے مقابلہ میں ان مقالات کا طریق استدلال بہت زیادہ بہتر اور اعلیٰ ہے جن میں ہر مسئلہ پر نہایت سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور معقول دلائل سے ہر بات کو ثابت کیا گیا ہے۔ 4 ان مقالات میں عیسائیوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے سرسید نے عام الزامی طریقہ کو چھوڑ کر ہر اعتراض کا تحقیقی جواب دیا ہے جس سے سرسید کی تحریر میں بڑا زور اور اثر پیدا ہو گیا ہے۔ اب میں وہ مقالات ناظرین کرام کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جن کے مطالعہ سے آپ پر یہ حقیقت روشن ہو جائے گی کہ اسلامی لٹریچر پر سرسید کی نظر کس قدر وسیع تھی اور وہ کس عمدگی اور سلاست کے ساتھ اپنے ماضی الضمیر کو ظاہر کر سکتے تھے ان مضامین کی تمہید بھی سرسید ہی کی لکھی ہوئی ہے جو بجائے خود ایک مکمل مضمون ہے (محمد اسماعیل پانی پتی) ٭٭٭٭٭٭ تمہید (نوشتہ سرسید احمد خاں) مذاہب اور ان کی نیرنگی: عجائبات دنیا میں سب سے زیادہ عجیب وہ خیال ہے جس کو لوگ مذہب کہتے ہیں مذہب اس امتیاز کا نام ہے جو انسانوں کے افعال سے علاقہ رکھتا ہے اور جس کے سبب انسانوں کے افعال اچھے یا برے یا نہ اچھے نہ برے خیال کیے جاتے ہیں، کیوں کہ اگر انسان کے افعال میں یہ تمیزنہ ٹھہرائی جاوے تو کسی مذہب کا وجود باقی نہیں رہتا۔ مذہب کیا چیز ہے؟ وہ تمام خیالات جو انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ یقین جو انسان کسی چیز پر رکھتا ہے، اس کا منشا ان خیالات اور یقین کے سوا کچھ اور چیزیں ہوتی ہیں جو ان خیالات اور یقین کے اسباب سمجھی جاتی ہیں، مگر تعجب یہ ہے کہ وہ خیال جس کو مذہب کہتے ہیں، بغیر کسی خارجی اسباب کے اور بغیر تجربہ اور امتحان کے اور بدون کسی معقول ثبوت کے یکایک دل سے اٹھتا ہے اور اس لیے وہی اس کا مخرج سمجھا جاتا ہے اور پھر اس پر ایسا یقین ہوتا ہے کہ کسی آنکھوں دیکھی چیز پر بھی نہیں ہوتا۔ اس تعجب پر اور تعجب یہ ہے، کہ اس بن دیکھی چیز، اور ان سمجھی بات اور بے دلیل خیال کا لوگوں کی طبیعت پر ایسا سخت اثر ہوتاہے، کہ وہ اثر انسان کے تمام افعال پر اور قدرتی جذبات پر، جو انسان میں خدا نے پیدا کیے ہیں، غالب ہو جاتا ہے اور جو جوش اور ولولہ اس از خود پیدا ہوئے خیال سے انسانوں کی طبیعتوں پر ہوتا ہے، کسی دوسری چیز سے نہیں ہوتا گو کہ اس دوسری چیز کے صحیح اور یقینی ہونے کے لیے کیسی ہی عمدہ عمدہ دلیلیں اور کیسے ہی قطعی نبوت موجود ہوں۔ اگر وہ خیال تمام انسانوں میں مختلف نہ ہوتا، تو شاید یہ کہا جا سکتا کہ تمام عالم کا اس پر یقین رکھنا ہی اس کی سچائی کا ثبوت ہے، مگر تعجب تو یہ ہے کہ ہر زمانہ اور ہر قوم اور ہر ملک اور ہر فرقہ، بلکہ ہر فرد و بشر میں وہ خیال ایسا مختلف رہا ہے کہ کسی ایک پر بھی یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں اور اس پر تعجب یہ ہے کہ ہر شخص کو یہی یقین ہے کہ میرا ہی خیال اور سب کے خیالوں سے بالکل صحیح اور بالکل سچا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح یونانی اپنے خدا اور دیوتا پر اور مسلمان و یہودی اپنے ایک خدا پر اعتقاد اور یقین کامل رکھتے ہیں، اسی طرح ہندو اور مصری اپنے تینتیس کروڑ دیوتاؤں پر اعتقاد اور یقین کامل رکھتے ہیں۔ کیا یہ مسئلہ کہ تمام چیزیں ایک ہی کل کے جزو یا اس کی عین یا وہ بمنزلہ جان اور یا بمنزلہ جسم کے ہیں، صحیح ہے؟ کیا یہ سب مختلف چیزیں جو ہم کو دکھائی دیتی ہیں، سب ایک ہیں؟ کیا نور و ظلمت اور کالا اور سفید دونوں یکساں ہیں جیسا کہ ایک عارف باللہ کہتا ہے؟ من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تا کش نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری یا یہ مسئلہ صحیح ہے کہ تمام چیزوں کا اسی سے ظہور ہے، وہی ظلمت کا باعث اور وہی نور کے ظہور کا سبب ہے وہی آسمانوں پر کڑکاتا ہے اور وہی زمینوں پر برساتا ہے، وہی ستاروں کو چمکاتا ہے اور وہی پھولوں کی کلیوں کو کھلاتا ہے اسی کا جلوہ بہشتوں کی کہاوت اور اسی کا پردہ دوزخوں کی آفت ہے غمگین دل کا غم، شاداں دل کی شادی اسی سے ہے، وہ کسی جگہ نہیں اور سب جگہ ہے، وہ کسی میں نہیں اور سب میں ہے، عابد کے نورانی سینے اور فاسق کے بریاں دل اور معشوق کے عاشق کش ابرو اور عاشق کی گریاں چشم، سب میں اس کی یکساں جگہ ہے جس طرح کہ وہ آسمانوں اور زمینوں میں ہے، اسی طرح سے وہ باریک سے بال میں بھی ہے وہ سب کو دیکھتا ہے اور ہر چیز کو جانتا ہے، مگر اس کا جاننا یا علم ہم سے دو درجہ کم ہے کیوں کہ وہاں ماضی اور استقبال نہیں ہے بہر حال اس بن دیکھی جناب اور ان سمجھی ذات کو جو کہو، سو کہو۔ مگر ان تمام مشکلوں پر ہم کو یہ مسلمانی مسئلہ کہ انا عندظن عبدی بی اور بھی مشکل میں ڈالتا ہے۔ ربی انت عند ظنی رحیم فارحم علی پھر ہم کو زیادہ تعجب اس بات پر ہوتا ہے، کہ یہ تمام مختلف خیالات جو لوگوں کے دلوں میں ہیں اور جو مذہب کہلاتے ہیں، ایک ہی مخرج سے یعنی دل سے نکلے ہیں اور دل کے اس فعل کا جس سے یہ خیال پیدا ہوتے ہیں، اعتقاد نام رکھا جاتا ہے، پس اگر مدار مذہب کا اعتقاد ہو، تو ایک کو صحیح اور دوسرے کو غلط ٹھہرانے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ کیا وجہ تمیز کی ہے، اس سچی دلی پرستش میں جو ابراہیم کے باپ نے ایک بت کی کی، اور اس سچے دل کے خیال میں جس سے ابراہیم نے اپنے باپ کے اس بت کو توڑا۔ ایک ہی واقعہ حضرت مسیح کے قتل کا ہے، جو کالوری کی پہاڑی میں بیت المقدس کے پاس گزرا ان بے رحم قاتلوں نے اپنی دانست میں جو کچھ کیا، مذہبی نہایت سچے اور مستحکم اعتقاد اور دل کے کپ کپا دینے والے ایمانی جوش سے کیا، پس ان دو گروہوں میں سے جو نہایت سچے دل سے اس کو نہایت ہی نیک کام سمجھتے ہیں اورجو نہایت پاک دلی سے اس کو نہایت ہی بد کام جانتے ہیں، کون سی چیز تفرقہ کرنے والی ہے۔ کیا وجہ تمیز کی ہے سینٹ پال کی اس حالت میں، جب کہ وہ دلی اعتقاد اور دین کے جوش سے ان لوگوں کا ساتھی تھا، جنہوں نے سینٹ اسٹیفن شہید کو سنگسار کیا، اور اس حالت میں جب کہ اس نے اپنے سچے دلی اعتقاد سے حضرت مسیح کو مانا۔ کیا چیز ہے، جس سے ہم عمرؓ کی اس حالت میں تمیز کریں، جب کہ اس نے لات و منات پر سچا دلی اعتقاد رکھ کر امین عرب کے قتل پر کمر باندھی اور اس حالت میں جب کہ اس نے نہایت سچی دلی تصدیق سے کہا کہ اشھدان محمداً رسول اللہ یہ وہی عجیب خیال ہے، جو دونوں طرف برابر نسبت رکھتا ہے اور جس کو لوگ مذہب کہتے ہیں پس ایسی دو جہتیں چیز کی جو ضدین میں برابر نسبت رکھتی ہو، کسی جہت پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں، البتہ ان تمام خیالوں میں سچا خیال، یا تمام مذہبوں میں سچا مذہب وہی ہو سکتا ہے جو ضدین میں برابر نسبت رکھنے کے نقص سے پاک ہو۔ مذہب کی حقیقت مذہب کیا چیز ہے؟ وہ ایک سچا اصول ہے کہ جب تک انسان اپنے قوائے جسمانی اور عقلی پر قادر ہے، ا س کے تمام افعال ارادی، جوارح، نفسانی و روحانی کا اسی اصول کے مطابق ہونا چاہیے، پھر اگر وہ اصول ایسے ہیں کہ صرف کسی قسم کے اعتقاد پر مبنی ہیں تو اگر متعدد لوگوں کا متضاد اصولوں پر کسی وجہ سے اعتقاد ہے، تو ایک کو سچا یا صحیح اور دوسرے کو جھوٹا یا غلط کہنے کی بجز تحکم کے اور کوئی وجہ نہیں، سچا مذہب وہی ہو سکتا ہے جس کی سچائی نہ کسی اعتقاد پر، بلکہ حقیقی سچائی پر مبنی ہو کیوں کہ مذہب اعتقاد کی فرع نہیں ہے، بلکہ سچائی مذہب کی اصل یعنی عین مذہب ہے اور اعتقاد اس کی فرع ہے، پس جب کہ ہم مختلف مذہبوں میں سے سچے مذہب کو پرکھنا چاہیں تو دیکھیں کہ وہ سچے اصول کے مطابق ہے یا نہیں۔ سچے مذہب کو پرکھنے کا سچا اصول کیا ہے۔ سچا اصول کیا ہے؟ جہاں تک کہ انسان اپنے قواے عقلی سے جان سکتا ہے، وہ بجز قدرت یا قانون قدرت کے اور کچھ نہیں، جس کی نسبت اسلام کے بانی نے یہ فرمایا کہ ’’ ماتری فی خلق الرحمن من تفاوت فارجع البصر ھل تریٰ من فتور ثم ارجع البصر کرتین ینقلب الیمک البصر خاسئا وھو حسیر‘‘ قدرت یا قانون قدرت کیا ہے؟ وہ وہ ہے، جس کے بموجب ان تمام چیزوں مادی یا غیر مادی کا جو ہمارے ارد گرد ہیں، ایک عجیب سلسلہ انتظام سے وجود ہے اور ہمیشہ انہی کی ذات میں پایا جاتا ہے اور کبھی ان سے جدا نہیں ہوتا۔ قدرت نے جس طرح پر جس کا ہونا بنا دیا ہے، بغیر خطا کے اسی طرح پر ہوتا ہے اور اسی طرح پر ہو گا پس وہی سچ ہے اور جو اصول اس کے مطابق ہیں وہی سچے اصول ہیں، نہ وہ جن کی بنا ایک فانی قابل سہود خطا وجود، یعنی انسان کے اعتقاد پر منحصر ہو۔ قدرت ہم کو صرف اپنے وجود اور اپنے سلسلہ انتظام اور اپنے تعلقات ہی کی جو بے انتہا مخلوق میں پایا جاتا ہے، سچائی نہیں دکھلاتی، بلکہ اس سے ایسے بھی اصول پائے جاتے ہیں، جس سے ہم اپنے افعال ارادی جسمانی اور روحانی کی بھلائی اور برائی بھی جان سکتے ہیں اور جو کہ قدرت سچی اور کامل ہے، تو ضرور ہے، کہ وہ اصول بھی سچا اور کامل ہو اور یہی سچا اور کامل اصول یا یوں کہو، کہ وہ مذہب جس کے اصول اس کے مطابق ہیں وہی سچا مذہب ہونے کا مستحق ہے۔ یہ مت سمجھو کہ ہم قدرت یا قانون قدرت ہی کو مسبب یا اخیر سبب اس تمام کارخانہ کا سمجھتے ہیں۔ جس کا کوئی خالق نہ ہو، جیسے کہ دھریوں کا مذہب ہے، نعوذ باللہ منھا بلکہ قدرت کو تو ہم ایک قانون کہتے ہیں، جس کا کوئی بنانے والا ہے اور اسی لیے ہم یقین کرتے ہیں کہ یہ تمام سلسلہ ایک ہی مسبب اور ایک ہی اخیر سبب پر ختم ہوتا ہے، جس پر تمام چیزوں کی ہستی منحصر ہے۔ وہ جس کی ان پہچان ذات کو ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں ناموں سے لوگ پکارتے ہیں او میرے پیارے خدا! تم پردہ میں تو ہو، پر سب پر ظاہر ہو ایسے جھوٹ موٹ کے پردہ سے کیا فائدہ۔ رشک آیدم و گر نہ نقابت کشود مے دست ترا گرفتہ بعالم نمود مے معاذ اللہ توبہ توبہ میں نے کیا کہا کہیں کافر تو نہیں ہو گیا ’’ الھی انت عبدی وانا ربک استغفراللہ استغفراللہ انت ربی وانا عبدک‘‘ پس آدمی کو چاہیے کہ اس کارخانہ قدرت سے اس کے بنانے والے کو اور اس کی راہ کو یا اس کی راہ بتانے والے کو تلاش کرے کہ یہی سیدھا راستہ چلنے کا ہے۔ مذہب کی تمثیل اور اس کی نسبت علماء کے اختلاف کا بیان مذہب کی تمثیل میں علماء اسلام رحمہ اللہ علیہم اجمعین نے کیسی کیسی غلطیاں کی ہیں اور کیا کیا ٹھوکریں کھائی ہیں۔ بعضوں نے ملک اور غلام کی تمثیل دی ہے اور فرمایا ہے کہ مذہب اور شریعت کو مصالح قدرت اور اعمال کو اس کے بدلہ یعنی جزا اور سزا سے کچھ فائدہ نہیں، شاید ان لوگوں کا خدا ایسا ہو جو لغو کام کرنے کو کہے میرا تو خدا ایسا نہیں، وہ تو نہایت دانا اور سب سے بڑا حکیم مطلق ہے اس کی تو کوئی بات بھی حکمت اور منفعت سے خالی نہیں۔ اس رائے کو تو شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی غلط ٹھہرایا ہے۔ چناں چہ حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں کہ قدیظن ان احکام الشریعۃ غیر متضمنۃ لشئی من المصالح وانہ لیس بین الاعمال و بین ما جعل اللہ جزاء لھا مناسبۃ وان مثل التکلیف بالشرائع کمثل سید اراد ان یختبر طاعۃ عبدہ فامرہ برفع حجرا ولمس شجر مما لا فائدۃ فیہ غیر الاختیار فلما اطاع او عصی جوزی بعلمہ و ھذا ظن فاسد تکذبہ المنۃ واجماع القرون المشھود لھا بالخیر بعض عالموں نے مالک اور بیمار غلام سے مذہب کی تمثیل دی ہے، جس پر مالک نے اس کے علاج کے لیے اپنا مصاحب مقرر کیا ہو اور اس مصاحب کے حکم کو ماننا باعث نجات اور نہ ماننا باعث درکات ٹھیرایا ہو۔ شاہ ولی اللہ صاحب بھی حجۃ اللہ البالغہ میں اسی رائے کو صحیح قرار دیتے ہیں، چناں چہ وہ لکھتے ہیں، کہ ’’وظھر مما ذکرنا ان الحق فی التکلیف بالشرائع ان مثلہ، کمثل سید مرض عبیدہ فسلط علیھم رجلا من خاصۃ لیستقیم دواء فان اطاعو الہ اطاعوا السید ورضی عنہم سید ھم واثابھم خیرا وبخوا من المرض وان عصوہ عصوا السید واحاط بھم غضبہ و جازھم اسوء الجزاء وھلکوا من المرض‘‘ مگر میں اس کو نہیں مانتا اور پوچھتا ہوں کہ دوا کا کرنا باعث نجات کا تھا یا مصاحب کے حکم کا ماننا تھا؟ اگر بے حکم مصاحب کے بھی وہ دوا کرتا تو نجات پاتا یا نہیں، ضرور پاتا، اس لیے کہ اس دوا سے نجات پانا قدرت کا قانون تھا جو کسی طرح بدل نہیں سکتا۔ بعضے عالموں نے مذہب کی تمثیل ایسے طبیب سے دی ہے جو نہ خود کسی چیز کو امرت بناتا ہو اور نہ کسی کو ھلاھل ٹھیراتا ہو۔ بلکہ ہر چیز میں قدرت نے جو اثر رکھا ہے اسی کو بتاتا ہو تاکہ جو لوگ صحیح ہیں اپنے حفظ صحت کے اصول جانیں اور جو بیمار ہیں وہ حصول صحت کی دوا کو پہچانیں اور مذہب بہ نسبت اس کے کہ صرف بیمار غلاموں ہی کے لیے ہو، سب کے لیے عام ہو جائے۔ افسوس کہ شاہ ولی اللہ صاحب حجۃ اللہ البالغہ میں اس رائے کو نہیں مانتے، چناں چہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ وانہ لیس الامر علیٰ ماظن من احسن الاعمال وقبحھا بمعنی استحقاق العامل الثواب والعقاب عقلیان من کل وجھہ وان الشرع وظیفۃ الاخبار عن خواص الاعمال علیٰ ماھی علیہ دون انشاء الا یجاب والتحریم بمنزلۃ طبیب یصف خواص الادویۃ وانواع المرض فانہ ظن فاسد تمجہ السنۃ بادی الرائے۔‘‘ مگر جو اسی کو مانتا ہو ں اور اسی کو سچا اصول سمجھتا ہوں جو قانون قدرت کے بالکل مطابق ہے اور کتاب و سنت دونوں کو اسی کا موید پاتا ہوں جو علم مذہب اسلام کی بنیاد ہیں۔ دنیا کا سچا مذہب پس جہاں تک کہ سچے مذہب کی میں تحقیق کر سکا، میں نے اسلام ہی کو سچا مذہب پایا اور امید ہے کہ جو لوگ سچائی کو دوست رکھتے ہیں وہ ہمیشہ صفائی اور سچائی سے اسلام کی سچائی کی تحقیقات کریں گے۔ اسلام صحیح طور پر کن مجموعہ احکام کا نام ہو سکتا ہے؟ مگر ایک مشکل یہ پیش ہے کہ جب اسلام کا نام لیا جاتا ہے تو لوگ اس مجموعہ احکام کو جواب احکام مذہبی سمجھے جاتے ہیں، مذہب اسلام خیال کرتے ہیں ہاں مجازاً تو ان پر مذہب اسلام کا اطلاق ہو سکتا ہے، مگر حقیقتاً وہ مجموع من حیث المجموع بہ معنی حقیقی مذہب اسلام کہلانے کا مستحق نہیں ہے موجودہ مسائل مذہب اسلام میں دو قسم کے اصول و احکام شامل ہیں ایک وہ جن کو خود شارع نے صاف صاف بیان کیا ہے جو احکام منصوصہ کہلاتے ہیں اور ایک جن کو عالموں اور مجتہدوں نے اپنے ذہن کی خوبی اور اپنے علم کی روشنی سے باستدلال دلالت النص یا اشارۃ النص یا قیاس کے قائم کیا ہے، جو اجتہادیات کہلاتے ہیں اور جو بجز ایک قابل سہو و خطا وجود کی رائے کے اور کچھ زیادہ رتبہ نہیں رکھتے۔ پس ان دونوں قسم کے مسائل میں تمیز نہ کرنے سے آدمی طرح طرح کی سخت غلطیوں میں پڑ جاتے ہیں اور یہ وہی ترک امتیاز ہے کہ جب مسلمان اس کو اختیار کرتے ہیں تو اس کا نام تقلید رکھتے ہیں اور جب غیر مذہب کے لوگ اس کو اختیار کرتے ہیں تو اس کو ایک حقیر نام تعصب یا جہل مرکب یا ضلالت سے موسوم کرتے ہیں فاعتبرو ایا اولی الا بصار پہلی قسم کے احکام بھی جن کا نام احکام منصوصہ ہے، دو قسم کے احکام ہیں، ایک وہ جو اصلی احکام ہیں اور بلا شبہ وہ بالکل قانون قدرت کے مطابق بلکہ اس کی جان ہیں اور دوسرے وہ جو ان اصلی احکام کی حفاظت اور ان کے بقاء اور قیام کے لیے ہیں پس جو کوئی مذہب اسلام کی سچائی ان سچے قدرتی اصولوں سے پرکھنی چاہے تو اس کو ان دونوں قسم کے احکام کی اور ان میں سے ہر ایک کے درجہ اور رتبہ کی تمیز کرنی لازم ہے۔ علاوہ مذکورہ بالا دو قسموں کے ایک تیسری قسم بھی احکام مذہب اسلام میں ہے، جو ذومعنین عبارتوں یا ناکامل سند یا مشتبہ سندوں سے قائم ہوئے ہیں ان میں سے پہلی قسم تو اجتہادیات میں داخل ہے اور دوسری قسم مذہب اسلام میں کچھ وقعت اور اعتبار نہیں رکھتی گو اس پر اس وجہ سے کہ اس میں کچھ نقصان نہیں ہے، عمل ہوتا ہو۔ پس یہ سچا مذہب اور وہ شخص جس کی معرفت ہم کو اس کی تعلیم ہوئی، ہمارے بے انتہا ادب اور نا محدود ثنا و صفت کا مستحق ہے اور بلا شبہ اسی خطاب کے لائق ہے کہ انت احسب الی یا رسول اللہ من نفسی التی بین جنبی چناں چہ ہم کو بہت بڑی خوشی اور مبارکی اسی بات کی ہے کہ ہم نے اس کو نہ خدا سمجھا اور نہ خدا کا بیٹا نہ کوئی فرشتہ، بلکہ ایک وحی بھیجا ہوا انسان جانا مگر اپنی جانوں سے زیادہ عزیز جانا بابی انت وامی یا رسول اللہ دل و جانم فدایت یا محمد سر من خاک پایت یا محمد یاایھا الذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما مسلمانوں اور عیسائیوں کی لکھی ہوئی کتب سیر آں حضرت ؐ کی زندگی کے حالات جن کو مسلمان سیر اور انگریز لیف (لائف) کہتے ہیں، صرف دین دار مسلمان عالموں ہی نے نہیں لکھے، بلکہ غیر مذہب کے علماء اور مورخین نے بھی بہت کچھ لکھا ہے مگر نہایت افسوس ہے کہ وہ دونوں افراط و تفریط میں پڑ گئے، پہلوں کی آنکھوں میں تو کمال روشنی کے سبب چکا چوند آ گئی اور پچھلوں کی آنکھیں بجلی کی چمک سے بند ہو گئیں، پہلے تو شراب محبت کی سرشاری میں بات سے بھٹک گئے، اور پچھلے اس رستہ کی ناواقفی سے منزل تک نہ پہنچے پہلے تو یہ بھولے وہ کس کا بیان کرتے ہیں اور پچھلوں نے اسی کو نہ جانا، جس کا وہ ذکر کرتے ہیں۔ کسی مشہور محدث نے بجز ایک کے جس کا ہم ابھی ذکر کریں گے، کوئی خاص کتاب آں حضرت ؐ کی زندگی کے حالات میں نہیں لکھی، لیکن تمام محدثین نے جن کی سعی اور کوشش کا دنیا پر بہت بڑا احسان ہے، اپنی اپنی کتابوں میں ان حدیثوں کو بھی بیان کیا ہے جو آں حضرت ؐ کی زندگ کے حالات سے متعلق ہیں پس وہی حدیث کی کتابیں ہیں جن سے کم و بیش آں حضرت ؐ کی زندگی کے حالات صحیح صحیح دریافت ہو سکتے ہیں اور جن کو معقول طرح پر ترتیب دینے سے اور صحیح کو غلط سے تمیز کرنے سے ایک معتبر تذکرہ آپ کی زندگی کا جمع ہو سکتا ہے۔ ابو عیسیٰ ترمذی نے جو 209ہجری مطابق824ء میں پیدا ہوا اور 279ھجری مطابق892ء میں انتقال کیا، اپنی مشہور کتاب جامع ترمذی کے سوا ایک اور کتاب بھی آں حضرت ؐ کے حالات میں لکھی ہے جو ’’ شمائل ترمذی‘‘ کے نام سے مشہور ہے، مگر اس میں آپ کی زندگی کے تمام حالات مندرج نہیں ہیں، بلکہ وہ خاص خاص باتیں اور عادتیں جو بالتخصیص نفس نفیس آں حضرت ؐ سے متعلق تھیں، مذکور ہیں۔ با ایں ہمہ جس قدر حدیثیں آں حضرت کے حالات سے متعلق، ان مشہور حدیث کی کتابوں میں مندرج ہیں، وہ اس قابل نہیں ہیں کہ جن کو ہم مثل کتاب اللہ کے بے غور اور بلا تحقیقات اندھا دھوندی سے مان لیں، بلکہ ہم پر واجب ہے کہ ان تمام حدیثوں کو خواہ وہ بخاری کی ہوں یا مسلم کی اور جامع ترمذی کی ہوں یا شمائل ترمذی کی، قبل ان کے سچا قبول کرنے کے ان کی سچائی اور صحت کی تحقیقات ان اصول و قواعد کے ساتھ کر لیں جو اس کے لیے مقرر ہیں، اور جن کو ہم نے ایک جداگانہ خطبہ میں بیان کیا ہے اور اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو سخت غلطیوں میں پڑیں گے، کیوں کہ بے سند حدیث مسلمانوں کے مذہب میں کوئی وقعت اور اعتبار نہیں رکھتی شاہ عبدالعزیز صاحب اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں ایک مقام پر لکھتے ہیں، ’’ حدیث بے سند گوز شتراست‘‘ مگر افسوس ہے کہ بہت ہی کم مصنف ہیں جنہوں نے اس ضروری اور نہایت ضروری اصول کی پیروی کی ہو۔ ان حدیث کی کتابوں کے سوا جن کا ابھی ذکر ہوا اور بہت سی کتابیں ہیں جو خاص آں حضرت ؐ کے حالات کے لیے لکھی گئی ہیں اور بعض ایسی ہیں جن میں ان کے سوا اور بھی حالات ہیں اور یہ کتابیں عموماً کتب سیر کے نام سے موسوم ہیں ان میں سے کتب مفصلہ ذیل زیادہ مشہور ہیں: ابن اسحاق، ابن ہشام، طبقات کبیر المشہور بہ واقدی، طبری، سیرت شامی، ابوالفدا، مسعودی، مواھب لدنیہ1؎، ان کے سوا عربی اور فارسی زبان میں اور بھی کتابیں ہیں، جو انہی سے بنائی گئی ہیں ان کتابوں میں سے پہلی چار کتابیں بہت قدیم ہیں اور باقی بہت پچھلی۔ یہ سب کتابیں تمام سچی اور جھوٹی روایتوں اور صحیح و موضوع حدیثوں کا مختلط مجموعہ ہیں، جن میں صحیح اور غلط، مشتبہ اور درست اور جھوٹی اور سچی کسی کا کچھ امتیاز نہیں، او رجو کتابیں زیادہ قدیم ہیں، ان میں اس قسم کا اختلاط اور زیادہ ہے قدیم مصنفوں اور اگلے زمانہ کے مورخوں کی تصنیفات سے زیادہ غرض یہ تھی کہ ہر ایک قسم کی وایتوں اور افواہوں کو جو ان کے زمانہ میں پھیل رہی تھیں، ایک جگہ جمع کر لیں اور اس بات کی تحقیقات اور تصحیح کہ کون سی ان میں کی بالکل صحیح ہے اور کون سی غلط اور کس میں زیادتی یا کمی ہوئی ہے اور کس میں مضمون کے سمجھنے اور واقعہ کے بیان میں غلط فہمی ہوئی ہے، آئندہ وقت یا آئندہ نسلوں پر منحصر رکھیں مگر افسوس یہ ہے کہ پچھلی نسلوں نے بہ عوض اس کے کہ تحقیقات مطلوبہ کرنے سے اپنے بزرگوں کے مقصد کی تکمیل کرتے، انہی کتابوں کو اپنی تصنیفات جدید کا ماخذ 1علاوہ ازیں طبقات ابن سعد، تاریخ ابن اثیر اور تاریخ ابن خلدون کا نام بھی اس سلسلہ میں لیا جا سکتا ہے اور تاریخ یعقوبی کا بھی یہی ماخذ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے ہیں (محمد اسماعیل پانی پتی) ٹھہرایا اور اس لیے ان پچھلے مصنفوں کی تصنیفوںمیں بھی وہی نقص پیدا ہوا جو ان قدیم مصنفوں کی تصنیفوں میں تھا۔ غرض کہ اب فن سیر کی تمام کتابیں، کیا قدیم کیا جدید، مثل ایسے غلہ کے انبار کے ہیں جس میں سے کنکر، پتھر، کوڑا کرکٹ کچھ چنا نہیں گیا اور ان میں تمام صحیح و موضوع، جھوٹی اور سچی، سند اور بے سند، ضعیف و قوی، مشکوک و مشتبہ روایتیں مخلوط اور گڈ مڈ ہیں۔ سر ولیم میور صاحب ارقام فرماتے ہیں کہ ’’ آں حضرت ؐ کے حالات زندگی کی تین کتابیں ہشامی، واقدی، طبری ایسی ہیں کہ جو شخص دانش مندی سے آں حضرت ؐ کے حالات لکھے گا، تو اپنی تحریر کے لیے انہی کتابوں کو سند گردانے گا‘‘ مگر صاحب ممدوح نے اس بات کو بیان نہیں فرمایا کہ ان کتابوں میں (1) کسی قدر ایسی روایتیں ہیں جن سے آنحضرت ؐ کو کچھ بھی علاقہ نہیں (2) کس قدر ایسی ہیں جن کے راویوں کا سلسلہ ٹوٹا ہوا ہے (3) کس قدر ایسی ہیں جن کے راویوں کی خصلت نہ کسی مذہبی مسئلہ کے سبب، بلکہ اخلاقی نقصانوں کے سبب مشتبہ اور ان کی راست بیانی مشکوک یا مطعون ہے (4) کس قدر ایسی ہیں جن کے بیان کرنے والے بالکل لا معلوم شخص ہیں (5) کس قدر ایسی ہیں جن کی تحقیق یا تصدیق نہیں ہے۔ ڈاکٹر اسپرنگر صاحب نے نہایت گرم جوشی سے واقدی کی قدر و منزلت کو اس کی اصلی حقیقت سے بہت بڑھا دیا ہے۔ جس کی نسبت سر ولیم میور صاحب یہ ارقام فرماتے ہیں کہ ’’ ڈاکٹر اسپرنگر نے اس کتاب کی تعریف اس کی حد سے زیادہ کی ہے ‘‘ مگر افسوس ہے کہ باوجود اس کے صاحب ممدوح نے بھی واقدی کی کم قدر نہیں کی اور اوروں پر ترجیح دینے میں کچھ کوتاہی نہیں کی، اس لیے کہ انہوں نے بھی آں حضرت ؐ کی زندگی کے تمام حالات کو اسی کتاب سے لکھا ہے اور اسی کی سند پر مذہب اسلام کے بر خلاف تمام راویوں کو قائم کیا ہے۔ واقدی کچھ بڑا معتبر شخص نہیں ہے وہ تو حاطب اللیل یعنی اندھیری رات میں لکڑیاں چننے والا ہے اس کی غلط روایتوں اور جھوٹے قصہ کہانیوں اور بے سند باتوں سے تمام علماء نے اس کو نا معتبر ٹھہرایا ہے۔ محمد بن عبدالباقی الزرقانی نے ’’ شرح مواھب لدنیہ‘‘ میں میزان سے واقدی کی نسبت یہ جملہ نقل کیا ہے الواقدی محمد بن عمر بن الواقدی الاسلمی المدنی الذے استقر الا جماع علی وھنہ کسی کے کہنے اور سننے پر کیا موقوف ہے، خود اس کی کتابیں موجود ہیں جو کچھ بھی قدر و قیمت کے لائق نہیں، بجز اس کے کہ جو افواھاً اس نے سنا اور جو آواز چڑیا کی خواہ کوے کی اس کے کان میں آئی وہ اس نے لکھ دی۔ کوئی طریقہ تحقیق کا اور کوئی رستہ تنقیح کا اس نے اختیار نہیں کیا۔ پس کیا وہ کتابیں ایسی ہیں جو مذہب اسلام کی بنیاد سمجھی جا سکتی ہیں اور کیا وہ مخالف مذہب اسلام کا ان کی کتابوں کی سند پر مذہب اسلام یا اس کے واعظ میں عیب نکال کر اور اپنے آپ کو فتح مند سمجھ کر خوش ہو سکے گا ان ھذا الشئی عجاب البتہ ابو الفدا کی کتاب کسی قدر اچھی ہے اور جہاں تک ہو سکے اعتبار کے لائق ہے اس نے اپنی کتاب احتیاط سے لکھی ہے، اگرچہ تحقیق و تنقیح کے رستہ کو اس نے اختیار نہیں کیا الا اس بات پر کوشش کی ہے کہ کوئی موضوع یا مشتبہ یا لغو روایت اس میں نہ داخل ہونے پاوے، مگر با ایں ہمہ یہ کہنا کہ اس کی کوششیں کامیاب ہوئیں اور اس میں کوئی روایت موضوع یا مشتبہ نہیں ہے، حد اعتدال سے آگے بڑھ جانا ہے۔ مسلمان مورخوں کے سوا جن کا اوپر ذکر ہوا، عیسائی مورخوں نے بھی مذہب اسلام اور اس کے واعظ کی نسبت بہت سی کتابیں لکھیں مگر افسوس ہے کہ ابتدائے زمانہ کی تصنیف شدہ کتابیں مثل کتب مصنفہ وینیل، لوتھر، ملانگ تھن، سیپال ھیم، دی ھربی لاٹ، مجھ کو دست یاب نہیں ہوئیں۔ مگر جو کچھ اور کتابوں سے ان کا حال معلوم ہوا، وہ اسی قدر ہے کہ ان کتابوں میں بجز سخت کلامی اور بد زبانی کے اور کچھ نہیں ہے۔ ان مصنفوں کے سوا مراکشی صاحب کا ذکر نہایت حیرت انگیز ہے وہ ایک ایسا سخت متعصب مصنف ہے کہ اس کا دل اپنے بغض و کینہ کے اظہار اور نفرت انگیز جھوٹے طعن و تشنیع اور بد زبانی سے کبھی نہیں بھرا مگر مجھ کو جو حیرت ہوئی وہ اس بات سے ہوئی کہ ’’ کوار ٹرلی رویو‘‘ کے ایک آرٹیکل کے مصنف نے اس کی نسبت یہ لکھا ہے کہ ’’ مراکشی پر جو یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ باطن میں اسلام کا معقتد ہو گیا تھا، وہ الزام کچھ بے وجہ نہ تھا‘‘ کے امراکش با وصف اس قدر تعصب کے مثلی ’’ برھر خورد‘‘ صاحب کے آخر کو مسلمان ہو گیا تھا اگر ایسا ہوا تو میں ذمہ وار ہوں کہ اس سے پہلے جو کچھ اس نے اسلام اور واعظ اسلام کی نسبت کہا سنا سب نسیاً و منسیاً ہو گیا لان الاسلام یھدم ما کان قبلہ من معیۃ اللہ ڈین پریڈی صاحب بھی انہی مورخوں میں سے ہیں جن پر مذہب اسلام نہایت شاق گذرتہ تھا جب کوئی مسلمان اتفاقاً ان صاحب کی کتاب کو پڑھتا ہے تو مذہب اسلام سے ان کی ناواقفیت پر جو ان کی کتاب کے ہر ورق سے ٹپکتی ہے بن ھنسے رہ نہیں سکتا۔ ان مورخوں کے سوا ھاتنجر گیگزری لنڈ او کلی صاحب نے بھی مذہب اسلام اور آں حضرت ؐ کے حالات میں کتابیں لکھی ہیں، مگر افسوس ہے کہ میں ان کی محنتوں سے مستفید نہ ہو سکا۔ گوتھ صاحب اور اماری صاحب اور نالڈانک صاحب اور دواری صاحب نے جو کتابیں اس مضمون پر لکھی ہیں، ان کی نسبت مذہب اسلام کے آرٹیکل کا مصنف جو ’’ کواٹرلی رویو‘‘ میں چھپا ہے، یہ لکھتا ہے کہ ’’ ان مورخوں نے بہت سی دنیا کو یہ بات سکھلا دی کہ مذہب اسلام ایک شگفتہ اور تروتازہ چیز ہے اور ہزاروں نمرود جوھروں سے بھر پور ہے اور محمد ؐ گو ان کی خصلت کو کیسا ہی سمجھا جاوے، انسانیت کی سنہری کتاب میں اپنے لیے جگہ حاصل کی ہے۔‘‘ نہایت مشہور عیسائی مورخوں میں، جنہوں نے آں حضرت ؐ کے حالات لکھے ہیں ڈاکٹر اسپرنگر صاحب ہیں، ان کی کتاب انگریزی زبان میں بمقام الہ آباد1851ء میں چھپی ہے مگر وہ کتاب بہ سبب غلطیوں کے جو اس کے مضمون کی صحت میں ہیں، کچھ اعتبار کے لائق نہیں ہے علاوہ اس کے ایک اور خرابی انہوں نے اس کتاب میں یہ کی ہے کہ اس کا طرز بیان نہایت مبالغہ آمیز اختیار کیا ہے۔ ان کی طبیعت پہلے ہی سے ایسے تعصبات اور یک طرفہ رائے سے بھری ہوئی معلوم ہوتی ہے جو کسی قسم کے مصنف کو، اور بالتخصیص ایک مورخ کو، کسی طرح زیبا نہیں ہے، اپنے اس کلام کی تصدیق کے لیے ان کی کتاب میں سے ایک فقرہ نقل کرتا ہوں، جس سے ان کے تعصب کے علاوہ یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جس فن میں انہوں نے کتاب لکھی ہے اس سے بھی ماشاء اللہ وہ بتہ ہی خوب واقف تھے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ اسلام محمد ؐ کا ایجاد نہیں ہے وہ ایسے مکار کا نکالا ہوا مذہب نہیں ہو سکتا مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ اس مکار نے اپنی بد اخلاقی اور طبیعت کی برائی سے اس کو بگاڑا اور جو بہت سے مسائل اس میں قابل اعتراض ہیں وہ اسی کے ایجاد ہیں‘‘ نعوذ باللہ من ھذہ الا قاویل کبرت کلمۃ تخرج من افواھھم ان یقولون لا کذربا اسی کتاب کی نسبت سر ولیم میورصاحب یہ لکھتے ہیں ، کہ ڈاکٹر اسپرنگر صاحب کی کتاب ایسے وقت میں میرے پاس پہنچی جب کہ میں اسی مضمون کی تحصیل اور تلاش کر رہا تھا اور جیسا کہ میں نے اپنی کتاب کے بعض مقامات میں ثابت کیا ہے، اس کے مضامین کی بنیاد غلطی پر معلوم ہوتی ہے چناں چہ انہوں نے محمدؐ کے ما قابل زمانہ کے عرب کا اور خاص محمد ؐ کا اور ان کی خصلت کا جو حال لکھا ہے، وہ سب غلط راویوں پر مبنی ہے۔ ڈاکٹر اسپرنگر صاحب نے ایک اور کتاب جرمنی زبان میں آں حضرت ؐ کے حالات میں لکھی ہے جو چھ جلدوں میں ہے، مگر افسوس ہے کہ جرمنی زبان نہ جاننے کے سبب اس کتاب سے جس قدر قدرے قلیل فائدہ حاصل کر سکتا، اس سے بھی محروم رہا، صرف اس قدر ہوا کہ میرے ایک جرمن دوست نے مجھ کو اطلاع دی کہ اس کے مصنف نے ابن اسحاق اور واقدی سے زیادہ تر مطالب اخذ کیے ہیں اور جو کہ میں ان مصنفوں کی کتابوں سے واقف ہوں، جن سے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب میں مطالب اخذ کیے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ وہ کتاب بھی مثل اور کتابوں کے، جن کو عیسائی مورخوں نے تصنیف کیا ہے، اس تحقیق اور تلاش سے معرا ہو گی جو صفائی دل سے کی جاتی ہے اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب انہی کتابوں سے لکھی ہے جن میں صحیح اور غلط اور مشتبہ اور لغو روایتیں سب گڈ مڈ ہیں۔ مگر کوارٹرلی ریویو کے آرٹیکل کا مصنف جو غالباً جرمن ہے، اس کتاب کی نسبت یہ رائے لکھتا ہے کہ ’’ جن لوگوں نے اسلام کی نسبت لکھا ہے، ان میں سے ڈاکٹر اسپرنگر کی کتاب کو جو مصنفوں میں اول درجہ رکھتا ہے، ہم نے اس لیے سب سے افضل قرار دیا ہے کہ وہ بہ نسبت اور سب کے نہایت جامع ہے اور بڑی قابلیت سے لکھی گئی ہے، اس لیے کہ اس کتاب میں وہ تمام مطالب ناظرین کے سامنے موجود کر دیے گئے ہیں جن سے پڑھنے والا اپنی رائے آپ قائم کر سکے۔‘‘ سر ولیم میور کی کتاب (لائف آف محمد) عیسائی مصنفوں کی کتابوں میں سب سے زیادہ عمدہ وہ کتاب ہے جو سر ولیم میور صاحب نے نہایت لیاقت اور قابلیت او رکمال خوبی کے ساتھ لکھی ہے یہ کتاب چار موٹی موٹی جلدوں میں ہے اور بہت خوب صورت ٹیپ اور خوش وضع تقطیع میں چھپی ہے۔ اس لائق اور فائق مصنف کو مثل مغربی علوم کے مشرقی علموں میں بھی بڑی واقفیت حاصل ہے اور اس لیے ان کی یہ کتاب تمام تربیت یافتہ یورپ کے ملکوں میں بڑی قدر و منزلت کی نظر سے دیکھی جاتی ہے، اور وہ اسی قدر و منزلت کے لائق ہے۔یورپ کے عالموں اور عالموں کی مجلسوں نے بھی اس کتاب کے سبب ان کی ایسی قدر کی ہے، جس کے در حقیقت وہ مستحق تھے مگر قطع نظر اس نقص کے جو اس کتاب میں ہے، کہ اس کی بنیاد گویا بالکل واقدی پر ہے جو مسلمانوں میں درجہ اعتبار نہیں رکھتا اور اس کی روایتیں زیادہ معتبر اور ایسی محقق نہیں ہیں کہ مسلمان ان پر یقین لاویں، جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں، ایک اور بڑا نقص یہ ہے کہ جس منشاء اور مطلب سے سر ولیم میور صاحب نے یہ کتاب لکھی، وہ اس لیے پسندیدہ نہیں ہے کہ وہ منشاء اس کتاب میں نقصان رہ جانے کا اور واقعات کا اصلی تحقیقات تک نہ پہنچنے کا بہت بڑا سبب ہوا ہے چناں چہ سر ولیم میور صاحب خود ارقام فرماتے ہیں کہ ’’ اس کتاب کا لکھنا اور مسلمانی مذہب کی سند کی کتابوں کی تحصیل اول اس غرض سے اختیار کی گئی کہ پادری پی فنڈر صاحب نے جو اس بات میں مشہور ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں سے مباحثہ میں عیسائی مذہب کی بہت حمایت کی، اس بات پر اصرار کیا کہ اسلام کے پیغمبر کے حالات میں ایک کتاب جو اس کے پیروؤں کے پڑھنے کے لیے مناسب ہو، ایسے قدیم ماخذوں سے ہندوستانی زبان میں تالیف کی جاوے جس کو خود مسلمان صحیح اور معتبر مانتے ہیں چناں چہ میں نے اسی منشاء سے مسلمانی مذہب کی سند کی کتابوں کو پڑھا اور اس کتاب کو لکھا۔‘‘ لیکن میں نہایت افسوس سے یہ بات کہتا ہوں کہ باوجودیکہ سر ولیم میور صاحب نہایت نیک طبیعت ہیں اور بڑی قابل توصیف لیاقتیں رکھتے ہیں، اس پر بھی ان کی طبیعت پر اس غرض اور منشاء کا جس سے وہ کتاب لکھنی شروع کی، ایسا اثر پیدا ہوا جیسا کہ ایسی حالت میں اوروں کی طبیعت پر پیدا ہونا قیاس کا مقتضا ہے اور اسی سبب سے اسلام کی دل چسپ اور سیدھی سادھی عمدہ باتیں بھی ان کو بری اور بھونڈی اور نفرت انگیز معلوم ہوئیں اور یہ اثر ان کی طبیعت کا ایسا تھا کہ اس کے سبب سے ان کی کتاب پڑھنے والے اپنے ذہن میں ان کی تحریر کو ایک زیادتی سمجھتے تھے، لیکن جیسا اکثر ہوتا ہے ویسا ہی اس میں بھی ہوا کہ اس حد اعتدال سے متجاوز تحریر نے خود اپنے مقصود کو کھو دیا اور وہ مطلب حاصل نہ ہوا جس کے لیے پادری پی فنڈر صاحب نے سر ولیم میور صاحب سے اس کتاب کے لکھنے کی خواہش کی تھی، بلکہ برعکس اس کے یہ نتیجہ ہوا کہ جس شخص کو پادری پی فنڈر صاحب نے تاریکی کا فرشتہ بنانا چاہا تھا، وہ روشنی کا فرشتہ نکل آیا۔ جب یہ کتاب چھپی اور ہندوستان میں پہنچی، تو لوگوں نے اس کو نہایت شوق و ذوق سے پڑھا مگر جب ان کو یہ بات دریافت ہوئی کہ اسلام کی اور آں حضرت ؐ کے حالات کی نہایت سیدھی سادھی اور صاف باتوں کو بھی توڑ مروڑ کر اس وضعپر ڈھالا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ پہلے ہی سے اس کتاب کا اس طرح لکھنا مقصود اور مرکوز خاطر تھا تو ان کا وہ شوق بالکل ٹھنڈا ہو گیا مگر جو نوجوان مسلمان طالب علم انگریزی علم کی تحصیل کرتے تھے اور اپنے دینیات اور الہیات سے محض نا واقف تھے ان میں اس بات کا چرچا پیدا ہوا کہ اگر سر ولیم میور صاحب نے سیدھی سادی اور صاف باتوں کو بھی برے پہلو پر لے جا کر لکھا ہے تو فی الواقع ان کی اصلیت کیا ہے۔ میرے دل پر جو اس کتاب سے اثر پیدا ہو اوہ یہ تھا کہ اسی زمانہ میں میں نے ارادہ کیا کہ آں حضرت ؐ کے متعلق حالات میں ایک کتاب اس طرح پر لکھی جاوے کہ جو جو باتیں صحیح اور اصلی اور واقعی اور منفتح ہیں اور معتبر روایتوں اور صحیح صحیح سندوں سے بہ خوبی ثابت ہیں ان کو بہ خوبی چھان بین کر اور امتحان کر کر ترتیب سے لکھا جاوے اور جو حالات مشتبہ اور مشکوک ہیں اور ان کا ثبوت معتبر یا کافی نہیں ہے ان کو جداگانہ اسی ترتیب سے جمع کیا جاوے اور جو محض جھوٹ اور افترا و بہتان یا خود غرض یا احمق واعظوں اور حمقاء کو دام تزویر میں پھنسانے والے لوگوں یا احمق خدا پرست اور جھوٹی نیکی پھیلانے والوں کی بنائی ہوئی باتیں ہیں ان کو علیحدہ بہ ترتیب لکھا جاوے اور انہی کے ساتھ ان کے غلط اور ان کے نا معتبر ہونے کا ثبوت اور ان کے موضوع ہونے کی وجوھات بھی بیان کی جاویں۔ مگر میں اپنے اس ارادہ کو بہت سے موانعات کے سبب سے جن میں سب سے بڑا اپنی فکر معاش میں مبتلا رہنا اور اس سے بھی بڑا کسی کا میرے ارادہ کے ممد و معاون نہ ہونا تھا، پورا نہ کر سکا اور علاوہ اس کے اس کام کے لیے بہت سی پرانی کتابیں جن کو قدیم مصنفوں نے تصنیف کیا ہے، درکار تھیں جو مجھ کو بہ سبب برباد ہو جانے قدیم کتب خانوں کے دستیاب نہ ہو سکیں اور یہ بھی ایک قوی سبب اس ارادہ کے پورا نہ ہونے کا ہوا مگر اس پر بھی مختلف اوقات میں مختصر طور سے مختلف مضامین اور مسائل مذہب اسلام اور آں حضرت کے حالات پر کچھ کچھ لکھتا رہا چناں چہ انہی تحریروں میں یہ بارہ مضمون ہیں جو بہ عنوان بارہ خطبوں کے لکھے گئے ہیں۔ ایڈورڈ کین اور جان ڈیون پورٹ اور کار لائل کی رائے اسلام کی نسبت اگرچہ میں نے اس تمہید میں چند عیسائی ایسے مورخوں کا ذکر کیا ہے، جنہوں نے آں حضرت کے حالات اور اصول مذہب اسلام کا انصاف سے فیصلہ نہیں کیا مگر ان لائق اور قابل اور عالم واجب التعظیم عیسائی مورخوں کا ذکر کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتا، جنہوں نے نہایت انصاف سے اور بالکل بغیر تعصب کے آں حضرت کے حالات اور مذہب اسلام کی نسبت ٹھیک ٹھیک اپنی رائے لکھی ہے بلکہ متعصب اور تنگ حوصلہ مخالفوں کے مقابلہ میں مذہب اسلام کی حمایت کی ہے اگرچہ بعض مقامات میں انہوں نے بھی کچھ کچھ سقم اور نقصان بیان کیے ہیں لیکن صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کا بیان کسی تعصب پر مبنی نہیں ہے، بلکہ اس مسئلہ کی حقیقت وہ نہیں سمجھے یا غلط سمجھ گئے پس یہ ایک غلطی سمجھ کی تو ہے الا وہ عیب جو تعصب اور تنگ حوصلہ ہونے کے سبب سے ہوتا ہے، وہ نہیں ہے بہ ہر حال یہ قابل ادب شخص ایڈورڈ گبن قدیم روم کی سلطنت کا مشہور مورخ اور گاڈ فری ہیگنز (رحم اللہ تعالیٰ) ار ٹامس کارلیل اور جان ڈیون پورٹ سلمہا اللہ تعالیٰ ہیں، جن ے علم اور لیاقتوں کی تعظیم و قدر ہمیشہ ہوتی رہے گی اب میں ان صاحبوں میں سے تین صاحبوں کی رائے جو انہوں نے آں حضرت اور مذہب اسلام کی نسبت لکھی ہے، اپنے اس دیباچہ میں لکھتا ہوں اور گاڈ فری ہیگنز کی رائے خطبات میں متعدد جگہ لکھی گئی ہے۔ مسٹر جان ڈیون پورٹ لکھتے ہیں ’’ کیا یہ بات خیال میں آ سکتی ہے کہ جس شخص نے اس نہایت نا پسند اور حقیر بت پرستی کے بدلہ جس میں اس کے ہم وطن (یعنی اہل عرب) مدت سے ڈوبے ہوئے تھے، خدائے برحق کی پرستش قائم کرنے سے بڑی بڑی دائم الاثر اصلاحیں کیں۔ مثلاً اولاد کشی کو موقف کیا، نشے کی چیزوں کے استعمال کو اور قمار بازی کو جس سے اخلاق کو بہت نقصان پہنچتا ہے منع کیا ہے۔ بہتایت سے کثرت ازدواج کا اس وقت میں رواج تھا اس کو بہت کچھ گھٹا کر محدود کیا غرض کہ ایسے بڑے اور سر گرم مصلح کو ہم فریبی ٹھہرا سکتے ہیں اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسے شخص کی تمام کارروائی مکر پر مبنی تھی۔ نہیں ایسا نہیں کہہ سکتے بے شک محمد ؐ بجز دلی نیک نیتی اور ایمان داری کے اور کسی سبب سے ایسے استقلال کے ساتھ اپنی کارروائی پر ابتدائے نزول وحی سے جو خدیجہ سے بیان کی اخیر دم تک جب کہ عایشہ کی گود میں شدت مرض میں وفات پائی، مسعتد نہیں رہ سکتے تھے، جو لوگ ہر وقت ان کے پاس رہتے تھے اور جو ان سے بہت ربط و ضبط رکھتے تھے ان کو بھی کبھی ان کی ریاکاری سے شبہ نہیں ہوا اور کبھی انہوں نے اپنے نیک برتاؤ سے تجاوز نہیں کیا۔‘‘ بے تک ایک نیک اور صادق طبیعت شخص جس کو اپنے خالق پر بھروسہ ہو اور جو ایمان اور رسم و رواج میں بہت بڑی اصلاح کرے حقیقت میں صاف صاف خدا کا ایک آلہ ہوتا ہے اس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا پیغمبر ہے جس طرح خدا تعالیٰ کے اور وفادار خادم ہو گذرے ہیں، اگرچہ ان کی خدمتیں کامل نہ تھیں، اسی طرح محمد ؐ کو بھی ہم خدا کا ایسا سچا خادم کیوں نہ سمجھیں جس نے خدا تعالیٰ کی خدمت ایسی ہی وفاداری سے کی، جیسی اوروں نے جو مثل آوروں کی خدمت کے پوری اور کامل نہ تھی اس بات پر کیوں یقین نہ کیا جاوے کہ اس کو زمانہ اور اپنے ملک میں اپنی قوم کو خدا کی وحدانیت اور تعظیم سکھلانے کے لیے اور ان کی حالت کے مناسب ان کو ملکی اور اخلاقی امور میں نصیحت کرنے کے لیے خدا نے بھیجا تھا، اور وہ راست بازی اور نیک کرداری کا واعظ تھا۔ ایڈورڈ گبن صاحب لکھتے ہیں، کہ ’’ محمد کا مذہب شکوک اور شبہات سے پاک صاف ہے قرآن خدا کی وحدانیت پر ایک عمدہ شہادت ہے، مکہ کے پیغمبر نے بتوں کی، انسانوں کی، ستاروں اور سیاروں کی پرستش کو اس معقول دلیل سے رد کیا کہ جو شے طلوع ہوتی ہے، غروب ہو جاتی ہے اور جو حادث ہے وہ فانی ہوتی ہے، اور جو قابل زوال ہے، وہ معدوم ہو جاتی ہے اس نے اپنی معقول سرگرمی سے کائنات کے بانی کو ایک ایسا وجود تسلیم کیا، جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا، نہ وہ کسی شکل میں محدود، نہ کسی مکان میں اور نہ کوئی اس کا ثانی موجود ہے جس سے اس کو تشبیہہ دے سکیں وہ ہمارے نہایت خفیہ ارادوں پر بھی آگاہ رہتا ہے بغیر کسی اسباب کے موجود ہے اخلاق اور عقل کا کمال جو اس کو حاصل ہے، وہ اس کو اپنی ہی ذات سے حاصل ہے ان بڑے بڑے حقائق کو پیغمبر نے مشہور کیا ہے اور اس کے پیرووں نے ان کو نہایت مستحکم طور سے قبول کیا اور قرآن کے مفسروں نے معقولات کے ذریعہ سے بہت درستی کے ساتھ ان کی تشریح اور تصریح کی ایک حکیم جو خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفات پر اعتقاد رکھتا ہو، مسلمانوں کے مذکورہ بالا عقیدہ کی نسبت یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ ایسا عقیدہ ہے، جو ہمارے موجودہ ادراک اور قوائے عقلی سے بہت بڑھ کر ہے۔ اس لیے کہ جب ہم نے اس نا معلوم چیز (یعنی خدا) کو زمان اور مکان اور حرکت مادہ اور حس اور تفکر کے اوصاف سے مبرا کر دیا، تو پھر ہمارے خیال کرنے اور سمجھنے کے لیے کیا چیز باقی رہی، وہ اصل اول (یعنی ذات باری تعالیٰ) جس کی بنا عقل اور وحی پر ہے محمد ؐ کی شہادت سے استحکام کو پہنچی، چناں چہ اس کے معتقد ہندوستان سے لے کر مراکو تک موحد کے لقب سے ممتاز ہیں اور بتوں کو ممنوع سمجھنے سے بت پرستی کا خطرہ مٹا دیا گیا ہے۔‘‘ مسٹر ٹامس کارلیل صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ ہم لوگوں (یعنی عیسائیوں) میں جو یہ بات مشہور ہے کہ محمد ؐ ایک پر فن اور فطرتی شخص اور گویا جھوٹ کے اوتار تھے اور ان کا مذہب دیوانگی اور خام خیالی کا ایک تودہ ہے، اب یہ سب باتیں لوگوں کے نزدیک غلط ٹھہرتی جاتی ہیں، جو جو جھوٹ باتیں دور اندیش اور مذہبی سرگرمی رکھنے والے آدمیوں (یعنی عیسائیوں) نے اس انسان (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی نسبت قائم کی تھیں اب وہ الزام قطعاً ہماری رو سیاہی کے باعث ہیں، چناں چہ ایک یہ بات مشہور ہے، کہ پاکرک صاحب نے جب گروٹیس صاحب سے پوچھا کہ یہ قصہ جو تم نے لکھا ہے، کہ محمد ؐ نے ایک کبوتر کو تعلیم کیا تھا، کہ وہ ان کے کان میں سے میل نکالا کرتا تھا، اور مشہور کیا تھا کہ وہ فرشتہ ہے، جو ان کے پاس وحی لایا کرتا ہے، تو اس قصہ کی کیا سند ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ اس قصہ کی کوئی سند اور کچھ ثبوت نہیں‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ایسے ایسے قصوں کو بالکل چھوڑ دیا جاوے جو جو باتیں اس انسان (یعنی محمد صلعم) نے اپنی زبان سے نکالیں بارہ سو برس سے اٹھارہ کروڑ آدمیوں کے لیے بہ منزلہ ہدایت کے قائم ہیں، ان اٹھارہ کروڑ آدمیوں کو بھی اسی طرح خدا نے پیدا کیا ہے، جس طرح ہم کو پیدا کیا۔ اس وقت جتنے آدمی محمد ؐ کے کلام پر اعتقاد رکھتے ہیں، اس سے بڑھ کر اور کسی کے کلام پر اس زمانہ کے لوگ یقین نہیں رکھتے پھر کیا ہم یہ خیال کر سکتے ہیں، کہ جس کلام پر خدائے قادر مطلق کی اس قدر مخلوق زندگی بسر کر گئی اور اس پر مر گئی کیا وہ ایسا جھوٹا کھیل ہے، جیسا ایک بازی گر کا ہوتا ہے 1؎ میں اپنے نزدیک ہر گز ایسا خیال نہیں کر سکتا، بلکہ میں بہ نسبت اور چیزوں کے اس پر جلد یقین کرتا ہوں، اگر جھوٹی اور فریب کی باتیں دنیا میں اس قدر زور آور ہوں اور رواج پکڑ جاویں اور مسلم ٹھیر جاویں، تو پھر اس دنیا کی نسبت کوئی کیا سمجھے گا اس قسم کے خیالات جو بہت پھیلے ہوئے ہیں، بہت ہی افسوس کے قابل ہیں، اگر ہم کو خدا کی سچی 1میں اس قدر اور زیادہ کرنا چاہتا ہوں کہ کروڑوں آدمی اس وقت بھی اسی پر نہایت مستحکم اعتقاد سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور جن ملکوں میں اسلامی سلطنت کبھی نہیں گئی ان ملکوں کے لوگوں نے بھی ان کی باتیں سن کر ان کو قبول کیا اور اب بھی کہ اس کے بانی کو دنیا کے گئے ہوئے بارہ سو برس ہو گئے ہر ایک ملک میں اور ان ملکوں میں بھی جہاں اسلامی سلطنت نہیں ہے، ہزاروں نئے لوگ اس پر بغیر کسی لالچ اور دھوکے کے اور بغیر کسی تدبیر کرنے والوں کی تدبیر و حکمت کے ایمان لاتے جاتے ہیں اور اسلام کو قبول کرتے ہیں تو کیا وہ ایسا چھوٹا کھیل ہے، جیسا کہ ایک بازی گر کا ہوت اہے نہیں بلکہ اس کے سچ ہونے کا ہر ایک کے دل پر یقین ہوتا ہے۔ سید احمد مخلوقات کا علم کچھ حاصل کرنا منظورہو تو ہم کو ایسی باتوں پر یقین کرنا ہر گز نہیں چاہیے وہ باتیں ایسے زمانہ میں پھیلی تھیں، جب کہ توہمات کو بہت دخل تھا اور انہیں توہمات کے سبب خیال تھا کہ آدمی کی روحیں غمگین خرابی میں پڑی ہوئی ہیں، جو ان کی ہلاکت کا سبب ہے میرے نزدیک اس خیال سے کہ ایک جھوٹے آدمی نے ایک مذہب قائم کیا اور کوئی اس سے زیادہ بد اور نا خدا پرست خیال دنیا میں نہیں پھیلا بھلا یہ کب ہو سکتا ہے کہ ایک جھوٹا آدمی جو چونہ اور اینٹ اور اور مصالح کی حقیقت کو سچ نہ جانے اور پختہ مکان بنا لے، وہ پختہ مکان کا ھیکو ہو گا بارہ سو برس تک اس کو کب قیام ہو سکتا ہے اور اٹھارہ کروڑ آدمی اس میں کب رہ سکتے ہیں بلکہ اب تک وہ مکان کبھی کا سر کے بل گر پڑا ہوتا ضرور ہے کہ ایک آدمی اپنے طریقوں کو قانون قدرت کے مطابق کرے اور قدرت کے سامانوں کی حقیقت کو سمجھے اور اس پر عمل کرے، ورنہ قدرت سے اس کو یہ جواب ملے گا کہ نہیں یہ ہر گز نہیں ہو سکتا، جو جو قانون اور قاعدے خاص ہیں، وہ خاص ہی رہتے ہیں، عام نہیں ہو جاتے۔ افسوس ہے کہ کوئی شخص مثل کاگ لسٹر و یا اور ایسے ہی بہت سے دنیا کے سر بر آوردہ لوگوں کے چند روز کے لیے اپنے قند فطرت سے کامیاب ہو جاتے ہیں، مگر ان کی کامیابی ایک جعلی ھنڈوی کی مانند ہوتی ہے، جس کو وہ اپنے نالائق ہاتھوں سے جاری کرتے ہیں اور خود الگ تھلگ رہتے ہیں، اور اوروں کو اس کے سبب سے نقصان پہنچاتے ہیں مگر قدرت آگ کے شعلوں اور فرانسیسی ہنگاموں اور اسی قسم کے اور غضب ناک ظہور سے ظاہر ہو کر یہ بات بہت غضب اور قہر سے دنیا پر ظاہر کر دیتی ہے کہ جعلی ھنڈویاں جعلی ہی ہیں‘‘ راقم سید احمد بمقام لنڈن محلہ میکلن برگ اسکوئیر مکان نمبر21 1870عیسوی مطابق1227ھجری ٭٭٭٭٭٭ (1) جغرافیہ ملک عرب اور اس کی اقوام و قبائل رب اجعل ھذا البلد امنا واجنبی و بتی ان نعبہ الاصنام عرب کی وجہ تسمیہ عرب یا وہ جزیرہ نما جو جزیرۃ العرب کہلاتا ہے بحر احمر کے مشرق کی طرف واقع ہے اور یہاں سے خلیج فارس تک منتہی ہوتا ہے اس بات کا ٹھیک ٹھیک متحقق ہونا کہ اس ملک کا نام عرب کیوں کر اور کس زمانہ میں رکھا گیا نہایت مشکل ہے لیکن کتاب اول ملوک باب (10) ورس15، میں جہاں ملکہ سبا اور حضرت سلیمان کی ملاقات کا ذکر ہے اس ملک کو عرب کے نام سے بیان کے اگیا ہے یہ واقعہ 3000 دنیوی یا 1005 قبل حضرت مسیح کے گزرا تھا مگر ہماری رائے میں یہ جزیرہ حضرت سلیمان کے زمانہ کے بہت پہلے سے عرب کے نام سے کہلایا جاتا تھا کیوں کہ اس کا ذکر کتاب ملوک میں اس طرح پر کیا گیا ہے کہ گویا ایک بہت معروف اور مشہور ملک کا نام ہے کتاب توریہ متی باب (1) ورس (7) و باب (2) ورس(8) میں لفظ عربہ پایا جاتا ہے مگر جو باتیں1؎ کہ اس جزیرہ نما کی وجہ تسمیہ میں بیان کی گئی ہیں ان میں سے وہی بات ٹھیک معلوم ہوتی ہے جو خود اس لفظ سے نکلتی ہے اور جو اس ملک کی طبعی بناوٹ کی طرف اشارہ کرتی ہے لفظ عربہ کے معنی وادی یا بیابان کے ہیں اور جو کہ ایک بڑا حصہ جزیرہ عرب کا بالکل بیابان ہے اور وادی کے نام سے مشہور ہے اسی وجہ سے کل جزیرہ کا نام عرب ہو گیا لفظ عربہ کا ہر قصبہ کے نام کے پہلے بہ طور ایک عام صفت کے لگایا جاتا تھا اور اسی طرح عر بات2؎جو اس کی جمع ہے اس جزیرہ کے ایک حصہ پر بولا جاتا تھا جیسا کہ کتاب توریہ مثنی باب (34) ورس (1,8) میں آیا ہے بعض مورخ از راہ جرأت یہ رائے دیتے ہیں کہ ایک گانوں3موسوم کی وجہ سے جو تہامہ کے 1بعض لوگ عرب کے نام کو لفظ عربہ کی طرف جس کے معنی ہموار بیابان کے ہیں اور جو صوبہ تہامہ کا ایک ضلع ہے منسوب کرتے ہیں اور بعض لوگ لفظ عیبر کی طرف منسوب کرتے ہیں جس کے معنی خانہ بدوش کے ہیں کیوں کہ زمانہ سابق میں عرب خانہ بدوش تھے اس صورت میں اس کا اشتقاق لفظ عبرانی سے جس کی یہی وجہ تسمیہ ہے ثابت ہوتا ہے بعض لوگوں کے نزدیک یہ لفظ عبری مصدر عرب سے نکلا ہے جس کے معنے نیچے جانے کے ہیں اور اس سے وہ ملک مراد ہے جس میں سمٹک یعنی اولاد سام بن نوح کو جو دریائے فرات کے کنارہ پر رہتی تھی آفتاب غروب ہوتا ہوا معلوم ہوتا تھا بوکارٹ صاحب کے نزدیک لفظ عرب ایک فی شین لفظ سے جس کے معنی اناج کے بالوں کے ہیں مشتق ہوا ہے لفظ عربہ ایک عبری لفظ بھی ہے جس کے معنی بنجر زمین کے ہیں اور توریت میں شام اور عرب کی حد فاصل کے طور پر بارھا بولا گیا ہے (چیمبرز انسائیکلو پیڈیا صفحہ344) (سید احمد) 2عربات بالتحریک جمع عربۃ وھی بلاد العرب (مراصد الاطلاع جلد2صفحہ245) 3عربۃ قریۃ فی اول وادی نخلۃ من جھۃ مکۃ (ایضاً صفحہ246) نزدیک واقع ہے اس تمام جزیرہ کا یہ نام پڑ گیا مگر یہ رائے ٹھیک نہیں معلوم ہوتی ممکن ہے کہ لفظ عربہ جو کسی گانوں کے نام کے پہلے محض بہ حیثیت ایک جزو ممیزہ کے استعمال کیا جاتا ہو اور رفتہ رفتہ اس کے اصلی نام کے قائم مقام ہو گیا ہو۔ حدود اربعہ عرب کی حدود اربعہ یہ ہیں مغرب میں بحر احمر، مشرق میں خلیج فارس و خلیج عمان، جنوب میں بحر ہند شمالی حد کی توریت کے مطابق تعیین شمال کی جانب اس کی سرحد بابل اور شام سے ملی ہوئی ہے اور اس کو آبنائے سویس مصر سے علیحدہ کرتی ہے یہ جزیرہ نما شمال اور مغرب کی جانب کنعان سے ملا ہوا ہے، جو بنی اسرائیل کا وطن ہے اور جس کو متقدمین یونانی فنشیا اور متوسط زمانہ کے لوگ فلسطین یا ارض مقدس کہتے تھے اور بالفعل سیریا یعنی شام کے نام سے مشہور ہے اسی زمین کی نسبت خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد سے عطا کرنے کا وعدہ فرمایا تھا لیکن جو کہ ان دونوں ملکوں کی اس سمت میں بیابان حائل ہیں اس لیے قبل اس کے کہ عرب کی شمالی اور مغربی حد معین کرنے کی کوشش کی جاوے ’’ ارض موعود‘‘ کی جنوبی اور مشرقی حد کو محقق کرنا چاہیے جب کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمہاری اولاد کو ایک ملک عطا کروں گا اس وقت حضرت ابراہیم اس مقام پر رہتے تھے جو درمیان (بیت، ایل اور عی) کے واقع ہے جیسا کہ سفر تکوین باب (13) ورس(3) میں مذکور ہے اگرچہ خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے حضرت ابراہیم کو وہ ملک جس کے دینے کا وعدہ کیا تھا دکھلا دیا تھا، لیکن اس کی ٹھیک ٹھیک حدیں نہیں بتائی تھیں جیسا کہ سفر تکون باب (13) ورس (14,15) سے ظاہر ہوتا ہے مگر جب خدا تعالیٰ نے دوبارہ اپنے وعدے کی تجدید کی اس وقت حضرت ابراہیم کو صرف اس کی دو حدیں بتلائیں جیسا کہ سفر تکوین باب (15)ورس(18) میں لکھا ہے کہ خدا نے ابراہیم سے کہا کہ اس زمین کو نہر مصر سے نہر بزرگ تک جو نہر فرات ہے تیری ذریت کو دوں گا۔ مگر تعجب ہے کہ اس کے بعد کتا بہائے مقدس کے کسی لکھنے والے نے دریائے مصر کو ’’ ارض موعود‘‘ کی سرحد نہیں قرار دیا جس کی وجہ نہیں معلوم ہوتی بلکہ بر خلاف اس کے پیر شبع1؎ کو ہر جگہ اس کی حد جنوبی قرار دیا ہے، اور جب کہ خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو بیابان مواب میں ’’ ارض موعود‘‘ دکھلائی تو انہوں نے دیکھا، کہ صوعر2؎ اس کی جنوبی سرحد ہے صوعر اور بیر شبع قریب قریب ایک ہی خط میں واقع ہیں، اس واسطے ان دونوں میں سے کوئی جگہ بلا تفرقہ ’’ ارض موعود‘‘ کی جنوبی سرحد قرار پا سکتی ہے۔ مگر یہ بات بالتخصیص جانی چاہیے، کہ بیر شبع دو3؎ تھے 1کتاب فضاۃ باب20ورس1شموئیل اول باب3ورس720 شموئیل دوم باب3 ورس 10 وباب14 ورس2,15 ملوک اول باب4ورس 25، ملوک دوم باب23ورس8 تواریخ اول باب21ورس 2، تواریخ دوم باب30ورس5 3ہم کو صاف اور صریح خبر ملی ہے (شموئیل دوم باب24ورس 7,15 ) سے کہ بیر شبع یہودیہ کے جنوب میں ادویہ کی جانب واقع تھا اور اس واسطے اس کو وہ بیر شبع نہ سمجھ لینا چاہیے جو گلیلی کے اوپر کے حصہ میں واقع ہے اور جس کا ذکر جوسفس نے اور حال میں ڈاکٹر رچرڈ سن نے کیا ہے (بائبل سائکلوپیڈیا مولفہ جے بی لاسن ایم اے جلد1صفحہ307) (بقیہ حاشیہ صفحہ33پر) ایک کا نام صرف بیر شبع1؎ تھا اور دوسرے کا نام قریہ بیر شبع یا شبعہ2؎ کہا جاتا تھا، یعنی وہ جگہ جہاں بیابان جرار میں حضرت اسحاق کے نوکروں نے اس وقت جب کہ حضرت اسحاق اور ابی ملک کے باہم عہد و پیمان اور حلف ہوا تھا، ایک کنواں کھودا تھا چناں چہ سفر تکوین باب26ورس 32,33 میں لکھا ہے ’’ اور ایسا ہوا کہ اسی دن اسحاق کے نوکر آئے اور اس کنوئیں کا حال جو انہوں نے کھودا تھا بیان کیا اور ان سے کہا کہ ہم کو پانی مل گیا اور انہوں نے اس کا نام شبع رکھا اسی واسطے اس شہر کا نام آج تک ببر شبع ہے۔‘‘ اور یہ وہی 3؎ جگہ ہے ، جہاں سے کہ حضرت یعقوب حاران کو روانہ ہوئے تھے اور اسی جگہ4؎ حضرت یعقوب کے بیٹے جب کہ وہ مصر کو غلہ لینے جاتے تھے ٹھہرے تھے، اور ایک زمانہ میں یہ شہر گرد و نواح کے ملک کا پایہ تخت تھا اور شموئیل کے لڑکے وہاں5؎ حاکم تھے عاموص6؎ نبی نے بھی اس مقام کا ذکر کیا ہے، کہ یہاں بت پرستی بہت شائع تھی اور صیاہ7؎ مادر بیہو یہواش اسی جگہ پیدا ہوئی تھی اور ایلیاہ 8؎ ملکہ ایزبل کے خوف سے یہاں بھاگ آئی تھی یہ شہر9؎ بابل والوں کی گرفتاری 1سفر تکوین باب21ورس31,32 2یوشع باب19ورس2 3سفر تکوین باب28ورس10 4سفر تکوین باب26ورس1,5 5شموئیل اول باب8ورس2 6کتاب عاموص باب5 ورس 5 وباب 8ورس14و باب7ورس9 7 ملوک دوم باب12ورس1تواریخ دوم باب24 ورس1 8 ملوک اول باب 19ورس3 9 نحمیاہ باب11ورس77 و 30 تک ویران نہیں ہوا تھا۔ بعض لوگوں کی یہ رائے ہے، کہ وہ اب ایک نہایت چھوٹا سا گاؤں رہ گیا ہے اور ایک وسیع ریگستان کے قرب و جوار میں واقع ہے جہاں کہ بجز اطراف سمندر کے آباد کا نام و نشان نہیں ہے بیر شبع جران سے بیس پچیس میل کے فاصلہ پر تھا اور یوسی بیس کے زمانہ میں جو چوتھی صدی عیسوی میں گزرا ہے۔ اس میں ایک رومی فوج رہتی تھی یہ بیر شبع اکتیس درجہ سترہ دقیقہ عرض شمالی پر واقع تھا اور طول شرقی اس کا چونتیس درجہ اور چون دقیقہ کا تھا، پہلا بیر شبع قادیش اور شور کے بیابانوں کے بیچ میں تھا اور حضرت ابراہیم نے اس کو بنایا تھا۔ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کلدانیوں کے شہر کو جس کا نام ’’ اور کلدانیاں‘‘ تھا چھوڑ کر حاران کو چلے گئے اور وہاں چند روز ٹھہر کر مصر کی طرف چلے گئے اور جب مصر سے واپس ہوئے تو اسی2؎ جگہ پر ٹھہرے جہاں کہ پہلے ٹھہرے تھے اور وہاں سے حضرت لوط ان کے ساتھ سے جدا ہو کر وادی 3؎ اردن کو روانہ ہو گئے اور حضرت ابراہیم نے قادیش اور شور4؎ کے بیابانوں میں سکونت اختیار کی اور وہاں ایک 5؎ کنواں کھودا۔ حضرت ابراہیم6؎ مدت تک یہاں رہے اور ایک باغ 7؎ لگایا اور جب حضرت 8؎ ھاجرہ 1سفر تکوین باب11ورس31 2سفر تکوین باب13ورس3 3سفر تکوین باب13ورس10,11 4 سفر تکوین باب20ورس1 5 سفر تکوین باب21ورس14,15,30 6 سفر تکوین باب22 ورس19 7 سفر تکوین باب21ورس23 8 سفر تکوین باب16ورس 8لغایت 14 حضرت ابراہیم کی پہلی بی بی حضرت سارہ سے ناراض ہو کر نکل گئی تھیں، تو اسی جگہ پر آئی تھیں اور اسی کنوئیں کے پاس ان کو خدا کا فرشتہ دکھائی دیا تھا اور اس لیے انہوں نے اس کنوئیں کا نام بیرلحی روئی یعنی ’’ بیرللحی المرئی ‘‘ رکھا تھا اس کے بعد ایک قحط سالی کے ایام میں حضرت اسحاق نے اس مقام کی سکونت چھوڑ دی اور جرار1؎ کو چلے گئے اس میں کچھ شک نہیں کہ قادیش ایک اور جگہ ہے اور جرار اس سے بہت دور ہے۔ وہاں کے باشندے حضرت اسحاق سے واقف نہ تھے، اور غالباً بد طینت اور بد خصلت آدمی تھے اس لیے حضرت اسحاق نے جیسا کہ توریت میں لکھا ہے ان لوگوں سے اپنی بی بی کی نسبت کہا، کہ یہ میری بہن2؎ ہے مگر جب ابی ملک نے حضرت اسحاق کو جرار سے نکال دیا تب انہوں نے بیابان جرار میں بود و باش اختیار کی اور وہاں ایک کنواں کھودا جس کا نام شبع رکھا اور جس مقام پر سکونت اختیار کی تھی اس کا نام قربہ 3؎ بیر شبع رکھا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جگہ وہ جگہ ہر گز نہیں ہو سکتی جہاں حضرت ابراہیم نے کنواں کھودا تھا۔ ان باتوں کی اس قدر تفصیل کرنے سے ہمارا منشاء دو چیزوں کے ثابت کرنے کا ہے اور اول یہ کہ عرب کی شمالی حد ملک شام یا ’’ ارض موعود‘‘ سے ملحق ہوتی ہے اور ’’ ارض موعود‘‘ کی جنوبی حد حضرت اسحاق والا بیر شبع یا صوعر جس کو بلع 4؎ بھی کہتے ہیں دوسرے یہ کہ حضرت ابراہیم والا بیر شع 1سفر تکوین باب26ورس6 2سفر تکوین باب26ورس17 3سفر تکوین باب26ورس32 4سفر تکوین باب14ورس1 قادیش میں ہے جو ملک عرب میں واقع ہے۔ جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم والا بیر شبع اور حضرت اسحاق والا بیر شبع دونوں ایک ہی ہیں ان واقعات پر مبنی ہے جن کو کہ میں ابھی ثابت کروں گا کہ ان پر کسی طرح اعتبار نہیں ہو سکتا۔ سب سے پہلا واقعہ جو ان کی رائے کا موید ہے یہ ہے کہ جب حضرت اسحاق قادیش سے چلے گئے تو فلسطین والوں نے حضرت ابراہیم کے کھودے ہوئے کنوئیں کو مٹی سے بھر کر بند کر دیا اور جب کہ ابی ملک نے حضرت اسحاق کو جرار سے نکال دیا تو حضرت اسحاق نے انہیں کنوؤں کو از سر نو کھودا جو ان کے والد حضرت ابراہیم کے زمانہ میں کھودے گئے تھے، اور جن کو فلسطین والوں نے روک دیا تھا اور انہوں نے ان کنوؤں کے وہی نام رکھے جو ان کے والد نے رکھے تھے مفسرین توریت کا یہ استدلال ابتدائی یا سرسری نظر میں ٹھیک معلوم ہوتا ہے اور خیال میں آتا ہے کہ بیر شیع ایک ہی ہو گا مگر ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں، کہ یہ خیال ہر گز صحیح نہیں ہو سکتا، سفر تکوین کے چھبیسویں باب کی اٹھارھویں آیت تک توریت میں حضرت ابراہیم کے صرف انہیں کنوؤں کا بیان ہے، جن کو حضرت اسحاق نے پھر کھدوایا تھا۔ مگر اسی باب کی انیسویں آیت سے لے کر آخر باب تک ان قدیم کنوؤں کا مطلق ذکر نہیں ہے۔ بلکہ نئے کنوؤں کا ذکر ہے ان نئے کنوؤں کے نام بھی حضرت اسحاق نے رکھے تھے اول کا نام بیر عشق دوسرے کا نام سطنہ تیسرے کا نام رجوبوث اور چوتھے کا نام سبعہ رکھا تھا اس سے صریح واضح ہے کہ یہ کنوئیں حضرت ابراہیم کے کنوؤں میں سے نہیں تھے پھر اسی باب کی سترھویں آیت کا صاف صاف مضمون یہ ہے کہ حضرت اسحاق نے جرار کی وادی میں اپنا خیمہ نصب کیا اور وہاں آباد ہوئے۔اور انیسویں اور بیسویں ورس میں بیان ہے کہ حضرت اسحاق کے آدمیوں نے وادی میں کنواں کھودا اور وہاں ایک کنواں جاری پانی کا برآمد ہو ااور جرار کے چرواھوں نے حضرت اسحاق کے چرواھوں سے تکرار کی اور پانی پر اپنا دعویٰ کیا۔ پس جب کہ ان سب آیتوں کا ایک دوسری سے مقابلہ کیا جاوے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کنوئیں وادی جرار میں کھودے گئے تھے نہ وادی قادیش میں ایک اور امر جو مذکورہ بالا لوگوں کی رائے کی تائید کرتا ہے تئیسویں آیت کا یہ مضمون ہے کہ حضرت اسحاق ابی ملک کو چھوڑ کر بیر شبع کو چلے گئے جس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس بیر شبع سے مراد حضرت ابراہیم والا بیر شبع ہے کیوں کہ اس وقت تک حضرت اسحاق والے بیر شبع کا وجود بھی نہ تھا لیکن یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کیوں کہ جس بیر شبع کا اس آیت میں ذکر ہے وہ حضرت ابراہیم والا بیر شبع نہیں ہے بلکہ حضرت اسحاق والا بیر شبع ہے کتب مقدسہ لکھنے والوں کا یہ قاعدہ ہے کہ پچھلے زمانہ کے حالات لکھنے میں جب کسی مقام کا ذکر آتا ہے تو وہ اس مقام کا وہی نام لکھ دیتے ہیں جو زمانہ تحریر میں اس کا نام ہوتا ہے گو کہ اس زمانہ میں جس کا وہ حال لکھتے ہیں اس مقام کا وہ نام نہ تھا بلکہ وجود بھی نہ تھا چناں چہ اکثر مقامات میں انہوں نے بہت سے شہروں اور قصبوں کا جو اس زمانہ کے عرصہ دراز کے بعد وجود میں آئے تھے نام لے کر ذکر کیا ہے اکیسویں باب کی چودھویں آیت میں حضرت ابراہیم والے بیر شبع کا نام مذکور ہے اگرچہ اس وقت تک اس کنوئیں نے وہ لقب حاصل نہیں کیا تھا۔ ملک کی بناوٹ کے لحاظ سے عرب کی تقسیم عرب علی العموم ایک وسیع مسطح اور ویران ملک ہے مگر جا بجا چند بے انتہا سر سبز و شاداب اقطاع بھی واقع ہیں اور بعض عظیم الشان پہاڑ بھی ہیں جن کی گھاٹیاں تازگی اور خوش نمائی کے لیے مشہور ہیں اس میں جو سب سے بڑے نقصانات ہیں وہ کثرت سے وادیوں کا ہونا اور پانی کا نہ ہونا ہے میوے مختلف اقسام کے ہوتے ہیں جن میں کھجود نہایت عمدہ اور خوش ذائقہ ہوتی ہے جو عرب کے ملک سے مخصوص ہے اور در حقیقت عرب کے لوگوں کی زندگی کا بہت بڑا ذریعہ ہے عرب کے گھوڑے تمام دنیا کے گھوڑوں سے عمدہ اور خوب صورت ہوتے ہیں لیکن عرب کے لیے سب سے زیادہ مفید جانور اونٹ ہے جس کو ریگستان کا جہاز لکھنا بے جا نہیں ہے۔ عرب ٹھیک طور سے دو حصوں میں منقسم ہو سکتا ہے: 1ایک عرب الحجر یونی کوہستانی عرب جو خاکنائے سوئیس سے لے کر بحر احمر اور بحر عرب تک پھیل رہا ہے 2دوسرا عرب الوادی یعنی عرب کا مشرقی حصہ مگر بطلیموس1؎ پرانے 1جزیرہ عرب کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا موجد بطلیموس خیال کیا جاتا ہے اور وہ تین حصے یہ ہیں عرب الحجر، عرب المعمور، عرب الوادی، عرب الحجر میں تمام شمالی، غربی حصہ شامل تھا۔ عرب المعمور میں غربی اور جنوبی کنارہ، عرب الوادی میں تمام اندرونی حصہ جو اچھی طرح معلوم نہ تھا مگر اس تقسیم کو عرب کے لوگ تسلیم نہیں کرتے اور حال کی تحقیقات کی رو سے بھی صحیح نہیں معلوم ہوتی چیمبرز ان سائیکلو پیڈیا صفحہ344 یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بطلیموس نے ملک کو اس کی طبعی حالت کے لحاظ سے تقسیم کیا تھا نہ کہ حد بندی کے لحاظ سے (سید احمد) جغرافیہ داں نے عرب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے: 1عرب الحجر یعنی پتھریلا عرب 2عرب المعمور یعنی عرب آباداں3عرب الوادی یعنی ریگستانی عرب آج کل کے نقشوں میں عرب الحجر میں صرف وہ حصہ ملک کا شامل رکھا گیا ہے جو خلیج سوئیس اور خلیج عقبہ کے درمیان واقع ہے مگر اس تقسیم کے لیے کوئی معتبر سند نہیں بطلیموس کے جغرافیہ کے مطابق عرب الحجر کو خلیج سوئیس سے لے کر یمن یا عرب المعمور کی حد تک شمار کرنا چاہیے وہ لوگ جن کے نزدیک بطلیموس نے عرب المعمور لفظ یمن کا ترجمہ کیا ہے بلا شک غلطی پر ہیں ۔ کیوں کہ اس پرانے جغرافیہ داں کے زمانے میں عرب الحجر کا جنوبی حصہ گنجان آباد تھا اور تجارت کے لیے مشہور تھا جس کی وجہ سے اس نے تمام جزیرہ کے اس حصہ کا عرب المعمور نام رکھ دیا عربی جغرافیہ دانوں نے جزیرہ عرب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے تہامہ، حجاز، نجد، عروض، یمن غیر ملکوں کے مورخ اور جغرافیہ دان جو یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اس ملک کو حجاز اس سبب سے کہتے ہیں کہ حاجی اور زائروں کا عام مرجع ہے وہ بڑی غلطی پر ہیں کیوں کہ لفظی معنی حجاز کے اس چیز کے ہیں جو دو چیزوں کے درمیان میں واقع ہو تمام ملک کا یہ نام اس پہاڑ کی وجہ سے پڑ گیا ہے جو شام اور یمن کے درمیان بہ طور حجاب کے واقع ہے عرب بہ لحاظ ان مختلف قوموں کے جو اس زمانے میں آباد ہیں اور ان آبادیوں کے ناموں کے، اور ان آبادیوں کے ملکی حالات کے، اور ان کے باشندوں کے اعتبار سے بے شمار حصوں میں منقسم ہو گیا ہے مگر اس بات کا کہنا کہ یہ حصے ٹھیک کس طرح پر ہیں بغیر اس بات کے اول جان لینے کے کہ یہ قومیں جو ان میں آباد ہیں، کون ہیں اور کہاں سے آئی ہیں اور کہاں کہاں آباد ہوئیں اگر محال نہیںتو غیر ممکن تو ضرور ہے اس لیے ہم حتی الامکان ان امور کی تنقیح کی کوشش کریں گے، ان امور کی نسبت کتب مقدسہ یا عرب کے قرب و جوار کی قوموں کی کتابوں میں بہت کم تذکرہ پایا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کتب مقدسہ کے لکھنے والے صرف ’’ ارض موعود‘‘ کے حالات لکھنے اور تلاش کرنے میں مصروف رہے اور ان کی تمام ہمت صرف بنی اسرائیل کے حالات لکھنے پر منحصر تھی اور غیر قوموں نے اس ویران اور بے ثمر ملک کی طرف کچھ توجہ نہیں کی۔ اس مضمون کے لکھنے میں جہاں تک کہ ہو سکے گا ہم ان دونوں ذریعوں سے گو کہ ان سے بہت ہی کم حالات معلوم ہوتے ہیں فائدہ حاصل کریں گے اور اس کی تائید میں عرب کی ملکی روایتوں سے جو قابل اعتبار معلوم ہوتی ہیں غفلت نہ کریں گے۔ عرب کی مختلف قوموں کی تقسیم جو ملکی روایتیں عرب کی مختلف قوموں کی تقسیم کے باب میں ہیں وہ نہایت معتبر ہیں کیوں کہ عرب کے لوگ اپنی آبائی رسوم اور اوضاع اور اطوار کے بہ درجہ غایت پابند تھے اور ان کو کبھی ترک کرنا یا تبدیل کرنا نہیں چاہتے تھے اور اسی وجہ سے وہ لوگ اپنے نسب ناموں کو یاد رکھنا قریباً قریباً اپنا فرض سمجھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ ہر ایک قوم نہیں بلکہ ہر ایک قبیلہ اپنا اپنا جدا جدا نام رکھتا تھا اور اس ذریعہ سے ہر ایک شخص اپنی قوم اور قبیلہ کو بہ خوبی جانتا تھا اور اپنے حسب نسب پر بے انتہا فخر کرتا تھا اور جس طرح کہ پرانی قوموں ’’ سکند نیوین‘‘ اور ’’ سلئک‘‘ کے ہاں کڑکیٹ ہوتی تھی، اسی طرح عرب کی قوموں میں بھی ہوتی تھی جن کا لڑائیوں میں مردانہ اشعار پڑھنا اور لڑنے والوں کو ان کے حسب نسب کا جتلانا جنگی باجے کا کام دیتا تھا1؎ جو کچھ کہ میں نے عرب کی ملکی روایتوں کی نسبت بیان کیا ہے اس کی تائید رورنڈ مسٹر فارسٹر کے بیان سے ہوتی ہے انہوں نے عرب کا ایک جغرافیہ لکھا ہے اس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ عربوں کی قدیمی اوضاع اور رسوم اور یادگاروں کی پابندی کو جو ہمیشہ سے زباں زم خاص و عام ہے، تمام دلائل میں سب سے اول رکھنا مناسب ہے کیوں کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ان کے قومی خاصوں میں سے یہ خاصہ سب سے مقدم ہے ایک اور تعجب انگیز مثال عرب کی اس پابندی کی قدامت اور رفاقت کی کرنیل چنی نے اس طرح بیان کی ہے کہ عجل عربوں کا ایک گروہ بغداد کے قریب خیمہ زن ہوا۔ میں ان کے خیمہ گاہ کی سیر کے واسطے گیا ان خیموں کے بیچ میں شاہی نشان اسپین کا لہراتا ہوا دیکھ کر مجھ کو کمال حیرت ہوئی اور ایک عربی خیمہ میں تین دھاریوں کی علامتوں کو 1ہمارے ملک میں جو ہندو قومیں آباد ہیں ان کے حالات پر غور کرنے سے اور اس بات کے دیکھنے سے کہ باوجود اس کے کہ ہزار ہا برس اور مختلف حکومتیں ان پر گذر گئیں ہیں مگر ان کی جدا جدا قومیں آج تک ممکن طرح پر محفوظ ہیں اور ہر ایک اپنی قوم اور پنی گوت یعنی قبیلہ سے بخوبی واقفیت رکھتا ہے اور آج تک ان کے معزز لوگوں کے ہاں بھاٹ اور کرکت موجود ہیں عرب کی قدیم قوموں کے حالات کا نقشہ بخوبی سمجھ میں آ سکتا ہے اور ہر شخص خیال کر سکتا ہے کہ اسی طرح انہوں نے اپنی قوم اور قبیلہ کو علیحدہ علیحدہ محفوظ رکھا تھا۔(سید احمد) دیکھ کر میں نے ان کا حال دریافت کرنے کی کوشش کی ایک نہایت بڈھے آدمی نے مجھ سے کہا کہ جب کہ ان کے آباؤ اجداد برابر کے ملک میں گئے تھے اور وہاں سے اسپین کی فتح کے واسطے روانہ ہوئے اس وقت خلیفہ نے ان کی خدمات کے بدلے میں قبیلہ عجل کو شاہی نشان اسپین کا بہ طور جھنڈے کے عطا فرمایا تھا ڈین پریڈو نے عرب کی رسم و رواج کی نسبت اس طرح پر لکھا ہے کہ قوم عرب دنیا میں سب سے زیادہ قدیم قوم ہے جو اپنے مورثان اعلیٰ کے زمانہ سے آج تک نسلاً بعد نسل اپنے ملک میں رہتی چلی آئی ہے اور جس قدر کہ عرب اپنی رسم و رواج میں تغیر و تبدل کو نا پسند کرتے ہیں اسی قدر ملک کے ناموں کے بدلنے کو نا پسند کرتے ہیں اسی وجہ سے اکثر مقاموں کے وہی نام بہ دستور چلے آتے ہیں جو ابتداء میں رکھے گئے تھے اسی وجہ سے ملک مصر کے قدیمی دار السلطنت کے رہنے والے جو مصری کہلاتے تھے اور بعد کو زمانہ دراز تک بنام ممفس مشہور رہے، عربوں کے تسلط کے زمانہ سے پھر مصری کہلانے لگے اور جب سے برابر یہ نام چلا آتا ہے یہ مثالیں من جملہ ان بے شمار مثالوں کے ہیں کہ فلسطین میں ایک اور قسم کی قدیمی روایت ہے، جس سے کہ کنیسوں کو کچھ علاقہ نہیں ہے، یعنی عوام الناس میں مقاموں کے قدیمی ناموں کا بہ جنسہ چلا آنا فی الحقیقت یہ قوی اور دیسی روایت ہے جو کسی طرح پر اجنبی کنیسوں اور اجنبی حکام کے اثر سے پیدا نہیں ہوئی ہے بلکہ انہوں نے اپنی ماں کے دودھ کے ساتھ اس کو پیا ہے اور سمئک زبانوں کی طبیعت میں استحکام کے ساتھ گھر پکڑ گئے ہیں مقامات کے عبری نام انجیل کے زمانے کے بہت عرصہ بعد تک اپنی آرمینیں شکل میں مروج رہے اور باوجود اس کے کہ یونانی اور رومیوں نے اپنی اپی زبانوں کے ناموں کی ترویج کے لیے کوششیں کیں مگر عوام الناس کی زبان پر وہی پرانے نام جاری رہے۔‘‘ غرض کہ ملک عرب کی ملکی روایتیں نہایت عمدہ اور صحیح ذریعہ ملک عرب کے حالات دریافت کرنے کا ہے ان کی رسوم کا علم مندرجہ ذیل امور سے معلوم ہو سکتا ہے میدان جنگ میں کوئی جنگ آور بدون اس کے کہ حریف سے اپنا حسب و نسبت با آواز بلند بیان کرے، تنہا لڑائی میں مشغول نہیں ہوتا تھا۔ کسی عام مہم میں ہر شخص اپنے ہی قوم کے سردار یا رئیس کے جھنڈے کے نیچے قیام کرتا تھا۔ بعض اوقات جب کہ کسی قوم کے کسی آدمی سے کوئی جرم سر زد ہوتا تھا تو اس کی پاداش میں اس ساری قوم کے لوگوں کو جرمانہ دینا پڑتا تھا جو اب شرع میں بہ لفظ الدیت علی العائلہ مستعمل ہے۔ اس قسم کی رسوم کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب کے لوگوں کو اپنی قوم کو چھوڑ کر دوسری قوم میں جا ملنا غیر ممکن ہو گیا تھا اور اسی بناء پر جزیرہ عرب کے مختلف اقطاع پر تقسیم ہونے کی روایتوں پر کماحقہ اعتبار قائم ہوا اور برقرار رہا۔ اب ہم عربوں کی اس مشہور و معروف پابندی کو جو اپنی قومی اطوار اور عادات اور اپنے بزرگوں کی رسوم کے ساتھ رکھتے ہیں، بیان کر کے سوال کرتے ہیں کہ اس بات کا یقین کرنا کس طرح سے ممکن ہے کہ ایسی قوم پر جو تغیر و تبدل کے اس قدر بر خلاف ہو اور مزیدے برآں قبیلوں کے سخت اختلافات کی نسبت اس قدر محتاط ہوں مندرجہ ذیل شبہات کرنے کے لیے کافی وجوہ ہیں، یعنی ایسے شبہات کے لیے جن کی تائید کے واسطے کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ ایک طرف دار مصنف کے خیالی شوشے ہیں مثلاً یہ کہنا کہ بنی عملیق اور بنی نبات میں ہم کو ایسو اور اسماعیل کی اولاد صاف صاف نظر آتی ہے اور اس بات کا فرض کر لینا کچھ ضرور نہیں ہے کہ ان کے انساب کا علم یا روایت خود ان قوموں میں بہ جنسہ چلی آتی ہے بلکہ فتح کے انقلابات اور دوسری قوموں کے ساتھ خلط ملط ہونے سے یہ بات بالکل بعید از عقل معلوم ہوتی ہے کہ ایسی وحشی قوم کے پاس جن کے پاس کوئی تحریری یادداشت نہیں ہے ان کو اپنے نسبت کی واقفیت اتنی صدیوں تک محفوظ اور برقرار رہی ہو مگر اس معترض کو ہمارے اوپر کے بیان سے ثابت ہو گیا ہو گا کہ یہ امر نا ممکن نہ تھا بلکہ در حقیقت اسی طرح پر واقع ہوا، جیسا کہ بیان ہوا ہے۔ حضرت اسماعیل اور حضرت ھاجرہ کی سکونت عرب میں اب یہ بات غور کرنے کے قابل ہے کہ حضرت اسماعیل اور حضرت ھاجرہ کی سکونت کے باب میں ملکی اور قومی دونوں طرح کی روایتیں نہایت معتبر ذریعہ سے ہمارے زمانے تک پہنچی ہیں اور وہ ایسی روایتیں ہیں کہ جن کو تمام قوم نے بلا تامل صحیح مان لیا ہے پھر ہم کس طرح کسی عیسائی طرف دار مصنف (سر ولیم میور) کے محض بے دلیل بیانات کو صحیح اور معتبر تصور کر سکتے ہیں جس کا یہ بیان ہے کہ ’’ یہ روایت ایک کہانی ہے یا توریت سے اخذ کر کے تحریر کر دی گئی ہے‘‘ مگر جس وقت کہ اس عالی رتبہ مصنف نے یہ بیان کیا ان کو معلوم نہ ہو گا کہ خود توریت ہی سے حضرت ابراہیم کے نسبت کی بابت اس روایت کی تائید ہوتی ہے اس کے بعد مصنف موصوفنے کم سن اسماعیل اور ان کی بے کس ماں کی سکونت کی اصلیت کی نسبت اس طرح پر قیاس دوڑایا ہے کہ ’’ بنی اسماعیل اور عمالیق کی قومیں جزیرہ عرب کے شمال اور وسط میں پھیلی ہوئی تھیں غالباً یہی لوگ مکہ کے اصلی متوطن ہوں گے یا زمانہ سابق میں یمن کے شمول میں وہاں آ بسے ہوں گے اس کے بعد ایک فرقہ بنی اسماعیل خواہ نباتی خواہ کسی ہم نسل خاندان کا وہاں کے کنووؤں اور کاروانی تجارت کے دل پسند موقع کے لالچ میں وہاں چلا گیا ہو گا اور بہت ذی اختیار ہو گیا ہو گا یہ فرقہ اپنی ابراہیمی نسبت کی پرانی روایتوں کو اپنے ساتھ لے گیا ہو گا اور مقامی اوھام اور اعتقادات پر خواہ وہ اسی ملک کے ہوں یا یمن سے لائے گئے ہوں ان کو منقش کر دیا ہو گا۔‘‘ ان قیاسی باتوں کی غلطی اس طرح پر ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت اسماعیل کی عمر جب کہ ان کے باپ نے ان کو گھر سے نکالا تھا توریت کے مطابق سولہ 1؎ برس کی تھی اور یہ عمر ایسی تھی کہ جو روایتیں انہوں نے اپنے والد سے سنی تھیں ان کے سمجھنے اور تمیز کرنے اور یاد رکھنے کے قابل تھے اس کے سوا وہ ہمیشہ اور متواتر اپنے والد سے ملاقات کرتے رہے اور حضرت ابراہیم بھی اکثر ان کے پاس آتے جاتے تھے۔ انجام کار 1جب حضرت اسماعیل پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیم کی عمر چھیاسی برس کی تھی (سفر تکوین باب16ورس12) اور جب حضرت اسحاق پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیم کی عمر سو برس کی تھی (سفر تکوین باب21ورس5) اور حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کو حضرت اسحاق کے دودھ چھٹنے کے زمانہ میں گھر سے نکال دیا تھا اس حساب سے حضرت اسماعیل جب کہ جلا وطن ہوئے تھے سولہ برس کے تھے حضرت ابراہیم کا ایک سو پچھترویں برس کی عمر میں انتقال ہوا تھا اور حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق دونوں نے مل کر کمپیلا کے غار میں دفن کیاتھا (سفر تکوین باب25ورس9)اس لیے حضرت اسماعیل کی عمر اس وقت نواسی برس کی تھی (سید احمد) سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ حضرت اسماعیل جن کی عمر اس وقت نواسی برس کی تھی بر وقت وفات حضرت ابراہیم اپنے والد کے ان کے پاس موجود تھے، یہ سب باتیں ہر ذی فہم اور غیر متعصب شخص کے ذہن نشین کرنے کو کافی ہوں گی کہ یہ تمام روایتیں جو مختلف اقوام عرب میں اس قدر شائع ہیں۔ لوگوں کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل سے پہنچی ہیں اور یہ امور ایسے بدیہی اور ذہن نشین ہونے کے لائق ہیں کہ اگر پھر کوئی شخص براہ جرأت یہ کہے کہ یہ روایتیں یہودیوں کی وساطت سے پہنچی ہیں تو اس کو سن کر کچھ کم تعجب نہ ہو گا مگر تعجب اس بات پر آتا ہے کہ مصنف موصوف نے اپنے قیاسی خیال کے ثابت کرنے کا ادعا کیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ ’’ مگر ان بنی اسرائیل کو جو توریت پڑھتے ہیں صرف نام اور مقام ہی سے اس نسب کا احتمال عائد ہوتا ہے اور یہودی مصنفوں میں، الہامی ہوں خواہ غیر الہامی ہم کافی اظہار اس امر کا پاتے ہیں کہ ایسا خیال در حقیقت کیا گیا تھا یہ قدرتی استنباط خود ان قوموں میں سے جن سے وہ علاقہ رکھتا تھا قرب و جوار کے یہودیوں کے ذریعے سے وقتاً فوقتاً شائع ہو گیا ہو گا اور ان بے جوڑ روایتوں کے غیر مکمل آثار کو جو ھنوز ان کے تخیلات اور ان کی عادات اور ان کی زبان میں موجود تھے تقویت دے دی ہو گی۔‘‘ اگرچہ اس رائے کی غلطی اوپر کے بیان سے بہ خوبی ظاہر ہو گئی ہے مگر عرب کی قوموں کی عادت پر خیال کرنے سے اس رائے کی اور غلطی ظاہر ہوتی ہے عرب کے قدیم رہنے والوں نے اپنی جبلی عادت کے موافق اپنی اصلی روایتوں میں کوئی نئی روایت اضافہ نہیں کی تھی اور تمام غیر قوموں سے بالکل علیحدہ رہتے رہے یہاں تک جب حضرت اسماعیل اور ان کے ہمراہی وہاں آ کر آباد ہوئے تو قدیمی عرب ان کو نظر حقارت سے دیکھتے تھے اور ذلیل لقب ’’ مستعربہ‘‘ سے ان کو ملقب کیا تھا آنحضرت صلعم کی بعثت سے پہلے بنی اسرائیل اور خصوصاً اہل عرب بنی اسماعیل کو ہمیشہ دو مختلف قومیں سمجھتے رہے اور قدیم عرب نے اپنی قدیمی روایتوں کا ان سے مبادلہ نہیں کیا اور بنی اسرائیل کے پاس عرب کی قوموں اور عرب کے انبیاء کی نسبت زبانی خواہ تحریری کوئی روایت نہ تھی۔ آنحضرت صلعم نے جب یہ بات فرمائی کہ جمیع انبیاء بنی اسرائیل برحق نبی تھے اور ان پر ایمان لانا چاہیے اس وقت بنی اسرائیل کی اور ان کے نبیوں کی روایتیں اور قصے عرب کی روایتوں اور قصوں میں مخلوط ہو گئے لیکن جو کہ بنی اسرائیل کے ہاں عرب کی کچھ روایتیں نہ تھیں اس وجہ سے عرب کی روایتیں بجائے خود بہ جنسہ برقرار رہیں۔ تمام نئے آباد ہونے والے جو وقتاً فوقتاً عرب میں آباد ہوئے اور قدیم متوطنان عرب نے تین نام حاصل کیے تھے اول عرب البائدہ، یعنی صحرائی عرب، دوم عرب العاربہ، یعنی قدیمی عرب سوم عرب المستعربہ یعنی عرب میں نئے آباد ہونے والے جو بہ سبب زمانہ دراز کی سکونت کے عرب بن گئے تھے یہ تین بڑی تقسیمیں قریب قریب تمام باشندگان عرب پر حاوی ہیں، خانہ بدوش بدووں سے لے کر ان قدرے شائستہ قوموں تک جو کنارہ کے برابر برابر آباد ہیں اور معہذا قدیم باشندگان عرب اور جدید باشندگان عرب کے درمیان تمیز بھی قائم رکھتے ہیں اس لیے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ عرب کے باشندوں کا ان مذکورہ بالا تین عام قسموں کے مطابق علیحدہ علیحدہ بیان کریں۔ ٭٭٭٭٭٭٭ اول :: عرب الباثدہ یا خانہ بدوش صحرائی عرب کی قومیں عرب البا ثدہ میں سات شخصوں کی اولاد کی سات مختلف گروہیں شامل ہیں1کوش پسر حام پسر نوح کی اولاد2عیلام پسر سام پسر نوح کی اولاد3لود پسر سام پسر نوح کی اولاد 4عوص پسر ارم پسر سام پسر نوح کی اولاد 5 حول پسر ارم پسر سام پسر نوح کی اولاد 6 جدیس پسر گژ پسر ارم پسر سام پسر نوح کی اولاد 7 ثمود بسر گژ پسر ارم یسر سام پسر نوح کی اولاد۔ کوش کی اولاد خلیج فارس کے کنارے پر اور اس کے قرب و جوار کے میدانوں میں آباد ہوئی۔ جرھم پسر عیلام بھی اسی طرف جا کر رود فرات کے جنوبی کناروں پر سکونت پذیر ہوا۔ لود کے جو ان میں تیسرا مورٹ اعلیٰ ہے تین بیٹے مسمیان طسم، عملیق، امیم تھے جنہوں نے اپنے آپ کو تمام مشرقی حصہ عرب میں یا یہ سے لے کر بحرین اور اس کے گرد و نواح تک پھیلا دیا۔ عوص پسر عاد اور حول دونوں نے ایک ہی سمت اختیار کی اور جنوب میں بہت دور جا کر حضرت موت اور اس کے قرب و جوار کے میدانوں میں اقامت اختیار کی۔ جدیس پسر گژ پسر ارم پسر سام عرب الوادی میں آباد ہوا۔ ثمود پسر گژ پسر ارم پسر سام نے عرب الحجر میں اور اس میدان میں جو وادی القرے کے نام سے مشہور ہے اور ملک شام کی جنوبی اور ملک عرب کی شمالی حد ہے، رہنا اور قبضہ کرنا پسند کیا۔ عربی جغرافیہ دانوں نے جو کچھ اپنی تصنیفات میں نسبت عرب البائدہ اور ان کے مقامات سکونت کے لکھا ہے، اس کا انتخاب ذیل میں لکھتے ہیں جن سے ان امور کی جو ہم نے اوپر بیان کیے ہیں تصدیق ہوتی ہے۔ قال القاضہ صاعد ابن احمد الاندلسی صاحب قضاء مدینۃ طلیطلۃ۔۔۔۔ ان العرب البائدہ فکانت امما ضخمۃ کعاد و ثمود و طسم و جدیس و لتقادم انقرا ضہم ذھیت ان حقایق اخبارھم والقطعت عنا اسباب العلم بآثارھم اماجرھم فہم صنفان جرھم الاولی وکانوا علی عہد عادفبا دوا و درست اخبارھم وھم من عرب البائدہ ابوا الفدا سکنت بنوطسم المیامۃ الی البحرین ابوا لفدا سکنت بنو عاد الرمل الی حضر موت ابو الفدا وبلا دعا یقال لھا الاحقاف وھی بلاد متصلہ بالیمن وبلاد عمان ابوالفدا۔ والی عادا خاھم ھودا وھو عاد بسن عوص بن ارام بن سام وھم عاد الا ولیٰ کانت منازل قوم عاد بالاحقاف وھی رمال بین عمان و حضرت موت معالم التنذیل سکنت ثمود الحجر بین الحجاز والشام ابوالفدا کانت مساکنھم بالحجر بین الحجاز والشام الی وادی القری معالم التنزیل۔ الحجر بالکسر ثم السکون والراء اسم دیار ثمود بوادی القریٰ بین المدینۃ والشام کانت مساکن ثمود وھی بیوت سخوتۃ فی الجبال مثل الغایر تسمی تلک الجبال الا ثالیب کل جبل منقطع عن الاخریطاف حولہ وقد نقرفیہ بیوت ونقر علی قدر الجبال التی تنقر فیھا وھی بیوت فی غایہ الحسن فیھا نقوش و طیقان محکمۃ الصنعۃ وفی وسطھا بیرالتی کانت تردھا الناقۃ مراصد الا طلاع علی اسماء الا مکنۃ والبقاع الحجر بکسر الحاء و سکون الجیم والراء دیار ثمود بواد القریٰ بین المدینۃ والشام مشترک یا قوت المحموی۔ قال ابن حوقل والحجر بین جبال علیٰ یوم اکثر من خمسۃ ایام قال و کانت دیار ثمود الذین قال اللہ عنھم و ثمود الذین جابوا الصخر بالواد قال رایت تلک الجبال و مانحت منھا کما اخیر اللہ تعالیٰ و تختون میں الجبال بیوتا فارھین و تسمیٰ تلک الجبال الا ثالیب اقول وھی التی ینزلھا حجاج الشام وھی عن العلی علی تحدو نصف مرحلۃ من جھۃ الشام تقویم البلدان۔ ووادی القری فھو بادیۃ الجزیرۃ وما کان من بالس الیٰ ایلہ مواجھا للحجاد معارضا لارض بتوک فھو بادیۃ الشام تقویم البلدان۔ اب کہ ہم نے اس مقام پر ایک کامل فہرست سات مختلف اقوام عرب البائدہ کے مورثان اعلیٰ کی لکھ دی ہے اور ان مقامات کو بھی بیان کر دیا ہے جہاں جہاں یہ مختلف قومیں آباد ہوئیں تو اب ہم حتے المقدور ان شعبوں اور شاخوں کی تفصیل بیان کریں گے جو ان قوموں سے پیدا ہوئی ہیں: اولاً بنی کوش، کسی عرب کے مورخ نے بنی کوش کا کچھ حال نہیں بیان کیا۔ سب کے سب خاموش ہیں اور اس سبب سے ان کے حالات کچھ دریافت نہیں ہوئے اسی بناء پر جارج سیل اور انہیں کی مانند اور انگریزی مصنفوں نے بیان کیا ہے کہ ’’ کوش کی اولاد عرب میں آباد نہیں ہوئی تھی۔‘‘ نویری نے اپنے جغرافیہ میں ایک یہ فقرہ لکھا ہے ’’ وملک شر جیل علی قلیس و تمیم‘‘ اس فقیرہ میں نویری نے بنی کوش کا ذکر بہ شمول بنی تمیم کے کیا ہے جس سے وہ حصہ سلطنت کا مراد ہے جو الحارث نے اپنے دوسرے بیٹے شرجیل کو بخشا تھا نویری کے اس فقرہ پر رورنڈ مسٹر فارسٹر یہ استدلال کرتے ہیں کہ مشرقی مورخ بنی کوش کو عرب کے رہنے والوں میں شمار کرنے سے خاموش نہیں ہیں۔ مگر رورنڈ مسٹر فارسٹر کو اس میں کسی قدر دھوکا ہوا ہے کیوں کہ نویری کے فقرہ سے کسی طرح یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ بنی قیس اور بنی کوش ایک ہی خاندان میں یعنی حام کی اولاد میں ہیں مشرقی مورخوں نے جو بنی کوش کا کچھ ذکر نہیں کیا اس کی وجہ ظاہراً یہ معلوم ہوتی ہے کہ خود مشرقی مورخ دھوکے میں پڑ گئے ہیں کیوں کہ کوش کی اولاد جو مشرق میں آباد ہوئی تھی اور یقطان کی اولاد جو جنوب کی طرف یمن اور اس کے گرد و نواح میں آباد ہوئے تھے ان دونوں کے ناموں میں ایک طرح کی مشابہت پائی جاتی ہے اور اس سبب سے مشرقی مورخوں نے دھوکے کھا کر تمام واقعات و حوادث کو جو بنی کوش سے متعلق تھے بنی یقطان سے متعلق سمجھ لیا اور ان تمام واقعات اور حوادث کو بنی یقطان کی طرف منسوب کر دیا۔ مگر رونڈ مسٹر فارسٹر1؎ نے بڑی کوشش اور تلاش سے اور بڑی صحت اور قابلیت سے نہایت معتبر اور مستند حوالوں سے 1یہ ایک عام اور مسلم رائے ہے کہ سباپسو کلاں کوش نے پہلے وہ حصہ وادی القرے کا آباد کیا جو دریائے فرات کے ملحق ہے اور یہ رائے بہ ظاہر وجوہات ذیل پر مبنی ہے ضلع مذکور کا ’’ خوزستان‘‘ یعنی کوش کے اصلی وطن کے قریب واقع ہونا زمانہ ما بعد میں شہر ’’ سبی‘‘ اور قوم سبا کا سرحد’’ خالدیہ‘‘ پر موجود ہونا کوشی ناموں اور خاندانوں، جویلائ، ستباہ، راماہ، دودان، کا خلیج فارس کے کنارہ پر مسلسل سلسلہ میں واقع ہونا اور سب سے اخیر یہ کہ اشعیاہ نبی کی کتاب کے دو مقاموں میں کوش اور ’’ سبا‘‘ کا ساتھ ساتھ بیان ہونا جس سے پایا جاتا ہے کہ ’’ سبا‘‘ ’’ خوزستان‘‘ سے ملحق ہے ’’ راس سنڈم‘‘ کے قریب جس کو بطلیموس نے ’’ راس اسابی‘‘ کر کے لکھا ہے ہم مسٹر سیل کے نقشہ میں شہر ’’ کشکان‘‘ جو توریت کے ’’ کشام‘‘ کے مرادف ہے، پاتے ہیں بحر عمان کے اسی کنارہ پر ’’ عمنان‘‘ یا’’ عمان‘‘ اور ’’ تامر‘‘ یا ’’ سیب‘‘ اور ’’ سوبا‘‘ شہروں کے درمیان میں ہم ایک ساحل پاتے ہیں جس کو ’’ پلینی‘‘ نے سواحل’’ حام جو بالفعل‘‘ ’’ ماحام‘‘ کہلاتا ہے اس خاکنائے کے مقابل کی اطراف پر جو ’’ راس مسنڈم‘‘ میں منتہی ہوتی ہے اور ’’ خلیج فارس‘‘ کے دھانہ کے اندر شہر اور ضلع’’ رعمائ‘‘ جس کو یونانی ترجمہ توریت میں ’’ رغمہ‘‘ اور بطلیموس نے ’’ رغامہ‘‘ لکھا ہے پایا جاتاہے خلیج کے باہر شہر اور ضلع ’’ دوان‘‘ یا ’’ دوانہ‘‘ کا پتہ ملتا ہے اور توریت میں جو ’’ دوان‘‘ چھوٹے بیٹے ’’ رعماہ‘‘ کا ذکر ہے اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے (فارسٹر صاحب کا جغرافیہ عرب صفحہ38) (سید احمد) اس امر کو بیان کیا ہے کہ بنی کوش در حقیقت عرب میں خلیج فارس کے کنارہ کے برابر برابر آباد ہوئے تھے اور مشرقی کنارہ کے مختلف شہروں کے ناموں کا ان ناموں سے مقابلہ کر کے جو بطلیموس نے لکھے ہیں اپنے دعویٰ میں قطعی کامیابی حاصل کی ہے لیکن مصنف موصوف نے جب کہ بنی کوش کو تمام جزیرہ عرب میں اور خصوصاً یمن اور خلیج عرب کے کناروں پر پھیلا دینے کی کوشش کی ہے تو اس کی دلیلوں میں ضعف آ جاتا ہے اور اسی دھوکے میں پڑ جاتا ہے جس میں مشرقی مورخ پڑ گئے تھے اور اسی سبب سے یمن تک پہنچنے پر اس کی بحث بدرجہ غایت مہمل اور بے معنی ہو گئی ہے اور صرف ایک ناکارہ سلسلہ خیالی اور وہمی استنباطوں کا خیال کی جا سکتی ہے اس لیے ہم کہتے ہیں کہ ’’ نمرود‘‘ کے سوا جس کا ذکر تنہا کتاب مقدس میں کیا گیا ہے اور اس سبب سے ہم کو یہ مستنبط کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ آباد نہ ہوا تھا باقی اولاد کوش کی جن کے نام سبا، حویلاہ، سبتاہ، رعماہ، سبتکا تھے اور رعما کے بیٹے یعنی شبا اور دوان سب خلیج فارس کے کنارے کنارے آباد ہوئے تھے ہم اس امر سے انکار نہیں کرنا چاہتے کہ کوش کی اولاد میں سے کوئی جزیرہ عرب کے اور اقطاع کی جانب بھی چلے گئے ہوں اور وہاں سکونت اختیار ک ہو، مگر ہم نے رورنڈ مسٹر فارسٹر کی جن دلیلوں کو لغو اور مہمل اور وہمی اور خیالی بیان کیا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ مصنف موصوف کو بنی کوش کے مقامات سکونت کی تحقیق میں کوئی ایسا مقام مل جاتا ہے جس میں ذرا سی بھی مشابہت کوشی ناموں سے ھجوں میں یا صرف ایک حرف ہی کی مطابقت پائی جاتی ہے تو وہ اس مقام کو کوش کی اولاد کے متعلق کر دینے میں ذرا بھی دریغ نہیں کرتا حالاں کہ بنی کوش کے اکثر نام ایسے ہیں جو بنی یقطان کے ناموں سے جو یمن میں رہتے تھے مشابہت تامہ رکھتے ہیں۔ کتب مقدمہ کے لکھنے والوں نے بنی کوش کی وجہ سے تمام ملک عرب کو بنام ارض کوش یا اتھوپیا سے موسوم کیا ہے اور اس امر کے ثابت کرنے کو رورنڈ مسٹر فارسٹر نہایت مضبوط اور قابلانہ دلیلیں پیش کی ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ توریت اور انجیل کے تاریخی جغرافیہ کے انگریزی ترجمہ میں الفاظ‘‘ ’’ اتھوپیا‘‘ اور ’’ باشندگان اتھوپیا‘‘ اکثر مستعمل ہوئے ہیں اور ان کی جگہ عبرانی توریت میں اسم معرفہ کوش واقع ہوا ہے اور یہ لفظ کوش جب کہ کتاب مقدس میں اس طرح مستعمل ہوا ہے تو اس سے ہمیش ایشیائی اتھوپیا یعنی عرب مراد لیا گیا ہے نہ کہ افریقی اتھوپیا، چند مصرح ورسوں کے مقابلہ کرنے سے یہ امر بہ خوبی واضح ہو جاتا ہے چناں چہ کتاب اعداد باب12ورس1میں لکھا ہے کہ مریام اور ہارون نے حضرت موسیٰ سے اس اتھوپین (عبرانی میں ہے کوشی) عورت سے شادی کی تھی اور کتاب خروج باب2ورس15اور21 سے یہ امر محقق ہے (اور ہم حضرت موسیٰ کے دوسرے نکاح کے فرض کرنے کے واسطے کوئی دلیل نہیں پاتے) کہ ایک مدیانی عورت تھی یعنی حضرت ابراہیم کی اولاد میں بنی قطورہ کے سلسلہ میں تھی اور یہ امر بھی متحقق ہے کہ ’’ مدیان‘‘ یا’’ مادیان‘‘ عرب میں بحر احمر کے کنارے پر ایک شہر یا ملک تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کی بی بی ایک عرب کی عورت تھی اور اسی وجہ سے عبرانی لفظ کوشی کا ترجمہ لفظ اتھوپین کے ساتھ ٹھیک نہیں ہوا ہے تا وقت یہ کہ اس سے ایشیائی اتھوپیا عرب مرد نہ لیا جاوے۔ کیوں کہ افریقی اتھوپیا اس سے کسی طرح مراد نہیں لیا جا سکتا (فارسٹر صاحب کا تاریخی جغرافیہ عرب صفحہ12) ان دلیلوں سے کسی طرح شک اور شبہ نہیں رہتا کہ کتاب مقدس کے انگریزی ترجمہ میں جو لفظ کوش کا اتھوپیا ترجمہ کیا گیا ہے وہ دو مختلف مقاموں پر مستعمل ہوا ہے افریقی اتھوپیا پر اور ایشیائی اتھوپیا یعنی عرب کے ایک حصہ پر یا خود ملک عرب پر اور یہ ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے کیوں کہ اس سے کتب مقدمہ کے بہت سے مشکل مقامات کے حل ہونے میں مدد ملے گی۔ ثانیاً عیلام یا جرھم الاولیٰ جو کہ یہ قوم بنی کوش کے مقابلہ میں کچھ نام آور نہیں ہوئی اس لیے اس کی نسبت بجز اس کے کہ بنی کوش سے قرابت رکھتی تھی اور انہیں کے ساتھ رہتی تھی اور کچھ زیادہ حال معلوم نہیں ہوا۔ ثالثاً لود، اس کے تین بیٹے تھے، طسم، عملیق، امیم یہ لوگ بھی عیلام کی اولاد کی مانند کچھ اولو العزم اور نام آور نہ تھے اس لیے ان کا حال بھی بہت کم معلوم ہے مگر ان کے آثار ساحل خلیج فارس کے بعض مقاموں کے ناموں میں پائے جاتے ہیں مثلاً دریائے عمنان (جس کو پلینی نے عمان لکھا ہے) اور ’’ ھمائیم‘‘ جو امیم کے نام سے جو لود کا تیسرا بیٹا تھا ماخوذ کیا ہوا معلوم ہوتا ہے یہ قاعدہ ہے کہ الف ھائے ھوز سے بدل جاتا ہے جیسے اود سے ھود اور اجر سے ھاجرہ ہو گیا جو حضرت اسماعیل کی ماں کا نام تھا رورنڈ مسٹر فارسٹر نے اس امر کے ثابت کرنے کی کوشش میں کہ عمنان یا ھمنان زمانہ حال کے عمان سے علاقہ رکھتا ہے غلطی کی ہے کیوں کہ سفر تکوین باب19ورس38 سے پایا جاتا ہے کہ حضرت لود کی چھوٹی بیٹی نے (ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ جن پر بیٹیوں کا لفظ اطلاق کیا گیا ہے وہ حضرت لود کی بیٹیاں نہ تھیں بلکہ لونڈیاں تھیں) بیٹا جنا اور اس کا نام ’’ بن عمی‘‘ رکھا گیا جس سے بنی عمون کی قوم مشہور ہوئی حال کا عمان ہمارے نزدیک اسی نام سے علاقہ رکھتا ہے۔ رابعاً عوص اور خامساً حول، ارم کے بیٹے تھے۔ ہم ان دونوں کا بیان بالاشتراک کریں گے ان کے آثار بھی آج تک ان مقامات کے ناموں میں پائے جاتے ہیں جو خلیج فارس کے کنارے پر یا قرب و جوار کے میدانوں میں واقع ہیں مثلاً عول اور حول ایک ہی نام ہیں رورنڈ مسٹر فارسٹر نے عول کے اشتقاق میں بھی مغالطہ کیا ہے، کیوں کہ ان کا بیان ہے کہ یہ لفظ حویلاہ نام کی ایک مختلف شکل ہے۔ قوم عاد اولیٰ عاد اولیٰ پسر ’’ عوص‘‘ نے بہت شہرت حاصل کی اور اس کی اولاد ایک نامی قوم ہو گئی اور تمام مشرقی اور جنوبی عرب کی مالک بن گئی انہوں نے عالیشان مکان بھی بنائے اور اور قوموں پر تحکم بھی حاصل کیا اس قوم کے آدمی اپنی جسامت اور قوت اور شان میں اور قوموں پر فوق لے گئے تھے جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے: عرب کے جنوب اور مشرق کے باشندے بہ نسبت اور لوگوں کے تنومند اور قد آور ہوتے تھے ان کی نسبت مسٹر رورنڈ فارسٹر نے ولسٹڈ صاحب کے سفر نامہ ملک عرب سے یہ بیان نقل کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ میں نے حجاز کے عربوں اور ان عربوں کی وضع جسمانی میں جو خلیج فارس کے کنارہ جانب غرب پر آباد ہیں ایک بڑا فرق مشاہدہ کیا ہے اعراب سکنائے ساحل خلیج کا حلیہ یہ ہے کہ ان کے چہرے قریب قریب بیضوی کے ہیں کے بال عموماً سیاہ بالکل منڈے ہوئے ہوتے ہیں بھنویں بھی سیاہ ہیں اور کھال چمکتی ہوئی ہے اور ہندوستان کے باشندوں کی نسبت ان کا رنگ کسی قدر کھلا ہوا ہے سواحل بحر احمر کے قرب کے باشندے لاغر اندام اور پستہ قد ہوتے ہیں مگر قوی ہیں چہرہ کسی قدر لمبا رخسارے بے گوشت کے اور سر کے بالوں کو دو لمبی زلفوں کے سوا جو دونوں طرف ہوتی ہیں اور جن کی وہ نہایت درجہ خبر داری کرتے ہیں اس قدر بڑھاتے جاتے ہیں کہ کمر تک آ جاتی ہیں ان کا رنگ کسی قدر کھلا ہوا ہوتا ہے۔‘‘ ’’ بیسپی‘‘ سے چار پانچ منزل جنوب اور مشرق کی جانب سرما کے موسم میں اعراب ’’ دواسر‘‘ رہتے ہیں اور گرمیوں کے موسم میں نجد کے سرسبز چراگاہوں میں چلے جاتے ہیں جس کی سبب سے قریب قریب سرحد صرف آٹھ منزل ہے۔ یہ لوگ گھوڑے نہیں رکھتے مگر لڑائی میں وھابیوں کی کمک کے لیے تین ہزار شتر سوار بھیجتے ہیں اعراب ’’ دواسر‘‘ طویل القامت اور قریب قریب سیہ فام ہوتے ہیں (سفر نامہ ملک عرب ضمیمہ جلد2صفحہ385) مگر یہ عجیب اختلاف درازی اور رنگ میں گرد و نواح کی قوموں سے کچھ اعراب ’’ دواسر‘‘ ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے خلیج فارس کے عربوں میں بھی یہی بات پائی جاتی ہے اور ان اطراف میں بھی جہاں کے علماء کے نزدیک شہر سبا آباد تھا کرنیل چسنی کا بیان ہے کہ خلیج فارس کے عرب خوش ہیئت ہوتے ہیں اور طویل القامت اور سیہ فام ہونے میں مشہور ہیں اور ان دونوں باتوں میں اقوام خلیج عرب سے بہ درجہا اختلاف رکھتے ہیں (فارسٹر صاحب کا تاریخی جغرافیہ عرب صفحہ 31) مگر رورنڈ مسٹر فارسٹر نے اس بات کے خیال کرنے میں کہ صرف بنی کوش ہی طویل القامت تھے غلطی کی ہے کیوں کہ تمام قومیں جو خلیج فارس کے کنارہ پر رہتی تھیں اور جن کو ہم نے عرب البائدہ کے ذیل میں بیان کیا ہے نہایت بلند قامت تھیں زمانہ حال تک بھی خلیج فارس پر ہم دو قسم کے آدمی پاتے ہیں جو درازی قد میں برابر ہیں مگر رنگ میں مختلف ہیں ایک تو سیاہ رنگ کے ہیں اور دوسرے ذرا اجلے رنگ کے ہیں۔ رورنڈ مسٹر فارسٹر کتاب اشعیاہ بنی کی باب45ورس14 کی عبارت کا حوالہ دیتے ہیں جس میں لکھا ہے کہ ’’ خداوند چنیں می فرما ید کہ معمول مصر و تجارت حبش و اھل سبا کہ مردمان بلند قد اندبتو عبور نمودہ از آن تو خواھند بود‘‘ اور اس بات کو کہ بنی کوش سب دراز قد تھے اسی ورس پر مبنی کرتے ہیں مگر صاحب موصوف نے اس میں دو وجہ سے غلطی کی ہے اول اس وجہ سے کہ جملہ ’’ مردمان بلند قد‘‘ سے خواہ نہ خواہ یہ مراد لینی کہ وہ لوگ طویل القامت تھے محض غلط ہے بلکہ ان لفظوں سے یہ مراد ہے کہ وہ لوگ معزز اور اشراف تھے چناں چہ عربی ترجمہ جو اشعیاہ بنی کی کتاب کا ہے اس میں یہی معنی لئے گئے ہیں اور اس کی عبارت یہ ہے ’’ ھذہ یقولہا العرب تعب مصر و تجارت الحبش و سبایم رجال اشراف یبرون الیک‘‘ دوم اس وجہ سے کہ باشندگان سبا متذکرہ عبارت مذکورہ کا کوش کی اولاد میں ہونا ضرور نہیں ہے کیوں کہ کتب مقدمہ میں بنی سبا کا اطلاق اور قوموں پر بھی ہوا ہے مثلاً بنی سبا جن کا ذکر کتاب ایوب باب1ورس15میں آیا ہے اور جو دریائے فرات کے بنی سبا سے ہر طرح مشابہت رکھتے ہیں اور بہ لحاظ اپنے آبائی نام کے ھجوں کے قاعدہ کے موافق سبا پسر کلاں کوش کی اولاد نہیں ہے بلکہ ان تین سباؤں میں سے کسی نہ کسی کی اولاد بیان کئے گئے ہیں جن کو حضرت موسیٰ نے من جملہ ان سو خیلوں کے بیان کیا ہے جنہوں نے ملک عرب کو یکے بعد دیگرے آبادکیا تھا۔ عاد کے پیغمبر حضرت ھود اس قوم کی ہدایت کے لیے خدا تعالیٰ نے ایک نبی جن کا نام ھود تھا اور جن کا لقب سفر تکوین باب11ورس14میں عیبر آیا ہے مبعوث کیا تاکہ خدائے برحق کی عبارت کی ترویج اور بتوں کی پرستش کا استیصال کریں لیکن جب ان لوگوں نے ان کے احکام اور ہدایت سے سرتابی کی تو خدا تعالیٰ کا قہر جوش میں آیا اور تین برس کا قحط ان پر پڑا اس کا نتیجہ یہ ہوا۔ کہ لوگ اس بات سے آگاہ ہو گئے کہ خدا کے پیغمبر کے احکام سے سرتابی کی یہ سزا ہے اس پریشانی کی حالت میں حضرت ھود پھر تشریف لائے اور بت پرستی ترک کرنے اور خدائے واحد کی عبادت کرنے کی از سر نو ہدایت کی اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر تم ایسا کرو گے تو خدائے رحیم باران رحمت نازل کرے گا۔ مگر وہ اپنی گمراہی پر ثابت قدم رہے پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک سخت طوفان آندھی کا جو اس کے قہر کی نشانی تھی نازل کیا یہ طوفان آندھی کا سات رات اور آٹھ دن تک تمام اس ملک میں ایسے زور شور سے جاری رہا کہ ہزارہا آدمی ہلاک ہو گئے اور تمام قوم کا باستشنائے ان چند اشخاص کے جنہوں نے حضرت ھود کا کہنا مان لیا تھا قریباً قریباً استیصال کلی ہو گیا اور جو لوگ بچے آخر کو حضرت ھود پر ایمان لے آئے یہ واقعہ سنہ دنیوی کی اٹھارھویں صدی یا بائیسویں صدی قبل حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے واقعہ ہوا تھا۔ جھوٹے قصے جو قوم عاد کی طرف منسوب ہیں بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ قوم عاد کے ہر شخص کا قد بارہ ارش لمبا تھا یعنی اس زمانہ کے جو لوگ ہیں اگر اپنے دونوں ہاتھوں کو سیدھا پھیلا دیں تو ان کی لمبائی سے بارہ گنا زیادہ لمبا قد قوم عاد کا تھا بعض کتابوں میں ان کے قد کے لمبان کا اس سے بھی زیادہ مبالغہ کیا گیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی قوت کا یہ حال تھا کہ چلنے میں ان کے پاؤں زانو تک زمین میں دھنس جاتے تھے۔ انہوں نے جو اس ریگستان میں کوئی محل بنایا تھا اس کی نسبت بھی بہت زیادہ مبالغہ کیا گیا ہے اور عاد ثانی کی اولاد کے قصہ کو اس قوم کے ساتھ جو عاد اولیٰ کی قوم ہے خلط ملط کر کے اس خیالی باغ کو جس کا نام ایشیائی مورخوں نے ’’ ارم‘‘ قرار دیا ہے، اسی قوم کی طرف منسوب کیا ہے اور کہا ہے کہ اس محل اور باغ کی زمین میں لعل اور یاقوت بچھے ہوئے تھے اور اس کی دیواریں سونے اور چاندی کی تھیں اور درخت زمرد اور یاقوت اور نیلم اور ہر قسم کے بیش بہا جواھروں سے بنائے گئے تھے اور زعفران بجائے گھاس اور عنبر بجائے مٹی کے تھا۔ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ معاویہ ابن ابی سفیان کے زمانہ خلافت میں ایک شخص اپنا اونٹ ڈھونڈھتا ہوا وہاں چلا گیا اور بے شمار جواھرات وہاں سے رول کر اپنی جھولی میں بھر لایا اور جب معاویہ ابن ابی سفیان نے اس جگہ دوبارہ جانے اور اس جگہ کے تلاش کرنے کا حکم دیا تو بہت سی تلاش کرنے کے بعد بھی وہ جگہ پھر نہ ملی خلیفہ نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے اس کو انسان کی آنکھوں سے پوشیدہ کر لیا ہے۔ بعض کتابوں میں حضرت علی مرتضیٰ کی نسبت اور اور بعض معتبر اشخاص کی نسبت ایک جھوٹا اتہام کیا ہے اور لکھا ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی کہ خدا تعالیٰ نے اس باغ اور محل کو جو قوم عاد نے تعمیر کیا تھا دنیا سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا ہے اور قیامت کے دن وہ بھی من جملہ اور آسمانی بہشتوں کے ایک بہشت ہو گی۔ عاد اولیٰ کی قوم کی بنائی ہوئی عمارات کے باب میں جو کچھ لکھا ہے وہ صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ اس قوم نے کوئی عمارت قابل شہرت نہیں بنائی تھی ان کی عمارتیں مثل اور معمولی عمارتوں کے بڑی اور چھوٹی ہر قسم کی تھیں۔ بہت سے مصنفوں اور مورخوں نے جو تمام عاد اولیٰ کی طرف عمارات عالی شان بنانا منسوب کرنے میں غلطی کی ہے اس کی وجہ ظاہراً یہ معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کی اس آیت کے جو ذیل میں مندرج ہے، معنی سمجھنے میں غلطی کی ہے اور وہ آیت یہ ہے: ’’ الم ترکیف فعل ربک بعاد ارم ذات العباد التی لم یخلق مثلھا فی البلاد‘‘ یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا کہ کس طرح پر کیا، تیرے پروردگار نے، قوم عاد کے ساتھ جو ’’ ارم ‘‘ کی اولاد تھے اور ایسے قد آور تھے کہ ان کی مانند شہروں میں پیدا نہیں کیے گئے تھے۔ لفظ ’’ ذات عماد‘‘ سے جو ان کا قد آور ہونا مراد لیا گیا ہے اس کا ثبوت دوسری آیت سے ہوتا ہے، جو ذیل میں لکھی جاتی ہے اور جس میں ان کے مردہ پڑے ہوئے جسموں کو درختوں کے اکھڑے ہوئے تنوں سے مشابہت دی ہے اور وہ آیت یہ ہے۔ واما عادفا ھلکوا بریح صرصرعاتیۃ سخرھا علیہم سبع لیال و ثمانیۃ ایام حسوما فتری القوم فیھا صرعیٰ کانھم اعجاز نخل خاویۃ تفسیر جلالین اور تفسیر بیضاوی کی مندرجہ ذیل عبارتوں سے دو امر کا بہ خوبی ثابت ہوتا ہے ایک یہ کہ ’’ ارم‘‘ سے مراد ’’ بنی ارم‘‘ ہے اور ’’ ارم‘‘ عاد کا دادا تھا، جس طرح کہ بنی ہاشم اپنے دادا ہاشم کے نام سے مشہور ہیں اسی طرح قوم عاد اپنے دادا ارم کے نام سے مشہور تھی اور عاد ارم کہلاتی تھی دوسرے یہ کہ لفظ ’’ ذات العماد‘‘ سے ان کا دراز قد اور قوی ہونا مراد ہے جس طرح کہ بعض ملکوں کے لوگ دراز قد اور قوی ہوتے ہیں کوئی خاص عجیب بات ان میں نہیں تھی چناں چہ تفسیر جلالین اور تفسیر بیضاوی میں اس طرح پر لکھا ہے۔ ’’ الم تر‘‘ تعلیم یا محمد’’ کیف فعل ربک بعاد ارم‘‘ ھی عماد الاولیٰ فارم عطف بیان اور بدل منع الصرف للعلمیۃ والتانیث ’’ ذات العماد‘‘ ای الطوال۔۔۔ ’’ التی لم یخلق مثلھا فی البلاد‘‘ فی بطشھم و قوت ھم ’’ جلالین‘‘ ’’ الم تر کے فعل ربک بعاد‘‘ یعنی اولاد عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح قوم ھود سموا باسم ابیھم کما سمی بنو ھاشم باسمہ ’’ ارم ‘‘ عطف بیان لعاد علیٰ تقد یر مضاف ای سبط ارم ’’ ذات العماد‘‘ ای ذات البناء الرفیع القدر والطوال والرفعۃ والثبات’’ بیضاوی‘‘ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا یہ دستور ہے کہ اس قسم کے پرانے قصوں کو ایک مذہبی قصہ بنا لیتے ہیں اور اس میں عجیب و غریب باتیں ملا کر اس کو تعجب انگیز اور حیرت خیز کر لیتے ہیں جس طرح کہ ملٹن شاعر نے اپنی کتاب پیریڈائز لاسٹ کو ایک عجیب قسم کا مذہبی قصہ بنا لیا ہے اسی طرح زمانہ جاہلیت کے عربوں نے بھی قوم عاد کا ایک قصہ گھڑ لیا ہے جس میں بیان کیا ہے کہ قحط کے دنوں میں قوم عاد نے تین شخص مکہ میں اس غرض سے بھیجے تھے کہ خدائے تعالیٰ سے مینہ برسنے کی دعا مانگیں ان تینوں میں سے ایک کا نام لقمان تھا وہ تو مسلمان تھا اور باقی دو کافر تھے لقمان کی عمر سات گدوں کی عمروں کے مجموعہ کے برابر تھی اور اسی سبب سے لقمان بڑی عمر ہونے میں ضرب المثل ہو گیا ہے عام لوگوں کا خیال ہے کہ گد کی عمر ہزار برس کی ہوتی ہے اور اس لیے لقمان کی عمر اس وقت سات ہزار برس کی تھی اسی قسم کے اور بہت سے لغو اور بیہودہ قصے عاد کی قوم کی نسبت جاہلوں نے بنا لیے ہیں جن پر اہل علم کو متوجہ ہونا یا مذہبی اعتراضات کی بنا ان قصوں کو قرار دینا نہایت لغو اور بیہودہ بات ہے۔ سادساً جدیس، سابعاً، نمود جس کو عاد ثانی کہتے ہیں یہ دونوں گثر پسر ’’ ارم‘‘ بن سام بن نوح کی اولاد تھے، جن کا بیان ہم ایک ساتھ کرتے ہیں۔ جدیس کا حال بجز اس کے اور کچھ نہیں معلوم ہوا کہ بیابان میں آباد ہوا تھا اور اس کی اولاد بعد انقضائے عرصہ دراز کے مثل دیگر اقوام صحرائی کے معدوم ہو گئی۔ قوم ثمود یا عاد ثانی اولاد ثمود نے بہت بڑا نام پیداکیا اور جلد ایک زبردست قوم ہو گئی اور اس حصہ ملک پر جو ’’ الحجر‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور اس میدنا پر جو وادی القرے کہلاتا ہے اور جو ملک شام کی جنوبی اور عرب کی شمالی حد بناتا ہے، قبضہ کر لیا ہے قرآن مجید میں اس قوم کا بھی چند جگہ ذکر آیا ہے انہوں نے پہاڑیوں کو کھود کر ان کے اندر گھر بنائے تھے اور نقش و نگار سے مرتب کیے تھے جو اثالیب کے نام سے مشہور ہیں عرب کے لوگ اور چند غیر قوم کے لوگ جنہوں نے عرب میں سفر کیا ہے ان پہاڑی گھروں کی جو پرانے زمانے کی باتوں کی تلاش کرنے والوں کو تشفی دیتے ہیں اور ان قوموں کے حالات جنہوں نے ان کو بنایا ہے بتلانے کو موجود ہیں شہادت دے سکتے ہیں اسی طرح ان پہاڑی گھروں سے قوم ثمود کی تاریخ کے اس حصہ کی جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہے بہ خوبی صداقت پائی جاتی ہے۔ حضرت صالح پیغمبر کچھ زمانہ کے بعد یہ قوم بھی بت پرستی کی طرف مائل ہوئی اس واسطے ان کی فہمائش و ہدایت کے واسطے خدا تعالیٰ نے حضرت صالح بن عبید بن اسف بن ماشج بن عبید بن جادر بن نمود کو مبعوث کیا بعض لوگ ان پر ایمان لائے اور بہنوں نے ان کا یقین نہیں کیا ان لوگوں نے حضرت صالح سے کہا اگر تو سچا ہے تو کوئی نشانی بتلا! حضرت صالح نے جواب دیا کہ اے میری قوم یہ خدا کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی ہے اس کو چھوٹا پھرنے دو تاکہ خدا کی زمین پر چرتی پھرے اور اس کو کچھ ایذا مت پہنچاؤ! مبادا تم پر اس کے عوض عذاب نازل ہو۔ اس فہمائش کے سبب کچھ عرصے تک ان لوگوں نے اونٹںی کو پھرنے دیا اور کچھ ایذا نہیں پہنچائی۔ کچھ عرصے کے بعد وہاں قحط واقع ہوا اور اس خشک سالی میں پانی کا بھی قحط ہو گیا پانی نہیں ملتا تھا اور جہاں کہیں تھوڑا سا بھی پانی ہوتا تھا تو اونٹنی اپنی طبعی خاصیت سے جو خدا نے اونٹ میں پیدا کی ہے پانی کو تلاش کر لیتی تھی اور پی لیتی تھی یا خراب کر دیتی تھی اور لوگ اس کو روک نہ سکتے تھے حضرت صالح نے کہا کہ ایک دن اونٹنی کو پانی پی لینے دیا کرو اور کوئی اس کا مزاحم نہ ہو اور دوسرے دن تم لوگ پانی پی لیا کرو اور اونٹنی کو وہاں نہ جانے دیا کرو قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد مختلف نو فرقوں کے سرداروں نے جو اس زمانے کے کافروں کے فرقے تھے حضرت صالح کو مار ڈالنے کا منصوبہ کیا مگر جب وہ اپنے اس بد منصوبہ پر کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے غصے میں آ کر اس اونٹنی کو مار ڈالا۔ اس وقت حضرت صالح نے ان سے کہا کہ تین دن تک تم اپنے مکانوں میں چین کر لو۔ بعد اس کے تم ہلاک ہو گے خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ جب ہمارے حکم کی تعمیل ہونے کو ہوئی تو ہم نے صالح کو اور ان لوگوں کو جو ان پر ایمان لائے تھے یہ سبب اپنے رحم کے اس روز کی ذلت سے بچا لیا۔ آفت جو ان پر آئی تھی وہ یہ تھی کہ آسمان سے ایک خوف ناک آواز آئی جو غالباً رعد اور زلزلوں کی وہ لوگ اپنے مکانوں میں مردہ اور سرنگوں پڑے ہوئے ملے گویا کہ ان مکانوں میں رہتے ہی نہ تھے یہ واقعہ اسی زمانے میں واقع ہوا تھا جب کہ سدوم اور کمارہ اور ادماب اور زھائین شہر آسمانی آگ سے جلائے گئے تھے یعنی 2107دنیوی یا 1897 قبل حضرت مسیح کے۔ جھوٹی روایتیں جو قوم ثمود کی نسبت مشہور ہیں مفسرین اور مورخین کا بیان ہے کہ جو کفار نے حضرت صالح سے ان کی رسالت کے ثبوت میں اس معجزہ کی درخواست کی تھی کہ اگر اس پہاڑی میں سے ایک اونٹنی پیدا ہو اور بہ مجرد پیدا ہونے کے ایک سرخ بالوں کا بچہ جنے اور وہ بچہ اسی وقت ہمارے سامنے بڑی اونٹنی کے برابر ہو کر چرنا پھرے اور ہم اس اونٹنی کا دودھ پئیں تب ہم ایمان لاویں گے۔ یہ روایت محض ساختہ اور مصنوعی ہے اس روایت کے موضوع کہنے سے اس وقت ہمارا یہ منشا نہیں ہے کہ ہم امکان معجزہ سے انکار کریں اور اس پر بحث شروع کریں بلکہ ہم اس وقت صرف سادی طرح سے اس روایت کو اس لیے موضوع کہتے ہیں کہا س کی صحت پر کوئی سند نہیں ہے اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو ایسے عجیب واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں ضرور ہوتا یا کسی مستند حدیث سے اس کا ثبوت پایا جاتا۔ اسی طرح یہ بھی مصنوعی بات ہے کہ اس اونٹنی سے انسان اور حیوان دونوں ڈرتے تھے اور وہ اونٹنی قوم ثمود کے تمام چشموں اور حوضوں کا پانی ایک گھوٹ میں پی کر سب کو سکھا دیتی تھی کیوں کہ وہ ایسا ملک تھا جہاں کثرت سے پانی میسر ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی طرح یہ ایک لغو روایت ہے کہ اگرچہ قوم ثمود کو بتلا دیا گیا تھا کہ اونٹنی کا قتل کرنا ان کی ہلاکت کا باعث ہو گا، لیکن حضرت صالح نے ان سے یہ بھی پشین گوئی کی تھی کہ تمہاری قوم کاایک لڑکا جس کا حلیہ ایسا ایسا ہو گا اس اونٹنی کو مار ڈالے گا اور اس طرح پر تمہاری ساری قوم پر تباہی اور بربادی اوے گی۔ اس تباہی سے بچنے کے لیے جس کی پشین گوئی حضرت صالح نے کی تھی لڑکوں کو مار ڈالنا شروع کیا، جو لڑکا پیدا ہوتا تھا اور اس میں اس نشانی کا شبہ ہوتا تھا جو حضرت صالح نے بتلائی تھی اس لڑکے کو مار ڈالتے تھے مگر وہ لڑکا جس کے ہاتھ سے اس قوم کا برباد ہونا مقدر میں تھا کسی نہ کسی طور سے بچ گیا اور مارا نہیں گیا۔ جب کہ وہ جوان ہوا تو آخر کار اس نے اس اونٹنی کو مار ڈالا۔ اسی طرح حضرت صالح کے مخالفوں کے مارے جانے کی نسبت ایک بیہودہ روایت آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت صالح کے مخالفوں نے جب ان کے قتل کا ارادہ کیا تو وہ ان پہاڑوں کی گھاٹیوں میں گئے جہاں حضرت صالح آیا جایا کرتے تھے، اس غرض سے کہ کوئی عمدہ کمین گاہ تلاش کر کے اختیار کریں۔ خدا تعالیٰ نے ایک پہاڑ کو زمین پر سے بہت اونچا اٹھا لیا او رجہاں سے وہ پہاڑ اٹھا تھا وہاں ایک غار ہو گیا حضرت صالح کے مخالفوں نے اس غار کو اپنی کمین گاہ کے لیے پسند کیا اور جب کہ وہ اس غار کے اندر جا کر چھپے تو خدا تعالیٰ نے اوپر سے ان کے سروں پر اس پہاڑ کو چھوڑ دیا اور سب کے سب ایک لمحہ میں کچل کر مر گئے۔ اگرچہ ہم نے اس مقام پر عرب البایدہ کا حال کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے مگر ان کا ایک شجرہ بھی اس مقام پر لکھتے ہیں، جس سے تمام بیانات کے سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ ٭٭٭٭٭٭ دوم عرب العاربہ یعنی ٹھیٹ عرب عرب العاربہ یقطان بن عیبر بن شالح بن ارفخشد بن شام بن نوح کی اولاد میں ہیں بعض مورخوں کا یہ قول ہے کہ عرب البایدہ اور عرب العاربہ دونوں یقطان کی اولاد ہیں اور اس لیے عربوں کو وہ بجائے تین قوموں کے صرف دو قوموں پر منقسم کرتے ہیں یعنی عرب العاربہ اور عرب المستعربہ۔ قریباً تمام مورخوں کی رائے ہے کہ کتب خمسہ موسیٰ میں جو یقطان نام آیا ہے وہی ایک نام ہے جس کو عرب قحطان کہتے ہیں اور یونانی انجیلوں میں اس کو ’’ جوقطان‘‘ کر کے لکھا ہے اور اسی شخص کی اولاد عرب میں آباد ہوئی ہے۔ رورنڈ مسٹر فارسٹر نے نہایت عجیب اور مستحکم دلیلوں سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ان تینوں مذکورہ بالا ناموں سے ایک ہی شخص مراد ہے اور یہ کہ یہی شخص یقطان عرب میں آباد ہوا تھا، چناں چہ وہ اپنی کتاب جغرافیہ عرب میں ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ ’’ کتاب بطلیموس میں بی ہم یقطان کا نام اور علانیہ قوم بنی یقطان کو پاتے ہیں جو عربوں کے قحطان اور انجیل کے جو قطان کے بالکل مشابہ تھے ‘‘ (صفحہ80) ایک اور مقام پر وہ لکھتے ہیں کہ ’’ اس قومی روایت کا قدیم اور عام ہونا جو عربوں کے قحطان کو انجیل کے جو قطان سے مشابہ کرتے ہیں، ہر ایک پڑھنے والے پر روشن ہے ‘‘ (صفحہ88) ایک اور مقام پر انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ یہ امر کہ قحطان ایک خاندانی نام کی صرف مختلف شکلیں ہیں خود عرب ہی ہمیشہ سے بیان کرتے آئے ہیں اور ان کی عادت سے بھی جس سے وہ حرفوں کو تبدیل کر لینے میں (یعنی معرب کر لینے میں) نہایت درجہ میلان رکھتے ہیں، یہ نتیجہ قرار واقعی نکل سکتا ہے ‘‘ (صفحہ88) ایک اور مقام پر یہ لکھا ہے کہ ’’ قدیمی قوم سبا کے دار السلطنت مشہور بہ مارب میں اعراب یقطان سے جس کی مشابہت توریت کے یقطان کے ساتھ ہے یقطانی نام حویلاہ کے وقوع سے از سر نو ثابت اور مسلم ہو گئی ہے ‘‘ (صفحہ90) رورنڈ فارسٹر نے مسعودی کے اس قوم پر کہ بنی سعد اور بنی قحطان بہت قدیم زمانہ سے عرب کی قوموں میں مشہور چلے آتے ہیں یہ لکھا ہے کہ ’’ تاریخ عرب قوم عظیم قحطان کی قدامت کے باب میں آواز دے رہی ہے اور یہ ایک ایسی آواز ہے کہ ایک طرف قدیمی عام قومی روایت اس کی تائید کرتی ہے اور دوسری طرف شاید اس سے بھی زیادہ مضبوط شہادت متوسط اور جنوبی عرب کے موجودہ مقاموں اور آبادیوں کے ناموں سے اس کی حامی ہے‘‘ (صفحہ79) بہر حال امر مذکورہ سے نہ تو مشہور اور معروف سیاح مسٹر برق ھردط1؎ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کا بیان ہے کہ اسی 1اس کتاب کے پڑھنے والے الفاظ ’’ رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘‘ کو دیکھ کر جو مسٹر برق ھردط کے نام کے بعد لائے گئے ہیں بلا شک متحیر ہوں گے اور اس حیرت کے رفع کرنے کے واسطے میری دانست میں اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہے کہ نہایت ذی فہم و ذی علم گاڈ فری ہیگنس صاحب کی کتاب کی کسی قدر عبارت کا ترجمہ اس جگہ لکھ دیا جاوے۔’’ مشہور و معروف سیاح برق ھردط جس نے دار العلوم کیمبرج میں تعلیم پائی تھی، ایک نہایت پر غور تحقیق کے بعد اور خوب سوچ کر مسلمان ہو گیا اور اپنے عیسائی دوستوں کے مجمع میں بحالت اسلام انتقال کیا معلوم ہوتا ہے کہ اس کو مسائل دین اسلام کی تلقین بہ مقام حلب ایک آفندی نے کی تھی اور اسی نے اس کو مسلمان کیا اور اس نے وہاں علانیہ اسلام کا اقرار کیا اور جب کہ بہ نیت حج روانہ ہوا تو مکہ کے قریب اپنے مذہب اور مسائل اسلام کی واقفیت میں اس کو سخت امتحان دینا پڑا جس کے باعث وہ ہمیشہ حاجی کے لقب کا دعویٰ کرتا رہا اس کی نومسلمی سچی اور صاف باطن معلوم ہوتی ہے ، اگرچہ میں خیال کرتا ہوں کہ اس کے عیسائی دوستوں سے علی العموم پوشیدہ تھی۔‘‘ میں اس بات کے بیان کرنے سے نہایت خوش ہوں کہ میں ایک شریف آدمی سے جو بالفعل مئی 1829ء سے برٹش گورنمنٹ میں ایک معزز عہدہ پر مامور ہے، واقفیت رکھتاہوں مگر اس کا نام ظاہر کرنے کا میں مجاز نہیں ہوں ان صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مسٹر برق ھردط کے انتقال سے تھوڑے عرصہ پہلے میں وہاں موجود تھا اور مسٹر برق ھردط نے مجھے نہایت سنجیدگی کے ساتھ یقین دلایا کہ میں یقطان کی اولاد عرب میں آباد ہوئی تھی اور نہ سر ولیم میور انکار کرتے ہیں در حقیقت مسلمان ہوں اور اسی حالت میں مرنے کی آرزو ہے اس کا گمنام سوانح عمری لکھنے والا اپنی کتاب میں جو بعد اس کے مشہت ہوئی اس کی موت کا حال بیان کرتا ہے مگر اس کے مذہب کے بارے میں کوئی لفظ منہ سے نکالنے سے احتیاطاً پرہیز کرتا ہے غالباً اس کو معلوم ہو گا کہ اگر حق بات زبان سے نکلی تو پادریوں کے بدنام اور رسوا کرنے کی وجہ سے میری کتابوں کے فروخت میں ہرج واقع ہو گا لیکن ایک فقرہ جو میرے بیان کی تائید کے واسطے کافی ہے، اس کی زبان سے نکل گیا ہے وہ اسی شب کو پونے بارہ بجے بغیر افسوس اور واویلا کرنے کے مر گیا تجہیز و تکفین اس کی وصیت کے موافق بر طریق اسلام کی گئی اور اس معزز رتبہ کا جو وہ دیسی لوگوں کی آنکھوں میں رکھتا تھا کماحقہ لحاظ کیا گیا اگر وہ فی الحقیقت مسلمان تھا تو ضرور اس نے مسلمانوں کی شرع کے موافق تجہیز و تکفین ی استدعا کی ہو گی اور یقینا اگر عیسائی اس کی وصیت پر لحاظ نہ کرتے تو حکام بہ مجبوری ان سے کراتے یہ بعید از قیاس ہے کہ وہ عیسائیوں کا مسلمانوں کو ایک ایسے نو مسلم کے شرف سے محروم رکھنا گوارا کرتے مگر یہ ظاہر ہے کہ انہوں نے اس کو بلا تکلف قنصل انگریزی کی نگرانی میں اور اس کے ہم وطنوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا جن کو کہ پورا پورا موقع اس کی تجدید مذہب کے واسطے اپنی لیاقتیں صرف کرنے کا ملا تھا معلوم ہوتا ہے کہ مذہب اسلام کی بلا وجہ تقلید و تائید کرنے میں اس کو کوئی غرض مضنون نہ تھی بلکہ بر خلاف اس کے ان عیسائیوں سے جن کی طرف سے وہ مامور تھا اور جن کی وجہ سے اس کا گذارہ ہوتا تھا اس کو محفی رکھنا ضروری سمجھتا تھا۔ اگر اس کی سوانح عمری لکھنے والے کا اعتبار کیا جاوے تو وہ اعلیٰ اصول اور بہترین چال و چلن کا آدمی معلوم ہوتا ہے من جملہ اور پسندیدہ کیفیتوں کے جو اس مرتد کافر کی بابت جس طرح کہ اس کو عیسائی لوگ کہیں گے، مرقوم ہوئی ہیں ایک یہ بھی ہے کہ اس نے اپنی موروثی جائیداد قیمتی دس ہزار روپے کو اپنی ماں کے نان و نفقہ کے واسطے دے کر اپنے آپ کو محض مفلس و قلانچ بنا دیا تھا۔ (ہیگنس اپالوجی صفحہ106 مطبوعہ لنڈن 1829ئ) (سید احمد) یقطان کی اولاد کے آباد ہونے کی جگہ کی نسبت توریت میں یہ لکھا ہے کہ ’’ ان کی آبادی میشا سے لے کر جہاں تک کہ تو سفارتک جو مشرق میں ایک پہاڑی ہے، چلا جاوے، تو وہاں تک تھی‘‘ مسٹر برق ھردط کے نزدیک میشا اور ’’ موزہ‘‘ جو یقطانی قوم سبا کا خلیج عرب کے دھانہ کے نزدیک ایک بندرگاہ تھا، ایک ہی مقام ہے اور سفار سے جبلی یعنی پہاڑی حصہ یمن کا جہاں کہ بہ قول بطلیموس شہر سفار اور قوم سفار یہ آباد تھی مراد ہے، لیکن رورنڈ فارسٹر اس مقام کو جس کو مسٹر برق ھردط صاحب نے بیان کیا ہے اور جو وسعت میں قریب ڈیڑھ سو میل کے ہے، ایک نہایت کثیر قدیمی خاندان کی حدود کے ایک نہایت معتدلانہ معقول اندازہ کے واسطے محض غیر مکتفی خیال کرتے ہیں اور نہایت ضعیف دلائل سے ان کو نجد کے پہاڑوں تک پھیلا دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ مقدس کاتب توریت نے یقطان کی اولاد کی آبادی کی کچھ حد مقرر نہیں کی ہے بلکہ وہ سمت بتلائی ہے جہاں وہ جا کر آباد ہوئی تھی۔ یقطان کے تیرہ بیٹے پیدا ہوئے۔ الموداد، شلف، حضر ماؤث، یرح، ھدورام، اوزال، دقلائ، عوبال، ابیمائیل، شبا، اوفر، حویلاہ، بوبا، تمام قوم عرب العاربہ کی مع اپنی مختلف شاخوں اور شعبوں کے اشخاص مذکورہ بالا کی اولاد میں ہیں، جیسا کہ ہم آگے بیان کریں گے۔ الموداد اس شخص کا خاندان یمن یا عرب المعمور میں اور اس ضلع میں جو بحرین تک چلا گیا ہے، آباد ہوا اور اس المودائی سے مطابقت رکھتا ہے، جس کو بطلیموس نے یمن کی درمیانی قوم لکھا ہے۔ شلف یہ شخص کوہ ذامس کے مغربی حصہ میں یا اس وسیع میدان میں جو کاظم اور مدینہ کے مابین واقع ہے، آباد ہوا یہ قوم بطلیموس کی بیان ہوئی سالفی قوموں سے مابقت رکھتی ہے عربوں میں یہ قوم بنام بنی سالف مشہور ہے، جو عبرانی نام شلف کی یونانی شکل ہے۔ حضرت ماؤث اس قوم نے اپنی سکونت کے واسطے وہ زرخیز قطعہ جو خلیج عرب کے برابر برابر پھیلا ہوا ہے اور جو اس قوم کے نام (حضر موت) سے آج تک مشہور ہے، اختیار کیا اس قوم کے لوگ یونانی اور رومیوں کے ہاں اپنی وسیع تجارت اور فن جہاز رانی اور لڑائی میں جرأت اور بہادری کے لیے مشہور تھے۔ ھدورام یرح کا حال یہاں چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ ہم اس کو اخیر پر ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کرنا چاہتے ہیں ھدورام کی اولاد نے مشرق کی سمت اختیار کی اور اسی نواع میں آباد ہوئی قصبہ ھدرمہ اس قوم کی بہت سی یادگاروں میں سے موجود ہے ابو الفدا کا بیان ہے کہ صوبہ دار قرامطاب کی بنا اسی قوم سے ہوئی ہے۔ اوزال یہ خاندان اوزال میں جس کو اب صنعا کہتے ہیں اور جو سر سبز اور شاداب صوبہ یمن میں واقع ہے، آباد ہوا۔ (حزقیل باب27 ورس19) دقلاہ یہ قوم بھی یمن میں آباد ہوئی اور ذوالخلاعہ جو یمن کی ایک قوم ہے اور جس کا ذکر پوکاک صاحب نے کیا ہے اسی کی اولاد میں سے ہے۔ عوبال اس کا نشان عرب میں نہیں پایا جاتا مگر رورنڈ فارسٹر صاحب کا بیان ہے کہ یہ قوم افریقہ کو چلی گئی۔ ابیمائیل بہت سے آثار جو مختلف اشخاص نے بیان کیے ہیں اس قوم کے بنی سالف اور حجاز کے قرب و جوار میں متوطن ہونے کے شاہد ہیں۔ شبا اگرچہ یہ بھی جنوب کی جانب گیا اور یمن میں سکونت پذیر ہوا، مگر یہ وہ شبا نہیں ہے جس نے یمن میں خاندان شبا کی سلطنت قائم کی تھی اور شہر مارب اور شہر سبا کو بنایا تھا اکثر مورخ عرصہ دراز تک اس غلطی میں پڑے رہے کیوں کہ وہ دوسرا شبا عرف عبدالشمس تھا کہ جس نے سلطنت خاندان شبا قائم کی تھی اور شہر ہائے مارب اور سبا کو بنایا تھا اور جس کا ذکر ہم آگے کریں گے۔ اوفر یہ قوم صوبہ عمان میں سبا کے مشرق میں آباد ہوئی جہاں کہ شہر اوفر میں ان کے نشانات اب تک پائے جاتے ہیں (ملوک اول باب9ورس28) حویلاہ یہ شخص مارب کے ٹھیک شمال میں بسا تھا یوباب یہ بھی مارب کی جانب روانہ ہو کر اسی نواح میں آباد ہوا قوم جو بارثی جس کا بطلیموس نے ذکر کیا ہے اور جس کو عرب بنی جوبار کہتے ہیں اسی کی اولاد میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان قوموں کے مختلف شعبوں اور شاخوں نے جو عرب میں ایک ہی اصل سے پیدا ہوئی تھیں صرف دو وجہ سے علیحدہ علیحدہ نام حاصل کیے تھے یا توبہ ہیئت مجموعی اپنی بڑی قوت اور تعداد کی وجہ سے یا قوم کے کسی شخص کی شہرت اور کارہائے نمایاں کے باعث سے پس ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا اشخاص میں سے کسی نے کوئی کار نمایاں جس سے وہ اپنے لیے کوئی مخصوص نام اختیار کرنے کے مستحق ہوتے نہیں کیا اور اسی سبب سے شعبوں میں منقسم نہیں ہوئے مگر یرح کا حال ایسا نہیں ہے جس کا بیان ہم اب کسی قدر طوالت کے ساتھ کرتے ہیں۔ عرب کے جغرافیہ دان یقطان کے بے شمار لڑکوں میں سے صرف دو شخصوں کا ذکر کرتے ہیں یعنی یعرب اور جرھم کا چند مورخوں کی یہ رائے ہے کہ یعرب اور یرح سے ایک ہی شخص مراد ہے اور اگرچہ یہ قاعدہ ہے کہ ’’ ج‘‘ اور’’ ی‘‘ کا باہم تبادلہ ہو جاتا ہے مگر جرھم کے باب میں رائیں مختلف ہیں بعضے کچھ کہتے ہیں اور بعضے کچھ، مگر جمہور کی یہ رائے ہے کہ یعرب اور جرھم دونوں یرح کے بیٹے تھے اور اسٹریبو اور جارج سیل کی بھی یہی رائے ہے، لیکن ابو الفدا اپنی کتاب کے ایک مقام میں یعرب اور جرھم کو دو مختلف اشخاص بیان کرتا ہے اور دوسرے مقام پر جہاں کہ وہ مختلف اقوام عرب کے متفرق شعبوں کا ذکر کرتا ہے، تو جرھم کو تنہا مورث اعلیٰ تمام فرقوں کا بتلاتا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ یعرب اور جرھم سے ایک ہی شخص مراد ہے اور اولاد یعرب کی مختلف شاخیں اپنی جرھم میں شامل ہیں۔ مشرقی مورخوں نے اس اختلاف کو غیر منفصل چھوڑ دیا ہے مگر رورنڈ فارسٹر صاحب نے نہایت لیاقت سے ثابت کیا ہے کہ جرھم اور یعرب ایک ہی شخص تھے اور جس جگہ کہ انہوں نے اس نام کی چند قدیم و جدید مسلم شکلیں بیان کی ہیں اس جگہ بیان کیا ہے کہ ستر مترجموں نے اس نام کو جر لکھا ہے اور سینٹ جروم نے جیر اور حال کے عربوں نے جرح اور سرح اور شرح اور زہران لکھا ہے جیسا کہ آگے بیان ہو گا۔ ان فرضی مختلف ناموں کی مطابقت حسب قواعد تہجی بیان کر کے صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ ’’ علی العموم جو شہادت کہ خود عرب بھی اپنے جرھم کو جرھہ پسر یقطان کے ساتھ مطابقت کرنے میں زمانہ دراز سے دیتے آئے ہیں اس کی تصحیح و تصدیق کتاب بطلیموس میں غیر مبدل توریتی نام کے واقع ہونے سے ہو گئی ہے اور یہ ایک ایسی مثال ہے جس کا ہم کو بارھا حوالہ دینا پڑا ہے یعنی بطلیموس کے اس جملہ کا ’’ انسیولا جراچیوری‘‘ جس کا ترجمہ ہے جزیدہ بنی جرھہ جو اسی حصہ حجاز کے کنارہ کے پرے ایک جزیرہ ہے۔‘‘ جرھہ یا جرھم کی مطابقت تسلیم کر لینے میں ہمیں کچھ بھی کلام نہیں ہے اور عرب العاربہ کے شجرہ انساب میں ہم ان کو ایک شخص قرار دے کر یعنی یرح یا یعرب یا جرھہ یا جرھم ان کا شجرہ لکھیں گے۔ تاریخ عرب العاربہ میں اس شخص کی اولاد کا حال بہت مذکور ہے یہ اسی کی اولاد تھی جس نے مختلف فرقوں میں منقسم ہو کر بڑے بڑے کام کیے اور زبردست سلطنتوں کے بانی ہوئے مگر عرب العاربہ کی تاریخ لکھتے وقت ان کے کاموں اور ان سلطنتوں کے قائم ہونے کے زمانہ کا متعین کرنا سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ زبانی روایتوں میں جو زمانہ بیان ہوتا ہے وہ کبھی غلطیوں سے خالی نہیں ہوتا اور اس کو معتبر نہیں مانا جا سکتا دوسرے اس سبب سے کہ مورخان عرب نے ان واقعات کی تاریخیں سیپٹو ایجنٹ یعنی یونانی ترجمہ توریت سے اخذ کی ہیں توریت کے یونانی ترجمہ میں اور اصل عبرانی توریت میں جواب موجود ہے زمانوں کا بہت سا اختلاف ہے مگر قریباً قریباً تمام عیسائی ملکوں میں عبرانی توریت کے زمانے تسلیم کئے جاتے ہیں گو اس کے مندرجہ زمانے بھی نہایت مشتبہ اور نا قابل اعتبار ہیں تیسرے اس باعث سے کہ عرب کے مورخوں نے دو قسم کی تاریخوں کو یعنی اس کو جو زبانی روایتوں سے عرب میں چلی آتی تھی اور اس کو جسے یونانی توریت سے اخذ کیا تھا خلط ملط کر دیا ہے اور اس سبب سے بڑی ابتری ان کی تاریخ میں پڑ گئی ہے بعض واقعات کا زمانہ تو زبانی روایتوں کے بہ موجب متعین کرتے ہیں اور بعض کا یونانی توریت کے موافق پس ان مشکلات پر غالب آنا جن سے تواریخ عرب بھری پڑی ہے کوئی آسان کام نہیں۔ اس پیچیدہ اور مشکل کام کے حل کرنے کے لیے ہم نے تین ذریعے اختیار کیے ہیں: اول اصل عبری توریت جس کو اس زمانہ میں قریباً قریباً ہر ایک ذی علم قوم نے تسلیم کر لیا ہے اور علم تواریخ کو اسی کی مندرجہ تاریخ پر مبنی کیا ہے انہوں نے عبری توریت کو اصل اصول فرض کر کے اور اس کے مندرجہ زمانوں کو تسلیم کر کے بہت سی کتابیں تاریخ کی تصنیف کی ہیں اور ہر قسم کے مباحثوں میں خواہ مذہب سے متعلق ہو، خواہ علم تواریخ سے، خواہ علم الارض سے، خواہ علم حیوانات سے، خواہ کسی اور علم سے اسی کے مندرجہ زمانوں پر استدلال کرتے ہیں اس واسطے ہم نے بھی اپنی اس کتاب میں انہیں کی تقلید کو قرین مصلحت سمجھا ہے دوسرے یہ کہ ہم نے متعدد واقعات کو جو عرب میں واقع ہوئے ان کے ہم عصر واقعوں سے جو بنی اسرائیل پر واقع ہوئے اور جن کا حال توریت میں مندرج ہے مقابلہ کرنے کا طریقہ اختیار کیا ہے اور اسی طرح پر ہم عرب کے واقعات کا صحیح زمانہ متعین کرنے میں کسی قدر کام یاب ہوئے ہیں۔ تیسرے یہ کہ بعض تواریخی واقعات جو عرب میں واقع ہوئے وہ ایسے ہیں کہ اور ملکوں مثلاً فارس، اطالیہ اور مصر کے واقعات سے علاقہ رکھتے ہیں اور یہ ایسے ملک ہیں جن کی تواریخ اور ان واقعات کا زمانہ جو وہاں واقع ہوئے دنیا میں بہ خوبی مشہور ہے،علاوہ اس کے بہت سے واقعات ایسے ہیں جو عرب میں واقع ہوئے ہیں اور ان کے وقوع کا زمانہ قریب بہ صحت معلوم ہے اس لیے ہم نے اپنی تحقیقات میں ان دونوں تاریخوں کو بہ طور رہنما کے اختیار کیا ہے۔ عرب کے بادشاہ اور ان کی حکومتیں قحطان اول شخص تھا جو عرب میں بادشاہ ہوا اور اپنی اول من نزل الیمن قحطان بن عایر بن شالح و قحطان المذکور اول من ملک ارض الیمن و لبس التاج (ابو الفدا) دار السلطنت زرخیز اور شاداب صوبہ یمن میں مقرر کی جو کہ قحطان فالغ کا بھائی تھا اس واسطے اس کی تاریخ ولادت فالغ کی تاریخ ولادت سے بہت بعید نہ ہو گی اور اس لیے وہ تاریخ قریب1757 دنیوی یا 2200قبل حضرت مسیح کے قرار پاتی ہے زبانوں کے اختلاف کے بعد جو بابل میں مینار کی تعمیر کی وجہ سے عارض ہو گئیں، نمرود پسر کوش ملک بابل یا اشور کا بادشاہ ہوا اور حام پسر مصریم مصر کا اسی زمانہ میں قحطان بھی یمن کا بادشاہ ہوا، یعنی1771 دنیوی یا 2234قبل مسیح میں اس کے مرنے پر یعرب یا جرھم اپنے باپ کا جانشین ہوا ثم مات قحطان و ملک بعدہ ابشہ یعرب بن قحطان (ابو الفدا) اور اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ اس کے قبضہ میں یمن اور حجاز کے صوبے تھے جو اس وقت میں بنی جرھم کے نام سے مشہور تھے رورنڈ فارسٹر صاحب اور اور مورخ اس باب میں متفق الرائے ہیں اور اتفاق کی صحت اکثر مقامات کے ناموں کی مطابقت سے جو ان صوبہ جات میں پائے جاتے ہیں، ہوتی ہے، جرھم کے یمن میں آباد ہونے کے باب میں مصنف موصوف نے ایک بہت معقول وجہ ثبوت پیش کی ہے یعنی یہ کہ جرھم ابو یمن کے نام سے ملقب ہوا تھا۔ جرھم کی وفات کے بعد اس کا بیٹا یشحب تخت پر بیٹھا اور ثم ملک بصعدہ ابنہ یشحب بن یعرب ثم ملک بعدہ ابنہ عبد شمس بن یشحب۔۔۔۔۔۔ وسمی سبا وھو الذی بنا السد بارض مارب۔۔۔۔۔۔ وبنی مدینۃ مارب و عرفت مدینۃ سبا۔۔۔۔۔۔ وخلف سبا المذکور عدۃ اولاد منھم حمیر و عمرو وکھلان واتمرو غیرھم۔۔۔۔۔ ولما مات سبا ملک الیمن بعدہ ابنہ حمیر ابن سبا (ابو الفدا) اس کے بعد اس کا بیٹا عبدالشمس ملقب بہ سبا اکبر تخت نشین ہوا۔ یہ شہزادہ یمن میں مشہور سلطنت سبا کا بانی ہوا اور اسی نے شہر سبا اور شہر مارب بنایا اور اس کے بعد اس کے بیٹے حمیر نے تخت سلطنت پر جلوس کیا۔ اب چوں کہ حمیر یقطان سے چوتھی پشت میں تھا اور ترح بھی فالغ سے چوتھی پشت میں تھا اس لیے ہم یہ نتیجہ نکالنے کے مجاز ہیں کہ حمیر کی ولادت ترح کی پیدائش سے بہت دور نہیں ہو گی یعنی 1878دنیوی یا 2126قبل حضرت مسیح میں اس کی ولادت ہوئی ہو گی۔ ترح کے تین بیٹے تھے ابرام، ناحور، حاران اور حمیر کے بیٹے بھی تین تھے وائل، عوف، مالک اس لیے ترح اور حمیر کی اولاد کو بھی ہم عصر خیال کرنا چاہیے یعنی کہ وہ 1948دنیوی یا 2056 قبل حضرت مسیح کے تھے۔ وائل کا بیٹا سکسک اور عوف کا بیٹا فاران ہوا اب اول اس مدت پر جو ایک پشت کے واسطے عموماً دی گئی ہے لحاظ کر کے اور بعد ازاں تاریخ پیدائش لوط پسر حاران پر غور کر کے سکسک اور فاران کی ولادت کی تاریخ قرار دینی چاہیے جو 1778دنیوی یا 2126 قبل حضرت مسیح میں یعنی تیس برس قبل ولادت حضرت ابراہیم کے قرار پاتی ہے۔ وائل اپنے باپ کا جانشین ہوا اور عوف کسی جگہ حجاز ثم ملک بعدہ (اے بعد حمیر) ابنہ وائل ابن حمیر ثم ملک بعدہ ابنہ السکسک بن واثل ثم ملک بعدہ یعفر بن السکسک ثم وثب علی ملک الیمن ذوریاش وھو عامر بن ماران (فاران) (پاران) (باران) بن عوف بن حمیر (ابو الفدا) عوف بفتح اولہ و سکون ثانیہ واخرہ فاء جبل بنجد۔۔۔۔ و عوق بالفتح ارض فی دیار غطفان بین تجد و خیبر (مراصد الاطلاع علیٰ اسماء الا مکنۃ والبقاع) اور نجد کے مابین آباد ہوا۔ یہ امر اس بات سے ثابت ہے کہ پہاڑ جو نجد کی جانب مغرب واقع ہے آج تک جبل عوف کے نام سے مشہور ہے فاران ابن عوف اپنے باپ کے پڑوس میں آباد ہوا یعنی اس وادی غیر ذی زرع میں جہاں بالفعل مکہ معظمہ موجود ہے فاران کا اطلاق صرف اس وسیع شمالی بیابان پر نہیں ہوتا جو قادیش تک چلا گیا ہے بلکہ ان پہاڑوں پر ہوتا ہے جو اس میں واقع ہیں اور ان پہاڑوں ہی کے نام کی وجہ سے اس وسیع میدان کو فاران کا میدان کہہ سکتے ہیں۔ تمام مشرقی مورخ اور نیز وہ لوگ جو قدیم روایتوں کے معتقد ہیں اس بات کو تسلیم کرتے ہے اور توریت مقدس میں بھی صاف صاف مذکور ہے کہ یہی نواح بنام فاران موسوم تھا جو کہ ہم اس مضمون کو زیادہ تر تفصیل سے عرب المستعربہ کے ذکر میں بیان کریں گے اس لیے کچھ حال فاران بن عوف کا بیان کرتے ہیں۔ ابوالفدا اپنی تاریخ عرب میں بیان کرتا ہے کہ فاران عوف کا بیٹا تھا یہ تاریخ مع اپنے لاطینی ترجمہ کے 1831ء میں از سر نو چھاپی گئی تھی اور اس کا لاطینی زبان میں یہ نام ہے (ابو الفدا ھسٹوریا اینٹی اسلام کا اریبس) یعنی تاریخ ابو الفدا در باب عرب ایام جاہلیت اور اس کا ایڈیٹر ’’ ھنریکس آرتھو بیس فلیچر‘‘ تھا لفظ فاران اصل کتاب کے صفحہ114 میں اس شکل سے چھپا ہے (ماراں) یعنی حرف اول پر کوئی نقطہ نہیں ہے اب ہم یہ سوچتے ہیں کہ وہ پہلا حرف کیا ہے ف ہے یا ب ہے یا پ ہے۔ اور اس موقع پر یہ تین صورتیں ہونی ممکن ہیں مگر باوجود اس نقطہ کی غلطی کے یہ متحقق ہے کہ یہ لفظ بجز فاران کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ عربی مصنفوں کا دستور ہے کہ جب کسی لفظ کا تلفظ ف سے ہوتا ہے تو اس کو ’’ ف‘‘ کے حرف سے لکھتے ہیں، بعض یہودی حرف ’’ ف‘‘ کا تلفظ مثل حرف ’’ پ‘‘ کے کرتے ہیں مگر عربی مصنف ’’ پ‘‘ کی جگہ ’’ ب‘‘ کا تلفظ کرتے ہیں اور ’’ ب‘‘ ہی سے اس لفظ کو لکھتے ہیں کیوں کہ ان کی الف بے میں ’’ پ‘‘ کا حرف نہیں ہے اسی وجہ سے ابو الفدا نے لفظ فاران کو جس کا یہودی تلفظ پاران ’’ پ‘‘ سے تھا، باران’’ ب‘‘ کے ساتھ لکھا ہے جس کا نقطہ چھپنے میںرہ گیا ہے اور اس کا ثبوت لاطینی ترجمہ سے ہوتا ہے کہ اس میں اس کا ترجمہ ’’ بارانی‘‘ ’’ ب ‘‘ سے کیا گیا ہے۔پس اب اس بات میں کہ میں کہ عوف کا بیٹا فاران تھا کچھ شک باقی نہیں رہا۔ جس مقام پر کہ عوف نے سکونت اختیار کی تھی وہاں کوئی ایسا ربانی کرشمہ واقع نہیں ہوا۔ جس سے اس کی شہرت کو جو اس نے عوف کے نام سے حاصل کی تھی گھٹا دیتی یا مٹی دیتی اور اس لیے وہ مقام اور وہ پہاڑ عوف ہی کے نام سے مشہور ہے مگر جس جگہ کہ فاران آباد ہوا تھا اس کا حال ایسا نہیں ہوا کیوں کہ وہاں ایک ربانی کرشمہ کے واقع ہونے کا وعدہ کیا گیا تھا اور جب وہ ربانی کرشمہ واقع ہوا جو تمام چیزوں پر جن کی عرب تعظیم اور حرمت کرتے تھے سبقت لے گیا اور ان کی شہرت کے چاند کو گہن لگا دیا فاران کی شہرت مدھم پڑ گئی اور اس کی جگہ خدائے مقدس کے نام کی شہرت قائم ہوئی فاران کا نام نسیاً منسیاً ہو گیا اور بیت اللہ الحرم کے نام سے اس مقام نے شہرت پائی جو امید ہے کہ قیامت تک اسی طرح مشہور اور معزز رہے گا۔ وائل کے بعد اس کا بیٹا سکسک اور اس کا بیٹا یعفر ثم نھض من بنی وائل النعمان بن یعفر بن السکسک بن واثل بن حمیر واجتمع علیہ الناس وطرف عامر بن باران عن الملک واستقل النعمان المذکور بملک الیمن ولقب نعمان المذکور بالمافر۔ ثم ملک بعدہ ابنہ اشمح بن المعافر المذکور ثم ملک بعدہ شداد بن عاد بن الماطاط بن سبا واجمتع لہ الملک و غزا البلا ان بلغ اقصی المغرب و بنی المدائن والمصانع وابقی الاثار العظیم (ابو الفدا) جانشین ہوا اس کا چچا زاد بھائی عامر زوریاش پسر فاران پسر عوف نے جو حجاز میں آباد ہوا تھا یعفر کی سلطنت پر حملہ کیا اور فتح کر لیا لیکن نعمان بن یعفر نے اس کو نکال دیا اور وہ حجاز کی طرف چلا گیا اور نعمان نے اپنی سلطنت واپس لے لی اس کار نمایاں کی وجہ سے اس کا لقب المعافر ہو گیا اسی قاعدہ کے بہ موجب جس سے کہ ہم نے اس قدر اشخاص کی ولادت کی تاریخیں معین کی ہیں ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ بعفر بن سکسک اور عامر بن فاران ور حضرت ابراہیم کے تولد کی تاریخ قریب قریب ایک ہی زمانہ میں ہے یعنی 2008دنیوی میں یا1996قبل حضرت مسیح میں اب جو قدرتی قاعدہ پشتوں کے توالد و تناسل کا ہے اس کے مطابق ہم نعمان کے زمانہ پیدائش کو دریافت کر سکتے یں جس کا وقوع 1038 دنیوی میں یا1966قبل حضرت مسیح میں واقع ہوتا ہے۔ اس پچھلے زمانے کے پینتالیس برس بعد حضرت ابراہیم مقام ’’ آور‘‘ سے جو قوم کالدی سے متعلق تھا حاران کو جو عراق عرب میں واقع ہے، بلائے گئے تھے اور یہ ایک ایسا زمانہ ہے جس کے متعلق جمیع واقعات ہم کو اس نتیجے کی رہنمائی کرتے ہیں کہ عامر اور نعمان کی جنگ اسی زمانے میں ہوئی ہو گی اس لیے یہ مستنبط ہو سکتا ہے کہ یہی وقت تھا جب کہ نعمان نے عامر کو بھگا کر اپنے آبائی تخت کو حاصل کیا تھا یعنی 2083 دنیوی یا 1921 قبل حضرت مسیح میں نعمان کے بعد اس کا بیٹا اشمح کو شکست دے کر جلا وطن کر دیا شداد نے بڑی عظمت اور شہرت حاصل کی اور اپنی حکومت استحکام کے ساتھ قائم کرنے میں کامیاب ہوا، اس نے بہت سی عالی شان عمارتیں بنائیں1؎ جن کے نشان اب بھی پائے جاتے ہیں۔ شداد کا نام ایسا مشہور ہے کہ قریب قریب ہر مشرقی باشندہ اس سے واقف ہے اور اس کی عظمت و شوکت کی نسبت بہت سے عجیب و غریب قصے اور روایتیں مشہور ہیں یہ شخص ماطاط بن عبدالشمس عرف سبا اکبر کی اولاد میں تھا اس کے باپ کا نام عاد ہے مورخوں نے اس عاد کو پہلے عاد کے ساتھ غلط ملط کر دیا ہے اور اس طرح پر مختلف روایتیں جو در حقیقت پہلے عاد سے متلق تھیں اس کی طرف منسوب کی ہیں اور اس عاد کی روایتیں پہلے عاد کی طرف۔ ان دونوں عادوں کے باہم تمیز کرنے کے لیے ہم نے اس پچھلے عاد کو جس کا ابھی ذکر ہوا بنام عاد ثالث موسوم کیا ہے کیوں کہ اس نام کا یہ تیسرا شخص ہے۔ مشرقی تاریخوں میں ہم شداد اور سبا اکبر کے مابین صرف 1مسٹر رورنڈ فارسٹر صاحب بوقت بیان کتبات قوم عاد کے جو مختلف اقطاع عرب میں ظاہر ہوئے ہیں نقب الحجر کے قدیمی آثار کا جو حضرت موت میں ہیں، ذکر کرتے ہیں حصن غراب کے آثار بھی کچھ کم مشہور نہیں ہیں۔ عدن میں بعض عمارتوں کے آثار بڑی قدامت کا دعویٰ کرتے ہیں اور لوگوں کو بہت شوق دلاتے ہیں اور قوم عاد سے منسوب ہیںبعض نشانات حوضوں کے جو عموماً تالاب کہلاتے ہیں عدن میں اب تک پائے جاتے ہیں اور جن کی قدامت کی وجہ سے ہر سیاح کی توجہ و اشتیاق کو کشش ہوتی ہے ان کا باقی شداد کو کہتے ہیں علاوہ ان آثار کے جن کا ذکر ہو چکا ہے بہت سے اور دریافت ہوئے ہیں جو خرد ان عمارات اور نیز ان کے بانی کی قدامت کے شاہد ہیں۔ (سید احمد) دو نام ایک عام اور دوسرا ماطاط پاتے ہیں حالاں کہ ان کے مابین کم سے کام پانچ نام ہونے چاہئیں مشرقی تاریخوں میں جو سلسلہ انساب میں اس طرح ناموں کی کمی پائی جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرقی مورخوں نے سلسلہ انساب کو پرانے عربی شعرا کے اشعار اور تحریروں سے اخذ کیا ہے ان شاعروں کا قاعدہ تھا کہ اپنے اشعار میں انہیں لوگوں کا ذکر کیا کرتے تھے، جنہوں نے کسی بڑے بڑے کاموں کی وجہ سے شہرت حاصل کی ہو اور جن لوگوں نے ایسی شہرت نہیں حاصل کی ان کے نام ان اشعار میں نہیں پائے جاتے تھے اور یہی سبب ہے کہ مشرقی مورخوں نے جو سلسلہ انساب قائم کیا ہے اس میں سے وہ نام چھوٹ گئے ہیں۔ عرب العاربہ کا شجرہ انساب ہم اپنے اس مضمون کے اخیر میں شامل کریں گے اس شجرہ میں جہاں ہم کہیں ہم کو اس طرح پر ناموں کے رہ جانے کا شبہ ہوا ہے یا جہاں کہیں خود مشرقی مورخوں نے ناموں کے رہ جانے کا اقرار کیا ہے وہاں ہم نے ایک نشانی ستارہ کی بنا دی ہے جس سے ظاہر ہو گا۔ کہ کس قدر نام ہماری دانست میں اس سلسلہ میں سے چھوٹ گئے ہیں۔ جس زمانے میں کہ شداد نے یمن والوں پر غلبہ حاصل کیا اور سلطنت کی باگ اپنے ہاتھ میں لی اس کا صحت کے ساتھ متعین کرنا کسی قدر غیر ممکن ہے بایں ہمہ کہہ سکتے ہیں کہ نعمان کی تخت نشینی سے چند سال بعد یا اس کی وفات سے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں شام کے پانچ بادشاہوں کے باہم لڑائی شروع ہوئی توریت مقدس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لڑائی کا اثر عرب میں بھی پہنچا تھا کیوں کہ اس میں لکھا ہے کہ ’’ پس در سال چہار دھم کدر لاعوم و ملوکے کہ بہمراھش بودند آمدہ رفائیاں را در عشتروث قرنیم و زوزیان را درھام وا یامیان را در شادہ قربا ثایم شکست دادند و نیز حوریان را در کوہ خود شاں سیعیرتا ایل پاران کہ در نزدیک صحر است و برگشتہ بعین مشپاط کہ قادیش است آمدند و تمامی مرزو بوم عمالیقیاں و اھم اموریانی کہ در حصصون تا مار ساکن بودنس شکست دادند‘‘ (سفر تکوین باب14ورس5,6,7) ظاہر ہے کہ یہ حملہ آور قادیش کے شمال میں آئے ہوں گے کیوں کہ سیعیر کے پہاڑ اس جگہ سے شمال میں واقع ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قادیش کے جنوب میں دور جا کر فاران میں چلے گئے جس سے آج تک حجاز مراد لیا جاتا ہے کیوں کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو اس بیان کے کہ حملہ آور پاران سے قادیش کو لوٹ گئے کچھ بھی معنی نہ ہوتے، اگر یہ کہیں کہ یہ لوگ مغرب کی جانب گئے ہوں گے تو یہ بھی صحیح نہیں ہے کیوں کہ اس طرف بنی عملیق رہتے تھے، جن سے کہ ان حملہ آوروں نے اپنی پہلی مہم سے قادیش کو واپس آنے کے بعد جنگ کی تھی۔ اس وقت اشمح کی حکومت اور عمل داری صوبہ یمن اور حجاز پر پھیل گئی جو کہ یہ زمانہ اس کے عہد حکومت کی ابتدا کا تھا اس لیے خیال ہو سکتا ہے کہ مذکورہ بالا حملے کی وجہ سے اس کی طاقت میں کسی قدر ضعف آ گیا ہو جس سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ سلطنت یمن کی اس ضعف اور شکستہ حالت کو دیکھ کر شداد نے جو ہمیشہ ایسے موقع کا منتظر رہتا تھا، اشمح پر حملہ کیا ہو اور اس کو حکومت سے بے دخل کر کے تخت چھین لیا ہو ان وجوہ کی بنا پر ہم کو اس بات کے یقین کرنے کی ترغیب ہوتی ہے کہ اشمح 2091 دنیوی یا 1913 قبل حضرت مسیح میں تخت پر بیٹھا تھا اور شداد نے 2092 دنیوی یا 1912 قبل حضرت مسیح میں اس کی سلطنت کو چھین لیا تھا اور یہ زمانہ اس عام قاعدہ سے جو علم انساب میں پشتوں کے پیدا ہونے کے لیے قرار دیا گیا ہے، بالکل مطابق ہوتا ہے۔ شداد کے بعد اس کے دو بھائی لقمان اور ذو شدد یکے بعد ثم ملک بعدہ اخوہ لقمان بن عاد ثم ملک بعدہ اخوہ ذو شدد بن عاد ثم ملک بعدہ ابنہ الحرث بن ذی شدد و یقال لہ الحارث الرایش (ابو الفدا) دیگرے تخت پر بیٹھے اور ذو شدد کے بعد اس کا بیٹا الحارث بادشاہ ہوا۔ اس زمانے تک اور اس کے بہت عرصہ بعد تک وہاں دو خود مختار سلطنتیں رہیں ایک یمن کی اور دوسری حضر موت کی آخر کو ایک دوسرا شخص مسمی الحارث جس کا لقب رائش ہوا تخت پر بیٹھا اس نے ان دونوں سلطنتوں کو ملا کر ایک کر دیا اس لیے بعض مورخوں نے غلطی سے پہلے الحارث اور دوسرے الحارث کو ایک ہی شخص سمجھا اور اسی کی طرف دونوں سلطنتوں کو ملانا منسوب کیا۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان بادشاہوں کے نام جو ان دونوں الحارثوں کے مابین فرماں روا ہوئے تھے ہر ایک مورخ نے چھوڑ دیے اور ان کے نام معدوم ہو گئے اس غلطی کا ثبوت اس طرح پر ہوتا ہے کہ جو زمانہ ان بادشاہوں کا گذرا ہے اور جو تعداد بادشاہوں کی لکھی ہے وہ بہ لحاظ امتداد زمانہ کے نہایت کم ہے۔ حمزہ اصفہانی اپنی تاریخ میں بیان کرتا ہے کہ الحارث الحارث الرائش ھو الحارث بن قیس صیفی بن سبا الصغر الحمیری و کانا لرائس اول غزا منھم فاصا الغنائم وادخلھا ارض الیمن فار تاشت حمیر فی ایامہ و کان ھو الذی راشھم فبذالک سمی الرایش و بین الرائش و بین حمیر خمسۃ عشراباً تاریخ سنی ملوک الارض والانبیاء لحمزۃ اصفحانی الرایش ذو شدد کا بیٹا اور جانشین نہ تھا بلکہ حضر موت کے خاندان میں سے تھا افسوس کی بات ہے کہ یہ مصنف ان بادشاہوں کی تعداد بھی نہیں بتالاتا جن کے نام معدوم ہو گئے ہیں لیکن اس کا یہ بیان کہ حمیر اور الحارث الرایش کے مابین پندرہ پشتیں گذری تھیں ہم کو کسی قدر ٹھیک ٹھیک وقت کے معین کرنے پر قادر کرتا ہے۔ اگر ہم بیان صدر پر اعتماد کریں تو ہم کو یہ نتیجہ نکالنا پڑتا ہے کہ الحارث ابن شدد کے اور الحارث الرایش کے مابین سات یا آٹھ اور بادشاہ ہوئے ہوں گے۔ الحارث الرایش قیس بن صیفی بن سبا الاصغر کا جو حمیر کی اولاد ثم ملک بعدہ ابنہ ذوالقرنین الصعب بن الرامیش ثم ملک بعدہ ابنہ ذوالنار ابرھہ بن ذی القرنین ثم ملک بعدہ ابنہ آفریقش بن ابرھہ ثم ملک بعدہ ذو الاذعار عمرو بن ذو المنار ثم ملک بعدہ شرحیل بن عمرو بن غالب بن المنتات بن زید بن یعفر بن السکسک بن واثل بن حمیر۔۔۔۔۔ ثم ملک بعدہ ابنہ الھدھاد بن شرجیل ثم ملکت بعدہ بنتہ بلقیس بنت الھدھاد و بقیت فی ملک الیمن عشرین سنۃ و تزوجھا سلیمان بن داؤد (ابو الفدا) وقد نقل بن سعید المغربی ابن عباس سئل عن ذی القرنین الذی ذکرہ اللہ تعالیٰ فی کتابہ العزیز فقال ھو من حمیر وھو الصعب المذکور فیکون ذوالقرنین المذکور فی الکتاب العزیز ھو الصعب بن الرایش المذکور لا الا سکندر الرومی (ابو الفدا) وکان اول سن ابن السدسبا الا کبر واسمہ عامر و قیل عبد شمس بن یشحب بن یغرب بن قحطان ثم بناہ حمیرا بن سبا بعد موت ابیہ ثم اتمہ بعد ذالک ذوالقرنین الحمیری وھو الصعب بن ابی مراید و کان السد من جبل مارب الی جبل الا بلق وھما جبلان منیفان علی الجبال الثافحۃ الممتد من یمین السدو شمالہ (العقود اللولویہ فی اخبار دولۃ الرسولیہ یمنی) ثم ملک بعد ھا عمہا ناشر النعم بن شرجیل ۔۔۔۔ ثم ملک بعدہ شمر برعش بن ناشر النعم۔۔۔۔۔ ثم ملک بعد شمر برعش بن ناشر النعم۔۔۔۔۔ ثم ملک بعدہ ابنہ ابو مالک بن شمر ثم ملک بعدہ عمران بن عامر الازدی۔۔۔۔ ثم ملک بعدہ اخوہ مزیقیا( ابو الفدا) میں ہے، بیٹا تھا اور جیسا کہ اوپر مذکور ہوا وہ یمن اور حضر موت دونوں سلطنتوں کو ملانے میں کامیاب ہوا اور اسی سبب سے رایش یا تبع الاول کا لقب پایا۔ اس کے بعد صعب ملقب بہ ذوالقرنین اور ابرھہ ملقب بہ ذوالمنار اور افریقش، اور عمرو ملقب بہ ذوالاذعار یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئے۔ عمرو ذوا الا ذعار کے عہد حکومت میں شرجیل نے اس پر حملہ کیا اور بے شمار خون ریز لڑائیوں کے بعد عمرو ذوالا ذعار کو شکست دی اور اس کی سلطنت پر قابض ہو گیا۔ شرجیل کے بعد اس کا بیٹا الہدھاد جانشین ہوا اور اس کے بعد ملکہ بلقیس تخت پر بیٹھی، جس نے بیس برس سلطنت کر کے حضرت سلیمان بادشاہ یہود سے نکاح کر لیا۔ اس ملکہ کی حکومت کا اختتام توریت مقدس سے 3000 دنیوی یا 500 قبل حضرت مسیح میں پایا جاتا ہے اس لیے نسلوں کے ہونے کے معینہ قاعدہ کے مطابق الحارث الرایش اور صعب ذوالقرنین یا ۔۔۔۔ تو اٹھائیسویں صدی دنیا کے آخر میں یا انیسویں صدی کے شروع میں ہوئے ہوں گے یعنی 1200 قبل حضرت مسیح گے۔ ابن سعید مغربی کا بیان ہے کہ جب حضرت ابن عباس سے اس ذوالقرنین کی نسبت جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ صعب حمیری تھا اس دلیل پر ابو الفدا نے بیان کیا ہے کہ اسی ذوالقرنین کا ذکر قرآن مجید میں ہے نہ کہ سکندر اعظم کا۔ ایک مشہور و معروف کام سد کی تعمیر کا اسی ذوالقرنین کے عہد میں اختتام کو پہنچا۔ شاھان یمن کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سد کی بنا سبا اکبر نے شروع کی تھی اس کے بیٹے اور جانشین حمیر نے اس کو جاری رکھا اور ذوالقرنین نے اسے اختتام کو پہنچایا وہ سد دو پہاڑوں کے درمیان تھی ایک پہاڑ کا نام مارب اور دوسرے کا نام ابلق تھا۔ بلقیس کے بعد اس کا چچا زاد بھائی مالک ملقب بہ ناشر النعم تخت نشین ہوا اور اس کے بعد اس کا بیٹا شمر برعش اور اس کے بعد اس کا بیٹا ابو مالک تخت پر بیٹھا اس بادشاہ کی سلطنت میں عمران نے جو خاندان ازد سے تھا، اس پر حملہ کیا، اور شکست دے کر تخت چھین لیا اور سلطنت بنی حمیر کے خاندان سے بنی کہلان کے خاندان میں منتقل ہو گئی عمران کے بعد اس کا بھائی عمر مزیقیا تخت نشین ہوا۔ اس کے زمانے میں الاقرن بن ابو مالک نے اپنے باپ کی سلطنت کا دعویٰ کیا اور مزیقیا سے لڑ کر اس کو شکست دی، ملک الاقرن بن ابی مالک ثم ملک بعدہ ذوحبشان بن الاقرن۔۔۔۔ ثم ملک بعدہ اخوہ تبع بن الاقرن ثم ملک بعدہ ابنہ کلیکرب بن تیع ثم ملک بعدہ ابو کرب اسعد وھو تبع اوسط و قتل ثم ملک بعدہ ابنہ حسان بن تبع۔۔۔۔۔ ثم قتلہ اخوہ عمرو من تبع و ملک۔۔۔۔ فسمی ذالا اعواد ثم ملک بعدہ عبد کلال ابن ذوی الا عواد ثم ملک بعدہ تبع بن حسان ابن کلیکرب و ھو تبع الا صفر ثم ملک بعدہ ابن اختہ الحارث بن عمر و تھود الحارث المذکور ثم ملک بعدہ مرثد ابن کلا۔۔۔۔ ثم ملک بعدہ و کیعہ ابن مرثد (ابو الفدا) ثم ملک ابرھہ بن الصباح ثم ملک صمبان بن محرث ثم ملک عمر بن تبع ثم مالک بعدہ ذوانواس وکان من لا یتھود القاہ فی احد و د مضطرم ناراً فقیل لہ صاحب الا خدو دثم ملک بعد ذوجدن وھو اخر ملوک الحمیر (ابو الفدا) سن کتاب ابن سعید المغربی ابن الحبشہ استولوا علی الیمن بعد ذی جدن الحمیری المذکور و کان اول ملک الیمن من الحبشہ ارباط ثم ملک بعدہ ابرھۃ الاشرم صاحب الفیل الذی قصد مکۃ ثم ملک بعدہ یکسوم ثم ملک بعدہ مسروق بن ابرھہ و ھوا خرمن ملک الیمن من الجشۃ ثم عاد ملک الیمن الی حمیر و ملکہا سیف بن ذی یزن الحمیری (ابو الفدا) اور سلطنت چھین لی اور حمیر کے خاندان میں دوبارہ سلطنت لوٹ آئی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا ذوجشان مالک تاج و تخت ہوا اس کے بعد اس کا بھائی تبع اکبر اس کے بعد اس کا بیٹا کلیکرب اور اس کے بعد اس کا بیٹا ابو کرب اسعد طبع اوسط اس کے بعد اس کا بیٹا حسان اس کے بعد اس کا بھائی عمر ذوالاعواد اس کے بعد اس کا بیٹا عبد کلال تخت نشین ہوا تبع اصغر پسر حسان نے اس بادشاہ سے سلطنت چھین لی اور خود بادشاہ ہو گیا۔ اس کے بعد ا س کا بھتیجا حارث بن عمر تخت پر بیٹھا تمام مورخوں کا اتفاق ہے کہ حارث نے یہودی مذہب اختیار کر لیا تھا اس کے بعد مرثد ابن کلال اور اس کے بعد وکیعہ ابن مرثد تخت نشین ہوئے۔ ان بادشاہوں کی حکومت کا زمانہ حارث بن عمر کے یہودی مذہب اختیار کرنے کی وجہ سے کسی قدر صحت کے ساتھ معلوم ہو سکتا ہے جب کہ بخت نصر فلسطین کو فتح کر کے اور بیت المقدس کو مسمار کر کے حضرت دانیال اور ان کے دوستوں کو قیدی بنا کر بابل کو لے گیا اس وقت کچھ یہودی بچ کر یمن کو بھاگ گئے تھے اس زمانہ میں حضرت یرمیاہ اور دانیال پیغمبر تھے اس لیے یہ بات نہایت قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ ان مفرور یہودیوں کی وجہ سے الحارث نے خدائے واحد کا اقرار کیا ہو گا اور یہودی مذہب کو قبول کیا ہو گا اور یہ امر واقعی ہے کہ الحارث اور وکیعہ اس زمانہ میں حکمران تھے یعنی 3400دنیوی میں یا 604 قبل حضرت مسیح میں اس امر کا واقعی ہونا زیادہ تر اس لیے قابل اعتبار ہے کہ نسلوں کے پیدا ہونے کے قدرتی قاعدہ کے مطابق بھی یہ زمانہ ٹھیک ٹھیک صحیح آتا ہے کیوں کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ مالک ناشر النعم 3001 دنیوی میں تخت پر بیٹھا تھا مالک اور مجموعاً چار سو برس خیال کرنا قرین عقل ہے وکیعہ کے بعد چھ اور بادشاہ خاندان حمیر میں سے تخت نشین ہوئے یعنی ابرھہہ بن الصباح، صہبان بن محرث، عمر ابن تبع، ذوشناتر، ذونواس لقب بہ ذواخدود ذوجدن جو کہ ان بادشاہوں کا خاندانی سلسلہ صاف صاف تحقیق نہیں ہوا اس لیے ہم نے ان کے ناموں کو شجرہ انساب عرب العاربہ میں شامل کر دینے کی جرأت نہیں کی بلکہ ان کے ناموں کو شجرہ کے حاشیہ پر لکھ دیا ہے ان لوگوں کی سلطنت کا ٹھیک زمانہ بھی تحقیق نہیں ہوا ہے۔ ذونواس ایک متعصب یہودی تھا اور یہودی مذہب والوں کے سوا ہر مذہب کے معتقدوں اور پیروؤں کو آگ میں زندہ جلوا دیا کرتا تھا اس بات کے خیال کے واسطے ایک عمدہ وجہ یہ ہے کہ یہ یہی وہ زمانہ تھا جب کہ آرٹا زر کیسز اوکس نے چند یہودیوں کو جو مصر میں قید ہوئے تھے کیوں کہ ان کا مالک مصر سے ملا ہوا تھا ھرقانیہ (مازندراں) کو بھیج دیا اور چوں کہ یہ بادشاہ بھی یہودی تھا اس کی سلطنت کو بھی سخت صدمہ پہنچا اور حبشیوں نے اس پر غلبہ کر لیا اور اس کو سلطنت سے خارج کر دیا۔ پس یہ زمانہ اس خاندان کا آخری زمانہ معلوم ہوتا ہے اور 3250 دنیوی یا 354قبل حضرت مسیح کے مطابق ہوتا ہے۔ اس زمانے سے ہمارے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت تک نو سو بیس برس ہوتے ہیں اس درمیان میں افریقہ کے لوگوں کی جو ارباط حبشہ کہلاتے تھے اور نیز بعض عرب المستعربہ اور ابرھوں کی حکومت رہی۔ مشرقی مورخوں نے اس بات کے غلط خیال سے کہ ارباط حبشہ اور ابرھہ دو شخص تھے بیان کیا ہے کہ اس زمانہ میں صرف دو ہی بادشاہ ہوئے حالاں کہ ارباط حبشہ اور ابرہہ خاندانی لقب ہیں اور ان خاندانوں کے بادشاہ اپنے اصلی نام کے ساتھ خاندانی لقب کو شامل کر لیتے تھے۔ اس خاندان ابرھہ میں ایک بادشاہ کا نام اشرم تھا جو ابرہہ اشرم صاحب الفیل کہلاتا ہے اور جس نے مکہ معظمہ پر 4570 دنیوی یا 570 عیسوی میں چڑھائی کی تھی وہ اپنے ساتھ بہت سے ہاتھی اس نیت سے لے گیا تھا کہ خانہ کعبہ کو منہدم کر دے اس کے بعد اس کا بیٹا ابرہہ مسروق تخت نشین ہوا مگر سیف بن ذی یزن حمیری نے اس کو سلطنت سے بے دخل کر دیا جس کو کسریٰ توشیرواں والی ایران نے بہت مدد دی تھی جیسا کہ آگے معلوم ہو گا اس کے بعد سے خاندان ابرہہ کی حکومت منقطع ہو گئی۔ سیف بن ذی یزن جو حمیر کے شاہی خاندان سے تھا اپنے آپ کو سلطنت یمن کا وارث اور حق دار سمجھتا تھا اس نے روم کے بادشاہ وقت سے مدد چاہی اور شہر روم میں اسی غرض سے دس برس تک پڑا رہا مگر جب کہ اس کی امید منقطع ہو گئی تو وہاں سے کسریٰ نو شیرواں کے پاس چلا گیا اور اس سے کمک کی استدعا کی۔ اس بادشاہ نے اس کی درخواست کو منظور کیا اور بہت بڑا لشکر اس کی کمک کو دیا اور اس نے اس لشکر کی مدد سے اپنے دشمن کو شکست دی اور خاندان ابرھہ کا خاتمہ ہو گیا اور سیف بن ذی یزن از سر نو تخت پر بیٹھا۔ اس نے اپنی سکونت شاہی محل غم دان میں اختیار کی اور عیش و عشرت میں محو ہو گیا۔ اس بادشاہ کے عہد کے شعرا نے اس کی بہت تعریف و توصیف کی ہے اور جو کہ ان اشعار میں بعض تاریخی واقعات ملتے ہیں اس لیے ہم چند شعر اس جگہ نقل کرتے ہیں۔ لاتقصد الناس الا کابن ذی یزن اذ خیم البحر للا عداء احوالا وافی ھرقل وقد شالت نعمامتہ فلم یجد عندہ النصر الذی سالا ثم انتحی نحو کسرے بعد عاشرۃ من السنین یھبن النفس والمالا حتیٰ اتی ببنی الاحرار یقد مھم تخا لھم فوق متن الارض اجبالا للہ در ھم من فتیہ صبر ما ان رایت لھم فی الناس امثالا ببض مرازبۃ غلب اساورۃ اسد تربت فی الغیضات اشبالا ناشرب ھنیاً علیک التاج مرتفقا براس غمدان دار اًمنک محلالا تلک المکارم لاقعبان من لبن شیبا بماء فعا دا بعد ابدالا سیف بن ذی یزن کو ایک اس کے درباری حبشی مصاحب وکان سیف بن ذی یزن المذکور قداصطفے جماعۃ من الجشان و جعلھم من خاصۃ فاغتالوہ و قتلوہ فارسل کسریٰ عاملا علی الیمن واستمرت عمال کسریٰ علی الیمن الیٰ ان کان آخرھم باذان الذی کان علیٰ عھد النبی صلی اللہ علیہ وسلم واسلم (ابوالفدا) نے قتل کیا۔ اس کے بعد اس صوبہ کو نوشیرواں نے اپنے ممالک محروسہ میں شامل کر لیا اور اپنی جانب سے وہاں عامل مقرر کرتا رہا۔ ان عاملوں میں سے اخیر عامل باذان تھا۔ اس کا زمانہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ متحد تھا چناں چہ وہ آنحضرت پر ایمان لایا اور مسلمان ہو گیا۔ عرب العاربہ میں خاندان قحطان نے بڑی طاقت اور شہرت اول من ملک علی العرب بارض الحیرہ مالک بن فھم۔۔۔۔ ثم ملک بعدہ اخوہ عمرو بن فھم ثم ملک بعدہ اخوہ عمرو بن فھم ثم ملک بعدہ ابن اخیہ جذیمہ بن مالک بن فھم۔۔۔۔۔ وکانت لہ اخت تسمی رقاش (ابوالفدا) لما قتل جذیمہ ملک بعدہ ابن اختہ عمرو بن عدی بن نصر بن ربیعہ۔۔۔۔۔۔۔ ثم مات و ملک بعدہ ابنہ امرو القیس۔۔۔۔۔۔ وکان یقال لامرو القعیس البد اے الاول ثم ملک بعد امرو القیس ابنہ عمرو بن امرو القیس۔۔۔۔ ثم ملک بعدہ اوس بن قلام العملیقی ثم ملک اخو من العمالیق ثم رجع الملک الی بنی عمرو بن عدی بن نصر بن ربیعہ اللخمیین المذکورین و ملک منھم امرو القیس من ولد عمرو بن امرو القیس المذکور و یعبرف ھذا امروالقیس الثانی بالمحرق لانہ اول من عاقب بالنار ثم ملک بعدہ ابنہ النعمان الاعود بن امرو القیس۔۔۔۔۔ ثم تذھد و خرج من الملک ۔۔۔۔۔۔ ملک بعدہ ثم ھلک و ملک بعد ابنہ عمر بن جفنہ۔۔۔۔ ثم ملک و ملک بعدہ ابنہ ثعلبۃ بن عمرو۔۔۔۔۔۔ ثم ملک بعدہ ابنہ الحارث بن ثعلبہ ثم ملک و ملک بعدہ ابنہ ثعلبۃ بن عمرو۔۔۔۔۔ ثم ملک بعدہ ابنہ الحارث بن ثعلبہ ثم ملک ابنہ جبلۃ بن الحارث ثم ملک ابنہ الحرث۔۔۔۔۔۔ ثم ملک بعد ابنہ المنذر الاکبر (ابوالفدا) ثم ھلک المنذر الاکبر المذکور و ملک بعد اخوہ النعمان ابن الحرث ثم ملک بعدہ اخوہ جبلۃ بن الحارث ثم ملک بعدہ اخوھم عمرو بن الحارث ثم ملک جفنتہ الاصغر۔۔۔۔۔۔۔۔ ثم ملک بعدہ اخوہ النعمان الاصغر ثم ملک نعمان بن عمرو بن المنذر۔۔۔۔۔۔ ثم ملک بعدہ النعمان المذکور ابنہ جبلۃ بن النعمان۔۔۔۔۔ ثم ملک معدہ النعمان بن الایھم۔۔۔۔۔۔ ثم ملک اخوہ الحرث۔۔۔۔۔۔۔ بین الایھم ثم ملک ابنہ النعمان ابن الحرث۔۔۔۔۔۔۔ ثم ملک بعدہ ابنہ المنذر بن نعمان ثم ملک اخوہ عمرو بین النعمان ثم ملک اخوھما حجر بن النعمان ثم ملک ابنہ الحارث بن حجر ثم ملک ابنہ جبلۃ بن الحرث ثم ملک ابنہ الحارث ابن حبلۃ لم ملک ابنہ النعمان بن الحرث و کنیۃ ابو کرب و لقبہ قطام ثم ملک بعدہ الایھم بن جبلۃ۔۔۔۔ ثم ملک بعدہ اخوہ المنذر بن جبلہ ثم ملک اخوھما۔ سراحیل بن جبلۃ ثم ملک اخوھم عمرو بن جبلۃ ثم ملک بعدہ ابن اخیہ جبلہ بن الحرث بن جبلہ ثم ملک بعدہ جبلہ بن الایھم بن جبلہ و ھو اخر ملوک الغسان وھو الذی اسلم فی خلافۃ عمر ثم عاد الی الروم و تنصر (ابوالفدا) فلما ملک حجر سدد امورھم وساسھم احسن سیلۃ وانتزع من الخمیین ما کان بایدھم من ارض بکر ابن وابل۔۔۔ وملک بعد الحجر المذکور ابنہ عمرو بن حجر۔۔۔ ثم ملک بعدہ ابنہ الحرث بن عمرو (ابو الفدا) وملک اخوہ (ای خایعرب) جرھم الحجاز ثم ملک بعد جرھم ابنہ عبد بالیل بن جرھم ثم ابنہ جرشم بن عبد بالیل ثم ابنہ عبد المدان بن جرشم ثم ابنہ ثعلبۃ بن عبد المدان ثم ابنہ عبد المسیح بن ثعلبہ ثما ابنہ مضاض بن عبدالمسیح ثم ابنہ عمرو بن مضاض ثم اخوہ الحرث بن مضاض ثم ابنہ عمرو بن الحارث ثم اخوہ بشر بن الحارث ثم مضاض بن عمرو بن مضاض (ابو الفدا) من ملوک العرب زھیر ابن جباب بن حبل۔۔۔۔۔۔ وکان زھبر المذکور قد اجتمع بابرھۃ الاشرم صاحب الفیل( ابوالفدا) حاصل کی اور صوبہ حیرہ میں ایک زبردست سلطنت قائم کی۔ اس خاندان کا پہلا بادشاہ مالک بن فہم تھا اس کے بعد اس کے بھائی عمرو کو تخت ملا۔ اس کے بعد جذیمہ بن مالک تخت پر بیٹھا۔ یہ جریح مگر طامع بادشاہ تھا۔ اس نے اپنی سلطنت کو بہت قوی اور مستحکم کر لیا تھا ایک طرف تو دریائے فرات اس کی سلطنت کی حد تھی اور دوسری طرف حدود شام تک پھیل گئی تھی شام تک سلطنت پھیلانے میں اس کو عملیق سے لڑنا پڑا۔ اور ایک سخت اور خونریز لڑائی کے بعد ان کو شکست دی۔ اس بادشاہ کی بہن نے جس کا نام رقاش تھا ایک شخص مسمے عدی سے جو بنی لخم میں سے تھا شادی کی تھی۔ جذیمہ کے بعد اس کا بھانجا عمرو بن عدی تخت نشین ہوا اس کے بعد اس کا بیٹا امرو القیس اور اس کے بعد اس کا بیٹا عمرو بادشاہ ہوا مگر اس کو ’’ اوس‘‘ بن قلام عملیقی نے تخت سے اتار دیا۔ اس کے بعد ایک یا دو اور بادشاہ اسی خاندان کے فرمانروا ہوئے جن کے نام معلوم نہیں۔ لیکن اس قدر محقق ہے کہ امرو القیس ثانی بن عمرو نے بہت جلد اپنے اور اس کے بعد زاویہ اور اس کے بعد المنذر الخامس بن نعمان ابو قابوس بادشاہ ہوا اس بادشاہ کو خالد بن ولید سردار لشکر اسلام نے شکست دے کر سلطنت کو چھین لیا۔ جس زمانہ میں یہ سب بادشاہ حکمران ہوئے اس زمانہ کا ٹھیک ٹھیک معین کرنا اگر غیر ممکن نہیں تو مشکل تو بے شک ہے مگر اخیر بادشاہوں میں سے کم سے کم دو بادشاہوں کی فرماں روائی کا زمانہ ٹھیک ٹھیک بدرجہ یقین معلوم ہے اور اگر نسلوں کے ہونے کے معمولی قاعدہ پر غور کیا جاوے تو بعض اور بادشاہوں کے عہد سلطنت کے زمانہ کے محقق ہونے کے لیے کافی پتہ لگ جاوے گا۔ عمرو بن المنذر ماء السماء کی حکومت کے آٹھویں سال میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخر الزمان پیدا ہوئے تھے اس واسطے یہ بادشاہ 4526 دنیوی تا 562 عیسوی میں تخت پر بیٹھا ہو گا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلے پہل وحی ایاس کی حکومت کے چھٹے مہینے میں نازل ہوئی تھی اس واسطے ایاس 2410 دنیوی یا 210 عیسوی میں تخت نشین ہوا ہو گا۔ عمرو کی تخت نشینی سے پہلے انیس بادشاہ ہو چکے تھے اور ان کی سلطنتوں کے زمانوں کے مجموعہ کا بطرز معقول پانسو پچاس برس خیال کیا جا سکتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پہلا بادشاہ مالک بن فہم اکتالیسویں صدی دنیوی کے آغاز میں یا حضرت مسیح کے زمانہ ولادت کے قریب تخت پر بیٹھا ہو گا۔ عرب العاربہ نے ایک اور سلطنت صوبہ غسان میں قائم کی تھی اور اس سلطنت کے حاکم عرب الشام کے نام سے مشہور تھے۔ اگر صحیح طور پر غور کیا جاوے تو حاکم قیصر روم کی طرف سے بطور عمال کے تھے مگر شاہی لقب اختیار کرنے کی وجہ سے تاریخ عرب میں بادشاہوں کے ذیل میں بیان ہوتے ہیں۔ جو کہ بعض امور ان لوگوں سے ایسے متعلق ہیں جن سے ہم کو بعض امور کی تحقیقات اور تجسس میں آسانی ہو گی۔ اس لیے ان سلطنتوں کا ایک مختصر حال اس مقام پر لکھتے ہیں۔ اس سلطنت کی بناء چار سو برس قبل ظہور اسلام کے ہوئی اور یہ زمانہ تینتالیسویں صدی دنیوی یا تیسری صدی عیسوی سے مطابقت رکھتا ہے۔ جفنہ بن عمر اس خاندان کا پہلا شخص تھا جس نے لقب شاہی اختیار کیا یہ شخص ’’ ازد‘‘ کی اولاد میں سے تھا جو خاندان کہلان سے علاقہ رکھتا تھا وہ عرب جو اس سے پیشتر غسان میں رہتے تھے ضجاعمہ کہلاتے تھے ان لوگوں نے عرصہ دراز تک مستعدی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا مگر آخر کار جفنہ نے ان پر فتح پائی اور ان کو مطیع کر لیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا عمرو تخت پر بیٹھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا ثعلبہ تخت نشین ہوا۔ ایک عرصہ تک اختیارات شاہی یکے بعد دیگرے، الحارث، جبلہ، الحرث، المنذر الاکبر کے ہاتھوں میں رہے۔ اس اخیر بادشاہ کا جانشین اس کا بھائی نعمان ہوا اس کے بعد اس کا بھائی جبلہ اور اس کے بعد اس کا بھائی ایہم اور اس کے بعد اس کا بھائی عمرو تخت نشین ہوا اس کے بعد جفنۃ الاصغر بن المنذر الاکبر کی باری آئی اس کے بعد نعمان الاصغر اور اس کے بعد اس کا بھتیجا نعمان ثالث بن عمرو بادشاہ ہوا۔ اس کے بعد جبلہ بن نعمان ثالث کے ہاتھ سلطنت لگی۔ یہ بادشاہ خاندان حیرہ سے بادشاہ المنذر ماء السماء کا ھمعصر تھا اور اس سے چند لڑائیاں بھی لڑا تھا اس کے بعد نعمان رابع بن الایہم اور اس کے بعد الحرث الثانی اور اس کے بعد اس کا بیٹا نعمان الخامس اور اس کے بعد اس کا بیٹا المنذر تخت نشین ہوا اس کے بعد عمرو برادر المنذر اور حجر برادر عمرو یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئے۔ اس کے بعد الحارث بن حجر اور جبلہ بن الحارث اور الحارث بن جبلہ باری باری سے بادشاہ ہوئے۔ پھر نعمان ابو کرب بن الحارث اور ایہم عم نعمان تخت پر بیٹھے۔ الایہم کے بعد اس کے تین بھائی المنذر، سراحیل، عمرو یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئے عمرو کے بعد اس کے بھتیجے جبلہ بن الایہم بن جبلہ کو سلطنت نصیب ہوئی۔ یہ بادشاہ حضرت عمر کی خلافت کے زمانہ تک زندہ تھا پہلے مسلمان ہو گیا اور اس کے بعد روم کو بھاگ کر عیسائی ہو گیا۔ اس خاندان کی حکومت کا خاتمہ قریب 4640 دنیوی یا 240 عیسوی میں ہو گیا۔ عرب العاربہ کی ایک اور چھوٹی اور چند روزہ سلطنت کی بنیاد’’ کندہ‘‘ کی اولاد نے جو خاندان کہلان سے تھا ڈالی تھی اس خاندان کا پہلا بادشاہ حجر بن عمرو ہوا جس نے کہ مملکت حیرہ کے ایک حصہ کو دبا کر ایک نئی سلطنت قائم کی تھی اس کے بعد اس کا بیٹا عمرو اور اس کے بعد اس کا بیٹا الحرث تخت پر بیٹھا یہ وہی شخص ہے جس نے کسریٰ قباد کا مذہب اختیار کر کے اس کی اعانت سے سلطنت حیرہ کو فتح کیا تھا مگر جب نوشیرواں نے اس سے المنذر کو سلطنت واپس دلا دی تب الحارث دیار کلب کو بھاگ گیا۔ مگر اس کے بیٹے چند روز تک چند مقالات پر حکومت کرتے رہے۔ حجر بنی اسد پر حکمران رہا۔ سراحیل بکر ابن وائل پر معدی کرب قیس عیلان پر مسلمہ تغلب اور نمر پر حاکم رہا۔ حجر کے بعد جو مارا گیا تھا اس کے بیٹے امرو القیس نے از سر نو بنی اس کو مطیع کر لیا۔ یہ امرو القیس وہی بہت بڑا مشہور شاعر عرب کا ہے۔ جب کہ منذر ماء السماء از سر نو تخت سلطنت پر بیٹھا تو امرو القیس اس کے خوف سے بھاگا اور کہیں روپوش ہو گیا ان سب بادشاہوں نے پنتالیسویں یا چھیالیسویں صدی دنیوی یا پانچویں یا چھٹی صدی عیسوی میں حکومت کی تھی۔ ایک اور سلطنت حجاز میں قائم ہوئی تھی جس زمانہ میں یمن اور حیرہ کی سلطنتیں اندرونی جھگڑوں سے ضعیف ہو گئی تھیں اس زمانہ میں اولاد یعرب یا جرھم نے ایک نئی اور خود مختار سلطنت حجاز میں قائم کی تھی ابو الفدا کے نزدیک اس سلطنت کا پہلا بادشاہ جرھم تھا جس کا بھائی یعرب یمن میں حکمران تھا مگر یہ غلطی ہے اور اس وجہ سے عارض ہوئی ہے کہ ابو الفدا نے غلطی سے یعرب اور جرھم کو دو شخص خیال کیا تھا حالاں کہ یہ دونوں نام ایک شخص کے ہیں اور یہی ایک شخص یمن اور حجاز دونوں پر حاکم تھا۔ ابو الفدا نے مندرجہ ذیل نام بیان کیے ہیں اور لکھا ہے کہ یہ لوگ بھی یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئے تھے اور وہ نام یہ ہیں یالیل، جرشم بن یالیل، عبدالمدان بن جرشم، ثعلبہ بن عبدالمدان، عبدالمسیح بن ثعلبہ، مضاض بن عبدالمسیح، عمرو بن مضاض، الحرث برادر مضاض، عمرو بن الحرث، بشر بن الحرث، مضاض بن عمرو بن مضاض۔ اگر ابوالفدا کے نزدیک یہ بادشاہ حضرت اسمعیل بن حضرت ابراہیم سے پیش تر گذرے ہیں تو وہ بڑی غلطی پر ہے کیوں کہ عبدالمسیح کے نام سے بلاریب ثابت ہوتا ہے کہ وہ عیسائی تھا اور اس لیے ممکن نہیں کہ وہ حضرت اسمعیل سے پیش تر گذرا ہو یا ان کا ہم عصر ہو کچھ شک نہیں کہ یہ سلطنت اس وقت قائم ہوئی تھی۔ جب کہ یمن اور حیرہ اور کندہ کی سلطنتیں زوال کی حالت میں تھیں اور اس لیے ہم کو یقین ہے کہ اس سلطنت کے بادشاہ پینتالیسویں اور چھیالیسویں صدی دنیوی یا پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں گذرے ہیں۔ یہ بھی واضح ہو کہ عمرو بن لاحی 4210 دنیوی یا تیسری صدی عیسوی کے آغاز میں اسی سلطنت پر حکمران تھا۔ ابوالفدا کا بیان ہے کہ اسی شخص نے بت پرستی کو عرب حجاز میں رواج دیا تھا اور کعبہ میں تین بت، ھول کعبہ کی چھت پر اور اساف اور نائلہ اور مقاموں پر رکھے تھے۔ مثل دیگر عرب العاربہ کے جو حجاز میں متوطن ہوئے اور پھر وہیں کے بادشاہ ہوئے زھیر ابن جباب نے بھی لقب شاہی اختیار کیا یہ بات اس وقت کی ہے جب کہ ابرھہ اشرم نے مکہ معظمہ پر حملہ کیا تھا۔ کیوں کہ یہ بات مشہور ہ کہ زھیر بھی ابرھہ اشرم کے ساتھ اس مہم میں شریک تھا اس لیے بآسانی محقق ہو سکتا ہے کہ اس کا عہد حکومت چھیالیسویں صدی دنیوی یا چھٹی صدی عیسوی کے آخری حصہ میں ہو گا۔ سب سے مشہور واقعہ اس کے عہد حکومت کا یہ تھا کہ اس نے بنی غطفان کے اس مقدس معبد کو جو انہوں نے کعبہ کے مقابلہ کے لیے بنایا تھا بالکل برباد کر دیا تھا۔ قبائل عرب العاربہ اب ہم اس مقام پر عرب العاربہ کے انساب کا شجرہ لکھتے ہیں تمام قوم کا شجرہ لکھنا تو محالات سے ہے مگر یہ شجرہ انہیں لوگوں کا ہے جن کا ذکر ہم نے اس مقام پر کیا ہے۔ اس شجرہ سے ان مطالب کے سمجھنے میں جو اس جگہ بیان ہوئے ہیں آسانی ہو گی۔ تمام عرب العاربہ کا جن کا ہم نے اوپر مفصل ذکر کیا ہے۔ بنی جرھم کے خاندان سے علاقہ رکھتے ہیں مگر وقتاً فوقتاً بلحاظ اپنے مورثوں کے متعدد قبیلوں میں منقسم ہوتے گئے ہیں۔ ان قبیلوں میں سے جو نامی قبیلے گذرے ہیں اور جن کا ذکر اکثر کتابوں میں آتا ہے۔ ان کا بیان ہم اس مقام پر کرتے ہیں ان قبیلوں کی تقسیم کرنے میں ہم ابوا لفدا اور معارف ابن قتیبہ سے استفادہ کیا ہے۔ 1یعرب یا جرھم سے بنو جرھم 2عبدالشمس بن یثحب سے ، بنوسبا 3 حمیر ابن سبا سے، بنو حمیر 4 کہلان ابن سبا سے، بنو کہلان 5 اشعر ابن سبا سے، اشعری 6انمار ابن سبا سے، بنو انمار 7 عاملہ بن سبات، عاملی8 عدی بن انمار بن سبا سے، بنو عدی 9 لخم بن عدی سے، لخمی 10 جذام ابن عدی سے، بنو جذم 11 حدس ابن لخم سے، بنو حدس 12غنم ابن لخم سے، بنو غنم 13بنو الدار بن ھانی بن لخم سے، داری 14 غطفان ابن حیرام ابن جذام سے بنو غطفان قبائل ذیل بنو غطفان کی نسل میں ہیں: 12بنو نضلۃ 16 بنو احنف 17 بنو الضبیب 18 بنو ھدالہ 19 بنو نفاثہ 20 بنو ضلیع 21بنو اعایزہ 22 بنو شبرہ 23 بنو عبداللہ 24بنو الخضرہ 25 بنو سلیم 26 بنو بجالہ 27بنو غنم 28بنو الفالہ 29 سعد بن مالک بن حیرام سے، بنو سعد 30وائل بن مالک سے بنو وائل قبائل ذیل بنو سعد کی نسل میں ہیں 31 بنو عوف 32بنو عایزہ 33 بنو فہیرہ 34 بنو صبحہ 35 بنو الخنس 36 بنو حی 37حشم بن جذام سے، حشمی 38 حطمہ بن جذام سے، بنو حطمہ قبائل ذیل بذو انمار کی نسل میں ہیں 39خشعمی 40یجیلی 41قسری 42 بنو احمس 43دھمان بن عامر بن حمیر سے، دھمانی 44 یحصب بن دھمان سے، یحصبی 45 اسلف بن سعد بن حمیر سے، سلفی 46 اسلم بن سعد سے، اسلمی 47 رعین بن حرث بن عمرو بن حمیر سے، آل ذی رعین 48 قضاعہ بن مالک بن حمیر سے، بنو قضاعہ قبائل ذیل قضاعہ کی نسل میں ہیں 49کلب ابن وبرہ سے ، بنو کلب 50 عدی ابن جباب سے، بنو عدی 51 علیم ابن جباب سے، بنو علیم 52بنو العبید 53 بنو رفیدہ 54 بنو مصار 55بنو القین 56 بنو سلیح 57 جرم ابن ربان سے، بنو جرم 59 راسب ابن جرم سے راسبی 60 بنو بہراء 61 بنو بلی 62بنو مہرہ 63بنو عذرہ 64 بنو سعد 65 بنو ھذیم عبد حبشی 66 خنہ ابن سعد سے خنہ 67سلامان ابن سعد سے، سلامانی 68 بنو جہینہ 69بنو نہو 70التابعہ قبائل ذیل التبابعہ کی نسل میں ہیں 71ذوقلاع 72 ذونواس 73 ذواصبح 74 ذوجدن 75 ذوقایش 76 ذویزن 77 ذوجوش 78 بنو شحول 79وائلہ ابن حمیر سے، بنو وائل 80 سکاک بن وایلہ سے، بنو سکاسک 81 عوف بن حمیر سے، بنو عوف 82 فاران ابن عوف سے، بنو فاران 83 طے بن ادد کہلانی سے، طائی 84غوث بن ادد سے ، غوثی قبائل ذیل طائی کی نسل میں ہیں: 85بنو بنہان 86 بنو ثعل 87 حاتمی 88 بنو السنبس 89بنو تمیم 90 ثور بن مالک بن مرتہ کہلانی سے، ثوری 91 کندہ بن ثور سے، کندی 92 سکون بن کندہ سے، سکونی 93 اوسلہ بن ربیعہ بن خیار بن ملک کہلانی سے اوسلی 94 ھمدانی 95سبیعی 96 وداعہ 97 مذحج بن یہابر بن مالک کہلانی سے مذحج 98 مراد بن مذحج سے، مرادی 99 سعد بن مذحج سے۔ سعدی یا سعد الشعیرہ 100 خالد بن مذحج سے، بنو خالد 101 عنس بن مذحج سے، عنسی 102 جعفی بن سعد سے، جعفی 103 جنب بن سعد سے جنبی 104 حکم بن سعد سے، حکمی 105 عایذ اللہ بن سعد سے ، عایذی 106 جمل بن سعد سے، جملی 107 مران بن جعفی سے، مرانی 108 حریم بن جعفی سے، حریمی 109 زبید بن سعد سے، زبیدی 110 جدینہ بن خارجہ بن سعد سے، جدیلی 111ابو خولان بن عمرو بن سعد سے، خولانی 112 انعم بن مراد بن مزحج سے انعمی 113 نخع بن جسر بن اولہ بن خالد بن مرحج سے، نخعی 114 کعب بن عمرو سے، بنو النار 115کعب بن عمرو سے، بنو الحماس 116 بنو قنان 117 الازد بن غوث کہلانی سے، ازدی 118 مازن بن ازد سے، مازنی یا غسانی 119 دوس بن ازد سے، دوسی 120 ھنو بن ازد سے، ھنوئی 121 جفنہ بن ازد مازنی سے، جفنی 122 آل عنقا 123 آل محرق 124 جبلی 125 سلامان ابن میدعن بن ازد سے، سلامانی 126 دوس بن عدثان بن زھران الازدی سے، دوس عدثی 127جذیمہ بن مالک بن فہم بن غنم بن دوس سے، جذیمہ 128 جھاضم بن مالک سے، جہاضمی 129 سلیمہ بن مالک سے، سلیمہ 130 ھنابہ مالک سے، بنو ھنابہ 131 معین بن مالک، معینی 132یحمد بن معین سے، بنو یحمد قبائل ذیل ازد کی نسل میں ہیں 133 الغطریف 134 بنو یشکر 135 بنو الجدرہ 136 لہب بن عامر سے، بنو لہب 137 غامد بن عامر سے، غامدی قبائل ذیل عبداللہ بن ازد کی نسل میں ہیں: 138 قساملی 139 بنو عتیک 140 بنو بارق 141 بنو عوف 142 شہران بن عوف سے، بنو شہران 143 طاحیہ بن سود سے، بنو طاحیہ 144 بنو ھداد 145 خزاعی 146 قمیری 147 بنو حلیل 148 بنو المصطلق 149 بنو الکعب 150 بنو الملیح 151 بنو عدی 152 بنو سعد 153اسلمی 154 جشمی 155 خزرج بن سالبتہ العنقا سے، خزرجی قبائل ذیل خزرج کی نسل میں ہیں: 156جشمی 157 بنو تزید 158 سلمی 159 بنو بیاضہ 160 القرافل 161 بنو الجیلی 162 القرافل 163 بنو النجار 164 بنو ساعدہ قبائل ذیل اوس کی نسل میں ہیں 165 اشہلی 166 بنو ظفر 167 بنو الحارثہ 168 اھل قبا 169 اجحجبی 170 جعادرہ 171 بنو واقف 172 سلمی 173 بنو خطمہ سوم عرب المستعربہ یعنی پردیسی عرب عرب المستعربہ کے تمام قبیلے ایک ہی اصل سے نکلے ہیں ان کا نسب ترح بن ناحور بن ساروغ بن راعو بن فالغ بن عیبر بن شالح بن ارفخشد بن سام تک پہنچتا ہے۔ ترح کی اولاد جو عرب میں آباد ہوئی پانچ شاخوں میں منقسم تھی اور اسی وجہ سے عرب المستعربہ بھی پانچ شاخوں میں منقسم ہیں۔ اول، اسمعیلی یا بنی اسماعیل بن ابراہیم بن ترح (سفر تکوین باب11ورس28، باب 16 ورس15) دوم: ابراہیمی یا بنی قطورہ یعنی ابراہیم بن ترح کی اولاد قطورہ کے سلسلہ سے (سفر تکوین باب11 ورس28 و باب 25 ورس 1) سوم ادومی یا بنی عیسو یعنی اولاد ادوم بن اسحاق بن ابراہیم بن ترح (سفر تکوین باب11ورس 28 وباب 21 ورس 3 و باب 25ورس25) چہارم ناحوری یا بنی ناحور یعنی اولاد ناحور برادر ابراہیم بن ترح (سفر تکوین باب11ورس 28 و 29) پنجم ھارانی یا بنی ھاران یعنی اولاد مواب و عمان بن لود بن ھاران بن ترح، یہ اخیر قبیلہ کبھی تو موابی کہا جاتا ہے اور کبھی عمانی مگر ہم نے اس کو ہارانی اس واسطے لکھا ہے کہ ھاران ان دونوں کے مورث کا نام ہے اور دونوں پر حاوی ہے (سفر تکوین باب11ورس28 و29 و باب19 ورس 30 و 28) اب ہم اس مقام پر ہر ایک مذکورہ بالا قبیلہ کا علیحدہ علیحدہ بیان کریں گے اور اسی درمیان میں یہ بھی ثابت کریں گے کہ ’’ فاران‘‘ جہاں سے ربانی ہدایت کے چمکنے کی توریت مقدس میں پشین گوئی کی گئی تھی وہ جگہ حجاز اور بالخصوص مکہ کے متصل کے پہاڑ ہیں اور اس خطبہ اسی امر کا ثابت کرنا مقصود اصلی ہے۔ اول، اسمعیلی یا بنی اسمعیل تمام مورخ مسلمان اور غیر مسلمان سب کے سب اس امر پر متفق ہیں کہ حضرت اسمعیل کی اولاد عرب میں آباد ہوئی اور ملک عرب کا ایک بڑا حصہ حضرت اسمعیل کے بارہ بیٹوں کی نسل سے معمور ہو گیا ان میں جو کچھ اختلاف ہے وہ ان کے مقام سکونت میں ہے اس لیے ہم ان کے مقام سکونت کو اس مقام پر تحقیقات کریں گے۔ حضرت ھاجرہ اور حضرت اسماعیل کے نکالے جانے کے قصے کی تحقیق توریت مقدس میں حضرت ھاجرہ اور حضرت اسمعیل کے نکالے جانے کے واقعہ کو اس طرح پر بیان کیا ہے ’’ وسارہ پسر ھاجر مصری را کہ بجہت ابراہیم زائیدہ شدہ بود دید کہ استہزامی نماید با ابراہیم گفت کہ ایں کنیزک و پسر او را اخراج نما زیرا کہ پسر ایں کنیزک با پسر من اسحق وارث نخواھد شد وایں سخن در نظر ابراہیم بسیار ناخوش آمد بہ سبب پرسش وخدا با ابراہیم گفت بجہت ایں جوان و کنیز کت در نظرت ناخوش نیاید ہر چہ کہ سا راہ بنو گفتہ باشد قولش را استماع نما زیرا کہ ذریعہ تو از اسحق خواندہ میشود و از پسر کنیزک نیز امتے خواھم گردانید زیرا کہ از نسل تست و اراہیم در صبحدم سحر خیزی نمودہ نان و مطہرہ آب را گرفتہ بہاجر دادہ بدوشش گذاشت و ھم پسرش را (باو دادہ) او را روانہ نمود پس راہی شدہ در بیابان بیر شبع سرگردان شد و آبے کہ در مطہرہ بود تمام شد، و پسر را در زیر بوتہ از بوتہا گذاشت و روانہ شدہ در برابرش بہ مسافت یک تیر پرتاب نشست و گفت کہ مرگ پسر را نہ بینم و در برابرش نشستہ آواز خود را بلند کردہ گریست۔ و خدا آواز پسر را شنید و ملک خدا ھاجر را از آسمان آواز دادہ با و گفت کہ اے ھاجر ترا چہ واقع شد مترس زیرا کہ خدا آواز پسر را در جائے بودنش شنیدہ است بر خیز و پسر را بردار و بد ستت اور رابگیر زیرا کہ او را امت عظیمے خواھم کرد۔ و خدا چشمان اور را کشادہ کرد و چاہ آبے دید و روانہ شدہ مطہرہ را از آب پر کرد و بہ پسر نو سانید و خدا با پسر بود کہ نشوونما نمود و در بیابان ساکن شدہ تیر انداز گردید و در بیابان پاران ساکن شد و مادرش از برایش از دیار مصر زنے گرفت‘‘ (سفر تکوین باب21ورس9 لغایت21 1؎) 1اس فارتسی عبارت کا اردو ترجمہ یہ ہے ’’ اور سارہ نے دیکھا کہ ھاجرہ مصری کا بیٹا جو اس کے (خاوند) ابرھام(ابراہیم) سے ہوا تھا تھٹھے مارتا ہے۔ تب اس نے ابرھام سے کہا کہ اس لونڈی کو اور اس کے بیٹے کو نکال دے۔‘‘ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحے پر) اس فارسی عبارت میں لفظ مطہرہ کا انگریزی میں بوتل ترجمہ کیا گیا ہے وہ صحیح ہے قدیم عربی ترجمہ میں ’’ سقائ‘‘ (بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ) کیوں کہ اس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اضحاق (اسحق) کے ساتھ وارث نہ ہو گا۔ پر ابرھام کو اس کے بیٹے کے باعث یہ بات نہایت بری معلوم ہوئی اور خدا نے ابرھام سے کہا کہ تجھے اس لڑکے اور اپنی لونڈی کے باعث برا نہ لگے۔ جو کچھ سارہ تجھ سے کہتی ہے تو اس کی بات مان کیوں کہ اضحق سے تیری نسل کا نام چلے گا اور اس لونڈی کے بیٹے سے بھی میں ایک قوم پیدا کروں گا اس لیے کہ وہ تیری نسل ہے تب ابرھام نے صبح سویرے اٹھ کر روٹی اور پانی کا ایک مشکیزہ لیا اور اسے ہاجرہ کو دیا۔ بلکہ اسے اس کے کندھے پر دھر دیا اور لڑکے کو بھی اس کے حوالے کر کے اسے رخصت کر دیا۔ سو وہ چلی گئی اور بیر شبع کے بیابان میں آوارہ پھرنے لگی اور جب مشکیزہ کا پانی ختم ہو گیا تو اس نے لڑکے کو ایک جھاڑی کے نیچے ڈال دیا اور آپ اس کے مقابل ایک تیر کے پٹے پر دور جا بیٹھی اور کہنے لگی کہ میں اس لڑکے کا مرنا تو نہ دیکھوں سو وہ اس کے مقابل بیٹھ گئی اور چلا چلا کر رونے لگی اور خدا نے اس کے لڑکے کی آواز سنی اور خدا کے فرشتے نے آسمان سے ھاجرہ کو پکارا اور اس سے کہا کہ اے ھاجرہ! تجھ کو کیا ہوا؟ مت ڈر کیوں کہ خدا نے اس جگہ سے جہاں لڑکا پڑا ہے اس کی آواز سن لی ہے، اٹھ اور لڑکے کو اٹھا اور اسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کیوں کہ میں اس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا پھر خدا نے اس کی آنکھیں کھولیں اور اس نے ایک پانی کا چشمہ دیکھا اور جا کر مشکیزہ کو پانی سے بھر لیا اور لڑکے کو پلایا اور خدا اس لڑکے کے ساتھ تھا اور وہ بڑا ہوا اور بیابان میں رہنے لگا اور تیر انداز بنا اور وہ فاران کے بیابان میں رہتا تھا اور اس کی ماں نے ملک مصر سے اس کے لیے بیوی لی۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ترجمہ کیا گیا ہے اور فارسی ترجمہ میں’’ مطہرہ‘‘ اردو میں اس کا ترجمہ ’’ مشکیزہ‘‘ یا’’ چھاگل‘‘ صحیح ترجمہ ہے جو مشرقی ملکوں میں مروج ہے اور جس میں چند روز کے پینے کے لائق پانی سما سکتا ہے۔ اس واقعہ کی نسبت مسلمانوں کی متبرک کتابوں میں بھی چند روایتیں آئی ہیں اور جو کہ صحیح بخاری مسلمانوں میں سب سے زیادہ معتبر کتاب ہے اس میں دو روایتیں اس واقعہ کی نسبت آئی ہیں اس لیے ان دونوں کو اس مقام پر نقل کیا جاتا ہے۔ ان دونوں روایتوں میں اختلاف ہے ایک میں ایک مضمون ہے اور ایک میں نہیں۔ ایک میں کچھ بیان ہوا ہے اور ایک میں کچھ اس لیے ہم دونوں روایتوں کو دو مقابل کے کالموں میں اس طرح پر لکھیں گے کہ جو اختلاف ان دونوں میں ہے وہ بمجرد دیکھنے کے معلوم ہو جاوے۔ یہ بات کہنی کہ یہ حدیثیں بخاری میں ہیں اور ضرور ہے کہ ان کو صحیح مانا جاوے صرف ایک فرضی بات ہے ورنہ جو اصول کہ حدیث کے ثبوت کے لیے قرار پائے ہیں ان کے مطابق اس روایت کا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا جانا ثابت نہیں ہے یہ دونوں روایتیں ابن عباس نے بیان کی ہیں اور یہ نہیں بیان کیا کہ انہوں نے کس سے سنیں اور اس لیے ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ در حقیقت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا تھا بلکہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو باتیں یہودیوں میں مشہور تھیں انہیں کو ابن عباس نے بیان کیا ہے پس وہ روایتیں ایک مقامی روایتوں سے زیادہ معتبر ہونے کا درجہ نہیں رکھتی ہیں۔ بخاری میں اس طرح پر روایتیں ایک مقامی روایتوں سے زیادہ معتبر ہونے کا درجہ نہیں رکھتی ہیں بخاری میں اس طرح پر روایتیں مندرج ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ در حقیقت وہ پیغمبر کی حدیث ہے بلکہ صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ بخاری نے جس شخص سے اس کو سنا اس نے اسی طرح بیان کیا تھا۔ پہلی روایت 1عن ابن عباس قال لما کان بین ابراہیم و بین اھلہ ما کان خرح باسمعیل وام اسمعیل 2 ومعھم شنۃ فیھا مائ۔ 3 فجعلت ام اسمعیل تشرب من الشنۃ فیدر لبنھا علی صبیہا 4 حتی قدم مکۃ فوضعھا تحت دوحۃ 5۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 6۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 7۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 8 ثم رجع ابراہیم الی اھلہ فاتبعتہ ام اسمعیل 9 حتی لما بلغوا کداء 10 نادتہ من وراثہ یا ابراہیم الی من تترکنا 11۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 12قال الی اللہ 13 قالت رضیت باللہ 14 قال فرجعت 15 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 16 فجعلت تشرب من الشنۃ و یدر لبنھا علی صبیھا حتی لما فنی الماء 17 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 18 قالت لو ذھبت فنظرت لعلی احس احدا قال فذھبت 19 فصعدت الصفا فنظرت ونظرت ھل تحس احدا 20 فلما بلفت الوادی سعت اتت المروۃ و فعلت ذلک اشراطاً 21 ۔۔۔۔۔۔۔۔ 22 ثم قالت لوذھبت فنطرت ما فعل تعنی الصبی فذھبت فنظرت فازا ھو علی حالہ کانہ بشنغ للموت فلم تقرھا نفسھا فقالت لوذھمت فنظرت لعلی احس احد افذھبت فضحبت الصفا فنظرت و نظرت فلم تحس احدا 23 حتی اتممت سبعاً 24 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 25 ثم قالت لوذھبت فنظرت ما فعل فازا ھی بصوت 26۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 27 فقالت اغث ان کان عندک خیر 28 فاذا ھو جبریل 29 قال فقال بعقبہ ھکذا وغمر عقبہ علی الارض قال فانبثق الماء فدھشت ام اسمعیل فجعلت تحفر 30۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 31 قال فقال ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم لو ترکتہ کان الماء ظاہرا۔ 32 قال فجعلت تشرب من الماء و یدر لبنھا علی صبیھا الی اخو الحدیث (بخارے کتاب الانبیائ) دوسری روایت 1 قال ابن عباس اول ما اتخذ النساء المنطق من قبل ام اسمعیل اتخذت منطقا لتعفی اثرھا علی سارۃ ثم جاء بھا ابراہیم و بابنہا اسمعیل۔ 2 ۔۔۔۔۔۔۔۔ 3 وھی ترضعہ 4 حتی و ضعھما عند البیت عند دوحۃ 5 فوق زمزم فی اعلی المسجد و لمیس بمکۃ یومئذ احد و لیس بھا ماء فوضعہماھناک 6 و وضع عند ھما جراباً فیہ تمر 7 و سقاء فیہ ماء 8 ثم قفا ابراہیم منطقا فتبعتہ ام اسمعیل 9 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 10 فقالت یا ابراہیم ابن تذھب و تترکنا 11 فی ھذا الوادی الذی لیس فیہ انیس و لاشی فقالت لہ ذلک مرارا وجعل لا یلتفت الیھا فقالت لہ اللہ امرک بھذا 12 قال نعم 13 قالت اذن لا یضیعنا 14 ثم رجعت 15 فا نطلق ابراہیم حتی اذا کان عند الشنیعۃ حیث لا یرونہ استقبل بوجھہ البیت ثم دعا بھولاء الدعوات ورفع یدیہ فقال رب انی اسکنت من ذریتی بو اد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم حتی بلغ یشکرون۔ 16 وجعلت ام اسمعیل ترضع اسمعیل و تشرب من ذلک الماء حتی اذا نفدما فی السقا۔ 17 عطشت و عطش ابنھا و جعلت تنظر الیہ یتلوی او قال یتلیط فانطلقت کراھیۃ ان تنظر الیہ 18۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 19 فوجدت الصفا اقرب جبل فی الارض یلبھا فقامت علیہ ثم استقبلت الواری تنظر ھل تری احدا فلم تراحدا فھبطت من الصفا۔ 20 حتی اذا بلغت الوادی رفعت طرف درعھا ثم سعت سعی الانسان المجھود حتی جاوزت الوادی ثم اتت المروۃ فقامت علیھا۔ 21 فنظرت ھل تری احدا فلم ترا حداً 22۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 23 فضعلت ذلک سبع مرات 24 قال ابن عباس قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فذالک سعی الناس بینھما 25 فلما اشرفت علی المروۃ سمعت صوتا 26 فقالت صہ ترید نفسھا ثم تسمعت ایضا فقالت قد اسمعت۔ 27 ان کان عندک غواث 28 فاذا ھی بالملک عند موضع زمزم 29 فبث بعقبہ اوقال بجناحہ حتی ظھر الماء فجعلت تحوضہ و تقول بیدھا ھکذا 30 وجعلت تغرف من الماء فی سقائھا و ھو یفور بعد ما تغرف 31 قال ابن عباس قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یرحم اللہ ام اسمعیل لو ترکت زمزم او قال لوم تغرف من الماء لکانت زمزم عیناً معیناً۔ 32 قال فشربت و ارضعت الی اخر الحدیث (بخاری کتاب الانبیائ) مذکورہ بالا روایتوں سے ظاہر ہے کہ وہ مستند نہیں ہیں یعنی حضرت ابن عباس نے اس کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مستند نہیں کیا پس معلوم نہیں کہ ابن عباس نے وہ روایت کس سے سنی اور کس بنیاد پر انہوں نے اس کو بیان کیا۔ بخاری کا ادب صرف اس بات کا مقتضی ہے کہ ہم تسلیم کر لیں کہ ابن عباس نے سعید ابن حبیر سے یہ روایت بیان کی اور سعید ابن حبیر نے اور لوگوں سے جن سے بخاری تک یہ روایت پہنچی۔ مگر اس سے یہ بات لازم نہیں آتی۔ کہ ابن عباس نے در حقیقت اس کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ ان روایتوں میں دو فقرے (24,31) ایسے ہیں جن سے کہ بادی النظر میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ابن عباس نے یہ روایتیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوں گی۔ لیکن یہ بات نہیں ہے کیوں کہ ان دونوں فقروں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دونوں فقرے ان روایتوں کے نہیں ہیں اور کسی مقام کے ہیں کیوں کہ خود راوی نے ان دونوں فقروں کو سلسلہ بیان روایت سے علیحدہ کر کے اور بالتخصیص انہیں دونوں فقروں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بیان کیا ہے اور یہ ثبوت اس بات کا ہے کہ راوی نے باقی مضمون کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں سمجھا ہے۔ ایک اور امر جوان روایتوں کی صحت پر شبہ ڈالتا ہے یہ ہے کہ اس روایت میں حضرت ابراہیم کی یہ دعا ’’ ربی انی لسکنت من ذریتی بو اد غیر ذی ذرع عند بیتک المحرم‘‘ بیان ہوئی ہے اور راوی نے غلطی سے یہ سمجھا ہے کہ جس زمانہ میں حضرت ابراہیم نے اپنی بی بی ھاجرہ اور اپنے بیٹے اسمعیل کو نکالا تھا اسی زمانہ میں وہ خود مکہ میں ان کے بسانے کو آئے تھے حالاں کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ نہ اس زمانہ میں حضرت ابراہیم ان کو یہاں بسانے کے لیے آئے اور نہ اس زمانہ میں بیت اللہ الحرام بنایا گیا تھا۔ راوی نے دو مختلف زمانوں کے واقعہ کو ملا دیا ہے ایک اس زمانہ کے واقعہ کو جب کہ حضرت ابراہیم نے حضرت ھاجرہ اور حضرت اسمعیل کو بیابان بیر شبع میں بے سہارے چھوڑ دیا تھا اور دوسرے اس زمانہ کے واقعہ کو جب کہ حضرت ھاجرہ اور حضرت اسمعیل نے زمزم کے پاس سکونت اختیار کر لی تھی اور دوبارہ حضرت ابراہیم ان کے پاس آئے تھے اور بیت اللہ الحرام بنایا تھا اور جاتے وقت یہ دعا مانگی تھی کہ ’’ رب انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم‘‘ قرآن مجید میں حضرت اسمعیل کی عمر کا جب کہ ان کو حضرت ابراہیم نے نکال دیا کچھ ذکر نہیں بخاری کی ان روایتوں سے جن کا مشتبہ ہونا بخوبی ثابت ہو گیا ہے اگر حضرت اسمعیل کی عمر کا کچھ اندازہ ظاہر بھی ہوتا ہو تو بھی مذہب اسلام پر کوئی الزام عاید نہیں ہو سکتا کیوں کہ یہ روایتیں اگر مشتبہ ثابت نہ ہوتیں تو بھی بہ منزلہ وحی کے متصور نہیں ہو سکتیں۔ اصل یہ ہے کہ خود توریت مقدس میں حضرت اسمعیل کی عمر کی نسبت جب کہ وہ نکالے گئے نہایت اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض ورسوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہایت بچے تھے اور بعض سے پایا جاتا ہے کہ وہ سولہ سترہ برس کے تھے اس اختلاف کی بنا پر عرب کے یہودیوں میں ان کا بچہ ہونا مشہور تھا اسی یہودی روایت کو ابن عباس نے بیان کیا ہو گا اور اسی وجہ سے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کو منسوب نہیں کیا۔ توریت مقدس میں جو حضرت اسمعیل کی عمر کے باب میں اختلاف ہے وہ اس طرح پایا جاتا ہے سفر تکوین باب21ورس14 کا فارسی ترجمہ جو ہم نے اوپر لکھا ہے وہ یہ ہے ’’ وابراہیم در صبح دم سحر خیزی نمودہ نان و مطہرہ آب را گرفتہ و بہ ھاجرہ دادہ بہ دو شش گذاشت و ھم پسرش را (باو دادہ) اور را روانہ نمود پس راھی شدہ در بیابان بیر شبع سر گردان شد‘‘ اس ترجمہ میں لفظ ’’ باودادہ‘‘ دو ھلالی خطوط میں لکھا ہے جس کا یہ اشارہ ہے کہ یہ لفظ اصل عبری توریت میں نہیں ہے در حقیقت یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے صحیح ترجمہ عبری لفظوں کا یہ ہے کہ ’’ پانی کے مشکیزے اور اس کے بیٹے کو ھاجرہ کے کندھے پر رکھ کر اس کو روانہ کر دیا‘‘ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ ان کی عمر بہت چھوٹی تھی اور اسی وجہ سے لوگوں نے دودھ پیتا ہوا خیال کیا تھا حالاں کہ اسی باب کی چودھویں آیت اس کے بر خلاف ہے۔ عیسائی عالموں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس چودھویں آیت سے بلا شبہ حضرت اسمعیل کی اس زمانہ میں بہت چھوٹی عمر ہونا پایا جاتا ہے جو توریت کی بہت سی آیتوں کے بر خلاف ہے اس لیے انہوں نے اس کی نسبت بہت کچھ بحث کی ہے۔ مسٹر فارسٹر لکھتے ہیں کہ ’’ اگر ہم حضرت اسمعیل کی عمر پر غور کریں تو رنج آگین شو ق اور بھی دوبالا ہوتا ہے یہ لڑکا اب کچھ بچہ نہیں تھا بلکہ کم از کم پندرھویں برس میں تھا مگر تکلیف کی وجہ سے بچہ کی طرح مضغہ سا ہو رہا تھا معلوم ہوتا ہے کہ اس حالت میں اس کی بچاری ماں جب تک کہ اس کو طاقت رہی ہو گی۔ اس کو ہاتھوں میں اٹھائے رہی ہو گی اور جب وہ تھک گئی ہو گی تو اس کو ایک جھاڑی کے نیچے ڈال دیا ہو گا(مگر ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ یہ تاویل کیسی لغو اور بیہودہ ہے) اس کے بعد مسٹر فارسٹر لکھتے ہیں کہ ٹھیک ٹھیک عمر حضرت اسمعیل کی بآسانی معلوم ہو سکتی ہے تیرہ برس کی عمر میں ان کا ختنہ ہوا تھا حضرت اسحاق اس وقت تک پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ اس کے اگلے سال پیدا ہوئے ہیں اور حضرت ھاجرہ اور ان کے بیٹے کے بیابان میں بھیجے جانے سے پیش تر ان کا یعنی حضرت اسحاق کا دودھ چھوٹ چکا تھا‘‘ (فارسٹر صاحب کا تاریخی جغرافیہ عرب صفحہ176) توریت اور انجیل کے اکثر محققین اور علی الخصوص ’’ جیروم لی کلوک‘‘ اور’’ روزن ملر‘‘ خیال کرتے ہیں کہ حضرت اسمعیل کی عمر اس وقت سترہ برس کی تھی ۔ اس لیے یہ نہیں ہو سکتا کہ حضرت ھاجرہ نے ان کو اپنے کندھے پر رکھ لیا ہو۔ جیسی بیہودہ تاویل مسٹر فارسٹر نے کی ہے اس سے زیادہ عجیب تاویل ’’ بشپ ھارسلی‘‘ نے کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ عبرانی توریت کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے کو اس کی ماں نے مع روٹی او رپانی کے اپنے کندھے پر رکھ لیا یہی معنے یونانی ترجمہ میں بھی سمجھے گئے ہیں اور یہ جملہ بھی کہ بچہ کو جھاڑی میں ڈال دیا جو پندرھویں آیت میں ہے اسی معنی کی تائید کرتا ہے حضرت اسحاق ؑ کی ولادت کے وقت حضرت اسمعیل ؑ کی عمر چودہ برس سے کم نہ تھی اس واسطے ان کی ولادت کے وقت کم سے کم وہ پندرہ سال کے ہوں گے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حیات انسانی گو اس زمانہ میں بہت مختصر رہ گئی ہے تاہم زمانہ حال کی مدت عمر سے زیادہ دراز ہوتی ہو گی اور جو کہ طفولیت اور ہر ایک درمیانی زمانہ عمر کی حالت تمام عمر کے مجموعہ کے ساتھ جب کہ آدمی ڈیڑھ سو برس یا زیادہ عمر کے مجموعہ کے ساتھ جب کہ آدمی ڈیڑھ سو برس یا زیادہ عمر کے ہوتے تھے ہمیشہ کوئی معین مناسبت رکھتی ہو گی اس لیے قرین قیاس ہے کہ اس زمانہ میں چودہ یا سولہ برس کی عمر تک ضعیف اور ناتواں رہتے ہوں گے اور میرے نزدیک اس قصہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بیٹوں کے زمانہ میں یہی صورت ہو گی۔ جو سفس کے ذہن میں بھی یہی بات آئی تھی کیوں کہ اس کا صریح بیان ہے کہ حضرت اسمعیل ؑ اس وقت تنہا نہیں جا سکتے تھے مگر یہ دلیل کیسی بیہودہ ہے کیوں کہ تین ہی پشتوں کے بعد یہ سب باتیں بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں اس لیے کہ حضرت یوسف ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے پوتے کے بیٹے سترہ برس کی عمر میں اپنے بھائیوںکے ساتھ باپ کے مویشی چرایا کرتے تھے اور تیس برس کی عمر میں عزیز مصر کے خواب کی تعبیر بیان کی تھی اور اس کے وزیر ہو گئے تھے۔‘‘ اس مضمون پر ایک اور مصنف یہ لکھتا ہے کہ حضرت اسمعیل ؑ گو بچہ کہلاتے تھے مگر سولہ سترہ برس کے ہوں گے اور اس لیے اپنی والدہ کی اعانت اور مدد کرنے کے قابل ہوں گے جس طرح کہ انہوں نے بعد کو کی۔ ایک اور مصنف کہتا ہے کہ اس جملہ کو ’’ کندھے پر رکھ دیا‘‘ خطوط ھلالی کے اندر رکھ دیا جاتا جیسا کہ بشپ کڈیر اور اسٹیک ھوس اور پائل نے کیا ہے (جس سے اشارہ ہوتاہے کہ یہ لفظ توریت میں نہیں ہیں) تو یہ آیت مشتبہ نہ ہوتی۔ حضرت ھاجرہ کا اس مقام پر آباد ہونا جہاں اب شہر مکہ آباد ہے اصل واقعہ صرف اتنا ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنی بی بی سارہ کے کہنے سے اپنی دوسری بی بی ھاجرہ اور ان کے بیٹے اسمعیل کو جو ہوشیار اور بڑے ہو گئے تھے گھر سے نکال دیا اور وہ دونوں بیابان بیر شبع میں چلے گئے۔ چلتے چلتے اور منزلیں طے کرتے ہوئے وہ اس مقام پر پہنچے جہاں اب مکہ ہے۔ پیاس کی شدت سے حضرت اسمعیل کی حالت خراب ہو گئی اور مرنے کی نوبت پہنچ گئی حضرت ھاجرہ ان کو ایک درخت کے سایہ میں بٹھا کر پانی کی تلاش کو ادھر ادھر دوڑتی پھریں اور بہ مشکل پانی ملا اور جہاں پانی ملا تھا اسی جگہ انہوں نے سکونت اختیار کر لی کیوں کہ عرب میں اسی جگہ لوگ سکونت اختیارکرتے تھے جہاں پانی دستیاب ہوتا تھا۔ قرآن مجید سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے اس میں یہ آیت ہے ’’ ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک الحرم‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت اسمعیل اس مقام کے پاس سکونت پذیر ہوئے تھے جہاں کہ بالفعل خانہ کعبہ واقع ہے اور جہاں کہ اب شہر مکہ آباد ہے عبرانی لفظ مدبر اور عربی لفظ وادی اور الفاظ ’’ غیر ذی زرع‘‘ جو قرآن مجید میں آئے ہیں ایک ہی معنے رکھتے ہیں لفظ فاران اور لفظ ایل فاران جو سفر تکوین باب21ورس14 اور باب14 ورس2میں آیا ہے ان دونوں سے ایک ہی مقام مراد ہے اور لفظ ایل فاران سے بالتخصیص وہ پہاڑ مراد ہیں جو کعبہ کے گرد واقع ہیں اور صفا اور مروہ اور ابو قبیس اور حرا وغیرہ کے نام سے مشہور ہیں عبرانی زبان میں ’’ ایل‘‘ کے معنی خدا کے ہیں فاران کے پہلے ’’ ایل‘‘ کا لفظ لگانے سے انسان کا دل اس کی وجہ کی تفتیش پر متوجہ ہوتا ہے اور اس پر قرار پاتا ہے کہ اس جگہ ضرور کوئی ربانی کرشمہ ظاہر ہوا ہے یا ظاہر ہونے والا ہے خانہ کعبہ کے گرد جو پہاڑ ہیں اور جہاں کہ مسلمان حج ادا کرتے ہیں علی العموم بنام’’ الال‘‘ مشہور ہیں بعض صرف و نحو کے عالموں نے ’’ الال‘‘ کو واحد لکھا ہے اور بعضوں کے نزدیک جمع کا صیغہ ہے اس لفظ کے صحیح اشتقاق کی نسبت بہت بحث ہے بعض کچھ کہتے ہیں اور بعض کچھ مگر کوئی بات اطمینان کے قابل نہیں ہے ہماری رائے میں کچھ شک نہیں ہے کہ یہ اسی لفظ’’ ایل‘‘ سے مشتق ہوا ہے ابتدا میں پہاڑ کے نام کے ساتھ اس کا استعمال تھا بمعنی کوہ خدا پھر جو کہ ایل فاران خاص حجاز میں تھا عربوں نے اس نواح کے تمام پہاڑوں کے لیے ’’ ایل‘‘ کی جمع’’ الال‘‘ بنا لی اور مکہ کے پہاڑوں پر اس کا اطلاق کرنے لگے۔ اگرچہ واقعات مندرجہ توریت مقدس اور قرآن مجید جن کا ہم نے اوپر بیان کیا آپس میں مطابقت رکھتے ہیں تاہم تین بڑے بڑے سوالات ہیں جو حضرت اسمعیل کی سکونت سے علاقہ رکھتے ہیں اول یہ کہ: حضرت ابراہیم نے حضرت اسمعیل اور ان کی والدہ کو گھر سے نکال دینے کے بعد کہاں چھوڑا تھا۔ دوم یہ کہ: حضرت اسمعیل اور حضرت ھاجرہ نے بیابان میں آوارگی کے بعد کس جگہ سکونت اختیار کی۔ سوم یہ کہ: آیا وہ اسی جگہ متوطن ہوئیں جہاں کہ پہلے پہل ٹھہری تھیں یا کسی اور جگہ۔ قرآن مجید میں ان امور کی بابت کچھ تذکرہ نہیں ہے وہ حدیثیں غیر مسند ہیں اور اس وجہ سے راویوں کا سلسلہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچتا اور جو کہ مقامی روایتوں میں ان واقعات کو جو مختلف موقعوں پر واقع ہوئے تھے خلط ملط کر دیا ہے اس لیے ان پر اعتبار نہیں ہو سکتا پس ہمارے نزدیک اول سوال کی نسبت جو کچھ توریت مقدس میں لکھا ہے اس سے زیادہ بحث کرنی فضول ہے۔توریت میں لکھا ہے کہ ’’ اس نے یعنی ابراہیم نے اس کو یعنی ھاجرہ کو روانہ کر دیا اور وہ چلی گئی اور بیان بیر شبع میں پھرتی رہی‘‘ (سفر تکوین باب21ورس14) دو باقی ماندہ سوالوں کے باب میں توریت مقدس کی عبارت اس طرح پر ہے کہ ایک جگہ لکھا ہے ’’ اور وہ یعنی اسمعیل پڑا ہو ااور بیابان میں سکونت پذیر ہوا اور ایک تیر انداز ہو گیا‘‘ (سفر تکوین باب21ورس21) توریت کا کوئی مفسر نہیں بیان کرتا اور نہ ملکی روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت اسمعیل پہلے کسی ملک میں آباد ہوئے ہوں اور پھر کسی اور ملک میں چلے گئے ہوں اس لیے یہ بات تسلیم کرنی ضرور ہے کہ حضرت اسمعیل اور ان کی والدہ جس حصہ ملک میں آباد ہوئی تھیں اسی میں آباد رہیں پس توریت میں جہاں صرف بیابان میں آباد ہونے کا ذکر ہے اس سے بیابان فاران ہی مراد ہے جس کی تصریح دوسرے ورس میں کی گئی ہے پس ان سوالوں کا حل کرنا اس بات کی تحقیق پر منحصر ہے کہ بیابان فاران جہاں کہ حضرت اسمعیل کا سکونت پذیر ہونا بیان کیا گیا ہے کون سی جگہ ہے۔ فاران کی تحقیق مشرقی جغرافیہ دانوں کا بیان ہے کہ تین مقام بنام فاران موسوم ہیں اول وہ مقام اور اس کے گرد و نواح کے پہاڑ جہاں اب شہر مکہ واقع ہے کیوں کہ اس زمانہ میں وہ بیابان تھا دوم وہ پہاڑ اور گاؤں جو مشرقی حصہ یا عرب الحجر میں واقع ہے سوم ایک ضلع جو سمرقند کی نواح میں واقع ہے۔ مشرقی جغرافیہ دانوں نے جو کچھ فاران کی نسبت لکھا ہے اس کو ذیل میں مندرج کرتے ہیں۔ فاران المذکور فی التوراۃ فی قولہ جاء اللہ من سینا واشرف من ساعیر واستعلن من فاران فساعیر جبال فلسطین وھوا نزالہ الانجیل علی عیسیٰ و فاران مکۃ او جبالھا علی ما تشہد بہ التوراۃ واستعلاثہ منھا انزالہ القرآن علی رسولہ محمد صلعم و فاران قریۃ من نواحی سغد سن اعمال سمرقند و قیل فاران والطور کورتان من کور مصر قبیلہ (مراسد الاطلاع علی اسماء الا مکنۃ والباقع، و معجم البلدان یا قوت حموی) والطور جبل بارض مصر عند کورہ تسمل علی عدۃ قوی قبلیھا و بالقرب منھا جبل فاران مراصد الاطلاع و معجم البلدان فاران ثلثۃ مواضع فاران اسم جبال مکۃ و قیل لھا اسم جبال الحجاز ولھا ذکر فی التوراۃ یجی فی اعلام نبوۃ النبی صلعم قال الامیر ابو نصر ابن ما کولا ابو بکر نصر بن القاسم بن قضاعۃ القضاعی الفارانی الا سکندری سمعت ان ذلک نسبۃ الی جبال فاران وھی الحجاز و فاران قال ابو عبداللہ القضاعی فی کتاب خصط مصر فاران و الطور کور تان من کور مصر القبلیۃ و فاران من قری سمرقند مشترک یا قوت الحموی۔ الطور سبعۃ مواضع والطور ایضا علم الجبل بعینہ عند کورۃ تشتمل علی عدۃ قوی بارض مصر من جھتہ القبلیۃ بینھا و بین جبل الفاران مشترک۔ وطریق آخر علی ساحل البحر القلزمی۔۔۔۔۔۔ من مصر الی عبن شمس۔۔۔۔ ثم الی بطن مغیرہ۔۔۔۔ ثم الیٰ جون فاران۔۔۔۔۔ و بالقرب من فاران موضع صعب اذا سلک والریح ایضا مغربا والدیور مشرقا و یسمی جبلان من جبلان الی جبل الطور الی ایلہ الخ نزھۃ المشتاق لشریف الادریسی۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ کسی غیر ملک اور مذہب کے مورخ نے فاران اور حجاز کو جہاں اب مکہ معظمہ واقع ہے ایک ہی قرار دیا ہو لیکن عربی ترجمہ توریت سامری میں جس کو آر کوئی ٹن صاحب نے 1851 ء میں بمقام لگڈنی بٹاورم چھپوایا ہے اس میں فاران اور حجاز سے ایک ہی جگہ مراد لی ہے اور فاران کے لفظ کے آگے خطوط ھلالی میں حجاز کا لفظ لکھ دیا ہے اور وہ عبارت یہ ہے: ’’ او سکن فی یریۃ فران (الحجاز) و اخذت لہ امہ امراۃ من ارض مصر ‘‘ (عربی ترجمہ توراۃ سامری) عموماً عیسائی مورخ اس بات کو کہ فاران اور حجاز ایک ہی جگہ سے مراد ہے تسلیم نہیں کرتے اس تسلیم نہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ اگر وہ اس کو تسلیم کر لیں تو اس بات کی تسلیم بھی لازم آتی ہے۔ کہ جو پشین گوئی توریت میں فاران کی نسبت بیان ہوئی ہے بلا شبہ اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی ہونا مراد ہے۔ بہر حال ان مصنفوں کا فاران کی نسبت مختلف طرح کا بیان ہے۔ اول : یہ کہ بعض کہتے ہیں کہ فاران وہ وسیع قطعہ زمین ہے جو پیر شبع کی شمالی حد سے لے کر کوہ سینا تک چلا گیا ہے اور فاران کے نام سے مشہور ہے اس کی حدود اربع عموماً یہ بتلاتے ہیں شمال میں کنعان، جنوب میں کوہ سینا، مغرب میں مصر اور مشرق میں کوہ سعیر، اس میں بے شمار چھوٹے چھوٹے بیابان ہیں جن کو ملا کر کل بیابان بنتا ہے اور وہ چھوٹے چھوٹے بیابان علیحدہ علیحدہ ناموں سے معروف ہیں مثلاً شور، بیر شبع، ایثام سین، زین، عیدام وغیرہ۔ دوم: بعض مصنفوں کا گمان ہے کہ قادیش جہاں کہ حضرت ابراہیم نے ایک کنواں موصوم بہ بیر شبع کھودا تھا اور فاران ایک ہی مقام ہے۔ سوم: بعضوں کی یہ رائے ہے کہ فاران اس بیابان کا نام ہے جو کوہ سینا کے مغربی ڈھلاؤ1؎ پر واقع ہے بے شمار 1 یہ ایک ایسا نام ہے جس کا اطلاق توریت میں اس سارے صحرا پر معلوم ہوتا ہے جو کہ یہودیہ کی سرحد سے لے کر حوالی سینا تک پھیلتا ہے جو کہ ہم فاران کو حوالی سینا کے جنواب میں قطع میں (سفر اعداد باب10ورس12) اور شمالی جانب قادیش سے (سفر اعداد باب13ورس26) ملحق اور اور جگہ بھی پاتے ہیں اس لیے اس بات کا فرض کر لینا کہ فاران اس تمام قطعہ کا نام تھا جو ان حدود سے محدود ہے آسان معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ مقابل کے دو قطعوں کا ایک ہی نام قرار دیں اس لحاظ سے وہ دقت جو اس نام کی صحیح تطیق میں عارض ہوتی تھی ظاہر ہو گئی ہے جب کہ یہ دیکھا جائے کہ سب جداگانہ مقامات جو مختلف مصنفوں نے اس کے واسطے قرار دیے ہیں اس قدرے وسیع قطع میں مجتمع ہوتے ہیں جو کہ ہمارے نزدیک اس کا مصداق ہے یہ نام وادی فاران میں بھی بخوبی موجود ہے جو سینائے اسفل کی ایک وادی ہے اور جس میں ہو کر بنی اسرائیل ھنگام کوچ یہ مجانب ممالک اعلیٰ گزرے تھے (کیتوز سائیکلو پیڈیا آف بائیبل) ایک بیابان فلسطین کے جنوب کی جانب جہاں کہ حضرت اسمعیل سکونت پذیر ہوئے تھے (سفر تکوین باب21ورس21) جس کے مغرب میں ہلال اور یلق شمال میں یہودیہ کے جنوبی پہاڑ اور مشرق میں قادیش کا بیابان اور اس کے پہاڑیہ اہل پاران یا بیابان پاران ہے (سفر تکوین باب14ورس6) نیز وہ ملک جس کے بعض اقطاع میں موسم بر شکال میں گھاس اور سبزہ بہت ہوتا ہے جہاں کہ حضرت ابراہیم نے بودو باش اختیار کی تھی قادیش اور شور کے مابین اور جہاں کہ بنی اسرائیل کا قادیش کو جاتے وقت گذر ہوا تھا۔ (سفر اعداد باب12ورس16 و باب13ورس 28) بیابان و فاران سے مراد ان پہاڑوں سے بھی جنوب کی طرف واقع ہیں یا بیابان قادیش یا فاران بھی میدان ملحق کی وجہ سے کہلاتا تھا جس طرح وہ بھی قادیش کے نام سے بوجہ چشمہ قادیش کے مشہور تھا (پیپلز بائیبل ڈکشنری) سید احمد عمارتوں اور پرانی قبروں اور میناروں وغیرہ کے آثار وہاں اب بھی پائے جاتے ہیں مسٹر روپر کا بیان ہے کہ میں نے ایک کلیسا کے نشانات جو پانچویں صدی عیسوی میں بنایا گیا ہو گا۔ دریافت کیے اور ان کا یہ بھی بیان ہے کہ چوتھی صدی میں اس مقام پر عیسائی آباد تھے اور ایک بطریق بھی وہاں رہتا تھا ان بیانات کی تصدیق کرنے میں اور اس بات کے خیال میں کہ یہ شہر اس شہر سے مطابقت رکھتا ہے جس کا مشرقی مورخوں نے مشرقی کنارہ مصر پر موجود ہونا بیان کیا ہے ہمیں کچھ بھی کلام نہیں ہے۔ مگر یہ سب بیانات درست نہیں ہیں جن کی غلطی ہم ثابت کریں گے اگرچہ پہلے دو بیانات کی تائید میں کسی قسم کی شہادت موجود نہیں ہے اور اس لیے ان کی نسبت صرف یہ کہہ دینا کہ وہ ثابت نہیں ہیں کافی تھا لیکن اس غرض سے کہ ان کے غلط ہونے میں کچھ شبہ باقی نہ رہے ہم ان کی تردید کرتے ہیں۔ اول بیان کی تردید کے لیے یعنی اس بیان کی تردید کے لیے جس میں فاران کو ایک وسیع بیابان قرار دیا ہے اور ا س میں اور چھوٹے چھوٹے بیابان مثل شور اور سینا وغیرہ کے شامل کیے ہیں اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہے کہ اس کی تردید میں توریت مقدس کی چند آیتیں نقل کر دیں کیوں کہ ان سے صاف منکشف ہوتا ہے کہ فاران خود ایک جداگانہ بیابان ہے اور گرد و نواح کے بیابان اس میں شامل نہیں۔ (الف) ’’ وبنی اسرائیل از بیابان سینی کوچ نموداند و ابر در بیابان پاران ساکن شد ‘‘ 1؎ 1یعنی بنی اسرائیل بیابان سینا سے کوچ کر کے نکلے اور وہ ابر دشت فاران میں ٹھہر گیا (محمد اسماعیل (سفر اعداد (گنتی) باب10ورس12) اس عبارت سے جس کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل نے بیابان سینا سے کوچ کیا اور بیابان فاران میں مقام کیا قرار واقعی ثابت ہوتا ہے کہ وہ دونوں بیابان ایک دوسرے سے علیحدہ اور جداگانہ تھے۔ (ب) ’’ پس در سال چہار دھم کدر لا عومرو ملوکے بہمراھش بودند آمدہ رفائیاں را کہ در عشتروث قرنیم و زوزیاں را در ھام وایمیاں را در شاوہ قریا شایم شکست دادند و نیز حوریاں را در کوہ خودشاں سیعیر تا ایل پاران کہ در نزدیک صحرا ست‘‘ (سفر تکوین (پیدائش ) باب14ورس5,6) (یعنی چودھویں برس کے بعد کدر لا عو مرا اور اس کے ساتھ کے بادشاہ آئے اور رقائم کو عستارات قرنیم میں اور زوزیون کو ھام میں اور ایمم کوسوی قریتم میں اور حوریوں کو ان کے کوہ شعبر میں مارتے مارتے ایل فاران تک جو بیابان سے لگا ہوا ہے آئے محمد اسماعیل) پس جب تک کہ بیابان فاران کو ایک علیحدہ مقام نہ تسلیم کیا جاوے اس ورس کی عبارت مہمل ہو جاتی ہے۔ (ج) ’’ و خداوند موسیٰ را خطاب کردہ گفت کہ مرد مانے بہ سفر است تا آں کہ زمین کنعن را کہ بنی اسرائیل میدھم تجسس نمایند از ھر سبط آبائے ایشاں یک نفرے کہ درمیاں ایشان سرور باشد بفرستید پس موسیٰ ایشاں را بہ فرمان خداوند از بیابا پاران فرستاد و آں مردمان ھمگی روسائے بنی اسرائیل بودند‘‘ (سفر اعداد (گنتی) باب13 ورس1,2,3) (یعنی اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ آدمیوں کو بھیج کہ وہ ملک کنعان کا جو میں بنی اسرائیل کو دیتا ہوں حال دریافت کریں۔ ان کے باپ دادا کے ہر قبیلے سے ایک آدمی بھیجنا جو ان کے ہاں کا رئیس ہو، محمد اسماعیل) (5) ’’ ورونہ شدہ پیش موسیٰ و ھارون و تمامی جماعت بنی اسرائیل در بیابان پاران بہ قادیش ورسید ند و بہ ایشان و ھم بہ تمامی جماعت خبر رسائد و ھم بہ ایشاں میوہ زمین را نمودند ‘‘ (سفر اعداد (گنتی) باب13 ورس26) (یعنی وہ چلے اور موسیٰ اور ھارون اور بنی اسرائیل کی ساری جماعت کے پاس دشت فاران کے قادس میں آئے اور ان کو اور ساری جماعت کو سب کیفیت سنائی اور اس ملک کا پھل ان کو دکھایا محمد اسماعیل) (ہ) ’’ کہ گفت خداوند از سینی بر آمد و از سیعیر برایشاں تجلی کرد و از کوہ پاران در خشندہ شد و با ہزار ہزاراں مقدساں و رود نمود و از دست راستش بایشاں شریعتے آتشیں رسید‘‘ (سفر توریہ مثنی (استثنای) باب33 ورس2) (یعنی اس نے کہا خدا سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر ظاہر ہوا اور کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا اور ہزاروں ہزار پاک بازوں کے ساتھ آیا۔ اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشین (نورانی) شریعت تھی محمد اسماعیل) (و) ’’ خداوند از تیمان و قدوس از کوہ پاران آمد سلاہ جلالش آسمان ھا مستور کرد و زمین از حمدش پرشد‘‘ (کتاب حقوق باب3ورس3) (یعنی خدا تیمان سے آیا اور قدوس کوہ فاران سے، سلاہ، اس کے جلال نے آسمانوں کو ڈھانک لیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہو گئی محمد اسمعیل) (ز) ’’ و از مدیان بر خاستند و بہ پاران آمد ند و مرد مان چندے از پاران بہ ہمراہ خودشاں گرفتند و بہ مصر بہ خدمت فرعون بادشاہ مصر آمدند‘‘ (کتاب اول ملوک (سلاطین) باب 11 ورس 18) (یعنی انہوں نے مدیان کو چھوڑ دیا اور فاران میں چلے آئے اور یہاں سے کچھ آدمیوں کو اپنے ہمراہ لے کر فرعون بادشاہ مصر کے پاس گئے محمد اسماعیل) اور دوسرے بیان کی یعنی اس کی کہ قادیش اور فاران ایک ہی مقام ہے توریت مقدس کے مندرجہ ذیل ورسوں سے تکذیب ہوتی ہے (الف)’’ ونیز حوریاں را در کوہ خودشاں سیعیر تا ایل پاراں کہ در نزدیک صحراست و در گشتہ بہ عین مشپاط کہ قادیش است آمدند و تمامی مرز و بوم عمالیقاں و ھم اموریانی کہ در حصصوں تا مار ساکن بودند شکست دادند ‘‘ ( سفر تکوین (پیدائش) باب14ورس6,7) (یعنی اور حویوں اور ان کے کوہ شعیر میں مارتے مارتے اہل فاران تک جو بیابان سے لگا ہوا ہے آئے پھر وہ لوٹ کر عین مصفات یعنی فادس پہنچے اور عمالیقیوں کے تمام ملک کو اور اموریوں کو جو حصصوں نمر میں رہتے ہیں شکست دی محمد اسماعیل) یہ ظاہر ہے کہ جب تک قادیش اور فاران دو جداگانہ اور مختلف بیابان نہ قرار دیے جاویں۔ ورس مذکورہ بالا کے کوئی معنی نہیں ہو سکتے۔ (ب) ’’ و روانہ شدہ پیش موسیٰ و ھارون و تمامی جماعت بنی اسرائیل در بیابان پاران بہ قادیش و رسید ند و بہ ایشان و ھم‘‘ بتہامی جماعت خیر رساندند و ہم بہ ایشاں میوہ زمیں را نمودند (سفر اعداد (گنتی) باب13 ورس26) (یعنی اور وہ چلے اور موسیٰ اور ھارون اور بنی اسرائیل کی ساری جماعت کے پاس دشت فاران کے قادس میں آئے اور ان کو اور ساری جماعت کو سب کیفیت سنائی اور اس ملک کا پھل ان کو دکھایا محمد اسماعیل) اس ورس میں جن لفظوں کے نیچے ہم نے لکیر کر دی ہے ان کے ترجمہ میں ہم کو شبہ ہے اس لیے ہم اس کا ایک نہایت قدیم ترجمہ عربی کا جو 1671عیسوی میں مع لیٹن ترجمہ کے چھپا ہے اس مقام پر نقل کرتے ہیں۔ وقدموا الی موسیٰ و ھارون و جماعۃ بنی اسرائیل الی بریۃ فاران الی قادس (سفر العدد الا صحاح 13,26) اصل ابری عبارت میں صرف یہ لفظ ہیں ’’ ال مدبر فاران قادیش‘‘ عربی زبان میں جو قاعدہ بدل اور متبدل منہ کا ہے وہ عبری زبان میں نہیں ہے اور اس لیے فاران اور قادیش بدل اور مبدل منہ نہیں ہو سکتے اور ضرور ہے کہ بن دونوں کے درمیان کوئی لفظ مقدر مانا جاوے فارسی مترجم نے حرف ب کو مقدر مانا ہے اور ’’ بہ قادیس‘‘ ترجمہ کیا ہے اور عربی مترجم نے ’’ الی‘‘ مقدر مانا ہے اور ’’ الی قادیش‘‘ ترجمہ کیا ہے اور لیٹن کے مترجم نے جو لفظ مقدر مانا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے ’’ جو کہ ہے بیچ قادیش کے‘‘ مگر عربی قدیم ترجمہ صحیح معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ فاران کے ما قبل بھی ال یعنی ’’ الی‘‘ کا لفظ آیا ہے اور وہی لفظ قادیش پر سے محذوف کر دیا ہے پس اس ترجمہ کے مطابق معنی یہ ہوتے ہیں کہ ’’ آئے بیابان فاران کی طرف قادیش کی طرف سے یعنی قادیش کے رستہ سے‘‘ اس صورت میں صریح ظاہر ہوتا ہے کہ فاران اور قادیش دو مختلف مقاموں کے نام ہیں اور اسی کی تائید سفر تکوین کے ورسوں سے ہوتی ہے جو اوپر مذکور ہوئے ہیں۔ اب ہم کو تیسرے فاران پر غور کرنا چاہیے جس کا کوہ سینا کے مغربی ڈھلاؤ پر واقع ہونا بیان ہوا ہے اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ وہاں ایک مقام ہے جو فاران کے نام سے مشہور ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا وہ وہی بیابان ہے جس کا ذکر سفر تکوین میں آیا ہے کہ حضرت اسمعیل صحرائے بیر شبع میں سرگردانی کے بعد وہاں آ کر ٹھہرے تھے اور کیا وہ وہی مقام ہے جہاں حضرت اسمعیل فی الحقیقت متوطن ہوئے تھے اس لیے کہ اگر از روئے تجسس اور تفتیش کے یہ ثابت ہو جاوے کہ حضرت اسمعیل وہاں متوطن نہیں ہوئے تھے تو اس سے لازم آوے گا کہ یہ فاران وہ فاران نہیں ہے جس کا ذکر سفر تکوین میں آیا ہے۔ کوئی ملکی روایت ایسی موجود نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ حضرت اسمعیل نے اس جگہ سکونت اختیار کی تھی رورنڈ مسٹر فارسٹر جو اسی مقام کو حضرت اسمعیل کی سکونت کی جگہ خیال کرتے ہیں اور جس قدر دلائل اس کی تائید میں لاتے ہیں وہ کسی قسم کی شہادت پر مبنی نہیں ہیں مگر ہم اس غرض سے کہ ان کے غلط ہونے میں کچھ شبہ باقی نہ رہے ان دلیلوں کی غلطی بیان کرتے ہیں۔ مصنف موصوف نے سفر تکوین باب25ورس18پر جس کی یہ عبارت ہے ’’ وایشان از حویلاہ تاشور کہ ھنگام رفتن توبہ اشور در برابر مصرست ساکن بودند و مسکن او در حضور تمامی برادرانش افتاد‘‘ استدلال کر کے بیان کیا ہے کہ ’’ خدائے تعالیٰ کے وعدے اسی میں ایفا ہو گئے تھے جب کہ اسماعیلیوں کی آبادی شور سے حویلاہ تک انتہائے عرب میں یعنی سرحد مصر سے لے کر دھانہائے فرات تک پھیل گئی تھی۔‘‘ اول غلطی صاحب موصوف کی یہ ہے کہ حویلاہ کو دہا نہائے1؎ فرات پر قرار دیا ہے دراصل حویلاہ جس کے بانی کا نام سفر تکوین باب10ورس29میں مذکور ہے نواح یمن میں عرض بلد شمالی 17درجہ 30 دقیقہ اور طول بلد شرقی42 درجہ 36دقیقہ پر واقع ہے اور اس کی کامل تصدیق عرب کے اس نقشہ کے معاینہ سے ہو سکتی ہے جو عرب کے جغرافیہ کی شکل کے مطابق ہے واگر صاحب کے نقشہ کلاں سے چھوٹا کر کے بنایا گیا ہے اور اسی کے ساتھ شام اور مصر کے ان تمام اقطاع کو بھی زیر نظر رکھنا چاہیے جن کا نقشہ رورنڈ کار ٹوٹ پی کیرے ایم اے نے مرتب کیا ہے۔ 1رورنڈ مسٹر فارسٹر صاحب حویلاہ کی سکونت کی نسبت لکھتے ہیں کہ ’’ ارض حویلاہ سے جو حضرت موسیٰ کے پہلے صحیفہ میں مذکور ہے وہ حصہ عرب کا مراد ہے جو دھان ہائے فرات سے ملحق ہے اور جنوب کی جانب ساحل خلیج فارس کے برابر برابر چلا گیا ہے‘‘ یہ بیان اس بنا پر ہے (اگرچہ ہمارے نزدیک قابل وقعت نہیں ہے) کہ جزائر بحزین میں سب سے مشہور جزیرے ’’ اوال‘‘ کے نام میں اصلی نام حویلاہ کے آثار پائے جاتے ہیں اس دلیل کے استحکام میں صاحب موصوف یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ آگے آنے والی مثالوں سے عربی زبان کے استعمال میں جو مختلف تصرفات اس نام میں ہوئے ہیں معلوم ہوں گے جیسے اول ، اوآل، حوبل، حوبلاہ، خو، خط، خولان، چول، چولان، ان لفظوں میں سے بعضے لفظ ایک ہی جگہ یا ضلع کے مختلف نام ہیں ‘‘ ایسے عظیم سوالات کا اس طرح پر حل کرنا اور ان سے نتائج کا استنباط کرنا کامل اور ناطر قدارانہ تحقیقات کے قواعد معینہ کے مطابق نہیں ہے اور اسی لیے وہ قابل وقعت نہیں اور اسی باعث سے ہم نے کہا ہے کہ رورنڈ مسٹر فارسٹر نے اس بیان میں غلطی کی ہے علی الخصوص اس وجہ سے کہ یہی نام پورا پورا عرب کے دوسرے حصہ میں موجود ہے (سید احمد) دوسری غلطی یہ ہے کہ مصنف موصوف نے اور عیسائی مورخوں اور جغرافیہ دانوں کی تقلید اختیار کر کے ’’ شور‘‘ کو عرب الحجر کے مغرب میں قرار دیا ہے جہاں کہ صحرائے ایثام واقع ہے اور یہ قطعی غلطی ہے کیوں کہ صحرائے ’’ شور‘‘ سے توریت مقدس میں مراد تمام اس وسیع میدان سے ہے جو شام سے لے کر جانب جنوب ملک مصر تک منتہی ہوتا ہے۔ اصل عبری توریت میں صرف دو نام ہیں شور اور اشورہ بغیر الحاق لفظ صحرا کے موجود ہیں ان دونوں ناموں میں سے شور سے مراد شام اور اشورہ سے مراد اسریا ہے۔ اس سے صاف واضح ہے کہ بنی اسمعیل اس وسیع قطعہ میں آباد ہوئے تھے جو شمالی حدود یمن سے جنوبی سرحد شام تک منتہی ہوتا ہے یہ جگہ اب بنام حجاز معروف ہے اور فاران سے مطابقت رکھتی ہے ہمارے اس نتیجہ کی اس امر سے بھی تصدیق ہوتی ہے کہ یہی سر زمین ٹھیک مصر کے سامنے واقع ہوتی ہے اگر کوئی شخص وہاں سے اسریا کی جانب عزیمت کرے اور توریت مقدس کی اس آیت کی کماحقہ تصدیق ہوتی ہے جہاں لکھا ہے ’’ جو کہ سامنے مصر کے ہے اگر تو اسریا کی طرف روانہ ہو‘‘ یعنی مصر کے سامنے سے اگر تم ایک خط مستقیم وہاں سے اسریا تک کھینچو۔ فاران کی حدود اربعہ جو رونڈ مسٹر فارسٹر نے بہ حوالہ ڈاکٹر ولز کے قرار دی ہیں کہ اس کے مغرب میں بیابان شور ہے اور مشرق کوہ سیعیر اور شمال میں ارض کنعان اور جنوب میں بحر احمر یہ حدود بھی بالکل غلط ہیں۔ سینٹ پال حواری نے جو خط گلاٹیوں کے نام لکھا ہے اس کے چوتھے باب میں بائیسویں ورس سے چھبیسویں ورس تک یہ عبارت مندرج ہے ’’ یہ لکھا ہے کہ ابراہیم کے دو بیٹے تھے ایک لونڈی سے دوسرا آزاد سے وہ جو لونڈی سے تھا جسم کے طور پر پیدا ہوا اور جو آزاد سے تھا سو وعدے کے طور پر پیدا ہوا اس کے یہ معنی ظاہر ہیں کہ یہ عورتیں دو عہد نامے ہیں ایک تو کوہ سینی کی جو صرف غلام جنتی ہے ھاجرہ ہے کہ وہ ھاجرہ عرب کا کوہ سینی ہے اور یہاں کے یروشالم کی ہم جنس ہے اور اپنے لڑکوں کے ساتھ غلامی میں ہے پر اوپر کی یروشلم آزاد ہے سو ہم سبہوں کی ماں ہے‘‘ اس پر رورنڈ مسٹر فارسٹر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ کوہ سینا اور ہاجرہ ایک ہی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ قول خود مصنف موصوف ہی کا قول ہے کیوں کہ جہاں تک ہم کو واقفیت ہے ہم کسی عیسائی مصنف کا قول اس کے مطابق نہیں پاتے ہیں کوئی مشرقی مورخ یا جغرافیہ دان ایسا نہیں معلوم ہوتا جس نے کوہ سینا اور ہاجرہ کو ایک ہی سمجھا ہو اور نہ انجیل مقدس کی کسی آیت سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ کوہ سینا اور ہاجرہ سے ایک شے مراد ہے سینٹ پال خواری کا اصلی منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسی کوہ سینا پر دو معاہدے کیے گئے تھے ایک حضرت اسحاق کے ساتھ اور دوسرا حضرت اسمعیل پسر ہاجرہ کے ساتھ سنٹ پال حواری نے کنایتاً فرمایا کہ ’’ یہ ہاجرہ کوہ سینا ملک عرب میں ہے‘‘ یعنی یہ ہاجرہ یعنی بنی ہاجرہ وہ معاہدہ ہے جو کوہ سینا پر بھی کیا گیا تھا اور یروشلم کا ہمپایہ ہے جو بالفعل موجود ہے اور اس کی اولاد کے ساتھ غلامی میں ہے عبارت مذکور بالا کو اس طرح پر پھیرنا کہ اس کے معنی سے ہاجرہ اور سینا کا مقام واحد ہونا ثابت ہو جاوے بالکل غیر ممکن ہے۔ کتاب اول تواریخ ایام باب5ورس9اور10میں بعض اقوام بنی اسرائیل کے آباد ہونے کے ذکر کے ساتھ یہ عبارت مندرج ہے ’’ وبہ طرف شرقی تا مدخل بیابان کہ بہ کنارہ نہر فرات باشد ساکن می شدندا زیرا کہ در زمین گلعاد گہ ہائے ایشاں زیاد می شدند و در زمان شاول ایشاں باھگریاں دعویٰ کردند کہ آنہا بدست ایشاں آفادند و در چادر ہائے ایشاں در تمامی مرزو بومے کہ بہ طرف گلعاد باشد ساکن شدد‘‘ (یعنی اور مشرق کی طرف دریائے فرات سے بیابان میں داخل ہونے کی جگہ تک بسا ہوا تھا کیوں کہ ملک خلباء میں ان کے جو پائے بہت بڑھ گئے تھے اور ساؤل کے زمانہ میں انہوں نے ھاجریوں سے لڑائی کی جو ان کے ہاتھ سے قتل ہوئے اور وہ حلباء کے مشرق کے سارے علاقہ میں ان کے ڈیروں میں بس گئے۔ محمد اسماعیل) ان ورسوں پر استدلال کر کے رورنڈ مسٹر فارسٹر بیان کرتے ہیں کہ گلعاد کے شرقی نوح جو رود فرات اور خلیج فارس کی سمت میں ہے حضرت اسمعیل کے ابتدائی مقام سکونت سے مطابق ہوتا ہے ایک عرصہ کے بعد حضرت اسمعیل کی اولاد قریب قریب سارے جزیرہ نمائے عرب میں پھیل گئی اور انہیں سے بعض لوگ مقام متذکرہ بالا کو قدیمی باشندوں سے چھین کر وہاں جا بسے۔ مگر ان ورسوں سے جو مقصد رورنڈ مسٹر فارسٹر کا ہے وہ حاصل نہیں ہوتا کیوں کہ ان سے صرف یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ بنی ھاجرہ نے سواحل خلیج فارس پر شکست کھائی اور یہ شکست آٹھ سو برس بعد حضرت اسمعیل کے واقع ہوئی تھی ان ورسوں سے یہ بات کسی طرح ثابت نہیں ہوتی کہ یہ وہی جگہ تھی جہاں خود حضرت اسمعیل متوطن ہوئے تھے۔ رورنڈ مسٹر فارسٹر نے اس بات کے ثابت کرنے کے لیے کہ حضرت اسمعیل کی اولاد نے خلیج فارس کے شمالی سمت سے لے کر یمن تک تمام ملک پر قبضہ کر لیا تھا مختلف مقامات کے ناموں کی بنی ھاجرہ کے ناموں کے ساتھ مطابقت کرنے میں از حد کوشش کی ہے بعض مطابقتیں اسی طرحپر کی ہیں جن پر اعتبار نہیں ہو سکتا اور بعض میں اپنے معمولی قاعدہ کے مطابق صرف ایک حرف کے مطابق ہو جانے کو کافی سمجھا ہے اور بعض ناموں کے مطابق کرنے میں ان کو کامیابی بھی ہوئی ہے۔ لیکن جس امر کے قائم کرنے میں رورنڈ مسٹر فارسٹر نے اس قدر جاں فشانی سے ناکام کوشش کی ہے دو وجہ سے قابل التفات اور لائق توجہ نہیں ہے۔ اول اس لیے کہ ہمارے نزدیک بھی حضرت اسمعیل کی اولاد یعنی ان کے بارہ نامور بیٹے اور ان کے بیٹوں کی اولاد صرف اس تنگ قطعہ زمین میں محصور نہیں رہی جو مکہ معظمہ کے گردا گرد ہے بلکہ امتداد زمانہ میں ان کی اولاد قریب قریب تمام جزیرہ نمائے عرب میں پھیل گئی تھی مشرقی مورخ بھی اس کے قائل ہیں جیسا کہ عبارت مندرجہ ذیل سے ثابت ہوتاہے پس یہ امر متنازعہ فیہ نہیں ہے۔ ولما کثرولد اسمعیل علیہ السلام عاقت علیہم مکۃ فانشروا فی البلاد فکانو لا بدخلون بلدآ الا اظھر ہم اللہ علی اہلہ وہم لغوا العمالیق (معارف ابن قتیبۃ) دوم اس لیے کہ اس مقام پر یہ امر بحث طلب نہیں ہے کہ امتداد زمانہ کے بعد حضرت اسمعیل کی اولاد کہاں کہاں پھیل گئی تھی بلکہ اس بات پر بحث ہے کہ حضرت اسمعیل اور ان کی اولاد ابتدا میں کس جگہ آباد ہوئی تھی پس جو کچھ کہ رورنڈ مسٹر فارسٹر نے لکھا ہے اس سے امر بحث طلب کو کچھ علاقہ نہیں۔ اب ہم اس امر کو بیان کرنا چاہتے ہیں کہ کتب خمسہ حضرت موسیٰ میں اس فاران کا جو مشرقی مصر میں کوہ سینا کے مغربی ڈھلاؤ پر واقع ہے کچھ بھی ذکر نہیں ہے اور یہ امر اس وقت بخوبی واضح ہو جاتا ہے جب کہ حضرت موسیٰ اور ان کے ہمراہیان بنی اسرائیل کی صحرا نوردیوں کے مقامات پر لحاظ کیا جاوے۔ سفر خروج باب15ورس22میں لکھا ہے ’’ پس موسیٰ اسرائیلیاں را از دریائے احمر کو چانید و بہ بیابان شو رفتند و سہ روز در بیابان راہی شدہ آب نیا فتند‘‘ (یعنی پھر موسیٰ بنی اسرائیل ک وبحر قلزم سے آگے لے گیا اور وہ شور کے بیابان میں آئے اور بیابان میں چلتے ہوئے تین دن تک ان کو کوئی پانی کا چشمہ نہ ملا محمد اسماعیل) اور جب کہ انہوں نے بیابان سین کو طے کیا تب عمالیق کی قوم آئی اور رقیدیم میں بنی اسرائیل سے لڑی دیکھو (سفر خروج باب17ورس8) بنی عملیق قدیم رہنے والے رقیدیم کے نہیں تھے بلکہ اس وادی کے رہنے والے تھے جس کا ذکر سفر اعداد باب14 ورس25 میں ہے اور اس ورس میں بھی جو لفظ ’’ آئے‘‘ کا استعمال ہوا ہے اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ رفیدیم کے رہنے والے نہ تھے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ رفیدیم سینا کے جانب مغرب یعنی مشرق مصر میں واقع ہے اور یہ وہی جگہ ہے جہاں حضرت موسیٰ نے اپنے اعجاز سے ایک چٹان میں سے پانی کا چشمہ نکالا تھا اور اس کا نام ’’ مساہ‘‘ اور’’ مریبا‘‘ رکھا تھا(دیکھو سفر خروج باب17ورس6,7) اور اسی جگہ حضرت موسیٰ نے ایک قربان گاہ بنائی تھی اور اس کا نام ’’ یہوانسی رکھا تھا (دیکھو سفر خروج باب17ورس 15)‘‘ حضرت موسیٰ اب آگے کو مشرق کی طر ف بڑھے اور صحرائے سینا میں پہنچ کر کوہ خدا کے پاس ڈیرے ڈالے اور اسی مقام پر ان کے خسر مسمی یژو کاھن ان سے ملنے کو آئے (دیکھو سفر خروج باب18 ور5و باب19ورس2) اس میں کچھ شک نہیں کہ یثرو کاہن حضرت موسیٰ کے خسر کوہ سینا کے مشرق کی جانب سے آئے تھے کیوں کہ مدیان جہاں کہ وہ کاہن تھے اس کے مشرق کی سمت میں واقع ہے اس تمام سفر میں جو حضرت موسیٰ نے مصر سے سینا تک کیا فاران کا کچھ ذکر نہیں آیا۔ سینا سے بنی اسرائیل کا کوچ شمال مشرق کی سمت میں تھا اس سفر کے باب میں سفر اعداد باب10 ورس12 میں یہ لکھا ہے ’’ وبنی اسرائیل از بیابان سینی کوچ نمودند و ابر در بیابان پاران ساکن شد‘‘ حضرت موسیٰ نے اس سفر میں پہلی منزل اس مقام پر کی تھی جس کا نام ’’ تبعیراہ‘‘ تھا (دیکھو سفر اعداد باب11ورس3) پھر وہاں سے ’’ قبروث ھتاواہ‘‘ کو روانہ ہوئے اور وہاں سے ’’ حصیروث‘‘ کو کوچ کیا (دیکھو سفر اعداد باب11ورس34 و35) اور اس اخیر مقام سے کوچ کر کے بیابان پاران میں داخل ہوئے (دیکھو سفر اعداد باب12ورس16) جو کہ یہ پاران وہی جگہ ہے جہاں ابر کا ٹھہرنا بیان کیا گیا ہے اس لیے کچھ شک نہیں کہ حضرت موسیٰ کا کوچ شمالی اور مشرقی سمت میں تھا یعنی قادیش کی طرف (دیکھو سفر اعداد باب13 ورس26) اور اس لیے وہ فاران جس کا ذکر حضرت موسیٰ نے کیا ہے سینا کے مغرب کی جانب نہیں ہو سکتا۔ پس بآسانی یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ شہر فاران جس کو روپر صاحب نے بیان کیا ہے اور جس کے آثار انہوں نے پائے ہیں اور جو مشرقی مورخوں کی نظر سے بھی چھپا ہوا نہ تھا حضرت موسیٰ کے زمانہ میں موجود نہ تھا اور یہ کب خیال میں آ سکتا ہے کہ ایسے بیابان میں جس کی نسبت حضرت موسیٰ نے بیان کیا ہے کہ ’’ بیابان وسیع و ہولناک کہ درآں مار سو زندہ و عقرب و زمین خشک بے آبے بود‘‘ اس زمانہ میں کوئی شمر موجود ہو( دیکھو سفر توریہ مثنیٰ باب8ورس15) عیسائی مصنفوں نے بیابان فاران کا جو مقام قرار دیا ہے اس پر اعتبار کرنا حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کی صحرا نوردی کے بیان کی صحت پر منحصر ہے اور اس امر کی نسبت کہ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل صحرا نوردی کی حالت میں کن کن مقاموں پر ہو کر گذرے تھے خود عیسائی علماء اور فضلا میں اس قدر اختلاف ہے کہ اس قدر اختلاف شاید ہی کسی اور امر کی نسبت ہو ہم اس مقام پر حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کی صحرا نوردی کا ایک نقشہ شامل کرتے ہیں اس سے ظاہر ہو گا کہ خود علماء عیسائی سے پانچ مختلف رستے صحرا نوردی کے بیان کیے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کی نسبت بطور یقین کے بیان کیا جا سکے کہ در حقیقت ان پانچوں میں سے صحرا نوردی کا کون سا صحیح رستہ ہے۔ فاران پسر عوف کی اولاد بنی فاران کے نام سے مشہور تھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے زمانہ کے بعد کسی وقت میں کچھ لوگ اس قبیلہ کے یمن والوں اور قرب و جوار کی قوموں کے ساتھ دائمی جھگڑوں اور قصوں کے سبب سے شمال اور مشرقی سمت کو چلے گئے ہوں گے اور کوہ سینا کی مغرب کی جانب مشرقی مصر میں قیام کیا ہو گا جہاں رفتہ رفتہ ایک گاؤں یا قصبہ اسی قوم فاران کے نام سے آباد ہو گیا ہو گا۔ جس کا ذکر اوپر صاحب اور اور مشرقی مورخوں نے کیا ہے مگر حضرت موسیٰ کے وقت میں اس کا کچھ وجود نہ تھا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ اپنے ہم نام بیابان یا پہاڑ سے جس کا ذکر توریت میں ہے بالکل علیحدہ ہے۔ اگر بیابان فاران سے وہ سارا وسیع میدان مراد لیا جائے وج شام سے یمن تک چلا گیا ہے جیسا کہ خود کتاب مقدس میں مذکور ہے اور صرف ملکی روایتیں ہی اس کی تائید نہیں کرتیں بلکہ مشرقی مورخ بھی اس کے موید ہیں تب حضرت موسیٰ کے کوچ کے تمام بیان کی تطبیق ہو جاتی ہے اور اس کی صحت کی تصدیق ہوتی ہے جیسا کہ آگے بیان ہو گا۔ اس تمام وسیع میدان پر جو شام کے جنوب میں واقع ہے کاتبین مقدس عموماً ارض شور کا اطلاق کرتے ہیں مگر بعض مقام میں اس کو صرف ’’ بیابان‘‘ سے تعبیر کیا ہے (دیکھو سفر خروج باب13ورس 18) اور بعض جگہ ’’ بیابان عظیم‘‘ سے (دیکھو سفر توریہ مثنیٰ باب8ورس15) اور اس بیابان میں ایثام، سین، سینا، سن، قادیش، عیدام جو چھوٹے چھوٹے بیابان ہیں اور نیز ایک حصہ فاران کا شامل ہے۔ جو کچھ کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے شور اور شام کو ایک ہی ملک قرار دیا ہے سفر تکوین باب25 ورس18 میں دو نام آئے ہیں ایک شور اور دوسرا اشورہ تمام عیسائی مصنف اشورہ کو ’’ اسریا‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں پس کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ شور سے شام مراد ہے اگر کوئی اس سے انکار کرے تو اس کی وجہ بجز اس کے اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ اس تطبیق کا تسلیم کرنا اسلام کے مفید مطلب ہے کیوں کہ سفر توریہ مثنیٰ باب33ورس2اور کتاب حبقوق باب3ورس3 میں پشین گوئی ہے اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت صادق آتی ہے۔ ہمارے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ فاران کی شمالی حد پر قادیش اور مغربی حد پر صحرائے ’’ سن‘‘ اور خلیج عرب واقع ہے۔ جب کہ حضرت موسیٰ سینا سے روانہ ہوئے تو ابر قادیش کے نزدیک فاران میں ٹھہرا (دیکھو سفر اعداد باب10ورس12) اور حضرت موسیٰ ’’ تبیعراہ‘‘ ’’ قبروث ھتاواہ‘‘ اور ’’ حصیروث‘‘ ہو کر فاران میں آئے جو قادیش کے نواح میں ہے اس جگہ سے انہوں نے ایلچی روانہ کیے جو واپس آتے وقت اول قادیش میں پہنچے اور اس کے بعد فاران میں یہ ایک سیدھا اور صاف بیان ہے جس سے حضرت موسیٰ کے فاران میں سفر کرنے کا معما بخوبی حل ہو جاتا ہے۔ اب ہم توریت مقدس کے ان ورسوں پر غور کریں گے جو حضرت ھاجرہ اور حضرت اسمعیل کے نکال دینے کے باب میں ہیں سفر تکوین باب21ورس 14 و15 میں لکھا ہے کہ ’’ ابراہیم در صبحدم سحر خیزی نمودہ نان و مطہرہ آب را گرفتہ و بہ ہاجرہ دادہ بہ دو شش گزاشت و ہم پسرش را (باو دادہ) او را روانہ نمود پس راہی شدہ در بیابان بیر شبع سر گرداں شدہ و آبے در مطہرہ بود تمام شد و پسرا را در زیر بوتہ از بوتہا گذاشت‘‘ (یعنی ابراہیم نے صبح ہی صبح اٹھ کر روٹی اور پانی کا ایک مشکیزہ لیا اور اسے ہاجرہ کو دیا بلکہ اس کے کندھے پر دھر دیا اور لڑکے کو بھی اس کے حوالے کر کے اسے رخصت کر دیا سو وہ چلی گئی اور بیر شبع کے بیابان میں آوارہ پھرنے لگی اور جو پانی مشکیزہ میں تھا جب وہ ختم ہو گیا تو اس نے لڑکے کو ایک جھاڑی کے نیچے ڈال دیا محمد اسماعیل ) جس عبارت کے نیچے ہم نے خط کھینچ دیا ہے اس کے خواہ نخواہ یہ معنی نہیں ہیں کہ حضرت ہاجرہ بیابان بیر شبع ہی میں پھرتی رہیں اور اسی مقام پر صرف وہی پانی جو حضرت ابراہیم نے ان کو دیا تھا ان کے پاس تھا اور وہی ختم ہو گیا تھا بلکہ دو وجہ سے اس ورس کے ایسے معنی لینے صحیح نہیں ہیں اول اس وجہ سے کہ بیر شبع جو حضرت ابراہیم نے قادیش کے نزدک کھودا تھا اور جس کے نواح میں وہ خود ایک عرصہ دراز تک رہے تھے ایک ایسا مقام تھا جس کے حالات اور جس کے قریب پانی کے کنوؤں کا ہونا حضرت ہاجرہ سے پوشیدہ نہ تھا دوم اس وجہ سے کہ بیابان بیر شبع میں پانی کا اس قدر نایاب ہونا نا ممکن تھا کیوں کہ وہاں صرف حضرت ابراہیم ہی کے بنائے ہوئے کنوئیں نہیں تھے بلکہ قوم فلسطین کے تعمیر کئے ہوئے بھی موجود تھے (دیکھو سفر تکوین باب26ورس18 لغایت22) ہمارے نزدیک ا س عبارت کے معنی جو عیسائی مصنفوں نے قرار دیے ہیں اس سے زیادہ تر صحیح اور صاف یہ ہیں کہ مکان سے نکلنے کے بعد حضرت ہاجرہ بیابان بیر شبع میں پھرتی رہیں مگر ملک کا وہ حصہ سکونت کے قابل نہ تھا کیوں کہ بیر شبع کے ارد گرد ایسی قومیں رہتی تھیں جو لڑاکا اور جھگڑالو تھیں اور ذرا سا رحم بھی ان کے دل میں نہ تھا اس لیے حضرت ہاجرہ نے ایسے مقام پر جانے کا خیال کیا ہو گا جہاں ان کو امن ملے اور آسائش سے رہ سکیں اور ایسا مقام بلا شبہ وہ تھا جہاں عرب العاربہ کی قومیں رہتی تھیں اور اس لیے کچھ شک نہیں رہتا کہ حضرت ہاجرہ نے اس نواح میں جانے کا قصد کیا۔ جو ایک چھاگل پانی حضرت ابراہیم نے ان کے ساتھ کر دیا تھا وہ ختم ہو گیا ہو گا اور رستہ میں متعدد جگہ سے جہاں کہیں پانی دستیاب ہوا ہو گا حضرت ہاجرہ نے بھر لیا ہو گا لیکن جب وہ بیابان فاران میں پہنچی ہوں گی تو پانی ملنے کی مشکل پیش آئی ہو گی کیوں کہ اس بیابان میں پانی نہایت کمیاب ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت ہاجرہ اس مقام پر پہنچیں جہاں اب مکہ معظمہ ہے تو ان کے پاس باقی پانی نہیں رہا تھا اور حضرت اسمعیل تشنگی کے سبب سے ضعیف اور قریب مرگ ہو گئے ہوں گے اور حضرت ہاجرہ نہایت تشویش اور اضطراب کی حالت میں ادھر ادھر پانی تلاش کرنے کو دوڑتی پھرتی ہوں گی یہ بیان ایسا صاف ہے جس میں کوئی امر خلاف قیاس یا خلاف فطرت انسانی نہیں ہے۔ خانہ بدوش عرب پانی کے چشمہ کو جو ان کو جنگل میں ملتا تھا جھاکڑ وغیرہ ڈال کر مٹی سے چھپا دیتے تھے تاکہ ان کے سوا اور کسی کو اس کا پتہ نہ ملے اور یہ رسم پانی کے کمیاب ہونے سے ان میں جاری تھی اور اب تک جاری ہے۔ یہ بات نہایت قرین قیاس ہے کہ اسی طرح عربوں نے اس چشمہ کو جو اس مقام پر واقع تھا جہاں اب چاہ زمزم واقع ہے چھپا دیا ہو گا کیوں کہ لفظ ’’ بیر‘‘ عبری میں چشمہ آب کے معنی میں بھی آیا ہے۔ ان تمام حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس وقت حضرت ہاجرہ مظربانہ ادھر ادھر دوڑ رہی تھیں تو ان کو وہ چشمہ مل گیا توریت مقدس کی عبارت سے بھی اسی طرف اشارہ پایا جاتا ہے جہاں لکھا ہے ’’ وخدا چشمان اور را کشادہ کرد و چاہ آبے دید و روانہ شدہ مطہرہ را از آب پر کردہ و بہ پسر نوشاید‘‘ (یعنی خدا نے اس کی آنکھیں کھولیں اس نے پانی کا ایک چشمہ دیکھا تو اس میں سے مشکیزہ بھرا اور لڑکے کو پلا کر روانہ ہو گیا(سفر تکوین باب31ورس19) محمد اسماعیل عربی روایتوں میں اس واقعہ کو اس طرح پر تعبیر کیا ہے کہ ایک فرشتہ نے اس مقام پر اپنے بازو یا پاؤں سے ایک گڑھا کر دیا جس میں سے پانی نکل آیا یہ بیان اسی قسم کا ہے جیسا کہ مذہبی روایتوں کو ایک عظمت دینے کے لیے ہوتا ہے مگر جو اصلی واقعہ ہے وہ اس سے صاف پایا جاتاہے۔ بخاری کی حدیث ہم نے اوپر نقل کی ہے اور اس کو بجائے پیغمبر کی حدیث ہونے کے ایک قومی اور ملکی روایت کا درجہ دیا ہے اس سے بھی اتنی بات کہ حضرت ہاجرہ جب اس مقام پر پہنچیں جہاں اب ملکہ ہے تو پانی ہو چکا اور حضرت اسمعیل تشنگی سے قریب المرگ ہو گئے تو وہاں ان کو چشمہ مل گیا بخوبی ثابت ہوتی ہے پس یہ ایک ایسی روایت ہے جس کو ایام جاہلیت کے عربوں نے ہمیشہ مستند تسلیم کیاہے اور باوجود ے کہ وہ لوگ بے شمارقوموں اور فرقوں میں جو ایک دوسرے کے مخالف تھے اور ہر ایک کا مذہب اور اعتقاد بھی جداگانہ تھا منقسم ہو گئے تھے اس پر بھی مذکورہ بالا امر میں سب متفق تھے اس لیے ہم اس روایت کو جھوٹی اور موضوع نہیں خیال کرتے خصوصاً اس صورت میں کہ توریت مقدس کے متعدد مقامات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ بہر حال حضرت ہاجرہ نے اس مقام پر جہاں ان کو پانی کا چشمہ ملا تھا رہنا شروع کیا جب اور لوگوں کو اس چشمہ کی خبر ہوئی تو بنی جرھم کے بہت سے لوگ اس کے قرب و جوار میں آ کر آباد ہوئے۔ حضرت اسماعیل کا نکاح اور ان کی بیویاں بخاری نے حضرت اسمعیل کے نکاح کرنے کی بابت ایک روایت لکھی ہے جس کو ہم بجنسہ ذیل میں لکھتے ہیں۔ قال (اے ابن عباس) قمر تاس من جرھم بیطن الوادی فاذاھم بطیر کانھم انکروا ذلک و قالوا ما یکون الطیر الا علی ماء فبعثوا رسولھم فنظر فاذا ھو بالماء فاخبرھم فاتوا الیہا فقالو ایا ام اسمعیل اتاذنین لنا ان نکون معک او نسکن معک فبلخ ابنھا فنکح فیہم امراۃ قال ثم انہ بدا لا براہیم فقال لا ھلہ انی مطلع تر کتی قال فجاء فسلم فقال ابن اسمعیل فقالت امرتہ ذھب بصید قال قولی لہ اذ جاء غیر عتبۃ ببفک فلما جاء اخبرتہ فقال انت ذلک فاذھبی الی اھلک قال ثم انہ بد الابراہیم فقال لا ھلہ انی مطلع ترکتی فجاء فقال ابن اسمعیل فقالت امرتہ ذھب بصید فقالت الا تنزل فتطعم و تشرب فقال وما طعامکم و ما شرابکم قالت طعامنا اللحم و شرابنا الماء قال اللھم بارک لھم فی طعامھم و شرابھم قال فقال ابوالقاسم برکۃ یدعو ابراہیم (صلی اللہ علیہم وسلم) قال ثم انہ بد الابرا ہیم فقال لا ھلہ انی سطلع ترکتی فجاء فوافق اسمعیل من وراء زمزم بصلح بنلالہ فقال یا اسمعیل ان ربک امرنی ان ابنی لہ ییتا قال اطع ربک قال امرنی ان تعیننی علیہ قال اذا فعل او کما قال فقا ما فجعل ابراہیم یبنی و اسمعیل ینا ولہ الحجارۃ و یقولان ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم قال حتی ارتفع البناء و ضعف الشیخ عن نقل الحجارۃ فقام علی حجر المقام فجعل بنا ولہ الحجارۃ ویقولان ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم (بخاری کتاب الانبیائ) یہ روایت بھی انہیں وجوہات سے ہم نے بخاری کی پہلی حدیث کی نسبت بیان کی ہیں ایک ملکی روایت کی مانند ہے نہ کہ پیغمبر صاحب کی فرمائی ہوئی حدیث کی مانند اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت اسمعیل نے ایک عورت سے نکاح کر لیا اور اس کے بعد جب حضرت ابراہیم حضرت اسمعیل سے ملنے کو آئے تو اس عورت سے نکاح کرنے کو نا پسند کیا اور طلاق دے دینے کا اشارہ کیا چناں چہ حضرت اسمعیل نے اس کو طلاق دے دی اور وہاں کے نو آباد لوگوں میں سے ایک اور عورت سے نکاح کر لیا اس کے بعد جب دوسری دفعہ حضرت ابراہیم ان سے ملنے کو آئے تو اس عورت سے نکاح کرنے کو پسند کیا۔ مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسمعیل کی دونوں بیبیاں بنی جرھم کی قوم سے تھیں مگر توریت مقدس سے پایا جاتا ہے کہ انہوں نے پہلی دفعہ ایک مصری عورت سے نکاح کیا تھا۔ ہم کو اس بات کے یقین کرنے کی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا روایت میں جو پہلی بیوی کا بنی جرھم سے ہونا بیان کیا گیا ہے صحیح نہیں ہے غالباً پہلی بیوی ایک مصری عورت تھی اور یہی وجہ ہو گی کہ حضرت ابراہیم نے اس عورت سے نکاح کرنا نا پسند کیا ہو گا یہ بھی قرین قیاس ہے کہ بنی جرھم نے ابتداء میں اپنی قوم کی بیٹی کو حضرت اسمعیل کے نکاح میں دینے سے تامل کیا ہو گا کیوں کہ وہ حضرت اسمعیل کو غیر قوم اور غیر جنس خیال کرتے ہوں گے مگر باہم سکونت پذیر ہونے سے وہ خیال جاتا رہا ہو گا اور اس لیے یقین ہوتا ہے کہ ان کی دوسری بیوی بنی جرھم کی قوم سے تھیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل کا خانہ کعبہ کو تعمیر کرنا قرآن مجید میں نسبت تعمیر خانہ کعبہ کے یہ آیت موجود ہے واذ یرفع ابراہیم الواعد من البیت و اسمعیل ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم (سورہ البقرہ آیت121) (یعنی جب ابراہیم اور اس کا فرزند اسمعیل بیت اللہ کی دیواریں کھڑی کر رہے تھے تو انہوں نے خدا سے دعا مانگی کہ اے ہمارے رب! تو ہماری عرض کو قبول کر لے تو یقینا سننے والا اور جاننے والا ہے۔ محمد اسماعیل پانی پتی) اس آیت سے ثابت ہوتا ہے اور تمام قومی روایتوں سے یقینا متحقق ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل نے خانہ کعبہ کو بنایا تھا قرآن مجید کی رو سے بغیر کسی شک کے ہم مسلمان اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت اسمعیل پیغمبر تھے اور خدا نے ان کو مثل حضرت ابراہیم ان کے باپ کے وحی بھیجنے اور اپنی مرضی ظاہر کرنے کے لیے مبعوث کیا تھا تاکہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور وحدانیت کی طرف ہدایت کریں توریت مقدس میں جو وعدہ کہ خدائے تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے حضرت اسمعیل کی نسبت کیا تھا وہ اس طرح پر مندرج ہے ’’ ودر حق اسمعیل ترا شندیم اینک او را برکت دادہ ام و او را بارود گردانیدہ بغایت زیادہ خواھم نمود و دوازدہ سرور تولید خواھد نمود اور را امت عظمیٰ خواھم نمود‘‘ (سفر تکوین باب17ورس20) یہ وعدہ پورا ہوا اور آخیر تک پورا ہوتا چلا آیا (ا س عبارت کا ترجمہ یہ ہے ’’ اور اسمعیل کے حق میں میں نے تیری دعا کو سنا دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروں گا اور اسے بہت بڑھاؤں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بناؤں گا محمد اسماعیل)‘‘ عیسائی مصنف اس وعدہ کے ہونے کی نسبت تو کچھ کلام نہیں کر سکتے مگر از راہ مکابرہ یہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ جسمانی یعنی دنیوی طرز کا وعدہ تھا نہ روحانی طرز کا اگرچہ یہ ان کا کہنا صریح غلط ہے مگر اس مقام پر ہم اس مسئلہ پر بحث نہیں کرنے کے بلکہ آئندہ مضمون میں جس میں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کی بشارات کا توریت اور انجیل میں موجود ہونا بیان کریں گے اسی مضمون میں اس امر پر بھی بحث کریں گے۔ ذکر جو حضرت اسماعیل کے قربان ہونے کا مشہور ہے ایک اور روایت عموماً لوگوں میں مشہور ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو حضرت اسمعیل کی قربانی کر ڈالنے کا حکم دیا تھا۔ اس روایت کی کچھ اصلیت نہیں ہے زیادہ تر تقویت اس روایت کو ہوتی ہے جس میں حضرت اسحاق کی قربانی کرنے کے حکم ہونے کا ذکر ہے اور اس اختلاف کا جو سبب ہے وہ ہم آگے بیان کریں گے۔ حضرت ابراہیم نے جو اپنے بیٹے کی قربانی کرنے کا ارادہ کیا اس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح آیا ہے ’’ قال یا بنی انی اری فی المنام انی اذ بحک فانظر ما ذا تریٰ قال یا ایت افعل ما توم ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین فلما اسلما و تلہ للجبین و نادیناء ان یا ابراہیم قد صدقت الرویا انا کذالک نجری المحسنین ان ھذا لھو البلاء المبین و فدبناء بذبح عظیم ‘‘ (سورۃ الصفات آیت101 لغایت107) یعنی ابراہیم نے کہا ’’ اے میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا(جیسے) میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس سوچ کر جواب دے کہ اس معاملہ میں تیری کیا مرضی ہے؟ اس نے کہا اے میرے باپ! جو حکم آپ کو خدا سے ملا ہے اسے کر گذریے آپ مجھے انشاء اللہ صابر پائیں گے پھر جب وہ دونوں فرماں برداری پر آمادہ ہو گئے اور باپ نے اسے ماتھے کے بل (زمین پر) گرا لیا تو ہم نے اسے پکار کر کہا کہ اے ابراہیم! تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہم اسی طرح محسنوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں یہ یقینا (ابراہیم کی) سخت آزمائش تھی اور ہم نے اس کا فدیہ ایک بڑی قربانی کے ذریعہ سے دے دیا۔‘‘ محمد اسماعیل قرآن مجید میں اس امر کی تصریح نہیں ہے کہ حضرت اسحاق کی نسبت قربانی کا حکم تھا یا حضرت اسمعیل کی نسبت اور نہ کسی معتبر اور مستند حدیث سے اس کی تفصیل پائی جاتی ہے۔ بعض مسلمان مورخوں کا قول ہے کہ حضرت اسمعیل کی نسبت تھا یہ اختلاف توریت مقدس کی اس آیت کے مبہم اور غیر مصرح ہونے کی وجہ سے ہے جس میں اس مقام کا ذکر ہے جہاں مذکورہ بالا قربانی کا عمل میں آنا تجویز ہوا تھا اور وہ آیت یہ ہے ’’ خدا ابراہیم را امتحان نمود و باو گفت اے ابراہیم و او گفت اینک حاضرم و خداوند گفت کہ حال پسر یگانہ خود اسحاق را کہ دوست می داری بگیر و بر زمین موریاہ1؎ 1موریا کے معنی تلخی خدا یا حکم خدا یا خوف خدا اور نیز اور شلیم کے اس پہاڑ کا نام ہے جس پر بیت المقدس تعمیر ہوا تھا اور جس پر بالفعل حضرت عمر کی بنائی ہوئی مسجد واقع ہے اسی مقام کو عموماً وہ مقام خیال کرتے ہیں جہاں کہ حضرت ابراہیم کو اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسحاق کی قربانی کرنے کا حکم ہوا تھا گو کہ اس بات کے فرض کرنے میں بعض مشکلات پیش آتی ہیں توریت سامری سفر تکوین باب22ورس2میں بجائے موریا کے سر زمین مرہ لکھا ہے جیسا کہ انگریزی ترجمہ میں ہے اور مرہ کی نسبت لوگوں کو اطمینان ہو گیا تھا کہ یہ وہی مرہ ہے جو ’’ شکم‘‘ کے قریب تھا اور جہاں حضرت ابراہیم پہلے رہا کرتے تھے (سفر تکوین باب12ورس 6) اور وہ پہاڑ جس پر ان کا معبد بنا تھا ’’ جوزیم‘‘ تھا اور یہ اخیر رائے کسی قدر لحاظ کے قابل ہے اگر یہ متحقق ہو جاوے کہ قوم سامری نے اس مقام کو اپنی حدود کے اندر لانے کے واسطے اس ورس میں کچھ تعریف نہیں کی ہے بیر شبع سے اس مقام کا فاصلہ ترجمہ سامری کا کسی قدر موئد ہے کیوں کہ بیر شبع سے مرہ تک پورا تین روز کا رستہ ہے مگربیر شبع اور بیت المقدس کے درمیان فاصلہ بہت قلیل ہے بشرطیکہ راستہ میں کوئی امر حارج نہ ہو گیا ہو مسلمان راوی ہیں کہ اس واقع کا موقع وہ ہے جہاں کہ زمانہ ما بعد میں ان کا مشہور و معروف (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر) پرو (عربی ترجمہ میں بجائے لفظ ’’ موریاہ‘‘ کے ’’ ارض الرویا‘‘ لکھا ہے اور توریت سامری کے عربی ترجمہ میں ’’ ارض المختارہ المرشدہ‘‘ لکھا ہے) ’’ ودراں جا اور را دریکے از کوہ ہائے کہ بہ قومی گویم از برائے قربانی سوختنی تقریب نما‘‘ (سفر تکوین باب22 ورس1,2) بعض مسلمان مصنفوں نے اس گمنام جگہ کو بیت المقدس اور اس کے پہاڑ قرار دیے ہیں اور بعض نے مکہ معظمہ کے قریب کے پہاڑ جو لوگ اس مقام کو مکہ معظمہ کے پہاڑ قرار دیتے ہیں وہ اپنی رائے کی تائید میں بیان کرتے ہیں کہ عبری لفظ ’’ ھریم‘‘ جس کے معنی خیال کے ہیں تثنیہ اور جمع دونوں صیغوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس لیے وہ استدلال کرتے ہیں کہ اس سے مکہ معظمہ کے مشہور دو پہاڑوں صفا اور مروہ میں سے ایک مراد ہے۔‘‘ توریت مقدس میں اسی باب کی چودھویں آیت میں یہ لکھا ہے ’’ وابراہیم اسم آں مکان را یہواہ یراہ گذاشت کہ تا امروزش چنین ہم میخانند و در کوہ خداوند نمایاں است‘‘ مسلمان مورخوں کے نزدیک یہ مقام وہ ہے جو مکہ معظمہ کے پاس واقع ہے اور آج تک عرفات کے نام سے مشہور ہے پس جو لوگ اس قربان گاہ کو مکہ معظمہ میں قرار دیتے ہیں وہ (بقیہ حاشیہ گزشتہ صفحہ) معبد بمقام مکہ بنایا گیا تھا اور اس معاملہ میں اور نیز دیگر معاملات میں وہ حضرت اسحاق کی جگہ حضرت اسمعیل کو بتلاتے ہیں یہ ایک عجیب بات ہے کہ یہودی، سامری، مسلمان سب اپنے اپنے معبدوں کے موقعوں کو حضرت ابراہیم کے ایمان کی آزمائش یا امتحان کے مقام ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں (بائیبل سائکلوپیڈیا جلد2 صفحہ240) (سرسید) کہتے ہیں کہ قربانی کا حکم حضرت اسمعیل کی نسبت ہوا تھا اور جو لوگ اس قربان گاہ کو بیت المقدس میں قرار دیتے ہیں وہ حضرت اسحاق کی نسبت قربانی کا حکم ہونا کہتے ہیں جیسے کہ مسعودی نے لکھا ہے جس کی عبارت یہ ہے۔ وقد تنازع الناس فی الذبح فمنھم من ذھب الی انہ اسحق و منہم من راے انہ اسمعیل فان کان الامر بالذبح وقع بمنی فالذبح اسمعیل لان اسحق لم یدخل الحجازو ان کان الامر بالذبح و قع بالشام فالذبیح اسحق کان اسمعیل لم یدخل الشام بعد ان حمل منہ (مروج الذھب مسعودی) مگر ذی علم مسلمان عالموں کا صاف بیان ہے کہ حضرت اسحاق کی نسبت قربانی کا حکم ہوا تھا نہ کہ حضرت اسمعیل کی نسبت اور یہی امر مندرجہ حدیث سے بھی پایا جاتا ہے۔ عن محمد ابن المنتشر قال ان رجلہ نذر ان ینحر نفسہ۔۔۔۔۔۔۔ (فقال لہ مسروق) لا تنحر۔۔۔۔۔ واشتر کبشا فا ذبحہ للمساکین فان اسحق خیر منک و فدی بکبش۔۔۔۔۔۔ (رواہ ابن رزین مشکواۃ) اس حدیث میں مسروق کا صاف قول ہے کہ حضرت اسحاق قربان ہونے والے تھے۔ حضرت اسماعیل کے بیٹے اور ان کے آباد ہونے کے مقامات حضرت اسماعیل کے بارہ بیٹے تھے نبایوث، قیدار، ادبئیل، مبسام، مشماع، دوماہ، مسا ، حدر، تیما، یطور، نافیش، قید ماہ۔ 1نبایوث یہ شخص شمالی مغربی حصہ عرب میں آباد ہوا ٹھیک مقام اس قوم کے آباد ہونے کا نقشہ مرتبہ رورنڈ کاٹیری پی کیری ایم اے میں مابین 28,30 درجات عرض بلد شمالی 26,38 درجات طول بلد شرقی میں واقع ہے رورنڈ فارسٹر بیان کرتے ہیں کہ یہ قوم عرب الحجر کے وسط سے لے کر مشرق کی جانب اور وادی القریٰ کے اندر تک اور جنوب کی طرف کم از کم منتہائے خلیج عیلام اور حدود حجاز تک پھیلی ہوئی تھی اسطر ابواس سے بھی زیادہ وسیع قطعہ ان کی طرف منسوب کرتا ہے کیوں کہ وہ دو مقاموں کا ذکر کرتا ہے جو خلیج عرب پر واقع ہیں اور جن سے صریح ظاہر ہے کہ ان کی مملکت کی وسعت جنوبی اور عربی سمت میں مدینہ کی عرض بلد پر منتہی ہوتی تھی اور یہ دو مقام شہر و بندرگاہ حور یعنی بندرگاہ سفید جو ینبوع کے شمال میں ہے اور خود بندرگاہ ینبوع ہیں رورنڈ فارسٹر کہتے ہیں کہ اس مختصر بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قوم صرف پتھریلے بیابان عرب ہی میں نہیں بلکہ صوبجات عظیم حجاز اور نجد کے اندر تک بھی پھیلی ہوئی تھی۔ ممکن ہے کہ یہ قوم وقتاً فوقتاً اس وسیع ملک میں بھی پھیل گئی ہو جس کا اوپر ذکر ہوا۔ کتاب اشعیاہ نبی کے مندرجہ ذیل ورس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک نامی اور زبردست قوم تھی اور ورس یہ ہے ’’ تمامی گوسفنداں قیدار نزد تو گرد آمدہ تو چہائے نبایوث بکارت خواہند آمد و برمذبحم برضا مندی بر خواہند آمد و خانہ جلال خود را جلیل خواہم کرد‘‘ (کتاب اشعیاہ باب20ورس7) (یعنی ’’ قیدار کی سب بھیڑیں تیرے پاس جمع ہوں گی نبایوث کے مینڈھے تیری خدمت میں حاضر ہوں گے وہ میرے مذبح پر مقبول ہوں گے اور میں اپنے پر شوکت گھر کو جلال بخشوں گا‘‘ محمد اسماعیل 2قیدار یہ شخص بنی نبت کی جنوب کی طرف گیا اور حجاز میں آباد ہوا۔ زبور داؤد، کتاب اشعیاہ، ارمیاہ، حزقیل وغیرہ میں اس قوم کی عظمت و شوکت کی بے شمار شہادتیں ہیں اسی قوم میں سے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ ان کی بعثت سے خدا تعالیٰ کی رحمت اپنے بندوں پر ظاہر ہوئی ان کی ذات پاک کے سود مند اثروں سے رفتہ رفتہ دنیا کے ایک بڑے حصہ پر خدا کی برکت اور خدائے واحد کی عبادت پھیل گئی اور اب تک پھیلتی جاتی ہے عربوں اور مشرقی اقوام کے ہاں بے شمار روایتیں اس قوم کے باب میں موجود ہیں مگر ہم اس مقام پر اس روایت کا بیان کرنا چاہتے ہیں جس کو رورنڈ مسٹر فارسٹر نے مستند تسلیم کیا ہے۔ مصنف موصوف نے لکھا ہے کہ ’’ اشعیاہ نبی کے کلام سے (جو اوپر مذکور ہے) جو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ قیدار کی خیمہ گاہ اس اخیر حصہ ملک میں تلاش کرنی چاہیے۔ اس کی کماحقہ، تصدیق اسی نبی کے کلام کے ایک اور مقام سے بھی ہوتی ہے یعنی ارض قیدار کے بیان سے جس کو ہر شخص جو جغرافیہ عرب سے واقف ہو گا پہچان لے گا کہ اس قطعہ حجاز کا نہایت صحیح بیان ہے جس میں نامی شہر مکہ اور مدینہ واقع ہیں جس شخص کو زیادہ ثبوت اس مشابہت کا درکار ہو تو اس کو حجاز کا جغرافیہ جدیدہ معائنہ کرنا چاہیے جہاں کہ ینبوع کے قریب شہر ہائے الخضیر اور نبت جو اسمائے معرفہ فیدار اور نبایوث کی باقاعدہ عربی شکلیں ہیں خط حد کنندہ آج تک چلا آتا ہے اور کسی قدر معنی رکھتا ہے۔‘‘ اس کے بعد رورنڈ مسٹر فارسٹر لکھتے ہیں کہ ’’ یہاں تک تو ہم نے قیدار کے آثار جغرافیہ قدیمہ کی استعانت سے دریافت کئے ہیں اب یہ دیکھنا رہا ہے کہ یونانی اور رومی بیانات کا عربی روایتوں سے مقابلہ کرنے میں کس قدر ثبوت کی زیادتی حاصل ہوتی ہے کیوں کہ محققین یورپ کی رائے میں عربی روایتوں کی غیر موئدہ شہادت کیسی ہی قابل اعتراض اور مشکوک کیوں نہ ہو، مگر منصفانہ بحث کے مسلمہ قواعد کی رو سے ان کا قطعی اتفاق تواریخ دینی اور دنیوی سے انکار کرنا صریح غیر ممکن ہے خود عربوں کے ہاں زمانہ نا معلوم سے یہ ایک روایت چلی آتی ہے کہ قیدار اور اس کی اولاد ابتداً حجاز میں آباد ہوئے تھے اس شخص کی اولاد میں ہونے کا بالتخصیص قوم قریش جو مکہ کے والی اور کعبہ کے محافظ تھے ہمیشہ فخر کیا کرتے تھے اور خود محمد (صلعم) نے قرآن میں اپنی قوم کی ریاست اور اعزاز کے دعوؤں کی اسی بناء پر تائید کی ہے 1؎ کہ اسمعیل کی اولاد میں قیدار کے سلسلہ سے تھے ایسی قومی روایت کا اعتبار جیسے کہ یہ ہے تاریخی روایت کے پایہ کو پہنچ جاتا ہے جب کہ اس کی تائید ایک طرف تو کتب مقدمہ کے ان بیانات سے ہوتی ہے جن سے قیدار کا اسی حصہ جزیرہ نما میں ہونا ثابت ہوتا ہے اور دوسری جانب اریانوس، بطلیموس، پلینی اکبر کے زمانوں میں ملک حجاز میں قوم کیدڑی، درائی، کدرون تائی یاکدیتی کی موجودگی کی غیر مشتبہ اور نا قابل اشتباہ امر سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ‘‘ (جغرافیہ تاریخی جلد اول صفحہ248) 3ادبئیل مشرقی مورخوں نے اس شخص کی نسبت کچھ نہیں لکھا رورنڈ مسٹر فارسٹر کا بیان ہے کہ کتب مقدمہ میں صرف ایک مرتبہ ا س کا ذکر آیا ہے اور انہوں نے جو 1قرآن مجید آنحضرت ؐ کا بنایا ہوا نہیں بلکہ خدا کا کلام ہے (محمد اسماعیل) جوسفس کی سند پر بیان کیا ہے کہ ادبئیل کا ابتدائی مقام سکونت اس کے بھائیوں کے قرب و جوار میں تھا اس قدر بیان کے صحیح ہونے میں کچھ شبہ نہیں ہو سکتا لیکن جب وہ اس کے آثار دریافت کرنے پر متوجہ ہوتے ہیں اور مقاموں کے ناموں میں صرف چند حرف کی مشابہت ہونے سے اس کے آثار قرار دیتے ہیں تو اس پر اعتماد نہیں ہو سکتا۔ 4مبسام حال کے جغرافیہ اور عرب کی تاریخ میں اس شخص کا کچھ پتہ نہیں لگتا رورنڈ مسٹر فارسٹر کا بھی بیان ہے کہ اس اسمعیلی کے نام و نسل کے آثار بہ نسبت اس کے اور بھائیوں کے کم تر اور ضعیف تر ہیں پورا نام نہ قدیم جغرافیہ عرب میں پایا جاتا ہے اور نہ جدید جغرافیہ میں 5 مشماع مشرقی تاریخوں میں اس شخص کا کچھ پتہ نہیں چلتا لیکن اگر رورنڈ مسٹر فارسٹر کی یہ بات تسلیم کی جاوے کہ سفر تکوین اور تواریخ الایام کا مشماع اور یونانی توریت کا مسما اور جو سفس نے جس کو مسماوس اور بطلیموس نے مسی مانیس اور عربوں نے بنی مسما لکھا ہے اس سے ایک ہی شخص مشماع مراد ہے تو یہ کسی قدر آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ اس شخص کا ابتدائی مقام سکونت نواح نجد میں تھا۔ 6دو ماہ اس شخص کی اولاد اول تہامہ کے جنوب میں مدینہ کے قرب و جوار میں آباد ہوئی مگر جب کہ اس کی اولاد بڑھ گئی تو نقل مکانی کرنے کے لیے مجبور ہوئی اور اس مقام پر آباد ہوئی جہاں کہ بالفعل دومۃ الجندل واقع ہے شام اور مدینہ کے درمیان او ربہت سے مقامات ہیں جن کے نام اس شخص کے نام پر ہیں رورنڈ مسٹر فارسٹر بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اور مشرقی مورخوں کا بھی یہی قول ہے جس کی سند ذیل میں درج ہے۔ دومۃ الجندل۔۔۔۔۔۔۔ و قد جاء فی حدیث الوا قدی دو ماہ الجندل وعدھا ابن السقفیہ من اعمال المدینۃ سمیت بدوم ابن اسمعیل بن ابراہیم و قال الزجا جی دومان ابن اسمعیل و قیل کان لا سسمعیل ولد اسمہ دما لعلہ مغیرہ منہ قال ابن الکلبی دو ماہ بن اسمعیل قال و لما کثر ولد اسمعیل عم بالتہامۃ خرج دو ماہ بن اسمعیل حتی نزل موضع دومۃ و بنسی لہ حصناہ فقیل دو ماہ و نسب الحصن الیہ۔۔۔۔۔ قال ابو عبید السکونی دومۃ جندل حصن و قوی بین الشام والمدینہ قرب جبلی طی و دومۃ من القریات من وادی القری۔(معجم نبلدان) 7مسا رورنڈ مسٹر فارسٹر نے اس بات کے کہنے میں کہ اس شخص کی اولاد عراق عرب (الجزیرہ) میں آباد ہوئی تھی بلاشبہ غلطی کی ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ قوم یمن میں آباد ہوئی اور اس امر کی تائید’’ موسا‘‘ کے نام سے ہوتی ہے جو اب تک یمن میں موجود ہے یہ مقام پی کیر صاحب کے نام نقشہ کے بموجب 13درجہ 30 دقیقہ عرض بلد شمالی اور 33درجہ 30 دقیقہ عرض بلد شرقی میں واقع ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم ابتداء نواح حجاز میں متوطن ہوئی تھی مگر اس مقام کی تنگی کے باعث بعد کو یمن میں چلی گئی جو بوجہ اپنی انتہا شادانی اور بکثرت پیداوار کے ملک حجاز پر بدرجہا فوقیت رکھتا ہے۔ 8حدد تواریخ الایام میں اس کو ’’ حدد‘‘ لکھا ہے اس شخص نے جنوبی سمت اختیار کی اور حجاز میں آ بسا اس امر کی تصدیق بے شمار بیرونی اور اندرونی شہادتوں سے ہوتی ہے ایک مسلمان مورخ ’’ الزھیری‘‘ ،’’ حدد‘‘ کو منجملہ ان بے شمار قوموں کے جن میں عرب کے باشندے منقسم تھے بالتصریح بیان کرتا ہے یمن میں شہر حدیدہ اور بنی حدد کا موجود ہونا صریح ہمارے بیان کی صحت پر دلالت کرتا ہے۔ 9 تیما حضرت اسماعیل کے پہلے دو بیٹوں کے بعد باعتبار شہرت کے تیما کا درجہ ہے اس شخص کا ابتدائی مقام سکونت صوبہ حجاز تھا لیکن کسی نہ کسی زمانہ میں اس کی اولاد تمام وسط نجد میں پھیل گئی اور بعض ان میں سے خلیج فارس کے ساحل کے برابر منتشر ہو گئے مگر ہم کو حضرت موسیٰ کے کلام کی تصدیق جس سے حضرت اسمعیل کے بیٹوں کی ابتدائی آبادی کی جگہ پائی جاتی ہے منظور ہے تو ہم کو اسی مقام کی تحقیق اور تدقیق پر جہاں کہ ان میں سے ہر ایک شخص نے ابتداء سکونت اختیار کی تھی زیادہ تر توجہ مبذول کرنی چاہیے اس جگہ کی نسبت جہاں کہ ان کی اولاد بعد کو جا بسی۔ 10یطور رورنڈ مسٹر فارسٹر کہتے ہیں کہ اس بات پر یقین کرنے کے واسطے کامل دلیل ہے کہ اس قوم کا ابتدائی مقام سکونت ضلع ’’ جدور‘‘ تھا جبل قاسیوں کے جنوب اور جبل الشیخ کے مشرق اور شاہ راہ حجاج کے مغرب میں 11 نافیش مشرقی مورخ کچھ نہیں بیان کرتے کہ اس شخص نے کہاں سکونت اختیار کی تھی مگر رورنڈ مسٹر فارسٹر کہتے ہیں کہ اس کی اولاد سے ایک قوم عرب کا وادی القرے میں موجود ہونا حضرت موسیٰ اور مصنف تواریخ الایام اور جوسفس کی سہ گانہ شہادت سے بلا شک و اشتباہ متحقق ہے۔ 12قید ماہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص ملک یمن کی نواح میں آباد ہوا کیوں کہ مسعودی کا قول ہے کہ ایک قوم موسوم بہ ’’ قدمان‘‘ یمن میں تھی چناں چہ اس نے لکھا ہے۔ اصحاب الراس کانوا من ولد اسمعیل و ہم قبیلتان یقال لاحد اہما قدمان ولاخری یامین و قیل دعویل و ذلک بالیمن (مروج الذہب مسعودی) رورنڈ مسٹر فارسٹر نے اس بات کے خیال کرنے میں عجیب غلطی کی ہے کہ ’’ کاظمہ‘‘ جو خلیج فارس پر واقع ہے اور جس کا ذکر ابوالفدا نے کیا ہے اسی قید ماہ سے مطابقت رکھتا ہے۔ اولاد اسماعیل کے آثار تمام تلاش اور تفتیش کے بعد جو ہم نے حضرت اسماعیل کی اولاد کے ابتدائی مقام سکونت کے باب میں کی اس سے یہ نتیجہ پیدا ہوا کہ ان کے آثار یمن (حویلاہ) سے لے کر شام (شور) تک پائے جاتے ہیں اور اس طرح پر حضرت موسیٰ کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے جو سفر تکوین باب25ورس18 میں مندرج ہے کہ وہ حویلاء سے شور تک آباد ہوئے جو سامنے مصر کے ہے جب کہ تو اسریا کو روانہ ہوا۔ حضرت اسماعیل 4094 دنیوی مطابق1910قبل حضرت مسیح کے پیدا ہوئے تھے اور گھر سے نکالے جانے کے وقت ان کی عمر سولہ برس کی تھی اگر اس مدت عمر پر بیس برس اور اضافہ کیے جاویں تو ہمارے نزدیک حضرت اسماعیل کے بارہ بیٹوں کی ولادت کے واسطے کافی مدت ہو گی پس ہم اس بات کو کہہ سکتے ہیں کہ 4130 دنیوی یا 1874 قبل حضرت مسیح تک ان کا کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا تھا۔ ان بارہ بیٹوں نے کوئی اور بڑی شہرت حاصل نہیں کی بجز اس کے کہ عرب کی بارہ مختلف قوموں کے مورث ہوئے اور اسی باعث سے یہ قومیں مختلف شعبوں اور فرقوں میں منقسم نہیں ہوئیں بلکہ یکساں حالت میں رہیں مگر ایک مدت مدید کے بعد عدنان کی اولاد جو قیدار ابن اسماعیل کی نسل میں تھا مختلف شعبوں میں متفرق ہو گئی اور کارہائے نمایاں سے شہرت حاصل کی۔ عدنان مشرقی مورخ متفق الرائے ہیں کہ عدنان کے دو بیٹے تھے ’’ معد‘‘ اور ’’ عک‘‘ عک کی نسبت ان کا صرف اس قدر بیان ہے کہ وہ یمن کو چلا گیا مگر ان کتبوں سے جن کو رورنڈ مسٹر فارسٹر نے عاد کی قوم کے کتبوں سے موسوم کیا ہے اور جو حضر موت میں بمقام ’’ حصن غراب دریافت ہوئے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس نے کچھ عرصہ تک اس ملک میں بادشاہی کی تھی یہ کتبے مذکورۃ الصدر مقام میں1834ء میں آنریبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے جہاز مسمی ’’ پاملی نورس‘‘ کے افسروں نے دریافت کیے تھے ان کتبوں کا پورا پورا بیان مع کتبوں کی نقل کے ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کے جرنل کی تیسری جلد میں ملے گا رورنڈ مسٹر فارسٹر نے جو کچھ لکھا ہے اس سے پایا جات اہے کہ اس زمانہ میں ’’ عک‘‘ وہاں کا فرماں روا تھا۔‘‘ اس شاعرانہ کتبہ کی ٹھیک ٹھیک تاریخ قائم کرنے کی غرض سے رورنڈ مسٹر فارسٹر بیان کرتے ہیں کہ ’’ عک‘‘ عدنان کا بیٹا تھا اور بموجب حدیث حضرت ام سلمہ کے جو آں حضرت صلعم کی ازواج مطہرات میں سے تھیں عدنان حضرت اسماعیل سے چوتھی پشت میں تھا جس کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ کتبہ مصر کے قحط سے تھوڑے ہی عرصہ پہلے لکھا گیا ہو گا۔ لیکن رورنڈ مسٹر فارسٹر نے اس میں بڑی غلطی کی ہے کیوں کہ انہوں نے اس بات کے ثبوت میں کوئی کافی سند پیش نہیں کی ہے کہ آں حضرت صلعم نے عدنان کا حضرت اسمعیل کی چوتھی پشت میں ہونا کبھی بیان کیا تھا۔ انساب کی معتبر روایتوں کے بموجب عدنان آنحضرت صلعم سے بائیس پشت پہلے تھا۔ اب ایک پشت کی قدرتی میعاد پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عک انتالیسویں صدی دنیوی میں یا دوسری صدی قبل حضرت مسیح میں ہو گا۔ وائلہ ملقب بہ کلیب ابن ربیعہ بھی جو عدنان کی اولاد میں تھا بادشاہ ہوا تھا اور یمن والوں سے چند لڑائیاں بھی لڑا تھا۔ زھیر ابن جذیمہ اور نیز قیس ابن زہیر بھی باری باری سے حجاز کے بادشاہ ہوئے تھے مگر ان لوگوں کی تاریخیں معین کرنے کے واسطے ہمارے پاس کوئی معتبر سند نہیں ہے اس لیے ہم کسی قدر تیقن کے ساتھ تاریخیں قرار نہیں دے سکتے۔ لیکن خیال کرتے ہیں کہ یہ وہی زمانہ ہو گا جب کہ سلطنت یمن اور سلطنتیں حال زوال میں تھیں۔ آنحضرت صلعم عدنان کی نسل سے ہیں عدنان کی نسل میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 4570 دنیوی یا 570ء میں پیدا ہوئے اور تمام جزیرہ ثمائے عرب پر دینی اور دنیوی حکومت حاصل کی عیسائی مصنفوں نے آنحضرت صلعم کے نسب نامہ کی نسبت بہت کچھ لکھا ہے اور اس کو غیر مثبت قرار دینے کے لیے سعی بے حاصل کی ہے اور یہ مناسب موقع تھا کہ ہم بھی اس بحث میں شامل ہوتے اور عیسائی مصنفوں کے ہر ایک اعتراض کی تردید کرتے لیکن جو کہ ہمارا ارادہ ہے کہ اس مضمون پر ایک جداگانہ خطبہ لکھیں گے اس لیے بالفعل اس بحث کا ملتوی کر دینا مناسب ہے۔ دوئم ابراہیمی یا بنی قطورہ توریت مقدس میں لکھا ہے ’’ ودیگر ابراہیم زنے گرفت کہ اسمش قطو راہ بود و برایش زمران و یقشان و مدان و مدیان و یشباق و شرح را زائید ویقشان شبا و ودان را تولیدنمود و پسران ودان اشوریم و لطوشیم و لومیم بودند و پسران مدیان عیفاہ و عیفر و حنوک و ابیداع والد اعاہ بودند تمامی ایشان پسران قطو راہ بردند پس ابراہیم تمامی ما یملک خود را بہ اسحق داد‘‘ (سفر تکوین باب25ورس1لغایت 5) یہ سب لوگ عرب کو چلے گئے اور اس قطعہ میں آباد ہوئے جو حدود حجاز سے خلیج فارس تک منتہی ہوتا ہے اور ان کے نشانات اب تک جو اس ملک میں واقع ہیں پائے جاتے ہیں۔ انہی ابراہیمیوں میں سے حضرت شعیب نبی کو خدا تعالیٰ نے اقوام عائکہ اور مدیان کو اپنی خالص عبادت کی تلقین اور ہدایت کرنے کے واسطے معبوث کیا تھا۔ مگر ہم ٹھیک نہیں کہہ سکتے کہ یہ نبی کس زمانہ میں ہوئے تھے لیکن اگر ہم پثرو کاھن مدیان کو جن کا ذکر سفر خروج باب18ورس1,2 میں ہے اور شعیب کو ایک ہی شخص خیال کریں جیسا کہ عرصہ دراز سے لوگوں کو گمان ہے تو البتہ یہ کہنا بہت صحیح ہے کہ یہ نبی اس وقت میں تھے جب کہ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر لائے تھے۔ سوم ادومی یا بنی عیسو عیسو یعنی ادوم کی تین بیویاں تھیں عاداہ، اھلیبا ماہ، باسمث، دختر حضرت اسماعیل و خواہر نبایوث، پہلی بیوی سے ’’ الی فز‘‘ پیدا ہوا دوسری بیوی سے یعوش اور یعلوم اور قورح پیدا ہوئے تیسری سے رعوئیل پیدا ہوا الی فز کے بیٹے تیماں، اومر، سفو، گعتم، قنز، عمالیق تھے رعوئیل کے بیٹے نحث، زرح، شماۃ، مزاہ پیدا ہوئے (سفر تکوین باب36) عیسو کی تمام اولاد قریباً قریباً کوہ سیعیر کے قرب و جوار میں آباد ہوئی تھی بعض نے ان میں سے اپنی سکونت عرب الحجر میں اور حجاز کی شمالی سرحد پر اختیار کی تھی مگر ان لوگوں کی تعداد اس قدر کم تھی کہ اسی وجہ سے بعض مصنفوں نے بیان کیا ہے کہ عیسو کی اولاد کبھی عرب میں آباد نہیں ہوئی۔ چہارم، بنی ناحور سر ولیم میور بیان کرتے ہیں کہ ’’ عوص‘‘ اور’’ بوز‘‘ (دیکھو سفر تکوین باب22ورس21) پسران ناحور برادر ابراہیم شمالی عرب کی بے شمار قوموں کے مورث تھے اور اس کی سند میں کتاب ایوب باب1ورس1اور نباحاث یرمیاہ باب4 ورس21، در کتاب یرمیاہ باب25ورس20 کا حوالہ دیتے ہیں۔ پنجم بنی ھاران سر ولیم میور لکھتے ہیں ’’ یہ قوم بہ نسبت دیگر اقوام متذکرہ بالا کے سب سے زیادہ شمال کی جانب رہتی تھی ان کے نہایت جنوبی مقامات بحر لوط (ڈڈسی) کے مشرق میں واقع تھے اور ان میں عمدہ سبزہ زار ’’ بلکا‘‘ اور ’’ کرک‘‘ کے شامل تھے۔‘‘ ہاران کے بیٹے حضرت لوط تھے حضرت لوط کے بیٹے مواب اور بنی عمی تھے توریت مقدس میں ان کے پیدا ہونے کا نہایت ناپاک واقعہ اس پر طرح لکھا ہے ’’ ولوط از صوعر برآمدہ و در کوہ ساکن شد و دو دخترانش بہ ہمراہش زیرا کہ از سکون در صوعر ترسید و اوودو دخترانش در مغارہ ساکن شدند، و دختر بزرگ بہ دختر کوچک گفت کہ پدر ما پیر شد و کسے در زمین نیست کہ موافق عادت کل زمین بما در آید۔ بیا پدر خود را شراب بنو شانیم و با او بخوابیم و از پدر خود نسلے را زندہ نگاہ داریم پس دراں شب پدر خویشتن را شراب نوشانیدند و دختر بزرگ داخل شدہ با پدر خود خوابید واو نہ بوقت خوابیدنش و نہ بوقت برخاستنش اطلاع بہم رسانید و روز دیگر واقع شد کہ دختر بزرگ بہ دختر کوچک گفت کہ اینک دی شب با پدر خود خوابیدم امشب نیز اور را شراب بنو شانیم و تو داخل شدہ با او بخوابی و از پدر خود نسلے را زندہ نگاہ داریم و آں شب نیز پدر خود را شراب نوشانید ند و دختر کوچک برخاستہ با او خوابید کہ او نہ بوقت خوابیدنش و نہ بوقت برخاستنش اطلاع بہم رسانید و دو دختر لوط از بدر خود شان حاملہ شدند و دختر بزرگ پسرے را زائید و اسمش را مواب نامید کہ بحال پدر موابیاں او است و دختر کوچک او نیز پسرے را زائید واسمش را بن عمی نامید کہ تا بحال پدر بنی عموں اوست‘‘ (سفر تکوین (پیدائش) باب19ورس30 لغایت38) یعنی ’’ اور لوط صغر سے نکل کر پہاڑ پر جا بسا اور اس کی دونوں بیٹیاں اس کے ساتھ تھیں کیوں کہ اسے صغر میں بستے ڈر لگا اور وہ اور اس کی دونوں بیٹیاں ایک غار میں رہنے لگے تب پہلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ ہمارا باپ بوڑھا ہے اور زمین پر کوئی مرد نہیں جو دنیا کے دستور کے موافق ہمارے پاس آئے آؤ ہم اپنے باپ کو شراب پلائیں اور اس سے ہم آغوش ہوں۔ تاکہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں سو انہوں نے اسی رات اپنے باپ کو شراب پلائی اور پہلوٹھی اندر گئی اور اپنے باپ سے ہم آغوش ہوئی لیکن اس نے نہ جانا کہ وہ کب لیٹی اور کب اٹھ گئی اور دوسرے روز یوں ہوا کہ پہلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ دیکھو کل رات میں اپنے باپ سے ہم آغوش ہوئی آؤ آج رات بھی اسے شراب پلائیں اور تو بھی جا کر اس سے ہم آغوش ہو تاکہ ہم اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں سو اس رات بھی انہوں نے اپنے باپ کو شراب پلائی اور چھوٹی گئی اور اس سے ہم آغوش ہوئی، لیکن اس نے نہ جانا کہ وہ کب لیٹی اور کب اٹھ گئی سو لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں اور بڑی کے ایک بیٹا ہوا اور اس نے اس کا نام مواب رکاھ وہی موابیوں کا باپ ہے جو اب تک موجود ہیں اور چھوٹی سے بھی ایک بیٹا ہوا اور اس نے اس کا نام بن عمی رکھا وہی بنی عمون کا باپ ہے جو اب تک موجود ہیں ‘‘ محمد اسماعیل حضرت لوط اور ان کی بیٹیوں کی نسبت جو کچھ اس مقام میں لکھا ہے عیسائی اس سب کو قبول کرتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ حضرت لوط نے اپنی صلبی بیٹیوں سے مقاربت کی تھی مگر ایسا یقین کرنا در حقیقت تضحیک کے قابل ہے اگر ایسا ہوا ہوتا تو کیا یہ ایک مقدس شخص کی تہذیب اور متانت کے متناقض نہیں ہے؟ اور کیا حضرت لوط جیسے پاک شخص کے خلاف شان نہیں ہے؟ مسلمان اس بات کو تسلیم نہیں کرتے اور قرآن مجید میں اگرچہ لوط کا قصہ ہے مگر اس میں یہ بات کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں سے مقاربت کی تھی مذکور نہیں ہے۔ توریت مقدس میں جو کچھ بیان ہے اس کی نسبت ہم خیال کرتے ہیں کہ جو معنی عیسائی مصنفوں نے لیے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں آٹھویں ورس میں لوط کا قول لکھا ہے کہ ’’ مرا دو دختریست کہ مردے را ندانستہ اند تمنا اینکہ ایشاں را بہ شما بیروں آورم و با ایشاں آں چہ در نظر شما پسند است بکنید‘‘ (یعنی ’’ میری دو لڑکیاں ہیں جو مرد سے واقف نہیں مرضی ہو تو میںان کو تمہارے پاس لے آؤ اور جو تم کو بھلا معلوم ہوتی ہے کرو‘‘ محمد اسماعیل قرآن مجید میں اس جگہ تثنیہ کا لفظ نہیں ہے بلکہ جمع کا ہے جیسا کہ سورہ ھود میں ہے ’’ ھولاء بناتی ھن اطہر لکم‘‘ اور سورہ حجر میں ہے قال ھولاء بناتی ان کنتم فاعلین مسلمان عالموں کا قول مختار یہ ہے کہ لفظ ’’ بنات‘‘ سے حضرت لوط کی صلبی بیٹیاں مراد نہیں ہیں بلکہ قوم کی عورتیں مراد ہیں اور یہ بات حضرت لوط نے اس مراد سے کہی تھی جیسے کہ وہ ہمیشہ ان کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ تم اپنی خراب عادت فعل خلاف فطرت انسانی کو چھوڑو اور عورتوں سے نکاح کرو اور ان کے ساتھ رہو کہ وہ تمہارے لیے پاکیزہ زندگی ہے۔ توریت مقدس میں اس مقام پر لفظ بنوت آیا ہے جو بمعنی بنت کے ہیں مگر جس طرح عربی زبان میں بنت کا استعمال سوائے اصلی بیٹیوں کے اور عورتوں پر بھی ہوتا ہے اسی طرح عبری زبان میں بھی عام عورتوں پر بھی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ولیم اسمتھ کی عبرانی ڈکشنری میں لفظ ’’ بث‘‘ اور ’’ بنوث‘‘ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ عام عورتوں پر بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ کتب امثال سلیمان باب 31 ورس 29 میں استعمال ہوا ہے پس اس مقام میں بھی اس لفظ سے اصلی بیٹیاں مراد نہیں ہیں عورتیں مراد ہیں بلکہ غالباً لونڈیاں کیوں کہ حضرت لوط کی جو بیٹیاں تھیں جیسے کہ سفر تکوین باب 19 ورس 12 میں لکھا ہے ان کی شادیاں ہو چکی تھیں اور ان کے شوہر موجودتھے۔ جب حضرت لوط سدوم سے فرار ہوئے تو ان کے داماد اور ان کی بیٹیاں ان کے ساتھ نہیں گئے صرف حضرت لوط کی بیوی اور وہی دو عورتیں جن کا اوپر ذکر ہوا اور جن کو بیٹیاں کر کے تعبیر کیا ہے اور جو غالباً لونڈیاں تھیں ساتھ گئی تھیں رستہ میں ان کی بیوی زندہ نہیں رہی صرف دو چھوکریاں ان کے ساتھ تھیں۔ قرآن مجید میں اگرچہ اس مقاربت کا جو مغائرہ کوہ میں ان دونوں چھوکریوں نے حضرت لوط کے ساتھ کیا کچھ ذکر نہیں ہے لیکن جو کچھ کہ توریت مقدس میں لکھا ہے اگر اس کو صحیح تسلیم کر لیا جاوے تو بھی ان دونوں چھوکریوں کا حضرت لوط کی اصل بیٹیاں ہونا اسی وجہ سے جو ہم نے اوپر بیان کی قابل یقین نہیں ہے اور جب کہ وہ لونڈیاں تھے تو ان کے ساتھ مقاربت گو کہ وہ دھوکے ہی سے ہو بموجب اس زمانہ کی شریعت کے ناجائز نہ تھی۔ سفر تکوین باب19 ورس32,34 میں لکھا ہے کہ ان دونوں چھوکریوں نے حضرت لوط کو باپ کہہ کر تعبیر کیا ہے اس کہنے سے بھی ان چھوکریوں کا اصلی بیٹیاں ہونا ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ باپ کا لفظ بہت زیادہ ہے اور اس کا اطلاق مالک اور بزرگ شخص پر عموماً ہوتا ہے۔ سر ولیم میور کے اس بیان کو کہ بنی عمان عرب کے کسی حصہ میں آباد نہیں ہوئے بلکہ شمال ہی میں رہے ہم تسلیم نہیں کر سکتے کیوں کہ ہمارے نزدیک بنی عمان خلیج فارس کے برابر برابر بستے تھے اور ان کا نام اب تک اس حصہ عمان میں پایا جاتا ہے جو تمام قطعہ کے درمیان موجود ہے اگر بنی عمان عرب میں آباد نہیں ہوئے تھے جیسے کہ سر ولیم میور کی رائے ہے تو ان کو اقوام عرب میں شمار کرنا مناسب نہ تھا۔ تمام عرب المستعربہ میں جو ترح کی نسل سے ہیں صرف بنی اسمعیل ہی کی کثرت ہوئی اور کچھ عرصہ کے بعد مختلف قوموں اور شعبوں میں منقسم ہو گئے مگران کے مقابل کی قومیں ایک سکون اور غیر مبدل حالت میں رہیں۔ جب کہ ہم ان قوموں کے شعبوں کا شمار اور حال بیان کریں گے تو یہ بات ظاہر ہو گی کہ ایک قوم کے کسی شخص کو اپنی قوم چھوڑ کر دوسری قوم میں جا ملنا اگر بالکل نا ممکن نہ تھا تو حد سے زیادہ دشوار تو ضرور تھا خصوصاً اس وجہ سے کہ اس زمانہ میں تمدنی حالت نہایت محدود تھی اور لوگ اپنے مورثوں کے کارہائے نمایاں کی بڑی عظمت کرتے تھے اور ان کو فخریہ یاد رکھتے تھے اور ہر ایک شریف قوم کا آدمی خود سرائی کا بندہ تھا اور بالتخصیص عرب کی مختلف قومیں اپنی قوم کے امتیاز موجودہ کو قائم اور برقرار رکھنے اور اپنی قوم کو اور قوموں کی ملاوٹ سے علیحدہ رکھنے میں نہایت درجہ محتاط تھیں۔ مندرجہ فہرست ان قوموں کی ہے جو سکون اور غیر مبدل حالت میں رہیں 1بنی ناحور ابن ترح سے، بنو ناحور، 2ہاران ابن ترح سے، بنو ہاران 3مواب ابن لوط سے ابن ہاران ابن ترح سے، بنو موآب 4 عمان ابن لوط سے بنو عمان 5 اولاد ابراہیم سوائے اولاد اسمعیل سے، بنو ابراہیم 6 اولاد ابراہیم بطن قطورہ سے، بنو قطورہ 7 عیسو عرف ادوم ابن اسحاق ابن ابراہیم سے بنو ادوم مندرجہ ذیل قومیں اسمعیل کی اولاد میں ہیں جو بمقابل اور قوموں کے بہت جلد بڑھ گئیں اور عرب کے تمام ملک میں پھیل گئیں۔ 8 اسمعیل ابن ابراہیم سے، بنو اسمعیل، مگر اسمعیل کے باہ بیٹوں کے نام سے علیحدہ علیحدہ بارہ قومیں چلیں 9 بنایوث سے، بنو بنایوث 10 قیدار سے، بنو قیدار 11 ادبئیل سے بنو ادبئیل 12مبسام سے، بنو مبسام 13مشماع سے، بنو مشماع 14 دو ماہ سے، بنو دو ماہ 15مسا سے، بنو مسا 16 حدر سے، بنو حدر 17 تیما سے بنو تیما 18 یطور سے، بنو یطور 19نافش سے، بنو نافش 20 قید ماہ سے ، بنو قید ماہ حضرت اسمعیل کے بارہ بیٹوں میں سے قیدار کی اولاد نے ایک عرصہ کے بعد شہرت حاصل کی اور مختلف شاخوں میں متفرع ہو گئی۔ مگر بہت صدیوں تک یہ بھی اپنی اصلی حالت پر رہی اور مدت تک ان میں ایسے لئیق اور نامی اشخاص جنہوں نے اپنی لیاقتوں اور عجیب و غریب قابلیتوں کی وجہ سے نامور ہونے کا استحقاق حاصل کیا ہو یا سلطنتوں اور قوموں کے بانی ہوئے ہوں پیدا نہیں ہوئے اور اسی وجہ سے قیدار کی اولاد کی تاریخ کے سلسلہ کو مرتب کرنے میں بہت سی صدیوں کا فصل واقع ہو جاتا ہے مگر یہ ایک ایسا امر ہے جس سے عرب کی قومی اور ملکی روایت کی جو حضرت اسمعیل کی نسبت چلی آتی ہے کماحقہ، تصدیق ہوتی ہے۔ کیوں کہ ایک جلا وطن ماں اور بیٹے کی اولاد کی کثرت اور ترقی کے واسطے جو ایسی بیکس اور مصیبت زدہ حالت میں خانہ بدر کی گئی تھی ضرور بلکہ یقیناً ایک عرصہ درکار ہوا ہو گا خصوصاً ایسی ترقی کے واسطے جس نے انجام کار ان کو دنیا کی تاریخ میں ایک نہایت نامور اور ممتاز جگہ پر پہنچایا اور ان کی اولاد نے ایسے ایسے کار ہائے نمایاں کئے جن کی نظیر کسی قوم کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مگر باوجود ان تمام باتوں کے ہم عرب کی تاریخ میں قیدار کی اولاد میں اس قوم کی ابتدا سے اس وقت تک کہ اس کو شہرت ہوئی آٹھ نام پاتے ہیں یعنی حمل، نابت، سلامان، الہمیسع، الیسع، آدد، اد، عدنان یہ وہی عدنان ہے جس کا بیٹا عک یمن کا بادشاہ ہوا تھا اور جس کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں مندرجہ ذیل قبائل عدنان کی اولاد میں ہیں 21 ایاد ابن معد ابن عدنان سے، ایادی 22 قنص ابن معد سے، قنصی 23 مضر ابن نضر ابن معد کے، بنو مضر 24 ربیع ابن نضر ابن معد کے، بنو ربیعہ 25 اسد ابن ربیع سے، بنو اسد 26 صبیعہ ابن ربیعہ سے، بنو صبیعہ قبائل ذیل صبیعہ کی اولاد میں ہیں 27 بنو ابو الکلب 28 بنو شحنہ 29 جدیلہ ابن اسد ابن ربیعہ سے، بنو جدیلہ 30عنزہ ابن اسد سے، بنو عنزہ 31 عمیر ابن اسد سے، بنو عمیر 32 عبدالقیس ابن اقصی ابن دومی ابن جدیلہ سے بنو عبدالقیس 33 الدیل ابن شن ابن اقصیٰ ابن عبدالقیس سے ، بنو الدیل شنی قبائل ذیل الدیل کی اولاد میں ہیں 34بنو بحثہ 35 ضوحاں ابن وادیہ ابن نکیر ابن اقصیٰ ابن عبدالقیس وائلہ سے، بنو وائلہ 36 انمار ابن عمرو ابن وادیہ سے، بنو انمار 37عجل ابن عمرو سے، بنو عجل قیسی 38 محارب ابن عمرو سے، بنو المحارب 39الدیل ابن عمرو سے، بنو الدیل قبائل ذیل الدیل کی شاخ ہیں 40 بنو صوحان 41 العواق ابن عمرو ابن وادیہ سے، بنو العوق یا عوقی 42 اولاد بکر ابن ھیب ابن عمرو ابن غنم ابن تغلب، ابن وایل ابن قاست ابن حنب اقصیٰ ابن دومی ابن جدیلہ سے، الا راقم 43 بکر ابن وایل ابن قاست سے، بنو بکر 44 ثعلب ابن وایل ابن قاست سے، بنو ثعلب قبائل ذیل ثعلب کی اولاد میں ہیں 45 بنو عکب 46 بنو عدی 47 بنو کنانہ یا قریش ثعلب 48 بنو ازھیر 49 بنو عتاب 50 غنم ابن ہبیب ابن کعب ابن یشکر ابن وایل سے، بنو غنم 51 لجیم ابن صعب ابن علی ابن بکر سے، بنو لجیم قبائل ذیل لجیم کی اولاد میں ہیں 52 بنو ہفان 53 بنو عجل 54 اولاد مالک ابن صعب سے، بنو ازمان 55 ذھل ابن ثعلبہ ابن عقبہ ابن صعب سے، بنو ذھل 56شیبان ابن ثعلبہ سے، بنو شیبان قبائل ذیل شیبان کی اولاد میں ہیں 57بنو الورثہ 58 بنو الجدر 59 بنو الشقیقہ 60 اولاد تیم اللات ابن ثعلبہ سے اللہازم 61 سدوس ابن شیبان اہل زہل سے، سدوسی 62 قمعہ عرف قیس عیلان ابن الیاس ابن مضر سے، قیس عیلانی یا بنو قیس 63 عمر ابن قیس عیلان، بنو عمرو قبائل ذیل عمرو کی اولاد میں ہیں 64 بنو خارجہ 65 بنو وابش 66 بنو یشکر 67 بنو عوف 68 بنو رہم 69 بنو رباح 70 سعد ابن قیس عیلان سے، بنو سعد 71 غطفان ابن سعد سے، بنو غطفان 72 معن ابن عسر ابن سعد سے، بنو معن 73 غنی ابن عسر سے، بنو غنی قبائل ذیل غنی کی اولاد میں ہیں 74 بنو ضبینہ 75 بنو بہثہ 76 بنو عبید 77 منبہہ ابن عسر سے، بنو منبہہ قبائل ذیل منبہہ کی اولاد میں ہیں 78 بنو حسر 79 بنو ستان 80 اشجع ابن غطفان ابن صعب سے، بنو اشجع قبائل ذیل اشجع کی شاخ ہیں 81 بنو دھمان 82 ذیبان ابن بغیض ابن رایس ابن غطفان سے، بنو ذبیان قبائل ذیل ذبیان کی اولاد میں ہیں 83 بنو فزارہ 84 بنو العشراء 85 عبس ابن بغیض سے، بنو عبس 86 سعد ابن ذبیان ابن بغیض، بنو سعد قبائل ذیل سعد کی اولاد میں ہیں 87بنو جحاش 88 بنو سبیع 89 بنو حشور 90 خصفہ ابن قیس عیلان سے، بنو خصفہ قبائل ذیل خصفۃ کی شاخ میں 91 بنو جسر 92 ابو مالک بن عکرمہ ابن خصفہ سے، بنو ابو مالک 93 منصور ابن عکرمہ سے، بنو سلیم قبائل ذیل منصور کی اولاد میں ہیں 94 بنو حرام 95 بنو خفاف 96 بنو سمان 97 بنو رعل 98 بنو ذکوان 9 9بنو مطرود 100 بنو بہز 101بنو تنفذ 102 بنو رفاعہ 103 بنو شرید 104 بنو قبتہ 105 سلامان ابن عکرمہ سے، سلامنی 106 ہوازن ابن منصور سے، بنو ہوازن 107 مازن ابن منصور سے، بنو مازن 108 سعد ابن بکر ابن ہوازن سے، بنو سعد 109 نصر ابن معاویہ ابن بکر سے، بنو نصر 110مرہ ابن صعصعہ ابن معاویہ سے، بنو مرہ یا بنو سلول 111نمیر ابن عامر ابن صعصعہ سے، نمیری 112 ہلال ابن عامر سے، بنو ہلال 113 ربیعہ ابن عامر سے، بنو مجد 114 اولاد عمرو ابن عامر سے، بنو البکا 115 معاویہ ابن کلاب ابن ربیعہ سے، بنو معاویہ 116 جعفر ابن کلاب سے، بنو جعفر 117 اولاد ابن عمرو ابن کلاب سے، بنو ددان 118 اولاد عبداللہ ابن کعب ابن ربیعہ سے، بنو العجلان 119 اولاد قشیر ابن کعب سے، بنو ضمرہ 120اولاد منبہ ابن ہوازن سے، ابو ثقیف قبائل ذیل ابو ثقیف کی اولاد میں ہیں 121 بنو مالک 122 بنو احلاف 123 طانجہ ابن الیاس ابن مضر سے، بنو طانجہ، یا بنو خندف 124 تیم ابن عبد منات ابن عد ابن طانجہ سے، بنو تین 125 عدی ابن عبد منات سے، بنو عدی 126 ثور ابن عبد منات سے، ثوری قبائل ذیل عبد منات کی اولاد میں ہیں 127 الرباب 128 بنو نصر 129 بنو مازن 130 بنو السیل 131 بنو عایذہ 132بنو تیم الللات 133 بنو زبان 134 بنو عوف 135 بنو شئیم 136 بنو الزہل 137 بنو بجالہ 138 مزینہ ابن عد ابن طانجہ سے، مزنی قبائل ذیل ظاعنہ کی شاخ ہیں 140 بنو صوفہ 141تمیم ابن مر سے، بنو تمیم قبائل ذیل تمیم کی اولاد میں ہیں 142 حبطات 143بنو عصیہ 144 البراجم 145 بنو کلیب 146 بنو ریاح 147 بنو مرہ 148 بنو مقرہ 149 بنو حمان 150 بنو حنظلہ 151 بنو دارم 152 بنو عدویہ 153 بنو لطیہہ 154 آل صفوان 155 آل عطارد 156 بنو عوف 157 مدرکہ ابن الیاس ابن مضر سے، بنو مدرکہ بنو خندف 158 حذیل ابن مدرکہ سے، بنو حذیل یا حذیلی 159 تمیم ابن سعد ابن حذیل سے، بنو تمیم 160 حریب ابن سعد سے، بنو حریب 161 مناعہ ابن سعد سے، بنو مناعہ 162 خناعہ ابن سعد سے، بنو خناعہ 163 جہم ابن سعد سے، جہمی 164 غنم ابن سعد سے، غنمی 165 حرث ابن سعد سے، حرثی 166 خزیمہ ابن مدرکہ سے، بنو خزیمہ 167 الہوم ابن خذیمہ سے، بنو الہون قبائل ذیل الہون کی اولاد میں ہیں 168 بنو القارہ 169 عضلی 170 الدیشی 171 اسد ابن خزیمہ سے، بنو اسد 172 دودان ابن اسد سے، دودانی 173 کاہل ابن اسد سے، کاہلی 174 حملہ ابن اسد سے، حملی 175 عمرو ابن اسد سے، عمری قبائل ذیل عمرو کی اولاد میں ہیں 176 بنو فقعس 177 بنو الصیدا 178 بنو نصر 179 بنو الزینہ 180 بنو عاضرہ 181 بنو نعامہ 182 کنانہ ابن خزیمہ سے، بنو کنانہ 183 مالک ابن کنانہ سے، ابو مالک قبائل ذیل مالک کی اولاد میں ہیں 184 بنو فقین 185 بنو فراس 186 بنو بجر 187 ملکان ابن کنانہ سے، بنو ملکان 188 عبد منات ابن کنانہ سے، بنو عبد منات قبائل ذیل عبد منات کی اولاد میں ہیں 189 بنو مدلج 190 بنو جزیمہ 191 بنو لیث 192 بنو الدیل 193 بنو ضمرہ 194 بنو غفار 195 بنو عریج 196 عمرو ابن کنانہ سے، عمریون 197 عامر ابن کنانہ سے، عامریون قبائل ذیل کنانہ کی شاخ ہیں 198الا حابیش 199 نضر ابن کنانہ سے، بنو النظر 200 مالک ابن نضر سے ، بنو مالک 201 الحرث ابن مالک سے مطیبین قبائل ذیل الحرث کی شاخ ہیں 202 بنو الخلج 203 فہر ابن مالک سے، بنو فہر یا قریش 204 محارب ابن فہر سے، بنو محارب 205 غالب ابن فہر سے، بنو غالب 206 تیم ابن غالب سے، بنو تیم یا بنو الادرم 207 لوی ابن غالب سے، بنو لوی 208 عامر ابن لوی سے، بنو عامر قبائل ذیل عامر کی اولاد میں ہیں 209 حسل 210معیص 211سامہ بن لوی سے، بنو سامہ 212سعد ابن لوی سے، بنو سعد قبائل ذیل سعد کی شاخ ہیں 213 بنانہ 214 خزیمہ ابن لوی سے، بنو خزیمہ قبائل ذیل خزیمہ کی شاخ ہیں 215 بنو عایذہ 216 حرث ابن لوی سے، بنو الحرث 217 عوف ابن لوی سے، بنو العوف 218 کعب ابن لوی سے، بنو کعب 219 عدی ابن کعب سے، بنو عدی 220 ہصیص ابن کعب سے، بنو ہصیص قبائل ذیل ہصیص کی اولاد میں ہیں 221 بنو سہم 222 بنو جمح 223 مرہ ابن کعب سے، بنو مرہ 224 تیم ابن مرہ سے، بنو مرہ 225 مخزوم ابن مرہ سے، بنو مخزوم 226 کلاب ابن مرہ سے، بنو کلاب 227 زہرہ ابن کلاب سے، بنو زہرہ 228 قصی ابن کلاب سے، بنو قصی یا مجمع قبائل ذیل کلاب کی اولاد میں ہیں 229نوفلییوں 230 عبدالدار ابن قصی سے، داری قبائل ذیل عبدالدار کی شاخ ہیں 231 شیبی 232 امیہ ابن عبدا الشمس ابن عبد مناف ابن قصی سے، بنو امیہ 233 ہاشم ابن عبد مناف سے، بنو ہاشم 234 عبدالمطلب ابن ہاشم سے، بنو مطلب 235عباس ابن عبدالمطلب سے، عباسی 236 علی ابن ابو طالب ابن عبدالمطلب سے، علوی 237 فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے، سادات بنی فاطمہ علیہا السلام اس مطلب سے کہ اقوام مذکورہ بالا کا سلسلہ بخوبی ذہن نشین ہو جائے اور آسانی سے سمجھ میں آ جائے، اس مقام پر ایک شجرہ عرب مستعربہ کی قوموں کا شامل کیا جاتا ہے۔ عرب کی قوموں کے بیان کو ختم کرتے وقت اس بات کا بیان کرنا مناسب ہے کہ عرب میں ایک دستور تھا کہ ایک ضعیف قوم یا وہ قوم جو زوال کی حالت میں پڑ جاتی تھی اکثر اپنے آپ کو کسی زبردست قوم میں ملا دیتی تھی۔ اس اختلاط کے مقصد کو نہ سمجھنے سے غیر ملک کے مورخ اب تک یہی سمجھتے ہیں کہ ایسا اختلاط نسب کے اختلاط سے علاقہ رکھتا ہے اور اس کے بعد وہ دونوں قومیں ایک ہی لقب یعنی زبردست قوم کے لقب نسبی سے ملقب ہو جاتی تھیں اور اسی بناء پر ان کا مقولہ ہے کہ عرب کی قومیں انقلابات اجتماع کے ہمیشہ زیر مشق رہی ہیں۔ لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے کیوں کہ وہ دونوں قومیں اس طرح پر مخلوط نہیں ہوتی تھیں کہ ایک ہی مورث اعلیٰ کی نسل سے خیال کی جاتی ہوں بلکہ اس اختلاط کے یہ معنی تھے کہ زبردست قوم زبردست قوم کے تابع اور اس قوم کے قوانین اور رسم و رواج کی پابند ہو جاتی تھی اور ضرورت کے وقت اور ہر ایک امر میں اس قوم کی ساتھیا ور مددگار ہوتی تھی دونوں قوموں کے آدمی ایک ہی نامی سردار کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوتے تھے اور اگر ان دونوں قوموں کے کسی آدمی سے کوئی جرم سر زد ہوتا تھا۔ جس کے عوض تمام قوم سے تاوان لیے جانے کا دستور تھا تو وہ تاوان برابر دونوں قوموں پر عاید ہوتا تھا۔ انگریزی لفظ ’’ سراسین‘‘ کی تحقیق اس خطبہ کے ختم کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ لفظ ’’ سراسین‘‘ کی بابت جو یونانیوں نے زمانہ جاہلیت کے بعض عربوں کی نسبت استعمال کیا ہے اور جس کا اطلاق انجام کار تمام جزیرہ نمائے عرب کے باشندوں پر قبل ظہور اسلام اور نیز بعد ظہور اسلام ہو گیا ہے کچھ گفت گو کی جاوے۔ متعدد مورخوں نے اپنی ذہانت کو اس لفظ کے ماخذ کے بیان کرنے کی کوشش میں صرف کیا ہے اور ہر ایک نے ایک نیا ڈھنگ اس کے ماخذ تلاش کرنے کا اختیار کیا ہے جس نے بارہا پرانے تعصبات کو ظاہر کر دیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بات کافی ہے کہ رورنڈ پوکاک صاحب نے اپنی کتاب تاریخ عرب میں جو کچھ اس کی نسبت لکھا ہے بعینہ اس کو اس مقام پر ترجمہ کر دیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس مضمون پر ہمارے مصنفوں نے اب تک جو کچھ چھاپا ہے اس میں کسی جگہ میں اس امر کی قابل اطمینان دلیل نہیں پاتا ہوں کہ وہ لوگ جو پہلے عرب کہلاتے تھے آخر میں ’’ سراسین‘‘ کے نام سے کیوں موسوم ہوئے جن لوگوں نے کہ اس نام کو ’’ سرح‘‘ سے مشتق کیا ہے ان کی رائے کی کماحقہ، تردید ہو گئی ہے اب عموماً یہ گمان ہے کہ یہ نام ’’ سرق‘‘ (چوری) سے نکلا ہے جس سے ایک وحشی اور لٹیری قوم سے صریح مراد ہے۔ مگر یہ نام ان کو کہاں سے ملا ہے؟ اس میں کچ شبہ نہیں ہے۔ کہ نام خود انہیں کے ہاں سے نہیں شروع ہوا ہو گا۔ بلکہ کسی اور قوم کی زبان سے یہ لفظ لیا گیا ہے کیوں کہ عرب ایسے نام کو جوب موجب رسوائی اور ذلت کا ہے اپنے لیے کب گوارا کرتے۔ اب عالموں کو یہ تحقیق کرنا باقی ہے کہ آیا ان لوگوں کے نام کو جو عام طور پر علانیہ قزاقی اور رہزنی کے لیے مشہور ہیں لفظ ’’ سرق‘‘ سے مشتق کرنا جائز ہو سکتا ہے جس کے معنی خفیہ چوری کرنے کے ہیں یا نہیں اب اگر کوئی ’’ سراسین‘‘ کی تحقیق میں میری تبعیت کرنا چاہے تو اس کو اپنی آنکھیں شرق کی طرف کھولنی چاہئیں کس واسطے کہ ’’ سراسینس‘‘ اور ’’ سراسی نائے‘‘ کی آواز میں ’’ شرقی‘‘ اور اس کی جمع’’ شرقیوں‘‘ اور’’ شرقین‘‘ کی نسبت کیا فرق ہو گا جس کے معنی اہل الشرق یعنی باشندگان شرق کے ہیں جس طرح کہ سابق میں عربوں کو علی الخصوص یہودی خیال کرتے تھے کیوں کہ اس کی سر زمین کا شرقی حصہ (حسب قول طلسیطوس) عرب میں محدود ہے اسی طرح توریت مقدس (سفر تکوین باب10 ورس30( یقطان کی اولاد کو جو عرب تھی مشرق میں بیان کرتی ہے یعنی ساحل کے اس حصہ پر جو مابین ’’ مبشام‘‘ اور’’ سفار‘‘ کے جو مشرق میں ایک پہاڑ ہے واقع ہے یعنی اگر ’’ آرساڈیاس‘‘ قابل اعتبار ہو ’’ من مکۃ الی تجئی مدینۃ الجبل الشرقی‘‘ یعنی مکہ سے وہاں تک کہ تم اس مشرقی پہاڑ کے شہر تک آؤ یا جیسا کہ مسودہ ’’ کوڈیکس‘‘ میں مرقوم ہے ’’ ای المدینۃ الشرقی‘‘ یعنی مشرقی شہر تک (جس سے میری دانست میں مدینہ منورہ مراد ہے جو جانب شرق واقع ہے حضرت سلیمان کی عقل تمام اہل الشرق کی عقل سے بڑھ کر خیال کی گئی ہے یعنی (حسب بیان اس یہودی کے گو وہ کوئی ہو جس نے کہ صحف ملوک کا عربی میں ترجمہ کیا ہے (’’ سراسین‘‘ یا عربوں کی عقل سے اس طرح یرمیاہ بنی (باب49 ورس28) میں اعراب بنی قیدار کو ’’ اہل الشرق‘‘ کہا ہے علامہ ’’ ہیو گو گروشیس‘‘ بیان کرتا ہے کہ عیسائیان سابق کی یہ رائے تھی کہ وہ علا جو حسب بیان متی حواری (باب2) پرستش کو آئے تھے ملک عرب سے آئے تھے اور اس کا خود بھی یہی عقیدہ تھا نناسوس (فولیس میں) لکھتا ہے کہ میں نے اپنی سفارت کی جو بجانب بنی عثوفیہ ، بنی حمیر، اور سراسین اور دیگر اقوام پرستش کنندہ کی تھی تعمیل کر دی اس لیے ’’ سراسینس‘‘ کا اور مشرقی اقوام کے زمرہ میں شامل ہونا صرف اسی وجہ سے تھا کہ وہ مشرق میں آباد تھے محمد الفروز آبادی صفی الدین اور لوگوں کا بیان ہے کہ مشرق کے چند اور مقامات بھی بدیں وجہ کہ وہ مشرق کے اور حصوں میں واقع تھے بنام’’ شرقہ‘‘ و ’’ شرقیہ‘‘ موسوم تھے اور ان کا یہ بھی بیان ہے کہ ہم نے سنا ہے کہ ایسے مقامات کے باشندے اہل الشرق کہلاتے ہیں ایسی ہی دلیل سے ان لوگوں کو بھی جو ایسے ملک میں بستے ہوں کہ بلحاظ اور ملکوں کے ’’ الشرق‘‘ یعنی پورب کہلاتا ہو اسی نام سے ملقب کیوں نہیں کرنا چاہیے ورنہ وہ اپنے اور ان لوگوں کے درمیان جو اپنی ہی بولی میں اپنے آپ کو مغربی یعنی باشندہ جزیرہ موری تانیا کہتے ہیں کس طرح پوری پوری تمیز کر سکتے ہیںاسی طرح سے جیسے کہ باشندہائے ملک مغرب ’’ المغاربہ‘‘ کہلاتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو عرب میں متوطن ہیں’’ مشارقہ‘‘ یا ’’ سراسینس‘‘ کہے جا سکتے ہیں اور یہ نام ان کی عدات و اوضاع کے لحاظ سے نہیں رکھا گیا ہے بلکہ باعتبار ان کی جائے سکونت کے رکھا گیا ہے اسی طرح سے تم اس مشہور و معروف حکیم بو علی سینا کی اس نامی کتاب کا نام ’’ سراسینگ فلاسفی‘‘ یعنی ’’ الفلسفہ المشرقیہ‘‘ کچھ اس کی جاہلیت کی وجہ سے نہیں کہتے ہو بلکہ اس کے مشرقی ہونے کے سبب سے رہی یہ بات کہ عربی حرف ش کا یونانی کی مانند تلفظ ہوا ہے اس سے کوئی دشواری نہیں ہوتی کیوں کہ وہ عبرانی حرف کا بھی اسی طرح تلفظ کرتے تھے لفظ ’’ سراینس‘‘ کا ایک اور مادہ بھی ہو سکتا ہے یعنی ’’ شرک‘‘ اس واسطے کہ وہ خدائے واحد کے شریک قرار دیتے تھے لیکن یہ نام جو قدیمی عربوں کی نسبت اس قدر موزوں ہے مسلمان لوگ ان کا اطلاق از راہ بے انصافی و ناحق اندیشی عیسائیوں پر کرتے ہیں اور عیسائی اس سے استغفار بھیجتے ہیں مگر یہ امر ہمارے مضمون سے علاقہ نہیں رکھتا۔ النصوص الباھرہ فی حریۃ الھاجرۃ علی ما یستفاد من کتب الیھود افادھا المولوی عنایت رسول چڑیا کوٹی سلمہ اللہ تعالیٰ ام حضرت اسماعیل علیہ السلام کا نام عبری زبان میں (ہاغار) اور عربی میں (ہاجر) ہے یہ بادشاہ مصر کی بیٹی تھیں۔ سفر ایشار میں جو یہودیوں کی ایک معتبر تاریخ ہے لکھا ہے کہ ’’ شہر بابل دار السلطنت نمرود میں جہاں تارج یعنی آذر اور ابراہیم علیہ السلام اور ان کے تمام خاندان کے لوگ رہتے تھے ایک شخص حکیم ہنر مند ذکی الطبع فطین جو اکثر علوم صنائع میں کمال رکھتا تھا رہتا تھا اس کا نام (رقیون) تھا مگر وہ بہت مفلس و محتاج و مفلوک تھا تنگدستی و سختی سے وطن میں رہنا نا مناسب سمجھ کر مصر کی راہ لی جب وہ وہاں پہنچا اور اس کی لیاقت و دانش مندی باشندگان مصر پر ظاہر ہو گئی تو بادشاہ مصر نے اس کو براہ قدر دانی عیان سلطنت میں داخل کیا رفتہ رفتہ بالکل حاوی ہوا بالآخر وہاں کا بادشاہ ہو گیا یہ پہلا شخص ہے جس کا لقب فرعون ہوا اسی فرعون کے زمانہ بادشاہت میں بوجہ قحط سالی کے حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین سے مع اپنے اہل بیت کے مصر میں تشریف لے گئے۔‘‘ رقیوں میں ہاغار دونوں عبری لفظ ہیں اور اس سے استدلال ہو سکتا ہے کہ وہ دونوں عبرانی یعنی بنی عبیر تھے اور کیا عجب ہے کہ اسی قبیلہ کے ہوں جس قبیلہ کے حضرت ابراہیم تھے اور ظاہراً اسی خیال سے کہ بادشاہ مصر ان کا ہم وطن یا ہم قبیلہ ہے اس قحط و مصیبت میں حضرت ابراہیم نے مصر میں جانے کا قصد کیا ہو جیسا کہ ہر ایک انسان کو ایسے موقع پر اس قسم کا خیال ہو سکتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم مصر میں پہنچے اور انہوں نے حضرت سارہ کا اپنی بی بی ہونا ظاہر نہ کیا بلکہ بہن ہونے کا جو رشتہ تھا وہ ظاہر کیا تو فرعون نے حضرت سارہ سے شادی کرنی چاہی اور حضرت ابراہیم کو بہت کچھ دے کر حضرت سارہ کو بقصد شادی اپنے گھر لے گیا۔ اس واقعہ سے بھی استدلال ہو سکتا ہے کہ فرعون بادشاہ مصر کو بسبب ہم قوم ہونے کے زیادہ تر حضرت سارہ سے شادی کرنے کی رغبت ہوئی تھی۔ غرض کہ ھنوز شادی نہ ہونے پائی تھی کہ مختلف قسم کے صدمات فرعون پر واقع ہوئے اور ان کے سبب سے فرعون نے حضرت سارہ کے حال کی زیادہ تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ وہ حضرت ابراہیم کی بیوی بھی ہیں اسی وقت فرعون نے ان کو حضرت ابراہیم کے پاس بھیج دیا اور ہاجرہ اپنی بیٹی کو بھی ان کے سپرد کر دیا۔ فرعون نے جو اپنی بیٹی ہاجر کو حضرت سارہ کے ساتھ کر دیا ظاہر اس کے کئی سبب معلوم ہوتے ہیں ابراہیم اور سارہ کی نیکی اور بزرگی اور ان کا اور فرعون و ہاجر کا ہم قوم ہونا اس بات کے لیے بڑی رغبت ہوئی ہو گی کہ فرعون اپنی بیٹی کو ان کی تعلیم اور تربیت اور صحبت میں سپر دکرے کیوں کہ مصری اس کی قوم و قبیلہ سے نہ تھے علاوہ اس کے اس زمانہ میں اور اس خاندان میں شادی و بیاہ میں ہم کفو ہونے کا بہت خیال تھا مصر میں رقیون فرعون مصر کے خاندان کا کوئی شخص نہ تھا اور یہ بہت بڑی ترغیب اس بات کی تھی کہ ہاجر سارہ کے سپرد کی جاوے تاکہ ان کی تربیت میں رہے اور کہیں کفو میں اس کی شادی ہو جاوے۔ رخصت کے وقت فرعون نے اپنی بیٹی ہاجر کو سمجھایا کہ تیرا رہنا ان کے ساتھ تیرے لیے میرے پاس رہنے سے بہتر ہے۔ اس سمجھانے سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کس خیال سے فرعون نے اپنی بیٹی ان کے سپرد کی تھی۔ بعد اس کے جب حضرت ابراہیم مع ہاجر فرعون کی بیٹی کے وہاں سے چلے تو فرعون نے ان کے ساتھ پیادے مامور کی تاکہ بحفاظت پہنچ جاویں چناں چہ یہ سب لوگ بآرام تمام مع احمال و اثقال و لونڈی و غلام وغیرہ کے جوبادشاہ مصر نے ان کو دیے تھے اپنے ملک میں جہاں انہوں نے سکونت اختیار کی تھی بخیر و خوبی پہنچ گئے اس وقت ابراہیم ہاجر کی بدولت بہت دولت مند اور مال دار ہو گئے چناں چہ توریت میں لکھا ہے۔ ہم ان لفظوں کو اس مقام پر عربی خط کے حرفوں میں لکھتے ہیں۔ ویعل ابرام ممصر ایم ھو واشتو وخل اشر لو ولوط عمو ہنضبا و ابرام کابید متود بمقنہ و بکسف و بزاھاب ترجمہ عربی: ’’ فصعدا ابرام من ممر ھو و زوجتہ و کل مالہ و لوط معہ الی القبیلۃ وابرام عظیم جدا بالماثیۃ والفضۃ والذہب‘‘ ترجمہ اردو: ’’ اور کوچ کیا ابراہیم نے مصر سے اس کی بی بی نے مع اپنے گل مال کے اور لوط کے شمال کی طرف کو (کتاب پیدائش باب13 آیت1,2)‘‘ غرض کہ اس مورخ کے بیان سے ظاہر ہے کہ ہاجر بادشاہ مصر کی بیٹی تھیں تعلیم تہذیب کے لیے سارہ کے سپرد کی گئی تھیں اور ان کا ہم وطن ہونا بلکہ ادنیٰ تامل سے اہل خاندان سے ہونا پایا جاتا ہے۔ مفسرین توریت بھی حضرت ہاجر کو بادشاہ کی بیٹی لکھتے ہیں چنانچہ (وبی شلومو اسحاق) نے کتاب پیدائش کے سولہویں باب کی پہلی آیت کی تفسیر میں جو لکھا ہے اس کو بعینہ اس مقام پرنقل کرتے ہیں۔ اس عبارت کو عربی خط کے حرفوں میں لکھا جاتا ہے ’’ بث برعہ ہا یشا کشرا نسیم شنعسوا اسارہ امر موطاب شتہا بتی شفحہ ببیت زہ و لو کبیرہ ببیت احیر‘‘ (ترجمہ عربی) ھی کانت بنچ فرعون لمارا الایات التی اخرحت بسارہ قال ما اطبب ان تکون بنتی خادمۃ فی امیت ذاولا ان تکون سیدۃ فی بیت آخر ترجمہ اردو:’’ وہ فرعون کی بیٹی تھی جب دیکھا ان کرامات کو جو بوجہ سارہ واقع ہوئیں تو کہا بہتر ہے کہ رہے میری بیٹی اس کے گھر میں خادمہ ہو کر اس سے کہ ہو دوسرے کے گھر میں ملکہ‘‘ 1850ء میں بمقام کلکتہ اسی بات کا مباحثہ ہوا تھا اور اکثر یہودیوں نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ حضرت ہاجر لونڈی نہیں تھیں بادشاہ مصر کی بیٹی تھیں۔ توریت مقدس سے کسی طرح حضرت ہاجر کا لونڈی ہونا ثابت نہیں ہے نہایت صاف اور روشن بات ہے کہ اس وقت کے حالات پر ہم جو نظر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں لونڈی و غلام دو طرح پر ہوتے تھے شرا سے اور غنیمت سے یعنی یا تو وہ لونڈی و غلام ہوتے تھے جو لڑائی میں اسیر ہو کر آتے تھے اور وہ (شیبوث حرب) کہلاتے تھے یعنی غنیمت جنگ صیف یا وہ لونڈی اور غلام کہلاتے تھے یا ان کی اولاد لونڈی و غلام وہتے تھے یلید یابث و لید البیت یعنی خانہ زاد مگر حضرت ہاجرہ ان باتوں سے پاک تھیں پھر وہ کیوں کر لونڈی ہو سکتی تھیں ان کو لونڈی کہنا محض بہتان ہے۔ اب رہی یہ بات کہ یہودی ان کو کیوں لونڈی کہتے تھے اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ یہودی بنی اسماعیل کی ہمیشہ حقارت کرتے ہیں اور ضد و عداوت سے ایسی باتیں جن سے بنی اسماعیل بہ نسبت بنی اسرائیل کے حقیر سمجھے جاویں منسوب کرتے ہیں اور اسی خیال سے ان لوگوں نے غلط طور پر توریت مقدس سے بھی حضرت ہاجرہ کے لونڈی ہونے پر استدلال کیا ہے مگر وہ استدلال سرتاپا غلط اور بالکل تحریف ہے جس کو بالتفصیل ہم بیان کرتے ہیں۔ حضرت سارہ ادھیڑ ہو گئی تھیں او ران کی اولاد نہ ہوئی تھی اس لیے انہوں نے حضرت ہاجرہ کو زوجہ بنانے کی اجازت دی کہ انہیں سے کچھ اولاد پیدا ہو چناں چہ ہاجرہ سے حضرت اسماعیل پیدا ہوئے۔ اس کے چند روز بعد حضرت سارہ بھی حاملہ ہو گئیں اور حضرت اسحاق پیدا ہوئے۔ حضرت اسحا ق کئی برس کے ہو گئے تھے ان کا دودھ بھی چھٹ چکا تھا اور حضرت اسماعیل ان سے عمر میں کچھ بڑے تھے دونوں میں آپس میں کچھ تکرار ہو گئی جیسا کہ دو بچوں میں ہو جاتی ہے حضرت سارہ کو یہ بات بری معلوم ہوئی اور اس لڑائی جھگڑے میں حضرت ابراہیم سے کہا کہ اس لونڈی کو اور اس کے لڑکے کو نکال دو اس مقام پر جو حضرت سارہ نے حضرت ہاجرہ کو لونڈی کہا اس سے یہ استدلال نہیں ہو سکتا کہ درحقیقت میں لونڈی تھیں بلکہ جس طرح عورتیں لڑائی غصہ میں خصوصاً جب کہ دو عورتوں بلکہ دو سوکنوں میں بچوں پر تکرار ہو جائے ایک دوسری کو تہتک اور حقارت کے کلمے کہہ اٹھتی ہیں اسی طرح حضرت سارہ نے بھی یہ لفظ امہ یعنی لونڈی کا حضرت ہاجرہ کی نسبت کہا اس سے کسی طرح سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ وہ در حقیقت لونڈی تھیں مگر یہودیوں کو اور جو لوگ یہودیوں کی پیروی کرتے ہیں ان کو ایک موقع حضرت ہاجرہ کو لونڈی کہنے کا مل گیا۔ حضرت سارہ کی اس بات سے حضرت ابراہیم نہایت ناراض ہوئے مگر خدا نے ان کی تسلی کی اور کہا کہ اس لونڈی اور بچہ کی طرف سے رنج مت کر تو ان کو نکال دے میں اس لونڈی کے بچے سے ایک قوم پیدا کروں گا۔ اس مقام پر جو خدا نے لونڈی کہا وہ بعینہ نقل سارہ کے قول کی ہے یعنی سارہ نے جس کو حقارت سے لونڈی اور لونڈی کا بچہ کہا ہے اسی میں سے ایک قوم پیدا کروں گا یہ ایسی بات ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی لائق آدمی کو کہے کہ یہ نالائق کیا کام کرتا ہے پس اس دوسرے شخص کا بھی اس کو نالائق کہنا اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ در حقیقت وہ شخص نالائق ہے اور جب کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ حضرت ہاجر بیٹی رقیون بادشاہ مصر کی بلکہ ہم قوم و ہم وطن ابراہیم کی تھیں اور جو وجوہ رقبت کی اس زمانے میں تھیں ان سے بھی حضرت ہاجر بری تھیں تو ان الفاظ سے جو لڑائی و جھگڑے و غصہ میں بولے گئے ہیں اسی طرح ان کا واقعی لونڈی ہونا مراد نہیں ہو سکتا۔ علاوہ اس کے لفظ امہ مجازاً مجاورہ میں زوجہ پر بھی بولا جاتا ہے یہودیوں میں دستور تھا کہ دختر کا باپ بر وقت شادی کے بعوض دختر کے پسر کے باپ سے کچھ روپیہ لیتے تھے تب بیٹی دیتے تھے جیسے کہ ہندوستان میں ہندوؤں کی بعض قوموں میں دستور ہے اور اس دستور کو بیٹی کا بیچنا کہتے تھے مگر وہ لونڈی نہ ہوتی تھی بلکہ زوجہ شرعی ہوتی تھی اور تمام حقوق وجیت کے اس کو حال ہوتے تھے ایسی زوجہ پر بھی لونڈی کا مجازاً اطلاق ہوا ہے چنانچہ توریت مقدس کی دوسری کتاب باب 12 کتاب ساتویں میں لکھا ہے کہ ’’ خدا نے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنی لڑکی کو بیچے (امہ) ہونے کے لیے تو وہ لونڈیوں کی طرح نکل نہ جائے گی اگر وہ اپنے مالک کی نظر میں نا پسند ہو جس سے اس نے زفاف نہیں کیا تو فدیہ دے گا بوجہ نا پسند ہونے کے اجنبی قوم کے پاس بیچ نہیں سکتا اور اگر اپنے پسر کی خلوت میں دیا تو لڑکیوں کے دستور کے موافق برتاؤ ہو گا اور اگر اس کے اوپر دوسری کر لی تو حقوق زوجیت یعنی کھانا، کپڑا، خلوت کم نہ کرے گا اور اگر یہ تینوں امر اس کے ساتھ نہ کیے جاویں تو بلا تردد چھوٹ جاوے گی۔‘‘ جو کہ ان آیتوں سے مسائل فقیہہ مستنبط ہوتے ہیں اس لیے علمائے یہود نے اس میں بہت غور کی ہے کل مباحثہ لکھنا طول ہے مگر جس قدر کہ اس مقام کے مناسب ہے مختصراً لکھا جاتا ہے۔ ان آیتوں میں لفظ امہ سے لونڈی مراد نہیں ہو سکتی اول تو انہی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں لونڈی سے بیوی یعنی زوجہ شرعی مراد ہے دوسرے یہ کہ یہ سب آیتیں بنی اسرائیل کی شان میں ہیں جیسا کہ سیاق دلالت کرتا ہے اور بموجب توریت مقدس کے لونڈیوں کی طرح بنی اسرائیل کی بیع و شرا جائز نہیں ہے چنانچہ اس کی تفصیل توریت مقدس کی تیسری کتاب باب25 آیت42 اور دوسری کتاب باب22آیت3 میں مندرج ہے بنی اسرائیل چوری کے جرم میں یا دشمن کی قید میں سے چھڑانے کے لیے خریدے جا سکتے تھے اور صرف سات برس تک مالک کی بطور غلام کے خدمت کرتے تھے حضرت یوسف کے بھائی بھی چوری کے جرم میں بطور غلام رکھ لیے گئے تھے مگر وہ غلام نہ تھے۔ اور اگر فرض کریں کہ اس وقت میں جو احکام ہیں وہ غیر بنی اسرائیل کے لیے ہیں تو بھی آیت کے معنی درست نہ ہوں گے کیوں کہ غیر بنی اسرائیل لونڈی و غلام پچاسویں برس از خود آزاد ہو جاتے تھے اور آیت میں حکم ہے کہ وہ آزاد نہ ہو گی اس مقام پر تفسیر رشی کی عبارت نقل کی جاتی ہے جس سے مطلب مذکور ثابت ہوتا ہے۔ اس عبارت کی صورت عربی خط میں یہ ہے: ام راعہ بیعنی ادونیہا شلا ناسئہ حین بحینا و لخونسائ، اشر لا یعادا ہ شہا یا لو لیعاداہ لھخنیساہ لولا شا و کسف قنیئاہ ہو کسف قد وشیہا و کان رامز لاخ ہکا ثوب شمصوہ بیعود و رامزلاخ شاینا صریخہ قدوشیخ احریم۔ (ترجمہ عربی) وان قبحۃ بعین بعلھا: لانہ لخلوتھا ما ھوی لذی لم یزفھا، وکان لہ ان یزفھا و یتخلی بہا للتزویج و ثمن شرایہا ہو ثمن نکاحہا وفی الایۃ کنایۃ با مرا لنکاح و بانہ لا یجوزمع الغیر عرسہا۔ اردو ترجمہ: (توریت) اگر بری ہے اپنے خاوند کی نظروں میں (تفسیر) کہ اسے رغبت نہ ہوئی اس کے ساتھ خلوت کی (توریت) جس نے زفاف نہ کیا (تفسیر) کہ اس کو مناسب تھا اس سے زفاف اس کے ساتھ خلوت کرنا جورو کرنے کے لیے اور قیمت اس خرید کی قیمت ہے اس کی شادی کی اور یہاں کنایہ ہے کہ آیت میں حکم شادی کا ہے اور کنایہ ہے کہ وہ دوسرے سے شادی کرنے کی مجاز نہیں۔ اسی موقع پر اس بات کا بھی خیال کرنا چاہیے کہ جس طرح ایسی جورو پر جس کی بابت بعوض شادی روپیہ دیا گیا ہو مجازاً لونڈی کا اطلاق ہوا۔ اسی طرح ایسی جورو پر بھی جو بطور ڈولہ کے آئی ہو مجازاً لونڈی کا اطلاق ہوا ہے۔ جیسے کہ ابی غایل حضرت داؤد کی بیوی پر لونڈی تور خادمہ کا اطلاق ہوا ہے۔ جس کا ذکر عنقریب آتا ہے کہ یہ امر حضرت ہاجر کے حال سے بھی نہایت مناسب تھا۔ اس سے مجازاً ان کی نسبت بھی امہ یعنی لونڈی بولا گیا۔ مگر جب کہ رقیت کسی طرح ثابت نہیں ہے تو اس لفظ سے حقیقی لونڈی مراد نہیں ہو سکتی۔ اگر یہ کہا جاوے کہ ان مقاموں میں بھی امہ سے جورو مراد ہے۔ مگر سر یہ کا کہنا بھی صحیح نہ ہو گا اس لیے کہ جب بنی اسرائیل کی لڑکیاں لونڈیاں ہو ہی نہیں سکتی تھیں تو سر یہ کیوں کر ہو سکتی ہیں۔ اور اگر یہ شبہ کیا جاوے کہ جن مقاموں کا بیان ہوا وہاں قرینہ ہے جس سے امہ سے لونڈی مراد نہیں ہو سکتی مگر جہاں حضرت ہاجرہ کی نسبت امہ کا اطلاق ہوا ہے وہاں کیا قرینہ ہے جس سے حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنی لیے جاویں اس شبہ کے رفع کرنے کو ناظرین کو ذرا توجہ کی تکلیف دی جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں بلکہ اس کے بعد بھی یہ دستور تھا کہ لونڈی میراث نہیں پاتی تھی چنانچہ اسی وجہ سے لیا اور راحیل یعقوب علیہ السلام کی بیویوں نے ان سے کہا کہ ’’ کیا اب ہمارے لیے اپنے باپ کے گھر میں کچھ حق میراث ہے کیا ہم اجنبیہ نہیں شمار کی گئیں کیوں کہ بیچ ڈالا ہم کو اور قیمت بھی کھاگیا‘‘ پیدائش باب31 آیت14,15 اور لونڈی کی اولاد جو دوسری سے ہو وہ بھی لونڈی اور غلام ہوتی تھی ان کے لیے میراث نہ تھی چنانچہ یہ حکیم موسیٰ کو بھی دیا گیا اور لونڈی کی اولاد جو مالک سے ہو وہ بیوی کی اولاد کے ساتھ میراث نہیں پاتی تھی جو کچھ ان کو باپ اپنی زندگی میں دبوے وہی ان کو ملتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ابراہیم علیہ السلام نے قطورہ کی اولاد کو اپنی زندگی میں کچھ دے کر الگ کر دیا تھا جیسا کہ کتاب پیدائش باب 25 میں مندرج ہے۔ جب کہ یہ قاعدہ شرعی معلوم ہو گیا تو اب اصل مطلب کی طرف رجوع کرنا چاہیے کہ جب سارہ نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ اس لونڈی اور اس کے لڑکے کو نکال تو اس کی وجہ یہ بیان کی کہ میراث نہ پاوے لونڈی بچہ میرے بیٹے اسحاق کے ساتھ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سارہ کو اندیشہ یہی تھا کہ اسمعیل اسحاق کے ساتھ میراث پاویں گے۔ پس اگر ہاجرہ لونڈی ہوتیں یا اسمعیل لونڈی بچہ ہوتے تو میراث پانے کا خیال کیوں کر ہوتا۔ بلکہ اس وقت کی شریعت میں یہ حکم تھا۔ کہ زوجہ مطلقہ میراث نہیں پاتی تھی اور جس لڑکے کو باپ عاق یعنی ساقط المیراث کر دیتا تھا وہ بھی میراث سے محروم ہو جاتا تھا اس لیے حضرت سارہ نے حضرت ابراہیم سے درخواست کی تھی کہ ہاجر کو اور اس کے لڑکے کو نکال دے یعنی ایک کو طلاق دے اور ایک کو عاق کرے تاکہ دونوں مستحق میراث نہ رہیں۔ یہ قرینہ ہے کہ ان آیتوں میں امہ کا لفظ جو خلاف محل واقع ہوا ہے اس سے اس کے مجازی معنی مراد ہیں اور حقیقی مراد نہیں ہو سکتے علاوہ اس سے اور بھی قرینے قویہ ہیں جن کا ذکر آگے آتا ہے۔۔۔۔۔ ان مقامات کے سوا کسی مقام میں حضرت ہاجر کی نسبت لونڈی کا لفظ توریت میں نہیں آیا ہے بلکہ شفحہ کا لفظ آیا ہے اور شفحہ کے معنی لونڈی کے نہیں ہیں انقلوس یہودی نے جس نے توریت کا ترجمہ کالدی زبان میں کیا شفحہ کا ترجمہ امتا جو بمعنی امۃ ہی لکھا ہے اور اس سبب سے اکثر مترجموں نے توریت کے ترجموں میں جو اور زبانوں میں کیے اس لفظ کا لونڈی ترجمہ کیا حالاں کہ لونڈی کو عبری زبان میں (امہ) کہتے ہیں جو عربی لفظ امۃ کا مرادف ہے اور شفحہ کے معنی خادمہ کے ہیں ہم تفرقہ بتانے کے لیے سمویل باب25 کی 41 آیت نقل کرتے ہیں اس سے امہ اور شفحہ کا فرق ظاہر ہو جاوے گا۔ اس عبارت کو عربی حرفوں میں لکھا جاتا ہے وتر مرھنا اماثخا لشفحہ لرحوص رغلی عبدی ادونی ترجمہ عربی: وقالت نعم انہ امۃ لہ خادمۃ تغسل رجعل حبید سیدی ترجمہ اردو: اور کہا ہاں اس کی لونڈی خادمہ ہے اپنے سردار کے خادموں کا پانوں دھونے کے لیے۔ یہ قول ابی غایل حضرت داؤد کی بی بی کا ہے جب کہ حضرت داؤد نے اس کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا تھا اور وہ بطور ڈولہ کے حضرت داؤد کے ہاں آئی تھیں۔ شفحہ کے اصلی معنی جیسا کہ اہل لغت لکھتے ہیں قبیلہ کی عورت کے ہیں مادہ اس لفظ کا اور (مشباحہ) کا جس کے معنی قبیلہ کے ہیں ایک ہے لیکن عرف میں اس کے معنی خادمہ کے ہیں پھر اس لفظ سے لونڈی سمجھنا یا غلطی ہے یا تعصب ہے۔ تیسرا مقام جہاں سے ان کے لونڈی ہونے پر استدلال کرتے ہیں پیدائش باب25 پہلی آیت6 آیت تک جس کا ترجمہ یہ ہے اور ابرایم نے پھر عورت کی جس کا نام فطورہ تھا اور اس سے زمران، یقشان، مدان، مدیان، یشباق، شودہ پیدا ہوئے اور یقشان کے شبا اور دون پیدا ہوئے دوان کی اولاد اشوریم لطوشیم لامیم، مدیان کی اولاد عیفا عیفر حنوخ ابی دع اور الداعا یہ سب قطورہ کی اولاد ہیں: اور دیا ابراہیم نے جو کچھ ان کے تھا اسحاق کے اور سریہ کی اولاد کو ابراہیم نے اپنی حیات میں کچھ دے کر اسحاق کے پاس سے نکال دیا پورب طرف شرقی عرب میں یہاں چھٹی آیت میں واقع ہے لبنی ھپیلغشم جس سے استدلال کرتے ہیں پبلغش جسے کلدی میں پیلقتا یا پلقتا کہتے ہیں یا لحبنا بولتے ہیں اس کے معنی بے شبہ سریہ ہیں اس کی جمع موافق قاعدہ کے پبلغشیم آتی ہے ربی سلیمان ابن اسحاق نے لکھا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ جس کے لیے کابین نامہ نہ ہو اسے پیلغشم کہتے ہیں بہر نوع یہ امر ثابت ہے کہ پیلغش سریہ ہے استدلال یہ ہے کہ آیت میں پیلغشم بلفظ جمع ہے اور اس سے مراد قطورہ اور ہاجر ہیں کیوں کہ سارہ کے سوا یہی دو بیویاں ابراہیم کی ثابت ہیں اس لیے یہ سریہ ہوں گی فقط یہ شبہ پیلغشم کے لفظ سے پیدا ہوا حال یہ ہے کہ عبری میں جمع نے اور میم سے آتی ہے۔ لہٰذا جمع پیلغشیم ہونا چاہیے لیکن توریت میں اس مقام میں پیلغشم بدوں کے وارد ہے پیلغشیم نہیں ہے اس لفظ پر مفسرین نے بحث کی ہے بعض نے اس کو جمع مانا ہے اور بے کے نہ ہونے کی یہ توجیہہ کی ہے کہ ابراہیم کے ایک ہی سریہ تھی اس واسطے کو گرادیا رشی مقصور لکھا گیا کیوں کہ ایک ہی سریہ تھی ساتھ ہی اس کے اس مفسر نے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ وہ سریہ ھاجو تھیں ار وہی قطورہ ہیں۔ یعنی ہاجر اور قطورہ ایک ہی کا نام ہے یہ بات صحیح نہیں معلوم ہوتی جس کا بیان آئندہ ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ اور اسی طرح اکثر مفسرین نے یہ تسلیم کیا ہے کہ سریہ ابراہیم کی ایک ہی تھی لہٰذا پیلغشم سے جمع مقصود نہیں اور نہ بصورت جمع ہے تو اسی وجہ سے اونقلوس نے جو قدیم مترجم ہے اس لفظ کے ترجمہ میں لحیناثا لفظ واحد اختیار کیا ہے ایسی حالت میں اس سے استدلال کیوں کر ہو سکتا ہے کیوں کہ مدار حجت جمعیت تھی اور وہ غیر مسلم ہے باقی رہی یہ بات کہ وہ سریہ جس کے شان میں یہ آیت وارد ہے ھاجر ہیں۔ اس بیان سے کہ ہاجر ہی کا نام قطورہ ہے دعوے بلا دلیل ہے سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ اس باب میں قطورہ اور ان کی اولاد کا ذکر ہے اور انہیں کو آیت سریہ بتاتی ہے علاوہ اس کے سفر التواریخ اول کے پہلے باب کی 32 آیت میں جہاں سب کے نسب نامے لکھے ہیں جو اہل کتاب میں معتبر ہے لکھا ہے ’’ اور بنی قطورہ سریہ ابراہیم فلاں اور فلاں یہ وہی اشخاص جنہیں پیدائش کے باب25 میں قطورہ کی اولاد گنایا ہے اور فلسطین کے پورب کی طرف سکونت کی اجازت دی ہے یہاں سے قطورہ کا سریہ ہونا بخوبی ثابت ہے اور اسی مقام پر 23 آیت کے اخیر میں لکھا ہے کہ یہ سب قطورہ کی اولاد ہیں اس سے ثابت ہے کہ قطورہ ہاجر نہ تھیں ورنہ اسمعیل کو بھی ان میں شمار کرتا بلکہ اس باب کی 26 آیت میں گنایا ہے ابراہیم کے بیٹے اسحاق اور اسمعیل اس وقت یہ دستور تھا یعنی اکثر یہ محاورہ تھا کہ بیان نسب میں سریہ کی اولاد کو ماکی طرف نسبت کرتے تھے اور بیوی کی اولاد کو باپ کی طرف اسی لیے نسب نامہ اسمعیل کو ابراہیم کی طرف منسوب کیا اور فطورہ کی اولاد کی نسبت ابراہیم کی طرف نہیں بلکہ قطورہ کی طرف کی علاوہ اس کے ہاجر کی اولاد پاران میں بسی اور قطورہ کی اولاد فلسطین کے پورب جیسا توریت میں بیان ہوا ہے باوجود ان سب تباین اور تغایر کے دونوں کو ایک کہنا بناوٹ ہے علاوہ اس کے ابراہیم ہاجر کو طلاق دی تھی اور آئمہ کو زن مطلقہ سے نکاح جائز نہیں چناں چہ موسیٰ کی شریعت میں یہ حکم منصوص ہے تو اگر یہی شریعت ابراہیم کے وقت میں بھی تھی جیسا کہ یہود دعویٰ کرتے ہیں تو یہ کہنا کہ قطورہ ہاجر ایک ہیں بالکل خلاف ہے اور اگر ابراہیم کے وقت میں یہ شریعت نہ بھی رہی تو خلاف دستور انبیاء کے ہیں کسی نبی کا سوائے پیغمبر آخر الزمان کے زن مطلقہ سے نکاح کرنا ثابت نہیں۔‘‘ اب ہم رجوع کرتے ہیں پیلغشم کے لفظ اور اس آیت کے معنی کی طرف اگر تسلیم کیا جاوے کہ یہ لفظ جمع ہے جیسا اب جو نسخے موجودہ مطبوعہ لندن وامسٹر دام وغیرہ دیکھے گئے ان میں پیلغشیم یے اور میم کے ساتھ لکھا ہوا خلاف بیان مفسرین کے پایا جاتا ہے تو بھی مدعا مستدل کا ثابت نہ ہو گا کیوں کہ جائز ہے کہ یہ جمع پیلغشی اسم منسوب کی ہو جیسا اسم منسوب کی جمع اس وزن پر متعارف ہے پیلغشی کے معنی سریہ زا ہیں جسے اس ملک میں پرستار زادہ کہتے ہیں معنی آیت کے یہ ہیں کہ ابراہیم نے سریہ زا لڑکوں کو کچھ دے کر وہاں سے رخصت کر دیا اور ان کو فلسطین کے پورب میں بسنے کی اجازت دی لیکن ان میں اسمعیل نہ تھے بلکہ اسی باب کی نویں آیت میں لکھا ہے کہ دفن کیا ابراہیم کو اسماعیل اور اسحاق اور ان کے لڑکوں نے توریت اور اس کی تفسیر دیکھنے والوں پر بخوبی واضح ہو جاوے گا کہ ہاجر کا لونڈی ہونا کتب مقدمہ سے ثابت نہیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭ (2)::اقوام عرب کی رسوم و عادات اسلام سے قبل افحکم الجاھلیہ یبغون ومن احسن من اللہ حکما لقوم یوقلون عادات و خصائل اور رسول اور توہمات ایام جاہلیت کے عرب بلکہ بالعموم سب عرب بغیر کسی استثنا کے (کیوں کہ زمانہ حال کے بدو عرب بھی اپنے مورثوں سے بہت کم اختلاف رکھتے ہیں) ایک نہایت سادہ مزاج قوم تھی ان کی معاشرت کا سادہ اور بے تکلف طریقہ قوانین قدرت کے قریب قریب تھا یا اس سے بالکل مطابقت رکھتا تھا وجود انسانی کا سلسلہ ابتدائی اور ادنیٰ درجہ کی حالت سے رفتہ رفتہ ترقی حاصل کرتا گیا اور آخر کار گلہ بانی کے رتبہ پر پہنچ گیا جو بمقابلہ اس کی پہلی حالت کے نہایت عمدہ اور افضل تھا۔ اس حالت کے تبدیل ہونے سے انسانوں کو آپس میں امن اور صلح سے رہنے اور اپنی معدوم اور سادہ احتیاجوں کے رفع کرنے کو بہت سا سرمایہ مل گیا بھیڑوں کی اون سے ایک قسم کا موٹا ٹاٹ بنانا سیکھ لیا جس کو بذریعہ میخوں کے زمین پر خیمہ کی طرح کھڑا کر کے اس کے اندر رہا کرتے تھے اور جب ان کو اپنے گلہ کو کسی دوسرے عمدہ چراگاہ پر لے جانے کی ضرورت ہوتی تھی تو اپنے ڈیروں کو اس جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لے جا کھڑا کرتے تھے اور وہیں رہنے لگتے تھے ان کی پوشاک صرف ایک لمبی بن سی ہوئی چادر ہوتی تھی جس کو بطور تہمت کے اپنے کمر سے لپیٹ لیتے تھے ان کا کھانا نیم برشت گوشت اور اونٹ کا دودھ اور کھجوریں ہوتا تھا ان کی تمام ملکیت اور جائداد مویشی گھوڑے اور وہ عرب کا بیش بہا جانور یعنی اونٹ اور لونڈی اور غلام ہوتی تھی اور تمام ملکیت میں لونڈی اور غلام سب سے گراں بہا خیال کیے جاتے تھے۔ بدو عرب کی معاشرت، جس کو خانہ بدوش اقوام عرب کا نمونہ خیال کرنا چاہیے، ایک چرواہے کے طریقہ معاشرت سے کچھ زیادہ نہ تھی خیمہ میں رہا کرتا تھا، پانی اور چراگاہ کی جستجو میں پھرا کرتا تھا مگر بعض جو زیادہ تمدن پسند تھے باہم مجتمع ہو کر اپنے خیموں کی باقاعدہ ترتیب اور انتظام سے دیہات بنا لیتے تھے اور اگر ان کی تعداد اور بھی بڑھ جاتی تھی تو قصبے اور شہر پیدا ہو جاتے تھے اور وہاں کے باشندے کسی قدر مہذب زندگانی کے فوائد سے جلع متمتع ہوتے تھے ان کا وقت کاشت کاری میں کھجوروں اور درختوں کے بونے میں جن کے پھلوں سے اوقات بسری ہو اور مختلف انواع کی دستکاری اور ہر قسم کی تجارت اور سودا گری میں صرف ہوتا تھا وہ ان اشیاء کی سوداگری کیا کرتے تھے گرم مصالح، بلسان، مر، لوبان، دار چینی، سنا، لیڈنن، سونا، جواہرات، موتی، ہاتھی دانت، آبنوس اور لونڈی اور غلام۔ بہت پرانے زمانہ سے یہ لوگ مصر اور شام اور قرب و جوار کے ملکوں سے بذریعہ کارواں کے تجارت کرتے تھے توریت سے بھی پایا جاتا ہے کہ یہ لوگ حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کے وقت میں بھی یہی پیشہ رکھتے تھے مگر ان دونوں قوموں یعنی خانہ بدوش اور تجارت پیشہ کا قومی چال چلن ایک ہی سا تھا کھانے پینے میں کم خرچ اور کفایت شعار ہونا اور اس پر راضی اور قانع رہنا ایک عمدہ اور بیش بہا وصف خیال کیا جاتا ہے باہلی ایک نامی شاعر اپنے بھائی کے ایک مرثیہ میں جس میں اس نے اس کی موت کا حال لکھا تھا اس طرح پر اپنے بھائی کی تعریف کرتا ہے۔ تکفیہ فلدۃ لحم ان الم بہا من الشواء و یکفی شربہ الغمر معتدل نیند کی بھی بہت تعریف کی جاتی تھی ہذلی ایک نامی شاعر اس عادت کی یوں تعریف کرتا ہے: قلیل غرار النوم اکبر ہمہ دم الثار او یلقی کمیا مسفعا علی الصباح اٹھنا بھی ایک عمدہ صفت شمار ہوتی تھی اور اس آدمی کی قوت اور مستعدی پر دلالت سمجھی جاتی تھی امراء القیس خود اپنی تعریف اس طرح پر کرتا ہے: وقد اغتدی والطیرفی دکنا تھا نہایت فیاضی سے مہمان نوازی ان کا قومی خاصہ تھا اور اس کو جملہ حسنات اور اوصاف میں اعلیٰ اور افضل سمجھتے تھے مسافروں اور مہمانوں کی خاطر داری بے انتہا فیاضی سے کرنا اور مہربانی اور اخلاق اور تعظیم کے ساتھ پیش آنا ایک پاک فرض خیال کیا جاتا تھا اور اگر کوئی اس کو ترک کر دیتا تھا یا غفلت کرتا تو تمام لوگ اس کو دل سے برا جانتے تھے اور اس کی حقارت کرتے تھے ہذلی شاعر خود اپنے پر اس شعر میں بد دعا کرتا ہے اگر وہ مہمان نوازی کے طریقہ میں کچھ قصور کرے لا در دری ان اطعمت نازلکم فشر الحتی و عندی البر مکنرز ہمسایہ کے حال پر مہربانی اور اس کی خبر گیری کرنا اور اس کے مکان اور خاندان اور مال کی نگرانی اور حفاظت کرنا نیک آدمیوں کے اوصاف میں سے تھا اور اگر کوئی اس باب میں ذرا بھی بے پروائی یا سستی کرتا تھا تو اس کو نظر حقارت سے دیکھتے تھے اور اس کا کوئی معیوب لقب رکھ دیتے تھے بکری شاعر علقمہ کی اس طرح پر ہجو کرتا ہے: تبیتون فی المشتا ملاء بطونکم وجا راتکم غرثنی ببتن خماسا اور ایک اور شاعر زبیدی اس صفت میں ایک شخص کی اس طرح تعریف کرتا ہے: وجارھم احمی اذا ضیم غیرہم قیدیوں کو چھوڑانا اور محتاجوں اور بیکسوں کی مدد کرنا تمام نیکیوں میں افضل اور جمیع اوصاف میں سب سے زیادہ قابل ستائش خیال کیا جاتا تھا ایک شاعر اپنی تعریف اس طرح پر کرتا ہے۔ وفککناغل امرء القیس منہ بعد ما طال حبسہ والعناء ایک اور شاعر طرفہ اس صفت کا بیان اس طرح پر کرتا ہے: ولکن متی یستر قد القوم ارفد ہذلی شاعر ایک صفت کو اس طرح بیان کرتا ہے: واحمی المصاب اذا مادعی ایک شریف عرب کو اپنی عزت کا لحاظ اور اپنے وعدہ کا خیال ایسا ہی ضروری سمجھا جاتا تھا جیسے کہ مذکورہ بالا اور اوصاف ضروری سمجھے جاتے تھے عمرو ایک مشہور شاعر اس طرح پر کہتا ہے: ونوجد نحن امنعہم ذمارا واوفاہم اذا عقد و ایمینا صاف اور ستھری پوشاک اور خوشبودار چیزیں پسندیدہ اشیاء میں سمجھی جاتی تھیں عدوانی کی بیٹی اپنے شوہر کی تعریف میں اس طرح پر کہتی ہے: حدیث الشباب طیب الثوب والعطر بالوں کو مشک سے معطرکرنا اور خوشبودار چمڑے کی جوتیاں پہننی امارت کی نشانیاں تھیں ایک شاعر اپنی ممدوحہ کی اس طرح پر مدح کرتا ہے: اذا التاجر الداری جاء بفارۃ من السک اراحت فی مفارقۃ تجری پرہیز گاری بھی اوصاف حسنہ میں شمار کی جاتی تھی حاتم طائی اس طرح پر لکھتا ہے: واغفر عوراء الکریم ادخار واعرض عن شتم اللیشیم تکرما فصاحت و بلاغت لطافت و ظرافت بھی فضیلت کے دائرہ کی تکمیل کے لیے ضروری تھیں عمرو شاعر اپنے بیٹے غرار کی تعریف میں کہتا ہے: وان غرارا ان یکن غیر واضح فانی احب الجون ذا المنطق الدم نابغہ شاعر کند زبان ہونے سے اس طرح خدا سے پناہ مانگتا ہے: اعذنی رب من حصر وعی گھوڑے کی سواری کی اگر بچپن ہی سے مشق کی جاتی تھی تو نہایت تعریف اور توضیف ہوتی تھی اور اگر کوئی بڑا ہو کر گھوڑے کی سواری سیکھتا تھا تو ہجو اور طعنہ کا نشانہ بنتا تھا ایک شاعر نے ایک قوم کی ہجو اس طرح پر کی ہے: لم یرکبوا الا بعد ما کبروا فبہم ثقال علی اکتا فہم میل بھیڑیہ کا شکار کرنا بہادر ہونے کا عمدہ ترین ثبوت تھا شامخ شاعر اس طرح پر کہتا ہے: وما قد دفعت الذئب عنہ ریگستان کے طول و عرض کا اندازہ اس کی ریت کی ایک مٹھی بھر کر سونگھنے سے دریافتکرتے تھے امراء القیس شاعر اس طرح پر بیان کرتا ہے اذا لناقۃ العوذ الدنیا فی غرغرا زمانہ جاہلیت کے عرب میں شعر و شاعری نہایت اعلیٰ درجہ پر پہنچ گئی تھی۔ جہاں یہ خوبیاں ان میں تھیں اس کے ساتھ نہایت بد اخلاقی اور فحش عرب جاہلیت میں پھیلا ہوا تھا۔ قصائد کے شروع میں جو نشیب کے اشعار ہوتے تھے ان میں دولت مند اور امیروں کی لڑکیوں اور عورتوں اور بہنوں کا نام لے لے کر بیان کرتے تھے اور ہر طرح کے عیبوں کو علانیہ ان کی طرف منسوب کرتے تھے ان کا یہ اعتقاد تھا کہ ہر شاعر کے اختیار میں ایک جن رہتا ہے اس جس قدر بڑا شاعر ہوتا ہے اسی قدر زبردست جن اس کے زیر حکم رہتا ہے حسن نامی شاعر اپنی تعلی میں اس طرح کہتا ہے: وما نفرت جنبی و ما فل مبردی بدکاری اور زنا کاری سے نادم نہیں ہوتے تھے اور ہر طرح کی غیر مہذب نظم میں از راہ بے شرمی اس کو مشتہر کرتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ سب لوگ شراب اور نہایت قوی منشی کے پینے سے بدرجہ غایت انس رکھتے تھے اور مدہوشی کی حالت میں تمام لوگوں سے نہایت خراب اور معیوب باتیں سر زد ہوتی تھیں۔ قمار بازی سب لوگوں کا بلا استثناء ایک ہر دل عزیز کھیل تھا اور اگر کوئی خاص مقام قمار بازی کا مشہور تھا تھا تو لوگ دور دراز مسافت سے وہاں جوا کھیلنے کو جایا کرتے تھے سود خواری بھی عام طور سے نہایت درجہ مروج تھی۔ لونڈیوں کو جو قینات کہلاتی تھیں گانا بجانا اور ناچنا سکھایا جاتا تھا اور وہ حرام کاری کرنے کی مجاز تھیں اور اس حرام کاری کی آمدنی ان کے آقا اپنے تصرف میں لاتے تھے۔ رہزنی اور غارت گری اور قتل روز مرہ کی باتیں تھیں انسانوں کا خون بلا خوف اور بغیر تاسف کے ہر روز ہوا کرتا تھا لڑائی میں جو عورتیں قید ہوتی تھیں ان کو فتح مند لونڈیاں بنا لیتے تھے حارث شاعر اس طرح پر کہتا ہے: ثم ملنا علیٰ ثمیم فاحیرمنا وفینا بنات سرا مناء ٹوٹکوں میں اور شگون لینے میں ان کو نہایت مضبوط اعتقاد تھا جب کوئی مصیبت یا تباہی ان پر نازل ہوتی تھی تو پتھر کی چھوٹی کنکریوں پر کچھ پڑھ کر پھونکتے تھے اور ان کو پھینکتے تھے اور ایسا کرنے سے اس مصیبت کے دور ہونے کی توقع رکھتے تھے جانوروں کے اڑنے اور بولنے سے بھی نیک اور بد شگون لیا کرتے تھے مثلاً اگر کوئی جانور کسی شخص کی بائیں طرف سے دائیں طرف رستہ کاٹ گیا تو اس کونیک شگون سمجھتے تھے اور ’’ سانح‘‘ کہتے تھے لیکن اگر دائیں جانب سے بائیں طرف رستہ کاٹ گیا تو اس کو بد شگونی سمجھتے تھے اور ’’ جارح‘‘کہتے تھے اس قسم کی تفاؤل کا عام نام ’’ طیرہ‘‘ تھا۔ لبید ابن ربیعۃ نے اسلام قبول کرنے سے پہلے اس موقع پر جب کہ اس کا بھائی بجلی کے صدمہ سے مارا گیا یہ شعر کہا تھا: لعمرک ما تدری الضوارب بالحصی ولا اجرات الطیر ما اللہ صانع جاہلیت کے عرب کسی کام کے ہو جانے پر بھیڑ کی قربانی کرنے کی منت مانتے تھے اور جب وہ کام ہو جاتا تھا تو بھیڑ کے بدلے ہرن کو مار دیتے تھے اور اس ہرن کو عتیرہ کہتے تھے مگر بھیڑ کے بدلے ہرن کو مار دینا ایک معیوب کام خیال کیا جاتا تھا کعب شاعر اپنے خاندان کی تعریف میں کہتا ہے: وما عترا الظیا بحی کعب اگر کوئی کسی کو مار ڈالتا تھا تو خون کے عوض خون ہی معزز بدلا گنا جاتا تھا جو لوگ خون کے بدلے ریت لیتے تھے ان کو ان کے ہم جنس اور ہم وطن حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے عمرو ابن معدی کرب کی بہن اپنے بھائی کے خون کا کسی شرط پر تصفیہ کرنے سے منع کرتے ہے ولا تاخذوا منہم اقالا وابکرا ان کا اعتقاد تھا کہ اگر کسی آدمی کے خون کا عوض خون نہ لیا جاوے تو ایک چھوٹا پردرا کیڑا مقتول کے سر میں سے نکل کر آسمان میں چیختا پھرتا ہے اس عجیب کیڑے کو ’’ ہامہ‘‘ اور’’ صدی‘‘ کہتے تھے لبید شاعر ایک نوحہ میں اس طرح کہتا ہے: فلیس الناس بعدک فی نفیر وماہم غیرا صداء و ہام ہر شخص کے مرنے کے بعد یہ دستور تھا کہ اس کے اونٹ کو اس کی قبر سے باندھ دیتے تھے یہاں تک کہ بھوک اور پیاس کے مارے وہ مر جاتا تھا اور اس اونٹ کو ’’ بلیہ‘‘ کہتے تھے لبید شاعر اپنے ممدوح کی سخاوت کی اس طرح تعریف کرتا ہے: تاوی الاطتاب کل ذریۃ مثل البلیۃ قالص اھدامہا جب کوئی مر جاتا تھا تو برس روز تک اس کا سوگ رکھتے تھے اور اس کو رویا کرتے تھے لبید شاعر اپنے وارثوں کو یوں وصیت کرتا ہے: الی الحول ثم اسم السلام علیکما ومن یبک ھولا کاملاً فقد اعتذر لڑائی میں عورتیں مردوں کے ہمراہ ہوتی تھیں اور ہر طرح ان کی مدد کرتی تھیں جب کہ ان کے شوہر لڑائی میں مصروف ہوتے تھے تو وہ پکار پکار کر کہتی تھیں’’ آگے بڑھو آگے بڑھو اے ہمارے جری اور بہادر خاوند اگر تم کوتاہی کرو گے اور ہم کو دشمن سے نہ بچاؤ گے تو ہم تمہاری بیویاں نہ ہوں گی۔‘‘ قحط اور گرانی کے زمانہ میں اپنے اونٹوں کو مجروح کر کے ان کا خون پیا کرتے تھے خشک سالی میں مینہ برسنے کا ٹوٹکا اس طرح پر کرتے تھے کہ پہاڑوں میں ایک گائے کو لے جاتے تھے اور اس کی دم میں سوکھی ہوئی گھاس اور کانٹے اور جھاڑیاں باندھ کر اس میں آگ لگا دیتے تھے اور گائے کو پہاڑوں میں چھوڑ دیتے تھے۔ گھوڑ دوڑ اور اس پر بازی لگانا جس کو وہ ’’ رہان‘‘ کہتے تھے ان میں مروج تھی دو قوموں اور فریقوں کے باہم جنگ و جدل ایک تھوڑی سی غلط فہمی کی وجہ سے قائم ہو جاتی تھی بعض اوقات یہ لڑائیاں ایک مدت مدید تک جاری رہتی تھیں جیسے کہ عیص اور ذبیان کے باہم پورے سو برس تک لڑائی جاری رہی۔ باوجودے کہ کوئی شخص اپنے غلاموں کو آزاد کر دیتا تھا تو بھی اس کی ملکیت کا استحقاق اس کو باقی رہتا تھا اور اس استحقاق کو فروخت کر دینے کا بھی مجاز تھا اور مشتری ان غلاموں پر اپنی ملکیت قائم کرتا تھا اور اس طرح سے یہ بد بخت ہمیشہ کی آزادی سے بالکل محروم تھے۔ عورتیں کسی جانور کا دودھ نہیں دوہتی تھیں اور اگر کسی خاندان کی عورتوں کو دودھ دوہتے دیکھ پاتے تھے تو اس خاندان کو نظر حقارت سے دیکھتے تھے اور وہ خاندان لوگوں کی آنکھوں میں دفعتاً حقیر ہو جاتا تھا۔ مجرم کو فوج داری کی سزا میں جلتی ہوئی ریت پر بٹھا دیتے تھے مردہ جانوروں کا گوشت کھاتے تھے اور اس کو بہت لذیذ غذا سمجھتے تھے جو اونٹنی یا بھیڑ یا بکری دس دفعہ بچہ جن لیتی تھی اس کو چھوڑ دیتے تھے اور وہ چھوٹی پھرا کرتی تھی اور جب وہ مر جاتی تھی تو اس کا گوشت مرد کھاتے تھے اور عورتوں کو اس کا گوشت کھانے کی ممانعت تھی اگر اونٹنی یا بھیڑ یا بکری پانچویں دفعہ مادہ بچہ جنتی تھیں تو اس کے کان کاٹ کر اس کو چھوڑ دیتے تھے اور اس کو ’’ بحیرہ‘‘ کہتے تھے اور اس کا گوشت کھانا اور دودھ پینا منع تھا۔ کسی کام کے ہو جانے پر اونٹوں کو بطور سانڈ کے چھوڑ دینے کی منت مانتے تھے اور جب وہ کام ہو جاتا تھا تو اونٹ کو بطور سانڈ کے چھوڑ دیتے تھے اور وہ جہاں چاہتا تھا پھرا کرتا تھا۔ اگر کوئی اونٹنی دس بچے دے چکتی تھی اور بکری سات بچے نو عورتوں کو اس کا گوشت کھانے کی ممانعت تھی اور صرف مرد ہی اس کا گوشت کھا سکتے تھے۔ اگر کسی بکری کے مادہ بچہ ہوتا تھا تو مالک اس کو اپنے لیے رہنے دیتا تھا اور اگر نر پیدا ہوتا تھا تو بتوں پر بطور نذر کے چڑھایا جاتا تھا اور اگر دو بچے ایک نر اور ایک مادہ پیدا ہوتے تھے تو مالک دونوں کو اپنے لیے رکھتا تھا اور وہ ’’ وصیلہ‘‘ کہلاتی تھی۔ جو اونٹ کہ دس بچوں کا باپ ہو چکتا تھا وہ چھوڑ دیا جاتا تھا اور جہاں وہ چاہتا تھا پھرا کرتا تھا اور بنام ’’ حامی‘‘ موسوم ہوتا تھا۔ قسم لینے کا نہایت سنجیدہ قاعدہ یہ تھا کہ آگ جلا کر اس میں نمک اور گندھک پیش کر ڈالتے تھے یہ آگ’’ ھولہ‘‘ کہلاتی تھی اور اس کا جلانے والا ’’ مہول‘‘ کہلاتا تھا عوص شاعر اس طرح پر کہتا ہے: اذا استقبلتہ الشمس صد بوجھہ کما صد عن نار المھول حالف قسم کے مستحکم کرنے کا ایک یہ بھی طریقہ تھا کہ میزاب خانہ کعبہ کے نیچے چابک کمان اور جوتی رکھ دیتے تھے اور اس طرح کرنے سے قسم پختہ ہو جاتی تھی۔ اقرار اور وعدہ کے مستحکم کرنے کو اپنے بزرگوں کی اور بتوں کی قسم کھایا کرتے تھے۔ بالغ مرد اپنے والدین کی وراثت پانے کے مستحق ہوتے تھے نابالغ لڑکے اور عورتیں حصہ نہیں پاتے تھے۔ قرضہ پر سود لیتے تھے ایک قاعدہ یہ تھا کہ اگر قرضہ وقت معینہ پر ادا نہ ہوتا تھا تو اس کی تعداد کو دو چند کر دیتے تھے اور میعاد ادا کو بڑھا دیتے تھے۔ عرب جاہلیت انتقام لینا واجب سمجھتے تھے لیکن مختلف قوموں میں باہم حقوق کی برابری کو نہیں مانتے تھے۔ اگر کسی شخص کے قاتل کا سراغ نہ لگتا تھا تو جس قوم کے شخص پر قتل کا شبہ ہوتا تھا پچاس معزز شخص فرداً فرداً اپنی بے گناہی کی قسم کھاتے تھے۔ ہر شخص گو وہ اجنبی ہی ہو دوسرے شخص کے گھر میں درانہ چلے آنے کا مجاز تھا اور اندر آنے سے پہلے اندر آنے کی اجازت طلب نہیں کرتے تھے۔ کسی رشتہ دار کے گھر کھانا کھانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ دس دس آدمی بشراکت ایک جانور کو خریدتے تھے اور ہر ایک شخص کے حصہ کو متعین کرنے کے واسطے دس پانسے (جس میں ایک سادہ ہوتا تھا اور باقی نو پر حصوں کے اندازہ کا نشان بنا ہوتا تھا) پھینکے جاتے تھے اور جو پانسا جس کے نام پڑتا تھا وہی اس کا حصہ ہوتا تھا۔ خانہ کعبہ میں سات تیر رکھے ہوئے تھے اور ہر تیر پر ایک علامت بنی ہوئی تھی بعضوں پر کام کرنے کے حکم دینے کی اور بعضوں پر اس کام کرنے سے منع کرنے کی علامت تھی ہر شخص پیش تر اس سے کہ کوئی کام شروع کرے ان تیروں سے استخارہ کرتا تھا اور اسی کے بموجب کام کرتا تھا ان تیروں کو ’’ ازلام‘‘ کہتے تھے۔ عرب کے مشہور جنوں کے نام تمام عرب جاہلیت کا شیوہ بت پرستی تھا اور جن بتوں کی وہ پرستش کیا کرتے تھے ان کی تفصیل یہ ہے۔ 1ہبل: ایک بہت بڑا بت تھا جو خانہ کعبہ کے اوپر رکھا ہوا تھا 2 ود: قبیلہ بنی کلب کا یہ بت تھا اور وہ قبیلہ اس کی پرستش کرتا تھا 3 سواع: قبیلہ بنی مذحج کا یہ بت تھا اور وہ اس کی پرستش کرتے تھے 4 یغوث : قبیلہ بنی مراد کا یہ بت تھا اور وہ اس کی عبادت کرتے تھے 5 یعوق: بنی ہمدان کے قبیلہ کا یہ بت تھا اور وہ اس کو معبود سمجھتے تھے اور عبادت کرتے تھے 6 نسر: یمن کے قبیلے بنی حمیر کا یہ بت تھا اور یمن کے لوگ اس کی پرستش کرتے تھے۔ 7 عزیٰ: قبیلہ بنی غطفان کا یہ بت تھا اور اس کی پرستش وہ قبیلہ کیا کرتا تھا 8لات 9منات: یہ بات کسی خاص قبیلہ سے علاقہ نہیں رکھتے تھے بلکہ عرب کی تمام قومیں ان کی پرستش کیا کرتی تھیں۔ 10 دوار: یہ بت نوجوان عورتوں کی پرستش کرنے کا تھا وہ چند دفعہ اس کے گرد طواف کرتی تھیں اور پھر اسی کو پوجتی تھیں۔ 11اساف: جو کوہ صفا پر تھا اور 12نائلہ: جو کوہ مروہ پر تھا ان دونوں بتوں پر ہر قسم کی قربانی ہوتی تھی اور سفر کو جانے اور سفر سے واپس آنے کے وقت ان کو بوسہ دیا کرتے تھے۔ 13عبعب: ایک بڑا پتھر تھا جس پر اونٹوں کی قربانی کرتے تھے اور ذبیحہ کے خون کا اس پر بہنا نہایت ناموری کی بات خیال کی جاتی تھی۔ کعبہ کے اندر حضرت ابراہیم کی مورت بنی ہوئی تھی اور ان کے ہاتھ میں وہی استخارہ کے تیر تھے جو ’’ آزلام‘‘ کہلاتے تھے اور ایک بھیڑ کا بچہ ان کے قریب کھڑا تھا اور حضرت ابراہیم کی بھی مورت خانہ کعبہ میں رکھی ہوئی تھی اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی تصویریں خانہ کعبہ کی دیواروں پر کھنچی ہوئی تھیں۔ حضرت مریم کی بھی ایک مورت تھی اس طرح پر کہ حضرت عیسیٰ ان کی گود میں ہیں یا ان کی تصویر اس طرح خانہ کعبہ کی دیواروں پر کھنچی ہوئی تھی۔ عرب کی دیسی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’ ود‘‘ اور’’ یعوث‘‘ اور ’’ یعوق‘‘ اور’’ نسر‘‘ مشہور لوگوں کے جو ایام جاہلیت میں گذرے ہیں نام ہیں ان کی تصویریں پتھروں پر منقش کر کے بطور یادگار کے خانہ کعبہ کے اندر رکھ دی تھیں ایک مدت مدید کے بعد ان کو رتبہ معبودیت دے کر پرستش کرنے لگے اس میں کچھ شک نہیں کہ عرب کے نیم وحشی باشندے ان سورتوں پر خدا ہونے کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے اور نہ ان لوگوں کو جن کی یہ مورتیں تھیں معبود سمجھتے تھے بلکہ ان کو مقدس سمجھنے کی مندرجہ ذیل وجوھات تھیں۔ بتوں کے متعلق عربوں کا اعتقاد جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا عرب جاہلیت ان مورتوں کو ان شخصوں اور ان کی ارواحوں کی یادگار سمجھتے تھے اور ان کی تعظیم اور تکریم اس سبب سے نہیں کرتے تھے کہ ان مورتوں میں کوئی شان الوہیت موجود ہے بلکہ محض اس وجہ سے ان کی عزت اور تعظیم کرتے تھے کہ وہ ان مشہور اور نامور اشخاص کی یادگار ہے جس میں بموجب ان کے اعتقاد کی جماہ صفات الوہیت یا کسی قسم کی شان الوہیت موجود ہے ان کے نزدیک ان مورتوں کی پرستش سے ان لوگوں کی ارواحیں خوش ہوتی تھیں جن کی وہ یادگاریں تھیں۔ ان کا یہ اعتقاد بھی تھا کہ خدا تعالیٰ کی جملہ قدرتیں بیماروں کو شفا بخشنا، بیٹا بیٹی عطا کرنا قحط و وبا اور دیگر آفات ارضی و سماوی کا دور کرنا ان کے مشہور و معروف لوگوں کے اختیار میں بھی تھا جن کی طرف انہوں نے صفات الوہیت منسوب کی تھیں اور وہ خیال کرتے تھے کہ اگر مورتوں کی تعظیم ا ور پرستش کی جاوے گی تو ان کی دعائیں اور منتیں قبول ہوں گی۔ ان کا یہ بھی مستحکم عقیدہ تھا کہ یہ اشخاص خدا تعالیٰ کے محبوب تھے اور اپنی مورتوں کی پرستش سے خوش ہو کر پرستش کرنے والوں کو خدا تعالیٰ کے قرب حاصل کرانے کا ذریعہ ہوں گے اور ان کو تمام روحانی خوشی عطا کریں گے اور ان کی مغفرت کی شفاعت کریں گے۔ بتوں کی پرستش کا قاعدہ ان کا قاعدہ بتوں کی پرستش کا یہ تھا کہ بتوں کو سجدہ کرتے تھے ان کے گرد طواف کرتے تھے اور نہایت ادب اور تعظیم سے بوسہ دیتے تھے اونٹوں کی قربانی ان پر کرتے تھے مویشیوں کا پہلا بچہ بتوں پر بطور نذر کے چڑھایا جاتا تھا اپنے کھیتوں کی سالانہ پیداوار اور مویشی کے انتفاع میں سے ایک معین حصہ خدا کے واسطے اور دوسرا حصہ بتوں کے واسطے اٹھا رکھتے تھے اور اگر بتوں کا حصہ کسی طرح ضائع ہو جاتا تو خدا کے حصہ میں سے اس کو پورا کر دیتے اور اگر خدا کا کسی طرح ضائع ہوتا تو بتوں کے حصہ میں سے اس کو پورا نہیں کرتے تھے۔ حجر اسود اور خانہ کعبہ کی تعظیم تاریخ عرب کے ابتدائی زمانہ سے ہوتی چلی آئی ہے اس کی بناء کو خود حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی طرف منسوب کرتے ہیں مگر بر خلاف ان مقدس چیزوں کے جن کا ذکر اوپر ہوا۔ خانہ کعبہ کو کسی شخص کی یادگار نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ تمام عمارت ہی یہ لقب بیت اللہ ممیز اور ممتاز تھی اور اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کے واسطے مخصوص تھی در حقیقت اس کو ایسا سمجھتے تھے جیسے کہ یہودی بیت المقدس کو اور عیسائی گرجا کو اور مسلمان مسجد کو خدا کی عبادت کرنے کے لیے اس زمانہ میں سمجھتے ہیں قرآن مجید میں خانہ کعبہ کو متعدد جگہ مسجد کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ حجر اسود اور خانہ کعبہ حجر اسود کو بھی مثل ایک بت کے یا کسی مشہور و معروف شخص کی یادگار کے نہیں سمجھتے تھے عام خیال یہ تھا کہ یہ ایک بہشت کا پتھر ہے مگر تحقیق نہیں ہے کہ شروع زمانہ سے یہ خیال تھا یابعد کو پیدا ہوا۔ جو بات کہ محقق ہے وہ یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی بناء ہونے سے پہلے یہ حجر اسود ایک میدان میں اکیلا پڑا ہوا تھا کوئی عرب کی روایت ایسی نہیں ملی جس سے یہ بات تحقیق ہو کہ یہ پتھر اس میدان میں کیوں پڑا ہوا تھا اور جس زمانہ میں کہ وہ وہاں پڑا ہوا تھا اس کے ساتھ کیا رسمیں متعلق تھیں مگر یہودیوں کی تاریخ سے ہم کسی قدر صحت کے ساتھ بیان کر سکتے ہیں کہ اگر حجر اسود کے ساتھ کچھ رسمیں ادا ہوتی ہوں گی تو وہ انہیں کے مشابہ ہوں گی جن کا برتاؤ حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب اس قسم کے پتھروں کے ساتھ کیا کرتے تھے دیکھو کتاب پیدائش باب12ورس7,8 و باب13 ورس18 و باب26 ورس25 وباب28 ورس18 و کتاب خروج باب20ورس25 خانہ کعبہ کی تعمیر اور حجر اسود کے خانہ کعبہ کے ایک کونہ میں نصب ہونے کے بعد بھی کسی رسم کا اس کے ساتھ بالتحقیق ہونا پایا نہیں جاتا جو رسم کے اب تسلیم کی جاتی ہے اور جو حجر اسود کے ساتھ مخصوص خیال ہوتی ہے وہ بوسہ دینا ہے مگر یہ رسم بھی کچھ اس کے واسطے مخصوص نہ تھی خانہ کعبہ کے اور حصے بھی اسی طرح چومے جاتے تھے۔ خانہ کعبہ کا حال یہ تھا کہ سب لوگ اس کے اندر بیٹھا کرتے تھے اور خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے اور اس کے گرد طواف بھی کرتے تھے لیکن عجب ترین رسم یہ تھی کہ یہ عبارت و پرستش مطلق برہنگی کی حالت میں ہوتی تھی عرب جاہلیت اس بات کو برا سمجھتے تھے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کپڑے پہن کر کریں جو ہر قسم کے گناہوں سے ملعوث ہوتے ہیں۔ خانہ کعبہ کے دوہمسر خانہ کعبہ کی ہمسری کے واسطے دو مبعد اور یکے بعد دیگرے بتائے گئے تھے ایک تو قبیلہ غطفان نے اور دوسرا یمن میں، قبائل خثام اور بجیلہ نے باشتراک بنایا تھا۔ ان دونوں معبدوں میں بت رکھے ہوئے تھے جن کو ان قبیلوں کے لوگ بطور معبود کے پوجتے تھے ان نقلی کعبوں میں سے اول کو تو زہیر بادشاہ حجاز نے چھٹی صدی عیسوی میں بالکل غارت کر دیا تھا اور دوسرے کو جریر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یعنی ان کے پیدا ہونے کے بعد منہدم کر دیا تھا۔ حج زمانہ جاہلیت میں حج کی رسم کو عرب کے باشندے زمانہ دراز سے مانتے چلے آتے تھے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے زمانہ تک اس کا پتہ چلتا ہے۔ وقت اداے حج کے احرام باندھنے کی رسم بھی ان میں شائع تھی اور اگر کوئی شخص احرام باندھے ہوئے اپنے گھر میں آنا چاہتا تھا تو دروازہ کی راہ سے نہیں آتا تھا بلکہ پچھواڑے کی دیوار پھلانگ کر اندر آتا تھا۔ صفا اور مروہ کے پہاڑوں کے درمیان دوڑنے کی رسم بھی زمانہ جاہلیت سے عرب میں رائج تھی جیسے کہ اب بھی مروج ہے۔ جو لوگ حج کرنے کو آتے تھے اس مقدس میدان میں جمع ہوتے تھے جو عرفات کے نام سے مشہور ہے لیکن قوم قریش جملہ اقوام عرب میں ذی اختیار تھی اس لیے قریش مع اپنے دوستوں کے مقام مزدلفہ پر جو گرد و نواح کی زمین کی نسبت زیادہ بلند اور مرتفع ہے ٹھہرتے تھے اور باقی گرو، عرفات میں مقیم ہوتے تھے جہاں کہ حج کی رسم اد اکی جاتی ہے۔ حج کی رسم ختم ہونے کے بعد یہ مجمع ایک مقام کو جو منا کہلاتا ہے چلا جاتا تھا اور وہاں اپنے بزرگوں کے نام اور بہادرانہ کاموں کا فخر کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے اور ان بہادری کے حالات کو اشعار میں پڑھنے سے اور بھی جلاء دیتے تھے۔ سال کے چار مہینے متبرک سمجھے جاتے تھے اور حج کی رسم جیسا کہ بالفعل دستور ہے انہیں مہینوں میں سے ایک مہینی یعنی ذالحجہ میں ادا کی جاتی تھی مگر ان مہینوں کی حرمت بعض اوقات مبدل اور ملتوی ہو جاتی تھی کس واسطے کہ اگر کوئی لڑائی ان مہینوں میں سے کسی میں واقع ہوتی تھی تو لوگ ان کی قدرتی ترتیب کو بدل دینے سے گناہ سے بری الذمہ ہو جاتے تھے یعنی موجودہ مہینے کو غیر حرام فرض کر لیتے تھے اور ماہ آئندہ کو حرام کا مہینا سمجھ لیتے تھے۔ عرب جاہلیت ایک میعاد معین تک لڑائی کے موقوف رکھنے کا عہد کر لیتے تھے اور اس رسم کو حج کا ہم پایہ سمجھتے تھے۔ صابی فرقہ باشندگان عرب کی ایک تعداد کثیر بت پرست تھی مگر وہاں ایک فرقہ موسوم بہ ’’ صابئی‘‘ بھی تھا جو ثوابت اور سیاروں کی پرستش کرتا تھا انہوں نے بے شمار ھیاکل یعنی ستاروں کی پرستش کے معبد تمام ملک میں تعمیر کیے تھے اور ان کو ان مقدس ستاروں کی پرستش کے واسطے مخصوص کیا تھا اس وجہ سے عرب کے لوگ علی العموم یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ اجرام فلکی انسان کی قسمت پر فرداً فرداً اور نیز بہ ہیئت مجموعی نیک یا بد اثر رکھتے ہیں اور باقی مخلوقات پر بھی موثر ہیں اور بالخصوص ان کا یہ اعتقاد تھا کہ مینہ کا برسنا یا امساک باراں کا ہونا انہیں اجرام فلکی کی نیک یا بد تاثیر پر بالکل منحصر ہے اس کے علاوہ اور مذاہب بھی عرب میں شائع تھے لیکن ہم اس جگہ ان کی بحث نہیں کرنے کے کیوں کہ یہ مضمون ہمارے اس مقالہ سے جو اس کے بعد آوے گا علاقہ رکھتا ہے۔ عورتوں کی حالت جاہلیت میں عورتیں حقیقت میں نہایت خراب اور ذلیل حالت میں تھیں مردوں کو بالکل اختیار تھا کہ جتنی چاہیں اتنی عورتیں کریں اگرچہ اس بات کے تعین کرنے کے لیے کوئی قانون منضبط نہ تھا کہ مرد کو کون سی قرابت مند عورتوں سے شادی کرنا جائز ہے اور کون سی سے ناجائز مگر با ایں ہمہ یہ رسم شائع تھی کہ اس عورت سے جو قریب تر رشتہ رکھتی ہو ازدواج نہیں رکھتے تھے اور یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ ایسی عورت کی اولاد عموماً ضعیف اور کمزور ہوتی ہے۔ ازدواج و طلاق کی رسوم عہد جاہلیت میں ازدواج کی رسم ادا کرتے تھے اور مہر بھی باندھتے تھے طلاق بھی دیتے تھے ہر شخص اپنی زوجہ کو جس طرح ایک مرتبہ طلاق دینے کے بعد پھر اپنی زوجیت میں لے سکتا تھا اسی طرح ہزار بار طلاق دینے کے بعد بھی پھر اپنی زوجیت میں لے لیتا تھا کیوں کہ تعداد طلاق کی کوئی حد مقرر نہیں تھی۔ طلاق کے بعد ایک میعاد مقرر تھی جس کے اندر عورت کو کسی اور مرد کے ساتھ ازدوا ج کرنے کی ممانعت تھی اور اس میعاد کے اندر اگر فریقین میں آشتی ہو جاتی تو پھر اپنی زوجیت میں لے لیتے تھے مرد اس رسم سے بہت ظالمانہ اور وحشیانہ طور سے مستفید ہوتے تھے اور اپنی جوروں کو کسی بہانہ سے طلاق دے دیتے تھے بیچاری عورت میعاد معینہ تک منتظر رہتی تھی اور اس میعاد میں کسی دوسرے سے ازدواج نہ کر سکتی تھی لیکن جب میعاد قریب الاتقضا ہوتی تھی تو اس کا شوہر پھر اپنی زوجیت میں لے لیتا تھا اور تھوڑے عرصہ بعد پھر اس کو طلاق دے دیتا تھا اور میعاد معینہ کے اختتام کے قریب پھر اپنے ازدواج میں لے لیتا تھا اور اسی طرح بار بار کیا کرتا تھا عربوں میں ایک یہ بے رحم رسم رائج تھی کہ ہر شخص اس بات کو ایک قسم کی ذلت خیال کرتا تھا کہ وہ عورت جو ایک مرتبہ اس کی زوجہ تھی دوسرے شخص کے ازدواج میں آوے۔ ایک اور قسم کی طلاق بھی زمانہ جاہلیت کے عربوں میں جاری تھی جو ’’ ظہار‘‘ کہلاتی تھی اور وہ اس طرح پر ہوتی تھی کہ مرد اپنی زوجہ کے ایک عضو کے چھونے سے باز رہتا تھا یہ کہہ کر کہ مجھ کو اپنی زوجہ جسم کے فلاں عضو کا چھونا ایسا حرام ہے جیسا کہ اپنی ماں یا کسی اور قریب رشتہ والی عورت کے جس کے ساتھ ازدواج ناجائز ہے عضو کا چھونا اس کہنے سے طلاق ہو جاتی تھی۔ بدترین رسمیں عرب جاہلیت کی رسموں میں سب سے زیادہ خراب رسم اور سب سے زیادہ بے رحم لڑکیوں کا مار ڈالنا یا ان کو زندہ دفن کر دینا تھا۔ تبینیت کی رسم بھی ان میں شائع تھی او رپسر مبنیٰ اپنے والدین کی جائداد کا حق دار اور وارث خیال کیا جاتا تھا۔ لڑکے اپنی سوتیلی ماؤں کے ساتھ ازدواج کرنے کے مجاز تھے مگر باپ اپنے بیٹے یا متنبیٰ کی زوجہ کے ساتھ شادی کرنے کا مجاز نہ تھا اور اس کے خلاف عمل کرنا نہایت معیوب اور گناہ سمجھا جاتا تھا۔ شوہر کے مرنے کے بعد اس کا سوتیلا بیٹا اگر وہ نہ ہو تو کوئی قریب کا رشتہ دار بیوہ کے سر پر ایک چادر ڈال دیا کرتا تھا اور وہ شخص جو اس طرح چادر ڈالتا تھا اس سے شادی کرنے پر مجبور ہوتا تھا۔ ماتم کی مدت عورتیں متوفی شوہروں کا ماتم ایک سال کامل تک کیا کرتی تھیں اور میعاد معینہ کے بعد بیوہ اونٹ کی چند خشک مینگنیں یا تو کسی کتے پر یا کندھے پر سے خود اپنی ہی پیٹھ پر پھینک دیتی تھی جس سے یہ مراد تھی کہ اب بیوہ کو اپنے متوفی شوہر کا کچھ بھی خیال نہیں رہا۔ عورتوں میں پردہ نہ تھا عورتوں میں اپنے گھر سے نکلنے اور عام مجمع میں بدون پردہ اور حجاب کے آنے کا دستور تھا اور اپنے جسم کے کسی حصہ کو کھلا رکھنے اور عوام الناس کو دکھلانے میں کوئی بے حیائی اور بے شرمی کی بات خیال نہیں کرتی تھیں۔ عورتوں کے مصنوعی بال عورتیں مصنوعی بال سر پر لگایا کرتی تھیں اور اپنے جسم کو نیل سے گودا کرتی تھیں میت کی رسوم خاندان کے تمام اشخاص قسم ذکور تمام قسم کی عورتوں کو چھونے سے جب کہ وہ اپنے معمولی ایام میں ہوں پرہیز کرتے تھے اور ان عورتوں کو باقی اشخاص خاندان کے ساتھ ملنے جلنے کی ممانعت تھی۔ مردوں کے متعلق عادات اور رسوم مردوں کو قبر میں دفن کرنے کا اعراب جاہلیت میں رواج تھا اور جس کسی جنازہ کو دفن کرنے کے لیے لے جاتے ہوئے دیکھتے تھے تو اور آدمی مردہ کی تعظیم اور اس پر افسوس ظاہر کرنے کے لیے سر و قد اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ انسان کا خون بجز انسان کی سانس کے اور کچھ نہیں ہے اور روح محض ایک ہو اانسان کے جسم کے اندر ہے مگر بعض لوگ جو کہ بہ نسبت ان کے زیادہ تعلیم یافتہ تھے یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ روح ایک نہایت چھوٹا سا جانور ہے جو انسان کے پیدا ہونے کے وقت اس کے جسم میں گھس جاتا ہے اور ہمیشہ اپنے آپ کو بڑھاتا رہتا ہے انسان کے مرنے کے بعد وہ جانور جسم کو چھوڑ کر قبر کے گرد چیختا پھرتا ہے یہاں تک کہ ایک الو کے برابر ہو جاتا ہے۔ عرب کی ارواح خبیثہ زمانہ جاہلیت کے عرب دیوؤں اور خبیث ارواحوں کو مانتے تھے تمام خیالی اور وہمی اور فرضی صورتیں جو بیابانوں یا پرانی مسمار اور منہدم عمارتوں میں ان کو نظر آتیں اور جن کی کہ تنہا آدمی کے خیال میں اکثر صورت بن جاتی ہے ان سب کو مختلف قسم کی خبیث ارواحیں تصور کرتے تھے۔ بعض لوگ ان مغالطات فطری کو مختلف بروج کی تاثیر کی طرف منسوب کرتے تھے اور ان کی رائے اوروں کی رائے کے مقابلہ میں افضل تر معلوم ہوتی تھی۔ زمانہ جاہلیت کے عرب نیک اور بد جنات میں عقیدہ رکھتے تھے ان کی مختلف صورتیں اور شکلیں مقرر تھیں اور مختلف نام رکھے تھے ان کے نزدیک بعض جنات نصف جسم انسان کا سا اور نصف جسم روحانی رکھتے تھے زمانہ جاہلیت کے عرب اور قوتوں اور وجودوں میں بھی اعتقاد رکھتے تھے جو انسان کی نظر سے غائب تھے مگر آئندہ کی خبروں کو بآواز بلند ظاہر کر دیتے تھے اور خود ہمیشہ پوشیدہ رہتے تھے وہ فرشتوں کی اور اور ارواحوں کو بھی جو دکھائی نہیں دیتیں مانتے تھے اور مختلف شکلیں ان کی طرف منسوب کرتے تھے۔ عرب کے زمانہ جاہلیت کی رسم و رواج کو اس مقام پر ہم نے نہایت سرسری طور پر بیان کیا ہے مگر ہم کو امید ہے کہ ان ہم وحشی لیکن عالی دماغ اور آزاد منش باشندگان عرب کے خانگی اور سوشیل عام حالات معلوم ہونے سے ایک منضف مزاج شخص، اگر ایسا شخص دنیا میں پایا جاتا ہے اس بات کا فیصلہ کر سکے گا کہ اسلام کے قبل عربوں کا کیا حال تھا اور بعد اسلام کے ان کا کیا حال ہو گیا اور بالعموم ان کے اخلاق کس طرح پر تبدیل ہو گئے ان کی اگلی اور پچھلے حالت کے مقابلہ کرنے میں ہمارا یہ سرسری بیان منصف مزاج شخص کو کافی مدد دے گا اور ایسے نتائج مستنبط کرنے کے قابل کرے گا جن کی جانب اس کی انصاف پسندی اس کو ہدایت کرے گی۔ ٭٭٭٭٭٭٭ (3)::اہل عرب اور ان کے مذاہب اسلام سے قبل ومن یتمع غیر الا سلام دیناً فلن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخاسرین اس مضمون میں ہم اس امر کی تحقیقات بھی کریں گے کہ ان ادیان میں سے جو زمانہ جاہلیت میں مروج تھے اسلام کون سے دین سے مشابہ تر ہے اور آیا اس مشابہت اور مماثلت کی وجہ سے اسلام ایک دین حق ثابت ہوتا ہے یا ایک عیارانہ بنایا ہوا قصہ۔ مذہب انسان کی فطرت میں داخل ہے توریت مقدس میں جو بیان انسان کے پیدا ہونے کا اور اس کے بعد بابل میں زبانوں کے مختلف ہو جانے اور روئے زمین پر پرا گندہ ہونے کا ذکر ہے اسی کو ہم اپنی اس بحث کا جو اس خطبہ میں ہے ابتدائی مقام فرض کرتے ہیں اور اسی بناء پر یہ بات کہتے ہیں کہ اگرچہ عبادت اور پرستش کی سادگی اور یک رنگی خود بخود اس وقت تک جاری رہی ہو گی جب کہ انسان تعداد میں کم اور ایک محدود مقام میں تھے مگر جب کہ وہ زیادہ وسیع ملکوں میں پھیل گئے جن کی آب و ہوا اور ملک کی بناوٹ مختلف تھی تو اس وقت ان کے دلوں کو نئے اور عجیب خیالات نے قریباً ہر ایک بات کی نسبت گھیر لیا خصوصاً اس وجود کی ماہیت کی نسبت جس کی عظمت کے جلوے نیک یا بد خوف و ہراس سے ان کو تسلیم کرنے پڑے۔ وہ لوگ ان قدرتی ظہور کے طبعی اسباب سے جن کے دیکھنے سے ایک تربیت یافتہ آدمی کے دل میں بھی خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے جیسے کہ بھونچالوں کا آنا، زمین کا دھنس جانا اور پھٹ جانا، دریاؤں کا جوش، سمندروں کا تلاطم، پہاڑوں کے عجائبات، درختوں کی کرامات، بادلوں کی گڑگڑاھٹ، بجلی کی کڑک اور چمک اور اس کے گرنے سے بربادی اور خوف ناک طوفانوں کی تباہی کے اسباب سے محض نا واقف تھے اس لیے انہوں نے ان سب کاموں کو کسی ایسے وجود کے کام تصور کیے ہوں گے جس کو وہ اپنے آپ سے بدرجہا اعلیٰ اور زبردست اور بوجہ غیر ظاہر ہوئے اس وجود کے اور بھی زیادہ خوف ناک تصور کرتے ہوں گے یہی اسباب ہیں جن کے سبب ابتداء میں انسان کے دل میں عبادت کرنے اور قربانیاں چڑھانے اور پوجا کرنے کا خیال پیدا ہوا مگر ان دیوتاؤں کو ان تین طریقوں سے خوش کرنے یا ان کا غصہ مٹانے میں بوجہ ملک کی خاصیت اور ملک کی آب و ہوا کے اور اس کے باشندوں کے عام مزاج اور چال چلن کے ہر ایک ملک کے باشندوں میں اختلاف پیدا ہو گیا ہم کو امید ہے کہ جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے اس کتاب کے پڑھنے والے سمجھ جائیں گے کہ عرب میں عموماً مذہبوں کی ابتدا کس طرح پر شروع ہوئی۔ باعتبار مذہب عرب کی تقسیم عرب میںجو قومیں قبل اسلام کے موجود تھیں ان کے حالات پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانہ میں باعتبار مذہب کے چار مختلف فرقوں میں منقسم تھیں 1بت پرست2خدا پرست، 3 لا مذہب اور 4 معتقدین مذہب الہامی 1بت پرستی انسان کی جبلت میں جو ہر ایک چیز کے سمجھنے کی طاقت ہے اور جس کو ہم عقل یا سمجھ سے تعبیر کر سکتے ہیں اس کا یہ نتیجہ تھا کہ وہ اپنے وجود کی نہایت ابتدائی منزل میں اولاً بتوں کی پرستش کا اپنے ذہن میں خیال پیدا کرے اسی سبب سے اولاً اس کے ذہن میں بتوں کی پرستش کا خیال پیدا ہوا اور پھر رفتہ رفتہ قائم و مستحکم ہو گیا۔ ایک مصنف کا قول ہے کہ ’’ آدمی از روئے خلقت اور جبلت کے مذہب کو ماننے والا پیدا ہوا ہے‘‘ اگر وہ معبود حقیقی سے نا واقف ہو گا تو مجازی معبور اپنے لیے بنا لے گا وہ خطروں اور مشکلوں سے گھراہوا ہے وہ قدرت کی عظیم الشان طاقتوں کو ہر طرف اپنے اپنے کام میں مشغول دیکھتا ہے جن کے سبب سے اس کو خوف و رجا پیدا ہوتی ہے اور با وصف اس کے سب سے اس کو خوف و رجا پیدا ہوتی ہے اور با وصف اس کے سبب سے اس کو خوف و رجا پیدا ہوتی ہے اور با وصف اس کے ان کے کام اس کے حیز ادراک اور قبضہ قدرت سے باہر ہیں اس واسطے اس کے دل میں اپنے سے کسی زیادہ طاقتور شے سے ایک تعلق پیدا کرنے کا جس پر وہ تکیہ اور بھروسا کر سکے خیال پیدا ہوتا ہے قدرت کے ان کاموں کو ذہن نشین کرنے اور ان کے سمجھ میں آنے کے لیے اب اس کے واسطے صرف ایک طریقہ ہے طبعی اسباب کا تصور تو بہت تھوڑے عرصہ سے پیدا ہوا ہے ابتدائی انسان صرف ایک قسم کی علت کا گمان کر سکتا ہے یعنی مثل اپنے ایک با ارادہ طبیعت کا اس لیے وہ تمام چیزوں کو جنہیں متحرک اور عمل کنندہ پاتا ہے ذی روح اور ذی فہم وجود ٹھہرا لیتا ہے اور ان کی طرف مثل انسانوں کے خیالات اور طبائع منسوب کرتا ہے اور اس سے زیادہ کیا قرین قیاس ہو سکتا ہے کہ بذریعہ نذروں اور التجاؤں کے ان کے مہربان کرنے یا ان کی بد مزاجی یا غصہ کے دور کرنے کے واسطے کوشش کرے۔ جب کہ انسان ھنوز وحشیانہ حالت میں تھا اس نے قدرت کی بڑی بڑی اشیاء کو اپنی فرحت یا مصیبت کے اسباب کی نظر سے دیکھا اور اسی واسطے ان کو یہ نسبت اپنے زیادہ طاقت ور سمجھا اور اس نیت سے کہ اپنی دعائیں اور التجائیں ان سے ایک ظاہری شکل میں کرے اس کو اپنی خیالی چیزوں کے مجسم کرنے کے واسطے جواب اس کے معبود ہو گئے نقاشی یا مصوری گو کیسی ہی ناقص ہو عمل میں لانی پڑی بت پرستی کی ایک اور بنا کسی قوم کے کسی شخص کی خدمات کی جو اپنے کار ہائے نمایاں کی وجہ سے مشہور و معروف ہوا ممنونیت کی خواہش تھی یعنی ایسے کار ہائے نمایاں جو شاعروں کے وحشیانہ گیتوں اور نظموں میں مشہور ہوئے اور مرنے کے بعد اس شخص کو معبور ہونے کا رتبہ کا صلہ دلایا یہی امر عرب پر بھی صادق آتا ہے آفتاب، ماہتاب، سیارے اور بروج ملائک اور ارواح جو بقول ان کے انسانوں کی زندگانی کے واقعات پر حاوی اور قادر تھے ان سب کو رتبہ الوہیت دے رکھا تھا اور ان کی پرستش کرتے تھے اسی طرح ان آدمیوں کی بھی پرستش کرتے تھے جنہوں نے اپنے شکر گزار ملک کی خدمتیں بجا لا کر نام حاصل کیا تھا۔ اس طریقہ پرستش کے اختیار کرنے میں انسانوں کا منشاء محض معلل بہ دنیا تھا ان بتوں یا ان اشیاء اور اشخاص کی پرستش کا باعث جن کے وہ قائم مقام ہیں یہ اعتقاد تھا کہ اپنے پرستش کنندہ کو ہر قسم کی دنیوی خوشی اور آسائش عطا کرنا اور ان مصیبتوں اور خرابیوں کو جو اس پر نازل ہونے والی ہوں رد کر دینا ان کے اختیار میں ہے اور ان کی پرستش کو ترک کر دینے کی سزا ان کے اعتقاد میں افلاد، بیماری، لا ولدی اور عبرت انگیز موتی ہوئی تھی۔ جب کہ زمانہ بڑھتا گیا، جب کہ تہذیب اور شائستگی کو ترقی ہوتی گئی، جب کہ باہمی راہ و رسم کے ذریعے زیادہ شائع اور پر امن ہوتے گئے، جب کہ آدمیوں کو ایک دوسرے سے ملاقی ہونے کا زیادہ اتفاق ہوتا گیا یہاں تک کہ اپنے خیالات اور اپنی رایوں اور اپنے عقائد کا تبادلہ کرنے کے قابل ہوئے ان کے دماغ عالی ہوتے گئے اور ان کی خوشیاں زیادہ شائستہ اور پاک ہوتی گئیں۔ یہی غیر محسوس خیالات کی ترقی عرب میں بھی ہوئی اور اس ملک کے باشندوں نے اپنے معبودوں کو ہر جسمانی آسائش اور روحانی خوشی کے عطا کرنے کا اس شخص کی نسبت جس سے وہ راضی ہوں اختیار کلی دے دیا۔ قدیمی باشندگان عرب کی نسبت یعنی قوم عاد، ثمود، حدیس، جرھم الاولیٰ اور عملق اول وغیرہ کی اس قدر محقق ہے کہ یہ لوگ بت پرست تھے مگر ہمارے پاس کوئی ایسی مقامی روایت عرب کی نہیں ہے جو ہم کو ان کی پرستش اصنام کے طریقوں کی تعین اور جو قدرتیں کہ وہ اپنے معبودوں کی طرف منسوب کرتے تھے ان کی تصریح اور جن اغراض اور ارادوں سے کہ وہ مورتوں کو پوجتے تھے ان کے بیان کرنے میں مطمئن کرے قریب قریب تمام حال جو ہم کو عرب کے بتوں کی نسبت معلوم ہوتا ہے صرف یقطان اور اسماعیل کی اولاد کے بتوں کی نسبت معلوم ہے جو عرب العاربہ اور عرب المستعربہ کے نام سے مشہور ہے ان کے بت دو قسم کے تھے ایک قسم تو وہ تھی جو ملائک اور ارواح اور غیر محسوس طاقتوں سے جن پر کہ وہ اعتقاد رکھتے تھے اور جن کو مونث خیال کرتے تھے نسبت رکھتے تھے اور دوسری قسم کے وہ تھے جو نامی اشخاص کی طرف جنہوں نے اپنے عمدہ کاموں کی وجہ سے شہرت حاصل کی تھی منسوب تھے۔ وہ قدرتی سادگی اور بے تکلفی جو ابتدائی درجہ تمدن میں آدمیوں کی نشانیاں ہیں ان کی پرستش کے طریقوں میں قابل تمیز نہیں رہی تھیں۔ علاوہ اس کے انہوں نے بہت سے خیالات غیر ملکوں کے اور نیز اپنے ہی وطن اصلی کے الہامی مذہبوں سے اخذ کر لیے تھے اور ان سب کو اپنے توہمات سے خلط ملط کر کے اپنے معبودوں کو دنیا اور عقبیٰ دونوں کے اختیارات دے دیے تھے لیکن اتنا فرق تھا کہ وہ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ دنیوی اختیارات بالکل ان کے معبودوں ے ہاتھ میں ہیں اور عقبیٰ کے اختیارات کی نسبت ان کا یہ اعتقاد تھا کہ ان کے بت یعنی وہ جن کی پرستش کے لیے وہ بت بنائے گئے ہیں ان کے گناہوں کی معافی کی خدا تعالیٰ سے شفاعت کریں گے ان کی طرز معاشرت اور ان کی خانگی سوشیل اور مذہبی اطوار اور رسوم بھی اسی طرح سے گرد و نواح کے ملکوں سے جن کے باشندے الہامی مذہب رکھتے تھے اثر حاصل کیا تھا۔ غرضکہ قبل ظہور اسلام کے ملک عرب میں بت پرستی کی یہ کیفیت تھی۔ 2لا مذہبی زمانہ جاہلیت میں ملک عرب میں ایک فرقہ تھا جو کسی چیز کو نہیں مانتا تھا نہ تو بت پرستی کو اور نہ کسی الہامی مذہب کو ان کو خدا کے وجود سے انکار تھا اور حشر کے بھی منکر تھے اور جو کہ وہ گناہ کے وجود کے قائل نہ تھے اسی لیے عقبیٰ میں روح کی جزا یا سزا کے قائل نہ تھے وہ اپنے آپ کو جملہ قیود قانونی خواہ رسمی سے مبرا تہ ور کرتے تھے اور اپنی ہی آزاد مرضی کے موافق کار بند ہوئے تھے ان کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان کا وجود اس دنیا میں ایک درخت یا جانور کی مانند ہے وہ پیدا ہوتا ہے اور پختگی پر پہنچ کر تنزل پکڑتا ہے اور مر جاتا ہے جس طرح کہ کوئی ادنیٰ جانور مر جاتا ہے اور جانوروں ہی کی مانند بالکل نیست و نا بود ہو جاتا ہے۔ 3خدا پرستی زمانہ جاہلیت کے عربوں میں بھی خدا پرست عرب تھے اور وہ دو قسم کے تھے سایک تو ایک غیر معلوم اور پوشیدہ قدرت کو جس کو وہ اپنے وجود کا خالق قرار دیتے تھے مانتے تھے لیکن باقی امور میں ان کا عقیدہ لا مذہبوں کے عقیدہ کی مانند تھا دوسری قسم کے فرقہ کے لوگ خدا کو برحق مانتے تھے اور قیامت اور نجات اور حشر اور بقائے روح اور اس کی جزا اور سزا کے جو حسب اعمال انسانوں کو ملے گی قائل تھے مگر انبیاء اور وحی پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے۔ اس اخیر فرقہ کا عقیدہ تھا کہ غیر فانی روح کی جزا اور سزا دوسرے جہان میں محض آدمیوں کے نیک اور بد اعمال پر جو اس دنیا میں کیے ہوں منحصر ہے۔ اس لیے ضرور ہوا کہ وہ ایسا طریقہ اختیار کریں جس سے ان کو دائمی خوشی حاصل ہو اور ان کو ابدی تکلیف اور خرابی سے محفوظ رکھے۔ لیکن خود ان کے پاس کوئی ایسا اصول جس پر وہ کاربند ہوں موجود نہ تھا اس لیے انہوں نے ان قواعد کی طرف توجہ کی جن کو ان کے گرد و نواح کی قومیں مانتی تھیں اور اپنی سمجھ کے موافق ہر قوم سے کچھ کچھ باتیں اخذ کر کے اختیارکیں۔ یہی اسباب تھے جن کے سبب سے عرب کے کچھ لوگ بت پرست ہو گئے اور بعض نے کسی مذہب معینہ کی پابندی نہیں کی بلکہ اپنی ہی عقل اور سمجھ کے بموجب کاربند ہوئے۔ 4الہامی مذہب اسلام سے پہلے چار الہامی مذہب عرب میں وقتاً فوقتاً جاری ہوئے 1مذہب صائی 2 مذہب ابراہیمی اور دیگر انبیاء عرب کا 3مذہب یہود 4 مذہب عیسوی 5مذہب صائی اس مذہب کو عرب میں قوم سامری نے رواج دیا تھا جو اپنے آپ کو قدیم مذہب کے پیرو سمجھتے تھے وہ حضرت شیث اور حضرت اخنوخ یعنی ادریس کو اپنے نبی کہتے تھے اور اپنے مذہب کو ان کی طرف منسوب کرتے تھے ان کے ہاں ایک کتاب بھی تھی جس کو وہ صحیفہ شیث کہتے تھے ہماری رائے میں کوئی یہودی یا عیسائی یا مسلمان صائبیوں کے اس عقیدہ پر جو وہ حضرت ادریس کے ساتھ رکھتے تھے کسی قسم کا اعتراض نہیں کر سکتا ہے توریت میں حضرت ادریس کو ایک مقدس اور با خدا شخص لکھا ہے اور وہ آیت یہ ہے ’’ واخنوخ باخدا سلوک نمودہ بعد ازاں نا پدید شد چہ خدا اور را گرفتہ بود‘‘ (کتاب پیدائش باب5 ورس24) وہ شخص جس کو مسلمان ادریس یا الیاس کہتے ہیں اور توریت کا اخنوخ ایک شخص ہیں صائبیوں کے ہاں سات وقت کی نمازیں تھیں اور وہ ان کو اسی طرح ادا کرتے تھے جس طرح کہ مسلمان نماز ادا کرتے ہیںمردہ کی بھی وہ نماز پڑھا کرتے تھے مسلمانوں کی طرح وہ بھی ایک قمری مہینہ کا روزہ رکھا کرتے تھے مگر جو برائی کہ آہستہ آہستہ ان کے مذہب میں پھیل گئی تھی وہ یہ تھی کہ ستاروں کی پرستش کرنے لگے تھے انہوں نے سات ھیاکل یعنی معبہ سبع سیاروں کے لیے بنائے تھے اور جس ستارہ کا جو معبد تھا اسی معبد میں اس ستارہ کی پرستش کرتے تھے حران کے معبد میں سب لوگ بہ نیت حج جمع ہوا کرتے تھے خانہ کعبہ کی بھی بڑی تعظیم کرتے تھے ان کا سب سے بڑا مذہبی تیوہار اس روز ہوا کرتا تھا جب کہ آفتاب برج حمل میں جو موسم بہار کا اول برج ہے داخل ہوتا تھا اور چھوٹے چھوٹے تیوہار اس وقت ہوتے تھے جب کہ پانچ سیارے یعنی زحل، مشتری، مریخ، زہرہ، عطادر بعض برجوں میں یکے بعد دیگرے داخل ہوا کرتے تھے ان کا اعتقاد تھا کہ ان سیاروں کا سعد اور نحس اثر انسان کی قسمتوں پر اور دنیا کے اور امور پر ہوتا ہے وہ یقین کرتے تھے کہ بارش یا مینہ کی کشش انہیں ستاروں کی تاثیر پر منحصر ہے یہ خیال اور اسی قسم کے اور خیالات اور عقائد صائبیوں کے سوا عرب کے اور لوگوں میں بھی رائج ہو گئے تھے ان میں اعتکاف کرنے کا بھی رواج تھا اور غاروں یا پہاڑوں میں چند روز مراقبہ اور سکوت میں بسر کرتے تھے۔ 2ابراہیمی یا دیگر انبیاء عرب کا مذہب اسلام سے پہلے پانچ انبیاء عرب میں مبعوث ہوئے تھے 1ہود، 2صالح ، 3ابراہیم، 4 اسماعیل، 5 شعیب یہ سب نبی حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو احکام عشرہ کے عطا ہونے سے بیش تر گذرے ہیں۔ اصل اصول ان جمیع انبیاء کے مذاہب کا خدائے واحد کی عبادت تھا اور دیگر احکام و مسائل جن کو انبیاء مذکور نے بتایا تھا باستشنباء احکام و مسائل حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے سب فراموش ہو گئے تھے اور کوئی مقامی روایت ایسی موجود نہیں ہے جو ہم کو اس بات سے واقف کرے کہ وہ احکام کیا تھے اور کتنے تھے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے مذہب کے احکام و مسائل کے لیے بھی اسی طرح کوئی ایسی کافی سند نہیں ہے جس سے کہ ہم ان کو تفصیل وار بیان کر سکیں اور ایسے بہت کم مسائل ہیں جنہوں نے باستعانت روایت مذہبی اور روایت مقامی کے ایسا تاریخی رتبہ حاصل کیا ہو کہ ہم اس کے حوالہ دینے کے لائق ہوں۔ حضرت ابراہیم کے تقویٰ اور پرہیز گاری کا سب سے پہلا کام بت پرستی کا ترک کرنا، اپنے باپ کے بتوں کا توڑنا اور خدائے برحق پر یقین کر کے صدق دل سے اس کی پرستش کرنا تھا۔ ختنہ ار داڑھی کا رکھنا رسوم مذہبی ہیں جن کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر شخص کو معلوم ہے کہ یہ رسمیں حضرت ابراہیم نے مروج اور معین کی تھیں خدائے پاک کی پرستش کے واسطے قربان گاہوں کے بنانے کی رسم بھی حضرت ابراہیم نے جاری کی تھی اور منجملہ بے شمار قربان گاہوں کے جو حضرت ابراہیم نے بنائیں ایک قربان گاہ اس مقام پر بھی بنائی تھی جہاں کہ حجر اسود قبل اس کے کہ دیوار کعبہ میں اور پتھروں کے ساتھ نصب ہو کھڑا ہوا تھا۔ خدا تعالیٰ کے نام پر قربانی کرنا بھی حضرت ابراہیم نے مقرر کیا تھا اور یہ رسم آج تک ان کی اولاد میں اور ان کی اولاد کے پیروؤں میں بجنسہ مروج ہے۔ خدائے تعالیٰ کی عبادت کے واسطے خانہ کعبہ کی تعمیر کی نسبت عرب کی تمام مقامی روایتیں اور تمام مورخ اس امر پر متفق ہیں کہ خانہ کعبہ کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے بنایا تھا۔ سینٹ پال حواری نے جو گلیشیا والوں کے نام خط لکھا ہے ہماری رائے میں اس سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ کو جو ’’ بیت المقدس کا ہم پایہ ہے‘‘ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے بنایا تھا۔ خانہ کعبہ میں اول خدا کی عبادت اس کے اندر اور باہر کیا کرتے تھے اور اس کے بعد اس کے گرد طواف کیا کرتے تھے اور طواف کے وقت ساری جماعت پکار پکار کر خدا کا نام لیتی تھی اور خدانہ کعبہ کو بوسہ دیتی جاتی تھی۔ اس مقام پر خود بخود ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا فرق ہے خانہ کعبہ کے گرد طواف کرنے اور اس کو اور حجر اسود کو بوسہ دینے اور قربان گاہوں کے بنانے اور ان کی تعظیم کرنے اور حضرت یعقوب کے پتھر کھڑا کرنے اور اس پر تیل ڈالنے اور نماز میں بیت المقدس یا کعبہ کی طرف سجدہ کرنے غرض کہ اشیائے مجسم کی تعظیم اور حرمت کرنے میں اور بت پرستوں کی ان رسوم میں جو کہ وہ اپنے بتوں کی نسبت عمل میں لاتے ہیں اور جس کی وجہ سے ان کو ہر شخص حقارت اور غصہ کی نظر سے دیکھتا تھا اور اب بھی دیکھتا ہے۔ بلا شبہ ان دونوں کاموں میں بڑا فرق ہے مگر جو امر کہ لوگوں کو ان دونوں کاموں میں صاف صاف تمیزکرنے سے روکتا ہے وہ لفظ ’’ بت پرستی‘‘ ہے جس سے یہ مراد سمجھی جاتی ہے کہ آدمی کسی مجسم اور مصنوعی شے کی تعظیم اور پرستش کرنے میں گنہگار ہوتے ہیں۔ مگر یہ غلطی ہے بت پرستوں کے مشرک اور گنہگار ہونے کی صرف یہ وجہ نہیں ہے کہ وہ مجسم اور مصنوعی اشیاء کی تعظیم اور پرستش کرتے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ چند روحانی یا ذی جسم وجودوں یا طاقتوںیا عظیم الشان قدرتی اشیاء ک ان سب قدرتوں کا مالک سمجھتے ہیں جو در حقیقت صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات سے علاقہ رکھتے ہیں اور ان اشیاء وغیرہ کی اس طرح بندگی بجا لاتے ہیں جو صرف خدا تعالیٰ ہی کو سزا وار ہے ان کے بت ان وجودوں کے جو غیر خدا ہیں قائم مقام اور یادگار ہوتے ہیں نہ کہ خدا تعالیٰ کے اس اعتقاد کی وجہ سے وہ مشرک اور گنہگار ہو جاتے ہیں خواہ وہ ان روحانی یا ذی جسم وجودوں یا طاقتوں یا عظیم الشان قدرتی اشیاء کے ناموں پر کوئی مورت یا بت قائم کر کے پوجتے ہوں خواہ صرف اپنے دل ہی میں یہ اعتقاد رکھ کر ان کی پرستش کرتے ہوں اور ظاہر میں ان کا کوئی بت نہ بناتے ہوں ان کو بت پرست اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اکثر ان روحانی یا ذی جسم وجودوں یا طاقتوں یا عظیم الشان قدرتی اشیاء کی جن کو وہ صفات الٰہی کا مخزن اور معدن سمجھتے تھے اپنے خیال کے موافق بت اور مورتیں بنا کر ان کے توسل سے ان کو پوجتے تھے اگر وہ ان ظاہری وسائل پرستش کو اختیار نہ کرتے لیکن باطن میں یہی اعتقاد رکھتے تب بھی ان کو بت پرست کہنا نا موزوں نہ ہوتا۔ حضرت ابراہیم کی بنائی ہوئی قربان گاہیں جن میں کہ حجر اسود بھی شامل ہے اور حضرت یعقوب کا کھڑا کیا ہوا پتھر اور خانہ کعبہ اور بیت المقدس یہ سب چیزیں کسی مشہور و معروف اشخاص کی یادگار کے طور پر نہیں بنائی گئی تھیں اور نہ وہ کسی فرشتہ یا عظیم الشان قدرتی شے کے نام پر قائم کی گئی تھیں بلکہ بالتخصیص قادر مطلق کے نام پر جو تمام چیزوں کا خالق ہے اور اسی کی پرستش کی غرض سے بنائی گئی تھیں جملہ رسوم اور تکلفات جو ان مقام پر برتے جاتے تھے صرف خدا تعالیٰ کی عبادت اور پرستش کے مختلف طریقے تھے اور خدا تعالیٰ کی بندگی کو کسی طور پر بجا لائی جاوے جس کو خدا تعالیٰ نے منظور اور مقبول کر لیا ہو ہر گز گناہ یا شرک یا بت پرستی نہیں ہو سکتی۔ تمام آدمیوں کا میدان عرفات میں جمع ہونا جہاں کہ نہ حضرت ابراہیم کا حجر اسود ہے نہ حضرت یعقوب کا سنگ قربان گاہ اور نہ حضرت اسماعیل کا معبد بلکہ محض ایک وسیع میدان ہے ان لوگوں کا ایک ساتھ شامل ہو کر خدا کا نام لے کر پکارنا اور اپنے گناہوں کی معافی چاہنا خاص خدا کی عبادت ہے جس کا نام مسلمانوں نے حج رکھا ہے اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل اس طرح پر عبادت کرنے کے بانی ہوئے تھے پس کون شبہ کر سکتا ہے کہ حج اس واجب الوجود لا شریک لہ کی خاص الخاص عبادت ہے۔ افسوس ہے کہ رفتہ رفتہ ملک عرب میں بت پرستی کا عام رواج ہو گیا تھا مگر باایں ہمہ ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے اشخاص ایسے بھی تھے جو ان مذاہب الہامی میں سے کسی نہ کسی مذہب کے متبع تھے اور خدائے واحد کی پرستش کرتے تھے انہیں لوگوں میں سے متعدد نے مجدد مذہب ہونے کا دعویٰ کیا اور اللہ تعالیٰ کے معبود حقیقی ہونے کا مجمع عام میں وعظ کہا اور لوگوں کو بت پرستی چھوڑنے پر ترغیب دی وہ لوگ جنہوں نے اپنی نسبت مجدد ہونے کی شہرت دی تھی ان کے نام یہ ہیں حنظلہ بن صفوان، خالد ابن سنان، اسد ابو کرب، قیس ابن صیداہ وغیرہ اور بعضوں نے عبدالمطلب کو بھی ایک مجدد مذہب قرار دیا ہے۔ لیکن یہ کیسا ہی حیرت انگیز امر کیوں نہ معلوم ہو کہ اس شخص کی اولاد جس نے اپنے باپ کے بتوں کو توڑا اور ان کی پرستش سے منہ موڑا اور خدائے برحق کی پرستش کے لیے متوجہ ہوا اور کہا ’’ انی وجہت وجہی للذی فطر السموات والارض حنیفا وما انا من المشرکین‘‘ رفتہ رفتہ بت پرستی کی حالت میں ڈوب جائے مگر اس سے زیادہ تعجب انگیز اور حیرت آمیز یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسی کی اولاد میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا جس نے پھر اپنے مورثوں کے بتوں کو بلکہ تمام عرب کے بتوں کو غارت کر دیا اور جس نے خدائے اعظم اور علام الغیوب کی عبادت کو جو تمام چیزوں کا مبداء اور مرجع ہے رواج دیا اور اعلیٰ ترین درجہ پر پہنچا دیا اور جس نے کہا کہ جہالت اور کفر کی اس گہری تاریکی کو جس میں کہ اس کے ہم وطن مبتلا تھے دین حق کے پاک اور شفاف نور سے منور کر دیا۔ 7یہودی مذہب یہودی مذہب کو شام کے یہودیوں نے عرب کے ملک میں شائع کیا تھا جو اس ملک میں جا کر آباد ہوئے تھے بعض مصنف نا واجب جرأت کر کے یہ رائے دیتے ہیں کہ ایک قوم بنی اسرائیل کی اپنے جتھے سے علیحدہ ہو کر عرب میں جابسی تھی اور وہاں اکثر قوموں کو اپنا مذہب تلقین کیا مگر یہ رائے صحت سے بالکل معرا ہے اصل یہ ہے کہ یہودی مذہب عرب ان یہودیوں کے ساتھ آیا تھا جو پینتیسویں صدی دنیوی میں یا پانچویں صدی قبل حضرت مسیح کے بخت نصر کے ظلم سے جو ان کے ملک اور قوم کی تخریب کے در پے ہوا تھا بھاگ گئے تھے اور شمالی عرب میں بمقام خیبر آباد ہوئے تھے تھوڑے عرصہ بعد جب کہ ان کی مضطرب حالت نے کسی قدر سکون اور قرار پکڑا انہوں نے اپنے مذہب کو پھیلانا شروع کیا اور قبیلہ کنانہ اور حارث ابن کعب اور کندہ کے بعض لوگوں کو اپنے مذہب میں لائے جب کہ 3250 دنیوی میں یا 354 قبل مسیح کے یمن کے بادشاہ ذونواس حمیری نے مذہب یہود اختیار کیا تب اس نے اور لوگوں کو بھی بالجبر اس مذہب میں داخل کر کے اس کو بہت ترقی دی اس زمانے میں یہودیوں کو عرب میں بڑا اقتدار حاصل تھا اور اکثر شہر اور قلعے ان کے قبضے میں تھے۔ اس بات کے یقین کرنے کا قوی قرینہ یہ ہے کہ یہودی بت پرستی کو غصہ اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوں گے مگر عرب کی کوئی مقامی روایت اس مضمون کی نہیں پائی جاتی کہ خانہ کعبہ کی نسبت ان یہودیوں کی رائے سے بر خلاف تھی مگر یہ امر تسلیم کیا گیا ہے کہ ایک تصویر یا موت حضرت ابراہیم کی جن کے پاس ایک مینڈھا قربانی کے واسطے موجود کھڑا تھا یہودیوں کے ذریعے سے خانہ کعبہ میں اس بیان کے مطابق جو توریت میں ہے کھینچی گئی ہو گی یا رکھی گئی ہو گی کیوں کہ یہودی اس قسم کی تصویروں یا مورتوں کے بنانے اور رکھنے کو گناہ نہیں سمجھتے تھے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہودیوں کے ذریعے سے ملک عرب میں خدا تعالیٰ کی معرفت کا علم جیسا کہ قبائل عرب میں بالعموم پیش تر تھا اس سے بھی دو چند ہو گیا وہ عرب جنہوں نے یہودی مذہب قبول کر لیا تھا اور وہ لوگ بھی جو ان سے راہ و رسم رکھتے تھے ا س سے فائدہ مند ہوئے تھے کیوں کہ یہودیوں کے پاس ایک عمدہ قانون شریعت اور سوشیل اور پولٹیکل کا موجود تھا اور اس زمانہ کے عرب اس قسم کی چیز سے بالکل بے بہرہ تھے اس سے ایک معقول طور پر استنباط ہوتا ہے کہ بہت سے خانگی اور سوشیل آئین اور رسوم کو جو اس قانون میں مذکور ہیں عربوں نے اختیار کر لیا ہو گا خصوصاً یمن کے رہنے والوں نے جہاں کہ ان کے بادشاہ ذونواس نے یہودی مذہب قبول کر لیا تھا اور اس نے یہودی مذہب کی ترویج میں کوشش کی ہو گی۔ ہم کو اس مقام پر مذہب یہود کے مسائل اور عقائد اور ان کی رسموں اور طریقوں پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی کیوں کہ یہ سب باتیں توریت میں موجود ہیں اور ہر شخص ان سے کسی نہ کسی قدر واقف ہے اور وہ امور جن کا بیان کرنا ہم کو بالتخصیص مد نظر ہے اس مقام پر بیان ہوں گے جہاں کہ ہم مذہب یہود اور اسلام کے تعلق باہمی پر بحث کریں گے۔ 8عیسوی مذہب یہ بات محقق ہے کہ عیسوی مذہب نے تیسری صدی عیسوی میں ملک عرب میں دخل پایا تھا جب کہ ان خرابیوں اور بدعتوں کی وجہ سے جو آہستہ آہستہ مشرقی کلیسا میں شائع ہو گئی تھیں قدیم عیسائیوں کی تباہی ہوئی تھی اور وہ لوگ ترک وطن پر مجبور ہوئے تھے تاکہ اور کسی جگہ جا کر پناہ لیں اکثر مشرقی اور نیز یورپین مورخ جنہوں نے اس مضمون کو مشرقی مصنفوں سے اخذ کیا ہے اس بات پر متفق الرائے ہیں کہ وہ زمانہ ذونواس کی سلطنت کا زمانہ تھا مگر ہم اس کی رائے سے کسی طرح اتفاق نہیں کر سکتے کیوں کہ ہمارے حساب کے موافق جس کا بیان ہم نے خطبہ اول میں کیا ہے ذونواس کا زمانہ قریباً چھ سو برس پیشتر اس واقعہ کے گذر چکا تھا اور اسی وجہ سے ہم ان مصنفوں کی اس رائے کو بھی تسلیم نہیں کرتے جن کا بیان ہے کہ ذوانوس نے عیسائیوں کی تخریب کی تھی۔ اول مقام جہاں کہ یہ بھاگے ہوئے عیسائی آباد ہوئے تھے تجران تھا اور اس سے پایا جاتا ہے کہ وہاں کے متعدد بہ لوگوں نے عیسوی مذہب قبول کر لیا تھا یہ عیسائی فرقہ جیکو بائٹ یعنی یعقوبی فرقہ تھا اور اس لقب سے مشرقی فرقہ ’’ مانو فیز بٹیز‘‘ کا موسوم کیا جاتا تھا اگرچہ صحیح طور پر یہ لقب شام اور عراق اور بابل کے فرقہ ’’ مانو فیز بٹیز‘‘ پر اطلاق ہو سکتا ہے یکو بایٹ کا لقب ایک شام کے راہب کے سبب سے جس کا نام جیکو بس پراڈیش تھا اس فرقہ کا پڑ گیا تھا اور جس نے کہ یونان کے بادشاہ جسٹی نین کے عہد میں اپنے ملک سے نکلے ہوئے ’’ مانوفیز پٹیز‘‘ کا ایک علیحدہ فرقہ قائم کر لیا تھا ان کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ صرف ایک صفت رکھتے ہیں یعنی ایک انسانی صفت نے ان میں تقدیس کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ عیسائی مصنفوں نے بیان کیا ہے کہ عیسوی مذہب نے اہل عرب میں بہت ترقی حاصل کی تھی مگر ہم اس باب میں ان سے اتفاق نہیں کرتے کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ باستثنائے صوبہ نجران کے جس کے اکثر باشندوں نے عیسوی مذہب اختیار کر لیا تھا۔ قبائل حمیر، غسان، ربیعہ، تغلب، بحرو، تونخ، طے، قودیہ اور حیرہ میں معدود اشخاص نے ان کی تقلید کی تھی اور کوئی جماعت کثیر یا قوم کی قوم عیسوی مذہب میں نہیں آئی تھی جس طرح کہ یہودی مذہب میں آ گئی تھیں اغلب ہے کہ ان متفرق اعراب متنصرہ کی وساطت سے حضرت مریم کی تصویر خواہ مورت حضرت عیسیٰ کو گود میں لیے ہوئے خانہ کعبہ کی اندرونی دیواروں پر کھینچی گئی ہو یا اس کے اندر رکھی گئی ہو۔ خانہ کعبہ میں متعدد قوموں کے معبودوں کی یا بزرگوں کی تصویریں یا مورتیں رکھی ہوئی تھیں اور جس فرقہ سے وہ تصویر یا موت علاقہ رکھتی تھی وہی فرقہ اس کی پرستش کرتا تھا جب کہ عرب کے لوگوں نے یہودی اور عیسائی مذہب اختیار کر لیا تو اسی مذہب کے لوگوں نے حضرت ابراہیم اور حضرت مریم کی تصویر یا مورت خانہ کعبہ میں رکھی یا کھینچی ہو گی کیوں کہ جس طرح عرب کے اور فرقوں کو اپنے معبودوں یا بزرگوں کی مورتیں رکھنے یا کھینچنے کا کعبہ میں حق تھا اسی طرح ان عربوں کو بھی حق تھا جو یہودی اور عیسائی ہو گئے تھے اور کسی کو اس کی ممانعت کا حق نہ تھا۔ اسلام سے پیش تر ملک عرب کی یہ مذہبی حالت تھی اور ایسے مختلف مذہب جو زمانہ واحد میں وہاں مروج ہو گئے تھے اس کا ضروری نتیجہ یہ ہوا ہو گا کہ ان مذہبوں کے احکام اور مسائل اور رسوم باہم خلط ملط اور اہل عرب میں بالعموم مروج ہو گئے ہوں گے کیوں کہ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ ان نیم وحشی اور جاہل لوگوں کو اس قدر شعور ہو کہ اتنے مذاہب مختلفہ کے باہمی تفرق کو جانچ سکتے ہوں اور ایک کو دوسرے سے علیحدہ کر کے دقیق تغاوت کی تمیز کرتے ہوں۔ اسلام کی مناسبت دیگر الہامی مذہب سے ان مذاہب کے بھاری بوجھ کے نیچے ملک عرب ایک مذبوحی حرکت کر رہا تھا کہ دفعتاً اسلام نمودار ہوا اور اس کو حیرت آمیز سرور میں ڈال اس کا غیر متحمل بوجھ دور کر دیا اور دفعتاً جزیرہ عرب کے چاروں کونوں کو صدق کے نور سے بھر پور کر دیا اس لیے اگر یہ کہنا جائز ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ دین سلام عرب کے حق میں رحمت ایزدی سے کچھ زیادہ تھا اسلام از روئے اصول کے بت پرستی کے بالکل متناقض تھا۔ کیوں کہ وہ حقائق قدرتی اور ابدی کی تعلیم و تلقین کر کے انسان کو اعلیٰ درجہ پر پہنچانا چاہتا تھا۔ اور بت پرستی انسان کو جہالت کی حالت میں رکھ کر از روئے تمدن اور اخلاق کے دونوں طرح سے غلام بنانا چاہتی تھی اسلام لا مذہبی سے بھی کچھ موافقت نہ رکھتا تھا کیوں کہ اس کا ابتدائی اور خاص اصول یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی وحدانیت پر اس کے وجود پر بے چون و چرا اعتقاد رکھنا چاہیے جس کے وجود سے لا مذہبوں کا انکار تھا مذہب اسلام میں اور عرب کے خدا پرستوں کے مذہب کے دونوں فرقوں میں سے دوسرے فرقہ سے کوئی سخت مخالفت نہ تھی کیوں کہ اگر اس فرقہ کے عقائد میں وحی کے عقیدہ کو اضافہ کیا جاوے تو مذہب اسلام کے اصلی اصول کے بہت قریب قریب ہو جاتا ہے مذہب صائی کے عقائد الہامی سے اسلام بالکل مماثل تھا لیکن اس مذہب میں اجرام فلکی کی پرستش کو رد کرتا تھا اور سیاروں کے نام پر مورتیں بناتے اور معابد قائم کرنے کو بھی جو ایک قسم کی بت پرستی ہے اور جس میں قوم اور صائی بوجہ امتداد زمانہ کے آہستہ آہستہ آ پڑی تھی ناروا ٹھہراتا تھا۔ ابراہیمی مذہب اور عرب کے اور نبیوں کے مذہب اور یہودی مذہب کے اصول اور احکام اور عقائد اسلام کے اصول اور احکام اور عقائد کے کچھ بھی متناقض نہ تھے بلکہ در حقیقت اسلام کے اصول اور احکام ابراہیمی مذہب اور دیگر انبیائے عرب کے مذہب اور یہود کے مذہب کے اصول اور احکام کو مکمل کرتے تھے اسلام میں اور یہودی مذہب میں صرف یہ فرق تھا کہ اسلام حضرت یحیٰی کو تسلیم کرتا تھا مگر یہودیوں اور عیسائیوں کی بعض غلط تفاسیر کو جو وہ توریت اور انجیل کی آیتوں کی کرتے تھے نہیں مانتا تھا اصول اسلام ان عمدہ اصول سے جن کی در حقیقت حضرت عیسیٰ نے تلقین کی تھی مطابقت نامہ رکھتا تھا لیکن زمانہ اسلام میں جو عیسائی تھے ان کے اصول اور عقائد اور مسائل اور رسوم مذہبی اور ان کے برتاؤ سے بالکل مخالف تھا اور بجز چند متفرق اور متعدد مسائل اخلاق کے کسی اور چیز میں ان دونوں مذہبوں میں نہ تھی۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذہب اسلام کیا ہے ہم جواب دیتے ہیں کہ مذہب اسلام صائی مذہب کے الہامی اصول اور احکام اور مسائل کی تکمیل اور ابراہیمی مذہب اور عرب کے دیگر الہامی مذہبوں کے اصول اور احکام اور مسائل کی تکمیل اورترتیب اور یہودی مذہب کے الہامی اصول اور احکام اور مسائل کی قرار واقعی تکمیل اور اللہ جل شانہ، کی وحدانیت کی ایسے اعلیٰ درجہ پر توضیح جو کسی اور مذہب میں اس تکمیل سے نہیں تھی اور جس کو ہم وحدت فی الذات اور وحدت فی الصفات اور وحدت فی العباد سے تعبیر کرتے ہیں اور اخلاق کے ان اصولوں کی جن کی حضرت عیسیٰ نے دراصل تلقین کی تھی تکمیل ہے اور ان تمام مذاہب کے الہامی اصول اور احکام اور مسائل کی تکمیل اور اجتماع کا نام اسلام ہے ہم اپنے اس جواب کو بعض مثالوں کے حوالہ سے مشرح کرتے ہیں۔ مذہب اسلام میں دوسرے معبود کی پرستش کا امتناع اور بت پرستی کا استیصال یہودیوں کے مذہب کے اصول کے بالکل مماثل ہے۔ توریت میں لکھا ہے کہ ’’ در حضور من ترا خدایان غیر نہ باشند‘‘ (سفر خروج باب20ورس3) بہر چہ شمارا مامور داشتم رعایت نماید واسم خدایان غیر را ذکر نہ نمودہ از دھانت شنیدہ ند شود (سفر خروج باب23ورس13) ’’ بجہت خود صورت تراشیدہ و ہج شکل از چیز ہائیکہ در آسمان ست در بالا و یا در زمین ست در بائین و یا دو آب ھلہ‘‘ کہ در زیر زمین است مساز آنہا را سجدہ لہ نمودہ ایشاں را عبادت منا زیرا کہ من خداوند خدائے تو ام (سفر خروج باب20 ورس4,5) بہ تنہا توجہ منہائید و خدایان ریختہ شدہ از برائے خود مسازید خداوند خدائے شمامنم(سفر لویان باب19ورس4) از بائے خودتاں بتاں و اصنام تراشیدہ شدہ مسازید و نصب شدھا از برائے خودتاں برپائے منہمائید و در زمین خود تاں تصویر ہائے سنگے جہت سجدہ نمودنش مگذارید، زیرا کہ خداوند خدائے شمامم (سفر لویان باب26 ورس1) ’’ خدایان ایشاں را سجدہ نہ نمودہ بآنہا عبادت مکن و موافق اعمال ایشاں عمل منہا بلکہ ایشاں را بالکل منہدم ساختہ و بت ہائے ایشاں بالتمام بشکن ‘‘ (سفر خروج باب23ورس24) سب سے بہتر اور اعلیٰ احکام یہودی مذہب میں ہیں جو ذیل میں لکھتے جاتے ہیں اسلام میں یہی حکام بجنسہ موجود ہیں ’’ پدر و مادر خود را احترام نما، قتل مکن، زنا منہا، دزدی مکن، بر ہمسایہ ات شہادت دروغ مدہ، بخانہ ہمسایہ ات طمع مورز‘‘ (سفر خروج باب20ورس12,17) اوقات نماز جو اسلام میں مقرر ہیں اور جن کی تعداد1؎ سات یا پانچ یا تین ہیں مذہب صائی اور مذہب یہود کی اوقات نماز سے بہت مشابہ ہیں۔ اسلام میں نماز پڑھنے کا جو طریقہ ہے وہ صائی مذہب اور یہود کے مذہب کے طریقہ سے نہایت مماثل ہے نمازل دل کی صفائی کے لیے تھی اور یہی اصل منشاء نماز کے قرر کرنے کا تھا 1یعنی فجر، ضحی، یعنی چاشت، ظہر، عصر، مغرب، عشا، تہجد، دوسری اور ساتویں نماز مسلمانوں میں فرض نہیں اور باقی پانچ نمازیں فرض ہیں دوسری اور تیسری کو اور چوتھی اورپانچویں کو ایک وقت میں پڑھ لینے کا اختیار ہے اس صورت میں پانچ نماویں اور تین وقت رہ گئے (سید احمد) اور جسم اور پوشاک وغیرہ کی صفائی جس کے واسطے شرع اسلام میں حکم ہے صائبیوں اور یہودیوں کی اس قسم کی رسومات سے بہت کچھ مشابہت رکھتے ہیں توریت میں خدا تعالیٰ نے موسیٰ سے کہا کہ نزد قوم رواند شدہ ایشاں را امروز و فردا تقدیس نمائے تاکہ جامہ ہائے خود را شست و شو نمایند(سفر خروج باب19ورس10) ’’ پس موسیٰ ہارون و پسرانش را نزدیک آوردہ ایشاں را بہ آب شست و شوداد‘‘ (سفر لویان باب8ورس6) مذہبی امور میں صرف ایک یہی بات اسلام میں نئی ہے جو کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی یعنی نماز کے بلانے کے لیے یہودیوں کے قرنائے بجانے اور عیسائیوں کے گھنٹے بجانے کے بدلے اذان مقرر کی گئی ہے اس نرالے پن کی نسبت ایک عیسائی مصنف اس طرح پر لکھتا ہے کہ ’’ مختلف اوقات نماز کی اطلاع موذن مسجدوں کی میناروں یا مانوں پر کھڑے ہو کر اذان دینے سے کرتے ہیں ان کا لحن جو ایک بہت سادہ مگر سنجیدہ لہجہ میں بلند ہوتا ہے شہروں کی دوپہر کی ودند پکار میں مسجد کی بلندی سے دلچسپ اور خوش آواز معلوم ہوتا ہے لیکن سنسان رات میں اس کا اثر اور بھی عجیب طور سے شاعرانہ معلوم ہوتا ہے یہاں تک کہ اکثر فرنگیوں کی زبان سے بھی پیغمبر صاحب کی تعریف نکل گئی ہے کہ یہودیوں کے معبد کی قرنائے اور کلیسائے نصاریٰ کے گھنٹوں کی آواز کے مقابلہ میں انسانی آواز کو پسند کیا۔‘‘ تمام قربانیاں جو مذہب اسلام میں جائز ہیں مذہب یہود کی قربانیوں کے مشابہ ہیں گویا یہ قربانیاں شارع اسلام نے مذہب یہود کی بے شمار قربانیوں سے منتخب کر لی ہیں اور جو تاکیدی حکم مذہب یہود میں ان قربانیوں کے کرنے کی نسبت تھا اس کو نہایت خفیف بلکہ اختیاری کر دیا ہے۔ مذہب اسلام میں جو روزے مقرر ہیں وہ مذہب یہود اور مذہب صائی کے روزوں سے مشابہ ہیں بلکہ صائی مذہب کے روزوں سے بہ نسبت یہودی مذہب کے روزوں کے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔ ہفتہ کے ایک معینہ دن میں نماز اور دیگر رسوم مذہبی کے مقررہ وقت پر لوگوں کو کار ہائے دنیوی سے منع کرنا یہودیوں کی اسی قسم کی رسم سے مطابقت رکھتا ہے لیکن حضرت ابراہیم کے زمانہ سے اہل عرب جمعہ کو متبرک دن سمجھتے آئے ہیں۔ ختنہ بھی وہی ہے جس کا یہود اور پیروان حضرت ابراہیم کے ہاں دستور تھا نکاح اور طلاق کا بھی قریب قریب ویسا ہی قاعدہ ہے جیسا کہ اور مذہب الہامی میں تھا توریت میں لکھا ہے کہ ’’ اگر کسے زنے را گرفتہ بہ نکاح خود در آورد و واقع شود کہ بہ سبب چر کینے کہ در و یافت شد در نظرش التفات نہ باید آنگاہ طلاق نامہ نوشتہ بدستش بدھد وا او را از خانہ اش رخصت دھد‘‘(سفر توریہ مثنی باب24 ورس1) بعض عورتوں سے نکاح کرنے کے جواز یا عدم جواز میں جو احکام مذہب اسلام میں ہیں وہ اکثر باتوں میں یہودیوں کے مذہب کے احکام سے مشابہ ہیں۔ جب مرد اور عورت کو مسجد میں جانے یا قرآن مجید کے چھونے کا امتناع نہیں دستوروں سے مشابہت رکھتا ہے جو مذہب یہود میں جاری ہیں مگر فرق اتنا ہے کہ مذہب اسلام میں بہ نسبت مذہب یہود کے یہ امتناع کم سختی سے ہے۔ سوئر کے گوشت کے کھانے کی ممانعت مذہب اسلام میں ویسی ہی ہے جیسی کہ بنی اسرائیل کے مذہب میں تھی توریت میں لکھا ہے ’’ وخوک باوجودیکہ ذی سم چاک و تمام شگاف است اما نوش خوار نمی کند آں برائے شما ناپاک است‘‘ (سفر لویاں باب11 ورس7) جانوروں کے حلال یا حرام ہونے اور مرے ہوئے جانور کا گوشت نہ کھانے کی نسبت جو احکام مذہب اسلام میں ہیں وہ موسوی شریعت کے نہایت ہی مشابہ ہیں بلکہ علمائے اسلام نے وہ تمام مسائل موسوی شریعت سے مستنبط کیے ہیں۔ شراب خواری اور دیگر مسکرات کا امتناع بھی موسوی شریعت کے مشابہ ہے توریت یں ہے کہ ’’ ہنگام در آمدن شما بہ خیمہ شراب و مسکرات را نخورید‘‘(سفر لویان باب10ورس9) مگر مذہب اسلام نے اس خرابی کی جو شراب سے ہوتی ہے پوری بندش کر دی ہے یعنی شراب کو بالکل حرما کر دیا ہے اور کسی وقت پینے کی اجازت نہیں ہے۔ مذہب اسلام میں مختلف جرائم اور تقصیرات کی نسبت جو سزائیں مقرر ہیں وہ بھی ان سزاؤں سے جو موسوی شریعت میں ہیں نہایت درجہ مشابہت رکھتی ہیں زنا کی سزا سو کوڑے مارنا مذہب اسلام میں ہے یہ سزا یہودیوں کے قانون سے مختلف ہے لیکن جو علمائے اسلام یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب اسلام میں بھی زنا کی سزا سنگ سار کرنا ہے تو یہ سزا یہودیوں کے مذہب سے بالکل مماثلت رکھتی ہے۔ مسلمان فقہائے نے ارتداد کی سزا قتل قرار دی ہے اگر در حقیقت مذہب اسلام میں ارتداد کی یہی سزا ہو وہ بھی موسوی شریعت سے بالکل مماثل ہے توریت میں لکھا ہے ’’ وھر کسے کہ اسم خداوند را کفر بگوید البتہ باید کشتہ شود تمامی جماعت باید او رابے تامل سنگ سار نمایند خواہ غریب خواہ متوطن چونکہ اسم خداوند را کفر گفتہ است کشتہ شود‘‘(سفر لویاں باب24ورس16) بعض عیسائی مورخوں نے کہا ہے کہ اسلام میں ملائک کا تصور اور اعتقاد یہودیوں کی کتاب تالمد سے اور جنات اور شیاطین کا اعتقاد یہودیوں کی کتاب مدراش اور تالمد دونوں سے اور مرنے کے بعد جسم اور روح کی حالت کا بیان یہودیوں سے اور بہشت اور دوزخ کی کیفیت یہودیوں اور عیسائیوں سے اور قیامت اور روز حشر کے حالات کا یہودیوں کی کتاب مدراش اور تالمد سے اخذ کیا ہے مگر ہمارے رائے یہ ہے کہ اول تو وہ حالات جس طرح پر کہ لوگ خیال کرتے ہیں اس طرح پر مذہب اسلام سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے دوسرے یہ کہ ان امور میں سے جس قدر کہ مذہب اسلام سے علاقہ نہیں رکھتے ہیں وہ ان ذریعوں سے اخذ نہیں کئے گئے کیوں کہ بجز اتحاد نام کے اور جو کچھ کہ اسلام میں بیان کیا گیا ہے وہ کتب مذکورہ بالا کے بیان سے بالکل اختلاف رکھتا ہے۔ اس خطبہ میں اس قدر گنجائش نہیں ہے کہ ہم ان امور پر تفصیل کے ساتھ بحث کریں اور ان امور میں سے جو امور کہ متعلق اسلام ہیں اور جو امور کہ متعلق اسلام نہیں ہیں ان میں تمیز کریں اور امور متعلقہ اسلام کی کامل تشریح کریں اس لیے ہم اس مضمون کو یہ کہہ کر ختم کرتے ہیں کہ اگر بالفرض امور مذکورہ بالا مذہب اسلام سے علاقہ رکھتے ہیں جیسے کہ بالعموم مسلمانوں کی ایک جماعت کثیر کا اعتقاد ہے تو وہ امور بھی مذہب اسلام میں اسی قسم کے تصور کیے جاویں گے جیسے کہ مذہب اسلام کے اور احکام یہودی مذہب سے مشابہ ہیں۔ اسلام نے عیسائی مذہب سے بجز مندرجہ ذیل عقیدوں کے اور کوئی عقیدہ اخذ نہیں کیا ہے ایک یہ کہ ’’ اللہ کو جو تیرا خدا ہے اپنے سارے دل سے اور اپنی ساری جان سے اور اپنی ساری عقل سے پیار کر‘‘(انجیل متی باب22ورس37) دوسرا یہ کہ ’’ اور جیسا تم چاہتے ہو کہ لوگ تم سے کریں تم بھی ان سے ویسا ہی کرو‘‘(انجیل لوک باب6ورس31) صداقت اسلام کی دلیل اس مقام پر اگر کسی محقق اور صداقت کے متلاشی مزاج آدمی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ اگر یہی حال ہے تو اسلام اصول اور عقائد متفرقہ اور منتشر و مذاہب سابق کی محض ایک ترتیب اور اجتماع کا نام ہے جو ادھر ادھر سے جمع کر لیے ہیں اور اس میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اسلام کے ساتھ خصوصیت رکھتی ہو لیکن ہر ذی فہم شخص پر یہ بات ظاہر ہو گئی کہ یہ مشابہت اور مماثلت اصول اور عقائد مذہب اسلام کی دیگر مذہب الہامی کے اصول و عقائد سے مذہب اسلام کے پاک اور الہامی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے تمام چیزیں جن کا مبدا ایک ہے غیر منتہی اور کامل ذات ہو ضرور ہے کہ ایک ہی قسم کی اور ایک ہی کامل اصول پر ہوں گی جس طرح کہ خدا تعالیٰ سے اپنا مثل پیدا کرنا غیر ممکن ہے جس طرح کہ اس کی ذات سے کسی پیدا کی ہوئی چیز کو اپنی مرضی اور اپنی حکومت کے لحاظ سے خارج کر دینا محال ہے اسی طرح سے یہ بھی نا ممکن ہے کہ ایک ہی غرض کے انجام دینے کے لیے دو متناقض اصول اور احکام اس کی ذات سے صادر ہوں۔ محسن عالم حضرت محمد مصطفی صلعم مسلمانوں کو بلکہ تمام دنیا کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ ممنون رہنا چاہیے جنہوں نے ابتدائے دنیا سے اپنے زمانہ تک کے تمام نبیوں کی رسالت کو برحق ٹھہرایا جنہوں نے دنیا کے تمام الہامی مذہبوں کی تکمیل کی اور جنہوں نے اپنے با ایمان متبعین کے لیے بے بہا اور لا زوال نور کے دروازے کھول دیے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٭٭٭٭٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حصہ اول اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت طیبہ کے متعلق بارہ تحقیقی اور تنقیدی مقالات جلدیاز دہم حصہ دوئم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی (4)اسلام دنیا کے لیے رحمت ہے اورتمام انبیاء کے مذاہب کی پشت و پناہ الیوم اکملت لکم دینکم واتمت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا مذہب اسلام انسان کے حق میں رحمت ہے اور موسوی اور عیسوی مذہب کو اس سے نہایت فائدے پہنچے ہیں۔ یہ مضمون جس کو اب ہم لکھنا چاہتے ہیں ایک ایسا مضمون ہے کہ ہم کو اس کا لکھنا یا پڑھنا شروع کرنے سے پہلے نہایت بے تعصب دل پیدا کرنا چاہیے کیوں کہ طرفدار دل سچے اور صحیح نتیجہ تک نہیں پہنچتا اس الزام کے رفع کرنے سے تو ہم مجبور ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمانی مذہب میں جو فی الواقع خوبی ہے اس کا ظاہر کرتے ہیں مگر جہاں تک ہم سے ہو سکا ہے ہم نے نہایت ٹھنڈی طبیعت اور نا طرفدار دل اور سیدھی سادی سچی نیت سے یہ مضمون لکھا ہے اور اسی لیے ہم کو یقین ہے کہ اگر ہم اپنی اس رائے پر دوسرے کو یقین نہ دلا سکیں گے تو اس کو رنجیدہ بھی نہیں کریں گے ہمارا یہ مضمون چار حصوں پر منقسم ہے۔ مضمون کا پہلا حصہ پہلے حصہ میں ان فائدوں کا بیان ہے جو مذہب اسلام سے عموماً انسان کی معاشرت کو پہنچے ہیں۔ گو ہم کیسے ہی سچے دل اور نیک نیت سے نا طرفدارانہ اس مضمون کو لکھیں گے مگر ہم کو نہایت افسوس ہے کہ جو بات مذہب اسلام کے متعلق ہوتی ہے اس کو عیسائی مصنف ہمیشہ بد ظنی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور نیکی کو چھوڑ بدی پر حمل کرتے ہیں اس لیے ہم کو توقع نہیں ہوتی کہ جو خاص ہماری رائے اس باب میں ہو وہ اسی بد گمانی اور بد ظنی کی نگاہ سے نہ دیکھی جاوے اس لیے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس موقع پر ہم انہیں راؤں کا بیان کریں جن کو خود بعض عیسائی مصنفوں نے انسان کے حق میں مذہب اسلام کے مفید ہونے کی نسبت لکھی ہیں۔ سر ولیم میور جو ایک نہایت دیندار عیسائی ہیں اور جب تک کہ علانیہ اور نہایت روشن بات نہ ہو اسلام کے حق میں گواہی نہیں دے سکتے اپنی کتاب لائف آف احمد مپن جس کے لیے ہم مسلمانوں کو ان کا شکر کرنا چاہیے ارقام فرماتے ہیں کہ ’’ ہم بلا تامل اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ا س نے (یعنی مذہب اسلام نے، ہمیشہ کے واسطے اکثر توھمات باطلہ کو جن کی تاریکی مدتوں سے عرب کے ملک جزیرہ نما پر چھا رہی تھی کالعدم کر دیا۔ اسلام کی صدائے جنگ کے روبرو بت پرستی موقوف ہو گئی اور خدا کی وحدانیت اور غیر محدود کمالات اور ایک خاص اور ہر ایک جگہ احاطہ کی ہوئی قدرت کا مسئلہ حضرت محمد کے معتقدوں کے دلوں اور جانوں میں ایسا ہی زندہ اصول ہو گیا ہے جیسے کہ خاص محمد ؐ کے دل میں تھا مذہب اسلام میں سب سے پہلی بات جو خاص اسلام کے معنے ہیں یہ ہے کہ خدا کی مرضی پر توکل مطلق کرنا چاہیے بلحاظ معاشرت کے بھی اسلام میں کچھ کم خوبیاں نہیں ہیں چناں چہ مذہب اسلام میں یہ ہدایت ہے کہ سب مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ محبت رکھیں یتیموں کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہیے غلاموں کے ساتھ نہایت شفقت برتنی چاہیے نشہ کی چیزوں کی ممانعت ہے، مذہب اسلام اس بات پر فخر کر سکتا ہے کہ اس میں پرہیز گاری کا ایک ایسا درجہ موجود ہے جو کسی اور مذہب میں نہیں پایا جاتا۔‘‘ سر ولیم کی اس تحریر میں کچھ حاشیہ لکھنا چاہتا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ صدائے جنگ نے بت پرستی کو معدوم نہیں کیا بلکہ اس سچے مسئلہ وحدانیت کے وعظ نے بت پرستی کو معدوم کیا ہے جس کا اثر قرآن مجید کے نہایت فصیح اور پر تاثیر فقروں سے لوگوں کے دلوں پر ہوتا تھا اور نہ صرف عرب سے بت پرستی کو نیست و نابود کیا بلکہ تمام مذہبوں میں جو اس وقت دنیا میں رائج تھے اور وہاں تک وعظوں کی آواز پہنچتی تھی اس خیال کو پیدا کر دیا کہ بت پرستی نہایت کمینہ خصلت اور سخت گناہ ہے۔ برادرانہ دینی محبت کا برتاؤ آپس میں مسلمانوں کے ایک خدا کے ماننے والے ہونے کی وجہ سے بتایا جو ایک قدرتی رشتہ دینی بھائی ہونے کا ہے مگر انسانی محبت کا برتاؤ تمام انسانوں سے بلکہ ہر ایک سے جو جگر تو رکھتا ہو برتنے کو فرمایا۔ غلاموں کی نسبت اگر صحیح تسلیم کیا جاوے تو اسلام نے غلامی کو بالکل نیست و نابود کر دیا ہے اسیران جنگ کے سوا کوئی غلام نہیں ہو سکتا تھا وہ بھی زمانہ جاہلیت کی رسم کے موافق مگر قرآن نے ’’ اما منا بعدوا اما فدائ‘‘ کہہ کر اس کو بھی نابود کر دیا جو لوگ اسیران جنگ کو احساناً چھوڑ دیتے ہیں نہایت اعلیٰ درجہ پاتے ہیں اور جو کچھ لے کر چھوڑتے ہیں وہ ان سے کم تر گنے جاتے ہیں اس حکم کے پہلے سے جو لوگ غلام رکھتے تھے ان کی پرورش کا اسی طرح ان کو حکم دیا جس طرح کہ وہ آپ اپنی جان کی پرورش کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کی نسبت سر ولیم میور نے مذکورہ بالا فقرہ میں اشارہ کیا ہے مگر اتنی بات اور زیادہ کرنی چاہیے تھی کہ مذہب اسلام نے قمار بازی کو منع کرنے اور ناشائستہ کلمات کے منہ سے نکالنے کی ممانعت سے والدین کے ساتھ محبت اور تعظیم سے پیش آنے کی تاکید سے ایک مناسب اندازہ سے خیرات دینے کی رغبت دلانے سے لوگوں کو ان کی حاجت میں قرض حسنہ دینے سے وعدہ کی وفا کرنے کی تاکید سے جانوروں کے ساتھ رحم اور مہربانی برتنے کے حکم سے انسانوں کے اخلاق اور ان کی حسن معاشرت میں بہت کچھ ترقی دی ہے۔ مشہور اور نہایت لائق اور قابل مورخ گبن اپنی کتاب میں جہاں یہ بحث کرتا ہے کہ حضرت محمد ؐ اپنے ملک کی نسبت کیسے تھے اس طرح پر لکھتاہے کہ ’’ حضرت محمد ؐ کی سیرت میں سب سے اخیر جو بات غور کرنے کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ ان کا عظم و شان لوگوں کی بھلائی اور بہبودی کے حق میں مفید ہو یا مضر جو لوگ کہ آنحضرت کے سخت دشمن ہیں وہ بھی اور نہایت متعصب عیسائی اور یہودی بھی باوجود پیغمبر برحق نہ ماننے کے اس بات کو ضرور تسلیم کریں گے کہ آنحضرت نے دعویٰ رسالت ایک نہایت مفید مسئلہ کی تلقین کے لیے اختیار کیا۔ گو وہ یہ کہیں کہ صرف ہمارے ہی مذہب کا مسئلہ اس سے اچھا ہے (گویا وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سوائے ہمارے مذہب کے اور تمام دنیا کے مذہبوں سے مذہب اسلام چھا ہے) آنحضرت یہودیوں اور عیسائیوں کی کتب سماویہ قدیمہ کی سچائی اور پاکیزگی اور ان کے بانیوں یعنی اگلے پیغمبروں اور معجزوں اور ایمان داری کو مذہب اسلام کی بنیاد خیال کرتے تھے۔عرب کے بت خدا کے تخت کے روبرو توڑ دیے گئے اور انسان کے خون کے کفارہ کو نماز روزہ خیرات سے بدل دیا جو ایک پسندیدہ اور سیدھے سادھے طریقہ کی عبادت ہے (یعنی جو انسان کی قربانی بتوں پر ہوتی تھی اس کو معدوم کیا اور بعوض اس کے نماز و روزہ و خیرات کو بطور کفارہ قرار دیا) ان کے عقبیٰ کی جزا و سزا ایسی تمثیلوں میں بیان کی جو ایک جاہل اور ہوا پرست قوم کی طبیعت کے نہایت موافق تھیں شاید وہ اپنے ملک کا اخلاقی اور ملکی انتظام درستی سے نہ کر سکتے ہوں مگر آنحضرت نے مسلمانوں میں نیکی اور محبت کی ایک روح ڈال دی آپس میں بھلائی کرنے کی ہدایت کی اور اپنے احکام اور نصیحتوں سے انتقام کی خواہش اور بیوہ عورتوں اور یتیموں پر ظلم و ستم ہونے کو روک دیا قومیں جو کہ مخالف تھیں اعتقاد میں فرماں برداری میں متفق ہو گئیں خانگی جھگڑوں میں جو بہادری بیہودہ طور سے صرف ہوتی تھی نہایت مستعدی سے ایک غیر ملک کے دشمن کے مقابلہ پر مائل ہو گئی۔‘‘ مسٹر گبن کی یہ رائے بھی کسی قدر حاشیہ لکھنے کے لائق ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ مسٹر گبن ایک نہایت غیر متعصب مورخ ہے اور مسلمانوں کی تاریخ بھی اس نے نہایت سچائی اور دیانت داری سے لکھی ہے مگر بعض مذہبی مسائل جو اس کو تحقیق نہیں ہوئے یا غلط طور سے اس تک پہنچے یا جہاں اصلی مسئلہ اور علما کی رائے اور اجتہاد میں اس نے تمیز نہیں کی ان مقاموں میں اس نے نسبت آنحضرت صلعم کے یا مذہب اسلام کے رائے قائم کی ہے اور ہم کو اس نامی مورخ کے نہایت بے تعصب ہونے کی وجہ سے یقین ہے کہ اگر صحیح مسئلہ اس تک پہنچتا تو کبھی وہ رائے قائم نہ کرتا جو اس نے کی۔ انہوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ عقبیٰ کی سزا اور جزا کا بیان نا ممکن ہے ان دیکھی، ان چھوئی، ان چکھی، ان سمجھی، چیز کیوں کر سمجھ میں آ سکتی ہے؟ جس چیز کے لیے لفظ ہی انسان کی زبان میں نہ ہوں وہ کیوں کر بیان ہو سکتی ہے؟ کیفیت جو ایک ذاتی وجدانی چیز ہے وہ دوسرے کو کیوں کر بتلائی جاسکتی ہے؟ یہ تمام امور محالات سے ہیں پس وحی یا الہام ان کو کیوں کر بیان کر سکتا ہے؟ سچا اور صحیح مسلمانی مسئلہ سزا و جزا کا یہ ہے کہ ’’ لاعین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر‘‘ پس کوئی بیان کرنے والا گو کہ وہ الہام ہی کی زبان ہو جزا کو بجز اس کے کہ نہایت ہی محبوب چیز ہے اور سزا کو بجز اس کے کہ نہایت ہی موذی چیز ہے اور کچھ نہیں بتا سکتا سو وہ بھی دنیا ہی کی محبوب اور موذی چیزوں پر قیاس ہو سکتا ہے نہ عقبیٰ کی واقعی محبوب و موذی چیز پر اس لیے تمام انبیاء نے دنیا ہی کی محبوب و موذی چیزوں کی تمثیل میں عقبیٰ کی سزا و جزا کا بیان کیا ہے موسیٰ یہی فرمایا کیے کہ نیک کام کرو گے تو مینہ برسے گا غلہ پیدا ہو گا وبا نہ ہو گی گناہ کرو گے تو قحط پڑے گا وبا پھیلے گی انہوں نے اپنی تمام زندگی میں عقبی کا نام ہی نہیں لیا کیوں کہ اس زمانہ کے لوگ بجز اس کے اور کسی چیز پر سزا و جزا کا قیاس کر ہی نہیں سکتے تھے۔ آنحضرت صلعم نے سزا و جزا کا ان دنیاوی تمثیلوں میں بیان کیا جس پر اس ملک کے لوگ سزا و جزا کے محبوب و موذی ہونے کا قیاس کر سکتے تھے نہ یہ کہ اس سے وہی حقیقت مراد تھی جو ان لفظوں کے لغوی معنی تھے اگر آنحضرت صلعم یورپ کے کسی ٹھنڈے ملک میں پیدا ہوتے تو ضرور بجائے ٹھنڈی نہروں کے گرم پانی کی نہریں اور بجائے موتی کے محلوں کے آتش خانہ والے محل بیان فرماتے اور نہ اس سے حقیقت مراد ہوتی نہ اس سے بلکہ صرف ایک تمثیل قیاس کرنے کو تھی وہ بھی صحیح قیاس کرنے کو نہیں بلکہ قیاس مع الفارق کرنے کو جس قدر علمائے ربانی گذرے ہیں وہ سب اسی بات کے قائل ہیں قل آعوذیے ملانے بلکہ کٹ ملا ہمیشہ ان کے بر خلاف رہے مگر جو حقیقت ہے وہ کسی کے مخالف یا موافق ہونے سے تبدیل نہیں ہوتی۔ اخلاقی اور ملکی انتظام کی نسبت بھی جو کچھ مسٹر گبن صاحب نے لکھا حاشیہ چڑھانے کے قابل ہے اخلاق کا لفظ جو انہوں نے استعمال کیا وہ اسپریچوئل اور سوشیل یعنی روحانی اور تمدنی دونوں برتاؤں کو شامل ہے۔ روحانی برتاؤ کی نیکی تمدنی برتاؤ کی خوبی کو لازم ہے الا تمدنی برتاؤ کو روحانی نیکی یا بدی سے تعلق ہونا کچھ ضرور نہیں ہے آنحضرت صلعم کا کام صرف اسپرچوئل ورچو یعنی روحانی نیکی کا بتانا تھا اور جہاں تک اس کو تمدن سے تعلق تھا بطور لزوم کے تھا نہ بطور مقصود بالذات کے کیوں کہ وہ از خود انسان کی حالت ترقی کے ساتھ ترقی پائی جاتی ہے پس یہ بات کہ آنحضرت صلعم نے روحانی اخلاق کو کافی ترقی دی خود مسٹر گبن نے تسلیم کی ہے باقی رہی تمدنی حالت یہ ان کے اصلی کام کی جس پر وہ کھڑے ہوئے جزو نہ تھی گو اس میں بھی بہت کچھ ترقی ہوئی۔ ملکی انتظام محض ایک دنیاوی کام تھا جہاں تک جان و مال کے امن سے متعلق تھا اور اس زمانہ کی حالت کے مطابق بطور ایک دنیاوی کام کے نہایت اعلیٰ درجہ کی ترقی پر پہنچا تھا اور آئندہ کے لیے وہ یہ انتظام فرما کر کہ ’’ انتم اعلم بامور دنیاکم‘‘ ان لوگوں کے ہاتھوں چھوڑا تھا جو آئندہ زمانہ میں ہوں یہ ایک نہایت غلطی ہے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیاوی امور اور انتظام ملکی بھی ایک جزو پیغمبری کا تھا۔ مسٹر جان ڈیون پورٹ نے اپنی کتاب مسمیٰ ’’ اپالوجی فار محمد اینڈ قرآن‘‘میں یہ رائے لکھی ہے کہ ’’ اس بات کا خیال کرنا جیسا کہ بعضوں نے کہا ہے بہت بڑی غلطی ہے کہ قرآن میں جس عقیدہ کی تلقین کی گئی ہے اس کی اشاعت صرف بزور شمشیر ہوئی تھی کیوں کہ جن لوگوں کی طبیعتیں تعصب سے مبرا ہیں وہ سب بلا تامل اس بات کو تسلیم کریں گے کہ حضرت محمد کا دین (جس کے ذریعہ سے انسانوں کے خون یعنی قربانی کے بدلے نماز اور خیرات جاری ہوئی اور جس نے عداوت اور دائمی جھگڑوں کی جگہ فیاضی اور حسن معاشرت کی ایک روح لوگوں میں پھونک دی اور جس کا اسی وجہ سے بہت بڑا اثر شائستگی پر ہوا ہو گا) مشرقی دنیا کے لیے ایک حقیقی برکت تھا اور اس وجہ سے خاص کر اس کو ان خون ریز تدبیروں کی حاجت نہ پڑی ہو گی جن کا استعمال بلا استثنا اور بلا امتیاز کے حضرت موسیٰ نے بت پرستی کے نیست و نابود کرنے کو کیا تھا پس ایسے اعلیٰ وسیلہ کی نسبت جس کو قدرت نے بنی نوع انسان کے خیالات اور مسائل پر مدت دراز تک اثر ڈالنے کو پیدا کیا ہے گستاخانہ پیش آنا اور جاہلانہ مذمت کرنا کیسی لغو اور بیہودہ بات ہے۔ جب ان معاملات پر خواہ اس مذہب کے بانی کے لحاظ سے خواہ اس مذہب کے عجیب و غریب عروج اور ترقی کے لحاظ سے نظر کی جاوے تو بجز اس کے اور کچھ چارہ نہیں ہے کہ اس پر نہایت دل سے توجہ کی جاوے اس امر میں کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ جن لوگوں نے مذہب اسلام اور مذہب عیسائی کی خوبیوں کو بمقابلہ ایک سروے کے تحقیق کیا ہے اور ان پر غور کی ہے ان میں سے بہت ہی کم ایسے ہیں جو اس تحقیقات میں اکثر اوقات تردد کرتے ہوں اور صرف اس بات کے تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہوں کہ مذہب اسلام کے احکام بہت ہی عمدہ اور مفید مقاصد کو لیے ہوئے ہیں بلکہ اس بات کا اعتقاد کرنے پر بھی مجبور ہوئے ہیں کہ آخر کار مذہب اسلام سے انسان کو فائدہ کثیر پیدا ہو گا۔‘‘ جان ڈیون پورٹ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ ہر ایک طرح کی شہادت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن شخصوں نے فلسفہ اور علوم و فنون کو سب سے پہلے زندہ کیا جو قدیمی اور زمانہ حال کے علم ادب کے درمیان میں بطور ایک سلسلہ کے بیان کئے گئے ہیں بلا شبہ وہ ایشیا کے مسلمان اور اندلس کے مور تھے جو خلفائے عباسیہ اور بنی امیہ کے عہد میں وہاں رہتے تھے علم جو ابتداء ایشیا سے یورپ میں آیا تھا اس کا وہاں دوبارہ رواج مذہب اسلام کی دانش مندی سے ہوا بات مشہور و معروف ہے کہ اہل عرب میں چھ سو برس کے قریب سے علم و فنون جاری تھے اور یورپ میں جہالت اور وحشیانہ پن پھیلا ہوا تھا علم ادب قریباً نیست و نابود ہو گیا تھا۔ علاوہ اس کے یہ بات بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ تمام علوم طبیعات، ہیئت، فلسفہ، ریاضی، جو دوسری صدی میں یورپ میں جاری تھے ابتدا عرب کے علماء سے حاصل ہوئے تھے اور خصوصاً اندلس کے مسلمان یورپ کے فلسفہ کے موجد خیال کئے جاتے ہیں۔‘‘ جان ڈیون پورٹ نے یہ بھی لکھا ہے کہ: ’’ یورپ مذہب اسلام کا اور بھی زیادہ ممنون ہے، کیوں کہ اگر ان جھگڑوں سے جو سلطان صلاح الدین کے وقت میں بیت المقدس کی لڑائیوں میں ہوئے جس کو فریقین جہاد کہتے تھے، قطع نظر کی جاوے تو بالتخصیص مسلمانوں کے سبب سے فیوڈل انتظام کی سختیاں اور اسیروں کی خود مختاری یورپ سے موقوف ہو گئی۔ جس کے باقی ماندہ اثروں پر ہمارے ملک یورپ کی آزادیوں کی نہایت بڑی عالی شان عمارت کی بنیاد قائم ہوئی اہل یورپ کو یہ بات بھی یاد دلانی چاہیے کہ حضرت محمد ؐ کے پیروؤں کے (جو قدیمی اور زمانہ حال کے علم ادب کے درمیان میں بطور سلسلہ کے ذریعہ ہیں)‘‘اس لحاظ سے بھی ممنون ہیں کہ مغربی تاریکی کی مدت دراز میں یونانی حکما کی بہت سی کتابیں انہی کی کوششوں سے فنون اور علم ریاضی، طب وغیرہ کے بعض نہایت بڑے بڑے شعبوں کی اشاعت ہوئیں۔ چیمبر انسائیکلو پیڈیا میں ایک آرٹئیکل لکھنے والے مذہب اسلام کی نسبت یہ رائے لکھی ہے کہ ’’ مذہب اسلام کا وہ حصہ بھی جس میں بہت کم تغیر و تبدل ہوئی ہے اور جس سے اس کے بانی کی طبیعت نہایت صاف صاف معلوم ہوتی ہے اس مذہب کا نہایت کامل اور روشن حصہ ہے اس سے ہماری مراد قرآن کے علم اخلاقی سے ہم ناانصافی، کذب، غرور، انتقام، غیبت، استہزا، طمع، اصراف، عیاشی، بے اعتباری، بد گمانی، نہایت قابل ملامت خیال کی گئی ہیں۔ نیک نیتی، فیاضی، حیا، تحمل، صبر، بردباری، کفایت شعاری، سچائی، راست بازی، ادب، صلح، سچی محبت اور سب سے پہلے خدا پر ایمان لانا اور اس کی مرضی پر توکل کرنا، سچی ایمان داری کا رکن اور سچے مسلمان کی نشانی خیال کی گئی ہے۔‘‘ اس مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ ہم اس بات پر غور نہیں کر سکتے ہیں کہ اسلام نے تمام انسانوں کی بھلائی کے لیے کیا کیا لیکن اگر نہایت ٹھیک ٹھیک کہا جاوے تو یورپ میں علوم و فنون کی ترقی میں اسی کا حصہ تھا مسلمان علی العموم نویں صدی سے تیرھویں صدی تک وحشی یورپ کے لیے روشن ضمیر معلم کہے جا سکتے ہیں خاندان عباسیہ کے خلفاء کے نہایت عمدہ زمانہ سے یونانی خیالات اور یونانی تہذیب کا از سر نو سر سبز ہونا شمار کیا جا سکتا ہے قدیم علم ادب ہمیشہ کے واسطے بغیر کسی علاج کے مفقود ہو جاتا اگر مسلمانوں کے مدرسوں میں اس کا پناہ نہ ملتی۔ عربی فلسفہ، قدرتی چیزوں کی تواریخ، جغرافیہ، علم تاریخ، صرف و نحو، علم کلام اور فن شاعری کی (جس کی تعلیم پرانے استاد دیتے تھے) بہت سی کتابیں پیدا ہو گئیں جن میں سے اکثر اس وقت تک جاری رہیں گی اور تعلیم بھی دی جاوے گی جب تک نسلیں تعلیم ہونے کے واسطے پیدا ہوتی رہیں گی۔‘‘ ایک جواب مضمون لکھنے والے نے جس نے یہ مضمون اختیار کیا تھا کہ ’’ اسلام ایک ملکی انتظام ہے جو مشرق و مغرب میں جاری ہے‘‘اسلام کی نسبت یہ لکھا ہے کہ ’’ اسلام نے بچہ کشی کا انسداد کر دیا جو اس زمانہ میں قرب و جوار کے ملکوں میں جاری تھی گو عیسائی مذہب نے بھی اس کو روکا تھا مگر اسلام کے برابر اس کو کام یابی نہیں ہوئی اسلام نے غلام کو موقوف کر دیا۔ جو اس ملک کی پرانی جاہلیت کی رسم تھی اسلام نے ملکی حقوق کو برابر کر دیا اور صرف انہی لوگوں کے حق میں انصاف نہیں کیا جو اس مذہب کے معتقد تھے بلکہ ان شخصوں کے ساتھ بھی برابر انصاف کیا جن کو اس کے ہتھیاروں نے فتح کیا تھا اسلام نے اس محصول کو جو سلطنت کو دیا جاتا تھا گھٹا کر صرف دسواں حصہ کر دیا۔ اسلام نے تجارت کو تمام محصولات اور مزاحمتوں سے آزاد کر دیا اسلام نے مذہب کے معتقدوں کو اس بات سے کہ اپنے مذہبی سر گروہ کو یا مذہبی کام کو جبراً روپیہ دیں اور تمام لوگوں کو اس بات سے کہ غالب مذہب کو ہر ایک قسم کا مذہبی چندہ دیں بالکل بری کر دیا اسلام نے فرقہ فتح مند کے تمام حقوق مفتوحہ لوگوں میں سے ان شخصوں کو دے دیے جو اس مذہب کے پابند تھے ان کو ہر ایک قسم کی پناہ دی اسلام نے مال کی حفاظت کی سود لینے کو اور خون کا بدلہ بغیر حکم عدالت کے لینے کو موقوف کیا صفائی اور پرہیز گاری کی حفاظت کی اور ان باتوں کی صرف ہدایت ہی نہیں کی بلکہ ان کو پیدا کیا اور قائم کر دیا حرام کاری کو موقوف کر دیا۔ غریبوں کو خیرات دینے اور ہر ایک شخص کی تعظیم کرنے کی ہدایت کی۔‘‘ وہی مصنف یہ بھی لکھتا ہے کہ ’’ جو نتیجے اسلام سے پیدا ہوئے وہ اس قدر وسیع اور دقیق اور مستحکم ہیں کہ ان کی تکمیل کر لینا تو درکنار ہم یقین نہیں کر سکتے کہ وہ انسان کے خیال میں بھی آ سکیں۔ اسی سبب سے بعوض اس کے کہ اس کی نسبت اس طرح پر دلیلیں کی جاویں جس طرح کہ سولن کے قانون یا نپولین کی فتوحات کے نتیجوں کے اندازہ کرنے میں کی جاتی ہیں یا تو ان کی نسبت یہ کہا جاوے کہ اتفاقیہ ہو گئے ہیں یا بمجبوری ربانی مرضی کی طرف منسوب کیا جاوے۔ با ایں ہمہ یہ نظم ایک شخص واحد نے کیا تھا۔ جس نے اپنے ملک کے تمام باشندوں میں اپنی روح پھونک دی اور تمام قوم کے دل پر نہایت تعظیم و تکریم کا خیال جو کسی انسان کے واسطے کبھی ظاہر نہیں کیا گیا نقش کر دیا۔ جو سلسلہ قوانین طرح موافق تھا جیسا کہ ادنیٰ ترین لوگوں سے اور اس سلسلہ نے ایک قوم سے دوسری قوم میں گذر کر ہر ایک قوم کو جس نے اس کو قبول کیا ان قوموں اور سلطنتوں سے فائق کر دیا جن سے ان کا میل ہوا۔‘‘ طامس کار لائل نے جو اس زمانہ کی دنیا میں نہایت نامور عالم ہیں اپنی کتاب میں جس کا نام ’’ لیکچرز آن ہیروز‘‘ہے اس مضمون کی نسبت جس پر ہم بحث کر رہے ہیں یہ رائے لکھی ہے کہ ’’ اسلام کا عرب کی قوم کے حق میں گویا تاریکی میں روشنی کا آنا تھا۔ عرب کا ملک پہلے ہی پہل اس کے ذریعہ سے زندہ ہوا۔ اہل عرب گلہ بانوں کی ایک غریب قوم تھی اور جب سے دنیا بنی تھی عرب کے چٹیل میدانوں میںپھرا کرتی تھی اور کسی شخص کو ان کا کچھ خیال بھی نہ تھا۔ اس قوم میں ایک الو العزم پیغمبر ایسے کلام کے ساتھ جس پر وہ یقین کرتے تھے بھیجا گیا اب دیکھو کہ جس چے سے کوئی واقف ہی نہ تھا وہ تمام دنیا میں مشہور و معروف ہو گئی اور چھوٹی چیز نہایت ہی بڑی چیز بن گئی اس کے بعد ایک صدی کے اندر عرب کے ایک طرف غرناطہ اور ایک طرف دہلی ہو گئی۔ عرب کی بہادری اور عظمت کی تجلی اور عقل کی روشنی زمانہائے دراز تک دنیا کے ایک بڑے حصہ پر چمکتی رہی۔ اعتقاد ایک بڑی چیز اور جان ڈالنے والا ہے جس وقت کوئی قوم کسی بات پر اعتقاد لاتی ہے تو اس کے خیالات بار آور اور روح کو عظمت دینے والے اور رفیع الشان ہو جاتے ہیں یہی عرب اور یہی حضرت محمد ؐ اور یہی ایک صدی کا زمانہ گویا ایک چنگاری ایسے ملک میں پڑی جو ظلمت میں کسمپرسی ایک ریگستان تھا مگر دیکھو کہ یہ ریگستان زور شور سے اڑ جانے والی باروت نے نیلے آسمان تک اٹھتے ہوئے شعلوں سے دہلی سے غرناطہ تک روشن کر دیا‘‘یہ رائیں ہیں عیسائی مصنفوں کی جو انہوں نے اسلام کی نسبت لکھی ہیں اب ہم اپنے خطبہ کے اس حصہ کو انہی رایوں پر ختم کرتے ہیں اور دوسرے حصہ پر متوجہ ہوتے ہیں۔ مضمون کا دوسرا حصہ دوسرے حصہ میں عیسائی مصنفوں کی اس رائے کی کہ اسلام انسان کی حالت معاشرت کے حق میں مضر ثابت ہوا ہے تردید کی جاتی ہے۔ آنریبل سر ولیم میور اپنی کتاب لائف آف محمد میں فرماتے ہیں کہ ’’ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں سے قطع نظر کی جاوے تو بھی مذہب اسلام سے تین بڑی بڑی خرابیاں ہوئی ہیں:1اول یہ کہ اس میں ایک سے زیادہ جوروؤں کا ہونا اور اطلاق دے دینا اور غلام بنا لینا مستحکم کیا گیا ہے اور رائج ہو رہا ہے اور یہ باتیں علم اخلاق کی بیخ کنی کرتی ہیں۔ عام زندگی کو آلودہ اور ناپاک کرتی ہیں اور حسن معاشرت اور انسان کے گروہوں کی حالت کو درہم برہم کر دیتی ہیں2دوم یہ کہ مذہبی آزادی یعنی یہ بات کہ لوگ جونسا مذہب چاہیں اختیار کریں او راس کے لوازم مذہبی آزادی سے ادا کریں۔ بالکل روک دی گئی ہے بلکہ معدوم کر دی گئی ہے تحمل کا تو نام و نشان بھی نہیں دکھائی دیتا3سوم یہ کہ مذہب عیسائی کی ترقی میں اور اس مذہب کے قبول کرنے میں ایک مزاحمت قائم کی گئی ہے‘‘پس اب ہم اپنے اس خطبہ میں ان تینوں خرابیوں میں سے جن کا ذکر سر ولیم نے کیا ہے ہر ایک پر علیحدہ علیحدہ غور کریں گے۔ اس بات کا خیال کرنا ایک بڑی غلطی ہے کہ مذہب اسلام میں ایک سے زیادہ جورواں کرنی اسلام لانے والوں پر لازمی قرار دی گئی ہیں یا کچھ زیادہ ثواب کی بات ٹھہرائی ہے۔ بلکہ برخلاف اس کے عموماً ایک سے زیادہ جورواں کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی صرف ان لوگوں کو اجازت دی ہے جن کو وجوہات طبعی سے ایسا کرنے کی ضرورت ہو لیکن اگر یہ عذر نہ ہو تو ایک سے زیادہ جورواں کرنی ان نیکیوں اور اخلاق کے بالکل برخلاف ہے جن کی ہدایت اسلام نے فرمائی ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ جو مخالفت عیسائی مصنفوں اور مسلمانوں کے طور و طریق، دستورات و خیالات میں ہے وہ اس امر کا مانع قوی ہے کہ اس معاملہ میں سنجیدگی اور نیک نیتی اور صفائی قلب سے غور کی جاوے۔ مثلاً کثرت ازدواج کے لفظ سے بھی عیسائی مصنفوں کے دل میں ایسے مکروہ خیالات گذرتے ہیں کہ وہ اس امر میں ہر ایک بات کی نسبت پہلے ہی سے مصمم ارادہ کر لیتے ہیں کہ اس میں عیب نکالیں اور اس امر پر لحاظ نہیں کرتے کہ ملک کی آب و ہوا اور مرد و عورت کی تعداد اور مختلف طبعی وجوہات اور معاشرت کے لحاظ سے وہ کس حالت میں اور کس حد تک جائز ہو سکتی ہے۔ ہم اس معاملہ کی نسبت تین امر یعنی 1قانون قدرت اور 2باہمی معاشرت اور3 مذہب کے لحاظ سے بحث کریں گے۔ 1پہلے امر پر غور کرنے کے لیے ہم اس بات کا دریافت کرنا (بشرطیکہ ممکن ہو) ضرور سمجھتے ہیں کہ اس امر میں تمام ذی روح مخلوقات کے پیدا کرنے والے کی مرضی اور ارادہ کیا تھا یعنی اس نے انسان کثیر الازواج ذی روح بنایا ہے یا نہیں۔ خالق کائنات کا ارادہ جو کچھ کہ ہو صاف صاف بلا کسی حجت و تکرار کے قدرت کے تمام کاموں سے ظاہر ہوتا ہے کیوں کہ یہ امر صریح نا ممکن ہے کہ اس کی مرضی ان چیزوں کے برخلاف ہو جس اس کی مرضی سے پیدا ہوئی ہیں۔ پس ہم قانون قدرت کی بے خطا نشانیوں سے پاتے ہیں کہ جن ذی روح کی نسبت ان کے خالق کا یہ منشا تھا کہ ان کے صرف ایک ہی مادہ ہو ان کی نسل ہمیشہ جوڑا جوڑا پیدا ہوتی ہے جن میں سے ایک نر و ایک مادہ پیدا ہوتا ہے بر خلاف اس کے جن ذی روح کی متعدد مادائیں ہونی مقصود ہیں ان کے ایک سے زیادہ بچے ہوتے ہیں اور اس بات کا کچھ لحاظ نہیں ہوتا کہ نر و مادہ کی تعداد میں باہم ایک ہی نسبت ہو اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو جان دار زمین پر رہنے والے اور چلنے والے ہیں وہ اکثر بلکہ قریباً کل کے اسی قسم کے ہیں پس اس قانون قدرت کے بموجب انسان بھی اسی دوسری قسم میں داخل ہے مگر جو کہ رتبہ میں بوجہ اس بیش بہا و نادر و عجیب قوت کے جس کو عقل یا نطق بمعنی مدرک گلیات و جزئیات کہتے ہیں اور اس کے خالق نے اس میں ودیعت کی ہے اور تمام مخلوقات سے اشرف ہے اس لیے اس کا فرض ہے کہ جو قوتیں اور حقوق مثل اور ذی روحوں کے جو اس کے گردو پیش رہتے ہیں، قدرت نے اس کو عطا کیے ہیں، ان کو احتیاط سے اور موقع بموقع بلحاظ امورات طبعی اور حسن معاشرت اور انتظام خانہ داری یا نظم ملکی و قوانین حفظان صحت اور ملک کی تاثیرات آب و ہوا کے کام میں لاوے ورنہ اس میں اور دیگر حیوانات میں جو اس کے آس پاس پھرتے ہیں کچھ فرق نہیں ہے اور ایک بکری یا مرغی سے زیادہ کچھ رتبہ نہیں رکھتا ہے۔ پس جیسے کہ کثرت ازواج اکثر حالتوں میں قابل نفرت ہے ویسے ہی قطعی التزام ایک سے زیادہ نہ ہونے کا خلاف فطرت ہے۔ دوسرے امر کی نسبت یہ بات غور کرنے کے قابل ہے کہ انسان اپنی سرشت سے مدنی الطبع پیدا ہوا ہے۔ اسی بات کو توریت میں یوں بیان کیا ہے کہ جب کہ خدا تعالیٰ کو یہ خیال آیا کہ انسان کا اکیلا ہونا انسان کے حق میں اچھا نہیں ہے، تو اس نے اس کے واسطے ایک ساتھی پیدا کیا اور وہ عورت ہے جو اس واسطے پیدا کی گئی ہے کہ انسان کی زندگی کے تفکرات و ترددات، لطف و فرحت رنج و راحت میں شریک ہو اپنی مجانست سے اس کی خوشی کو بڑھاوے اور اپنی محبت اور الفت کی بھری ہوئی ہمدردی سے اس کی تکلیف کو کم کرے اور سب سے اخیر غرض جس کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے یہ ہے کہ انسان کے ساتھ شریک ہو کر خدا کے اس بڑے حکیم کی تعمیل میں کہ ’’ بڑھو اور پھلو اور زمین کر آباد کرو‘‘مدد دے۔ مگر جب کبھی یہ مددگار کسی سبب سے اپنے ان قدرتی فرضوں کے ادا کرنے میں قاصر ہو، تو اس دانش مند حکیم، خالق زن و مرد نے اس نقصان کے رفع کرنے کی بالیقین کوئی تدبیر رکھی ہو گی اور وہ بجز اس کے اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ ایسی حالتوں میں ایک سے زیادہ مگر کسی حد خاص تک، ایک ہی وقت میں جورواں رکھنے کی اجازت ہو، خواہ یہ ہو کہ پہلی زوجہ کے طلاق دینے کے بعد دوسری جورو کرے۔ پچھلا حق عورت کو بھی حاصل ہونا چاہیے۔ چناں چہ مذہب اسلام کی رو سے اس کو حاصل ہے سیاست مدن کے لحاظ سے صرف اتنا فرق ہے کہ مرد جب چاہے اس علاج کو کر سکتا ہے لیکن عورت کو اول جج (یعنی قاضی) کی اجازت حاصل کرنی چاہیے اگر اس تدارک کی انسان کو اجازت نہ ہوتی جس کی ضرورت ہم نے صاف صاف لفظوں میں ثابت کی ہے، تو اس کے سبب سے حسن معاشرت میں نہایت نقصان پہنچتا ۔ کیوں کہ ایسی سخت قطعی قید سے نہایت قبیح اور بد ترین برائیوں اور گناہوں کی طرف انسان کو مائل ہونا پڑتا۔ اگرچہ اس نقصان کا تعلیم و تربیت کی ترقی سے کم ہونا ممکن ہے لیکن مٹنا محالات سے ہے پس جہاں اس کی ضرورت ہے وہاں اس کے عمل میں نہ لانے سے وہی تمام نقصان پید اہوتے ہیں جو حسن معاشرت کے لیے سم قاتل ہیں۔ مسٹر ہنگز نے جو اپنی رائے نسبت تعداد ازواج لکھی ہے اور جان ڈیون پورٹ نے جو مانٹسگیو کی رائے اس باب میں نقل کی ہے اس کا اس مقام پر بیان کرنا بے موقع نہیں ہے اگرچہ یہ بات افسوس کی ہے کہ ان دونوں صاحبوں نے تعداد ازواج پر صرف ایک نظر سے نگاہ کی ہے، یعنی امورات طبعی کے لحاظ سے، مگر مذہب اسلام میں یہ خاص اجازت حالات خاص میں صرف امورات طبعی کے لحاظ سے نہیں دی گئی ہے بلکہ جیسا ہم نے اوپر بیان کیا، اس غرض سے دی گئی ہے کہ ترویج کی تلخیوں کے واسطے اور مقاصد تزوج کے فوت ہو جانے کی حالت میں ایک تدارک حاصل ہو جو عین مرضی آدم و حوا کے پیدا کرنے والے کی اس کی قدرت کے کاموں کی نشانیوں سے معلوم ہوتی ہے۔ مسٹر جان ڈیون پورٹ نے مانٹسگیو کی یہ رائے نقل کی ہے کہ ’’ گرم ملک میں عورتیں آٹھ نو یا دس برس کی عمر میں نکاح کے لائق ہو جاتی ہیں پس ان ملکوں میں بچپن اور نکاح کے لائق جوانی گویا ساتھ ہی ساتھ ہوتی ہے۔ بیس برس کی عمر میں وہ بڑھیا ہو جاتی ہیں پس اس لیے یہ ایک قدرتی بات ہے کہ ان ملکوں میں جب کہ کوئی قانون مانع نہ ہو انسان جورو کو طلاق دے کر دوسری جورو کر لے اور تعدد ازواج کا قاعدہ جاری کیا جاوے۔‘‘ مسٹر ہگنز صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ علم قوائے انسانی اور علم طبعیات کے ماہرین نے بعض وجوہات ایسے دریافت کیے ہیں، جو کثرت ازدواج کے واسطے بہ طور ایک عذر کے متصور ہو سکتے ہیں اور ہم شمالی ملکوں کے سرد خون والے مینڈک کے سے مزاج کے جانوروں سے متعلق نہیں ہو سکتے ہیںمگر بنی اسماعیل سے جو گرم ریگستان کے رہنے والے ہیں، متعلق ہو سکتے ہیں علاوہ اس کے وہ بیان کرتے ہیں کہ سر ڈبلیو اوسلی صاحب کے مشرقی مجموعہ صفحہ108 میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایشیا کے گرم ملکوں کی تاثیر سے دونوں گروہ یعنی مرد و عورت میں ایک ایسا اختلاف ہوتا ہے جو یورپ کی آب و ہوا میں نہیں ہے جہاں دونوں برابر برابر اور بتدریج عالم ضعیفی میں پہنچتے ہیں مگر ایشیا میں صرف مرد ہی کو یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ ضعیفی میں بھی قوی اور طاقت ور رہتا۔ اگر یہ بات سچ ہے تو بانی مذہب اسلام کے لیے اس بات کی کہ انہوں نے متعدد جوروؤں کی اجازت دی، ایک وجہ بڑی تھی اور یہ کافی سبب اس بات کا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے اس مضمون کی نسبت اپنی کوئی رائے ظاہر نہیں کی بلکہ اس کو ملکوں کی گورنمنٹوں کی آئین پر چھوڑ دیا، کیوں کہ جو بات ایشیا کے واسطے مناسب ہو گی وہ یورپ کے واسطے نا مناسب ہو گی۔‘‘ اب ہم اس مقام پر ان بد عادتوں اور خراب اخلاق کا جو آنحضرت صلعم سے پہلے ایام جاہلیت میں عموماً جاری تھے، اس نا طرف دارانہ بحث میں ذکر نہ کرنا مناسب نہیں سمجھتے ہیں ملک ایران اپنے اخلاق کی خرابی میں سب سے بڑھا ہوا تھا۔ وہاں قوانین طلاق بالائے طاق رکھ دیے گے تھے اور رشتہ داری کا گو وہ کیسی ہی قریب ہو یا بعید مطلق پاس و لحاظ نہیں تھا۔ بیٹے کو اس کی ماں ایسی ہی مباح تھی جیسے باپ کو اس کی بیٹی او ربھائی کو اس کی بہن غرض کہ اس معاملہ میں فی الواقع ایک جانور کے گلہ سے مشابہت رکھتے تھے جو کسی قسم کے قانون کے پابند نہیں ہوتے ایران کے گوشہ شمال و مغرب میں یہودی بہ کثرت آباد تھے ان کے ہاں کثرت ازدواج کی رسم بلا قید اور حد کے بے روک ٹوک کے جاری تھی اور زمانہ جاہلیت کے عرب کے حالات کو بہ نظر غور دیکھنے سے جہاں یہودیوں اور ایرانیوں کے دستورات خلط ملط ہو گئے تھے، معلوم ہوتاہے کہ عرب میں یہ دونوں رسمیں یکساں جاری تھیں۔ تعداد ازواج کی کچھ انتہا نہ تھی لوگ جس عورت کو چاہتے تھے پسند کرتے تھے اپنے پسند میں کسی قسم کے قانون کے پابند نہ تھے تمام عورتیں بغیر کسی امتیاز و رتبہ یا عمر یا رشتہ داری کے مردوں کی وحشیانہ خواہشوں کے پورا کرنے کا کام دیتی تھیں عورتوں کی نسبت بد نیتی کے وحشیانہ خیالات اور ان کے ساتھ وحشیانہ حرکات کا تفاخر صرف بے عیب ہی نہیں گنا جاتا تھا بلکہ شیخی اور عالی ہمتی اور بڑی بہادری کا کام سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانہ کے عیسائی مذہب پر (اگر وہ مذہب عیسوی کہا جا سکے) جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو اس کے معتقدوں کو ایک ایسے طریقہ کا پیرو پاتے ہیں جو اوپر کے دستوروں کے بالکل بر خلاف ہے، یعنی ایک بھی جورو کرنی کچھ نیکی نہیں گنی جاتی تھی بلکہ رہبانیت و تجرد محض کی عام ہدایت تھی اور مرد عورت دونوں کے لیے وہی نیکی گنی جاتی تھی ایسے زمانے میں جس میں عقل کی اور دل کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اور رسم و رواج اور اخلاق اور طرز معاشرت اس درجہ خراب ہو گیا تھا، بانی اسلام نے نہایت خوبی اور دانش مندی سے ایک ایسا عمدہ قانون بنایا جو بہ لحاظ اپنی اصلیت کے نہایت کامل اور عقل کامل کے بالکل مطابق اور انسان کی تندرستی اور بہبودی اور حسن معاشرت کی ترقی کا نہایت عمدہ ذریعہ اور زن و مرد کی حالت زوجیت کے حق میں اور دونوں کے لیے اس کے تلخیوں کو دور کرنے میں نہایت ہی مفید ہے۔ 3تیسرے جب کہ ہم اس معاملہ پر بہ لحاظ مذہب کے بحث کرنا چاہتے ہیں تو ہم پہلے یہ دیکھا چاہتے ہیں کہ دو اور الہامی مذہبوں نے یعنی یہودی مذہب نے اور خصوصاً عیسائی مذہب نے جس کے پیرو مذہب اسلام کے مسئلہ پر نہایت طعن کرتے ہیں، اس باب میں کیا گیا ہے اور اس کے بعد ہم دکھاویں گے کہ مذہب اسلام نے یہ کیا اور پھر اہل انصاف سے پوچھیں گے کہ مذہب عیسوی نے تعداد ازواج کو روکا ہے یا مذہب اسلام نے۔ مذہب یہود تو ایک مخزن ہے جس میں بہ کثرت ازدواج اور بلا تعین حد موجود ہے عیسائی مذہب نے بھی تعداد ازدواج کی کہیں ممانعت نہیں کی چناں چہ ہم اپنے اس قول کی تائید میں چند مشہور و معروف عیسائی عالموں کی رائیں نقل کرتے ہیں جن سے تعداد ازدواج کی تائید ہوتی ہے مسٹر ہگنز بیان کرتے ہیں کہ ’’ حضرت محمد نے اس نہایت قدیم موسوی مذہب کے مقنن کی پیروی کر کے اپنی قوم کو جو اسماعیل کی اولاد ہے (جو مسلمانوں کے باپ کا بیٹا تھا) متعدد بیویوں کی اجازت ہے اس واسطے عیسائی ہمیشہ اس پر عیب نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پیروؤں کی کمینہ خواہش کو پورا کیا لیکن میں نہیں جانتا کہ متعدد بیویوں کی اجازت کی نسبت ایسا سخت طعن کیوں کیا جاتا ہے حضرت سلیمان کی نظیر اور حضرت داؤد کی نظیر پر(جو خدا کی دلی مرضی کے مطابق چلتے تھے اور جن کو خدا نے خاص اپنی شریعت کے احکام کی تعمیل کے لیے بنایا تھا) یہ امر چنداں اعتراض کے لائق نہیں ہے خصوصاً اس وجہ سے کہ عیسیٰ مسیح نے بھی ان بیس انجیلوں میں سے جن کو ان کے معتقدوں کے گروہ میں سے کسی نہ کسی نے ان کے احکام کے قلم بند کرنے کے واسطے تحریر کیا تھا، کسی انجیل میں اس کی ممانعت نہیں کی ہے۔‘‘ مسٹر ڈیون پورٹ اپنی کتاب میں بائبل کی بہت سی آیتوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ ان آیتوں سے پایا جاتا ہے کہ تعدد ازواج صرف پسندیدہ ہی نہیں ہے بلکہ خاص خدا نے اس میں برکت دی ہے۔‘‘نہایت مشہور و معروف عالم جان ملٹن تعدد ازدواج کا ایک مشہور حامی ہے جس نے اس امر کی تائید میں بئیبل میں بہت سی آیتیں نقل کرنے کے بعد یہ تحریر کیاہے کہ : ’’علاوہ ا س کے خدا نے ایک تمثیلی صورت (حزقیل) میں مسمانان اھولا و اھولیا سے اپنا نکاح کرنا ظاہر کیا ہے ۔ اور یہ ایک ایسا بیان ہے کہ اس کو خداوند تعالیٰ بالتخصیص اس طوالت کے ساتھ ایک تمثیل میں بھی ہرگز نہ اختیار کرتا اور نہ درحقیقت ایسی بات کا مرتکب ہوتا کہ اگر وہ رسم جس کی دلالت اس سے ہوتی ہے فی نفسہ معیوب یا مذموم ہوتی۔ پس جس رسم کا امتناع انجیل میں بھی کسی کو نہیں ہے وہ کیوں معیوب یا مذموم خیال کی جا سکتی ہے کیوںکہ انجیل میں ان ملکی آئین میں سے کوئی بھی منسوخ نہیں کیا گیا ہے جو انجیل سے بیشتر جاری تھے‘‘۔ جان ملٹ یہ بھی کہتے ہیں کہ’’میں عبرانیوںکے خط کے باب ۱۳ ورس ۴ سے اس طرز سے جواز تعدد ازواج پر استدلال کرتا ہوں کہ تعدد ازواج کی رسم یا تو نکاح جائز ہے یافجور ہے یا زنا ہے۔ پس اس مقدس رسول نے کوئی چوتھی صورت تسلیم نہیں کی۔ پس میں یقین کرتاہوں کہ ان بہت سے بزرگوں کی تعظیم و توقیر کے لحاظ سے جو کثیر الازواج تھے ہر یاک شخص اس کو فجور یا زنا خیال کرنے سے باز رہے گا ۔ کیوں کہ خدا حرام کاروں اور زانیوں کو سزا دے گا حالاں کہ ان بزرگوں پر خدا کی خاص نظر تھی جیسا کہ خود اس نے فرمایا ہے پس اگر متعدد نکاحوں کا کرنا ٹھیک ٹھیک نکاح ہو تو ہی جائز ہے اسی حواری کا قول ہے کہ ’’سب میں نکاح کرنا بھلا ہے اور تس پر ناپاک نہیں‘‘۔ یہ حال تو تعدد ازواج کی نسبت مذہب موسوی اور عیسوی میں تھا۔ اب ہم کہتے ہیں کہ مذہب اسلام نے تمام مذہبوں سے بڑھ کر تعدد ازواج کو نہایت خوبی سے روکا ہے اور صرف ایک ہی بیوی کو پسند کیا ہے ۔ تعدد کو صرف ایک نہایت محدود و خاص حالت میںجائز رکھا ہے ۔ ہم کو کچھ شبہ نہیں ہے کہ سچا مسئلہ سچے مذہب کا جو اس کی مرضی کے موافقہو جس نے مرد و عورت کا جوڑا پیدا کیا ضرور ایسا ہو گا کہ جو قاونون کے قدرتکے تو برخلاف نہ ہو اور حسن معاشرت میں کوئی نقصان نہ پیدا کرے۔ اور وہ یہی ہو سکتاہے کہ عموماً کثرت ازواج کی ممانعت اور صورت ہائے خاص اور حالات مستثنیٰ میں اجازت ہو‘ اور ٹھیٹ یہی مسئلہ ٹھیٹ اسلام کا ہے ۔ قرآن مجید نے اس نازک معاملہ اور دقیق اور پرپیچ مطلب کو نہایت فصیح و بلیغ دو لفظوںمیں بیان کر دیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ: فان خفتم ان لا تعدلوا فواحدۃ یعنی اگر تم کو خوف ہو کہ متعدد جوروئوں میں عدل نہ کر سکو گے تو صرف ایک ہی جورو رکھنی چاہیے۔ اگر ان لفظوں پر کافی غور نہ کی جاوے اورصرف اوپرے معنی لیے جاویں‘ جیسے کہ اکثر علماء اورفقہا نے لیے ہیں تو بھی اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ لوگوں کو بے اعتدالی سے باز رکھنے کی غرض سے (جو ہمیشہ بدتر اور بعض دفعہ خطرناک ہوتی ہے) اور اس بات کا یقین ہونے کی ایک نظر سے کہ جس شخص نے ایک سے زیادہ جورویں کیں وہ ایک واقعی ضرورت کے سبب سے مجبور تھا ‘ بہت سخت قیدیں اور شرطیں لگائی گئی ہیں۔مثلاً یہ کہ سب کو برابر حقوق دینے اور سب کے ساتھ برابر محبت رکھنی تاکہ عدل کے معنی متحقق ہوں۔ پس جو لوگ سچے دین دا ر اور درحقیقت مذہب کے تابع ہیں وہ از خود بجز ضرورت مجوزہ کے ایک سے زیادہ جورواں کرنے سے باز رہتے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اس اجازت سے بغیر اس کی شرائط کو پورا کریے جن کا پورا کرنا نہایت مشکل ہے فائدہ اٹھانا اپنے مذہبی فرائض کو ٹھیک ٹھیک اداکرنا نہیںہے۔ لیکن اگر ان مختصر لفظوں پر معتمق نظر غور کیا جاوے تو معلوم ہو گا کہ شارع نے ایک سے زیادہ جورو کرنے کی اجازت کو نہایت محدود اور خاص حالت میں مخصوص کر دیا ہے کیوں کہ اس نے فرمایا ہے کہ اگر تم کو خوف ہے ہ عدل نہ کر سکو گے تو صرف ایک ہی ہونی چاہیے۔ لفظ خوف عدم ایک ایسا لفظ ہے کہ جب تک محل عدل ساقط نہ ہو خوف عدم زائل نہیں ہو سکتا۔ گو اس وقت ہم کیسا ہی سچا ارادہ کر لیں کہ ہم دونوں جوروئوں میں عدل کریں گے ( جو درحقیقت بہ حالت قیام محل عدل نا ممکن ہے) تب بھی خوف عدم عدل اگر محل عدل قائم ہے زائل نہیں ہوتا۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں اس کی بخوبی تفصیل ہے جہاں خدا نے ان لوگوں کی نسبت جن کے پاس متعدد جورواں تھیں صاف صاف فرما دیا ہے کہ : ولن تستطیعوا ان تعد لوابین النساء ولو حرصتم فلا تمیلوا کل المیل فتذروھا کالمعلقہ وان تصلحوا وتتقوا فان اللہ کان غفورا رحیما وان یتفرقا یغن اللہ کلا من سعۃ وکان اللہ واسعا حکیما۔ (سورہ نسائ) ’’تم ہرگز متعد د جوروئوں میںعدل نہ کر سکو گے تم عدل کرنے کی کتنی ہی حرص کرو ۔ پس مت جھک پڑو اندھا دھندی سے جھک پڑنا تاکہ چھوڑ دو ان کو ادھر میں لٹکتی ہوئی کہ نہ وہ بیوہ یا مطلقہ ہے کہ دوسرا شوہر کر سکے نہ سہاگن ہے کہ خصم کے ساتھ خوشی سے زندگی بسر کرے۔ پھر اگر تم صلح کر لو اور پرہیز گاری کرو تو بے شک اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ اور اگر تم دونوں جدا ہو جاوء تو اللہ تعالیٰ کو اپنی وسعت رزق سے بے پرواہ کرے گا اور اللہ بری وسعت والا حکیم ہے‘‘۔ اس آیت سے صاف ثابت ہو گیا کہ عدل غیر ممکن ہے اور اس لیے خوف عدم عدل بھی ساقط نہیں ہو سکتا جب تک کہ محل عدل باقی ہے اور اس آیت میں طلاق کو مسقط محل عدل بتایا ہے۔ اگر چہ اور بھی چند امور مثلاً امراض یا نقصان خلقت مسقط محل عدم ہو سکتے ہیں۔ پس اجازت تعدد ازواج کی عدم وجود محل عدل میں منحصر ہو گی اور عدم وجود محل عدل مستلزم عدم حسن معاشرت ہے۔ پس کس دانائی اور احتیاط اور خوبی اور بے انتہا عمدگی سے شارع نے قانون قدرت اور حسن معاشرت دونوں کو قائم رکھ کر اس باب میں حکم دیا ہے اور ہر غیر متعصب شخص کا دل قبول کرے گا کہ بے شک یہ حکم اسی شخص کا ہے جس نے مرد و زن کا جوڑا پیدا کیاہے۔ ہاں بلاشبہ اس اجازت سے اوباش اور شہوت پرست آدمیوں کو ‘ جن کی زندگی کا عین منشاء ٹٹی کی اوجھل شکار کھیلنا ہے‘ ایک حیلہ ہاتھ آ گیا ہے۔ مگر اس عمدہ اور مفید قاعدہ کے بے جا عمل درآمد کرنے سے وہ لوگ اس خا کے سامنے جواب دہ ہوں گے جو انسانوں کے دلوں کا محرم رازہے اور وہ یقینا ان کو اس قسم کی سزا دے گا جو ان کے گناہ کے لحاظ سے واجب ہو گی۔ ان تمام باتوں کے سمجھنے کے بعد ہمارے اس مضمون کے پڑھنے والے یقین کریں گے کہ یہ جو تعدد ازواج اس زمانہ میں رائج ہے جہاں ذرا دولت ہوئی اور دو دو او تین تین اور چار چار جورواں کرنے لگے اور ایک بازار کی عورت کو دائوں پر چڑھایا اورنکاح کر مارا‘ جہاں مقدس مولوی ہوئے اللہ میاں کے سانڈ بنے اس مریدن کو لے ڈالا وہاں وعظ کہنے گئے اور سنت نکاح ثانی کو جاری کیا ‘ قرآن پڑھاتے پڑتے دوسرا سبق خطبۃ النکاح کا پڑھانے لگے۔ اوہمارے دوسرے بھائیوں نے ایک حیلہ متعہ کا جو جاہلیت میں تھا‘ اسلام میں پیدا کر کے عورتوں کو کھنگالنا شروع کیا۔ ان سب باتوں کو مذہب اسلام سے کچھ تعلق نہیں ہے یہ سب ایک قسم کی اوباشی کے ڈھنگ ہیں جن سے اسلام نفرت کرتا ہے اور وہ سب ہوا پرست اوباش ہیں جن سے اسلام کا نام بدنام ہوتاہے۔ پس ایسے شخصوں کے افعال پر اسلام کی خوبی و حقیقت سے چشم پوشی کرنا چمگادڑوں کے لیے آفتاب کا سیاہ کرنا ہے۔ اب طلاق کی نسبت ہم کو گفتگو کرنی ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس طرح ہم نے تعدد ازواج کی نسبت تین طرح پر یعنی قانون قدرت‘ حسن معاشرت اورمذہب کی رو سے بحث کی ہے ‘ اس طرح پر بحث نہیں ہو سکتی اور اس لیے ہم ا مسئلہ پر صرف بہ لحاظ حسن معاشرت اور مذہب کے بحث کریں گے۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ تمام قدیم و جدید قوموں و مذہبوں میںنکاح کا عام رواج ہے۔ او وہ علی العموم انسان کی ذاتی و تمدنی بہبودی کی بنیا د ہ جو چیز ا س کو معدوم کرنے والی ہے یعنی طلاق وہ نہایت ہی بد چیز فوائد ذاتی و تمدنی کو برباد کرنے والی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ روم کے گرجا نے بنظر اس کی حفاظت کے نکاح کو اپنے ساتھ پاک رسموںمیں قرار دے کر اس کو تبرک ٹھیرایاہے اور انگلستان کے کے طلاق کا حکم صرف ایک حالت میں جائز رکھا ہے جب کہ ہائوس آف لارڈز سے زر کثیر صرف کرنے کے بعد حاصل ہوا۔ یہ انتظام ۱۸۵۶ء تک قائم تھا۔ یعنی اس وقت تک جب کہ طلاق کے تمام مقدمات کے سننے اور جیوری کی رائے سے اس کی نسبت تجویز ہونے کے لیے ایک نئی عدالت قائم کی گئی۔ عموماً یہ بات تسلیم کرنے کے قابل ہے کہ سب سے بڑا دشمن ‘ حسن معاشرت و تمدن کا طلاق ہے۔ اس کے سبب سے نکاح کی وقعت گھٹ جاتی ہے اورمرد کی محبت کا عورت کے ساتھ اور عورت کی وفاداری کا مرد کے ساتھ اعتبار نہیں رہتا۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ اگر کسی سبب و حالت سے ایسی خرابیاں مرد و عورت میں پیدا ہو جاویں جو کسی طرح اصلاح کے قابل نہ ہون تو ان کا بھی کچھ علاج ہونا چاہیے اوروہ علاج طلاق ہے۔ پس کچھ شک نہیں ہے کہ ایسی حالت میںطلاق سے فائدہ ہے اس کے باعث مرد و عورت کو آزادی ہو جات ہے جن سے مزاج کی مخالفت یا سختی یا بے استقلالی سے دونوں کی زندگی تلخ ہو گئی تھی۔ باایں ہمہ اگرچہ طلاق ایک شخص واحد کے حق میں مفید ہو لیکن بہ لحاظ ان بد اخلاقیوں کے جو اکثر اوقات نہایت آشکارا طورپ وقوع میں آتی ہیں اور نیز اس مضر ت بخش اثر کی وجہ سے جو طرفین کی اولاد پر اپنے والدین سے جدا ہونے سے ہوتا ہے تمدن کے حق میں کچھ کم مضرت پہنچانے والا نہیں ہے۔ پس جب کہ طلاق کے ساتھی ایسی خرابیاں لگی ہوئی ہیں۔ تو اس کو بطور ایک علاج سمجھ کر اسی حالت میں اس کی جانب رجوع کرنا جائز ہو سکتاہے۔ جب کہ اس پر عمل کرنے سے ایسی مصیبتیں جو طلاق کی مصیبتوں سے بھی زیادہ ناقابل برداشت ہوں اور ایسے ترددات اور تفکرات میں ڈالنے والی ہون جو طلاق کے رنجوں سے بھی زیادہ رنج دینے والی ہوں اور روز افزوں رنجشیں پیدا کرنے والی اور باہمی حسن و معاشرت کے بدلے دن رات کے لعن طعن جوتی پیزار رکھنے والی ہوں دور ہو سکتی ہیں اور اگر ایسی حالت میں طلاق کو جائز رکھا جاوے( جیسے کہ اسلام نے صرف اسی حالت میں ا س کو بے گناہ ٹھیرایا ہے) تو وہ کسی طرح حسن معاشرت کے مخالف نہیں ہیں بلکہ اس کی اصلاح کرنے والی اور ترقی دینے والی ہیں۔ جب کہ ہم بہ لحاظ مذہب کے طلاق کے مسئلہ پر غور کرتے ہیں تو یہ پات ہیں کہ مذہب اسلام ہی صرف ایک ایسا مذہب ہے جس نے طلاق کے مسئلہ میں سب سے زیادہ حسن معاشرت کی حفاظت او ر اصلاح پر نظر رکھی ہے۔ یہودی مذہب میں طلاق دینا بغیر کسی قید و شرط و حالت کے مرد کے اختیار میں تھا کہ جب وہ چاہے طلاق نامہ لکھ کر جورو کے حوالہ کر دے گا اور ایسا کرنے سے کسی حالت میں وہ کسی گناہ یا گنہگار متصور نہیں ہوتا تھا۔ حضرت عیسیٰ نے اس حکم کو منسو خ کیا اور جیسا کہ حال کے زمانہ میں عیسائی سمجھتے ہیں (اگر وہ صحیح ہو ) تو بجز ایک خاص وجہ سے اور کسی حالت میں طلاق کا دینا جائز نہیں رکھا اور فرمایا کہ ’’میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی جورو کو سوائے زنا کے کسی سبب طلاق دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے اور جو کوئی اس کی چھوڑی ہوئی عورت سے بیاہ کرے وہ بھی زنا کرتا ہے‘‘ اگر اس فقرہ سے عدم جواز طلاق سمجھا جاوے جیسا کہ حال کے زمانہ میں عیسائی سمجھتے ہیں (اور شاید وہ سمجھ صحیح نہیں ہے) تو یہ ایک ایسا سخت حکم تھا جس کی برداشت انسانوں سے قریب ناممکن کے تھی چنانچہ حضرت مسیح کے معتقدوں نے حضرت مسیح سے کہا کہ ’’اگر جورو سے مراد بہ طور ہے تو جورو کرنا خوب نہیں‘ ‘ پس اگر یہ حکم اسی طرح مانا جاوے جس طرح کہ اس زمانہ کے عیسائی مانتے ہیں تو حسن معاشرت کے لیے نہایت ہی مضر ہے اور جو رنج دہ امور زن و شوہر میں واقع ہو جاتے ہیں جن سے تام حسن معاشرت اور اغراض تزوج برباد ہو جاتے ہیں اس کا کچھ بھی علاج نہیں ہے اور زن و مرد دونوں کے لیے اور بہت سی خرابیاں اور خوفناک حالتوں میں پڑنے کا اندیشہ ہے ۔ باایں ہمہ بعض عیسائی مذہب کی رو سے بھی تسلیم کرتے ہیں چنانچہ جان ملٹن نے اپنی کتاب مسائل مذہب عیسوی میں یہ بحث لکھی ہے کہ ’’نکاح کی جو تعریف کی گئی ہے اس کی رو سے نکاح نہایت مرتبہ کا ایک اتحاد ہے مگر ناقابل انفکاک یا ناقابل تفریق نہیں ہے‘‘ بعض لوگ اس کے ناقابل تفریق ہونے کی نسبت متی کی انجیل باب ۱۹ ورس ۵ سے استدلال کرتے ہیں ۔ اگر ان الفاظ پر مناسب طور سے غور کیا جاوے تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ نکاح خفیف خفیف باتوں پر نکاح کو منقطع کرنا نہیں چاہیے کیوں کہ جو کچھ نکاح ناقابل انفکاک ہونے کی نسبت کہا گیا ہے وہ خاص عقد نکاح اور اس کے تمام مقاصد و لوازمات کی پوری پوری تعمیل ہونے پر منحصر ہے خواہ وہ الفاظ بطور ایک حکم بطور ایک قدرتی نتیجہ کے خیال کے کیے جاویں۔ اور اسی وجہ سے متی کی انجیل میں ان لفظوں کے ساتھ یہ لفظ بیان کیے گئے ہیں کہ ’’مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی جورو سے ملا رہے گا… اور وہ دونوں ایک تن ہوں گے‘‘ یعنی بہ شرطیکہ نکاحکی اصلی نوعیت کے مطابق (جن کا بیان کتاب پیدائش ۲ ورس ۱۸ لغایت ۲۰ میں ہے) عورت خاوند کے واسطے ایک مددگار ہو یا یہ کہ جانبین کے باہم خیر خواہی اور محبت اور آرام و وفاداری میں کچھ فرق نہ آوے کیوں کہ عرف عام کے بموجب یہی اصی وضع نکاح ہے لیکن اگر اصل منشاء نکاح کا منقطع ہو جاوے تو اس سے لازم آتا ہے کہ نکاح بھی دراصل منقطع ہو گیا۔ دوسری آیت میں جوبیان ہوا ہے اور جس پربڑا زورد یا گیا ہے یعنی جو کچھ خدا نے ملایا ہے اسے آدمی جدا نہ کرے لحاظ سے قابل ہے۔ مگر نکاح ہی کے عقد سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ خدا ن کس چیز کو ملایا ہے خدا نے صرف اس چیز کو ملایا ہے جو ملاپ کے قابل ہے اور جو مناسب ہے بہتر ہے اور محترم ہے۔ انسان کی قدرتی طبیعت کے خلاف اور نامناسب حالت کے ملاپ کا حکم نہیں دیا جس میں صرف بے عزتی اورتکلیف اور عداوت و مصیبت بھری ہوئی ہو۔ خدا تعالیٰ کچھ اس قسم کے ملاپ نہیں کرتا ہے جو درحقیقت ملاپ نہیں ہوں۔ بلکہ جبر یا ناعاقبت اندیشی کو غلطی یا بد سلیگتی کے اثر سے ہوئے ہوں ۔ پس ایسی ناگوار خانہ داری کی رائی سے اپنے تئیں نجات دینا کس وجہ سے ناجائز ہے علاوہ اس کے ہمارامسئلہ ان شخصوں کو جدانہیں کرتا جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے مقدس آئین کے بموجب ملایا ہے بلکہ صرف ان شخصوں کو علیحدہ کرتا ہے ۔ جن کو خود خدا نے اپنے ایسے ہی مقد آئین کی رو سے جدا کر دیا ہے اور یہ ایک ایسا حکم ہے جس کا اثر ہم پر ایسا ہونا چاہیے جیسا کہ سابق میں اس کی امت پر ہوتا تھا ۔ مذہب عیسوی کے کمال کو جس کی ترقی بعض لوگ نکاح کے ناقابل انفکاک ہونے کی ایک دلیل بیان کرتے ہیں اس کی نسبت ہم کہتے ہیں کہ اس ترقی کو جبر اور قوانین تعزیری کے ذریعہ سے ہم میں زبردستی اس کا رواج نہیں دینا چاہیے بلکہ اگر ہو تو اس کو ترغیب اور عیسائی پندو نصائح کے ذریعہ سے جاری کرنا چاہیے۔ کسی شخص کی نسبت صرف اس حالت میں یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اس نے نکاح کو قطع کیا جو شرعا منعقدہوا تھا جب کہ وہ احکام الٰہی میں اس بات کو زیادہ کر کے جو خاص اس حکم میں شامل نہ ہو مذہب کے حیلہ سے اس شخص سے جداہو جاوے جو اس کی منشاء کے موافق ہو کیوں کہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے منصفانہ اور پاک او ر مقدس قانون میں صرف مختلف وہجہوں پر طلاق کی اجازت ہی نہیں دی ہے بلکہ بعض صورتوں میں اس کو جائز قرار دیاہے اور بعض صورتوں میں اس کی ہدایت کی ہے اور بحالت خلاف ورزی سخت سزائیں قرار دی ہیں۔ دیکھو کتاب خروج باب ۲۱ورس ۴ و ۰ ۱ و ۱۱ اورکتاب استثنا باب ۱۱ ورس ۱۴ و باب ۲۴ ورس ۱ و کتاب عزرا باب ۱۰ ورس ۳ نحمیا باب ۲۳ ورس ۲۰۔ توریت کتاب استثنا باب ۲۴ ورس ۱ میں لکھا ہے کہ جب کوئی شخص ایک بیوی کر لے اور اس سے نکاح ہو جاوے او رایسا اتفاق ہو کہ وہ اس کو پسند نہ ہو کیونکہ اس میں کچھ ناپاکی ہے تو اس کو چاہیے کہ ایک طلاق نامہ لکھ کر اس کے ہاتھ میں دے دے اور اس کو اپنے گھر سے نکال دے ‘‘۔ پس اگر فرض کیا جاوے کہ جو سبب طلاق بتایا گیا ہے و ہ سچا ہے اورمصنوعی نہیں تو اس مقام میں خداوند تعالیٰ نے ایک بیوی ابتدا ہی میں اس غرض سے دی کہ وہ ا س کی مد د اور تسلی و خوشی کا باعث ہو جیسا کہ خد آئین نکاح سے ظاہر ہوتا ہے تو اگر بعد کو جیسا کہ اکثر اتفاق ہوتا ہے وہ بیوی رنج و رسوائی اور تباہی اور اذیت اور مصیبت کی باعث ہوتو ہم کو کیوں کر یہ خیال کرنا چاہیے کہ خدا ہم سے ایسی عورت کے طلاق دینے یس ناخوش ہو گا۔ میں دل کی سختی کو اس شکص سے منسو ب کرتا ہوں جو اس عورت کو اپنے پاس رہنے دے نہ کہ اس شخص سے جو ایسی صورتوں میں گھر سے نکال دے اور صرف میں ہی نہیں بلکہ خود حضرت سلیمان یا شاید خود خدا کی روح نے حضرت سلیمان کے منہ سے یہی بات کہی ہے۔ چنانچہ توریت کتاب امثال سلیمان باب ۳۰ ورس ۲۱ و ۲۳ میں لکھا ہے کہ ’’تین چیزوں سے دنیا کو بے چینی حاصل ہوتی ہے بلکہ چار چیزیں ہیں جن کو وہ برداشت نہیں کر سکتی ہے… اور ایک مکروہ عورت سے جب کہ اس کا نکاح ہو جاوے‘‘ اس کے برخلاف کتاب واعظ باب ۹ ورس۹ میں بیان ہوا ہے کہ ’’تو اس عورت کے ساتھ ہنسی خوشی سے بسر کر جس کو اس نے (خدا) نے تجھے دیا ہے اور جس کو تو اپنی فانی زندگی کے تمام زمانے میںپیار کرتاہے‘‘۔ پس جو عورت ا س نے تجھ کر دی ہے وہ عوت ہے جس کو تو پیار کرتا ہے نہ کہ وہ جس سے تو نفرت کرت ہے اورکتاب ملاخی باب ۲ ورس ۱۶ میں بیان ہوا ہے کہ ’’جو شخص نفرت کرتاہے ( یا اس وجہ سے کہ وہ نفرت کرتی ہے) اس کو چاہیے کہ اس کو چھوڑ دے‘‘ چنانچہ یوفیوس سے پہلے سب نے اس فقرہ کا ایسا ہی ترجمہ کیاہے ۱۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس حکم کو موسیٰ کی معرفت اس غرض سے صادر نہیں فرمایا ۔ اور نہ اس نبی کی معرفت اس پر اس کو اسی غرض سے دوھرایا ہے۔ کہ شوہر کو اپنی سنگ دلی کے برتائو کا موقع ملے۔ بلکہ اس غرض سے صادر کیا ہے کہ جہاں ضرورت ہو اس بدنصیب عورت کو اس کے اثر سے بچاوے۔ کیوں کہ اس میں کوئی سنگ دلی نہیں ہے کہ اس عورت کو عزت سے اوربلا تکلیف رخصت کر دے جس کا خود ہی یہ قصور ہے۔ کہ وہ محبوب نہیں ہوئی۔ اس لیے ایسی عورت کو جو نہ صرف یہی ہے ک محبوب نہیں ہوئی بلکہ وہ معلق چھوڑ دی گئی ہو اور اس سے نفرت اور عداوت کی جاتی ہو۔ غرض کہ جس عورت کا یہ حال ہو اس کو ایک نہایت تکلیف دہ قانون کا اتباع کرکے ا س کے شوہر کے نہایت بھاری غلامی کے جوے میں رکھنا (کیوں کہ نکاح بے محبت ایسا ہوتا ہے) جس کو نہ تو اس کے ساتھ الفت ہواور نہ دوستی ہو یہی درحقیقت ایسی سختی ہے جس میں ہر ایک قسم کی طلاق سے زیادہ بے رحمی ہے۔ اسی وجہ سے خداوند تعالیٰ نے طلاق کی اجازت دے دی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ صحیفہ ملاخی باب ۲ کی آیتوں کے ترجمے اس طرح پر ہوئے ہیں۔ ۲۔ ترجمہ عربی ۱۸۱۱ء میں ہے : وامراۃ شبابک لاتترک لکن ان ایغضتہا سرحہا اور ترجمہ عربی مطبوعہ ۱۸۷۱ء وزوجۃ غلامتک لا تنزولہا اذا بغضت فاطلق اور ایسا ہی رومن کیتھولک بئیبل میںہے اور انگریزی ترجمہ پروٹسٹنٹ کے حاشیہ پر بھی یہی عبارت ہے جس سے ملٹن نے استلال کیا ہے ۔ (سید احمد)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا اگر مناسب طور سے عمل درآمد کیا جاوے تو وہ نہایت منصفانہ اور رحیمانہ ہے بلکہ اس نے اس کے فائدوں کو ان شخصوں تک بھی وسعت دی ہے جن کی نسبت وہ یہ جانتا ہے ک یہ اپنی سنگ دلی کی وجہ سے اس کا بے جا عمل درآمد کریں گے اور اس نے بدکار آدمیوں کی سنگ دلی گوارا کرنا اس سے بہتر تصور کیا ہے کہ نیک آدمیوں کی تکلیف رفع کرنے سے باز رہے یا جس رسم کا ایک ربانی برکت سے ایک بدتری مصائب ہو جانے کا اندیشہ تھا خود اسی کو درھم برھم کر دے۔ خود حضرت عیسی نے نویں آیت میں زنا کی وجہ یس طلاق کی اجازت دی ہے اور یہ بات نہ ہوتی اگر اللہ تعالیٰ کو یہ بات منظور ہوتی کہ جن شخصوں کو خدا نے ایک مرتہب نکاح میں باندھ دیاہے وہ ہرگز آئندہ جدا نہ ہوں۔ مگر مشرقی زبانوں کے محاورہ کے بموجب اس لفظ سے جس کا ترجمہ زنا کیاگیا ہے صرف زنا ہی مراد نہیں ہوتا۔ بلکہ اس سے یا تو وہ چیز مراد ہے جس کو ناپاک چیز کہا گیا ہے ۔ یا کسی ایسے امر کا نقصان مراد ہے جو جس امر کا ایک بیوی کی ذات میں ہونا واجبا ضروری ہے جو کتاب استثنا کے ۲۴ باب کی پہلی آیت میں مذکور ہے جیسا کہ سیلڈن نے سب سے پہلے اپنی کتاب اکزورھبریا میں ایسے محاورہ کو بہت سی زبانیں یہود کی شہادت سے ثابت کیا ہے اور یااس سے وہ شے مراد ہے جو محبت ‘ وفاداری ‘ باہمی اعانت یا معاشرت یعنی اصلی آئین نکاح کے مقصد کے خلاف ہو کہ ہرگز اس سے موافقت نہ ہو سکے جیساکہ سیلڈن نے ثابت کیاہے کیوں کہ جس وقت فربسیوں نے یہ سوال کیا تھا کہ ایک بیوی کو ہرایک وجہ طلاق دینا جاء زہے یا نہیں تو یہ جواب دینا لغوہوتا کہ سوائے زنا کے اور کسی حالت میں جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بات تو بخوشی مشہور و معروف تھی کہ زنا کی حالت میں وہ جائز ہی نہیں تھی۔ بلکہ ایک زانیہ کو نکال دینا ضرور ی تھیا۔ اور وہ بھی طلاق کے ذریعہ سے نہیں بلکہ قتل کر دینے سے۔ پس اس مقام پر اس لفظ سے یہ نسبت محض زنا کے زیادہ تر وسیع معنی سمجھنے چاہئیں جیسا کہ کتاب اقدس کے اکثر مقامات سے خصوصاً قاضیوں کی کتاب باب ۱۹ آیت ۲ سے ظاہر ہے جہا ںلکھا ہے کہ ’’ اس کی بیوی زنا کر کے چلی گئی ‘‘یہاں زنا کے عرفی معنی نہیں ہو سکتے کیوں کہ ایسی حالت میں اس کو جرات نہ ہوتی کہ وہ اپنے باپ کے گھر چلی جاوے بلکہ یہ مراد ہکہ وہ اپنے شوہر سے تمردانہ (نشوز) برتائو کر کے چلی گئی اونہ ایسی صورت میں (یعنی جب کہ بجز زنا کے طلا ق جائز نہ تھی) پولوس مقدس کسی کافر مر د یا عورت کے جدا ہو جانے کے سبب سے طلاق کی اجازت دیتے۱ اگر یہ بھی ایک قسم کا زنا نہ ہوتا۔ اس بحث سے یہ امر کچھ متعلق نہیں ہے کہ یہ مسئلہ کافر مرد یا عورت کے متعلقہے کیوں کہ جو شخص خاندان کو ترک کر دے وہ کافر سے بدتر ہے ( پولوس کا پہلا خط تموتی کے نام باب ۵ آیت ۸) اورنہ نکاح کے اصلی منشاء کے حق میں کوئی بات اس سے زیادہ ضروری اورپسندیدہ ہو سکتی ہے کہ جو عقد محبت اورتمام عمر کی باہمی اعانت کی توقع اورنیک ارادوں سے کیا گیا ہو وہ کینہ اورسنگین عداوت اورطرفین کی جانب سے ناپسندیدہ برتائو کے سبب سے قطر کر دیا جاوے۔ پس خدا تعالیٰ نے انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ اس مقام پر پولوس کے خط موسومہ قرنیناں کے ساتویں باب کی ۱۵ آیت پر اشارہ ہے ۔ (سید احمد)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے لیے جب کہ وہ بہشت میںمعصومیت کی حالت میں تھا۔ دنیا میں گناہ کے آنے سے پہلے یہ حکم دیا کہ نکاح ناقابل انفکاک ہونا چاہیے نہ گناہ کے بعد حالات کے تغیر کے موافق اورنیز اس نطر سے کہ معصوم آدمی بدکار آمیوں کے ہاتھ س ہمیشہ کے ضرر سے محفوظ رہے اس نے نکاح کے انفکاک کی اجازت دی اوریہ اجازت قانون قدر ت اور موسوی شریعت کا ایک جزو ہے اور حضرت مسیح نے بھی اس کی ممانعت نہیں کی۔ پس ہر ایک معاہدہ سے جبکہ ابتدا عمل میں آوے اس کا دوامی اور ناقابل انفکاک ہونا مقصود ہوتا ہے گو وہ کسی فریق کی بد عہدی کے سبب سے کیسی ہی جلد کیوں نہ ٹوٹ جاوے اور نہ اب تک کوئی معقول وجہ اس بات کی بیان کی گئی ہے کہ نکاح کی نوعیت اس باب میں اور تمام معاہدوں سے مختلف ہوتی ہے خصوصاً اس حالت میں جب کہ پولوس مقدس نے یہ بات بیان کی ہے کہ کوئی بھائی یا بہنایسی باتوں میں مفید نہیں ہے۔ یہ نہ صرف چھوڑ دینے کی نسبت بلکہ ایسی صورتوں میں جو ایک نالائق قید پیدا کرنے میں ہوتی ہے جیسا کہ قرنتیوںنے پہلے خط میں لکھا ہے : (باب ۷ آیت ۱۵) کہ ’’کوئی بھائی یا بہن ایسی باتوں میںمفید نہیں ہے کہ خدانے ملاپ کے لیے بلایا ہے‘‘ پس خدا تعالیٰ نے ہم کو اس غرض سے نہیں بلایا کہ ہم دائمی نزاع اور ترددات کے باعث سے پریشان خاطر رہیں کیوں کہ ہمارے بلانے کا مقصد امن اور آزادی ہے نہ کہ نکاح چہ جاکہ دائمی نزاع اور ایک ناخوش ازدواج کی غلامانہ قید جس کو رسول نے تمام چیزوں سے زیادہ ایک آزاد آدمی اور عیسائی کے ناقابل بتلایاہے۔ یہ نہ خیال کرنا چاہیے کہ حضر ت مسیح نے موسوی شریعت سے کوئی ایسا حکم خارج کر دیا جس سے مظلوم اور مصیبت زدہ لوگوںپر رحم کرنے کا موقع ملتا تھا اورنہ اس موقع پر حضرت مسیح کو یہ منظور تھا۔ کہ ان کا یہ قول حکم عدالت کے سبب سمجھا جاوے یا اس معاملہ کی نسبت کوئی نیا اور سخت حکم دیا جاوے بلکہ قانون کے بے جا عمل درآمدوں کے بیان کرنے کے بعد انہون نے اپنے حسب معمول ایک زیادہ تر کامل دستور معاشرت کا بتلایا اور اس موقع پر مثل اور تمام موقعوںکے منصب قضا کا دعویٰ نہیں کیا اورامر حق کو محض نصیحت کے طور پر بیان فرمایا نہ کہ جبریہ احکام سے۔ پس انجیل کی نصیحتوں کو ملکی آئین قرار دینا اور احکام تعزیری کے ذریعہ سے اس کو نافذ کرنا ایک سخت غلطی ہے‘‘۔ یہ تمام تقریر جان ملٹن کی تھی جو انہوں نے ایک محققانہ اورعالمانہ طور پر بئیبل کے احکام سے استنباط کی ہے ۔ ہمار ی رائے میں یہ مطلب نہایت مختصر تقریر سے ختم ہوتاہے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ سے پوچھا کہ جورو کو ہر ایک طرح پر طلاق دینی درست ہے یا نہیں ان کا جوا ب یہ ہے کہ بجز افعالی فمیمہ کے اور کسی صورت میں جائز نہیں ۔ جس لفظ کا ترجمہ حرام کاری یا زنا کیا گیا ہے وہ عام لفظ ہے اور سب قسم کی برائیاں اس میں داخل ہیں اور اس کا ٹھیک ترجمہ افعال ذمیمہ ہو سکتا ہے پس جو کچھ کہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا اس سے امتناع طلاق نہیں نکلتا بلکہ بلا قصور صرف اپنی نفسانی بد خواہشوں کے لیے طلاق دینا جائز نہیں بتایا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ چاہیے کہ مذہب اسلام نے نسبت طلا ق کے کیا کیا؟ اس کو بطور علاج ایک مرض کے جائز اور مباح بتایا ۔ مگر زن و شوہر کا معاملہ ایک ایسا نازل اور ایک عجیب قسم کے ارتباط و اختلاط کا معاملہ ہے کہ اس میں جو بیماری پیدا ہو سوائے ان ہی دونوں کے اور کوئی تیسرا شخص اس بات کی تشخیص نہیں کر سکتا کہ آیا وہ اس حد تک پہنچ گئی ہے جس کا علاج بجز طلا ق کے اور کچھ نہیں۔ اس لیے بانی اسلام نے اس کی تشخیص نہ کسی (جج) کی یعنی قاضی کی رائے پر منحصر کی ہے نہ کسی مفتی کے فتویٰ پر بلکہ صرف اس کی رائے اور اخلاق پر جس کی تسلی اور موانست کے لیے ابتدا میں عورت بطور انیس دل نواز اور مونس غم گسار کے پیدا ہوئی تھی۔ آپ اس بات کی بندش کہ وہ علاج بے محل اور بے موقع نہ استعمال کیا جاوے صرف مرد کے حسن اخلاق اور دلی نیکی اور روحانی تربیت پر منحصر تھی جو نہایت اعلیٰ درجہ پر خاص اسی معاملہ میں مذہب اسلام نے اپنے سچے مریدوں اور ٹھیٹ مسلمانوں کو کی ہے ۔ بانی اسلام نے اسلام کے سچے پیروئوں کو بتایا : ما خلق اللہ شیئا علی وجہ الارض ابغض الیہ من الطلاق (رواہ الدار قطغی)۔ ’’بجز طلاق کے اور کوئی چیز خدا تعالیٰ نے زمین کے پردہ پر پیدا نہیں کی جو خدا کے نزدیک سب سے زیادہ مغضوب ہو‘‘۔ پھر ایک دفعہ یوں فرمایا : ابغض الحلال الی اللہ الطلاق (رواہ ابو دائود) ’’مباح چیزوں میں سے سب سے زیادہ خدا کو غضب میں لانے والی چیز طلاق ہے‘‘۔ یہ ہدایت تو مردوں کی نسبت تھی اور عورتوں کو جو طلاق لینی چاہتی ہیں یہ فرمایا کہ : ابما امراۃ سالت زوجھا طلاقا عفی غیر ما باس فحرام علیھا رایحۃ النۃ (رواہ احمد والترمذی و ابو دائود وابن ماجہ الدارمی) ’’جو عورت اپنے خاوند سے بغیر ضرورت شدیداور بغیر حالت سختی میں طلاق چاہے اس پر خوش بو جنت کی حرام ہے یعنی جنت میں نہ جاوے گی‘‘۔ ہمارے پیغمبر خدا صلعم طلاق دینے والے سے ایسے ناراض ہوتے تھے جس سے بعض لوگوں کو یہ خیال ہو گیا کہ جو شخص اپنی جورو کو دفعتاً طلاق دے دے وہ قتل ہونے کے لائق ہے چنانچہ : اخبر رسول اللہ صلعم عن رجل طلق امراۃ ثلث تطلیقات جمیعا فقام غضبان ثم قال ابلعب بکتاب اللہ عزوجل وانا بین اظہر کم حتی قام رجل فقال یا رسول اللہ الا اقتلہ ۔ (رواہ النسائی) ’’ایک دفعہ رسول خداصلعم کو اطلاع ہوئی کہ ایک شخص نے اپنی جورو کو دفعتاً تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ یہ سن کر آں حضرت صلعم غصہ کے مارے کھڑے ہوگئے اورفرمایا کہ کیا خدائے بزرگ کے حکم کو کھیل بنایا ہے ایسی حالت میں بھی کہ میں تم میںموجود ہوں یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہو گیا اور عرض کیا کے اے رسول اللہ خدا کے کیا میںاس کو قتل کر ڈالوںیعنی وہ شخص آں حضرت کے غصے ہونے سے یہ سمجھا کہ اس شخص نے قتل کیے جانے کے لائق کام کیا ہے‘‘۔ بانی اسلام نے انہی ہدایتوں اورتہدیدوں ہی پر طلاق کے روکنے میں بس نہیں کیا بلکہ نکاح اور ملاپ کے قائم رکھنے کی اور بھی نہایت عمدہ تدبیر رکھی ہے یعنی پوری تفریق واقع ہو نے کو تین دفعہ طلاق دینا معتبر رکھا ہے اورپھر اس کی ممانعت فرمائی ہے کہ دفعتاً تین طلاقیں نہ دی جاویں بلکہ سوچ سوچ او رسمجھ سمجھ کر مناسب فاصلہ سے طلاق دی جاوے کہ ہر ایک میں قریباً پچیس روز کا فاصلہ ہو جاتا ہے اورپھر بھی اجازت دی کہ پہلی طلاق کے بعد اگر آپس میں صلح ہو جاوے اور رنجش مٹ جاوے اوردونوں کی محبت تازہ ہو جاوے تو پھر بدستور جورو خصم رہیں۔ دوسری طلاق کے بعد بھی اسی طرح وہ پھر آپس میں مل سکتے ہیں اور بہ دستور جورو خصم رہ سکتے ہیں ۔ لیکن اگر پھر تیسری دفعہ طلاق دی جاوے تو ثابت ہو گیا کہ یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں پھر بہتر ہے کہ پوری تفریق ہو جاوے۔ ان ہدایتوں کے سوا ایک اورنہایت عمدہ ہدایت یہ فرمائی کہ ایسی حالت میں جب کہ عورت کو مرد سے کنارہ کش رہنا پڑا ہے طلاق نہ دی جاوے۔ ا س سے مطلب یہ ہے کہ شاید زمانہ مقاربت میں محبت و الفت کی ایسی تحریک ہو کہ خیال طلاق کا ان دونوں کے دل سے جاتا رہے۔ علاوہ ان ہدایتوں کے ہمیشہ عورتوں کے ساتھ محبت رکھنے اور ان کے ساتھ مہربانی اور خاطر داری سے پیش آنے اور ان کی سختی اور بدمزاجی کو تحمل کیساتھ برداشت کرنے کی نہایت تاکید سے ہدایت فرمائی ہے اوریہ سب باتیں اسی مکروہ چیز یعنی طلاق کے روکنے کو ہیں۔ ان سب احکام سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ بانی اسلام نے صرف اسی حالت میں طلاق کی اجازت دی ہے جب کہ وہ ایک نہایت بیش بہا نعمت ثابت ہونے میں ذرا بھی خطا نہ کرے اور جب کہ اس کے ذریعہ سے حالت زوجیت کے ترددات او ر تکلیفیں اور تلخیاں یا تو بالکل رفع ہو جاویں۔ یا بہرکیف کچھ کم ہو جاویں۔ اور اگر طلاق کو کام میں نہ لایا جاوے تو حالت معاشرت روز بہ روز زیادہ تکلیف دہ ہوتی جاوے۔ ایسی صورت میں طلاق حسن معاشرت کے نقصان کا باعث نہیں ہو سکتی بلکہ برخلاف اس کے وہ دونوں کے حق میں ایک برکت اور حالت معاشرت کی ترقی کا کامل ذریعہ ہے ۔ ہاں میں اس بات کو قبول کروں گا کہ مسلمانوں نے اس عمدہ حکم کو نہایت قابل نفرت طریقہ پر استعمال کیا ہے۔ پس اس کے افعال کی نفرین انہی پر ہونی چاہیے نہ مذہب اسلام پر ۔ ہم کو امید ہے کہ تمام منصف مزاج لوگ جب ٹھیٹ اسلام کے اس مسئلہ پر غور کریں گے تو قبول کریںگے۔ کہ جو عمدہ طریقہ اس باب میں اسلام نے اختیار کیا ہے وہ عقل انصاف معاشرت کی نظرسے ایسا عمدہ ہے کہ اس سے بہتر ہو ہی نہیں سکتا اور صاف یقین دلاتاہے کہ یہ مسئلہ اسی استاد کا بنایا ہوا ہے ۔ جس نے انسان کو پیدا کر کے اس کے لیے اس کا جوڑا پیدا کیا تاکہ اس کی تسلی اور دل کی خوشی کا باعث ہو ۔ اور غور کیا جاوے تو یہ کہنا کچھ بے جا نہ ہو گا کہ جان ملٹن نے اپنی اس بحث میں جو کچھ روشنی بئیبل کے ورسوں پر ڈالی ہے وہ سب اسلام کی روشنی سے لی گئی ہے کیوں کہ اسلا م نے بارہ سو برس پیش تر بتا دیا تھا کہ طلاق نہ بہ طور معجون مفرح استعمال کرنے کو ہے بلکہ صرف ایک مرضلا علاج کا علاج ہے۔ اب ہم غلامی کے الزام کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو ایک سب سے بڑا الزام اس کے جائز رکھنے کا مذہب اسلا م کی نسبت لگایا گیا ہے اور بیان ہوا ہے کہ قوانین حسن معاشرت اور اخلاق کے بالکل برخلاف ہے ۔ قوانین حسن معاشر ت کی قید ہم نے اس لیے لگائی ہے۔ کہ اگر اس معاملہ پر مذہبی طور پر نظر کی جاوے تو نہ یہودیوں کو اور نہ عیسائیوں کو اس قدر جرات ہو سکتی ہے کہ وہ اس میں کچھ عیب نکالیں یا ا سکی نسبت کچھ اعتراض کریںکیونکہ توریت کا ہر صفحہ ایسے مضامین سے بھرا ہواہے جس میںغلامی کا جواز تسلیم کیا گیاہے (خواہ اس کو خدا کا حکم مانو یا حضرت موسیٰ کا اس زمانے کے رسم و رواج کا قانون) اور انجیل میں کسی مقام پر ایک مضمون بھی نہیں پایا جاتا جس میں اس بے رحم دستور کی ممانعت ہو۔ قبل اس کے کہ ہم اس معاملہ میں اپنی رائے پر بناء مذہب اسلام ظاہر کر دیں گاڈفری ہگنز صاحب نے جو کچھ اس کی نسبت لکھا ہے اس کو بیان کرتے ہیں۔ گاد فری ھگنز صاحب لکھتے ہیں کہ ’’انسان کے حق میں یہ ایک بدقسمتی کی بات معلوم ہوتی ہے کہ نہ تو حضرت عیسیٰ نے اور نہ حضر ت محمدؐ نے غلامی کا موقوف کرنا مناسب خیال کیا ۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جب حضرت عیسیٰ او ر حضرت محمدؐ دونوں نے اپنے معتقدوں کو یہ ہدایت کی تو ان کو اوروں کے ساتھ وہ کرنا چاہیے کہ جیسا کہ اوروں سے اپنے ساتھ کرنا چاہتے ہیں تو انہوںنے درحقیقت غلامی موقوف کر دی۔ یہ بات ظاہر میں تو بہت اچھی معلوم ہوتی ہے مگر افسوس ہے کہ عمل میں ایسا نہیں ہے مسلمانوں کی خانگی غلامی بلاشبہ ناقابل حمایت ہے لیکن افریقہ کی بردہ فروشی اور ویسٹ انڈیز کے کارخانہ باغات میں غلاموں پر کی سختیوں اور بے رحمیوں کا مقابلہ میں (جو عیسائی ملکوں میںمروج تھیں) کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتیں۔ ہم نہایت اعتقاد سے روم کے پوپ اور کنٹربری کے آرچ بشپ اور کونسلوں اور مجلسوں اور پوپ کے احکام اور عقاید مذہبی قوانین اور معاہدوں کا ذکر سنتے ہیں۔ مگر ہم نے یہ بات سنی ہے کہ ان لوگوں نے کوئی عا تدبیر اس خوفناک تجارت کے انسداد کے لیے کی (واضح ہو کہ اس زمانے میں تمام انگلستان میں غلامی کی تجارت رائج تھی) ورنہ اس کی نسبت ہم کو پوپ کا کوئی حکم دکھائو یا کسی مجلس کا کوئی قانون بتائو ۔ روم اورکنٹربری کے بشپ خو د اس خطاب کے مستحق ہیں۔ کہ وہ اپنے معتقدوں کی خواہش کے پورا کرنے کا کام دیتے تھے۔ جو خطاب کہ انہوںنے حضرت محمدؐ کو اس وجہ سے دیا ہے۔ جب کہ روم کے پوپوں کو اس تجارت کا فساد عظیم صاف صاف ثابت ہو گیا تھا تو انہوں نے ان شخصوں کو قوم سے خارج نہیں کیا جو اس تجارت میں مصروف تھے جیسا کہ کیو کارس یعنی پیروان جارج فاکس نے کیا تھا۔ میں اس بات سے واقف ہوں کہ وہ یہ ظاہری عذر کریں گے کہ وہ کسی شخص کو اس وجہ سے غلاموں کا مالک ہے قوم سے خارج نہیں کر سکتے تھے ۔ کیونکہ انجیل اور حواریوں کے ناموں کے ہر ایک صفحہ میں غلاموں کا جواز تسلیم کیا گیا ہے مثلاً جہاں کہیں لفظ ’’سروس‘ ‘ یا ’’دولوس‘‘ پایا جاتا ہے۔ اس کا ترجمہ خدمت گار کیا گیا ہے وہاں اس کا ترجمہ غلام ہونا چاہیے۔ لفظ ’’سروس‘‘ کے لغوی معنی اس شخص کے ہیں جو بازار میں خریدا گیا ہو یا فروخت کیا گیا ہو اور ’’فریدئین‘‘ ہمارے اجورہ دار اور خدمت گار کے نیم منعی ہیں لیکن اگر بدقسمتی سے عیسائیوں کو خانگی غلامی کی اجازت دی جاوے تو اس سے کسی طرح پر یہ بات ثابت نہیں ہوتی ہے کہ افریقہ کی بردہ فروشی جائز ہے۔ جس کی زیادتی کا زمانہ اگلے لوگوں کے گمان میں بھی نہ تھا اور جو ہر طرح پر ان کی خانگی غلامی سے مختلف ہے ۔ اگرچہ پیغمبر صاحب نے ا س مکروہ دستور کو موقوف نہیں کیا جیسا کہ ان کو کرنا چاہیے تھا۔ تاہم انہوںنے بالکل بغیر ذکر کیے ہوئے نہیں چھوڑا۔ بلکہ اس بات کے فرمانے سے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں اورکسی شخص کو اپنے زمانے کے بھائی کو غلام نہیں رکھنا چاہیے۔ انہوںنے انسانوں کے ایک گروہ کثیر کو آزاد کر دیا۔ جس وقت کوئی یہ کہہ دے کہ میں ایمان لے آیا ہوں تو وہ فوراً آزاد ہے۔ اگر حضرت محمدؐ نے اس باب میں جیسا کہ چاہیے تھا ویسا نہیں کیا۔ تو انہوںنے کچھ تو جو بالکل نہ ہونے یس (جیسے کہ انجیل میں کچھ نہیں ہے) بہتر ہے اور اس سبب سے غالباً کچھ لوگ بلا تصدیق قلبی بھی مسلمان ہو گئے ہوں گے گو کہ اس امر کو کوئی پکا دین دار عیسائی جس کا گرم ایمان مذبح کے دھکتے ہوئے انگارے سے زیادہ تر گرما گرم ہے عجب لگاوے اور اس کو بدنیتی پر حمل کرے۔ لیکن تاہم اس تدبیر نے لاکھوں آدمیوں کو مصیبت سے بچایا ہے۔ ایک اور تدبیر غلامی کی ترمیم یا اس کی قباحتوں کی نحیف کرنے کی پیغمبر صاحب کے اس حکم سے ملتی ہے جہاں یہ فرمایا ہے کہ غلاموں کو فروخت کرنے میںماں سے بچے جدا نہ کیے جاویں۔ ہمارے ویسٹ انڈیز والے ہر روز یہی جرم کرتے ہیں۔ مجھ کو کوئی ایسا حکم انجیل میں نہیں ملا اس لیے حضرت محمدؐ نے اس کو انجیل میں سے نہیں لیا۔ گاڈ فری ھگنز صاحب لکھتے ہیں کہ’’ہم عیسائی اکثر اوقات بے چارے حبشیوں کو عیسائی بنانے کی خواہش کرتے ہیں مگر میں انہی مشیرنی سوسائٹیوں کو یہ صلاح دیتا ہوں کہ وہ اپنی دولت کثیر کو اس باب میں صرف کریں کہ جس وقت حبشیوں کا مذہب تبدیل ہو جاوے تو ان کو فوراً آزاد کر دیں اور ان کو اپنا بھائی قرار دیں جیسا کہ مسلمان کیا کرتے ہیں اورمیں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کے تمام وعظوں سے اس قدر لوگ ان کے معتقد نہ ہوں گے جیسے کہ اس بات سے ہوں گے‘‘۔ گاڈ فری ھگنز صاحب نے ویسٹ منسٹر ریویو کا یہ فقرہ نقل کیا ہے کہ ان کا مسئلہ قانون کی غلامی کے باب میں یہ ہے کہ ’’اگر غلام تمہارے پاس آویں تو تم ان کو قید اور اس کے بعد ان کو سر بازار مت فروخت کرو گو کوئی دعوے دار ان کا موجود نہ ہو (جیسا کہ انیسویں صدی میں عیسائی انگلستان کا قانون اس کے صوبوں میںجاری ہے) بلکہ ان کو آزاد کر دو اور تم کو مناسب نہیں کہ ان کو نکال دو۔ مگر حضرت محمدؐ(جنہوں نے غلامی کے مٹانے کی نسبت نہایت عمدہ تدبیریں کیں) وہ تھے جو ساتویں صدی میں عرب کے بیابانوںمیںکھڑے ہوئے تھے۔ حضرت محمدؐ تو فرماتے ہیں کہ ’’ایسے غلاموں کو جو ہم سے اس مضمون کے ایک تحریری سند چاہیں کہ جس وقت وہ ایک رقم معین ادا کر دیں تو وہ اپنے تئیں آزاد ہیں تو تم ہمیشہ یہ دستاویز ان کو لکھ کر دو۔ اگر تم ان میں کوئی بھلائی جانو تو تم خدا کی دولت مٰں سے جو اس نے تم کو دی ہے ان کو دو‘‘ گاڈ فری ھگنز کہتے ہیں کہ مجھ کو انجیل میں ایسا کوئی حکم نہیں ملا۔ یہ جو کچھ لکھا گیا گاڈ فری ھگنز کا استدلال تھا مگر یہ استدلال کی قدر حاشیہ لکھنے کا محتاج ہے ان کے یہ بیان کہ ’’حضرت محمدؐ نے غلامی کو موقوف کرنا مناسب خیال نہ کیا‘‘ صحیح نہیں ہے جو لوگ تقلیسد کی تاریکی مٰں اندھے ہو رہے ہین وہ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ آں حضرت صلعم کی مرضی اور خوشی غلاموں کے آزاد کرنے کی تھی اور ہمیشہ ہر حکم مین غلاموں کی آزادی پر رغبت دلاتے تھے اور جو لوگ خاص آں حضرت صلعم کو اپنا ہادی و پیشوا جانتے ہیں اور زید و عمرو کی رائے اور اجتہاد کی کچھ پروا نہیں کرتے تو وہ صاف صاف قرآن مجید میں پاتے ہیں کہ بانی اسلام نے آئندہ غلامی کو بالکل قطعاً موقوف کر دیا ہے ۔ جیسا کہ ہم آگے بیان کریں گے ۔ پس یہ فخر صرف مذہب اسلام کو ہی ہے کہ اس نے غلامی کو معدوم کیا ہے اور ہر انسان کو آزاد قرار دیا ہے۔ واعتصمو ا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقو ا واذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمۃ اخوانا (سورہ آل عمران) اسلام لانے سے غلامی ساقط ہو جانے پر جو استدلال گاڈ فری ھگنز نے کیا ہے ہم کو دل سے اس پر اتفاق ہے ۔ خدا تعالیٰ نے سورہ حجرات میں صاف فرمایا ہے کہ: انما المومنون اخوۃ یعنی سب ایمان والے آپس میں بھائی ہیں اورسورہ آل عمران میں فرمایا ہے کہ: ’’ سب لوگ اکٹھے ہو کر خدا کی رسی کو مضبوط پکڑو اور جدی جدی راہوں میں مت بھٹکو اور تم کو جو نعمت خدا نے دی ہے (یعنی اسلام) اس کا شکر کرو۔ ایک وقت تھا کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ۔ پھر تمہارے دلوں میںخدا نے محبت ڈال دی پھر تم ہو گئے اللہ کی نعمت (یعنی اسلام) کے سبب آپس میں بھائی‘‘۔ پس کون شخص انکار کر سکتاہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں اور اس لیے کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کا غلام نہیں ہو سکتا۔ یہی ’’اخوت‘‘ اس امر کا باعث ہے کہ جب کوئی مسلمان بغیر وارث قریب کے مر جاتا ہے تو ا س کا مال بیت المال میں اس کے سب مسلمان بھائیوں کے لیے چلا جاتا ہے مگر جب ہمارے پیغمبر نے علانیہ صاف صاف لفظوں میں آئندہ کی غلامی کو عام طور پر معدوم کر دیا ہے تو ہم کو اس قسم کی خاص خاص باتوں پر استدلال کی حاجت نہیں ہے۔ کتابت کا جو ذکر گاڈ فری ھگنز صاحب نے کیا ہے وہ حکم صرف ایسا ہی نہ تھا کہ اس کا کرنا یا نہ کرنا مالک کی مرضی پر موقوف ہو بلکہ اس کا ذکر کرنا واجب تھا اور انکار کرنا قابل سزا کے تھا چنانچہ بخاری کی ایک حدیث سے (اگر و ہ صحیح ہو) معلوم ہوتا ہے کہ ابن سیرین نے جب حضرت انس سے کتابت کی درخواست کی تو انہوںنے انکار کیا۔ ابن سیرین وہ مقدمہ حضرت عمر کے سامنے پیش کیا اورحضرت عمر نے حضرت انس کو اس انکار کرنے رپ دروں سے پٹوایا اور کتابت یعنی خط آزادی بہ معاوضہ روپیہ کے بہ جبر حضرت انس سے لکھوا کر دیا۔ گو یہ حدیث قابل شبہ ہو مگر خود قرآن مجید سے پایا جاتا ہے کہ کتابت کی درخواست کرنے پر خط آزادی بہ معاوضہ روپیہ کے لکھ کر دینا لازم ہے ۔ بہرحال جو حمایت اس عالم اور اضل مصنف ن نہایت قابلیت اور بڑی سرگرمی سے مذہب اسلام کی کی ہے اس کا واجب شکریہ ادا کرنے کے بعد ہم یہ کہتے ہیں کہ اس مصنف نے غلامی کی ترمیم یا اس کی خرابیوں کی تخفیف میں جو بچوں کو ماں سے جدا نہ کرنے کا ذکر ہے اس کے ساتھ چند اور قسم کے احکا م زیادہ کرنے چاہئیں جو غلامی کی ترمیم اور اس کی خرابیوں کی تخفیف کے حق میں ویسی ہی مفید ہیں چنانچہ آں حضرت صلعم نے غلاموں۱ کے حق میں فرمایا ہے کہ : قال (ای النبی صلعم فی حق العبید) ان اخوانکم خولکم جعلھم اللہ تحت ایدکم فمن کان اخوہ تحت یدہ فلیطعمہ ممایا کل ویلبسہ‘ مما یلبس ولا تکلفوھم ما یغلبھم فان کلفتموھم ما یغلبھم فان کلفتموھم ما یغلبھم فاعینوھم (بخاری باب قول النبی صلعم العبید اخوانکم صفحہ ۳۴۶) ’’وہ تمہارے بھائی ہیں (بوجہ انسان ہونے کے) جو تمہاری خدمت کرتے ہیں تمہارے کامو ں کو سنوارتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے تابع کر دیا ہے پس جو شخص کہ اس کا بھائی اس کے تابع ہو تو اس کو چاہیے کہ جو آپ کھاتا ے اس میں سے اس کو کھلاوے اورجو آپ پہنتا ہے اس میں سے اس کو پہناوے اور ان سے ایسی تکلیف کے کام جو ان کو تھکا دیں نہ لے اور اگر ایسی تکلیف کا کام ان کو دیا جاوے جو ان کو تھکا دے گا تو خود ان کی مدد کرے‘‘۔ اس حکم کا لوگوں کے دلوں پر اس قدر اثر ہوا کہ تمام شخص اس زمانے میں اپنے غلاموں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ اس حدیث میں بوجہ اسلام کے بھائی ہونے کا ذکر نہیں ہے اورآیت قرآن مجید میں جو اوپر مذکور ہوئی بوجہ اسلام بھائی ہونے کا ذکر ہے۔ اس لیے اسلام سے غلامی ساقط ہونے پر گاڈ فری ھگنز صاحب نے استدلال کیا ہے ۔ (سید احمد ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو ویسا ہی کپڑا پہناتے تھے جیسا کہ خود پہنتے تھے اور ایک خوا ن میں اپنے ساتھ کھانا ان کو کھلاتے تھے جو آپ کھاتے تھے اور جب سفر میں جاتے تو غلام کو اپنے ساتھ اونٹ پر بٹھاتے تھے اوراگر ایک کو نکیل پکڑ کر چلنے کی ضرورت ہوتی تو باری باری سوار ہوتے تھے اورباری باری سے نکیل پکڑ کر پیادہ پا چلتے تھے۔ خلیفہ عمر عین اپنی خلافت کے عروج کے زمانے میں (خواہ ان کے عالی مرتبہ کو پیغمبر کا جانشین ہونے کی وجہ سے خیال کرو خواہ ایک ایسی سلطنت کا بادشاہ تصور کرنے سے جو دنیا میں سب سے زیادہ وسیع اور باعظمت تھی) اپنی باری میں اس اونٹ کی مہار پکڑ کر جس پر ان کا غلام باری میں سوار ہوتا تھا عرب کے جلتے ہوئے ریگستان اور جھلستی ہوئی گرم ہوا میں نہایت خوشی اور فخر آمیز خیالات اورنیکی سے بھرے ہوئے دل سے پیادہ پا اونٹ کو گھسیٹتے ہوئے چلنا کمال خوشی سمجھتے تھے۔ فاطمہ پیغمبر کی بیٹی اپنی لونڈی کے ساتھ بیٹھ کر چکی پیستی تھیں کبھی ان کا دست مبارک ہتھے کو نیچے سے تھامتا تھا اور کبھ لانڈی کا تاکہ دونوں کو برابر محنت پڑے۔ پس اگر یہی وہ غلامی ہے جس کو سر ولیم میور حسن معاشرت کو ابتر کرنے والی بتاتے ہیں تو ہم نہیں سمجھتے کہ برابری کے حقوق میں اور کیا ہوتا ہے۔ ایسی غلامی (اگر اس کو غلامی کہہ سکو) درحقیقت حسن معاشرت کی بے انتہا خوبی اور عام اخلاق کی زاید از حد ترقی متصور ہے پس مذہب اسلام کی غلامی کو ویسٹ انڈیز کی غلامی پر جو عیسائیوں میں مروج تھی قیاس کرنا محض غلطی ہے آں حضرت صلعم نے صرف اسی بات پر بس نہیں کیا بلکہ ان کی نسبت لونڈی و غلام کے لفط کے استعمال کو بھی جس سے ان کی رقیت اور حقارت نکلتی تھی منع فرمایا اور نہایت شائستہ و مہذب و شفقت آمیز الفاظ سے مخاطب کرنے کی ہدایت فرمائی۔ یعنی یہ فرمایا کہ ’’ان کو لڑکا‘‘ اور ’’لڑکی‘‘ کہہ کر پکارا کرو جس کو بگاڑ کر ہندوستان کے ناخدا ترسوں نے ’’چھوکرا‘‘ اور ’’چھوکری‘‘ بہ معنی لونڈی و غلام کہنا شروع کیا ہے ۔ مسلم کی اس حدیث کے لفظوں کو دیکھو اور سمجھو کہ تمہارے پیشوا محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے کہ اس فرمانے کے بعد بھی ایک انسان دوسرے انسان کو اپنا غلام بنا سکتاہے ۔ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لا یقولن احد کم عبدی و امتی کلکم عبید اللہ و کل نساء کما اماء اللہ ولکن لیقل غلامی وجاریتی وفتائی دفتاتی (مسلم کتاب الالفاظ من الادب) ’’کوئی تم میں سے میرا غلام اور میری لونڈی ہرگر نہ کہے۔ تم سب خدا کے غلام ہو اور سب تمہاری عورتیں خدا کی لونڈیاں ہیں مگر یوں کہو کہ میرا بچہ اور میری بچی اور میرا لڑکا اور میری لڑکی ‘‘ علاوہ اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے آزاد کرنے پر ہمیشہ رغبت دلائی ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ کوئی کام خدا کے نزدیک غلاموں کے آزاد کرنے سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کا نہیں ہے۔ اب ہم ٹھیٹ مذہب اسلام کی رو سے غلامی کی نسبت کچھ لکھنا چاہتے ہیں ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اسلام نے آیت حریت کے نازل ہونے سے پہلے جس قدر لوگ بموجب قدیم رسم جاہلیت کے غلام ہو چکے تھے ان کی آزادی کا احساناً بلا لینے زر معاوضہ کے حکم نہیں دیا۔ وہ بدستور ان لوگوں کے ملک رہے جن کے وہ غلام ہو چکے تھے۔ اگر کوئی ناسمجھ یہ الزام مذہب اسلام پر دے کہ ان کو بھی دفعتاً آزاد کیوں نہ کر دیا تو اس ناسمجھ کے دل کو ان تمام باتوں کے جاننے سے جو ہم نے اوپر بیان کی اس قدر تو ضرو ر تسلی ہو گی کہ ان بدنصیبوں کی بھی حالت غلامی کی ترمیم اور تخفیف میں جو کچھ اسلام نے کیا وہ کچھ کم نہیںہے۔ اور ایسا بے رحم و شفقت جو اسلام نے ان کی نسبت کیا بے مچل و بے نظیر ہے اورمتعدد تدبیریں اور تاکیدیں اور ہدایتیں ان کی آزادی کی نسبت کیں اورطرح طرح سے آزاد کرنے پر ترغیبیں دلائیں ہاں بلاشبہ جو سمجھ دار اور دانش ور لوگ ہیں وہ سمجھیں گے کہ آیت حریت کے نازل ہونے سے پہلے جس قدر لوگ غلام ہو چکے تھے ان کی آزادی کا دفعتاً حکم دے دینا محالات علمی سے تھا اور غلامی کے معدوم کرنے کی اس سے بہتر کوئی تدبیر نہ تھی کہ آئندہ سے غلاموں کا ہونا بند کر دیا جائے اورپچھلے غلاموں کی آزادی اور غلامی کی حالت کی ترمیم کی تدبیر کی جاوے پس یہی کام اسلام نے کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کام کسی انسان کا نہیں ہے۔ بلکہ اسی کا ہے جس نے انسان میں حسن معاشرت کو پیدا کیاہے۔ بہ قول مسٹر ھگنز کے گو حضرت مسیح نے غلامی کو موقوف نہ کیا ہو مگر ہم نہایت خوشی اور فخر سے کہتے ہیں ہک ہمارے پیارے محمد رحمۃ اللعالمین نے غلمامی کو بالکل موقوف کر دیا۔ تمام قواعد اور قوانین غلامی کے جن کی رو سے ایک شخص دوسرے کا مملوک ہو جاتا تھا اور جو قدیم زمانے کے بت پرستوں اور اس وقت کی تمام دنیا میں بطور ایک ملکی رسم کے جاری تھی ۔ اور جن رسموں کو اس بڑے مقدس مقنن موسیٰ نے بھی بہ طور ملکی قانون کے اپنی کتاب میں داخل کیاتھا اور جن کو حضرت مسیح نے بھی نہیں توڑ ا تھا اورجن کو حضرت مسیح کے حواریوں نے بھی تسلیم کیا تھا دفعتاً منسوخ کر دیا اور تمام پرانی رسومں اورمطول قانونوں کو ایک دوسرے لفظ کے فرمانے سے کہ اما منا بعد واما فداء مٹا دیا۔ یتیمے کہ ناکردہ قرآں درست کتب خانہ چند ملت بشست صلی اللہ علیہ وسلم ۔ بابی انت و امی یا رسول اللہ۔ اس رسول مقبول ھادم الرقیۃ ناصر الانسان رحمۃ للعالمین نے اپنے مبارک ہونٹوں سے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا یہ حکم دیتا ہے کہ: فاذالقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب حتی اذا اثخنتموھم فشد الوثاق فاما بعد واما فدائ۔ (سورہ محمد آیت ۴) ’’خدا تعالیٰ کا یہ حکم دیتا ہے کہ جب تم مقابل ہو کافروں کے تو گردنیں کاٹو جب کہ تم اس پر گھمسان کر چکو تو ان کو قید کر لو۔ پھر قید کرنے کے بعد یا تو ان پر احسا ن رکھ کر یا ان سے فدیہ لے کر یعنی چھڑائی لے کر چھوڑ دو‘‘۔ اس آیت میں پایا جاتا ہے کہ کافروں کے مغلوب ہو جانے پر جو ان کے قید کرنے کا حکم ہے اس سے مقصد ان کی جان بچانا ہے اور قید رکرنے کے بعد جو حکم ان کی نسبت ہے وہ دو امر میں منحصر ہے ایک تو احسان رکھ کر چھوڑنے میں اور دوسرے ان سے چھڑائی لے کر چھوڑنے میں جب دو حکم دیے جاتے ہیں ۔ تو ان لوگوں کو جن کی نسبت یہ حکم ہیں اس قدر تو اختیار رہتاہے ۔ کہ ان دونوں میں سے جو ن سے حکم کی چاہیں تعمیل کریں۔ مگر دونوں میں سے ایک کا بجا لانا واجب ہوتا ہے ۔ ان کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ دونوں میں سے کسی کو بھی نہ کریں۔ بلکہ کوئی اورامر اختیار کریں پس قیدیوں کے ساتھ ان دونوں حکموں میں سے ایک کا عمل درآمد کرنا واجب ہے۔ ان احکام دوگانہ سے جو خدا نے دیے رقیت یعنی قیدیوں کا لونڈی و غلام بنانا بالکل نیست و نابود ہو گیا ہ۔ ہاں یہ بات ہو سکتی ہے کہ ہے کہ اگر کوئی شخص قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا چاہے تو جب تک فدیہ ادا نہ ہو اس وقت تک اس کو قید رکھے ۔ مگر وہ قیدی بدستور ایک قیدی ہو گا اور رقیت و مملوکیت کسی حالت میں اس پر طاری نہ ہو گی اورجب قیدی سے فدیہ کا ادا ہونا ناممکن ہو گا تو درحقیقت تعمیل ایک حکم کی ناممکن ہو گی اور اسی لیے پہلے حکم کی تعمیل واجب ہو گی۔ ہمار ے ہاں کے عالموں کی رائے میں اس امر کی نسبت اختلاف ہے کہ کن صورتوں میں قیدیوں کو احسان رکھ کر چھوڑنا چاہیے بعض کی یہ رائے ہے کہ ان کو صرف اس حالت میں چھوڑنا چاہیے جب کہ وہ مسلمانوں کی رعایا ہو کر مسلمانوں کے ملک میں رہنا قبول کریں اور بعضوں کی یہ رائے ہے جو بہ ظاہر معقول بھی معلوم ہوتی ہے کہ قیدیوں کو بغیر کسی شرط کے چھوڑ دینا چاہیے اور کوئی شرط ان پر نہ لگائی جاوے اور چھوٹ جانے کے بعد ان کو اختیار ہے کہ چاہیں مسلمانوں کے ملک میں رعیت ہو کر رہیں اور چاہیں اپنے خاص ملک کو چلے جاویں۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت میں احسان رکھ کر چھوڑ دینے کی حالت میں کوئی قید و شرط نہیں لگائی ہے اور اسی لیے ہمارے نزدیک پچھلی رائے ان کی پہلی رائے سے زیادہ مستند و معتبر و صحیح ہے۔ دیکھو کتابت یعنی بہ معاوضہ روپیہ کے خط آزادی لکھ دینے اور فدیہ لے کر چھوڑنے میں چنداں فرق نہیں ہے اگلے غلاموں کی نسبت جو کتابت کا حکم ہے وہ اگلے غلاموں کی آزادی کی نہایت معتبر دستاویز ہے۔ جس نالائق اور خراب اور قابل افسوس حالت سے غلامی کا رواج مسلمان ریاستوں میں (بعض عیسائی ملکوں میں بھی) ہوتا ہے ۔ اس کو دیکھ کر ہم کو کچھ کم رنج نہیں ہوتا۔ مگر ہم اس خطبہ کے پڑھنے والوں کو یقین دلاتے ہیںکہ جو شخص خود اس برتائو کرتا ہے یا اوروں کو کرنے دیتا ہے وہ ٹھیٹ اسلام کے حکم کے مطابق اور اس کے عالی اصولوں کے برخلاف عمل کرتا ہے اور وہ ضرور ایک دن اسس حقیق شہنشاہ کی ہیبت ناک عدالت میں بطور ایک گنہگار کے حاضر ہو گا۔ خواہ مکہ میں جا کر یہ کا م کرے یا مدینہ میں۔ سرولیم میور اسلام میں ایک یہ نقص بتلاتے ہیں کہ اسلام میں مذہب کے معاملہ میں آزادی رائے روک دی گئی ہے بلکہ بالکل معدوم کر دی گئی ہے۔ مگر سر ولم میور کی اس رائے کا جس میں وہ مذہب اسلام میں مذہبی رائے کی آزادی نہ ہونے کا نقص نکالتے ہیں ٹھیک ٹھیک مطلب سمجھنا نہایت مشکل ہے۔ کیوں کہ ہم نہیں جانتے کہ اسلام ایسی کون سی چیز ہے جو مذہبی معاملات میں آزادی کو روکتی اور معدوم کرتی ہے اور مذہبوں میں ایسی کون سی بات ہے جو اس آزادی کی اجازت دیتی ہے۔ یہودی جن کی کتب مقدسہ گویا مذہب اسلام کے اور مذہب عیسائی دونوں کی بنیاد ہیں یہ پکا عقیدہ رکھتے ہیں کہ توریت کا ہر ایک لفظ اس کے تاریخی مضمون کے باوجود یکہ ان کے مصنف سے بھی معلوم نہیں ہیں وحی آسمانی ہیں اور اس لیے سہو و خطا و غلطی سے بالکل مبرا ہیں اورہر ایک انسان کو بغیر ذر ا سے بھی تامل کے اور بغیر کسی حجت کے اور بغیر استعمال کرنے اپنے قوائے عقلیہ کے ان کے ھق ہونے کا اعتقاد کرنا چاہیے۔ عیسائیوں کا یہ حال ہے کہ بلحاظ اعتقاد نسبت کتب مقدسہ کے وہ دو فرقے ہو گئے ہیں ایک وہ جو یقین کرتے ہیں کہ کتاب مقدس تمام و کمال وحی من السماء ہے۔ دوسرا وہ جو صرف اس کے ایک حصہ کو وحی سمجھتا ہے جو مسائل و احکام سے متعلق ہے اور دوسرے حصے یعنی تاریخی حالات کو وحی نہیں سمجھتا۔ مگر قطع نظر اس اختلاف سے جو عیسائیوں کو کتب مقدسہ کے اعتقاد اور ان کے وحی ہونے کی نسبت ہے۔ ان کو دو بڑے بڑے مذہبی مسائل پر یقین کرنا فرض ہے جن کے سبب سے مذہبی معاملات میں آزادی رائے کامل طور سے بالکلیہ نیست و نابود ہو جاتی ہے اور اس لیے عیسائی خدا کی برگزیدہ قوم (یعنی یہود) سیبی زیادہ خراب حالت میں ہیں اوروہ دو مسئلے یہ ہیں۔ ۱۔ ایک مسئلہ توحید فی الثلیث اورتثلیث فی التوحید کا ہے۔ یہ ایک نہایت عجیب طور کا مسئلہ ہے ۔ جس کی نسبت عقل کو کام میں لانا منع ہے۔ لفظ تثلیث کا خداکے تین مقدس جسموں کے ظاہر کرنے کو حضرت عیسیٰ کی دوسری صدی تک یعنی اس وقت تک جب کہ تھیو فلس بشپ آف ایتیوک نے اس کو ایجاد کیا جاری نہیں ہوا تھا اور یہ تثلیث کا مسئلہ مذہبی کونسل یا نائسیا میں بھی جو ۳۲۵ برس بعد حضرت عیسیٰ کے ہوئی تھی اورجسم میں اپریس کے مسائل کی نسبت اعتراض کیا گیا تھا طے نہیں ہوا تھا اورکچھ اسی پر موقوف نہیں ہے۔ کیوںکہ پارسن اور اور مشہور و معروف یونانی عالموں کی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اصل عبارت متن انجیل کی جس پر خاص اس مسئلہ کا استدلال کیا جاتاہے الحاقی ہے۔ پس اگر اعتقاد کی خوبی نہیات عجیب و مشکل گو خلاف عقل مسائل پر اعتقاد لانے میں ہو تو بلاشبہ عیسائیوں کا اعتقاد بہت بڑا اعتقاد معلوم ہو گا۔ قبل اس کے کہ کوئی شخص عیسائی کہلاوے اور اس کو عیسائیوں کے حقوق خدا کی بارگاہ میں حاصل ہوں اس کو اس مسئلہ عجیب و غریب پر پکا اعتقاد لانا چاہیے۔ تمام عیسائی یہ بات کہتے ہیں کہ اگرچ یہ مسئلہ قانون قدرت اور آئین عقل کے برخلاف ہے۔ تاہم آنکھ بند کر کے اورعقل کو محض بے کار و معطل چھوڑ کر نہایت اصرار و تعصب سے اس پر اعتقاد کرنا چاہیے۔ دلیل و عقل کو اس میں دخل دینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ ۲۔ دوسرا مسئلہ فدیہ کا یعنی حضرت عیسیٰ کا تمام بنی نوع انسان کے پچھلے اور حال کے اور آئندہ کے گناہوں کے عوض صلیب پر چڑھنے اور جان دینے کا ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو قدرت اور عقل دونوں کے برخلاف ہے اوریہ مسئلہ بھی ایسا مسئلہ ہے جس سے معاملات مذہبی میں آزادی رائے بالکل معدوم ہو جاتی ہے ۔ اگرچہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مسئلہ فدیہ کا یک ایسا مسئلہ ہے جس کے سبب سے انسان اپنے اعمال کا جواب دہ نہیں رہتا اور بدی اور بداخلاقی کے دروازہ کو کھول دیتا ہے کیوں کہ جس قدر کثرت سے کوئی گناہ کرے گا اسی قدر زیادہ نجاب دینے والے کی نیکی کا ثبوت ہو گا بقول شخصے گناہ من از نامدے در شمار ترا نام کے بودے آموزگار پس جو کوئی زیادہ گناہ کرنے گا وہی شخص زیادہ رحمت کا مستحق ہو گا جو حق ایک بڑے ولی کو ہونا چاہیے۔ اس لیے سب سے بڑا گنہگار سب سے بڑ ا ولی ہو گا۔ مگر ہم ایسی رائے کو پسند نہیں کرتے اورسچے ایمان داروں کو جو وہ کسی معبود حق یا باطل پر یقین رکھتے ہوں ۔ ان کا نیکو کار ہونا لازم سمجھتے ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ فدیہ کے بعد بھی دوزخ بالکل خالی نہ ہو گی کیوں کہ عیسائی مذہب کے موافق بھی تمام کافر جو بے شمار گروہ ہیں اور جن کے بے شما ر نام ہیں سب دوزخ میں جاویں گے اوراس کے تنگ و تاریک مکانوںمیںقید رہیں گے۔ ایک مسئلہ مذہب عیسوی کا جو سر نوشت کے نام سے مشہور ہے حسن معاشرت کے حق میں ویسا ہی ہے مضرت بخش ہے اگر اس مسئلہ کا معتقد نیک طبیعت اور صاف دل ہو تو بآسانی اس کو یقین ہو جاتاہے کہ خداوند تعالیٰ نے ازل سے اس کا نام کتاب حیات میں لکھ رکھا ہے اور اسی وجہ سے وہ خیال کرتا ہے کہ اگر اس کی برائیاں اور ا س کے گناہ سمندر کے کناروں کی ریت کے برابر بھی ہو جاویں تب بھی ا س کا نام صفحہ کتاب حیات سے نہ مٹا سکیں گے اواگر وہ کم بخت تو وہ سمجھتا ہے کہ اس کا نام صفحہ کتاب حیات میں مندرج نہیں ہے اور اسلیے وہ اپنے قدرتی مزاج کے خراب میلان کو روکنے کی کچھ پرواہ نہیں کرتا اورنیکی کی طرف رجوع کرنے کو اسے کوئی ترغیب نہیں رہتی۔ مذہب اسلام کی نسبت یہ بات بڑے اطمینان اور بھروسہ سے کہی جا سکتی ہے کہ سر ولیم میور نے جو رائے اس کی نسبت لکھی ہے وہ ٹھیٹ اسلام کے بالکل برخلاف ہے۔ بلکہ مذہبی عقیدہ اور مذہبی معاملات میں جو آزادی رائے اسلام نے دی ہے وہ بے نظیر ہے اور شاید دنیا میں کوئی مذہب اس معاملہ میں اس سے فائق نہیں ہے۔ ہم اس مقام پر ایک مشہور و معروف فرانسیسی عالم یعنی ایم ڈی سینٹ ھلئیر کی رائے نقل کرتے ہیں جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہم اپنی تحریر کی تائید میں صرف اپنے ہم مذہبوں ہی کی شہادت پیش نہیںکرتے بلکہ اور مذہب اور خصوصاً عیسائی مذہب کے فیاض اوردانش مند بے تعصب معتقدوں کی بھی شہادت پیش کر سکتے ہیں۔ مصنف موصوف نے لکھا ہے کہ ’’اسلام میںکوئی بات مشتبہ یا قدرت کی باتوں سے برھ کر بطور اعجوبہ کے نہیں ہے۔ مذہب اسلام خود اس بات کے مخالف ہے کہ وہ کسی پردہ میں پوشیدہ کیا جاوے اور اگر اب تک اس میں چند شبہات موجود ہیں تو ا س کا الزام مذہب اسلام پر نہیں ہے کیونکہ وہ ابتدا ہی سے ایسا صاف اور سچا ہے جتنا کہ ہونا ممکن ہے ۔ اب مذہب اسلام کی آزادی رائے کا حال مذہبی معاملات کی نسبت غور کرو ۔ دین محمدی صلعم کی رو سے تمام مذہبی روایتوں اور حدیثوں کی نسبت ہر ایک شخص آزادانہ رائے دے سکتا ہے راویوں کی نسبت‘ روایت کے مضمون کی نسبت ‘ نہایت آزادانہ تحقیقات و تفتیش کرنے کا اور ان تمام روایتوں کااور حدیثوں کو جو اس کی آزادانہ تحقیقات اوربے تعصب رائے میں تحقیق کے بعد نامعتبر ٹھیریں نامقبول کرنے کا ہر ایک شخص کا کلیۃ اختیار حاصل ہے۔ جو روایتیں اورحدیثیں کہ غور و فکر اور تحمل سے تحقیقات کرنے کے بعد عقل اور قدرت کے برخلاف ثابت ہون یا اور کسی طرح موضوع قرار پاویں یا جو روایتیں اور حدیثیں بے سند ہوں ان سب کو رد کردنے کا کلیۃ مجاز ہے۔ مولوی شاہ عبدالعزیز صاحب نے لکھا ہے کہ:’’حدیث بے سند گوز شتر است‘‘ بہ قول ایک ایسے بڑے شخص کا ہے جس کو لوگوں نے نبی سے کچھ ہی کم مان رکھا ہے۔ قرآن مجید کی نسبت بھی جس کے ہر ایک لفظ کو مسلمان وحی سے مانتے ہیں مذہب اسلام میں جس قدر آزادی حاصل ہے کسی دوسرے مذہب میں نہیں ہے۔ ہم انے قرآن مجید کے سچ ہونے کو بھی اس کے سچ سے مانا ہے۔ ٹھیٹ مذہب اسلام کی رو سے ہر ایک شخص کو آزادی ہے کہ خود قرآن مجید کے احکام پر غور کرے ۔ کوئی شخص کسی دوسرے کی رائے اوراجتہاد اور سمجھ کا پابند نہیں ہے۔ مذہب اسلام میں ایسی قوت کسی کو نہیں ہے کہ دوسرے کو خواہ مخواہ برخلاف اس کی سمجھ کے اپنی اطاعت اور اپنے اجتہاد کی پیروی پر مجبور کرے ۔ ہر شخص آپ اپنے لیے مجتہد ہے۔ صحابہ جن کو ہم بعد پیغمبر کے بزرگ سمجھتے ہیں ان کی نسبت بھی اکابر مذہب اسلام کا یہ قول ہے کہ نحن رجال وھم رجال پس اس سے زیادہ اورکیا مذہبی معاملات میں آزادی رائے ہو سکتی ہے۔ مگر ہم یہودی اورعیسائی مذہب میں اس قسم کی آزادی رائے معاملات مذہبی نہیں دیکھتے مذہب اسلام میں یہ بھی ہدایت نہیں ہے کہ اس کا جو سب سے بڑا اصول ہے یعنی خدا کے وجود اور اس کی وحدانیت کو ماننا اور وہ بھی اندھا دھوندی کے اعتقاد اور بے مداخلت عقل اور بے سمجھے غلامانہ طور پر تسلیم کر لیا جاوے۔ کیوں کہ خود قرآن مجید ہی اس بڑے مسئلہ کو جبر و سختی و ناسمجھی سے تسلیم کرنے کو نہیں کہتابلکہ دلیلوں اور قدرتی نشانیوں سے اس کو سکھاتا ہے۔ قرآن مجید میں سب سے پہلے خدا تعالیٰ کے وجود اوراس کی وحدانیت کو تمام قدرتی چیزوں کے وجود سے ثابت کیا ہے اور اس کے بعد ا س لازوال ہستی اورہمہ راستی پر یقین کرنے کی ہدایت کی ہے۔ چنانچہ اس پاک کتاب میں لکھا ہے کہ : ومن آیاتہ ان خلقکم من تراب ثم اذا انتم بشر تنتشرون۔ ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنو الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ ان فی ذالک لایات لقوم یتفکرون۔ ومن آیاتہ خلق السموات والارض و اختلاف السنتکم والوانکم ان فی ذالک لایات للعلمین۔ ومن آیاتہ منامکم بالیل والنہار وابتغائوکم من فضلہ ان فی ذالک لایات لقوم یسمعون۔ ومن آیاتہ یریکم البرق خوفاً وطمعا و ینزل منالسماء ماء فجی بہ الالرض بعد موتھا ان فی ذالک لایات لقوم یعقلون۔ ومن آیاتہ ان تقوم السماء والارض بامرہ۔ ومن آیاتہ ان یرسل الریاح مبشرات ولیذیقکم من رحمیہ ولتجری الفلک بامرہ ۔ اللہ الذی یرسل الریاح فتثیر سحابا قیبسط فی السماء کیف یشاء و یجعلہ کسفا فتری الودق یخرج من خلالہ۔ اللہ الذی خلقکم من ضعف ثم جعل من بعد ضعف قوۃ ثم جعل من بعد قوۃ ضعفا و شیبۃ (سورہ روم ۔ الم تر ان اللہ انزل من السماء ماء فاخرجنا بہ الثمرات مختلفا الوانھا ومن الجبال جدد ببض و حمر مختلف الوانھا و غرابیب سود ومن الناس والدواب والانعام مختلف الوانہ کذالک (سورہ فاطر)۔ ان فی السموات والارض لایا ت للمومنین و فی خلقکم وما یبث من دابۃ آیات لقوم یوقنون۔ واختلاف الیل و النہار وما انزل اللہ من السماء من رزق فاحیا بہ الارض بعد موتھا و تصریف الرباح آیات لقوم یعقلون تلک آیات اللہ نتلوھا علیک بالحق فبای حدیث بعد اللہ و آیاتہ یومنون (سورہ جاثیہ)۔ ہو الذی انزل من السماء ماء فاخرجنا بہ خضرا نخرج منہ حبا متراکبا ومن النخل من طلعھا قموان دانیۃ و جناب من اعناب والزیتون والرمان متشابھا وغیر متشابہ انظروا الی ثمرہ اذا اثمرو ینعہ ان فی ذالک لایات لقوم یوقنون (سورہ انعام ) ہو الذی مد الارض و جعل فیھا رواسی وانہارا ومن کل الثمرات فیھا جعل زوجین اثنین یغشی الیل النھار ان فی ذالک لایات لقوم یتفکرون (سورہ رعد) وفی الارض قطع متجاورات و جنات من اعناب وزرع و نخیل صنوان وغیر صنوان بسقی بما واحد و نفضل بعضھا علی بعض فی الاکل ان فی ذالک لایات لقوم یعقلون (سورہ رعد) الذی جعل لکم الارض مھدو سلک لکم فیھا سبلا و انزل من السماء ماء فاخرجنا بہ ازواجا من نبات شتیٰ کلو وادعو انعامکم ان فی ذالک لایات لاولی النھی (سوہ طہ)۔ والانعام خلقھا لکم فیھا دفع و منافع و منھا تاکلون ولکم فیھا جمال حسین تریحون و حین تسرحون و تنحمل اثقالکم الی بلدلم تکونو بالغیہ الابشق الانفس (سورہ نحل) وان لکم بی الانعام لعبرۃ نسقیکم مما فی بطونھا من بین فرث ودم لبنا خالصا سائغا للشاربین (سورہ نحل) ومن آیۃ الجوار فی البحر کالا علام ان یشاء یسکن الریح فیظلن رواکد علی ظہرہ ان فی ذالک لایات لکل صبا شکور (سورہ شوریٰ) واللہ اخرجکم من بطون امھاتکم لا تعلمون شیئاً و جعل لکم السمع والابصار والافئدہ لعلکم تشکرون۔ الم یرو الی الطیر مسخرات فی جو السماء ما یمسکھن الا اللہ ان فی ذالک لایات لقوم یومنون (سورہ نحل) ’’خدا کے ہونے کی نشانیوںمیں سے ایک یہ بھی نشانی ہے کہ تم کو مٹی سے پیدا کیا کہ پھر تم چلتے پھرتے آدمی ہوئے۔ خدا کے ہونے کی نشانیوں میں سے ہے کہ تم کو پیدا کیا اورتم ہی سے تمہارے لیے جوڑا بنایا کہ اس سے تم کو چین ہو اور آپس میں تمہاری محبت و شفقت پیدا کی اسی میں ان لوگوں کے یے جو غور کرتے ہیں۔ خدا کے ہونے کی بہت سی نشانیاں ہیں ۔ خدا کے ہونے کی نشانیوں میں سے ہی آسمانوں اور زمین کا پیدا ہونا اورتمہاری نرالی نرالی بولیوں کا او ر تمہارے بھانت بھانت کے رنگوں کا ہونا ان چیزوں میںتمام دنیا کے لوگوں کے لیے خدا کے ہونے کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ خدا کے ہونے کی نشانیوں میں سے ہی تمہارا رات میں اور دن میں سور ہنا اور اسکی مہربانی سے رزق تلاش کرنا اس میں ان لوگوں کے لیے جو بات کو سنتے یعنی سمجھتے ہیں خدا کے ہونے کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ خدا کے ہونے کی نشانیوں میں سے ہے بجلی کی چمک اورکڑک کا تم کو دکھلانا جس سے تم ڈر جاتے ہو اورمینہ برسنے کے لالچ کرتے ہو اور برساتا ہے آسمان سے مینہ پھر مری ہوئی یعنی خشک زمین کو زندہ یعنی ہرا کر دیتا ہے اسی میں ان لوگوں کے لیے جو سمجھدار ہیں خدا کے ہونے کی بہت سی نشانیاں ہیں ۔ خدا کے ہونے کی نشانیوں میں سے ہے کہ اسی کے حکم سے آسمان و زمین کھڑے ہیں۔ خدا کے ہونے کی نشانیوں میںسے ہے کہ مینہ کی خوش خبری لانے والی ہوا کو چلاتاہے تاکہ اس کی رحمت کا تم مزہ چکھو وار اس کے حکم سے پانی سے کشتیاں چلیں۔ خدا وہ ہے کہ ہوا چلاتا ہے پھر وہ بادلوں کو ہانک کر لاتی ہے ۔ پھر جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتاہے اورپھر بادلوں کا دل کر دیتا ہے پھر ان میں سے بوندیں ٹپکاتا ہے ۔ خدا وہ ہے جس نے تم کو پہلے سے نہایت ہیچ و ناتواں پیدا کیا پھر تم کو ناتوانی سے قوی کیا پھر قوی سے ضعیف کر دیا اور بڑھاپے سے تمہارے بال بھی سفید کر دیے کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے رنگ برنگ کے پھل پیداکیے اورپہاڑوںمیں سفید و سرخ اور سیاہ بجھنگ تہیں نکالیں اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں او ر چوپایوں میں طرح بہ طرح کے رنگ بنائے آسمانوں میں اور زمینوں میں خدا کے ہونے پر یقین والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں اور تمہار ے پیدا کرنے میں اور جانوروں کو بہتات سے پھیلانے میں یقین والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں اور رات کے جانے اور دن کے آنے اور ان کو بڑا ہونے اور چھوٹا ہونے اور آسمان سے مینہ برسانے پھر مردہ زمین کے زندہ کرنے اور ہوا کے ادل بدل کرنے میں سمجھ دار لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو ٹھیک تجھ کو بتلاتی ہیں ۔ پھر کون سی بات ہے جس پر اللہ کی اور اس کی نشانیوں کے بعد ایمان لاویں گے۔ خداوہ ہے جو برساتا ہے آسمان سے پانی پھر پانی کے سبب ہم نے تما م اگنے والی چیزیں پائیں۔ پھر ہم نے اس سے سبز پودے نکالے جس میں سے دانوں کے گچھے نکلتے ہیں اورکھجور کے درختوں میں ان کی پھننگ میں سے پھل کے بوجھ سے زمین کو جھکے ہوئے گابھے نکلتے ہیں اور انگور او ر زیتون اور انار کے باغ ایک سے اور ایک طرح کے اگتے ہیں دیکھو اس کے پھل کو جب کہ وہ پھلے اور پکے اس میں بھی بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو ایمان والے ہیں خدا کے ہونے کی نشانیاں ہیں۔ اللہ ہے جس نے زمین کو ایسا بڑا بنایا اور اس میں پہاڑ اور دریا بنائے اور اس میں تمام پھلوں کو دو دو بنایا۔ رات سے دن کو چھپا دیتا ہے۔ اس میں بھی بے شک ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں خدا کے ہونے کی پر نشانیاں ہیں اور زمین کے مختلف ٹکڑ ے آپس میں ملے ہوئے ہیںاورانگور کے باغ ہیں‘ کھیت ہیں اور کھجور کے درخت ہیں۔ کسی کی بہت گھنی شاخیں ہیں اور کسی کی چھدری جو ایک سے پانی سیراب ہوتے ہیں اور کھانے میں ایک دوسرے سے مزے دار ہیں اس میں بھی بے شک ان لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہیں خدا کے ہونے پر نشانیاں ہیں وہ خدا ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو پنگوڑھا بنایا اور تمہارے لیے اس میں رستے جاری کیے اور آسمان سے مینہ برسایا پھر ہم نے پانی کے سبب مختلف اگنے والی چیزوں کے جوڑے نکالے‘ کھائو اور اپنے جانوروں کو چرائو اس میں بھی عقل والوں کے لیے خدا کے ہونے پر نشانیاں ہیں او رتمہارے لیے مویشی کو پیدا کیا ان میں گرم ہونے کا سامان اور بہت سے منافع ہیں اور ان ہی میں سے تم کھاتے ہو اورتم کو ان سے زیبائش ہے جب کہ شام کو چرا کر لاتے ہو اور چرانے کو لے جاتے ہو تمہارا بوجھ کسی شہر کو اٹھا کر لے جاتے ہیں جہاں تم بغیر ادھ موئے ہوئے نہ پہنچ سکتے تھے اورتمہارے لیے مویشی میں ایک بڑی نصیحت ہے ہم تم کو وہ چیز پلاتے ہیں جو ان کے پیٹ میں گوبر و لہو کے سبب بنتی ہے۔ یعنی اچھا خاصا دودھ جو پینے والوں کے حلق میں آسانی سے اتر جاتاہے اور خدا کے ہونے کی نشانیوں میں سے ہیں پہاڑوں کی مانندجہاز سمندر میں چلنے والے اگر خدا چاہے ہوا بند کر دے وہ سمندر کی پیٹھ پر ٹھہر جاویں اس میں بھی بے شک ان لوگوں کے لیے جو صابر و شاکر ہیں خدا کے ہونے پر نشانیاں ہیں اوراللہ نے تم کو تمہاری مائوں کے پیٹ سے نکالا تم کچھ نہیں جانتے تھے بنایا تمہارے لیے سننا تاکہ تم شکر کرو کی اتم پرندوں کو نہیں دیکھتے۔ جو ادھر آسمان کی وسعت میں ہیں کون ان کو تھامے ہوئے ہے بجز خدا کے اس میں بھی بے شک ان لوگوں کو جو ایمان والے ہیں خدا کے ہونے پر نشانیاں ہیں‘‘۔ اگر چند آیتوں کے مضامین کو مختصراً ایک جگہ جمع کر دیا جاوے تو معلوم ہو گا کہ کس خوبی اور فصاحت و بلاغت سے خدا کے ہونے پر قدرتی چیزوں سے استدلال کیا گیا ہے۔ دنیا کو دیکھو کہ وہ کیسی عجیب چیز ہے۔ تاروں بھرا آسمان ‘ اندھیرے کو اجالا کرنے والا سورج‘ گھٹنے بڑھنے والا۔ اندھیری رات میں چاندنی کے سے پترے بچھا دینے والا چاند۔ دریا کی موجوں میں اوربے نشان رستوں میں رستہ بنانے والے ستارے خدا کی طرح بہ طرح کی صنعتیں کھی ہوئی آنکھوں والوں خدا کے ہونے کی بڑا نشانیاں ہیں۔ یہ زمین خدا نے تمہارے لیے بنائی ا س میں ہر طرف کو جانے آنے کے رستے رکھے تم ان پر رہتے ہو اور ادھر ادھر پھرتے ہو۔ بادلوں کے بے انتہا دل اس نیلے گھیرے کے سینے میں پید اہوتے ہیں کھڑے رہتے ہیں ڈولتے پھرتے ہیں پھر غائب ہو جاتے ہیں کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں۔ یہ پہاڑوں کی صورت کے اجگر بادل روئی کیپھوئے کی طرح ہوا کے جھونکے سے اڑنے والے کے دل کے دل موسلادھار مینہ برساتے ہیں پژمردہ زمین کو سرسبز کرتے ہیں۔ گھاس اگتی ہے اونچے اونچے کھجور کے درخت پتوں کی خوش نما چھتریوں سمیٹ اگتے ہیں جن کے گرد کھجوروں کے گچھے لٹکتے ہیں کیا یہ اس پید اکرنے والے کے ہونے کی نشانیاں نہیں ہیں۔ تمہارے مویشی بھی کیا عجیب نہیں ہیں تمہارے لیے گھاس کو دودھ بنا دیتی ہے۔ ان کے اون سے تم اپنی پوشاکیںبناتے ہو ۔ دن بھر جنبل میں چرتی ہیں شام کو صف باندھ کر تمہارے گھر آتی ہیں۔ پھر ان بڑے بڑے پہاڑوں یعنی جہازوں کو دیکھو جو اپنے کپڑے کے پر پھیلائے سمندر جست کرتے ہوئے جاتے ہیں ہوا ان کو لیے پھرتی ہے۔ مگر جب خدا نے ہوا بند کر لی تو ہوہ مردہ کی طرح پڑے ہیں پھر ہل تک نہیں سکتے کیا یہ ایک کرشمہ نہیں ہے۔ تم کیا کرشمہ چاہتے ہو تم خود کیا کچھ کرشمہ نہیں ہو۔ چند برس پہلے تمہارا وجود نہ تھا۔ تم کو خد انے مٹی سے پیدا کیا۔ چھوٹے سے بڑا کیا‘ خوب صورت بنایا ‘ طاقت تم کو دی۔ خیالات کی قوت تم میں رکھی۔ تم کو ایک دوسرے پر رحم آتا ہے۔ اگر تم کو ایسا نہ بناتا تو تمہارا کیا حال ہوتا۔ پھر تمہارے بال سفید ہوتے ہیں۔ تمہاری طاقت گھٹ جاتی ہے۔ ناتواں ہو جاتے ہو ۔ پھر تمہارا وجود نہیں رہتا۔ یہ سب چیزیں اس کے بنانے والے ہونے کی نشانیاں ہیں۔ برگ درختاں سبز در نظر ہوشیار ہر ورقے دفتریست معرفت کردگار تم قرآن اسی قسم کے قدرتی مضامین سے بھر ہوا ہے جن سے اس علۃ العمل یعنی خدا کے ہونے پر استدلال کیا ہے۔ پھر خدا کی وحدانیت کی دلیلیں عام فہم طریقہ پر بیان کی ہیں اوریوں فرمایا ہے کہ: امن خلق السموات والارض وانزل لکم من السماء ماء فانبتنابہ حدایق ذات بھجۃ ماکان لکم ان تنبیتو ا شجر ھاء الہ مع اللہ بل ہم قوم یعدلون۔ آمن جعل الارض قرارا وجعل خلالھا انھارا وجعل لھارواسی وجعل بین البحرین حاجز الہ مع اللہ بل اکثرھم لا یعلمون ۔ (سورہ نمل) ’’کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اورکس نے تمہارے لیے آسمان سے مینہ برسایا ۔ پھر ہم نے اس سے فرحت بخش باغ اگائے تم ان کے درخٹ نہیں اگا سکتے تھے کیا خدا کے ساتھ کوئی اور خدا ہے مگر کافر وہ لوگ ہیں جو سیدھی راہ سے پھر جاتے ہیں۔ کس نے زمین کو ٹھیرنے کی جگہ بنایا اورکس نے اس میں دریا بنائے اور کس نے زمین کے پہاڑ بنائے اور کس نے دو سمندروں میں ایک جزیرہ بنایا ۔ کیا خدا کے ساتھ کوئی اور خداہے مگر بہت کافروں میں سے نہیں جانتے اگر آسمان و زمین میں دو خدا ہوتے تو دونوں برباد ہو جاتے‘‘۔ ہر گیا ہے از زمین روید وحدہ لا شریک لہ گوید پس امور مذہبی میں جیسی آزدی رائے اسلا م میں ہے اس سے زیادہ اور کیا ہو گی۔ یہ کہنا کہ اسلام کے نہ قبول کرنے کی لازمی سزا تلوار ہے مذہب اسلام پر من جملہ ان سخت اور جھوٹے الزاموں کے ایک الزام ہے جو غیر مذہب والوں نے ناانصافی سے اس پر کیے ہیں یا وہ مذہب اسلام سے ناواقف ہیں یا دیدہ دانستہ حق پوشی کی نظر سے باندھے ہیں۔ اسلام صرف دلی یقین اور قلبی تصدیق پر منحصر ہے اور دلی یقین جبر و زبردستی سے پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ پس کیوں کہ یہ بات خیال میں آ سکتی ہے کہ جس چیز سے وہ بات ہی پیدا نہیں ہو سکتی۔ جس کی ضرورت اسلام کے لیے ہے اس کے کرنے کو خود اسلام ہی ہدایت کرے۔ جو لوگ مذہب اسلام سے کچھ بھی واقفیت رکھتے ہیں اور خدا کے کلام کو ایک ادنیٰ توجہ سے ہی دیکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ خیال کہ اسلام زبردستی و تلوار کے زور سے قبلوایا جاتا ہے قرآن مجید کے صاف اور روشن حکم کے بالکل خلاف ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے : لا اکراہ فی الدین قدتبین الرشد من الغی فمن یکفر بالطاغوت ویومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی لا انفصام لھا واللہ سمیع العلیم ۔ (سورہ بقر آیت ۲۵۷)۔ ولو شاء ربک لامن من فی الارض کلہم جمیعا افانت تکرہ الناس حتیٰ یکونوا مومنین وما کان لنفس ان تومن الا باذن اللہ ویجعل الرجس علی الذین لا یعقلون (سورۃ یونس آیت ۹۹و۱۰۰) ’’دین پر لانے میں کچھ دبائو ڈالنا نہیں ہے کیوں کہ سیدھی راہ یعنی اسلام گمراہی یعنی کفر سے علانیہ کھل گئی ہے پر جو کوئی بتوں کا منکر ہو اور اللہ پر ایمان لائے تو بے شک اس نے نہایت مضبوط کنگورہ پکڑ لیا ہے جو ٹوٹنے اور قابل نہیں ہے اور اللہ سننے والااور جاننے والا ہے ‘‘۔ ایک اور جگہ خدا نے فرمایا ہے کہ : ’’اگر چاہتا اللہ تیرا پروردگار تو سب جب زمین میں ہیں اکٹھے ایمان لے آتے پھر کیا تو دبائو ڈال سکتا ہے لوگوں پر تاکہ مسلمان ہو جاویں (یعنی دبائو سے کوئی مسلمان نہیں ہوتا) کسی شخص کو یہ بات ممکن نہیں ہے کہ بغیر حکم اللہ کے ایمان لاوے اوراللہ ان لوگوں پر ناپاکی ڈالتا ہے جو نہیں سمجھتے ‘‘۔ جس اصول پر کہ حضرت موسیٰ نے کافروں پر تلوار کھینچی تھی اوریہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک خدا کے حکم سے وہ تلوار کھینچی گئی تھی کہ تمام کافروں اور بت پرستوں کوبغیر کسی استثنا کے قتل و غارت و نیست و نابود کر دیں۔ اس اصول پر مذہب اسلام نے کبھی تلوار کو میان سے نہیں نکالا ۔ اس نے کبھی تمام کافروں اور بت پرستوں کے نیست و نابود کرنے کا یا کسی کو تلوار کی دھار سے مجبور کر کے کا یا کسی اور کو تلوار کی دھار سے مجبور کر کے اسلام قبلوانے کا ارادہ نہیں کیا۔ ہاں بلاشبہ اسلام نے بھی تلوار کو نکالا مگر دوسرے مقصد سے یعنی خدا پرستوں کے امن اور اسس کی جان و مال کی حفاظت اور ان کو خدا پرستی کا موقع ملنے کو اور یہ ایک ایسا منصفانہ اصول ہے جس پر کوئی شخص کسی قسم کا الزام نہیں لگا سکتا۔ اسلا م میں سب سے بڑا مقصد جیسا کہ اس لازوال ہستی پر خود یقین لانا ہے ویسا ہی اس کے وجود اور اس کی وحدانیت کا علی العموم مشتہر کرنا ہے شروع اسلام کے زمانے کے مسلمانوں پر بڑا فرض تھا۔ اور حال کے مسلمانوں پر بھی بہ قدر اس حاجت اور ضرورت کے جواب میں باقی ہے فرج ہے کہ کافروں اور کافروں کے ملک جاویں اور ایسے خدائے واحد کے وجود کا یقین جو دکھائی نہیں دیتا‘ اپنے وعظ و نصیحت سے لوگوں کے دلوں میں بٹھا دیں۔ جن ملکوں میں اس مقصد کے ادا کرنے میں کوئی مانع و مزاھم نہیں ہے اس ملک پر اسلام نے تلوار نکالنے کی اجازت نہیں دی۔ مگر جب کافر خدا کے نام کی منادی کے مانع ہوں اور خدا پرستوں کو جان و مال کے امن سے نہ رہنے دیں جیسے کہ مکہ کے کافروں نے کیا اور پھر جہاں گئے وہ بھی تعاقب میں دوڑے اس وقت بلاشبہ اپنا بچائو کرنے کا اور خدا کے نام کو بلند کرنے کی غرضسے اسلام نے تلوار نکالنے کی اجازت دی ہے مگر اسی وقت جہاں ت کہ یہ مقصد حاصل ہو جاوے تاکہ مسلمانوں کو جان و مال کی حفاظت ہو اویہ ذریعہ وعظ و تلقین و پند و نصائح کے خدائے واحد ذوالجلال کا جلال لوگوں کے دل میں بٹھاویں تاکہ اسی واحد حقیقی کی پرستش دنیا میں جاری ہو ۔ مسلمان کافروں میں بہ امن و امان رہیں اور اپنے چال چلن اور عادت و عبادت اور اخلاق محمدی سے خود اپنے تئیں مجسم اسلام بناویں تاکہ کافر نور اسلام کو اس مجسم اسلام میں دیکھیں اور اسلام پر دل سے یقین لاویں۔ ہمارے اس قول کی تصدیق کہ وہ تلوار صرف اسی مقصد کے حاصل ہو۔ تک نکالی جاتی ہے نہ کافروں کے زبردستی مسلمان ہونے کے مقصد سے وہ اس با ت سے ہوتی ہے کہ بمجرد حاصل ہونے اس مقصد کے تلوار میان میں رکھ لی جاتی ہے۔ گو کہ ایک بھی کافر مسلمان نہ ہوا ہو۔ یہ مقصد یعنی یہ کہ مسلمان امن سے رہیں اور خدائے واحد کی پرستش کیا کریں اور خدا کا نام لوگوں میں بلند کریں اوراپنے چال چلن اور عادت و عبادت و اخلاق و محبت و ہمدردی سے اسلام کی مجسم صورت لوگوں کو دکھلاویں تین طرح سے حاصل ہوتا ہے یا یہ کہ ایک مذہب ہو جاوے اوروہاں کے لوگ مسلمان ہو جاویں جیسا کہ مدینہ میں ہوا۔ یا یہ کہ صلح رہے یعنی یہ کہ کفار ادائے فرض مذہبی سے معترض نہ ہوں جیسے کہ ابتدا مکہ میں تھا یا جن مسلمانوں نے حبشہ میں ہجرت کی تھی ا ن کا حال تھا یا کافر لڑائی کی حالت میں مسلمانوں کو ملک میں رہنے اور آمد و رفت کرنے اور ان کی جان و مال کی حفاظت اور ادائے فرائض مذہبی سے معترض نہ ہونے پر صلح کر لیں۔ یا یہ کہ ملک فتح اور کفار مغلوب ہوجاویں تاکہ ان کو طاقت تعرض کی مسلمانوں سے ادائے فرائض مذہبی اوراعلائے کلمۃ الہ کی نہ رہے۔ ان تینوں صورتوں میں سے کسی صورت سے مقصد حاصل ہونے کے بعد فوراً تلوار میان میں رکھ لی جاتی ہے گو کہ ایک کافر بھی مسلمان نہ ہوا ہو اور اگر پچھلے دونوں طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ میں امن قائم ہوا ہو تو کسی کو کسی کی مذہبی رسومات میں دست اندازی کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ ہر شخص کو آزادی رہتی ہے کہ بغیر اس کے کوئی شخص اس کو ایذا پہنچانے اپنے مذہب کی تمام رسومات کو ادا کرے۔ اس بیان سے ان مصنفوں کی بھی سخت غلطی صاف صاف ظاہر ہوتی ہے جنہوں نے لکھا ہے کہ ’’اسلام میں دوسرے مذہب کو آزادی سے رہنا دینا مطلق نہیں ہے‘‘ ہاں ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ مسلمان فتح مندوں میں سے بعضوں نے نہایت بے رحمی کی اوردوسرے مذہب کی آزادی کو برباد کر دیا۔ مگر مذہب اسلام کا اندازہ ان کے افعال سے نہ کرنا چاہیے بلکہ ہم کو یہ بات تحقیق کرنی چاہیے کہ آیا انہوں نے مذہب اسلام کے مطابق عمل کیا یا نہیں اوروقت ہم کو صاف یہ بات معلوم ہو جاوے گی۔ کہ ان کے افعال مذہب اسلام کے بالکل خلا ف تھے۔ مگر اسی کے ساتھ ہم کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلمان فتح مند جو اپنے مذہب کے بھی پابند تھے دوسرے مذہب کی آزادی میں خلل انداز نہ تھے اوراپنی تمام رعایا کو بہ لحاظ قوم و مذہب کے ہر رح کا امن اور آزادی بخشتے تھے تواریخ سے ہم کو بے شمار مثالیں مسلمانوں فتح مندوں کی دوسرے مذہب کو آزادی سے رکھنے کی ملتی ہیں اور ہم اس مقام پر چند راویون کو نقل کرتے ہیں جو اس باب میں عیسائی مصنفوں نے لکھی ہیں اورجن سے ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے مذہب کو آزادی سے رکھنا اسلام کی خاصیت میں سے ہے۔ چیمبرز انسائیکلو پیڈیا میں ایک عیسائی مصنف نے جس کی ذات سے بہت کم توقع ہو سکتی ہے کہ وہ اسلام کا طرف دار ہوا سپین کے علم تواریخ پر ایک آرٹیکل لکھا ہے اور اس نے اس معاملہ میں یہ لکھا ہے کہ ’’اسپین کے بنی امیہ خلفاء کی حکومت کی ایک مشہو و معروف بات بیان کے قابل ہے کیوں کہ اس سے اسپین کے ہم عصر (یعنی عیسائی) اور پچھلے مسلمان بادشاہوں کے مقابلے میں بلکہ اس انیسویںصدی کے زمانے تک ان بادشاہوں کی بڑی عمدگی پائی جاتی ہے یعنی ان کا عام طور سے دوسرے مذہب کو مذہبی معاملات میں آزادی دینا‘‘۔ گاڈ فری ھگنز صاحب نے اس معاملہ کی نسبت یہ لکھا ہے کہ ’’کوئی بات ایسی عام نہیں ہے۔ جیسا کہ عیسائی پادریوں کی زبانی مذہب اسلام کی مذمت اس وجہ سے سننے میں آتی ہے کہ اس میں تعصب زیادہ ہے اورا س میں دوسرے مذہب کو آزادی نہیں ہے۔ یہ عجیب زعم اور محض ریاکاری ہے ۔ وہ کون تھا ۔ (عیسائی) جس نے مور مسلمان باشندگان سپین کو اسپین سے بایں وجہ جلا وطن کر دیا تھا کہ وہ عیسائی مذہب قبول نہیں کرتے تھے اور وہ کون تھا (عیسائی) جس نے میکسیکو اورپیرو کے لاکھوں باشندوںکو قتل کر دیا تھا اور ان سب کو بطور غلام دے دیا تھا۔ اس وجہ سے کہ وہ عیسائی نہ تھے۔ مسلمانوں نے بہ مقابلہ اس کے یونان میں کیا کیا۔ کئی صدیوں سے عیسائی امن و امان کے ساتھ اپنی ملکیت پر قابض چلے آتے ہیں اور ان کے مذہب‘ ان کے پادریوں ان کے بشپ‘ ان کے بزرگوں‘ ان کے گرجائوں کی نسبت دست اندازی نہیں کی گئی ہے۔ جو لڑائی بالفعل (یعنی بہ زمانہ تحریر کتاب) یونانیوں اور ترکوں‘ میں ہو رہی ہے۔ وہ بہ نسبت اس لڑائی کے جو حال دیمرارا کے حبشیوں اور انگریزوں میں ہوئی تھی کچھ زیادہ مذہب کی وجہ سے نہیں ہے۔ یونانی اور حبشی اپنے فتح مندوں کی اطاعت سے آزاد ہوا چاہتے ہیں اور ان کا ایسا کرنا واجب ہے۔ جب کبھی خلیفہ فتح یاب ہوتے تھے اوروہاں کے باشندے مسلمان ہو جاتے تھے۔ تو فوراً ان کا رتبہ بالکل مختلف اور فتح مندوں کے برابر ہو جاتا تھا۔ ایک نہایت دانش مند مگر غیر معتقد عالم نے سراسین یعنی مسلمانوں کے ذکر میں بیان کیا ہے کہ ’’وہ کسی شخص کو ایذا نہیں دیتے تھے اوریہودی اور عیسائی ان میں خوش و خرم تھے‘‘۔ ’’لیکن اگرچہ معلوم ہوتا ہے کہ مور اس وجہ سے جلاوطن کیے گئے تھے کہ وہ عیسائی مذہب قبول نہیں کرتے تھے مگر مجھ کو گمان ہے کہ اس کا سبب اور ہی تھا۔ یعنی میں خیال کرتا ہوں کہ وہ اپنی دلیلوں سے عیسائیون پر اس قدر غالب آ گئے تھے کہ نادان عیسائی مانگ یعنی دین دار سمجھے جاتے تھے کہ ان کی دلیلوں کا جواب صرف مذہبی عدالت سے دینا اور تلوار سے ہو سکتاہے۔ اور مجھ کو کچھ شبہ نہیں ہے کہ جہاں تک ان کی ناقص قوت جواب دینے کے باب میں تھی وہاں تک ان کا یہ خیال صحیح تھا ۔ جن ملکوں کو خلیفہ فتح کرتے تھے وہاں کے غریب باشندے خواہ یونانی‘ ایرانی ‘ اسپین خواہ ہندو قتل نہیں کیے جاتے تھے۔ جیسا کہ عیسائیوں نے بیان کیا ہے بلکہ فتح ہوتے ہی وہ سب بہ امن و امان اپنی ملکیت اور اپنے مذہب پر قابض چھوڑ دیے جاتے تھے اور اس پچھلے حق کی بابت ایک محصول ۱ دیتے تھے۔جو اس قدر خفیف ہوتا ہے کہ کسی کو گراں نہیں معلوم ہوتا۔ خلفاء کی تمام تاریخ میں کوئی ایسی بات نہیںمل سکتی جو ایسی رسوائی کا باعث ہو ۔جیسے کہ (عیسائیوں میں )مذہبی عدالت سے سزا دیتا تھا ارو نہ ایک مثال بھی اس بات کی پائی جاتی ہے۔ کہ کوئی شخص اپنا مذہب نہ چھوڑنے کے سبب چلا گیا ہو نہ مجھ کو یہ یقین ہے کہ زمان امن میں صرف اس وجہ سے قتل کیا گیا ہو کہ اس نے مذہب اسلام قبول نہیں کیا اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ پچھلے مسلمان فتح مندوں نے اپنی فتوحات میں بڑی بری بے رحمیاں کی ہیں جن کا الزام عیسائی مصنفوںنے بھی جدوجہد سے مذہب اسلام پر لگایا ہے مگر یہ واجب نہیں ہے کہ درحقیقت مذہبی تعصب کے باعث لغائی کی خرابیاں زیادہ ہو گئیں۔ مگر اس باب میں مسلمان فتح مند کچھ عیسائیوں سے زیادہ بدتر نہ تھے‘‘۔ اس کے بعد مسٹر گاڈ فری ھگنز صاحب نہایت شائستہ ملکوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ مسٹر ھگنز صاحب نے یہاں غلطی کی ہے ۔ کافروں سے جو مفتوح ہو جاتے ہیں اس معاوضہ میں کہ ان کو ان کے مذہب پر چھوڑ دیا گیا ہے جزیہ نہیں لیا جاتا ۔ بلکہ اس وجہ سے مثل مسلمانوں کے بلا مژد یا قتیل مژد پر فوجی خدمت پر مجبور نہیں کیے جاتے اور گورنمنٹ کی یہ غرض قائم رکھنے حکومت اسلامی اور بحال رہنے امن و امان کے کوئی خدمت بجا نہیں لاتے ۔ بلکہ گورنمنٹ ان کے حفظ و امن کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ ان سب باتوں کے معاوضہ میں ا سے جزیہ لیا جاتا ہے اوریہ بھی لازمی نہیں ہے ۔ بلکہ خلیفہ کو بہ نظر مصلحت ملکی بالکل اختیار ہے چاہے لے چاہے نہ لے پس یہ امر سیاست مدن سے متعلق ہے نہ مذہب سے۔ مسلمانوں پر اس سے بہت زیادہ محصول ہے یعنی ہر سال چالیسواں حصہ اپنے مال کا ۔ (سید احمد) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی دوسرے مذہب کی آزادی کے باب میں شبہ کرتے ہیں اور ایک دل چسپ تقریر لکھتے ہیں کہ ’’عیسائی پادریوں کی کوشش کو اگرچہ بہ حسب ظاہر بہت بڑی وسعت دی گئی ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کچھ کام یابی نہیں ہوئی‘‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’مجھ کو اس امر کی نسبت کسی قدر شبہ ہے کہ اس شائستہ زمانہ میں بھی جیسا کہ مشہور ہے اس وقت کیا ہو اگر سلطان روم (جس طرح کہ ہمارے پادریوں نے مسٹر ڈریمنڈ نامی کو اپنے خاص مذہب کی تلقین کے لیے جنیوا بھیجا تھا) اپنے ایک نہایت عالم مفتی کو لندن میں ایک مسجد بنوانے اور قرآن کا وعظ کرنے کو بھیجے۔ مجھ کو اندیشہ ہے اور میرا یہ اندیشہ معقول وجہ پر مبنی ہے کہ اس کے سبب سے جو لوگ آگ ۸۰ میں یا حال میں بہ مقام برمنگھم مشتعل ہوئی تھی وہ پھر پادریوں کی بدولت بھڑک اٹھے اورہمارے وزیر اس کا جواب ایک ایڈمرل یعنی امیر البحر کے منہ سے دیں۔ جس کی یہ رائے ہو گی کہ قسطنطنیہ پر گولہ اندازی کرنا ممکن ہو گا‘‘۔ مگر مجھ کو مسٹر ھگنز کی رائے کے ساتھ ایک بات کا ذکر کرنا مناسب ہو گا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ لندن کی شائستگی مسٹر ھگنز کے زمانہ سے اب ترقی پر ہے ۔ جب میں لندن میں تھا تو ایک شخص مسمی ڈاکٹر پرفکٹ نے عین لندن میں ایک مکان لیا تھا اورہر اتوار کو اس مکان میں برخلاف مذہب عیساء پر لکچر دیا کرتا تھا اورجو لوگ چاہتے تھے وہاں جا کر اس کا لیکچر سنتے تھے میں بھی کئی دفعہ اس کا لیکچر سننے گیا تھا اورایک دفعہ اس نے قرآن اور اسلام پر بھی لیکچر دیا تھا ۔ اچھا لیکچر تھا مگر جو عام غلطیاں قرآن اوراسلام کے بارے میں انگریزوں میں پھیلی ہوئی ہیں وہ اس کے لیکچر میں بھی تھیں ۔ میں نے سنا کہ پادریوں نے اس کا لیکچر بند کرنے کی بڑی کوشش کی مگر پارلیمنٹ سے کچھ کامیابی نہ ہوئی۔ جان ڈبون پور ٹ نے اپنی کتاب مسمیٰ اپالوجی میں لکھا ہے کہ ’’نائیسا کی کونسل میں ایک امر واقع ہوا تھا کانسٹنٹائن نے پادریوں کی جماعت کو وہ اختیار دیا تھا کہ جس سے نہایت ہیبت ناک نتیجے پیدا ہوئے تھے جن کا خلاصہ ان چند سطروں میں موجود ہ خون ریزی اور بربادی ان احمقانہ نوجہادوں کی جو عیسائیوں نے قریب دو سو برس کے عرصہ تک ترکوں پر کیے تھے اور جس میں کئی لاکھ آدمی ہلاک ہوئے۔ قتل کرنا ان شخصوں کا جو اس عقیدہ کو نہیں مانتے تھے کہ انسان دوبارہ اصطباع ہو نا چاہیے۔ لوتھر کے پیروئوں اور رومن کیتھوللک مذہب والوں کا دریاے رائن سے لے کر انتہائے شمال تک قتل کرنا۔ وہ قتل جس کا حکم ہنری ہشتم اور اس کی بیٹی میری نے دیا۔ فرانس میں سنٹ بارتھو لومیو کا قتل ہونا۔ چالیس بر س تک اور بہت سی خون ریزیوں کا ہونا۔ فرانس کے اول کے عہد کے ہنری چہارم کے پیرس میں داخل ہونے تک۔ عدالت مذہب کے حکم سے قتل کا ہونا جو اب تک قابل نفرین ہے کیوں کہ وہ عدالت کی رائے سے ہوا تھا۔ علاوہ اس کے اور بے انتہا بدعتوں کا اور اس بیس برس کی خرابیوں کا تو کچھ ذکر ہی نہیں ہے جب کہ پوپ پوپ کے مقابلہ میں اور بشپ بشپ کے مقابلہ میں تھے۔ زہر خورانی اور قتل کی وارداتوں کا ہونا اور تیرہ چودہ پو پ کی بے رحم لوٹ اور گستاخانہ دعوٰی جو ہر قسم ے گناہ اور عیب اور بدکاری میں جو ایک نیرویا ایک گییلیگیولا سے نہایت فوق لے گئے تھے ۔ آخر کار اس خوف ناک فہرست کا خاتمہ ہونے کے لیے ایک کروڑ بیس لاکھ نئی دنیا کے باشندوں کا صلیب ہاتھ میں لے کر قتل ہونا۔ یقینا یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ ایک ایسا مکروہ اور قریبا ایک غیر منقطع سلسلہ مذہبی لڑائیوں کا چودہ سو بردس تک سوائے عیسائیوں کے اور کہیں ہرگز جاری نہیں رہا اوجن قوموں کی نسبت بت پرست ہونے کا طعن کیا جاتا تھا ان میں سے کسی قوم نے ایک قطرہ خون کا بھی مذہب دلائل کی بنا پر نہیں بہایا‘‘۔ مشہو ر و معروف مورخ مسٹر گین جو زمانہ حال کے مورخوں میں سب سے بڑا مورخ ہے او جس کی سند نہایت معتبر گنی جاتی ہے اس امر کی نسبت اپنی کتاب میں یہ لکھتا ہے کہ ’’مسلمانوں کی لڑائیوں کو ان کے پیغمبر نے مقدس قرار دیا تھا مگر آں حضرت نے جو اپنی حیات میں مختلف نصیحتیںکیں اور نظیریں قائم کیں ان سے خلیفائوں نے دوسرے مذہب کو آزادی دینے کی نصیحت پائی جس سے اسلام کے غیر معتقدوں کی مخالف رفع ہو جاوے۔ ملک عرب حضرت محمدؐ کے خدا کی عبادت گاہ اور اس کا مملوک تھا مگر وہ دنیا کی قوموں کو محبت سے اور بہت کم رشک سے دیکھتا تھا۔ بہت سے دیوتائوں کو ماننے والے اور بت پرست جو ان کو نہ مانتے تھے ۔ شرعا نیست و نابود کیے جا سکتے تھے مگر انصاف کے فرائض سے نہایت عاقلانہ تدبیر اختیار کی گئی ۔ ہندوستان کے مسلمان فتح مندوں نے بعض کام دوسرے مذہب کی آزادی کے برخلاف کرنے کے بعد اس امر تاض اور آباد ملک کے مندروں کو چھوڑ دیا ہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے معتقدوں سے بہ متانت یہ استدعا کی گئی ہے : کہ وہ حضرت محمدؐ کے الہام کو جو زیادہ تر کامل ہے قبول کریں لیکن اگر انہوں نے نہ مانا اور ایک معتدل خراج یعنی جزیہ دینا قبول کر لیا تو وہ اپنے عقیدہ میں اور مذہبی پرستش میں آزادی کے مستحق تھے‘‘۔ ایک مصنف نے اپنے ایک آرٹیکل میں جو ایسٹ اور ویسٹ اخبار میں چھپا تھا اور جس کا عنوان یہ تھا کہ ’’اسلام بطور ایک ملکی نظام کے ہے‘‘ اسلام میں آزادی مذہب کی نسبت یہ لکھا ہے کہ ’’صرف حضرت محمدؐ ہی ایسے بانی مذہب کے تھے جو ایک دنیوی بادشاہ بھی تھے اور سپاہی بھی تھے اوریہ دونوں قوتیں خاص کر اس لیے تھیں کہ تشدد اور الوالعزمی کو روکا جاوے اور الوالعزمی کی جانب وہ مائل تھے اور تلوار ان کے اختیار میں تھی اس لیے خیال ہوتا تھا کہ جب انہوں نے مذہب کو دنیوی حکومت کا وسیلہ قرار دیا اور اپنے معتقدوں کی طبیعتوں پر وہ غلطہ حاصل کیا جس کے سبب سے وہ لوگ شرح اور حق اسی بات کو سمجھتے تھے جو آ پ جاری کرنا چاہتے تھے تو چاہیے کہ ان کا مجموعہ احکام شرعی اور تمام مجموعوں سے مختلف ہو بلکہ یہ خیال ہوتا ہے کہ ان احکام انصاف سے بھی مختلف ہو جو ہر ایک انسان کی طبیعت میں پڑے ہوئے ہیں اب اگر ہم یہ بات دیکھیں کہ آں حضرت کے احکام کا مجموعہ ایسا نہیں ہے کہ آں حضرت کے احکام کا مجموعہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے برخلاف یہ دیکھیں کہ حضرت محمدؐ نے قومی معاملات میں حق رسانی اور فتح کرنے میں رحم اور حکمرانی کرنے میں اعتدال اور سب سے مقدم دوسرے مذہب کی عدم مزاحمت کے احکام قرار دیے ہیں تو ہم کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ آں حضرت اپنے ہم جنسوں میں ایسی ہی تعظیم کا استحقاق رکھتے ہیں‘‘۔ پھر اسی مصنف نے اسی آرٹیکل میں دوسرے مقا م پر لکھا ہے کہ ’’اسلام نے کسی مذہب کے مسائل میں دست اندازی نہیں کی کسی کو ایذا نہیں پہنچائی کوئی مذہبی عدالت خلاف مذہب والوں کو سزا دینے کے لیے قائم نہیں کی اورکبھی اسلام نے لوگوں کے مذہب کو یہ جبر تبدیل کرنے کا قصد نہیں کیا۔ ہاں اس نے اپنے مسائل کا جاری ہونا چاہا مگر اس کو جبرا جاری نہیں کیا۔ اسلام قبول کرنے سے لوگوں کو فتح مندوں کے برابر حقوق حاصل ہوتے تھے اور مفتوحہ سلطنتیں ان شرائط سے بھی آزاد ہو جاتی تھیں جو ہر ایک فتح مند نے ابتدائے دنیا سے حضرت محمدؐ کے زمانہ تک ہمیشہ قرا ر دی تھیں‘‘۔ اسی مصنف نے لکھا ہے کہ ’’اسلام کی تاریخ میں ایک ایسی خاصیت پائی جاتیہے جو دوسرے مذہب کو غیر آزاد رکھنے کے بالکل خلاف ہے‘‘ اسلام کی تاریخ کے ہر ایک صفحہ میں اور ہر ایک ملک میں جہاں اس کو وسعت ہوئی دوسرے مذہب سے مزاحمت نہ کرنا پایا جاتا ہے یہاں تک کہ فلسطین میں ایک عیسائی شاعر لامارٹین نے ان واقعات کا جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں بارہ سو برس بعد علانیہ یہ کہا تھا کہ ’’صرف مسلمان ہی تمام روئے زمین پر ایک قوم ہیں جو دوسرے مذہب کو آزادی سے رکھتے ہیں‘‘ اور ایک انگریز سیاح سیلڈن نے مسلمانوں پر طعنہ کیا ہے کہ’’ وہ حد سے زیادہ دوسرے مذہب کو آزادی دیتے ہیں‘‘ اب دیکھو کہ یہ رائیں بہت سی بے طرف دار اور فیاض طبع عیسائی مصنفوں کی سسر ولیم میور کے بس بے سند دعوے کے کہ اسلام میں دوسرے مذہب کو آزاد رکھنے کا نام بھی نہیں ہے کیسی برخلاف ہیں۔ مضمون کا تیسرا حصہ تیسرے حصے میں ہم ان فائدوں کا بیان کرتے ہیں جو یہودی اور عیسائی مذہب کو اسلام کی بدولت حاصل ہوئی ہیں۔ مذہب یہود اور عیسائی مذہب کے شامل کرھنے کی یہ وجہ ہے کہ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ حضرت عیسیٰ نے شریعت موسوی کے کسی حکم یا مسئلہ کو تغیر و تبدل نہیں کیا بلکہ حضرت موسیٰ کی شریعت کو بدستور جاری رکھا خود حضرت عیسیٰ کے اس قول سے جو متی کی انجیل باب ۵ ورس ۱۷ میں مندرج ہے کہ ’’یہ مت خیال کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا۔ میں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پوری کرنے آیا ہوں‘‘ ہمارے قول کی تصدیق ہوتی ہے پس اس وجہ سے ضرور بالضرور یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جو فائدے یہودی مذہب نے مذہب اسلام سے اٹھائے ہیں مذہب عیسوی سے بھی لزوما وہ فائدے حاصل کیے ہیں۔ مذہب یہود بلاشبہ زبانی مخرج سے پیدا ہو ا تھا اس نے اس لازوال مسئلہ یعنی وحدانیت خدا کی تلقین اس حد تک کی جس قدر کہ نجات ابدی کے حاصل کرنے کو ضروری اور اس زمانے کے لوگوں کی سمجھ کے لائق تھی۔ مگر اس وحدانیت کو کاملیت سے اسلام نے شائع کیا جس سے مذہب یہود کا مسئلہ بھی کامل ہو گیا ۔ تین چیزوں میں وحدت کے یقین کرنے سے خدا کی وحدانیت پر کامل طور سے یقین ہو سکتا ہے۔ ۱۔ وحدت فی الذات۔ ۲۔ وحدت فی الصفات۔ ۳۔ وحدت فی العبادت۔ ۱۔ وحدت فی الذات کے یہ معنی ہیں کہ خدا کے ساتھ کوئی دوسرا شخص یا کوئی شے شریک نہیں ہے۔ وہ وحدہ لا شریک لہ ہے اور نہ کوئی شے اس کے مشابہ ہے نہ آگ نہ پانی نہ ہوا ۔ ۲۔ وحدت فی الصفات کے یہ معنی ہیں کہ جو صفتیں خدا کی ہیں وہ دوسرے میں نہیں اور نہ دوسرے میں ہو سکتی ہیں ۔ اور نہ دوسرے سے متعلق ہو سکتی ہیں۔ ۳۔ وحدت فی العبادت کے یہ معنی ہیں کہ نہ کسی دوسرے کی عبادت کرنا نہ کسی دوسرے کو عبادت کے لائق سمجھنا اور نہ وہ افعال جو خاص خدا کی عبادت کے لیے مخصوص ہوں کسی دوسرے کے لیے بجا لانا جیسے سجدہ کرنا ‘ روزہ رکھنا‘ نماز پڑھنا وغیرہ۔ ان تینوں وحدتوں میںسے پہلی دو وحدتوں کو اور تیسری وحدت کو اوسط طور پر (جو نہ ناقص تھا کیوںکہ نجات کے لیے کافی تھا اورنہ کامل طور پر تھا کیوںکہ وحدت کا پورا کمال اس زمانہ کے لوگوں کی سمجھ کے لائق نہ تھا) یہودی مذہب نے بیان کیا اورتیسری وحدت کے اخیر حصوں کو جن سے درحقیقت اس وحدت کا کما ل ہے مطلق ذکر نہیں کیا۔ اسلام نے پہلی دو وحدتوں کوبھی ’’لی کمثلہ شئی‘‘ فرما کر کامل کیا۔ پس نہ آگ جو موسیٰ نے دیکھی خدا کے اور نہ وہ آواز انی انا اللہ کی جو موسیٰ نے سنی خد اتھا اورنہ وہ نیک اور برگزیدہ شخص جس کو یہودی نے صلیب پر چڑھایا خدا ہو سکتا تھا۔ اسلام نے تیسری وحدت کو ایسے کما ل پر پہنچایا جس کے سبب ایمان والوں کے دلوں کو ایسے کمال پر پہنچایا جس کے سبب ایمان والوں کے دلوں میں بجز خدا کے اور کچھ نہیں رہا۔ جس کی تصدیق : ایاک نعبد و ایاک نستعین سے ہوتی ہے ۔ اسلام میں بھی یہی کمال ہے کہ اسی کمالیت کی وجہ سے خدا نے فرمایا: الیوم اکملت لکم دینکم واتمت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا موسیٰ کی پانچویںکتابوں میںنہ قیامت کا ذکر ہے نہ مرنے کے بعد روح کی حالت کا کچھ بیان ہے۔ نیکی کی جزا ‘ دشمن پر فتح پانا‘ عمر کا بڑھا ہونا‘ مفلسی سے نجات پانا‘ بیان ہوا ہے اورگناہ کی سزا‘ مرنا‘ قحط پڑنا ‘ وبا کا ہونا ‘ مفلسی کا ہونا اور اسی قسم کی اور مصیبتوں کا آنا۔موسیٰ کے بعد اور نبیوں اور پیغمبروںاورنبیوں نے ان کا کچھ کچھ ذکر کیا مگر جس تفصیل اور کاملیت سے اسلام کو بتایا جس کے لیے خدا نے گویا عمدا ً یہ کام رکھ کر چھوڑ ا تھا کسی نے نہیں کیا تھا۔ مگر جو کہ روحانی حالتوں کو یعنی گنہگاروں کی ارواحوں کی تکلیفوں کا اور نیک آدمیوںکی ارواحوں کی راحت اور خوشی کا بیان کرنا اور تصویر کھینچ دینا بجز اس کے اور کسی طرح ہو نہیں سکتا تھا کہ اس کو ایسی چیزوں اور حالتوںکے پیرایہ میں تشبیہاً بیان کیا جاوے۔ جن کو انسان اپنی اس زندگی میں اپنے حواس سے محسوس کرتے ہیں اور یہی سبب ہے کہ ان کا حال بہشت و دوزخ کے نام اور خوشی و ایذا و تکلیف اٹھانے کے مختلف طریقوں اور سامانوں سے بیان کیا گیا ہے۔ اسلام سے پہلے یہودی اور عیسائی اکثر پیغمبروں اور پاک شخصوں نے نہایت بد اخلاقی کے افعال قبیحہ منسوب کرتے تھے اگرچہ ہماری دانست میں ان تحریروں کو الہام ربانی سے کچھ تعلق نہ تھا مگر تمام یہودی اور عیسائی ان تمام تحریروں کو الہام ربانی اور ان نبیوں اور مقدس لوگوں کا ان افعال قبیحہ کا مرتکب یقین کرتے ہیں۔ اسلام نے ان معصوم نبیوں اور خدا پرست شخصوں اور پاک خصلت بزرگوں کو ان تہمتوں سے بچایا جو اتہام یہودیوں اور عیسائیوں نے ان پر لگائے تھے ان کو فتح مندی سے رفع کیا اور تمام پیغمبروں اورنبیوں اور بہت سے مقدس بزرگوں کے معصوم اور بے گناہ ہونے کا دنیا کے بہت بڑے حصے پر یقین کرا دیا۔ مسلمان عالموںنے اسلام کے اس مسئلہ پر یقین دکلانے سیکہ انبیاء و پیغمبر سب پاک و معصوم ہیں توریت بڑی غورسے پڑھا اور عیسائیوں اور یہودیوں کی تمام غلطیوں کو ظاہر کر دیا اورانہوں نے دریافت کیا کہ یہ غلطیاں کچھ تو اس سبب سے پڑی ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے توریت کی عبارت اور الفاظ کی غلط طور پر تعبیر کی اور کچھ اس سبب سے وہ غلطیاں ہوئیں کہ خود توریت کے قدیمی نسخوں میں جو کوڈیسس کہلاتے تھے اور قلمی تھے متعدد وجوہ سے غلطیاں تھیں اور پھر جن لوگوںنے مقابلہ کر کے ان کو صحیح کیا ان کی تصحیح بھی غلطیوں سے خالی نہ تھی اور سب سے بڑا سبب ان غلطیوں کا یہ ہوا کہ تاریخی واقعات جو انسانوں نے لکھے تھے اور جن میں بلا شک بہت سی غلطیاں ہیں ان کو بھی یہودیوں اور عیسائیوں نے مقدس تحریر سمجھا تھا۔ پس اگر اسلام نہ ہوتا تو ان پیغمبروں اور نبیوں اور خدا کے پاک بندوںیعنی ابراہیم اور حضرت لوط اور ان کی بیٹیوں بیویوں اور بیٹوں اور ہارون اور دائود و سلیمان کی دنیا میں ایسی ہی مٹی خراب رہتی جیسی کہ ایک بدکار آدمی کی خراب ہوتی ہے تمام دنیا کی نظروں میںویسے ہی حقیر ہوتے جیسے کہ ایسے جرموں کے مجرم حقیر ہوتے ہیں جن کو دائم الحبس کر کے کالے پانی بھیجتے ہیں یا ان کے گناہوں کی سزا کے لیے ان کو سولی پر لٹکاتے ہیں ۔ صرف یہ اسلام ہی کا احسان ہے جس نے ان تمام بزرگوں کی بزرگی دنیا میں اس حد تک پھیلائی جس کے وہ مستحق تھے۔ مضمون کا چوتھا حصہ چوتھے حصے میں ہم ان فائدوں کو بیان کرتے ہیں جو اسلام کی بدولت خاص عیسائی مذہب کو پہنچے ہیں۔ دنیا میں مذہب اسلام سے زیادہ کوئی مذہب اسلام مذہب کا دوست نہیں ہے اور اسلام نے کسی مذہب کو اس قدر فائدے نہیں پہنچائے ہیں جس قدر کہ عیسائی مذہب کو پہنچائے ہیں۔ مذہب عیسائی کی بنیاد اس نیک اور حلیم شخص سے ہے (یعنی حضرت یحییٰ پیغمبر سے ) جو خدا کا راستہ درست کرنے آیا تھا اورپھر بالکل دار و مدار اس عجیب شخص پر ہے جس کو انہوں نے اتنا بزرگ و مقدس سمجھا کہ خدا یا خدا کا بیٹا مانا (یعنی حضرت عیسیٰ پر) مذہب اسلام ہی کا یہ احسان عیسائی مذہب پر ہے کہ وہ نہایت مستقل ارادے اور نڈر دل اور نہایت استوار ثابت قدمی سے عیسائی مذہب کا طرف دار ہوا اور یہودیوں سے مقابلہ کیا اور علانیہ اور دلیرانہ اس بات کا لحاظ کیا کہ ’’جان دی باپٹسٹ‘‘ یعنی حضرت یحییٰ بلا شبہ سچے پیغمبر اور حضرت عیسیٰ بے شک عبداللہ اور کلمۃ اللہ و روح اللہ تھے پس کون سا مذہب اس بات کا دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ عیسائی مذہب کے حق میں اسلام سے زیادہ تر مفید ہے اور اس نے عیسائی مذہب کی حمایت میں اسلام سے زیادہ کوشش کی ہے جو سب سے بڑی خرابی حواریوں کے بعد عیسائی مذہب میں پیدا ہو گئی وہ تثلیث فی التوحید اور توحید فی التثلیث کا مسئلہ تھا اور یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جو اس لازوال سچ کے بھی متناقض تھا اور ان خاص نصیحتوں کے بھی برخلاف تھا۔ جو جو حضرت عیسیٰ نے فرمائی تھیں اور حواریوں نے انجیل میں لکھی ہیں۔ یہ امر اسلام کی لازوال نعمت کا باعث ہے کہ اسی نے خدا ئے واحد ذوالجلال کی پرستش کو پھر جاری کیا اوراس خالص مذہب کو پھر سرسبز کیا جس کی خاص تلقین حضرت عیسیٰ نے کی تھی۔ اسلام ہمیشہ اس زمانے کے عیسائیوں کو ان کی غلطیوں سے متنبہ کرتا تھا اور اب بھی کرتا رہتا ہے اسلام نے عیسائیوں سے اسی سچے مذہب کے قبول کرنے کی استدعا کی جس کا وعظ حضرت مسیح نے کیا تھا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے : قل یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بینناو بینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئاً بہت سے عیسائیوں کی اسلام کی روشنی سے آنکھیں کھل گئیں اور اس کی ذلیل حالت سے خبردار ہوئے جس میں وہ مبتلا تھے اورانہوںنے پھر اسی رتبہ کے حاصل کرنے کی کوشش کی جو پہلے ان کو حاصل تھا۔ یعنی انہوںنے صرف قرآن کی ہدایت سے تثلیث کے عقیدہ کو غلط سمجھا اور خدا کو وحدہ لا شریک لہ اور عیسیٰ کو خدا کا مقدس بندہ مانا جو عین مسئلہ مذہب اسلام کا ہے چناں چہ وہ فرقہ اب موجود ہے اور نہایت معز ز لقب ’’یونیٹیرین‘‘ یعنی موحدین عیسائی سے معزز ہے اگر یہ عقیدہ تھوڑی دیر کے لیے دنیا میں سے اٹھا لیا جاوے تو مسٹر گبن کی یہ رائے عیسائیوں کے حال پر بالکل مطابق ہو جاوے گی کہ ’’اگر سینٹ پیٹر یا سینٹ پال ویٹیکن یعنی پوپ کے محل میں آ جاویں تو غالباً وہ اس دیوتا کا نام دریافت کریں گے جس کی پرستش ایسی پراسرار سومات کے ساتھ اس عظیم الشان عبادت گاہ میں کی جاتی ہے ۔ اکسفوریا جنیوا میں جا کر ان کو چنداںحیرت نہ ہو گی مگر گرجا میںجا کر سوال و جوااب کا پڑھنا اورجو کچھ صادق القول مفسروںنے ان کی تحریرات اور ان کے مالک کے کلمات کی تفسیر کی ہے۔ اس میں غور کرنا پڑے گا۔ جو فائدے اسلام نے عیسائی مذہب کو پہنچائے ہیں اس میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس نے عیسائیوں کو پوپ کے بے انتہا اختیارات ناجائز سے نجات دی اور عیسائیوں میں ایک بزرگی کی روح پھونک دی۔ تما م عیسائی پوپ کو حضرت عیسیٰ کا پور ا بااختیار نائب سمجھتے تھے اور اس کو معصوم جانتے تھے جیسے اب بھی بہت سے فرقے عیسائیوں کے سمجھتے ہیں۔ ان کا یقین تھا اور بہتوں کااب بھی یقین ہے کہ دوزخ اور اعراف او ر بہشت کے دروازوں کے کھولنے کا پوپ کو بالکل اختیار ہے۔ پوپ گنہگاروں کے گناہوں کے بخش دینے کا دعویٰ کرتا ہے پوپ کو پورا اختیار تھا کہ جس ناجائز چیز کو چاہے جائز کر دے۔درحقیقت پوپ بہ لحاظ ان اختیارات کے جو اس کو حاسل تھے اور جن اختیاروں کو وہ کام میں لاتا تھا کسی طرح حضرت عیسیٰ سے کم نہ تھا بلکہ دو چار قدم آگے بڑھا ہو ا تھا۔ قرآن ہی نے عیسائیوں کو اس خرابی سے مطلع کیا تھا اور جو برائیاں اس سے پیدا ہوتی تھیں ان کو بتلایا اور ان کو سمجھایا کہ اس رسوائی اور بے عقلی کی اطاعت کو چھوڑیں اور خود آپ اپنے لیے سچ کی جستجو کریں۔ چنانچہ خدا نے قرآن مجید میں فرمایا: قل یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللہ (آل عمران آیت ۵۷) ’’اے کتاب والو یعنی عیسائیو آئو ایک بات کم ہم میں اور تم میں یکساں ہے اوروہ بات یہ ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کو نہ پوجیں اور نہ ہم کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک کریں‘ (یعنی پوپوں اور بڑے بڑے پادریوں کو) پروردگار خدا کے سوا‘‘۔ اور پھر دوسری جگہ فرمایا کہ: اتخذوا احبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ والمسیح ابن مریم وما امروا الا لیعبدوا الھا واحدا لا الا ھو سبحانہ عما یشرکون۔ (سورۃ توبہ آیت ۳۱) ’’عیسائیوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو پروردگار بنا لیا خدا کے سوا اور مسیح ابن مریم کو بھی اور ان کو سوائے اس کے اور کچھ حکم نہیں دیا گیا تھا کہ خدائے واحد کی عبادت کریں کہ صرف وہی خداہے اور نہ اور کوئی ۔ خدا پاک ہے اس چیز سے کہ شریک کرتے ہیں‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ جارج سیل نے قرآن کے ترجمہ (جلد ۱ صفحہ ۲۳) میں لکھا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں پر بت پرستی اور دیگر الزاموںکے سوا حضرت محمدؐ نے یہ الزام لگایا ہے کہ وہ اپنے قیسوں اور رھبانوں کی حد سے زیادہ اطاعت کرتے ہیں جنھوں نے اس بات کا قرار دینا کہ کون سی چیز حلال ہے اور کون سی حرام اور خدا کے احکام کی تعمیل کو ملتوی کر دینا اپنے اختیار میں لیا ہے ۔ (سید احمد) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روی عن عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ قال اتبت رسول اللہ صلعم وفی عنقی صلیب من ذھب فقال لی یا عدی اطرح ھذا الوثن من عنقک فطرحتہ فلما انتھیت الیہ وھو یقراء اتخذوا احبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ حتی فرغ منھا قال فقلت لہ انا لسنا نعبد ہم قال الیس یحرمون ما احل اللہ فتحرموتہ ویحلون ما حرم اللہ فتستحلونہ قال فقلت بلی فتلک عبادتھم (معالم التنزیل) ’’جب یہ آیت نازل ہوئی تو عدی بن حاتم اس وقت عیسائی تھے آں حضرت صلعم کے پاس آئے اور ان کے گلے میں سونے کی صلیب پڑی ہوئی تھی آں حضرت نے فرمایا کہ اے عدی اس بت کو اپنے گلے سے نکال پھینک چناں چہ انہوںنے نکال ڈالی جب وہ پاس آئے تو حضرت قرآن کی یہ آیت پڑھتے تھے کہ عیسائیوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو پروردگار بنا لیا ہے خدا کے سوا جب آں حضرت پڑھ چکے تو عدی نے عرض کیا کہ ہم تو ان کی پرستش نہیں کرتے آپ نے فرمایا کہ کیا یہ نہیں ہے کہ وہ حرام کر دیتے ہیں اس چیز کو جسے خدا نے حلال کیا پھر اس کو حرام سمجھتے ہو عدی نے کہا ہاں یہ تو ہے آں حضرت نے فرمایا کہ بس یہ یہی ان کا پوجنا ہے‘‘۔ ایک مدت تک عیسائی اسلام کو عداوت سے دیکھا کیے اوراس کے ہر ایک مسئلہ سے بے سمجھے نفرت کرتے رہے مگر بعض نیک دل عیسائیوں نے کچھ تھوڑے بہت غور سے اس کو دیکھا اور کالون اور لوتھر مقد کے دل پر اس کا کچھ اثر ہوا جب کہ ان دونوں نے قرآن مجید کی اس قسم کی آیتوں کو پڑھا جس میں پوپ کو اور پادریوں کو خدا کے سوا دوسرا خدا یا جھوٹا خدا ماننے کی مذمت تھی تو وہ سمجھے اور اس سچے مسئلے نے ان کے دل پر اثر کیا اور جیسے کہ قرآن نے ہدایت کی تھی وہ سمجھے کہ ہر شخص فی الواقع آپ اپنا پوپ کی غلامی سے آزاد ہوئے او رغلامانہ اور ذلیل حالت سے جس میں وہ خود اور ان کے تمام مذہب مبتلا تھے ‘ نکل آئے اور صاف صاف اس کے خلاف وعظ کرنے کو کھڑے ہو گئے۔ جس کی بدولت ہم لاکھوں عیسائیوں کو پروٹسٹنٹ مذہب میں دیکھتے ہیں۔ اگر اسلام مذہب عیسائی کو یہ نعمت نہ بخشتا ‘ تو آج تمام دنیا کے عیسائی ایسے ہی بت پرست ہوتے جیسے کہ اب تک رومن کیتھولک فرقہ کے لوگ بت پرست ہیں اورحضرت مسیح کی مجسم مورت صلیب پر لٹکی ہوئی کے آگے سجدہ کرتے ہیں پس عیسائی مذہب پر یہ کتنا بڑا احسان اسلام کا ہے۔ جو کہ درحقیقت لوتھر مقدس نے مذہب اسلام سے یہ ہدایت پائی تھی اس لیے اس کے مخالف علانیہ اس پر یہ الزام لگاتے تھے کہ وہ دل سے مسلمان تھا تاہم اس نے اپنی کوششوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ جینی یوارڈ نے یورپ کی طرف سے جرمنی کے رفارمروں کے اور خصوصاً لوتھر مقدس کے ذمہ یہ الزام لگایا تھا کہ وہ عیسائیوںمیں مذہب اسلام کو جاری کرنے اور تمام پادریوں کو اس مذہب میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مرا کسی کی یہ رائے کہ مذہب اسلام میں اور لوتھر کے عقیدہ میں کچھ بہت فرق نہیں ہے۔ چناں چہ دونوںکو جو میل بت پرستی کے برخلاف ہے اس پر غور کرو۔ مارٹینس الفانسس اور (بقیہ حاشیہ صفحہ ۳۵۸) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو نہیں چھوڑا اور آخر کا راس عظیم الشان اصلا ح کرنے پر کامیاب ہوا۔ جو عموماً مذہب پروٹسٹنٹ یا فارمیشن کے نام سے مشہور ہے اور طبیعت انسانی کو تما م غلاموں کی بدترین غلامی سے (جو ایک مرشدانہ غلامی تھی) آزاد کر دیا۔ ہم کو یقین ہے کہ اگر لوتھر مقدس اور زندہ رہتے تو ضرور مسئلہ تثلیث کے بھی مخالف ہوتے اور اسلام کی ہدایت سے خدا کی وحدانیت کے مسئلہ کو بھی جو درحقیقت حضرت عیسیٰ نے بھی یہی مسئلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (بقیہ حاشیہ گزشتہ صفحہ) والڈس کہتا ہے کہ تیرہ نشانیاں اس بات کے ثابت کرنے کو موجود ہیں کہ اسلام میں اور لوتھر کے مذہب میں ایک رمق بھر کا بھی تفاوت نہیں ہے۔ حضرت محمدؐ نے بھی انہی باتو ں کی طرف اشارہ کیا ہے جو یہ مرتد (یعنی پیروان لوتھر) کرتے ہیں۔انہوںنے (یعنی حضر ت محمدؐ نے) روزوں کا وقت تبدیل کر دیا تھا اور یہ لوگ (یعنی پیروان لوتھر) تمام روزوں سے نفرت کرتے ہیں (ایک شخص نے اس کی تائید میں کہا تھا کہ قرآن میں بھی روزوں کی چنداں تاکید نہیںہے بلکہ بہ عوض روزہ کے غریبوں کو کھاناکھلا دینا لکھا ہے ۔ اس کی پیروی سے لوتھر نے روزوں سے نفرت کی تھی۔ بس لوتھر کا مذہب اور ااسلام کا مسئلہ درحقیقت ایک ہی تھا) انہوںنے اتوار کی جگہ جمعہ کو سبت قرار دیا اور یہ کسی تہوار کو نہیں مانتے (اسی شخص نے اس کی تائید میں کہا کہ اسلام میں درحقیقت سبت کا کوئی دن نہیں ٹھہرایا گیا وہ جمعہ کو بھی سب کام کرتے ہیں پس اس کی پیروی لوتھر نے کی تھی ) انہوںنے ولیوں کی پرستش کو رد کیا۔ اور لوتھر کے فرقہ کے لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ حضرت محمد صلعم کسی کو اصطباع نہیں دیتے تھے اورکالون بھی اس کو ضروری نہیں سمجھتا تھا ان دونوں نے طلاق کو جائز رکھا ہے وعلی ہذا القیاس (انتخاب از کوراٹر لی ریویو نمبر ۲۵۴) (سید احمد) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تلقین کیا تھا لوگوں میں پھیلاتے اورآخر نبی آخر الزمان پر یقین کرتے جس نے ایسی ایسی بڑی غلطیوں سے عیسائی مذہب کو بچایا تھا۔پس مذہب عیسوی کو ہمیشہ اسلام کا احسان مند رہنا چاہیے‘‘۔ ٭٭٭ (۵)مسلمانوں کی دینی اور مذہبی کتابیں یعنی کتاب احادیث۔ کتاب سیر۔ کتاب تفاسیر اورکتاب فقہ ’’حسبنا کتاب اللہ‘‘ جس زمانہ سے کہ خدائے محید کی توحید کے سب سے برے مجدد نے لا الہ الا اللہ کا وعظ فرمایا اس زمانہ سے تمام مسلمان خدائے پاک پیچون و بے نمون پر دلی مضبوطی اورغیر متزلزل اعتقاد اور ایمان رکھنے میں ہمیشہ اور ہر جگہ ممتاز اور سرفراز رہے ہیں اوردینی امور کی طرف سے بھی بہت بڑی توجہ کی ہے مگر جب تک کہ خلفائے بنی عباس کی خلافت کو جو بنی امیہ کے بعد ہوئی تھی۔ پوری مضبوطی نہ ہولی اس وقت تک مسلمانوں میں دنیاوی علوم و فنون کا رواج جیسا کہ چاہیے ویسا نہ ہوا۔ آٹھویں صدی عیسوی کے درمیان میں خلفائے عباسیہ کی سرپرستی سے مسلمانوں میں ہر قسم کے علم و فنون کا چرچا ہوا۔ ان کے سینہ میں علم کی محبت بھی قرآن مجید کی ترویج کے شون کی ہم سری کرنے لگی۔ عرب لوگوں کے چال چلن میں بلاشبہ ایک عجیب و غریب وصف ہے کہ ہر قسم کے علم کی دولت کو بھ اسی آسانی سے لوٹ لیا۔ جس طرح کہ انہوںنے مشرق میں بے مثل فتوحات حاصل کی تھیں۔ ان کے قلم کی فتوحات بھی ان کی تلوار کی فتوحات کی مانند معروف و مشہور لیکن ان سے بھی زیادہ دیرپا ہوئیں۔ پرانی دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ اپنی موجودہ شائستگی اور روشن دماغی میں مسلمانوں کا مرہون منت ہے۔ کیوں کہ یورپ کی مغربی حدود کے مرکز سے علم کی وہ شعائیں نمودار ہوئیں جنھوںنے خدا تعالیٰ کی کروڑ ہا مخلوق کے دلوں کو منور کیا دیا۔ ایک غیر متعصب عیسائی کا قول ہے کہ ’’اگر زیادہ تصریح سے بیان نہ کیا جاوے تو بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان نویںصدی سے تیرھویں صدی تک جاہل یورپ کے روشن دماغ معلم بنے رہے۔ عربی علم حکمت‘ علم طب‘ تاریخ طبعی‘ جغرافیہ‘ تواریخ عام ‘ صرف و نحو‘ بلاغت اور دل آویز فن شاعری میں بہ کثرت تصنیفیں عمل میں آئی ہیں اور اکثر ان میں سے تا قیام سلسلہ بنی آدم جاری رہیں گی اور اپنے مفید مطالب سے ان کو فیض بخشیں گی‘‘۔ مگر حال کے زمانے کے نکتہ چینوں کو اگلے زمانے کے علمائے دین کی تصانیف کے عیب و ہنر جانچنے کے وقت ان تصانیف کے اصلی حالات پر خیال نہیں رہتا۔ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان مصنفوں نے وہ تصنیفیں اس زمانے میں کی تھیں جب کہ ’’علم تحقیق‘‘ کے مسلم قواعد کا عرب مٰں وجود بھی نہ تھا۔ اسی وجہ سے جس طرح کہ ان مصنفوں کے خیالات کی بلند پروازی اور ان کے استعارات کی وسعت کی کچھ روک ٹوک نہ تھی اسی طرح قواعد ترتیب اور خوش اسلوبی سے اتفاقیہ انحراف کی بھی کوئی چیز ان کی مانع اور مزاہم نہ تھی۔ یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کسی مصنف کے عیب و ہنر کی نسبت کوئی رائے قائم نہیں ہو سکتی اورنہ کسی شخص کو اس کے منشا کا ٹھیک علم ہو سکتا ہے بجز ان کے جن کو مصنف کے زمانے کے قواعد انشا پردازی اور خیالات کے ڈھنگ سے یا ان امور سے جو کسی نہ کسی طرح اس مضمون سے جس سے وہ کتاب تصنیف ہوئی ہے علاقہ رکھتے ہیں پوری واقفیت اور کامل مہارت حاصل ہو ۔ اسی عدم مہارت اور عدم واقفیت کا سبب ہے کہ غیر ملک کے محققین نے جب ہمارے مذہب کی خوبیوں پر کوئی رائے قام کرنے کا حوصلہ کیا ہے تو اس میں فاش فاش غلطیاں کی ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی امور ایسے ہیں جو کسی مصنف کی صحیح صحیح لیاقت کا اندازہ کرتے وقت دھوکے میں ڈال دیتے ہیں ۔مثلاً ایک ہی مصنف کی دو تصنیفوں میں سے ایک تو بڑا اعلیٰ درجہ رکھتی ہے اوردوسری محض بے حقیقت ہوتی ہے اورا س کا سبب دونوں تصنیفوں کے موضوع کا مختلف ہونا ہوتا ہے۔ محمد اسماعیل بخاری مسلمانوںمیں بہت بڑا عالم اور مقدس مصنف ہے۔ ایک کتا ب اس کی صحیح بخاری ہے جو بہ لحاظ اس حیثیت سے جس حیثیت سے کہ وہ تصنیف ہوئی ہے نہایت معتبر اور مستند خیا ل کی جاتی ہے گو کہ دوسری حیثیت سے وہ ویسی نہ ہو۔ دوسری کتاب ا س کی تاریخ بخاری ہے جو کچھ بھی قدر کے لائق نہیں ہے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ ان دونوں کتابوں کی تصنیف کا موضوع مختلف ہے۔ اسی طرح نام کی مشابہت بھی دھوکے میں ڈال دیتی ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ کہ یہ کتاب اسی شخص کی ہے جو ایک مشہور مصنف ہے حالانکہ وہ اس کی تصنیف نہیں ہوتی بلکہ اس کے ہم نام دوسرے شخص کی تصنیف ہوتی ہے ۔ کبھی اس طرح پر دھوکا پڑ جاتا ہے۔ کہ ایک کتاب میں اس کے مصنف نے کسی مشہور شخص کی روایتیں کثرت سے نقل کیں لوگوں نے سمجھا کہ وہی مشہور شخص اس کا مصنف ہے اوراس خیال سے اس کتاب کو اس مشہور شخص کی طرف منسوب کیا اور مستند قرار دے گیا۔ رفتہ رفتہ اس کی ایسی قدر ہو گئی جس کی وہ ہرگز مستحق نہ تھی جیسے کہ تفسیر ابن عباس کا حال ہے۔ یہ باتیں تو صرف تمہید کی تھیں جن کو ہم لکھ چکے اب ہم اس طرح متوجہ ہوتے ہیں کہ کتب مذہبی تصنیف کے فن کا نرالا ڈھنگ جو مسلمانوں نے اختیار کیا تھا سب لوگوں کے ذہن نشین ہو جاوے اور اس مقصد کے لیے مصنفین نے جو مختلف طریقے دینیات کے متعدد شعبوں مثل حدیث ‘ سیر ‘ تفسیر ‘ فقہ کی کتابوں کی تصنفی میں اختیار کیے ہیں ان کو بیان کریں۔ اس سے ہماری غرض یہ ہے کہ ہمارے مذہب کے آئندہ نکتہ چینوں کی ہدایت کے لیے ایک سیدھا راستہ بن جاوے کیوں کہ اکثر لوگوں نے جو ہماری دینیات کی کتابوں کے حالات سے ناواقف تھے ہماری کتب دینیا ت کو دیکھ کر نہایت ناسزا اور درشت کلمات کہے تھے۔ اور ان کے بعد جو لوگ گزرے ہیں انہوںنے بھی بارہا اندھوں کی طرح ان کی تقلید کی ہے۔ اول ۔ کتب حدیث جناب پیغمبر خدا اور صحابہ کرام اور نیز تابعین کے زمانہ میں حدیثوں کے قلم بند نہ ہو نے کی دو وجیں تھیں ایک یہ کہ ا س زمانے میں لوگوں کو اس کی چنداں ضرورت نہ تھی اوراگر ٹھیک اور اصلی وجہ بیان کی جاوے تو یہ تھی کہ حدیثوں کے لکھنے اور جمع کرنے کے اکثر صحابہ کرام شدید مخالف تھے اور ہمارے نزدیک انہیں صحابہ کرام کی رائے صحیح اوربہت درست تھی۔ دوسرے یہ کہ اس زمانے میں فن تصنیف عرب میں محض ایک ابتدائی حالت میں تھا اس وقت میں ایسی باتون کے لیے حافظہ بہترین مخزن خیال کیا جاتا تھا۔ ان اسباب کے ثبوت سے نبوت کے دو برس تک اور ہجرت سے دو سو برس قریب تک حدیثوں کا قلم بند ہونا عمل میں نہیں آیا تھا۔ جب حدیثوں کا لکھنا شروع ہوا تو اس وقت یہ مشکل پیش آئی کہ مختلف سببوں سے احادیث موضوعہ جو صحیح حدیثوں میں مخلوط ہو گئی تھیں۔ اس قدر زمانہ کے بعد صحیح حدیثوں کو موضوع حدیثوں سے تمیز کرنا ایک امر اہم معلوم ہوا۔ مگر باایں ہمہ بہت سے شخصوں نے جن کی استعداد اورعلم کے اعلیٰ درجے میں کسی کو کلام نہ تھا صحیح حدیثوں کو موضوع حدیثوں سے علیحدہ کرنے کا بوجھ اپنے سر پر اٹھایا اور اپے کام میں بہت کچھ کامیابی حاصل کی ۔ ان علماء نے جو محدثین کہلاتے ہیں۔ حدیثوں کے اعتبار کا اندازہ کرنے کو چند قواعد قرار دیے جن کو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں۔ اول: حدیث کے ہر ایک راوی کو جملہ راویوں کے نام جن کے ذریعے سے اس کو حدیث پہنچی ہو سلسلہ وار پیغمبر خدا تک یا جہان تک وہ جانتا ہو بتلا دینا قرار دیا۔ دوم: یہ امر ضروری قرار دیا کہ خود راوی اورنیز وہ سب لوگ جن کے ذریعے سے سلسلہ وار وہ حدیث اس تک پہنچی ہو راست گو اور معتبر ہوں۔ اگر اس سلسلہ راویوں میں سے ایک راوی بھی ایسا نہ خیال کیا جاتا تو وہ حدیث معتبر نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ سلسلہ حدیث سے خارج کر دی جاتی تھی۔ سوم: حدیثوں کے لکھنے کے وقت اس بات کو لازمی کیا تھا کہ جملہ راویوں کے نام جن تک اس حدیث کا سلسلہ پہنچتا ہے حدیث کے ساتھ لکھ دیے جاویں تاکہ اگر ان راویوں کے عام چال چلن کی بابت اور لوگوں کو کسی قسم کی آگاہی ہو تو اس سے مطلع کر دیں اور یہ بھی معلوم ہو جاوے کہ وہ راوی کس درجہ تک اعتبار کے لائق ہیں۔ چہارم: مذکورہ بالا قواعد کے سوا بعض محدثین نے اپنی تصنیفات میں حدیثوں کے درجہ اعتبار کے قلم بند کرنے کی رسم اختیار کی تھی۔ جملہ حدیثیں مختلف اوقات میں ان اصولوں پر لکھی گئی تھیں۔ رفتہ رفتہ کتب احادیث کی اس قدر کثر ت ہو گئی ہے کہ اگر سب کی سب ایک جگہ جمع کی جاویں تو ان کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر لے جانے کو اونٹوں کی ضرورت ہو۔ ان بے شمار کتب احادیث میں سے کتب مندرجہ ذیل یہ مقابلہ اوروں کے زیادہ مستند ہیں۔ (۱) صحیح بخاری ۔ (۲) صحیح مسلم (۳) ترمذی (۴) ابودائود۔ (۵) نسائی ۔ (۶) ابن ماجہ ۔ (۷) موطا اما م مالک ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ محمد اسماعیل بخاری ۱۹۴ ہجری مطابق ۸۱۰ عیسوی میں پیدا ہوئے اور ۲۵۶ ھجری مطابق ۸۷۰ عیسوی میں انتقال فرمایا ۔ مسلم ۲۰۴ ہجری مطابق ۸۱۹ عیسوی میں پیدا ہوئے اور ۲۶۱ ہجری مطابق ۸۷۵ عیسوی میں انتقال فرمایا ۔ ابو عیسیٰ محمد ترمذی ۲۰۹ ہجری مطابق ۸۲۴ عیسوی میں پیدا ہوئے اور ۲۷۹ ہجری مطابق ۸۹۲ عیسوی میں انتقال فرمایا۔ ابودائود ۲۰۲ہجری مطابق ۸۱۷ عیسوی میں پیدا ہوئے اور ۲۷۵ ہجری مطابق ۸۸۸عیسوی میں انتقال فرمایا۔ ابو عبدالرحمان احمد نسائی ۳۰۳ ہجری مطابق ۹۱۵ھ میں انتقال فرمایا۔ ابو عبداللہ محمد ابن ماجہ نے ۳۹۳ھ مطابق ۵۰۶ ء میں انتقال فرمایا۔ امام مالک ۹۵ ہجری مطابق ۷۱۳ ء میں پیداہوئے اور ۱۷۹ہجری مطابق ۷۹۵ عیسوی میں انتقال فرمایا ۔ (سید احمد )۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابو عبدالرحمان نے احمد نسائی سے پوچھا کہ تیری کتاب کی سب حدیثیں صحیح ہیں۔ تو ا سنے انکار کیا صراط المستقیم میں لکھا ہے کہ ’’از وے پر سید نہ کہ کتاب سنن توہمہ صحیح ماست گفت لا‘‘۔ ان کتب احادیث کی اورکتابوں پر ترجیح کی وجہ یہ ہے کہ ان مین وہی حدیثیں منقول ہیں جو حتی الامکان صرف معتبر اشخاص سے مروی ہوئی ہیں اور کتب احادیث میں یہ قید نہیں ہے مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس طرح کتب مذکورہ بالا میںبعض مشتبہ یا موضوع حدیثوں کے ہونے کا احتمال ہو سکتا ہے اسی طرح اور کتب حدیث میں بعض احادیث صحیح کا ہونا بھی ممکن ہے۔ مگر پہلی قسم کی کتابو ں کے استثناء کی نسبت یہ درجہ اشتباہ کا ایسا ضعیف ہے کہ علماء کو ان پر اعتقاد کامل رکھنے سے (بہ شرط یہ کہ وہ اعتقاد صرف مذہبی بنا پر نہ ہو) تاوقتیکہ ان کی تکذیب میں کوئی صریح دلیل نہ پیش ہو باز نہیں رکھتا مگر دوسی قسم کی کتابوں کی نسبت یہ اعتقاد نہیں ہے۔ جو حدیثیں کہ ان میں منقول ہیں وہ جبھی قابل اعتبار خیال کی جاتی ہیں کہ ان کی صحت کے لیے کوئی شہاد ت موجود ہو یا ان کے نامعتر ہونے کے لیے کوئی دلیل نہ ہو۔ جس زمانے میں یہ کتب حدیث زبانی روایتوں سے لکھی گئی تھیں راویوں نے اس بات کا التزام نہیں کیا کہ (اور یقینا ویسا کرنا بھی ناممکن تھا) کہ وہی الفاظ بجنسہ جو پیغمبر خدا کی زبان مبارک سے نکلے تھے بیان کریں بلکہ اپنے الفاظ میں پیغمبر خدا کا مدعا ادا کرتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو کوشش کسی حدیث کے مخصوص الفاظ کے معنی معین کرنے سے بعض احکام یا واقعات کے قائم کرنے میں کی جاوے اس میں بڑی احتیاط چاہیے کیوں کہ ہم کو اطمینان کامل نہیں ہے کہ درحقیقت جناب پیغمبر خدا نے انہیں الفاظ کو استعمال کیا تھا۔ بہت سی حدیثیں ایک ہی باب میں ایک دوسری سے مختلف ہیں۔ پس ان میں سے ایک کو صحیح مان لینا اورباقیوں کو غلط بہت مشکل کام ہے۔ اس مشکل کے حل کرنے کو عالموںنے چند قواعد وضع کیے ہیں اوران کا نام اصول علم حدیث رکھا ہے۔ ممکن ہے کہ بعض ا ن میں سے کسی خاص حالت میں اس مدعا کے انجام دینے کے لیے وضع کیے گئے ہیں قاصر ہوں۔ تمام بے ہودہ قسم کی حدیثیں مشتبہ خیال کی گئی ہیں اور ایسی حدیثیں جو مطالب قرآن مجید سے متناقض ہیں غلط قرار دینے کے لائق ہیں۔ جس طرح کہ حضرت عائشہ نے حدیث ’’سماع موتے‘‘ کی نسبت کیا تھا۔ کیوں کہ وہ حدیث قرآن مجید کے اس بیان کے بالکل مخالف تھی : وما انت یمسمع من فی القبور حضرت عائشہ کے ا س قول سے ہر ایک مسلمان واقف ہے۔ ایسے لوگ جو بہ کثرت حدیثیں بیان کرتے تھے صرف ان کے کثیر الروایت ہونے کی وجہ سے ان کی روایتوں کی صحت میں کلام ہوتا تھا۔ اورکسی شخص کی روایت کی ہوئی کوئی حدیث غلط ثابت ہو جاتی تھی ۔ تو اس کی اور تمام روایتوں کے مشتبہ ہونے کے لیے کافی ثبوت سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے راویوں کے باب میں بہت سی کتابیں اسماء رجال کی مرتب ہوئیں تاکہ معتبر اور غیر معتبر راویوں کا حال معلوم ہو جاوے۔ مجدد الدین فیروز آبادی نے جو ایک مشہور محدث اوربہت بڑا عالم ہے اپنی کتاب مسمی بہ ’’سفر السعادت‘‘ میں ترانوے مضمون شمامر کیے ہیں اوربیان کیا ہے کہ تمام حدیثیں جو ان مضمونوں میں سے کسی مضمون کے باب میں ہوں سب غیر معتبر ہیں۔ علاوہ اس کے اور بہت سے ذی لیاقت محدثین نے احادیث موضوعہ پر بحث کی ہے اور کتابیں لکھی ہیں۔ پس ان لوگوں کو جو ہمارے دین کے اصول پر رائے دینا یا ہمارے علماء نے جو واقعات سیر ان کتابوں میں لکھے ہیں ان پر یا ہمارے دین کے مختلف مسائل پر بحث کرنا چاہیں تو ان کو اپنی رائے اور خیال کی تائید میں صرف ان حدیثوں سے حوالہ دینے پر اکتفا کرنا نہیں چاہیے جن کا اوپر ذکر ہوا۔ بلکہ مثل ایک محقق کے سب سے پہلے اس ذریعہ کے صدق و صحت کی تحقیق کرنی چاہیے جہاں سے وہ حدیثیں پہنچی ہوں۔ ان ضروری اصولوں کی فراموشی یا ناواقفیت کی وجہ سے غیر ملک کے بعضے مصنفوں سے (شاید نادانستہ) جناب پیغمبر خدا کی سوانح عمر ی یا تاریخ لکھتے وقت بڑی ناانصافی کا جرم سرزد ہوا ہے علی الخصوص اس وقت جب کہ باقاعدہ اور غیر متعصبانہ تحقیق کی جائز دلیلوں کے عوض انہوں نے اپنی نالائقی سے ٹھیک تضحیک اور ہجو اختیار کی ہے۔ دوم ۔ کتب سیر مصنفین کتب احادیث نے تو یہ خیال کیا تھاکہ جس مضمون پر وہ کتابیں لکھتے ہیں اور حدیثیں جمع کرتے ہیں ان کو مذہب سے تعلق ہے۔ او ر مذہبی مسائل کی بنا برقرار پاویں گی اوران کی بنیاد پر بے انتہا مسائل اورجدید عقائد اور مناظرت مذہبی پیدا ہوں گ۔ اگر ان میں احتیاط نہ کی جاوے تو مذہب اسلام کو نقصان پہنچے گا ۔ اسی خیال سے انہوں نے راویوں کے معتبر اور غیر معتبر ہونے پر نہایت کوشش کی اور جس کو معتبر سمجھا اس کی روایت لکھی مگر اہل سیر نے سیر کی کتابیں تصنیف کرتے وقت اس کا کچھ خیال نہیں کیا ۔ کیوں کہ ان کو اس قسم کا مطلق اندیشہ تھا نہ تھا اورکبھی ان کو یہ خیال نہیں تھا۔ کہ ان کی لکھی ہوئی کتابیں کسی عقیدہ یا مذہبہ مسئلہ کی بنیاد قرار پاویں گی اور مذہبی اختلافات اور بدعات کامادہ ہوں گی۔ اس لیے انہوںنے مثل اہل حدیث کے ان مضامین کی صحت پر جو انہوں نے اس میں لکھے اور ان راویوں کے اعتبار پر جن سے وہ حالات ان کو پہنچے بہت ہی کم التفات کیا۔ ان کی تحریرات کا سب سے بڑا خزانہ زبانی روایتیں تھیں۔ جس کسی نے جو قصہ ان سے بیان کیا انہوںنے نہایت اشتیاق سے اس کو سنا اور اس قصہ کی اصلیت اور راوی کے چال چلن کی نسبت ذرا بھی تفتیش نہیں کی اورا س کو اپنی کتاب میں لکھ دیا۔ ان مصنفوں کی غرض نہ تو کسی قصہ کی تصدیق تھی اور نہ کسی روایت کی تصدیق کی تحقیق۔ بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ جو کچھ ہر ایک واقع کی نسبت مشہور اور زبان زد ہے اس کو لکھ لیں اور ایک جگہ جمع کر دیں اروان قصوں کی صحت یا لغویت کی چھان بین پڑھنے والے کی فشاں تحقیق اور رائے پر چھوڑ دیں ۔ یہ رسم بہت جلد عام ہو گئی ۔ اول اول تو راویوں کے نام لکھے گئے اور پھر رفتہ رفتہ راویوں کے نام لکھنے کو بھی متروک کر دیا ۔ ان کتابوں میں اکثر ایسی روایتیں بھی مندرج ہیں جن کے راوی مصنف کے زمانے سے بہت پہلے گزر چکے تھے اورکچھ پتا نہیں معلوم ہوتا کہ مصنف نے کس طرح پر اس روایت کو اپنی کتاب میں لکھ دیا۔ ان کتابوں میں اکثر انبیائے سابقین کے قصے بھی مندرج ہیں اور وہ وہ قصے ہیں جو ایک زمانے میں یہودیوں میں مشہور اور زبان زد تھے اور جن کی اصلیت بالکل محض تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی اور ان کا رتبہ دیو پری کے قصوں سے کچھ زیادہ نہ تھا ا سلیے مسلمانوں کے جملہ علوم میں سے وہ علم جو سب سے زیادہ غور اور تحقیق کا محتاج ہے وہ علم سیر ہے اور جس پر تمام علماء کو نہایت عمیق توجہ کرنی لازم ہے۔ پس ان کتابوں کو صرف یہ امر کہ وہ مشہور اور معروف علمائے سابقین کی تصنیفات سے ہیں اعتبار کا مستحق نہیں کرتا ہے ۔ مذہب اسلام پر نکتہ چینی کرنے والوں کو ان کے اعتبار کو بہ لحاظ اس اصول کے جس پر خود ان کے مصنفوں نے ان کو تصنیف کیا ہے ساقط سمجھنا چاہیے اور جب تک کہ ان کتابوں کی مندرجہ روایا ت کی صحت فی نفسہ نہ ثابت ہو لے اور اصول تحقیقات سے ان پر طمانیت نہ ہو لے۔ ان روایتوں کا ان کتابوں میں مندرج ہونا اعتبار کے لیے کافی نہیں ہے۔ ان وجوہ سے تاریخ محمد اسماعیل بخاری‘ تاریخ محمد جریر طبری‘ سیرت ابن سعد کاتب الواقدی۔ اور دیگر علمائے متبحر کی مشہور و معروف تحریریں جیسے مدارج النبوت قصص الانبیائ‘ معراج نامہ‘ شہادت نامہ‘ مولد نامہ وغیرہ اور اسی قسم کی کتابیں سب کی سب یکساں حالت میں ہیں۔ ہمارے جناب پیغمبر خدا کی سوانح عمری لکھنے میں اور کتب سیر کے ان حالات کو منتخب کرنے میں یورپین مصنفوں نے اس قدر متحملانہ تحقیقات کو اختیار نہیں کیا ہے ۔ جو اس مضمون کی عظمت کے شایان ہے بلکہ برخلاف اس کے ازراہ تعصب اوربغض انہوںنے دیدہ و دانستہ اس روشنی سے آنکھ چرائی ہے جس کی شعاعیں ان کے چہر ہ پر پڑ رہی تھیں اور اس طرح پر انہوں نے اپنے حق میں اس مثل کی تصدیق کی ہے کہ ’’کوئی شخص ایسا اندھا نہیں ہے جیسے کہ وہ لوگ جو ارادتاً نہیں دیکھتے‘‘۔ سوم ۔ کتب تفسیر اکثر لئیق شخصوںنے قرآن مجید کی تفسیر لکھی ہے ۔ بعض نے اس کی بلاغت اور فصاحت آمیز کلام اورخوبصورت اور بے نظیر بیان کی تفسیر کی ہے ۔ بعض نے اس کے پڑھنے کا خاص طریقہ مع قرات اور لہجہ کے بتلایا ہے۔ بعضوںنے صرف آیات احکام کی جو قرآن مجید میں تفسیر کی ہے۔ بعض نے اپنا وقت اور اپنی محنت آیات کے شان نزول دریافت کرنے میںصرف کی ہے۔ بعض نے اپنی تفسیروں میں واعظین کے لیے دلچسپ اور عجیب و غریب اور حمقا کے خوش کرنے کے لے دلچسپ اور عجیب و غریب اور حمقا کے خوش کرنے کے لیے دور از عقل و قیاس مضامین جو یہودیوں کے ہاں مروج تھے جمع کر دیے ہیں۔ بعضوںنے ایسی تفسیریں لکھی ہیں جو ان تمام مضامین پر حاوی ہیں۔ ان مفسرین نے اپنی تفسیریں لکھنے میںکتاب سیر اور احادیث کی طرف رجوع کیا ہے جن کا بیان ہم ابھی کر چکے ہیں ۔ یہ بات نہایت افسوس کے قابل ہے کہ یہ مفسرین ان کے شمار جھٹی روایتوں اور مصنوعی قصوں کو جن کا موجود ہونا ان کتابوں میں ابھی بیان ہو چکا ہے کام میںلائے۔ بلکہ ایسی روایتیں اور حدیثیں بھی انہوںنے اپنی تفسیروں میں لکھ دیں جو صرف انہی تفسیروں میں پائی جاتی ہیں۔ حدیث کی کتابوں میں بھی جو بعض حیثیات سے درجہ اعتبار کا رکھتی ہیں اور جو صحاح ستہ یا صحاح سبعہ کے نام سے مشہور ہیں اور جن کے نام ہم لکھ آئے ہیں قرآن مجید کی تفسیر کے لیے خاص ابواب مخصوص ہیں جو کتاب التفسیر کے نام سے موسوم کیے جاتے ہیں۔ اگر ان کتابوں کے مضامین کو جو قرآن میجید کی تفسیر کے متعلق ہیں ایک جگہ جمع کیا جاوے تو معدودے چند صفحوں سے زیادہ نہ ہوں گے مگر مفسرین نے نہایت موٹی موٹی جلدیں ایسی بے ہودہ اور نامعتبر روایتوں سیبھر لی ہیں جن کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے ۔ غرض یہ کہ ایسی تفسیریں اورعلی الخصوص وہ جو واعظین کے فائدے کے لیے لکھی گئی ہیں اور جن میں خیالی بے ہودہ قصے انبیاء علیہم السلام کے بھرے ہوئے ہیں اورملائک اور بہشت اور دوزخ اور ان کے اوصاف و خواص ہیں اور ملائک اور بہشت اور دوزخ اوران کے اوصاف و خواص بیان کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اورکتب سیر سے خلاف قیاس بیانات کو پیش کرتے ہیں سراسر غیر معتبر روایات سے مملو ہیں اوروہ روایتیں صرف یہودیوں کے ہا ں جاری تھیں مگر خود مذہب یہود میں ان کے معتبر ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ ان تفسیروں میں اکثر ایسی روایتیں بھی موجود ہیں جو علمائے دین کی طرف منسوب کی گئی ہیں مگر اس امر کا تحقیق کرنا کہ وہ روایتیں در حقیقت ان عالموں کی روایتیں ہیں ایسا ہی مشکل ہے جیسے کہ اس بات کا دریافت کرنا کہ وہ روایتیں ان مفسرین تک کیوں کر پہنچیں۔ ان تفسیروں کے دو حصے جن میں قرآن شریف کی بلاغت اور فصاحت اوراس کے طرز بیان کی خوب صورتی اور ان کی قرات کے خاص لہجوں کا بیان ہے بلاشبہ نہایت عمدہ اور قابل قدر کے ہیں مگر ان حصوں کے سوا تمام روایتیں اور قصے جو ان تفسیروں میں شامل ہیں وہ ایسے نہیں ہیں کیوں کہ وہ مثل سچے اور جھوٹے موتیوں کے باہم مخلوط ہیں اوریہ کام خریدار کا ہے کہ اس میں سچے موتیوں کو منتخب کر لے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص بدوں مناسب چھان بین اورکافی تحقیقات کے کسی ایسی تفسیر کے قصوں کا حوالہ دے کر ہمارے پاک مذہب پر خورہ گیری اور عیب چینی کی بنیاد قائم کرتا ہے جیسے کہ اکثر یورپ کے مصنفوں نے کیا ہے وہ نہایت غلطی اور دھوکا میں پڑتا ہے۔ غرض یہ کہ یہ تینوں قسم کی کتابیں جن کا اوپر ذکر ہوا مذہبی امور پر لکھنے والے اور بحث کرنے والے کے لیے نہایت بیش بہا اور نہایت بے قدر مادہ کو آن واحد میں جمع کرتی ہیں علمائے محققین اسلام نے بہت سے طریقے اختیار کیے ہیں جن کے وسیلہ سے وہ اس مخلوط مادہ سے معتدبہ فائدہ اٹھاتے ہیں مگر یورپ کے مصنفین اس سے محروم ہیں۔ اکثر عالم ایسے گزرے ہیں جو خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ میں اپنی نیک دلی سے نہایت سچا اور مضبوط اعتقاد رکھتے ہیں ۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو اپنی قدرت کامہ سے ہر ایک امر کرنے کا پورا اختیار ہے گو وہ کام عقل اور قوانین فطرت کی رو سے کیسے ہی متناقض کیوں نہ ہوں۔ ا س مسئلہ کا ان کو ایسا دلی اعتقاد ہے کہ جو کوشش ان کے اس اعتقا د کے سست اور متزلزل کرنے میں کی جاوے یقینا ناکام ہو گی۔ وہ ہر حجت اوردلیل کے سننے سے یا اس پر ذر ا بھی غور کرنے سے جو ان کے دل نشین عقیدہ کے مخالف ہو ضد سے انکار کیے جاویں گے۔ ایسے سادہ مزاج اور صاف باطن آدمیوں کو بہشتی آدمیوں کا لقب دیا گیا ہے : کما قیل اھل الجنۃ بلہ ان مقدس اور بزرگوار لوگوں نے اپنی تصنیفات میں یہ اختیار کیا رکھاہے کہ بلا کسی تمیز کے جملہ روایتوں کو معتبر خیال کرتے ہیں اور ہر واقع کو جو اس میں مندرج ہے ۔ صحیح سمجھتے ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی روایت مختلف صورتوں میں ان کے پاس پہنچے یا ایک ہی واقعہ کی نسبت متعدد روایتیں جو آپس میں متناقض ہوں ان تک پہنچیں تو وہ ان کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ واقعہ متعدد دفعہ اور متعدد صورتوں میں واقع ہو گا جن کا الگ الگ بیان ہر ایک روایت میں ہے۔ پس ایسے لوگوں کی تصنیفات جنھوں نے اورکامل غور و فکر کے ساتھ اس مضمون کو نہیں لکھا ہے بلکہ اندھا دھندی سے مذہبی جوش و حرارت کی بنا پر لکھ ڈالا ہے غیر ملک کے ان علماء کی نکتہ چینی کے قابل نہیں ہے جو اپنے دلائل کو ان کتابوں کی روایات مندرجہ پر مبنی کر کے ان سے ایسے نتائج مستنبط کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو مذہب اسلام کے حق میں مضر ہوں۔ اقسام مذکورہ بالا کے سوا ایک اور قسم کی کتابیں بھی ہیں جو شخص ان لوگوں کے لیے لکھی گئی تھیں جو مذہب اسلام پر بغیر کسی وسوسہ کے قوی اعتقاد رکھتے ہیں۔ یہ کتابیں اس غرض سے لکھی گئی ہیں کہ ان لوگوں کا مذہبی اعتقاد زیادہ ہو اور ان کی حرارت مذہبی زیادہ مشتعل ہو جاوے جیسی کتاب شفاء قاضی عیاض ہے جس کی سند پر ہم اسی کتاب سے عبارت پیش کرتے ہیں: قال القاضی ابو الفضل حسب التعامل ان یحقق ان کتابنا ھذالم نجمعہ لمنکر نبوۃ نبینا ولا لطاعن فی معجزاتہ فنحتاج الی نصیب البراھین علیھا و تحصین حوزتھا حتی لا تتوصل المطاعن الیھا و نذکر شروط المعجزۃ والتحدی وحدہ وفساد قول من ابطل نسخ الشرایع وردہ بل الفناہ لا ھل ملۃ الملبین لدعوتہ والصقین لنبوۃ لیکون تاکیداً فی محبتھم ومنماۃ لا عمالھم ولیزدا دوایناناً مع ایمانھم ان مصنفین نے اپنی تصنیفات اور واقعات کا ذکر بلاتمیزان کی صحت اور عدم صحت کے اور بدون کوشش ان واقعات کے اصلی معنی دریافت کرنے کے کیا ہے۔ پس اگرکوئی محقق نکتہ چین اپنی دلیل کو کسی جھوٹی روایت پر جو ایسی کتاب میں منقول ہوں مبنی کرتاہے تو وہ ایمان داری اور راست بازی سے ہمارے مذہب کی تحقیق اور تدقیق نہیں کرتا۔ اسی قسم کے بعض بزرگوار ذی علم لوگوں نے جو اسی قسم کا عقیدہ رکھتے ہیں اپنی تصنیف کے دائرہ کو اور بھی وسیع کر دیا ہے ۔ وہ ہر چیز کے امکان کو خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی طرف منسوب کر کے اس بنا پر ہر ایک واقعہ کو صحیح خیال کرتے ہیں اور اس کے وقوع کے امکان کو منطقی دلیلوں سے تائید کرکے اپنے مذہب کے مخالف عیب چینوں کو جواب باصواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کتابیں درحقیقت ایسی مصرع اورمدلل لکھی گئی ہیں کہ کوئی شخص جو کسی کو مانتا ہو اور مذہبی معجزات کا قائل ہو کسی عقیدہ مندرجہ کتب مذکور پر بدون اس کے کہ اپنے مذہب کو بھی ویسے ہی الزامات اور اعتراضات کا مورد بناوے حرف گیری نہیں کر سکتا۔ لیکن اس شخص کے نزدیک جو قوانین قدرت کے برخلاف کسی امر کے ہونے پر اعتقاد نہیں رکھتا اور وحی اور الہام کو بھی نہیں مانتا ان کتابوں کی دلیلیں جن کی نصف کی بناء مذہب کے اوپر ہے اس آدمی کی مانند ہیںجس کی صرف ایک ٹانگ ہو اور چلنے پھرنے سے عاری ہو۔ ان علماء نے جو اوروں کی نسبت زیادہ ذی علم تھے اپنی تصانیف میں ایک فلسفیانہ قاعدہ اس امر کے ثابت کرنے کے لیے اختیار کیا ہے کہ مذہب علم سے مطابقت رکھتا ہے انہوںنے ہر روایت کی صحت کی تحقیق کی ہے اور ہر ایک لفظ کے معنوں پر بحث کی ہے۔ او ر بتایا ہے کہ ان الفاظ سے کیا مراد ہے ۔ شاہ ولی اللہ دھلوی رحمۃ اللہ علیہ ان علمائے فلسفی میں سب سے پچھلے خیال کیے جاتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ایسی تصنیفات جیسی کہ ان کی ہیں کچھ زیادہ مطبوع اور مروج نہ ہوئیں کچھ تو اس وجہ سے کہ ان کے مضامین عام لوگوں کے احاطہ فہم و ادراک سے باہر ہیں اور کچھ اس سبب سے کہ وہ ان بزرگورا مصنفوںکے مطبوع کی خاطر نہیں ہیں جو عقاید مذہبی پر فلسفی دلیلیںلانے پر اعتراض کرتے ہیں اور اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ مذہب کے ثبوت پر حکمت سے استمداد کی جاوے۔ پہلی قسم کے علماء کو جنھوں نے اپنے مذہب کے واسطے فلسفی دلائل پیش کرنے میں جان فشانی کی ہے۔ دوسری قسم کے علماء ان کو دین حق کا دشمن قرار دیتے ہیں اور ان کو گمراہ کہتے ہیں جس اتہام سے خود شاہ ولی اللہ صاحب بھی نہیں بچتے۔ لیکن ان کتابوں میںایک اورنقص بھی پایا جاتا ہے۔ یعنی وہ دلیلیں جو ان میں مستعمل ہوئی ہیں۔ فلسفہ قدیم کے اصول پر مبنی ہیں جن میں سے اکثر تو رواج سے ساقط یا غلط ثابت ہو گئی ہیں یا علوم جدیدہ میں مختلف طور پر بیان ہوئی ہیں۔ مگر یہ نقص صرف علمائے دین پر ہی موقوف نہیں ہے۔ بلکہ اور مذہبوں کے عالموں میں بھی جو دین کی بحث اصول فلسفہ پر کرتے ہیں موجودہے۔ اس لیے ہر مذہب و ملت کے عالموں کا جو ا سکو پاک اور بے لوث رکھنا چاہتے ہیں یہ فرض ہے کہ ان کتابوں کی جو فلسفہ قدیم کے اصول پر لکھی گئی ہیں نظر ثانی کریں اور فلسفہ جدیدہ کے اصول پر نئی کتابیں لکھیں اور اپنے مذہب کے اصول کو اصول قانون قدرت کے مطابق بحث کرنے کے قابل کریں۔ چہارم۔ کتب فقہ جب کہ حدیثوں کا یہ حال تھا جو ہم نے اوپر بیان یا تو ان لوگوں کا کام جنھوں نے احکام شرعی کو مستنبط کرنا چاہا نہایت ہی مشکل تھا اورجب کہ کتب حدیث لکھی جا چکیں اس وقت یہ کام اور بھی زیادہ مشکل ہو گیا۔ جو عالم کہ سب سے زیادہ لائق تھا اس نے صرف قرآن مجید کو اپنا رہنما سمجھا جس کی صحت و صداقت علی العموم مسلم تھی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ جناب پیغمبر خدا کے زمانے میں قرآن مجید جیسا کہ بالفعل موجود ہے تمام و کمال یک جا لکھا ہو ا نہ تھا بلکہ وہ علیحدہ علیحدہ حصوں میںلکھا ہوا تھا اورکچھ آیتیںایسی تھیںجو صرف لوگوں کو یاد تھیں اور بعض آدمی ایسے بھی تھے جن کو تمام و کمال حفظ تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں ان لوگوں نے ان تمام متفرق حصوں کو ایک جگہ جمع کیا جس طرح کہ اب موجودہ حالت قرآن مجید کی ہے اوران تمام لوگوں نے جنھوں نے اس کو خود پیغمبر خدا کی زبانی سنا تھا اس مجموع کی صحت اور درستی کو تسلیم کیا ۔ (سید احمد)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑ ے بڑے عالموںنے جو مجتہدہو جاتے ہیں قرآن اور احادیث کو جو دسیاب ہوئیں (اور کچھ شک نہیں جو افادہ ظن سے زیادہ اور کوئی بات ان سے حاصل نہیں ہوتی تھی) احکام شرع کے لیے ماخذ قرار دیا ۔ او ل قرآن مجید کو اور بعد اس کے ان حدیثوں کو جن کی صحت پر ان لوگوں کو یقینتھا۔ جنھوں نے ان کو جمع کیا تھا درجہ دیا جاتاتھا اس کے بعد صحابہ کے اقوال اور کاموں کو اور بعض عالم تابعین کے اقوال اور کاموں کو بھی اس کام کے لیے فائدہ مند خیال کرتے تھے۔ جو لوگ کہ اس کام پر متوجہ ہوئے مجتہد اور فقیہ ان کا لقب تھا۔ اکثر ایسی صورتوں پر فقہائے اسلام کے سامنے پیش کی گئیں یا درحقیقت واقع ہوئیں جو قرآن مجید یا احادیث میں نہیں پائی گئیں اوراسی وجہ سے بادی النظر میں کوئی قطعہ فیصلہ ان صورتوں کا قرآن مجید یا کتب حدیث میں نہیںپایا جاتا ۔ اس مجبوری کی حالت میں فقہائے اسلام نے قرآن مجید اور احادیث میں ایسے اصول کی تلاش کی جو ان صورتوں پر حاوی ہوں اور خوش قسمتی سے وہ اس میں کامیاب ہوئے اور الفاظ کے استعمال اور طرز بیان سے اور ایک حکم کے مطابق جو کسی واقعہ میں ہوا تھا اس کے مشابہ ایک دوسرے واقعہ پر قیاس کرنے سے اس مطلب کو حاصل کیا۔ ان علماء نے بعض اوقات قرآن مجید کے ایسے حکم کو جو کسی صورت سے خاص متعلق تھا عام ٹھہرایا اورکبھی قرآن مجید کے ایسے حکم میں جو ظاہر میں عام ہوتا ہے مستثنیات قائم کیے۔ انہیں علماء نے بعض ایسے اصول و قواعد منضبط کیے جن پر عمل کرنے سے عجیب و غریب مقدمات میں بھی قرآن مجید اور حدیث سے احکام مستخرج ہو سکیں اوریہ ایک نئی شاخ علم دین کی علوم دینیہ میں قائم ہو گئی جو بنام اصول فقہ موسوم ہے اسی بنیاد پر انسان کے تمام افعال کی نسبت احکام استخراج کیے گئے اوراس میں کتابیں لکھی گئیں جو کتب فقہ کہلاتی ہیں۔ ان کتابوں میںسب سے پچھلی کتاب جو فرقہ حنفیہ کے اصول پر لکھی گئی وہ فتاویٰ عالم گیری ہے جو شہنشاہ عالم گیر کے حکم سے مرتب ہوئی تھی ۔ فقہ کی تمام کتابوں کے مصنفین کا نہایت شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوںنے اس قدر محنت اور جاں فشانی سے ان کو لکھا ہے اور جس قدر تعظیم و اکرام ان مصنفین کو شایان ہے اتنی ہی قدر و منزلت ان کتابوں کی سزاوار ہے لیکن باستثنائے ان احکامات کے جو خاص کتابوں کی سزاوار ہے لیکن باستثنائے ان احکامات کے جو خاص قرآن مجید سے جن میں کچھ شبہ نہیں ہو سکتا اخذ کیے گئے ہیں اور ان احکامات کے جو ان احادیث سے لیے گئے ہیں جن میں روایتاً اور درایتاً دونوں طرح پر صحیح و معتبر ہونے کا ظن غالب ہے باقی احکامات کو گو کہ فقہائے قرآن مجید اور احادیث ہی سے مستنبط کیا ہو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ مثل نصوص صحیح کے مذہبی احکام ہیں۔ غیر ملک کے مصنفین اورنکتہ چین محققین نے ایسے مستخرجہ احکام کو اصلی ارکان دین اسلام سمجھنے میں اکثر مغالطہ کھایا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ وہ ذی لیاقت علماء جنھوںنے ان احکامات کو اسلام کے اصول اصلی مستخرج کیا ہے ۔ یہ نسبت ہمارے بہت بڑے عالم تھے۔ مگر اس اصول پر کہ : الانسان مرکب من الخطاء والنسیان یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں کچھ خطا نہیں ہے اور وہ سب احکامات مستخرجہ خطاء و غلطی سے بالکل مبرا ہیں۔ اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری کتب فقہ دو قسم کے اصول و احکامات سے بھری ہوئی ہیں۔ ایک ان احکامات اصلی سے جو بغیر کسی شبہ کے منصوص ہیں دوسرے وہ جن کو علمائے مجتہدین نے مستنبط اور مستخرج کیا ہے اور جو اسی وجہ سے ممکن الخطاء خیال کیے جا سکتے ہیں ۔ پس ان لوگوں کوجو ہمارے احکام شرعی کی تحقیق و تدقیق کرنا چاہیں فرض ہے کہ اول قسم کے احکام کو دوسری قسم کے احکام سے تمیز کریںکیوںکہ اگر دوسری قسم کے احکام میں کوئی نقص پایا جاوے تو اس کو مذہب اسلام پر عاید نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کا الزام اس عالم کے سر پر ہے جس نے ان احکامات کو استخراج کیا ہے اور جو مذہب اسلام کے ایک فقیہ ہونے سے کچھ زیادہ رتبہ کا مستحق نہیں ہے۔ مذہب اسلام میں جو چار بڑے بڑے فقیہ اور مجتہد گزرے ہیں جن کی تمام مسلمان پیروی کرتے ہیں ان کی بھی یہی رائے ہے۔ قال الشیخ عبدالوہاب الشعرانی فی الیواقیت کان ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اذا افتی یقول ھذا رای النعمان ابن ثابت یعنی نفسہ وھو احسن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ امام ابو حنیفہ ۸۰ ہجری مطابق ۶۹۹ ء میں پیدا ہوئے اور ۱۵۰ھ مطابق ۷۶۷ء میں وفات پائی۔ ۲۔ امام مالک ۹۵ ھ مطابق ۷۱۳ ء میں پیدا ہوئے اور ۱۷۹ھ مطابق ۷۹۵ء میںوفات پائی۔ ۳۔ امام احمد بن حنبل ۱۶۴ھ مطابق ۷۸۰ء میں پیدا ہوئے اور ۲۴۱ھ مطابق ۸۵۵ ء میں وفات پائی۔ ۴۔ امام شافعی ۱۵۰ ہجری مطابق ۷۶۷ء میں پیداہوئے اور ۲۰۴ہجری مطابق ۸۱۹ ء میں وفات پائی ۔ (سید احمد) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ما قد رنا علیہ فمن جاء باحسن منہ فھوا اولیٰ بالصواب۔ وقا ل کان الامام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ یقول مامن احد الا ہوما خوذمن کلامہ و مردود علیہ الا الرسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ ثم قال کان الامام احمد رحمۃ اللہ علیہ یقول لیس لاحد مع اللہ و رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم کلام و قال ایضاً للرجل لا تلقدو نی ولا تقلدون مالک اولا الا وزاعی ولا النخعی ولا غیرھم وخذوا الا حکام من حیث اخذو امن الکتاب والسنۃ وروی الحاکم و البیھقی من الشافعی رحمۃ اللہ انہ قال یوما للمزنی یا ابراہیم لا تقلدنی فی کل ما اقول وانظرنی ذلک بنفسک فانہ دین و کان و رحمہ اللہ یقول لا حجۃ فی قول احد دون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ٭٭٭ (۶)مذہب اسلام کی روایتوں کی اصلیت اور ان کی ترویج و اشاعت کی ابتدا یا ایھا الذین آمنوا ان جائکم کم فاسق بنباء فتبینوا ان تصیبوا قوما بجھالۃ فتصبحوا علیٰ مافعلتم نادمین تاریخ اسلام کے ابتدا زمانہ سے آج تک قرآن مجید شرع محمدی کا لازوال منبع رہا ہے اور ہمیشہ تک رہے گا۔ ہر مسلمان کا یہ اعتقاد ہے کہ خود جناب پیغمبر خدا ہمیشہ قرآ ن مجید کے موافق کاربند ہوئے ہیں یعنی جو احکام قرآن مجید میں بہ نص صریح مندرج ہیں خواہ استدلالاً اس سے نکلتے ہیں۔ انہیں کے مطابق عمل فرمایا ہے یہ اصول ہر قرن میں ملحوظ رہا اور کوئی قول برخلاف قرآن مجید کے تسلیم نہیں کیا گیا۔ یہی اصول ہم کو حضرت عائشہ نے سکھا یا ہے جب کہ انہوں نے سماع موتیٰ کی حدیث کو قرآن مجید کے برخلاف ہونے کی وجہ سے رد کر دیا۔ پس جو حدیث کہ قرآن مجید کے منشاء کے متناقض ہو اس کو یک لخت غیر معتبر اور موضوع خیال کرنا چاہیے۔ لیکن جب کہ ہم وحی ’’غیر متلو‘‘ میں بھی یعنی ایسی وحی میں جس کا مطلب آں حضرت پر القا ہوا ہو اور اس مطلب کو آں حضرت نے اپنے لفظوں میں بیان فرمایا ہو جس پر حدیث کا اطلاق ہوتا ہے اعتقاد رکھتے ہیں تو بلاشک ہم پر واجب ہے کہ احادیث نبی کو جمع کر کے جہاں تک ممکن ہو ان کی تحقیق اور تدقیق کریں۔ مگر جب کہ ہمارا عقیدہ یہ ہے ہ کوئی صحیح حدیث قرآن مجید کے منشاء کے خلاف نہیں ہو سکتی تو ہم کو اس تحقیقات میں معلوم ہو گا کہ صحیح حدیثیں صرف تین قسم کی ہو سکتی ہیں‘ اول وہ جو قرآن مجید کے مطابق ہوں اور اس کی تائید کرتی ہوں۔ دوسری وہ جن سے قرآن مجید کی آیتوں کی تفسیر ہوتی ہو۔ اورتیسری وہ جو ایسے امور سے متعلق ہوں جن کا قرآن مجید میں کچھ ذکر نہیں ہے۔ لیکن خود جناب پیغمبر خدا نے ہم کو ہدایت کی ہے کہ سوائے قرآن مجید کے ان کا تمام کلام وحی نہیں ہے بلکہ وحی وہی ہے جو تبلیغ رسالت سے علاقہ رکھتی ہے اور جس کی نسبت خود جناب پیغمبر خدانے ان کا وحی سے ہونا بیان فرما دیا ہے یا ان میں ایسے امور بیان ہیں جو عقائد مذہبی اخلاق عالم عقبیٰ اور روح کے حالات سے علاقہ رکھتے ہیں جن کی نسبت خیال کیا جاتا ہے کہ بغیر وحی کے معلوم نہیںہو سکتے‘ مذکورہ بالا اقسام کے سوا باقی کلام آں حضرت کا وہ ہے جو تبلیغ رسالت سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا ۔ اورجس کی نسبت خود آں حضرت نے فرمایا ہے کہ : انما ان بشرا امرتکم بشئی من امر دینکم فخذہ واذا امرتکم بشئی من رائی فانما ان بشر۔ ’’ایک انسان ہو ں جب میں تم کو تمہار ے دین کی کسی چیز میں حکم کروں تو تم کو پکڑ لو اور جب میں تم کو اپنی رائے سے کسی چیز میں حکم دوں تو میں بھی انسان ہوں۔ اور حدیث تابیر النخل میں فرمایا ہے کہ : فانی انما ظننت ظنا ولا تواخذونی بالظن ولکن اذا حد ثتکم عن اللہ شیئا فخذو بہ فانی لم اکذب علی اللہ ’’میں نے ایک طرح کا گمان کیا تھا اورگمان کرنے میں تم مجھ سے کچھ جھگڑا مت کرو لیکن جب میں تم کو خدا کی طرف سے تم کو خدا کی طرف سے کوئی بات خدا کی طرف سے کوئی بات کہوں تو اس کو پکڑ لو ۔ کیوں کہ میں خدا پر جھوٹ نہیں کہتا‘‘۔ شاہ ولی اللہ صاحب حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیںکہ آں حضرت نے جو بیماریوں کا علاج بتایا یا کسی رنگ کے گھوڑے کو پسند و ناپسند کیا یا کوئی کام آں حضرت نے بہ طریق عادت کیا نہ بطور عبادت کے بااتفاقیہ کوئی کام بغیر مقصد کے ہو گیا یا آں حضرت کی ایسی باتیں جیسی کہ لو گ آپس میں کیا کرتے ہیں اورنیز ایسے کام جو سردار کو لشکروں میں معین کرنے اوران کے لیے نشانیوں کے قرار دینے اور متخاضمین کے درمیان فیصلہ کرنے کے ہیں یہ سب اسی قسم میںداخل ہیں۔ زید ابن ثابت نے کہا کہ میں آں حضرت کے ہمسایہ میں رہتا تھا پھر جب وحی آتی تھی تو مجھ کو یاد فرماتے تھے اور میں اس کو لکھ دیتا تھا ۔ پھر جب ہم اسی کا ذکر کرنے لگتے تھے اور جب ہم آخر ت کا ذکر کرتے تھے تو ہمارے ساتھ اسی کا ذکر کرنے لگتے تھے اور جب ہم کھانے کا ذکر کرتے تھے تو کھانے کا ہی ذکر فرماتے تھے ۔ پس سوائے ذکر آخرت کے باقی تمام باتیں تبلیغ رسالت سے کچھ علاقہ نہیں رکھتیں۔ بایں اہمہ ہم آں حضرت کے تمام افعال و اقوال کا نہایت ادب کرتے ہیں اور ان کو مقدس اور نہایت نیک خصال اور پاک اقوال اور افعال سمجھتے ہیں مگر رسالت سے ان کو کچھ تعلق نہیں۔ غرض کہ چار قسم کے افعال آں حضرت کے ایسے ہیں۔ جن پر ہم کو غور کرنی لازمی ہے (۱) وہ جو ہمارے دین سے علاقہ رکھتے ہیں (۲) جو جناب پیغمبر خدا کے مخصوص حالات سے علاقہ رکھتے ہیں (۳) ایسے اقوال جو تمام لوگوں کے حالات پر موثر ہیں (۴) وہ احکام جو سیاست ملکی اور انتظام مدنی سے متعلق ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم تو کچھ غور طلب نہیں ہے مگر صرف پچھلی تین قسمیں اس قابل ہیں کہ ان کی نسبت اس قسم کی تحقیق و تدقیق کی جاوے کہ کون سے ان میں کے ازروئے وحی کے ہیں اور کون سے ان میں سے کہ ازروئے وحی کے نہیں ہیں اورہم کو لازم ہے کہ صرف انہیں احادیث کو وحی سمجھیں جن کی نسبت ہم کو ایسا سمجھنے کے لیے کافی دلیل اور ثبوت ہو۔ اگرچہ جناب پیغمبر خدا نے ہم کو بہ تصریح ان کے قدم بہ قدم چلنے بلکہ صحابہ اور تابعین کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے مگر یہ حکم محض متعلق بہ معاملات دین سمجھا گیا ہے ۔ ہم مسلمانوں نے بھی حتی الامکان مذکورہ بالا امور میں ان کی پیروی کی کوشش کی ہے۔ مگر اخیر کے تین امروں کی پیروی کرنے میں کتنا فرق ہے۔ کہ پہلی صورت میںیعنی اگر ان کا وحی سے ہونا ثابت ہو تو اس کی اطاعت اور پیروی ہم پر فرض ہے اور دوسری صورت میں ہم اپنی خوشی سے عالم عقبیٰ میں ثواب حاصل کرنے اور اپنے پیغمبر کی محبت اوران کی تعظیم اور عقیدت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں اور اگر ہم چاہیں یا حالات زمانہ کے اس ترک پر ہم کو مجبور کریں تو بغیر اس کے کہ مذہب میں کچھ نقصان عاید ہو یا کسی گناہ کے مرتکب ہوں اس کو ترک کر سکتے ہیں۔ اسی قسم کے خیالات نے ہم کو جناب پیغمبر خدا کی جملہ احادیث کے جمع کرنے اوران کی تحقیق کرنے پر مجبور کیا۔ جناب پیغمبر خدا کی حیات میں ہی اسلام کی سلطنت جزیرہ عرب میں وسیع ہو گئی تھی اور بے شمار لوگوں نے دین اسلام قبول کر لیا تھا۔ ہر مسلمان کی جناب پیغمربر خدا تک رسائی محال تھی اس لیے جناب پیغمبر خدا کے اقوال اور افعال اور عادات کا علم ان مسلمانوں تک پہنچانا جو اقطاع دور و دراز میں رہتے تھے لازم ہوا اور اسی وجہ سے پیغمبر خدا نے اس بات کو پسند کیا جیسا کہ حدیث ذیل میں مذکور ہے۔ پس اسی زمانے سے روایتوں کے بیان کرنے کا رواج ہوا۔ ابن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا کہ : عن ابن مسعود قال سسمعت رسول اللہ صلعم بقول نضرا للہ امراً سمع مناشیا فبلغہ کماسمعہ فرب مبلغ اوعی لہ من سامع۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجہ و رواہ الدارمی عین ابی الدردائ) ’’خدا اس شخص کو سیراب کرے جس نے مجھ سے کوئی بات سنی اور اس کو اس طرح دوسروںکو پہنچایا جیسے کہ مجھ سے سنا تھا۔ سو اکثر پہنچائی گئی سننے والے سے زیادہ اس کو یاد رکھنے والے ہیں‘‘۔ اگر یہ ثابت ہوتاہے کہ جناب پیغمبر خدا صلعم کی حیات ہی میں چند اشخاص بعض متفرق احادیث کو بھی قلم بند کر لیا کرتے تھے اورآں حضرت کی وفات کے بعد سے اس رواج کو زیادہ ترقی ہوتی گئی مگر ان دونوں زمانوںمیںیہ رسم اس قدر محدود تھی کہ کسی خاص غور اور توجہ کے لائق نہیں ہے۔ اس زمانے میں بہت سے لوگ زندہ موجود تھے۔ جنہوں نے خود جناب پیغمبر خدا کا کلام سنا تھا اورجو ایسے نہ تھے کہ ان کو جناب پیغمبر خدا کے اقوال اور افعال اور عادات کی نہایت آسانی سے واقفیت ہو سکتی تھی۔ اور اس لیے احادیث کے جمع کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ مگر رفتہ رفتہ جب کہ وہ سن رسید آدمی جنھوں نے جناب پیغمبر خدا کا زمانہ دیکھا تھا یکے بعد دیگرے انتقال کرتے گئے اس وقت لوگوں کو احادیث کے جمع کرنے کی اشد ضرورت معلوم ہوئی یہاں تک کہ دوسری صدی ہجری کے شروع میں چند دین دار اورپرہیز گار آدمیوں نے جنھوں نے اس دنیائے دون پر لات ماری تھی اوراپنی جان کو محض راہ خدا میں وقف کر دیا تھا۔ احادیث کے جمع کرنے کا بوجھ اپنے سر پر اٹھا لیا تھا۔ کتابیںلکھنی شروع کیں۔ رفتہ رفتہ صحیح اور غیر صحیح کتابوں کا ایک انبار ہو گیا۔ ا س سز ا کا بیان جس کا مستحق جھوٹ حدیث بیان کرنے والے کو جناب پیغمبر خدا نے قرار دیا ہے ہم نے ابھی بیان کیاہے کہ جناب پیغمبر خدا کی حیات میںہی آں حضرت کے ارشاد کے مطابق حدیثوں کے اورلوگوں تک پہنچانے کی رسم شروع ہو گئی تھی مگر اس بات کا بیان کرنا ضروری ہے کہ ایک شخص کے دوسرے شخص تک حدیث پہنچانے میں کس قدر احتیاط کرنے کا منشاء آں حضرت کا تھا اور اس منشاء کے ظاہر کرنے کوترمذی اور مسلم کی حدیثوں کو اس مقام پر ذکر کر دینا کافی ہو گا۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ : عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلعم اتقوا الحدیث عنی الا ما علمتم فمن کذب علی متعمدا فلیتبوہ مقعدہ من النار (رواہ الترمذی) ’’ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ مجھ سے حدیث روایت کرنے میں پرہیز کرو مگر اس قد رجتنا کہ تم جانتے ہو۔ سو جو شخص قصداً مجھ پر جھوٹ کہے گا اس کو اپنا ٹھکانا آگ میں بنانا چاہیے ۔ (ترمذی)‘‘۔ مسلم کی حدیث میں ہے کہ : عن سمرۃ بن جندب والمغیرۃ بن شعبہ قال قال رسول اللہ صلعم من حدث عنی بحدیث یری انہ کذب فھو احد الکاذبین (رواہ مسلم) ’’رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ سے کسی حدیث کو یہ جان کر روایت کرے کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ خود جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے ۔ (مسلم)‘‘۔ مگر باوجود اس احتیا ط کے ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب اسلام میں جھوٹی اور بے بنیاد باتیں بعینہ اس طرح پھیل گئی ہیںکہ جس طرح جھوٹی روایتیں اورموضع کتابیں یہودیوں اور عیسائیوں میںمروج ہو گئی ہیں۔ لیکن اتنا فرق ہے کہ علمائے اسلام نے مقدس جھوٹ کو کبھی اپنے مذہب کے عقائد میں قرار نہیں دیا بلکہ وہ ایسے کام کو ہمیشہ گناہ عظیم سمجھتے رہے اور اس لیے انہوںنے ایسی جھوٹی روایتوں کے بنانے والوں کو گو کیسے ہی ناپاک اور نیک ارادہ سے انہوں نے ایسا کیا ہو جہنم کے سوا اورکوئی جگہ نہیں دی اور ان کو ا س آگ سے بچانے میں کوشش نہیں کی ۔مگر برخلاف اس کے علمائے مذہب نے عیسوی نے مثل آرجن وغیرہ کے صحیح اپنے باطنی عقائد کے خلاف معاملات مذہبی میں مقدس جھوٹ کو کچھ جائز ہی نہیں رکھا بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول خیال کیا۔ سرولیم میور صاحب اپنی اردو تاریخ دین مسیحی میں بیان کرتیہیں کہ ’’دوسری صدی میں مسیحیوں میں گفتگو رہی کہ جب بر پرست فیلسوف اور حکیموں کے ساتھ دین کا مباحثہ کیا جاوے تو انہیں کی بحث کا طرز اور طریقہ اختیار کرنا جائز ہے یا نہیں۔ آخر کار آرجن وغیرہ کی رائے کے بموجب طریقہ مذکور تسلیم ہوا۔ اس سے البتہ مسیحی بحاثوں کی تیز عقلی نکتہ سبحی نے بحث میں زیادہ رونق پائی لیکن راستی اور صفائی میں کچھ خلل پڑا۔ پھر اسی سبب سے بعض لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ جعلی تصنیفات پیدا ہوئیں جو کہ اس زمانے کے بعد کثرت سے لکھی گئی تھیں اس طرح کہ فیلسوف لوگ جب کسی طریقہ کی پیروی کرتے تھے تو کبھی کبھی اس کے حق میں کتاب لکھ کے کسی معروف حکیم کے نام سے اجرا کرتے تھے کہ اس حیلے سے لوگ اس پر متوجہ ہوں کر اس کی باتیں زیادہ مانیں گے۔ اگرچہ اس کی باتیں برملا خود مصنف کی ہوتی تھیں سو اسی طرح مسیحی جو فیلسوفوں کی طرح بحث کرت تھے کتاب لکھ کے کسی حواری یا خادم حواری کے یا معروف اسقف کے نام سے رواج دیتے تھے۔ ایسا دستور تیسری صدی میں شروع ہوا۔اور کئی سو برس تک رومی کلیسا میںجاری رہا یہ بات بہت ہی خلاف حق اور قابل الزام شدید کے تھی ‘‘ (میور صاحب کی تاریخی دین مسیحی حصہ دوم باب ۳)۔ موشیم نے اپنی کتاب تاریخ مذہبی میں لکھا ہے کہ ’’افلاطونی اور فیثا غورثی حکماء نے صدق اور پاک بازی کی حمایت میں فریب دینے اور جھو ٹ بولنے کو جائز ہی قرار نہیںدیا بلکہ مستحسن ٹھہرایا ہے۔ یہودیان ساکن مصر نے اس عقیدہ کو قبل سنہ مسیحی کے ان سے سیکھا ہے۔ اس میں اس شخص کو کچھ کلام نہ ہو گا جس کو کہ کتابوں کو مشہورآدمیوںکی طرف منسوب کرنے کی جو بے شمار جعل سازیاں نظمی پیشن گوئیاںاور اسی قسم کی واہیات چیزیں جن کی ایک بری مقدار اس صدی اور آئندہ صدیوں میںظاہر ہوئی تھی یاد ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ پکے عیسائیوں نے اس قسم کی سب کتابوں کو موضوع کہا تھا برخلاف اس کے اغلب یہ ہے کہ ان کے جزو اعطم کے موجد فرق جات نسطیق بانی ہوئے تھے مگر اس بات سے کہ پکے عیسائی اس قصور سے محض مبرا نہ تھے صریح انکار نہیں ہو سکتا‘‘ (ایکلز پاسٹکل ہسٹری باب ۳ صفحہ ۷۰ مطبوعہ ۱۸۶۰ئ)۔ ایک اور مقام پر موشیم نے اسی مضمون کو اس طرح پر لکھا ہے کہ ’’لیکن اس کا اس قدر جلد عمل میں آتاہے کہ مختلف اسباب پر موقوف تھا یا بالخصوص یہ امر کہ حضرت مسیح کے صعود کے بعد بھی ان کی سوانح عمری اوراحکامات کی بہت سی تواریخیں جن میں جھوٹے قصے اور کہانیاں بھیری ہوئی تھیں ایسے لوگوںنے شاید مرتب کی تھیں جن کے ارادے برے نہ تھے بلکہ وہ وہمی سادی مزاج اور مقدس جھوٹ کے عادی تھے اوربعد ازاں مختلف موضوع تصنیفات بنام نہاد حواریان مقدس ساے جہان میں مشہور کی گئیں‘‘ (ایکلز پاسٹکل ہسٹری (سیرت) حصہ دوم باب ۲ صفحہ ۳۶)۔ اس طرز تحریر کے بیان میں جو روایات کے لکھنے میں مستعمل کیا گیا تھا اس بات کے ظاہر کرنے کو کہ حدیث ایک شخص سے دوسرے تک کس طرح پہنچی محدثین نے چند کلمات بہ طور اصطلاح کے مقررکیے تھے اور اسی لیے حدیث کے ہر ایک راوی پر واجب تھا۔ کہ انہیں کلمات مخصوص سے جو اس حدیث کے واسطے موزوں ہوں حدیث کو شروع کرتے اوریہ ا س لیے کیا گیا تھا کہ ہر حدیث پر بہ لحاظ بیان کے اسی قدر اعتبار کیا جاوے جس درجہ اعتبار کے وہ سزاوار ہو۔ کلمات مذکورہ یہ ہیں (۱) حدثنا یعنی اس نے مجھ سے کہا (۲) ’’سمعۃ یقول‘‘ یعنی میں نے اس کو کہتے سنا (۳) ’’قال لنا‘‘ یعنی اس نے مجھ سے کہا (۴) ’’ذکرنا‘ ‘ یعنی اس نے مجھ سے ذکر کیا (۵) ’’اخبرنا‘‘ یعنی اس نے مجھ کو خبر دی (۶) ’’انبانا‘‘ یعنی اس نے مجھ کو آگاہ کیا (۷) ’’عن فلان‘‘ یعنی اس سے ۔ اول کے چار کلمے صرف اس صورت میں استعمال کیے جاتے تھے جب کہ کوئی راوی کسی دوسرے شخص سے حدیث کے الفظ بجنسہ بیان کر دیتا تھا۔ پانچواں اورچھٹا کلمہ اس مقام پر استعمال کیا جاتا تھا جب کہ کوئی روای اپنے سے اوپر کے راوی سے کسی امر یا واقعہ کی صحت یا عم صحت کی نسبت سے دریافت کرتا تھا ۔ اخیر کلمہ ایک مبہم کلمہ ہے اور اسی وجہ سے یہ امر منقح نہیں ہو سکتا کہ اخیر راوی نے جو دوسرے راوی کا نام لیا ہے وہ حدیث درحقیقت اس راوی نے بیان کی ہے یا اس کے اور اخیر راوی کے درمیان اورلوگ روایت کرنے والے چھوٹ گئے ہیں۔ اس اشتباہ کے رفع کرنے کو خارجی امور کی تحقیقات ضرور ہوتی ہیں۔ مگر ان کی نسبت علماء کی مختلف رائیں ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر یہ محقق ہو جاوے کہ وہ راوی سلسلہ روایت میںاور راویوں کے نام بہ فریب چھوڑ دینے میں مہتمم نہیں ہے اور وہ ایسے زمانے میں اور ایسے مقام پر رہتا تھا کہ ان کا ایک دوسرے سے ملاقی ہونا ممکن تھا۔ گو کہ اس ملاقات کا ثبوت نہ ہو تو بھی یہ فرض کر لیا جاسکتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی اور راوی نہیں چھوٹا ہے۔ دوسری رائے جو بوض علما نے مستند کی رائے ہے یہ ہے کہ اس امر کا ثابت ہونابھی ضرور ہے کہ وہ دونوں اپنی تمام عمر میں ایک مرتبہ بھی ملاقی ہوئے ہوں۔ تیسری رائے جو بعض علماء کا قول ہے یہ ہے کہ اس امر کا ثبوت بھی ضروری ہے کہ وہ اتنے عرصہ تک یک جا رہے ہوں جو ان کے ایک دوسر ے سے حدیث سیکھنے کے واسطے کافی ہو۔ چوتھی رائے بعض عالموں کی یہ ہے کہ اس امر کا ثبوت بھی ضرور ہے کہ ایک نے دوسرے سے درحقیقت حدیث سیکھی بھی تھی۔ درجات احادیث کے بیان میں ایک راوی سے دوسرے تک پہنچنے کے لحاظ سے اول: ’’مسند یا مرفوع‘‘ یہ لقب اس حدیث کو دیا جاتا ہے جب کہ راوی صاف صاف بیان کرتا ہے کہ فلاں بات خود پیغمبر خدا نے فرمائی تھی یا خود کی تھی یا اورو ں نے ان کے روبرو کی تھی اور آپ نے منع نہیں فرمایا تھا۔ دوم: ’’مرفوع متصل‘‘ اگر ایسی حدیث کے راویوں کا سلسلہ پیغمبر خدا تک لگاتا ر یعنی بلافصل پہنچتا ہو تو اس کو یہ لقب دیا جاتا ہے۔ سوم: ’’مرفوع منقطع‘‘ اگر ایسی حدیث کے راویوں کا سلسلہ بلا فصل پیغمبر خداتک نہ پہنچے تو اس حدیث کو یہ لقب دیا جاتاہے۔ چہارم: ’’مرسل یا موقوف‘‘ یعنی وہ حدیث جس کو پیغمبر خد اکے اصحاب نے بیان کیا ہو۔ مگر پیغمبر خدا سے منسوب نہ کیا ہو۔ پنجم: ’’مرسل یا موقوف متصل‘‘ اگر راویوں کا سلسلہ اس صحاب تک جس نے اس کو بیان کیا ہے بلا فصل چلا گیا ہو تو اس حدیث کو یہ لقب دیا جاتاہے۔ ششم: ’’مرسل یا موقوف منقطع‘‘ لیکن اگر راویوں کا سلسلہ اس صحابی تک مسلسل نہ ہو تو اس حدیث کا یہ لقب ہوتا ہے۔ اس بات میں کہ آیا حدیث ’’مرسل یا موقوف متصل‘‘ کو معتبر اور قابل استدلال خیال کرنا چاہیے یا نہیں علماء میں اختلاف رائے ہے۔لیکن صحاب کی ایسی حدیث جس میں ایک ایسے واقعہ یامقام کا مذکور ہو جہاں وہ خود موجود نہیں تھے تو اس حدیث کو کسی طرح بغیر اور کسی سند کے حدیث نبوی کے ہم پایہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ ان علما کی رائے نہایت صحیح اور قرین انصاف ہے جو دوبارہ نزول وحی کے حضرت عائشہ کی روایات کو قابل سند نہیں خیال کرتے کیوں کہ وہ اس زمانے میں موجود نہ تھیں۔ ہفتم: ’’مقطوع‘‘ یعنی وہ حدیثیں جو تابعین نے بیان کی ہیں اور ان کو اپنے سے اوپر کے صحابہ کی طرف منسوب نہیں کیاہے۔ ہشتم : ’’مقطوع متصل‘‘ اگر ایسی حدیث کے راویوں کا سلسلہ اس تابعی تک برابر چلا جاوے تو اس حدیث کا یہ نام ہے۔ نھم: ’’مقطوع منقطع‘‘۔ اگر اس کا سلسلہ ا س تابعی تک نہ پہنچے تو اس حدیث کو اس نام سے پکارتے ہیں۔ دہم: ’’روایت‘‘ یہ اقام مندرجہ بالا یس بالکل علیحدہ ہے یہ نام ان حدیثوںکا ہے جو اس طرح پر شروع ہوتی ہیں ’’یہ بیان کیا گیا ہے‘‘ یا ’’فلاں شخص نے یوں روایت کی ہے ‘‘ اس قسم کی روایتیں بازاری گپ سے کچھ زیادہ قال اعتبار نہیں ہیں۔ ایسی ہی روایتوں سے ہمارے مفسرین و مورخین نے اپنی تصنیفات کا حجم بڑھا لیاہے ۔ اور ایسی ہی واہیات اور بے ہودہ باتوں سے ہشامی‘ طبقات کبیر‘ کاتب الواقدی‘ وغیر ہ کتابیں سیر و تواریخ کی پایہ اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہیں اور جو مایہ افتخار و ناز ان عیسائی مصنفوں کا ہے جو مذہب اسلام کے برخلاف کتابیں لکھتے ہیں۔ درجات احادیث کے بیان میں بہ لحاظ راویوں کے چال چلن یعنی آن کے ثقہ اور غیر ثقہ ہونے کے جب کبھی کسی حدیث کے درجہ صحت کا امتحان راویوں کے ثقہ اور غیر ثقہ ہونے کے لحاظ سے کیا جاتا ہے تو اس کا درجہ بہ ترتیب ذیل قرار پاتا ہے۔ اول : ’’صحیح‘‘ اس نام سے وہ حدیث موسوم کی جاتی ہے جس کے تمام راوی اول سے آخر تک پکے دین دار اورمتقی اشخاص ہوں اورکبھی کسی قسم کے برائی کے ساتھ مہتم نہ ہوئے ہوں بلکہ تدین او ر صدق مقال کے واسطے مشہور اور سب لوگوں کے نزدیک مسلم ہوں۔ ایسی حدیثوں کا درجہ اعتبار اس سبب سے اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ ا س قسم کے راویوں نے علیحدہ علیحدہ بلا کسی اختلاف کے اسی حدیث کو بیان کیا ہو مگر ایسی حدیثیں نہایت ہی قلیل ہیں۔ دوم : ’’حسن‘‘ اس ملقب سے وہ حدیثیں ملقب ہوتیہیں جن کے تمام راوی اوصاف حمیدہ میں سے اول قسم کی حدیث کے راویوں کے کوئی ہم سری نہ کر سکتے ہوں مگر باایںہمہ پرہیز گاری اورعام ثقاہت کے ساتھ متصف ہوں اور اس حدیث کی اصلیت بھی غیر مشتبہ ہو۔ اس قسم کی بے شما رحدیثیں ہیں جن سے معتبر کتب احادیث مملو ہیں۔ سوم : ’’ضعیف‘‘ یہ نام ان حدیثوں کو دیا گیا ہے جن کے تمام راویوں میں سے ایک شخص بھی اول یا دوم قسم کے راویوںکی مانند نہ ہو۔ ان احادیث کے ضعف کا درجہ دیگر اسباب سے بھی زیادہ یا کم ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کی کتب احادیث جو دوسرے درجہ کی کہلاتی ہیں اسی قسم کی احادیث سے بھری پڑی ہیں۔ چہارم: ’’غریب‘‘ یہ لقب ان حدیثوں کا ہے جن کے راویوں میںسے کسی نے بجز ایک آدھ حدیث کے اور کوئی حدیث نقل نہ کی ہو جس سے یقین ہوتا ہے کہ وہ فن حدیث میں کچھ بھی تبحر نہیں رکھتا۔ راویوں کے درجہ اعتبار کے بیان میں ان کے تفقہ فی الدین کے لحاظ سے تمام صحابہ کبار اورتابعین اور تبع تابعین جب کوئی حدیث آں حضر ت کی بیان کرتے ہیں تو ان کے الفاظ بعینہ وہی نہیں ہوتے تھے جو آں حضرت نے فرمائے ہوں اورایساکرنا امکان سے بھی خارج تھا مع ہذا خیال کیا گیا ہے کہ بعض دعائیں ایسی ہیں جن کے الفاظ بجنسہ محفوظ ہیں ۔غرض کہ تمام حدیث کے راویوں مٰں حدیث کو بالمعنی روایت کرنے کا رواج تھا۔ پس یہ بات قرین قیاس ہے کہ جو لوگ زیادہ علم رکھتے تھے اور تفقہ فی الدین کا ان کو زیادہ ملکہ تھا وہ آں حضرت کے کلام کا بہ نسبت اوروں کے اچھی طرح مطلب سمجھتے ہوں گے اور اوروں کو بھی ٹھیک طور پر بخوبی سمجھا سکتے ہوں گے اس واسطے راویوں کے اعتبار ان کے علم کے سات درجے کیے گئے ہیں اول: وہ جو علم او ر تفقہ میں زیادہ تر ممتاز تھے اور حافظہ بھی قوی رکھتے تھے۔ ایسے اشخاص آئمہ حدیث کہلاتے ہیں۔ دوم : وہ جو پہلوں سے کم درجہ رکھتے تھے۔ اور جن سے شاذ و ناذر ہی کسی غلطی کے سرزد ہونے کا احتمال تھا۔ سوم : وہ جنھوں نے مسائل مذہبی میں اختلاف کیا تھا مگر ان کو اس قدر تعصب نہیں ہو گیا تھا کہ اعتدال سے متجاوز ہو گئے ہوں اورنیز ان کے تدین اور صدیق کلام میں کسی طرح کا شک و شبہ نہ تھا۔ چہارم: وہ جن کے حالا ت کی نسبت کچھ اچھی طرح آگاہی نہیں ہے۔ پنجم: وہ جنھوں نے مسائل مذہبی میں اختلاف کیا تھا مگر ان کا تعصب حد اعتدال سے متجاوز ہو گیا تھا۔ ششم: وہ جن کی طبیعت میںشک اور وہم پڑا ہوا تھا اور ان کا حافظہ بھی قابل اعتبار کے نہ تھا۔ ہفتم: وہ جو جھوٹی حدیثیں بنانے میں مشہور اور بدنام تھے۔ ۔ علمائے دین کی یہ رائے ہے کہ اول تین درجے کے لوگوں کے بیان کی ہوئی حدیثیں کو باعتبار ان کے مراتب کے صحیح خیال کرنا چاہیے اور اخیر کے تین درجے کے لوگوں کی بیان کی ہوئی حدیثوں کو بلا تامل رد کر دینا چاہیے۔ باقی رہ گئے چوتھے درجہ کے لوگ ان کی بیان کی ہوئی حدیثوں کو جب تک کہ ان راویوں کے حال معلوم نہ ہو قابل اعتبار سمجھنا نہ چاہیے۔ جو روایتیں کہ یہودیوںکے ہاں مذکور تھیں ان کے بیان کرنے سے مسلمانوں کو ممانعت نہ تھی۔ آں حضرت نے فرمایا تھا کہ یہودیوں کے ہاں جو روایتیں ہیں ان کے بیان کرنے میں کچھ حرج نہیں ہے۔چنانچہ اس کی تصدیق اس حدیث سے ہوتی ہے جو بخاری میں مذکور ہے اور اسی وجہ سے مسلمان یہودیوں کی روایتوں کے بیان کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں سمجھتے اور وہ حدیث یہ ہے: عن عبداللہ بن عمر قال قال رسول اللہ صلعم بلغوا عنی ولا آیۃ وحدثوا عن بنی اسرائیل ولا حرج ومن کذب علیٰ متعمدا فلیتبعوا مقعدہ من النار (رواہ البخاری) ’’عبداللہ بن عمر کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہنچائو مجھ سے اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔ اور حدیث بیان کرو بنی اسرائیل سے اس میںکچھ حرج نہیں ہے۔ اور جو شخص قصداً مجھ پر جھوٹ بولے گا تو اس کو اپنا ٹھکانہ آگ میں بنانا چاہیے (بخاری)‘‘۔ روایات میں اختلاف ہونے کے اسباب جب کبھی ہم راویوں کی روایتوں میں اختلاف دیکھیں تو ہم کو یہ نتیجہ نکالنا نہیں چاہیے کہ یہ روایتیں راویوں کی بناوٹ ہے جیسا کہ عیسائی مورخ عموماً خیال کرتے ہیں اس لیے احادیث موضوعہ کے سوا اور بھی قدرتی اسباب ایسے موجود ہیں جن کی وجہ سے روایات میں اختلاف پڑنا ممکن الوقوع ہے۔ چناں چہ ہم ان قدرتی اسباب کو بیان کرتے ہیں جن کے سبب روایتوں میں اختلاف پڑتا ہے۔ اول: حدیث کے مطلب کی غلط فہمی۔ دوم: حدیث کے معنی سمجھنے میں دو راویوں کا باہم اختلاف یعنی ایک ہی حدیث کے ایک نے کچھ معنی سمجھے اور ایک نے کچھ۔ سوم: حدیث کا مطلب لوگوں سے صاف صاف بیان کرنے کی عدم قابلیت۔ چہارم: راوی کے حافظہ کا تصور کہ یا تو ا س نے کسی حدیث کا کوئی جزو چھوڑ دیا ہے۔ یا دو مختلف حدیثوں کو باہم خلط ملط کر دیا ہے۔ پنجم: راوی کا کسی جزو حدیث کی تفصیل کا بیان کرنا ا س غرض سے کہ سننے والا بآسانی اس کو سمجھ جائے لیکن سننے والے نے از راہ غلطی اس تفصلی کو بھی حدیث کا جزو سمجھا۔ ششم: راوی نے اپنی گفتگو میں جناب پیغمبر خدا کے چند کلمات بیان کیے اور سننے والوں نے اس کے کلام کو حدیث سمجھ لیا ۔ ہفتم: کسی راوی نے یہودیوں کی روایتیںبیان کیں اور سننے والے نے ان کو غلطی سے حدیث سمجھ لیا اور اسی ذریعے سے یہودیوں کی روایتوں کا اختلاف مسلمانوں کے ہاں منقتل ہو آیا۔ اگلے نبیوں اور بزرگوں کے قصے جن سے ہمارے ہاں کی تاریخیں اورتفسیریں سیاہ ہیں سب انہیں ذریعوں سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہشتم: وہ اختلافات جو زبانی روایات کے سلسلہ سے خود بخود عارض ہوتا ہے اور اسی ذریعہ سے معمولی معجزا ت اورکرامات کی صورت پیداکر لیتی ہیں نھم : مختلف حالات جن میں کہ راوی نے آں حضرت کو دیکھا تھا یا کچھ فرماتے سنا تھا یا کرتے دیکھا تھا۔ یہ تما اسباب ایسے ہیں جن کے سبب سے بغیر ارادہ تصع کے قدرتی طور پر روایتوں میں اختلاف پڑ جاتا ہے۔ من جملہ ان کے نویں قسم ایسی ہے کہ باوجود اختلاف کے کل روایتوں کا سچا ہونا ممکن ہے۔ موضوع حدیثوں کابیان اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ بہت سی حدیثیں جناب پیغمر خدا صلعم کے نام سے جھوٹی اور موضوع بنائی گئیں اور جو لوگ ایسی شرم ناک جعلسازی کے مرتکب ہوئے تھے وہ مختلف قسم کے لوگ تھے۔ اول: وہ لو گ تھے جو عوام الناس میں کسی نیک رسم یا کسی ثواب کے کام کی ترویج کے خواہاں تھے اوراپنے کام یاب ہونے کی غرض سے انہوں نے کوئی حدیث بنا لی ۔ اس قسم کی جعل سازی زیادہ تر ان حدیثوںکے متعلق ہے جن میں چھوٹے چھوٹے نیک کاموں کے کرنے میں بڑے بڑے ثواب بیان کیے ہیں اورنوافل کے پڑھنے میںگناہوںکیبخشے جانے اور قیامت میں اعلی درجے ملنے کے وعدے کیے گئے ہیں۔ قرآن کی سورتوں کے پڑھنے کی عجیب عجیب خاصیتیں بیان کی گئی ہیں۔ بیماروں سے شفا پانے اوررز ق میں فراخی ہونے کی خاصلیتیں یا قرآن کی بعض سورتوں کا قیامت میں گناہ بخشوانے کے لیے مفید ہونا بیان ہوا ہے۔ ان موضع حدیثوں کے بنانے والوں کا منشاء یہ تھا کہ لوگ نیک کاموںمیں اورقرآن مجید کی تلاوت اور نوافل کے ادا کرنے پر زیادہ متوجہ ہوں۔ لیکن مذہب اسلام اس قسم کے فریبوں اور جھوٹوں کو پناہ نہیں دیتا بلکہ ان کو جہنم کی آگ میں ڈالتا ہے۔ دوم : واعظین نے اس غرض سے کہ ان کے گرد بہت سے لوگ جمع ہو جاویں اور سننے والے عجیب و غریب باتوں کے سننے سے خوش ہوں اورنیز اس غرض سے کہ سنن والوں کے دل میں نرمی اوررحم اور خدا ترسی اوررقت قلب اور نیک کامو ں کی رغبت پیدا ہو اوربرے کاموں کی دہشت ان کے دل میں پیدا ہو اور خدا کا خوف اور نجات کی امیدیں ان کے دل میں بھڑک اٹھیں بہت سی حدیثیں موضوع کر لیں۔ مگر افسوس ہے کہ ان کو یہ خیال نہیں آیا کہ ان کے ان افعال سے مذہب اسلام بالکل نفرت کرتا ہے ۔ یہ حدیثیں زیادہ تر دوزخ اور بہشت اور ملائک کے حالات وغیرہ سے علاقہ رکھتی ہیں سوم: وہ لوگ ہیں جنھوں نے مذہب کے مسائل میں اختلافات کیے اور اس تعصب میں جادہ اپنی دلیلوں میںغلبہ حاصل کرنے کی غرض سے اس قسم کی حدیثیں وضع کر لیں جو ان کے لیے مفید مطلب ہوں۔ چہارم: مخالفین مذہب اسلام نے جو اس زمانہ میں زیادہ تر یہودی اور مشرکین تھے ۔ بہت سی باتیںسچ اور جھوٹ آں حضرت کی نسبت مشہور کی تھیں اوروہ عرب میں پھیل گئی تھیں۔ رفتہ رفتہ بطور روایت ے بیان ہونے لگیں اور لوگوں نے غلطی سے ان کو حدیثوںمیںشمار کیا۔ ہمار ے علماء نے احادیث موضوع اورغلط روایت مروجہ کے دریافت کرنے میں از حد کوشش کی ہے اور اس باب میں اکثر کتابیں تصنیف ہوئی ہیں اور صحیح اور باطل روایتوں کی تحقیق اور تمیز کرنے کے لیے قواعد اور اصول منضبط کیے ہیں۔ مقدم اصول جو اس امر کی تحقیق کے لیے علما نے قرار دیے ہیں وہ یہ ہیں کہ احادیث کے الفاظ اور طرز عبارت کا امتحان کیا جائے۔ ہر حدیث کے مضمون کو قرآن مجید کے احکام اور عقائد و مسائل مذہبی مستخرجہ قرآن اور احادیث مستند سے مقابلہ ہو۔ احادیث کے منشاء اور بیان کی تحقیق اور تدقیق کی جاوے کہ اس میں کوئی ایسا تاریخی واقعہ تو نہیں ہے جو ازروئے تاریخ کے غلط ہو یا اس میں ایسے عجائبات تو نہیں بیان ہوئے جن کو عقل تسلیم نہ کرتی ہو۔ جن حدیثوں میں اس قسم کی باتیں پائی جاتیہیں وہ موضوع خیال کی جاتی ہیں مختصر طور پر اس کتاب کے پڑھنے والے جان لیں گے کہ جن احادیث کو ہم مسلمان قابل سند خیال کرتے ہیں ان میں سے کم سے کم مندرجہ ذیل امور کا لحاظ ضرور بالضرور ہونا چاہیے۔ یعنی راوی نے صاف اورمصرح طور پر بیان کر دیا ہو کہ فلاں بات پیغمبر خدا نے فرمائی تھی یا کی تھی ۔ سلسلہ راویوں کا پیغمبر خد ا تک غیر منقطع ہو ۔ پیغمبر خدا سے لے کر اخیر راوی تک جملہ راوی تقویٰ اور تدین اور نیک اعمال کے لیے مشہور ہوں ۔ ہر راوی کو اپنے ماسبق راوی سے ایک سے زیادہ حدیثیں پہنچی ہوں۔ہر راوی لیاقت علمی اور تفقہ میں ممتا زہو تاکہ یہ امر متیقن ہو جاوے کہ اس نے حدیث کے صحیح معنی کو سمجھ لیا ہو گا اور اوروںکو بھی ٹھیک طور پر سے سمجھا دیا ہو گا۔ حدیث کا منشاء احکام مندرجہ قرآن مجید یا عقائد مذہبی مستخربہ قرآن یا حدیث مستند سے متناقض نہ ہو۔ اس میںعجائبات و غرائبات دور از عقل بیان نہ ہوں بلکہ منشاء حدیث کا اس قسم کا ہوجس کے تسلیم کرنے میں لوگوں کو کلام نہ ہو۔ کوئی حدیث جس کی صحت اس طرح ثابت ہو جاوے کسی عقیدہ مذہبی کی بنا ہو سکتی ہے۔ مگر باایںہمہ اس میں ایک اور شبہ کا عارض ہونا باقی رہ جاتا ہے یعنی وہ حدیث اس لیے کہ صرف ایک ہی شخص کی روایت ہے مفید یقین نہیں ہو سکتی بلکہ افادہ ظن کرتی ہے ۔ اس شبہ کے سبب سے احادیث مستندہ کے بھی تین درجے قائم کیے گئے ہیں اور وہ یہ ہیں: (۱) متواتر (۲) مشہور (۳) خبر آحاد۔ متواتر۔ وہ حدیثیں کہلاتی ہیں جن کو جناب پیغمبر خدا کے زمانہ سے لے کر جملہ اصحابہ کبار اور علمائے دین نے ہر ایک زمانہ میں پے در پے بالاتفاق صحیح اور مستند تسلیم کر لیا ہو اور ان میں سے کسی نے کبھی کوئی جرح و قدح نہ کی ہو ہر زمانے کے علماء کا قول ہے کہ صرف قران مجید ہی حد تواتر کو پہنچا ہے مگر بعض حدیثوں کو بھی متواتر بتاتے ہیں اور ان کی تعداد پانچ سے متجاوز نہیں ہوتی۔ ایسی احادیث پر بلا تکلف اعتبار کرنا اور ان پر معتقدانہ عمل کرنا واجب ہے۔ مشہور: ان حدیثوں کوکہتے ہیں جو متواتر کے درجہ تک نہ پہنچی ہوں مگر زمانے کے عالموں نے ان کے صحیح ہونے کو تسلیم کیا ہو۔ یہ وہ حدیثیں ہیں جو ہماری کتب احادیث میں جو معتبر گنی جاتی ہیں منقول ہیں اور اس باعث سے ان کی صحت بالعموم مسلم ہے اورہمارے بعض عقائد مذہبی بھی ان پر مبنی ہیں گو کہ وہ درایتاً تنقیح اور تنقید کے امتحان سے بری نہیں ہیں۔ خبر آحاد۔ ان حدیثوں کا نام ہے جو مذکورہ بالا حدیثوں کے اوصاف تک نہیںپہنچیں اور اسی قسم کی حدیثیں بہت کثرت سے حدیث کی کتابوں میں ہیں۔ علمائے اسلام اس باب میں کہ اس پچھلی قسم کی حدیثوں پر کوئی عقیدہ مذہبی مبنی ہو سکتا ہے یا نہیں مختلف الرائے ہیں۔ جن لوگوںنے کہ احادیث کے جمع کرنے کا بوجھ اٹھایا تھا ا ن میں سے جو سب سے اعلیٰ اور افضل اور ائمہ حدیث کہلاتے تھے انہوں نے اپنی ہمت صرف اس بات پر مصروف کی تھی کہ راویوں کے اعتبار کی کماحقہ تحقیق کرنے کے بعد حدیثوں کو لکھیں اور انہیں لوگوں کی لکھی ہوئی کتابیں صحاح میں داخل ہیں۔ اوربعضوںنے اس بات پر ہمت مصروف کی تھی کہ جس قدر حدیثیں ان کو ملیں وہ جمع کر لیں انہیں ہوئی کتابیں دوسرے درجہ کی گنی جاتی ہیں۔ اس میںکچھ شک نہیں کہ جامعین حدیث نے ایک ایسی حدیث کو نہ اختیارکیا ہو گا جو علانیہ بادی النظر میں غلط ہو مگر جس قدر کہ حدیثیں انہوں نے منتخب کر کے جمع کر لیں۔ اس پر ان کو ازروئے درایت کے تحقیق اور تدقیق کرنے کا موقع نہیں ملا۔ انہوںنے یہ کام اپنے سے بعد کے لوگوں پر چھوڑا تھا۔ افسوس ہے کہ ان کے بعد ان کی حدیثوں کی ایسی وقعت لوگو ں کے دلوں میںبیٹھ گئی تھی کہ ان کو بجز خاص علمائے محققین کے درایتاً ان حدیثوں کی تنقیح اور تنقید کی جرات نہیں ہوئی ۔مگر ازروے مذہب اسلام کے ہر ایک مسلمان کا حق ہے کہ ان کی حدیثوںکی درایتاً تنقیح اور تنقید کرے۔ ہمارے مورخیننے اور مفسرین نے جو کام کیا ہے وہ یہ ہے کہ تمام دلدر اورناقص اور ضعیف حدیثوں کو اپنی تصنیفات میں جگہ دیتے ہیں۔ عیسائی عالم جو کسی حدیث کے درجہ صحت اور تحقیق کے ان قواعد سے جو علمائے اسلام نے مقرر کیے ہیں محض ناواقف ہوتے ہیں اوردرایت کے تو نا م سے بھی واقف نہیں ہیں جب کوئی ایسی کتاب پڑھتے ہیں جن میں بجز بدترین احادیث اور روایات کے اور کچھ نہیں ہوتا تو اپنے دل میں سمجھ لیتے ہیں کہ جزئیات اسلام سے واقف ہو گئے ہیں اورہمارے مذہب کی نکتہ چینی اورتصحیک شروع کر تے ہیں اور جب کہ ان کی یہ مایہ افتخار تصنیفیں مسلمانوں کی نظر سے گزرتی ہے تو اس کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ مصنفین کی بے علمی اور تعصب پر جو انکی تصنیفات سے مترشح ہوتی ہے ہنستے ہیں اور ان کی بے فائدہ صرف اوقات پر افسوس کرتے ہیں۔ سر ولیم میور اور دیگر عیسائی مصنفوں کے شبہات کی تردید اگرچہ ہم نے مسلمانوں کی روایتوںکا پورا پور ا اور بہ تفصیل بیان کیا ہے تاہم بہ نظر تحقیق اس آگاہی کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو ہم کو اپنے نبی کی سوانح عمری لکھنے والے دو لئیق عیسائی مصنفوں سے حاصل ہوئی ہے یعنی اے اسپرنگر ایم ڈی اور سر ولیم میور ایل ایل ڈی سے۔ ڈاکٹر اسپرنگر نے مسلمانوں کی روایتوں اور راویوں کی نسبت بہت تھوڑا بیان کیا ہے اور اس تھوڑے ہی بیان سے ان کے اس مضمون سے بہت کم واقفیت ظاہر ہوتی ہے یہاں تک کہ ان کی مثال ٹھیک ٹھیک اس شخص کی سی ہے جو نہایت تاریکی پڑا ہو اور نور کی حقیقت کی تلاش میںتعصب اور کم فہمی سے جھوٹے شبہوں سے دھوکا کھا کر راہ گم کر دیا ہو اوربے اصل چیزوں کی پیروی میں اصل چیز کو بھی ہاتھ سے کھو دیا ہو۔ مگر ان کا ایک بیان قابل غور ہے وہ کہتے ہیں ہ کتب دینیات اہل سنت و جماعت کے ہاں چھ کتابیں ہیں کہ کتب دینیات اہل سنت و جماعت کے ہاں چھہ کتابیں سب سے معتبر ہیں یعنی صحیح بخاری‘ مسلم‘ سنن ابو دائود‘ ترمذی نسائی ابن ماجہ ۔ ان کے علاوہ بھی کتابیں ہیں جو اکثر سابق پر مبنی ہیں جن کی سنیوںکے ہاں بہت قدر ہے ۔مثلاً (واضح ہو کہ بعض ناموں کی صحت جو انگریزی میں لکھے ہوئے تھے نہیں ہو سکی) دارمی‘ دارقطنی‘ ابن عیینہ ‘ اصمعی‘ برقانی ‘ احمد سننی‘ بیہقی‘ حمیدی خطابی ‘ بغوی‘ رزین‘ جرزی ‘ ابن الاثیر‘ مبارک ابن جوزی‘ نووی۔ اب اول تو یہ اخیر کی چودہ کتابیں نا میں سے جس قدر سے کہ ہم واقف ہیں پہلی چھ کتابوں پر مبنی نہیں ہیں سوائے مشکوۃ کے جو بغوی کی ہے اور اکثر ان میں کی غیر معتبر اور غیر مستند ہیں اور ان میں جو حدیثیں مذکور ہیں وہ ان چھ کتابوں میں نہیں ہیں دوسرے یہ کہ کوئی حدیث ہو خوا ہ وہ پہلی قسم ی کتابوں میں ہو خواہ دوسری قسم کی کتابون میںنہ کسی مذہبی عقیدہ کی بنا پر قرار پائی ہے۔ نہ صحیح اور مستند تسلیم ہوتی ہے جب تک کہ وہ ان قواعد سے جو اوپر مذکور ہوئے صحیح نہ ثابت ہوتی ہو۔ سر ولیم میور نے کسی قدر طوالت کے ساتھ اسلام کی روایتوں اور راویوں کی نسبت بحث کی ہے مگر ہم بافسوس بیان کرتے ہیں کہ ان کی طرز تحریر سے صاف منکشف ہوتا ہے کہ قابل اس کے کہ ایک غیر جانبدارانہ ار آزادانہ تحقیق ارو جائز اور منصفانہ دلیل سے کوئی نتیجہ مستخرج کریں۔ان کے دل میں یہ بات سمائی ہوئی تھی کہ یہ سب روایتیں جھوٹی اورلوگوں کی محض بناوٹیں اور ایجادیں ہیں اور اول ہی سے اس بات کا قصد کر لیا ہے کہ ان سب روایتوں کو ایسا ہی ثابت کریں وہ امر حق کی تحقیق کرنا نہیں چاہتے گو وہ امر حق کچھ ہی کیوں نہ ہو جس کی تحقیق ہر بے غرض مصنف کا اصلی منشاء ہوتاہے یا کم سے کم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہونا چاہیے۔ ان کے طرز استدلال ہی سے ان کی غرض ظاہر ہو جاتی ہے ۔ وہ اس فقرہ سے مطلب کو آغاز کرتے ہیں کہ ’’اگلے مسلمانوں کی عادتیں روایت کے رواج کی موید تھیں‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’اپنے نبی کے کاموں اور باتوں سے زیادہ اور کس بات پر مسلمانان سابق سرگرمی سے بحث کرتے‘‘ اس کے بعد صاحب موصوف یہ رائے بیان کرتے ہیں کہ ’’ان روایات ہی نے امتداد زمانہ کی وجہ سے محمد صلعم کو عجیب و غریب اوصاف سے متصف کردیا۔ ان کے پیروئوں کے دل میں نادانستہ یہ خیال گزر اکہ محمد صلعم کو انسانی طاقت سے برھ کر قدرتیں حاصل ہیں … اسی مادہ سے ا قدر کچیر روایتیں وجود میں آئیں ۔ جب کبھی ان بیانات کے امتحانکے لیے واقعات کو کوئی اندازہ سردست موجود نہ ہوتا تو حافظے کو قوت واہمہ کی بے روک کوششوں سے مدد دی جاتی‘‘ ’’صحاب کبار کی روایتوں کی تعظیم اور حرمت جو زمانہ ما بعد میں لوگوں کو تھی ‘‘ وہ بقول صاحب موصوف ’’امتداد ایام کا اثر تھا جو لوگوںکے دلوں میں اور روایتوں پر خود بخود ہو ا ہو گا‘‘۔ اب کہ سر ولیم میور اس طرح پر استدلال کرتے ہیں تو یہ سوال پیش آتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ نیک اور پرہیز گار شخص کا کیا حا ل ہو گا اگر اس کی ہر بات اور ہر حرکت کو دغا بازی اور ریاکاری کی دھندلی اور خراب عینک سے دیکھیں اور اس کے جملہ کلمات اورافعال کی غلط تاو یل کریں اورجس قدر خراب معنی ہمارا حسد ایجاد کر سکے ان کے اوپر عائد کریں۔ کیا حضرت موسیٰ کے تما م معجزات ’’ان کے عصا کا سانپ کی شکل میں ہو جانا‘ ان یا ید بیضا۔ ’’دریا کا خون کی مانند ہو جانا‘‘ ’’مینڈکوں کی وبا‘‘ اور ان معجزات جو ان کے مصر میں ظہور پذیر ہوئے تھے ’’بحر احمر میںبنی اسرائیل کے لیے رستہ کا کھل جانا‘‘ من و سلویٰ کاآسمان سے برآمد ہونا ’’پتھر کی منقش لوہوں کا ملنا جن پر خدا تعالیٰ نے اپنی انگشت مبارک سے لکھا تھا ‘‘ خدا تعالیٰ کا بنی اسرائیل کو تمام قوموں پر ترجیح دینا اور ان کو ’’میری منتخب قوم‘‘ کے خطابات سے سرفراز کرنا اور اس قدر برکتیں ان کو عطا فرمانا اور حضرت اسرائیل کو’’میرا پہلونٹا‘‘ بیٹا کہہ کر ممتاز کرنا ۔ کیا ان سب باتوں کو دل لگی کے قصے اس طرز استدلال کے طور پر جس کو سر ولیم میور نے اختیار کیا ہے نہیں کہہ سکتے؟ جن کو اس نبی کے سرگرم پیرئوئوں یعنی بنی اسرائیل نے ایجاد یا وضع کیا ہو۔ جنھھوں نے بہ سبب ’’متشکیانہ تعظیم‘‘ اور ’’شائقانہ تکریم‘‘ کے امتداد زمانہ میں اپنے نبی کو ’’عجیب و غریب اوصاف سے‘‘ متصف کر دیا۔ کیا یہ بات بھی حضرت موسیٰ پر اسی طرح صادق نہیں آ سکتی ہے کہ ’’ان کی وضع شان کو دھیان اور مراقبہ سے عروج حاصل ہوا اور جس قدر دور زمانہ ان کے پیروئوں سے انکو کرتا ہے ۔ اس عجیب و غریب انسان کا نقشہ جو آسمان کے فرشتوں (بلکہ خود خدا ہی سے) بے تکلف پیغام و سلام رکھتا تھا زیادہ دندلا لیکن زیادہ بڑا تناسب حاصل کرتا گیا۔ دل میں نادانستہ یہ خیال گزرا کہ ان کو انسانی طاقت سے زیادہ قدریںحاصل ہیں اورایسے سامانوں سے جو انسان کے امکان اے برہ ہیں گھرے ہوئے ہیں‘‘ حضرت عیسیٰ اور ان کے بااعتقاد اور سرگرم متعین کا اس وقت کیا حال ہوتا کاگر ہر شخص ان روایات کو محض بناوٹی ایجادیں سمجھ کر مضحکہ میں ڈال دیتا جن میں حضرت عیسیٰ کی کراماتی پیدائش اپنے متبعین کو دکھلانا اور ان کا آسمان پر چرھ جانا اور اللہ تعالیٰ کے دست راست کی طرف بیٹھنا یعنی حسب قانون و حدت فی الثلیث کے اپنے ہی دست راست کی طرف بیٹھنا مذکور ہے۔ لیکن عقل و فہم کی تعظیم ہم کو ان لوگوں کی احادیث اورافعال پر عیب رکھنے اور ان کی بدترین تاویل کرنے سے مانع آتی ہے جنہوں نے تقویٰ اور نیک اعمال کی وجہ سے شہرت او عظمت حاصل کی ہو۔ اور ا س امر سے بھی البتہ انکار نہیںہو سکتا۔ کہ ہر مصنف کو لازم ہے کہ جب اوروںکی تحریرات اورتصنیفات کی چھان بین کرنے کا ارادہ کرے تو اپنے آپ کو تعصب اور کم ظرفی سے پاک اور صاف کر لے۔ محمد رسول اللہ کے اصحاب اور خلفاء ایسے لوگ تھے جنھوں نے اپنے آپ کو محض خدا تعالیٰ کی طرف مصروف کر دیا تھا ۔ وہ امر حق کو مانتے تھے اور اس جہان فانی کو نظر حقارت سے دیکھتے تھے وہ ایمان دار صادق القول اور نیک طینت تھے اورہمارے احادیث کے جمع کرنے والوں نے بدیں غرض کہ احادیث نبوی کا ایک مجموعہ ہو جاوے دور دراز تک کے سفر اختیار کیے تھے۔ انہوں نے احکا وقت کے ہاتھ میں سخت تکلیفیں اٹھائیں تھیں۔ ان کو بے شمار دقتیں پیش آئیں اور ایسی ایسی مصیبتیں اور اذیتیں سہنی پڑیں جو یہ مشکل خیال میں آ سکتی تھیں۔ بایں ہمیہ انہوںنے کبھی اپنے کام سے پہلو تہی نہیں کی اور ان کو انجام تک پہنچایا جس سے صریح ثابت ہے کہ ان کو دینی اور نیک نیت وجہوں سے ا س امر کی تحریک ہوئی تھی۔ اور ہم کسی طرح مجاز نہیں ہو سکتے کہ ان کے افعال کو ریاکاری اور فریب کی طرف منسوب کریں اور یورپین تصنیفات کے ا س بے بنیاد بیان پر کہ محض بناوٹی ایجاچیں ہیں ان کی بے جا تحقیر کریں۔ سر ولیم میور بیان کرتے ہیں کہ ’’ترقی پذیر سلطنت کی احتیاطیں قرآن کے مجموعہ سیاست کی افزایش کی خواہاں ہوئیں۔ جو چیز کہ پہلے عربوں کی سادہ وضعی اور لامحدود نظام مدنی کے واسطے بخوبی کفایت کر تی تھی ان کی اولاد کی روز افزوں احتیاجوں کے واسطے غیر مکتفی ہو گئی۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ اور اسی کے قسم کے اسباب قرآن کے معدود اور معرا مسائل کی توسیع اور ا س کے اخلاق کے غیر مکمل مجموعہ کی تکمیل کے متقاضی ہوئے‘‘۔ اس بیان میں سر ولیم میور نے دو طرح کی غلطیاں کی ہیں ایک تویہ کہ جامعین حدیث کو ترقی سلطنت اور مجموعہ سیاست سے کھچ سروکار نہ تھا ۔ یہ لوگ محض دین کی طرف متوجہ تھے اور ان ہوں نے احادیث نبوی کو محض باغراض دینی جمع کیا تھا۔ ان کی جمع کی ہوئی حدیثوں میںدین ہی کو بہت بڑی نسبت ہے ‘ یعنی ان کا بیسواں حصہ بھی امور سیاست سے متعلق نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے امور متعلق سیاست کو الہامی سمجھا ہو۔ خود جناب پیغمبر خدا اپنے زمانہ میں ایسے امور میں صحابہ سے صلاح لیتے تھے اور اس اصلاح کے مطابق کاربند ہوتے تھے۔ اس زمانہ کے بعد بھی ان روایتوں کو جو سیاست سے متعلق تھیں کسی نے الہامی نہیں سمجھا۔ چنانچہ ان کی تفصیل ہم اوپر بیان کر چکے ہیں قران مجید اور نیز جناب پیغمبر خدا نے ہر چیز متعلق سیاست اور انتظام مدن کو باستثنائے چند اصول عام کے بالکل فرماں روائوں کی رائے پر چھوڑ دیا ہے اورصرف یہ حکم دیا ہے کہ ذی فہم لوگوں سے مشورہ کر کے کام کریں جو زمانہ کے حالات اور ڈھنگ کے واسطے ضروری ہیں۔ پس مسلمانوں کو اور ان کی اولاد کو اپنی روز افزوں احتیاجوں کے واسطے قرآن مجید کی تکمیل کے لیے حدیثوں کی تلاش کرنے کی کچھ ضرورت نہ تھی۔ ہاں بلاشبہ مسلمانوں یہ خواہش تھی کہ ہر امر میں خواہ وہ دین سے متعلق ہو یادنیا سے اسی طرح پر کارروائی کریں جس طرح کہ پیغمبر خدا نے کی تھی اوریہ اس محبت و عشق کا تقاضا تھا جو ہم مسلمان اپنے پیغمبر کے ساتھ رکھتے ہیں اور اسی کے لیے ہر قوم کی احادیث کو جمع کرتے ہیں۔ پس یہ عشق اور محبت نہایت قابل ستائش تھی۔ مگر افسوس ہے کہ سر ولیم میور نے مسلمانوں کی اس عمدہ صفت کو بھی بدترین تاویل میں بیان کیا ہے ۔ اس کے بعد سر ولیم میور صاحب یہ فقرہ لکھ کر کہ ’’اولا قرآن ہی چل و چلن کا نافذ قانون تھا‘ یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’پھر وہ اپنی غرض اصلی کے واسطے مکتفی نہ ہوا اواس نقص کی تلافی سنت یعنی پیغمبر صاحب کے احکا م اور افعال سیکی گئی‘‘ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’انہوں نے یعنی پیغمبر خدا نے کبھی اپنے آپ کو خطا سے مبرا قرار نہیں دیا۔ بجز اس صورت کے جب اللہ تعالیٰ کی طرف اے القاء ہوتا تھا۔ مگر اس نئے عقیدہ نے یہ بات ترا ش لی کہ پیغمبر صاحب کے ہر قول و فعل میں ایک الٰہی غیر خاطی ہدایت منضم ہے۔ ہم مسلمانوں کا معاملات دینی و دنیوی میں اپنے پیغمبر کی تقلید میں کوشش کرنا خواہ وہ امور دین سے علاقہ رکھتے ہوں خواہ امور دنیا سے خواہ امور سیاست مدن سے اور خواہ امور متعلق عادت اورعبادت سے دوسری چیز ہے اور اس بات کا اعتقاد کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسل کا کون سا قول اور ازروئے وحی کے غیر قابل خطا تھا اورکون سے افعال صحابہ کے مشورہ سے کیے گئے تھے جن کو وحی سے کچھ تعلق نہ تھا دوسری چیز ہے۔ سر ولیم میور نے لوگوں کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے خواہ خود غلطی میں پڑ کر ہماری نسبت ناانصافی سے یہ اعتقاد منسوب کیا ہے کہ جناب پیغمبر خدا کے ہر قول و فعل میں ایک الٰہ اور غیر خاطی ہدایت منضم ہے۔ ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ ہم مسلمان قول و فعل اپنے پیغمبر کے اسی ادب اور عظمت سے دیکھتے ہییں۔ جیسے کہ ایک نبی اولولعزم کے اقوال اور افعال ادب اورعظمت کے مستحق ہیں سر ولیم میور بیان کرتے ہیں کہ ’’روایتوں کی بناوٹ اور اشاعت کا کام عوام الناس کے فائدوں اور سلطنت کے ملکی حالات پر اس قدر موثر تھا کہ بطور خود لوگوں کی سرگرمی پر بالکل چھوڑ دینے کے قابل نہ تھا‘‘ اور اپنے بیان کی تائید میں ڈاکٹر اسپرنگر کے مندرجہ ذیل فقرہ کو نقل کرتے ہیں کہ قسطلانی شرح بخاری س ان کو ہاتھ لگا تاھ اوروہ فقرہ یہ ہے :’’چوں کہ پیغمبر صاھب کے ہر معتبر اور صحیح بیان کی جو دسیتاب ہو سکے قلم بند کر دینے کی ضرورت اشد تھی اس لیے خلیفہ عمر نے ایک گشتی حکم اس باب میں جاری کیا اور بالتخصیص ابوبکر بن محمد کو روایات کے جمع کرنے پر مامور کیا‘‘۔ اگر قسطلانی نے یہ مضمون لکھا تو محض غلط ہے۔ حضرت عمرؓ حدیثوں کے جمع کرنے کے خود مخالف تھے جس کو سر سلیم میور نے بھی قبول کیا ہے ل۔ اورجو عنقریب معلوم ہو گا۔ کسی خلیفہ یا کسی مسلمان حاکم نے ان لوگوں کے کام میں جو بطور خود حدیثیں جمع کرتے تھے کبھی دخل نہیں دیا۔ ہ علانیہ کہتے ہیں کہ وہ لو گ جن کا یہ بیان ہیے کہ ’’خلیفہ عمر نے تمام احادیث موجود ہ کے باقاعدہ جمع کرنے کا گشتی حکم جاری کیاتھا‘‘ ہم کو حدیث کی کوئی ایک کتاب بھی تامام کتب احادیث میں سے ایسی نشان دیں جو کسی خلیفہ یا حاکم کے حکم سے جمع کی گئی ہو۔ برخلاف اس کے ہم اعتماد سے کہتے ہیں کہ یہ کل کتابیں بل استثناء ایسے مقدس لوگوں نے مرتب کی تھیں جواپنے زمانہ کے خلفا کے دربار میں جانے سے بھی ازحد پرہیز کرتے تھے۔ اس زمانہ کے خلفا جناب پیغمبر خدا کے خلیفہ نہ تھے بلکہ سلاطین اور بادشاہ تھے کیوں ککہ سلسلہ خلافت کا جناب رسالت مآب کی وفات کے تیس برس بعد ختم ہو گیا تھا۔ سر ولیم میور نے اپنی کتاب کے حاشیہ میں نہایت ضعیف اورنہایت غیر مستند روایتیں و اقدی سے نقل کرتے ہیں۔ ان روایتوں میں اخیر روایت یہ ہے کہ خلیفہ عمر جانشین ابوبکر نے سنت کے قلم بند کرنے کا ارادہ کیا اور ایک مہینہ تک اس باب میں اللہ جلشانہ سے دعا کی۔ لیکن آخر کار جب اس کام کے شروع کرنے پر آمادہ ہوئے تب یہ فرما کر باز رہے کہ ’’مجھ کو ایک قوم کا ذکر یاد ہے جنہوں نے اسی قسم کی تحریرات قلم بند کری تھیں اور کتاب ربانی کو چھوڑ کر ان پر عمل کیاتھا‘‘۔ یہ روایت جس طرز میں واقدی نے نقل کی ہے وہ ایسی ہے جیسی کہ اس قسم کی روایتوں میں ایک افواہی باتیں شامل ہو جاتی ہیں۔ دراصل بات صرف اتنی ہے کہ حضرت عمرؓ احادیث جمع کرنے کے برخلاف تھے اوران کو یقین تھا کہ حدیثوں کو ٹھیک ٹھیک طور پر جمع ہونا نہایت مشکل ہے ۔ اور ان کے جمع ہونے سے بلاشبہ ایسی ہی خرابی پیدا ہو گی۔ جیسی کہ یہود کے ہاتھ پیدا ہو گئی۔ اختلاف روایات کے اسباب یعنی انسان کے حافظہ کا عام ضعف‘ غلطیاں مبالغے ‘ تعصب ‘ حمایت اورنیز وہ تفرقہ اور وہ فساد جو بعد شہادت حضرت عثمان کے اسلام میں پھیل گیا تھا سر ولیم میور نے بیان فرمایا ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’اسی صدی پر روایات موجودہ کی باقاعدہ تلا ش شروع ہوئی اور باضابطہ لکھی گئیں۔ وہ نمونہ اس وقت ڈھالا گیا تھا کم سے کم اپنی مخصوس ہئیت پر برابر چلا آیا‘‘۔ ہم کو اس مقام پر اختلاف روایات سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ہم اس کو اوپر بیان کر چکے ہیں لیکن ہم کو اس بات کے دیکھنے سے نہایت تعجب ہوتا ہے کہ اگر سر ولیم میور کے نزدیک قریب قریب تمام موجودہ روایات اسلام محض بناوٹی ہیں بایں ہمہ انہوںنے اپنے سب بیانات کو واقدی کی روایت پر مبنی کی اہے جس میں ضعیف ترین روایات منقول ہیں اور طرفہ یہ ہے کہ ان سب روایتوں کو ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ حالاں کہ تحقیق اور غیر متعصبانہ تصنیف کے مسلمہ قوانین کی رو سے اورنیز مطابق اپنے عقیدہ کے ان کو لازم تھا کہ اول احادیث صحیحہ اور موضوعہ کی تحقیق اور تمیز کرتے اورپھر مذہب الام اور بانی اسلام کی نسبت معترض ہوتے۔ تمام عیسائی مصنفوں کی تصنیفات میں جنھوں نے دین اسلام کی نسبت لکھکا ہے اسی امر ضروری کی کوتاہی پائی جاتی ہے مگر وہ اپنے عیبوں کو نہایت خوش گواری سے ہضم کر جاتے ہیں اوردوسروں کی نسبت عجیب وغریب پیرایہ میں نکتہ چینی کرنے کو موجود ہوتے ہیں۔ اگر سر ولیم میور کی محض غرض ہیکہ روایات اسلام کا لغو اورغیر معتبر اور موضوع ہونا لوگوں کو معلوم ہو جاوے تب بھی مذہب اسلام کی کچھ بے حرمتی اور ذلت نہیں ہے۔ مسلمانوں نے اس امر کو کچھ چھپا نہیں رکھا۔ کیوںکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر کتابیں حدیث صحیحہ کی او رغیر صحیحہ میں تمیز کرنے کی غرض سے لکھی گئی ہیں اوران کی صحت اور درجہ اعتبار کے جانچنے کے لیے اصول و قواعد اور سخت امتحانات قرار دیے گئے ہیں اور جھوٹی حدیثوں کے بنانے والے مجرم ٹھہرائے گئے ہیں۔ عیسویی مذہب میں جھوٹی روایتوں کی کثرت ہم اس بات کے بیان سے باز نہیں رہ سکتے کہ اس باب میں یہود کے مذہب کا حال بدتر اور عیسائی مذہب کا بدترین ہے۔ مذہب عیسوی میں موضوعہ کتابوں اور بے شمار رسالوں کی وجہ سے کتب دینی جو روزانہ ہر کلیسا میں مستعمل ہوتی تھیں وہ بہت بڑھ گئی تھیں اوردین دار لوگوں کے باہم بے انتہا مناقشوں اور قضیوں کے باعث ہو گئی تھیں جب کہ قسطنطین اعظم نے دین عیسوی قبول یا تو ن جملہ اغراض کے جن کے واسطے اس نے مجلس نی (نیسا) کو ۳۲۰ء میں جمع کیا تھا ایک یہ بھی غرض تھی کہ صحیح اور موضوع اناجیل میں تمیز کی جاوے۔ والٹیر لکھتا ہے کہ ’’عیسائیان سابق اس بات سے مورد نفرین تھے۔ کہ انہوںنے عیسیٰ کے نام پر صنعت توشیح میں چند اشعار لکھ کر ایک پرانی کاہنہ کی طرف منسوب کیے تھے اور حضرت عیسیٰ کی طرف سے بادشاہ اوڈیساکے نام جعلی خطوط بنائے جس زمانہ میں کسی ایسے بادشاہ کا وجود بھی نہ تھا حضرت مریم کے خطوط اورافعال مصنوعی اناجیل ‘ جھوٹے معجزات اور اور ہزاروں جعل سازیاں اور فریبوںکے الزامات بھی لگائے تھے یہاں تک کہ حضرت عیسی کے بعد دو یا تین صدیوں کے اندر اس قسم کی کتابوں کی تعداد بھی کثیر ہو گئی تھی۔ وہ اہم مسئلہ دربارہ الوھیت مسیح ‘ جس نے کلیسائے نصارے میں ہلچل ڈال دی تھی۔ مجلس نیس میں جو روم کے بادشاہ قسطنطین نے ۳۲۵ء مٰں منعقد کی تھی۔ اس مجلس میں اٹھارہ بشپ اور دو ہزار پادریوں نے مسیح کی الوھیت سے انکار کیا۔ اورا س پر حجت کی کہ لیکن نہایت ‘سخت مباحثوں اور مناظروں کے بعد یہ بات قرار پائی کہ حضرت مسیح خدا کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ خدائے پدر سے پید اہوئے ہیں (نعوذ باللہ) ایریس جو من جملہ اٹھارہ بشپ ہائے معترضین کے تھا فرقہ یونیٹیرین (موحدین) کا سرغنہ ہوا۔ یعنی ان لوگوں کا جو حضرت مسیح کی الوحیت کے منکر تھے۔ اور اسی بنا پر بالزام بے دینی جلاوطن کیا گیا۔ لیکن تھوڑے ہی عرصہ کیبعد اس کو قسطنطنیہ میں پھر بلا لیا اور اپنے عقائد کو فوقیت بخشنے میں کامیاب ہوا۔ حتیٰ کہ وہ تمام صوب جات روم میں انہوںنے رواج پایا۔ باوجود اس کے کہ اس کے سخت مخالف آثاناسیوس نے جو فرقہ تثلیثیہ کا سرگروہ تھا از حد کوشش کی۔ اسی مجلس نیس کی کارروائی کے تتمہ میں مرقوم ہے کہ آبائے کلیسا نے اس امر کی تحقیق میں نہایت ششدر ہو کر کہ توریت اورانجیل میں کون سے صحیف صحیح اور کون سی غیر صحیح ہیں ان سب کو بلا تمیز و لھاظ ایک قربان گاہ پر رکھ دیا۔ سنا ہے کہ جو صحیفے لائق تنسیخ تھے زمین پر گر پڑے۔ دوسری مجلس ۳۸۱ء میں قسطنطنیہ میں منعقد ہوئی تھی جن میں ان امور کی جو روح القد س کے بارہ میںمجلس نیس نے غیر منفصل چھوڑ دیے تھے تشریح کی گئی تھی اور اسی موقع پر یہ عقیدہ قرار پایا کہ روح القدس بلاشک وہ رب ہے جو باپ سے نفاذ پاتا ہے اوباپ اور بیٹے کے ساتھ باہم مخلوط ہو کر اس نے احترام حاصل کیاہے۔ ۴۳۱ء میں تیسری عام مجلس نے جو بہ مقام افیسس مجتمع ہوئی تھی یہ فیصلہ کیا کہ حضرت مریم بلاشک ام اللہ تھیں۔ خلاصہ یہ کہ حضرت عیسیٰ کی دو صفتیں تھیں اور ایک وجود۔ نویں صدی میں کلیسائے روم اور یونان کے مابین وہ اختلاف و تفرقہ عظیم واقعہ ہوا جس کے بعد شہر روم میں تخمینا انتیس خون ریز مشاجرات کرسی پوپ کے حصول کے واسطے واقع ہوئے‘‘۔ ٭٭٭ اسلامی روایا ت پر سر ولیم میور کی تنقید ارو اس کا تحقیقی جواب سر ولیم میور ان مضرت آمیز اسباب کا ذکر کے جو خلیفہ مامون الرشید کی متعصبانہ عمل داری میں اپنی کارروائی کو رہے تھے اور یہ بیان کر کے کہ ’’روایتوںکا عام طور سے جمع ہونا ایے ہی اسباب کی وجہ سے عمل میں آیا‘‘ یہ فرماتے ہیں کہ ’’خراب اور بے اصل مادہ کی کثرت خود مسلمانوں ہی کی چھان بین کے اندازہ سے قیاس کی جا سکتی ہے ان کا قول ہے کہ اس باب میں ڈاکٹر ویل کی رائے قابل اعتماد اور لائق تعریف ہے‘‘۔ ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں کہ ’’ایسے وقت میں روایات زبانی پر اعتماد کرنے نے جب کہ وہ حافظہ سے منتقل ہوتی آئی تھیں اورہر روز نئے نئے اختلافات اسلام میں پیدا کرتی تھیں اختراع اور بناوٹ کے لیے ایک وسیع رستہ کھول دیا جب کہ کسی دینی یا دنیاوی معاملہ کی حمایت کی ضرورت ہوتی تو اس سے سہل کوئی بات نہ تھی کہ پیغمبر صاحب کی کسی زبانی روایت کا حوالہ دیتے۔ اس قسم کی روایات کی اصلیت اور جس طور سے کہ محمد صلعم کے نام کو تمام دروغ اور بے ہودہ ممکنات کی تائید میں بدنام کرتے ہیں اس امر سے صاف صاف ذہن نشین ہو سکتا ہے کہ بخاری نے جو علماء سے روایات حاصل کرنے کے واسطے ملکوں ملکوں پھرا تھا بہت سے برسوں کی چھان بین کے بعد اس بات پر قرار پکڑا کہ من جملہ چھ لاکھ روایات کے جن کا اس زمانہ میں مروج ہونا تحقیق ہوا تھا صرف چار ہزار معتبر اور مستند تھیں اور منتخب تعداد میں سے یورپین محقق کم سے کم نصف کے خارج کرنے پر بلا وسواس مجبور ہوتا ہے۔ اس زمانہ کے بالیاقت جامعین کے تجربہ سے بھی یہی منکشف ہے اسی طرح ابودائود کی نسبت بھی یہی سنا گیا ہے کہ پانچ لاکھ روایتوں میں سے جو ا سنے جمع کی تھیں چار لاکھ چھیانوے ہزار کو صرف مستند قرار دیا گیا‘‘۔ اس جگہ ہم اس بات پر کہ تعداد اور روایات خارج شدہ کی کیا اصلیت ہے اورکس اصول پر خارج شدہ روایتیں خارج کی گئی تھیں اور آیا کہ اس سے ان کل روایتوں خارج شدہ کا موضوع ہونا لازم آتا ہے یا نہیں بحث کرنی نہیں چاہتے۔ بلکہ ہم ڈاکٹر ویل اور سر ولیم میور دونوں کی رائے سے متفق ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم اس بات کا بھی افسوس کرتے ہیں کہ ڈاکٹر ویل کے اس بیان کے بہ موجب کاربند ہونے کے بجائے کہ ’’چار ہزار روایات منتخبہ بخاری میں سے یورپین محقق کم سے کم نصف کے خارج کرنے پر بلا وسواس مجبور ہوتاہے‘‘ یورپین محققوں نے جن میں سر ولیم میور سب سے اول نمبر پر ہیں بخاری کی چار ہزار روایات پر بھی قناعت نہ کر کر اپنی تصنیفات کو واقدی‘ ہشامی ‘ مولود نامہ‘ معراج نامہ‘ اور اور کتابوں پر جن میں بجز بے ہودہ باتوں کے اور کچھ نہیں ہے اور جن کو خود مسلمانوں ہی نے خارج کر دیا ہے مبنی کر نے کی جانب مائل ہوئے ہیں۔ سر ولیم میور بیان کرتے ہیں کہ ’’جامعین نے گو کہ وہ غیر معتبر روایات کے اخراج میں بے دھڑک تھے روایات معتبر کی تمیز میں کسی عمدہ قانون کا برتائو نہیں کیا‘‘ اس کی تشریح وہ اگلے جملہ میں اس طرح پر کرتے ہیں کہ ’’مضمون روایت سے کچھ بحث نہ تھی بلکہ محض نام ہی جن کی طرف وہ روایت منسوب ہوتی تھی مسئلہ اعتبار کو حل کر دیتے تھے۔ اگر یہ نام الزام سے مبرا ہوتے تو روایت مستند قرار پاتی ۔ کوئی بے ہودگی کیسی ہی صریح کیوں نہ ہو کسی روایت کو جو ا س امتحان میں پوری ہوئی روایات ہوتی روایات مستندہ کے رتبہ سے خارج نہیں کر سکتی تھی۔ سر ولیم میور کا یہ بیان ہمارے نزدیک بالکل صحیح ہے مگر انہوںنے اس موضوع سے جس پر جامعین حدیث نے حدیثوں کو جمع کیا غور نہیں کیل۔ جس وقت کہ حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اور اول اول ان کے جمع ہونے کا کام شروع ہوا تھا تو پہلا کام جامعین حدیث کا یہ تھا ک جہاں تک ممکن ہو صرف ان راویوں کی معتبری تحقیق کر کے ان حدیثوں کو قلم بند کر لیں بشرطیکہ بادی النظر میں کوئی ایسا امر جو اس حدیث کی صحت اور نامعتبری کے لحاظ سے ان کے مضامین میں تھا اس کا وقت ان جامعین کو نہیں ملا تھا کیوں کہ پہلا ہی کام جو انہوں نے کیا وہی نہایت سخت اور مشکل تھا۔ اگرچہ پچھلے لوگوں کے دلوں میں ان بزرگوں کی جنھوں نے حدیثوں کو باعتبار راویوں کے جمع کیا تھا ایسا ادب اور ایسی عظمت جم گئی تھی کہ اکثروںنے اس دوسرے کام کی نسبت جو باقی رہا تھا توجہ نہ کی ۔ لیکن بہت سے علماء محققین ایسے گزرے ہیں جنھوں نے اس دوسرے فرض کو بھی ادا کیا ہے اور اس کے لیے قواعد بھی منضبط کیے ہیں اوراصول حدیث کی معتبری اور نامعتبری قرار دینے کو فن درایت سے موسوم کیا ہ۔ قطع نظر اس کے اس وقت ہر ایک مسلمان کے اختیار میں ہے کہ بہ لحاظ اصول درایت کے جس کتاب کی حدیث پر چار ہے اس کے معتبر اور نامعتبر ہونے کی بحث کرے اور جس کو نامعتبر سمجھے اس کو نہ مانے۔ سر ولیم میور اپنے بیان کے ضمن میں راویوں کے ایمان دار ہونے کو تسلیم کرتے ہیں مگر ساتھ ہی اس کے یہ بھی کہتے ہیں کہ موضوع روایتیں معتبر روایتوں کے ساتھ مخلوط ہو گئی ہیں اور یہ غرض تمیز مابین صحیح اور موضوع روایتوں کے اس طرح پرلکھتے ہیں۔ کہ ’’امور جن پر کسی روایت کے اعتبار کا غلطہ بالخصوص منحصر ہونا چاہے یہ معلوم ہوتے ہیں ک (۱) آیا مسلمانوں میں بالعموم مضمون مروی کی جانب رعایت اور طرف دار ی پائی جاتی تھی یا نہیں (۲) دوم یہ کہ آیا راویوں میں کسی خاص غرض تعصب یا کسی غرض کے آثار پائے جاتے ہیں یا نہیں اور (۳) سوم یہ کہ آیا راوی کو واقعات کے علم کا بذات خود موقع ملا تھا یا نہیں۔ ان تین قواعد معینہ سر ولیم میور میں اخیر کے دو قواعد کے تسلیم کرنے میں ہم کو کچھ کلام نہیںہے کیوں کہ یہ دو بھی من جملہ انہیں قواعد کے ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے قاعدہ اول کی نسبت ہم حیران ہیں کہ بغیر زیادہ کسی تفصیل کے ہم اس کواس بات کے لیے کہ آیا فلاں حدیث صحیح ہے یا غلط اور کس قدر صدق یا کذب اس میں موجود ہے کس طرح پر قاعدہ قرار دیں۔ اس حیرانی کے رفع کرنے کو ہم نے اس تفصیل کی طرف رجوع کی جو اس کی نسبت سرولیم میور نے تحریر فرمائی ہے۔ وہ مذکورہ بالا امر پر دو طرح سے نظر ڈالتے ہیں یعنی زمانہ کے لحاظ سے اور مضمون کے لحاظ سے۔ زمانہ کو وہ چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا حصہ اس وقت تک شمار کرتے ہیں ’’جب تک کہ محمد صلعم کی شہرت شروع نہیں ہو ئی تھی‘‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’پیغمبر صاحب کے اس زمانہ کے حالات کے شاہد یا تو عمر میں ان سے چھوٹے یا ان کے برابر ہیں اس واسطے پیغمبر صاحب کی ولادت سے پیش تر کے واقعات یا ان کی طفولیت کے حالات کے باب میں ان کی شاہدت معتبر نہیں ہے۔ اور ان کی نوجوانی کے سوانح بھی ان میں سے بہت کم اشخاص نے مشاہد کیے ہوں گے‘‘۔ بہ ظاہر یہ بیان لوگوں کے خیال میں صحیح معلوم ہوتا ہوگا۔ لیکن اس میں غلطی یہ ہے کہ سر ولیم میور نے سب سے اول یہ فرض کر لیا ہے کہ جیسا کہ انہوں نے خود لکھا ہے کہ ’’روایت کی سب سے پہلی ترویج کا زمانہ پیغمبر صاحب کی وفات کے بعد ہوا تھا ‘‘ مگرا س رائے کے برخلاف محکم ترین دلائل موجود ہیں اوثابت ہے کہ روایات کے بیان کرنے کی رسم جناب پیغمبر خدا کی حیات میں شروع ہوئیتھی۔ دوم یہ کہ صاحب موصوف نے اس بات کو ایک امر واقعی تسلیم کر لیا ہے کہ جملہ اصحاب اور وہ بھی جنھوں نے جناب پیغمبر خدا کی حیات میں وفات پائی تھی یا تو جناب پیغمبر خدا سے چھوٹے تھے یا ان کے ہم عمر تھے یہ امر تاریخی واقعہ کے برخلافہے اور صحابہ بھی بہ لحاظ عمر میں اتنے تو ضرور ہی تھے کہ جناب پیغمبر خدا کی ولادت کے ذرا پیش تر کے واقعات اور نیز ان کی بچپن اور جوانی کے حالات کو بہ چشم خود مشاہدہ کیا ہو اور نیز ان کو صحیح صحیح یاد رکھ کر اوروں سے بے کم و کاست نقل کیاہو۔ اور ایسے ہی لوگوں کے بیان کو ہم مستتند قرار دیتے ہیں۔ علاوہ اس کے کسی واقعہ کے صدق کی تحقیق کو محض گواہاں معاینہ کی موجودگی پر موقوف رکھنا شہادرت کے قواعد معینہ سے جن کو تمام شائتہ اور مہذب قوموں نے تسلیم کر لیا ہے سراسر انحراف کرتا ہے۔ گواھان معاینہ کے سوا اور بھی چند امور ہیں جن کا عمل ایسا ہی مستحکم ہوتا ہے ۔ اور کسی واقعہ کے صدق یا کذب کو ضرور قائم کر دیتے ہیں۔ صرف اس قدر فرق ہے کہ ہر واقعہ جس کی نسبت کوئی معتبر گواہ معاینہ تصدیق کرے فی الفور تسلیم کر لیا جاتا ہے اور صورت ثانی میں تواتر اورکثرت راویوں کی اس کی صحت کو بتلاتی ہیں ۔ پس جناب پیغمبر خدا کے کسی زمانہ کے واقعات کی تصدیق میں ہم اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ان مسلمہ قوانین کی شہادت ے بہ موجب جو انسان کے قوائے عقلی نے بدون لحاظ کسی مذہب کے مرتب کیے ہیں گواہ کے بیان کے صدق کا امتحان کریں۔ سر ولیم میور بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی واقعہ کی جانب توجہ بالتخصیص مائل نہ ہو ت واس کی نسبت کامل اور ٹھیک بیان کی امیدر کھنی بے فائدہ ہو گی اور بہت سے برسوں کے گزرنے کے بعد ایسے گواہ زیادہ سے زیادہ توقع یہ ہو سکتی ہے کہ واقعات قابل الذکر کا عام طورپر بیا ن کر دے‘‘ اس اصول کو جب صاحب موصوف جناب پیغمبر کی سوانح عمری کے ا س زمانہ تک جب کہ بقول ان کے جناب پیغمبر خدا ایک فریق کے سرگروہ ہو گئے نہایت شد و مد سے مستعمل کرتے ہیں اور اس کو اس زمانہ کے پیش تر وسعت دیتے ہیں جب کہ بقول ان کے ’’آں حضرت نے علانیہ دعویٰ نبوت کیا تھا اورشرک سے ممانعت کی تھی اوراہالیان مکہ سے کھلم کھلا لڑائی اختیار کی تھی‘‘۔ اور اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ جناب پیغمبر خدا کے ان حالات کا ٹھیک ٹھیک اور قرار واقعی دریافت ہونا جب تک کہ انہوںنے عام شہرت حاصل نہیں کی تھی غیر ممکن ہے۔ سرولیم میور کے اس فرضی اصول کو جو انہوں نے اپنی ذہانت سے اختراع کیا ہے ہم بلا وسواس مان لیتے اگر ہم اس تردد میں نہ ہوتے ہ اگر یہ اصول مان لیا جاوے تو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی اس سوانح عمری کی نسبت جو ان کی شہر ت حاصل کرنے سے پیش تر وقوع میں آئی تھی کیا کیا جاوے گا۔ کیا ’’ان کی نسبت بھی کامل اور ٹھیک ٹھیک بیان کی امید رکھنی بے فائدہ ہو گی۔‘‘ اورکیا ان حالات کا ٹھیک ٹھیک اور قرار واقعی دریافت ہونا غیرممکن ہو گا۔ ہم کو جناب پیغمبر خدا کے ا س زمانہ کی سوانح عمری کی بہ نسبت حضرت موسی ٰ اور حضرت عیسیٰ کے حالات قبل از پیدائش اور وقت پیدائش اور ان کے ایام طفولیت اور ایام جوانی کی سوانح عمری سے زیادہ غرض ہے۔ کیوں کہ ہم جناب پیغمبر خدا کے کسی واقعہ ما قبل ولادت اور ان کے کسی سوانح عمری ایام طفولیت کو ایسا نہیںپاتے جس کی صحت پر آں حضرت کی نبوت کی صحت کا درومدار ہو۔ ہم کو آنحضرت کے تمام حالت زندگی میں ایک امر بھی ایسا نہیں دکھائی دیتا جس کی اصلیت آں حضرت کی عمر کے غیر مشہورزمانہ کے کسی واقعہ کی صحت پر موقوف ہو۔ مگر حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے باب میں ایسا نہیں ہے ان دونوں انبیاء علیھم السلام کی عمر کے تما م مشہور زمانہ کی اصلیت ان کی عمر کے غیر مشہور زمانہ کی صحت پر منحصر ہے۔ ہم کو کس طرح اس امر کا یقین ہو سکتا ہے کہ وہ لا معلوم بچہ ج کو فرعون کی بیوی نے دریائے نیل میں ایک صندوق میں بہتا ہو ا پایا تھا عمران کا حقیقی بیٹا تھا۔ جس کو کہ تمام دنیا حضرت موسیٰ کہتی ہے۔ اور ہم کو کس طرح ا س بات کا یقین کلی ہو سکتا ہے ک وہ بچہ جس کو ہم ’’کلمۃ اللہ‘‘ اور ’’روح اللہ‘‘ اور عیسائی ابن اللہ کے خطابوںسے مخاطب کرتے ہں اور جس کی نسبت یقین ہے کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوا تھا دائود کی نسل میں سے تھا اور وہی تھا جس کو اب عسیٰ مسیح کے نام سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ دونوں امر جو موسوی اور عیسوی مذہب کی بنیاد ہیں ایسے اسرار سے بھرے ہوئے ہیں جن کا اثبات کرنا ایسا محال اور ایسا غیر ممکن ہے جیسا کہ دنیا میں کسی چیز محلا اور غیر ممکن کا ثابت کرنا ہے۔ اگر ہم سر ولیم میور صاحب کے اصول مندرجہ بالا کو صحیح تسلیم کر لیں تو ہم کو اندیشہ ہے۔ کہ مبادا ہمارے مذہب کے حق میں مضر ہو کیوں کہ ہم بھی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی ٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں ۔ چوں کہ اس خیال سے ہمارا دل تھراتا ہے کہ اس لیے ہم سے یہ امید ہرگز رکھنی نہیں چاہیے کہ ہم ایسے ضرر رساں اصول کو منظور کر لیں گے۔ ہم کو صرف اس زبانی بیان سے کہ سر ولیم میور صاحب کا اصول صحیح ہے تسکین نہیںہوتی بلبہ ہم زیاد ہ بحث کر کے ا س سقم کو دریافت کریں گے جس سے محمد رسول اللہ اور حضرت عیسی ٰ اور حضرت موسیٰ کی زندگی کے غیر مشہور زمانہ کے حالات کو صحیح ماننے میں حیرانی ہوتی ہے۔ یہ سقم جس کو ہم دریافت کرنا چاہتے ہیں سر ولیم میور کے الفاظ ’’بہت سے برسوںکے گزرنے کے بعد‘‘ کے غیر مصرح ہونے سے واقع ہوا ہے اور ایسا کلام شہادت مسلمہ قوانین کے برخلاف ہے۔ ان کو بجائے ان الفاظ کے اس طرح کہنا چاہیے تھا’’ایسے زمانے کے انقضا کے بعد جو ایک جائز تحقیق اور نتیجہ کی صحت کے احتمال کو غیر ممکن کر دے‘‘ لیکن جناب پیغمبر خدا کے غیر مشہور زمانہ حیات کو اس قدر عرصہ نہیں گزرا تھا زمانہ رواج روایت میں بہت سے آدمی زندہ موجو د تھے جنہوں نے پیغمبر خدا کی پیدائش ان کا بچپن ‘ ان کا لڑکپن اور انکی نوجوانی دیکھی اورگو بہ قوم سر ولیم میور کے ’’ان کا حافظہ اور خیال پیغمبر صاحب کی زندگی کے حالات کو بالتخصیص ذہن نشین کرنے میں مصروف نہ تھا‘‘ تاہ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ تمام چشم دید ہ باتوں کو بھول گئے ہوں۔ برخلاف اسکے جب کہ ’’ایک بے کس یتیم بچہ ایک محض بے شر باشندہ‘‘ ایک ایسا شخص ’’ جس کی نسبت تمام سکنائے مکہ میں سب س کم یہ گمان ہو سکتا تھاکہ ان کے پڑوسیوں کی آنکھیں اس کی طرف متوجہ ہوں‘‘ اوجر ب کہ ’’ایساغیر مشہور شخص ایسا خاص چال و چلن اختیار کرے جو اپنی نوعیت میں نہایت جلیل القدر ہو اور جو اس کے خاندان اس کے ہمسایوں اور اس کے ہم وطنوں پر بالعموم شاق ہوتو قیاس ا س کا مقتضی ہے کہ ہر شخص جو اس سے قربت رکھتا ہو گا اس کی زندگی کے غیر مشہور زمانہ حالات اورخفیہ طرز معاشرت کی سخت چھان بین کرے تگا اور اس کی خفیہ معاشرت کے ہر واقعہ کا اسی طرح کے ان واقعات سے مقابلہ کرے گا جو ان سب کے روبرو واقع ہوئے ہیں اورجن کی نسبت وہ سب معاینہ کے گواہ ہوں‘‘۔ سر ولیم میور آگے چل کر بیان کرتے ہیں کہ ’’ضرور یہ نتیجہ پیدا ہوتا ہے کہ جملہ صورتوں میںجن پر کوئی قاعدہ من جملہ قواعد متذکرہ صدر کے موثر ہوتا ہو صراحت ایک بڑی علامت بناوٹ کی ہو گی اورعیسائیوں کے لیے فن تحقیق اور تدقیق کے اسی قسم کے قانون کا اختیار کرنا بہتر ہو گا۔ کہ ہر روایت جس کی ابتدا واقعات مرویہ کے درحقیقت ہم عصر نہیں ہے حسب اندازہ صراحت بیان کے بے ہودہ ہے ۔ اس سے ہمارا (یعنی عیسائیوں کا ) بے ہودہ قصوں کی ایک تعداد کثیر سے پیچھا چھوٹ جاوے گا جن میں کہ گندھے ہوئے بیان اور منجھے ہوئے کلام کی جزوی علامات نقلی کل کی تازگی کے ساتھ موجود ہیں‘‘۔ جب کہ ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ سر ولیم میور کے مذکورہ بالا قواعد شہادت کے اصول مسلمہ کی رو سے سراسر غلط ہیں تو اس کے یہ معنی ہیں کہ جو نتیجہ ان قواعد سے مستنبط کیا ہے کہ ’’صراحت ایک بری علامت بناوٹ کی ہو گی‘‘ وہ بھی غلط ہے اورجناب پیغمبر خدا کی زندگی کے زمانہ غیر مشہور پر ٹھیک ٹھیک صادق نہیں آتا ہے۔ ان کا یہ بیان کہ ’’ہر روایت جس کی ابتدا واقعات مرویہ کے درحقیقت ہم عصر نہیں ہے حسب اندازہ صراحت بیان کے بیہودہ ہے‘ ‘ قانون شہادت کے خلاف ہے ۔ اگر وہ اس طرح پر کہتے کہ ’’وہ روایت جس کا راوی۔ نہ یہ کہ جس کی ابتدائے روایت۔ واقعات مرویہ کے درحقیقت ہم عصر نہیں ہے حسب اندازہ صراحت بیان بیہودہ ہے ‘‘ تو گنجائش تھی۔ وہ نتیجہ جو سر ولیم میور نے عیسائیوںکے فن تحقیق و تدقیق کے قانون کو روایات اسلام پر مستعمل کرنے سے حاصل کیا ہے یہ ہے کہ ’’بیہودی قصوںکی ایک تعداد کثیر سے ان کا پیچھا چھوٹ جاوے گا۔ جن میں یہ کہ گند ہے ہوئے بیان اورمنجھے ہوئے کلام کی علامتیں نقلی کل کی تازگی کے ساتھ موجود ہیں‘‘ ۔ لیکن ہم کو اس بات کے کہنے سے نہایت افسوس ہوتا ہے کہ صاحب موصوف نے اس استنبات میں بھی غلطی کی ہے کیوں کہ یہ استنباط بھی شہادت کے مسلمہ قوانین کے سراسر خلاف ہے جب کبھی کوئی ایسی روایت بیان کی جاتی ہے جس میںکہ تمام جزوی علامتیں کل غیر ممکن معلوم ہوتی ہوں تو ا بناء پر جو شبہ پیدا ہوتا ہے راوی کی نسبت ہوتا ہے کہ اس کو کیوں کر بہ تفصیل یاد رہی نہ مضمون روایت کی نسبت کیوںکہ اس کا صحیح ہونا چیز امکان سے خارج نہیں ہے۔ ااور اس لیے اس سے یہ نتیجہ پیدا ہوتا ہے کہ جب جامعین روایات کو قواعد منضبطہ اور اس کے حافظہ پر اعتماد ہو اور ان واقعات کے یاد رہنے کا بھی امکان ہو تب مضمون روایت کو بھی صحیح تسلیم کرنے میں کچھ شک و شبہ نہیں رہتا۔ اس کے بعد سر ولیم میور دوسرے زمانہ کی طرف رجوع کرتے ہیںیعنی ’’وہ جداگانہ حصہ زمانہ کا جو محمد (صلعم) کے مشہور حصہ عمر اور فتح مکہ کے مابین حائل ہوتاہے‘‘۔ ان کے کل بیان کا لب لباب یہ ہے کہ ہم ان روایات کو معتبر تسلیم نہیں کرتے جن میں ’’بناوٹ کے افعال‘‘ ’’بے بنیاد اتہامات‘‘ اورمبالغہ آمیز الزامات جو محمد (صلعم) کے مخالفوں کی طرف عائد ہوتے ہیں منقول ہیں۔ کیوں کہ تمام کفار نے جو مکہ کے رہنے والے خواہ مدینہ کے رہنے والے تھے سب نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اور تمام یہودی عیسائی اور مشرکین نکال دیے گئے تھے اور اب کوئی شخص وہاں نہ رہا تھا۔ جو ایک طرفہ بیان کی تردید کرتا اور چوں کہ خو د محمد (صلعم) کفار پر لعنت کیا کرتے تھے تو کب ممکن تھا کہ کسی مسلمان کو ان کی حمایت کی جرات ہوتی اور اسی وجہ سے ’’اہل روایت بھی کفار سے نفرت کرتے تھے‘‘ او ر مورخین ہمیشہ ’’اس شہادت کی طرز پر جو ان کے خلاف ہوتی تھی آنکھ لگاتے رہتے تھے‘‘۔ بغیر اس کے کہ ہم اس مقام رپ بیان کو طور دیں یا یہ کہیںکہ صاحب موصوف کا یہی قول اور انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین پر بھی صادق آتا ہے۔ خصوصاً اس زمانہ پر جب کہ حضرت موسیٰ نے نہایت بے رحم لڑائیوں کے بعد تمام کفار کو نیست و نابود کر دیا تاھ۔ اور جب کہ قسطنطین اعظم کے زور سے تمام لوگوںنے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا۔ مگر ہم اس امر کو اس کتاب کے پڑھنے والوں کی منصفانہ رائے پر چھوڑتے ہیں او ر یہ سوال کرتے ہیں کہ آیا یہ ممکن ہے کہ نیکی ‘ ایمان داری اور صداقت کے کل آثار یعنی قانون قدرت کے وہ بیش بہا جوھر جو انان کے قوائے اخلاقی کا مادہ ہیںلاکھوں ذی فہم اشخاص کے سینوں سے یک لخت ہو کر محو ہو گئے ہوں اور وہ سب یک دل یک زبان ہو کر بدترین افعال کی طرف مائل ہوں یعنی دروغ گوئی اور واقعات کی غلط بیانی کی طرف جو ان سب کے روبرو واقع ہوئے ہوں اور جن کو سب نے بچشم خود مشاہدہ کیا ہو۔ یہی امر یعنی ان واقعات کے گواہان معاینہ کی تعداد کا ہزاروں اور لاکھوں کو پہنچنا ان واقعات کے غلط بیانی کی عدم امکان پر دلالات کرتا ہے۔ ذاتی میلان پر غور کرنے کے وقت سر ولیم میور فرماتے ہیں کہ ’’راوی کی اس ہوس نے کہ محمد صاحب کی صحبت میں بار پاوے‘ کیوں کہ ان کے نام کے ساتھ ’’شرافت و حرمت مربوط تھی اور ان کی دوستی حصول مدارج اور عزت کی باعث تھی‘‘ اور اس ہوس نے کہ ’’محمد صاحب کے کسی فرضی الہام یا معجزہ سے علاقہ قریبہ حاصل کرے‘‘ کس واسطے کہ ’’ وجی میںمذکور ہونا سب سے بڑی ممکن الحصول عزت شمار کی جاتی تھی‘‘ خلاف فطرت واقعات کے اختراع یا مبالغہ پر جرات بڑھائی اور ’’روایات کے مبالغہ غلط بیانی اور نیز ایجاد کی باعث ہوئی‘‘۔ جب کوئی مصنف ایسے میلان رائے اور تعصب کی وجہ سے بالکل طرف دار بن جائے تو اس میں کچھ چارہ نہیں۔ یہ کس طرح پر خیال آ سکتا ہے کہ کسی مذہب کے ابتدائی زمانہ کے معتقدین جو اپنے مذہب پر سچا اعتقاد رکھتے ہوں اورجن کے دلوں کے مخفی سے مخفی کونوں میں بھی یہ اعتقاد ہو کہ پیغمبر خدا کی سنت کا اتباع ہماری نجات کا یقینی اور محفوظ راستہ ہو اور ان کے احکام سے سرتابی کرنا ضلالت ابدی کا موجب ہے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایسے پاک اورپرہیز گار آدمی سب ے سب اپنے نبی کے فرمانے کو بالائے طاق رکھ کر اور اپنی مقدس کتاب کے احکام اورنصائح سے آنکھک بن کر کے دروغ گوئی‘ فریب دہی اور ریاکاری میں یک لخت مبتلا ہو گئے ہوں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہر طرح کی بد اعمالیاں اور گناہ ان سے سرزد ہوئے ہوں۔ بطور مثال کے کسی مذہب کو لو۔ ہندو مذہب کو‘ بدھ مذہب کو‘ دیگر مشرکین کے مذہب کو‘ یہودی مذہب کو‘ عیسوی مذہب کو مع اس کے بہت سے فرقوں کیتھولک ‘ پروٹسٹنٹ ‘ یونی ٹیرین ‘ ٹینیٹیرین‘ ویزولنز‘ بپٹسٹ‘ جمپرز ‘ مورمنز‘ وغیرہ کو تو ان میں سے ہر مذہب کے ابتدائی زمانہ کے معتقدین میں نیکی ‘ صداقت ‘ ایمان داری‘ راست بازی‘ سرگرمی‘ راسخ الاعتقادی اور جان نثاری پائو گے اور اپنے نبی کے احکامات اور اپنے مذہب کے قوانین سے انحراف کرنے کے خیال ہی سے ان کو خائف اور ہراساں پائو گے۔ ہم کو اپنے بیان کیتائید اور تصدیق کے لیے من جملہ ہزاروں مثالوں کے صرف ایک ہی مثال کافی ہو گی۔ اوروہ یہ ہے کہ جب کہ زید ابن ثابت سے حضرت ابوبکر نے قرآن کے اجزائے منتشرہ کو ایک جگہ جمع کرنے کا اشارہ کیا تو کچھ عرصہ تک زید خوف کے مارے عالم سکوت میں رہے اور پھر جو ہوش و حواس درست ہوئے تو حضڑت ابوبکر سے خود اور غصہ اور بے صبری سے ملے ہوئے جوش سے اسستفسار کیا کہ ایسے کا م کرنے کی جو خود پیغمبر خدا کی موجودگی میں نہیں کیا گیا آپ کیوں جسارت کرتے ہیں۔ پھر یہ کس طرح ذہن میں آ سکتا ہے کہ ان لوگوںنے جو پیغمبر خدا سے اس قدر خوف اور ان کی تعظیم کرنے تھے اور جو بجز صداقت کے اور کسی چیز کو نہیں جانتے تھے فی الفور ایسی برائیوں کے اختیار کرنے میں اپنے آپ کو ذلیل اور خوار کر دیا ہو اور ایسے گناہ عظیمہ ان سے سرزد ہوئے ہوں ۔ اسی طرح کی متعصبانہ طبیعت سے سر ولیم میور آگے چل کر یہ بیان کر تے ہیں کہ ’’ۃم اس باب میں غیر مشتبرہ شہادت رکھتے ہیں کہ رعایت اورجانب داری نے روایت پر ایک گہرا اور مستقل نقش کر دیا‘‘ اس کے بعد صاحب موصوف روایات موضوعہ کے رواج کے بہت سے اسباب کے ضمن میں یہ کہتے ہیں کہ ’’قومی میلان عموماً تمام اسلام میں پھیلا ہوا ہے اس وجہ سے زیادہ مضر ہے‘‘ ۔ اسی طرح ’’محمد صاحب کی توقیر اور ان کو عجیب و غریب اوصاف سے متصف کرنے کی خواہش‘‘ سر ولیم میور کے نزدیک تمام قصوں کی ابتدا آں حضرت سے ہوئی تھی۔ کیوں کہ سر ولیم میور بموجب اپنے اعتقاد کے ذرا بھی شک نہیں رکھتے کہ ’’اصلی واقعات ایک وہم ناک خیال کی رنگ آمیزی سے اس طرح اراستہ یا مبدل ہو گئے ہیں ‘‘ اس کے بعد سر ولی میور کہتے ہیں کہ ’’محمد صاحب کی توقیر کی اسی عام خواہش کی جس طرف ان مسلم معجزات کو بھی منسوب کرنا چاہیے۔ جن سے کہ ان کی سب سے ابتدائی تاریخیں بھی مملو ہیں‘‘ اس کے بعد سر ولیم میور نے اپنی بیانتہا خفگی ان یہودی اور عیسائی عالموں پر ظاہر کی ہے جنھوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی بشارت کا ذکر کیا ہے۔ سر ولیم میور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب نامہ کو بھی موضوع اور بے اصل اس وجہ سے بتلاتے ہیں کہ ’’پیغمبر اسلما کو حضرت اسماعیل کی اولاد میں خیال کرنے کی خواہش اور شاید ثابت کرنے ی کوشش ان کی حیات میں ہی شروع ہوئی تھی‘‘ بعد اس کے وہ کہتے ہیں کہ ’’دلیل خلف سے بھی یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے یعنی وہ روایتیں جو عمدہ شہادت پر مبنی اور مسلم تھیں اس لیے کہ اوائل اسلام میں مشہور تھیں۔ عموماً بے اعتبار یا بالکل خارج ہو گئیں کیوں کہ ان سے محمد صاحب کی تحقیر یا کسی فاسد عقیدہ کی تائید معلوم ہوئی‘‘ پھر وہ کہتے ہیں کہ ’’اس معاملہ کی حالات کی وجہ سے اس مقام کو قدر کامل طور سے ثابت کرنا جیسا کہ مقامات گزشتہ کو ثابت کیا گیا ہے غیر ممکن ہے۔ کیوں کہ اب ہم کو ان روایتوں کا جو اوائل میں ترک کر دی گئی تھیں کچھ پتا نہیں معلوم ہوتا‘‘۔ یہ خلاصہ ہے سر ولیم کے ایک طول طویل بیان کا جس سے صریح ثابت ہوتا ہے کہ وہ محققانہ تحریر نہیں ہے بلکہ ایک مخالف مذہب کی تحریر ہے اور ایسے طرز میں لکھی گئی ہے کہ جو ایک متعصب مخالف کے مناسب اور موزوں ہے جو اپنے بیانات اوراپنی زبان اورج ائز تحقیق کی رعایت میں محتاط نہیں ہے۔اور جو اپنے مذہب کے سو ا اور مذہب کی باتوں پر اور بالخصوص ایسے مذہب کی باتوں پر جس سے اس کے مذہب کو کسی نہ کسی طرح مضرت پہنچی ہو نہایت حقارت اور بے اصل شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اگر ہم سے ایسے بے موقع اور غیر معتدل بیانات کی نظیر طلب کی جاوے۔ تو ہم ان سخت اورکفر آمیز کلمات کا حوالہ دیں جو یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے مذاہب کے بارے میں بیان کیا کرتے تھے۔ سر ولیم میور فرماتے ہیں کہ ’روایتیںجو عمدہ شہادت پر منبی تھیں کیوں کہ اوائل اسلام میں مشہور تھیں عموماً بے اعتبار یا کل خارج ہو گئیں کیوںکہ ان سے محمد صاحب کی تحقیر یا کسی فاسد عقیدہ کی تائید معلوم ہوتی تھی‘‘۔ مگر یہ کیسا غلط بیا ہے اور کیسی عجیب بات ہے کہ جس امر کو وہ خود اس قدر اعتماد اور گھمنڈ کے ساتھ نہایت صاف اوربے لازبان میں بیان کرتے ہیں گویا کہ وہ درحقیقت ایک مسلم تاریخٰ واقع ہے۔ اور شک و شبہ کی گنجائز نہیں رکھتا ہے اس کی نسبت کوئی سند نہیں پیش کرتے ہیں بلکہ ہم نہایت دل جمعی سے اس معاملہ کو محض یہ کہہ کر دفعتاً بے کرتے ہیں کہ ’’اس معاملہ کی حالت کی وجہ سے اس مقام کو اس قدر کامل طور پر ثابت کرنا… غیر ممکن ہے کیوں کہ اب ہم کو ان روایتوں کا جو اوائل میں ترک کر دی گئی تھیں کچھ پتہ معلوم نہیںہے‘‘ کیا اس طرح پر دلیل کرنا ایک تعصب کا اثر نہیں ہے؟ مع ہذا سر ولیم میور کا یہ بیان بھی صحیح نہیں ہے کہ کیوں کہ وہ تمام اتہامات او ر تحقیر کے الفاظ جو مشرکین اوریہود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت استعمال کرتے تھے مسلمانوں کی کتابوں میں بلکہ قرآن مجید میں بھی بیان ہوئے ہیں اور کوئی بات نہ خارج کی گئی ہے اورنہ مخفی کی گئی ہے ۔ رہی یہ بات کہ مسلمانوں کی روایات میں اختلافات واقع ہوئے تھے ہم تسلیم کرتے ہیں مگر ہم ان کے اس تہتک آمیز اسباب کی طرف منسوب ہونے سے جو سر ولیم میور صاحب نے بیان کیے ہیں اعتماد کرنے سے انکار کرتے ہیں کیوںکہ یہ اختلافات محض ان وجہوں سے عارض ہوئے ہیں جن کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔ ہم کو اس بات کے دریافت ہونے سے کہ عیسائی مصنفوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر صر ف غلط اور بے جااتہامات ہی نہیں لگاے ہیں بلکہ بدوں کسی وجہ سے اپنے دل میں یہ سمجھ کر خوش ہوئے ہیں کہ ہمارے پیغمبر کے نام پر پاک پر انہوںنے دھبہ ثابت کیا ہے کچھ بھی تعجب اورملال نہیںہوا ہے کیوں کہ بے اصل بات کچھ بھی تعجب اور ملال کے لائق نہیںہوتی۔مگر ان بے اصل خیالات کی بنا پر اے اسپرنگر ایم ڈی سے معلوم ہوتی ہے جنہوں نے ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کے ایک جرنل یعنی رسالہ میں اور بعد ازاں اپنی کتاب بائی او گرافی آف محمد میں اس مضمون پر بحث کی تھی۔ سر ولیم میور کی عمدہ خصلت اورلیاقتوں کی قدر سے جو ہمارے دل میں تھی اوران کی بہت بڑی مہارت مشرقی علم ادب کی وجہ سے ہم کو قوی امید ہوئی تھی کہ وہ ڈاکٹر اسپرنگر کے یک طرفہ بیانات اور الزامات کی کماحقہ موشگافی کریں گے۔ اورایک سنجیدہ تحقیقات او ر منصفانہ رائے سے رسول عرب کی معصومیت کی حمایت کریںگے مگر افسوس ہے کہ وہ امید کیسی بے اثر نکلی۔ تحقیق قصہ غرانیق ڈاکٹر اسپرنگر سورہ ’’والنجم‘‘ کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ محمد صاحب نے قریش کے بتوں اور معبودوں کی نہایت تعریف کی اور ان کو تسلیم کرلیا۔ اور جب کہ وہ سجدہ میں گئے قریش نے بھی سجدہ کرنے میں ان کا اتباع کیا۔ اس تمام قصہ کی صحت کو وہ مصنف مواہب لدنیہ کے حوالہ پر مبنی کرتے ہیں۔ سر ولیم میور اس مضمون پر یوں بحث کرتے ہیں کہ ’’یہ ظاہر ایک خوب معتبر قصہ موجود ہیجس سے محمد صاحب کا کفار مکہ کے ساتھ ایک عارضی موافقت اور مصالحت کرنا ثابت ہوتا ہے وہ اپنے بیان کو واقدی اور طبری کے بیان پر مبنی کرتیہیں اور خاص کر ایک دلچسپ عبار ت پر جو کہ اس قصہ میں اسناد کی تشریح میں مصنف کے مواھب لدنیہ نے لکھی ہے ‘‘ جو اعتراضات و شکو ک کو اسلام کی ضرر اور فساد عقیدہ کے خوف کی طرف منسوب کرتاہے۔ مصنف مواھب لدنیہ نے اپنی کتاب میں ا س مضمون پر تمام مختلف روایتوں اور علماء کی رایوں کو لکھ دیا ہے اور اس لیے ہم اس مقام پر اس کتاب کا بجنسہ نقل کر دینا کافی سمجھتے ہیں اور اسی کے ساتھ اس کی کامل تشریح بھی کریں گے اور اس غرض سے کہ مطلب سمجھنے میں اسانی ہو مواھب لدنیہ کی عبارت کو جداگانہ دفعات میں منقسم کرتے ہیں۔ وقدم نفرمن مھاجرۃ الحبشۃ حین قواء علیہ السلام والنجم اذا ہوی حتی بلغ افرائیتم اللات والعزی و منات الثالثۃ الاخریٰ القی الشیطان فی امینۃ اے فی تلاوت تلک الغرانیق العلیٰ وان شفاعتھن لترجیٰ فلما ختم السورۃ سجد صلی اللہ علیہ وسلم وسجد معہ المشرکون لتوھمھم انہ ذکر الھتھم یخیر و فشی ذلک بالناس واظہرہ الشیطان حتی بلغ ارض الحبشۃ ومن بھا من المسلمین عثمان ابن مظعون و اصحابہ وتحدثوا ان اہل مکۃ قد اسلموا کلھم وصلوا معہ صلی اللہ علیہ وسلم وقدا من المسلمین بمکۃ فاقبلو ا سسراعاً من الحبشۃ۔ ’’اول: چند لوگ حبش سے ہجرت کر نے والوں میں سے آئے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ’’والنجم اذا ہوی‘‘ (قسم ہے ستارہ کی جب نیچے آتا ہے ) یہاں تک کہ جب آں حضرت ا ٓیت پر پہنچے ’’افریئتم اللات و العزی ومنات الثالثۃ الاخریٰ‘‘ (کیا تم نے دیکھا کہ لات اور عزیٰ کو اورپھر منات کو جو تیسرا ہے ) تو شیطان نے ان کی تلاوت میں یہ الفاظ ڈال دیے ’’تلک الغانیق العلیٰ و ان شفاعتھن لترجیٰ‘ ( یہ بڑے بت ہیں اور ان کی شفاعت کی امید ہے ) پس جب آنحضرت نے سورہ ختم کی تو سجدہ کیا۔ مشرکوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا کیوںکہ ان کو یہ گمان ہو ا تھا کہ رسول اللہ نے ان خدائوں کو بھی بھلائی سے یاد کیا ہے ۔ اوریہ بات لوگوںمیںپھیل گئی اور شیطان نے اس کو مشہور کردیا۔ یہاں تک کہ ملک حبش میں اور وہاں کے مسلمانوں میںجو وہاںتھے یعنی عثمان بن مظعون اوران کے ساتھیوں میں یہ خبر عام ہوئی ۔ ان لوگوںنے آپس میں گفتگو کی کہ مکہ کے سب لوگ اسلام لائے اور آنحضرت کے ساتھ نماز پڑھی اورمسلمانوں کو مکہ میں امن ہو گیا۔ وہ لوگ بڑی تیزی سے حبش سے روانہ ہوئے۔‘‘ ولما تبین المشرکین عدم ذلک رجعوا الی اشدما کانوا علیہ ’’دوم : اور جب مشرکین کو معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے تو پہلے سے زیادہ سختی پر مائل ہوئے‘‘۔ وقد تکلم قاجی عیاض رضہ فی الشفاء علی ھذہ القصۃ وتوھین اصلہا بما یشفی ویکفی لکن تعقب فی بعضہ کماسیاتی۔ ’’سوم: قاضی عیاض نے ’’شفائ‘‘ میں اس قصہ پر اور اس کی اصل کے سست ہونے پر کافی و شافی گفتگوکی ہے ۔ لیکن اس کے بعض حصوں پر گرفت کی گئی ہے جیسا کہ آتا ہے ‘‘َ وقال الامام فخر الدین الرازی مما لخصتہ من تفسیر ہ ہذہ القصۃ باطلہ وموضوعہ لا یجوز القول بھا قال اللہ تعالیٰ وما ینطق عن الھوی ان ہوا الا وحی یوحی وقال اللہ تعالیٰ سنقرئک فلا تنسیٰ۔ ’’چہارم: امام فخر الدین رازی نے کہا ہے کہ جیسا کہ میں نے ان کی تفسیر کا ملخص سمجھا ہے ۔ کہ یہ قصہ جھوٹ ہے اور گڑھا ہوا ہے۔ اس کا بیا ن کرنا جائز نہیں خدا نے کہا کہ ’’آں حضرت اپنی خواہش نفسانی سے نہیں بولتے ۔ وہ نہیں ہے مگر وحی جو کہ وحی بھیجی گئی ‘‘ اور خدا نے کہا ’’ہم تم کو پڑھاویں گے سو تم نہ بھولو گے‘‘۔ وقال البیھقی ھذہ غیر ثابتۃ من جھۃ النقل ثم اخذ یتکلم فی ان رواۃ ھذہ القصۃ مطعونون۔ ’’پنجم: بیہقی نے کہا کہ یہ ثابت نہیں ہے روایت کی رو سے ۔ پھر بیہقی نے اس بات پر گفتگو کی ہے کہ اس قصہ کے راوی مطعون ہیں‘‘۔ وایضا فقد روی البخاری فی صحیحہ انہ علیہ السلام قراء سورۃ النجم وسجد معہ المسمون والمشرکون والانس والجن و لیس فیہ حدیث الغرانیق بل روی ھذا الحدیث من طرق کثیرۃ ولیس فیھا البتۃ حدیث الغرانیق۔ ’’ششم: نیز بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم پڑھی اور اس کے ساتھ مسلمانوں اور مشرکوں اورآدمی اور جن نے سجدہ کیا۔ اس روایت میں غرانیق کی حدیث نہیں ہے۔ بلکہ یہ حدیث بہت سے طریقوں سے مروی ہے مگر کسی میں غرانیق کی حدیث مذکور نہیں ہے‘‘۔ ولا شک ان من جوز علی الرسول تعظیم الاوثان فقد کفر لان من المعلوم بالضرورۃ ان اعظم سعیہ کان فی نفیٰ الاوثان ولو جوزنا ذلک ارتفع الامان عن شرعہ و جوزنا فی کل واحد من الاحکام والشرایع ان یکون کذالک ویبطل قولہ تعالیٰ یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ فانہ لا فرق فی الفعل بین النقصان فی الوحی والزیادۃ فیہ فبھذوہ الوجوہ عرفنا علی سبیل الاجمال ان ہذا القصۃ موضوعۃ و قیل ان ہذہ القصۃ من وضع الزنادقۃ لا اصل لھا انتھی۔ ’’ہفتم: اور کچھ شبہ نہیں ہے کہ جو شخص اس بات کو جائز رکھے کہ رسول اللہ نے بتوں کی تعظیم کی تو وہ کافر ہے ۔ کیوں کہ یہ تو ہدایتاً معلوم ہے۔ کہ آں حضرت کی بڑی کوشش بتوں کا مٹانا تھا اوراگر ہم نے اس بات کو جائز رکھیں تو شریعت پر کچھ اعتبار نہ رہے گا۔ اورہم کو کل احکام و شریعتوں میں ایسا ہی جائز خیال کرنا لازم آئے گا اور خدا کا یہ قول باطل ہو جائے گا کہ اے رسول خدا کی طرف سے جو تجھ پر اتارا گیا ہے اس کو لوگوں کو پہنچا اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تو نے اپنی رسالت کو نہیں ہنچایا۔ کیوں کہ یہ کام کے اعتبار سے وحی کے گھٹانے میں اور زیادہ کر دینے میں کچھ فرق نہیں ہے پس ان دلیلوں سے ہم نے مجملاً جان لیا ہے کہ قصہ گھڑا ہوا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ قصہ زندیقوں کے موضوعات سے ہے جس کی کچھ اصل نہیں ہے ‘‘۔ ولیس کذلک بل لھا اصل فقد اخرجہا ابن ابی حاتم والطبری و ابن النمنذر من طرق عن شعبۃ عن ابی بشر عن سعید ابن جبیر وند ابن مردویہ البزار وابن اسحاق فی السیرۃ و موسیٰ ابن عقبۃ فی المغازی و ابو معشرفی السیرۃ کمانبہ علیہ الحافظ عماد الدین ابن کثیر وغیرہ۔ ’’ہشتم: اور ایسا نہیں ہے کہ بلکہ اس کی ایک اصل ہے کیوں کہ اس کو رویات کیا ہے ۔ ابن ابی حاتم و طبری و ابن المنذر نے متعدد طریقوں سے شعبہ سے انہوںنے ابو بشر سے انہوںنے سعید ابن جبیر سے اور اسی طرح ابن مردویہ اور بزار اورابن اسحاق نے سیر ت میں اور موسیٰ بن عقبہ نے مغازی میں اورابو معشر نے سیرت میں جیسا کہ حافظ عماد الدین ابن کثیر وغیر ہ نے بیان کیا ہے ‘‘۔ لکن قال ان طرقہا کلھا مرسلۃ وانہ لم یرھا مسندۃ من وجہ صحیح وھذا مستعقب بما سیاتی۔ ’’نہم: لیکن کہا ہے کہ اس کے سب طریقے مرسل ہیں اوریہ کہ وہ صحیح طور سے مسند نہیں کی گئی ہے۔ اوراس پر اعتراض کیا گیا ہے۔جیسا کہ آگے آتا ہے‘‘۔ کذانبہ علی ثبوت اصلھا شیخ الاسلام و الحافظ ابو الفضل العسقلانی فقال اخرج ابن ابی حاتم و الطبری وابن المنذر و من طرق عن شعبۃ عن ابی بشر عن سعید ابن جبیر قال قراء رسول اللہ علیہ وسلم بمکۃ والنجم فلما بلغ افرائیتم اللات و العزی ومنات الثالثۃ الاخری القی الشیطان علی لسانہ تلک الغرانیق العلیٰ وان شفاعتھن لترجیٰ فقل المشرکین ماذکر الھتنا بخیر قبل الیوم فسجد و سجد وافنزلت ہذہ الایہ وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطان فی امنیۃ الایہ ’’دھم : ارو اسی طرح اس کے اصل ثابت ہونے پر شیخ الاسلام اور حافظ ابو الافضل عسقلانی نے تنبیہہ کی ہے کہ سو کہا ہے کہ روایت کیاہے ابن ابنی حاتم اور طبری المنذر نے متعدد طریقوں سے شعبہ سے انہوں نے ابو بشر سے انہوں نے سعید بن جبیر سے کہا کہ انہوں نے پڑھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں ’’والنجم‘‘ کو پس جب پہنچے آیا پر افرئیتم اللات و العزی ومنات الثالثۃ الاخریٰ شیطان نے آنحضرت کی زبان پر یہ الفاظ ڈال دیے تلک الغرانیق العلیٰ وان شفاعتھن لترجیٰ پس کہا مشرکوں نے آج سے پہلے کبھی محمدؐ نے ہمارے خدائوں کو بھلائی سے یاد نہیں کیا تھا پھر آں حضرت نے سجدہ کیا اورمشرکوں نے بھی سجدہ کیا پس یہ آیت اتری وما ارسلنا من قبلکل من رسول ولا بنی الا اذا تمنی القی الشیطان فی امنیۃ اخیر آیت تک۔ واخرجہ البزار وابن مردودیہ من طریق امیہ بن خالد ون شعبۃ فقال فی اسنادہ عن سعید ابن جبیر عن ابن عباس فیما احسب ثم ساق الحدیث سقال البزار لا یروی متصلا الا بھذا الاسناد تفود یو صلہ امیہ بن خالد وھو ثقۃ مشہور۔ ’’یاز دھم: اور روایت کیا ہے اس کو بزار نے اور ابن مردودیہ نے امیہ بن خالد کی روایت سے امیہ نے شعبہ سے ۔ پس کہا ’’اس کی اسناد جہاں تک میں جانتا ہوں سعید ابن جبیر کی روایت ابن عباس سے ہے‘‘ پھر حدیث بیانکرنے لگے اور ببزار نے کہا یہ حدیث اتصال کے ساتھ صرف اسی اسناد سے مروی ہے اس ے وصل کرنے میں امیہ بن خالف متفرد ہے اومشہور ثقہ ہے۔ وقال انما یروی ھذا من طریق الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس انتھیٰ و الکلبی متروک لا یعتمد علیہ۔ ’’دواز دھم: اورکہا کہ یہ روایت کی گئی ہے کلبی کے طریقہ سے اس نے ابو صالح سے اور اس نے ابن عباس سے انتہیٰ ۔ اور کلبی چھوڑ دیا گیا ہے اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ وکذا اخرجہ النحاس بسند اخر فیہ الواقدی وذکرھا ابن اسحاق فی السیرۃ مطولا و اسندھا عن محمد ابن کعب ولک ابن عقبۃ فی العغازی عن ابن شہاب عن الزھری و وکذا ابو معشر فی سیرۃ لہ عن محمد ابن کعب القرضی و محمد ابن قیس و اوردہ من طریقۃ الطبری و اورد ابن ابی حاتم من طریق اسباط عن السدی ورواہ ابن مردودیہ من طریق عباد ابن صہیب عن یحییٰ ابن کثیر عن اکلبی ابن صالح وعن ابی بکر الھذلی و ایوب عن عکرمۃ و سلیمان التیمی عن من حدثہ ثلاثتھم عن ابن عباس واوردھا الطبری من طریق العوفی عن ابن عباس و معنا ھم کلھم فی ذلک و احد و کلھا سوی ریق سعید ابن جبیر اما ضعیف و اما منقطع لکن کثرۃ الطرق تدل علی ان للقصۃ اصلا۔ ’’سیز دھم: اور اسی طرح ا س کو نحاس نے ایک دوسری سند سے روایت کیا ہے ۔ جس میں واقدی ہے اوراس کو ابن اسحاق نے کتاب سیرت میں تفصیلاً ذکر کیا ہے اور اس کو محمد بن کعب سے اسناد کیا ہے اور اسی طرح ابن عقبہ نے مغازی میں ابن شہاب سے اور اس نے زہری سے اور اسی طرح ابو معشر نے سیرت میں محمد بنکعب قرضی کے طریقہ سے و محمد بن قیس کے طریقہ سے۔ اورطبری نے اسی کے طریقہ سے لایا ہے۔ اور ابن ابی حاتم لایا ہے اسباط کے طریقہ سے وہ سدی سے۔ اور ابن مردودیہ نے اس کو روایت کیا ہے طریقہ عباد بن صہیب سے وہ یحییٰ بن کثیر سے وہ کلبی سے وہ ابو صالح سے اور ابوبکر ھذلی سے اور ایوب سے وہ عکرمہ سے اورسلیمان تیمی نے ان تین شخصوں سے جنہوں نے ابن عباس سے روایت کیا ہے اورطبری اس کو عوفی کے طریق پر ایا ہے اوروہ ابن عباس سے اور سب کا مطلب ایک ہی ہے اور وہ سب طریقے سوائے سعید ابن جبیر کے طریقہ کے یا ضعیف ہیں یا منقطع ہیںلیکن بہت سے طریقوں کا ہونا اس بات پر دلالت کرتاہے کہ قصہ کی کچھ اصل ہے۔ مع ان لھا طریقین اخرین مرسلین رجا لھما علی شرط الصحیح احد ھما ما اخرجہ الظبری من طریق یونس ابن یزید من ابن شھاب حدثنی ابوبکر ابن عبدالرحمن بن الحرث عن ابن ہشام فذکر نھوہ والثانی ما اخرجہ ایضا من طریق الممتمر ابن سلیمان وحماد ابن سلمۃ کلاھما عن دائود ابن ابی ہند عنن العالیہ ۔ ’’چہار دھم: باوجود اس کے کہ اس کے دو اور طریقے ہیں جو مرسل ہیں۔ اور ان کے راوی صحیح کی شرط کے موافق ہیں ۔ ایک وہ جس کو طبری نے روایت کی اہے یونس ان یزید کے طریقہ سے یونس نے ابن شہاب سے کہ حدیث بیان کی مجھ سے ابوبکر عبد الرحمن بن الحرث نے بن ہشام سے پس اسی طرح ذکر کیا اور دوسرے وہ جس کو طبری نے روایت کیا معتمر بن سلیمان کے طریقہ سے اور حماد بن سلمہ کے طریقہ سے دونوں نے دائود بن ابی ہند سے دائو د عالیہ سے ‘‘۔ قال الحافظ ان حجر وقد تجراء ابن العربی کعادنی فقال ذکر الطبری فی ذلک روایات کثیرۃ لا اسل لھا وھو اطلاق مردود علیہ وکذا قول القاضی عیاض ہذا الحدیث لم یخرجہ اہل اصحۃ ولا رواہ ثقۃ بسند سلیم متصل مع ضعف نقلہ و اضطراب روایۃ و انقطاع اانیدہ ویکذا قولہ ومن حکیت عنہ ہذہ القصۃ من التابعین والمفسرین لم یسندھا احد منھم ولا رفعہا الی صاحب و اکثر الطریق عنھم فی ذلک ضعیفۃ واھیۃ۔ ’’پانز دھم: کہا حافظ نے ابن حجر نے جرات کی ابن العربی نے اپنی عات کے موافق پس کہا کہ ’’ذکر کیا طبری نے اس باب میں بہت سی رواتیوں کو جن کی کچھ اصل نہیں ہے‘ ‘ اور یہ مطلقاً حکم لگانا رد کیا گیا ہے او اسی طرح قاضی عیاض کا قول ہے کہ اس حدیث کو صحت والوںنے نہیں روایت کیا۔ اس کے ساتھ اس کی نقل کرنے والے ضعیف ہیںاو ر اس کی روایتوں میں اضطراب ہے ۔ اور اس کی سندیں منقطع ہیں۔ اور اسی طرح قاضی عیاض کا یہ قول کہ تابعین و مفسرین میں سے جن سے اس قصہ کی حکایت کی گئی ہے کسی نے اس کو سند نہیں کیا اورنہ کسی نے اس کو کسی صاحب کی طرف مرفوع کیا ہے اوراکثڑ طریقے جو ان سے مروی ہیں ضعیف ہیں اور واہی ہیں۔ قال و قدتبین البزار انہ لا یعرف من طریق یجوز ذکرہ الا طریق ابی بشر عن سعد بن جبیر من الشک الذی وقع فی وصلہ واما الکلبی فلا یجوز الراویۃ عنہ لقوۃ صعفہ ثم ردہ من طریق النظر بان ذلک لنوقع لا ارتد کثیر ممن اسلام قال ولم ینقل ذلک انتھیٰ۔ ’’شانز دھم: کہا کہ بزار نے بتا دیا کہ یہ حدیث کسی ایسے طریقہ سے مروی نہیں ہے جس کا ذکر کرنا جائز ہو بجز اس طریقہ کے جو ابوبشر نے سعید بن جبیر سے رویات یا ہے۔ لیکن با ایں ہمہ اس کے وصل میں شک واقع ہوا ہے۔ لیکن کلبی ۔ تو اس سے روایت کرنی جائز نہیں ہے۔ بوجہ اس کے ضعف کے ۔ پھر اس حدیث کو عقلاً رد کیا ہے کہ اگر یہ واقعہ ہوا ہوتا تو بہت سے مسلمان مرتد ہو جاتے ۔ حالانہ یہ کہیں منقول نہیں انتہیٰ۔ وجمیع ذلک لا یتمشی علی القواعد فان الطرق اذاکثرت و تباینت مخار دل ذلک علی ان لھا اصلا وقد ذکرنا ان ثلائۃ اسانید منہا علی شرط الصحیح وھی مراسیل یحتج بمثلھا من یحتج بالمرسل وکذا من لا یحتج بہ لا عتضاد بعضھا ببعض۔ (مواہب)۔ ’’ہفتدھم: اور یہ سب باتیں قواعد احادیث کے مطابق نہیں چل سکتیں کیوں کہ جب حدیث کے بہت سے طریقے ہوں اور انکے مخرج جداگانہ ہوں۔ تو اس بات کی دلیل ہو گی کہ اس کے کچھ اصل ضرور ہے۔ اورہم نے بیان کیا ہے کہ تین سندیں ان میں سے صحیح کی شرط کے موافق ہیں اور دو مرسل ہیں اور ان مثل سے دلیل لاتے ہیں۔ وہ لوگ جو مرسل سے دلیل لاتے ہیں اور اسی طرح وہ لوگ بھی جو مرسل سے دلیل نہیں لاتے ۔ کیوں کہ بعض طریقہ سے بعض سے تقویت ہوتی ہے۔‘‘۔ اس قصہ کی نسبت مصنف مواہب لدنیہ نے جو طو ل طویل بیان کیاہے وہ اس مقام پر ختم ہوتا ہے۔ مگر مصنف مواہب ہدنیہ نے اخیر کو جو یہ بات بیان کی ہے کہ ’’روایت کے متعدد مخرج ہونے سے اس بات کی دلیل ہو سکتی ہے کہ ان کی کچھ اصلیت ہے اور تین سندیں جن کا سلسلہ آںحضرت تک نہیں پہنچا ہے ۔ صحیح تصور کرنے کے لائق ہیں اورجو لوگ کہ ایسی روایتوں کو جن کا سلسلہ آںحضرت تک نہ پہنا ہو صحیح تصور نہیں کرتے وہ بھی اس کے متعدد ہونے کے سبب اس کو تسلیم کریں گے‘‘ یہ بیان اس کامحض غلط ہے۔ جو روایتیں کہ اس باب میں ہیں اور جو خود ا س نے بیان کی ہیں۔ باہم مختلف ہیں اور روایات مختلفہ کی نسبت یہ نہیںکہا جا سکتا ۔ کہ اس کے متعدد مخارج ہیں۔ اور روایات مرسل یعنی جس کا سلسلہ آںحضرت تک نہ پہنچتا ہو گو کہ اس کو متعدد لوگوں نے بیان کیا ہو قابل سند نہیں ہے جب تک کہ اس کی تائید کے لیے کوئی روایت مستند موجود نہ ہو تو اور نیز وہ روایت قرآن مجید کے مخالف نہ ہو لیکن جب کوئی روایت مثل روایت مذکورہ بالا کے قرآن مجید کے احکام کے برخلاف ہو۔ اورجب کہ وہ جناب پیغمبر خدا کے ان تمام حالات کے برخلا ف ہو جو شرک کے مٹانے اور خدائے واحد کی عبادت کرنے سے متعلق ہیں اور جب کہ وہ اسلا م کے اصلی اصول سے اتفاق نہ رکھتی ہو اور معہذا ایسی مختلف اور مشتبہ ہو جس کا مدار صرف اس بات پر ہو کہ وہ الفاظ کس نے کہے تھے اورکہنے والا بھی محقق نہ ہوا ہو تو ایسی روایت ازروئے عقل اور انصاف کے کس طرح ان قواعد میں داخل ہو سکتی ہے۔ جن میں اس روایت کے داخل کرنے کو مصنف مواہب لدنیہ نے کوشش کی ہے۔ وہ لوگ بھی جو اس روایت کے حامی ہیں اس بات کا صاف صاف اقرار کرتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس کی تائید میں کوئی کافی ثبوت اور کوئی قابل اعتماد سند موجود نہیں ہے۔ اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ سر ولیم میور اس قدر اعتماد کے ساتھ کس بنا پر یہ فرماتے ہیں کہ ’’بہ ظاہر ایک خوب مستند قصہ موجود ہے۔ جس سے محمد صاحب کا مشرکین کے ساتھ ایک عارضی موافقت اور مصالحت کر لینا ثابت ہوتا ہے‘‘۔ اس روایت کی صحت کی نسبت رائے قائم کرنا اس کتاب کے پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہیں۔ خود مصنف مواہب لدنیہ نے جو روایتیناس کی نسبت لکھی ہیں انہیں سے اس کی صحت اورعدم صحت کا سراغ لگاتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ فقرہ : تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترجیٰ ہرگز جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نہیں نکلا تھا۔ کیوں کہ مصنف مواہب لدنیہ میں لکھا ہے جیسا کہ فقرہ دوم میںہم ن نقل کیا ہے کہ ’’جب مشرکوں کو یہ بات معلوم ہوئی کہ پیغمبر خدا نے یہ لفظ نہیں فرمائے تھے تو انہوں نے پہلے سے بھی زیادہ دشمنی اختیار کی‘‘۔ جناب پیغمبر خدا کی زندگی میں ایک ایسا زمانہ گزرا ہے یعنی جب آنجناب مکہ میں تشریف رکھتے تھے کہ کفار مکہ آنحضرت کے ساتھ نہایت جفااور بے رحمی سے پیش آتے تھے اور ہر طرح پر جو ان کا وحشیانہ بغض ایجاد کر سکتا تھا آںحضرت کو تکلیف دیتے تھے۔ کفار مکہ جناب پیغمبر خداکے وعظ میں خلل انداز ہونے کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیںدیتے تھے۔ آںحضرت کو نماز پڑھتے وقت تنگ کرتے تھے اور جب کہ آنحضرت خدائے واحد کی حمد و ثنا بیان فرماتے تھے مشرکین بھی جھوٹے معبودوں کی تعریف کیا کرتے تھے ۔ پس مذکورہ بالا روایت سے جو منصفانہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ وہ صرف اس قدرہے کہ جب آنحضرت سورہ نجم نماز میںپڑھ رہے تھے تو کفار مکہ حسب عادت مخل ہوئے اور اپنے بتوں کی تعریف کی۔ یعنی جب کہ جناب پیغمبر خدا سورہ نجم پڑ ھ رہے تھے اوراس آیت پر پہنچے افرئیتم اللات و العزیٰ ومنات الثالثۃ الاخریٰ تو مشرکین میں سے کسی نے بتوں کی تعریف کی غرض سے یہ جملہ کہا تلک الغرانیق العلیٰ و ان شفاعتھن لترجیٰ اور جب کہ جناب پیغمبر خدا نے سجدہ کیا۔ مشرکین نے بھی براہ برابری اپنے بتوں کو سجدہ کیا۔ مشرکین میں اس بات کا اختلاف ہوا۔ کہ وہ جملہ کس نے کہا۔ کچھ عجب نہیں کہ مشرکین سمجھے ہوں کہ وہ جملہ پیغمبر خدا ہی نے فرمایا تھا مگر ان کو بہت جلد معلوم ہو گیا کہ پیغمبر خدا نے وہ جملہ نہیں کہا اور اس لیے آنحضرت سے زیادہ دشمنی پر مستعد ہو گئے۔ اس وقت کے مسلمان ہوگز یقین نہیں کر سکتے تھے۔ کہ آں حضرت نے وہ جملہ فرمایا ہو۔ اورکہنے والا بھی متحقق نہیں ہوا۔ اس لیے انہوں نے کہا کہ شیطان نے کہا تھا بعد اس کے جب روایات کے بیان کرنے اور لکھنے کی نوبت پہنچی تو مسلمان عالموں میں اختلاف ہوا ۔ جو لوگ سیطان کے زیادہ معتقد تھے اور اس بات پر یقین کرتیتھے کہ شیطان پیغمبروں کے کلام میں اس طرح پر اپنا کلام ملا دے سکتا ہے کہ پیغمبر ہی کی زبان سے نکلا ہوا معلوم ہو انہوںنے ہا کہ پیغمبر ہی کی زبان سے وہ لفظ نکلے تھے ۔ کیوں کہ شیطان نے وہ لفظ ملا دیے تھے۔ مگر دونوں فریق اس بات کو تسلیم نہیںکر تے کہ پیغمبر صاحب نے وہ لفظ کہے تھے ۔باایں ہمہ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ جناب رسول خدا کے اصحاب میں سے کسی نے ان الفاظ کا کسی نہج پر پیغمبر خدا کی زبان مبارک سے نکلنا خیال نہیں کیا۔کیونکہ کوئی روایت ایسی نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ ان صحابہ میں سے جو اس وقت ایمان لا چکے تھے کسی نے اس بات کو بیان کیا ہو۔ بلکہ نہ کسی نے صحابہ میںسے اور نہ کسی نے کبار تابعین میںسے ان کو بیان کیا ہے۔ یہی بے سروپا باتیں ہیں۔ جن کا ذکر طبری اور واقدی اور ابن اسحاق نے اپنی کتابوںمیںبیان کیا ہے۔ جو کچھ ہم نے اوپر بیان کیاہے وہ جملہ مشرکین میں سیکسی نے کہا تھا اسکی تشریح خود مواہب لدنیہ کی ایک روایت میں مندرج ہے۔ جس کو ہم بعینہ اس مقام پر نقل کرتے ہیں۔ اس روایت کا ترجمہ یہ ہے : وقیل انہ لما وص الی قولہ ومناۃ الثالثۃ الاخری خشی المشرکون ان یاتی بعد ھایشی ایذم آلھتھم بہ فبادر وا الی ذلک الکلام فخلطوہ فی تلاوۃ النبی صلعم علی عادتھم فی قولھم لا تسمعوا لھذا القرآن و الغوافہ ونسب ذلک الی الشیطان لکونہ الحامل لھم علی ذلک اوالمراد بالشیطان شیطان والانس (مواہب) ’’اورکہا گیا ہے کہ رسول اللہ جب اس آیت پر پہنچے ’’ومناۃ الثالثۃ الاخری) و مشرکوں کو یہ ڈر ہوا۔ کہ اس کے بعد کچھ ایسی چیز نہ پرھیں جن میں ان کے خدائوں کی مذمت بیان کریں پس وہ لوگ فوراً یہ کلام کرنے لگے اور رسول خدا کی تلاوت میں ملا دیا۔ اپنی ا س عادت کے موافق جیسا کہ وہ لوگ کہا کرتے تھے کہ اس قرآن کو سنو مت اواس میں گڑبڑ کر دو۔ اور یہ بات منسوب ہو گئی شیطان کی طرف۔ کیوں کہ اس نے ان لوگوںکو اس پر آمادہ کیا تھا یا شیطان سے مراد آدمیوں کے شیطان ہیں (یعنی شریر آدمی)‘‘۔ روایات کے معتبر قرار دینے کے لیے سر ولیم میور نے ایک اور قاعدہ ایجاد کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ’’جب کسی روایت میں محمد صاحب کی تحقیر کے کلمات ہوں مثلاً بعد حجرت کے اگر ان کے متبعین میں سے کسی نے بے ادبی یا ان کے دشمنوں نے گستاخی کی ہو یا کار خیر میں ناکام ہونا یا کسی واقعہ یا عقہدہ میں اصول اور منشاء اسلام سے اختلاف اور انحراف پایا جاوے تو اس کے تسلیم کرنے کو قوی دلیلیںہیں۔ کیوں کہ یہ قیاس میں نہیں آتا کہ ایسی روایتیں اختراع کر لی جاویں یا مخترع ہو کر محمد صاحب کے متبعین میں رواج پا سکیں‘‘۔ درحقیقت کسی روایت کی صحت کے اثبات کا یہ ایک عجیب طرز ہے! کیا ہم کسی کو ان تمام روایات کو صحیح اور مستند مان لیناچاہیے جن کو مخالفین اسلام نے موضوع اور مخترع کیا تھا۔اور جن کو مسلمان عالموں نے اپنی کتابوں میں اس غرض سے نقل کیا ہے کہ ان کی تردید کریں اور ان کو موضوع اور بے اصل ثابت کریں یا وہ کسی غلطی کے سبب سے مسلمانوں میں رواج پا گئی تھیں اور جن کی نسبت علماء نے تحقیق کی اور بتایا کہ یہ روایتیں ملحدوں اور کافروں نے پھیلائی ہوئی روایتیں ہیں۔ دراصل یہودیوں نے اور بالخصوص عیسائیوں نے اس قسم کی بے ہودہ روایتیں اور قصے آں حضرت کی نسبت اس حاسدانہ ارادہ سیکہ نئے مذہب اور اس کے بانی پر عیب لگائیں اختراع کر لیے تھے۔ پس ان مذکورہ بالا وجوہات سے مسلمانوں کی کتابوں میں مذکور ہونا کوئی دلیل ا ن کی صحت کی نہیں ہو سکتی۔ تعجب ہے کہ سر ولیم میور ان روایات کے معتبر ہونے کی یہ دلیل بیا ن کرتے ہیں کہ ’’قیاس میں نہیںآتا کہ ایسی روایت اختراع کر لی جاوے یا مخترع ہو کر متبعی محمد صاحب میں رواج پا سکے‘‘ یہی ان کی دلیل اس بات کی کافی دلیل ہے ہ وہ روایتیں جھوٹی اورمخالفین اسلام اور یہودیوں اور عیسائیوں کی مخترع ہیں۔ آں حضرت صلعم کے خضاب لگانے پر بحث سرو لیم میو نے ایک اور نیا قاعدہ ایجا د کرتے ہیں اور اس کا نام ’’تلون آمیز اختراع‘‘ قرا ر دیتے ہیں اور اس کی مثالیں اس طرح پر بیان کرتے ہیں کہ ’’مثلاً بیس گواہ تو یہ بیان کرتے ہیں کہ محمد صاحب خضاب کیا کرتے تھے اور خضاب کی دوا کا نام بھی بتاتے ہیں۔ بعض صرف اسی قدر دعویٰ نہیں کرتے کہ ہم نے بہ چشم خود اس امر کو پیغمبر صاحب کی زندگی میں مشاہدہ کیا تھا۔ بلکہ ان کی وفات کے بعد آپ کا بال جس پر کہ رنگ محسوس ہوتا تھا دکھلا دیا تھا۔ اور بیس گواہ جن کوایسے ہی عمدہ ذریعے واقفیت کے حاسل تھے بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر صاحب نے کچھ خضاب نہیں کیا اور ان کو خضاب کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کیوں کہ ان کے سفید بال اس قدر تھوڑے تھے کہ شمار میں آسکتے تھے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جناب پیغمبر خدا کے سفید بال نہایت کم تھے کہ گنتی میں آ سکتے تھے ۔ اور آں حضرت نے تمام عمر کبھی خضاب نہیں کیا۔جو لوگ کہ ہمیشہ حاضر باش رہتے تھے ان کا یہی بیان ہے۔ جو کہ سفید بال ہونے سے پہلے اکثر بال بھورے ہو جاتے ہیں۔ تو جن لوگوں نے ان کے بھورے بالوں کو دیکھا خیال کیا کہ خضاب کیے ہوئے ہیں اور انہوںنے آں حضرت کا خضاب کرنا بیان کیا ل۔ اور اسی بھورے بال کو دکھا کر استدلال کیا۔ خضاب کی دوا کا ذکر کسی معتبر حدیث میں نہیں ہے۔ بلکہ حدیث میں اس شے کا ذکر ہے جس کو پیغمبر خدا کے بروقت غسل کے اپنے سر پر ملتے تھے ۔ پس ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان روایات کا اختلاف حالات مذکورہ بالا ک سبب قدرتی اسباب سے وقوع میں ا ٓ سکتا ہے ان کو دیدہ و دانستہ عیارانہ بناوٹیں نہیں کہہ سکتے اور نہ ان روایتوں کو اور نہ اسی قسم کی اور روایتوں کو جن کا ذکر سر ولیم میور نے اپنی کتاب کے حاشیہ میں کیا ہے متناقض روایتیں کہہ سکتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی مہر بعد اس کے سر ولیم میور اس قسم کی ایک اورمثال پیش کرتے ہیں اورلکھتے ہیں کہ خاتم نبوی کے باب میں جس میں کوئی جانب داری مطالب خاندانی یا عقیدہ کے مضر نہ تھی نہایت متناقض روایتیں ہیں ایک فریق کا قول ہے کہ اپنے مرالات پر مہر لگانے کی ضرورت سے پیغمبر صاحب نے خالص چاندی کی ایک انگشتری بنوائی تھی۔ دوسرے فریق کا قول ہے کہ خالد ابن سعید نے اپنے واسطے ایک لوہے کی انگوٹھی جس پر چاندی کا خول چڑھا ہوا تھا بنوائی تھی اور محمد صاحب نے اس انگوتھی کوپسند کر کے اپنے پاس رہنے دیا۔ ایک تیسری روایت یہ ہے کہ ان انگشتری کو عمر ابن سعد حبش سے لائے تھے۔ اور چوتھی روایت یہ ہے کہ معاذ ابن جبل نے اس مہر کو اپنے لیے یمن میں کھدوایا تھا۔ بعض روایتوں میں منقول ہے کہ حضرت محمد صاحب اس انگشتری کو سیدھے ہاتھ میں پہنا کرتے تھے اور بعض میں لکھا ہے کہ الٹے ہاتھ میں۔ بعض روایات میں مندرج ہے کہ مہر کا رخ اندر کی طرف رکھا کرتے تھے۔ اور بعض میں ہے کہ باہر کی طرف کو۔ بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مہر پر جملہ ’’صدق اللہ‘‘ منقش تھا اوبعض سے واضح ہوتا ہے کہ جملہ ’’محمد رسول اللہ تھا‘‘ اب یہ سب روایتیں ایک ہی انگشتری کی طرف اشارہ کرتی ہیں کیوں کہ یہ متواتر بیان کیا گیاہے کہ محمد صاحب کی وفات کے بعد اسی انگشتری کو ابوبکر اورعمر اور عثمان نے زیب انگشت کیا تھا اور عثمان کے ہاتھ سے چاہ غریس میں گر پڑی تھی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ نہ تو پیغمبر صاحب نے اور نہ کبھی ان کے خلفائے راشدین نے کوئی انگشتری پہنی‘‘۔ جس طبیعت سے ان روایتوں کو بیان کیا گیا ہے بلاشبہ نہایت افسوس کے قابل ہے اورسر ولیم میور کی طبیعت سے نہایت بعید معلوم ہوتا ہے۔ یہ بیان سر ولیم میور کا کہ ’’یہ سب روایتیں ایک ہی انگشتری کی طرف اشارہ کرتی ہیں‘‘ محض غلط ہے اور جو دلیل اس کی بیان کی ہے وہ اس سے بھی زیادہ غلط ہے ۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ چاندی کے خول کی انگشتری نے کسی دیکھنے والے نے چاندی کی انگوٹھی خیال کی ہو؟ یا چاندی کی انگوٹھی علیحدہ اور خول والی علیحدہ ہو۔ کیا یہ بات ممکن نہیں ہے کہ معاذ ابن جبل والی پر جملہ ’’صدق اللہ‘‘ اور جناب پیغمبر خدا کی بنائی ہوئی انگوٹھی پر جملہ ’’محمد رسول اللہ‘‘ کندہ تھا؟ کبھی آں حضرت نے انگوٹھی کو سیدھے ہاتھ میں پہنا ہو اور کبھی الٹے ہاتھ میں اور کبھی اس طرح پہنا ہو کہ مہرکا رخ اندر کی طرف ہو اور کبھی باہر کی طرف۔ اس انگوٹھی کو آں حضرت اور خلفاء راشدین ہمیشہ اور ہر وقت پہنے نہیں رہتے تھے جس شخص نے ان کو ایسی حالت میں دیکھا اس نے بیان کیا کہ کبھی انگوٹھی پہنی ہی نہیں تھی جو کہ سر ولیم مییور نے غلطی ے یا دانستہ ان سب روایتوں کو ایک ہی انگشتری کے متعقل کیا ہے اس لیے اپنی دلیل میں بلا تفصیل بیان کرتے ہیں کہ وہی انگشتری صحابہ تک پہنچیتھی۔ حالانکہ وہ صرف وہ انگشتری تھی جس پر جملہ ’’محمد رسول اللہ‘‘ کندہ تھا۔ پس ا ن روایتون میں سے کوئی روایت بھی متناقض نہیں ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ سر ولیم میور نے اپنے فرضی اوردل نشین نقوش و خیالات کو اس قدر آزادی دے ری ہے ک ان کو حجت و برہان کی صرط مستقیم سے منحرف کر دیاہے اورہر شے متعلق باسلام کو گو کیسی ہی ساہد اور قری قیاس کیوں نہ ہو شک و شبہ کی نظر سے دیکھنے پر مائل کیا ہے اور اس کو جعل سازی اور ایجاد و اختراع وغیرہ کے ناموں سے بدنام کرتے ہیں۔ سر ولیم میور کی تجربہ کاری سے بہ حیثیت ایک اعلیٰ درجے کے عالم ہونے کے یقینی امید تھی کہ ان کو ا س بات سے مطلع کر دے گی کہ محض بیانات جن کی تائید میں کوئی دلیل و ثبوت نہ ہو ۔ ہمیشہ اسی مقصد کی خرابی کے باعث ہوتے ہیں جن کی حمایت ان سے توقع کی گئی ہو۔ اسلام میں جھوٹ بولنا جائز نہیں ہر صحیح دماغ اور ذی ہوش شخص کو اس بات کے معلوم ہونے سے ملال ہو گا کہ سر ولیم میور نے قواعد فن تصنیف سے اس قدر انحراف کیا ہے کہ دین اسلام کے الفاظ ذیل میں ایک بے جا اتہام عاید کرتے ہیں یعنی وہ فرماتے ہیں کہ ’’مقدس جھوٹ کی رسم اصول اسلام سے منحرف نہیں ہے۔ مروجہ دینیات اسلام کی رو سے بعض حالتوں میں روا ہے کہ خود پیغمبر صاحب نے اپنے احکام و نظیر سے اس عقیدہ کی ترغیب کی ہے کہ بعض مواقع پر جھوٹ بولنا جائز ہے‘‘۔ اس عبارت کے حاشی میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کے ہاں عام اعتقاد یہ ہے کہ چار موقعوں پر جھوٹ بولنا جائز ہے اول کسی شخص کی جان بچانے کے واسطے۔ دوم صلح اور اتفاق کرانے کے واسطے ۔ سوم عورت کی ترغیب دینے کے واسطے۔ چہارم سفا یا مہم کے وقت میں۔ ان کی مثالیں بھی ایک صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ اورفرماتے ہیں کہ اول کی نسبت تو پیغمبر صاحب کی صریح منظوری موجود ہے۔ عمار ابن یاسر کو کفار مکہ نے بہت اذیت پہنچائی اور اسلام سے انکار کرنے پر انہوںنے رہائی پائی۔ پیغمبر صاحب نے اس فعل کر پسند کیا اور فرمایا کہ ’’اگر وہ پھر ایسا کریں تو پھر اسی طرح انکار کر دینا‘‘ (کاتب الواقدی صفحہ ۲۲۷)ایک اور روایت خاندان یاسر میں چلی آ تی ہے اور وہ یہ ہے کہ مشرکین نے عمار کو پیکڑ لیا اور جب تک کہ ان سے محمد صاحب کی مذمت اور اپنے معبودوں کی تعریف نہ کر ا لی ان کو نہ چھوڑا۔ اورجب وہ پیغمبر صاحب کے پاس آئے اور انہوںنے حال پوچھا تو کہا یا نبی اللہ بڑی خرابی کی بات ہوئی۔ جب تک کہ میں نے آ پ کی مزمت اوران کے معبودوں کی تعریف نہ کی مجھ کو نہ چھوڑا۔ پیغمبر صاحب نے پوچھا کہ تو اپنے دل کا کیا حال پاتا ہے ۔ تو جواب دیا کہ ایمان میں مستقل اور مطمئن ہے۔ اس وقت محمد صاحب نے یہ فرمایا کہ اگر وہ پھر ایسا کریں تو پھر یہی کہہ دینا۔ محمد صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ عمار کا جھوٹ ابوجہل کے سچ سے بہتر ہے۔ سر ولیم میور کی نکتہ چینی ہر ایک شخص کو تعجب میں ڈالتی ہو گی۔ شیکسپئیر کا قول ہے ’’دیکھو کہ کس طرح سادہ قصہ تم کو دھوکا دے دے گا‘‘ اول تو ان روایتوں ک جس کو سر ولیم میور نے بیان کیاہے معتبر سند درکار ہے دوسرے جن الفاظ می صاحب موصوف نے ان مضامین کو بیان کیا ہے وہ درست اور ٹھیک نہیں ہیں یعنی زیادہ تر عام اورغیر معین ہیں۔ سر ولیم میور او ل جھوٹ بولنے کے جواز کا ’’کسی کی جان بچانا‘‘ بیان کرتے ہیں۔ اول تویہی غلط ہے کیوں کہ بہ موجب ان روایتوں کے جو انہوںنے بیان کی ہیں’’اپنی جان بچانا‘ ‘ لکھتے اورا س بے دھڑک اورپر جرات بیان کی بجائے سر ولیم میور کو لازم تھا کہ جملہ شرائط اور قیود اور مواقع کی جو صدق سے اس طرح انحراف کرنے کو جائز تھیراتے ہیں تصریح کر دیتے ۔ جس فبیبندہ اورمعیوب پوشاک میں سر ولیم میور نے اس مضمون کو ملبوس کیاہے اگر وہ اتار لی جائے تو وہ اصلی نتائج جو بذریعہ جائز اور منصفانہ دلیل اور صحیح مقدمات سے مستبنط ہوں گے یہ ہوں گے کہ ’’اگر کفار یا کوئی بے رحم و جفاکار اشخاص جبر اور اذیت یا قتل کی دھمکی سے کسی ایسے آدمی سے یا ا س شے کا انکار کر ا لیں جس کو کہ وہ اپنے دل سے اور ایمان سے برحق سمجھتا ہو اور جس کے اوپر وہ ایسی مصیبت میں بھی دلی اعتقاد رکھتا ہو تو ایسے ھال میں اگر وہ اس سے انکار کرے تو سزائے ارتداد کا ہرگز مستوجب نہیں ہے۔‘‘ جبربہ مواعید سے انحراف کے جواز کی تصدیق فرانسس اول بادشاہ فرانس کی مشہور و معروف نظیرسے بھی ہوتی ہے یعنی اس بادشاہ کو چارلس خامس نے جنگ پاویا )۱۵۲۵ئ) میں مقید کر کے ماڈرڈ کے پر ذلت صلح نامہ کا بالجبر اقبال کر ے دستخط کر کے ماڈرڈ بادشاہ فرانسس نے مخلصی پاتے ہی اپنے قول و قرار پر قائم رہنے سے بہ عذر اجبار انکار کیا اورپوپ کلیمینٹ سابع نے درحقیقت اسی کو اس جبریہ حلف سے بری کر دیا۔ آدمی کے افعال کے جرم اور بے جرمی کا مدار نیت اور اختیار پر ہوتاہے اوراسی بنا پر تمام لوگ افعال کو نیک و بد قرار دیتے ہیں ۔ کیا وہ کلمات اور حرکات جو کسی شخص سے بہ سبب ازیت اور قتل کی دھمکیوں کے لکھوا اورکرا لیے گئے ہوں اسی درجہ سے ویسی سزا کے مستوجب ہیں جیسے کہ اس شخص کے کلمات اور حرکات جو بلا اجبار و اکراہ اس سے سرزد ہوئے ہوں۔ یہ اصول جس سے کہ اسلام کی پاکیزگی اور سچائی ظاہر ہوتی ہے اور جو محض ایک ب یخطا اورقدرتی فطرت کا بے کم و کاست سچا نمونہ ہے اور جس کو سر ولیم میور نے البتہ قابل الاعتراض اور خراب صورت میں بیان کیاہے ۔ قرآن مجیدمیں نہایت سادہ اور صریح طور پا بالفاظ ذیل بیا ن کیا گیاہے کہ: من کفر باللہ من بعد ایمانہ الامن اکرہ و قبلہ مطمئن بالایمان ولکن من شرح بالکفر صد را فعلیہم غضب من اللہ ولھم عذاب عظیم ۔ (سورۃ النحل آیت ۱۰۸) ’’جس نے خداکے ساتھ کفرکیا بعد ایمان لانے کے۔ مگر وہ جو مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔ لیکن جس نے کفر کے ساتھ سینہ کھولا پس ا س پر خدا کا غصہ ہے اور ان پر بڑا عذاب ہے‘‘۔ اس آیت پر فقہا نے غور کی ہے اور اس کے حکم کا مقصد دو طرح پر قرار دیا۔ اول عزیمت یعنی باوصف اذیتوں اور تکلیفوں اور قتل کے خوف سے جو کفار اس پر روا رکھیں۔ وہ ظاہرا میں بھی اسی سچ پر قائم رہے جس پر وہ ایمان رکھتا ہے۔ دوم رخصت یعنی ایسی حالت مٰں اس کو اپنے بچانے کے لیے اجازت ہے کہ ظاہر میں اس ایمان کا جس کی تصدیق اس کے دل میں ہے بہ طور تقیہ کے انکار کرے اور دشمنوں کی ایذاسے نجا ت پاوے۔ البتہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ سر ولیم میور نے اس حقیقت کو اس مقدس جھوٹ پر محمول کیا ہے جس کا رواج عیسائیوں میں تھا اور اس پر بھی ہم کو نہایت تعجب آتاہے کہ انہوںنے اپنے مدعا کو عجیب اختصار اور اقتصاد کے ساتھ ادا کیا ہے یعنی ان چند لفظوںمیں کہ ’’کسی کی جان بچانے کے واسطے‘‘ جس کے بیان کے لیے قرآن مجید میں بھی باوجود اس کی مشہور و معروف مختصر البیانی کے ایک پوری آیت درکار ہوئی ہے۔ دوسرا موقع جواز کذب کا بہ قول سر ولیم میورکے وہ ہے جب کہ کوئی شخص صلح و آشتی کرانا چاہے اوروہ فرماتے ہیں کہ یہ امر روایت ذیل سے بہ خوبی ثابت ہے۔ اس روایت کا ترجمہ انگریزی زبان میں جو انہوں نے فرمایا ہے کہ وہ حسب مندرجہ ذیل ہے ۔ ’’وہ شخص جو دو شخصوں کے مابین صلح کرائے اور ان کے رفع نزاع کے واسطے کلمات خیر کہے جھوٹا نہیں ہے گو وہ کلمات دروغ ہوں‘‘۔ مگر یہ ترجمہ جو سر ولیم میور نے کیا ہے محض غلط ہے۔اصل حدیث جو بخاری اور مسلم میں ہے جس کو مشکوۃ میں بھی نقل کیا گیا ہے ہم بجنسہ اس مقام پر لکھتے ہیں۔ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ : عن ام کلثوم قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیس الکذب الذی یصلح بین الناس فیقول خیر اوبنمی خیرا (متفق علیہ مشکوۃ) ’’ام کلثوم نے کہا کہ رسول خد ا صلی اللہ علیہ وسل نے فرمایا کہ نہیںہے جھوٹا وہ شخص جو صلح کر ا دے درمیان آمیوں کے پس کہے بھلائی اورپہنچاوے بھلائی‘‘۔ قاضی بیضاوی نے اس کی شرح اس پر کی ہے کہ : قال القاضی بیضاوی ای یبلغ ما یسمعہ ویدع شرہ (کرمانی)۔ ’’پہنچاوے وہ باتیں جو منوا دیں اس کواور چھوڑ دے شر کی باتوں کو‘‘۔ سر ولیم میور کی عربی علمیت کو خیال کر کے ہم کو افسوس ہوت اہے کہ بجائے اس کے وہ خو د اصل حدیث پر غور کرتے اور خود اس کا صحیح ترجمہ لکھتے انہوں نے کپتان ای این میتھیو کے غلط ترجمہ مشکوۃ کو اختیار کیا ہے اورکپتان میتھیو نے دانستہ یا نادانستہ کیسی غلطی کی ہے کہ الفاظ ’’گو وہ کلمات دروغ ہوں‘‘ اپنے ترجمہ میں بڑھا دیے ہیں اوروہ الفاظ حدیث میں نہیں ہیں۔ ہمارے مذہب میں اگر کوئی شخص کسی ماجرے کے حالات پورے پورے بیان نہ کرے۔ اور قصداً کی بد نیتی سے اس ماجرے کی کوء بات کہے اورکوئی بات نہ کہے تو اس پر بھی کذاب کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے جناب پیغمبر خدا نے فرمایا کہ اگر صلح کروانے کی حالت میں صرف اچھی ہی باتوں کا تذکرہ کرے تو وہ کذابوں میں داخل نہیں ہے یعنی جو سزا کہ ایسے شخص کے لیے ہے جس نے بدنیتی سے کچھ باتوں کو چھوڑ دیا ہے ا س سزا کا مستحق نہیں ہے‘‘۔ تیسرا اور چوتھا موقع جس میںسر ولیم میور اسلام میں جھوٹ بولنا جائز قرار دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ ’’کسی عورت کو ترغیب دینے میں ‘‘ اور ’’سفر یا مہم میں‘‘ سر ولیم میور فرماتے ہیںکہ ’’بہ لحاظ تیسرے موقع کے ہمارے پا س ایک افسوس آمیز نظیر موجود ہے کہ محمد صاحب نے ماریہ قبطیہ کے معاملے میں اپنی ازواج سے جھوٹے وعدے کرنے معیوب نہ سمجھے اوربہ لحاظ چوتھے موقع پر ان کا معمول تھا کہ بہ وقت ترتیب مہمات (باستثنائے مہم تبوک) اپنے مدعائے اصلی کو پوشیدہ رکھتے تھے اورکسی سمت غیر کی جانب روانگی کا عزم مشتہر کر دیتے تھے‘‘۔ سر ولیم میور نے تیسرے موقع کی جو نظیر پیش کی ہے وہ محض غلط ہے۔ کوئی صحیح روایت اس معاملہ میںقابل موجود نہیں ہے اورحدیث کی معتبر کتابوںمیں اس کی بابت ایک لفظ بھی نہیں پایا جاتا ۔ اور چوں کہ بنیادکے استحکام اور ضعف ہی سیاوپر کی عمارت کے استحکام اور ضعف کا حال کھل جاتا ہے ۔ پس کوئی بات قابل اعتبار نہیںہو سکتی ۔ جب کہ اس روایت کی صحت کا جس پر وہ مبنی ہو کافی ثبوت نہ ہو۔ ترتیب مہمات کے وقت غیر سمت کو مشتہر کرنے کی تائید میں بھی کوئی معتبر روایت نہیںہے۔ لیکن اگر ہم اس کو صحیح بھی تسلیم کریں تو کیا سر ولیم میور قوانین جنگ سے بھی واقف نہیں ہی ۔ جو اس پر نکتہ چینی کرتے ہیں؟ جب تک کہ کسی فریق سے عزم جنگ مشتہر نہیںکیا گیاتھا اس وقت تک کوئی ایسا کام کرنا جس سے طرف ثانی کو دھوکا ہو بلاشبہ خلاف اخلاق اور صداقت کے ہے۔ لیکن جب جنگ کا اشتہار دے دیا جاوے تو اس وقت کوئی ایسا حیلہ کرنا جس سے فریق ثانی مغلوب ہو صداقت کے خلاف نہیں ہے۔ عیسائی مذہب میں جھوٹ بطور رکن مذہبی تعجب ہے کہ سر ولیم میور اس الزام کو جو عیسائی مذہب پر قدیم سے چلا آ رہا ہے مسلمانی مذہب پر عائدکرنا چاہتے ہیں ۔ مقدس جھوٹ کا تو مسلمانوں کو خواب میں بھی خیال نہیں آیا ہو گا کیوں کہ اس کا تصور ہی اس صدق حقیقی کی نقیض ہے جو قرآن مجید کا لب لباب ہے اورجوہر ہے اور اس کی ہر سطر میں جلوہ نما ہے ۔ برخلاف اسکے یہودیوں اور عیائیوں کے ہاں جیسا کہ تاریخ سے صاف صاف ثابت ہوتا ہے من جملہ ارکان مذہبی کے مقدس جھوٹ بھی ایک رکن تھا اورہم کو ا س بات کے سننے سے تعجب آتا ہے کہ مقدس پال حواری نے اس کو برا بھی نہیں سمجھا تھا گناہ سمجھنا تو درکنار جیسے کہ خود عیسائی عالم اس امر کو مقدس پال کے اس کلام سے ثابت کرتے ہیں کہ جہاں انہوں نے فرمایا ہے کہ ’’اگر میرے جھوٹ کے سبب خدا کی سچائی ظاہر ہو ئی اور اس کی بزرگی زیادہ ہوئی تو کس لیے میں گنہگار گنا جاتا ہوں ‘‘۔ (پال کا خط رومیوں کو باب ۳ ورس ۷)۔ اب ہم تاریخ کی کتابوں سے ا س مقدس جھوٹ کا ذکر کرتے ہیں جو عیسائی مذہب میں مروج تھا۔ کتاب کرشچین مایتھولوجی ان ویلڈ میں مرقوم ہیکہ ’’کلیسا وہ شریف اور راست باز فرزند یعنی موشیم جس کی سند اور مسلمہ صداقت میں پادریوں کو کبھی کلما نہیں ہوا ہے امر ذیل کی تصدیق کرتا ہے پیروان افلاطون و فیثا غورث نے اس امر کو ایک اصول قرر دیا تھا کہ صدق و پرہیز گاری کے مطالب کی ترقی کی غرض سے دھوکا دینا ور نیز بروقت ضرورت جھوٹ کا استعمال کرنا جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہے۔ یہودیان سکنائے مصر نے حضرت عیسیٰ کے آنے سے پیش تر ا س اصول کو ان سے (یعنی پیروان افلاطون و فیثاغورث سے ) سیکھا اور اخذ کیا تھا جیسا کہ بے شمار تحریرات سابقہ سے بلا حجت و اعتراض ثابت ہے اور عیسائیوں پر اس مضر غلطی نے ان دونوں ذریعوں سے اثر لیا ہے۔ جیسا کہ ان بے شمار کتابوں کو جن کو نامی و گرامی اشخاص کی طرف سے اتہاما منسوب کیا ہے ظاہر ہے کہ خلاصہ صدر صرف دوسری صدی کی طرف اشارہ کرتا ہے جب کہ بے شمار اناجیل و خطوط وغیرہ حسب بیان موشیم غلط موضوع ہوئی تھیں اور غلط منسوب کی گئی تھیں۔ مگر چوتھی صدی میں اس مروجہی اصول میں کہ دینی مطالب کی ترقی کے واسطے دھواک دینا اور جھوٹ بولنا نہایت ثواب کا کام ہے۔ بہت کم استثناء وقوع میں آئے ہیں… بلانڈل دوسری صدی کے ذکر میں بیان کرتا ہے کہ خواہ مزدوروں اور کذابوں کی اشد بے حیائی خواہ معتقدین کی قابل افسوس سریع الاعتقادی کے لحاظ سے یہ ایک نہایت خراب زماہن تھا اور مقدس جھوٹ میں اور سب زبانوں سے سبقت لے گیا تھا …کسوبن اس طرح پر شاکی ہے کہ مجھ کو دین عیسوی کے ابتدائی زمانہ میں ا سبات کے دریافت ہونے سے رنج ہوا کہ بہت سے لوگ کلام ربانی کو اپنے اختراعات سے مدد دینے سے ناموری سمجھتے تھے بدیں غرض کہ ہمارے نئے عقیدہ کو عقلائے کفار گو ش دل سے سنیں‘‘ (صفحہ ۸۰۔ ۸۲)۔ اسی کتاب میں یہ بھی بیان ہے کہ ’’اور جب کبھی معلوم ہوتا تھا کہ انجیل ہر امر میںاہل دین کے مطالب یا حکام ملکی کے اغراض کے جو ان سے سازر رکھتے تھے موافق نہیں ہے تو ضروری تحریفات کر لی جاتی تھیں اوراطرح طرح کے مقد س جھوٹ اور جعل سازیاں کچھ مروج ہی نہ تھیں۔ بلکہ بہت سے پادریوں نے ان کو جائز قرار دیا تھا‘‘۔ (صفحہ ۵۲) اس کتاب میںایک اور مقام پر یہ بیان ہے ’’اول کی تین صدیوںکے لحاظ سے ہم کو اپنے دین کی صحیح تاریخ کا کچھ علم نہیںبجز اس کے جو نہایت خراب اور بگڑے ہوئے ذریعوں سے حاصل ہوتا ہے کس واسبے کہ ان اہل سیر کی روایتیں اور حکایتیں جو اس زمانہ میں گزرے تھے ذرا بھی اعتبار کے قابل نہیں ہیں یہ محض مقدس جھوٹ اورجعل سازیوں کی وجہ سے مشہور ہیں مگر ان موروثی کرتبوں اور ہنروں میں بھی یو سی بیس بشپ قیصریہ صدی آئندہ میں ان سے بھی سبقت لیے گیا جس کا کلام حق کو چھانٹ چھانٹ کر دین کے عام مطالب سے موافق کردینے میں کوئی ہم سر نہ تھا۔ وہ خود براہ فخر بیان کرتا ہے کہ ’’جس سے ہمارے دین کی عظمت و نام آوری بڑھے میں نے بیان کر دیا ہے اور جو اس کی تحقیر و تذلیل کی طرف مائل ہو میں نے سب چھوڑ دیا ہے ‘‘ (صفحہ ۶۶)۔ متعدد اہل سیر کی تحریرات میں عدیم الامکان ریاضت اور عام سفلہ پن کی جو عیاشی و بدوضعی کی طرف مائل ہے ایک عجیب ملاوٹ پائی جاتی ہے شہوات جسمانی اور خوف ایمانی کے مابین غلبہ حاصل کرنے کی صریح کوششیں اکثر قابل تضحیک معلوم ہوتی ہیں گو بعض ان کی لذات دیرینہ سے ثابت ہوتی ہیں لذا ت جدیدہ کی خواہش ان میں مستر معلوم ہوتی ہے مگر یہ صرف طبیعت انسانی کے ضعف کی وجہ سے ہے اور ہم کو صرف اسی وقت رنج آمیز حیرت ہوتی ہے کہ جب وہ صفات ملکوتی کے حصول کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے خام اور بے ہودہ عقائد جو لاطینی زبان میں بیان ہیں پادریان کیتھلک کے ہر وعظ و خطبہ میں مخلوط ہیں اور حواریان ذی الہام کے عقایچ اور نیز حضرت مسیح کے ملفوضات کی نسبت زیادہ تر منقول ہوتے ہیںلیکن یہ امید ہے کہ ٹریٹولین کے خیالات لاطائل ڈی ہابی ٹیو مولیرس اور سنٹ باسل کی ڈی ویروار جی نے ٹے ٹی نوجوان عورتوں کو نہیں دکھلائی جائیں گی۔ تمام بے اعتقاد مصنف جنہوں نے احکام الٰہی کا فلسفہ کی رو سے امتحان لیاہے دین عیسوی کو کفر بتا کر مضرت پہنچانے مین اس قدر ساعی نہیں ہوئے جس قدر کہ حضرت اہل سیر ہوئے ہیں۔ انہوںنے چشمہ آب ہی کو زہریلا کر دیا ہے اور ان بے اعتقاد مصنفین نے اس کا پانی پینے سے لوگوں کو باز رکھا ہے۔ ان کی سریع الاعتقادی نے جو اس وجہ سے عارض ہوئی تھی کہ وہ طبائع و معاملات انسانی سے محض ناتجربہ کاری اور علوم طبیعی سے بالکل ناوافیت رکھتے تھے انجیل کی بے شرمانہ تحریفات و تصرفات کی استعانت سے کلیسائے رو م میں عجیب و غریب بے ہودگیوں اور بدعتوں کا ایک جم غفیر شائع کر دیا ہے جن کو باوجود داد و فریاد عقل کے خود اعتقادی اب بھی ہضم کر جاتی ہے ۔ صرف اسی قدر مضرت ان سے نہیں پہنچی ہے انہو ںنے اخلاق کی بنیا د کو کھوکھلی کر دیا انہوںنے اس مقولہ کی (جس کو میں موشیم کے الفاظ میں لکھتا ہوں) تلقین کہ دھوکا دیا اورجھوٹ بولنا جب کہ ان ذریعوںسے مطالب دین ترقی پذیر ہوں ثواب ہے کچھ تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس مطلق العنان اصول نے دروغ گوئیوں اور جعل سازیوں کے چشمہ کا دھانہ کھول دیا جس کا پانی ابتدا دین عیسوی کی سرزمین میں مثل طوفان کے چھاگیا اوران فریبوں اور باطنی ذخیروں کو جو فی زماننا عیسائیان رومن کیتھولک کو انگشت نما اور بدنما کرتے ہیں روا ج دیا۔ اہل سیر میں اول سے لے کر آخر تک سب سے بڑا خاصہ یہ پایا جاتاہے کہ وہ کفر آمیز سفلگی سریع الاعتقادی تعصب اور فریب دہی کے حامی تھے باایںہمہ ایسے لوگوں کو جانشینیان پطرس حواری نے پاک اور مقد س لوگوں کی فہرست میں لکھا ہے۔ سر ولیم میور کو مناسب تھا ۔ کہ ان حالات پر خیال کر کے اسلام کی نسبت مقدس جھوٹ کی بے جاطور پر تہمت لگانے کی کوشش نہ فرماتے ۔ اسلام سرتاپا صدق ہے۔وہ نہایت درجہ کے صدق اور راست بازی کا دین ہے اور اسی حیثیت سے اورسب دینوں پر جن میں کسی نہ کسی قدر جھوٹ کی آمیزش پائی جاتی ہے فوقیت کے دعوے کا مجاز ہے۔ ٭٭٭ (۷)قرآن جناب پیغمبر خدا پر کس طرح نازل ہوا انہ القران کریم فی کتاب مکنون لا یمسہ الا المطھرون قرآن مجید جناب پیغمبر خدا پر حضرت موسیٰ کی طرح پتھر کی تختیوں پر کھدا ہوا نازل نہیں ہو اتھا اورنہ اس بات کی ضرورت پڑی تھی کہ ان کے ٹوٹ جانے کے سبب اس کے ضائع ہو جانے کا خوف ہو ا ہو اورپھر آں حضرت کے اصحاب کے لیے اس کی دوبارہ نقل پتھر کی تختیوں پر کھودنے کی ضڑوری پڑی ہو۔ ا سکے نزول کی نسبت کوئی امرعجائبات سے بھر ا ہوا نہ تھا کیوںکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دل سینا کا پہاڑ تھا اور مسلمانوں کے دل پتھر کی لوحیں تھیں ۔ خدا فرماتا ہے کہ : وانہ لتنزیل رب العالمین نزل بہ الروح الامین دلی قبلک لتکون من المنذرین بلسان عربی مبین وانہ لفی زبر الاولین (سورہ شعرا) ’’بے شک وہ اتارا ہوا ہے عالموں کے پروردگار کا۔ ا س کو اتارا ہے رو ح الامین نے اوپر تیرے دل کے تاکہ تو ہو ڈرانے والوں میں سے (اس کو اتارا ہے )عربی زبان واضح میں اوربے شک وہ ہے اگلے کے صحیفوں میں‘‘۔ نزول قرآن کے متعلق عائشہ صدیقہ کی روایت عن عایشہ ان الحارث ب ہشام سال یا رسول اللہ صلعم فقل یا رسول اللہ کیف یا تیک الوحی فقال رسول اللہ صلعم احیانا یاتینی مثل صلصلۃ الجرس ہواشد علی فیفصم عنی وقد وعیت عنہ ماقال و احیانا بتمثل لی الملک رجلا فیکلمنی فاوعی ما یقول …(متفق علیہ)۔ ’’حضرت عائشہ صدیقہ نزول وحی کی کیفیت اس طرح بیان کرتی ہیںکہ حارث بن ہشام نے آں حضرت سے پوچھا کہ یا رسو ل اللہ آپ پر وحی کیو ں کر اترتی ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ کبھی تو گھنٹہ کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ کو بہت سخت معلوم ہوتی ہے پس پھر مجھ سے منقطع ہو جاتی ہے اورمیں یاد رکھا جو کہا کہ کبھی فرشتہ آدی کی صورت میں مجھ سے کلام کرتا ہے۔ پس میں یاد رکھتا ہوں جو کہتا ہے‘‘۔ جو طریقہ نزول وحی کا اس حدیث میں رسول خدا نے بتایا ا س میں کوئی عجیب امر یا اسرار نہیں ہے لیکن بالفعل ہم ا س مضمون کو اور وحی کی حقیقت کے بیان کو چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ ہمارا ارادہ ہے کہ جب پیغمبر خدا کی سوانح عمر کے اس مقام پر پہنچیں گے ۔ جب کہ آں حضرت پر اولا وحی نازل ہوئی تھی اس وقت ہم اس کو شرح و بسط سے بیان کریں گے۔ وحی یعنی قرآن مجید جب نازل ہوتا تھا لکھا جاتا تھا یا نہیں آں حضرت کے زمانہ سے پیشتر اور نیز آں حضرت کے زمانہ میں ملک عرب میں کوئی معین یا باقااعدہ طریقہ تعلیم کا جاری نہیںتھا۔ عربوںمیںصرف دو شاخیں علم کی تھیں یعنی قدرتی فصاحت و بلاغت اور علم الانساب ۔ ان کی تحصیل کے لیے کسی مکتب یا مدرسہ میں تعلیم پانے کی ضرور ت نہ تھی وہ صرف زبانی تعلیم پر منحصر تھے۔ اسی وجہ سے اس زمانہ میںبے شمار آدمی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے ۔ اورجو لوگ لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے ان کی تعداد نہایت محدود تھی پہلے یعنی جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے پچھلوں کے مقابلہ میں امی کہلاتے تھے۔ اگرچہ ان دونوں قسموں کے لوگوں میں بہت ہی کم فرق تھا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ آنحضرت کو لکھنا پڑھنا کچھ نہیں آتا تھا نہ وہ خود لکھ سکتے تھے اور نہ اوروں کا لکھا پڑھ سکتے تھے اور اسی سبب سے آں حضرت کا لقب امی ہو گیا تھا ۔ ہمارے اس بیان کی تصدیق میں بے شمار معتبر اور مستند روایات اور احادیث سے ہوتی ہے اور اس کے برخلاف ایک بھی روایت ایسی نہیں پائی جاتی جو کسی قدر بھی معتبر ہو۔ درحقیقت اگر آں حضرت کو لکھنا پڑھنا آتا ہوتا تو ان کے صحابہ رفقا اور متبعین اس امر میں کسی طرح سکوت اختیار نہ کرتے اور ان کی ازواج مطھرات اور ان کے عزیز اور اقربا اور بالخصوص ان کے چچا جنھوںنے ان کو پالا تھا بے خبر نہیں رہ سکتے تھے اورنہ ایسی جرات ہو سکتی تھی۔ کہ اپنے قبیلہ کے سامنے خلاف واقعہ اپنے آپ کو امی فرماتے اور قرآن مجید میں بھی اپنے تئیں اسی لقب سے ظاہر کرتے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں مخالفین کو گرفت کا آسان موقع ہاتھ آ جاتا اور شاید اسلام کی تصدیق پر ان کو ہرگز یقین نہ آتا ۔ قطع نظر اس کے ایک ایسی خفیف بات کے چھپانے سے جناب پیغمبر خدا کو کیا فائدہ تھا۔ ان کا لکھا پڑھا ہونا منصب نبوت کے کسی طرح مخالف نہ تھا اور نہ اس سے قرآن مجید کی شان اور اس کے معجزہ میںاور بے مثل فصاحت و بلاغت میں کچھ فرق آ سکتا تھا کیوں کہ حروف کے لکھ لینے یا پڑھ لینے سے کوئی انسان فصیح و بلیغ نہیں ہو سکتا تھا ایسا فصیح و بلیغ جس کا مثل عرب کے بڑے بڑے فصحا میں سے کوئی بھی نہ تھا۔ اسلام کے مورخوں میں سے کسی کو اس بات کا انکار نہیں ہے کہ اس زمانہ میں فن تحریر کا عرب میں رائج تھا اور کچھ لوگ لکھنا جانتے تھے اور اوروں کا لکھا ہو ا پڑھ سکتے تھے۔ اس زمانہ کے بڑے بڑے شاعر اپنے قصیدوں کو کعبہ کی دیواروں اور دروازوں پر آویزاں کرتے تھے۔ چنانچہ قصائد سبعہ معلقہ اسی نام سے مسلمانوں میں معروف و مشہور ہیں اس وقت عرب میں بے شک فن تحریر کا رواج تھا مگر بہت کم لوگ ا کو جانتے تھے اور بمقابلہ نہ جاننے والوںکے ان کی تعداد بہت قلیل تھی۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وحی جو آں حضرت پر وقتاً فوقتاً نازل ہوتی تھی دوقسم کی تھی: اول وہ تھی جس کے بجنسہ الفاظ پیغمبر خدا پر نازل ہوتے تھے اور بجنسہ وہی الفاظ پیغمبر پڑھ کر سناتے تھے دوسری وہ جس کا مطلب پیغمبر خدا پر القا ہوتا تھا اورپیغمبر خدا اپنے الفاظ میںاس کو بیان کرتے تھے اول قسم کی وحی کو ہم اصطلاحاً وحی متلو یا قرآن یاکلام اللہ کہتے ہیں۔ اور دوسری قسم کی وحی کو وحی غیر متلو یا حدیث ۔ جب کہ قرآن مجید کی کوئی آیت پیغمبر خدا پر نازل ہوتی تھی تو آں حضرت کسی کاتب کو بلواتے تھے اور بجسنہ وہی الفاظ جو ذریعہ وحی کے القا ہوتے تھے لکھوا دیتے تھے تاکہ لوگ اس کو بہ خوبی یاد کر لیں اور وہ محفوظ رہیں۔ خود قرآن مجید کی اکثر آیتیںجیسے کہ الم ذلک الکتاب اور آیت لا یمسہ الا المطھرون اس پر دلالت کرتی ہیں کہ گو پچھلی آیت کی دوسری حقیقت ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی آیات نازلہ کے لکھ لینے کی رسم اوائل ایام نزول وحی سے اختیار کی گئی تھی کیونکہ یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ آںحضرت کے مکہ سے ہجرت کرنے سے پیش تر یعنی اس زمانے میںجب کہ اسلام کا آغاز تھا اور وہ ایک ضعف کی حالت میں تھا ان معدود لوگوں کے پا س جو ایمان لے آئے تھے ان وحیوں کی نقلیں موجود تھیں اورحضرت عمر کے خاندان میں بھی ان کے مسلمان ہونے سے پہلے ا س کی ایک نقل تھی ا س لیے کہ ان کی بہن مسلمان ہو گئی تھیں۔ جب کوئی قرآن کی ایسی آیت نازل ہوتی تھی کہ اس کے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم ہوتی تھی تو سمجھا جاتا تھا کہ نئی صورت شروع ہوئی ہے چنانچہ : عن ابن عباس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یعرف فصل السورۃ حتی ینزل علیہ بسم اللہ الرحمن الرحیم (رواہ ابودائود)۔ ’’ابو دائود نے ابن عباس کی روایت سے لکھاہے کہ آں حضرت صلعم سورۃ کا علیحدہ ہونا نہیں جانتے تھے جب تک کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم نازل ہو۔‘‘ پوری سورۃ وقت واحد میں نازل نہیں ہوتی تھی بلکہ بعض آیتیں کسی وقت اور بعض آیتیں کسی وقت نازل ہوتی تھیں اور اسی وجہ سے کسی صورت ی آیتیں بہ ترتیب لکھی نہیں جاتی تھیں بلکہ جدا جدا چمڑوں یا اونٹ کی ہڈیوں یا کھجور کی چھال پر لکھی جاتی تھیں۔ اس بات کے ثبوت میں کہ جو کچھ چمڑوں یا ہڈیوں یا کھجور کی چھال وغیرہ پر لکھا گیا تھا وہ بالکل محفوظ اور متعدد لوگوں کے قبضے میں چلا گیا تھا ۔ چار معتبر حدیثیںموجود ہیں۔ پہلی حدیث ابن عباس کی ہے جو بخاری میں منقول ہے : عن ابن عباس قال جمعت المہکم فی عہد رسول اللہ صلعم فقلت لہ وما المحکم قال المفصل (بخاری باب تعلیم الصبیان القرآن)۔ ’’ابن عباس نے کہا کہ میں نے محکم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلسم کے زمانے میں جمع کیا میں نے ان سے کہا کہ محکم کیا۔ انہوںنے کہا مفصل۔ دوسری حدیث قتادہ کی بھی بخاری میں موجود ہے: حدثنا قتادۃ قال سئلت انس بن مالک منجمع القرآن علی عہد النبی صلعم قال اربعۃ کلہم من الانصار ابن بی کعب۔ معاذ ابن جبل و زید بن ثابت و ابو زید۔ (بخاری باب القراء )۔ ’’قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انسا بن مالک سے پوچھا کہ آں حضرت کے زمانے میں قرآن کس نے جمع کیا کہا چار شخص نے جو چاروں انصار تھے ۔ ابی بن کعب ‘معاذ بن جبل ‘ زید بن ثابت‘ ابو زید۔ تیسری حدیث انس کی بخاری میں موجود ہے : عن انس قال مات النبی صلعم ولم یجبع القرآن غیر اربعۃ ابو الدرداء معاذ بن جبل و زید بن ثابت و ابو زید (بخاری باب القرائ)۔ ’’انس کہتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کی اور چار شخصوں کے سوا کسی نے قرآن نہیں جمع کیا۔ ابودردائ‘ معاذ بن جبل ‘ زیب بن ثابت‘ابو زید۔‘‘ چوتھی حدیث وہ حدیث ہے جس میں بیان ہے کہ حضرت ابوبکر کی خلافت میں زید بن ثابت نے جب قرآن مجید کو ایک جگہ جمع کرنا چاہا تو قرآن مجید کی تمام آیتیں جو مختلف وقتوں میں نازل ہوئی تھیں اور مختلف چیزوں پر لکھی ہوئی تھیں اور مختلف اشخاص کے قبضہ میں تھیں ان سب کو منگا کر اکٹھا کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تحریرات سب موجود اور محفوظ تھیں۔ سورتوں اور آیتوں کی ترتیب کیوں کر ہوئی اور کس نے کی ہم کو واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی سورتوں اورآیتوں کی ترتیب خود جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں اور ان کی ہدایت اور حکم کے موافق عمل میں آئی تھی جیسے کہ: وعن ابن عباس قال قلت لعثمان ما حملکم علی ان عمدتم الی الانفال وھی من المثانی والی البراۃ وھی من المائین فقرنتم بینھما ولم تکتبوا بسم اللہ الرحمن الرحیم ووضعتموا ھا فی السبع الطوال ما حملکم علی ذلک قال عثمان کان رسول اللہ صلعم مما یاتی علیہ الزمان ینزل علیہ السور ذوات العد دوکان اذا نزل علیہ شئی دعا بعض من کان یکتب فیقول ضعوا ھولاء الایات فی السورۃ التنی یذکر فیھا کذا وکذا و کانت الانفال من اوائل ما نزل بالمدینۃ و کانت براۃ من تصتھا شبیھۃ بقصتہا فقبض رسول اللہ صلعم ولم یبین لنا ان انھا منھا فمن ابل۔ ذلک قرنت بینھما ولم اکتب سطر بسم اللہ الرحمان الرحیم ووضعتہا فی السبع الطوال ۔ (رواہ احمد و الترمذی و ابودائود)۔ ’’ابن عباس کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ابن عباس نے حضرت عثمان سے کہا کس چیزنے تم کو آمادہ کیا انفال کی طرف کہ وہ مثانی میں سے ہے اوربراعۃ کی طرف کہ وہ مائین میں سے ہے۔ تمہارے اس ارادے کا پھر ان دونوں کو ملا دیا اوربسم اللہ الرحمان الرحیم کو نہیں لکھا۔ اور ان دونوں کو سبع طوال میں رکھا اس بات پر تم کو کس چیز نے آمادہ کیا۔ عثمان نے کہا۔ حضرت پر بہت سی آیتوں والی سورتیں ایک مدت میںاترتی تھیں۔ اورجب آپ پر کچھ اترتا تھا تو آپ ان میں سے یا کسی کو جو لکھا کرتے تھے بلا کر فرماتے تھے ۔ کہ ان ایتوں کو اس سورت میں رکھو جس میں ایسا ایسا ذکر کیا گیا ہے ۔ اورانفال ان میں سے جو اول مدینہ میں اتری ہیں۔ اور براعۃ سب سے آخیر میں اتری ۔ اور اس کا قصہ اس کے قصہ سے ملتا ہوا تھا پھر آں حضرت کا انتقال ہو گیا اور آپ نے بتایا نہیں کہ وہ اس سے ہے۔ پس اس وجہ سے میں نے ان دونوں کو ملا دیا۔ اور بسم اللہ الرحمان الرحیم کی سطر نہیں لکھی۔ اور ان دونوں کو سبع طوال میں رکھا۔‘‘ بخاری کی ایک اور روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبداللہ ابن مسعود نے ستر سورتیں خود اں حضرت کے منہ سے سن کر یاد کر لی تھیں چنانچہ اس میں لکھا ہے کہ : عن شقیق بن سلمۃ قال خطبنا عبداللہ فقال واللہ لقد اخذت من فی رسول اللہ صلعم بضعا وسبعین سورۃ (بخاری باب التالیف القرآن)۔ ’’عبداللہ نے خطبہ پڑھا اورکہا کہ بخدا میں نے آں حضرت کے منہ سے کچھ اوپر ستر سورتیں لیں (یعنی سیکھیں)۔‘‘ ایک اور روایت میں بخاری ان لوگوں کینام بیان کرتا ہے۔ جنھو ں نے قرآن مجید کو حفظ کر لیا تھا اور ان کے نام یہ ہیں عبداللہ ابن مسعود‘ سلام ‘ معاذ بن جبل ‘ ابی ابن کعب‘ اور ایک روایت میں آیا ہے کہ منجملہ مقتولین جنگ یمامہ کے جو پیغمبر خدا کی وفات کے تھوڑے ہی بعد ہوئی تھی۔ ستر شخص ایسے شہید ہوئے تھے۔ جن کوقرآن مجید بالکل حفظ تھا۔ ان تمام روایتوںسے دو امر بخوبی ثابت ہوتے ہیں کہ اول یہ کہ گو جناب پیغمبر خدا کی حیات میں قرآن مجید چمڑے وغیرہ پر کیسی ہی بے ترتیبی سے لکھا ہوا موجود ہو۔ مگر جن لوگوں نے کہ پوری سورتیں یاد کر لی تھیں ان میں آیتوں کی بالکل ترتیب تھی اور وہ ترتیب یقینی آں حضرت کی ہدایت اور حکم کے موافق تھی۔ دوسرے یہ کہ جن لوگوں نے قرآن مجید کو ترتیب وار حفظ کر لیا تھا۔ اس سے یہ دلیل مستنبط ہوتی ہے کہ قرآن مجید کی سورتوں کی ترتیب بھی آں حضرت ہی کے فرمانے سے لوگوں کو معلوم ہو گئی تھی۔ جناب پیغمبرخود بھی قرآن مجید کی تلاوت فرمایا کرتے تھے اورمسلمانوں کو بھی اس کے پڑھتے رہنے کی ہمیشہ ہدایت کرتے تھے اس مضمون کی نسبت ہم کو کچھ زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ‘ بلکہ صرف ان معتبر اور مستند حدیثوں کا نقل کر دینا کافی ہے ۔ جس سے امر مذکورہ کا ثبوت ہوتا ہے اور جن سے پایا جاتا ہے کہ قرآن مجید کے پڑھنے اور یاد رکھنے میں جس ترتیب سے کہ پیغمبر خدا نے فرما دیا تھا کس قدر لوگوں کو توجہ تھی اور وہ حدیثیں یہ ہیں۔ پہلی حدیث بخاری کی ہے۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ : عن عثمان رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ (رواہ البخاری)۔ ’’حضرت عثمان سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم میں اچھا وہ شخص ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا‘‘۔ دوسری حدیث مسلم کی ہے : عن عقۃ بن عامہ قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ونحن فی الصفۃ فقال ایکم یحب ان یعذ وکل یوم الی بطحان اعقیق فیاتی بناقتیتن کم دین فی غیرا ثم ولا قطع رحم قلد ا یا رسول اللہ کلنا نحب ذلک قال افلا یغد احد کم الی المسجد فیعلم او یقرا ایتین من کتاب اللہ خیر لہ من ثلث واربع خیر لہ من اربع ومن اعداد ھن من الابل (رواہ مسلم) ’’عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے ۔ اور ہم لوگ صفہ میں تھے۔ پس فرمایا کہ تم لوگوں میں سے کس کو یہ پسند ہے کہ ہر روز صبح کو بطحان یا عقیق جائے اور دو اونٹنیاں لائے بغیر اس کے کہ مرتکب جرم ہو یا قطع رحم کرے ۔ ہم لوگوںنے کہا یا رسول اللہ یہ تو ہم سب لوگ چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ پس تم لو گ مسجد میں ہر صبح کو آ کر دو آیتیں کتاب اللہ کی نہیں سیکھتے یا نہیں پڑھتے جو دو اونٹنیوںیاس کے لیے بہتر ہیں اور تین تین سے بہتر ہیں اور چار چار سے بہتر ہیں اورجتنی ہوں اتنی اونٹنیوں سے بہتر ہیں‘‘۔ تیسری حدیث مسلم اور بخاری دونوں کی ہے : عن عایشۃ قالت قال یا رسول اللہ صلعم الماھر بالقرآن من السفرۃ الکرام البورۃ والذی یقرا القرآن و یتتعتع فیہ وھو علیہ شاق لہ اجران (متفق علیہ)۔ ’’حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو قرآن کا ماہر ہو وہ پاکیز ہ بزرگ نیک لوگوں کے ساتھ ہو گا اورجو شخص قرآن پڑھتاہے اور اس میں دقت اٹھاتاہے اور اس پر شاق ہے اوراس کو دوھرا ثواب ہے‘‘۔ چوتھی حدیث بھی مسلم اور بخاری دونوں میں موجود ہے : عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلعم لا حد الا علی اثنین رجل آتاہ اللہ القرآن فھو یقوم بہ اناء ایل و آناء النہار ورجل اتاہ اللہ مالا فھو ینفق منہ اناء اللیل وانا ء النھار (متفق علیہ) ’’ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رشک کے قابل صرف دو شخص ہیں ایک وہ جس کو خدا نے قرآن دیا ہو (یعنی اس کو قرآن پڑھنا آتا ہو) اور وہ برابر دن رات تلاوت کرتا رہے اور ایک وہ جس کو خدانے مال دیا ہو اور وہ برابر دن رات خرچ کیا کرے (یعنی خیرات دیا کرے)۔‘‘ پانچویں حدیث پانچویں حدیث کو بھی مسلم اور بخاری دونوں نے نقل کیا ہے : عن ابی موسیٰ قال قال رسول اللہ صلعم مثل المومن الذی یقراء القرآن مثل الا ترجۃ ریحہا طیب و طعمہا طیب و مثل المومن الذی لا یقراء القراان مثل التمرہ لا ریح لھا و طعمھا حلو و مثل المنافق الذی لا یقراء القرآن کمثل الحنظلۃ لیس لھا ریح وطبعھار ومثل المنافق الذی یقراء القرآن مثل الریحانہ ریحہا طیب و طعمہامر (متفق علیہ)۔ ’’ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ آں حضرت نے فرمایا جو مسلمان قرآن پڑھتا ہے اس کی مثال ترنج کی سی ہے اس کا مزا بھی اچھا اور خوشبو بھی اچھی۔ اور جو مسلمان قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال چھواریکی یس ہے۔ خوشبو بھی نہیں اور مزہ میٹھا ہے اور جو منافق قرآن نہیں پڑھاتا اس کی مثال اندرائن کی سی ہے خوشبو کچھ نہیں اور مزا کڑوا۔ اور جو منافق قرآن پڑھتا ہے اس کی مثال ریحاہ کی ہے خوشبو اچھی اور مزا کڑوا۔‘‘ چھٹی حدیث چھٹی حدیث کو نسائی اور ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے : عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلعم تعلموا القرآن فاقرواہ فان مثل القرآن لمن تعلم فاقوآء قام بہ کمثل جواب محشو مسکا تفوح ریحہ کل مکان و مثل من تعلمہ فرقد وھونی جوفہ کمثل جواب اوکی علی مسلک ۔ (رواہ الترمذی و النسائی وابن ماجۃ) ’’ابوہریرہ کہتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیکھو قرآن اور پڑھائو۔ کیوں کہ جو شخص قرآن سیکھے اور پڑھے اوراس پر قائم رہے اس کے لیے قرآن ایسا ہے جیسے ایک کیسہ مشک سے بھرا ہوا۔ اس کی خو ش بو ہر جگہ پھیلتی ہے اور جو شخص قرآن سیکھ کر سو گیا ہو اور وہ اس کے پیٹ میں ہو وہ مثل اس کیسہ کے ہے جو مشک بھر کر بند کر دیا ہو۔‘‘ ساتویں حدیث ساتویں حدیث کو بیہقی نے نقل کیا ہے: عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلعم ان ہذہ القلوب تصداء کما یصدا الحدید اذا اصابہ الماء قیل یا رسول اللہ ما وجلاء ہا قال کثرۃ ذکر الموت وتلاوت القرآن ۔ (رواہ البیھقی) ’’ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہ دلوں کو بھی مورچہ (زنگ ) لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو لگتا ہے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ پھر وہ صاف کیوں کر ہو فرمایا موت کو بہت یاد کرنے اور قرآن کی تلاوت کرنے سے‘‘۔ آٹھویں حدیث بخاری اور مسلم دونوں میں ہے: عن عبداللہ بن مسعود قال قال لی رسول اللہ صلعم علی المنبرا اقراء علی قلت اقراء علیلک و علیک انزل قال انی احب ان اسمعہ من غیری فقرائت سورۃ النساء حتی اتیت الی ھذہ الایۃ فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشہید و جئنا من کل امۃ بشہیدا و جئنابک علی ھولاء شہیدا قال حسبک الان فالفتفت الیہ فاذا عیناہ تذرقان (متفق علیہ) ’’عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ منبر پر مجھ سے رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ قرآن سنائو ۔ میں نے کہا کہ ااپ کے آگے میں پڑھوں اور آپ پر تو نازل ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ دل پسند ہے کہ دوسرے سے سنوں پس میں نے سورہ نساء پڑھی یہاں تک کہ میں اس آیت پر آیا ’’فکیف اذا جئنا من کہ امۃ بشہید وجئنابک علی ھولاء شہیدا‘‘ (یعنی پس کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اورتجھ کو ان سب گواہوں پر گواہ لائیں گے) آپ نے فرمایا اچھا بس۔ میںنے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو آپ کی آنکھیں آنسو گرا رہی تھیں‘‘۔ نویں حدیث ابو دائود میں بیان ہوئی ہے: عن ابی سعید الخذری قال جلست فی عصابۃ من ضعفاء المھاجرین و ان بعضھم لیستتر ببعض من العری و قاری یقوم علینا اذ جاء رسول اللہ صلعم فقال علینا فلما قام رسول اللہ صلعم سکت القاری فسلم ثم قال ما کنتم تصنعون قلنا کنا نستمع الی کتاب اللہ قع فقال الحمد اللہ الذی جعل من امتی من امرت ان اصبر نفسی معھم قال فجلس و سلطنا لیعدل بنفسہ فنا قال بدہ ھکذا فتحلوا او بزرت وجوہھم لہ فقال البشر و ایا معشر صعالیک المھاجرین بالنور التام یوم القیمۃ تدخلون اجنۃ قبل اغنیاء الناس بنصف یوم ذلک خمسمائۃ (رواہ ابودائود)۔ ’’ابو سعید کہتے ہیں کہ میں ضعیف مہاجروں کے ایک گروہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ اور ان میں سے بعض بعض سے بوجہ عریانی چھپتے تھے۔ اورایک قاری ہم پر قرآن پڑھتا تھا اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اور کھڑے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھڑے ہوئے تو قاری چپ ہو گیا آپ نے سلام کیا اورفرمایا کہ تم کیا کر رہے تھے۔ ہم لوگوںنے کہا کہ خدا کی کتاب سن رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے جس نے میری امت میں سے ایسے لوگوں کو کیا جن کے ساتھ مجھے صبر کرنے کا حکم ہے۔ کہا ابو سعید خدری نے کہ پھر آنحضرت ہم لوگوں کے بیچ میں بیٹھ گئے تاکہ اپنے کو ہم لوگوں کے برابر کریں۔ پھر ہاتھ سے اشارہ کیا کہ پس پس لوگ گرداگرد بیٹھ گئے اور سب کا منہ آں حضرت کی طرف تھا پس فرمایا کہ اے مفلس مہاجرین تم کو خوش خبری ہو نور کامل کی قیامت کے دن ۔تم لوگ جنت میں مال داروں سے آدھے دن پہلے جائو گے اور یہ پانچ سو برس کا ہو گا۔‘‘ نازل ہونا قرآن کا سات قرائتوں میں یا قرات مختلفہ میں اختلاف قرات ایک ایسی اصطلا ح ہے جس کے سبب سے عیساء مصنفوں کو نہایت دھوکا پرا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح عہد عتیق اور عہد جدید کی کتابوں میں اختلاف ہے اسی طرح کا اختلاف قرات قرآن میں بھی ہے ۔ حالانکہ وہ دونوں بالکل مختلف ہیں اور جو اسباب کہ عہد عتیق اور عہد جدید میں قرات مختلفہ کے پیش آئے ہیں ۔ اس سے اور قرآن مجید کی قرات سبعہ سے زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اگر ہم قرآن مجید کی قرات سبعہ یا اختلاف قرات کو انہیں معنوں میںلیں جن معنوں میں کہ عیسائیوں نے لیا ہے تو بہ آسانی کہا جا سکتا ہے۔ کہ ہم مسلمانوں کے قرآن مجید میں اختلاف قرا ت مطلق نہیں ہے۔ عہد عتیق اورعہد جدید میں جو اختلاف قرات ہے اس کی بنیاد اور اس کے اسباب اور اس کے نتائج رورنڈ مسٹر ہارن نے یہ بیان کیے ہیں کہ ’’ دو یا زائد قرات میںسے صرف ایک ہی قرات صحیح ہو سکتی ہے اورباقی کاتب کی عمداً تحریفات یا غلطیاں ہو ں گی‘‘ مگر قرآن مجید مٰ نیہ بات نہیں ہے کیوں کہ تمام اختلاف قرات اس معنی میں جس میں کہ مسلمانون نے ا س اصطلاح کو قرار دیا ہے جس قدر قرآن مجید میں پائے جاتے ہیں وہ سب صحیح اور سب درست ہیں گو ظاہر میں یہ امر کیسا ہی متناقض معلوم ہوتا ہو۔ رورنڈ مسٹر ہارن نے عہد عتیق اور عہد جدید میں قرات مختلفہ کے واقع ہونے کے یہ اسباب بیان کیے ہیں (۱) ’’ناقلوںکی چوک اور غلطیاں (۲) منقول و منہ میں سقم اور غلطیوں کا موجود ہونا (۳) کاتبوں کا بدوں کسی کافی سند کے متن کی عبادت کی اصلاح کی خواہش کرنا (۴) قصداً تحریفات کا کرنا جو کسی طریق کے حصوں مدعا کے واسطے کی گئی ہوں‘‘۔ ان اسبب کو قرآن مجید کی اختلاف قرات سے کچھ بھی علاقہ نہیں ہے۔ بلکہ قرآن مجید میں جو اختلا ف قرات ہیں ان کے اسباب حسب تفصیل ذیل ہیں: اول: تما م قرآن مجید یا اس کی سورتیں ایک وقت میں نازل نہیں ہوتی تھیں۔ بلکہ کوئی آیت کسی سورت کی کسی وقت میں اور کوئی آیت کسی وقت میں نازل ہوتی تھی۔ ایک سورت ابھی ختم نہیں ہونے پاتی تھی ک دوسری سورت نازل ہونی شروع ہوتی اور ایسی چند آیتیں نازل ہوئیں جن کا مضمون اس سورت کی آیتوں سے جو پہلے نازل ہو چکی تھی بالکل مختلف تھا اوریہ سورت ابھی نامکمل رہ کر ایک اور سورۃ نازل ہونی شروع ہو گئی او ر اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہا ۔ تمام آیتیں جس طرح پر نازل ہوئیں علیحدہ علیحدہ چمڑوں کے ٹکڑوں پر اور بے ترتیبی سے لکھی ہوئی رہیں۔ اگرچہ پیغمبر خدا صلعم نے تمام آیتوں کو جن سے قرآن مجید کی آیتوں کی نقلیں منتشر حالت میں موجود تھیں ان سب کو اس کا علم نہیں ہوا تھا اس سبب سے آیتوں کو بہ ترتیب پڑھنے میں اختلاف واقع ہوا۔ بعض لوگوں نے بعض آیتوں کو ان آیتوں کے ساتھ ملا کر پڑھا جن سے وہ ٹھیک طور پر علاقہ نہیں رکھتی تھیں۔ دوم : نقطوںکا اختلاف۔ قدیم تحریر میں جس کے نمونے اب بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔ نقطوں کے دینے کا بہت کم رواج تھا۔ فعل مضارع کے پہلے حرف ’’ی‘‘ غائب کے صیغہ بر اور حرف ’’ت‘‘ حاضر کے صیغہ پر آتی ہے۔ لکھنے میں ان دونوں حرفوں کی ایک ہی صورت ہے ۔ صرف فرق یہ ہے کہ پہلے حرف کے نیچے دو نقطے ہوتے ہیں اور دوسرے حرف کے اوپر دو نقطے ہیں۔نقطوں کے لکھنے کا قدیم تحریر میں رواج نہ ہونے سے کسی نے اس حرف کو ’’ی‘‘ پڑھا اور کسی نے ’’ت‘‘ اور علماء نے اس کو اختلاف قرات قرار دیا۔ سوم : عرب کی مختلف قوموں میں جو مختلف اقطاع میں رہتی تھیں مختلف لہجے تھ اورہر ایک قوم اپنے لہجہ میں قرآن مجید کی آیتوں کو پڑھتی تھی اوراخلاف لہجہ کو بھی علما نے اختلاف قرات میںداخل کیا ہے۔ چہارم: اعراب کا اختلاف۔ قدیم تحریر میں لفظوں پر اعراب دینے کا بھی دستور نہ تھا اورنہ اہل عرب کو کہ عربی خود ان کی مادری زبان تھی اعراب دینے کی ضرورت تھی ۔ مگر بعض دفعہ جملوں کے دو طرح پر ربط دینے سے اعراب میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ اس سبب سے لوگ بعض الفاظ ک اعراب میں اختلاف رکھتے تھے مثلاً وضو کی آیت میں جو لفظ ’’ارجلکم‘‘ واقع ہ بعضوں نے خیال کیا کہ اس کا عطف ’’وجوھکم‘‘ پر ہے جو اسی آیت میں واقع ہے اور اسی سبب سے انہوں نے ’’ارجلکم‘‘ کے ’’ل‘‘ کو مفتو ح پڑھا۔ اور بعضون نے اس کاعطف ’’رئوسیکم‘‘ پر خیال کیا اور ’’ارجلکم ‘‘ کے ’’ل‘‘ کو مکسور پڑھا ۔ اگرچہ ایسی مثالیں بہت کم ہیں مگر علماء نے اس کو بھی اختلاف قرات میں داخل کیا حالاں کہ درحقیقت یہ ایک بحث نحق کے قواعد سے متعلق ہے نہ اختلاف قرات سے پنجم: عربی زبان سے جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک ہی مادہ کے افعال کے لیے عربی زبان میں متعدد ابواب ہوتے ہیں اور ان ابواب سے ایک ہی مادہ کے مختلف طرح پر صیغے مشتق کیے جاتے ہیں اور گو وہ لکھنے میں ایک ہی صورت کے ہوں مگر ان کا تلفظ مختلف ہو جاتا ہے اس وجہ سے بعض لفظوں کو قرآن مجید کے کسی شخص نے کسی باب میں مشتق سمجھ کر کسی تلفظ سے پڑھا اور کسی نے دوسرے باب سے مشتق سمجھ کر کسی تلفظ سے پڑھا۔ عرب میں بعض قومیں ان ابواب میں سے کسی باب کا استعمال نہ کرتی تھیں اوربعض قومیں کسی باب کا او اسی سبب سے ان الفاظ کے تلفظ میں اختلاف ہو جاتا تھا۔ اس قسم کا اختلاف بھ بہت ہی شاذ و ناذر قرآن مجید میں ہے۔ علمائے اسلام نے اس کو بھی اختلاف قرآن میں داخل کیا حالاں کہ وہ صرف عربی زبان کے قواعد صرف سے متعلق ہے۔ اس بیان سے واضح ہو گا کہ کتب عہد عتیق اور عہد جدید پر عیسائی عالموںنے جن معنی کو اختلاف قرا ت کا اطلاق کیا ہے اورج و اسباب اس کے بیان کیے ہیں ۔ اس سے اور قرآن مجید کے اختلاف قرات سے کچھ بھی تعلق ہیں ہے اگر اختلاف قرات کے وہی معنی قرار دیں جو عیسائی عالموں نے قرار دیے ہیں تو اس کا قرآن مجید کی نسبت استعمال کرنا صریح غلطی اور خطا ہے۔ جو امور ہم نے اوپر بیان کیے ہیں ان کی توضیح کے لیے ہم چند حدیثوں کو اس مقام پر نقل کرتے ہیں۔ پہلی حدیث ابو دائود اور بیہقی کی ہے اس نے جابر سے بیان کیا ہے کہ : عن جابر قال خرج علینا رسول اللہ صلعم و نحن نقراء القرآن وفینا الاعرابی والعجمی فقال اقرئوا افکل حسن و سیجبی اقوام یقیمونہ کما یقام القدح یتعجلونہ ولایتا حلونہ۔ (رواہ ابودائود البیھقی فی شعب الایمان)۔ ’’جابر کہتے ہیں کہ آں حضرت ہم لوگوں کے سامنے تشریف لائے اورہم لوگ قرآن پڑھ رہے تھے اورہم میں عربی و عجمی دونوں قسم کے لوگ تھے پس فرمایا کہ پڑھو سب اچھا ہے اور آئندہ ایسی قومیں آئیں گی کہ اس کو سپاٹے سے پڑھیں گی تیر کے سپاتے کی مانند جلدی کریں گی اور ٹھہر کر نہ پڑھیں گی‘‘۔ دوسری حدیث ترمذی کی ہے اس نے ابی بن کعب سے بیان کیا ہے : عن ابی ابن کعب قال لقی رسول اللہ صلعم جبرائیل فقال یا جبرئیل انی بعثت الی امۃ امیین منھم العجوز والشیخ الکبیر والغلام والحجاریۃ والرجل الذی لم یقراء کتابا قط قال یا محمد ان القرآن انزل علی سبعۃ احرف (رواہ الترمذی)۔ ’’ابی بن کعب نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبرئیل سے ملے پس فرمایا کہ اے جبرئیل میں مبعوث ہوا ایک جاہل امت کی طرف جس میں بوڑھے اور بوڑھیا اور لڑکا و لڑکی اور ایسے آدمی ہیں۔ جنہوںنے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی جبرئیل نے کہا۔ اے محمد قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے۔ تیسری حدیث بخاری اور مسلم کی ہے ان دونوں نے ابن عباس سے بیان کیا ہے کہ: عن ابن عباس ان رسول اللہ صلعم قال اقراء نی جبرئیل علی حرف فراجعتہ فلم ازل استزیدہ ویزیدنی حتی انتھی الی سبعۃ اجرف قال ابن شہاب بلغنی تلک السبعۃ الا حرف انما ھی فی الامر یکون واحد الا یختلف فی حلال ولاحرام ۔ (متفق علیہ)۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ کو جبرئیل نے قرآن پڑھایا ایک حرف پر پھر میں نے ا ن سے دوھرا کر پڑھوایا پس میں برابر زیادہ پڑھواتا رہا اور وہ زیادہ کرتے گئے یاں تک کہ سات حرف (یعنی قرات) تک پہنچے ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھ کو یہ ساتوں حرف معلوم ہوئے و مطلب ایک ہی رہتا ہے ۔ کسی حلال و حرام میں ان سے اختلاف نہیں پڑتا۔‘‘ چوتھی حدیث بخاری اور مسلم کی ہے ان دونوںنے حضرت عمر سے بیان کیا ہے : عن عمر بن الخطابؓ قال سمعت ہششام بن حکیم بن حزم یقرہ سورۃ الفرقان علی غیر ما اقراء ہاوکان رسول اللہ صلعم اقرینبھا فکدت عن اعجل علیہ ثم امھلتہ حتی انصرف ثم لبیتہ بردائہ فجعت بہ رسول اللہ صلعم فقلت یا رسول اللہ انی سمعت ہذا تقراء سورۃ الفرقان علی غیر ما اقراء فیھا فقال رسول اللہ صلعم اراء فقراہ القراۃ التی سمعتہ یقراء فقال رسول اللہ صلعم ھکذا انزلت ثم قال لی اقراء فقرات فقال ھکذا انزلت ثم قال لی اقراء خضرات فقال ھکذا انزلت ان القرآن نزل علی سبعۃ احرف فاقرائو ما تیسر منہ (متفق علیہ واللفظ لمسلم) ’’عمر بن خطاب نے کہا کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام کو سورہ فرقان پڑھتے سنا خلاف اس کے جس طر ح میں پڑھتا ہوں اور مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا تھا۔ پس قریب تھا کہ میں ان پر جلدی کروں پھر میں نے ان کو چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ پھر کر چلے پھر میں ان کو چادر سے پکڑ کر رسول اللہ صلعم کے پا س لایا اورکہا کہ یا رسول اللہ میں نے ان کو سورہ فرقان اور طرح سے پڑھتے سنا۔ اس طرح سے نہیں جس طرح آپ نے مجھ کو پڑھایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو چھوڑ دو کہ پڑھیں بس انہوںنے اسی طرح پڑھا جیسا کہ میں ان سے سن چکا تھا۔ پس رسول اللہ نے فرمایا۔ اسی طرح اتری ہے۔ پھر مجھ کو کہا پڑھو۔ میں نے پڑھا تو فرمایا اسی طرح اتری ہے۔ قرآن سات حرفوںپر اترا ہے جس طرح آسان ہو پڑھو۔ پانچویں حدیث پانچویںحدیث بخاری کی ہے انہوںنے ابن مسعود سے بیا ن کیا ہے کہ : عن ابن مسعود قال سمعت رجال فقروء سمعت النبی صلعم یقراء خلافھا فجیت بہ النبی صلعم فاخبرتہ فعرفت فی وجھہ الکراھۃ فقال کلا کما یحسن فلا تختلفوا فان من کان قبلکم اختلفو من کان قبلکم اختلفو فھلکوا (رواہ البخاری)۔ ’’ابن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو قرآن پڑھتے سنا اور رسول اللہ صلعم کو اس کے برخلاف پڑھتے سنا۔ پس میں اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا اور اس بات کی اطلاع کی ۔ پس میں نے حضرت کے چہرہ پر ناگواری دیکھی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تم دونوں ٹھیک پڑھتے ہو سو اختلاف مت کرو۔ تم سپ پہلوں نے اختلاف کیا تو ہلاک ہوئے‘‘۔ جو کچھ ہم نے اوپر بیان کیا ہے اس سے ہر شخص کو معلوم ہوا ہو گا کہ قرآن مجید اختلاف قرات اور توریت اور انجیل اختلاف قرات میں بہت بڑا فرق ہے ارو وہ اختلاف قرات ج کو ہم نے مد اول میں داخل کیا ہے یعنی آیتوں کا آگے پیچھے اور الٹ پلٹ پڑھنا اوروہ اختلاف حضرت ابوبکر کے زمانہ خلافت میں قریب قریب معدوم ہو گیا تھا جب کہ زید بن ثابت نے قرآن مجید کے مختلف حصوں کو ایک جگہ جمع کر دیا تھا اور جب حضرت عثمان کی خلافت کے عہد میں جنہوںنے زید ابن ثابت کے جمع کیے ہوئے قرآن کی نقلیں مسلمانوں میں تقسیم کر دی تھیں اس اختلاف کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا تھا۔ حاضر اور غائب کے صیغوں کا اختلاف جو صرف ی اور ت کے لفظوں کے سبب سے تھا وہ باقی رہا۔ موجودہ قرآنوںمیں اختلاف قرات بھی لکھا جاتا ہے نہایت احتیاط سے حاشیہ پر ان اختلافات کو لکھ دیا جاتاہے۔ مگر قرآن مجید کے پڑھنے والوں کو ظاہر ہے۔ کہ وہ اختلاف نہایت قلیل اور شاذ و نادر ہیں اور معہذا ان سے اصی مطلب اوراحکام قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تلفظ کا اختلا ف بھی قریب قریب معدوم ہو گیا ہے۔ کیوں کہ قریش کے تلفظ کو سند قرار دینے میں کوششیں کام یاب ہوئی ہیں۔ قریش ہی کے لہجہ اور زبان میں قرآن مجید نازل ہو ا تھا اوراسی لہجہ اور زبان میں جناب پیغمبر خدا اس کو پڑھا کرتے تھے لیکن جو کہ اس زبان سے بعض حروف ایسے ہیں جن کا تلفظ اورقوموں سے ادا نہیں ہو سکتا اس سبب سے اس اختلاف سے بالکل پیچھا نہیں چھوٹا مثلا اگر ہم کسی ایک عجمی اور کسی بدو اور کسی تربیت یافتہ عرب کو قرآن پڑھتے ہوئے سنیں تو فوراً پہچان لیںگے کہ یہ اختلاف اب بھی موجود ہے۔ مگر یہ اختلاف صرف قرآن مجید کے پڑھنے میں محسوس ہو گا نہ اس کے املا میں اور اسی لیے وہ اختلاف ضبط تحریر میں نہیں آ سکتا اس کا اندازہ کرنے کو ان لوگوں سے قرآن مجید کے سننے کی ضرورت ہے۔ اعراب کا اختلاف بھی چند مقام میں جو بلحاظ قواعد صرف و نحو کے وقوع میں آیا ہے اب تک موجود ہے اور اسی قسم کی تفسیروں میں اس کی نسبت ہر ایک امر کی تشریح کی جاتی ہے۔ ابواب کے اختلاف سے جو صیغوںمیں تلفظ کا اختلاف ہے ۔ وہ بھی بعض بعض جگہ موجود ہے۔ اس کی بھی تصریح اسی قسم کے قرآن مجید کے حاشیوں پر کی جاتی ہے اور تفسیرون میں ان پر پوری بحث ہے۔ مگر جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ ان اختلافات سے قرآن مجید کے اصلی معنی اور مقصد میں کچھ اثر واقع نہیں ہوتا اور جو الزام کہ عیسائیوں پر اپنی کتابوں میں تحریف کرنے کا ہے اس قسم کا الزام مسلمانوں پر قران کی آیات کی تصرف کرنے اور کمی وہ بیشی کرنے کا یا اپنی کتاب مقدس میں قصداً غلط اصلاحیں کرنے کا یا کسی فریق کے مدعا کے حاصل کرنے کے لیے تعریف کرنے کا یا کسی آیتوں کو چھپا ڈالنے کے الزام عائد نہیں ہو سکتا۔ علم ادب کی ایک شاخ ہ جو بالتخصیص قرآن مجید کی عبارت پڑھنے سے علاقہ رکھتی ہے اور جس کا نام تجوید ہے۔ اس پر بہت کتابیں لکھی گئی ہے اورعلماء نے شرح و بسط سے اس سے اس کی شرحیں کی ہیں۔ قرآ ن مجید کی آیات میں ناسخ و منسوخ ہونے کا بیان عیسائی عالموں نے الفاظ ناسخ و منسوخ کے معنی سمجھنے میں جس کا اطلاق علمائے اسلام نے بطور اصطلاح کے آیات قرآنی پر کیا ہے۔ بہت بڑی غلطی کی ہے۔ انہوںنے غلطی سے یہ سمجھا ہے کہ ناسخ آیتوں نے منسوخ آیتوں کو اس وجہ سے کہ ان میں کچھ نقص یا کسی قسم کا اشتباہ تھا بے کار کر دیا ہے ۔ ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ کیوں کہ علمائے اسلام نے جو دینیات کے مسائل کے محقق ہیں ان معنوں سسے جو عیسائی عالم سمجھتے ہیں مختلف معنی قرار دیے ہیں۔ مسلمانوں کا اس بات پر ایمان رکھنا ایک مذہبی فرض ہے کہ خدا تعالیٰ علیم اور علما لغیوب ہے۔ یعنی اس کو ماضی اور حال اور استقبال کا یکساں علم ہے۔ پس اگر ناسخ اور منسوخ کے یہ معنی سمجھے جاویں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اپنے حکم سابق کو کسی حکم مابعد سے بدیں وجہ سے کہ اس پہلے حکم میں کچھ نقصان تھا منسوخ کر دیا تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ حکم سابق کے وقت خدا تعالیٰ کی صفت علم کامل میں کچھ نقصان تھا اورایسا عقیدہ اسلام کی رو سے کفر ہے ۔ پس ظاہر ہے کہ علمائے اسلام نے جن معنوں میں لفظ ناسخ و منسوخ کو استعمال کیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے جو عیسائی عالم سمجھتے ہیں۔ ناسخ و منسوخ کا لفظ اصطلاحاً دو چیزو ں پر اطلاق : ایک نبی سابق ایسی شریعت پر جو دوسرے نبی کی شریعت سے تبدیل ہو گئی ہو۔ مثلا حضرت عیسیٰ کی شریعت سے پہلے ایک مرد اپنی زوجہ کی حیات میں اس کی بہن یعنی اپنی سالی سے شادی کر سکتا تھا۔ حضرت موسیٰ نے اس حکم کو منسوخ کر دیا اور فرمایا کہ کوئی آدمی اپنی زوجہ کی زندگی میں اس کی بہن سے نکاح نہیں کر سکتا۔ لیکنا س کے مرنے کے بعد کر سکتا ہے ۔ حضرت موسیٰ نے مرد کو کامل اختیار دیا تھا کہ جب چاہے اپنی زوجہ کو طلاق دے دے اورگھر سے باہر کردے اس حکم کو بقول عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ نے تبدیل کر دیا اور حکم دیا کہ مرد اپنی زوجہ کو کسی صورت میں طلاق نہیں دے سکتا۔ جب تک کہ اس نے کسی سے زنا نہ کیاہو۔ آں حضرت نے بھی طلاق دینے کو مرد کے اختیار میں رکھا۔ لیکن اس پر یہ قید لگائی کہ اگر بغیر اشد ضرورت اور معقول وجہ کے ایسا کرے تو وہ ایک گناہ کا مرتکب ہو گا۔ الفاظ ناسخ و منسوخ کا استعمال جو علمائے اسلام نے شریعت انبیاء سابقین کی نسبت کیا ہے اور جس کا یہ مقصود ہے کہ ناسخ سے وہ شریعت مرادہے جو شریعت نبی سابق کو غیر واجب العمل کر دے اور منسوخ سے وہ شریعت سابق مراد ہے جو غیر واجب العمل ہو گئی ہو۔ ان معنون میں تو قرآن مجید کے بعد کوئی ایسی شریعت نازل نہیں ہوئی اور نہ نازل ہو گی جو شریعت اسلام کو غیر واجب العمل کر دے ۔ مگر ہم انبیائے سابقین کی شرح کے منسوخ ہونے پر زیادہ بحث نہیں کریں گے بلکہ صرف اس مختصر بیان پر ختم کریں گے کہ علمائے اسلام نے شریعت انبیائے سابقین اور بھی ناسخ و منسوخ ہونے کا اطلاق ان معنوںمیں نہیں کیا ہے۔ جو عیسائی خیال کرتے ہیں۔ جو کچھ ہم نے اوپر بیان کیا ہے اس سے ظاہر ہو گا کہ قرآن مجید کی وہ آیت جس کو ہم ذیل میں لکھتے ہیں قرآن مجید کی ایک آیت کے دوسر ی آیت کے منسوخ ہونے سے کچھ علاقہ نہیں ہے۔ اور نہ ا س سے اس بات پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔ کہ قرآن مجید کی ایک آیت قرآن مجید کی دوسیر آیت کو منسوخ کرتی ہے ۔ کیوں کہ ا س آیت میں جو کچھ بیان ہے وہ انبیائے سابقین کی شریعت کے ناسخ و منسوخ ہونے سے متعلق ہے نہ قرآن مجید کی ایک آیت کے دوسری آیت سے اور وہ آیت یہ ہے: ما یرد الذین کفرو من اہل الکتاب ولا المشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم واللہ یختص برحمتہ من یشاء واللہ ذو الفضل العظیم۔ ما ننسخ من آیۃ او ننسہا نات بخیر منہا ا و مثلھا الم تعلم ان اللہ علی کل شئی قدیر ۔ (سورۃ بقر۔ آیت ۹۹ و ۱۰۰)۔ ’’اہل کتاب جو کافر ہوئے اور مشرکین یہ نہیںچاہتے کہ تم پر تمہارے خدا کی طرف سے کوئی بھلائی اترے اور خدا خاص کرتا ہے اپنی رحمت کے ساتھ جس کو چاہتا ہے اور خدا بڑی فضیلت والا ہے۔ ہم کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے اچھی لاتے ہیں یا اس کے برابر۔ کیا تویہ نہیں جانتا کہ خدا ہر شے پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔ مذکورہ بالا آیتوں میں سے کوئی ذی فہم شخص یہ نہیں سم