اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید علمی و تحقیقی مضامین جلدسیز دہم حصہ اول مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقالات سرسید سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کو حاصل ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے اور اپنے پیچھے نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مضامین جہاں ادبی لحاظ سے وقیع ہیں، وہاں وہ پر از معلومات بھی ہیں۔ ان کے مطالعے سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مذہبی مسائل اور تاریخ عقدے حل ہوتے ہیں اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں اور سیاسی و معاشرتی لحاظ سے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ نیز بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی ان میں موجود ہیں سرسید کے ان ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا ہدف رہے ہیں ان مضامین میں علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی، مزاح بھی ہے اور طنز بھی، درد بھی ہے اور سوز بھی، دلچسپی بھی ہے اور دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے اور سرزنش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اور ہر قسم کے خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے، وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اور کہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات و رسائل کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام کے لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اور نا مکمل، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ گزر گیا مگر کسی کے دل میں ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا اور کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا آخر کار مجلس ترقی ادب لاہور کو ان بکھرے ہوئے بیش بہا جواہرات کو جمع کرنے کا خیال آیا مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں پرونے کے لیے مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا انتخاب کیا جنہوں نے پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میں دور و نزدیک کے سفر کیے فراہمی مواد کے لیے ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا، مگر چونکہ ان کی طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری باحسن طریق پوری کی چنانچہ عرصہ دراز کی اس محنت و کاوش کے ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں’’ مقالات سرسید‘‘ کی مختلف جلدوں کی شکل میں فخر و اطمینان کے جذبات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ اشہد ان لاالہٰ اللہ (تہذیب الاخلاق بابت یکم صفر1290ھ) میں نہایت سچے دل سے اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ تمام عالموں کا بننے والا کوئی ہے اور اسی کو ہم کہتے ہیں اللہ ۔ وہ ہمیشہ سے ہے۔ اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کا ہونا ضروری ہے اوراس کا نہ ہونا ممکن نہیں ۔ وہ سب سے بڑا ہے اور تمام صفات کمال اس کی ذات میں موجود ہیں۔ اس کا ساکوئی نہیں نہ ہونے میں۔ کیوں کہ ہونا اس کی ذات ہے۔ اور نہ کسی صفت میں کیوں کہ اس کی تمام صفتیں ہی اس کی ذات ہے۔ وہ زندہ ہے نہ جان سے بلکہ اپنی ذات سے ۔ وہ جانتا ہے نہ کسی جاننے والی چیز سے بلکہ اپنی ذات سے ۔ وہ سنتا ہے ، نہ کسی سننے والی چیز سے بلکہ اپنی ذات سے ۔ وہ بولتا ہے ، نہ کسی بولنے والی چیز سے بلکہ اپنی ذات سے ۔ وہ تمام نقصانوں سے پاک ہے اور تمام عیبوں سے بے عیب ۔ یہ مثل ہے کہ بے عیب ذذات خدا کی ہے ، بالکل اس پر ٹھیک ہے ۔ سب ممکن چیزوں پر قادر ہے ۔ الحتی القائم ہے ، دانا وبینا ہے۔ نہ اس کا کوئی مشابہ ہے اور نہ اس کا کوئی مصاحب اور مددگار اور نہ اس کی مانند کوئی ہے اور نہ اس کا کوئی شریک ۔ نہ وجوب وجود میں اور نہ استحقاق عبادت میں اور نہ پیدا کرنے میں اور نہ صلاح و تدبیر بتانے میں۔ پس اس کے سوا کوئی کسی قسم کی عبادت یعنی اظہار اپنے تذلل کا اور جو طریقہ اس کی تعظیم کا مستحق نہیں ہے۔ پس ہمارے تذلل کا اور جو طریقہ اس کی تعظیم کا ٹھہرایا گیا ہو اس طریقہ کی تعظیم کا استحقاق اس کے سوا دوسرے کو نہیں۔ وھی بیمار کو اچھا کرتا ہے اور وہ وہی سب کو رزق پہنچاتا ہے ، وہی بلاؤں کو ٹالتا ہے اور وہی خوشیوں کو لاتا ہے مگر یہ سب باتیں اپنے قانون قدرت کے مطابق کرتا ہے۔ اس کا قانون قدرت کبھی ٹوٹتا نہیں ۔ وہ ہر طرح کے قانون قدرت کے بنانے پر قادر ہے مگر جو قانون قدرت کہ اس نے بنا دیا پھر اس کے برخلاف کچھ ہوتا نہیں۔ قدرت کے قانون بنانے میں کسی سبب کا محتاج نہیں ۔ مدیع السموٰات والارض و اذا قضی امرا فانما یقول لہ کن فیکون ۔ ’’ امر ‘‘ کے لفظ سے وہی قانون قدرتً مراد ہے جس کو بغیر کس سبب کے صرف ’’ کن ‘‘ کے لفظ سے یعنی ارادہ سے جو مقتضائے کمال ہے ، بتا دیتا ہے۔ وہ کسی میں سماتا نہیں اور نہ کسی میں ملتا ہے ۔ اس میں تعدد و حدوث آھی نہیں سکتا ۔ نہ اس کی ذات میں اور نہ اس کی صفات میں۔ اس کا تعلق متعلقات سے بھی حادث نہیں ہے بلکہ ظہور متعلقات سے ان کے وقتوں میں وھ حدوث اور خیال تعدد ہوتا ہے۔ مگر اس میں نہ حدوث ہے اور نہ کسی طرح کا تعدد ۔ وہ نہ جوہر ہے نہ عرض ، نہ جسم ہے نہ کسی محدود جگہ میں ہے ، نہ کسی جگہ میں ہے ، نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں ہے یا وہاں ہے۔ نہ اس میں حرکت ہے اور نہ اس پر سکون کا اطلاق ہو سکتا ہے اور نہ اس کی نسبت کسی جگہ سے آنا اور کسی جگہ میں جانا بولا جا سکتا ہے ۔ اس کے لیے کوئی طرف وسمت متعین نہیں۔ اینما تولو افثم وجہ اللہ ۔ اس کا عرش پر ہونا صرف انسانوں کو اس کی بڑائی کا خیال دلانا ہے ، نہ اس کا عرش پر یا اوپر کی سمت پر ہونا۔ اوپر تو ایک اضافی سمت ہے جو ہماری اوپر کی سمت ہے۔ وہ کسی دوسروں کے نیچے کی سمت ہے مگر عرش پر ہونے سے ہر ایک کے دل پر وحشی سے لے کر مہذت فلسفی تک کے دل پر اس کی بڑائی کا خیال آتا ہے۔ مرنے کے بعد مؤمنین و موحدین اس کو دیکھیں گے ۔ وہ ایک ایسا روحانی انکشاف ہو گا جو عقلی تصدیق سے جیسے کہ اس دنیا میں ہم رکھتے ہیں ، بدر جہابڑھ کر ہو جس کی نسبت عرف عام میں آنکھوں سے دیکھنا کہا جاتا ہے مگر اس رویت کے لیے نہ سمت ہو گی نہ یہ بصر ۔ نہ صورت ہو گی نہ شکل۔ نہ رنگ ہو گا نہ کوئی ڈھنگ ۔ نہ مقابلہ ہو گا نہ آمنا سامنا ۔ محض ہو کا مقام ہو گا۔ کفر و معاصی کا بھی اسی قانون قدرت کے موافق وہی خالق ہے۔ مگر اس نے اپنے قانون قدرت سے انسان کو ایسا بنایا ہے جس میں ان سے بچنے کی قدرت رکھی ہے۔ اس لیے اگرچہ خدا ان کا خالق ہے مگر خود انسان اپنی قدرت و اختیار سے ان کا کاسب ہے گو کہ بلحاظ قانون قدرت کا سب کا بھی خدا ھی پہ اطلاق ہو سکے مگر اس کو نہ کفرو و معاصی سے کچھ نقصان ہے اور نہ عبادت کی حاجت۔ اس کے تمام کام سراسر حکمت ہیں ، جو کچھ کہ اس سے ہوا وہ سب نیک ہے ۔ کما قیل ۔ آن چہ از پردہ خفا بہ منصہ ظہور جلوہ گر است ہمہ نیکو است۔ پیر ماگفت خطا درقلم صنع نرفت آفریں بر نظرپاک خطا پوشش باد پس جو رو ظلم کی نسبت اس کی طرف نہیں ہو سکتی۔ وہ اپنی مخلوق کو پیدا کرتا ہے۔ جس طرح کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہوتا ہے۔ عدل و حکمت کے لیے ہر ایک کو اسی کے حال میں دیکھنا چاہیے نہ نسبتاً۔ کیوں کہ عدل و حکمت نسبتی چیز نہیں ہے۔ بلکہ ہر ایک کے لیے بہ منزلہ اس کے خاصہ کے ہے جس کی تعریف میں آیا ہے۔ مایوجد فیہ ولایوجد فی غیرہ۔ اس کے سوا کوئی حاکم نہیں۔ مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اندھا دھوندی سے لغو وبے فائدہ احکام جاری کرنے لگے۔ پس یہ اعتقاد رکھنا کہ حسن و قبح اشیاء کی اور کسی فعل پر ثواب یا عقاب ہونا صرف خدا کے حکم اور اس کے امر و نہی کے سبب سے ہے محض لغو اعتقاد ہے بلکہ حسن و قبح اشیاء کی اور کسی فعل پر ثواب و عقاب کا ہونا اسی قانون قدرت پر مبنی ہے اور خدا ک احکام اسی قانون قدرت کا بیان ہے پس ان میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ ان کے حسن و قبح کو ابتداً ھی عقل انسان کی دریافت کر لیتی ہے اور بعض ایسے ہیں۔ بعد الاخبار من الرسل عن اللہ تعالیٰ۔ ان کے حسن و قبح کو عقل تسلیم کرتی ہے۔ فھذا اعتقادی بااللہ الواحد الاحد الصمد الذی لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفواً احد وقد قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من قال لاالہ الااللہ مستیقنا بھا قلبہ دخل الجنۃ فانا من اھل الجنۃ انشاء اللہ تعالیٰ بحرمۃ سیدنا محمد حاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تسلیما کثیراً کثیرا۔ دافع البھتان (تہذیب الاخلاق جلد 5 بابت 15 شعبان 1291ئ) (ان اعتراضوں کے جواب جو سر سید پر کیے جاتے تھے) یہ ایک بہت ہی اہم اور نہایت خاص مضمون ہے جو سر سید نے اپنے ذاتی اعتقادات اور خیالات کے متعلق تفصیل اور جامعیت کے ساتھ رقم فرمایا ہے۔ مذہب کے متعلق جو جو اتہامات اور الزامات لوگ اس زمانہ میں سر سید پر لگاتے تھے۔ اور آج کل بھی بعض لوگ ان کا اعادہ کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ان سب کا تسلی بخش اور مدلل جواب دیا گیا ہے۔ اس میں سر سید نے اپنے ہر ایک مذہبی عقیدے اور خیال کو نہایت وضاحت کے ساتھ اور بہت مبہم نہیں چھوڑی ۔ جو لوگ سر سید کے مذہبی عقائد کی طرف سے بد ظن ہیں وہ اگر انصاف و دیانت کے ساتھ اس مضمون کو مطالعہ فرمائیں گے تو یقیناً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ سر سید نہ بے اعتقاد تھے اور نہ ملحد ۔ بلکہ ان کو تمام عقائد حقہ پر کامل یقین تھا اور وہ تمام مسائل اسلامیہ کو درست اور ٹھیک جانتے تھے۔ ہاں یہ بات ضرور تھی کہ جو لغو ولا یعنی باتیں اور بے ہودہ اعتقادات عوام اور مولویوں نے اسالم میں داخل کر دیے تھے ان کے خلاف وہ بڑے زور سے قلمی جہاد کرتے تھے اور آخر وقت تک کرتے رہے۔ نہ انھوں نے ان کو کبھی جائز سمجھا اور نہ ان کو ٹھیک جانا اور جو کچھ کہا منافقت اور ریاکاری سے نہیں کہا۔ بلکہ وہی کہا جس کی ان کے ضمیر نے گواہی دی۔ نہ کفر کے فتوؤں کے خوف سے اس خیال کو چھپایا جو ان کے نزدیک حق تھا۔ نہ کسی کی خوشامد کے خیال سے حق بات کا انکار کیا۔ ان کے بعض مخصوص مذہبی اعتقادات سے بے شک اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر محض اس وجہ ان کے خلوص اور ان کی قومی ہمدردی کے بے پناہ جذبہ سے ہرگز انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ بعض باتوں میں اختلاف کے باعث ان کو دین سے برگشتہ اور اسلام سے منحرف قرار دیا جا سکتا ہے۔ حضور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جیسی محبت اور اسلامی احکام کی جیسی عظمت ان کے دل میں تھی۔ شاید بڑے بڑے علمائے کرام کے دلوں میں بھی اتنی نہ ہو اس مختصر تمہید کے بعد اب سر سید کا اصل مضمون پڑھیے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) جناب حضرت سید الحاج مولانا مولوی حاجی علی بخش خاں صاحب بہادر سب آرڈینٹ جج گورکھ پور نے ایک کتاب مسمی یہ تائید الاسلام تحریر فرمائی ہے جس میں مجھ پر بہت سے اتہام کیے ہیں اگر چہ میں ایسی باتوں کی نسبت کچھ پراوہ نہیں کرتا مگر بہت سے دوست بجد ہیں کہ جن عقاید کو جناب سید الحاج نے اتہاماً تمھاری طرف منسوب کیا ہے ان کی نسبت بلا بحث و استدلال صرف اتنا لکھو کہ حقیقت میں وہ تمھارا عقیدہ ہے یا تم پر اتہام ہے۔ پس میں ان کے ارشاد کی تعمیل کرتا ہوں۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ مجموعہ موجودہ اسلام مخاطب یعنی میرے نزدیک قطعاً باطل ہے ۔ یہ محض اتہام ہے۔ میرا یہ عقیدہ نہیں ہے میں نے ایک مقام پر جہاں یہ بحت کی ہے کہ مذاھب مختلفہ میں کون سا مذہب سچ ہو سکتا ہے اور بعد ایک لمبی تقریر کے بیان کیا ہے کہ مذہب اسلام کے سوا اور کوئی مذہب سچ نہیں ہوسکتا وہاں میں نے لکھا ہے کہ اسلام سے میری مراد یہ مجموعہ احکام نہیں ہے کیوں کہ اس میں احکام منصوصہ اور اجہادیات اور قیاسیات سب شامل ہیں جن میں خطا کا احتمال ہے اس مقام پر میری مراد مذہب اسلام سے صرف احکام منصوصہ ہیں پس یہ کہنا کہ مخاطب کے نزدیک مجموعہ موجودہ اسلام قطعاً باطل ہے کیسا غلط اور کتنا بڑا اتہام ہے۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ مجموعہ اسلام مخاطب یعنی میرے نزدیک خلاف مرضی الٰہی ہے۔ نعوذ باللہ من ھذہ الکلمات کبرت کلمۃ تخرج من افواھہم ان یقولوں الاکذبا۔ میرے نزدیک کوئی مذہب سوائے مذہب اسلام کے مطابق مرضی الہٰی کے نہیں ہے۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ احکام معاد پر اعتقاد لانا اور صحیح جاننا مخاطب کے نزدیک مانع ترقی ہے۔ لعنت خدا کی ہو اس پر جس نے یہ لکھا ہو اور جس کا یہ اعتقاد ہو میں نے یہ لکھا ہے کہ جب اس سچے مذہب (یعنی اسلام) میں بھی لغو خیالات اور بد تعصبات مل جاتے ہیں تو وہ ویسا ھی انسان کی ترقی کا ھارج ہوتا ہے کجا یہ لفظ اور کجا وہ عقیدہ جو سید الحاج نے میری نسبت لکھا ہے جس وقت انھوں نے یہ کتاب لکھی ہے شاید خود ان کو احکام معاد پر یقین نہ تھا کیوں کہ اگر یقین ہوتا تو وہ ضرور خیال فرماتے کہ مرنا بھی ہے اور خدا کے سامنے جانا بھی ہے میں کیوں کہ ایک شخص پر ایسا اتہام کروں۔ جناب سید الحاج نے ارقام فرمایا ہے کہ معجزات انبیا کے اعتبار سے مجرد نبی کے قول پر یقین لانا مخاطب کے نزدیک باطل ہے۔ اس عبارت کا مطلب شاید مصنف ھی سمجھیں تو سمجھیں اور کوئی تو سمجھ نہیں سکتا مگر صرف اس قدر لکھنا کافی ہے کہ جناب سید الحاج میرے آرٹیکل کا جومطلب سمجھے ہیں وہ غلط سمجھے ہیں میں نے اس آرٹیکل میں صرف شرف عقل ثابت کیا ہے۔ جناب سید الحاج نے ارقام فرمایا ہے کہ ایجاد شریعت مخاطب کے یعنی میرے نزدیک ضرور ہے۔ لعنت اللہ علیٰ قایلہ و علی معتقدہ میرے اعتقاد میں شریعت حقہ محمدیہ خاتم شریعت ہے جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ختم النبوت ہیں۔ جناب سید الحاج نے ایک فقرہ میں پانچ اتہام میری نسبت کیے ہیں۔ ایک اتباع سواد اعظم و اتفاق جمہور مخاطب کے نزدیک باطل ہے۔ دوم کسی عالم کے قول کا اعتبار نہیں نہ سندھ لانی چاہیے ۔ سوم ۔ مسلمان مذہبی سے انکار کرنا نہ بدعت ہے نہ کفر ہے۔ چہارم ۔ تقلید آئمہ اربعہ کی ظلمت و ضلالت ہے۔ پنجم ۔ فقہ و حدیث پر اعتماد لانا بے جا ہے۔ یہ سب کچھ جو لکھا ہے سب غلط ہے اور تمام تر مضامین کو تحریف کیا ہے فویل للذین یکتبون الکتاب بایدیھم ثم یقولون ھذا من عنداللہ وہ لکچر جو آزادی رائے پر ہے اور جس کی تحریف جناب سید الحاج نے فرمائی ہے اس کا مطلب سمجھنے کو ابھی مدت چاہیے ۔ پس اسی قدر لکھنا کافی ہے کہ جناب سید الحاج کا یہ استنباط غلط ہے۔ وہ مطلب نہیں سمجھے یا دانستہ تحریف کی ہے۔ جناب سید الحاج نے پھر ایک فقرہ میں دو اتہار کیے ہیں۔ ایک جو مسئلہ شرعیہ تہذیب مصطلحہ مخاطب کے خلاف ہو باطل ہے دوم خصوصا کثرت ازواج ، سوم و استرقاق۔ پہلا اور دوسرا امر محض بہتان ہے۔ میرے عقیدہ میں کوئی مسئلہ شرعی تہذیب کے خلاف ہے ھی نہیں اور جس تعدد ازدواج کی نسبت شرع میں اجازت ہے وہ عین تہذیب ہے اور شہوت رانی کے لیے شرک کو ٹٹی بنانا بہایم کی مانند ہونا ہے۔ تیسرا امر البتہ کسی قدر صحیح ہے یہ تو اکثر علماء متقدمین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آیہ کریمہ فا ما منا بعد و اما فداء سے استرقاق ممنوع ہے مگر وہ علماء اس کو منسوخ مانتے ہیں ، میں منسوخ نہیں جانتا ۔ جناب سید الحاج ایک دھوکہ کی عبارت میں میری نسبت واعظین و صوفیہ و علماء مدرسین پر سب وشتم کرنا لکھتے ہیں ۔ یہ گول گول عبارت جس میں کل واعظمین و صوفیہ و علماء داخل ہوں سید الحاج کو لکھنی مناسب نہ تھی جن مکار واعظین و صوفیہ اور علماء بد نام کن نیکونامے چند کی نسبت میں نے لکھا ہے ان کی نسبت سب لکھتے آئے ہیں مولانا روم کی مثنوی دیکھو ۔ امام غزالی ؒ کی احیاء العلوم پڑھو۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میں نے احکام معاد مثل جنت و نار۔ صراط و میزان و صور و حشر و اجساد و غیرہ و عذاب قبر وغیرہ جو محسوسات نہیں ہیں ٹھہرائے ہیں۔ یہ محض اتہام ہے میں نے ایک حرف بھی اب تک ان کی نسبت نہیں کہا نعیم جنت و و عید جہنم پر اور بعث بعدالموت پر میں اعتقاد رکھتا ہوں باقی رہی ان کی کیفیات ۔ وہ ہر شخص موافق اپنے مذاق کے بیان کرتا ہے چناں چہ امام غزالیؒ کی کتاب احیاء العلوم ان باتوں سے پر ہے۔ جناب سید احاج ارقام فرماتے ہیں کہ صرف فرائض پر عمل کرنا وہ بھی نیچر کے موافق ہوں کافی ٹھہرایا ہے۔ اگرچہ اس میں بھی تدلیس کی ہے مگر بلاشبہ میرا اعتقاد ہے کہ جس قدر کہ فرائض مذہب اسلام میں ہیں وہ فطرت اللہ یعنی نیچر کے مطابق ہیں اور بلاشبہ صرف فرائض کا ادا کرنا اور گناہوں سے بچنا بہشت میں جانے کو کافی ہے۔ جناب سید الحاج نے ارقام فرمایا ہے کہ جو عبادت خلاف نیچر ہو اس کو میں نے باطل ٹھہرایا ہے۔ اس میں بھی تحریف کی ہے کیوں کہ میں نے کہاہے کہ زھد و ریاضت کو صرف راتوں کو جاگنے اور ذکر و شغل کرنے اور نفل پڑھنے اور نفل روزہ رکھنے میں منحصر سمجھنا (قطع نظر اس کے کہ ان کا ایسا کرنا اور حد اعتدال سے گزر جانا قانون قدرت کے برخلاف ہے مقصود شارع ہے یا نہیں ہم تسلیم کرتے ہیں کہ وہ عبادت سہی) مگر اس کے سوا اور نیک باتوں کو عبادت نہ سمجھنا جو ان سے زیادہ مفید ہیں بڑی غلطی ہے۔ کجا یہ مضمون اور کجا یہ اتہام جو جناب سید الحاج نے بایں دعویٰ دین داری مجھ پر کیا ہے۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ جس قدر عادات و حسنات خلاف نیچر ہوں ان کو میں نے باطل ٹھہرایا ہے۔ ٭……٭……٭ مگر جناب سید الحاج یہ نہیں سمجھتے کہ جس قدر نیک عادتیں اور حسنات ہیں وہ نیچر یعنی فطرت اللہ کے برخلاف ہیں ہی نہیں کیا جناب سید الحاج عادت خلاف فطرت کو حسن سمجھتے ہیں۔ وہ میرا قول نقل کرتے ہیں کہ مذہب خدا کا قول اور فطرت خدا کا فعل ہے دونوں ایک ہیں۔ کیا جناب الحاج کو اس میں شک ہے۔ کیا ان کے نزدیک خدا کہتا کچھ ہ اور کرتا کچھ ہے۔ جناب سید الحاج میرا قول نقل کرتے ہیں کہ طریقہ لباس و اکل وشرب و اخلاق و عادات ایسی اختیار کرنی چاھئیں جس سے تہذیب یافتہ قوموں کی نظر میں حقارت نہ ہو۔ کیا جناب الحاج کی خواہش اس کے برخلاف ہے کیا اپنی قوم کیا ان کی مرضی ہے کہ مسلمان ہمیشہ ذلیل رہیں اور تربیت یافتہ قوموں کی نگاہ میں ان کی کچھ قدروعزت نہ ہو۔ جناب سید الحاج میری نسبت الزام لگاتے ہیں کہ میں ترقی قومی کو دیگر حسنات پر ترجیح دیتا ہوں۔ دل و جانم فدائے ایں الزام جناب سید الحاج باد۔ بلاشبہ میرا یہ عقیدہ ہے یہی مذہب ہے اور یہی قول ہے اور خدا اسی قول پر میرا خاتمہ کرے کہ بعد ادائے فرائض کے کوئی عبادت قومی بھلائی میں کوشش کرنے سے بہتر نہیں ہے اللھم احینا علیہ و امتنا علیہ آمین ہاں البتہ خود غرض نفس کے بندے قومی بھلائی میں کوشش کرنے کو بے فائدہ سمجھتے ہیں۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میں نے تو ہین حرمین شریفین کی ہے اور اس کے ثبوت پر میرا یہ قول نقل کیا ہے۔ کہ خواجہ سرا روضہ متبر کہ رسالت مآب صلعم پر اور خانہ کعبہ پر متعین کیے ہیں اور یہ ہیئے کے پھوٹے مسلمان اس کو باعث افتخار جانتے ہیں۔ ناظرین انصاف کریں گے کہ اس فقرے سے توہین حرمین شریفین استنباط کرنا جناب سید الحاج کے علم و اجتہاد اور دیانت اور دین داری کا کیسا بڑا ثبوت ہے کیا یہ استنباط دیدہ و دانستہ اتہام نہیں ہے مسلمانوں میں خواجہ سراؤں کا رواج اسلام کو داغ لگانے والا ہے پھر جو فعل کہ حرام و ممنوع شرعی ہے اس کے مرتکب ہوتے ہیں اور پھر انھی لوگوں کو حفاظت روضہ مطہرہ اور خانہ کعبہ پر متعین کرتے ہیں اور ان ہیئے کے پھوٹوں کو رسول خدا صلعم سے بھی شرم نہیں آتی اور آں حضرت کے حکم کے برخلاف کام کرتے ہیں اور پھر انھی کو روضہ مبارک کے سامنے لے جاتے ہیں اور حیات النبی کا بھی اعتقاد رکھتے ہیں اگر غیرت اور خدا و رسول ؐ سے شرم ہوتی تو چینی بھر پانی میں ڈوب مرتے مگر اس سے بھی زیادہ تعجب ہم کو یہ ہے کہ ہمارے مخدوم مبشر بہ بشارات عجیبہ سید الحاج جناب مولانا علی بخش خاں صاحب بہادر سب آرڈینٹ جج گورکھ پورا عنی قاضی القضاۃ شریعت انگریزیہ فرماتے ہیں کہ حرمین شریفین میں خواجہ سراؤں کی تعیناتی کو برا جاننا توہین حرمین شریفین ہے۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ و بحمدہ۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میں نے تعلیم دینیات کی جو مروج ہے غیر مفید ٹھہرائی ہے اور اس کی دلیل میں میرا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’ زمانہ حال میں دینیات کی تعلیم بھی مسلمانوں میں مفید طریقے پر نہیں ہے اور کوئی علم مفید مروج نہیں ہے۔ ‘‘ اے مسلمانو ! انصاف کرو کہ میرے اس قول کا یہ مطلب ہے جو جناب سید الحاج نے نکالا ہے کیا ان کا ایسا لکھنا اتہام نہیں ہے اور کیا دیدہ و دانستہ انھوں نے یہ غلط نہیں لکھا ہے۔ کجا طریقہ تعلیم کو غیر مفید کہنا اور کجا تعلیم دینیات کو غیر مفید کہنا۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میں نے جو تمہیں غلامی کے آرٹیکل میں لکھی ہے اس سے سب وشتم انبیاء سابقین اور لاحقین اور صحابہ و اھل بیت و عام امت مرحومہ کی لازم آتی ہے۔ یہ قول ان کا محض غلط ہے قبل نزول امتناع کسی فعل کے اس کے مرتکبین کو گنہگار اور مرتکب فعل حرام کا جاننا صرف جناب سید الحاج کا عقید ہے۔ ایک زمانے میں حقیقی بہن سے نکاح منع نہ تھا اور بعض نبی انبیاء سابقین میں سے اس کے مرکتب ہوئے اسی طرح حقیقی دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا منع نہ تھا متعدد انبیاء اس فعل کے مرتکب ہوئے۔ شراب کی حرمت جب تک نہ ہوئی تھی تمام انبیاء سابقین اور اکثر صحابہ اس کے مرتکب ہوئے۔ پس اب اگر کوئی شخص یہ بیان کرے کہ بہن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں لانا حرام ہے۔ شراب پینی حرام ہے تو وہ کیا انبایء سابقین اور صحابہ کرام پر سب وشتم کرتا ہے۔؟ جو کچھ میں نے نسبت غلامی کے لکھا ہے اول میری تحقیق دریافت کرنی چاہیے تھی میرا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ کسی نبی نے انبیاء سابقین سے اور لاحقین سے جناب خاتم الانبیاء تک کسی عورت پر بغیرنکاح کے تصرف کیا ہو آئمہ اھل بیت علیہم السلام نے ان عورتوں سے جو لڑائی میں قید ہوئی تھیں نکاح کیا تھا ۔جس طرح کہ جناب سید الحاج آئمہ اھل بیت پر تہمت لگنا چاہتے ہیں اس طرح بغیر نکاح بطور لونڈی کے کسی کو تصرف میں نہیں لائے۔ سنی صرف اس مطلب سے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا حق ہونا شیعوں پر ثابت ہو آئمہ اھل بیت پر لونڈیوں کے تصرف کی تہمت لگاتے ہیں ورنہ وہ ازدواج مطہرات منکوحہ اھل بیت علیہم السلام تھیں صحابہ و تابعین کی نسبت بھی کوئی کافی ثبوت اس بات کا نہیں ہے کہ قیدی عورتوں کو بطور لونڈیوں کے بلا نکاح انہوں نے تصرف کیا ہو اور کچھ شبہ نہیں کہ آیۃ کریمہ اما منا بعد و اما فداء اخرالایۃ ہے جو اساری کے حق میں نازل ہوئی اور جس سے غلامی معدوم ہو گئی پس جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہو اس کی نسبت یہ کہنا کہ انبیاء و صحابہ و اھل بیت پر سب و شتم لازم کیا ہے کیسا اتہام ہے۔ جب سلطنت سلاطین کے ہاتھ آئی پھر مفتیوں کو اور قاضیوں کو کیا ڈر تھا۔ آیت اما منا بعد و اما فداء کو مٹا دیا اور ملا دو پیاذہ کے قاضی بن گئے قطع نظر اس کے بعدذ غزوات و انقراض زمانہ خلافت خمسہ حقہ کون سی لڑائی جہاں جائز خالصاً للہ واسطے اعلاء کلمۃ اللہ کے تھا جس کی بندی کو جناب قاضی و مفتی نے حلال کر دیا تھا اور جس طرح کہ مکہ معظمہ میں لونڈی و غلام بیچے جاتے ہیں یہ کون سی شرع کی رو سے جائز ہیں شریعت محمدیہ کی رو سے تو یقینی حرام ہیں۔ ہاں ایک الزام میرے اوپر ٹھیک ہے کہ میں نے برخلاف جمہور مسئلہ استر قاق کا بیان کیا ہے مگر جب میں دل سے یقین کرتا ہوں کہ خدا اور کتاب اللہ اور محمد رسول اللہ صلعم تینوں میرے ساتھ ہیں اور یہ میرا یقین کامل اور نہایت پختہ ہے تو مج کو اس اختلاف سے کچھ ڈر نہیں ہے۔بفرض محال اگر میری سمجھ نے غلطی بھی کی ہو تو بھی اس اخلاف کا کھ مضائقہ نہیں ہے کیوں کہ مجھ کو کامل یقین ہے کہ معدومی استرقاق منصوص قرآنی ہے اور عین مرضی خدا اور رسول کی پس ممکن ہے کہ جناب سید الحاج یا اور مسلمان کہیں کہ میں غلطی پر ہوں الا ان امور کے سبب کافر کہنا اور سب وشتم انبیاء و صحابہ و آئمہ اھل بیت اعلیہم السلام کا اتہام کرنا کچھ دیانت کی بات نہیں ہے یہ بھی اید رہے کہ میرے تحقیق میں غلامی کسی شریعت کا حکم شرعی نہ تھا فتدبر ولاتقل مالیس لک بر علم ۔ جناب سید الحاج میرا قول نقل کرتے ہیں کہ احکام نیچر (یعنی فطرت اللہ )کبھی نہیں ٹوٹنے کا اور پھر اس تفریع فرماتے ہیں کہ معہذا احکام حشر و نشر و فنا باطل ٹھہریں گے۔ مگر میں نہایت ادب سے عرض کرتا ہوں کہ جناب یہ میرا مطلب نہیں ہے حضور نے قصداً یا خطاء غلطی فرمائی ہے حشر و نشر و فنا خود نیچر و فطرت اللہ میں داخل ہے اور جب وہ ہو گاعین نیچر ہو گا افسوس ہے کہ جناب کو نہ قرآن کے لفظ فطرت اللہ کی تحقیق ہے اور نہ انگریزی لفظ نیچر کی مگر قلم پکڑ کر جو دل میں آتا ہے ٹکرلیس تحریر فرما دیتے ہیں۔ جناب سید الحاج مجھ پر اتہام فرماتے ہیں کہ میں کل احادیث کی صحت کا انکار کرتا ہوں۔ لاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم۔ یہ محض غلط اتہام میری نسبت ہے میں خود بیسیوں حدیثوں سے جو میرے نزدیک روایتا و درایتاً صحیح ہوتی ہیں ، استدلال کرتا ہوں۔ جناب حضرت سید الحاج میری نسبت اتہام فرماتے ہیں کہ قواعد صرف و نحو و معنی و بیان و اصول کے وافق معنی قرآن و حدیث کے لینے جائز نہیں۔ محض کذب و اتہام ہے اور لفظ ’’ جائز نہیں ‘‘ ایک عجیب لفظ ہے۔ بہر حال میں نے اس سے زیادہ نہیں کیا ہے جو شاہ ولی اللہ صاحب نے تفسیر فوزالکبیر میں لکھا ہے ۔ بلا شبہ معنی قرآن کے موافق محاورہ عرب اول کے لینے چاہئیں جس زبان و محاورہ میں قرآن مجید نازل ہوا ہے۔ جناب سید الحاج مجھ پر یہ اتہام کرتے ہیں کہ اگر علوم جدیدہ میں مذہب اسلام خلل انداز ہوت و مذہب اسلام کا چھوڑ دینا لازم ٹھہرایا ہے۔ سبحان اللہ کیا داد سخن فہمی دی ہے جناب یہ مطلب نہیں ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ مذہب اسلام ایسا پختہ ہے کہ کتنے ہی علوم جدیدہ کیوں نہ پڑے جاویں الامذہب اسلام سے بد اعتقادی نہیں ہو سکتی ہاں ایسے لچر اصول مذہب کے جیسے کہ جناب سید الحاج نے اختیار فرمائے ہیں اور جن میں سے بڑے دو اصول بہتان کرنا اور اتہام لگانا اور کلمہ گوؤں کو کافر کہنا ہے ان کا چھوڑنا تو میں لازم ٹھہراتا ہوں۔ جناب سی الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میں نے اعتراض فلسفیانہ قرآن شریف پر کیے ہیں اور اس پر میرے بیان کو بطور دلیل کے لائے ہیں کہ ھیئت جدیدہ کی تردید کسی کتاب میں نہیں ہے اور جو تفسیر عالموں نے نطفہ سے انسان کے پیدا ہونے کی لکھی ہے وہ فن تشریح سے غلط معلوم ہوتی ہے۔ اگر انصاف و دیانت دنیا میں باقی ہے تو جناب سید الحاج منبع البہتان کے اتہام کو خیال کیا جاوے کہ کجا قرآن مجید پر اعتراض کرنا اور کجا عالموں کی تتفسیر کو غلط بتانا یا یہ کہنا کہ ہیئت جدیدہ کی تردید کسی کتاب میں نہیں ہے۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میں نے ایڈیسن واسٹیل کو پیغمبر ٹھہرایا ہے۔ مگر مجھ سے پہلے فردوسی و انوری و سعدیؒ کو لوگ پیغمبر ٹھہرا گئے ہیں اگر میں نے اسٹیل و ایڈیسن کو پیغمبر ٹھہرایا تو کچھ گناہ نہیں کیا۔ ہاں شاید جناب سید الحاج اس لیے خفا ہوئے ہوں گے کہ میں نے جناب ممدوح کو پیغمبر کیوں کیوں نہیں ٹھہرایا۔ خیر معاف فرمائیے اس لیے کہ میں جناب ممدوح کا مرتبہ اس سے بھی زیادہ سمجھتا ہوں وہ تو پیغمبر ان سخن تھے الا میں جناب سید الحاج کو خدائے بہتان و اتہام جانتا ہوں۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میں نے بد مقابلہ فلسفیات جدیدہ کے قرآن و حدیث کو بے کار قرار دیا ہے اور ادلہ ثلاثہ شرعیہ کا بطلان بیان کیا ہے۔ لعنۃ اللہ علی قایلہ و علیٰ معتقدہ و علی من ینسب ہذا لقول الیٰ من لم یعتقدہ و لم یقلہ اسی قدر کہنا بس ہے کیا فائدہ ہے ایسی اتہامات سے اور کیا نتیجہ جناب سید الحاج نے اس میں سمجھا ہے۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میں نے خاتم الانبیاء صلعم کو نیچرل اسٹ ٹھہرایا ہے۔ میں نے تو یہ لفظ نہیں کہا اور اگر جناب سید الحاج نے بہ نظر تحقیر یہ لفظ جناب خاتم المرسلین کی نسبت ارقام فرمایا ہے تو اس کا مظلمہ خود جناب سید الحاج کی گردن پر رہے گا کیوں کہ سید الحاج کے ہم مشرب علماء کے فتووں سے پہلے ہی یہ ثابت ہو چکا ہے کہ نبی کی نسبت کلمہ تحقیر کا بلا قصد نقل کرنا بھی کفر ہے پس ایسے کلمہ کا ایجاد کر کے کہنا بطریق اولیٰ کفر ہو گا۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میں نے مادہ عالم کو ازلی و ابدی ٹھہرایا ہے۔ اگر لفظ مادہ سے کوئی شئی علاوہ ذات باری کے مراد ہے تو ایسا اعتقاد کرنے والے پر تو میں لعنت بھیجتا ہوں اور اس کو میں کافر سمجھتا ہوں اور اگر مادہ سے عین ذات باری مراد ہو (گو لفظ مادہ کا اطلاق اس پر غلط ہو گا) جیسا کہ بڑے بڑے اکابر بزرگان دین اھل وجد وحدت وجود کا مشرب ہے تو میں کہتا ہوں کہ بلاشبہ خدنا ازلی و ابدی ہے و للہ درمن قال ۔ فلو لاہ ولو لانا لہا کان الذی کانا فانا اعبد حقا و ان اللہ مولانا و انا عینہ فاعلم اذا ما قلت انسانا فلا تحجب بانسان فقد اعطاک برھانا فکن حقا رکن خلقاتکن باللہ رہمانا وعد خلقہ منہ تکن روحا و ریحانا فاعطینا ہ ما یبدو بہ فینا و اعطانا فصارا الامر مقسوماً بایا ہ و ایانا فاحیاہ الذی یدری بقلبی حین احیانا وکنافیہ اکوانا و ازمانا و اھیانا ولیس بدایم فینا ولکن ذاک احیانا افسوس ہے کہ جناب سید الحاج کو ان مضامین پر غور کرنے کو ایک مدت درکار تھی مگر انہوں نے بے سوچے سمجھے جو چاہا لکھ دیا۔ ولاتقف مالیس لک بہ علم ان السمع و البصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسئولا۔ جناب سید الحاج فرماتے ہیں کہ میں نے لکھا ہے کہ شبہ دوسرے خدا کے وجود کا زائل نہیں ہو سکتا۔ اس کا مطلب کیا ہے آیا یہ مطلب ہے کہ میں معتقد دوسرے خدا ہوں تو میں لعنت بھیجتا ہوں مشرک پر اور دو اور تین یا اس سے زیادہ خدا ماننے والے پر اور اگر یہ مطلب نہ ہو تو جناب سید الحاج کا تحریف کر کر مطلب بیان کرناایک قسم کا اتہام ہے۔ جو تقریر کہ میں نے اس مقام پر بیان کی ہے اس پر ایک شبہ وارد کیا ہے اور لکھا ہے کہ ہم ایسے شبہات پر شرعاً مکلف نہیں ہیں۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میں نے لکھا ہے کہ اعتقادیات جو خلاف نیچر ہوں باطل ہیں اور عملیات معینہ فقہا باطل ہیں۔ جناب سید الحاج آپ اس آرٹیکل کا جو نے فلسفیانہ بد مقابلہ ایڈیسن لکھا ہے مطلب نہیں سمجھے جو کچھ آپ نے لکھا ہے سب غلط ے یہ اس کا مطلب نہیں ہے۔ جاب سید الحاج فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک علاوہ مذہب اسلام کے دوسرے مذاھب بھی سچے ہو سکتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ مطلب سید الحاج نے کہا سے استنباط فرمایا ہے میرا تو یہ مذہب ہے کہ مذہب اسلام ھی سچا مذہب ہے اور جو مذہب سچا ہو گا وہ اسلام ھی ہو گا۔ جناب سید الحاج فرماتے ہیں کہ جہاں سے میری مراد اس قسم کی لڑائی ہے جیسی مثلاً جرمن اور فرانس میں ہوئی تھیں نہ واسطے قائم ہونے دین اور اعلاء کلمۃ اللہ کے ۔ یہ تحریر جناب سید الحاج کی اتہام محض ہے جب کہ وہ دیدہ و دانستہ اتہام کرنے پر مستعد ہیں تو اس کا علاج کیا بلاشبہ میری دانست میں جہاں جبراً مسلمان کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے ہے جیسا کہ میری تحریوں سے ظاہر ہے۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اسلام صرف اسی قدر کا نام ہے خدا کو ماننا اور بندوں کے ساتھ برادری برتنا اس پر میرا یہ قول سند لائے ہیں کہ ’’ سچے مذہب اسلام کا مسئلہ یہ ہے کہ خدا کو ایک جاننا اور انسان کو اپنا بھائی سمجھنا ۔ ‘‘ اب صاحب تمیز خود غور کریں گے کہ جناب سید الحاج نے لفظ ’’ اسی قدر کا نام ہے ‘‘ اپنی طرف سے بڑھا کر اور میرے مطلب کو تحریف کر کر کیا عمدہ داد دین داری دی ہے۔ گر مسلمانی ہمین است کو واعظ دارد وائے گر در پس امروز بود فردائے جناب سیدالحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اھل سنت وغیرہ جو فرقے اسلام کے ہیں سب باطل ہیں صرف ملت نیچریہ حق ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جناب سید الحاج اور ہم دونوں مل کر کہیں کہ لعنت اللہ علی الکاذبین ۔ اور ہمارے دنوں مل کر کہیں کہ لعنت اللہ علی الکاذبین۔ اور ہمارے اور ان کے دوست پکار کر کہیں بیش باد۔ معلوم نہیں کہ جناب سید الحاج نے ایسی لغو اور بے ھودہ باتوں سے کیا فائدہ سمجھا ہے۔ جناب سید الحاج لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک جو مسئلے شرعیہ خلاف قل و مخالف نیچر ہو وہ باطل ہے۔ معلوم نہیں کہ جناب سید الحاج الٹی راہ کیوں چلیت ہیں یہ کیوں نہیں فرماتے کہ میرے عقیدہ میں کوئی مسئلہ شریعت حقہ محمدیہ علیٰ صاجہاالصلوۃ والسلام کا خلاف عقل و خلاف فطرت اللہ یعنی نیچر کے نہیں ہے۔ ترسم نہ رسی بہ کعبہ اے اعرابی کیں راہ کہ تو میروی بہ تر کستان است جناب سید الحاج فرماتے ہیں کہ میں نے حدیث صحیح کو اپنے خلاف دیکھ کر باطل سمجھا ہے اور شیطنت سیکھنے کا کنایہ ابو ہریرہ پر کیا ہے۔ جو حدیث ضعیف یا موضوع کہ جناب سید الحاج کے نزدیک صحیح ہو یہ کچھ ضرور نہیں کہ سب لوگ اس کو صحیح سمجھیں۔ جناب سید الحاج کے نزید وہ حدیث صحیح ہو گی میرے نزدیک نہیں ہے اور شیطنت سیکھنے کی نسبت کا جناب حضرت ابو ہریرہؓ کی طرف جناب سید الحاج نے مجھ پر اتہام کیا ہے۔ خود کیا ہے مجھ پر لگایا ہے۔ میں نے اس حدیث ھی کو صحیح نہیں سمجھتا۔ جناب سید الحاج نے ارقام فرمایا تھا کہ حضرت ابو ھریرہؓ نے عمل آیت الکرسی کا شیطان سے سیکھا (نعوذ باللہ منہا) اس پر میں نے لکھا کہ جناب مولوی علی بخش خاں صاحب بہادر سب آرڈینٹ جج گورکھ پور نے اپنے رسالہ ’’ شہاب ثاقب ‘‘ صفحہ 44 میں لکھا ہے کہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شیطان کے شاگرد ہوئے اور عمل آیت الکرسی کا اس سے سیکھا۔ اس عبارت کے بعد میں نے لفظ نعوذ باللہ منہا کا بھی لکھا ہے جس سے ظاہر ہے کہ میں قول جناب سید الحاج کوغلط جانتا ہوں اس پر جناب سید الحاج نے مجھ پر یہ اتہام کیا ہے کہ میں نے شیطنت سیکھنے کا کنایہ ابوھریرہؓ پر کیا ہے افسوس ہے کہ جناب سید الحاج کو ایسی باتیں لکھنے میں کچھ لحاظ بھی نہیں ہوتا۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میرا یہ بیان ہے کہ مادہ عالم منجملہ صفات باری ہے لہذا میں عین ذات ہے اور اس کا خالق اللہ تعالیٰ نہیں ہے ورنہ اپنی فات کا خود خالق ہو گا اورف نا ہونا مادہ عالم کا بھی متعذر ہے اور عالم پر تقدم ذات باری کو نہیں ہے اور ذات باری مادی ہے۔ کیا عجیب سمجھ جناب سید الحاج کی ہے اور کیا عمدہ مقامات اس میں ترتیب دیے ہیں کہ شیخ اکبر کی روح خوش ہو گئی ہو گی۔ پھر جو کچھ لکھا ہے محض غلط ہے۔ جناب بلاشبہ صفات باری اس کی عین ذات ہیں مگر یہ مسئلہ آپ کی سمجھ سے باہر ہے اس میں آپ کیوں دخل فرماتے ہیں الا اس قدر آپ کو معلوم کرنا چاہیے کہ جو کچھ آپ سمجھے ہیں وہ سب غلط ے اور جو الفاظ آپ ارقام فرمائے ہیں وہ میرے نہیں ہیں یہ سب آپ کے دل کے بنائے ہوئے الفاظ ہیں ابھی تو آپ حاجی ہی ہوئے ہیں مگر جب میصور کے رتبہ پر پہونچیے گا جب میرے ان فقروں کے معنی سمجھے گا جو میں نے صفات و ذات کی عینیت میں لکھے ہیں۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میرا بیان ہے کہ نکات بلاغت و اشارۃ النص و دلالۃ النص باطل ہیں۔ غلط ہے۔ میرا یہ قول نہیں ہے بلاشبہ میری سمجھ ہے کہ قرآن مجید کے معنی اسی طر پر لینے چاہئیں جس طرح اعراب عرب سمجھے تھے اور جن کی زبان میں قرآن مجید نازل ہوا ہے یہی مشرب شاہ ولی اللہ صاحب کا ہے جیسا کہ انہوں نے تفسیر فوزالکبیر میں لکھا ہے یہاں تک کہ جو باتیں قواعد نحو مقررہ سیبویہ و فراء کے خلاف قرآن مجید میں ہیں ان کی تاویل کو بھی شاہ ولی اللہ صاحب نے بے جا قرار دیا ہے اور عرب اول کے محاورہ کو خلاف قاعدہ مقرر ہ نحو قرآن مجید میں تسلیم کیا ہے اور اسی کو صحیح مانا ہے مگر مجھ کو شبہ ہے کہ جناب سید الحاج مولانا شاہ ولی اللہ صاحب کو بھی مسلمان جانتے ہیں یا نہیں کیوں کہ اھل بدایو ںان کی بھی تکفیر کرتے ہیں۔ جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میں نے اصول و فروع اسلام سے اپنے اختلاف کا اقرار کیا ہے۔ یہ الفاظ تو جناب سید الحاج کے دل کے بخارات ہیں مگر بلاشبہ اس زمانہ میں جو مسائل مسلمانوں میں رائج ہیں ان میں سے چند مسائل سے مجھ کواختلافہے اس لیے کہ میری دانست میں وہ مسائل خلاف شرع میں اصول و فروع سے اختلاف ہونا جو جناب سید الحاج تحریر فرماتے ہیں یہ محض اتہام ہے۔ اب میں ان چند عقیدوں کا ذکر کرتا ہوں جو جناب سید الحاج مولوی علی بخش خاں صاحب نے اپنی طرف سے گھڑ کر لکھے ہیں اور اتہاماً میری طرف منسوب کیے ہیں۔ عقیدۂ اول جناب سید الحاج نے اس عقیدہ کو میری طرف منسوب کیا ہے اور لکھا ہے کہ میں نے ایک مادہ اور ایک ذات باری دو چیزوں کو ازلی ٹھہرایا ہے اور لکھا ہے کہ تقدم ذات باری کا مادہ وجود عالم پر نہیں ہے اور پھر لکھا ہے کہ ذات باری خالق مادہ اصلی عالم کی نہیں ہے اور نہ اس کے فنا پر قادر ہے۔ ان میں سے ایک بھی میرا عقیدہ نہیں ہے اور نہ میںنے کہیں یہ باتیں بیان کی ہیں جو انہوں نے لکھی ہیں محض بہتان اور افترا ہے۔ ذات اور صفات باری کی نسبت تین مذہب مسلمانوں میں قدیم سے چلے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ صفات باری عین ذات ہیں۔ دوسرے یہ کہ غیر ذات ہیں۔ تیسرے یہ کہ نہ عین ہیں نہ غیر ہیں۔ میں مذہب اول کو صحیح سمجھتا ہوں اور اسی قدر میں نے بیانکیا ہے اور اس سے زیادہ جس قدربیان ہے وہ سب افترا اور بہتان ہے اور نہ وہ میرے الفاظ ہیں جو جناب سید الحاج نے لکھے ہیں ۔ عقیدۂ دوم جناب سید الحاج اس عقیدہ کومیری طرف منسوب فرماتے ہیں کہ ذات باری علت تامہ وجودہر شے کی نہیں ہے۔ ذات باری تعالیٰ کو خالق کل شے کہنا حقیقت میں غلط ہو جاوے گا۔ گو مجازاً صحیح ٹھہرے۔ جناب سید الحاج نے مجھ پر یہ سب افترا اور بہتان کیاہے۔ میرا یہ عقیدہ نہیں ہے میں نے صرف اور اس قدر لکھا ہے کہ ذاب باری تمام کائنات کی علت العلل ہے۔ عقیدۂ سوم جناب سید الحاج نے اتہاماً میرا یہ عقیدہ ٹھہرایا ہے کہ مادہ عالم کا قیامت کے روز فنا ہو جانا ممتنع بالذات ہو گاو کل من علیہا فان صحیح نہ ٹھہرے گا۔ جناب سید الحاج نے محض اتہام کیا ہے میرا یہ عقیدہ نہیں میں نے لکھا ہے کہ اگر تمام موجودات کے عوارض نوعیہ یا شخصیہ معلوم ہو جاویں تو جو کھ باقی رہے گا وہ ناقابل عدم ہو گا و قد قال اللہ تبارک و تعالیٰ۔ کل من علیہا فان و یبقی و جہہ ربک ذوالجلال و الاکرام اس قول کی حقیقت جناب سید الحاج نہیں سمجھے ان کو شیخ اکبر کی کتابیں پڑھنی چاہیں اور مسئلہ وحدت وجود کو سمجھنا چاہیے سب سید اکبر کے قول کو سمجھیں گے۔ عقیدۂ چہارم پھر جناب سید الحاج نے اس قیدے کا میری نسبت اتہام کیا ہے کہ ذات باری مادی ہے یا یوں کہو کہمادہ اور غیر مادہ سے مرکب ہے یا محل مادہ کا ہے۔ افسوس ہے کہ جناب سید الحاج کو بہتان پر بہتاں لگانے میں کچھ لحاظ نہیں ہوتا۔ میرا یہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ ایسا اعتقاد رکھنے والے کو میں کافر سمجھتا ہوں۔ عقیدۂ پنجم بلاشبہ میں ذات اور صفات باری کی عینیت کا قائل ہوں مگر اس عقیدہ میں جناب سید الحاج نے یہ نتیجہ اپنی طرف سے نکالا ہے۔ کہ یہ کہنا غلط ٹھہرے گا کہ مفہوم صفات کا باہم متمیز اور متغایر ہے اور اس صورت میں حقیقت علم و قدرت و غیرہ متحد الحقیقت ہوں گے مگر یہ سمجھ خود ان کی ہے میری نہیں وہ مسئلہ عینیت ذات و صفات کو سمجھے ھی نہیں اس کا علاج یہ ہے کہ کسی سے سیکھیں فاسئلو اھل الذکر انکنتم لاتعلمون۔ عقیدۂ ششم جناب سید الحا ج نے بغیر سوچے سمچے ان الفاظ سے میرا عقیدہ بیان کیا ہے کہ ذات باری کو قانون فطرت کے توڑنے یا تبدیل اورت غیر کرنے پر اختیار نہیں ہے بلکہ ممتنع با لغیر ہو گیا ہے۔ یہ بالکل اتہام محض ہے قانون فطرت کبھی نہیں ٹوٹتا کیوں کہ جوکچھ خدا کرتا ہے وہی قانون فطرت ہے۔ نیچر ایک انگریزی لفظ ہے اور وہ ٹھیک ٹھیک مراوف ہے لفظ فطرت اللہ اور قانون قدرت کے ابھی بہت مدت چاہیے کہ جناب سید الحاج ان لفظوں کے معنی سمجھیں۔ عقیدۂ ہفتم میری ایک تقریر کا جناب سید الحاج نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ دوسراعلت العلل کسی دوسرے عالم کا ممتنع عقلی نہیں ہے۔ اس میں بھی جناب سید الحاج نے تحریف کی ہے اور مطلب کو الٹا بیان کیا ہے ۔ میں نے بیان کیا ہے کہ مذہب اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ ’’ وہ ہنستی جس کو ہم اللہ کہتے ہیں واحد فی الذات ہے یعنی مثل اس کے دوسری ہستی نہیں اور اس کے ثبوت میںایک تقریر کی ہے اور ایجاد عالم سے اس پر استدلال کیا ہے اورپ ھر تسلیم کیا ہے کہاس تقریر پر وہ شبہ جو ابن کمرنہ کا ایک مشہورش بہ ہے اور جس کے حل کرنے میںبڑے بڑے علماء عاجز رہے ہیں وارد ہوتاہے مگر وہ ایک خیالی اور وھمی شبہ ہے اور یقین دلانے کو کافی نہیں اور مذہب اسلام میں ایسی باتوں پر تکلیف نہیں ہے۔ کجا یہ تقریر اور کجا وہ اتہام جوجناب سید الحاج نے کیا ہے ایسے لفظوں سیجو نیک دل سے نہیں نکل سکتے۔ عقیدۂ ہشتم اس عقیدہ میں میری نسبت متعدد اتہام خلط ملط کر کے انہوں نے جمع کیے ہیں اس لیے ہم قولہ قولہ کر کے اس کی تفصیل کریں گے۔ قول ۔ سوائے عقل کے کوئی رہ نما نہیں۔ بے شک عقل رہ نما ہے اور اسلام اور کفر میں جو تمیز کرنے والی ہے وہ بھی عقل ہے۔ جناب سید الحاج نے اس کتاب میں عقل سے کام نہیں لیا اسی واسطے غلطی میں پڑے اور اگر دیدہ و دانستہ اتہام کیا ہے تو بھی عقل سے کام نہیں لیا۔ قولہ۔ حسن و قبح تمام اشیاء کا اور احکام کا عقل یہے نہ شرعی ۔ متقدین اھل اسلام کے اس کی نسبت دومذہب ہیں۔ ایک یہ کہ حسن و قبح تمامچیزوں کا عقلی ہے ۔ دوسرے یہ کہ شرعی ہے میرے نزدیک بلاشبہ پہلا مذہب صحیح ہے۔ قولہ ۔ لہذا باوجود قانون قدرت کے یعنی نیچر کے بعثت انبیاء کی ضرورت نہیں ہے۔ غالباً یہ عقیدہ اور یہ سمجھ خود جناب سید الحاج کی ہو گی۔ نہ میرا یہ عقیدہ ہے نہ میں نے یہ کہا بلکہ بعثت انبیاء نیچر کی رو سے ضروری ہے۔ قولہ ۔ لاکھوں نیچرل اسٹ موجود ہیں اور وہ خود پیغمبر ہیں۔ میرا تو یہ عقیدہ نہیں ہے شاید جناب سید الحاج ان کو پیغمبر جانتے ہوں گے۔ قولہ ۔ لندن کے پیغمبروں میں ایڈیسن اور اسٹیل تھے۔ جس طرح کہ کسی شخص کامل کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ خدائے سخن ہے یا پیغمبر سخن جیسے کہ اس شعر میں ہے : در نظم سہ کس پیغمبر اند فردوسی و انوری و سعدی اسی طرح ایک مقام پر میں نے اسٹیل اور ایڈیسن کو لنڈن کے پیغمبر کہاہے مگر جو کہ جناب سید الحاج عقل کو رونما نہیں سمجھتے اس لیے وہ سمجھ گئے کہ وہ سچ مچ کے پیغمبر ہیں جو خدا کی طرف سے مذہب لاتے ہیں یا دانستہ اتہام کیا ہے۔ قولہ اس صورت میں ختم ہونا نبوت کا نبی آخر الزمان پر صحیح نہ ہو گا۔ یہ عقیدہ کفریہ میرا تو نہیں ہے کیوں کہ میں تو تقلید موجودہ کو بھی شرک فی النبوت سمجھتا ہوں مگر غالباً جناب سید الحاج کا یہ عقیدہ ہو گا کیوں کہ وہ تقلید موجود ہ یعنی شرک فی النبوت کو جائز سمجھتے ہیں۔ غرض کہ جو امر میری نسبت جناب سید الحاج نے منسوب کیا ہے میں تو کہتاہوں لعنت اللہ علیٰ قایلہ و معتقدہ ۔ امید ہے کہ جناب سید الحاج فرماویں بیش باد۔ عقیدۂ نہم اس عقیدہ کے اتہامات کو بھی ہم قولہ قولہ کر کے بیان کریں گے۔ قولہ قانون فطرت یعنی نیچر کے خلاف کوئی امر ظہور میں آنا ممکن نہیں ہے۔ لہذا معجزات انبیاء پر یقین لانا صحیح نہ ہو گا۔ یہ قول جناب سید الحاج کا محض غلط ہے جو شخص کہ فطرت اللہ اور قانون قدرت اور نیچر کے معنی ہی نہ جانتا ہو اس کو دخل در معقولات کیا ضرور ہے۔ جناب سید الحاج نے خود اپنی غلطی سے سمجھ لیا ہے کہ معجزات انبیاء خلاف فطر ت اللہ یا خلاف نیچر ہیں حالاں کہ کوئی معجزہ کسی نبی کا خلاف نیچر اور خلاف فطرت اللہ نہیں ہے صرف ثبوت اس کے وقوع کا درکار ہے اور جب ثابت ہو کہ فلاں امر واقع ہوا تو بلاشبہ اس پر یقین کیا جاوے گا اور یہ بھی یقین کیا جاوے گا کہ فطرت اللہ یعنی نیچر کے مطابق ہے گو کہ اسکی ماھیت ہماری سمجھ میں نہ آوے کیوں کہہزاروں کام نیچر کے ایسے ہیں جن کی ماھیت ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ سید الحاج صاحب نے بڑی غلط کی ہے جو یہ لکھا ہے کہ سب باتیں یعنی معجزات انبیاء قانون فطرت کے توڑنے والے ہیں حالاں کہ وہ قانون فطرت کے پورا کرنے والے ہیں اور یہ بھی غلطی کی ہے جویہ لکھا ہے کہ اگر معجزات انبیاء مان لیے جاویں تو تمام عقلیات کے خلاف اقرار کرنا پڑتا ہے حالاں کہ یہ محض غلط ہے۔ قولہ ۔ لامحالہ انبیاء کو اسی قدر سمجھنا چاہیے کہ وہ نیچرل اسٹ حکیم تھے بلکہ سب سے زیادہ محمد رسول اللہ صعلم نیچرل فیض کے جاری کرنے والیتھے اور امی ہونا اسی واسطے تھا کہ سوائے نیچر کے اورکسی طرح کا میل نہ ہونے پاوے۔ معلوم نہیں جناب سید الحاج نے الفاظ نیچر اور نیچرل اسٹ کس ارادہ سے لکھے ہیں اگر ان الفاظ سے ان کا ارادہ انبیاء کی شان میں اور جناب رسول خدا صلعم کی شان میں کچھ حفارت کرنے کا ہے تو اس کے مجرم اور گناہ گار خود جناب سید الحاج ہیں میں اس سے بری ہوں انبیاء کو میں نیچرل اسٹ حکیم نہیں کہتا مگر بے شک وہ اس فیض کے جاری کرنے والے ہیں جس کا ذکر خدا نے فرمایا ہے فطرت اللہ لاتی فطرت الناس علیھا ۔ میں تو پیغمبر اور نیچرل اسٹ حکیم میں ایسا فرق سمجھتا ہوں جیسا کہ راعی اور غنم میں ۔ میرے اعتقاد خلقت انبیاء کی دیگر انسانوں سے ایک نوع جداگانہ ہے بشر صرف اس کی جنس ہے اور صاحب الوحی ہونا اس کی فصل ہے اور یہ ایک ملکہ ہے جو خلقت انبیاء میں پیدا کیاہے پس جس طرح کہ حیوان اور انسان میں ناطق فصل ہے اسی طرح انسان اور انبیاء میں ذوالوحی ہونا فصل ہے کما قابل اللہ تعالیٰ بلسان نبینا علیہ الصواۃ والسلام انا بشر مثلکم یوحی الی انما لھکم الہ واحد پس ایسے شخص کی نسبت (جس کا اعتقاد نسبت انبیاء وہ ہے جو جناب سید الحاج کے وھم و گمان میں بھی نہ گزرا ہو گا اور غالباً اب بھی جناب ممدوح اس نکتہ کو نہ سجھیں گے گے کیوں کہ اس نکتہ کے سمجھنے کو نور سینہ محمد رسول اللہ علیہ وسلم سے روشنی ملنی چاہیے جب سمجھ میں آتا ہے ) کیسا بہتان اور کتنا بڑا اتہام ہے۔ بلاشبہ رسول خدا صلعم کے امی ہونے میں بڑی حکمت یہی تھی کہ خاص ذات باری کا فیض پہنچے نہ اور کسی کا مگر اس فیض کا لطف تانچشی نہ دانی۔ عقیدۂ دھم اس عقیدہ میں بھی میری نسبت کسی قدر اتہام بہ تحریف مراد جناب سید الحاج نے ارقام فرمائے ہیں جن کو میں بیان کرتا ہوں۔ قولہ ۔ ملائکہ سے مراد قوائے انسان ہیں۔ میرا یہ قول ہے کہ ملک کے لفظ کا قوائے انسان پر بھی اطلاق ہوا ہے اور میں نے کسی ایسے وجود کا جو علاوہ انسان کے ہو اور ملک کا اطلاق جس پر کیا جاوے انکار کیا ہے۔ قولہ۔ شیطان کا وجود نہیں۔ میں شیطان کے وجود کا قائل ہوں مگر انسان ہی میں وہ موجود ہے خارج عن الانسان نہیں اگرچہ میرا ارادہ ہے کہ میں اس عقیدہ سے رجوع کروں کیوں کہ اس زمانہ میں بہت سے شیطان مجسم دکھائی دیتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ اور اکابر بھی وجود شیطان خارج عن الانسان کے منکر ہیں۔ مولانا روم فرماتے ہیں : نفس شیطان ہم زاصل واحدے بود آدم را حسود و ساجدے عقیدۂ یازدھم اس عقیدہ میں عجیب خلط مبحث کیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا قصداً لوگوں کو دھوکہ میں ڈالنا چاہا ہے مگر ہم ان کے قولوں کو نقل کرتے ہیں۔ قولہ۔ بغیر لحاظ اصول تفسیر اور بدون اعتبار اقوال جمہور مفسرین و شان نزول کیقرآن کے معنی اپنی رائے سے کہنے جائز ہیں۔ جناب سید الحاج کا یہ قول تمام تر اتہام ہے اور اصلی مطلب کو تحریف کیا ہے اصول تفسیر کو میں انسان کے بنائے ہوئے قاعدہ سمجھتا ہوں خدا کی طرف سے وہ قاعدے نہیں اترے اقول مفسرین اور شان نزول آیات کی جن کی سندیں موجود ہیں وہ معتبر ہیں ۔ جن کی سندین نہیں ہیں وہ معتبر نہیں ہیں۔ پس یہ سیدھی بات ہے جن کو جناب سید الحاج نے تحریف کیا ہے۔ قولہ۔ اور قرآن کے معنی جس قدر نیچر اور فلسفہ کے خلاف ہوں اس کو خواہ مخواہ نیچر اور فلسفہ کے اقوال سے ملا دینا چاہیے۔ یہ ایسی تقریر ہے جیسا کہ ایک جلا ہوا کسی شخص کی اچھی بات کو بھی برا کر کے دکھاتا ہے۔ فلسفہ قدیم تو ایک لغو چیز ہے اس کے مطابق تو قرآن کا ہے کو ہونے لگا مگر فطرت اللہ بے شک نہایت عمدہ اور مستحکم چیز ہے اور میرا یہ عقیدہ ہے کہ نہ قرآن اس کے برخلاف ہے اور نہ وہ قرآن کے برخلاف ۔ مگر جناب سید الحاج نے جلے کٹے لفظوں میں اس کو بد صورت کر کر دکھایا ہے۔ قولہ۔ مقدم تر واسطے یقین لانے کے قول فلاسفہ یورپ کا ہے اس کے موافق جو آیت قرآن کی نہ ہو وہ جس طرح ہو سکے مطابق کر دینی چاہیے۔ یہ ایسی بات ہے جیسے کوئی کیسی کا منہ چڑائے اور یہ نہ سمجھے کہ چڑانے والے ہی کا منہ ٹیڑھا ہوتا ہے واقعیت اور حقیقت وہ شے ہے جو قابل تقدم ہے اور قرآن مجید کا اس سے مخالف ہونا محالات سے ہے اور اسی کی تطبیق کرنا ہمارا طریقہ ہے۔ جناب سید الحاج جو چاہیں اس کا نام رکھیں آئندہ دیکھ کر منہ چڑانے سے کسی دوسرے کا نقصان نہیں ہے۔ عقیدۂ دواز دھم اس عقیدہ میں جناب سید الحاج نے تین باتیں میری نسبت کہی ہیں۔ ایک یہ کہ توریت اور انجیل پر مضبوط اعتقاد ہے۔ ان لفظوں کے معنی میں نہیں سمجھا اگر یہ مطلب ہے کہ جیسا قرآن مجید میں ان پر اعتقاد رکھنے کا حکم ہے ایسا اعتقاد ہے تو یہ صحیح ہے اور اگر کوئی اور معنی انہوں نے قرار دیے ہیں تو غلط ہے۔ دوسری تحریف لفظی ان میں نہیں ہوئی۔ ہاں یہ سچ ہے۔ میں تحریف لفظی کا قائل نہیں بلکہ تحریف معنوی کا قائل ہوں مگر محمد اسماعیل بخاری بھی تحریف لفظی کا قائل نہیں۔ تیسرے اور وہ سب صحیح اور درست ہے۔ اگر اس سے یہ مطلب ہے کہ بائبل میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب صحیح اور درست ہے تو جناب سید الحاج کا یہ اتہام ہے اور اگر اور کچھ مطلب ہو تو وہ میں سمجھا نہیں۔ عقیدۂ سیز دھم اس عقیدے میں نعیم جنت اور وعید دوزخ کو بیان کر کر میرا یہ عقیدہ لکھا ہے کہ یہ سب چیزیں اپنی حقیقت پر محمول نہیں ہیں۔ جناب سید الحاج کے نزدیک اگر حور کی یہی حقیقت ہے جیسے کہ ایک خوب صورت لونڈی اور غلمان کی یہ حقیقت ہے جیسے کہ ایک خوب صورت لونڈا۔ توبلاشبہ میں کہتا ہوں کہ اس حقیقت پر وہ محمول نہیں ہیں اور اگر اور کوئی حقیقت ہو تو اس کو جناب سید الحاج نے بیان نہیں کیا میرا اعتقاد نعیم جنت کی نسبت اور علیٰ ہذا القیاس وعید جہنم کی نسبت یہ ہے کہ لاعین رأت ولااذن سمعت ولاخطرعلیٰ قلب بشر۔ قولہ۔ علوم عقلیہ کے خلاف کوئی حکم معاد قابل تسلیم نہیں ہے۔ اس قول میں بیھ الٹی راہ چلے ہیں۔ میرے نزدیک کسی حکم معاد کی صحت پر امتناع عقلی نہیں ہے۔ عقیدۂ چہاردھم جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ بندہ اپنے ہر فعل کا مختار ہے۔ مسئلہ بین الجبر والاختیار کاغلط ہے۔ اس مطلب کو بھی بگاڑ کربیان کیا ہے ۔ بے شک میرے نزدیک بین الجبر والا ختیار تو کوئی چیز نہیں ہے بلکہ انسان اپنی جبلت اور فطرت میں مختار ہے خدا کرے کہ ان لفظوں کا مطلب جناب سید الحاج سمجھ لیں۔ عقیدہ ٔ پانزدھم کوئی حدیث قابل یقین نہیں ہے لہذا عمل کرنا کسی حدیث پر یا سنت نبوی قرار دینا غلطی ہے۔ اس عقیدے میں تحریف اور اتہام دونوں کو دخل دیاہے۔ کوئی حدیث قابل یقین نہیں۔ اس کی جگہ یہ کہنا چاہیے کہخبر احاد مفید ظن ہے مفید یقین نہیں اور پھیلا فقرہ بالکل اتہام ہے۔ میں عمل احادیث پر بلحاظ مراتب ان کے ثبوت کے لازم سمجھتا ہوں۔ عقیدہ ٔ شانزدھم جناب سید الحاج ارقام فرماتے ہیں کہ میرا عقیدہ ہے کہ اجماع امت یا اتباع جمہور مسلمین کا یہ سند لانی کسی عالم کے قول سے بیجا ہے اجماع قابل حجت نہیں۔ اس عقیدے میں بھی سچائی کو تبدیل کیا ہے یوں کہنا چاہیے کہاجماع امت یا اتباع جمہور مسلمین یا اجماع جس کی سند قرآن مجید اور حکم پیغمبر صلعم سے نہ ہو قابل حجت نہیں اگر کوئی مسئلہ غیر منصوصہ ایسا نہیں ہے جس پر اجماع امت یا اتفاق مسلمین یا اجماع ہوا ہو بلکہ تمام مسائل غیر منصوصہ مختلف فیہ ہیں۔ عقیدۂ ہفتدھم اس عقیدے میں بھی جناب سید الحاج نے اپنی معمولی کارسازی کی ے جیسے کہ تفصیل ذیل سے ظاہر ہونی ہے۔ قولہ ۔ اصول فقہ و اجتہادیات مجتہدین و قیاسات آئمہ دین و مسئلہ رجم کو صحیح سمجھنا غلط اور ظلمت اور ضلالت ہے۔ میرا یہ قول ہے کہ اصول فقہ علماء کے بنائے ہوے قاعدے ہیں منزل من اللہ نہیں اجتہادیات اور قیاسات آئمہ دین کے یحتمل الخطا و الصواب ہیں ان کا درجہ مثل وحی منزل من اللہ کے نہیں۔ مسئلہ رجم قرآن مجید میں نہیں ہے اگر ہو تو جناب سید الحاج دکھلاویں بشرطیکہ یکتبون الکتاب بایدیھم ثم یقولون ہذا من عنداللہ پر عمل نہ فرماویں۔ قولہ ۔ تقلید کرنا کسی بشر کی کفر اور شرک ہے صحابہ ہوں خواہ اھلی بیت رضی اللہ عنہم اجمعین خواہ آئمہ اربعہ کسی کی تقلید کرنا نہ چاہیے۔ جو الفاظ تشدد کے جناب سید الحاج نے ارقام فرمائے ہیں یہ سب دل کے بخارات ہیں جو آمنڈتے ہیں۔ میرا تو صرف یہ عقیدہ ہے کہ سوائے رسول خدا صلعم کے کسی کی تقلید واجب نہیں ہے اور سوائے رسول خدا صلعم کے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جسے کا قول و فعل دینیات میں بلا دلیل حجب ہو اور جو شخص کسی کو ایسا سمجھے وہ مشرک فی النبوت ہے۔ عقیدہ ٔ ہژدھم جناب سید الحاج نے جو تحریفات اس عقیدے میں کی ہیں وہ حسب تفصیل ذیل ہیں : قولہ ۔ کوئی مسئلہ شرعیہ قابل قبول نہیں ہے جو نیچر کے مطابق اور علوم جدیدہ عقلیہ کے موافق نہ ہوں۔ یہاں بھی جناب سید الحاج نیالٹی راہ اختیار کی ہے میرا یہ قول ہے کہ کوئی مسئلہ شرعی یعنی فطرت اللہ کے برخلاف نہیں ہے اور علوم حقہ اور اسلام میں اختلاف نہیں ہے۔ قولہ ۔ بغیر وحی کے جو کچھ رسول خدا صلعم اپنی رائے سے فرماتے تھے وہ بھی قابل اتباع نہیں اس عقیدہ میں ایسی تحریف کی ہے کہ زمین کو آسمان اور آسمان کو زمین بنا دیا ہے۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ احکام دین سے جو کچھ کہ رسول خدا صلعم نے فرمایا یا کیا وہ سب وحی سے فرمایا اور وحی سے کیا اور وہ سب اجب الاتباع ہے اور نسبت امور دنیا کے خود رسول اخد صلعم نے فرمایا کہ انتم اعلم با امور دنیا کم اس سے زیادہ اور کوئی میرا عقیدہ نہیں۔ استرقاق یقین غلامی کا جو ذکر جناب سید الحاج نے کیا ہے اس کے ابطال کو تو وحی منزل من اللہ کتاب اللہ میں موجود ہے۔ عقیدۂ نوزدھم اس عقیدہ میں جناب سید الحاج نے ارقام فرمایا ہے کہعزوات اور جہاد سے مراد یہ ہے کہ ایک قول دوسری قول سے قتال کرے جیسا کہ مثلا جرمن اور فرانس میں لڑائی ہوئی۔ یہ تحریرمیرے عقیدہ کی نسبت جناب سید الحاج کی غلط اور بالکل غلط اور سرتا سر اتہام ہے تمام غزوات صرف اعلاء کلامۃ اللہ کے لیے ہوئے تھے نہ لونڈیوں اور لونڈوں کی لالچ سے جس کی اثبات کے درپے جناب سید الحاج ہو رہے ہیں۔ عقیدۂ بستم جناب سید الحاج ارفام فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک سیرت ہشمامی اور ابن اسحاق وغیرہ سب واھیات اور الف لیلہ اور مہا بھارت کے برابر ہیں۔ بلاشبہ میں ان کتابوں کو نہایت غیر معتبر جانتا ہوں ۔ ہزاروں روایتیں غلط اور بے سند ان میں مندرج ہیں اور کچھ روایتیں صحیح بھی ہیں۔ عقیدہ ٔ بست ویکم جناب سید الحاج نے میرا یہ عقیدہ بیان فرمایا ہے کہ جس قدرکتب حدیث و تفسیر و فقہ و اصول فی زماننا پڑھائی جاتی ہیں ان سے سوائے فساد مذہب اور بد تہذیبی اور خرابی دنیا اور عقبیٰ کے کچھ فائدہ نہیں ۔لہذا ان کی تعلیم قطعاً موقوفی کے لائق ہے۔ جو کلمات کہ جناب سید الحاج نے اس عقیدہ میں ارقام فرمائے ہیں وہ تو سب ان کے دل کے بخارات ہیں وہ الفاظ میرے نہیں ہیں ہاں میرے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ علم کلام جو حکمت یونان کے مقابل میں بتایا گیا تھا اس زمانہ میں محض بے کار ہے اور علماء پر فرض ہے کہ علم کلام کو ازسر نو اس طرح پر تدوین کریں کہ وہ بہ مقابلہ حکمت اور علوم جدیدہ کے جو اس زمانہ میں رائج ہیں بیکار آمد ہو۔ کتب تفسیر میں جو بے سند حدیثیں اور بے سند قصے اور کہانیاں لکھ دی ہیں ان میں جون جون سی غلط اور موضوع ہیں ان کی تنقیح ضرور ہے۔ میں کہتا ہوں کہ قرآن مجید اور احادیث کا پڑھنا صرف عمل کرنے کے لیے مقصود ہے۔ مگر اس زمانہ میں اس پر عمل کرنے کے لیے نہیں پڑھا جاتاکیوں کہ بہ سبب اس تقلید کے جس کو میںضلالت کہتا ہوں کوئی حکم کیسا ہی صاف اور روشن قرآن و حدیث میں موجود ہو مگر تقلیدیہ اس پر عمل نہیں کریں گے تو پھر ان کے پڑھنے سے کیا فائدہ ہے۔ بخاری طاق میں نہرکھی رہی کسی کے سینہ میںرکھی رہی دونوں برابر ہیں۔ دیکھو مثلا جو حدیثیں حنفی مذہب کے خلاف بخاری میں ہیں حنفی اس پرعمل کرنے کو بدعت یا ضلالت سمجھتے ہیں اور زبان سے بخاری کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہتے ہیں ۔ پس ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ بخاری کی جن حدیثوں پر تم نے یا تمہارے امام صاحب نے عمل نہیں کیا تو یہ کیسا ایمان ہے اور اس کو حدیث رسول اللہ ہی نہیں سمجھا بلکہ اس کو یوں ہی ایک ضعیف قول سمجھ لیا یا حدیث تو سمجھا مگر ناقابل عمل تو پھر صرف میرا ہی کیا قصور ہے میں نے تو سیرت ہشامی کو ہی ضعیف کہا تھا۔ تم نے اور تمہارمے امام صاحب نے تو بخاری کو رطب و یابس اقول کا مجموعہ سمجھ لیا ہے پھر اس کو زبان سے اصح الکتب کہنا اور در حقیقت اپنی رائے کو بخاری کی حدیثوں پر راجح سمجھنا کیسی بے ہودہ بات ہے اسی لیے میں یہ کہتا ہوں کہ قرآن و حدیث عمل کرنے کے لیے پڑھو اورجومسئلہ اس میں پاؤ اس پر عمل کرو خواہ وہ شافعی کے مطابق ہو خواہ حنفی کے اور اگر عمل کرنے کے لیے نہیں پڑھتے تو ان کا پڑھنا محض بے فائدہ ہے اور میں کچھ شک نہیں کرتا کہ جس کا دل نور ایمان سے منور ہے وہ یقینی میرے اس قول کو حق سمجھے گا۔ عقیدہ ٔ بست و دوم جناب سید الحاج نے جو خدا ناترسی اس عقیدے کے بیان کرنے میں کی ہے میں سمجھ نہیں سکتا کوئی انسان کسی پر کیوں کر ایسا اتہام کر سکتا ہے خیر ان کے قول ہیں وہ لکھتا ہوں۔ قول ۔ جب علوم جدیدہ کے یا انگریزی کے پڑھنے سے معلوم ہو کہ مذہب اسلام میں ضعف پیدا ہو گا تو مذہب اسلام کا ترک کردینا لازم ہے۔ میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ جس شخص نے یہ بات کہی ہو اور جس کا یہ اعتقاد ہو اس پر خدا کی لعنت ہو اور اتہام کرنے والے سے خدا مواخذہ کرے جس مواخذہ کے وہ لائق ہے ۔ ہزاروں آدمیوں کو یہ خیال ہے کہ انگریزی پڑھنے سے اور علوم جدیدہ سیکھنے سے عقیدہ اسلام میں ضعف آجاتا ہے یا دھریا اور لامذہب ہو جاتا ہے ۔ میں نے کہاکہاگر مذہب اسلام تمہارے نزدیک کوئی ایسا بودا مذہب ہے کہ علوم جدیدہ پڑھنے سے اس میں ضعف آتا ہے تو اس مذہب ہی کو چھوڑ دو جس کا علانیہ یہ مطلب ہے کہ مذہب اسلام ایسا نہیں ہے مذہب اسلام نہایت سچا ہے اور اس کے اصول نہایت پختہ ہیں نہ انگریزی پڑھنے سے اس میں ضعف آتاہے نہ علوم جدیدہ پڑھنے سے اتحاد پیدا ہوتا ہے ، مگر جو کہ ہمارے جناب سید الحاجکا دل کفر کی طرف زیادہ مائل ہے اس لیے انہوں نے اس عمدہ مطلب کو برعکس بیان کیا ہے۔ قولہ ۔ کتب دینی کا پڑھانا واسطے قائم رکھنے عقائد کے نہیں چاہیے۔ جناب سید الحاج نے محض غلط کہا ہے اور میرے مطلب کو بالکل بدل دیا ہے میری یہ رائے ہے کہ جو اختلاف کہ مسائل مذہبی اورعلوم جدیدہ میں بظاہر معلوم ہوتا ہے اور جس کے سبب لوگ مذہب سے بد عقیدہ ہو جاتے ہیں اس کی حفاظت کے لیے کتب موجودہ کافی نہیں ہیں بلاشبہ علم کلام ازسر نو تدوین ہونا چاہیے جو علوم جدیدہ کے مقابلے میں بکار آمد ہو۔ عقیدۂ بست و سوم اس عقیدے کے بیان میں بھی جناب سیدالحاج اپنی کار سازی سے نہیں چوکے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ صرف قرآن کے احکام منصوصہ قابل تسلی ہوسکتے ہیں بشرطیکہ نیچر اور علوم جدیدہ کے ساتھ مطابق ہوں جو شرط کہ جناب سید الحاج نے لگائی ہے غالباً وہ خود ان کا عقیدہ ہو گا۔ میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو فطرت اللہ یقینی نیچر اور اس کے کارخانہ قدرت کے برخلاف ہو۔ قولہ ۔ بہشت میں جانے کے واسطے قید عمل عمل الصالحات کی نگانی باطل ہے۔ میں تو کسی قید کو باطل نہیں کہتا مگر تین باتیں بلاشبہ کہتا ہوں۔ ایمان لانا بلاشبہ ذریعہ نجات ہے۔ بخشش کے لیے اعمال پر گھمنڈ نہیں چاہیے۔ خدا کی رحمت پر بھروسا ہے۔ سوائے شرک کے سب گناہوں کو خدا معاف کرے گا۔ غالباً کوئی مسلمان سوائے جناب سید الحاج کے ایسا نہ ہو گا جو ان تیوں باتوں پر اعتقاد نہ رکھتا ہوں گا۔ قال رسول اللہ صلعم من قال لا الہ الااللہ مستیقنا بھا قلبہ فدخل الجنۃ و ان سرق علی رغم انف ابی ذر۔ عقیدہ ٔ بست و چہارم اس عقیدے میں تو جناب سید الحاج نے قیامت ہی کر دی ہے کیوں کہ جھوٹ لکھنے اور اتہام کرنے کی کوئی حد باقی نہیں رہی اور نہ خدا کا خوف کیا ہے نہ رسول سے شرم کی ہے اس لیے ہم ان کی الفاظ موٹے قلم سے لکھتے ہیں اور اس کے قائل پر لعنت بھیجتے جاتے ہیں تاکہ جو اس کا مستحق ہو اس کے اوپر پڑے۔ قولہ ۔ کوئی فعل اگرچہ شعار کفر ھی میں سے کیوں نہ ہو ۔ مثلاً انکار کرنا نبوت انبیاء سابقین کا۔ لعنت اللہ علیٰ قائلہ و علی معتقدہ۔ یا کتب سمایہ سابقہ کا ۔ یا وجودملائکہ کا ۔ لعنت اللہ علی قائلہ و علی معتقدہ ۔ لعنت اللہ علی قائلہ و علی معتقدہ ۔ یا معاذ اللہ قرآن شریف کا عمداً بول و براز میں آلودہ کر دینا یا پھینک دینا۔ لعنت اللہ علیٰ قائلہ و علی معتقدہ ۔ یا حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرانا باوجود قطعیت نص کے۔ لعنت اللہ علیٰ قائلہ و علی معتقدہ ۔ یا کسی نبی کو معاذ اللہ گالی دینا۔ لعنت اللہ علیٰ قائلہ و علی معتقدہ ۔ یا بہشت و دوزخ اور قیامت آنے کا منکر ہو جانا ۔ لعنت اللہ علیٰ قائلہ و علیٰ و معتقدہ ۔ یا ضروریات دین کا انکار بناتا۔ لعنت اللہ علیٰ قائلہ و علیٰ معتقدہ ۔ کسی آدمی کو کافر نہیں بناتا۔ کہاں ہیں میرے یہ اقوال اور کہاں ہیں میری یہ تمثیلیں جو جناب سید الحاج نے ……کو بھی مات کر کر میری نسبت منسوب کیے ہیں۔ میرا قول وہی ہے جو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے لانکفر اھل القبلہ ۔ میرا وہی قول ہے جو تمام اکابر دین کا ہے کہ اصل ایمان تصدیق قلبی ہے اور جب تک کہ وہ تصدیق انسان کے دل میں ہے کوئی فعال ان کا اس کو بینہ و بین اللہ کافر نہیں کرتا۔ دیکھو کہ جناب سید الحاج برابر کفر کا اتہام کرتے ہیں مگر ہم بدستور ان کو مسلمان اور بزرگ اور حاجی اور سید الحاج سمجھتے ہیں اور ان کے کسی فعل سے ان کو کافر نہیں کہتے۔ نسبت سجدہ بت و قشقہ کے میں نے کچھ نہیں لکھا ہے۔ زنار کے نسبت بہ تحت بیان حدیث میں تشبھہ بقوم فھو منھم کے یہ لکھا ہے کہ بعض عالموں نے مشابہت سے مشابہت فی خصوصیات الدین مراد لی ہے مثلا زنار پہننا یا صلیب رکھنا یا ٹیکہ لگانا یا عیاد کفار کو بطور عید اختیار کرنا یا اس میں شریک ہونا۔ اگر چہ یہ رائیں کسی قدر عمدہ معلوم ہوتی ہیں مگر میں ان کو پسند نہیں کرتا اور نہ حدیث کی یہ مراد قراردیتا ہوں اس لیے کہ میرے نزدیک قطعیات سے یہ بات ثابت ہے کہ جو شخص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر دل سے یقین رکھتا ہے اس کا کوئی فعل یقین مذکور کے اس کو کافر نہیں کر سکتا ہے پس اگر اس قول پر جس پر ابوجہل کی نجات منحصر تھی اس کو یقین ہے تو گو وہ کسی قوم کے ساتھ تشابہ کرے ولو فی خصوصیات الدین و شعایر الکفر کالزنار والصلیب و الاعیاد وہ کافر نہیں ہو سکتا۔ کیا ہم دیوالی دسہرہ میں اپنے ہندودوستوں سے اور نوروز میں اپنے پارسی دوستوں سے اور بڑے دن میں اپنے عیسائی دوستوں سے مل کر اور معاشرت و تمدن کی خوشی حال کر کر کافر ہو جاویں گے۔ نعوذ باللہ منہا۔ بت کو سجدہ کرنا ، سیتلا کے تھان کو سجدہ کرنا ، مدار صاحب کی چھڑیوں کو پوجنا ، اولیاء اللہ کی قبروں کو سجدہ کرنا ، ان کا طواف کرنا سب برابر ہیں۔ ہزاروں مسلمان یہ باتیں کرتے ہیں میں تو ان کو کافر نہیں جانتا کیوں کہ مسجود میں جب تک الہ ہونے کا یقین نہ ہو اس وقت تک ان کے سجدہ سے آدمی کافر نہیں ہوتا۔ ہاں بلاشبہ نہایت سخت گناہ کبیرہ ہے اور یہی تحیق علمائے محققین کی ہے۔ خدا کرے کہ ہمارے زمانے کے جناب سید الحاج نیک دلی سے ان امور پر غور کریں۔ عقیدۂ بست و پنجم جناب سید الحاج نے اس عقیدے میں جو اتہام کیے ہیں وہ بھی قولہ قولہ کر کے بیان کیے جاویں گے۔ قولہ ترک دنیا و زھد و کسر نفسی و شب بے داری و روز داری ۔کثرت نماز نفل و غیرہ اذکار و اشغال و وظائف جس قدر کہ معمول اور مرسوم ہیں سب بے فائدہ ہیں۔ اگر جناب سید الحاج نے یہ عقیدہ اپنا بیان کیا ہے تو خیر جو عقیدہ ان کا ہو وہ ہو اور اگر میرا عقیدہ بیان کیا ہے تو میرا تو عقیدہ یہ ہے کہ رھبانیت اسلام میں ممنوع ہے۔ لارھبانیۃ فی الاسلام اور سوائے اور ادماثورہ کے اور سوائے اس زھد و تقویٰ کے جس کی ہدایت جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اور سب بدعت ہے۔ قولہ ۔ مثلا روزہ تیس روز کا بالخصوص رمضان میں وہ بھی گرمی کے موسم میں فرض نہ ٹھہرے گا۔ لعنت اللہ علیٰ قائلہ و علیٰ معتقدہ ۔ میرا یہ قول اورعقیدہ نہیں ہے۔ جتنے روزے کہ فرض اور سنت ہیں وہ بالکل نیچر کے مطابق ہیں۔ ہاں بدعتیوں نے جو بغیر اللہ روزے نکالے ہیں جیسے سوا پہر کا روز علی ؓ مشکل کشا کا اور تین دن کا طے کا روزہ اور مثل اس کے ان کو بدعت اور خلاف نیچر جانتا ہوں۔ قولہ ۔ تھوڑی سی شراب جو پکا متوالہ نہ کرے دیا اس قدر جواکھیلنا جو بے قید نہ بناوے حرام اور ممنوع نہ ہو گا۔ لعنت اللہ علیٰ قائلہ و علیٰ معتقدہ ۔ میرا یہ عقیدہ نہیں ہے۔ قولہ۔ تصویر مجسم بنانا جو واسطے یادگاری کے ہو حرام اور ممنوع نہہو گا۔ میں نے اس امر کی نسبت کہ تصور مجسم یا غیر مجسم شرعاً جائز ہے یا غیر جائز کبھی کچھ نہیں کہا۔ ہاں میں اس قسم کی یادگاریوں کو پسند کرتا ہوں اگر وہ شرعی گناہ ہیں تو میرا ان کو پسند کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ میںشامت اعمال سے اور گناہ کی باتوں کو پسند کرتا ہوں : ناکردہ گناہ در جہاں کیست بگو آں کس کہ گنہہ نکرد چوں زیست بگو قولہ ۔ قرآن شریف میں صرف لفظ صلوۃ زکوۃ کا وارد ہے اس کی زیادہ تصریح نہیں ہے الہٰی قولہ ۔ اسی طرح نماز مرسوم اور معمول کو اختیار کیا جاوے تو وہی ظلمت اور ضلالت تقلید کی اور کفر محض کا اختیار کرنا ہو گا۔ لعنت اللہ علیٰ قائلہ و علیٰ معتقدہ نہ میرا یہ قول ہے اور نہ میرا یہ اعتقاد ہے۔ قولہ ۔ صلوۃ سے مراد مطلق دعا پڑھ لینی ہو گی اور وہی واسطے ادائے فرض کافی ہے باقی جو ترکیب صلوۃ پنج گانہ کی مقرر ہے وہ اصول مخترعہ و فقہ محدثہ و احادیث موضوعہ و اجماع مردود کا اتباع ہے اور اسی کا نام کفر ہے۔ لعنت اللہ علیٰ قائلہ و علیٰ معتقدہ ۔ نہ میرا یہ قول ہے اور نہ میرا یہ اعتقاد۔ قولہ ۔ باقی زکوۃ ۔ اس کی مقدار بقدر چالیسویں حصہ مال کے مقرر کرنی اور اس کے مسائل سے فتاو ھائے فقیہہ کا معمور ہونا وہی ظلمت اور ضلالت۔ کفر اور شرک ہے۔ لعنت اللہ علیٰ قائلہ و علیٰ معتقدہ ۔ نہ میرا یہ قول ہے نہ میرا یہ اعتقاد ہے۔ قولہ ، حج خانہ کعبہ الخ ۔ حج خانہ کعبہ کو میں فرض سمجھتا ہوں من استطاع الیہ سبیلا مگر سودی روپیہ قرض لے کر مکہ جانے سے لنڈن کا جانا بہتر جانتا ہوں اور حاجی جی کہلانے کی خوشی حاصل کرنے کو اور اس خوشی میں پھولنے کو اور جھوٹی بشارات بیان کرنے کو اور کسی خادم کے فریب میں آکر سند اور خطاب لینے کو اور ان جھوٹی باتوں پر ناز کرنے کو البتہ میں حرام سمجھتا ہوں۔ جو بدعات کو مکہ معظمہ میں ہوتی ہیں اور جو خلاف شرع رسول خدا صلعم ہیں وہ اس وجہ سیکہ مکہ والے کرتے ہیں جائز نہیں ہو سکتیں۔ لونڈی اور غلام جس طرح کہ مکہ میں بیچے جاتے ہیں اور خواجہ سراء بنائے جاتے ہیں اور مکہ معظمہ اور روضہ منورہ جناب رسول خدا صلعم میں خواجہ سراء معین ہیں یہ سب خلاف شرع ہیں اور جو مسلمان ہیئے کے پھوٹے اور دل کی آنکھوں کے اندھے ان کو اچھا جانتے ہیں محض جاھل ہیں۔ روضہ مطہرہ رسول خدا صلعم پر خواجہ سراؤں کا متعین کرنا میری دانست میں ایسی بے ادبی ہے کہ اس سے زیادہ اور کوئی بے ادبی نہیں ہو سکتی۔ و للناس فی مایعشقون مذاھب۔ عقیدۂ بست و ششم آیت خلق سبع سموات طباقا سے مراد سات آسمان نہیں ہیں بلکہ وہ آیت علوم جدیدہ کے خلاف ہے ۔ یہ اعتقاد جناب سید الحاج کا میرے اعتقاد میں تو علوم جدیدہ بالکل اس آیت کے مطابق ہیں۔ عقیدۂ بست و ہفتم جو ترتیب پیدائش انسان کے نطفہ سے بچہ تک قرآن شریف میں وارد ہے اور مفسرین نے معنی اس کے بیان کیے ہیں۔ وہ علوم جدیدہ کے خلاف ہے ۔ لہذا ناقابل تسلیم ہے۔ لعنت اللہ علیٰ قائلہ و علیٰ معتقدہ ۔ میرا تو یہ قول ہے کہ قرآن مجید میں جو کچھ وارد ہے وہ بالکل تشریح اور علوم جدیدہ کے مطابق ہے مگر مفسرین نے اس کے معنی بیان کرنے میں غلطی کی ہے معلوم ہوتا ہے۔ کہ جناب سید الحاج خدا کو اور مفسرین کو یا پیغمبر صلعم کو اور مفسرین کو ایک مرتبہ میں سمجھتے ہیں اور اس لیے قرآن اور تفسیر میں کچھ فرق نہیں کرتے۔ عقیدہ ٔ بست و ہشتم منخنقہ کی حرمت قرآن منصوص نہیں ہے لہذا حلال ہے ۔ لعنت اللہ علیٰ قائلہ و علیٰ معتقدہ ۔ یہ لعنت اس واسطے کہی ہے کہ اس عقیدہ میں جو عام لفظ بیان کیے ہیں وہ کذب اور اتہام ہے۔ میرا ہرگز اعتقاد نہیں ہے کہ عموماً منخنقہ حلال ہے۔ یہ بھی میں نے نہیں کہا کہ حرمت منخنقہ منصوص نہیں ہے صرف ایک خاص آیت کے معنوں میں بحث کی ہے کہ خاص آیت میں طیور منخنقہ کی حرمت منصوص نہیں ہے اس کی ایسی مثال ہے کہ اگر کوئی شخص یہ بات کہے کہ آیت کریمہ اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم والاالضالین۔ میں حرمت زنا منصوص نہیں اور اس شخص کا عقیدہ جناب سید الحاج یہ قرار دیں کہ اس کے عقیدہ میں زنا کی حرمت قرآن میں منصوص نہیں ہے جناب سید الحاج کو مسلمانوں پر اتہام کرنے میں ذرا خدا کا بھی ڈر کرنا چاہیے۔ عقیدۂ بست و نہم ایک سے زیادہ ازواج منع ہیں۔ لعنت اللہ علیٰ قائلہ و علیٰ معتقدہ ۔ عقیدۂ سی ام معراج جسمانی بے اصل ہے صرف خواب میں مسجد اقصیٰ نظر آگئی تھی دگر ہیچ اور شق صدر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیھ بے اصل ہے۔ ضد سے ایک شخص دوسرے کی بات کو بگاڑ کر اور اصلیت چھپا کر دوسرے پیرایہ میں بیان کر سکتا ہے۔ اصل اس کی صرف اتنی ہے کہ نسبت معراج جناب رسول خدا صلعم کے تین مذہب ہیں : اول : مذہب حضرت عائشہ صدیقہؓ اور بعض صحابہ کا جو اسبات کے قائل ہیں کہ معراج روحانی تھی نہ جسمانی۔ دوسرا ۔ : مذہب چند اکابر دین کا ہے اور وہ یہ ہے کہ معراج بیت المقدس تک جسمانی تھی اور وہاں سے ملاء اعلیٰ تک روحانی۔ تیسرا : مذہب عام جو سب میں مشہور ہے کہ تمام معراج جسمانی تھی۔ میری یہ رائے ہے کہ جہاں تک اس مسئلہ پر اور قرآن مجید و احادیث پر غور کیا جاتا ہے تو مذہب حضرت قرآن مجید و احادیث پر غور کیا جاتا ہے تو مذہب حضرت عائشہ صدیقہؓ کا ٹھیک اور درست معلوم ہوتا ہے وہی مذہب میں نے اختیار کیا ہے۔ پس جو شخص اس معاملہ میں جو الفاظ طنز میری نسبت کہتا ہے در حقیقت حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور بعض صحابہ کی نسبت کہتا ہے جن کا وہ مذہب ہے۔ شق صدر کی نسبت بھی چند مذہب ہیں۔ بعضوں کا قول ہے کہ پانچ دفعہ شق صدر واقعہ ہوا اکثروں کا قول ہے کہ ایک دفعہ ایام طفولیت میں واقع ہوا۔ پادریوں نے ان روایات صغیفہ غیر معتبرہ کی بنا پر یہ استدلال کیا ہے کہ نعوذ باللہ آں حضرت صلعم کو صرع کی بیماری تھی اور حالت صرع میں جو کیفیت واقع ہوتی تھی اسی کوراویوں نے شق صدر تعبیر کیا ہے۔ میں نے ان تمام روایتوں کی بقدر اپنی طاقت کے تحقیقات کی اور معلوم ہوا کہ وہ روایتیں محض نامعتبر ہیں۔ تیسرا مذہب محققین کا یہ تھا کہ واقعہ شق صدر ایک جزو ہے ان تمام واقعات کا جو شب معراج کو واقع ہوئے تھے یہی روایت میرے نزدیک صحیح و معتبر تھی۔ یہی مذہب میں نے اختیار کیا ہے۔ پس اب جناب سیدالحاج اپنے دل کے بخارات نکالنے کو جو چاہیں سو لکھیں۔ خدا ان سے سمجھے گا اور جو کہ وہ دلوں کاحال جاننے والا ہے اس کے سامنے ریاکاری کسی کی پیش نہ جاوے گی۔ میں اپنے اعمال و نیت کی ضرور جزا یا سزا پاؤں گا اور جناب سید الحاج اپنے اعمال و نیت کی ضرور جزا یا سزا پاویں گے۔ نہ وہ میری قبر میں سوویں گینہ میں ان کی قبر میں سوؤں گا۔ پس اتنی بات کو جتنا وہ چاہیں بڑھا کر لکھیں۔ مجھے امید ہے کہ جو کوئی میری اس تحریر کو دیکھے گا تعجب کرے گا کہ جناب سید الحاج نے کیوں ایسے سخت اور محض غلط بہتان مجھ پر کیے ہیں ،مگر ظاہرا اس کے دو سبب معلوم ہوتے ہیں۔ اول صرف اس خیالی اور بیاصل خوشی کا حاصل کرنا کہ لوگ جناب سید الحاج کو کہیں کہ واہ کیا مسلمان ہیں۔ حضرت مسلمان عالم ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جب بدایوں میں تشریف لے جاتے ہوں گے تو دو چار محلہ کے آدمی ان کو کہتے ہوں گے کہ واہ کیا لکھا ہے اور جناب سید الحاج خوش ہوتے ہوں گے ، دگر ہیچ ۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ جناب سید الحاج نے جب یہ رسالہ لکھا ہے قریب اسی زمانے کے حج کو تشریف لے جانے والے تھے۔ انہوں نے خیال کیا ہو گاکہ لاؤ حج کو جاتے ہی ہیں۔ جتنے گناہ کرنے ہیں سب کر لیں۔ حج کے بعد تو سب پاک ہو ہی جاویں گے۔ جیسا کہ بعض آدمی جب مسہل لینا چاہتے ہیں تو خوب بد پرہیزی کرتے ہیںاور سمجھتے ہیں کہ مسہل سے سب نکل جاوے گی ، مگر جناب سید الحاج کو معلوم کرنا چاہیے کہ حج و زیارت میں جو بشارتیں آپ کو ملی ہوں ملی ہوں اورجو خطاب آپ کو ملا ہو ملا ہو جن کا تذکرہ آپ دن رات فرمایا کرتے ہیں اور حج سے آپ کے سب گناہ معاف ہو گئے ہوںاور شبلی ؒ و جنید ؒ کے مرتبہ پر پہنچ گئے ہوں بلکہ اس سے بھی اعلیٰ ، مگر حق العباد کبھی نہ حج سے بخشے جاتے ہیں اور نہ کسی بشارت سے۔ پس آپ نے جو اتہام مجھ پر کیے ہیں جب تک میں ہی نہ معاف کروں معاف نہیں ہو سکتے۔ پس مقتضائے ایمان داری یہ ہے کہ آپ حج دار احمد کا احرام باندھیے اور گناہوں کی معافی چاہیے ورنہ روز جزا کوآپ کو اپنی کرتوتوں کا مزا معلوم ہو جاوے گا۔ واللہ یھدی من یشاء الیٰ صراط المستقیم۔ ٭……٭……٭ خدا رسول اور قیامت کے متعلق سرسید کے عقائد (اخبار’’ صدق جدید ‘‘ لکھنؤ بابت 7اکتوبر 1960ئ) لندن سے واپس آنے کے بعد جب سرسید نے اپنا اصلاحی کام شروع کیا اور قوم کی زبون اور ابتر حالت کو بہتر بنانے کا ارادہ کیا اور علی گڈھ میں مسلمانوں کی تعلیم کے لیے ایک مدرسہ کے قیام کا اعلان کیا ، تو قوم نے اس مفید کام میں ان کی مدد کرنے کی بجائے ہر طرف سے ان پر نہایت زور شور کے ساتھ کفر کے فتوؤں کی بارش ہونے لگی اور مکہ معظمہ تک سے سر سید کے کفر کے فتوے منگوائے گئے۔ غریب سید کو کافر ، ملحد ، بے دین بنانے والے علمائے کرام نے سارے ہندوستان کا دورہ کیا اور نہایت کوشش سے ہرجگہ کے مشہور علماء سے سر سید کے کفر پر مہریں لگوائیں ۔ اسی سلسلے میں مومنین حضرت مولانا محمد قاسم نانوتومی بانی مدرسہ دیو بند کے پاس بھی پہنچے اور ان سے درخواست کی کہ آپ بھی سر سید کے کفر کی تصدیق فرما دیجیے تاکہ کسی مسلمان کو اسے کافر سمجھنے میں کوئی شک و شبہ نہ ہے۔ (اس زمانہ میں کفر کے فتووں میں یہ دفعہ لازمی ہوتی تھی۔ کہ جس شخص کے متعلق کفر کا فتویٰ دیا جا رہا ہے۔ جو شخص اسے کافر نہ سمجھے وہ بھی کافر ہے اور اس کی بیوی پر طلاق ہے)خیر جب علمائے کرام نے اس یقین و اعتماد کے ساتھ سر سید کے کفر کا فتویٰ حضرت مولانا محمد قاسم کی خدمت میں پیش کیا کہ حضرت مولانا بلا چوں و چرا اور بلا تامل اس فتوے پر مہر تصدیق ثبت فرماویں گے ۔ کیوں کہ اس وقت یہ متفق حلیہ مسئلہ تھا کہ : مصرع سید احمد خاں کو کافر جاننا اسلام ہے لیکن علمائے کرام کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور ان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا جب ان کی توقع اور امید کے بالکل برخلاف حضرت مولانا نے نہایت سنجیدگی سے فرمایا کہ ٹھہریے ! پہلے میں ذاتی طور پر اس امر کی تحقیق تو کر لوں کہ سید احمد واقعی کافر ہے ؟ یا لوگوں نے اسے ’’ کافر ذ‘‘ بنا دیا ہے ؟ اس گفتگو کے بعد حضرت مولانا نے حسب ذیل سوالات لکھ کر سر سید کو بھیجے اور ان کو لکھا کہ ان کے مختصر جوابات لکھ کر بھیج دیں۔ یہ سوال اور ان کے جوابات ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں : (1)سوال : خدا کی نسبت آپ کا جو عقیدہ ہو وہ بہت مختصر طور پر چند لفظوں میں لکھ دیں۔ جواب : خدا تعالی ازلی ، ابدی ، مالک اور صانع تمام کائنات کا ہے۔ (2)سوال : حضرت نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آپ کیا اعتقاد رکھتے ہیں ؟ جواب : بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔ (3)سوال : قیامت کی بابت آپ کے خیالات کیا ہیں ؟ جواب مختصر ہو ؟ جواب :قیامت برحق ہے۔ سر سید کی طرف سے ہر سہ امور کے متعلق یہ جواب موصول ہونے پر حضرت مولانا نے علماء کرام سے فرمایا ہے کہ ’’ کیا تم ایسے شخص کے کفر پر مجھ سے دستخط کرانا چاہتے ہو جو پکا مسلمان ہے ؟ جاؤ میں قیامت تک اس فتوے پر دستخط نہیں کروں گا۔ ‘‘ ٭……٭……٭ استجابت دعا اور سر سید (از’’ آخری مضامین سر سید ‘‘ ) مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے جو اشتہار 25 جون 1897ء کو جاری کیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ’’ ایک فرقہ نیچریہ مسلمانوں کی گردش ایام سے پیدا ہو گا ہے۔ یہ لوگ قبولیت دعا سے منکر ہیں۔ ‘‘ ہم جناب مرزا صاحب سے عرض کرتے ہیں کہ یہ خیال آپ کا صحیح نہیں ہے جس کو آپ نیچریہ فرقہ بتاتے ہیں۔ وہ تو ہر ایک شخص کی دعا کے قبول ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے اور وہ یقین کرتا ہے کہ خدا مستجاب الدعوات ہے اور وہ ہر ایک بندے کی دعا کو قبول کرتا ہے ، مگر دعا کے قبول ہونے کا مطلب وہ یہ بتاتے ہیں کہ اگر مسئول عنہ مقدر میں ہے تو ہو جاتا ہے اور اگر اس کا ہونا مقدر میں نہیں ہے۔ تو خدا دعا قبول کر کے دعا مانگنے والے کو ثواب آخرت دیتا ہے مگر کسی کی دعا کو وہ رد نہیں کرتا ۔ پس ان کے عقیدہ کے موافق ہر شخص کی دعا قبول ہوتی ہے۔ کسی کی دعا رد نہیں ہوتی۔ آپ کا یہ لکھنا کہ یہ لوگ قبولیت دعا کے منکر ہیں۔ اس لائق ہے کہ اس پر کسی وقت خاص میں آپ دوبارہ غور فرماویں گے۔ ٭……٭……٭ دعا اور اس کی قبولیت (منقول ازرسالہ ’د الدعا ء والا ستجابہ ‘‘ ) اسی مضمون میں سر سید نے بہت واضح طور پر بتایا ہے کہ دعا کے متعلق ان کا خیال اور عقیدہ کیا ہے اور وہ دعا کی قبولیت کے کیا معنی لییت ہیں اور اس باب میں قرآن مجید کی آیات کی کیا تاویل کرتے ہیں۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ سر سید کا یہ عقیدہ درست ہے یا نہیں۔ ہم تو اسے سر سید کے ایک مضمون کی حیثیت سے یہاں درج کر رہے ہیں۔ (شیخ محمد اسماعیل پانی پتی) دعا اور ندا دو لفظ مترادف ہیں اور ان کے لغوی معنی پکارنے کے ہیں۔ حضرت ذکریا علیہ السلام کے حال میں ایک جگہ خدا نے فرمایا ۔ و ذکریا اذنادیٰ ربہ ، اور یہ کافی ثبوت اس بات کا ہے کہ دعا اور ندا دو مترادف لفظ ہیں۔ خدا کو پکارنا اس کی طرف متوجہ ہونا اور اس کو حاضر سمجھنا اوراس کے الہ اور معبود برحق ہونے کا اقرار کرنا ہے۔ پس جو شخص کہ اس طرح پر خدا کو پکارتا ہے خدا اس کو قبول کرتا ہے قال اللہ تعالیٰ و قال ربکم ادعونی استجب لکم ۔ (آیت 62، المومن 40 ) اور دوسری جگہ فرمایا ہے و اذا سئالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فالیستجیبولی و لیؤ منوابی لعلھم یرشدون ۔ (آیت 182 ، البقر 2) غرض کہ لفظ دعا اور ند ا میں بلحاظ اس کے حقیقی معنی کے امر مسئول عنہ داخل نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ علیحدہ بیان کیا جاتا ہے جیسے کہ ان دو آیتوں میں ہے پہلی آیت یہ ہے ۔ ھنالک دعا زکریا ربہ ، قال رب ھب لی من لدنک ذریۃً طیبۃً انک سمیع الدعائ۔(آیت 33 آل عمران 3 ) اور دوسری آیت یہ ہے۔ و ذکریا اذنادیٰ ربہ ، رب لاتذرنی فرداً و انت خیر الوارثین۔ (آیت 89، الانبیاء 21 ) بہت جگہ قرآن مجید میں بغیر لفظ دعا کے سوال کیا گیا ہے اور حاجت چاہی گئی ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا رب ھب لی من الصالحین فبشرناہ بغلام حلیم ۔ (آیت 97 و 99 الصافات 37) اور سورۃ النمل میں جو آیت ہے امن یجیب المضطر اذا دعاہ و یکشف اسوء ۔ (آیت 63 ، النمل 27) اس میں بھی لفظ دعا انہیں معنوں میں آیا ہے۔ جو اور آیتوں میں آیا ہے اور مسئول عنہ پر بولا نہیں گیا ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ اذا دعاء بکذا و کذا۔ لیکن اگر خدا سے کچھ مانگا جائے اور سوال کیا جائے تو اس حالت میں بھی خدا کی طرف متوجہ ہونا اور اس کو معبود بر حق سمجھنا لازم آتا ہے اور لفظ ندا لفظاً یا معناً اس پر مصدر ہوتا ہے اس لیے دعا کا لفظ مسئول عنہ پر بھی بولا جاتا ہے اور لفظ دعا کے معنی الابتہال الی اللہ بالسوال کے ہو جاتے ہیں ۔ یعنی عاجزی کے ساتھ خدا سے کچھ مانگنے کے اور یہی سبب ہے کہ دعا کو بمعنی اول لو یا بمعنی ثانی عبادت کہا گیا ہے۔ چناں چہ اس آیت میں وقال ربکم ادعونی استجب لکھ ان الذین یستکبرون عن عبادتی سید خلون جہنم داخرین۔ (آیت 62، المومن 40) عبادت کا لفظ مترادف دعا کے آیا ہے۔ اس لیے کہ شروع آیت میں ادعونی کا لفظ ہے تو اس کی مناسبت سے یستکبرون کے بعد عن دعائی آتا۔ مگر وہاں عن عبادتی آیا ہے جو کافی ثبوت ہے کہ دعا اور عبادت مترادف لفظ ہیں۔ اسی آیت کے مطابق دو حدیثیں مشکواۃ شریف میں موجود ہیں پہلی حدیث یہ ہے۔ عن النعمان بن بشیر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الدعاء ہو العباد ثم قراء و قال ربکم ادعونی استجب لکھ (روا احمد ؐ و الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ)۔ دوسری حدیث یہ ہے۔ عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الدعاء مخ العبادۃ۔(رواہ الترمذی) باقی رہی استجابت دعا اگر استجابت دعا کے معنی اس سوال کا پورا کر دینے کے قرار دیے جاویں تو اس میں دو مشکلیں پیش آتی ہیں : اول یہ کہ ہزاروں دعائیں نہایت عاجزی اور اضطراری سے کی جاتی ہیں۔ مگر سوال پورا نہیں ہوتا۔ جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی۔ حالاں کہ خدا نے استجابت دعا کا وعدہ کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ جو امور ہونے والے ہیں ، وہ مقدر ہیں ۔ یعنی علم الہٰی میں ہیں اور جو نہیں ہونے والے ہیں وہ بھی علم الہٰی میں ہیں۔ ان مقدرات کے برخلاف ہرگز نہیں ہو سکتا۔ پس اگر استجابت دعا کے معنی سوال کا پورا ہونا پورا دیے جاویں تو خدا کا یہ دعدہ کہ ادعونی استجب لکم ان سوالوں پر جن کا ہونا مقدر نہیں ہے کسی طرح صادق نہیں آسکتا۔ تقدیر کی دو قسمیں مبرم اور معلق 2 قرار دینا بچوں کی باتیں ہیں اور اس پر بھی کوئی فائدہ مترتب نہیں ہوتا کیوں کہ جس کو تقدیر معلق قرار دیا جاتا ہے وہ بھی بمنزلہ اسی کے ہو جاتی ہے جس کو تقدیر مبرم کہا جاتاہے۔ معہذا ادعونی استجب لکم کا وعدہ عام ہے اور اس میں کوئی چیز اور کوئی شخص مستثنیٰ نہیں ہے اور جب کہ یہ ثابت ہے کہ حصول سوال منحصر مقدر پر ہے تو استجابت دعا جس کا وعدہ خدا نے کیا ہے وہ اور کوئی معنی رکھتا ہے۔ ہاں اس میں شبہ نہیں کہ بعض امور جن کا ہونا مقدر میں ہے اور ان کے لیے بھی دعا مانگی جاتی ہے وہ حاصل ہو جاتے ہیں اور ان پر استجابت کا مجازاً اطلاق کیا جا سکتا ہے جیسے کہ اس آیت میں ہنالک دعا ذکریاگ ربہ ، قال رب ھب لی من لدنک ذریۃ طیبۃً انک سمیع الدعاء فنادتہ الملئکۃ وھو قائم یصلی فی المحراب ان اللہ یبشرک بیحییٰ مصدقاً بکلمۃ من اللہ و سید اً و حصوراً و نبیاًمن الصٰلحین۔ (آیت 33 و 34 ، آل عمران 3 ) اور جیسے کہ اس آیت میں ہے و زکریا اذنادیٰ ربہ رب لاتذرنی فرداً و انت خیر الوارثین۔ فاستجبنا لہ ، ووھبنا لہ ، یحییٰ و اصلحنا ، زوجہ ، انھم کانوا یسارعون فی الخیرات و یدعوننا رغباً و رھباً و کانو لنا خاشعین۔(آیت 89و 90 ، الانبیاء 21 ) حضرت ذکریا علیہ السلام کے بیٹا پیدا ہونے کو مجازاً استجابت دعا کہا جاوے گا۔ کیوں کہ بیٹا ہونا مقدر میں تھا وہ ضرور ہونا تھا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی نسبت رب ھب لی من الصالحین فبشرناہ بغلام حلیم۔(آیت 98 ۔99 ، الصافات 37) مجازاً استجابت دعا کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ بیٹا ہونا مقدرات میں سے تھا۔ اور جب کہ یہ بات محقق ہوئی کہ دعا عبادت ہے ۔ جو دل سے اور خضوع و خشوع سے ہو اس کے قبول کرنے کا خدا نے وعدہ فرمایا ہے اور وہ کبھی ناقبول نہیں ہوتی۔ تو استجابت دعا کی ٹھیک مراد عبادت کے مقبول کرنے اور انسان کے دل میں جو حالت کہ صدق دل سے عبادت کرنے میں پیدا ہوتی ہے۔ اس کے پیدا ہونے کی ہوئی۔ وھذ ما وعداللہ و ان اللہ لایخلف المیعاد۔ قال اللہ تعالیٰ۔ ان اللہ لایضیع اجر المحسنین ۔ (آیت 121 ، الوبہ 9 ) وقال واصبر فان اللہ لایضیع الجر المحسنین ۔ (آیت 117 ۔ ھود 11) انی لااضیع عمل عالم منکم من ذکر اوانثیٰ بعضکم من بعض ۔ (آیت 193 ۔ آل عمران 11) جو معنی استجابت دعا کے میں نے بیان کیے اس کے مناسب مشکواۃ میں ایک حدیث ہے۔ عن ابی سعید الخدری ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ما من مسلم ید عوا بدعوۃ لیس فیھا اثم ولاقطیعۃ رحم الا اعطاء اللہ بھا احد ثلث اما ان یجعل لہ دعوتہ و اما ان یدخرھا لہ فی الاخرۃ و اما ان یصرف عنہ من السوہ مثلھا۔ قالو اذا فکثر قال اللہ اکثر رواہ احمد ۔ قولہ اما ان یجعل لہ اس کا یہی مطلب ہے کہ اگر وہ امر مقدر ہے تو وہ ہو جاوے گا وقولہ اما ان یدخرھا فی الاخرۃ یہ ان ھی امور پر اشارہ ہے جو مقدر نہیں ہیں اور دعا کے عبادت ہونے کے سبب اس کا ثواب آخرت میں ملے گا ۔ وھذ ا ہو قولہ تعالیٰ ادعونی استجب لکم و قولہ ، اما ان یصرف عنہ من السوہ کما قال اللہ و یکشف السوء اس سے یہی مراد ہے کہ وہ دعا اس قوت کو تحریک کرنے والی ہوتی ہے۔ جس سے اس رنج و مصیبت و اضط ار میں جو مطلب نہ حاصل ہونے سے ہوتا ہے ، تسکین دیتی ہے اور جب کہ دعا دل سے اور اپنے تمام فطرتی قواہ کو متوجہ کر کے کی جاتی ہے اور خدا کی عظمت اور بے انتہا قدرت کا خیال اپنے دل میں جمایا جاتا ہے تو وہ قوت تحریک میں آتی ہے اور ان تمام قوتوں پر جن سے اضطرار پیدا ہوا ہے اور اس مصیبت کا رنج برانگیختہ ہوا ہے۔ ان سب پر غالب ہو جاتی ہے اور انسان کو صبر و استقلال پیدا ہو جاتا ہے اور ایسی کیفیت کا دل میں پیدا ہونا لازمۂ عبادت ہے اور یہی دعاکا مستجاب ہونا ہے۔ انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے اور اس کے دل کو اضطرار ہوتا ہے تو وہ کسی کی طرف اس تمداد اور استعانت کے لیے رجوع کرتا ہے ۔ اگر وہ امر ایسا ہو کہ کوئی انسان اس کی مدد کر سکتا ہے تو وہ انسان کی طرف رجوع کرتا ہے اور اگر وہ امر کسی انسان کی مدد سے بالاتر ہے تو کسی ایسی ہستی سے امداد چاہتا ہے جواس کے نزدیک اس امر میں مدد کر سکتی ہے ،مگر خدا نے ہم کو ایاک نعبد و ایاک نستعین کی تعلیم دی ہے اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ ہم کسی امر میں سوائے خدا کے اور کسی سے مدد نہ چاہیں ۔ وہ امر کیسا ہی بڑا یا کیسا ہی چھوٹا ہو۔ مشکواۃ میں یہ حدیث حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیسال احد کم ربہ ، حاجتہ کلھا حتی یسال شسع نعلہ ادا نقطع یعنی ہر شخص اپنی تمام حاجتیں خدا ہی سے مانگے یہاں تک کہ اگر اسی کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ جاوے تو اسکو بھی خدا سے مانگے۔ پس دعا سے مقصد یہ ہے کہ ہرحال میں بندے کو خدا سے تعلق اور ہر امر میں اسی کی طرف رجوع رہے نہ کسی غیر کی طرف۔ جو لوگ کہ حقیقت دعا سے اور جو حکمت اس میں ہے اس سے ناواقف ہیں وہ کہہ سکتے ہیں کہ جب یہ امر مسلم ہے کہ جو مقدر نہیں ہیں وہ نہیں ہونے کا تو دعا سے کیا فائدہ ہے ، مگر اس میں چند ناسمجھیاں ہیں۔ اول تو یہ معلوم نہیں کہ وہ مقدر ہے یا نہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ ایسا کہنے میں فطرت انسانی کو بھول جاتے ہیں کہ انسان کی فطرت میں یہامر داخل ہے کہ حالت اضطرار میں یا حصول مطلب کے لیے دوسرے سے استمداد کی خواہش رکھتا ہے۔ بلا خیال اس کے کہ وہ ہو گا یا نہیں اور انسان کی یہ فطرت اس سے جدا نہیں ہو سکتی اور بمقتضائے اس کی فطرت کے اس کو کہا گیا ہے کہ خدا ہی سے مانگو جو مانگو۔ واللہ یعلم انھا مقدر ام لافان لم یکن مقدرا یعطیک ثوابھا و یدخرھا لک فی الاخرۃ فامافی الدنیا یصرف عنک من السوء مثلھا۔ فانظر ماتفعل فی امور دنیاک انت تسعی بکمال جھدوا وابتھال فی حصولھا و تعلم انھا لاتحصل ان لم یکن مقدراً فاف لک ان قصرت فی الدعا ء الی اللہ مع ان اللہ عزوجل و عدک احدی ثلث اما ان یعجل لک دعوتک و اما ان یدخرھالک فی الاخرۃ۔ واما ان یصرف عنک من السوء مثلھا و لھذا قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من لم یسال اللہ غضب علیہ ۔ (روا ہ ابو ہریرہ) مشکواۃ وھذہ دعائی الی اللہ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم ۔ (آیت 121، البقرہ 2 ) ربنا و اجعلنا مسلمین لک و من ذریتنا امۃ مسملۃ لک و ارنا مناسکنا وتب علینا انک انت التواب الرحیم ، (آیت 122 ۔ البقرہ 2) ربنا آتنا فی الدنیا و مالہ ، فی الاخرۃ من خلاق (آیت 196 ، البقرہ 2 ) ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار ۔ (آیت 197 ، البقرہ 2 ) ربنا لا توأخذنا ان نسینا او خطانا ربنا ولاتحمل علینا اصراً کما حملتہ ، علی الذین من قبلنا ربنا ولاتحملنا مالا طاقۃ لنا بہ واعف عنا واغفرلنا وارحمنا انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین۔ (آیت 286 ۔ البقرہ 2) ربنا لانزغ قدوبنا بعد اذھدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب ۔ (آیت 6 ، آل عمران 3 ) ربنا اننا آمنا فاغفرلنا ذنوبنا و قنا عذاب النار۔ (آیت 14 ، آل عمران 3 ) ربنا آمن بما انزلت و اتبعنا الرسول فاکتبنا مع الشاہدین ۔ (آیت 46 ۔ آل عمران 3 ) ربنا اغفرلنا ذنوبنا و اسرافنا فی امرنا و ثبت اقدامنا و انصرنا علی القوم الکافرین ۔ (آیت 141 ، آل عمران 3 ) ربنا ما خلقت ھذا باطلاً سبحانک فقناعذاب النار۔(آیت 177 ۔ آل عمران 3 ) ربنا اننا سمعنا منا دیاً ینادی للایمان ان آمنوا بربکم فآمنا ، ربنا فاغفرلنا ذنوبنا و کفر عنا سیآتنا و توفنا مع الابرار ۔ (آیت 199 و 191 ، آل عمران 3) ربنا و آتنا ما و عدتنا علیٰ رسلک و لاتخزنا یوم القیامۃ انک لاتخلف المیعاد ۔ (آیت 192 ۔ آل عمران 3 ) ربنا آمنا فاکتبنا مع الشاھدین ۔ (آیت 86 ، المائدہ 5 ) ربنا انزل علینا مائدۃ من السماہ تکون لنا عیداً لا اولنا و آخرنا و آیۃ منک وارزقنا و انت خیر الرازقین ۔ (آیت 114، المائدہ 5 ) ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین ۔ (آیت 22 ۔ اعراف 7 ) ربنا لا تجعلنا مع اقوم الظالمین ۔ (آیت 45 ، اعراف 7 ) ربنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق و انت خیر الفاتحین ۔ (آیت 87 ، اعراف 7 ) ربنا افرغ علینا صبراً و توفنا مسلمین۔ (آیت 123 ، اعراف 7 ) ربنا لاتجعلنا فتنۃ للقوم الظالمین ۔ (آیت 85 ۔ یونس 10) ربنا آتنا من لدنک رحمۃ و ھیئی لنا من امرنا رشداً (آیت 9 ، کہف 17) ربنا آمنا فاغفرلنا وارحمنا وانت خیر الراحمین(آیت 111 ۔ المومنون 23) ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریاتنا قرۃ اعین و اجعلنا للمتقین اماماً ۔ (آیت 74 ، فرقان 25 ) ربنا اغفرلنا و لا خواننا الذین سبقونا بالایمان ولاتجعل فی قلوبنا غلاً للذین آمنوا ربنا انک رؤف الرحیم۔(آیت 10 ، الحشر 59 ) ربنا علیک توکلنا و الیک انبنا و الیک المصیر ۔ (آیت 4 ، الممتحنہ ) ربنا لاتجملنا فتنۃ للذین کفروا واغفرلنا ربنا انک انت العزیز الحکیم ۔ (آیت 5 الممتحنہ 60 ) ربنا اتمم لنا نورنا واغفرلنا انک علیٰ کل شئی قدیر۔(آیت 7 ، التحریم 66 ) ٭……٭……٭ وحی الہٰی اور نبوت کی حقیقت وحی تو وہی ہوتی ہے جو خدا سے پیغمبر کو دی جاتی ہے مگر اگلے مفسروں نے اس کا بیان کہ وہ کیوں کر دی جاتی ہے ٹھیک طورپر نہیں کیا۔ انہوں نے خدا و رسول کو دنیا کے بادشاہ اور وزیر کی مانند اور وحی کو بادشاہ کے کلام یا حکم یا پیغام کی مانند سمجھا ہے اور جبرئیل کو ایک مجسم فرشتہ ۔ بادشاہ و وزیر میں ایلچی پیغام لے جانے والا قرار دیا ہے۔ امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں ارقام فرماتے ہیں کہ آسمان پر جبرئیل خدا کا کلام سن کر آنحضرت پر اترتے تھے اور وہ پیغام کہہ دیتے تھے پھر اس تقریر پر ان کو یہ مشکل پیش آئی کہ خدا کے کلام میں تو حروف اور آواز نہیں ہے۔ پھر جبرئیل نے وہ کیوں کر سنا ہو گا پھر اس کا جواب یہ دیا ہے۔ کہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ نے جبرئیل میں ایسی سماعت پیدا کی ہو کہ وہ عبارت میں اس کی تعبیر کر سکے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خدا نے لوح محفوظ میں اسی ترتیب سے قرآن پیدا کر دیا ہو اور جبرئیل نے اس کو پڑھ کر یاد کر لیا ہو۔ یا یہ ہوا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز جسم دار میں سے خاص طرح کی آوازیں ٹھہر ٹھہر کر نکالی ہوں اور جبرئیل نے بھی اسی کے ساتھ آواز ملا لی ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کو بتا دیا ہو کہ یہی وہ عبارت ہے جو ہمارے کلام قدیم کو پورا ادا کر دیتی ہے۔ یہ تقریریں ہمارے علمائے قدیم کی اسی قسم کی تقریریں ہیں جن پر آج لوگ ہنستے ہیں اور قرآن مجید اور مذہب اسلام کو مثل اس تقریر کے لغو سمجھتے ہیں ۔ امام صاحب نے اس بات پر غور نہیں فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت ہی میں ایسی سماعت یا لوح محفوظ میں سے پڑھنے کی قدرت یا جس جسم میں سے وہ آونچی نیچی آوازیں نکلتی تھیں ان سے کلام سمجھ لینے کی طاقت کیوں نہیں پیدا کی جو خدا کا کلام سن لیتے اور سمجھ لیتے تاکہ اس تکلیف کی کہ جبرئیل سنیں پھر اس کی عبارت بنائیں پھر آنحضرت کو آکر سنائیں حاجت نہ رہتی اس کی بھی تشریح امام صاحب نے نہیں فرمائی کہ ان اونچی نیچی آوازوں سے آواز ملا لینے کے بعد جبرئیل کو خدا نے کیوں کر بتایا کہ یہ وہی عبارت ہے۔ آیا انھی نیچی اونچی آوازوں سے ، ان سے تو جاننا محال تھا کیوں کہ دور لازم آتا ہے۔ پھر اور کسی طرح بتایا ہو گا۔ مگر پہلے ہی اسی طرح بتایا ہوتا۔ ولا شک ان ہذا صفوات لیس لھافی الاسلام نصیب ۔ نبوت کو بھی علماء متقدمین نے ایک عہدہ سمجھا ہے کہ خدا جس کو چاہتا ہے یا جس کو منتخب کرتا ہے ، دے دیتا ہے۔ جیسے بادشاہ اپنے بندوں میں سے کسی کو وزیر کسی کو دیوان کسی و بخشی کر دیتا ہے اور وہ کسی منصب کو لے کر وہ کام شروع کرتا ہے اور مبعوث ہونے کے ٹھیک یہی معنی انہوں نے سمجھے ہیں۔ مگر میری سمجھ یہ نہیں ہے۔ میں نبوت کو ایک فطری چیز سمجھتا ہوں۔ نبی گو اپنی ماں کے پیٹ ہی میں کیوں نہ ہو نبی ہوتا ہے۔ النبی نبی ولو کان فی بطن امہ ۔ جب پیدا ہوتا ہے تو نبی ھی پیدا ہوتا ہے۔ جب مرتا ہے تو نبی ھی مرتا ہے۔ نبی کا لفظ یہودیوں میں زیادہ تر مستعمل تھا وہ اس کو لفظ نباہ سے مشتق کرتے تھے۔ جس کے معنی خبر دینے ہیں۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ انبیاء مثل نجومیوں کے دنیا کی باتوں میں سے غیب کی بات یا آئندہ ہونے والی باتیں بتا دیتے ہیں ۔ شاید اتنا فرق سمجھتے ہوں کہ نجومی ستاروں کے حساب یا شیطانوں کے اسرار بتاتے تھے اور انبیاء ربانی کرشمہ سے۔ پس جو شخص کہ پیشین گوئی نہیں کرتا تھا اس کو نبی یا پیغمبر نہیں کہتے تھے۔ مگر اسلام میں اور مسلمانوں میں یہ خیال نہیں ہے وہ ان سب کو جن پر خدا نے وحی نازل کی ہے نبی جانتے ہیں اور پیغمبر مانتے ہیں۔ گو کہ اس نے کوئی بھی پیشین گوئی نہ کی ہو۔ بلکہ مذہب اسلام تو یہ بتاتا ہے کہ لایعلم الغیب الاہو۔ یہی سبب ہے کہ قرآن مجید میں ہر ایک صاحب وحی کو نبی یا پیغمبر کہا گیا ہے۔ جن میں سے اکثر کو جیسے داؤد و سلیمان کو یہودی نبی نہیں کہتے۔ بہرحال اس لفظی بحث کو جانے دو۔ نبوت در حقیقت ایک فطرت چیز ہے جو انبیاء میں بمقتضائی ان کی فطرت کے مثال دیگر قوائے انسانی کے ہوتی ہے۔ جس انسان میں وہ قوت ہوتی ہے وہ نبی ہوتا ہے اور جو نبی ہوتا ہے اس میں وہ قوت ہوتی ہے جس طرح کہ تمام ملکات انسان اس کی ترکیب و اعضاء دل و دماغ و خلفت کی مناسبت سے علاقہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح ملکہ نبوت بھی اس سے علاقہ رکھتا ہے۔ یہ بات کچھ ملکہ نبوت ہی پر موقوف نہیں ہے۔ ہزاروں قسم کے جو ملکات انسانی ہیں بعضی دفعہ کوئی خاص ملکہ کسی خاص انسان میں از روئے خلقت و فطرت کے ایسا قوی ہوتا ہے کہ وہ اسی کا امام یا پیغمبر کہلاتا ہے لوہار بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہو سکتا ہے۔ شاعر بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہو سکتا ہے۔ ایک طبیب بھی اپنے فن طب کا امام یا پیغمبر ہو سکتا ہے۔ مگر جو شخص روحانی امراض کا طبیب ہوتا ہے اور جس میں اخلاقی انسان کی تعلیم و تربیت کا ملکہ بمقتضائے اس کی فطرت کے خدا سے عنایت ہوتی ہے وہ پیغمبر کہلاتا ہے اور جس طرح کہ اور قواے انسانی بمناسبت اس کے اعضاء کے قوی ہوتے جاتے ہیں اسی طرح یہ ملکہ بھی قوی ہوتا جاتا ہے اور جب اپنی پوری قوت پر پہنچ جاتا ہے تو اس سے وہ ظہور میں آتا ہے جو اس کا مقتضی ہوتا ہے جس کو عرف عام میں بعثت سے تعبیر کرتے ہیں۔ خدا اور پیغمبر میں بجز اس ملکہ نبوت کے جس کو ناموس اکبر اور زبان شرع میں جبرئیل کہتے ہیں اور کوئی ایلچی پیغام پہنچانے والا نہیں ہوتا۔ اس کا دل ہی وہ آئینہ ہوتا ہے جس میں تجلیات ربانی کاجلوہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کا دل ہی وہ ایلچی ہوتا ہے جو خدا کے پاس پیغام لے جاتا ہے اور خدا کا پیغام لے کر آتا ہے وہ خود ہی مجسم چیز ہوتا ہے جس میں سے خدا کے کلام کی آوازیں نکلتی ہیں۔ وہ خود ہی کان ہوتا ہے جو خدا کے بے حرف و بے صوت کلام کو سنتا ہے۔ خود اسی کے دل سے فوارہ کی مانند وحی اٹھتی ہے اور خود اسی پر نازل ہوتی ہے۔ اس کا عکس اس کے اس دل پر پڑتا ہے جس کو وہ خود ہی الہام کہتا ہے اس کو کوئی نہیں بلواتا بلکہ وہ خود بولتا ہے اور خود ہی کہتا ہے وما ینطق عن الویٰ ان ھوالا وحی یوحیٰ۔ جو حالات و ارادت ایسے دل پر گزرتے ہیں وہ بھی بمقتضائے فطرت انسان اور سب کے سب قانون فطرت کے پابند ہوتے ہیں۔ وہ خود اپنا کلام نفسی ان ظاہری کانوں سے اسی طرح پر سنتا ہے جیسے کوئی دوسرا شخص اس سے کہہ رہا ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو ان ظاہری آنکھوں سے اس طرح پر دیکھتا ہے جیسے دوسرا شخص اس کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ ان واقعات کے بتلانے کو اگرچہ یہ قول یاد آتا ہے کہ قدر ایں بادہ ندانی بخداتا بہ بخشی۔ مگر ہم بطور تمثیل کے گو وہ کیسی ہی کم رتبہ ہو اس کا ثبوت دیتے ہیں۔ ہزاروں شخص ہیں جنہوں نے مجنونوں کی حالت دیکھی ہو گی۔ وہ بغیر بولنے والے کے اپنے کانوں سے آوازیں سنتے ہیں۔ تنہا ہوتے ہیں مگر اپنی آنکھوں سے اپنے پاس کسی کو کھڑا ہوا باتیں کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ وہ سب انھی کے خیالات ہیں جو سب طرف سے بے خبر ہو کر ایک طرف مصروف اور اس میں مستغرق ہیں اورب اتیں سنتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں۔ پس ایسے دل کو جو فطرت کی رو سے تمام چیزوں سے بے تعلق اور روحانی تربیت پر مصروف اور اس میں مستغرق ہو۔ ایسی واردات کا پیش آنا کچھ بھی خلاف فطرت انسانی نہیں ہے۔ ہاں ان دونوں میں اتنا فرق ہے کہ پہلا مجنوں ہے اور پچھلا پیغمبر ۔ گو کہ کافر پچھلے کو بھی مجنوں بتاتے تھے۔ پس وحی وہ چیز ہے جس کو قلب نبوت پر بسبب اسی فطرت نبوت کے مبدء فیاض نے نقش کیا ہے۔ وہی انتعاش قلبی کبھی مثل ایک بولنے والی آواز کے انہیں ظاہری کانوں سے سنائی دیتا ہے۔ اور کبھی وہ نقش قلبی دوسرے بولنے والے کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ مگر بجز اپنے آپ کے نہ وہاں کوئی آواز ہے نہ بولے والا ۔ خدا نے بہت سی جگہ قرآن میں جبرئیل کا نام لیا ہے۔ مگر سورۃ بقر میں اس کی ماہیت بتا دی ہے جہاں فرمایا ہے کہ جبرئیل نے تیرے دل میں قرآن کو خدا کے حکم سے ڈالا ہے۔ دل پر اتارنے والی یا دل سے ڈالنے والی وہی چیز ہوتی ہے۔ جو خود انسان کی فطرت میں ہو۔ نہ کوئی دوسری چیز جو فطرت سے خارج اور خود اس کی خلقت سے جس کے دل ڈالی گئی ہے۔ جداگانہ ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسی ملکہ نبوت کا جو خدا نے انبیاء میں پیدا کیا ہے جبرئیل نام ہے۔ یہی مطلب قرآن کی بہت سی آیتوں سے پایا جاتا ہے ۔ جیسے کہ سورۃ قیامۃ میں فرمایا ہے کہ ’’ ان علینا جمعہ و قرآنہ ‘ ‘‘ یعنی ہماراذمہ ہے۔ وحی کو تیرے دل میں اکٹھا کر دینے اور اس کے پڑھ دینے کا فاذا قرانا ہ فاتبع قرآنہ ‘ پھر جب ہم اس کو پڑھ چکیں تو اس پڑھنے کی پیروی کر ۔ ثم ان علینا بیانہ ، پھر ہمارا ذمہ ہے اس کا مطلب بتانا ۔ ان آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا اور پیغمبر میں کوئی واسطہ نہیں ہے خود خدا ہی پیغمبر کے دل میں وحی جمع کرتا ہے۔ وہی پڑھتا ہے۔ وہی مطلب بتاتا ہے اور یہ سب کام اسی فطری قوت نبوت کے ہیں جو خدا تعالیٰ نے مثال دیگر قوائے انسان کے انبیاء میں بمقتضائے ان کی فطرت کے پیدا کی ہے۔ اور وہی قوت ناموس اکبر ہے اور وہی قوت جبرئیل پیغامبر۔ اسی طرح خدا تعالیٰ سورۃ النجم میں فرماتا ہے۔ وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ یعنی محمد صلی اللہۃ علیہ وسلم اپنی خواہش نفس سے نہیں کہتا۔ مگر یہ تو وہ بات ہے جو اس کے دل میںڈالی گئی ہے ۔ علمہ ، شدید القویٰ ذومرۃ ۔ پھرٹھہرا اور وہ بہت بلند کنارہ پر تھا۔ ثم دنی فتدلیٰ ۔ پھرپاس ہوا اور ادھر کھڑا ہوا۔ فکان قاب قوسین او ادنی ۔ پھر دو کمانوں یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گای۔ فاوحیٰ الی عبدہ مااوحیٰ ۔ پھر اپنے بندہ کے دل میں ڈالی وہ بات جو ڈالی۔ یہ تمام مشاہد ، اگر ان ہی ظاہری آنکھوں سے تھا تو وہ عکس اپنے تجلیات ربانی کا تھا۔ جو بمقتضائے فطرت انسان و فطرت نبوت دکھائی دیتا تھا اور دراصل بجز ملکہ نبوت کے جس کو جبرئیل کہو یا اور کچھ ، کچھ نہ تھا۔ علماء اسلام نے انبیاء اور عام انسانوں میں بجز اس کے کہ ان کو ایک عہدہ مل گیا ہے جو ممکن تھا کہ ان میں سے بھی کسی کو مل جاتا اور کچھ فرق نہیں سمجھا اور اسی لیے اشاعرہ و ما تریدیہ نے نبی اور امت کی مثال سلطان و رعیت کی سمجھی ہے۔ مگر میری سمجھ میں یہ مثال ٹھیک نہیں ہے۔ نبی اور امت کی مثال راعی و غنم کی سی ہے۔ گو نبی و امت انسانیت میں شریک ہیں۔ جیسے کہ راعی و غنم حیوانیت میں۔ مگر نبی و امت میں فطرت نبوت کی ایسی ہی فصل ہے جیسی کہ راعی و غنم میں ناطقیت کی۔ قرآن مجید کا نجماً نجماً نازل ہونا بھی بڑی دلیل اس بات کی ہے کہ وہ بمقتضائے اسی فطرت کے نازل ہوا ہے۔ ہم بمقتضائے فطرت انسانی یہ بات دیکھتے ہیں کہ تمام ملکات انسانی کسی محرک یعنی کسی امر کے پیش آنے پر اپنا کام کرتے ہیں۔ اسی طرح ملکہ نبوت بھی جبھی اپنا کام کرتا ہے جب کہ کوئی امر پیش آتا ہے ہمارے دل میں سینکڑوں مضمون ہوتے ہیں۔ سینکڑوں نصیحتیں ہوتی ہیں۔ اشعار یاد ہوتے ہیں۔ دوستوں کی صورتیں اور مکانوں ، باغوں اور جنگلوں کی تصویریں دماغ میں موجود ہوتی ہیں۔ مگر جب تک ان پر متوجہ ہونے کاکوئی سبب نہ ہو وہ سب بے معلوم رہتی ہیں۔ یہی حال ملکہ نبوت کا ہے۔ نبی مع اپنے ملکہ نبوت کے موجود ہوتا ہے کھاتا ہے ،پینا ہے ، سوتا ہے ، جاگتا ہے۔ دنیوی باتیں جن کو نبوت سے کچھ تعلق نہیں اسی طرح پر کرتا ہیجس طرح کہ اور تمام انسان کرتاہے۔ اسی باریک دقیقہ کیطرف خدا نے اشارہ کرنے کو اپنے نبی کی زبان سے یہ کہوایا کہ انا بشر مثلکم یو حیٰ الی انما الہٰکم الہ واحد اور خود آنحضرت نے فرمایا کہ ۔ انما انا بشر اذا امر تکم بشئی من امر دینکم فخذوا بہ واذاامر تکم بشیئی من رای فانما انا بشر ۔ (رواہ مسلم) یعنی میںبھی تو انسان ہی ہوں جب تم کو تمہارے دین کی کسی بات کا حکم دوں تو اس کو مان لو اورجب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو بیشک میں بھی انسان ہوں۔ ٭……٭……٭ نبوت ایک امر فطری ہے یہ بھی ایک دقیق مسئلہ ہے ہم نے جا بجا بیان کیا ہے کہ نبوت بطور ایک ایسے منصب کے نہیں ہے جسے کہ کوئی بادشاہ کسی کوکوئی منصب دے دیتا ہے بلکہ نبوت ایک فطری امر ہے اورجس کی فطرت میںخدا نے ملکہ نبوت رکھتا ہے وہی نبی ہوتا ہے اوراس بات کو ہم نہیں جانتے کہ سب انسان ایک سے ہوتے ہیں اور ان میں سے جس کو خدا چاہتا ہے نبی اور پیغمبر کر دیتا ہے۔ یہ تحقیق کچھ ہماری پیدا کی ہوئی نہیں ہے بلکہ اس باب میں قدیم سیعلماء کی دو رائیں ہیں بعض علماء کی یہ رائے ہے کہ سب انسان برابر ہیں ان میں سے اللہ جس کو چاہتا ہے درجہ نبوت دے دیتا ہے اور بعض علماء کی یہ رائے ہے کہ نبی از روئے فطرت وخلقت کی نبی ہوتاہے۔ چناں چہ اسی آیت کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں یہ دونوں قول نقل کیے ہیںمناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھی اس مقام پر ان دونوںقولوں کو نقل کر دیں وہ لکھتے ہیں کہ واعلم ان الناس اختلفوا فی ہذہ المسئلۃ فقال بعضھم النفوس و الا رواح متساویۃ فی تمام الماہیۃ فحصول النبوۃ والرسالۃ لبعضھا دون البعض تشریف من اللہ و احسان و تفضل و قال الاخرون بل النفوس البشریۃ مختلفۃ بجواھرھا و ماھیا تہا قبعضھا خیرۃ ظاہرۃ من علایق الجسہانیات مشرقۃ بالا نوار الھیۃ مستعلیۃ منورۃ و بعضھا خسیسۃ کدرۃ محبۃ للجسمانیات فالنفس مالک تکن من القسم الاول لم تصلح لقبول الوحی والرسالۃ ثم ان القسم الاول یقع الاختلاف فیہ بالزیادۃ و النقصان و القوۃ واضعف الیٰ مراتب لانہایۃ لھا فلا جرم کانت مراتب الرسل مختلفۃ فمنھم من خصلت لہ معجزۃ واحد ۃ او اثنتان و حصل لہ لہ تبع عظیم و منھم من کان الرفق غالبا علیہ و منھم من کان التشدید غالبا علیہ (تفیر کبیر) یعنی یہ بات جاننی چاہیے کہ اس مسئلہ میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے بعضوں نے کہا ہے کہ نفوس اور ارواح تمام ماہیت میں سب برابر ہیں پس نبوت اور رسالت کا ایک کو ملنا اور دوسرے کو نہ ملنا خدا کی طرف سے شرف دینا اور احسان کرنا اور بزرگی دینا ہے اور بعضوں نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ نفوس بشری اپنے جوہر اور اپنی اور ماہیت میںمختلف ہیں۔ بعضے ان میں سے برگزیدہ اور علائق جسمانیات سے پاک اور انوار المیمہ سے روشن اور بلند درجہ پر منور ہوتے ہیں۔ اور بعضے ان میں سے حسیس اور گدلے جسہانیات سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں ۔ پس نفس جب تک کہ قسم اول سے نہ ہو وہ وحی اور رسالت کے قبول کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پھر قسم اول میںزیادتی اور کمی اور قوت اور ضعف کے ان درجوں تک جن کی کچھ انتہا نہیں ہے اختلاف واقع ہوتا ہے اور اسی وجہ سیرسولوں کے درجے مختلف ہوتے ہیں ان میں سے بعضے ہیں جن کو معجزات قویہ حاصل ہوتے ہیں اور ان کے پیرو بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور بعض ان میں سے وہ ہوتے ہیں جن کو ایک دو معجزے حاصل ہوتے ہیں اور ان کے پیرو بہت سے ہو جاتے ہیں اور ان میں سے بعضوں پر نرمی غالب ہوتی ہے اور ان میں سے بعضوں پر تشدد غالب ہوتا ہے۔ گو اس تقریر میں ماہیت نفوس بشری میں تفرقہ کرنا شاید غلطی ہو خصوصاً ان لوگوں کی رائے میں جو تمام نفوس حیوانی کی ماہیت کو متحد مانتے ہیں اور تفاوت مدارج کا اس کی صورت نوعیہ پر قرار دیتے ہیں جس سے وہ نفس متعلق ہے تاہم حاصل اس تقریر کا جوامام صاحب نے لکھی ہے یہی ہے کہ انبیاء میں ازروئے خلقت و پیدائش و فطرت کے ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس کے سبب سے وہ نبی ہوتے ہیں اس لیے خدا نے فرمایا کہ ’’ اللہ اعلم حیث یجمل رسالۃ ‘‘ غرض کہ اس مطلب کو امام صاحب نے کسی تقریر سے بیان کیا ہو اور ہم نے کسی تقریر سے ۔ مطلب دونوں کا متحد ہو جاتا ہے۔ اگر فرق رہتا ہے تو اس قدر رہتا ہے کہ ہمارے نزدیک جو ملکہ نبوت فطرت میں رکھا گیا ہے وہ اپنے وقت معین پر اسی طرح ظہور کرتا ہے جس طرح درخت میںسے پھول پھل اپنے وقت میںاس کے قوی ہو جانے کے بعد پیدا ہوتے ہیںجو بعثت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور امام صاحب کی تقریر کے مطابق با وصف فطرت کے موجود ہونے کے وہ فطرت رسالت دیے جانے کی محتاج رہتی ہے۔اسی سبب سے ہم تو کہتے ہیں کہ النبی نبی فی بطن امہ اور اما م صاحب یوں کہیں گے کہ بعض الانسان قابل للنبوۃ فی بطن امہ اما ان یوتی اولا۔ شاء ولی اللہ صاحب بھی تفہیہات میں اس رائے کے موید معلوم ہوتے ہیں انہوں نے صاف لکھ دیا ہے کہ یہ رائے کہ نبوت محض خدا کا فضل ہے قرون اولیٰ کی نہیں ہے چناں چہ شاہ صاحب کاقول یہ ہے کہ : حقیقۃ النبوۃ ان یرید اللہ بعبادہ اصلاحا فیتدلیٰ الیھم بوجود یشبہ الوجود العرضی قایم برجل زکی الفطرۃ تام الاخلاق نتبہ منہ اللطیفۃ الانسانیۃ لایقال ذھب علماء اھل السنۃ الیٰ ان النبوۃ محض فضل من اللہ تعالیٰ من غیر خصوصیۃ من العبد و انت تثبت لھم خصوصیۃ فی استعدادھم لانا نقول ہذا قول نشاء بعد القرون المشوہود لھا بالخیر فان مدلول الکتاب و السنۃ وما اجمع عدلیہ السلف ہو ان الخصوصیۃ التی ترجع الیٰ کثرۃ المال و صاحبۃ الوجہ وغیر ذالک من صفات التی یفتخربھا العامۃ لادخل لھا فی انبوۃ و کان لکفار یقولون اما کان اللہ یجدر رجلا لرسالۃ سوی یتیم ابی طالب لولا انزل القرآن علی رجل من القریتین عظیم فکشف اللہ تعالیٰ الشبہ و اشبع فی الرد و اما الصفات الباطنیۃ التی یتکلم فیھا فلا شبہۃ ان الانبیاء اتم الخلق فیھا و اقواھم اخلاقا و واذکاھم نفسا من انکرذالک لایسحق ان یتکلم بہ لعبدہ عن سیرالا نبیاء راسا الاتری ان ہرقل کیف قال و کذالک الا نبیاء تبعث فی نسب قومھا و بالجملۃ فلا لرسالۃ رکنان رکن قابلیۃ من الرسول و رکن تدل و تدبیر من المرسل (تفھیہات) یعنی ۔ نبوت کی یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی اصلاعح کا ارادہ کرے اور ان کی طرف ایک خاص توجہ اور عنایت مائل کرے (تدلی کے لغوی معنی ہیںڈول کا کنوئیں میں لٹکانا) بہ سبب وجود کے جو قائم ہو ایک انسان کامل اور پاک طینت عمدہ خصلت میں جس کا لطیفہ انسانی بیدار اور خبر دار ہو۔ یہ شبہ نہ کیا جاوے کہ سب علمائے اسلامیہ کا یہ قول ہے (کہ نبوت محض خدا کا فضل ہے بندہ کی خصوصیت کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے اور اس تمھاری تقریر سے ان کے لیے ایک خصوصیت استعداد کی ثابت ہوتی ہے اس لیے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ قول بہت پیچھے بعد انقضائے قرون مشہور لہا بالخیر کے پیدا ہوا ہے کہ کتاب اللہ اور حدیث اور اجماع سلف سے یہ ثابت ہے کہ خصوصیت کثرۃ مال اور خوبی چہرہ اور ایسی ہی اور صفات جن کو عام لوگ موجب فخر جانتے ہیں) نبوت میں کچھ دخل نہیں ہے کفاریہ کہا کرتے تھے کہ خدا کو اس ابو طالب کے یتیم کیس وا کوئی آدمی رسالت کے لیے نہ ملا کیوں نہ اتارہ گیا یہ قرآن ان دونوں شہروں کے کسی بڑے آدمی پر خدا تعالیٰ نے اس شبہ کو کھول دیا اور صاف طرح سے ان کے قول کو رد کر دیا اور صفات باطنیہ جن میںہم کلام کرتے ہیں وہ بلاشبہ انبیاء میں بہت زیادہ تھیں انبیاء سب خوبیوں کے پوری طرح سے جامع تھے۔ ان کے الخاق بہت اچھے تھے وہ نہایت پاک ذات تھے جو اس کا منکر ہے وہ کسی طرح اس لائق نہیں ہے کہ اس سے کلام کیا جاوے کہ وہ انبیاء کے خصائل اور خوبیوں سے بالکل دور ہے۔ کیا نہیں معلوم ہے کہ ہرقل نے کہا تھا کہ انبیاء ایسے ہی ہوتے ہیں اپنی قوم کے عمدہ خاندان میں سے بھیجے جاتے ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ رسالت کے دو رکن ہیں ایک رکن استعداد اور قابلیت نبی کا اور دوسرا رکن توجہ اور عنایت اور تدبیر الہٰی کا۔ ٭……٭……٭ معجزہ کی حقیقت ہم اس مضمون میں معجزہ کی حقیقت کے متعلق اپنے خیالات کا کچھ اظہار کرنا چاہتے ہیں مگر جب تک لفظ معجزہ کی تعریف اور مراد متعین نہ ہو جاوے اس وقت تک اس پر بحث نہیں ہو سکتی۔ علامہ سید شریف نے شرح مواقف میں لکھا ہے کہ ’’ المعجزۃ عندنا مایقصدبہ تصدیق مدعلی الرسالۃ و ان لم یکن خارقاً للعادۃ (شرح مواقف) یعنی ہمارے نزدیک معجزہ وہ چیز ہے جس یس مدعے رسالت کی تصدیق ہو جاوے اور گووہ امر بطور خرق عادت کے نہ ہو ۔ ‘‘ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مثلا کسی شخص نیمدعی رسالت سے کہا کہ اس وقت مینہ برس جاوے تو میں تم کو نبی برحق مان لوں گا چناں چہ بادل آیا اورمینہ برسنے لگا۔ سید شریف کے قول کے مطابق یہ مینہ برسنا معجزہ ہوا۔ مگر اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس طرح پر متصل یا متعاقب واقع ہونا دو قدرتی واقعوں کا سوائے سچے نبی کے اور کسی سے یا مدعی کاذب سے ظہور میں نہیں آسکتا ۔ علاوہ اس کے عام علمائے اسلام نے معجزہ کی تعریف میں اس کا خارق عادت ہونا ضروری سمجھا ہے اور خود سید شریف کو بھی جب کہ یہ فرماتے ہیں کہ ’’ گو وہ خارق عادت نہ ہو ‘‘ تو وہ بھی معجزات کا خارق عادات ہونا تسلیم کرتے ہیں صرف خارق عادت ہونا لازمی نہیں قرار دیتے۔ عادت سے مراد یہ ہے کہ ایک کام ہمیشہ ایک طرح ہوتا رہتا ہو اوراس کے اسباب بھی یکساں طریقہ پر جمع ہوتے رہتے ہوں اور جب وہ اسباب جمع ہو جاویں تو بلا تفاوت اس امر کا ظہور ہو جاوے۔ خرق عادات کے دو معنی ہو سکتے ہیں : اول یہ کہ جو امرہمیشہ بطور عادت مستمرہ کے یکساں طور پر ہوتا رہتا ہے اور بطور عادت مالوفہ کے ہو گیا ہے اس کے برخلاف کوئی امر وقوع میں نہ آوے۔ مثلا آسمان پر سے خون کیمشابہ کوئی شے برسے یاپتھر کا ٹکڑا گرے گو کہ ایسا ہونے کے لییکوئی سبب امور طبعی میں سے ہو۔ دوسرے یہ کہ سپر نیچرل ہو یعنی خارج از قانون قدرت یعنی اللہ تعالیٰ نے جو قاعدہ اور قانون وقوع واقعات اور ظہورحوادث کا مقرر کیا ہے اور عادت اللہ اسی کے مطابق جاری ہے اس کے برخلاف وقوع میں آوے۔ پہلے معنوں پر بطور اصطلاح یا مجز کے رق عادت کا اطلاق کیا جانا ممکن ہے مگر حقیقۃً اس پر خرق عادت کا اطلاق نہیں ہو سکتا اس لیے اس کا وقوع بھی اس کے اسباب کے اجتماع پر منحصر ہے اور عادت میں داخل ہے نہ خرق عادت میں کیوں کہ جب اس کے اسباب جمع ہو جاویں گے تو یکساں طریقہ پر اس کا وقوع ہو گا گو کہ کیسا ہی نادر الوقوع ہو۔ مثلا عادت یہ ہے کہ جب شیشہ ایک بلندی سے جس سے اس کو پورا صدمہ پہنچے ہاتھ سے چھوٹ پڑتا ہے تو ٹوٹ جاتا ہے ایک دفعہ ہمارے ہاتھ سے شیشہ چھوٹ پڑا اور نہ ٹوٹا۔ تو ظاہر میں خرق عادت ہوئی مگر حقیقت میں خرق عادت نہیں ہے اس لیے کہ اس کے گرنے پر تو وہ اسباب جمع نہ تھے ۔ جن سے اس کو ٹوٹنے کے لائق صدمہ پہنچتا یا ایسے اسباب موجود تھے جنہوں نے اس کو اس قدر صدمہ پہنچنے سے باز رکھا۔ پس اس کا نہ ٹوٹنا درحقیقت موافق عادت کے ہے نہ بطور خرق عاد ت کے ۔ کیوں کہ جب اس طرح کے اسباب جمع ہو جاویں گے تو کوئی شیشہ بھی ہاتھ سے چھوٹ کر گرنے سے نہیں ٹوٹنے کا۔ یا مثلاًایک شخص نے ایک شخص کو آنکھ بھر کے دیکھا اور وہ بیہوش ہو گیا یا اس نے بہرے کے کانوں میں انگلیاں ڈال دیں یا اندھے کی آنکھوں پرہاتھ پھیرا اور وہ بہرا سننے اور وہ اندھا دیکھنے لگا۔ پس اس کا سبب کوئی ایسی قوت ہے جو انسانوں میں موجود ہے اور اسی قوت کی قوت سے اس نے یہ کام کیا ہے تو اس پر خرق عادت کا اطلاق نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ انسان اپنی قوت کو کام میں لانے کے لائق کر لے گا وہ بھی ویسا ہی کر دے گا ۔ پس یہ بات حقیقتاً کچھ خرق عادت نہ ہوئی بلکہ عین عادت ہوئی۔ علاوہ اس کے اگر ہم مجازاً ایسے واقعات پر خرق عادت کااطلاق بھی کریں تو وہ معجزہ کی تعریف میں داخل نہیں ہو سکتا کیوں کہ معجزے یا کرامات کو انبیاء اور اولیاء کے ساتھ مخصوص ہونا لازم ہو اگ۔ مگر جب ان واقعات کا وقوع اجتماع اسباب پر منحصر ٹھیرا تو اس کی تخصیص شخص دون شخص باقی نہیں رہتی۔ واقعات اور حادثات ارضی و سماوی موافق اس قانون قدرت کے جو خدا تعالیٰ نے ان میں رکھا ہے یکے بعد دیگر ے واقع ہوتے رہتے ہیں۔ پس کسی امر کے بعد کسی واقع ہی ا حادثہ ارضی و سماوی کا اظہر ہونا کسی معجزہ میں شامل نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کا ظہور اسی عادت پر ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ نے قانون قدرت کے بموجب اس میں رکھی ہے۔ بعض عالوں نے کہا ہے کہ جو معجزات اور کرامتیں انبیاء اور اولیاء سے ظہور میں آتی ہیں وہ بغیر موجود ہونے اسباب کے ظہور میں نہیں آتیں مگر خداتعالیٰ بہ سبب اپنی مہربانی کے جو ان بزرگوں پر رکھتا ہے فی الفور اسکے ظہور کے اسباب مہیا کر دیتا ہے کیوں کہ وہ اسباب مہیا کرنے پر قادر ہے کما قبل ’’ اذا اراد شیئاً ہیئاً اسبابہ ‘‘ بعضوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ،خدا تعالیٰ کو کسی چیز کے پیدا کرنے کے لیے اس کے اسباب کے مہیا کرنے کی ضرور ت ہی نہیں ہے۔ ’’ ان اللہ علیٰ کل شئی قدریر ‘‘ اذا اراد شیئاً ان یقول لہ کن فیکون ‘‘ ہاں یہ سب سچ ہے مگر وہ ان سب چیزوں کو اسی طرح پر کرتا ہے جو اس نے قانون قدرت کا قاعدہ بنایا ہے اور ان الفاظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اس قانون قدرت کے قاعدہ کے برخلاف کرتا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب جو حجۃ اللہ البالغہ میں بہ تحت باب الابداع و الخلق خاصیت جس چیز میں رکھی ہے اس کو نہیں بدلتا حیث قابل۔ و جرت عاۃ اللہ تعالیٰ ان لاتنفک الخواص عما جعلت خواص لھا۔ مگر اس کے بعد کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے بہ لحاظ تدبیر عالم کے اور شر کے رفع ہونے کے ان قوی یعنی خاصیتوں میں قبض وبسط و احاطہ و الہام سے تصرف کرنا بندوں پر مقتضائے رحمت کا قرار دیا ہے ۔ بعض کی مثال انہوںنے یہ دی ہے کہجب دجال آوے گا تو ایک مسلمان کو قتل کرنا چاہے گا اورباوجود آلہ قتل کے درست ہونے کے وہ قتل نہ ہو سکے گا۔ بسط کی مثال انہوں نے یہ دی ہے کہ زمین پر پاؤں مارنے سے خدا نے حضرت ایوب کے لیے ایک چشمہ پیدا کر دیا جس میں نہانے سے ان کی بدن میںجو بیماری تھی جاتی رہی !!! احالہ کی مثال یہ دی ہے کہ خدا نے حضرت ابراہیم پر آگ کو ٹھنڈی ہوا کر دیا اور الہام کی مثال میں کشتی کے توڑنے اور لڑکے کے مار ڈالنے اور دیوار بنانے کا قصہ لکھا ہے !! مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے اول تو اس کے لیے اس کے ثبوت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ علاوہ اس کے ان میں سے ایک مثال تو ابھی واقع ہی نہیں ہوئی باقی مثالوں کی نسبت ثبوت باقی ہے کہ وہ اسی طرح واقع ہوئی تھیں جس طرح کہ مثال میں پیش ہوئی ہیں اور اگر بالفرض اسی رطح واقع ہوئی تھیں تو ان میں بہ تحقیق باقی ہے کہ آیا وہ اس استدلال کی مثالیں ہو سکتی ہیں باآں کہ وہ بالا کسی بسط کے اور بغیر کسی احالہ کے اور بغیر کسی الہام کے صرف مطابق عام قانون قدرت کے واقع ہوئی تھیں۔ پس جب تک کہ خرق عادت کے دوسرے معنی یعنی خلافت قانون قدرت کے نہ لیے جاویں اس وقت کت کسی واقع کا وقوع بطور معجزہ و کرامت کے تسلیم نہیں ہو سکتا۔ مگر ہم اس کے انکار پر مجبور ہیں کیوں کہ خدا تعالیٰ نے ہم کو صاف صاف بتلایا ہے کہ جو قانون قدرت اس نے بنا دیا ہے اس میں کسی طرح تبدیل نہیں ہو سکتی نہ خدا اس میں کبھی تبدیل کرتاہے۔ اور نہ تبدیل کرے گا۔ خدا کا بنایا ہوا قانون قدرت اس کا عملی وعدہ ہے کہ اسی طرح ہوا کرے گا۔ پھر اگر اس کے برخلاف ہو تو خلف وعدہ اور کذب خدا کی ذات پاک پر لازم آتا ہے جس سے اس کی ذات پاک و بری ہے۔ خدا نے فرمایا ہے کہ ’’ انا کل شئی خلقناہ بقدر ‘‘ (سوہ قمر آیت 49 ) یعنی ہم نے ہر چیز کو ایک انداز پر پیدا کیا ہے اور فرمایا ہے ’’ وکل شئی عندہ ‘ بمقدار ‘ (سورۂ رعد آیت 9) یعنی ہر چیز خدا کے نزدیک ایک اندازہ پر ہے۔ تفسیر کبیر میں امام فخر الدین رازی نے لکھا ہے کہ ’’ فمعناہ بقدر و حد لایجادز ولا ینقص عنہ ‘‘ یعنی اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک اندازہ اور ایک حد پر کہ نہ اس سے بڑھتی ہے نہ کم ہوتی ہے اور فرمایا ہے و خلق کل شئی فقدرہ تقدیرا (سورہ فرقان آیت 2 ) یعنی اللہ نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا پھر مقرر کیا اس کا اندازہ ، اور یہی اندازہ قانون قدرت ہے۔ دوسری جگہ خدا نے فرمایا ہے لاتبدیل لخلق اللہ (سورہ روم آیت 21 ) یعنی اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کے لیے بدل جانا نہیں ہے اور ایک جگہ فرمایا کہ ’’ فن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا و لن تجدلسنۃ اللہ تحویلا ‘‘ (سورہ ملائکہ آیت 41 و 42) یعنی تو ہرگز نہیں پانے کا اللہ کی سنت میں ادل بدل ہونا اور نہ پاوے گا تو اللہ کی سنت میں الٹ جانا اور اسی طرح فرمایا ہے ’’ سنت اللہ التی قد خلت من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ‘‘ ، (سورۃ فتح آیت 23 ) اور ایک جگہ فرمایا ’’ قل کل یعمل علیٰ شکلمۃ ‘‘ (سورہ اسری آیت 86 )ای علیٰ طریقۃ التی جبل علیھا ۔ یعنی ہر ایک اسی طریقہ پر عمل کرتا ہے جو اس کی جبلت میں بنایا گیا ہے پس کسی کا مقدور نہیں ہے کہ جوقانون قدرت نے بنایا ہے اس کے برخلاف کوئی کر سکے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ خدا جو ہر چیز پر قادر ہے اور جس نے خود قانون قدرت بنایا ہے وہ کیوں نہیں اگر وہ چاہے تو تمام دنیاکو اور تمام قانون قدرت کو معدوم کر کے اور ہی دنیا اور ہی قانون قدرت پیدا کر دے مگر جو قانون قدرت کہ وہ بنا چکا ہے ان کی صداقت کے لیے ضرور ہے کہ ان میں تبدیل نہ ہو یا ان میں تبدیل نہ کرے اور اس سے اس کی قدرت کاملہ میںکچھ نقصان نہیں آتا۔ جیسے کہ جو وعدہ خدا نے کبا ہے اس کے برخلاف نہیں کرتا اور اس کے سبب سے اس کی قدرت کاملہ میں نقصان لازم نہیں آتا۔ ہاں یہ بات سچ ہے کہ تمام قوانین قدرت ہم کو معلوم نہیں ہیں اور جو معلوم ہیں وہ نہایت قلیل ہیں اور ان کا علم بھی پورا نہیں ہے بلکہ ناقص ہے۔ ان کا نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی عجیب واقعہ ہو اوراس کے وقوع کا کافی ثبوت بھی موجود ہو اوراس کا وقوع معلومہ قانون قدرت کے مطابق بھی نہ ہو سکتا ہو اور اس یہ بھی تسلیم کر لینا جاوے کہ بغیر دھوکا و فریب کے فی الواقع واقع ہوا ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بلاشبہ اس کے وقوع کے لیے کوئی قانون قدرت ہے مگر اس کا علم ہم کو نہیں کیوں کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ خلاف قانون قدرت کوئی امر نہیں ہوتا اور جب وہ کسی قانون قدرت کے مطابق واقع ہوا ہے تو وہ معجزہ نہیں کیوں کہ ہر شخص جس کو وہ قانون معلوم ہو گیا ہو گا اس کو کرسکے گا۔ یہ کہنا کہ پیغمبر یا کسی بزرگ کی دعا یا ان کا ارادہ جن کو ایک خاص اراہ خدا کے ساتھ ہے اس کے وقوع کے لیے قانون قدرت ہے تسلیم نہیں ہو سکنے کا اس لیے کہ اس کے ثبوت کے لیے یا تویہ لازم ہو گا کہ جب وہ بزرگ کسی امر کے لیے دعا یا ارادہ کریں تو ہمیشہ واقع ہو جایا کرے اور کم سے کم یہ کہ وہی خاص امر جو واقع ہوا ہے اس کے وقوع اور ان کے دعا میں لزوم ہو اور گر یہ نہیں ہے(جیسے کہ معتقدین معجزہ و کرامات بھی اس کے قائل نہیں ہیں) تو وہ قانون قدرت بھی نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ میں تحت باب حقیقۃ النبوۃ و خواصہا لکھا ہے کہ معجزات اور استجابت دعا اصل نبوت سے خارج ہے مگر اکثر اس کو لازم ہے (جب اکثر کا لفظ استعمال کیا ہے تو لزوم کے کچھ معنیٰ نہیں رہتے) بعد اس کے وہ فرماتے ہیں کہ بڑے بڑے معجزوں کے ظاہر ہونے کے تین سبب ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ وہ شخص جس سے معجزہ ہوا ۔ مفہمین میں سے ہے کیوں کہ اس کا ایسا ہونا باعث ہوتا ہے بعض حوادث کے انکشاف کا اور سبب ہوتا ہے ۔ استجابتہ دعا اور ظہور برکات کا۔ دوم یہ کہ ملاء اعلیٰ اس کے حکم بجا لانے کو موجود ہو اور اس کوالہام اور احالات اور تقریبات ہوتے ہوں جو پہلے نہ ہوتے تھے۔ پس وہ اپنے احباب کی مدد کرتا ہے اور دشمنوں کو مخذول کرتا ہے اور خدا کا حکم ظاہر ہوتا ہے اگرچہ کافر اس کو ناپسند کرتے ہوں۔ تیسرے یہ کہ دنیا میں جو واقعات بوجہ اپنے خارجی اسباب کے ہوتے ہیں اور آسمان و زمین کے بیچ میں جو حوادث ظہور پاتے ہیں خدا تعالیٰ انھی کو کسی وجہ سے اس کا معجزہ قرار دے دے۔ (انتہٰی) تعریف معجزہ و کرامات میں جب لفظ ’’ خرق عادت ‘‘ کو جس کے معنی بجز خلاف قانون قدرت کے اور نہیں ہو سکتے جیسے کہ ہم نے اوپر تشریح کی ہے محفوظ رکھا جاوے تو یہ تینوں صورتیں جو شاہ صاحب نے بیان فرمائی ہیں داخل معجزہ و کرامات نہیں ہو سکتیں۔ پہلی صورت میں شاہ صاحب نے مفہمین کسی امر کا ظاہر ہونا معجزہ یا کرامت قرار دیا ہے۔ مفہمین سے کسی امر کا ظاہر ہونا معجزہ یا کرامت قرار دیا ہے۔ مفہمین کے معنی انہوں نے یہ لکھے ہیں کہ ان کا ملکہ نہایت اعلیٰ ہو ممکن ہو کہ وہ ایک بہت بڑے نظام مطلوبہ کے قائم کرنے کو سچے دعویٰ سے برانگیختہ ہوں اور ان پر ملاء اعلیٰ سے علوم اور احوال الہیہ کی پھوار پڑتی ہو۔ معتدل المزاج ہوں ان کی شکل و صورت درست اور خلق اچھا ہو ان کی رائے میں اضطراب و عدم استقلالی نہ ہو نہ ان میں بے انتہا کی دکاوت ہو جس سیکلی سے جزئی تک اور مغز سے پوست تک رستہ نہ ہو اور نہ ایسے سخت غبی ہوں کہ جزئی کلی تک اور پوست سے مغز تک نہ پہنچ سکیں سب سے زیادہ سنت کے پابند ہوں نہایت عابد ہوں معاملات میں لوگوں کے ساتھ ٹھیک ہوں عام بھلائی کی تدبیروں کو دوست رکھتے ہوں نفع عام میں شوق رکھتے ہوں بلا شبب کسی کو نہ ستاویں ہمیشہ عالم غیب کی جانب متوجہ رہیں اس کا اثر ان کے کلام سے ان کے منہ سے ظاہر ہوتا ہو اور ان کی تمام شان سے معلوم ہوتا ہو کہ موید من الغیب ہیں ان کو ادنی ریاضت قرب و سکینہ کی وہ باتیں کھل جاتی ہیں جو اوروں کو نہیں کھلتیں پس ایسا شخص باعث ہوتا ہے بعض حوادث کے انکشاف کا اور سبب ہوتا ہے استجابت دعا اور ظہور برکات کا۔ برکت کے معنیٰ شاہ صاحب نے یہ بتلائے ہیں کہ جس شے پر برکت دی جاوے یا تو اس کا نفع زیادہ ہو جاوے مثلاً تھوڑی سی فوج دشمن کے خیال میں بہت سی معلوم ہونے لگے اور وہ بھاگ جاوے یا تھوڑی غذا میں طبیعت تصرف کر کے ایسا خلط صالح پیدا کرے کہ اس سے دو چند غذا کھانے کی برابر ہو یا خود وہ شیہی بہ سبب منقلب ہو جانے ، مادہ ہوائی کے اس شے کے زیادہ ہو جاوے۔ اس تمام بیان میں شاہ صاحب مفہمین سے اس امر کے ظہور کو قانون قدرت کے ماتحت کرنا چاہتے ہیں پس جب کہ وہ قانون قدرت کے ماتحت ہے اور متخیلہ تھوڑی فوج کو بہت تصور کر سکتا ہے اور طبیعت قلیل غذا سے کثیر غذا کا فائدہ دے سکتی ہے اور مادہ ہوائی بالفرض کوئی شے بن جا سکتا ہے تو وہ نفس اسنان کے خاصوں میں سیایک خاصہ ہے شخص دون شخص پر موقوف نہیں ہے اور اس لیی کسی کا معجزہ نہیں ہو سکتا۔ دوسری صورت جو شاہ صاحب نے لکھی ہے وہ الہامات اور احالات اور تقریبات کی قسم سے ہے اور جب کہ یہ نہیں بیان کیا کہ وہ الہامات و احالات و تقریبات بمقتضائے فطرت انسانی نہیں ہیں تو انہوں نے ان سب کو داخل فطرت انسانی سمجھا ہے اور جب وہ فطرت انسانی میں داخل ہیں تو قانون قدرت کے ماتحت ہیں اور اس لیے معجزہ قرار نہیں پا سکتے۔ تیسری صورت تو نہایت ضعیف ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دو امروں کا جن کا وقوع موافق قانون قدرت کے ہوتا ہے ایک دوسرے کے متصل واقع ہونا معجزہ ہے۔ مثلا ایک شخص مر گیا اور اسی کے قریب سورج گہن لگایا ایک پیغمبر کو لوگوں نے ستایا اور اس کے بعد کوئی واقعہ مثل طوفان یا وبا کے واقع ہوا پس پچھلے واقعہ کا اقتران پہلے واقعہ کے ساتھ معجزہ ہے حالاں کہ یہ تمام امور وہ ہیں جو قانون قدرت کے موافق واقع ہوتے رہتے ہیںاور ان کا اقتران کسی واقعہ کے ساتھ صرف اتفاقی ہے اور وہ بھی مطابق قانون قدرت کے پس بموجب اس اصول کے جب کی بناء پر ہم نے معجزہ و کرامت سے انکار کیا ہے۔ اس اصول کے مطابق شاہ ولی اللہ صاحب بھی معجزہ و کرامت کے منکرہیں شاہ صاحب نے اس سے بھی زیادہ وضاحت سے ایک جگہ تفہیات میں تمام معجزات کو اسباب پر مبنی کیا ہے اور جب وہ اسباب مبنی ہیں تو تابع قانون قدرت ہیں اور جب تابع قانون قدرت ہیں تو معجزہ نہیں اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ دراصل شاہ صاحب بھی ہمارے اصول کے موافق منکرین معجزات سے ہیں انہوں نے تفہیات میں لکھا ہے کہ ’’ ان مواطن نفس الامر متفاوتۃ منھما موطن الاسباب و فیہ العلۃ والمعلول والسبب والمسبب فحسب و من المتحقق عندنا انہ لم یترک الاسباب قط ولن یترک ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا انما المعجزات والکرامات امور اسبابیۃ غلب علیہ السبوع قباینت سائر الاسبابیات (تفھیہات) ‘‘ یعنی بے شک مقامات تفس الامر کے متفاوت ہیں ان میں سے مقام اساب ہے اور اس مقام میں فقط علت و معلول کا سلسلہ ہے اور صرف سبب اور مسبب کا اور ہمارے نزدیک یہ بات محقق ہے کہ اسبب کبھی نہیں چھوٹتے اور نعہ چھوٹیں گے اور نہ کبھی تو پاوے گا اللہ کی سنت میں ادل بدل ہونا ۔ اس کے سوا اور کوئی بات نہیں ہے کہ معجزے اورکرامتیں امور اسبابیہ ہیں (یعنی اسباب پر مبنی ہیں) مکمل ہونا ان پر غالب ہو گیا ہے اس لیے تمام اور اسبابیات سے جدا ہو گئے ہیں۔ غرض کہ ہم نے معجزہ و کرامت کے مفہوم میں اس امر کو داخل کیا ہے کہ اس کا وقوع خلاف قانون قدرت ہو اور اسی اصول پر معجزہ و کرامت سے انکار کای ہے۔ مشرکین عرب بھی اسی قسم کے معجزے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کرتے تھے جن سے جا بجا قرآن مجید میں انکار ہوا ہے لیکن اگر وقوع خلاف قانون قدرت کو مفہوم معجزہ سے خارج کر دیا جاوے اور امورات اتفاقیہ یا نادر الوقوع پر جو قانون قدرت کے مطابق واقع ہوتے ہیں معجزہ کا اطلاق کیا جاوے تو ایسی حالت میں صرف اصطلاع قرار دینے کا اختلاف ہو گا اور جو اصطلاع ہم نے قرار دی ہے اس کے مطابق اس پر معجزہ و کرامت کا اطلاق نہ ہو گا۔ تمام فرق اسلامیہ معجزات کو حق بیان کرتے ہیں اور سوائے معتزلیوں اور استاد ابو اسحاق اسفرانی کے جو اھل سنت و الجماعت میں سے ہیں تمام فرقے کرامات اولیاء کے بھی قائل ہیں اور شیعہ صرف دوازدہ امام علیہم السلام میں حصر کرامت کرتے ہیں معتزلے اس وجہ سے کرامات کے منکر ہیں کہ اگر اولیاء سے بھی کرامتیں ہوں تو اس میں اور معجزہ میں کچھ تمیز باقی نہیں رہتی اور پھر معجزہ ثبوت نبوت کی دلیل نہیں ہو سکتا۔ لیکن محقیقین علماء معجزوں کا بیان اس طرح پر کرتے ہیں کہ گویا ان کاوقوع قانون قدرت کامطابق ہوا ہے پس اگر میرا یہ خیال صحیح ہو تو میں کہہ سکتا ہوں کہ تمام علمائے فرق اسلامیہ اس مسئلہ میں میرے ساتھ متفق ہیں اور صرف اصطلاع کا فرق ہے اور جس اصطلاع مقررہ کے ہم نے معجزات و کرامات کا انکار کیا ہے وہ سب بھی اس کے منکر ہیں اور اگر علمائے متقدمین اس بات کے مقر ہوں کہ معجزہ و کرامت کا وقوع خلاف قانون قدرت ہوتا ہے یا خلاف قانون قدرت بھی ہو سکتا ہے تو بلاشبہ وہ ہم سے اورہم ان سے بالکل مختلف ہیں۔ حکماء و فلاسفہ نے معجزات یا کرامات کا انکار کسی وجہ سے کیا ہو مگرہمارا انکار صرف اس بناء پر نہیںہے کہ وہ مخالف عقل کے ہیں اور اس لیے ان سے انکار کرنا ضرور ہے بلکہ ہمارا انکار اس اس بنا ء پر ہے کہ قرآن مجید سے معجزات و کرامات یعنی ظہور امور کا بطور خرق عادت یعنی خالف فطرت یا خلاف جبلت یا خلاف خلقت یا خلاف قدر التی قدرھا اللہ کے امتناع پایا جاتا ہے جس کو ہم ممختصر لفظوں میں یوں تعبیر کرتے ہیں کہ کوئی امر خلاف قانون قدرت واقع نہیں ہوتا اور اس لیے معجزات و کرامات سے جب کہ ان کے معنوں میں غیر مقید ہونا قانون قدرت کا مراد لیا جاوے تو انکار کرتے ہیں اور اگر ان کے مفہوم میں یہ بھی داخل کیا جاوے کہ وہ مطابق قانون قدرت کے واقع ہوتے ہیں تو صرف نزاع لفظی باقی رہ جاتی ہے کیوں کہ جو امر کہ واقع ہوا اور جس شخص کے ہاتھ سے واقع ہوا اس کو ہم دونوں تسلیم کرتے ہیں مگر وہ اس کامعجزہ یا کرامت نام رکھتے ہیں ہم اس کا یہ نام نہیں رکھتے۔ اس اخلاف کا نتیجہ تشریح مندرجہ ذیل سے بخوبی واضح ہو گا۔ ایک عجیب امر جو عام طور پر نہیں ہوا کرتا کسی پیغمبر یا ولی سے منسوب ہوا یا کسی پیغمبر کے زمانے میں ہونا بیان ہوا۔ تو اول ہم اس کے فی الحقیقت واقع ہونے کا ثبوت تلاش کریں گے اور غالباً معتقدین معجزہ و کرامت بھی اس میں مختلف نہ ہوں گے ہاں شاید انجام کو اس بات میں اختلاف ہو کہ ان کے نزدیک اس کے وقوع کا کافی ثبوت ہو اور ہمارے نزدیک نہ ہو لیکن بغرض تسلیم اس کے ثبوت کے ہم دونوں اس کے وقوع میں متفق ہوں گے۔ اس کے بعد ہم غور کریں گے کہ اس کا وقوع آیا کسی قانون قدرت کے مطابق ہوا ہے جو ہم کو اب تک معلوم ہیں اگر اس کا وقوع کسی معلومہ قانون قرت کے مطابق ہم کو معلوم ہوا تو ہم اس کو اس کی طرف منسوب کریں گے۔ معتقدین معجزہ کرامت امر مذکورہ پر غور و فکر کیے بغیر اس کو معجزہ یا کرامت قرار دیں گے۔ اور اگر کوئی قانون قدرت اس کے وقوع یا ظہور کا ہم کو معلوم نہ ہو تو جو کہ ہم کو قرآن مجید نے یقین دلایا ہے کہ تمام امور موافق قانون قدرت کے واقع ہوتے ہیں ہم کہیں گے کہ ضروراس کے لیے بھی کوئی قانون قدرت ہے جو ہم کو معلوم نہیں ہے اور معتقدین معجزہ و اکرامات بغیر مذکورہ بالا خیال کے اس کو معجزہ یا کرامت قرار دیں گے اور اس صورت میں صرف نزاع لفظی یا اصطلاحی یا عقل و بے عقلی باقی رہ جاتی ہے۔ ہماری سمجھ میں کسی شخص میں معجزے یا کرامت کے ہونے کا یقین کرنا ذات باری کی توحید فی الصفات پر ایمان کو ناقص اور نامکمل کر دینا ہے اور اس کا ثبوت پیر پرست و گور پرست لوگوں کے حالات سے جو اس وقت بھی موجود ہیں اور صرف معجزہ و کرامت کے خیال نے ان کو پیر پرستی و گور پرستی کی رغبت دلائی ہے اور خدائے قادر مطلق کے سوا دوسرے کی طرف ان کو رجوع کیا ہے اور متیں ماننا اور نذر و نیاز چڑھانا اور ان کے نام کے نشانات بنانا اور جانوروں کو بھینٹ دینا سکھایا ہے بخوبی حاصل ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے سچے ہادی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ہمارے سچے خدا وحد ہ ، لاشریک نے صاف صاف معجزات کی نفی کر دی تاکہ توحید کامل بندوں کو حاصل ہو اور بندے خدا پر اس طرح یقین لاویں کہ لااللہ ہو واحد فی ذداتہ لا شریک لہ لا الہ الااللہ ہو واحد فی صفاتہ لا مثل ولا شیبہ ولا شریک لہ ، لا الہ الا اللہ ہو المسحق للعبادت لاشریک لہ ، وھذ اکمل الایمان باللہ ولھذا قال اللہ تعالیٰ لحبیبہ محمد رسول اللہ الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا والحمد اللہ الذی و ھب لی ہذا الایمان ایماناً کاملا واطمئن قلبی بما الھمنی ربی والصلوۃ علی محمد وآلہ۔ ٭……٭……٭ کیا معجزہ دلیل نبوت ہے ؟ معجزت نبوت کے ثبوت کی کیوں کر دلیل ہو سکتا ہے۔ اثبات نبوت کے لیے اول خدا کا وجود اور اس کا متکلم ہونا اور اس میں اپنے ارادہ سے کام کرنے کی قدرت کا ہونا اور اس کا تمام بندوں کا مالک ہونا ثابت کرنا چاہیے۔ پھر اس کا ثبوت چاہیے کہ وہ اپنی طرف سے رسول و پیغمبر بھیجا کرتا ہے پھر یہ ثابت ہونا چاہیے کہ جو شخص دعویٰ نبوت کرتا ہے وہ درحقیقت اس کا بھیجا ہوا ہے ۔ ہم پہلی دو باتوں سے قطع نظر کرتے ہیں کیوں کہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں ایسے مقامات پر اکثر اھل کتاب مخاطب ہیں جو ان دونوں پہلی باتوں کو مانتے تھے اور اس لیے معجزات سے صرف تیسری بات کا ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے۔ مگر وہ تیسری بات بھی معجزہ سے ثابت نہیںہو سکتی۔ قاضی ابی الولید محمد بن رشد نے اپنی کتاب میں جس کا م ’’ کتاب الکشف عن مناھج الادلہ فی عقائد الملہ ‘‘ ہے بعثت انبیاء پر نہایت لطیف مباحثہ لکھا ہے۔ جس کا ماحصل ہم بھی اس مقام پرلکھتے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ خدا کی طرف سے رسولوں کے آنے میں دو چیزیں غور طلب ہیں۔ اول رسول کے ہونے کا ثبوت دوسرے وہ چیز جس سے ظاہر ہو کہ یہ شخص جو رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے رسولوں میں سے ایک رسول ہے اور اپنے دعوے میں جھوٹا نہیں ہے انسانوں میں سے ایسے انسان کے ہونے پر متکلمین نے دنیا کے حالات پر قیاس کر کر استدلال کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ متکلم ہے اور صاحب ارادہ اور بندوں کا مالک اور دنیا میں دیکھا جاتا ہے کہ ایسا شخص مجاز ہے کہ اپنے مملوک بندوں کے پاس اپنا ایلچی یا رسول بھیجے تو خدا کی نسبت بھی ممکن ہے کہ اپنے بندوں پاس ایک اپنا رسول بھیجے اور یہ بات بھی دنیا میں دیکھی جاتی ہے کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میں بادشاہ کا ایلچی ہوں اور بادشاہی نشانیاں اس کے پاس ہیں تو واجب ہوتا ہے کہ اس کا ایلچی ہونا قبول کیا جاوے متکلمین کہتے ہیں کہ یہ نشانیاں رسولوں کے ہاتھ سے معجزوں کا ہونا ہے۔ ابن رشدفرماتے ہیں کہ یہ دلیل عام لوگوں کے لیے کسی قدر مناسب ہو۔ مگر غور سے دیکھا جائے تو ٹھیک نہیں ہے۔ کیوں کہ جو شخص بادشاہ کے ایلچی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس وقت تک اس کو سچا نہیں مانا جا سکتا۔ جب تک کہ یہ نہ معلوم ہو کہ جو نشانیاں وہ دکھاتا ہے وہی نشانیاں بادشاہ کے ایلچی ہونے کی ہیں اور یہ بات دو طرح سے ہو سکتی ہے یا تو خود بادشاہ نے اپنے رعیت سے سے کہہ دیا ہو کہ جس شخص کے پاس تم میری ان خاص نشانیوں کو دیکھو تو اس کو میرا ایلچی یا رسول جانو یا بادشاہ کی عادت سے یہ بات معلوم ہو گئی ہو کہ وہ ایسی نشانیاں بجز اپنے ایلچی یا رسول کے اور کسی کو نہیں دیتا جب کہ یہ بات ہے تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ بات کہاں سے معلوم ہوئی کہب عض انسان کے ہاتھ سے معجزوں کا ہونا رسول ہونے کی خاص نشانی ہے۔ کیوں کہ دو حال سے خالی نہیں۔ یا یہ بات شرع سے جانی گئی ہو گی یا عقل سے ۔ شرع سے جاننا تو غیر ممکن ہے۔ کیوں کہ شرع تو رسول ثابت ہونے کے بعد ٹھہرے گی اور اب تک رسول ہونا ہی ثابت نہیں ہوا ہے اور عقلاً بھی اس بات کا قرار دینا کہ یہ نشانیاں مخصوص رسولوں کی ہیں غیر ممکن ہے ہاں اگر وہ نشانیاں بہت سی دفعہ انہی لوگوں سے ظاہر ہوتیں جورسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے سوا اورکسی سے نہ ہوئی ہوتیں۔ تو جو لوگ رسولوں کے ہونے کو مانتے ہیں ان کے لیے دلیل ہو سکتی اوراس وقت یہ کہا جا سکتا کہ اس شخص نے جو ہونے رسول کا دعویٰ کرنتا ہے معجزے دکھائے ہیں اورجو شخص کہ معجزے دکھاتا ہے وہ رسول ہوتا ہے اور اس لیے یہ شخص بھی رسول ہے۔ مگر یہ ماننا کہ اس شخص نے جو رسول ہونے کادعویٰ کرتا ہے۔ معجزے دکھائے ہیں ، اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ اول تسلیم کر لیا جاوے کہ ایسی باتیں انسان سے ہوسکتی ہیں اور در حقیقت ان کاہونا بخوبی محسوس ہوا ہو اور یقین ہو گیا ہو کہ وہ کسی لاگ سے اور کسی حکمت سے اور خواص اشیاء سے نہیںہوتیں اور جو دکھائی دیا ہے وہ ٹھٹ بندی نہ تھی بلکہ حقیقت میںواقع ہوا ہے اور یہ کہنا کہجو شخص معجزے دکھاتا ہے وہ رسول ہوتا ہے جب صحیح ہو گاکہ پہلے رسولوں کا وجود اور یہ بات کہ وہ معجزے بجز رسولوں کے اور کسی نے نہیں دکھائے مان لیا جاوے کیوں کہ اس قسم کی منطقی دلیل کا جس میں دو مقدمے ملا کر نتیجہ نکالا جاتا ہے یہ خاصہ ہے کہ وہ دونوںمقدمے مان لیے گئے ہوں۔ مثلاً جس شخص کے سامنے یہ دلیل کی جاوے کہ ’’ العالم محدث ‘‘ تو ضرور ہے کہ اس کو یہ بات معلوم ہو کہ عالم موجود ہے اور محدث بھی ہے پس اب ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ یہ بات کہ جو شخص معجزے دکھاتا ہے وہ رسول ہوتا ہے کہاں سے ثابت ہوئی ہے ۔ کیوں کہ اب تک رسالت کا ہی وجود ثابت ہوئی ہے۔ کیوں کہ اب تک رسالت کا ہی وجود ثابت نہیں ہوا ہے اور دومقدموں کو ملا کر نتیجہ نکالنے کے لیے اول ان دونوں کا ثابت ہونا ضرور تھا۔ اور یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ جب رسولوں کا ہونا عقلاً ممکن ہے تو ان کے ہونے پر عقل دلالت کرتی ہے کیوں کہ وہ امکان اس قسم کا امکان نہیں ہے جو موجودات کی طبیعت میں پایا جاتا ہے جس طرح کہ ہم کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ مینہ برسے اور نہ برسے اس لیے کہ جو امکان موجودات کی طبیعت میںمانا جاتا ہے وہ اس لیے مانا جاتا ہے کہ وہ شے کبھی موجود ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی جیسے کہ مینہ کاحال ہے کہ کبھی برستا ہے اور کبھی نہیں برستا اور اس لیے عقل بطور قاعدہ کلیہ کے یہ بات کیتی ہے کہ مینہ کا برسنا ممکن ہے اورواجب کاحال اس کے برخلاف ہے اور وہ وہ ہے جو ہمیشہ موجود اور محسوس ہو اور اس لیے اس کی نسبت عقل بطور قاعدہ کلیہ کے یہ بات کہتی ہے کہ اس کا متغیر ہونا اور بدلا جانا ممکن نہیں۔ پس جو شخص کسی ایک رسول کے ہونے کا بھی قائل ہو گیا تو اس کے مقابل میں کہاجا سکتا ہے کہ رسولوں کا ہونا ممکن ہے۔ مگر جوشخص رسول ہونے کا قائل ہی نہ ہو تو اس کے مقابل میں اس کا امکان کہنا جہالت ہے اورلوگوں کی طرف سے ایلچی کا ہونا ممکن مانا گیا ہے تو اس سب سے مانا گیا ہے کہ ان کے ایلچیوں کاوجود ہم نے پایا ہے۔ اگر یہ کہا جاوے کہ لوگوں کی طرف سے بھی رسولوں کا ہونا ممکن ہو جیسے کہ عمرو کے ایلچی کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہزید کی طرف سے بھی ایلچی کاہونا ممکن ہے۔ تویہ بھی ٹھیک نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ ایسی صورت میں عمر و زید دونوں کی طبیعتوں کا مسلوی ہونا ضرور ہے او ر یہ مساوات خدا اور بندوںمیں نہیں ہے اور اگر آئندہ کے لیے رسول ہونے کا امکان فی نفسہ مان لیا جاوے تو یہ تسلیم ایک امکانی امر کی تسلیم ہو گی ۔نہ اس کے وقوع کی ۔اور یہ نہ معلوم ہو گا کہ اس نے بھیجا بھی ہے یا نہیں۔ جیسے کہ اس بات میں شک ہوتا ہے کہ عمرو نے کسی گزشتہ زمانے میں ایلچی بھیجا ہے یا نہیں آئندہ زمانے میں بھیجنے میں شک کرنا کہ آئندہ زمانے میں بھیجنے میں شک کرنا کہ آئندہ بھی وہ بھیجے گا یا نہیں۔ گزشتہ زمانے کے شک کرنے سے بالکل مختلف ہے پھر جب کہ ہم کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ زید گزشتہ زمانے میں کوئی ایلچی بھیجا ہے یا نہیں تو ہم کو یہ نے کہنا صحیح نہ ہو گا کہ جس کے پاس زید کی نشانیاں ہوں وہ زید کا ایلچی ہے۔ جب تک کہ ہم یہ نہ جان لیں کہ یہ نشانیاں اس کے ایلچی ہونے کی نشانیاں ہیں اور یہ بات جب ہو گی جب ہم جان چکے ہوں کہ اس نے اپنا ایلچی بھیا ہے۔ پس جب کہ ہم نے یہ بھی تسلیم کر لیا کہ رسالت ہوتی ہے اور معجزے بھی ہوتے ہیں تو کس طرح ہم کو یہ معلوم ہو گی کہ جس نے معجزے دکھائے ہیں وہ رسول ہے کیوں کہ اس کے رسول ہونے کا ثبوت خدا کی طرف سے اس وقت تک تو نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کارسول ہونا ثابت نہ ہو لے ورنہ تصحیح الشے بنفسہ لازم آتی ہے جو باطل ہے اور تجربہ اور عادت سے بھی اس کے رسول ہونے کا ثبوت نہیں ہو سکنے کا بجز اس کے کہ معجزے رسول ہی دکھایا کریں اور کوئی نہ دکھا سکے حالاں کہ خرق عادت جس کا ایک نام معجزہ بھی ہے۔ رسول اور غیر رسول دونوں دکھا سکتے ہیں۔ ان تمام مشکلات کے سبب متکلمین نے ان سب باتوں کو چھوڑ کر صرف یہ بات کہی کہ جس شخص کے پاس معجز یعنی عاجز کرنے والے چیز ہو وہ رسول ہے مگر یہ بھی صحیح نہ ہو گابجز اس کے کہ وہ شے معجز فی نفسہ رسالت اور رسول پر دلالت نہ کرے اور عقل میں یہ قوت نہیں کہ وہ جب کوئی عجیب خرق عادت دیکھے تو جان لے کہ وہ ربانی ہے اوررسالت پر دلیل قاطع ، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ دیکھنے والا یہ اعتقاد کرے کہ جس شخص سے یہ خرق عادت ہوئی ہے وہ ایک بڑا شخص ہے اور بڑا شخص جھوٹ نہیں بولے گا بلکہ اس کے رسول ماننے کو یہ بھی کافی نہ ہو گا جب تک کہ یہ بھی نہ مان لیا جاوے کہ رسالت در حقیقت ایک چیز ہے اور ایسی خرق عادت بجز رسول کے اور کسی بڑے شخص سے نہیں ہوتی۔ شے معجز بھی رسالت پردلالت نہیں کرتی ۔ کیوں کہ عقل نہیں جان سکتی کہ رسالت اور شے معجز میں کیا علاقہ ہے۔ جب تک یہ نہ مان لیا جائے کہ اعجاز ، رسالت کیاافعال میں سے ایک فعل ہے۔ جیسے کہ بیمار کو اچھا کر دیتا ہے تو معلوم ہوتا ہے۔ کہ طب کاوجود ہے اور یہ شخص طبیب ہے ۔پس یہ تمام دلیلیں بودی ہیں اور اگر ہم بطور تنزل کے رسالت کے امکان امری کو امکان وقوعی فرض کرلیں اور معجزہ کو بھی اس شخص کے سچا ہونے کے دلیل مان لیں جو رسالت کا دعویٰ کرتا ہے تو بھی ان لوگوں کے نزدیک جو کہتے ہیں کہ رسول کے سوا بھی شے معجزہ ظاہر ہوتی ہے۔ رسالت پر مععجزہ کی دلالت لازمی نہیں ہونے کی ، اور متکلمین اس بات کے قائل ہیں کہ شے معجزہ کبھی جادو گر سے اور ولی سے بھی ظاہر ہوتی ہے اور اس مقام پر جو انہوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ شے معجز اسی وقت رسالت پر دلالت کرتی ہے جب کہ وہ رسالت کے دعوے کے مقارن ہو اور جو شخص رسول نہیں ہے اور وہ یہ دعویٰ کر کے کہ میں رسول ہوں شے معجز کو دکھانا چاہے تو نہ دکھا سکے گا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ۔ نہ تو اس کا نشان منقولات میں پایا جاتا ہے اور نہ عقل سے معلوم ہوسکتا ہے اور یہ کہنا کہ شے معجز ایک بڑے شخص سے ظاہر ہوتی ہے اور جو شخص جھوٹا دعویٰ کرے وہ بڑا شخص نہیں ہے اور اس لیے اس سے ظاہر نہ ہو گی اس لیے غلط ہو جاتا ہے کہ متکلمین جادوگر سے شے معجز کا ظاہر ہونا تسلیم کرتے ہیں اور جادوگر بڑا شخص تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔ ان سب خرابیوں پر خیال کر کے بعض لوگوں نے یہ کہاہے۔ کہ یہ اعتقاد ٹھیک ہے کہ خرق عادات بجز انبیاء کے اور کسی سے نہیں ہوتا اور سحر صرف ایک ڈھٹ بندی ہے۔ نہ قلب عین شے ۔ یعنی معجزے سے لکڑی سچ مچ کا سانپ بن جاتی ہے اورسحر سے سانپ نہیں بنتی۔ بلکہ لوگوں کو سانپ دکھائی دیتی ہے اور اسی وجہ سے ان لوگوں نے کرامات اولیاء سے انکار کیا ہے۔ (واضح ہو کہ اسی خیال پر شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی حج اللہ بالغہ میں کرامات اولیاء سے انکار کیا ہے) مگر قاضی ابن رشد اس اعتقاد کی بھی تردید کرتے ہیںاور کہتے ہیں کہ تم کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حال سے ظاہر ہو گا کہ آنحضرت نے نہ کسی ایک شخص کے اور نہ کسی ایک گروہ کے ایمان پر دعوت کرتے وقت یہ نہیں کیا ، کہ اس سے پہلے اس کیسامنے کوئی خرق عادت کی ہو اور ایک چیز کو دوسری چیز میں بدل دیا ہو۔ یعنی لکڑی کاسانپ اور سانپ کی لکڑی اورسونے کو مٹی اور مٹی کو سونا بنا دیا ہو اور اسلام لانے کی دعوت کے وقت کوئی کرامات اور کوئی خوارق عادات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ظاہر نہیں ہوئی۔ اگر ظاہر ہوئی ہے تو معمولی حالات میں ۔ بغیر اس کے کہ کرامات کو خرق عادت کا دعویٰ کیا ہو اور اس کا ثبوت خود قرآن مجید سے پایا جاتا ہے جہاں خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ’’ کافر کہتے ہیں کہ ہم تجھ پر ایمان نہیں لانے کے ،جب تک کہ توزمین پھاڑ کر ہمارے لیے چشمے نہ نکالے یا تیرے پاس کجھور و انگور کا باغ نہ ہو جس کے بیچ میں تو بہتی ہوئی نہریں نکالے زور سے بہتی۔ یاتو ہم پر آسمان کے ٹکڑے نہ ڈالے یا خدا اور فرشتوں کو اپنے ساتھ نہ لاوے یا تیرے کوئی مزین گھر نہ ہویا تو آسمان پر چڑھ نہ جاوے اور ہم تو تیرے متر پر ہرگز ایمان نہیں لانے کے ، جب تک کہ ہم پر ایسی کتاب نہ اترے جو ہم پڑھ لیں۔ اس پر خدا اپنے پیغمبر سے کہتا ہے کہ تو ان سے کہہ دے کہ پاک ہے میرا پروردگار میں تو کچھ نہیں ہوں مگر رسول (اور خدا نے فرمایا کہ) نہیں روکا ہم کو آیات کے بھیجنے سے مگر یہ کہ جھٹلایا ان کو اگلوں نے۔ غرض کہ قاضی ابن رشد نے معجزات کو مثبت نبوت قرار نہیں دیا اور اس کے بعد صرف قرآن کو مثبت نبوت قرار دیا ہے اور قریباً قریباً وہی لکھا ہے جو اس بحث میں ہم لکھ چکے ہیں۔ مگر وہ بحث اس مقام سے متعلق نہیں ہے۔ قاضی ابن رشد نے جو اتنی بڑی بحث لکھی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر خدا کو موجود و مرید و متکلم و قادر و مالک عباد تسلیم بھی کر لیا جاوے اور یہ مان لیا جاوے کہ وہ رسول بھیجا کرتا ہے اور معجزات کا بھی وقوع قبول کر لیا جاوے۔ تب بھی معجزات کے وقوع سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔ کہ وہ شخص خدا کا رسول ہے ، مختصر طور پر اس کی یہ دلیلیں ہیں : (1)جو امر کہ واقع ہو اس کی نسبت اس امر کے لز وم کا ثبوت نہیں ہوتا کہ جس شخص سے وہ واقع ہو وہ رسول ہوتا ہے۔ (2)کوئی خرق عادت ایسی معلوم نہیں ہے جو بطور خاصہ رسولوں سے مخصوص ہو۔ (3)کچھ ثبوت نہیں ہے کہ خرق عادت سے رسالت کو کیا تعلق ہے۔ (4)اس کا ثبوت نہیں ہوتا کہ اس کا وقوع قانون قدرت کے مطابق نہیں ہوا کیوں کہ بہت سے عجائبات اب بھی ایسے ظاہر ہوتے ہیں جو فی الحقیقت ان کا وقوع قانون قدرت کے مطابق ہوتا ہے مگر وہ قانون ابھی لامعلوم ہے۔ (5)اس کا کچھ ثبوت نہیں ہوتا کہ جو امر واقع ہوا وہ خواص نفس انسانی سے جو ہر ایک انسان میں ہے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ (6)غیر انبیاء سے جو امور خرق عادت کے واقع ہوتے ہیں اور جو انبیاء سے واقع ہویت ہیں ان دونوں میں کوئی مابہ الامتیاز نہیں ہے۔ (7)یہاں تک کہ اہل ہنر سے جو امور واقع ہوتے ہیں ان میں اور خرق عادت میں امتیاز نہایت ہی مشکل ہوتا ہے۔ کوئی معترض غلطی سے کہہ سکتا کہ قرآن مجید میں جس طرح آیات بینات کا اطلاق قرآن کی آیتوں یا احکام و نصائح و مواعظ قرآن پر ہوا ہے اسی طرح معجزات پر ہوا ہے اور دو آیتیں قرآن کی غلط فہمی سے اس کی دلیل میں پیش کر سکتا ہے پس مناسب ہے کہ ہم اس مقام پر بتا دیں کہ ان آیتوں میں سے آیات بینات سے معجزے مراد نہیں ہیں۔ پہلی آیت سورۃ مائدہ کی ہے جہاں خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی نسبت فرمایا ہے کہ ’’ اذا ایدک بروج القدوس تکلم الناس فی لامھد و کھلا ۔ واذ علمتک الکتاب والحکمۃ والتورۃ و الانجیل و اذ تخلق من الطین کھئیۃ الطیر باذنی فتنفخ فیھا فتکون لیراً باذنی و تبری الاکمہ والابرص باذنی۔ واذ تخرج الموتیٰ باذنی۔ واذ کففت بنی اسرائیل عونک اذجئتہم بالبینات فقال الذین کفرا و منھم ان ہذا الاسحر مبین۔ اس آیت میں مفسرین کے نزدیک حضرت عیسیٰ کے معجزات کا بیان ہے اور پھر کہا گیا ہے کہ کافروں نے کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ بینات سے جو اس آیت میں ہے معجزے مراد ہیں جن کو کافروں نے جادو کہا۔ صاحب تفسیر بیضاوی نے بھی ہذا کا اشارہ ’’ الذی جئت بہ ‘‘ کی طرف کیا ہے جس سے صاحب بیضادی کے نزدیک بھی اس جگہ بینات سے معجزے مراد ہیں۔ مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے ، اول تو ’’ ان ہذا ‘‘ کا مشار الیہ الذی جئت بہ ہو نہیں سکتا کیوں کہ وہ ظرف واقع ہوا ہے ۔ ’’ کففت ‘‘ کا جیسے کہ خود صاحب بیضاوی نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔ پس ’’ ان ھذا ‘‘ کا مشار الیہ مابہ کفف ہے ، نہ ’’ الذی جئت بہ ‘‘ کیوں کہ ’’ اذجیتہم ‘‘ ظرف اور جزو زائد ہے جو کلام میں مقصود بالذات نہیں ہوتا اور کفف خود فعل مسند ہے جو مقصود بالذات ہے اور اس لیے ہذا کا اشارہ اسی کی طرف اولیٰ ہے۔ غرض کہ حضرت عیسیٰ کا نبی اسرئیل کے حملہ سے بچ جانے کو جو انہوں نے ان کے قتل کے ارادے سے اس وقت کیا تھا جب کہ وہ احکام خدا ان کو سنا رہے تھے کافروں نے کھلا ہوا جادو بتایا۔ بینات کے لفظ سے اس کو کچھ تعلق نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جب سادے طور پر تمام اس آیت پر نظر ڈالی جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ پر جو اکرام کیے تھے ان کو اذ اذ کر کر بیان کیا ہے اور اخیر کو جو قول کافروں کا تھا اس کا ذکر کیا ہے پس وہ قول انھی چیزوں سے متعلق ہے جن سے کہ وہ متعلق ہو سکتا ہے نہ یہ کہ اس سے کوئی خاص معنی لفظ بینات کے ثابت ہو سکتے ہیں۔ دوسری آیت سورۃ نبی اسرائیل کی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ’’ وما منعنا ان نرسل بالایات الاان کذب بھا الاولون و اتینا ثمود الناقۃ مبصرۃ فضلموا بھا و ما نرسل بالایات الاتخویفا ‘‘ اس آیت سے قاضی ابن رشید نے استد لال کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ادائے نبوت کے ساتھ کوئی معجزہ کسی کو نہیں دکھلایا جیسے کہ اوپر بیان ہوا ہے اور اس سے پایا جاتاہے کہ قاضی ابن رشد نے اس آیت میں جو لفظ ’’ آیات ‘‘ ہے اس سے معجزات مراد لیے ہیں۔ صاحب تفسیر بیضاوی نے بھی یہ سمجھا ہے کہ جو معجزات قریش نے طلب کیے تھے اس آیت میں لفظ بینات سے وہی معجزے مراد ہیں۔ مگر اس تفسیر میں چند نقصان ہیں۔ اول تو یہ سمجھ میں نہیں آسکتا کہ خدا نے لوگوں کے نہ ماننے یا جھٹلانے سے کیوں معجزوں کا بھیجنا بند کر دیا۔ دوسرے یہ کہ آدم سے عیسیٰ ؑ تک برابر کیوں بھیجتا رہا اور کیوں ایسی بے رحمی سے اگلوں کو غارت کرتا رہا۔ اس لیے میری سمجھ میں اس مقام پر بھی آیات کے معنی معجزات کی لینا صحیح نہیں۔ یہاں بھی احکام کے معنی ہیں۔ جو حکم خاص کسی کو یا کسی قوم کو دیا گیا ہے وہ بھی آیت کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے جیسے کہ سورۃ آل عمران سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ذکریا سے جب کہ خدا نے کہا کہ تیرے بیٹا ہو گا۔ تو انہوں نے عرض کیا ۔ ’’ رب اجعل لی آیۃ ‘‘ یعنی اے پروردگار میرے لیے خاص آیت یعنی حکم مقرر کر، خدا نے کہا ! آیتک الاتکلم الناس ثلثۃ ایام الا رمزا ۔ یعنی تیری آیت یعنی تیرے لیے یہ حکم ہے کہ تین دن تک بجز اشارے کے کسی آدمی سے بات نہ کر قوم ثمود کو جو احکام حضرت صالح نے نسبت ناقہ کے بتائے ان کے سبب سے اس پر بھی آیت کا اطلاق ہوا ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ۔ ’’ ہذا ناقۃ اللہ لکم آیۃ ‘‘ کیوں کہ وہ اوٹنی فی نفسہ کوئی معجزہ نہ تھی۔ ٭……٭……٭ کیا معجزات باعث ایمان ہوتے ہیں ؟ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ انبیاء پر ایمان لانا بہ سبب ظہور معجزات باہرہ کے ہوتا ہے مگر یہ خیال محض غلط ہے انبیاء علیھم السلام پر یا کسی ھادی باطل پر ایمان لانا بھی انسانی فطرت میں داخل اور قانون قدرت کے تابع ہے بعض انسان از روئے فطرت کے ایسے سلیم الطبع پیدا ہوتے ہیں کہ سیدھی اور سچی بات ان کے دل میں بیٹھ جاتی ہے وہ اس پر یقین کرنے کے لیے دلیل کے محتاج نہیں ہوتے باوجودیکہ وہ اس سے مانوس نہیں ہوتے مگر ان کا وجدان صحیح اس کے سچ ہونے پر گواہی دیتا ہے۔ ان کے دل میں ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے جو اس بات کے سچ ہونے پر ان کو یقین دلاتی ہے یہی لوگ ہیں جو انبیائے صادقین پر صرف ان کا وعظ و نصیحت سن کر ایمان لاتے ہیں نہ معجزوں اور کرامتوں کے دیکھنے کے بعد۔ اسی فطرت انسان کا نام شارع نے ہدایت لکھا ہے مگر جو لوگ معجزوں کے طلب گار ہوتے ہیں وہ کبھی ایمان نہیں لاتے اور نہ معجزوں کے دیکھنے سے کوئی ایمان لا سکتا ہے۔ خود خدا نے اپنے رسول سے فرمایا کہ ’’ اگر تو زمین میں ایک سونگ ڈھونڈ نکالے یا آسمان میں ایک سیڑھی لگا لے تب بھی وہ ایمان نہیں لانے کے ‘‘ اور ایک جگہ فرمایا کہ ’’ اگر ہم کاغذوں پر لکھی ہوئی کتاب بھی بھیج دیں اور اس کو وہ اپنے ہاتھوں سے بھی چھو لیں تب بھی بھیج دیں اور اس کو وہ اپنے ہاتھوں سے بھی چھو لیں تب بھی وہ ایمان نہیں لانے کے اور کہیں گے یہ تو علانیہ جادو ہے ‘‘ پس ایمان لانا صرف ہدایت (فطرت) پر منحصر ہے جیسے کہ خدا نے فرمایا ’’ اللہ یھدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم ‘‘۔ ہادی باطل پر جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کے دل میں بھی غالباً اسی قسم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اس کا سبب کبھی ان کی فطرت ہوتی ہے جو کجی کی طرف مائل ہے اور سیدھی طرف مائل ہی نہیں ہوتی اسی طرف خدا نے اشارہ کیا ہے جہاں فرمایا ہے ’’ من یشاء اللہ یضللہ و من یشاء یجعلہ علی صراط مستقیم ‘‘ (الانعام) اور اکثر یہ ہوتا ہے کہ دین آبائی کا اور سو سائٹی کا ایسا بو کھ ان کی طبیعتوں پر ہوتا ہے کہ سیدھی بات سے دل میں آنے کی جگہ ہی نہیں رہتی اورکبھی یہ ہوتا سے کہ مخلیٰ بالطبع ہو کر اس بات پر غور نہیں کرتے اور اسی کی طرف خدا نے اشارہ کیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ ’’ فمن یرد اللہ ان یھدیدہ یشرح صدرہ للاسلام و من یرد ان یضلہ ‘ جعل صدرہ ضیقاً حرجا کا نما یصعد فی السماء کذالک یجعل اللہ الرجس علی الذین لایومنون ‘‘ (الانعام ‘آیت 125 ) یعنی جس کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت کرے اس کا دل اسلام کے لیے (یعنی سیدھی راہ پر چلنے کے لیے )کھول دیتا ہے اور جس کو خداگم راہ کرنا چاہتا ہے اس کے دل کو ایسا تنگ کر دیتا ہے کہ وہ سیدھی بات اختیار کرنے کو آسمان پر چڑھنے سے زیادہ مشکل سمجھتا ہے اسی طرح خدا ان پر برائی ڈالتا ہے جو ایمان نہیں لاتے ’’ ان آیتوں میں خدا تعالیٰ نے ہدایت پانے یا گم راہ ہونے کو اپنا فعل قرار دیا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ خدا جو فاعل حقیقی ہے ہمیشہ تمام چیزوں کو جو ظہور میں آتی ہیں اپنی طرف نسبت کرتا ہے۔ اسی طرح ان آیتوں میں بھی انسان کی فطرتی افعال کو اپنی طرف نسبت کیا ہے مگر درحقیقت یہ بیان انسان کی فطرت کا ہے اور بس۔ ‘‘ ٭……٭……٭ آنحضرت اور صدور معجزات قران کریم کی ایک آیت ہے و قالو الولا نزلہ علیہ آیۃ من ربہ (سورۃ انعام ۔ آیت 37 ) یعنی کافر کہتے ہیں کہ پیغمبر کو اس کے رب کی طرف سے معجزہ کیوں نہیں دیا گیا۔ اس آیت سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی معجزہ نہ تھا یعنی جس کو کفار یا عام لوگ معجزہ سمجھتے ہیں ۔ کیوں کہ اگر کوئی معجزہ ہوتا تو کفار یہ نہ کہتے کہ کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی معجزہ نہیں اتارا گیا۔ تفسیر کبیر میں ان آیتوں کی شان نزول میں ابن عباس کی روایت سے لکھا ہے کہ حرث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف معہ چند قریش کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ان سب نے کہا کہ اے محمد ؐ ! اللہ کے پاس سے کوئی معجزہ لاؤ جیسے کہ انبیاء کیا کرتے تھے تو ہم تم پر ایمان لائیں مگر خدا نے معجزہ بھیجنے سے انکار کیا کیوں کہ خدا کے علم میں تھا کہ وہ ایمان نہیں لانے کے۔ جن لوگوں نے مذکورہ بالا آیتوں سے یہ استدلال کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی معجزہ نہ تھا ان کو امام فخر الدین رازی نے ملحد قرار دیا ہے اور ان کا جواب اس طرح پر دیا ہے کہ خود قرآن ہی بہت بڑا معجزہ ہے کہ باوجودیکہ کافروں سے کہا گیا کہ مثل اس کے لاؤ اور وہ نہ لاسکے۔ ممکن ہے کہ یہ کہا جاوے کہ قرآن معجزہ تھا تو پھر کافروں نے یہ کیوں کر کہا کہ ’’ کیوں نہیں اتاری گئی پیغمبر پر کو نشانی ‘‘ تو امام صاحب فرماتے ہیں کہ ہم اس کا کئی طرح پر جواب دیں گے۔ اول ۔ یہ کہ لوگوں نے دشمنی سے قرآن کو معجزہ نہ ٹھہرایا ہو گا اور کہا ہو گا کہ یہ تو کتاب کی قسم سے ہے اور کتاب معجزات کی قسم میں سے نہیں ہے جسے کہ توریت و زبود و انجیل اور اسی شبہ کے سبب سے انہوں نے وہ کہا ہو گا۔ دوسرے ۔ یہ کہ انہوں نے معجزات قاھرہ طلب کیے ہوں گے جیسے کہ اور انبیاء کے پاس تھے مثل سمندر کے چیر دینے اور پہاڑ کے سر پر معلق ہو جانے اور مردوں کے زندہ کرنے کے۔ تیسرے ۔ یہ کہ انہوں نے ضد سے علاوہ معجزات موجودہ کے اور معجزات طلب کیے ہوںگے ۔ جیسے فرشتوں کا اترنا یا آسمان سے ٹکڑے کا ٹوٹ پڑنا۔ چوتھے ۔ یہ کہ یاانہوں آسمان پر سے پتھروں کا برسنا یا اور عذاب کا اترنا چاہا ہو گا کیوں کہ یہ سب باتیں آیت کے لفظ میں شامل ہیں۔ پھر امام صاحب کافروں کے مطلوبہ معجزات نہ نازل کرنے کی وجہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ نے قرآن مجید بہت بڑا معجزہ دیا تھا تو اس پر اور معجزہ طلب کرنا ضد اور خدا پر تحکم کرتا تھا اور نہ کرنے میں خدا اپنی مرضی کا مختار ہے وہ لوگوں کی خواہشوں کے مطابق نہیں کرتا ، چاہا ان کا سوال قبول کیا چاہا نہ کیا۔ علاوہ اس کے اگر ان کے ان سوالوں کو پورا کر دیتا تو وہ ایک اور معجزہ چاہتے جب وہ بھی پورا ہو جاتا تو اور چاہتے اور اس کی کچھ انتہا نہ ہوتی اس لیے پہلی ہی دفعہ سد باب کر دیا۔ سوائے اس کے اگر خدا تعالیٰ ان کے مطلوبہ معجزات کو نازل کرتا اگر وہ ایمان نہ لایت تو سب کو نیست و نابود کر ڈالتا پس خدا نے بمتقضائے رحمت کے ان کو نازل نہیں کیا۔ اور یہ بھی ہے کہ خدا جانتا تھا کہ وہ لوگ ان معجزات کو فائدہ کی غرض سے نہیں طلب کرتے تھے بلکہ ضد سے طلب کرتے تھے اور خدا کو معلوم تھا کہ وہ ایمان نہیں لانے کے۔ مگر شاہ ولی اللہ صاحب نے اپنی کتاب تفہیمات الیہ میں ، صاف صاف بیان کیا ہے کہ قرآن مجید میں کسی معجزہ کا ذکر نہیں ہے اور شق القمہ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ معجزہ نہیں چناں چہ فرماتے ہیں کہ ۔ اما شق القمر فعند نالیس من العجزات انما ہو من آیات القیامۃ کما قال اللہ تعالیٰ اقترب الساعۃ وانشق القمر و لکنہ صلی اللہ علیہ وسلم اخیر عنہ قبل وجودہ فکان معجزۃ من ہذا السبیل ۔۔۔۔ولم یذکراللہ سبحانہ شیئاً من ہذا المعجزات فی کتابہ ولم یشر ایہاقط بسر بدیع و ھو ان القرآن انما ہو من الاسم فلا یذکرفیہ ماھو من تحتہ (تفہیمات الھیہ ) ترجمہ ۔ یعنی ہمارے نزدیک شق قمر معجزات میں سے نہیں ہے ہاں وہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے جیسے کہ خدا نے فرمایا ہے کہ قریب ہوئی ساعت اور پھٹ گیا چاند ۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ وسلم نے اس کے ہونے سے پہلے اس کی خبر دی ہے اس راہ سے معجزہ ہے۔ اس کے بعد شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اللہ سبحانہ نے ان معجزات میں سے کچھ بھی اپنی کتاب (یعنی قرآن) میں ذکر نہیں کیا اور نہ مطلق اس کی طرف اشارہ کیا ہے اس میں نادرہ بھید یہ ہے کہ قرآن تو پرتوہ اسم ذات کا ہے (اور شاہ صاحب نے معجزات کو اشرفات میں داخل کیا ہے جو اسم ذات سے کم درجہ ہے اس لیے انہوں نے فرمایا کہ )پس جو چیز کہ اس کے ماتحت ہے اس کا ذکر اس میں نہیں ہو سکتا۔ مگر تعجب یہ ہے کہ اگر شاہ صاحب کے نزدیک کسی معجزے کا ذکر قرآن مجید میں نہ ہوتا تو اس وقت اس کی دلیل صحیح ہو سکتی تھی لیکن جب کہ شاہ صاحب اور انبیاء کے معجزات کا ذکر قرآن مجید میں تسلیم کرتے ہیں جیسا کہ تفہیمات کے متعدد مقاموں سے پایا جاتا ہے تویہ بھید ٹوٹ اتا ہے اور کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ قرآن مجید میں بلا لحاظ اس بھید کے اور پیغمبروں کے معجزوں کا ذکر ہو اور بلحاظ اس بھید کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں کا ذکر نہ ہو۔ غرض کہ امام صاحب نے اس بحث کو اسی طریقہ پر کیا ہے جیسے کہ ہمارے ہاں کے قدیم علماء کا طریقہ ہے اور شاہ صاحب نے اس کو تصوف کے سانچہ موھوم میں ڈالنا چاہا ہے مگر اس زمانہ کے لوگوں کو ایسی تقریروں سے تشفی نہیں ہوتی اور جب تک اصل حقیقت صاف صاف نہ بتائی جاوے دل کو طمانیت نہیں رہتی۔ قرآن مجید میں اس آیت میں اور اور متعدد آیتوں میں جو کچھ لکھا ہے سب سچ ہے اور نہایت صفائی سے اصل حقیقت کو بتا دیا ہے ۔ بزرگوں کے ساتھ کرامت کا اور انبیاء کے ساتھ معجزہ کا خیال فطرت کے ایک بڑے لمبے سلسلے سے مربطوط ہے جب تک کہ اس سلسلے پر ابتداء سے بغور کامل نظر نہ ڈالی جاوے اور قرآن مجید کی آیتوں کے ساتھ اس کو نہ تطبیق دی جاوے اس وقت تک نہ معجزہ کی نہ کرامت کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے اور نہ اس آیت کی اور نہ قرآن مجید کی اور آیتوں کی جو مثل اس کے ہیں اصلی مراد وحقیقت کھلتی ہے اور نہ ان لوگوں کے دلوں کو جو اصلی حقیقت کی تلاش میں ہیں تسلی ہوتی ہے پس اول ہم فطرت کے اس سلسلہ کو مختصر طور پر بیان کریں گے اور اس کے بعد قرآن مجید کی آیتوں کو اس سے تطبیق دیں گے اور اس کے ضمن میں انسان کے ان خیالات کی غلطی ظاہر کردیں گے جو انبیائے علیھم السلام میں انسانوں سے بڑھ کر ملکہ نبوت کے سوا کسی اور چیز کا ہونا بطور دلیل ان کی نبوت کے ضرور ی سمجھتے ہیں ان سب باتوں کے سمجھانے کے لیے اولا فطرت کی ان باتوں کی طرف توجہ دلانا ضرور ہے جن سے مخلوقات کا سلسلہ نبوت کے سلسلہ تک ملا ہوا ہے۔ تمام مخلوقات میں انسا ن ہو یا حیوان شجر ہو یا ہجر سب میں خدا نے ایک فطرت رکھی ہے اور اس کے اثر بغیر کسی کے بتائے اور بغیر کسی سکھانے والے کے سکھائے اسی فطرت کے مطابق ہوتے رہتے ہیں۔ اس ودیعت فطرت کو بعض علمائے اسلام نے الہامات طبعی کے نام سے موسوم کیا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ نے اس کو وحی سے تعبیر کیا ہے جہاں فرمایا ہے ’’ واحی ربک الی النحل ان اتخذی من الجبال بیوتاً و من الشجر و مما یعرشون (سورہ النحل آیت 70) یہ وحی جبریل یا خدا کا اور کوئی فرشتہ شہد کی مکھی کے پاس لے کر نہیں گیا بلکہ خود خدا اس کے پاس لے جانے والا یا اس میں ڈالنے والا تھا۔ اب دیکھو کہ وحی نے شہد کی مکھی میں کیا کیا۔ کسی طرح اس نے پہاڑوں کی چوٹیوں اور گھنے بلند درختوں کی ٹھنیوں میں اور کس حکمت سے چھتہ لگایا اور کس دانائی سے اس میں چھوٹے چھوٹے مسدس خانے بنائے پھر کس طرح عمدہ سے عمدہ شفا بخش پھولوں سے رس چوس کر لائی اور کس طرح اس سے میٹھا شہد نکالا۔ جس کے مختلف رنگ ہیں پھر کس طرح ان مسدس خانوں کو اس سے بھرا جس کی نسبت خدا فرمایا کہ فیہ شفاء للناس۔ ایک چھوٹے سے زرد رنگ کے جانور بئے کو دیکھو کہ اس وحی بافطرت نے اس میں کیا کر دکھایا ۔ کس حکمت سے وہ اپنا گھونسلا بنتا ہے۔ دشمنوں سے محفوظ رکھنے کو کس قدر اونچے کانٹوں دار درخستوں میں لٹکاتا ہے۔ اندھیری برسات کی راتوں میں کس طرح پٹ بیجنے کا چراغ اپنے گھونسلے میں جلاتا ہے۔ بجز اس وحی کے اور کس نے اس کو بتایا کہ وہ فاسفورس دار کیڑا صرف روشنی دیتا ہے اور گھونسلا نہیں جلاتا۔ اس کے سوا اور پرندوں کو دیکھو کس طرح جوڑا جوڑا ہو کر رہتے ہیں۔ اپنے انڈوں کو دونوں مل کر کس طرح سیتے ہیں۔ ایسی معتدل حرارت ان کو پہونچاتے ہیں کہ بڑے سے بڑے حکیم سے بھی نہیں ہو سکتی۔ پھر بچہ کس طرح انڈے کو کھٹک کر نکلات ہے۔ پھر کس طرح وہ دونوں اس کو پالتے ہیں جب بڑا ہو جاتا ہے تو اڑ جاتا ہے اور وہی کرتا ہے جو اس کے ماں باپ کرتے تھے۔ چرندوں کا بھی یہی حال ہے وہ بھی اسی وحی کے مطابق جو ان کو دی گئی ہے کام کرتے ہیں اپنا چارہ ڈھونڈہ لیتے ہیں پانی تلاش کر لییت ہیں۔ اونٹ بعید فاصلہ سے پانی کی بو سونگھ لیتا ہے حربہ کے جو اوزار ان کے پاس ہیں موقع پر کام آتے ہیںدشمن سے اپنی جان بچاتے ہیں بکری نے گو کبھی بھیڑیا نہ دیکھا ہو مگر پہلی ہی دفعہ دیکھ کر کانپتی ہے اور جان بچانے کو بھاگتی ہے یہ سب کرشمے اس وحی ربان کے ہیں جو قادر مطلق ہمہ قدرت نے ان کو عطا کی ہے۔ انسان بھی مثل ان کے ایک مخلوق ہے وہ بھی اس وحی کے علیہ سے محروم نہیں رہا مگر جس طرح مختلف قسم کے حیوانوں کو بقدر ان کی ضرورت کے اس وحی کا حصہ ملا ہے اسی طرح انسان کو بھی بقدر اس کی ضرورت کے حصہ عطا ہوا ہے۔ انسان جس شکل و شمائل اور ترکیب اعضاء پر پیدا ہوا ہے۔ وہ بظاہر ان میں منفرد نہیں ہے بلکہ اس سے کم درجہ کی بھی ایسی مخلوق پائی جاتی ہے جو بظاہر اسی کی سی شکل و شمائل رکھتی ہے ۔ اس سے مراد میری اس مخلوق سے ہے جو انسان کے مشابہ ہے مگر انسانی تربیت کا مادہ نہیں رکھتی لیکن اس مقام پر میری بحث اس شکل و شمائل کے انسان سے ہیں جس میں انسانی تربیت کا مادہ بھی ہے کیوں کہ خدا کا خطاب بھی ان ہی سے ہے نہ ان سے جو حقیقت میں انسان نہیں ہیں بلکہ انسان سے کم درجہ ہیں اور بندروں کے سلسلہ میں داخل ہیں۔ آب و ہوا اور ملک کی حالت سے جہاں انسان رہتا ہے یا ایسے مقامات سے جہاں گو انسان پایا جاتا ہے مگر در حقیقت عمرانات میں شمار نہیں ہو سکتے انسان کی ضروریات میں بہت کچھ تغیر تبدل ہو جاتا ہے مگر میں ان عارضی تبدیلات کو بھی اپنی اس بحث میں دخل نہ دوں گا بلکہ انسان من حیث الانسان سے بمقتضائے اس کی جبلت انسانی کی بحث کروں گا۔ اب ہم انسان کا حیوان سے مقابلہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ انسان بمقابل حیوان کے اس وحی کا کس قدر زیادہ حصہ پانے کا مستحق تھا اور کن کن امور کے لیے۔ ہم انسان اور حیوان دونوں میں بھوک اور پیاس کی خواہش پاتے ہیں ۔ مگر دونوں میں یہ فرق دیکھتے ہیں کہ حیوانوں کی اس خواہش کے پورا کرنے کا تمام سامان خود خدا نے ان کے لیے مہیا کر دیا ہے خواہ وہ جنگل میں رہتے ہوں یا پہاڑ میں خواہ وہ گھاس کھاتے ہیں یا نہایت عملدہ تیار و فربہ جانوروں کا گوشت جہاں وہ ہیں سب کچھ ان کے لیے مہیا ہے۔ انسان کے لیے اس کی ان خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے بغیر اس کی محنت و تدبیر کے کوئی چیز بھی مہیا نہیں یا یوں کہو کہ نہایت ہی کم مہیا ہے۔ اس کو خود اپنی غذا پیدا کرنی چاہیے جب کہ وہ پانی کے چشموں سے دور ہے تو خود اس کو پانی بھی پیدا کرنا چاہیے۔ جانوروں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا لباس خود ان کے ساتھ ہے جو جاڑے اور گرمی میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ چھوٹی سی چھوٹی تتریوں کا ایسا خوب صور ت لبات ہے کہ بڑی سے بڑی شہزادی کو بھی نصیب نہیں مگر انسان ننگا پیدا ہوا ہے اس کو خود اپنی تدبیر سے اپنی محنت سے اپنے لیے آپ گرمی و جاڑہ کا لباس پیدا کرنا ہے۔ یہ ضرورتیں انسان کی فرداً فرداً پوری نہیں ہو سکتیں اور اس لیے اس کو اپنے ہم جنسوں کے ساتھ جمع ہو کر رہنے اور ایک دوسرے سے مدد لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہت قسم کے جانور بھی ہیں جو ایک جگہ جمع ہو کر رہتے ہیں مگر ان کو آپس کی استعانت کی حاجت نہیں انسان ہی ایک ایسا مخلوق ہے جو اپنے ہم جنسوں کی استعانت کا محتاج ہے۔ اس طرح پر باہم مل کر رہنے کی ضرورت اور بہت سی ضرورتوں کو پیدا کر دیتی ہے ۔ اس بات کی ضرورت پیش آتی ہے کہ وہ مجمع آپس میں کس طرح پر برتاؤ اور معاشرت کرے۔ کس طرح اپنے گھروں کو آراستہ کریں اور کس طرح ان کا انتظام کریں۔ ان کے قویٰ کو جو خدا نے ان میں پیدا کیے ہوں اور جن سے توالد اور تناسل ہوتا ہے کس طرح پر کام میں لاویں۔ ان مقاصد کے انجام کے لیے کس طرح سرمایہ پیدا کریں اور جو پیدا کیا ہے اس کو کس طرح بغیر دوسرے کی مذاحمت کے اپنے صرف میں لاویں جس سے دوسرے کو نقصان نہ پہنچے۔ اس مجمع کا مجموع من حیث المجموع کس طرح پر انتظام رہے کس ایسے ہی مجمع کی دست اندازی اور زیادتی سے کس طرح محفوظ رہے۔ یہ ضرورتیں انسان میں ایک اور وحی کی دویعت ہونے کی ضرورت کو پیش کرتی ہیں جس کو عقل انسانی یا عقل کلی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہی دویعت ہے جس سے انسان چند واقعات وقوعی یا مقدمات ذہنی سے ایک نتیجہ پیدا کرتا ہے اور جزئیات کی تتبع سے کوئی کلیہ قاعدہ بناتا ہے یا قاعدہ کلیہ سے جزئیات کو حاصل کرتا ہے۔ ابتداء سے یعنی جب سے کہ انسان نے انسانی جامہ پہنا ہے ۔ وہ اس و دیعت کو کام میں لاتا رہا ہے اور جب تک کہ وہ ہے کام میں لاتا رہے گا۔ یہی و دیعت ہے جس نے انسان کو نئی نئی ایجادوں اور حقائق اشیاء کی تحقیقاتوں اور علوم و فنون کے مباحثوں پر قادر کیا ہے۔ یہی وہ ودیعت ہے جس سے انسان انبساط کی طرف مائل ہوتا ہے ۔ وہ غور کرتا ہے کہ کن محسوسی اور ذہنی چیزوں سے وہ خوشی حاصل کر سکتا ہے۔ پھر وہ ان کے جمع کرنے اور ترتیب دینے یا ایجاد کرنے میں کوشش کرتا ہے۔ یہی و دیعت ہے جس سے انسان کا دل ہر ایک واقعہ کی نسبت اس طرف مائل ہوتا ہے کہ یہ کیوں ہوا اور پھر اس سے کیا ہو گا۔ یہی ودیعت ہے جس کے سبب سے انسان کے دل میں خالق کا ، سزا و جزا کا ، اور معاذ خیال پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنے چاروں طرف اپنے سے بہت زیادہ قوی ، مہیب و زبردست مخلوقات کو دیکھنا ہے اور اس کے دل میں ایک اعلیٰ اور قوی زبردست وجود کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ اس کے سامنے ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن کا ظاہر میں کوئی کرنے والا معلوم نہیں ہوتا۔ بیماریوں ، دباؤں ، قحطوں میں وہ مبتلا ہوتا ہے۔ اچھا موسم اور عمدہ فصلوں اور صحت و تندرستی کا زمانہ اس پر گزرتا ہے۔ اور اس اختلاف کے اسباب سے بہت کم واقف ہوتا ہے وہ اس کو کسی ایسے وجود غیر معلوم سے منسوب کرتا ہے جس کے اختیار میں ان کا کرنا تسلیم کرتا ہے۔ پھر اس غیر معلوم وجود سے خوف کھاتا ہے۔ اور بھلائی کو اس کی خوشی اور برائی کو اس کی خفگی کا سبب قرار دیتا ہے۔ پھر اس غیر معلوم وجود کی خوشی حاصل کرنے اور اس کی خفگی سے بچنے کی تدبیریں سوچتا ہے۔ وہ ذکر کرتا ہے کہ میں کون ہوں اور اخیر میں کیا ہوں گا۔ اور آخر کار اعمال کی جزا و سزا کا اور ایک قسم کی معاد کے یقین پر مائل ہوتا ہے۔ یہ تمام خیالات جو بذریعہ وحی کے یا فطرت کے انسان میں پیدا ہوتے ہیں زمانے کے گزرنے اور آئندہ نسلوں کے آنے اور برابر سنتے رہنے سے دلوں میں ایسے منقش ہو جاتے ہیں کہ بدیہات سے بھی اس کا درجہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ اور جس طرح انسان کی حالت کو ترقی ہوتی جاتی ہے اسی طرح ان باتوں کو بھی جو فطرت نے اس کو سکھائی ہیں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ بلکہ ان فطرتی باتوں کا ترقی پانا ہی انسان کی ترقی کہلاتی ہے۔ پس جب اس طرح اس انسان پتلے پر غور کیا جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام چیزیں جن کو انبیاء علیہ السلام اور حکمائے علیہم الرحمہ نے دنیا میں قائم کیا ہے اور جن کو ہم علم معاش ، علم تمدن ، علم سیاست مدن ، علم تدبیر منزل ، علم معاشرت ، علم المعاملات والا حکام ، علم الدین یا ادیان ، علم البرو والاثم ، علم المعاد و الا آخرت سے تعبیر کرتے ہیں وہی ہیں جن کی خود خدا نے انسان میں وحی ڈالی ہے یا ان کو خود اس کی فطرت میں رکھا ہے۔ یہ حقیقت زیادہ تر وضاحت اور تعجب انگیز طریقہ سے منکشف ہوتی ہے جب کہ تمام دینا کے انسانوں کو جہاں تک کہ ہم کو ان سے واقفیت ہے باوجود ان کی زبان ، ان کی قوم ، ان کے ملک ،ان کی صورت ، ان کی رنگت کے اختلاف کے بہت سی باتوں میں متفق پاتے ہیں گوطریقہ عمل میں کچھ اختلاف ہو۔ مثلا معبود کا یقین ، اس کی پر ستش کا خیال ، موت کے بعد اعمال کی جزا و سزا ، دوسرے جہان کا وجود ، کسی ھادی یا رہنمائے روحانی کا ہونا دنیاوی معاملات میں تزوج سر گروہ کا مقررہ کرنا۔ اور اس کے تابع رہنا۔ افعال میں ، رحم دلی ، ہم دردی ، سچائی کااچھا سمجھنا ، زنا ، چوری ، قتل ، جھوٹ ، کو برا جاننا۔ یہ اور اس کے مثل اور بہت سے امور ہیں جن میں تمام دنیا کے انسانوں کو متفق پاتے ہیں ۔چند کا ان اتفاقوں میں سے مستثنیٰ ہونا۔ جن کے اسباب بھی جدا ہیں اس کلیہ کے متناقض نہیں ہے۔ یہ خیال کرنا کہ ان سب نے ایک ایسے زمانے میں جب کہ سب یکجا ہوں گے ان باتوں کو سیکھا ہو گااور متفق ہو جانے کے بعد بھی وہ ان سب باتوں کو اپنے ساتھ لے گئے ایک ایسا خیال ہے جس کا ثبوت نہیں ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کہ ناممکن ہے اگر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ وہ سب کسی زمانے میں یکجا تھے تو بھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی افتراق نے ان کی حالت کو (جو ضرور ہے کہ بے انتہا زمانہ کی مفارقت باعث ہوئی ہو گی) ایسا تبدیل کر دیا ہے کہ صورت میں ، رنگت میں ، طبیعت میں ، اعضا کی ساخت میں ، ان کے جوڑ بند میں ، ان کی زبان میں ، ایک تبدیل عظیم واقع ہو گئی ہے تو یہ کیوں کر تسلیم ہو سکتا ہے کہ وہ خود تو بدل گئے مگر جو سبق انہوں نے سیکھا تھا وہ نسل در نسل نہ بھولے۔ بلکہ برخلاف اس کے وہ اس بات کی دلیل ہو سکتی ہے کہ یہ توافق اسی وحی یا فطرت کا باعث ہے جو خدا نے انسان کو ودیعت کی ہے۔ مگر خدا نے اس فطرت کو جس کو ہم نے عقل انسان یا عقل کلی سے تعبیر کیا ہے ایسا نہیں بنایا کہ سب میں برابر ہو یا سب میں ایک سا اس کا ظہور ہو بلکہ انسان کے پتے میں اس کے اعضاء کی بناوٹ اس طور پر بنائی ہے کہ اس فطرت کا ظہوربہ تقاوت اور بانواع مختلف ہوتا ہے پس اس فطرت سے جس شخص کو اعلیٰ درجہ کا حصہ اور جس نوع کا دیا جاتا ہے وہ اوروں کے لیے اس نوع کا ھادی اور پیشوا ہو جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے ایسے شخص کو مفتہمون کے لقب سے ملقب کیا ہے۔ وہ حجتہ اللہ البالغہ میں ’د تحت باب حقیقۃ النبوۃ و خواصہا ‘ذ ارقام فرماتے ہیں جس کا ماحصل یہ ہے کہ مفتہمون مختلف استعداد کے اور کئی قسم کے ہوتے ہیں جس کو اکثر خدا کی طرف سے بذریعہ عبادت کے تہذیب نفس کے علوم کا القا ہوتا ہے وہ کامل کہلاتا ہے۔ جس کو اکثر عمدہ اخلاق اور تدبیر منزل کے علوم کا القا ہوتا ہے وہ حکیم کہلاتا ہے جس کو سیاست کے امور کا القا ہوتا ہے وہ حکیم کہلاتا ہے جس کو سیاست کے امور کا القا ہوتا ہے اور وہ اس کو عمل میں لا سکتا ہے وہ خلیفہ کہلاتا ہے۔ جس کو ملاء اعلیٰ سے تعلیم ہوتی ہے اور اس سے کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں وہ موئید بروح القدس کہلاتا ہے۔ اور جس کے دل میں اور زبان میں نور ہوتا ہے اور اس کی نصیحت سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کے حواریوں اور مریدوں پر بھی نور و سیکتہ نازل ہوتا ہے ھادی اور مزکی کہلاتا ہے۔ اور جو قواعد ملت کا زیادہ جاننے والا ہوتا ہے وہ امام کہلاتا ہے۔ اور جو قواعد ملت کا زیادہ جاننے والا ہوتا ہے وہ امام کہلاتا ہے۔ اور جس کے دل میں کسی قوم پر آنے والی مصیبت کی خبر ڈال دی جاتی ہے جس کی وہ پیش گوئی کرتا ہے یا قبر و حشر کے حالات کا اس پر انکشاف ہوتا ہے اور وہ اس کا وعظ لوگوں کو سناتا ہے وہ منذر کہلاتا ہے۔ اور جب خدا اپنی حکمت سے مفتہمین میں سے کسی بڑے شخص کو مبعوث کرتا ہے تاکہ لوگوں کو ظلمات سے نور میں لاوے تو وہ نبی کہلاتا ہے ۔ ’’ بہر حال شاہ صاحب نے اس مطلب کو کسی لفظوں سے اور ہم نے کسی لفظوں سے تعبیر کیا ہو نتیجہ واحد ہے کہ انسانوں ہی میں سے جس درجہ اور جس نوع کی فطرت یا وحی خدا نے جس انسان میں ودیعت کی ہے وہ اروروں کے لیے اس نوع کا ھادی یا رہنما ہوتا ہے جس میں خدا نے اعلیٰ درجہ کی تہذیب نفس کی فطرت پیدا کی ہے خواہ اس کو انہی لفظوں سے تعبیر کرو خواہ ‘‘ وماینطق عن الھویٰ ان ھوالا وحی یو حیٰ ۔ کے لفظوں سے وہ نبی ہوتا ہے گو کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ ہی میں کیوں نہ ہو۔ پس اب ایسی مخلوق کی نسبت جس میں خدا نے اس قدر کاموں اور متعدد درجوں کی فطرت پیدا کی ہو خیال کرو کہ وہ کیا کرے گی۔ ضرور ہے کہ وہ اپنی تمدنی فطرت کے مقتضا سے ایک جگہ اکٹھا ہو کر رہے گی۔ اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے ایسی معین آوازیں ظاہر کریں گی جو اس کے ماضی الضمیر پر دال ہوں ۔ جس طرح اس کو مافی الضمیر کے اظہار کی زیادہ ضرورت پیش آتی جاوے گی ان آوازوں کی بھی کثرت اور ان میں تنوع اور اشتقاق پیدا ہونا جاوے گا۔ رفتہ رفتہ وہ اس گروہ کی زبان قرار پاوے گی اور علم لغت اور علم اشتقاق اور صرف ونحو اور فصاحت و بلا غت سے مالا مال ہو جاوے گی۔ وہ سب اپنی زندگی بسر کرنے کے سامان مہیا کرنے کی فکر کریں گے دریاؤں اورندیوں اور چشموں کے مقامات کو اپنی میسر آنے کے لیے تلاش کریں گے اگر وہ ایسا موقع نہ پاویں گے تو زمین کھود کرپانی نکالیں گے ایک غریب بے کس عور ت بھی اپنے بچہ کے لیے پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑتی پھرے گی گو کہ چند روز جنگل کی اتفاقیہ پیداوار پر وہ اپنی زندگی بسر کریں مگر غلہ پیدا کرنے پر کوشش کریں گے زمین کو پھاڑیں گے اگر کدال میسر نہ ہو گی تو درخت کے سوکھے نوک دار تنہ ہی سے بہ ہزار مشقت زمین چیریں گے اور بیج ڈالیں گے۔ بدن ڈھانکنے کی کوشش کریں گے۔ درختوں کے پتے ہی لپیٹیں گے جانوروں کی کھالوں کے تہ بند باندھیں گے اپنے کھیت سے میں دوسرے کو نہ آنے دیں گے اپنے غلہ کی حفاظت چرند پرندے انسان سے ہر طرح پر کریں گے۔ رفتہ رفتہ زراعت کے قواعد اور حقوق کی بنیاد اور اس کے قوانین قائم ہو جاویں گے اور جس طرح اس کو ترقی ہوتی جاوے گی اسی طرح ان سب باتوں میں جو معاش کے ذریعے ہیں ترقی ہوتی رہے گی یہاں تک کہ انگوری باغ لگا ویں گے اور اس سے شراب بناویں گے اور اس کو پی کر بدمست ہو جاویں گے۔ وہ اپنی بود و باش کی فکر کریں گے مکانات بنا دیں گے۔ کالا کمبل تان کر یا سر کنڈے یا بانسی جمع کر کے یا اینٹ اور گارہ بنا کر اور اس طرح مجتمع ہو کر گاؤں اور قصبے اور شہر آباد کریں گے رفتہ رفتہ اس میں ترقی کرتے جاویں گے یہا ں تک کہ قصر حمرا اور محل بیضا اور کرسٹل پیلس اور شیش محل بنا کر اس میں چین کریں گے۔ وہ اپنے گھروں کی درستی اور آبادی کی تدبیریں سوچیں گے فرزندوں کی خواہش مونس غمگسار کی آرزو کو پورا کریں گے تزوج کے قواعد اولاد کی پرورش کے طریقے ان کے حقو ان کے ساتھ سلوک کے طریقے قرار دیں گے ، جو رفتہ رفتہ ایسی ترقی پاویں گے کہ علوم کا درجہ حاصل کریں گے اور علم تدبیر منزل کے نام سے موسوم ہوں گے۔ وہ اپنے گروہ میں راہ و رسم کے طریقے اخلاق اور درستی اور محبت اور ہمدردی کے قاعدے ایجاد کریں گے رسم و رواج قائم کریں گے خوشی اور انبساط حاصل کرنے کے سامان مہیا کریں گے اور وہ تمام چیزیں رفتہ رفتہ علم اخلاق و معاشرت کا درجہ حاصل کریں گے۔ وہ اس مجمع کی حفاظت کی اور اس میں انتظام قائم کرنے اور سب کے حقوق محفوظ رہنے کی فکر میں پڑیں گے اور اس کے لیے قوانین تجویزکریں گے اور اس کے نفاذ کے لیے کسی کو اپنا سردار بناویں گے اور رفتہ رفتہ سلیمان کی سی بادشاہت اور عمر کی سی خلافت قائم کریں گے اور وہی قوانین ترقی پاتے پاتے ، سیاست مدن کا رتبہ حاصل کریں گے۔ فطرت کے تفاوت درجات کے موافق انہی میں سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جن کو شاہ ولی اللہ صاحب نے کامل ، حکیم ، خلیفہ ، موید بروح القدس ، ھادی ومزکی ، امام منذر ، نبی ، کے لقب سے ملقب کیا ہے اور اس زمانے کے بے اعتقادوں نے رفارمر ، ان کا نام رکھا ہے اور اس زمانے کے بے اعتقادوں نے رفارمر ، ان کا نام رکھا ہے۔ اور انہیں کی نسبت خدا نے یہ فرمایاہے ، ’’ ھوالذی بعث فی الامیین رسولً منہم ۔ ‘‘ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ بعثت انبیاء کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے یا تو یہ ہوتا ہے کہ ایک دولت (یعنی حکومت یا سلطنت ) کے ابتدائے ظہور کا اور اس سے اور دولتوں کے زوال کا وقت آپہنچتا ہے اس وقت خدا اس دولت کے لوگوں کے دین کوق ائم رکھنے کے لیے کسی کو مبعوث کرتا ہے جس طرح کہ ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی (نعوذ باللہ ولیس اعتقادی ہذا) یا خدا تعالیٰ کسی قوم کابقا اور تمام انسانوں پر اس کا برگزیدہ کرنا چاہتا ہے اس وقت کسی کو مبعوث کرتا ہے جو ان کی کجی کو سیدھا کرے اور کتاب ان کو سکھا وے جس طرح کہ ہمارے سردار موسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی یا کسی قوم کے منتظم کرنے کے لیے جس کی دولت و دین کی پائے داری قرار پا چکی ہے کسی محدد کے مبعوث کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ داؤود و سلیمان اور تمام انبیائے نبی اسرائیل کی بعثت ہوئی جن کو خدا نے ان کے دشمنوں پر فتح دی۔ شاہ صاحب نے جو کچھ فرمایا یہ ان کا استنباط ہے مگر ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ بعثت انبیاء صرف تہذیب نفس انسان کے لیے ہوتی ہے نہ اور کسی چیز کے لیے۔ بہر حال یہ تمام واقعات وہ ہیں جو ازروئے قاعدہ فطرت انسان پر گزرتے ہیں اور انسان ہر ایک کام میں کسی نہ کسی کو اپنا ہادی اور پیشوا اور راہ نما قائم کرتا ہے اس وقت ہماری بحث ان لوگوں سے متعلق نہیں ہے جو عموماً مختلف قسم کے علوم و فنون و معارف و مکاسب میں ھادی و پیشوا اور راہ نما قرار پاتے ہیں بلکہ صرف اسی ھادی سے متعلق ہے جو تہذیب نفس انسانی کے لیے پیشوا اور ھادی ہوتا ہے۔ ایسا ھادی جس میں اس قسم کی ھدایت کی کامل فطرت ہوتی ہے وہی نبی ہوتا ہے اور وہی فطرت ، ملکہ نبوت ، مانوس اکبر ، جبرئیل اعظم کے لقب سے ملقب کی جاتی ہے۔ وہ کسی بات کو سوچتا ہے اور کچھ نہیں جانتا۔ دفعۃ اس کے دل میں بغیر کسی ظاہری اسباب کے ایک القا ہوتا ہے اور قلب کو ایک صدمہ اس کے القاء سے محسوس ہوتا ہے جیسے کہ اوپر سے کسی چیز کے گرنے سے صدمہ ہوتا ہے یا اس قسم کا ایک انکشاف اس کے دل پر ہوتا ے جو سچ مچ وہ جانتا ہے کہ تمام حجاب اٹھ گئے ہیں اور جس کی میں تلاش میں تھا مثل سپیدہ دم صحیح میرے سامنے موجود ہے شاید مختلف حالات و معاملات میں اوروں کو بھی ایسا ہوتا ہو مگر جب اس شخص میں دو صفتیں تسلیم کر لی گئی ہیں ایک فطرت کا کامل ہونا اور دوسرے اس فطرت کا تہذیب نفس انسانی سے مخصوص ہونا تو لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کا وہ القا یا وحی خواہ جبرئیل لے کر آیا ہو یا خود وہ ملکہ نبوت ہی اس میں اور خدا میں ایلچی بنا ہو اور فطرت اللہ کے مطابق ہے ۔ اگر بحث رہ جاتی ہے تو اسی قدر رہ جاتی ہے کہ وہ شخص فی الواقع ایسا ہی ہے کہ نہیں۔ تہذیب نفس سے بلاشبہ بہت امور متعلق ہوں گے لیکن ان سب میں ضرور کوئی ایسا امربھی ہو گا جو اصل اصول تہذیب نفس انسانی کا ہو اور وہ اصول بمقتضائے فطرت انسانی وہ ہے جس کو خود انسان فطرت نے قائم کیا ہے یعنی وجود اعلیٰ اور قوی زبردست وجود کا۔ اس مقام پر ہم اس بحث کو کہ اسی امر کو ہم نے کیوں اصل اصول تہذیب نفس انسانی قرار دیا ہے چھوڑ دیتے ہیں تاکہ خلط بحث نہ ہو جائے پھر کسی مقام پر اس سے بحث کریں گے اور اس لیے یہ تسلیم امر مذکو رہ کہتے ہیں کہ ضرور اس ھادی کا سب سے بڑا اور سب سے مقدم کام اس سب سے اعلیٰ اور سب سے قوی اور سب سے زبردست ہمہ قدرت وجود کی طرف ہدایت کرنا ہو گا اور جب کہ وہ کامل فطرت سے ہدایت ہو گی تو تمام کامل فطرت رکھنے والے ھادیوں کو اس میں اختلاف نہ ہو گا اوروھی فطرت اللہ اور دین اللہ ہو گاور اور امور جو اس کے متعلق ہں طریقے یا اس میں رسمیں یا مصلح ہوں گے جن کو اب ہم شرائع کے نام سے موسوم کرتے ہیں پس تمام انبیاء کا جب سے انبیاء ہوئے دین واحد تھا اصل دین میں کچھ تفاوت نہ تھا۔ خدا فرماتا ہے ، شرع لکم من الدین ماوصی بہ نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ (الشوریٰ آیت 11) اور ایک جگہ فرمایا ہے ’د لکل جعلنا منکم شرعۃ و منہا جا ‘‘ (ماندہ آیت 52 ) بلحاظ ان فطرتوں کے جو خدا نے انسان میں پیدا کی ہیں شاہ ولی الہ صاحب بھی اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ انسان کا ان کو ترک کرنا محال ہے اور بہت سے امور میں ایک ایسے حکیم کے محتاج ہیں جو تمام ضرورتوں سے واقف ہو اور مصالح تدبیر جانتا ہو خواہ بذریعہ فکر و درآیت کے خواہ اس طرح پر کہ خدا تعالیٰ نے اس کی جبلت میں قوت ملکیہ رکھی ہو اور ملاء اعلیٰ سے اس پر علوم نازل ہوتے ہیں۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ انسانوں میں جو رسمیں قائم ہو جاتی ہیں ان میں اکثر بہ سبب قوم کے سرداروں کی نادانی سے خرابیاں پڑ جاتی ہیں اوکر نفسیاتی خواہشوں اور شیطانی حرکتوں تک پہنچ جاتی ہیں اور بہت سے لوگ اس کی پیروی کرنے لگتے ہیں اور اس لیے ایک ایسے شخص کی حاجت ہوتی ہے جو غیب سے موید ہو اور مصالح کلیہ کا پابند ہوتا کہ رسومات بد کو مٹا دے اور ایسا شخص موید بروح القدس ہوتا ہے۔ پھر وہ ارقام فرماتے ہیں کہ انبیاء کی بعثت اگرچہ دراصل اور بالخصیص عبادت کے طریقوں کی تعلیم کرنے کے لیے ہوتی ہے مگر بعد کو اس کے ساتھ رسومات بد کا دور کرنا بھی شامل ہو جاتا ہے۔ یہ بات ذرا تفصیل طلب ہے اگر شاہ صاحب کی مراد ان رسول بد سے ہے جو عبادت اور تہذیب نفس انسان سے متعلق ہیں ۔ تو سلمنا اور اگر مراد ان رسول کی اصلاح سے بھی ہے جو محض دنیاوی امورسے متعلق ہیں تو ہم اس کو نہیں قبول کر سکتے کیوں کہ نبوت کو محض دنیاوی امور سے کچھ تعلق نہیں ہے اور قصہ تابیر نخل اور یہ الفاظ کہ ’’انتم اعلم بامور دنیا کم ‘‘ اور یہ حدیث من احدث فی امرنا ہذا مالیس منہ فھورد ایک بہت بڑی دلیل ہماری اس مدعا پر ہے۔ تمام رسومات و عادت اور طر یقے جو انسانوں میں بمقتضائے ان کی فطرت کے قائم ہو جاتے ہیں وہ چار اقسام پر منقسم ہیں۔ اول ۔جو خدا کی ذات و صفات سے متعلق ہیں یعنی اس قوت اعلیٰ کے وجود سے جس کو انسانوں نے بمقتضائے اپنی فطرت کے تسلیم کیا ہے۔ دوم ۔ اس کی عبادت کے طریقوں سے جو لوگوں نے بمقتضائے فطرت انسان اس کے لیے قرار دیے ہیں اور یہی امور وہ ہیں جن پر دین کا اطلاق ہوتا ہے۔ سوم ۔ وہ امور ہیں جو تہذیب نفس انسان سے علاقہ رکھتے ہیں اور جن کو نوع انسان بے بطور بدیہات کے حسن یاقبیح قرار دے رکھا ہے۔ مثلا زنا ، قتل ، سرقہ ، کذب ، وغیرہ کے تمام نوع انسان کے نزدیک قبیع ہیں گو کہ کسی فرقہ نے زنا یا قتل و سرقہ و کذب کی حقیقت قرار دینے میں غلطی کی ہو یا جیسے صداقت ، رحم ، ہم دردی کی تمام نوح انسان کے نزدیک حسن ہے گو کہ کسی سے اس کی حد صحیح طور پر بیان نہ ہو سکی ہو ۔انہی امور سہ گانہ کی نسبت جو طریقے قرار پاتے ہیں ان کا نام شریعت ہے۔ چہارم ۔ وہ امور ہیں جو محض دنیاوی امور سے تعلق رکھتے ہیں وہ نہ دین ہیں اور نہ انبیاء کہ من حیث النبوۃ ان میں سے کچھ تعلق ہے۔ اسی میں وہ تمام مسائل بھی داخل ہیں جو علوم و فنون اور تحقیقات حقائق اشیاء سے علاقہ رکھتے ہیں گو کہ انبیاء نے ان امور کا ذکر اس طرز یا الفاظ میں کیا ہو جس طرح پر اس زمانہ کے لوگوں کا یقین یا ان کی معلومات تھیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس مبحث کی زیادہ تفصیل کی ہے اوربہت اچھی کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ وہ چیز جو انبیاء اس باب میں قاطبتہً خدا کے پاس سے لاتے ہیں وہ یہ ہے کہ دیکھا جاوے کہ کھانے پینے اور لباس اور مکان بنانے اور زیب و زینت کرنے اور نکاح شادی بیان کرنے اور خرید و فروخت کرنے اور گناہ گاروں کے سزا دینے اور تنازعات کے فیصل کرنے میں اس وقت کے لوگوں میں کیا عادتیں اور اس میں مروج ہیں پھر اگر وہ سب باتیں عقل کلی کے مطابق و مناسب ہیں تو ان کے ادل بدل کرنے کے کوئی معنی نہیں ہیں بلکہ ضرور ہے کہ لوگوں کو اسی پر قائم رہنے کے لیے برانگیختہ کیا جاوے اور اس باب میں ان کی تصویب کی جاوے اور ان کی خوبیاں بتلائی جاویں اور اگر وہ مطابق نہ ہوں اور ان کے رد و بدل کی حاجت ہو کیوں کہ وہ دوسروں کو ایذا پہنچاتی ہیں یا لذات دنیا میں ذال دیتی ہیں اور نیکی سے باز رکھتی ہیں اور دین و دنیا سے بے فکر کر دیتی ہیں اس وقت بھی کوئی ایسی بات نہیں نکالی جاتی جو بالکل ان کے مالوفہ امور کے برخلاف ہو بلکہ جو اگلی مثالیں ان لوگوں کے ہاں ہیں اور جو اچھے لوگ ان لوگوں کے نزدیک گزرے ہیں ان کی طرف ان کو پھیرا جاتا ہے اور جب وہ اس طرف مائل ہوتے ہیں تو ان کو ٹھیک بات بتائی جاتی ہے اور ان کی عقلیں اس کو نامقبول نہیں کرتیں بلکہ ان کے دلوں کی طمانیت ہو جاتی ہے کہ یہی سچ ہے اوری ہی سبب ہے کہ انبیاء علیھم السلام کی شریعتیں مختلف ہیں ۔ جو لوگ رالخ فی اعلم ہیں جاتے ہیں کہ شرع میں درباب نکاح اور طلاق اور معاملات اور زیب و زینت اور لباس اور الفصال مقدمات اور حدود اور لوٹ مار کے مال کی تقسیم کے کوئی ایسی بات نہیں آتی ہے جو اس وقت کے لوگ اس کو نہ جانتے ہوں یا اس کے کرنے سے تردد میں پڑ جاویں جب اس کے کرنے کا حکم ہو ہاں یہ ہوا ہے کہ جس میں جو خرابی تھی وہ درست کر دی گئی اور غلط کو صحیح کر دیا۔ ان لوگوں میں سود خوری بہت تھی اس مو منع کر دیا۔ وہ پھل آنے سے پہلے صرف پھول آنے پر میوہ بیچ ڈالتے تھے اور پھر اس میں جھگڑا ہوتا تھا۔ اس کو منع کر دیا۔ دیت یعنی خون بہا عبدالمطلب کے وقت میں دس اونٹ تھے پھر قوم نے دیکھا کہ قتل سے باز نہیں رہتے تو سو اونٹ دیت کر دیے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو قائم رکھا۔ پہلے پہل مال غنیمت کی تقسیم ابی طالب کے حکم سے ہوئی اور رئیس قوم کے لیے بھی حصہ قرار پایا۔ آنحضرت صلی اللہ علی وسلم نے خمس جاری کیا۔ شاھان فارس یعنی قباد اور اس کے بیٹے نوشیر وان نے خراج اور عشر لوگوں پر مقرر کیا تھا شرع میں بھی یہی قرار دیا گیا۔ نبی اسرائیل زنا کے جرم میں رجم کرتے تھے چوروں کے ہاتھ کاٹتے تھے (یہودیوں میں ہاتھ کاٹنے کی رسم نہ تھی بلکہ عرب میں تھی) جان کے بدلے جان مارتے تھے۔ قرآن میں بھی یہی حکم نازل ہوا (رجم قرآن میں نہیں ہے) اور اسی طرح کی بہت سے مثالیں ہیں جو تلاش کرنے والے سے مخفی نہیں ہیں بلکہ اگر توفطین یعنی پوری مجھ کا ہے اور تمام احکام کے مراتب پر محیط ہے تو تو یہ بھی جانے گا کہ ’’ انبیاء علیہ السلام عبادات میں بھی اس کے سوا جو قوم کے پاس تھا بعینہ اس کی نظیر کے اور کچھ نہیں لائے۔ ‘‘ لیکن انہوں نے جاھلیت کی تحریفات کو دور کر دیا اور جو مبھم تھا اس کو اوقات و ارکان کے ساتھ ضبط کر دیا اور جو ٹھیک تھا اس کو لوگوں میں پھیلا دیا۔ (انتہٰی) یہ مضمون شاہ ولی اللہ صاحب کا قریب قریب ایسے مضمون کے ہے جو اس زمانہ کے لوگوں کے خیال میں ہے اور جن کو ہمارے زمانہ کے علماء اور مقدمس لوگ کافر و ملحد اور مرتد و زندیق کہتے ہیں گو کہوہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ و ماجاہ بہ پر بھی یقین رکھتے ہوں مگر نہیں معلوم کہ وہ لوگ شاہ ولی اللہ صاحب کو کیاکہتے ہیں جواس بات کے قائل ہیں کہ انبیاء عبادات میں بھی کوئی نئی چیز نہیں لائے بہر حال شاہ صاحب نے جو محض دنیاوی امورکو بھی مذہب یا شریعت میں شامل کر لیا ہے ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے۔ دین جیسا کہ اوپر بیان ہوا مرور ایام سے تبدیل نہیں ہو سکتا لیکن دنیاوی معاملات وقتاً وقتاً تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور وہ کسی طرح ابدی خدا کی جانب سے صورت خاصل کے محکوم نہیں ہو سکتے اگر یہ کہو کہ جب اصول ان کے محفوظ ہیں تو حوادث جدید کے احکام علمائے اسلام جو کا انبیاء بنی اسرائیل ہیں استنباط کر سکیں گے تو ہم یہ کہیں گے کہ علماء و قوھن یہود کے اور قسیس و رھبان عیسائی مذہب کے بھی علم میں کچھ کم درجہ نہیں رکھتے تھے۔ اگر انہوں نے دنیاوی احکام میں غلطی کی تو کیا وجہ ہے کہ یہ غلطی نہ کریں گے ۔ اور اگر دنیاوی احکام بھی داخل نبوت ہیں تو کیا وجہ ہو گی کہ ان غلطیوں کی وجہ سے تو انبیاء کے مبعوث ہونے کی ضرورت ہو اور ان کی غلطی کی سبب نہ ہو۔ خصوصاً ایسی صورت میں کہ تو ریت مقدس میں جس قدر دنیاوی امور کا تذکرہ ہے اس کا عشرعشیر بھی قرآن مجید میں نہیں ہے۔ یہ مباحث نہایت طویل ہیں اور یہ مقام ان سب کے بیان کی گنجائش نہیں رکھتا مگر اس تمام بحث سے یہ نتیجہ حاصل ہواکہ انسانوں میں بموجب فطرت انسانی کے کوئی نہ کوئی ان کا ھادی ہوجاتا ہے ۔ اگر خدا نے اس کو فطرت کامل اوروحی اکمل عطا فرمائی ہے تو وہ سچا ہادی ہوتا ہے جس کی نسبت خدا نے فرمایا ہے ’’ لکل قوم ھاد ‘‘ پس جوگروہ کسی شخص کو دین و شریعت کا ھادی سمجھتی ہے اس کی بزرگی و تقدس کا اعتقاد بھی اعلیٰ درجہ پر رکھتی ہے جس کا نتیجہ موافق فطرت انسانی کے یہ ہوتا ہے کہ انسانوں سے اس کی برتر درجہ دیا جاتاہے یہاں تک کہ ابن اللہ یا محیط ذات الہ (یعنی اوتار )یقین کیا جاتا ہے اور کم سے کم یہ ہے کہ اس میں ایسے اوصاف اور کرامتیں اور معجزے تسلیم کیے جاتے ہیں جن سے نوع انسان سے اس کو برتری حاصل ہو معمولی واقعات اور حادثات کو جو قانون فطرت کے مطابق واقع ہوتے رہتے ہیں۔ جب اس کی طرف منسوب ہوتے ہیں تو وہ اس کی کرامت اور معجزہ قرار پاتے ہیں مثلا اگر ایک عام آدمی کسی کو بد دعا دے کر تجھ پر بجلی گرے اور اتفاق سے وہ بجلی سے مارا جائے تو کسی کو کچھ خیال بھی نہ ہو۔ لیکن اگر وہ بدعا کسی ایسے شخص نے دی ہو جس کے تقدس کا خیال لوگوں کے دلوں میں ہو تو اس کی کرامت یا معجزہ سے منسوب ہو جاتی ہے۔ بہت سی باتیں ہوتی ہیں کہ ان لوگوں سے جن کے تقدس کاخیال ہوتا ہے اسی طرح سرزد ہوتی ہیں۔ جیسے کہ عام انسانوں سے ۔ مگر مقدس لوگوں سے سرزد ہونے کے سبب ان کی قدر و منزلت زیادہ کی جاتی ہے اور معجزے و کرامات کے درجہ پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ انسان میں بعض ایسی قوتیں ہیں جو خاص طریقہ مجاہدہ سے قوی ہو جاتی ہیں اور کسی میں بمقتضائے خلقت قوی ہوتی ہیں اور ان سے ایسے امور ظہور پاتے ہیں جو عام انسانوں سے جنہوں نے ان قوتوں کو قوی نہیں کیا ہے ظہور نہیں پاتے حالاں کہ وہ سب باتیں اسی طرح ہوتی ہیں جس طرح کہ اور امور حسب مقتضائے فطرت انسانی واقع ہوتے ہیں مگر وہ بھی ان مقدس شخصوں کے معجزے و کرامات شمار ہوتے ہیں بہت عجیب باتیں افواھاً ایسے بزرگوں کی نسبت مشہور ہو جاتی ہیں جن کی درحقیقت کچھ اصل نہیں ہوتی۔ مگر لوگ ان بزرگوں کے تقدس کے خیال سے ایسے موثر ہوتے ہیں کہ اس کی اصلیت کی تحقیق کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور بے تحقیق اس پر یقین کر لیتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ انبیائے سابقین علیھم السلام کے تمام واقعات کو لوگوں نے ایسے طور پر بیان کیا ہے جن کاواقع ہونا ایک عجیب طریقہ سے ظاہر ہو اور پھر انہیں کو ان کے معجزے قرار دے ہیں اور بعضی ایسی باتیں منسوب جن کا کچھ ثبوت نہیں ۔ انھی غلط خیالات کے سبب لوگوں نے انبیاء علیھم السلام سے انکار کیا ہے۔ چناں چہ قوم نوح قوم عاد قوم ثمود نے انبیاء کے انکار کرنے کی یہی وجہ تھی کہ مشرکین عرب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزوں کے طلب گار ہوئے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ اگر یہ پیغمبر ہیں تو کیوں نہیں ان کے پاس فرشتے آتے ، کیوں نہیں ان کے پاس خزانہ اتارا گیا ۔ کبھی یہ کہتے تھے کہ یہ تو عام انسانوں کی طرح کھاتے پیتے ہیں بازاروں میں پڑے پھرتے ہیں یعنی انسانوں کی طرح کھاتے پیتے ہیں بازاروں میں پڑے پھرتے ہیں یعنی انسانوں سے زیادہ کوئی بات ان میں نہیں ہے۔ کبھی آسمان سے پتھر برسوانے چاہتے تھے۔ کبھی آسمان کا ٹکڑا ٹوٹ کر گرنے کی خواہش کرتے تھے۔ وحدانیت ثلاثہ کا ایک رکن جو توحید فی الصفات ہے اس کی تکمیل کے لیے اس قسم کے خیالات کا مٹانا ضرور تھا اس لیے جا بجا قرآن مجید میں معجزات کی نفی آئی ہے۔ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الی انما الھکم الہ واحد (سورۂ کھف آیت 110) ترجمہ۔ ’’ یعنی لوگوں سے کہہ دے کہ اسکے سوا کچھ نہیں کہ میں انسانی ہوںمثل تمہارے ، مجھ کو وحی دی گئی ہے کہ یہی ٹھیک بات ہے کہ تمہارے خدا خدائے واحد ہے ‘‘ اور دوسری جگہ یہ حکم دیا کہ ’ ’ قل لا المک لنفسی نفعا والا ضرا الا ماشاء اللہ ولو کنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر وما مسنی السوء ان انا الانذیر و بشیر لقوم یومنون (سورۂ اعراف آیت 188) ترجمہ۔ ’’ یعنی لوگوں سے کہہ دے کہ میں مالک نہیں ہوں اپنے لیے کسی نفع یا ضرر کا بہ جز اس کے کہ جو چاہے اللہ اور اگرمیں غیب کاعالم ہوتا تو میں بھلائیوں کو بہ کثرت حاصل کر لیتا اوربرائی مجھ کو چھوتی بھی نہیں۔ میں تو ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں ڈرانے والے اورخوش خبری دینے والے سوا اورکچھ نہیں ہوں۔ ‘‘ کافروں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزے طلب کیے اور صاف صاف کہا کہ ’’ وقالو الن نومن لک حتیٰ تفجرلنا من الارض ینبوعا اور تکون لک جنۃ من نخیل و عنب قتفجر الانھار خلالھا تفجیرا اوتسقط السماء کہا زعمت علینا کسفا اوتانی باللہ و ملائکتہ قبیلا اویکون لک بیتا من زخرف اوترقی فی السماء ولن نومن لرقیک حتی تنزل علینا کتا بانقروہ ، قل سبحان ربی ھل کنت اللا بشراً رسولا ‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل آیت 92-95 ) ترجمہ یعنی ہم ہرگز تجھ پر ایمان نہیں لانے کے جب تک کہ تو زمین پھاڑ کر ہمارے لیے چشمے نہ نکالے ، یا تیرے پاس کھجور و انگور کا باغ ہو جس کے بیچ میں تو بہتی ہوئی نہریں نکالے زور سے بہتی ہوئی یا تو ہم پر جیسا کہ تو سمجھتا ہے آسمان کے ٹکڑے ڈالے ، یا خددا اور فرشتوں کو اپنے ساتھ لاوے یا تیریلیے کوئی مزین گھر ہو ، یاتو آسمان پر چڑھ جاوے اور ہم تو تیرے منتر پر ہرگز ایمان نہیں لانے کے جب تک کہ ہم پر ایسی کتاب اترے جوہم پڑھ لیں۔ مگر باوجوداس قدر اصرار کے جو کافروں نے معجزوں کے طلب میں یا اور بغیر ایسے معجزوں کے ایمان لانے سے شدید انکار کیا اس پر بھی خدا نے اپنے پیغمبر سے یہی فرمایا کہ ’’ تو ان سے کہہ دے کہ پاک ہے میرا پروردگار میں تو کچھ نہیں ہوں مگر انسان بھیجا ہوا یعنی رسول ۔ ‘‘ ایک اور جگہ ہے کہ ’’ لولا انزل علیہ آیات من ربہ قل انما الایت عنہ اللہ و انما انا نذیر مبین (سورۂ عنکبوت آیت 49 ) ترجمہ ۔ یعنی کافروں نے نے کہا ، کیوں نہیں اتاری گئی اس پر یعنی پیغمبر پر نشانیاں یعنی معجزے اس کے جواب میں خدا نے پیغمبر سے کہا کہ تو ہ کہہ دے کہ بات یہ ہے کہ نشانیاں یعنی معجزے تو خدا کے پاس ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ میں تو علانیہ ڈرانے والا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو افضل الانبیائے والرسل ہیں معجزہ نہ ہونے کے بیان سے ضمناً یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انبیائے سابقین علیہ السلام کے پاس بھی کوئی معجزہ نہیں تھا اور جن واقعات کو لوگ معجزہ (متعارف معنوں میں) سمجھتے تھے درحقیقت وہ معجزات نہ تھے بلکہ وہ واقعات تھے جو مطابق قانون قدرت کو واقع ہوئے تھے۔ خاتم النبین علیہ والصلواۃ والسلام نے جو اس بات کو کھول دیا اور چھپا لکا نہیں رکھا اس کا اصلی سبب یہ ہے کہ بڑا جزو اسلام کا جس کے سبب اس کو خطاب ’’ الیوم اکملت لکم دینکم ‘‘ کا ملا اور جس کی وجہ سے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہوئے وہ صرف تکمیل تلقین توحید ذات باری کی ہے جو توحید ثلاثہ میں منحصر ہے۔ یعنی توحید فی الذات توحید فی الصفات ، توحید فی العبادت ، انبیائے علیھم السلام میں معجزات کا (علی المعنی المتعارفتہ ) یا اولیاء اللہ میںکرامت کا یقین کرنا (گو کہ اعتقاد کیا جاوے کہ خدا ہی نے وہ قدرت یا صفت ان میں دی ہے) توحید فی الصفات کو نامکمل کر دیتا ہے۔ کوئی عزت اور کوئی بزرگی اور کوئی تقدس اور کوئی صداقت اسلام کی اورب انئے اسلام کی اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی جو اس نے بغیر کسی لاؤلپٹ کے اور بغیر کسی دھوکا دینے کے اور بغیر کسی کرشمہ و کرتوت کادعویٰ کرنے کے صاف صاف لوگوں کو بتا دیا کہ معجزے و عجزے تو خدا کے پاس ہیں میں تو مثل تمہارے ایک انسان ہوں۔ خدا نے میرے دل میں جو وحی ڈالی ہے اس کی میں تم کو تلقین کرتاہوں۔ صلی اللہ علیٰ محمد خاتم النبین و حبیب رب العالمین۔ ٭……٭……٭ قرآن کریم کس لحاظ سے معجزہ ہے اس مضمون میں سر سید نے اس امر سے بحث کی ہے کہ قرآن کریم میں جو یہ آیا ہے کہ اے لوگوں اگر تمہیں اس بات میں شک ہے کہ محمد نے یہ کلام خود بنا لیاہے اور خدا کی طرف سے نہیں ہے تو تم بھی فاتوا بسورۃ من مثلہ۔ ایسی ہی ایک سورت بنا لاؤ۔ سر سید کہتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فصاحت و بلاغت میں کوئی اس کی مثل نہیں لا سکے گا۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ جیسی ہدایت اور نصیحت کی باتیں قرآن پاک میں موجود ہیں ایسی اور کسی کتاب میں نہیں ۔ مگر سر سید کا صرف خیال ہی خیال ہے واقعہ نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن حکیم فصاحت و بلاغت اور رشد وہدایت دونوں لحاظ سے بے نظیر اور بے مثل ہے خدا نے عام بات کہی ہے کہ فاتو ابسورۃ من مثلہ ۔ یہاں کوئی تخصیص فصاحت و بلاغت کی یا کوئی تحصیص رسد و ہدایت کی نہیں ہے۔ بلکہ یہ آیت دونوں حالتوں پر حاوی ہے۔ یعنی قرآن فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے بھی معجزہ ہے اور رشد و ہدایت کے لحاظ سے بھی ۔ بہرحال سر سید لکھتے ہیں۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ وان کنتم فی ریب ممانزلنا علیٰ عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو لوگ کہ قرآن پرخدا کی وحی سے ہونے میں شبہ کرتے تھے ان کا شبہ مٹانے کو خدا نے ان سے فرمایا کہ اگر تم اس کو خدا کی طرف سے نہیں سمجھتے تو تم بھی اس کی مانند لاؤ ۔ یہ مضمون قرآن کریم میں پانچ مقامات پر آیا ہے : (1)اس مقام پر تو یہ فرمایا ہے کہ قرآن کے کسی ٹکڑے یا حصہ کی مانند تم بھی لاؤ۔ (2)اسی طرح سورۂ یونس میں فرمایا ہے کہ ’’ کیا کافر قرآن کو کہتے ہیں کہ یوں ہی بنا لیا ہے تو تو ان سے کہہ کہ اس کے ٹکڑے یا حصہ کی مانند تم بھی بنا لاؤ‘‘۔ (3)اور سورۂ ھود میں فرمایا ہے کہ ’’ کیا کافر قرآن کو کہتے ہیں کہ یوں ہی بنان لیا ہے تو تو ان سے کہہ کہ اس کیدس ہی ٹکڑوں یا حصوں کی مانند تم بھی یوں ہی بنا لاؤ۔ ‘‘ (4)اور سورۂ السریٰ میں فرمایا ہے کہ تو ’’ کہہ دے کہ اگر جن وانس اس بات پر جمع ہوں کہ اس قرآن کی مانند بنا لاویں تو اس کی مانند نہ بنا لاسکیں گے۔ ‘‘ (5)اور سورۂ قصص میں فرمایا ہے ’’ کہ تو ان سے کہہ دے کہ خدا کے پاس سے کوئی کتاب لاؤ جو توریت و قرآن سے زیادہ ہدایت کرنے والی ہو۔‘‘ ان سب باتوں پر غور کرنے کے بعد اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ قرآن کی مانند سے کیا مراد ہے۔ ہمارے تمام علماء و مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ قرآن نہایت اعلیٰ درجہ فصاحت و بلاغت پر واقع ہوا ہے اور اس زمانہ میں اھل عرب کو فصاحت و بلاغت کا بڑا ھی دعویٰ تھا۔ پس خدا نے قرآن کے من اللہ ثابت کرنے کو یہ معجزہ قرآن میں رکھا ’’ کہ ویسا فصیح کلام کوئی بشر نہیں کہہ سکتا ‘‘ اور نہیں کہہ سکا۔ پس انہوں نے قرآن کی مانند سے فصاحت و بلاغت میں مانند ہونا مراد لیا ہے۔ مگر میری سمجھ میں ان آیتوں کا یہ مطلب نہیں ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ قرآن مجید نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ فصاحت و بلاغت پر واقع ہے اور جو کہ و ہ ایسی وحی ہے ، جو پیغمبر کے قلب نبوت پر ، نہ بطور معنی و مضمون کے بلکہ بلفظہ ڈالی گئی تھی۔ جس کے سبب سے ہم اس کو وحی متلو یا قرآن یا کلام خدا کہتے اور یقین کرتے ہیں ۔ اس لیے ضرور تھا کہ وہ ایسے اعلیٰ درجہ فصاحت پر ہو۔ جو بے مثل و بے نظیر ہو۔ مگر یہ بات کہ اس کی مثل کو ئیکہہ سکا یا نہیں کہہ سکتا۔ اس کے من اللہ ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی۔ کسی کلام کی نظیر نہ ہونا اس بات کی تو بلاشبہ دلیل ہے کہ اسکی مانند کوئی دوسرا کلام موجود نہیں۔ مگر اس کی دلیل نہیں ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے۔ بہت سے کلام انسانوں کے دنیا میںایسے موجود ہیں کہ ان کی مثل فصاحت و بلاغت میں آج تک دوسرا کلام نہیں ہوا۔ مگر وہ من اللہ تسلیم نہیں ہوتے نہ ان آیتوں میں کوئی ایسا اشارہ ہے۔ جس سے فصاحت و بلاغت میں معاوضہ چاہا گیا ہو۔ بلکہ صاف پایا جاتا ہے کہ جو ہدایت قرآن میں معاوضہ چاہا گیا ہو۔ بلکہ صاف پایا جاتا ہے کہجو ہدایت قرآن سے ہوتی ہے اس میںمعاوضہ چاہا گیا ہے کہ اگر قرآن کے خداسے ہونے میں شبہ ہے تو کوئی ایک سورت یا دس سورتیں یا کوئی کتاب مثل قرآن کے بنا لاؤ۔ جو ایسی ہادی ہو۔ سورۃ قصص میں آنحضرتؐ کو صاف حکم دیا گیا ہے کہ ’’ تو کافروں سے کہہ دے کہ کوئی کتاب جو توریت و قرآن سے زیادہ ہدایت کرنے والی ہو اسے لاؤ۔ ‘‘ توریت کی عبادت دستورات و تاریخانہ مضامین کے جو اس کے جامع نے اس میں شامل کیے ہیں جس قدر مضامین وحی کے اس میں ہیں ان کا القا بھی بلفظہ شاید بہ جز احکام عشرہ توریت کے جن کو حضرت موسیٰ نے پہاڑ میں بیٹھ کر پتھر کی تختیوں پر کھود لیا تھا ، پایا نہیں جاتا۔ پس ظاہر ہے کہ قرآن گو کیسا ہی فصیح ہو مگر جو معاوضہ ہے وہ اس کی فصاحت و بلاغت یا اس کی عبارت کے بے نظیر ہونے پر نہیں ہے۔ بلکہ اس کے بے مثل ھادی ہونے میں ہے جو بالتصریح سورہ قصص کی آیت میں بیان ہوا ہے۔ ہاں اس کی فصاحت و بلاغت اس کے بے نظیر ہادی ہونے کوزیادہ تر روشن و مستحکم کرتی ہے۔ ان آیتوں کے مخاطب اھل عرب تھے۔ پس جب قرآن نازل ہوا تو اس وقت جو عرب کاحال تھا اس کو ذرا اس طرح پرخیال میں لانا چاہیے کہ اس کا نقشہ آنکھوں کے سامنے جم جاوے ۔ وہ تمام قوم ایک لٹیری ، چور ، قزاق ، خانہ بدوش قوم تھی جو مثل کنجروں کے اپنا ڈیرہ گدھوں و خچروں پر لادے پڑی پھرتی تھی ۔ غیر قوموں نے ’’ سارسین ، جو لفظ ’’ سارقین ‘‘ کا معرف ہے خطاب دیا تھا۔ بغض و عداوت و کینہ جو بد ترین خصائص انسانی سے ہیں ان کے رگ و ریشہ میں پڑاہوا تھا ۔ یہاں تک کہ وہاں کے جانور بھی کینہ میں ضرب المثل ہیں (شتر کینہ ) خون ریزی ، بے رحمی ، قتل اولاد ان میں سے ایسے درجہ پر تھی جس کی نظیر کسی قوم کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی۔ کنواری اور بیاھی عورتیں عورتیں زنا کو اپنا فخر سمجھتی تھی۔ جس طرح مرد کسی نامی عورت یا مشہور خاندان کی عورت سے زنا کرنا فخریہ اپنی قوم میں بیان کرتا تھا ۔ اسی طرح عورتیں کسی نامی مشہور خاندانی مرد سے زنا کرنا فخریہ بیان کرتی تھیں۔ قوم کی قوم جاھل و امی تھی۔ بدجز شراب خوری و بت پرستی کے کچھ کام نہ تھا اور قوموں سے ایسے کونے میں پڑی ہوئی تھیں کہ کچھ روشنی تعلیم و تربیت کی ان تک نہیں پہنچی تھی۔ اسی قوم میں ایک شخص جس نیچالیس برس اپنی عمر کیانہیں کے ساتھ صرف کیے تھے ، ربانی روشنی سے جو خدا نے بمقتضائے فطرت اس میں رکھی تھی منور ہوا اور روحانی تربیت کے حقائق و دقائق ایسے الفاظ میں جو عالم اور حکیم اورف لسفی اور نیچر لسٹ و دھریہ سے لے کر عام جاھلوں ، بدؤں ، حصرا نشینوں کی ہدایت کے لئے بھی یکساں مفید تھے علانیہ بیان کیے جو ممکن نہ تھا کہ بغیر اس کے کہ خدا کی طرف سے ہوں بیان کیے جا سکتے۔ فطرت کے قاعدہ کے مطابق ممکن نہ تھا کہ بغیر اس فطرت نبوت کے جو خدا اپنے انبایء میں ودیعت کرتا ہے۔ ایسی قوم کے کسی شخص کے اس طرح کے خیالات اور قوال و نصائح ہوں جیسے کہ قرآن میں ہیں یا ایسی تاریک و خراب حالت کی قوم کا کوئی شخص بغیر اس نور کے جو خدا نے اس کو دیا ایسی ہدایتیں بتاوے جیسی کہ قرآن میں ہیں یہ بہ جز سے ہونے کے اور کسی طرح ہو ہی نہیں سکتیں ۔ اسی امرکی نسبت خدا نے فرمایا کہ اگر تم کواس کے خدا سے ہونے میں شک ہے تو فاتوا بسورۃ من مثلہ۔ ٭……٭……٭ ناسخ و منسوخ کی بحث اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ماننسخ من آیتۃ او ننسھانات بخیر اور مثلھا ۔ اس آیت کی تفسیر میں ہمارے ہاں کے مفسروں نے انتہا کج بحتیاں کی کی ہیں اور مذہب اسلام کو بلکہ خدا کو بد نام کیا ہے اور قرآن مجید کو ایک شاعر کی بیاض بنا دیا ہے۔ انھی کج بحثیوں میں بعض مفسروں نے جن کو خدا نے ہدایت کی ہے سیدھی راہ بھی اختیار کی ہے۔ ہر ایک شخص جس کے مزاج میں کج بحثی نہیں ہے وہ اس آیت کو اوراس سے پہلی آیت کو پڑھ کر سیدھا اور صاف مطلب سمجھ سکتا ہے۔ اس آیت سے پہلی آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اھل کتاب اس بات کو دوست میں رکھتے کہ خدا کی طرف سے تم پر کچھ بھلائی اترے اور بھلائی سے اعلانیہ مراد قرآن اور احکام شریعت ہیں اھل کتاب جواس بات کو دوست نہیں رکھتے تھے اس کی صاف صاف دو وجہیں تھیں اول یہ کہ تمام انبیاء نبی اسرائیل میں گزرے تھے اور ان کو پسند نہیں تھا کہ نبی اسماعیل میں جن کو وہ بالطبع حقیر بھی سمجھتے تھے کوئی نبی پیدا ہو۔ اس کی نسبت خدا نے فرمایا کہ اللہ مخصوص کرتا ہے اپنی رحمت سے جس کو چاہتا ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ احکام شریعت محمدی کے موسوی شریعت کے احکام سے کسی قدر مختلف تھے اور یہودی اپنی شریعت کی نسبت سمجھتے تھے کہ وہ دائمی ہے اور کبھی کوئی حکم اس کا تبدیل نہیں ہونے کا۔ اس کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جو آیت کہ ہم منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس کی جگہ اسی کی مانند یا اس سے بہتر آیت دیتے ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس مقام میں آیت کے لفظ سے قرآن کی آیت مراد نہیں ہے۔ بلکہ موسوی شریعت کے احکام جوشرع محمدی میں تبدیل ہو گئے۔ یا جن احکام شریعت موسوی کو یہودیوں نے بھلا دیا تھا وہ مراد ہیں۔ ہمارے اکثر مفسرین نے نہایت کج بحثی سے اس آیت میں جو لفظ آیت ہے اس کو قرآن مجید کی آیتوں پر محمول کیا ہے اور یہ سمجھا ہے کہ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ ہو جاتی ہے اور اسی پر بس نہیںکیا بلکہ ’’ ننھسا ‘‘ کے لفظ سے یہ قرار دیا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم بعض آیتوں کو بھول بھی گئے تھے اور ان دو لفظوں یعنی ننسخ اور ننسھا کی بناء پر جھوٹی اورمصنوعی روایتوں کے بیان کرنے سے اپنی تفسیروں کیورق کے ورق سیاہ کر دیے ہیں مگر ان میں ایک روایت بھی صحیح نہیں ہیانہیں جھوٹی روایتوں کی بناء پر انہوں نے قرآن کی آیتوں کو چار قسم کی آیتوں پر تقسیم کیا۔ اول : وہ آیتیں جن کی تلاوت اور احکام دونوں بحال ہیں اور وہ سب آیتیں قرآن میں موجود ہیں۔ دوم : وہ آیتیں جن کی تلاوت بحال ہے اور احکام منسوخ ہو گئے ہیں۔ ان آیتوں کی نسبت بھی کہتے ہیں کہ قرآن میں موجود ہیں۔ سوم : وہ آیتیں جن کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہے مگر احکام بحالہیں۔ چہارم : وہ آیتیں جن کی تلاوت اور احکام دونوں منسوخ ہو گئے ہیں اور تیسری اور چوتھی قسم کی آیتوں کی نسبت کہتے ہیں کہ قرآن میں موجود نہیں ہیں۔ مگر ان جھوٹی روایتوں میں ان کا موجود ہونا بیان کرتے ہیں۔ ہم ان باتوں پر اعتماد نہیں رکھتے اور یقین جانتے ہیں کہ جو کچھ خدا کی طرف سے اترا وہ بے کم و کاست موجودہ قرآن میں جو درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ حیات میں تحریر ہو چکا تھا موجود ہے اورکوئی حرف بھی اس سے خارج نہیں ہے اور نہ قرآن مجید کی کوئی آیت منسوخ ہے۔ بلکہ احکام ادیان سابقہ کی نسبت بھی لفظ نسخ کا مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے نہ حقیقی معنی میں ۔ اس کی تشریح کے لیے ہم کو ننسخ کے معنوں سے بحث کرنی پڑے گی اور جو احکام کہ تبدیل ہو گئے ہیں ان کی بھی حقیقت بیان کرنی ہو گی لیکن قبل اس کے ہم کو ان مفسروں کی رائے کا بیان کرنا مناسب ہے۔ جنہوں نے آیت کے لفظ سے جو اس آیت میں ہے قرآن کی آیتیں مراد نہیں لی ہیں۔ ابو مسلم ایک شخص ہے جو خلاف جمہور مفسرین کے ہماری رائے سے متفق ہے۔ اس کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ قرآن میں نسخ واقع نہیں ہوا اور اس کا قول ہے کہ آیات منسوخہ سے مراد وہ شریعتیں ہیں جو کتب مقتدمہ یعنی توریت اور انجیل میں تھیں جیسے کہ سبت کا ماننا اور مشرق اور مغرب کی طرف نماز کا پڑھنا اور اسی قسم کے حکموں کی مانند جو اللہ نے ہم سے دور کر دیے ہیں اور ہم بغیر اس کے عبادت کرتے ہیں۔ یہود اور نصاریٰ کہتے تھے کہ بجز اس کے جو ہمارے دین کا تابع ہو اور کسی پر ایمان نہ لاؤ۔ پس اللہ نے اس آیت سے اس کو باطل کردیا۔ بعض آدمیوں نے اس کا یہ جواب دیاہے کہ آیت کا لفظ جب کہ اطلاق کیا جاتا ہے تو اس سے قرآن ہی کہ آیتیں مراد ہوتی ہیں۔ کیوں کہ ہمارے نزدیک وہی آیتیں مقرر ہیں۔ لیکن کوئی شخص اس کا جواب دے سکتا ہے کہ ہم یہ نہیں مانتے کہ آیت کا لفظ قرآن کی آیتوں سے مخصوص ہے بلکہ وہ عام ہے اور ہر دلیل پر بولا جاتا ہے۔ امام فخر الدین رازی نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ قرآن مجید میں منسوخ آیتیں ہونے پر اس آیت سے استدلال کرنا ٹھیک نہیں ہے اور اس لیے انہوں نے اور آیتوں سے استدلال کیا ہے۔ چناںچہ تفسیر کبیر میں وہ لکھتے ہیں کہ ہم نیکتاب محصول میں جو اصول فقہ میں ہے۔ تمام بحثیں جو عدم نسخ پر دلالت کرتی ہیں۔ بیان کر کے ہم نے وقوع نسخ پر اسی آیت ’ ماننسخ ‘ پر استدلال کیا ہے۔ مگر اس آیت پر استدلال کرنا ٹھیک نہیں ہے اس لیے کہ ما کا لفظ اس جگہ بطور شرط اور جزا کے ہے۔ جیسے کہ تم کسی کو کہو کہ جو شخص تیرے پاس آئے تو اس کی تعظیم کر ۔ تو یہ کہنا کسی شخص کے آنے پر دلالت نہیں کرتا۔ بلکہ صرف اتنا نکلتا ہے کہ جب کوئی آوے تو اس کی تعظیم کرنی واجب ہے۔ اسی طرح یہ آیت بھی حصول نسخ پر دلالت نہیں کرتی۔ بلکہ اس سے یہ نکلتا ہے کہ جب کہ کوئی آیت منسوخ ہو تو اس کے بدلے دوسری آیت جو اس سے اچھی ہو لانی واجب ہے۔ پس ٹھیک بات یہ ہے کہ نسخ کے ثبوت میں ہم اور آیتوں کے اختیار کریں یعنی اس آیت کو واذا بدلنا آیۃ مکان آیۃ۔ اور اس آیت کو ۔ یمحو اللہ ما یشاء و یثبت و عندہ ام الکتاب۔ ہم امام فخر الدین رازی کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہانہوں نے اس قدر تو ہم سے اتفاق کیا کہ اس آیت سے قرآن مجید میں آیت منسوخہ کا وجود ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ مگر خدا نے چاہا تو ہم بتا دیں گے کہ ان آیتوں سے بھی جن پر امام رازی نے منسوخ ہونے کا استدلال کیا ہے حقیقتاً منسوخ ہونا آیتوں کا ثابت نہیں ہوتا۔ ناسخ و منسوخ کی بحث در حقیقت ایک لغو بحث ہے ۔ اس پر بحث کرنے کی ضرورت صرف اس وجہ سیہو گئی ہے کہ فقہارے اسلام نے نہیات غلط قیاس اور بے جا استدلال سے اور صرف اپنے دل کے پیدا کیے ہوئے خیالات سے قرآن کی آیتوں کا اس طرح پرمسوخ ہونا قراردیا ہے جو خدا کی شان اور قرآن کے ادب کے بالکل برخلاف ہے اور ہرگز مذہب اسلام کا وہ مسئلہ نہیں ہے اور نہ ان فقہا کے استنباط کے لیے کوئی دلیل ہے۔ انہوں نے جو آیات منسوخہ کو تین قسم یعنی منسوخ الحکم و ثابت اتلاوت اور منوسخ التلاوت و ثابت الحکم اور منسوخ التلاوت و الحکم قرار دیا ہے۔ یہ محض جھوٹی تقسیم ہے اورخود ان کے دل میں بنائی ہوئی ہے اور مفسرین نے جھوٹی اور بے سند روایتیں اپنی تفسروں میں بھی دی ہیں اور اگر ناسخ اور منسوخ کی بحث صرف اتنی بات پر منحصر رہتی کہ آیا شرایع سابقہ میں کوئی ایسے احکام تھے جو اب شریعت اسلام میں نہیں رہے یا ان کے عوض دوسرے احکام آئے اور شرایع سابقہ کے احکام منسوخ ہو گئے یا نہیں۔ یا یہ کہ خود اسلام میں کوئی ایسے احکام تھے جو بعد کو قائم نہ رہے یا اس کے بدلے اور احکام آئے اور پہلے احکام منسوخ ہو گئے یا نہیں ، تو یہ بحث البتہ دل چسپ اور ذی عقلوں کی سی بحث ہوتی اور اس پر مباحثہ کرنے کی کچھ ضرورت نہ پڑتی کیوں کہ جو لوگ احکام کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں اور جو ان کے منسوخ ہونے کے قائل نہیں ہیں جب ان دونوں کی بحثوں پر غور کیا جاوے تو بجز نزاع لفظی کے یا ناسخ و منسوخ کو بطور ایک علمی اصطلاح کے قرار دینے کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ پس ہم اس بات سے کہ قرآن کی آیتوں میں سے کوئی آیت منسوخ التلاوت و ثابت الحکم یا منسوخ التلاوت و الحکم ہے ۔ انکار کر کے اس بات کی بحث پر متوجہ ہوتے ہیں۔ کہ آیا قرآن میں ایسی آتیں جن پر ثابت التلاوت و منسوخ الحکم ہونے کا اطلاق ہوسکے موود ہیں یا نہیں۔ نتیجہ اس بحث کا صرف یہ ہو گا کہ آیا قرآن میں احکام منسوخہ ہیں یا نہیں یا ایک آیت کا حکم دوسری آیت کے حکم کو منسوخ کرتا ہے یا نہیں اور نتیجہ اس بحث کا بجز نزاع لفظی کے اور کچھ نہ ہو گا۔ نسخ کے معنی لغت میں کسی شے کے دور کر دینے کے اور متغیر کر دینے اور باطل کر دینے کے ہیں۔ خواہ اس کی جگہ کوئی دوسری چیز قائم ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ اور نقل و تحویل کے معنی یہی ہیں ، اور اس بحث سے کہ ان معنوں میں اصلی کون سے ہیں اور مجازی کون سے ہم کو چنداں فائدہ نہیں ہے مگر جب اس لفظ کو کسی خاص علم میں استعمال کیا جاوے گا۔ مثلا شرع میں تو اس کی تعریف میں کچھ ایسے الفاظ بڑھانے ہوں گے جس سے وہ معنی اس علم کے مناسب ہو جاویں۔ پس شرع میں نسخ کے معنی یہ ہوں گے کہ ایک شرعی حکم کا کسی دوسرے شرعی حکم سے زائل یا متغیر یا باطل ہونا۔ پہلا حکم منسوخ کہلائے گااور دوسرا حکم ناسخ۔ ناسخ کے معنی علماء نے یہ قرار دیے ہیں کہ ناسخ سے مراد ایک ایسے شرعی قاعدہ سے ہے جو اس بات پر دلالت کرے کہ اس سے پہلے جو حکم بقاعدہ شرعی ثابت ہوچکا تھا اس کے بعد نہیں رہا ایسی حالت میں کہ اگر یہ پچھلا حکم نہ ہوتا تو وہ پہلا حکم ثابت اور قائم رہتا ۔ اس تعریف میں جو قیدیں کہ علماء نے لگائی ہیں اس کے یہ فائدے بتائے ہیں کہ قاعدہ شرعی کی جو قید لگائی ہے وہ اس لیے لگائی ہے کہاس میں خدا و رسول کیقول و فعل شامل ہو جائیں اور اجتماع امت علی احد القولین خارج ہو جاوے۔ کیوں کہ جو طریق شرعی کی تفسیر یہاں بیان ہوئی ہے اس میں اجماع داخل نہیںہوتا اور اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ شرع عقلی حکم کی ناسخ ہو۔ کیوں کہ حکم عقلی کا ثبوت شرعی قاعدہ پر نہیں ہوتا اور یہ بھی لازم نہیں آتا کہ معجزہ شرعی حکم کا ناسخ ہو کیوں کہ وہ معجزہ شرعی طریق سے ثابت نہیں ہوتا اور اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ حکم کسی مدت پر یاشرط یا استثناء پر مقید ہو۔ کیوں کہ ایسی حالت کی جو شرط لگائی ہے اس سے یہ سب خارج ہو جاتی ہیں اور اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ اگر خدا نیہم کو کسی ایک کام کرنے کا ایک دفعہ حکم دیا اور پھر اس کام کی مانند دوسرا کام کرنے کومنع کیا تو یہحکم اس کا ناسخ ہو گا۔کیوں کہاگر یہ منع نہ ہوتا تب بھی وہ حکم ثابت نہ تھا۔ یہ تعریف ناسخ کی جو گویا ناسخ و منسوخ دونوں کی تعریف ہے ظاہر ہے کہ منصوص نہیں ہے یعنی ظاہر ہے کہ یہ تعریف ناسخ و منسوخ کی نہ خدا نے بتائی ہے نہ رسول نے بتائی بلکہ علماء نے خود اپنے قیاس اور خیال استنباط سے قائم کی ہے اور کسی مسلمان پر واجب نہیں ہے کہ خواہ مخواہ اس تعریف کو تسلیم کرے۔ ہمارے نزدیک جس وقت نسخ کو شرع سے متعلق کیا جائے گا تو اس وقت حیثیت کو اس کا جزو قرار دینا واجب اور لازم ہو گا۔ کیوں کہجس قدر احکام شرعی ہیں وہ سب کسی نہ کسی حیثیت پر مبنی ہیں پس اگر باوجود بقا اس حیثیت کے جس پر وہ حکم صادر ہوا تھا دوسرا حکم بر خلاف پہلے حکم کے صادر کیا جاوے تو کہا جاوے گا کہدوسرا حکم ناسخ ہے اورپہلا منسوخ اور اگر وہ حیثیت جس کی بناء پر پہلا حکم صادر ہوا تھا موجود نہرہے تو دوسرا حکم پہلے حکم کا حقیقتاً ناسخ نہیں ہے گو مجازاً ایک کا دوسرا کو ناسخ کہیں۔ ذات باری کی تنزہ اور اس کے تقدس اور اس کے علم و دانش میں نقصان اسی وقت لازم آتا ہے جب کہ ایک حیثیت کے لحاظ سے کوئی حکم دیا ہو اور پھر باوجود موجود ہونئے اسی حالت حیثیت کے دوسرا حکم اس کے مخالف دیا ہو لیکن اگر حالت اور حیثیت مختلف ہو گئی ہو تو دوسرا حکم دینا اس کے تقدس کو کچھ نقصان ہیں پہونچاتا۔ بلکہ نہ دنیا اس کے تقدس اور علم و دانش کو نقصان پہونچاتا ہے۔ پس ہم قبول کترے ہیں کہ ایسے احکام بھی موجود ہیں جو شرائع سابقہ میںماموربہ تھے اور شرائع مابعد میں ماموربہ نہیں رہے۔ یا بالفرض ہم تسلیم کر لیں کہ خود مذہب اسلام ہی میں اول کوئی حکم مامور بہ تھا۔ اور پھر بعد کو ماموربہ نہیں رہا۔ اور یہ بھی ثابت ہو کہ حیثیت اور حالت متحد نہیں رہی تھی۔ تو ہم ایک دوسرے کا ناسخ نہیں قرار دینے کے۔ اور ہم کیاکوئی ذی عقل بھی ہندو ، مسلمان ، یہودی ، عیسائی ، دھریہ ان میں سے کسی کو ناسخ و منسوخ نہیں کہنے کا ۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہم مجازا یا بہ طور ایک اصطلاع کے ان کو ناسخ و منسوخ کہنے لگیں۔ ہم نے تمام قرآن میں ناسخ و منسوخ نہیں ہے۔ علماء اور فقہا نے جن آیتوں کو ایک دوسرے کے مخالف خیال کیا ہے اور ایک کو ناسخ اور ایک منسوخ ٹھیرایا ہے تو ہم ہر موقع پر یہ ثابت کریں گے کہ وہ باھم مخالف نہیں ہیں اور تفاوت حیثیت بھی ظاہر کر دیں گے جس کے بغیر لحاظ کے ناسخ و منسوخ کا قرار دینا محالات سے ہے۔ ناسخ اورمنسوخ کے باب میں لوگوں نے بہت سی بحثیں کی ہیں اور ابو مسلم نے جو ناسخ و منسوخ ہونے کا قائل نہیں ہے ۔متعدد دلیلیں اس کے امتناع پر پیش کی ہیں اور اس کی مخالفین نے جو جمہور مفسرین ہیں اس کی تردید کی ہے اوراثبات نسخ پر دلیلیں پیش کی ہیں۔ ہماری سمجھ میں وہ سب قشری بحثیں میں مغز سخن تک کوئی نہیں پہنچتیں اور جو اصل بات اتحاد حیثیت کی ناسخ و منسوخ میں تھی اس پر کسی کا خیال نہیں گیا ہے۔ اور اس لیے ہم ان بحثوں کا ذکر کرنا محض بے فائدہ سجھتے ہیں۔ امام رازی صاحب نے جن دو آیتوں سے اپنی دانست میں قرآن مجید میں نسخ کا ہونا قرار دیا ہے اگرچہ ان سے بھی نسخ کا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ جیسا کہ ہم ان دونوں آیتوں کی تفسیر میں لکھیں گے۔ لیکن ہم ان سے نہایت ادب سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے اتحاد حیثیت کی شرط کوبھی ملحوظ فرمایا ہے یا نہیں غالباً وہ فرماویں گے کہ نہیں۔ تو ہم ان سے عرض کریں گے کہ حضرت ناسخ و منسوخ ہونے کا ثبوت بھی نہیں۔ ایک اور بات قابل لکھنے کے ہے کہ حدیث یعنی قول و فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم قرآنی کا ناسخ ہے یا نہیں۔ اس میں علماء کے مختلف قول ہیں۔ مگر جب کہ ہم قرآن سے قرآن کا حقیقتاً منسوخ ہونا تسلیم نہیں کرتے تو حدیث سے اس کا حقیقتاً منسوخ ہونا کیوں کر تسلیم کر سکیت ہیں۔ خواہ وہ حدیث خبر احاد کا درجہ رکھتی ہو ، یا حدیث مشہور کا یا لوگوں نے معناً یا لفظاً اس کو متواتر کے درجہ تک سمجھا ہو۔ باقی رہا یہ کہ جس طرح لوگوں نے مجازاً ناسخ و منسوخ ہونے کا اطلاق کیا ہے اس طرح بھی ہم حدیث کو بھی ناسخ قرآن سمجھتے ہیں یا نہیں۔ تو ہم اس طرح بھی نہیں سمجھتے۔ بلکہ اس کو حدیث کی نا معتبری کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ہاں احادیث صحیحہ کو جن کا درایتاً صحیح ہونا ثابت ہو گیا ہو مفسر قرآن سمجھتے ہیں۔ ہم نے اس مضمون کے شروع میں امام فخر الدین رازی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آیت ماننسخ من آیۃ اوننسھانات بخیر منھا اومثلھا ۔ سے قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ اور دو آیتیں ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے پہلی آیت تو ’’ تمحو ا اللہ مایشاء ویثبت عندہ ام الکتاب ‘‘ ہے ۔ دوسری آیت ’’ اذا بدلنا آیۃ مکان آیۃ ‘‘ ہے اور ہم نے لکھا تھا کہ ان دونوں آیتوں سے بھی قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ ہونا ثابت نہیں ہوتا اور وعدہ کیا تھا کہ ہم ان دونوں آیتوں کی تفسیر بعد میں بیان کریں گے ۔ اس لیے اب ان پر بحث کرتے ہیں۔ پہلی آیت سورہ رعد کی ہے اس میں خد فرماتا ہے کہ ۔ ولقد ارسلنا رسلاً من قبلک و جعلنا لھم ازواجا و ذریۃ و ما کان الرسول ان یاتی بایۃ الاباذن اللہ لکل اجل کتاب یمحواللہ مایشاء ویثبت و عندہ امر لکتا ب ‘‘ یعنی بے شک ہم نے تجھ سے پہلے رسول بھیجے ہیں اور ان کو بیبیاں اور اولاد دی ہے اور کوئی رسول نہیں کر سکتا کہ بغیر حکم خدا کوئی حکم لے آئے اور ہر ایک چیز کا وقت لکھا ہوا یعنی مقرر ہے۔ خدا جو چاہے مٹائے اور جو چاہے قائم رکھے اور اس کے پاس اصل کتاب ہے۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے۔ کہ جو کچھ اس آیت میں بیان ہوا ہے وہ انبیائے سابق کی شریعت سے متعلق ہے نہ قرآن مجید کی آیتوں سے ۔ نتیجہاس تمام آیت کا یہ ہیکہ انبیاائے سابق کی شریعت میں سیجن احکام کوخدا چاہتا ہے،قائم رکھتا ہے اور جن احکام کو چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے۔ اور اس آیت سے کسی طرح سے یہ بات نہیں نکلتی کہ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ ہو جاتی ہے۔ پس یہ آیت قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ ہونے پر کسی طرح دلالت نہیں کرتی۔ مگر یہ بحث باقی رہتی ہے کہ ام الکتاب کیا چیز ہے اور اگر ام الکتاب سے لوح محفوظ مراد لی جائے تو لوح محفوظ کیا چیز ہے۔ یہ ایک بہت بڑی بحث ہے جس کو ہم اپنی تصنیفات میں متعدد جگہ لکھ چکے ہیں۔ مگر اس مقام میں اس کی بحث سے کچھ تعلق نہیں۔ بلکہ صرف یہ بات ثابت کرنی تھی۔ کہ ’’ یمحوا اللہ مایشاء و یثبت ‘‘ سے مقصود محو ہونا ثابت رہنا۔ احکام شریعت انبیاء سابق کا ہے۔ نہ محو ہونا یا ثابت رہنا قرآن مجید کی آیتوں کا ۔ اس لیے ہم اسی قدر بیان پر اکتفا کرتے ہیں۔ دوسری آیت سورۃ نحل کی ہے جس میں خدا فرماتا ہے کہ ’’ واذا بدلنا آیۃ مکان آیۃ و اللہ اعلم بما ینزل قالوا انما انت مفتربل اکثر ہم لایعلمون ‘‘ جب ہم ایک حکم کی جگہ دوسرا حکم بدلتے ہیں اور خدا جو حکم نازل کرتا ہے اس کو خوب جانتا ہے توتو کہتے ہیں کہ تو افترا ہی کرنے والا ہے۔ حالاں کہ ان میں کے بہت سے نہیں جانتے ۔ اس آیت کی نسبت سوال یہ ہے کہ قالو سے کون لوگ مراد ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ قالو کی ضمیر سے کفار مکہ مراد ہیں۔ مگر یہ صحیح نہیں ہو سکتا۔ اس واسطے کہ کفار مکہ نہ اس پہلی آیت کو جو بدلی گئی منزل من اللہ جانتے تھے اور نہ دوسری آیت کو جس نے پہلی آیت کو بدلا منزل من اللہ سمجھتے تھے۔ بلکہ صرف یہود و نصاریٰ جو ان احکام قرآن مجید کو جو برخلاف احکام سابق توریت و انجیل کے تھے پیغمبر کا افترا سمجھتے تھے۔ پس قالو کی ضمیر انہیں یہود و نصاری کی طرف پھرتی ہے نہ عام کفار کی طرف جو عموماً بت پرست تھے اور وہ نہ احکام سابق کو مانتے تھے نہ احکام لاحق کو ۔پس صاف ظاہر ہے کہ بدلنا آیتہ سے تبدیل شرائع انبیائے سابق مراد ہے نہ تبدیل آیتہ قرآنی ۔ دوسری آیت سے ۔ تفسیر کبیر میں بھی ابو مسلم اصفہانی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آیت میں شرائع سابق انبیاء کا تبدیل ہونا مراد ہے نہ قرآن مجید کے احکام میں ہے۔ ایک سے دوسرے کا منسوخ ہونا۔ اور امام صاحب نے لکھا ہے کہابو مسلم صفہانی برخلاف دیگر مفسرین کے مذہب اسلام میں ناسخ و منسوخ کا بالکل قائل نہیں ہے۔ اور اس میں کچھ شک ہے کہ اگر ان تمام آیتوں کو جن سے مفسرین اور فقہا نے قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ ہونے کا دعویٰ پیش کیا ہے۔ مجموعی طور پر سامنے رکھ لیا جاوے اور ان پر غور و تعمق کی نظر ڈالی جاوے اور ان کے سیاق و سباق کو مد نظر رکھا جاوے تو ان سے صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ آیتیں شرائع سابقہ انبیاء کے بعض احکام کے تبدیل ہونے سے تعلق رکھتی ہیں نہ قرآن مجید کی آیتوں کے باہم ناسخ و منسوخ ہونے سے۔ ٭……٭……٭ آیات محکمات و منشابہات محکمات اور متشابہات کی بحث دقیق اور طویل ہے۔ علماء نے اس کے بیان میں بہت بڑی علمیت خرچ کی ہے۔ مگر مختصربات یہ ہے کہ عربی زبان کے محاورہمیں محکم اس بات کو کہتے ہیں جو ایسی صاف ہو جس سے ایک ہی مطلب سمجھ میں آوے اور دوسرے مطلب کو نہ آنے دے۔ اور متشابہ اس بات کو کہتے ہیں جس کے کئی مطلب سمجھ میں آتے ہوں اور بخوبی تمیز نہ ہو سکتی ہو کہ کون سا مطلب مقصود ہے یا جو معنی اس کے الفاظ سے متبادر ہوتے ہوں وہ مقصود نہ ہوں۔ بلکہ وہ الفاظ بطور تمثیل یا بطور مجاز و استعارہ کے آئے ہوں۔ اس پر لوگوں نے بحث کی ہے کہ قرآن مجید میں آیات متشابہات کیوں لائی گئی ہیں مگر ہر ایک سمجھ دار آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جب قرآن مجید انسانوں کی زبان میں نازل ہوا ہے اور اس سے عوام و خواص سب کی ہدایت مقصود ہے تو اس میں آیات متشابہات کا نہ ہونا نا ممکن ہے۔ قرآن مجید میں بہت سی ایسی باتیں بیان کی گئی ہیں جن کو انسان کے حواس خمسہ ظاہری و باطنی نے محسوس نہیں کیا ہے اور نہ ان کی کیفیات کو جانا ہے پس امکان نہیں کہ وہ مطلب آیات محکمات میں بیان ہو سکے اور اس لیے ضرور ہے کہ وہ تمثیل کے پیرایہ میں آیات متشابہات کے ذریعہ بیان کیا جاوے۔ علاوہ اس کے قرآن مجید تمام لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے اس کا مقصود یہ ہے کہ جس طرح ذی علم دانش مند اس سے ہذایت پاویں اسی طرح جاھل و نادان عوام بھیڑوں اور بکریوں اور اونٹوں کے چرانے والے بھی ویسی ہی ہدایت پاویں ۔ عوام اکثر حقائق امور کے سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے۔ بلکہ بلحاظ زمانہ اور بلحاظ اس قدر ترقی علم و معلومات کے جو اس زمانہ میں ہوئی ہوتی ہے اکثر ذی علم بھی حقائق اشیا یا حقیقۃ الامر کے سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں۔ صاحب مذہب کو یا یوں کہو کہ روحانی ہادی یا پیغمبر کو ان امور سے چنداں بحث نہیں ہوتی اس لیے وہ روحانی اصلاح و تربیت کو مد نظر رکھ کر ان مطلب کوایسے الفاظ میں بیان کرتا ہے جن پر آیات متشابہات کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر اس کے ایک پہلو پرخیال کرو تو اس سے وہ مطلب پایا جاتا ہے جو عوام کے خیالات یا اس زمانہ کے اھل علم کی معلومات کے مناسب ہوتا ہے لیکن اس میں ایک اور دوسرا پہلو بھی مخفی ہوتا ہے اور جب علم کی اور معلومات کی ترقی ہوتی جاتی ہے۔ جب سمجھ میں آتا ہے۔ پس ایک ایسی کتاب میں جیسا کہ قرآن مجید ہے آیات متشابہات کا ہونا امر لازمی اورضروری ہے بلکہ ان کا ہونا ہی دلیل اس کی صداقت اور منزل من اللہ ہونے کی ہے اور قرآن مجید کا یہی بہت بڑا معجزہ ہے۔ اسی کے ساتھ بعض امور ایسے بھی ہوتے ہیں جو اصل اصول اور دارو مدار اس روحانی تربیت کے ہیں جن کے بغیر روحانی تربیت کا ہونا جو مقصود اصلی ہے ناممکن ہے وہامور بالضرور اس طرح پر بیان ہونے چاہئیں جن کا ایک ہی مطلب ہو اور نہایت صفائی سے مجھ میں آسکے اور دوسرے مطلب کو اس میں آنے کی گنجائش نہ ہو اور یہی مطالب وہ ہیں جن پر آیات محکمات کا اطلاق ہوا ہے۔ سب سے بڑا اصول مسلمانی مذہب کا توحید ہے اور اس کے بعد اعمال حسنہ ، وہ اس خوبی و عمدگی اور صفائی سے قرآن مجید کی آیات محکمات میں بیان ہوئے ہیں جن میں کسی طرح دوسرا احتمال ہو ہی نہیں سکتا۔ سورۃ انعام میں فرمایا ہے کہ اسکے سوا کوئی معبود ہی نہیں۔ ہر چیز کا وہی خالق ہے اسی کی عبادت کرو۔ دوسری جگہ فرمایا کہ اے محمد ! کہہ دے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہی خدائے واحد ہے ایک اورجگہ فرمایا کہ خدا کے ساتھ کسی دوسرے کو خدا مت بناؤ۔ سورۂ بقر میں کس صفائی سے بتلایا کہ جو شخص خدا پر ایمان لایا بے شک اس نے مضبوط ذریعہ پکڑ لیا جس کے لیے ٹوٹنا ہے ہی نہیں۔ سورۂ نساء میں فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک مت کرو۔ ماں باپ کے ساتھ ، رشتہ داروں کے ساتھ ، یتیموں کے ساتھ ، غریبوں کے ساتھ ، ہمسایہ میں جو رشتہ مند رہتے ہوں ان کے ساتھ ، حما ہمسایہ ہیں جو اور لوگ رہتے ہوں ، ان کے ساتھ ، جو غیرل وگ ساتھی ہوںان کے ساتھ ، مسافر غریب الوطن کے ساتھ احسان کرو اور ایک جگہ سورہ بقر میں فرمایا کہ غلاموں کے آزاد کرانے میں مال خرچ کرو۔ سورہ نساء میںکتنا صاف طور پر بیان کر دیا ہے کہ خدا صرف شرک کو نہیں بخشنے کا اور اس کیس وا کے جتنے گناہ ہیں اگر چاہے گا ان کو بخش دے گا۔ ایک اورجگہکس خوبی سیکلیہ قاعدہ بتایا ہے کہ جس نے تابعداری سے اپنا منہ خدا کے سامنے کیا اوروہ نیکی کرنے والا ہے تو اسکاثواب اس کے پروردگار کے پاس ہے۔ ان کو کچھ خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے پس یہ تمام آیات اور ان کی مانند اور بہت سی آیتیں آیات محکمات ہیں جن کا مطلب سوائے ایک کے کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔ ذات باری کی تعمیر بہ جز اس کے کہ موجود واحد لانۂولا شریک لہ ولیس کمثلہ شئی ۔ نہ آیات محکمات سے ہو سکتی ہے اور نہ آیات متشابہات سے اس لیے قرآن مجید میں جا بجا اس کی صفات کو بیان کیا ہے مگر جہاں جہاں صفت باری بیان ہوئی ہیں وہ سب ازقبیل آیات متشابہات کے ہیں۔ ’’ حی لایموت ‘‘کے الفاظ سے ہم کو اسی زندگی اور موت کا خیال آتا ہے جو ہم انسانوں اور حیوانوں میں دیکھتے ہیں۔ حالاں کہ ذات باری اس حیات و ممات سے جس کو ہم جاتے ہیں بری ہے۔ سمیع و بصیر و علیم ہونے کی صفات کو بہ جز اس قوت اور جس کے جو ہم کو بذریعہ کانوں اور آنکھوں اور بعد وجود معلومات کے ان کے ادراک سے حاصل ہوتی ہے اور کچھ نہیں جانتے۔ حالاں کہ ذات باری اس قسم کی صفات سے بری ہے۔ رحم اور غضب و قہر سے ہم انہیں صفات کو سمجھتے ہیں جو ہمارے دل کو کسی کی حالت زار دیکھ کر لاحق ہوتی ہیں۔ اور ہمارا دل اس سے متاثر ہو کر مضطر و رقیق ہو جاتا ہے یا کسی مخالف کی مخالفت یا خلاف طبع امر سرزد ہونے کے سبب ہمارے دل میں ایک جوش انتقام لینے کا اور ایسے فعل کے کرنے کاجس سے ہمارے جوش قلب و تسکین ہو پیدا ہوتا ہے۔ مگر ذات باری اس قسم کی صفات رحم و فہر سیپاک و مبرا ہے۔ خدا کی نسبت عرش پر بیٹھنا اس کے ہاتھ ہونے اس کا منہ ہونا بیان ہوا ہے۔ ان الفاظ سے بہ جز ایسے تخت کے جس کو ہم نے دیکھا ہے اور بہ جز ان ہاتھوں کے جو ہمارے بدن میں ہیںاور بہ جز اس منہ کے جو زیادہ سے زیادہ شان و شوکت والا ہم نے دیکھا ہے اور کوئی معنی ہمارے خیال میں نہیں آسکتے مگر خدا تعالیٰ اس طرح سے تخت پر بیٹھنے اور ایسے ہاتھوں اور ایسے منہ کے ہونے سیمبرا ہے۔ حشرا جساد ، نعیم جنت ، عذاب دوزخ کا جن آیتوں میں بیان ہوا ہے وہ سب آیتیں متشابہات میں سے ہیں جسد کے موجود ہونے کا خیال بہ جز اس طریقہ کے جس کو ہم دیکھتے ہیں اور کسی طرح پر آھی نہیں سکتا اور اس میں کچھ شبہ نہیں ہے۔ حشر اجساد سے اسی معمولی و عرفی طریقہ پر محشود ہونا مقصود نہیں ہے اور نہ موجودہ اجسام کابعینہا محشور ہونا مراد ہے۔ نعیم جنت و عذاب دوزخ کے لذیذ و آلام جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں ان کی کیفیت بہ جز اس کے جو ہم اپنی جسمانی حالت میں پاتے ہیں اور کچھ سمجھ نہیں ستے اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ وہ حالت اس جسمانی حالت سے مغائر ہو گی پس وہ تمام آیات متشابہات ہیں جن کے کئی مطلب سمجھ میںآتے ہیں اور اصلی مقصود متعین نہیں ہو سکتا یا ان میں ایسے مطالب ہیں جو اانسان کی حس سے سے خارج ہیں اور بطور تمثیل کے بذریعہ آیات متشابہات بیان ہوتے ہیں جن لووگں کے دلوں میں کجی ہے۔ وہ خرابی ڈالنے کے لیے ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کی غلط تاویل کرتے ہیں اور جو لوگ علم میں راسخ ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ بیان ہوا ہے وہ سب خدا کے پاس سے آیا ہے اس لیے وہ اس قسم کی تاویلوں کے درپے نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ ۔ وہ علۃ العلل جس کو خدا کہتے ہیں وحدہ ، لاشریک ہے وہی علۃ العلل تمام چیزوں کی خالق ہے۔ ایسی علۃ العلل کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ایسی چیز بھی ہو جس کو ہم زندگی کہتے ہیں ایسی چیز نہ ہو جس کو ہم زندگی کہتے ہیں ایسی چیز نہ ہو جس کو ہم موت کہتے ہیں اس میں کوئی ایسی چیز بھی ہونی ضرور ہے جس کو ہم لفظ سمع و بصر و علم و رحم و غضب و قہر سے تعبیر کرتے ہیں اس میں کوئی ایسا امر بھی ہونا ضرور ہے کہ جن کا موں کو ہم ہاتھ پاؤں منہ وغیرہ کے ساتھ منسوب کرتے ہیں اس میں بھی منسوب کر سکیں کیوں کہ اس کے علۃ العلل و خالق جمیع اشیاء کے ہونے کو ایسی چیزوں کا اس میں ہونا لازم ہے اس لیے ہم اس کے حی لایموت و سمیع ، بصیر ، علیم ، رحمان و رحیم ، قہار و جبار ہونے پر یقین کرتے ہیں مگر اس امر کی کہ اس کی حیات کیا ہے اور عدم موت کیا ہے اس کا سمیع و بصیر و علیر و رحمان و رحیم و جبار و قہار ہونا کیا ہے اور کیسا ہے کچھ تاویل نہیں کرتے۔ لا یعلم تاویلہ الااللہ ۔ ہاں اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا سا نہیں۔ پس ہمارے نزدیک آیات متشابہات پر ایمان لانے کے یہی معنی ہیں اور فطرت انسانی کا یہی مقتضیٰ ہے۔ ٭……٭……٭ جبرئیل و میکائید اور فرشتوں کا وجود جبرئیل و میکائیل یہودیوں نے فرشتوں کے لیے نام مقرر کیے تھے اور ان کے ہاں سات فرشتے نہایت مشہور فرشتوں میں ہیں۔ مگر اس کا ثبوت نہیں ہے کہ کسی نبی نے ان کو بتایا تھا کہ یہ فرشتوں کے نام ہیں۔ بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صحف انبیاء میں کوئی صفت صفات باری میں سے کسی خاص لفظ کے ساتھ تعمبیر کی گئی تھی اور پھر رفتہ رفتہ وہ لفظ فرشتہ کا نام متصور ہونے لگا۔ قرآن مجید میں ان کا استعمال اسی طرح پر ہوا ہے جس طرح کہ یہودی خیال کرتے تھے مگر ہمارے ہاں کے علماء نے بھی یہودیوں کی تقلید سے ان کو فرشتوں کے نام قرار دیے ہیں۔ قرآن مجید میں صرف دو فرشتوں یعنی جبرئیل و میکائیل کا نام آیا ہے۔ وہ دونوں فرشتے یہودیوں کے ہاں بھی اسی نام سے مشہور ہیں ’’ صرف تلفظ کا فرق ہے کیوں کہ وہ دراصل عربی نہیں بلکہ عبرانی ہیں۔ ‘‘ (جبریل) عبری زبان میں اس لفظ کے معنی قوۃ اللہ یا قدرۃ اللہ کے ہیں یہ لفظ دانیال پیغمبر کی کتاب میں آیا ہے۔ حضرت دانیال نے سینگ دار مینڈھے اور سینگ دار بکرے کی لڑائی کا ایک خواب دیکھا تھا اسی خواب میں ایک شخص نے دریا کے کنارے سے پکار کر کہا کہ اے جبرئیل اس ایک شخص یعنی دانیال کو اس خواب کی تعبیر سمجھا دے اور ایک دفعہ وہی شخص جس کا نام خواب میں حضرت دانیال نے جبرئیل سنا تھا ان کا خواب سمجا نے کو ان کے پاس آیا تھا۔ لوقا نے جو انجیل لکھی ہے اس کے پہلے باب میں جبرئیل کا ذکر ہے جس نے الشیع حضرت ذکریا کی بیوی کو حاملہ ہونے کی بشارت دی اور پھر حضرت مریم ؑ کی بھی بیٹا ہونے کی خوش خبری سنائی۔ علمائے یہود کے نزدیک جبرئیل بنی اسرائیل کے لیے قابض الرواح ہیں اور ان کی روحیں انہی کے پاس رہتی ہیں ، تالمد مںی ان کو ملک النار کہا ہے اور یہ لکھا ہے کہ رعد پر ان کی حکمرانی ہے اور میووں کا پکار ان سے متعلق ہے۔ علمائے یہود یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جبرئیل بڑے زبان داں ہیں اور بابل میں جو لوگوں کی زبانیں ستر قسم کی ہوگئی تھیں ان سب کو یہ جاتنے ہیں اور حضرت یوسف کو وہ سب زبانیں انہیں نے سکھا دی تھیں اور کلدانی اور سریانی زبان سوائے جبرئیل کے اورکسی فرشتہ کو نہیں آتی۔ غالباً زبان دانی میں ان کے مشہور ہونے کے سبب مسلمانوں نے تصور کیا ہے کہ یہی خدا کی وحی یعنی قرآن کی آیتیں خدا سے سن کر یاد کر لییت تھے اور آنحضرت ؐ کو آکر سناتے تھے۔ (میکائیل) کے عبری معنی میں ’’ من کاللہ ‘‘ کے ہیں دانیال کے کتاب میں اور ان کے خوابوں میں یہ لفظ بھی آیا ہے۔ مشاہدات یوحنا میں بھی یہ لفظ ہے اور لکھا ہے کہ آسمان پر لڑائی ہوئی۔ میکائیل اور اس کے فرشتے اژدھے سے لڑے اور اژدھے اس کے فرشتوں سے لڑے پس غالب نہ ہوئے اور ان کے لیے آسمان پر جگہ نہ رہی اور یہودا نے میکائیل کی نسبت لکھا ہے کہ ’’ جب بڑے فرشتے میکائیل نے شیطان کے ساتھ موسیٰ کے لاش کے حق میں تکرار کر کے گفتگو کی تب اس نے بدنامی کی نالش کرنے میں دلیری نہ کی۔ لیکن کہا اللہ تجھے ملامت کرے۔ ‘‘ بہر حال ہم کو اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ جو الفاظ صفات باری پر مستعمل ہوئے تھے آخر کو انہی الفاظ کو فرشتوں کا نام سمجھنے لگے۔ یہودی خیال کرتے تھے کہ میکائیل قوم بنی اسرائیل کا محافظ اور نگہبان ہے اور جبرئیل کو سمجھتے تھے کہ وہ بنی اسرائیل کا مخالف ہے۔ اس سبب سے جبرئیل کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور اس سے عداوت رکھتے تھے اس کی نسبت خدا نے فرمایا ہے کہ جو کوئی جبرئیل کا یا میکائیل کادشمن ہے بے شک خدا اس کادشمن ہے۔ مگر جبرئیل و میکائیل کا اس آیت میںحکایہً نام ہونے سے ان کے ایسے موجود واقعی پر جیسا کہ یہودیوں نے اور ان کی پیروی سے مسلمانوں نے تصور کیا ہے استدلال نہیں ہو سکتا ۔ جیسے کہ فرشتوں کی بحث کے بعد اس کو بیان کریں گے۔ (ملائکہ) فرشتوں کی نسبت بھی جو بحث ہے وہ نہایت ہی غور طلب ہے قرآن مجید میں فرشتوں کا ذکر آیا ہے اوراس لیے ہرم ایک مسلمان کو جو قرآن پر یقین رکھتا ہے۔ فرشتوں کے موجود اور ان کے مخلوق ہونے پر یقین کرنا ضرور ہے۔ مگر جہاں تک بحث ہے اور اس پر بحث ہے کہ کیسی مخلوق ہے۔ عام خیال مسلمانوں کا اور علمائے اسلام کا یہ ہے کہ جس طرح انسان و حیوان جسم و صورت وہ شکل رکھتے ہیں اسی طرح وہ بھی جسم اور صورت و شکل رکھتے ہیں اور ان کے پر بھی ہیں جن سے وہ اڑ کرآسمان پر جاتے ہیں اور زمین پر اتر آتے ہیں اور خدا کا پیغام پیغمبروں تک پہنچاتے اور دنیا کے کام جوان سے متعلق ہیں کرتے پھرتے ہیں اور حیوانات کے جسم اور ان کے جسم میں اتنا ہی فرق ہے کہ ان کا جسم محسوس نہیں ہوتا۔ نہ چھونے سے ہاتھ کو لگتا ہے ، نہ دیکھنے سے آنکھ کو دکھائی دیتا ہے اور باوجود اس قدر نازک ہونے کے وہ بہت بڑے بڑے اور نہایت مشکل مشکل کام کرتے ہیں ، پہاڑ اٹھا لیتے ہیں ، زمین کو الٹ دیتے ہیں اور ان میں یہ بھی طقت ہے اور کہ کبھی اپنے جسم کو ایسا کرلیتے ہیں کہ ان کی اصلی صورت جو بہت بڑی خیال کی گئی ہے دکھائی دے جاتی ہے اور ان میں یہ بھی قدرت ہے کہ جس شخص کی صورت چاہیں بن جاویں اور انسانوں کے پاس آکر باتیں کریں ہیں۔ ہمارے پاس کسی ایسی مخلوق کے ہونے سے جو کسی قسم کاجسم و صورت بھی رکھتی ہو جو ہم کو نہ دکھائی دیتی ہو انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ پس ہم کہتے ہیں کہ شاید ایسی مخلوق ہو ۔ مگر ہم ایسی مخلوق کے ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرتے اور جو افعال ایسی مخلوق کی نسبت منسوب کیے جاتے ہیں ان کا بھی اقرار نہیں کرتے کیوں کہ ان باتوں کے اثبات کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن مجید سے فرشتوں کے اس قسم کے وجود کا اور ان کے اس قسم کے جسم کا اور ان کے ان افعال کا جن کا اوپر ذکر ہوا کچھ ثبوت نہیں ہے۔ قرشتوں کے اس قسم کے وجود اور افعال اور ثبوت ضرور ہے کہ دلیل نقلی سے و گا اور اس لیے قبل شروع کرنے اس بحث کے ہم کو مناب معلوم ہوتا ہے کہ علمائے علم کلام نے جو بحث نسبت دلیل نقلی کے کی ہے اس مقام پر اس کونقل کریں۔ شرح و مواقف میں اس بات پر ایک بحث لکھی ہے ، کہ دلائل نقلیہ جن سے مطلب پر استدلال کیا جاتا ہے مفید یقین ہیں یا نہیں معتزلہ یا جمہور اشاعرہ کا یہ مذہب بیان کیا ہے کہ مفید نہیںاوراس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ جن الفاظ سے استدلال کیا جاتا ہے ان کی نسبت جاننا چاہیے کہ وہ انہی معنوں کے لیے وضع کیے گئے ہیں ۔ جو معنی ان سے لیے جاتے ہیں اور اس بات کو بھی جاننا چاہیے کہ یہی معنی ان سے مراد بھی ہیں۔ پہلی بات کے جاننے کے اصول تین ہیں لغنت ، صرف ، نحو اور یہ تینوں اصول روایت احاد سے ہم تک پہنچے ہیں۔ مثلا اصمعی اور خلیل و سیبویہ سے اور اگر وہ صحیح بھی ہوں تو ممکن ہے کہ خود اھل عرب نے اس میں غلطی کی ہو۔ اس لیے کہ امراء القیس جو سب سے بڑا شاعر زمانہ جاھلیت کا تھا۔ اس نے کئی جگہ ان باتوں میں غلطی کی ہے اور ان اصول کی فروعات قیاس پر مبنی ہیں اور روایت احاد اور قیاس دونوں ظنی دلیلیں ہیں۔ دوسری بات اس پر موقوف ہے کہ جن معنوں کے لیے وہ لفظ وضع ہوئے تھے ان معنوں سے کسی دوسرے معنی میں مستعمل نہیں ہوتے اور نیز وہ لفظ مشترک المعنی بھی نہیں ہیں کیوں کہ اگر مشترک المعنی ہوں تو ہو سکتا ہے کہ جو معنی ہوم نے سمجے ہیں ان سے وہ معنی مراد نہ ہوں بلکہ دوسرے معنی مراد ہوں اور نیز یہ بھی معلوم ہو کہ وہ مجازی معنوں میں بھی نہیں بولے گئے ہیں۔ کیوں کہ اگر مجازی معنوں میں بولے گئے ہوں تو ان سے وہی معنی مراد ہوں گے نہ حقیقی معنی جو ان سے متبادر ہوتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہو کہ کلام میں کوئی مضمر بھی نہیں ہے کیوں کہ اگر کوئی شے مضمر ہوتو اس کے معنی بدل جاویں گے اور نیز وہاں کوئی تخصیص بھی نہ ہو ، کیوں کہ اگر کوئی تخصیص ہو گی تو ان چیزوں پر وہ لفظ دلالت کرتا ہے ان میں سے بعض مراد ہوں گے نہ ، کل ۔ اور یہ کہ کلام میں تقدم و تاخیر بھی نہ ہو ، کیوں کہ اگر کلام میں تقدم و تاخیر ہو گا تو اس کے معنی بھی پلٹ جویں گے اور ان باتوں میں سے ہر ایک بات ایسی ہے جو فی الواقع کلام میں ہوتی ہے اس لیے ضرورۃ نقل مفید یقین نہیں ہوتی۔ ان سب باتوں کے ہونے کے بعد اس بات کا جاننا بھی ضرور ہے کہ جس بات پر نقلی دلیل دلالت کرتی ہے اس پر کوئی عقلی معاوضہ بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی عقلی معاوضہ پایا جاوے گا تو ضرور نقلی دلیل پر اس کوترجیح ہو گیاور اس نقلی دلیل کو ضرور دوسرے معنوں میں تاویل کرنا پڑے گا مثلا یہ جو خدا کا قول ہے کہ ’’ الرحمن علی العرش استوی ‘‘ یہ صاف دلالت کرتا ہے کہ خدا تخت پر بیٹھا ہوا ہے مگر دلیل عقلی اس کی معارض ہے اور خدا کا تخت پر بیٹھا ہوا ہونا عقلی دلیل سے محال ہے۔ اس لیے اس نقلی دلیل کی غلبہ یا بادشاہت سے تاویل کی گئی اور اگر یوں نہ کیا جوے تو اجتماع نقیضین یا ارتفاق نقیضین لازم آتا ہے۔ اور اگر دلیل نقلی کو عقل پر ترجیح دیں تو فرع سے اصل کا ابطال لازم آتا ہے۔ کیوں کہ جو چیزیں نقلی ہیں ان کا اثبات بھی بہ جز عقل کے اور کسی طرح ممکن نہیں۔ پس نقل کے لیے بھی عقل ہی اصل ہے۔ اس لیی نقل کو ترجیح دینے سے اصل سے فرع کا ابطال لازم آتا ہے اور فرع بھی اس باطل ہو جاتی ہے کیوں کہ صحت نقل تو متفرع تھی عقل پر جس میں فساد ہونا مانا گیا تو نقل بھی مقطوع الصحت نہ رہی۔ عقلی معاوضہ کاہونا بھی یقینی نہیں ہے۔ کیوں کہ غایت الغایت یہ ہے کہ باوجود تلاش کے کوئی معارض عقلی نہیں ملا ۔ لیکن معارض عقلی کے نہ ملنے سے اس کے نہ ہونے پر یقین نہیں ہو سکتان اور اس سے ثابت ہوا کہ دلالت نقلی بلکہ عقلی بھی امور ظنی پر موقوف ہے اور اس لیے دلالت نقلی اپنے مدلولات پر مفید یقین نہیں ہے۔ صاحب شرح مواقف نے ان دلیلوں کے لکھنے کے بعد یہ لکھا ہے کہ یہ دلیلیں ٹھیک نہیں ہیں۔ بلکہ حق یہ ہے کہ دلائل نقلی شرعیات میں ان قرائن سے جو منقول ہیں مشاہدہ ہوتی ہیں اور بطور تو اتر کے ہم تک پہنچی ہیں اور جن سے تمام احتمالات مذکورہ بالا جاتے رہتے ہیں۔ مفید یقین ہوتی ہیں۔ کیوں کہ تمام اھل لغت کے بیان سے ہم جاتے ہیں کہ جن معنوں میں لفظ ارض و سماء کا اور اسی کی مانند جو اور مستعمل لفظ ہیں رسول خدا علیہ السلام کے وقت میں انہی معنی ہیں مستعمل تھے جو معنی کہ اب ان سے لیے جاتے ہیں اور اس میں شک کرنا سفسطہ ہے جس کے غلط ہونے میں کچھ شک شبہ نہیں اور معارض عقلی کا نہ ہونا قائل کو یقینی پیغمبر کو صادق ماننے سے جانا جاتا ہے کیوں کہ اگر معارض عقلی کا ہونا خیال کیا جوے تو قائل کا کذب لازم آتا ہے۔ (ہذا محصل مافی شرح الموقف)۔ مگر جو کچھ نسبت دلیل نقلی کے مفید یقین ہونے کے شارح مواقف اور صاحب مواقف نے لکھا ہے وہ کسی قدر زیادہ غور کے قابل ہے۔ اس لیے کہ الفاظ مستعملہ کے جو معنی بطور تو اتر اور بہ نقل اھل تغت ہم تک پہنچے ہیں وہ مسمیات ان الفاظ کے ہیں بلا لحاظ ان کی ماھیت کے م۔ مثلا ارض و سماء جو سب سیزیادہ مشہور مستعمل الفاظ ہیں ان کے معنی جو ہم تک بطور تو اتر کے پہنچے ہیں وہ اسی قدر ہیں کہ جس چیز پر ہم رہتے ہیں وہ ارض ہے اور جو چیز ہم کو اپنے سر پر دکھائی دیتی ہے وہ آسمان ہے اور کچھ شبہ نہعیں ہے کہ عرب قدیم اس قدرسے زیادہ اور کوئی معنی ان لفظوں کے نہیں سمجھتے تھے۔ مگر اہل کلام نے اور فقہا اور علمائے اسلام نے صرف اسی قدر پر قناعت نہیں کی بلکہ ان کے معنوں میں وہ باتیں بھی شامل قرار دی ہیں جن کا غالباً خیال بھی عرب قدیم کو نہیں تھا۔ اور اس صورت میں ان الفاظ کی دلالت ان معنوں پر یقینی قطعی نہیں ہے۔ الفاظ مشترک المعنی کی نسبت کوئی قرینہ ایسا نہیں ہے کہ جس سے ان کا کسی ایک معنی پر مستعمل ہونے کو قطعی دلیل موجود ہو۔ الفاظ کا مجازی معنوں میں مسعتمل ہونا ایک ایسا وسی امر ہے جس کی نسبت نہ نقل سے اور نہ اھل لغت کے تو اتر نقل سے تصفیہ ہو سکتا ہے اور یہی حال اضمار اور تخصیص اور تقدیم و تاخیر کا ہے۔ ان سب سے زیادہ ایک اور امر ہے جس پر شار ح مواقف اور صاحب مواقف بلکہ اور کسی نے بھی غور نہیں کیا اور وہ کلام غیر مقصود ہے۔ مثلا ایک شخص یہ بات کہے کہ جب آفتاب مغرب سے نکلے یا اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جاوے تب یہ امر واقع ہو گا اور مخاطب اس کو یہ جواب دے کہ آفتاب کے مغرب سے نکلنے اور اونٹ کے سوائی کے ناکے میں سے نکل جانے پر بھی یہ امر واقع نہ ہو گا۔ اس کلام میںآفتاب کا مغرب سے نکلنا اور اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا کلام مقصود نہیں ہے بلکہ عدم وقوع اس امر کاجس کے وقوع کا قائل مدعی تھا ، مقصود ہے اور اس کلام سے تسلیم اس بات کی درحقیقت کبھی آفتاب مغرب سے نکلے گا یا اونٹ سوائی کے ناکے میں سے نکل جاوے گا لازم نہیں آتی۔ پس دلیل نقلی میں اس بات کا علم بھی کہ وہ کلام غیر مقصود نہیں ہے اشد ضرویات میں سے ہے اور بغیر اس کے کوئی نقلی دلیل مفید یقین نہیں ہو سکتی۔ قرآن مجید میں اس قسم کا کلام غیر مقصود نہایت کثرت سے ہے۔ مشرکین و اھل کتاب کے عندیہ میں بہت سی ایسی باتیں سمائی ہوئی تھیں جن کا دراصل کچھ وجود نہ تھا ، یا وجود تھا۔ مگر اس کی جو حقیقت کہ وہ سمجھے ہوئے تھے دراصل وہنہ تھی۔ یا وہ بات ظاہر میں دکھائی دیتی تھی اور بطور غلط العام یا باعتبار مشاہدہ اسی کو واقعی سمجھتے تھے۔ حالاں کہ حقیقت اور اصلیت برخلاف اس کے تھی اور قرآن مجید کو اس سے بحث مقصود نہ تھی اس لیے اس کو اسی طرح بیان کیا۔ جس طرح مشرکین اور اھل کتاب خیال کرتے تھے اور کبھی اسی پر بطور حجت الزامی کے کلام مقصود کی بناء پر قائم کی اور کبھی اس کو بطور تظہیر مسلمہ مخالف کے اور کبھی بطور ایک مسئلہ غلط العام کے اور کبھی بلحاظ مشاہدہ ظاہری کے اس کو بیان کیا اور کلام مقصود سمجھا گیا پس کلام مقصود کے سوا جس قدر کلام ہے وہ سب کلام غیر مقصود ہے اور اس سے کوئی ثبوت کسی امر کی واقعیت کاحاصل نہیں ہوتا اور نہ وہ کسی امر کے لیے مفید یقین ہوتا ہے اور اس لیے دلیل نقلی کے مفید بالیقین ہونے کو قطع نظر ان تمام باتوں کے جو شارح مواقف اور صاحب مواقف نے بیان کی ہیں۔ اس بات کا علم کہ وہ کلام غیر مقصود نہیں ہے ، واجب ضرور ہے۔ یہ امر جو ہم نے بیانن کیا اس کو کچھ کلام اللہ ہی سے خصوصیت نہیں ہے۔ بلکہ عام کلام کا اور خود ہماری روز مرہ گفتگو کا بلکہ تمام دنیا اور تمام قوموں کی باہمی گفتگو و کلام کا یہی طریقہ ہے کہ جو امر بحث سے اور مقصود سے خارج ہے اس کے صحیح یاغیر صحیح ہونے سے قطع نظر کر کر کبھی بطور حکایت اور کبھی بطور تسلیم فرضی اور کبھی بغیر کسی یخال کے اس کا ذکر اور بیان آجاتا ہے اور اس سے بہ جز اس کے کہ اس کے بعد کلام مقصود بنایاجاوے گا اور کچھ مقصد نہیں ہوتا یہی سبب ہے کہ بعض اشخاص غلطی سے سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں بعض ایسی باتیں بیان ہوئی ہیں کہ جو حقائق موجودہ کے برخلاف ہیں اور بعضے اس سے بھی زیادہ غلطی یہ کرتے ہیں کہ اس کو کلام مقصود سمجھ کر اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ وہی دراصل حقائق موجود ہ ہیں اور دراصل دونوں غلطی پر ہیں قرآن مجید بلاشبہ کلام اللہ ہے مگر انسانوں کی زبان اور انسانوں کے کلام کے طرز پر۔ پس اس کلام کو مثل ایک انسان کے کلام تصور کرنا چاہیی اور اس سے معافی و مطالب و احکام و مقاصد اخذ کرنے اور اس سے دلیلیں قائم کرنے میں اس کو انسان کے کلام سیزیادہ کچھ رتبہ دینا نہیں چاہیے۔ اب ہم کو ملک اور ملائکہ کے لفظ سے اور جس طرح پر کہ فرشتوں کا خیال انسانوں کے دل میں پیدا ہوا اور جس طرح کا خیال یہودیوں کا عیسائیوں میں فرشتوں کی نسبت تھا اور جس طرح سے کہ ان کا بیان قرآن مجید میں ہوا ہے اس پر بحث کرنی چاہیے۔ قدیم زمانہ کی تمام دنیا کی قموں کا یہ حال تھا کہ جو امور عجیب و غریب ان کے سامنے ایسے پیش آتے تھے جس کی علت ان کی سمھ سے باہر تھی۔ اس کو کسی ایسی قوت یا ایسے شخص سے منسوب کرتے تھے جو انسان سے برتر اورخدا سے کم تر تھی اسی خیال سے تمام بت پرست قوموں نے اپنے ہاں خیالی دیوتا اور دیبیاں اور خدا پرست قوموں نے اپنے ہاں فرشتے نام کر لیے۔ ملک کے لفظ کے اصل اھل لغت ملائک بتاتے ہیں اور اس کے معنی رسول یا پیغمبر یعینی پیغام پہنچانے والے کے کہتے ہیں مگر اس لفظ کا اطلاق اس شے پر ہوتا ے جس کو خد ا تعالیٰ نے اپنے مقاصد کے انجام کے واسطے یا اپنے وجود یا قدرت کے اظہار کے واسطے معین کیا ہو توریت اور صحف انبیاء اور انجیل میں فرشتہ کے لفظ کا استعمال نہایت وسیع معنوں میں آیا ہے ۔ کتاب دوم شموئیل باب 24 ، ورس 16 ، 17 میں اورکتاب دوم ملوک باب 19 ورس 35 میں اور زبور داؤد باب 87 ورس 49 میں وبا پر فرشتہ کا اطلاق ہوا ہے۔ اور زبور داؤد باب 104 ، 1 ورس 4 میں ہواؤں پر فرشتہ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ کتاب ایوب باب 1ورس 14 و کتاب اول شموئیل باب11 ورس 3 اور انجیل لوقا باب 7 ورس 24 باب 9 ورس 51 ، 52 میں فرشتہ کا لفظ عام ایلچیوں پر بولا گیا ہے۔ کتاب اشعیاہ باب 42 ورس 19 و کتاب حجی باب 1 ورس 13 و کتاب ملا کی باب 3 میں فرشتہ کا لفظ پیغمبر یعنی انبیاء کے معنوں میں آیا ہے اور کتاب و اعظ باب 5 ورس 6 و کتاب ملا کی باب 2 ورس 7 میں فرشتہ کا لفظ بمعنی کاھن یا امام کے مستعمل ہوا ہے ۔ مشاھدات یوحنا باب 1 ورس 20 میں اور انجیل کے اور چند مقاموں میں فرشتہ کا لفظ حضرت عیسیٰ کے رسولوں پر بولا گیا ہے۔ توریت میں بہت جگہ فرشتوں کو اس طرح بیان کیا ہے جسے کہ ایک انسان اور دوسرے انسان کے پاس آئے اور ملاقات کرے اور باتیں کریں۔ توریت کی پہلی کتاب مسمی یہ کتاب پیدائش باب 32 میں فرشتہ کا بطور ایک شخص کے تمام رات حضرت یعقوب سے کشتی لڑنے کا اور اخیر کو ان کی ٹانگ مڑوڑ ڈالنے کا ذکر لکھا ہے۔ اور ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سے حضرت یعقوب کو بیماری نقرس یا وجع الورک کا ہونا مراد ہے۔ پس اگر یہ خیال صحیح ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ مرض پر بھی فرشتہ کا اطلاق ہوا ہے اور اسی کتاب کے باب 19میں حضرت لوط کے پاس دو فرشتوں کے آنے کا ذکر ہے جو مسافر آدمیوں کی صورت میں آئے تھے اور حضرت لوط نے اپنے گھر میں ان کو مہمان رکھا اور ان کی ضیافت کی اور نان فطیری ان کے لیے پکائی اور انہوں نے کھائی بایں ہمہ بہت جگہ فرشتہ کا لفظ ایسے وجود ہائے روحانی یا عقول فلکی کی نسبت مستعمل ہوا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی احکامات بجا لانے کے واسطے مامور ہیں۔ ارواح کی نسبت قدیم یہودیوں کا خیال اس زمانہ کے خیال سے کسی قدر مختلف تھا اس زمانہ میں روح سے غیر مادی چیز خیال کی جاتی ہے اور مادہ کو ضد روح اور روح کو ضد مادہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہودی عبری لفظ ، مروح سے غیر مادی شے مراد نہیں لیتے تھے بلکہ غیر مرئی جسم سمجھتے تھے اور ان کے جوہر کو خالص ہوا یارقیق آگ تصور کرتے تھے اور اس لیے جب قدیم یہودی فرشتوں کو ارواح کہتے تھے تو ان کے ذی جسم ہونے سے ان کو انکار نہ تھا بلکہ صرف مادہ غلیظ کی نجاستوں سے مبرا ہونا سمجھتے تھے۔ سنٹ پال نے جو اپنے نامہ اول موسومہ کرنتھیاں باب 15 ورس 44 میں لکھا ہے ، اس سے پایا جاتا ہے کہ وہ بھی روحانی اجسام کو تسلیم کرتے تھے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کی کتب مقدسہ میں روحانی عقول کا اکثر ذکر پایا جاتا ہے جن کی حالت وجود جدگانہ ہے اور ایک آسمانی جماعت قرار دی گئی ہے جس کا سردار خود خدا ہے۔ کتاب دانیال باب 7 ورس 20 و انجیل متی باب 26 ورس 53 و انجیل لوقا باب 2 ورس 13و نامہ عبرانیاں باب 12 ورس 22 ، 23 سے کڑوڑھا بلکہ کڑوڑھا در کڑوڑھا فرشتوں کا ہونا معلوم ہوتا ہے اتنے بڑے جم غفیر کے اندر مختلف درجے اور مختلف صفیں موجود ہونی ضرور ہیں۔ تاکہ انسان سے لیکر خددا تک ایسا سلسلہ وجود قائم ہو جاوے جو خالق اور کمترین ذی عقل مخلوق کی تفاوت کو مربوط کر دے۔ یہودیوں کی مقدس کتابوں میں فرشتوں کا ایسی جماعتوں میں منقسم ہونا مذکور ہے جن کی عزت اور قوت اور صفت غیر مساوی ہے اور ان پر سردار اور حکام بھی ہیں۔ اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ یہودیوں کی قدیم کتب مقدسہ میں یعنی ان کتابوںمیں جو قید بابل سے پیش تر لکھی گئی ہیں یہ خیال صاف صاف بیان نہیں ہوا۔ بلکہ جو کتابیں جلا وطنی کے زمانہ میںاور اس کے بعد کو لکھی گئی ہیں ان کتابوں میں اس خیال نے صورت پکڑی ہے اور خصوصاً حضرت دانیال اور حضرت ذکریا کی تحریرات میں اس خیال کا پتہ ملتا ہے ، کتاب ذکریا باب 1ورس 11 میں ایک فرشتہ سب سے اعلیٰ درجہ کا ہے جو خدا کے وربرو کھڑا رہتا ہے اور فرشتوں سے بطور اپنے کارندوں کے کام لیتا ہے۔ حضرت دانیال نے حضرت میکائیل فرشتہ کو بہت بڑے بڑے لقب عطا فرمائے ہیں ، نامہ یہودہ ورس 9 اور اول نامہ تھسلینی کے باب 21 ورس 16 سے معلوم ہوتا ہے یہ کہ رائے کہ فرشتے مختلف درجہ رکھتے ہیں صرف یہودیوں کے ساتھ ہی مخصوص نہ تھی۔ بلکہ حضرت عیسیٰ کے حواریوں کا بھی یہی خیال تھا ہاں اس قدر ٹھیک ہے کہ متاخرین یہودیوں نے جورتبے کی تقسیم فرشتوں میں قائم کی ہے وہ حواریوں کے وقت میں نہ تھی۔ یہودیوں کی کتب مقدسہ میں فرشتے ہمیشہ مجسم ہو کر انسانی صورت میں دکھائی دیتے تھے اور کسی جگہ اس بات کا اشارہ نہیں ملتا کہ یہ اجسام حقیقی نہ تھے۔ متقدمین یہودی بیشک یہ جانتے ہیں کہ ان اجسام کا مادہ ہمارے اجسام کیمادہ کی مانند نہیں ہے۔ کیوں کہ فرشتوں میں یہ قدرت ہے کہ جب چاہیں اپنے تئیں لوگوں کو دکھلا دیں اور جب چاہیں نگاہوں سے غائب ہوجاویں۔ عیسائی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ وہ یقین کرتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ مصلوب ہونے کے بعد اٹھے ، تو کبھی ان کا جسم حواریوں کو دکھائی دیتا تھا اور کبھی نگاہ سے غائب ہو جاتا تھا۔ اگرچہ وہ ہمیشہ انسان کی صورت پر دکھائی دیتے تھے مگر یہودیوں نے اس سے یہ بات لازم نہیں تصور کی تھی، کہ فرشتے انسان ہی کی صورت رکھتے ہیں ، بلکہ مقتدین یہودی یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جو چیز خالص روح نہیں ہے کوئی نہ کوئی شکل ضرور رکھے گی۔ ممکن ہے کہ ان کی صورت انسان کی سی ہو یا اور کسی شکل کی۔ یہودیوں کی کتب مقدسہ میں اناث ملائکہ کا ذکر نہیں پایا جاتا اور عیسائی بھی بدلیل انجیل متی باب 22 ورس 13 بطور استنباط کے یہی سمجھتے ہیں کہ فرشتوں میں مذکور اور اناث کی کچھ تمیز نہیں ہے۔ کتب مقدسہ میں غالباً اس وجہ سے کہ مذکر کا صیغہ زیادہ معزز ہے۔ فرشتوں کی نسبت مذکر کا صیغہ کا استعمال ہوا ہے۔ مگر اکثر بت پرست قومیں فرشتوں کو ذکور اور اناث قرار دیتی ہیں اور دیوتا اور دیبی کا ماننا ان خیالات کو ظاہر کرتا ہے۔ عیسائی اور یہودی دونوں فرشتوں میں ان صفات کو تسلیم کرتے ہیں۔ انسان سے ان میں عقل کا زیادہ ہونا اور ان کا قوت اورق درت میں زیادہ ہونا۔ ان کا پاک اور برگزیدہ ہونا اور یہ بات کہ فرشتے خدا تعالیٰ کے منشاء اور مرضی کے اظہار کے ذریعے ہیں کتب مقدسہ یہودیوں اور عیسائیوں سے بخوبی معلوم ہوتی ہے اور اسی سبب سے بعض کاموں کو ان کتابوں میں بالکل فرشتوں ہی کی طرف منسوب کیا ہے۔ انسانوں کے مقسوم کے متعلق امورات میں بھی ان کی وساطت ہوتی ہے یہودی اور عیسائی یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ گو فرشتوں کی وساطت ہماری نظروں پوشیدہ ہو تب بھی ان کی وساطت تسلیم ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ عبرانیوں کے خط کے باب اول ورس 14 وزبور داؤد باب 34 ورس 7وباب 91 ورس 11 و انجیل متی باب 8 ورس 10 میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ فرشتوں کو نجات کے وارثوں کی خدمت کے لیے بھیجتا ہے۔ قدیم عیسائی سمجھتے تھے کہ ہر فرد و بشر کے ساتھ ایک فرشتہ ہے جو اس کی حفاظت پر متعین ہے ۔ مشرکین کا بھی اسی کے قریب قریب عقیدہ تھا۔ یونانی اپنے محافظ دیوتا کو ’’ ڈیمن ‘‘ اور رومی جینیس کہتے تھے اور یہودی اور قدیم عیسائی یہ بھی سمجھتے تھے ہر انسان پر دو فرشتے متعین ہوتے ہیں ایک نیکی کا ایک بدی کا ۔عام یہودی بھی فرشتوں کی نسبت یہی اعتقاد رکھتے ہیں۔ مگر ایک فرقہ یہودیوں کا جو صدوقی نام سے مشہور تھا وہ فرشتوں کا منکر تھا۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ یہودیوں کا یہ دستور ہے کہ خدا کی عظمت اور قدرت کے ہر ظہور کو فرشتوں کی وساطت کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اس لیے وہ فرشتوں کے وجود اصلی کو نہیں مانتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی قدرت کی غیر معلوم قوتوں کا نام فرشتہ رکھ دیا ہے۔ جیسے کہ مشرک ہر چیز کو جو عجیب و غریب ہوتی ہے اور جس کی علت ان کے فہم سے باہر ہوتی ہے۔ دیوتاؤں کے کاموں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مگر عیسائی مذہب کے عالم اس کی تردید میں یہودیوں کی کتب مقدسہ اور انجیل کی وہ آیتیں پیش کرتے ہیں جن میں فرشتوں کے ایسے کام بیان کیے گئے ہیں جو کسی طرح اس رائے کے مطابق نہیں ہو سکتے وہ بڑی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت عیسی کی نسبت کہا گیا ہے کہ وہ فرشتوں سے برتر ہیں ، پس اگر فرشتوں کا کوئی وجود اصلی نہ ہو تو یہ کہنا مہمل ہو جاتا ہے۔ اب ہم کو اس بات کی تلاش کرنی ہے کہق دیم مشرکین عرب کا یعنی اس زمانہ کے عربوں کا جب کہ یہودیوں کا میل جول عرب میں نہیں ہوا تھا فرشتوں کی نسبت کیا خیال تھا اور آیا وہ لفظ ملک اورملائکہ کو انہیں معنوں میں خیال کرتے تھے جن معنوں میں کہ یہودی خیال کرتے تھے یا نہیں۔ جہاں تک کہ ہم نے تفتیش کی ہے قدیم عربوں کا لفظ ملک اور ملائکہ کی نسبت ایسا خیال جیسا کہ یہودیوں کا ہے ثابت نہیں ہوا۔ مشرکین عرب بلاشبہ ارواج فلکی کو یا اوراج فرضی کو یا ارواح اشخاص متوفی کو بطور خدا پوجتے تھے اور ان کو مجسم و متحیز سمجھتے تھے اور ان کے بت اور ان کے نام کے تھان اور ان کے نام سے ہیکل اور مندر بناتے تھے مگر ان پرکبھی لفظ ملک یا ملائکہ کا اطلاق نہیں کرتے تھے۔ جہاں تک ہم سے ہو سکا ہم نے اشعار جاھلیت پر بھی جس قدر کہ ہم کو دست یاب ہوئے غور کی۔ ہم کو کوئی شعر بھی ایسا نہیں ملا جس میں لفظ ملک یا ملائکہ کا ان ارواحوں پر جن کو وہ پوجتے تھے اطلاق کیا گیا ہو۔ ہم کو قرآن مجید میں بھی کوئی ایسی سند نہیں ملی جس میں منقولا بزبان مشرکین لفظ ملک یا ملائکہ کا ان ارواحوں پر اطلاق کیاگیا ہو۔ ہاں یہ بات تو تسلیم کی جا سکتی ہے کہ لغت کی کتابوں میں لفظ ملک کے معنی ایلچی یا رسول یا پیغامچی کے لکھے ہیں۔ مگر یہ تسلیم نہیں ہو سکتا کہ قدیم مشرکین عرب اس کا اطلاق اس قسم کے رسولوں پر کرتے ہیں جن کو یہودی ملک یا ملائکہ کہتے تھے ۔ ہاں اس قدر بات تسلیم ہو سکتی ہے کہ قدیم عرب اور نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے عرب بھی ملائکہ کا اطلاق ان قوا پر جن سے ازروئے قانون قدرت دنیاکے امورات انجام پاتے ہیں کرتے تھے ، جیسے کہ ابو عبیدہ جاھلی کے اس شعر میں ہے ۔ لست لانسی ولکن لملاک تنزل فی جو السماء بصوب صوب کہتے ہیں مینہ کو اس لیے شعر سے پایا جاتا کہ مینہ برسانے کی جو قوت ہے اس کو فرشتہ سمجھتے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عرب فرشتوں کو متحیز بھی سمجھتے تھے جیسے کہ امیہ ابن صلت جھلی کے اس شعر میں ۔ قکان برقع و المائک حولہ سدر تو اکلہ القوائم اجرب مگر اس بات کا کہ وہ انہی معنی اور مراد میں استعمال کرتے تھے جن میں کہ یہودی استعمال کرتے تھے ہنوز ثبوت طلب ہے۔ اس خیال کے ثبوت پر ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ فرشتوں کا کوئی نام عربی زبان کا نہیں ہے اور جبرئیل و میکائیل یہ دو نام جو قرآن میں آئے ہیں وہ عبری ہیں اور اسرافیل و عزرائیل اور اور نام جو مسلمانوں میں مشہور ہیں سب عبرانی زبان کے ہیں۔ پس انہی اصول پر جو شارح مواقف نے قرار دئے ہیں۔ اہل لغت کا یہ لکھنا کہ ’’ الملائک الملک لانہ ۔ یبلغ عن اللہ تعالیٰ ‘‘ مفید یقین نہیں ۔ فقہ اللغۃ میں ملائکہ کی نسبت اہل عرب کا جو خیال لکھا ہے وہ بالکل ہمارے اس بیان کے مطابق ہے اس میں ابی عثمان الجاحظ کا قول لکھا ہے ، کہ عرب جن کے درجے قرار دیتے تھے جب کہ وہ عام طور پرجن کا ذکر کرتے تھے تو صرف لفظ جن بولتے تھے۔ اورجب ایسے جن کا ذکر کرتے تھے جو انسانوں کے ساتھ رہتا ہو تو اس کے لیے عامر کا لفظ بولتے تھے ۔ جس کی جمع عمار ہے اور جب ایسے جن کا ذکر کرتے تھے جو بچوں کو ستاتا ہے تو اس کے لیے ارواح کا لفظ بولتے تھے اور جب کہ وہ خبیث ہوتا اور تکلیف دیتا تھا اور اس پر شیطان کا اطلاق کرتے تھے اور جب اس سے بھی سخت تکلیف دیتا تھا اور تو اس کو مارد کہتے تھے اور جو اس سے بھی زیادہ قوی ہوتا تھا اس کو عفریت کہت تھے اور اگر وہ پاک ستھرا ہوتا تھا اور بالکل بھلائی اس سے پہنچتی تھی تو اس کو ملک کہتے تھے اور ایک اور مقام میں لکھا ہے ، کہ حکم بن ایان نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے ’’ کہ قریش جن کے سرداروں کو بنات الرحمان یعنی خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ عرب ان غیر مرئی چیزوں کو جن کو نیک و پاکیزہ سمجھتے تھے اور جن سے خلقت کو بھلائی اور نیکی پہچنے کا خیال کرتے تھے ان کو ملک کہتے تھے۔ مگر وہ معنی اور مراد جو ملک کے لفظ سے یہودیوں نے مقرر کیے تھے یا جو زمانہ اسلام کی کئی صدی بعد کی مصنفہ کتب لغت میں لکھ دیے گئے ہیں اس معنی و مراد میں عرب لفظ ملک کو استعمال نہیں کرتے تھے۔ قرآن مجید میں کلام مقصود میں کسی جگہ لفظ ملک یا ملائکہ کا اس مراد سے استعمال نہیں ہوا ہے جو مراد کہ یہودیوں نے قرار دی تھی جس کی تفسیر ہم ہر ایک مقام پر لکھیں گے۔ بلکہ برخلاف اس کے ملائکہ کااطلاق ان قدرتی قوا پر جن سے انتظام عالم مربوط ہے اور ان شیون قدرت کا ملہ پروردگار پر جو اس کی ہر ایک مخلوق میں بہ تفاوت درجہ ظاہر ہوتی ہیں ملائکہ کا اطلاق ہوا ہے۔ ’’ سورۂ و النازعات ‘‘ سے اس کا بخوبی ثبوت ہوات ہے۔ اس کے پہلے چار جملوں کی نسبت مفسرین میں اختلاف ہے۔ مگر پانچویں جملہ ’’ تالمد برات امرا ‘‘ کی نسبت کسی کو اختلاف نہیں اور جملہ مفسرین متفق ہیں کہ ’ مدبرات ‘ سے ملائکہ مراد ہیں۔ پس اب غور کرنا چاہیے کہ ’ مدبرات ‘ امور کون ہیں ۔ یہی قوا ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ سے تمام امور عالم ا مدبر مخلوق کیا ہے۔ ان آیتوں میں جن کی تفسیر ہم لکھتے ہیں کلام مقصود صرف اس قدر ہے کہ جو شخص اس وحی کا عدو ہو جو خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ڈالی ہے اور جو کوئی خدا اور اس کے فرشتوں اوراس کے رسولوں کا دشمن ہو تو بے شک اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔ یہودیوں نے اپنے عندیہ میں دو جداگانہ فرشتے ٹھیرا رکھے تھے۔ ایک جبرئیل اورایک میکائیل پچھلے کو اپنا دوست جانتے تھے اور پہلے کواپنا دشمن اور جو کہدین محمدی کو اپنے برخلاف خیال کرتے تھے تو یہ سمجھتے تھے کہ جبرئیل جو ہمارا دشمن ہے۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ باتیں سکھاتا ہے۔ خدا نے پیغمبر سے کہا کہ تو کہہ دے کہ وہاں جبرئیل ہی اللہ کے حکم سے میرے دل میں یہ باتیں ڈالتا ہے مگر جو کوئی کہ ان باتوں کا اور فرشتوں کا اور جبرئیل اور میکائیل کا اور رسولوں کا دشمن ہے خدا اس کا دشمن ہے۔ فرشتوں کی دشمنی بیان کرنے کے بعد جبرئیل اور میکائیل کا بالتخصیص نام لینا ۔ گویا یہود کے خیالات کا اعادہ ہے اور وہ نام مقصود بالذات نہیں ہیں کیوں کہ اگر یہودیوں کا یہ خیال نہ ہوتا تو غالباً وہ نام نہ لیے جاتے۔ پس ان دونوں کے نام قرآن مجید میں آنے سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ در حقیقت اس نام کے دو فرشتے مع تشخصھا علیحدہ علیحدہ ایسی ہی مخلقو ہیں جیسے زید و عمر ۔ بلکہ انہی آیتوں سے پایا جاتا ہے کہ جس شے کو یہودی جبرئیل تعبیر کرتے ہیںتھے وہ کوئی جداگانہ مخلوق مع تشخصہ نہ تھی کیوں کہ خدا نے فرمایا ہے کہ ’’ بے شبہ اس نے (یعنی جبرئیل نے) ڈالا ہے۔ تیرے دل پر اللہ کے حکم سے (وہ کلام جو) سچ بتاتا ہے اس چیز کو جو اس سے پیش تر ہے۔ دل میں ڈالنے والی کوئی ایسی مخلوق جو اس شخص سے جس کے دل میں ڈالا گیا ہے ۔ جدا نہ ہو گا۔ نہیں ہو ئی۔ پس درحقیقت یہودی جس کو جبرئیل کہتے تھے اور جس کا نام حکایتاً خدا نے بیان کیا ہے وہ ملکہ نبوت خود آنحضرت میں تھا جو وحی کا باعث تھا۔ اس سے اگلی آیت میں خدا تعالیٰ نے بلا ذکر جبرئیل کے فرمایا ہے ’’ کہ بے شک ہم نے بھیجی ہیں تیرے پاس کھلی ہوئی نشانیاں ‘‘ ان وجوہات سے یہ بات کہ جبریل در حقیقت کسی فرشتہ کا نام ہے ثابت نہیں ہوتی۔ ہاں اس قدر تسلیم ہو سکتا ہے کہ اسی ملکہ نبوت پر جبرئیل کا اطلاق ہوا ہے۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیںہے ، کہ باوجودیکہ خدا کے پاس ان دو فرشتوں کے سوا اور بھی بہت سے فرشتے ہیں۔ مگر بہ جز دو فرشتوں کے سوا اور بھی بہت سے فرشتے ہیں۔ مگر بہ جز دو فرشتوں کے اور سب بے نام ہیں۔ کیوں کہ کسی اور کا نام قرآن شریف میں نہیں آیا۔ حضرت عزرائیل بھی بڑے مشہور فرشتے ہیں جو سب سے پاس آویں گے اورکسی کو نہیں چھوڑیں گے اور اگرچہ ان کا ذکر بلفظ ملک الموت قرآن میں آیا ہے مگر ان کا کچھ نام نہیں بیان ہوا ہے۔ ان باتوں سے صاف پایاجاتا ہے کہ فرشتوں کے نام یہودیوں کے مقرر کیے ہوئے ہیں جو مختلف قوا کے تعبیر کرنے کو انہوں نے رکھ لیے تھے۔ ٭……٭……٭ ’’ فرشتوں اور شیطان کی حقیقت ‘‘ ’’ ملک ‘‘ کے معنی ایلچی یا پیغامچی کے ہیں ، عبرانی ، یونانی اور فارمسی میں جو لفظ ملک کے لیے ہے ان سب کے معنی بھی ایلچی کے ہیں۔ جو خدا کا پیغام نبیوں کو پہنچاتا ہے۔ توریت میں بعض جگہ عام ایلچی کے لیے بھی بولا گیا یہ اور بعض جگہ مذہبی پیشواؤں اور ابر اور ہوا اور وبا کے لیے ۔ مگر فرشتوں کے وجود کی نسبت لوگوں کے عجیب عجیب خیالات ہیں۔ انسان کی یہ ایک طبعی بات ہے کہ جب کسی ایسی مخلقو کا ذکر ہو جس کو وہ نہیں جانتا تو خواہ نخواہ اس کے دل میں اس مخلوق کے ایک جسمانی جسم متحیز کا جس کے رہنے کی کوئی جگہ بھی ہو خیال جاتا ہے۔ پھر ان کے اوصاف پر خیال کرتے کرتے ان کی ایک صورت جو ان اوصاف کی مقتضی ہوتی ہے اس کے خیال میں قرار پاتی ہے اور پھر وہ اس بات کو تو بھول جاتا ہے کہمیں اس مخلوق کو نہیں جانتا نہ میں نے اس کو کبھی دیکھا ہے اور یوں جاننے لگتا ہے کہ وہ مخلوق وہی ہے جو میرے خیال میں ہے اور جب وہ خیال لوگوں میں نسل در نسل چلا آتا ہے تو ایسا مستحکم ہو جاتا ہے کہ گویا اس میں شک و شبہ مطلق ہے ہی نہیں ۔ یہی حال فرشتوں کی نسبت ہوا ہے۔ ان کو نوری سمجھ کر گورا گورا سفید برف کا رنگ ۔ نوری شمع کی مانند باہیں۔ بلور کیسی پنڈلیاں ہیرے جیسے پاؤں ، ایک خوب صورت انسان کی شکل مگر نہ مرد نہ عورت ، تصور کیا ہے ۔ آسمان ان کے رہنے کی جگہ قراردی ہے آسمان سے زمین پر آنے اور زمین سے آسمان پر جانے کے لیے ان کے پر لگائے ہیں۔ کسی کو شان دار اور کسی کو غصہ ور و غضب ناک کسی کو کم شان کاکسی کو صور پھوکتا۔ کسی کو آتشیں کوزے سے مینہ برساتا خیال کیا ہے۔ بعض اقوام نے جو زیادہ غور و فکر کی ہے تو ان کے لیے نہ جسم مانا ہے نہ ان کا متحیز ہونا تسلیم کیا ہے اور اس لیے فرشتوں کی نسبت انسانوں کے دو فرقے ہو گئے ہیں۔ ایک وہ جوفرشتوں کے وجود اور ان کے متحیز ہونے دونوں باتوں کے قائل ہیں اورایک وہ کہ ان کے متحیز ہونے دونوں باتوں کے قائل ہیں اور ایک وہ کہ ان کے متحیز ہونے کے قائل نہیں۔ بعض بت پرست سمجھتے تھے کہ فرشتے سعد اور نحس کواکب کی روحیں ہیں مجوسی اور بعض بت پرستوں کا یہ خیال تھا کہ عالم کی ترکیب نور و ظلمت سے ہے اور نور و ظلمت دونوں موجود حقیقتیں ہیں مگر آپس میں مختلف اور ایک دوسرے کی ضد نور کے بھی بال بچ ہوتیہیں اور ظلمت کے بھی بال بچے ہوتے ہیں۔ مگر نہ اس طرح جیسے کہ انسان اور حیوان جنتے جناتے ہیں بلکہ اس طرح جیسے حکیم سے حکمت اور روشن چیز سے روشنی اور احمق حمایت نور کی اولاد تو فرشتے ہیں اور ظلمت کی اولاد شیطان ۔ حکماء عقول ہی جن کو انہوں نے تسلیم کیا ہے فرشتہ کا اطلاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فرشتے حقیقت موجودہ غیر متحیزہ ہیں اور ان کی حقیقت نفوس انسانی کی حقیقت سے زیادہ تر قومی ہے۔ اور انسان کی بہ نسبت ان کو علم بھی زیادہ ہے۔ ان میں سے کچھ تو آسمانوں سے اس قسم کا علاقہ رکھتے ہیں جیسے کہ ہمارے بدن سے ہماری روح اور کچھ بجز استغراق کے ذات باری میں کسی چیز سے علاقہ نہیں رکھتے اور وہی ملائکہ مقربین ہیں اور بعض فلاسفہ کہتے ہیں کہ ان کے سوا دو قسمیں اور ہیں اور وہ زمین کے فرشتے ہیں اور دنیا کے امورات کو درست کرتے ہیں۔ جو نیک کام کرنے والے ہیں وہ توفرشتے ہیں اور جو بد کام کرنے والے ہیں وہ شیطان ہیں۔ یہودی فرشتوں کو آدمی کی صورت پر مجسم مانتے تھے اور ان کو اجسام حقیقی سمجھتے تھے۔ البتہ ان کے جسم کے مادہ کو مثل انسان کے جسم کے مادہ کے نہیں مانتے تھے بلکہ یہ کہتے تھے کہ ان کا جسم مادہ غلیظ سے مرکب نہیں ہے۔ وہ اپنے تئیں انسانوں کو دکھلا بھی دیتے ہیں ۔ ان سے بات چیت بھی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ کھانا بھی کھاتے ہیں اور غائب بھی ہوجاتے ہیں۔ پھر کوئی ان کو نہیں دیکھ سکتا۔ ان کے کھانا کھانے کے باب میں کہیت ہیں کہ ظاہر میں کھاتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں مگر انسانوں کی خوراک نہیں کھاتے بلکہ ان کا کھانا اور ہی کچھ ہے۔ یہودیوں میں جوایک صدوقی فرقہ تھا وہ فرشتوں کا قائل نہ تھا۔ عیسائیوں کا یہی خیال تھا کہ فرشتے جسم رکھتے ہیں اور مقدس ہیں۔ انجیل میں حضرت عیسیٰ ؑ کو فرشتوں سے برتر کہا گیا ہے اور بہشتیوں کی نسبت کہا ہے کہ وہ فرشتوں کی مانند ہوں گے۔ عرب کے بت پرست فرشتوں کو ایک مجسم اور متحیز چیز سمجھیے تھے اور جانتے تھے کہ وہ کھاتے پیتے نہیں اور نہ کچھ بشری ضرورت ان کو ہے۔ وہ آسمانوں پر رہتے ہیں اور زمینوں پر آتے جاتے ہیں ۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ انسان بھی فرشتوں کوزمین پر رہتے چلتے پھرتے دیکھ ستا ہے۔ اسی خیال سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہا کرتے تھے کہ اگر وہ پیغمبر ہیںتو ان کے ساتھ فرشتے کیوں نہیں ہیں۔ عام مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہے جو عرب کے بت پرستوں کا تھا۔ وہ فرشتوں کو ہوا کی مانند لطیف اجسام سمجھتے ہیں اور مختلف شکلوں میں بن جانے کی ان میں قدرت جانتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ وہ آسمانوں پر رہتے ہیں اور پر دار ہیں کہ اڑ کر زمین پر اترتے ہیں اور زمین پر سے اڑ کر آسمان پر چلے جاتے ہیں اور چیلوں کی طرح آسمان اور زمین کے بیچ میں منڈلاتے ہیں غرض کہ تمام اقوام میں فرشتوں کی نسبت انسانی نقائص سے پاک ہونے کا اور ایک اعلیٰ تقدس کا خیال تھا۔ اسی خیال کی وجہ سینیک اور اچھے آدمی کو بھی مجازا فرشتہ کہتے تھے ۔ جیسے کہ حضرت یوسف ؑ کو زلیخا ؑ کی سہیلیوں نے کہا ’’ ماہذا بشر اً ان ہذا الاملک کریم ‘‘۔ میں کہتا ہوں کہ جس طرح انسان سے فروتر مخلوق کا ایک سلسلہ ہم دیکھتے ہیں اس طرح انسان سے برتر مخلوق ہونے سے انکار کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ شاید کہ ہو۔ گو وہ کیسی ہی عجیب اور ناقابل یقین ہو۔ مگر ایسی خلقت کے در حقیقت موجود ہونے کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے کیوں کہ اس بات کا ثبوت کہ ایسی خلقت ہے ، نہیں ہے ۔ قرآن مجید سے فرشتوں کا ایسا وجود جیسا کہ مسلمانوں نے اعتقاد کر رکھا ہے ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ برخلاف اس کے پایا جاتا ہے۔ خدا فرماتا ہے۔ ’’ وقالو ا لولا انزل علیہ ملک و لوانزلنا ملکا نقضی الامرثم لاینظرون ۔ ولو جعلنہ رجلا و للبسنا علیھم مایلبسون ‘‘ ۔ یعنی کافروں نے کہا کہ کیوں نہیں بھیجا۔ پیغمبر کے ساتھ فرشتہ اور اگر ہم فرشتے بھیجتے تو بات پوری ہو جاتی اور ڈیل میں نہ ڈالے جاتے اور اگر ہم فرشتہ ہی پیغمبر کرتے ہیں تو اس کو آدمی ہی بناتے اور بلاشبہ ان کو ایسے ہی شبہ میں ڈالتے جیسے کہ اب شبہ میں پڑے ہیں۔ اس آیت سے پایا جاتا ہے کہ فرشتے نہ کوئی جسم رکھتے ہیں اور نہ دکھائی دے سکتے ہیں۔ ان کا ظہور بلاشمول مخلوق موجود کے نہیں ہو سکتا۔ لجعلنا رجلاً۔ قید احترازی نہیں ہے۔ اس جگہ انسان بحث میں تھا ۔ اس لیے لجعلنا رجلاً ۔ فرمایا ورنہ اس سے مراد عام موجود مخلوق ہے۔ ان باریک باتوں پر غور کرنے سے اور اس بات کے سمجھنے سے کہ خدا تعالیٰ جو اپنے جاہ و جلال اور اپنی قدرت اور اپنے افعال کو فرشتوں سے نسبت کرتاہے تو جن فرشتوں کا قرآن میں ذکر ہے ان کا کوئی اصلی وجود نہیں ہو سکتا۔ بلکہ خدا کی بے انتہا قدرتوں کے ظہور کو اور ان قوی کو جو خدا نے اپنی تمام مخلوق میں مختلف قسم کے پیدا کیے ہیں۔ ملک یا ملائکہ کہا ہے۔ جن میں سے ایک شیطان یا ابلیس بھی ہے۔ پہاڑوں کی صلابت ۔ پانی کی رقت درختوں کی قوت نمو ۔ برق کی قوت جذب و دفع ۔ غرض کہ تمام قوی جن سے مخلوقات موجود ہوئی ہیں اور جو مخلوقات میں ہیں وہی ملائک و ملائکہ ہیں۔ جن کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ انسان ایک قوائے ملکوتی اور قوائے بیہمی کا ہ۔ ان دونوں قوتوں کے بے انتہا ذریات ہیں جو ہر ایک قسم کی نیکی اور بدی میں ظاہر ہوتی ہیں اور وہی انسان کے فرشتے اور ان کے ذریات اور وہی انسان کے شیطان اور اس کی ذریات ہیں۔ بعض اکابر اسلام کا بھی یہی مذہب ہے جو میں کہتا ہوں اور امام محی الدین ابن عربی نے نصوص الحکم میں یہی مسلک اختیار کیا ہے۔ شیخ عارف باللہ موید الدین ابن محمود المعروف بالجندی نے جو مریدان خاص شیخ صدر الدین قونوی۔ مرید امام محی الدین ابن عربی سے ہیں۔ شرح فصوص الحکم میں فرشتوں کی نسبت بہت بڑے بحث لکھی ہے۔ شیخ رحمت اللہ علیہ اپنی اصطلاح میں تمام عالم کو مجموع اسنان کبیر کہتے ہیں اور انسان کو انسان صغیر ، مقصود ان کا اس اصطلاح سے یہ ہے کہ انسان عالم کا ایک فرد ہے اورجس قدر قوی انسان میں ہیں وہ جزئیات ہیں اور 1 ۔ قال الشیخ رضی اللہ عنہ فی ونصول الکمم و کانت الملئکۃ من بعض قوی تلک الصورۃ التی ہی صورۃ العالمہالمعبرعنہ فی اصطلاح القوم بالانسان الکبیر ۔ قال الشیخ موید الدین ابن محمود الجندی الذی اخذ الطریق من الشیخ صدر الدین قونوی وھو عن الشیخ محی الدین ابن العربی صاحب الفصوص اعلم ان الملئکۃ ہی ارواح القوی القائمۃ بالصور الحسیۃ و الارواح النفسیۃ والعقلیۃ القدسیۃ و تسمیتھا ملائکۃ لکونھا روابطہ و موصلات الاحکام الربانیۃ و الانار الالھیۃ الی العوام الجسمانیۃ فان الملک فی اللغۃ ہو القوۃ والشدۃ فلما قویت ہذا الارواح بالانوار الربانی و تایدت و اشتدت بھا قویت النسب الربانیۃ و الاسماء الالہیۃ ایضاً علیٰ ایقاع احکامھا و آثار ھا ایصل انوارھا و اظہارھا سمیت ملائکۃ وھم ینقسمون الیٰ عدی روحانی و سفلی و طبعی و عنصری و مثالی و نورانی فمنہم المھتمون و منھم المسخرون و منھم المرادۃ من الاعمال و بالا قوال و الانفاس و الصافون و الحافون و العالون الیٰ آخر ماقال۔ قال الشیخ ؓ فکانت الملئکۃ کالقوی الروحانیۃ و الحسیۃ التی فی نشات الانسان و کل قوۃ منھا حجوبۃ بنفسھا لاتریٰ فضل من ذاتھا قال الشارح ، القوی الحسیۃ التی فی نشات الانسان ہی التی متعلقاتھا المحسوسات کالا بصار والسماع والثم والذوق واللیمس ماتحت ہذہ الکلمات من انواع و الشخصیات و اما القویٰ الروحانیۃ فکالمتخیلۃ و المتفکر ۃ و الحافضیۃ و الذاکرۃ و العاقلۃ و الناطقۃ و ھذہ القوی الکلیات و شخصیاتھا فی حیطۃ الروح انفسانی و فشاء ھا ومجاری تصرفاتھا و احکامھا و آثار ھا الدماغ و کالقوی الطبیۃ مثل الجازبۃ و جو اس کے کلیات ہیں وہ انسان کبیر ہے اور فرماتے ہیں کہ اس عالم یقینی انسان کبیر کے جو قوی ہیں انہی میں بعض کا نام ملائک ہے۔ شیخ رحمۃ اللہ علیہ ارقام فرماتے ہیں کہ وہ قوی جن کو ملائک کہتے ہیں انسان کبیر یعنی عالم کے لیے ایسے ہیں جیسے انسان کے لیے قوی ہیں۔ شارح کہتے ہیں کہ دیکھنا اور سننا اور سونگھنا اور چکھنا اور چھونا جو انسان میں ہے وہ سب انہی قوی ملکوتی حسیہ کے ماتحت ہیں۔ اور قوت متخیلہ اور متفکرہ اور حافظہ اور ذاکرہ اور عاقلہ و ناطقہ انہی پوائے ملکوتی روحانیہ کے تابع ہیں اور جاذیہ اور ماسکہ اور ھاضمہ اور غاذیہ اور منمیہ اور مربیہ اور مصورہ اہی قوائے ملکوتی طبیعہ میں داخل ہیں اور (بقیہ حاشیہ گزشتہ صفحہ) الماسکۃ والھاضمۃ والغاذیۃ و المنیمۃ والمریۃ والمصورۃ و شخصیاتھا۔ و راجۃ الروح الطبعی و کالحکم و العلم و الوقار والغناۃ والشجاعۃ والعدالۃ و السیاسۃ والنخرۃ والریاسۃ وغیرھا مماتحتہا من الشخصیات و الانواع بالمماثلۃ والمثاکلۃ و المبائنہ والمنافرۃ عائدۃ الی روح الحیوانی و الفسانی و کما ان ہذا لقوی منبثۃ فی اقطار نشاۃ الانسان والکان لکل جنس وصف و نوع من ہذا لقوی محلاً حصیصابھا ہو محل ظہور احکامۃ و اثار و منشاہ حقایقہ واسرارہ ولکن حکم جمیعۃ الانسان سار فی الکل بالکل فلذلک اعالم الذی ہو الانسان الکبیر فی زعمہم کلیات ہذا لقوی و امھا تھا بجزئیاتھا و انواھعجا و شخصیا تھا منتشرۃ و نبثۃ فی فضاء السموات و الارض و مابینھما و ما فوقھا من العوالم و تعینات ہذا لوقی و الارواح فی کل حال بھا نیاسبۃ ویوافقۃ علی الوجہ الذی یلائم بطابقہ و بھا ملاک الامر النازل من حضرات الربوبیۃ ۔ حلم اور علم اور قوار سمجھ اور شجاعت اور عدالت اور سیاست اور ریاست انہی قوائے ملکوتی حیوانیہ میں شامل ہیں اور یہ تمام قوی آسمان و زمین اور ان کی فضا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پس شیخ اور ان کے متبع بھی ملائکہ کا اطلاق صرف قواے عالم پر کرتے ہیں ۔ ہمارے استنباط اور شیخ رحمت اللہ علیہ کے استنباط میں صرف اتنا فرق ہے کہ شیخ کے نزدیک تمام قوا جو اجسام مرتبہ و غیر مرتبہ اور اشیائے محسوسہ و غیر محسوسہ میں ہیں۔ وہ جزئیات ہیں اور جو ان کے کلیات ہیں وہ ملائک ہیں اور یہ جزئیات ان کے ذریات ۔ شیخ حرمۃ اللہ اللہ علیہ نے اپنے مکاشفہ سے ان جزئیات کے کلیات کو جانا ہو گا۔ مگرجو کہ ہم کو وہ مکاشفہ حاصل نہیں ہے۔ اس لیے ہم انہیں قوی کو جن کو شیخ اور ن کے متبع ذریات ملائکہ قرار دیتے ہیں ملائکہ کہتے ہیں ۔ مطلب ایک ہے صرف لفظوں یا جاننے یا جاننے کا پھیر ہے۔ شیطان کی نسبت تو قیصری شرح خصوص میں نہایت صاف صاف وہی بات لکھی ہے کہ جو ہ نے کہی ہے ، اس میں لکھا ہے ’’ بعضوں نے یہ بات کہی ہے کہ انسان کبیر یعنی عالم میں جو قوت و ہمیہ کلیہ ہے وہی ابلیس ہے اور ہر ایک انسان میں جو 1۔ فی القیصری شرح الخصوص فی ذیل بیان ابلیس ’’ قیل ابلیس ہو قوۃ الوھمیۃ الکلیۃ التی فی العالم الکبیر و القوی الوہمیۃ التی فی الاشخاص الثتانیۃ افراد ھا لمعا رضتھا مع العقل الھادی طریق الحق و فیہ نظر لان نفس المنطبعۃ ہی الامارۃ بالسوہحم من سدنتھا و تحت حکمھا لانھا من قواھا فی اولیٰ بذلک کما قال تعالیٰ و تعلیم ما تسوس بہ نفسہ و قال ان النفس لا مارۃ بالسوء وقال علیہ السلام اعداد علاک نفسک التی بین جنبیک و قال علیہ السلام الشیطان یجزی من نبی آدم مجری الدم و ہذا ‘‘ شان النفس۔ قوت وہمیہ ہے وہی ابلیس کی ’ ذریات ہیں۔‘ذ مگر شارح کہتا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ وہم نہیں بلکہ نفس امارہ جو انسا ن میں ہے وہی ذریات ابلیس ہے۔ خدا نے بھی فرمایا ہے کہ جو وسوسے دل میں آتے ہیں ان کو ہم جانتے ہیں۔ اور فرمایا ہے کہ نفس ہی برائی کرنے کو کہتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہیکہ ’’ سب دشمنوں سے زیادہ دشمن تیرا نفس ہے جو تیرے پہلو میں ہے ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیھ فرمایا ہے کہ ’’ شیطان انسان میں خون کی طرح چلتا ہے اور ٹھیک یہ حالت نفس کی ہے۔ غرض کہ تمام محققین اس بات کے قائل ہیں کہ انہی قوی کو جو انسا ن میں ہیں اور جن کو نفس امارہ یا قوائے بہیمیہ تعبیر کرتے ہیں یہی شیطان ہے۔ ٭……٭……٭ شیطان کا وجود اور انبیاء قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے : خذالعفوو امر باعرف و اعرض عن الجھلین ۔ واما ینزغنک من الشیطان نزع فاسعتذ باللہ انہ ، سمیع علیم۔ یعنی در گزر کو اختیار کر اور اچھے کاموں کے کرنے کا حکم کر اور منہ پھیر جاہلوں سے اور اگر بھڑکاوے تجھ کو شیطان کا بھڑکانا تو پناہ مانگ اللہ سے بیشک وہ سننے والا ہے جاننے والا۔ واما ینزغنک کی تفسیر مین مفسروں کو بڑی دقت پڑی ہے کیوں کہ وہ شیطان کو ایک جدگانہ مخلوق خارج ازانسان اور خدا تعالیٰ کا مخالف اور لوگوں کو بدی و نافرمانی پر رغبت دینے والا اور بہکانے والا کفر و شرک میں ڈالنے والا قرار دیتے ہیں۔ مگر یہ بات مسلم ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو شیان بہکا نہیں سکتا اور اس کا بد اثر ذرا سا بھی انبیاء پر نہیں ہوتا۔ پھر کیوں کر خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہا ہے کہ ’’ واما ینزغنک من الشیطان نزغ ‘‘ مفسرین نے اس کے جواب میں بہت سی تقریریں اور تاویلیں کی ہیں جو نہایت بے سروپا اور لغو ہیں۔ لیکن اگر ٹھیک ٹھیک مطلب سمجھا جاوے تو آیت کی تفسیر میں کوئی مشکل و دقت نہیں ہے۔ یہ بات مذہب اسلام کے ہر فرقہ میں مسلم ہے کہ انبیاء علیہم السلام بھی انسانوں کی مانند بشر ہیں جیسے کہ خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے فرمایا ہے کہ ’’ انی بشر مثلکم یو حی الی ‘‘ پس جو بمقتضائے بشریت ہے اس سے انبیاء علیھم السلام بھی خالی نہیں ہیں۔ انبیاء میں اور عام انسانوں میں یہ فرق ہے کہ انبیاء اس تقاضائے بشری کو روک لیتے ہیں اور اس پر غالب آجاتے ہیں اور عام انسان اس مغلوب ہو جاتے ہیں اور وہ ان پر غالب ہو جاتا ہے۔ اس آیت سے اوپر کی آیت میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا تھا کہ جاہلوں سے در گزار کر اور ان سے اپنا منہ پھیر لے یعنی کافر جو نالائق باتیں کرتے ہیں ان سے درگزر کرنا چاہیے۔ مگر ایسی باتوں سے رنج ہونا یا غصہ آنا ایک امر طبعی و مقتضائے بشری ہے اس لیے خدا نے فرمایا کہ اگر تجھ کو ایسا امر پیش آوے تو خدا کو یاد کر اورخدا کی طرف سے متوجہ ہوتا کہ وہ رنج یا غصہ جو بمقتضائے بشریت آیا تھا۔ دب جاوے اور غالب نہ ہونے پاوے۔ اس آیت میں اور اس کے بعد کی آیت میں شیطان کے لفظ سے صاف اشارہ اس قوت غضبیہ کی طرف ہے جو انسانوں میں اور انبیاء میں بھی بمقتضائے خلقت بشری موجود ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی رنج نہ ہوتا تھا یا کبھی غصہ نہ آتا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کمال نفس سے خدا کی طرف توجہ کرنے سے رنج دور فرماتے تھے اور غصہ کو دبا دیتے تھے اور قوت غضبیہ کو اپنے پر غالب نہ ہونے دیتے تھے۔ یہ آیت علانیہ ثابت کرتی ہے کہ قرآن مجید میں شیطان کا لفظ انہی قوا پر جو بمقابلہ قوائے ملکوتیہ کے انسانوں میں بمقتضائے فطرت و خلقت انسانی کے ہیں اطلاق ہوا ہے نہ کسی ایسے وجود خارجی پر جو خدا کے مقابل اور اس کامد مخالف ہو پس آیت میں کوئی ایسی مشکل نہیں ہے جس سے ذات پاک رسول مقبول پر کوئی منقصت آسکے۔ شکر ہے کہ بعض مفسرین نے بھی قریباً قریباً اسی مطلب کی طرف رجوع کی ہے۔ امام فخر الدین رازی تحریر فرماتے ہیں کہ انہ تعالیٰ لما امرہ بالمعروف فعند ذالک ربما یھیج سفیہ و بظہر السفاہۃ فعند ذالک ربما یھیج سفیہ و یصظہر السفاہۃ فعند ذالک امرہ تعالیٰ بالسکوت عن مقابلۃ فقال و اعرض عن الجاہلین ولما کان من العوم ان اقدام السفیہ قدیھیج الغضب و الغیظ ولا یبقی الانسان علی حالۃ السلامۃ و عند تلک الحالۃ یجد الشیطان مجالا فی حمل ذالک الانسان علی ماینبغی لاجرمہ بین تعالیٰ مایجری حجری اعلاج لھذ المرض فقال فاستعذ باللہ۔ (تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ 449) یعنی جب خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھے کاموں کا حکم دیا تو کبھی یہ ہوتا ہے کہ ایک بیوقوف اپنی بیوقوفی ظاہر کر کے طبیعت کو بھڑکا دیتا ہیایسے وقت کے خدا نے اس کے مقابلہ کرنے کے عوض سکوت اختیار کرنا فرمایا اور کہا منہ پھیرلے جاہلوں سے اور یہ بات ظاہر ہسے کہ بے وقوف کا اس طرح پیش آنا غصہ اور غضب کو بھڑکا دیتا ہے اور انسان درست حالت پر نہیں رہتا۔ ایسی حالت میں شیطان کو موقع ملتا ہے انسان کو نہ کرنے کی باتوں کے کر بیٹھنے پر برانگیختہ کرنے کا۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے ایسی بات بتا دی جو اس مرض کے علاج کی جگہ ہے اور کہا کہ پناہ مانگ الہ سے ۔ یہ تمام تقریر امام صاحب کی وہی ہے جو ہم نے لکھی ہے صرف وہ فقرہ اس تقریر کاجس پر ہم نے لکیر کر دی ہے مہمل ہے اگر وہ خارج کر دیا جاوے تو امام صاحب کی تحریر اور ہماری تقریر میں کچھ فرق نہیں ہے۔ تعجیب یہ ہے کہ جب خود امام صاحب نے لکھا ہے کہ غصہ کی حالت میں انسان درست حالت پر نہیں رہتا تو پھر شیطان کو بلانے کی کیا حاجت رہی تھی۔ ٭……٭……٭ استویٰ علی العرش سے کیا مراد ہے عرش کے معنیٰ نعت میں تخت رب العالمین کے ، اور تخت بادشاہ کے ، اور عزت کے اور جس سے کوئی امر قائم ہو ، اور گھر کی چھت کے ، اور سردار قوم کے اور اس چیز کے جس پر جنازہ اٹھایا جاتا ہے۔ لکھے ہیں ۔ تمام مفسرین عرش سے تخت رب العالمین مراد لیتے ہیں۔ اور اس کو موجود فی الخارج سمجھتے ہیں ۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ آسمانوں کے اوپر ایک جسم عظیم ہے اور وہ تخت رب العالمین ہے۔ قرآن مجید میں جہاں عرش کالفظ آیا ہے وہ دو قسم کی آیتیں ہیں ایک وہ جن میں صرف عرش کا ذکر ہے اور دوسری وہکہ جن میں استویٰ علی العرش کا ذکر ہے اول ہم ان دونوں کی قسم کی آیتوں کو اس مقام پر لکھتے ہیں ۔ (1)آیات قسم اول جن میں صرف عرش کا ذکر ہے لاالہ الاہوعلیہ تو کلت و ھو رب العرش العظیم ۔ 9 ۔ توبہ 130 ۔ قل لوکان معہ آلھۃ کما یقولون اذا لایبتغوالی ذی العرش سبیلا ۔ 17 ۔ اسریٰ 44 ۔ فسبحان اللہ رب العرش عما یصفون ۔ 21 ۔ الانبیاء ۔ 22۔ قل من رب السموات السبیع و رب العرش العظیم ۔ 23۔ المومنون ۔ 77۔ فتعالی اللہ الملک الحق لاالہ الاہورب العرش الکریم ۔ 23۔ المومنون ۔ 117۔ اللہ لاالہ الا ہورب العرش العظیم ۔ 27 ۔ النحل ۔ 26۔ وتری الملائکۃ خافین من حول العرش یسبحون بحمد ربھم و قضی بینھم بالحق و قیل الحمد للہ رب العالمین ۔ 39 ۔ زمر ۔ 75۔ رفیع الدرجات ذوالعرش ۔ 40 ۔ مومن ۔ 15 ۔ سمحان رب السموات والا رض رب العرش عما یصفون ۔ 43 ۔ زخرف ۔ 82۔ عند ذی العرش مکین ۔ 81 ۔ تکویر ۔ 20۔ ذوالعرش المجید فعال لہا یرید ۔ 85 ۔ بزرج 15۔ والملک علیٰ ارجا ئیھا ویحمل عرش ربک فوقسم یومئذ ثمانیہ ۔ 65۔ الحاقہ ۔ 17۔ الذین یحملون العرش و من حولہ یسبحون بحمد ربھم و یومنون بہ ۔ یستغفرون الذین امنوا۔ 40 ۔ یومنون۔ 7۔ وھو الذی خلق السموات والارض ستۃ ایام و کان عرشہ علی الماء لیبلو کم ایکم احسن عملا ۔ 11۔ ہود ۔ 9 ۔ (2)آیت قسم ثانی جن میں استویٰ علی العرش کا ذکر ہے ان ربکم الذی خلق السموات والارض فی ستۃ ایام علی العرش 7 ۔ الاعراف ۔ 57۔وسورہ ۔ 10 ۔ یونس ۔ 3۔ الذی خلق السموات والارض وما بینھما فی ستۃ ایام ثم السوی علی العرش الرحمن فستل بہ خبیر ا۔ 25 ۔ فرقان ۔ 60 ۔ اللہ الذی خلق السموات والا رض و ما بینھما فی ستۃ ایام ثم الستوی علی العرش مالکم من دونہ من ولی ولا شفیع افلاتز کرون یدبر الامر من السماء الی الارض ثم یعرج الیہ فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ مما تعدون ۔ 32۔ مسجدہ ۔ 3۔ 4 ۔ ھوالذی خلق السموات والارض فی ستۃ ایام ثم الستویٰ علی العرش ۔ 57۔ حدید ۔ 4 ۔ اللہ الذی رفع السموات والارض بغمیر عمدترونھا ثم استویٰ علی العرش ۔ 13 رعد۔ 2۔ الرحمن علی العرش استویٰ ۔ 20 طہ ۔ 4۔ ہو الذی خلق لکم مافی الارض جمعیا ثم استوی الی السماہ فسواھن سبع سموات و ھو بکل شئی علیم۔ بقر۔ 28۔ قل انکم لتکفرون باالذی خلق الارض فی یومین و تجعلون لہ اندادا ذالک رب العالمین و جعل فیھا رواسی من فوقھا و بارک فیھا و تدرفیھا اقواتھا فی اربعۃ ایام سواء للسائلین ۔ ثم استوی الی السماء و ھی و خان فقال لھا و الارض امتیا طوعاً اوکرھاً قلتا اتینا طاعین فقضا ہن سبع سموات فی یومین و او حی فی کل سماء امرہا و زینا السماء الدینا بمصابیح و حفظا ذالک تقدیر العزیز العلیم ۔ 41 ۔ فصلت ۔ 7 لغایت ۔ 11۔ باوجود اس کے تمام مسلمان عرش رب العالمین کو ایک جسم عظیم موجود فی الخارج فوق السموات مانتے ہیں مگر لفظ استویٰ سے تخت پر بیٹھنا ماد نہیں لیتے۔ بلکہ وہ یقین کرتے ہیں کہ نہ کبھی خدا اس تخت پر بیٹھا اور نہ کبھی آئندہ بیٹھے گا۔ اور نہ تخت پر اس کا بیٹھنا ممکن ہے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے ، فاعلم انہ لایمکن ان یکون المراد منہ کو نہ مستقرا علی العرش کیوں کہ اگر خدا تخت پر بیٹھے یا بیٹھا ہوا ہو تو وہ متناعی ہو جاوے گا اور جب متناہی ہو گاتو حادث ہو جاوے گا۔ اور حیز معین اور جہت خاص میں محدود ہو گا اور حیز اور مکان کی اس کو احتیاج ہو گی پھر وہ مقدار میںعرش سے بڑا ہو گا یا عرش اس سے بڑا ہو گا یا دونوں برابر ہوں گے ہر طرح سے خدا پر مشکل لازم آتی ہے۔ بڑی مشکل یہ پڑتی ہے کہ زمین یادنیا تو کروی ہے اور جب خدا ایک تخت پر بیٹھا تو ایک طرف کی دنیاکے لوگوں سے تو وہ اوپر ہو گا اور دوسری طرف کی دنیا کے لوگوں سے نیچے تو سب سے اوپر ہونا اس کا متحقق نہ رہے گا۔ اسی قسم کی سولہ دلیلیں خدا کے تخت پر بیٹھنے کا امتناع میں تفسیر کبیر میں مندرج ہیں۔ غرض کہ تمام اہل سنت و الجماعت بلکہ تمام فرق اسلامیہ سوائے بعض کے خدا تعالیٰ کے جلوس کو ممتنع بیان کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عرش جب سے بنا ہے خالی پڑا ہے اور ہمیشہ خالی پڑا رہے گا۔ مگر کسی نے یہ نہ بتلایا کہ پھر وہ بنایا کیوں ہے اورکس لیے ۔ جب ہمارے علماء اس مشکل میں پڑے تو انہوں نے استوی اور عرش دونوں کے معنی بدلے اور کہا کہ ان آیتوں میں جن میں استوی علی العرش کا ذکر ہے۔ جو چوڑا چکلا جسم عظیم جس کو تخت رب العالمین موجود فی الخارج فوق السموت قرار دیا ہے مراد نہیں ہے بلکہ عرش سے بادشاہت اور مملکت اور استوی سے اس پر استعلا یعنی غلبہ و قدرت مراد ہے چناں چہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ : فقال (ای القفال رحمۃ اللہ علیہ) المعرش فی کلامھم ہو لسریر الذی یجلس علیہ الملوک ثم جعل اعلرش کنایۃ عن نفس الملک یقاثل عرشہ ای انتقض ملکہ وفسدوا اذا استقام لہ ملکہ و اطرد امرہ و حکمہ قالو استوی علی عرشہ و استقر علی سریر ملکہ ہذا ماقالہ اقفال و اقول ان الذی قالہ حق و صدق و صواب و نظیرہ قولھم للرجل الطویل فلان طویل النجاد و الرجل الذی یکثر الضیفۃ کثیر الرما دو للرجل اشیخ فلان اشتغل راسہ شیبا ولیس المراد فی شی من ہذا الالفاظ احراء ھا علی سبیلا الکنایۃ فکذا ھہنا یذکرالا ستواء علی العرش والمراد نفاذ القدرۃ و جریان المشیئہ ثم قال اقفال رحمۃ اللہ تعالیٰ عادل علی ذاتہ و علی صفاتہ و کیفۃ تدبیرہ العالم علی الوجہ الذی الفوہ من ملو کھم و روسائھم استقر فی قلوبھم عظمۃ اللہ و کمال جلالہ الا ان کل ذالک مشروط بنفی التشبیہ فاذا قال انہ عالم فھو ا منہ انہ لایخفیٰ علیہ تعالیٰ شئی ثم علموا بعقولھم انہ لم یحصل ذالک العلم بفکرۃ ولا رویۃ ولا باستعمل حاسۃ و اذا قال قادر علمومنہ انہ متمکن من ایجاد الکائنات و تکوین الممکنات ثم علموا بقولھم انہ غنی فی ذالک الایجاد و والتکوین عن الات و الا دوات و سبق المادۃ و المدۃ و الفکرۃ والرویۃ وھکذا لقول فی کل صفاتہ و اذا اخبران لہ بیتا یجب علی عبادہ حجہ فھوا منہ انہ نصب لھم موضعا یقصدونہ لمسلۃ ربھم و طلب حوائجھم کما یقصدون بیوت الملک و الروساء لھذا المطلوب ثم علموا بقول لھم نفی الشبیہ و انہ لم یجعل ذالک البیت مسکنا لنفسہ ولم ینتفع بہ فی دفع الحر والبرد بعینہ عن نفسہ فاذا امر ھم بتحمیدہ و تمجیدہ فھو امتۃ انہ امر ہم بنھایۃ تعظیمہ ثم علمو لعقولھم انہ لایفرح بذالک التحمید و العظیم و لا یقتم بترکہ و الا عراض کا ارادشاء من غیر منازع ولا مدافع ثم اخبر انہ استوی علی العرش ای حصل لہ تدبیر المخلوقات علیٰ ماشاء واراد فکان قولہ ثم استوی علی العرشای بعد بعد ان خلقہا استوی علیٰ عرش المک واجلال ثم قال اقفال والدیل علی ان ہذا ہو المراد من قولہ فی صورۃ یونس ربکم الذی خلق اسموات والارض فی ستۃ ایام ثم استوی علی العرش یدبر الامر فقولہ یدبر الامر جری مجری التفسیر لقوہ لہ استوی علی العش وقال فی ہذا الایۃ التی نحن فی تفیر ہا ثم استوی علی العرش یغشی الیل والنہار یطلبہ حثیثا والشمس و القمر والنجوم مستخرات بامرہ الالہ الخلق والامر وہذا یدل علی ان قولہ ثم استوی علی العرش اشارۃ الی ما ذکرنا فان قبل اذا حملتم قولہ ثم استوی علی العرش علی ان المراد استوی علی الملک و جب ان یقال اللہ لم یکن مستویا قبل خلق السمٰوات والارض قلنا انہ تعالیٰ کان قبل خلق العالم قادر اعلیٰ تخلیقھا وتکوینھا اما ماکان مکونا ولا موجدا الاشیاء باعیانھما الان احیاء زید و اماتۃ عمرو و الطعام ہذا امر وارواء ذالک لایحصل الاعندہذہ الاحوال فاذا افسرنا العرش بالملک والملک بھذہ الاحوال مح ان یقال انہ تعالیٰ انما استوی علی ملکہ بعد خلق السموات والارض و ھذا جواب حق صحیح فی ہذا لوضع ۔ (تفسیر کبیر ، جلد 3 ۔ صفحہ 236) ’’ یعنی قفال نے کہا ہے کہ عرش کلام عرب میں وہ تخت ہے جس پر بادشاہ بیٹھتا ہے پھر عرش سے ملک اور سلطانت میں خرابی آجاوے اور جب کہ سلطنت درست ہو اور کام اچھا چلتا ہو اور حکم نافذ ہو تو کہتے ہیں کہ (استویٰ علیٰ عرشہ و استقر علی سریر ملکہ) یعنی اچھی طرح اپنی سلطانت پر قائم ہے اور اپنے سریر مملکت پر مستقر ہے یہ وہ ہے جو فقال نے کہا ہے اور صاحب تفسیر کبیر کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ یہ حق اورسچ اور صواب ہے اور یہ ایسا ہے جیسا کہ طویل قیامت کے لیے عرب کا یہ قول ہے (طویل ننجاد) یعنی لمبی پر تلہ والا اور بہت زیادہ ضیافت کرنے والے کے لیے (کثیر الرماد) بہت خاکستر والا اور بوڑھے آدمی کے لیے یہ کہنا کہ اس کا سو بڑھایا سے روشن ہو گیا (اشتعل راسہ شیبا)ان سب الفاطظ سے یہ مرادنہیں ہے کہ وہ اپنے ظاہری معنی میں جاری ہیں بلکہ ان سے یہی مراد ہے کہ اصلی مقصود کو بطور کنایہ کے سمجھا دیا جاوے ایسا ہی اس موقع پرکہا جاتا ہے (استویٰ علی العرش) اور مراد ہے اس کی قدرت کانافذ ہونا اور اس کی خواہش کا جاری ہونا۔ قفال نے کہا اللہ تعالیٰ نے جب کہ سمجھایا اپنی ذات اور اپنی صفات اور اپنی کیفیت تدبیر عالم کو اس طرح پر جس طرح کہ انہوں نے اپنے کیفیت تدبیر عالم کو اس طرح پر جس طرح کہ انہوں نیاپنے بادشاہوں اور سرداروں کو پایا تھا اللہ تعالیٰ کی عظمت ان کے دلو ں میں اسی طرح پر قائم ہوئی مگر ان سب میں یہ شرط ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تشبیہ نہ دے جب اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ عالم ہے تو اس سے یہ سمجھے کہ اس سے کچھ مخفی نہیں ہے۔ پھر اپنی سمجھ سے یہ جانا کہ یہ علم اللہ تعالیٰ کو فکر اور غور سے نہیں حاصل ہوا اور نہ حواس کے استعمال سے اور جب فرمایا ہے کہ وہ قادر ہے تو جانا کہ وہ پیدا کرنے عالم پر ممکنات کے پیدا کرنے پر قادر ہے پھر اسی سمجھ سے یہ جانا کہ اللہ تعالیٰ اس ایجاد اور پیدا کرنے میں اوزاروں وغیرہ کا محتاج نہیں ہے اور اس کا بھی محتاج نہیں ہے کہ کچھ مادہ ہولے اور پھر اس میں کچھ مدت غور کر کے کام آئے اور ایسا ہی قول ہے سب صفات اللہ تعالیٰ میں جب کہ اس نے خبر دی کہ اس کا ایک گھر ہے اس کاحج ان پر واجب ہے۔ اس سے انہوں نے سمجھا کہ اس نے ایک جگہ کو مقرر کر دیا ہے۔ خدا تعالیٰ سے سوال کرنے کے لیے اور اس سے اپنی حاجتیں طلب کرنے کے لیے تاکہ اس کا قصد کریں جیسے کہ بادشاہوں اور سرداروں کے گھروں کا اس غرض سے قصد کرتے ہیں پھر اپنی عقل سے مجھا کہ وہ تشبیہ سے پاک ہے اور اس انے یہ گھر اپنے رہنے کے لیے نہیں بنایا ہے اور اس گھر سے اس کو یہ فائدہ نہیں ہے کہ وہ اپنے سے گرمی یا سردی کو دفع کرے پھر جب کہان کو حکعم کیا کہ اس کی حمد ریں اور اس کی بزرگی مانیں تو اس نے نہایت درجہ کی تعظیم کا حکم دیا ہے۔ پھر سمجھے کہ خدا تعالیٰ اس تحمید اور تمجید سے نہ خوش ہوتا ہے اور نہ اس کے ترک کرنے سے رنجیدہ ہوتا ہے جب کہ یہ مقدمات تو نے سمجھ لیی تو ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو جس طرح چاہا پیدا کیا بغیر کسی جھگڑا کرنے اور تکرار کرنے والے کے پھر اس نے خبر دی (انہ استوی علی العرش) یعنی وہ اپنی سلطنت پر قائم ہوا مراد یہ ہے کہ حاصل ہوئی اس کو تدبیر مخلوقات جس طرح کہ اس نے چاہا تھا اور ارادہ کیا تھا پس یہ قبول کہ عرش پر قائم ہوا ایسا ہے کہ بعد پیدائش عالم کے اپنے عرش حکومت اورعظمت پر قائم ہوا پھر فقال نے کہا کہ اس بات کی دلیل کہ یہی معنی مراد ہیں اللہ تعالیٰ کے قول کے جو سورہ یونس میں ہے کہ بیشک ہمارا پروردگار وہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پھر قائم ہوا اپنے عرش پر کہ تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے پس یہ قول کہ ’’ یدبر الامر ‘‘ بمنزلہ تفسیر کے ہے جو قول ’’ استویٰ علی العرش ‘‘ کے مطلب کو صاف کھولتا ہے اور اس آیت میں جس کی ہم تفسیر میں ہیں یوں فرمایا ہے ثم استوی علی العرش یغشی اللیل النہار یطبہ حثیثا پھر قائم ہوا عرش پر کہ چھپاتا ہے رات سے دن کو کہ تلاش کرتے تھے اس کو دوڑ کر والشمس والقمر مسخرات بامرہ ۔ الالہ الخلق و الامر ، اور چاند اور سورج فرمان برادار ہیں اس کے حکم کے جان لو کہ اسی کے لیے پیدا کرنا اور حکم کرنا یہ اسی پر دلالت کرتا ہے کہ اس کایہ کہنا کہ ثم استوی علی العرش اسی کی طرف اشارہ ہے جو ہم نے ذکر کیا اگر یہ اعتراض کیا جاوے کہ تم نے قول (استویٰ علی العرش) کو اس پر قیاس کیا کہ مراد ہے کہ اپنی حکومت پر قائم ہوا تو یہ لازم آیا کہ پہلے پیدائش آسمان اور زمین کے اس پر قائم ہوا تو یہ لازم آیا کہ پہلے پیدائش آسمان اور زمین کے اس پر قائم نہ تھا تو ہم اس کا یہ جواب دیں گے کہ قبل پیدائش عالم کے وہ اس کے پیدا کرنے اور تکوین پر قادر تھا لیکن نہیں تھا پیدا کرنے والا اور موجودہ اشیاء معینہ کا اس لیے کہ زید کا زندہ کرنا اور عمر کا مارنا اس کو کھانا دینا اور اس کو پانی دینا یہ تمہیں حاصل ہوتا۔ اگر ان احوال کے ساتھ پس جب کہ ہم نے عرش کی تفسیر ملک سے کی اور ملک خود یہی احوال ہیں تو صحیح ہے کہ یہ کہا جاوے کہ اپنے ملک پر قائم ہوا بعد پیدا کرنے آسمان اور زمین کے اور یہ جواب صحیح ہے اس موقع پر۔ ‘‘ اب میںنہایت ادب سے ان بزرگوں کی خدمت میں جنہوں نے ان آیتوں میں عرش کے لفظ سے سلطنت اور مملکت مراد لی ہے عرض کرتا ہوں کہ جن آیتوں میں صرف لفظ ’’ رب العرش ‘‘ کا یا ’’ رب العرش العظیم ‘‘ کا یا ’’ ڈی العرش ‘‘ کا یا ’’ رب العرش الکریم ‘‘ کا یا ’’ ذوالعرش المجید ‘‘ کا آیا ہے وہاں بھی عرش کے کے معنی سلطنت و مملکت کے کیوں نہیں لیے جاتے۔ جو ایک چوڑے چکلے تت موجود فی الخارج کے جس کا بنانا بھی ظاہرا بیکار معلوم ہوتا ہے جس پر نہ کبھی خدا بیٹھا ہے نہ بیٹھے گا اور نہ بیٹھ سکتا ہے ، لیے جاتے ہیں۔ ہماری اس تقریر کے برخلاف شاید چار آیتیں پیش ہو سکتی ہیں اور بیان کیا جا سکتا ہے کہ ان آیتوں میں ایسے مضامین ہیں جن کے سبب عرش کو مثل سریر بادشاہی موجود فی الخارج تسلیم کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ پہلی آیت سورہ زمر کی ہے جہاں قیامت کے حالات میں خدا نے فرمایا ہے کہ ’’ تو فرشتوں کو عرش کے گرد کھڑے ہوئے دیکھے گا پاکیزگی سے یاد کرتے ہیں ساتھ تعریف کے اپنے رب کو۔ دوسری آیت سورہ الحاقہ کی ہے جہاں خدا نے قیامت کے حال میں فرمایا ہے اور اٹھاویں گے تیرے پروردگار کے تخت کو اپنے اوپر آج کے دن آٹھ۔ تیسری آیت سورۂ مومن کی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ ’’ وہ جو اٹھاتے ہیں عرش کو اور وہ جواس کے گرد ہیں پاگیزگی سے یاد کرتے ہیں تعریف کے ساتھ اپنے پروردگار کو اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور معافی چاہتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں۔ ‘‘ چوتھی آیت سورۂ ہود کی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ ’’ وہ وہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں اور اس کاعرش تھا پانی پر۔ ‘‘ سورۂ زمر کی آیتیں جن میں عظمت و جلال خدا کا بیان ہوا ہے وہ سب تمثیلی ہیں ، مفسرین بھی ان کا تمثیلی ہونا قبول کرتے ہیں۔ مثلاً اس میں فرمایا ہے ، والارض جمیعاً قبضۃ یوم القیامۃوالسموات مطوبات بعینہ ، پس ظاہر ہے کہ خدا کی نہ مٹھی یہ اور نہ اس کادایاں ہاتھ ، یہ ایک تمثیل یا استعارہ یا حجاز ہے جس سے مقصودخدا کی عظمت و قدرت کاظاہر کرنا ہے نہ یہ کہ حقیقۃً خدا زمین کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمانوں کو ہاتھ پر لپیٹ لے گا۔ ‘‘ صاحب کشاف نے کہا کہ قال صاحب الکشاف الغرض من ہذا الکلام اذا اخذتۃ کما ہو بجملۃ و مجموعہ ، تصویر عظمۃ و التوفیق علیٰ کیہ جلالہ من غیر ذھاب بالقبضہ ولا بالیمین الیٰ جھۃ حقیقۃ اوجھۃ مجاز و کذالک حکم مایری ان جبریل علیہ السلام جاء الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا ابا القاسم ان اللہ یمسک السموات یوم القیامۃ علیٰ اصبح والارقین علی اصبع و اجبال علی اصبع والشجر علی اصبع والثریٰ علیٰ اصبع و سایر الخلق علیٰ اصبع ثم یھزھن فیقول ان لملک فضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعجبا مما قال ثم قرء تصدیقالہ وما قدرو اللہ حق قدرہ الایۃ قال صاحب الکشاف وانما ضحک افصح الحرب و تعجب لانہ لم یفھم منہ الا مایفھہ علماء البیان من غیر تصور امساک ولا اصبح ولا ہن ولا شی من ذالک و لکن فھم وفع اول کل شی و آخرہ علی الذبدہ و اخلاصۃ التی ہی الدلالۃ علی القدرۃ الباہرۃ و ان الافعال الغطام التی تتحیر فیھا الافھام ولا تکنتیھا الا وھام ہینہ علیہ ہوانا لایوصل السامع الی الوقوف علیہ الاجراء العبارۃ فی مثل ہذا الطریقۃ من التخیل قال ولا نری باب فی علم البیان ادق ولا راق ولا الطف من ہٰذ الباب (نفسیر کشاف صفحہ 1267)۔ یعنی غرض اس کلام سے جب کہ اس سے سب کو پوری طرح سمجھ لے جیسا کہ وہ سبھی اللہ تعالیٰ کی عظمت کی تصویر ہے اور کنہ جلال الہٰی کے سمجھنے میں توقف کرنا ہے نہ کہ قبضہ اور دائیں ہاتھ کے حقیقی اورمجازی معنوں کی طرف جانا اور ایسا ہی ہے حکم اس روایت کا کہ جبرئیل آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور کہا اے ابو القاسم اللہ تعالیٰ اٹھائے گا آسمانوں کو قیامت کے دن ایک انگلی پر اور سب زمینوں کو ایک انگلی پر اور پہاڑوں کو ایک انگلی پر اور درختوں کو ایک انگلی پر اور جو زمینوں کے نیچے ہے۔ اس کو ایک انگلی پر ایک سب خلقت کو ایک انگلی پر پھر ان کو ہلاوے گا پھر کہے گا کہ میں بادشاہ وہوں پس ہنسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعجب کر کے اس کے قول پر پھر بطور تصدیق اس بات کے یہ آیت پڑھی و ما قدر و اللہ حق قدرۃ الایہ کہا صاحب کشاف نے کہ صرف اس وجہ سیہنسے افصح العرب اور تعجب کیا کہ انہوں نے اس سے بجز اس کے اور کچھ نہیں سمجھا جو کہ علمائے علم بیان سمجھتے ہیں۔ بغیر خیال کرنے اٹھانے اورانگلی اور حرکت کے معنوں کے اور نہیں سمجھا کچھ اس میں سے بلکہ سمجھا واقع ہونا اول ہرشے کا اور آخر ہر شے کا بطور خلاصہ اور انتخاب کے کہ وہ دلالت ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر اور اس پر کہ وہ بڑے کام جن میں سب عقلا کی علقیں حیران ہیں اورذہن ان کو نہیں سمجھ سکتے اللہ تعالیٰ پر آسان ہے نہایت آسان سننے والا اس سے واقف ہونے تک پہنچ نہیں سکتا بجز اس کے کہ کلام کو اسی طریقہ پر خیال میں لانے کو بلایا جاوے کہا صاحب کشاف نے کہ ہم علم بیان میں کوئی باب اس سے زیادہ دقیق اور لطیف نہیں پاتے ہیں۔ علاوہ اس کے صاحب تفسیر کشاف نے ان لفظوں کی مراد اس طرح بیان کی ہے کہ قیل قبضہ مللہ بلا مدافع ولا منازع و یمینہ قدرتہ (کشاف جلد دوم 1267 یعنی اللہ تعالیٰ کا قبضہ اس کا ملک ہے جس میں کوئی تکرار کرنے والا اور جھگڑے والا نہیں ہے اور دائیں ہاتھ سے مراد اس کی قدرت ہے۔ صاحب تفسیر کبیر منصف کشاف کی اس تحریر سے کسی قدر خفا ہو گئے ہیں اورارقام فرماتے ہیں کہ اقول ان حال ہذا الرجل فی اقدامہ علیٰ سحسین طریقتہ و تفتیح طریقۃ الدما ، عجیب جد فانہ ان کان مذھہبہ انہ یجوز ترک ظاہرہ الفظ و المضیر انی الجاز من غیر دلیل فھذا طعن فی القرآن و اخرج الہ ، من ان یکون حجۃ فی شی و ان کان مذہبہ ان الاصل فی الاصل فی الکلام الحقیقۃ والنہ لا یجوز العدول عنہ الالدلیل منفصل فھذا ہو اطریقۃ التی الطبق علیھا جمہور المتقدیمن فاین کلام الذی یزعم انہ علمہ و این العلم الذی لم یعرفہ غیرہ مع انہ وقع فی التاویلات العسیرۃ والکلمات الرکیکۃ فان قالو المراد انہ لما دل الدلیل علی انہ لیس المراد من لفظ القبضۃ و الیمین ہذہ الاعضاء وجب علینا ان نکتفی بھذا القدر ولا نیتغل بتعین المراد بل نفوذ ء لمعہ الی اللہ تعالیٰ فنقول ہذا ہو طریقہ الموحدین الذی یقولون انا نعلم انہ لیس مراد اللہ من ہذا اللہ لفاظ ہذا الاعضا فا ما تعین المراد فانا نفوض ذالک العلم الی اللہ تعالیٰ و ہذا ہو طریقہ السلف المعرضین عن التاویلات فثبت ان ہذا التاویلات التی اتی بھا ہذا الرجل الیس تحتھا شئی من الفائدۃ (تفسیر کبیر)۔ یعنی میں کہتا ہوں کہ اس آدمی کا یہ حال کہ وہ متوجہ ہے اپنے طریقہ کی خوبی بیان کرنے پر اور پہلوؤں کے طریقہ کی برائی بیان کرنے پر نہایت ہی عجیب ہے اگر اس کا یہ مذہب ہے کہ لفظ کے ظاہری معنی کا چھوڑنا اور مجازی معنی کی طرف جانا بغیر کسی دلیل کے جائز ہے تو یہ توقرآں میں طعن کر نا ہے اور قرآن کو دلیل کے درجہ سے خنارج کرتا ہے کہ وہ کسی امر میں حجت نہیں ہو سکے گا اور اگر اس کا یہ مذہب ہے کہ کلام میں اصل یہ ہے کہ معنی حقیقی مراد ہوں اور معنی حقیقی سے بغیر کسی جداگانہ دلیل کے پھرنا نہیں چاہیے پس یہ وہی طریقہ ہے جس پر سب پہلے علماء نے اتفاق کیا ہے پس کہاں وہ علم جس کو وہ خاص اپنا علم بیا کرتا ہے اور کہاں ہے وہ علم جس کو دوسرا نہیں جانتا ہے باوصف اس کے یہ بھی تنگ تاویلات میں پھنسا ہے اور اور بہت رکیک کلمات کہے ہیں اگر یوں کہیں کہ مراد یہ ہے کہ جب دلیل سے یہ ثابت ہو گیا کہ لفظ قبضہ اور یمین سے یہ اصلی اعضاء مراد نہیں ہیں تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اسی پر اکتفا کریں اور جو کچھ مراد ہے اس کے معین کرنے میں نہ مشغول ہوں بلکہ اس کے علم کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔ پس ہم کہتے ہیں کہ یہی ہے طریقہ موحدین کا جو یہ کہتے ہیں کہ نہیں ہے مراد اللہ تعالیٰ کی ان الفاظ سے یہ اعضا خاص لیکن اللہ کی مراد کو معین کرنا پس ہم اس کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑتے ہیں یہی ہے طریقہ علماء سلف کا جو کہ تاویلات سے الگ رہے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ تاویلات جن کو یہ شخص لایا ہے ان میں کچھ فائدہ نہیں ہے۔ صاحب تفسیر کبیر کا اس قدر ناراض ہونا بے فائدہ ہے کیوں کہ ہر شخص جو ظاہر لفظ کو چھوڑ کر مجاز کی طرف لے جاتا ہے اس کے نزدیک دلیل قاطع اس بات کی ہوتی ہے کہ اس مقام پر اس لفظ سے حقیقت مراد نہیں ہے باقی رہی یہ بات کہ اتنے ہی پر اکتفا کیا جاوے اور اس کی تاویل و مراد کو خدا کے علم پر چھوڑ دیا جاوے ایک ایسی بے معنی بات ہے جس سے قرآن مجید کی صدھا آیات کا نازل ہونا لغو اور بے کار ہو جاتا ہے نعوذ باللہ منھا اور صرف لغو وبے کار ہی نہیں ہوتا بلکہ ایسا کرنا نعوذ باللہ قرآن مجید کو مضحکمہ بنانا ہے۔ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں۔ ید اللہ وجہ اللہ قبضۃ یمینہ اور کہتے ہیں کہان لفظوں سے خدا کا ہاتھ ، خدا کا منہ ، خدا کی مٹھی ، خدا کا دایاں ہاتھ ماد نہیں ہے ۔ جب پوچھتے ہیں کہ اور کیا مراد ہے تو کیا جاتا ہے کہ خدا ہی کو معلوم ہے۔ ارے میاں اگر یہی مقصود تھا کہ خدا ہی کو معلوم ہے تو ان الفاظ کا نازل کرنا اور بندوں کو پڑھوانا ہی کیا ضرور تھا۔ اصل منشا اس غلطی کا یہ ہے کہ قرآن مجید جو بلاشبہ کلام الہٰی ہے مگر بعضے وقت لوگوں کو یہ خیال نہیں رہتا کہ وہ انسانوں کی زبان میں بولا گیا ہے پس اگر وہ درحقیقت انسانوں کی زبان میں بولا گیا ہے اور درحقیقت ایسا ہی ہے تو جس طرح ایسے موقع پر انسان کے کلام کے معنی و مراد قرار دیے جاتے ہیں اسی طرح قرآن مجید کے الفاظ کے بھی معنی و مراد قرار دیے جاویں گے ۔ اس طرح معنی قرار دینے کو تاویل کہنا ہی غلط ہے کیوں کہ درحقیقت اس میں کچھ تاویل نہیں ہے بلکہ ہم کو یقین ہے قائل نے اسی مراد سے وہ الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اب میں کہتا ہوں کہ سورہ زمر میں صرف یہی دو لفظ ہیں جو مجازاً استعمال کیے گئے ہیں۔ بلکہ اور بھی بہت سے ہیں مثلا نفخ صور کہ وہ صرف استعاررہ ہے وقت معین کے آجانے سے ’’ مقالید السموات والارض ‘‘ کا استعمال مجازا ہوا ہے اخیر سورہ کا تمام مضمون بطور خطابیات کے زبان حال اہل دوزخ و اہل بہشت سے بیان کیا گیا ہے جیس کہ صورہ فصلت میں زمین و آسان کی زبان حال سے بیان ہوا ہے ۔ جہاں فرمایا ہے ’’ ثم استویٰ الی السماء وہی د خان فقال لھا و الارض ایتا طوعا اور کرہا قالتا اتینا طائعین ‘ ‘ دوزخ و بہشت میں دروازوں کاہونا اور دوزخیوں اور بہشتیوں کے لیے ان کا کھولا جانا دوزخ پر چوکیداروں کا ہونا اور دوزخ میں جانے والوں کو طعنہ دینا بہشت پر دربانوں کا ہونا اور بہشت میں جانے والوں کو مبارکباد دینا یہ سب بطور تمثیل کے بیان ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ ہمیشہ معاد کے معاملات کو دنیوی حالات کی تمثیل کے بیان کرتاہے اور اس تمثیل سے وہ چیزیں بجنسہ مقصود نہیں ہوتیں بلکہ صرف ماحصل اس کا مقصود ہوتا ہے۔ دوزخ کو دنیا کے جیل خانوں کی مانند سمجنا جس پر چوکیدار اس غرض سے متعین ہوتے ہیں کہ قیدی بھاگ نہجاویں یا بہشت کو دنیا کے باغوں کی مانند سمجھنا جس پر دربان اس غرض سے ہوتے ہیں کہ کوئی غیر اس میں نہ چلا جاوے اس کے پھل نہ توڑلے خد ا کی قدرت اور عظمت اور حکمت پر بٹہ لگانا ہے جو اس کی شان کے شایان نہیں اور یہی دلیل اس بات کی ہے کہ ان الفاظ سے ان کی ظاہری معنی مراد نہیں ۔ اسی طرح سورہ زمر کی اس آیت میں کہ ’’ تو فرشتوں کو عرش کے گرد کھڑے ہوئے دیکھے گا پاکیزگی سے یاد کرتے ہیں ساتھ تعریف کے اپنے رب کو ‘‘ جو کہ دنیا میں بادشاہوں کا طریقہ اپنی عظمت و جلال دکھانے کایہی ہے کہ تخت پر بیٹھتے ہیں تخت کے چاروں طرف ہالی موالی کھڑے ہیں بادشاہ کا ادب بجا لا رہے ہیں اس کی تعریف کر رہے ہیں اس کی تمثیل میں خدا نے بندوں کو سمجھا نے کے لیے اپنے جلال و عظمت کو بتایا ہے اس سے یہ مقصد نہیں نکالا جا سکتا کہ در حقیقت وہاں کوئی تخت ہو گا اور در حقیقت وہاں کوئی مجسم فرشتے بطور حالی موالی کے اس کے گرد کھڑے ہوں گے اور خدا کی تعریف میں جو تخت پر بیٹھا ہو گا قصیدے پڑھ رہے ہوں گے نہایت تعجب ہوتا ہے ان علماء سے کہ خدا کا تخت بیٹھنا تو محال و ممتنع قرار دیتے ہیں اور پھر تخت کو اور اس کے سامان جلوس کو حقیقی اور واقعی سمجھتے ہیں۔ سورۂ الحاقہ کی جو آیت ہے اس سے پہلی آیتوں میں خدا تعالیٰ نے قیامت کا اور تمام دنیا کے برباد ہوجانے کا اس طرح پر ذکر کیا ہے کہ صور پھونکی جاوے گی اور زمین اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاویں گے اور آسمان کے پرخچے اڑ جاویں گے اور فرشتے اس کے کناروں پر ہٹ جاویں گے۔ یہ سن کر انسان کے خیال میں آتا ہے کہ جب سب چیزوں برباد ہو جاویں گی تو خدا کی بادشاہت کس پر ہو گی کیا خدا کی بادشاہت ہی ختم ہو جاوے گی ؟ اس شبہ کے رفع کرنے کو خدا نے کو خدا نے اسی کے ساتھ فرما دیا کہ ’’ ویحمل عرش ربک فوقتھم یومئذ ثمانیہ ‘‘ یعنی جب کہ سب کچھ برباد ہو جاوے گا اس دن بھی تیرے پروردگار کی بادشاہت نے انتہا چیزوں پر جو اس کی مخلوق ہیں اسی طرح پر قائم رہے گی۔ ’’ حمل ‘‘ کے معنی اٹھانے کے ہیں مگر اس کا استعمال شے مادی موجود فی الخارج کی نسبت بھی ہوتا ہے اور شے عقلی غیر مادی غیر موجود فی الخارج پر بھی ہوتا ہے۔ جیسے کہ خدا تعالیٰ نے توریت کے عالموں کی نسیت فرمایا ہے ’’ الذی حملوں التوراۃ ثم لم یحملوہا ‘‘ اور جیسے کہ حافظان قرآن کو حاملان قرآن یا قاضیوں اورمفتیوں کو حاملان شریعت اور گناہ گاروں کی نسبت گناہوں کا اٹھانا ’’ حملنا اوزارہا ‘‘ کہا جاتا ہے پس حمل کے لفظ اسی چیز کا اٹھانا مراد نہیں ہوتا جو موجود فی الخارج ہو۔ جب کسی کو کسی شے کا حامل کہتے ہیں اس سے اس کا ظہور لازمی تصور کیا جاتا ہے۔ حاملان تو رات اسی لیے کہتے تھے کہ ان سے احکام تورات ظاہر اور معلوم ہتے تھے اورحاملان شریعت سے احکام شریعت۔ پس جب شے سے جو چیز ظاہر ہو اس کو اس کا حامل کہتے ہیں۔ خدا کی مخلوق سے جو خدا کی سلطنت و بادشاہت ظاہر ہوتی ہے ان پر حاملان عرش کا اطلاق ہو سکتا ہے پس خدا فرماتا ہے کہ جب یہ سب چیزیں و تم دیکھتے ہو برباد ہو جاویں گی تب بھی خدا کی بادشاہت اس کی اور بے انتہا مخلوقات اٹھائے ہوئے ہو گی۔ ثمانیہ کا لفظ صرف فصاحت کلام کے لیے آیا ہے اس سے کوئی عدد خاص مقصود نہیں ہے اور اس میں بہت بڑی بلاغت یہ ہے کہ اس کے دو رکن کے یعنی اس کے مضاف اور مضاف الیہ کے بیان کے مخذوف کرنے سے عدد غیر متناہی اور اجناس غیر محصور کا اظہار ہوتا ہے۔ جیسے کہ ثمانیہ الاف باثمانیہ الاف الی غیر النہایۃ من المخلوقات الخیر المحصور ۔ پس اس آیت سے عرش کا وجود فی الخارج ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ صرف اس قدر پایا جاتا ہے کہ بعد فنا ہونے اس تمام موجودات کے بھی خدا کی بادشاہت بد ستور قائم رہے گی۔ تفسیر کشاف میں جو قول حسن بصری اور ضحاک کا نقل کیا ہ اس سے بھی ٹھیک ٹھیک یہی مراد معلوم ہوتی ہے۔ جو ہم نے بیان کی ہے اس میں لکھا ہے۔ و عن الحسن اللہ اعلم کم ہم اثمانیۃ ام ثمانیہ الاف و عن الضحاک ثمانیۃ من الروح او من خلق اخرفھو القادر علیٰ کل خلق سبحان الذی خلق الازواج کلھا مماتنبت الارض و من تفسہم و مما لایعلمون ۔(تفسیر کشاف صفحہ 1522)۔ یعنی حسن بصری سے مروی ہے کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کتنے ہی آٹھ ہیں آٹھ ہزار ہیں اور ضحاک سے مروی ہے کہ آٹھ صفیں ہیں اور یہ کہ ان میں کتنے ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اور جائز ہے کہمراد ہو آٹھ روحیں یا اور مخلوق خدا کی پس اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے سب کی پیدائش پر پاک ہے اللہ جس نے پیدا کیا ہے سب جوڑوں کو جن کو اگاتی ہے زمین اور جو خود ان کے ہیں اور جن کو وے نہیں مانتے۔ سورۂ مومن میں جو آیت ہے وہ نہایت غور طلب ہے۔ اس کے شروع میں ہے ’’ الذین یحملون العرش ‘‘ پس بحث یہ ہے کہ الذین کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ تمام مفسرین کہتے ہیں کہ ’’ الذین ‘‘ کا اشارہ فرشتوں کی طرف ہے۔ صاحب تفسیر کبیر اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس آیت سے پہلے خدا تعالیٰ نے ایمان والوں کے ساتھ کفار کی عداوت کا حال بیان کیا ہے اس کے بعد بطور تسلی کے کہا کہ اشرف طبقات مخلوقات فرشتے ہیں اورخصوصاً حملۃ العرش وہ ایمان والوں سے نہایت محبت رکھتے ہیں پس ان کمینہ لوگوں کی عداوت پر کھ التفات کرنا نہیں چاہیے۔ مگر تعجب یہ ہے کہ کفار دنیا میں ایمان والوں کے ساتھ عداوت کرتے تھے اور ایذا پہنچاتے تھے اگر اس کے مقابل کوئی ایسی چیز بیان کی جاتی جو اس دنیاوی ایذا میں معاونت کر سکتی تو البتہ ایک تسلی کی بات تھی۔ مگر اس دنیاوی تکلیف کے مقابلہ میں یہ کہنا کہ فرشتے ہمارے گناہوں کی معافی چاہ رہے ہیں کسی طرح پر تسلی دے سکتا ہے علاوہ اس کے اس مقام پر فرشتوں کا کچھ ذکر نہیں آیا ہے اور جب کہ عرش سے سلطنت مراد لی جاوے نہ ایک شے مجسم موجود فی الخارج تو کوئی قرینہ بھی نہیں جسے سے ’’ الذین ‘‘ کا اشارہ فرشتوں کی طرف سمجھا جاوے۔ قران مجید کا مطلب نہایت صاف ہے۔ اس سے پہلی آیتوں میں خدا نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نشانیوں (یعنی حکام) میں کوئی جھگڑا نہیں کرتا بہ جز کافروں کے پھر ان کا شہروں میں پڑے پھر نا ان کی خوش حالی تجھ کو دھوکہ میں نہ ڈالے ۔ ہر ایک امت نے اپنے رسول کے پکڑنے ومار ڈالنے کا قصد کیا ہے … اور انلوگوں کی نسبت جو کافر میں خدا کا حکم ہو چکا ہے کہ وہ دوزخ میں جانے والے ہیں۔ اس کے بعد خدا نے فرمایا ’’ الذین یحملون العرش ‘‘ کفار کے مقابلے میں ایمان والے تھے پس صاف ظاہر ہے کہ ’’ الذین ‘‘ سے اہل ایمان انسان مراد ہیں تو فرشتے ۔ عرش کے معنی سلطنت کے ہم ابھی ثابت کر چکے ہیں پس آیت کے معنی صاف ظاہر ہیں کہ ’’ جو لوگ خدا کی سلطنت کواٹھائے ہوئے ہیں یعنی وہ جو ’’انعمت علیہم ‘‘ میں داخل ہیں اور جو اس کے قریب ہیں یعنی صلحا و خیار امت پاکیزگی سے اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور معافی چاہتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں ‘‘ الیٰ اخرہ اس کے بعد پھر کافروں کا ذکر کیا ہے۔ پس قرآن مجید میں تو اس مقام پر فرشتوں کا پتہ بھی نہیں اور نہ ’’ الذین ‘‘ کے وہ مشار الیہ ہیں۔ سورہ ہود میں جو آیت ہے جس میں چھ دن میں آسمان و زمین کے پیدا کرنے کے ساتھ یہ بھی آیا ہے کہ ’’ و کان عرشہ علی الماء ‘‘ کچھ زیادہ بحث طلب نہیں ہے ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں کہ ستۃ ایام میں آسمان و زمین کا پیدا کرنا اخبار عن الخلقت نہیں ہے نہ کلام مقصود بلکہ نقلاً اعتقاد یہود کا بیان ہے۔ یہود کا یہ بھی اعتقاد تھا کہ خدا کی روح پانی پر چھائی ہوئی تھی چناں چہ توریت میں آیا ہے۔ وروح الوہیم مر خفت علی فنی ہمائیم ۔ یعنی خدا کی روح چھائی ہوئی تھی پانیوں کے منہ کے اوپر ’’ مرحفت ‘‘ کے ٹھیک معنی مرغی کے انڈے سینے کے ہیں یعنی جس طرح مرغی تمام انڈوں کو پروں کے اندر لے کر ان کے گھیر کر بیٹھ جاتی ہے اسی طرح خدا کی روح پانیوں پر تھی اس آیت میں اسی اعتقاد یہود کی نقل ہے روح کی جگہ خدا کا عرض یعنی خدا کی سلطنت یا غلبہ بیان ہوا ہے پس کوئی لفظ اس آیت کا عرش کے وجود خارجی ہونے کا مثبت نہیں ہے۔ ٭……٭……٭ لفظ سموات قرآن مجید میں ’’ سموات ‘‘ جمع ہے سماء کی جس کے معنی اونچے کے ہیں۔ یہ لفظ عربی میں اور یہودیوں کی زبان میں اس زمانہ سے بولا جاتا ہے۔ جب کہ یونانی علم ہیئت کا وجود بھی نہ تھا۔ قرآن مجید میں بھی اس لفظ کا اطلاق اسی محاورہ میں ہوا ہے جو اس زمانہ میں تھا۔ مگر قرآن مجید کے نازل ہونے کے زمانہ میں اس کے بعد بالتخصیص مسلمانوں میں یونانی علم ہیئت کا بڑا رواح ہو گیا تھا یونانیوں نے آسمان کو ایک جسم شفاف صلب کر وی الشکل مقعرومحدب کا محیط زمین کے جس میں ستارے جڑے ہوئے ہیں تسلیم کیا تھا۔ یونانی مسئلے مسلمانوں میں بہت رائج ہو گئے تھے اور سب (الاشاذ و نادر)بطور سچے مسئلوں کے تسلیم کیے جاتے تھے یہاں تک کہ قرآن کے بیانات کو بھی ان کے مطابق کیا جاتا تھا۔ البتہ علمائے علم کلام نے یونانیوں کے چند مسائل میں ترمیم اور بعض میں اختاف کیا تھا جن کو وہ صریح مذہب کے خلاف سمجھتے تھے اور اس کے سوا باقی مسائل کو بطور سچ کے تسلیم کرتے تھے ۔ آسمانوں کا مسئلہ بھی ایسا ہی تھا جس میں علمائے اسلام نے کچھ تھوڑی ترمیم کی تھی۔ اور اس کے جسم کر وی محیط ارض کے ہونے اور ستاروں کے اس میں جڑے ہوئے ہونے اور آسمانوں کے زمین کے گرد چکر کھانے کو ویسا ہی تسلیم کیا تھا جیسا کہ یونانیوں نے بیان کیا تھا۔ اس لیے تفسیروں میں اور مذہبی کتابوں میں آسمان کے وہی معنی یا اس کے قریب قریب مروج ہو گئے جو یونانی حکیموں نے بیان کیے تھے اور بہت بڑی غلطی یہ پڑ گئی کہ لفظ تو لیا قرآن کا اور اس کے معنی نے یونانی حکیموں کے اور رفتہ رفتہ وہ معنی ذہن میں ایسے راسخ ہو گئے کہ ان کا انکار کرنا گویا قرآن کا انکار کرنا ٹھیر گیا۔ مگر ایسا سمجھنا بناء فاسد علی الفاسد ہے۔ اس لیے میں ان معنوں سے جو اکثر مفسرین سمجھتے ہیں ، انکار کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ جن جن چیزوں پر قرآن مجید میں سماء یا سموات کا اطلاق آیا ہے۔ وہی معنی سماء سموات کے ہم قرار دیں گے۔ نہ وہ معنی جو علمائے السلام نے یونانی حکیموں کی پیروی سے قرار دیے ہیں۔ قرآن مجید میں اس وسعت پر بھی اسماء کا اطلاق ہوا ہے جو ہر شخص اپنے سر کے اوپر دیکھتا ہے اور اس نیلی نیلی چیز پر بھی ہوا ہے جو گنبدی چھت کے مانند ہر شخص کو اس کے سر کے اوپر دکھائی دیتی ہے ۔ اور ان چمکتے چمکتے جسموں پر بھی ہوا ہے۔ جن کو ہم ستارے یا کواکب کہتے ہیں۔ بادلوں پر بھی ہوا ہے جو مینہ برساتے ہیں مگر قرآن نے آسمان کے وہ معنی جو یونانی حکیموں نے بیان کیے ہیں کہیں نہیں بتلائے ۔ اس لیے ہم ان سے انکار کرتے ہیں اور جو معنی قرآن نے بتائے ہیں انہی معنوں میں سے کوئی معنی سماء کے لفظ کے سمجھتے ہیں۔ اس مقام پر سماء کے لفظ سے وہ وسعت مراد ہے جو ہر شخص اپنے سر کے اوپر دیکھتا ہے پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس وسعت کی طرف متوجہ ہوا جو انسان کے سر پر بلند دکھائی دیتی ہے اور ٹھیک اس کو سات بلندیاں کر دیں۔ سات سیاہ کواکب کو ہر کوئی جانتا تھا۔ عرب کے بدو بھی ان سے بہ خوبی واقف تھے۔ وہ ستارے اوپر تلے دکھائی دیتے ہیں یعنی ایک سب سے نیچا۔ دوسرے اس سے اونچا اور تیسرا اس سے اونچا اور علی ہذالقیاس اووان کواکب کے سبب جو بطور روشن نشانوں کے اس وسعت مرتفع میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس وسعت کے ساتھ جدا جدا حصے یا درجے یا طبقے ہو جاتے ہیں پس اسی کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کو ٹھیک سات آسمان کر دیے۔ یہ معنی جو ہم نے بیان کیے اگرچہ لوگوں کو ایک نئی یات معلوم ہوتی ہو گی۔ مگر یہی معنی بعض معتبر مفسروں نے بھی سمجھے ہیں۔ تفسیر بیضادی میں لکھا ہے کہ ’’ سماء سے یہ اجرام علوی (جن میں کواکب بھی شامل ہیں) مراد ہیں یا اوپر کی طرفین ‘‘ پس انہی مجمل لفظوں کی یہ تفصیل ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ ٭……٭……٭ آسمان کے برجوں کا بیان اور رجم شیاطین کی تحقیق اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ ولقد جعلنا فی السماء برو جاو زینھا لنظرین و جفظنہا من کل شیطن رحیم الا من استرق السمع فاتبعہ ، شہاب مبین۔ یعنی اور بے شک ہم نے پیدا کیے ہیں آسمانوں میں برج ان کو خوش نما کیا ہے دیکھنے والوں کے لیے اور ہم نے ان کو محفوظ رکھا ہے ہر ایک شیطان راندے گئے سے۔ مگر جس نے چرایا سننے کو یعنی کوئی بات معلوم کر لی تو پیچھے پڑتا ہے اس کے شعلہ روش۔ بروج صیغہ جمع کا ہے اور برج اس کا واحد ہے۔ برج کے معنی اس شے کے ہیں جو ظاہر اور اپنے ہم مثل چیزوں سے ممتاز ہو عمارت کا وہ حصہ جو ایک خاص صورت پر بنایا جاتا ہے گووہ جزو اس عمارت کا ہوتا ہے مگر عمارت کے اور جزوں سے ممتاز اور نمایاں ہوتا ہے اس کو برج کہتے ہیں۔ اہل ہیئت نے جب ستاروں پر غور کی اور ان کو دیکھا کہ کچھ ستارے ایسی طرح پر متصل واقع ہوئے ہیں کہ باوجود کہ وہ اوروں سے بڑے اور اوروں سے کچھ زیادہروشن نہیں ہیں مگر ایک خاص طرح پر واقع ہونے سے وہ اور سب سے علیحدہ دکھائی دیتے ہیں اور نمایاں ہیں۔ پھر ان کے نمایاں ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے دیکھا کہ سورج دولابی حال پر چلتا ہوا نہیں معلوم ہوتا بلکہ حمائلی طور پر چلتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور یہ اس کا چلنا انہیں ستاروں کے نیچے نیچے معلوم ہوتا ہے اس وجہ سے وہ ستارے اور ستاروں سے زیادہ ممتاز و نمایاں ہو گئے۔ اس کے بعد اہل ہیئت نے دیکھا کہ اس طرح پر اور ایسے موقع سے جو اوروں سے ممتاز ہوں متعدد مجمعے ستاروں کے واقع ہیں مگر ان میں بارہ مجمعوں کو اس طرح پایا کہ وہ ایسی ترتیب سے واقع ہیں کہ اگر ان سب پر ایک دائرہ فرض کیا جائے تو کرہ پر دائرہ عظیمہ ہو گا۔ پھر ان کو سورج بھی اس طرح پر چلتا ہوا دکھائی دیا اور اسی طرح پر سورج کے چلنے سے اختلاف فصول ان کو متحقق ہوا۔ پس انہوں نے ان ستاروں کے بارہ مجمعوں کی تعداد کے موافق آسمان کے بارہ مساوی حصے فرض کیے اور ہر ایک حصہ ان ستاروں کے ایک ایک مجمعے کے لیے قرار دیا اور ہر حصہ کا نام برج رکھا کیوں کہ اپنے ستاروں کے خاص مجمع سے وہ علیحدہ ممتاز اور نمایاں تھا۔ اس کے بعد اہل ہیئت ، چاہا کہ ہر ایک برج کے جدے جدے نام رکھے جائیں تاکہ اس نام سے اس حصے اور ستاروں کے مجمع کو بتا سکیں انہوں نے خیال کیا کہاگر ان ستاروں کے مجمع کے مجمع میں سے جو ستارے کناروں پر واقع ہیں اگر ان کو خطوط سے ملا ہوا فرض کریں تو کیا صورت پیدا ہوتی ہے اس طرح خیال کرنے سے کسی کی صورت انسان کی بن گئی کسی کی کسی جانور کی وغیرہ وغیرہ اسے لیے انہی ناموں سے انہوں نے اس حصے کو اور اس مجمع ستاروں کو موسوم کیا اور اس کے یہ نام قرار دیے : حمل ، ثو ، جوزا ، سرطان ، اسد ، سنبلہ ، میزان ، عقرب ، قوس ، جذی ،دنو ، حوت۔ غالباً یہ تفتیش اولاً مصریوں نے کی ہو گی ن کا آسمان ہمیشہ ابر وغیرہ سے صاف رہتا تھا اور ہمیشہ ان کو ستاروں کے دیکھنے کا اور ان کو پہچاننے کا بخوبی موقع ملتا تھا۔ مگر یہ نام اور یہ تقسیم تمام قوموں میں اور بہت قدیم زمانہ کے عرب جاہلیت میں عام ہو گئے تھے اور آسمان کے اس حصہ کو برج سے اور اس کے کل حصوں کو تو تعداد میں بارہ تھے بروج سے نامزد کرتے تھے اسی کی نسبت خدا نے فرمایا و لقد جعلنا فی السماء بروجا و ذینا للناظرین۔ مفسرین نے بروجا کی تفسیر قصورا سے لی ہے بلاشبہ یہ ان کا قصور ہے خدا نے تو اسی چیز کو بروج کہا ہے جس کو اہل عرب بلکہ تمام قومیں بروج سمجھتی تھیں اور نہایت نادانی ہے اگر ان بروج کی تفسیر میں سورہ نساء کی یہ آیت پیش کی جاوے کہ ۔ این ماتکونو یدر ککم الموت و لو کنتم فی بروج مشیدۃ اس کے بعد کی آیت یہ ہے کہ ۔ او حفظناہا من کل شیطان رجیم ۔ اس آیت کے تو یہ معنی ہیں کہ ہم نے اس کو یعنی آسمان کو یا ان کو یعنی برجوں کو محفوظ رکھا شیطان پھٹکارے گئے سے اور سورہ صافات میں اسی کی مانند ایک آیت ہے کہ ۔ انازبنا السماء الدینا بزینۃ الکواکب و حفظا من کل شیطان مارد (36 ۔ صافات ۔ 6 و 7 ) جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے خوش نما کیا دنیا کے آسمان کو ستاروں کی خوش نمائی سے اور محفوظ کیا ہر شیطان سر کش سے ۔ شاہ رفیع الدین صاحف نے حفظا کو جو سورہ صافات میں ہے مفعول لہ قرار دیا ہے۔ زینا کا اور اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ ’’ واسطے حفاظت کے ہر شیطان سر کش سے ‘‘ جس کا یہ مطلب ہے کہ ستاروں سے آسمان کو محفوظ کیا ہے۔ یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے اور ابن عباس کے نام سے جو تفسیر مشہور ہے اس میں حفظات کی تفسیر کی ہے کہ ’’ حفظت بالنجوم ‘‘ یعنی میں نے آسمان کی ستاروں سے اس تفسیر سے بھی حفظات مفعول لہ پایا جاتا ہے یہ تفسیر بھی صحیح نہیں ہے۔ ’ حفظا ‘ کے پہلے دوار عاطفہ ہے اور عطف جملہ کا جملہ پر ہے مگر باوجود موجود ہونے واؤ کے ’’ حفظا ‘‘ کو مفعول قرار دینا در حال کہ اس کے ماقبل کوئی مفعول لہ جس پر اس کا عطف ہو سکے نہیں ہے۔ صحیح نہیں ہو سکتا۔ پس صاف بات ہے کہ یہ جعلہ علیحدہ ہے اور بقرینہ علیحدہ ہونے جملہ کے حفظات مفعول ہے۔ فعل مخدوف حفظنا کا۔ پس شاہ ولی اللہ صاحب نے جو فارسی ترجمہ کیا ہے وہ صحیح ہے کہ ’’ ونگا داشتیم از ہر شیطان سر کش ‘‘ مگر انہوں نے اس کے مفعول کو ظاہر نہیں کیا کہ ’’ کہ انگاہ داشتیم ۔ پس اگر اس کا مفعول بنا دیا جائے تو مطلب صاف ہو جاتا ہے۔ یعنی ونگاہ داشتیم آسمان رایا کواکب را‘‘ مگر جب ہم قرآن مجید کی ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے کریں تو صاف یہ تفسیر ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے سورۂ حجر کی آیت میں صاف فرمایا ہے کہ ’’ وحفطنا ہا ‘‘ پس سورہ صافات میں جو الفاظ حفظاً آئے ہیں ان کی تفسیر اسی کی مطابق یہ ہے کہ وحفظنا ہا حفظا من کل شیطان مارد ۔ یعنی ہم نے آسمان یا ستاروں کو ہر طرح کی حفاظت میں شیطان سر کش سے محفوظ رکھا ہے۔ سورۂ ملک میں جو خدا نے یہ فرمایا ہے کہ ’’ وذینا السماء الدنیا بمصاربیح و جعلنا ہارجوما للشیاطین ۔ یرجوما کے معنی مارنے یا پتھر مارنے اور شیاطین سے جن یا اور کوئی وجود غیر مرئی سمجھنا رجحاً بالغیب بات کہنی ہے صاف بات یہ ہے کہ شیاطین شیاطین الانس مراد ہیں اور رجوما سے ان شیاطین کا رجحاً بالغیب یعنی ان کی اٹکل پچو باتیں لتانا مراد ہے چناں چہ مفسرین نے بھی کیا ہے کہ شیاطین سے مراد شیاطین الانس ہیں جو کہتے تھے کہ ہم کو آسمانی چیزیں مل جاتی ہیں اور ستاروں کے حساب سے ان کو سرور و نحس ٹھیرا کر پیشین گوائی کرتے تھے۔ تفسیر کبیر میں بھی اسی کے مطابق ایک قول نقل کیا ہے کہ ۔ رجوما للشیاطین ای انا جعلنا ہاظنونا و رجوما للغیب لشیاطین الانس وہم الاحکامیون من المبتجمین ۔ (تفسیر کبیر متعلق سورۃ الملک صفحہ 320) یعنی ۔ ہم نے آسمان کے ستاروں کو ایک ظن اور غیب کی اٹکل پچو بات کہنے کو آدمیوں کے شیطانوں کے لیے بنایا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو نجوم سے احکام بتاتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کے اس کلام۔ و حفظنا ہا من کل شیطان رجیم و حفظا من کل شیطان مارد کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے آسمان کے برجوں کو یا آسمان کے ستاروں کو شیاطین الانس سے محفوظ رکھا ہے اور اسی لیے وہ ان سے کوئی سچی یا صحیح پیشین گوئی حاصل نہیں کر سکتے۔ بہ جز ظن اور رجماً للغیب کے۔ یہ اعتقاد جو کفار عرب کا تھا کہ ۔ لایسمعون الی الملاء الاعلی ویقذفون من کل جانب و حورا ولہم عذاب و اصب الامن خطف الخطفۃ فاتبعہ شہاب ثاقب۔ (37 صافات 8 ، 9 ، 10) یعنی ۔ جن آسمانوں پر جاکر ملاء اعلیٰ کی باتیں آتے سن ہیں ۔ اور کاہنوں کو خبر کر دیتے ہیں اس کی نفی خدا نے سورہ صافات میں فرمائی ہے جہاں کہا ہے نہیں سن سکتے ہیں ملاء اعلیٰ کو اورڈالا جاتا ہے ان پر شہاب ہر طرف سے۔ مردود ہونے کو مگر جس نے اچک لیا اچک لینا اس کے پیچھے پڑتا ہے شہاب روشن ۔ اور اس صورت میں فرمایا ہے الامن استراق السمع فاتبعہ شہاب مبین۔ یعنی ہم نے محفوظ کیا ہے آسمان کے برجوں کو ہر ایک شیطان رجیم سے مگر جو چرا لیوے سننے کو پھر پیچھے پڑتا ہے اس کے شہاب روشن ۔ اس آیت کے مطلب میں اور سورہ صافات کی آیت کے مطلب میں کچھ فرق نہیں ہے۔ سورہ صافات میں آیا ہے خطف الخطفۃ یعنی اچک لیا۔ اچک لینا اور یہ نہیں بتایا کہ کیا اچکا اس سے سمع کا اچک لینا تو نہیں ہو سکتا اس لیے کہ اس کی نفی کی گئی ہے۔ نہایت شدت سے سمع کا سین اور میم کو مشدد کر کے پس کسی اور امر کا اچک لینا سوائے سمع کے مراد ہے۔ مگر سورہ ٔ حجر میں استراق سمع بیان کیا ہے تو ظاہر ہے کہ اس جگہ لفظ سمع کا کفار کے خیال کی مناسبت سے بولا گیا ہے نہ حقیقی معنوں میں اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ مثلا لوگ کسی کی نسبت کہیں کہ فلاں شخص بادشاہ کے دربار کی باتیں سن سن کر لوگوں کو بتا دیا کرتا ہے اس کے جواب میں کہا جاوے کہ نہیں وہ بادشاہ کے دربار کب تک پہونچ سکتا ہے یوں ہی ادھر ادھر سے کوئی بات اڑا لیتا ہے یا سن لیتا ہے تو اس سے ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ شخص در حقیقت دربار کی باتیں سن لیتا ہے اسی طرح ان دونوں آیتوں میں الفاظ خطف الخطفۃ اور استراق السمع کے واقع ہوئے ہیں جو کسی طرح واقعی سننے پر دلالت نہیں کرتے خصوصاً ایسی حالت میں کہ سمع سے بتا کید نفی آئی ہے بات یہ ہے کہ کفار پیشین گوئی کرنے کے دو حیلے کرتے تھے ایک یہ کہ جن ملاء اعلیٰ کی باتوں کو سن کر ان کی خبر کر دیتے ہیں دوسرے ستاروں کی حرکت اور بسوط عروج اور منازل بروج اور کواکب کے سور و نحس ہونے احکام دیتے تھے وہ سب غلط اور جھوٹ تھے مگر بعض صحیح بھی ہوتے تھے مثلا کسوف و خسوف کی پیشین گوئی یا کواکب کے افتران اور ہبوط و عروج کی پیشین گوئی اسی امر کو جو درحقیقت ایک حسابی امر مطابق علم ہیئت کے ہے خدا تعالیٰ نے دو جگہ ایک جگہ بلفظ استراق السمع اور دوسری جگہ بلفظ خطف الخطفۃ سے تعبیر کیا ہے اور اسی کے ساتھ فاتبعۃ شہاب ثاقب سے اس سے زیادہ کی پیشین گوئی کو معدوم کر دیا ہے۔ فاتبعۃ شہاب مبین ۔ شہاب کے معنی ہیں شعلۂ آتش کے اور اس انگارے کو جو بھڑکتا ہوا ہو اس کو خدا نے شہاب مبین سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ سورۂ نمل میں بیان ہوا ہے۔ شہاب یا شہاب ثاقب یا شہاب مبین کا اس آتشی شعلہ پر اطلاق ہوتا ہے جو کائنات الجو میں اسباب طبعی سے پیدا ہوتا ہے اور جو کسی جہت میں دور تک چلا جاتا ہے اور جس کو اردو زبان میں تارہ ٹوٹنا بولتے ہیں ۔ اب یہ بات دیکھنی چاہیے کہ عرب جاہلیت میں تاروں کے ٹوٹنے سے یعنی جب کہ کائنات الجو میں کثرت سے شہاب ظاہر ہوتے تھے تو ان سے کیا فال لیتے تھے یا کس بات کی پیشین گوئی کرتے تھے کچھ شبہ نہیں کہ وہ اسے بدفالی اور کسی حادثۂ عظیم کے واقع ہونے کا یقین ہونے کا یقین کرتے تھے۔ جس طرح کہ تظہیر سے بد فالی سمجھتے تھے۔ تفسیر کبیر میں زہری سے روایت لکھی ہے کہ چند آدمی رسول خدا کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک تارہ ٹوٹا آنحضرت نے پوچھا کہ تم زمانۂ جاہلیت میں اس میں کیا کہتے تھے انہوں نے کہا کہ ہم کہتے ہیں کہ کوئی بڑا شخص مر جاوے گا یا حادثہ عظیم پیدا ہو گا۔ غرض کہ اس کو زمانہ جاہلیت میں فال بد یا شگون بد سمجھتے تھے اس زمانہ کے لوگ کثرت سے تاروں کے ٹوٹنے کو شگون بد سمجھتے ہیں۔ پس شیاطین الانس کے اعتقاد کی ناکامی کو ان کے کسی شگون بد سے تعبیر کرنے کے لیے خدا نے فرمایا کہ فاتبعہ شہاب ثاقب جو نہایت ہی فصیح استعارہ ہے منجمین کے وبال کے بیان کرنے کو اور جس کامقصود یہ ہے کہ فاتبعھم الشوم و الخسران و الحرمان فیما املوا۔ سورۂ جن میں انا المسنا السماء کا لفظ ہے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ مس سے استعارہ طلب کیا جاتا ہے اور یہ قول منجمین کا ہے پس معنی یہ ہوئے کہ ہم نے ڈھونڈھا آسمان کو اس کو پایا بھرا ہوا حفاظ یعنی موانع شدید اور شہب یعنی و بال سے جن کے سبب ہم اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے پھر انہوں نے کہا کہ ہم ملاء اعلیٰ کی باتوں کے سننے یعنی دریافت کرنے کو بیٹھتے تھے مگر اب قرآن سننے کے بعد اس کے لیے جو کوئی سنے یعنی دریافت کرنا چاہیے ہم اس کے لیے شہاب یعنی وبال معین پاتے ہیں اپس ان تمام امور کو اجنبہ مظنونہ اورمزعومہ سے منسوب کرنا جن کا وجود بھی قرآن مجید سے ثابت نہیں ہے کس قدر بے اٹکل اور رجماباللغیب بات ہے۔ فتدبر۔ ٭……٭……٭ حقیقہ الرویاء (حضرت یوسف شاہ مصر اور دو قیدیوں کے خواب اور ان کی اصلی کیفیت) اذقال یوسف لابیہ یا ابت انی رایت احد عشر کو کبا والشمس والقمر رائیتھم لی سجدین۔ یہ حضرت یوسف کا خواب ہے۔ خواب کی نسبت بہت کچھ کہا گیا ہے کہ لکھا گیا ہے ۔ مگر اس زمانہ میں علم فزیالوجی اور سیکالوجی نے بہت ترقی کی ہے اور اعضائے انسانی کے خواص و افعال کو بہت تحقیقات کے بعد منضبط کیا ہے اس لیے ہم کو دیکھنا چاہیے کہ خواب کی نسبت اس تحقیقات سے کیا امور ثابت ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں کے علماء اور حکماء نے اس کی نسبت کیا لکھا ہے اور در حقیقت خواب ہے کیا چیز چناں چہ ہم ان سب امور کو اس مقام پر مختصراً بیان کرتے ہیں۔ یہ امر مسلم ہے اور ہر شخص یقین کرتا ہے کہ تمام اعضائے انسان پر دماغ حکومت کرتا ہے۔ انسان کا سر چند ہڈیوں سے جسے کھوپڑی کہتے ہیں جڑا ہوا ہے۔ کھوپڑی کی بناوٹ اور اس کے جوڑوں اور جوڑوں کی دروزوں کی ترکیب جو ہر انسان میں کسی نہ کسی قدر مختلف ہوتی ہیں جداگانہ خاصیتیں رکھتیں ہیں پھر کھوپڑی کے اندر بھیجا ہوتا ہے جسے مخ کہتے ہیں جس میں بے انتہا باریک ریشے یا رگیں ہوتی ہیں اس میں ایک شاخ گردن سے ریڑھ کی ہڈی کے فقرات میں چلی گئی ہے اور دماغ میں ہی سے نکلے ہوئے پٹھے اور رگیں اور ریشے سینہ میں اور تمام اعضا میں پھیلے ہوئے ہیں تمام حس و حرکت جو انسان کرتا ہے وہ دماغ کے سبب سے کرتا ہے ان پٹھوں اور ریشوں اور رگوں میں بعض تو ایسے ہیں کہ شے محسوس کا اثر دماغ پر پہنچا دیتے ہیں جب انسان اس کو حس کرتا ہے اور اگر ان کے ذریعہ سے اثر نہ پہنچے تو انسان کسی شے کو حس نہ کرے ، نہ روشنی کو جان سکے ، نہ کسی شے کو دیکھ سکے ، نہ آواز کو سن سکے ، نہ ذائقہ کو پہچانے ، نہ کسی چیز کے چھونے کو جانے۔ جب ان محسوسات کا اثر دماغ پر پہنچتا ہے تو دماغ میں ان پٹھوں اور رگوں اور ریشوں کو تحریک ہوتی ہے جو محرک کہلاتے ہیں اور ان سے ایک قسم کا تغیر دماغ میں پیدا ہوتا ہے اور جب تک وہ تغیر رہتا ہے وہ شے محسوس بھی سامنے رہتی ہے اور انہی محسوسات کے ذریعہ سے انسان کے اعضا حرکت کرتے ہیں جو حرکت قصد و ارادہ سے ہو وہ حرکت ارادی ہے مگر جب وہ حرکت دفعہ یا بلاقصد و بلا سوچے سمجھے ہو تووہ حرکت طبعی کہلاتی ہے جیسے خوف کی حالت میں ہو جاتی ہے۔ علاوہ اس کے دماغ میں ایک قوت ہے جس میں تمام خارجی چیزوں کی جن کو ہم نے دیکھا ہے تصویریں بطور نقش کے محفوظ ہوتی ہیں اور اس لیے وہ سب ہم کو یاد رہتی ہیں اور یہی سبب ہے کہ باوجود موجود نہ ہونے اس شے کے اس کی صورت کا بعینہ ہم تصور کر لیتے ہیں اور اگر ان محفوظ نقشوں میں کچھ دھند لاپن آجاتا ہے تو ان چیزوں کو بھول جاتے ہیں یا یاد لانے سے یاد آتی ہیں اور جب منقش نہیں رہتیں تو بالکل یاد نہیں آتیں۔ علاوہ اس کے دماغ میں یہ قوت بھی ہے کہ جس شے کو ہم نے دیکھا ہے اس کے اجزا کو علیحدہ کر کے اپنے خیال کے سامنے لے آویں مثلا ہاتھی کی طرف سونڈ ہی کا یا صرف اس کے کانوں ہی کاتصور خیال کے سامنے لے آویں اور یہ بھی قوت ہے کہ متعدد چیزیں جو ہم نے دیکھی ہیں ان کے اجزا کا علیحدہ علیحدہ تصور کر کے ایک کے اجزا کو دوسرے میں یا چند کے اجزا کو ایک میں جوڑ دیں۔ مثلا ہم نے بکری اور مور اور انسان کو دیکھا ہے تو وہ قوت بکری کے سر کر علیحدہ اور مور کے دھڑ کو علیحدہ تصور کر کے مور کے دھڑ پر بکری کا سر لگا ہوا تصور کر کے خیال کے روبرو لے آویں گی یا انسان میں مور کے بازو لگے ہوئے تصور کر کے پردار انسان یا پردار فرشتہ اپنے خیال میں بنا لے گی۔ اسی طرح مختلف اور عجیب عجیب صورتیں جن کا کبھی وجود دنیا میں نہیں ہوا بنا کر خیال میں جلوہ نما کرتی ہے۔ وہی قوت کبھی ایسا کرتی ہے کہ اجزائے مختلفہ کی ترکیب تو نہیں دیتی بلکہ چھوٹی چیز کو اس قدر بڑا بنا کر خیال میں لے آتی ہے کہ ایک نہایت مہیب صورت بن جاتی ہے مثلا آدمی کے قد کو تاڑسے بھی لمبا ، اس کے سر کو گنبد سے بھی بڑا ، اس کے ہاتھوں کو کھجور کے درخت سے بھی زیادہ ، اس کے دانتوں کو عجیب بے ہنگم طور کی بنی ہوئی خیال کے سامنے حاضر کر دیتی ہے۔ یہ تمام اعضا انسان کے اوقات معینہ تک کام کر تے رہتے ہیں اور زمانہ معین تک آرام کرتے ہیں یا کسی اور غیر طعبی سے معطل ہو جاتے ہیں اور انسان بے ہوش ہو جاتا ہے۔ حالت مرض میں جب یہ حالت طاری ہوتی ہے تو بے ہوشی اور غشی کہلاتی ہے اور حالت صحت میں اس کو نیند کہتے ہیں۔ مگر جو کہ دماغ میں تمام ادراکات کے لیے جداگانہ حصے معین ہیں اس لیے حالت غشی و نیز حالت نیند میں دماغ کے بعض حصے معطل یا آرام میں ہوتے یا سو جاتے ہیں اور بعض حصے کام کرتے یا جاگتے رہتے ہیں اور یہی وجہ ہوتی ہے کہ بعضی دفعہ بے ہوشی طبعی غیر طبعی میں بھی انسان ایسی باتیں یا کام کرتا ہے جو حالت ہوش یا بیداری میں کرتا مگر اس کو کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ اس نے کیا کیا۔ لوگوں کی باتیں سنتا ہے مگر جواب نہیں دیتا یا اور باتوں کا ادراک کرتا ہے مگر ظاہر نہیں کر سکتا اور وہ اداراکات مختلف پیرایہ میں اس کو محسوس ہوتے ہیں جن کا کچھ وجود نہیں ہوتا اور کبھی وہی خیالات اور صورتیں جو اس کے دماغ میں منقش ہیں مختلف قسم سے اس کو محسوس ہوتی ہیں اور جب یہ امور نوم طبعی میں واقع ہوتے ہیں تو ان کو خواب کہتے ہیں طبعی یا غیر طبعی بے ہوشی میں بھی امورات خارجی دماغ کے اس حصہ پر جو جاگ رہا ہے اثر کرتے ہیں اور وہ اس کو عجیب پیرایہ سے خواب میں دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً آدمی سوتا ہو اور سماعت کا حصہ جاگتا ہو اور سونے والے کے قریب کوئی شخص کسی چیز کو کوٹتا ہو تو دماغی قوت جو چھوٹی چیز کو بڑھا کر پیش کرتی ہے اس آواز کو نہایت مہیب آواز بنا دیتی ہے اور اس آواز کے سلسلے سے توپوں کا خیال پیدا کر دیتی ہے اور اس آواز کے سلسلے سے توپوں کا خیال پیدا کر دیتی ہے اور سونے والا خواب میں یہ سمجھتا ہے کہ توپیں چل رہی ہیں یا مثلاً سونے والے کا بستر ٹھنڈا یا نم ہو گیا، قوت حساسہ، جو جاگتی تھی اس نے اس کا حس کیا اور بستر کی نمی سے پانی کے خیال کو اور اس سے دریا کے یسا تالاب کے یسا حوض کے خیال کو پیدا کیا اور سونے والا خواب میں دیکھ سکتا ہے کہ وہ دریا میں یا تالاب میں پڑا تیر رہا ہے۔ اگر کوئی لمبی چیز اس کے بستر پسر پڑی ہو یا کوئی شخص رسی کو اس طرح پسر ڈالے کہ سرنے والا جاگ نہ اٹھے اور قوت حساسہ جاگتی ہو تو خواب میں دیکھ سکتا ہے کہ سانپ اس کو چمٹ گیا ہے اسی قسم کے بہت سے اسباب خارجی سے عجیب غجیب خواب دیکھ سکتا ہے۔ بعضے لوگ خواب دکھانے کی ایسی مشق کر لیتے ہیں کہ سونے والے کے پاس بیٹھ کر ایسی آسانی اور سہولت سے کہ وہ جاگ نہ اٹھے اس کی قوت حساسہ یا سامعہ کو اس طرح پر اثر مطلوبہ پہنچآتے ہیں کہ وہ سونے والا وہی خواب دیکھ سکتا ہے جس کا دکھانا ان کو مطلوب ہے۔ جس طرح کہ یہ امور خارجیہ خواب دیکھنے پر موثر ہیں اس سے بہت زیادہ خود سونے والے کے امور ذہنی جو اس کے خیال میں بس گئے ہیں اور دماغ میں نقش پذیر ہو گئے ہیں خود اپنی طبعیت سے یا کسی واعہ سے یا کسی کے اعتقاد کامل ہونے سے یا محبت عشقی و اعتقادی سے خواب دیکھنے اور موثڑ ہوتے ہیں اور وہ انہی امور ذہنی کو بعینہ یا کسی دوسرے پیرایہ میں جس کو قوت دماغی پیدا کر دیتی ہے عجیب عجیب طرح سے خواب میں دیکھ سکتا ہے۔ بعض لوگوں کو ایسی مشق ہو جاتی ہے کہ جو خواب ان کو دیکھنا منظور ہو سوتے وقت اس کا ایسا قوی تصور کرتے ہیں اور دماغ میں اس کا نقش جما لیتے ہیں کہ سوتے میں وہی خواب دیکھتے ہیں۔ بعض امور ایسے ہوتے ہیں جو بالکل بھول گئے ہیں اور کبھی ان کا خیال بھی نہیں آتا مگر وہ دماغ میں سے محو نہیں ہوتے اور سوتے وقت مطلق ان کا خیال بھی نہیں ہوتا مگر دماغ میں ایک ایسا سلسلہ خیالات کا پیدا ہوتا ہے کہ ان بھولے ہوئے امور کو پیدا کر دیتا ہے اور سونے والا اسی کا خواب دیکھنے لگتا ہے۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ جاگنے میں باتوں کا سلسلہ رفتہ رفتہ اس طرح پہنچ جاتا ہے کہ بھولی باتیں یا بھولے ہوئے کام یاد آ جاتے ہیں۔ بعضی دفعہ بسبب کسی مرض کے یا بسبب غلبہ کسی خلط کے دماغ پر ایسا اثر پیدا ہوتا ہے کہ سونے والا اسی حالت کے مناسب اور عجیب عجیب پیرایہ میں مختلف قسم کے خواب دیکھتا ہے۔ مگر جب تک کہ انسان کا نفس ان ظاہری باتوں سے جن سے حالت بیداری میں مشغول ہوتی ہے بسبب بے ہوشی کے یا سو جانے کے یا استغراق کے بے خبر نہ ہو اس وقت تک مذکورہ بالا حالت اس پر طاری نہیں ہوتی دوسری بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ کوئی شخص ایسا خواب کبھی نہیں دیکھ سکتا یعنی ایسی چیزیں اور ایسے امور اس کو خواب میں نہیں دکھائی دیتے جن کو اس نے کبھی نہ دیکھا ہو نہ سنا ہو اور نہ کبھی اس کا خیال اس کو ہوا ہو۔ یہ باتیں جو بیان ہوہیں ایسی ہیں جن سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا اور ہر ایک شخص پر یہ حالتیں گزرتی ہیں اور جاہل اور عالم سب ان کو جانتے ہیں۔ شیخ بو علی سینا نے اشارات میں لکھا ہے کہ الحس المشترک ہو لوح النقش الذی اذا تمکن منہ صار النقش فی حکم المشاہدۃ و ربمازال الناقش الحسی من الحس و بقیت صورتہ و ہیئۃ فی الحس المشترک فبقی فی حکم المشاہدون المبتوہم ولیحضر ذکرک ما قیل لک فی امر القطر النازل خطا مستقیما التقاش المنقطۃ الجوالۃ محیط دائرۃ فاذا تمثلت الصورۃ فی لوح الحس المشترک صارۃ مشاہدۃ سواء کان فی ابتداء حال ارتسا مھا فیہ من المحسوس الخارج او بقائھا مع بقاء المحسوس او ثبا تھا بعد زال المحسوس او وقوعھا فیہ لا من قبیل المحسوس ان امکن (اشارات شیخ) یعنی حس مشترک میں جو انسان کے دماغ کے ایک حصہ کا نام ہے جب کسی چیز کا نقش جم جاتا ہے تو ایسا ہوتا ہے کہ گویا اس چیز کو دیکھ رہا ہے گو کہ وہ چیز سامنے نہ رہی ہو مگر اس کی صورت حس مشترک میں موجود رہتی ہے اور وہ تو ہم نہیں ہوتا بلکہ دیکھنے ہی کی مانند ہوتا ہے۔ بوندیں لگاتار جو ابر سے گڑتی ہیں وہ بوندیں نہیں معلوم ہوتیں بلکہ پانی کی سیدھی دھار معلوم ہوتی ہے یا کسی چیز کے ایک سرے کو جلا کر زور زور سے پھراویں تو ایک گول روشن چکر معلوم ہونے لگے گا۔ غرض جب کسی چیز کی صورت اس کے دیکھنے کے وقت حس مشترک میں جم جاتی ہے تو دیکھنے کی مانند ہو جاتی ہے خواہ وہ چیز سامنے موجود رہے یا نہ رہے یا یہ ہوتا ہے کہ کوئی چیز سامنے تو نہیں آئی کہ دکھائی دے مگر اس کی صورت جس کا آنا ممکن ہو حس مشترک میں آ جاتی ہے۔ امام فخر الدین رازی شرح اشارات میں لکھتے ہیں کہ حس مشترک میں صورت جم جانے کی نبست جو کچھ شیخ نے لکھا ہے اس کی چار صورتیں ہیں اول یہ کہ اس چیز کو دیکھنے کے وقت اس کی صورت حس مشترک میں جمی ہوئی ہے اور وہ چیز سامنے بھی موجود ہے۔ تیسرے یہ کہ اس کی صورت تو حس مشترک میں جمی ہوئی ہے مگر وہ چیز سامنے موجود نہیں رہی۔ چوتھے یہ کہ وہ چیز سامنے تو نہیں آہی مگر اس کی صورت حس مشترک میں جم گئی۔ پھر امام صاحب لکھتے ہیں کہ پہلی تین صورتوں کی مثال تو بوندوں کے اوپر سے گرنے اور کسی چیز کے ایک سرے کو جلا کر چکر دینے سے ثابت ہوتی ہے مگر چوتھی صورت کی مثال اس سے ثابت نہیں ہوتی اس لیے شیخ نے اس کی مثال اس طرح پر دی ہے۔ اشارۃ قد یشاہد قوم من المرضی و المحرورین صورا محسوسۃ ظاہرۃ حاضرۃ ولا نسبۃ لھا الی محسوس خارج فیکون انتقا شہا اذن من سبب موثر فی سبب باطن و الحس المشترک قد ینتقش ایضا من الصور الحایلۃ فی معدن التخیل و التواہم کما کانت ہی ایضا یتنقش فی معدن التخیل و التواہم من لوح الحس المشترک و قریبا مما یجری بین المرا بالمتقابلۃ (اشارات شیخ) بیمار آدمی اور جو بخار میں مبتلا ہوتے ہیں کبھی ان کو ایسی چیزیں دکھائی دیتی ہیں جن کو وہ سمجھتے ہین کہ در حقیقت موجود ہیں حالانکہ وہ چیزیں موجود نہیں ہوتیں۔ ان چیزوں کی صورتوں کی حس مشترک میں متنقش ہونے کا کوئی اندرونی سبب ہوتا ہے یا کوئی ایسا سبب جو اندرونی سبب میں اثر کرتاہے اور کبھی حس مشترک میں وہ صورتیں جم جاتی ہیں جو خیال میں اور ہم میں ہوتی ہیں اور کبھی حس مشترک کی موجودہ صورتیں خیال و وہم میں آ جاتی ہیں اس کی مثال دو آئنوں کی سی ہے جو ایک دوسرے کے مقابل رکھے ہوں اور ایک میں جو عکس ہے وہ دوسرے میں پڑے۔ غرض کہ سب لوگ متفق ہیں کہ خواب دیکھنا صرف انسان کے دماغی افعال سے متعلق ہے۔ اسی طرح شاہ ولی اﷲ صاحب تفہیمات میں ایک مقام پر لکھتے ہیں۔ اعلم ان النبوۃ تحت الفطرۃ کما ان الانسان قد یدخل فی صمیم قلبہ و جذر نفسہ علم و ادراکات علیہا تبتنی ما یفاض علیہ من رویاہ فیری الامور مشجۃ بما اخذتہ دون غیرھا۔ (تفہیمات الھیہ) یعنی نبوت فطرت کے ماتحت ہے جیسا کہ کبھی انسان کے دل میں بہت سے علوم اور باتیں جم کر بیٹھ جاتی ہیں اور انہی پر مبنی ہوتی ہیں وہ چیزیں جو اس کو رویا میں فائض ہوتی ہیں پھر وہ ان چیزوں کی صورتیں دیکھتا ہے جن کو اس نے پیدا کیا ہے نہ اس کے سوا اور کسی کو اس سے بھی اس بات کی تشریح ہوتی ہے کہ جو انسان کے خیال اور دماغ میں ہے اور کو خواب میں دیکھتا ہے۔ مگر صوفیائے کرام اور علمائے اسلام یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دماغ میں سوائے ان موثرات کے طبعی کے اور کوئی چیز ہے جو ملاء اعلیٰ سے تعلق رکھتی ہے اور موثر ہوتی ہے اور اسی لیے شاہ ولی اﷲ صاحب نے حجۃ اﷲ البالغہ میں خواب کی پانچ قسمیں قرار دی ہیں چناں چہ انہوں نے لکھا ہے کہ۔ و اما لرویا فہی علی خمسۃ اقسام بشری من اﷲ و تمثل نورانی للحمائدو الرذائل المندرجۃ فی النفس علی وجہہ ملکی و تخویف من الشیطان و حدیث نفس من قبل العادۃ اللتی اعتادھا النفس فی الیقظۃ یحفظہا المتخیلۃ و یظہر فی الحس المشترک ما اختزن فیھا و خیالات طبیعۃ لغلبۃ الاخلاط و تبنۃ النفس باذاہا فی البدن اما البشری من اﷲ فحقیقتھا ان النفس الناطقۃ اذ انتھزت فرصۃ عن غواشی البدن باسباب خفیۃ لا یکاد یتفطن بہا الابعد تامل واف استعدت لان بفیض علیھا من منبع الخیر و الجود کمال علمی فا فیض علیھا شی علی حسب استعداد ہو مادتہ فی العلوم المخزونۃ عندہ، و ہذہ الرویا تعلیم الہی کالمعراج المنامی الذی رای النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فیہ ربہ فی احسن صورۃ فعلمہ الکفارات والدرجات و کالمعراج المنامی الذی انکشف فیہ علیہ صلی اﷲ علیہ وسلم احوال الموتی بعد انفکا کھم عن الحیوۃ الدنیا کما رواہ جابر ابن سمرۃ رضی اﷲ عنہ و کعلم ما سیکون من الوقائع الایتۃ فی الدنیا و اما الروبا الملکی فحقیقتھا ان فی الانسان ملکات حسنۃ و ملکات قبیحۃ و لکن لا یعرف حسنھا و قبحھا الا المتجرد الی الصورۃ العلکیۃ فمن تجردا الیھا فتظہرلہ حسناتہ و سیاتہ فی صورۃ مثالیۃ فصاحب ہذا بری اﷲ تعالی و اصلہ الانقیاد للباری و یری الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم و اصلہ الانقیاد للرسول المرکوز فی صدرہ و یری الانوار و اصلہا الطاعات المکتسبہ فی صدرہ و جوارہ تطہیر فی صورۃ الانوار والطیبات کالعسل والسمن واللین فمن رای اﷲ اوالرسول والملائکۃ فی صورۃ قبیحہ او فی صورۃ الغضب فلیعرف ان فی اعتقادہ خلا و ضعفا و ان انفسہ لم یتکمل و کذالک الانوار اللی حصلت بسبب الطہارۃ یظہر فی صورۃ الشمس والقمر و اما التخویف من الشیطان فوحشۃ و خوف من الحیونان الملعونہ کالقردوا لفیل و الکلاب والسودان من الناس فاذا ارای ذالک قلیتعوذ باﷲ ولیتفل ثلثا عن یسارہ و یتحول عن جنبہ الذی کان علیہ اما البشرے فلہا تعبیر والعمدۃ فیہ معرفۃ الخیال ای شی مظنۃ لای معنی فقد ینتقل الذہن من الممسمی الی الاسم کرویۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم انہ کان فی دار عقبۃ بن رافع فاتی برطب ابن طاب قال علیہ الصلواۃ والسلام فاولت ان الرفعۃ لنا فی الدنیا و العافیۃ فی الاخرۃ و ان دیننا قد طاب و قد ینتقل الذہن من الملا بس الی مایلابسہ السیف للقتال و قد ینتقل الذہن من الوصف الی جوہر مناسب لبہ کمن غلب علیہ حسب المال راہ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فی صورۃ سواء من ذہب و بالجملۃ فلا انتقال من شی الی شی صورشتی وہذہ الرویا شعبہ من النبوۃ لانہا ضرب من افاضہ غیبیہ و تدل من الحق الی الحق و ہو اصل النبوۃ و اما سائر انواع الرویا فلا تعبیر لھا۔ (حجۃ اﷲ البالغہ)۔ یعنی رویا کی پانچ قسمیں ہیں: (۱) بشارت خدا کی طرف سے اور نفس کی خوبیوں یا برائیوں کا نورانی تمثل ملکی طور پر۔ (۲) شیطان کا خوف دلانا۔ (۳) دل کی باتیں جس طرح کی عادت بیداری کی حالت میں پڑی ہوتی ہے اس کو قوت متخیلہ یاد کر لیتی ہے اور وہ حس مشترک میں آ کر ظاہر ہوتی ہیں۔ (۴) اخلاط کے غلبہ کی وجہ سے طبعی طور پر خیالات کا آنا۔ (۵) متنبہ ہونا نقس کا بدنی اذیتوں سے۔ لیکن بشارت الٰہی کی حقیقت یہ ہے کہ نفس ناطقہ کو جب بحالی حجابات سے فرصت ملتی ہے جس کے مخفی اسباب ہوتے ہیں اور بغیر پورے تامل کے معلوم نہیں ہوتے تو اس وقت نفس اس بات کے قابل ہوتا ہے کہ اس پر جود اور خیر کے مخزن سے یعنی ملاء اعلٰی سے کمال علمی کا فیضان ہو پس اس پر اس کی لیاقت کے موافق جو اس کے علوم مخرونہ کا مادہ ہے کچھ فیضان ہوتا ہے اور یہ خواب تعلیم الٰہی ہے جیسے کہ معراج کا خواب جس میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خدا کو نہایت عمدہ صورت مین دیکھا تھا اور خدا نے اس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو کفارات اور درجات بتائے یا وہ معراج کا خواب جس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر مردوں کا حال منکشف ہوا تھا بعد ان کے قطع تعلق کے دنیا سے جیسا کہ جابر بن سمرہ نے روایت کی ہے یا آئندہ واقعات دنیا کا علم اور ملکی خواب کی یہ حقیقت ہے کہ انسان میں برے اور بھلے دونوں قسم کے ملکات ہیں لیکن اس حسن و قبح کو جب پہچان سکتا ہے کہ صورت ملکیہ کی طرف تجرد حاصل ہو۔ پس جس کو تجرد ہوتا ہے اس کو بھلائیاں اور برائیاں صورت مثالیہ مین دکھائی دیتی ہیں پس ایسا شخص خدا کو دیکھتا ہے جس کی اصل خدا کی اطاعت ہوتی ہے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے اور اس کی اصل پیغمبر کی اطاعت ہوتی ہے جو اس کے دل میں مرکوز ہے اور انوار دیکھتا ہے اور اس کی اصل وہ عبادتیں ہیں جو اس کے دل اور اعضاء نے حاصل کی ہیں۔ یہ سب چیزیں انوار اور پاک چیزوں مثلاً شہد، گھی، دودھ کی صورت میں متمثل ہوتی ہیں پس جو شخص خدا یا رسول یا فرشتوں کو بری صورت میں یا غصہ کی صورت میں دیکھتا ہے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ اس کے اعتقاد میں ابھی خلل اور ضعف ہے اور یہ کہ اس کا نفس ہنوز کامل بھی نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح وہ انوار جو طہارت کی وجہ سے حاصل ہوئے ہیں آفتاب اور ماہتاب کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اور شیطان کا خوف دلانا تو یہ وحشت اور خوف ہے ملعون حیوانوں سے مثلاً بندر، ہاتھی، کتے سے اور سیاہ آدمیوں سے پس جب آدمی ایسا خواب دیکھے تو چاہیے کہ خدا سے پناہ مانگے اور بائیں جانب تین بار تھو تھو کر دے اور اس کروٹ بدلے جس پر لیٹا ہوا تھا اور خوش خبری والی خواب کی تعبیر ہوتی ہے اور عمدہ طریقہ اس کا خیال کا پہچاننا ہے یعنی کس چیز سے کیا چیز سمجھی جا سکتی ہے پس اگر مسمٰی سے اسم کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے جیسے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم عقبہ بن رافع کے گھر میں تھے اور خواب دیکھا کہ ان کے پاس ابن طاب کی کھجوریں رکھی ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اس کی تاویل کی کہ ہم کو دنیا میں بلندی اور قیامت میں عافیت ہو گی اور یہ کہ ہمارا دین پاکیزہ ہے اور کبھی ملبوسات سے اس کے متعلقات کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے جیسے تلوار سے لڑائی کی طرف اور کبھی کسی صفت سے ایک جوہر کی طرف جو اس کے مناسب ہے مثلاً ایک شخص جو مال کو بہت عزیز رکھتا تھا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کو سونے کے کنگن کی صورت میں دیکھا غرض کہ ایک شے سے دوسری شے کی طرف خیال منتقل ہونے کی مختلف صورتیں ہیں اور یہ خواب نبوت کی ایک شاخ ہے کیوں کہ جو فیض غیبی کی ایک قسم ہے اور حق کا خلق کی طرف قریب ہوتا ہے اور وہ نبوت کی مثل ہے۔ باقی خواب کی اور اقسام کی کچھ تعبیر نہیں۔ ایک جگہ تفہیمات میں شاہ ولی اﷲ صاحب فرماتے ہیں کہ: ان حقیقۃ الرویا ظہور مناسبۃ النفس الناطقۃ مبداء اعلیٰ علیٰ جھۃ خاسۃ و ہیئۃ المعلومہ یقتضی فیذان علم خاص فیتعین العلم و یتمثل بصور و اشباح مخرزنۃ فی خیال قیحضرر تلک الصور علی النفس حضورا فینتظم واقعۃ عند ہذہ الحواس الظاہرۃ و اقبال السمۃ علی الحواس الباطنۃ فلا یتعین علم باشباح الابمناسبۃ حجۃ بینہا وینہ (تفہیمات الیہ) رویا کی حقیقت ظاہر ہونا مناسب کا ہے نفس ناطقہ کو مبداء اعلی سے خاص طرح پر اور صورت معلومہ میں کہ مقتضی ہو علم خاص کے فیضان کی پھر متعین ہو جاتا ہے یہ علم اور متمثل ہو جاتا ہے صورتوں اور شکلوں میں جو جمع ہیں خیال میں پھر یہ صورتیں نفس کے سامنے آ جاتی ہیں حاضر ہو کر اور پھر منتظم ہوتا ہے واقعہ ان حواس ظاہری میں اور متوجہ ہوتی ہے روح اندرونی حواس پر پھر علم شکلوں میں متعین نہیں ہوتا مگر بوجہ اس مناسبت کے جو اس علم اور شکل میں ہے۔ شیخ بو علی سینا بھی اس بات کے قائل ہیں کہ بعض لوگوں کو خواب کی حالت میں عالم قدس سے فیضان ہوتا ہے اور وہ فیضان ایک صورت خاص میں متشکل ہو کر خواب میں دکھائی دیتا ہے چناں چہ شیخ نے اشارات میں لکھا ہے کہ: اذا قلت الشواغل الحسیۃ وبقیت شواغل اقل لم یبعدان یکون للنفس فلتات یخلص عن شغل التخیل الی جانب القدس فا نتقش فیہا نقش من الغیب فساح الی عالم التخیل وانتقش فی الحس المشترک و ہذا فی حال النوم اوفی حال مرض لم یشغل الحس و یومن التخیل فان التخیل قد یومنہ المرض و قد یوہنہ کثرۃ الحرکتہ لتحلل الروح الذی ہوالۃ فیسرع الی سکون ما و فراغ ما فینجدب النفس الی الجانب الاعلی بسہولۃ فاذا اطرا علی النفس نقش انزعج التخیل الیہ و تلقاء ایضا و ذالک اما لتنبہ من ہذا الطاری و حرکتہ التخیل بعد استراحۃ او وہنہ فانہ سریح الی مثل ہذا التنبہ و الاستخدام النفس الناطقہ لہ طبعا فانہ من معاد فی النفس عبد امثال ہذہ السوانح فاذا قبلہ التخیل حال تزحزح النفس الشواغل منھا النقش فی لوح الحس المشترک (اشارات شیخ) یعنی پس جب حسی اشغال کم ہو جاتے ہیں تو کچھ بعید نہیں کہ نفس تخیل کے شغل سے فرصت ملے اور وہ قدس کی جانب جائے پس اس میں غیب کا کوئی نقش منتقش ہو جائے پھر وہ تخیل کے عالم کی سیر کرے اور حس مشترک میں نقش منتقش ہو جائے اور یہ خواب کی حالت میں ہوتا ہے یا مرض کی حالت میں جو حس کو غافل کر دے اور تخیل کو ضعیف کر دے کیوں کہ تخیل کو کبھی مرض سست کر دیتا ہے اور کبھی زیادہ حرکت ہوتی ہے کیوں کہ اس وقت روح جو تخیل کا آلہ ہے تحلیل ہو جاتی ہے پس متخیلہ کسی قدر سکون اور آرام چاہتی ہے اس لیے روح کو جانب اعلیٰ کی طرف توجہ کرنے کا آسانی سے موقع ملتا ہے پس جب نفس میں کوئی نقش آتا ہے تو تخیل دوڑ کر اس کو لے لیتا ہے اور یہ یا تو اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس امر طاری کی وجہ سے تنبہ ہوا ہے اور تخیل نے آرام حاصل کر کے حرکت کی ہے۔ کیوں کہ تخیل ایسے تنبہ کی طرف جلد مائل ہوتا ہے اور یہ اس وجہ سے نفس ناطقہ کی ہی قدرتی طور سے اس کی خدمت کر رہا ہے کیوں کہ نفس ناطقہ ایسے موقع پر نفس کے معاون ہوتا ہے پس جب اس کو تخیل قبول کر لیتا ہے اس وقت کہ نفس اس کے شواغل کو ہٹا دیتا ہے تو حس مشترک کی لوح میں نقش اتر آتا ہے۔ غرض کہ صوفیائے کرام اور علمائے اسلام اور فلاسفہ مشائیں میں سے شیخ بو علی سینا اس بات کے قائل ہیں کہ بعض لوگوں کو جن کے نفس کامل ہیں یا زہد و مجاہد و ریاضات سے ان کے نفوس میں تجرد حاصل ہوا ہے ان کو خواب میں ملاء اعلیٰ سے ایک قسم کے علم کا فیضان ہوتا ہے اور وہ فیضان ان کے صور خیالیہ سے کسی صورت میں جو اس فیضان علم کے مناسب ہے متمثل ہوتا ہے اور وہ تمثل حس مشترک میں منقش ہو جاتا ہے اور اس کے مطابق ان کو خواب کھائی دیتا ہے۔ شاہ ولی اﷲ صاحب کہتے ہیں کہ یہی خواب اس قابل ہوتا ہے کہ اس کی تعبیر دی جاوے اور اس کے سوا کوہی خواب تعبیر کے لائق نہیں ہوتا۔ ملاء اعلیٰ کے مفہوم کو متعدد لفظوں سے تعبیر کیا جاتا ہے کبھی تو ایک عالم مثال قرار دیا جاتا ہے جس میں اس عالم کی تمام باتیں ماکان و ما یکون بطور مثال کے موجود ہیں اور اس کا عکس مجملاً یا تفصیلاً خواب میں انسان کے نفس پر پڑتا ہے اور کبھی نفوس فلکیہ کو ماکان اور مایکون کا عالم سمجھا جاتا ہے اور اس سے نفس انسانی پر فیض پہنچنا مانا جاتا ہے اور کبھی عقول عشرہ مفروضہ حکماء کو عالم ماکان و مایکون قرار دے کر اس کے فیضان کو تسلیم کیا جاتا ہے اور کبھی اس سے ملائکہ مقصود ہوتے ہیں۔ صوفیاء کرام نے چند اصطلاحات قرار دی ہیں جن کے مجموعہ پر ملاء اعلیٰ یا منبع الخیر و الجود یا مبداء الاعلیٰ یا حضرت القدس اطلاق ہوتا ہے اور اس کی یہ تفصیل ہے: تدلیات۔ جن سے مطلب ہے ان امور متعینہ کا جو قوائے افلاک میں مکنون ہیں اور جن کو حکماء نفوس فلکی سے تعبیر کرتے ہیں جبروت۔ فلاسفہ نے اس کو عقل سے تعبیر کیا ہے اور علمائے شرع نے ملائکہ سے۔ رحموت۔ جس کو حکماء نفس کہتے ہیں۔ ناسوت۔ اس کو حکماء ہیولیٰ قرار دیتے ہیں۔ لاہوت تو بمنزلہ ماہیت کے ہے اور جبروت بمنزلہ اس کے لوازم کے اور رحموت بمنزلہ اکی کلی کے جو فرد واحد میں منحصر ہو اور ناسوت کو ایسا قرار دیا ہے جیسے نفس بدن کے لیے یا صورت ہیولیٰ کے لیے۔ اس امر کو تفسیر کبیر میں اور زیادہ صاف طرح پر بیان کیا ہے اس میں لکھا ہے کہ قد ثبت انہ سبحانہ خلق جوہر النفس الناطقۃ بحیث یمکنھا الصعود الی عالم الافلاک و مطالعۃ اللوح المحفوظو المانع لھا من ذالک اشتغالھا بتدبر البدن و فی وقت النوم یقل ہذا اتشاغل فتقوی علی ہذہ المطالعۃ فاذا وقعت الروح علی حالتہ من الا حوال ترکت آثارا مخصوصۃ مناسبۃ لذالک الا دراک الروحانی الی عالم الخیال۔ (تفسیر کبیر) یعنی یہ بات ثابت ہو کئی ہے کہ خدا تعالیٰ نے نفس ناطقہ کو اس طرح کا پیدا کیا ہے کہ اس کے لیے یہ بات ممکن ہے کہ عالم افلاک تک پہنچ جاوے اور لوح محفوظ کو پڑھ لے اس بات سے جو اس کو مانع ہے وہ اس کا تدبیر بدن میں مشغول رہنا ہے اور سونے کے وقت اس کی یہ مشغولی کم ہو جاتی ہے اور قوۃ لوح محفوظ کے پڑھ لینے کی قوی ہو جاتی ہے پس جب روح کا کوہی ایسا حال ہو جاتا ہے تو وہ انسان کے خیال میں خاص اثر جو اس ادراک روحانی کے مناسب ہوتا ہے ڈال دیتی ہے مطلب یہ ہے کہ اثر ان ادراکات کا خیال میں متمثل ہو کر بطور خواب کے دکھائی دیتا ہے۔ اب ہمارا سوال یہ ہے کہ بلاشبہ عقل انسانی بلکہ مشاہدہ اور تجربہ اس بات کو ضرور ثابت کرتا ہے کہ ایک واجب الوجود یا علۃ اعلل خالق صمیع کائنات موجود ہے۔ ولا نعلم ما ہیتہ، ولا حقیقۃ منافہ، الا ان نقول عالم حی قادر خالق لا تاخذہ سنۃ ولا نوم لہ، ما فی السموات و ما فی الارض و ہو علی کل شئی قدیر۔ اور یہ تمام الفاظ صفاتی جو اس واجب الوجود کی نسبت منسوب کرتے ہیں صرف مجاز ہے لان حقیقۃ صفاتۃ غیر معلومۃ پسر مفہوم ملاء اعلی کا جو صوفیاء کرام اور علمائے اسلام اور فلاسفہ عالی مقام نے قرار دیا ہے یہ حرف خیال ہی خیال ہے اس کی صداقت اور واقعیت کا کوہی ثبوت نہیں ہے تو کسی امر کو گو کہ وہ واقعات خواب ہی کیوں نہ ہوں اس پر مبنی کرنا نقش بر آب ہے۔ و اما الا حادیث المرویۃ فی ہذا الباب فکلھا غیر ثابت و انما ہی مقالات الصوفیہ و من یشالھم و لیس من کلام النبی محمد صلم۔ ہاں کہا جاتا ہے کہ بعد سلوک طریقت اور اختیار کرنے زہد و مجاہدہ و ریاضت کے یہ راز کھلتا ہے اور حجاب آٹھ جاتے ہیں اور حقیقت نفس و ما بیتہ ملاء اعلی و ما فیہا منکشف ہو جاتی ہے۔ ہم قبول کرتے ہیں کہ کچھ منکشف ہوتا ہو گا مگر ہم کس طرح تمیز کریں کہ جو کچھ منکشف ہوا ہے وہ حقیقت ہے یا وہی خیالات ہیں جو متمثل ہو گئے ہیں جس طرح کہ اولا خیالات متمثل ہو جاتے ہیں۔ الا عندی کمال الانسان ان یکون متمثلا بمرضاتہ و رضاتہ مکنونہ، فی مخلوقاتہ و قد شر حہافی کلام علی لسان رسولہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم و ہی مکتوبۃ فی کتابہ، فجسنا اﷲ و رسولہ و کتابہ الذی سماء کقران المجید الفرقان الحمید تبارک و تعالی شانہ و ما اعظم مرہانہ۔ پس ہمارے نزدیک بہ جز ان قواے کے جو نفس انسانی میں مخلوق ہیں اور کوئی قوت خوابوں کے دیکھنے میں موثر نہیں ہے۔ اور یوسف علیہ السلام کی خواب جن کا نفس نہایت متبرک اور پاک تھا اور ان دونوں جوانوں کے خواب جو یوسف علیہ السلام کے ساتھ قید خانہ میں تھے اور کفر و ضلالت میں مبتلا تھے اور ان کے نفوس بسبب آلائش کفر پاک نہ تھے اور اسی طرح فرعون کا خواب جو خود اپنے آپ کو خدا سمجھتا تھا اور اس کا نفس مبداء فیاض سے کچھ مناسبت نہ رکھتا تھا باینہ سب کے خواب یکساں مطابق واقعہ کے اسی ایک قسم کے تھے اور اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ بجز قواے نفس انسانی کے اور کوہی قوت خوابوں کے دیکھنے میں موثر نہیں ہے گو کہ وہ خواب کیسے ہی مطابق واقعہ کے ہوں۔ اب حضرت یوسف علیہ السلام کے خوابوں کو دیکھو۔ پہلا خواب ان کا یہ ہے کہ انہوں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو اپنے تئیں سجدہ کرتے دیکھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے ان کے سوا گیارہ بھائی اور بھی تھے اور ماں اور باپ تھے۔ باپ اور ماں کا تقدس اور عظم و شان اور قدر و منزلت ان کے دل میں منقش تھی بھائیوں کو بھی وہ اپنے باپ کی ذریات چاہتے تھے مگر اس سبب سے کہ ان کے باپ ان کو سب سے زیادہ چاہتے تھے اور خود ان کے باپ و ماں اور ان کے سبب سے ان کے بھائی ان کی تابعداری بسبب چاہ و محبت کے کرتے تھے اور اس لیے ان کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ ماں اور باپ اور بھائی سب میرے تابع و فرمان بردار اور میری منزلت و قدر کرنے والے ہیں۔ یہ کیفیت جو ان کے دماغ میں منقش تھی اس کو متخیلہ نے سورج اور چاند اور ستاروں کی شکل میں جن کو وہ ہمیشہ دیکھتے تھے اور ان کا تفاوت درجات بھی ان کے خیال میں متمکن تھا متمثل کیا اور انہوں نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھ کو سجدہ کرتے تھے پس ان کی تعبیر حالت موجودہ میں یہ تھی کہ ماں باپ اور بھائی سب ان کے فرمان بردار ہیں۔ سجدہ کے لفظ سے بعض مفسرین نے واقعی سجدہ کرنا مراد لی ہے اور بعض نے اطاعت و تواضع جیسا کہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے المراد بالسجود نفس السجود و التواضع مگر میں قول ثانی کو ترجیح دیتا ہوں گو خواب میں یہ دیکھنا کہ سورج اور چآند اور ستارے زمین پر اتر آئے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ مگر یہ روایت کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں فلاں ستارے زمین پر اترے آئے تھے محض بے اصل اور غلط بلکہ جھوٹی ہے۔ اس واقعہ کے ایک مدت بعد حضرت یوسف علیہ السلام کے ماں باپ اور بھائیوں کا مصر میں جانا اور موافق آداب سلطنت کے آداب بجا لانا اور حضرت یوسف علیہ السلام کا فرمانا کہ ہذا تاویل رویای من قبل قد جعلھا ربی حقا ایک امر اتفاقی تھا کیوں کہ یہ بات قرآن مجید سے نہیں پائی جاتی کہ حضرت یعقوب علیہ السلام بھی جو نبی تھے اس خواب سے یہ سمجھے تھے کہ حضرت یوسف ایسی منزْت میں پہنچیں گے کہ ماں باپ اور بھائی جا کر ان کو سجدہ کریں گے اور قرآن مجید سے اس خواب کی جو کچھ تعبیر پائی جاتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ حضرت یعقوب نے حضڑت یوسف سے کہا کہ خدا تجھ کو حوادث عالم کا مال تعلیم کرے گا اور اپنی نعمت تجھ پر اور یعقوب کی اولاد پر اسی طرح پوری کرے گا جس طرح کہ اس نے ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی ہے اور یہ تعبیر ایک عام تعبیر ہے جو ایک جوان صالح کے عمدہ خواب کی تعبیر میں بیان ہو سکتی ہے۔ چاند سورج ستاروں کے سجدہ کرنے سے حوادث عالم کے علم کو تعبیر کرنا نہایت پر لطف قیاس تھا۔ دوسرا اور تیسرا خواب ان دو نوجوانوں کا ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ قید خانہ مین تھے ان میں سے ایک نے دیکھا کہ میں شراب چھان رہا ہوں دوسرے نے دیکھا کہ اس کے سر پر روٹی ہے اور پرند اس کو کھا رہے ہیں۔ یہ دونوں شخص کسی جرم کے متہم ہو کر قید ہوئے تھے پہلا شخص جو غالباً ساقی تھا در حقیقت بے گناہ تھا اور اس کے دل کو یقین تھا کہ بے گناہ قرار پا کر چھوٹ جاوے گا وہی خیال اس کا سوتے میں شراب طیار کرنے سے جو اس کا کام تھا متمثل ہو کر خواب میں دکھائی دیا۔ دوسرا شخص جو غالباً باورچی خانہ سے متعلق تھا در حقیقت مجرم تھا اور اس کے دل میں یقین تھا کہ وہ سولی پر چڑھایا جاوے گا اور جانور اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھاویں گے وہی خیال اس کا سوتے میں روٹی سر پر رکھ کر لے جانے سے جو اس کا کام تھا اور پرندوں کا روٹی کو کھانے سے متمثل ہو کر خواب میں دکھائی دیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام اس مناسبت طبعی کو جو ان دونوں خوابوں میں تھی سمجھے اور اس کے مطابق دونوں کو تعبیر دی اور مطابق واقعہ کے ہوئی۔ چوتھا خواب وہ ہے جو خود بادشاہ نے دیکھا کہ سات موٹی گائیں ہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات ہری بالیں ہیں اور سوکھی۔ ملک مصر ایک ایسا ملک ہے جس میں مینہ بہت ہی کم برستا ہے۔ دریائے نیل کے چڑھاؤ پر کھیتی ہونے یا قحط پڑنے کا مدار ہے۔ چڑھاؤ کے موسم میں اگر بائیس فٹ چڑھ جاوے تو فصل اچھی ہوتی ہے اور چوبیس فٹ چڑھاؤ میں غرق ہو جاتی ہے اور اگر صرف اٹھارہ یا ساڑھے اٹھارہ فیٹ چڑھاؤ ہو تو قحط ہو جاتا ہے۔ قدیم مصریوں نے دریائے نیل کے چڑھاؤ سے جس پر اچھی فصل یا قحط کا ہونا منحصر تھا متعدد جگہ اور متعدد طرح سے پیمانے بنا رکھے تھے اور ان کو بہت زیادہ اچھی فصل ہونے یا قحط ہونے کا خیال اور ہمیشہ اسی پر چرچا رہتا تھا۔ مصر میں قحط ہونے کا یہ سبب بھی ہوتا ہے کہ دریائے نیل کی طغیانی چڑھاؤ کے بہاؤ کا رخ اس طرح پر پڑ جاوے کہ زراعت کی زمینیں پانی پھیلنے سے محروم رہ جاویں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں اور اس سے پہلے بھی دریائے نیل بے اعتدالی کے طور پر بہتا تھا یعنی ملک مصر میں اس کے مناسب اور یکساں بہنے کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ اس زمانے میں بھی جب کسی ندی یا دریا کا رخ بدلتا معلوم ہوتا ہے تو لوگ اندازہ کرتے ہیں اور آپس میں چرچا کرتے ہیں کہ اتنے دنوں میں دریا اس طرف بہنے لگے گا اور فلاں طرف کی زمین چھوٹ جاویں گی۔ اسی طرح غالباً اس زمانے میں مصر کی نسبت اور قحط پڑنے کی نسبت چرچے ہوتے ہوں گے اور بادشاہ مصر کو اس کا بہت خیال رہتا ہو گا وہی خیال پیداوار کے زمانے کا موٹی تازی گایوں اور ہری ہری بالوں سے اور قحط کے زمانہ کا دبلی گایوں اور سوکھی بالوں سے متمثل ہو کر فرعون کو خواب دکھائی دیا اور حضرت یوسف علیہ السلام نے اسی حالت کے مناسب تعبیر دی جو مطابق واقع کے ہوئی۔ کما قال الفارابی ان التعبیر ہو حدس من المعبر یستخرج بہ الالہلی من الفرع۔ اگر عبری توریت کے حساب کو صحیح مانا جاوے تو یہ قحط سنہ ۲۲۹۶ دنیاوی یعنی سنہ ۱۷۰۸ قبل مسیح میں شروع ہوا تھا اور سنہ ۲۳۰۲ دنیاوی یعنی سنہ ۱۷۰۲ قبل مسیح میں ختم ہوا تھا۔ مصر کا قحط افریقہ کے اکثر حصوں اور بالخصوص یمن میں اور تمام فلسطین میں نہایت شدید تھا مگر یہ سمجھنا کہ ان برسوں میں ان ملکوں میں مطلق کچھ پیدا نہیں ہوا تھا صحیح نہیں ہے بلکہ جو حال عموماً قحط زدہ ملکوں کا ہوتا ہے ویسا ہی ان ملکوں کا تھا اور اسی لیے قرآن مجید میں سبعاً شداداً کا لفظ آیا ہے اور شدید قحط میں یہی ہوتا ہے کہ پیداوار ان ملکوں میں ہنایت قلیل ہوتی ہے اور پھر متواتر قحط ہوتا ہے اور شید ہو جاتا ہے کیوں کہ غلہ کا ذخیرہ موجود نہیں رہتا۔ خوابوں کی نسبت اب صرف ایک بحث باقی ہے کہ اگر وہی چیزیں خواب میں دکھائی دیتی ہیں جو دماغ میں اور خیال مین جمع ہیں تو یہ کیوں ہوتا ہے کہ بعضی دفعہ یا اکثر دفعہ وہی امر واقع ہوتا ہے جو خواب میں دیکھا گیا ہے۔ مگر اس باب میں خواب کی حالت اور بیداری کی حالت برابر ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بیداری کی حالت میں آدمی باتیں سوچتا ہے اور اپنے دل میں قرار دیتا ہے کہ یہ ہو گا اور وہی ہوتا ہے یا کسی شخص کو یاد کرتا ہے اور وہ شخص آ جاتا ہے اور بہت دفعہ اس کے مطابق نہیں ہوتا پس اس کی بیداری کے خیال کے مطابق واقعہ کا ہونا ایک امر اتفاقی ہے۔ اسی طرح خواب میں بھی جو باتیں وہ دیکھنا ہے اور وہ وہی ہوتی ہیں جو اس کے دماغ اور خیال میں جمی ہوئی ہوتی ہیں پس کبھی ان کے مطابق بھی کوئی واقعہ اسی طرح واقع ہوتا ہے جس طرح کہ بیداری کی حالت میں خیالات کے مطابق واقع ہو جاتا ہے۔ ہاں اس میں شبہ نہیں کہ انبیاء اور صلحا کے خواب بہ سبب اس کے کہ ان کے نفس کو تجرد فطری و خقی یا اکتسابی حاصل ہوتا ہے ان کے خواب بالکل سچے اور اصلی اور مطابق ان کی حالت نفس کے ہوتے ہیں اور ان سے ان کے نفس کا تقدس اور متبرک ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ مسئلہ جبر و اختیار دینیات کا یہ مسئلہ نہایت اہم اور مایہ النزاع ہے کہ انسان اپنے افعال میں مجبور ہے یا مختار۔ ہزاروں میں جو کہتے ہیں کہ انسان اپنے اختیار اور مرضی سے کچھ بھی نہیں کر سکتا جو کچھ کرتا ہے خدا کرتا ہے۔ دوسرا فریق کہتا ہے کہ نہیں اﷲ تعالیٰ نے انسان کو بنا کر آزاد چھوڑ دیا ہے کہ چاہے نیکی اور فلاح کا راستہ اختیار کرے چاہے گناہ اور معصیت کا۔ نیک کام کرے گا جزا پاوے گا برے کام کرے گا سزا پاوے گا سرسید نے زیر نظر مضمون میں اسی مسئلہ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) جو لوگ کفر میں پڑے ان کی نبست خدا نے فرمایا۔ ختم اﷲ علی قلوبہم و علی سمعہم و علی ابصارہم غشاوہ۔ مگر کسی مفسر نے اس کے حقیقی معنی مراد نہیں لیے کیوں کہ نہ کسی انسان کے دل پر اور نہ کان پر سچ مچ کی مہر لگی ہوہی ہے اور نہ کسی کی آنکھوں پر سچ مچ پردہ پڑا ہوا ہے بلکہ سچ بات کے نہ سمجھتے اور حق بات کے نہ سننے اور ٹھیک بات پر غور نہ کرنے کو بطور استعارہ دلوں پر اور کانوں پر مہر کر دینے اور آنکھوں پر پردہ ڈالنے سے بیان کیا ہے۔ بلاشتبیہ یہ ایسا ہی کلام ہے جیسے کہ ایک ناصح شفیق کسی کو افعال ضمیمہ چھوڑنے اور اخلاق حمیدہ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہو۔ مگر وہ شخص اس کی نصیحت پر کان نہ دھرتا ہو اور ایک شخص فصیح و بلیغ اس حالت کو دیکھ کر کہے کہ بد ذاتوں نااہلوں کو تم نصیحت کرو یا نہ کرو وہ کبھی نہیں مانیں گے۔ ان کے دل پتھر کے ہیں اور آنکھیں اندھی اور کان بہرے۔ خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ پس جس محاورہ میں انسان اس طرح بات چیت کرتے ہیں اسی انسانی محاورہ پر خدا نے بھی کلام کیا ہے۔ اس آیت سے اور آیتوں سے جو اس کی مثل ہیں۔ جبر و اختیار کے مسئلہ پر بحث کرنا قرآن مجید کے بیان کلام کے منافی ہے۔ قرآن مجید کی کسی آیت سے نہ انسان کے اپنے افعال میں مجبور ہونے پر استدلال ہو سکتا ہے، نہ مختار ہونے پر، نہ بین الجبر و الاختیار ہونے پر۔ مگر افسوس ہے کہ علمائے متقدمین نے اس پر بحث کی ہے اور غلطی سے اس کو ایک ایسا مسئلہ سمجھا ہے جو مسائل اسلام میں داخل ہے اور جو وحی یا قرآن سے ثابت ہے اور پھر آپس میں مختلف رائیں قرار دی ہیں۔ ایک گروہ انسان کے اپنے افعال میں مجبور ہونے کا قائل ہے دوسرا گروہ مختار ہونے کا اور تیسرا بین الجبر و الاختیار کا جو بالفعل مذہب اہل سنت و جماعت کا ہے۔ انسان اپنے افعال میں مجبور ہو یا مختار بین الجبر و الاختیار یہ ایک جدا مسئلہ ہے جو انسان کی فطرت کی تحقیقات پر منحصر ہے اور اس کی فطرت پر مباحثہ کرنے کے بعد جو ثابت ہو، ہو۔ ہمارا مقصد اس مقام پر صرف اس قدر کہنا ہے کہ قرآن مجید سے ان باتوں میں سے کسی پر استدلال کرنا اور اس کو ایک مسئلہ اسلام منزْ من اﷲ سمجھنا غلطی ہے۔ قرآن مجید میں خدا تعالی نے جا بجا بندوں کے افعال کو بلکہ ہر ایک چیز کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ جو کام بندوں سے ہوتے ہیں ان کی نسبت فرماتا ہے کہ ہم نے کیا۔ یا جو چیزیں کہ اور اسباب سے پیدا ہوتی ہے ان اسباب کو بیچ میں سے نکال کر فرماتا ہے کہ ہم نے کیا۔ ہم نے مینہ برسایا، ہم نے درخت لگائے، ہم نے دریا بہائے، ہم نے سمندر میں جہاز تیرائے، ہم نے اڑتے جانور ہوا میں تھمائے، پس اس طرز کلام سے واسطوں کا درحقیقت درمیان میں نہ ہونا یا اس شے کا ان افعال میں مجبور یا مختار ثابت کرنا مقصود نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنی عظمت و شان اور اپنے علۃ العلل یعنی تمام چیزوں کی اخیر علت یا خالق ہونے کا بندوں پر اظہار مقصود ہوتا ہے اور اس لیے اس قسم کے کلام سے انسان کا اپنے افعال میں مجبور یا مختار ہونے کا استنباط و استدلال کرنا صحیح نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ایسا کرنا داخل تفسیر القول بما لا یرضیٰ قائلہ کے ہے۔ کیوں کہ اس کلام سے اس بات کی حقیقت کا بیان کرنا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور ہے یا مختار یا بین الجبر و الاختیار مقصود ہی نہیں ہے۔ خدا اپنے تئیں علۃ العلل جمیع کائنات کا بتاتا ہے۔ پس اگر تمام حوادث و افعال کو جو عالم میں تمام مخلوقات، انسان، حیوان، عناصر، قویٰ وغیرہ سے ہوتے ہیں اپنی طرف نسبت کرے اور ہر چیز کی نسبت یہ کہے کہ ہم نے کیا تو یہ نسبت صحیح و درست ہو گی۔ علاوہ اس کے مصری اور یونانی حکماء کا یہ خیال تھا کہ دو چیزیں ازلی اور ابدی ہیں۔ ایک خدا اور ایک مادہ۔ خدا نے اس قدیم اور ازلی مادہ سے تمام دنیا کو بنایا اور رچایا ہے اور ایک گروہ زڑدشتیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ دو مقابل کے وجود ہیں۔ ایک یزدان یعنی خدا۔ دوسرا ہرمن یعنی شیطان، نیک کام خدا کرتا ہے اور بد کام شیطان، اور یہ مذہب اس ریگستان میں بھی پھیل گیا جہاں ان غلطیوں کا اصلاح کرنے والا پیدا ہوا تھا۔ خدا تعالیٰ کو قرآن مجید میں ان دونوں عقیدوں کا مٹانا اور اپنی ذات واحد کو خالق جمیع کائنات بتانا اور اپنے تئیں وحد لاشریک لہ، جتانا مقصود تھا۔ پس سب سے علیحدہ طریقہ اس باریک مسئلہ کے سمجھانے کا یہی تھا کہ تمام افعال کو ان کے تمام واسطوں کو دور کر کر خاص اپنی طرف منسوب کرے اور کبھی ان واسطوں کی طرف۔ تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ علۃ العلل صرف ایک ذات وحدہ، لا شریک ہے اور جو واسطے ہم کو دکھائی دیتے ہیں۔ بلاشبہ وہ واسطے ہیں۔ مگر علۃ العلل ان سب کی وہی ایک ذات وحدہ لاشریک ہے۔ پس جس کلام کا یہ موضوع ہو اس سے اس مطلب کو نکالنا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور ہے یا مختار یا بین الجبر و الاختیار اس کلام کو غیر ما وضع لہ میں استعمال کرنا ہے۔ ہاں یہ ایک تمدنی اور طبعی اور عقلی مسئلہ ہے۔ جس پر انسان کی خلقت کے لحاط سے بحث اور غور ہو سکتی ہے جس کو ہم مختصراً بیان کرتے ہیں۔ ان علماء اور حکماء نے جنہوں نے انسانی فطرت پر غور کی ہے دو طرح پر انسان کو اپنے افعال میں مجبور پایا ہے۔ ایک امور خارجیہ کے سبب سے جب کہ قومی و ملکی و تمدنی امور کی الف و موانست کا اور بچپن سے کسی امر کی محارست و تربیت و صحبت کا اس پر ایسا قوی اثر ہوتا ہے کہ وہ انہی افعال کو مستحسن سمجھتا ہے اور انہیں کے کرنے پر اس کا دل اس کو مجبور کر دیتا ہے گو یہ مجبوری اکثر اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔ کیوں کہ بظاہر اس پر کسی کا جبر نہیں ہوتا۔ مگر درحقیقت انہی قومی و ملکی و تمدنی اور بچپن سے کسی امر کی محارست و تربیت و صحبت کا اثر رفتہ رفتہ بے معلوم اس میں ایسا سرائت کر جاتا ہے کہ جس سے ان افعال کے کرنے پر جن کو وہ کرتا ہے مجبور ہوتا ہے اور جن باتوں کو وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنی مرضی سے کرتا ہوں درحقیقت وہ اسی قوی اثر کے سبب سے بمجبوری کرتا ہے۔ دوسری قسم کی مجبوری اپنے افعال میں خود انسان کو اپنی خلقت کے سبب سے ہوتی ہے ہم تمام دنیا کی چیزوں میں ان کی ایک فطرت پاتے ہیں جس کے برخلاف ہر گز نہیں ہوتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ معدنی چیزیں ہوا میں نہیں اڑتی پھرتیں، پانی ہوا کے اوپر نہیں رہتا، مچھلی زمین پر زندہ نہیں رہتی، درندے جانوروں سے درندگی، پرندے جانوروں سے پرواز، آبی جانوروں سے شناوری، کبھی زائل نہیں ہوتی۔ پس وہ سب ان افعال کے سرزرد ہونے میں جو ان سے منسوب ہیں بمقتضائے اپنی خلقت کے مجبور ہیں۔ اسی طرح ہم انسانوں میں بھی دیکھتے ہیں کہ وہ بھی اپنے افعال میں بمقتضائے اپنی فطرت کے مجبور ہیں۔ جن کی آنکھ خدا نے ایسی بنائی ہے جس سے دور کی چیزیں دکھائی دیتی ہے۔ تو وہ دور کی چیز دیکھنے میں مجبور ہے۔ اسی طرح انسانوں کی بناوٹ ایسی ہے کہ جو افعال ظاہری و باطنی ان سے سرزد ہوتے ہیں وہ ان میں مجبور محض ہیں۔ اگر بالفرض ایک نہایت رحم دل نیک طبیعت شخص کے اعضاء دل و دماغ کی بناوٹ۔ ایک نہایت شقی القلب بے رحم بد ذات آدمی کی سی ہوتی۔ تو اس سے بھی وہی افعال صادر ہوتے جو اس بد ذات سے ہوتے ہیں۔ اگر ایک بے وقوف آدمی کے اعضاء کی بناوٹ ایک عقل مند آدمی کے اعضاء کی بناوٹ سے تبدیل ہو سکے تو اس عقل مند سے اس بے وقوف کیسے افعال اور اس بے وقوف سے اس عقل مند کے سے افعال سرزد ہونے لگیں گے۔ غرضیکہ تشریح ابدان سے ثابت ہو گیا ہے کہ جس قسم کی بناوٹ انسان کی ہوتی ہے اسی کے مناسب افعال خواہ نخواہ اس سے سرزد ہوتے ہیں۔ نہایت بے رحم سفاک قاتلوں کی کھوپڑی میں ایک خاص قسم کی بناوٹ ہے اور تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ ہر قاتل سفاک کی کھوپڑی اسی بناوٹ کی ہوتی ہے۔ پس جس کی کھوپڑی اس بناوٹ کی ہو گی وہ ضرور سفاک اور قاتل و بے رحم ہو گا اور جو بے رحم سفاک قاتل ہو گا اس کی کھوپڑی اسی بناوٹ کی ہو گی۔ پس ان افعال میں جو خلقت انسانی سے علاقہ رکھتے ہیں انسان مجبور ہے اور یہ ایسی بدیہی باتیں ہیں جن سے کوہی بھی جب کہ وہ اس علم میں واقفیت حاصل کرے انکار نہیں کر سکتا۔ اس کو اور صاف طرح سے غور کرو جس کو ہر کوہی سمجھ سکے بعض لوگ ایسے ہیں جن کا حافظہ بہت قوی ہوتا ہے۔ بعضے ایسے ہیں جن کو کوہی بات یاد نہیں رہتی۔ بعضے ایسے ہیں جن کے قویٰ قوی ہیں بعضے نہایت ضعیف القویٰ ہیں۔ بعضے ایسے ہیں کہ کسی کام کو ایسا عمدہ کرتے ہیں کہ اوروں سے باوصف کوشش کے ایسا نہیں ہو سکتا۔ کسی کا ہاتھ خوش نویسی کے لائق ہوتا ہے کسی کا مصوری کے کسی کا دماغ علم و ادب کے مناسب ہوتا ہے۔ کسی کا ریاضی کے۔ کسی کی بناوٹ کسی خاص امر کے ایسی مناسب ہوتی ہے کہ اس کی مثل دوسرا نہیں ہو سکتا پس یہ تمام تفاوت انسانوں میں فطرت کے باعث سے ہیں اور جو افعال کہ اس فطرت پر مبنی ہیں ان کے صادر ہونے میں وہ مجبور ہیں۔ بایں ہمہ ہم انسانوں میں ایک اور چیز بھی اتے ہیں جو نیک و بد میں تمیز کر سکتی ہے یا ایک بات کو دوسری بات پر ترجیح دے سکتی ہے۔ یہ قوت بھی کبھی بلکہ اکثر قومی و ملکی و تمدنی امور کی الف و موانست سے اور بچپن سے کسی امر کی محارست و تربیت و صحبت کے اثر سے موثر ہو جاتی ہے اور اس قوت کی ایسی حالت کو تمام اہل مذاہب کا نشنس یعنی نور ایمان و نور دھرم سے تعبیر کرتے ہیں مگر درحقیقت وہ قابل اعتماد اور لائق طمانیت کے نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کا دوست و غیر دوست دونوں قسم کے اثروں سے موثر ہونا اور مخالف اثروں سے ایک ہی نتیجہ حاصل ہونا ممکن ہے۔ ایک مسلمان کے لیے کسی بت کو سجدہ کرنا جس قدر اس کے نور ایمان کے برخلاف ہے ویسا ہی ایک بت پرست کے نور دھرم کے موافق ہے۔ پس ایک شے دو مخالف نتیجے پیدا کرتی ہے۔ مگر اس کے سوا ایک اور قوت بھی انسان میں پائی جاتی ہے جو ان تمام اثروں پر غالب ہو جاتی ہے اور جس کو میں نور قلب یا نور فطرت کہتا ہوں۔ ہمارے پاس بہت سے لوگوں کی نسبت تاریخی شہادت موجود ہے۔ جنہوں نے بچپن سے ایک خاص قوم کی رسم و عادات میں تربیت پائی اور انہی ملکی و تمدنی باتوں کے سوا اور کوہی خیال ان کے دل میں نہیں گزرا اور زمانہ دراز تک اسی قومی و اور تمدنی امور کی الف و موانست میں رہے اور ایک ہی سی صحبت پائی اور ایک ہی سی تربیت ہوہی اور پھر خود انہوں نے اپنی سوچ سمجھ اور غور و فکر سے جس کو الہام کہنا چاہیے ان تمام بندوشوں کو توڑا اور ان کے عیبوں کو جانا اور اپنے تئیں اس سے آزاد کیا اور لوگوں کے آزاد کرنے میں کوشش کی۔ یہ قوت فکری کم و بیش تمام انسانوں میں فطری ہے۔ ہر شخص خود اپنے حال پر فکر کر کر سمجھ سکتا ہے کہ وہ اس کے کام میں لانے پر قادر ہے اور یہی وہ قوت ہے جو حق و باطل میں تمیز کرتی ہے اور اصلی سچ کو پرکھ لیتی ہے اور انسان کو اپنی حالت کی اصلاح پر متوجہ کرتی ہے اور تمام بوجھوں کو جو انسان پر بہ سبب اس کے ملکی و تمدنی و آبائی رسم و رواج کی الف و موانست سے ہوتے ہیں ان کو اٹھا دیتی ہے۔ اسی قوت کے زندہ رکھنے اور کام میں لانے کی اور اس بوجھ یعنی ملکی و تمدنی و آبائی رسم و رواج کی الف و موانست کے اٹھانے کی جا بجا قرآن میں ہدایت ہوئی ہے اور یہی قوت ہے جس کے باعث انسان مکلف ہوا ہے اور دیگر حیوانات سے افضل کہا گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ یہ قوت بھی انسانوں میں بمقتضائے ان کی خلقت کے قوی اور ضعیف ہے مگر معدوم نہیں اور جن میں معدوم ہے وہ مکلف نہیں بلکہ مرفوع القلم ہے۔ کبھی یہ قوت پند و نصیحت اور سمجھانے بجھانے اور دلیلوں اور نشانیوں کے بتانے اور صحبت کے اثر سے تحریک میں آ جاتی ہے جیسے کہ ان لوگوں کا حال ہوتا ہے جو سچی راہ بنانے والوں کی ہدایتوں کو سجھ کر اور یقین کر کر پیروی کرتے ہیں بشرطیکہ اس پیروی کی اور کوہی ایسی وجہ نہ ہو جس نے انسان کو خفیہ خفیہ اپنے افعال پر مجبور کر دیا ہو اور اس نے اس فطری قوت کو بغیر کام میں لائے اس خفیہ مجبوری سے وہ پیروی نہ کی ہو اور کبھی وہ قوت فطری ایسی قوی ہوتی ہے کہ خود بخود اس میں سے وہ روشنی اٹھتی ہے اور حق و باطل میں فرق دکھاتی ہے اور ملکی و تمدنی و آبائی رسم و رواج کی الف و موانست کے بوجھ کو اٹھا دیتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو شرح کی زبان میں پیغمبر اور تمدنی اصطلاع میں رفامر کہلاتے ہیں۔ یہی قوت تھی جس نے ایک جوان کے دل کو خود اپنی روشنی سے روشن کر دیا۔ جو ’’اور کلدانیاں‘‘ میں رہتا تھا اور جس کا نام ابراہیم تھا۔ بچپن سے اس نے اپنے پیارے باپ کی گود میں پرورش پائی۔ بہ جزبتوں کے اس کی آنکھ نے کچھ نہیں دیکھا اور بہ جز بتوں کی پرستش کے نغموں کے اس کے کانوں نے کچھ نہیں سنا اور پھر سمجھا تو یہ سمجھا کہ ہائے میرا پیارا باپ اور میری پیاری قوم بڑی گمراہی میں ہے۔ یہ سوچ کر گھبرایا اور چاروں طرف دیکھنے لگا کہ پھر سچ کیا ہے۔ چاند کو روشن دیکھ کر خیال کیا کہ شاید یہ سچ ہے۔ سورج کو چمکتا دیکھ کر سوچا کہ شاید یہ سچ ہو۔ مگر اس نور فطرت نے بتایا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ اس نے سب سے منہ موڑا اور سجی بات پکار اٹھا کہ انی وجہت و جھی للذی فطر السموات و الارض حنیفا و من انا من المشرکین۔ اس کے ساتھ ہی ایک یتیم بن باپ کے بچے کا حال سنو۔ جس نے نہ اپنی ماں کے کنار عاطفت کا لطف اٹھایا اور نہ اپنے باپ کی محبت کا مزہ چکھا۔ ایک ریگستان کے ملک میں پیدا ہوا اور اپنے گرد بہ جز اونٹ چرانے والوں کے غول کے کچھ نہ دیکھا اور بہ جز لات و منات و عزیٰ کو پکارنے کیآواز کے سوا کچھ نہ سنا مگر خود کبھی نہ بھٹکا اور کہا تو یہ کہا ’’افرا یتیم الات و الریٰ و منات الثاثلۃ الاخری‘‘۔ پس یہ تمام روشنیاں اس نور فطرت کی خود آپ ہی روشن ہوئی تھیں اور جنہوں نے نہ صرف ان کو بلکہ تمام جہان کو منور کر دیا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ مسئلہ متعہ کی تحقیق متعہ کے یہ معنی ہیں کہ ایک مرد ایک عورت سے معیاد معین کے لیے مثلاً ایک شب کے لیے بعوض مال معین کے مثلاً دس روپے کی اجرت ٹھیرا لے اور اس سے اس میعاد تک مباشرت کرے۔ جیسا کہ اس زمانے میں بے حیا عورتوں سے بے حیا مردوں کا عام دستور ہے۔ علماء کا اتفاق ہے کہ ’’ابتدائے اسلام میں متعہ جائز تھا اور اس باب میں کہ وہ بدستور جائز ہے یا ممنوع یا مسنوخ ہو گیا ہے اختلاف ہے۔‘‘ گروہ کثیر امتہ کا یہ قول ہے کہ قرآن میں تو بلاشبہ جواز متعہ کا حکم تھا لیکن یہ حکم منسوخ ہو گیا ہے۔ مگر جن آیتوں سے اس کے نسخ کا استدلال کرتے ہیں وہ استدلال میری دانست میں نہایت ضعیف ہے۔ اور گروہ قلیل امت کا یہ قول ہے کہ جواز متعہ بدستور بحال و غیر منسوخ ہے۔ ابن عباس سے اس میں مختلف روایتیں ہیں۔ ایک روایت تو جواز متعہ کی ہے بلا کسی قید کے اور ایک روایت میں اس کا جواز بحالت اصطرار بیان ہوا ہے جیسے کہ مردار و سور کا گوشت حالت اضطرار میں کھا لینا جائز ہے اور ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ابن عباس نے تسلیم کیا کہ حکم جواز منسوخ ہو گیا ہے۔ عمران بن حصین اس کے جواز کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ جواز متعہ کی آیت قرآن میں موجود ہے اور اس کے بعد کوئی ایسی آیت سے جس سے حکم جواز متعہ منسوخ ہوا ہو نازل نہیں ہوئی اور شیعہ حضرت علی مرتضیٰ سے جواز متعہ کی بہت سی روایتیں بیان کرتے ہیں۔ مگر اہل سنت و الجماعت کے ہاں حضرت علی مرتضیٰ سے کوئی معتبر روایت جواز متعہ پر منقول نہیں ہے۔ محمد بن جریر الطبری نے اپنی تفسیر میں حضرت علی سے یہ راویت کی ہے کہ ’’اگر عمر لوگوں کو متعہ کرنے سے منع نہ کرتے تو بجز کسی بدبخت کے کوہی زنا نہ کرتا‘‘ اور محمد بن الحنفیہ سے جو حضرت علی کے بیٹے ہیں یہ رایت ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ ابن عباس پاس گئے جو جواز متعہ کا فتویٰ دیتے تھے اور فرمایا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے متعہ سے منع کیا ہے۔ میرے نزدیک علماء مفسرین کا اس آیت سے حکم جواز متعہ پر استدلال کرنا محض غلط ہے بلکہ اس آیت سے علانیہ متعہ کے امتناع کا حکم پایا جاتا ہے۔ تمام تاریخوں اور قدیم کتابوں سے پایا جاتا ہے کہ ہر ایک قوم میں قدیم زمانہ سے اس قسم کی عورتیں تھیں جو یہی پیشہ کرتی تھیں کہ لوگوں سے اجرت ٹھیرا کر ان کو اپنے ساتھ مباشرت کرنے دیتی ہیں۔ جیسے کہ اس زمانہ میں بھی ایسی عورتیں پائی جاتی ہیں۔ جن کو بلحاظ ان کے حالات کے خانگیاں اور کسبیاں کہتے ہیں۔ یہودیوں میں فارسیوں میں بلکہ تمام قوموں میں اس قسم کی عورتیں تھیں۔ عرب میں بھی قبل اسلام اور ابتدائے اسلام میں اور شاید اس کے بعد بھی ایسی عورتوں کا وجود تھا اور شاید اب بھی ہوں یا اس کی ظاہری صورت میں کچھ تبدیلی واقع ہوہی ہو۔ یہ طریقہ اور یہ فعل صرف اس وجہ سے نکلا تھا کہ مردوں کو اپنی مستی جھاڑنے کا موقع ملے۔ تزوج میں اور اس طرح پر متعہ یعنی اجرت سے کام چلانے میں فی نفسہ کوئی فرق نہ تھا۔ اس لیے کہ مہر اور اجرت حقیقتاً رکھتا ہے۔ متعہ میں معیاد کا معین ہو جانا اور تزوج میں تعین معیاد کا اختیار زوج کے ہاتھ میں رہتا، یا معیاد کا معلوم ہونا مگر اس کی تعداد کا نامعلوم ہونا کہ کب موت آئے گی حقیقت معاہدہ میں کوئی معتدبہ تبدیل نہیں کرتا۔ پس ان دونوں میں جو حقیقۃً فرق تھا وہ یہی تھا کہ تزوج سے مقصود دراصل احصان یعنی پاک دامنی اور نیکی تھی اور متعہ سے صرف مسی جھاڑنی، کیوں کہ اس سے اس کے مرتکب کو بجز سفح منی کے اور کوئی مقصود نہیں ہوتا۔ پس اسی کو خدا تعالیٰ نے منع کیا جہاں فرمایا کہ ’’ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسافحین‘‘ یعنی تم بعوض اپنے مال کے آزاد عورتوں کو نکاح کرنے کے لیے تلاش کرو اور ان سے نکاح کرنا پاک دامنی رکھنے کی غرض سے ہو نہ مستی جھاڑنے کی غرض سے۔ مطلب آیت کا صرف، محصنین، کے لفظ پر ختم ہو گیا تھا۔ غیر مسافحین کا لفظ صرف اسی طریقہ متعہ کے منع کرنے کو کہا گیا ہے جو نہایت بے حیائی اور بداخلاقی سے رائج تھا، ’’انہ کان فا حشۃ و مقتا وساء سبیلا‘‘ پس اس آیت سے متعہ کا امتناع پایا جاتا ہے۔ نہ اس کا جواز۔ جیسے کہ غلطی سے علمائے اسلام نے خیال کیا۔ باقی رہی روایتیں، روی ان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم لما قدم مکۃ فی عمرتہ تزین نساء مکۃ فشکا اصحاب الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم طول العزوبۃ فقال استمتعوا من ہذا النسائ۔ (تفسیر کبیر) جن میں سے بعض سے بجز اس کے اور کچھ نہیں پایا جاتا کہ مکہ کی عورتیں بن سنور کر بیٹھتی تھیں جیسے اب بھی اس قسم کی عورتیں میلوں اور مجمعوں میں بناو سنگھار کر کر بیٹھتی ہیں اور ان سے متعہ کرنے کی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اجازت دی تھی اور وہ سب روایتیں محض بے ہودہ و لغو ہیں۔ جس قدر حدیثیں جواز متعہ پر بیان ہوئی ہیں اور جس قدر کہ اس کی منسوخی یا بحالی کی نسبت منقول ہیں ان میں سے ایک بھی لائق التفات اور قابل تسلیم نہیں ہے۔ کیوں کہ ان مین سے کوہی بھی صحیح نہیں ہے۔ متعہ پر جو بحث شروع ہوئی ہے وہ اسی آیت کی بناء پر ہوئی ہے کہ علمائے مفسرین نے غلطی سے سمجھا کہ اس آیت سے جواز متعہ نکلتا ہے۔ پھر ایک گروہ اس کا مخالف ہوا اس نے اس کی منسوخی ثابت کرنے پر توجہ کی، اور اس کی تائید پر ناسخ حدیثیں موجود ہو گئیں اور اس کے مویدین نے اس کے جواز کی حدیثیں پکڑ بلائیں۔ شیعہ کی پشت پناہ تو جناب علی مرتضی ہیں ہی انہوں نے سچ جھوٹ جو چاہا اب المظلوم علیہما السلام پر تہمت دھر دی۔ البتہ اگر اس آیت سے حکم امتناع متعہ تسلیم کیا جاوے جو اس زمانہ میں عرب میں مروج تھا تو وہ روایتیں جن میں بلا ذکر نسخ صرف حکیم امتناع متعہ ہے بتائید اس آیت کے قابل ترجیح یا لائق اعتماد متصور ہو سکے گی اور خیال ہو سکتا ہے کہ بعد نزول اس آیت کے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے متعہ مروجہ کا امتناع کیا۔ جب کہ ہم روایات متعلق متعہ کو صحیح تسلیم نہیں کرتے تو ضرورۃً یہ لازم آتا ہے کہ ہم اس بات کو بھی متعہ ی نسبت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جواز کا حکم دیا اور ابن عباس اور عمران بن حصین نے یہ کہا اور علی مرتضیٰ نے یہ فرمایا تسلیم نہیں کرتے اور جو تفسیر اس آیت کی ہم نے بیان کی اس کی نسبت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان بزرگوں کے اقوال کے برخلاف ہے ہاں یہ ہا جا سکتا ہے کہ سوائے ہمارے تمام مفسرین و علمائے متقدمین آیت کے معنی الٹے سمجھے، مگر اس کہنے کی ہم کو کچھ پرواہ نہیں ہے۔ غرض کہ ہماری تحقیق یہ ہے کہ متعہ کا طریقہ اسلام نے پیدا نہیں کیا بلکہ وہ قدیم سے جاری تھا۔ اسلام نے اس کو منع کیا گو کہ ابتدائے زمانہ اسلام میں بھی جاری رہا ہو۔ بہت سے رواج زمانہ جاہلیت سے ایسے تھے جو زمانہ ابتدائی اسلام میں رائج تھے بعد کو ممنوع ہوئے متعہ بھی اس میں سے ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ تعددِ ازواج کا مسئلہ نکاح درحقیقت دو شخصوں میں ایک معاہدہ ہے مثل دیگر معاہدوں کے۔ مگر یہ ایک ایسا معاہدہ ہے کہ اس کے مثل کوئی دوسرا معاہدہ نہیں ہے اور ایک ایسا معاہدہ ہے جو فطرت انسانی کا مقتضی ہے اور اس سے بالتخصیص ایسے احکام بمقتضائے فطرت انسانی متعلق ہیں۔ جو دوسرے کسی معاہدہ سے متعلق نہیں ہیں اور وہ احکام ایک نوع کے مذہبی احکام ہو گئے ہیں اس لیے نکاح عام معاہدوں سے خاص ہو کر ایک مذہبی معاہدہ میں داخل ہو گیا ہے اور بلحاظ اس کی خصوصیات کے ٹھیک ٹھکی ایسا ہی ہونا لازم تھا۔ عورت بہ نسبت مرد کے اس معاہدہ کے نتائج کے لیے محل ہے اس لیے وہ مجاز نہیں ہو سکتی کہ ایک سے معاہدہ کرنے کے بعد اور اس معاہدہ کے فسخ ہونے کے قبل دوسرے سے معاہدہ کرے اسی وجہ سے اسلام نے بمقتضائے فطرت انسانی عورت کو ایک وقت میں تعداد ازواج کی اجازت نہیں دی۔ مگر مرد کی حالت اس کے برخلاف ہے اور علاوہ اس کے مرد کے ساتھ اور اقسام کے ایسے تمدنی امور متعلق ہیں جو عموماً عورت سے متعلق نہیں ہیں۔ اس لیے وہ عدم جواز مرد سے بعینہ متعلق نہیں ہو سکتا تھا۔ بس مرد کو کسی ایسی شرط کے ساتھ جو بجز خاص حالت کے اس کو بھی تعداد ازواج سے روکے مجاز رکھنا بمقتضائے فطرت نہایت مناسب تھا ان تمام دقائق کی رعایت مذہب اسلام نے اس عمدگی سے کی ہے جس سے یقین ہوتا ہے کہ بلاشبہ وہ بانئے فطرت کی طرف سے ہے۔ مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس کو نہایت بری طرح پر استعمال کیا ہے۔ فطرت اصلی جب کہ اس میں کوہی اور عوارض داخل نہ ہوں تو اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ مرد کے لیے ایک ہی عورت ہونی چاہیے۔ مگر مرد کو جسے امور تمدن سے بہ نسبت عورت کے زیادہ تر تعلق ہے ایسے امور پیش آتے ہیں جن سے بعض اوقات اس کو اس اصلی قانون سے عدول کرنا پڑتا ہے اور حقیقت میں وہ عدول نہیں ہوتا۔ بلکہ دوسرا قاعدہ قانون فطرت کا اختیار کرنا ہوتا ہے۔ اگر یہ قاعدہ قرار پاتا کہ جب تک ایک عورت سے قطع تعلق نہ ہو جائے تو دوسری عورت ممنوع رہے تو اس میں ان عورات پر اکثر حالت میں نہایت بے رحمی کا برتاؤ جائز رکھا جاتا اور اگر اس قطع تعلق کو اس کی موت پر یا کسی خاص فعل کے سرزد ہونے پر منحصر رکھا جاتا تو مرد کو بعض صورتوں میں منہیات پر رغبت دلانی ہوتی اور بعض صورتوں میں اس کی ضرورت تمدن کو روکنا ہوتا۔ پس مرد کو حالات خاص میں تعداد ازواج کا مجاز رکھنا فطرت انسانی کے مطابق عمدہ فوائد پر مبنی تھا۔ اگر ایک عورت ایسے امراض میں مبتلا ہو جاوے کہ اس کی حالت قابل رحم ہو مگر معاشرت کے قابل نہ رہے۔ کوئی عورت عقیمہ ہو جس کے سبب مرد کی خواہش اولاد پوری نہ ہو سکتی ہو (اور جو ایک ایسا امر ہے کہ انبیا بھی اس کی تمنا سے خالی نہ تھے)۔ تو کیا یہ مناسب ہو گا کہ ایک بے رحمانہ طریقہ اس سے قطع تعلق کا اختیار کئے بغیر دوسری عورت جائز نہ ہو یا اس کی موت کے انتظار میں مرد کو ان امیدوں کے حاصل کرنے میں جو بلحاظ تمدن اس کے لیے ضروری ہیں روکا جاوے۔ یہ ایسے امور ہیں کہ بقتضائے فطرت انسانی رک نہیں سکتے اور جب روکے جاتے ہیں تو اس سے زیادہ خرابیوں میں مبتلا کرتے ہیں۔ ہاں تعداد ازواج کے جائز رکھنے کے ساتھ اس بات کی روک ضرور تھی کہ سوائے حالت ضرورت کے کہ وہ بھی بمقتضائے فطرت انسانی ہو اس جواز کو خواہش نفسانی کے پورا کرنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے (جیسا کہ مسلمانوں نے بنایا ہے)۔ پس اسلام نے نہایت خوبی اور بے انتہا عمدگی سے اس روک کو قائم کیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ ’’فان خفتم الا تعدلوا فواہدۃ‘‘ یعنی اگر تم کو ڈر ہو کہ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی جورو چاہیے لفظ ’’ان خفتم‘‘ زیادہ تر غور کے لائق ہے کیوں کہ کوہی انسان ایسا نہیں ہے کہ جس کو کسی وقت اور حالت میں بھی خوف عدم عدل نہ ہو۔ پس قرآن کی رو سے تعداد ازواج کی اجازت اسی حالت مین پائی جاتی ہے جب کہ محل عدل بمقتضائے فطرت انسانی باقی نہ رہے۔ کیوں کہ صحیح طور سے اسی وقت عدم خوف عدل صادق آ سکتا ہے۔ ایسی حالت میں بھی اسلام نے تعداد ازواج کو بلکہ نفس نکاح کو بھی لازم نہیں کیا کیونکہ اس مقام پر ’’فانکوا‘‘ صیغہ امر کا (جیسا کہ اور مفسر بھی تسلیم کرتے ہیں) وجوب کے لیے نہیں ہے بلکہ جواز کے لیے ہے۔ اس آیت میں جس لفظ پر بحث ہو سکتی ہے وہ لفظ ’’عدل‘‘ ہے۔ علمائے اسلام نے عدل کو صرف اپنے میں باری باندھنے اور نان و نفقہ دینے میں مخصوص کیا ہے اور میل قلبی یعنی محبت و موانست میں اور اس امر میں جو خاص زوجیت سے متعلق ہے عدل کو متعلق نہیں کیا۔ انہوں نے ایک حدیث سے اس کا استنباط کیا ہے جس کے لفظ یہ ہیں ’’ان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کان یقسم بین نسائہ فیعدل و یقول اللھم ہذآ قسمی فیہا املک فلا تلنی فیہا تملک و لا املک‘‘ یعنی آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم باری باندھتے تھے اپنی بیویوں میں اور عدل کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے خدا یہ میری تقسیم ہے جس میں میں مالک ہوں پھر تو مجھ کو ملامت مت کر اس میں جس میں تو مالک ہے اور میں مالک نہیں ہوں۔ ترمذی نے لکھا ہے کہ بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ ان اخیر لفظوں سے محبت و مودت مراد ہے اور لمعات ہیں اس امر کو بھی جو خاص زوجیت سے متعلق ہے اسی میں داخل کیا ہے۔ مگر ہم کو اس میں کلام ہے۔ اول تو اس حدیث کی صحت قابل بحث ہے اس حدیث کے دو سلسلے ہیں ایک حماد بن سلمہ سے اور ایک حماد بن زید اور اور لوگوں سے حماد بن سلمہ نے اپنے سلسلے کو حضڑت عائشہ تک ملا دیا ہے اور حماد بن زیاد اور اور لوگوں نے صرف ابی قلابہ تک چھوڑ دیا ہے یعنی ان کی حدیث مرسل ہے۔ ترمذی نے پہلے سلسلے کو کافی اعتبار کے لاہق نہیں سمجھا اور کہا کہ دوسرا سلسلہ یعنی حماد بن زید کا زیادہ صحیح ہے مگر جب کہ وہ خود مرسل ہے تو کافی اعتبار کے لائق نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ الفاظ ’’فلا تلمنی فیہا تملک ولا املک‘‘ سے کسی امر کی طرف کنایہ ہے اس کو میل قلبی یعنی محبت و موانست پر مخصوص و متعین کر لینے اور بالتخصیص اس امر سے بھی متعلق کر دینے کی جو خاص زوجیت سے متعلق ہے کوہی وجہ نہیں ہے بلکہ انبیاء علیہم السلام کی عظمت و شان اور ان کی نیک طینت و پاکیزگئے طبیعت کے بالکل برخلاف ہے۔ کیا یہ انبیاء کی شان سے ہے جو وہ یہ کہیں کہ اے خدا جس پر میرا دل آ جاوے تو اس مین تو مجھ کو معاف کر یا جس کے ساتھ وہ امر نہ کروں جو خاص زوجیت سے متعلق ہے تو تو مجھ کو ملامت مت کر افسوس ہے کہ بعض اکابر بھی قدر و منزلت۔ نفوس قدسیہ انبیاء کو بھول جاتے ہیں اور اپنے نفوس پر قیاس کر کے وہی حنیف و نازیبا باتیں جو ان کے نفوس میں ہیں نفوس قدسیہ انبیاء کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ و شان الا انبیاء اعلی و اجل و ارفع محا یظنون۔ اگر اس حدیث کو واقعی تصور کر لیا جاوے اور اس کے الفاظ بھی وہی تسلیم کیے جاویں جو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے تھے۔ جس کا یقینا تسلیم کر لینا نہایت مشکل ہے تو ممکن ہے کہ ان الفاظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہو جو قضا و قدر الٰہی سے واقع ہوتے ہیں اور جن میں انسان کا کچھ اختیار نہیں ہے۔ مثلاً امراض میں سے کسی کو کسی مرض کا لاحق ہو جانا، یا ایک کا ذی ولد اور ایک کا لا ولد ہونا ’’و غیر ذالک‘‘ نہ ان امور کی طرف جو خواہش نفسانی سے علاقہ رکھتے ہیں کیوں کہ انبیاء کی قدر و منزلت کا ادنیٰ درجہ ان کا خواہش نفسانی کے مطیع نہ ہونے کو یقین کرنا ہے۔ تیسرے یہ کہ باری کی اور نان و نفقہ کی تقسیم میں مساوات جس کو ایک حریص علی الازواج کر سکتا ہے کوئی ایسا امر مشکل اور مبہم بالشان نہ تھا جس کی نسبت لفظ ’’فان خففتم‘‘ استمال ہوتا۔ یہ لفظ خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے کوئی ایسا امر عظیم الشان مراد ہے جس کی بجا آوری بہ جز ان نفوس قدسیہ کے جو فی الحقیت نفسانی خواہشوں کے مطیع نہیں ہیں یا اس حالت میں جب کہ بمقتضائے فطرت انسانی محل عدل باقی نہیں ہے اور کسی طرح پر نہیں ہو سکتی۔ چوتھے یہ کہ عدل کے لفظ میں میل قلبی کو داخل نہ سمجھنا ایک بڑی غلطی ہے۔ بلکہ جو تعلقات کہ باہم زن و شوہر کے ہیں ان میں میل قلبی سب سے مقدم امر ہے اور اس لیے لفظ عدل بدرجہ اولیٰ اسی امر مقدم سے متعلق ہوتا ہے اور وہ امر مقدم کسی طرح اس سے خارج نہیں رہ سکتا اور اس لیے حدیث مذکورہ بالا کے الفاظ ’’لا تلمنی فیہا تملک ولا املک‘‘ سے میل قبلی کی طرف اشارہ سمجھنا سراسر غلطی ہے۔ خود خدا تعالیٰ نے موانست و محبت کو تعلقات زن و شوہر میں امر مقدم قرار دیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ ’’و من آیالتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجاً لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ ان فی ذالک لایات لقوم یتفکرون‘‘۔ (سورۂ روم) یعنی اﷲ کی نشانیوں مین سے ہے کہ تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑا پیدا کیا تاکہ تم دلی میلان اس سے کرو ارو تم دونوں میں محبت و پیار پیدا کیا۔ پس جو امر کہ تعلقات زن و شوہر سے مخصوص ہے وہ کیوں کر عدل سے جو ایسے موقع پر بولا گیا خارج رہ سکتا ہے۔ پانچویں یہ کہ جن کے پاس پہلے سے یعنی اس کے آنے کے قبل سے متعدد جوروئیں تھیں ان کی نسبت حکم بیان کرتے وقت خود خدا نے عدل کو میل قلبی سے متعلق کیا ہے۔ جہاں فرمایا ہے کہ ’’و لن تستطیعوا ان تعدلو بین النساء ولو حرصتم فلا تمیلوا کل المیل‘‘ (سورۂ نسائ) یعنی ہر گز تم عدل نہ کر سکو گے عورتوں میں اور گو کہ تم کو حرص ہو پھر مت جھک پڑو (یعنی ایک پر) بالکل جھک پڑنا ’’اس مقام پر فرمایا ہے کہ تم عدل نہیں کر سکنے کے‘‘ اگر عدل سے صرف مساوات نان و نفقہ و باری معین کرنے سے مراد ہوتی تو یہ بات ایسی نہ تھی جس کی نسبت کہا جاتا کہ تم ہر گز نہ کر سکو گے گو کہ اس کے کرنے کی حرص بھی کرو اس کے بعد میل قلبی کا ذکر فرمایا ہے جس سے صاف پایا جاتا ہے کہ عدل میل قلبی کو شامل تھا۔ ممکن ہے کہ حدیث مذکورہ بالا اس آیت سے متعلق ہو۔ غرض کہ قرآن مجید سے جو حکم پایا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ ایک جورو ہونی چاہیے۔ تعداد ازدواج کی اجازت اسی وقت ہے کہ جب بمقتضائے فطرت انسانی و ضروریات تمدنی کے عقل و اخلاق و تمدن اس کی اجازت دے اور خوف عدم عدل باقی نہ رہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ مسئلہ طلاق اسلام کے مخالفین نے ضد سے یا کج بحثی و ناسمجھی سے جو الزام اسلام پر لگائے ہیں ان میں سے طلاق کا بھی ایک مسئلہ ہے۔ یہودی تو یہ الزام لگا نہیں سکتے کیوں کہ موسیٰ نے تو یہ حکم دیا ہے، کہ جب کوئی طلاق دینی چاہے تو طلاق نامہ لکھ دے۔ بعض بت پرست قومیں جن کے ہاں طلاق نہیں ہے اور کسی قدر عیسائی جن کے ہاں بجز زنا کے اور کسی حالت میں طلاق جائز نہیں اس مسئلہ پر الزام دے سکتے ہیں۔ الزام کی بناء یہ ہے کہ یہ مسئلہ رحم و محبت و ہمدردی کے برخلاف ہے۔ جان برٹن نے اس سے اختلاف کیا ہے اور نہایت عمدہ دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ جب شوہر و زوجہ میں ایسی ناموافقت ہو جائے جو تمدن و حسن معاشرت کے منافی ہو تو انجیل کے احکام کی رو سے طلاق ناجائز نہیں ہے۔ بہرحال اس وقت تین شریعیتیں طلاق کے معاملہ میں ہمارے سامنے موجود ہیں: اول یہویوں کی جس میں بغیر کسی سبب قوی کے مرد کو طلاق دینا جائز قرار دیا گیا ہے اور ایسا کرنے میں کوئی گناہ یا الزام مرد پر عائد نہیں کیا گیا۔ بلاشبہ یہ شریعت ایک ناپسندیدہ شریعت ہے اور رحم و محبت اور حسن معاشرت و تمدن کے برخلاف ہے۔ ایسی شریعت سے نکاح کی وقعت گھٹ جاتی ہے اور مرد کی محبت کا عورت کے ساتھ اور عورت کی وفاداری کا مرد کے ساتھ اعتبار نہیں رہتا؛ دوم بت پرستوں اور حال کے زمانہ کے عیسائیوں کی جن میں طلاق جائز نہیں یا بجز زنا کے اور کسی حالت میں جائز نہیں۔ اس شریعت میں اس مقدس رسم کا بلاشبہ نہایت ادب کیا گیا ہے مگر جس طرح کہ یہودی شریعت میں افراط تھی اس شریعت میں تفریط ہے اور دونوں فطرت انسانی کے برخلاف ہیں۔ اگر کسی سبب و حالت سے ایسی خرابیاں مرد و عورت میں پیدا ہو جاویں جو کسی طرح اصلاح کے قابل نہ ہوں تو ان کا بھی کچھ علاج ہونا چاہیے اور وہ علاج طلاق ہے۔ پس کچھ شک نہیں کہ ایسی حالت میں بھی لاق کا جائز نہ ہونا حسن معاشرت اور انسانی فطرت کے برخلاف ہے۔ تیسری شریعت محمدیہ ہے جس کا ذکر قرآن شریف کی متعدد آیتوں میں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نصیحتوں اور ہدایتوں یمں ہے اس شریعت حقہ نے اس خوبی اور اس اعتدال سے اس مسئلہ کو قرار دیا ہے جس سے زیادہ عمدہ نہیں ہو سکتا۔ اور نہ اس سے زیادہ تمدن اور حسن معاشرت کی حفاظت انسانی فطرت کے مطابق ہو سکتی ہے، شریعت محمدیہ نے طلاق کو ایسی حالت میں جائز قرار دیا ہے جب کہ زن و شوہر میں مرض نا موافقت و عدم محبت کا ایسے درجہ پر پہنچ جاوے جو علاج کے قابل نہ ہو یا یوں کہو کہ بجز طلاق کے دوسرا کوئی علاج اس کا نہ ہو مگر زں و شوہر کا معاملہ ایک ایسا نزک اور ایک عجیب قسم کے ارتباط و اختلاط کا ہے کہ اس میں جو خرابی پیدا ہو سوائے انہی دونوں کے اور کوہی تیسرا شخص اس بات کا اندازہ نہیں کر سکتا کہ آیا وہ اس حد تک پہنچ گئی ہے جس کا علاج بجز طلاق کے اور کچھ نہیں اس لیے اس شریعت حقہ کے بانی نے اس حد کی تعین انہی کی رائے اور انہی کی طبیعت پر منحصر کی ہے اور اسی کے اخلاق کو اس کا قاضی بنایا ہے جس کی تسلی و موانست کے لیے ابتدا میں عورت بطور انیس دلنواز و مونس و غمگسار کے پیدا ہوئی تھی اور اس بات کا کہ وہ علاج بے محل و بے موقع بد اخلاقی اور بد خواہش نفسانی سے نہ کیا جاوے جہاں تک کہ انسانی فطرت کے مناسب حال تھا۔ انسداد کیا ہے۔ مردوں کو فہمائش کی ہے کہ ہمیشہ عورتوں کے ساتھ محبت رکھیں اور ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں۔ ان کی سختی و بدمزاجی کو تحمل سے برداشت کریں۔ عورتوں کو فہمائش کی کہ اپنے مردوں کی تابعداری کریں۔ ان کے ساتھ محبت رکھیں، ان کی وفادار ہوں، پھر طلاق کی نسبت فرمایا کہ گو طلاق جائز کی گئی ہے مگر کوئی چیز زمین کے پردہ پر طلاق سے زیادہ خدا کو غصہ دلانے والی پیدا نہیں ہوہی۔ عورت کی نسبت فرمایا کہ جو عورت بغیر لاعلاج ضرورت کے اور بغیر سخت حالت کے اپنے شوہر سے طلاق کی خواہاں ہو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ ہمارے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم طلاق سے ایسے ناراض ہوتے تھے کہ بعض دفعہ صحابہ کو شبہ ہوا کہ طلاق دینے والے نے ایسا جرم کیا ہے کہ قتل کرنے کے قابل ہے پھر ان ہدایتوں اور تہدیدوں ہی پر طلاق کے روکنے میں بس نہیں کیا۔ بلکہ نکاح اور ملاپ کے قائم رکھنے کی اور بھی تدبیریں فرمائیں۔ یعنی پوری تفریق واقع ہونے کو تین دفعہ طلاق دینا معتبر رکھا ہے اور یہ اجازۃ دی کہ پہلی طلاق کے بعد اگر آپس میں صلح ہو جاوے اور رنجش مٹ جاوے اور دونوں کی محبت تازہ ہو جاوے تو پھر بدستور جورو خصم رہیں۔ دوسری طلاق کے بعد بھی اس طرح وہ آپس میں بدستور جورو خصم ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر پھر تیسری دفعہ طلاق دی جاوے تو ثابت ہو گیا کہ یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ پوری تفریق ہو جاوے ایسی حالت میں کہ عورت کو مرد سے کنارہ کش رہنا پڑتا ہے طلاق دینے کو منع فرمایا اس امید پر کہ شاید زمانہ مقاربت میں محبت و الفت کی ایسی تحریک ہو کہ خیال طلاق کا دل سے جاتا رہے پس یہ تمام احکام نہایت خوبی و عمدگی و اعتدال سے فطرت انسانی کے مطابق ہیں۔ خدا نے ان احکام کی نسبت فرمایا ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کی بنائی ہوئی حدیں ہیں ان کو توڑنا نہیں چاہیے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ حدیں کچھ دیواریں یا خندقیں نہیں ہیں بلکہ یہ حدیں فطرت انسانی کی حدیں ہیں جن کو توڑنا انسانیت کی حد سے خارج ہونا ہے۔ پس جو لوگ مسئلہ طلاق پر معترض ہیں جب وہ اس کو بخوبی سمجھیں گے اور فطرت انسانی پر غور کریں گے تو بالیقین جانیں گے کہ بلاشبہ یہ حکم اسی کا حکم ہے جس نے فطرت انسانی کو بنایا ہے۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حصہ اول اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید علمی و تحقیقی مضامین جلدسیز دہم حصہ دوئم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی جہاد کا قرآنی فلسفہ (و قاتلوا فی سبیل اﷲ) اس آیت میں اور جو آیتیں کہ اس کے بعد ہیں ان میں کافروں یا دشمنوں سے لڑنے کا حکم ہے۔ مگر صاف بیان کیا گیا ہے کہ جو تم سے لڑیں ان سے لڑو اور زیادتی مت کرو۔ اکثر لوگ مذہب اسلام پر طعنہ دیتے ہیں کہ اس میں تحمل اور بردباری اور عاجزی اور مذہب کے سبب سے جو تکلیفیں کافروں کی طرف سے پہنچیں ان کی صبر سے برداشت نہیں ہے اور یہ باتیں مذہب کی سچائی اور نیکی اور اخلاق اور خدا کی راہ میں تکالیف برداشت کرنے کے برخلاف ہیں۔ مگر یہ ایک بڑی غلطی اور ناسمجھی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ قرآن مجید میں جو احکام لڑائی کے نہایت نیکی اور انصاف پر مبنی تھے ان کو مسلمانوں نے جو خلیفوں یا بادشاہوں کے نام سے مشہور ہوئے، دین داری کے بہانے سے اپنی خواہش نفسانی کے پورا کرنے اور ملک گیری کے لیے نہایت بداخلاقی اور ناانصافی سے برتا اور وحشی درندوں سے بھی بدتر کام کیے اور علمائے اسلام نے ان کی تائید کے لیے ایسے مسئلے بیان کیے جو اسلام کی روحانی نیکی کے برخلاف تھے۔ مگر ان کے ایسا کرنے سے جو برائی با عیب قرار دیا جاوے وہ انہی پر محدود ہے جنہوں نے ایسا کیا، نہ اسلام پر۔ ہر ایک منصف مزاج کا اور ہر ایک معترض اور نکتہ چیں کا یہ فرض ہے کہ ان ظالموں کے کردار کو انہی پر محدود رکھے، نہ یہ کہ ان کے کردار سے مذہب اسلام پر نکتہ چینی کرے۔ مذہب اسلام میں اگرچہ جا بجا عفو و صبر و تحمل کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں اور لوگوں کو اس پر رغبت دلائی گئی ہے۔ مگر اسی کے ساتھ بدلا لینے کی بھی بغیر زیادتی کے اجازت دی ہے۔ کیا یہ قانون دنیا کے پیدا کرنے والے کے قانونِ قدرت کے مناسب نہیں ہے اور کیا اس قانون سے زیادہ عمدہ اور سچا کوئی قانون ہو سکتا ہے۔ انسان جب اخلاق کی باتوں پر گفتگو کرتا ہے تو بہت سی ایسی باتیں اور ایسے اصول بیان کرتا ہے جو کان کو اور دل کو نہایت بھلے معلوم ہوتے ہیں اور سننے و پڑھنے والے خیال کرتے ہیں کہ یہی اصول اخلاق کے اور یہی اصول اعلیٰ درجہ کی نیکی کے ہیں۔ مگر درحقیقت وہ ہوا کی آواز سے زیادہ کچھ رتبہ نہیں رکھتے اور جو کہ وہ اوصول فطرت انسانی کے بلکہ قانون قدرت کے برخلاف ہوتے ہیں کبھی ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا۔ ایسا قانون بنانے سے جس پر کبھی عملدرآمد نہ ہو سکے کوئی نتیجہ اور فائدہ مترتب نہیں ہوتا۔ بلکہ دل میں اس قانون کی حقارت بیٹھتی ہے کہ وہ قانون قدرت کے برخلاف ہے۔ کوئی کتاب دنیا میں انجیل سے زیادہ انسان کو نرم مزاج اور برد بار اور متحمل کرنے والی اور اخلاق کو ایسی چمک سے دکھلانے جس سے آنکھوں میں چکا چوند آ جاوے نہیں ہے۔ گو اس کے مقولے ایسے نہیں ہیں کہ سب سے پہلے اسی میں بیان کیے گئے ہوں۔ بلکہ بہت سے ایسے ہیں جو اس سے پہلے لوگوں نے بھی جن کے پیرو اب بت پرست اور کافر گنے جاتے ہیں بیان کیے ہیں۔ مگر ہم کو دیکھنا چاہیے کہ ان کا لوگوں میں کیا اثر ہوا تھا۔ انجیل میں لکھا ہے کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا گال بھی اس کے سامنے کر دے۔ بلاشبہ یہ مسئلہ اخلاق کے خیال سے تو بڑا عمدہ معلوم ہوتا ہے مگر کیا کسی زمانہ کے لوگوں نے اس پر عمل کیا ہے۔ اگر دنیا اس پر عمل کرے تو دنیا کا کیا حال ہو۔ اسی طرح آباد رہے اور اسی طرح لوگوں کی جان و مان امن میں رہے۔ نہایت دل چسپ جواب دیا جاتا ہے کہ جب سب ایسے ہی ہو جائیں تو دنیا سے شر اٹھ جائے۔ مگر پوچھا جاتا ہے کہ کبھی ایسا ہوا ہے یا کبھی ایسا ہو گا۔ یہ سب ناشدنی باتیں ہیں جو خیال میں شدنی قرار دے کر انسانی خیالی اور جھوٹی خوشی حاصل کرتا ہے۔ انجیل میں لکھا ہے کہ ’’تو اپنے کل کے کھانے کی فکر مت کر خدا کل کی روزی پہنچانے کی فکر کرنے والا ہے۔‘‘ دل کو یہ مقولہ نہایت ہی پیارا اور اس پیارے خدا پر اعتماد لانے والا معلوم ہوتا ہے۔ مگر کبھی کسی نے اس پر عمل کیا ہے؟ یا آئندہ کبھی اس پر عمل ہو گا اگر ہم اس تاشدنی امر کو ایک شمحہ کے لیے شدنی تصور کر کے تمام دنیا کے لوگوں کو اسی مقولہ پر عمل کرتا ہوا سمجھ لیں، تو دنیا کا کیا حال ہو گا۔ پس اس قسم کی تمام باتیں انسان کو دھوکا دینے والی ہیں اور قانون قدرت کے برخلاف ہونے سے خود اپنی سچائی کو مشتبہ کرتی ہیں۔ عیسائی مذہب جس کی جڑ ایسی نیکی اور نرمی اور اخلاق میں لگائی گئی تھی وہ پھولا پھلا اور سرسبز و شاداب ہوا۔ اس کو چھوڑ دو کہ وہ کس سبب سے بڑھا اور سرسبز ہوا۔ مگر دیکھو کہ اس نے کیا پھل پیدا کیا۔ ایک بھی نصیحت اس کی کام نہ آئی اور خود مذہب نے خون ریزی اور بے رحمی اور ناانصافی اور درندوں سے بھی زیادہ بدتر خصلت دکھلائی۔ وہ شاید دنیا میں بے مثل ہو گی اور جس نیکی میں اس کی جڑ لگائی گئی تھی اس نے کچھ پھل نہیں دیا کیوں کہ قانون قدرت کے برخلاف لگائی گئی تھی۔ جو خوبی کیا روحانی کیا اخلاقی اور کیا تمدنی اب ہم بعض عیسائی ملکوں میں دیکھتے ہیں۔ کیا یہ پھل اسی درخت کا ہے جس کی جڑ ایسی نیکی میں لگائی گئی تھی جو خلاف قانون قدرت تھی؟ حاشا و کلا۔ بلکہ یہ اس کا پھل ہے کہ اس درخت کو وہاں سے اکھاڑ کر دوسری زمین پر لگایا ہے جو قانون قدرت کی زمین ہے اور جس قدر کہ پہلی زمین کی مٹی اس کی جڑ میں لگی ہوئی ہے اسی قدر اس میں نقصان ہے۔ اس سے بھی زیادہ رحیم مذہب کا حال سنو جس نے ایک چھوٹے سے چھوٹے جانور کی جان کو بھی مارنا سخت گناہ قرار دیا ہے۔ خون کا بہانا آدمی کا ہو یا درندے یا ایک پشتہ کا۔ خدا کی صنعت کو ضائع کرنا سمجھا ہے۔ مگر تاریخ اور زمانہ موجود ہے۔ اس اصول نے جو قانون قدرت کے مخالف تھا کیا نتیجہ دیا۔ قتل و خون ریزی ویسی ہی رہی اور ویسی ہی ہے۔ جیسی قانون قدرت سے ہونی چاہیے۔ وہی جو ایک پشتہ کا مارنا گناہ عظیم سمجھتے تھے۔ ہزاروں آدمیوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کرتے تھے اور قتل کرتے ہیں۔ پس کوئی قانون گو وہ ظاہر میں کیسا ہی چمکیلا اور خوش آئندہ ہو جب کہ قانون قدرت کے برخلاف ہے محض نکما اور بے اثر ہے۔ اسلام میں جو خوبی ہے وہ یہی ہے کہ اس کے تمام قانون قانون قدرت کے مطابق اور عمل درآمد کے لائق ہیں۔ رحم کی جگہ جہاں تک کہ قانون قدرت اجازت دیتا ہے رحم ہے۔ معافی کی جگہ اسی کے اصول پر معافی ہے بدلے کی جگہ اسی کے مطابق بدلا ہے۔ لڑائی کی جگہ اسی کے اصولوں پر لڑائی ہے۔ ملاپ کی جگہ اسی کی بناء پر ملاپ ہے اور یہی بڑی دلیل اس کی سچائی کی اور قانون قدرت کے بنانے والے کی طرف سے ہونے کی ہے۔ اسلام فساد اور دغا اور غدر و بغاوت کی اجازت نہیں دیتا۔ جس نے ان کو امن دیا ہو۔ مسلمان ہو یا کافر اس کی اطاعت اور احسان مندی کی ہدایت کرتا ہے۔ کافروں کے ساتھ جو عہد و اقرار ہوئے ہوں ان کو نہایت ایمان داری سے پورا کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ خود کسی پر ملک گیری اور فتوحات حاصل کرنے کو فوج کشی اور خون ریزی کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی قوم یا ملک کو اس غرض سے کہ اس میں بالجبر اسلام پھیلایا جاوے حملہ کر کے مغلوب و مجبور کرنا پسند نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ کسی ایک شخص کو بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا نہیں چاہتا صرف دو صورتوں میں اس نے تلوار پکڑنے کی اجازت دی ہے۔ ایک اس حالت میں جب کہ کافر اسلام کی عداوت سے اور اسلام کے معدوم کرنے کی غرض سے۔ نہ کسی ملکی اغراض سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوں۔ کیوں کہ ملکی اغراض سے جو لڑائیاں واقع ہوں خواہ مسلمان مسلمانوں میں خواہ مسلمان و کافروں میں وہ دنیاوی بات ہے مذہب سے کچھ تعلق نہیں ہے دوسرے جب کہ اس ملک یا قوم میں مسلمانوں کو اس وجہ سے کہ وہ مسلمان ہیں ان کے جان و مان کو امن نہ ملے اور فرائض مذہبی کے ادا کرنے کی اجازت نہ ہو۔ مگر اس حالت میں بھی اسلام نے کیا عمدہ طریقہ ایمان داری کا بتایا ہے کہ جو لوگ اس ملک میں جہاں بطور رعیت کے رہتے ہوں۔ یا امن کا علانیہ یا ضمناً اقرار کیا ہو اور گو صرف بوجہ اسلام ان پر ظلم ہوتا ہو تو بھی ان کو تلوار پکڑنے کی اجازت نہیں دی۔ یا اس ظلم کو سہیں یا ہجرت کریں۔ یعنی اس ملک کو چھوڑ کر چلے جاویں ہاں جو لوگ خود مختار ہیں اور اس ملک میں امن لیے ہوئے یا بطور رعیت کے نہیں ہیں بلکہ دوسرے ملک کے باشندے ہیں۔ ان کو ان مظلوم مسلمانوں کے بچانے کو جن پر صرف اسلام کی وجہ سے ظلم ہوتا ہے یا ان کے لیے امن اور ان کے لیے ادائے فرض مذہبی کی آزادی حاصل کرنے کو تلوار پکڑنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن جس وقت کوئی ملکی یا دنیوی غرض اس لڑائی کا باعث ہو اس کو مذہب اسلام کی طرف نسبت کرنے کی کسی طرح اسلام اجازت نہیں دیتا۔ یہی بات ہے جس پر اسلام نے تلوار پکڑنے کی اجازت دی ہے یہی لڑائی ہے جس کے کرنے کی ترغیب دی ہے۔ یہی لڑائی ہے جس کا نام جہاد رکھا ہے۔ یہی لڑائی ہے جس کے مقتولوں کو روحانی ثواب کا وعدہ دیا ہے۔ یہی لڑائی ہے جس کے لڑنے والوں کی فضیلتیں بیان ہوئی ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس قسم کی لڑائی ناانصافی اور زیادتی ہے؟ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ لڑائی اخلاق کے برخلاف ہے، کون کہہ سکتہ ہے کہ یہ لڑائی قانون قدرت انسان کی فطرت کے مخالف ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس لڑائی کا حکم خدا کی مرضی کے برخلاف ہے کون کہہ سکتا ہے کہ اس حالت میں بھی لڑائی کا حکم نہ ہونا بلکہ دوسرا گال پھیر دینا خدا کی مرضی کے مطابق ہو گا۔ لڑائی شروع ہونے کے بعد تلوار ہر ایک کی دوست ہوتی ہے۔ اس میں بجز اس کے کہ دشمنوں کو قتل کرو، لڑائی میں بہادری کرو، دل کو مضبوط رکھو میدان میں ثابت قدم رہو۔ فتح کرو یا مارے جاؤ اور کچھ نہیں کہا جاتا یہی قرآن نے بھی کہا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کوئی شخص اس موقع اور محل کو جس کی نسبت قرآن میں لڑنے والوں کے دلوں کو مضبوط کرنے کی آیتیں نازل ہوئی ہیں چھوڑ کر ان آیتوں کو عموماً خون خواری اور خون ریزی پر منسوب کرے۔ جیسا کہ اکثر نادان عیسائیوں نے کیا ہے تو یہ خود اس کا قصور ہو گا نہ اسلام کا۔ لڑائی میں بھی جو رحم قانون قدرت کے موافق ضرور ہے اسلام نے اس میں بھی فرو گزاشت نہیں کیا عورتوں کو، بچوں کو، بوڑھوں کو جو لڑائی میں شریک نہ ہوئے ہوں ان کو قتل کرنے کی ممانعت کی۔ عین لڑائی میں اور صف جنگ میں جو مغلوب ہو جاوے اس کے قتل کی اجازت نہیں دی۔ صلح کو معاہدہ امن کو، قبول کرنے کی رغبت دلائی۔ باغ کو، کھیتوں کو جلانے کی ممانعت کی قیدیوں کو احسان رکہ کر یا فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ نہایت ظالمانہ طریقہ جو لڑائی کے قیدیوں کو عورت ہوں یا مرد غلام اور لونڈی بنا لینے کا تھا اس کو معدوم کیا۔ اس سے زیادہ لڑائی کی حالت میں انصاف اور رحیم کیا ہو سکتا ہے ہاں یہ سچ ہے کہ مسلمانوں نے اس میں سے کسی کی بھی پوری تعمیل نہیں کی۔ بلکہ برخلاف اس کے بے انتہا ظلم و ستم کیے۔ مگر جب کہ وہ اسلام کے حکم کے برخلاف تھے تو اسلام کو اس سے داغ نہیں لگ سکتا۔ وہ بھی تو مسلمانوں ہی میں سے تھے جنہوں نے عمرؓ کو، عثمانؓ کو، علیؓ کو، حسینؓ کو ذبح کر ڈالا تھا۔ کعبہ کو جلایا تھا۔ پس ان کے کردار سے اسلام کو کیا تعلق ہے۔ مشرکین مکہ نے ان لوگوں پر جو مسلمان ہو گئے تھے صرف اسلام کی عداوت سے اور خود رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم پر بہت سے ظلم کیے تھے اور تکلیفیں پہنچائی تھیں قتل کے درپے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ مسلمانوں نے حبشہ میں جا کر پناہ لی اور آخرکار آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور سب مسلمان مکہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے آئے پھر انہوں نے وہاں بھی تعاقب کرنا چاہا اور مکہ میں حج کے آنے سے روکا لڑائی پر آمادہ ہوئے۔ تب اسلام نے بھی ان سے لڑنے کا حکم دیا۔ پس جس قدر احکام قتل مشرکین کے ہیں وہ سب انہی لڑنے والوں سے متعلق ہیں وہ بھی اسی وقت تک کہ فتنہ و فساد رفع ہو جاوے جیسے خود خود خدا نے فرمایا کہ ’’و قاتلوا ہم حتی لا تکون فتنۃ و یکون الدین ﷲ‘‘ امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ مشرکین کا فتنہ یہ تھا کہ وہ مکہ میں مسلمانوں کو مارتے تھے اور ایذا دیتے تھے۔ تنگ ہو کر مسلمان حبشہ کو چلے گئے۔ پھر بھی وہ برابر ایذا اور تکلیف دیتے رہے۔ یہاں تک مسلمان مدینہ میں ہجرت کر گئے اور مشرکین کی غرض ایذاؤں اور تکلیفوں سے یہ تھی کہ مسلمان اپنا اسلام چھوڑ کر پھر کافر ہو جاویں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوہی اور اس کے معنی یہ ہیں کہ کافروں سے لڑو جب تک کہ ان پر غالب ہو جاؤ۔ تاکہ وہ تم کو تمہارے دین سے پھیرنے کے لیے ایذا نہ دے سکیں اور تم شرک میں نہ پڑو۔ ’’یکون الدین ﷲ‘‘ کا فقرہ بھی انہی آیتوں کے ساتھ ہے جو مشرکین عرب کے حملہ کے رفع کرنے کو لڑنے کی بابت نازل ہوئی ہیں۔ اس کے یہ معنی سمجھنے کہ اتنا لڑنا چاہیے کہ اسلام کے سوا کوئی دین نہ رہے یہ تو محض نادانی کی بات ہے جو سلف سے آج تک نہ کبھی ہوئی نہ ہونے کی توقع ہو سکتی ہے۔ اس کے معنی صاف صاف یہ ہیں کہ اس قدر لڑنا چاہیے کہ اﷲ کے دین کے بجا لانے میں جو کافر حرج ڈالتے ہیں وہ نہ رہے اور اﷲ کے لیے دین ہو جاوے کہ مسلمان خدا کے لیے اس کو بے ایذا کے بجا لا سکیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ نفخ صور کی حقیقت یہ مضمون قرآن مجید میں بہت جگہ بہ تبدیل الفاظ آیا ہے۔ سورہ انعام میں ہے ’’یوم بنفخ فی الصور‘‘ (۷۳) سورۂ کہف میں ہے ’’و نفخ فی الصور فجمعنا ہم جمعما‘‘ (۹۹) سورۂ طٰہٰ میں ہے ’’یوم ینفخ فی الصور و نحشر المجرمین یومئذ رزقاً‘‘ (۱۰۳) سورۂ مومنون میں ہے ’’یوم ینفخ فی الصور ففزع من فی السموات و من فی الارض‘‘ (۸۹) سورۂ یٰسن میں ہے ’’و نفخ فی الصور فاذا ہم من الاجداث الی ربھم ینسلون‘‘ (۶۸) سورۂ ق میں ہے ’’و نفخ فی الصور ذالک یوم الوعید‘‘ سورۂ الحاقہ میں ہے ’’فاذا نفخ فی الصور نفخہ واحدۃ‘‘ (۱۳) سورۂ نباء میں ہے ’’یوم ینفخ فی الصور فتاتون افواجا‘‘ (۱۸) سورۂ مدثر میں ہے ’’فاذا نقر فی الناقور فذالک یومئذ یوم عسیر‘‘ (۸)۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام آیتیں قیامت کے حال سے متعلق ہے اور ان میں اس دن کا ذکر ہے جب کہ تمام دنیا الٹ پلٹ اور درہم برہم ہو جائے گی مگر ابو عبیدہ کا قول ہے کہ صور جمع صورۃ کی ہے اور اس سے مراد مردوں میں روح پھونکنے سے ہے اگر اس رائے کو تسلیم کیا جاوے تو ان آیتوں میں سے اکثر جگہ صور کے لفظ کے متعارف معنوں کے لینے کی ضرورت باقی نہیں رہتی مگر ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان سب آیتوں میں صور کے لفظ سے وہی آلہ مراد ہے جس کو بھولپو، نرسنگھا، سنکھ، ترئی، قرنہ، ترم، بگل کہتے ہیں اور جس میں پھونکنے سے نہایت سخت و شدید آواز نکلتی ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہایت قدیم زمانہ میں یعنی حضرت موسیٰ کے وقت سے بھی پیش تر لڑائی کے لیے لوگوں کو جمع کرنے کو آگ جلانے کا رواج تھا۔ پہاڑوں پر اور اونچے مقامات پر آگ جلاتے تھے اور گویا وہ پیغام تھا کہ سب آ کر جمع ہو گویا وہ علامت حشر لشکر کی تھی اب بھی بعض بعض پہاڑی قوموں میں یہ رسم پائی جاتی ہے۔ لڑائی کے میدان میں غولوں کے کسی خاص طرف جمع ہونے یا حملہ کرنے کے لیے محشور کرنے کا حکم پہنچانے میں دقت پڑتی ہو گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ مصریوں نے اس کام کے لیے مشعلوں کا جلانا اور مشعلوں کی روشنی کے ذریعہ سے لڑائی کے میدان میں غولوں کا حکم پہنچانا ایجاد کیا۔ غالباً دن کو مشعلوں سے بخوبی کام نہ نکلتا ہو گا۔ اس لیے ایک ایسی چیز کی تلاش کی ضرورت پیش آہی جس کی بہت بڑی آواز ہو اور وہ آواز لڑائی کے میدان میں حکم بھیجنے کا ذریعہ ہو مصری ہی اس کے موجد ہوئے اور انہوں نے دریائی جانوروں کی ہڈی کے خول سے جس میں مثل گھونگے کے پیچ در پیچ ہوتے تھے اور جس میں پھونکنے سے نہایت سخت و شدید آواز نکلتی تھی۔ یہ کام لینا شروع کیا چنانچہ اب تک ہندو اسی کا استعمال کرتے ہیں جو سنکھ کے نام سے مشہور ہے۔ بنی اسرائیل جب مصر میں تھے تو انہوں نے مصریوں سے اس کو اخذ کیا تھا اور جب وہ جنگل میں آوارہ و پریشان ہوئے اور پہاڑی اور جنگلی ملک میں دریائی جانوروں کے خول میسر نہ تھے انہوں نے صحرائی جانوروں خصوصاً مینڈھے یا دنبہ یا پہاڑی بکرہ کے سینگوں سے جو ٹیڑھے اور پیچ دار ہوتے تھے اور جن میں پھونکنے سے ویسی ہی سخت شدید آواز نکلتی تھی یہ کام لینا شروع کیا ۔ صور کے معنیٰ قرن یعنی سینگ کے ہیں۔ بعد اس کے جب زمانے نے ترقی کرنا شروع کیا تو اس کو اور اشیاء مثل چاندی، پیتل اور تانبے وغیرہ سے اور نہایت عجیب و پیچدار طور سے بنانے لگے۔ توریت سفر خروج باب دھم میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ تو اپنے لیے چاندی کے دو قرنا بنا جب تو ان دونوں کو بجاوے تو تمام لوگ خیمہ کے دروازہ پر جمع ہو جایا کریں اور جب ایک کو بجاوے تو بنی اسرائیل کے سردار تیرے پاس آ جایا کریں اور جب زور سے بجائی جاوے تو جن کے خیمے جانب مشرق ہوں وہ کوچ کرنا شروع کریں اور دو دفعہ زور سے بجائی جاوے تو جن کے خیمے جنوب کی جانب ہوں وہ کوچ کرنا شروع کریں اور جب سب کو ایک جگہ ٹھہرانا مقصود ہو تو دھیمی آواز سے بجایا جاوے۔ اگر اپنے ملک میں اپنے دشمن سے جس نے تم پر زیادتی کی ہے لڑنے کو جاؤ تو قرنا کو بہت زور سے بجاؤ اور خوشی کے دنوں میں اور عیدوں کے دن اور ہر مہینے کے شروع میں قربان گاہوں میں بجایا کرو اور ہارون کی اولاد اس کو بجایا کرے۔ یرمیاہ اور عہد عتیق کی اور کتابوں سے پایا جاتا ہے کہ شہروں اور ملکوں سے لڑائی کے لیے لوگوں کو جمع کرنے کو قرنا بجائی جاتی تھی چناں چہ یرمیاہ نبی کی کتاب میں لکھا ہے کہ’’علم را در زمیں برپا دارید کرنا را در میان طوائف بنو ازید در برا برش اقوام را زبدہ نمائید و بر ضدش ممالک آرا راط و متی و اشکناز را آواز دھید و بر خلافش سرداراں را نصب نمودہ اسپ ہا را مثل ملخ بر آورید‘‘ (باب ۵۱ ورس ۲۷) اور ایک مقام میں لکھا ہے کہ ’’دریہوداہ اخبار نمودہ و در اور شیلم مسموع گردانیدہ بگوئید کہ در زمین قرنا را بنوازید بآزاز بلند ندا کردہ بگوئید کہ جمع آیند آنکہ در شہر ہائے مشید در آئیم‘‘ (باب ۴ ورس ۵) یہودیوں نے اپنے خیال میں خدا تعالیٰ کے پاس بھی فرشتوں کی فوج کا ہونا اور اس میں درجہ بدرجہ سرداروں کا ہونا تسلیم کیا تھا اور اسی خیال سے فوج میں کام لینے کو فرشتوں کے پاس بھی صور یا قرنا کا ہونا خیال کیا اور صور پھونکنے والے فرشتے قرار دیے جن میں سب کا سردار اسرافیل فرشتہ ہے۔ عیسائیوں نے بھی اس خیال میں یہودیوں کی پیروی کی یوحنا حواری اپنے مشاہدات میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے تیں فرشتوں کو ترئی پھونکنے پر متعین دیکھا۔ (باب ۸ ورس ۱۳) یہودی اور عیسائی دونوں حشر اجساد کے اور سب مردوں کے ایک جگہ جمع ہونے کے قائل تھے اس حشر اور اجتماع کے لیے اسی خیال کے مطابق جس طرح وہ لوگوں کو جمع کیا کرتے تھے انہوں نے صور کا پھونکا جانا تصور کیا اشعیدہ نبی کی کتاب سے یہ خیال کہ قیامت کے شروع میں صور پھونکی جاوے گی جا بجا پایا جاتا ہے اور سینٹ پال نے اپنے پہلے خط کے باب پندرہویں میں جو کارنتھیوں کو لکھا ہے اس خیال کو بہ خوبی ظاہر کیا ہے جہاں لکھا ہے کہ ’’ہم سب ایک دم میں ایک پل مارنے میں پچھلی ترئی پھونکنے کے وقت مبدل ہو جاویں گے کہ ترئی پھونکی جاوے گی اور مردے اٹھیں گے اور ہم مبدل ہو جاویں گے۔‘‘ ہمارے ہاں کے علماء نے حسب عادت اپنے اس امر میں یہودیوں کی پیروی کی ہے اور نفخ صور کے لغوی معنیٰ لیے ہیں اور جب انہوں نے لغوی معنیٰ لیے تو ضرور ہوا کہ صور کو بمشکل بعینہ موجود اور اس کے بجانے کے لیے فرشتے قرار دیں۔ بعض بزرگوں نے یہاں تک یہودیوں کی پیروی کی ہے کہ جس طرح توریت میں لکھا ہے کہ خدا نے موسی کو چاندی کی دو صوریں بنانے کا حکم دیا تھا انہوں نے بھی صور کو جوڑا قرار دیا ہے کہ ایک کے بجانے سے ایک طرح کی اور دونوں کو ساتھ بجانے سے دوسری طرح کی آواز نکلے گی اور اس پر حاشیہ یہ چڑھایا کہ صور میں بقدر تعداد ارواحوں کے چھید ہیں جیسے بانسری میں ہوتے ہیں اور جب مردوں کو زندہ کرنے کے لیے صور پھونکی جاوے گی تو ارواحیں صور کے چھیدوں میں سے نکل پڑیں گی (دیکھو تفسیر کبیر سورۂ مدثر آیت ۸) مگر قرآن مجید میں جس طرح تنزہ ذات باری کا اور اس کے کاموں کا بیان ہے وہ اس قسم کے خیالات سے کابۃً مانع ہے۔ نفخ صور صرف استعارہ ہے بعث و حشر کا اور تبدل حالت کا جس طرح لشکر میں صور بجنے سے سب مجتمع ہو جاتے ہیں اور لڑنے کو کھڑے ہو جاتے ہیں اور گروہ در گروہ آ موجود ہوتے ہیں اسی طرح بعث و حشر میں ارادۃ اﷲ سے جس طرح کہ اس نے قانون قدرت میں مقرر کیا ہو گا وقت موعود پر سب لوگ اٹھیں گے اور جمع ہو جاویں گے۔ اس حالت نفخ صور سے استعارہ کیا گیا ہے پس اس آیت سے یا قرآن مجیت کی اور آیتوں سے یہ بات کہ فی الواقع کوئی صور بعنی متعارف موجود ہے یا موجود ہو گی اور فی الواقع وہ مثل صور متعارفہ کے پھونکنے کے پھونکی جاوے گی اور فی الواقع اس کو فرشتے لیے ہوں گے اور وہ اس کو پھونکیں گے ثابت نہیں۔ گو کہ تمام علمائے اسلام صور کو ایک شے موجود فی الخارج اور اس کے لیے پھونکنے والے فرشتے یقین کرتے ہیں اور عموماً مسلمانوں کا اعتقاد یہی ہے مگر بعض اقوال انہی علماء کے ایسے پائے جاتے ہیں جن میں صاف بیان ہے کہ نفخ صور صرف استعارہ اور تمثیل ہے۔ تفسیر کبیر میں سورۃ طٰہٰ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ واﷲ تعالیٰ یعرف الناس من امور الآخرۃ بامثال ماشوہد فی الدنیا و من عادۃ الناس النفخ فی البوق عند الاسفار و فی العساکو (طٰہٰ) ان النفخ فی الصور استعارۃ والمراد منۃ البعث والحؤر (مومنون) یعنی اﷲ تعالیٰ لوگوں کو آخرت کی باتیں ان چیزوں کی مثالوں سے بتلاتا ہے جو دنیا میں دیکھی جاتی ہیں اور لوگوں کی عادت ہے کہ کوچ کے وقت اور لشکروں میں بھونپو یعنی بوق یعنی صور بجاتے ہیں اور سورۂ مومنون کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یجوز ان یکون تمثیلاً لدعاء الموتی فان خرو جہم من قبورہم کخروج الجیش عند سماع صوت الالۃ (نمل) یعنی نفخ فی الصور استعارہ ہے اور اس سے مراد بعث و حشر ہے۔ سورۂ نمل کی تفسیر میں لکھا ہے کہ جائز ہے کہ یہ تمثیل ہو مردوں کو بلانے کی۔ بے شک ان کا اپنی قبروں میں سے نکلنا لشکر کے نکلنے کی مانند ہے جب کہ وہ صور کی آواز سنتے ہی نکل کھڑا ہوتا ہے۔ پس جن عالموں کی یہ رائے ہے وہ بھی مثل ہمارے نہ صور کے لغوی معنی لیتے ہیں اور نہ صور کے وجود فی الخارج کو مانتے ہیں اور نہ اس کے وجود کی اور نہ اس کے پھوکنے والوں کی ضرورت جانتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ معاد کے حالات حقیقت کی روشنی میں معاد کا ذکر قرآن مجید میں جا بجا آتا ہے مگر یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جب تک پورا سلسلہ اس کا بیان نہ ہو خیال میں نہیں آتا اور نہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں جو کچھ اس کی نسبت بیان ہوا ہے اس کا کیا منشاء ہے۔ پس مناسب ہے کہ ہم اس مقام میں اس پر بقدر امکان بحث کریں مگر ان مطالب پر بحث کرنے سے پہلے اس بات کا بیان کرنا ضرور ہے کہ ان مسائل پر بحث کرنے کی نسبت اگلے عالموں نے کیا کہا ہے قاضی ابو الولید ابن رشد نے اپنے رسائل میں لکھا ہے کہ ’’شرع کا مقصود علم حق اور علم حق کی تعلیم ہے اور تعلیم کی دو قسمیں ہیں‘‘ (۱) ایک کسی شے کا خیال کرنا (۲) دوسرے اس پر یقین کرنا جس کو اہل علم تصور اور تصدیق سے تعبیر کرتے ہیں۔ تصور کے دو طریق ہیں: (۱) یا تو خود اسی شے کو تصور کرنا ہے (۲) یا اس کی مثال کو تصور کرنا ہے اور تصدیق کے طریق جو انسانوں میں ہیں وہ تین ہیں (۱) برہانی معنی دلائل قطعی کے سبب سے یقین کرنا (۲) جدلی یعنی مخالفانہ اور مخاصمانہ دلیلوں کے ٹوٹ جانے کے بعد یقین لانا۔ (۳) خطبی یعنی ایسی باتوں سے جن سے انسان کے دل اور وجدان قلبی کو تسکین ہو جاوے اس پر یقین لانا۔ اکثر آدمی ایسے ہیں جن کو دلائل خطبیہ یا جدلیہ سے تصدیق حاصل ہوتی ہے اور دلائل برہانیہ خاص چند آدمیوں کے سمجھنے کے لائق ہوتی ہیں۔ شرع کا مقصود سب سے اول عام لوگوں کو سمجھانا ہے اور خواص سے بھی غافل نہ ہوتا۔ پس شرع نے تعلیم کے لیے مشترک طریقہ اختیار کیا ہے اور اس کے اقوال چار طرح پر ہیں۔ اول یہ کہ جن امور کی نسبت وہ کہے گئے ہیں ان کے تصور اور تصدیق دونوں پر یقین کرنا ضرور ہے گو کہ ان کی دلیلیں خطبیہ ہوں یا جدلیہ اور جو نتیجے ان سے نکالے ہیں وہی نتیجے بعینہا مقصود ہیں بطور تمثیل کے نہیں کہے گئے ہین۔ ابن رشد فرماتے ہیں کہ ایسے اقوال کی تاویل کرنی نہیں چاہیے اور جو شخص ان سے انکار کرے یا ان کی تاویل کرے وہ کافر ہے۔ دو یہ کہ جو اقوال بطور مقدمات کے کہے گئے ہیں گو کہ ان کی صرف شہرت ہی ہو اور گو کہ وہ مظنون ہی ہوں مگر ان پر یقین کرنا لازمی ٹھہرا ہو اور نتیجے جو ان سے نکالے ہوں وہ بطور مثال ان نتیجوں کے ہوں جو مقصود ہیں۔ ابن رشد فرماتے ہیں کہ صرف ان مثالی نتیجوں کی نسبت البتہ تاویل ہو سکتی ہے۔ سوم یہ کہ جو نتیجے ان اقوال سے نکالے گئے ہیں وہی بعینہا مقصود ہیں اور جو ان کے مقدمات بیان ہوئے ہیں وہ مشہور ہوں یا مظنون مگر ان پر یقین کرنا لازمی نہ ٹھہرا ہو تو ان نتائج میں بھی تاویل نہیں ہو سکتی البتہ صرف ان مقدمات میں تاویل ہو سکتی ہے۔ چہارم یہ کہ جو مقدمات اس میں بیان ہوئے ہیں وہ صرف مشہور ہوں یا مظنون اور ان پر یقین کرنا بھی لازمی نہ ٹھہرا ہو اور جو نتیجے ان سے نکالے گئے ہیں وہ بطور مثال ان نتیجوں کے ہوں جو مقصود ہوں ان میں تاویل کرنا خاص لوگوں کا کام ہے اور عام لوگوں کا فرض ہے کہ وہ بلا تاویل کے ان کو ویسا ہی مانتے رہیں۔ (انتہیٰ ملخصاً) ہم کو افسوس ہے کہ اس عالم مصنف نے ان چاروں قسموں میں سے کسی قسم کی مثال نہیں دی جس سے شبہ ہوتا ہے کہ یہ صرف فرضی اور عقلی تقسیم ہے اور کوئی مثال شرع میں اس کے مناسب موجود نہیں ہے۔ علاوہ اس کے نہایت خامی اس بیان میں یہ ہے کہ قول شارع میں خواہ وہ آیت قرآن مجید کی ہو یا کوئی حدیث رسول کی اس میں اس بات کا قرار دینے والا کون ہے کہ اس کے مقدمات ایسے ہیں جن پر یقین کرنا ضروری ہے یا اس کے برخلاف ہیں یا اس کے نتیجے وہی بعینہا مقصود بالذات ہیں یا وہ تمثیل ہیں نتائج مقصود بالذات کی اگر اس کے قرار دینے والے یہی ہماں شماں ہوں تو یہ تمام تقریر اور تقسیم فضول ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ مثلاً زید نے شارع کے ایک قول کو جس قسم کا ٹھہرایا ہے لازم نہیں ہے کہ عمرو بھی اس کو اسی قسم کا ٹھہراوے۔ اس کے بعد ابن رشد فرماتے ہیں کہ آدمی تین قسم کے ہیں (۱) ایک وہ جو مطلقاً تاویل کرنے کی لیاقت نہیں رکھتے وہ تو خطبیون ہیں یعنی دل کو تسلی دینے والی باتوں پر یقین لانے والے اور اسی قسم کے لوگ بہت کثرت سے ہیں۔ (۲) دوسرے جدلی ہیں جو بالطبع یا بطریق عادت مخالفانہ اور مخاصحانہ دلیلوں کے ٹوٹ جانے کے بعد یقین لاتے ہیں۔ (۳) تیسرے اہل تاویل حقہ یقینہ ہیں اور وہ برہانیون صاحب علم و حکمت ہیں مگر برہانیوں جو تاویل کریں اس کو ان پہلی دو قسموں کے سامنے بیان کرنا نہیں چاہیے اور اگر یہ تاویلیں ان لوگوں کے سامنے بیان کی جاویں جو اس کے اہل نہیں ہیں تو بیان کرنے والے اور سننے والے دونوں کو کفر تک پہنچا دیتی ہیں۔ کیوں کہ تاویل کرنے والے کا مقصود ظاہری معنوں کو باطل کرنے اور تاویلی معنوں کے ثابت کرنے کا ہوتا ہے پس جب عام آدمیوں کے نزدیک جو صرف ظاہری بات کو سمجھ سکتے ہیں ظاہری معنی باطل ہو گئے اور تاویلی معنی اس کے نزدیک ثابت نہ ہوئے کیوں کہ ان کے سمجھنے کی اس کو عقل نہ تھی پس اگر یہ بات ایسے اقوال کی نسبت تھی جو اصول شرع میں داخل ہیں تو کفر تک نوبت پہنچ گئی۔ پس ابن رشد فرماتے ہیں کہ تاویلات کا عام لوگوں میں ظاہر کرنا یا عام لوگوں کی تعلیم کے لیے جو کتابیں ہیں ان میں لکھنا نہیں چاہیے اور ان کو سمجھا دینا چاہیے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں خدا ہی ان باتوں کی حقیقت خوب جانتا ہے۔ لا یعلم تاویلہ الا اﷲ (انتہیٰ ملخصاً) اس کے بعد ابن رشد اسی قسم کی تاویلوں ہی کو عام لوگوں پر ظاہر کرنے کو منع نہیں فرماتے بلکہ ہر چیز کی حقیقت کو جو عام لوگوں کے سوائے راسخین فی العلم کی سمجھ سے باہر ہے ظاہر کرنے کو منع کرتے ہیں چناں چہ وہ لکھتے ہیں کہ اسی کی مانند جواب سوالات امور غامضہ کے ہیں جو جمہور کے سمجھنے کے لائق نہیں ہیں جیسے کہ خدا نے فرمایا ہے ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا ان باتوں کو بھی غیر اہل پر بیان کرنے والا افر ہے۔ کیوں کہ وہ لوگوں کو کفر کی طلب بلاتا ہے خصوصاً جب کہ تاویلات فاسدہ اصول شریعت میں ہونے لگیں جیسے کہ ہمارے یعنی ابن رشد کے زمانہ میں لوگوں کو یہ بیماری لگ گئی ہے۔ (انتہیٰ ملخصاً) نتیجہ اس تقریر کا یہ ہے کہ کوئی بات بھی شریعت کی جو بیان حقیقت یا تاویلات کی قسم سے ہو سوائے راسخین فی العلم کے کسی کے سامنے بیان نہ کی جاوے جس قسم کے لوگوں کو ابن رشد نے راسخین فی العلم میں قرار دیا ہے اس زمانہ میں تو ویسا شخص کوئی نہیں ہے بلکہ اگلے زمانہ میں بھی دو ایک کے سوا کوہی نہ تھا پس ضرورۃً لازم آتا ہے کہ تمام مقدم باتیں شریعت کی بطور ایک معما و چیستاں یا مثل راز فریمشن کے غیر معلوم رہنی چاہئیں۔ اگر ہمارا مذہب اسلام ایسا ہو کہ اس کے اصول لوگوں کو نہ سمجھا سکیں جو ان کو سمجھنا چاہتے ہیں یا ان لوگوں کی تشفی نہ کر سکیں جن کے دل میں شبہات پیدا ہوئے ہیں بلکہ ان سب کو اس پر مجبور کریں کہ ان باتوں کو اسی طرح مان لو تو ہم اپنے مذہب کی صداقت فی نفسم اور بمقابلہ دیگر مذاہب غیر حق کے کیوں کر ثابت کر سکتے ہیں۔ ایک عیسائی کہتا ہے کہ تثلیث کا مسئلہ کہ تین تین بھی ہیں اور ایک بھی ہیں ایک الٰہی مسئلہ ہے۔ اس پر بے سمجھے یقین کرنا چاہیے پس اگر ہم مذہب اسلام کے بہت سے مسئلوں کی نسبت ایسا ہی کہنا قرار دیں تو کیا وجہ ہے کہ اس کی تکذیب اور اس کی تصدیم کریں۔ ایک اور بات غور کے لائق ہے کہ جب کسی کے دل میں مذہب اسلام کے کسی مسئلہ کی نسبت شک پیدا ہوا خواہ وہ عالم ہو یا جاہل اور ہم اس کی حقیقت یا تصریح یا تاویل بیان کر کے اس کے دل کے شبہ کو تو رفع نہ کریں اور بعوض اس کے ہیں کہ تم راسخین فی العلم میں نہیں ہو بلا تفتیش اس کو تسلیم کرو اور اسی پر یقین رکھو تو اس کا ایمان ایسا رہے گا جس کا اثر حلق سے نیچے نہ اترے گا اس کی زبان کہے گی ہاں اور دل کہے گا ناہ علاوہ اس کے یقین ایسی چیز نہیں کہ کسی کے کہہ دینے سے آ جاوے بلکہ یقین ایک امر اضطراری ہے کہ جب تک وہ شبہ جس نے یقین میں خلل ڈالا ہے نہ مٹ جاوے یقین آ ہی نہیں سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں عالم ہوں یا جاہل دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو دل سے تمام باتوں پر جو اسلام میں ہیں اور گو وہ کیسی ہی خلاف عقل اور خلاف سمجھ اور محال و ناممکن ہوں بلکہ خلاف واقع سب پر یقین رکھتے ہیں اور اس قسم کے لوگوں کے لیے کسی قسم کی دلیل کی ضرورت نہیں دوسرے وہ جن کو ان باتوں پر شبہ ہے یا ان کا وقوع غیر ممکن سمجھتے ہیں یا ان کے غلط ہونے پر صحیح یا غلط دلیلیں رکھتے ہیں بلا لحاظ اس بات کے کہ وہ منجملہ راسخین فی العم ہیں یا نہیں اور عالم ہیں یا جاہل ان کے سلامنے ہر ایک چیز کی جو اسلام میں ہے اس کی حقیقت اور ہر ایک امر قابل تاویل کی تاویل بیان کرنی فرض ہے اور جو اس کے بیان کی قدرت رکھتا ہے اور بیان نہیں کرتا وہ کافر ہے۔ اسی دلیل سے جس دلیل سے کہ ابن رشد نے حقیقت بیان کرنے والوں اور تاویل کی تصریح کرنے والوں کو کافر بتایا ہے۔ ہم فرض کر لیں کہ ان مشککین کو اس قدر لیاقت نہیں ہے کہ وہ ان حقیقتوں اور تاویلوں کو سمجھیں مگر اتنی بات تو ان پر ثابت ہو گی کہ اس کے لیے بیانات ہیں مگر ہم ان کو سمجھ نہیں سکتے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ان کے سمجھانے کا جو فرض ہم پر تھا اس کو بلاشبہ ہم ادا کریں گے۔ بہت لوگوں نے پیغمبروں کی نصیحتوں کو نہیں سمجھا مگر پیغمبر اس خیال سے کہ وہ ان کے سمجھنے کے لائق نہیں ہیں نصیحتوں کے سمجھانے سے باز نہیں رہے بلکہ طرح طرح سے سمجھایا اور کوشش کی کہ ان کو ان کے سمجھنے کے لائق کریں۔ اس خوف سے کہ ان لوگوں کے نزدیک جب ظاہری معنیٰ باطل ہو جاویں گے اور اصل حقیقت یا تاویل کے سمجھنے کے لائق نہ ہونے کے سبب وہ اس کو نہ سمجھیں گے تو اصول شرع سے منکر ہو جاویں گے اور کفر تک نوبت پہنچا دیں گے۔ ہم کو حقیقت اور صداقت کے بیان سے باز نہیں رہنا چاہیے اگر یہ الزام صحیح ہو (کما نسب بعض اخلائی الی) تو قرآن مجید بھی بایں ہمہ خوبی اس الزام سے بری نہیں رہ سکتا۔ خود حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہدی بہ کثیراً و یضل بہ کثیرا۔ تاویلات فاسدہ بھی اگر ہوں تو کچھ نقصان نہیں پہونچا سکتیں اس لیے کہ جو چیز غلط ہے اس کی غلطی بہت دیر پا نہیں ہو سکتی دوسروں کو اس کی غلطی بیان کرنے کا اور غلط کو صحیح کرنے کا موقع ملتا ہے اور اگر وہ بیان ہی نہ کی جاویں تو سچ بات کے ظاہر ہونے کا موقع ہی نہیں ہوتا۔ ہاں یہ بات سچ ہے کہ بہت سے حقائق ایسے ہیں جن پر انسان کو یقین کرنے کے لیے دلیل ہے مگر ان کی حقیقت جاننا انسان کی فطرت سے خارج ہے مگر اس قسم کے حقائق ہمارے استدلال میں کچھ نقص ڈالنے والے نہیں ہیں کیوں کہ دلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا جاننا یا سمجھنا انسان کی فطرت سے خارج ہے۔ اور یہی عدم علم ان کی معرفت کے لیے کمال معرفت ہے۔ اصل یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں جب کہ علماء نے اس قسم کی رائیں لکھیں علم ایک نہایت محدود فرقہ میں تھا جس کو وہ بجز اپنے خاص لوگوں کے اوروں میں شائع کرنا ہی پسند نہیں کرتے تھے اور تمام لوگ اعلیٰ و ادنیٰ علوم کے ادنیٰ ادنیٰ مسائل سے بھی بے بہرہ تھے اور ان کے دل شبہات و تشکیکات سے پاک تھے اور یہی باعث ہوا کہ ان علماء نے ایسی رائے قائم کی تھی مگر وہ زمانہ گیا علوم و حکمت اب اس قدر عام ہو گئی کہ ایک بہت بڑا حصہ دنیا کا اس سے واقف ہو گیا طفل دبستاں بھی اپنے مکتب میں ارسطو اور افلاطون کی غلطیوں کا جہاں جہاں انہوں نے کی ہیں ذکر کرتا ہے ہزاروں آدمی ہر شہر و قصبہ میں ایسے موجود ہیں جو خود کچھ نہیں جانتے مگر بہت سے مسائل علوم و حکمت کے سن سن کر ان کے کان آشنا ہو گئے ہیں اور اکثر الناس وہ ہیں جن کے دل شبہات و تشکیکات سے مملو ہیں اس زمانہ میں جو ذی علم ہیں ان کا ایمان بھی حلق کے نیچے تک نہیں ہے منہ سے کہتے ہیں کہ جو کچھ قرآن و حدیث میں آیا ہے اس پر یقین کرنا چاہیے مگر دل میں شبہات بھر پڑے ہیں اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یقین کرنے سے نہیں ہوتا بلکہ ہونے سے ہوتا ہے پس اب یہ زمانہ ہے کہ جو کوہی بقدر اپنی طاقت کے ان تمام حقائق اور تاویلات کو نہ کھولے اور لوۃ لایم سے نڈر ہو کر اگلے علماء کی ان غلطیوں کو جو بمقتضائے اس زمانہ کے نامکمل علوم اور نامکمل تحقیقات کے حقائق کی بیان حقیقت اور قرآن مجید کی تفسیر میں راہ پا گئی ہیں عام طور سے سب کے سامنے بیان نہ کرے وہ اپنے فرض سے ادا کرنے سے قاصر ہے و من یفعل فہو یودی حق اﷲ و حق دینہ و حق اہل دینہ و قومہ و اﷲ المستعان۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ السائۃ الاولیٰ ما الروح ہو جواہر عرض اس امر کی تنقیح کو کہ روح کا وجود ہے یا نہیں ہم کو اولا اجسام موجود فی العلم پر نظر کرنی چاہیے پس جب ہم ان پر کرتے ہیں تو ابتدائے نظڑ میں ان کو دو قسم کے پاتے ہیں۔ ایک بطور تھوے کے کہ وہ جہاں ہیں وہیں ہیں اپنی جگہ سے حرکت نہیں کر سکتے ممکن ہے کہ وہ بے انتہا بڑے ہو جاویں اگر کوہی ایسا سبب جو ان کے بڑے ہونے کو روکنے والا نہ ہو اس قسم کے اجسام صرف نہایت چھوٹے چھوٹے مشابہ اجزاء سے بنے ہوئے ہیں اور اس کے ہر ایک جزو میں وہی اوصاف ہیں جو اس کے کل میں ہیں جیسے پتھر اور لوہا۔ اگر ان میں سے کوئی ٹکڑا توڑ لیں تو اس میں بھی وہی اوصاف ہوں گے جو اس کل میں ہیں اور جب کہ وہ بالکل خالص بغیر کسی ملاوٹ کے ہو تو اس میں ایک سی طرح کے پرت ہوں گے۔ دوسری قسم کے اجسام ایسے ہیں کہ ان کا جسم باختلاف ان کی انواع کے اکی معین حد تک بڑا ہوتا ہے اور اس کے اجزا غیر متشابہ اور مختلف الالوان ہوتے ہیں اور ان میں باریک باریک رگیں اندر سے خالی مثل نلی کے ہوتی ہیں جن میں بہنے والا مادہ پھرتا رہتا ہے اور اسی طرح الگ الگ پردے بھی ہوتے ہیں جن کے بیچ میں خالی جگہ ہوتی ہے اور پھر کہیں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اس نسا جال کو اس جسم کے اعضا کہتے ہیں اس لیے پہلی قسم کے اجسام کو اجسام غیر عضویہ اور دوسری قسم کے اجسام کو عضویہ کہتے ہیں۔ اجسام عضوی میں پرت نہیں ہوتے اور اس کا نمو اسی قسم کی دوسری چیزوں سے ہوتا ہے اور جب وہ جوان ہو جاتا ہے تو اس میں مختلف طرح کا بیج پیدا ہوتا ہے۔ غیر عضوی جسم دفعۃ پیدا ہو جاتا ہے جس وقت اس کا مادہ جمع ہو جاوے اور عضوی جسم رفتہ رفتہ نمو پاتا ہے اور جب اس کے بیح کو بوؤ تو وہی جسم اس سے پیدا ہوتا ہے جس کا بیح ہے اور بونے والا جب زمین میں ڈالتا ہے تو جانتا ہے کہ وہ کب پھوٹے گا اور کب اس میں مادہ چوسنے کی طاقت آوے گی اور اس کے پتے اور ٹہنیاں ہوا میں سے غذا بھی لیتی رہتی ہیں جس کے سبب ان کا قد بڑھتا ہے اور رنگ بدلتا جاتا ہے۔ اور ایک فرق ان دونوں جسموں میں یہ ہے کہ جسم عضویہ میں غذا ان کے اعضاء کے اندر جاتی ہے اور اندرونی غذا سے بیرونی جسم بڑھتا ہے اور جب تک یہ قوت رہتی ہے نمو ہتا رہتا ہے اور ایک زمانہ کے بعد اس میں ضعف آ جاتا ہے اور غذا کم ہو جاتی ہے اور نمو نہیں ہوتا اور آخرکار مر جاتا ہے۔ عضوی جسم کی حالتیں علانیہ بدلتی رہتی ہیں۔ وہ پیدا ہوتا ہے پھر بڑھتا ہے پھر اس کا بڑھنا موقوف ہو جاتا ہے پھر بڑھاپے کے سبب گھٹنے لگتا ہے پھر مر جاتا ہے۔ جسم غیر عضوی پیدا ہوتا ہے اجتماع مادہ سے اور اس طرح بڑھتا ہے کہ اسی قسم کے اور اجزاء مادی اس کے اوپر کی سطح پر آ کر جڑتے جاتے ہیں اور اجسام عضویہ کا نمو اندر سے ہوتا ہے اور جسم غیر عضوی کا حجم بے انتہا بڑھ سکتا ہے اگر کوئی امر مانع نہ ہو اور جسم عضوی کا حجم ایک مقداد معین سے زیادہ نہیں بڑھ سکتا۔ جسم عضوی اور غیر عضوی میں یہ فرق بھی ہے کہ پہلے جسم یمں مختلف قسم کا مادہ ہوتا ہے اور دوسری قسم میں صرف ایک قسم کا۔ اگرچہ اس کے سوا اور بھی اختلافات ہیں مگر مختصر طور پر مقدم اختلافات کو ذیل میں لکھتے ہیں۔ ۱۔ اجسام عضوی کا وجود تناسل سے ہوتا ہے اور غیر عضوی کا جذب و اتحاد سے۔ ۲۔ بقا اجسام عضوی کا محدود ہے اور غیر عضوی کا محدود نہیں۔ ۳۔ اجسام عضوی کے اجزا کروی شکل پر ہوتے ہیں اور غیر عضوی کے زاویہ کے طور پر۔ ۴۔ نمو اجسام عضوی کا منحصر ہے غذا کے اندر جانے پر اور وہ نمو اندر سے باہر کو ہوتا ہے اور غیر عضوی کا اس کے برخلاف ہے ان کا حجم باہر سے اجزا مل جانے سے بڑا ہو جاتا ہے۔ ۵۔ بناوٹ جسم عضوی کی مختلف اجزا سے ہوتی ہے اور جسم غیر عضوی کی ترکیب اجزا متضاعقۃ متحرکہ سے ہوتی ہے اور غیر عضوی کی بسیط۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اجسام غیر عضوی میں تمام معدنیات مثل نمک اور پتھر وغیرہ کے اور مٹی کے داخل میں اور اجسام عضویہ میں نباتات اور حیوانات۔ مگر نباتات و حیوانات میں جو فرق ہے وہ بہت ظاہر ہے۔ حیوانات کی بناوٹ میں نباتات کی بناوٹ سے تضاعفات بہت زیادہ ہیں اور حیوان متحرک ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتا ہے اور وہ مدرک ہے اور ذی اختیار ہے کہ جس کام کو چاہے کرے اور جس کو چاہے نہ کرے اور اس میں جو اس مخصوصہ ہیں کہ ان کے سبب آواز کو بوؤں کے مزے کو چھونے کو جانتا ہے اور غذا اس کے پیٹ میں جاتی ہے اور بالتخیص اس کے پیٹ میں ایک ایسی ہنڈیا ہے جو غذا کو اس طرح پکا دیتی ہے کہ اعضاء کے تغذیہ اور نمو کے لائق ہو جاتی ہے۔ مگر نباتات و حیوانات میں جو فرق ہے وہ بہت ظاہر ہے۔ حیوانات کی بناوٹ میں نباتات کی بناوٹ سے تضاعفات بہت زیادہ ہیں اور حیوان متحرک ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتا ہے اور وہ مدرک ہے اور ذی اختیار ہے کہ جس کام کو چاہے کرے اور جس کو چاہے نہ کرے اور اس میں حواس مخصوصہ ہیں کہ ان کے سبب آواز کو بوؤں کے مزے کو چھونے کو جانتا ہے اور غذا اس کے پیٹ میں جاتی ہے اور بالتخیص اس کے پیٹ میں ایک ایسی ہنڈیا ہے جو غذا کو اس طرح پکا دیتی ہے کہ اعضاء کے تغذیہ اور نمو کے لائق ہو جاتی ہے۔ نباتات اس کے برخلاف ہیں وہ جہاں بویا ہے وہاں سے دوسری جگہ نہیں چل سکتا اس میں حرکت کرنے کی قوت نہیں ہے اور نہ اس میں اختیار ہے وہ اپنی جڑوں کے ذریعہ سے جو زمین میں ہیں اور ٹہنیوں اور پتوں کے ذریعہ سے جو ہوا میں ہیں غذا کو جذب کر لیتا ہے اس میں کوئی ہنڈیا غذآ پکانے کی نہیں ہے بلکہ جو غذا اس میں جاتی ہے اسی وقت غذا کے قابل ہوتی ہے۔ نباتات و حیوانات میں بہت بڑا اختلاف یہ ہے کہ حیوان میں پٹھوں کا بھی ایک سلسلہ ہے اور نباتات میں نہیں ہے اور یہی اعصاب جب کہ حیوانات میں ایک مرکز سے تعلق رکھتے ہیں اس سبب سے حیوان میں قابلیت احساس ہوتی ہے اور یہ بات نباتات میں نہیں پائی جاتی۔ علاوہ اس کے حیوانات میں اور بھی جھلیاں اور پردے اور پے اور عضلے اس قسم کے ہوتے ہیں جو نباتات میں نہیں ہوتے۔ ایک عمدہ فرق دونوں میں یہ ہے کہ حیوانات کی غذا اجسام عضوی سے ہوتی ہے اور نباتات کی غذا اجسام غیر عضوی سے جیسے پانی اور ہوائیں اور نمک۔ نباتات کے بننے کا مادہ دراصل ایک کسیلا مادہ ہوتا ہے اور تحلیل کیمیاوی سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مرکب ہے کاربن اور ہائیڈروجن اور آکسیجن سے یہ تینوں ایک ہوائی سیال عنصر ہیں اور نباتات میں نوٹریجن نہیں ہے جس کو اروٹ بھی کہتے ہیں مگر حیوانات میں ہے اور یہ بھی ایک ہوائی سیال جسم ہے مگر اس کی یہ خاصیت ہے کہ اگر کسی جگہ صرف نائٹروجن بھری ہو اور وہاں آدمی جاوے تو فی الفور مر جاتا ہے جیسا کہ غلہ کی کھیتی میں یا کسی پرانے اندھے کنوئیں میں دفعۃً اترنے سے آدمی مر جاتے ہیں۔ یہ تمام امور جو ہم نے بیان کیے ہیں امور مققہ میں سے ہیں جو علم زوالوجی یعنی علم الحیوانات اور علم کمسٹری یعنی کیمیا میں بخوبی ثابت ہیں مگر جو فرق کہ جسم نباتی اور جسم حیوانی میں اوپر بیان ہوا ہے اس پر ہم زیادہ غور کرنی چاہتے ہیں۔ ہم کو بالتخصیص اس بات پر غور کرنی ہے کہ حیوانات میں جو حرکت اور ارادہ اور اختیار اور ادراک اور خیال اور ایک قوت نتیجہ نکالنے کی ہے اس کا کیا سبب ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نباتات کے جسم کے مادہ میں تین عنصر ہیں۔ کاربن، آکسیجن، ہائیدروجن اور حیوانات کے جسم کے مادہ میں ایک چوتھا عنصر نوٹریجن بھی ہے مگر یہ تمام عنصر ان کے جسم کی بناوٹ کا مادہ ہیں اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ان افعال کے بھی باعث ہیں جو حیوانات سے بالتخصیص علاقہ رکھتے ہیں اور جن پر ہم غور کرنی چاہتے ہیں کمسٹری سے ثابت ہوا ہے کہ نائٹروجن میں کچھ کیمیاوی قوت نہیں ہے اور نہ وہ معاون زندگی ہے صرف اتنی بات ہے کہ جانوروں کے گوشت کے ریشوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ حیوانات کے اعضاء میں ایک ایسا عضو ہے جو غذا کو اس طرح پکا دیتا ہے کہ اعضاء کے تغذیہ اور نمو کے لائق ہو جاوے نباتات اپنی جڑ کے ریشوں سے اور اس کے پتے اور ٹہنیاں ہوا سے وہی مادہ جذب کرتے ہیں جو غذا و نمو کے لائق ہے اور اس لیے ان میں کسی ایسے عضو کے ہونے کی ضرورت نہیں۔ برخلاف حیوانات کے کہ وہ ایسی غذا کھاتے ہیں جن میں علاوہ مادہ تغذی و نمو کے اور فضول مادہ بھی شامل ہوتا ہے اور اس لیے ایک ایسا عضو بنایا گیا ہے جو مادہ تغذی و نمو کو فضول مادہ سے جدا کر دے مگر اس کے جدا ہو جانے کے بعد حیوان کی وہی حالت ہوتی ہے جو نباتات کی شروع تغذیہ میں تھی اور اس لیے یہ تصور نہیں ہو سکتا کہ حیوان میں اس عضو کا ہونا ان افعال کا باعث ہے جو بالتخصیص حیوانات سے علاقہ رکھتے ہیں۔ حیوانات کے جسم کی بناوٹ میں ایک بہت بڑا نسا جال اعصاب کا ہے جس کا مربع ایک مرکز عام یعنی دماغ کی طرف ہے اور وہ تمام افغال حیوانات کے جن پر ہم غور کرنا چاہتے ہیں اسی کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں لیکن یہ افعال ان سے صرف بحثیت ان کے اعضاء ہونے کے تو منسوب نہیں ہو سکتے اور نہ صرف بحیثیت ان کے مادہ کے کیوں کہ تمام جسم حیوانات میں وہی عناصر موجود ہیں مگر مختلف ترکیب پانے سے مختلف مادہ اور مختلف صورت پیدا ہوئی ہے پس صرف بحیثیت مادہ جو اختلاط عناصر سے پیدا ہوتا ہے وہ افعال منسوب نہیں ہو سکتے۔ اب ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ عناصر یعنی کاربن آکسیجن، ہائیڈروجن، نائیڈروجن کی ترکیب سے کیا حالت پیدا ہو سکتی ہے۔ عناصر آپس میں مل کر ایک دوسری صورت کا جسم پیدا کر لیتے ہیں مثلاً جب آکسیجن اور ہائیڈروجن مقدار معینہ سے باہم مل جاویں تو ایک دوسری صورت کا جسم رقیق سیال پیدا ہو جاتا ہے جس کو پانی کہتے ہیں۔ مگر اس میں کوئی ایسی صفت جو مادہ کی حیثیت سے بڑھ کر ہو پیدا نہیں ہوتی۔ عناصر کی ترکیب سے ایک جسم غیر میں یا اسی جسم میں جو ان عناصر سے بنا ہے حرارت پیدا ہو جاتی ہے اور جب تک وہ ترکیب سے جسم میں ایک خاص قسم کے مادہ کی یا دوسرے جسم کے جذب کرنے کی قوت پیدا ہو جاتی ہے جیسے کہ مقناطیس میں لوہے کی کشش اور نباتات و حیوانات میں دیگر اقسام کے عناصر اور مادہ کے جذب کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ عناصر کی ترکیب سے ایک ایسا جسم پیدا ہو جاتا ہے جو جوش میں (یعنی متحرک) رہے یعنی خود اسی کے اجزا حرکت میں رہیں جب تک کہ وہ ترکیب اس میں باقی رہے جیسے کہ تیزابوں کے ساتھ دوسری چیزوں کے ملانے سے پیدا ہوتی ہے۔ عناصر کی ترکیب سے ایک قوت مخفیہ جو اسجام میں ہے ظاہر ہو جاتی ہے اور دیگر اجسام سے جذب کر کے ایک جگہ لے آتی ہے جیسے کہ اعمال برقی سے ظہور اور اجتماع برق کا ہوتا ہے۔ ترکیب عناصر سے یا ان اجسام کی ترکیب سے جو عناصر بنے ہوئے ہیں ایک جسم ہوائی سیال پیدا ہوتا ہے جو دکھائی دیتا ہے اور کبھی ایسا لطیف ہوتا ہے جو دکھائی بھی نہیں دیتا۔ اکثر اطباء اور حکماء کا یہ خیال ہے کہ جسم حیوانی میں جو ترکیب عناصر سے بنا ہے اور جس میں مختلف قسم کے اعضاء ہیں اس ترکیب کے سبب ایک جسم ہوائی پیدا ہوا ہے جو باعث تہیج ہے جو سبب ہے حیوانات میں ارادہ پیدا ہونے کا اور ترکیب اعضا سے حرکت کے ظہور میں آںے کا اور یہی جسم سیال ہوائی باعث ہے انسان کی زندگی کا اور اسی کو بعضوں نے روح حیوانی اور بعضوں نے مطلق روح اور بعضوں نے نسمہ سے تعبیر کیا ہے اور نتیجہ اس کا یہ سمجھا ہے کہ جب ترکیب جسم حیوانی کی اس جسم سیال کے قائم رہنے کے قابل نہیں رہتی تو وہ حالت موت سے تعبیر کی جاتی ہے اور اس کا صریح نتیجہ یہ ہے کہ جسم کے معدوم ہونے یا اس کی حالت قابل قائم رکھنے اس جسم سیال کے معدوم ہونے کے ساتھ وہ جسم سیال بھی معدوم ہو جاتا ہے یعنی وہ روح بھی فنا ہو جاتی ہے۔ مگر ہم کو اس میں یہ کلام ہے کہ تمام آثار جو ترکیب عناصر سے پیدا ہوتے ہیں وہ سب یکساں ہوتے ہیں مثلاً مقناطیس س میں یہ سبب عناصر کے لوہے کے جذب کی قوت پیدا ہوئی ہے تو ب یہ نہیں ہو سکتا کہ کبھی اس کو جذب کرے اور کبھی جذب نہ کرے یا جب ہم نے ایسے عناصر کو یا اجسام مرکب عناصر کو آپس میں ترکیب دیا جو برق کے مہیج ہیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ کبھی برق مہیج ہو اور کبھی نہ ہو۔ یا اجسام نباتی جب کہ وہ اپنی ٹھیک حالت میں ہیں ان سے یہ نہیں ہو سکتا کہ مادہ غذائی کو اپنی جڑوں اور ٹہنیوں اور پتوں سے جب چاہیں جذب کریں اور جب چاہیں جذب نہ کریں غرض کہ جو آثار جس جسم میں بوجہ ترکیب عناصر پیدا ہوتے ہیں وہ آثار اس جسم سے کبھی منفک نہیں ہوتے اور اس جسم کے اختیار میں یہ بات نہیں ہوتی کہ جب چاہے ان آثار کو ظاہر ہونے دے اور جب چاہے ان کو ظاہر نہ ہونے دے۔ اس کا ثبوت زیادہ تر اس قسم کی نباتات پر غور کرنے سے بخوبی حاصل ہوتا ہے جس کو جاندار نبات خیال کیا جاتا ہے۔ ایک درخت جو چھوئی موئی یا لجائی کے نام سے مشہور ہے۔ صرف چھونے سے اس کے پتے سکڑ جاتے ہیں اور ٹہنی گر پڑتی ہے اور تھوڑی دیر کے بعد پھر پتے کشادہ اور ٹہنی اپنی اصلی حالت پر آ جاتی ہے امریکہ میں ایک اور درخت پایا گیا ہے جس کو ندبنہ کہتے ہیں اس کے پھول کی پنکھڑیوں جب مکھی یا بہنگا آ کر بیٹھتا ہے تو پنکھڑیاں بند ہو جاتی ہیں اور اس جانور کو پکڑ لیتی ہیں یہاں تک کہ وہ مر جاتا ہے مگر ان سے یہ کبھی نہیں ہوتا کہ اس کو چھوئیں اور پتے نہ سکڑیں اور ٹہنی نہ گرے یا مکھی یا اس پھول کی پنکھڑی پر بیٹھے اور وہ اس کو نہ پکڑ لے۔ بعض پانی کی نباتات ایسی معلوم ہوتی ہے جن پر شبہ حرکت ارادی کا پیدا ہوتا ہے چناں چہ ایک قسم کی نبات تاگے کی مانند ہے وہ ایک دوسرے سے ملنے کو حرکت کرتی ہے تاکہ ان سے ملنے سے پیدائش ان کی ہو مگر یہ کیفیت صرف قوت جاذبہ سے بھی پیدا ہوتی ہے اس پر حرکت ارادی کا اطلاق نہایت مشتبہ ہے خصوصاً جب کہ وہ پانی پر تیرتی ہیں۔ پانی میں پیدا ہونے والی ایک اور نبات ہے جب وہ اس نبات سے جس سے پیدا ہوتی ہے علیحدہ ہوتی ہے تو اور نبات کے پیدا کرنے پر مستعد رہتی ہے اور متحرک رہتی ہے اور جب اس میں قوت حرکت و نمو جاتی رہتی ہے تو اس میں سے اسی قسم کی نبات پیدا ہوتی ہے مگر نہایت مشتبہ ہے کہ اس کی حرکت کو حرکت ارادی تصور کیا جاوے۔ اجتماع اور ترکیب عناصر سے تحرک پیدا ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا اور جب کہ وہ جسم پانی پر ہو تو اس کا تحرک اس کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر بھی لے جا سکتا ہے مگر اس پر حرکت ارادی کا اطلاق یقینی طور پر نہیں ہو سکتا۔ حیوان کے بعض افعال ایسے ہیں جو صرف ترکیب عناصر کا نتیجہ نہیں ہو سکتے۔ مثلاً ارادہ اور اختیار کہ جس کام کو چاہے کرے اور جس کو چاہے نہ کرے اگر کسی کام کے کرنے کا ارادہ صرف نتیجہ ترکیب عناصر کا ہوتا تو اس کا کرنا امر طبعی ہوتا اور اس لیے اس کا نہ کرتا امر خلاف طبع ہوتا جس کا محال ہونا بدیہی ہے۔ علاوہ اس کے حیوانات میں بہت سے ایسے انکشافات ہیں جن کا صرف ترکیب عناصر سے ہونا ناممکن ہے مثلاً حیوان کی آنکھ کا ترکیب عناصر اور ترتیب طبقات سے بنا اور اس میں ان چیزوں کی صورت کا جو اس کے سامنے ہوں شعاع کے سبب منقش ہونا یقینی امر ہے مگر اس کا ان اشیاء کو پہچاننا اور دوست و دشمن میں تمیز کرنا صرف ترکیب عناصر سے نہیں ہو سکتا۔ علاوہ اس کے خیال ایک ایسا امر ہے کہ کوئی دلیل اور کوئی ترکیب کیمیاوی کا اصول اس بات پر قائم نہیں ہو سکتا کہ صرف عناصر کی ترکیب کیمیاوی کا وہ نتیجہ ہے بلاشبہ صانع نے ان کاموں کے جدا جدا اعضاء بنائے ہیں جو عناصر کی ترکیب کیمیاوی سے بنے ہیں مگر کوئی دلیل نہیں ہے کہ صرف وہی علت تمام ان امور کے ہیں۔ غرضکہ یہ سب امور جن کو ہم ایک مختصر لفظ تعقل سے تعبیر کرتے ہیں صرف ترکیب کیمیاوی عناصر کا نتیجہ نہیں ہے ہم عناصر میں فرداً فرداً کوئی ایسے آثار نہیں پاتے جس سے یہ امر ثابت ہو کہ عناصر میں تعقل اور اختیار ہے اور جب ان میں یہ صفت تو حالت ترکیب میں بھی وہ صفت ان سے پیدا نہیں ہو سکتی کیوں کہ اختیار اور عدم اختیار دو مخالف صفتیں ہیں اور جو صفت کہ اجزاء میں نہیں ہے تو ان سے جو چیز کہ مرکب ہو اس میں بھی نہیں ہو سکتی یعنی کوئی جنس جو غیر جنس طبیعت اجزا ہو وہ اس شے میں جو ان اجزاء سے مرکب ہے حاصل نہیں ہوتی۔ جب کہ ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بہت سے افعال حیوانات کے ایسے ہیں جو صرف عناصر معلومہ کی ترکیب کا نتیجہ نہیں ہیں تو ہم کو ضرور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حیوان میں کوئی ایسے شے ہے جو تعقل کا باعث ہے اور اس نتیجہ پر ہم لازمی طور پر پہنچتے ہیں اور اس لیے حیوانات میں اس شے کے ہونے کا لازمی طور پر یقین کرتے ہیں اور اسی شے کو جو وہ ہو ہم روح کہتے ہیں۔ اب یہ سوال ہوتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے مگر اس سوال کا جواب انسان کی فطرت سے باہر ہے انسان کی فطرت صرف اس قدر ہے کہ وہ اشیاء کے وجود کو ثابت کر سکتا ہے خواہ وہ اشیاء محسوس ہوں یا غیر محسوس مگر ان کی حقیقت کا جاننا اس کی فطرت سے خارج ہے کسی شے کی بھی حقیقت انسان نہیں جانتا ان اشیاء کی بھی حقیقت نہیں جانتا جو ہر دم اس کے سامنے یا اس کے استعمال میں ہیں مثلاً پانی، انسان یہ ثابت کر سکتا ہے کہ پانی موجود ہے مگر اس کی حقیقت نہیں بتا سکتا زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اس کے اجزاء کی اگر اس میں ہوں تشریح کر سکتا ہے اور پھر ان اجزاء کی حقیقت نہیں بیان کر سکتا وہ کہہ سکتا ہے کہ پانی میں آکسیجن اور ہائیڈروجن ہے جب پوچھو کہ آکسیجن اور ہائیڈروجن کیا چیز ہے تو اس کی حقیقت نہیں بتا سکتا پس جب کہ انسان ان چیزوں کی حقیقت نہیں جان سکتا جو اس قدر عام ہیں اگر وہ روح کی ماہیت بھی بعد اس کے کہ اس کے وجود کو ثابت کر چکا ہے نہیں بیان کر سکتا تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ جو چیز کہ ہمارے تجربہ سے خارج ہے جیسے کہ روح اس کی نسبت بجز اس کے کہ دلیل یا قیاس سے کوہی امر کہیں حسب مقتضائے فطرت انسانی اور کچھ کر نہیں سکتے۔ مگر جب ہم کو اس کا وجود حیوانات میں ثابت ہوا ہے اور وہ ایسا وجود ہے کہ جس سے تمام افعال جو حیوانی افعال میں اعلیٰ ترین افعال بلکہ مخصوص بالحیوانات ہیں۔ اسی کے سبب سے ہیں تو ہم کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ضرور ہے کہ وہ ایک شے الطف اور جوہر قدیم بالذات ہو اور اسی لیے ہم روح کو ایک جسم لطیف جوہر قدیم بالذات تسلیم کرتے ہیں۔ کیوں کہ ہم کو یہ بات ثابت نہیں ہوئی ہے کہ کوہی اور جسم بطور جوہر کے موجود ہے اور روح اس کے ساتھ قائم ہے بلکہ ہم کو صرف روح کا وجود ثابت ہوا ہے بغیر وجود کسی دوسرے وجود کے اور اس لیے لازم ہے کہ اس کو جوہر تسلیم کیا جاوے نہ غرض۔ مذہب اسلام نے روح کا موجود ہونا بیان کیا مگر اس کی حقیقت بیان ہنیں کی خدا تعالیٰ کے اس قول کی نسبت کہ ’’قل الروح من امر ربی‘‘ علماء نے دو قسم کی گفتگو کی ہے۔ بعضوں کی رائے ہے کہ حقیقت روح سے بحث کرنا جائز نہیں رکھا گیا ہے اور بعضوں کی یہ رائے ہے کہ روح کے قدیم یا حادث یعنی مخلوق ہونے کی نسبت جو مباحثہ تھا اس کا جواب ہے۔ بہرحال اس سے کوہی مطلب سمجھا جاوے مگر جو تفصیل ہ ہم نے اوپر بیان کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقت روح کا جاننا بلکہ ہر ایک شے کی حقیقت کا جاننا فطرت انسانی سے خارج ہے۔ قرآن مجید تمام ان چیزوں کی حقیقت کے بیان سے جن کا جاننا فطرت انسانی سے خارج ہے انکار کرتا ہے۔ اسی طرح حقیقت روح کو بھی بیان نہیں کیا۔ عام چیزوں کی نسبت کثرت استعمال و مشاہدہ کے باعث لوگوں کا خیال کم تر رجوع ہوتا ہے حالاں کہ وہ ان تمام چیزوں کی حقیقت بھی کچھ نہیں جانتے اگر وہ لوگ جنہوں نے روح کی نسبت سوال کیا تھا پانی اور مٹی کی نسبت سوال کرتے تو خدا تعالیٰ یہی فرماتا کہ ’’یسئلونک عن الماء والطین قل الماء و الطین من امر ربی‘‘ غرض کہ ماہیت اشیاء کا جاننا انسانی فطرت سے خارج ہے۔ جب کہ ہم روح کو ایک جوہر تسلیم کرتے ہیں تو اس کے مادی یا غیر مادی ہونے پر بحث پیش آتی ہے مگر جب کہ ہم کو اس کی ماہیت کا جاننا ناممکن ہے تو درحقیقت یہ قرار دینا بھی کہ وہ مادی ہے یا غیر مادی ناممکن ہے۔ دنیا میں بہت سی چیزیں موجود ہیں جو باوجود اس کے کہ وہ محسوس بھی ہوتی ہیں اور ان کے مادی یا غیر مادی ہونے کی نسبت فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ مثلاً ہم ایک شیشے کے پئے کے ذریعہ سے الیکٹری سٹی یعنی بجلی نکالتے ہیں اور وہ نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور ٹھوس اجسام میں سرایت کر جاتی ہے۔ انسان کے بدن سے گزر جاتی ہے۔ بعض ترکیبوں سے ایک بوتل میں یا انسان کے بدن میں محبوس ہو جاتی ہے۔ بعض ٹھوس اجسام ایسے ہیں جن میں نفوذ نہیں کر سکتی مگر اس کی ماہیت کا اور یہ کہ وہ شے مادی ہے یا غیر مادی تصفیہ نہیں ہو سکتا طرفین کی دلیلیں شبہ سے خالی نہیں، یہی حال روح کے مادی یا غیر مادی قرار دینے کا ہے لیکن اگر وہ کسی قسم کے مادہ کی ہو یا ہم اس کو کسی قسم کی مادی تسلیم کر لیں تو کوئی نقصان یا مشکل پیش نہیں آتی۔ البتہ اس قدر ضرور تسلیم کرنا پڑے گا کہ جن اقسام مادوں سے ہم واقف ہیں اس کا مادہ ان اقسام کے مادوں سے نہیں ہے کیوں کہ ان سے منفرداً یا مجموعاً ان افعال کا صادر ہونا ثابت نہیں ہوتا ہے جو افعال کہ روح سے صادر ہوتے ہیں۔ شاہ ولی اﷲ صاحب نے حجۃ البالغہ میں لکھا ہے کہ تمام حیوانات یمں بہ سبب اختلاط اخلاط کے قلب میں بخار لطیف پیدا ہوتا ہے جس کو حرارت غریزی کہتے ہیں اسی سے حیوان کی زندگی ہے جب تک وہ پیدا ہوتا رہتا ہے۔ حیوان زندہ رہتا ہے جب اس کا پیدا ہونا بند ہو جاتا ہے حیوان مر جاتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے گلاب کے پھول میں نمی یا کوئلے میں آگ (اس زمانہ کے موافق ٹھیک مثال یہ ہے کہ جیسے اجسام میں ایکٹری سٹی) مگر یہ بخار متولدہ من الاخلاط روح نہیں ہے بلکہ یہ بخار جس کو وہ نسمہ قرار دیتے ہیں روح کا مرکب ہے اور روح کو اس سے متعلق ہونے کے لیے مادہ ہے پس روح اس نسمہ سے متعلق ہوتی ہے اور بذریعہ اس نسمہ کے جسم سے۔ اس دعوے کے دلیل وہ یہ لاتے ہیں کہ ہم ایک بچہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ جوان ہوتا ہے اور بڈھا ہوتا ہے اور اس کے بدن کے اخلاط اور وہ روح یعنی نسمہ جو ان اخلاط سے پیدا ہوتی ہے اور ہزاروں دفعہ بدلتے رہتے ہیں۔ وہ بچہ چھوٹا ہوتا ہے پھر بڑا ہو جاتا ہے کبھی گورا رنگ نکلتا ہے کبھی کالا پڑ جاتا ہے۔ جاہل ہوتا ہے پھر عالم ہو جاتا ہے اسی طرح بہت سے اوصاف بدلتے رہتے ہیں مگر وہ وہی رہتا ہے جو تھا۔ اگر کسی شخص میں ہم ان اوصاف کے بقا کا یقین نہ کریں تو بھی اس شخص کے بقا کا یقین کرتے ہیں پس وہ شخص اس کے سوا ہے اور جو چیز کہ اس کے سبب سے یہ ہے وہ نہ روح ہے یعنی نسمہ اور نہ یہ تشخصات ہیں جو ابتداً خیال میں آتے ہیں بلکہ وہ حقیقی روح ہے۔ وہ چھوٹے کے ساتھ بھی اسی طرح ہے جیسے کہ بڑے کے ساتھ ہے۔ کالے کے ساتھ بھی اسی طرح ہے جس طرح کہ گورے کے ساتھ ہے۔ (انتہیٰ ملخصاً) غرض کہ جس قدر غور کی جاوے حیوان میں علاوہ عناصر مرکبہ کے اور جو نتیجہ اس ترکیب سے ہوتا ہے ایک اور شے بھی پائی جاتی ہے جس سے ارادہ اور تعقل اور ایجاد اور ترقی مرابت تعقل میں صادر ہوتی ہے اور اسی شے کو ہم روح کہتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ المسئلۃ الثانیۃ روح الانسان و سایر الحیوانات من جنس واحد بے شک میں اس بات کا قائل ہوں کہ انسان میں اور تمام حیوانات میں ایک ہی سی روح ہے۔ انسان میں یہ سبب ترکیب اخلاط کے ایک قسم کی روح حیوانی پیدا ہوتی ہے جس کو نسمہ سے تعبیر کیا ہے اور روح حقیقی جو ’’ما نحن فیہ‘‘ ہے اس سے متعلق ہوتی ہے۔ اسی طرح تمام حیوانات میں بھی ترکیب اخلاط سے روح حیوانی پیدا ہوتی ہے ہم حیوانات میں بھی تعقل اور ارادہ پاتے ہیں پس کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم ان میں بھی روح کا ہونا تسلیم نہ کریں اور کوئی دلیل ہمارے پاس ایسی نہیں ہے جس سے ہم انسان کی روح کو اور جنس سے اور حیوانات کی روح کو اور جنس سے قرار دیں سکیں اور اس لیے ہم انسان میں اور حیوانات میں ایک ہی جنس کی روح کے ہونے کو تسلیم کرتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ المسئلۃ الثالثۃ لم یصدر من سائیر الحیوانات ما یصدر من الانسان و لم احدھما مکلف و الاخر غیر مکلف جب کہ ہم نے روح کو سبب تعقل و ارادہ تسلیم کیا ہے تو اس سے ضرور لازم آتا ہے کہ روح فی نفسہ مدرک و ذی ارادہ اور مصدر افعال ہے مگر یہ بات ثابت نہیں ہوہی کہ جب کہ وہ مجرد نسمہ سے اور نسمہ مجرد جسم سے ہو تب بھی اس سے افعال صادر ہوتے ہیں مثلاً ہم کسی درخت کے تخم کو خیال کریں کہ اس میں مادہ ٹہنیوں اور پتوں اور پھلوں کا موجود ہے مگر حالت موجودہ میں اس سے کوئی چیز حاصل نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح روح میں تعقل اور مادہ موجود ہے الاجب تک کہ اس کا تعلق نسمہ سے اور نسمہ کا تعلق بدن سے نہ ہو اس سے وہ افعال صادر نہیں ہو سکتے۔ صدور افعال کے لیے جسم کی ضرورت ہے پس اس جسم کی جس قسم کی بناوٹ ہو گی اسی قسم کے افعال اس سے صادر ہوں گے۔ اس کی مثال بعینہ ایسی ہے جیسے دخان اور دخانی کل۔ دخانی کل کے تمام پرزوں کو حرکت دینے والی صرف ایک چیز ہے یعنی دخان مگر جس قسم کے پرزے بنائے گئے ہیں اسی قسم کے افعال ان سے صادر ہوتے ہیں۔ اسی طرح گو انسان اور حیوان میں ایک جنس کی روح ہے مگر ہر ایک سے بقتضائے اس کی صورت نوعیہ کے افعال صادر ہوتے ہیں انسان کے اعضا کی بناوٹ میں بھی ایک دوسرے سے کچھ فرق ہے اور یہی سبب ہے کہ بعض انسانوں سے ایسے افعال صادر ہوتے ہیں جو دوسرے سے صادر ہونے ممکن نہیں ہیں۔ ایک کی آواز نہایت دل کش ہے دوسرے کی نہایت مہیب نہ وہ اپنی آواز کو مہیب کر سکتا ہے اور نہ یہ اپنی آواز کو دل کش بنا سکتا ہے۔ ایک کے دماغ کی بناوٹ علوم دقیقہ کے ایجاد کرنے کے لائق ہے۔ دوسرے کے دماغ کی بناوٹ عام بات کے سمجھنے کے بھی لائق نہیں۔ پس روح سے افعال مطابق بناوٹ اس جسم کے صادر ہوتے ہیں جن سے وہ متعلق ہے اور یہی سبب ہے کہ جو کچھ انسان کر سکتا ہے وہ حیوان نہیں کر سکتے؛ بلکہ بہت سے ایسے امر میں کہ ایک انسان کر سکتا ہے دوسرا انسان نہیں کر سکتا اور جو حیوان کر سکتا ہے وہ انسان نہیں کر سکتا پس یہ تفاوت ان آلات کا ہے جن کے وسیلہ سے افعال روح کے صادر ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حیوانات کی بناوٹ اس قسم کی ہے کہ اس سے نہایت محدود افعال صادر ہو سکتے ہیں اور وہ بھی اکثر ایسے ہیں جو ان کی زندگی کے لیے ضرور ہیں اور اس تمام نوع کے ایک ہی قسم کے افعال ہوتے ہیں اور قریباً وہ سب افعال ایسے ہوتے ہیں کہ بلا تعلیم و اکتساب ان کو حاصل ہو جاتے ہیں۔ ان سے کوہی افعال ایسے صادر نہیں ہو سکتے جن سے روح کی ترقی یا تنزل کو کچھ تعلق ہو اور ان سے روح کو اکتساب سعادت یا شقاوت حاصل ہو اور اسی سبب سے وہ مکلف نہیں ہیں برخلاف انسان کے کہ اس کی بناوٹ ایسی ہے جس سے افعال غیر محدود صادر ہو سکتے ہیں ان میں ترقی ہو سکتی ہے ان میں تنزل آ جاتا ہے ایک انسان سے کسی قسم کے ایک سی قسم کے افعال صادر ہوتے ہیں وہ علوم عقلیہ اور الٰہیہ کا انکشاف کر سکتا ہے اس کے اداراکات اور انکشافات کی کوئی حد نہیں ہے۔ اس سے ایسے افعال صادر ہوتے ہیں جو روح کے لیے باعث اکتساب سعادت یا شقاوت ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ مکلف ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ المسئلۃ الرابعۃ ان الملروح اکتساب سعادۃ وشقاوۃ یہ مسئلہ بلاشبہ نہایت دقیق مسئلہ ہے اس کے ثبوت کے لیے عینی دلیل کا ہونا قانون قدرت کے بر خلاف ہے مگر اس کے لیے ایسی قیاسی دلیلیں موجود ہیں جو اس بات پر یقین دلا سکتی ہیں کہ روح سعادت یا شقاوت کا اکتساب کرتی ہے۔ یہ امر تسلیم ہو چکا ہے کہ تعقل اور ارادہ روح کا خاصہ ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ انسان ان چیزوں کو اکتساب کرتا ہے جو اس میں پہلے نہ تھیں وہ جاہل ہوتا ہے پھر علوم کا اکتساب کر کے عالم ہو جاتا ہے وہ حقائق اشیاء کو جہاں تک کہ ان کا جاننا قانون قدرت کی رو سے ممکن ہے نہیں جانتا پھر تجربہ اور تحقیقات سے ان کا اکتساب کر لیتا ہے۔ جب کہ وہ پیدا ہوا تھا اس کے خیالات بالکل سادے حیوان کے مانند تھے رفتہ رفتہ وہ مختلف باتوں کو اکتساب کرتا جاتا ہے جس سوسائٹی میں وہ پرورش پاتا ہے اس کی تمام مادی و غیر مادی عادتیں اور خیالات کو اکتساب لیتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بعضی دفعہ نہایت نجس اور ناپاک میلا کچیلا سور کی مانند زندگی اختیار کرتا ہے اور کبھی نہایت صفائی اور ستھرائی اور اجلے پنے سے زندگی بسر کرتا ہے۔ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کبھی اس میں نہایت سفاک اور بے رحم عادتیں ہوتی ہیں وہ خونخوار ہوتا ہے مردم آزاری کرتا ہے تمام قوائے بہیمہ اس پر ایسا غلبہ کرتے ہیں کہ وہ ایک حیوان درندہ بصورت انسان ہو جاتا ہے۔ کبھی اس میں ایسی صلاحیت اور نیکی رحم اور تواضع، بردباری اور سب ے ساتھ محبت و ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ کہ ایک فرشتہ بصورت انسان دکھائی دیتا ہے ان تمام فضائل و زرائل کو وہی شے اکتساب کرتی ہے جس کا خاصہ تعقل و ارادہ ہے یعنی روح کیوں کہ انسان کا جسم اور تمام اعضائے اندرونی تو برابر تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ تعقل و ارادہ ان اعضاء کا خاصہ تھا یہ ایسی واضح دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ روح سعادت یا شقاوت کا اکتساب کرتی ہے اور اس کی حالت بمناسبت اس کے جس کا اس نے اکتساب کیا ہے تبدیل ہو جاتی ہے۔ فسعید ان اکتسب سعادۃ و شقی ان اکتسب شقاوۃ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ المسئلۃ الخامسۃ ان للانسان موت فما حقیقۃ الموت و للروح بقاء بعد مفارقۃ الابدان امید ہے کہ ہم اور ہمارے اس مضمون کے پڑھنے والے ضرور ایک دن اس کی واقعی حقیقت سے واقف ہونے والے ہں مگر اس زندگی میں جس قدر کہ موت کا حال معلوم ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اخلاط کے تغیر یا کسی ایسے عضو میں نقصان پہنچنے کے سبب جس سے ان بخارات کی تولید یا بقا کو زیادہ تعلق ہے جو ترکیب اخلاط سے پیدا ہوتے ہیں اور جن کو نسمہ سے تعبیر کیا ہے ان کی تولید موقوف ہو جاتی ہے اور موجودہ مضمحل ہو جاتے ہیں اس وقت انسان یا حیوان مر جاتا ہے اور روح جس کو ابدان سے تعلق اسی نسمہ کے سبب سے تھا جسم سے علیحدہ ہو جاتی ہے۔ مگر غور طلب یہ بات ہے کہ جس قدر زمانہ تک روح کو نسمہ سے مصاحبت رہی ہے اس سے کچھ تاثر روح میں ہوتا ہے یا نہیں اور اگر ہوتا ہے تو بعد مفارقت ابدان وہ تاثر اس میں باقی رہتا ہے یا نہیں۔ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ تمام اجسام لطیف جب آپس میں ملتے ہیں تو ایک اور قسم کا جسم حاصل کر لیتے ہیں۔ اگر کیمیاوی ترکیب پر خیال کیا جاوے تو تمام اجسام سخت سے سخت و ثقیل سے ثقیل کی ترکیب صرف اجسام لطیف ہواہی سے ہے جن کو علم کیمیا میں گیاس یا بخارات سے تعبیر کیا ہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں پائی جاتی کہ روح کو نسمہ کے ساتھ ملنے سے تاثر نہ ہوا ہو اور اس نے کوہی جسم جو اس کے پہلے جسم سے کسی امر میں مختلف ہو حاصل نہ کیا ہو۔ اس کے تسلیم کے بعد کوئی وجہ نہیں پائی جاتی کہ بدن سے مفارقت کرنے کے بعد پھر فی الفور روح کا وہ جسم بھی جو اس نے نسمہ کی مصاحبت سے حاصل کیا ہے تحلیل ہو جاوے۔ نتیجہ اس تقریر کا یہ ہے کہ روح نسمہ کی مصاحبت سے ایک اور جسم لطیف حاصل کرتی ہے اور وہ جسم روح نسمہ سے ترکیب پایا ہوا ہوتا ہے اور بدن سے مفارقت کرنے کے بعد بھی وہ جسم علی حالہ باقی رہتا ہے گو بعد کو روح کا کسی وقت نسمہ سے علیحدہ ہو جانا بھی ممکن ہو کیوں کہ جن اسباب سے وہ جسم لطیف آپس میں مل کر ایک نیا جسم پیدا کرتے ہیں وہ دیگر اسباب سے تحلیل بھی ہو جاتے ہیں۔ یعنی ایک دوسرے سے علیحدہ بھی ہو جاتے یں پس یہی حال روح و نسمہ کا ہوتا ہے۔ ہوا میں پھولوں کے اجزائے لطیف ملنے سے تمام ہوا خوشبو دار اور غلیظ چیزوں کے اجزائے رقیق ملنے سے بدبودار ہو جاتی ہے اور پھر وہ اجزا تحلیل ہو جاتے ہیں اور ہوا علی حالہ صاف رہ جاتی ہے۔ اسی طرح وہ اجسام جو ترکیب کیمیاوی سے مرکب ہیں دیگر اسباب و تاثرات سے تحلیل ہو جاتے ہیں پس روح و نسمہ میں ترکیب کیمیاوی ہوئی ہو یا غیر کیمیاوی اس کا تحلیل ہونا ممکن ہے۔ جب روح کو ایک جسم لطیف جوہر مستقل بالذات تسلیم کیا جاوے جیسا کہ ہم نے تسلیم کیا ہے تو اس کا فنا ہونا محالات سے ہے تمام چیزیں جو دنیا میں موجود ہیں کوئی بھی ان میں سے معدوم نہیں ہوتی صرف تبدیل صورت ہوتی ہے پانی آگ سے یا دھوپ کی تیزی سے خشک ہو جاتا ہے مگر معدوم نہیں ہوتا صرف صورت کی تبدیلی ہوتی ہے۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن علیحدہ علیحدہ ہو جاتے ہیں آکسیجن آکسیجن میں ہائیڈروجن ہائیڈروجن میں مل جاتی ہے اور ایک ذرہ برابر بھی کوئی چیز معدوم نہیں ہوتی پس روح کے معدوم ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے غایت ما فی الباب یہ ہے کہ جب تمام اشیائے موجود میں تبدیل صورت ہوتی رہتی ہے تو روح میں بھی تبدیل صورت ہوتی ہو گی اس کی امتناع پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ مگر اس کے تسلیم کر لینے سے کوئی مشکل مذہب اسلام میں پیش نہیں آتی بلکہ بعض خیالات کی جو اہل اسلام میں مروج ہیں اور میری تحقیق میں ان کی بنا کسی معتبر سند پر نہیں ہے تائید ہوتی ہے۔ غرض کہ روح کے وجود کو تسلیم کرنے کے ساتھ ہی اس کے بقا کا تسلیم کرنا بھی لازم آتا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ المسئلۃ السادسۃ ان سلمنا البقاء للروح فما حقبقۃ البعث و الحشر و النشر بعث و حشر و نشر کی حقیقت بیان کرنے سے پہلے یہ بیان رنا چاہیے کہ قیامت کے دن کائنات کا کیا حال ہو گا اور قرآن مجید میں اس کی نسبت کیا بیان ہوا ہے اور اس کا مطلب کیا ہے اس لیے اولاً ہم قیامت کا ذکر کرتے ہیں۔ قیامت کے دن کائنات کا جو حال ہو گا وہ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیتوں میں مذکور ہے۔ ۱۔ یوم تبدل الارض غیر الارض و السموات و برزوا ﷲ الواحد القہار (۱۴ سورہ ابراہیم ۴۹) ۱۔ اس دن بدل دی جاوے گی زمین سوائے اس زمین کے اور بدل دئے جاوے گی زمین سوائے اس زمین کے اور بدل دئے جاویں گے آسمان اور حاضر ہوں گے سامنے خدائے واحد قہار کے۔ ۲۔ یوم تکون السماء کالمھل و تکون الجبال کالعھن (۷۰ سورۃ المعارج ۸ و ۹) ۲۔ جس دن ہو گا آسمان تیل کی تلچھٹ کی مانند اور ہو ویں گے پہاڑ رنگ برنگ کے اون کی مانند ۳۔ یوم یکون الناس کالفراش المبثوث و تکون الجبال کالعھن المنفوش (۱۰۱ سورۃ القارعہ ۳ و ۴) ۳۔ جس دن ہو جاویں گے آدمی پراگندہ ٹڈیوں کی مانند اور ہو جاویں گے پہاڑ رنگ برنگ کی دھنی ہوئی اون کی مانند۔ ۴۔ کلا اذا دکت الارض دکا دکا و جاء ربک و الملک صفاً صفاً (۸۹ سورۃ الفجر ۲۲۔ ۲۳) ۴۔ جس وقت توڑی جاوے گی زمین ریزہ ریزہ اور آوے گا تیرا پروردگار اور فرشتے صف کے صف۔ ۵۔ و اذا نفخ فی الصور نفخۃ واحدۃ و حملت الارض و الجبال فدکتا دکتہ واحدۃ فیومئذ وقعت الواقعۃ و انشقت السماء فہی یومئذ واہیہ و الملک علی ارجائہا و یحمل عرش ربک یومئذ ثمانیہ۔ (۶۹ سورۃ الحاقہ۔ ۱۷) ۵۔ پھر جب پھونکا جاوے گا صور میں ایک دفعہ کا پھوکنا اور اٹھائی جاوے گی زمین اور پہاڑ پھر توڑے جاویں گے ایک دفعہ کے توڑنے سے پھر اس دن ہو پڑے گی ہونے والی (یعنی قیامت) اور پھٹ جاوے گا آسمان پھر وہ اس دن ہو جاوے گا ڈھیلا اور فرشتے ہوں گے اس کے کناروں پر اور اٹھاویں گے تیرے پروردگار کے عرش کو ان کے اوپر اس دن اٹھ۔ ۶۔ یوم ترجف الارض و الجبال و کانت الجبال کثیباً مہیلا۔ (ٖورۃ المزمل ۱۴) ۶۔ اس دن کہ کانپے گی زمین اور پہاڑ اور ہو جاویں گے پہاڑ ٹیلے بھر بھری ریت کے۔ ۷۔ یوما یجعل الولد ان شیبا نٰ لسماء منفطربہ۔ (سورۃ مزمل ۱۷ و ۱۸) ۷۔ وہ دن کہ کر دے گا لڑکوں کو بڈھا آسمان پھٹ گیا ہو گا اس دن میں۔ ۸۔ ان یوم الفصل کان میقاتا یوم ینفح فی الصور فتاتون افواجا و فتحت السماء فکانت ابوابا و سیرت الجبال فکانت سرابا۔ (۷۸ سورۃ النباء ۱۷۔ ۲۰) ۸۔ بے شک فیصلہ کے دن کا وقت مقرر ہے جس دن پھونکا جاوے گا صور میں تو تم آؤ گے گروہ گروہ اور کھولا جاوے گا آسمان اور وہ ہو جاوے گا دروازے دروازے اور چلائے جاویں گے پہاڑ پھر ہو جاویں گے چمکتی ریت کی مانند۔ ۹۔ و اذ السماء انشقت و اذنت لربھا و حقت ما فیھا و تخلت و اذنت لربھا و حقت۔ (۸۴ سورۃ انشقاق ۱-۵) ۹۔ جس وقت کہ آسمان پھٹ جاوے گا اور کان لگائے رہے گا اپنے پروردگار کے (حکم پر) اور وہ اسی لائق ہے اور جب کہ زمین پھیلائی جاوے گی اور ڈال دے گی جو کچھ اس میں ہے اور خالی ہو جاوے گی اور کان لگائے رہے گی اپنے پروردگار (کے حکم) پر اور وہ اسی لائق ہے۔ ۱۰۔ فاذا انشقت السماء فکانت وردۃ کالدھان۔ (۵۵- سروۃ الرحمن، ۳۷) ۱۰۔ پھر جب پھٹ جاوے گا آسمان تو ہو گا سرخ لعل رنگے ہوئے چمڑے کی مانند۔ ۱۱۔ اذالسماء انفطرت و اذا الکواکب انتثرت و اذالبحار فجرت و اذا القبور بعثرت علمت نفس ما قدمت و اخرت۔ (۸۲- سورۃ انفطار، ۱-۵) ۱۱۔ جب کہ آسمان پھٹ جاوے گا اور جب کہ تارے جھڑ پڑھیں گے اور جب کہ سمندر پھوٹ بہیں گے اور جب کہ قبریں پھاڑی جاویں گی جان لے گی ہر جان جو کچھ آگے بھیجا ہے اور پیچھے چھوڑا ہے۔ ۱۲۔ و اذا الشمس کورت و اذا النجوم انکدرت و اذا الجبال سیرت و اذا العشار عطلت و اذا الوحوش حشرت و اذا البحار شجرت و اذا النفوس زوجت و اذا لمؤدۃ سئلت بای ذنب قتلت و اذا الصحف نشرت و اذا السماء کشطت و اذا لجحیم سعرت و اذا الجنۃ ازلفت علمت نفس ما احضرت۔ (۸۱- سورۃ التکویر۔ ۱- ۱۴) ۱۲۔ جب کہ سورج لپیٹا جاوے گا اور جب کہ تارے دھندلے ہو جاویں گے اور جب کہ پہاڑ چلائے جاویں گے اور جب کہ دس مہینے کی گابھن اوٹنی بیکار چھٹی رہیگی اور جب ہ وحشی جانور (آدمیوں کے ساتھ اکٹھے کیے جاویں گے اور جب کہ سمندر آگ کی مانند بھڑکائے جاویں گے اور جب کہ جانیں جوڑا جوڑا کی جاویں گی اور جب کہ زندہ گاڑی ہوئی لڑکی پوچھی جاوے گی کہ کس گناہ کے بدلے وہ ماری گئی اور جب کہ اعمال نامے کھولے جاویں گے اور جب کہ آسمان کی کھال بھیچی جاوے گی اور جس وقت دوزخ دھکائے جاویں گے اور بہشت پاس لائے جاویں گے جان لے گی ہر جان کہ کیا حاضر لائی ہے۔ ۱۳۔ اذا رجت الارض رجاً و بست الجبال بسا فکانت ہباء منبثاً (۵۶- سورۃ الواقعہ- ۴ -۶) ۱۳۔ جب کہ ہلائی جاوے گی زمین زور کے ہلانے سے اور ذرہ ذرہ کیے جاویں گے پہاڑ بہت چھوٹے چھوٹے ذرہ پھر ہو جاویں گے پھیلے ہوئے غبار کی مانند۔ ۱۴۔ و ما قدروا اﷲ حق قدرہ و الارض جمیعا قبضۃ یوم القیامۃ و السموات مطویات بیمینہ سبحانہ، و تعالیٰ عما یشرکون و نفخ فی الصور فصعق من فی السموات و من فی الارض الا من شاء اﷲ ثم نفخ فیہ اخریٰ فاذا ہم قیاما ینظرون و اشرقت الارض بنور ربھا و وضع الکتاب وجئی بالنبیین و الشہداء و قضی بینھم بالحق و ہم لا یظلمون۔ (۳۹- سورۃ زمر- ۶۷- ۶۹) ۱۴۔ اور نہیں قدر کی انہوں نے اﷲ کی حق اس کی قدر کرنے کا اور ساری زمین اس کی مٹھی میں ہو گی قیامت کے دن اور آسمان لپٹے ہوئے ہوں گے اس کے دائیں ہاتھ پر پاک ہے وہ اور برتے ہے اس سے کہ اس کا شریک ؟؟؟؟؟؟ ہیں اور پھونکا جاوے ا صور میں پھر بیہوش ہو جاوے گا جو آسمانوں میں ہے مگر جس کو چاہے خدا۔ پھر پھونکا جاوے گا صور میں دوسری دفعہ یکایک وہ کھڑے ہوئے ہوں گے دیکھتے اور روشن ہو جاوے گی زمین اپنے پروردگار ے نور سے اور رکھی جاویگی کتاب اور حاضر کیا جاوے گا۔ پیغمبروں کو اور گواہوں کو اور فیصلہ کیا جاوے گا ان میں (یعنی لوگوں میں) ساتھ حق کے اور وہ نہ ظلم کیے جاوینگے۔ ۱۵۔ یوم تاتی السماء بدخان مبین یغشی الناس ہذا عذاب الیم۔ (۴۴- سورہ خان ۹ و ۱۰) ۱۵۔ جس دن آوے گا آسمان دھواں ہو کر ڈھانک لے گا لوگوں کو کہ یہ ہے عذاب دکھ دینے والا۔ ۱۶۔ و یوم ینفخ فی الصور ففزع من فی السموات و من فی الارض الا من شاء اﷲ و کل اتوہ داخرین و تری الجبال تحسبھا جامدۃ و ہی تمر مرالسحاب- (۲۷ سورۃ نمل ۸۹ و ۹۰) ۱۶۔ جس دن پھونکا جاوے گآ صور میں تو گھبرا جاویا جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں مگر جس کو چاہے اﷲ اور ہر ایک اس کے سامنے آوینگے ذلیل ہو کر اور تو دیکھے گا پہاڑوں کو (جن کو) تو سمجھتا ہے جمے ہوئے کہ وہ چلے جاتے ہیں بادل کے چلنے کی مانند۔ ۱۷۔ یوم تمور السماء مورا و تسیر الجبال سیرا (۵۲- سورۃ الطور۔ ۹) ۱۷۔ جس دن پھٹ جاویگا آسمان اچھی طرح کے پھٹنے سے اور چلنے لگیں گے پہاڑ ایک قسم کے چلنے سے۔ ۱۸۔ فا ذا النجوم طمست و اذا السماء فرجت و اذالجبال نسفبت )۷۷ سورہ مرسلات ۸- ۱۰) ۱۸۔ جب کہ تارے بے نور کئے جاویں گے۔ جب کہ آسمان پھارے جاویں گے اور جب کہ پہاڑ ریزہ ریزہ کیے جاویں گے۔ ۱۹۔ اذا زلزلت الارض زلزا لھا و اخرجت الارض اثقالھا۔ (۹۹- سورۃ الزلزلہ- ۱ و ۲) ۱۹۔ جب کہ زمین ہلائی جاوے گی اپنے ہلنے سے اور نکالے گی زمین اپنے بوجھ۔ ۲۰۔ کل من علیھا فان و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال و الاکرام۔ (۵۵- سورۃ الرحمان ۲۶ و ۲۷) ۲۰۔ جو کوئی زمین پر ہے فنا ہونے والا ہے اور باقی رہے گی ذات تیرے پروردگار بزرگی والے اور اکرام والے کی۔ اب دیکھنا چاہیے کہ ان آیتوں میں نسبت کائنات موجودہ کے کیا بیان ہوا ہے۔ زمین کی نسبت بیان ہوا ہے کہ بدل دی جاوے گی زمین سوائے اس زمین کے اور یہ بیان ہے کہ زمین ریزہ ریزہ کر دی جاوے گی صور پھونکنے کے ساتھ زمین اٹھائی جاوے گی اور ایک دفعہ میں توڑ دی جاوے گی۔ قیامت کے دن زمین کپکپائی اور ہلائی جاوے گی۔ قیامت میں زمین خدا کی مٹھی میں ہو گی۔ زمین کھینچی جاوے گی یا پھیلائی جاوے گی اور جو کچھ اس میں ہے وہ ڈال دے گی اور خالی ہو جاوے گی۔ پہاڑون کی نسبت بیان ہوا ہے کہ وہ رنگ برنگ کی دھنی ہوئی اون کے ماند ہو جاویں گے۔ صور پھوکنے پر پہاڑ اٹھائے جاویں گے اور توڑ دیے جاویں گے وہ ہلا دئے جاویں گے اور بھر بھری ریت کے ٹیلے کی مانند ہو جاویں گے۔ وہ ذرہ ذرہ کیے جاویں گے اور غبار کی مانند ہو جاویں گے۔ وہ جمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ بادلوں کی طرح چلے جاتے ہوں گے یا ایک طرح کے چلنے سے چلتے ہوں گے وہ سراب یعنی چمکتے ہوئے ریت کی مانند ہو جاویں گے۔ سمندر کی نسبت بیان ہوا ہے کہ آگ کی مانند بھڑکائے جاویں گے۔ اپنی جگہ سے پھوٹ بہیں گے۔ آسمانوں کی نسبت بیان ہوا ہے کہ آسمان بدل دیے جاویں گے سوائے ان آسمانوں کے۔ وہ تیل کی تلچھٹ کی مانند ہو جاویں گے وہ پھٹ جاویں گے سرخ رنگے ہوئے چمڑے کی مانند ہوں گے اور ڈھیلے و سست پڑ جاویں گے اور دروازے دروازے کی مانند ہو جاویں گے وہ خدا کے دائیں ہاتھ پر لپیٹ لیے جاویں گے وہ دھوئیں کی مانند ظاہر ہوں گے وہ پھٹ جاویں گے اور ایک طرح کے چلنے سے چلیں گے ان کی کھال کھینچی جاوے گی۔ سورج اور تاروں کی نسبت بیان ہوا ہے کہ سورج لپیٹ لیا جاوے گا تارے جھڑ جاویں گے اور ایک جگہ آیا ہے کہ تارے دھندلے ہو جاویں گے بے نور ہو جاویں گے۔ انسان اور نفوس کی نسبت بیان ہوا ہے کہ آدمی ٹڈیوں کی مانند پراگندہ ہو جاویں گے۔ لڑکے بڈذے ہو جاویں گے۔ آدمی یا روحیں فوج فوج آویں گے۔ وحشی جانور آدمیوں کے ساتھ اکٹھے ہو جاویں گے۔ سورۂ رحمان میں کہا ہے کو جو کوئی زمین پر ہے فنا ہونے والا ہے اور پروردگار کی ذات باقی رہے گی۔ اب غور کرنا چاہیے کہ اگلے علماء نے ان آیتوں کی نسبت کیا کہا ہے اور کیا نتیجہ نکالا ہے۔ سورۂ ابراہیم میں جو یہ آیا ہے کہ قیامت میں زمیں آسمان بدل جاویں گے اس کی نسبت تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ بدلنا دو طرح پر ہو سکتا ہے ایک اس طرح کہ اس شے کی ذات باقی رہے اور اس کی صفتیں بدل جاویں دوسرے اس طرح کہ اس شے کی ذات فنا ہو جاوے اور اس کی جگہ دوسری موجود ہو جاوے اس کے بعد تفسیر کبیر میں بموجب محاورہ عرب کے اس کی مثالیں لکھی ہیں ’’تبدیل کے لفظ کا استعمال دونوں طرح پر ہوتا ہے اسی بناء پر ایک گروہ عالموں کی یہ رائے ہے کہ: ’’ففی الایتہ قولان الاول ان المراد تبدیل الصفۃ لا تبدیل الذات قال ابن عباس رضی اﷲ عنہا ہی تلک الارض الا انھا تغیرت فی صفاتھا فتسیر عن الارض جبالھا و تفجر بحارھا و ستوی فلا بری فیھا عوج ولا امت۔ و روی ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم الہ قال یبدل اﷲ الارض غیر الارض فیبسطھا و یمدھا مدالادیم العکاظمی فلا تری فیھا عو جا ولا امتا۔ و قولہ والسموات ای تبدل السموات غیر السموات و ہو کقولہ علیہ السلام لا یقبل مومن بکافر ولا ذو عہد فی عہدہ و المعنی ولا ذو عہد فی عہدہ بکافر و تبدیل السموات بانتسار کوا کبھا و انفطارہا و تکوبر شمسہا و خسوف قمرہا و کونہا ابوابا و انہا تارۃ تکون کالمہل و تارۃ تکون کالدہان۔ و القول الثانی ان المرادہ تبدیل الذات قال ابن مسعود تبدل بارض کالفضۃ البیضاء النقیۃ لم یسفک علیھہا دم ولم تعمل علیھا خطیئۃ فھذا شرح القولین و من الناس من رجح القول الاول قال لان قولہ یوم تبدل الارض المراد وہذہ الارض و تبدیل صفۃ مضافۃ الیھا و عند حصول الصفۃ لابد و ان یکون الموصوف موجودا فلما کان الموصوف بالتبدل ہو ہذہ الارض وجب کون ہذہ الارض باقیۃ عند حصول ذالک التبدل ولا یمکن ان تکون ہذہ الارض باقیہ مع صفاتھا عند حصول ذالک التبدل والا متنع حصول التبدل فوجب ان یکون الباقی ہو الذات فثبت ان ہذہ الایۃ تقتضی کون الذات باقیہ و القائلون بھذا القول ہم اللذین یقولون عند قیام القیامۃ لا یعدم اﷲ الذوات والا جسام و انما یعدم صفاتھا و احوالھا و اعلم انہ لا یبعدان یقال المراد من تبدیل الارض و السوات ہو انہ تعالیٰ بجعل الارض جہنم و یجعل السموات الجنۃ و الدلیل علیہ قولہ تعالیٰ کلاً ان کتاب الابرار لفی عیلین و قولہ کلاً ان کتاب الفجار لفی سجین۔ (تفسیر کبیر جلد ۴ صفحہ ۷۸)۔‘‘ اس آیت میں تبدیل سے آسمان و زمین کی صفات کا تبدیل ہو جانا مراد ہے نہ ان کی ذات کا۔ ابن عباس نے فرمایا کہ زمین سے یہی مراد ہے مگر اس کی صفتیں تبدیل ہو جاویں گی پہاڑ زمین پر سے اڑ جاویں گے دریا پھوٹ نکلیں گے زمین ایسی برابر ہو جاوے گی کہ کہیں اونچا نیچا نہ دکھائی دے گا۔ حضرت ابو ہریرہ نے جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ خدا زمین کو بدل دے گا اور عکاظی چمڑے کی طرح اس کو پھیلا کر بچھائے گا کہیں اس میں اونچا نیچا نظر نہ آئے گا۔ خدا کا یہ قول ’’والسموات‘‘ اس کے بھی یہی معنیٰ ہیں کہ آسمان بدل کر اور اس طرح کا کر دیا جائے گا جیسا کہ اس حدیث کا مطلب ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے نہیں مارا جائے گا اور نہ وہ کافر جس سے عہد و پیمان ہے عہد و پیمان کے زمانہ تک ’’یعنی وہ شخص بھی کافر کے بدلے نہ مارا جاوے گا جس سے معاہدہ ہو چکا ہے معاہدہ کے زمانہ تک آسمانوں کا بدلنا یوں ہو گا کہ ستارے متفرق ہو کر ٹوٹ پھوٹ جائیں گے آفتاب لپیٹ لیا جائے گا چاند دھندلا ہو جائے گا۔ آسمان میں درواوے ہو جاویں گے اور وہ کبھی تو تیل کی تلچہٹ کا سا ہو گا اور کبھی سرخ چمڑے کی مانند۔ دوسرا فرقہ کہتا ہے کہ تبدیل سے آسمان و زمین کی ذات کا بدل جانا مراد ہے۔ ابن مسعود کہتے ہیں کہ یہ زمین بدل کر چمکتی ہوئی چاندی بن جاوے گی جس پر نہ کبھی خوں ریزی ہوئی ہے اور نہ کبھی اس پر گناہ کیا گیا ہے۔ بعضوں نے قول اول کو ترجیح دی ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ آیت میں اسی زمین کی نسبت تبدیلی کا لفظ ہے اور چوں کہ تبدیل ایک صفت ہے تو ضرور ہے کہ اس کے تحقق کے وقت یہی موصوف یعنی یہی زمین موجود ہو یہ بھی ظاہر ہے کہ تبدل کے وقت زمین کی صفتیں تو موجود ہونے کی نہیں تو اب ذات ہی کا باقی رہنا آیت سے لازم آیا جن لوگوں کا یہ مذہب ہے وہ کہتے ہیں کہ قیامت قائم ہونے کے وقت اﷲ پاک جسموں اور ذاتوں کو سرے سے معدوم نہ کر دے گا بلکہ صرف ان کی صفتیں معدوم ہو جاویں گی ممکن ہے کہ زمین اور آسمان کے بدلنے سے یہ مراد لی جاوے کہ زمین خدا کو دوزخ بنا دے گا اور آسمان کو بہشت اور خدا کا یہ قول‘‘ ’’کلا ان کتاب الابرار لفی عیلین کلا ان کتاب الفجار لفی سجین‘‘ اس مطلب کی دلیل ہے۔ ان تمام حالات سے جو اوپر مذکور ہوئے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن اس دنیا کے تمام حالات بدل جاویں گے جو چیزیں کہ اب موجود ہیں وہ معدوم نہیں ہونے کیں۔ ان کے خواص و اوصاف تبدیل ہو جاویں گے۔ شاہ ولی اﷲ صاحب نے اپنی تفہیمات میں واقعات قیامت کو وقائع جو سے تعبیر کیا ہے یعنی ان واقعات کا جو آسمان و زمین کے درمیان ہوتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ’’تعود تلک الوقائع الی الانوار المحیطۃ فیقع ظلھا فیستد العالم لواقعۃ عظیمۃ من وقایع الجو فتھلک البشر و الموالید و یعود کل عنصر لمحلۃ‘‘ انتہیٰ۔ یعنی واقعات قبل قیامت مثل عالم میں فسادات ہونے اور دجال کے آنے اور حضرت عیسیٰ کے تشریف فرمانے کے بعد انوار محیط الہیہ واقعہ عظیمہ کے ہونے پر متوجہ ہوں گے اور واقعات جو یعنی جو آسمان و زمین کے بیچ میں واقع ہوتے ہیں، واقع ہوں گے بشر و موالید سب مر جاویں گے اور ہر ایک عنصر اپنی جگہ پر چلا جاوے گا۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ یہ نظام الٹ پلٹ ہو جاوے گا۔ تحقیقات جدیدہ کی رو سے جہاں تک معلوم ہو سکا ہے چاند کی نسبت معلوم ہوا ہے کہ کسی زمانہ میں اس میں آبادی تھی اور ہوا مثل کرۂ ارض کے اس کے محیط تھی، پانی بھی اس میں تھا۔ مگر اب محض ویران اور سوکھ کر کھنگر ہو گیا ہے کوہی ذی نفس اس میں نہیں ہے ہوا بھی اس کی محیط نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض کواکب جو حقیقت میں بہت بڑے بڑے کرۂ زمین سے بھی سیکڑوں حصہ بڑے تھے منتشر ہو گئے اور کروں میں جا ملے یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ زمین کا مدار جو گرد آفتاب کے ہے چھوٹا ہوتا جاتا ہے پس یہ خیال کرنے کی بات ہے کہ زمانہ ممتد کے بعد جس کا اندازہ نہیں ہو سکتا اور گو وہ لاکھوں کڑوروں برس کے بعد ہو جب زمین کا مدار بہت چھوٹا ہو جاوے گا تو دنیا کا کیا حال ہو گا۔ کیا سمندر نہ ابل جاویں گے۔ کیا پہاڑ ریت کی مانند نہ ہو جاویں گے۔ کیا یہ زمین نہ بدل جاوے گی۔ یہ آسمان جو ہم کو ایسا نیلا نیلا خوب صورت دکھائی دیتا ہے کیا وہ تیل کی تلچہٹ کی مانند اور کبھی سرخ چمڑے کی مانند نظر نہ آوے گا۔ کیا یہ ستارے بے نور نہ دکھائی دیں گے۔ پس واقعہ قیامت ایک ایسا واقعہ ہے جو امور طبعی کے مطابق اس دنیا پر واقع ہو گا۔ خدا تعالیٰ نے اس طبعی واقعہ کو جا بجا اور مختلف تشبیہوں سے اس لیے بیان کیا ہے کہ بندوں کو خدا کی قدرت کاملہ پر وثوق ہو اور اس وحدہ لاشریک کے سوا کسی دوسری چیز کو اپنا معبود نہ بنائیں۔ دنیا میں پہاڑوں کی پرستش ہوتی تھی، سمندر پوجے جاتے تھے، آگ کی پرستش کی جاتی تھی، چاند سورج کی پرستش ہوتی تھی۔ ستاروں کی پرستش کے لیے ہیاکل بنائی گئی تھیں اور ان کی پرستش ہوتی تھی اس لیے خدا نے اس طبعی واقع کو جتلایا کہ یہ سب چیزیں ایک دن فنا یعنی متغیر ہونے والی ہیں اور ان میں کوئی بھی معبود ہونے کے لائق نہیں ہے پس قیامت کا ذکر جا بجا اسی غرض سے آیا ہے کہ عجائب مخلوقات خدا کی جن میں مخلوقات زمین اور آسمان اور کواکب زیادہ تر عجیب دکھائی دیتے ہیں اور جن کی پرستش انواع و اقسام سے لوگوں نے اختیار کی تھی اس کو چھوڑیں اور صرف خدائے واحد کی جو ان سب چیزوں کا پیدا کرنے والا اور پھر فنا کرنے والا ہے پرستش اختیار کریں۔ یہ قیامت جس کا اوپر ذکر ہوا یہ تو کائنات پر گزرے گی مگر اصلی قیامت جو انسان پر گزرے گی وہ وہ ہے جس کا ذکر سورہ قیامہ میں آیا ہے اور اس کا خلاصہ ان دو لفظوں میں ہے کہ ’’من مات فقد قامت قیامتہ‘‘ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یسئل ایان یوم القیامۃ فاذا برق البصرو خسف القمر و جمع الشمس و القمر یقول الانسان یومئذ این المفر کلا لا وزرالیٰ ربک یومئذ المستقر ینبو الانسان یومئذ یما قدم اخربل الانسان علی نفسہ بصیرۃ و لوالقی معاذیر۔ (۷۵ سورہ قیامہ) ’’انسان پوچھتا ہے کہ کب ہو گا قیامت کا دن پھر (وہ دن اس وقت ہو گا) جب کہ آنھیں پتھرا جاویں گی چاند کالا پڑ جائے گا یعنی آنکھوں کی روشنی جاتی رہے گی اور آنکھیں اندر بیٹھ جاویں گی چاند سورج یعنی رات دن اکٹھے ہو جاویں گے کہ اس کو کچھ تمیز نہ رہے گی کہ دن ہے یا رات سب چیز دھندلی دکھائی دے گی اور اسی بناء پر کہا گیا ہے کہ انسان دن میں کسی وقت مرے اس کو شام کا وقت دکھائی دے گا۔‘‘ وجوہ یومئذ ناضرۃ الیٰ ربھا ناظرہ وجوہ یومئذ باسرۃ تظن ان یفعل بھا فاقرہ کلا اذا بلغت التراقی و قیل من راق و ظن انہ الفراق و التفت الساق بالساق الہی ربک یومئذ المساق۔ (۷۵۔ سورۃ قیامہ) ’’انسان کہے گا کہ اس دن بھاگ جانے کی کہاں جگہ ہے۔ ہر گز کوئی جگہ پناہ کی نہیں۔ تیرے پروردگار ہی کے پاس اس دن ٹھیرنے کی جگہ ہے۔ اس دن جان لے گا انسان کہ اس نے کیا آگے بھیجا ہے اور کیا پیچھے چھوڑا ہے بلکہ انسان اپنے آپ کو خوب پہچانتا ہے گو کہ درمیان میں بہت سے عذر لا ڈالے۔‘‘ اس دن کتنے منہ تر و تازہ ہوں گے اپنے پروردگار کی طرف دیکھتے ہوں گے اور اس دن کتنے منہ تھوتائے ہوئے ہوں گے گمان کریں گے کہ ان پر مصیبت پڑنے والی ہے۔ جس وقت کہ جان نرخرے میں پہنچتی ہے اور کہا جاتا ہے کون۔ پھر آواز نہیں نکلتی اتنا ہی کہہ کر چپ ہو جاتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے۔ جھاڑنے پھونکنے والا۔ پھر جب ہو جاتا ہے اور جان لیا کہ بے شک اب جدائی ہے اور لپیٹ لیا ایک پنڈلی کو دوسری پنڈلی سے۔ اس دن تیرے پروردگار کے پاس چلنا ہے۔ یہ تمام حالت جو خدا نے بتائی انسان پر مرنے کے وقت گزڑتی ہے اور اس سوال کے جواب میں کہ قیامت کے دن کب ہو گا بتائی گئی ہے اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہر انسان کی اصلی قیامت اس کا مرنا ہے اور ’’من مات فقد قامت قیامۃ‘‘ بہت صحیح و سچا قول ہے اگرچہ اگلے علماء نے اس باب میں اختلاف کیا ہے کہ انسان کی ایسی حالت کب ہو گی بعضوں نے کہا کہ موت کے وقت بعضوں نے کہا بعثت کے وقت بعضوں نے کہا دوزخ کو دیکھنے کے وقت مگر قرآن مجید کی عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ یہ بیان موت کے وقت کی حالت کا ہے، جس میں ذرا بھی شک نہیں ہو سکتا۔ جن عالموں نے اس حالت کو وقت موت کے حالت قرار دیا ہے انہوں نے خسف قمر کے لفظ سے آنکھ کی روشنی کا جاتا رہنا مراد لیا ہے تفسیر کبیر میں ہے۔ فاما من یجعل برق البصر من علامات الموت قال معنی و حنف القمرای ذہب ضؤ البصر عند الموت یقال عین خامفۃ اذا فقت حتیٰ غابت حد قتھا فی الراس و اصلحا من خسف الارض اذا ساخت یما علیھا و قولہ جمع الشمس و القمر کنایۃ عن ذہاب الروح الیٰ عالم الاخرۃ کالشمس فانہ یظہر فیھا المغیبات و تنفتح المبھمات و الروح کالقمر کما ان القمر یقبل النور من الشمس فکذ الروح تقبل نور المعارف من عالم الاخرۃ ولا شک ان تفسیر ہذالایۃ بعلامات القیامۃ اولی من تفسیر ہا بعلامات الموت و اشد مطابقۃ لھا۔ (تفسیر کبیر جلد ۶، صفحہ ۴۰۹) یعنی جو لوگ کہ آنکھ کے چوندھیانے کو موت کی علامت قرار دیتے ہیں وہ ’’حنف القمر‘‘ کے معنی یہ کہتے ہیں کہ نگاہ کی روشنی جاتی رہے گی۔ عرب میں جب آنکھ پھوٹ جاوے یہاں تک کہ ڈھیلا سر میں بیٹھ جاوے تو کہتے ہیں ’’عن خاسفہ‘‘ یہ محاورہ ’’خسف الارض‘‘ سے نکلا ہے جس کا استعمال زمین کے دھنس جانے کے وقت ہوتا ہے اور خدا کا یہ قول ’’جمع الشمس والقمر‘‘ روح کے عالم آخرت کی طرف چلے جانے سے کنایہ ہے گویا وہ دوسری دنیا ایک آفتاب ہے کیوں کہ اس میں چھپی اور مبہم باتیں کھل پڑیں گی اور روح گویا چاند ہے جس طرح چاند آفتاب سے روشنی پاتا ہے اسی طرح روح بھی عالم آخرت سے معرفت کے انوار حاصل کرتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ اس آیت کی تفسیر قیادت کی علامتوں سے کرنی اس سے کہیں بہتر ہے کہ اس کی تفسیر موت کی علامتوں سے کی جاوے۔ صاحب تفسیر کبیر کا یہ کہنا کہ اس آیت کی تفسیر علامات قیامت سے کرنی بہ نسبت علامات موت کے بہتر ہے کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔ الفاظ کلا اذا بلغت التراقی و قیل من راق و ظن انہ انفراق و التفت الساق بالساق الی ربک یومئذ المساق بالکل شاہد اس بات پر ہیں کہ اس تمام سورۂ میں جو حالات مذکور ہیں وہ حالت عند الموت کے ہیں۔ جمع الشمس و القمر کی جو توضیح تفسیر کبیر میں بیان ہوئی ہے وہ بھی دور ازکار ہے خسف قمر یعنی آنکھوں کی روشنی جانے اور آنکھوں کے بیٹھ جانے کے بیان جمع الشمس و القمر کا لفظ صاف دلالت کرتا ہے ان دونوں میں تمیز نہ رہنے کا چاند کا تعلق رات سے ہے اور سورج کا دن سے اس لیے ان دونوں سے رات دن کا کنایہ کیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت اس بات کی تمیز کہ دن ہے یا رات کچھ نہ ہو گی۔ ہمارے اس بیان سے یہ مطلب نہیں ہے کہ جو واقعات کا ئنات پر ایک دن گزرنے والے ہیں ارو جن کا بیان پہلے ہو چکا وہ نہ ہوں گے بلکہ وہ اپنے وقت پر ہوں گے اور جو کچھ ان میں ہونا ہے وہ ہو گا اور اس زمانہ کے انسان اور وحوش و طیور پر جو کچھ گزرنا ہے گزرے گا اور اس وقت جو حال روحوں اور ملائکہ کا ہونا ہے وہ ہو گا مگر جو لوگ اس سے پہلے مر چکے ہیں ان کے لیے قیامت اسی وقت سے شروع ہوتی ہے جب کہ وہ مرے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ حشر اجساد حشر اجساد کی نسبت جیسا کہ شرح مواقف میں لکھا ہے پانچ مذہب ہیں۔ اعلم ان الاقوال الممکنۃ فی مسئلۃ المعادلا تزید عن خمسۃ (الاول) ثبوت المعاد الجسمانی فقط و ہو قول اکثر المتکلفین النافین النفس الناطقہ (و الثانی) ثبوت المعاد الروحانی فقط و ہو قول الفلاسفۃ الا لہٰین (و الثالث) ثبوتھمامعاً و ہو قول کثیر من المحققین کالحلیمی و ابغزالی و الراغب و ابو زید الدبوسی و معمر من قدماء المعتزلہ و جمہور متاخری الامامیۃ و کثیر من الصوقبۃ فانھم قالو الانسان بالحقیقۃ ہو النفس الناطقہ و ہی المکلف و المطیع و العاصی و المشاب و المعاقب و البدن یجری منھا مجرا الالۃ و النفس باقیہ بعد فساد البدن فاذا اراد اﷲ حشر الخلایق خلق لکل واحد من الارواح بدنا بتعلق بہ و یتصرف فیہ کما کان فی الدنیا (الرابع) عدم ثبوت شی منھما و ہذ قول القدماء من فلاسفۃ الطبعیین (و الخامس) التوقف فی ہذہ و ہو المنقول عن جالینوس فانہ قال لمریتبین لی ان النفس ہل ہی المزاج فینعدوم عند الموت فیستحیل اعادتہا اوحی جوہر باق بعد فساد البینۃ فیمکن المعاد (شرح مواقف)۔ (۱) صرف معاد جسمانی کا ثبوت اور یہ اکثر ان متکلمین کا مذہب ہے جو نفس ناطقہ کا انکار کرتے ہیں۔ (۲) صرف معاد روحانی کا ثبوت یہ مذہب فلاسفہ الہیین کا ہے۔ (۳) دونوں کا ثبوت اور یہی اکثر محققوں کا مذہب ہے مثلاً حلمی، غزالی، راغب، ابوزید، الادموسی معمر (جو کہ قدیم معتزلیوں میں سے ہے) اور عموماً متاحرین شیعہ اور اکثر صوفیوں کا۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ انسان حقیقت میں صرف نفس ناطقہ کا نام ہے وہی مکلف ہے وہی عاصی اور مطیع ہے اسی پر ثواب عذاب ہوتا ہے اور بدن تو بجائے ایک آلہ کے کام دیتا ہے۔ جسم خراب ہو جاتا ہے پھر بھی نفس باقی رہتا ہے پس جب خدا قیامت کے دن مخلوقات کو اٹھانا چاہے گا تو ہر ایک روح کے لیے ایک مخصوص جسم بنا دے گا جس سے روح کا تعلق ویسا ہی ہو گا جیسا کہ دنیا میں تھا۔ (۴) ان دونوں میں سے کسی کا ثبوت نہیں فلاسفہ طبعیین میں سے قدما کا یہی مذہب ہے۔ (۵)بالکل سکوت اختیار کرنا یہ مذہب جالینوس سے منقول ہے اس کا قول ہے کہ مجھ کو یہ نہیں ثابت ہوتا کہ نفس آیا مزاج ہے تو موت کے وقت معدوم ہو جاوے گا تو اس کا اعادہ ناممکن ہو گا یا وہ ایک جوہر ہے جو بدن کے خراب ہونے پر باقی رہتا ہے اس حالت میں معاد بھی ممکن ہو گی۔ میرے نزدیک قول ثالث جو مذہب اکثر محققین کا ہے صحیح ہے صرف اس قدر اختلاف ہے کہ میں ان بزرگوں کی اس رائے کو کہ جب خدا تعالیٰ حشر کرنا چاہے گا تو ہر ایک روح کے لیے ایک جسم پیدا کر دے گا جس سے وہ روح متعلق ہو جاوے گی تسلیم نہیں کرتا میرے نزدیک یہ بات ہے کہ روح نسمہ سے جب مل جاتا ہے تو خود ایک جسم پیدا کر لیتی ہے اور جب انسان مر جاتا ہے اور روح اس سے علیحدہ ہوتی ہے تو خود ایک جسم رکھتی ہے جیسے کہ مسئلہ خامسہ میں ہم نے بیان کیا ہے پس حشر میں کوئی نئی زندگی نہیں ہے بلکہ پہلی ہی زندگی کا تتمہ ہے۔ شاہ ولی اﷲ صاحب کا بھی یہی قول ہے جیسا کہ انہوں نے حجۃ اﷲ البالغہ میں کہا ہے۔ ان حشر الاجساد و اعادۃ الارواح الیھا یست حیواۃ متانفۃ انما ہی تتمۃ انشاۃ المتقدمۃ بمنزلۃ التخمۃ لکثرۃ الاکل کیف ولولا ذالک لکانو غیر الاولین و لما اخذوا بما فعلوا۔ (حجۃ اﷲ البالغہ صفحہ ۳۶) یعنی جسموں کا اٹھنا اور روحوں کا ان میں پھر آنا یہ کوئی نئی زندگی نہیں ہے بلکہ اسی پہلی زندگی کا تتمہ ہے جس طرح زیادہ کھا جانے سے بدہذمی ہو جاتی ہے اگر ایسا نہ ہو تو لازم آوے کہ یہ کوئی دوسری خلقت ہو ان لوگوں کے کیے کا (یعنی جو دنیا میں تھے) کچھ بدلا ہی نہ ہو۔ قرآن مجید سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ تمام آیات ما سبق و ما لحق پر بامعان نظر ایک مجموعی حالت سے غور کیا جاوے نہ فرداً فرداً اور ایک مضمون کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے۔ اول یہ بات قابل غور ہے کہ کون سے عقیدہ کے رد کرنے کے لیے قرآن مجید میں آیات حشر و نشر وارد ہوئی ہیں۔ خزد قرآن مجید سے پایا جاتا ہے کہ جن لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ روح کوئی چیز نہیں ہے انسان پیدا ہوتا ہے اور مر کر نسیاً منسیاً ہو جاتا ہے۔ ہوا ہوا میں مٹی مٹی میں مل جاتی ہے اور کچھ نہیں رہتا اس عقیدہ کی تردید کے لیے آیات حشر و نشر نازل ہوئی ہیں۔ چناں چہ اﷲ تعالیٰ نے سورہ جاثیہ میں ان لوگوں کا قول نقل کیا ہے کہ: و قالوا ماہی الاحیاتنا الدنیا نموت و یخی و ما پھلکنا الا الدھر ومالھم بذالک من علم ان ہم الا یظنون و اذا تتلی علیھم آیاتنا بینات ما کان حجتم الا ان قالو ائتو با ابائنا ان کنتم صاقین۔ (۴۵ سورہ جاثیہ ۲۳۔ ۲۴) یعنی وہ کہتے ہیں کہ ہماری دنیا کی زںدگی کیا ہے ہم مرتے ہیں اور ہم جیتے ہیں اور ہم کو زمانہ ہی مارتا ہے نہ اور کوئی۔ خدا نے کہا کہ ان کو اس کا علم نہیں ہے وہ صرف ایسا گمان کرتے ہیں اور جب ان پر ہماری واضح آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو ان کی حجت بہ جز اس کے اور کچھ نہیں ہوتی کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا کو لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ اسی کی مانند سورہ انعام میں بھی خدا تعالیٰ نے ان کا قول نقل کیا ہے کہ: و قالوا ان حیاتنا و مانحن بمبعوثین و لو تریٰ اذ و قفوالی ربھم قال الیس ہذا بالحق قالوا بلی و ربنا (۶ سورہ انعام ۳۰ و ۳۱) یعنی ہماری یہ کیا ہے صرف دنیا کی زندگی ہے اور ہم پھر اٹھنے والے نہیں ہیں۔ خدا نے فرمایا ہے کہ جب تو دیکھے گا۔ ان کو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہوا تو خدا ان سے کہے گا یہ سچ نہیں ہے اس وقت وہ کہیں گے کہ ہاں قسم ہمارے پروردگار کی یہ سچ ہے۔ سورہ صافات میں ہے کہ۔ ائذامتنا و کنا ترابا و عظاما ائنا المدینون۔ یعنی۔ ’’وہ لوگ کہیں گے کہ کیا جب ہم مر جاویں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہو جاویں گے کیا بدلا دیے جاویں گے یعنی اعمال کی سزا و جڑا ہم کو دی جاوے گی‘‘ پس اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو موت کے بعد جزا و سزا ہونے سے استبعاد تھا اور استبعاد کا سبب بہ جز روح کے اور کچھ نہیں ہو سکتا اور اس سے بخوبی روشن ہوتا ہے کہ اس مباحثہ کا موضوع درحقیقت اس جسم کا جو ہم دنیا میں رکھتے ہیں دوبارہ پتلا بنا کر اٹھنے کا تھا ہی نہیں بلکہ جزا و سزا کا بعد موت ہونا موضوع تھا اور یہی سبب ہے کہ ہم ان تمام آیتوں کا معدوم جسم کے دوبارہ موجود ہونے سے کچھ تعلق ہی نہیں سمجھتے۔ اب اس بات کو ذہن میں رکھ کر آیت حشر واسطے تردید عقیدہ عدم یقین روح کے نازل ہوئی ہیں قرآن مجید پر غور کیا جاوے تو ظاہر ہوتا ہے کہ موضوع اس بحث کا اس جسم کے جو ہم اس دنیا مین رکھتے ہیں دوبارہ اٹھنے کا ہے ہی نہیں اور نہ قرآن مجید میں اس جسم کے دوبارہ اٹھنے کا ذکر ہے۔ جب کہ وہ لوگ روح کے قائل نہ تھے تو ثواب و عقاب کا حال سن کر ان کو تعجب ہوتا تھا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ جب آدمی مر گیا تو گل سڑ کر معدوم ہو گیا ثواب و عذاب کیسا اور کس پر اور متعجب ہو کر کہتے تھے کہ کیا ہم پھر زندہ ہوں گے۔ کیا ہماری گلی ہوئی ہڈیاں پھر جی اٹھیں گی کیوں کہ وہ لوگ بغیر اس دنیا کی زندگی اور بدون اس جسم کے جو دنیا میں تھا انسان کا موجود ہونا جس پر عذاب ہو یا ثواب ملے نہیں سمجھتے تھے۔ خدا نے متعدد طرح سے اس کو سمجھایا اور حشر کے ہونے پر یقین دلایا اور اس پر اپنے قادر ہونے کو متعدد مثالوں سے بتایا مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ یہی جسم جو دنیا میں ہے پھر اٹھے گا اور اسی جسم میں پھر جان ڈالی جاوے گی۔ شاہ ولی اﷲ صاحب اس جسم کے جو دنیا میں ہے دوبارہ اٹھنے کے قائل نہیں ہیں چناں چہ انہوں نے تفہیمات الٰہیہ میں بعد بیان واقعات قیامت کے لکھا ہے کہ: انفس ماقت و ہی اشد ذما ما بالجسد و بقیت عجب ذنبھا اے الا ژالذی بہ تعرف انہ بدن فلان فیلصق بالجسد و یجی جنس آخر ہا یمۃ ولا کن لم یبق عجب ذینھا فینفخ فی جسد من الارض باعتدال ہناک و جنس اخر یستوجب عند ہیجان الارواح و انتفاخہا ان یتجسد بجسد مثالی کا الملائکہ و الشیاطین۔ فلا یکون تلک الحیاۃ مبتداۃ بل لتکمیل ما فیھا مجازاۃ فیتصعد تلک الاجساد و الی ہیئۃ نسمیۃ و تدخل فی حوادث الحشر۔ (تفہیمات الھیہ صفحہ ۳۸۸) یعنی ’’اس کے بعد نفوس جو مر گئے ہیں یعنی جو صاحب نفوس کہ مر گئے ہیں ان کے نفوس کھڑے ہو جاویں گے اور ان کا تعلق جسم سے قوی تر ہو گا اور ریڑھ کی ہڈی باقی رہ جاوے گی یعنی ایک ایسا نشان جس سے پہچانا جاوے کہ یہ فلاں شخص کا بدن ہے پھر وہ بدن سے مل جاوے گی۔ ایک اور قسم کی روحیں آویں گی جو حیران ہوں گی کہ ان کی ریڑھ کی ہذی کا نشان ہی باقی نہ رہا ہو گا تو وہ ایک ایسی زمین میں پھونکی جاویں گی جس سے ان کو کچھ مناسبت ہو گی۔ ایک اور قسم کی روحیں آویں گی جن کو روحوں کے برانگیختہ ہونے اور صور کے پھوکنے کے وقت ایک مثالی جسم اختیار کرنا ہو گا۔ فرشتوں اور شیاطین کے جسم مثالی کی مانند۔ تو یہ زندگی کوئی ابتدائی زندگی نہ ہو گی بلکہ اس کی تکمیل کے لیے ہو گی جو ان مین بطور بدلا دینے کے پھر یہ جسم ایک ہیئث نسمیہ میں اوپر کو چڑھیں گے اور حشر کے واقعات میں داخل ہوں گے۔‘‘ اس مقام پر شاہ ولی اﷲ صاحب نے تین قسم کی روحیں ٹھیرائی ہیں اور ان کے لیے متعدد قسم کے جسد قرار دیے ہیں مگر اس جسد کا جو دنیا میں قبل موت تھا اس کا دوبارہ اٹھنا اور اس مین روح کا آنا بیان نہیں کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شاہ صاحب بھی اس جسد کے جو دنیا میں ہے اٹھنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ انہوں نے بھی اسی قول ثالث کو اختیار کیا ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ شاہ ولی اﷲ صاحب کے سوا اور مفسرین نے بھی اس قول کی تائید کی ہے چناں چہ تفسیر کبیر میں سورۂ قیامہ کی تفسیر میں یہ تقریر لکھی ہے کہ: قولہ۔ ایحسب الانسان ان لن نجمع عظامہ۔ و تقریرہ ان الانسان ہو ہذا لبدن فاذا مات تفرقت اجزاء البدن و اختلطت تلک الاجزاء بسائر اجزاء التواب و تفرقت فی مشارق الارض و مغاربھا فکان تمیزہا بعد ذالک من غیرہا محالا فکان البعث محالا و اعلم ان ہذہ الشبہۃ ساقطۃ من وجھین۔ الاول لانسلم ان الانسان ہو ہھا البدن فلم لایجوزان یقال انہ شی مدیر لہذا لبدن فاذا فد ہذا لبدن بقی ہو حیا کما کان و حینئذ یکون اﷲ تعالیٰ قادر اعلی ان یردہ الی اے بدن شاء داراد و علی ہذا لقول یسقط السوال و فی الایۃ اشارۃ الی ہذا لانہ اقسم بالنفس اللوامہ ثم قال ایحسب الانسان ان لن نجمع عظامہ و ہو تصریح بالفرق بین النفس و البدن۔ (تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۴۰۸) جعنی۔ جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ انسان تو یہی موجودہ بدن ہے پھر جب انسان مر گیا تو بدن کے اجزاء متفرق ہو گئے اور مٹی میں مل کر مشرق سے مغرب تک اور مغرب سے مشرق تک پھیل گئی اب ان اجزاء کا دوسری مٹی کے اجزاء سے ممتاز ہونا ناممکن ہے تو قیامت بھی ناممکن ہو گی تو یہ اعتراض دو طور سے مندفع ہوتا ہے۔ (۱) ہم کو یہ تسلیم نہیں کہ انسان اس بدن کا نام ہے ممکن ہے کہ وہ ایک ایسی چیز ہو جو اس بدن کی مدبر ہو اور جب بدن خراب ہو جاوے تو وہ اپنی حالت پر زندہ رہے۔ اب خدا کو اس بات پر قدرت ہے کہ اس کو کوہی اور بدن دے دے چناں چہ اس آیت میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیوں کہ خدا نے پہلے تو نفس لوامہ کی قسم کھائی پھر فرمایا کہ کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں نہ اکٹھی کریں گے۔ اس سے صاف پیدا ہوتا ہے کہ نفس اور بدن دو چیزیں ہیں۔ اب ہم یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ قرآن مجید سے بھی اس موجودہ جسم کا دوبارہ اٹھنا نہیں پایا جاتا بلکہ ایک اور قسم ے جسم ا ہونا ثابت ہوتا ہے خدا نے سورۂ واقعہ میں فرمایا ہے کہ : نحن خلقنا کم فلو لا تصدقون افرئیتم ماتمنون انتم تخلقونہ ام نحن الخالقون۔ نحن قدرنا بینکم الموت و ما نحن بمسبعوقین علیٰ ان نبدل امثالکم و ننشئکم فی ما لا تعلمون۔ (۵۶ سورۂ واقعہ ۵۷- ۶۱) یعنی۔ ہم نے تم کو پیدا کیا پھر کیوں نہین تم نہیں مانتے۔ پھر کیا تم سمجھتے ہو جو کچھ تم عورتوں کے رحم میں ڈالتے ہو کیا تم اس کو پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں۔ ہم نے مقدر کی ہے تم میں موت اور ہم اس بات سے پیچھے نہیں رہے یعنی عاجز نہیں ہیں کہ ہم بدل دیویں اوصاف تمہارے اور ہم تو کو پیدا کریں اس صفت میں جس کم تم نہیں جانتے۔ اس آیت میں لفظ امثال کا جمع ہے لفظ مثل بفتح المیم و الثا، کی اور تمام آیات ما سبق و ما لحق سے جو اس سورۃ میں ہیں صاف ظاہر ہے کہ حالات حشر اس میں مذکور ہیں۔ خدا فرماتا ہے کہ ہم نے موت کو تم میں مقدر کیا ہے اور ہم اس بات سے عاجز نہیں ہیں کہ جو اس زندگی میں تمہارے اوصاف ہیں ان کو بدل دیں اور پیدا کریں ایسے اوصاف میں جن کو تم نہیں جانتے۔ لفظ پیدا کرنے سے صاف پایا جاتا ہے کہ موجودہ اوصاف کے معدوم ہونے کے بعد پیدا کرنا مراد ہے۔ جو لوگ روح کے قائل نہیں تھے اور وہی لوگ حیات بعد الموت کے قائل نہ تھے اور وہی لوگ ان آیتوں میں مخاطب ہیں۔ اسی بدن کو جو انسان دنیا میں رکھتا ہے انسان کے اوصاف سمجھتے تھے۔ طویل القامت بادی البشرہ عریض الاظفار باش علیٰ قدمیہ و غیر ذالک۔ اب خدا نے فرمایا کہ ان اوصاف یعنی اس جسم کے فنا ہونے کے بعد ہم اس بات سے عاجز نہیں ہیں کہ ان اوصاف کو بدل کر تم کو اور اوصاف میں یعنی دوسری قسم کے جسم میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کریں۔ پس یہ آیت صاف دلیل اس بات کی ہے کہ حیات بعد الموت میں روح کے لیے یہ جسم جو دنیا میں ہے نہ ہو گا بلکہ ایک اور قسم کا جسم ہو گا۔ یہ وہ حقائق ہیں جو نہ حکمت یونان میں پائے جاتے ہیں اور نہ فلسفہ و علم کلام میں بلکہ یہ انوار ہیں مشکواۃ نبوت محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم کے جو بلا واسطہ سفینہ سینہ منورہ محمدیؐ سے سینہ احمدی میں پہنچے ہیں۔ گو کہ نابلدان کوچہ حقیقت ان انوار محمدیؐ کو نعوذ باﷲ کفر و زندقہ سے تعبیر کریں۔ و ما تلک الاشقشقۃ ہدرت فجاشت النفس النفس یما ہجس لہا ثم قرت مع ان لکل جواد کبوہ و لکل سیف نبوہ۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ لمؤلفہ فلاطون طلفکے باشد بہ یونانے کہ من دارم مسیحا رشک میدارد درمانے کہ من دارم زکفر من چہ میخواہی زایمانم چہ مے پرسی ہماں یک جلوۂ عشق است ایما نے کہ من دارم ندارد ہیچ کافر ساز و سامانے کہ من دارم ز جبریل امیں قرآن بہ پیغامے نمیخواہم ہم گفتار معشوق است قرآنے کہ من دارم فلک یک مطلع خورشید دارد باہمہ شوت ہزاراں اینچنیں دارد گربیانے کہ من دارم زبرہان تابہ ایماں سنگ ہا دارد رہ واعظ نادرد ہیچ واعظ ہمچو برہانے ہ من درام اب ہم قرآن مجید کی اور آیتوں کو جو اس مضمون سے زیادہ تعلق رکھتی ہیں اس مقام پر لکھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جب بامعان نظڑ ان کو دیکھاجاوے اور منکرین روح کے عقائد کو بھی مدنظر رکھا جاوے تو ان سے اس جسم کا جو دنیا میں ہے دوبارہ اٹھنا ثابت نہیں ہوتا اور وہ آیتیں یہ ہیں۔ خدا نے سورہ نوح میں فرمایا ہے کہ: ۱- و اﷲ انبتکم من الارض نباتا ثم یعید کم فیھا و یخر جکم اخراجا- (۷۱- سورہ نوح ۱۶ و ۱۷) یعنی خدا نے اگایا تم کو زمین سے ایک قسم کا اگانا پھر تم کو پھر کر لے جاوے گآ اس میں اور نکالے گا تم کو ایک طرح کا نکالنا۔ انسان زمین سے مثل نباتات کے نہیں اگا۔ اسی طرح و مثل نباتات کے دوبارہ زمین سے نکلے گا پس یہ صرف تشبیہ معدوم ہونے کے بعد پھر پیدا ہونے کی ہے نہ اس بات کی کہ انسان بعد مرنے کے مثل نباتاب کے پھر زمین سے نکلیں گے۔ و یخر جکم اخراجا میں لفظ منہا کے ترک ہونے سے یعنی و یخر جکم منہا اجراجا نہ کہنے سے اس مطلب کو جو ہم نے بیان کیا اور زیادہ تقویت ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے سورہ اعراف میں اس طرح پر بیان فرمایا ہے کہ: ۲- ہو الذی یرسل الریاح بشرا بین یدی رحمۃ حتی اذآ قلت سحا باثقا لا سقناہ بلدمیت فانزلنا بہ الماء فاخرجنا بہ من کل الثمرات کذالک نخرج الموتی لعلکم تذکرون- یعنی وہ وہ ہے جو بھیجتا ہے ہواؤں کو خوش خبری دینے والیاں اپنی رحمت کے آنے کی یہاں تک کہ جب اٹھاتی ہیں بوجھل بادل تو ہم ان کو ہانک لے جاتے ہیں مرے ہوئے شہر کو پھر اس سے برساتے ہیں پانی پھر ہم اس سے نکالتے ہیں ہر طرح کے میوے اسی طرح ہم نکالیں گے مردوں کو۔ ادنیٰ تامل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں بھی صرف معدوم ہونے کے پھر موجود ہونے کا بیان ہے اس سے زیادہ اور کسی چیز کا بیان نہیں اور اس مطلب کو سورۂ ملائکہ کی آیت کو جو ابھی ہم لکھتے ہیں زیادہ صاف کر دیتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے سورہء ملائکہ میں فرمایا ہے: ۳- و اﷲ الذی ارسل الرباح فتبشر سجا با مستقناہ الیٰ بلدمیت فاحیینا بہ الارض بعد موتھا کذالک النشور۔ (۳۵- سورۂ ملائکہ ۱۰) یعنی اور اﷲ وہ ہے جس نے بھیجا ہے ہواؤں کو پھر اٹھاتی ہیں بادلوں کو پھر ہم اس کو ہانک لے جاتے ہیں مرے ہوئے شہر کی طرف پھر اس سے زندہ کرتے ہیں زمین کو اس کے مر جانے کے بعد اسی طرح مردوں کا زںدہ ہونا ہے۔ اس آیت ’’نخرج‘‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ نشر کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صرف مردوں کے پھر موجود ہونے کی تشبیہ ہے نہ اس جسم کی جو دنیا میں موجود تھا قبر میں سے نکلنے کی۔ ظاہر میں سورۂ طٰہٰ کی آیت اس امر کی جو ہم نے بیان کیا مخالف معلوم ہوتی ہے کیوں کہ اس میں لفظ منہا کا بھی موجود ہے جوسورۂ اعراف کی آیت میںنہ تھا مگر ہر گز وہ آیت مخالف نہیں ہے۔ سورۂ طٰہٰ میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ: ۴- منہا خلقنا کم و فیھا نعید کم و منہا نخرجکم تارت اخریٰ- (۲۰ طٰہٰ- ۷۵) ہم نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور اسی میں پھر کر لے جاویں گے اور اسی سے تم کو دوسری دفعہ نکالیں گے۔ انسانوں کو خدان ے زمین سے پیدا کیا ماں کے پیٹ سے پیدا کیا ہے پس اس کا زمین سے پیدا کرنا مجازاً بادنیٰ ملابست بولا گیا ہے اسی طرح اس کے مقابلے میں زمین سے دوسری دوفعہ نکلنا بھی مجازاً بادنی ملابست بولا ہے۔ پس اس سے یہ مطلب کہ یہی جسم جو دنیا میں موجود تھا پھر دوبارہ زمین سے نکلے گا ثابت نہیں ہوتا۔ ایک اور آیت بھی ہے جس کی تحقیق اسی مقام سے مناسب ہے اور وہ سورۂ ق کی آیت ہے خدا تعالیٰ یوں فرمایا ہے کہ: و استمع یوم نیاوی المناد و من کان قریب یوم یسمعون الصیحۃ بالحق ذالک یوم الخروج۔ انا نحن و نمیت و الینا المصیر یوم نشق الارض عنہم سراعا ذالک حشر علینا یسیر- (۵۰ سورۂ ق ۳۸- ۴۳) یعنی سن ایک دن پکارے گا پکارنے والا پاس کے مقام سے ایک دن سنے گے زور کی آواز یہ ہے دن نکلنے کا یعنی اپنی اپنی جگہ سے روحوں کے معہ ان اجسام کے جو مفارقت بدن کے وقت ان کو حاصل ہوئی تھی نکلنے کا اور ایک جگہ جمع ہونے کا نہ یہ کہ ان اجسام کا جو دنیا میں موجود تھے دوبارہ پتلا بن کر نکلنے کا۔ اس کے بعد خدا نے فرمایا کہ بے شک ہم زندہ کرتے ہیں اور ہم مار ڈالتے ہیں اور ہماری طرف پھر آنا ہے جلدی کرتے ہوئے اس دن کہ پھٹ جاوے گی ان سے زمین یہ اکٹھا کرنا ہم پر اسان ہے۔ اس جملہ سے یہ سمجھنا کہ زمین کا پھٹنا مردوں کے جسم کے نکلنے کا باعث ہو گآ محض غلط خیال ہے بلکہ یوم تشقق الارض سے یوم قیامت مراد ہے وار متعدد آیتوں میں یہ مضمون اسی مراد سے آیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن سب روحیں اکٹھی ہوں گی اس آیت کو ان جسموں کے جو دنیا میں تھے دوبارہ اٹھنے سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔ خدا تعالی نے سورۂ نازعات میں فرمایا ہے کہ: یقولون آئنا لمردودون فی الحافرہ آئذا کنا عظاماً نخرہ قالوا تلک اذا کرۃ خاصرہ فانما ہی زجرۃ واحدۃ فاذا ہم بالساہرہ۔ (۷۹- سورہ نازعات ۱۰- ۱۴) یعنی کہتے ہیں کہ ہم لوٹائے جاویں گے الٹے قدموں۔ کیا جب ہوں گے ہم ہڈیاں گلی ہوئی کہتے ہیں کہ یہ (لوٹانا) اس وقت پھر آتا ہے نقصان کا۔ اس کے سوائے کچھ نہیں کہ وہ ایک سخۃ آواز ہے پھر یکایک وہ ایک میدان میں ہوں گے جس میں نیند نہ آتی ہو۔ منکرین حشر کے جو یہ الفاظ۔ آئذا کنا عظاما نخرہ اس آیت میں اور مثل اس کے اور آیتوں میں آئے ہیں جیسے کہ۔ ائذاکنا ترابا و عظما۔ اور من یحیی العظام و ہورمیم اور ائذاکنا عظاما و رفاقا آئنا لمبعوثون۔ یہ ان کے اقوال اسی خیال پر مبنی ہیں کہ وہ انسان کو بجز اس جسم موجوہد کے اور کچھ نہیں جانتے تھے یعنی روح کے وجود کے قائل نہ تھے اور اسی سبب سے وہ تعجب کرتے تھے کہ اس جسم کے گل جانے اور معدوم ہو جانے کے بعد پھر کیوں کر وہ اٹھے گا اور اسی استبعاد کے سبب وہ اس قسم کے شبہات کرتے تھے۔ روح کی حقیقت وہ نہیں سمجھ سکتے تھے بلکہ اس کی ماہیت مثل دیکر اشیاء کی ماہیت کے انسان کی سمجھ سے خارج تھی اور خدا تعالی طرح طرح سے ان کے ستعباد کو دور کرتا تھا اور حشر کے ہونے پر یقین دلاتا تھا کبھی تمثیل میں اور کبھی اپنے قادر مطلق ہونے میں پس ان الفاظ سے جو منکرین روح استبعاد رکھتے تھے اور ان کے جواب تمثیلی یا اس کے مقابلہ میں اظہار قدرت کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسی جسم کا جو وہ دنیا میں رکھتے تھے اور جس کا گلجانا اور معدوم ہو جانا کہتے تھے اسی جسم کو خدا پھر اٹھاوے گا۔ سورۂ مومن، سورۂ صافات و سورۂ واقعہ میں بالفاظ متحدہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ: قالوا ائذ امتنا و کنا ترا با و عظاما آئنا لمبعوثون (انتہیٰ) و کانو یقولون ائذ امتنا و کنا ترابا و عظاما آئنا لمبعوثون اواباء نا الا ولون قل ان الاولین الاخرین لمجعون الی میقات یوم معدوم- (۵۶ سورۃ واقعہ ۴۶- ۵۰) کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مر جاویں گے اور ہم ہو جاویں گے مٹی اور ہڈیاں کیا ہم اٹھائے جاویں گے اور سورۂ واقعہ میں خدا نے فرمایا اور وہ کہتے تھے کہ کیا جب ہم مر جاویں گے اور ہو جاویں گے مٹی اور ہڈیاں کیا ہم پھر اٹھائے جاویں گے کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی (اٹھائے جاویں گے) کہہ دے کہ بے شک اگلے اور پچھلے ضرور اکٹھے کیے جاویں گے وقت دن معین ہیں۔ اس آیت میں سوال تھا کہ کیا ہم اور ہماے باپ دادا اٹھائے جاویں گے اس کا جواب یہ ملا کہ بے شک اکٹھے کیے جاویں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں جہاں قرآن مجید میں بعث کا لفظ آیا ہے اس سے جمع کرنا مراد ہے نہ اس جسم کو جو ہم دنیا میں رکھتے ہیں بعد معدوم ہو جانے کے پھر پتلا بنا کر اٹھانا۔ بعث کا اطلاق لشکر پر ان معنوں میں آتا ہے جب کہ ان کو ایک جگہ جمع ہونے کا حکم دیا جاتا ہے پس اس آیت میں خود خدا نے بعث کے معنوں کی تشریح کر دی ہے اور اس لیے اس کے کوئی دوسرے معنی نہیں لیے جا سکتے۔ سورہ۱ حج میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ: و تری الارض ہامدۃ فاذا انزلنا علیھا الماء اہھزت و ربت و انبتت من کل زوج بھیج ذالک بان اﷲ ہو الحق و انہ یحیی الموتی و انہ علیٰ کل شئی قدیر و ان الساعۃ اتیۃ لا ریب فیھا و اﷲ یبعث من فی القبور۔ (۲۲ سورۃ الحجج ۵ و ۶ و ۷) یعنی اور دیکھتا ہے کہ زمین خشک ہو گئی پھر جب ہم برساتے ہیں اس پر پانی تو پھولتی ہے اور بڑھتی ہے اور اگاتی ہے ہر قسم کی خوش آیند چیزیں یہ اس لیے ہے کہ اﷲ وہی برحق ہے اور یہ کہ وہی زندہ کرتا ہے مردوں کو اور یہ کہ وہ ہر شے پر قادر ہے اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے اس میں کچھ شک نہیں اور یہ کہ اﷲ اٹھاوے گا ان کو جو قبروں میں ہیں۔ اور سورۂ یسین میں فرمایا ہے و نفخ فی الصور فاذا ہم من الجداث الیٰ ربھم ینسلون۔ قالوا با و یلنا من بعثنا من مرقدنا ہذا ما وعد الرحمن و صدق المرسلون ان کانت الا صیحۃ واحدۃ فاذا ہم جمیع لدینا محضرون۔ (۳۶ یسین ۵۱- ۵۳) یعنی پھونکا جاوے گا صور میں پس یکایک وہ قبروں میں سے اپنے پروردگار کے پاس دوڑیں گے کہیں گے اے وائے ہم پر کس نے اٹھایا ہم کو ہمارے مرقد سے یہ وہ ہے جس کا وعدہ کیا تھا خدا نے اور سچ کہا تھا پیغمبروں نے یہ نہیں تھا مگر ایک تند آواز میں پھر فعۃً وہ سب ہمارے پاس حاضر ہونے والے ہیں۔ اگرچہ ان آیتوں میں خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کا قبروں میں سے اٹھنا ان کو جو بعث کے بہ سبب نہ یقین کرنے روح کے منکر محض تھے زیادہ تر یقین دلانے کو بالفاظ ’’من فی القبور‘‘ اور ’’من الاجداث‘‘ کے بیان فرمایا ہے یعنی جن کو تم قبروں میں گڑا ہوا اور گلا سڑا خاک میں ملا ہوا سمجھتے ہو وہی قبروں میں سے اٹھیں گے۔ مگر درحقیقت مقصود اور موضوع کلام کا یہ نہیں ہے کہ وہ کہاں سے اٹھیں گے کیوں کہ بہت سے ایسے ہیں جو قبروں میں نہیں ہیں آگ میں جلا دیے گئے ہیں جانور کھا گئے ہیں بلکہ مقصود مردوں کا یعنی جن کو ہم مرا ہوا سمجھتے ہیں اور جن پر مردے کا اطلاق ہوتا ہے قیامت میں ان کا موجود ہونا ہے لیکن اگر ہم کچھ غور نہ کریں اور یہی سمجھیں کہ جو لوگ قبروں میں دفن ہیں وہی اٹھیں گے تو بھی ان آیتوں سے یہ بات کہ ان کا یہی جسم ہو گا جو دنیا میں رکھتے تھے کس طرح سے پایا نہیں جاتا۔ قرآن مجید میں دو اور عجیب آیتیں ہیں جن سے ثآبت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن نہ کسی معدوم جسم کا دوبارہ پتلا بنا کر اٹھایا جاوے گآ نہ کوہی جدید جسم ان کو ملے گا بلکہ وہی جسم ہو گا جو روح و نسمہ کے اختلاط سے روح نے حاصل کیا تھا اور بعد مفارقت بدن روح نے جو اس جسم کے مفارقت کی تھی پس جیسا کہ اہ ولی اﷲ صاحب نے فرمایا کہ نشا آخرت تکملہ اسی حیات کا ہو گا نہ حلق جدید بالکل ٹھیک معلوم ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے سورۃ الاسریٰ میں فرمایا ہے۔ و قالو ائنا کنا عظما و رفاتا ائنا لمبعوثون خلقا جدیدا قل کونوا حجارۃ او جدیدا اوخلقا مما یکبر فی صدور کم فسیقولون من یعیدنا قل الذی فطر کم اول مرۃ فسینقضون الیک رؤسھم و یقولون متی ہو قل عسی ان یکون قریبا۔ (۱۸- سورۃ الاسری- ۵۲ و ۵۳) یعنی اور کہتے ہیں کہ جب ہڈیاں اور گلے ہوئے ہو جاویں گے تو کیا ہم پھر اٹھائے جاویں گے۔ نئے پیدا ہو کر۔ کہہ دے کہ تم پتھر ہو جاؤ یا لہا یا اس قسم کی پیدائش جو تمہارے دل کو بڑی مستحکم لگتی ہو تب بھی تم کہو گے کہ کون ہم کو لوٹاوے گا۔ کہدے کہ وہ جس نے پیدا کیا تم کو پہلی دفعہ پھر جھکا دیں گے اپنے سروں کو تیری طرف اور کہنے لگیں گے وہ کب ہو گا کہدے کہ شاید یہ ہووے قریب۔ اور سورۂ سجدہ میں خدا نے فرمایا ہے۔ و قالوا ائنا ضللنا فی الارض ائنا لفی خلق جدید بل ہم بلقاء ربھم کافرون قل یتوفا کم ملک الموت الذی و کل بکم ثم الیٰ ربکم ترجعون - (سورہ سجدہ۹- ۱۰) یعنی اور انہوں نے کہا کہ جب ہم زمین میں گم ہو جاویں گے (یعنی گل گلا کر مٹی ہو کر اس میں مل جاویں گے) تو کیا ہم ایک نئی پیدائش میں آویں گے۔ بلکہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے کے منکر ہیں کہہ دے کہ تم کو ملک الموت مارے گا جو تم پر متعین ہے پھر اپنے پروردگار کے پاس پھر جاؤ گے۔ ان آیتوں میں باجوود دیکھ سوال خلق جدید سے تھا مگر خدا نے اس کو قابل جواب نہیں سمجھا کیوں کہ خود سوال ہی باطل تھا۔ خلق جدید خلق سابق کے اعمال کی سزا و جزا کی مستحق نہیں ہو سکتی۔ ایک جگء تو یہ فرمایا کہ تم کو پھر وہی حشر میں لاوے گآ جس نے تم کو اول مرتبہ پیدا کیا تھا اور لانے کی کچھ تفصیل نہیں بتلائی اور دوسری آیت میں فرمایا کہ ان کی یہ باتیں اس بناء پر ہیں کہ اپنے پروردگار سے ملنے کے منکر ہیں اور یہ جواب دیا کہ جب مرو گے تو اپنے پروردگار کے پاس جاؤ گے۔ غرض کہ ان آیتوں سے بھی اس جسم کا جو دنیا میں ہے دوبارہ پتلا بن کر اٹھنا ثابت نہیں ہوتا۔ دو آیتیں اور ہیں جن کا ہم اس مقام پر ذکر کریں گے ایک آیت سورۃ یسین کی ہے۔ خدا نے فرمایا کہ: و ضرب لنا مثلا و نسی خلقہ قال من یحیی العظام و ہی رمیم قل یحبہا الذی انشاء ہا اول مرۃ و ہو بکل خلق علیم۔ (۳۲ سورۃ یسین ۷۸- ۷۹) یعنی ہمارے لیے یہ مثال تو لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کون زںدہ کرے گا ہذیوں کو اور وہ تو گل گئی ہوں گی اور اپنے پیدا ہونے کو بھول جاتے ہیں کہدے کہ ان کو زندہ کرے گا وہ جس نے تم کو پیدا کیا پہلی دفعہ اور وہ ہر قسم کی آفرینش کو جانتا ہے۔ اور سورۂ قیامہ میں فرمایا ہے کہ: ایحسب الانسان ان لن نجمع غطامہ۔ بلی قادرین علیٰ ان نسوی بنالہ (۷۵ سورۂ قیامہ ۳- ۴) یعنی کیا گمان کرتا ہے کہ ہم ہڈیوں کو اکٹھا نہ کریں گے یہ بات نہیں ہے بلکہ ہم اس پر قادر ہیں کہ انگلیوں کی پوریوں کو بھی درست کر دیں۔ اور سورۂ جاثیہ میں خدا نے فرمایا ہے کہ قل اﷲ یحیکہ ثم یمیتکم ثم یجمعکم الی یوم القیامہ (۴۵ جاثیہ ۲۵) یعنی کہ اﷲ تم کو جلاتا ہے پھر تم کو مار ڈالے گا پھر تم کو قیامت کے دن اکٹھا کرے گا۔ ان تینوں آیتوں میں سے پہلی دو آیتیں ایسی ہیں جن پر متکلمین نافین نفس ناطقہ استدلال کر سکتے ہیں جیسا کہ شرح مواقف میں مذہب اول بیان کیا گیآ ہے اور کہہ سکتے ہیں ہیں کہ جب انہی گلی ہوئی ہڈیوں کے زںدہ کرنے کا بیان ہوا ہے اور انگلیوں کے پوروں تک کا بنا دینا بتایا ہے تو اس سے اسی جسم کا جو دنیا میں ہے دوبارہ پتلا بن کر اٹھانا پایا جاتا ہے۔ مگر یہ خیال دو طرح پر غلط ہے ایک اس لیے کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ کسی سوال کے جواب میں صرف اظہار قدرت سے اس بات کا ثبوت کہ یہی جسم جو دنیا میں ہے۔ دوبارہ پتلا بنا کر اٹھایا جاوے گا لازم نہیں آتا۔ دوسرے یہ کہ اسی کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ ہو بکل خلق علیم۔ یعنی وہ ہر قسم کے پیدا کرنے کو جانتا ہے کہ گلی ہوئی ہڈیوں کی زںدگی کیا چیز ہے اور وہ کیوں کر ہوتی ہے۔ پھر اس سے یہ سمجھنا کہ وہ گلی ہوئی ہڈیاں دوبارہ ایسی ہی ہو جاویں گی جیسے کہ اب اس زندگی میں ہیں ایک صریح غلطی ہے۔ ایک آیت کے معنی دوسری آیت سے حل ہوتے ہیں۔ سورۂ جاثیہ میں صاف لفظوں میں خدانے فرما دیا ہے کہ اﷲ تم کو جلاتا ہے پھر تم کو مارتا ہے پھر تم کو قیامت کے دن اکٹھا کرے گا پس یہ آیت نہایت صاف ہے اور اسی آیت کے سابق سے تمام آیتوں کے معنی حل ہوتے ہیں۔ یہ مسئلے جو ہم نے اس مقام پر بیان کیے معاد کے مشکلہ مسائل میں سے تھے اور جہاں تک ہم سے ہو سکا ہم نے ان تمام آیتوں کو جو ان سے علاقہ رکھتی تھیں ایک جگہ جمع کر دیا اور بقدر اپنی طاقت کے ان کو حل بھی کیا اور اس کی تائید میں علماء محققین کے اقوال بھی نقل کیے اب معاد کے متعلق کیفیت حساب و کتاب عذاب و ثواب کا بیان باقی ہے جس کو اگلے علماء نے اور خصوصاً امام غزالی اور شاہ ولی اﷲ صاحب نے نہایت خوبی سے بیان کیا ہے ان کی کتابوں میں ان بیانات کو پڑھنا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ بہشت کی ماہیت جنت یا بہشت کی ماہیت جو خود خدا تعالیٰ نے بتلائی ہے وہ تو یہ ہے ’’فلا تعلم نفس ما اخفی لہم من قرۃ اعین جزاء بما کانوا یعملون۔‘‘ یعنی کوئی نہیں جانتا کہ کیا ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک (یعنی راحت) چھپا رکھی گئی ہے اس کے بدلے میں جو وہ کرتے تھے۔ پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو حقیقت بہشت کی فرمائی جیسے کہ بخاری و مسلم نے ابوہریرہ کی سند پر بیان کیا ہے، وہ یہ ہے ’’قال اﷲ تعالیٰ اعددت لعبادی الصالحین مالا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیار کی ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیز جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے اور نہ کسی کان نے سنی ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے۔ پس اگر حقیقت بہشت کے یہی باغ اور نہریں اور موتی کے اور چاندی سونے کی اینٹوں کے مکان اور دودھ شراب اور شہد کے سمندر اور لذیذ میوے اور خوب صورت عورتیں اور لونڈے ہوں، تو یہ تو قرآن کی آیت اور خدا کے فرمودہ کے بالکل مخالف ہے۔ چوں کہ ان چیزوں کو تو انسان جان سکتا ہے اور اگر یہ فرض کیا جاوے کہ ویسی عمدہ چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھی اور نہ کانوں نے سنی تو بھی ولا خطر علیٰ قلب بشر سے خارج نہیں ہو سکتیں۔ عمدہ ہونا ایک اضافی صفت ہے اور جب کہ ان سب چیزوں کا نمونہ دنیا میں موجود ہے تو اس کی صفت اذانی کو جہاں تک کہ ترقی دیتے جاؤ انسان کے دل میں اس کا خیال گزر سکتا ہے حالاں کہ بہشت کی ایسی حقیقت بیان ہوئی ہے کہ لا خطر علی قلب بشر پس بہشت کی جو تمام چیزیں بیان ہوئی ہیں درحقیقت بہشت میں جو قرۃ اعین ہو گا، اس کے سمجھانے کو بقدر طاقت بشری تمثیلیں ہیں، نہ بہشت کی حقیتیں۔ انسان مطابق اپنی فطرت کے انہیں چیزوں کو سمجھ سکتا ہے اور انہیں کا خیال اس کے مین آ سکتا ہے جو اس نے دیکھی یا چھوٹی یا چھکی یا سونگھی یا قوتِ سامعہ سے محسوس کی ہوں۔ اور بہشت کی جو ’’قرۃ اعین‘‘ یعنی راحت یا لذت ہے، اس کو نہ انسان نے دیکھا ہے، نہ چھوا ہے، نہ چکھا ہے، نہ سونگھا ہے، نہ قوت سامعہ نے اس کا حس کیا ہے۔ پس فطرت انسانی کے مطابق انسان کو اس کا بتلانا ناممکن ہے۔ اس کے سوا ایک اور مشکل درپیش ہے کہ جو کچھ انسان کو بتایا جاتا ہے وہ ان الفاظ سے تعبیر ہوتا ہے جو انسان کی بول چال میں ہیں اور جو چیز کہ انسان نے نہ دیکھی، نہ چھوئی، نہ چکھی، نہ سونگھی، نہ قوت سامعہ سے حس کی، اس کے لیے کوئی لفظ انسان کی زبان میں نہیں ہوتا اور اس لیے اس کا تعبیر کرنا گو کہ خدا ہی تعبیر کرنا چاہے محالات سے ہے۔ اس کے سوا ایک اور سخت مشکل یہ ہے کہ کوئی انسان ان کیفیات کو بھی جو اس دنیا میں ہیں تعبیر نہیں کر سکتا۔ کوئی شخص کٹھاس، مٹھاس، درد، دکھ، رنج و راحت کی کچھ بھی کیفیت نہیں بتا سکتا۔ یا اس کے لیے دوسرا لفظ بدل دیتا ہے یا کوئی مشابہت اور نظیر اس کی لاتا ہے جو وہ بھی مثل پہلی کے محتاج بیان ہوتی ہے۔ پس بہشت کی کیفیت یا لذت کا جس کو ’’قرۃ اعین‘‘ سے تعبیر کیا ہے بیان کرنا کہ خدا ہی اس کا بیان کرنا چاہے محال سے بھی بڑھ کر محال ہے۔ مگر جب کہ انسان کو ایک بات کے کرنے کو اور ایک بات کے نہ کرنے کو کہا جاوے تو بالطبع انسان اس کی منفعت اور مضرت کے جاننے کا خواہاں ہوتا ہے اور بغیر جانے اس کے کرنے یا نہ کرنے پر راغب یا متنفر نہیں ہوتا اس واسطے ہر ایک پیغمبر کو بلکہ ہر ایک ریفارمر یعنی مصلح کو اس منفعت و مضرت کا کسی تمثیل یا تشبیہ سے بتانا پڑتا ہے۔ ’’قرۃ اعین‘‘ کی ماہیت یا حقیقت یا کیفیت یا اصلیت کا بتانا تو محالات سے ہے اس لیے انبیاء نے ان راحتوں اور لذتوں یا رنج اور تکلیفوں کو جو انسان کے خیال میں ایسی ہیں جو ان سے زیادہ نہیں ہو سکتیں۔ بطور جزا و سزا ان افعال کے بیان کیا ہے اور غرض ان سے بعینہ وہ اشیاء نہیں ہیں بلکہ جو رنج و راحت لذت و کلفت ان سے حاصل ہوتی ہے اس کیفیت کو ’’قرۃ اعین‘‘ سے تشبیھاً بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔ گو کہ وہ تشبیہ کیسی ہی ادنیٰ اور ناچیز ہو۔ موسیٰ نے اس ’’قرۃ اعین‘‘ کو اولاد پیدا ہونے، مینہ برسنے رزق فراخ ہونے دشمنوں پر غلبہ پانے اور کلفت کو اولاد کے مرنے، قحط پڑنے، وبا پھیلنے، شکست کھانے کی کیفیت کی تشبیہہ میں بیان کیا ہے۔ یہ تشبیہین اگرچہ بنی اسرائیل کے دل پر بہت موثر تھیں۔ مگر درحقیقت ایسی نہ تھی کہ جو تمام انسانوں کی طبیعت پر حاوی ہوں۔ محمد مصطفی نے اس کو ایسی تشبیہوں میں بیان کیا ہے کہ تمام انسانوں کی طبیعتوں پر حاوی ہیں اور کل انسانوں خلقت اور جبلت کے نہایت ہی مناسب ہیں۔ تمام انسانوں کی خواہ وہ سرد ملک کے رہنے والے ہوں خواہ گرم ملک کے، مکان کی آراستگی، مکان کی خوبی، باغ کی خوشنمائی بہتے پانی کی دل ربائی، میوؤں کی ترو تازگی سب کے دل پر ایک عجیب کیفیت پیدا کرتی ہے۔ اس کے سوا حسن یعنی خوب صورتی سب سے زیادہ دل پر اثر کرنے والی ہے۔ خصوصاً جب کہ وہ انسان میں ہو اور اس سے بھی زیادہ جب کہ عورت میں ہو پس بہشت کی ’’قرۃ اعین‘‘ کو ان فطری راحتوں کی کیفیات کی تشبیہ میں۔ اور دوزخ کے مصائب کو آگ میں جلنے اور لہو پیپ پلائے جانے اور تھور کہلائے جانے کی تمثیل میں بیان کیا ہے تاکہ انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ بڑی سے بڑی راحت و لذت یا سخت سے سخت عذاب وہاں موجود ہے اور درحقیقت جو لذت و راحت یا رنج یا کلفت رہاں ہے ان کو اس سے کچھ بھی مناسبت نہیں ہے یہ تو صرف ایک اعلیڑ راحت احتظاظ یا رنج و کلفت کا خیال پیدا کرنے کو اس پیرایہ میں جس میں انسان اعلیٰ سے اعلیٰ احتظاظ و رنج کو خیال کر سکتا تھا بیان کیا ہے۔ یہ سمجھنا کہ جنت مثل ایک باغ کے پیدا ہوئی ہے۔ اس میں سنگ مرمر کے موتی کے جڑاؤ محل ہیں۔ باغ میں سر سبز و شاداب درخت ہیں دودھ و شراب و شہد کی ندیاں بہ رہی ہیں۔ ہر قسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے۔ ساقی و ساقنیں نہایت خوب صورت چاندی کنگن پہنے ہوئے جو ہمارے ہاں کی گھوسنیں پہنتی ہیں شراب پلا رہی ہیں ایک جنتی ایک حور کے گلے میں ہاتھ ڈالے پڑا ہے ایک نے ران پر سر دھرا ہے ایک چھاتی سے لپٹا رہا ہے ایک نے لب جاں بخش کا بوسہ لیا ہے۔ کوئی کسی کونہ میں کچھ کر رہا ہے کوئی کسی کونہ میں کچھ۔ ایسا بے ہودہ پن ہے۔ جس پر تعجب ہوتا ہے۔ اگر بہشت یہی ہے تو بے مبالغہ ہمارے خرابات اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔ علمائے اسلام رحمۃ اﷲ علیہم اجمعین نے بسبب اپنی رقت قلبی اور توجہ الی اﷲ اور خوف و رجا کے غلبہ کے جو آدمی کے دل پر زیادہ اثر کرنے سے ایسے درجہ پہنچا دیتا ہے کہ اصل حقیقت کے بیان کرنے کی جرأت نہیں رہتی۔ یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جو امر الفاظ سے مستفاد ہوتا ہے۔ اسی کو تسلیم کر لیں اور اس کی حقیقت اور اس کے مقصد کو خدا کے علم پر چھوڑ دیں۔ اس واسطے وہ بزرگ تمام ان باتوں کو تسلیم کرتے ہیں جن کو کوئی بھی نہیں مان سکتا اور وہ باتیں جیسی کہ عقل اور اصلی مقصد بانئے مذہب کے برخلاف ہیں ویسی ہی مذہب کی سچائی اور بزرگی اور تقدس کے مخالف ہیں۔ اس امر کے ثبوت کے لیے بانئے مذہب کا ان چیزوں کے بیان کرنے سے صرف اعلیٰ درجہ کی راحت کا بقدر فہم انسانی خیال پیدا کرنا مقصود تھا نہ واقعی ان چیزوں کا دوزخ و بہشت میں موجود ہونا۔ ایک حدیث کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ جو ترمذی نے بریدہ سے روایت کی ہے۔ اس میں بیان ہے کہ ایک شخص نے آنحضڑت سے پوچھا کہ بہشت میں گھوڑا بھی ہو گا۔ آپ نے فرمایا کہ تو سرخ یاقوت کے گھوڑے پر سوار ہو کر جہاں چاہے گا اڑتا پھرے گا پھر ایک شخص نے پوچھا کہ حضڑت وہاں اونٹ بھی ہو گا۔ آپ نے فررمایا کہ وہاں جو کچھ چاہو گے سب کچھ ہو گا۔ پس اس جواب سے مقصود یہ نہیں ہے کہ درحقیقت بہشت میں گھوڑے اور اونٹ موجود ہوں گے بلکہ صرف ان لوگوں کے خیال میں اس اعلیٰ درجہ کی راحت کے خیال کا پیدا کرنا ہے۔ جو ان کے خیال میں اور ان کی عقل و فہم و طبیعت کے مطابق اعلیٰ درجہ کی ہو سکتی تھی اسی کی مانند اور بہت سی حدیثیں ہیں اور اگر ان سب کو صحیح بھی مان لیا جاوے تب بھی کسی کامقصود ان اشیاء کا بعینہ بہشت میں موجود ہونا نہیں ہے بہ جز اس کے کہ جہاں تک انسان کی عقل و طبیعت کے موافق اعلیٰ درجہ کی راحت کا خیال پیدا ہو سکے وہ پیدا ہو۔ حکمائے الٰہی اور انبیائے ربانی دونوں ایک سا کام کرتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ حکماء صرف ان چند لوگوں کو تربیت کر سکتے ہیں جن کا دل و دماغ تربیت پا چکا ہے۔ برخلاف اس کے تمام انبیاء تمام کافہ انام کو تربیت کرتے ہیں۔ جن کا بہت بڑا حصہ قریب کل کے محص نا تربیت یافتہ، جاہل، وحشی، جنگلی، بدوی، بے عقل و بد دماغ ہوتا ہے اور اسی لیے انبیاء کو یہ مشکل پیش آتی ہے کہ ان حقائق اور معارف کو جن کو تربیت یافتہ عقل بھی مناسب غور و فکر و تامل سے سمجھ سکتی ہے۔ ایسے الفاظ میں بیان کریں کہ تربیت یافتہ دماغ اور کوڑ مغز دونوں برابر فائدہ اٹھاویں۔ قرآن مجید میں جو بے مثل چیز ہے وہ یہی ہے کہ اس کا طرز بیان ہر ایک مذاق اور دماغ کے موافق ہے اور باوجود اس قدر اختلاف کے دونوں نتیجے پانے میں برابر ہیں۔ انہی آیات کی نسبت دو مختلف دماغوں کے خیالات پر غور کرو۔ ایک تربیت یافتہ دماغ خیال کرتا ہے کہ وعدہ و عید دوزخ و بہشت کے جن الفاظ سے بیان ہوئے ہیں ان سے بعینہ وہی اشیاء مقصود نہیں بلکہ اس کا بیان کرنا صرف اعلیٰ درجہ کی خوشی و راحت کو فہم انسانی کے لائق تشبیہ میں لاتا ہے۔ اس خیال سے اس کے دل میں ایک بے انتہا عمدگی نعیم جنت کی اور ایک ترغیب اوامر کے بجا لانے اور نواہی سے بچنے کی پیدا ہوتی ہے اور ایک کوڑ مغز ملا یا شہوت پرست زاہد یہ سمجھتا ہے کہ درحقیقت بہشت میں نہایت خوب صورت ان گنت حوریں ملیں گی۔ شرابیں پئیں گے، میوے کھائیں گے، دودھ و شہد کی ندیوں نہاویں گے اور جو دل چاہے گا وہ مزے اڑاویں گے اور اس لغو بے ہودہ خیال سے دن رات اوامر کے بجا لانے اور نواہی سے بچنے میں کوشش کرتا ہے اور جس نتیجہ پر پہلا پہنچا تھا اسی پر یہ بھی پہنچ جاتا ہے اور کافہ انام کی تربیت کا کام بہ خوبی تکمیل پاتا ہے۔ پس جس شخص نے ان حقائق قرآن مجید پر جو فطرت انسانی کے مطابق ہیں غور نہیں کی۔ اس نے درحقیقت قرآن کو مطلق نہیں سمجھا اور اس نعمت عظمیٰ سے بالکل محروم رہا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭ (۲) مضامین متعلق بہ استفسارات اخبارات کے اعتراضات اور ان کے جوابات (اقتباسات از رسالہ تہذیب الاخلاق جلد ۷ بابت ۱۲۹۳ھ) تہذیب الاخلاق کی ساتویں جلد بابت ۲۹۳ھ میں سرسید نے ایک نیا سلسلۂ مضامین شروع کیا تھا اور وہ یہ تھا کہ ہندوستان کے مختلف اخبارات جو اعتراضات سرسید پر کرتے یا ان کے متعلق کسی رائے یا خیال کا اظہار کرتے یا کوئی شخص سرسید کو خط لکھ کر کسی بات کی وضاحت چاہتا اور ان سے مسئلہ زیر بحث کے متعلق ان کی رائے پوچھتا تو سید صاحب ان کے اعتراض یا رائے یا خیال کو بجنسہ نقل کرنے کے بعد اس کا جواب دیتے یا ان کی تحریرات پر اپنی رائے یا خیال کا اظہار کرتے۔ یہ مضامین تہذیب الاخلاق کی ساتویں جلد کے متعدد پرچوں میں چھپے ہوئے موجود ہیں اور اس وقت کے حالات و واقعات کا نہایت صحیح مرقع پیش کرتے ہیں۔ ہم تہذیب الاخلاق کے مختلف پرچوں سے انتخاب و اقتباس کر کے یہاں سرسید کے ان سب مضامین کو یک جا درج کرتے ہیں۔ اخبارات کے اصل اعتراضات بھی شروع میں لکھ دیے گئے ہیں تاکہ ان کا جواب سمجھنے میں آسانی ہو۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ’’البرٹ گزٹ‘‘ لاہور، ۲ جون ۱۸۷۶ء بہ ذیل تغلیط خبر انہدام مسجد بنارس یہ ارقام فرمایا ہے کہ ’’مذہبی معاملوں میں جو (سید احمد خاں) کی رایوں نے مشتہر ہو کر تاثیر پیدا کی ہے وہ بھی چھپی ہوئی نہیں ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی رایوں نے مذہب اسلام کے قائم اور بے حرکت دریا میں ایک طوفان عظیم برپا کر دیا ہے۔ گو آخر یہ طوفان آنا ہی تھا مگر جب عام لوگ اس کے مقابلہ کے واسطے تیار ہو جاتے اس وقت کوہی شخص اس کی پروا نہ کرتا اور اس کو ایک معمولی تبدیل ہوا کے سوا کچھ نہ سمجھتا۔ لیکن آج کل اس کے ظاہر ہونے سے جس طرح لوگ غوطے کھا رہے ہیں سب پر ہویدا ہے۔‘‘ ریمارک ہم نہیں سمجھتے کہ کیا تاثیر پیدا کی ہے اور نہ یہ سمجھے کہ آخر کو اس طوفان کے آنے کا کیوں یقین تھا اور عام لوگوں کا مقابلہ کے لیے تیار ہو جانے کا کون سا وقت تھا اور کون سی بات ہے جس میں لوگ غوطے کھا رہے ہیں۔ ہمارا گمان ہے کہ ہم نے اسلام کی صحیح حقیقت بتائی ہے اور بہت سے دلوں کو جو اسلام کے حق ہونے میں متردد تھے ان کو اس کے حق ہونے کا یقین دلایا ہے اور علم اور مذہب اور قدرت کا مخرج ایک ہی اصل سے ثابت کیا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ اخبار ’’رہبر ہند‘‘ لاہور، مورخہ ۳ جون ۱۸۷۶ء خبر انہدام مسجد بنارس کی تغلیط کے بعد ارقام فرماتے ہیں کہ ’’کاش جناب مولوی سید احمد خاں صاحب بہادر اور معزز وقائع نگار سائنٹفک سوسائٹی اس کیفیت کو پہلے ہی اعتراضوں پر چھاپ دیتے تاکہ دوست و دشمن کو ان کی مخالفت میں موافق ہونے کا موقع نہ ملتا۔‘‘ ریمارک جب آپ کے دوست نے پہلی ہی دفعہ دشمنوں کے ساتھ موافق ہونے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا تو پھر اصلی کیفیت کے چھاپنے سے کیا فائدہ تھا۔ اس مقام پر استعمال الفظ دشمن درست نہیں ہے کیزں کہ میں اپنی دانست میں کسی کو اپنا دشمن نہیں سمجھتا۔ کفر است در طریقتِ ما کینہ داشتن آئینِ ما است سینہ جو آئینہ داشت ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ’’اودھ اخبار‘‘ مورخہ ۳۱ مئی ۱۸۷۶ء انہدام مسجد بنارس کے باب میں ارقام فرماتے ہیں کہ جو مضامین نسبت لعن و طعن سید احمد خاں کے چھاپے گئے وہ ہمارے پاس بھی آئے مگر ہم کو اعتبار نہ تھا۔ ریمارک اس اعتبار نہ ہونے کا بہت بہت شکر ہے۔ پھر ارقام فرماتے ہیں کہ ’’با وصف یہ کہ اس قدر جوش و خروش ہوا مگر تعجب تھا کہ سید صاحب نے کسی کا جواب نہ دیا۔‘‘ ریمارک اس سے ہمارے ملک کے اخباروں کی وقعت ثابت ہوتی ہے۔ افسوس ہزار افسوس پھر ارقام فرماتے ہیں کہ ’’اخبار سین ٹیفک سوسائٹی میں یہ مضمون نہایت دیر میں چھپا یعنی اس وقت جب کہ سید صاحب کی بدنامی تمام دنیا میں مشتہر ہو چکی۔‘‘ ریمارک اس کے عذر میں نہایت ادب سے اپنے شفیق کے سامنے حافظ کا یہ شعر پڑھتا ہوں۔ در کوئے نیک نامی ما را گزر ندادند گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را لیکن اگر ہمارے دوست اس فقرہ کو یوں ارقام فرماتے کہ یہ مضمون نہایت دیر میں چھپا یعنی اس وقت جب کہ تمام اخباروں کی بدنامی دنیا میں ہو گئی تو شاید لفظ بدنامی کے صحیح معنی ہو سکتے۔ ہم کو امید ہے کہ خدا وہ دن بہت جلد لاوے گا جب کہ ہماری قوم بدنامی کے صحیح معنوں کو سمجھے گی اور ہمارے ملک کے اخبار خود اپنی عزت کی آپ قدر کریں گے جس کو انگریزی میں سلف آنر کہتے ہیں اور صرف یہی ایک امر ہے جس سے انسان کی اور قوم کی اور اس شئی کی جس کو بطور انسان کے تعبیر کرتے ہیں عزت ہے۔ اخبار ’’وکیل ہندوستان‘‘، ۱۰ جون ۱۸۷۶ء ہم نہایت خوش ہیں کہ اغلب صاحب نے جو اغلب ہے کہ مسلمان ہیں ہماری کارروائی پر اخبار مذکورہ بالا میں نکتہ چینی کی ہے اول انہوں نے بنگالیوں کی ترقی تعلیم اور تہذیب ظاہری اور اس کے اسباب بیان کیے ہیں۔ پھر وہ مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ بعض باتیں جو ایسے عمدہ آرٹیکل میں ہونی زیبا نہ تھیں ان پر ہم خیال نہیں کرتے۔ جو بات کہ غور کرنے کے قابل اس میں ہے وہ بلاشبہ توجہ کی مستحق ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سید احمد خاں نے ہندوستانیوں کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً تہذیب سکھلانی چاہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ تہذیب الاخلاق انہوں نے جاری کیا اور اس میں صرف مسلمانوں کی خراب حالت معاشرت ہی پر مضامین نہیں لکھے بلکہ نہایت عجلت کے ساتھ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی اور اس دنیاوی تہذیب کے وعظ میں دینی و مذہبی باتوں کو بھی ملایا۔ اس پر مسلمانوں نے بہت برا مانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انجام یہ ہوا کہ ایک مذہبی مباحثہ چھڑ گیا جس سے نجم الہند سید احمد خاں کا اصل مقصد خاک میں مل گیا اور ان کی جلدی و عدم استقلال نے ان کو کام یاب نہ ہونے دیا۔ ریمارک بلاشبہ ہم کو بھی افسوس ہے کہ تہذیب الاخلاق میں بہ مجبوری مذہبی مضامین کے لکھنے کی زیادہ ضرورت پڑی اور اگر یہ امر ہماری عجلت اور بے استقلالی اور نا عاقبت اندیشی سے ہوا تو بلا شبہ ہم کو سب سے زیادہ افسوس کرنا چاہیے۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے میں ہم کو نہایت مجبوری تھی۔ بنگالیوں یا تمام ہندوستان کے ہندوؤں کا اور مسلمانوں کا حال بالکل مختلف ہے۔ بنگالیوں کے حال پر یا اسٹیل و اڈیسن کے اصول پر جو انہوں نے انگلستان میں تہذیب پھیلانے میں برتا مسلمانوں کی حالت پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ قیاس مع الفارق ہے۔ اگلے بنگالی اور ہندوستان کے تمام ہندو قریباً کل کے۔ مطلق اپنا مذہب نہیں جانتے چند باتیں جو بطور رسم کے ان میں پڑ گئی ہیں اسی کو وہ اپنا مذہب جانتے ہیں۔ ان محدود رسموں کے محفوظ رہنے کے ساتھ کوئی قول یا فعل یا عقیدہ یا علم ایسا نہیں ہے کہ جس کے کہنے، کرنے، یقین لانے، سیکھنے کو وہ اپنے مذہب کے برخلاف سمجھتے ہوں اس لیے انہوں نے نئی زبان، نیا علم، نئی تہذیب سیکھنے میں کبھی تامل نہیں کیا۔ جس زمانہ میں کہ ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی انہوں نے انہیں کا علم، انہیں کی زبان، انہیں کی تہذیب سیکھی۔ شاعر ہوئے، منشی ہوئے، صاحب تصنیف ہوئے۔ مسلمانوں کی طرح اپنی تصانیف میں حمد و نعت لکھی۔ تاریخ کی کتابوں میں جو خود ہندوؤں نے تصنیف کی انہیں ہندوؤں کو کافر اور ان کے مقتولوں کو فی النار اور مسلمان فتح مندوں کو غازی لکھا اور صرف بسبب محفوظ رہے انہیں محدود رسموں کے ہندو کے ہندو ہی رہے۔ مجھے اس وقت ایک برہمن شاعر کا فارسی شعر یا آیا جیسا کہ وہ اپنے مضمون میں عالی ہے ویسا ہی اس مقام کے بھی مناسب ہے۔ مرا دلے است بکفر آشنا کہ چندیں بار بہ کعبہ بر دم و بازش برہمن آور دم ہاں بنگالیوں نے بعد تلیم پانے کے اپنے قدیم مذہب کو چھوڑ دیا۔ یہ نتیجہ قبل تعلیم و تربیت کے نہیں ہوا بلکہ بعد تعلیم کے ہوا۔ سبب اس کا یہ تھا کہ جو موجودہ مذہب ان کا تھا وہ سچ نہ اور ممکن نہ تھا کہ وہ علم کی روشنی کے سامنے قائم رہتا۔ یہ بات کچھ ہندوؤں کے مذہب پر موقوف نہیں ہے۔ علم ایک روشنی ہے جو دل میں ڈالی جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس نے فرمایا ہے کہ ’’العلم نور یقذف فی القلب‘‘ پس جو مذہب کہ علم کے برخلاف ہے وہ کبھی قائم نہیں رہ سکتا۔ مگر ان بنگالیوں کو علم کے حاصل کرنے اور تعلیم پانے اور تہذیب سیکھنے میں کوئی امر جس کو وہ مذہبی خیال کرتے ہوں مانع نہ تھا گو نتیجہ بعد تعلیم کیسا ہی اس کے برخلاف ہوا ہو۔ انگلستان میں جب تک پوپ کی ایسی ہی حکومت لوگوں پر رہی جیسے کہ اس زمانہ کے مولویوں کی مسلمانوں پر ہے اس وقت تک کسی جیز میں ترقی یورپ میں نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ دو فرقے یورپ میں پیدا ہو گئے ایک وہ جو پوپ کی حکومت سے بالکل آزاد ہو گیا دوسرا وہ جو صرف روحانی باتوں میں پوپ کا تابع رہا اور دنیاوی باتوں میں پوپ کی حکومت سے نکل گیا۔ مگر اس مقام پر یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے نزدیک روحانی یعنی مذہبی امور بالکل جدا چیز ہیں اور دنیاوی امور بالکل علیحدہ۔ وہ ان دونوں کو ایک نہیں سمجھتے۔ برخلاف مسلمانوں کے کیوں کہ مسلمان مروج مذہب کے بموجب ان دونوں میں کچھ تفریق نہیں کرتے۔ اسٹیل اور ایڈیسن کے وقت میں انگلستان کی ترقی تہذیب دنیاوی امور میں کچھ مشکل نہ تھی کیوں کہ اس کی ترقی کے لیے اس وقت میں کوئی مذہبی خیال مانع نہ تھا۔ صرف یہ بات کافی تھی کہ بری بات کا برا ہونا اور اچھی بات کا اچھا ہونا لوگوں کے دلوں پر بٹھا دیا جائے۔ اب دیکھو کہ مسلمانوں کی حالت اس کے بالکل برخلاف ہے۔ ان کا کوئی قول، کوئی فعل، کوئی یقین روحانی ہو یا جسمانی، دینی ہو یا دنیاوی مذہب سے خالی نہیں۔ ان کے ہاں دنیاوی معاشرت اور مذہبی معاملات میں کچھ تفریق و جدائی نہیں ہے۔ کوئی امر حسن معاشرت یا تہذیب کا۔ فرض کر لو جو محض دنیاوی ہو اس پر ضرور بالضرور احکام عشرہ مذہبی میں سے کوئی نہ کوئی حکم جاری ہو گا۔ یعنی فرض، واجب، سنت، مستحب، مباح، حلال، حرام، مکروہ، کفر، بدعت۔ پس مسلمانوں کی خراب حالت، معاشرت کی ترقی بغیر اس کے کہ مذہبی بحث درمیان میں آوے کیوں کر ہو سکتی ہے۔ جس قوم کی حالت ایسی ہو کہ وہ سچ کو بھی اگر ان کے مسلم عقیدہ کے برخلاف ہو سچھ سمجھنا کفر سمجھتے ہوں تو اس کی خراب حالت معاشرت کے درست کرنے کو کس طرح مذہبی بحث سے بجا جاوے؟ میں ایک بہت بڑے عالم اور مقدس اور نیک فرشتہ خصلت کی مجلس کا ذکر کرتا ہوں جو ہمارے شہر میں بلکہ ہندوستان میں مقتدا تھے ان کے مدرسہ میں ایک طالب علم نے پوچھا کہ حضڑت تمام علماء علم ہیئت نے تسلیم کیا ہے کہ زمین گول ہے اور بعض حدیثوں سے پایا جاتا ہے کہ مسطع ہے۔ حضڑت نے فرمایا کہ اگر تم اپنی آنکھ سے دیکھ لو کہ زمین گول ہے تو بھی یہی یقین رکھو کہ مسطح ہے۔ لوگوں نے کہا سبحان اﷲ! قوت ایمان کے یہ معنی ہیں۔ اس وقت ہمارے دل پر بھی ایسا ہی اثر ہوا جو اور لوگوں کے دلوں پر تھا مگر جب آدمی غور کرے تو سمجھ سکتا ہے کہ یہ کیا بات ہوئی۔ اے جناب اغلب! جب کہ ہماری قوم کا یہ حال ہے کہ علوم کا پڑھنا، طبیعات کا جاننا، نیچرل فلاسفی پڑھنا، علم ہیئت کو سیکھنا، کافروں کی زبان کا سیکھنا، ان کے علوم کو پڑھنا، ان سے معاشرت اور دوستی کرنا، ان کی چیز کو اچھا کہنا، ان کے کسی ہنر کی تعریف کرنا، کفر و بدعت، خلاف دین داری اور خلاف اتقا سمجھتے ہوں تو اب ہم ان کی ترقی تہذیب و معاشرت کی بلا مباحثہ مذہبی کیوں کر تدبیر کریں۔ دو حال سے خالی نہیں۔ یا تو ہم قبول کریں کہ یہ سب باتیں خلاف مذہب ہیں اور ضرور مذہب اسلام میں منع ہیں مگر ان کے کرنے ی رغبت دلائیں لیکن اگر درحقیقت ہم ان کو مذہب اسلام کر برخلاف سمجھتے ہوں اور پھر ہم خود اپنے تئیں بھی مسلمان کہہ کر ان پر رغبت دلائیں تو وائے بر حال ما اور اگر ہم ان کو اپنے نزدیک مذہب اسلام کے برخلاف نہیں سمجھتے۔ (فرض کرو کہ ہماری یہ سمجھ غلط ہی ہو) تو ہم کو ان پر رغبت دلانا، ان کا اچھا ہونا ثابت کرنا ہمارے ایمان کے مطابق ہو گا۔ مگر پھر یوں کہ ہم بحث مذہبی سے بچ سکتے ہیں کیوں کہ پہلا قدم ہمارا یہ ہے کہ جو ہم کہتے ہیں وہ ٹھیٹ مذہب اسلام ہے اور یہی ہمارا یہ یقین ہے۔ پس اگر ہمارے شفیق اس لازم و ملزم کے جدا کرنے کی کوئی تدبیر بتا دیں تو ہم دل و جان سے اپنی غلطی کا اقرار کرنے کو حاضر و موجود ہیں۔ اس بات پر ہم البتہ یقین نہیں کر سکتے کہ ہمارا مقصد خاک میں مل گیا۔ کیوں کہ ہم اپنی اس کوشش کا اپنی دانست میں بہت کچھ نتیجہ دیکھتے ہیں۔ تمام ہندوستان کو اس بات کا خیال ہو کیا ہے کہ قوم کی حالت اچھی نہیں ہے۔ اس کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ یہی تحریک اگر باقی رہی اور مر نہ گئی تو بہت کچھ کر دکھائے گی۔ جس امر کو ہم نے چھیڑا ہے وہ مسلمانوں کے لیے ایک نئی بات ہے۔ ہر ایک نئی بات موجودہ عام خیالات کے برخلاف ہوتی ہے اور اس لیے اول اول عام مخالفت کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ آپ خیال فرمائیں کہ اس سے زیادہ سچی بات کون سی تھی جو جدی محمد رسول اﷲ صلعم نے کعبہ کے رو برو کھڑے ہو کر فرمائی۔ ہو اﷲ احد اﷲ الصمد۔ مگر یہ قول اس زمانہ کے عام خیالات کے برخلاف تھا۔ پھر آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا۔ ان ہوئی ہوئیں اور ان سہنی سہنی پڑیں۔ جس قدر مخالفت ہمارے ساتھ لوگوں نے کی اور ہم کو سخت و سست برا بھلا کہا۔ ہم کو دجال اول کا لقب دیا۔ ہمارے اجداد کو نعوذ اﷲ دجال کے اجداد قرار دیا۔ جن کا کلمہ روز پڑھتے ہیں ان کو معاز باﷲ دجال کا دادا سمجھا۔ حقیقت میں یہ بہت کم ہوا۔جب ہم نے اس کام پر ہاتھ ڈالا تو ہم کو اس سے بھی بہت زیادہ مخالفتوں کا یقین تھا۔ مگر ہم سچ کہتے ہیں کہ ہم کو اپنے مخالفوں سے روز بروز زیادہ محبت ہوتی جاتی ہے اور اپنے دوستوں سے بھی زیادہ مخالفوں کی مخالفت سے خوشی ہوتی ہے کیوں کہ ہم کو یقین نہیں ہے کہ ہمارے مخالف کچھ ہماری ذات سے دشمنی نہیں رکھتے۔ کچھ میراث کا ہم سے ان سے جھگڑا نہیں انہوں نے ہم کو نہیں دیکھا۔ ہم نے ان کو نہیں دیکھا۔ وہ صرف اس خیال سے ہمارے مخالف یا دشمن بنے ہیں کہ ہم ان کی دانست میں برخلاف اسلام کچھ کرتے یا کہتے ہیں۔ پس یہ ایک دلیل اسلام کی محبت کی ہے۔ پس ہم کو نہایت خوش ہونا چاہیے کہ لوگ اسلام کو دوست رکھتے ہیں۔ باقی رہا ان کا یہ خیال کہ ہم برخلاف اسلام کے کچھ کرتے یا کہتے ہیں یہ ان کی ایک غلطی اور نا سمجھی ہے۔ جس وقت ان کی یہ غلطی رفع ہو جائے گی اور وہ ہمارے کاموں کو سوچیں اور سمجھیں گے تو وہی ہمارے مخالف سب سے زیادہ ہمارے دوست ہوں گے۔ اس وقت ہمارے دوست ایسے موجود ہیں جو ہم سے کمال نفرت اور دلی عداوت رکھتے تھے مگر جب وہ سوچے اور سمجھے تو اب وہ سب سے زیادہ ہمارے دوست ہیں۔ البتہ ہم کو اپنے مخالفوں پر اس بات کا افسوس ہے کہ وہ بہت کچھ جھوٹ اور اتہام اور دروغ ہماری نسبت لکھتے ہیں اور کہتے ہیں اور جس سبب سے ہم سے مخالف ہونا خیال کرتے ہیں خود اس میں فی الحقیقت پڑتے ہیں یا ان کے نزدیک دروغ و کذب و تہمت امورات خلاف مذہب اسلام نہیں ہیں۔ نعوذ باﷲ منھا۔ تمام اہل مذاہب مذہبوں کے ایک بہت بڑے اور نہایت قومی دشمن سے غافل ہیں جس کا نام علم یا حقیقت یا سچ ہے۔ کوئی ایسا مسئلہ یا اعتقاد کسی مذہب کا جو اس کے برخلاف ہو کبھی قائم نہیں رہ سکتا۔ اس وقت دیکھ لو کہ تمام مذاہب کے ایسے مسئلے علم کے سامنے اس طرح پر جلتے چلے جاتے ہیں جیسے نورانی سفید پالہ سے چھوٹے اور کمزور بودے پودے۔ مذہب اسلام کے بہر باغ میں بھی لوگوں کی غلطی سے اس قسم کی بہت سی گھاس پھونس آگ کھڑی ہوئی ہے جو علم کے سامنے ایسی نیست و نابود ہو جاتی ہے جیسے کہ نور کے سامنے تاریکی۔ جو شخص نہایت دوست اس باغ ہمیشہ بہار کا ہے اس کا فرض ہے کہ اس گھاس پھونس کو اکھاڑے۔ ورنہ اس سے تمام باغ میں نقصان پہنچے گا۔ ناواقف آدمی سمجھتا ہے کہ باغ کے درخت اکھاڑے جاتے ہیں مگر یہ خود اس کی غلطی ہے۔ ہزاروں آدمی اس وقت مسلمانوں میں ایسے موجود ہیں کہ اگر ان کا دل چیر کر دیکھو تو بہت سے مروجہ مسائل اسلام پر ان کو کامل یقین نہیں ہے۔ یا ان کے دل کو طمانیت نہیں ہے۔ ہمیشہ وہ مسئلے دل میں کھٹکتے ہیں مگر لوگوں کے ڈر سے منہ سے نہیں نکالتے۔ بہت سے ایسے ہیں جو اپنے دل کو اس طرح پر تسلی دیتے ہیں کہ شریعت میں ہے اسے خواہ نخواہ تسلیم کرنا چاہیے۔ جو زیادہ بے وقوف ہیں وہ کہتے ہیں کہ میاں نقل میں عقل کا کیا کام ہے مگر وہ مسئلے سب کے دل میں ضرور کھٹکتے ہیں۔ مسلمان نوجوان جو انگریزی دان ہیں اور علوم جدیدہ اور تواریخ سے واقف ہیں وہ تو یقینا ان مسائل اور قصص اور روایات کو جھوٹ و لغو و بیہودہ جانتے ہیں اور چوں کہ ہمارے مذہب کے علماء نے اس طرح پر ان مسائل اور قصص اور حکایات کو بیان کیا ہے کہ گویا قرآن مجید میں اسی طرح پر ہے اور پیغمبر خدا صلعم نے یوں ہی فرمایا ہے تو وہ نوجوان تعلیم یافتہ خیال کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ قرآن مجید ہی غلط ہے اور سرے سے مذہب اسلام باطل ہے اور اس لیے بمجبوری ان کو لا مذہب ہونا اور مذہب اسلام کو سلام کرنا پڑتا ہے۔ حالاں کہ اس کا وبال ان لوگوں کی گردن پر ہے جنہوں نے غلط مسائل اور لغو و مہمل بے اصل روایتیں اسلام میں ملا دی ہیں۔ ہم ان اگلے بزرگوں پر جنہوں نے ایسا کیا کچھ الزام نہیں دیتے۔ وہ اس زمانہ میں مجبور تھے کیوں کہ تحقیقات کے ذریعے کافی نہ تھے اور جو باتیں اس وقت تحقیق ہوئی ہیں اس وقت ناتحقیق اور بہت ہی لامعلوم تھیں اور ان لوگوں نے اس زمانہ کے خیالات کے موافق جو کچھ کیا نہایت نیک دلی اور سچائی اور اسلام کی محبت سے کیا۔ ہم کو جو کچھ افسوس ہے اس زمانہ کے لوگوں پر ہے جو ان باتوں کی تحقیق اور مذہب اسلام کی سچائی اور صداقت ثابت کرنے کے برخلاف ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ جو کھڑے اندھیرے میں نہیں دکھلائی دیتے وہ روز روشن میں کبھی چھپ نہیں سکتے۔ جس روشنی سے دنیا روشن ہو گئی ہو اپنی آنکھ بند کر لینے سے وہ اندھیری نہیں ہو سکتی بلکہ خود ہی اندھے ہو جاتے ہیں۔ یہ ہماری ہی قوت ایمانی ہے اور یہ ہمارا ہی یقین اسلام پر ہے کہ ہم مثل ایک بیدر پہلوان کے میدان میں موجود ہیں اور علانیہ پکارتے ہیں کہ بجز مذہب اسلام کے اور کوئی مذہب ایسا نہیں ہے کہ علم، سچائی، حقیقت، قدرت کے مطابق ہو۔ یہ ہم ہی ہیں جو علانیہ پکار کر کہتے ہیں کہ مذہب اسلام بالکل بے عیب اور بے داغ ہے اور کسی کی غلطی اور کسی کی ناسمجھی سے اس پر دھبہ نہیں لگ سکتا۔ یہ ہم ہی ہیں جو اسلام کے مقابل اور بانی اسلام محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے دنیا میں کسی کی بھی کچھ حقیقت نہیں سمجھتے اور اسلام ارو بانی اسلام کے سامنے کسی کے قول و فعل کے غلط ہونے کی پروا نہیں کرتے۔ ہم صرف قرآن و محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں نہ زید و عمر پر بے شک ہمارا یہ طریقہ نیا ہے اور یہی ٹھیٹ اسلام ہے۔ عام خیال اس کے برخلاف ہے انہوں نے محمد رسول اﷲ کے سوا ہزاروں معنوی پیغمبر مان رکھے ہیں پس ضرور ہے کہ وہ مخالف ہوں گے جس کی ذرہ برابر بھی ہم پروا نہیں کرتے۔ اگر اغلب صاحب تحقیق فرماویں تو اغلب ہے کہ وہ بہت سے دل ایسے پاویں گے جن کو ہماری تحریروں سے تسکین ہوئی ہے اور ہماری ہی تحقیقاتوں سے انہوں نے مذہب اسلام کے سچ ہونے پر یقین کیا ہے۔ اگر ہم نے ایک ہی مذبذب دل کو تحریروں سے تھام لیا ہو تو بلا شبہ ہم نے اپنی مراد پا لی۔ دور اندیش اور عاقبت بین انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ کوؤں کے کائیں کائیں سن کر پریشان ہو جاوے بلکہ اس کو غور کرنا چاہیے کہ مطلب کیا ہے، مقصد یا ہے، منشاء کیا ہے۔ ورنہ کسی کی زبان پکڑی نہیں جاتی، قلم توڑا نہیں جاتا۔ و ان اجری الا علی اﷲ نوٹ: مندرجہ بالا اقتباسات تہذیب الاخلاق بابت یکم جمادی الثانی ۱۲۹۳ھ سے لیے کئے ہیں۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) اخبار ’’جریدہ روزگار‘‘ ۸ جولائی ۱۸۷۶ء اخبار مذکور میں ایک پکے مسلمان کا خدا کرے کہ وہ ٹھیٹ مسلمان بھی ہو جاویں ایک خط نسبت مدرسۃ العلوم کے چھپا ہے۔ جس میں چند سوالات ہیں جن کا جواب امید ہے کہ بعد غور کے وہ خود دریافت فرما لیں گے۔ مگر ایک سوال کے جواب سے سب مسلمان بھائیوں کو مطلع کرنا ضرور ہے۔ وہ استفسار فرماتے ہیں کہ ’’مدرسۃ العلوم تو خاص مسلمانوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے اس میں ہندوؤں کو پڑھانے کی کیا وجہ؟‘‘ اس کے جواب میں کوئی فیاض اور نیک دل مسلمان کہہ سکتا ہے کہ ہاں اس مدرسۃ العلوم کے قائم ہونے کی ضرورت خاص مسلمانوں کو تھی جن کے لیے قائم ہوا مگر مسلمانوں کو ایسا بخیل و تنگ دل نہ ہونا چاہیے کہ اگر دوسری قوم اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو اسے محروم رکھے بلکہ خوبی اور نیکی اسی میں ہے کہ مسلمانوں کے سبب سے اور لوگ بھی فائدہ اٹھاویں۔ کوئی شیخی خورہ اور خود ستا شخص جس نے اپنی آنکھوں کو مسلمانوں کی موجودہ حالت سے بند کر لیا ہے اور پچھلے زمانہ کے خواب دیکھ رہا ہے وہ یہ جواب دے گا کہ ہم ہمیشہ سے ایسے ہی فیاض رہے ہیں۔ ہمارے دارالعلوموں میں تمام دنیا کے اور تمام قوموں کے لوگوں نے تعلیم پائی ہے دیکھو ہمارے اندلس کے دارالعلوم جہاں ہمارے باپ دادوں کی ہڈیاں زمین کے اندر پڑی ہیں گو ان کے خلف اور ہمارے سلف پھر نہایت ذلت اور خواری سے وہاں سے نکالے گئے۔ کیسے فیاض اور نامی تھے کہ تمام فرنگستان میں انہیں دارالعلوموں نے علم کی روشنی پھیلائی۔ مسلمان اور یہودی اور عیسائی ان دارالعلوموں میں برابر تعلیم پاتے تھے اور ان دارالعلوموں کا ایک عیسائی طالب علم جو پڑھ کر انگلستان میں جاتا تھا تو بڑا عالم اور قابل ادب سمجھا جاتا تھا۔ پس ہمارا یہ مدرسۃ العلوم بھی ایسا ہی فیاض اور بے تعصب اور نامور ہونا چاہیے مگر شاید وہ اس شعر کو پڑھ کر نادم ہو جاتا ہو تو ہو جاتا ہو۔ آدمی را بچشم حال نگر از خیال پری و وے بگذر نہایت سچ مقولہ کسی کا ہے کہ دو چیز در دو چیز باور نیاید۔ نہ کر جوانی در پیری و ذکر تو نگری در فقیری۔ مگر ہاں جب کوئی باغیرت اور قومی ہمدردی کرنے والا ٹھیٹ مسلمان اس سوال کو پڑھے گا تو بے اخۃیار رو دے گا اور اپنی قوم کی ذلت اور اپنی قوم کی خود غرضی، اپنی قوم کی جھوٹی دین داری، اپنی قوم کی ناسمجھی و ناعاقبت اندیشی پر افسوس کرے گا اور یہ جواب دے گا کہ ہماری قوم اس لائق نہ تھی کہ اپنی قوم کے لیے اور اپنی نسلوں کے لیے، اپنی اولاد کے لیے، اپنے بچوں کے لیے ایک ایسا مدرسہ جس میں وہ تعلیم پاویں بنا سکے۔ لاچار مدرسۃ العلوم کے بانیوں کو مسلمانوں کے اس قومی مدرسۃ العلوم کے لیے دوسری قوم کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑا اور ہندوؤں نے نہایت فیاضی سے روپیہ و جاگیر و انعام دیا اور تمام قوم کو اپنا ممنون اور زیر بار احسان کیا۔ پس ایسی حالت میں یہ سوال کرنا کہ ہندو کیوں پڑھائے جاتے ہیں کیسی شرم کی بات ہے۔ قومی غیرت والے کو ڈوب مرنے کا مقام ہے نہ ایسے سوال کرنے کا۔ خدا ہماری قوم کو سچی عزت، سچی غیرت، سچی قومی ہمدردی عنایت کرے۔ آمین۔ ہاں ایک بات تو رہ ہی گئی کہ اس کا یہ جواب ہو سکتا ہے کہ یہ بات اس لیے ہوئی کہ ایک بے دین ملحد سید احمد اس کا بانی ہوا ہے۔ مگر کیا یہ بات سچ ہے؟ جو اپنے آپ کو بڑا دین دار سمجھتے ہیں انہوں نے اپنی قوم کے لیے کیا کیا ہے!!! یہ تمام جھوٹی باتیں ہیں اور صرف بد اقبالی اور ادبار جو مسلمانوں پر ہے وہ ایسی باتیں کہواتے ہیں۔ جھوٹ بولنا اور جھوٹی باتیں لوگوں کی نسبت منسوب کرنا۔ بات کو نہ سمجھنا اور نہ سمجھنے کا قصد کرنا یا دیدہ و دانستہ کذب و افترا باندھنا ایک بہت بڑی پکی مسلمانی رہ گئی ہے۔ افسوس بریں دینداری و بریں مسلمانی۔ آخیر کو ہم ایڈیٹر صاحب کا شکر کرتے ہیں کہ انہوں نے مدرسۃ العلوم علی گڑھ کی ترقی کی خواہش کی ہے اور ایک کتاب کتب درسیہ مدرسۃ العلوم کی ان کی خدمت میں بھیجتے ہیں تاکہ جس امر پر انہوں نے اشتباہاً تاسف کیا ہے اس کتاب کو پڑھ کر ہی امید ہے کہ یقینا ان نامہ نگار صاحب کی تحریر پر تاسف فرماویں گے۔ (مندرجہ بالا اقتباسات تہذیب الاخلاق مورخہ یکم رجب ۱۲۹۳ء سے لیا گیا ہے) اخبار ’’رہبر ہند‘‘ مطبوعہ ۲۵ جولائی ۱۸۷۶ء ہمارے شفیق بالتحقیق سید نادر علی شاہ سیفی نے مدرسۃ العلوم کی سات مہینہ سنہ ۱۸۷۵ء کی کارروائی پر ایک نہایت عمدہ اور فصیح نکتہ چین ریویو لکھا ہے جس کی طرز ادا اور الفاظ عنایت آمیز اور مضامین نصیحت خیز کے ہم تہ دل سے شکر گزار ہیں۔ اگرچہ ہر ہر لفظ اس کا دل پر نقش کرنے کے لائق ہے مگر ہم اپنے اس ناچیز پرچہ میں صرف اس کے دو جملے نقل کرتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ مدرسۃ العلوم میں جو یورپین ہیڈ ماسٹر مقرر ہے اس کی نسبت ارقام فرماتے ہیں کہ ’’بڑی حقارت کی بات ہے کہ مسلمانوں کے مدرسہ کا منتظم ان کی قوم سے نہ ہو۔ جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ مسلمان انتظامی طاقت نہیں رکھتے اور بڑے بے وقوف، ناتجربہ کار اور لائق ہیں۔‘‘ ریمارک ہم بھی جناب ممدوح کی رائے سے دل و جان سے متفق ہیں مگر آہ سرد بھرتے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو بہاتے ہیں۔ آسمان کی طرف نہایت مایوسی سے دیکھتے ہیں۔ قوم کی صورت کو نہایت حسرت سے تکتے ہیں اور کہتے ہیں کیا کریں قوم کی حالت تو ایسی ہی ہے۔ لعل اﷲ یحدث بعد ذالک امراً۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭ لڑکوں کی تعداد کم ہونے کی ذیل میں یہ چند فقرے ارقام فرمائے ہیں: ’’معلوم ہوتا ہے کہ مدرسہ کا انتظام عام پسند نہیں ہے اور جو لڑکے آئے ہیں وہ غالباً ایسے لوگوں کے لڑکے ہیں جو مدرسہ یا مولوی سید احمد خاں کے عقیدتاً معین و مددگار ہیں۔‘‘ ریمارک اس علی بخش خانی فقرہ کی ہم دل سے شکر گزاری کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ہمارے شفیق کبھی علی گڑھ میں تشریف لاویں گے جیسا کہ انہوں نے اپنے ایک عنایت نامہ میں لکھا بھی ہے اور ان کے قدم کی برکت سے ہمارا کلبہ احزان و مدرسۃ العلوم منور ہو گا۔ تب ایسے امور پر ان کو رائے دینے کا موقع ملے گا۔ ہم تو اس فقرہ کا ریمارک لکھنا خلاف ادب سمجھتے تھے مگر اس اندیشہ سے کہ ہم پر دوسرا طمانچہ مغرور ہونے کا نہ پڑے نہایت ادب سے اس قدر عرض کرتے ہیں کہ آپ کا خیال صحیح نہیں ہے۔ کم طالب علموں کے داخل ہونے کی ایک وجہ یہی خیال فرمائی ہے کہ ’’بڑھے ہوئے خیال کے منتظمین مدرسہ نے طالب علموں کے داخل ہونے کے واسطے بڑی بڑی سخت قیدیں لگا رکھی ہیں جیسے سفید پوشی ہونا۔ گراں قیمت کتابوں کا خریدنا، بورڈنگ میں داخل ہونا، مدرسہ اور بورڈنگ کا فیس دینا جو بہت زیادہ ہے۔‘‘ ریمارک بلاشبہ یہ سب باتیں سچ ہیں اور مسلمانوں کو گو وہ ذی مقدور ہی ہوں اس طرح پر رہنا مناسب بھی نہیں۔ کجا مسلمان اور کجا سفید پوش ہونا۔ کجا مسلمان اور کجا گراں قیمت پر کتابیں خریدنا، کجا مسلمان اور کجا بورڈنگ ہاؤس میں بہ صفائی رہنا۔ ان کو ضرور ہے کہ اپنی قدیمی چال کو نہ چھوڑیں۔ ان کے مربی ناچ میں، شادی میں، پیر دیدار کے کونڈوں میں روپیہ خرچ کریں۔ شبرات میں میاں بیٹے کو آتش بازی منگا دیں۔ میلوں میں جانے کو روپیہ پیسہ دیں۔ چھوٹے میاں، بڑے میاں، منجھلے میاں کی شادیوں میں، گنڈے بڑھانے میں ، محرم میں، فقیر بنانے میں قرض پر قرض لیں مگر ان کی تعلیم پر کچھ خرچ نہ کریں۔ ہمارا ارادہ ہے کہ مدرسۃ العلوم کی کمیٹی کو ایک صلاح دیں گے کہ علی گڑھ میں بہت مسجدیں ہیں، ان کے حجروں میں طالب علم بھیج دیے جاویں۔ اس شہر میں قصائی بہت رہتے ہیں چودھری سے کہہ کر ان کے لیے ریزگی مقرر کی جاوے۔ اب امیروں کی سواری کی ضرورت نہیں ہے۔ سٹرکوں پر بہت لال ٹینیں جلتی ہیں ان کے گرد (مگر سٹرک چھوڑ کر ورنہ کانسٹیبل ڈنڈا مارے گا) بیٹھ کر کتاب کا مطالعہ کر لیا کریں اور تمام اخراجات بورڈنگ ہاؤس کے تخفیف کر دیے جاویں۔ ہم کو نہایت قوی امید ہے کہ اس طرح پر طالب علم تربیت پا کر بڑے بڑے مولوی اور فاضْ نکلیں گے اپنے باپ دادا کا نام روشن کریں گے۔ نہایت سیر چشم اور فیاض اور باغیرت ہوں گے جن سے قوم کو عزت اور اسلام کو فخر ہو گا۔ شفیق من جس طرح پر ہم قوم کو قو بنانا چاہتے ہیں اور ان میں علم و کمال و عزت اور آدمیت اور فخر و مباہات پیدا کرنا چاہتے ہیں اگر ہم وہ نہ کر سکیں تو خدا کی مرضی مگر چند بھک منگے ملا بنا دینے سے تو ان کا جاہل رہنا بہتر ہے۔ ایسے ملانوں کی اب کون سی کمی ہے جو اوروں کے بنانے کی فکر ہو۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ پھر وہ ارقام فرماتے ہیں کہ ’’ہم کو افسوس ہے کہ اسلامی محبت اور قومی مساوات خاک میں مل گئی اور روپیہ والوں نے غریبوں کو قوم سے خارج کر دیا۔ لازم ہے کہ امیروں سے لیا جاوے اور غریبوں کی کمیٹی کی طرف سے پرورش ہو۔ یہ تقاضائے ہمدردی اور ہم قومی ہے۔ صرف دولت والوں کے لڑکوں کو لینا بڑے ہرج کی بات ہے۔‘‘ ریمارک ہمارے شفیق نے ہم کو نہایت عمدہ نصیحت قومی ہمدردی کی ہے جس کا ہم دل سے شکر ادا کرتے ہیں۔ اس قسم کی قومی ہمدردی لفظوں میں بہت خوشنما اور دل چسپ معلوم ہوتی ہے مگر برتاؤ میں نہیں آ سکتی۔ ہم نے لائیکر گس کے قانون تو سنے تھے کہ اس نے تمام امیروں کا مال و دولت زر زمین سب قوم میں برابر بانٹ دینا چاہا تھا جو اس وحشی زمانہ میں بھی نہ ہو سکا مگر اس کے سوا پھر کہیں دیکھا نہ سنا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے شفیق نے اس امر کی نسبت ذرا توجہ کم فرمائی ہے۔ چندہ جس قدر جمع ہوا اور جن جن سے لیا گیا وہ محتاج خانہ جاری کرنے اور لنگر بانٹنے کے لیے جمع نہیں ہوا بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ عمدہ سامان تعلیم کا قوم کے لیے جمع کر دیا جاوے جو موجود نہیں ہے۔ لائق اور قابل مدرس موجود ہوں۔ عمدہ عمدہ علوم کی کتابیں جمع کی جاویں۔ جو کتابیں ہماری قوم کی زبان میں نہیں ہیں ان کو اپنی قوم کی زبان میں پیدا کیا جاوے۔ جس طرح قوم کو مختلف قسم کے علوم کی حاجت ہے ان سب قسم کے علوم کا سامان مہیا ہو جاوے تاکہ جو مجبوری علم و کمال کے حاصل کرنے میں قوم کو ہے وہ رفع ہو جاوے۔ نہ یہ کہ جو اصل مقصود ہے وہ فوت ہو اور محتاج خانہ جاری کیا جاوے۔ اگر ہماری کمیٹی وہ روپیہ ان محتاجوں کی پرورش میں صرف کر ڈالے اور آمدنی کا ہر مناسب ذریعہ سے بڑھانے کا خیال رکھے تو مدرسین کی تنخواہ و اخراجات ضروری تعلیم کا خرچ کہاں سے ہو۔ معہذا اگر سب سے مقدم سامان تعلیم نہ موجود کیا جاوے تو کہاں سے تعلیم دی جاوے گی۔ کیسی غلط بات ہمارے شفیق نے لکھی ہے کہ ’’یہ بات کہ غریب لڑکوں کو نہیں لیا گیا۔ ہم قیاساً ہی نہیں کہتے بلکہ ہم کو معتبر ذریعہ سے اس قسم کی خبریں پہنچی ہیں جس سے یہ معلوم ہوا کہ مقامی اور باہر کے بہت سے لڑکے یہ عذر کر کے داخل نہیں کیے گئے کہ وہ مدرسہ کے اخراجات دینے کی استطاعت نہیں رکھتے‘‘ مگر میری عرض یہ ہے کہ یا تو وہ آپ کے معتبر ذریعہ نہایت نامعتبر ہیں یا ان کی سمجھ کی غلطی ہے۔ یہ واقعات محض غلط ہیں۔ نہ کسی غریب اشراف کو بوجہ اس کی بے مقدوری کے مدرسہ میں داخل نہیں کیا گیا اور نہ یہ کہا گیا کہ تم کو استطاعت اخراجات مدرسہ دینے کی نہیں ہے۔ مدرسۃ العلوم کے طالب علموں سے جو دینے کا مقدور رکھتے ہیں بقدر ان کی استطاعت کے فیس لی جاتی ہے جو ایک ذریعہ آمدنی کے اضافہ کا ہے اور جو آخرکار پھر انہی طالب علموں پر خرچ ہوتا ہے۔ کسی شخص کا اس سے ذاتی فائدہ نہیں ہوتا۔ پھر اس کی معافی بھی نہایت غریب بے استطاعت کے ساتھ ممکن ہے۔ لیکن اگر یہ خواہش ہو کہ اس کے ذاتی اخراجات بھی مدرسۃ العلوم سے ہوں تو اول تو یہ ناممکن ہے اور نہ ان اخراجات کے لیے چندہ ہوا ہے۔ بورڈنگ ہاؤس میں کوئی شخص داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اخراجات بورڈنگ ہاؤس نہ دے۔ کیوں کہ انہی لوگوں کا روپیہ ان کے کھانے پینے میں خرچ ہوتا ہے جو وہاں رہتے ہیں۔ کمیٹی صرف اس کا اہتمام کر دیتی ہے۔ بورڈنگ ہاؤٖ میں مردوں کے فاتحہ کی روٹیاں اور صدقہ کے بکرے آنے کی اجازت نہیں ہے جو مفت خوروں کو اس میں بٹھلا کر خیرات کی روٹی کھلائی جاوے۔ بلاشبہ جو لوگ بورڈںگ ہاؤس کا خڑچ دینے کی استطاعت نہیں رکھتے ان کے بورڈنگ ہاؤس میں داخل کرنے سے کمیٹی انکار کرتی ہے نہ مدرسہ میں۔ ہم بھی اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ امیروں سے لیا جاوے اور غریبوں کو دیا جاوے۔ پس امید ہے کہ ہمارے شفیق نے جیسے کہ سرمایہ مدرسۃ العلوم کے فراہم کرنے کی کمیٹی کے وقت میں سعی کی تھی اور فیاضی اور قومی ہمدردی سے چندہ دینے کا وعدہ کیا تھا اب بھی پنجاب میں کوشش فرماویں گے اور خاص روپیہ اس کام کے لیے جمع کریں گے کہ غریب طالب علموں کو اس سے روٹی دی جاوے۔ اس کا اہتمام نہایت دل سے کمیٹی اپنے ذمہ لے گی۔ افسوس ہے کہ ایسے بڑے اور نازک معاملہ پر جیسا کہ قومی تعلیم کا ہے ہمارے شفیق نے کافی توجہ نہیں فرمائی اور یہ غور نہیں کیا کہ کمیٹی نے غریب طالب علموں کے لیے جو درحقیقت تعلیم کے لائق ہیں اور فی الحقیقت ان کو علم کا شوق ہے کس قدر مدد کے ذریعے موجود کیے ہیں۔ شروع مدرسہ سے معینان و بانیان مدرسہ نے اپنے خرچ سے غریب طالب علموں کے لیے پانچ روپیہ سے دس روپیہ تک اسکالر شپیں مقرر کیں۔ متعدد طالب علموں کے ذاتی اخراجات ان لوگوں نے اپنے پاس سے ادا کیے۔ اب حسب ضابطہ کمیٹی نے تیس اسکالر شپیں مقرر کی ہیں جو شاید کسی اعلیٰ مدرسہ میں بھی اس قدر نہ ہوں گی اور اعلیٰ جماعتوں کے لیے اور اسکالر شپیں مقرر کرنے کو ہے متعدد انعام نتیجہ امتحان پر مقرر ہوتے جاتے ہیں پس غریب سے غریب اور محتاج سے محتاج اشراف طالب علم اگر علم کا شوق رکھتے ہیں اور درحقیقت علم حاصل کرنے کی لیاقت بھی رکھتے ہیں آویں۔ امتحان دیں۔ لیاقت اپنی تحصیل علم کے لیے ثابت کریں اور اسکالر شپ لیں۔ مدرسۃ العلوم کا یہ مقصد نہیں ہے کہ جو لوگ مطلق قابل تعلیم نہیں ہیں اور نہ پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں اور نہ پڑھنے کی عمر رکھتے ہیں ان کو خیرات کی روٹیاں کھلایا کرے اور تنخواہ دیا کرے۔ اگر ایسا مقصود ہو تو مدرسہ کا نام کر کے گدھوں کا اس میں پالنا کیا ضرور ہے۔ آؤ ہم سب مل کر پزاوہ کا کام شروع کریں۔ ہم اپنے دوست نادر علی شاہ سیفی سے ہر گونہ قومی ہم دردی کی امید رکھتے ہیں۔ مگر چند روز سے جس طرز پر انہوں نے تحریر فرمانا شروع کیا ہے ہم کو اس سے قومی ہم دردی کی توقع نہیں ہو سکتی۔ ہم تو آماج گاہ خلائق ہیں۔ جناب سیفی بھی جو چاہیں تحریر فرماویں۔ امید ہے کہ آئندہ ہم زیادہ ادب کو کام میں لاویں گے اور ان کی اس قسم کی تحریروں کو دیکھ کر سر تسلیم جھکا دیں گے (مفقول از تہذیب الاخلاق، یکم شعبان ۱۲۹۳ئ) ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سوال خدا نے یہ تمام کائنات کیوں اور کس مقصد سے پیدا کی؟ (سوال از دیوان سر شیر محمد خاں والئے پالن پور گجرات) جواب پوچھا جو پوچھا جاتا ہے اس کا جواب دو طرح پر ہوتا ہے یا تو بتایا جاتا ہے کہ یہ سوال ہی سرے سے غلط ہے یا اس کا جواب دیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی یہ سوال کرے کہ دس اور پانچ مل کر بیس کیوں ہوتے ہیں تو اس کا جواب دیا جائے گا کہ یہ سوال ہی سرے سے غلط ہے اور اگر کوئی یہ سوال کرے کہ دس اور پانچ مل کر پندرہ کیوں ہوتے ہیں تو اس کا جواب دیا جائے گا کہ پانچ دسن کا نصف ہے اور جب اس کو دس میں ملائیں تو ڈیوڑھا ہو جاتا ہے اور پندرہ بھی دس کا ڈیوڑھا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پانچ کو دس میں ملائیں تو پندرہ ہو جاتے ہیں۔ مگر جب کوئی شخص سوال کرتا ہے تو اس بات پر بھی خیال کرنا ضرور ہوتا ہے کہ یہ سوال انسان کے دل میں کیوں پیدا ہوا ہے۔ جب ہم اس سوال پر خیال کرتے ہیں جو پوچھا گیا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان مصنوعات کو جب انسان دیکھتا ہے، تو اس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں اور کس مقصد سے بنائے گئے ہیں۔ مثلاً اگر کسی کمہار نے ایک پیالہ بنایا تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ کیوں بنایا ہے؟ اس کا جواب دیا جاتا ہے کہ کسی چیز کے رکھنے کو یا کسی رقیق چیز کے پینے کو یہ سوال ایسی حالت میں درست ہوتا ہے جب کہ اس کے بنانے والے کی اور اس کے بنانے کی حقیقت اور ماہیت معلوم ہو۔ لیکن اگر اس کے بنانے والے کی اور اس کے بنانے کی حقیقت اور ماہیت معلوم نہ ہو تو اس وقت یہ سوال درست نہیں ہوتا بلکہ غلط ہوتا ہے۔ کیوں کہ جو منشاء اس قسم کے سوال کا بنانے والے کے حلات معلوم ہونے سے انسان میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ منشاء خدا کی نسبت صادق نہیں آتا۔ کیوں کہ خدا کی اور اس کی صنعت کی حقیقت اور ماہیت معلوم نہیں ہے، بلکہ اس کا جاننا فطرتِ انسانی سے خارج ہے۔ پس خدا کی اور خدا کے کاموں کی حقیقت اور ماہیت معلوم نہیں ہے اور اسی لیے یہ سوال خدا کی نسبت کرنا درست نہیں ہے، بلکہ غلط۔ پس اس کا جواب یہی ہے کہ یہ سوال عقلاً نہیں ہو سکتا۔ کہ خدا نے یہ تمام کائنات کیوں اور کس مقصد سے پیدا کی ہے۔ تو یہ سوال کے غلط ہونے کی عقلی دلیل ہے لیکن اگر ہم مذہب کے رو سے جواب دینا چاہیں تو صرف ہم کو اس قدر کہنا کافی ہے کہ خدا نے قرآن مجید میں فرما دیا کہ لا یسئل عما یفعل و ہم یسئلون اگر ہم زیادہ عام فہم طور پر اس سوال کا جواب بیان کرنا چاہیں تو یوں کہیں کہ کمہار جس نے مٹی کے کھلونے بنائے ہیں سکسی کو ہاتھی بنایا ہے، کسی کو گھوڑا، کسی کو شیر، کسی کو بکری، کسی کو بلی اور کسی کو چوہا، کسی کو لنگڑا، کسی کو لُولاستو کیا مٹی اس سے پوچھ سکتی ہے کہ تو نے ایسا کیوں کیا ہے؟ پس انسان کی کیا مجال ہے کہ خدا کی نسبت ایسا سوال کر سکے۔ ہاں خدا نے بہت جگہ قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ ہماری عبادت کرے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا ہے ’’ما خلقت الجن و النس الا لیعبدون‘‘ پس مسلمانوں کو اس کے مطابق خدا کی عبادت جس طرح کہ خدا نے عبادت کا حکم دیا ہے، عبادت کرنی چاہیے اور اگر کوئی غیر مذہب والا جو قرآن مجید کو نہیں مانتا، اس کی وجہ دریافت کرنی چاہے، تو ہم عقلاً بہ خوبی ثابت کر سکتے ہیں کہ انسان کا نیچر جس پر خدا نے اس کو مخلوق کیا ہے، اسی کا مقتضی ہے۔ مگر یہ بحث طویل ہے اور بقول ایک دانش مند شخص کے ٹیبل ٹاک میں اس کے بیان کی گنجائش نہیں ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ وحی و الہام کے متعلق ایک صاحب کے خیالات اور ان پر سرسید کا تبصرہ (تہذیب الاخلاق، بابت ماہ صفر اور ربیع الاول ۱۲۷۹ئ) ایک صاحب نے جن کا نام نثار احمد صاحب تھا وحی و الہام کے متعلق اپنے بعض خیالات سرسید کی خدمت میں بھیجنے تھے اور ان سے دریافت کیا تھا کہ ان کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے۔ سرسید نے ان کا خط اور اپنا جواب ’’تہذیب الاخلاق‘‘ بابت ماہ صفر اور بابت ماہ ربیع الاول ۱۲۹۶ھ میں شائع کیا تھا جہاں سے ہم اسے نقل کر کے درج کر رہے ہیں۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) خط جناب من! وحی اور الہام کی نسبت مندرجہ ذیل رائیں آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں اور یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے۔ الہام یا وحی دو قسم ہے ایک کتابی الہام جس کو تاریخی الہام بھی کہتے ہیں اور جس میں کل کتب الہامی داخل ہیں۔ دوسرا شخصی الہام جو ہر شخص کو ہر زمانہ ہوتا ہے۔ کتب الہامی کی نسبت اس بات کے ثابت کرنے کو کہ یہ کتاب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے دو قسم کی شہادت درکار ہے: اول بیرونی، دوم اندرونی، بیرونی شہادت سے وہ خارجی واقعات اور حادثات مراد ہیں جو بغیر شک و شبہ کے یہ ثابت کر دیں کہ فلاں کتاب درحقیقت خدا نے نازل کی ہے، یا جو کچھ اس میں مرقوم ہے خدا ہی کا کلام ہے۔ مثلاً فرض کرو کہ میں کسی خاص کتاب کا مصنف ہوں، اب یہ امر کسی بیرونی شہادت سے اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ میرا پرنٹر شہادت دے کہ ہاں یہ کتاب اس نے مجھ سے لی ہے اور میرے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اور تلاش کرنے سے میرے ہاں اس کا مسودہ یا اس کے کچھ لکھے ہوئے اوراق پائے جائیں۔ یا کسی اور ایسے شخص کی گواہی سے جس کو میں نے کتاب مذکور کے تصنیف کرنے کا حال اعتباری طور پر ظاہر کر دیا ہو یہ تین طریقے بیرونی شہادت کے ہیں۔ لیکن یہی بات اندرونی شہادت سے بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ مثلاً فرض کرو کہ کتاب مذکور میں جو خیالات بیان ہوئے ہیں وہ میرے خیالات سے نہایت مشابہ ہیں۔ اس کا طرز تحریر ٹھیک میرے طرز تحریر کے مطابق ہے۔ اس میں جن واقعات کا ذکر ہے ان کا علم میرے سوا کسی کو نہ تھا۔ یہ تین اندرونی شہادتیں ہیں۔ تین اندرونی شہادتیں اور بھی ہو سکتی ہیں: اول یہ کہ وہ کتاب غلطیوں سے پاک ہو۔ دوسرے جو باتیں یا صداقتیں اس میں مرقوم ہیں وہ انسان کی عام قوتوں کے ادراک سے باہر ہوں، تیسر یہ کہ وہ صداقتیں ایسی ہوں کہ جن پر انسان اپنی تحقیقات میں کبھی سبقت نہ لے گیا ہو۔ پس جب تک کسی کتاب الہامی کی نسبت یہ شہادتیں موجود نہیں وہ الہامی کتاب تسلیم نہیں ہو سکتی۔ اس پر کہنے والا کہتا ہے کہ کوئی کتاب الہامی ایسی نہیں ہے جو ان شہادتوں سے ثابت ہو سکے۔ وہ کہتا ہے کہ الہام و وحی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ انسان نے بہت سی نازک نازک اور مشکل مشکل باتوں میں اپنی کوشش سعی و تجسس سے صداقتیں حاصل کی ہیں، پھر کیا یہ غیر ممکن ہے کہ مذہبی امور کی نسبت جو نہایت سیدھے سادے ہیں صداقتوں کے منکشف کرنے کے لیے اس کو نہ کسی خدا کی اور نہ فرشتہ کی خاص احتیاج پڑی ہو گی۔ دنیا میں بہت سی کتب کتاب الہامی کے نام سے مشہور ہیں پس کون تصفیہ کر سکتا ہے کہ ان میں سے فلاں کتاب کتاب الہامی ہے اور فلاں نہیں اور وہ کون سی وجوہات ہیں کہ جس پر اس قسم کا اعتقاد بھی ہو سکتا ہے۔ اگر کسی کتاب کو الہامی مان بھی لیں تب بھی ہماری مشکلیں دفع نہیں ہو جاتیں کیوں کہ ایک ہی کلام کی پچاس مختلف معنوں میں تاویل ہو سکتی ہے۔ پس جب تک ہمیشہ ایک الہامی مفسر بھی اس کے ساتھ نہ ہو جیسے کہ کیتھولک مذہب والے پوپ کو کہتے ہیں اس وقت تک الہامی کتب سے کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا۔ علاوہ اس کے کل کتب مقدس لکھی جانے سے پیش تر لوگوں کی زبان پر تھیں اور عرصہ دراز تک زبان پر رہیں۔ جو صداقتیں ان میں موجود ہیں وہ ایک عرصہ تک تو ایک خاص جماعت کی زبان پر رہیں۔ بعدہ ان سے سیکھ کر ایک دوسری جماعت ان کی قاری رہی اور آخر کو ایک تیسری جماعت نے انہیں موقع پا کر قلم بند کیا۔ پس پوچھا جاتا ہے کہ آیا ان تینوں جماعتوں کے لوگ بھی الہامی تھے کہ اس میں غلطی نہ ہوئی ہو۔ جب کتب الہامیہ کی صحت نہیں ثابت ہو سکتی تو صرف شخصی الہام جو ہر زمانہ میں ہوتا ہے باقی رہ گیا۔ خدا لوگوں کو اب بھی اسی طرح ملہم کرتا ہے جیسا کہ وہ پہلے کرتا رہا ہے۔ شخصی الہام سے مراد یہ ہے کہ جس طور پر ہم ایک چھوٹے پودے کے نشوونما ہوتے وقت دیکھتے ہیں کہ اس میں دو مختلف قسم کی طاقتیں کام کرتی ہیں: ایک اس کی خود طاقت کہ جس کے ساتھ وہ اپنی ساخت کے موافق زمین کے نیچے سے عرق کھینچتا ہے؛ دوسرے ہوا اور روشنی کے ساتھ جس سے وہ اوپر سے محیط ہوتا ہے۔ اسی طور پر ایک انسانی روحانی ترقی میں بھی ہم دو قسم کی مشترک طاقتوں کو کام کرتا ہوا پاتے ہیں: ایک صرف انسان کی اپنی کوشش اور دوسری طرف خدا کی رحمت یا نعمت کا نازل ہونا کچھ خیالی نہیں اور نہ اس قسم کا ہے کہ جو ایک وقت میں ہو اور دوسرے میں نہ ہو۔ بلکہ وہ ہر وقت و ہمیشہ اس طور پر کام دیتا ہے جس طور پر چلتی ہوئی ہوا ایک جلتی ہوئی بتی کے ساتھ شامل ہو کر ہر وقت عمل درآمد کرتی ہے۔ جس طور پر کوئی شمع بغیر ہوا کی خورش اور سہارے کے نہ جل سکتی ہے اور نہ قائم رہ سکتی ہے اسی طور پر کوئی روح انسانی بغیر ذات الٰہی کے سہارے اور اس کی نعمت کے حصول کے نہ قائم رہتی ہے اور نہ حقیقی طور سے مترقی ہوتی ہے۔ روح کی ترقی سے مراد ان چار قوتوں کا بڑھنا ہے کہ جن میں سے ایک قوت کو قوت ادراک یا عقل و فہم کہتے ہیں، دوسری کو دل یا محبت کرنے والی قوت، تیسری کو کانشنس اور چوتھی کو ایمان۔ قوتِ عقل صداقتوں کی معلومات سے بڑھتی ہے۔ دل یعنی محبت کی قوت محبت کے بڑھانے سے، یعنی اپنے ہم جنس کے پیار کرنے سے اور اس کی خدمت گزاری سے۔ قوت کانشنس انصاف کے زیادہ ہونے سے بڑھتی ہے اور قوت ایمان خدا کے ساتھ محبت اور اس کی اطاعت کرنے سے مترقی ہوتی ہے اور جب روح ایسی قوی ہو جاتی ہے تو اپنی قوتوں کے ساتھ صداقت کا کشف حاصل کر سکتی ہے۔ دوسری رائے اس کے برخلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی قانون عاصم ہمارے پاس ایسا نہیں ہے جس کے ذریعہ سے ہم لزوماً غلطی سے بچ سکیں۔ یہی باعث ہے کہ جن حکیموں نے قواعد منطق کے بنائے اور مسائل مناظرہ کے ایجاد کیے اور دلائل فلسفہ کے گھڑے وہ بھی غلطیوں میں ڈوبتے رہے اور صدہا طور کے باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتیں اپنی نادانی کی یادگار چھوڑ گئے۔ پس اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ اپنی ہی تحقیقات سے جمیع امور حقہ اور عقائد صحیحہ پر پہنچ جانا اور کہیں غلطی نہ کرنا ایک محال عادی ہے۔ کیوں کہ آج تک ہم نے کوہی فرد بشر ایسا نہیں دیکھا اور نہ سنا اور نہ کسی تاریخی کتاب میں لکھا ہوا پایا کہ جو اپنی تمام نظر اور فکر میں سہو و خطا سے معصوم ہو۔ پس بذریعہ قیاس استقرائی کے یہ صحیح اور سچا نتیجہ نکلتا ہے کہ وجود ایسے اشخاص کا کہ جنہوں نے صرف قانون قدرت میں فکر اور غور کر کے اور اپنے ذخیرہ کانشنس کو واقعات عالم سے مطابقت دے کر اپنی تحقیقات کو ایسے اعلیٰ پایہ صداقت پر پہنچا دیا ہو کہ جس میں غلطی کا نکلنا غیر ممکن ہو خود عادتاً غیر ممکن ہے اس لیے مقتضائے حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً جب مصلحت دیکھے ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے کہ عقائد حقہ کے جاننے اور اخلاق صحیحہ کے معلوم کرنے میں خدا کی طرف سے الہام پاویں اور تفہیم و تعلیم کا ملکہ وہی رکھیں تاکہ نفوس بشریہ کہ سچی ہدایت کے لیے پیدا کی گئی ہیں اپنی سعادت مطلوبہ سے محروم نہ رہیں۔ تیسری رائے اس دوسری رائے کی تردید میں ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان نے بہت سی باتوں کی نسبت اپنی تحقیقات کے ذریعہ سے صداقتیں دریافت کی ہیں جس کا ثبوت ہر طرح پر موجود ہے۔ کل معلومات پر جو انسان آج تک حاصل کر چکا ہے اور آئندہ حاصل کرے گا اس کے حصول کا کل سامان ہر فرد بشر میں نیچر نے مہیا کر دیا ہے۔ ۱ اب اس سامان کو انسان فرداً فرداً اور نیز بہثیت مجموعی جس قدر اپنی محنت اور جان فشانی سے روز بروز زیادہ سے زیادہ نفیس اور طاقت ور بنانے کے ساتھ ترقی کی صورت میں لاتا جاتا ہے اور جس قدر اس کے مناسب استعمال کی تمیز پیدا کرتا جاتا ہے اسی قدر وہ نیچر کی تحقیقات میں زیادہ سے زیادہ تر صحت کے ساتھ اپنی معلومات کے حصول میں کامیاب ہوتا جاتا ہے۔ اس بیان سے ثابت ہے کہ اول تو انسان بعض صورتوں میں اپنے نیچری سامان کے مناسب استعمال سے پہلے ہی حق امر کو دریافت کر لیتا ہے۔ دوم بشرط مناسب استعمال میں نہ لانے یا نہ لا سکنے کی اگر غلطی کھاتا ہے تو کوئی دوسرا جسے اس کے ٹھیک استعمال کا موقع مل جاتا ہے وہ اس غلطی کو رفع کر دیتا ہے۔ ۱۔ ہر فرد بشر میں مہیا کر دیا ہے صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ (ایڈیٹر) ضرورت الہام و وحی کی جو دوسری رائے میں بیان ہوئی ہے وہ صحیح نہیں ہے، جو ضرورت کہ نیچر کے نزدیک قابل تسلیم نہیں ہے اور اسے ہم اپنے وہم سے قائم کر کے نتیجہ نکالیں تو جس طرح وہ ضرورت فرضی قائم ہوئی ہے اس کا نتیجہ بھی فرضی ہو گا اور اس سے کوئی مطلب ثابت نہ ہو گا۔ انسان اپنی دو آنکھوں سے آگے کی چیز دیکھتا ہے اور پیچھے سے اس کی ہلاکت کا جو سامان کیا گیا ہو اس کو نہیں دیکھ سکتا جب وہ جہاز میں سوار ہوتا ہے اس کو نہیں معلوم ہوتا کہ طوفان سمندر میں آنے والا ہے جس میں اس کا جہاز غرق ہو جائے گا۔ پس جب خدا نے جو رحیم اور کریم اور حکیم ہے اس نے انسان کے سر کے پیچھے دو آنکھیں نہیں پیدا کیں اور طوفان سے بچنے کو کوئی نج کا پیغام نہیں بھیجا تو عقائد حقہ اور اخلاق صحیحہ کے لیے ایسے پیغام بھیجنے کی کیوں ضرورت مانی جائے۔۱ راقم۔ نثار احمد ۱۔ ایک دوست نے اس کو دیکھ کر کہا کہ اس لیے ضرورت مانی جائے کہ دنیا کی صعوبتیں چند روزہ ہیں اور معاد کی صعوبتیں دائمی ہیں اس لیے مقتضائے حکمت و رحمت تھی کہ دائمی صعوبتوں سے انسان کے بچانے کو نجی پیغام بھیجے۔ (ایڈیٹر) جواب اخی! جو تحریر کہ آپ نے میرے پاس بھیجی نہایت عمدہ ہے اور میں اس کے خیالات کی قدر کرتا ہوں۔ مگر افسوس ہے کہ میرے خیالات اس کے مطابق نہیں ہیں جو میرا خیال وحی و الہام کی نسبت ہے میں لکھتا ہوں۔ جس طرح کہ انسان میں اور قویٰ ہیں اسی طرح ملکہ وحی و الہام بھی اس میں ہے۔ بعض انسان ایسے بھی ہیں جن میں کوئی قوت منجملہ قوائے انسانی کے بالکل معدوم ہوتی ہے مگر اوروں میں موجود۔ یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں میں ایک ہی قوت متفاوت درجوں میں پائی جاتی ہے۔ کسی میں بہت کم ہے کسی میں زیادہ کسی میں بہت زیادہ۔ اسی طرح ملکہ الہام و وحی بھی بعض انسانوں میں معدوم ہوتا ہے بعض میںکم ہوتا ہے بعض میں زیادہ اور بعض میں بہت زیادہ۔ یہ ملکہ ایک آلہ ہے انکشاف علوم و حقائق اشیاء کماہی ہی کا اور اس لیے اس کا تعلق کسی خاص علم یا کسی خاص شئے پر منحصر نہیں ہے بلکہ ہر ایک سے جداگانہ و مستقل تعلق رکھتا ہے اور بہ لحاظ اپنے تعلق کے اسی علم یا شئے کے ساتھ وہ ملکہ منسوب یا موسوم ہوتا ہے جیسے کہ ملکہ حکمت، ملکہ طب، ملکہ شاعری، ملکہ حداوی، ملکہ موسیقی، ملکہ قاصی و علیٰ ہذا القیاس۔ انسان جب کہ انسان کے نیچر پر غور کرتا ہے اور نفس کے جالات جانتا ہے اور اس کی وہ غور ایسے درجہ پر پہنچ جاتی ہے جس پر اطلاق ’’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘ کا صادق آتا ہے اس وقت وہ چار حالتیں نفس انسانی پاتا ہے۔ ایک وہ حالت ہے جو عموماً انسانوں کو لاحق ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بچپن سے ایک طرح پر تربیت پاتے پاتے اور ایک قسم کی باتیں سنتے سنتے اور ایک ہی طور کے طریقے کو برتتے برتتے یا دفعۃً کسی پر اعتقاد آ جانے سے اور اس کی باتوں اور فعلوں کے اچھا ہونے پر یقین بٹھلا لینے سے یا سوسائٹی کے نامعلوم مگر نہایت قوی اثروں کے دباؤ سے ایک ایسا یقین یا ایسی کیفیت اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے کہ اسی بات کو حقیقت اور سچ جانتا ہے اور اس کے برخلاف کو برخلاف۔ اور اسی کیفیت کا نام کانشنس ہے جو تمدن و اخلاق سے زیادہ تر تعلق رکھتی ہے۔ دوسری وہ حالت ہے کہ انسان کا کسی خاص علم و ہنر میں ترقی کرتے جانا اور اس کے تمام مالہ و ما علیہ کو اکتساب کرتے کرتے ایک اعلیٰ درجہ کی قابلیت اس میں پیدا کرنا جو اس علم و ہنر کے ملکہ سے تعبیر کی جاتی ہے اور جس سے اس شخص کی اس علم یا ہنر میں اعلیٰ درجہ کی قدرت مراد ہوتی ہے۔ تیسری حالت یہ ہوتی ہے کہ جب وہ کسی علم و ہنر میں غور کرتا ہے اور کسی مسئلہ کا حل کرنا یا کسی بات کی تحقیق کرنا یا کسی امر کی حقیقت دریافت کرنا یا کسی دو امروں میں سے صحیح کو غلط سے تمیز کرنا چاہتا ہے۔ مگر وہ تمام اکتسابی قوتیں اس کی اس سے عاجز آ جاتی ہیں اور اس کے حل و تنقیح کا رستہ نہیں بتلاتیں، مگر دفعتاً اس کے دل میں ایک بات آ جاتی ہے جس کو وہ نہیں جانتا کہ کہاں سے آئی اور کیوں کر آئی اور اس سے وہ تمام مطالب حل ہو جاتے ہیں۔ بعضی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ بات پہلے دل میں پڑ جاتی ہے اور اس کی عمدگی اور اس کی صحت کی دلیلیں بعد کو مثل نکتہ بعد الوقوع ذہن میں آتی ہیں اور اسی طرح پر کسی بات کے دل میں آنے کو وحی و الہام کہتے ہیں۔ کچھ عجب نہیں کہ اس الہام کی جڑ وہی اکتسابی علوم ہوں مگر جب اس کا دل میں پڑنا ایک ظاہری طور پر ان اکتسابی علوم کا ذریعہ نہ تھا اس لیے وحی و الہام کی حد سے ہم اس کو خارج نہیں کرتے۔ چوتھی حالت ہم انسان میں ایسی پاتے ہیں جس کی بناء اکتسابی علوم پر قائم نہین ہو سکتی بلکہ اس شخص کے نیچر پر قائم ہوتی ہے۔ ایک جاہل شخص کو جو نہ علوم سے واقف ہے نہ عروض سے نہایت عمدہ شاعر پاتے ہیں، بہت بڑا ادیب دیکھتے ہیں۔ ان پڑھ اور بے علم لوگوں نے ایسے دقیق مسائل اخلاق کے بیان کیے ہیں جن کو حال کی ترقی یافتہ دنیا بھی تعجب سے دیکھتی ہے قدمی سے قدیم زمانہ میں بھی جب کہ روشنی علم کی اور علمی تحقیقاتوں کی ذرا بھی نہیں چمکی تھی یا بہت ہی تھوڑی چمکی تھی ایسے ایسے لوگ گزرے جن کو لوگوں نے خدا تک مانا۔ صرف یہی نہیں ہے کہ ان کو ایسا مان لیا تھا بلکہ ان کے اقوال اور ان کے مسائل اور ان کے اصول جو اس وقت دنیا کے سامنے موجود ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جیسے وہ مانے گئے تھے (نعوذ با اﷲ) ویسے ہی ماننے کے لائق بھی تھے۔ اس پرانی دنیا کے بت پرست، حیوان پرست، عجائب پرست، مصریوں کو دیکھا انہی میں سے بعض کے اقوال الہیات کے مسائل کے ایسے ملتے ہیں جن سے زیادہ عمدہ نہیں ہو سکتے۔ ہندوؤں کے ویدوں کے مصنفوں کے ان اقوال کو دیکھو جہاں اس جوتی سروپ نر نکار کی وحدانیت اور اس کی صفات کو بیان کیا ہے۔ موسیٰ کا زمانہ بھی کچھ حال کا زمانہ نہیں ہے۔ اس نے کس عمدگی سے اس مخفی مگر علانیہ ہستی کو ان مختصر لفظوں میں کہ ’’میں وہی ہوں جو ہوں‘‘ بیان کیا ہے۔ سب سے بڑے اور پرانے ہادی ابراہیم کو دیکھو جس نے بغیر کسی تربیت کے اپنے منہ کو بتوں کی طرف سے موڑا اور خدا کی طرف پھیرا اور اپنی فطرت سے خدا کی فطرت سے خدا کو پہچانا۔ سب سے آخر محمد رسول اﷲ ولعم کو دیکھو جس نے نہ لات کو مانا، نہ عزیٰ کو، نہ تعلیم و تربیت کا لفظ سیکھا، نہ سوسائٹی کے نہایت قوی اثر کو دیکھا اور دیکھا تو اس وحدہ لاشریک کو دیکھا۔ پس اس طرح دل مں پڑنے والے بات کو ہم وحی اور الہام کہتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ پڑتی نہیں بلکہ اچھلتی ہے مگر جب اس کے اچھلنے کے اسباب ہم نہیں پاتے تو اس کو القاء کہتے ہیں۔ ان الہامی بزرگوں کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ جن باتوں کو ان میں قرار دیا جاتا ہے ان کے پیدا ہونے اور دل میں آنے یا دل میں پڑنے کے بھی کچھ اسباب تھے لیکن اگر وہ ہوں گے بھی تو ایسے خفیف ہوں گے جن کو مدار ان عالی الہاموں کا قرار دینا ٹھیک نہیں ہو سکنے کا۔ مع ہذا ہم نے الہام کو خالی نلی میں پانی بھرنا نہیں مانا بلکہ فوارہ کی طرح اس میں سے اچھلنا مانا ہے گو کہ اس کے لیے کوئی خفیف تحریک ہوئی ہو۔ ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی حالت کو سوچا اور دوسروں کی حالت کو دیکھا اور ایک ایسا امر ان کے دل میں پڑا جس سے انہوں نے تعلیمی اور تربیتی اور سوشیلی اثروں پر غلبہ پایا۔ اس دل میں پڑںے والی شے کو بھی ہم الہام اور وحی کہتے ہیں۔ اگر وحی و الہام نہ تھا تو اور کیا تھا جس نے کالون اور لوتھر کے دل کو اس پرانے راستے سے پھیرا اور ہمارے ہی زمانہ میں اس قابل تعظیم و ادب شخص بابو کشیب چندر سین کے دل کو خدائے واحد کی طرف موڑا اور سوامی دیانند سر سوتی کے دل کو مورتی پوجن سے پھیرا۔ وحی و الہام اس ہمیشہ ہمیشہ ہست ہستی کا دائمی فیض ہے جو نہ منقطع ہوا ہے نہ منقطع ہو گا۔ اگر وہ کسی زمانہ میں کسی سے ہم کلام ہوا ہے تو وہ اب بھی ہم کلام ہونے کو موجود ہے۔ اگر کبھی اس نے کسی کو اپنا دیدار دکھایا ہے تو وہ اب بھی دکھانے کو حاضر ہے اگر وہ آگ کی صورت یا آدمی کی مورت بننا جانتا تھا تو اب بھی وہ جانتا ہے مگر وہ شخص چاہیے جس سے وہ ہم کلام ہو اور جس کو اپنا دیدار دکھائے۔ عشق گر مردست مردے بر سرکار آورد ورنہ چوں موسیٰ بسے آورد و بسیار آورد خدا تو ایسا فیاض ہے کہ مکھی کے دل میں بھی وحی ڈالتا ہے۔ پھر انسان کے دل میں وحی یا الہام ڈالنے سے اس نے کبھی منہ نہیں موڑا۔ مگر انسان کا دل کم سے کم مکھی کا سا تو ہونا چاہیے جس میں وہ آ سکے۔ ہمارے اس مضمون کو کٹ ملا پڑھ کر سمجھیں گے کہ ہم نے کفر بکا ہے اور ختم نبوت سے انکار کیا ہے مگر یہ ان کی نادانی ہے جو ختم نبوت کو بعنی انقطاع فیض مبدء فیاض سمجھتے ہیں۔ ہم ختم نبوت کے قائل ہیں اور پھر چشمہ فیض رحمت فیاض کو جاری مانتے ہیں اور خدا سے انسان کے تعلق کو کبھی منقطع نہیں سمجھتے اور ہم کیا تمام اگلے پچھلے جو ہمہ اوست یا ہمہ از دست کے کہنے والے گزرے ہیں اس غیر منقطع ہونے والے تعلق کو دائم و قائم کہتے چلے آئے ہیں۔ ختم نبوت دوسری چیز ہے اور عدم انقطاع رحمت دوسری چیز۔ اگر ملکہ وحی و الہام کو جن میں وہ ہو ایک قوت مثل دیگر قوائے انسانی کے تسلیم کی جائے۔ جیسے کہ میں نے تسلیم کی ہے تو ضرور ہے کہ وہ بھی مثل دیگر قوائے انسانی کے سی میں ضعیف اور کسی میں قوی یا کسی میں ناقص اور کسی میں کامل ہو گی اور وہ صرف اتنا ہی کام دے گی جتنا کہ نیچر نے اس کو دیا ہے یا جتنے کی قابلیت نیچر نے اس میں رکھی ہے۔ فوارہ کا زور پانی کے جوش کی مناسبت سے ہوتا ہے۔ سی کا پانی اس کے منہ ہی سے ابل کر رہ جاتا ہے۔ کسی کا اونچا اور کسی کا بہت اونچا ہو جاتا ہے اور کسی کا اس حد تک بلند ہوتا ہے جو حد کہ نیچر نے اس کے لیے مقرر کی ہے۔ پس ہر ایک وحی یا الہام کو ہم کامل یا بے نقص نہیں کہتے بلکہ صرف اسی کو کامل کہتے ہیں جس کو نیچر نے کامل کیا ہے۔ وحی یا الہام ہمیشہ شخصی ہوتا ہے۔ شخصی الہام اور کتابی الہام دو جداگانہ چیزیں نہیں ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ بطور اصطلاح کے ایک کو تاریخی الہام اس لحاظ سے کہ وہ کسی گزشتہ زمانہ میں ہوا تھا اور ایک کو شخصی الہام قرار دے لو۔ ورنہ دنوں کی حقیقت واحد ہے اور الہام وہی ایک حقیقت رکھتا ہے خواہ وہ پہلے ہوا ہو یا اب ہو، مگر دونوں اپنی حقیقت اور صداقت ثابت کرنے کے محتاج ہیں۔ حقیقت ثابت کرنے کے تو اس لیے محتاج ہیں تاکہ جس کو وحی یا انہام کہا جاتا ہے کہیں وہ کانشنس تو نہیں جو تعلیمی و سوشیلی اور اعتقادی امور کا نتیجہ ہے اور جس کی صحت و عدم صحت یا صداقت و عدم صداقت اس پر منحصر ہے جس کا وہ نتیجہ ہے۔ یا وہ الہام وہ تو نہیں ہے جو اکتسابی علوم کا نتیجہ ہے کیوں کہ اس کی حقیقت بھی اس شئے کی حیثیت سے جس کا وہ نتیجہ ہے مغایر نہیں قرار پانے کی۔ اور صداقت ثابت کرنے کے اس لیے محتاج ہیں کہ کہیں وہ ایسے الہام تو نہیں ہیں جن کو نیچر نے کاملیت کے درجہ تک نہیں پہنچایا۔ کیوں کہ صرف اسی وحی و الہام میں غلطی نہیں ہو سکتی جس کو نیچر نے کاملیت کی حد تک پہنچایا ہے۔ یہی بحث ہے جو تمام مذاہب نے کی اور تمام کتب الہامی کی صداقت یا عدم صداقت سے متعلق ہے۔ ہر ایک مذہب والا اپنے مذہب کو، اپنے مذہب کی کتاب کو، اپنے معتقدفیہ کو سچا اور کامل بتاتا ہے اور اس کی تمام باتوں کا مخرج اس سے قرار دیتا ہے جو صداقت محض ہے۔ پس اگر اس کے لیے کوئی پیمانہ نہ ہو تو کسی کا یہ حق نہیں ہے کہ ایک کو راست اور دوسرے کو نا راست کہے۔ نیچر کے کاموں پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرور اس نے اس کا بھی کوہی پیمانہ قرار دیا ہو گا اور اس لیے انسان کو اسی کی تلاش سب سے مقدم ہے۔ الہام یا کتاب الہامی کا پرنٹر خود اس کا دل ہے۔ جس پر الہام ہوا اسی کا دل اس کے تمام اوراق کا مخزن ہے۔ اسی کا دل وہ شخص ہے جس سے اس نے اعتباری طور پر اس کی تصنیف کا حال ظاہر کیا ہے۔ پس اس کے لیے ایسی بیرونی شہادت جیسے کہ میرے اس آرٹیکل کے لیے حاصل ہونی ممکن ہے قانون قدرت کے برخلاف ہے۔ اندرونی شہادت بھی جس کا نام لوگوں نے اندرونی شہادت رکھا ہے ایسی کتاب کے لیے ایسے ہی قانون قدرت کے برخلاف ہے جیسے کہ بیرونی شہادت۔ اس کے مصنف کے خیالات نامعلوم ہیں۔ پھر کیوں کر خیال کریں کہ اس کتاب کے خیالات ان خیالات کے مماثل ہیں اس کے مصنف کا طرز تحریر بھی نامعلوم ہے اور وہ واقعات بھی نامعلوم ہیں جو صرف اسی مصنف کو معلوم ہیں۔ یہ الہامی کتاب ایسی شہادت سے ثابت ہوتی ہے جو ان دونوں قسم کی شہادت سے بہت اعلیٰ درجہ پر غیر مشتبہ ہے اور وہ وہ شہادت ہے جو ہر دم و ہر آن ہم تم، آسمان و زمین، درخت و پتھر، دریا و جنگل، چرند و پرند، سورج، چاند، ستار دے رہے ہیں۔ خدا کی کتاب کے لیے فانی شخصوں کی کتاب کی مانند فانی شہادت مت ڈھونڈو۔ اس ازلی اور ابدی کے ازلی ابدی کلام، ازلی ابدی کتاب ازلی ابدی تحریر، ازلی ابدی دستخط کے لیے ازلی ابدی ہی شہادت ڈھونڈو۔ اس کی شہادت پہاڑوں پر کندہ ہے، اس کی شہادت درختوں کے ورقوں پر لکھی ہے۔ اس شہادت پر تمام جانور چہچہا رہے ہیں، گھوڑے ہنہنا رہے ہیں، شیر غرا رہے ہیں، گدھے رینگ رہے ہیں، آدمی بول رہے ہیں اور دل تصدیق کر رہے ہیں۔ جس کتاب کے لیے ایسی شہادت ہو وہ بلاشبہ خدا کی کتاب ہے۔ پھر اس کی صداقت کے لیے اس بات کا ثبوت طلب کرنا کہ وہ غلطی سے پاک ہے نادانی ہے۔ نیچر غلطی سے پاک ہے اور اس نے اس کی شہادت دی ہے۔ ایسی صداقتیں جو انسان کی عام قوتوں کے ادراک سے باہر ہوں اگر اس میں پائی بھی جاویں تو انسان ان کو کیوں کر صداقتیں کہہ سکے۔ وہ تو اس کے ادراک سے باہر ہیں۔ یہ سوچنا کہ اس کی صداقتوں پر کوئی انسان سقبت لے گیا ہے یا نہیں اس لیے ناکافی ہے کہ اگر یہ ثابت بھی ہو تو اس کا کیا ثبوت ہو گا کہ آئندہ بھی نہ لے جاوے گا پس نیچر کی شہادت اس کی صداقت کو کافی ہے۔ اس بات کو بھی نہ بھولنا چاہیے کہ ہم نے وحی و الہام کا تعلق خاص امر پر منحصر نہیں کیا ہے بلکہ ہر ایک امر سے جداگانہ اور مستقل تعلق قرار دیا ہے۔ پس اس مقام پر جس وحی و الہام سے ہم کو بحث ہے وہ وہ ہے جو روح کی تربیت اور اخلاقی تعلیم اور انسان کی انسانیت سے علاقہ رکھتا ہے اور جس کو مذہب سے تعبیر کرتے ہیں۔ پس اگر موسیٰ کو کوئی ٹرگنا میٹری کا قاعدہ نہ آتا ہو اور اس نے اس کے بیان میں غلطی کی ہو تو اس کی نبوت و صاحب وحی و الہام ہونے میں نقصان نہیں آتا کیوں کہ وہ ٹرگنا میٹری یا استرانمی کا ماسٹر نہیں تھا۔ وہ ان امور میں تو ایسا نا واقف تھا کہ ریڈ سی کے کنارہ سے کنعان تک کا جغرافیہ بھی نہیں جانتا تھا اور یہی اس کا فخر اور یہی دلیل اس کی نبی اولو العزم ہونے کی تھی۔ یہ مسئلہ اس زمانہ کے علوم کی روشنی نے نہیں سکھایا بلکہ تیرہ سو برس گزرے جب ہمارے پیشوا نے ہم کو سمجھایا کہ ’’ما اتا کم من امر دینکم فخذوہ و ما نہا کم عنہ فانتھوا و ما امر تکم برائی فانا بشر مثلکم۔‘‘ بے شک انسان نے اپنی عام قوتوں کی مدد سے بہت کچھ صداقتیں مختلف علوم و فنون میں حاصل کی ہیں اور حاصل کرتا رہے گا اور انہی قوتوں کی مدد سے کتب مقدس کی چند سیدھی سادھی صداقتوں کو بھی منکشف کیا ہے مگر انہوں نے ہی کیا ہے جن میں اس کے انکشاف کی قوت تھی۔ میں اس کو نہیں تسلیم کر سکتا کہ ایسا کرنے میں اس کو نہ کسی خدا کی اور نہ فرشتہ کی احتیاج ہے۔ کیوں کہ اس کو اسی فرشتہ کی حاجت ہے جس کا دوسرا نام قویٰ ہے اور اسی خدا کی حاجت ہے جس نے اس کو ان قویٰ پر پیدا کیا ہے یا ان قویٰ کو اس کے لیے بنایا ہے۔ جب یہ عام خیال کہ وحی و الہام اوپر سے آتا ہے نکال دیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ وہ آتا نہیں بلکہ جاتا ہے اور پھر پلٹ کر پڑتا ہے اور خاص خاص علوم اور انکشاف سے علاقہ رکھتا ہے تو کتب الہامی کی نسبت بھی خیال صاف ہو جاتا ہے۔ کتب الہامی اخلاقی و روحانی تربیت سے علاقہ رکھتی ہیں۔ پھر بالفرض اگر کسی الہامی کتاب میں اقلیدس اور جرثقیل کے دلائل یا علم ہیئث کے مسائل کے بیان میں غلطی ہو تو کیوں وہ غلط مانی جائے کیوں کہ وہ الہام اس سے متعلق نہیں۔ یہی سبب ہے کہ سچی کتب الہامی نے ان امور کی جو دیگر علوم سے علاقہ رکھتے تھے کچھ بحث نہیں کی ہے۔ بلکہ ان امور کے متعلق جو عامیانہ خیال عام لوگوں کے تھے ان کو اسی طرح چھوڑ کر ان کی اخلاقی تعلیم کو اختیار کیا ہے۔ مگر لوگوں نے ناسمجھی سے ان کو حقائق محققہ قرار دیا ہے اور جو لفظ کہ اصلی حقیقت پر اشارہ کرتے تھے یا دوسرے معنی بھی رکھتے تھے ان کو خواہ نخواہ ان ہی عامیانہ خیال کی طرف رجوع کیا ہے۔ ہاں اگر وہاں روحانی تعلیم و تربیت میں کچھ غلطی ہو اور نیچر اس کے غلط ہونے کی شہادت دے نہ کوئی فانی انسان تو البتہ ہم اس کتاب کو جھوٹا یا ناقص الہام قرار دیں گے۔ بلاشبہ اس زمانہ میں بہت سی کتابیں ہیں جو کتب الہامی کے لقب سے مشہور ہیں اور ان میں غلطیاں بھی موجود ہیں مگر جس قدر کہ ان مین صداقت ہے اس کے نہ ماننے کے لیے کوہی وجہ نہیں ہے۔ صداقت فی نفسہ صداقت ہے خواہ اس کو سچے ہاتھوں نے لکھا ہو یا دوسروں نے۔ وید میں غلطیاں ہیں خواہ وہ پیچھے سے ملائی ہوں یا پہلے سے ہوں مگر وہاں بہت سی صداقتیں بھی ہیں اور ہمارا کام ان صداقتوں کو تسلیم کرنا ہے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ کسی کتاب کے الہامی مان لینے سے بھی مشکلات رفع نہیں ہو سکتیں۔ کیوں کہ اس کتاب کی ہر ایک آیت کے متعدد معنی ہو سکتے ہیں اور اس بات کے قرار دینے کو کہ کون سے معنی اصلی ہیں ایک ایسے مفسر کی ضرورت پیش آتی ہے جو خود الہامی اور انفیلیبل یعنی معصوم یا محفوظ من الخطاء ہو۔ کیتھولک لوگوں نے اس ضرورت کو تسلیم کیا ہے اور وہ پوپ کو معصوم یا محفوظ من الخطاء تسلیم کرتے ہیں اور انجیل کے جو وہ معنی کہتا ہے وہی صحیح مانے جاتے ہیں مگر اس میں بھی مشکل آ جاتی ہے۔ جب کہ کسی پوپ نے ایک آیت کے معنی کچھ کہے ہوں اور دوسرے نے کچھ۔ شیعہ مذہب کا مسئلہ کہ ایک مجتہد زندہ موجود ہونا چاہیے اس مشکل کو کسی قدر رفع کرتا ہے۔ اہل سنت و جماعت نے بھی کسی قدر اس کی پیروی کی ہے کہ ائمہ مجتہدین کو واجب الاتباع مانا ہے۔ مگر قرآن مجید تو اس کے نہایت برخلاف ہے اور عیسائیوں کو پوپ کا عہدہ قائم کرنے پر الزام دیا ہے جہاں فرمایا ہے ’’ولا یتخذ بعضنا بضاً اربابا من دون اﷲ اتخذوا احبار ہم و رہبانہم اربابا من دون اﷲ‘‘ با ایں ہمہ دو باتوں میں سے کسی ایک کے اختیار کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ یا کوئی الہامی مفسر مانا جائے یا تفسیر کی صحت کا کوئی پیمانہ قرار دیا جائے۔ میں تو وہی پیمانہ قرار دیتا ہوں جو وحی و الہام کی صحت کا پیمانہ ہے یعنی نیچر اس کی صداقت پر شہادت دے بشرطیکہ اس الہامی کتاب کے الفاظ اور اس کا محاورہ اور الفاظ کے استعمال کا طریقہ بھی اس تفسیر کے مساعد ہو۔ اس پر بھی بحث منقطع نہیں ہوتی اور یہ سوال ہوتا ہے کہ نیچر کی صداقت کیا ہے۔ کوئی کسی امر کو اور کوئی کسی امر کو نیچر کی صداقت قرار دیتا ہے جس میں سے ایک صحیح اور ایک غلط ہو گی۔ مگر یہ بحث زیادہ دیر نہیں پکڑتی کیوں کہ خود نیچر اس غلطی کو رفع کر دیتا ہے اور دل اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ آپ کا یہ خیال کہ تمام کتب الہامیہ عرصہ دراز تک لوگوں کی زبان پر رہیں۔ پھر اور لوگوں نے ان کو زبانی یاد رکھا اور آخرکار لکھنے والوں نے لکھا اور یہ یاد رکھنے والے اور لکھنے والی الہامی نہ تھے۔ شاید صحیح ہو مگر قرآن مجید کی نسبت صحیح نہیں ہے اس لیے کہ بغیر شک کے ثابت ہے کہ قرآن مجید کا جب الہام ہوا تب ہی ملہم کی زبان سے نکلا اور تب ہی لکھنے والوں کے ہاتھ سے لکھا گیا۔ جو آچ تک ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یہاں تک کہ رسم خط میں بھی تبدیلی نہیں کی گئی۔ میں تو اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ انسان اپنی نیچری قوتوں کے مناسب استعمال سے حق بات دریافت کر لیتا ہے اور اگر اس نے اس کے استعمال میں غلطی کی ہو تو دوسرا شخص جس نے استعمال میں غلطی نہ کی ہو اس غلط کو رفع کر دیتا ہے کیوں کہ میں ملکہ نبوت و الہام کو بھی ایک قوت انسان کے قویٰ میں سے سمجھتا ہوں۔ مگر جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہر ایک انسان میں اس ملکہ کا ہونا ضروری نہیںہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعض انسانوں میں ایک امر کا ملکہ ہے اور بعض میں نہیں ہوتا۔ مگر جو قوت کہ نیچر نے دی ہے اس کا بے محل استعمال ہو سکتا ہے مگر استعمال میں غلطی نہیں ہو سکتی۔ آپ نے جس امر کو استعمال کی غلطی سے تعبیر کیا ہے اگر اس کو بالفاظ ناقص اور کامل ہونے قوت کے تعبیر فرماتے تو میرے خیال کے بالکل مطابق ہوتا۔ الہام کی ضرورت پر جو بحث لکھی ہے افسوس ہے کہ میں اس سے متفق نہیں ہوں آپ کی تحریر نہایت عمدہ ہے اور حدا کے رحم اور انسان کے ساتھ اس کی ہم دردی کا نہایت پُر اثر خیال انسان کے دل پر اس تحریر سے پیدا ہوتا ہے۔ میرا اور اپ کا مطلب کچھ مغائر نہیں ہے۔ صرف طرز بیان یا طریقہ استدلال میں تفاوت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جو کچھ خدا نے پیدا کیا ہے اسی کے لیے وہ سب چیزیں بھی پیدا کی ہیں جو اس کے لیے ضروری یا مناسب ہیں اور ان کے استعمال سے جو نتیجہ پیدا ہو وہ بھی ایک لازیم نتیجہ ہے۔ پتھر کے مناسب حال جو چیزیں تھیں وہ اس کے لیے ہیں۔ درخت کے لیے، پرند کے لیے غرض کہ تمام مخلوقات کے لیے جو چیز مناسب حال تھی سب موجود ہے۔ انسان ایک اس قسم کی مخلوق ہے جس کے مناسب چال بہت سی چیزیں درکار تھیں اور ان سب کو خدا نے ( یا جس کو اس کا خالق کہو) مہیا و موجود کیا ہے۔ انہی میں سے صداقت کا پانا بھی انسان کے مناسب حال تھا۔ اس کو بھی خدا نے ایسے لوگوں کے ذریعہ سے جو صاحب وحی و الہام کہلاتے ہیں پورا کیا ہے۔ جن جن علوم اور جن حقائق اشیاء کی صداقت دریافت کرنے کا جس میں کامل ملکہ ہے وہ اسی کا پیغمبر ہے۔ مگر یہ لفظ خاص ہو گیا ہے اور صرف اخلاقی و روحانی علم کی صداقت دریافت کرنے والے شخص کو جس میں اس کی صداقت دریافت کرنے کا کامل ملکہ ہو جو وحی و الہام سے تعبیر کیا جاتا ہے نبی یا پیغمبر کہتے ہیں۔ یہودی نبی کا لفظ ایسے شخص کی نسبت اطلاق کرتے تھے جو آئندہ کے واقعات کی پشین گوئی کرتا تھا مگر اسلام میں کبھی یہ لفظ ان معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ نبی و پیغمبر مرادف لفظ سمجھے گئے ہیں اور معاد کے حالات بتانے کے سبب ان پر نبی کا اطلاق ہوا ہے۔ خدا ہر چیز کے ساتھ درخت ہو یا انسان ہمیشہ سے ہے، کھبی اس سے جدا نہیں ہوتا بلکہ اگر خدا چاہے کہ میں اپنی مخلوق سے جدا ہو جاؤں تو بھی جدا نہیں ہو سکتا۔ مگر آپ کی اخیر تحریر جو روح کی ترقی کی نسبت ہے میری سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ نے اس کی ترقی چار قوتوں یعنی قوت ادراک یا عقل و فہم، قوت حب، قوت کانشنس، قوت ایمان کی ترقی قرار دی ہے۔ قوت تھلی کی ترقی صداقتوں کی معلومات پر ٹھہرائی ہے۔ مگر کیا ایسے شخص کی روح کو جو جاہل ہے اور جس کو صداقتوں کی معلومات نہیں ہے ترقی نہیں ہو سکتی اگر یہی ہو تو کروڑ در کروڑ مخلوق خدا کی رحمت سے خارج رہ جائے گی۔ قوت حب جس سے اپنے ہم جنس کے پیار اور حدمت گزاری سے مراد لی ہے ایک اضافی شے ہے کبھی وہ محبت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے جیسے کہ ماں اپنے بیٹے سے کرتی ہے اور کبھی وہ نہایت غضب اور بے رحمی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے جب کہ جج قاتل کے قتل اور مجرم کی سزا کا حکم دیتا ہے اور کبھی وہ نہایت بد اخلاقی اور بے ایمانی ہو جاتی ہے جب کہ محبت یا رحم کے سبب مجرم کو سزا سے بچانے کے لیے کام میں لائی جاتی ہے۔ پس جو شے کہ ایک حالت پر قائم نہیں ہے وہ روحانی ترقی کا کیوں کر ذریعہ ہو سکتی ہے۔ کانشنس کو جو خود کچھ مستقل چیز نہیں ہے بلکہ نتیجہ دوسری چیزوں کا ہے اور اس کا اچھا یا برا ہونا ان چیزوں کے اچھے یا برے ہونے پر منحصر ہے جس کا وہ نتیجہ ہے کس طرح ترقی روح کا ذریعہ مانا جا سکتا ہے۔ ہاں بلاشبہ قوت ایمانی ترقی روحانی کا ذریعہ ہے۔ خدا کی محبت اس کی اطاعت کا ذوق دل میں پیدا کرتی ہے اور انسان اپنے قویٰ کو ان کاموں میں لانے کی کوشش کرتا ہے جن کے لیے وہ پیدا کیے گئے ہیں اور قویٰ کے اس طرح پر کام میں لانے سے روح کو ترقی ہوتی ہے مگر ترک و تجرید اور زہد جس کو جوگ یا رہبانیت کہتے ہیں روح کو ترقی نہیں دے سکتے کیوں کہ اس میں قوتوں کا کام میں لانا نہیں ہوتا بلکہ ان کا معطل کر دینا ہوتا ہے والسلام۔ راقم سید احمد ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ (۳) تُرکوں کے متعلق مضامین ترک (تہذیب الاخلاق بابت ۱۵ جمادی الثانی ۱۲۸۸ھ) اسلام کا نتیجہ نیک چلن ہونا ہے اگر ہم دیکھیں کہ کسی ملک کے مسلمانوں میں نیک چلنی نہیں ہے تو ہم کو یقین کرنا چاہیے کہ اسلام صرف ان کے منہ ہی منہ میں ہے حلق کے نیچے ذرا بھی نہیں اترا گو انہوں نے اپنے تئیں کیسا ہی جبہ اور عمامہ سے مقدس بنایا ہو اور نمازیں پڑھ پڑھ کر اور تسبیحیں ہلا ہلا کر قدوس جتایا ہو۔ اسلام جس طرح کہ اخلاقی اور روحانی نیکیاں تعلیم کرتا ہے۔ نہیں نہیں جس طرح کہ اخلاقی اور روحانی نیکیوں کو دل میں بٹھا دیتا ہے اسی طرح تمدن اور حسن معاشرت کی جو نیکیاں ہیں ان کو بھی اپنے پیروؤں کے برتاؤ میں ایسا ملا جلا دیتا ہے کہ کسی طرح اس سے الگ نہیں ہو سکتیں اور بطور فطرتی عادتوں کے دکھائی دیتی ہیں اور طبیعت ثانی ہونے سے بھی بڑھ کر اصلی طبیعت ہو جاتی ہیں۔ اخلاقی اور روحانی نتیجہ اس کا خدا ہی کو ماننا اور اسی پر بھروسا رکھنا اور ہر حال میں اس کی مرضی پر شاکر رہنا اور تمام مصیبتوں پر نیک دلی سے صبر کرنا ہوتا ہے اور تمدنی نتیجہ اس کا اپنے ہم جنسوں سے محبت کرنا اور ہر ایک کے ساتھ نیکی اور سچائی اور پوری پوری صداقت سے پیش آنا ہوتا ہے۔ رحم دلی اور صدق مقال یعنی ہر بات میں سچ بولنا اسلام کا تائیل یعنی لقب ہے۔ دغا و فریب سے بچنا اس کی ڈگری یعنی اس کا منصب ہے۔ اب دیکھو کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں کتنے ہیں جن کا ایسا برتاؤ ہے۔ افسوس کہ ہم نے اپنی بد چلنی سے اسلام کو کیسا داغ لگایا ہے۔ شہادت زور گویا مفلس مسلمانوں کا پیشہ ہو گیا ہے۔ ہندوستان کی عدالتوں میں جس وقت ہندو گواہ آتے ہیں تو منصف جج کو گو وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو اس بات پر غور کرنی پڑتی ہے کہ آیا اس کی شہادت سچ ہے یا نہیں مگر جس وقت مسلمان گواہ آیا اور اس نے اپنا نام بتایا اور جج کو ظن غالب اس کے جھوٹے ہونے کا ہو گیا جب تک کہ کسی اور قرینہ سے اس کے سچے ہونے کا گمان نہ ہو۔ مسلمان سودا بیچنے والے بہ نسبت اور قوموں کے بہت زیادہ جھوٹ بولتے ہیں اور فریب کرتے ہیں کسی چیز کی اصلی قیمت ہر گز نہ کہیں گے اور ہمیشہ اس بات پر قصد رہے گا کہ مشتری سے جہاں تک ممکن ہو زیادہ قیمت لی جاوے۔ جب کہ ہم کسی قوم کے سوداگروں اور خوردہ فروشوں میں یہ بات دیکھتے ہیں کہ تمام اشیاء کی ایک قیمت خاص معین ہے وہی کہتے ہیں اور وہی لیتے ہیں تو ہم کو مسلمانوں کی خراب عادت یعنی جھوٹ قیمت کہنے اور پھر چکاتے چکاتے نفص سے بھی بعض اوقات کم پر بیچنے سے کیوں نہ رنج ہو اور ہم کیوں کر نہ اس بات کا خیال کریں کہ اسلام نے کچھ بھی ان کے دلوں پر اثر نہیں کیا ہے۔ اگر تمام دنیا کے مسلمان ایسے ہی ہوتے تو بڑی مشکل پیش آتی اس لیے کہ خود اسلام کی نسبت بہت کچھ شبہ پڑتا مگر نہایت خوشی کی بات ہے کہ اور ملک کے مسلمانوں کا حال دیکھ کر یقین آتا ہے کہ اسلام بلاشبہ روحانی اور اخلاقی اور تمدنی نیکیاں بخشنے والا ہے۔ مسٹر جان ریل موربل صاحب نے ٹرکی کے حالات میں ایک تاریخ لکیھ ہے اس میں انہوں نے جو کچھ حال ترکوں کا لکھا ہے اس کا انتخاب اس مقام پر لکھتے ہیں تاکہ ہندوستان کے مسلمان اس کو دیکھ کر عبرت اور غیرت پکڑیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’جس کسی نے ترکوں کے چال چلن کا حال لکھا ہے اس نے ماں اور لڑکوں کی محبت کا ضرور ذکر کیا ہے۔ ماں کی شفقت اور لڑکوں کا ادب یہ دونوں باتیں طرفین کی طرف سے نہایت مستحکم اور لازوال ہوتی ہیں اسی کے ذریعے سے عورتوں کو وہ خوشی حاصل ہوتی ہے جو فرنگستان میں نہیں ہے۔ عورت کو خانہ داری میں بالکل اختیار ہوتا ہے۔ ہم لوگوں میں (یعنی اہل فرنگ میں) اگر عورت تمام عمر اس کے حاصل کرنے کی کوشش و محنت کرے تو بھی وہ اختیار اس کو حاصل نہیں ہو سکتا۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’کثرت ازدواج ترکوں یمں اس قدر زیادہ اور ایسی عام بلا نہیں ہے جیسا کہ لوگ عموماً تصور کرتے ہیں۔‘‘ ان کا قول ہے کہ ’’اسلام عورتوں کی طرف نہایت رحم دل ہے۔ قرآن میں صاف لکھا ہے کہ جو کوئی نیک کام کرتا ہے اور خدا پر یقین رکھتا ہے مرد ہو یا عورت بہشت میں جاوے گا۔‘‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’مس پارڈہ جو ۱۸۳۸ء میں ٹرکی میں تھیں اور وہ ترکوں کے زنانہ میں جایا کرتی تھیں ترکوں کے گھر کے چال چلن سے نہایت خوش تھیں اور ترکوں کی عورتوں کی نیکی اور پارسائی کی تصدیق کرتی ہیں۔‘‘ مسٹر سی ہوایٹ صاحب بیان کرتے ہیں کہ قسطنطنیہ میں امیروں کی عورتیں اپنے وقت کو اسی طرح پر صرف کرتی ہیں جیسا کہ اور ذارالریاست کی عورتیں۔ فرق یہ ہے کہ ان کے خاندان میں اتفاق زیادہ ہوتا ہے۔ لڑکے اپنے والدین کا ادب زیادہ کرتے ہیں اور بی بی شوہر کی زیادہ مطیع ہوتی ہے۔ عورتوں کا دل اور اصول چلن کا نہایت کم خراب ہوتا ہے۔ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرنے کا برا دستور جاری نہیں ہے اور نہ یہ کوہی قاعدہ کی بات ہے بلکہ ایسی حالت مستشنیٰ ہے۔ رزیل اور اوسط درجہ کے لوگوں میں بھی شاذ و نادر ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے دو عورتوں سے شادی کی ہو۔ نہایت درجہ کے امیر لوگوں میں بھی یہ دستور مستشنیٰ ہے۔ مسٹر جان کارنی صاحب کیمبرج والے یہ فرماتے ہیں کہ ’’ترکوں کی عجیب ایمان داری کا کچھ ذکر کرنا عین انصاف ہے۔ جب کہ میں گلیٹیا میں وارد ہوا تو میرا اسباب ایک مزدور نے اٹھا لیا اور ہم آگے بڑھے۔ جب ہم ایسی جگہ پہنچے جہاں لوگوں کی بہت کثرت تھی تو وہ مزدور میری نظر سے غائ% ہو گیا اور ہم لوگ ایک قہوہ خانہ میں گئے۔ میں نے یہ خیال کیا کہ وہ مزدور میرا اسباب لے کر بھاگ گیا مگر سیوڈن کا رہنے والا کپتان جہاز کا جو پہلے بھی اس بندر میں آیا تھا کہنے لگا کہ ایسے کام کرنا یہاں کوئی جانتا بھی نہیں۔ تھوڑے عرصہ میں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ وہ غریب مزدور اسی راہ سے پھرا چلا آتا ہے اور گھبرایا ہوا ہر چہار طرف دیکھتا آتا ہے۔ بازاروں میں اکثر دوکان دار اپنی دوکان اور اسباب کو کھلا ہوا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور کچھ اندیشہ نہیں ہوتا۔ دین لین میں کوئی شاذ و نادر فریب دینے کی کوشش کرتا ہے۔ ٹرکی یعنی روم کی سلطنت کے مختلف حصوں میں میں نے سفر کیا اور اثنائے سفر میں غریبوں کے جھونپڑوں اور امیروں کے مکانوں میں رہا مگر کبھی ایک خر مہرہ کا بھی میرا نقصان نہیں ہوا۔ یونانیوں میں جب کہ تریپولٹ زا مقام کی ٹرکی عورتوں پر ظلم کیا۔ امیروں کی عورتوں کو رزیل قوم کی عورتوں میں ملا دیا۔ ان کے مرد رشتہ دار ذبح کر ڈالے تاہم جس صبر و قناعت کے ساتھ ان عورتوں نے اس تکلیف کو گوارا کیا نہایت قابل تعریف کے ہے۔ خدا کی شکایات یا بیفائدہ افسوس کبھی ان کی زبان سے نہیں نکلا۔ وہ یہی کہتی تھیں کہ خدا کی یہی مرضی ہے اور سب تکلیفوں کو نہایت صبر سے برداشت کرتے ہیں۔ مگر ترک عورتیں تو گویا رنج و محنت کی برداشت کی روحیں ہیں۔‘‘ اس مقام پر ہم کو کچھ ہندوستان کے شریف خاندانوں کی عورتوں کا بھی حال لکھنا مناسب ہے بلاشبہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ مسلمان شریف خاندانوں کی عورتیں جیسی نیک اور ایمان دار اور خدا پر شاکر اور رنج و مصیبت میں صابر ہیں شاید تمام دنیا کی عورتوں سے سبقت رکھتی ہیں۔ خدا کی عبادت اور دل کی نیکی اور بے انتہا رحم دلی۔ والدین کا ادب، شوہر کی محبت اور اطاعت، تمام رشتہ مندوں کی الفت اور رنج و راحت میں ان کے ساتھ شرکت۔ اولاد کی پرورش، خانہ داری کا انتظام جس دلی نیکی اور خالص ایمان داری سے وہ کرتی ہیں بیان سے باہر ہے۔ نہایت خوشی میں بھی وہ خدا ہی کو پکارتی ہیں کہ وہ خدا تیرا شکر ہے کہ تو نے ہم کو یہ خوشی دی اور نہایت مصیبت میں بھی وہ خدا ہی کو پکارتی ہیں۔ ان کی زبان پر یہ ایک مثل ہے کہ مصیبت کے وقت بھی خدا ہی کو نہ پکاریں تو کیا کریں۔ دیکھو بچے کو ماں ہی مارتی ہے پر بچہ ماں ہی ماں پکارتا ہے۔ جو جو مصیبتیں ہماری یاد میں ہندوستان کی مسلمان عورتوں پر اتفاقات زمانہ سے پڑیں اور جس صبر و شکر و قناعت اور استقلال اور خدا پر بھروسہ رکھنے میں انہوں نے اس کو سہا حقیقت میں دنیا کی عجائبات میں سے ہے۔ہماری رائے میں اسلام کی عزت جس قدر کہ ہندوستان میں رکھی ہے صرف مسلمان عورتوں نے رکھی ہے اور جب اس کے ساتھ کافر مسلمان مردوں کا چال چلن جو ان کے ساتھ ہے خیال کیا جاوے تو عورتوں کی نیکی ایسے درجہ پر پہنچ جاتی ہے جو حد بیان سے خارج ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ صرف زبان سے مسلمان کہنے اور ٹخنوں سے اونچا پاجامہ اور بیچ کے گریبان کا کرتا اور گول عمامہ پہننے اور صرف نماز پڑھ کر دل خوش کر لینے اور صرف دن بھر کا فاقہ کر کر شام کو لذیذ چیزوں اور نفیس شربتوں سے افطار کرنے ہی کو اسلام نہ سمجھیں۔ بلکہ اس کے ساتھ ان تمام نیکیوں پر بھی خیال کریں جو اسلام کے نتیجے ہیں اور جب تک کہ انسان کے افعال اور خواہش اور معاملات اور اخلاق اور تمدن اور معاشرت میں ان کا ظہور نہیں ہوتا اس وقت تک ہر گز یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اسلام نے ان میں کچھ اثر کیا ہے۔ گر مسلمانی ہمین است کہ واعظ دارد وائے گر پس امروز بود فردائے یونانی اور ترک (آخری مضامین سر سید صفحہ ۴۹) یونانیوں پر ٹرکی کی فتح کی خوشی میں مسلمانوں نے حد اعتدال سے باہر قدم رکھا ہے ترکوں کی اس فتح کو اسلام کی فتح سے پکارتے ہیں۔ ہماری دانست میں ایسے امور میں اسلام کو شامل کرنا اور اسلام اسلام پکارنا، نہایت نا سمجھی کی بات ہے۔ اسلام کی فتح آج نہیں ہوئی۔ بلکہ اس دن ہوہی۔ جب کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہزاروں کافروں اور مشرکوں اور بت پرستوں میں کھڑے ہو کر فرمایا۔ لا الا الا اﷲ کافر کہتے ہی رہے۔ ’’اجعل الا لھۃ الھا واحدا ان ہذ الشی عجاب‘‘ یعنی کیا اس نے بہت سے خداؤں کے بدلے ایک ہی خدا ٹھہرایا ہے۔ یہ تو ایک عجیب بات ہے۔ مگر سول خدا صلی اﷲ علیہ سلم یہی فرماتے رہے لا الا الا اﷲ خدا نے بھی یہی کہا ان اعبدوفی ہذا صراط مستقیم یعنی میری ہی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے پس کسی مسلمان بادشاہ کی فتح یابی کو اسلام کی فتح۔ اسلام کی فتح سے پکارنا اسلام کی قدر و منزلت کو نہ سمجھنا ہے۔ فتح اور شکست خدا کی دین ہے۔ جس کو چاہے دے۔ خود خدا فرماتا ہے و تلک الا یام ندا ولھا بین الناس۔ یعنی ہم ان دونوں کو لوگوں میں ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی مسلمانوں کی غیر مذہب والوں پر فتح ہوتی ہے کبھی غیر مذہب والوں کی مسلمانوں پر۔ جب کہ ترکوں نے انگریزوں اور فرانسیسیوں کی مدد سے رومیوں پر فتح پائی تھی۔ تو ہم اس فتح کو کس نام سے پکاریں اور جب ترکوں کی روسیوں سے شکست ہوہی۔ تو کیا ہم اس شکست کو اسلام کی شکست سے (نعوذ باﷲ) موسوم کریں۔ حاشا وکلا ہمارا مقصد یہ ہے۔ کہ ایسی چیزوں کے ساتھ جو دنیاوی امور اور دنیاوی اسباب پر منحصر ہیں۔ کبھی ادھر ہوتے ہیں۔ کبھی ادھر۔ اسلام کے معزز نام کو جس نے اصلی فتح پائی ہے اور جو ہمیشہ فتح مند رہے گآ۔ شامل کرنا کمال نا سمجھی کی بات ہے۔ ہم کو خوش ہونا چاہیے۔ کہ ایک مسلمان سلطنت اس جنگ میں فتح یاب ہوئی اور برباد نہیں ہوئی۔ لیکن اس کو ایک اسلامی لباس پہنانا اور اسلام کی فتح اسلام کی فتح پکارنا۔ اگر حد سے باہر قدم رکھنا نہیں ہے تو اور کیا ہے اور یہ فتح ایسی کون سی فتح ہے۔ جس پر اتنا شور غل مچایا جاوے۔ ہر شخص جانتا تھا۔ کہ ترکوں کے آگے یونانیوں کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔ اگر وہ مقابلہ کریں گے۔ تو جس طرح ایک باز چڑیا کو مار لیتا ہے۔ اسی طرح ترک یونانیوں کو مار لیں گے۔ اندیشہ اگر تھا۔ تو یہ تھا کہ یونانیوں کو ترکوں سے مقابلہ کرنے کی جرأت کیوں ہوئی اور اس لیے خیال کیا جاتا تھا۔ کہ در پردہ کوئی بڑی قوی سلطنت یونانیوں کی مدد پر ہے۔ اس شبہ کو مسٹر گلیڈ سٹون کی نامعقول سپیچوں اور تحریروں نے اور لندن کے ریڈیکل مجنونوں کی سپیچوں اور ٹیلیگراموں نے زیادہ قوی کر دیا تھا۔ مگر ہر سمجھ دار سمجھ سکتا تھا کہ نہ مسٹر گلیڈ سٹون گورنمنٹ پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ نہ ان قلیل ریڈیکل ممبران پارلیمنٹ کا گورنمنٹ پر اثر پڑ سکتا ہے۔ پس یہ خیال کر لینا کہ گورنمنٹ انگریزی کی پالیسی ترکوں کے خلاف ہے۔ نہایت غلطی اور سفاہت پر مبنی تھی۔ جب لڑائی کا معرکہ گرم ہوا۔ تو کسی بڑی سلطنت نے یونانیوں کا ساتھ نہیں دیا اور اس سے ظاہر ہو گیا۔ کہ نہ گورنمنٹ انگریزی یونانیوں کی مددگار تھی۔ نہ فرانس، نہ جرمن، نہ کوئی اور گورنمنٹ، اب آئندہ جو کچھ ہو۔ اس کی بناء پولیٹکل مصلحتوں پر ہو گی۔ نہ اسلام کی مخالفت پر، ہندوستان کے مسلمانوں کو جو اس معاملہ میں اس قدر جوش و خروش ہوا۔ ہماری دانست میں صرف انگریزی اخ%ار اس کا باعث ہوئے ہیں۔ مسٹر گلیڈ سٹون نے اور انگریز اخباروں نے کوئی درجہ اہانت اور سخت کلامی کا سلطان کی نسبت نہیں چھوڑا تھا اور کوئی بدی اور برائی ایسی نہ تھی۔ جو انہوں نے ترکوں کی نسبت نہ لگائی ہو اور یہ سب باتیں خاص کر ترکوں اور عام طور پر سب مسلمانوں کو رنج دہ اور سخت رنج دہ تھیں۔ مگر جب ترکوں کی فتح ہوئی۔ تو انہوں نے اپنے دشمنوں کے ساتھ ایسا رحم برتا۔ کہ اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا مثلاً جب یونانیوں کے ایک گروہ کے پاس کھانے کو کچھ نہیں رہا۔ تو ترکوں نے اپنے پاس سے ان کو کھانے کو دیا۔ یونانیوں کے مجروحوں کی تیمارداری کی اور نہایت مہربانی سے ان کے ساتھ برتاؤ کیا۔ اب ترکوں کی فتح ہونے کے بعد اس رنج کے مقابلہ میں مسلمانان ہند نے اس فتح کی خوشی میں حد اعتدال سے زیادہ خوشی ظاہر کی اور گورنمنٹ انگریزی نہایت خاموشی سے ان سب باتوں کو دیکھتی رہی۔ ہم بھی اس خوشی کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں سمجھتے مگر یہ بتلاتے ہیں۔ کہ ہم سب مسلمان ہندوستان میں انگریزی گورنمنٹ کی رعایا ہیں اور اس بات کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ کہ ہم غیر سلطنتوں کے ساتھ پولیٹیکل امور میں کوئی کام اور کوئی فعل ایسا نہیں کر سکتے۔ جو گورنمنٹ کے بر خلاف ہو۔ پس ہم کو لازم ہے۔ کہ ہم وہی کریں جو گورنمنٹ کی مرضی کے برخلاف نہ ہو۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ذکر ٹرکی یعنی روم کی مجسلوں کا (تہذیب الاخلاق، جلد اول نمبر ۲ بابت ۱۵ شوال ۱۲۸۷ھ) مسٹر ولیم ہورڈ رسل صاحب کے روزنامچہ میں سے کچھ تھوڑا سا حال پرنس آف ویلز یعنی ولی عہد سلطنت انگلستان اور پرنس آف ویلز یعنی ولی عہد بیگم سلطنت انگلستان کے روم میں جانے اور سلطان روم سے ملاقاتیں ہونے کا لکھتے ہیں۔ یہ دونوں شاہی خاندان انگلستان کے نگین تاج ۱۸۶۷ء میں دارالسطنت قسطنطنیہ میں گئے تھے اور کئی روز تک سلطان عبد العزیز خاں سلطان روم کے ہاں مہمان رہے۔ ان مہمانیوں کے جلسوں میں سے دو جلسوں کا حال لکھتے ہیں۔ ایک رات سلطان نے پرنس اور پرنسس آف ویلز اور ان کے ساتھ کے امرء کو اپنے ساتھ کھانا کھلانے کی دعوت کی ڈالما بخشی محل جو بڑا عمدہ اور نہایت نامی محل ہے جلسۂ دعوت کی ڈالما بخشی محل جو بڑا عمدہ اور نہایت نامی محل ہے جلسۂ دعوت کے لیے تجویز ہوا قریب سات بجے کے پرنس اور پرنسس آف ویلز اس محل میں تشریف لائے علی پاشا وزیر اعظم سلطان روم نے استقبال کیا اور ملاقات کے بڑے کمرے میں لے گیا جہاں اور وزرائے سلطنت روم بھی حاضر تھے چند لمحہ نہ گزرے تھے کہ عبد العزیز خاں سلطان روم بھی وہاں تشریف لائے اور پرنس آف ویلز کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں ڈال کر کھانا ھانے کے کمرے میں لے گئے اور ان کے پیچھے اور تمام مہمان درجہ بدرجہ اس کمرے میں آئے۔ میز جس پر کھانا تناول فرمایا مستطیل تھی اور ایک سرا اس کا گول تھا اس گول سرے کی طرف بیچ میں سلطان اور ایک طرف پرنس آف ویلز اور ایک طرف پرنسس آف ویلز رونق افروز ہوئے۔ پرنسس آف ویلز کے بعد علی پاشا وزیر اعظم سلطنت روم اور ان کے بعد مسس ایسٹ اور ان کے بعد جنرل اگناٹیف اور مسٹر ایسٹ اور ان کے بعد دیگر وزرائے سلطنت روم کرسیوں پر میز کے پاس بیٹھے اور پرنس آف ویلز کے بعد میدم اگناٹیف اور ان کے بعد بم بوری اور ان کے بعد مسس گرے اور ان کے بعد اور وزراء و امرائے سلطنت روم میز کے پاس کرسیوں پر بیٹھے۔ سلطان کے سامنے سوائے وزیر اعظم کے اور کوئی وزیر بیٹھتا نہیں تھا۔ یہ پہلا جلسہ ہے جس میں سلطان نے اپنے اور وزیروں کو بھی اپنے ساتھ بٹھلایا۔ میز پر مسلمان اور عیسائی سب چوبیس آدمی تھے اور میز عمدہ برتنوں اور گلدستوں سے خوب سجی ہوئی تھی اور ڈالما بخشی محل کا کھانا کھانے کا کمرا اپنی عمدگی اور آراستگی میں نہایت عمدہ بلوری جھاڑ و فانوس میں مشہور ہے۔ سلطانی کھانے کا طرز نہایت عجیب تھا اور فرنچ اور ترکش یعنی رومی دونوں قسم کے کھانے تھے کھانا کھانے میں سلطان نے پہلے پرنس آف ویلز سے باتیں کیں اور علی پاشا (جو انگریزی خوب جانتا ہے) ان دونوں میں مترجم ہوا۔ اس کے بعد سلطان نے پرنس آف ویلز سے باتیں کیں اور عرقی بھی جو سلطان کی کرسی کے پیچھے کھڑا تھا ان میں مترجم ہوا وہ اسی واسطے سلطان کی کرسی کے پاس کھڑا تھا کہ جب سلطان اور پرنس آف ویلز آپس میں باتیں کریں تو وہ ترجمان ہو۔ سلطان کا ایک خاص باجا نہایت نفیس پاس کے کمرے میں بج رہا تھا سب نے نہایت خوشی اور خوبی سے کھانا کھایا اور جب میز پر سے اٹھے تو سلطان پرنسس آف ویلز کا ہاتھ اپنے ہاتھ ڈال کر زنانہ خانہ میں لے گیا ارو اور لیڈیاں بھی اندر گئیں والڈی سلطانہ یعنی سلطان بیگم نے اٹھ کر استقبال کیا اور پرنسس آف ویلز سے باتیں کرنے لگیں اور میدم مہرن ان میں ترجمان ہوئیں اور پرنس آف ویلز اور اور امراء و رؤسا چرٹ پینے کے کمرے میں تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد سلطان بھی زنانہ خانہ سے باہر آئے اور ملاقاتی چھوٹے کمرہ میں پرنس آف ویلز کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ جب پرنسس آف ویلز اور اور لیڈیاں بیگمات سے ملاقات اور بات چیت کر کر فارغ ہوئیں اور باہر تشریف لائیں اس وقت سب مہمان سلطان سے رخصت ہوئے اور جلسہ ختم ہوا۔ دوسرا جلسہ برٹش امباسٹر کے ہاں یعنی سفیر سلطنت انگلستان کے ہاں ہوا جو روم میں رہتا ہے سفیر سلطنت انگلستان نے پرنس اور پرنس آف ویلز کے لیے برٹش امباسٹی میں یعنی اس مکان میں جہاں سفیر انگلستان رہتے ہیں بہت عالی شان شاہانہ بال دینا چاہا ارو بنظر اظہار اپنے نہایت خوشی اور خاطر اور تواضع ایسے عالی شان عزیز مہمانوں کے سلطان نے برٹش امباسٹر کے ہاں اس بال میں تشریف لانا منظور کیا تمام بادشاہتوں کے امباسٹر اور وزراء اس بال میں حاضر تھے اور چھ سو چٹھیاں بلاوے کی امراء و رؤسا اور افسران فوجی اور ملکی کو تقسیم ہوئی تھیں تمام لوگ وقت پر آ حاضر ہوئے ہر ایک شخص نہایت عمدہ اور نفیس پوشاک پہنے ہوئے تھا نو بجے کے بعد پرنس اور پنسس آف ویلز وہاں رونق افروز ہوئے۔ برٹش امباسٹر اور مسس الیٹ نے استقبال کیا۔ امباسٹی کے پھاٹک میں سمندری فوجی لوگ کھڑے تھے انہوں نے سرخ اور نیلے رنگ کی مہتابیاں روشن کرنے سے خوشی اور تعظیم دونوں کا اظہار کیا وہ بڑا کمرہ جس میں بال تھا نہایت عمدہ آراستہ تھا اور گارڈ آف آنر کا پہرا موجود تھا اور اندر و باہر کمرے کے انواع انواع اقسام کے پھول و گلدستے سجے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد سلطان عبد العزیز خاں بھی تشریف لائے اور بہت سے وزراء و اراکین سلطنت ان کے ساتھ تھے پرنس آف ویلز اور برٹش امباسٹر نے استقبال کیا اور سمندری فوج نے سرخ اور نیلے رنگ کی مہتابیاں روشن کرنے سے تعظیم اور خوشی کا اظہار کیا پرنسس آف ویلز اور مسس الیٹ پہلی سیڑھی پر استقبال کو کھڑی تھیں سب مہمان اور میزبان بخوشی و خورمی اس بڑے ہال میں جہاں بال تھا داخل ہوئے اور سلطان نے اپنی کرسی پر تشریف رکھی اور اس کی بغل میں ادھر ادھر پرنس اور پرنسس آف ویلز اپنی اپنی کرسیوں پر تشریف فرما ہوئے معمولی بال شروع ہوا آدھی رات کے بعد سلطان وہاں سے رخصت ہوئے مگر وہاں وہ جلسہ صبح تک رہا۔ سلطان کا لندن مین آنا اور ملکہ معظمہ سے ملنا اور ولی عہد انگلستان کا اور ولی عہد بیگم کا وہاں جانا ایک نہایت عمدہ تاریخی واقعات سے ہے اور تمام دنیا کی آنکھوں میں اس محبت اور دوستی کا جو روم اور انگلستان یا یوں کہو کہ ایک مسلمان اور عیسائی سلطنت میں ہے۔ بڑا ثبوت ہے۔ جب سلطان لنڈن تشریف لائے تھے اور انڈیا آفس میں ان کی دعوت ہوئی تھی تو اس بڑے ہال میں بطور یادگاری محبت اور دوستی عیسائی اور مسلمان سلطنت کے نقش کرسنٹ اور کراس کا ملا کر کھودا گیا ہے۔ کرسنٹ کہتے ہیں پہلی تاریخ کے چاند کو اور یہ ہلال کی صورت چاند کا نشان مسلمانی سلطنت کا ہے اور کراس کہتے ہیں صلیب کو، جو عیسائی مذہب کا مقدس نشان ہے۔ انڈیا آفس کے ہال میں ہلال اور اس کے بیچ میں صلیب کا نشان کھودا ہے۔ جو عیسائی اور مسلمان سلطنت کی دوستی اور محبت پر دلالت کرتا ہے۔ ہم کو امید ہے کہ ہندوستان کے لوگ بھی ان حالات اور واقعات سے عمدہ نصیحت پکڑیں گے اور اپنے حالات پر غور کر کر تہذیب الاخلاق اور حسن معاشرت کی ترقی میں کوشش کریں گے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ترکوں کی تہذیب (اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ ۱۷ مارچ ۱۸۷۶ئ) متعدد اخباروں میں ایک خبر اس عنوان سے چھپی ہے ’’ترکوں کی تہذیب‘‘ اور اس میں ترکوں کی طرز معاشرت اور اخلاق کا تذکرہ اچھے طور سے کیا ہے اور راقم خبر نے اپنے انصاف سے یہ ثابت کیا ہے کہ جو الزام ترکوں کی تہذیب پر لگایا جاتا ہے وہ صحیح نہیں ہے اور شائستگی کے لحاظ سے ترکوں کی عورتوں اور ان کی اولاد کو تعریف و توصیف کے لائق بیان کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ ترکوں کی عورتیں امور خانہ داری کے انتظام میں ایسی نہیں ہیں کہ ان کو نامہذب کہا جاوے بلکہ وہ نہایت منتظم ہوتی ہیں اور اپنے خاوندوں کی نظر میں ان کی عزت و وقعت جیسی کہ چاہیے ویسی ہوتی ہے۔ باعتبار تعلیم و تربیت کے بھی وہ نہایت شگفتہ حالت میں ہیں اور صغیر السن بچوں کی تعلیم و تربیت انہیں کے اختیار میں ہوتی ہے اور اپنے خاوندوں کے مال میں وہ خود مختار ہوتی ہیں۔ یہ بھی لکھا ہے کہ گو لوگ سلطان روم کو اپنے گھر بیٹھے یہ خیال کر لیں کہ وہ ناز و نعمت میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے گرد چند پری وش عورتیں گھوم رہی ہیں مگر دراصل یہ غلط خیال ہے۔ سلطان روم نہایت مہذب حالت میں ہیں اور وہ اپنی والدہ کی تعظیم ایسی کرتے ہیں کہ اس کی کچھ حد نہیں ہے یہاں تک کہ جس وقت وہ اپنی والدہ کی خدمت میں جاتے ہیں تو جب تک وہ ان کو بیٹھنے کی اجازت نہ دیں اس وقت تک وہ بیٹھ نہیں سکتے اور ان کی مرضی کے خلاف کچھ کام نہیں کر سکتے۔ غرض کہ اسی قسم کے امور کا تذکرہ اس خبر میں ہے جس سے یہ بات بالیقین ثابت ہوتی ہے کہ ترک لوگ بھی دنیا کے اسی بے نظیر خطہ میں رہتے ہیں جو شائستگی اور تہذیب کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کے خطوں میں شمار کیا جاتا ہے مگر ہم افسوس کرتے ہیں ان لوگوں پر جو ترکوں کی تہذیب کو بے وقعت خیال کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے مذہب کو مانع تہذیب و شائستگی تصور کرتے ہیں۔ دیکھو باوجود اس بات کے کہ ترک نہایت سخت مسلمان ہیں اور با ایں ہمہ ان کا اسلام سراسر تہذیب ہے مسلمانوں پر بڑی سائستہ قومیں یہ الزام لگاتی ہیں کہ ان کی عورتیں نہایت خراب حالت میں ہیں۔ مگر ترکوں کی عورتوں کی یہ حالت شاید ان کے اس خیال کو بالکل باطل کر دے گی۔ اسی طرح وہ مسلمانوں کی عورتوں کو علی العموم جاہل اور انتظام امور خانہ داری میں عاجز تصور کرتے ہیں مگر اس خبر سے اس کے بالکل برخلاف ثابت ہوتا ہے۔ شائستہ قوموں کو اس بات پر بڑا ناز ہے کہ ان کی اولاد چھوٹی عمر سے ہی اپنی ماؤں کی گود میں تعلیم کا کھیل کھیلتی ہے اور ترکوں کی عورتیں بھی ایسی ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو تھوڑی عمر سے تہذیب کا کھیل کھلاتی ہیں اور باوجود ان جملہ امور کے ترکوں کی عورتیں اپنے خاوندوں کے نزدیک نہایت معزز ہیں اور جس طرح بعض یورپین مصنف خیال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی عورتیں اپنے خاوندوں کی نظر میں معزز نہیں ہوتیں ویسا نہیں ہے بلکہ اس بات میں ترک غالب ہیں کہ جس طرح ترکی اپنی ماں کی تعظیم کرتے ہیں۔ اس طرح اور قومیں نہیں کرتیں۔ اور پردہ کے لحاظ سے بھی ترکی غالب ہیں۔ ہاں البتہ یہ ایک دوسری بات ہے کہ تہذیب سے کوئی اصطلاح ہو کہ جس بات کو ہم تہذیب کہیں اس کو اور شائستہ قومیں بے تہذیبی کہین اور جس کو ہم بے تہذیبی کہیں اس کو اور لوگ تہذیب کہیں اور اس کی نظیر یہ ہے کہ مسلمان قومیں عورتوں کے پردہ کو تہذیب کہتی ہیں اور قومیں اس کو وحشیانہ پن خیال کرتی ہیں پس اگر یہ امر ہے تو ہر گز تہذیب و بے تہذیبی کا قصہ فیصل نہیں ہو سکتا اور اگر یہ امر نہیں ہے صرف انصاف ہے تو اس کا تصفیہ نہایت آسان ہے۔ جو امور ترکوں کے نزدیک یا مسلمانوں کے نزدیک تہذیب میں داخل ہیں اس کو اور کوئی غیر مہذب ثابت کر دے یا جس کو اور لوگ بے تہذیبی کہتے ہیں ہم اس کو تہذیب یا بے تہذیبی میں شمار کیا جاتا ہے ان کی تصریح کر دیں۔ چوں کہ یہ خبر جس کا ہم نے ذکر کیا قابل لحاظ ہے اس لیے ہم اس کو نقل کرتے ہیں: ’’مسٹر ٹیلر جانسٹن صاحب نے اخبار پالمال گزٹ کو ایک چٹھی قسطنطنیہ سے تحریر کی ہے اور وہ یہ ہے:‘‘ میں خیال کرتا ہوں کہ عوام کو جو خیالات ترکی روم کے ہیں وہ ایسے ہیں کہ گویا سلطان درمیان میں بیٹھے ہیں اور بیس یا پچیس آہو چشم عورتیں سرکیشیا کی سلطان کے آس پاس پھرتی ہیں۔ لوگوں کو اس بات کو سن کر تعجب ہو گا کہ ترکی حرم سرا ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکان رہنے کا ہوتا ہے جہاں سب طرح کی آسائش و آرام ہے اور اس مقام سے ترک بڑی محبت کرتے ہیں اور اس کا اسی طرح خیال کرتے ہیں کہ جیسا کوئی یورپین ایسی جگہ کا خیال رکھتا ہے۔ یورپین لوگوں کو یہ خیال ہے کہ مسلمان قرار دیتے ہیں کہ عورتوں کے جان نہیں ہوتی اور نہ ان کے جسم میں روح ہوتی ہے مگر میرے نزدیک یہ بات غلط ہے گو مذہب اسلام میں چند شادیوں کی ممانعت نہیں ہے مگر جس پر بھی ترکی میں عوام کی رائے اس کے برخلاف ہے اور جس قدر عورتیں ترکی میں لوگوں کے پاس ہیں اسی قدر اور ملکوں میں ہیں۔ کچھ یہ بات نہیں ہے کہ یہاں زیادہ ہوں اور مقام پر کم بلکہ اکثر تو ترکی میں ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگوں کے پاس ایک ہی ایک عورت ہوتی ہے زیادہ عورتیں نہیں ہوتیں ہیں۔ ترکوں کی عورتیں اپنے اپنے گھروں میں سب طرح سے حکومت کرتی ہیں گو ان کا وقار کوئی باہر مانے یا نہ مانے مگر وہ اپنے گھروں کی حاکم ہیں۔ جو تہذیب ترکوں کے خانگی معاملات میں ہے اگر اس کو وہ لوگ دیکھیں جو انگشت نمائی کرتے ہیں تو حیران ہو جائیں۔ ترکوں کو اپنے والدین کا خیال اور ادب رہتا ہے اور یہاں تک کہ حضرت سلطان اپنی والدہ کے روبرو کبھی نہیں بیٹھے جب تک انہوں نے اجازت نہیں دی۔ ایسا ادب مغربی ملکوں میں نہیں ہوتا۔ مغربی ملکوں میں یہ قاعدہ ہے کہ جب لڑکے کی شادی ہو جاتی ہے اور اس کی بی بی گھر میں آتی ہے تو اس عورت کو کل اختیارات دے دیے جاتے ہیں اور ماں کا خیال کم ہوتا ہے مگر ترک ایسا نہیں کرتے۔ اگر ایسا کریں تو موجب بڑی گستاخی کا ہو۔ سوا اس کے شہنشاہ نپولین نے ایک قانون جاری کیا تھا کہ ہر ایک شخص اپنی اولاد میں برابر ترکہ تقسیم کرے۔ سو یہ بات یہاں ہر گز نہیں ہے جس کو چاہے اس کو باپ دے سکتا ہے۔ جب صبح ہوتی ہے تو ہر ایک لڑکا والدین کے ہاتھوں کو چومتا ہے اور یہ رسم نہیں ہے بلکہ ترکوں کی اولاد دل سے والدین کی اطاعت کرتی ہے۔ ترک آپس میں نہایت محبت سے رہتے ہیں اور جن کو خاندانی کہنا چاہیے وہ خصوصاً بہت مہذب ہیں چوں کہ ہر وقت یہ سب ایک دوسرے کی نگاہوں میں رہتے ہیں اس لیے مجال نہیں ہے کہ کوئی شخص بد تہذیبی کی بات کرے مذہبی کارروائی کی پابندی جیسی یہاں ہے ویسی کہیں نہیں ہے۔ لونڈی اور غلام اور نوکر چاکر سب اہل خانہ کی اطاعت دل سے کرتے ہیں۔ بعض باتیں ترکوں میں بہت عمدہ پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ان کے ہاں مختلف فرقے نہیں ہیں۔ سب ایک ہیں اور ہر شخص کی من حیث المراتب آ%رو ہے جب اور فرقے علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں تو باہم رشک و حسد پیدا ہو جاتا ہے مگر یہ بات یہاں نہیں ہے۔ تمام یورپ میں ترکوں کو ہی ایسا کہنا چاہیے کہ ان کی سلطنت یک دلی اور اتفاق سے ہے۔ یہاں جو قواعد کی کتابیں ہیں۔ ان میں ہدایت ہے کہ ہر ایک شخص اپنے درجوں اور اپنی حیثیت کے موافق ہی کارروائی کر سکتا ہے۔ ترک نہایت ملائمت سے گفتگو کرتے ہیں اور بڑے ہی مہذب ہوتے ہیں۔ ان کی تہذیب اور خاطر و تواضع کو دیکھ کر طبیعت نہایت خوش ہوتی ہے۔ ایسی تہذیب اور ایسے قواعد کا شاہی حرم سرا میں بخوبی برتاؤ ہوتا ہے۔ ترکوں میں عزت اسی کو ملتی ہے جو عزت کا مستحق ہے۔ ترک اپنے اپنے درجوں پر قائم رہتے ہیں۔ جب تک ترکوں کے لڑکے جھوٹے ہوتے ہیں اس وقت تک مکانوں میں رہتے ہیں اور ان کی ماں کے سپرد ان کی تعلیم ہوتی ہے یورپین لڑکے جو ہوتے ہیں وہ ضدی ہوتے ہیں اور جیسا چاہتے ہیں ویسا کرتے ہیں مگر ترکوں کی اولاد میں یہ بات نہیں وہ ہر گز برخلاف والدین کے نہیں کر سکتے اور نہ ان کی اطاعت میں فرق آ سکتا ہے۔ بلا عذر اپنے بزرگوں کا کہنا مانتے ہیں۔ یورپین کے لڑکوں سے ترک اپنے لڑکوں کو نہیں ملنے دیتے کیوں کہ ان کی عادات یہ لڑکے سیکھ لیتے ہیں۔ اسی غرض سے ترک اپنے مکانات کو دور دور پر بناتے ہیں اور یورپین لوگوں کے مکانوں کے قریب نہیں بناتے تاکہ ان کی عادات ان میں اثر نہ کریں تھوڑی سی عمر میں ترکوں کی اولاد کام سیکھ لیتی ہے اور اپنے والدین کے کاموں میں شریک ہوتی ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سلطان روم اور ہندوستان کے مسلمان اس عنوان ے نیچے اخبار پایونیر میں ایک تار قسطنطنیہ ا مورخہ ۱۷ جون چھپا ہے جس کا مضمون یہ ہے: ’’جو جواب سلطان نے ہندوستان کے مسلمانوں کی مبارک بادیوں کا ارسال فرمایا ہے۔ جو انہوں نے یونان پر ٹرکی کی نسبت سلطان ممدوح کی خدمت میں بھیجی تھیں۔ وہ ایک طولانی چٹھی میں درج ہے۔ جس میں خلیفہ کی نسبت تمام سچے مسلمانوں کے فرائض بیان کیے گئے ہیں۔ جن میں نقصانات نقدی اور اخلاقی اور جسمانی شامل ہیں۔ چٹھی مذکور کے خاتمہ پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ اسلام کی قوت اتفاق اور یک جہتی پر منحصر ہے یہ چٹھی خاص ایلچیوں کی معرفت ہندوستان اور مصر اور عرب کے شیوخ اور علماء کے پاس بھیجی جاوے گی۔‘‘ اس ٹیلیگرام کا ترجمہ ہمارے پچھلے اخبار میں چھپ چکا ہے مگر اس وقت ہم اس ٹیلیگرام کے مضمون پر غور کرتے ہیں کہ وہ صحیح ہے یا اس میں کچھ غلطی ہے۔ ہمارے نزدیک جہاں تک اس کا مضمون ہندوستان کے مسلمانوں سے متعلق ہے وہ صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ ہمارے نزدیک ممکن ہے کہ سلطان نے اسی مضمون کی کوئی چٹھی مصر اور عرب کے علماء اور شیوخ کے پاس بھیجی ہو۔ مگر ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس ایسی چٹھی کا بھیجنا ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور ظاہرا ٹیلیگرام کا یہ بیان کہ ’’سلطان نے ہندوستان کے مسلمانوں کی مبارک بادی کے جواب میں یہ چٹھی لکھی ہے اور یہ چٹھی خاص ایلچیوں کی معرفت ہندوستان کے علماء کے پاس بھیجی جاوے گی۔‘‘ صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ ہماری دانست میں بہ موجب نیشنل لا کے سلطان کو اس قسم کی پولیٹیکل تحریر کرنے کا کسی دوسری سلطنت کی رعایا کو بلا توسط وہاں کی گورنمنٹ کے اختیار نہیں ہے اور ہم ہر گز خیال نہیں کر سکتے کہ سلطان ٹرکی کو یہ امر معلوم نہ ہو۔ مسلمانان بمبئی نے جو تار مبارک باد فتح کے بھیجے تھے۔ اس کا جواب بھی سلطان نے براہ راست مسلمانان بمبئی کو نہیں بھیجا تھا۔ بلکہ اپنے ابیسیڈر (سفیر) مقیم بمبئی کے پاس وہ جواب بھیجا تھا۔ ہم نے سنا ہے کہ مسلمانان شملہ نے بھی تار مبارک باد فتح کا سلطان کی خدمت میں بھیجا تھا۔ مگر جو کہ شملہ میں کوئی انبیسیڈر سلطان کی طرف سے نہیں ہے۔ اس واسطے سلطان نے اس کا جواب اپنے انبیسیڈر مقیم لندن کے پاس بھیجا اور لندن کے انبیسیڈر نے اس کا جواب مسلمانان شملہ کے پاس بھیجا۔ ہم کو ٹھیک معلوم نہیں ہے کہ یہ امر صحیح ہے یا نہیں۔ لیکن قیاساً معلوم ہوتا ہے کہ صحیح ہو گا۔ پس جب کہ سلطان نے ایسی احتیاط ہندوستان کے مسلمانوں کی مبارک باد کے جواب میں بھیجنے میں کی ہے۔ تو ہم سمجھ نہیں سکتے۔ کہ سلطان نے کوئی ایسی چٹھی براہ راست مسلمانان ہندوستان کے نام لکھی ہو اور اپنے ایلچیوں کی معرفت براہ راست ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس بھیجی ہو۔ بالفرض اگر سلطان نے ایسا کیا ہو جو ہمارے رائے میں ہر گز نہیں کیا ہو گا۔ تو گورنمنٹ انڈیا کو ازروئے نیشنل لا کے اختیار کامل ہے کہ ایسے ایلچی کو ہندوستان میں نہ آنے دے اور جو چٹھی اس کے پاس ہو ضبط کر لے۔ مذکور بالا ٹیلیگرام میں لکھا ہے کہ اس چٹھی میں خلیفہ کی نسبت تمام سچے مسلمانوں کے فرائض بیان کئے گئے ہیں۔ جب کہ ہندوستان کے مسلمان سلطان ٹرکی کی رعایا نہیں ہیں۔ تو ہندوستان کے مسلمانوں کو خلیفہ کی نسبت کیا فرائض بیان ہو سکتے ہیں کیوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بجز اس کے کہ وہ جس سلطنت کی حکومت میں بطور رعایا کے رہتے ہیں۔ اس کے خیر خواہ اور وفادار ہیں اور کچھ فرض نہیں ہے۔ ایک اور فقرہ اس ٹیلیگرام میں مندرج ہے کہ جو فرائض مسلمانوں کے بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں نقصانات نقدی اور اخلاقی اور جسمانی بھی شامل ہیں۔ ’’ہم تو اس فقرہ کا کچھ مطلب ہی نہیں سمجھ سکتے اور اگر کچھ مطلب ہو تو وہ مصر اور عرب کے مسلمانوں سے متعلق ہو گا۔ جو سلطان کی رعیت ہیں۔ مگر ہندوستان کے مسلمانوں سے نہ متعلق ہو سکتا ہے اور نہ اس کے کچھ معنی سمجھ میں آ سکتے ہیں۔‘‘ ظاہرا یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو تہنیت نامے مصر اور عرب سے اس فتح کی بابت سلطان کی خدمت میں آہے ہیں۔ شاید اس کے جواب میں کوئی چٹھی سلطان نے لکھی ہو۔ مگر ٹیلیگرام بھیجنے والے نے غلطی سے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے جو مبارک باد بھیجی ہے۔ اس کے جواب میں وہ چٹھی ہے۔ سلطان نے جو یونانیوں پر فتح پائی۔ اس سے کوئی ایسا مسلمان نہ ہو گا جس کا دل خوش نہ ہوا ہو۔ ہم بھی کہتے ہیں۔ کہ سلطان کی اس فتح سے ہمارا دل بھی نہایت خوش ہوا ہے لیکن جو کچھ ہندوستان کے مسلمانوں نے کیا۔ بلا اجازت اور مرضی گورنمنٹ کے۔ ہم اس کو اچھا نہیں سمجھتے۔ کہ گورنمنٹ نے اس پر اعتنا نہیں کیا۔ مگر جن مسلمانوں کو ایسا کرنا تھا ہمارے نزدیک ضرور تھا کہ اولاً گورنمنٹ سے اس کی اجازت حاصل کرتے اور اس کے بعد جو کچھ ان کو کرنا تھا کرتے۔ ہم ہر گز اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ایسے پولیٹکل امور میں جو دوسری سلطنتوں سے متعلق ہیں۔ بلا اجازت اور مرضی گورنمنٹ ہندوستان کے مسلمانان کوئی کارروائی کریں۔ کیوں کہ قانونی اور مذہبی فرض یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی گورنمنٹ کے وفادار اس کی مرضی اور پالیسی کے تابع رہیں اور یہ بات تو کسی ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ دکن سے ہندوؤں نے کس خیال سے سلطان کو اس فتح کی بابت مبارک بادی بھیجی۔ کیا وہ بھی ان فرائض میں داخل ہونا چاہتے ہیں جو سلطان نے مسلمانوں کی نسبت قرار دیے۔ آخر کو ہم پھر بیان کرتے ہیں۔ کہ مذکورہ بالا ٹیلیگرام یا اس میں مسلمانان ہندوستان کی نسبت جو کچھ لکھا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ جب کہ ترکوں نے سپاسٹپول کی لڑائی میں روسیوں پر فتح پائی تھی۔ اس وقت مسلمانان ہند نے کوئی علامت ایسی خوشی کی ظاہر نہیں کی تھی جیسے کہ یونانیوں پر فتح پانے پر ظاہر کی ہے۔ سپاسٹپول کی لڑائی میں خود انگریزی گورنمنٹ نے ترکوں کے لیے ہندوستان میں چندہ جمع کرنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن اگر ہماری یاد میں کچھ غلطی نہ ہو۔ تو اس وقت بھی ترکوں کے لیے کوئی معتدبہ چندہ ہندوستان میں نہیں ہوا تھا۔ پس یہ بات غور کرنے کی ہے کہ یونان پر فتح پانے میں ہندوستان کے مسلمانوں نے کیوں ایسی گرم جوشی ظاہر کی ہے۔ ہماری رائے میں اس کے دو سبب میں: اول یہ کہ یورپ کے بعض لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کوئی بہت بڑا تعلق سطان ٹرکی سے نہیں ہے۔ پس مسلمانان ہندوستان نے عملی کارروائی سے ظاہر کیا کہ ان کو سلطان ٹرکی سے جو حرمین شریفین کا محافظ ہے خاص قسم کا تعلق ہے۔ قطع نظر اس سے کہ سلطان مذہبی خلیفہ ہے یا نہیں اور مسلمانوں کو اس کے احکام کو تسلیم کرنا لازم ہے یا نہیں۔ دوسرے یہ کہ مسٹر گلیڈ سٹون اور دیگر ریڈیکل ممبران پارلیمنٹ نے نہایت سخت اور محض بیجا اور ناواجب زبان درازی سلطان ٹرکی اور ترکوں کی نسبت کی تھی۔ جس سے مسلمانان ہند کے دل نہایت رنجیدہ تھے۔ جب کہ ترکوں کو یونانیوں پر فتح ہوئی۔ تو جس قدر اس زبان درازی سے مسلمانوں کو رنج ہوا تھا۔ اسی قدر ان کو خوشی کرنے کا موقع ملا۔ مگر اس خوشی کو کسی پولیٹکل امور پر محمول کرنا ہماری رائے میں بیجا ہے اور اس سے زیادہ اور کوئی امر ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ترکوں کے ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں کی ہم دردی اگر کوئی شخص ہمارے دوست کی جان بچائے یا مصیبت کے وقت اس کے ساتھ ہم دردی کرے تو ہم کو اس کا شکر کرنا لازم ہے یا نہیں؟ سب سے بڑا سخت وقت ترکوں پر وہ تھا جب کہ ۱۸۵۵ء میں روس نے ترکوں سے لڑائی شروع کی جو جنگ کریمیا کے نام سے مشہور ہے۔ اس وقت دو سلطنتوں یعنی انگلستان اور فرانس نے ترکوں کے ساتھ ہم دردی کی اور فوج سے، روپیہ سے ترکوں کی مدد کی، اور کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ کہ اگر انگلستان اور فرانس اس زمانہ میں ترکوں کی مدد نہ کرتے تو سلطنت ٹرکی کا یقینی خاتمہ ہو جاتا۔ پس اب سوال یہ ہے کہ اگر ہندوستان کے مسلمانوں کو ترکوں کے ساتھ ہم دردی ہے تو کریمیا جنگ کے فتح ہونے کے بعد کس وجہ سے مسلمانوں نے گورنمنٹ انگریزی اور گورنمنٹ فرانس کا شکریہ ادا نہیں کیا اور ان کے لیے مساجد اور معابد میں کیوں نہیں دعا کی اور کیوں پیغام تار برقی شکریہ کے یا ایڈریس شکر گزاری کے انگلش اور فرنچ گورنمنٹ کے پاس نہیں بھیجے۔ ایک انگریز کا قول ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بڑے احسان فراموش ہیں۔ کہ جس زمانہ میں انگریزوں نے جان و مال سے ترکوں کی مدد کی تھی۔ اسی کے قریب یعنی ۱۸۵۷ء میں انہوں نے ہندوستان میں انگریزوں کے مقابلہ میں غدر کیا۔ اگر درحقیقت ان کو ترکوں کے ساتھ ہم دردی ہوتی۔ تو اس بہت بڑے احسان کو جو انگریزوں نے ترکوں کے ساتھ کیا تھا ہر گز فراموش نہ کرتے اور انگریزوں اور انگریزوں کی حکومت کے مقابلہ میں بغاوت نہ کرتے۔ ہم تو اس قول کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس لیے کہ ہمارے نزدیک ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے ساتھ کسی کے دل میں بغاوت کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ بلکہ بقول ایک مؤرخ مسٹر ’’کے‘‘ کے وہ بغاوت نہیں تھی۔ صرف ایک سیپائی وار تھی اور جو فسادات کہ اس زمانہ میں ہوئے وہ بد عملی ہو جانے کے سبب سے ہوئے۔ نہ اس وجہ سے کہ رعایا کو انگریزوں کے مقابل میں بغاوت کرنی مقصود تھی۔ مگر ہاں اس کا کچھ جواب نہیں ہے کہ اس وقت کیوں نہ ہندوستان کے مسلمانوں نے گورنمنٹ انگلستان اور گورنمنٹ فرانس کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ پھر ۱۸۷۶ء میں دوبارہ ترکوں اور روسیوں کے درمیان لڑائی ہوئی۔ جس میں عثمان پاشا غازی کی بہادری کے کارنامے ہندوستان کی ہر ایک گلی اور کوچے میں مشہور تھے۔ مگر بدبختی سے ترکوں کو شکست ہوئی۔ اور ۱۸۷۸ء میں روسی پلنا اور درۂ شبکا کو فتح کرتے ہوئے قسطنطنیہ کی دیواروں تک جا پہنچے اس وقت ترکوں کی سلطنت کے نیست و نابود ہو جانے میں کچھ باقی نہیں رہا تھا۔ مگر گورنمنٹ انگریزی ان کی حمایت کو اٹھی اور اپنے جنگی جہاز قسطنطنیہ کے سمندر میں بھیج دیے اور روس سے کہا کہ بس آگے قدم نہ بڑھائیں اور صرف انگلستان کے بیچ میں پڑنے سے برلن کا عہد نامہ تحریر ہوا اور سلطنت ٹرکی جیسے کہ اس زمانہ میں ہے باقی رہی۔ اگر انگلستان ترکوں کی مدد نہ کرتا تو ترکوں کی سلطنت کا باقی رہنا محال تھا۔ پس اب سوال یہ ہے کہ ایسی ہم دردی کے موقع پر جو انگلستان کی طرف سے ترکوں کی نسبت ظاہر ہوہی۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اس کا شکریہ کیوں نہیں ادا کیا۔ ادھم پاشا نے یونانیوں کی حال کی لڑائی میں اس سے زیادہ بہادری اور دلاوری نہیں دکھائی۔ جس قدر کہ عثمان پاشا نے پلونا میں دکھائی تھی۔ پس کس وجہ سے ہندوستان کے مسلمانوں نے ادھم پاشا کا بہت شکر کیا اور عثمان پاشا کی نسبت کچھ نہیں کیا۔ ہمارے پاس اس کا کچھ جواب نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک جو کچھ اس وقت مسلمانوں نے کیا وہ صرف ان کی خفیف الحرکتی تھی اور ایک کے دیکھا دیکھی اوروں نے بھی ویسا ہی کیا جو انہوں نے کیا تھا۔ جو لوگ اس بات کا خیال کرتے ہیں۔ کہ مسلمانوں نے جو یونان کی فتح پر اس قدر خوشی منائی وہ کسی پولیٹکل امر پر مبنی تھی۔ ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے اور بجز خفیف الحرکتی کے اور کوئی امر نہیں ہے۔ سلطان کو خلیفہ ماننا اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جس طرح کہ بنی امیہ اور بنی عباس کو خلیفہ کہا جاتا ہے کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے جو سلطان ٹرکی کے احکام کو مثل احکام پوپ کے واجب التعمیل سمجھتا ہو یا مثل احکام خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم اجمعین کے جانتا ہو۔ پس کسی طرح پر خیال نہیں ہو سکتا۔ کہ ان کا خوشی منانا اور مبارک بادی کے تار بھیجنا کسی پولیٹکل امر پر مبنی ہو۔ گو کہ ہمارے نزدیک ان کا ایسا کرنا بھی بلا اجازت گورنمنٹ کے جس کے وہ رعیت ہیں ہر گز مناسب نہیں تھا۔ اس وقت سلطان نے تھسلی کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کے معاملہ میں۔ تمام یورپ کی سلطنتوں کی رائے کو نہیں مانا۔ ہم بھی نہیں چاہتے کہ سلطان تھسلی سے اپنا قبضہ اٹھا لے۔ مگر معلوم نہیں کہ اس انکار کا نتیجہ کیا ہو گا اور کون سلطنتیں سلطان کی دوست اور کون سلطنتیں اس کی مخالف ہو جائیں گی۔ یا کوئی متوسط امر سب سلطنتوں کی صلاح سے قرار پائے گا۔ لیکن یہ باتیں پولیٹکل معاملات سے علاقہ رکھتی ہیں۔ ان کو مذہبی لباس پہنانا ہمارے نزدیک بالکل ناواجب ہے کیوں کہ ہر ایک سلطنت اپنی پولیٹکل مصلحت کو قائم رکھنا چاہتی ہے۔ خواہ وہ مصلحت ترکوں کے مقابلہ میں ہو۔ خواہ روس، جرمنی اور اٹلی کے مقابلہ میں اور کبھی کوئی سلطنت اپنی پولٹیکل مصلحت کو فرو گزاشت نہیں کرتی۔ ہاں جو سلطنتیں کہ ضعیف ہیں ان کی پولیٹکل مصلحت یہی ہوتی ہے کہ جو سلطنت قوی ہے اس کی رائے کو تسلیم کریں۔ کیوں کہ اس میں وہ اپنی بھلائی تصور کرتی ہیں اور قومی سلطنت سے مقابلہ کرنا نہیں چاہتیں۔ اس زمانہ میں تمام معرکہ آرائیاں اسی بنا پر ہوتی ہیں نہ کسی مذہبی بنا پر۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ سلطان روم بھی ہندوستان کے مقدسوں کے نزدیک بحکم حدیث ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘ کافر نکلے (تہذیب الاخلاق، جلد ۷، نمبر ۱، بابت یکم شوال ۱۲۹۳ھ صفحہ ۴) اب تو مسلمانوں کا کہیں ٹھکانہ نہیں رہا۔ نئے سلطان عبد الحمید خاں خلد اﷲ ملکہم بھی ’’من تشبہ‘‘ کی لپیٹ میں آ ہی گئے۔ بے چارے مسلمانوں پر کیسی مشکل آن بنی ہے۔ آج عید کا دن ہے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے مقدس منبروں پر کس کا خطبہ پڑھیں؟ کیا سلطان عبد الحمید خاں کا؟ (جس کو خدا بہت سی عیدیں نصیب کرے) وہ تو ’’من تشبہ بقوم‘‘ کی جھپیٹ میں آ گیا اور نعوذ باﷲ کافر ہو گیا۔ مدراس کا شمس الاخبار، مطبوعہ ۲۹ شعبان ۱۲۹۳ ہجری لکھنا ہے کہ سلطان عبد الحمید خاں کو ۱۸۶۷ء میں ان کے باپ (چچا) پیرس (دارالخلافہ فرانس) میں واسطے دکھلانے نمائش گاہ کے لائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس نمائش گاہ نے عبد الحمید خاں کی آنکھیں کھول دیں۔ ان کو کمال شوق فرانس کی زبان سے پیدا ہوا اور انہوں نے وہ زبان سیکھی اور ان کو یورپین قواعد اور لباس بھی نہایت پسند ہوا۔ لہٰذا اس زمانہ سے اور اب تک ان کا ویسا ہی برتاؤ ہے۔ یعنی یورپین پوشاک پہنتے ہیں اور یورپین قاعدوں کا برتاؤ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اشیاء منشی سے ان کو کچھ شوق نہیں (جو ہمارے نزدیک ایک معزز تمغہ مسلمانوں کا ہے) ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی بی بی بھی ایک ہی ہے جس کے ساتھ یہ عمدگی سے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں (جو ہمارے نزدیک ٹھیک ٹھیک سچا مسئلہ ٹھیٹ اسلام کا ہے) کیا دارالاسلام کے شیخ الاسلام بھی کافر ہو گئے ہیں جو کالا بوٹ اور بٹن لگی پتلون اور انگریزی یا فرانسیسی کوٹ اور لال پھندنے دار ٹوپی پہننے والے میز کرسی پر بیٹھنے والے۔ چھری کانٹے سے کھانے والے کو امیر المومنین اور سلطان حرمین شریفین بنایا ہے؟ یا اب مکہ معظمہ میں بھی کوٹ پتلون اور پھندنے دار لال ٹوپی پہننے والوں کا خطبہ پڑھایا جاتا ہے؟ خدا ہمچنیں کند۔ چو کفر از کعبہ بر خیزد کجا مانند مسلمانی۔ فاعتبروا یا اولی الابصار !!! ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ٹرکی کا شیخ الاسلام (تہذیب الاخلاق، جلد ہفتم بابت شعبان ۱۲۹۴ھ) شیخ الاسلام کا عدہ سلطنت ٹرکی میں درحقیقت ایک بہت بڑا معزز عہدہ ہے۔ شیخ الاسلام بہ حیثیت اپنے عہدہ کے اس کونسل خاص کا ممبر بھی ہے جس کا پریسیڈنٹ وزیر اعظم ٹرکی ہوتا ہے اور جس کو مجلس باب العالی کہتے ہیں۔ یہ عہدہ ہمیشہ ایسے شخص کو دیا جاتا ہے جو بہت بڑا عالم اور حنفی مذہب ہو اور مسائل فقہہ حنفی سے بہ خوبی واقفیت رکھتا ہو اس کو کوئی ایسا حق یا اختیار نہیں ہے کہ کوئی جدید حکم مثل حکم شرع کے جاری کر سکے یا ان حکموں میں سے جو شرع میں ہیں کوئی حکم منسوخ یا ترمیم کر سکے بلکہ اس کا کام صرف یہ ہے کہ جو واقعات پیش آویں ان کی نسبت بتا دے کہ فقہہ حنفی کا حکم کیا ہے یا جن احکام کا اجراء منظور ہو ان کی نسبت بتا دے کہ فقہہ کے مطابق ہیں یا نہیں اگرچہ اس کو پہلے تو بہت زیادہ اختیار تھا مگر اب بھی کسی قدر اختیار رکھتا ہے کہ جن احکام کو خلاف شرع سمجھے ان کے عدم اجراء میں بحث و کوشش کرے۔ ان اسباب سے شیخ الاسلام کو گویا تمام امور کلی و جزوی سلطنت میں ایک گونہ مداخلت ہو جاتی ہے۔ مثلاً جب وزیروں نے سلطان عبد العزیز یا سلطان مراد کا معزول کرنا مناسب سمجھا تو اس میں شیخ الاسلام کا اتفاق ضرور تھا اور اس سے ایک فتویٰ لیا گیا کہ سلطان عبد العزیز یا سلطان مراد لائق بادشاہت نہیں رہا اس کا عزل کرنا احکام شریعت کے موافق درست ہے جب دوسرا بادشاہ اس کی جگہ قائم کیا گیا تو شیخ السلام سے اس کا استحقاف بادشاہت تسلیم کرانا ہوا۔ جو کہ مسلمانوں نے یہ ٹھہرا رکھا ہے کہ عقائد مذہبی اور معاملات دنیوی اور انتظامات ملکی سب کا تقلیداً بموجب فقہہ حنفی کے ہونا چاہیے (جو نا واجب تقلید اصلی باعث ان تمام خرابیوں کا ہے جو سلطنت اسلامیہ میں پائی جاتی ہیں) اس سبب سے ہر ایک امر متعلق انتظام سلطنت مین شیخ السلام کو مداخلت ہے۔ زمین پر مال گزاری مقرر کرنے۔ ٹیکس یا جزیہ لگانے، تجارتی احکام جاری کرنے، ملکی قانون جاری کرنے، عدالتوں کے تقرر کرنے، عدالتوں کی کارروائی کے ضوابط مقرر کرنے، انفصال حقوق کے اصول میں۔ جنگی معاملات میں، غیر سلطنتوں سے صلح نامہ کرنے میں، فوج کے آراستہ کرنے میں، یہاں تک کہ فوج کی وردی و ہتھیار اور قواعد کے طریقہ میں بھی اس کو مداخلت ہوتی تھی۔ جو کہ مسلمانوں نے یہ ٹھہرا رکھا ہے کہ عقائد مذہبی اور معاملات دنیوی اور انتظامات ملکی سب کا تقلیداً بموجب فقہہ حنفی کے ہونا چآہیے (جو نا واجب تقلید اصلی باعث ان تمام خرابیوں کا ہے جو سلطنت اسلامیہ میں پائی جاتی ہیں) اس سبب سے ہر ایک امر متعلق انتظام سلطنت میں شیخ الاسلام کو مداخلت ہے۔ زمین پر مال گزاری مقرر کرنے۔ ٹیکس یا جزیہ لگانے، تجارتی احکام جاری کرنے، ملکی قانون جاری کرنے، عدالتوں کے تقرر کرنے، عدالتوں کی کارروائی کے ضوابط مقرر کرنے، انفصال حقوق کے اصول میں۔ جنگی معاملات میں، غیر سلطنتوں سے صلح نامہ کرنے میں، فوج کے آراستہ کرنے میں، یہاں تک کہ فوج کی وردی و ہتھیار اور قواعد کے طریقہ میں بھی اس کو مداخلت ہوتی تھی۔ مسلمانوں کا گو وہ کسی ملک کے ہوں یہ خیال نہیں ہے کہ شیخ الاسلام کی روح میں کوئی ایسی بات ہے جس کا حکم ماننا ضرور ہے جیسے کہ رومن کیتھلک عیسائیوں کا پوپ کی نسبت خیال ہے بلکہ وہ اس کے حکم کو اس خیال سے واجب التعمیل سمجھتے ہیں کہ وہ فقہہ حنفی کا سب سے بڑا عالم تسلیم کیا جاتا ہے اور جو وہ حکم دیتا ہے سمجھا جاتا ہے کہ بے شک وہ فقہہ و شریعت کے مطابق ہے جس کی پیروی مسلمان مذہباً ضرور سمجھتے ہیں۔ اگلے زمانہ میں جب کہ ترکوں میں جہالت اور ناتہذیبی زیادہ تھی اس وقت تک شیخ الاسلام کو ان تمام باتوں میں پوپ کی مانند بہت بڑا کامل اختیار تھا مگر رفتہ رفتہ بہت سی باتوں میں کم ہوتا گیا اور سلطان محمود کے وقت سے اس کے اختیاروں میں بہت کمی ہو گئی اب تو شیخ الاسلام صرف شیر کی کھال رہ گئے ہیں جو باتیں بطور فتویٰ شریعت لوگوں میں مشہور کرنی ہوتی ہیں جیسے حال میں اشتہار جہاد یا اعلام نامہ عدم زیادتی نسبت عیسائیان مشتہر کیا گیا ہے وہ شیخ الاسلام کی معرفت ہوتا ہے عدالتوں میں ابھی اس کو مداخلت ہے گو پہلے کی نسبت کسی قدر کم ہو۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ شیخ الاسلام کا تبدیل کرنا ترکوں کے لیے کچھ آسان کام نہ تھا وہ جھٹ سلطان کے کافر یا عیسائی ہو جانے کا فتویٰ دے دیتا تھا اور لوگوں میں بغاوت پھیلانی شروع کر دیتا تھا مگر دیکھو کہ اب کس قدر زمانہ بدل گیا ہے کہ ہم دو شنبہ کی تار برقی سے پاتے ہیں کہ شیخ الاسلام مثل ایک نوکر کے موقوف کر دیا گیا اور دوسرا شیخ الاسلام اس کی جگہ مقرر ہو گیا۔ ہمارے یورپین ہم عصر مسلمانی مذہب کے اصولوں سے بخوبی واقفیت نہیں رکھتے ہیں۔ پایونیر لکھتا ہے کہ ’’تھوڑا عرصہ ہوا کہ ہم نے اشتہار جہاد کی نسبت مباحثہ کیا تھا یہ اشتہار اس شیخ الاسلام نے مشتہر کیا تھا جواب اس معزز عہدے سے موقوف ہو گیآ ہے اور ہم نے بھروسہ کر کے اس امر کا یقین کرایا تھا کہ برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے دلوں پر اس فتویٰ جہاد سے کچھ اثر نہ ہو گا گو ان لوگوں کی ہمدردی ترکوں کے واسطے کیسی ہی کیوں نہ ہو علیٰ ہذا القیاس شیخ الاسلام کی برطرفی ایک ایسی بات ہے جس کا اثر قسطنطنیہ پر ہو مگر قیصر ہند کی مسلمان رعایا پر شمہ بھر بھی اس کا کچھ اثر نہ ہو گا۔‘‘ ہم بیان کرنا چاہتے ہیں کہ شیخ الاسلام مسلمانی مذہب کے مطابق کوئی چیز نہیں ہے۔ کوئی شخ خواہ نخواہ اس کا حکم ماننے پر مجبور نہیں ہے جو شخص کہ اس کا حکم نہ مانے اس کے ایمان مین اس کے مذہب میں کسی قسم کا نقصان نہیں آ سکتا نہ کوہی گناہ اس پر ہوتا ہے۔ یہ عہدہ کوئی مذہبی عہدہ نہیں ہے جیسے کہ پوپ کا عہدہ خیال کیا جاتا ہے۔ ہر شخص کو آزادی ہے کہ شیخ الاسلام کے احکام پر غور کرے اگر اس کے نزدیک وہ حکم غلط ہو اس کو رد کر دے۔ ہندوستاں کے مسلمانوں کو قسطنطنیہ کے شیخ الاسلام سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ نہ کوئی اس کا حکم ان پر واجب التعمیل ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت ٹرکی کے مسلمانوں کی حالت سے از روئے احکام مذہب اسلام کے بالکل مختلف ہے ہندوستان کے مسلمان گورنمنٹ انگریزی کی رعایا ہیں اور اس کے امن میں رہتے ہیں۔ برخلاف اس کے ٹرکی کے مسلمان ایسے نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دونوں کے لیے احکام مذہبی مختلف ہیں۔ شیخ الاسلام کا کوہی حکم ہندوستان کے مسلمانوں سے مذہباً متعلق نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کا مذہباً یہ فرض ہے کہ اپنے بادشاہ کی جس کی وہ رعیت ہیں اور جس کے امن میں مذہبی آزادی سے وہ بسر کرتے ہیں ہمیشہ اس کے تابع رہیں گو وہ ترکوں کے ساتھ کیسی ہی ہمدردی رکھتے ہوں اور گو ٹرکی میں اور خود قسطنطنیہ میں کچھ ہی ہوا کرے۔ فرض کرو کہ اگر خود انگلش گورنمنٹ بجائے روس کے ہوتی اور ترکوں کا ملک بظلم چھین لینا چاہتی اور گو اس بات سے کیسا ہی رنج و غم اور غصہ اور آزردگی ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندوستان میں جہاں ان کو امن اور مذہبی آزادی ہے بجز انگریزی گورنمنٹ کی اطاعت کے اور کچھ چارہ نہیں پس ہم اپنے یوروپین دوستوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ٹرکی میں کچذ ہی انقلاب ہوا کریں اور کچھ ہی احکام جاری ہوا کریں ان کا اثڑ ہندوستان میں مذہب کی رو سے کچھ نہیں ہو سکتا مگر اس میں کچھ شبہ نہیں کہ جو امور خلاف مراد ٹرکی ہوتے ہیں ان سے ہندوستان کے مسلمانوں کو از حد رنج و غم و غصہ ہوتا ہے۔ مخالفان ٹرکی سے از حد ناراص ہوتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ بات کہ مسلمان سلطان کو ایک مذہبی پیشوا سمجھتے ہیں اور اس لیے اس کی ہمدردی کرتے ہیں ایک لغو و مہمل بات ہے بلکہ یہ ہمدردی ایک قدرتی طبعی بات ہے اور تعلیم سے اور اخبارات سے اور سفر کی آسانی سے جو اس زمانہ میں حاصل ہے اور جس کے سبب سے سلطنت ٹرکی میں ہندوستان کے مسلمانوں کی آمد و رفت بہت زیادہ ہو گئی ہے اس ہمدردی کو بہت کچھ ترقی ہو گئی ہے۔ ٹرکی کی حالت (اخبار سائٹیفک سوسائٹی علی گڑھ، ۲۲ دسمبر ۱۸۷۶ھ) سلطان عبد العزیز خاں کی تخت ہے معزول ہونے کے افسوس میں صرف ہم تنہا نہیں ہیں بلکہ اور بھی بہت سے ارباب دانش اس باب میں ہمارے ہم صفیر ہیں اور اس باب میں ہم سے اتفاق کرتے ہیں کہ بلاشبہ ٹرکی کے کونسلی وزویروں کی یہ حرکت کچھ دانش مندی کی حرکت نہ تھی کہ انہوں نے سلطان عبد العزیز کو تخت سے اتا دیا۔ خصوصاً شاہ ایران بہت زیادہ اس افسوس میں مبتلا ہیں کہ سلطان عبد العزیز خاں ایسا لائق بادشاہ اس طرح ضائع کیا گیا۔ ہم نے یہ رائے بطور پیشین گوئی بیان کی تھی کہ سلطان محمد مراد کا تخت ٹرکی پر قرار پکڑنا ذرا دشوار بات ہے۔ چناں چہ ہماری اسی پیشین گوئی کے موافق محمد مراد خاں اب پھر اپنے قدیمی منصب پر چلے گئے اور بجائے ان کے عبد الحمید خاں تخت نشین ہوئے۔ پس ہم وزرائے تحۃ ٹرکی سے پوچھتے ہیں کہ کیا درحقیقت یہ لڑکوں کا سا کھیل کچھ شوکت سلطنت میں مخل نہیں ہے اور کیا سلطان عبد العزیز خاں میں اس قدر لیاقت بھی نہ تھی جس قدر کہ سلطان عبد الحمید خاں بہادر میں ہے۔ کیا عبد العزیز خاں کی انتظامی رائے کو اس قدر قوت نہ تھی جس قدر کہ اب عبد الحمید خاں کی رائے کو قوت ہے۔ کیا سلطان عبد الحمید خاں میں خزانہ کی حفاظت اور روپیہ کی نگہداشت کا ملکہ اس وقت ایسا ہے جیسا کہ عبد العزیز خاں میں اتنی مدت کی سلطنت کے بعد بھی نہ ہوا تھا کیا سلطان عبد العزیز خاں سلطان عبد الحمید خاں کے برابر تجربہ کار نہ تھے اور ان کا رعب سلطنت میں اس قدر نہ تھا جس قدر کہ اب عبد الحمید خاں کا ہے اور اگر وزرائے ٹرکی کو سلطان عبد الحمید خاں کی ذات سے گو اس وقت کچھ نفع نہین ہے بلکہ آئندہ کچھ امید ہے تو ہم ان کے انصاف سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے نزدیک کیا سلطان عبد العزیز خاں کی حالت آئندہ اصلاح کے لائق نہ رہی تھی اور تم کو ان سے اس قدر فلاح کی بھی امید نہ تھی جس قدر کہ اب عبد الحمید خاں کی حالت سے امید ہے ہم کو بہت افسوس ہے (مگر اب ہمارا افسوس بے سود ہے) کہ تخت ٹرکی سلطان عبد العزیز خاں کے مر جانے سے بالکل خراب ہو گیا اور معاملات ایسے ضعیف ہو گئے کہ اب ان کو اپنی اصلی حالت پر آنا بہت دشوار کام ہو گیا۔ گو اس وقت ہم سن رہے ہیں کہ ٹرکی کے بہادر سپاہی سرویہ کے مقابلے میں اپنی جان لڑا رہے ہیں اور سرویہ کو نہایت تشویش پیش ہے اور شاہزادہ سرویہ صلح کی فکر میں ہے مگر کیا یہ سب امور اس وقت کچھ اطمینان دلا سکتے ہیں جب تک ٹرکی کے تمام معاملات اور سلطنتوں سے صاف نہ ہو جاویں اور کیا صرف اسی بات سے ٹرکی کو خوش ہونا چاہیے کہ اس نے سرویہ کو عاجز کر دیا ہے۔ ہم کو اندیشہ ہے کہ کہیں ٹرکی کی یہ ملکی لڑائی مذہبی نہ ہو جاوے اور اس جنگ کا نام جہاد نہ ہو جاوے اور اس میں ذرا شبہ نہیں ہے کہ جب وہ وقت ہو گا تو ٹرکی کو اس سے زیادہ اندیشہ ہو گا۔ شاہزادہ کارٹسچیکف کا یہ کلمہ کہ جب تک مسلمانوں کا مایۂ افتخار یعنی ٹرکی کی قوت نہ گھٹے گی اس وقت تک مسلمانوں کا زور نہ گھٹے گا اور یوں روم کا گرجاشں میں یہ دعا مانگنا کہ او خدا! دنیا سے مسلمان غارت ہو جاوین اور مذہبی چندہ کا بعض عیسائی قوموں میں پھیلنا ہر گز اس بات کا یقین نہیں دلاتا کہ ٹرکی کا معاملہ صرف سرویہ پر ختم ہو جاوے بلکہ ہماری رائے یہ ہے کہ سلطان عبد العزیز خاں اس ہنگامہ کے قلعہ کے واسطے گویا کلید باب تھا اور اس کی موت نے اس ہنگامہ کے قلعہ کو کھول دیا۔ اب اس کا بند کرنا بہت ہی دشوار بات ہے۔ روس کے خالی ارادے اس کو اس بات پر آمادہ نہ کر سکتے تھے کہ وہ ٹرکی سے کچھ بول سکے اور بلاشبہ روس پہلو کو ڈھونڈتا تھا کہ کسی طرح چھیڑ ہو جاوے مگر سلطان عبد العزیز خاں اپنی لیاقت سے ان تمام پہلوؤں کو دبائے ہوئے تھا۔ اب وہ مر گیا اور اس کو پہلو مل گیا۔ پس گو اس وقت خاص روسی سلطنت نہ لڑتی ہو مگر اس میں ذرا شبہ نہیں ہے کہ ٹرکی سے روس کی بندوقیں اور روس کی توپیں اور روس کی افسر اور روس کا گولہ بارود ضرور لڑ رہا ہے اور وہ آئنہد اس بات کے لیے آمادہ ہے کہ آئندہ وہ کھلم کھلا مرد میدان بن کر آہے اور ٹرکی سے صف آرا ہو جائے۔ ہمارے زمانہ کے عاقل اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ابھی سے بہت سے اخبار نویس ٹرکیوں کے ظلم کی شکایتیں کر رہے ہیں اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اب ترکیوں کا ظلم اس لائق نہیں ہے کہ اس کو دیکھا جاوے اور چشم پوشی کی جاوے۔ مسٹر ڈسریلی صاحب بہادر پر اسی سبب سے طعن کی بوچھاڑ ہو رہی ہے کہ وہ اب تک ٹرکی کی جانب داری کیے جاتے ہیں اور ٹرکیوں کے ظلم کی نسبت ہاں میں ہاں نہیں ملاتے۔ پس کیا روس کی جنگ کے واسطے کسی اور حیلہ کی ضرورت ہو گی اور کیا اس کے مطلب کی تمہید کے واسطے کسی اور تیز فقرہ کی ضرورت ہے۔ کیا ٹرکیوں کے ظلم کی شکایت کا بعینہ وہ قصہ نہیں ہے کہ ایک بھیڑیے نے بکری کو کشتی میں دیکھا اور جب اس کے کھانے کے واسطے اور کوہی حیلہ ہاتھ نہ آیا تو اس نے کہا کہ کیوں ناؤ میں خاک اڑاتی ہے۔ بکری نے عرض کیا کہ حضور ناؤ میں خاک کہاں ہے۔ اگر کھانا ہے تو یوں ہی کھا لیجیے۔ روس کی جانب سے سلطان عبد العزیز خاں پر بد انتظامی کا الزام یوں ہی لگایا گیا اور اب ٹرکی انتظام کی طرف متوجہ ہوئی اور باغیوں کی سرکوبی کی فکر کی تو اس سے کہا جاتا ہے کہ ٹرکی ظلم کرتی ہے۔ اب ایسی حالت میں انصاف کرنا چاہیے کہ ٹرکی کیسے خوف کی حالت مین ہے اور جب اس کو یہ خوف ہے تو اس کا خاتمہ صرف سرویہ پر کیوں کر ہو سکتا ہے۔ ہم نے جو یہ بات کہی ہے کہ اگر ٹرکی کی جنگ مذہبی جنگ ہو جاوے گی تو نہایت اندیشہ ہو گا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حالت میں جو سلطنتیں ٹرکی کی طرف دار ہیں وہ طرف دار نہ رہیں گی اور ٹرکی اس تنہائی کی حالت میں صرف ان طالب علموں کے بھروسہ پر کچھ کام نہ کر سکے گی جنہوں نے شیخ الاسلام کے معزول کرنے کے واسطے لاٹھی، پٹیاں اور سوٹے اور پرانی بندوقیں باندھ کر ہنگامہ کر دیا تھا اور ایک شیخ الاسلام کو معزول کر کے فتح یاب ہو گئے تھے۔ اسی طرح ٹرکی کے ان ہنگامہ آرائیوں میں وہ زر چندہ کافی نہ ہو گا جو بطور امداد عام مسلمانوں سے مانگا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ہم اس بات میں لوگوں سے مخالف ہیں کہ عام چندہ کی درخواستیں ٹرکی کی طرف سے مشہور کی جاویں اور اس سے ہمارا یہ مقصود نہیں ہے کہ مسلمان ٹرکی کی مدد نہ کریں نہیں ضرور ہے کہ مسلمان ٹرکی کی مدد کریں مگر بطور خود کریں اور اس مدد کی خواستگاری کے واسطے سلطنت ٹرکی کی استدعا نہ سمجھیں۔ وہ یہ نہ خیال کریں کہ سلطنت ٹرکی ان سے کچھ مانگ رہی ہے اور وہ خود ایسے چندہ کی خواستگار ہے بلکہ یوں سمجھیں کہ ٹرکی نہیں مانگتی مگر خود اس کی مدد کے واسطے تیار ہیں اور ہم خود اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور اگر یہ کہا جاوے گا کہ خود ٹرکی مانگ رہی ہے تو سلطنت ٹرکی کا نہایت ضعف ثابت ہو گا اس لیے ہم کو یہ بات ظاہر کرنی ضرور ہے کہ جو استدعا چندہ کے باب میں اب تک کی گئی ہے وہ خاص ٹرکی کی نہیں ہے اور ٹرکی بحمد اﷲ اب تک بڑی دھوم دھام سے ملکی لڑائی لڑ رہی ہے۔ ہماری مذکورہ بالا رائے کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ٹرکی نے جو سخت شرطیں صلح کی سرویا سے کرنی چاہی ہیں ان شرطوں کو لارڈ ڈربی صاحب نے پسند نہیں کیا بلکہ برخلاف اس کے ٹرکی کو دھمکایا ہے کہ اگر ٹرکی اپنی صلح کی شرطوں کو نرم نہ کرے گی تو ہم ٹرکی کو روس کے حوالہ کر دیں گے۔ وہ ٹرکی کو سمجھ لے گا۔ پس کیا لارڈ ڈربی کی یہ دھمکی ٹرکی کے حق میں کچھ کم خوف ناک ہے اور ہم یہ نہیں ہتے کہ ٹرکی کی جانب سے جو شرطیں ظاہر کی کئی ہیں وہ سخت اور قابل تسلیم نہیں ہیں اور سرویا باوجود اپنی اس بغاوت کے جو اس نے ٹرکی سے کی ان رعایتوں کا مستحق ہے جو اس کے حق میں کی جاویں گی مگر جب ہم کو ان مشکلات پر نظر ہونی ہے جس میں اس وقت ٹرکی مبتلا ہے تو البتہ لارڈ ڈربی صاحب کی یہ دھمکی بھی کچھ بے جا نہیں معلوم ہوتی اور گو ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اگر خدانخواستہ گورنمنٹ انگریزی روم کا ساتھ چھوڑ دے گی تو روم کو کیا مشکلیں پیش آویں گی مگر اس مین شک نہیں ہے کہ ایسے وقت میں لارڈ ڈربی صاحب کا یہ مقولہ کہ ہم اس کو روس کے سپرد کر دیں گے ایک بڑی خاطر شکن بات ہے اور ہم کو یقین ہوتا ہے کہ ٹرکی کو بجز اس کے کچھ چارہ نہیں ہو گا کہ وہ لارڈ ڈربی صاحب کے دباؤ کو تسلیم کر لے۔ ٹرکی نے جو شرطیں تجویز کی ہیں منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ سرویا مصارف جنگ ادا کرے اور بہ حسب ظاہر یہ شرط بے جا نہیں معلوم ہوتی کیوں کہ جس حالت میں وہی بانی جنگ ہوئے تھے تو اب اس کو مصارف جنگ کے ادا کرنے میں کیوں کر عذر ہو سکتا ہے۔ خصوصاً اس حالت میں کہ سرویہ کوئی مستقل سلطنت نہیں ہے۔ حالاں کہ مصارف جنگ ادا کرنے کی نظیر فرانس اور پرشیا کی جنگ میں ثابت بھی ہو چکی ہے۔ دوسری شرط ٹرکی کی یہ ہے کہ وہ تمام حدود سرویہ میں ریل جاری کرے اور ظاہراً یہ شرط بھی اس لحاظ سے کچھ بے جا نہیں ہے کہ سرویا ٹرکی کا ماتحت ملک ہے۔ سرویا کوئی اجنبی اور علیحدہ سلطنت نہیں ہے جس میں ٹرکی کو کسی نوع کا استحقاق حاصل نہ ہو۔ تیسری شرط شاید یہ ہے کہ سرویا اپنے تمام عمدہ اور مستحکم قلعے ٹرکی کے حوالے کر دے اور چھوٹے چھوٹے قلعے مسمار کرا دے پس شاید ٹرکی کی یہ شرط زیادہ سخت معلوم ہوئی ہو گی اور اسی وجہ سے لارڈ ڈربی نے کہا ہو گا کہ ہم ٹرکی کو روس کے حوالے کر دیں گے مگر ہم نہیں کہہ سکتے کہ ٹرکی اس کا کیا جواب دیتی ہے۔ البتہ بہ حسب ظاہر ٹرکی کو بہت سی ایسی مصلحتیں در پیش ہیں کہ وہ لارڈ ڈربی صاحب کی رائے کی مخالفت نہیں کرے گی اور اپنی مصلحت کو ہاتھ سے نہ دے گی۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ملک یمین (تہذیب الاخلاق، جلد ہفتم بابت ماہ شعبان ۱۲۹۴ئ) ان دنوں میں تمام دنیا کے مسلمانوں میں روم اور روس کی لڑائی کا چرچا ہے۔ لڑائیاں تو آپس میں بادشاہوں کے ہوا ہی کرتی ہیں اور چرچا بھی ان لڑائیوں کا ہوا ہی کرتا ہے مگر جو رنج و غم مسلمانوں کو ہے وہ روسیوں اور بلگیریا والوں کے ان ظلموں کا ہے جو انہوں نے مسلمانوں پر کیے ہیں۔ سینکڑوں بے گناہ مسلمانوں کو پکڑ کر مار ڈالا اور نہایت بے رحمیوں سے مارا۔ بڈھوں اور عورتوں اور بچوں کو قتل کیا۔ جن عورتوں کی گود میں شیر خوار بچے تھے ان کو بھی قتل کیا۔ اور ان شیر خوار بچوں کو زندہ ان ہی لاشوں میں ڈال دیا کہ رو رو کر، چلا چلا کر اور جانوروں کے پنجوں سے زخمی ہو کر سسک سسک کر مر گئے۔ یہ واقعات اگرچہ بے حد غم دلانے والے ہیں مگر چنداں رنج میں ڈالنے والے نہیں ہیں۔ کیوں کہ ان سب کا آخری نتیجہ موت تھی۔ پس مرنے سے کیا ڈرنا ہے۔ وہ کسی نہ کسی طرح آ گئی۔ تکلیف اٹھا کر جان گئی یا آسانی سے جان نکل گئی۔ مگر سب سے زیادہ رنج اور غصہ اور غیرت اور کاہش طبع جو مسلمانوں کو ہے وہ روسیوں کی اور بلگیریا والوں کی اس نالائق حرکت سے ہے جو انہوں نے کنواری لڑکیوں، بیاہی عورتوں، بڈھی بیواؤں سے بطور ملک یمین کے کیا۔ مقام پیرا سے جو تار آیا ہے اس میں لکھا ہے کہ ’’ہر ایک سمت سے لوگ بھاگ بھاگ کر ان مقاموں کو آتے ہیں جہاں پناہ ملنے کی توقع ہوتی ہے اور مرد اور عورت بلکہ چھوٹے چھوٹے بچوں کی قتل کی ایسی خبریں اپنے ساتھ لاتے ہیں جن کو سن کر کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔ روسی سپاہی مسلمانوں کی جورؤں اور کنواری لڑکیوں کو پکڑ لیتے ہیں اور ان کو خراب کرتے ہیں۔ اس طرح پر سینکڑوں عورتیں خراب کی گئیں۔‘‘ پس یہ واقعہ سب سے زیادہ مسلمانوں کو رنج دیتا ہے اور تمام دنیا کے لوگ اس پچھلی حرکت کو نہایت وحشیانہ و نالائق حرکت خیال کرتے ہیں۔ اس وحشی انسان پر غور کرنا چاہیے جس نے ایسی عورت کو پکڑ لیا ہو جس کا بیٹا میدان میں مقتول پڑا ہے۔ اور جس کا خصم زخمی تڑپ رہا ہے۔ اور وہ رو رہی ہے اور چلا رہی ہے اور یہ پچھاڑ کر اس کے ساتھ درخت کے نیچے یا اپنے تمبو کے تلے وہ وحشیانہ حرکت کرتا ہے جس کو بیان کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ کافر سے کافر کیوں نہ ہو۔ ہم کو یقین ہے کہ وہ روسیوں اور بلگیریا والوں کی اس حرکت پر ان کو لعنت و نفرین کرتا ہو گا کیسے سے کیسا ہی مقدس مسلمان ہو وہ بھی ان حرکتوں کو اپنے بارے میں وحشیانہ حرکت سمجھتا ہو گا۔ ہم نے سنا ہے کہ کافروں نے بھی اس امر کو ناپسند کیا ہے اور چند عیسائی سلطنتوں نے ان ظلموں کی بابت روسیوں سے کیفیت طلب کی ہے۔ مگر ہم کو بڑا خوف ہے کہ کہیں ’’نور الآفاق‘‘ کے پچھلے پرچے میں جس میں ہمارے شفیق مولوی محمد علی صاحب نے ہمارے رسالہ تبریۃ الاسلام عن شین المۃ و الغلام کا جواب لکھا ہے اور کہیں ہمارے مخدوم و مکرم مولوی علی بخش خاں صاحب کے رسالے جن میں انہوں نے ایسی حرکات کو مذہب اسلام میں جائز قرار دیا ہے۔ روسیوں کے ہاتھ نہ لگ گئے ہوں اور وہ ان کو اپنی جرأت کی دلیل میں پیش نہ کریں اور جواب دیں کہ یہ باتیں کچھ وحشیانہ پن کی نہیں ہیں جن لوگوں کے ساتھ ہم نے کیا ہے وہ اپنے مذہب کی رو سے اور اپنے خدا کے حکم کے بموجب دوسرے لوگوں کے ساتھ ایسی حرکتیں کرنی جائز سمجھتے ہیں اور نعوذ باﷲ اپنے بزرگوں کی نسبت ان افعال کو منسوب کرتے ہیں۔ پھر ہم ان افعال میں کیوں مجرم ہیں؟ ہاں عورتوں اور بچوں کے قتل کا گناہ ہم پر ہے مگر تصرف علیٰ ملک الیمین کی نسبت جواب پوچھنا بجا ہے۔ ہم کو نہایت افسوس اور رنج ہے مسلمانوں کی ایسی جاہلانہ باتوں پر جو اسلام کو ایسی بد باتوں سے داغدار کرتے ہیں اور جو باتیں اسلام میں نہیں ہیں صرف اپنی ہوائے نفسانی سے اس میں داخل کرتے ہین۔ جس ہندوستان کے مسلمان کو ہمارے مسئلہ حریت اساری میں شبہ ہو اس کو جناب مولوی محمد علی صاحب اور جناب مولوی علی بخش خاں صاحب کے رسالوں کو پڑھنا ضرور نہیں ہے وہ سیدھا بلگیریا میں چلا جاوے اور جو زیادتیاں عورتوں اور کنواری لڑکیوں پر ہوتی ہیں ان کو دیکھے اور فیصلہ کرے کہ ایسی حرکتوں کا کسی مذہب میں بھی ہونا جائز ہو سکتا ہے؟ افسوس ہے ان مسلمانوں پر جو ایسی باتیں مذہب اسلام میں جائز بتاتے ہیں اور مذہب اسلام کو بدنام کرتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ افسوس ہے مسلمانوں کی اس حالت پر کہ ایسوں کو تو مقدس مسلمان تصور کرتے ہیں اور جو کوئی مذہب اسلام کو ان نجس باتوں سے پاک بتاوے اور ثابت کرے کہ یہ خدا کا حکم نہیں ہے اور نہ مذہب اسلام میں جائز ہے بلکہ مذہب اسلام اس اس عیب سے پاک ہے۔ اس کو کافر و کرسٹان و نیچریہ بتاتے ہیں۔ و سیعلمون من ہو اشد ظلماً و کفراً ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ روس اور ترک (اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ، ۲۲ دسمبر ۱۸۷۶ئ) اخبار ڈیلی نیوز مطبوعہ ۲۸ نومبر کی تحریر سے جو بے حوالہ اخبار ماسکو گزٹ ہے ہم کو اس بات کے کہنے کی جرأت ہوتی ہے کہ روس اور ترک کے مابین ہنگامہ ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ کیوں کہ کریمیا کے تاتاریوں نے وہ تمام ہتھیار خرید لیے ہیں جو مقام سمسرپور میں فروخت ہوتے تھے اور کوہ قاف کے مسلمانوں کی طبیعتیں بھی بدلی ہوئی ہیں اور گو سردست وہ کچھ نہیں کہتے بالکل ساکت ہیں مگر ان کا سکوت فتنہ انگیز معلوم ہوتا ہے اور یہاں سے مسلمان برابر ٹرکی کو چلے جاتے ہیں۔ روسیوں کو بھی ان امور کی طرف توجہ ہے اور جا بجا قلعہ بندی اور سامان جنگ فراہم ہو رہا ہے اور تمام آثار لڑائی کے نظر آتے ہیں۔ انگلستان نے بھی ہر طرح اپنا استحکام کر لیا ہے وہ بلا عذر لڑائی پر تیار ہے۔ ترکوں نے بھی بڑی کوشش و سعی کے ساتھ تمام کار خانوں کو حکم دے دیا ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ بجائے پانچ لاکھ روزانہ کارتوس کے بیس لاکھ روزانہ کارتوس تیار کیے جاویں۔ پس اس لحاظ سے اگر ہم یہ بات کہیں کہ ٹرکی اور روس کے باہم لڑائی کا نہایت قوی گمان ہے تو کچھ غلط نہیں ہے۔ بلاشبہ جو ہوا اس وقت چل رہی ہے اور جس قدر روس اور ترک کے دلوں میں بخارات جمع ہو رہے ہیں وہ ضرور موت کے بادل لاویں گے اور تمام یورپ میں نہایت سخت مصیبت کا مینہ خوں کی دھاروں میں برساویں گے۔ روس کی طبیعت بھی ہر گز ایسی نہیں معلوم ہوتی کہ اس کی کاوش بغیر زبردستی کے کم ہو جاوے اور وہ ہر گز ایسا رحم دل نہیں ہے کہ خدا کے بندوں کا مفت خون بہانے سے ڈر جاوے یا اپنے بزرگوں کے مرتب کیے ہوئے وصیت نامہ کو یوں ہی کاغذ میں لپٹا ہوا رکھ چھوڑے اور اس پر عمل کرنے سے پست ہمتی ظاہر کرے۔ ترک بھی ہر گز روس کی دھمکیوں کو نہیں مانیں گے اور وہ اپنے سچے دین کے اس مسئلہ پر فان یکن منکم ماۃ صابرۃ یغلبوا مأتین و ان یکن منکم الف یغلبوا الفین باذن اﷲ دلی یقین کے ساتھ عمل کریں گے اور وہ روس کو ایسا ہی متین جواب دیں گے جیسا کہ روس کا مستحکم ارادہ ہے اور اس میں شبہ نہیں ہے کہ روس بھی بغیر اس برتاؤ کے جو اس کے ساتھ قلعہ سپاسٹسپول پر کیا گیا ہر گز اپنے ارادوں سے باز نہ آوے گا۔ یورپ کے سلاطین بھی اپنے برتاؤ سے گویا یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ان کو بھی لڑائی کا دیکھنا منظور ہے شہزادہ بسمارک بھی اپنے کو سب سے علیحدہ بیان کرتا ہے اور ظاہراً کسی کا شریک نہیں ہے مگر ایسے زمانہ میں ایک ایسی بڑی ہولناک جنگ کی نسبت اپنی علیحدگی ظاہر کرنا اور اس کے دفعیہ کی نسبت تدبیر نہ کرنا اس بات کو غلط ثابت کرتا ہے کہ شہزادہ بسمارک علیحدہ رہے بلکہ ضرور شہزادہ موصوف وقت کا منتظر معلوم ہوتا ہے کیوں کہ کسی ایک شخص کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ روس اور ترکی کی جنگ انہیں دو سلطنتوں پر منحصر رہے گی بلکہ یقینا اس کا کم و بیش اثر تمام یورپ میں پہنچے گا اور آخرکار اس کا نتیجہ نہایت ہی ہولناک ہو گا۔ ہم کو بہت افسوس ہے کہ اس بے جا خون ریزی کو جس کا باعث روس ہے یورپ کے تمام سلاطین خلاف امن کیوں نہیں سمجھتے اور جو خلل اندازی اس عام امن میں روس کی طرف سے ہو رہی ہے اس کو سلاطین یورپ اس معاہدہ کے خلاف کیوں نہیں خیال کرتے جو عامہ خلائق کی امن کی بابت ہے اور اگر اس موقع پر روس کے اس نقص عہد کو سلاطین یورپ خلاف شان سلطنت نہ سمجھیں گے تو پھر کیوں کر ممکن ہے کہ آئندہ کسی ایسی سلطنت کو جو صرف اپنی بلند حوصلگیاں ظاہر کرنے کے واسطے ایسی ہی خون ریزیاں کرنی چاہے گی کوئی سلطنت روک سکے گی۔ جو اندیشہ کوہ قاف کے مسلمانوں کی برہمی کی نسبت ظاہر کیا گیا ہے وہ بالکل صحیح ہے اور یہ کسی طرح کچھ تعجب انگیز نہیں ہے کیوں کہ جس چیز نے اس وقت عام عیسائیوں کی طبیعتوں کو برہم کر دیا ہے وہی چیز عام مسلمانوں کی طبیعتوں کو افروختہ کر سکتی ہے اور جب کہ ایسا ہوا تو صرف روس اور ترک کی لڑائی نہ ہو گی بلکہ نہایت اندیشہ ناک مذہبی لڑائی دو بڑی قوموں میں ہو گی جو یورپ کے ہی امن میں خلل انداز نہ ہو گی بلکہ اور سلطنتوں پر بھی اس کا اثر ہو گا۔ ہم کو اس وقت گورنمنٹ انگریزی کی تعریف کرنی چاہیے جس نے اب تک اس ہنگامہ قیامت کو روک رکھا ہے اور اگر گورنمنٹ انگریزی ہی اس موقع پر اپنی حکمت عملی پر نظر نہ کرتی تو اب تک یورپ میں خون کے نالے بہہ نکلے ہوتے اور کروڑوں جانیں ضائع ہو گئی ہوتیں۔ انگستان، روس اور ٹرکی کا معاملہ (اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ، ۲۲ دسمبر ۱۸۷۶ئ) جو چٹھی ایک انگلستان افسر مقیم خلیج بیسکا کی جانب سے اخبار ٹائمز مطبوعہ ۱۵ دسمبر میں مشتہر ہوئی ہے اس کے دیکھنے سے گورنمنٹ انگریزی کے فوجی افسروں کی اس رائے کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے جو وہ ٹرکی اور روس کے معاملہ کی نسبت رکھتے ہیں اس کے دیکھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ گورنمنٹ انگریزی کی قومی عزت کی نگہبانی جس قدر ٹرکی کی معاونت سے متصور ہے روس کے ساتھ ہونے میں نہیں ہے اور اسی وجہ سے جو خیالات گلیڈ اسٹون صاحب کا فرقہ ظاہر کر رہا ہے وہ کچھ قابل تعریف نہیں ہیں بلکہ وہ ایک نوع کی خرابی کا سبب ہیں۔ جو جلسے آج کل انگلستان میں ترکوں کے برخلاف ہو رہے ہیں اور وعظ و پند انگلستان کے پادریوں کی جانب مع عوام الناس کی طبیعتوں کے برانگیختہ کرنے میں مساعی ہیںوہ بجز اس کے اور کچھ نہیں جانتے کہ تعصب آمیز خیالات کی اعانت سے عیسائیوں کی طبیعتوں کو ترکوں کی طرف سے برہم کر دیں اور دلوں میں کینہ کے تخم جما دیں اور وہ اس بات کو ہر گز نہیں جانتے کہ ملکی تدابیر کی تقویت کس طریقہ میں ہے اور سلطنت کا انتظام کس تدبیر سے عمدہ قائم رہ سکتا ہے اور بہت زیادہ معین گلیڈ اسٹون صاحب کے فرقہ کا یہی وعظ و پند کی مجلسیں ہیں جن کو اس وقت کے مناسب کام کرنا نہیں آتا۔ لارڈ ڈربی صاحب کے خیالات نہایت مدبرانہ ہیں اور ان کے انصاف آمیز طریقہ کو سب پسند کرتے ہیں اور انہیں کے خیالات سے قومی حفاظت کا زیادہ لحاظ معلوم ہوتا ہے۔ وہ بڑی ایمان داری اور رحم دلی کے ساتھ ملکی عزت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور انگلستان کو اس بے عزتی سے بچانا چاہتے ہیں جو انگلستان کو دب کر کسی کام کے کرنے میں حاصل ہو گی۔ لارڈ ڈربی صاحب اس امر کو قومی عزت کے برخلاف سمجھتے ہیں کہ انگلستان اپنی قوم کے مخالفوں کو قوت دے کر اپنی قوم کو ذلیل کرے کیوں کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ سرویا کی عیسائی قومیں اپنی وحشت اور سفاکی میں امریکہ کے باشندوں سے کم نہیں ہیں۔ اگر ان کو موقع ملے تو وہ اسی وقت اپنی وحشت کے آثار کو ظاہر کر دیں اور کسی کو زندہ نہ چھوڑیں۔ پس کیا لارڈ ڈربی اپنے ایسے مخالفوں کو مدد دینا اور ان پر رحم کرنا کچھ عقل کے مناسب سمجھیں گے ہر گز نہیں۔ کیوں کہ وہ گلیڈ اسٹون صاحب کی طرح لوگوں کو برانگیختہ کرنے کو گمراہ کرنے سے کچھ کم نہیں سمجھتے اور یہی وجہ ہے کہ گلیڈ اسٹون صاحب اب تک کسی کے نزدیک اپنے قول میں سچے ثابت نہیں ہوئے اور ہم اس چٹھی کا ترجمہ چھاپنا چاہتے ہیں جو مذکورہ بالا افسر نے چھاپی ہے اور جو ہمارے خیالات کی نہایت ممد ہے و ہو ہذا۔ ’’جو اخبارات ہمارے پاس انگلستان سے آتے ہیں ان کے دیکھنے سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ آج کل انگلستان میں طرح طرح کی مجلسیں اس غرض سے جمع ہوئی ہین کہ جو تدبیر مملکت ٹرکی کے معاملہ میں گورنمنٹ انگلستان نے اختیار کی ہے اس سے اپنی ناراضی ظاہر کریں اور ہمارا حال سنئے کہ ہم آٹھ مہینے سے اپنے جہازوں پر پڑے ہوئے ہیں۔ نہ ہم کو رخصت ملتی ہے۔ نہ ہم کو تفریح طبع کے واسطے کہیں جانے کی اجازت ہے اور باوجود اس کے ہم ہر گز کچھ شکایت نہیں کرتے بلکہ ہم ہر وقت اس بات پر آمادہ ہیں کہ اگر ہماری ملکہ معظمہ اور ہمارا ملک انصاف کے واسطے نیک سبب پر لڑائی کرنا چاہے تو ہم بھی جان دینے کو موجود ہیں۔ جو جھنڈا اس وقت ہمارے جہاز پر لہرا رہا ہے وہ آزادی کا حامی ہے اور اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس کے لحاظ سے ان لوگوں کے خیالات جو مشرقی معاملات میں کھلبلی ڈال رہے ہیں بالکل ناواقفیت پر مبنی معلوم ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی مثال بھیڑ بکریوں کے گلہ کی سی ہے گلیڈ اسٹون صاحب اور لو صاحب جو اس گروہ کے رہنما بنے ہوئے ہیں وہ خود ہمیشہ سے اپنے قول میں سچے نہیں ثابت ہوئے اور بجز اس کے کہ وہ شکار پر گھوڑا چھٹا لیں اور کس کام کے ہیں البتہ لارڈ ڈربی صاحب اور بیکسفیلڈ صاحب بہادر نہایت آزاد اور خود مختار حکمت عملی کے حامی ہیں اور ہم ان کی اس حکمت عملی پر نازاں ہیں اور ہم کو فخر ہے کہ ہم ان کے گروہ میں ہیں اور ہم کو امید ہے کہ ہمارے گروہ کے مخالف چند روز میں دیکھ لیں گے کہ ہمارا گروہ کیسا ذی عزت ثابت ہو گا اور بلاشبہ جہازی سپاہی بدل و جان ان کی اعانت کریں گے۔ گو ہم اس وقت انگلستان میں نہیں ہیں مگر تاہم لوگ انگلستان کے رہنے والے ہیں اور ہم علانیہ کہتے ہیں کہ ہم ان عیسائیوں میں نہیں ہیں کہ ہم سرویا والوں کو اچھا کہیں اور ان کو کوئی عزیز قوم سمجھیں۔ اگر اس وقت ہم سے اور سرویا سے لڑائی ہو تو بلا خوف و خطر لڑنے کو تیار ہیں۔ جو لوگ صرف اخباروں کی گپ بازی پر بھروسہ کر کے باتیں بناتے ہیں ہم بہر کیف ان سے زیادہ جانتے ہیں اور ہم کو اس بات سے بڑی نفرت ہے کہ ہماری ہی قوم سے کچھ لوگ روسیوں کے ساتھ ہو جاویں اور ان کی وجہ سے سرویا والوں کے طرف دار بنیں۔ اگر ہمارے انگلستان کے وہ لوگ جو اس وقت سرویا کی مصیبت زدہ قوموں کو روپیہ پیسہ اور دوا درمان سے مدد کرتے ہیں کچھ سمجھیں تو ان کے حق میں بجائے اس کے یہ بہتر ہے کہ وہ اپنی ہی قوم کے انگلستانیوں کی خبر گیری کریں۔ کیا وہ نہیںجانتے کہ اگر آج سرویا والوں کو موقع ملے تو وہ فوراً جان تلف کرنے اور ایذا پہنچانے کو تیار ہیں اور اگر ان سے ہو سکے تو وہ ایک شخص کو وںدہ نہ چھوڑیں اور ہم کو یہ خوب معلوم ہے کہ ان کا مذہبی طریقہ یہی ہے اور اس وقت بلاشبہ روس اور سرویا اور بوسینیا سب ہم سے اس بات کے ملتجی ہیں۔ کہ ہم ان کے ساتھ ہو کر ٹرکی سے لڑیں مگر ہم کو کیا ضرورت ہے کہ ہم ایسا کریں۔ کیا ہم کو کبھی ان سے فائدہ پہنچا ہے یا ہم کو ان سے کسی فائدہ کی توقع ہے۔ اگر ہم کو اس وقت ہتھیار اٹھانے کا حکم ہو اور ٹرکی کا حق بطور ایک خود مختار قوم کے قائم رہے تو ہم فوراً حاصڑ ہیں۔ آپ ہر گز یہ خیال نہ کریں کہ ہمارے بیڑے کے سپاہی کچھ اس معاملہ میں غافل ہیں۔ نہیں ہم کو وہی جوش ہے جو ایک انگریز کو ہونا چاہیے اور اس میں ذرا شبہ نہیں ہے کہ اگر میں ترک ہوتا اور کوئی غیر قوم مجھ پر حملہ کرتی تو میں اپنے ہتھیار ہر گز نہ رکھتا۔ پس اسی طرح اب بھی ہم کو یہ انتظار ہے کہ فوراً لڑائی ہو۔ ہم ضرور اپنے عزیز وزیر لارڈ ڈربی صاحب کو مدد دینے کے واسطے تیار ہیں اور ہم ان کے مخالفوں کو اس بات کے دکھلا دینے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر روس ٹرکی کو ذرا بھی چھیڑے گا اور کچھ وہ بھی اس قصد کا اثر ظاہر کرے گا تو ہم فوراً ٹرکی کو مدد دیں گے اور روس دیکھے گا کہ ہم کیا کریں گے ہم ان انگلستانیوں میں نہیں ہیں کہ تدبیر ملکی کو تو جانتے نہیں ہیں اور مشرقی معاملات سے تو ان کو خبر نہیں ہے مگر یوں ہی لوگوں کو ترکوں کی دشمنی اور مخالفت پر آمادہ کر رہے ہیں۔‘‘ راقم ایک افسر، روایل میدی، ایچ،ایم ایس، ہو کیولر خلیج بیسکا، ۲۷ اکتوبر ۱۸۷۶ئ۔ اس چٹھی کے دیکھنے سے جو تدبیر مملکت انگلستان کی ہے وہ ہر شخص پر ظاہر ہو سکتی ہے اور جو جوش انگلستان کے قومی افسروں کو ہے وہ بے انتہا ہے اور اسی موقع سے یہ بات بھی عام ہو سکتی ہے کہ گلیڈ اسٹون صاحب کے شور و غل کو کچھ روشن دماغ اور ملکی مدبر پسند نہیں کرتے۔ صرف پادری منش پسند کرتے ہیں اور گو یہ بات مسلم ہو کہ گورنمنٹ انگریزی کچھ ترکیوں کو قابل ترجیح سمجھ کر مدد نہیں کرتی مگر اس میں تو شبہ نہیں ہے کہ وہ سرویا والوں سے دل میں راضی نہیں ہے اور اس کو سرویا سے کچھ فلاح کی امید نہیں ہے۔ پس اگر ترک کی ذاتی مدد مد نظر نہ ہو تو سرویا کی مخالفت کے لحاظ سے تو ضرور ترک قابل امداد سمجھے جاویں گے اور اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ اس لحاظ کے بھی گورنمنٹ انگلستان کا طریقہ ترکیوں کے حق میں مفید ہو گا۔؎ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ترکوں کے یتیموں اور زخمیوں کے لیے چندہ (اخبار سائٹیفک سوسائٹی علی گڑھ، ۲۲ دسمبر ۱۸۷۶ئ) بمبئی اور کلکتہ اور حیدر آباد اور لاہور اور مدراس کی ان کمیٹیوں نے جو بہ نظر انسانی ہم دردی کے ترکوں کے یتیم اور زخمیوں کے واسطے چندہ جمع کرنے کے لیے قائم ہوئیں اس بات کا شبہ دور کر دیا ہے کہ یہ کمیٹیاں گورنمنٹ انگریزی کے خلاف منشاء ہیں۔ حضور وائسرائے بہادر اور ان کی کونسل نے بھی اس ہم دردی کو ناپسند نہیں کیا۔ علاوہ اس کے یہ بات بھی ثابت ہو جکی ہے کہ یہ چندہ ملکی لڑائی کے واسطے نہیں ہے اور نہ اس سے ٹرکی کی جنگی قوت کا بڑھانا مدنظر ہے اور اگر ایسا خیال کیا جاوے تو وہ اس لیے غلط ہے کہ ٹرکی کے ایک معرکہ میں اس قدر صرف ہو گا کہ تمام ہندوستان کے باشندے برسوں میں اس قدر جمع نہ کر سکیں گے۔ پس بہر کیف اب یہ بات متیقین ہے کہ یہ چندہ صرف مجروحوں اور مصیبت زدہ لوگوں کے واسطے ہے اور کسی طرح وہ قانون سلطنت اور منشاء گورنمنٹ کے خلاف نہیں ہے اور اس قسم کا چندہ اپنی ہم قوموں نے لندن سے سرویا کے مجروحوں کو علانیہ بھیجا ہے اور بہت سے لوگ لندن سرویا کے عیسائی لوگوں کی مرہم پٹی کے واسطے بہ نظڑ رحم دلی خود لے کر گئے ہیں اور ہر گز گورنمنٹ نے اس سے مزاحمت نہیں کی اور نہ اب تک اس کی مزاحمت کے واسطے کوئی حکم جاری ہوا۔ پس کسی گروہ خاص کا کوہی کام کرنا اور اس پر گورنمنٹ کا تعرضی نہ کرنا بھی ایک قانون ہے جو دوسرے گروہ کے واسطے قابل استدلال ہے۔ جب کلکتہ اور بمبئی وغیرہ کے چںدہ کی کمیٹیوں کو گورنمنٹ نے نہیں روکا تو وہ اور ہندوستان کے باشندوں کے واسطے بلاشبہ بمنزلہ قانونی اجازت کے ہے۔ پس اگر ایسی حالت میں کوئی ایسی عدالت جو خلاف قانون کوئی حکم نافذ نہیں کر سکتی کوئی ایسا حکم نافذ کرے جو عام کارروائی اور گورنمنٹ کی منشاء کے خلاف ہو تو ایسے حکم کو ہم اپنی دانست میں حکم جائز نہین کہہ سکتے اور اس کو حاکم کی خاص رائے کہہ سکتے ہیں تاوقتیکہ اس کے مخالف حکم کی علت ہم کو نہ معلوم ہو جاوے۔ ہم نے سنا ہے کہ ضلح سہارن پور کی سکی عدالت نے اس ضلع کی اس درخواست کو نامنظزر کیا ہے جو انہوں نے فراہمی چندہ کے واسطے اجازت حاصل ہونے کی وہاں کی عدالت مجاز میں پیش کی تھی اور یہ بھی ہم نے سنا ہے کہ اس عدالت نے مسلمانوں کی اس درخواست کی نسبت یہ حکم دیا ہے کہ یہ شاید تدبیر فریب کے واسطے کی جاتی ہے ورنہ ٹرکی کو کچھ حاجیت چندہ کی نہیں ہے۔ وہاں ٹرکی کی لڑائی کے واسطے بہت کچھ سامان موجود ہے۔ ہمارے اس ضلع کے معتمد کارسپانڈنٹ نے جو تحریر ہمارے پاس بھیجی ہے اس کے دیکھنے سے ہم کو یہ تمام کیفیت معلوم ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے ایک ایسے گروہ کی نسبت فریب اور دغا کا منسوب کرنا جن میں ذی عزت اور بے عزت سب طرح کے لوگ شامل ہیں اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک کہ ان پر یہ الزام کسی طرح ثابت نہ ہو جاوے۔ علاوہ اس سے جب کہ گورنمنٹ۔ اس بارے میں کوئی خاص حکم ممانعت کا جاری نہیں فرمایا تو اس عدالت نے کس بنا پر یہ ممانعت کی۔ اگر یہ خبر صحیح ہے اور جیسا کہ ہمارے کارسپانڈنٹ نے لکھا ہے ویسا ہی ہے تو اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ نہایت افسوس کے لائق ہے اور بڑی حیرت ہے کہ یہ کارروائی کس قسم کی ہے بمبئی کے چندہ کی تو ٹرکی کی جانب سے بعض اخباروں میں رسیدیں بھی چھپ گئی ہیں اور اضلاع شمال و مغرب کے چندہ میں ہنوز تک اجازت نہیں ملی۔ حیدر آباد کی رعایا کی درخواست کو وہاں کے صاحب ریزیڈنٹ نے بلا تامل منظور کر لیا اور یہاں کی عدالتیں ہنوز اسی خیال میں ہیں کہ یہ فریب ہے۔ کلکتہ کے امراء عالی تبارنے ہزاروں روپیہ جمع کر لیا اور ہو رہا ہے۔ پس کیا یہ سب فریبی ہیں؟ اور کیا یہ ان کی دغا بازی ہے؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ اس میں وہ نام ور لوگ شریک ہیں جن کی عقل و دیانت پر سب کو اعتماد ہے۔ اگر ان کے نزدیک ٹرکی کے یتیموں کو حاجت نہ ہوتی تو وہ کیوں چندہ جمع کرتے۔ کیا وہ ایسے نادان تھے کہ بلا حاجت کے چندہ جمع کرنے لگتے۔ مولوی عبد اللطیف خاں اور جناب سید امیر علی خاں بہادر بہ دل و جان اس باب میں سعی کر رہے ہیں پس کیا ان کو ٹرکی کی ضرورت اور عدم ضرورت سے کچھ خبر نہیں ہے۔ ہم کو نہایت تاسف ہے کہ بلاوجہ ایک ایسا حکم دیا گیا ہے جو تعجب کے قابل ہے۔ ہم کو یقین ہے کہ جو ہم دردی اپنے بنی نوع اور اپنے ہم قوم کے واسطے کی جاوے وہ کسی طرح قابل مزاحمت نہیں ہو سکتی۔ ہم کو معلوم نہیں ہے کہ وہاں کے درخواست دینے والوں نے اب کیا تدبیر کی ہے اور اس حکم کا ان پر کیا اثر ہوا ہے۔ اگر ہم کو اس کی اطلاع ہو گی تو ہم اس کو بھی مفصل چھاپیں ہے۔ چںدہ یتیمان و بیوگان و زخژیان (اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ، ۲۷ اکتوبر ۱۸۷۶ئ) ہندوستان کے مسلمان ایک مدت سے اپنے بزرگوں کی عادت و طبیعت و ہمدردی کو بھولے ہوئے تھے۔ اب اس تعلیم و تربیت کے زمانہ اور پُر امن عہد دولت مہد شہنشاہ انڈیا وکٹوریہ نے پھر ان کی طبیعتوں کو اسی اصل فیاضی اور ہمدردی کی طرف مائل کر دیا ہے جو ان کے مشہور بزرگوں کی تھیں۔ اس طبیعت کے تازہ ہونے کا اثر اس چندہ سے ثابت ہوتا ہے جو جنگ روم کے زخمیوں اور یتیموں اور بیواؤں کے لیے ہندوستان میں ہو رہا ہے۔ مدارس، بمبئی، کلکتہ اور اور مقاموں میں چندہ شروع ہوا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کی طبیعتیں چندہ کرنے کو اور ترکوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کو آمادہ و تیار ہیں۔ اس چندہ میں چند امور ہیں جن پر غور کرنے سے مسلمانوں کی طبیعتوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے۔ سب سے اول بات یہ ہے کہ اس ہمدردی میں شیعہ اور سنی دونوں نہایت اتفاق اور دل سے شریک ہوئے ہیں اور اس معاملہ میں انہوں نے وہی طریقہ برتا ہے جو ہزار آٹھ سو برس پیشتر کے شیعہ و سنی آپس میں برتتے تھے کیوں کہ اس زمانہ میں شیعہ اور سنی مذہب میں ایسی مغائرت و عداوت نہ تھی جیسی کہ حال کے زمانے میں بعض جاہل اور متعصب اشخاص میں ہے۔ اس تمام کارروائی سے ان لوگوں کی رائے کی غلطی علانیہ ثابت ہو گئی جو یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ترکوں کے ساتھ کچھ ہمدردی نہیں ہے۔ دوسری عمدہ بات اس تمام کارروائی سے یہ ہوئی ہے کہ جو بات چند اشخاص کو پہلے معلوم تھی اب ہندوستان کے ہر فرد کو معلوم ہو گئی ہے کہ گورنمنٹ انگلستان اور حضور شہنشاہ انڈیا وکٹوریہ ہمیشہ سے دوست اور مددگار سلطنت روم کے رہے ہیں اور روسیوں کے صدمہ سے جو نہایت سخت دشمن سلطنت روم کے ہیں گورنمنٹ انگریزی نے ہر موقع پر مدد کی ہے اور اب بھی مددگار ہے اور اس سبب سے ہماری دانست میں ایک عام خیال محبت و خیر خواہی اور احسان مندی گورنمنٹ انگریزی کا ہر ایک مسلمان کے دل میں پھیلا ہے۔ تیسرے ہم اس بات کے معلوم کرنے سے نہایت خوش ہیں کہ جو کمیٹیاں اس باب میں مقرر ہوئی ہیں انہوں نے اپنی کارروائیاں نہایت علانیہ کی ہیں اور گورنمنٹ ہندوستان پر بھی اپنے ارادوں اور مقصدوں کو مخفی نہیں رکھا ہے۔ ہم کو جناب مولوی عبد اللطیف خان بہادر کی یہ تجویز نہایت پسند آئی جو انہوں نے گورنمنٹ سے درخواست کی ہے کہ زر چندہ صاحبان کلکٹر کے خزانہ کے ذریعہ سے صدر کمیٹی میں بھیجا جاوے اور ہم کو یہ بھی امید ہے کہ جناب مولوی صاحب ممدوح ایسی تدبیر فرماویں گے کہ ٹرکی کے خزانہ میں بھی یا اس کمیٹی کی تحویل میں جو ٹرکی میں یتیموں کی مدد اور زخمیوں کی بہتری کے لیے مقرر ہو بذریعہ سرکار انگریزی روپیہ بھیجا جاوے تاکہ تغلب و تصرف کا کسی طرح احتمال نہ رہے اور لوگوں کو طمانیت کامل ہو کہ جس مقصد کے لیے روپیہ دیا گیا ہے درحقیقت وہ اس میں کام آوے گا اور امید ہے کہ جو خط و کتابت اس باب میں گورنمنٹ سے ہو وہ علانیہ ظاہر و مشتہر کی جاوے۔ چوتھی بات جس سے ہم زیادہ خوش ہیں وہ یہ ہے کہ ہر ایک جگہ کی کمیٹی نے اپنی گورنمنٹ کا ادب اور وفا داری اور شکریہ ادا کیا ہے اور درحقیقت ہم کو اپنی گورنمنٹ کا بے انتہا ممنون اور شکر گزار ہونا لازمی ہے کیوں کہ یہ ایسی عمدہ گورنمنٹ کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنے مسلمان ترک بھائیوں کی اس قدر دور دراز فاصلہ سے امداد کرنے کو آمادہ ہیں۔ انصاف کا مقام ہے کہ اگر کسی پرامن گورنمنٹ اور ایسی آزادنہ حکومت جیسی کہ گورنمنٹ انگریزی کی ہے نہ ہوتی تو کیا ہم یہ سب باتیں کر سکتے جو کر رہے ہیں۔ پانچویں بات غور کے قابل یہ ہے کہ اس واقعہ سے جو ترکوں میں پیش آیا اور جس میں روس نے بلا سبب سرویا اور بوسینیا وغیرہ ملکوں میں سازش کر کے بغاوت کروائی اور ہزار ہا مخلوق کا خون بہایا اس سے بخوبی معلوم ہو گیا کہ روسیوں کو کس قدر دشمنی سلطنت ٹرکی سے اور مسلمانوں سے ہے اور اس باعث سے ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں میں نہایت سخت عداوت اور دشمنی روسیوں سے جمتی جاتی ہے اور اب ان کو روسیوں کا سنٹرل ایشیا میں بھی پھیلنا نہایت ناگوار ہوتا جاتا ہے جس پر وہ اس واقعہ سے پہلے چںداں خیال بھی نہیں کرتے تھے۔ یہ سب حالات اس بات سے آگاہی دیتے ہیں کہ زمانہ کس طرح پر لوگوں کو چلا رہا ہے اور غور کرنے کے لیے غور کرنے والوں کا موقع دیتا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ٹیئمنر از اے گریٹ رفارمر یعنی زمانہ ایک بڑا اصلاح کرنے والا ہے (تہذیب الاخلاق، جلد ششم، بابت یکم رمضان ۱۲۹۲ھ صفحہ ۱۴۲ تا ۱۴۴) یہ بات تو سب کو معلوم تھی کہ ترک انگریزی نما لباس پہنتے ہین اور میز و کرسی پر بیٹھ کر چھری کانٹے سے کھاتے ہیں اور سلطان روم یعنی بادشاہ حرمین شریقین جن کا خطبہ مکہ معظمہ کے منبروں اور مسجد نبوی کے منبر پر روضہ مطہرہ علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام کے سامنے پڑھا جاتا ہے، بوٹ و پتلون و ترکش کوٹ و لال پھندنے دار ٹوپی پہنتے ہیں۔ مگر اب نئی بات یہ معلوم ہوئی ہے۔ کہ جناب شریف مکہ عبد اﷲ بن عون بھی انگریزی تہذیب کو پسند فرماتے جاتے ہیں۔ پیرس کے ایک اخ%ار میں چھپا ہے کہ بصرہ کے ایک بہت دولت مند سوداگر جن کا نام علی الرشید ہے۔ ان دنوں پیرس میں تشریف لائے ہیں۔ آتے وقت وہ مکہ معظمہ میں تشریف لے گئے تھے اور شریف مکہ کے ہاں مہمان رہے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ شریف مکہ کا مکان بالکل یورپ کے اسباب سے سجا ہوا ہے اور شریف مکہ انگریزی طور کا کھانا کھاتے ہیں۔ مگر ابھی اتنی کسر ہے کہ چھری کانٹے سے نہیں کھاتے۔ ایک فرانسیسی باورچی ان کے ہاں نوکر ہے۔ شریف مکہ نے فرانسیسی زبان سیکھ لی ہے اور فرنچ یعنی فرانسیسی زبان بولتے ہیں۔ اب تو قیامت ہو گئی۔ ع چو کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی کیا ہمارا تہذیب الاخلاق مکہ میں بھی پڑھا جاتا ہے؟ سلطان زنجبار کو بھی زمانہ کی ہوا لگی ہے۔ انہوں نے بھی فرنچ زبان پڑھنی و سیکھنی شروع کی ہے۔ اپنے ہاں کے بڑے بڑے سرداروں کو تمغے دیے ہیں۔ جن میں سلطان زنجبار کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ کیا اب تصویر ناجائز نہیں رہی؟ نہیں میں بھول گیا۔ سلطان زنجبار تو بڑے پکے حنفی ہیں۔ تمغوں میں پوری تصویر نہ ہو گی۔ صرف چہرہ یا نصف قد کی تصویر ہو گی۔ اس لیے کہ حنفیوں کے ہان کا مسئلہ ہے کہ جان دار کی اس قدر تصویر جس سے زندہ رہنا ممکن نہ ہو بنانی یا رکھنی ناجائز نہیں ہے۔ ایک مصور نے سن کر کہا کہ میں تو پورے قد کی تصویریں بھی ایسی ہی بناتا ہوں۔ کہ اگر اتنی ہی چیزیں انسان میں ہوں جتنی کہ میں بناتا ہوں تو بھی انسان کا زندہ رہنا ممکن نہیں۔ اس نے قسم کھائی اور کہا ’’میں نہ انسان کا بھیجا بناتا ہوں نہ پھیپھڑا، نہ دل و جگر، نہ معدہ نہ امعائ، نہ خون نہ روح، اور بغیر ان سب چیزوں کے انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ پس میں بھی حنفی مسئلہ کے بہ موجب کوئی ناجائز کام نہیں کرتا۔‘‘ جب مصور سے کہا گیا۔ کہ قیامت میں خدا کہے گا کہ ’’اب اس میں جان ڈال‘‘ تب وہ حیران ہوا اور کہنے لگآ کہ جناب درخت کی بھی تصویر بناؤں یا نہیں۔ تو اس سے کہا گیا کہ درخت کی تصویر منع نہیں۔ تب اس نے کہا کہ جناب اگر قیامت میں خدا کہے گا کہ اب اس کو بڑھا اور پھل پھول لگآ۔ تو میں کیا کروں گا۔ اس سے کہا گیا کہ درخت میں قوت نامید پیدا کرنے کو اور پھل پھول لگانے کو خدا نہیں کہنے کا۔ مصور بولا۔ کہ نا صاحب میں نہ مانوں۔ ایسے خدا سے جو کاغذ پر لکیریں کی ہوئی جانور کی تصویر میں جان ڈالنے کو کہے گا۔ کیا لگتا ہے کہ وہ کاغذ پر درخت کی کھچی ہوئی تصویر میں بھی قوت نامید پیدا کرنے اور پھل پھول لگانے کو کہوے۔ یا تو اس مسئلہ ہی میں کچھ غلطی ہے۔ یا مطلقاً تصویر بنانا جان دار کی ہو یا بے جان کی۔ بالکل ممنوع ہے۔ کیا کسی مولوی نے سلطان زنجبار کو فتویٰ دے دیا ہے۔ کہ تمغوں میں نقش تصویر ناجائز نہیں ہے؟ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ (۴) مضامین متعلق واقعاتِ حاضرہ دھلی کا دربار اور اس کا خرچ (اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ ۱۰ نومبر ۱۸۷۶ئ) جب ہم اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ گورنمنٹ ہندوستان نے تمام محکموں میں تخفیف کا حکم دیا ہے تو ہمارے دل میں یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ آج کل خزانہ میں کمی ہے اور وہ ضرورتیں پیش ئیں جن کو خزانہ اپنی کمی کے سبب سے برداشت نہیں کر سکتا اور ہم یقین کرتے ہیں کہ جو اراکین تخفیف کی رائے دینے والے ہیں وہ بھی اپنی رائے کے واسطے بجز اس کے اور کچھ وجہ نہ ظاہر کریں گے کہ خزانہ کم اور ضرورت زائد تھی۔ اس سبب سے تخفیف کی ضرورت معلوم ہوئی لیکن بحسب ظاہر جو لوگ اس وجہ کو ضعیف خیال کرتے ہیں وہ دربار دہلی کے صرف کو دیکھ کر تخفیف کی اس وجہ کو بالکل ناواجب کہتے ہیں اور وہ بہت حیرت میں ہیں کہ دربار دہلی پچھتر لاکھ روپیہ صرف کرے گا اور گورنمنٹ تیں چار ہی لاکھ کی تخفیف کی خواہاں ہے۔ اگر تخفیف کی ضرورت سے قطع نظر کی جاوے تو بھی ہمارے بعض ہم عصر جو ہندوستان کے خزانہ کا بے دریغ صرف ہونا ناپسند کرتے ہیں اس پچھتر لاکھ روپیہ کے صرف کو بالکل ناواجب کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ملکہ معظمہ تخت نشین ہوئی تھیں تو اس وقت صرف مبلغ سات لاکھ روپیہ صرف ہوئے تھے (یعنی ستر ہوار پونڈ) اور اب صرف خطاب شہنشاہی کے قبول کرنے کی خوشی میں پچھتر لاکھ صرف کیا جاتا ہے جو دہ چند سے بھی زیادہ ہو گا اور ان کو اسی وجہ سے یہ فکر ہے کہ اگر حضور ملکہ معظمہ شہنشاہی تاج پہننے کی رسم ادا فرماویں گی تو اس عمل درآمد کے لحاظ سے اس وقت بھی ہندوستان سے روپیہ جاوے گا اور اس کی مقدار بھی اس سے کچھ کم نہ ہو گی۔ وہ اس پچذتر لاکھ کے صرف کو اس وجہ سے ناپسند کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک اس صرف کو ہندوستان سے جو تعلق ہے وہ انگلستان سے نہیں ہے۔ پس اس صورت میں یہ تمام بار ہندوستان کے خزانہ پر ہو گآ جس کے لحاط سے ان کے نزدیک یہ کہنا کچھ بے جا نہیں ہے کہ اگر آج ہندوستان کا پارلیمنٹ علیحدہ ہوتا جیسا کہ انگْستان کا پارلیمنٹ ہے تو ہر گز پچھتر لاکھ روپیہ کی درخواست اس آسانی سے پیش نہ ہوتی اور اس کی منظوری تو خواب و خیال سے کم نہ ہوتی اور اب چوں کہ انگلستان کی طرح ہندوستان کا پارلیمنٹ اس کے خزانہ کا حامی نہیں ہے اس وجہ سے پچھتر لاکھ روپیہ کی رقم کثیر صرف اس نام سے بجٹ میں شامل ہو گی کہ دہلی کے تماشہ میں صرف کی کئی اور وزیر خزانہ ہند اپنے نقشہ میں اس رقم کو مارچ آئندہ میں لکھیں گے اور اسی وجہ سے خیال کرتے ہیں کہ سر جان اسٹریچی صاحب بہادر کو آئندہ نہایت دقت پیش آوے گی کیوں کہ ان کو تمام محکموں کی فضول خرچی کا اس کفایت شعاری سے مقابلہ کرنا پڑے گا اور جس قدر اس باب میں ان کو دقت ہو گی اس قدر حضور گورنر جنرل بہادر کو نہ ہو گی کیوں کہ وہ کہہ دیں گے کہ یہ تمام صرف ایک بڑی حکمت عملی کے اظہار کے واسطے کیا گیا اور اس کے ذریعہ سے ہندوستان کے تمام شاہزادہ اور رئیس اس لیے بلائے گئے کہ وہ سب ایک دوسرے کے سامنے اپنے شہنشاء کی تعظیم و تواضح بڑی عاجزی سے بجا لاویں اور یہ کہہ کر حضور گورنر جنرل بہادر بالکل بری ہو جاویں گے۔ حالاں کہ ان کے نزدیک دراصل یہ چنداں مفید نہیں ہے۔ مگر ہم اس رائے سے اس وجہ سے اتفاق نہیں کرتے کہ جو تدبیر مملکت اس زمانہ میں حضور لارڈ لٹن صاحب بہادر کو ہندوستان میں کرنی ضرور ہے وہ زیادہ مفید ہندوستان ہی کے حق میں ہے اور جو نازک وقت آج کل ہندوستان کی گورنمنٹ کو پیش ہو رہا ہے اس کا اثر جس قدر ہندوستان کو برداشت کرنا پڑے گا انگلستان کو برداشت نہ کرنا پڑے گا۔ پس اس لحاظ سے بلاشبہ ہندوستان کے گورنر جنرل کو ایک ایسے ہی دربار کی نہایت ضرورت تھی اور اسی وجہ سے ہم اس پچھتر لاکھ روپیہ کی رقم کو صرف دہلی کے تماشہ کی رقم نہیں کہہ سکتے بلکہ اس کو ایک ملکی ضرورت کی رقم کہیں گے جس مین ہندوستان کے خزانہ کو بخل کرنا سراسر تدبیر مملکت کے خلاف ہو گا۔ جو لوگ ہندوستان کے خارجی تعلقات کو خوف ناک خیال کرتے ہیں اور جو بڑے زور و شور سے آج کل یہ رائے دے رہے ہیں کہ ہندوستان کی گورنمنٹ کو ایک ایسے زمانے میں جب کہ پورپ کی حالت دگرگوں ہو رہی ہے اور انگلستان کی گورنمنٹ کو بھی اس عرصہ میں اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ ہندوستان کی حکومت نہایت پرامن با شوکت رہے تو کیا اب لارڈ لٹن صاحب کا یہ دربار جو ہندوستان کی گورنمنٹ کی قوت اور اطمینان اور شوکت کو ظاہر کرے گا۔ دہلی کے تماشہ کے نام سے موسوم ہونے کے لائق ہو گا؛ ہمارے نزدیک ہر گز نہ ہو گا۔ ہمارا ایک انگریزی معاصر لکھتا ہے کہ جو رؤسا اور شہزادے اس دربار میں شریک ہوں گے ان کا صرف زبان سے خیر خواہی کا دم بھرنا حکومت کا استقلال ثابت نہ کرے گا مگر ہماری رائے میں یہ خیال چںد وجہ سے قابل التفات نہیں ہے کیوں کہ ہمارے ہم عصر نے اس بات کی کوئی وجہ نہیں لکھی کہ ہندوستانی شہزادوں اور درباریوں کی یہ نیاز مندی اور اپنے گورنر جنرل کے حضور میں علی الاعلان جب کہ اپنے اور بیگانہ ملک کے لوگ بھی وہاں حاضر ہوں گے خیر خواہی اور وفاداری کا اقرار کرنا کس وجہ سے صرف زبانی اقرار ہو گا اور کیوں کر اس سے استقلال حکومت ثابت نہ ہو گا۔ علاوہ اس سے اس بات کا بھی کوئی کافی سبب نہیں بیان کیا کہ کیوں ان کے نزدیک اس وقت ایسے دربار کی ضرورت نہ تھی۔ گو یہ مسلم ہے کہ جو تخفیف اس وقت عام محکموں میں کی گئی ہے وہ اس صرف کثیر کے منافی معلوم ہوتی ہے مگر جب اس دربار کی قومی ضرورت کو تسلیم کر لیا جاوے اور یہ بھی منجملہ انہیں ضروری اخراجات کے بجٹ میں مندرج ہو جن سے گورنمنٹ کو کچھ چآرہ نہیں ہے تو پھر ہماری رائے میں یہ صرف کثیر بجائے اس کے کہ تخفیف کے منافی ہو خود تخفیف کی وجوہ میں داخل ہو جاوے گا اور ہم کو یقین ہے کہ ایسے وقت میں کوئی ایسا شخص جس کو روس کے ارادوں اور سرحدی معاملات پر نظر ہے ہر گز اس دربار کی ضرورت میں کلام نہ کرے گا۔ ہم اس وجہ کو بھی چنداں پسند نہیں کرتے ہیں کہ ملکہ معظمہ کی تخت نشینی کے زمانہ میں صرف سات لاکھ روپیہ صرف ہوا تھا اب اس قدر کیوں صرف ہوتا ہے کیوں کہ اول ت ہمارے نزدیک ہو زمانہ کی تدبیر مملکت اور ملکی مصلحت یکساں نہیں ہوتی تاکہ ہم اس بات کو تسلیم کریں کہ جب اس قدر صرف ہوا تو اب اس قدر نہ ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ وہ خرچ صرف تخت نشینی کی خوشی میں تھا اور اس جشن میں زمانہ کی خوشی اور تدبیر مملکت دونوں شامل ہیں پس کسی طرح وہ قیاس صحیح نہیں ہے۔ ہمارا وہی ہم عصر جس کی یہ رائے ہے کہ استقلال حکومت کچھ زبانی اقرار پر منحصر نہیں ہے اپنی رائے کے اخیر میں لکھتا ہے کہ دراصل استقلال حکومت اس بات میں ہے کہ کفایت شعاری اور انتظام اور بیداری مغزی ہو اور ان رئیسوں کا دل ان کو راحت پہنچانے اور ان کے کاموں میں دخیل نہ ہونے سے ہاتھ میں لیا جاوے۔ پس ہم اس کی اس قدر رائے سے بڑی خوشی کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں اور اس کی اس منصفانہ اور علاقانہ تجویز سے اس کو بڑی عزت کے لائق سمجھتے ہیں اور ہم بھی یہ رائے تسلیم کرتے ہیں کہ بلاشبہ رئیسوں بلکہ تمام رعایا کے ساتھ ایسا ہی محبت کا برتاؤ کرنے سے اصلی استقلال حکومت کو حاصل ہو گا اور گورنمنٹ کی یہی تدبیر سچی وفاداری رعایا کے دل میں پیدا کرے گی۔ مگر اپنے ہم عصر موصوف کی اس رائے کو اس محل پر اس وجہ سے تسلیم نہیں کرتے کہ ہمارے نزدیک یہ دربار کچھ صرف ہندوستانی رؤساء کی گرویدگی کے ہی واسطے نہیں ہے بلکہ اس کی ضرورت خارجی لوگوں پر رعب ڈالنے اور ان کو ہندوستان کی رعایا کی فرماں برداری ظاہر کرنے کے واسطے بھی ہے اور دراصل یہ ضرورت تمام ضرورتوں سے قوی ہے۔ پس ہم کسی طرح اس ضرورت کو بغیر ایک ایسے دربار کے پورا ہونا نہیں سمجھتے اور اس کی وجہ سے ضرور ہم شوکت اور قوت کی اعانت سمجھتے ہیں۔ ہاں اگر یہ دربار صرف اس مقصد سے کیا جاتا کہ گورنمنٹ اس کے ذریعہ سے رعایائے ہندوستان کی وفاداری اور اس کی گرویدگی کو زیادہ کرے تو ہم اپنے ہم عصر کی اس بے نظیر رائے کو آب زر سے لکھتے اور ہم اس کو ضرور تسلیم کرتے اور اسی وجہ سے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر ہمارے ہم عصر کی یہ رائے اس دربار کی مخالفت میں نہ ہوتی تو ہم اس کے ساتھ نہایت خوشی سے اتفاق کرتے کیوں کہ ہم ہمیشہ یہ خیال کرتے ہیں کہ سچی وفاداری اور دلی خیر خواہی رعایا کے دل میں اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جو گورنمنٹ اس کے دل میں محبت کے ذریعے پیدا کر دے اور رعایا کی محبت بغیر اس کے ناممکن ہے کہ اس کو اپنی گورنمنٹ سے بہمہ وجوہ اطمینان ہو اور وہ گورنمنٹ کو اپنا شفیق اور مہربان سمجھ لے۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ جو رعایا کسی گورنمنٹ کے جبر سے اور اس کے دباؤ سے اس کی اطاعت و فرماں برداری کا اقرار کرتی ہے وہ ہر گز وفادار نہیں ہوتی اور جو رعایا گورنمنٹ کی محبت اور شفقت اور مہربانی سے اس کی گرویدہ ہوتی ہے وہ ضرور سچی وفادار ہوتی ہے اور یہ گرویدگی اسی وقت ممکن ہے جب کہ گورنمنٹ اس کے کسی معاملہ میں بہ جبر دخیل نہ ہو اور اس کی جان و حفاظت میں نہایت صفائی کا برتاؤ رکھتی ہو۔ ہم نے اسی عرصہ میں جب کہ اس دربار کا اشتہار ہوا تھا اپنی یہ رائے ظاہر کی تھی کہ حتی الامکان یہ دربار نہایت پر شوکت ہونا چاہیے اور اب بھی ہم اسی رائے پر اعتماد کرتے ہیں کہ ضرور اس دربار میں گورنمنٹ ہندوستان کو اپنی قوت و حکومت کا دبدبہ دکھلانا چاہیے اور اس زمانہ میں ہندوستان کے خزانہ کو ذرا فیاض ہی بننا مناسب ہے اور جو لوگ اس کو صرف کی زیاتی سے خوف دلاویں ان کی رائے کو ہر گز نہیں سننا چاہیے۔ ہم سر جان اسٹریچی صاحب کے واسطے بھی ان وجوہ پر نظر کرنے سے کچھ دقت نہیں سمجھتے۔ رہائی (اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ یکم دسمبر ۱۸۷۶ئ) اب یہ خبر پخۃہ ہو گئی ہے کہ حضور ملکہ معظمہ کے خطا شہنشاہی قبول کرنے کی خوشی میں بہت سے قیدی ہندوستان جیل خانوں سے چھوڑے جاویں گے جس کی نسبت ہمارا ہم صاحب راقم دہلی گزٹ اپنا یوں یقین ظاہر کرتا ہے کہ شاید ان تعداد فیصدی دس ہو۔ یہ بات بھی نہایت اچھی ہے کہ جو قیدی بلحاظ اپنے چال چلن کے اچھے ثابت ہوں گے وہ رہائی کے مستحق ٹھہریں گے۔ دہلی گزٹ کی رائے ہے کہ اگر ان قیدیوں میں عورتیں زیادہ شامل ہوں جو سوائے قتل عمد کے اور قسم کے جرائم میں ؟؟؟؟؟؟؟ ہیں تو نہایت مناسب ہو۔ پس ہم بھی اس رائے سے نہایت اتفاق کرتے ہیں۔ ہماری رائے میں عورتیں باعتبار اپنی اصلی فطرت کے زیادہ رحم کے قابل ثابت ہوتی ہیں اور بسبب اپنے اصلی خلقت کے جرائم بھی کسی طرح اس تمرد اور بدی پر محمول نہیں ہو ہو سکے جس پر مرد کے جرائم محمول ہوتے ہیں۔ تکلیف و مصائب برداشت کے لحاط سے بھی ان کا خلقی صنف ان کا سفارشی ہے۔ بلاشبہ یہ رائے نہایت عمدہ ہے کہ اس شاہانہ بخشش میں عورت کو زیادہ بہرہ دیا جاوے اور چوں کہ عورتوں کی تعداد جیل خانوں میں نہایت کم ہو گی اور مردوں کی بہ نسبت وہ کم ماخوذ ہوں گی اس لیے اس فیصدی تعداد میں اگر ان کی وسعت زیادہ کر دی جاوے تو کسی طرح مردوں کے حق میں ناانصافی نہ ہو گی۔ گورنمنٹ کی اس فیاضی سے ہندوستان میں نہایت خوشی ہو گی اور جو ہندوستان مشرقی سلطنتوں کے قدیمی دستوروں کو دل سے عزیز رکھتے ہیں وہ حد سے زیادہ خوش ہوں گے اور جس طرح ہندوستان کے خواص اپنے بادشاہ کی وقعت و توقیر اور اس کی فیاضی سے بخوبی آگاہ ہیں اسی طرح عوام بھی یہ بات سمجھ جاویں گے کہ بلاشبہ ہمارا بادشاہ بڑا فیاض ہے جس کی فیاضی کا اثر ہم تک پہنچ گیا ہے گو تربیت یافتہ اور حکیم طبیعت ہندوستانی اس کو نہ پسند کرتے ہوں۔ جو بدظنیاں ہماری گورنمنٹ کی اپنی رعایا کی نسبت ہیں ہو بہ نسبت اس کے نہایت بڑی بڑی ہیں اور اس کا زمانہ تمام مشرقی سلطنتوں کے زمانہ سے بدرجہاں فائق ہے اور اس کے عہد کی خوبیوں کی کچھ انتہا نہیں ہے لیکن ان تمام باریک اور مستحکم فیاضیوں کو صرف تعلیم یافتہ ہی ہندوستانی سمجھ سکتے ہیں۔ جو رعائتیں گورنمنٹ اپنی رعایا کے حقوق کی نسبت فرماتی ہے اور جو انصاف کا طریقہ اس کی عدالتوں میں رائج ہے اور جو خوبیاں اس کے قانون کی ہیں جو امن اس کے عہد میں ہے، جو ترقی تہذیب کی اس کے عہد میں ہے، جو آرام رعایا کو اس کے وقت میں ہے۔ جو تنگی ظالموں کے واسطے اس قانون میں ہے وہ تعلیم یافتہ بخوبی جانتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں: مگر ایک عام آدمی جو بازار کا پھرنے والا اور مزدوری کرنے والا ہو وہ اس فیاضی کو سب سے بڑا جانتا ہے کہ بادشاہ نے مجھ کو قید سے رہا کر دیا یا مجھ کو فلاں کام پر خوش ہو کر یہ چیز انعام میں عطا کی۔ پس ضرور تھا کہ حضور ملکہ معظمہ کے خطاب شہنشاہی قبول کرنے کی خوشی میں وہ شاہانہ فیاضی بھی ظاہر کی جاتی جس سے عوام الناس بھی جانیں کہ ہمارے بادشاہ نے یہ احسان کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس لحاظ سے بھی یہ طریقہ پسندیدہ ہے کہ ہمارے حضور گورنر جنرل بہادر یہ دربار ایسے مقام پر بیٹھ کر فرماویں گے جہاں شہنشاہان ہندوستان کا تخت ٹھا اور اس لیے تالیف قلوب کے واسطے بھی ایک ایسی رسم کا برتنا مناسب تھا جس سے ہندوستانیوں کے دلوں کو مناسبت ہو اور وہ اس سے خوش ہوں غرض کہ بہر کیف اس خوشی میں قیدیوں کی رہائی نہایت عمدہ تدبیر ہے اور ہم خیال کرتے ہیں کہ جو لوگ اس بات کا اندیشہ کرتے تھے کہ قیدی رہا ہو گئے تو ہماری کوٹھیوں کے احاطوں میں چوری کریں گے اور ہمارے مال کی حفاظت میں نقصان ہو گا ان کو اس بات سے اطمینان کر لینا چاہیے کہ نیک چلن چور چھوٹیں گے بد چلن نہیں چھوٹیں گے جو تم کو اندیشہ ہو اور علاوہ اس کے یہ فیصدی دس کہاں تک پھیلیں گے جو اس قدر چوریاں کریں گے۔ شاید ایسے خیال کے لوگوں کو گوارا نہیں ہے کہ کسی پر رحم کیا جاوے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ جیل خانوں کی رپورٹ (اخبار سائٹیفک سوسائٹی علی گڑھ ۲۰ اکتوبر ۱۸۷۶ئ) ہم ہمیشہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہندوستان میں گورنمنٹ انگریزی ہندوستانیوں کا خوش اقبالی کا نشان ہے اور اس کا قانون اور منشاء قانون انصاف کا حامی اور عقل کے موافق ہے جس کے سبب سے رعایا ان تمام حقوق اور رعایتوں کی مستحق ہو سکتی ہے جو ایک عادل اور منصف گورنمنٹ کی ظل عاطفت میں ہونی چاہئیں لیکن با ایں ہمہ ہم کو کبھی کبھی یہ کہنا پڑتا ہے کہ فلاں شخص کے معاملے میں انصاف نہیں ہوا اور فلاں معاملہ میں ہندوستانیوں کے حق پر نظر نہیں ہوئی لیکن تاہم ہماری یہ رائے کچھ یہ ثابت نہیں کرتی کہ اس بے انصافی کا سبب اصل قانون ہوا ہے بلکہ ہم اس کو ہمیشہ خاص افسروں کی غفلت یا بے پروائی کی طرف منسوب کرتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ اگر وہ افسر احتیاط کریں اور گورنمنٹ کے انصاف کی پوری تعمیل کریں تو ہر گز ہم کو اس شکایت کا موقعہ نہ ملے اور بلاشبہ اس مین ذرا تردد نہیں ہے کہ ان افسروں کی احتیاط اس وقت ظہور میں آ سکتی ہے جب کہ حکام بالا دست اپنے ذمہ یہ بات فرض سمجھیں کہ وقتاً فوقتاً ان افسروں کی بے اعتدالیوں پر تنبیہ و مواخذہ کرتے رہیں اور اگر وہ حکام عالی مقام ہی اس میں چشم پوشی کریں گے تو پھر وہ افسر احتیاط کو عمل میں نہیں لاویں گے اور وہ اپنے اختیارات کو محدود نہیں سمجھیں گے اور اس وجہ سے گورنمنٹ کے اس قانون کی پوری تعمیل نہ ہو گی اور ہندوستانیوں کی زبان شکایت کو کوئی تدبیر نہ روک سکے گی۔ ہمیشہ شکایت کا منشاء عامہ رعایا کی جانب سے یا کوئی حق تلفی ہوتی ہے یا کوئی ایزا و تکلیف ہوتی ہے اور جس حالت میں کہ بعض افسروں کے وہ اختیارات جو ان کے عہدہ سے زیادہ ہوں یا قانون کی حد سے باہر ہوں رعایا کو تکلیف پہنچاویں گے تو صرف گورنمنٹ کے قانون کی خوبی اورعمدگی کچھ رعایا کی زبان شکایت کو بند نہ کر دے گی۔ ہاں البتہ ایسی حالت میں اصل قانون یا منشاء قانون کی شکایت جائز نہ ہو گی۔ اور ہم یقین کرتے ہیں کہ ایسی شکایت بجز ان عوام الناس کے جو قانون کو نہیں جانتے خواص سے کبھی ظہور میں نہ آوے گی پس ایسی حالت میں حکام بالا دست پر بلاشبہ واجب ہے کہ وہ اپنے ماتحت افسروں کی کارروائیوں کو نظر غور سے دیکھتے رہیں اور اس بات پر نظر رکھیں کہ وہ اپنے حد اختیارات سے باہر نکل کر کام کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ہم اس وقت اس رپورٹ کو دیکھ رہے ہیں جو گزشتہ سنہ کی بابت شمالی مغربی جیل خانوں کے متعلق ہے۔ اس رپورٹ میں نہایت ایمان داری اور بڑی سچائی کے ساتھ یہ بات بیان کی گئی ہے۔ کہ ۱۸۷۴ء میں قیدیوں کی زیادتی کا یہ باعث بھی تھا کہ مجسٹریٹوں نے ان لوگوں کو بھی جیل خانہ دکھلایا جن سے کوئی خاص جرم وقوع میں نہیں آیا تھا بلکہ صرف یہ بات تھی کہ وہ بیچارے اپنی نیک چلنی کی ضمانت نہیں دیے سکتے تھے۔ اس کے بعد اسی رپورٹ میں یہ فقرہ مندرج ہے کہ ’’سر جارج کوپر صاحب یہ رائے دیتے ہیں کہ یہ اختیار جس وسعت کے ساتھ عمل درآمد میں لایا جاتا ہے اس کا دار و مدار زیادہ تر مجسٹریٹ کے ذاتی خیال پر ہے اور یہ وہ اختیار ہے کہ جس کے عمل درآمد پر افسران بالا کو اچھی طرح نظر رکھنا چاہیے۔ کیوں کہ ایک کم عقل اور بے احتیاط حاکم کے ہاتھ میں ایسے اخۃیار کا ہونا ظلم کا ایک خطرناک ہتھیار ہے۔‘‘ پس ہم کو دیکھنا چاہیے کہ سر جان کوپر صاحب بہادر کی یہ علاقانہ رائے کہاں تک ہمارے رائے کو تقویت دیتی ہے اور کہاں تک ہمارا یہ خیال صحیح ثابت ہوتا ہے کہ جہاں تک ہندوستان میں ناانصافی کی شکایت ہے وہ بعض تند مزاج اور ناواقف نوعمر حکام کی اس بے اعتدالی پر مبنی ہے جو وہ اپنی حدود اختیار سے زیادہ عمل میں لاتے ہیں اور قانوناً اس کے مجاز نہیں ہوتے۔ دیکھو اگر حضور سرجارج کوپر صاحب بہادر کی یہ رائے صحیح ہے (اور بلاشبہ صحیح ہے) کہ قیدیوں کی تعداد کی زیادتی بعض مجسٹریٹوں کی اس کارروائی پر مبنی تھی کہ انہوں نے غیر مجرموں کو جیل خانہ میں بھیج دیا تو شاید ہندوستانیوں کا یہ کہنا کچھ غلط نہ ہو گا کہ جو انصاف گورنمنٹ کے قانون میں ہے وہ اس کی عدالتوں میں نہیں ہے اور جو انصاف و اضعان قوانین کے دل و زبان میں ہے اس کا ظہور ان لوگوں کی کارروائی سے نہیں ہوتا جو اس کے عمل درآمد کے ذمہ دار ہیں۔ ہر ضلع کا مجسٹریٹ اپنے ضلع میں ایک ایسا بادشاہ ہوتا ہے کہ اس کا حکم گورنمٹ کے حکم سے سابق ہو سکتا ہے اور گورنمنٹ کا کوئی حکم بغیر اس کی مداخلت کے نہیں نافذ ہوتا۔ پس اگر ایسے ذی اختیار شخص کو اپنے اختیارات کے عمل درآمد میں حد قانون کی پابندی نہ ہو اور اس کو کسی قسم کی باز پرس کی پروا نہ ہو تو اس میں کسی طرح کا شبہ نہیں ہو سکتا کہ یہ اختیار ایک بہت بڑے ظلم کا نشانہ ہو گا اور ایسے تیر کے نشانہ کے سامنے رعایا کے جان و مال کی حفاظت کی امید نہایت امر موہوم ہو گی جس کے سبب سے رعایا ہر گز امن و اطمینان کے ساتھ اپنی زندگی بسر نہ کر سکے گی بلکہ ہمیشہ ایک خوف و اندیشہ کی حالت میں زندگی بسر کرے گی۔ کیا ایک شریف رعایا کو اس سے زیادہ کسی بات کا اندیشہ ہو سکتا ہے کہ اس کے ضلع کا حاکم بغیر کسی قانونی جرم کے اس کو جیل خانہ دکھلا سکے اور بغیر کسی قصور کے اس کی آبرو کو خراب کر سکے۔ کیا جس حالت میں ایک ضلع کا مجسٹریٹ کسی شریف آدمی کو صرف اس قصور پر ماخوذ کر سکے کہ اس نے ہم کو راستہ میں سلام نہیں کیا یا اس نے ہم کو دیکھ کر سواری سے اترنا نہیں چاہا یا اس نے سٹرک پر ہماری برابر بگھی چلائی تو کیا ایسے ضْع میں امن ہو سکتا ہے اور رعایا خیال کر سکتی ہے کہ ہمارے حقوق محفوظ ہیں اور ہم ایک نہایت خوش فزا قانون کے باغ میں دم لے رہے ہیں اور کوئی چیز ہمارے سانس کو نہیں روکتی۔ ہمارے رائے میں ہر گز نہیں ہو سکتی اور اسی لحاظ سے ہمارے حکام عالی مقام کا فرض ہے کہ وہ ماتحت افسروں کی ایسی حرکتوں کو دیکھتے رہیں۔ ہم اسی وجہ سے مدح کرتے ہیں اس بات کی کہ فلر صاحب کے مقدمہ میں حضور لارڈ لٹن صاحب بہادر کی کارروائی نہایت عمدہ اور ایسے ٹھیک وقت پر ہوئی جب کہ اس کی نہایت ضرورت تھی۔ اگر حضور لارڈ لٹن صاحب بہادر کی مانند یہ تنبیہہ پہلے سے ہوتی تو اضلاع شمالی کا ایک مجسٹریٹ اپنی عدالت میں ایک ہندوستانی وکیل کے سر پر اس جرم میں جوتیاں نہ رکھواتا کہ وہ عدالت میں اس کمرہ کے اندر جوتا پہنے چلا آیا جس میں صاحب مجسٹریٹ بہادر کی عدالت کا کٹہرہ تھا۔ اس رپورٹ میں ان اختیارات کا بھی ذکر ہے جو صاحبان سپرنٹنڈنٹ جیل خانہ قیدیوں کی سزا کے متعلق عمل میں لاتے ہیں اور اس کی نسبت یہ بیان کیا گیا ہے کہ صاحبان سپرنٹنڈنٹ جیل خانہ اس باب میں متفق نہیں ہیں بلکہ ہر ایک جرم کی نسبت ہر ایک کی رائے مختلف ہے اور اس کی نظیر میں ذکر کیا گیا ہے کہ بعض سپرنٹنڈنٹ قیدیوں کے پاس تمباکو کا نکلنا قتل عمد کی حد سے کچھ ہی کم سمجھتے ہیں اور بعض اس کو نہایت خفیف اور بعض بالکل جرم ہی نہیں سمجھتے اور اس قباحت کے رفع کرنے کے واسطے حضور سر جارج کوپر صاحب بہادر یہ تجویز فرماتے ہیں کہ جرموں کے درجہ مقرر کیے جاویں اور ان کی سزا متعین کر دی جاوے صرف اس کا تصفیہ صاحبان سپرنٹنڈنٹ کی رائے پر چھوڑ دیا جاوے۔ پس ہم سر جارج کوپر صاحب کی اس تجویز کو نہایت عمدہ سمجھتے ہیں اور ہم کو امید ہے کہ جو اندھیر بغیر کسی قاعدہ کے ہوتا ہے وہ ضرور اس تجویز سے کم ہو جاوے گا۔ گو یہ تجویز اس اختیار کو نہ روک سکے گی جو باوجود ضبط قانون کے بھی بعض حکام اپنے ذاتی خیال سے عمل میں لاتے ہیں۔ چناں چہ حضور ممدوح خود ہی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بعض مجسٹریٹوں نے قیدیوں کے جیل خانہ بھیجنے میں اپنے ذاتی خیال کی پابندی کی۔ پس اسی طرح سپرنٹنڈنٹ جیل خانہ بھی باوجود حد اختیار کے کسی اپنے ذاتی خیال کا پابند ہو سکتا ہے اور اس کی بات تدبیر ہماری دانست میں کسی جدید قانون کی تجویز سے ایسی ممکن نہیں ہے جس قدر کہ حکام بالا دست کی تنبیہ سے متصور ہے۔ جیل خانہ میں بعض نیک چلن قیدیوں کی سزا میں کبھی کمی کرنے کا قاعدہ مفید بیان کیا گیا ہے اور اس میں کسی طرح کا شبہ نہیں ہے کہ وہ ضرور مفید ہے اور ایک ایسے شخص کو جو اپنے جرم کے سبب سے جیل خانہ میں آیا ہے نہایت بڑی نیک چلنی کی ترغیب دیتا ہے مگر یہ بات نہایت سچ ہے کہ یہ ترغیب صرف انہیں مجرموں کو ہو سکتی ہے جو اپنے کسی اتفاقیہ جرم سے قید ہو گئے ہیں اور جو مجرم جرم کے عادی ہو گئے ہیں اور جن کو کسی نوع کا پاس عزت نہیں رہا ان کے حق میں یہ تدبیر مفید نہیں ہے۔ پس اس لحاظ سے حصور سر جان اسٹریچی صاحب بہادر کی یہ رائے نہایت عمدہ معلوم ہوتی ہے کہ سزا کی تخفیف یا اور کسی قسم کی رعایت کا طریقہ صرف انہیں قیدیوں کے واسطے مناسب ہے جو ہمیشہ جرم کے عادی نہیں ہیں۔ ہم بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جیل خانوں کے سپرنٹنڈنٹوں کے اختیارات اور آزادی میں خلل ڈالنا نہیں چاہیے کیوں کہ بہ نسبت اور افسروں کے وہ ایک سخت اور خطرناک انتظام کا ذمہ دار ہوتا ہے اور سپرنٹنڈنٹ جیل خانہ کے زیر حفاظت ایک بڑا بھاری گروہ ان بدمعاشوں کا ہوتا ہے جو تمام ضلع کے بدمعاشوں کے انتخاب ہوتے ہیں اور اب جہاں تک جیل خانوں میں آسائش کے قواعد زیادہ ہوتے جاتے ہیں اور جیل خانہ کے اندر قیدی آزادی ہوتے جاتے ہیں اور سوائے ایک خاص قسم کے قیدیوں کے بیڑیوں وغیرہ سے خالی رہتے ہیں اسی قدر جیل خانوں میں خطرہ زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ پس اب اگر ایسے گروہ کے محافظ کے اخۃیارات میں خلل ڈالا جاوے تو بلاشبہ انتظام میں رخنہ ہو گا اور ہمیشہ ایک اندیشہ رہے گا۔ مگر جس طرح ہم اس قدر آزادی کے موید ہیں جو اس انتظام کے واسطے کافی ہو، اسی قدر اس آزادی کے مخالف ہیں جس سے صاحب سپرنٹنڈنٹوں کو قیدیوں کے ساتھ اس قسم کے سلوک کرنے کا اختیار حاصل ہو جاوے جو ایک انسان کیا معنی ایک ذی روح کے بالکل مناسب حال نہ ہو۔ جیل خانہ مجرم کی ہمت اور اس کے جرم کی قوت اور اس کے دلی جوش اور طراری کے کم کرنے کا ذریعہ ہے۔ کچھ مجرم کی روح کے فنا کرنے اور اس کی جسمانی اور روحانی تندرستی کے ضائع کرنے کا ذریعہ نہیں ہے۔ پس جو عمل درآمد قیدیوں کی روح اور ان کی صحت کو فنا کرے وہ ضرور سپرنٹنڈنٹوں کے اختیار سے باہر ہونا چاہیے اور ہمیشہ اس باب میں ان کے اختیارات کی ایک حد ہونی چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اربار فہم ہمیشہ قیدیوں کے حق میں اس رعایت کی درخواست کرتے ہیں جو ان کے واسطے کسی طرح مناسب نہیں ہوتی اور اسی طرح بعض ارباب اس ظلم اور شدت کی درخواست کرتے ہیں جو انسان کے واسطے عقلاً جائز نہیں ہے مگر ہم ہمیشہ ان دونوں رایوں کے مخالف رہے ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ بے جا رعایت کے سبب سے سزا سزا نہیں رہتی اور بے انتہا شدت کے سبب سے سزا ظلم ہو جاتی ہے۔ ہم اس رائے کو نہایت ہی پسند کرتے ہیں کہ قیدی کو بجائے اس کے ایک بار کسی جرم پر تیس بید لگائے جاوین بہت بہتر ہے کہ چار پانچ بار اس کو یہ سزا دی جاوے کیوں ہ تقسیم سزا سے اس کی روح اور جسم پر نا واجب صدمہ نہ پہنچے گا اور ایک سپرنٹنڈنٹ کو اس طریقہ سے چند بار اپنے اختیار کے عمل مین لانے کا موقع ملے گا۔ ہم نہایت خوش ہیں اور نہایت شکر گزار ہیں حضور سر جارج کوپر صاحب بہادر کی ان منصفانہ رایوں کے جو حضور ممدوح نے اس رپورٹ میں ظاہر فرمائی ہیں اور ہم کو امید ہے کہ حضور لارڈ لٹن صاحب بہادر اور حضور سر جارج کوپر صاحب بہادر کی وہ توجہ جو انہوں نے ہندوستانیوں کی حالت اور افسروں کے عمل درآمد کی نسبت فرمائی ہے، ہندوستان میں نہایت انصاف پھیلاوے گی اور گورنمنٹ انگریزی کے عادلانہ قانون کی وقعت رعایا میں بٹھلا دے گی اور جس طرح حضور لارڈ لٹن صاحب کی اس کے دل تنبیہ نے ہندوستان کی عام عدالتوں کو فائدہ پہنچایا اسی طرح سر جارج کوپر صحاب بہادر کی یہ منصفانہ تعریض صاحبان مجسٹریٹ اور نیز جیل خانوں کے ان سپرنٹنڈنٹوں کو متنبہ کرے گی جو ایک چلم تمباکو کو قتل عمد کے قریب قریب سمجھ کر نہایت بے رحمی سے قیدیوں کو سزا دیتے تھے اور جو رحم انسانی ہم دردی کے لحاظ سے ہونا چاہیے اس کو کام میں نہیں لاتے تھے اور اس قسم کی تنبیہیں انصاف کی ترقی میں اس قدر فائدہ بخشیں کی کہ اس قدر چند جدید قانون ہر گز نہ بخشتے کیوں کہ ہماری رائے میں زیادتی قانون ہمیشہ معاملات کی پیچیدگی کو بڑھاتی ہے اور حکام بالا دست کی نگرانی فوراً ایک کام کو اپنے موقع پر پورا کر دیتی ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ عدالت ہائے سرکاری کی تخفیف (اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ ۲۲ ستمبر ۱۸۷۶ئ) آج کل سرکاری عدالتوں میں تخفیف کی خبر گرم ہونے سے ایک عجیب کھلبلی پڑی ہوئی ہے اور جو شخص ہے اسی فکر میں مبتلا ہے۔ جو لوگ معرض تخفیف میں ہیں ان کو اس بات کا خیال ہے کہ اول تو روزگار ہاتھ سے جاتا ہے دوسرے وہ تمام استحقاق جو مدتوں جان مار کر اور اپنا اچھا وقت سرکاری ملازمت میں گزران کر پیدا کیا تھا ہاتھ سے جاتا ہے اور بہت سوں کو یہ فکر ہے کہ اب آئندہ بوڑھی عمر میں نوکری کے تو لائق نہیں ہیں دیکھیے عمر کس مصیبت میں کٹے گی اور کس ذلت سے زندگی بسر ہو گی اور بہت سے ایسے لوگ جو تخفیف کے دغدغہ سے ایمن ہیں اس فکر میں سرشار ہیں کہ جب تخفیف ہو گی اور ملازم کارکن کم ہو جاویں گے اور کام عدالتوں کا بدستور رہے گا تو بہر کیف انہیں عدالتوں میں انہیں باقی ماندہ ملازموں سے وہ کام پورا کرایا جاوے گا کیوں کہ اس کا سر انجام بجز اس کے اور کس طرح ہو سکتا ہے کہ جو شخص موقوف ہو اس کا کام اوروں پر منقسم ہو جاوے اور یہی باقی ماندہ لوگ اس کے کفیل ہوں۔ پس ایک تو پہلے ہی سے ہم لوگ مر رہے ہیں کہ کام حد سے زیادہ ہے۔ نہایت مشکل اور بڑی بڑی مصیبتوں سے پورا ہوتا ہے۔ صبح سے آتے ہیں شام کو جاتے ہیں۔ نہ کھانے کی خبر ہے نہ پہننے کی خبر ہے۔ بستہ سامنے رکھا ہے دوات قلم سے باتیں ہو رہی ہیں۔ نہ تعطیل کی خبر ہے نہ رخصت کا خیال۔ نہ چھٹی کا ذکر ہے۔ صرف کام ہی کام یاد ہے اور جب تخفیف شدہ ملازموں کا کام بھی ہمارے سر آ پڑا تو دیکھے کیا ہوتا ہے۔ جرمانوں کے ہی مارے کام تمام ہو جاوے گا اور کام پورا نہ ہو گا۔ یا گورنمنٹ کے نزدیک نالائق ٹھہریں گے یا خود دق ہو کر نوکری چھوڑدیں گے۔ غرض کہ جو لوگ تخفیف کے لائق ہیں وہ بھی اور جو تخفیف سے بچے ہوئے ہیں وہ بھی دونوں مصیبت میں گرفتار ہیں اور یہ بھی ضرور ہے کہ تخفیف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ چاندی کا نرخ گھٹ گیا ہے۔ روپیہ کی ضرورتیں پیش ہیں۔ آمدنی بدستور خود ہے پھر تخفیف نہ ہو تو کیا ہو مگر ہو کو حیرانی یہ ہے کہ اس قسم کی تخفیف سے جو سردست گورنمنٹ نے تجویز فرمائی ہیں نتیجہ کیا ہو گ۔ کیا گورنمنٹ کی کچہریوں میں دو چار چپراسیوں اور دو چار پرانے محرروں اور دو چار بستہ برداروں ایک دو دفتروں اور بڑے سے بڑے ایک دو زائد پیش کاروں کی تخفیف سے کوئی ایسا معتدبہ خزانہ جمع ہو جاوے گآ جو قابل اعتبار ہو یا اس کے سبب سے کوہی بڑا خرچ موقوف ہو جاوے گا جس کی گورنمنٹ برداشت نہیں کر سکتی۔ یا دس بیس چوکی داروں کے موقوف کرنے سے گورنمنٹ کچھ کام چلا سکتی ہے جو اس پر نظر ہو۔ ہماری دانست میں ایسے لوگوں کی تخفیف سے سوائے واویلا اور فریاد کے پیدا ہونے کے اور کوئی نتیجہ نہیں معلوم ہوتا اور ایسے لوگوں کی تخفیف سے علاوہ فریاد کے انتظام کی ابتری کا بڑا اندیشہ ہے۔ اگر بجائے دس چپراسیوں کے آٹھ تجویز ہوں گے تو سوائے اس کے اور کیا ہو گا کہ دس کا کام آٹھ کو کرنا پڑے گا اور اس کے سبب سے جو کام جلد ہوتا تھا وہ دیر میں ہو گا اگر دس محرروں میں دو کم ہو جاویں گے تو جو کام ایک گھنٹہ میں ہوتا تھا وہ سوا گھنٹہ میں ہو گا۔ اگر پیشی کے اہل کار کم ہو جاویں گے تو اسی قدر حک