اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید قرآنی قصص جلدچہاردھم حصہ اول مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقالات سرسید سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کو حاصل ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے اور اپنے پیچھے نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مضامین جہاں ادبی لحاظ سے وقیع ہیں، وہاں وہ پر از معلومات بھی ہیں۔ ان کے مطالعے سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مذہبی مسائل اور تاریخ عقدے حل ہوتے ہیں اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں اور سیاسی و معاشرتی لحاظ سے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ نیز بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی ان میں موجود ہیں سرسید کے ان ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا ہدف رہے ہیں ان مضامین میں علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی، مزاح بھی ہے اور طنز بھی، درد بھی ہے اور سوز بھی، دلچسپی بھی ہے اور دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے اور سرزنش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اور ہر قسم کے خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے، وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اور کہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات و رسائل کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام کے لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اور نا مکمل، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ گزر گیا مگر کسی کے دل میں ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا اور کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا آخر کار مجلس ترقی ادب لاہور کو ان بکھرے ہوئے بیش بہا جواہرات کو جمع کرنے کا خیال آیا مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں پرونے کے لیے مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا انتخاب کیا جنہوں نے پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میں دور و نزدیک کے سفر کیے فراہمی مواد کے لیے ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا، مگر چونکہ ان کی طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری باحسن طریق پوری کی چنانچہ عرصہ دراز کی اس محنت و کاوش کے ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں’’ مقالات سرسید‘‘ کی مختلف جلدوں کی شکل میں فخر و اطمینان کے جذبات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ قصہ آدم علیہ السلام قرآن مجید میں آدم کا قصہ آٹھ جگہ آیا ہے سورۂ بقر، سورۂ آل عمران، سورۂ اعراف، سورۂ حجر، سورۂ بنی اسرائیل، سورۂ کہف، سورۂ طہٰ، سورۂ ص میں کسی جگہ کوئی مضمون بیان ہوا ہے، کسی جگہ کوئی کسی جگہ اجمال ہے کسی جگہ تفصیل کسی جگہ ایک مضمون کو کسی لفظ سے ظاہر کیا ہے، دوسری جگہ کسی فلظ سے مگر سب کا نتیجہ یا مقصد متحد ہے ہم حاشیہ پر ان آٹھوں جگہ کی آیتوں کو اس طرح جمر کرتے ہیں جس میں تمام مضمون اور الفاظ ایک جگہ سلسلہ وار جمع ہو جاویں اور اس کے مقابل میں ان کا ترجمہ بھی اسی سلسلے میں لکھتے ہیں تاکہ کل قصہ انہی الفاظ میں جو قرآن میں آتے ہیں، ایک جگہ ہو جاوے اور پھر اپنی سمجھ کے موافق جو ہم نے قرآن کا مطلب سمجھا ہے، اسی قصہ کو بیان کرتے ہیں تاکہ پڑھنے والے بخوبی دونوں بیانوں کا مقابلہ کر سکیں واذ قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفہ قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء ونجن نسیح بحمدک و نقدس لک قال انی اعلم مالا تعلمون (سورۂ بقر) انی خال بشرا من طین (ص) من تراب (آل عمران) صلصال من حما مسنون (الحجر) وعلم آدم الاسماء ثم عرضہم علی الملئکۃ فقال انبئونی با سماء ھولاء ان کنتم صدقین قالو سبحنک لا علم لنا الا ما علمتنا انک العلیم الحکم قال یادم انبئھم باسمائھم فلما انباھم باسمائھم قال الم اقل لکم انی اعلم غیب السموات والارض واعلم ما تبدون وما کنتم تکتمون (بقر) ولقد خلقنا کم ثم صورنا کم ثم قلنا للملئکۃ اسجدوا لادم (سورہ اعراف) فاذا سویتہ وانفخت فیہ من روحی فقعوالہ سجدین (الحجر) فسجد الملئکۃ کلھم اجمعون (الحجر) لا ابلیس لم یکن من السجدین (الاعراف) کان من الجن ففسق عن امر ربہ (الکہف) ابی ان یکون من السجدین (الحجر) واستکبرو کن من الکافرین (بقر)قال یا ابلیس مالک الا تکون مع السجدین (الحجر) ما منعک ان تسجد لما خلقت بیدی استکبرت ام کنت من العالین (ص) ما منعک الا تسجد اذا امر تک(اعراف) قال اسجد لمن خلقت طینا (بنی اسرائیل) لم اکن لا سجد لبشر خلقتہ من صلصال من حما مسنون (الحجر) انا خیر مئہ حلقنی من نار و خلقتہ من طین (اعراف) قال فاھبط منھا فما یکون لک ان تتکر فیھا فاخرج منھا مذوما مدحورا (اعراف) فالک رجیم وان علیک اللعنۃ الی یوم الدین (ٓلحجر) انک من النغرین قال انظرنی الی یوم یبعثون قال انک من المنظرین (اعراف) الی یوم الوقت المعلوم قال رب بما اغویتنی لا زینن لھم فی الارض (الحجر) فبعزتک لا غوینھم اجمعین (ص) لا قعدن لھم صراطک المستقیم ثم لا تینھم من بین ایدیہم و من خلفہم و عن ایمانہم وعدن شمائلھم ولا تجد اکثرھم شاکرین (اعراف) قال اریتک ھذا الذی کرمت علی لئن اکرتن الی یوم القیامۃ لا حتکن ذریۃ الا قلیلا(بنی اسرائیل) الا عبادک منھم المخلصین قال ھذا صراط علی مستقیم (الحجر) قال فالحق والحق اقول (ص) لمن تبعک منھم لاملئن جھنم (اعراف) منک وممن تبعک منھم اجمعین (ص) اذھب فمن تبعک منھم فان جھنم جزاؤکم جزاء موفورا واستفزز من استطعت منھم بصوتک واجلب علیھم بخیلک ورجلک وشارکھم فی الاموال والا ولاد وعدھم وما یعدھم الشیطان الا غرورا (بنی اسرائیل) ان عبادی لیس لک علیھم سلطان الا من اتبعک من الفاوین (الحجر) وکفیٰ بربک وکیلا (بنی اسرائیل) و قلنا (بقر) یآدم اسکن انت و زوجک الجنۃ فکلا (اعراف) منھا رغداً (بقر) حیث شئتما ولا تقریبا ھذہ الشجرۃ فتکونا من الظالمین (اعراف) فقلنا یآدم ان ھذہ عدولک ولزوجک فلا بخرجنکما من الجنۃ فتشقیٰ ان لک لا تجوع فیھا ولا تعری وانک لا تظلماء فیھا لا تضحی (طہٰ) فوسوس لھما الشیطن لیبدی لھما ماووری عنھما من سواتھما (اعراف) قال یا آدم ھل ادلک علی شجرۃ الخلد وملک لا یبلی (طہٰ) وقال مانھا کما ربکما عن ھذہ الشجرۃ الا ان تکون ملکین او تکونا من الخلدین و قاسمھما انی لکھما لن الناصحین فدلھما بغرور فلما ذاقا الشجرۃ بدت لھما سوانھما وطفقا یخصفان علیھما من ورق الجنۃ (اعراف) وناداھما ربھما الم انھکما عن تلکما الشجرۃ واقل لکھما ان الشیطن لکھما عدومبین (اعراف) فازلھما الشیطن عنھا فاخرجھما مما کانا فیہ و قلنا اھبطوا بعضکم لبعض عدوولکم فی الارض مستقرو متاع الی حین (بقر) قال فیھا تحیون و فتھا تموتون و منھا تخرجون (اعراف) و عصی ادم ربہ، فغوی (طہ) فقلنی آدم من ربہ بکلمات فتاب علیہ انہ ھو التواب الرحیم (بقر) قال ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخسرین (اعراف) ثم اجتباء ربہ فتاب علمہ و ھدی (طہٰ) قلنا اھبطوا منھا جمیعاً فاما یا تینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیہم ولا ھم یحزنون (بقر) فلا یضل ولا یشقی (طہ) ’’ اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں ان میں ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں بولے کیا تو اس میں ایسے کو خلیفہ کرے گا جو اس میں فساد کرے اور خون بہاوے اور ہم تو تیری تعریف جپتے ہیں اور تجھ پاک کو یادکرتے ہیں کہا میں جانتا ہوں وہ جو کچھ تم نہیں جانتے میں پیدا کرنے والا ہوں ایک آدمی گارے، مٹی، ریتلے گارے بدبودار کیچڑ سے، اللہ نے آدم کو سب نام سکھا دیے، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ مجھ کو ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔ بولے تو ہی برگزیدہ ہے تو نے جو کچھ ہم کو سکھایا ہے اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے بے شک تو ہی جاننے والا حکمت والا ہے کہا اے آدم ان کے نام ان کو بتا دے پھر جب آدم نے ان کے نام ان کو بتا دیے، خدا نے کہا کہ میں تم کو نہ کہتا تھا کہ میں آسمانوں کی اور زمین کی چھپی ہوئی باتوں کو جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو اس کو بھی جانتا ہوں بے شک ہم نے تم کو پیدا کیا اور تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو جب میں اس کو ٹھیک کر چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کو سجدہ کرتے ہوئے جھک پڑو پھر سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر شیطان نے کیدوہ سجدہ کرنے والوں میں نہ تھا وہ جنوں میں سے تھا پس نافرمانی کی اس نے اپنے پروردگار کی، سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کاے اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے تھا خدا نے کہا اے ابلیس کیوں تو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا۔ کس چیز نے تجھ کو منع کیا کہ نہ سجدہ کرے اس کو جسے میں نے اپنے ہاتھ سے بنایا، تکبر کیا تو نے یا تو بروں میں ہے، کس بات نے تجھ کو روکا کہ میرے حکم کرنے پر بھی تو سجدہ نہ کرے۔ ابلیس نے کہا کہ کیا میں ایسے کو سجدہ کروں جسے تو نے گارے سے پیدا کیا ہے میں ایسا نہیں ہوں کہ اس آدمی کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی مٹی سے بنایا ہے میں اس سے بہتر ہوں، مجھ کو تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو تو نے ریتلے گارے اور بدبودار کیچڑ سے پیدا کیا ہے خدا نے کہا دور ہو یہاں سے تجھ کو نہیں چاہیے تھا کہ یہاں تکبر کرتا۔ یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل بیشک تو مردود ہے اور بے شک تو مردود ہے اور بے شک تجھ پر قیامت تک لعنت رہے گی بے شک تو ذلیلوں میں ہے ابلیس نے کہا کہ قیامت تک مواخذ نہ ہونے کی مجھے مہلت دے خدا نے کہا تجھ کو مہلت دی گئی وقت معین تک ابلیس نے کہا کہ اے پروردگار مجھ کو تیرے بہکانے ہی کی قسم کہ میں دنیا میں بری باتوں کو انہیں اچھی کر دکھاؤں گا اور قسم ہے تیری عزت کی ان سب کو بہکاؤں گا اور ان کے لیے تیرے سیدھے رستہ کی راہ ماری کرنے کو گھات میں بیٹھوں گا پھر ان کے آگے سے اور ان کے یچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان پر آن پڑوں گا اور تو ان میں سے بہتوں کو شکر کرنے والا نہ پاوے گا۔ ابلیس نے کہا کہ مجھ کو بتا کہ کیوں اس شخص کو مجھ پربزرگی دی ہے اگر تو نے مجھے قیامت تک کی مہلت دی تو اس شخص کی اولاد کو بجز چند کے جڑ پیڑ سے اکھاڑ دوں گا بجز تیرے خاص بندوں کے جو ان میں ہوں خدا نے کہا کہ خالص بندہ ہونا ہی میرے تک پہنچنے کا سیدھا رستہ ہے خدا نے کہا کہ سچ بات یہ ہے اور سچ کہتا ہوں جو لوگ ان میں سے تیری پیروی کریں گے بے شک بھر دوں گا جہنم کو تجھ سے اور ان سب سے جنہوں نے ان میں سے تیری پیروی کی جا پھر جو کوئی ان میں سے تیری پیروی کرے گا تو بے شک جہنم تمہاری سزا ہو گی، پوری سزا۔ بہکا ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے اور چڑھ جا ان پر اپنے سوار و پیدل لے کر اور حصہ بانٹ لے ان کے مال میں اور اولاد میں اور ان سے وعدہ کر لے اور کوئی وعدہ ان سے شیطان نہیں کرنے کا بجز دھوکے کے بے شک میرے بندوں پر تجھ کو غلبہ نہیں ہے بجز ان گمراھوں کے جنہوں نے تیری پیروی کی اے پیغمبر تیرا خدا ن کی کار سازی کے لئے کافی ہے۔ خدا نے کہا اے آدم تو اور تیرا جوڑا جنت میں رہ اور کھاؤ اس میں سے پیٹ بھر کر جہاں سے تم چاہو اور اس درخت کے پاس مت جاؤ اگر جاؤ گے تو ظالموں میں سے ہو گے۔ خدا نے کہا اے آدم یہ ابلیس یہ شک تیرا اور تیرے جوڑے کا دشمن ہے یہ تم کو جنت سے نہ نکال دے کہ تم بد بخت ہو جاؤ۔ یہاں تو تم نہ بھوکے ہو گے نہ ننگے نہ یہاں پیاسے ہو گے اور نہ دھوپ میں جلو گے۔ پھر وسوسے میں ڈال دیا ان کو شیطان نے تاکہ جو پوشیدہ برائیاں ان میں تھیں ان کو ظاہر کر دے شیطان نے کہا اے آدم! کیا بتلاؤں میں تجھ کو ‘‘ ہمیشہ رہنے اک درخت اور پرانی نہ ہونے والی سلطنت؟ اور کہا کہ خدا نے تم کو بجز اس کے اور کس لیے اس درخت سے منع نہیں کیا کہ تم فرشتے ہو جاؤ گے یا ہمیشہ رہو گے۔ اور ان سے قسم کھا کر کہا کہ بے شک تمہارا میں خیر خواہ ہوں پھران کو دھوکے میں ڈال دیا پھر جب انہوں نے اس درخت کو چکھا تو ان دونوں کی شرم گاہیں ظاہر ہو گئیں اور انہوں نے بہشت کے درخت کے پتوں سے ان کو چھپانا شروع کیا خدا نے ان دونوں کو للکارا کہ میں نے تم کو اس درخت کے کھانے سے منع نہیں کیا تھا اور تم سے نہیں کہہ دیا تھا کہ شیطان تمہارا علانیہ دشمن ہے پس ان کو شیطان نے اس سے ڈگمگایا اور جس میں تھے اس میں سے نکال دیا خدا نے کہا دور ہو تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لیے ایک مدت تک زمین پر رہنا اور اس سے منفعت اٹھانی ہے اس میں تم جیو گے، اس میں مرو گے، اس میں سے اٹھو گے۔ نافرمانی کی آدم نے اپنے پروردگار کی اور بہک گیا پھر آدم کے دل میں ڈالیں اس کے پروردگار نے چند باتیں پھر اس کو خدا نے معاف کیا وہ بے شک بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے آدم اور اس کی جورو نے کہا کہ اے پروردگار ہمارے ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہم کو نہ بخشے گا اور نہ مہربانی کرے گا تو بے شک ہم نقصان والوں میں ہوں گے۔ پھر اس کے پروردگار نے اس کو پسند کیا اور اس کو معاف کیا اور سیدھی راہ بتائی خدا نے کہا کہ تم سب یہاں سے دور ہو پھر میرے پاس سے تمہارے پاس ہدایت پہنچے گی پھر جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا تو اس پر کچھ خوف نہ وہ گا اور نہ وہ غمگین ہو گا اور نہ وہ بہکے گا اور نہ بدبخت ہو گا۔ اس قصہ میں چار فریق بیان ہوئے ہیں۔ ایک خدا، دوسرے فرشتے (یعنی قوائے) ملکوتی) تیسرے ابلیس یا شیطان(یعنی قوائے بہیمی) چوتھے آدم(یعنی انسان جو مجموعہ ان قوی کا ہے اور جس میں عورت و مرد دونوں شامل ہیں)مقصود قصہ کا انسانی فطرت کی زبان حال سے انسان کی فطرت کا بیان کرنا ہے خدا جو سب کا پیدا کرنے والا ہے گویا قوائے ملکوتی کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ میں ایک مخلوق یعنی انسان کثیف مادہ سے پیدا کرنے کو ہوں مگر وہی میرا نائب ہونے کے لائق ہے جب میں اس کو پیدا کر چکوں تو تم سب اس کو سجدہ کرنا اس مقام پر مخاطبین کو اس بات کا کہ اس مخلوق میں قوائے بہیمیہ ہوں گے عالم قرار دیا گیا ہے اور بمقتضائے فطرت ان قویٰ کے انہوں نے کہا کہ کیا تو ایسے کو خلیفہ کرے گا جو زمین پر فساد مچاوے اور خون بہاوے اور قوائے ملکوتی نے اپنی فطرت اس طرح بیان کی کہ ہم تو تیری ہی تعریف کرتے ہیں اور تجھ پاک کو یاد کرتے ہیں۔ پچھلا فقرہ قوائے کی فطرت کو بھی بتاتا ہے جو قویٰ جس کام کے لیے ہیں وہی کام کرتے رہتے ہیں، کہ وہی ان کی تسبیح اور تقدیس ہے قوت نامیہ، انما اور قوت ناطقہ، نطق، قوت احراق، حرق، قوت سیالہ، سیلان، قوت جامدہ، انجماد کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتی انسان باوجودیکہ قوائے متضاد، ملکوتیہ و بہیمیہ سے مرکب ہے مگر اس میں ایسی قدرت ہے کہ ایک قوت پر دوسری قوت کو غلبہ دے سکتا ہے اور جس قوت سے چاہے کام لے سکتا ہے غیر معلوم چیزوں کو جان جاتا ہے، عالم کے اجزاء میں ترکیب دے کر ایک نئی چیز ایجاد کر لیتا ہے اور عالم کے تبدل میں ایک بڑی مداخلت رکھتا ہے اور ٹھیک خدا کا نائب کہلانے کا مستحق ہے۔ انسان کی فطرت کا مخاطبین پر فطرتی تفوق ظاہر کرنے کو، تمام کمالات نفسانی و روحانی حقائق و معارف کو انسان کی فطرت میں ودیعت کر کے جس کو تعلیم اسماء سے تعبیر کیا ہے انسان کو مخاطبین کے سامنے کیا، کہ جو حقائق و معارف اس میں ہیں اس کو بتلاؤ قوائے سبیطہ کی فطرت میں اس کا علم نہ تھا پس گویا وہ بولے کہ ہم تو ان کمالات کو نہیں جانتے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے بتایا ہے یعنی جس محدود فطرت پر پیدا کیا ہے اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتے مگر انسان کی زبان حال نے جس کی فطرت میں ادراک، کلیات و جزئیات تھا مخاطبین کی حقیقت کو بتا دیا اور گویا مخاطبین نے زک پائی اب خدا اپنی قدرت و کمال کے اظہار کے لیے انسانی محاورہ کے موافق، جیسے کہ انسان کسی کو زک دے کر دھراتا ہے، فرماتا ہے کہ کیوں میں نہ کہتا تھا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے ان قوائے متضاد کی جن سے انسان مرکب ہے، اس طرح پر فطرت بتائی ہے کہ قوائے ملکوتی اطاعت پذیر و فرماں بردار ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں الا قوائے بہیمیہ نہایت سرکش اور نا فرماں بردار ہیں انہی کو قابو میں لانا اور فرماں بردار کرنا انسان کا انسان ہونا ہے۔ اس کے سرکش ہونے کو کبھی تو ان لفظوں سے بیان کیا ہے کہ ابلیس نے سجدہ نہیں کیا کہیں یوں فرمایا ہے کہ اس نے اپنے خدا کے حکم کی نافرمانی کی اور سجدہ کرنے سے انکار کیا کہیں فرمایا ہے کہ اس کافر نے غرور کیا اور کہا کہ کیا میں ایسی مخلوق کو سجدہ کروں جو سڑی مٹی سے بنی ہے میں تو اس سے افضل ہوں وہ تو مٹی کا پتلا ہے اور میں آگ کا پوت ہوں قوائے بہیمیہ کو جن کا مبداہ حرارت غریزی و حرارت خارجی ہے، آگ سے مخلوق ہونا بیان کرنا ٹھیک ٹھیک ان کی فطرت کا بتلانا ہے پھر جو فطرتی تضاد ان دونوں قسم کے قویٰ میں ہے اس کے اظہار کے لئے قوائے بہیمیہ کو بطور ایک سخت دشمن کے قرار دیا ہے اور اس کی زبان حال سے اس کی فطرت بیان کی ہے کہ میں ہمیشہ جب تک انسان زندہ ہے یا قیامت تک یعنی جب تک اس کی اولاد رہے گی اس کو بہکاتا اور راہ راست پر سے بھٹکاتا رہوں گا یہ الفاظ کہ میں انسان کو دائیں بائیں آگے پیچھے غرض کہ ہر چہار طرف سے گھیروں گا صاف صاف ان قوائے بہیمہ کی فطرت کرنے پر خود اپنے میں یہ سب باتیں پاتا ہے اور جان سکتا ہے کہ کس طرح ان قوائے بہیمیہ نے چاروں طرف سے ان کو گھیر رکھا ہے۔ درمیان قمر دریا تختہ بندم کردہ بازمیگوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش پھر خدا تعالیٰ نے نیک آدمیوں کی فطرت کو اور اس دشمن کے فریب میں آنے والوں اور نہ آنے والوں کے فطری نتیجہ کو بتایا ہے اور فرماتا ہے کہ تو جتنی چاہے دشمنی کر اور جس طرح چاہے اپنے لشکر سے ان پر چڑھائی کر مگر نیک آدمیوں پر تیرا کچھ قابو نہ ہو گا وہی بہکیں گے جو تیرے یعنی قوائے بہیمیہ کے تابع ہونے والے ہیں اور دونوں کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ پہلے بہشت میں چین کریں گے اور پچھلے دوزخ میں بھرے جاویں گے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے انسان کی زندگی کے دونوں حصوں کو بتایا ہے پہلے حصہ کو یعنی جب کہ انسان غیر مکلف اور تمام قیود سے مبرا ہوتا ہے بہشت میں رہنے اور چین کرنے اور میوؤں کے کھاتے رہنے سے تعبیر کیا ہے اور جب دوسرا حصہ اس کی زندگی کا شروع ہونے والا ہے تو اس کے قدیم دشمن کو پھر بلایا ہے جس نے اس کو بہکا کر درخت ممنوعہ کو کھلایا ہے۔ یہ وہ حصہ انسان کی زندگی کا ہے جب کہ اس کو رشد ہوتا ہے اور عقل و تمیز کے درخت کا پھل کھا کر مکلف اور اپنے تمام افعال و اقوال و حرکات کا ذمہ دار ہوتا ہے زندگی کے ضروری سامان کے لیے خود محنت کرتا ہے اور نیک و بد کو خوب سمجھتا ہے اپنی بدی سے واقف ہوتا ہے اور اس کو چھپاتا ہے یہ فطرت انسانی خدا تعالیٰ نے باغ کے استعارہ میں بیان کی ہے اس لیے تمام فطرت کو باغ ہی کے استعارہ میں بیان فرمایا ہے سن رشد و تمیز کے پہنچنے کو درخت معرفت خیر و شر کے پھیل کھانے سے اور انسان کا اپنی بدیوں کے چھپانے کو درخت کے پتوں سے ڈھانکنے سے تعبیر کیا ہے۔ مگر شجرۃ الخلد کے پھل تک اس کو نہیں پہنچایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک فانی وجود ہے اور اس کو دائمی بقا نہیں۔ اخیر کو نہایت عمدگی سے اس کا خاتمہ بیان کیا ہے کہ تم سب نکل جاؤ اور جا کر زمین پر رہو وہی تمہارے ٹھہرنے کی جگہ ہے اس میں تم مرو گے، اس میں سے اٹھو گے تمہاری بدیوں کا علاج بھی وہیں ہے جو نیک بندے ہوں ان کی ہدایات پر چلنا اور اپنی بدیوں سے شرمندہ ہو کر ان کے کرنے سے باز آنا اور خدا سے پکا اقرار کرنا کہ پھر نہ کریں گے اور پھر مت کرنا، تم اپنے دشمن پر فتح پاؤ گے پھر تم کو کچھ ڈر اور خوف نہ ہو گا اچھے خاصے مقبول بندے ہو گے۔ یہ ایک نہایت عمدہ اور دلچسپ بیان فطرت انسانی کا ہے مگر عام لوگ اس راز فطرت کے سمجھنے کے قابل نہ تھے اس لیے خدا نے ابتداء سے اس راز کو ایک دل چسپ قصہ کے پیرایہ میں بیان کیا ہے جس کو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے اور جو نتیجہ راز فطرت سے انسان کو حاصل ہونا چاہیے وہ ہر شخص کو حاصل ہوتا ہے خواہ تم یہ سمجھو کہ خدا و فرشتوں میں مباحثہ ہوا اور شیطان نے خدا سے نافرمانی کی اور آدم بھی گیہوں کا درخت کھا کر خدا کا نا فرمانبردار ہوا خواہ میں یوں سمجھوں کہ اس بڑے تماشا کرنے والے نے جو بھانمتی کا ایک تماشا بنایا ہے اس کے راز کو اسی بھانت کی اصطلاحوں میں بتایا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭ ذکر نوح ؑ کے طوفان کا قبل اس کے کہ طوفان کی نسبت کا ذکر کیا جاوے یہ امر بتانا ضرور ہے کہ حضرت نوح اور ان کی قوم کہاں رہتی تھی۔ اس بات کے دریافت کرنے کے لیے بجز توریت کے اور قدیم جغرافیہ کی تحقیقات کے اور کوئی ذریعہ ہمارے پا س نہیں ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم یا یوں کہو کہ حضرت نوح کے اجداد اس قطعہ زمین میں رہتے تھے جہاں چار دریا پبشوں، جیحوں اور مدقل اور فرات بہتے تھے۔ ان دریاؤں کے ناموں اور مخرجوں پر اس مقام پر بحث کی چنداں ضرورت نہیں ہے صرف یہ بیان کرنا کافی ہے کہ جو ٹکڑا زمین کا بلیک سی، یعنی بحر اسود اور بحر کاسپین اور پرشین گلف (خلیج فارس) اور میڈی ٹیرینین سی یعنی بحیرہ روم میں واقع ہے اور آرمینیا کہلاتا ہے یہی قطعہ زمین کا حضرت نوح کے اجداد کا مسکن تھا۔ کوئی ثبوت اس بات کا نہیں ہے کہ نوح نے یا اجداد نوح نے اس ملک کو چھوڑ کر دوسری جگہ سکونت اختیار کی ہو اور اس لیے اس بات کے باور کرنے کو کوئی امر مانع نہیں ہے کہ حضرت نوح ک ابھی یہ ملک مسکن تھا۔ اس قطع زمین میں وہ ملک بھی واقع ہے جو ارارات کے نام سے مشہور تھا اور اسی ملک کے پہاڑ ارارات کے پہاڑمشہور ہیں جن کو کالڈی زبان میں فرود اور عربی میں جودی کہتے ہیں۔ یہ ملک دریاؤں سے اور دریاؤں کی بہت سی شاخوں سے اور چھوٹی منڈیوں سے ایسا پر تھا کہ انسان کو اس بات کا خیال آنا قرین قیاس ہے کہ ان کے عبور کرنے اور ان کی طغیانی کی حالت میں بچاؤ کی کوئی تدبیر ہونی چاہیے۔ خدا تعالیٰ نے حضرت نوح کے دل میں وحی ڈالی کہ وہ ان مصیبتوں سے محفوظ رہنے کے لیے کشتی بنائیںکچھ شبہ نہیں ہے کہ یہ کشتی سب سے پہلی کشتی ہو گی جو دنیا میں بنی۔ اس وقت ایسی چیز جس سے پانی پر چلیں کچھ عجیب نہیں معلوم ہوتی، لیکن اول اول جب اس کے بنانے کا خیال حضرت نوح کو ہوا ہو گا اور اس کے ذریعہ سے پانی پر چلنے اور دریاؤں کے آر پار جانے اور چلے آنے کا ارادہ معلوم ہوا ہو گا تو لوگوں نے اس کو اس قدر عجیب اور نا ممکن سمجھا ہو گا کہ ان سے مسخرا پن کرتے ہوں گے ان کو دیوانہ سمجھتے ہوں گے جیسے کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ حضرت نوح لوگوں کو بت پرستی چھوڑنے اور خدائے واحد کی پرستش کرنے کی ہدایت کرتے تھے اور لوگ نہیں مانتے تھے حضرت نوح ان پر خدا کا عذاب نازل ہونے کی پشین گوئی کرتے تھے تمام قوموں پر جو عذاب نازل ہوئے ہیں وہ عذاب انہی اسباب سے واقع ہوئے ہیں جن کا واقع ہونا امور طبعی سے متعلق ہے پس ملکی حالات کے خیال سے ضرور حضرت نوح کے دل میں خدا نے ڈالا ہو گا کہ ان لوگوں کی نافرمانی، بدکاری و گنہ گاری سے ایک دن خدا ان کو ڈبو دے گا۔ لوگوں نے حضرت نوح سے کہا کہ اے نوح تم ہم سے بہت کچھ جھگڑ چکے ہو، پھر اگر تم سچے ہو تو اب اس کو لاؤ جس کا تم ہم سے وعدہ کرتے ہو یعنی عذاب کا۔ حضرت نوح نے کہا کہ اگر خدا چاہے گا تو عذاب لاوے گا، تم اس کو مجبور کرنے والے نہیں ہو۔ کشتی کا بنانا اور خصوصاً پہلے پہل اور بالتخصیص اتنی بڑی کا، جتنی کہ نوح کی کشتی تھی اور ایسی مضبوط کہ جو طوفان کی موجوں کو سہار سکے، کچھ آسان کام نہ تھا اور خدا ہی کی القائے وحی سے وہ بن سکتی تھی مگر لوگوں کی امداد اور سعی کی بھی ضرورت تھی جو لوگ حضرت نوح پر ایمان نہیں لائے تھے بلکہ ان کے اس کام پر تمسخر کرتے تھے، یقینا وہ لوگ اس میں شریک نہ تھے انہی کی نسبت خدا نے فرمایا کہ تو ہماری ہدایت سے کشتی بنائے جا ظالموں کا ہم سے ذکر مت کرو، وہ سب ڈوبنے والے ہیں۔ غرض کہ حضرت نوح نے ان لوگوں کی امداد سے جو ان کو مانتے تھے اور ان پر ایمان لائے تھے وہ کشتی تیار کر لی طوفان کا آنا بذریعہ ان اسباب کے جو طوفان آنے سے متعلق ہیں، خدا نے مقدر کاے تھا چنانچہ بے انتہا مینہ کے برسنے اور زمین سے پانی کے چشمے کھل جانے اور دریاؤں و ندیوں کے ابل پڑنے سے اس ملک میں طوفان آیا حضرت نوح اور ان کے ساتھی کشتی پر بیٹھ کر بچ گئے، اور تمام ملک کے لوگ جس میں طوفان آیا تھا ڈوب کر مر گئے اس قسم کے طبعی واقعوں کو خدا تعالیٰ ہمیشہ بندوں کے گناہوں اور ان کی نافرمانی سے منسوب کرتا ہے جس کی نسبت ہم پہلے بحث کر چکے ہیں حضرت نوح کے زمانہ کا بہت بڑا طوفان ہو گا مگر اس زمانہ میں بھی جن ملکوں میں طوفان آتا ہے وہاں بھی اسی طرح ڈوب کر مر جاتے ہیں البتہ نوح کے طوفان میں چند امور ایسے ہیں جن پر بالتخصیص بحث کرنی ضرور ہے۔ اول یہ کہ طوفان خاص اس ملک میں آیا تھا جہاں حضرت نوح کی قوم رہتی تھی یا تمام دنیا میں طوفان آیا تھا اور کل کرہ زمین کا پانی کے اندر ڈوب گیا تھا اور تمام دناے میں کوئی انسان و چرند و پرند بجز ان کے جو کشتی میں تھے زندہ باقی نہیں رہے تھے۔ یہودی اور عیسائی اس بات کے قائل ہیں کہ طوفان تمام دنیا میں عام تھا ہمارے علمائے مفسرین کی عادت ہے کہ بغیر اس بات کے کہ قرآن مجید کے الفاظ پر غور کریں ایسے امور میں یہودیوں کی روایتوں کی تقلید کرتے ہیں اور اس لیے وہ بھی اس بات کے قایل ہوئے ہیں کہ طوفان تمام دنیا میں عام تھا مگر طوفان کا عام ہونا محض غلط ہے اور قرآن مجید سے اس کا تمام دنیا میں عام ہونا ہر گز ثابت نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پہاڑوں پر دریائی جانوروں کی ہڈیاں ملنے سے اور سرد ملکوں میں گرم ملکوں کے جانوروں کی ہڈیاں زمین میں دبی ہوئی نکلنے سے طوفان کے عام ہونے کا اور تمام دنیا کے پہاڑوں کا طوفان نوح میں ڈوب جانے کا یقین ہوتا تھا مگر علم جیالوجی (طبقات الارض) کی ترقی سے ثابت ہو گیا کہ وہ خیال غلط تھا اس کو مفصل طور پر میں نے اپنی کتاب ’’ تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ علی مللہ الاسلام‘‘ میں بیان کیا ہے اس مقام پر اس کی بحث کچھ ضروری نہیں ہے اس وقت ہم صرف یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ قرآن مجید سے طوفان کا تمام دنیا میں عام ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ گو ہم بالتخصیص یہ نہ بتا سکیں کہ آدم یا انسان کے پیدا ہونے کی کس قدر مدت کے بعد طوفان آیا تھا مگر توریت کے مطابق جو قلیل زمانہ تسلیم کیا گیا ہے ہم اسی کو تسلیم کر کے کہتے ہیں کہ بموجب حساب توریت عبری کے طوفان آیا (1252) برس بعد پیدا ہونے حضرت آدم کے اور بموجب پنٹوریجنٹ توریت کے جس پر ایشیا کے تمام مورخ اور یورپ کے اکثر قدیم مورخ اعتماد رکھتے یں، طوفان آیا2226برس بعد پیدا ہوئے حضرت آدم کے اور بلا شبہ اس عرص میں انسان کی نسل پھیل گئی ہو گی اور کل پرانی دنیا یا اس کا بہت بڑا حصہ آباد ہو گیا ہو گا۔ یہ بات نا ممکن ہے اور قرآن مجید کے بھی بر خلاف ہے کہ حضرت نوح تمام دنیا کے لوگوں کو وعظ سنانے اور ہدایت کرنے کو بھیجے گئے ہوں اور امکان سے باہر ہے کہ تمام دنیا میں جو اس وقت تک آباد ہو چکی تھی، حضرت نوح نے وعظ کیا ہو اور تمام دنیا کے لوگوں نے ان کا وعظ سن کر ان کے ماننے سے انکار کیا ہو، بلکہ بہت سے وسیع ملک ایسے ہوں گے جہاں کے باشندوں نے حضرت نوح کے نبی ہونے کی اور ان کے وعظ کرنے کی اور خدا کے راہ کی ہدایت کرنے کی خبر بھی نہ سنی ہو گی۔ قرآن مجید سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کیوں کہ لوگوں کے پاس بھیجا ہے، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس کی قوم کے پاس بھیجا ہے، جس سے ثابت ہوتاہے کہ اس وقت دنیا میں اور قومیں بھی موجود تھیں پس جس قوم کے پاس نوح بھیجے گئے تھے اسی قوم پر طوفان کا عذاب بھی آیا تھا اور یہی امر قرآن مجید کی ان آیتوں سے ثابت ہوتا ہے جن کو ہم ابھی بیان کرتے ہیں قرآن مجید میں خدا نے فرمایا ہے ولقد ارسلانا نوحا الی قومہ فقال یا قوم اعبدواللہ مالکم من الہ غیرہ افلا تتقون (سورہ مومنین آیت23) یعنی ہم نے نوح کو بھیجا اس کی قوم کی طرف، نوح نے کہا اے میری قوم بندگی کرو اللہ کی، نہیں ہے تمہارے لیے کوئی معبود سوائے خدا کے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح یاک خاص قوم کے پاس بھیجے گئے تھے پس وہ عذاب بھی اسی قوم کے لیے آیا تھا جس کے لیے حضرت نوح بھیجے گئے تھے پس وہ عذاب بھی اسی قوم کے لیے آیا تھا جس کے لیے حضرت نوح بھیجے گئے تھے۔ پھر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ونوحا اذ نادیٰ من قبل فاستجبنار فنجینہ واھلہ من الکرب العظیم ونصر ناہ من القوم الذین کذبوا بایتنا انھم کانوا قوم سوء فاغرقنا ھم اجمعین (سورہ انبیائ، آیت76-77) یعنی ہم نے مدد کی نوح کی اس قوم پر جس نے جھٹلایا ہماری نشانیوں کو بیشک وہ قوم تھی بری پس ڈبو دیا ہم نے ان سب کو اکٹھا اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وہی قوم ڈبوئی گئی تھی جس نے حضرت نوح کا انکار کیا تھا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح سے فرمایا والا تخاطبنی فی الذین ظلمو انھم مغرقون (سورہ ھود، آیت39، سورہ مومنین آیت27) یعنی تو مت کہہ مجھ سے ان لوگوں کیلئے جنہوں نے نافرمانی کی کیوں کہ وہ ڈوبنے والے ہیں پس اس آیت سے بھی صرف انہیں لوگوں کا ڈوبنا معلوم ہوتا ہے جنہوں نے حضرت نوح کی ہدایت کو نہیں مانا پھر خدا نے فرمایا کہ انا ارسلنا نوحا الی قومہ ان الذر قومک من قبل ان یاتیہم عذاب الیم (سورہ نوح آیت1) یعنی ہم نے بھیجا نوح کو اس کی قوم کی طرف کہ ڈرا اپنی قوم کو پہلے اس سے کہ آوے ان پر عذاب دکھ دیتا اور جب حضرت نوح کی نصیحت انہوں نے نہ مانی، تو حضرت نوح نے دعا مانگی کہ ان پر طوفان کا عذاب آوے اس سے بھی اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ صرف قوم نوح پر عذاب آیا تھا نہ کہ تمام دنیا پر۔ جو لوگ قرآن مجید سے طوفان کا تمام دنیا میں آنا بیان کرتے ہیں وہ صرف دو آیتوں پر استدلال کرتے ہیں اول وہ آیت ہے کہ جب حضرت نوح نے خدا تعالیٰ سے دعا مانگی کہ وقال نوح رب لاتذر علی الارض من الکافرین دیارا (سورہ نوح آیت27) یعنی اے پروردگار مت چھوڑ زمین پر کافروں کا ایک گھر بھی بسا ہوا حالاں کہ اس آیت سے کسی طرح عام ہونا طوفان کا ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ اس آیت میں جو ارض کا لفظ ہے اس پر بھی الف لام ہے اور کافروں کا جو لفظ ہے اس پر بھی الف لام ہے پس اس سے صاف ثابت ہے کہ زمین سے وہی زمین مراد ہے جہاں نوح کی قوم رہتی تھی اور کافروں سے وہی کافر مراد ہیں جنہوں نے حضرت نوح کا انکار کیا چناں چہ اسی امر کی تائید ان تمام آیتوں سے پائی جاتی ہے جو اوپر مذکور ہوئیں۔ دوسری آیت وہ ہے جہاں خدا نے فرمایا وجعلنا ذریۃ ہم الباقین (سورۂ صافات، آیت75) وجعلنا ھم خلائف (سورۂ یونس، آیت74) یعنی اور کیا ہم نے نوح ہی کی ذریت کو بچی ہوئی اور ایک جگہ فرمایا ہے کہ کیا ہم نے ان کو جانشین مگر میں نہیں سمجھتا کہ ان آیتوں سے کس طرح تمام دنیا میں طوفان آنے کا استدلال کیا جاتا ہے کیوں کہ اس آیت کا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ جن لوگوں پر طوفان آیا تھا ان میں سے بجز نوح کی ذریت کے اور کوئی نہیں بچا پھر اس سے تمام دنیا پر طوفان کا آنا کیوں کر ثابت ہو سکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں کے علماء نے صرف یہودیوں کی پیروی کر کے طوفان کا عام ہونا قرآن مجید سے نکالنا چاہا تھا ورنہ ہمارے قرآن مجید سے عام ہونا طوفان کا نہیں پایا جاتا فتدبر قرآن مجید میں یہ بیان نہیں ہے کہ طوفان کا پانی اس قدر اونچا ہو گیا تھا کہ اونچے پہاڑ بھی چھپ گئے تھے بلکہ سورۂ قمر میں صرف یہ آیا ہے کہ ففتحنا ابواب السماء بما منھمر و فجرنا الارض عیونا فالتقی الماء علی امر قد قدر (سورۃ قمر آیت11,12) فاذا جاء امرنا و فا التنور (سورۂ مومنین آیت27) یعنی ہم نے موسلا دھار مینہ پڑنے سے آسمان کے دروازے کھول دیے اور ہم نے زمین کے چشموں کو پھاڑ دیا پھر ایک پانی دوسرے پانی سے مل گیا مقرر کیے ہوئے کام پر سورۂ مومنین میں فجرنا الارض کی جگہ ’’ فار التنور‘‘ کا لفظ آیا ہے اس کے معنی روٹی پکانے کے تنور کے لینے صریح غلطی ہے کیوں کہ خود قرآن مجید میں دوسری آیت سے اس کی تفسیر ہوتی ہے یعنی جو معنی فجرنا الارض کے ہیں وہی معنی فار التنور کے ہیں قاموس میں لکھا ہے کہ التنور کل مفجر ماء یعنی جہاں سے زمین میں پانی پھوٹ نکلے اور چشمہ جاری ہو جاوے اس کو تنور کہتے ہیں اور یہ معنی بالکل قرآن مجید کی پہلی آیت کے مطابق ہیں جس سے دوسری آیت کی تفسیر ہوتی ہے پس قرآن مجید سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ مینہ نہایت زور سے برسا، زمین میں سے چشمے جاری ہو گئے اور ایک پانی دوسرے سے مل گیا اور تمام ملک سطح آب ہو گیا اور اس قدر پانی چڑھا کہ کشتی تیرنے لگی اور جو لوگ کشتی میں نہ تھے وہ ڈوب گئے۔ اس پر یہ شبہ وارد ہو سکتا ہے کہ اگر پانی اس قدر نہیں چڑھا تھا کہ پہاڑ بھی ڈوب گئے تھے تو لوگوں اور جانوروں نے پہاڑوں پر کیوں نہ پناہ لی جیسے کہ حضرت نوح کے بیٹے نے کہا تھا کہ میں پہاڑ پر پناہ لے لونگا مگر غور کرنا چاہیے کہ ایسے شدید طوفان میں جس میں اس قدر زور سے مینہ برستا ہو دریا ابل گئے ہوں، زمین سے پانی پھوٹ نکلا ہو، کسی جاندار کو کسی مامن تک پہنچنے کی فرصت نہیں مل سکتی اور یہ بات ہم ادنیٰ سے ادنیٰ طغیانی پانی میں دیکھتے ہیں کہ ہزاروں آدمی ڈوب کر مر جاتے ہیں اور کسی طرح جان بچا نہیں سکتے پھر ایسے بڑے طوفان میں جیسا کہ حضرت نوح کا تھا، اور بہت دنوں تک برابر پانی برستا رہا لوگوں کا اور جانوروں کا اس سے بچنا اور جان بچانا نا ممکن تھا۔ علاوہ اس کے میری رائے میں توریت مقدس سے بھی طوفان کا عام ہونا اور پانی کا اس قدر چڑھ جانا، جس نے اونچے اونچے دنیا کے پہاڑوں ک وبھی چھپا لیا ہو، ہرگز ثابت نہیں ہوتا چنانچہ میں نے اپنی کتاب تبین الکلام میں اس پر پوری بحث کی ہے مگر چوں کہ اس تفسیر میں توریت کی آیتوں پر بحث کرنا مقصود نہیں ہے اس لیے ان پر بحث نہیں کی جاتی ہے البتہ ان واقعات ان کی نسبت جو قرآن مجید میں مذکور ہیں اور توریت میں ان کا ذکر نہیں ہے کچھ لکھنا مناسب ہے سورہ ھود میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: ونادی نوح ابنہ وکان فی معزل یبنی ارکب معنا ولا تکن مع الکافرین قال ساوی الی جبل یعصمنی منا لماء قال لا عاصم الیوم من امر اللہ الا من رحم و حال بینھا الموج فکان من المغرقین (سورہ ھود، آیت44-45) یعنی : اور پکارا نوح نے اپنے بیٹے کو، اور وہ ہو رہا تھا کنارے: اے بیٹے! سوار ہو ساتھ ہمارے اور مت ہو ساتھ کافروں کے، کہا اس نے میں چڑھ جاؤں گا پہاڑ پر بچاوے گا مجھ کو پانی سے نوح نے کہا کہ کوئی بچانے والا نہیں ہے آج کے دن اللہ کے حکم سے، مگر وہ جس پر وہ رحم کرے اور آ گئی ان دونوں میں موج پھر ہو گیا ڈوبنے والوں میں۔ اور اسی سورہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ونادی نوح ربہ فقال رب ان ابنی من اھلی وان وعدک الحق وانت احکم الحاکمین قال بنوح انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالح فلا تسئلن ما لیس لک بہ علم انی اعطک ان تکون من الجاھلین قال رب انی اعوذبک ان اسئلک ما لیس لی بہعلم والا تغفرلی و ترحمنی اکن من الخسرین (سورہ ھود آیت46-48) یعنی: اور پکارا نوح نے اپنے رب کو پھر کہا اے رب میرا بیٹا ہے گھر والوں میں سے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو حاکموں کا حاکم ہے فرمایا اے نوح! وہ نہیں تیرے گھر والوں میں سے اس کے کام ہیں ناکارہ تو مت پوچھ مجھ سے، تجھ کو معلوم نہیں میں بچاتا ہوں تجھ کو جاہلوں میں ہونے سے کہا اے رب میرے! میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے یہ کہ چاہوں میں تجھ سے جو معلوم نہیں مجھ کو اور اگر تو نہ بخشیگا مجھ کو اور نہ رحم کرے گا تو ہونگا میں ٹوٹے والوں میں سے۔ ان آیتوں سے بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ سوائے ان تین بیٹوں کے جن کا ذکر توریت مقدس میں ہے حضرت نوح کے ایک اور بیٹا تھا جو کافروں کے ساتھ ڈوب گیا مگر یہ خیال غلط ہے کہ حضرت نوح کا کوئی اور بیٹا سوائے ان تین بیٹوں کے نہ تھا اور یہ بیٹا جس کا یہاں ذکر ہے حضرت نوح کا بیٹا نہ تھا بلکہ حضرت نوح کی بیوی کا بیٹا پہلے خاوند سے تھا اور قائن کی نسل سے تھا اور غالباً یہ بیٹا نعمہ کا تھا جس کا نام کتاب پیدائش باب 4 ورس22میںآیا ہے۔ یہ جو میں نے بیان کیا یہ میری رائے نہیں ہے بلکہ ہمارے یہاں کے مفسر بھی یہی لکھتے ہیں تفسیر کبیر میں ہے انہ کان ابن امرتہ وھو قول محمد الباقر علیہ السلام وقول الحسن البصری ویروی ان علیا رضی اللہ عنہ قراء نادی نوح ابنہ ابنہا والضمیر لا مرتہ وقرآ محمد بن علی الباقر وعروۃ ابن زبیر ابنہ بفتح الھا یرید انہ ابنہا الا انھما اکتفیا بالفتح من الالف وقال قتادہ سالت الحسن من ابنہ فقال واللہ ما کان ابنالہ فقال قلت لہ ان اللہ حکی عنہ انہ قال ان ابنی من اھلی وانت تقول ما کان ابنالہ فقال انہ لم یقل انہ ابنی ولکنہ قال من اھلی وھذا یدل علی قولی (تفسیر کبیر ) یعنی وہ جس کو حضرت نوح نے بیٹا کہا حضرت نوح کا بیٹا نہ تھا بلکہ حضرت نوح کی بیوی کا بیٹا تھا اور یہ قول ہے جناب محمد باقر علیہ السلام کا اور حسن بصری کا اور یہ روایت ہے حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت محمد بن علی الباقر اور عروہ ابن زبیر نے اس آیت میں جو مذکر کی ضمیر ہے اور حضرت نوح کی طرف پھرتی ہے مونت کی ضمیر پڑھتی تھی تاکہ حضرت نوح کی بیوی کی طرف پھرے اور قتادہ نے کہا کہ میں نے حسن بصری سے حضرت نوح کے بیٹے کا حال پوچھا انہوں نے کہا قسم بخدا کہ حضرت نوح کا کوئی بیٹا جو طوفان میں ڈوبا نہ تھا۔ قتادہ نے کہا کہ خدا نے تو قول نوح کا یوں بیان کیا ہے کہ نوح نے اپنے بیٹے کو جو ڈوب گیا کہا کہ میرا بیٹا میرے خاندان میں سے ہے اور تم کہتے ہو کہ اس کے کوئی بیٹا، جو طوفان میں ڈوبا، نہ تھا۔ حسن بصری نے کہا کہ حضرت نوح نے یہ نہیں کہا کہ میرا سگا بیٹا بلکہ یہ کہا کہ میرے خاندان کا بیٹا اور یہ ان کا کہنا اس بات پر دلالت کرتا ہے جو میں کہتا ہوں۔ پس ان روایتوں میں سے ثابت ہوا کہ یہ شخص حضرت نوح کا بیٹا نہ تھا اور اسی سبب سے توریت مقدس میں حضرت نوح کے بیٹوں کے ساتھ اس کا ذکر نہیں ہے۔ جس آیت سے حضرت نوح کی بیوی کا طوفان میں ڈوبنا خیال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے۔ ضرب اللہ مثلاً الذین کفروا امرۃ نوح وامرۃ لوط کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحسین فخانتا ھما فلم یغنیا عنہما من اللہ شیئا وقیل اد خلا النار مع الداخلین (سورہ تحریم آیت10) یعنی اللہ نے بتائی ایک کہاوت منکروں کے واسطے عورت نوح کی اور عورت لوط کی، گھر میں تھیں دونوں دو نیک بندوں کے ہمارے بندوں میں سے، پھر نافرمانی کی انہوں نے ان کی پھر نہ دفع کیا انہوں نے ان سے تھوڑا سا بھی عذاب اللہ کا اور حکم ہوا کہ جاؤ دوزخ میں ساتھ جانے والوں کے اس آیت سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی بھی کافروں میں تھی اور وہ بھی غرق ہوئی اور توریت مقدس میں پایا جاتا ہے کہ حضرت نوح کی بیوی کشتی میں حضرت نوح کے ساتھ تھی اور انہوں نے ڈوبنے سے نجات پائی۔ مگر سمجھنا چاہیے کہ باوجودیکہ اس آیت میں حضرت نوح کی بیوی کا ڈوبنا صاف صاف بیان نہیں ہوا لیکن اگر اس پر بھی ان کا ڈوبنا ہی سمجھیں تو اس کے ساتھ ہی ہم کو یہ بات بھی کہنی چاہیے کہ ہمارے ہاں کتابوں سے پایا جاتا ہے کہ حضرت نوح کی دو بیویاں تھیں ان میں سے ایک بیوی ڈوبی اور ایک حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں گئی چناں چہ تفسیر کبیر میں ابن عباس سے روایت لکھی ہے کہ کشتی میں نوح اور ان کی بیوی تھی سوائے اس بیوی کے جو ڈوب گئی۔ بعض علمائے یہود کہتے ہیں کہ حضرت نوح کی ایک بیوی نعمہ نسل قاین سے تھی اور ایک بیوی اولاد حضرت ادریس سے، پس کچھ عجب نہیں کہ نعمہ کافر ہو اور وہ ڈوب گئی ہو اور اسی سبب سے توریت مقدس میں اس کا ذکر نہ کیا ہو، مگر جب یہ ثابت ہے کہ حضرت نوح کی ایک بیوی بلا شبہ کشتی میں تھی تو اگر اس آیت سے ایک بیوی کا غرق ہونا ہی مراد لیا جاوے تو بھی کچھ اختلاف نہیں رہتا۔ سورہ مومنین میں خدا نے یہ فرمایا ہے فاذا جاء امرنا وفار التنور فاسلک فیھا من کل زوجین اثنین (سورہ مومنین آیت27-28) یعنی کہ جب ہمارا حکم آوے اور زمین کے چشمے پھوٹ نکلیں تو بٹھا لے اس میں یعنی کشتی میں ہر جوڑے سے دو توریت میں اس مضمون کو بہت زیادہ وسیع کر دیا ہے جس سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام دنیا کے جانوروں کے جوڑے کشتی میں بٹھائے گئے تھے اور پھر اس کے غیر ممکن ہونے پر بہت سی دلیلیں لائی گئیں ہیں مگر قرآن مجید ان تمام مشکلات سے مبرا ہے کیوں کہ قرآن مجید سے صرف یہ بات کہ جو جانور حضرت نوح کی دست رس میں موجود تھے ان کے جوڑے کشتی میں بٹھائے گئے تھے کچھ تو اس خیال سے کہ کھانے کے کام آویں گے اور کچھ اس خیال سے کہ طوفان کے بعد ان سے نسل چلے گی کیوں کہ ملک کی بربادی کے بعد سر دست ان جانوروں کا بہم پہنچنا اور دوسرے ملکوں سے لانا علی الخصوص اس زمانہ میں کہ اس کام کیلیے وسائل ناپید تھے نہایت دقت طلب امر تھا۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ اما قولہ فاسلک فیھا ای دخل فیھا یقال سلک فیہ ای دخل فیہ وسلک غیرہ واسلکہ من کل زوجین اثنین ای کل زوجین من الحیوان الذی یحضرہ فی الوقت اثنین الذکر والانثی لکی یا ینقطع نسل ذالک الحیوان (تفسیر کبیر) یعنی خدا کے اس قول نے کہ فاسلک فیہا یہ معنی ہیں کہ داخل کر یعنی بٹھا لے ارض میں یعنی کشتی میں عرب کے محاورہ میں کہا جاتا ہے سلک فیہ یعنی داخل ہوا اس میں اور اسلکہ من کل زوجین اثنین یہ مطلب ہے کہ جو جانور اس وقت پر موجود ہوں ان کے جوڑے نر و مادہ کشتی میں بٹھا لے تاکہ ان جانوروں کی نسل منقطع نہ ہو جاوے۔ باقی قصہ جو قرآن مجید میں مذکور ہے بہت صاف ہے اخیر پر خدا نے فرمایا ہے کہ یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے ہم نے اس کی تجھ پر وحی کی ہے نہ تو اسے جانتا تھا اور نہ تیری قوم اس سے پہلے، صبر کر(اے محمد! کافروں کے ایذا دینے اور جھٹلانے پر) بے شک آخر کو (کامیابی) پرہیز گاروں کے لئے ہے (ھود آیت 51) اس آیت پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ کیا اس سے پہلے طوفان نوح کا قصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور عرب کے لوگوں کو جن میں کثرت سے یہودی آباد ہو گئے تھے اور کچھ عیسائی بھی آباد تھے معلوم نہ تھا مگر یہ بات نہیں ہے زیادہ تر قرین قیاس ہے کہ یہ قصہ عام طور پر مشہور تھا مگر اس کے ساتھ بہت ہی غلط باتیں بھی مشہور تھیں صحیح صحیح قصہ لوگوں کو معلوم نہ تھا جس کو خدا نے بذریعہ وحی کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے بتایا پس عدم علم کا جو ذکر اس آیت میں ہے وہ صحیح قصہ کے جاننے سے متعلق ہے نہ کہ عام طور پر اس قصہ سے قرآن مجید میں جس قدر اگلے قصے بیان ہوئے ہیں اگرچہ اصل ان سے عبرت دلانی مقصود ہوتی ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ قصہ کو صحیح صحیح بیان کیا جاتا ہے تاکہ جو غلطیاں مشہور ہو رہی ہیں ان کی صحت ہو جاوے قریباً تمام دنیا کی قوموں میں طوفان کا قصہ بطور ایک مذہبی قصہ کے مشہور تھا اور اس کے بیانات اور واقعات اس قدر مختلف اور عجیب طور پر مشہور ہو رہے تھے کہ ایک میں بھی پوری پوری سچائی نہ تھی چند یورپ کے لوگوں مثل مسٹر ٹرینٹ اور ریو رنڈ ایل ڈی ھار کورٹ وغیرہ نے کتابیں لکھی ہیں جن میں ان قصوں کو جمع کیا ہے جو طوفان کی بابت بطور مذہبی قصہ کے تمام دنیا میں مشہور ہیں پس وحی نے جو کچھ بتایا اور جو لوگوں کو معلوم نہ تھا وہ یہی ہے کہ صحیح قصہ طوفان کا کیا ہے۔ یہودی اور عیسائیوں نے جو مذہبی طور پر سب سے بڑی غلطی اس قصہ میں ڈال رکھی تھی وہ یہ تھی کہ تمام دنیا میں طوفان آیا تھا اور کل کرہ زمین پانی میں ڈوب گیا تھا اور طوفان کا پانی دنیا کے بڑے سے بڑے پہاڑوں کی چوٹیوں سے بھی اونچا ہو گیا تھا اور حضرت نوح نے تمام دنیا کے ہر قسم کے جانداروں کا جوڑہ جوڑہ کشتی میں بٹھا لیا تھا اور تمام دنیا کے جانور تمام انسان اور چرند و پرند و حشرات الارض سب کے سب مر گئے تھے اور بجز ان کے جو کشتی میں تھے کوئی جان دار تمام دنیا میں زندہ نہیں رہا تھا یہ ایک بڑی غلطی تھی جس کو قرآن مجید نے صحیح کیا ہے مگر افسوس اور نہایت افسوس کہ ہمارے مفسروں نے قرآن مجید کی اس برکت کو حاصل نہیں کیا اور وہ خود یہودیوں اور عیسائیوں کی تقلید سے اسی غلطی میں پڑ گئے جس غلطی سے قرآن مجید نے ان کو نکالنا چاہا تھا۔ ایک اور امر غور طلب ہے متعلق حضرت نوح کے یعنی تعداد ان کی عمر کی خدا تعالیٰ نے سورہ عنکبوت میں فرمایا ہے کہ ولقد ارسلنا نوحا الی قومہ فلیث فہیم الف سنۃ الا خمسین عاما (سورۂ عنکبوت آیت29) یعنی ہم نے بھیجا نوح کو اس کی قوم کی طرف، پھر وہ رہا ان میں پچاس برس کم ایک ہزار برس۔ توریت میں لکھا ہے کہ نوح چھ سو برس کے تھے جب طوفان آیا (کتاب پیدائش، باب7ورس6) اور پھر لکھا ہے کہ بعد طوفان کے نوح تین سو پچاس برس زندہ رہا اور اس کی عمر نو سو پچاس برس کی تھی (کتاب پیدائش، باب9ورس28-29) لیکن جب کہ انسان کی نسل بڑھنی شروع ہوئی تھی اور ابھی طوفان نہیں آیا تھا اس وقت خدا نے کہا تھا کہ ’’ بسبب بودن ایشاں بشرضالہ نہایت مدت ایام ایشاں یکصد و بست سال خواھد شد‘‘ (توریت کتاب پیدائش، باب2ورس3) مگر یہ ایک بہت طولانی بحث ہے دن اور برس جو توریت میں مندرج ہیں وہ نہایت بحث طلب ہیں دنیا کے ظہور اور انسان کے وجود کی جو مدت توریت میں لکھی ہے وہ بھی بڑی بحث کے قابل ہے۔ اس میں بھی کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ برس کی مدت ہر ایک زمانہ میں مختلف رہی ہے اور جس واقعہ یا انسان کی عمر کی تعداد اس زمانہ کے حساب سے کی گئی ہے وہی تعداد بیان ہوتی رہی ہے جیسے کہ قرآن مجید اور توریت میں حضرت نوح کی عمر ساڑھے نو سو برس بیان ہوئی ہے۔ علاوہ اس کے قدیم زمانہ کا یہ رواج بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس خاندان کا کوئی پیٹر یاٹک ہوا ہے جب تک کہ اس خاندان میں دوسرا پیٹر یاٹک نام آور نہ ہوا ہو، پہلے پیٹر یاٹک ہی کا نام چلا جاتا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: واذ قال ابراھیم لابیہ آزر اتتخذ اصناما آلھۃ انی اراک وقومک فی ضلل مبین و کذالک نری ابراھیم ملکوت السموات والارض ولیکون من الموقنین فلما جن علیہ الیل رای کوکبا قال ھذا ربی فلما افل قال لا احب الافلین یعنی اور جب کہا ابراہیم نے اپنے باپ (یعنی چچا) آزر سے کہ کیا تو نے ٹھہرایا ہے بتوں کو خدا؟ بے شک میں تجھ کو اور تیری قوم کو علانیہ گمراہی میں دیکھتا ہوں اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے تھے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی تاکہ وہ ھووے یقین کرنے والوں میں سے پھر جب اس پر رات چھا گئی، اس نے ایک تارے کو دیکھا کہا یہ ہے میرا رب پھر جب وہ ڈوب گیا تو کہا میں دوست نہیں رکھتا ڈوب جانے والوں کو۔ ان آیتوں میں حضرت ابراہیم کی نسبت جو حالات مذکور ہیں ان میں چند امور غور طلب ہیں۔ 1اول یہ کہ آزر حضرت ابراہیم کے کون تھے قرآن مجید میں آزر کو حضرت ابراہیم کے ’’ اب‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے مگر قرآن مجید میں باپ کا اطلاق باپ اور چچا دونوں پر آیا ہے قرآن میں ہے کہ حضرت یعقوب کی اولاد نے کہا کہ نعبد الھک وانہ آبائک ابراھیم واسماعیل واسحاق حالاں کہ اسماعیل حضرت یعقوب کے چچا تھے۔ ان پر بھی یعقوب کے باپ کا اطلاق ہوا ہے تفسیر کبیر میں بھی بعض اقوال لکھے ہیں اس آیت میں ’’ اب‘‘ کا اطلاق’’ عم‘‘ پر ہوا ہے ظن غالب ہے کہ حضرت ابراہیم کے باپ کا نام ترح تھا توریت سے پایا جاتا ہے کہ ترح کے بھائی بھی تھے مگر توریت میں ان کے نام نہیں بیان کیے چناں چہ کتاب پیدائش باب11ورس24-25 میں لکھا ہے کا ’’ وناحور بست ونہ سال زندگی نمودہ ترح را تولید نمود و ناحور بعد از تولید نمودنش ترح یک صد نوزدہ سال زندگانی نمودہ پسران و دختران را تولید نمود‘‘ ان آیتوں سے ترح کے بھائیوں یعنی حضرت ابراہیم کے چچاؤں کا ہونا پایا جاتا ہے۔ علاوہ اس کے توریت کے کسی باب میں لکھا ہے کہ بعد ان تمام واقعات کے جو حضرت ابراہیم پر ان کے وطن’’ اور کسدیم‘‘ میں گذرے انہوں نے اپنے وطن کو چھوڑ دیا اور کنعان کی طرف روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ کے ان کے باپ ترح بھی تھے اور انہوں نے بھی اس ملک کو چھوڑ دیا تھا چناں چہ ورس31میں لکھا ہے کہ ’’ ترح پسر خود ابرام و پسر پسر خود لوط پسرھاران و عروس خود ساری زن پسرش ابرام را برداشت و باھم دیگر ازا ور کلدانیاں بقصد رفتن بزمین کنعن بیروں آمدند‘‘ پس یہ ایک دلیل اس بات کی ہے کہ جس مباحثہ کا قرآن مجید میں ذکر ہے وہ حضرت ابراہیم کے باپ سے نہیں ہوا تھا بلکہ ’’ اب‘‘ کا لفظ’’ عم‘‘ پر بطور اظہار محبت اور بزرگی چچا کے جن سے مباحثہ پیش آ گیا تھا بولا گیا ہے۔ 2دوسرے یہ کہ جب حضرت ابراہیم نے یہ مباحثہ کیا تو ان کی عمر کیا تھی، اس امر کا تحقیق کرنا نا ممکن ہے کیوں کہ ان امور کی تحقیقات صرف توریت پر منحصر ہے نسخے توریت کے اس باب میں نہایت مختلف ہیں عبری توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ سنہ دنیوی کے 1958برس بعد حضرت ابراہیم پیدا ہوئے تھے اور یونانی نسخہ توریت سے جس کو سپٹوایجنٹ کہتے ہیں ان کی پیدائش 2728 برس بعد سنہ دنیوی کے اور سامری نسخہ توریت سے 2598برس بعد معلوم ہوتی ہے عیسائی مورخوں نے ولادت حضرت ابراہیم کی 2008بعد سنہ دنیوی کے اور ان کا اور کلدانیاں سے نکلنا 2038سنہ دنیوی میں قرار دیا ہے اور اس حساب سے اس وقت ان کی عمر پچھتر برس کی تھی مگر اس حساب پر اعتماد کرنے کی کوئی کافی وجہ نہیں ہے۔ قرآن مجید سے جہاں خدا نے فرمایا ہے ’’ قالو سمعنا فتیٰ یذکرھم بقال لہ ابراھیم‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں حضرت ابراہیم جوان تھے اور دوسری جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’ ولقد آتینا ابراھیم رشدہ من قبل وکنا بہ عالمین‘‘ (سورہ انبیا، آیت52) اور اسی آیت کے اس مباحثہ کا ذکر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبل وقت مباحثہ کے حضرت ابراہیم جوان اور رشید ہو چکے تھے اور ان کا دل الہامات ربانی سے معمور تھا حسن کے لئے عموماً چالیس برس کی عمر خیال کی جاتی ہے پس کچھ عجب نہیں ہے کہ یہ واقعہ اسی عمر کے قریب قریب واقع ہوا ہو۔ مگر ہمارے علمائے مفسرین کو فلما جن علیہ اللیل نے گھبرا دیا ہے وہ سمجھے ہیں کہ یہ پہلی دفعہ تھی جو انہوں نے رات دیکھی تھی اور اس لیے بے اصل قصہ اپنی تفسیروں میں لکھا ہے، کہ اس زمانہ کے بادشاہ کے خوف سے، جس نے ایک خواب دیکھا تھا اور لڑکوں کے قتل کا ارادہ کیا تھا، حضرت ابراہیم کی ماں نے ان کے حمل کو چھپایا اور جب لڑکا پیدا ہونے کا وقت آیا تو ایک پہاڑ کی کھوہ میں جا کر جنا اور اس کا منہ پتھروں سے بند کر دیا اور حضرت جبریل نے حضرت ابراہیم کی پرورش کی جب وہ اس پہاڑی کی کھوہ میں بڑے ہو گئے تو اس کھوہ میں سے پہلی دفعہ رات کو ایک ستارہ دیکھا پھر چاند دیکھا پھر سورج دیکھا۔ مگر یہ خیال اور یہ قصہ دونوں صحیح نہیں ہیں حضرت ابراہیم کے نا حور اور ھاران دو اور بڑے بھائی تھے اور حضرت ابراہیم سب سے چھوٹے تھے انسان کی فطرت میں ہے کہ جب وہ کسی قوم میں پیدا ہوتا ہے تو یا تو اسی قوم کی باتوں پر یقین کرتا ہے اور اسی قوم کے عقاید اور اعمال کی پیروی کرنے لگتا ہے یا اس قول کے افعال و اقوال کو تعجب و حیرت کی نگاہ سے دیکھتا رہتا ہے، نہ ان پر یقین کرتا ہے اور نہ ان افعال میں شریک ہوتاہے اور نہ اس کے ذہن میں آتا ہے کہ اصل بات کیا ہے اور ایک تفکر اور سونچ کی حالت میں ایک زمانہ بسر کرتا ہے اور خدا کی ہدایت جو خدا نے انبیاء اور صلحا کی فطرت میں رکھی ہے، اس کی تائید کرتی رہتی ہے اسی طرف خدا نے اشارہ کیا ہے جہاں فرمایا ہے ’’ کذالک نری ابراہیم ملکوت السموات والارض‘‘ اسی حالت میں ایک ستارہ اور چاند اور اس کے بعد سورج کو دیکھ کر حضرت ابراہیم کو وہ خیال آیا جو قرآن مجید میں مذکور ہے پس ضرور نہیں ہے کہ وہ رات پہلی ہی رات ہو جو انہوں نے دیکھی تھی۔ 3تیسرے یہ کہ ملکوت السموات والارض سے اور اس کے دکھانے سے کیا مراد ہے علمائے مفسرین نے اس کی نسبت بھی بہت سی رطب و یابس باتیں لکھی ہیں مگر خدا کی قدرت اور اس کی عظمت اور وحدانیت پر یقین کرنے کیلئے موجودات عالم اور اس کی خلقت اور فطرت پر غور کرنے سے زیادہ یقین دلانے والی کوئی چیز نہیں ہے اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد طریقہ پر وجود عالم سے صانع کے وجود پر استدلال کیا ہے پس خدا نے آسمان و زمین کی بادشاہت کی حقیقت حضرت ابراہیم کے دل پر کھولی جس کی ابتداء تارے و چاند و سورج کے رب خیال کرنا اور اس کی انتہا ’’ انی وجہت وجھی للذی فطر السموات والارض‘‘ کہنا ہے اور اسی طرف خدا نے اشارہ کیا ہے، جہاں فرمایا ہے ’’ کذالک نری ابراہیم ملکوت السموات والارض‘‘ 4 چوتھے یہ کہ علمائے اسلام کو ایک اور مشکل پیش آئی ہے کہ ان کے اصول مقررہ کے موافق انبیا کبھی اور کسی حال میں مرتگب شرک و کفر نہیں ہوئے پس کیوں کر حضرت ابراہیم نے تارہ اور چاند اور سورج کو دیکھ کر کہا’’ ھذا ربی‘‘ اس شپہ کے رفع کرنے کو انہوں نے متعدد طرح سے صعوبتیں اٹھائی ہیں مگر یہ امر نہایت صاف ہے جس میں کچھ مشکل نہیں۔ بلا شبہ انبیاء علیہم السلام کبھی مرتکب شرک و کفر نہیں ہوتے ان کی فطرت ہی اس آلودگی سے پاک ہوتی ہے مگر قدیم زمانہ میں جو بت پرستی تھی اور جس کفر و شرک میں اس زمانہ کے لوگ گرفتار تھے اس کی حقیقت پر اول غور کرنی لازم ہے تمام مشرکین ذات باری کا کسی کو شریک نہیں قرار دیتے تھے بلکہ خدا کے سوا موجودات غیر مرئی اور اجرام سماوی کو مدبرات عالم اور مالک نفع و نقصان سمجھتے تھے اور انہی کے نام سے ھیاکل اور اصنام بنا کر ان کی پرستش کرتے تھے اور ان ک ویقین تھا کہ ان کی رضا مندی و خوش نودی فائدہ بخش اور ان کی ناراضی مفرت رساں ہے مگر کسی وجود غیر مرئی کو یا کسی کو اجرام سماوی میں سے صرف مدبر عالم خیال کرنا خواہ وہ خیال صحیح ہو یا غلط کفر و شرک نہیں ہو سکتا بلکہ کفر و شرک اس وقت ہوتا ہے۔جب کہ اس میں قدرت نفع و نقصان پہنچانے کی مانی جاوے یعنی یہ سمجھا جاوے کہ اس میں قدر ہے کہ جب چاہے نفع پہنچاوے جب چاہے نقصان اور اسی خیال سے اس کی پرستش کی جاوے مثلاً مسلمانوں کا یہ خیال کہ مینہ کے برسانے والے فرشتے بادلوں پر متعین ہیں اور مینہ برساتے پھرتے ہیں یا یہ خیال کہ آفتاب فصول اربع کا باعث اور روئیدگی اور پھولوں اور پھلوں کا مدبر ہے نہ کفر ہے نہ شرک ہے۔ لیکن جب آفتاب یا میگھ راج کی نسبت بہ اعتقاد کیا جاوے کہ ان کو مینہ برسانے یا نہ برسانے اور میوہ پکانے یا نہ پکانے کا اختیار ہے اور ان کی رضا مندی اس کیلئے مفید اور ناراضی مضرت رساں ہے اور اس خیال پر ان کی پرستش کی جاوے، تو وہ بلا شبہ شرک و کفر ہے ترح کے خاندان میں زیادہ تر اجرام علوی کے اصنام کی پرستش ہوتی تھی اس وجہ سے حضرت ابراہیم کا خیال ستارے اور چاند اور سورج پر رب یعنی مدبرات میں سے ہونے کا گیا نہ الہ ہونے کا اور اس کو بھی خدا کی ہدایت سے جو فطرت انبیاء میں ہے قرار نہ ہوا پس صرف یہ خیال شرک و کفر نہ تھا اور حضرت ابراہیم نے ان میں سے کسی کی پرستش نہیں کی نہ ان میں جب چاہیں نفع اور جب چاہیں مضرت پہنچانے کی قدرت یقین کی اس لیے کسی طرح ان کا اس معصیت میں مبتلا ہونا لازم نہیں آتا۔ اس بیان کی تشریح بعد کی آیتوں سے بخوبی ہوتی ہے جہاں حضرت ابراہیم نے فرمایا ہے کہ ’’ میں نہیں ڈرتا اس سے جس کو تم خدا کے ساتھ شریک کرتے ہو‘‘ پھر فرمایا کہ ’’ کیوں کر میں ڈروں اس سے جس کو تم شریک کرتے ہو‘‘ یہ اقوال صاف اس بات پر دال ہیں کہ جن کی نسبت حضرت ابراہیم نے ربی کہا تھا ان کو مالک اور قادر نفع و نقصان پہنچانے پر نہیں مانا تھا۔ 5پانچویں یہ کہ اس آیت میں جو الفاظ ’’ لیکون من الموقنین‘‘ ہیں زیادہ تر غور کے لائق ہیں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ابراہیم کو ملکوت السموات والارض اس لیے دکھائیں تاکہ یقین کرنے والوں میں ہو ہم ان لوگوں کو جو بہ تقلید آبادئی یا با طاعت کسی کے قول کے خدا پر یقین رکھتے ہیں مومن پاک جانتے ہیں مگر جو لوگ کہ بعد غور و فکر کے اور خدا کی قدرتوں اور صنعتوں پر غور و فکر کر کے خدا پر یقین لاتے ہیں وہ نہایت اعلیٰ درجہ پر ہوتے ہیں جن کا یقین پورا کامل یقین ہوتا ہے اور کسی طرح زائل نہیں ہو سکتا۔ اسی سبب سے خدا نے حضرت ابراہیم کو ملکوت السموات والارض دکھانے کا مقصد یہ بتلایا ہے کہ ’’ لیکون من الموقنین‘‘ ہمارا یہ یقین و تجربہ ہے کہ انسان کو جس قدر علم فطرت، قوانین قدرت، علم السماء والا فلاک بڑھتا جاتا ہے اور نیچر سینر علوم طبیعیات حقہ، میں جس قدر اس کی واقفیت اور مہارت زیادہ ہوتی جاتی ہے اسی قدر اس کو خدا کے وجود کا یقیں اور اس کی قدرت و عظمت اور شان الوھیت اور استحقاق معبودیت کا دل میں زیادہ نقش ہوتا جاتا ہے وللہ درمن قال برگ درختان سبز در نظر ھوشیار ھر ورقے دفتریست معرفت گردگار پس یہی قوانین قدرت لا آف نیچر تھے جو زبان شروع میں ملکوت السموات ولارض سے تعبیر کئے گئے ہیں اور جن کو خدا نے حضرت ابراہیم کو دکھایا تھا یا یوں کہو کہ سمجھایا تھا اور جس کی بدولت انہوں نے ’’ لیکون من الموقنین‘‘ کا خطاب پایا۔ 6چھٹے یہ کہ یہ مباحثہ حضرت ابراہیم کا جو قرآن میں مذکور ہے توریت میں نہیں ہے توریت میں کسی واقعہ کا نہ ہونا اس کے عدم وقوع کی دلیل نہیں ہو سکتا۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط کے فرشتے عہد قدیم کا ایک متنازعہ فیہ مسئلہ توریت اور قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی خوش خبری دینے کیلئے اور حضرت لوط کو ان کی قوم کے عذاب کی پیشین گوئی کرنے کیلئے خدا نے فرشتوں کو بھیجا سرسید اس سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ فرشتے نہیں تھے بلکہ انسان تھے ذیل کے مضمون میں سرسید نے اس مسئلہ پر بحث کی ہے۔(محمد اسماعیل) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ وقلد جائت رسلنا ابراھیم بالبشریٰ قالو سلما قال سلم فما لبث ان جاء بعجل حنید (سورہ ھود آیت29)‘‘ اور بے شک آئے ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر انہوں نے کہا سلام ابراہیم نے کہا سلام پھر ابراہیم نے دیر نہ کی کہ لایا بھنا ہوا بچھڑا۔ سورۂ عنکبوت میں یہ لفظ ہیں ’’ لما جاء ت رسلنا ابراھیم‘‘ یعنی جب کہ آئے ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس سورۂ حجر میں بجائے رسلنا کے ضیف کا لفظ ہے خدا نے فرمایا ونبہم عن ضیف ابراھیم یعنی ان کو خبر دے ابراہیم کے مہمانوں کی اور سورۂ ذرایات میں ہے ھل اتاک حدیث ضیف ابراھیم المکرمین کیا تیرے پاس ابراہیم کے مکرم مہمانوں کی خبر پہنچی ہے۔ پس امر بحث طلب یہ ہے کہ یہ بھیجے ہوئے یا ضیف ابراہیم کون تھے؟ توریت باب18ورس 2میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم نے دیکھا کہ تین آدمی اس کے برابر کھڑے ہیں عبری میں لفظ شلاشہ انشیئم ہے یعنی ثلاثہ انسانین اور پھر ورس16,22میں اور باب19 ورس5,10,16 میں بھی ان کو انسان کہا ہے مگر باب19 کے پہلے ورس میں ان کو ملا خسیم یعنی ملائکین کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اس لیے یہودی ان تینوں کو فرشتے اعتقاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ جبریل و میکائیل و اسرافیل تھے۔ عیسائی بھی ان کو فرشتے مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ پہلی ہی دفعہ تھی کہ فرشتے انسان کی صورت بن کر دنیا میں آئے تھے تفسیر ڈائلی اینڈ مانٹ میں لکھا ہے کہ ان میں کا تیسرا بہ نسبت باقی دو کے اعلیٰ درجہ کا تھا اور اس لیے ابراہیم نے اس کو بطور ایک سردار کے خطاب کیا یعنی ’’ ادنای‘‘ کہہ کر جس کو موسیٰ’’ جہوہ‘‘ کہتا ہے اور یہودی اور عیسائی اس کو خدا کا نام سمجھتے ہیں اور اس لیے بہت سے عیسائی تصور کرتے ہیں کہ وہ خدا کا بیٹا تھا جو اس صورت میں آیا تھا متوسط زمانہ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ خدا کی شان میں ایک فرشتہ تھا جس نے گفتگو کی تھی اور بلحاظ اس کی مقتدرانہ گفتگو کے یہ غالب رائے ہے کہ وہ خود حضرت مسیح تھے جو انصاف کرنے کو آئے تھے۔ قرآن مجید میں صرف لفظ ’’ رسلنا‘‘ یعنی ہمارے بھیجے ہوئے کا ہے مسلمان مفسروں نے صرف یہودیوں کی روایتوں سے جن کی وہ ہمیشہ ایسے مقاموں میں پیروی کرتے ہیں ان کو فرشتے تسلیم کیا ہے مگر قرآن مجید سے ان کا فرشتہ ہونا ثابت نہیں ہوتا یہ تو ظاہر ہے قرآن مجید میں ان کے فرشتے ہونے پر تو کوئی نص صریح نہیں ہے باقی رہا طرز کلام و الفاظ واردہ پر استدلال قطع نظر اس کے کہ وہ مفید یقین نہیں ہو سکتا ان سے بھی وہ استدلال پورا نہیں ہوتا علمائے مفسرین نے قبل اس کے کہ الفاظ قرآن مجید پر غور کریں یہودیوں کی روایتوں کے موافق ان کا فرشتہ ہونا تسلیم کر لیا ہے حالاں کہ وہ خاصے بھلے چنگے انسان تھے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ابراہیم کے مہمانوں نے جو کھانا نہ کھایا اس کا سبب یہ تھا کہ وہ فرشتے تھے اور فرشتے نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں وہ مہمانوں کی صورت بن کر اس لیے آئے تھے کہ حضرت ابراہیم مہمانوں کے آنے کو دوست رکھتے تھے اور وہ مہمانوں کی ضیافت میں مشغول رہتے تھے۔ مگر کھانے سے انکار کرنا ان کے فرشتے ہونے کی، جو علانیہ انسان تھے اور انسانوں کی طرح آئے تھے، دلیل نہیں ہو سکتا۔ تفسیر کبیر میں سدی کا یہ قول لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم نے ان سے پوچھا کہ کھانا کھاؤ گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بغیر قیمت دئیے کھانا نہیں کھاتے ابراہیم نے کہا کہ اس کی قیمت یہ 1واعلم ان الاضیافت انما امتنعوا من الطعام لانھم ملائکۃ والملائکۃ لا یاکلون ولا یشربون وانما اتوہ فی صورت الاضیاف لیکونووا علی صفۃ یحبھا وھو کان مثغولا بالضیافۃ (تفسیر کبیر) ہے کہ کھانے سے پہلے خدا کا نام لو اور کھانے کے بعد کا خدا شکر کرو اس پر جبریل نے میکائیل سے کہا کہ ایسے آدمی کا حق ہے کہ اس کا پروردگار اس کو اپنا خلیل یعنی دوست قبول کرے۔1؎ مگر کلام سے بھی یہ بات غیر معلوم رہی کہ بعد اس کے انہوں نے کھانا کھایا یا نہیں قرآن مجید میں آتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے پر نہیں بڑھتے تو نہ جانا کہ یہ کون ہیں (یعنی دوست مہمان ہیں یا دشمن) اور ابراہیم کے جی میں ان سے خوف ہوا۔2 یہ اس زمانہ کا طریقہ تھا کہ دشمن اس کے ہاں جس سے دشمنی ہو کھانا نہیں کھاتے تھے مگر اس آیت سے یہ بھی نہیں پایا جات اکہ اس کے بعد بھی انہوں نے کھانا نہیں کھایا۔ توریت میں لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت ابراہیم کے پاس بھی کھانا کھایا اور جب وہ حضرت لوط کے پاس گئے تو وہاں بھی کھانا کھایا توریت فارسی کے ترجمہ کی یہ عبارت ہے۔ وخداوند ویرا (یعنی ابراہیم را) در بلاطستان ممری ظاھر شد در حالتیکہ بر در چادر بگرمی روز می نشست و چشمان خود را کشادہ نگریست کہ اینک سہ شخص در مقابلش ایستادہ اند و ھنگامے کہ ایشاں را دید از برائے استقبال ایشاں از در چادر دویدو 1قال السدی قال ابراھیم علیہ السلام لھم اتاکلون قالو الا ناکل طعلما الا بالثمن فقال ثمنہ ان تذکروا اسم اللہ تعالیٰ علی ٰ اولہ ونحمدوہ علی آخرہ فقال جبریل لمیکائیل علیہ السلام حق لمثل ھذا الرجل ان یتخذہ ربہ خلیلا (تفسیر کبیر) 2فلما را ایدیھم لا تصل الیہ نکرھم وا اوجس منھم خیفہ (سورہ ھود) بسوے زمین خم شد و گفت اے آقایم حال اگر در نظرت التفات یافتم تمنا اینکہ از نزد بندہ خود نگذری و حال اندرک آبے آوردہ شود تا آں کہ پائہائے خود راشست و شو دادہ در زیر ایں درخت استراحت فرمائید و لقمہ نانے خواھم آورد تاکہ دل خود را تقویت نمایند بعد ازاں بذرید زیرا کہ ازیں سبب نبزد بندہ خود عبور نمودید پس گفتند بخوے کہ گفتی عمل نما پس ابراہیم بہ چادر نزد سارا شتافت و گفت تعجیل نمودہ سہ پیمانہ آوردہ رقیق خمیر کردہ گردھا براجاق بیز پس ابراھیم بگلہ گاؤ شتافت و گو سالہ تروتازہ خوبے گرفتہ بخوانے داد کہ آں را بسرعت حاضر ساخت و کرہ و شیر باگو سالئیکہ حاضر کردہ بود گرفت و در حضور ایشاں گذاشت و نزد ایشاں بزیر آں درخت ایستادہ تا خوردند (کتاب پیدائش باب18ورس1-8) پس آں دو ملک بوقت شام بسدوم در آمدند و لوط بدروازہ سدوم مے نشست و ہنگامے کہ لوط ملاخط کرد از برائے استقبال ایشاں برخاست و بر زمین خم شد و گفت اینک حال اے آقایانم تمنا اینکہ بخانہ بندہ خود تاں بیائید و بیتوتہ نمودہ بائہائے خود راشست و شو نمائید و سحر خیزی نمودہ براہ خود روانہ شوید پس ایشاں گفتند کہ بلکہ در چہارر سو بیتوتہ مینایم پس چوں کہ ایشاں را بسیار ابرام نمود با او آمدہ بخانہ اش داخل شدند و او ضیافتے بجہت ایشاں بر پا نمودہ گرد ھائے فطیری پخت کہ خوردند (کتاب پیدائش باب19ورس 1-3) تفسیر کبیر میں ایک یہ بحث پیش کی ہے کہ حضرت ابراہیم نے ان تینوں کو انسان جانا یافرشتہ جو لوگ کہتے کہ حضرت ابراہیم نے ان کو انسان جانا تھا ان کی یہ دلیلیں ہیں کہ اگر وہ ان کو فرشتہ جانتے تو کھانے کی تیاری نہ کرتے اور جب انہوں نے کھانے پر ہاتھ نہ ڈالا تھا تو اس سے خوف نہ کرے۔ علاوہ اس کے جب کہ حضرت ابراہیم نے ان کو انسان کی صورت میں دیکھا تھا تو ان کو فرشتہ کیوں کر سمجھ سکتے تھے۔ اور جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ان کو گرشتہ جانا تھا ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے کہنے سے حضرت ابراہیم نے ان کو فرشتہ جانا تھا مگر کوئی لفظ قرآن میں ایسا نہیں ہے کہ ان تینوں شخصوں میں سے کسی نے کہا ہو کہ ہم انسان نہیں ہیں بلکہ فرشتے ہیں اور انسان کی صورت بن کر آئے ہیں۔ تفسیر کبیر میں ایک اور عجیب غریب روایت لکھی ہے کہ جب ان فرشتوں نے حضرت ابراہیم کو بتلا دیا کہ وہ فرشتوں میں سے ہیں اور انسان نہیں ہیں اور وہ صرف قوم نوط کے ہلاک کرنے کو آئے ہیں تو حضرت ابراہیم نے ان سے معجزہ طلب کیا کہ ان کے فرشتہ ہونے پر دلالت کرے پھر انہوں نے اپنے پروردگار سے اس بھنے ہوئے بچھڑے کے زندہ ہو جانے کی دعا مانگی بچھڑا جہاں رکھا ہوا تھا وہاں سے کودا اور اپنے چراگاہ میں چلا گیا۔ ہم کو افسوس ہے کہ ہمارے علماء نے ایسی بے سروپا اور بے سند مہمل روایتیں اپنی تفسیروں میں لکھی ہیں خدا ان پر رحم کرے۔ اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ وہ جو حضرت ابراہیم کے پاس آئے انسان تھے اور قوم لوط کے پاس بھیجے گئے تھے جیسا کہ 1ان الملائکۃ لما اخبروا ابراھیم علیہ السلام انھم الملائکۃ لا من البشر وانھم جاوا لا ھلاک قوم لوط طلب ابراھیم علیہ السلام منھم معجزۃ دالۃ علی انھم من الملائکۃ فدعوا ربھم باحیاء العجل المشوی فطغر ذالک العجل المشوی من الوضع الذی وضع فیہ الی مرعاہ (تفسیر کبیر) خود انہوں نے حضرت ابراہیم سے کہا لا تخف انا ارسلنا الی قوم لوط (سورۂ ھود) اور دوسری جگہ کہا انا ارسلنا الی قوم مجرمین (سورۂ حجر) اور ایک جگہ کہا انا ارسلنا الی قوم مجرمین لنرسل علیہم حجارۃ سن طین مسومۃ عند ربک للمسرفین (سورۂ الذاریات) بالبشری یعنی ساتھ خوش خبری کے اور وہ خوش خبری حضرت ابراہیم کے حضرت سارا سے بیٹا اور پوتا یعنی اسحاق اور اسحاق سے یعقوب کے پیدا ہونے کی تھی جس کا بیان آگے آوے گا۔ یعنی حضرت ابراہیم نے دیکھا کہ ان کا ہاتھ کھانے پر نہیں بڑھا تو نہ جانا کہ یہ کون ہیں اور ابراہیم کے دل میں ان سے خوف پیدا ہوا۔1؎ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ جب انہوں نے کھانے سے اپنے تئیں روکا تو حضرت ابراھیم کو خوف ہوا کہ وہ کچھ مکر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جب کوئی انجان آدمی آوے اور اس کے سامنے کھانا لایا جاوے پھر وہ اگر کھا لیوے تو اس سے اطمینان ہو جاتا ہے اور اگر وہ نہ کھاوے تو اس سے خوف پیدا ہوتا ہے۔2؎ یہی مضمون سورہ الذاریات میں ان لفظوں سے آیا ہے کہ حضرت ابراہیم بھنا ہوا بچھڑا ان کے پاس لائے کہا کیا تم نہیں کھاتے؟ یعنی جب انہوں نے اس پر ہاتھ نہ بڑھایا جیسا کہ 1؎ فلما را ایدھم لا تصل الیہ نکرھم واو جس منھم خیفہ (سورۂ ھود) 2؎ فلما امتنعوا من الا کل خاف ان یریدوا بہ مکروھا ان لا یعرف اذا حضرو قدم الیہ طعام فان اکل حصل الا من وان لم یاکل حصل الخوف (تفسیر کبیر) سورۂ ھود میں مذکور ہے تو حضرت ابراہیم نے کہا کہ کیا تم نہیں کھاتے؟ پھر حضرت ابراھیم کے دل میں ان سے خوف پیدا ہوا۔ ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم کے اس کہنے کے بعد الا تاکلون ان لوگوں نے کھایا ہو اس لیے کھانے کی نفی اس سے نہیں پائی جاتی۔ سورۂ الحجر میں اس واقعہ کو زیادہ اختصار سے بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ جب وہ تینوں شخص ابراہیم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا سلام حضرت ابراہیم نے کہا کہ ہم تم سے خوف کرتے ہیں1؎ پورا واقعہ یوں ہے کہ جب وہ تینوں شخص حضرت ابراہیم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا سلام حضرت ابراہیم نے بھی کہا سلام پھر حضرت ابراہیم بھنا ہوا بچھڑا ان کے لیے کھانے کو لائے جب انہوں نے کھانے کے لیے ہاتھ نہ بڑھایا تو حضرت ابراہیم کے دل میں خوف پیدا ہوا اس پر حضرت ابراہیم نے کہا کہ کیا تم نہیں کھاتے؟ اور یہ بھی کہا کہ ہم تم سے (نہ کھانے کے سبب) خوف کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم سے خوف نہ کرو ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے ہوئے ہیں اور تم کو بھی بشارت دیتے ہیں پس ان تمام حالت سے نہ تو ان تینوں شخصوں کا فرشتہ ہونا پایا جاتا ہے اور نہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے کھانا نہیں کھایا بلکہ اس طرف قرینہ قیاس زیادہ ہے کہ ان اصراروں کے بعد انہوں نے کھانا کھایا ہو اور خدا تعالیٰ نے جو ان کو دو جگہ ضیف ابراہیم کر کے بیان کیا ہے یہ قرینہ قوی 1اذ دخلوا علیہ قالوا سلاما قال انا منکم وجلون (سورۂ الحجر) ہے کہ انہوں نے کھانا بھی کھایا اور حضرت ابراہیم کی ضیافت قبول کی۔ پھر خدا نے فرمایا کہ اس کی بیوی کھڑی تھی پھر ہنس پڑی پھر ہم نے اس کو خوش خبری دی اسحاق کے پیدا ہونے کی اور اس کے پیچھے یعنی اسحاق سے یعقوب کے پیدا ہونے کی۔1؎ حضرت ابراہیم کی بیوی کے ہنسنے کی علت بیٹا ہونے کی بشارت تھی مگر جو کہ ان کا ہنش پڑنا ایک مقدم امر اور زیادہ تر توجہ کے قابل تھا۔ اس لیے معلول کو علت پر مقدم کر دیا ہے۔ تفسیر کبیر میں بھی لکھا ہے کہ یہاں تقدیم و تاخیر ہے تقدیم کلام الٰہی کی یہ ہے کہ اس کی بیوی کھڑی تھی پھر ہم نے اس کو بشارت دی اسحاق کے پیدا ہونے کی اس کی بیوی خوشی سے ہنسی۔ بسبب اس خوش خبری کے پس ہنسنے کو مقدم کر دیا ہے اور معناً وہ موخر ہے 2؎ ایک امر غور طلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے پہلے فرمایا کہ لقد جائت رسلنا ابراہیم بالبشریٰ یعنی وہ رسل بشارت لے کر آئے تھے اور پھر فرمایا فبشرنا ھا باسحاق یعنی ہم نے بشارت دی ابراہیم کی بیوی کو اسحاق کے پیدا ہونے کی اس جگہ بشارت کو خاص اپنی طرف منسوب کیا ہے اور سورۂ الحجر میں ضیف ابراہیم کا قول بیان کیا ہے انا فبشرک بغلامحلیم ‘‘ 1وامرتہ قائمۃ فضحکت فبشرنا ھا باسحاق ومن وراء اسحاق یعقوب (سورۂ ھود) 2 ان ھذا علی التقدیم والتاخیر والتقدیر وامرتہ قائمۃ فبشرنا ھا باسحاق فضحکت سرورا بسبب تلک البشارۃ فقدم الضحک و مغناہ التاخیر (تفسیر کبیر) یعنی ضیف ابراہیم نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ ہم تجھ کو بشارت دیتے ہیں دانا لڑکے کے پیدا ہونے کی اور سورۃ الذاریات میں ہے ’’ وبشر وہ بغلام حلیم‘‘ یعنی ضیف ابراہیم نے حضرت ابراہیم کو دانا لڑکے کے پیدا ہونے کی بشارت دی؟ اور اسی طرح سورہ ھود میں ہے قالت یاویلتیٰ ء الدوانا عجوز وھذا بعلی شیخا یعنی ابراہیم کی بیوی نے کہا کہ ’’ افسوس مجھ کو کیا میں جنوں گی اور میں بڑھیا ہوں اور میرا خصم بڈھا ہے۔‘‘ اور سورہ الذاریات میں ہے کہ حضرت ابراہیم کی بیوی حیرت میں ہو کر آگے بڑھی اور منہ لپیٹ لیا اور کہا کہ بانجھ بڑھیا1؎ (یعنی کیا بانجھ بڑھیا بیٹا جنے گی) اور سورۃ الحجر میں ہے کہ حضرت ابراہیم نے کہا کہ ’’ کیا تم مجھ کو بشارت دیتے ہو باوجودیکہ مجھ پر بڑھاپا آ گیا ہے پھر کس طرح تم مجھ کو بشارت دیتے ہو2؎‘‘ مگر وہ تینوں شخص خدا کے بھیجے ہوئے تھے انہوں نے بذریعہ الہام یا وحی کے جو ان پر خدا نے بھیجی تھی یہ بشارت دی تھی قرآن مجید کا طرز کلام بہت جگہ اس طرح پر ہے کہ خدا تعالیٰ علۃ العلل ہونے کی وجہ سے بندوں کے کاموں کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے اس لیے سورۃ ھود میں اس بشارت کو اپنی طرف نسبت کیا ہے کہ ہم نے بشارت دی اور مقاموں پر اپنے رسل 1فاقبلت امرتہ فی صرۃ فصکت وجھا وقالت عجوز عقیم (سورۂ الذاریات) 2قال البشر تمونی علی ان منی الکیر فیما تبشرون (سورۂ الحجر) کی طرف منسوب کیا ہے جن کے ذریعہ سے وہ بشارت دی گئی تھی مگر در حقیقت بشارت دینے والا خدا ہے۔ یہ بشارت جو حضرت اباہیم کے حضرت سارا سے بیٹا پیدا ہونے کی تھی دونوں کو معاً بشارت تھی یعنی ایک بشارت دونوں کے لیے تھی اور دونوں نے اس کو سنا تھا اور اس لیے کبھی اس بشارت کو حضرت ابراہیم سے اور کبھی ان کی بیوی سے منسوب کیا ہے جو ضمناً اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں کیلئے یکساں بشارت ہے اور اسی سبب سے کہیں حضرت سارا کا قول نقل کیا ہے کہ ’’ انا عجوزو ھذا بعلی شیخا‘‘ اور کہیں حضرت ابراہیم کا قول نقل کیا ہے کہ ’’ ابشر تمونی علی ان مسنی الکبر‘‘ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بشارت سن کر دونوں نے یہ بات کہی تھی۔ ان تینوں رسولوں نے جب حضرت سارا کا اس بشارت پر تعجب سنا تو انہوں نے کہا ’’ اتعجبین من امر اللہ‘‘ یعنی کیا تو تعجب کرتی ہے خدا کے حکم سے اور حضرت ابراہیم کا تعجب سن کر انہوں نے کہا کہ ہم نے تجھ کو خوشخبری دی ہے ٹھیک بس تو نا امیدوں میں سے مت ہو حضرت ابراہیم نے کہا کہ کون شخص خدا کی رحمت سے نا امید ہوتا ہے بہ جز گمراہوں کے 1؎ یہ خیال کرنا کہ حضرت ابراہیم و حضرت سارا کی اولاد مافوق الفطرت ہوئی تھی اس پر قرآن مجید سے کوئی دلیل نہیں ہے۔ 1؎ بشر ناک بالحق فلا تکن من القانطین قال ومن یقنط من رحمۃ ربہ الا الضالون (سورۂ الحجر) قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کی نسبت لفظ شیخ آیا ہے اور لفظ شیخ ایسا نہیں ہے کہ اس سے یہ سمجھا جاوے کہ حضرت ابراہیم اس حد سے جس میں موافق قانون قدرت کے اولاد ہو سکتی ہے گذر چکے تھے۔ حضرت سارا کی نسبت لفظ عجوز آیا ہے اور عجوز کا لفظ اور شیخۃ کا لفظ دونوں مرادف ہیں بلکہ کبھی جوان عورت پر بھی اطلاق ہوتا ہے قاموس میں لکھا ہے والعجوز ۔۔۔ المراۃ شابۃ کانت اور شیخۃ اور یہی عجوز کا لفظ شورہ شعراء میں حضرت لوط کی بیوی کی نسبت آیا ہے پس اس لفظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت سارا ایسی حد پر پہنچ گئی تھیں جو موافق قانون قدرت کے ان سے اولاد ہونی نا ممکن ہو۔ دوسرا لفظ حضرت سارا کی نسبت عقیم یعنی بانجھ کا آیا ہے۔ جن عورتوں کے ہاں ایک زمانہ تک جو بہ نسبت عام عادت کے زیادہ ہو اولاد نہیں ہوتی ان پر عادتاً عقیم کا لفظ اطلاق کیا جاتا ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ وہ اولاد جننے کے نا قابل ہوتی ہیں کیوں کہ بعض عورتیں اب بھی ایسی موجود ہیں جن کے مدت تک اولاد نہیں ہوئی اور وہ عقیم تصور ہونے لگیں لیکن بڑی عمر میں جب کہ وہ شیخۃ ہو گئیں ان کے اولاد ہوئی ایک شوہر دار عورت کو میں جانتا ہوں کہ قریب چالیس برس کی عمر تک اس کے اولاد نہیں ہوئی بعد اس کے وہ حاملہ ہوئی اور بیٹی جنی بلا شبہ لوگوں کو اس کے حاملہ ہونے اور بیٹی جننے پر تعجب ہوا تھا۔ مسلمان مفسر جو بغیر غور کے یہودیوں کی روایتوں کی پیروی کرنے کے عادی ہو گئے اس لیے انہوں نے یہ سمجھا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت سارا کی عمر اس قدر بڑی ہو گئی تھی کہ ان سے اولاد کا ہونا نا ممکن تھا اور اس لیے انہوں نے اس واقعہ کو بطور ایک معجزہ کے مافوق الفطرت قرار دیا ہے۔ توریت میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم کی ننانوے برس کی عمر تھی جب ان کا ختنہ ہوا ( کتاب پیدائش باب17ورس24) اور ایک برس بعد وہ تین شخص بشارت دینے کو آئے تھے پس وقت ان کی عمر سو برس کی تھی۔ اور سارا کی نسبت لکھا ہے کہ وہ سال خوردہ ہو گئی تھیں اور عورتوں کی عادت بند ہو گئی تھی (کتاب پیدائش باب18ورس11) غرض کہ عبری توریت کے حساب سے بشارت کے وقت حضرت ابراہیم کی عمر سو برس کی تھی اور حضرت سارا کی نوے برس کی تھی مسلمانوں نے ان روایتوں کی پیروی کی اور حضرت اسحاق کا پیدا ہونا فوق الفطرت بطور معجزہ کے قرار دیا باوجودیکہ توریت ہی سے پایا جاتا ہے کہ اس عمر میں بھی لوگوں کے بغیر کسی معجزہ تسلیم کیے اولاد ہوئی ہے۔ چناں چہ توریت کے حساب کے موافق جب حضرت اسماعیل پیدا ہوئے تھے تو حضرت ابراہیم کی عمر چھیاسی برس کی تھی اور جب حضرت یعقوب کے حضرت یوسف پیدا ہوئے ہیں تو مطابق حسب توریت عبری کے حضرت یعقوب کی عمر نوے برس کی تھی اور جب بنامین یوسف کے بھائی پیدا ہوئے ہیں تو حضرت یعقوب کی عمر ایک سو برس کی تھی۔ مسلمان مفسروں نے جو اس باب میں یہودیوں کی روایتوں کی پیروی کی ہے صریح غلطی کی ہے کیوں کہ ان زمانوں کی صحت پر جو توریت سے نکلتے ہیں نہایت شبہ ہے۔ مثلاً عبری توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم 2008 دنیوی میں یعنی سن1996قبل مسیح کے پیدا ہوئے تھے اور یونانی توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ سنہ 3394 دنیوی میں پیدا ہوئے تھے اور سامری کی توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ سن 2309دنیوی میں ہوئے تھے۔ حضرت سارا موافق توریت عبری کے سن 2018 دنیوی میں پیدا ہوئی تھی یعنی دس برس حضرت ابراہیم سے چھوئی تھیں اور سن2107دنیوی میں بشارت ہوئی تھی جب حضرت ابراہیم ننانوے برس کے تھے اور حضرت سارا نواسی برس کی تھیں۔ مگر جب کہ توریت کے نسخوں میں اس قدر اختلاف ہے تو جو زمانہ ان سے نکلتا ہے بطور تخمینہ و انداز کے تصور ہو سکتا ہے نہ بطور ایسے یقین کے جس پر کوئی امر مافوق الفطرت بطور یقین کے مبنی ہو سکے۔ علاوہ ازیں جو زمانے توریت سے تسلیم کئے گئے ہیں ان میں بھی بدیہی غلطیاں ہیں جس کو مفصل بیان کرنے کی اس مضمون میں گنجائش نہیں ہے علاوہ اس کے ایک نہایت بڑی بحث یہ ہے کہ برس جو توریت میں بیان ہوئے ہیں اور جن پر اس زمانے کے لوگوں کی عمر کا حساب بتلایا ہے ان کی مقدار کیا تھی کچھ شبہ نہیں ہے کہ مختلف زمانوں میں برس کی مقدار نہایت ہی مختلف رہی ہے اور اسی مقدار سے جس زمانہ میں جس کی عمر جتنے برس کی گئی جتنی تھی وہی تعداد توریت میں اور نیز بعض جگہ قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے اور یہ امر نہایت غور اور تحقیقات اور بیان کا محتاج ہے کیا عجب ہے کہا گر خدا نے مدد کی اور توفیق دی تو تفسیر القرآن کے کسی مناسب مقام میں یا ایک جداگانہ رسالہ میں ہم اس کو بیان کریں گے اس مقام پر صرف اس قدر بیان کرنا کافی ہے کہ ہر گاہ قرآن مجید سے حضرت ابراہیم اور حضرت سارا کی وہ حالت جس میں مطابق قانون قدرت کے اولاد کا ہونا نا ممکن ہو ثابت نہیں ہے تو صرف یہودیوں کی روایتوں یا توریت کی استدلال پر اس کو ایک واقعہ فوق الفطرت یقین کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس کے آگے قرآن شریف میں آتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم کا ڈر جاتا رہا اور ان کو خوشخبری مل گئی اور ان کو حضرت لوط کی قوم پر عذاب نازل ہونے کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے اس میں جھگڑنا شروع کیا1؎ اول یہ بحث ہے کہ حضرت ابراہیم کو قوم لوط پر عذاب نازل ہونا کس طرح معلوم ہوا (توریت باب 18ورس20,21,22 میں لکھا ہے کہ خداوند گفت چوں فریاد سدوم و عموارہ زیادہ و گناھان ایشاں بسیار شنگین است پس فرود آمدہ خواھم دید کہ آیا بالکیہ مثل فریادے کہ بمن رسیدہ است عمل نمودہ اند اگر چنیں نہ باشد خواھم دانست وآن اشخاص توجہ نمودہ بسوے سدوم روانہ شدند۔ جس لفظ کا ترجمہ خداوند کیا گیا ہے وہ لفظ یہوہ یا جہوہ ہے جو خدا کا نام ہے پس توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے حضرت ابراہیم کو اس سے خبر دی تھی مگر قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ انہی تین شخصوں نے جو بھیجے گئے تھے خبر دی تھی۔ سورۃ الحجر میں ہے کہ حضرت ابراہیم نے کہا پھر کیا ہے تمہارا کام اے بھیجے ھوؤں انہوں نے کہا کہ ہم بھیجے گئے ہیں گہنگار قوم کی طرف2؎ اور سورۂ الذاریات میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے کہا پھر تمہارا کیا کام ہے اے بھیجے ہوؤ انہوں نے کہا کہ ہم بھیجے گئے ہیں گہنگار قوم کی طرف تاکہ ہم ڈالیں ان پر پتھر 1؎ فلما ذھب عن ابراھیم الروع و جائتہ البشریٰ یجادلنا فی قوم نوط (سورہ ھود آیت77) 2؎ قال فما خطبکم ایھا المرسلون قالو انا ارسلنا الی قوم مجرمین (سورۂ الحجر) مٹی سے نشان کیے گئے ہیں تیرے پروردگار کے نزدیک حد سے بڑھ جانے والوں کے لیے1؎ دوسری اس پر یہ بحث ہے کہ حضرت ابراہیم نے کس سے بحث شروع کی اس آیت میں ’’ نا‘‘ کی ضمیر خدا کی طرف ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا سے بحث بمعنی التجا شروع کی۔ توریت باب 18ورس23سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بحث خدا ہی سے ہوئی تھی کیوں کہ اس میں لکھا ہے کہ ان اشخاص کے سدوم کو چلے جانے کے بعد ’’ درحالیکہ ابراھیم در حضور خداوند مے ایستادہ پس ابراھیم تقرب جستہ گفت انح‘‘ مگر ہمارے علمائے مفسرین لکھتے ہیں کہ یجادلنا سے مراد یجادل رسلنا ہے۔ لیکن قرآن مجید میں جو بحث لکھی ہے وہ نہایت مختصر اور ایک امر کی نسبت ہے اور توریت میں جو لکھی ہے وہ نہایت لمبی ہے ممکن ہے کہ جو بات قرآن مجید میں ہے وہ ان تین شخصوں سے ہوئی ہو اور جس مجادلہ کا ذکر سورہ ھود میں ہے اور یجادلنا کے لفظ سے بیان ہوا ہے وہ التجا خدا ہی سے ہو۔ سورۂ ھود میں تو مجادلہ کا کچھ بیان نہیں ہے اور سورۃ الحجر میں صرف اس قدر ہے کہ ان تین شخصوں نے کہا کہ ہم بھیجے گئے ہیں گنہگار قوم کی طرف بہ جز آل لوط کے یعنی کہ وہ گنہگار قوم میں نہیں ہیںہم بیشک ان سب کو بچانے والے ہیں بہ جز اس کی جورو کے ہم نے ٹھیرا دیا کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں ہے 2؎ 1قال فما خطبکم ایھا المرسلون قالو انا ارسلنا الی قوم مجرمین لنرسل علیھم حجارۃ من طین مسومۃ عند ربک للسرفین (سورۂ الذاریات) 2؎ قالو انا ارسلنا الی قوم مجرمین الا آل لوط انا المنجوھم اجمعین الا امراتہ قدرنا انھا لمن الغابرین (سورۂ ھود) اور سورہ عنکبوت میں ہے کہ ان تین شخصوں نے جو حضرت ابراہیم کے پاس آئے تھے کہا کہ ہم بیشک اس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں بات یہ ہے کہ اس بستی کے رہنے والے ظالم ہیں حضرت ابراہیم نے کہا کہ اس میں تو لوط بھی ہے انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں اس کو جو اس میں ہے البتہ بچا دیں گے ہم اس کو اور اس کے لوگوں کو بجز اس کی جورو کے وہ ہے پیچھے رہنے والوں میں سے 1؎ اور سورۂ الذاریات میں ہے کہ ان تین شخصوں نے کہا کہ ہم بھیجے گئے ہیں گنہگار قوم کی طرف تاکہ ہم ڈالیں ان پر پتھر مٹی سے، نشان کئے گئے تیرے پروردگار کے نزدیک حد سے بڑھ جانے والوں کے لیے پھر ہم نے اس کو نکال لیا جو اس میں ایمان والوں میں ہے اور پھر ہم نے اس میں نہیں پایا سوائے ایک گھر کے مسلمانوں میں سے اور ہم نے اس میں ایک نشانی چھوڑ دی ان لوگوں کے لیے جو دکھ دینے والے عذاب سے ڈرتے ہیں2؎ ان آیتوں میں تو حضرت ابراہیم کا صرف حضرت لوط کی نسبت سوال کرنا معلوم ہوتا ہے مگر ان آیتوں میں جو ایک مشکل ہے وہ یہ ہے کہ ان آیتوں میں جو الفاظ انا لمنجوھم یعنی 1قالو انا مھلکوا ھذہ القیرۃ ان اھلھا کانوا ظالمین قال ان فیھا لوطا قالوا نحن اعلم لمن فیھا الننجینہ واھلہ الا امراتہ انت من الغابرین (سورۂ عنکبوت) 2قالو انا ارسلنا الی قوم مجرمین لنرسل علیہم خجارۃ من طین مسومۃ عند ربک للمسرفین فاخرجنا فیھا من المومنین فما وجدنا فیھا غیر بیت المسلمین و ترکنا فیھا آیۃ للذین یخافون العذاب الا لیم (سورۂ الذاریات) بیشک ہم ان سب کو بچانے والے ہیں انا مھلکوا ھذہ القر یعنی ہم بیشک اس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں لنرسل علیھم حجارۃ یعنی تاکہ ہم ڈالیں ان پر پتھر فاخرجنا پھر ہم نے لوط کو نکال لیا فما وجدنا فیہا یعنی ہم نے بجز ایک گھر مسلمان کے اور نہ پایا وترکنا فیہا اور چھوڑی ہم نے اس میں نشانی اور مثل اس کے اور چند الفاظ ہیں کہ اس پر مقتدرانہ کہنا نہ رسولوں کے اختیار میں ہے نہ فرشتوں کے بلکہ یہ مقتدرانہ کام صرف خدا کی قدرت میں ہیں نہ کسی بندے کے خواہ رسول ہوں یا انسان یا فرشتے۔ اس کی نسبت تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ ان تمام مقتدرانہ کاموں کو جو ان تین شخصوں نے اپنی نسبت کیا ہے جو خدا کے کام ہیں اس لیے کیا ہے کہ خدا سے ان کو تقرب و خصوصیت حاصل تھی 1؎ مگر میں اس توجیہ کو تسلیم نہیں کرتا کوئی بندہ ایسے مقتدرانہ کام اپنی نسبت منسوب نہیں کر سکتا اس قصہ کو خدا نے حکایۃً بیان کیا ہے جس میں ان تین شخصوں کے اقوال اور خدا کے مقتدرانہ افعال دونوں شامل بیان ہوئے ہیں پس وہ تمام ضمیریں اور مقتدرانہ الفاظ خدا کی طرف ہیں نہ ان تین شخصوں کی طرف۔ اس کا ثبوت خود قرآن مجید کی ایک آیت سے ہوتا ہے جس میں بلا ذکر ان تین شخصوں کے ان مقتدرانہ امور کو خدا نے خاص اپنی طرف منسوب کا ہے سورۂ قمر میں خدا نے فرمایا ہے یعنی جھٹلایا لوط کی قوم نے ڈرانے والوں کو بیشک 1؎ اسنادھم ایاہ الی انفسہم وھو فعل اللہ تعالیٰ لما لھم من القرب والا ختصاص بہ (تفسیر بیضای) ہم نے پہنچائی ان پر پتھرون کی بوچھاڑ بجز لوط کے لوگوں کے ہم نے ان کو بچایا صبح کے وقت اپنے پاس سے انعام کر کے اسی طرح ہم بدلا دیتے ہیں اس کو جو شکر کرتا ہے اور بیشک ان کو ڈرایا تھا ہمارے عذاب سے، پھر انہوں نے تکرار کی ڈرانے والوں سے اور بیشک انہوں نے دند مچائی اس یعنی لوط کے مہمانوں سے پھر بیکار کر دیں ہم نے ان کی آنکھیں پھر وہ چکھیں میرا عذاب اور میرے ڈرانے والوں کا اور بے شبہ گھیر لیا ان کو بہت سویرے جگہ پر قائم رہنے عذاب نے پھر چکھیں میرا عذاب اور میرے ڈرانے والوں کا 1؎ توریت میں ایک اور مجادلہ کا یعنی التجا کا ذکر لکھا ہے جو ابراہیم نے خدا سے کی تھی اور سورہ ھود میں جو یجادلنا فی قوم لوط آیا ہے اور وہ مجادلہ بیان نہیں کیا کیا عجب ہے کہ اس سے وھی مجادلہ یا التجا مراد ہو جس کا ذکر توریت میں ہے مفسرین بھی اس لفظ سے یہی مجادلہ بمعنی التجا سمجھتے ہیں چناں چہ ہم فارسی ترجمہ توریت کا اس مقام پر نقل کرتے ہیں وآں اشخاص از آں جا توجہ نمودہ بسوئے سدوم روانہ شدند در حالتیکہ ابراھیم در حضور خدا وندمے ایستادہ پس ابراہیم تقرب جستہ گفت کہ آیا حقیقۃ صالح را با طالح ھلاک خواھی ساخت احتمال دارد کہ در اندرون شہر پنجاہ نفر صالح باشند آیا بشود کہ آں مکان را ھلاک سازی و بسبب آں پنجاہ نفر صالحے کہ در اندرونش 1؎ کذبت قوم لوط بالنذر انا ارسلنا علیہم حاصبا الا آل لوط نجیناھم سحر نعمۃ من عندنا کذالک نجزی من شکر ولقد انذرھم بطشتنا فتماروا بالنذر ولقد راودوہ عن ضیغہ فطمسنا اعینہم فذوقوا ھذا بے ونذر ولقد صبحھم بکرۃ عذاب مستقر فذوقوا عذابی ونذر (سورۂ قمر) مے باشند نجات ندھی حاشا از تو کہ مثل ایں کارے کنی و صالحاں را با طالحاں ھلاک سازی و صالح با طالح مساوی باشد حاشا از تو آیا میشود کہ حاکم تمامی زمین عدالت نکند پس خداوند گفت اگر درمیان شہر سدوم پنجاہ نفر صالح پیدا بکنم تمامی اھل آں مکان را بسبب ایشاں نجات خواھم ذاد و ابراھیم در جواب گفت اینک حال منکہ خاک و خاکستر ستم آغاز تکلم نمودن با قایم مے نمایم بلکہ از پنجاہ نفر صالح پنج نفر کمی نمایند آیا میشود کہ تمامی اھل شہر را بہ سبب آں پنج نفر ھلاک سازی پس گفت اگر در آنجا چہل و پنج نفر یابم ھلاک نخواھم کرد و بار دگر باو متکلم شدہ گفت بلکہ در آں چہل نفر یافتہ شود پس او گفت کہ بہ سبب چہل نفر آں عمل نخواھم نمود و او گفت تمنا اینکہ آقایم غضبناک نشود کہ تکلم تمایم بلکہ در آں سی نفر یافتہ شوند او گفت اگر درا ینجا سی نفر پیدا بکم آں عمل نخواھم نمود دیگر گفت اینک حال آغاز تکلم با آقایم نمودہ ام بلکہ در آنجا بست نفر یافتہ شود او گفت کہ بہ سبب بست نفر ھلاک آں نخواھم کرد و دیگر گفت تمنا اینکہ آقایم غضب ناک نشود تا آں کہ یک بار دیگر تکلم نمایم بلکہ در آنجا دہ نفر پیدا شود و گفت کہ بسبب دہ نفر ھلاک شاں نخواھم گردد و خداوند ھنگامے کہ کلام را با ابراھیم انجام رساندہ بود روانہ شد و ابراھیم بمکانش رجعت نمود (کتاب پیدائش باب18ورس22لغایت33) ولما جاء ت رسلنا لوطا اب یہاں سے حضرت لوط کا قصہ شروع ہوا مگر یہاں اس قصہ کے اخیر کا بیان ہے شروع قصہ اور سورتوں میں بیان ہوا ہے توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط جب مصر سے واپس آئے تو علیحدہ علیحدہ ہو گئے حضرت ابراہیم کنعان میں رہے اور حضرت لوط اردن کے میدان میں جو نہایت سر سبز و شاداب و زرخیز خطہ تھا اور جہاں سدوم و عمو راہ و اوماد زبوئیم کی بستیاں تھیں چلے گئے۔ اس زمانہ میں ان تمام ملکوں میں طوائف الملوکی تھی اور آپس میں لڑائیاں ہوتی تھیں ایک لڑائی میں حضرت لوط قید ہو گئے حضرت ابراہیم نے فوج جمع کر کے پانچ بادشاہوں سے مقابلہ کیا اور حضرت لوط کی اور سدوم والوں کو چھڑایا۔ یہ واقعہ عبری توریت کے حساب سے سن2092 دنیوی میں یا سن 1912قبل مسیح ہوا تھا۔ غرض کہ حضرت لوط سدوم میں رہتے تھے جہاں کے لوگ نہایت بدکار تھے حضرت لوط نے ان سے کہا کہ میں خدا کا رسول ہوں میری اطاعت کرو اور جو بد باتیں ان میں تھیں ان کے چھوڑنے کی نصیحت کی۔ سورہ شعرا میں خدا فرماتا ہے کہ 1؎ جھٹلایا لوط کی قوم نے رسولوں کو جب کہ ان سے کہا ان کے بھائی لوط نے کہ کیا تم نہیں ڈرتے بیشک میں تمہارے لئے رسول ہوں رسالت مجھے سپرد ہے پھر ڈرو اللہ سے اور میری اطاعت کرو اور میں تم سے اس پر 1کذبت قوم لوط المرسلین اذ قال لھم اخوھم لوط الا تتقون افی لکم رسول امین فاتقو اللہ واطیعون وما اسلکم علیہ من اجران اجری الا علی رب العالمین اتاتون الذکران من العالمین وتذرون وما خلق لکھم ربکم من ازواجکم بل انتم قوم عادون قالوا لئن لم تنتہ یالوط لتکونن من المخرجین قال انی لعلملکم من القالین رب بخنی و اھلی مما یعملون فنجیناہ واھلہ اجمعین الا عجوزا فی الغابرین ثم دمرنا الاخرین وامطرنا علیہم مطر فاء مطر المنذرین (26الشعراء 60، لغایت173) کچھ بدلا نہیں مانگتا، میرا بدلا دینا کسی پر نہیں ہے بجز عالموں کے پروردگار پر، کہا تم مردوں کے پاس آتے ہو جو دنیا میں ہیں اور چھوڑتے ہو اس کو جسے پیدا کیا ہے تمہارے لیے تمہارے پروردگار نے تمہاری جوروؤں میں سے بلکہ تم ایک قوم ہو حد سے بڑھ جانے والی انہوں نے کہا کہ اے لوط اگر تو بس نہ کرے گا تو بیشک نکالے گیوں میں سے ہو گا لوط نے کہا کہ بیشک میں تمہارے کام کے دشمنوں میں سے ہوں اے پروردگار مجھ کو اور میرے لوگوں کو اس کام سے جو وہ کرتے ہیں (یعنی اس کے وبال سے) نجات دے پھر نجات دی ہم نے اس کو اور اس کے لوگوں کو بجز ایک ادھیڑ عورت یعنی لوط کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی پھر ہلاک کر دیا ہم نے اوروں کو اور برسایا ہم نے ان پر مینہ ایک قسم کا پھر ڈرائے کیوں پر مینہ برا ہے 1؎ اسی طرح سورہ نمل میں خدا نے فرمایا ہے کہ ہم نے لوط کو بھیجا جب اس نے اپنی قوم سے کہا کہ تم بیحیائی کا کام کرتے ہو اور تم دیکھتے ہو کیا تم بری خواہش سے عورتوں کے سوا مردوں کے پاس آتے ہو بلکہ تم جاہل قوم ہو پھر کچھ نہ تھا اس کی قوم کا جواب بجز اس کے کہ انہوں نے کہا کہ لوط کے لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ پاک بننا چاہتے ہیں پھر بچا دیا 1ولوطا اذ قال لقومہ اتاتون الفاحشۃ وانتم تبصرون انکم لتاتون الرجال شہوۃ من دون النساء بل انتم قوم تجہلون فما کان جواب قومہ الا ان قالو اخرجوا آل لوط من قریتکم انھم اناس یتطہرون فانجیناء واھلہ الا امراتہ قدرنا ھا من الغابرین وامطرنا علیھم مطرا فساء مطر المنذرین (27نمل55لغایتہ 59) ہم نے اس کو اور اس کے لوگوں کو بجز اس کی جورو کے ہم نے اس کیلئے ٹھہرا دیا تھا کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں سے ہے اور برسایا ہم نے ان پر ایک قسم کا مینہ پھر ڈرائے کیوں پر مینہ برا ہے 1؎ اور سورۂ اعراف میں ہے اور بھیجا ہم نے لوط کو جس وقت کہ اس نے کہا کہ اپنی قوم کو کیا تم فحش کرتے ہو کہ اس کو تم سے پہلے کسی ایک نے بھی جہان کے لوگوں سے نہیں کیا بیشک تم مردوں کے پاس آتے ہو شہوت رانی کو عورتوں کے سوا ہاں تم ایک قوم ہو حد سے گزری ہوئی اور نہ تھا ان لوگوں کا جواب بہ جز اس کے کہ انہوں نے کہا نکال دو ان کو اپنی بستی سے بیشک وہ آدمی ہیں اپنے تئیں پاک بنانے والے پھر نجات دی ہم نے اس کو اور اس کے لوگوں کو بہ جز اس کی عورت کے کہ وہ تھی پیچھے رہنے والوں میں اور برسایا ہم نے ان پر برسانا پھر دیکھ کیا ہوا انجام گنہگاروں کا۔ اسی طرح سورہ عنکبوت میں خدا نے فرمایا ہے کہ 2بھیجا ہم 1؎ ولوطا اذ قال لقومہ اتاتون الفاحشتہ ما سبقکم بھا من احد من العالمین انکم لتاتون الرجال شہوۃ من دون النباء بل انتم قوم مصرفون وما کان جواب قومہ الا ان قالو اخرجوھم من قریتکم انہم اناس یتطہرون فانجیناہ واھلہ الا امراتہ کانت من الغابرین وامطرنا علیھم مطر فانظر کیف کان عاقبۃ المجرمین (7الاعراف78 لغایت82) 2؎ ولوطا اذ قال لقومہ انکم لتاتون الفاحشۃ ما سبقکم بھا من احد من العالمین انکم لتاتون الرجال و تقطعون السبیل و تاتون فی نادیکم النکر فما کان جواب قومہ الا ان قالو ائتنا بعذاب اللہ ان کنت من الصادقین قال رب انصرنی علی القوم المفسدین (سورۂ عنکبوت) نے لوط کو جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ البتہ تم بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے کسی نے دنیا کے لوگوں میں سے نہیں کیا کیا یہ ٹھیک بات ہے کہ تم مردوں کے پاس آتے ہو اور رستہ لوٹتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام کرتے ہو۔ پھر اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا بجز اس کے کہ انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے خدا کا عذاب لا اگر تو سچا ہے لوط نے کہا اے پروردگار میری مدد کر ظالم قوم پر۔ غرض کہ حضرت لوط ان کو بری باتوں کے چھوڑنے کی نصیحت کرتے تھے اس عرصہ میں یہ تینوں رسول جو حضرت ابراہیم کے پاس آئے تھے وہاں پہنچے۔ حضرت لوط ان کے آنے سے کبیدہ خاطر اور ان کے سبب سے دل تنگ ہوئے اور کہا کہ آج کا دن نہایت سخت ہے۔ یہی مضمون سورۂ عنکبوت میں ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ جب آئے ہمارے رسول لوط کے پاس تو ان کے آنے سے کبیدہ خاطر اور ان کے سب سے دل تنگ ہوا انہوں نے کہا کہ مت ڈر اور غمگین مت ہو بے شک ہم تجھ کو اور تیرے لوگوں کو بچاویں گے بہ جز تیری جورو کے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے اور ہم اتارنے والے ہیں اس بستی کے لوگوں پر عذاب آسمان سے اس لیے کہ وہ بدکاری کرتے ہیں اور بے شک ہم نے چھوڑا اس بستی کا نشان ظاہر واسطے ان لوگوں کے جو سمجھتے ہیں1؎ 1؎ ولما ان جاء ت لوط سنی بھم وضاق بھم ذرعاء قالوا الا تخف ولا تحزن انا منجوک واھلک الا امراتک کانت من الغابرین انا منزلون علی اھل ھذا القریۃ رجزا من السماء بما کانوا یفسقون ولقد ترکنا منھا آیۃ بینۃ لقوم یعقلون (عنکبوت) یہی مضمون سورہ حجر میں ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ 1؎ جب لوط کے لوگوں کے پاس وہ رسول آئے تو کہا تم انجان لوگ ہو انہوں نے کہا کہ ہاں ہم تیرے پاس وہ لائے ہیں جس میں وہ شبہ کرتے تھے اور ہم تیرے پاس سچائی سے آئے ہیں اور بیشک ہم سچے ہیں ان تینوں شخصوں یا رسولوں کے آنے کی خبر پا کر حضرت لوط کی قوم کے لوگ دوڑ پڑے یعنی حضرت لوط کا مکان گھیر لیا۔ یہی مضمون مگر اس سے کسی قدر زیادہ تفصیل کے ساتھ سورۂ حجر میں آیا ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ شہر کے لوگ خوشی کرتے ہوئے آئے یعنی لوط کے گھر پر اس کا گھر گھیر کر جو لوگ اس کے گھر میں آئے تھے ان کے گرفتار کر لینے کے لیے۔ حضرت لوط نے کہا کہ یہ میرے مہمان ہیں پھر ان کو فضیحت مت کرو اور خدا سے ڈرو اور مجھ کو ذلیل مت کرو ان لوگوں نے کہا کہ کیا ہم نے تجھ کو منع نہیں کیا تھا دنیا کے لوگوں سے (یعنی دوسرے ملک کے لوگوں سے ملنے او ربلانے اور اپنے ہاں رکھنے سے) لوط نے کہا یہ میری بیٹیاں ہیں اگر تم کچھ کرنا چاہتے ہو(یعنی اگر تم میرے مہمانوں کو پکڑنا چاہتے ہو) قسم ہے تیری زندگی کی کہ بے شک وہ اپنی گمراہی میں اندھے ہو رہے تھے پھر جا لیا ان کو ہولناک آواز نے سورج نکلتے ہوئے پھر ہم نے شہر کی بلندی کو نیچان میں ڈال دیا اور ہم نے ان پر آگ میں پکے ہوئے مقدر کیے ہوئے پتھر برسائے بیشک اس 1فلما جاء لوط المرسلین قال انکم قوم منکرون قالوا بل جئناک بما کانوا فیہ یمترون وآتیناک بالحق وانا لصادقون (سورۃ الحجر) میں نشانیاں ہیں عبرت پکڑنے والوںکو1؎ اور سورۂ قمر میں فرمایا ہے کہ جھٹلایا لوط کی قوم نے ڈرانے والوں کو بے شک ہم نے بھیجی ان پر پتھروں کی بوچھاڑ بہ جز لوط کے لوگوں کے ہم نے ان کو بچایا صبح کے وقت اپنے پاس سے انعام کر کے اسی طرح ہم بدلا دیتے ہیں ان کو جو شکر کرتا ہے اور بے شک ان کو ڈرایا تھا ہمارے عذاب سے پھر انہوں نے تکرار کی ڈرانے والوں سے اور بے شک انہوں نے دند مچائی اس کے یعنی لوط کے مہمانوں سے پھر بے کار کر دیں ہم کے ان کی آنکھیں پھر وہ چکھیں میرے عذاب اور میرے ڈرانے والوں کا اور بے شبہ گھیر لیا ان کو بہت سویرے جگہ پر قائم رہنے والے عذاب نے پھر چکھیں میرا عذاب اور میرے ڈرانے والوںکا2؎ سورہ ھود کی اور ان سورتوں کی جن کا ہم نے ذکر کیا تمام آیتوں پر غور کرنے کے بعد تین امور بحث طلب معلوم ہوتے ہیں اول سدوم والوں نے کیوں حضرت لوط کا گھر گھیرا اور مہمانوں کو پکڑنا چاہا۔ 1وجاء اھل المدینۃ یستبشرون قال ان ھولا ضیفی فلا تفضحوں واتقواللہ ولا تخزون قالوا اولم ننھک عن العالمین قال ھولاء بناتی ان کنتم فاعلین لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمہون فاخذتھم الصیحۃ مشرقین فجعلنا عالیہا سافلہا وامطرقا علیہم حجارۃ من سجیل ان فی ذالک المتوسمین (سورہ حجر) 2؎ کذبت قوم لوط بالنذر انا ارسلنا علیہم حاصبا الا آل لوط نجینا ھم بسحر نعمۃ من عندنا کذالک نجری من شکر ولقد انذرھم بطشتنا فتیاروا بالنذر والقد راودوہ عن ضیفہ فطمنسا اعینھم فذوقوا عذابی و نذر (54القمر 33 لغایتہ لغایت39) دوم: ھولاء بناتی ان کنتم فاعلین سے کیا مطلب ہے سوم: جو عذاب نازل ہوا وہ کیا تھا اور کیوں کر تھا اور سورہ قمر میں جو فتطمسنا اعینھم ہے ا س کا کیا مطلب ہے امر اول کی نسبت علمائے مفسرین کا یہ خیال ہے کہ وہ رسول جن کو انہوں نے فرشتے قرار دیا ہے نہایت خوب صورت مرد بن کر آئے تھے اور جب وہ حضرت لوط کے گھر میں آئے تو ان کی بیوی نے لوگوں سے جا کر کہہ دیا کہ ہمارے گھر میں ایسے خوبصورت لوگ آئے ہیں کہ ان سے زیادہ خوبصورت دیکھنے میں نہیں آئے ان سے زیادہ اچھے کپڑے پہیے کوئی نہیں ہے اور نہ زیادہ خوش بو والا ہے یہ سن کر لوط کی قوم ان پر دوڑ پڑی اور خدا کے اس کلام سے کہ وہ بدکاری کیا کرتے تھے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا دوڑ پڑنا بدکاری کر لیے تھا۔ مگر میرے نزدیک یہ تفسیر صحیح نہیں ہے اور نہ اس کی تفسیر کی بنیاد کسی معتبر روایت پر ہے بلکہ صرف یہودی روایت پر مبنی ہے خدا کے اس کلام پر کہ ومن قبل یعملون السیات وہی ایک عمل خاص مراد لینا بھی صحیح نہیں ہے کیوں کہ وہ لوگ بہت سے اور بھی گناہ کرتے تھے لوٹ مار کرتے تھے اپنی مجلسوں میں خراب کام کرتے تھے جیسا کہ سورہ عنکبوت میں بیان ہوا ہے پس ’’ ومن قبل یعملون السیات‘‘ کے عام معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ حضرت لوط کا گھر گھیر لینا اور شورہ پشتی کرنا ان کے لیے کوئی عجیب بات نہیں تھی کیوں کہ وہ پہلے ہی شریر و بد ذات و برے کام کرنے والے تھے۔ اس باب میں ہم کو قیاسات و ظنیات پر گھر گھیر لینے کا سبب بیان کرنا ضرور نہیں ہے کیوں کہ خود قرآن مجید میں اس کی تصریح موجود ہے سورۂ الحجر میں خدا نے فرمایا ہے کہ جب اس شہر کے لوگ خوشی خوشی دوڑے آئے تو لوط نے کہا کہ یہ میرے مہمان ہیں ان کو فضیحت مت کرو تو شہر کے لوگوں نے کہا کہ ہم نے تجھ کو منع نہیں کیا تھا دنیا کے لوگوں سے1؎ جس زمانہ میں حضرت لوط سدوم میں جا کر رہے ہیں اس زمانہ میں طوائف الملوکی تھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کا حاکم یا بادشاہ جدا جدا تھا سدوم کی بھی ایک چھوٹی سی سلطنت جدا تھی۔ صاف صاف قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت لوط وہاں جا کر رہے تو وہاں کے لوگوں نے منع کر دیا تھا کہ تم اور لوگوں سے راہ و رسم و آمیزش نہ رکھنا پس جب کہ یہ اجنبی شخص حضرت لوط کے گھر میں آئے ان لوگوں نے آ کر گھیر لیا کہ یہ اجنبی شخص کون ہیں اور ان کو گرفتار کر لینا چاہا حضرت لوط نے کہا کہ یہ میرے مہمان ہیں ان کو مت پکڑو مفسرین کی عادت یہودیوں کی تقلید کرنے کی ہو گئی ہے۔ انہوں نے قرآن مجید کے الفاظ اولم ننھک عن العالمین پر خیال نہیں کیا اور جو کچھ یہودیوں کی روایتوں میں تھا اسی کو قرآن مجید کی تفسیر میں لکھ دیا۔ دوسرے امر کو بھی مفسرین نے اپنے خیال کے موید سمجھا ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت لوط نے کہا کہ جس بد خیال سے تم میرے مہمانوں کو لینا چاہتے ہو ان کے بدلے میں میری بیٹیاں لے لو اور جو کرنا چاہتے ہو ان کے ساتھ کرو پھر مفسرین 1؎وجاء اھل المدینۃ یستبشرون قال ان ھولاء ضیفی فلا تفضحون واتقواللہ لا تخزون قالوا اولم ننھک عن العالمین (سورۃ الحجر) کو اس تفسیر کے قرار دینے کے بعد مشکل پیش آئی، بعضوں نے کہا کہ بناتی سے مراد حضرت لوط کی اصلی بیٹیاں ہیں اس پر یہ مشکل پیش ہوئی کہ وہ کیوں کر ان کو ایسا کام کرنے کیلئے دیتے تھے اس پر یہ قرار دیا کہ مطلب یہ تھا کہ بعد نکاح کے ان کے ساتھ جو چاہو کرو۔ بعضوں نے کہا کہ بناتی سے لوط کی امت کی بیٹیاں مراد ہیں کیوں کہ پیغمبر بمنزلہ باپ کے ہے اور اس کی امت کی عورتیں بمنزلہ اس کی بیٹیوں کے ہیں۔ مگر یہ تفسیر محض غلط ہے جس کی بنا توریت کی متزلزل روایتوں پر مبنی ہے حالاں کہ خود توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں غلطی ہے غالباً یہ بات صحیح ہے کہ حضرت لوط کی دو بیٹیاں تھیں توریت میں بھی مذکور ہے کہ حضرت لوط نے ان لوگوں سے جنہوں نے گھر گھیر لیا تھا یہ کہا کہ حال اینک مرا دو دختریست کہ مردے را ندانستہ اندتمنا اینکہ ایشاں را بہ شما بیروں آورم وبا ایشاں آنچہ در نظر شما پسند است بکنید (کتاب پیدائش باب 19ورس8) حالاں توریت ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوط کی بیٹیوں کی شادی ہو چکی تھی اور ان کے شوہر موجود تھے چناں چہ توریت میںاسی قصہ کے بیان میں لکھا ہے کہ پس لوط بیروں رفتہ و بہ دامداد ھائش کہ دخترانش را بنکاح آوردہ بودند متکلم شدہ گفت (کتاب پیدائش باب 19 ورس 14) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن عورتوں کو حضرت لوط نے بیٹیاں کہا وہ ان کی اصلی بیٹیاں نہ تھیں۔ بنث اور بنوث عبری زبان میں عام عورتوں پر بولا جات اہے جیسا کہ کتاب امثال سلیمان باب31ورس 29میں استعمال ہوا ہے پس توریت میں جو لفظ بنوث اور قرآن مجید میں لفظ بناتی آیا ہے اس سے ایسی عورتیں مراد ہیں جو حضرت لوط کے ہاں کسی تعلق سے موجود تھیں اور کیا عجب ہے کہ لونڈیاں ہوں کیوں کہ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط جب مصر سے واپس آئے ہیں تو متمول اور مالک مویشی و صاحب لونڈی و غلام کے تھے۔ اس بات کی تردید کہ حضرت لوط نے ان لوگوں سے جنہوں نے ان کا گھر گھیر لیا تھا یہ کہا تھا کہ جس بد خیال سے تم میرے مہمانوں کو پکڑنا چہاتے ہو اس کے بدلے میری بیٹیاں لے لو اور ان کے ساتھ جو چاہو سو کرو خود قرآن مجید سے ثابت ہوتی ہے۔ اول یہ کہ قرآن سے پایا جاتا ہے کہ قوم لوط عورتوں کے ساتھ بھی اسی قسم کی بدفعلی کرتی تھی جیسے کہ مردوں کے ساتھ کرتی تھی قرآن مجید میں آیا ہے کہ وہ لوگ مردوں کے پاس یعنی لونڈوں کے پاس جاتے تھے اور جوروؤں میں بھی جو طریقہ کہ ان کے لیے خدا نے پیدا کیا ہے اس کو بھی چھوڑ دیا تھا1؎ خلاف فطرت انسانی اپنی جوروؤں کے ساتھ بھی بد فعلی کرتے تھے پس کیا حضرت لوط ان عورتوں کو خواہ وہ ان کی بیٹیاں ہوں یا اور کوئی اس لیے ان کو حوالے کرتے تھے کہ جس طرح وہ مردوں کے ساتھ بد فعلی کرتے ہیں اس کے بدلے ان کے ساتھ بدفعلی کریں نعوذ باللہ حاشا و کلا دوسرے یہ کہ جب حضرت لوط نے کہا کہ یہ میری اچھی بیٹیاں تمہارے لیے ہیں ان کو ماخوذ کر لو اور میرے مہمانوں کو ذلیل مت کرو تو ان لوگوں نے کہا کہ تو واقف ہے کہ ہم 1؎ اتاتون الذکران من العالمین وتذرون ما خلق لکم ربکم من ازواجکم بل انتم قوم عادون (سورۂ شعرا) کو تیری بیٹیوں میں یعنی ان کے گرفتار کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور تو جانتا ہے جو ہم چاہتے ہیں1؎ یعنی ان اجنبی آدمیوں کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں یہ کہنا کہ ہم کو تیری بیٹیوں میں حق نہیں ہے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان لوگوں میں حق ہے یعنی ان کے گرفتار کرنے کا حق ہے پس اگر وہ حق ان کے ساتھ بدکاری کا سمجھا جاوے تو کیسی غلطی ہے بلکہ وہ حق صرف یہ تھا کہ جو اجنبی لوگ ان کے شہر میں آ کر حضرت لوط کے گھر میں چھپے تھے ان کو گرفتار کر لیں پس قرآن مجید سے جو امر ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت لوط ان عورتوں کو بطور اول یا ضمانت کے ان لوگوں کو حوالہ کرنا چاہتے تھے اور یہ درخواست کرتے تھے کہ ان کے مہمانوں کو گرفتار کر کے ذلیل نہ کریں۔ اس بیان پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اگر صرف بطور اول یعنی بطور ضمانت عورتوں کو سپرد کرنا منظور تھا تو ’’ ھن اطہر لکم‘‘ یعنی وہ پاکیزہ تر ہیں تمہارے لیے کیوں فرمایا مگر یہ فرمانا اس بد خیال کا جو مفسرین نے قرار دیا ہے مثبت نہیں ہو سکتا اور نہ اس مدعا کے بر خلاف ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ اول سورہ الحجر میں ھن اطہر لکم کے الفاظ نہیں ہیں اس میں صرف یہ لفظ ہیں کہ ھولاء بناتی ان کنتم فاعلین دوسرے یہ کہ ھن اطہر لکم کے ہونے سے سورہ 1؎ لقد علمت مالنا فی بناتک من حق وانک تعلم و نرید (سورۂ ھود) الحجر کی آیت کے مطلب پر کچھ زیادتی اور سورہ الحجر کی آیت میں ان لفظوں کے نہ ہونے سے سورہ ھود کی آیت کے مطلب سے کچھ کمی لازم نہیں ہوتی۔ ھن اطہر کی دو قرائتیں ہیں مشہور قرأت میں اطہر کی رے کا پیش ہے اور دوسری قرأت میں اطہر کی رے کا زبر ہے یعنی نصب ہے جن لوگوں نے رے کا زبر پڑھا ہے وہ اس کو حال قرار دیتے ہیں اور از روئے قواعد محوی کے اس کی دو ترکیبیں قرار دیتے ہیں ایک صورت میں لفظ ھن حال اور ذوالحال میں فصل واقع ہوتا ہے اور اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور دوسری صورت میں ھن فصل واقع نہیں ہوتا اور اس پر کوئی اعتراض نحوی بھی وارد نہیں ہوتا صرف اتنی بات ہے کہ ’’ اطہر‘‘ کی رے کو منصوب پڑھنا مشہور قرأت کے بر خلاف ہے چناں چہ اس کی بحث تفسیر کبیر و تفسیر کشاف میں مندرج ہے ہم دونوں تفسیروں کی عبارت نقل کرتے ہیں جس دوسری ترکیب نحوی کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ تفسیر کشاف میں مذکور ہے۔ تفسیر کبیر کی عبارت حاشیہ پر ثبت ہے اس میں لکھا ہے کہ عبدالملک بن مروان اور حسن اور عیسیٰ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے ’’ ھن اطھر لکم‘‘ فتح کے ساتھ پڑھا ہے حال کی بناء پر جیسا کہ ہم نے خدا کے اس قول میں ذکر کیا ہے ’’ وھذا العلی شیخا‘‘ مگر یہ کہ اکثر نحویوں نے اس بات پر اتفا کیا ہے کہ یہ غلطی ہے اور کہا ہے کہ اگر ھولاء نباتی ھن اطہر فتحہ کے ساتھ پڑھا جاوے تو خدا کے اس قول کے مشابہ ہو گا ’’ وھذا العلی شیخا‘‘ مگر یہ کہ ھن کا لفظ بیچ میں آ گیا ہے اور یہ امر اس بات کو روکتا ہے کہ اطہر کو فتح سے پڑھا جاوے اس بحث کو لوگوں نے بہت بڑھایا ہے۔1؎ قفسیر کشاف کی عبارت حاشیہ پر ثبت ہے 2؎ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ابن مروان نے ھن اطہر لکم کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے سیبویہ نے اس کو ضعیف لکھا ہے اور کہا ہے کہ ابن مروان اپنی غلطی میں جکڑ گیا اور عمرو بن علاء ہے کہ جس شخص نے ھن اطہر کو فتحہ کے ساتھ پڑھا وہ اپنی غلطی میں چار زانو ہو کر بیٹھا اور یہ اس لیے کہ اس کا فتحہ پڑھنا اس بناء پر ہو گا کہ حال قرار دیا جائے اور اس کا عامل معنی فعلیہ ہو جو ھولاء میں موجود ہے جیسے کہ خدا کے اس قول میں 1روی عن عبدالملک بن مروان والحسن و عیسیٰ بن عمر انھم قروا ھن اطھر لکم بالنصب علی الحال کما ذکرنا فی قولہ تعالیٰ وھذا بعلی شیخا اکثر النحویین اتفقوا انہ خطاء قالوا لوقر ھولاء بناتی ھن اطھر (بالفتح) کان ھذا نظیر قولہ و ھذا بعلی شیخا الا ان کلمۃ ھن قد وقعت فی البین وذالک یمنع من جعل اطھر (بالفتح) حالا و طو لوا فیہ (تفسیر کبیر) 2؎ قرأاین مروان ھن اطہر لکم بالنصب وضعفہ سیبویہ و قال احتبیٰ ابن مروان فی لحنہ وعن ابی عمرو بن العلاء من قراھن اطہر (بالفتح) فقد تربع فی لحنہ وذالک لان انتصابہ علی ان یجعل حالا قد عمل فیھا ما فی ھولاء من معنی الفعل کقولہ ھذا بعلی شیخا او ینصب ھولاء بفصل مضمرکانہ قبل کذوا ھولاء و بناتی بدل و یعمل ھذا المضمرفی الحال و ھن فصل و ھذا لا یجوز لان الفصل مختص بالوقوع بین جزی الجملۃ ولا یقع یین الحال و ذی الحال وقد خرج لہ وجہ لا یکون ھن فیہ فصلا وذالک ان یکون ھولاء مبتداء و بناتی ھن جملۃ فی موضع جنرا المبتداء کقولک ھذا اخی ھو ویکون اطہر حالا (تفسیر کشاف) ھذا العلی شیخ یا یہ کہ ھولاء کو فتحہ دیا جاوے۔ فعل مضمر سے گویا یوں کہا گیا ہے خذوا ھولاء اور نباتی بدل ہو اور یہ مضمر حال میں عمل کرے ھن بیچ میں فصل واقع ہوا ہے لیکن یہ جائز نہیں کیوں کہ فصل صرف جملہ کی دو خبروں میں واقع ہوتا ہے حال ذوالحال میں فصل نہیں واقع ہوتا ہے مگر اس کی ایک اور وجہ نکالی گئی ہے جس میں ھن کو فصل ماننا نہیں پڑھا وہ یہ کہ ھولاء مبتدا ہو اور نباتی ھن پورا جملہ موضع خبر میں ہے جیسے کہ تیرا قول ھذا اخی ھو اور اطہر حال قرار دیا جاوے(تفسیر کشاف) غرض کہ اس میں کچھ کلام نہیں ہے کہ چند علمائے مفسرین و نحویین نے ھن اطہر کو حال قرار دیا ہے میں بھی اس کا حال ہونا تسلیم کرتا ہوں اور ہمیشہ قرأت مشہورہ کا اختیار کرنا پسند کرتا ہوں اس لیے اطہر کو مضموم پڑھتا ہوں اور بایں ہمہ حال ذوالحال قرار دیتا ہوں۔ جملہ حالیہ پر سے واو حالیہ کا حذف کر دینا جائز ہے پس تقدیر کلام کی یہ ہے کہ ھولاء بناتی و ھن اطہر لکم یعنی یہ میری بیٹیاں ہیں (اور) وہ پاکیزہ ہیں تمہارے لیے مبتداء و خبر کے درمیان میں جملہ معترضہ حالیہ واقع ہوا ہے اور یہ جائز ہے پوری ترتیب یوں ہے ’’ ھولاء بناتی لکم وھن اطہر‘‘ الفیہ ابن مالک میں لکھا ہے کہ جملہ حالیہ جب کہ فعل مضارع مثبت نہ ہو تو آتا ہے صرف واو کے ساتھ یا صرف ضمیر کے ساتھ یا دونوں کے اور اس کا شعر یہ ہے۔ وجملتہ الحال سوے ما قدما بواو او بمضمر او بھما اور غایت التحقیق شرح کافیہ میں اس کی یہ مثال دی ہے۔ کلمتہ فوہ الی فی تقدیر کلام کی یہ ہے کلمتہ وفوہ الی فی مگر واؤ کو محذوف کر دیا ہے۔ پس جب کہ حضرت لوط ان عورتوں کو بطور اول یعنی ضمانت کے ان لوگوں کو سپرد کرنا چاہتے تھے تو ان کی عظمت ظاہر کرنے کو انہوں نے کہا کہ ھن اطہر نہ ا س مقصد سے جس کا خیال مفسروں نے یہودیوں کی روایتوں کی تقلید سے کیا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد ایسے قصے بیان ہوئے ہیں جو توریت میں بھی مذکور ہیں مگر ان قصوں کو قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا ہے جس سے وہ غلطیاں جو توریت میں ان قصوں کی نسبت ہیں دور ہو جاتی ہیں پس ان قصوں کی تفسیر میں ہر جگہ توریت کی اور یہودیوں کی روایتوں کی تقلید کرنا صریح غلطی ہے بلکہ سب سے مقدم قرآن مجید کے لفظوں پر غور کرنا چاہیے کہ ان سے کیا مطلب حاصل ہوتا ہے اگر وہی مطلب حاصل ہو جو توریت میں ہے تو توریت یا یہودیوں کی روایت کو اس کی تفسیر میں بیان کرنا کچھ مضائقہ نہیں ہے مگر قرآن مجید کے الفاظ کو خواہ مخواہ توریت یا یہودیوں کی روایتوں کے مطابق پھیر پھار کر لانا صریح غلطی ہے۔ تیسرا امر جو عذاب نازل ہونے سے متعلق ہے قدرتی قانون پر مبنی ہے اور جس طرح خدا تعالیٰ ان تمام واقعات کو جو قانون قدرت کے مطابق ہوتے ہیں انسانوں کے گناہوں کی طرف نسبت کیا کرتا ہے اور جس کی وجہ سے ہم اپنی تفسیر میں بتا چکے ہیں اسی طرح اس قدرتی واقع کو بھی سدوم کے لوگوں کے گناھوں سے منسوب کیا ہے۔ مفسرین نے جو لغو و بے ھودہ باتیں اپنی تفسیروں میں لکھی ہیں کہ حضرت جبرئیل اس قطعہ زمین کو اپنے پروں پر اٹھا کر آسمان تک لے گئے اور پہلے آسمان کے اس قدر قریب پہنچے کہ آسمان کے فرشتوں نے کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کے اذان دینے کی آواز سنی یہ محض غلط اور موضوع کہانیاں ہیں جن کی مذہب اسلام میں کچھ بھی اصلیت نہیں ہے۔ سدوم اور عموراہ و ادما و زبوئیم یہ چار شہر اور بقول استریبو کے چار یہ اور نو اور کل تیرہ شہر اس مقام پر واقع تھے جہاں اب ڈوسی بمعنی سمندر مردہ جس کو عربی جغرافیہ دان بحر لوط کہتے ہیں واقع ہے تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بحر لوط کے گرد جو ملک کی حالت ہے اس سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ آتش خیز پہاڑوں کے لاوہ کے نشان اب بھی پائے جاتے ہیں اور اب بھی زلزلے کثرت سے آتے ہیں۔ علاوہ اس کے سدوم کی گھاٹی میں نفطہ کی کان تھی اور جا بجا نفطہ کے بہت بڑے بڑے غار تھے اور اسی وجہ سے اس شہر کا نام سدوم رکھا گیا تھا (توریت کتاب پیدائش باب 14ورس10) میں لکھا ہے کہ ’’ سدوم از چاہ ھائے گل چرپ پر بود‘‘ گل چرب جس کو لکھا ہے وھی نفطہ کا مادہ ہے جو پانی پر آ جاتا تھا اور مٹی میں بھی ملا ہوا ہوتا تھا اور یہ آتش گیر مادہ ہے جس میں حرارت سے دھواں اٹھتا ہے اور کبھی کبھی زیادہ حرارت سے بھڑک جاتا ہے۔ جغرافیہ کے محققوں نے لکھا ہے کہ ’’ اکثر اب بھی دیکھا جاتا ہے کہ ڈوسی یعنی بحر لوط سے دھوئیں کے بادل کے بادل اٹھتے ہیں اور اس کے کنارہ پر نئے سوراخ پائے جاتے ہیں آج تک بحر لوط میں ایک قسم کا مادہ جس کو انگریزی میں اسفالنس کہتے ہیں اور نفطہ کی ایک قسم ہے پانی کے اوپر آ جاتا ہے۔‘‘ غرض کہ اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ جہاں سدوم و عموراہ وغیرہ شہر آباد تھے وہاں آتشیں پہاڑ تھے اور نفطہ یا گندھک کی کانیں کثرت سے تھیں آتشیں پہاڑ کے پھٹنے اور نفطہ یا گندھک کے مادہ میں آگ لگ جانے سے وہ تمام شہر غارت ہوئے اور زمین کی وہ موٹی تہ جو نفطہ کے مادہ سے بنی ہوئی تھی پھٹ گئی اور جل گئی اور تمام قطہ زمین کا دھنس گیا اور پانی جو اس تہ کے نیچے تھا اوپر آ گیا اور ایک بہت بڑی جھیل پیدا ہو گئی جو اب ڈوسی یا بحر لوط کے نام سے مشہور ہے اور دنیا میں عجائبات سے ہے۔ قرآن مجید سے اس حادثہ کا واقع ہونا اس طرح پر معلوم ہوتا ہے کہ غالباً اس شام کو جب کہ قوم لوط نے جا کر حضرت لوط کا گھر گھیرا وہ آتش خیز پہاڑ اور نفطہ یا گندھک کی کانیں جلنی شروع ہوئیں اور کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ ان کا دھواں تمام شہر میں گھٹ گیا ہو گا اور قوم لوط جو حضرت لوط کا گھر گھیرے ہوئے تھی شہر میں دھواں گھٹ جانے کے سبب کام یاب نہ ہو سکی اندھیرے کے سبب ان کو کچھ نہ دکھلائی دیتا ہو گا اور دھوئیں کے سبب ان کی آنکھیں بے کار ہو گئی ہوں گی جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورہ قمر میں فرمایا ہے کہ بے شک انہوں نے دند مچائی لوط کے مہمانوں سے پھر بے کار کر دیں ہم نے ان کی آنکھیں ’’ ولقد روادوہ لاعن ضیفہ فطمسنا اعینھم‘‘ مفسرین نے فطمسنا اعینھم کے معنی لکھے ہیں کہ اندھا کر دیا اور یہ امر قرار دیا ہے کہ ان فرشتوں نے جو حضرت لوط کے ہاں آئے ہوئے تھے بطور اعجاز کے ان کو اندھا کر دیا اور ان کو حضرت لوط کے مکان کا دروازہ جس کو وہ توڑ کر اندر جانا چاہتے تھے نہیں ملا۔ لیکن جو روایت کہ انہوں نے بیان کی ہے اس کی کوئی معتبر سند نہیں ہے اور نہ اعجاز کی کچھ حاجت ہے جب کہ آتشیں پہاڑوں کا اور زمین کی گندھک و نفطہ میں آتش پیدا ہوئی اس کے دھوئیں کے گھٹ جانے سے ان کی آنکھیں بے کار ہو گئیں اور دکھائی دینے سے رہ گیا اسی کی نسبت خدا نے فرمایا کہ فطمسنا اعینھم یہ حال دیکھ کر ان تینوں شخصوں نے جو حضرت لوط کے ہاں آئے ہوئے تھے سمجھا کہ آتش فشانی زیادہ ہونے والی ہے اور حضرت لوط کو صلاح دی کہ یہاں سے بھاگ چلو چناں چہ سورہ ھود میں آیا ہے کہ ان لوگوں نے کہا اے لوط ہم تیرے خدا کے بھیجے ہیں سو تو اپنے اھل کو لے کر رات کے حصہ میں نکل جا اور تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے مگر تیری بیوی کہ اس کو بھی وہی پہنچنے والا ہے جو اوروں کو پہنچا ہے بے شبہ ان کا وعدہ صبح کا وقت ہے کیا صبح قریب نہیں1؎ اور سورۂ حجر میں یہ ہے کہ اپنے اھل کو لے نکل جا اور ان کے پیچھے چلا جا اور تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے اور چلے جاؤ جہاں تم کو حکم دیا جاتا ہے ہم نے اس کی طرف یہ طے کر دیا کہ ان کا پیچھا صبح کے وقت کٹ جائے گا2؎ ولا یلتفت منکم احد یعنی کوئی مڑ کر نہ دیکھے اس سے غرض وہاں سے جلد چلے جانے کی تاکید ہے جیسے کہ خدا نے 1؎ قالو یالوط انا رسل ربک من یصلوا الیک فاسر باھلک یقطع من الیل ولا یلتفت منکم احد الا امراتک انہ مصیبہا ما اصابھم ان موعدھم الصبح الیس الصبح بقریب (سورۂ ھود) 2؎ فاسر باھلک بقطع من اللیل واتبع ادبارھم ولا یلتفت منکم احد و امضوا حیث تومرون و قضینا الیہ ذالک الامران دابر ھولاء مقطوع مصبحین (سورۂ حجر) حضرت آدم کی نسبت کہا تھا ولا تقربا ھذہ الشجرۃ یعنی پاس نہ جانا اس درخت کے مگر حضرت لوط کی بیوی جو ایمان والوں میں نہ تھی اس نے اس نصیحت کو نہیں مانا اور اس عذاب میں مبتلا ہو کر مرنے والوں کے ساتھ مر گئی۔ جن لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ حضرت لوط کی بیوی بھی ساتھ بھاگی تھی مگر اس نے بھاگتے میں جو مڑ کر دیکھا تو نمک کی ہو گئی یا مڑ کر دیکھنے کے سبب مر گئی اس کی کچھ اصل نہیں ہے اور نہ قرآن مجید سے یہ بات پائی جاتی ہے۔ ٭٭٭٭٭٭ حضرت ابراہیم اور کعبہ کی تعمیر کعبہ در حقیقت نماز پڑھنے کی جگہ یعنی مسجد ہے جس کو حضرت ابراہیم نے بنایا تھا خود خدا نے اس کو مسجد کہا ہے جہاں فرمایا ہے ’’ ان المشرکین نجس فلا یقربو المسجد الحرام‘‘ اور جہاں فرمایا ہے ’’ لقد صدق اللہ رسولہ الرویا بالحق لتدخلن المسجد الحرام انشاء اللہ‘‘ ابراہیم اور اس کی تمام اولاد ایسے مقام کو بیت اللہ کہا کرتے تھے اور اس لیے کعبہ کو بھی بیت اللہ کہتے ہیں۔ انسان کی ایک جبلی عادت ہے کہ ایک ایسے وجود کے لیے جو نہ دکھائی دیتا ہے، نہ چھوا جاتا ہے اور نہ سمجھ میں آتا ہے اور یہ جز اس کے کہ ہے، اور کوئی خیال اس کی نسبت قائم نہیں ہو سکتا۔ کوئی نہ کوئی محسوس نشان قائم کر لیتا ہے اور اس محسوس نشان کے ذریعہ سے اپنا عجز اور نیاز اس غیر محسوس اور بیچون و بیچگوں ذات کے سامنے ادا کرتا ہے قدیم زمانہ کے لوگوں کو بالطبع ایسے نشان کے قائم کرنے کی زیادہ تر رغبت ہوتی تھی اور یہی بات ہے کہ جس کے سبب سے ہم قدیم سے قدیم قوموں کا اور وحشی سے وحشی لوگوں کا جب حال تحقیق کرتے ہیں تو ان میں بت پرستی کے یعنی ایک شے محسوس کے پوجنے کے آثار پائے جاتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیال حضرت ابراہیم بھی خدا کی عبادت کے لیے ایک بن گھڑا پتھر کھڑا کر لیتے تھے اور یہ رسم حضرت موسیٰ کے وقت تک قائم تھی اس فعل میں جو انبیاء نے کیا اور اس فعل میں جو بت پرست کرتے تھے فرق یہ ہے کہ بت پرست غیر خدا کے نام محسوس شے قائم کر کے پرستش کرتے تھے اور اس لیے وہ خدا کی پرستش نہ تھی بلکہ اس غیر خدا کی پرستش تھی جس کے نام سے وہ محسوس شے قائم تھی۔ انبیاء نے جو محسوس شے قائم کی وہ خدا ہی کے نام پر قائم کی اور خدا ہی کی پرستش کی، نہ کسی غیر خدا کی مگر مبارکی ہو اس کو (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) جس نے ان تمام نشانیوں کو مٹا دیا اور اس بے نشان کی عبادت کو بغیر کسی نشان کے قائم کیا اور بحر و بر اور پہاڑ اور گھر اور مسجد سب یکساں خدا کی عبادت ہونا سکھا دیا کوئی سمت خدا کی عبادت کے لیے مخصوص نہیں کی۔ یہ سمجھنا کہ کعبہ سمت خدا کی عبادت کے لئے مخصوص ہے، محض غلطی ہے اور بانی اسلام کی ہدایت کے خلاف وہ سمت عبادت کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ ایک تمیز اور تفرقہ کے لئے مخصوص ہے، جس کو ہم آگے بیان کریں گے کتاب پیدائش باب12ورس7میں ہے کہ ’’ تب خداوند نے ابراہیم کو دکھلائی دے کر کہا یہی ملک میں تیری نسل کو دوں گا اور اس نے وہاں خداوند کے لیے جو اس پر ظاہر ہوا ایک مذبح بنایا اور اسی باب کی آٹھویں آیت سے ظاہر ہوتاہے کہ پھر وہاں سے حضرت ابراہیم نے کوچ کیا اور آگے جا کر پھر ایک مذبح بنایا اور خدا کے نام سے یعنی خدا کے گھر کے نام سے اس کو موسوم کیا۔‘‘ اسی کتاب کے تیرھویں باب کی اٹھارویں آیت میں ہے کہ بلوطستان ممری میں ابراہیم جا رہا تھا اور وہاں خداوند کے لیے ایک مذبح بنایا۔ ان تینوں آیتوں سے ثابت ہے کہ خدا کے لیے مذبح تعمیر کرنا اور خدا کے نام سے اس کو پکارنا اور وہاں خدا کے نام پر قربانی کرنا حضرت ابراہیم کا طریقہ تھا۔ یہ طریقہ ان کی اولاد میں بھی جاری تھا۔ چناں چہ کتاب پیدائش باب26ورس25میں لکھا ہے کہ ’’ بیر شبع میں اسحاق پسر ابراہیم کو خدا دکھائی دیا اور اس نے وہاں مذبح بنایا اور خدا کے نام سے اس کو موسوم کیا۔‘‘ اب ہم کو یہ بتانا رہا کہ یہ مذبح کس طرح بنایا جاتا تھا اس کی تفصیل بھی توریت مقدس میں موجود ہے۔ کتاب خروج باب20ورس25میں لکھا ہے کہ ’’ اگر تو میرے لیے پتھر کا مذبح بنا دے تو تراشے ہوئے پتھر کا مت بنائیو کیوں کہ اگر تو اسے اوزار لگاوے گا تو اسے ناپاک کرے گا۔‘‘ اور اسی کتاب کے باب24ورس4میں لکھا ہے کہ ’’ اور موسیٰ نے خداوند کی ساری باتیں لکھیں اور صبح کو سویرے اٹھا اور پہاڑ کے تلے ایک مذبح بنایا اور اسرائیل کے بارہ سبطوں کے عدد کے موافق بارہ ستون بنائے گئے۔‘‘ اور کتاب پیدائش باب 28ورس18,19,22میں لکھا ہے کہ یعقوب صبح سویرے اٹھا اور اس پتھر کو جسے اس نے اپنا تکیہ کیا تھا لے کے ستون کی مانند کھڑا کے ااور اس کے سر پر تیل ڈالا اور اس کا نام بیت ایل (یعنی بیت اللہ خدا کا گھر) رکھا اور کہا کہ یہ پتھر جو میں نے ستون کی مانند کھڑا کیا خدا کا گھر یعنی بیت اللہ ہو گا۔ جب کہ حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی سارہ کے کہنے سے اپنی دوسری بیوی حاجرہ کو مع حضرت اسماعیل اپنے بیٹے کے جو حاجرہ بیوی کے پیٹ سے تھے نکال دیا اور وہ اس کوہستان ملکہ میں آ کر ٹھہرے تو حضرت ابراہیم نے ان کی عبادت کے لیے اسی طرح جیسا کہ وہ کیا کرتے تھے ایک پتھر کھڑا کر کے مذبح بنایا ہو گا جو اب ہم مسلمانوں میں حجر اسود اور یمین الرحمان کے نام سے مشہور ہے اس حجر اسود کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے کیوں کہ وہ ایک جزو کعبہ کا ہو گیا تھا مگر وہ ایسی شے ہے جو اب تک موجود ہے جہاں اس طرح پر مذبح بنایا جاتا تھا وہاں کوئی عمارت بنا دینے کا بھی دستور تھا جس کا اشارہ توریت کی ان آیتوں سے بھی پایا جاتا ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہیں پس بعد اس مذبح بنانے کے حضرت ابراہیم نے وہاں کعبہ بنایا جو اب بیت اللہ کہلاتا ہے اور اسی کے ایک کونے میں پتھر لگا دیا اس آیت میں اسی تعمیر کا ذکر ہے۔ اگرچہ ڈایو ڈورس یونانی مورخ کی تاریخ میں کعبہ کا ذکر ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے اعلیٰ درجہ کے تقدس کی تمام عرب تعظیم کرتے تھے مگر بعض نا سمجھ آدمی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ توریت میں کہیں اس مقام پر حضرت ابراہیم کے مذبح بنانے یا کعبہ کی تعمیر کرنے کا ذکر نہیں ہے مگر ان کا یہ اعتراض محض لغو اور بے بنیاد ہے توریت میں بہت سے ایسے واقعات ہیں جو مذکرر نہیں حالاں کہ اس ان کا تاریخی ثبوت موجود ہے اور توریت میں ذکر نہ ہونے سے اس کا عدم وقوع لازم نہیں آتا اصل یہ ہے کہ توریت اور جو کتابیں اس سے متعلق ہیں وہ خاص بنی اسرائیل کے حالات میں لکھی گئی ہیں اس لیے ان میں بنی اسماعیل کا وہاں تک کا ذکر ہے جہاں تک کہ بنی اسماعیل اور اسرائیل کے مشترک حالات رہے ہیں اور جہاں سے بنی اسماعیل کے حالات علیحدہ ہو گئے ہیں وہاں سے بنی اسماعیل کا ذکر ان کتابوں میں نہیں ہے اللہ ماشاء اللہ کہیں کہیں کسی سبب اور کسی تعلق سے آ جاتا ہے۔ مکہ میں بنی اسماعیل کے لیے حضرت ابراہیم کا مذبح یا کعبہ بنانا بنی اسرائیل سے کچھ تعلق نہیں رکھتا تھا اور ان کتابوں میں اس کا ذکر نہ ہونے کی یہ کافی وجہ ہے مگر ہر زمانہ کے عرب کی متواتر روایتوں سے جن سے کسی امر کے ثبوت میں کچھ شبہ نہیں رہتا اور نیز غیر قوموں کی کتابوں سے اور نیز قدیم جغرافیہ سے اور خود مکہ کے گرد کی قدیم ویران بستیوں سے جو حضرت اسماعیل کے بیٹوں کے نام پر آباد ہوئی تھیں، کچھ شبہ نہیں رہتا۔ حضرت ابراہیم نے جب کعبہ بنایا تو صرف اس کی دیواریں بنائی تھیں چھت اس پر نہیں تھی بنی جرھم کے زمانے میں پہاڑی نالہ کے سبب سے حضرت ابراہیم کا بنایا ہوا کعبہ ڈھے گیا تب بنی جرھم نے اس کو تعمیر کیا پھر وہ عمالیق کے زمانہ میں جو ایک قبیلہ بنی حمیر کا تھا ڈھے گا تب عمالیق نے اس کو بنایا، پھر ا س میں کچھ نقصان آ گیا تو قصی نے اس کو تعمیر کیا پھر آگ لگنے کے سبب کعبہ جل گیا اور قریش نے اس کو تعمیر کیا اس زمانے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہو چکے تھے اور آپ کی عمر تخمیناً بارہ چودہ برس کی تھی یزید کے زمانہ میں جب کعبہ پر فوج کشی ہوئی تو پھر کعبہ جل گیا اور عبداللہ بن زبیر نے اس کو تعمیر کیامگر حجاج بن یوسف نے عبدالملک بن مروان کے وقت میں عبداللہ بن زبیر کی عمارت کو ڈھا ڈالا اور از سر نو اس کو اسی طرح پر بنا دیا جیسا کہ قریش کے زمانہ میں تھا اور اب جو عمارت موجود ہے وہ حجاج بن یوسف کی بنائی ہوئی ہے مگر اس کے گرد کی جو عمارتیں ہیں اور جو عمارات حرم کعبہ کہلاتی ہیں ان کو بہت سے بادشاہوں نے بنایا ہے اور وہ نہایت عالیشان عمارتیں ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭ حضرت ابراہیم اور مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کی دعائے مغفرت کا چار جگہ ذکر ہے: (1) ایک سورہ ابراہیم میں جہاں حضرت ابراہیم نے مکہ کے لیے اور حضرت اسماعیل و حضرت اسحاق کے لیے برکت کی دعا مانگی ہے اسی دعا کے ساتھ یہ بھی دعا کی ہے کہ ’’ ربنا اغفرلی ولوالدی وللمومنین یوم یقوم الحساب‘‘ یعنی اے ہمارے پروردگار بخش دے مجھ کو اور میرے والد اور والدہ کو اور سب ایمان والوں کو جس دن کہ قائم ہو حساب (2) دوسرا مقام سورہ مریم میں ہے جہاں حضرت ابراہیم نے اپنے چچا آذر کو باپ کہہ کر بت پرستی چھوڑنے اور خدا پر ایمان لانے کی نصیحت کی ہے، مگر ان کے چچا نے نہ مانا اور خفا ہو کر کہا اگر تو بس نہیں کرتا تو میں تجھ کو سنگ سار کروں گا اور تو میرے پاس سے چلا جا اس وقت حضرت ابراہیم نے کہا ’’ سلام علیک فاستغفرلک ربی‘‘ چناں چہ اس کے بعد حضرت ابراہیم اور کلدانیاں سے جو ان کا وطن تھا جلا وطن ہو گئے۔ یہ وہ آیت ہے جس میں حضرت ابراہیم نے اپنے چچا آذر کے حق میں دعائے مغفرت کا وعدہ کیا تھا۔ (3) تیسرا مقام سورہ شعرا میں ہے جہاں حضرت ابراہیم نے اپنے چچا کو باپ کہہ کر اور نیز اس کو گمراہ قرار دے کر اس کے لیے دعائے مغفرت کی اور کہا ’’ واغفر لا بی انہ کان من الضالین‘‘ (4) چوتھا مقام سورہ ممتحنہ میں ہے جہاں خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی بت پرستی کے متعلق دعائے مغفرت کی پیروی نہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ’’ الا قول ابراھیم لابیہ لا ستغفرن لک وما املک لک من اللہ من شئی‘‘ یعنی حضرت ابراہیم کے اس قول کی پیروی نہیں چاہیے جو انہوں نے اپنے چچا سے ان کی مغفرت کی دعا کی نسبت کہا تھا اور اسی وعدہ کے مطابق انہوں نے دعا بھی کی تھی۔ سورہ ممتحنہ کی آیت سے بطور دلالت النص ظاہر ہوتا ہے کہ مشرک کے لیے دعائے مغفرت کرنی نہیں چاہیے اور سورہ توبہ کی آیت میں بہ نص صریح بیان ہوا ہے کہ مشرکین کے لیے گو وہ کیسے ہی قریب کے قرابت مند ہوں دعائے مغفرت نہ کی جاوے۔ چناں چہ فرمایا ما کان للنبی والذین آمنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کان اولی قربی من بعد ماتبین لھم انھم اصحاب الجحیم یعنی نبی کو اور مومنین کو واجب نہیں ہے کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا مانگیں چاہے وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی ہوں بعد اس کے کہ ان پر ظاہر ہو گیا کہ وہ اہل دوزخ ہیں۔ حضرت ابراہیم نے اپنے چچا کے لیے اس لیے دعائے مغفرت کی تھی کہ ان کو اپنے چچا کے ایمان لانے کی توقع تھی مگر جب ان کو یقین ہو گیا کہ وہ ایمان نہیں لانے کا تو انہوں نے اس سے اپنی بیزاری ظاہر کی جیسے کہ اسی آیت میں بیان ہوا ہے کہ ’’ فلما تبین لہ انہ عدوا اللہ تبرا منہ ان ابراہیم لا واہ حلیم‘‘ بعض مخالفین اسلام نے ان آیتوں سے اسلام پر بے رحمی کا الزام لگایا ہے کہ اسلام نے نہایت بے رحمی سے مشرک والدین کے لیے بھی دعائے مغفرت کی ممانعت کی ہے مگر یہ ان کی غلطی ہے اس لیے کہ اسلام نے جس قدر والدین کے ابد کی گو وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں اور مشرکوں کے ساتھ بھی صلہ رحم کی تاکید فرمائی ہے جس کی بنا محض رحم اور انسانیت پر ہے شاید اور کسی مذہب میں نہیں ہے مگر مغفرت یا عدم مغفرت کو رحم یا عدم رحم سے کچھ تعلق نہیں ہے اس لیے کہ مغفرت کا مدار صرف ایمان پر ہے کہ اگر کوئی بیٹا اپنے باپ پر ایمان نہیں لایا کیسا ہی رنج و غم و افسوس و رحم کیا کرے اور دعا مانگا کرے اس سے کیا ہوتا ہے اس کی مغفرت نہیں ہو سکتی اور جب کہ یہ بات محقق قرار پا چکی کہ مشرکین کی مغفرت نہیں ہونے کی تو انبیاء کو اور نیز تمام مسلمانوں کو نہیں چاہیے کہ مشرکین کے لیے وہ زندہ ہوں یا مردہ دعائے مغفرت کریں کیوں کہ ایسا کرنے میں اس بات کا شبہ ہوتا ہے کہ ان کو خدا کے اس وعدہ پر کہ مشرکین کو نجات نہیں دینے کا پورا پورا یقین نہیں ہے باقی رہی مشرکین کے لیے دعائے خیر کہ وہ ایمان لے آویں اور کفر و شرک سے نجات پاویں جو ان کے ساتھ اصلی محبت و رحم ہے اس کی ممانعت نہیں ہے خود انبیاء نے ایسا کیا ہے اور ہر ایک مسلمان کو ایسا کرنا چاہیے بلکہ مشرکین سے جو زیادہ تر قرابت قریبہ رکھتا ہو ان کے لیے اور زیادہ اور دلی اضطرار اور رنج و غم سے ایسی دعا کرنی لازم ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭ حضرت یوسف کا قصہ (حقیقت کی روشنی میں) قرآن کریم نے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو ’’ احسن القصص‘‘ فرمایا ہے اور مفسرین نے اس پر ایسے عجیب و غریب حاشیے چڑھائے ہیں جن کی انتہا نہیں سرسید نے اس واقعہ کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ لکھا ہے اور بڑی تحقیق کے ساتھ اس پر قلم اٹھایا ہے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں جو جو اہم آیات قرآنی آئی ہیں سب کی الگ الگ تشریح اور تفصیل اپنے مخصوص نقطہ نگاہ سے کی ہے نیچے وہ سارا بیان درج کیا جاتا ہے جو سرسید نے اس سلسلے میں تحریر کیا ہے ناظرین سے امید ہے کہ سرسید کی اس تحقیق اور تلاش کو بہت دل چسپ پائیں گے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ’’ ولقد ھمت بہ وھم بھا‘‘ کی نسبت مفسرین نے بہت لمبی لمبی دور از کار بحثیں کی ہیں کہیں اس پر بحث ہے کہ ’’ ہم بھا‘‘ کے لفظ سے حضرت یوسف سے گناہ صادر ہوا یا نہیں۔ کہیں اس پر بحث ہے کہ روایت برھان سے کیا مراد، پھر ایک روایت کہی جاتی ہے کہ حضرت یعقوب کی صورت دانتوں سے انگلی کاٹتے ہوئے دکھائی دی ایک روایت بتائی جاتی ہے کہ مکان کی چھت پر کچھ الفاظ لکھے ہوئے دکھائی دیے اسی طح کی بہت سی بے فائدہ اور بے ھودہ باتیں تفسیروں میں لکھی ہیں اور ان پر جرح، قدح و تعدیل و تصویب کی ہے مگر قرآن مجید کا مطلب بہت صاف ہے البتہ کسی قدر قواعد نحو کے مطابق اس پر بحث ہو سکتی ہے، اگرچہ ہمارے نزدیک اخفش و سیبویہ یا بصرئین و کوفیین کے مستنبطہ قواعد نحو سے قرآن مجید کو جکڑنا اور اس پر جرح محض غلط ناواجب ہے کیوں کہ کتنا ہی استغرا کیا جاوے، کسی زبان کے تمام محاورات و طرز ادا اور ایڈیم کا استغراء نہیں ہو سکتا لیکن ہم اول اصلی و صاف معنی قرآن مجید کے بیان کر کے بقدر ضرورت مسئلہ نحوی پر بھی بحث کریں گے۔ پہلی آیت میں خدا نے فرمایا تھا کہ اس عورت نے مکان کے دروازے بند کر دیے اور یوسف سے کہا کہ آؤ میں تیرے لیے ہوں یعنی حضرت یوسف سے فحش کی خواہش کی حضرت یوسف نے کہا خدا کی پناہ یعنی انکار کیا اور یہ دلیل پیش کی کہ جس نے مجھ کو گھر میں رکھا ہے یعنی اس عورت کا شوہر وہ میرا رب یعنی مربی ہے اور مجھ کو عز ت سے رکھا ہے اور ظلم کرنے والے فلاح نہیں پاتے۔ اب دوسری آیت میں جو لفظ وھم بھاکا ہے اس کے یہ معنی کہ حضرت یوسف نے اس عورت سے فحش کا قصد کیا یا ان کے دل میں اس کا ارادہ آیا کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتے کیوں کہ پہلی آیت میں صاف اس کام سے انکار بطور نص قطعی بیان ہو چکا ہے اور اس لیے ضرور ہے کہ ہم بھا کے معنی عدم وقوع ’’ ہم‘‘ کے ہوں پس ہم بھا، لولا، کی جزا ہے اور جزا بسبب اہم اور مقصود بالذات ہونے کی شرط پر مقدم ہو گئی ہے۔ اس لیے دوسری آیت کے صاف معنی جو نص قرآنی سے پائے جاتے ہیں یہ ہیں کہ ’’ اگر یوسف نے دلیل اپنے رب کی نہ دیکھی ہوتی یعنی نہ سمجھی ہوتی تو یوسف نے اس کے ساتھ قصد کیا ہوتا‘‘ پس قرآن مجید سے فحش کا قصد کرنا یا اس کا ارادہ دل میں آنا حضرت یوسف کی نسبت بیان نہیں ہوا ہے۔ رویت کا لفظ آنکھ سے ہی دیکھنے پر مخصوص نہیں ہے بلکہ دل میں جو بات یقین اور استحکام سے آ جاتی ہے اس پر بھی روایت بھی تفسیر کبیر میں آنکھ سے دیکھنے کے معنی نہیں بیان ہوئے ہیں بلکہ اس روایت قلبی کے معنی لیے ہیں جو انبیاء و صلحا کو منکرات پر اقدام کرنے سے روکتی ہے۔ فا المراد بالروئۃ حصول تلک الاخلاق (یعنی تطہیر نفوس الانبیاء و تذکیر الاحوال الرادعۃ لھم عن الاقدام علی المنکرات (تفسیر کبیر) فالھم عبادۃ عن جو اذب الطبیعہ وروئہ البرھان عبارہ عن جواذب العبوریۃ (تفسیر کبیر) اب یہ بات غور طلب ہے کہ ’’ برھان ربہ‘‘ سے کیا مراد ہے تعجب ہے کہ تمام مفسرین نے پہلی آیت میں جو لفظ ’’ ربی‘‘ ہے اس سے وہ شخص مراد لیا ہے جس نے حضرت یوسف کو خرید کر اپنے گھر میں رکھا تھا اور پرورش کیا تھا اور دوسری آیت میں جو لفظ ’’ ربہ‘‘ ہے اس سے خدا مراد لیاہے جس کے لیے کوئی قرینہ نہیں ہے بلکہ بلحاظ سباق پہلی آیت کے دوسری آیت میں بھی وہی شخص مراد لیا ہے جو پہلی آیت میں تھا۔ اب معنی آیت کے اور اور لفظ ’’ برھان‘‘ کے بالکل صاف ہیں یعنی اگر یوسف نے یہ دلیل نہ سمجھی ہوتی کہ جس نے مجھ کو اپنے گھر میں رکھا ہے اور میرا رب یعنی مربی یا پرورش کرنے والا ہے اس کی عورت کے ساتھ فحش ظلم ہے اور ظلم کرنے والے فلاح نہیں پاتے تو یوسف نے اس کے ساتھ قصد کیا ہوتا۔ اب رہی یہ بحث کہ ’’ لولا‘‘ جب بطور شرط کے واقع ہو توجزا کا اس پر مقدم کرنا بموجب قواعد مستنطبہ نحو جائز ہے یا نہیں اس کی نسبت تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ: لانسلم ان یوسف علیہ السلام ھم بھا والدلیل علیہ انہ تعالیٰ قال وھم بھالولا ان راء برھان ربہ و جواب لولا ھہنا مقدم وھو کما یقال قد کنت من الھالکین لولا ان فلانا خلصک (تفسیر کبیر) ہم اس بات کو نہیں مانتے کہ حضرت یوسف نے اس عورت کے ساتھ قصد کیا تھا کہ خدا نے کہاہے کہ اس کے ساتھ قصد کیا ہوتا اگر نہ دیکھتا دلیل اپنے پروردگار کی اس جگہ لولا مقدم ہے اور اس کی ایسی مثال ہے کہ کوئی کہے کہ تو ہوتا مرے ہوؤں میں سے اگر نہ فلاں شخص تجھ کو بچاتا۔ اس پر زجاج کا اعتراض نقل کیا ہے اس کا اعتراض یہ ہے کہ لولا کا جواب پہلے لانا شاذ ہے اور کلام فصیح میں موجود نہیں ہے۔ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ جواب لولا کا موخر لانا بہتر ہے مگر مقدم لانا ناجائز نہیں ہے اس جواب لولا کے مقدم آنے پر سورہ قصص کی اس آیت سے سند لی ہے کہ: واصبح فوا دام موسیٰ فارغا ان کادٹ لتبدی بہ لولا ان ربطنا علی قلبہا لتکون من المومنین (سورہ قصص) موسیٰ کی ماں کا دل بے صبر ہو گیا، قریب تھا کہ اس کو ظاہر کر دیوے اگر ہم نے بندش رکھی ہوتی اس کے دل پر اس پر زجاج کا دوسرا اعتراض نقل کیا ہے کہ لولا کا جواب بغیر لام کے نہیں آتا اگر ہم بھا، لولا کا جواب ہوتا تو یوں کہا جاتا ولقد ھمت بہ ولھم بھا لولا ان راء برھان ربہ اس کا جواب یہ دیا ہے کہ لولا کا جواب لام کے ساتھ آتا ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بغیر لام کے لانا جائز نہیں ہے۔ اس کے بعد تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ لولا جواب چاہتا ہے اور یہ یعنی وہم بھا اس کا جواب ہو سکتا ہے پھر ضرور ہے کہ وہ اس کا جواب ہو یہ بات کہنی نہیں چاہیے کہ ہم اس کے جواب کو مضمر مانیں گے اور بتہ جگہ قرآن میں جواب کو چھوڑ دیا جاتا ہے کیوں کہ ہم کہتے ہیں کہ اس بات میں کہ قرآن میں جواب چھوڑ دیا گیا ہے کچھ جھگڑا نہیں ہے مگر اصلی بات یہ ہے کہ جواب کا محذوف ہونا نہیں چاہیے۔ صرف اسی جگہ اس کا حذف کرنا یا چھوڑنا بہتر ہوتا ہے جب کہ لفظ میں ایسی دلالت پائی جاوے کہ اس سے وہ جواب محذوف متعین ہو جاوے اور اگر اس جگہ ہم جواب کو محذوف مانیں تو لفظ میں کوئی دلالت ایسی نہیں ہے جو جواب محذوف کو متعین کر دے اور اس جگہ بہت سے جواب مضمر ہو سکتے ہیں اور ایک کو باقیوں سے بہتر سمجھنے کی دلیل نہیں ہے انتہیٰ صاحب تفسیر کبیر نے اس بات کی کوئی مثال نہیں دی کہ لولا کا جواب بغیر لام کے بھی آیا ہے مگر قرآن مجید میں متعدد اس کی مثالیں ہیں سورہ نور میں ہے ولولا فضل اللہ علیکم و رحمتہ مازکی منکم من احدا بدا (آیت21) اور سورہ واقعہ میں ہے ’’ فلولا ان کنتم غیر مدینین ترجعونھا ان کنتم صدقین (آیت85,86)‘‘ اور اس شعر زمانہ جاہلیت میں بھی جواب لولا کا بغیر لام کے آیا ہے اور وہ شعر یہ ہے ولولا اننی رحیل حرام ھصرت قرونھا ولثمت فاھا اور فرزدق نے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی شان میں کہا ہے ما قال لا قط الا فی تشھد لولا التشہد کانت لا وہ نعم اگرچہ ان آیتوں اور شعروں میں لولا کا جواب موخر ہے مگر جب کہ اس کا جواب بحالت موخر ہونے کے بغیر لام کے آیا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ بحالت مقدم ہونے کے بغیر لام کے نہ آوے چناں چہ ہم اس کی مثال بھی پیش کریں گے۔ بلاشبہ تفسیر کبیر نے نہایت عمدہ طریق پر بیان کیا ہے کہ وھم بھا جواب مقدم ہے، لولا کا، لیکن ہم مختصر طور پر یہ بات کہتے ہیں کہ خود قرآن مجید سے ثابت ہے کہ وھم بھا جواب مقدم ہے لولا کا، کیوں کہ پہلی آیت سے کسی قسم کے ہم یعنی قصد سے انکار بیان ہو چکا ہے تو آیت میں ہر قسم کے ہم یعنی قصد سے نفی ہونی چاہیے اور اس کی نفی نہیں ہوتی جب تک کہ وھم بھا کو لولا کا جواب مقدم نہ قرار دیا جاوے پس نص قرآنی سے ثابت ہے کہ ھم بھا، جواب مقدم لولا کا ہے ہم اسی قدر پر اکتفا کرنا نہیں چاہتے بلکہ بیان کرتے ہیں کہ عرب کے اشعار میں بغیر لام کے بھی لولا کا جواب مقدم آیا ہے امرا القیس کہتا ہے۔ یغالین فیہ الخبرء لولا ھو اجر جناد بھا صرعی لھن نصیص غلو کرتیں وہ اونٹنیاں قناعت کرنے میں پانی سے چارہ پر اگر ایسی دو بھرنہ ہوتی جس پر ٹڈیاں زمین پر گر پڑی ہیں اور وہ چر چر بول رہی ہیں گویا بہنے کی وہ چرچراھٹ ہے۔ زھیر جو بہت مشہور اور قدیم شاعر زمانہ جاہلیت کا ہے کہتا ہے المجد فی غیر ھم لولا مائرہ وصبر نفسہ والحرب تستعر بزرگی اس کے سوا اوروں میں ہوتی ہے اگر نہ ہوتی اس کی یعنی ممدوح کی خوبیاں اور استقلال نفس ایسی حالت میں کہ لڑائی بھڑک رہی ہے۔ (شہد شاھد) شاھد کا لفظ زیادہ تر گواہ کے معنوں میں مستعمل ہے مگر ایسے گواہ پر جس نے اس واقعہ کو جس کا وہ گواہ ہے بچشم خود دیکھا ہو اس لیے قرآن مجید کے مترجموں نے اس کا ترجمہ کیا ہے (گواہی داد گوا ہے) اور اردو میں ترجمہ کیا ہے (گواہی دی گواہ نے) مگر یہ ترجمہ صریح غلط ہے کیوں کہ اگر شاہد کے معنی گواہ کے لیے جاویں تو اس کی گواہی ان کان قمیصہ قدمن قبل الی آخرہ ہو گی اور صاف ظاہر ہے کہ وہ گوہی نہیں ہے بلکہ وہ ایک واقعہ کی نسبت حکم یا فیصلہ ہے پس خود سیاق قرآن ان معنوں سے جو مترجموں نے اختیار کیے ہیں انکار کرتا ہے اسی لیے اس تفسیر کے مصنف نے جو تفسیر ابن عباس کے نام سے مشہور ہے ’’ شہد شاھد‘‘ کی تفسیر میں لکھا ہے حکم حاکمہ شاہد سے حاکم مراد لینا گو سیاق قرآن کے مناسب ہو مگر لفظ کی دلالت سے بہت بعید ہے۔ شہد اور شاہد کا لفظ جیسا کہ گواہ کے معنوں میں مستعمل ہے اس سے زیادہ حاضر اور موجود ہونے کے معنوں میں مستعمل ہے پس صحیح ترجمہ ان لفظوں کا وہ ہے جو ہم نے اختیار کیا ہے کہ (حاضر ہوا حاضر ہونے والا) یعنی اس تنازع کے وقت جو اس عورت اور حضرت یوسف میں ہواایک شخص آیا اور اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کان قمیصہ قدمن قبل الخ اب اس بات پر بحث ہے کہ وہ شاہد کون تھا تفسیر کبیر میں متعدد روائتیں اس کی نسبت لکھی ہیں جو اسی قسم کی ہیں جیسے کہ بے سروپا روائتیں تفسیروں میں ہوتی ہیں مگر وہ روایت جس پر ایک گروہ مفسرین کو اتفاق ہے اس قابل ہے کہ اس پر اعتماد کیا جاوے اور وہ یہ ہے کہ انہ کان لھا ابن عم و کان رجلا حکیما واتفق فی ذالک الوقت انہ کان مع الملک یریدان یدخل علیہا فقال قد سمعنا الجبلۃ من وراء الباب و شق القمیص الا انا لاندری ایکما صاحبہ فان کان شق القمیص من قدامہ فانت صادقۃ والرجل کاذب وان کان من خلفہ فالرجل صادق وانت کاذبۃ فلما نظر والی القمیص وراؤ الشق من خلفہ قال ابن عمہا انہ من کید کن عظیم ای من عملکن ثم قال لیوسف اعرض عن ھذا واکتمہ وقال لھا استغنری لذنبک وھذا قول طائفہ عظیمۃ من المفسرین (تفسیر کبیر) اس عورت کا چچا زاد بھائی تھا اور وہ ایک حکیم آدمی تھا اتفاق سے اس وقت وہ بادشاہ کے ساتھ تھا اور اس عورت کے پاس جانے والا تھا اس نے کہا کہ میں نے دروازہ سے ورے کھینچا تانی اور آواز قمیص پھٹنے کی سنی، مگر میں نہیں جانتا کہ تم دونوں میں کون آتے تھا پس اگر کرتا آگے سے پھٹا ہو تو تو سچی ہے اور وہ شخص جھوٹا ہے اور اگر پیچھے سے پھٹا ہو تو وہ شخص سچا ہے اور تو جھوٹی ہے پھر جب قمیص کو دیکھا اور معلوم ہوا کہ وہ پیچھے سے پھٹا ہے تو اس عورت کے چچا ذاد بھائی نے کہہ دیا بیشک تمہارا مکر ہے اور بیشک تمہارا مکر بڑا ہے یعنی یہ کام تمہارا ہے پھر اس نے یوسف سے کہا کہ اس سے درگذر کرو اور اس کو پوشیدہ رکھو اور اس عورت سے کہا کہ تو معافی مانگ اپنے گناہ سے یہ قول ہے ایک گروہ عظیم کا مفسرین میں سے پس یہ روایت ایسی ہے کہ اس کو تسلیم کیا جا سکتا ہے اور اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شہد شاہد کا لفظ بمعنی گواہ کے نہیں آیا بلکہ ایسے شخص کی نسبت آیا ہے جو وہاں حاضر تھا۔ انیسویں اور بیسویں آیت کے اکثر الفاظ نہایت غور طلب ہیں اور مفسرین نے بلا شبہ ان پر غور کی ہے اور اپنی سمجھ کے مطابق ان کی تفسیر بھی بیان کی ہے مگر تشفی کے قابل نہیں ہے خصوصاً اس وجہ سے کہ وہ تفسیر نا معتمد روایتوں پر مبنی ہے ہم چاہتے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے خود قرآن مجید کی دوسری آیتوں سے ان کی تفسیر سمجھیں۔ ان آیتوں میں ہے کہ جب شہر کی عورتوں نے حضرت یوسف کے ساتھ عزیز مصر کی عورت کے عشق کا چرچا کیا اور کہا کہ وہ علانیہ گمراہی میں ہے اور جب عزیز مصر کی عورت نے ان کا چرچا کرنا سنا تو ان کو دعوت میں بلایا جس میں حضرت یوسف بھی موجود ہوئے مفسرین لکھتے ہیں کہ وہ چار پانچ عورتیں تھے ایک عزیز مصر کے شراب پلانے والے کی عورت، دوسری اس کی روٹی پکانے والی یعنی داروغہ باورچی خانہ کی عورت، تیسری افسر جیل خانہ کی عورت، چوتھی داروغہ اصطبل کی عورت، پانچویں حاجب یعنی افسر منتظم دربار کی عورت۔ ان آیتوں میں جو الفاظ قابل غور ہیں منجملہ ان کے ایک لفظ بمکرھن ہے یعنی جب عزیز مصر کی عورت نے ان عورتوں کا چرچا کرنا سنا تو اس کو بلفظ بمکرھن سے تعبیر کاے پس غور کرنے کی بات ہے کہ ان کے اس چرچے کو کیوں اس لفظ سے تعبیر کیا تفسیر کبیر میں اور اسی طرح اور تفسیروں میں لفظ بمکرھن کی تفسیر بقولھن کی ہے پھر اس پر بحث کی ہے ان کے قول کو مکر کے لفظ سے کیوں تعبیر کیا ہے تفسیر کبیر میں اس کی تین وجہیں لکھی ہیں جو صحیح نہیں معلوم ہوتیں۔ اول یہ کہ اس چرچہ سے ان کا مطلب یہ تھا کہ عزیز مصر کی عورت ہم کو بھی یوسف دکھا دے مگر یہ کسی قدر بعید از عقل ہے کہ ان عورتوں نے جوعزیز مصر کے محل میں آنے جانے والی اور اس کے افسروں کی عورتیں تھیں اور حضرت یوسف بھی وہیں رہتے تھے اور انہوں نے ان کو کبھی نہ دیکھا ہو۔ دوسرے یہ کہ عزیز مصر کی عورت کے عشق کا راز ان کو معلوم تھا مگر اس کے چھپانے کو کہا تھا جب انہوں نے اس کا چرچا کیا تو یہ دغا بازی و مکر ہوا تسلیم کرو کہ دغا بازی اور خلاف وعدگی ہوئی راز داری نہ ہوئی مگر اس میں مکر کیا ہوا۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے عزیز مصر کی عورت کی پوشیدہ پوشیدہ غیبت کی جو مکر کے مشابہ تھی اس توجیہہ کا بودا پن خود اس سے ظاہر ہے اب ہم قرآن مجید ہی سے تلاش کرتے ہیں کہ ان عورتوں نے جو چرچا کیا اس پر مکر کا کیوں اطلاق کیا قرآن مجید کی اور آیتوں سے جن کا ہم ذکر کریں گے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورتیں خود حضرت یوسف کے عشق میں مبتلا تھیں اور حضرت یوسف کو اپنی طرف ملتفت کرنا چاہتی تھیں اور ظاہر میں عزیز مصر کی عورت کو یوسف کے عشق پر ملامت کرتی تھیں اور اس لئے ان کے اس چرچے اور ملامت کرنے کو ان کے مکر سے تعبیر کیا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عورتیں مع عزیز مصر کی عورت کے اس عشق بازی میں شریک تھیں اور ایک کو دوسری کا حال معلوم تھا اور اسی سبب سے عزیز مصر کی عورت نے ان کی بات چیت کو مکر سے تعبیر کیا اور بسبب راز دار ہونے کے یوسف کی دعوت میں ان کوبلایا اور سب نے مل کر حضرت یوسف کو فحش کے ارتکاب پر مجبور کرنا یا ان کو کسی جرم کے حیلہ میں پھنسانا چاہا تھا کیوں کہ حضرت یوسف پہلے جرم کے اتہام سے بری ہو چکے تھے اور وہ مجلس جس میں حضرت یوسف اور وہ عورتیں بلائی گئی تھیں دعوت کی تھی جس میں متعدد قسم کے کھانے تھے اور ان کے کاٹنے کے لیے ہر ایک کو ایک چھری دی گئی تھی چناں چہ تفسیر کبیر اور نیز تفسیر موسوم بہ ابن عباس میں لکھا ہے کہ وہ عورتیں دعوت میں بلائی گئی تھیں اور پھل کاٹنے یا گوشت کاٹنے کو چھریاں ان کو دی تھیں اور وہ گوشت کو چھری سے کاٹ کر کھاتے تھے مگر ان عورتوں نے صرف حضرت یوسف کو جرم میں پھنسانے کے لیے خود دانستہ اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور اسی جرم کے اتہمام میں ان کو قید خانہ میں بھیجا تفسیر کبیر اور تفسیر ابن عباس کی اصل عبارتیں یہ ہیں۔ حاصل الکلام انھا دعت اولئک النسوۃ واعتدت لکل واحدۃ منھن سکینا اما لا جل اکل الفاکھہ او لاجل قطع اللحم (تفسیر کبیر) واقعت (اعطت) کل واحدۃ منھن سکینا تقطع بھا اللحم لانھم کانوا لا یاکلون الا ما یقطعون بکا لما کینم (تفسیر ابن عباس) اب اس مطلب کو ہم قرآن مجید کی آیتوں سے ثابت کرتے ہیں جب بادشاہ نے خواب کی تعبیروں کو جو حضرت یوسف نے دی تھیں سن کر کہا کہ حضرت یوسف کو قید خانہ سے لاؤ تو جو شخص لینے آیا تھا اس سے حضرت یوسف نے کہا کہ فارجع الی ربک مسئلہ ما بال النسوۃ التی قطعن ایدیھن ان ربی بکیدھن علیھم (آیت50) تو پھر جا اپنے مالک کے پاس اور اس سے پوچھ کہ کیا حال ہے ان عورتوں کا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے بے شک میرا رب یعنی وہ جس نے میری پرورش کی ہے ان کے مکر کو جانتا ہے اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھ خود مکر کرنے کے لیے کاٹے تھے۔ اس پر بادشاہ نے یا عزیز مصر نے ان سے پوچھا کہ ما قال خطبکن اذ راد دتن یوسف عن نفسہ قلن حاش اللہ ما علمنا علیہ من سوء (آیت51) تمہاری کیا حالت تھی جب کہ تم نے لگاوٹ کی یوسف سے اس کو اپنے آپے کی حفاظت سے ڈگمگا دینے کو ان عورتوں نے کہا دھائی خدا کی ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں جانی اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ جس طرح عزنز مصر کی عورت نے حضرت یوسف سے لگاوٹ کی باتیں کی تھیں وہی حال ان عورتوں کا تھا جنہوں نے دانستہ مکر کرنے کے لیے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ تفسیر کبیر میں بادشاہ کے اس قول کی نسبت اذ راد دتن یوسف عن نفسہ دو احتمال لکھے ہیں ایک یہ کہ ان قولہ اذ راد دتن یوسف عن نفسہ وان کانت صیغۃ الجمع فالمراد منھا الواحدہ کقولہ تعالیٰ الذین قال لھم الناس ان الناس جمعوا لکم (والثانی) ان المراد منہ خطاب الجماعتہ ثم ھنھا وجھان (الاول) ان کان واحدۃ منھن راودت یوسف عن نفسہا (والثانی) ان کل واحدۃ منھن راودت یوسف لا جل امراۃ العزیز (تفسیر کبیر) اگرچہ راو دتن صیغہ جمع کا ہے لیکن اس سے مراد واحد ہے یعنی وہی عورت عزیز مصر کی مگر یہ احتمال محض غلط ہے اول تو اس لیے کہ صیغہ جمع سے واحد مراد لینے کی کوئی وجہ نہیں دوسرے یہ کہ بادشاہ نے یوسف کے پیغام پر سوال کیا تھا اور حضرت یوسف نے صاف کہا تھا کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے پس انہی عورتوں سے بادشاہ نے اذا راو دتن یوسف عن نفسہ کہہ کر سوال کیا پس تحقیق معلوم ہوا کہ وہ صیغہ جمع کا ہے ان عورتوں کی نسبت بولا گیا ہے جو تعداد میں چار پانچ تھیں پھر اس سے واحد مراد لینا خلاف واقع اور خلاف حقیقت ہے دوسرا احتمال یہ لکھا ہے کہ اس سے گروہ عورتوں کا مراد ہے خواہ ان میں سے ہر ایک نے حضرت یوسف کو خود اپنے نفس کے ساتھ فحش کرنے کی لگاوٹ کی ہو خواہ عزیز مصر کی عورت کے ساتھ مگر گو یہ احتمال اس تفسیر کا موید ہے جو ہم نے بیان کی ہے مگر اس احتمال میں بھی جو دو شقیں بیان ہوئی ہیں ان میں سے ہم پہلی شق کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ وہ زیادہ تر الفاظ قرآن کے مناسب ہے۔ ان آیتوں کے بعد کی آیت میں جو عزیز مصر کی عورت کا یہ قول ہے کہ قالت قد لکن الذی المتنی فیہ (آیت32) یعنی وہی شخص ہے جس کی بابت تم مجھ کو ملامت کرتی ہو اس کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ ان کی ملامت یوسف کے ساتھ عشق رکھنے کی تھی مفسرین نے اس واقعہ کی صورت اس طرح سمجھی ہے کہ ان عورتوں نے حضرت یوسف کو کبھی نہیں دیکھا تھا اور عزیز مصر کی عورت نے ان کو دعوت میں بلایا کہ جب وہ یوسف کے حسن و جمال کو دیکھیں گی تو ملامت نہیں کرنے کیں جب انہوں نے دفعۃحضرت یوسف کو دیکھا تو ان کے حسن و جمال کے سبب ان کو ہوش نہ رہا انہوں نے بجائے گوشت یا میوہ کے اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور کہا کہ یہ تو انسان نہیں ہے بلکہ فرشتہ ہے اس وقت عزیز مصر کی عورت نے کہا کہ یہ وہی ہے جس کے عشق کی بابت تم مجھ کو ملامت کرتی ہو۔ مگر جس طرح کہ ہم نے قرآن مجید کی ایک آیت کی دوسری آیت سے تفسیر بیان کی ہے اس سے صورت واقعہ کی اس کے برخلاف ہے جو مفسرین نے نکالی ہے بلکہ صورت واقعہ یہ تھی کہ ان عورتوں کی ملامت اس بات پر تھی کہ عزیز کی عورت جو بہت اعلیٰ درجہ کی ہے اپنے ایک غلام پر اس طرح فریفتہ ہو جاوے اور وہ اس پر ملتفت نہ ہو پس اس مجلس دعوت میں جب ان عورتوں نے بھی ہر طرح سے حضرت یوسف کی خوشامد اور ان سے لگاوٹ کی اور آخر کار ان کو دھمکانے اور ڈرانے اور مجرم ٹھہرانے کے لیے اپنے ہاتھ بھی کاٹ لیے اور جب بھی حضرت یوسف فحش کے مرتکب نہ ہوئے تو ان عورتوں نے کہا کہ یہ تو انسان نہیں ہے بلکہ ایک بزرگ فرشتہ ہے کہ کسی داؤ میں نہیں آیا اس پر عزیز مصر کی عورت نے کہا کہ یہ وہی ہے جس کی بابت تم مجھ کو ملامت کرتی ہو کہ میں تو اس پر فریفتہ ہوں اور وہ مجھ پر ملتفت نہیں ہوتا اس کے بعد عزیز مصر کی عورت کا یہ کہنا کہ ولقد روادتہ عن نفسہ فاستعصم ولنن لم یفعل ما امرۃ یسجنن ولیکونا من الصاغرین (آیت32) میں نے اس سے لگاوٹ کی اس کو اپنے آپے کی حفاظت سے ڈگمگانے کو مگر وہ نہیں ڈگمگایا اور بچا رہا اور اگر وہ نہ کرے گا جو میں اس کو کہتی ہوں تو وہ ضرور قید کیا جاوے گا اور البتہ ہو گا چھٹ بھیوں میں سے اس پر حضرت یوسف کا یہ کہنا کہ قال رب السبحن احب الی مما تدعوننی الیہ (آیت33) اے میرے خدا قید خانہ مجھے زیادہ پیارا ہے اس بات سے جو وہ مجھ سے چاہتی ہیں، بالکل موید و مثبت اس واقعہ کا ہے جو ہم نے بیان کیا ہے پس ان تمام آیتوں کے ملانے سے اس واقعہ کی وہی تصویر سامنے آ جاتی ہے جو ہم نے بیان کی ہے (ثم بدالھم من بعد ما راؤ الابات) اس میں کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ حضرت یوسف کے قید میں بھیجنے کا ارادہ مجلس دعوت کے بعد پیدا ہوا پس سوال یہ ہے کہ قید میں بھیجنے کی بنیاد وہی پہلا واقعہ تھا جس میں کرتا پھٹا تھا یا اور کوئی نیا امر پیدا ہوا ہمارے نزدیک دعوت کے جلسہ میں ان عورتوں کا مکر سے ہاتھ کاٹ لینا ایک نیا واقعہ حضرت یوسف کو قید میں بھیجنے کا پیدا ہوا لیکن مفسرین اس پہلے ہی واقعہ کو قید کا سبب قرار دیتے ہیں بہر حال یہ ایک ایسا خفیف امر ہے جس میں زیادہ بحث کی ضرورت نہیں مگر تفسیر کبیر میں جو کچھ اس کی نسبت لکھا ہے، اس کو اس مقام پر نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے چناں چہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ اعلم ان زوج المراۃ لما ظہر لہ براۃ ساحۃ یوسف علیہ السلام فلا جرم لم یتعرض لہ فاحتالت المراۃ بعد ذالک لجمیع الحیل حتی نخمل یوسف علیہ السلام علی موافقتہا علی مراد ھا فلم یلتفت یوسف الیہا فلما ایست دنہ احتالت فی طریق اخرو قالت لزوجھا ان ھذا العبد العبرانی فضحنی فی الناس یقول لھم انی راوتہ عن نفسہ وانا لا اقدر علی اظہار عذری فاما ان تاذن لی فاخرج واعتذرو اما ان تجسہ کما حبستنی مغند ذالک وقع فی قلب العزیز ان الاصلح حسبہ حتی یسقط عن السنۃ الناس فکر ھذا لحدیث حتی تقلی الفضیحۃ فھذا ھو المراد من قولہ ثم بدالھممن بعد مارا وا الایات یسبحنہ حتی حین لان البدء عبارۃ عن تعیز المرای عما کان علیہ فی الاول والمراد من الایۃ براتہ بقد القمیص من و بروخش الرجمہ والزام المحکم یاھہ قولہ انہ من کید کن عظیم (تفسیر کبیر) جب عورت کے شوہر کو حضرت یوسف کی پاک دامنی معلوم ہوئی تو اس نے حضرت یوسف سے کچھ تعرض نہیں کیا پس عورت نے اس کے بعد ہر طرح کے حیلے کیے تاکہ یوسف اس کے ڈھب پر چڑھ جائیں، لیکن وہ بالکل ملتفت نہ ہوئے پس جب وہ مایوس ہو گئی تو ایک طریقہ نکالا اور اپنے شوہر سے کہا کہ اس عبرانی غلام نے مجھ کو لوگوںمیں رسوا کیا لوگوں سے کہتا ہے کہ میں نے اس کو پھسلایا اور میں اس کی کوئی تاویل نہیں کر سکتی یا تو مجھ کو اجازت دو کہ میں گھر سے نکل کر اس کا دفعیہ کروں یا اس کو قید کر دو جیسا کہ تم نے مجھے قید کر دیا ہے اس بات پر عزیز مصر کو خیال ہوا کہ یوسف کا قید ہی کرنا مناسب ہے تاکہ لوگوں کی زبانوں پر یہ تذکرہ نہ رہے اور رسوائی کم ہو جائے اور خدا کے اس قول میں ثم بدالھم من بعد مارا والایات کا یہی مطلب ہے کیوں کہ بدء کے یہ معنی ہیں کہ پہلے جو رائے تھی وہ بدل جائے اور آیت سے مراد حضرت یوسف کی پاک دامنی ہے قمیص کے پیچھے کی جانب سے پھٹے ہونے سے اور فیصلہ کرنے والے کے اس الزام دینے سے کہ یہ تمہارا فریب ہے اور تمہارا فریب بہت بڑا ہے۔ اس کے بعد جو آیتیں ہیں وہ حضرت یوسف کے قید میں جانے اور دو قیدیوں اور فرعون مصر کی خوابوں کے متعلق ہیں جن کی تفسیر بیان ہو چکی ہے۔ اب تمام سورہ میں صرف دو تین مقام قابل غور باقی رہ گئے ہیں ایک یہ ’’ وابیضت عیناہ من الحزن فھو کظیم‘‘ دوسرے یہ کہ ’’ اذھبو بقیمصی ھذا فالقوہ علی وجہ ابی بات بصیر فلما ان جاء البشیرا التاہ علی وجھہ فاء قد بصیرا‘‘ تیسرے یہ کہ ’’ ولما فصلت العیر قال ابوھم انی لاجد ریج یوسف لولا ان تغندون‘‘ پس اب ہم تینوں مقاموں کی تفسیر بیان کرنی چاہتے ہیں ’’ ابیضت عیناہ‘‘ سے زوال بصارت یعنی اندھا ہو جانا مراد لینا صحیح نہیں ہے غم سے اور زیادہ رونے سے انسان کی آنکھوں میں اس کی بینائی میں ضعف آ جاتا ہے اور آنکھوں کے ڈھیلوں میں جو سفیدی ہے اس کی رنگت اصلی سفید رنگ میں اور پر رونق نہیں رہتیں بلکہ بے رونق اور اصلی رنگ سے زیادہ سفید ہو جاتی ہیں اور تراوت کے بجائے خشکی آ جاتی ہے یہاں تک کہ آنسو نکلنے بھی موقوف ہو جاتے ہیں اور آنکھیں ڈگر ڈگر کرنے لگتی ہیں پس یہی حال حضرت یعقوب کی آنکھوں کا ہو گیا تھا قرآن مجیف کے یہ الفاظ من الحزن فھو کظیم صاف اسی مطلب کو ظاہر کرتے ہیں لیکن یہ حالت دفعۃ بدل جاتی ہے جب کہ وہ غم در ہو جاوے دل میں طاقت اور دماغ میں قوت آ جاتی ہے خون کی گردش تیز ہو جاتی ہے اور ان سب باتوں سے آنکھوں پر رونق ہو جاتی ہے ضعف بصر جاتا رہتا ہے اور اصلی بصارت پھر آ جاتی ہے اسی حالت کی نصبت یات بصیرا اورفاء قد بصیرا کہا گیا ہے یہ سب امور طبعی ہیں جو انسان پر ایسی حالت میں گزرتے ہیں پس کوئی ضرورت نہیں کہ ہم ان طبعی واقعات کو بے ھودہ اور بے سروپا روایتوں کی بناء پر دور از کار قصے بناویں اور چھوٹے قصوں کو قرآن مجید کی تفسیر میں داخل کر کے کلام الٰہی کے ساتھ بے ادبی کریں۔ تفسیر کبیر میں بھی بعض اقوال ایسے لکھے ہیں جو بہت کچھ اس تفسیر سے جو ہم نے بیان کی ہے مناسبت رکھتے ہیں اس مقام پر ان کا نقل کرنا خالی از لطف نہ ہو گا۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ انہ لما قال یا اسغیٰ علی یوسف غلبہ للبکاء وعند غلبۃ البکاء یکثر الماء فی العین فتصیر العین کانھا ابیضت من بیاض ذالک الماء وقولہ ابیضت عیناہ من الحزن کنایۃ عن غلبۃ البکاء والدلیل علی صحتہ ھذا القول ان تاثیر الحزن فی غلبۃ البکاء لا فی حصول العمی فلو حملنا الا بیضا من علی غلبۃ البکاء وکان ھذا القلیل حسنا ولو حملناہ علی العمی لا یحسن ھذا القلیل فکان ما ذکرناہ اولی وھذا التفسیر مع الدلیل رواہ الواحدی فی البسیط عن ابن عبس رضی اللہ عنھما (تفسیر کبیر) یعنی جب حضرت یعقوب نے کہا کہ ہائے افسوس یوسف پر تو ان پر رونے نے غلبہ کیا اور رونے کے وقت آنکھ میں پانی بہت ہو جاتا ہے اور آنکھ ایسی ہو جاتی ہے گویا سپید ہو گئی ہے اسی پانی سے اور خدا کا یہ قول کہ یعقوب کی آنکھیں غم سے سپید ہو گئیں رونے کے غلبہ سے کنایہ ہے اور اس قول کے صحت کی دلیل یہ ہے کہ غم کا اثر رونے کا غلبہ ہے نہ اندھا ہو جانا پس اگر ہم سپیدی کو غلبہ بکا پر محمول کریں تو یہ تعلیل معقول نہ ہو گی اس لیے ہم نے جو ذکر کیا وہی بہتر ہے اور یہ تفسیر باوجود اس دلیل کے حضرت ابن عباس سے مروی بھی ہے جیسا کہ واحدی نے بسیط میں روایت کیا ہے پس اس روایت سے جو حضرت ابن عباس سے بیان ہوئی ہے صاف ظاہر ہے کہ ابیضت عیناہ سے حضرت یعقوب کا اندھا ہو جانا مراد نہیں ہے۔ ایک اور قول اسی مقام پر تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ منہم من قال ما عمی لکنہ صاربحیث یدرک ادراکا ضعیفا (تفسیر کبیر) بعضوں نے کہا ہے کہ وہ اندھے نہیں ہو گئے تھے بلکہ ان کو نظر آتا تھا لیکن کم نظر آتا تھا۔ اس کے بعد تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ فارقد بصیرا ای رجع بصیراً و معنی الا رتداد انقلاب الشی الی حالۃ قد کان علیھا وقولہ فارتد بصیرا ای صیرہ اللہ بصیرا کما یقال طالت النخلۃ واللہ تعالیٰ اطالھا واختلفوا فیہ فقال بعضھم انہ کان قد عمی بالکلیۃ فاللہ تعالیٰ جعلہ بصیرا فی ھذا الوقت قال اخرون بل کان قد ضعف بصرہ من کثرۃ البکاء و کثرۃ الاحزان فلما القوا القمیص علی وجھہ و بشر بحیاۃ یوسف علیہ السلام عظم فرحہ و انشرح صدرہ وا زالست احزانہ فضد ذالک قوی بصرہ و وزال النقصان عنہ (تفسیر کبیر) یعنی پھر وہ بصیر ہو گئے اور ارتداد کے معنی کسی شے کا اس حالت پر واپس آ جانا ہے جو پہلی تھی اور خدا کا یہ قول فارتد قد بصیرا اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے ان کو بصیر کر دیا جیسا کہ محاورہ میں کہتے ہیں کہ کھجور لمبی ہو گئی اور خدا نے اس کو لمبی کر دیا اور اس میں لوگوں نے اختلاف کاے ہے سو بعضوں نے کہا کہ وہ بالکل اندھے ہو گئے تھے اور اللہ نے ان کو اس وقت بصیر کر دیا اور بعضوں نے کہا ہے کہ ان کی نگاہ زیادہ رونے سے اور غم سے ضعیف ہو گئی تھی پس جب ان پر کرتہ ڈالا اور یوسف کی زندگی کی خوش خبری دی تو ان کو بہت خوشی حاصل ہوئی اور ان کا سینہ کھل گیا اور غم جاتا رہا پس ان کی نگاہ ٹھیک ہو گئی اور جو نقصان تھا جاتا رہا۔ اب لا جدریح یوسف پر غور کرنی باقی ہے یہ بات بخوبی ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب کو ا سبات پر کہ حضرت یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہر گز یقین نہیں تھا اور وہ بلا شبہ ان کو زندہ سمجھتے تھے اور ایسے موقع پر یہی خیالات ہوتے ہیں کہ وہ کہیں چلا گیا ہو گا اور کسی نے اس کو اپنے پاس رکھ لیا ہو گا یا بطور غلام کے بیچ ڈالا ہو گا اور اس زمانہ کی حالت کے موافق یہ اخیر خیال زیادہ قوی ہو گا انہی وجوھات سے ان کو ہمیشہ یوسف کی تلاش رہتی تھی اور ہمیشہ اس کے ملنے کی توقع رکھتے تھے اور ان کے تلاش کرنے کی تاکید کیا کرتے تھے یہ ایسا امر ہے جو ہمیشہ ہوتا ہے اس زمانہ میں بھی اگر کسی کا لڑکا گم ہو جاتاہے یا کہیں نکل جاتا ہے تو ہمیشہ اس کی تلاش میں رہتا ہے اور اس سے ملنے یا اس کے مل جانے کی توقع رکھتا ہے۔ اس زمانہ میں مصر کی ایسی حالت تھی کہ لڑکے اور لڑکیوں کو پکڑ لے جا کر وہاں بیچ ڈالنا زیادہ قرین قیاس تھا اور کچھ تعجب نہیں ہے کہ حضرت یعقوب کو بھی یہ خیال ہو کہ کسی شخص نے یوسف کو پکڑ لیا ہو اور مصر میں لے جا کر بیچ ڈالا ہو تفسیر کبیر میں ایک روایت لکھی ہے گو اس روایت کا طرز بیان کیسا ہی فضول ہو مگر اس کی فضولیات چھوڑ کر دو نتیجے اس سے نکالے جا سکتے ہیں ایک یہ کہ حضرت یعقوب کو یوسف کے زندہ ہونے کا یقین تھا دوسرے یہ کہ ان ک ویوسف کے مصر میں ہونے کا احتمال تھا اور وہ روایت یہ ہے کہ قال یعقوب علیہ السلام واعلم من اللہ تعلمونوھو انہ تعالیٰ یاتینی بالفرح من حیث لا احتسب فھو اشارہ الی انہ کان بتوقع وصول یوسف الیہ و ذکر والسبب ھذا التوقع امور احدھا ان ملک الموت اتاہ فقال لہ یا ملک الموت ھل قبضت روح ابنی یوسف قال لا یا نبی اللہ ثم اشار الی جانب مصر و قال اطلبہ ھہنا (تفسیر کبیر) یعنی حضرت یعقوب نے کہا کہ میں خدا کی طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یعنی میں خدا کا وہ احسان اور رحمت جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور وہ یہ ہے کہ خدا میرے لیے خوشی لائے گا اور مجھے پہلے سے اس کی کچھ خبر نہ ہو گی پس یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حضرت یعقوب یوسف کے ملنے کی امید رکھتے تھے اور لوگوں نے اس امید کے مختلف وجوہ بیان کیے ہیں ایک یہ کہ ملک الموت ان کے پاس آیا تو ان سے یعقوب نے پوچھا کہ تم نے میرے بیٹے کی روح قبض کر لی انہوں نے کہا اے خدا کے پیغمبر! نہیں پھر ملک الموت نے مصر کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ادھر تلاش کیجئے۔ بلاشبہ حضرت یعقوب نے مصر میں بھی تلاش کی ہو گی مگر وہ عزیز مصر کے ہاتھ بیچے گئے تھے اور محلوں میں داخل تھے اور ایک مدت تک قید رہے ان کا پتہ نہیں لگ سکتا ہو گا مگر جب حضرت یوسف کے بھائی مصر میں گئے اور حضرت یوسف بھی اس زمانہ میں عروج کی حالت میں تھے اور رعایت اور سلوک جو انہوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا اور پھر اپنے حقیقی بھائی کے لانے کی بھی تاکید کی تھی اور کچھ حالات بھی ان کے سنے ہوں گے تو ان کے بھائیوں اور ان کے باپ کے دل میں ضرور شبہ پیدا ہوا ہو گا کہ کہیں یہ یوسف ہی نہ ہو مگر جس درجہ شاہی پر اس وقت حضرت یوسف تھے یہ شبہ پختہ نہ ہوتا ہو گا اور دل سے نکل جاتا ہو گا۔ اس بات کا ثبوت کہ یوسف کے بھائیوں کے دل میں بھی شبہ تھا کہ وہ یوسف ہی نہ ہو خود قرآن مجید سے پایا جاتا ہے کیوں کہ جب حضرت یوسف نیان سے کہا کہ ’’ تم جانتے ہو کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا تو بغیر اس کے کہ حضرت یوسف کہیں کہ میں یوسف ہوں ان کے بھائی بول اٹھے کہ انک لانت یوسف یعنی کیا سچ مچ تم یوسف ہو اسی طرح حضرت یعقوب کے بیٹوں کے مصر میں آنے جانے اور حالات سننے سے یوسف کی نسبت مصر میں ہونے بلکہ یوسف کے یوسف ہونے کا شبہ قوی ہو جاتا تھا اس امر کی تقویت کے علاوہ اس پہلی روایت کی موید چند اور روایتیں تفسیر کبیر میں موجود ہیں۔‘‘ ایک روایت یہ ہے کہ قال السدی لما اخبرہ بنوہ بسیرۃ الملک وکمال حالہ فی اقوالہ و افعالہ طمع ان یکون ھو یوسف و قال یبعدان یظھر فی الکفار مثلہ (تفسیر کبیر) یعنی سدی کا قول ہے کہ جب حضرت یعقوب کو ان کے بیٹوں نے عزیز مصر کے صفات اور ان کے اقوال و افعال کے کمال سے مطلع کیا تو ان کو امید ہوئی کہ وہ یوسف ہی ہوں گے اور یہ کہا کہ کافروں میں تو ایسا شخص پیدا نہیں ہو سکتا۔ ایک یہ کہ علم قطعا ان بنیامین لا یسرق وسمع ان الملک ما اذاہ وما ضربہ فغلب علی ظسنہ ان ذالک الملک ھو یوسف (تفسیر کبیر) یعنی انہوں نے قطعاً جان لیا کہ بنیامین چوری نہیں کر سکتا اور یہ سنا کہ بادشاہ نے اس کو نہ ستایا نہ مارا پس ان کو گمان غالب ہوا کہ یہ بادشاہ یوسف ہی ہو گا۔ ایک یہ ہے کہ انہ رجع الی اولادہ وتکلم معہم علی سبیل اللطف وھو قولہ یابنی اذھبوا فتحسسوا من یوسف واخیہ واعلم انہ علیہ السلام لما طمع فی وجدان یوسف بناء علی الامارات المذکورۃ قال لبنیہ تحسوا من یوسف (تفسیر کبیر) یعنی وہ اپنی اولاد کی طرف مخاطب ہوئے اور ان کے ساتھ مہربانی سے باتیں کیں جیسا کہ خدا نے کہا اذھبوا فتحسسوا من یوسف و اخیہ اور جان تو کہ حضرت یعقوب کو جب ان نشانیوں کی امید بندھی تو انہوں نے بیٹوں سے کہا کہ یوسف کا پتہ لگاؤ۔ پس جب کہ حضرت یعقوب کا شبہ اس قدر قوی ہو گیا اور جو مہربانی یوسف نے اپنے بھائی کے ساتھ کی تھی اس کو سن کر ان کو گمان غالب ہو گیا تھا کہ وہ بنیامین کا بھائی یوسف ہے تو ان کو یقین کامل ہوا کہ اب کے جو قافلہ واپس آوے گا تو ٹھیک خبر یوسف کی لاوے گا جب کہ تیسری دفعہ یہ لوگ مصر میں گئے تو حضرت یوسف نے سب کے سامنے کہہ دیا تھا کہ میں یوسف ہوں اور حضرت یعقوب کو معہ تمام کنبہ کے بلانے کے لیے کہا تھا اور ان کے لیے بہت سا سامان مہیا کرنے کو حکم دیا تھا جس کے لیے کچھ عرصہ لگا ہو گا اس عرصہ میں حضرت یوسف کے مصر میں موجود ہونے کی خبر افواھاً حضرت یعقوب کو پہنچ گئی ہو گی اس افواہ پر ان کو یقین ہوا اور انہوں نے فرمایا کہ ’’ انی لا جدریح یوسف لولا ان تفندون‘‘ یعنی میں پاتا ہوں خبر یوسف کی اگر تم مجھ کو بہکا ہوا نہ کہنے لگو۔ ہم کو نہیں معلوم کہ قرآن مجید میں کہیں ’’ رنج‘‘ کا لفظ بمعنی بو کے آیا ہو اس مقام پر ’’ رنج‘‘ کا لفظ یوسف کی طرف مضاف ہے تو اب ہم کو دیکھنا چاہیے کہ قرآن مجید میں اور کہیں بھی رنج کا لفظ کسی شخص یا اشخاص کی نسبت مضاف ہو کر آیا ہے یا نہیں اگر آیا ہے تو اس کے کیا معنی ہیں تلاش کے بعد ہم کو یہ آیت ملی واطیعواللہ ورسولہ ولا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم (سورہ انفال آیت48) یعنی جاتی رہے گی ہوا تمہاری یعنی قوت و اتفاق کی جو خبر مشہور ہے اس کی شہرت جاتی رہے گی۔ علاوہ اس کے خود ریاح کو بشرا یعنی خبر دینے والی خدا نے کہا ہے ’’ ھو الذی یرسل الریاح بشرا بین یدی رحمتہ (سورہ اعراف آیت55)‘‘ اور ریاح کو مبشرات بھی کہا ہے یعنی خبر دینے والیاں ’’ ومن آیاتہ ان یرسل الریاح مبشرات‘‘ (سورہ لقمان آیت45) پس ریح یوسف سے مراد اس افواھی خبر سے ہے جس سے یوسف کا ہونا حضرت یعقوب نے سنا تھا۔ مفسرین کے دل میں یہ کہانی بسی ہوئی تھی کہ جب حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا ہے تو حضرت جبریل نے بہشت سے ایک قمیص لا کر حضرت ابراہیم کو پہنا دیا تھا جس کے سبب سے وہ آگ میں نہیں جلے۔ وہ قمیص حضرت اسحاق اور ان کے بعد حضرت یعقوب کے پاس آیا حضرت یعقوب نے اس کو بطور تعویذ کے چاندی میں منڈھ کر حضرت یوسف کے گلے میں لٹکا دیا جب ان کو اندھے کنوئیں میں ڈالا ہے تو وہ تعویذ ان کے گلے میں رہ گیا تھا وہی قمیص انہوں نے بھیجا تھا جب وہ نکلا تو ہوا لگ کر تمام دنیا میں بہشت کے قمیص کی خوشبو پھیل گئی اوروں نے تو جانا کہ کاہے کی بو ہے مگر حضرت یعقوب نے بو کو پہچان لیا اور جان گئے کہ بہشت کی یا یوسف کے قمیص کی ہے پس اس خیال پر قرآن مجید میں بھی ریح کے معنی بو قرار دے دیے یہ قصہ تفسیر کبیر میں بھی مندرج ہے مگر افسوس ہے کہ ہم اس پر یقین نہیں کر سکتے جو اپنا کرتا کہ انہوں نے بھیجا تھا وہ بلا شبہ ایک شاہانہ کرتا ہو گا اور صرف بطور نشانی کے بھیجا تھا کوئی اور عجیب بات اس کرتے میں نہ تھی بہ جز اس کے کہ اس سے حضرت یعقوب کو پورا یقین اور ان کے دل کو تسلی ہو جاوے کہ یوسف زندہ ہے اور ایسے عالی درجہ پر خدا نے اس کو پہنچا دیا ہے۔ (لقد کان فی قصصہم عبرۃ) اب ہم کو غور کرنی چاہیے کہ اس قصے میں عبرت پکڑنے کی کیا چیزیں ہیں مفسرین نے جو کچھ لکھا ہو لکھا ہو مگر چند باتیں بلا شبہ اس میں نہایت عبرت پکڑنے کی ہیں۔ سب سے اول حضرت یوسف کی پاک دامنی ہے حضرت یوسف جوان تھے اور انسان کا نفس امارہ جوانی کے زمانہ میں ادنیٰ سی بات میں پاک دامنی سے ڈگمگا دیتا ہے۔ حضرت یوسف کو اس ڈگمگا دینے کی اس قدر زیادہ ترغیبیں تھیں جو بہت کم کسی انسان کو ہو سکتی ہیں عزیز مصر کی عورت جو ایک بادشاہ کی بیگم ہونے کا درجہ رکھتی تھی اس کی درخواست گار تھی وہ خود بھی جوان اور خوب صورت تھی دنیا کی تمام نعمتیں یوسف کو دینے پر موجود تھی وہ اور یوسف ایک محل میں رہتے تھے جب چاہیں تنہائی میں مل سکتے تھے متعدد دفعہ وہ عورت اس طرح پیش آئی کہ اس حالت میں ایک جوان مرد کا ایک جوان عورت کی خواہش کا نہ پورا کرنا اگر نا ممکن نہیں تو حد سے زیادہ مشکل ہے اور باوجود ان باتوں کے حضرت یوسف کا صرف خدا کے ڈر سے اور اس احسان مندی کی وجہ سے کہ اس ے شوہر نے مجھے خریدا ہے اور پرورش کیا ہے اور اپنے گھروں میں رکھا ہے میں کیوں کر اس کی خیانت کر سکتا ہوں پاک دامن رہنا بے انتہا غور کرنے اور نصیحت پکڑنے کے قابل ہے ادھر خدا کا خوف اور خدا کے احکام کی اطاعت نصیحت دیتی ہے اور ادھر محسن کے احسان کو کبھی نہ بھولنا اور قدرتی جذبات انسانی پر بھی احسان مندی کو غالب رکھنا انسانوں کے واسطے بہت بڑی نصیحت ہے۔ جب عزیز مصر کی عورت نے کہا کہ اگر تو میری بات نہ مانے گا تو میں تجھ کو قید خانہ میں بھیج دوں گی اور ذلیل کر دوں گی تو یوسف نے اس مصیبت اور دقت کو گوارا کر کے کس سچے دل اور خلوص نیت سے کہا کہ اے میرے پروردگار قید خانہ مجھ کو بہت پیارا ہے اس بات سے جو وہ مجھ سے چاہتی ہے یہ قول حضرت یوسف کا کس قدر دل میں اثر کرنے والا اور عبرت اور نصیحت دینے والا ہے۔ باپ سے کم سنی میں مفارقت، بھائیوں کا ظلم، اندھے کنوئیں ڈال دیے جانے کی مصیبت، بطور غلام کے پکڑے جانے اور بیچے جانے کی ذلت اور پھر عیش و آرام میں آ کر قید خانہ میں ڈالے جانے کی ذلت و مصیبت سب کو صبر سے سہنا اور ہر حالت میں خدا کی مرضی پر راضی رہنا کبھی اس کی شکایت نہ کرنا کیا انسانوں کے لیے عمدہ سے عمدہ نصیحت نہیں ہے۔ اس کے بعد جب یوسف بادشاہت کے درجہ پر پہنچ گئے اور بھائیوں پر بخوبی قابو پایا تو ان کے تمام ظلموں کو جو ان کے ہاتھ سے سہے تھے اور ان کی تمام برائیوں اور بدسلو کیوں کو یک لخت بھلا دینا اور نہایت اخلاق و محبت سے ان کے ساتھ پیش آنا اور نہایت مصیبت کے وقت پے در پے اور طرح بطرح سے ان کے ساتھ سلوک کرنا دنیا میں ان کی خطاؤں سے در گذر کرنا اور عاقبت میں ان کے گناہوں کی معافی چاہنا کیا انسانوں کے لیے اپنے اخلاق درست کرنے کے لیے کچھ کم نصیحت ہے۔ ماں باپ کی خدمت اور تعظیم و ادب جو عین بادشاہت کے درجہ پر پہنچ کر حضرت یوسف نے ادا کیا ہمارے لیے کیسی عمدہ نصیحت ہے۔ حضرت یوسف کے بھائیوںنے جو بد سلوکی اپنے بھائی اور اپنے بڈھے باپ کے ساتھ کی اور آخر کار اس سے نادم اور پشیمان ہوئے کیا ہمارے لیے ایسے یا اس کی مانند کاموں سے بچنے کیلئے عمدہ نصیحت نہیں ہے۔ حضرت یعقوب کو اس واقعہ سے جو رنج پہنچا اور زمانہ دراز تک اس رنج و مصیبت میں مبتلا رہے مگر ہر حال میں خدا ہی کو رکھی اور اگر کوئی لفظ زبان سے نکلا تو یہی نکلا کہ انما اشکوا بثی و حزنی الی اللہ تو کیا ان کی یہ حالت ہم کو خدا کی مرضی پر راضی اور احسان کا شکر ادا کرنے اور اس کے رحم کے ہر حالت میں متوقع رہنے کے لیے کیسی کچھ نہایت موثر نصیحت نہیں ہے۔ پھر اس چھوٹی صورۃ اور مختصر الفاظ میں ان واقعات کو ایسی عمدگی سے بیان کیا ہے کہ لفظوں پر غور کرنے سے ہر ایک بات کی تفصیل اور جزئیات اور انسانی جذبات کا نقشہ آنکھوں کے سامنے بندھ جاتا ہے اور وہ واقعات دل میں اثر کرتے ہیں اور خدا کے اس فرمانے پر کہ ماکان حدیثا یفتری ولکن تصدیق الذی بین یدیہ و تفصیل کل شئی و ھدی و رحمتہ لقوم یومنون دل سے ایمان آ جاتا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭ قوم عاد اور قوم ثمود کے حالات (سرسید کا ایک نہایت تحقیقی مضمون) عاد اور ثمود کی نسبت کچھ لکھنے سے پہلے مندرجہ ذیل شحرہ، انساب لکھنا مناسب ہے (سید احمد) قوم عاد اولیٰ عاد اولاد سام بن نوع سے ہے سام کا بیٹا آرام اور اس کا بیٹا عوص اور اس کا بیٹا عاد، معالم التنزیل میں لکھا ہے وھو عاد بن عوص بن آرام بن سام و ھم عاد الاولی قوم عاد کی آبادی عربیا ڈرزتا یعنی عرب کے ریتلے میدان میں تھی اور الاحقاف کہلاتی تھی معالم التنزیل میں لکھا ہے کانت منازل قوم عاد بالاحقاف وہی رمال بین عمان و حضرت موت عرب کے نقشہ میں جو ریگستان پچاس درجہ طول اور بیس درجہ عرض پر واقع ہے وہ جگہ الاحقاف ہے جہاں قوم عاد آباد تھی۔ یہ قوم عاد اولیٰ کہلاتی ہے جس کی نسبت قرآن مجید میں کہا گیا ہے وانہ اھلک عاد الاولی (سورہ نجم آیت51) ثمود جس کا ذکر آگے آوے گا وہ عاد ثانی کہلاتا تھا اور ایک تیسرا عاد ہے جو عبد شمس یعنی سبا اکبر کی اولاد میں ہے اور جس کا بیٹا شداد ہے و سنہ 2092 دنیوی میں پیدا ہوا تھا پہلی دونوں قومیں عاد کی حضرت ابراہیم سے پہلے تھیں اور تیسری قوم حضرت ابراہیم کے زمانہ میں ہمارے مفسروں نے علاوہ ان لغو قصوں کے جو قوم عاد کی نسبت لکھے ہیں ایک اور غلطی یہ کی ہے کہ ان تینوں قوموں کے واقعات کو گڈ مڈ کر دیا ہے۔ قوم عاد اولیٰ کا واقعی زمانہ بتلانا نہایت مشکل ہے مگر انگریزی مورخوں نے جو توریت میں بیان کیے ہوئے حساب کے زمانے قائم کیے ہیں اسی حساب کی بنا پر ہم بیان کرتے ہیں کہ سام1558 دنیوی میں پیدا ہوا تھا اور ارفکسد جو آرام کا بھائی ہے 1258دنیوی میں یعنی سو برس بعد پس یہی زمانہ قریباً آرام کی پیدائش کا خیال ہو سکتا ہے اور عاد و پشت بعد آرام سے ہے پس اگر ساٹھ برس دو پشت کے لیے ہم اضافہ کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ عاد1718 دنیوی یعنی اٹھارھویں صدی دنیوی میں ہوا تھا۔ ھود جن کا نام توریت میں عیبر لکھا ہے وہ بھی اولاد سام بن نوح سے ہیں عیبر کی پیدائش توریت کے حساب سے 1723 دنیوی کی ہے اور اس سے ثابت ہے کہ عاد اور ھود ایک ہی زمانہ میں تھے اسی صدی میں نمرود نے بابل یا سریا میں بادشاہت قائم کی تھی اور حام پدر مصریم نے مصر میں اور عاد بن عوص نے الاحقاف میں اور عیبر یعنی ھود کے بیٹے یقطان نے یمن اور اس کے اطراف میں حضرت موت یقطان کا ایک بیٹا تھا جس کے نام سے یمن کے قریب کا وہ ملک جو انڈین اوشن یا بحر عرب کے کنارہ پر ہے مشہور ہے۔ یہ قوم عاد اولیٰ کی نہایت قوی اور قد آور تھی جیسے کہ اب بھی بعض ملکوں کے لوگ قوی اور قد آور ہوتے ہیں یہی بات خدا تعالیٰ نے اس قوم کی نسبت فرمائی ہے ’’ وزادکم فی الخلق بصطۃ (سورہ اعراف67)‘‘ ان کے قد معمولی قد آور آدمیوں سے ذراع کا لمبا تھا اور لمبے سے لمبا چار سو ذراع کا محض غلط ہے۔ نہ قرآن مجید سے یہ ثابت ہے نہ اور کسی سند سے قدیم علماء نے بھی اس سے انکار کیا ہے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ وقال قوم یحتمل ان یکون المراد من قولہ و زادکم فی الخلق بصطۃ کونھم من قبیلۃ واحدۃ متشارکین فی القوۃ والشدۃ والجلادۃ و کون بعضہم محبا للباقین ناصر الھم و زوال العداوۃ والخصومۃ من بینھم فانہ تعالیٰ لما خصہم بھذہ الانواع من الفضائل والسنہاقب فقد قور لھم حصولھا فصح ان یقال و زادکم فی الخلق بسطۃ (تفسیر کبیر) یعنی عالموں نے ’’ زادکم فی الخلق بصطۃ‘‘ سے ان کا زیادہ وہ قوی ہونا مراد لیا ہے نہ لمبا قد ہونا بعض عالموں نے ان لفظوں سے یہ مراد لی ہے کہ اس قوم کے لوگ کثرت سے تھے اور آپس میں محبت رکھتے تھے اور ایک دوسرے کے مددگار ہوتے تھے اور اس ارتباط کے سبب سے گویا ایک جسم ہو گئے تھے نہ یہ کہ ان کے قد بہت لمبے تھے اور وہ تمام دنیا کے لوگوں سے زیادہ چوڑے چکلے تھے۔ سورۃ الفجر میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’ الم ترکیف فعل ربک بعاد ارم ذات العماد التی لم یخلق مثلھا فی البلاد‘‘ اس آیت میں بھی اسی قوم عاد اولیٰ کا تذکرہ ہے ارم عاد کے داد! کا نام ہے جو کہ متعدد قومیں عاد کے نام سے مشہور تھیں جیسے کہ ہم نے اوپر بیان کیا اسی لیے خدا تعالیٰ نے ایک جگہ اس قوم کو عاد اولیٰ کر کے بیان کیا اور اس جگہ اس کے دادا کے نام سے پس ارم بیان ہے یا بدل ہے لفظ عاد سے یعنی ارم کی اولاد والا عاد ذات العماد سے بھی اسی طرح ان کا قوی اور قد آور ہونا بتایا ہے جیسے کہ لفظ زادکم فی الخلق بسطۃ سے بتایا ہے لفظ لم یخلق مثلھا فی البلاد سے صاف پایا جاتا ہے کہ عاد سے ان کے مخلوق قد مراد ہیں نہ کسی مکان کے مصنوعی ستون چناں چہ اکثر تفسیروں میں اور نیز تفسیر کبیر میں ہے اس کے مطابق علماء و مفسرین کے اقوال نقل کیے ہیں مگر اس کے سوا اور قول بھی ہیں جن میں غلطی سے ارم کو شہر کا نام سمجھا ہے اور ’’ ذات العماد‘‘ سے عمارات رفیعہ مراد لی ہے اور یہ محض غلط ہے اس لیے کہ قوم عاد اولیٰ ریگستان میں رہتی تھی اور ان کی کوئی عالی شان عمارتیں نہ تھیں بعض عالموں نے غلطی پر غلطی یہ کی ہے کہ ارم کو باغ تصور کیا ہے اور لکھا ہے کہ عدم کے پاس شداد نے بنایا تھا مگر یہ محض نا واقفیت سے لکھا ہے شداد کے باپ کا نام بھی عاد ہے مگر وہ اس زمانہ میں نہ تھا اور نہ اس نے کوئی ایسا باغ جیسا کہ مفسرین بیان کرتے ہیں بنایا تھا۔ بعض مفسرین کی یہ رائے ہے کہ قوم ارم خیموں میں رہتی تھی اور خیموں میں ضرور ہے کہ عماد یعنی استادے ہوں جن پر خیمے کھڑے ہوتے ہیں اور عمد کی جمع عماد آئی ہے مگر اس رائے سے یہ الفاظ قرآن مجید کے کہ ’’ لم یخلق مثلھا فی البلاد‘‘ مساعدت نہیں کرتے رورنڈ فارسٹر نے ایک تاریخانہ جغرافیہ عرب کا لکھا ہے اور اس میں نویری کے تاریخانہ جغرافیہ سے بعض حالات نقل کیے ہیں660عیسوی اور 670 عیسوی کے درمیان یعنی مطابق40ھ و 50ہجری کے معاویہ ابن ابی سفیان کے عہد حکومت میں عبدالرحمان یمن کا حاکم تھا اس نے چند کتبے قدیم زمانہ کے یمن و حضر موت کے نواح کے کھنڈرات میں پائے تھے اور پڑھے گئے تھے اور لوگوں نے خیال کیا تھا کہ یہ کتبے قوم عاد کے زمانہ کے ہیں ان کا عربی ترجمہ تویری کے جغرافیہ میں مندرج ہے ان میں سے چند کتبوں کے ترجموں کو اس کتاب سے ہم اس مقام پر لکھتے ہیں: ترجمہ: کتبہ اول مندرجہ جغرافیہ تویری غنینا زمانا فی عراصہ ذا القصر بعیش عیہرضنک ولا نذر یفیض علینا البحر بالمد زاجرا فانھارنا مبزعۃ یجرخلال نخیل باسقات نواطرھا نفق بالقسب المجزع والتمر نصطاد صید البر بالخیل والقنا وطور انصید النون من لجبح الجر و نرفل فی الخز المرقم تارۃ وفی القزا حیانا وفی الحلل الخضر یلینا ملوک یبعدون عن الخنا شدید علیٰ اھل الخیانہ والعذر یقیم لنا من دین ھود شرایعا ونومن بالا یات والبعث والنشر اذا ما عدوحل ارضا یریدنا بزرنا جمیعا بالمثقفہ السمر نحامی علی ادلادنا و نسائنا علی الشہب والکمیق المنیق والشقر نقارح من یبغی علینا و یعتدی با سیافنا حتی یولون یالدبر دوم: ترجمہ کتبہ مندرجہ جغرافیہ نویری غنینا بھذا القصر وھو افلم یکن لناھمۃ الا البلد ذوالقطف تروح علینا کل یوم ھنیدۃ من الابل یعشق فی معاطننا الطرف واضعاف تلک الا بل شاء کانھا من الحسن ارام او البقر القطف فعشتا بھذا القصر سبعۃ احقب با طیب عیش جل عن ذکرہ الوصف فجات سنون مجدبات قواحل اذا ما مضا علم اتی اخر یقفو فظلنا کان لم تغن فی الخیر لمحۃ فما تو اولما یبق خف ولا ظلف کذالک من لم یشکر اللہ لم یزل معالمہ من بعد ساحتہ تعفو سوم کتبہ مندرجہ کتاب ابن ھشام قال ابن ھشام حضر السیل عن قبر بالیمن فیہ امراۃ فی عنقہا سبع مخانق من برو فی یدیھا و رجلیہا الاسورۃ والخلا خیل والدما لیج سبعۃ سبعۃ وفی کل اصبع خاتم فیہ جوھرۃ مشنۃ وعندراسہا توباوت مملوما لا ولوح فیہ مکتوب باسمک اللھم الہ حمیر انا تاجۃ بنت ذی شفر بعثت مایرنا الیٰ یوسف فابطا علینا فبعثت لاذتی بعد من ورق لتا تینی بعد من طحبن فلم تجدہ فبعثت بمدمن ذھب فلم تجدہ فبعثت بمدمن بحری فلم تجدہ نامرت بہ فطحن فلم انتفع بہ فاقتفلت فمن سمع بی فلیر حمنی وایۃ امراۃ لیست حلیا من حلیی فلا ماتت الامیتی 1834ء میں سرکار انگریزی نے یمن کی پیمائش کے لیے کچھ افسر بھیجے انہوں نے حضرت موت میں جو سمندر کے کنارے پر ہے ایک پہاڑ پر ایک قلعہ کے کھنڈرات معلوم کیے اور ان کھنڈرات میں پتھر پر کھدے ہوئے کتبے دیکھے تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ قلعہ حصن غراب کے نام سے مشہور ہے (طول بلد 48 درجہ 30 دقیقہ اور عرض بلد14درجہ) وہاں ایک اونچی جگہ پر ایک کتبہ ملا پرانے حرفوں میں پتھر پر کھدا ہوا جو حرف کہ کوفی حرفوں سے بھی بہت پہلے کے ہیں اور اس سے کسی قدر نیچے ایک اور کتبہ پایا اور ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک اور چھوٹا سا کتبہ ملا علاوہ اس کے حصن غراب سے پچاس میل کے فاصلہ پر اور کھنڈرات ملے۔ لقب الحجر کے نام سے اور اس کے دروازہ پر ایک کتبہ ملا ان کتبوں کی بعینہ نقل کر لی گئی۔ ان کتبوں کی تحقیقات ہوتی رہی جب وہ پڑھے گئے تو معلوم ہوا کہ نویری کے جغرافیہ میں جو کتبہ ہے وہ ترجمہ ہے حصن غراب کے بڑے کتبہ کا چناں چہ اصلی کتبہ کا ترجمہ انگریزی میں کیا گیا جس کا اردو ترجمہ ہم اس مقام پر لکھتے ہیں۔ ترجمہ حصن غراب کے بڑے کتبہ کا ہم رہتے تھے رہتے تھے ہوئے مدت سے عیش و عشرت میں زمانہ میں اس وسیع محل کے ہماری حالت بری تھی مصیبت اور بد بختی سے بہتا تھا ہمارے تنگ راستہ میں۔ سمندر زور سے لہراتا ہوا اور غصہ سے ٹکراتا ہوا ہمارے قلعہ سے ہمارے چشمے بہتے تھے گنگناتی ہوئی آواز سے گرتے تھے۔ کھجور کے بلند درختوں سے اوپر جن کے رکھوالے کثرت سے بکھیرتے تھے خشک کھجور (یعنی ان کی گٹھلیاں) ہماری گھاٹی کی کھجور کی زمین میں وہ اپنے ہاتھ سے پھیلاتے تھے سوکھے چانول (یعنی بوتے تھے) ہم شکار کرتے تھے پہاڑی بکروں کو اور نیز خرگوش کے بچوں کو پہاڑیوں رسیوں اور سر کنڈوں سے بھگا کر ہلاتے تھے جھگڑتی ہوئی مچھلیوں کو۔ ہم چلتے تھے آہستہ مغرور چال سے پہنے ہوئے سوئی کے کام کیے ہوئے مختلف رنگ کے ریشمی کپڑے بالکل ریشم کے کاھی سبز رنگ کی چار خانہ دار پوشاک۔ ہم پر حکومت کرتے تھے بادشاہ جو بہت دور تھے ذلت سے اور سخت سزا دینے والے تھے بدکار اور منکر آدمیوں کے اور انہوں نے لکھی ہمارے واسطے مطابق اصول ھود کے۔ عمدہ فتویٰ ایک کتاب میں محفوظ رہنے کے لیے اور ہم یقین کرتے تھے معجزہ کے بھید میں مردوں کے بھید میں اور ناک کے سوراخ کے بھید میں۔ ایک حملہ کیا لٹیروں نے اور ہم کو ایذا پہنچاتے ہم اور ہمارے فیاض نوجوان جمع ہو کے سوار ہو کر چلے معہ سخت اور تیز نوکدار برچھیوں کے آگے کو جھپٹتے ہوئے۔ مغرور اور بہادر حمایتی ہمارے خاندانوں اور ہماری بیویوں کے لڑتے ہوئے دلیری سے گھوڑوں پر سوار جن کی لمبی گردنیں تھیں اور جو سمندر اور لوھیا رنگ اور سرنگ تھے۔ ہم اپنی تلواروں سے زخمی کرتے ہوئے اور چھیدتے ہوئے اپنے دشمنوں کو یہاں تک کہ دھاوا کر کے ہم نے فتح کیا اور کچل ڈالا ان ذلیل آدمیوں کو ترجمہ اس کتبہ کا جو اس کتبہ کے نیچے کھدا ہوا ہے علیحدہ حصوں میں تقسیم کیا گیا اور لکھا گیا۔ سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کی طرف اور نقطہ لگے ہوئے یہ گیت فتح کا سرش اور زرغا نے عوص نے چھید ڈالا (یعنی زخمی کر دیا) اور تعقب کیا بنی عک کا اور ان کے چہروں کو سیاھی سے بھر دیا۔ ترجمہ چھوٹے کتبہ کا جو پہاڑی کی چوٹی پر ہے دشمن کی سی نفرت سے گناہ گار آدمیوں پر ہم نے حملہ کیا آگے کو دوڑا کر اپنے گھوڑوں کو ان کو پاؤں کے نیچے روند ڈالا ترجمہ کتبہ کا جو نقب الحجر کے دروازہ پر ہے رہتے تھے اس محل میں اب (ابو) محارب اور بحثہ جب کہ یہ ابتداء میں تیار ہوا رہتے تھے اس میں خوشی سے فرزندانہ اطاعت کے ساتھ نواس اور ونیا حاکم اعلی حربحل مالک محل کا جس نے فیاضی سے بنایا کارواں سرائے اور کنواں۔۔۔۔ اس نے نیز بنایا عبادت خانہ فوارہ اور تالاب اور بنایا زمانہ اپنے عہد میں۔ ریورنڈ فاسٹر نے اس بڑے کتبہ کے نیچے جو کتبہ ہے اس میں عک کا نام دیکھ کر اس کتبہ کا زمانہ قرار دینے پر توجہہ کی اور کہا کہ عک بیٹا تھا عدنان کا اور مسلمانوں کی حدیث کے مطابق جو ام سلمہ سے منقول ہے عدنان حضرت اسماعیل کی چوتھی پشت میں تھا پس اس حساب سے کہ ایک پشت کا زمانہ تیس برس لگایا جاوے تو عک یعقوب کی زندگی کے اس زمانہ میں ہو گا جب کہ یوسف بھی موجود تھے اور قریب پچاس برس کے قبل اس وقت کے جب کہ مصر اور اس کے قرب و جوار کے ملکوں میں قحط ہوا تھا۔ ریورنڈ فاسٹر لکھتے ہیں کہ یوسف کی تاریخ سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اسماعیل کی اولاد مختلف فرقوں اور قوموں میں منقسم ہو کر پھیل گئی تھی اور نویری کے جغرافیہ میں جو دوسرا کتبہ ہے اس سے قحط کا حال معلوم ہوتا ہے جس میں وہ قوم تباہ ہو گئی ان وجوہ سے وہ ان کتبوں کو یعقوب علیہ السلام کے زمانہ کا قرار دیتے ہیں۔ جب کہ ریورنڈ فاسٹر نے یہ تسلیم کر لیا کہ یہ کتبے قوم عاد کے ہیں جس کا قرآن مجید میں ذکر ہے اور ان کا زمانہ انہوں نے حضرت یعقوب کے زمانے کے مطابق قرار دیا تو اب وہ قرآن مجید پر گویا دو اعتراض کرتے ہیں ایک یہ کہ قوم عاد کا نوح کی قوم کے بعد ہونا جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ ’’ اذ جعلکم خلفاء من بعد قوم نوح‘‘ صحیح نہیں ہے دوسرے یہ کہ کتبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنے بادشاہوں کے قوانین پر عمل کرتے تھے اور حضرت ھود کا ان لوگوں میں جانا جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ ’’ والیٰ عاد اخاھم ھودا‘‘ ثابت نہیں ہوتا۔ مگر یہ دونوں اعتراض جیسے عجیب ہیں ویسے غلط بھی ہیں اول یہ کہ قوم عاد اولیٰ جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے وہ یمن یا حضرت موت میں نہیں بستی تھی یمن و حضرت موت و حویلہ میں خود حضرت ھود کی اولاد بستی تھی اور حضر موت اور حویلہ اور سبا جن کے نام سے اب تک وہ مقامات مشہور ہیں حضرت کے پوتے تھے اور یقطان ابن عیبر یعنی ھود وہاں جا کر بسے تھے پس انہوں نے جو ان کتبوں کو عاد کی قوم کے کتبے قرار دیے ہیں یہ محض غلطی ہے۔ دوسرے یہ کہ جو زمانہ ان کتبوں کا ریورنڈ فاسٹر نے قرار دیا ہے وہ بھی غلط ہے ام سلمہ کی روایت جس کی بناء پر ریورنڈ فاسٹر نے عدنان کو حضرت اسماعیل کی چوتھی پشت میں قرار دیا ہے وہ روایت ہی غلط اور محض نا معتبر و بے سند ہے صحیح نسب نامہ کے بموجب جو برخیا گاتب وحی ارمیا نبی نے لکھا ہے (دیکھو خطبات احمدیہ) اس کے مطابق عدنان باپ معد و عک کا اکتالیسویں پشت میں حضرت ابراہیم سے تھا حضرت ابراہیم بموجب حساب مندرجہ توریت کے 2008دنیوی میں پیدا ہوئے تھے پس جو حساب نسلوں کے پیدا ہونے کا ہے اس حساب سے عک قریباً3400دنیوی میں ہو گا یعنی چودہ سو برس بعد حضرت ابراہیم کے اور کتبہ میں عک پر فتح یابی نہیں لکھی ہے بلکہ بنی عک پر لکھی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عک کی بھی کئی پشت کے بعد کا ہے۔ نویری کے دوسرے کتبہ کو جس میں قحط کا ذکر ہے مسٹر فاسٹر پہلے کتبہ کا تتمہ سمجھتے ہیں تاکہ پہلے کتبہ کو بھی یعقوب و یوسف کے زمانے کا قرار دیں مگر وہ اصلی کتبہ دستیاب نہیں ہوا اور نہ یہ معلوم ہے کہ وہ کہاں تھا نہ یہ معلوم ہے کہ کس خط میں تھا پس کوئی دلیل نہیں ہے کہ نویری کے پہلے اور دوسرے کتبہ کو ایک زمانہ کا قرار دیا جائے۔ کچھ عجب نہیں کہ یہ کتبے قوم حمیر کے ہوں جس میں سلاطین نام دار اور با وقار گذرے ہیں یقطان ابن عیبر یا ابن ھود یمن میں آباد ہوا اس کا بیٹا سبا تھا اور سبا کا بیٹا حمیر اس کی اولاد میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں اور اسی کی اولاد کی سکونت حضر موت میں تھی جو اس کے ایک بیٹے کے نام سے مشہور ہے پس یہ کتبے قوم حمیر کے ہو سکتے ہیں نہ قوم عاد کے اس کی تائید اس کتبہ سے ہوتی ہے جس کا ذکر ابن ھشام نے کیا ہے جو اطراف یمن کی ایک قبر میں سے نکلا ہے کیونکہ اس کے شروع میں لکھا ہے ’’ باسمک اللھم الہ حمیر‘‘ اور یہ ایک ایسا ثبوت ہے جس سے قوم حمیر کے کتبہ ہونے سے انکار ہی نہیں ہو سکتا۔ حصن غراب کے چھوٹے کتبہ میں بلا شبہ بنی عک پر فتح پانے کا ذکر ہے عک جو حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے تھا اور جن کا مسکن حجاز میں تھا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اولاد یعنی بنی عک نے کسی زمانہ میں یمن پر یا حضرت موت پر حملہ کیا ہو گا زمانہ کے حساب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس زمانہ میں ہوا جس زمانہ میں کہ بخت نصر نے مصر اور عرب پر حملے کئے تھے اس حملہ میں بنی عک کو شکست ہوئی ہو گی جس کا ذکر اس کتبہ میں ہے۔ حصن غراب کے بڑے کتبہ سے جو اب موجود ہے نہایت استحکام سے قرآن مجید کے اس تاریخی واقعہ کا ثبوت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے عرب میں ھود پیغمبر کو لوگوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا تھا اور بعث و نشر کے عقاید انہوں نے تعلیم کیے تھے اور جو کہ قوم حمیر اور تمام بادشاہان یمن حضرت ھود کی اولاد میں تھے ان کے بادشاہوں نے ان تمام عقاید کو جو حضرت ھود نے تعلیم کیے تھے اپنی کتابوں میں لکھے تھے جس پر وہ یقین کرتے تھے مگر افسوس ہے کہ ان تمام عقائد کے ساتھ آخر کو ان لوگوں میں بت پرستی بھی پھیل گئی تھی جس کو محمد رسول اللہ نبی آخر الزمان نے تمام جزیرہ عرب سے بلکہ دنیا کے بہت بڑے حصہ سے معدوم کیا اور خدا کی وحدانیت کے اصول کو ایسی وضاحت اور عمدگی سے بتا دیا جس سے امید ہے کہ ان کے پیرؤں میں بت پرستی قائم ہونی ممتنعات عقلی سے ہے اور یہی ایک امر ہے جس کے سبب ابراہیم خلیل اللہ کے پوتے اور عبداللہ کے بیٹے نے خاتم الانبیاء ہونے کا تاج پہنا اور اس کے دین نے ’’ الیوم اکملت لکم دینکم واتمت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا‘‘ کا خطاب حاصل کیا وصلی اللہ تعالیٰ علی جدی محمد رسول اللہ وعلیٰ آلہ وانا منھم اجمعین اب ہم کو اس عذاب کا بیان کرنا باقی ہے جو قوم عاد پر نازل ہوا تھا اور جس کا ذکر ان آیتوں میں آیا ہے جو حاشیہ پر مندرج ہیں1؎ وہ عذاب آندھی تھی جو اس ریگستان کے رہنے 1؎ فارسلنا علیھم ریحا صرصراً فی ایام نحسات لنذیقھم عذاب الخزی فی الحیواۃ الدنیا ولعذاب الاخرہ اخزی و ہم لا ینصرون41 صورہ فصلت15 واماعا دفا ھلکوا بریح صرصر عاتیۃ سخرھا علیھم سبع لیال و ثمانیۃ ایام حسوما فتری القوم فیھا صرعی کانھم اعجاز نخل خاویۃ 29 سورۃ الحاقہ6,7 فان اعرضو فقل انذرتکم صاعقۃ مثل صاعقۃ عاد و ثمود41 فصلت12 وفی عاد اذا ارسلنا علھم الیریح العقیم مانذر من شی اتت علیہ الا جعلۃ کالرمیم 51سورہ زاریات41,42 وانہ اھلک عاد الاولیٰ 53سورۃ النجم51 ’’ کذبت عاد فکیف کان عذابی و نذر انا ارسلنا علیھم صر صرا فی یوم نحس مستمر تنزع الناس کانھا اعجاز نخل منقعر 54 سورۃ القمر18,19,20۔‘‘ واذکراخا عاد اذا انذر قومہ بالا حقاف وقد خلت النذر من بین یدیہ ومن خلفہ الا تعبدوا الا اللہ انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم قالو اجتنا لتا فکنا عن آلھتنا فاتنا بماتعدنا ان کنت من الصادقین قال انما العلم عند اللہ ابلغکم ما ارسلت بہ ولکنی اراکم قوما تجھلون۔ فلما راوہ عارضا مستقبل اودیتھم قالوا ھذا عارض مطرنا بل ھو ما استعجلتم بہ ریج فیھا عذاب الیم تدمرہ کل شی بامر ربھا فاصبحوا الا یری الامساکنھم کذالک نجزی المجرمین 46 سورہ احقاف100 لغایت24 والوں پر نازل ہوئی تھی آٹھ دن اور سات رات برابر آندھی رہی اور بخوبی یہ بات خیال آ سکتی ہے کہ جب ایسی آندھی ریگستان کے ملک میں چلی جو گرم ملک تھا اور جس میں نہایت سخت لو کی بھی کیفیت ہو گی تو وہاں کے رہنے والوں کا کیا حال ہوا ہو گا بے شک ان کی لاشیں ایسی ہی پڑھی ہوں گی کہ گویا درخت جڑ سے اکھڑ کر گر پڑے ہیں جس کی تشبیہہ خدا نے دی ہے کانھم اعجاز نخل منقعر کانھم اعجاز نخل خاویہ ٹوکی گرمی کے مارے ان کے بدن بھگڑی ہو کر بکس گئے ہوں گے جیسے نو زدہ انسان کا بدن ہو جاتا ہے جس کی تشبیہہ خدا نے اس طرح پر دی ہے کہ ’’ ما نذر من شئی اتت علیہ الا جعلتہ کالرمیم‘‘ ارفسکد بن سام کی اولاد میں حضرت ھود تھے اور آرام بن سام کی اولاد میں عاد اور قوم عاد تھی اسی وجہ سے خدا نے حضرت ھود کو قوم عاد کا بھائی کہا حضرت ھود احقاف میں گئے جہاں قوم عاد بستی تھی اور بت پرستی کرتی تھی تین بت تھے جن کو وہ پوجتے تھے حضرت ھود نے ان کو بت پرستی سے منع کیا اور کہا کہ سوائے خدا کے اور کسی کی عبادت مت کرو مجھ کو خوف ہے تم پر کسی دن سخت عذاب آوے گا ان لوگوں نے کہا کہ کیا تم اس لیے آئے ہو کہ ہمارے خداؤں کو ہم سے چھڑا دو اور جس عذاب سے تم ڈراتے ہو اس کو لاؤ اگر تم سچے ہو حضرت ھود نے کہا اس کا علم تو خدا کو ہے میں تو خدا کا پیغام تم تک پہنچا دیتا ہوں ایک دن انہوں نے دیکھا کہ ان کے ریگستان کی طرف کچھ گھٹا سی چلی آتی ہے انہوں نے خیال کیا بادل ہے جو خوب برسے گا مگر وہ نہایت سخت آندھی تھی جس نے سب چیز کو اکھیڑ کر پھینک دیا۔ یہ تو قصہ قوم عاد کے عذاب کا ہے مگر جو بحث کہ اس واقع پر اور مثل اس کے دیگر واقعات ارضی و سماوی پر ہو سکتی ہے جن کو قرآن مجید میں کسی قوم کی معصیت کے سبب سے اس واقعہ کا بطور عذاب کے اس قوم پر نازل ہونا بیان ہوا ہے غور طلب ہے آندھی اور طوفان، پہاڑوں کی آتش فشانی ان سے ملکوں کا اور قوموں کا برباد ہونا زمین کا دھنس جانا قحط کا پڑنا کسی قسم کے حشرات کا زمین میں ہوا میں پیدا ہو جاتا کسی قسم کے وباؤں کا آنا اور قوموں کا ہلاک ہونا سب امور طبعی ہیں جو ان کے اسباب جمع ہو جانے پر موافق قانون قدرت کے واقع ہوتے رہتے ہیں انسانوں کے گنہگار ہونے یا نہ ہونے سے فی الواقع اس کو کچھ تعلق نہیں ہے اگرچہ توریت میں اور دیگر صحف انبیا میں اس قسم کے ارضی و سماوی واقعات کا سبب انسانوں کے گناہ قرار دیے ہیں جو مثل ایک پوشیدہ بھید کے سمجھ سے خارج ہے اس سے ہم کو اس مقام پر بحث نہیں ہے مگر قرآن مجید میں بھی ایسے واقعات کو انسانوں کے گناہوں سے منسوب کرنا بلا شبہ تعجب سے خالی نہیں ہے۔ اس قسم کے شبہے بلا شبہ انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ شبہات بے شک اصلی ہوتے ہیں کیوں کہ حوارث ارضی و سماوی حسب قانون قدرت واقع ہوتے ہیں ان کو انسانوں کے گناہوں سے کچھ تعلق نہیں ہوتا اور نہ انسانوں کے گناہ ان حوادث کے وقوع کا باعث ہوتے ہیں مگر ان شبہات کے پیدا ہونے کا منشاء یہ ہے کہ لوگ حقیقت نبوت اور اس کی غایت کے سمجھنے میں پہلے غلطی کرتے ہیں اور پھر اس غلطی کی بناء پر اس شبہ کو قائم کرتے ہیں نبوت ہمیشہ فطرت کے تابع ہوتی ہے اس کا مقصد حقائق اشیاء کو علے ما ھی علیہ بیان کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کی غایت تہذیب نفس ہوتی ہے پس جو امور کہ کسی قوم میں یا انسان کے خیال میں ایسے پائے جاتے ہیں جو موید تہذیب نفس کے ہیں گو کہ وہ مطابق حقائق اشیاء علی ما ھی علیہ کے مذھوں تو انبیا اس سے کچھ تعرض نہیں کرتے بلکہ وہ اس کو بلا لحاظ اس بات کے کہ وہ مطابق حقیقت اشیاء علی ماھی علیہ کے ہے یا نہیں بطور ایک امر مسلمہ مخاطب کے تسلیم کر کے لوگوں کو ہدایت کرتے ہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک شخص بحث کرنے والا اپنے مخالف کے امر مسلمہ کو باوجودیکہ وہ اس کو صحیح نہ جانتا ہو تسلیم کر کے مخالف ہی کے امر مسلمہ سے مخالف کو ساکت کرنا چاہے پس ایسے موقع پر یہ سمجھنا کہ جو کچھ انبیاء نے تسلیم کیا یا اس کو اپنے مقصد کے لیے کام میں لائے اسی کے مطابق حقائق اشیاء بھی ہیں یہ پہلی غلطی ہے اور یہی غلطی باعث اس قسم کے شبہات کے پیدا ہونے کے ہوتی ہے۔ مثلاً مثلاً لوگ یقین کرتے تھے کہ خدا نے چھ دن میں زمین و آسمان پیدا کیے اسی کی عبادت کرو اس بیان سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اس پیغمبر کا بیان نسبت چھ دن میں آسمان و زمین کی پیدائش کے بطور بیان حقیقت اشیا ماھی علیہ کے ہے سخت غلطی ہے کیوں کہ اس پیغمبر نے اس قوم کے امر مسلمہ ہی کو تسلیم کر کے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے کے استحقاق عبادت کو ثابت کیاہے۔ انسان کی ابتدائی حالت کی فلاسفی پر غور کرنے سے جو وحشی قوموں کی حالت یا وحشی زمانہ سے شروع ہوتی ہے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح انسان کے دل میں اپنے سے زیادہ قوی و زبردست اشیا کو اپنے گرد دیکھ کر کسی وجود قوی کا جس کو انہوں نے خدا تسلیم کیا خیال آیا اسی کے ساتھ ساتھ اس کے خوش رکھنے کے لیے اسی کی عبادت کا بھی خیال ہوا ہے اور اسی کے ساتھ یہ خیال بھی پیدا ہوا ہے کہ دنیا میں جو مصیبتیں آتی ہیں وہ اس کی خفگی کے اور انسانوں کے افعال سے ناراض ہو جانے کے سبب آتی ہیں پس یہ خیال کہ تم آفات ارضی و سماوی انسانوں کے گناہوں کے سبب سے ہوتی ہیں ایک ایسا خیال تھا جو تمام انسانوں کے دلوں میں بیٹھاہوا تھا اور اس زمانہ میں بھی جاہل قوموں کے دلوں میں ویسی ہی مضبوطی سے جما ہوا ہے یہ خیال خواہ وہ حقیقت اشیاء علی ما ھی علیہ کے مطابق ہو یا نہ ہو ایک ایسا خیال ہے جو تہذیب نفس انسانی کا نہایت موید ہے اور بہ موجب اس اصول فطرت کے جس کے تابع انبیا علیہم السلام ہوتے ہیں ان کو ضرور تھا کہ اس امر مسلمہ کو تسلیم کر کے لوگوں کو تہذیب نفس کی ہدایت کریں پس قرآن مجید کے اس قسم کے بیانات کو جن میں حوادث ارضی و سماوی کو انسان کے گناہوں سے منسوب کیا ہے یہ سمجھنا کہ وہ ایک حقیقت اشیا علی ماھی علیہ کا بیان ہے ان سمجھنے والوں کی غلطی ہے نہ قرآن مجید کی۔ یہ اصول جو میں نے بیان کیا ایک ایسا اصول ہے کہ اگر وہ ذہن میں رکھا جاوے تو بہت سے مقامات قرآن مجید کی اصلی حقیقت منکشف ہوتی ہے مگر یہ اصول ایسا نہیں ہے جس کو میں نے ایجاد کیا ہو اور نبوت کو ماتحت فطرت قرار دیا ہو بلکہ اور محققین علماء کی بھی یہی رائے ہے جس کا بیان بہت مختظر طور پر ’’ ستۃ ایام‘‘ کے بیان میں گذرا ہے مگر شاہ ولی اللہ صاحب نے تفہیمات الہیہ میں اس اصول کو زیادہ تر وضاحت سے بیان کیا ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب نے جو کچھ اس کی نسبت لکھا ہے اس کا مطلب بالکل اسی کے مطابق ہے جو میں نے بیان کیا گو کہ دونوں کے طرز ادا اور طریق تقریر اپنی اپنی طرز پر جداگانہ مذاق سے ہو۔ شاہ ولی اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ: اعلم ان النبوۃ من تحت الفطرۃ کما ان الانسان قد یدخل فی صمیم قلبہ و جذر نفسہ علوم و ادراکات علیہا تبتنی ما یقاض علیہ من رویا فیری الامور مشبحہ بما اخترتہ دون غیرھا کذالک کل قوم واقلیم لھم فطرہ فطروا علیہا امورھم کلھا کاستقباح الذبح والقول بالقدم فطرۃ فطر الھنود علیہا وجواز الذبح والقول بحدوث العالم فطرۃ فطر علیھا بنو سام من العرب و الفارس فانما یجی النبی یتامل فیہا عند ھم من الاعتقاد العمل فما کان موافقا لتھذیب النفس یثبۃ لھم ویرشدھم الیہ وما کان یخالف تہذیب النفس فانہ ینھا ھم عنہ وقد یحصل بعض الا ختلاف من قبل اختلاف نزول الجود کما ذکرنا فی توجہ المبحوس الی القوی الفلکیۃ وتوجہہ الحنفاء الی الملاء الا علی لا غیر و کما ذکرنا فی عموم بعثت النبی و خاتمتہ بخلاف سائر النبوۃ فالنبوۃ سویتہ و تہذیبہ وجعلہ کاحسن ما ینبغی سواء کان ذالک الشی شمعا اوطینا والفطرۃ والملۃ بمنزلۃ المعاد کالشمع والطین فلا تعجب باختلاف احوال الانبیاء علیہم السلام واختلاف امورھم عما یتععلق بالمادۃ فاصل النبوۃ تہذیب النفس باعتقاد تعظم اللہ والتوجہ الیہ و کسب ما ینجی من عذاب اللہ فی الدنیا والاخرہ واما مجازات السیئۃ ففی الدورۃ الاولی کان لا یتوقف علی معرفۃ البعث بعد الموت ولا الملئکۃ وفی الدورۃ الاخری توقف علی ایمان باللہ بالصفات التعظمیہ والملائکہ وکتبہ ورسلہ ولایمان بالبعث بعد الموت اما مسئلۃ قدم العالم و حدوثہ و مسئلۃ التناسخ و مسئلۃ تحریم الذبع وحلہ و مسئلۃ الصاف اللہ التی من التجدہ والتنقل والصفات والمحدثۃ کالرویۃ والنزول والارادۃ المتجددۃ والبداء وغیر ذالک فانھا کلھا من الفطرۃ والمادۃ لیست ببحث عن ذالک بالامالۃ (تفہیمات) یعنی یہ بات جان لینی چاہیے کہ نبوت فطرت کے ماتحت ہے جیسا کہ انسان کے کبھی دل میں بہت سے علوم اور باتیں جم کر بیٹھ جاتی ہیں اور انہی پر مبنی ہوتی ہیں وہ چیزیں جو اس پر اس کے رویا میں فائض ہوتی ہیں پھر وہ ان چیزوں کی صورتوں کو دیکھتا ہے جس کو اس نے پیدا کیا ہے اور نہ اس کے سوا اور کسی کو ایسے ہی ہر ایک قوم اور اقلیم کی ایک فطرت ہے جس پر اس کی سب باتیں پیدا کی گئی ہیں جیسے جانور کے ذبح کرنے کو برا جاننا اور عالم کو قدیم کہنا یہ ایک فطرت ہے کہ فطرت ھنود کی اس پر ہے اور ذبح جانور کو جائز ماننا اور عالم کو حادث کہنا فطرت ہے جس پر بنی سام یعنی عرب اور فارس مخلوق ہوئے ہیں نبی جو آیا کرتا ہے وہ ان کے علوم اور اعتقادات اور اعمال میں تامل کیا کرتا ہے جو ان میں سے موافق تہذیب نفس کے ہوتا ہے اس کو ثابت رکھتا ہے اور ان کو وھی راہ چلاتا ہے اور جو کہ تہذیب نفس کے خلاف ہو اس سے منع کرتا ہے اور کبھی کچھ اختلاف ہو جاتا ہے بوجہ اختلاف فیض الٰہی جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے بیچ معاملہ متوجہ ہونے مجوس کے قوائے فلگیہ کی جانب اور متوجہ ہوئے حنفا کے ملاء اعلیٰ کی جانب اور جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے بعثت نبی کے عام ہونے اور خاتم النبیین کے بیان میں بخلاف اور نبیوں کے پس نبوت اس فطرت کا درست اور آراستہ کرتا ہے اور اس کو درست کرنا جس قدر اس کا عمدہ تر ہونا ممکن ہے خواہ وہ شے موم ہو خواہ گارا فطرت مذہب کے لیے بمنزلہ مادہ کے ہے مثل موم اور گوندھی مٹی کے پس تعجب نہ کرنا چاہیے اختلاف احوال دنیا سے اور ان کے اس اختلاف سے جو ان امور سے متعلق ہیں جو بمنزلہ مادہ کے ہے پس اصل نبوت تہذیب نفس کی ہے اللہ تعالیٰ کی عظمت کے اعتقاد سے اور اس کی طرف متوجہ ہونے سے اور ان امور کے کرنے سے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے دنیا اور آخرت میں بچاوے برائی کا بدلہ پہلے زمانہ میں اس پر موقوف نہ تھا کہ مرنے کے بعد اٹھنے کو جانیں اور پچھلے زمانہ میں اس پرموقوف ہے کہ اللہ پر ایمان لاویں اور اس کی صفات تعظیمیہ پر اور فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے سب رسولوں پر اور مرنے کے بعد اٹھنے پر ایمان لاویں اور مسئلہ قدم عالم اور حدوث عالم اور مسئلہ تناسخ اور مسئلہ حرام ہونے ذبح جانور کا اور مسئلہ صفات کا جو کہ بدلتے رہتے ہیں اور صفات جو کہ حادث ہیں جیسے دیکھنا اور اترنا اور نیا ارادہ اور ایسے ہی اور صفات پس یہ مسئلہ فطرتی ہے اور بمنزلہ مادہ کے ہے ایسے مسائل سے اصلی طور پر نبی بحث کرتا ہے۔ یہ بیان شاہ ولی اللہ صاحب کا ہماری دلیل سے بالکل مطابق ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہماری دلیل کا ماخذ بھی بیان ہے جو نہایت عالی دماغی او ربلا خوف نومتہ لایم کے شاہ صاحب نے فرمایا ہے۔ قوم ثمود ثمو د جس کے نام سے قوم ثمود مشہور ہے جثر بن آرام بن سام بن نوح کا بیٹا ہے اور عاد اولیٰ اور ھود کا ھمعصر ہے حضرت صالح پیغمبر اس کی چھٹی پشت میں ہیں اور اسی لیے زمانہ حضرت صالح کا اخیر انیسویں یا شروع بیسویں صدی دنیاوی میں اور قریباً سو برس پیشتر حضرت ابراہیم سے پایا جاتا ہے۔ قوم ثمود الحجر میں آباد تھی اور پہاڑ کو کھود کر اس میں گھر بنائے تھے تقدیم البلدان میں اسماعیل ابو الفلدا نے ابن حوقل کا قول نقل کیا ہے کہ وہ ان پہاڑوں میں گیا تھا اور اس نے ان مکانات کو دیکھا تھا جو پہاڑ کو کھود کر بنائے تھے افسوس ہے کہ سلاطین اسلامیہ نے اس طرح پر عرب کے قدیم حالات کی تحقیقات نہیں کی، کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ جزیرہ عرب میں بہت سی ایسی چیزیں موجود ہوں گی جن سے پرانے تاریخی حالات کی صحت پر بہت کچھ مدد مل سکتی ہے۔ عاد اولیٰ حضرت نوح سے پانچویں پشت میں تھا اور عاد اور نمود دونوں آپس میں بھائی تھے قوم عاد کے برباد ہونے کے بعد قوم نمود نے ترقی کی تھی جس کی نسبت خدا نے فرمایا ’’ واذکروا اذ جعلکم خلفاء من بعد عاد‘‘ اور جو کہ قوم ثمود نے قوم عاد کے بعد ترقی کی تھی اسی سبب سے ثمود کو عاد ثانی کہتے ہیں جیسے کہ نوح کو آدم ثانی۔ حضرت صالح قوم کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے جو واقعات کہ ان کے زمانہ نبوت میں گذرے ان کا بیان مندرجہ حسب ذیل آیتوں میں ہے۔ والیٰ ثمود اخاھم صالحا قال یا قوم ابعدوا اللہ سالکم من الہ غیرہ قد جاء تکم بینۃ من ربکم ھذہ ناقۃ اللہ لکم آیۃ فذروھا تاکل فی ارض اللہ ولا تمسوھا بسوء فیاخذکم عذاب الیم واذکروا اذ جعلکم خلفاء من بعد عاد وبواکم فی الارض تتخذون من سھونھا فصوراً وتنتھون الجبال بیوتاً فاذکروا الاء اللہ ولا تعنوا فی الارض مفسدین۔ فعقروا النافۃ وعتوا عن امر ربھم واخذتھم الرجفۃ فاصبحوا فی دارھم جاثمین (الاعراف) قال یاقوم ارائیتھم ان کنت علی بینۃ من ربی واتانی منہ رحمۃ فمن ینصر نی من اللہ ان عصیۃ فما تزیدونی غیر تخسیر ویاقوم ھذہ ناقۃ اللہ لکھم آیۃ فذروھا تاکل فی ارض اللہ ولا تمسوھا بسوء فیاخذکم عذاب قریب فعقروھا فقال تمتعوا فی دارکم ثلثہ ایام ذالک وعد غیر مکذوب فلما جاء امرنا نجینا صالحا والذین آمنوا معہ برحمۃ مناومن خذی یومئذان ربک ھوا لقوی العزیز واخذ الذین ظلموا الصیحہ فاصبحوا فی دارھم جاثمین (11ھود66,70) قالو انما انت من المسحرین ما انت الا بشر مثلنا فات بایات ان کنت من الصدقین قال ھذا ناقۃ لھا شرب ولکم شرب یوم معلوم ولا تمسوھا بسوء فیاخذکم عذاب یوم عظیم فعقروھا فاصبحوا نادمین فاخذھم العذاب ان فی ذالک لایۃ وما کان اکثر ھم موقنین (26الشعرائ153,158) واما ثمود فھدینا ہم فاستحبو العمی علی الھدی فاخذتھم صاعقۃ العذاب الھون بما کانوا یکسبون (41 فصلت160) انا مرسلوا الناقۃ فتنۃ لھم فارتقیہم واصطبروا نئبھم ان الماء قسمۃ بینہم کل شرب مستضر فنادوا صاحبہم فتعاطی فعقر فکیف کان عذابی و نذر انا ارسلنا علیہم صیحۃ واحدۃ فکانوا کھشیم المحتظر (54سورۃ القمر27,21)۔ فاما ثمودا فاھلکوا بالطاغیہ (9الحاقہ 6) کذبت ثمود بطغوھا اذ نبعث اشقہا فقال لھم رسول اللہ ناقۃ اللہ وسقیاھا فکذبوہ فعقروھا فدمدم علیھم ربھم بذنبھم فسواھا (91سورۃ الشمس 11-14) ان آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صالح نے ان لوگوں سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو خدا کی عبادت کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ان لوگوں نے کہا کہ تم تو سحر زدہ ہو تم تو ہم ہی جیسے ایک آدمی ہو اگر تم سچے ہو تو کوئی نشانی لاؤ حضرت صالح نے کہا کہ تمہارے پاس ایک دلیل تمہارے پروردگار کے پاس سے آتی ہے یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی ہے اس کو چھوڑ دو کہ خدا کی زمین پر چرتی پھرے باقی رہا پانی ایک دن اس کو پی لینے دیا کرو اور ایک دن تم لے لیا کرو اور اس کو کچھ برائی مت پہنچاؤ نہیں تو تم کو دکھ دینے والا عذاب پکڑ لے گا وہ لوگ اونٹنی سے اتنے تنگ آ گئے انہوں نے اس کو ذبح کر ڈالا یا اس کی کونچیں کاٹ دیں کہ مر گئی۔ حضرت ھود نے کہا کہ تم تین دن اپنی جگہ میں چین کر لو عذاب آنے کا وعدہ نہیں ٹلنے کا اس کے بعد ان پر یہ خدا کا عذاب پڑا کہ بڑی گڑگڑھٹ سے اور حد سے زیادہ بھونچال آیا اور وہ اپنے رہنے کی جگہ میں گھٹنوں کے بل گر کر مر گئے۔ قرآن مجید میں تو قصہ اسی قدر ہے مگر ہمارے مفسرین نے اس قصہ کو ایک تودہ طوفان بنا دیا ہے جس کے لیے کوئی معتبر سند بھی نہیں ہے انہوں نے قرآن مجید کے ان لفظوں کو کہ ’’ فات بایۃ ان کنت من الصادقین‘‘ اور ا ن لفظوں کو کہ ’’ قد جائتکم بینۃ من ربکم‘‘ دیکھ کر یہ تصور کیا کہ وہ اونٹنی کسی عجیب و معجز طریقہ سے پیدا ہوئی ہو گی کچھ عجب نہیں کہ پہلے سے عرب میں اس اونٹنی کی نسبت عجیب باتیں مشہور ہوں گی مفسروں نے ان افواھی باتوں کو قرآن مجید کے ان الفاظ کے خیال سے سچ سمجھا اور تفسیروں میں لکھ دیا حالاں کہ اس کے لیے کوئی معتبر سند نہیں ہے انہوں نے لکھا کہ جب حضرت صالح نے بتوں کی پرستش سے ان کو منع کیا اور خدائے واحد کی پرستش کی ہدایت کی تو قوم ثمود نے جس میں کہ خود حضرت صالح نے بتوں کی پرستش سے ان کو منع کیا اور خدائے واحد کی پرستش کی ہدایت کی تو قوم ثمود نے جس میں کہ خود حضرت صالح بھی تھے معجزہ طلب کیا حضرت صالح نے کہا کہ تم کیا چاہتے ہو انہوں نے کہا کہ تم ہمارے تیوھار کے دن ہمارے ساتھ چلو ہم اپنے بتوں کو نکالیں گے تم خدا سے معجزہ مانگنا ہم اپنے بتوں سے مانگیں گے اگر تمہاری دعا کا اثر ہوا تو تم ہمارے مرید ہو جانا اس اقرار پر دونوں شہر کے باہر گئے انہوں نے اپنے بتوں سے کچھ دعا مانگی مگر کچھ نہ ہوا حضرت صالح سے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس پہاڑ کے ٹکڑے میں سے ایک اونٹنی نکلے حضرت صالح نے ان سے اقرار لیا کہ اگر نکلے تو تم ایمان لے آؤ گے سب نے اقرار کیا جب بات پکی ہو گئی تو حضرت صالح نے دو رکعت نماز پڑھی اور خدا سے دعا مانگنی شروع کی وہ پہاڑ کا ٹکڑا پھولنا شروع ہوا اور حاملہ کے پیٹ کی مانند پھول گیا پھر پھٹا اور اس میں سے نہایت بڑی موٹی مشٹنڈی اونٹنی نکلی اور اسی وقت اس نے اپنے برابر کا بچہ بھی دے دیا۔ اس اونٹنی کا پیدا ہونا ہی عجیب طرح پر بیاں نہیں کیا بلکہ اس کی عجیب عجیب صفات بھی بیان کی ہیں لکھا ہے کہ جہاں قوم ثمود رہتی تھی وہاں پانی بہت کم تھا اور ٹھیرا تھا کہ ایک دن وہ پانی اونٹنی پیا کرے اور ایک دن وہ لوگ لیا کریں اونٹنی میں یہ عجیب صفت تھی کہ وہ سارا پانی جس کو تمام لوگ پی سکتے تھے سڑپ جاتی تھی اور پہاڑ پر چلی جاتی تھی پھر وہاں سے آتی تھی اور لوگ اس کا دودھ دوھتے تھے اور اس قدر کثرت سے دودھ ہوتا تھا کہ تمام قوم کے لیے بجائے پانی کے کافی ہوتا تھا۔ حضرت صالح نے کہا کہ تمہارے شہر میں ایک لڑکا پیدا ہونے کو ہے کہ تمہاری موت اس کے ہاتھ سے ہو گی انہوں نے یہ بات سن کر جو لڑکا پیدا ہوا اس کو مار ڈالا یہاں تک کہ نو لڑکوں کو مارا جب دسواں لڑکا پیدا ہوا کہا کہ بھئی اب تم ہم نہ ماریں گے مگر بدبختی سے یہ وہی لڑکا تھا جس کے ہاتھ سے ان کی موت ہونے والی تھی۔ بہر حال وہ لڑکا بڑا ہوا جو ان ہوا یاروں میں بیٹھنے لگا ایک دن وہ اپنے یاروں کی مجلس میں تھا اور سب نے شراب پینے کا ارادہ کیا اور شراب میں پانی ملانے کو پانی چاہا مگر وہ دن اونٹنی کے پانی پینے کا تھا وہ سب پانی پینے کا تھا وہ سب پانی پی گئی ایک قطرہ شراب میں ملانے کو بھی نہیں چھوڑا تھا۔ اس جوان کو نہایت غصہ آیا وہ پہاڑ میں گیا اور اونٹنی کو لایا جب آئی تو اس کو ذبح کر ڈالا یا کونچیں کاٹ ڈالیں کہ وہ مر گئی پھر ان میں تین دن میں عذاب آیا پہلے دن سب کے بدن سرخ ہو گئے دوسرے دن زرد ہو گئے تیسرے دن کالے ہو گئے اس پر بھی نہ مرے تب بھونچال آیا اور اس کے سبب سے مر گئے اس قصہ کا لغو اور مہمل ہونا خود اس قصہ سے ظاہر ہوتا ہے مفسرین نے اس قصہ کو اگرچہ لکھا ہے مگر چنداں اعتبار نہیں کیا بعضوں نے تو ’’ ردی‘‘ کر کر لکھا ہے کہ یہ لفظ خود قصہ کے ضعیف اور بے سند ہونے پر دلالت کرتا ہے صاحب تفسیر کبیر نے لکھا ہے کہ: اعلم ان القرآن قد دل علیٰ ان فیھا آیۃ فاما ذکر انھا کانت آیۃ من ای الوجوہ فھو غیر مذکور والعلم حاصل بانھا کانت معجزۃ من وجہ الا محالۃ (تفسیر کبیر جلد3صفحہ261) یعنی قرآن سے پایا جاتا ہے کہ اس اونٹنی میں کچھ نہ کچھ ایک نشانی تھی مگر یہ بات کہ وہ کیا نشانی تھی اور کس طرح پر تھی بیان نہیں ہوئی مگر اتنی بات معلوم ہے کہ وہ کسی نہ کسی وجہ سے معجزہ تھی۔ مگر میں کہتا ہوں کہ جس وجہ سے صاحب تفسیر کبیر نے اس کو معجزہ مافوق الفطرت قرار دیا ہے وہ بھی صحیح نہیں ہے۔ ثمود کی قوم نے بتوں کی پرستش اختیار کی تھی اور کئی نسلیں ان کی بت پرستی میں گذر گئی تھیں جب حضرت صالح نے ایسے خدائے واحد کی پرستش کی ہدایت کی جس کی نہ کوئی صورت ہے، نہ شکل ہے، نہ اس کا وجود دکھائی دیتا ہے، نہ کوئی اس کے پاس جا کر اسے دیکھ سکتا ہے صرف خیال ہی خیال میں وہ اور خیال میں بھی بیچون و بیچگوں میرا حیزو مکانا ور شکل و صورت و جہت و مثال سے تو ایک فطرتی بات تھی کہ ایک پشتینی بت پرست کہتے کہ اگر تم سچے ہو تو اس کی نشانی لاؤ جس کے ذریعہ سے وہ اس بن دیکھے خدا کی پرستش کریں کیوں کہ بغیر کسی ظاھری وجود کے ان کے دل کو تسلی نہیں ہو سکتی تھی انہوں نے ایک اونٹنی کو بطور سانڈ کے چھوڑ دیا کہ یہ خدا کی اونٹنی ہے اور تمہارے لیے خدا کی نشانی ہے اس کو کسی قسم کی ایذا مت پہنچاؤ اور چرنے پھرنے دو معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح پر جانوروں کے چھوڑنے کی قدیم رسم تھی عرب متعدد طرح پر سانڈ چھوڑتے تھے اونٹنی جب پانچ بچے جن لیتی تھی تو اس کو بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور جہاں وہ چرتی چرنے دیتے تھے اور پانی پینے سے نہ ھکاتے تھے بیماری سے اچھا ہونے یا سفر سے آنے پر یا دس برس خدمت لیے کے بعد اونٹ کو بتوں کے نام پر بطور سانڈ کے چھوڑتے تھے جو بحیرہ اور سائبہ اور حام کے نام سے مشہور ہیں حضرت صالح نے بھی اسی طرح اس اونٹنی کو چھوڑا صرف اتنا فرق کیا کہ کسی بت یا کسی مخلوق کے نام پر نہیں چھوڑا بلکہ خدا کے نام پر چھوڑا۔ آیت کے لفظ کے معنی معجزہ کے نہیں ہیں اور اس لیے مصنف تفسیر کبیر کا یہ لکھنا کہ ’’ والعلم حاصل بانھا کانت معجزۃ بوجہ مالا محالۃ‘‘ صحیح نہیں ہے آیت کے معنی نشانی کے ہیں محمد بن ابی بکر الرازی نے لغات قرآن میں لکھا ہے کہ الایۃ العلامۃ و منہ قولہ تعالیٰ ان آیۃ ملکہ، وقولہ تعالیٰ، وجعلنا اللیل والنہار آیتین، ای علامتین، اس آیت کے لفظ سے یہ قرار دینا کہ وہ اونٹنی یا سانڈھنی ایک معجزہ تھی جو خلاف قانون قدرت یا موفوق الفطرت پیدا ہوئی تھی قابل تسلیم نہیں ہے۔ دوسرا لفظ ان آیتوں میں بینۃ من ربکم کا ہے ان الفاظ کا جو قرآن مجید میں ہیں ترجمہ یہ ہے کہ کہا (صالح) نے اے میری قوم عبادت کرو اللہ کی نہیں تمہارے لیے کوئی خدا سوائے اس کے بے شک آئی ہے تمہارے پاس دلیل تمہارے پروردگار سے یہ اونٹنی اللہ کی تمہارے لیے نشانی ہے اگر یہ کہا جاوے کہ اونٹنی ہی وہ دلیل تھی تو الفاظ ’’ لکم آیۃ‘‘ بیکار ہو جاتے ہیں کیوں کہ اس حالت میں صرف اتنا کہنا کافی تھا کہ قد جاء تکم بینۃ من ربکم ھذہ ناقۃ اللہ فذروھا تاکل الخ دوسرے یہ کہ خدا کی تمام مخلوقات وہ کسی طرح پر پیداہو خدا پر دلیل ہے اونٹنی کے پیدا ہونے سے گو کہ وہ کسی عجیب طرح سے پیدا ہوئی ہو خداپر دلیل ہونے کی کچھ خصوصیت نہیں ہو سکتی پس صاف ظاہر ہے کہ قد جاء تکم بینۃ من ربکم جدا جملہ ہے اور اس سے وہ دلیل مراد ہے جو انبیاء اپنی امت کو خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید اور اس کے استحقاق عبادت کی نسبت بتاتے ہیں اور ھذہ ناقۃ اللہ لکھم آیۃ الی اخرہ جملہ مستانفہ ہے اس کو بینۃ من ربکم سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ اگر ہم یہ بھی تسلیم کر لیں کہ اس کو بینۃ من ربکم سے تعلق ہے تو بھی اس سے کوئی نتیجہ سوائے اس کے نہیں نکلتا کہ حضرت صالح نے اس اونٹنی کو جس طرح ایک نشانی بتایا تھا اسی طرح اور اسی مقصد سے اس کو دلیل یا گواہ بھی کہا تھا۔ بینۃ کے لفظ سے اس سانڈھنی کا معجزہ ہونا اور خلاف قانون قدرت یا مافوق الفطرت پیدا ہونا کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام قصہ حضرت صالح کا بیان کیا اور جو بات سب سے مقدم اور سب سے زیادہ عجیب تھی کہ پہاڑ کو فی الفور اونٹنی کا حمل رہا اور وہ مثل حاملہ کے پیٹ کے پھولنا شروع ہوا اور شق ہو گیا اور اونٹنی پلی پلائی ساٹھ گز چوڑی اور معلوم نہیں کس قدر لمبی سنڈ مسنڈ اس میں سے پیدا ہوئی اور پیدا پیدا ہوتے ہی اپنی برابر کا بچہ جنا اور قدرتی مسئلہ المظروف المرمن الظرف والجزا قصر من الکل کو بھی باطل کر دیا اس کا بیان بالکل چھوڑ دیا اور مفسرین کو اس کا الہام کیا کیوں کہ انہوں نے بغیر غور و فکر اور بغیر کسی معتبر سند کے اس قصہ کو لکھا ہے جو بغیر الہام کے اور کسی طرح لکھا نہیں جا سکتا تھا افسوس ہے کہ ہمارے مفسرین نے ایسے ہی لغو بے معنی قصوں کو قرآن مجید کی تفسیروں میں داخل کر کے مسائل مستحکم اسلام کو مضحکہ اطفال بنایا ہے اور اس کے نور عالم افروز کو لغویات کے گرد و غبار سے دھندلا کر دیا ہے خدا ان پر رحم کرے آمین۔ جب کہ ان لوگوں نے اس سانڈھنی کو مار ڈالا اور کفر و بت پرستی کو نہ چھوڑا تو حضرت صالح نے فرمایا کہ تم تین دن اور چین کر لو پھر تم پر خدا کا عذاب ضرور آوے گا اعداد جو ایسے مقام پر بیان ہوتے ہیں ان سے وہی عدد مقصود نہیں ہوتا بلکہ ایک زمانہ مراد ہوتا ہے اس طرح کے کلام کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ چند روز تم اور چین کرو پھر تم پر عذاب ہو گا بدکار انسان کی نسبت بھی کہا جاتا ہے کہ تین دن کا یا چند روز کا یہ عیش و آرام ہے اور اس سے اس کی تمام عمر مراد ہوتی ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کا حال معلوم ہو گا پس اسی طرح حضرت صالح نے فرمایا تمتعوا فی دیارکم ثلثۃ ایام جو امت کہ قوم ثمود پر آئی وہ شدید بھونچال تھا لفظ طاغیہ جو بعض آیتوں میں ہے وہ اس کی شدت اور حد سے زیادہ ہونے پر دلالت کرتا ہے لفظ صیحہ کا اس بھونچال کی آواز گڑگڑاھٹ پر اشارہ کرتا ہے اور رجفہ کے معنی بھونچال کے ہیں غرض کہ جس طرح عادت اللہ جاری ہے بھونچال کے آنے وہ قوم غارت ہو گئی یعنی اس کے بہت سے آدمی مر گئے اور بہت سے بچے بھی رہے قوم نمود کے مکانات پہاڑوں میں بھی تھے اور میدانوں میں بھی تھے میدانوں کے مکانات پر تو بھونچال سے صدمہ ظاہر ہے مگر پہاڑ کے اندر کے مکانات پر بھی متعدد طرح سے صدمہ پہنچ سکتا ہے یہ واقعہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جس کو معجزہ یا خلاف قانون قدرت یا مافوق الفطرت تصور کیا جاوے۔ ٭٭٭٭٭٭٭ قصہ طالوت و جالوت طالوت و جالوت کی لڑائیوں کا ذکر سورۂ بقر میں آیا ہے اور یہ وہ زمانہ ہے کہ جب بنی اسرائیل میں شموئیل نبی تھے اور ان آیتوں میں پانچ واقعوں کا بیان ہے۔ 1بنی اسرائیل کا اپنے نبی سے درخواست کرنا کہ ان پر کوئی بادشاہ مقرر کرے۔ 2شموئیل نبی کا بنی اسرائیل پر طالوت کو بادشاہ مقرر کرنا۔ 3تابوت سکینہ کا طالوت کے عہد میں بنی اسرائیل کے پاس آ جانا 4 طالوت کے لشکر کو دریا کے پانی سے منع ہونا 5فلسطینیوں کا شکست پانا اور جالوت کا داؤد کے ہاتھ سے مارا جانا۔ یہ تمام واقعات توریت کی کتاب شموئیل میں مندرج ہیں مگر تیسرے اور چوتھے واقعہ میں کسی قدر اختلاف ہے یعنی کتاب شموئیل میں تابوت سکینہ کا طالوت کے عہد سے پہلے آ جانا لکھا ہے اور قرآن مجید میں طالوت کے عہد میں اور اس پر عیسائی مورخوں نے اعتراض کیا ہے کہ غلطی سے ما قبل کے واقعے کو ما بعد کے واقعے میں شامل کر دیا۔ کتاب شموئیل سے پایا جاتا ہے کہ تابوت سکینہ بمقام شیلوہ تھا جہاں علی بنی اسرائیل پر حاکم تھا اس کے عہد میں بنی اسرائیل اور فلسطینیوں میں بمقام ابن عیدز لڑائی ہوئی اور بنی اسرائیل کی شکست ہوئی (دیکھو کتاب شموئیل 1باب4ورس2) تب بنی اسرائیل نے تابت سکینہ کو شیلوہ سے لشکر گاہ میں منگایا اور دوبارہ لڑے اور شکست عظیم ہوئی اور عیلی کے دونوں بیٹے مارے گئے اور تابوت سکینہ کو فلسطینی چھین لے گئے (دیکھو کتاب شموئیل 1باب 4ورس10,11) عیلی بھی یہ خبر سن کر کرسی سے گر پڑا اور مر گیا اس زمانہ میں شموئیل نبی ہو چکے تھے مگر ان کی عمر چھوٹی تھی۔ فلسطینی تابوت سکینہ کو مقام ابن عیزر سے جہاں سے انہوں نے فتح کیا تھا بمقام اشدود لے گئے اور واگون بت کے مندر میں رکھا (دیکھو کتاب شموئیل 1باب5ورس الغایت5) پھر وہاں سے بمقام گٹ لے گئے (دیکھو کتاب مذکور ورس8) پھر وہاں سے بمقام عقرون ے گئے (دیکھو کتاب مذکور ورس10) اس کے بعد فلسطینیوں نے ایک گاڑی میں دو گایوں کو جوت کر اور تابوت سکینہ کو اس پر رکھ کر جنگل میں چھوڑ دیا اور وہ گائیں اس کو لے کر بمقام بیت الشمس چلی آئیں اور یوشع کے کھیت میں جا کھڑی ہوئیں اس نے تابوت اتار لیا اور اپنے ہاں رکھا (دیکھو کتاب شموئیل 1باب 6) کتاب شموئیل میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ بنی اسرائیل کی شکست ہونے اور تابوت چھین لے جانے کے سات مہینہ بعد ہوا۔ اس کے بعد تابوت سکینہ قریات یعارلم میں آیا اور ابینا داب کے گھر میں بمقام گبعاہ رکھا گیا (دیکھو کتاب شموئیل 1باب7ورس1) مگر کتاب شموئیل میں نہیں لکھا کہ بیت الشمس میں کس قدر مدت رہا عیسائی مورخوں کے نزدک سن1141 قبل مسیح کے تابوت سکینہ فلسطینیوں نے چھین لیا تھا اور سن1140میں قریات یعاریم میں آ گیا وہاں آنے کے بیس برس بعد یہودیوں نے بتوں کی عبادت شموئیل نبی کی فہمائش سے موقوف کی اور خدا کی پرستش اختیار کی (دیکھو کتاب شموئیل 1باب 7ورس1,2) اور بنی اسرائیل سے شموئیل کی سرداری میں ایک لڑائی فلسطینیوں سے ہوئی اور فلسطینیوں نے شکست کھائی جب شموئیل ضعیف ہوئے تب بنی اسرائیل نے کسی بادشاہ کے مقرر کرنے کو کہا اور طالوت کو سن1095قبل مسیح میں بادشاہ مقرر کیا۔ کتاب شموئیل میں طالوت یعنی شاؤل اور جالوت کی لڑائی اور اس کے مارے جانے کا ذکر ہے مگر طالوت کے لشکر کو دریا کے پانی پینے سے منع کرنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ توریت کی کتاب قضاۃ باب ہفتم میں جدھون کے لشکر کو ایک چشمہ کے پانی پینے سے منع کیا گیا تھا اور یہ واقعہ سن 1249 قبل مسیح کے ہوا تھا اس لیے عیسائی مورخ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں غلطی سے جدعون کے لشکر کے واقع کو طالوت کے لشکر کے واقعہ سے ملا دیا ہے۔ ان دونوں اعتراضوں کے تسلیم کرنے کے لیے جو مخالفت کتاب شموئیل پر مبنی ہے ضرور ہے کہ کتاب شموئیل میں جو واقعات اور جو ترتیب ان واقعات کی ہے ان کو صحیح تسلیم کر لیا جاوے اور یہ بات بھی مان لی جاوے کہ کوئی واقعہ طالوت کے لشکر کا ایسا نہیں ہے جو کتاب شموئیل میں لکھنے سے رہ گیا ہو حالاں کہ خود عیسائی مورخ ان باتوں کو تسلیم نہیں کرتے شموئیل کی کتابوں کے مضامین میں باہم اختلاف کتاب اول شموئیل باب16ورس21,22 سے ظاہر ہے کہ طالوت داؤد سے اور اس کے باپ یشی سے بخوبی واقف تھا داؤ کو اس کے باپ کے پاس سے بلایا تھا اور اپنا سلح دار کیا تھا اسی کتاب کے باب ہفتدھم ورس15سے ظاہر ہے کہ داؤد طالوت سے رخصت ہو کر اپنے گھر چلا گیا تھا۔ لڑائی کے ہنگامہ میں جب داؤد اپنے بھائیوں کی خبر لینے آیا تو داؤد نے کہا کہ جالوت سے میں لڑوں گا یہ خبر سن کر طالوت نے داؤد کو بلایا اور گفتگو کے بعد لڑنے کی اجازت دی اور اپنی زرہ وخود و تلوار بھی دی جس کو داؤد نے لے کر پھر دے دیا(دیکھو کتاب اول شموئیل باب 17 ورس 31لغایت39) مگر اسی باب کے ورس55میں لکھا ہے کہ جب داؤڈ لڑنے کو بڑھا تو طالوت نے اپنے لشکر کے سردار سے پوچھا کہ یہ جوان کس کا بیٹا ہے اور ورس58میں لکھا ہے کہ جب داؤد نے جالوت کا سر کاٹ لیا اور طالوت کے پاس لے آیا تو طالوت نے پوچھا کہ تو کس کا بیٹا ہے پس ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک طالوت داؤد سے مطلق واقف نہ تھا اس اختلاف کے سبب خود عیسائی مورخوں کی یہ رائے ہے کہ کتاب شموئیل میں قصہ الٹ پلٹ ہو گیا ہے جالوت کی لڑائی کے بعد داؤد طالوت کا مصاحب اور صلح دار ہوا ہے اس پر بھی اختلاف رفع نہیں ہوتا کیوں کہ سولھویں باب سے داؤد کی پہلی دفعہ بطور مطرب بربط نواز کے طالوت سے ملاقات ہونی پائی جاتی ہے۔ متقدمین علمائے عیسائی نے خیال کیا ہے کہ باب ہفتم دھم کتاب اول شموئیل کے ورس11 لغایت31ورس55 لغایت58 وباب ھیجدھم کے ورس1لغایت5صحیح نہیں ہیں اور ان کو خارج کر دیا ہے چناں چہ سیپٹو ایجنٹ کے قلمی نسخہ وٹیکن میں وہ آیتیں نہیں ہیں اور اگر وہ آیتیں نکال ڈالی جاویں تب بھی اور آیتوں میں جیسے کہ باب16کے ورس 18 لغایت 21 و باب 17 کے ورس 33 لغایت40 کی مطابقت ہی نہیں ہو سکتی۔ انہی اختلافات کے سبب بعض عیسائی عالموں کی یہ رائے ہے کہ سارے کا سارا سترھواں باب الحاقی و نا معتبر ہے جان کیٹو نے اپنی کتاب سیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ ’’ یہی کافی نہیں ہے کہ جس مقام کو ہم غلط سمجھیں اسے الحاقی سمجھ کر خارج کر دیں اور باقی کو بلا کم و کاست صحیح جانیں کیوں کہ ممکن ہے کہ جنہوں نے الحاق کیا تھا انہوں نے باقی حصوں میں بھی تصرف کیا ہو۔‘‘ علاوہ اس کے یہ بھی تحقیق نہیں ہے کہ شموئیل کی کتابیں کب لکھی گئیں اور کس نے لکھی ہیں یہودی اور بڑے بڑے عیسائی عالم خیال کرتے ہیں کہ شموئیل کی کتاب کا بڑا حصہ یا پہلے چوبیس باب شموئیل کے لکھے ہوئے ہیں اور باقی ناثان نبی و گید نبی کے لکھے ہوئے ہیں ابر بانیل اور کروشیس خیال کرتے ہیں کہ یہ سب کتابیں برمیاہ نبی نے لکھی ہیں جان کی یہ رائے ہے کہ یہ کتابیں شموئیل کے بہت زمانہ بعد یعنی قید بایل کے تیسویں سال میں لکھی گئی ہیں اگر در حقیقت ایسا ہی ہو کہ تین ہاتھوں نے ان کتابوں کو لکھا ہو تو واقعات کا الٹ پلٹ ہو جانا یا بعض واقعات کا تحتیر سے رہ جانا ایک ایسا امر ہے جو آسانی سے خیال میں آ سکتا ہے۔ ہماری غرض اس بحث سے شموئیل کی کتابوں پر جرح و قدح کی نہیں ہے بلکہ صرف یہ بات ثابت کرنی ہے کہ قرآن مجید پر اس وجہ سے کہ شموئیل کی کتابوں سے بیان مختلف ہے اعتراض نہیں ہو سکتا جب تک کہ اور طرح پر اس کی غلطی ثابت نہ کی جاوے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ قرآن مجید میں جو کچھ لکھا ہے اس کی صحت پر کسی کو اس وجہ پر مجبور کروں کہ قرآن میں لکھا ہے بلکہ میں دونوں واقعوں پر جو قرآن و کتاب شموئیل میں مندرج ہیں بطور ایک نکتہ چن مورخ کے غور کرنا اور اس نکتہ چینی سے دونوں قونوں میں سے ایک کو ترجیح دینا چاہتا ہوں۔ تابوت سکینہ کو فلسطینی فتح کر کے چھین لے گئے تھے کتاب شموئیل میں اس کا واپس بھیج دینا ایسے عجیب اور کراماتی واقعوں پر مبنی کیا ہے جس کو کوئی آزاد رائے کا مورخ جو واقعات کو انسانوں کے حالات اور افعال کا نتیجہ سمجھتا ہے تسلیم نہیں کر سکتا لڑائی کی شکست ہونے کے بعد بنی اسرائیل نہایت ضعیف ہو گئے تھے اور رفتہ رفتہ انہوں نے پھر قوت حاصل کی تھی تابوت سکینہ کا دشمنوں کے ہاتھ میں چلا جانا بلا شبہ ان کو نہایت رنج دیتا ہو گا اور ان کی نہایت آرزو یہ ہو گی کہ وہ اس کو پھر اپنے دشمنوں سے واپس لیں۔ اس شکست کے بیس برس بعد وہ فلسطینیوں سے پھر لڑے اور فلسطینیوں نے شکست پائی جس سے معلوم ہوتا ہے فلسطینی کمزور ہو گئے تھے فلسطینی خوب جانتے ہوں گے کہ بنی اسرائیل جب تک کہ تابوت سکینہ ان کے ہاتھ نہ لگے لڑائی سے باز نہیں آنے کے۔ اس عرصہ میں بنی اسرائیل کو زیادہ قوت ہو گئی اور شموئیل نبی نے تمام فرقوں کو جو عیلی کے مرنے کے بعد متفرق ہو گئے اکٹھا کر لیا اور طالوت کو بادشاہ مقرر کیا اور یہ امر بنی اسرائیل کی زیادہ قوت کا اور فلسطینیوں کا جو کمزور ہوتے جاتے تھے زیادہ خوف کا باعث ہوا ہو گا۔ انہوں نے سمجھا ہو گا کہ اگر قابوت سکینہ واپس کر دیا جاوے تو شاید مصیبت جنگ سے حفاظت ہو جاوے انہوں نے جا بجا اس کو منتقل کیا اور آخر کار ایک گاڑی میں لاد کر مع زر و تخائف کے بیت الشمس کی سرحد میں جو بنی اسرائیل کا ایک شہر فلسطینیوں کی سرحد سے ملا ہوا تھا چھوڑ آئے اور اس تمام اصلی واقعہ پر خیال کرنے سے اس بات کو کہ تابوت سکینہ طالوت کے عہد میں آیا ہو گا۔ جیسا کہ قرآن میں مندرج ہے زیادہ ترجیح ہوتی ہے۔ دریا کے پانی پینے سے منع کرنے کی نسبت اول ہم کو خیال کرنا چاہیے کہ جہاں طالوت و جالوت میں لڑائی ہوئی تھی وہ کیا مقام تھا فلسطینی مقام سوکوہ غریقاہ دمیم میں جمع ہوئے تھے اور بنی اسرائیل وادی، ایلاہ میں دونوں لشکروں کے درمیان دریائے شورق واقع تھا فلسطینی اس کے بائیں کنارہ پر یعنی جانب جنوب تھے اور بنی اسرائیل اس کے دائیں کنارہ پر یعنی جانب شمال تھے اور بنی اسرائیل نے دریا کو عبور کر کے فلسطینیوں پر حملہ کیا تھا پس قرآن مجید کے ان لفظوں کی کہ ’’ ان اللہ مبتلیکم بنھر‘‘ جغرافیہ اور تاریخ سے بخوبی تصدیق ہوتی ہے۔ باقی رہا اس کے پانی پینے سے منع کرنا ہر شخص جو لڑائیوں کے حالات سے واقف ہے اس بات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ جب ایک قوم دوسری قوم پر فوج کشی کرتی ہے تو ہر ایک شخص اس کی قوم کا بہادر اور غیر بہادر اور دل چلا اور دل کا بودا قومی لحاظ سے اس کے ساتھ ہو لیتا ہے لیکن جب وقت حملہ کرنے کا آتا ہے تو سپہ سالار ایک طریقہ ایسے لوگوں کے انتخاب کرنے کا مقرر کرتا ہے جس کے سبب حملہ میں وہی لوگ شریک رہیں جو نہایت بہادر اور دل چلے ہوں اور در حقیقت اپنے دلی جوش سے لڑائی میں شریک ہوئے ہوں۔ جب جدعون نے مدبانیوں پر فوج کشی کی تھی تو اس نے حملہ کے وقت یہ قرار دیا تھا کہ جو شخص اس چشمہ سے جو اس لشکر کے پاس تھا پانی پی لے وہ حملہ میں شریک نہ ہو اور جو نہ پئے بلکہ صرف ہاتھ بھگو کے زبان تر کر لے وہ حملہ میں شریک رہے اس سے مقصود صرف یہ تھا کہ جن لوگوں کو لڑنے اور جان دینے میں تذبذب ہو وہ چھٹ جائیں اور جو بالکل لڑنے اور مرنے پر آمادہ ہوں وہ حملہ میں شریک رہیں۔ اگرچہ شبہ ہے کہ جہاں جدعون کی مدیانیوں سے لڑائی ہوئی تھی وہاں کوئی چشمہ نہیں تھا اور اس لیے کتاب قضاۃ میں طالوت کا واقعہ جدعون کے قصہ سے ملا دیا ہے لیکن اگر اس کو جدعون ہی کے وقت کا واقعہ تسلیم کر لیا جاوے تو طالوت کو یہ واقعہ ضرور معلوم ہو گا اور اتفاق سے طالوت کا لشکر بھی دریا کے کنارہ پڑا تھا اور دریا کے پار اتر کر حملہ کرنا قرار پایا تھا ہر طرح پر یقین کرنے کا موقع ملا ہے کہ طالوت نے بھی اسی طریقہ پر ان لوگوں کا جو حملہ میں دل سے شریک ہو کوتھے انتخاب کرنا چاہا ہو گا اور وہی طریقہ انتخاب کا اختیار کیا ہو گا جو جدعون نے اختیار کیا تھا ہاں کتاب شموئیل میں اس انتخاب کا ذکر نہیں ہے لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کتاب شموئیل میں اس کا ذکر نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ واقعہ نہ ہوا ہو عیسائی مورخوں نے کج بحثی سے یہ اعتراض کیا ہے کہ قرآن مجید میں جدعون کے قصہ کو طالوت کے قصہ میں ملا دیا ہے پس یہ اعتراض کرنے والوں کی غلطی ہے کیوں کہ تمام واقعات کو خیال کرنے سے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ جدعون کے عہد میں جو واقعہ ہوا وہ علیحدہ ہے اور طالوت کے عہد میں جو واقعہ ہوا ہے اور جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے وہ علیحدہ ہے اور کم سے کم اس میں تو کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ اس زمانہ کے یہود جب قرآن مجید نازل ہوا اس واقعہ کا طالوت کے عہد میں بھی واقع ہونے کا یقین رکھتے تھے کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو انہی کے مقابلہ میں قرآن مجید میں اعلانیہ ایسا بیان نہیں ہو سکتا۔ آیتیں جن میں یہ قصہ مذکور ہے نہایت صاف ہیں صرف ایک مقام تفسیر کے قابل ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ ’’ طالوت کے عہد سلطنت میں تابوت سکینہ کو فرشتے اٹھا لاویں گے‘‘ ’’ تحملہ الملائکۃ‘‘ جالوت نے جب لڑائی میں مغلوب ہونے کے ڈر سے تابوت سکینہ کو بنی اسرائیل کے ملک میں بھیج دینا چاہا تو اس کو بیلوں کی گاڑی پر لاد کر بنی اسرائیل کے ملک کی سرحد میں چھڑوا دیا تھا یہ قصہ شموئیل کی کتاب میں ہے ہمارے علمائے مفسرین نے کہہ دیا کہ ان بیلوں کو جن پر کوئی ھانکنے والا نہ تھا فرشتے ھنکا لائے تھے اور یہی معنی تحملہ الملائکۃ کے قرار دیے ہیں بعض عالموں نے سمجھا کہ یہ معنی تو ٹھیک تحملہ کے لفظ کے چسپاں نہیں ہوتے انہوں نے یہ قیاس لگایا کہ موسیٰ کے بعد سے تابوت سکینہ کو دنیا سے اوپر فرشتے ادھر اٹھائے ہوئے تھے پھر طالوت کو لا کر دے دیا یہ سب غلط قیاسات ہیں آیت کا مطلب صاف ہے کہ بنی اسرائیل کو تابوت سکینہ کے ہاتھ آنے کی بڑی خواہش تھی شموئیل پیغمبر نے جب طالوت کو بادشاہ مقرر کیا تو فرمایا کہ اس کی بادشاہت میں تابوت سکینہ آ جاوے گا اور جو کہ اس کا ہاتھ آنا نہایت مشکل معلوم ہوتا تھا اس لیے انہوں نے کہا کہ اس کو فرشتے اٹھا لاویں گے جیسے کہ ایسے موقع پر بطور تقویت قلب کے بولا جاتا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭ موسیٰ، فرعون اور بنی اسرائیل حضرت موسیٰ، بادشاہ فرعون اور حضرت موسیٰ کی قوم بنی اسرائیل کے متعلق جو واقعات قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں وہ 19موضوعات میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے: 1تحقیق لفظ آیہ و لفظ بینہ2حقیقت سحر3تخیل تحریک حبل و عصائے سحرہ فرعون4 عصائے موسیٰ اور اس کا بطور اژدھے کے دکھائی دینا 5 بیان یدبیضا 6 ذکر قتل اولاد بنی اسرائیل 7 بیان قحط 8 ذکر طوفان، و جراد و قمل ، و ضفادع ، ودم 9 غرق فی البحر 10 اعتکاف حضرت موسیٰ کا پہاڑ میں 11 حقیقت کلام خدا با موسیٰ 12 حقیقت تجلی للجبل 13بیان کتابت فی الالواح 14 اتخاذ عجل 15 ستر آدمیوں کا منتخب کرنا 16 ذکر استسقائے قوم موسیٰ اور ظاہر ہونا چشموں کا 17 سایہ کرنا ابر کا 18 من و سلویٰ کا اترنا 19دخول باب ذیل میں ہم ان ان انیسوں امور کی نسبت علیحدہ علیحدہ بیان کرنا چاہتے ہیں اول: تحقیق معنی لفظ آیہ و بیتنہ ہم نے حضرت عیسیٰ کے بیان میں بہ تحت تفسیر ’’ واتینا عیسیٰ ابن مریم البینات‘‘ لفظ آیہ و بینہ پر مفصل بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ ان الفاظ کے معنی معجزہ کے نہیں ہیں بلکہ احکام کے ہیں اور یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ معجزہ دلیل ثبوت نہیں ہو سکتا اور اس صورت میں آیہ و بینہ کے معنی اس غرض سے معجزہ کے لینے کہ وہ مثبت نبوت ہوتا ہے خرط القتاد سے کچھ زیادہ رتبہ نہیں رکھتا اس بحث کو آگے کے مضمون حضرت عیسیٰ کے معجزات میں پڑھیں۔ دوم: حقیقت سحر اور یہ کہ کن معنوں میں اس کا استعمال ہو سکتا ہے سحر کا لفظ قرآن مجید میں بہت جگہ آیا ہے مگر بہت سے الفاظ زبان عرب میں ایسے مستعمل تھے جن کے لیے فی الواقع کوئی حقیقت نہ تھی اور نہ در حقیقت ان کا مصداق تھا نہ ان کا کوئی مسمی حقیقۃ وجود رکھتا تھا بلکہ عرب جاہلیت نے اپنے وہم میں ایک شے غیر موجود کا وجود قرار دیا تھا اور اس سے کچھ افعال منسوب کئے تھے اور اس شے غیر موجود وھمی کے لئے وہ الفاظ مستعمل کرتے تھے قرآن مجید اہل عرب کی زبان میںنازل ہوا او راس لئے اس زبان کے محاورہ کے موافق وہ الفاظ بھی قرآن مجید میں آئے ہیں مگر قرآن مجید میں ان کا استعمال ان اثروں کے سمجھانے کے لئے ہوا ہے جو اثر کہ اہل عرب ان لفظوں سے پاتے تھے نہ اس لئے کہ ان لفظوں کے لئے فی الواقع کوئی حقیقت تھی یا در حقیقت ان کا کوئی مصداق تھا۔ اس کی مثال میں ہم ایک مباحثہ لطیف کا ذکر کرتے ہیں جو قال ابو عبیدۃ ارسل الی الفضل بن الربیع الی البصرۃ فی الخروج الیہ فقدمت علیہ وکفت اخبر عن تبحرہ فاذن لی قد خلت علیہ وھو فی مجلس طویل عریض فیہ بساط واحد قد ملائ، و فی صدرہ فرش عالیۃ لا یر تقی علیھا الا بکرسی وھو جالس علی العرش فسلت علیہ بالوزارۃ فرد وضحک الی واستد نانی من فرشتہ ثم سالنی و بسطنی و تلطف بی وقال فانشدنی فانشدتہ من عیون اشعار جاھلیۃ احفظہا فقال قد عرفت اکثر ھذہ وارید من ملیح الشعر فانشدتہ فطرب وضحک و زادہ نشا طاثم دخل رجل فی ذی الکتاب ولہ ھیئۃ حسنۃ فاجلسہ الی جانبی وقال اتعرف ھذا قال لا فقال ھذا ابو عبیدۃ علامۃ اھل البصرہ اقد مناہ لنستقفید من علمہ فد عالہ الرجل ثم التفت الی وقال لی کنت الیک مشتا قا و قد سالت عن مسئلۃ افتادن لی ان اعرفک ایا ھاقلت ھات فقال قال اللہ تعالیٰ طلعہا کانہ روس الشیاطین وانما یقع الوعد والا یعاد بما قد عرف وھذالم یعرف قال فقلت انماکلم اللہ العرب علی قدر کلا مہم اما سمعبت قول امری القیس ایقتلنی والمشرفی مضاجعی ومسنونۃ رزق کانیاب اغوال وھم لم یروالغوال قط ولکنہ لما کان امر الغول یھو لھم او عدوابہ فاستحسن الفضل والسائل فی ذلک (مراۃ الجنان ورق157) خلیفہ منصور کے وزیر ابو الفضل بن ربیع کی مجلس میں ایک بہت بڑے عالم سے ہوا تھا مراۃ الجنان المشہور بہ تاریخ یا فعی میں لکھا ہے کہ فضل بن ربیع نے جو خلیفہ منصور کا وزیر اور ایک بہت بڑا عالم تھا ابو عبیدہ کے پاس جو اس زمانہ کے بہت بڑے عالم متبحر تھے اور بصرہ میں تھے ایک شخص بھیجا اور اپنے پاس بلایا وہ آئے اور ان کو وزیر کی مجلس میں آنے کی اجازت ملی جب وہ مجلس میں گئے تو دیکھا کہ وہ ایک بہت لمبے چوڑے مکان میں ہے جس میں بھرپور ایک ہی کپڑے کا فرش بچھا ہوا ہے اور صدر میں ایک بہت اونچی جگہ پر جس پر بغیر زینہ کے چڑھا نہیں جا سکتا مسند تکیہ لگا ہوا ہے اور وہ اس پر بیٹھا ہے ابو عبیدہ نے موافق اس آداب کے جو وزیروں کے لئے مقرر کیا تھا سلام علیک کی وزیر نے اس کا جواب دیا اور اپنی مسند کے پاس بیٹھنے کی اجازت دی پھر ابو عبیدہ کی خیر و عافیت پوچھی اور حالات دریافت کیے اور بہت مہربانی کی پھر کہا کہ کچھ اشعار پڑھو ابو عبیدہ نے عرب جاہلیت کے نہایت عمدہ اشعار جو اس کو یاد تھے پڑھے وزیر نے کہا کہ ایسے تو بہت سے اشعار میں بھی جانتا ہوں میرا یہ مقصد تھا کہ کچھ نمکین چٹ پٹے اشعار سناؤ ابو عبیدہ نے ویسے ہی اشعار پڑھے جن کو سن کر وزیر خوش ہوا اور ہنسا اور مزے میں آ گیا اتنے میں وزیر کا ایک منشی جو وجیہہ آدمی تھا آ گیا وزیر نے اس کو ابو عبیدہ کے پاس بیٹھنے کا حکم دیا اور ابو عبیدہ کی طرف اشارہ کر کے منشی سے پوچھا کہ تم ان کو جانتے ہو اس نے عرض کیا کہ میں نہیں جانتا وزیر نے کہا کہ یہ ابو عبیدہ ہیں علامہ اہل بصرہ میں نے ان کو بلایا ہے تاکہ ان کے علم سے ہم فائدہ اٹھاویں اس منشی نے وزیر کو دعا دی اور ابو عبیدہ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ میں آپ سے ملنے کا بہت مشتاق تھا لوگوں نے مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا آپ مجھ کو اجازت دیتے ہیں کہ اس کو آپ سے کہوں ابو عبیدہ نے کہا کہ کہو اس منشی نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے دوزخ کے درخت کے پھل کو شیطان کے سروں سے تشبیہہ دے کر ڈرایا ہے مگر لالچ دینا یا ڈرانا ایسی چیز سے ہو سکتا ہے جس کو لوت جانتے ہوں مگر شیطانوں کے سروں کو تو کوئی نہیں جانتا کہ کیسے ہیں ابو عبیدہ نے کہا کہ خدا نے عرب کے کلام کے مطابق کلام کیا ہے کیا تم نے امراء القیس کا قول نہیں سنا چناں چہ ابو عبیدہ نے وہ شعر پڑھا جس کا مطلب یہ ہے۔ کیا وہ مجھ کو مار ڈالیں گے اور تلوار میری ساتھ لیٹی ہے اور نیلی چمک دار برچھیاں ہیں مانند دانتوں غول بیابانی کے۔ اس شخص نے جس کے حق میں یہ شعر کہا ہے یا اور کسی نے غول بیابانی کو کبھی نہیں دیکھا تھا مگر جب کہ غول بیابانی کا ہول اس کے دل میں تھا تو اس سے ان کو ڈرایا اس تقریر کو وزیر ابو الفضل اور اس کے منشی دونوں نے پسند کیا۔ (انتہی) غرض کہ جس طرح امراء القیس کے شعر سے یہ لازم نہیں آتا کہ در حقیقت غول بیابانی کے لمبے لمبے نیلے نیلے چمک دار دانت ہوتے ہیں اسی طرح قرآن مجید میں جو روش الشیاطین کا لفظ آیا ہے اس کو یہ لازم نہیں آتا کہ در حقیقت شیطان کا ڈراؤنا سر ہوتا ہے بلکہ جس چیز سے اپنے خیالات کے موافق عرب دہشت کھاتے تھے اسی سے ان کے خیالات کے موافق وعید آئی ہے اسی طرح سحر کا لفظ جہاں قرآن میں آیا ہے وہ صرف عرب جاہلیت کے خیال کے موافق آیا ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جس طرح پر عرب جاہلیت سحر کو سمجھتے تھے در حقیقت اس طرح پر اس کا وجود تھا یا خدا تعالیٰ نے اس کا واقعی ہونا بتایا ہے یا عرب جاہلیت کے خیالات کی تصدیق کی ہے۔ اسی طرح سینکڑوں لفظ قرآن مجید میں سب محاورہ زبان عرب و عزمت مذ ذالک الیوم ان اصنع کتابا فی القرآن لمثل ھذا واشباھہ ولما یحتاج الیہ من علمہ فلما رجعت الی البصرۃ علمت کتاب لذی سمیتہ المجاز (مراۃ الجنان یافعی صفحہ157) اور بلحاظ خیالات عرب جاہلیت آئے ہیں جن سے ان کا واقعی ہونا مراد نہیں ہے علمائے متقدمین نے اس باب میں کتابیں لکھی ہیں چناں چہ تاریخ یافعی میں لکھا ہے کہ اس مباحثہ کے بعد ابو عبیدہ نے اسی دن سے ارادہ کیا کہ وہ قرآن کے اس قسم کے الفاظ کے بیان میں ایک کتاب لکھے اور جب وہ بصرہ میں واپس آ گیا تو اس نے کتاب لکھی اور اس کا نام مجاز رکھا افسوس ہے کہ اس قسم کی کتابیں دستیاب نہیں ہوتیں ہمارے زمانہ کے عالم ان کتابوں سے نا واقف محض ہیں اور جب کوئی شخص جس کو خدا نے بصیرت دی ہے قرآن مجید پر غور کر کے اور تمام حالات کو پیش نظر رکھ کے اس قسم کے الفاظ کی نسبت کچھ لکھتا ہے تو ان کو ایک نئی بات معلوم ہوتی ہے اور چونک اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو نص کے بر خلاف ہے حالاں کہ جس کو وہ نص سمجھتے ہیں در حقیقت وہی نص کے خلاف ہے۔ سحر جس طرح کہ لوگ اس پر یقین کرتے ہیں اور عرف عام میں جس طرح پر وہ سمجھتا جاتا ہے اس کی کچھ اصلیت نہیں ہے اور نہ قرآن مجید سے اس کی تصدیق پائی جاتی ہے ہاں تمام انسانوں میں خواہ وہ انبیاء ہوں یا اولیاء یا عوام الناس یا کسی مذہب کے ہوں حتیٰ کہ حیوانوں میں بھی ایک قسم کی قوت مقناطیسی موجود ہے جو خود اس پر اور نیز دوسروں پ رایک قسم کا اثر پیدا کرتی ہے یہ قوت بمقتضائے خلقت بعضوں میں ضعیف اور بعضوں میں قوی اور بعضوں میں اقوی ہوتی ہے اور جس طرح اور قوائے انسانی ورزش سے قوت پکڑتے ہیں جیسے کہ پنجہ کشی کی ورزش سے پنجہ میں کلائی کی ورزش سے کلائی میں زیادہ قوت آ جاتی ہے اسی طرح اس قوت دماغی میں بھی خاص قسم کی ورزش سے قوت زیادہ ہو جاتی ہے۔ انسان جو خواب میں عجیب عجیب چیزیں دیکھتا ہے اور عجیب واقعات و حالات اس پر گزرتے ہیں جن کو وہ سمجھتا ہے کہ در حقیقت وہ تمام چیزیں موجود ہیں اور فی الواقع وہ حالات اس پر گزر رہے ہیں اسی قوت کے اثروں میں سے ہے حالاں کہ وہ چیزیں در حقیقت نہ موجود ہوتی ہیں اور نہ فی الواقع وہ حالات اس پر گزرتے ہیں۔ یہ کیفیت جس طرح کہ خواب طبعی میں ہوتی ہے کبھی حالت بیداری میں بھی پیدا ہو جاتی ہے آدمی سمجھتا ہے کہ میں جاگتا ہوں اور در حقیقت وہ جاگتا بھی ہوتا ہے مگر اس پر ایک قسم کی خواب طاری ہو جاتی ہے جو خواب مقناطیسی سے تعبیر کی جا سکتی ہے اور اس حالت میں انسان ایسی چیزوں کو موجود دیکھتا ہے جو فی الحقیقت موجود نہیں ہیں اور ایسے واقعات اپنے پر گزرتے ہوئے یقین کرتا ہے جو در حقیقت پر اس نہیں گزرتے۔ یہ قوت مقناطیسی جس میں قوی ہوتی ہے وہ دوسرے شخص پر بھی ڈال سکتا ہے اور اس دوسرے شخص پر بحالت بیداری ایک قسم کی خواب مقناطیسی طاری ہوتی جاتی ہے۔ کبھی دوسرا شخص جاگتا رہتا ہے اور خواب مقناطیسی اس پر طاری رہتی ہے اور کبھی وہ اسی خواب مقناطیسی میں بیہوش ہو جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سوتا ہے۔ اس قوت مقناطیسی سے کیا کیا چیزیں ظہور میں آتی ہیں بحث طلب ہیں جو لوگ اس فن کے عامل ہیں وہ اس قوت سے بہت سی عجائب و غرائب چیزوں کے ظہور کا دعویٰ کرتے ہیں مگر جب تک وہ تجربہ اور مشاہدہ میں نہ آویں اس وقت تک ان کے صحیح و غیر صحیح ہونے کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ ہاں صرف ان باتوں کے وجود سے یا ان کے ظہور پذیر ہونے سے انکار کیا جا سکتا ہے جو معلومہ قوانین قدرت کے بر خلاف ہیں با ایں ہمہ جو امور کہ اس سے ظہور میں آویں وہ صرف خیالی اور وھمی ہوتے ہیں جیسے خواب کی چیزیں نہ اصلی اور واقعی۔ یہ قوت بعض آدمیوں میں خلقی نہایت قوی ہوتی ہے اور جو لوگ مجاہدات کرتے ہیں اور لطائف نفسانی کو متحرک کرتے ہیں خواہ وہ ان مجاہدات میں خدا کا نام لیا کریں یا اور کسی کا ان میں بھی یہ قوت نہایت قوی ہو جاتی ہے اور اس کے اثر ظاہر ہونے لگتے ہیں ان اثروں کو جب کہ مسلمانوں سے ظاہر ہوتے ہیں مسلمان کرامت سے تعبیر کرتے ہیں اور جب کہ غیر مذہب والے سے ظاہر ہوتے ہیں اس کو استدراج سے تعبیر کرنے ہیں حالاں کہ دونوں کی اصلیت واحد ہے بہرحال جو کچھ کہ اس سے ظاہر ہو اس کا کوئی وجود اصلی و حقیقی نہیں ہے بلکہ صرف وجود وھمی و خیالی ہے۔ اسی قسم کی تاثیرات نفسانی کے ظہور کو جب کہ ان کابرانگیختہ کرنا ایسے مجاہدات سے کیا گیا ہے جو خدا کے سوا اور اشیا یا اشخاص کے تصور و تذکر سے تعلق رکھتے ہیں سحر سے تعبیر کیا گیا ہے اگرچہ صاحب تفسیر کبیر نے بھی سحر کی نسبت بہت لنبی بحث لکھی ہے مگر ابن خلدون نے اس بحث کو نہایت خوبی سے صاف صاف مختصر طور پر لکھا ہے جس کو ہم بجنسہ اس مقام پر نقل کرتے ہیں چناں چہ انہوں نے لکھا ہے۔ حقیقۃ السحر؎ و ذالک ان النفوس البریۃ وان کانت واحدۃ بالنوع فھی مختلفۃ بالخواص وھی اصناف کل صنف مختص بخاصیۃ واحدۃ یالنوع لا توجد فی الصنف الاخر و صارت تلک الخواص فطرۃ و جبلۃ لصنفہا فنفوس الا نبیاء علیہم الصلواۃ والسلام لھا خاصیۃ تستعد بھا المعرفۃ الربانیۃ ومخاطبۃ الملائکۃ علیہم السلام عن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کما مروما یتبع ذلک من التاثیر فی الاکوان واستجلاب روحانیۃ الکواکب التصرف فیہا والتاثیر بقوۃ نفسانیۃ او شیطانیۃ فاما تاثیر الانبیاء فمدد الھی و خاصیۃ ربانیۃ و نفوس الکھنۃ لھا خاصیۃ الاطلاع علی المغیبات بقویٰ شیطانیۃ وھکذا کل صنف مختص بخاصیۃ لا توجد فی الاخر و النفوس الساخرۃ علی مراتب ثلاثۃ یاتی شرحھافا ولھا الموثرہ بالھمۃ فقط من غیر الۃ ولا معین وھذا ھو الذی تسمیۃ الفلاسفۃ السحر و الثانی بمعین من مزاج الافلاک او العناصر او خواص الاعداد و یسونھا الطلسمات وھی اضعف رتبۃ من الاول والثالث تاثیر فی القویٰ المتخیلۃ یعمد صاحب ھذا التاثیر الی القوی المتخیلہ فیتصرف فیہا بنوع من التصرف و یلقی فیہا انواعا من الخیالات و المحاکات و صورا مما یقصد من ذلک ثم ینذلھا الی الحس من الرائین بقوۃ نفسہ الموثرۃ فیہ فینظر الراؤن کانہا فی الخارج و لیس ھناک شیئا من ذلک کما یحکی عن بعضہم انہ یری السباتین والانھار والقصور ولیس ھناک شی من ذلک ویسمی ھذا عند الفلاسفۃ الشعودۃ او الشعبدۃ ھذا تفصیل مراتبہ ثم ھذہ الخاصیۃ تکون فی الساحر بالقوۃ شان القوی لبشریۃ کلھما وانما تخرج الی الفعل بالریاضۃ (مقدمہ ابن خلدون صفحہ415) کہ سحر کی حقیقت یہ ہے کہ نفوس انسانی اگرچہ نوعیت کے لحاظ سے متحد ہیں مگر خاصیتوں کے اعتبار سے مختلف ہیں اور وہ چند قسم کے ہیں ہر ایک قسم ایک نوع خاص کی خاصیت کے ساتھ مخصوص ہے کہ جو دوسری قسم میں نہیں پائی جاتی۔ اور یہ خاصیتیں ان کی جبلت اور سرشت ہیں۔ پس انبیاء علیہم اسلام کے نفوس کو ایک خاص مناسبت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ خدا کی معرفت اور فرشتوں سے (جو خدا کی طرف سے آتے ہیں) بات چیت کی۔ اور اس قسم کے اور کام کی یعنی موجودات میں تاثیر کی اور ستاروں کی روحانیت کی تسخیر کی ان میں تصرف کرنے کی غرض سے قائل ہوتے ہیں اور تاثیر قوت نفسانیہ سے ہوتی ہے یا شیطانیہ سے لیکن انبیاء کی تاثیر تو وہ امداد الٰہی اور خاصیت ربانی ہے اور جادوگروں کے نفوس کو غائب چیزوں پر اطلاع حاصل کرنے کی خاصیت قوائے شیطانیہ کے ذریعہ سے ہے اور اسی طرح ہر ایک قسم ایک خاصیت کے ساتھ مخصوص ہے جو کہ دوسری میں نہیں پائی جاتی اور جادوگروں کے نفوس کے مختلف درجے ہیں جن کی تفصیل آتی ہے۔ قسم اول تو صرف ہمت کے ذریعہ سے بغیر کسی آلہ اور مددگار کے تاثیر کرنے والی ہیں دوسری قسم بذریعہ کسی معین کی تاثیر کے ہے یعنی افلاک یا عناصر کے مزاج یا عددوں کی خاصیتوں سے اور اس کو طلسمات کہتے ہیں اور یہ قسم اول سے رتبہ میں کم ہے تیسری قسم خیالی قوتوں میں تاثیر کرنا ہے اس تاثیر والا آدمی قوائے متخیلہ کی طرف توجہ کرتا ہے پس ان میں ایک خاص قسم کا تصرف کرتا ہے اور میں طرح طرح کے خیالات اور گفتگو اور صورتیں جو کچھ اس کو مقصود ہوتی ہیں ڈالتا ہے پھر ان کو دیکھنے والوں کی حس پر ڈھالتا ہے اپنے نفس موثرہ کی قوت کے ذریعہ سے سو دیکھنے والے ایسا دیکھتے ہیں کہ گویا وہ خارج میں موجود ہیں اور حالاں کہ وہاں کچھ نہیں ہوتا جیسا کہ بعض لوگوں کا قصہ بیان کیا جاتا ہے وہ باغ، نہریں، مکانات دیکھتے فلاسفہ کے نزدیک یہ شودہ یا شعبدہ ہے۔ یہ اس کے مراتب کی تفصیل ہے پھر یہ خاصیت ساحر میں اور قوائے بشریہ کی طرح بالقوہ موجود ہوتی ہے مگر ریاضت کرنے سے بالفعل موجود ہو جاتی ہے۔ ابن خلدون نے جو سحر کے تین درجے قرار دیے ہیں حقیقت میں وہ تینوں سے واحد ہیں پہلا درجہ صرف ہمت کی تاثیر قرار دیا ہے اور تیسرا درجہ متخیلہ میں چیزوں کا جمع کر کے دوسرے کے متخیلہ میں اس کا القاء کرنا قرار دیا ہے یہ قسم در حقیقت صرف ہمت ہی سے متعلق ہے کوئی شے اس سے علیحدہ نہیں ہے دوسرا درجہ امداد کا مزاج افلاک و عناصر اور خواص اعداد سے قرار دیا ہے حالاں کہ اس بات کے لیے کہ افلاک و کواکب و اعداد سے در حقیقت اس میں کچھ اعانت ہوتی ہے کچھ ثبوت نہیں ہے پس یہ دوسری قسم محض فرضی ہے اور تینوں قسمیں قسم واحد ہیں یعنی صرف ہمت سے تاثیرات کا ظہور۔ اسی قوت نفسی کے آثار جب انبیاء علیہم السلام سے ظاہر والفرق عندھم بین المعجزۃ والسحران المعجزۃ قوۃ الھیۃ تبعث فی النفس ذلک التاثیر فھو موئد بروح اللہ علی فعلہ ذلک والساحر انما یفعل ذلک من عند نفسہ و بقوتہ النفسانیۃ و بامداد الشیاطین فی بعض الاحوال فبینھما الفرق فی المعقولیۃ و الحقیقۃ والذات فی نفس الامرو انما نستدل نحن علی التفرقۃ بالعلامات الظاھرۃ وھی وجود المعجزۃ لصاحب الخیر و فی مقاصد الخیر و للنفوس المتمحضۃ للخیر والتعدی بھا علی دعوی النبوۃ والسحر انما یوجد لصاحب الثرو فی افعال الشر فی الغالب من التفریق بین الزوجین و ضرر الا عداء وامثال ذلک وللنفوس المتمحضۃ للشر ھذا ھو الفرق بینھما عند الحکماء الا لھیین وقد یوجد لبعض المتصوفۃ واصحاب الکرامات تاثیر ایضا فی احوال العالم و لیس معدودا من جنس السحر وانما ھو بالامداد الا لھی لان طریقہتم ونحلتم من اثار النبوۃ و توابعہا ولھم فی المدد الا لھی حظ علیٰ قدر حالھم وایمانہم وتمسکہم بکلمۃ اللہ واذ اقتدرا حد منہم علی افعال الشر فلا یاتیہا لانہ متقید فیما یاتیہ ویذرہ للہ امر الا لھی فما لا یقع لھم فیہ الاذن لا یاتونہ بوجہ ومن اتاہ منہم فقد عدل عن طریق الحق و ربما سلب حالہ ولما کانت المعجزۃ بامداد روح اللہ والقوی الا لھیۃ فلذلک لا یعارضہا شئی من السحر (مقدمہ ابن خلدون صفحہ419) واما الفرق عندھم بین المعجزۃ والسحر فالذی ذکرہ المتکلمون انہ راجع الی التحدی وھو دعویٰ وقوعہا علی وفق ما ادعاہ قالوا والساحر مصروف عن مثل ھذا التحدی فلا یقع منہ و وقوع المعجزۃ علی وفق دعویٰ الکاذب غیر مقدرو لان دلالۃ المعجزۃعلی الصدق عقلیۃ لان صفۃ نفسھا التصدیق فلو وقعت مع الکذب لا ستحال الصادق کاذبا وھو محال فاذا لا تقع المعجزۃ مع الکاذب بالا خلاق واما الحکماء فالفرق بینھما عندھم کما ذکرناہ فرق بین الخیر والشرفی نہایت الطرفین فالساحر لا یصدر منہ الخیر ولا یستعمل فی اسباب الخیر والا یستعمل فی اسباب الخیر و صاحب المعجزۃ لا یصدر منہ الشر ولا یستعمل فی اسباب الشر وکانھما علی طرفی النقصیض فی اصل فطرتھما (مقدمہ ابن خلدون صفحہ420) ہوتے ہیں تو اس کو معجزہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ابن خلدون نے معجزہ اور سحر میں یہ فرق بتلایا ہے کہ ان کے نزدیک (یعنی حکمائے الہیین کے نزدیک) معجزہ و سحر میں یہ فرق ہے کہ معجزہ ایک قوت الٰہی ہے جو نفس میں اس تاثیر کو برانگیختہ کرتے ہے پس وہ شخص (صاحب معجزہ) اس کام کے کرنے میں خدا کی روح سے تائید یافتہ ہوتا ہے اور ساحر اسی کام کو اپنی طرف سے اور قوت نفسانیہ کے ذریعہ سے اور بعض حالتوں میں شیاطین کی مدد سے کرتا ہے پس ان دونوں میں معقولیت، حقیقت، ذات، کی رو سے ایک واقعی فرق ہے اور ہم اس تفرقہ پر ظاہری علامتوں سے استدلال کرتے ہیں اور وہ یہ کہ معجزہ اچھے شخص سے اچھے مقصدوں کے لیے ہوتا ہے اور نفوس متمحصہ سے اچھے کام کے لیے دعویٰ نبوت پر تحدی کے لئے ہوتا ہے اور سحر برے آدمی سے برے کام کے لیے اکثر مرد و عورت میں جدائی ڈالنے کے لیے دشمنوں کو ضرر پہنچانے کے لیے اور اسی قسم کے کاموں کے لیے ہوتا ہے اور نفوس متمحضہ سے شر کے لیے ہوتا ہے حکمائے الہیین کے نزدیک و معجزہ و سحر میں یہ فرق ہے اور کبھی بعض صوفیوں سے اور کرامت والوں سے عالم کے حالات میں تاثیر پائی جاتی ہے مگر اس کا شمار سحر کی جنس میں نہیں ہے بلکہ وہ تائید الٰہی سے ہوتا ہے کیوں کہ ان کا طور طریق نبوت کے آثارات اور توابع میں سے ہے اور تائید الٰہی میں علیٰ قدر مراتب اور خدا سے تقرب کے لحاظ سے ان کو بھی حصہ ملا ہوا ہے اور جب ان میں کا کوئی شخص افعال شر پر قادر ہوتا ہے تو اس کو کر نہیں سکتا ہے کیوں کہ وہ اپنے کام میں پابند ہے اور اس کو خدا کے حکم پر چھوڑ رکھا ہے اور جس میں خدا کا حکم نہیں ہوتا ہے اس کو وہ کسی طرح نہیں کرتا اور اگر کسی نے کیا تو وہ راہ حق سے منحرف ہو گیا اور اکثر اس کی کرامت مسلوب ہو جاتی ہے اور چوں کہ معجزہ خدا کی مدد اور خدائی قوتوں کی وجہ سے ہوتا ہے تو سحر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن ان لوگوں کے نزدیک معجزہ و سحر میں فرق یہ ہے کہ متکلمین تو کہتے ہیں کہ اس کا مروج تحدی کی طرف ہے اور تحدی کے معنی ہیں معجزہ کے وقوع کا دعویٰ کرنا اپنے دعویٰ کے موافق اور متکلمین کہتے ہیں کہ ساحر اس قسم کی تحدی سے معذور ہے اس لیے اس سے تحدی ہو نہیں سکتی اور جھوٹے شخص کے دعویٰ کے موافق معجزہ کا واقع ہونا نا ممکن ہے کیوں کہ معجزہ کی دلالت سچائی پر عقلی ہے اس لیے کہ معجزہ تصدیق کی خاص صفت ہے تو وہ اگر جھوٹ کے ساتھ واقع ہو تو سچی چیز جھوٹی ٹھیر جائے پس معجزہ مطلقاً جھوٹے سے نہیں سر زد ہو سکتا۔ لیکن حکما کے نزدیک تو جیسا ہم نے ذکر کیا معجزہ و سحر میں خیر و شر کا فرق ہے اور وہ بھی انتہا کے کناروں کا تو ساحر سے اچھا کام نہیں ہوتا اور نہ وہ اس کو اچھے کام کے اسباب میں صرف کرتا ہے اور صاحب معجزہ سے شر نہیں صادر ہوتا نہ وہ اس کو اسباب شر میں استعمال کر سکتا ہے گویا وہ دونوں خلقت ہی سے مخالفت کی اخیر سرحد پر ہیں۔ بوعلی سینا نے معجزہ یا کرامات کی نسبت یہ لکھا ہے کہ لا تستبعدن ان یکون لبعض النفوس ملکۃ یتعدی تاثیر ھا بدنہا او یکون لقوتہا کانہا نفس ما للعالم وکما تاثر بکیفیۃ مزاجیۃ یکون قد اثرت لمبدا جمیع ما عددتہ اذ مبادیھا ھذہ الکیفیات لاسیما فی جرم صارا ولی بد لمناسبۃ تخصہ مع بدنہ لا سیما و قد علمت انہ لیس کل مسخن بحارو لا کل مبرد بباردو لا تستنکرن ان یکون لبعض انفوس ھذہ القوۃ حتی یفعل فی اجرام اخر ینفعل عنہا انفعال بدنہ و لا یشتنکرن ان یتعدی من قواھا الخاصۃ الی قوی نفوس اخری یفعل فیہا لا سیما اذا کانت شحذت ملکتہا یقھر قواھا البدنیۃ التی لھا فتقھر شہوۃ او غضبا او خوفامن غیرھا ھذہ القوۃ ربما کانت للنفس یحسب المزاج الا صلی لما یفیدہ من ھیئۃ نفسانیۃ تصیر للنفس الشخصیۃ لتشخصہا وقد تحصل لمزاج یحصل وقد یحصل بضرب من الکسب بجعل النفس کالمجردۃ لشدۃ الذکاء کما یحصل الاولیاہ وللابرار۔ والذی یقع لہ ھذا فی جبلۃ النفس ثم یکون خیرا رشیدا مزکیا لنفسہ فھود و معجزۃ من الانبیاء او کرامۃ من الا ونیاء و تزیدہ تزکیۃ لنفسہ من ھذا المعنی زیادۃ علی مقتضی جبلۃ تیبلغ المبلغ الاقصی والذی یقع لہ ھذا ثم یکون شریرا و یستعملہ فی الشر فھو الساحر الخبیث و قد یکسر قدر نفسہ من غلوثہ فی ھذا المعنی فلا یلحق شییئا من الا زکیاء فیہ (اشارات بو علی سینا) تم اس بات کو بعید نہ سمجھو کہ بعض نفسوں کو ایسا ملکہ ہو جس سے اس کی تاثیر اس کے بدن تک پہنچے یا وہ اپنی قوت کی وجہ سے گویا کہ عالم کے لیے بمنزلہ نفس کے ہو اور جیسا کہ وہ کیفیت مزاجیہ کی وجہ سے اثر کرتی ہے تو وہ کسی مبدء کی وجہ سے وہ سب پر اثر کرے جن کو ہم نے گنایا ہے کیوں کہ اس کے مبادی بھی کیفیتیں ہیں خصوصاً اس جرم میں جس کے ساتھ وہ زیادہ مناسب ہے بوجہ اس مناسبت کے جو کہ اس کو اپنے بدن کے ساتھ ہے۔ بالخصوص جب تم یہ بات معلوم کر چکے ہو کہ ہر مسخن گرم نہیں ہے نہ ہر سرد سرد ہے اور اس بات کا انکار کرو کہ بعض نفسوں کو یہ قوت اس درجہ تک ہو کہ دوسرے اجسام میں اثر کرے اور وہ ایسا ہی منفعل ہو جیسا کہ اس نفس کا بدن اور اس بات کا انکار نہ کرو کہ وہ اپنی خاص قوت سے تجاوز کر کے دوسرے نفسوں پر اثر کرے خصوصاً جب کہ اس نے اپنے ملکہ کو قوائے بدنیہ کے زیر کر لینے سے تیز کر لیا ہو۔پس وہ دبا لیتا ہے شہوت کو یا غصہ کو یا دوسرے سے خوف کو یہ قوت اکثر نفس کو اصلی سرشت کے اعتبار سے ہوتی ہے جو کہ اس کو ہیئت نفسانیہ سے پہنچتی ہے اور نفس شخصیہ کے لیے بذ اتہا ہوتی ہے اور کبھی کسی مزاج کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اور کبھی کسی قسم کی کوشش کی وجہ سے ہوتی ہے جو کہ نفس کو نہایت تیزی کی وجہ سے مجرد سا بنا دیتی ہے جیسا کہ اولیا اور نیک لوگوں کو حاصل ہوتا ہے اور جس شخص کی سرشت میں یہ قوت ہو پھر وہ شخص نیک ہدایت یافتہ ہو اور اس کا نفس پاک ہو تو وہ نبی اور صاحب معجزہ ہوتا ہے یا ولی صاحب کرامت ہوتا ہے اور جب وہ نفس کا تزکیہ کرتا ہے تو اصل خلقت سے اور زیادہ ترقی کر جاتا ہے اور نہایت اونچے درجے تک پہنچ جاتا ہے اور جس کو یہ قوت ہے او روہ شریر ہے اور اس قوت کو برے کام میں صرف کرتا ہے تو وہ خبیث ساحر ہے اور کبھی وہ اس کام میں زیادہ غلو کرنے کی وجہ سے اپنے نفس کی قدر کو اور بھی گھٹا دیتا ہے تو وہ اچھوں کی کسی بات کو نہیں پہنچتا۔ ہم کو اس مقام پر اس بات سے بحث کرنی کہ معجزہ و سحر میں کیا فرق ہے اور نبیاء علیہم السلام سے جو اثر نفسی ظاہر ہوتے ہیں وہ کس مبدء سے ہوتے ہیں اور اولیاء اللہ سے کس کی تائید سے اور کفار و مشرکین یا خبیث انسانوں سے کس کی مدد سے کچھ ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے اور جس سے ہوتا ہے وہ خود اس کے اثر نفسی سے ہوتا ہے جو حسب فطرت انسانی خدا نے اس میں اور کسی نہ کسی قدر تمام انسانوں میں رکھا ہے پس اگر یہ سچ ہے تو ہم اس کو نہ معجزہ قرار دے سکتے ہیں نہ سحر نہ کرامت اور نہ استدراج جیسے کہ ہم انسان کے دوسرے قویٰ کے اثروں کو بھی معجزہ یا سحر یا کرامت یا استدراج قرار نہیں دیتے۔ علاوہ اس کے جب کہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اکثر ان اثروں کا ظہور ایسا ہی خیالی و وھمی ہے جیسے کہ خواب میں ان چیزوں کا ظہور جن کو دیکھنے والا صرف خواب ہی میں دیکھتاہے اور ان کا وجود در حقیقت اور فی الواقع کچھ نہیں ہوتا تو ہم کو جرأت نہیں پڑتی کہ ایسی بے اصل چیزوں کو فخریہ طور پر انبیاء علیہم السلام کے معجزے اور اولیاء اللہ کی کرامتیں اور بے اعتقادی سے کافروں کا سحر اور استدراج قرار دیں۔ ہم کو اور اسلام کو تو فخر اس بات پر ہے کہ ہمارے برحق پیغمبر خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف صاف کہہ دیا کہ میرے پاس تو کوئی معجزہ وعجزہ نہیں ہے اگر ہو گا تو خدا کے پاس ہو گا میں تو مثل تمہارے ایک آدمی ہوں خدا نے مجھ کو وحی کی ہے میں تم کو بری باتوں سے ڈراتا ہوں اور اچھی باتوں کی خوش خبری دیتا ہوں۔ ہم کو اور اسلام کو تو اس سچے ھادی پر فخر ہے جس نے نہ لکڑی کو سانپ کر دکھایا اور نہ اپنے دست مبارک کو چمکایا نہ سچی بات پر کچھ پردہ ڈالا نہ خدا کی قدرت کے قانون کو توڑنے کا دعویٰ کیا اور سیدھی طرح لوگوں کو سچا رستہ بتایا اور فخر اولین اور آخرین اور خاتم النبیین ہونے کا درجہ پایا یا ایھا الذین امنوا صدوا علیہ وسلموا تسلیما ٭٭٭٭٭٭٭ سوم: بیان تخیل تحرک حبل و عصائے سحرہ فرعون چہارم:بیان عصائے موسیٰ علیہ السلام پنجم: بیان یدبیضاء یہ تینوں امر ایسے ہیں جن کا یک شامل بیان کرنا مناسب ہے اس مقام پر ہم ان تمام آیتوں سے بحث کریں گے جن میں ان امور سہ گانہ کا ذکر ہے۔ ثعبان اس میں کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ مصر میں جس قدر ان لوگوں کی کثرت تھی جو ساحر کہلاتے تھے اور جو جو کرشمے وہ لوگوں کو دکھاتے تھے اس سے حضرت موسیٰ بخوبی واقف تھے جب حضرت موسیٰ اپنی قوم کی ہمدردی اور اپنی قوم کو فرعون کے ظلم سے رہائی دینے پر مائل یا مامور ہوئے تو یہ ایک قدرتی بات ہے کہ ان کو اس بات کا خیال ہوا ہو گا کہ وہاں تو بڑے بڑے کرشمے دکھانے والے ہیں میں ان پر کیوں کر غالب وما تلک بیمینک یا موسیٰ قال ھی عصای اتو کو علیہا واھش بھا علی غفی ولی فیہا مارب اخری قال القہا یا موسیٰ فالقا ھا فا ذاھی حیۃ تسعی قال خذھا ولا تخف سنعیدھا سیرتھا الا ولی واضم یدک الی جناحک تخرج بیضاء من غیر سوء آیۃ اخری (20سورہ طہ آیت18-23) آؤں گا ان کو خدا نے بتایاکہ تو بھی ویسے ہی کام کر سکتا ہے خدا نے پوچھا کہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟ موسیٰ نے کہا میری لاٹھی ہے جس کو میں ٹیک لیتا ہوں اور اس سے بھیڑوں کو ھنکاتا ہوں اور میرے اور کام بھی آتی ہے۔ خدا نے کہا اے موسیٰ اس کو ڈال تو دے۔ پھر جب موسیٰ نے اس لاٹھی کو ڈال دیا تو وہ یکایک اژدھا تھی، چلتی ہوئی خدا نے کہا اس کو اٹھا لے اور مت ڈر اس کو پہلی ہی سیرت پر پھر کر دیں گے اور اپنے ہاتھ کو بغل میں رکھ کر نکال، چٹا بے عیب یہ دوسری نشانی ہے یہی مضمون سورہ نمل میں بھی آیا ہے خدا نے موسیٰ سے والق عصاک فلما را ھاتھتز کانہا جان ولی مدبرا ولم یعقب یا موسیٰ لا تخف الی لا یخاف لدی المرسلون واد خل یدک فی جیبک تخرج بیضاء من غیر سوء فی تسع آیات الی فرعون و قومہ انھم کانوا قوما فسقین (27 سورہ نمل 10,12) کہا کہ اپنی لاٹھی ڈال دے جب موسیٰ نے دیکھا کہ وہ تو ھلتی ہے گویا وہ اژدھا ہے تو پیٹھ پھیر کر پیچھے ھٹے اور پھر پلٹ کر رخ نہ کیا خدا نے کہا اے موسیٰ ڈر مت میرے پاس پیغمبر ڈرا نہیں کرتے اور اپنے ہاتھ کو اپنی جیب میں ڈال کر چٹا بے عیب (جا) نو نشانیاں لے کر فرعون اور اس کی قسم کے پاس بے شک وہ قوم ہے نافرمان سورہ قصص میں یہ فرمایا ہے کہ اپنی لاٹھی ڈال پھر جب وان الق عصاک فما راھا تھتز کانھا جان ولی مدبرا ولم یعقب یا موسیٰ اقبل ولا تخف انک من الامنین اسلک یدک فی جیبک تخرج بیضاء من غیر سوء واضمم الیک جناحک من الرحب فذالک برھانان من ربک الی فرعون وملائہ انھم کانوا قوما فاسقین (28 سورہ قصص31,32) موسیٰ نے دیکھا کہ وہ ھلتی ہے گویا کہ وہ اژدھا ہے پیٹھ پھیر کر پیچھے ھٹے اور پھر پلٹ کر رخ نہ کیا۔ خدا نے کہا اے موسیٰ آگے آ اور مت ڈر بے شک تو ہے امن والوں میں سے اپنے ہاتھ کو اپنی جیب میں ڈال کر چٹا بے عیب نکال اور اپنے دونوں بازوؤں کو خوف سے ملا پس یہ دونوں دو برھان ہیں تیرے رب کی طرف فرعون کے اور اس کے سرداروں کے بے شک وہ لوگ نافرمان تھے۔ ان آیتوں پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کیفیت جو حضرت موسیٰ پر طاری ہوئی اسی قوت نفس انسان کا ظہور تھا جس کا اثر خود ان پر ہوا تھا یہ کوئی معجزہ مافوق الفطرت نہ تھا اور نہ اس پہاڑ کی تلی میں جہاں یہ امر واقع ہوا کسی معجزہ کے دکھانے کا موقع تھا اور نہ یہ تصور ہو سکتا ہے کہ وہ پہاڑ کی تلی کوئی مکتب تھا جہاں پیغمبروں کو معجزے سکھائے جاتے ہوں اور معجزوں کی مشق کرائی جاتی ہو حضرت موسیٰ میں ازروئے فطرت و جبلت کے وہ قوت نہایت قوی تھی جس سے اس قسم کے اثر ظاہر ہوتے ہیں انہوں نے اس خیال سے کہ وہ لکڑی سانپ ہے اپنی لاٹھی پھینکی اور وہ ان کو سانپ یا اژدھا دکھائی دی یہ خود ان کا تصرف اپنے خیال میں تھا وہ لکڑی لکڑی ہی تھی اس میں فی الواقع کچھ تبدیلی نہیں ہوئی تھی خدا تعالیٰ نے کسی جگہ یہ نہیں فرمایا کہ فانقلبت العصا ثعبانا یعنی وہ لاٹھی بدل کر اژدھا ہو گئی بلکہ سورہ نمل میں فرمایا کانھا جان یعنی گویا وہ اژدھا ہے اس سے ظاہر ہے کہ در حقیقت وہ اژدھا نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ لاٹھی کی لاٹھی ہی تھی۔ اس کے بعد جب حضرت موسیٰ فرعون کے پاس گئے تو فالقے عصاہ فاذا ھی ثعبان مبین(7سورہ اعراف 104) (26 سورہ شعرائ31) فرعون نے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی کرشمہ دکھاؤ حضرت موسیٰ نے اپنی لاٹھی کو اس کے آگے ڈال دیا پھر وہ یکایک اژدھا ظاہر ہوئی۔ صاحب تفسیر کبیر نے باوجود کہ نہایت بے سروپا قصے اعلم ان قولہ ولو جئتک بشئی مبین یدل علی ان اللہ تعالیٰ قبل ان القی العصاعرفہ بانہ یصیرھا ثعبانا ولو لا ذالک لما قال ما قال فلما القی عصاہ ظھر ما وعد اللہ بہ فصار ثعبانا مبینا والمراد انہ لبین للناظرین انہ ثعبان بحر کاتہ وسائر العلامات (تفسیر کبیر جلد5صفحہ52) ان واقعات کی نسبت لکھے ہیں مگر ان کے ساتھ یہ بھی لکھ دیا ہے کہ وہ لاٹھی دیکھنے والوں کو اژدھا معلوم ہوئی نہ یہ کہ در حقیقت وہ اژدھا ہو گئی تھی چناں چہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ خدا کا جو یہ قول ہے کہ حضرت موسیٰ نے فرعون سے کہا کہ اگر میں تجھ کو علانیہ کرشمہ دکھاؤں جب بھی تو مجھے قید کرے گا تو یہ کہنا اس بات پر دلیل ہے کہ لاٹھی کے ڈالنے سے پہلے خدا نے حضرت موسیٰ کو بتلا دیا تھا کہ وہ اژدھا ہو جائے گی کیوں کہ اگر یہ نہ ہوتا تو جو بات حضرت موسیٰ نے کہی وہ نہ کہتے پھر جب حضرت موسیٰ نے لاٹھی پھینکی تو وہ چیز ظاہر ہوئی جس کا وعدہ اللہ نے کیا تھا پھر لاٹھی علانیہ اژدھا ہو گئی اور علانیہ اژدہ ہو جانے سے مراد یہ ہے کہ وہ لاٹھی دیکھنے والوں کو ھلنے سے اور اور تمام نشانیوں سے اژدھا معلوم ہوئی۔ اس کے بعد وہ واقعہ ہے جو حضرت موسیٰ اور سحرہ فرعون فلما جاء السحرۃ قال لھم موسیٰ القواما انتم ملقون فلما القوا قال موسیٰ ما جئتم بر السحر ان اللہ سیبطلہ ان اللہ لا یصلح عمل المفسدین (سورہ یونس آیت80,81) قال لھم موسیٰ القواما انتم ملقون فالقوا حبالھم وعصیہم وقالوا بعزۃ فرعون انا لنحن الغالبون فالقی موسیٰ عماء فاذا ھی تلقف ما یافکون(سورہ شعرا آیت42,44) قالوا یا موسیٰ اما ان تلقی واما نکون نحن الملقین قال القوا فلما القوا سحروا اعین الناس واشرھبواھم وجاؤ ابسحر عظیم و اوحیینا الیٰ موسیٰ ان الق عصاک فاذا ھی تلقف ما یا فکون (سورہ اعراف آیت11,114) قالوا یموسیٰ اما ان تلقی واما ان نکون اول من القی قال بل القوا فاذ احبالھم وعصیہم یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعیٰ فا و حبس فی نفسہ خیفۃ موسیٰ قلنا لا تخف انک انت الا علی والق ما فی یمینک تلقف ما صنعو انما صنعو اکید ساحر ولا یفلح الساحر حیث اتی (سورہ طہ آیت67-72) میں واقع ہوا اور جس کا ذکر مندرجہ حاشیہ آیتوں میں ہے ان آیتوں کا مضمون یہ ہے کہ جب فرعون کے ساحر جمع ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ اے موسیٰ یا تو تم ڈالو نہیں تو ہم پہلے ڈالتے ہیں موسیٰ نے کہا کہ تم ہی ڈالو پھر جب انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور ان کو ڈرا دیا اور ایک بڑا جادو کیا اور فرعون کی جے پکاری کہ ہم بے شک موسیٰ پر غالب ہوئے پس یکایک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں موسیٰ کے خیال میں ان کے جادو کے سبب سے معلوم ہوئیں کہ وہ چلتی ہیں پھر موسیٰ کے دل میں ڈر سا پیدا ہوا۔ ہم نے کہا کہ تو مت ڈر تو ہی ان پر غالب ہے موسیٰ، فرعون کے ساحروں سے کہا کہ جو کرشمہ تم نے کیا وہ جادو ہے اللہ تعالیٰ ابھی اس کو مٹا دے گا بے شک اللہ مفسدوں کے کام کو نہیں سنوارتا خدا موسیٰ سے کہا کہ ڈال دے جو تیرے دائیں ہاتھ میں ہے نگل جاوے گا جو کچھ انہوں نے کیا ہے جو کچھ انہوں نے کیا ہے جادوں گروں کا مکر ہے اور جادو گر کو جہاں جاوے فلاح نہیں ہے پس موسیٰ نے اپنی لاٹھی ڈال دی پھر یکایک وہ سب کو نگلنے لگی۔ سورہ اعراف کی آیت میں جس پر باقی آیتیں محمول ہیں (لانھا یفسر بعضھا بعضا) ایک جملہ آیا ہے کہ سحروا اعین الناس یعنی لوگوں کو ڈھٹ بندی کر دی پس یہ جملہ صاف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ در حقیقت وہ لاٹھیاں یا رسیاں سانپ اور اژدھے نہیں ہو گئی تھیں بلکہ یہ سب تاثیر قوت نفس انسانی کے جو ساحروں نے کسب سے حاصل کی تھیں وہ رسیاں اور لاٹھیاں لوگوں کو سانپ اور اژدھے معلوم ہوتی تھیں۔ حضرت موسیٰ نے جو کچھ کیا وہ بمقتضائے قوت نفس تھا انسانی کو امر مافوق الفطرت نہ تھا مگر وہ قوت حضرت موسیٰ میں اور فطری جبلی تھی۔ اس امر کو علمائے متقدمین نے بھی تسلیم کیا ہے چناں چہ ثم قال تعالیٰ فلما القوا سحروا اعین الناس واحتج بہ القائلون بان السحر محض التمویۃ قال القاضی لو کان السحر حقا لکا نوا قد سحروا قلوبھم لا اعینہم فثبت ان المراد انھم تخیلوا احوالا عجیبۃ مع ان الامر فی الحقیقۃ ما کان علی و فق ما خیلوہ (تفسیر کبیر جلد3صفحہ682سورہ اعراف) تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ جب سحرہ فرعون نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں تو انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کیا تو جادو کے لفظ پر لوگوں نے دلیل پکڑی ہے کہ سحر صرف دھوکا ہے۔ قاضی کا قول ہے کہ اگر جادو برحق ہوتا تو وہ لوگوں کے دلوں پر جادو کرتے نہ کہ ان کی آنکھوں پر پس ثابت ہوا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے لوگوں کے خیال میں عجیب باتیں ڈالیں تھیں با اینہمہ حقیقت میں وہ باتیں ایسی نہ تھیں جیسی کہ لوگوں کے خیال میں پڑی تھیں۔ یعنی وہ لاٹھیاں اور رسیاں در حقیقت سانپ اور اژدھے نہیں بنی تھیں بلکہ صرف لوگوں کے خیال میں ایسی معلوم ہوتی تھیں اور یہ بات اسی تاثیر قوت نفس انسانی کے سبب تھی جو ساحروں میں بذریعہ کسب اور موسیٰ میں یحسب فطرت تھی مگر حقیقت میں نہ ساحروں کی رسیاں اور لاٹھیاں سانپ اور اژدھا بنی تھیں اور نہ حضرت موسیٰ کی۔ یدبیضا جب کہ یہ بات تسلیم کی گئی کہ انسان میں ایک ایسی قوت ہے کہ انسان اس کے ذریعہ سے قوائے متخیلہ کی طرف توجہ کرتا ہے اور پھر اس میں ایک خاص قسم کا تصرف کرتا ہے اور ان میں طرح طرح کے خیالات اور گفتگو اور صورتیں جو کچھ اس کو مقصود ہوتی ہیں ڈالتا ہے پھر ان کو اپنے نفس موثرہ کی قوت سے دیکھنے والوں کی حس پر ڈالتا ہے پھر دیکھنے والے ایسا ہی دیکھتے ہیں کہ گویا وہ خارج میں موجود ہے حالاں کہ وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اور قرآن مجید کے الفاظ سے جو آیات مذکورہ بالا میں گذرے ہیں جن سے پایا جاتا ہے کہ لاٹھیاں اور رسیاں اسی قوت متخیلہ کے سبب سانپ یا اژدھے دکھائی دیتی تھیں تو یدبیضا کا مسئلہ از خود حل ہو جاتا ہے کیوں کہ اس کا بھی لوگوں کو اس طرح پر دکھائی دینا اسی قوت نفس انسانی اور تصرف قوت متخیلہ کا سبب تھا نہ یہ کہ وہ کوئی معجزہ مافوق الفطرت تھا اور در حقیقت حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی ماہیت بدل جاتی تھی جہاں قرآن مجید میں یدبیضا کا ذکر آیا ہے وہاں یہ مضمون بھی موجود ہے کہ جب حضرت موسیٰ نے اپنا ہاتھ ونزع یدہ فاذا ھی بیضاء للناظرین(سورہ اعراف وہ سورہ شعراء 32,105) نکالا تو وہ یکایک چٹا تھا دیکھنے والوں کے لیے اور یہ مضمون صاف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں وہ چٹا دکھائی دیتا تھا جو اثر قوت نفس انسانی کا تھا نہ کوئی معجزہ مافوق الفطرت اس مقام پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اگر عصائے موسیٰ کا اژدھا بننا اور ہاتھ کا چٹا ہو جانا اسی قسم کی قوت نفسی سے لوگوں کو دکھائی دیتا تھا جس طرح کی قوت نفسی سے سحرہ فرعون کی رسیاں و لاٹھیاں سانپ دکھلائی دیتی تھیں اور کوئی معجزہ مافوق الفطرت نہ تھا تو خدا نے عصا و یدبیضا کی نسبت یہ کیوں فرمایا کہ ’’ فذانک برھان من ربک‘‘ یعنی ان کو خدا کی طرف سے برھان کیوں تعبیر کیا ہے مگر برھان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ عصائے موسیٰ کا اژدھا مرئی ہونا یا ہاتھ کا چٹا دکھائی دینا فرعون اور اس کے سرداروں پر بطور حجت الزامی کے تھا وہ اس قسم کے امور کو دلیل اس بات کی سمجھتے تھے کہ جس شخص سے ایسے امور ظاہر ہوتے ہیں وہ کامل ہوتا ہے اور اسی لیے انہوں نے حضرت موسیٰ سے بھی کرشمہ دکھلانے کی خواہش کی تھی پس ان دونوں چیزوں پر بمقابلہ فرعون اور اس کے سرداروں کے برہان سے تعبیر کرنا بالکل صحیح تھا اور اسی سبب سے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کرشمہ دکھلایا جاوے گا تو وہ موسیٰ کو سچا جانیں گے خود اسی آیت میں بمقابل فرعون اور اس کے سرداروں کے ان دونوں امر کو برھان قرار دینے کی وجہ بیان ہوئی ہے کہ ’’ انھم کانوا قوما فاسقین‘‘ فاسق کا لفظ نہایت وسیع معنی رکھتا ہے فرعون اور اس کے سرداروں کا ساحروں پر بہ سبب ان کے کرشموں کے اعتقاد رکھنا بھی فسق میں داخل تھا پس خدا نے فرمایا کہ یہ دونوں امر ایسی قوم کے لیے جو ساحروں کے کرشموں پر یقین رکھتے ہیں خدا کی طرف سے برہان ہیں پس برہان کا لفظ ان بیانات کے منافی نہیں ہے جو ہم نے اوپر بیان کیے ہیں۔ سورہ نمل میں خدا تعالیٰ نے عصا کے ذکر کے بعد فرمایا کہ ’’ وادخل یدک فی جیبک تخرج بیضاء من غیر سوء فی تسع ایات الی فرعون و قومہ‘‘ لفظ تسع ایات پر مفسرین نے بحث کی ہے کہ نو نشانیاں سے کیا مراد ہے۔ امام فخر الدین رازی نے اس آیت کی تفسیر میں عصا اور لقائل ان یقول کانت الایت احدی عشر ثنتان منہا الید والعصا و التسع الفلق والطوفان والجرد والقمل والضفادع والدم والمطسۃ والجذب فی بوادھیم والنقعان فی مزارعھم (تفسیر کبیر، جلد پنجم، صفحہ81) یدبیضا کے علاوہ یہ نو نشانیاں بیان کی ہیں دریا کا پھٹ جانا، طوفان کا ہونا، ٹڈیوں کا آنا، پسوؤں کا پیدا کرنا، مینڈکوں کا پیدا ہونا، پانی کا خون ہو جانا، مال و دولت مویشی میں کمی کا ہونا، قحط پڑنا، کھیتوں کی پیداوار کا گھٹ جانا۔ اور اسی مقام پر یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ فی تسع ایات‘‘ جملہ مستانفہ ہے یعنی علیحدہ کلام ہے اور اس کی تقریر یوں ہے کہ ’’ اذھب فی تسع آیات الیٰ فرعون‘‘ یعنی عصا اور ید بیضا کا ذکر علیحدہ ہو چکا اس کے سوا نو نشانیاں اور دیں کہ وہ لے کر فرعون کے پاس جا۔ مگر یہ بیان صحیح نہیں ا س لیے کہ وہ نو چیزیں جن کا ذکر کیا ہے بطور نشانی کے نہیں دی گئی تھیں بلکہ فرعون اور اس کی قوم پر بہ سبب نافرمانی کے بطور عذاب کے نازل ہوئی تھیں جن کو قرآن مجید نے بھی ’’ رجز‘‘ سے تعبیر کیا ہے پس ان واقعات کو تسع آیات قرار دینا صحیح نہیں ہو سکتا۔ سورہ بنی اسرائیل میں بھی تسع آیات کا ذکر ہے اور اس کی ولقد آتینا موسیٰ تسع آیات بینات فاسئل بنی اسرائیل اذا جاء ھم فقال لہ فرعون انی لا ظنک یا موسیٰ مسحورا قال لقد علمت ما انزل ھولاء الا رب السموات والارض بصائر وانی لا ظنک یا فرعون مثبورا (سورہ بنی اسرائیل آیت103) نسبت مفسرین نے یہ سمجھا ہے کہ اس آیت میں تسع آیات سے وہ نو احکام مراد ہیں جو حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل سے کہے تھے مفسرین کا ایسا خیال کرنا غالباً اس آیت کے ان الفاظ کی بنا پر ہے ’’ فاسئل بنی اسرائیل اس جاء ھم ‘‘ یعنی خدا نے فرمایا کہ بنی اسرائیل سے دریافت کر جب موسیٰ ان کے پاس آئے تو وہ نو احکام بتائے تھے اس خیال پر ہمارے راویوں نے ایک حدیث بھی بیان کر دی اور مفسرین نے قبول کر لی اور کہا کہ یہی قول سب سے اچھا ہے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ تسع آیات کے بیان میں متعدد فی تفسیر قولہ تعالیٰ آیات بینات اقوال اجودھا ماروی صفوان ابن عسال انہ قال ان یھود یا قال نصاحبہ اذ ھب بنا الی ھذا النبی نسالہ عن تسع آیات فذ ھبا الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وسالہ عنھا فقال ھن ان لا تشرکوا باللہ شیئا ولا تسرقوا ولا تنزنو ولا تقدلوا ولا تسحروا ولا تاکلوا الربا ولا تقذ فوالمحصنۃ ولا تولو الفرار یوم الزحف علیکم خاصۃ الیہودان لا تعتدوا فی السبت فقام الیہود یان فقبلا یدیہ و رجلیہ وقالوا اشہد انک فی ولو لا نخاف القتل لا تبعناک (تفسیر کبیر جلد چہارم، صفحہ285) اقوال ہیں سب سے اچھا قول یہ ہے کہ جو صفوان ابن عسال نے کہا ہے کہ ایک یہودی نے اپنے دوست سے کہا کہ پیغمبر کے پاس چلو ان سے پوچھیں کہ وہ نو احکام کیا تھے وہ آئے اور پوچھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ یہ تھے خدا کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو چوری نہ کرو زنا نہ کرو قتل مت کرو سحر مت کرو، سود نہ کھاؤ، عورتوں پر زنا کا اتہام مت کرو، لڑائی میں بھاگو نہیں اور بالتخصیص یہودیوں کے لیے یہ حکم ہیں کہ سبت کے دن زیادتی نہ کرو۔ یہ سن کر وہ دونوں یہودی کھڑے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں چومے اور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ نبی ہیں اگر ہم کو مارے جانے کا ڈر نہ ہوتا تو ہم آپ کی پیروی کرتے۔ مگر مفسرین کا یہ خیال کہ جن تسع آیات کا ذکر سورہ نمل کی آیت میں ہے وہ تو نو نشانیاں تھیں جو حضرت موسیٰ فرعون کے پاس لے گئے تھے اور جن تسع آیات کا ذکر سورہ بنی اسرائیل میں ہے وہ نو احکام بنی اسرائیل کے لیے تھے صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ کیوں کہ اسی آیت میں ذکر ہے کہ تسع آیات کے جواب میں فرعون نے کہا کہ اے موسیٰ میں تو تجھ کو سحر زدہ سمجھتا ہوں اور اس سے ثابت ہے کہ وہ احکام فرعون اور اس کی قوم کے لیے تھے نہ بنی اسرائیل کے لیے اور ’’ فاسئل بنی اسرائیل اذ جاء ھم‘‘ بطور جملہ معترضہ کے آیا ہے اس سے یہ استدلال کرنا کہ وہ احکام بنی اسرائیل کے لیے تھے صحیح نہیں ہے۔ غرض کہ ہماری تحقیق میں دونوں آیتوں میں تسع آیات سے وہ احکام مراد ہیں جو حضرت موسیٰ فرعون اور اس کی قوم کے پاس لے گئے تھے۔ یہ بات قابل تسلیم کے ہے کہ قرآن مجید میں ان نو احکام کا ایک جگہ شمار نہیں کیا گیا ہے بلکہ جا بجا متعدد احکام کا ذکر آیا ہے اگر ان سب پر غور کیا جاوے تو وہ احکام ہماری سمجھ میں مندرجہ ذیل معلوم ہوتے ہیں۔ 1توحید کمال قال اللہ تعالیٰ انی انا اللہ لا الہ الا انا 2اقرار بالرسالۃ کما قال انا رسولا ربک 3منع شرک سے کما قال فا عبدنی 4اقامت صلوۃ کما قال اقم الصلوۃ لذکری 5جزا و سزا کما قال تجزی کل نفس بما تسعی 6 اعتقاد آخرت کما قال ان الساعۃ آتیۃ 7 نزول عذاب منکرین پر کمال ان العذاب علی من کذب و تولی 8منع تعدی سے بنی اسرائیل پر کما قال لا تعذبھم 9 رھا کرنا بنی اسرائیل کا کما قال ارسل معنا بنی اسرائیل یہ تمام آیتیں جن کا اشارہ ہم نے کیا عام آیتیں نہیں ہیں بلکہ خاص آیتیں ہیں جو حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے قصہ میں وارد ہوئی ہیں اور اسی سبب سے ہم نے خیال کیا ہے کہ یہ وہ احکام ہیں جو حضرت موسیٰ خدا کی طرف سے فرعون کے پاس لے گئے تھے۔ ششم: قتل اولاد بنی اسرائیل کے لڑکوں یا مردوں کا قتل کوئی ایسا امر نہیں واذ نجینا کم من آل فرعون یسومونکم سوء العذاب بذبحون ابناء کم ویستحیون نساء کم و فی ذالکم بلاء من ربکم عظیم 2سورہ بقر46 اذ نجینکم من آل فرعون یسومونکم سوء العذاب یقتلون ابناء کم و یستحیون نساء کم وفی ذالکم بلاء من ربکم عظیم(7سورہ عراف 137) اذ قال موسیٰ لقومہ اذ کروا نعمۃ اللہ علیکم اذا نجاکم من آل فرعون یسومونکم سوء العذاب و یذبحون ابناء کم و یستحیون نساء کم و فی ذالکم بلاء من ربکم عظیم (14 سورہ ابراہیم6) ان فرعون علا فی الارض وجعل اھلہا شیعا یستضعف طائفۃ منہم یذبح ابناء ھم ویستحیی نساء ھم انہ کان من المفسدین وزیدان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلھم ائمۃ ونجعلھم الوارثین ونمکن لھم فی الارض و نری فرعون وھامان و جنودھما منھم ما کانوا یحذرون (28سورہ قصص5-3) فلما جاء ھم بالحق من عندنا قالوا اقتلوا بناء الذین آمنوا معہ و استحیوا نساء ھم وما کید الکافرین الا فی ضلال و قال فرعون ذرونی اقتل موسیٰ و نیدع ربہ انی اخاف ان یبدل دینکم اوان یظہر فی الارض الفسا۔ (40سورہ مومن 26-27) ہے جس کو کسی کرشمہ کی بنا قرار دیا جاوے اگرچہ مفسرین نے اس کی بنا بھی ایک کرشمہ پر قائم کی ہے یعنی بعضوں نے تو یہ کہا ہے کہ کاھنوں نے فرعون سے کہا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہو گا جو تیری سلطنت کو برباد کر دے گا پس اس تاریخ میں جو کاھنوں نے مقرر کی تھی جس قدر لڑکے پیدا ہوئے ان کو فرعون نے مروا ڈالا۔ اور بعضوں نے یہ کہا کہ یہ قتل صرف اس تاریخ پر منحصر نہیں رہا بلکہ یہ قتل برسوں تک جاری رہا اور نوے ہزار لڑکے قتل ہوئے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ فرعون نے ایک خواب دیکھا کہ بیت المقدس سے ایک آگ آئی اور اس آگ نے مصر کو گھیر لیا اور تمام قبطیوں کو جلا دیا اور صرف بنی اسرائیل بچ رہے لوگوں نے اس کی تعبیر دی کہ اس شہر سے جہاں سے بنی اسرائے آئے ہیں ایک شخص آوے گا اس کے ہاتھ سے مصر کی سلطنت برباد ہو گی اس پر فرعون نے بنی اسرائیل کے مردوں کے قتل کرنے کا حکم دیا۔ مگر قرآن مجید میں ان دونوں باتوں میں سے کسی کا کچھ اشارہ نہیں ہے اور نہ بنی اسرائیل کے قتل کی بنا کسی اور کرشمہ پر بیان ہوئی ہے قرآن مجید میں جو بات پائی جاتی ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ بنی اسرائیل کی کثرت سے فرعون اور اس کے سرداروں کو اندیشہ ہو گیا تھا کہ یہ لوگ فساد کر کے مصر کی سلطنت کو برباد کر دیں گے اور اس کے انسداد کے لیے یہ تدبیر کی تھی کہ جو لڑکے پیدا ہوتے تھے ان کو قتل کروا ڈالتا تھا تاکہ مرد جن سے لڑنے کا اور فساد ہونے کا اندیشہ تھا زیادہ نہ ہونے پاویں۔ چناں چہ سورہ قصص میں صاف لکھا ہے کہ فرعون کی سلطنت ملک میں بہت زبردست ہو گئی تھی اور اس کے لوگوں کو گروہ گروہ کر دیا تھا اور ایک گروہ کو یعنی بنی اسرائیل کو ان میں سے ضعیف کر دیا تھا ان کے لڑکوں کو مار ڈالتا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھتا تھا خدا نے چاہا کہ اس ضعیف گروہ پر مہربانی کرے اور انہیں کو سردار بنا دے اور انہیں کو وارث کرے اور ملک میں انہیں کو قدرت دے اور دکھلا دے فرعون اور اس کے لشکر کو اس ضعیف گروہ سے وہ چیز جس سے وہ ڈرتے تھے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ پہلی دفعہ یعنی قبل از ولادت حضرت موسیٰ جو فرعون نے قتل اولاد بنی اسرائیل کا حکم دیا تھا وہ صرف اس خوف سے تھا کہ وہ بہ سبب کثیر ہونے کے فساد کر کے ملک کو نہ چھین لیں کچھ عجب نہیں کہ یہ قتل کسی مدت تک رہا ہو اور پھر موقوف ہو گیا ہو۔ یہ پہلا حکم قتل اولاد بنی اسرائیل کا تھا مگر جب حضرت موسیٰ فرعون کے پاس آئے اور خدا کے حکم پہنچائے اور کہا کہ بنی اسرائیل کو چھوڑ دو اس وقت پر فرعون کو بنی اسرائیل کے فساد کرنے کا اور اپنی سلطنت کے زوال کا خوف ہوا اور دوبارہ اس نے تدبیر کی کہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو مار ڈالنا چاہیے۔ چناں چہ سورہ مومن میں خدا نے صاف بیان کیا ہے، کہ جب ہمارے پاس سے سچی بات فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس پہنچی تو انہوں نے کہا کہ مار ڈالو ان کے لڑکوں کو جو موسیٰ پر ایمان لائے ہیں اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھو اور فرعون نے کہا کہ ٹھیرو میں موسیٰ کو مار ڈالوں گا مجھ کو خوف ہے کہ وہ تمہارے دین کو بدل دے گا اور ملک میں فساد پھیلا دے گا پس صاف ظاہر ہے کہ اسی خوف سے دونوں دفعہ فرعون نے بنی اسرائیل کے لڑکوں یا مردوں کے قتل کا حکم دیا تھا کوئی اور غیبی کرشمہ اس کی بنیاد نہ تھا۔ ہفتم: قحط، ہشتم: طوفان، و جراد، و قمل و صفادع، ودم یہ تمام امور ایسے ہیں جو ہمیشہ دنیا میں موافق قانون قدرت واقع ہوتے رہتے ہیں حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بھی واقع ہوئے تھے ایسے واقعات کو انسانوں کو کے گناہوں سے منسوب کرنا بھی قانون فطرت کے تابع ہے جس پر انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوتے ہیں اس کی بحث قوم عاد کے قصہ میں بالتفصیل لکھ چکے ہیں اس طرح ان واقعات ارضی و سماوی کو بھی خدا تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کے گناہوں سے منسوب کیا ہے۔ قحط کوئی نئی بات نہیں تھی حضرت یوسف کے زمانے میں بھی سخت قحط پڑا تھا حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بھی قحط ہوا جو حضرت موسیٰ کے قصہ میں مذکور ہے۔ طوفان: دریائے نیل کی زیادہ طغیانی سے ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی مینہ اور اولانکا طوفان بھی آ جاتا ہے شام کے پہاڑوں سے اولے برستے ہوئے کبھی کبھی مصر تک پہنچ جاتے ہیں بجلی کی چمک اور گرج بھی ہوتی ہے (دیکھو کیٹو کی بیبکل سیکلوپیڈیا، صفحہ200) جن ملکوں میں بارش قلیل ہوتی ہے اور اولے اتفاقیہ پڑتے ہیں ان ملکوں میں اس قدر بارش بھی جو اور ملکوں میں معمولی خیال کی جاتی ہے نہایت سخت طوفان کا اثر دکھاتی ہے خصوصاً اس حالت میں جب کہ دریا کی طغیانی بھی اور خصوصاً نیل جیسے دریا کی طغیانی اس کے ساتھ ہو تو پھر قیامت ہی ہوتی ہے اس موسیٰ کے عہد میں طوفان کا واقعہ ایک معمولی واقعہ سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ جو بزرگی اس میں تھی وہ صرف یہی تھی کہ اس زمانہ میں واقع ہوا جب کہ حضرت موسیٰ وہاں تشریف لے گئے تھے۔ جراد و قمل و صفادع یعنی ٹڈیوں پسوؤں یا اسی قسم کے کسی جانوروں اور مینڈکوں کا کثرت سے پیدا ہو جانا خصوصاً طوفان اور دریائے نیل کے چڑھاؤ کے اترنے کے بعد ایک ایسی بات ہے جو قدرتی طور پر واقع ہوتی ہے حشرات الارض دفعۃ اس کثرت سے پیدا ہو جاتے ہیں جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے پس حضرت موسیٰ کے عہد میں ان حشرات الارض کا پیدا ہو جانا جس قدر کثرت سے وہ پیدا ہو گئے ہوں اور کیسی ہی سخت مصیبت ان کے سبب سے مصریوں پر پڑی ہو کوئی ایسی تعجب خیز بات نہیں ہے جو کو ایک لمحہ کے لیے بھی واقعہ مافوق الفطرت تصور کیا جاوے۔ ’’ دم‘‘ کا لفظ البتہ لوگوں کو حیرت میں ڈالتا ہو گا بعض مفسرین نے اس بات کو کہ تمام دریا اور حوض اور تمام پانی جو برتنوں میں تھا خون ہو گیا غیر قابل یقین خیال کر کے یہ لکھا کہ فرعون اور اس کی تمام قوم کو نکسیر بہنے یعنی ناک سے خون جاری ہونے کی بیماری ہو گئی تھی گو کہ کسی وباء کا پھیل جانا خصوصاً قحط و طوفان کے بعد کوئی امر بعید از عقل نہیں ہے لیکن اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ دریائے نیل کا پانی اگرچہ عموماً نیلے رنگ کا رہتا ہے مگر کبھی طغیانی کے زمانہ میں اس کا رنگ سرخ لال اینٹ کے گہرے رنگ کی مانند ہو جاتا ہے (دیکھو کیٹو ببکل سیکلو پیڈیا صفحہ599) اور (چیمبرز انسیکلو پیڈیا جلد سوم، صفحہ786) اور جب کبھی نباتی مادہ کثرت سے آ جاتا ہے تو سبز ہو جاتا ہے (دیکھو انسیکلوپیڈیا برطینیکا، صفحہ422) پس اسی قسم کے واقعات کے سبب سے اس کا پانی سرخ ہو گیا جس کو دم سے تعبیر کیا ہے۔ بعض اوقات پانی میں نہایت باریک کپڑے سرخ رنگ کے اس قدر کثرت سے پیدا ہو جاتے ہیں کہ تمام پانی کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے بحر احمر میں بھی اس قسم کی حالت پائی جاتی ہے بحر احمر کے حال میں سالٹ نے لکھا ہے کہ فروری کے مہینہ میں ایک دفعہ جہاز کے گرد کچھ دور تک سمندر نہایت سرخ ہو گیا چوں کہ اس عجیب تبدیلی کا باعث ہم دریافت کرنا چاہتے تھے ہم نے ایک برتن کو پانی میں ڈالا اور اس میں بہت سی وہ چیزیں نکالیں جو پانی میں تیر رہی تھیں وہ جیلی کے مشابہ ایک چیز تھی جس میں بے انتہا چھوٹے چھوٹے کیڑے تھے اور ہر ایک کے اوپر ایک سرخ دھبہ تھا یہ جانور ایک جگہ جمع ہونے سے ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے پانی میں کوئی سرخ چیز گھول دی ہو ارن برگ کو بھی جو ایک بہت بڑا نیچرل فلاسفی کا عالم تھا ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا اور اس نے بھی بحر احمر کی ایسی حالت ہو جانے کی تصدیق کی ہے پس یہی حالت دریائے نیل کی بھی ہو گی اور جب کہ ثابت ہوا ہے کہ اس کا پانی بھی کبھی سرخ ہو جاتا ہے تو اس کی ایسی حالت ہو جانے پر زیادہ یقین ہوتا ہے ان کیڑوں کا بہت کثرت سے پانی میں جمع ہو جانا بلا شبہ لوگوں کو استعمال سے باز رکھتا ہو گا اور وہ پانی نا قابل استعمال ہو جاتا ہو گا فرعون کے زمانہ میں بھی دریائے نیل سے گھروں میں اور کنوؤں اور حوضوں میں نلوں کے ذریعہ سے پانی لے گئے تھے پس جہاں جہاں اس کا پانی جاتا ہو گا سب جگہ یہی حال ہو گیا ہو گا اس پانی کو لوگوں نے بلا خیال برتنوں میں بھر لیا ہو گا اور تھوڑی دیر بعد دیکھا ہو گا کہ وہ سرخ مثل خون کے ہے اونچے مقاموں میں جہاں دریائے نیل کا پانی نہ جاتا ہو گا وہاں یہ کیفیت نہ ہوئی ہو گی اور ممکن ہے کہ بنی اسرائیل اونچی زمین پر رہتے ہوں جہاں نیل کا پانی نہ جاتا ہو یا ان کے گھروں میں پانی جانے کے نل نہ ہوں اور ان کے گھروں میں یہ کیفیت نہ ہوئی ہو۔ نہم: غرق فی البحر فرعون کا بنی اسرائیل کے تعاقب میں جانا اور بنی اسرائیل کا دریا کے پار اتر جانا اور فرعون کا دریا میں ڈوب جانا ایک تاریخی واقعہ ہے اور ہم اس کو نہایت تفصیل سے ایک دوسرے مضمون میں بیان کریں گے۔ دھم: اعتکاف حضرت موسیٰ کا پہاڑ میں اعتکاف کا واقعہ اس زمانہ کا ہے جب کہ حضرت موسیٰ واوعدنا موسیٰ ثلثین لیلۃ واتممنھا بعشر فتم میقات ربہ اربعین لیلۃ (7سورہ اعراف138) بنی اسرائیل کو فرعون کی قید سے چھوڑا کر اور فرعون کو اور اس کے لشکر کو دریا میں ڈبو کر اس جنگل میں نکال لائے جو بحر احمر کی دونوں شاخوں کے درمیان میں ہے اور جس کا نقشہ ہم پہلے ایک مضمون میں دے چکے ہیں۔ یہ کوئی امر زیادہ بحث کے قابل نہیں حضرت موسیٰ تیس دن واذ وعدنا موسیٰ اربعین لیلۃ ثم اتخذ ثم العجل من بعدہ والتم ظالمون (2سورہ بقر 48) کا اعتکاف کرنے کے لیے پہاڑ گئے تاکہ خدا کی عبادت میں مصروف ہوں مگر وہاں چالیس دن لگ گئے توریت میں لکھا ہے کہ چالیس دن اور چالیس رات موسیٰ پہاڑ پر رہے اور نہ روٹی کھائی اور نہ پانی پیا (سفر توریہ مثنی باب9ورس9) زیادہ تر مقصود اس اعتکاف سے یہ تھا کہ خدا کی ہدایت اس بات میں چاہیں کہ اس جم غفیر کی ہدایت و انتظام اور خدا کی عبادت کے لیے کیا قواعد یا احکام قرار دیے جاویں۔ بنی اسرائیل کو چار سو برس سے زیادہ ہو گئے تھے کہ مصر میں رہتے تھے اور گو وہ خدا کو مانتے تھے مگر وہاں کی بت پرستی اور اس کی شان و شوکت کے عادی ہو گئے تھے اور ظاہر میں بھی معبور کے وجود کے موجود ہونے کی خواہش مثل بت پرستوں کے ان کے دل میں سما گئی تھی اس لیے نہایت مشکل بات تھی کہ ان کو ایک ایسے خدائے واحد کی پرستش پر متوجہ کیا جاوے جس کا نہ ظاہر میں کوئی وجود نہ ہے ظاہری وجود میں اور نہ کسی ظاہری شکل میں آ سکتا ہے بلکہ محض بیچون و بیچگون و بے رنگ و نمون ہے غالباً یہی بات سب سے زیادہ حضرت موسیٰ کو بھی مشکل تھی اور وہ ضرور اس خیال میں تھے کہ حصید کو ظاہری صورتوں سے اس طرح بنایا جاوے جن کی عبادت تو نہ کی جاوے مگر بنی اسرائیل کی دل بستگی کا ذریعہ ہوں اور اسی وجہ سے انہوں نے بعد میں کروبین کی مجسم شکلیں چاندی و سونے کی بنائیں ہم قبول کرتے ہیں کہ انہوں نے خدا کے حکم سے بنائی ہوں گی، مگر بنائیں جس کا سبب بجز مذکورہ بالا امر کے اور کچھ نہ تھا اور اسی لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو سچی اور ٹھیٹ خدا پرستی اسی طرح بیچون و بیچگون و بے رنگ و نمون طریقہ پر جیسا کہ وہ معبور حقیقی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی موسیٰ سے باوجود اس شان و شوکت کے قائم نہیں ہو سکی! نہ ہم کو کروبین کی حاجت ہے، نہ ہائی پریسٹ کی، نہ کی معبد کی، نہ قربانی سوختی کی، نہ نجور کی، اور نہ آتش دان کی، نہ خاص پوشاک اور سینہ بند کی، ہم سچے خدا کی پرستش، جنگل میں، دریا میں، پہاڑ میں، گھر میں، بازار میں، اندھیرے میں، اجالے میں، کپڑا پہنے، بن کپڑا پہنے کر سکتے ہیں ہمارا دل ہی خدا کا معبد ہے ہمارا خدا ہر جگہ ہمارے ساتھ ہے اور ہم خدا کے ساتھ اور ایسا ساتھ ہے کہ نہ کبھی ہم اس سے چھوٹ سکتے ہیں اور نہ وہ ہم کو چھوڑ سکتا ہے سبحانہ و تعالیٰ شانہ والحمد للہ رب العالمین یازدھم: حقیقت کلام خدا با موسیٰ کلام خدا کا جب تک نہ سنیں یہ تو معلوم نہیں ہو سکتا کہ کیسا ہوتا ہے مگر انسانوں کا کلام جو سننے میں آتا ہے وہ تو یہ ہے کہ زبان اور ہونٹ ھلتے ہیں اس سے بمدد ھوائے محیط کے ایک آواز کان تک پہنچتی ہے ہر ایک لفظ کے بعد دوسرا لفظ بلکہ ہر لفظ کے پہلے حرف کے بعد دوسرا حرف نکلتا ہے اور حرفوں سے مل کر لفظ اور لفظوں سے مل کر جملہ ہو جاتا ہے پھر کیا خدا کا کلام بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟ علمائے اسلام نے کہا ہے کہ تمام انبیائے علیہم السلام خدا کو متکلم کہا ہے اور اس کے کلام کو ثابت کے ہے پس اس کا متکلم ہونا اور خدا کے لیے کلام کا ہونا تو ثابت ہو گیا۔ مگر انہوں نے یہ نہ بتایا کہ ایسا ہی کلام جیسا ہمارا تمہارا ہے یا کسی اور طرح کا لیکن انہوں نے اس پر دوسری بحث قدیم اور حادث ہونے کی چھیڑ دی یعنی اس بات کی کہ خدا کا کلام قدیم ہے یا حادث ہم اس بحث کو اس مقام پر لکھتے ہیں اور امید ہے کہ اسی سے پتہ لگ جاوے گا کہ اس کا کلام کیسا ہوتا ہے۔ قاضی عضد اور علامہ سید شریف شرح مواقف میں تحریر فرماتے ہیں کہ خدا کے کلام کے قدیم و حادث ہونے پر دو متناقض قیاس ہیں ایک قیاس یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام خدا تعالیٰ کی ایک صفت ہے اور جو صفت خدا کی ہے وہ قدیم ہے پس خدا کا کلام قدیم ہے۔ دوسرا قیاس جو اس کے بر خلاف ہے وہ یہ ہے کہ خدا کا کلام حرفوں و لفظوں کی ترتیب سے مل کر بنا ہے جو ایک بعد دوسرے کے وجود میں آئے ہیں اور جو چیز اس طرح پر بنتی ہے وہ حادث ہوتی ہے پس خدا کا کلام بھی حادث ہے۔ حنبلی پہلے قیاس کو ٹھیک بتاتے ہیں اور اس بات کے قابل ہیں کہ خدا کے کلام میں حرف بھی ہیں اور آواز بھی ہے اور وہ دونوں اپنے آپ قائم ہیں اور قدیم ہیں پس کلام خدا کا بھی قدیم ہے پس گویا حنبلی دوسرے قیاس کے دوسرے جملہ کو کہ ’’ جو چیز اس طرح پر بنتی ہے وہ حادث ہوتی ہے‘‘ نہیں مانتے۔ قاضی عضد اور علامہ سید شریف دونوں بالا تفاق کہتے ہیں کہ حنبلیوں کا دوسرے قیاس کے دوسرے جملے کو نہ ماننا قطعاً غلط ہے کیوں کہ ہر ایک حرف ان حرفوں میں سے جن سے ان کے نزدیک کلام خدا کا مرکب ہے ایک حرف کے ختم ہونے پر دوسرے حرف کا شروع ہونا موقوف ہے تو وہ دوسرا حرف قدیم نہ ہوا اور جو کہ پہلے حرف کے لیے بھی ختم ہونا ہے تو وہ بھی قدیم نہ رہا اور جو کلام کہ ان سے مرکب ہو کر بنا ہے وہ بھی قدیم نہ رہا۔ کرامیہ فرقہ اس بات میں کہ خدا کے کلام میں حرف اور آواز ہے حنبلیوں کے ساتھ متفق ہیں مگر وہ اس کو حاوث مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ خدا کی ذات میں قائم ہے کیوں کہ اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ خدا کی ذات میں حوادث کا قائم ہونا جائز ہے۔ پس گویا کرامیہ دوسرے قیاس کو تو صحیح مانتے ہیں اور پہلے قیاس کے دوسرے جملہ کو کہ ’’ جو صفت خدا کی ہے وہ قدیم ہے‘‘ نہیں مانتے۔ معتزلے خدا کے کلام میں آواز اور حرف کو اسی طرح پر مانتے ہیں جس طرح کہ حنبلی اور کرامیہ مانتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ آواز اور حرف خدا کی ذات میں قائم نہیں ہے بلکہ خدا اس کو دوسری چیز میں پیدا کر دیتا ہے مثلاً لوح محفوظ میں یا جبرئیل میں یا نبی میں اس لیے خدا کا کلام حادث ہے پس معتزلے دوسرے قیاس کو صحیح سمجھتے ہیں اور پہلے قیاس کے پہلے جلمہ کو کہ ’’ خدا تعالیٰ کا کلام خدا تعالیٰ کی ایک صفت ہے ‘‘ نہیں مانتے۔ اس پر قاضی عضد اور علامہ سید شریف فرماتے ہیں کہ جو کچھ معتزلے کہتے ہیں ہم اس سے انکار نہیں کرتے بلکہ ہم بھی وھی کہتے ہیں مگر اس کا نام کلام لفظی رکھتے ہیں اور اس کو حادث مانتے ہیں اور ذات خدا تعالیٰ سے قائم نہیں کہتے اس کے سوا ہم ایک اور امر ثابت کرتے ہیں اور وہ معنی ہیںقائم بالنفس جس کو کہ لفظوں سے تعبیر کیاجاتا ہے اور وہی حقیقت میںکلام ہے اور وہی قدیم ہے اور وہی خدا تعالیٰ کی ذات میںقائم ہے اور وہی قدیم ہے اور وہی خدا تعالیٰ کی ذات میں قائم ہے ۔ پس دوسرے قیاس کاجو دوسرا جملہ ہے ’’خدا کاکلام حرفوں و لفظوں کی ترتیب سے مل کر بنا ہے ‘‘ اس کو نہیں مانتے اور ہم یقین کرتے ہیں کہ معنی اور عبارت ایک نہیں ہیں کیوں کہ عبارت تو زمانہ میں اور ملک میں اور قوموں میں مختلف ہو جاتی ہے اور معنی جو قائم بالنفس ہیں وہ مختلف نہیں ہوتے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ان معنوں پر دلالت کرنا بھی لفظوں ہی میں منحصر نہیں ہے کیوں کہ ان معنوں پر کبھی اشارہ سے اور کبھی کنایہ سے اسی طرح پردلالت کی جاتی ہے جیسے کہ عبارت سے اور مطلب جو کہ ایک معنی ہے قائم بالنفس وہ ایک ہی ہوتا ہے اور کچھ متغیر نہیں ہوتا باوجودیکہ عبارتیں بدل جاتی ہیں اور دلالتیں مختلف ہوجاتی ہیں اور جو چیز متغیر نہیں ہوتی وہ اس چیز کے سوا ہے جو متغیر ہوجاتی ہے۔ یعنی جو چیز کہ متغیر نہیں ہوتی وہ تو معنی قائم بالنفس ہیں اور وہ چیز سے جو متغیر ہو جاتی ہے یعنی عبارت سے علیحدہ ہیں ۔( انتہیٰ ملخصاََ( جو کچھ کہ قاضی عضد اور علامہ سید شریف نے فرمایا ہے مذہب اہل سنت و جماعت کا ہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنی تحقیق بیان کریں مناسب ہے کہ جو باتیں ان بزرگوں نے چھپارکھی ہیں ان کو کھول دیں تاکہ لوگوں کو صاف معلوم ہوجاوے کہ ان اصول کے ماننے سے جو ان بزرگوں نے قرار دیے ہیں کیا نتیجہ پیدا ہوتا ہے ۔ معتزلیوں نے کہا تھا کہ آواز اور حرف دونوں خدا کی ذات میں قائم ہیں بلکہ وہ ان کو دوسری چیز میں پیدا کر دیتا ہے، قاضی صاحب اور علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ ہاںیہ صحیح ہے مگر ہم اس کا نام کلام لفظی رکھتے ہیں۔ مگر یہ نہیں فرماتے کہ کس کا کلام لفظی ۔ خد ا کا یا اس کا جس میں خدا نے اس کو پیدا کر دیا تھا ۔ پھر اس پر زیادہ تحقیق یہ کرتے ہیں کہ صرف معانی قائم بالنفس اور غیر متغیر ہیں اور در حقیقت وہی کلام ہے اور وہی قدیم ہے اور اس بات کو تسلیم نہیں کر تے کہ خدا کا کلام حرفوں اور لفظوں کی ترکیب سے بناہے ۔ اس بیان میں صریح نقص یہ ہے کہ اگر اس کو تسلیم کر لیا جاوے تو جو الفاظ قرآن مجید کے ہیں وہ خدا کے لفظ نہیں رہتے بلکہ اس کا لفظ ہوتے ہیںجس میںوہ پیدا کیے ہیں خواہ وہ جبرئیل ہوں یا نبی اور جو کہ وہ کلام انہی لفظوں سے مرکب ہو اہے تو وہ کلام بھی اسی شخص کا ہوا نہ خدا کا۔ میری تحقیق میںپہلا قیاس صحیح ہے او رمیں خدا کے کلام کو اس کی صفت سمجھتا ہوں اور تمام صفات خدا کو قدیم مانتا ہوں اور اسی لیے خدا کے کلام کو بھی قدیم یقین کرتا ہوں ۔ مگر حنبلیوں اور کرامیوں سے اس بات میں مختلف ہوں کہ خد اکے کلام میںآواز ہے او ر اہل سنت وجماعت کے اس مسئلہ سے مختلف ہوں کہ صرف معانی قائم بالنفس ہیںاور وہی در حقیقت کلام ہے اور وہی غیر متغیر ہے بلکہ میرے نزدیک معانی اور لفظ دونوں قائم بالنفس ہیں اور دونوں قدیم و جدید متغیر ہیں۔ لفظ بھی حقیقت میںایک مفید یا مختص معانی ہیں جن پر بولے جانے کے بعد ہم لفظ کا اطلاق کرتے ہیں۔ انسان جو گفتگو کرتا ہے اس وقت بھی الفاظ کا اطلا ق کرتے ہیں۔ انسان جو گفتگو کرتتا ہے اس وقت بھی الفاظ اس کے نفس میں ان کے بولے جانے کے قبل موجود ہوتے ہیں۔ مگر صرف معانی کو قائم فی الذات ماننے اور معانی اور الفاظ دونوں کو قائم فی الذات مانتے ہیں یہ فرق ہے کہ پہلی صورت میں ان معانی کو الفاظ مختصہ میں تعبیر کرنا لازم نہیں آتا اور دوسری صورت میں بجز الفاظ معینہ مختصہ کے اور کسی الفاظ سے تعبیر نہیں ہوسکتے ۔ مثلا الحمد اللہ کلام خدا ہے یہ ذات باری میں مع معانی و الفاظ کے اس طرح پر قائم ہے کہ جب تلفظ میں آوے گا تو الحمد اللہ ہی اس کا تلفظ ہو گا للہ الحمد اس کا تلفظ نہیں ہونے کا۔ نہ ثناء اللہ ا س کا تلفظ ہوگا اور ہم قرآن مجید کو اسی معنی کر مع معانی اور الفاظ کلام خدا کہتے ہیں اور قدیم تسلیم کرتے ہیں۔ لفظوں کے قایم بالنفس ہونے میں تقدیم و تاخر نہیں ہوتا۔ اس کو مثال دے کر سمجھا نا بلا شبہ مشکل ہے مگر اس طرح پر سمجھ میں یا خیال میںآسکتا ہے کہ اگر جس طرح ان الفاظ کے نقوش کو آئینہ کے سامنے رکھنے سے وہ سب معا بلا تقدم و تاخر آئینہ میں منقش معلوم ہوتے ہیں تقدم و تاخر لازم نہیں آتا ۔ ذات باری کی نسبت ہم ثابت کر چکے ہیں کہ وہ علۃ العلل تمام چیزوں کی ہے جو ہو چکیں اور ہاتی ہیں اور ہونے والی ہیں۔ اس لیے ضرور ہے کہ وہ تمام چیزیں ذات باری میں قائم ہوں ان کے ظہور کے زمانہ کے مختلف ہونے اور تبدیل کیفیت و کمیت سے اس چیز میںجو قائم فی الذات ہے حدوث لازم نہیں آتا۔ اس صورت میں قاضی عضد او رعلامہ سید شریف کا یہ کہنا کہ ہر ایک حرف ان حرفوں میں سے جن سے کلام خدا مرکب ہو ایک حرف کے ختم ہونے پر دوسرے حرف کا شروع ہونا موقوف ہے تو وہ دوسرا حرف قدیم نہ ہوا (الیٰ آخرہ) صحیح نہیںرہتا اس لیے کہ اس امر کا وقوع اس وقت ہوتا جب کہ ہم کلام خدا میں حرف او ر آواز دونوں مانتے مگر جب ہم کلام خدا میں آواز کو تسلیم نہیں کرتے تو نقص مذکورہ لازم نہیںآتا۔ آواز کی کوئی دوسری حقیقت بجز اس کے کہ ہوا کی مدد اور زبان اور ہونٹوں کی حرکت سے پدیا ہوتی ہے ہم نہیں جانتے ۔ پس اس کو بجنسہ خدا کی صفت قرار دینا اور یہ خیال کرنا کہ خدا کے منہ بھی مثل ہمارے منہ کے ایک حرف دوسرے حر ف کے بعد نکلتا ہے بناء فاسد علی الفاسد ہے۔ پہلے ایک غلط امرکو تسلیم کیا ہے پھر اسکی بنا پر دوسری غلطی قائم کی ہے۔ جب کہ ہم کسی پر خواہ وہ جبرئیل ہو جو حسب اعتقاد جمہور مسلمین خدا اور انبیاء میں مثل ایلچی کے واسطہ ہے۔ اور خواہ وہ خود نبی مبعوث ہو جیسا کہ میراخاص اعتقاد ہے خدا کے کلام کا نازل ہونا کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ خدانے اس کے دل میں بجنسہ وہ الفاظ جن کوبعد اس کے وہ تلفظ کرے گا مرع ان کے معنی کے جو مقصود ہیں پیدا کیا ہے یا القا کیا ہے اوروہی لفظ بجنسہ بنی نے تلفظ کیے ہیں پس گو اس نبی کا ان لفظوں کو تلفظ کرنا حادث ہو مگر وہ الفاظ مع ان کے معنی کے یا وہ معنی مقید جن کا تلفظ بجز انہی الفاظ کے نہیں ہوسکتا تھا قدیم اور کلام خدا ہیں اور یہی میرا اعتقاد قرآن مجید کی نسبت ہے کہ وہ بلفظہ مع معانیہا قدیم و کلام خدا ہے اور خود خدا ن ے اپنا کلام پیغمبر خدا میں بلا واسطہ پیدا کیا ہے جیسا کہ میں نے کسی مقام پر کہا ہے : ز جبرئیل آمین قرآن یہ پیغامے نمے خواہم ہمہ گفتار معشوق است قرآنے کہ من درام مگر پیغمبر خدا کا یا ہمارا ان لفظوں کو تلفظ کرنا حادث ہے ۔ اس مضمون کو بذریعہ کسی مثال کے سمجھانا بلا شبہ نہایت مشکل ہے مگر ہم ایک قریب ترین مثال سے اس کو سمجھاتے ہیں۔ فرض کر و کہ ایک شخص کسی سبب سے بول نہیں سکتامگر ایک اپنی تحریر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے جس کو ہم پڑھتے ہیں پس گو اس تحریر میںآواز نہیں ہے مگر جو لفظ مطابق اس تحریر کے ہماری زبان سے نکلتے ہیں وہ لفظ بلا شبہ اسی کے ہیں جس نے اس کو لکھا ہے اور ہم صرف ان لفظوں کا تلفظ کرتے ہیں مگر در حقیقت وہ ہمارے لفظ نہیں ہیں اور یہ بھی کہہ سکتے کہ وہ لفظ بر وقت ہمارے تلفظ کے پید ا ہوئے ہیں۔ ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ انبیاء اور اولیاء کوئی غیبی آواز نہیں سنتے ۔ سنتے ہوں گے مگر وہ خدا کی آواز نہیں ہے بلکہ وہ اس القا کا اثر ہے جو ان پر ہوا ہے اور وہ انہی کے نفس کی آواز ہے جو ان کے کان میں آئی ہے۔ وہ بیداری میں اسی طرح آواز کو سنتے ہیں جیسے کہ سوتے میں خواب دیکھنے والا سنتا ہے۔ یا جیسے کہ بعضی دفعہ لوگوں کو جو کسی خیال میں مستغرق ہیں بغیر کسی بولنے والے کے کان میںآواز آتی ہے۔ کلا م الہیٰ کی نسبت جو کچھ خدا نے ہمارے دل میں ڈالا ہے بعینہ وہ وہی ہے جو حضرت مولانا و مرشدنا حضرت شیخ احمد سر ہندی نقشبندی مجد د الف ثائی رحمتہ اللہ علیہ کو القا ہوا تھا چناں چہ اس باب میں جو حضرت ممدوح نے لکھا ہے۔ ذیل میں مندرج ہے۔ حضرت ممدوح نے مکتوب نورد و دوم جلد سوم میں جو بنام فقیر ہاشم کشمی تحریر فرمایا ہے اس طرح پر لکھا ہے ۔ ’’پر سیدہ بودند آں کہ بعض فرمودہ اندکہ ماکلام حق را مے شریم دیا ما را با اوتعالیٰ مکالمہ مے شود چناں چہ ازامام ہمام جعفر صادق ؓ عنہ منقول است کہ گفت ما زلت اردو الایۃ حتی سمعتھا من المتکلم بھا۔ و نیز از رسالہ غوثیہ کہ منسوب بحضرت شیخ عبدالقادر جیلی است قدس سرہ مفہوم مے گردد چہ معنی است و تحقیق آں نزد تو چیست؟ بداں ارشدک اللہ تعالیٰ کہ کلام حق جل و علا در رنگ ذات وسائر صفات حق جل شانہ، پیچون پیچگوں است و سماع آں کلام پیچون نیز بیچون است زیرا کہ چوں را بہ بیچوں راہ نیست پس ایں سماع مربو ط بحاسمہ سمع نہ باشد کہ سراسر چون دارد و بے واسطہ حروف و کلمات است و نیز اگر ازبندہ کلام است ہم بالقا ے روحانی است بے حروف و کلمہ و ایں کلام نصیبے ا زبیچونی دارد کہ مسموع بیچون مے گردد یا آں کہ گوئم کہ کلام لفظی کہ از بندہ صادر مے شود حضرت حق سبحان تعالیٰ آں را نیز بہ سماع بیچونی استماع مے فر ماید و بے توسط حروف و کلمات و بے تقدیم و تاخیر آں را میشنود از یجری علیہ تعالیٰ زمان یسع فیہ التقدیم و التا خیر و ا دراں موطن کہ ازبندہ سماع است بکلیت سامع و اگر کلام است ہم بکلیۃ، متکلم تما م گوش و تمام زبان است روز میثاق ذرات مخرجہ قول الست بر بکم را بے واسطہ بکلیت خود شنیدند و بکلیت خود جواب بلے گفتند تمام گوش بو دند و تمام زبان زیرا کہ اگر گوش از زبان متمیز بودے سماع کلا م بیچون حاصل نیامدے و شایان ارتباط مرتبہ بیچون نہ گشتے لا یحمل عطا یا الملک الا مطایاہ غایۃ مافی الباب آں معنی متلقی از راہ روحانیت اخذ نمو دہ بود ثانیا در عالم خیال کہ آں در انسان تمثال عالم مثال است بصورت حروف و کلمات مرتبہ متمثل مے گردد و آں تلقی و القا بصورت سماع و کلام لفظی مرتسم مے شود چہ ہر معنی را دراں عالم صورتے است اگرچہ آں معنی بیچون بود اما ارتسام بیچون ہم آنجا بصورت چوں است کہ فہم و افہام باں مربوط است کہ مقصود ازاں ارتسام است و چوں سالک متوسط در خود حروف و کلمات مرتبہ مے یا بد و سماع وکلام لفظی احساس مے نماید خیال میکنند کہ ایں حروف و کلمات را از اصل شنیدہ است و بے تفاوت از انجا اخذ کردہ نمے داند کہ ایں حروف و کلمات صور خیالیہ آں معنی متلقی است و ایں سماع و کلام لفظی تمثال سماع وکلام بیچونی ، عارف تام المعرفت را باید کہ حکم ہر مرتبہ را جدا مازد ویکے را بدیگرے ملتبس نہ گرداند پس سماع و کلام ایں اکابر کہ بہ مرتبہ بیچونی مر بوط است از قبیل تلقی و القاے روحانی است و ایں کلمات و حروف کہ تعبیر ازاں معنی متلقی باں مے نماید از عالم صور مثالیہ ، و گروہے کہ گمان بردہ اند کہ ما حروف و کلمات را ازاں حضرت جل سلطانہ استماع مے نمایم دو فریق اند یکے ازاں دو فریق کہ احسن ھال اند مے گو بند کہ ایں حروف و کلمات حادثہ مسموعہ دال اند براں کلام نفسے قدیم و فریق دیگر اطلاق قول بسماع کلام حق جل شانہ مے نماید وہمیں حروف و کلمات مرتبہ را کلام حق مید انند جل و علا و فرق نمے کنند درمیان آں کہ لایق بشان اوتعالیٰ کدام است ، و کدام است کہ شایان جناب قدس اور نیست سبحان وھم الجہال البطال لم یعرفوا ما یجوز علی اللہ سبحانہ عما لا یجوز علیہ تعالیٰ سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت السمیع العلیم الحکیم والصلوۃ والسلام علیٰ خیر البشرو الہ واصحا بہ الا طھر۔‘‘ حضرت موسی اپنے مقام سے مع اپنے گھر والوں کے مصر کو روانہ ہوئے۔ جو جو خیالات حضرت موسیٰ کو نسبت ان مشکلات کے ہوں گے جو مصر میںپیش آنے والی تھیں اور اپنی قوم کو فرعون کے ظلم سے نجات دینے کی مشکلات نے ان کے دل کو کس قدر غمگین اور متفکر کیا ہوگا اور ان تمام حالتوں کے سبب ان کو ذات باری میںکس قدر استغراق رہا ہوگا ۔ کیوں کہ ایسی مشکلات لا ینحل کے حل کرنے میں بجز ذذات باری پر بھروسہ کے دوسرا کوئی بھروسہ نہ تھا ۔ یہ تمام اسباب تھے حضرت موسیٰ کو ذات باری میں کامل طور پر مستغرق ہوجانے کے اور فطرت نبوت جو خدا نے ان میں پیدا کی تھی سب سے زیادہ اس استغراق کا باعث تھی ۔ اتفاق سے وہ رستہ بھولے ہوئے تھے ۔ جب انہوں نے ایک طرف آگ دیکھی تو اس طرف گئے ۔ جب اس کے قریب پہنچے تو انہوں نے اس جنگل کو پہچانا کہ وہ وادی ایمن یا طویٰ ہے جو پہلے سے نہایت مقدس اور متبرک اور خدا کی جگہ سمجھا جاتا تھا ۔ دفعۃ اس بات کے معلوم ہونے سے خدا کی طرف طبیعت کا ذوق اور خدا کا شوق بھڑک اٹھا اور ان کے کانل میںآواز آئی۔ یا موسیٰ انی انا ربک۔ انہ انا اللہ العزیز الحکیم ۔ انی انا اللہ رب العالمین۔ فاخلع نعلیک انک بالوادی المقدس طویٰ۔ یہ آواز کسی بولنے والے کی نہ تھی نہ خدا کی آواز تھی کیو ں کہ جیسا ہم نے ابھی بیان کیا خدا کے کلام میں آواز نہیں ہوتی ۔ بے شک خدا نے یہ الفاظ جو کلام خدا تھے موسیٰ کے دل میںڈالے اور خود موسیٰ کے دل کی آواز اس کے کان میںآئی جو خدا کے پکارنے سے تعبیر کی گئی۔ اسی جوش دلی اور استغراق قلبی کا سبب تھا جس سے حضرت موسیٰ کو اپنی حیثیت کا ذہول ہو ااور اپنی حیثیت سے بڑھ کر کہنے گلے۔ رب ارنی انظر الیک۔ خدا نے جواب دیا نہ اپنی آواز سے اور نہ کسی فانی جسم میں آواز ڈالنے سے بلکہ خود موسیٰ کے دل میں اپنا کلا م ڈالنے سے کہ ۔ لن ترانی جہاں جہاں خدا اور موسیٰ کلام ہونے کا ذکر ہے اس کی یہی ما ہیت ہے اور وکلم اللہ موسیٰ تکلیما۔ کی یہی حقیقت ہے ہذا ما افھمنی اللہ حقیقۃ کلامہ العظیم وھو الھادی الی الصراط المستقیم دواز دھم: حقیقت تجلی للجبل وھل اتک حدیث موسیٰ۔ اذرای نا رافقال لا ھلۃ امکثوا انی انست لا ہلہ امکثو انی انست نارا لعلی آتیکم منھا بقبس ا واجد علی النار ھدیٰ۔ فلما اتا ھا نودی یاموسیٰ۔ انی انا ربک فاخلع نعلیلک انک بالوادی المقدس طویٰ۔ ) ۳۰ طہ۔ ۸۔ ۱۲) پہاڑ پر خدا کی تجلی ہونے اور آگ کی صور میں نزول فرمانے کی نسبت تفسیروں میںبہت کچھ بھرا ہوا ہے مگر قرآن مجید میں یہ واقعہ نہایت صاف صاف اور سیدھے لفظوں میںبیانہوا ہے جس میں کچھ بھی پیچیدہ بات نہیں ہے چناں چہ سورۃ طہ میں خد ا نے فرمایا کہ کیاتجھ تک موسیٰ کا قصہ پہنچا ہے ، جب کہ اس نے آگ کو دیکھا، پھر اپنے گھر والوں سے کہا کہ ٹھہر جاؤ مجھ کو آگ دکھائی دی ہے، شاید میں تمہارے لیے اس میں سے جلتی ہوئی لکڑی لے آؤں یا اس آگ پر کسی راہ بتا نے والے کو پاؤں۔ پھر جب موسیٰ آگ کے پاس پہنچے اس کو پکارا گیا یعنی آواز آئی کہ اے موسیٰ بے شک میںتیرا خدا ہوں اپنی جوتی پاؤں سے اتار بے شک توپاک میدان میں ہے ۔ اذ قال موسیٰ لا ھلہ انی آنست نار اساتیکم منھا بخبرا وا تیکم بشہا ب قبس لعلکم تصطلون ۔ فلما جاء ھا نودی ان بورک من فی النار ومن حولھا و سبحان اللہ رب العالمین ۔ یا موسیٰ انہ انا اللہ العزیز الحکیم (۲۷ ۔ نمل۔ ۷۔۹) یہی مضمون کسی قدر الفاظ کی تبدیل سے سورہ نمل میں آیا ہے کہ جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ مجھ کو آگ دکھائی دی ہے میں اب وہاں سے تمہارے لیے کوئی خبر لاتا ہوں یا تمہارے لیے جلتی لکڑی لاتا ہوں تاکہ تم تاپو۔ پھر جب موسیٰ آگ کے پاس آیاتو آواز دی گئی کہ برکت دی گئی اس کو جو آگ کے قریب ہے (یعنی موسیٰ کو ) اور اس کو جو اس کے گرد ہے (یعنی ہارون کو جو موسیٰ کے لوگوں کے ساتھ تھے ) اور پاک ہے اللہ پروردگار عالموں کا اے موسیٰ ٹھیک بات یہ ہے کہ میں ہوںخدا زبردست حکمت والا۔ فلما قضی موسیٰ الا جل و سار باہلہ انس من جانب الطور نارا قال لا ھلہ امکثوا انی انست نارالعلی آتیکم منھا یخبروا جزوۃ من النار ولعلکم تصطلون ۔ فلما اتا ھانو دی من شاطئی الواد الا یمن فی البقعۃ المبارکہ من الشجرۃ ان یا موسیٰ انی انا اللہ رب العالمین۔( ۲۷ ۔ قصص ۔ ۲۹ و۔۳۰) اور سورۃ قصص میں اس طرح فرمایا ہے کہ جب موسیٰ مدین سے اپنے گھر والوں کو لے کر غالبا مصر کے روانہ ہوا تو اس نے طور کی جانب آگ دیکھی اس نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ ٹھہرو میںنے آگ کو دیکھا ہے شاید میںوہاں سے تمہاری کوئی خبر یا کچھ تھوڑی سی آگ لاؤں تاکہ تم تاپو۔ پھر جب موسیٰ آگ کے پاس آئے تو مبارک میدان کے کنارہ سے مبارک جگہ میںدرخت کی طرف سے آواز دی گئی کہ اے موسیٰ بے شک میں اللہ ہوں پروردگار عالموں کا۔ اور سورۃ اعراف میںیوںآیا ہے کہ۔ ولما جاء موسیٰل لمیقا تنا وکلمہ ربہ قال رب ارنی انظر الیک قال لن ترانی ولا کن انظر الی الجبل فان استقر مکانہ قسوف ترانی فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکاوخر موسیٰ صعقا ۔ فلما افاق قال سبحانک تبت الیک وانا اول المومنون۔ ( ۷۔ سورہ اعراف ۔ ۱۳۹ و۱۴۰) جب موسیٰ ہماری مقرر کی ہوئی جگہ میں آیا اور اس کے پروردگار نے اس سے کلام کیا تو موسیٰ نے کہا اے پروردگار اپنے تئیں مجھے دکھلا دے ۔ خدا نے کہا کہ تو مجھے نہ دیکھے گا مگر اس پہاڑ کی طرف دیکھ پھر اگر وہ اپنی جگہ پر قائم رہے تو مجھ کو بھی دیکھ لے گا۔ پھر جب اس کے پروردگار نے پہاڑ کے لیے تجلی کی تو اس کوٹکڑے ٹکرے کر دیا اور گر پڑے موسیٰ بے ہوش ہوکر۔ پھر جب ہوش آیا تو کہا کہ پاک ہے تو معافی مانگتا ہوں تجھ سے اور میںپہلا ایمان والوں میںہوں۔ اگر ان قصوں او رکہانیوں سے قطع نظر کی جاوے جو یہودیوں نے اس کی نسبت بنالی ہیں اور انکی کتابوں میںمندرج ہیں اور جن کی پیروی کر کے ہمارے ہاں کے مفسروں نے انہی قصوں کو مختلف طرح پر اپنی تفسیروں میں بھر دیا ہے اور صرف قرآن مجید کی آیتوں پر غور کیا جاوے تو ان آیتوں سے مندرجہ ذیل امور پائے جاتے ہیں۔ ۱۔ موسیٰ نے جو آگ دیکھی تھی حقیقت میں وہ آگ ہی تھی نہ خدا تھا اورنہ خدا کا نور اور نہ ہرے سبز درخت میں سے وہ آگ روشن ہوئی تھی اور درخت نہیں جلتا تھا جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں بلکہ صرف بات اس قدر تھی کہ درحقیقت حضرت موسیٰ نے پہاڑ کی جانب آگ جلتی ہوئی دیکھی رستہ پرآگ جلانا پرانی قوموں کا دستورتھا۔ رات کا وقت اور موسم سردی کا تھا اور جنگل میں حضرت موسیٰ رستہ بھی بھول گئے تھے انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم ٹھیرو میںوہاں جاتا ہوں یا وہاں کوئی شخص رستہ بتانے والا مل جاوے گا۔ یا میںتمہارے لیے وہاں سے کوئی جلتی ہوئی لکڑی لے آؤں گا جس سے تم تاپنا تاکہ سردی سے بچو ۔ یہ واقعہ کوہ سینا یا کوہ طور کے قریب موسیٰ پر گزرا تھا جب کہ وہ مدین سے اپنے گھر کے لوگوں کو لیکر مصر کو جاتے تھے۔ ہم نے سورۃ بقر کی تفسیر میں اس بات کو کامل تحقیقات سے ثابت کر دیا ہے کہ طور سینا آتشیں پہاڑ تھا اس میں سے جو لو نکلی ہو گئی ا سکو حضرت موسیٰ نے دیکھ کر یہ بات کہی کہ میں نے آگ دیکھی ہے وہاں سے کوئی خبر یا تھوڑی سی آگ لے کر آتا ہوں۔ ۲۔ ان آیتوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو آواز موسیٰ کو وہاں آئی یا جو کلام خد انے موسیٰ سے کیا اس کو ا س آگ سے کچھ تعلق نہ تھا ۔ سورۃ طہ او رسورہ نمل میںبیان ہوا ہے کہ جب حضرت موسیٰ آگ کے پاس آئے تو ان کو آواز دی گئی۔ نہ وہاں یہ بیان ہواہے کہ آگ نے آواز دی نہ یہ بیان ہوا ہے کہ آگ میں سے آواز آئی بلکہ باوجودیکہ آگ کا ذکروہاں موجود ہے اور پھر نودی صیغہ مجہول کاآیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس آواز یاکلام کو آگ سے کچھ تعلق نہیںتھا ۔ مثلا ایک شخص دریا میں سے پانی بھرنے جاوے اور وہ کہے کہ جب میںدریا کے قریب پہنچا تو میںنے پکارنے کی آواز سنی۔ اس سے یہ لازم نہیںآتا کہ خواہ مخواہ دریا میںسے وہ آواز آئی ۔ اسی طرح جب حضرت موسیٰ آگ کے قریب پہنچے تو ان کے کان میں آواز آئی۔ پس اس بات کاقرار دیانکہ وہ آواز آگ میں سے آئی تھی کہ کسی طرح قرآن مجید سے نہیںپایا جاتا۔ علاوہ اس کے سورۃ قصص میںبیان ہو اہے کہ مبارک جنگل کے کنارے سے ایک درخت کی طرف سے وہ آواز آئی تھی اور یہ آیت نص صریح اس بات کی ہے کہ آگ میں سے آواز نہیںآئی تھی ۔ سورہ قصص کی آیت میںآواز کا آنا سن الشجرہ بیان ہوا ہے لفظ من سے خاص درخت میں سے آواز کا آنا نہیں ثابت ہوتا کیوں کہ اس آیت میں خود خدا نے جانب کے معنی کی تصریح کر دی ہے جہاں فرمایا ہے من جانب الطور اور اسی تصریح پر من شاطئی الوا دیٰ لا یمن۔ ای من جانب الشاطیٰ الوادی لا یمن۔ من الشجرۃ ای من جانب الشجرۃمحمول کیاجاتا ہے اور یہ خیال کرنا کہ یہ شجر وہ شجر تھا جس میں آگ روشن ہوئی تھی اور درخت سبزکا سبز تھا اور نہیںجلتا تھا اور حضرت موسیٰ نے اس سبز درخت میں آگ دیکھی تھی یہودیوں کی کتابوں کی کہانیاں اور بے ثبوت قصے ہیں۔ قرآن مجید سے مطلق ثابت نہیں ہے ۔ سورۃ یاسین میں جو آیا کہ من الشجر الاخضر نارا۔ اس کو حضرت موسیٰ کے قصہ سے کچھ بھی تعلق نہیںہے ۔ ۳۔ تجلی اللجبل کی نسبت بہت تھوڑی گفتگو کرنی ہے۔ حضرت موسیٰ نے یہ کہا ۔ رب ارنی انظر الیک۔ اس کی تفصیل سورۃ بقر میںبیان ہوچکی ہے کہ کسی حالت ذہول میں حضرت موسیٰ نے یہ ناممکن خواہش خدا سے کی تھی اس کا جواب خدا کی طرف سے بجز ۔ لن ترانی۔ کے اور کچھ نہیں ہوسکتا تھا ۔مگر جو کے خدا کا وجود اس کی تمام مخلوقات سے اور خصوصاایسی مخلوق سے جو لوگوں کی آنکھ میں زیادہ تر عجیب ہیںثابت ہوتا ہے اس لیے خدا نے حضرت موسیٰ کو اس عجیب مخلوق کی طرف متوجہ کیا جو ان کے قریب موجود تھی اور جس سے خدا کی شان و قدرت ظاہر ہوتی تھی۔ یعنی اس آتشیں پہاڑ کی طرف جو روشن ہونا شروع ہوا تھا اور جس کی لو کو حضرت موسیٰ دیکھ کر آگ لینے دوڑے تھے مگر جب وہ پہاڑ بھڑکا اور گرجا اور اس کے پتھر ٹکڑے ٹکڑے ہوکر اڑے توحضرت موسیٰ غش کھا کر گرے ۔ پھر جب ہوش آیا تو اس سوال سے توبہ کی اور کہا انا اول المومنون تجلی خدا کی اس کی تمام مخلوق میں موجود ہے۔ جیساکہ ہم نے سورۃ بقر میںبیان کیا ہے پس فلما تجلی ربہ للجبل کے معنی یہ ہیں کہ ۔ فلما ظہر شان ربہ و کمال قدرتۃ علی الجبل استرھب موسیٰ و خرصعقا۔ سبز دھم: بیان کتابت فی الالواح قال یاموسیٰ انی اصطفیتک علی الناس برسالانی وبکالمی فخذ ما اتیتک وکن من الشاکرین وکتبنالہ فی الا لواحمن کل شی موعظۃ و تفصیلا لکل شئی فخذھا بقوۃ وامر قومک یا خذوا با حسنہا ساوریکم دارالفاسقین۔ سورۃ اعراف۔ ۴۱ و ۴۲۔ یہ لوحیں پتھر کی تختیاں تھیں جن پر وہ احکام کھدے ہوئے تھے جو بنی اسرائیل کے لیے خدا نے دئے تھے ۔ توریت میں ایک جگہ لکھا ہے کہ جب خدا نے موسیٰ نے ان تمام حکموں کوجو خدا نے دئے تھے لکھ لیا۔ (سفر خروج باب ۲۴ورس ۴) اس سے ثابت قدر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کو لکھنا آتا تو دوسری جگہ ہے کہ ۔ خدا نے موسیٰ سے کہا کہ میرے پاس پہاڑ پر آ تاکہ پتھر کی لوحیں اور توریت اور احکام جو میں نے لکھے ہیں تجھ کو دوںتاکہ بنی اسرائیل کو تعلیم کرے (سفر خروج باب ۲۴ ورس ۱۲) اور ایک اور مقام پر لکھا ہے کہ۔ جب خدا موسیٰ سے بات چیت کر چکا تو لوحیں شہادت کی یعنی پتھر کی لوحیں جو خدا کی انگلی سے لکھی ہوئی تھیں موسیٰ کے سپر کیں۔ (سفر خروج باب ۳۱ ورس ۱۸) اور ایک جگہ پھر لکھا ہے کہ چالیس دن رات پہاڑ پر رہنے کے بعد خدا نے دو پتھر کی لوحیں جو خدا کی انگلی سے لکھی گئی تھیں موسیٰ کو دیں اور جو کچھ خدا نے پہاڑ میں بنی اسرائیل کے سرداروں سے آگ کے بیچ میں کہا تھا لکھا گیاتھا (سفر توریہ مثنے باب نہم ورس ۱۰ و ۱۱) بعد اس کے جب حضرت موسیٰ ان لوحوں کو لیکر آئے اور ہارون پر خفگی ہونے کی حالت میں ان کو پھینک دیا اور وہ ٹوٹ گئیں توخدا نے موسیٰ کو حکم دیا کہ ۔ اپنے لیے پتھر کی دو لوحیں پہلی لوحوں کے برابر بنا دے اور میرے پاس پہاڑ میںلے آ اور ان کے لیے لکڑی کا ایک صندوق بنا۔ جو کلمات کہ پہلی لوحوں پر لکھے ہوئے تھے ۔ وہ میں پتھر ان لوحوں پر لکھ دوں گا۔ موسیٰ نے ایسا ہی کیا اور خدا نے پہلی تحریرکے موافق ان دس کلموں کو جو خدا نے بنی اسرائیل پر پہاڑ پر آگ کے بیچ میںسے کہے تھے لکھ دئے اور لوحیں موسیٰ کو دے دیں موسیٰ نے احتیاط سے ان کو صندوق میں رکھ چھوڑا (سفر توریہ مثنے باب ۲۰ ورس ۱ لغایت ۵) یہ بات ہر کوئی تسلیم کر سکتا ہے کہ خدا کی شان اور اس کے تنزہ سے بعید ہے کہ وہ خود اپنے ہاتھ یا اپنی انگلی سے مثل ایک سنگ تراش کے پتھر پر عبارت کندہ کرے ۔ یہودی اور عیسائی اور وہ تمام لوگ بھی جو ایسے واقعات کو ہمیشہ ایک عجیب پیرایہ میںظاہر کرنا چاہتے ہیں ان لفظوں کے جو توریت میںہیں ظاہری معنی نہیں لیتے بلکہ یہ سمجھتے ہیںکہ ان لفظوں سے یہ مراد ہے کہ خدا کی قدرت سے وہ کلمات اس پر کھد گئے تھے ۔ تمام حالات سے اور اس طرز بیان سے جو توریت میںآیا ہے بخوبی پایاجاتا ہے کہ وہ لوحیں خود حضرت موسیٰ نے بنائی تھیں اور جو احکام خدا نے ان کو دئے تھے وہ خود حضرت موسیٰ نے ان پر کندہ کیے تھے۔ وقال وھب کانت من صخرۃ صمالینہا اللہ موسیٰ علیہ السلام (تفسیر کبیر) ہمارے علمائے مفسریں نے اس بات پر بحث کی ہے کہ وہ لوحیں کس چیز کی تھیں اور کے تھیں بعصوں نے کہا دس تھین بعضوں نے کہا سات تھیں کسی نے کہا زمرد کی تھیں کسی نے کہا سبز زبر جد کی تھیں اور سرخ یاقوت کی تھیں۔ حسن نے کہا کہ لکڑی کی تھیں جو آسمان سے اتری تھیں اور وہب کا قول ہے کہ وہ سخت پتھر کی تھیں ان کو خدا نے موسیٰ کے لیے نرم کر دیا تھا ۔ واما کیفیۃ الکتا بۃ فقال ابن جریح کتبھا جبرئیل بالقلم الذی کتب بہ الذکر و استمد من نھر النور واعلم انہ لیس فی لفظ الایہ مایدل علیٰ کیفیۃ ت لک الالواح و علیٰ کیفیۃ تلک الکتابۃ فان ثبت ذلک التفصیل بدلیل منفصل قوی و جب القول بہ والا وجب السکوت عنہ (تفسیر کبیر) بہر حال وہ لوحیں کسی چیز کی ہوں وہ چنداں کے قابل نہیںہیں جو امر بحث طلب ہے وہ یہ ہے کہ ان پر لکھا کس نے تھا ہمارے علما نے درحقیقت اس میں سکوت اختیار کیا ہے اگرچہ بعضوںکا قول ہے کہ جبرائیل نے لکھا تھا مگر تفسیر کبیر میں قول فیصل یہ لکھا ہے کہ آیت کے لفظوں سے کتابت فی الا لواح کی کیفیت معلوم نہیں ہوتی پس اگر اور کسی قوی دلیل سے اس کو کیفیت معلوم نہ ہو تو سکت کرنا چاہیے۔ میںیہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ آیت کے لفظوں سے یہ بات یقینی معلوم ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ ان لوحوں کا کاتب نہ تھا کیوں کہ تمام قرآن مجید میںلفظ ’’کتبنا ‘‘ کا جہاں آیا ہے اس سے خدا کی نسبت فعل کتابت کی مراد نہیںلی گئی بلکہ مقر ر کرنے فرض کرنے کے معنی لیے گئے ہیں چناں چہ ’’کتبنا‘‘ کے ہر جگہ سب علماء نے یہی معنی قرار دئے ہیں ’’علی‘’‘ اور ’’لہ‘‘ جو کتابت کے صلہ میںآتا ہے ا س سے کچھ تغیر معنی میںنہیں ہوتا ۔ بلکہ ’’فی‘‘ کے صلہ میںآنے سے بھی کچھ تغیر واقع نہیں ہوتا چناں چہ سورۃ انبیاء کی ایک سو پانچویں آیت میںیہ الفاظ آئے ہیں ’’ ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون ‘‘ یہ بات ظاہر ہے کہ زبور کا لکھنا یعنی فعل کتابت کسی نے بھی خدا کی طرف منسوب نہیں کیا پس اس کے معنی یہی ہیں کہ ’’فرضنا فی الزبور‘‘ پس قرآن مجید کی کوئی آیت اس بات پر اشارہ بھی نہیں کرتی کہ ان لوحوں کا کاتب خدا تھا ۔ بلکہ جس طرح خداتعالیٰ کبھی بندوں کے اور اشیاء کے بعض افعال کو اپنی طرف نسبت کرتا ہے اس طرح بھی فعل کتابت الواح کا خدا نے اپنی طرف منسوب نہیںکیا۔ اب رہی یہ بات کہ پھر ان پر کس نے لکھا تھا حضرت موسیٰ کے سوا وہاں اورکوئی لکھنے والا نہ تھا ۔ وھب نے جو یہ کہا ہے کہ وہ سخت پتھر کی لوحیں تھیں خدا نے موسیٰ کے لیے ان کو نرم کر دیا تھا ۔ اس سے صاف پایاجاتا ہے کہ وھب کے نزدیک بھی حضرت موسیٰ ہی ان کے لکھنے والے تھے۔ حضرت موسیٰ ایک مہینہ میںواپس آنے کا اقرار کرکے پہاڑ پر گئے تھے ان کو جو مہینہ بھر عبا دت میں مشغول رہنے کا حکم ہوا وہ اسی کو میعاد عطائے احکام سمجھے حالاں کے احکام اس کے بعدملنے کو تھے چناں چہ دس روز میں وہ احکام ملے یا ان کے کھودنے میں دس دن لگ گئے ۔ غرض کہ چالیس دن رات ہوگئے خد انے جو احکام ان کو وحی سے بتائے تھے انہوںنے چاہا کہ انکو پتھر کی لوحوں میں کندہ کر لیں اور بنی اسرائیل کو جا کر دکھائیں۔ وعدہ سے دس دن زیادہ لگ جانے سے بنی اسرائیل کو ان کو واپس آنے کی توقع جاتی رہی اور انہوں نے اپنے لیے بطور دیوتا کے بچھڑا بنا لیا اور اس کی پوجا کرنے لگے۔ چہار دھم۔ انخاز عجل واتخذ قوم موسیٰ من بعدہ من حلیھم عجلا جسدا لہ خوار الم یروانہ لا یکلمھم ولا یھدیھم سبیلا۔ ۷۔ سورہ اعراف ۔۱۴۶۔ وما اعجلک عن قومک یاموسیٰ قال ھم اولاء علی اثری و عجلت الیک رب الترضی قال فانا قد فتنا قومک من بعدک واضلھم السامری فرجع موسیٰ الی قومہ عضبان اسفا قال یقوم الم بعدکم ربکم وعدا حسنا افطال علیکم العھد ام اردتم ان یحل علیکم غضب من ربکم فاخلفتھم موعدی بملکنا ولکنا حملنا اوزارا من زینۃ القوم فقذ فنا ھا فذلک القی السامری فاخرج لھم عجلا جسدا لہ خوار فقالوا ھذا الھکم والہ موسیٰ فنسی افلا یرون الا یرجع الیھم قولا ولا یملک لھم ضرا ولا نفعا ولقد قال لھم ہارون من قبل یاقوم انما فتنتم بہ وان ربکم الرحمن فاتبعونی واطیغوا امری قالو الن نبرح علیہ عاکفین حتی یرجع الینا موسیٰ قال یا ھرون ما منعک اذ رایتم ضلوا الا تتبعن افعصنیت امری قال یا بنوم لا تاخذ بلحیتی ولا براسی انی خشیت ان تقول فرقت بین بنی اسرائیل ولم ترقب قولی قال فما خطبک یا سامری قال بصرت بمال لم تبصروابہ فقبضت قبضۃ من اثر الرسول فنبذتھا وکذلک سولت لی نفسی۔ ۲۰ ۔ سورۃ طہ ۸۵ لغایت ۹۶۔ بچھڑا بنانے کا کچھ مختصر سا ذکر ہم نے سورہ بقرکی تفسیر میںلکھا ہے مگر اس مقام پر اس کے متعلق خاص باتوں سے بحث کرنی چاہتے ہیں اور اول ان آیتوں کو لکھتے ہیںجنسے وہ بحث متعلق ہے۔ خدا نے سورہ اعراف میں فرمایاہے اور بنایا موسیٰ کی قوم کی موسیٰ کے پہاڑ پر جانے کے بعد ان کے گہنوں سے بچھڑا مجسم کہ ا سکے لیے آواز تھی یعنی اس میںسے آواز بھی نکلتی تھی ۔ اور سورۃ طہ میںفرمایا ہے کہ اے موسیٰ کیا چیز مجھ کو تیری قوم سے چھوڑا کر ایسی جلدی لے آئی۔ موسیٰ نے کہا کہ وہ لو گ میری پیروی پر ہیں اور میں جلد چلا آیا تیرے پاس تا کہ تو راضی ہو۔ خدا نے کہا کہ بے شک میںنے تیری قوم کو تیرے پیچھے آفت میں ڈالا ہے اور سامری نے اس کو گمراہ کیا ہے ۔ پھر لوٹ آیا موسیٰ اپنی قوم کے پاس غصہ میںبھرا ہوا غمگین ۔ کہا اے میری قوم کے لوگو کیا تمہارے پروردگار نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا ۔ کیا تم پر لبنی مدت گزر گئی یاتم نے یہ چا ہا کہ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے غضب نازل ہو پھر تم نے میرے وعدہ کے برخلاف کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے اختیار سے تیرے وعدہ سے برخلاف نہیں کیا ولیکن ہم سے فرعون کی قوم کے گہنوں کا بوجھ اٹھوایا گیا پھر ہم نے اس کوپھینک دیا اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا (آگ میں) پھر اس نے ان کے لیے ایک بچھڑا نکالا مجسم کہ اس کے لیے آواز تھی یعنی اس میں سے آواز تھی یعنی اس میں سے آواز بھی نکلتی تھی۔پھر ان لوگوں نے کہا کہ یہ تمہارا پروردگار اور موسیٰ کا پروردگار ہے پھر موسیٰ بھول گیا ہے ۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ وہ پھر کر ان کی بات کاجواب نہیں دیتا اور نہ اس کے اختیار میںان کے لیے ضرور پہنچانا ہے نہ فائدہ۔ بے شک اس سے پہلے ہارون نے ان سے کہا تھا کہ اے میری قوم تم اس کے سبب سے آفت میں پڑے ہو اور بے شک تمہارا پروردگار خداے مہربان ہے پھر تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کو بجا لاؤ انہوں نے کہا کہ ہم تو اسی کے گرد بیٹھے رہیں گے جب تک پھر ہمارے پاس موسیٰ آوے۔ جب موسیٰ آے تو انہوں نے کہا اے ہارون کس چیز نے تجھ کو اس بات سے روکا کہ جب تو نے ان کو گمراہی میںدیکھا تو میری پیروی کرے کیا تو نے میرے حکم کی نافرمانی کی۔ ہارون نے کہا کہ اے میرے ماں جائے (بھائی) تم میری ڈاڑھی اور میرے سر کے بال مت پکڑو بے شک میں اس بات سے ڈار کہ تم یہ نہ کہو تو نے تفرقہ ڈال دیا بنی اسرائیل میں اور میری بات کو نگاہ نہ رکھا ۔ موسیٰ نے کہا اے سامری تیرا کیا حال ہے اس نے کہا مجھے ایسی بات سوجھی جو کسی کو وہ نہ سوجھی تھی پھر میں۔ رسول کے نقش قدم سے (یعنی حضرت موسیٰ کے نقش قدم سے جب کہ وہ پہاڑ کو جاتے تھے ) مٹی کی مٹھی بھر لی پھر ا سکو بچھڑے میںمیں نے ڈال دیا اور اس طرح میرے نفس نے مجھ کو دھوکا دیا۔ قرآن کے لفظ ہم نے اس مقام پر لکھے ہیں اور ان کا مطلب بھی جو صاف صاف قرآن کے لفظوں سے نکلتا ہے لکھ دیا یااب ہمارے عجائب پرست مفسروں نے اس پر لغو و بے ہودہ قصوں پر قصے باندھ دئے ہیں ۔ پہلے تو یہ قرار دیا کہ اس بچھڑے میں اسی طرح کی آواز تھی جس طرح کہ سچ مچ کی اور خدا کی پیدا کی ہوئی بچھڑے میں آواز ہوتی ہے پھر ضرور ہوا کہ ا س کا کوئی سبب بھی قرار دیں اس لیے ’’الرسل‘‘ کے لفظ س تو جبرئیل مراد لیے۔ ’’بصرت‘‘ سے یہ معنی لیے کہ سامری نے جبرئیل کو دیکھا تھا اور کسی نے نہیں دیکھا تھا اور وہ کہاں عین اس وقت جب کہ بحر احمر سے بنی اسرائیل گذر رہے تھے اور فرعون تعاقب میںتھا اورفرعون کے لشکر اور بنی اسرائیل کے لشکر کے درمیان میںجبرئیل آگئے تھے اس وقت سامری نے ان کو دیکھا اور پہچان لیا اور نہایت دور اندیشی سے ان کی یا ان کے گھوڑے کے (کیوں کہ بعض مفسرین کے نزدیک اس وقت گھوڑے پر چڑھے ہوئے تھے ) پاؤں تلے کی مٹی اٹھا لی کہ کسی وقت کام آوے گی اوریہاں اس کو کام میں لایا او ربچھڑے کے منہ میں ڈال دی وہ سچ مچ کے خدا کے پیدا کئے ہوئے بچھڑے کی مانند بولنے لگا۔ ان خرافات و لغویات کا کچھ ٹھکانا ہے ؟ کیسے جبرئیل ؟ وہ کہاںتھے؟ کجا سمندر کہاں کی بات کہاں لے دوڑے سمندر میں جبرئیل کا آنا کیسا انکا گھوڑے پرسوار ہوناکیسا اللہ کے رسول یعنی موسیٰ وہاں موجود تھے جن کی طرف صاف اشارہ ہے ہمارے مسفرین خدا کو بخشے ان کو چھوڑ کر سمندر میںجا ڈوبے۔ ایک لفظ بھی قرآن مجید کا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ اس بچھڑے میںسچ مچ کی اور خدا کے پیدا کیے ہوئے بچھڑے کی مانند آواز تھی بلکہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سامری نے اس بچھڑے کو اس طرح بنایا تھا کہ اس میںسے آواز بھی نکلتی تھی ہزاروں جانور اب بھی کاریگر اس طرح سے بناتے ہیں کہ وہ اڑتے ہیں ہلتے ہیں حرکت کرتے ہیں بولتے ہیں۔ سامری نے بھی اس بچھڑے کو ایسی کاریگری سے بنایا تھا کہ اس میں سے آواز بھی نکلتی تھی سیدھے مطلب کو ٹیڑھا کرنا ہمارے مفسروں کی عجائب پرستی اور یہودیوں کی تقلید کے سوا کچھ نہیں ہے مذہب اسلام اور خدا کا کلام یعنی قرآن مجید ان سب لغویات سے پاک ہے۔ وقال اکثر المفسرین من المعتز لہ انہ کان قد جعل ذلک العجل مجوفا و وضع فی جونہ الا نا بیب ویظھر منہ صوت مخصوص یشبہ خوار العجل وقال آخرون انہ جعل ذلک التمثال اجوف وجعل تحتہ فی الموضع الذی نصب فیہ العجل من ینفخ فیہ من حیث لا یشعر یہ الناس فسمعوا الصوت من جوفہ کالخوار ۔ قال صاحب ہذا القول والناس قد یفعلون الان فی ھذہ التصاویر التی یجرون فیہ الماء علی سبیل الفوارات وما یشبہ ذلک فبھذا الطریق وغیرہ اظہر الصوت من ذلک التمثال ثم القی لی الناس ان ھذہ العجل الھھم والہ موسیٰ۔ (تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۳۰۱) تاول الخوارعلی ان السامری صاغ عجلا وجعل فیہ خروقا یدخلہ الریح فیخرج منھا صوت الخوار ودعا ھم الی عبادتۃ فاجا بوہ وعبدوہ ۔ عن الجبائی۔ قبل انہ اخنال با دخال الریح کما یعمل ھذہ الالات التی تصوف یا لجبل عن الزجا ج والجبائی والبلخی (تفسیر مجمع البیان) یہی قول معتزلی عالموں کا بھی ہے چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ۔ اکثر متعزلی مفسروں کایہ قول ہے کہ سامری نے وہ بچھڑا اندر سے کھوکھلا بنایا تھا اور اس نے اندر نلیاں لگائی تھیں ان سے آواز بچھڑے کی آواز کے مشابہ نکلتی تھی اور اور مفسروں نے یہ کہا کہ وہ مورت کھو کھلی تھی اور جہان وہ بچھڑا کھڑا کیاگیاتھا اس کے نیچے ایک ایسا مقام تھا جہاں ایک شخص کھڑا ہوکر اس میںپھونکتا تھا اور لوگ ا س کونہیںجانتے تھے اس کے پیٹ میں سے بچھڑے کی مانند آواز سنتے تھے ۔ اس قول کے قائل نے کہا کہ اب بھی لوگ ان مورتوں میںجن میں پانی کے فوارے چھوٹتے معلوم ہوتے ہیں او ر اسی قسم کی چیزیں معلوم ہوتی ہیںایسا ہی کرتے ہیں۔ پس اسی طرح اس بچھڑے کی مورت سے آواز نکالی تھی پھر لوگوں کو بتایا کہ یہ بچھڑا ان کا خدا او رموسیٰ کا خدا ہے ۔ تفسیر مجمع البیان میںلکھا ہے کہ جبائی نے بچھڑے کی آواز کی نسبت بیان کیا ہے کہ سامری نے بچھڑا بنایا اس کواندر سے خالی رکھا اس میں ہوا جاتی تھی پھر اس سے بچھڑے کی آوا ز کی مانند آواز نکلتی تھی اور اس نے لوگوں سے اس کی پوجا کرنے کو کہا ان لوگوں نے مان لیا اور اس کی پوجا کی۔ اور اسی تفسیر میں زجاج اور جبائی اور بلخی کا قول ہے کہ سامری نے بچھڑے میں ہوا کے بھر دینے سے فریب کیا تھا جس طرح ا س قسم کی چیزیں دھوکا دینے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ بات صرف اس قدر ہے کہ مصر میںرہنے سے بنی اسرائیل کے دل میں بت پرستی کا خیال جما ہوا تھا وہ چاہتے تھے کہ ان کے لیے کوئی دیوتا بنایا جاوے حضرت موسیٰ سے بھی انہوں نے چاہا تھا کہ ان کے لیے ایک دیوتا بناویں انہوں نے ان کو دھمکا دیا ۔ جب وہ پہاڑ پر چلے گئے تو حضرت ہارون کااتنا خوف ان کو نہ تھا ان کے منع کرنے سے انہوں نے نہ مانا۔ مصر میں ایک دیوتا تھا جس کا نام ’’ نیوس ‘‘ تھا اور اس کی صورت بچھڑے جیسی تھی اسی صورت کا انہوں نے بچھڑا بنایا اور بنانے والے نے اس میں ایسی ترکیب رکھی۔ کہ اس ترکیب سے بچھڑے میں آواز نکلتی تھی اور لوگوں کو دھوکا و فریب دینے کے لیے حضرت موسیٰ کے پاؤں تلے کی مٹی حقیقتہ یا صرف دھوکا دینے کو اس مٹی کو حضرت موسیٰ کے پاؤں تلے مٹی کی بیان کر کے بچھڑے میں ڈال دی ۔ خود قرآن مجید میں سامری کا قول منقول ہے کہ ۔ کزلک سولت لی نفسی۔ یعنی اس طرح اس کے نفس نے دھوکا دیا۔ اس مقام پر قابل غور یہ بحث ہے کہ بچھڑا بنانے والا کون تھا توریت میںلکھا ہے کہ خود حضرت ہارون بچھڑا بنانے والے تھے اور خود انہوں نے ہی بچھڑے کی پرستش کروائی۔ مگر جب ہم خود توریت کے مضامین پر خیال کرتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا نے ہارون کو بھی برکت دی تھ ی اور تمام احکام جو خدا نے موسیٰ کو دئے تھے ان کی حضرت ہاروں ہی تعمیل کرتے تھے بلکہ حضرت موسیٰ تو صرف نام ہی کے تھے خدا کے تمام احکام بذریعہ حضرت ہارون پورے ہوتے تھے تو ہم اس بات کو کہ حضرت ہارون اس بچھڑے کے بنانے والے اور بت پرستی کی اجازت دینے والے تھے جیسا کہ توریت میںلکھا ہے صحیح تسلیم نہیں کر سکتے ۔ یہ بات ممکن ہے کہ یہ بچھڑا اس زمانہ میںبنایا گیا جبکہ حضرت موسیٰ پہاڑ پر تھے اور حضرت ہارون کو تمام بنی اسرائیل پرسردارکر گئے تھے اور ان کے عہد سرداری میں یہ بچھڑا بنا اس لیے حضرت ہارون ا سکے بنانے والے تھے یہ بات کسی طرح صحیح متصور نہیں ہوسکت۔ قرآن مجید نے صاف صاف بتا دیا کہ حضرت ہارون نہیں بلکہ سامری اس کا بنانے والا تھا۔ ہمارے مفسرین کی جیسی عادت ہے کہ تفسیروں میںرطب و یابس صحیح و غلط روایتیں بھر دیتے ہیں اسی طرح سامری کی نسبت بھی روایتیں بھر دی ہیں جن میں سے بعض کی کچھ اصلیت بھی ہے مگر ٹھیک طور پر بیان نہیں کیں اور بعضوں نے نہایت غلطی سے سامری خاص نام بنانے والے کا سمجھا ہے جو صریح غلط ہے۔ عیسائی علماء نے یہ بات چاہی ہے کہ قرآن مجید کی غلطی ثابت کریں مسٹر سلیڈن نے کہا کہ دراصل ہارون اور سامری ایک ہی شخص ہے نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ نے غلطی سے ان کو دو سمجھا ہے ۔ سمر یا شامر عبری لفظ ہے اور اس کے معنی محافظ کے ہیں اور جب کہ موسیٰ پہاڑ پر گئے تھے تو ہارون بنی اسرائیل کے محافظ ہوئے تھے اور ا س لیے وہی شامر تھے۔ مگر مسٹر سلیڈن کایہ قیاس محض غلط ہے اس لیے کہ اگر یہ لفظ قرآن مجید میں اخذ کیاجاتا تو اس کے ساتھ یائے نسبت کسی طرح نہیں آسکتی تھی اور اگر و ہ علم یعنی خاص شخص کانام متصور ہوتا تو اس پر الف لام لازم دونوں موجو دہیں یعنی ’’السامعری‘‘ آیا ہے پس یہ دونوں خیال محض غلط ہیں۔ صحیح امر جس کو ہمارے مفسرین نے بھی بیان کیا ہے یہ ہے کہ بچھڑے کا بنانے والا سمارتن والوں کا ایک شخص تھا جس کا نام بیان نہیں ہوا پس ’’السامری‘‘ کے معنی یہ ہ یں کہ ’’رجل الذین ھم السامرۃ‘‘ مسٹر سیل نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس زمانہ میں سمارتن قوم موجود نہ تھی بلکہ اس کے بہت زمانہ بعد وہ قوم بنی تھی۔ مگر اس اعتراض میںغلطی ہے قرآن مجید کے الفاظ سے اس وقت یہی نام ہونا لازم نہیں آتا۔ نبی اسرائیل کے بارہ سبط تھے اور سب ایک سلطنت کے ماتحت تھے ۔ مگر جب ’’رجعام‘‘ حضرت سلیمان کا بادشاہ ہوا تو بنی اسرائیل کے دس سبط نے اس سے بغاوت کی ۔ ’’یا ربعام‘‘ پسرنباط کو اپنا بادشاہ بنایا اس نے اپنے ملک میں بمقام بیت ایل اور دان کے سونے کے بچھڑے بنائے ( دیکھو اول سلاطین باب ۱۲ ورس ۲۸ و ۲۹) اور ان کی پرستش شروع کیا ۔ جب کہ ’’عمری ‘‘ ان لوگوں پر بادشاہ ہواتو اس نے کوہ شومون کو اس کے مالک سے جس کانام ’’شمر ‘‘ تھا خریدلیا او روہاں شہر بنایا جو دارلخلافت ہوگیا (دیکھو اول سلاطین باب ۱۶ ورس ۲۳ لغایت ۲۵) اور اسی سبب سے وہ لوگ سمارتن یا شامری یا سامری مشہورہوئے ۔ اور وہ قوم جس میں کے شخص نے بنی اسرائیل کے لیے بچھڑا بنایا تھا قرآن مجید کے بہت پہلے سے سامری کے نام سے کہلاتی تھی ۔ قرآن مجید میں السامری کہنے سے صرف یہ اشارہ ہے کہ اس کا بنانے والا اس قوم میںسے تھا جنہوں نے آخر کار یا ربعام کی اطاعت کرکے سونے کے بچھڑوں کی پرستش کی تھی اور جو لوگ سامری یعنی سمارتن کے لقب سے مشہور ہیں۔ جو لوگ کہ توریت کے ان مقامات کو جو قرآن مجید کے بیان کے مخالف ہیںقرآن مجید کی غلطی ثابت کرنے کو پیش کرتے ہیں ان کو ایسی جرات کرنے سے پہلے توریت کے تمام مضامین مندرجہ کی صحت ثابت کرنی چاہیے اور ان کو اس بات کا بھولنا نہیں چا ہیے کہ اب تک یہ بھی تحقیق نہیں ہوا ہے کہ موجودہ توریت کس نے لکھی اور کب لکھی گئی خود توریت سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے مضامین یاد سے اور کچھ تحریروں سے اخذ کیے گئے ہیں اور بہت سی باتیں جو اس زمانہ میں جب کہ و لکھی گئی یہودیوں میںمشہوریا مروج تھیں وہ بھی اس میں داخل کی گئی ہیں اور جو مضامین اس میں داخل ہیں وہ ایسے افسانہ آمیز ہیں کہ جب تک ان افسانوں کو علیحدہ نہ کیا جاوے اصل واقعہ پر کسی طرح یقین نہیں ہو سکتا۔ بشپ نیٹال نے جو کچھ اس کی نسبت لکھا ہے اس کو بھی بھولنا نہیں چاہیے پس یہ امر کہ کوئی واقعہ جو توریت کے برخلاف ہو وہ صحیح نہیں ہے اس کو کوئی ذی عقل تسلیم نہیہں کر سکتا ۔ بلا شبہ توریت میںاحکام الہی بھی مندرج ہیں اور وہ ’’فیھا حدی و نور‘‘ کہنے کے مستحق ہیں اور تاریخی واقعات بھی ہیں جو غلطی سے پاک نہیں۔ پانز دھم۔ ستر آدمیوں کا منتخب کرنا و از قلتم یا موسیٰ لن نومن لک حتیی نری اللہ جھرۃ فاخذتکم الصاعۃ وانتم تنظرون (سورۃ بقر آیت ۵۲) واختار موسیٰ قومہ سبعین رجلا لمیقاتنا (سورۃ اعراف آیت ۱۵۴) قرآن مجید میں ایک جگہ یہ بیان ہوا ہے کہ موسیٰ کی قوم نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ ہم تجھ پر ایمان نہیں لانے کے جب تک کہ ہم کھلم کھلا خدا کو نہ دیکھ لیں اور سورۃ اعراف میں فرمایا ہے کہ موسیٰ نے ستر آدمیوں کو خدا کے وعدہ کی جگہ لیجانے کے لیے منتخب کیا۔ حضرت موسیٰ نے بھی بحالت ذھول خدا سے کہا تھا کہ ’’رب ارنی انظر الیک‘‘ خدانے جواب دیا ’’لن ترانی ولکن انظرالی الجبل‘‘ بنی اسرائیل نے بھی حضرت موسیٰ سے کہا کہ ہمیں خدا دکھلا دو حضرت موسیٰ پر یہ واقعہ خود گذر چکا تھا اور وہ جان چکے تھے کہ خدا کا دیکھنا محال ہے بلکہ صرف خدا کے وجود پر ایقان ہی خدا کا دیدار ہے اور خدا کے وجود پر ایقان ا سکی عجائب مخلوقات پر غوروفکر کرنے اس کے دیکھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ خدا نے حضرت موسیٰ کو بھی اس عجیب ہیت ناک آتشین پہاڑ کی طرف خدا پر ایقان لانے کے لیے متوجہ کیا تھا اس طرح حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل میںسے ستر آدمیوںکو خداکی اس قدرت کا ملہ اور تجلی شان دکھانے کو منتخب کیا تا کہ ان کوبھی ایقان وجود باری عزاسمہ پر حاصل ہو۔ خدا کا دیکھنا دنیا میں نہ ان آنکھوں سے ہوسکتا ہے اور نہ ان آنکھوں سے جو دل کی آنکھیں کہلاتی ہیں اور نہ قیامت میںکوئی شخص خدا کو دیکھ سکتا ہے وہ بیچون و پیچگون ہے کسی حیز و صورت میں آنے کے قابل ہی نہیں ہے پھر وہ کیوں کر دنیا میںیا عقبی میںدکھائی دے سکتا ہے ۔ بہت سے عابد و زاہد دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے آنکھوں سے دنیا ہی میں خدا کو دیکھا ہے۔ بہت سے کہتے ہیںکہ ان آنکھوں سے نہیں بلکہ دل کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ انہوں نے دیکھا دکھایا کچھ نہین بلکہ خود انہی کا خیال یا ایقان ہے جو انہوں نے دیکھا ہوگا عقبیٰ میں اگر خدا کا دیکھنا تسلیم کیاجاوے تو وہ بھی خدا کا دیکھنا نہ ہوگا بلکہ خود انہی کا ایقان انکو دکھائی دے گا نہ خدائے بیچون و بیچگون و بے مثل و بے نمون۔ علمائے ظاہر جو اس مسئلہ کی حقیقت نہیں سمجھتے صرف لفظوں پر بحث کیاکرتے ہیں وہ اس مسئلہ کی حقیقت کے سمجھنے کے لائق ہی نہیں ہیں۔ ہاں علمائے ربانی جنہوں نے اپنے نفس پر اور انسان کے نیچر پر غور کی ہے ان کی سمجھ اس مسئلہ کی نسبت علمائے ظاہری کی سمجھ سے زیادہ اعتبار کے قابل ہے اور ان میں سے بھی بالتخصیص ان کے جو باوجود علم باطنی کے علم ظاہری میںبھی بہت بڑا درجہ کمال کارکھتے تھے ۔ اس مسئلہ کی تحقیق میں مرشدنا و مولانا عالم ربانی حضرت شیخ احمد سرہندی نقش بندی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے جو کچھ فرمایا ہے بجنسہ اس مقام پر لکھا جاتا ہے۔ حضرت ممدوح قدس سرہ نے جلد سوم مکتوب نوزدھم جو بنام فقرے ہاشم کشمی لکھا ہے اور جس میں درباب کیفیت مشاہدہ قلب عرفہ حق جل و علا کو سوال کیا گیا تھا اس طرح ارقام فرمایا ہے۔ ’’پر سیدہ بودن کہ بعضے ازمحققان صوفیہ اثبات رویۃ و مشاہدہ او تعالیٰ بدیدہ دل دردنیا مے فرمایند کما قال الشبخ العارف فی کتابہ العوارف۔ موضع المشاہد بصر القلب الخ و شیخ ابو اسحاق کلا بادی قدس سرہ کہ از قد مائے ایں طائفہ علیہ است و از رو سائے ایشاں درکتاب تعرف آرومے اجمعوا علی انہ تعالیٰ لا یری فی الدنیا بالا بصار ولا بالقلوب الا من جھۃ الایقان توفیق میان ایں دو تحقیق چیست ورائے تو برکدام وما جماع باوجود اختلاف بچہ معنی است۔ بداں ارشدک اللہ تعالیٰ کہ مختار ایں فقیر دریں مسئلہ قول صاحب تعرف است قدس سرہ و میداند کہ قلوب را دریں نشا ازاں حضرت جل سلطانہ غیر از ایقان نصیبے راچہ بود کہ او دریں نشا درایں معاملہ بیکار و معطل است غایۃ ما فی الباب معنی ایقان کہ قلب را حاصل شدہ است در عالم مثال بصورت رویۃ ظاہر مے شود و موقن بہ صورت مرئی چہ در عالم مثال ہر معنی را صورتیست مناسب و چوں در عالم شہادت کمال یقین در رویۃ است آں ایقان نیز بصورت رویۃ در مثال ظاہر مے گر دد وچون ایقان بصورت رویۃ ظاہر شود متعلق آنکہ موقن بہ است ناچار بسورت مرئی آنجا ظاہر گردد و چوں سالک آں را در مرات مثال مشاہدہ مے نما ید از توسط مرات ذاھل گشتہ و صورت راحقیقت دانستہ مے انگارد کہ حقیقت رویتے اور را حاصل گشتہ است و مرئی پیدا آمدہ نمے داند کہ آں رویت صورت ایقان اوست و آں مرئی صورت موقن بہ او۔ ایں از اغلاط صوفیہ است واز تلبسات صور بحقائق ۔ وہمیں دید چوں غالب می آید و از باطن بظاہر مے تراود سالک را درہم مے اندازد کہ رویۃ بصری نیز حاصل گشت و مطلوب از گوش بہ آغوش آمد نمید اند کہ حصول ایں معنی چوں دراصل کہ بصیرت است نیز مبنی بر تو ہم و تلبس است بہ بصر کہ دریں نشا فرع او است چہ رسد و روایت اورا از کجا حاصل شود ر رویت قلبی جم غفیر از صوفیہ در تو ہم افتاد افتادہ اند و حکم بو قوع آں کردہ و در رویت بصری مگر نا قصے ازیں طائفہ در تو ہم وقوع آں افتادہ باشد کہ مخالف اجماع اہل سنت و جماعت است شکر اللہ سعیھم۔ سوال موقن یہ را چوں درمثال پیدا شد لازم آمد کہ حق را سبحا نہ آنجا صورت بود۔ جواب تجویز نمودہ اند کہ حق را سبحانہ ہر چند مثل نیست اما مثال است روا داشتہ اند کہ د مثال بصورتے ظہور فرماید چناں چہ صاحب فصوص قدس سرہ رویت اخروی را نیز بصورت جامعہ لطیفہ مثالیہ مقرر ساختہ است و تحقیق ایں جواب آنست کہ آںصورت موقن یہ صورت حق نیست سبحانہ درمثال بلکہ صورت مکشوف بعض وجود و اعتبارات ذات ھق است سبحانہ نہ ذات حق جل و علا لہذا چوں معاملہ عارف بذات میر سد جل سلطانہ ایں قسم تخیلات پیدا نمے شود و ہیچ رویت و مرئی متخیل نمے گردد وچہ ذآت اقد س سبحانہ رادر مثال صورتے کائن نیست تا آنرا بصورت مرئی وانماید و ایقان آنرا بصورت وانماید یا آنکہ گوئیم در عالم مثال صورمعانی است نہ صورت ذات وچوں عالم بتمامہ مظاہر اسماء و صفات است و از ذآتیتہ بہرہ ندارد و چناں چہ تحقیق آں را در مواضع متعدد نمودہ ایم پس ناچار بتمامہ از قسم معانی باشد و درمثال آنرا صورتے کائن بود و در کمالات و جوبی ہر جا صفت و شان است کہ قیام بذات وارد از قبیل معانی است کہ اگر آںرا در مثالل صورتے بود و او بالنقص گنجائش دارد اما ذات او را سبحانہ حاشا کہ در مرتبہ از مراتب صور ت بود چہ صورت مستلزم تہدید و تقئید است در ہر مرتبہ کہ باشدمجوز نیست مراتب ہمہ کہ مخلوق اویند سبحانہ کجا گنجائش دارند کہ خالق را محدود و مقید سازند ہر کہ تجویز مثال درآں حضرت جل شانہ نمودہ است باعتبار وجوہ و اعتبارات است نہ باعتبار عین ذات تعالیٰ وہر چند تجویز مثل در وجوہ و اعتبارات حضرت ذات تعالیٰ ہم بریں فقیر گراں است مگر آنکہ در ظلے از اظلال بعیدہ آں تجویز نمودہ آید ازیں بیان واضح گشت کہ در عالم مثال ارتسام صور معانی و صفات را کائن است نہ ذات تعالیٰ را پس آں چہ صاحب فصوص تجویز رویت اخروی بصورت مثالیہ نمودہ است چناں چہ گذشت آںرویت حق نیست تعالیٰ بلکہ رویت صورت حق ہم نیست سبحانہ چہ اور را سبحانہ صورتے نیست تا رویت باں تعلق پیدا کند و اگر در مثال صورتے ہست ظلے از اظلال بعیدہ اور را کائن است پس رویت آں رویت حا چرا باشد سبحانہ شیخ قدس سرہ در نفی رویت حق جل و علا از متعزلہ و فلاسفہ ہیچ کم پائی نمی کند بلکہ اثبات ویت بر نہجے مے نماید کہ مستلزم نفی رویت است و اں ابلغ در نفی است از صریح نفی لان الکنا یۃ ابلغ من التصریح قضیہ مقررہ است ایں قدر فرق است کہ مقتدائے آں جماعت عقل شان است و مقتدائے شیخ کشف بعید از صحت مانا کہ اولہ غیر تا مہ مخالفان کہ در متخیلہ شیخ نشستہ بود کشف اور را نیز دریں مسئلہ از صواب منحرف گردانید است و مائل بمذہب شاں ساختہ چوں از اہل سنت بود صورت اثبات نمودہ است و باں اکتفا کردہ و آں را رویت انکاشتہ ربنا لا تواخذنا ان نسینا او اخطانا و تحقیق ایں مسئلہ دقیقہ کہ در حل بعض از مواضع کتاب عوارف نوشتہ است نیز تحریر یافتہ است وآں چہ از اجماع پرسیدہ بودند تواند بود کہ تاآں وقت خلافے کہ شایان اعتداد باشد بظہور نیامدہ باشد یا اجماع مشائخ عصر خود خواستہ باشد واللہ سبحانہ اعلم بحقیقہ الحال ۔ انتہیٰ۔ شانزدھم ذکر استسقائے قوم موسیٰ۔ ھفدھم سایہ کرنا ابر کا۔ ھیز دھم۔ من و سلویٰ کا اترنا نوزدھم۔ دخول باب یہ چاروںموضوع سر سید نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق اپنے ایک دوسرے مضمون میںجو اس کے بعد نقل کیا جا رہا ہے۔ درج کر دیے ہیں۔ لہذا یہ آخر کی چاروں بحثیں اگلے مضمون میںملاحظہ فرمائیں۔ اختصار کے لحاظ سے یہ چاروں باتیں یہاں چھوڑ دی گئی ہیں۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ……… اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید قرآنی قصص جلدچہاردھم حصہ دوئم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی قصہ موسیٰ علیہ السلام کا حضرت موسیٰ کے جو واقعات قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں وہ سورہ بقر، نسا، مائدہ ، انعام ، اعراف ، یونس ، ھود ،بنی اسرائیل ، کہف ، مریم ، طہٰ، مومنین، شعرا، نمل ، قصص ، صافات ، مومن، زخرف ، دخان ، نازعات ، بیس سورتوں میں آئے ہیں۔ ان میں مکرر بھی مضامین بیان ہوئے ہیں اور کسی میں کسی جگہ کاواقعہ بیان ہوا ہے کسی میںکسی جگہ کا۔ہم ان تمام آیات اور الفاظ کو منتخب کر کر بہ ترتیب موسیٰ کے قصہ کو مع ترجمہ حاشیہ ۱ میں لکھ دیتے ہیںتاکہ تمام قصہ جس قدر قرآن مجید میں ہے بلفظہ بہ ترتیب معلوم ہوجاوے اور پھر ایک آیت کے مطلب کو اس کے مناسب مقام پر بیان کریں گے۔ سورۃ بقر میں جو واقعات حضرت موسیٰ کے بیان ہوئے ہیں ان میں سے واقعہ عبور بحر اور غرق فرعون قابل غور کے ہے اول تو بہت لوگوں نے غلطی کی ہے جو یہ سمجھتے ہیںکہ حضرت موسیٰ نے دریائے نیل سے عبور کیا تھا یہ بالکل غلط ہے بلکہ انہوں نے بحر احمر کی ایک سے عبور کیا تھا ۔ تمام مفسرین حضرت موسیٰ کے عبور اور فرعون کے غر ق ہونے کو بطور ایک ایسے معجزے کے قرار دیتے جو خلاف قدرت واقع ہوا ہو جس کو انگریزی میں سپر نیچرل کہتے ہیں کہہ اور یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے سمندر پر اپنی لاٹھی ماری وہ پھٹ گئی اور پانی مثل دیوار کے یا پہاڑ کے ادھر ادھر کھڑا ہو گیا اور پانی نے بیچ میں خشک رستہ چھوڑ دیا اور حضرت موسیٰ اور تمام بنی اسرائیل اس رستہ سے پار اتر گئے ۔ فرعون بھی اسی رستہ میں دوڑ پڑا و ر پھر سمندر مل گیا اور سب ڈوب گئے ۔ اگر در حقیقت یہ واقعہ خلاف قانون قدرت واقع ہوا تھا تو خدا تعالیٰ نے سمندر کے پانی ہی کو ایسا سخت کر دیتا کہ مثل زمین کے اس پر سے چلے جاتے ۔ خشک رستہ نکالنے ہی سے یہ بات پائی جاتی ہے کہ یہ واقعہ یا معجزہ جو اس کو تعبیر کرو مطابق قانون قدر ت کے واقع ہواتھا جو مطلب مفسرین نے بیان کیاہے وہ مطلب قرآن مجید کے لفظوں سے بھی نہیں نکلتا۔ سمندر میں راستہ ہو جانے کی نسبت قرآن مجید میںتین جگہ زکر آیا ہے اول سورۃ بقرۃ میںجہاں فرمایا ہے کہ ’’اذ فرقنا بکم البحر‘‘ دوم سورہ الشعر میںفرمایا کہ ’’ او حینا الیٰ موسیٰ ان اضرب بعصاک البحر فانفلق فکان کل فرق کالطود العظیم تیسرے سورۃ طہ میں جہاں فرمایا ہے کہ فاوحینا الی موسیٰ ان اسر بعبادی فاضرب لھم طریقا فی البحر یبسا الا تخاف ورکاء لاتخشی فاتبعھم فرعون بجنودہ نغشیم من الیم ماغشیھم ‘‘ پہلی آیت میںتو کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس سے سمندر کے جدا ہوجانے یا پھٹ جانے کو خلاف قانو ن قدرت قرار دیا جاسکے ۔ دوسری آیت میںجو الفاظ ہیں انہی پر تمام مفسرین کا دارومدار ہے۔ وہ ان اضرب بعصاک البحر کے یہ معنی لیتے ہیں کہ خد انے موسیٰ سے کہا ک سمندر کو اپنی لاٹھی سے مار سے مار چنانچہ حضرت موسیٰ نے لاٹھی ماری اور سمندر ہٹ گیا یا پھٹ گے یا سمندر کی تہ زمین کھل گئی وہ اس جملہ کو اس طرح پر بطور شرط و جزا کے قرار دیتے ہیں کہ شرط گویا علت ہے اور جزا اس کا محلول یعنی لاٹھی مارنے کے سبب سے سمندر پھٹ گیا اور زمین نکل آئی مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے ’’الفلق‘‘ ماضی کا صیغہ ہے اور عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ جب ماضی جزاء میں واقع ہوتی ہے تو اس کی دو حالتیںہوتی ہیں اگرماضی اپنے معنوں پر نہیںرہتی بلکہ شرط کی معلول ہوتی ہے تو اس وقت اس پر ’ف‘ نہیںلاتے اور جب کہ وہ اپنے معنوں پر باقی رہتی ہے اور جزا کی معلول نہیں تب اس پر ’ف‘ لاتے ہیں جیسے کہ اس مثال میںہے۔ ’’ان اکرمتنی فاکرمتک امس‘‘ اس مثال میں جزاء (یعنی کل میںتعظیم کرنا اور شرط کی مغلول نہیں ہے کیوں کہ داس سے پہلے ہوچکی تھی ۔ اس طرح اس آیت میں سمندر کا پھٹ جانا یا زمین کا کھل جانا حزب کا معلوم نہیںہو سکتا۔ اصل یہ ہے کہ یہودی اس بات کے قائل تھے کہ حضرت موسیٰ کی لاٹھی مارنے سے سمندر پھٹ گیا تھا اور زمین نکل آئی تھی اور لاٹھی مارنے سے پتھر میں سے پانی بہہ نکلا تھا ۔ علمائے اسلام سے تفسیروں میں اور خصوصا بنی اسرائیل کے قصوں میںیہودیوں کی پیروی کرنے کے عادی تھے اور قرآن مجید کے مطالب خواہ مخواہ کھینچ تان کر یہودیوں کی روائتوں کے موافق کرتے تھے اس نے انہوں نے اس جگہ بھی اور وہاں بھی جہاں قرآن میںآیا ہے فاضرب بعصاک الحجر فانفجرت منہ اثنا عشرۃعینا ضرب کے منعی زدن کے لیے او ر سیدھے سادے معجزہ کو ایک معجزہ خارج از قانون قدرت بنادیا۔ اس مقام پر حزب کے معنی زدن کے نہیں ہیں بلکہ چلنے کے یا جلد چلنے کے ہیں جیسے کہ عرب بولتے ہیں ’’حزب فی الارض‘‘ چلایا دوڑا زمین پر خود قرآن مجید میںآیا ہے۔ واذا آخر یتھم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصرو من الصلوۃ (نسائ) یعنی جب تم چلو زمین پر یعنی سفر کرو تو کچھ حرج نہیں ہے ۔ کہ نماز میںکمی کرو۔ پس صاف معنی یہ ہیں کہ خدا نے حضرت موسیٰ کو کہا ککہ ’’اپنی لاٹھی کے سہارے سے سمندر میںچل وہ پھٹا ہو ا یا کھلا ہوا ہے یعنی پایاب ہو رہا ہے ۔ سورۃ طہ میں جو آیت ہے اس میں صاف بیان ہوا ہے کہ میرے بندوں کو رات کو سمندر میںسوکھے رستے سے لے کر نکل چل پس جو معجزہ تھا وہ یہی تھا کہ ایسے مشکل کے وقت میں سمندر کے پایاب ہونے سے خدا تعالیٰ نے موسیٰ کو اور تمام بنی اسرائیل کو فرعون کے پنچے سے بچا دیا اور جب فرعون نے پایاب اترنا چاہا تو پانی بڑھ گیا تھا وہ مع اپنے لشکر کے ڈوب گیا۔ اس مقام پر یہ بحث پیش آوے گی کہ جب ’’حزب‘‘ کے معنی چلنے کے آتے ہیں اس کے صلہ میں ’’فی‘‘ کا لفظ آتا ہے جیسے کہ ’’از اضربتم فی الارض‘‘ میں ہے حالانکہ ’’فاضرب بعصاک البحر ‘‘ اور ’’فاضرب بعصاک الحجر ‘‘ میں ’’ فی ‘‘ نہیں ہے مگر ’’فی‘‘ کے نہ ہونے سے کچھ حرج نہیں ہے اس لیے کہ جب ’’ضرب‘‘ کے معنی چلنے کے لیے جاتے ہیں تو بواسطہ حرف جر یعنی ’’فی‘‘ کے متعدی کیاجاتا ہے اور جو افعال کہ بواسطہ جر کے متعدی ہوتے ہیں ان میں حرف جر کو محذوف کرنا اور فعل کو بلا واسطہ مفعول کی طرف متعدی کرنا جائز ہے او ر اس مفعول کو منصوب علی نزع الخافض کہتے ہیں۔ اس مقام پر ’’اضرب‘‘ کے ’’عصا‘‘ کے ساتھ ربط دینے کو ایک حرف جر یعنی ’’ب‘‘ ’عصا‘ پر آچکی تھی پھر اس فعل کو مفعول کی جانب متعدی کرنے کے لیے دوسرے حرف جر یعنی ’’فی‘‘ کا لانا کسی قدر فصاحت کلام کے مناسب نہ تھا اور اس لیے اس کا حذف اولیٰ تھا ۔ پس تقدیر کلام کی یہ ہے کہ ’’فاضرب بعصاک البحر ‘‘ اور قرینہ حذف ’’فی‘‘ کا خود قرآن مجید سے پایا جاتا ہے کیوں کہ یہی قصہ انہی الفاظ سے سورۃ طہ میںبھی آیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ ’’فاضرب لھم طریقاََ فی البحر‘‘ پس ایک جگہ لفظ ’’فی ‘‘مذکور ہے تو یہی قرینہ باقی مقامات میں اس کے محذوف ہونے کا ہے۔ اسی آیت میں فعل ’’اضرب ‘‘ کے بلاواسطہ حرف جر متعدی الی الفعول ہونے کی مثال بھی موجود ہے ۔ شاہ ولی اللہ صاحب (۱)نتلو ا علیک من نباء موسیٰ و فرعون بالحق لقوم یومنون ان فرعون علی فی الارض وجعل اھلھاشیعا یستضعف طافعۃ منھم یذبح ابناء ہم ویستحیی نساء ھم انہ کان من المفسدین (قصص) یسومونکم (آل فرعون) سوء العداب (بقر) یقتلون (اعراف) یذ بحون ابناء کم و یستحیون نساء کم وفی ذالکم بلاء من ربکم عظیم (بقر( نریدان تمن علی الذین استضعفو ا فی الارض و نجعلھم ائمۃ و نجعلھم الوارئین ونمکن لھم فی الارض ونری فرعون و ہامان و جنودھا منھم ماکانو یحذرون (قصص)۔ واو حینا الی ام موسیٰ ان ارضعیہ فاذا خفت علیہ (قصص ) اقذ فیہ فی التابوت (طہ) فالقیہ (قصص) فاقذفیہ فی الیم فلیلقہ الیم بالساحل یا خذہ عدولی و عدولہ (طہ) ولا تخافی و لا تحزنی انا رادوہ الیک و جاعلوہ من المرسلین فالتقطہ آل فرعون (قصص) فبصرت (ای اخت موسیٰ) یہ عن جنب وہم لا یشعرون (قصص) قالت امراۃ فرعون قرۃ عین لی ولک لا تقتلوہ عسیٰ ان ینفعنا او نتخذہ ولدا (قصص) و حرمنا علیہ المراضع من قبل فقالت ھل ادلکم علی اھل بیت یکفلونہ لکم و ھم لہ ناصحون فرددنہ الی امہ لی تقر علینھا ولا تحزن ۔(قصص) ولما بلغ اشدہ واستوی (قصص)دخل المدینۃ علی حین غفلۃ من اھلھا فوجد فیھا رجلین یقتتلان ھذا من شیعتہ وھذا من عدوہ فاستغاثہ الذی من شیعتہ علی الذی من عدوہ فوکرہ موسیٰ فقضی علیہ (قصص) فاصبح فی المدینۃ خائفا یترقب فاذلذی استنصرہ بالا مس یستصرخہ قال لہ موسیٰ انک لغوی مبین فلما ان ارادان یبطش بالذی ھوعدولھما قال یا موسیٰ اترید ان تقتلنی کما قتلت نفسا بالامس۔ (قصص) وجا ء رجل من اقصیٰ المدینۃ یسعی قال یا موسیٰ ان الملاء یا تمرون بک لیقتلوک ماخرج انی لک من الناصحین فخرج ،منھا خائفا یترقب قال رب نجنی من القوم الظالمین (قصص)۔ قال موسیٰ۔ لفتاہ لا ابرح حتیٰ ابلغ مجمع البحرین اوامضی حقبا فلما بلغ مجمع بینھما نسیا حوتھما فاتخذ سبیلہ فی البحر سربا فلما جاوزا قال لفتاہ اتیناہ غذائنا لقد لقینا من سفرنا ھذا نصبا قال ارایت اذا وینا الی الصخرۃ فانی نسیت الحوت وما انسا نیہ الا الشیطن ان اذکرہ واتخذ سبیلہ فی البحر عجبا قال ذالک ما کنا نبغ فارتد علیٰ آثآر ھما قصصا فوجدا عبدا من عبادنا اتیناہ رحمۃ من عندنا وعلمناہ من لدنا علما قال لہ موسیٰ ھل اتبعک علیٰ ان تعلمن مما علمت رشدا قال انک لن تستطیع معی صبرا وکیف تصبر علی مالم تحط بہ خبرا قال ستجدنی ان شاء اللہ صابرا ولا اعصی لک امر قال فان اتبعتنی فلا تسئلنی عن شی حتی احدث لک منہ ذکرا فانطلقا حتی اذا رکبا فی السفینۃ خرقھا قال اخرقتھا لتغرق اھلھا لقد جئت شیئا امرا قال الم اقل انک لن تستطیع معی صبرا قال لا تو اخذنی بما نسیت ولا ترھقنی من امری عمرا فانطلقا حتیٰ اذ لقیا غلاما فقتلہ قال اقلت نفسا زکیۃ بغیر نفس لقد جئت شیئا نکرا قال الم اقل لک انک لن تستطیع معی صبرا قال ان سالتک عن شئی بعدھا فلا تصاجننی قد بلغت من لدنی عذرا فا نطلقا حتیٰ اذا اتیا اہل قریۃ استطعما اھلھا فابو ان یضیفو لھما فوجدا فیھا جدار یریدان ینقض فاقامہ قال لو شئت لتخذت علیہ اجرا قال ھذا فراق بینی و بینک سانئبک بتاویل مالم تستطبع علیہ صبرا اما السفینۃ فکانت لمساکین یعمون فی البحر فاردت ان اعیبھا و کان راء ھم ملک یاخذ کل سفینۃ غصبا واما الغلام فکان ابواہ مومنین فخشینا ان یرھقہما طغیانا وکفرا فاردنا ان یبدلھما ربھما خیرا منہ ذکوۃ واقرب رحما واما الجداد فکان لغلامین یتمین فی المدینۃ وکان تحتہ کنزلھما وکان ابوھما صالحا فاراد ربک ان یبلغا اشد ھا ویستخر جا کنزلھما رحمۃ من ربک وما فعلتہ عن امری ذالک تاویل مالم تستطع علیہ صبرا (کہف)۔ ولما توجۃ تلقاء مدین قال عسی ربی ان یہدنی سواء السبیل ولماورد ماء مدین وجد علیہ آمۃ من الناس یسقون و وجد من دونھم امراتین تذ ودان قال ما خطبکما قالتا لا نسقی حتی یصدر الرعاء وابوان شیخ کبیر فسقی لھما ثم تولیٰ الی الظل قال رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر فجاء تۃ احدا ہما تمشی عی استخیاء قالت ان ابی یدعوک لیجزیک اجر ماسقیت لنا فلما جاء ہ وقص علیہ القصص قال لا تخف نجوت من القوم الظلمین قالت احدا ھما یابت استاجرہ ان خیر من اسا جرت القوی الامین قال انی ارید ان انکحک احدی انبتی ھا تین علی ان تاجرنی ثمنی جحج فان اتممت عشرا فمن عندک ما اریدان اشق علیک ستجدنی انشاء اللہ من الصالحین قال ذالک بینی وبینک ای الاجلین قضیت فلا عدوان علی واللہ علی مانقول وکیل (قصص) فلبثت سنین فی اہل مدین ثم جئت علیٰ قدر یا موسیٰ ۔ (طہ) فلما قضیٰ موسیٰالا جل وسار باہلہ انس من جانب الطور نارا قال لا ہلۃ امکثوا انی انست نار العلیٰ آیتکم منھا بخیر (قصص) او آتیکم بشاب قبس (نمل) جذوۃ من النار لعلکم تصطلون (قصص) اواجد علی النار ھدی (طہ) فلما اتا ہانودی من شاطی الوادی الا یمن (قصص) من جانب الطور الا یمن(مریم) فی البقعہ المبارکۃ من الشجرۃ (قصص) ان بورک من فی النار ومن حولھا و سبحان اللہ اب العالمین یاموسیٰ انہ انا اللہ العزیز الحکیم (نمل) انی انا اللہ رب العالمین (قصص) انی انا ربک فاخلع نعلیک انک بالواد المقدس طویٰ (طہ) ماتلک بیمینک یا موسیٰ قال ہی عصای اتو کاء علیھا و اہش بھا علی غنمی ولی فیھا مارب اخری (طہ) الق عصاک فلما راہا تھتنر کانھا جان ولی مدبر ولم یعقب یاموسیٰ اقبل (قصص) خذھا ولا نخف سنعید ھا سیرتھا الاولی۔ (طہ) اسلک یدک فی جیبک (قصص) واضعم یدک الیٰ جنا حک تخرج بیضاء من غیر سوء آیۃ آخری (طہ) واضعم الیک جناحک من الذھب فذلک برہانن من ربک (قصص) فی تسع آیات ( نمل) الی فرعون و ملائہ انھم کانو قوما فاسقین (قصص) و قربناء نجیا۔ (مریم) ثم ارسلنا موسیٰ واخاہ ہارون یاتنا وسلطان مبین الی فرعون وملا ئہ (ہود) ہامان و قارون (مومن) ان اخرج قومک من الظلمات الی النور (ہود) ان ایت القوم الظمین قوم فرعون (شعرائ) اذھب الی فرعون انہ طغیٰ (نازعات) قال رب انی اخاف ان یکذبون (شعرا) رب انی ققلت منھم نفسا (قصص) ولھم علی ذنب فاخاف ان یقتلون (شعرا) ویضیق صدری ولا تنطلق لسانی (شعرا) رب الشرح لی صدری ویسرلی امری واحلل عقدۃ من لسانی یفقہوا قولی (طہ) واخی ہارون ھوا فصح منی لسا نا (قصص) اجعل لی وزیرا من اہلی ہارون اخی (طہ) فارسل الی ہارون (شعرا)فارسلہ معی رداء (قصص) قال متشد عضدک یا خیک ونجعل لکم سلطانا (قصص) قال قد اوتیت سولک یاموسیٰ (طہ) اذہب انت واخوک بایاتی لا وتنیا فی ذکری اذھبا الی فرعون انہ طغی (طہ) قال کلا فاذھبا یاتینا انا معکم مستمعون فائتیا فرعون فقولا انا رسول رب العالمین ان ارسل معنا بنی اسرائیل (شعرا) فقولا لہ قولا لینا لعلہ یتذکر او یخشی قالا ربنا اننا نخاف ان یفرط علینا او ان یطغی قال لا نخافا اننی معکما اسمع واری فاتیاہ (طہ) فقل ھل لک الی ان تزکی اوھدیک الی ربک فتخشی (نازعات )فقولا انا رسول ربک فارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبھم قد جئناک یایۃ من ربک (طہ) قال فمن ربکما یا موسیٰ قال ربنا یا موسیٰ قال ربنا الذی اعطی کل شی خلقہ ثم ہدی قال فما بال القرون الاولیٰ قال علمھا عند ربی (طہ) قال وما رب العالمین قال رب السموات والارض وما بینہما ان کنتم موقنین قال لمن حولہ الا تستمعون قال ربکم ورب ابائکم الاولین۔ قال ان رسولکم الذی ارسل علیکم لمجنون قال رب المشرق والمغرب و ما بینھما ان کنتم تعقلون قال لئن اتخذت الھا غیری لا جعلنک من المسجونین (شعرا) قال الم نربک فینا ولید او لبثت فینا من عمرک سنین وفعلت فعلتک التی فعلت و انت من الکافرین قا ل فعلتھا اذا و انامن الضالین ففررت منکم لما خفتکم فوھب لی ربی حکما و جعلنی من المرسلین وتلک نعمۃ تمنھا علی ان عبدت بنی اسرائیل (شعرا) فقال لہ فرعون انی لا ظنک یموسیٰ مسحورا (بنی اسرائیل) قال اولو جئتک یشئی مبین (شعرا) قال ان کنت جئت بایۃ فات بھا (اعراف) ان کنت من الصادقین فالقی عصاء فاذا ہی ثعبان مبین ونزع یدہ فاذا ہی بیضاء للناظرین (شعرا) قال موسیٰ یافرعون انی رسول من رب العا لمین حقیق علی ان لا اقول علی اللہ الا الحق قد جئتکم بینۃ من ربکم فارسل معی بنی اسرائیل (اعراف) واستکبر ھو و جنودۃ فی الارض بغیر الحق وظنو انھم الینالا تر جعون (ہود) فاستکبرو وکانو قوما عالین (مومنون) مجرمین (یونس) قالو انو من لبشرین مثلنا وقو مھما لنا عابدون (مومن) فطلموا (اعراف) فکذبو اھما (مومن) فقالو ساحر کذاب (مومن) قال للملاء حولہ ان ھذا لساحر علیم بریدان یخرجکم من ارضکم بسحرہ فماذا تامرون قالواارجہ و اخاہ وبعث (شعرا) وارسل فی المدائن حاشرین یا توک بکل ساحر علیم (اعراف) قال اجئتنا التخرجنا من ارضنا بسحرک یاموسیٰ فلنا نیتک بسحر مثلہ فاجعل بیننا وبینک موعد الا نخلفہ نحن ولا انت مکانا سوی قال موعدکم یوم الزنیۃ وان بحشر الناس ضحی فتولیٰ فرعون فجمع کیدہ ثم اتی (طہ) قال فرعون انتونی بکل ساحر علیم (یونس) فجمع السحرۃ لمیقات یوم معلوم و قیل للناس ھل انتم مجتمعون لعلنا تتبع السحرۃ ان کانو ھم الغالبین (شعرائ) فلما جاء السحرۃ فرعون قالو ائن لنا لاجرا ان کنا نحن الغالبین قال نعم وانکم اذا لمن المقربین (شعرا) فتناعوا امر ھم بینھم و اسرو النجویٰ قالو ان یخرجا کم من ارضکم بسحر ہما و یذھبابطر یقتکم المثلی فاجمعوا کیدکم ثمرائتو ا صفا وقد افلح الیوم من استعلیٰ (طہ) قالوا یا موسیٰ اما ان تلقی واما ان اکون اول من القیٰ (طہ) واما ان لکون نحن الملقین فلما القوا سحروا عین الناس استر ہبوہم وجاؤا بسحر عظیم (اعراف) فالقواحبالہم وعصیھم وقالوابعزۃ فرعون انا لنحن الغلبون (شعرا) فاذا حبالہم وعصیہم یخبل الیہ من سحرہم انہا تسعی (طہ) فلما القوا قال موسیٰ ما جئتم بہ السحران اللہ سیبطلہ (یونس) فا وجس فی نفسہ خیفۃ موسیٰ قلنا لا تخف انک انت الاعلیٰ (طہ) و اوحینا الی موسیٰ ان القا عصاک فاذا ہی تلقف ما یا فکون(اعراف) فالقیٰ عصاہ فاذا ہی تلقف ما یافکون (شعرا) ماصنعوا انما صنعوا کید لساحرو لا یفلح السا جر حیث اتیٰ (طہ) فوقع الحق وبطل ماکانو ا یعملون فغلبوا ہنالک وانقلبوا ساغرین والقی السحرۃ ساجدین (اعراف) سجدا (طہ) قالو امنا برب العالمین رب موسیٰ و ہرون قال فرعون آمنتم بہ قبل ان اذن لکم ہذا لمکر مکر تموہ فی المدینۃ لتخرجوا منھا اہلھا فسوف تعلمون (اعراف) انہ لکبیر کم الذی علمکم السحر فلا قطعن ایدیکم وارجلکم من خلاف ولا صلبنکم فی جذوع النخل ولتعلمن اینا اشد وعذابا وابقی قالوا لن نوثرک علیٰ ما جائنا من البینات والذی فطرنا فا قض ماانت قاض (طہ) وما تنقم مناالا ان آمنا بایات ربنا لما جاء تنا ربنا افرغ علینا صبرا وتوفنا مسلمین (اعراف) ولقد اخذنا آل فرعون بالسنین ونقص من الثمرات لعلھم یذکرون فاذا جا ئتھم الحسنہ قالوالنا ہذا وان تصبہم سیئہ یطیروا موسیٰ ومن معہ الا انما طائرھم عنداللہ ولکن اکثرہم لایعلمون وقالوا مھما تاتنا بہ من آیۃ تسحرنا بھا فما نحن لک بمومنین فارسلنا علیہم الطوفان والجراد والقمل والضفادع والدم آیات مفصلات فاستکبروا کانوا قوما مجرمین (اعراف) فلما جاء تھم بایتنا مبصرۃ قالو ہذا سحر مبین وحجد وا بھا (نمل) ولقد اربناہ آیاتنا کلھا فکذب وابیٰ (طہ) فلما جائہم موسیٰ بایا تناقالوا ماھذا الا سحر مفتری وما سمعنا بھذافی آبا ئنا الاولین قال موسیٰ ربی اعلم بمن جاء بالھدی من عندہ ومن تکون لہ عاقبۃ الدار (قصص) قالوااجئتنا لتا فکنا عما وجدنا علیہ آبا ئنا و تکون لکما الکبریا ء فی الارض وما نحن لکما بمومنین (یونس) قال فرعون یا ایھا لملاء ماعلمت لکم من الہ غیری فا وقدلی یا ہامان علی الطین فاجعل لی (قصص) ابن لی (مومن) صرحا لعلی الطلع الی الہ موسیٰ (قصص)لعلی ابلغ الاسباب باب السموات (مومن) وانی لاظنہ منالکذبین (قصص) وجاء ہم (ای قوم فرعون) رسول کریم ان ادو الیٰ عباد اللہ انی لکم رسول آمین وان لا تعلوا علی اللہ انی آتیکم بسلطان مبین وانی عذت بربی وربکم ان ترجمون و ان لم تومنو ا لی فاعتنز لون (دخان) فلما جاء ہم الحق من عندنا قالوا اقتلوا بناء الذین امنو معہ واستحیوا نساء ھم وما کید الکافرین الا فی ضلل وقال فرعون ذرونی اقتل موسیٰ ولیدع ربہ انی اخاف ان یبدل دینکم او ان یظہر فی الارض الفساد (مومن) وقال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانہ اتقتلو ن رجل ان یقول ربی اللہ وقد جاء کم بالبینات من ربکم وان یک کاذبا فعلیہ کذبہ و ان یک صادقا یصبکم بعض الذی یعدکم ان اللہ لا یھدی ہو مسرف کذاب یقوم لکم الملک الیوم ظاہرین فی الارض فمن ینصرنا من باس اللہ ان جائنا قال فرعون مااربکم الا مااری وما اھدیکم الا سبیل الرشاد (مومن) وقال الذی امن یاقوم انی اخاف علیکم مثل یوم الاحزاب مثل داب قوم نوح و عاد وثمود الین من بعدھم وما اللہ یرید ظلما للعباد یا قوم انی اخاف علیکم یوم التناد یوم تولون مدبرین مالکم من اللہ من عاصم ومن یضلل اللہ فمالہ من ہاد (مومن) ولقد جاء کم یوسف من قبل بالبینات فما زلتم ی ک مما جاء کم بہ حتی اذا اہلک قلتم من یبعث اللہ من بعدہ رسولا ۔ (مومن) وقال فرعون یا ہامان ابن لی صرحا لعلی ابلغ الاسباب اسباب السموات فاطلع الی الہ موسیٰ وانی لاظنہ کاذبا وکذالک زین لفرعو ن سوء عملہ وصد عن السبیل وما کید فرعون الا فی تباب ۔ (مومن) ان قارون وکان من قوم موسیٰ فبغی علیہم و آیتناہ من الکنوز ما ان مفا تحہ لتنئو بالعصبۃ اولی القوۃ از قال لہ قوملا تفرح ان اللہ لا یحب الغرحین واتبع فیما اتا ک اللہ الدار الاخرہ ولا تنس نصیبک من الدنیا واحسن کم احسن اللہ الیک ولا تبیغ الفساد فی الارض ان اللہ کا یحب المفسدین قال انما اوتینہ علی علم عندی اولم یعلم ان اللہ قد اہلک من قبلہ من القرون من ہو اشدمنہ قوۃ واکثر جمعا ولا یسل عن ذنوبھم المجرمون فخرج علی قومہ فی زینۃ قال الذین یریدون الحیوۃ الدنیا یا لیت لنا مثل ما اوتی قارون انہ۔ لذواحظ عظیم وقال الذین اوتوا العلم ویلکم ثواب اللہ خیر لمن آمن وعمل صالحا ولا بلقاہا الا الصابرون فخسفنا بہ وبدارہ الارض فما کان لہ فمن فئۃ ینصرونہ من دون اللہ وما کان من المنتصرین واصبح الذین تمنوا بامکانہ باالامس یقولون ویکان اللہ یبیسط الرزق لمن یشاء من عبادہ ویقدر لہ لولا ان من اللہ علینا لخشف بنا ویکانہ لا یلفح الکافرون (قصص) ونادیٰ فرعون فی قومہ قال یقوم الیس لی ملک مصر وہذا الانھار وتجری من تحتی افلا تبصرون ام ان خیر من ہذا الذی ہو مہمین ولا یکاد یبین فلولا القی علیہ اسورۃ من ذہب اوجا ء معہ الملائکۃ مفترلین (زحرف) ولما وقع علیھم الرجز قا لوا یا موسیٰ ادع لنا ربک بما عہد عندک لئن کشفت عنا الرجز المومنین ولنرسلن معک بنی اسرائیل فلما کشفنا عنھم الرجز الی اجل ھم بالغوہ اداہم ینکثون (اعرا) واخذنا ھم بالعذاب لعلھم یرجعون وقالو یا یھا الساحر ادع لنا ربک بما عہد عندک اننا لمہتدون۔ (زحرف) قال موسیٰ ربنا انک آتیت فرعون وملائہ زینۃ واموالا فی لحیوۃ الدنیا ربنا لیضلوا عن سبیلک ربنا اطمس علی اموالہم واشدوا علی قلوبہم فلا یومنوا حتی یرو العذاب الالیم قال قد اجبت دعو تکما فاستقیما ولا تتبعان سبیل الذین لا یعلمون (یونس) قال موسیٰ لقومہ استعبنوا بالللہ واصبرو ان الارض اللہ یورثہا من یشاء من عبادہ والعا قبۃ المتقین قالوا و ذینا من قبل ان تاتینا ومن بعد نماجئنا قال عیسیٰ ربکم ان یھلک عدوکم و یستخلفکم فی الارض فینظر کیف تعلمون (اعراف) ولقد اوحینا الیٰ موسیٰ ان اسر بعبادی فاضرب لہم طریقا فی البحر یبسا لا نخاف درکا ولا تخشیٰ (طہ( فاسربعبادی لیلا انکم متبعون واترک البحر وہوانہم جند مغرقون (دخان( ان اضرب بعصاک البحر فانقلق فکان کل فوق کالطود العظیم (شعرا) واذ فرقنا بکم البحر فانجینکم واغرقنا آل فرعون وانتم تنظرون (بقر) فاتبعو ہم مشرقین فلما تراء الجمعان قال اصحاب موسیٰ ان امدرکون قال کلا ان معی ربی سییدین (شعرا) فاتبعہم من الیم ماغشیہم واضل فرعون قومہ وما ہدی (طہ) واز لفنا ثم الاخرین وانجینا موسیٰ ومن معہ اجمعین ثم اغرقنا الاخرین (شعرا) فانتقمنا منہم فاغرقنا ہم فی الیم نانہم کذبوا یا یاتنا وکانوا عنہا غافلین فاخذناہ وجنودہ فنبذناہم فی الیم (قصص) فارادان یستفرہم من الارض فاغرقنا ہ ومن معبہ جمیعا وقلنا من بعدہ لبنی اسرائیل اسکنو الارض فاذاجاء وعد الاخرۃ جئنا بکم لفینا۔ (بنی اسرائیل) وظللناعلیکم الغمام وانزلنا علیکم المن والسلوی کلو من طیبات ما رزقنا کم وما ظلمونا ولکن کانو انفسھم یظلمون (بقر) ونزلناعلیکم المن والسلوی کلوا من طیبات ما رزقنکم ولا تطغو فیہ فیحل علیکم غضبی ومن یحلل علیہ غضبی فقد ہویٰ (طہ) قطعنا ہم اثنتی عشرۃ اسباط امما و اوحینا الی موسیٰ اذا استسقاء قومہ ان اضرب بعصاک الحجر فانجست (اعراف) فانفجرت منہ اثنتا عشرۃ عینا قد علم کل اناس مشربہم کلوا واشربو ا من رزق اللہ ولا تعصوا فی الارض مفسدین (بقر) واذ قتلتم یاموسیٰ لن نصبیرعلی طعام واحد فادع لنا ربک یخرج لنا مماتنبت الارض من بقلہا وقثاء ہا وفومہا و عدسہا وبصلھا قال اتستبدلون الذی ہو ادنی بالذی ہو خیرا ہبطوا مصر افان لکم ما سالتم۔ وجا وزنا یببنی اسرائیل البحر فاتو علی قوم یعکفون علی اصنام لہم قالو ا یاموسیٰ اجعل لنا الھا کما لھم الہۃ قال انکم قوم تجہلون ان ہولاء متبر ماہم فیہ و باطل ماکانوا یعملون (اعراف) او اذ قلنا ادخلو ہذہالقریہ فکلو منہا ھیث ششتم رغدا وادخلو الباب سجدو قولو حطۃ نغفرلکم خطابا کم وسنزید المحسنین فبدل الذین ظلموا قولا غیر الذی قبل لہم فارسلنا علیہم رجزا من السماء بما کانوا یفسقون (بقر) یظلمون (اعراف) ولما جاء موسیٰ لمیقا تنا وکلمہ ربہ قال رب ارنی انظر الیک قال لن ترانی ولکن انظر الی الجبل فان استقر مکا نہ فسوف ترانی فلما تجلی ربہ اللجبل جعلہ دکا وخر موسیٰ صعقا فلما افاق قال سبحانک تبت الیک وانا اول المومنین قال یموسیٰ انی اصطفیتک علی الناس برسا لاتی وبکلا می فخذ ما اتیتک وکن من الشاکرین (اعراف) واز قلتم یا موسیٰ لن نو من لک حتیٰ نری اللہ جرۃ(بقر) واختا ر موسی قومہ سبعین رجلا لمیقاتنا (اعراف) فاخذتکم الصعقۃ وانتم تنظرون ثم بعثنکم من بعد موتکم لعللم تشکرون (بقر) فلما اخذتہم الرجفہ قال رب لو شئت اہلکتہم من قبل وایای (اعراف) وان اخذنا میثاقکم ورفعنا فوقکم الطور خذ واما اتینکم بقوہ واذکروا مافیہ لعلکم تتقون (بقر) وازنتقنا الجبل فوقہم کانہ ظلۃ وظنوا انہ واقع بہم خذوا وما اتینا کم بقوۃ (اعراف) وما اعجلک عن قومک یاموسیٰ قال ہم اولاء علی اثری و عجلت الیک رب لترضی (طہ) و واعدنا موسیٰ ثلثین لیلہ واتممنہا بعشرفتم میقات ربہ اربعین لیلۃ وقال موسیٰ لاخیہ ہارون اخلفنیفی قومی واصلح ولا تتبع سبیل المفسدین (اعراف) واتخذ قوم موسیٰ من بعدہ من حلبھم عجلا جسد الہ خوار (اعراف) قال فانا قد فتنا قومک من بعدک واضلھم السامری (طہ)فاخرج لھم عجلا جسدالہ خوار فقالو ہذا الہکم والہ موسیٰ فنسی افلا یرون ان لا یرجع الیہم قولاولا یملک لہم ضروا ولا نفعا ولقد قا لہم ہارون من قبل یاقوم انما فتنتم بہ وان ربکم الرحمان فاتبونی واطیعو امری قالو الن نبرح علیۃ عاکفین حتیٰ یرجع الینا موسیٰ(طہ) فرجع موسیٰ الی قومہ غضبان اسقا (طہ) قال موسیٰ لقومہ یا قوم انکم ظلمتم انفسکم باتخاذکم العجل فتو بوا الیٰ با رئکم فاقتلوا انفسکم ذالکم خیر لکم عند با ربکم ( بقر) ان الذین اتخذو العجل سینالہم غضب من ربہم وذلۃ فی الحیوۃ الدنیا (اعراف) قال یاقوم الم بعد کم ربکم وعد احسنا افطال علیکم العہد ام اردتم ان یحل علیکم غضب من ربکم فاخلفتم موعدی (طہ) قال بئسما خلفتمو نی من بعدی اعجلتم امر ربکم ، والفی الا الواح واخذ براس اخیہ بحرہ الیہ قال ابن ام القوم استضعفونی وکادوا یقتلوننی فلا تشمت بی الاعداء ولا تجعلنی مع القوم الظالمین (اعراف) انی خشیت ان تقول فرقت بین بنی اسرائیل ولم ترقب قولی (طہ) قالو ما اخلفنا موعدک بملکنا ولکنا حملنا اوزار امن زینۃ القوم فقذ فناہا فکذالک القی السامری (طہ) قال فما خطبک یا سامری قال بصرت بمالم یبصروا بہ فقبضت قبضۃ من اثر الرسول فنبذتہا وکذالک سعلت فی نفسی قال فاذہب فان لک فی الحیواۃ ان تقول لا مساس۔ (طہ) فلما سکت عن موسیٰ الغضب اخذ الالواح وفی نسختھا ہدی ورحمۃ للذین ہم یرہبون (اعراف) ثم آتینا موسی الکتاب تماما علی الذی احسن و تفصیلا لکل شئی وھدی ورحمۃ لعلہم بلقاء ربہم یومنون (انعام) واذ اخذنا میثاق بنی اسرائیل وبعثنا منہم اثنا عشر نقیبا وقال اللہ انی معکم لان اقمتم الصلوۃ واتیتم الزکوۃ و آمنتم برسولی وعزرتموہم واقرضتماللہ قرضا حسنا۔ (مائدہ) اذ قال موسیٰ لقومہ ان اللہ یامرکم ان تذ بحوا بقرۃ قالوا تتخذنا ہزوا قال اعوذ باللہ ان اکون من الجاہلین قالو ادع لنا ربک یبین لنا ماہی قال انہ یقول انہا بقرۃ لا فارض ولا بکر عوان بین ذالک فافعلو ما تو مرون قالوا ادع لنا ربک یبین لنا مالونہا قال انہ یقول انہا بقرہ صفرا فا قع لونہا تسر الناظرین قالوا ادع لنا ربک یبین لناماہی ان البقر تشابہ علینا وانا ان شاء اللہ لمھتدون قال انہ یقول انہا بقرۃ لا ذلول تثیر الارض ولا تسقی فیہا قالوا الان جئت بالحق فذبحو ہا وما کادوا یفعلون (بقر) یا قوم ادخلو الارض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم ولاتر تدوا علی ادبارکم فتنقلبوا خسرین قالوا یا موسیٰ ان فیہا قوما جبارین وانا لن تدخلہا حتی یخر جوا منہافان یخرجوا منہا فانا داخلون قال رجلان من الذین یخافون انعم اللہ علیہا ادخلو علیہم الباب فاذا دخلتموہ فانکم غالبون وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مومنین قالوایاموسیٰ انا لن ندخلھا ابدا ما داموا فیہا فاذہب انت وربک فقاتلا ان ہہناقاعدون قال رب انی لا املک الا نفسی واخی فاقرق بیننا وبین القوم الفاسقین قال فانھا محرمۃ علیہم اربعین سنۃ یتیہون فی الارض فلا تاس علی القوم الفا سقین(مائدہ) ہم ٹھیک تجھ کو سنا دیں ایمان والوں کے لیے موسیٰ و فرعون کی کچھ خبریں فرعون دنیا میںبہت بڑھ گیا تھا اور مصر کے رہنے والوں کو گروہ گروہ بتا دینا تھا اور ان میں سے ایک گروہ کو زبون حالت میں پہنچا دیا تھا ۔ ذبح کر ڈالتا تھا ان کے بیٹوں کو اور جیتا رہنے دیتا تھا انکی بیٹیوں کو اوروہ مفسدوں میںسے تھا ۔ فرعون والے نبی اسرائیل کو بری طرح کے عذاب پہنچا تے تھے ۔ بنی اسرائیل کے بیٹوں کو مارڈالتے تھے ذبح کر ڈالتے تھے اور ان کی بیٹیوں کو جیتا رہنے دیتے تھے اور اس میں بنی اسرائیل پر ان کے پروردگار کی طرف سے بڑی بلا تھی ۔ ہم نے ان پر جو دنیا میں کمزور ہوگئے تھے مہربانی کرنی چاہی اور انکو سردار بنانا اور ان کو وارث بنانا اور زمین پر قدرت والا ٹھہرانا اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو جس بات سے وہ ڈرتے تھے ان کے ہاتھ سے دکھلانا چاہا۔ ہم نے موسیٰ کی ماں کے دل میںیہ بات ڈالی کہ موسیٰ کو دودھ پلاوے جب اس کو موسیٰ کے مارے جانے کا خوف ہو تو ا سکو ایک صندوق میںرکھ دے پھر اس کو ڈال دے پھینک دے دریا میںپھر دریا میں اس کو کنارہ پر ڈال دے گا ۔ اس کو اٹھا لے گا میرا دشمن اور اس کا دشمن اور تو مت ڈر اور نہ غمگین ہو ہم اس کو پھر تیرے پا لوٹا دیں گے اور اس کو رسولوں میں سے کریں گے۔ (جب موسیٰ کی ماں نے ان کو دریا میںڈال دیا اور وہ صندوق کنارہ پر آلگا) تو فرعون کے لوگوں میں سے کسی نے اس کو اٹھا لیا ۔ موسیٰ کی بہن نے دور سے اس کو دیکھا اور فرعون والے نہیں جانتے تھے ۔ فرعون کی عورت بولی کہ یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اس کو مت مارو شاید اس سے ہم کو نفع ہو اور ہم اسکو بیٹا بنا لیں ہم نے پہلے ہی پلا ئیوں کا دودھ اس پر حرام کر دیا تھا ۔ موسیٰ کی بہن بولی کہ کیا میںتم کو ایسی گھر والی بتا دوں جو تمہارے لئے اس کو پالے اور اس کو اچھی طرح رکھیں (ا س نے موسیٰ کی ماں ہی کو بتایا) پھر ہم نے موسیٰ کو اس کی ماں کے پاس ہی لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک رہے اور غمگین نہ ہو۔ جب موسیٰ چاق و چوبند ہوا تتو شہر والوں کی بے خبری میںشہر میں گیا وہاں اس نے دو آدمیوں کو ماتے مرتے پایا ۔ ایک تو موسیٰ کی قوم کا تھا اور ایک اس کے دشمنوں میں سے تھا موسی کی قوم والے نے اس کے دشمنوں کی فریاد کی موسیٰ نے اس کو گھونسا مارا کہ وہ مرگیا ۔ پھر شہر ہی میںڈرتے ہوئے اور کسی خرابی کے آنے کی توقع میں صبح کی جس مدد موسیٰ نے کل کی تھی اور اس نے موسیٰ کو پکارا موسیٰ نے اسے کہا تو ہی علانیہ جھگڑالو ہے پھر موسیٰ نے اس کے جو اس کا اور موسیٰ کا بھی دشمن تھا پکڑنے کا ارادہ کیا (جو چلا یا تھا وہ یہ سمجھا کہ موسیٰ مجھی کو پکڑے گا) کہا اے موسیٰ کیا تو میرے مار ڈالنے کا بھی ارادہ کرتا ہے جس طرح کہ کل تو نے ایک آدمی کو مار ڈالا ہے۔ اتنے میں ایک آدمی شہر کے پرلے کنارے سے دوڑتا آیا کہا اے موسیٰ فرعون کے درباری تیری نسبت مشورہ کرتے ہیں کہ تجھ کو مار ڈالیں پس یہاں سے نکل جا میںتیرا خیر خواہ ہوں۔ پھر موسیٰ ڈرتا ہوا اور کسی آفت کی توقع کرتا ہوا وہاں سے نکلا اور کہا اے پروردگار اس ظالم قوم سے مجھے بچا۔ موسیٰ نے اپنے ساتھی جوان سے (غالبا اسی شخص سے جس نے آکر قتل کے مشورہ کی خبر دی تھی ) کہا کہ میں ٹھہرنے کا ہی نہیں جب تک دو دریاؤں کے ملنے کے مقام تک نہ پہنچ جاؤں یا چلا جاؤں گا بہت دنو ں تک (یعنی اس سے بھی پرے) پھر وہ جب دونوں دریاؤں کے ملنے کے مقام تک پہنچے تو اپنی مچھلی وہاں رکھ کر بھول گئے پھر مچھلی نے خشک جگہ میںسے دریا کارستہ لیا پھر جب وہ اس سے آگے بڑھے تو موسیٰ نے اپنے ساتھی جوان سے کہا کہ ہمار ا صبح کا کھانا لاؤ ہم نے تو اس سفر میں بڑی مصیبت اٹھائی اس جوان نے کہا کہ تم نے دیکھا ہوگا کہ جب ہم اس پتھر سے تکیہ لگا کربیٹھے تو میں اس مچھلی کو بھو ل گیا (یعنی اس کا خیال نہ رہا) اور اس قصہ کا ذکر کرنا (یعنی موسیٰ سے ) بجز شیطان کے کسی نے مجھ کو نہیں بھلایا او رمچھلی نے عجب طرح سے دریا میں اپنا رستہ لیا موسیٰ نے کہا یہی ہے جو ہم چاہتے تھے (یعنی دونوںدریاؤں کے ملنے ہی تک ہم آنا چاہتے تھے اب آگے کیوں جاویں) پھر وہ دونوں بندوں کو میرے بندوں میں سے ایک بندہ ملاجس پر میںنے اپنی مہربانی کی تھی اور اس کو میں نے دانش مندی سکھا دی تھی موسیٰ نے اس سے کہا کہ کیا میںتمہارے ساتھ ہو لوںاگر مجھ کو بھی ان دانشمندیوں میں سے جوتم نے سیکھی ہیں سکھلا دو اس بندے نے کہا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے اور تم کس طرح پر اس بات پر صبر کرو گے جو تمہارے دانش کے احاطہ میںنہیں ہے ۔ موسیٰ نے کہا انشا ء اللہ تم مجھ کو صبر کرنے والا پاؤگے اور میں تمہارے کسی کام میں برخلافی نہ کروںگا اس بندے نے کاہ کہ اگر تم میری تابعداری کرنا چاہتے ہو تو جب تک میں خود ہی نہ کہہ دوں مجھ سے کسی بات کو مت پوچھنا پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب ایک کشتی پر سوار ہوئے تو اس بندے نے کشتی میںسوراخ کردیاموسیٰ نے کہا کہ کیا تم نے کشتی کے لوگوں کے ڈبونے کے لیے اس میں شگاف کیا ہے اس بندے نے کہا کہ دیکھو تم نے یہ بری بات کی اس بندے نے کہا کہ میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے موسیٰ نے کہا کہ جو بات میںنے بھول کر کہی اس پر مواخذہ مت کرو اور میرے ساتھ کام میںسختی مت ڈالو پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب ایک نوجوان سے ملے تو اس بندے نے اس نوجوان کو مارڈالا موسیٰ نے کہا کہ تم نے ایک شخص بے گناہ کو بغیر جان کے بدلے مارڈالا۔ دیکھو تم نے برا کام کیا اس بندے نے کہا میں نے تم سے نہ کہاتھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے موسیٰ نے کہا کہ اگر اس کے بعد میںتم سے کوئی بات پوچھوں تو پھر مجھ کو اپنے ساتھ مت رکھنا میں اپنا عذر تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوںکے پاس پونچے تو ان سے کھانا مانگا انہوں نے ان کو کھانا کھلانے سے انکار کیا وہاں ان دونوں نے ایک دیوار دیکھی کہ گر پڑنا چاہتی ہے ان دونوں نے اس کو سیدھا بنا دیا حضرت موسیٰ کو بھوک لگی ہوئی تھی کسی نے کھانے کو دیا نہ تھا ٹکاپیسہ پاس نہ تھا انہوں نے اس بندے سے کہا کہ اگرتم چاہتے تو اس پر مزدوری لے لیتے اس بندے نے کہا کہ بس اب مجھ میں اورتجھ میں جدائی ہے میں ان باتوں کی تاویل جن پر تم صبر نہ کرسکے بتا دیتا ہوں وہ کشتی تو غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں کھیواکھیا کرتے تھے۔ میں نے اس کو عیب دار کر دینا چا ہا ان کے پرے ایک بادشاہ ہے جو زبردستی سے ہر ایک کشتی کو پکڑ لیتا ہے اور وہ نوجوان اس کے ماں باپ ایمان والے ہیں مجھ کو خوف ہوا کہ یہ ان کو سرکشی و کفر میںتنگ کرے گا پس میںنے چاہا کہ جب وہ دونوں جوانی میںبھر پور ہوںوہ اپنا خزانہ نکال لیں تیر ے پروردگار کی مہربانی سے اور میں نے یہ کام اپنی طرف سے نہیں کیے یہ بیان ان باتوں کا ہے جن پر تو صبر نہ کر سکا۔ اور جب موسیٰ شہر مدین کی طر ف چلے تو کہا کہ امید ہے کہ میرا پروردگار مجھ کو سیدھا رستہ بتا دے اور جبکہ شہر مدین کے پانی کے پاس پہنچے تو وہاں لوگوں کے گروہ کو (مویشی کو) پانی پلاتے پایا اور اس کے پرے دو عورتوں کو پایا کہ اپنے مویشی روکے کھڑی ہیں موسیٰ نے کہا کہ تمہارا کیاحال ہے انہوں نے کہا کہ جب تک چرواہے پانی پلا کر نہ لے جاویں ہم نہیں پلا سکتیں اور ہمارا باپ بڈھا ہے پھر موسیٰ نے ان دونوں کے مویشی کو پانی پلا دیا پھ چھاؤں میںجا کھڑے ہوئے پھر کہا کہ اے میرے پروردگار تو نے میری ایسی حالت کر دی ہے کہ تھوڑی سی بھلائی کا بھی محتاج ہوں پھر ان دونوں میں سے ایک شرمیلی چلتی ہوئی موسیٰ کے پاس آئی کہا میرے باپ نے تجھ کو بلایا ہے تاکہ ہمارے (مویشی کو) جوپانی تو نے پلایا ہے اس کی اجرت دے پھر جب موسیٰ اس کے پاس (یعنی اس عورت کے باپ کے پاس) آئے اور اپنا قصہ اس سے کہا تو اس نے کہا کہ مت ڈرو تم نے ظالم قوم سے نجات پائی اس کی بیٹیوں میں سے ایک نے کہا کہ اے باپ اس کو مزدوری پر رکھ لے ۔ اچھا مزدور جس کو مزدوری پر لگا دے طاقت ور اور دیانت دار ہونا چا ہیے اس شخص نے موسیٰ سے کہا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ اپنی دو بیٹیوں میںسے ایک کا نکاح تجھ سے کر دوں اس بات پر کہ توآٹھ برس تک میرے ہاں مزدوری کرے پھراگر تو دس برس پورے کرے دے تو تیری طرف سے ہوگا میں تجھ پر مشقت ڈالنا نہیں چاہتا تو مجھ کو انشاء اللہ اقرار پورا کرنے والوں میں پاوے گا موسیٰ نے کہا کہ مجھ میں اور تجھ میںیہ اقرار ہوچکا ان دونوں میں سے جونسی میںپوری کر دوں توپھر مجھ پر زیادتی نہ ہو اور جو میں کہتا ہوں۔ خدا اس مددگار ہے۔ پھر موسیٰ اہل مدین میں چندسال رہا پھر تو اے موسیٰ وقت پرآگیا۔ پھر جب موسیٰ نے میعاد مقررہ پوری کی اوراپنی بی بی کو لے کر چلا تو اس کو پہاڑ کی جانب سے آگ معلوم ہوئی موسیٰ نے اپنی بیوی سے کہا کہ ٹھہرو مجھے آگ معلوم ہوئی شاید میں وہاں سے کچھ خبرلے آؤں یا ایک بھڑکتی ہوئی لکڑی اٹھا لاؤں یا آگ کا انگارہ لے آوں تاکہ تم تاپو یا آگ کے پاس کوئی راہ بتانے والاپاؤ پھر جب موسیٰ آگ کے پاس آیا تو جنگل کے دائیں کنارے سے پہاڑ کی دائیں طرف سے اس مبارک جگہ میں درخت میں سے کسی نے اس کو آواز دی کہ جو آگ میںہے اور جو اس کے گرد ہے اس کو برکت دی گئی ہے اور اللہ پاک ہے اور تمام عالموں کا پالنے والا ہے اے موسیٰ بے شک میںہی خدا ہوں سب پر غالب اور بڑی حکمت والا بے شک میںہی خدا ہوں تمام عالموں کا پالنے والا بیشک میںتیرا خدا ہوں پھر جوتیاں اتار ڈال بے شک تو پاک جنگل میں پھرتا ہے ۔ اے موسیٰ یہ کیاتیرے دائیں ہاتھ میںہے موسیٰ نے کہا کہ یہ میری لاٹھی ہے اس کو میں ٹیک لیتا ہوں اور اس سے اپنے ریوڑ پر پتے جھاڑ لیتا ہوں اوروہ میرے کام میں بھی آتی ہے خد ا نے کہا کہ اپنی لاٹھی ڈال دے (جب ڈال دی ) تو لاٹھی کو ہلتے ہوئے دیکھا گویا کہ وہ سانپ ہے تو موسیٰ پیٹھ پھیر کر پلٹا اور پیچھے پھر کر بھی نہ دیکھا خدانے کہا اے موسیٰ آگے بڑھ اس کوپکڑ لے اور مت ڈر وہ جیسی پہلی تھی ویسے ہی ہو جاوے گی ڈال اپنا ہاتھ اپنے گریباں میں اور اپنے ہاتھ کو اپنے بازو سے ملا دے تیرا ہاتھ بے عیب سفید نکلے گا بطور ایک دوسری نشانی کے جو ڈر تجھ کو ہواہے اس سے اپنے کو دونوں نشانیاں ہیں تیرے پروردگار کی نو نشانیاں میں سے فرعون اور اس کے دربا ریوں کے لیے بیشک وہ بدکار قوم ہے اور ہم نے موسیٰ کو باتیں کرنے سے مقرب کیا۔ پھر ہم نے موسیٰ کو اور اس کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور علانیہ غلبہ کے ساتھ فرعون اور اس کے دربایوں ہامان اور قارون کے پاس بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیرے سے روشنی میں نکال لاوے۔ جاؤ ظالم قوم کے پا س جو فرعون کی قوم ہے جا فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہے موسیٰ نے ک ہا کہ اے پروردگار میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلا دینگے اے پروردگار میں نے ان میں کا ایک آدمی مار ڈالا ہے۔ میں ان کا قصور کیاہے پھر میں ڈرتا ہوں کہ وہ مار ڈالیںگے ۔ میرے سینے میں دم گھٹ جاتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی۔ اے پروردگار میرے سینہ کو کھول دے اور میرا کام مجھ پر آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھیں او رمیرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے میرے کنبہ میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر کر پھر ہارون کو میرے پاس بھیج پھر اس کو میرے ساتھ بطور مددگار کے بھیج خد انے کہا میں تیرے بازو کو تیر ے بھائی سے مضبوط کر دوں گا اور تم دونوں کو وہ غلبہ دوںگا۔ خدا نے کہا اے موسیٰ جو تونے مانگا تجھ کو دیا گیا جاتو اور تیرا بھائی میری نشانیوں سمیت اور سستی نہ کرو میرے نصیحت میںتم دونوں فرعون پاس جاؤ کہ وہ سرکش ہے خدا نے کہا کہ وہ ہر گز تم کو نہ مار سکیں گے پھر تم دونوں میری نشانیوں سمیت جاؤ میںتمہارے ساتھ ہوں تمہاری بات سنوں گا پھر فرعون کے پاس جاؤ اورپھر اس سے کہو کہ ہم دونوں تمام عالموں کے پروردگار کے رسول ہیں۔ ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے اور اس سے نرم بات کہو شاید کہ نصیحت مانے اور خوف کرے انہوں نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار بے شک ہم ڈرتے ہیں کہ ہم پر زیادتی کرے یا ہم سے سرکشی کرے خدا نے کہا کہ ہم تم مت ڈرو میںتمہاری ساتھ ہوں تمہاری بات سنوں گا اور تم کو دیکھتا رہوںگا پھر اس کے پاس جاؤ موسیٰ گئے اور کہا کہ تجھ کو پاک ہونے کی کچھ خواہش ہے اور میں تجھ کو تیرے پروردگار کی راہ بتاؤں تاکہ تو خوف کرے خدا نے کہا کہ تم دونوں فرعون سے کہو کہ ہم دونوں تیرے پروردگار کے رسول ہیں پھر ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دو اور ان کو عذاب مت دے ہم تیرے پروردگار کی نشانی لائے ہیں فرعون بولا اے موسیٰ تمہارا پروردگار کون ہے۔ موسیٰ نے کہا کہ ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے تمام چیزوں کی خلقت ان کو عطا کی ہے پھر سیدھی راہ بتائی ہے فرعون نے کہا کہ پھر اگلے زمانے کے لوگوں کا کیا حال ہے۔ موسیٰ نے کہا کہ اس کی خبر خدا کو ہے۔ فرعون نے کہا کہ تمام عالموں کا خدا کون ہے موسیٰ نے کہا جو آسمانو کا اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اس سب کا پروردگار ہے اگرتم یقین لاؤ۔ فرعون نے ان لوگوں سے جو اس کے اردگرد تھے کہا کہ کیا تم نہیں سنتے ہو موسیٰ نے کہا کہ تمہارا پروردگار اور ہم سب کے باپ دادا کا۔ فرعون نے اپنے دربایوں سے کہا کہ تمہارے پاس جو رسول آیا ہے البتہ دیوانہ ہے موسیٰ نے کہا (کہ تمام عالموں کا خدا وہی ہے ) جو مشرق و مغرب کا اور جو اس میں ہے اس سب کا پروردگار ہے اگر تم سمجھتے ہو فرعون نے کہا کہ اگر تونے میرے سوا اور کسی کو خدا ٹھہرایا تو میں ضرور تجھ کو قید میں داخل کر وں گا ۔ فرعون نے کہا کہ کیا ہم نے تجھ کو نہیںپالا جب کہ تو ہم میںبچہ تھا اور کیا تو نے بسر نہیں کیے ہم میںاپنی عمر کے چند سال او رتو نے وہ کام کیا جو کیا اور تو ناشکروں میںہے موسیٰ نے کہا کہ میں نے کیا تھا جب کہ وہ گمراہوں میں تھا۔ پھر میں تم سے ڈرا اور تم میں سے بھاگ گیا پھر خدا نے مجھ کو حکم دیا اور مجھ کو پیغمبروں میں سے کیا اور یہ بھلائی جس کا احسان تومجھ پر رکھتا ہے اس بناء پر ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے فرعون نے موسیٰ سے کہا کہ میں تجھ کو سحر زدہ سمجھتا ہوں ۔ موسیٰ نے کہا کہ جب بھی اگرمیں کوئی بڑی نشانی لاؤں۔ فرعون نے کہا کہ اگر تو کوئی نشانی لا سکتا ہے تو اس نشانی کو لا اگر تو سچا ہے ۔ پھر موسیٰ نے اپنی لاٹھی ڈال دی پھر یکایک ہو بہو سانپ تھی اور اپنا ہاتھ نکالا پھر یکایک دیکھنے والوں کو چمکتا معلوم ہوتا تھا ۔ موسیٰ نے کہا اے فرعون میں پروردگار عالموں کا رسول ہوں مجھ کو لائق ہے کہ میں خدا پر سوائے سچ کے اور کچھ نہ کہوں میں لایا ہوں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی نشانی پھر میرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے پھر فرعون اور اس کے لشکروں نے بغیر کسی حق کے دنیا میں تکبر کیا اور گمان کیا کہ وہ ہمارے پاس نہ پھریں گے پھر انہوں نے تکبر کیا اور وہ ایک قوم بڑھی ہوئی تھی ۔ گنہ گار تھی ۔ بولی کہ کیاہم ایسے دو شخصوں پر ایمان لاویں جو ہمارے سے ہیں اور ان کی قوم ہماری غلام ہے پھر انہوں نے ظلم کیا۔ اور ان دونوں کو جٹھلایا اور کہا کہ جھوٹے جادوگر ہیں۔ فرعون نے اپنے اردو گرد کے درباریوں سے کہا کہ یہ جادوگر بڑا جاننے والا ہے چاہتا ہے کہ تم کو تمہارے ملک سے اپنے جادو سے نکال دے پھر تم کیا کہتے ہو۔ وہ بولے کہ ا س کو اور اس کے بھائی کو مہلت دے اور شہروں میں (جادوگروں کے) اکٹھا لے آویںہر ایک بڑے علم والے جادوگر کو۔ فرعون نے کہا کہ اے موسیٰ کیا توہمارے پاس ہم کو ہمارے ملک سے اپنے جادو سے نکالنے کو آیا ہے پھر بے شبہ ہم بھی تیرے پاس ویسا ہی جادو لاویں گے پس کسی چوپٹ میدان میں ہم میں اور اپنے میں (مقابلہ کے لیے) کوئی وقت مقرر کر۔ نہ ہم اسکے برخلاف کریں اور نہ تو ۔ موسیٰ نے کہا کہ جشن کا دن تمہارے وعدے کا سہی اور تھوڑے دن چڑھے سب آدمی وہاں اکٹھے ہو جاویں پھر فرعون (اپنے محل میں) اور اپنے جادوگروں کو جمع کیا ۔ فرعون نے کہا کہ ہر ایک بڑے جادوگر کو بلاؤ پھر تمام جادوگر وقت معین پر جمع ہو گئے اور لوگوں سے کہا کہ کیاتم بھی اکٹھے ہوگے تاکہ اگر جادوگر غالب آویں تو ہم ان کا ساتھ دیں جب فرعون کے جادوگر فرعون کے پا س آئے تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم غالب ہوں تو ہمارے لیے کچھ انعام ہے فرعون نے کہا کہ ہاں تب توتم مقربوں میں سے ہو گے پھر ان کے باہم ان کے کام میں کچھ جھگڑا ہو ااورانہوں نے اپنے مشورہ کو چھپایا انہوں نے کہا کہ بے شبہ یہ دونوں جادوگر ہیں اور اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہارے ملک نکالنا اور تمہارے عمدہ مذہب کو کھو دینا چاہتے ہیں پس اپنے جادوگروں کو جمع کر کے کہا کہ پھر اکٹھے ہو کر چلو اور آج کے دن جو غالب ہوگا وہی کامیاب ہوگا چنانچہ (یوم موعود کو سب جمع ہوئے )فرعون کے جادوگروں نے موسیٰ سے کہا کہ یا تو تو پہلے ڈال یا ہم پہلے ڈالتے ہیں۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالوپھرجب انہوں نے ڈالا تو لوگوں کی آنکھوں پر ڈھٹ بند کر دی اور ان کو ڈرایا دیا اور بہت بڑا جادوگر لائے۔ جب انہوں نے اپنی رسیاںک اور لاٹھیاں ڈالیں اورکہا کہ فرعون کی عزت کی قسم ہم ہی غالب ہیں تب تو موسیٰ کے خیال میں انکی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو سے چلتی ہوئی لگنے لگیں موسیٰ نے کہا کہ یہ جو تم نے کیا یہ جادو ہے اس کو خدا باطل کر گیا مگر موسیٰ دل میں ڈر گیا خدا نے کہا مت ڈر تو ہی جیتے گا اور خدا نے موسیٰ کے دل میںڈالا کہ اپنی لاٹھی ڈال کہ وہ اس سب بناوٹ کو نگل جاوے گی۔ پھر موسیٰ نے اپنی لاٹھی ڈالی پھر س سب بناوٹ کو جو انہوں نے تو جادوگروں کا سامکر کیاتھا اور حق کے سامنے جادوگر کامیاب نہیں ہو سکتا پس حق ثابت ہوگیا اورجو انہوں نے کیا تھا وہ باطل ہوگیا پھر وہاں ہار کر ذلت سے لوٹ گئے اور فرعون کے جادوگروں نے سجدہ کیا بولے ہم پروردگار عالموں پر ایمان لائے جو موسیٰ و ہارون کا پروردگار ہے ۔ فرعون نے کہا کہ تم میرے اجاز ت سے پہلے موسیٰ پر ایمان لے آئے بے شبہ یہ مکر ہے جو تم نے اس شہر میںشہر والوں کے نکالنے کو کیا پھر تم جلد اس کا انجام جانو گے۔ موسیٰ ہی تمہارا گرو ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے ضرور میںتمہارے ہاتھ ایک طرف کے اور تمہارے پاؤں دوسری طرف کے کاٹوں گا او رتم کو کھجوروں کے درختوں کے تنوں کی سولی پرچڑھا دوں گا اور بلاشبہ تم جانو گے کہ کون سب سے زیادہ عذاب دینے میں سخت ہے اور کس کا عذاب زیادہ پائیدار ہے۔ وہ بولے کہ جو چیزیں علانیہ ہمارے سامنے ہوئی ہیں ان پر اور اس پر جس نے ہم کو پیدا کیا ہے تجھ کو ہم پر بجز اس کے کہ ہم اپنے پروردگار کی نشانیوں پر ایمان لائے ہیں اور کوئی گناہ نہیں ٹھرانا ۔ اے ہمارے پروردگار جب (یہ مصیبتں ) ہم پر آویں تو ہمارے (دل میں) صبر ڈال دے اور ہم کو مسلمان مار۔ اور بلاشبہ ہم نے فرعون والوں کو قحطوں میں اور پھلوں کی کم پیداوار میںگرفتار کیا شاید کہ و ہ نصیحت پکڑیں او ر پھر جب ان کو فراخی ہوتی تھی کو کہتے تھے کہ یہ تو ہمارے لیے ہے۔ جب ان پر سختی پڑتی تھی تو موسیٰ کی اور اس کے ساتھ کے لوگوں کی نحوست بتلاتے تھے ۔ سمجھو کہ اس کے سوا کوئی بات نہیں کہ جو نحوست اس کے لیے تھی وہ خدا کے پاس سے تھی مگر ان میں بہت سے لوگ نہیں جانتے فرعون والوںنے موسیٰ سے کہا کہ جو نشانیاں تم لاؤ گے تاکہ ہم پر ان سے جادو کرو توبھی ہم تجھ پر ایمان نہیں لانے کے پھر ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی دل اور جوئیں اور مینڈک اورخون کا (مینہہ) نازل کیا جد اجدا نشانیاں۔ پھر انہوں نے تکبر کیا اور وہ گنہگار قوم تھی ۔ جب ان کے پاس دکھائی دیتی ہوئی ہماری نشانیاں آئیںتو بولے کہ یہ تو کھلا ہوا۔ جادو ہے اور ان نشانیوں کا انکار کیا اور البتہ ہم نے فرعون کو اپنی تمام نشانیاں دکھلائیں پھر اس نے جھٹلایا اور انکار کیا اور جب موسیٰ ان کے پاس ہماری نشانیاں لے کر آیا تو بولے کہ یہ تو بجز بتنگڑ بنائے ہوئے جادو کے او ر کچھ نہیں ہے اور ہم نے اپنے اگلے پر کھاؤں سے ایسی بات نہیںسنی، موسیٰ نے کہا کہ میرا پروردگار جانتا ہے کہ کون اس کے پاس سے ہدایت لے کر آیا ہے اور کس کے لیے پیچھے کو اس گھر (یعنی عاقبت) کی بھلائی ہوگی ۔ فرعون والے بولے کہ کیا تو ہمارے پا س اس لیے آیا ہے کہ ہم کو اس بات سے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ہٹا دے اورتم دونوں کو دنیا میں بڑائی ہو اور ہم تم دونوں کو نہیں مانتے ہیں۔ فرعون نے کہ کہ اے درباریو میںتمہارے لیے اپنے سوا کوئی خدا نہیں جانتا پھر اے ہاماں میرے لیے مٹی کی اینٹیں آگ میںپکا اور میرے لیے اونچا محل بنا تاکہ میں موسیٰ کے خدا کے پاس چڑھ جاؤں اور میں تو اس کو جھوٹوں میں سمجھتا ہوں اور آیا فرعون کی قوم کے پاس ایک بزرگ پیغمبر( یعنی موسیٰ) یہ کہتا ہوا کہ میرے حوالے کر دو خدا کے بندوں کو بے شک میں تمہارے لیے خدا کا بھیجا ہوا امانت دار پیغمبر ہوں اور تم خدا پر سر کشی مت کرو۔ میں ضرور تمہارے سامنے کھلی دلیلیں لاتا ہوں بے شبہ میں نے اپنے پروردگار اور تمہارے پروردگار کی اس بات سے کہ تم مجھ کو سنگ سار کرو پناہ مانگی ہے اور اگر تم مجھ کو نہیں مانتے تومجھ سے جدا ہو جاؤ۔ پھر جب موسیٰ ان کے پاس ہمارے پاس سے حق بات لے کر آیا تو بولے کہ ان لوگوں کے بیٹوں کو مار ڈالو جو اس پر ایمان لائے ہیں اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دو حالانکہ کافروں کی مکاری بہ جز گمراہی کے اور کچھ نہیں اور فرعون نے کہا کہ مجھ کو چھوڑ دو (یعنی اجازت دو) کہ میںموسیٰ کو مار ڈالوں اور وہ اپنے پروردگار کو پکارا ہی کرے بلاشبہ مجھے خوف ہے کہ تمہارا دین بدل دے اور ملک میں فساد برپا کرے اور فرعون والوں میں سے ایک مسلمان شخص نے جو اپنے ایمان کو چھپاتا تھا کہا کہ کیا تم ایسے شخص کو مار ڈالو گے جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور تمہارے پاس تمہارے پروردگار سے نشانیاں لایا ہے اوراگروہ جھوٹا ہو تو اسکا جھوٹ اس پر ہے اور اگر وہ سچا ہے توتم کو بعضی وہ مصیبتیں پہونچیں گی جن کا وہ وعدہ کرتا ہے ہر گز خدااس شخص کو جو حد سے تجاوز کرنے والا دروغ گو ہو ہدایت نہیںکرتا ۔ اے میری قوم آج کے دن تمہارے لیے بادشاہت ہے دنیا پر غالب ہو پھر وہ خدا کے عذاب سے اگر وہ ہم پر آجاوے کون ہم کو مدد دے گا ۔ فرعون نے کہا کہ میںتم کو بہ جز اس کے جو میںدیکھتا یا سمجھتا ہوں اورکچھ نہیں سمجھاتا اور میںتم کو بہ جز راہ راست کے اور کچھ نہیں بتاتا اس شخص نے جو ایمان لے آیا تھا کہا کہ اے میری قوم بے شک میںتم پر ایسے دن کا جو اگلے گروہوں پرگذرا ہے خوف کرتا ہوں جسے قوم نوح اور عاد اور ثمود اور ان کی جو اس کے بعد ہوئیں حالت ہوئی اور خدا بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ نہیں کرتا اے میری قوم بے شک میںتم پر چل چلاہٹ پڑنے کے دن کا خوف کرتا ہوں اس دن کہ تم اوندھے منہ پیٹ پھیر کر پھرو گے کوئی تم کو خدا سے بچانے والا نہ ہوگا اور جس کو خدا گمراہ کرتا اس کو کوئی راہ بتانے والا نہیں ہوتا ۔ البتہ تمہارے پاس اس سے پہلے کھلی ہوئی نشانیاں لیکر یوسف آیا تھا پھر تم ہمیشہ ا س بات میںجو وہ تمہارے پا س لایا تھا شبہ میںرہے یہاں تک کہ جب وہ مر گیا تو تم نے کہا کہ ہر گز نہیں بھیجنے کا اللہ اس کے بعد کسی پیغمبر کو۔ فرعون نے کہا کہ اے ہامان میرے لیے ایک محل بناتا کہ میں رستوں تک آسمانوں کے رستوں تک پہنچ جاؤں پھر موسیٰ کے خدا کے پاس چڑھ جاؤں اور میں تو اس کو جھوٹا سمجھتا ہوں اور اسی طرح فرعون کے لیے اس کے بدعمل بھڑک دار کیے گئے اور سیدھے راستے سے روک دیا گیا تھا اور فرعون کے مکر بجزتباہی کے اور کچھ نہ تھے ۔ قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا پھر ان سے پھر گیا اور ہم نے اسکو اتنے خزانے دیے تھے کہ اس کی کنجیاں ایک قوی گروہ پر بھاری تھیں۔ جب اس کی قوم نے اس سے کہا کہ مت اترا کہ خدا اتر انے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور جو کچھ خدا نے تجھ کو دیا ہے اس میں آخرت کو ڈھونڈ اور اپنے حصہ کو دنیا میں سے مت بھول اور احسان کو جس طرح کہ خدا نے تجھ پر احسان کیا ہے اور دنیا میں فساد مت مچا کہ اللہ تعالیٰ مفسدوں کو دوست نہیںرکھتا۔ اس نے کہا کہ مجھ کو یہ دولت صرف میری دانائی کے سبب دی گئی ہے۔ کیا وہ یہ نہ سمجھا کہ بے شبہ خدا نے کسی زمانہ میں اس سے پہلے ان کو ہلاک کر دیا جو اس سے بھی زیادہ قوی او ر زیادہ دولت والے تھے اور کیا گنہگار اپنے گناہوں پر پوچھے نہ جاویںگے پھر قارون اپنی قوم کے سامنے تجمل سے نکلا جو لوگ دنیا ہی کی زندگی چاہتے تھے انہوں نے کہا کہ کاش ہمارے پاس بھی وہ کچھ ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے ۔ بے شک وہی بڑا صاحب نصیب ہے اور جن لوگوں کو دانش دی گئی تھی انہوں نے کہا کہ افسوس تم پر ، خدا کا ثواب ان کے لیے جو ایمان لائے ہیں اور اچھے کام کیے ہیں بہت اچھا ہے اور وہ بجز صبر کرنے والوں کے اور کسی کو نہیںملتا۔ پھر ہم نے قارون کو اس کے گھر سمیت زمین میں دھنسا دیا پھر کوئی گروہ خدا کے سوا نہ اس کے لیے تھے نہ جو اس کی مدد کرے اور نہ وہ اپنے آپ مدد کرسکتا تھا اور جن لوگوں نے کل ا سکے مرتبہ کی تمنا کی تھی انہوں نے یہ کہتے ہوئے صبح کی اوھو ، اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کو فراخ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کرتا ہے اگر خدا ہم پر احسان نہ کرتا تو ہم کو بھی دھنسا دیتا ۔ اوہو وہ نہیں فلاح پہونچاتا کافروں کو۔ اور فرعون نے اپنے لوگوں میں پکار کر کہا کہ اے لوگو کیا میرے پاس مصر کا ملک نہیں ہے اوریہ نہریں جو میرے ملک کے نیچے بہتی ہیں پھر کیا تم نہیں دیکھتے ہو آیا میں اچھا ہوں اس شخص سے جو ذلیل ہے اور نہیں بیان کر سکتا کہ کیوں نہ اس پر ڈالے گئے سونے کے کنگن اور کیوں نہ اس کے ساتھ فرشتے رہنے کو آئے اور جب فرعون والوں کو آفت پڑی تو بولے اے موسیٰ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے جس طرح اس نے تجھ کو بتایا ہے دعا مانگ اگر ہم پر سے آفت جاتی رہے تو تجھ پر ضرور ایما ن لاویں گے اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دیں گے پھر جب ہم نے ان پر سے ایک مدت تک آفت کو دورکر دیا جس آفت تک وہ پہنچتے کو تھے تو وہ پھر گئے ارو ہم نے ان کو عذاب میں گرفتار کیا کہ شاید وہ (بد راہ سے ) پھر جاویں۔ فرعون والوں نے کہا کہ اے جادوگر ہمارے لیے اپنے پروردگار سے جس طرح کہ اس نے تجھ کو بتایا ہے دعا مانگ بے شک ہم ہدایت پاگئے ہیں۔ موسیٰ نے کہا اے ہمارے پروردگار تو نے فرعون کو اور اس کے درباریوں کو تجمل اور دولت دنیا کی زندگی میں دی ہے اور ہمارے پروردگار کیا اس نے کہ تیرے رستہ سے گمراہ کریں۔ اے پروردگار ہمارے ستیا ناسی ڈال ان کے مالوں پر اورسختی ڈال ان کے دلوں پر بھر وہ نہیں ایمان لانے کے جب تک کہ دکھ دینے والا عذاب نہ دیکھیںگے خدانے کہا کہ تم دونوں کی دعا قبول کی گئی پھر مستقل رہو اور ان کی راہ مت چلو جو نہیں جانتے ۔ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا خدا سے مدد مانگو اور صبرکرو بے شک یہ زمین خدا کی ہے اس کو اپنے بندوں میںسے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور آخر کو بھلائی پرہیز گاروں کے لیے ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں توتیرے آنے سے پہلے اور تیرے آنے کے بعد اذیت ہی دی گئی ہے ۔ موسیٰ نے کہا کہ قریب ہے تمہارے دشمن کو خدا ہلاک کرے گا اور عنقریب تم کو زمین پر خلیفہ کر دے گا پھر دیکھے گا کہ تم کسی طرح کرو گے ۔ ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ رات کو لے چل میرے بندوں کو ان کے لیے سمندر کے سوکھے رستہ میں مت خوف کر پکڑ لیے جانے سے اور نہ کسی طرح کا ، ڈر کر لے چل میرے بندوں کو رات کو تم (دشمن) تعاقب کیے جاؤگے اور چھوڑ چل سمندر کو ایسے حالت میںکہ اترا ۱ ہوا ہے بے شک فرعون کے لوگ ایک لشکر ہے کہ ڈبویا جاوے گا چل اپنی لاٹھی کے سہارے سے سمندر میں کہ وہ پھٹا ہوا ہے پھر تھا ہر ایک ٹکڑا بڑے پہار کی مانند اور جب کہ ہم نے تمہارے سبب سے سمندر کو جدا کر دیا پھر ہم نے تم کو بچایا اور ہم نے فرعون والوں کوڈبو دیا اور تم دیکھتے تھے ۔ پھر سورج کے نکلتے ہی فرعون والوں نے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا پھر جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا توموسیٰ کے لوگوں نے کہا کہ اب ہم پکڑے گئے موسیٰ نے کہا ہر گز نہیں بے شک میرے ساتھ خدا ہے جو ٹھیک رستہ بتا دے گا پھر فرعون نے اپنے لشکر سمیت ان کا پیچھا کیا پھر ڈھانک دیا ان کو سمندر میں سے ۱۔ ’’رھوا‘‘ کا ترجمہ شاہ عبدالقادر صاحب نے ’’تھم ‘‘کیا ہے اور شاہ رفیع الدین صاحب نے ’’خشک ‘‘ کیا ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب نے ’’ارمیدہ‘‘ اور قاموس میں اس کے معنی لکھے ہیں ’’المرتفع والمخقض ضد والسکون‘‘۔ جس نے ان کو ڈھانک لیا اور غلط راہ پر لے گیا فرعون نے اپنی قوم کو اور ٹھیک رستہ نہ بتایا ار ہم نے پچھلوں کو قریب کر دیا اور ہم نے موسیٰ کو اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو بچا دیا پھر ہم نے پچھلوں کو ڈبو دیا پھر ہم نے بدلا لیا ان سے اور ہم نے ان کو سمندر میں ڈبو دیا اس لیے کہ بے شبہ انہون نے ہماری نشانیوں کو جٹھلا دیا تھا اور اس سے غافل تھے پھر پکڑا ہم نے فرعون کو اور ا س کے لشکر کو اور انکو ہم نے سمندر میںڈال دیا ۔ فرعون چاہتا تھا کہ ان کو زمین سے نکال دے پھر ہم نے اس کو ڈبو دیا اور سب کو جو اس کے ساتھ تھے اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل کو کہا کہ رہو اس زمین پھر جب آو ے گا آخرت کا وعدہ تو ہم تم کو لائیں گے ملوان۔ ہم نے تم پر چھاؤں کی ابر کی ار تم پر من وسلویٰ اتارا کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تم کو دیں اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا ۔ مگر انہوں نے آپ اپنے اوپر ظلم کیا تھا اور ہم نے تم ہر من و سلوے اتارا کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تم کو دی ہیں اور اس میں زیادتی مت کرو تاکہ میرا غصہ نازل ہوا وہ ہلاک ہوااور جدا کر دیے ہم نے بنی اسرائیل کے اسباط کے بارہ گروہ اور ہم نے موسیٰ پر وحی کی جب کہ اس کی قوم نے پانی مانگا ک چل اپنی لاٹھی کے سہرے اس چٹان پر ا س سے بہتے ہیں پھوٹ نکلے ہیں بارہ چشمے ۔ ان میں ہر ایک نے اپنا گھاٹ جان لیا کھاؤ اور پیو خدا کے رزق سے اور زمین پر مفسد ہوکر نافرمانی مت کرو جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کر سکتے پھر اپنے پروردگار سے دعا مانگ کہ ہمارے لیے وہ چیزیں نکالے جو زمین اگاتی ہے۔ ترکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز اور لہسن موسیٰ نے کہا تم بدلنا چاہتے ہو برے کو بھلے سے جا اترو شہر میں کہ تم کو ملے گا جو تم مانگتے ہو۔ (بقر) اور ہم بنی اسرائیل کو دریا سے نکال لے گئے پھر وہ ایک ایسی قوم کے پاس آئے جو اپنے بتوں کو سیوا کرتے تھے بنی اسرائیل نے کہا کہ اے موسیٰ ہمارے لیے بھی ایسے معبود بنا جیسے ان کے معبود ہیں موسیٰ نے کہا کہ بے شک تم جاہل قوم ہو یہ خراب حالت ہے جس میںیہ لوگ ہیں اور غلط ہے جو یہ کرتے ہیں اور جب ہم نے تم سے کہا کہ داخل ہو اس شہر میں پھر کھاؤ اس میں سے جو چاہو پیٹ بھر کر اور داخل ہو دروازوں میںسجدہ کرتے ہوئے اور کہو کہ ہم معافی چاہتے ہیں بخش دیںگے ہم تمہاری سب خطائیں اور نیکی کرنے والوں کو زیادہ دیں گے پھر ظالموں نے بات بدل دی اس کے سوا جو ان سے کہی گئی تھی پھر ہم نے ان کی بدکاری کے سبب ان پر آسمان سے آفت بھیجی اور جب موسیٰ ہمار ے وقت مقررہ پرآیا اور اسکے پروردگار نے اس سے بات کی تو اس نے کہا کہ تومجھ کو اپنے تئیں دکھا دے تاکہ میںتجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتا لیکن تو اس پہاڑ کو دیکھ پھر اگر یہ پہاڑ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو مجھ کو دیکھ سکے گا پھر جب اس کے پروردگار نے پہاڑ پر تجلی کی تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہوکر گرا پھر جب ہوش میںآیا تو کہا کہ تو پاک ہے اے اللہ میں توبہ کرتا ہوں تیرے سامنے اور میںپہلا ایمان لانے والا ہوں۔ خدا نے کہا اے موسیٰ میں نے تجھ کو اور لوگوں پر اپنا رسول کرنے اور خود کلام کرنے سے بر گزیدہ کیا ہے پھرجو میں تجھ کو دیتا ہوں اس کو لے اور شکر کرنے والوں میںہو اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم تجھ پر ایمان نہ لاویں گے جب تک کہ علا نیہ خدا کو نہ دیکھیں اور موسیٰ نے ہمارے وقت مقررہ پر حاضر ہونے کے لیے اپنی قوم میں سے ستر آدمی چھانٹے پھر تم کو بجلی کی کڑک نے پکڑ لیا اوریہ سب باتیں تم دیکھتے تھے پھر ہم نے تم کو تمہارے مر جانے (بے ہوش ہوجانے ) کے بعد اٹھایا کہ شاید تم شکر کرو۔ پھر جب ان کو کپ کپاہٹ نے پکڑا تو موسیٰ نے کہا اے پروردگار اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان کو اور مجھ کو بھی مار ڈالتا اور جب ہم نے تمہارے اوپر پہاڑ کو بلند کیاکہ مضبوط پکڑو جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے شاید کہ تم بچ جاؤ اورجب ہم نے ان پر پہاڑ کواٹھایا گویا کہ وہ سائبان تھا اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ ان پر کرے گا مضبوطی سے پکڑو جو ہم نے تم کو دیا ہے ۔ ہم نے موسیٰ سے کہا کہ کیوں تم جلدی کرکے چلا آیا ۔ اپنی قوم کے پاس سے کہا وہ بھی میرے پیچھے ہیں اور میرے تیرے پاس جلدی چلا آیا ہوں تاکہ اے پروردگار تو راضی ہو اور وعدہ کے اہم نے موسیٰ سے تیس رات کا اور ہم نے پورا کیا اس کو دس سے پھرتمام ہوگئی میعاد اس کے پروردگار کی چالیس رات اورموسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میری قوم میںمیرا خلیفہ ہو اور اصلاح کر اور مفسدوں کے طریق کی پیروی مت کر۔ موسیٰ کی قوم نے اس کے بعد اپنے زیور سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں سے آواز نکلتی تھی خد انے موسیٰ سے کہا کہ ہم نے تیرے بعد تیری قوم کو فتنہ میںڈالا اور سامری نے ان کو گمراہ کر دیا۔ پھر سامری نے ان کے لیے بچھڑے کا پتلا بنایاجس میں آواز نکلتی تھی پھر وہ بولے کہ یہ ہے ہمارا خدا اور موسیٰ کا خدا تو بھول گیا کیا وہ نہیںدیکھتے کہ وہ ان کی بات کا الٹ کر جواب نہیں دیتا اور نہ ان کے لیے ضرر اور نہ نفع پہنچانے کامالک ہے اورپہلے ہی ہارون نے ان سے کہا تھا کہ اے قوم اس کے سوا کچھ نہیںکہ تم اس سے فتنہ میںڈالے گئے ہو اور بے شک تمہارا پروردگار رحم والا ہے۔ میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو انہوں نے کہا کہ ہم اس کی سیا کیا کریں گے جب تک کہ موسیٰ لوٹ کر نہ آوے پھر موسیٰ اپنی قوم کے پاس لوٹ کر آیا غصہ میںبھرا ہوا افسوس کرتا ہوا موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم نے اس بچھڑے کے بنانے میںاپنی جانوں پرظلم کیا توبہ کرو اللہ کے سامنے اور مارڈالو اپنی جانوں کو کہ یہی تمہارے حق میںتمہارے خدا کے نزدیک بہتر ہے جن لوگوں نے بچھڑا بنایا قریب ہے کہ ان کے پروردگار کا غصہ ان تک پہنچے گا اور ذلت دنیا کی اس زندگی میں۔ موسیٰ نے کہا اے قوم میری کیا تم سے خدا نے وعدہ نہیں کیاتھا اچھا وعدہ اور کیا ایک لمبا زمانہ تم پر گذر گیا تھا بلکہ تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے پروردگار کا غصہ اترے اس لیے تم نے میرے وعدے کے برخلاف کیا موسیٰ نے کہا کہ بہت برا کیا تم نے میرے بعد کیاجلدی کی تم نے اپنے پروردگار کے حکم میںاور پھینک دے الواح توریت کو اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اس نے کہا کہ اے میرے ماں جائے ان لوگوں نے مجھ کو کمزور جانا تھا اور مجھ کو مارے ڈالتے تھے پھر میرے دشمنوں کومت خوش کرو او رمت کرو مجھ کو ان ظالموں کے ساتھ۔ مجھ کو یہ ڈر تھا کہ تویہ کہے گا تو نے تفریق ڈال دی بنی اسرائیل میں اور نہ انتظار کیا تونے میری بات کاانہوں نے کہا ہم نے تو اپنے اختیار سے تیرے وعدے کے خلاف نہیں کیا بلکہ ہم قوم (قبطی) کے زیور کا بوجھ اٹھا رہے تھے پھر ہم نے اس کو پھینک دیا اور اسی طرح پھینک دیا سامری نے۔ پھر سامری نے بچھڑے کی مورت بنائی جس میں سے آواز نکلتی تھی۔ موسیٰ نے کہا اے سامری تیرا کیا حال ہے اس نے کہا مجھے وہ بات سمجھائی جو ان کو نہیں سمجھائی پھر میںنے پیغمبروں کے پانوں تلے کے نشان کی مٹی لی پھر میںنے بچھڑے میںڈال دی اور اسی طرح کرنامیرے دل نے مجھے اچھا بنایا موسیٰ نے کہا کہ دور ہوتجھ کواس دنیا میںیہی سزا ہے کہ تو کہتار ہے گا کہ میرے پاس مت آأ۔ پھر جب موسیٰ کا غصہ تھا تو اس نے الواح کو اٹھالیا اور اس میں اس کے لیے ہدایت اور رحمت تی جو ڈرتے ہیں۔ پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی لوگ نیکی کرنے والے ہیں ان پر تعمت پوری کرنے کو اور ہر چیز کی تفصیل بتانے کو اور ہدایت اور رحمت کرنے کو کہ شاید وہ اپنے پروردگار سے ملنے پر ایمان لاویں۔ اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا اور ان میںسے بارہ سردار کھڑے کیے اور خدا نے کہا کہ میںتمہارے ساتھ ہوںاگرتم قائم کرتے رہوگے نماز اور تم دیتے رہو گے زکوۃ اور تم ایمان لاتے رہو گے میرے رسولوں پر اورتم مدد کرتے رہو گے ان کی اور تم فرض دیتے رہو گے اللہ کو قرض حسنہ۔ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا تم کو یہ حکم کرتا ہے کہ ذبح کرو بیل کو انہوںنے کہا کہ کیا تو ہم سے ہنسی کرتا ہے موسیٰ نے کہا کہ میںتو اللہ سے پناہ مانگتاہوں جاہل قوم سے انہوں نے کہا کہ اپنے پروردگارسے پوچھ کہ ہم کو بتلاوے کہ وہ کیسا بیل ہو کہا کہ وہ بیل نہ بوڑھا ہو اور نہ بچہ میانہ سال ان دونوں کے بیچ میں کرو جو تم کو حکم دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے پوچھ کہ بتلاوے کیاہو اس کا رنگ موسیٰ نے کہا کہ خدا کہتا ہے کہ وہ بیل ڈھڈھاتے زرد رنگ کا ہو اس کا رنگ خوش کرتا ہو دیکھنے والوں کو انہوں نے کہا کہ پوچھ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے کہ بتلاوے وہ کیسا ہے کہ ہم پر بیل مشتبہ ہوگئے ہیں اور اگر خدا نے چاہا تو ہم ہدایت پاویںگے۔ موسیٰ نے کہا کہ خدا کہتا ہے کہ وہ ایسا بیل ہو جو نہ جوتا ہو کہ زمیں کو پھاڑے یا کھیتی کو پانی دے اس کے تمام اعضامسلم ہوں اور اس میں کوئی دھبہ نہ ہو انہوں نے کہا اب تو نے ٹھیک بات بتائی پھر انہوں نے ذبح کیا اوو کرتے نہیں لگتے تھے اے لوگو تم اس پاک زمین میںداخل ہو جو خدا نے تمہارے لیے لکھ دی ہے او رمت پھرو اپنے پیٹ کے بل پیچھے پھرو پلٹو گے اپنے پیٹ کے بل پیچھے پھرو پلٹو گے نقصان اٹھانے والے انہوں نے کہا اے موسیٰ اس میںتو بہت زبردست قوم رہتی ہے ہم ہر گز اس میں نہیں جائیںگے جب تک کہ وہ اس میں سے نہ نکل جاویں جب وہ اس زمین سے نکل جاویں گے تب ہم اس میں داخل ہوں گے ان میں سے دو آدمیوں نے کہا کہ جو خدا سے ڈرتے تھے جن پر خدا نے نعمت کی تھی کہ اے لوگو جا گھسو اس قوم کے دروازہ میںجب تم جا گھسو گے تم ہی غالب ہو گے اور خدا ہی پر بھروسہ کرو اگر تم ایمان لانے والے ہو۔ انہوں نے کہا کہ اے موسیٰ ہم ہر گز اس میں نہیں گھسیں گے جب تک کہ وہ اس میںہیں تو جا اور تیرا پروردگار تم دونوں لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ موسیٰ نے کہا اے پروردگار مجھ کو اختیار نہیں فرعون کے پنچے سے بچا دیا اور جب فرعون نے پایاب اترنا چاہا تو پانی بڑھ گیا تھا وہ مع اپنے لشکر کے ڈوب گیا۔ اس مقام پر یہ بحث پیش آوے گی کہ جب ’’حزب‘‘ کے معنی چلنے کے آتے ہیں اس کے صلہ میں ’’فی‘‘ کالفظ آتا ہے جیسے کہ ’’اذ اضربتم فی الارض‘‘ میںہے حالانکہ ’’فاضرب بعصاک البحر‘‘ اور ’’فاضرب بعصاک الحجر‘‘ میں ’’فی ‘‘ نہیں ہے مگر ’’فی‘‘ کے نہ ہونے سے کچھ ہرج نہیںہے اس لیے کہ جب ’’ضرب‘‘ کے معنی چلنے کے لیے جاتے ہیں تو بواسطہ حرف جر یعنی ’’فی‘‘ کے متعدی کیا جاتا ہے اور جو افعال کہ بواسطہ جر کے متعدی ہوتے ہیں ان میں حرف جر کو محذوف کرنا اور فعل کو بلا واسطہ مفعول کی طرف متعدی کرنا جائز ہے اور اس مفعول کو منصوب علی نزع الخافض کہتے ہیں۔ اس مقام پر ’’اضرب‘‘ کے ’’عصا‘‘ کے ساتھ ربط دینے کو ایک حر ف جر یعنی ’’ب‘‘ ، ’عصا‘ پر آچکی تھی پھر اس فعل کو مفعول کی جانب متعدی کرنے کے لیے دوسرے حرف جر یعنی ’’فی‘‘ کالانا کسی قدر فصاحت کلام کے مناسب نہ تھا اور اس لیے اس کا حذف اولیٰ تھا۔ پس تقدیر کلام کی یہ ہے کہ ’’ فاضرب بعصاک البحر‘‘ اور قرینہ حذف ’’فی ‘‘ کا خود قرآن مجید سے پایا جاتا ہے کیوں کہ یہی قصہ انہی الفاظ سے سورۃ طہٰ میںبھی آیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ ’’فاضرب لھم طریقا فی البحر‘‘ پس ایک جگہ لفظ ’’فی ‘ مذکور ہے تویہی قرینہ باقی مقامات میںاس کے محذوف ہونے کا ہے۔ اسی آیت میںفعل ’’اضرب‘‘ کے بلاواسطہ حرف جر م متعدی المفعول ہونے کی مثال بھی موجود ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب مگر اپنی جان پر اور اپنے بھائی پر پھر ہم میں اور اس بدکار قوم میں فرق کو خدا نے فرمایا کہ وہ حرام کر دی گئی ہے ان پر چالیس برس تک وہ ٹکرا تے پھریں گے زمین اور تو رنج مت کر اس بدکار قوم پر۔ نے اس آیت کا ترجمہ کیا ہے کہ ’’ پس برو برائے ایشاں در راہ خشک‘‘ یعنی شاہ صاحب نے ’’ضرب‘‘ کے معنی زدن کے نہیں لیے رفتن کے لیے ہیں جو لازمی ہے اور لفظ ’’طریقا‘‘ اس آیت میں’’اضرب‘‘ کا مفعول ہے اور بلا واسطہ حرف جو متعدی الی الفعول ہوا ہے۔ جغرافیہ کے نقشوں کے دیکھنے سے معلو م ہوگا کہ خلیج عرب اور بحر احمر عدن کے پاس مل گئے ہیں دونوں طرف پہاڑ ہیں اور ان کے بیچ میںنہایت تنگ رستہ ہے جو جہاز خلیج عرب سے بحر احرم میںجاتے ہیں وہ اسی تنگ رستہ میںہو کر گزرتے ہیں اس رستہ کو طے کرنے کے بعد بحر احمر ملتا ہے جو نہایت بڑا اور وسیع سمند ر ہے جب اس کے شمال کی طرف چلے جا ؤ تو اخیر کو اس کی دو شاخیں ہوگئی ہیں ’’اگر تم اپنے دائیں ہاتھ کو چت کر کر سب انگلیاں بند کرو اور صرف بیچ کی انگلی اور کلمے کی انگلی کھول دو اور دونوں کو پھیلا کر تانو تو بحر احمر کی شا خوں کی بالکل صورت بن جاوے گی ۔ کلمہ کی انگلی دائیں طرف رہے گی اور بیچ انگلی بائیں طرف اور ان دونوں کے بیچ میں ایک مثلث کی صورت دکھائی دے گی ۔ بحر احمر کی دائیں شاخ جو جانب شرق ہے چھوٹی ہے جیسے کہ کلمہ کی انگلی چھوٹی ہے اور بائیں شاخ جو جانب غرب ہے کسی قدر بڑی ہے جیسے کہ بیچ کی انگلی بڑی ہے اور یہ سمجھو کہ بیچ کی انگلی یعنی بڑی شاح کے بائیں طرف مصر ہے اور ان دونوں انگلیوں کے بیچ میں جو مثلث جگہ ہے وہ جگہ ان جنگلوں اور پہاڑوں کی ہے جہاں بنی اسرائیل چالیس برس تک ٹکراتے پڑے پھرے اور اسی جگہ کوہ سینا یا کوہ طور ہے جس پر حضرت موسیٰؑ کو تجلی ہوئی اور توریت ملی۔ جس زمانے میںبنی اسرائیل مصر میںرہتے تھے فرعون مشہور بادشاہ تھا اس زمانہ میں اس کا دارلسلطنت شہر رامیس تھا اس کے بائیں طرف تھوڑے فاصلہ پر دریائے نیل تھا اور دائیں طرف یعنی جانب مشرق تین منزل کے فاصلہ پر بحر احمر کی بڑی شاخ تھی حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو شہر رامیس سے لے کر نکلے پہلی منزل ’’سکوت‘‘ میںہوئی دوسری منزل ’’ایثام‘‘ میںتیسری منزل ’’فھا حیروت‘‘ میںیہ مقام بحر احمر کی بڑی شاخ کے بائیں کنارہ پر یعنی جانب غرب ۔ اس شاخ کی نوک کے پاس واقع تھا۔ جب فرعون نے مع اپنے لشکر کے بنی اسرائیل کا تعاقب کیا ۔ تو راتوں رات حضرت موسیٰ اسرائیل سمیت بحر احمر کی بڑی شاخ کی نوک میں سے جہاں ہم نے نقشہ میں نقطوں کا نشان کر دیا ہے پار اتر گئے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہ سبب جوار بھاٹے کے جو سمندر میں آتا رہتا ہے اس مقام پر خشک زمین نکل آتی تھی اور کہیں پایاب رہ جاتی تھی بنی اسرائیل پایاب و خشک راستہ سے راتوں رات بہ امن اتر گئے ۔ یہی مطلب صاف اس آیت سے پایا جاتا ہے ۔ جو سورۃ دخان میںہیکہ ’’واترک البحر رھوا‘‘ جس کاٹھیک مطلب یہ ہے کہ چھوڑ چل سمندر کو ایسی حالت میںکہ اتراہوا ہے۔ صبح ہوتے فرعون نے جو دیکھا کہ بنی اسرائیل پاراتر گئے اس نے بھی ان کاتعاقب کیا اور لڑائی کی گاڑیاں اور سوار بیادے غلط رستے پر سب دریا میں ڈال دے اور وہ وقت پانی کے بڑھنے کا تھا لمحہ لمحہ میںپانی بڑھ گیا جیسے کہ اپنی عادت کے موافق بڑھتا ہے او ردباؤ ہو گیاجس میںفرعون اور اس کا لشکر ڈوب گیا ۔ علمائے اسلام کا زمانہ گیارہ بارہ برس سے سمجھنا چاہیے ان بزرگوں نے جو اپنے ہوش سے بحر احمر اور اس کی شاخ ا س کو جس میں سے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل نے عبور کیا تھا نہایت عمیق اور ایک قہار سمندر دیکھا ہے اور ان کے خیال میںبھی نہیں آسکتا تھا کہ کیسا ہی بڑا جوار بھاٹا آوے وہ جگہ کبھی پایاب نہیں ہو سکتی اس لیے انہوں نے قرآن مجید کی صاف صاف عبارت اور الفاظ کو جو صریح جواربھاٹے اور خشک زمین کے نکل آنے پر دلالت کرتی تھی الٹ پلٹ کر اس واقعہ کو بطور ایک عجیب واقعہ کے بنایا اور ایسا معجزہ جو قانون قدرت کو بھی توڑ دے ٹھیرا دیا ۔ مگر حقیقت حال یہ نہیں ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں جب بنی اسرائیل نے عبور کیا بحر احمر ایسا قہار سمندر نہ تھا جیسا کہ اب ہے۔ گو اس زما نہ کا صحیح جغرافیہ ہم کو نہ ملے مگر بہت پرانا جغرافیہ جو بطلیموس نے بنایا تھا مع اس کے نقشہ جات کے جو بطلیموس کے جغرافیہ کیمطابق بنائے گئے ہیں خوش قسمتی سے ہمارے پاس موجود ہے اور اس میں بحر احرم کا بھی نقشہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بطلیموس کے زمانہ تک بحر احرم میں تیس چھوٹے بڑے جزیرے موجود تھے اور یہ صاف دلیل اس بات کی ہے کہ اس زمانہ میں بحر احمر ایسا قہار سمندر نہ تھا جیسا کہ اب ہے یا جیسا کہ ہمارے علمائے اسلام بارہ سو برس سے اس کو دیکھتے آئے ہیں۔ بحر احمر کی اس حالت پر خیال کرنے سے بالکل یقین ہو جاتا ہے کہ وہ مقام جہاں سے بنی اسرائیل اترے تھے بلا شبہ جوار بھاٹے کے سبب رات کو پایاب اور دن کو عمیق ہو جاتا ہوگا۔ مزید توضیح کے لیے بطلیموس کے جغرافیہ میں سے بعینہ بحر احمر کے نقشہ کو ہم س مقام پر نقل کرتے ہیں۔ یہ جغرافیہ ہمارے پاس اصل یونانی زبان میں جس میں بطلیموس نے لکھا تھا مع لیٹن ترجمہ کے موجودہے۔جو ۱۶۱۸ ء میں لوئیس سیزدہم شاہ فرانس کے عہد میںچھپاتھا ۔ اس میںتمام جزیرے جو بحر احمر میںموجود تھے مندرج ہیں۔ مورخین کے قول کے بموجب بنی اسرائیل سنہ عیسوی سے دو ہزار پانسو تیرہ برس قبل بحر احمر کی شاخ سے اترے تھے اور بطلیموس جس نے جغرافیہ لکھا تھا اور جس کو گلاڈیوس ٹالمی کہتے ہے سنہ عیسوی کی دوسری صدی میںتھا پس بنی اسرائیل عبور کرنے کے دو ہزار سات سو برس بعدتک وہ جزیرے موجود تھے۔ یہ بطلیموس یونانی تھا مگر مصر میںرہتا تھا اور اس لیے بحر احمر کاجو حال ا س نے لکھا ہے زیادہ اعتبار کے لائق ہے سمندر کے جزیرے مدت تک نکلے رہتے ہیں اور پھر کسی زمانہ میں ان اسباب سے جن کاذکرعلم جیالوجی میںہے دفعۃ زمیں میں بیٹھ جاتے ہیں اور جہاں لوگ بستے تھے اور جن پایاب مقامات پر لوگ چلتے تھے وہاں دفعۃ میلوں گہوا پانی ہوجاتا ہے اسی طرح بطلیموس کے زمانہ کے بعد کسی وقت میںیہ جزیرے بھی جو بحر احمر میں تھے غائب ہوگئے ہیں اور اب ہم کو اتنا بڑا قہار سمندر دکھائی دیتا ہے مگر موسیٰ کے عہدمیں ایسا نہ تھا اور اس بات پر یقین کرنے کی بہت سی وجوہات ہے کہ حضرت موسیٰ کو اس مقام پر سمندر کے پایاب ہوجانے کا حال معلوم تھا اور اسی سبب سے یہ رستہ انہوں نے اختیار کیا تھا ۔ کیوں کہ سمندر کے پار ایسے جنگل و پہاڑ تھے جس میں فرعون کو لشکر لے جانا اور بنی اسرائیل کا تعاقب کرنا غیر ممکن تھا۔ اسماء جزیرہ ہائے بحر احمر ۱۔ تمی جینس ۲۔ ونرس ۳۔ زجینیا ۴۔ اگئی تھونس ۵۔ دیمو نم ۶۔ اسارٹی ۷۔ پالی پچ ۸۔ ایر اپلیڈس ۹۔ جبسی ٹس ۱۰۔ گوما ڈیرم ۱۱۔ جریکم ۱۲ ۔ سیٹی رورم ۱۳۔ کیٹی ٹھری ۱۴۔ میرونس ۱۵۔ تھرب ڈی ڈیس ۱۶۔ ساکرٹیٹس ۱۷۔ مجورم ۱۸۔ گارڈی منیڈ ۱۹۔ ڈیف نین ۲۰۔ ایری ۲۱۔ اکبن تھین ۲۲۔ کیم بستا ۲۳۔ مکبرنیا ۲۴۔ ارنیان ۲۵۔ بیکائی ۲۶۔ ایڈینی ۲۷۔ ڈایو دوارے ۲۸۔ پینس ۲۹۔ اسی ڈس (عجل) بچھڑا بنانے کا واقعہ ا س وقت ہوا تھا جب کہ حضرت موسیٰ چالیس دن رات پہاڑ پرجا کر رہے تھے۔ بنی اسرائیل نے بچپن سے مصریوں میں پرورش پائی تھی اور دیکھا کرتے تھے کہ و ہ ساری قوم بتوں اور جانوروں کی پرستش کرتی ہے مصر ی بندر اور سانپ اور بیل اور بہت سے قسم کے جانوروں کی پوجا کیاکرتے تھے ۔ جب بنی اسرائیل سمندر کے پار ہوئے تو وہاں بھی انہوں نے بتوں کی پرستش کرتے ہوئے لوگوں کو پایا اور موسیٰ سے کہا کہ ہم کوبھی ایسے ہی معبود بنا دے (یہ قصہ سورۃ اعراف میں ہے ) گمان غالب ہوتا ہے کہ وہ لوگ بچھڑے ہی کی مورت کی پوجا کیاکرتے ہوںگے اور اسی کی نقل پر بنی اسرائیل نے بھی بچھڑے کی مورت بنائی تھی ۔ جس کے سبب خدا کی خفگی ہوئی ۔ (فاقتلوا) اس آیت سے یہ بات نہیں پائی جاتی کہ بنی اسرائیل میں سے کسی ایک نے بھی اپنے آپ کو مار ڈالا تھا کیوں کہ یہ کہنا کہ ’’مار ڈالو اپنے آپ کو’’ حضرت موسیٰ کا قول ہے ور یہ کہنا اس طرح کا کہنا ہے جیسے کوئی بزرگ کسی کو نفریں کرتے وقت کہے کہ ڈوب مر ایسا کرنے سے تو تیرا مرنابہتر ہے۔ پس بنی اسرئیل پر خود حضرت موسیٰ کے غصہ کے یہ الفاظ ہیں خدا نے ان کو اپنے تئیں آپ مار ڈالنے کاحکم نہیں دیا تھا ۔ نہ ان میں کسی نے اپنے تئیں آپ مار ڈالنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ نہ ان میںکسی نے اپنے تئیں آپ مار ڈالنے کا حکم نہیں دیا تھا ۔ نہ ان میں کسی نے اپنے تئیں آپ مار ڈالا تھا یہ مطلب اس آیت کے پچھلے حصہ سے جس میںمعاف کر دینے کا ذکر ہے زیادہ تر صاف ہوجاتا ہے ۔ کیوں کہ جن لوگوں نے گو سالہ پرستی کی تھی انہی کی نسبت خدا نے فرمایا ہے کہ ’’پھر خدا نے تم کو معاف کیا۔‘‘ (نری اللہ جھرۃ) انسان کے دل میں کسی چیز کے دیکھنے کی خواہش تین طرح پر پیدا ہوتی ہے اس کا حال اور اوصاف سننے سے یا دل میںکسی خاص قسم کا ذوق و شوق پید اہو جانے سے یا اس کا حال کہنے والے کی بات پریقین نہ کرنے سے ، موسیٰ کو بھی خدا کے دیکھنے کا شوق ہوا مگر و ہ شوق دوسری قسم کاتھا جس کے غلبہ میں انسان کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور ہونی نہ ہونی بات کہہ اٹھتا ہے۔ بنی اسرائیل نے بھی خدا کو دیکھنا چاہا مگر یہ ان کا سوال تیسری قسم کا تھا وہ موسیٰ کی اس بات پر کہ خدائے پروردگار عالم موجود ہے اور اس نے موسیٰ کو اپنا پیغمبر کیا ہے یقین نہیں لاتے تھے اور اس بنا پر انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں خدا کو دکھا دے جب تک ہم علانیہ خدا کو نہ دیکھ لیویں گے تجھ پر ایمان نہ لاویں گے ۔ حضرت موسیٰ اپنے شوق کے سبب جس میں انسان کو زھول ہو جاتا ہے بھول گئے کہ خدا ان آنکھوں سے دکھائی نہیں دے سکتا اور بنی اسرائیل نے اپنی حماقت سے یہ چاہا کہ علانیہ خدا کو ہم دیکھ لیں اور یہ نہ سمجھے کہ خدا اپنے تئیں نہ کسی کو دکھا سکتا ہے اور نہ کوئی خدا کو دیکھ سکتا ہے۔ ہر کوئی اس کی قدرت کا کرشمہ دیکھتا ہے اور اسی سے اس کی ذات کے موجود ہونے پر یقین لاتاہے ۔ (صاعقہ )صاعقہ کے معنی لغت میں، موت کے بھی ہیں اور عذاب مہلک کے بھی ہیں۔ مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس عذاب سے کوئی ہلاک ہوئے بغیر رہے ہی نہیں اور عذاب یا بلا آنے کی منسانہٹ اور گڑ گڑاہٹ اور کڑک کے معنی بھی آتے ہیں اور بجلی آسمان پر سے گرنے والی آگ کے معنی بھی ہیں اور ’’صعق‘‘ یکسر العین کے معنی ’’غشی علیہ‘‘ یعنی بے ہوش کیا گیا۔ ۱۔ دیکھنا چاہیے کہ اس جگہ فاخذتکم الصا عقۃ کے کیا معنی ہیں۔ موت کے معنی تو یہاںہو ہی نہیں سکتے ۔ اس لیے کہ ’’ وانتم تنظرون‘‘ کامطلب غلط ہوجاتا ہے۔ کیوںکہ موت کی نسبت ’’وانتم تنظرون ‘‘ نہیںکہہ سکتے ۔ امام فخر الدین رازی بھی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیںکہ یہاں صاعقہ کے معنی موت کے نہیں ہیں کیوںکہ موت کی نسبت ’’تنظرون‘‘ نہیں آسکتا اور اسکے سوا خدا نے سورۃ اعراف میںفرمایا ہے ’’وخر موسیٰ صعقا‘‘ اور پھرفرمایا ہے ’’فلما افاق‘‘ اورافاقہ موت سے نہیں ہوتا بلکہ غشی سے ہوتا ہے سورہ اعراف میں ’’صاعقہ‘‘ کی جگہ ’’رجفعہ‘‘ فرمایا ہے جس کے معنی کب کپاہٹ کے ہیں۔ غرضیکہ اس جگہ ’’صاعقہ‘‘ کے معنی موت کے نہیں ہیں بلکہ ٹھیک معنی ، گرج اور گڑ گڑاہٹ ہیں ہیں خواہ وہ گرج بجلی ہو خواہ وہ گڑ گڑاہٹ باد ل کی ہویاکسی آتشیںپہاڑ کی یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب کہ اسی آیت میںہے کہ ’’ثم بعثنا کم من بعد موتکم‘‘ تو یہ ایک قومی ثبوت اس بات کا ہے کہ یہاں ’صاعقہ‘ کے معنی موت کے ہیںمگر مفسرین اور خصوصا امام فخرالدین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کبھی ، بعث کا اطلاق ’’لا بعد الموت‘‘ پر بھیھ ہوتا ہے۔ جیسے کہ خدا نے فرمایا ہے کہ فضربنا علی اذانھم فی الکھف سنین عدداََثم بعثنا ھم پس بعثنا کے لفظ سے تو ، صاعقہ کے معنی موت کے لینے پر استدلال نہیں ہوسکتا رہا لفظ، ’’موت‘‘ کا اس کی نسبت مفسرین نے نہایت سہل رستہ اختیار کیا ہے جو ہم کو نہایت ہی مشکل اور پیچ دار معلوم ہوتا ہے انہوں نے فرمایا کہ محققین کایہ قول ہے کہ ’’صاعقہ‘‘ سے مراد تو سبب موت ہے اور موت کے معنی موت ہی کے ہیں خدا نے ان لوگوں کو جو خدا کو دیکھنے گئے تھے صاعقہ سے جو سبب ان کی موت کا ہوا مار ڈالا اور پھر حضرت موسیٰ کی دعا سے اور گڑ گڑاکریہ کہنے سے کہ یہ تو ستر کے ستر مر گئے اب بنی اسرائیل کو میںکیا جواب دوں گا اور میری نوبت کی گواہی کون دے گا خد ا نے پھر انکو زندہ کر دیا۔ مگرمیری سمجھ میںخدائے پاک کا کلام ایسا بودا نہیں ہے بلکہ جیسا اس کا قانون قدرت مستحکم اور مضبوط ہے ایسا ہی اس کا کلام بھی مضبوط ہے۔ جب کہ ہم کو یہ ثابت ہو گیا کہ صاعقہ کے معنی موت کے نہیں ہیں بلکہ اس مقام پر جو ہو بھی نہیں سکتے اور ’بعث‘ کا اطلاق ’’لا بعد الموت‘‘ پربھی آتا ہے تو ہم لفظ ،موت، کو اس کے حقیقی معنوں پر یعنی بدن سے جان نکل جانے پر اطلاق نہیں کرسکتے بلکہ مردے کے مانند ہو جانے پر اطلاق کرتے ہیں اور اس کی دلیل خود قرآن مجید میںموجود ہے۔ اس لیے کہ جو واقعہ اس مقام پر بیان ہوا ہے وہی واقعہ سورہ اعراف میںبھی آیا ہے اور وہاں یہ فرمایا ہے ۔ ’’فلما اخذتہم الرجفۃ قال رب لو شئت اہلکتہم من قبل وایای‘‘۔ یعنی بنی اسرائیل میں سے ستر آدمی جو خدا کے دیکھنے کے لیے گئے تھے ڈر کے مارے کانپنے لگے تو حضرت موسیٰ نے کہا کہ اے پروردگار اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان کو اور مجھ کو بھی مار ڈالتا۔ اس سے صاف پایاجاتا ہے کہ ان کے مرنے تک نوبت نہ پہنچی تھی یا بے ہوش ہوگئے تھے یا ان کی حالت مردے کی سی ہو گئی تھی اور اسی سبب سے یہاں ان پر مردہ کا اطلاق کیا گیا ہے علاوہ اس کے حضرت موسیٰ پر بھی پروردگار کی تجلی ہوئی تھی جس کے سبب پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیاتھا وہاں یہ لفظ ’’وخر موسیٰ صعقا‘‘ یعنی موسی بے ہوش ہو کر گر پڑا، سورہ احزاب ۱ میں خود خدا تعالیٰ نے خوف کی حالت کو ۱۔ فاذا جاء الخوف رایتم ینظرون الیک ترزوا رائیتم کالذی یغشی علیہ من الموت (احزاف) ، ۱۹ موت کی بے ہوشی کی حالت سے تشبیہ دی ہے پس ان سب آیتوں کے ملانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل پر بھی یہی حالت گزری تھی ۔ موت کے لفظ کا نہایت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ امام فخرالدین رازی اور صاحب تفسیر ابن عباس نے سورہ زمر کی تینتالیسویں آیت میںلفظ موت کو بہ معنی نوم قرار دیا ہے ، ’حین موتہا‘ کی تفسیر ’حین منامہا‘ اور قرآن مجید میں رنج میں پڑے رہنے پر بھی موت کے لفظ کا استعمال ہوئے جہاں سورۃ آل عمران میں فرمایا ہے ’’قل موتوابیظکم‘‘ یعنی اپنے غصہ سے مر جاؤ۔ یعنی اس میںمبتلا رہ ڈھے ہو اہے شہر غیر آباد یا فصل گزری ہوئی زمین پر بھی کا استعمال ہوتا ہے بے جان یا معدوم شے پر بھی موت کا لفظ بر جاتا ہے جہاں فرمایا ہے کہ کنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحببکم اور جگہ فرمایا ہے یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی غرض کہ جہاں تک غور کیاجاتا ہے اس مقام پر لفظ ’موتکم‘ سے جو قرآن مجید میں آیا ہے ان لوگوں کے فی الحقیقت مر جانے پر استدلال نہیں ہو سکتا۔ یہ تمام واقعات موسیٰ و بنی اسرائیل پر سینا کے مقام میں گزرے تھے وہاں ایک سلسلہ پہاڑوں کا ہے جس کو طور سینا ، یا طور سینین کہتے ہیں اور کبھی صرف طور ہی اس کانام لیتے ہیں کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ حضر ت موسیٰ کے زمانے میں وہ کوہ آتش فشاں تھا جب بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ ہم علالیہ خدا کو دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ بجز اس کی قدرت کاملہ کے ایک عظیم الشان کرشمہ کے اور کچھ ان کو نہیں دکھا سکتے تھے ۔ پس وہ ان کو اس پہاڑ کے قریب لے گئے جس کی آتش فشانی اور گڑ گڑاہٹ اور زور شور کی آواز اور پتھروں کے اڑنے کے خوف سے وہ بے ہوش یامردے کی مانند ہوگئے ۔ خدا تعالیٰ ان تمام کاموں کو جو اس کے قانون قدرت سے ہوتے ہیں خود اپنی طرف منسوب کرتا ہے جن کے منسوب کرنے کا بلا شبہ وہ مستحق ہے اس طرح ان واقعات عجیبہ کو بھی اس نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اس بات کا آثارکہ کوہ سینا درحقیقت آتش فشاں تھا ۔ اب تک پائے جاتے ہیں اور ہر شخص اب بھی جاکر دیکھ سکتا ہے ایک بہت بڑا عالم شخص یعنی کینن اسٹینلی حال میں بطورسیاحت اس وادی مین گئے تھے جہاں سے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل نے گزر کیا تھا ۔ انہوں نے اس پہاڑ کا حال اس طرح پر لکھا ہے کہ ’’چٹانوں کی راہ سے جو بطور زینہ کے بنی ہوئی تھیں ہم ایک وادی میںپہنچے جو سرخ پتھر کے پہاڑوں کے درمیان تھیں یہاں پر عجیب و غریب پہاڑدیکھنے میںآئے جن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ گویا سرخ و سیاہ مادہ کی گرم نہریں ان پر بہتی ہیں در حقیقت آتشی مادہ اوپر بہہ آیاتھا جب کہ وہ زمین سے اٹھتے تھے یہ راستہ ایسی جگہ ہوکر گزرتا تھا ہاں بجز جلے ہوئے مادوں اور خاکستر کے اور کچھ نہ تھا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی ہتھیار ڈھالنے کے کارخانے میں ڈھیر ہوتے ہیں یہاں اکثر ایسی چیزیں دیکھنے میںآئیں جن کوکوئی نیا آدمی آتش فشاں پہاڑ کے آثار تصور کرے لیکن یہ غلط فہی ہے جلے پہاڑوں کی مانند جوبڑے بڑے ڈھیر معلوم ہوتے ہیں وہ صرف لوہے کے ریزے ہیں جوبھرے بھرے پتھروں کی بناوٹ میںملے ہوئے ہیں سرخی مائل پتھر کی چٹانوں میں جو آتشی عمل کے آثار پائے جاتے ہیں وہ ان کی ابتدائی اٹھان سے متعلق ہیں۔ نہ کسی بعد کے انقلاب سے ،ہر جگہ پانی کے عمل کے آثار ہیں آگے کے کہیں نہیں ہیں۔‘‘ کینن اسٹینلی بہت بڑے پادری اور عیسائی مذہب کے پیشوا ہیں۔ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ درحقیقت خداہی آگ کی صورت میں پہاڑ پر اتر تھا ۔ اس لیے انہوں نے اپنی تحریر میں اس پہاڑ کو آتشیں پہاڑ کہنے سے بہت بچایا ہے۔ مگر جو شے کہ موجود ہے اس کو کوئی شخص ہیر پھیر کر بیان کرنے سے معدوم نہیں کرسکتا ۔ خود توریت میں جو کچھ اس پہاڑ کی نسبت بیان ہوا ہے (اگر صحیح تسلیم کیا جاوے) تو کچھ شبہ نہیں رہتا کہ وہ آتش فشاں پہاڑ تھا ۔ کتاب خروج باب نوزدہم میں لکھا ہے کہ ’’بوقت طلوع صبح رعدہا و بر قہا و غما مہ و مظلمہ بلائے کوہ نمایاں شد و آواز کرنابحدے شدید شد کہ تمامی وقوی کہ در اردو بودند لر زیدند و تمامی کوہ سینی را دو و فرا گرفت و دودش مثل و دوتنور متصاعد بود و تمامی کو بغایت متزلزل شد، یہ تمام ھالتیں وہ ہیں جو کوہ آتش فشاں میں واقع ہوتی ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس زمانے میں وہ آتش فشاں تھا اور لینن اسٹینلی کی یہ تاویل کہ وہ نشانیاں اس پہاڑ کی بناوٹ ہی کی ہیں صحیح نہیں ہوسکتی۔ خدا کی تجلی ہر چیز میں ہے جس کو اس نے اپنی قدرت کاملہ سے بنایا اور پیدا کیا ۔ ہم بلا شبہ کہ سکتے ہیں کہ فلما تجل ربنا علی الجبل ، فلما تجلی ربنا علی البحر، فلما تجلی ربنا علی الانسان ، فلما تجلی ربنا علی الحمار ، فلما تجلی ربنا علی البعوضۃ۔ وما فوقہا ، فقد وقع کذا۔ مگر کسی مادی یافانی صورت میںنہ خدا آسکتا ہے نہ سما سکتا ہے پس ہم توریت کے اس لفظ پر کہ ’’خد اوند د ر آتش برآں تنزل نمود‘‘ یقین نہیں لا سکتے گو کینن اسٹینلی کو یقین ہو۔ہاں اگر ان لفظوںکے معنی بھی تجلی اورظہور قدرت کے لیے جاویں توپھر مقام انکار نہیں رہتا۔ (وظللنا علیکم الغمام) توریت میںبنی اسرائیل پر بادلوں کی چھاؤں ہونے کا واقعہ عجیب طرح سے لکھا ہے کہ بادل تمام دن بنی اسرائیل ۱ کو راہ دکھانے کے لیے ان کے آگے آگے چلتا تھا اور جہاں ٹھہر جاتا تھا وہاں بنی اسرائیل قیام کرتے تھے اوررات کو وہی بادل روشنی کا ستون ہوجاتا تھا مگر اس پر کیوں کر یقین ہو سکتا ہے جب کہ چالیس برس تک بنی اسرائیل کو منزل مقصود تک پہنچنے کا راستہ نہیں ملا ۔ ہمارے علمائے مفسرین نے بھی اپنی عادت کے موافق یہودیوں کی پیروی کی ہے اور اس آیت کی تفسیر میں ایسی قسم کی باتیں جن کا اشارہ تک اس آیت میں نہیں ہے بیان کی ہیں۔ قرآن مجید سے بنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ بادل کا پھرنا معلوم نہیں ہوتا اس آیت سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ کسی وقت دھوپ اور گرمی کی سختی میںبادل آجانے سے خدا نے ان کی تکلیف کو دور کر دیا جس کا بطور ایک احسان کے ذکر کیا ہے بڑی غلطی لوگوں کے خیال میںیہ ہے کہ جو امور موافق قانو ن قدرت کے ظہور میںآتے ہیں ان کو نہ معجزہ سمجھتے ہیںنہ احسان جتلانے یا مانے کے قابل جانتے ہیں اور اس لئے اس میں بالطبع ایسی باتین شامل کرلیتے ہیں جو قانون قدرت سے خارج ہوں حالا نکہ خدا تعالیٰ نے تمام قرآن مجید میں جابجا بندروں پر انہی باتوں سے اپنا احسان جتلایا ہے اور انہی کو بطور معجزہ کے بتلایا ۱۔ دیکھو کتاب خروج باب ۱۴ ، ورس ۱۹ ، ۲۰ باب ۴۰ ورس ۳۴۔ ۳۸۔ ہے جس کو اس نے اپنی قدرت کاملہ سے موافق قانون قدرت کے پیدا کیا ہے۔ جب بنی اسرائیل بحر احمر کی شاخ کو پار کر گئے جس کا پانی بسبب جوار بھاٹے کے اترتا چڑھتا رہتا تھا تو اس پار پتھر اور ریگستان کا ایک مسطح بیابان ہے، وہاں اکثر ریگ کا طوفان رہتا ہے جو اس ملک کے سات مخصوص ہے اور حال کے سیاحوں نے بھی اس کو دیکھا ہے اس ریت کے میدان میں دھوپ کی شدت سے بنی اسرائیل کو بڑی تکلیف ہوئی ہوگی ۔ خصوصا اس وجہ سے کہ ریت بھی بھوبل کی مانند گرم ہوگی جس پر چلنا اور بیٹھنا نہایت مشکل ہوگا ۔ ایسے وقت میں ابر کا آجانا بلاشبہ بنی اسرائیل کے حق میں بہت بڑ ی نعمت تھی۔ جس کو اس مقام پر بطور احسان کے خدا نے یاد دلایا ہے۔ (من وسلویٰ) ’من‘ ایک چیز ہے جو بطور ترنجین کے ایک خاص قسم کی جھاڑیوں پر جم جاتی ہے اور سلویٰ بٹیر کی قسم کا جانور ہے جو اس جنگل میںجہاں بنی اسرائیل گئے تھے بکثرت پایاجاتا ہے اوروہاں وہی ان کی غذ ا تھی ۔ پس اسی کا ذکر قرآن مجید میںہے ۔ باقی عجائبات’من‘ کے جو توریت میںبیا ن ہوئے ہیں اور جن پر یقین کرنا ایسا ہی مشکل ہے جیسے کہ قانون قدرت سے انکار کرنا۔ان کا کجھ ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے ۔ گو مفسرین نے اور انبیاء کے قصے لکھنے والوں نے یہودیوں کی پیروی سے اپنی تصنیفات میں ان کا ذکر کیا ہے ۔ حال کے سیاحوں نے بھی اس جنگل میں ’من‘ کو پایا ہے ، کینن اسٹیلنی لکھتے ہیں کہ چشمہ مرہ سے گذر کر دو وادیاں دیکھیں جس میںسے ایک یقینا ایلم ہوگی ۔ عام صورت اس وسیع میدان کی یہ تھی کہ ایک ریگستان تھا اور جا بجا پانی کے سے راستے جیسے کوئی دریا خشک ہوجاتا ہے بنے ہوئے تھے ان وادیوں کے راستہ راستہ جاکر عجیب سیاہ و سفید پہاڑ ملتے ہیں یہ بیا بان بغیر درخت او رگھاس کے تھا لیکن ان وادیوں میں جن پر ایلم کا شبہ ہوتا ہے ۔ درخت اور جھاڑیاں موجود تھیں ۔ یہاںکھجور کے درخت چھوٹے چھوٹے تھے اور یہاں پر ’تموسک‘ کے درخت بھی تھے جن کے پتوں پر وہ شے جاتی ہے جس کو اہل عرب ’من‘ کہتے ہیں (واذا قلنا ادخلوا) اس آیت میںجو کچھ بیان ہوا ہے وہ حضر ت موسیٰ کے وقت کا قصہ نہیں ہے بلکہ بنی اسرائیل کا حال ہے ، جب کہ وہ حضرت یوشع کے ساتھ شہر میںداخل ہوئے تھے اس شہر کا نام قرآن مجید میں مذکور نہیں ہے۔ مگر قدیم نام اس کا یریحو ہے ۔ جس کویونانی میں ’جریکو‘ کہتے ہیں اور مسلمان مفسروں نے اس کو ’اریحا ‘لکھا ہے ۔ (وادخلو الباب سجدا) سجدہ سے مراد حقیقی سجدہ کرنا نہیں ہے جس میں ماتھا زمین پرٹیکنا ہوتا ہے ۔ بلکہ خشوع و خضوع سے خدا کا شکر کرتے ہوئے داخل ہونا مراد ہے۔ تفسیر کبیر میںلکھا ہے کہ ’’(ارادبہ الخضوع وھوالاقرب) یعنی سجدہ سے مراد عاجزی ہے اوریہی معنی اس جگہ زیادہ اچھے ہیں۔ (فبدل) اس تبدیلی سے کسی لفظ کا بد ل دینا مراد نہیں ہے کیوں کہ ان کو الفاظ نہیں بتائے گئے تھے بلکہ استفغار یعنی گناہوں سے معافی چاہنے کا حکم تھا۔ مگر انہوں نے اس حکم کو بدل ڈالا۔۔ اور توبہ استغفار کی کچھ پروانہیں کی ۔ بلکہ فتح کے سبب مغرور و متکبر ہوگئے ۔ امام فخر الدین رازی نے بھی یہ معنی اختیا کیے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ لما امروا بالتواضع و سوال المغفرہ لم یمتثلو امر اللہ ولہم یلتفوا الیہ۔ یعنی جب کہ ان کو تواضع اور استغفار کرنے کا حکم دیاگیا تھا تو انہوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل نہ کی اور اس پر التفات نہ کیا۔ اور بیضاوی میں بھی یہی مطلب تسلیم کیاگیا ہے کہ ’’بد لوابما امر وا بہ من الوبۃ والاستغفار طلب مایشہون من اعراض الدنیا ‘‘ یعنی انہوں نے بدل دیا حکم توبہ و استغفار کا جوا ن کو دیا گیا تھا دنیاوی چیزوں کے چاہنے سے جس کے وہ خواہش مندتھے ۔ (فانفجرت) اس آیت میں یہی ایک امر بحث کے لائق تھا کہ پانی کے بارہ چشمے کیوںکر پید ہوئے تھے اور اس بحث کو ہم نے سینتالیسویں آیت کی تفسیر میںبالا ستیعاب بیان کیا ۔ پہاڑی ملک کو اہل عرب حجر کہتے ہیں جیسے کہ ’عرب الحجر‘ یعنی عرب کا پہاڑی حصہ اسی طرح ، ’’فاضرب بعصاک الحجر‘‘ میں لفظ حجر کا استعمال ہوا ہے ۔ بحر احمر کی شاخ کو عبور کرنے کے بعد ایک وادی ملتی ہے جس کا قدیم نام ایثام ہے وہاں پانی نہین ملتا۔توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ایک چشمہ تھا جس کا پانی نہایت تلخ تھا اور پی نہیں سکتے تھے اس لیے اس کا نام ’مرہ‘ رکھا ہے۔ حال کے زمانہ کے سیاحوں نے بھی وہاں ایک چشمہ پایا ہے جس کو وہ ’مرہ‘ خیال کرتے ہیں یہی مقام ہے جہان بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے پانی مانگا تھا۔ اس مقام کے پاس پہاڑیاں ہیں جن کی نسبت خدا نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ ’’فاضرب بعصاک الحجر‘‘ یعنی اپنی لاٹھی کے سہارے سے اس پہاڑی پر چڑھ چل۔ اس پہاڑی کے پر ے ایک مقام ہے جس کوتوریت میں ’ایلم‘لکھا ہے وہاں بارہ چشمے پانی کے جاری تھے ۔ جس طرح پہاڑی ملک میں پہاڑوں کی جڑیا چٹانوں کی دراڑوں میں سے جاری ہوتے ہیںجن کی نسبت خدا نے فرمایا ہے ’’ فانفجرت منہ اثنتا عشرۃ عینا‘‘ یعنی اس سے پھوٹ نکلے ہیں بارہ چشمے ۔ اگرہم توریت کی عبارت پر یقین کریں تو اس سے بھی یہی پایا جاتا ہے اور اسکی یہ عبارت ہے کہ ’’بعد ازاں بہ ایلم آمدند و در آنجا دوازدہ چشمہ آب یافتند و ھفتاد درخت خرما بود و در آنجا بہ پہلوئے آب اردوزدند‘‘ یہ مقام اب بھی موجود ہے اور سیاحوں نے دیکھا ہے ۔ مگر اب وہاں پانی کے چشمے نہیںبہتے۔کیوں کہ پہاڑی چشمے انقلاب زمانہ سے سوکھ جا تے ہیں جیسے کہ مکہ معظمہ میں زمزم کا چشمہ خشک ہوگیا ہے۔ مگر ایسے مقاموں کو ہمیشہ لوگ مقدس سمجھتے ہیں اور س کے یادگار یا نشان قائم رکھنے کو وہاں کنوئین کھود دیتے ہیں جس طرح کہ مکہ معظمہ میں چاہ زمزم کھوداگیا ہے ۔ اس مقام پربھی جہا ںموسیٰ کو بارہ چشمے ملے تھے ۔ لوگوں نے کسی زمانے میں کنوئیں کھودے ہیں اور اب وہاں سترہ کنوئیں موجود ہیں اور وہ مقام عیون موسیٰ کے نام سے مشہور ہے۔ اس مقام پر بھی ’تمرسک‘ کے درخت ہوتے ہیں جن کے پتوں پر ’من ‘ جم جاتا ہے۔ (وازقلتم یاموسیٰ) اس آیت کی تفسیر میںمفسروں نے دو زمانے کی جدا جدا باتوں کو خلط ملط کر دیا ہے ۔ یہ بہت لمبی آیت ہے اور اس کے جداگانہ دو حصے ہیں ایک حصہ اس سوال و جواب کا ہے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کیا تھا ۔ او ر دوسرا حصہ ان واقعات کا ہے جو بعد حضرت موسیٰ بلکہ اس سے بھی بہت زمانہ کے بعد بنی اسر ائیل پر واقع ہوئے تھے ۔ جن جنگلوں او رمیدانوں میںبنی اسرائیل پڑے پھرتے تھے وہاں بجز جنگل کے جانوروں کے شکار کے یا اس مویشی کے گوشت کے جو بنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ تھے اور کوئی چیز کھانے کو میسر نہ ہوتی تھی اور ایک ہی قسم کا کھانا کھاتے کھاتے بنی اسرائیل دق ہو گئے تھے ۔ جس کی شکایت انہوں نے حضرت موسیٰ سے کی اور زمین کی پیداوار کھانے کو مانگی جو شکار کے گوشت یاپلاؤ جانوروں کے گوشت سے ادنیٰ درجہ کی تھی ۔ حضرت موسیٰ کا اصلی مقصد فلسطین میں جانا اوروہاں کے شہروں پر قبضہ کرنا کا تھا مگر بنی اسرائیل عمالیقوں اور کنعانیوں سے ڈرتے تھے اور لڑنے پر اور ملک فتح کرنے پر آمادہ نہ ہوتے تھے ۔ پس جب بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے زمین کی پیداوار کا کھانا ملنے کی خواہش کی ، تو انہوں نے جواب دیا کہ کسی شہر میں چل پڑو اور جا اترو وہاں سب کچھ ملے گا ۔ پس ا س سے یہ سمجھنا کہ ان کے سفر میںکوئی شہر پڑا تھا اور حضرت موسیٰ نے یا خدا نے اس میں اتر نے کا حکم دیا تھا ۔ ایک صریح غلط فہمی ہے۔ دوسرا حصہ آیت کا ان واقعات کے بیان میںہے جب کہ بنی اسرائیل فلسطین میںپہنچ گئے اور شہروں کو فتح کرلیا اور اس میںآباد ہوگئے ۔ پھر ان کی بدیوں اور برائیوں اور انبیا کے قتل کے سبب ان پر آفت آپڑی اور ذلیل و خوار اور مسکین بے یارو مددگار ہوگے اور باوجودیکہ ان میں سے بادشاہان ذیشان پیدا ہوئے ۔ مگرتمام قو م میں سے وہ شان و شوکت یک لخت جاتی رہی اور اس وقت تک ان کا یہی حال ہے ۔ (و رفعنا) یہ مضمون دو مقام میںآیا ہے ایک تو اسی آیت میںہے کہ ہم نے تمہارے اوپر پہاڑ کو اونچا کیا اور سورۃ اعراف میںیہ لفظ ہیں واذ نتقنا الجبل فوقہم کانہ ظلۃ وظنوانہ واقع بہم ان دونوں مقاموں میںچار لفظ ہیں جن کے معنی حل ہونے سے مطلب سمجھ میں آوے گا ۔ رفع، فوق ، نتق ،ظلہ۔ ’’رفع‘‘ کے معنی اونچا کرنے کے ہیں مگر اس لفظ سے یہ بات کہ جو چیز اونچی کی گئی ہے وہ زمین سے بھی معلق ہوگئی ہو لازم نہیںآتی ۔ دیوار اونچا کرنے کوبھی ’رفعنا‘ کہہ سکتے ہیں حالاں کہ وہ زمین سے معلق نہیں ہوتی۔ ’’فوق‘‘ کے لفظ کوبھی اس شے کا زمین سے معلق ہونا لازم نہیں ہے ۔ ’’شق‘‘ کا لفظ البتہ بحث طلب ہے جس کے معنی مفسرین نے مذہبی عجائبات بناے کو ’قلع‘ کے بھی لیے ہیں۔ جس کو زمین سے یا جگہ سے علیحدہ کرنا لازم ہے ’رفع‘ کے بھی لیے ہیں جس کو علیحدہ کر لینا لازم نہیں ہے بیضاوی میںلکھا ہے ’’واذا نتقنا الجبل فوقہم ای قلعناہ رفعناہ‘‘ مگر قاموس میں اسکے معنی ہا دینے کے لکھے ہیں۔ ’’نتقہ زعزعہ‘‘ اور زعزع کے معنی ھلا دینے کے ہیں ’’لزعزعۃ تحریک الریح الشجرۃ و نحوہا اوکل تحریک شدید یعنی ’زعزعہ‘ کے معنی ہوا کا درخت کو ہلا دینے کے ہے ں اور ہر جنبش شدید کو بھی زعزعہ کہتے ہیںپس صاف طور سے نقنا، کے معنی ہلا دینے کے ہیں ۔ یعنی ہم نے پہاڑ کو ہلا دے ااور الفاظ ’’ وظنوا انہ واقع بہم‘‘ زیادہ تر پہاڑ کے ہلا دینے کے جس سے ان کو اس کے گر پڑنے کا گمان ہو امناسب ہیں۔ ’’ظلہ‘‘ کے معنی سائبان کے بھی ہوسکتے ہیں۔ چھتری کے بھی ہوسکتے ہیں اور یہ جو چیز کہ ہم پر سایہ ڈالے اس کے بھی ہو سکتے ہیں اور اس چیز کا زمین سے معلق ہمارے سر پر ہونا ضرور نہیں ہے ۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ’’الظلہ کل مااظلک من سقف بیت او سحابۃ اوجناح حایطۃ ، یعنی’ظلہ‘ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو سایہ ڈالے ، گھر کی چھت یا ابر کا ٹکڑا یااحاطہ کا بازو یعنی دیوار پس ’’ظلہ‘‘ کے لفظ سے بھی یہ بات لازم نہیں آتی کہ وہ معلق سر کے اوپر ہو۔ اب غور کرنا چاہیے تھا کہ واقعہ کیا تھا ، بنی اسرائیل جو خدا کے دیکھنے کو گئے تھے طور یا طور سینین کے نیچے کھڑے ہوئے تھے پہاڑ ان کے سر پر نہایت اونچا اٹھا ہوا تھا وہ اس کے سایہ کے تلے ت تھے اور طور بہ سبب آتش فشانی کے شدید حرکت اورزلزلہ میں تھا ۔ جس کے سبب وہ گمان کرتے تھے کہ ان کے اوپر گرپڑے گا پس اس حالت کو خدا تعالیٰ نے ان لفظوں میںیاد دلایا ہے کہ ’’ ورفعنا فوقکم الطور‘‘ ، ’’ نتقنا الجبل فوقہم کانہ ظلۃ وظنوا انہ واقع بہم ‘‘ پس ان الفاظ میںکوئی بات ایسی نہیں ہے جو عجیب ہو یا مطابق واقع اور موافق قانون قدرت نہ ہو ہاں مفسرین نے اپنی تفسیروں میں اس واقعہ کو عجیب و غریب واقعہ بنا دیا ہے اور ہمارے مسلمان مفسر (خدا پر رحمت کرے ) عجائبات دور از کار کا ہونا مذہب کا فخر اور اسکی عمدگی سمجھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے تفسیروں میںلغو او ربے ہودہ عجائبات بھر دی ہیں۔ بعضوں نے لکھا ہے کہ کوہ سینا کو خدا ان ک سرپر اٹھا لایا تھا کہ مجھ سے اقرار کرو نہیں تو میں اسی پہاڑ کے تلے کچل دیتا ہوں۔ اوربعضوں نے کہا کہ نہیں بیت المقدس کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ کو اکھاڑ کر ہوا میں اڑا لایا تھا ۔ اور پانچ میل کا چوڑاپانچ میل کا لمبا تھا ۔ اتنی بڑائی اس کی اس لیے تھی کہ کل لشکر بنی اسرائیل کا اس کے تلے ایک ہی دفعہ میں کچل جاوے ۔ یہ تمام خرافا تیں لغو و بیہودہ ہیں اور خدائے پاک کا کلام پاک ایسی بے ہودہ باتوں سے پاک ہے (کونوا فردۃ) ہوجاؤ بندر ۔ اس کی تفسیر میںبھی ہمارے علمائے مفسرین نے عجیب و غریب باتیںبیان کی ہیں اور لکھا ہے کہ وہ لوگ سچ مچ صورت وشکل اور خاصیت میںبھی بندر ہوگئے تھے ۔ بعضوں کا قول ہے کہ وہ سب تیسرے دن مر گئے اور بعضے کہتے ہیںکہ یہ بندر جو اب درختوں پر چڑھتے اور ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی پر اچھلتے پھرتے ہیں انہی بندروں کی نسل میں سے ہیں۔ مگر یہ تمام باتین لغو و خرافات ہیں۔ خدائے پاک کے کلام کا یہ مطلب نہیں ہے ۔ یہودیوں کی شریعت میں سبت کا دن عبادت کا تھا اور اس میں کوئی کام کرنا یا شکار کھیلنا منع تھا۔ مگر ایک گروہ یہودیوں کا جو دریا کے کنارہ پر رہتا تھا فریب سے سبت کے دن بھی شکار کھیلتا تھا ۔ ان کی قوم کے مشائخوں نے منع کیا ۔ جب نہ مانا تو ان کو قوم سے مقطع ، برادری سے خارج، کھانے پینے سے الگ ، میل جول سے علیحدہ کر دیا اور وہ توریت پر نہ چلنے والوں کو ایسا ہی کیا کرتے تھے اور اسی لیے ان کی حالت بندروں کی سی حالت ہوگئی تھی ۔ جس کی نسبت خدا نے فرمایا کہ ’’کونوا قردۃ خاسئین‘‘ یعنی جس طرح بندر بلا پابندی شریعت حرکتیں کرتے ہیں ، جس طرح انسانوں میںبندر ذلیل و خوار ہیں اسی طرح تم بھی انسانوں سے علیحدہ اور ذلیل و خوار و رسوا ہو۔ جس کے سبب اس زمانے کے لوگوں کو عبرت ہو اور آئندہ آنے والے انکی ذلت و رسوائی کا حال سن کر عبرت پکڑیں۔ یہ کہنا کہ وہ لوگ سچ مچ کے بندر ہوگئے تھے بجز اہل الجنۃ کے اور کوئی تسلیم نہیں کرسکتا تھا ۔ اسی سبب سے بعض مفسرین نے بھی ان کے سچ مچ کے بندر ہوجانے سے انکار کیا ہے ۔ جس کو ہم بطور تائید اپنے کلام کے اس مقام پر نقلل کرتے ہیں۔ بیضاوی میںلکھا ہے ’’وقال مجاہد مامسخت صورتہم ولکن قلوبہن فمثلوا بالقرۃ کما مثلوا بالحمار فی قولہ کمثل الحمار یحمل اسفارا‘‘ یعنی مجاہد کا قول ہے کہ ان کی صورتیں بندر کی سی ہوگئی تھیں بلکہ ان کے دل بندروں کے سے ہوگئے اور اسی لے بندروں کے ساتھ ان کو تشبیہ دی ہے جیسے کہ خدا نے گدھے کے ساتھ اپنے اس قول میں ان کی مثال گدے کی ہے جس پر کتابیں لدی ہوں تشبیہہ دی تھی۔ (تذبحوا بقرہ) یہ قصہ توریت میںبھی ہے مگر ا س میں بنی اسرائیل کاموسیٰ سے اس کا اتا پتا پوچھنا مذکور نہیں ہے اور اس کے ذبح کے بعد جو قصہ توریت میں ہے وہ قرآن مجید میںنہیں ہے ،بہر حال اتنی بات کہ خدا نے ایک بیل کے ذبح کرنے کا حکم دیا قرآن اور توریت دونوں۱ میںموجو دہے۔ بقرہ ، بالتحریک ومع التا گائے اور بیل دونوں پر بولا جاتا ہے اور قرآن مجید یہ الفاظ کہہ ’’ لا ذلول تثیر الارض ولا تسقی الحبرث ‘‘ صاف اس کے بیل ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ قرآن کے تمام الفاظ سے اور ان پتوں اور نشانوں سے جو بتائے گئے ہیںصاف پایا جاتا ہے کہ وہ بیل بت پرستوں یاکافروں کے طریقہ پر بطور سانڈ کے چھوڑا ہواتھا ۔ تفسیر کبیر میں بھی مسلمہ کی تفسیر ’’ای وحشیۃ مرسلۃ من الجس‘‘ لکھی ہے جو ٹھیک چھوڑے ہوئے سانڈھ کی ہے اور اسی کے ذبح کر ڈالنے کا موسیٰ نے حکم دیا تھا اور بنی اسرائیل چاہتے تھے کہ وہ ذبح ہونے سے بچ جاوے اسی لئے اس کے اتے پتے پوچھتے تھے ۔ پس اس قصہ میںکوئی عجوبہ بات نہیںہے۔ جس بچھڑے کو بنی اسرائیل نے پوجاتھا اس کامعدوم کرنا اور جس بیل کو بطور سانڈ کے چھوڑا تھا کہ وہ بھی ایک قسم کی پرستش ہے اس کو ذبح کر ڈالنا اس شرک و کفر کے مٹانے کے لیے تھا ۔ ہمارے مفسرین نے بلا شبہ غلطی کی ہے یہ سمجھا ہے کہ یہ قصہ اگلی آیت ’’واذ قتلتم نفسا سے متعلق ہے اور پہلی آیت کو خدا نے پیچھے کر دیا ہے ۔ (واز قتلتم) اس قصہ کو پہلے قصہ س کچھ تعلق نہیں ہے ۔ بیل کے زبح کرنے کاقصہ ختم ہوچکا یہ دوسرا قصہ ہے کہ بنی اسرائیل ۱۔ دیکھو کتاب اعداد ۱۹۔ میں ایک شخص ماراگیا اور قاتل معلوم نہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ سب جو موجود ہیں اور انہیں میں قاتل بھی ہے۔ مقتول کے اعضا سے مقتول کوماریں جو لوگ درحقیقت قاتل نہیں ہیں وہ یہ سبب یقین اپنی بے جرمی کے ایسا کرنے میںکچھ خوف نہ کریں گے ۔ مگر اصلی قاتل بہ سبب خوف اپنے جرم کے جو ازروئے فطرت انسان کے دل میں اور بالتخصیص جہالت کے زمانے میں اس قسم کی باتوں سے ہوتا ہے۔ ایسا نہ کرنے کا اور اسی وقت معلوم ہوجاوے گا اور وہی نشانیاں جو خدا نے انسان کی فطرت میں رکھی ہیںلوگوں کو دکھا دے گا۔ اس قسم کے حیلوں سے اس زمانہ میںبھی بہت سے چور معلوم ہو جاتے ہیں اور وہ بسبب خوف اپنے جرم کے ایسا کام جو دوسرے لوگ بلا خوف بہ تقویت اپنی بے جرمی کے کرتے ہیں نہیں کر سکتے ۔ پس یہ ایک تدبیر قاتل کے معلوم کرنے کی تھی اس سے زیادہ اور کچھ نہ تھا۔ ہمارے مفسرین نے ان آیتوں کی یہ تفسیر کی ہے کہ پہلا اور پچھلا ایک ہی قصہ ہے اور پچھلی آیتوں میںجو بیان ہوا ہے وہ باعتبار وقوع کے مقدم ہے اور قصہ یوں قرار دیا ہے کہ بنی اسرائیل نے ایک شخص قتل کیا تھا ۔ اس کا قاتل معلوم کرنے کو خدا نے ایک بیل کے ذبح کرنے کاحکم دیا اور یہ کہا کہ اس مذبوح بیل کے اعضاء سے مقتول کومارو ان کے مارنے سے مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے اپنے قاتل کو بتلا دیا۔ مگر اس تفسیر میں متعدد نقصان ہیں۔ اول تو پچھلی آیتوں کا مقدم قرار دینے اور دونوںقصوں کو ایک کر دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ دوسرے ‘‘کذا لک یحیی اللہ لموتی‘‘ کے معنی جب مربوط ہوتے ہیں جب اس کے پہلے یہ جملہ ’’ فاحیاء اللہ مقدر‘‘ مانا جاوے اور ایسے جملہ کو جو خارج از عقل اور خلاف عادت باری تعالیٰ ہے اپنی طرف سے بغیر موجود ہونے کسی یقین یا اشارہ صریح کے مقتدر ماننا عبادت قرآن میں اضافہ کرنا ہے۔ تیسرے یہ کہ باوجود اس اضافے کے یہ ماننا پڑے گا کہ ’کذالک یحیی اللہ الموتی‘ سے مراد احیاء اموات بروز بعث و نشر ہے اور اس جگہ بعث و نشر کے حال کے بیان کرنے کا کوئی محل و موقع نہیں ہے اور نہ کوئی مباحثہ بعث و نشر کی بابت ہے ۔ جو سیدھے سادے صاف صاف معنی آیتوں کے ہم نے بیان کیے ہیں اور جن میں نہ آتیوں کی ترتیب الٹنی پڑتی ہے اور نہ کسی جملہ خلاف از عقل و بغیر سند نقل کے اپنی طرف سے بڑھانے کی حاجت ہوتی ہے اور جو صاف طور پر قرآن مجید سے پایا جاتا ہے ۔شاید اس کی نسبت بھی بعض لوگ کچھ شبہ کریں گے ۔ اول تو یہ کہیں گے ’اضربو‘ میں ضمیر مذکر کی ہے اور ’بعضہا‘ میںضمیر مونث کی، اور دونوں کا مرجع ہم نے مقتول ٹھہرایا ہے ۔ مگر یہ اعتراض کسی طرح صحیح نہیں ہونے کا۔ اس آیت سے پہلے ’’واذفتلقم نفسا ‘‘ واقع ہے اور ’’ببعضھا کی ضمیر نفس کی جانب راجع ہے اور نفس مونث ہے اور اس کے لیے مونث ہی کی ضمیر ہونی چاہیے ۔ ’’اضربوہ‘‘ کی ضمیر کو بھی تمام مفسرین نے نفس ہی کی طرف راجع کیا ہے ۔ مگر باعتبار شخص مقتول کے اس کا مذکر لانا جائز قرار دیا ہے۔ چنانچہ تفسیر کبرے میںلکھا ہے۔ ’’ الہا فی قولہ تعالیٰ فاضربوہ ضمیر وہوامان ان یرجع الی النفس وجینئذ یکونل التذکیر علی تاویل الشخص والانسان واما الی القتیل وہو الذی دل علیہ قولہ وما کنتم تکتمون‘‘۔ دوسرا یہ شبہ کریںگے کہ ’’یحیی‘‘ اور ’’موتی‘‘ کے لفظ کے ہم نے وہ معنی نہیں لیے جو صریح ان لفظوں سے پائے جاتے ہیں۔ مگر یہ اعتراض بھی صحیح نہ ہوگا اس لیے کہ ہم نے ان لفظوں کے وہی معنی لیے ہیں جن معنوں میں خود خدا نے ان لفظوں کو استعمال کیا ہے جہاں فرمایاہے۔ ’’وکنتم امواتافاحیاکم ‘‘ یعنی تم مردہ یعنی معدوم یاغیر موجود یا نامعلوم تھے ۔ پھر ہم نے تم کو زندہ یعنی مخلوق یا موجود یاظاہر کیاپس اسی دلیل سے ہم نے یہاں سے ’’یحیی‘‘ ’’موتی‘‘ کے یہی معنی لیے ہیں کہ نامعلوم قاتل معلوم ہوگیا اور ان کے معنوں کے صحیح ہونے پر خود اسی مقام میں خدا تعالیٰ نے اشارہ کیاہے ۔ اوپرکی آیت میں لفظ واللہ مخرج آیا ہے اسی کے مقابل اس آیت میںیحی اللہ کا لفظ آیا ہے۔ اوپر کی آیت میں تکتمون کا لفظ آیا ہے ۔ اسی کے مقابل اس آیت میںموتی کا لفظ آیا ہے پس علانیہ ثابت ہے کہ یحیی اللہ سے ظاہر ہونا قاتل کا اور موتی سے نامعلوم یاغیر ظاہر ہونا قاتل کا مراد ہے نہ مقتول کا زندہ ہونا ۔ خدا پنی قدرت اور اپنی حکمت کو انہی باتوں میںجو انسان روزمرہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں ظاہر کرتا ہے ۔ مگرا نسان کا خیال اس پر قناعت نہیں کرتا اور دو راز کا ر باتوں کو پسند کرتا ہے ۔ تیسرا شبہ یہ کریں گے کہ ’’کذالک یحیی اللہ الموتی‘‘ کے قبل ہم کو یہ جملہ کہ ’’ فاظہر اللہ ‘‘ مقدر مانناپڑے گا ۔ مگر یہ جملہ نہ خلاف عقل ہے نہ خلاف قرآن اور نہ خلاف سیاق کلام خدا ، کیوں کہ خود خدا نے فرمایا ہے ’واللہ مخرج‘ برخلاف اس پہلے جملہ کے نہ وہ زمین کا ہے نہ آسمان کا …………… ہاروت ماروت کی اصلیت ہارون ماروت دونوں تاریخی شخص ہیں یعنی ان کا وجود تاریخ کی کتابوں سے پایا جاتا ہے۔ یہ دونوں شخص شام کے رہنے والے تھے ۔ قرآن مجید میں ان کو کوئی قصہ بجز اس کے جو یہاں ہے بیان نہیںہوا ہے۔ تمام قصے جو مفسرین نے ان کی نسبت اپنی تفسیروں میںبھر لیے ہیں ان کی کچھ اصل مذہب اسلام میںنہیں ہے۔ جتنی روائتیں ان کی نسبت مذکور ہیں وہ سب مصنوعی اور جھوٹی ہیں۔ مسٹر ہائیڈ کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مجوسیوں کے ہاں ان کی نسبت بہت سے قصے لغو مشہور تھے۔ ہمارے مفسریں کی یہ عادت ہے کہ کسی کے ہاں کا قصہ ہو جب وہ اپنی تفسیروں میں اس کو داخل کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ایک ایسی مصنوعی روایت داخل کر دیتے ہیں جس سے معلوم ہوکہ یہ مسلمانی روایت ہے۔ مگر اس جھوٹ کا جوالزام ہے وہ مفسروں یا راویوں پر ہے قرآن شریف اس سے بری ہے۔ یہ دونوں فرشتے نہیںتھے بلکہ آدمی تھے ۔ ہمارے ہاںکے بعض مفسروں نے بھی ان کو آدمی قرار دیا ہے چنانچہ حسن نے ملکین کے لفظ کو لام کے زیر سے پڑھا ہے جس کے معنی دو بادشاہوں کے ہیں اور ضحاک سے اور ابن عباس سے بھی لام کی زیر سے پڑھنا روایت کیا گیا ہے ۔ پھر ان میں اس بات پر اختلاف ہوا کہ وہ کون تھے حسن کا قول ہے کہ وہ دونوں بابل میں عجم کے کافروں میں تھے بغیر ختنہ کیے ہوئے ۔ کہ لوگوں کو دجادو سکھاتے تھے اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ دونوں بادشاہوں میں سے صالح آدمی تھے ۔ ہم ملکین کے لفظ کو مطابق قرات مشہور لام کے زیر سے پڑھتے ہیں مگر فرشتے مراد نہیںلیتے۔ بلکہ آدمی مراد لیتے ہیں جس کو لوگ نہایت نیک سمجھتے ہیں۔ اس پرفرشتہ کااطلاق کرتے ہیں۔ قرآن مجید سے بھی کافروں میں اس محاورہ کا ہونا پایا جاتا ہے ۔ جس طرح کہ زلیخا کی سہیلیوں نے حضرت یوسف کو دیکھ کر کہاتھا کہ ’’ ماہذا بشران ہذا الا ملک کریم‘‘ اور مجوسیوں میں بھی ایسا استعمال تھا اور ہایڈ صاحب کی کتاب سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مجوسی ہاروت ماروت کو فرشتہ کہتے تھے۔ پس اس آیت جس طرح کہ لوگوں کے اس گمان کو کہ ، جو علمج ان کے پاس تھا وہ خدا کی طرف سے اتار اگیا تھا بیان کیا گیا ہے ، اسی طرح پر جس خیال سے کہ وہ ان کو فرشتہ کہتے تھے ملکین کا لفظ لام کے زیر سے لایا گیا ہے ۔ یعنی ان لوگوں نے اس چیز کی پیروی کی جس کی نسبت وہ کہتے تھے کہ بابل میں ہاروت اور ماروت پر جن کو وہ فرشتہ کہتے تھے خدا کی طرف سے اتاری گئی ہے ۔ پس خدا نے یہ نہ فرمایا ہے کہ جو علم ان کے پاس تھا وہ خدا کی طرف سے اتارا ہواتھا اور نہ یہ فرما یا ہے کہ وہ دونوں فرشتے تھے بلکہ جو زعم ان دونوں کی نسبت کافروں یا یہودیوںکاتھا وہ بیان کیا ہے ۔ اب ایک اور شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ جادو سیکھنے والوں کو منع کیوں کرتے تھے کہ تم مت سیکھو او رکافر مت بنو۔ یعنی برا کام کرنے والے مت بنو۔ یہ بات کچھ تعجب کی نہیں ہے ۔ جادو سے اپنے خیال میں نقصان پہچانا۔ خواہ فی الحقیقت اس سے نقصان پہنچنا ہو یا نہیں۔ ہر کوئی یہاں تک کہ جادوگر بھی برا جانتا ہے اور اسی وجہ سے وہ سیکھنے والے کو منع کرتے تھے ۔ اس زمانے میں بھی بہت لوگ ایسے ہیں جو کوئی براکام جانتے ہیں مگر جب کوئی ان سے سیکھنا چاہتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خراب کام ہے کیوں سیکھتے ہو لیکن جب سیکھنے والا اصرار کرتا ہے تو سکھا دیتے ہیں۔ پس ہاروت اور ماروت کا سیکھنے والوںکو ایسا کہنا ایک عام مجراء طبعی کے موافق تھا۔ اسی آیت میں اس بات پر بھی دلیل ہے کہ سحر باطل ہے یعنی سحر کچھ موثر نہیں ہے کیوں کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ کسی کو یہ سبب اپنے سحر کے کچھ نقصان پہنچانے والے نہ تھے اور یہ کہنا نص صریح اس بات پر ہے کہ سحر کچھ اثر نہیں رکھتا اور یہی معنی سحر کے باطل ہونے کے ہیں۔آگے جو خدا نے فرمایا ہے کہ ’’الا باذن اللہ ‘‘ اس کے یہ معنی سمجھنا کہ ان کا سحر خدا کے حکم سے اثر کرتا تھا محض غلطی اور نا سمجھی ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عامل یا جادوگر کسی کام کے لیے عمل یاجادو پڑھتا ہے او ر وہ کام اتفاقیہ اس کی خواہش کے مطابق ہوجاتا ہے اورشبہ پڑتا ہے کہ عمل یا جادو کے اثر سے ہواہے اس شبہ کے مٹانے کو خدا نے فرمایا ہے ’’الا باذن اللہ‘‘ یعنی ایسی حالت میں جوکام ہوجاتا ہے وہ خدا کے سے ہوجاتا ہے ۔ کچھ جادو یا عمل کے سبب سے نہیں ہوتا۔ ……… حضرت نحمیا کا قصہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میںفرماتا ہے: او کالذی مرعلیٰ قریۃ وھی خاویۃ علی عروشہا قال انی یحیی ہذہ اللہ بعد موتہا فاماتہ اللہ مائۃ عام ثم بعثہ ، قال کم لبثت قال لبثت بوما اور بعض یوم قال بل لبثت مائۃ عام فانظر الی طعامک وشرایک لم یتسنہ وانظر الی حمارک و لنجعلک آیۃ للناس وانظر الی العظام کیف ننشزہا ثم نکسوہا لحما فلما تبین لہ قال اعلم ان اللہ علی کل شئی قدیر۔ یا (تونے نے اس شخص کو نہیں دیکھا یعنی اسکا حال نہیں جا نا جس نے رویا میں دیکھا) کہ گویاوہ گذرا ایک شہر پر ایسی حالت میںکہ وہ سر کے بل گرا ہواتھا ۔ اس نے کہا کہ کیوں کر زندہ کرے گا (یعنی آباد کرے گا) اللہ اس کو اس کے مرجانے کے (یعنی ویران ہونے کے) بعدپھر اللہ نے اس کو سو برس تک مرا ہوا رکھا پھر اس کو اٹھایا خدا نے کہا کہ کتنی دیر تک تو پڑا رہا اس نے کہا کہ میں پڑا رہا ایک یا کچھ کم ایک دن کہا بلکہ تو پڑا رہا سو برس پھر دیکھ اپنے کھانے کو اوراپنے پینے کو (کیا) وہ نہیں بگڑا ہے اور دیکھ اپنے گدھے کو(کیا وہ نہیں گل گیا ہے) او رمیں چاہتا ہوں کہ تجھ کو ایک نشانی آدمیوں کے لیے بناؤں اور دیکھ ہڈیوں کو کس طرح ہم ان کو حرکت میں لاتے ہیں۔ پھر ان کو گوشت پہناتے ہیں پھر جب اس کو یہ بات ظاہرہوئی اس نے کہا(حالت بیداری میں) میں جانتا ہوں کہ بے شک اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔ قبل اس کے کہ اس کی تفسیر بیان کی جاوے لفظ ’’کالذی‘‘ میں جوحرف کاف ہے اس پر جو بحث ہے و ہ بیان کرنی چاہیے۔ علمائے نحو میںسے کسائی اور فراء اور ابو علی فارسی کا یہ قول ہے کہ اس سے پہلی آیت میں جہاں فرمایا ہے کہ ’’الم تر الی الذی جاج ابراہیم ‘‘ وہاں بھی ’’الذی ‘‘ آیا ہے اس کا عطف پہلی آیتوں کے معنوں پر ہے نہ لفظ پر ۔ یہ بحث تو صرف سیاق عبارت سے اور ایک نحوی قاعدہ سے متعلق ہے۔ اس بحث سے یہ مطلب حل نہیں ہوتا کہ ’’الذی‘‘ پر کاف تشبیہہ لانے سے جو یہ معنی ہوگئے ہیں کہ اس شخص کی مانند ، تو مانند کے کہنے سے کیا مطلب ہے۔ اخفش نے اس بحث کو نہایت مختصر کر دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ یہاں کاف زائد ہے۔ مگرکاف زائد کے لانے کی اور اس کے زائد ہونے کی کوئی وجہ نہیںمعلوم ہوتی ۔ صاف بات تھی کہ پہلی آیت میںبتایا تھا کہ ’’کیا تو نے نہیں دیکھا اس شخص کو جس نے ابراہیم سے جھگڑا کیا‘‘ اور دوسری آیت میںفرمایا کہ ’’کیا تو نے نہیں دیکھا اس شخص کو جو ایک قریہ میںگذرا‘‘پھر دوسری جگہ کاف زائد لانے کی اور مانند اس شخص کے جو ایک قریہ میں گزرا کہنے کی کیا حاجت تھی ۔ میر و نحوی دوسری آیت میں چند لفظ محذوف مانتا ہے اور اس کا قول ہے کہ تقدیر آیت کی یوں ہے ’’والم ترالی من کان الذی مرعلیٰ قریۃ‘‘ یعنی تو نے کیا نہیں دیکھا اس شخص کو جو تھا مثل اس شخص کے جو ایک قربہ پر گذرا ۔ مگر اس سے بھی آیت کا مطلب نہیں کھلتا اوریہی سوال باقی رہنا ہے کہ مثل اس شخص سے کیا مطلب ہے ۔ صاحب بیضاوی نے غالبا ان مشکلات کو خیال کیا ہے اور ایک قول بیان کرنے سے اپنی دانست میں اس مشکل کو حل کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’ اوکالذی مرعلی قریۃ‘‘ حضرت ابراہیم کا قول ہے اور سوال مقدر کا جواب ہے ۔ یعنی جب نمرود نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ ’’میں زندہ کرتاہوں‘‘ تو حضرت ابراہیم نے کہا کہ اگر تو زندہ کرتا ہے تو اس طرح زندہ کو جس طرح کہ خدا نے اس شخص کو زندہ کیا تھا جو ایک قریہ پر گذرا تھا۔ اس تفسیر کے مطابق تقدیر آیت کی یہ ہوتی ہے کہ ’’ان کنت تحیی فاحی کاحیاء اللہ الذی مرعلی قریۃ‘‘ نتیجہ اس کا یہ ہواکہ لفظ کاف سے اس شخص کی مانند مراد نہیں بلکہ جس طرح وہ زندہ ہوا تھا اس طرحزندہ کرنے کی مانند مراد ہے اور پھر قاضی بیضاوی صاحب فرماتے ہیںکہ وہ شخص جو زندہ ہوا تھا یا تو عزیز تھے یا خضر تھے یا کوئی کافر منکر بعث تھا ۔ عزیز تو نہیں ہوسکتے کیوںکہ وہ حضرت ابراہیم کے زمانہ کے بہت بعد ہوئے ہیں اوریہ معلو نہیںکہ قاضی صاحب نے خضر سے مراد کسی سے لی ہے اور یہ واقعہ خضر پر کب گذرا تھا اور نہ یہ معلوم کہ وہ کافر منکر بعث کون تھا ۔ رجما بالغیب جو کچھ جی میںآیا یا سنا لکھ دیا ۔ راوی کی روایت (گو وہ کیسی ہو صریح البطلان ہو) تفسیروں میںقصوں کے لکھ دینے کو کافی ہے ۔ پس یہ قول حضرت ابراہیم کا کسی طرح نہیں ہوسکتا۔ اگرقرآن مجید کا ٹھیک ٹھیک ادب کیا جاوے اور اس کو دیو پری کاقصہ نہ قراردیا جاوے جیسے کہ عجائب پسند مسلمان قرار دیتے ہیں تو آیت کے معنی نہایت صاف ہیں ۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ کاف حرف تشبیہہ کا ہے اور کان بھی اسی کاف تشبیہہ سے بنا ہے اور کاف تشبیہہ کو بہ سبب کسی ضرورت کے مثلا بغرض اہتمام تشبیہہ یا تبدیل سیاق کلام یا کسی اور ضرورت کے مشبہ بہ سے جدا کرکے مقدم کردینا جائز ہے۔ مثلا ’’زید کا لاسد‘‘ سے جب کاف تشبیہہ کو کسی سبب سے جدا کر کے مقدم کریںتو یوں کہیںگے ’’کان زیدالاسد‘‘ اس مقام پربھی ’الذی‘ مشتبہ نہیں ہے بلکہ اس سے اس شخص کے مرور کی تشبیہ یا تمثیل مدراہے پس تقدیر آیت کی یہ ہے کہ ’’الم تر الی الذی کانہ مرعلی قریۃ‘‘ یعنی کیا نہیںدیکھا تو نے اس شخص کو جو گویا کہ گذرا تھا ایک قریہ پر ، درحقیقت وہ شخص گذرا ہوں جو ویران پڑ اہے اور جو تقدیر آیت کی ہم نے بیان کی ہے اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ اس شخص کا حال بیان کیا جاتا ہے جو یہ سمجھا تھا کہ گویا میںایک قریہ میں گیاہوں اور اس طرح کابیان صریح دلالت کرتا ہے کہ وہ رویا کا واقعہ ہے مگر نحوی قاعدہ کے مطابق ’’کان‘‘ کا لفظ ’الذی‘ موصول کے صلہ میں واقعہ نہیں ہوسکتا۔ اس ضرورت سے حرف تشبیہہ یعنی لفظ کان کو مقدم لانا پڑتا تھا او روہ مقدم نہیں ہوسکتا تھا۔ کیوںکہ اسکے اسم و خبر صلہ کے جزو تھے ۔ اس لیے حرف کاف جو اصل لفظ تشبیہہ کا تھا وہ ا س کی جگہ مقدم کیا گیا۔ قرآن مجید میں اس شخص کاجس کا رویا یہاں بیان ہواہے ذکرنہیں ہے اور نہ قریہ کا ذکر ہے جسمیں اس شخص نے رویا میںدیکھا تھا ۔ غالبا اس قریہ کے تعین کی ضرورت بھی نہیںکیوں کہ اس شخص نے رویا میںدیکھا ہوگا کہ میں ایک قریہ میںگزرا ہوں جو ویران پڑا ہے۔ البتہ اس شخص کی جس نے یہ رویا دیکھا اس کی تعین کرنی چاہیے۔ غالبا آں حضرت کے زمانے میں اس شخص کے نام کو ہر کوئی جانتا ہوگا۔مگر اب ہمارے پاس اس شخص کانام متعین کرنیکو بجز روایات اور تاریخی واقعات کے اور کچھ نہیںہے ۔ تاریخی واقعات سے جہاں تک کہ تحقیق ہو سکتے ہیں اور جن پر اعتماد ہو سکتا ہے ان سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص نحمیا بنی تھے ۔ توریت میں جو واقعات بیت المقدس کی ویرانی کے لکھے ہیں اور جو زمانہ اس کاقرار دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخت نصر نے ۵۹۰ قبل مسیح میںبیت المقدس کا محاصرہ کیا اور ۵۸۸ قبل مسیح بیت المقدس کو فتح کرلیا اور معبد کو جلا دیا اور بیت المقدس کو ویران کردیا مگر کیخسرو بادشاہ ایران نے غلبہ پاکر یہودیوں کو قید بابل سے آزاد کیا اور ۵۴۶ قبل مسیح کے انہوں نے بیت المقدس میں واپس آکر قربانیاں کیں اس کے بعد کسی بادشاہ نے یہو دیوں کو بیت المقدس کی تعمیر کی اجا زت کی اور کسی نے پھر منع کر دیا ۵۱۸ قبل مسیح میںدارا نے بیت المقدس کی تعمیر کی اجازت دے دی مگر ہامان کی دشمنی سے حرج پڑتا رہا۔ ۴۶۷ ء قبل مسیح کے عزیز پیغمبر بیت المقدس میں گئے اور یہودیوں کی بھلائی کا زمانہ شروع ہوا مگر بیت المقدس اس طرح جال ہو اور ڈھیا ہو پڑا تھا حضر نحمیا نبی کو اسکا نہایت رنج تھا انہوں نے خد ا سے بہت التجا اوردعا کی کہ وہ کسی طرح پھرتعمیر ہو۔ ایک دفعہ ارتحششتائی بادشاہ کے حضور میںحاضر تھے بادشاہ نے پوچھا کہ تم کیوں رنجیدہ ہو، انہوں نے کہا کہ میں کیوں رنجیدہ نہ ہوں کہ وہ شہر جس میںہمارے بزرگوں کے مزار ہیں، ویران پڑاہے اور اس کے دروازے اگ سے جلے پڑے ہیںبادشاہ نے پوچھا کہ پھر تو کیا چاہتا ہے حضرت نحمیا نے کہا کہ مجھ کو وہاں جانے دیں تاکہ میں اس کو پھر تعمیر کروں، بادشاہ نے اجازت دی اور ایک میعاد مقرر کی کہ اس عرصہ میںتعمیر کرکے واپس آجانا۔ جب نحمیا بیت المقدس کی تعمیر میںمصروف تھے تو ان لوگ پر ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ کیا وہ بیت المقدس کو بنا لیں گے اور ا سکے پتھروں کو جو جلے ہوئے اور خاک کے ڈھیروں کے تلے جمع ہیںنکال لیں گے کتاب نحمیا سے معلوم ہوتا ہے کہ حضر ت نحمیا کو بیت المقدس کی تعمیر کی بڑی فکر تھی اور خدا کے سامنے ہمیشہ التجا اوردعا کیاکرتے تھے ، بلا شبہ ان کے دل میںیہ بات گزری ہوگی کہ اس شہر کے مرجانے یعنی ویران ہو جانے کے بعد کس طرح اللہ تعالیٰ اسکو زندہ یعنی آباد کر ے گا انہیں ترددات اور خدا سے التجا کرنے کے زمانے میںجیسا کہ مقتضائے فطرت انسانی ہے حضرت نحمیا نے رویا میںدیکھا اور انکو تسلی ہوئی کہ بیت المقدس آباد اور تعمیر ہو جائے گا اسی رویا کا ذکر اس آیت میںہے اور وہ رویا یہ ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ میں ایک قریہ میں گیاہو ں جو بالکل ڈھے گیا ہوا او رویران پڑا ہے رویاہی میںانہوں نے کہا کہ اس قریہ کے اس طرح مر جانے یعنی ویران ہوجانے کے بعد کس طرح خدا اس کو زندہ کرے گا یعنی آباد کرے گا ۔ اسی حالت میںانہوں نے دیکھا کہ میں مر گیا ہوں اور پھر جی اٹھاہوں رویا میں ان سے کسی نے کہا کہ کتنی دیر تک تم پڑ ے رہے انہوں نے کہا کہ ایک دن یا ایک دن سے کچھ کم اس نے کہا کہ تم سو برس تک پڑے رہے اپنے کھانے اوراپنے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ وہ تو نہیں بگڑیں اور اپنے گدھے کو دیکھ کہ اس کا کیا حال ہو گیا ہے اور دیکھ کہ پھر اصلی ہڈیاں کس طرح ہلتی ہیں اور کس طرح ان کے اوپر گوشت چڑھتا ہے اس عجیب رویا سے ان کوتسلی ہوئی کہ بیت المقدس ضرور تعمیر ہوجا وے گا ۔ پس یہی قصلہ جو خدا کی قدرت او ر حکمت اور عظمت کو جتاتا ہے اس آیت میںبیا ن ہوا ہے۔ ہمارے مفسروں کی عادت ہے کہ سیدھی بات کوبھی ایک عجوبہ بات بناکر بیان کرتے ہیں او ر سنی سنائی ناتحقیق اور قصے کہانیاں اس میں شامل کر دیتے ہیں اسی طرح اس میںبھی کیاہے بایںہمہ جب ان تمام باتوں پر غور کیا جاتا ہے تو جو اصل بات ہے وہ بھی اس میںسے نکل سکتی ہے چناںچہ اس مقام پر ابھی جو روایت ابن عباس کے نام سے تفسیر کبیر میںبیان کی ہے اس سے پایا جاتا ہے کہ یہ تمام واقعہ جو اس آیت میںبیان کیا گیا ہے وہ ایک رویا تھا ۔ اس روایت میںبجائے حضرت نحمیا کے حضرت عزیز کا نام لکھا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ خواب دیکھنے والے حضرت عزیز ہی ہوںمگر تاریخ سے مطابقت کرنے سے حضرت نحمیا کا ہونا زیادہ تر قرین قیاس معلوم ہوتا ہے اسی روایت میںلکھا ہے کہ جب وہ بیت المقدس میںپہونچے تووہاںانگور اور انجر پھل رہے تھے ۔ انہوں نے انجیر اورانگور کھائے اور انگوروں کو نچوڑ کر شیرہ پیا اور سورہے اور سونے ہی کی حالت میںخدا تعالیٰ نے ان کومردہ کر دیا اور سو برس تک مردہ پڑے رہے ان لفظوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علمائے متقدمین کی بھی یہ رائے تھی کہ یہ واقعہ حالت نوم میںگزرا تھا جس کو ہم نے سیدھی طرح رویا سے تعبیر کیا ہے باقی حصہ جو اس روایت میںلکھا ہے محض بے اصل ہے جس کے لیے کوئی سند نہیں ہے ۔ قرآن مجید کا سیاق کلام اس طرح پر واقع ہو اہے کہ جو قصے اس میںبیان کئے گئے ہیں ان کا مقصد بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے ۔ چنانچہ حضرت یوسف کے خواب کا جہاں ذکر ہے وہاں بھی اسی طرح بیان ہے کہ حضرت یوسف نے اپنے باپ سے کہا کہ میںنے گیارہ ستاروں اور چاند و سورج کو اپنے تئیں سجدہ کرتے دیکھا اوریوں نہیں بیان کیا کہ میںنے خواب میںدیکھا کہ چاند اور سورج مجھ کو سجدہ کرتے ہیں۔ کیوںکہ خواب میںدیکھنا قرینہ مقام علانیہ روشن تھا ۔ اسی طرح ا س مقام پر بھی حضرت نحمیا کے خواب کامقصد بیان کیا گیا ہے اور ’’فلما تبین‘‘ کے لفظ سے صاف پایاجاتا ہے کہ وہ تمام واقعات جو اس آیت میںبیان ہوئے ہیں رویا میں واقع ہوئے تھے …………………… حضرت عزیر ان کے ابن اللہ ہونے پر بحث قرآن مجید میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے او قالت الیھود عزیز ن ابن اللہ ، یعنی یہود یوںکا قول ہے کہ ’’عزیز خدا کا بیٹا ہے ‘‘ ہمارے علمائے مفسرین اس آیت کی تفسیر میں یہ لکھتے ہیں کہ یہودیوںنے توریت مقدس کو ضائع کر دیا تھا یعنی بخت نصر نے جب بیت المقدس کو ویران کیاہے اور جلایا ہے ، اس وقت ضائع ہوگئی تھی مگر حضرت عزیر کے دعا مانگنے پر اللہ تعالیٰ نے توریت ان کو یاد کروادی اور انہوں نے اس کو لکھ دیا۔ اس وقت یہودیوں نے کہا کہ یہ بات جو عزیر کو حاصل ہوئی تو بے شک وہ ابن اللہ ہے۔ ا س کے بعد علمائے مفسرین نے یہ بحث کی ہے کہ حضرت عزیر کو ابن اللہ کس نے کہا (۱) عبید ابن عمیر کا یہ قول ہے کہ صرف ایک یہودی نے یہ بات کہی تھی جس کا نام فخاص بن عازورا تھا اور (۲) سعید بن جبیر اورعکرمہ کا یہ قول ہے کہ ایک جماعت یہودیوں کی تھی جنہوں نے یہ کہاتھا (۳) یعض کا یہ قول ہے کہ یہ مذہب یہودیوں میںرائج تھا مگر پھر انہوں نے اس کو چھوڑ دیا تھا ۔ (۴) تفسیر کشاف میںلکھا ہے کہ جو یہود مدینہ میںرہتے تھے ان میںسے چند آدمیوں کا یہ مذہب تھا کل یہودیوں کا یہ مذہب نہیںتھا ۔ یہ سب اقوال ہمارے علما ئے مفسرین کے ہیں مگر یہودی اس سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہودی عزیر کو بھی ابن اللہ نہیںکہتے تھے۔ علمائے مفسرین نے جو کچھ اس کی نسبت بیان کیا مورخانہ طریقہ پر اسکا ماخذ تلا ش نہیں کیا اور نہ یہودی مذہب کی کسی کتاب کا حوالہ دیا۔ پس ہم کو علمائے مفسرین کے اقوال کا ماخذ تلاش کرنا ہے اور وہ صرف دو قول ہیں۔ اول یہ کہ بعد ضائع ہوجانے توریت کے حضرت عزیر پیغمبر نے از سرنو توریت کو لکھا۔ دوم یہ کہ یہودیوں کے کسی فرقہ نے حضرت عزیر کوابن اللہ کہا۔ پہلے قول کی سند ہم یہودی کتابوں سے بیان کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ تین کتابیں ہیںجو حضرت عزیر کیطرف منسوب ہیں۔ایک کتاب موسوم یہ کتاب ’’عزرا‘‘ ہے جو موجودہ عہد عتیق کی کتابوں میںشامل ہے اور سب لوگ اس کو صحیح او رمعتبر مانتے ہیں۔ علاوہ اس کے دو کتابیں اورہیں جو کتاب اول ’’عیز ڈراس ‘‘ اور کتاب دوم ’’عیز ڈراس ‘‘ کے نام سے موسوم ہیں۔ عزرا کانام یونانی زمیں میں ’’عیز ڈراس ‘‘کہا جاتا ہے اور جو کہ ان دونوں کتابوں کی نسبت خیال کیا گیا ہے کہ یونانی زبان میںلکھی گئی تھیں اس لیے ان دونوں کتابوں کو اسی نام سے موسوم کیاگیا ہے۔ ان کتابوں میں سے دوسری کتا ب کے چودھویں باب میںیہ ور ہیں : ’’دیکھ اے خدا میںجاؤںگا جیسا کہ تو نے مجھ کو حکم دیا ہے اور جو لوگ موجود ہیں میںان کو فہمائش کروں گا لیکن جو لوگ کہ بعد کو پیدا ہوں گے انکو کون فہمایش کرے گا۔ اس طرح دنیا تاریکی میںہے اور جو لوگ اس میںرہتے ہیں بغیرروشنی کے ہیں۔‘‘ (ورس ۲۰) ’’کیوں کہ تیرا قانون جل گیا ہے پس کوئی نہیں جانتا ان چیزوں کو جو تو کرتا ہے اور ان کاموں کو جو شروع ہونے والے ہیں۔‘‘ (ورس ۲۱) ’’لیکن اگرمجھ پر تیری مہربانی ہے تو روح القدس کو مجھ میںبھیج اور میںلکھوں گا تمام جو کچھ کہ دنیا میں ابتدا سے ہوا ہے اور جو کچھ تیرے قانون میںلکھا تھا تاکہ لوگ تیری راہ کو پاویں او روہ لوگ جو اخیر زمانہ میںہوںگے زندہ رہیں۔‘‘ (ورس ۲۲) ’’اور اس نے مجھ کویہ جواب دیا کہ جا اپنے رستہ سے لوگوں کو اکٹھا جمع کر اور ان سے کہہ کہ وہ چالیس دن تک تجھ کو نہ ڈھونڈیں۔‘‘ (ورس ۲۳) ’’لیکن دیکھ تو بہت سے صندوق کے تختے تیار کر اور اپنے ساتھ ’’ ساریا‘‘ و ’’دبریا‘‘ ’’سلیما‘‘۔ ’’اکینیسبن ‘‘اور ’’ایشیل‘‘ کولے۔ ان پانچوں کو جو بہت تیزی سے لکھنے کو تیار ہیں۔‘‘ (ورس ۲۴‘ ’’اور یہاں آ اور میںتیرے د ل میںسمجھ کی شمع روشن کروں گا جو کہ نہ بجھے گی تا وقتیکہ وہ چیزیں پوری نہ ہوںجو تولکھنی شرور کرے گا ۔‘‘ (ورس ۲۵) ’’اور جب کہ تو پورا کر چکے گا تو بعض چیزوں کو تو مشتہر کرے گا اور بعض چیزوں کو توخفیہ عقل مندوں کو دکھاوے گاکل اسی وقت تو لکھنا شروع کرے گا ۔ ‘‘۔ (ورس ۶ ۲) ’’پس میںنے ان پانچ آدمیوں کو لیاجیسا کہ اسنے حکم دیا تھا اور میدان میںگئے اور وہاں رہے۔ ‘‘ (ورس ۳۷) اور دوسرے دن دیکھو ایک آواز نے مجھ کو پکارا اور کہا اے ’عیز ڈراس‘‘ اپنامنہ کھول اور میں جو کچھ پینے کو دیتا ہوں اس کوپی۔‘‘ (ورس ۳۸) ’’ تب میںنے اپنا منہ کھولا اور دیکھو اس نے ایک بھرا ہوا پیالہ میرے منہ تک پہنچایا اور جو کہ مثل پانی کے ایک چیز سے بھرا ہو اتھا لیکن اسکا رنگ مثل آگ کے تھا ۔‘‘ (ورس ۳۹) ’’ اور میں نے اس کو لیا اور پیا اور جب میںپی چکا میرے دل میںسمجھ آئی اور میرے سینہ میںعقل پید ا ہوئی کیوں کہ میری روح نے میرے ذہن کی قوت بخشی۔‘‘ (ورس ۴۰) ’’خدا ان پانچ آدمیوں کو بھی سمجھ دی اور انہوں نے رات کے عجیب خوابوں کو جو بیان کیے گئے لکھا اور جو ان کو معلوم نہ تھے اور وہ چالیس دن تک بیٹھے اور انہوں نے دن میں لکھا اور رات کوروٹی کھائی۔‘‘ (ورس ۴۲) ’’لیکن میں دن کوبولتاتھا اوررات کو اپنی زبان بند نہیں کرتا تھا ۔‘‘ (ورس ۴۴) ’’چالیس دن میں انہون نے دو سوچار (یا نو سو چار) کتابیں لکھیں۔‘‘ (ورس ۴۴) ’’اور ایسا ہوا کہ جب چالیس دن پورے ہوگئے تو خدا بولا اور اس نے کہا کہ جو تونے پہلے لکھا ہے اس کو عا م طور سے مشتہر کر ۔ تاکہ لائق اور نالائق سب پڑھیں۔ ‘‘ورس (۲۵) لیکن پچھلی سترجو ہیں ان کوپوشیدہ رکھ تاکہ توصرف ان کو دے سکے جو تیرے لوگوں میںعقل مندہوں۔‘‘ (ورس ۴۶) ’’کیوں کہ ان میںسمجھ کا چشمہ ہے اور عقل کا ذخیرہ ہے اور علم کی روشنی ہے۔ ‘‘ (ورس ۴۷) ’’اور میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘ (ورس ۴۸) کتاب عزرا جو عہد عتیق میںداخل ہے اور جس کو سب معتبر مانتے ہیں اس میں لکھاہے کہ ایں عزرا ازبابل برآمد کہ اور در شریعت موسیٰ کہ خداوند کے خداے اسرائیل دادہ بود کاتب ماہر بود۔‘‘ (باب ۷ ورس ۶) ’’زاں روکہ عزرا قلب خو درا خصوص طلبیدن و بجا آوردن شریعت خداوند و بہ خصوص تعلیم نمودن فرائض و احکام بہ اسرائیل حاضر کرد۔‘‘ (باب ۷ ، ورس ۱۰) جار ج سیل صاحب اپنے ترجمہ قرآن کے حاشیہ میںلکھتے ہیں کہ ’’یہ راے کہ عزرا نے نہ صرف کتب خمسہ موسیٰ کو بلکہ عہد عتیق کی اور کتابوں کوبھی خدا کی وححی سے دوبارہ تیار کیا ۔ متعدد عیسائی فادرز کی بھی یہی رائے ہے جن کا ذکر ڈاکٹر پریڈ یوز نے کیا ہے اور مصنفوں کی بھی یہ راے ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ا س رائے کی اصل بنا ’’عیز ڈراس‘‘ کے باب دوسرے کے ایک حصہ پرہے ، ڈاکٹر پریڈیوز نے بیان کیا ہے کہ اس باب میں عیسائیوں نیعزرا کی طرف بہ نسبت یہودیوں کے بہت زیادہ باتیں منسوب کی ہیں کیونکہ یہودیوں کا یقین ہے کہ عزرا نے صرف موسیٰ کی کتابوں کا ایک صیحح نسخہ تیار کیا تھا اور ا س پر بہت محنت کرکے اس کوبہت مکمل کیاتھا ۔ اس میں بہت کم شبہ ہے کہ یہ خیال ابتداء یہودیوں سے شروع ہوا گو اب ان کی رائے اور ہو ‘‘ہمارے نزدیک یہ سندیںجو ہم نے بیان کیں ان سے ہمارے مفسرین کے پہلے قول کی تصدیق ہوتی ہے۔ دوسرے قول کی تصدیق کے لیے ہم ’’عیز ڈراس‘‘ کی اس دوسری کتاب سے استدلال کرتے ہیں۔ اس کے چودھویں باب میں یہ ورس ہیں۔ ’’اور اب میں (خدا ) تجھ سے کہتا ہوں۔‘‘ (ورس ۷) ’’ کہ تو اپنے دل میں وہ نشانیاںجل جمع رکھ جو میں نے دکھائی ہیں اور ان خوابوں کو جو تو نے دیکھے ہیں اور ان تعبیروں کو جو تو نے سنی ہیں۔ ‘‘ (ورس ۸) ’’کیونکہ تو سب سے علیحدہ کر دیا جاوے گا اور اب سے تو میرے بیٹے کے ساتھ رہے گا اور ایسے لوگوں کیساتھ جو تیری ہی مانند ہیں یہاں تک کہ زمانہ کا خاتمہ ہو جاوے ۔‘‘ (ورس ۹) یہ ترجمہ جو ہم نے لکھا ہے انگریزی زبان کے ترجمہ کا اردو ترجمہ ہے ۔ اصل کتاب ’’عیز ڈراس ‘‘موجود نہیں ہے ۔ اگر بیٹے کے ساتھ رہنے سے حضرت عیسیٰ مراد ہوں تو یہ ور س محض مہمل و بے معنی ہوجاتا ہے بلکہ سیاق کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کلمہ کا اطلاق خود حضرت عزرا کی طرف ہے کہ اب سے تو میرا بیٹا رہے گا یعنی مقبول و مقرب۔ اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ موجود تھا اور کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ وہی عربی ترجمہ عرب میں اور بالتخصیص مدینہ میںجہاں کثرت سے یہودی رہتے تھے مروج ہوگا اور نہایت قرین قیاس ہے کہ وہ ترجمہ ایسے لفظوں میں ہوگا جس سے لوگ حضرت عزرا کو ابن اللہ تعبیر کرتے ہوں گے جس طرح کہ عیسائی اسی قسم کے لفظوں کے سبب سے حضرت مسیح کو ابن اللہ تعبیر کرتے ہیں۔ پس یہ قول ہمارے علماء کا کہ مدینہ کے یہودیوں کا یہ خیا ل تھا نہایت صحیح اور قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ اب ہم کو ’’عیز ڈراس ‘‘کی دوسری کتاب پر جس کے حوالے ہم نے دیے ہیں بحث کرنی باقی ہے۔ یہ کتاب مجموعہ کتب عہد عتیق میںشامل نہیں ہے اور اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ یہ ایک جھوٹی یا نامعتبر کتاب ہے گو کہ اس میں بہت سی باتیں عمدہ اور صحیح بھی موجود ہیں۔ اس کتاب کے نامعتبر ہونے کی یہ دلیلیں پیش ہوتی ہیں۔ اول: یہ کہ اس کتاب کا کوئی عبری یا یونانی نسخہ نہیں پایا جاتا صرف لیٹن زبان کے چند نسخے اور ایک عبری زبان کا نسخہ ہے۔ مگرہم نہیں سمجھ سکتے کہ عبری یا یونانی نسخہ کا نہ پایا جانا خصوصا ایسی حالت میںکہ سب لوگ اس کا یونانی میںلکھا جانا خصوصا ایسی حالت میںکہ سب لوگ اس کا یونانی میںلکھا جانا تسلیم کرتے ہیں اس کے نامعتبر ہونے کی کیوں کر دلیل ہو سکتی ہے۔ دوسری دلیل یہ پیش ہوتی ہے کہ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ ابتدا ہی میںیہ کتاب یونانی زبان میں لکھی گئی تھی جس کا یہ مفاد ہے کہ حضرت عزرا نے نہیں لکھی کیوں کہ اگر وہ لکھتے تو عبری زبان میں لکھتے مگر اس کا یونانی زبان میں ابتداء لکھا جانا صرف کیا گیا ہے اور اس کا کچھ ثبوت نہیں ہے۔ علاوہ اس کے بالاتفاق تسلیم کیا گیا ہے اور اس کا کچھ ثبوت نہیں ہے ۔ علاوہ اس کے بالا تفاق تسلیم کیا گیا ہے کہ حضرت متی کی انجیل دراصل عبری زبان میںلکھی گئی تھی جو اب دنیا میںموجود نہیں ہے اور موجودہ انجیل یونانی زبان کی اس کا ترجمہ ہے ۔ پس کیا وجہ ہے کہ ’’عیز ڈراس‘‘ کی کتاب کے اس نسخہ کو جس کا یونانی میںلکھا جانا خیال کیا گیا ہے عبری کا ترجمہ نہ تصور کیا جاوے۔ تیسری سب سے بڑی دلیل اس کتاب کی عزرا کی لکھی ہوئی نہ ہونے کی ڈاکٹر گرے کا قول ہے وہ کہتے ہیںکہ اس ’’کتاب کے مختلف مقامات کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان مسئلوں اور خیالات اور فقروں کی طرح ہے جو عہد جدید میں پایا جائے اور یہ بات کہ ہمارے سیویر یعنی حضرت مسیح کا ذکر ان کا نام لے کر اس میںبہت صاف الفاظ میں کیا ہے ۔ ان سب باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کل نہیں تو اکثر حصہ ا س کا انجیل کے بعد لکھا ہو اہے ۔ جن ورسوں میں ایسے الفاظ ہونے کا خیال کیا گیا ہے وہ مندرجہ زیل ورسوں میں مذکور ہیں۔ ’’اوراس لیے میں تم سے کہتا ہوں اے کفار تم میں سے جو سنتے اور سمجھتے ہیں کہ تم ڈھونڈو اپنے گڈریا کو کہ وہ تم کو ہمیشہ کا آرام دے گاکیوں کہ اب وہ قریب ہے اور دنیا کے آخیر میںآنے والا ہے۔‘‘ (باب ۲، ورس ۲۳۴) ’’بادشاہت کے انعام کے لیے تیار رہو کیوں کہ ہمیشہ کی روشنی تم پر چمکنے والی ہے۔ ‘‘(باب ۲، ورس ۳۵) ’’ اس دنیا کے سایہ سے بھاگو اور اپنے جلال کی خوشی کو حاصل کرو میںاپنے سیویر کی تصدیق صاف طور سے کرتا ہوں۔‘‘ (باب ۲، ورس ۳۲) عیسائی حضرت عیسیٰ پر سیویر کا لفظ اطلا ق کرتے ہیں اور اسی خیال سے ڈاکٹر گرے نے خیال کیا ہے کہ اس سے حضرت عیسیٰ مراد ہیں اور یہ کتاب انجیل کے بعد لکھی گئی ہے ۔ مگر وہ عبری لفظ جس کا ترجم سیویر یعنی نجات دہندہ کیا جاتا ہے وہ عہد عتیق میں اشعیاء بنی کی کتاب باب ۴۳ ورس ۳ و ۱۱ و باب ۴۵ ورس ۲۱ و باب ۴۹ ورس ۲۶ و باب ۶۰ ورس ۱۶ میں آیا ہے اور خدا کی طرف اس کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ پھر یہاں بھی سیویر سے خد ا کیوں سمجھا نہیں جاتا ۔ ’’تب میں نے فرشتہ سے پوچھا کہ یہ جوان شخص کون ہے جو ان لوگوں کے سروں پر تاج رکھتا ہے اور ان کے ہاتھ میں شاخیں دیتا ہے ۔‘‘ (باب ۲ ، ورس ۴۶) ’’پس اس نے جواب دیا کہ یہ خدا کا بیٹا ہے جس کو انہوں نے دنیا میںقبول کیا ہے ۔‘‘ (باب ۲، ورس ۴۷) مگر بزرگ اور مقدس آدمی کو خدا کا بیٹا کہنا ایک عام محاورہ کتب عہد عتیق کا ہے ۔ حضرت موسیٰ کی دوسری کتابے یعنی سفر خروج کے چوتھے باب کی بائیسویں آیت میں خد انے حضرت یعقوب کو اپنا پہلا بیٹا کہا ہے اور وہ آیت یہ ہے : ’’وبہ فرعون بگوئے کہ خداوند چنیں می فرماید کہ اسرائیل پسر اول زادہ من است‘‘زادہ کا لفظ اصل عبری میںنہیں ہے ۔ ہوشیع نبی کی کتاب کے پہلے باب کی دسویں آیت میں بنی اسرائیل پر خدا کے بیٹوں کا اطلاق ہوا ہے او ر وہ آیت یہ ہے:’’معہذا تعداد بنی اسرائیل مثل ریگ دریا کہ پیمودنی و شمودنی نیست خواہد بود بلکہ واقع می شود در تمامی مقامے کہ بایشاں گفتہ خواہد شد کہ پسران خدا می آید۔‘‘ ’’اور جو شخص کہ مندرجہ بالا برائیوں سے بچے گا وہ میر عجائبات کو دیکھے گا ۔‘‘ (باب ۷، ورس ۲۷) ’’کیوں کہ میر ا بیٹا جیسس ان لوگوں کے ساتھ ظاہر ہوگا جواس کے ساتھ ہوں گے اور جو لوگ باقی رہیںگے وہ چار سو برس کے اندر خوش ہوں گے ۔ ‘‘ (باب ۷ ، ورس ۲۸) بعد ان برسوں کے میر ابیٹا کرائسٹ مر جاوے گا اور تمام لوگ جو جان رکھتے ہیں وہ بھی‘‘ (باب ۷ ، ورس ۲۹) جیسس اور جیسو اور جوشیو یہ تینوں صورتیں یونانی نام جوشوا اور جیشوا کی ہیںجو مخفف ہے جیہو شوا کا ، مگر سمجھ میںنہیں آتا کہ اس مقام میںجو جیسس نام ہے ڈاکٹر گرے نے کس دلیل پر اس کو حضرت مسیح کا نام سمجھا ہے۔ کیوں کہ اس عیز ڈارس کی پہلی کتاب کے پانچویں باب ورس ۵ میںیہی نام آیا ہے اور یہ وہ شخص ہے جو قید بابل سے چھوٹ کر بنی اسرائیل کے ساتھ بیت المقدس میں آیا تھا۔ مذکورہ بالا ورس میں اسی شخص کا نام معلوم ہوتا ہے کیوں کہ لکھا ہے کہ جیسس ان لوگوں کے ساتھ ظاہر ہوگا جو اس کے ساتھ ہوں گے اور اس سے صاف اشارہ انہیں لوگوں کی طرف ہے جو قید بابل سے چھوٹ کر بیت المقدس میں آئے تھے ۔ اس شخص نے بہت سی نیکی اور خدا پرستی کے کام کیے ہیں جن کا ذکر عیز ڈراس کی پہلی کتاب کے باب ۵ ورس ۸ و ۲۴ و ۲۸ و ۵۶ و ۶۸ و ۷۰ و باب ۶ ورس ۲ وباب ۹ ورس ۱۹ میں مندرج ہے اور انہیں نیک کاموں کے سبب سے اس کو خدا نے اپنا بیٹا کہا ہے۔ مسیح اور کرائسٹ کے ایک ہی معنی ہیں۔ یہ لفظ ہر ایک کے لیے استعمال ہوتا تھا جس پر ایک خاص رسم میںتیل ملا جاتا تھا (دیکھو سفر لویان باب ۴ ورس ۳ و ۵ و ۱۶) ان ورسوں میں مسیح یا کرائسٹ کا لفظ ہائی پریسٹ کے لیے استعمال ہو اہے اور بنی اسرائیل کے بادشاہوں کو بھی تیل ملا جاتا تھا اور وہ بھی اس لقب سے بولے جاتے تھے ( دیکھو پہلا سموئل باب ۲ ورس ۱۰ و ۳۵ و باب ۱۲ ورس ۳ و ۵ و باب ۱۶ ورس ۶ وباب ۲۴ ورس ۶ و ۱۰ و باب ۲۶ ورس ۹ و ۱۱ و ۱۳ ۔ دوسرا سموئل باب ۱ ورس ۱۴ و ۱۶ و باب ۱۹ ورس ۲۱ و باب ورس ۱) یہودیوں میں پریسٹ کو بھی تیل ملا جاتا تھا جس وقت کہ وہ اپنے کام پر مقرر ہوتے تھے (دیکھو پہلی کتاب تواریخ الایام باب ۱۶ ورس ۲۲ و زبور ۱۰۵ ورس ۱۵ ) پس اس مقام پر کرائسٹ سے وہی جیسس مراد ہے جو قید بابل سے چھوٹ کر بیت المقدس میں آیا تھا اور بطور پریسٹ کے اس نے بہت سے کام کیے تھے۔ مسٹر آرنلڈان اخیر دو ورسوں کی نسبت جن میں جیسس اور کرائسٹ کا لفظ آیاہے یہ لکھتے ہیں کہ ’’ اس ورس اور اس کتاب کے اور چند فقروں سے جیسس کرائسٹ کا نام اور ان کے کام اور موت وغیرہ کا حال صاف صاف معلوم ہوتا ہے اور یہ بات ناممکن ہے کہ کسی یہودی نے ، جس نے اس کتاب کو تسلیم کر لیا ہو، وہ عیسائی نہ ہوگیا ہو، مگر میں کہتا ہوں کہ یہ بات ناممکن ہے کہ کسی یہودی نے جس نے اس کتاب کو تسلیم کر لیا ہو ان لفظوں کے وہ معنی سمجھے ہوں جو مسٹر آرنلڈ نے سمجھے ہیں۔ اس کے بعد مسٹر آرنلڈ لکھتے ہیں ’’ کہ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ کتاب ہمارے سیویر یعنی حضرت مسیح کے تھوڑے زمانہ بعد لکھی گئی ہو گی اور جس کے حالات اور جس کے حواریوں کی تحریرات سے مصنف نے چند فقرے لکھے ہیں ‘‘ اگرچہ ہم نے تشریح کردی ہے کہ ان ورسوں کے معنی نہیں ہوسکتے جو عیسائی مصنف سمجھتے ہیں لیکن اگر ہم ان کے اس قول کو تسلیم کر لیں کہ یہ کتاب حضرت مسیح کے تھوڑے زمانہ بعد لکھی گئی تھی تو بھی یہ بات تسلیم کرنی ضرور ہوگی کہ قبل نزول قرآن مجید کے یہ کتاب تحریرہوچکی تھی اور جو کہ اس مین متعدد جگہ انسانوں کو ابن اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس واسطے یہودیوں کا بعضا فرقہ حضرت عزیر کو ابن اللہ کہتا ہوگا جیسا کہ ہمارے مفسروں نے لکھا ہے کہ مدینہ کے یہودیوں کا یہ اعتقاد تھا چنانچہ سعید ابن جبیر اور عکرمہ نے روایت کی ہے کہ سلام بن مشکم اور نعمان بن ادنی اور مالک ابن صیف جو مدینہ کے یہودی تھے آنحضرت ﷺ کے پاس آئے کہ ہم کیوں کر تمہاری یابعداری کریں تم نے تو ہمارا قبلہ چھوڑ دیا ہے اور عزیزکو ابن اللہ بھی نہیں سمجھتے ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ شام کے یہودیوں کا یہ اعتقاد نہیں تھا اور اسی وجہ سے وہ لوگ اس بات سے کہ وہ عزیر کو ابن اللہ سمجھتے تھے ہمیشہ انکار کرتے رہے ہیں، مگر ان کے انکار کرنے سے یہ لازم نہیںآتا کہ کوئی فرقہ بھی اس اعتقاد کا نہ تھا اگر اس وقت عیسائیوں سے پوچھو تو سب عیسائی اس بات سے کہ وہ حضرت مریم کوبھی خدا سمجھتے تھے انکار کریں گے حالاں کہ چوتھی صدی کے اخیر میں عیسائیوں میںایک فرقہ پیدا ہوا تھا جو کولی ری ڈینس پکارا جاتا تھا ۔ موشیم اکلیزیا سٹکل ہسٹری صفحہ ۱۷۰ میںلکھا ہے کہ ان لوگوں نے باپ اور بیٹے (یعنی خدا اور حضرت مسیح) کے سوا حضرت مریم کو بھی خدا مانا تھا یہ فرقہ چندر و زرہا اور مدت سے معدوم ہوگیا ۔ اسی طرح یہودیوں کا بھی ایک خاص فرقہ تھا جس کاذکر قرآن مجید میں ہے اور اب وہ معدوم ہے۔ مسلمان عالموں کی دلیل کہ قرآن مجید علانیہ مد نیہ میںپڑھا جاتاتھا او رآیت ’’وقالت الیہود عزیر ن ابن اللہ‘‘ سب یہودی سنتے تھے اگر ان کا یہ اعتقاد نہ ہوتا تو ضرور الزام دیتے کچھ کم مضبوط نہیں ہے۔ ……… حضرت عیسیٰ کی پیدائش اور وفات کا مسئلہ حضرت عیسیٰ کی نسبت جو امو ر قرآن مجید میںمذکور ہیںوہ بلا شبہ نہایت غور کے لائق ہیں ان میں سے ہم اس مقام پر صرف حضرت عیسیٰ کی ولادت اور وفات پر بحث کریں گے ۔ ان کے متعلق باقی باتیں دوسرے مضمون میںعلیحدہ بیان کی جائیں گی۔ عیسائی اور مسلمان دونوں خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ صرف خدا کے حکم سے عام انسانی پیدائش کے برخلاف بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے ۔ اگر ایسا ہی ہونا فرض کیا جاوے تو اول اس بات پر غور کرنی ہوگی کہ بن باپ کے پیدا کرنے میں حکمت الہی کیا ہوسکتی ہے ۔ ایسے واقعات جو خلاف عادت یا مافوق الفطرت تسلیم کیے جاتے ہیں ان سے یا تو قدرت کاملہ پروردگار کا اظہار مقصود ہونا چاہیے یا ان کا وقوع بطورمعجزہ مانا جاوے جب کہ خداوند تعالیٰ اقسام حیوانات کو بغیر تولد و تناسل کے عادتاَ۔ پیدا کرتارہتا ہے اورخو د انسان کوبھی بلکہ تمام حیوانات کو ابتداء اس نے اسی طرح پیدا کیا ہے۔ یا یوں کہو کہ آدم کو بے ماں و بے باپ کے پیدا کیاتھا تو حضرت عیسیٰ کے صرف بے باپ کے پیدا کرنے میں اس زیادہ قدرت کاملہ کا اظہار نہ تھا ۔ اگر یہ خیال کیا جاوے کہ صرف ماں سے پیدا کرنا دوسری طرح پر اظہار قدرت کاملہ تھا تو یہ بھی صحیح نہیں ہوتا ۔ اس لیے کہ اظہار قدر ت کاملہ کے لیے ایک ابر بین اور ایسا ظاہر ہونا چاہیے کہ جس میں کسی کو شبہ نہ رہے۔ بن باپ کے مولود کا ہونا ایک ایسا امر مخفی ہے جس کی نسبت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اظہار قدرت کاملہ کے لیے کیا گیا ہے ۔ بطریق اعجاز حضرت عیسیٰ کے بن باپک کے پیدا ہونے پر معجزہ کا بھی اطلاق نہیں ہو سکتا ۔ معجزہ بمقابلہ منکران نبوت صادر ہوتا ہے۔ قبل ولادت حضرت مسیح بلکہ ادعائے نبو ت یا الو ہیت کوئی شخص منکر نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر معجزہ کیوںکر کہا جا سکتا ہے ۔ معہذا اگر وہ معجزہ ہوتا تو حضرت مریم معجزہ ہوتا نہ حضرت مسیح کا ۔ علاوہ اس کے جب کہ ان کی ولادت ٹھیک اسی طرح پر واقع ہوئی تھی جس طرح کہ عموما بچوں کی ہوتی ہے کہ نو مہینے تک حمل میںرہے اور بر وقت ولادت حضرت مریم پر وہ تمام حالات طاری ہوئے۔ جو عموما عورتوں پر بچہ پید اہونے میںطاری ہوتے ہیں تو کسی طرح اعجازاَ۔ ان کے پیدا ہونے کا کسی کو احتمال بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ عیسائی حضرت مسیح کے بن باپ کے پیدا ہونے کو ایک اور حکمت الہی پر منسوب کر سکتے ہیں کہ وہ گنہگار انسان کی آمیزش سے پاک اور بے گناہ ہوں تاکہ گنہگار انسانوں کی طرف سے فدیہ کیے جاویں۔ مگر جب ماں کی شرکت سے وہ بری نہ تھے تو انسانی آمیزش سے پاک نہیں ہو سکتے تھے ۔ لاطینی کلیسانی کونسل ٹرینٹ میںتسلیم کیا کہ حضرت مریم بھی بن باپ کے پید ا ہوئی تھیں۔ اگر یہ بھی مانا جاوے تو وہ بھی مان کی شرکت سے بری نہ تھیں ۔ انجام کار عیسائی کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے حضرت مریم کو انسانی خاصیت یعنی گنہگار ہونے کی قابلیت سے اس لیے پاک کر دیا تھا کہ ان سے فدیہ ہونے کے لائق مولود پیدا ہو تو خدا اس طرح حضرت عیسیٰ کے باپ کو بھی پاک کر سکتا تھا اور بن باپ کے پیدا کرنے میں کوئی خاص حکمت نہیں ہوسکتی تھی۔ ابتداء میںعیسائیوں کو یہ خیال نہیں تھا کہ حضرت عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہوئے یا بن باپ کے پیدا ہونگے ۔ کیوں کہ مسیح کی نسبت یقین کیاجاتا تھا کہ وہ داؤد کی نسل سے ہوں گے ۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کو مسیح موعود نہیں مانا مگر جنہوں نے ان کو مسیح موعود مانا اور عیسائی یا نصاری کہلائے ان سب کو کامل یقین تھا کہ وہ حضرت داؤد کی اولاد میںہیں ۔ چنانچہ انجیل کے باب ۱ ورس ۲۷ اور متی کی انجیل باب ۱ ورس ۴۰ سے پایا جاتا ہے کہ یوسف حضرت مریم کا شوہر داود کی نسل سے تھا۔ مسلمان بھی قرآن کی رو سے جیسے کہ سورۃ انعام میںلکھا ہے حضرت عیسیٰ کو حضرت ابراہیم کی ذریت یعنی اولاد سمجھتے ہین۔ پس اگر حضر ت عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہوئے ہوں تو وہ نسل داؤد یااولاد ابراہیم سے کیوں کر قرار پاسکتے ہیں۔ اگر یہ کہا جاوے کہ ماں کے سبب سے ان کو داؤد کی نسل سے قرار دیا گیا ہے تو یہ بات دووجہ سے غلط ہے اول اس لیے کہ یہودی شریعت میںعورت کی طرف سے نسب قائم نہیں ہوسکتا دوسرے یہ کہ حضرت مریم کا داؤد کی نسل سے ہونا ثابت نہیں کیٹو سیکلو پیڈیا میںلکھا ہے ۔ ’’ یو سیبیس جو قدیمی مذہبی مورخ ہے گو حضر ت عیسیٰ کے نام پر اس نے طویل طویل بحث کی ہے مگر اس کے بیان سے اور نیز متی اور لوگ کی انجیلوں سے مریم کی پیدائش اور نسب پر کوئی نئی روشنی نہیں پڑتی ۔ اینی جو مریم کی ماںبیان کی گئی ہیں ان کی نسبت جس قدر قصے ہیں وہ محض افسانے ہیں اور ان کا کچھ ثبوت و شہادت نہیں ہے۔‘‘ انجیل لوگ باب ۱ ورس ۶ ، ۳۷ سے پایا جاتا ہے کہ حضرت مریم حضرت زکریا کی بیوی الیشبع کی رشتہ دار تھیں اور الیشبع ہارون کی بیٹی تھیں۔ مگر یہ نو معلوم ہے کہ مریم والیشبع میں کیا رشتہ تھا ور نہ یہ معلوم ہے کہ ہارون کس کی اولاد میں تھے۔ قرآن مجید میںحضرت مریم کا باپ کا نام عمران لکھا ہے۔ اس پر استدلال کرنے سے بھی داؤد کی نسل سے حضرت مریم کا ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔ عیسائی مفسر جب کہ حضرت عیسیٰ کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم کرکر نسل داؤد سے ثابت کرنے میں عاجز ہوئے ۔ تو انہوں نے کہا کہ سینٹ لوک کی انجیل میں جو نسب نامہ یوسف کا لکھا ہے در حقیقت وہ مریم کا نسب نامہ ہے تاکہ مریم کا داؤد کی نسل سے ہونا ثابت کریں۔ دو انجیلوں میں حضرت عیسیٰ ؑ کے نسب نامے ہیں ۔متی کی انجیل میں حضرت عیسیٰ ؑ کے باپ کانام یوسفؑ اور ان کے باپ کا نام یعقوب ؑ لکھا ہے اور لوک کی انجیل میں یوسفؑ کے باپ کانام ہیلی لکھا ہے۔ پہلا نسب نامہ بذریعہ ناثان کے ۔ یہ دونوں نسب نامے بلا شبہ مختلف ہیں۔ مگر عیسائی مفسر کہتے ہیں جیسے کہ تفسیر ہنری اسکاٹ میںمندرج ہے کہ یوسف نے ہیلی کی دختر سے یعنی حضرت مریم سے شادی کی تھی اور شاید اس نے یوسف کو متنبی بھی کیا تھا اور یوسف ہیلی کا بیٹا کہلاتا تھا او ریہودیوں میںرواج تھا کہ نسب ناموں میں صرف مردوں کا نام لکھتے تھے نہ عورتوں کا۔ اس لیے سینٹ لوک نے اس نسب نامہک میںجو در حقیقت مریم کا ہے بجائے مریم کے یوسف کا نام لکھ دیا ہے ۔ اس بیان پر بعض عیسائی علماء بے یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ نسب نامہ داؤد تک بذریعہ ناثان کے پہنچا ہے اور حضرت مسیح کا بذریعہ سلیمان کے داؤد کی نسل میںہونا چاہیے اسکا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ سلیمان کی اولاد میںہونے والے تھے بلکہ صرف یہ بیان ہوا ہے کہ وہ داؤد کے بیٹے اور یشی کی نسل سے ہوں گے اور سلیمان بطور ایک عمدہ نمونہ حضرت مسیح کے بیان ہوئے ہیں۔ اگر یہ بات فرض بھی کرلی جائے کہ اس پچھلے نسب نامے میں بجائے حضرت مریم کے یوسف کا نام لکھا گیا ہے اور یہ بھی فرض کر لیاجاوے کہ یوسف ہیلی کے متبنیٰ او ر داماد تھے اور یہ بھی فرض کیاجاوے کہ حضرت عیسیٰ کا سلیمان کے ذریعہ سے داؤد کی اولاد میںہونا کچھ ضرور نہ تھا تو بھی اس بات کا جواب نہیں ہوسکتا کہ یہودی شریعت میںماں کی طرف سے نسب نہ معتبر گنا جاتا تھا اور نہ بیان کیا جاتا تھا یہاں تک کہ عورتوں کا نام بھی نسب ناموں میںداخل کیا جاتا تھا ۔پس حضرت عیسٰی مسیح کی نسبت جو جو پیشین گوئی تھی کہ داؤد کی نسل میں سے ہوںگے کس طرح ماں کی طرف منسوب نہیں ہوسکتی بلکہ بموجب اس پیشئین گوئی کے ضرور ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح ایسے باپ کی اولاد ہوں جو داؤد کی نسل سے ہو۔ پادری رچارڈ واٹسن نے تفسیر انجیل لوک میںلکھا ہے کہ ’’یہ عام یقین تھا کہ حضرت عیسیٰ یوسف کے بیٹے ہیں اور ان کا معجزہ کے طور سے پیدا ہونا مشہور نہیں کیاگیا تھا بلکہ یوسف او رمریم کے دلوں ہی میں مخفی تھا۔ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ بات کب پہلے پہل ظاہر کی گگئی۔ چوں کہ انجیل کے حالات میں اس پر کچھ اشارہ نہیں پایا جاتا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات حواریوں کو بھی ظاہر نہیں کی گئی تھی۔ اس لیے وہ اور نیز اور بھی ان کو یوسف اور مریم کا بیٹا سمجھتے تھے اور یہ امر منجملہ ان امور کے تھا جن کو مریم نے خد اکی ہدایت سے حضرت عیسیٰ کے مردوں سے جی اٹھنے کے بعد تک اپنے دل میںچھپا رکھا ۔ اگرپیش تر سے یہ بات مشہو ر ہوجاتی تو حضرت عیسیٰ کی تبلیغ رسالت کے بعد لوگ اکثر حضرت مریم کو تنگ کیاکرتے او ر اہانت کی باتیں ان سے پوچھا کرتے اور جب کہ اس قدر اختلاف رائے عیسیٰ کی نسبت ان کے دشمنوں میں ہوتا تو مریم کو خطرہ پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ کم سے کم یہ ہوتا تو مریم کو خطرہ پہنچنے کا اندیشہ تھا ۔ کم سے کم یہ ہوتا کہ وہ بہت دقت وہ تکلیف میںمبتلا ہوجاتیں۔ ان امور کے لحاظ سے ظن قوی ہوتا ہے کہ یہ بات حضرت عیسیٰ کی زندگی بھر کسی کو معلوم نہیں ہوئی تھی مگر سینٹ لوک کے اس فقرہ سے کہ، جیسا کہ وہ یوسف کا بیٹا خیال کیا جاتا تھا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعد عروج مسیح کا بیٹا خیال کیاجاتا تھا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعد عروج مسیح یہ امر منجملہ ان باتوں کے تھا جو پہلے پہل معلوم ہوگئی تھیں اور بغیر کسی شبہ کے وہ مان لیا گیا تھا اور اسی وجہ سے یہ بات انجیل متی اور انجیل لوک میںداخل ہوئی ہے۔‘‘ اس بات کو خود حواری حضرت عیسیٰ کے اور تمام عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مریم کا خطبہ یوسف سے ہوا تھا ۔ یہودیوںکے ہاں خطبہ کا یہ دستور تھا جیسے کہ کیٹو سیکلو پیڈیا میںلکھا ہے کہ شوہر اور زوجہ میں اقرار ہوجاتا تھا کہ اس قدر معیاد کے بعد شادی کریں گے ۔ یہ اقرار یا تو ایک باقاعدہ تحریر یا معاہدہ کے ذریعہ سے گواہوں کی موجودگی میں ہوتا تھا جس طرح کہ ہم مسلمانوں کے ہاں نکاح کا خط لکھا جاتا ہے یابغیر تحریر کے اس طرح پر ہوتا تھا کہ مرد عورت کو گواہوں کے سامنے ایک ٹکڑا چاندی کا دے دیتاتھا اور یہ لفظ کہتا تھا کہ یہ چاندی کاٹکڑا اس امر کی کفالت میں قبلو کرکہ اتنے دنوں بعدتو میری زوجہ ہوجاوے گی۔ یہ معاہدے حقیقت میں عقد نکاح تھے۔ صرف زوجہ کاگھر میںلانا باقی رہ جاتا تھا اور وہ اس معیاد پرہوتا تھا جو اس معاہدہ میں قرار پاتی تھی ۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسی کہ مسلمانوں میںفاتحہ خیر ہوتی ہے جو درحقیقت ایک شرعی نکاح ہے لیکن زوجہ فی الفور گھر میںنہیں لائی جاتی یا جیسے کہ اب بھی بعض دفعہ مسلمانوں میں نکاح بہ تحریر نکاح خط عمل میں آتا ہے اور زوجہ کا شوہر کے گھر بھیجنا کسی آئندہ وقت پر ملتوی رہتا ہے۔ یہودیوں کے ہاں اس رسم کے اداہونے کے بعد مرد اور عورت باہم شوہر اور زوجہ ہوجاتے تھے اور بجز اس کہ کہ زوجہ اپنے شوہر کے گھر رہنے کو اس مدت کے بعد بھیج دی جاوے اور کوئی ایسی رسم جس پر جواز تزوج منحصر ہو عمل میںنہیںآتی تھی یہاں تک کہ اگر بعد اس رسم کے اور قبل رخصت کرنے کے ان دونوں سے اولاد پیدا ہو تو وہ جائز اولاد تصور نہیں ہوتی تھی بلکہ بے گناہ شرعی اولاد جائزتصور ہوتی تھی ۔ شاید خلاف رسم بات ہونے سے معیوب گنی جاتی ہوگی اور دونوں کو ایک شرم اور خجالب کا باعث ہوتی ہوگی۔ امر مذکورہ کا ثبوت کیٹو سیکلو پیڈیا سے بھی ظاہر ہوتا ہے اس میںلکھا ہے کہ جب یہ معاہدہ شادی کا یہودیوں میںہو جاتاتھا تو زن و مرد ایک دوسرے کو دیکھنے کے مجاز ہوتے تھے۔ جس کی ان کو پہلے اجازت نہیںہوتی تھی ۔ اسی کتاب میںلکھا ہے کہ ایک نسبت شدہ باکرہ کے بطن سے خدا نے اپنے بیٹے کے پیدا ہونے میںیہ حکمتیں رکھی تھیں۔ اول ۔یہ کہ ان پر غیر مشروع اولاد ہونے کا طعنہ عاید نہ ہو۔ دوم ، یہ کہ ان کے والدین موافق یہودی شریعت کے سزا کے مستوجب نہ ہوں۔ سو،۔ یہ کہ یوسف کے نسب نامہ سے جن کی رشتہ دار مریم تھیں۔ مریم کا نسب نامہ ظاہر ہوجاوے ۔ چہارم۔ یہ کہ حضرت مسیح کا ایام طفولیت میں کوئی مربی اور سرپرست ہو۔ ان تمام بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں میں اس طرح نسبت کے بعد اولاد کا پیدا ہونا شرعا ناجائز نہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہودیوں نے نعوذ باللہ حضرت مریم پر جو بہتان باندھا تھا وہ یوسف کے ساتھ نہیں باندھا تھا بلکہ پنتھرا اتالی کے ساتھ منسوب کیا تھا ۔ کیوں کہ یوسف ان کے شرعی شوہر ہوچکے تھے پس کوئی وجہ اس بات کے خیال کرنے کی نہیں ہے کہ یوسف فی الواقع مسیح کے باپ نہ تھے ۔ متی کی انجیل میں جو یہ لکھا ہے کہ یوسف نے جب یہ دیکھا کہ مریم حاملہ ہیں تو ان کے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا۔ اگر یہ بیان تسلیم کیا جاوے تو اس کا سبب صرف یہی صرف یہی ہوسکتا ہے کہ عام رسم کے برخلاف حاملہ ہو جانے سے یوسف کو رنج و خجالت ہوئی ہوگی جس کے سبب سے ایسا خیال ہوا ہوگا۔ مگر جوکہ فی الحقیقت وہ پاک حمل تھا اور جو کچھ حضرت مریم کے پیٹ میںتھا وہ روح القدس اور کلمۃ اللہ تھا ۔ یوسف نے خواہ خود ہی خواۃ اپنے خواب کی تائید پر جس کا ذکر سینٹ متی کی انجیل میں ہے وہ خیال چھوڑ دیا۔ اگرچہ ان چاروں مروج انجیلوں کے زمانہ تالیف میںنہایت اختلاف ہے مگر جو زمانہ کہ علمائے عیسائی نے قریب صحت کے تسلیم کیا ہے اس کی رو سے پایا جاتا ہے کہ متی کی انجیل حضرت عیسیٰ کے بعد دوسرے یا تیسرے سال مین اور لوک کی انجیل اکتیسویں یا بیتسویں سال میں اور یوحنا کی انجیل تریسٹھویں یا چونسٹھویں سال اورمارک کی انجیل اس کے بھی بہت دنوں بعد تحریر ہوئی تھی ۔ مگر متی کی نسبت بخوبی ثابت ہے کہ وہ دراصل عبرانی میں لکھی گئی او رموجودہ یونانی انجیل اس کاترجمہ ہے۔ جس ے مترجم کا نام اور زمانہ ترجمہ اب تک تحقیق نہیں ہوا۔ پس متی کی موجودہ یونانی انجیل بھی قدیم نہیں ہے بلکہ اخیر زمانہ کی لکھی ہوئی ہے ۔ یہ تمام انجیلیں اور حواریوں کے نامے اور اعمال جو ان انجیلوں کے آخیر میں شامل ہیںیونانی زبان میں لکھے گئے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کتابیں عیسائی مذہب کو ان ملکوں میںرواج دینے کے لیے لکھی گئی تھیںجہاں یونانی زبان مروج تھی اور جہاں کے لوگ زیادہ تریونانیوں کے سے خیالات رکھے تھے۔ یونانیوں میں ایک عام خیال تھا کہ نہایت مقدس اور بزرگ شخص کو خدا کا بیٹا کہتے تھے ۔ ہر کیولیس ، ڈیاس کوری، رامیولس ، فیثا غورث ، افلاطون ، ان سب کو یونانی خدا کا بیٹا کہتے تھے اور افلاطون کے حمل کے قصہ کو قصہ حمل مثل حضرت عیسیٰ بیان کرتے تھے ۔ غرض کہ جب حواریوں کو یونانی زبان کے ذریعے سے دین عیسوی کا پھیلانا مد نظر ہوا تو حضرت عیسیٰ کو ایسے بزرگ لقب سے ملقب کرناپڑ اہو گا جو ان لوگوں کے خیالات سے مناسب تھا۔ جن کے لیے وہ انجیلیں لکھی گئی تھیں ۔ اس لیے ہمارے نزدیک وہ انجیلیں حضرت عیسیٰ کی ولادت کی نسبت ان خالص خیالات کے ظاہرہونے کا ذریعہ نہیں ہو سکتیں جو حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں اور ان انجیلوں کے تحریر ہونے سے پیشتر تھا۔ بایں ہمہ انہی انجیلوں کے تحریر ہونے سے پیشتر تھا۔ بایں ہمہ ہم انہی انجیلوں میںمتعدد جگہ پاتے ہیںکہ یوسف کو حضر ت مریم کا شوہر اور حضرت مسیح کو ان کا باپ یوسف کا بیٹا تسلیم کیا ہے ۔ انجیل متی باب ۱ ورس ۱۶ میںلکھا ہے کہ یوسف مریم کا شوہر تھا ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ متی کی انجیل میں حضرت عیسیٰ کے نسب نامہ میں اوروں کی نسبت یونانی لفظ ’اجن نسی‘ بیائے معروف استعمال ہوا ہے جس سے خاص باپ کا بیٹا ہونا پایا جاتا ہے اور حضرت عیسیٰ کی نسبت یونانی لفظ ’’جناں‘‘ آیا ہے ۔ جس سے اس ورس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ’’یعقوب سے پیدا ہوا یوسف شوہر مریم جس سے عیسیٰ پیدا ہوا مگر ویطسطین نے یونانی ، زبان کی سند پر ثابت کیا ہے ‘‘ کہ ’’جناں‘‘ کا لفظ بھی ماں او رباپ دونوں سے پیدا ہونے پربولا جاتا ہے ۔ معہذا اس تغیر کا سبب وہی خیالات ہیں جو یونانیوں میںمذہب عیسوی پھیلانے کی بناء پر پیدا ہوئے تھے۔ لوک کی انجیل باب ۲ ورس ۳۳ کے موجودہ نسخوں میں یہ لفظ ہیں ’’ تب یوسف اور اس کی ماں‘‘ مگر اس مقام پر بھی اسی خیال سے تعبیر کیا ہے ۔ ڈاکٹر کریسباخ کی صحیح اور مقابلہ کر کے چھاپی ہوئی انجیل مطبوعہ لیپسک ۱۸۰۵ء اور سنڈروف کی چھاپی ہوئی انجیل مطبوعہ ۱۸۴۹ ء اور رومن ولگٹ کے ترجمہ انگریزی میں یوسف کا نام نہیں ہے بلکہ ’’ اس کا باپ او ر اس کی ماں‘‘ لکھا ہے اور ٹروٹوپ نے یونانی انجیل کی شرح میں اس کی تصیح کی ہے جس سے یوسف کا پدر مسیح ہونا تسلیم ہوتا ہے۔ لوک کی انجیل کے اسی باب کے ۴۳ ورس میںبھی قدیم نسخے الگزنڈر یانوس میںبھی ’گوینس ‘کا لفظ ہے جس کے معنی والدین کے ہیں۔ لوک کی انجیل باب ۲ ورس ۴۸ میںحضرت مریم نے حضرت عیسیٰ سے کہا کہ ’’دیکھ تیرا باپ اور میںغمگین ہوکر تجھے ڈھونڈتے تھے۔‘‘ لوک انجیل باب ۲ ورس ۲۷ و ۴۱ میںیوسف او رمریم کو حضرت عیسیٰ کا مان باپ کہہ کر تعبیر کیا ہے ۔ متی کی انجیل باب ۱۳ ورس ۵۵ میںلکھا ہے کہ لوگوں نے حضرت عیسیٰ کی نسبت کہا کہ’’ کیا یہ بڑھی کا بیٹا نہیں، کیا اس کی ماں مریم نہیں کہلاتی ۔‘‘ اور انجیل یوحنا باب ۶ ورس ۴۲ میںہے کہ لوگوں نے حضرت مسیح کی نسبت یہ کہا ککہ ’’کیایہ یسوع یوسف کا بیٹا جس کے ماں باپ کو ہم پہچانتے ہیں ۔‘‘ انجیل یوحناباب ۱ ورس ۴۵ میں لکھا ہے کہ ’’فلپ نے انتھنئیل کو کہا کہ جس کا ذکر موسیٰ نے توریت میں اور نبیوں نے کیا ہے ہم نے اسے پایا ہے وہ یوسف کابیٹا یسوع ناصری ہے۔‘‘ اعمال حورائین باب ۲ ورس ۳۰ میں پترس حواری نے حضرت عیسیٰ کے داؤد کی نسل میںہونے کی نسبت کہا ہے کہ ’’خدا نے اس سے (یعنی داؤد سے ) قسم کر کے کہا کہ میں تیرے تخت پربیٹھنے کے لیے جسم کے طورپر تیری کمر سے مسیح کو پیدا کروں گا۔‘‘ سینٹ پال نے اپنے خط موسومہ رومیاں باب ۱ ورس ۴ میں لکھا ہے کہ ’’وہ مسیح جسم کے حق میں داؤد ک تخم سے ہوا پر روح قدس کے حق میں جی اٹھنے کی قوی دلیل سے خدا کا بیٹا ثابت ہوا۔ ‘‘ ان تمام سندوں سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح کے زمانے کے سب لوگ اور خود حواری بھی جانتے تھے اور یقین کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ اپنے باپ یوسف کے تخم سے پیدا ہوئے ہیں نہ کہ بغیر باپ کے۔ مگر ہو حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا روحانی اعتبار سے کہتے تھے اسی خیال سے جس سے کہ یونانی اپنے ہاں کے بزرگوں کو خدا کا بیٹا کہتے تھے اور اس بات کو نہایت صفائی سے سینٹ پال نے اپنے خط کی مذکورہ آیت میںبیان کیا ہے ۔ زمانہ کے گزرنے پر وہ خیال جس سے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہا محو ہو گیا اور لو گ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا سمجھنے لگے اور اس کے ساتھ یہ قرار دیا کہ وہ بے باپ کے پیدا ہوئے تھے اور ان کی ضد سے یہودیوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ نعوذ باللہ وہ ناجائز طور پر پیدا ہوئے تھے۔ اور یہ اتہام سلس نے جو تیسری صدی میںتھا۔ کیا تھا اور ظاہر اََ یہ وہ زمانہ ہے کہ جب عیسائیوں کو اس باپ میںکہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں اور بن باپ کے پیدا ہوئے ہیں زیادہ تر غلو ہو گیا تھا ۔ قرآن مجید نے اس بات میںکہ حضرت عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہوئے تھے کچھ بحث نہیںکی جب قرآن نازل ہوا اس وقت دو فرقے مخالف موجود تھے ۔ ایک فرقہ نہایت نالائقی اور بدی سے یہ کہتا تھا کہ حضرت مسیح بطور نا جائز مولود کے پیدا ہوئے ہیں۔ دوسرا فرقہ یہ کہتا تھا کہ وہ خدا اور خدا کے بیٹے اور ثالث ثلاثہ ہیں۔ قرآن مجید نے ان دونوں فرقوں کے اعتقاد کو رد کر دیا اور حضرت مسیح کے مقدس اور روح پاک ہونے پر اور حضرت مریم کی عصمت و طہارت پر گواہی دی اور اس بات کو کہ وہ خدا یا خدا کے بیٹے اور ثالث ثلاثہ میںجھٹلا دیا ۔ اور بتلا دیا کہ وہ مثل اور انسانوں کے خدا کے بندے ہیں۔قرآن مجید میں یہ کہیں نہیں بیان ہوا کہ وہ بن باپ کے پیداہوئے تھے۔ جہاں تک کہ اشارہ ہے حضرت عیسیٰ کے روح القدس اور کلمۃ اللہ ہونے کا اور حضرت مریم کی عصمت اورطہارت کا اشار ہ ہے ۔ جیسا کہ ہم آگ بیان کرتے ہیں۔ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ جو شخص حضرت مریم کی نسبت تہمت بد لگاوے وہ مسلمان نہیں ہے ۔ سورۃ آل عمران میںہے کہ فرشتوں نے کہا کہ اے مریم بے شک اللہ تجھ کو خوش خبری دیتا ہے ایک کلمہ کی اپنی طرف سے اس کا نام (ہوگا) مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا رویت دار دنیا میں اورآخرت میں اور (خدا کے ) مقربوں سے او رکلام کرے گا لوگوں کے گہوارہ میں (یعنی بچنے میں) او ربڑھا پے میں اور ہوگا نیکوں میں سے مریم نے کہا اے پروردگار کہاں سے ہوگا میرے بیٹا اور نہیں چھوا ہے مجھ کو کسی آدمی نے ۔ خدا نے ہی کہا ہوگا اللہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے جبج کہ کوئی کام کرنا ٹھہرا چکتا ہے تو اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اس کو کہتا ہے کہ ہو پھر ہو جاتا ہے۔ اور سورۃ مریم میں ہے کہ پھر ہم نے بھیجا اس کے (یعنی مریم کے پاس اپنی روح کو پھر وہ بن گئی اس کے لیے ٹھیک آدمی، مریم نے کہا کہ بے شک میں تجھ سے خد اکی پناہ مانگتی ہوں اگرتو (خدا سے ) ڈرتا ہے اس نے کہا کہ میں تو صرف تیرے خدا کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ مجھ کو پاکیزہ لڑکا دوں۔ مریم نے کہا کہ کہاں سے ہوگا میرے لڑکا اور نہیں چھوا ہے مجھ کو کسی آدمی نے اور نہ میں بدکار ہوں۔ اس نے کہا یہی ہوا تیرے پروردگار نے کہا ہے کہ وہ مجھ پر آسان ہے اور ہم اس کو لوگوں کے لیے نشانی اور اپنی رحمت کرنا چاہتے ہیں اور تھی یہ بات ٹھہر چکی۔ فرشتہ کا حضرت مریم کو بیٹا ہونے کی بشارت دینا اور ان کا یہ کہنا ، کہ مجھے مرد نے نہیں چھوا ہے سینٹ لوک کی انجیل میںبھی مذکور ہے تمام یہودی یقین رکھتے تھے کہ ان میں ایک مسیح پیدا ہونے والا ہے جو یہودیوں کی بادشاہت کو پھر قائم کرے گا اس لیے یہودی اور یہودی عورتیں بیٹا ہونے کی نہایت آرزو رکھتی تھیں دعائیں مانگتی تھیں اور عبادتیں کرتی تھیں کہ وہ شخص ہمارا ہی بیٹا ہو۔ ایسی حالتوں میںان کا اس قسم کی خوابوں کا دیکھنا یا بن بولنے والے کی آوازوں کا سننا یا متخیلہ میںکسی مجسم شے کا دکھلائی دینا ایسا امر ہے جو بمقتضا ئے فطرت انسا نی واقع ہوتا ہے ۔ بعض علماء کا یہ قول ہے کہ اس سورۃ میں جو خطاب فرشتوں کا حضرت مریم سے ہے وہ بطریق الہام اور روح فی النفث اور القا فی القلب کے ہے مگر مجھ کو کچھ شبہ نہیں جیسے کہ سیاق کلام سے پایا جاتا ہے ۔ کہ امر بشارت جو اس صورت میں اور سورہ مریم میں بیان ہوا ہے وہ ایک ہی واقعہ ہے ۔ اور رویا میں واقع ہو ا تھا اور سینٹ متی کی انجیل سے بھی ایسا ہی مستنبط ہوتا ہے کیوں کہ بموجب اس انجیل کے یوسف کو بھی اس حمل کی خبر خواب میںبذریعہ فرشتہ دی گئی تھی ۔ بیٹا ہونے کی بشارت حضرت اسحاق کو اور ان کی بیوی کو اورحضرت زکریا کوبھی دی گئی تھی۔ صرف بشارت سے تو بے باپ کے پیدا ہونا لازم نہیں آتا ہے ۔ ہاں ان بشارتوں پر غور کرنا چا ہیے کہ ان میںکوئی ایسا لفظ تو نہین ہے جس سے بن باپ کے پیدا ہونے کا اشارہ نکلے ، سو ایسا بھی کوئی لفظ ان بشارتوں میں نہیں ہے ۔ سب سے زیادہ غور کے لائق لفظ ’’ لم یمسنی بشرولم اک بغیا‘‘ ہے ۔ بلا شبہ یہ دونوں کلمے نہایت صیحح ہیں اور جس زمانہ میں بشارت ہوئی اس زمانہ میںبلا شبہ حضرت مریم کو کسی مرد نے نہیں چھوا تھا۔ بلکہ غالبا ان کا خطبہ بھی یوسف کے ساتھ نہ ہو اتھا مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے بعد بھی یہ واقع نہیں ہوا۔ جس طرح کہ حضرت مریم کو اس بشارت سے تعجب ہوا۔ اسی طرح حضرت اسحاق اور ان کی بیوی اور حضرت زکریا کو بھی تعجب ہواتھا۔ جب کہ وہ فرمانے لگیں : ’’ یا ویلتی الدوانا عجوز وہذا بعلی شیخا ان ہذا لشئی عجیب‘‘ اور دوسری جگہ فرمایا ہے۔ ’’فاقلبت امرتہ فی صرۃ فصکت وجھھا وقالت عجوز عقیم ‘‘ اور حضرت زکریا نے فرمایا ۔ ’’انی یکون لی غلام وقد یلغنی الکبر وامراتی عاقر‘‘ اور دوسری جگہ فرمایا ہے ۔ ’’وکالت امرتی عاقرا وقد بلغت من الکبر عتیا‘‘ حضرت مریم کی حالت اولاد ہونے سے مایوسی کی نہ تھی اور اسحاق اور ان کی بیوی اور زکریا اور ان کی بیوی کی حالت مایوسی کے قریب تھی۔ مگر جب ان دونوں سے بیٹے کا پیدا ہونا بغیرباپ کے تسلیم نہیںکیا گیا تو حضرت مریم کے تعجب سے جو صرف اس وقت کی کیفیت پر تھا جب کہ بشارت ہوئی تھی ۔ نہ آئندہ کی ہونے والی حالت پر۔ کیوںکر حضرت عیسیٰ کے بے باپ کے پیدا ہونے پر استدلال ہو سکتا ہے او رکیا عجب ہے کہ اس خواب کے بعد ہی حضرت مریم کو اور ان کے مربیوں کو حضرت مریم کی شادی کرنے کا خیال پیدا ہوا ہو جوآخر کار یوسف کے ساتھ عقد ہونے سے پورا ہوا۔ اس تعجب کے بعد فرشتے نے حضر ت مریم سے کہا کہ ’’کزالک اللہ یفعل ما یشائ‘‘ حضرت مریم سے کہا کہ ’’قال کذالک قال ربک وھو علی ہین‘‘ ا س طرح حضرت زکریا سے کہاکہ ’’قال کذالک قال ربک وہو علی ہین‘‘ لفظ جو سورۃ آل عمران میںہے وہ کسی امر کے ہونے پر بلا اسباب ’’کن فیکون ‘‘ قدرتی و فطرتی کے دلالت نہیں کرتا کیوں کہ ہر شے کے ہونے کو خدا اس طرح فرما تا ہے ’’اذا اراد شیا انمایقول لہ کن فیکون‘‘ پس ہر شے ’’کن‘‘ کے حکم سے ہمیشہ قانون قدرت اور قاعدہ فطرت کے مطابق ہوتی ہے۔ پس یہ الفاظ کسی طرح اس بات پر کہ حضرت مسیح کی ولادت فی الفور بلا قاعدہ فطرت اور بغیر باپ کے ہوئی تھی ، دلالت نہیں کرتے ۔ ’’آیۃ اللناس‘‘ کے لفظ سے یہ سمجھنا کہ حضرت مسیح کو بغیر باپ کے بطور ایک نشانی معجزہ کے پیدا کیا تھا محض بے جا ہے ، اس لیے کہ بے باپ کے پیدا ہونا (اگر بالفرض ہوا بھی ہو) ایسا امر مخفی ہے جو کسی طرح ’’آیتہ للناس‘‘ نہیں ہوسکتا ۔ آیتہ کا لفظ قرآن مجید میں فرعون ، اصحاب کہف والرقیم ، قوم نوح، نوح اور اصحاب سفینہ پر بھی اطلاق ہوا ہے۔ حضر ت مریم بوجہ اپنی عبادت اور خدا پرستی اور نیکی کے اور حضرت عیسیٰ بہ سبب اس رحم دلی کے جو انجیل سے پائی جاتی ہے، خدا کی عمدہ نشانی کے لقب کے مستحق تھے۔ ’’بکلمۃ منہ‘‘ کے لفظ یا ’’کلمۃ القاھا الی مریم‘‘ کے الفاظ بھی کسی طرح بن باپ کے پید ا ہونے پر دلالت نہیں کرتے ۔ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میںمتعدد جگہ لفظ ’’کلمہ‘‘ کو اپنی طرف منسوب کیا ہے ۔ سورۃ اعراف میں فرمایا ہے۔ ’’ وتمت کلمۃ ربک الحسنی علی بنی اسرائیل ‘‘ اور سورۃ یونس میں فرمایا ہے ’’وکذالک حقت کلمۃ ربک علی الدین فسقوا‘‘ اسی طرح او ربہت سی جگہ آیا ہے اور کلمۃ اللہ سے وہ امور محققہ مراد ہیںجو ہونے والے تھے اور ہوئے اور ہوں گے ۔ حضرت مسیح کا حضرت مریم سے پیدا ہونا ایک امر محقق اور معین تھا یا یوں کہوکہ مدعود تھا پس اسی امر محقق یا موعود کوکلمہ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے اور جس طرح تمام قرآن میںکلمہ کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اسی طرح اس مقام پر بھی کیا ہے ان الفاظ سے بن باپ کے پیدا ہونے پر کچھ بھی اشارہ نہیں نکلتا۔ سورۃ النساء میں جہاں خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی نسبت فرمایا ہے کہ ’’کلمۃ القاہا الی مریم‘‘ وہاں یہ بھی فرمایا ہے ’’و روح منہ ‘‘ اس لفظ سے بھی بن باپ کے پیدا ہونا نہیں ثابت ہوتا۔ تما م جان داروں کی نسبت کیا حیوان اور کیا انسان ’’روح منہ ‘‘ کا لفظ اطلاق کیاجاسکتا ہے۔ سوائے اس کے اور کسی معنی میں حضرت عیسیٰ کی نسبت اس لفظ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ خصوصا مسلمانوں کے مذہب کے مطابق جو خدا کے یا خدا کی روح کے یا خدا کے کلمہ کے مجسم ہونے کے قائل نہیں ہیں او راس کو ’’لم یلد ولم یولد‘‘ جانتے ہیں معہذا چند علمائے مفسرین نے بھی جیسا کہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے ’’روح منہ‘‘ قریبا قریبا ویسے ہی معنی مراد لیے ہیں جو ہم نے بیان کیے ہیں۔ اس میںلکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ لوگوں کے لیے دینی زندگی کا سبب تھے ۔ اس لیے ان کو روح سے تعبیر کیا ہے ۔ خدا نے قرآن کی صفت میںفرمایا ہے ’’کذالک اور حینا الیک روحا من امرنا‘‘ اسی طرح حضرت عیسیٰ کو بھی روح کہا گیا ہے ۔ اور روح کے لفظ سے ان کی بزرگی بھی ظاہر ہوتی ہے جیسے کہ کہتے ہیںکہ یہ تو خدا کی نعمت ہے اور اس سے صرف اس نعمت کا بزرگ اور کامل ہونا مراد ہوتا ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ روح سے رحمت مراد ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ’’وایدھم بروح منہ ‘‘ کہا ہے ’’ای برحمتہ منہ ‘‘ اور جب کہ حضرت عیسیٰ خلق کے لیے رحمت تھے تو ان کی نسبت ’’روحا منہ ‘‘ کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ سورۃ مجادلہ میںتمام ایمان والوں کی نسبت کہا گیا ہے ’’ اولئک کتب فی قلوبہم الایمان و ایدہم بروح منہ ‘‘ پھر حضرت عیسیٰ کی نسبت ایسے الفاظ کا استعمال کسی طرح اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتا کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے تھے ۔ سورۃ مریم میںجو الفاظ وار ہوئے ہیں ان پر زیادہ زوردیا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ ان سے بن باپ کے پیدا ہونے کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے ۔ سورۃ مریم میں حضرت مریم کا رویا کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ انہوں نے انسان کی صورت دیکھی جس نے کہا کہ ’’میں خدا کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ تم کو پیٹا دوں۔ اس کے بعد جو کچھ بیان ہو اہے اس پر (فی) تعقیب کی آئی جیسے کہ ’’فحملتہ فاجاء ہا المخاض‘‘ مگر اس فی سے اتصال زمانی مستنبط نہیں ہو سکتا ۔ جیسے کہ مثال مذکورہ بالا سے ظاہر ہے۔ کیوں کہ ان کے حاملہ ہونے اور دردزہ شروع ہونے میں اتصال زمانی نہ تھا۔ لو ک کی انجیل میںبھی لکھا ہے کہ ’’جب مریم کے جننے کے دن پورے ہوئے وہ اپنا پہلوتا بیٹا جنی‘‘ تفسیر کبیر میں بھی مدت حمل نو مہینے یاآٹھ مہینے یا سات مہینے لکھے ہیں۔ ابن عباس کی روایت نو مہینے کی ہے جو صحیح معلوم ہوتی ہے۔ غرض کہ اس مقام پر جہاں فی آئی ہے اس سے ہر جگہ خواہ مخواہ اتصال زمانی مستنبط نہیں ہوسکتا ہے۔ اس بات کے سمجھنے کے بعد آیات سورہ مریم پر غور کرنا چاہیے کہ جب حضرت مریم نے اپنے رویا میں انسان کو دیکھا ت و انہوںنے کہا ’’انی اعوذ الرحمن منک ان کنت تقیا‘‘ اس نے کہا ’’انما انا رسول ربک لاھب لک غلام زکیا‘‘ حضرت مریم نے کہا ’’ان یکون لی غلام و لم یمسنی بشر ولم اک بغیا‘‘ اس نے کہا ’’کذالک قال ربک ہو علی ہین ولنجعلہ آیۃ للناس و رحمۃ منا وکان امرا مقضیا ‘‘ اس کے بعد ہے۔ ’’فحملتہ‘‘ پس اس حرف فی سے جو فحملتہ پر ہے یہ لازم نہیںآتا کہ بمجرد اس گفتگو کے کسی زمانہ مابعد میں وہ حاملہ ہوئیں۔ جس وقت کی یہ گفتگو ہے بلاشبہ حضرت مریم کو کسی بشر نے نہیں چھوا تھا ۔ لیکن اس کے بعد ان کا خطبہ یوسف سے ہوا اور وہ حسب قانون فطرت انسانی اپنے شوہر یوسف سے حاملہ ہوئیں۔ اسی طرح ’’فاتت بہ قومہا تحملہ ‘‘ کی فے کا حال ہے کہ وہ ولادت کے زمانے سے متصل نہیں ہے بلکہ امر مذکورہ ولادت کے بعد کسی زمانہ میں واقع ہوا ہے ۔ تفسیر ابن عباس میںلکھا ہے کہ ولادت کے چالیس دن بعد یہ واقع ہوا ہے اور تفسیر کبیرمیںلکھا ہے کہ یہ واقعہ یعنی قوم کے پا س لانے کا اور حضرت عیسیٰ کے کلام کرنے کا ۔ حضرت عیسیٰ کی صغر سنی میں واقع ہواتھا او رابو القاسم بلخی کا قول ہے کہ حضرت عیسیٰ جوان ہونے کے قریب تھے جب یہ واقعہ ہوا تھا چناں چہ تفسیر کبیر کی یہ عبارت ہے۔ ’’اختلف الناس فیہ فالجمہور علی انہ قال ہذا الکلام حال صغرہ ، وقال ابو القاسم البلخی انہ کما قال ذالک ہین کان کالمراق الذی یفہم وان لم یبلغ حدالتکلیف ُُ (تفسیر کبیر) غرض کہ علمائے مفسرین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تکلم حضرت عیسیٰ ولادت کے متصل نہ تھا ۔ قرآن مجید سے صاف پایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت میں واقع ہوا تھا جب حضرت عیسیٰ نبی ہوچکے تھے ۔ کیوں کہ آپ نے فرمایا ہے ۔ کہ ’’ انی عبداللہ اتانی الکتاب وجعلنی نبینا ‘‘ تاریخ پر اور انجیلوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی بارہ برس کی عمر تھی (دیکھو انجیل لوک باب ۲) جب انہوں نے بیت المقدس میںیہودی عالموں سے گفتگو کی۔ اسی بات پریہودی عالم ناراض ہوئے اورانہوں نے آکر حضرت مریم سے کہا کہ تیرے ماںباپ تو بڑے نیک تھے تو نے یہ کیسا عجیب یعنی بد مذہب لڑکا جنا ہے۔ حضرت مریم نے خود اس کا جواب نہیںدیا اور حضرت عیسیٰ کو اٹھا لائیں۔ اس وقت انہوں نے فرمایا کہ ’’انی عبداللہ اتانی الکتاب وجعلنی نبینا‘‘ اور ممکن ہے کہ یہ واقعہ اس کے بھی بعد ہو اہو۔ یعنی جب کہ حضرت یحییٰ شہید ہوچکے تھے اور حضرت عیسیٰ نے یہودیوں کو سمجھانا اور ان کی بدیوں کو وعظ میںبرا کہنا شروع کر دیا تھا ۔ غرض کہ اس قدر تو جملہ علمائے مفسرین تسلیم کرتے ہیں کہ یہ واقعہ ولادت کے زمانہ کے متصل واقع نہیں ہواتھا اس کے بعد ہوا۔ کوئی مدت ما بعد کے زمانہ کی چالیس دن او رکوئی قریب عمر مراہق یعنی بارہ برس کی قرر دیتا ہے اور باستدلال قرآن مجید زمانہ نبوت قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید سے ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسٰی نے ایسی عمر میں جس میں حسب فطرت انسانی کوئی بچہ کلام نہیں کرتا کلام کیاتھا۔ قرآن مجید کے یہ لفط ہیں ’’کیف نکلم من کان فی المھد صبیاُُ اس میں لفظ ’’کان‘‘ کا ہے جس کامطلب یہ ہے کہ ایک ایسے سے ہم کیوں کر کلام کریںجو مہد میںتھا یعنی کم عمر لڑکا ہماری گفتگو کے لائق نہیں۔یہ اسی طرح کا محاورہ ہے جیسے کہ ہمارے محاورہ میں ایک بڑا شخص ایک کم عمر لڑکے کی نسبت کہے کہ کہ ابھی ہونٹ پر سے تو اس کے دودھ بھی نہیں سوکھا کیا یہ ہم سے مباحثہ کے لائق ہے ’’کان‘‘ کالفظ دلالت کرتا ہے کہ اس وقت وہ نہ مہد میںتھے نہ مہد کے لائق تھے اور اس کے بعد کی آیت سے اس مراد کی او ر بھی تائید ہوتی ہے اور بالفرض حضرت عیسیٰ نے اگر مہد میںکلام بھی کیاہو تو اس سے ان کے بن باپ کے پیدا ہونے پر کیوں کر استدلال ہوسکتا ہے ۔ یہودیوں کے اس قول سے بھی کہ ’’یا مریم لقد جئت شیا‘‘ فرمایا ’’اخت ہارون ماکان ابوک امر سوء وما کان امک بغیا‘‘ حضرت عیسیٰ کے بن باپ کے پیدا ہونے پر استدلال نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے کہ اس زمانہ میں جب کہ یہودیوں نے حضرت مریم سے یہ بات کہی کوئی بھی حضرت مریم پر بدکاری کی تہمت نہیں کرتا تھا اور نہ اس آیت میں ا س قسم کی تمہت کا اشارہ ہے فری کے معنی بدیع و عجیب کے ہیں ۔ اس لفظ سے غالبا یہودیوں نے مرادلی ہو گی ’’ شیا عظیما منکرا‘‘ مگر اس سے یہ بات کہ انہوں نے اس وقت حضر ت عیسیٰ کی نسبت ناجائز مولود ہونے کی تہمت کی تھی لازم نہیںآتی ۔ بلکہ قرینہ اس کے برخلاف ہے کیوں کہ حضرت عیسیٰ نے اس کے جواب میں اس تہمت سے بری ہونے کا کوئی لفظ بھی نہیں کہا۔ اگر اس وقت یہودیوں کی مراد اس سے تہمت بد نسبت حضرت مریم کے اور ناجائز مولود ہونے کی نسبت حضرت عیسیٰ کے ہوتی تو ضرور حضرت عیسیٰ اپنے جواب میںاپنی اور اپنی ماں کی بریت اس تہمت سے ظاہر کرتے۔ صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ کی تلقین سے جو خلاف عقائد یہود تھی علمائے یہود ناراض ہو کر حضرت مریم کے پا س آئے جس سے ان کی غرض یہ ہوگی کہ وہ حضرت عیسیٰ کو ان باتوں سے باز رکھین او رکہا کہ تیرا باپ اور تیری ماں تو بڑے نیک تھے تونے یہ کیسا عجیب بچہ جنا ہے جو تمام عقائد کے برخلاف باتیں کرتا ہے ۔ حضرت مریم نے کہا کہ اسی سے پوچھو۔ اس پر یہودیوں نے کہ وہ کل کا بچہ ہمارے منہ لگنے کے لائق نہیں۔ اس پر حضرت مریم حضرت عیسیٰ کواٹھا لائیں اور انہوں نے کہا کہ میں خدا کا نبی ہوں۔ یہ ایسا معاملہ ہے جو فطرت انسانی کے موافق واقع ہوا اور اب بھی واقع ہوتا ہے۔ شوخ و شریر لڑکے کی ماں سے اس کی شکایت کی جاتی ہے۔ جو شوخی کہ ا س نے کی ہو اس کی نسبت اس کی ماں کہتی ہے کہ اسی سے پوچھو۔ پس ان الفاظ سے جو قرآن مجید میں ہیں حضرت عیسیٰ کے بن باپ کے پیداہونے پر کسی طرح استدلال نہیں ہوسکتا۔ اٹھالانے کالفظ اس مقام پر مجازا بولا گیا ہے ۔ اس سے خواہ مخواہ گود میںاٹھا لانا لازم نہیںآتا۔ سورۃ انبیاء میں حضرت مریم کی نسبت خدا نے فرمایا ہے ’’والتی احصنت فرجہا فنفخنا فیہا من روحنا وجعلناہا واینھا آیۃ للعمالمین‘‘ اس سے بھی حضرت عیسیٰ کا بن باپ کے پیدا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اول تو کوئی مسلمان خدا کی روح کے مجسم ہونے پر اعتقاد نہیں کرسکتا ۔ ’’احصنت فرجہا‘ُ‘ کے یہ معنی نہیں کہ ’’ احصنت فرجہا من کل رجل‘‘ بلکہ یہ معنی ہیں کہ ’’احصنت فرجہا من غیر زوجھا ‘‘ چنانچہ تفسیر کبیر میںلکھا ہے ’’احصنت اے عن الفواحش لانہا قذفت باالزنا‘‘ اس کی نظیر خود قرآن میںموجود ہے ۔ تفسیر کبیر میںلکھا ہے کہ حصان کے معنی عفیفہ عورت کے ہیں اور ا سکی مثال میںحضرت مریم کی نسبت جو لفظ ’’احصنت فرجہا ‘‘ کاآیا ہے وہی لکھا ہے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ اس لفظ سے حضر ت مریم کا تہمت بد سے بری ہونا نکلتا ہے نہ حضرت عیسیٰ کا بن باپ کے پیدا ہونا محصنات کے معنی عفاف کے اور جگہ بھی قرآن میںآتے ہیں جیسے کہ ’’محصنات غیر مسافحات‘‘ ’’ محصنین غیر مصافحین‘‘ اور شوہر دار عورت کے بھی آئے ہیں جیسے کہ ’’والمحصنات من النساء ‘‘ تفسیر کبرے میں لکھا ہے ’’یقال امرۃ محصنۃ اذا کانت ذات زوج‘‘ پس حضرت مریم کی نسبت احصنت کا لفظ زیادہ تر صاحب زوج ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ نفخ روح حضرت عیسیٰ میںکچھ دلیل ان کے بن باپ ہونے نہیں ہوسکتی ۔ تمام انسانوں کی نسبت خدا تعالیٰ نے نفخ روح کہا ہے جیسے کہ سورۃ تنزیل میںفرمایا ہے ۔ ’’خلق الانسان من طین ثم جعل نسلہ من سلالۃ من ماء مہین ثم سواہونفخ فیہ من روحہ ‘‘ پس جس طرح کہ اور انسانوں میںاللہ اپنی روح نفخ کرتا ہے اسی طرح حضرت عیسیٰ میںبھی کی تھی ۔ سورۃ آل عمران میںہے ’’ ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل آدم خلفہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون‘‘ اس آیت سے بھی حضرت عیسیٰ کابن باپ کے پید ہونا ثابت نہیںہوتا ، مفسرین نے لکھا ہے کہ وفد تجران جب آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور جو حضرت عیسیٰ کے ابن اللہ ہونے پر یہ دلیل لاتے تھے کہ وہ بن باپ کے پیداہوئے ہیں اس لیے خدا کے بیٹے ہیں ۔ اس دلیل کے رد کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ اگر یہ روایت صحیح مانی جاوے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عیسیٰ کا بن باپ کے پیدا ہونا تسلیم کر لیا ہو کیوں کہ یہ دلیل بہ طور دلیل الزامی کے ہے۔ دلیل الزامی میں اس سے بحث نہیں ہوتی کہ جو مقدمہ مخالف نے قائم کیا ہے وہ صحیح ہے یا غلط۔ بلکہ اس کے مقابلہ میںایک او رمقدمہ مسلمہ پیش کیا جاتا ہے جس سے مخالف کی دلیل باطل ہوجاتی ہے۔ پس اس مقام پر دلیل الزامی اس طرح قائم ہوتی ہے کہ اگر بالفرض تم بوجہ بن باپ کے پیدا ہونے کے حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مانتے ہو تو حضر آدم کو جو بن ماں باپ کے پیدا ہوئے ہیں بدرجہ اولیٰ خدا کا بیٹا ماننا چاہیے اور جب کہ تم حضرت آدم کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے تو حضرت عیسیٰ کو صرف بن باپ کے پیدا ہونے سے کیوں خدا کا بیٹا مانتے ہو۔ معہذااگر لفظ مثل سے حضرت آدم اور حضرت عیسیٰ میںمماثلت مرا د ہے تو وہ مماثلت دونوں کی خلقت میںتو نہیں ہوسکتی ۔ کیوں کہ حضرت آدم مٹی سے یا پانی سے پیدا ہوئے تھے اور نہ وہ نو مہینے کسی عورت کے پیٹ میں رہے اور نہ مثل ایسے انسانوں کے جو نطفہ سے پیدا ہو تے ہیں ان کا حالت نطفہ سے جنین ہونے تک نشوونما ہوا۔ برخلاف حضرت عیسیٰ کے ۔ پس حضر ت عیسیٰ اور حضرت آدم کی پیدائش میں تو کسی طرح مماثلت نہیں ہوسکتی اور اگر یہ کہا جاوے کہ صرف باپ نہ ہونے میںمماثلت ہے تو یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ اول یہ بات ثابت ہونی چاہیے کہ حضرت عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہوئے تھے جب یہ بات ثابت ہو جاوے تو بن باپ کے پیدا ہونے میں مماثلت کا دعویٰ ہوسکتا ہے۔ حالاں کہ ان کا بے باپ کے پیدا ہونا ابھی تک ثابت نہیں ہے پس اگرمماثلت ہے تو یا تو نفخ روح میںہے کہ حضر ت آدم کی نسبت بھی کہا ہے ہے ’’فنفخنا فیہ من روحنا‘‘ اور یا صرف مخلوق ہونے میںہے کہ جس طرح حضر ت آدم خدا کے بندے اور مخلوق تھے اس طرح حضرت عیسیٰ بھی خدا کے بندے او رمخلوق ہیں او راس کی تائید قر آن مجید سے ہوتی ہے جہاں خدانے فرمایا ہے ’’لن یستنکف المسیح ان یکون عبداللہ ‘‘ پس کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس آیت سے حضرت مسیح کے بن باپ ہونے پر استدلال کیا جاوے۔ بعضے لوگ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہر جگہ حضرت عیسیٰ کو ابن مریم کہا گیا ہے ۔ اگر ان کے کوئی باپ ہوتا تو ان کی ابنیت باپ کی طرف منسوب کی جاتی نہ ماں کی طرف۔ مگر یہ دلیل نہایت بودی ہے۔ کیوںکہ جب قرآن نازل ہوا تو حضرت عیسیٰ یہود اور نصاریٰ دونوں میںابن مریم کے لقب سے مشہور تھے ۔ وہی مشہور لقب ان کا قرآن میںبھی بیان کیا گیا ہے اس سے ان کا بے باپ کے پیدا ہونا ثابت نہیںہوتا ۔ حضرت مسیح کے واقعات میںجیسے کہ آپ کی ولادت کا مسئلہ بحث طلب ہے ویسا ہی آپ کی وفات کا مسئلہ بھی غور کے لائق ہے۔ یہودی یقین رکھتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو صلیب پرچڑھا کر قتل کر ڈالا۔عیسائی یقین رکھتے ہیں کہ یہودیوں نے ان کو صلیب پر چڑھایا اور وہ صلیب ہی پر مر گئے پھر صلیب پر اتارکر قبر میں دفن کیا پھر ہو جی اٹھے ۔ جمہور مسلمین کا یہ اعتقاد ہیکہ وہ صلیب پر چڑھائے ہی نہیں گئے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ پر الحاد کا اور یہودی شریعت کے مسائل مقررہ سے پھر جانے کا الزام لگایا تھا ۔ انجیل یوحنا کے ساتویں باب کی بارہویں آیت میںلکھا ہے کہ ’’لوگوں میں ا س کی (یعنی حضرت عیسیٰ کی) بابت بہت تکرار تھی ۔ بعضے کہتے تھے کہ وہ نیک ہے اور کتنے کہتے تھے کہ نہیں بلکہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور اسی انجیل کے باب ۲۶ آیت ۶۵ میںلکھا ہے کہ سردار اما م نے اپنے کپڑے پھاڑ کر کہا کہ یہ (یعنی حضرت عیسیٰ) کفر کہہ چکا ہے اب ہم کو اور گواہوں کی کیادرکار ہے دیکھو اب تم نے اس کا کفر بکنا سنا۔‘‘ یہودی شریعت میں جیسے کہ توریت کی کتاب احبار باب ۲۴ ورس ۱۴ وکتاب استثناء باب ۱۳ سے پایا جاتا ہے ارتدار یا الحاد کی سزا سنگسار کرنا تھا ۔ مگر اس زمانہ میں رومیوں کی سلطنت تھی اور وہ یہودی شریعت سے مرتد ہونے کے جرم میں کسی کو سنگسار نہیں کرتے تھے اس لیے یہودیوں نے حضرت عیسیٰ پر بادشاہ وقت سے باغی ہونے کی تہمت لگائی اور پلاط سے کہا کہ وہ اپنے تئیں یہودیوں کا بادشاہ کہتا ہے ۔ لوگوں کو ورغلاتا ہے اور قیصر کو خراج دینے سے منع کرتا ہے، جرم بغاوت کی سزا صلیب پرچڑھا کر مار ڈالنا تھی ۔ اس لیے یہودیوں نے پلاط سے جو وہاں کا حاکم تھا درخواست کی کہ وہ صلیب پر چڑھا دیاجاوے۔ واقعہ صلیب کے بعد مختلف فرقوں نے مختلف رائیں اس کی نسبت قائم کیں۔ یہودی اپنی شیخی سے یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم نے حضر ت عیسیٰ کو شریعت کے بموجب پہلے سنگسار کر کے قتل؛ کر ڈالا اور پھر صلیب پر لٹکا دیا۔ عیسائی سنگسار کرکے مار ڈالنا تو تسلیم نہیں کرتے جو درحقیقت غلط بھی ہے مگر صلیب پر چڑھا کر مار ڈالنا تسلیم کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ بعد اس کے حضرت عیسیٰ قبر میں دفن کیے گئے او رپھر مردوں میں سے جی اٹھے اور حواریوں سے ملے اور پھر زندہ آسمان پر چلے گئے اور اپنے باپ یعنی خدا کے دائیں ہاتھ پر جابیٹھے ۔ بعض قدیم عیسائی فرقے جن کو حضرت عیسیٰ کا صلیب پر چڑھایا جانا بہت ناگوارتھا ۔ حضرت عیسیٰ کے صلیب پر چڑھائے جانے سے قطعا منکر تھے بعضے کہتے تھے کہ شمعون قرینی صلیب پر چڑھایا گیا اور بعض کہتے تھے کہ یہودائے اسخریوطی ۔ شمعون و ہ شخص ہے جو صلیب لے کر چلنے کو بیگار میں پکڑا گیا تھا اور یہودا وہ شخص ہے جس نے مخبری کرکے حضرت عیسیٰ کو پکڑوایاتھا۔ مسلمان مفسروں کی عادت ہے کہ پرانے قصوں میںبغیر تحقیقات اصلیت کے اور بلاغور کرنے کے مقصد قرآن مجید پر جہاں تک ہو سکتا ہے یہودیوں اورعیسائیوں کی روایتوں کو لے لیتے ہیں ۔ انہوں نے پچھلی روایت کو زیادہ مودب سمجھا اور ظاہری الفاظ قرآن مجید ۱۔ دیکھو انجیل متی باب ۲۲ ورس ۱۶ و باب ۲۷ ورس ۱۱ و ۲۷ وانجیل لوک باب ۱۵ ورس ۲ و ۲۶ باب ۲۳ ورس ۲ و انجیل یوحنا باب ۱۹ورس ۱۹۔ کو اس کے مناسب پایا ۔ اس لیے انہوں نے پچھلی روایت کو اختیار کیا اور قرآن مجید کے ایک لفظ کی بنا ء پر جس کو ہم آگے بیان کریں گے یہ قرار دیا کہ شمعون یا یہودا کی صورت بدل کر بعینہ حضرت عیسیٰ کی سی صورت ہوگئی تھی اور یہودیوں نے اس کو حضرت عیسیٰ جان کر صلیب پر چڑھا دیاتھا اور وہ زندہ آسمان پر چلے گئے تھے ۔ ظاہرا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے آسمان پر جانے میں مسلمانوں او ر عیسائیوں کے اعتقاد میں چنداں تفاوت نہیں ہے کیونکہ دونوں حضرت عیسیٰ کے زندہ آسمان پر چلے جانے کا اعتقاد رکھتے ہیں، مگر درحقیقت یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو دونوں مذہبوں میں نہایت مختلف ہے۔ عیسائی مذہب میںحضرت عیسیٰ کے صلیب پر چڑھائے جانے اور صلیب ہی پر جان دینے کا اعتقاد رکن اعظم ایما ن ہے ۔ کیوںکہ ان کے اعتقاد میں انسانوں کی نجات صرف حضرت عیسیٰ کے فدیہ ہونے یعنی صلیب پر جان دینے میںمنحصر ہے۔ جو کوئی اس امر کا اعتقاد نہ کرے وہ موجودہ عیسائی مذہب کے مطابق عیسائی نہیں ہے اور نہ نجات کا مستحق ہے ۔ پس مسلمانوں کایہ اعتقاد کہ حضرت عیسیٰ بغیر صلیب پر چڑھائے زندہ آسمان پر چلے گئے ۔ موجودہ عیسائی مذہب کے بالکل برخلاف ہے۔ اس واقعہ پر بحث کرنے سے پہلے ہم کو مناسب ہے کہ صلیب دینے کی نسبت کچھ بیا ن کریں کہ وہ کیوں کر دی جاتی تھی او رکس طرح اس پر جان نکلتی تھی ۔ جاننا چاہیے کہ صلیب بطور چلیپا کے اس صورت کی ہوتی تھی: سپر چڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ انسان کے دونوں ہاتھ لکڑیوں پر جو یمین ویسار میںہیں پھیلاتے تھے اور ا س کی ہتھیلیوں کو ان لکڑیوں سے ملا کر آہنی کیلیں ٹھوک دیتے تھے جہاں گول نشان ہے وہاں ایک مضبوط لکڑی لگی ہوتی تھی جو دونوں ٹانگوں کے بیچ میںرہتی تھی اور انسان اس پر لٹک جاتا تھا اس سے یہ غرض تھی کہ انسان بدن کے بوجھ سے نہ کھسکنے پاوے۔ پھر دونوں پاؤں کو اوپر تلے کر کے او رنیچے کی لمبی لکڑی پر رکھ کر ایک لوہے کی میخ اس طرح ٹھوکتے تھے کہ دونوں پاؤں کو توڑ کر لکڑی میں نکل جاتی تھی اور کبھی پاؤں میں میخ نہیں ٹھوکتے تھے بلکہ رسی سے خوب جکڑ کر باندھ دیتے تھے۔ صلیب پر چڑھا دینے سے انسان مر نہیں جاتا کیوں کہ اس کی صرف ہتھیلیاں اور کبھی ہتھیلیاں اور پاؤں زخمی ہوتے تھے اس کے مرنے کے سب یہ ہوتا تھا کہ چار چار ، پانچ پانچ دن تک اس کو صلیب پر لٹکائے رکھتے تھے اور ہاتھ پاؤں کے چھیدوں اور بھوک اور پیاس اور دھوپ کا صدمی اٹھاتے اٹھاتے کئی دن میں مرتا تھا ۔چنانچہ اس کی سند طیطوس کی شہادت سے جو کتاب سیطری کا ن صفحہ ۱۱ میں اور ازیجرس کی شہادت سے جو تفسیر انجیل متی مطبوعہ گریگارٹن صفحہ ۲۳ میں مندرج ہے اور ازلسطر ینان کی کتاب صفحہ ۲۹۰ سے جو حضرت مسیح کے حالات میں لکھی ہے او ریوسی بیس کی تاریخ کلیسا صفحہ ۲۹۱ سے بخوبی پائی جاتی ہے۔ ا ب اس بات پر غور کرنی چاہیے کہ حضرت عیسیٰ کو کس طرح صلیب پر چڑھایا تھا۔ جس دن حضرت عیسیٰ صلیب پر چڑھائے گئے وہ جمعہ کادن تھا اور یہودیوں کی عید فصح کا تہوار تھا ۔ دوپہر کا وقت تھا جب ان کو صلیب پر چڑھایا گیا۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ ان کی ہتھیلیوں میںکیلیں ٹھونکی گئیں مگر یہ امر مشتبہ ہے کہ پاؤں میںبھی کیلیں ٹھونکی گئیں یا نہیں۔ کیوں کہ انجیل یوحنا میںصرف ہتھیلیوں کے چھید دیکھنے کا ذکر ہے اور لوقا کی انجیل میںہاتھ پاؤں دونوں کا مگر اس اختلاف سے جو اصل امر ہے اس میں کچھ اثر پیدا نہیں ہوتا ۔ عید فصح کے دن ختم ہونے پر یہودیوں کا سبت شروع ہونے والا تھا اور یہودی مذہب کی رو سے ضرور تھا کہ مقتول یا مسلوب کی لاش قبل ختم ہونے دن کے یعنی قبل شروع ہونے سبت کے دفن کر دی جاوے مگر صلیب پر انسان اس قدر جلدی نہیں مر سکتا تھا ۔ اس لیے یہودیوں نے درخواست کی کہ حضرت مسیح کی ٹانگیں توڑ دی جا ویں تاکہ فی الفور مر جاویں۔ مگر حضر ت عیسیٰ کی ٹانگیں توڑی نہیں گئیں او رلوگوں نے جانا کہ وہ اتنی دیر میں مر گئے ۔ برچھی کا حضرت عیسیٰ کے پہلو میں ان کے زندہ یا مردہ ہونے کی شناخت کے لیے چبھونا صرف یوحنا کی انجیل میں ہے اور کسی انجیل میں نہیں ہے اور نہ اس وقت جب کہ حضرت عیسیٰ نے اپنے ہاتھوں کے چھید حواریوں کو دکھلائے۔ پسلی کے چھید کا دکھانا کسی انجیل میںلکھا ہے اور اس برچھی کا چبھونا نہایت مشتبہ ہے محہذا بھی اگر و ہ صحیح ہوتو وہ بھی کوئی ایسا زخم جس سے فی الفور ہلاکت ہو متصور نہیں ہو سکتا۔ جس طرح ان کے ہاتھ پاؤں زخمی تھے اسی طرح پسلی کے نیچے بھی ایک زخم تسلیم کیا جاوے۔ جب کہ لوگوں نے غلطی سے جانا کہ حضرت در حقیقت مر گئے ہیں تو یوسف نے حاکم سے ان کے دفن کر دینے کی درخواست کی ۔ وہ نہایت متعجب ہوا کہ ایسے جلد مر گئے۔اس قدر جلدی مر جانے کی خبر سے کچھ حاکم ہی متعجب نہیں ہوا بلکہ عیسائی بھی اس کو ناممکن سمجھتے تھے اور اس لیے تیسری صدی عیسوی میںجو عیسائی علماء تھے انہوں نے حضرت عیسیٰ کا ا س قدر جلد صلیب پر مرنا آخر کار معجزہ قرار دیا ۔ غرضیکہ یوسف کو دفن کرنے کی اجازت مل گئی اور حضرت عیسیٰ صرف تین چار گھنٹے صلیب پر رہے کسی کتاب سے نہیں معلوم ہوتا کہ کوئی رسم تجہیز و تکفین کی حضرت عیسیٰ کے ساتھ عمل میں آئی تھی بلکہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ یوسف نے ان کو ایک لحدمیںرکھا اور اس پر ایک پتھر ڈھانک دیا۔ اس بات کاتصفیہ نہیں ہوسکتا کہ یوسف نے یہ کام اس لیے کیا تھا تاکہ حضرت عیسیٰ کے دشمن یقین کر لیں کہ درحقیقت عیسیٰ مرگئے اور ہو جانتا تھا کہ وہ مرے نہیں ہیں یا آنکہ در حقیقت ان کو مردہ سمجھ کر اس نے لحد میں رکھ دیا تھا ۔ بہر حال رات کو وہ اس لحد میں نہ تھے اور اس سے پہلی بات کی تائید ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خود یہودیوں کو بھی شبہ تھا کہ وہ مرگئے ہیں یا نہیں۔ اس لیے صبح کو بروز شبہ انہوں نے حاکم کی اجازت سے وہاں پر پہرہ متعین کر دیا مگر اب کیافائدہ تھا جو کچھ ہوتا تھا وہ اس سے پہلے ہوچکاتھا ۔ جب ا س تمام واقعہ پر مورخانہ طور پر نظر ڈالی جاوے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ صلیب پر مرے نہ تھے بلکہ ان پر ایسی حالت طاری ہوگئی تھی کہ لوگوں نے ان کو مردہ سمجھا تھا اس امر کی نظریں کہ صلیب پر سے لوگ زندہ اترے ہیں تاریخ میں موجو دہیں۔ ڈاکٹر کلارک نے متی کی انجیل کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ایسی کئی ایک مثالیں موجود تھیں کہ شخص مصلوب کئی د ن تک زندہ رہا ۔ ہیروڈٹس رومی مورخ نے لکھا ہے کہ سندوکیس دار کے حکم سے صلیب پر چڑھایا گیا ۔ اور پھر اس کے حکم سے اتارا گیا وہ زندہ رہا کر دیاگیا ۔ یوسی سیس مورخ نے اپنی سوانح عمری میںلکھا ہے کہ ایک دفعہ طیطوس بادشاہ کے حکم سے بہت سے قیدی صلیب پر چڑھائے گئے ان میں سے تین آدمی اس کے ملاقاتی تھے۔ اس نے بادشاہ سے ان کی سفارش کی اور وہ صلیب پر سے اتارے گئے اور ان کا معالجہ کیا گیا ۔ مگران میں سے دوآدمی مرگئے اور ایک شخص اچھا ہوگیا ۔ حضرت عیسیٰ تین چارگھنٹے بعد صلیب سے اتار لیے گئے تھے اور ہر طرح پر یقین ہو سکتا ہے ۔ کہ وہ زندہ ہی رات کو وہ لحد سے نکال لیے گئے اور وہ مخفی اپنے مریدوں کی حفاظت میںرہے۔ حواریوں نے ان کو دیکھا او رملے اور پھر کسی وقت اپنی موت سے مر گئے ۔ بلاشبہ ان کو یہودیوں کی عداوت کے خوف سے نہایت مخفی طور پر کسی نامعلوم مقام پر دفن کر دیا ہوگا جو اب تک نامعلوم ہے اور یہ مشہور کیا گیا ہوگا کہ وہ آسمان پر چلے گئے۔ حضرت موسیٰ کی وفات بھی نہایت شبہ تھا کہ بنی اسرائیل جوپہاڑوں اور جنگلوں میں پھرتے پھرتے اور دشمنوں سے لڑتے لڑتے حضرت موسیٰ کے ہاتھ سے نہایت تنگ ہوگئے تھے حضرت موسیٰ کی تلاش کے ساتھ کیا کریں گے اس لیے کہ ان کو بھی ایک پہاڑ کی کھوہ میں ایسے نامعلوم مقام میں دفن کیا گیا تھا کہ آج تک کسی کو اس کا پتہ معلوم نہیں ہوا۔ چنانچہ توریت کی پانچویںکتاب میںلکھا ہے۔ کہ ’’پس موسیٰ بندہ خداوند درآنجا بزمین معہ آب موافق قول خداوند وفات کرد او را در درہ زممین معہ آب برابر بیت یعور دفن کد ہیچ کس از مقبرہ او تابہ امروز واقف نیست‘‘ حضرت علی مرتضیٰ کا جنازہ بھی خوارج کے خوف سے اسی طرح مخفی طور پر دفن کیا گیا تھا ۔ حالاں کہ خوارج کا خوف بہ نسبت یہودیوں کے بہت کم تھ ااور اسی طرح بعض لوگوں نے حضرت علی مرتضیٰ کی نسبت بھی کہا تھا کہ وہ آسمان پر چلے گئے ۔ اب ہم کو قرآن پر غور کرنا چاہیے کہ اس میںکیا لکھا ہے ۔قرآن مجیدمیں حضرت عیسیٰ کی وفات کے متعلق چار جگہ ذکر آیا ہے ۔ اول۔ تو سورۃ آل عمران میں اور وہ یہی آیت ہے جس کی ہم تفسیر لکھتے ہیں کہ جب ’’اذ قال اللہ یا عیسیٰ انی متوفیک وارفعک الی ‘‘ (آل عمران آیت ۵۶) اللہ نے عیسیٰ سے کہا کہ ’’ بے شک میں تجھ کو وفات دینے والا ہوں اور تجھ کو اپنی طرف رفع کرنے والاہوں۔ ‘‘ دوم۔ سورۃ مائدہ میں جہاں فرمایا ہے کہ ’’ جب اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ سے کہے گا کہ کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا بتاؤ تو حضرت عیسیٰ کہیںگے کہ میں نے ان سے نہیں کہا بجز اس کے جس کا تو نے مجھ کو حکم دیا تھا کہ خدا کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے اور جب تک میں ان میںرہا ان پر شاہد تھا۔ پھر جب تو نے مجھ کو وفات دی تو تو ان پر نگہبان تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔‘‘ سوم۔ سورۃ مریم میں جہاں فرمایا ہے کہ ’’ جب حضرت مریم حضرت عیسیٰ کو علماء یہود سے کلام کرنے کو لے آئیںتو حضرت عیسیٰ نے کہا کہ ’’ میں خدا کا بندہ او رنبی ہوں مجھ کو کتاب ملی ہے اور مجھ کو حکم دیاہے نما ز کا اور زکوۃ کا جب تک کہ میںزندہ رہوں اور اپنی ماں کیساتھ نیکی کرنے کا اور مجھ کو جبار و شقی نہیں بنایا ہے اور مجھ پر سلامتی ہے جس دن کہ میں پیدا ہو ا اور جس دن کہ مروںگا اورجس دن کہ پھر زندہ ہو کر اٹھوں گا۔ ‘‘ چہارم۔ سورۃ نساء میں جہاں یہودیوں کے کفر کے اقوال بیان کیے ہیں وہاں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’یہودی کہتے تھے ہم نے عیسیٰ بن مریم رسول خدا کو قتل کر ڈالا حالاں کہ نہ انہوں نے ان کو قتل کیا اور نہ صلیب پرمارا۔ لیکن ان پر (صلین پر مار ڈالنے کی ) شبیہہ کر دی گئی اور جو لوگ کہ اس میں اختلاف کرتے ہیں البتہ وہ اس بات میںشک میں پڑے ہیں۔ ان کو ا سکا یقین نہیں ہے بجز گمان کی پیروی کے ۔ انہوں نے ان کو یقینا قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے اپنے پاس ان کو اٹھا لیا۔‘‘ پہلی تین آیتوں سے حضرت عیسیٰ کا اپنی موت سے وفات پانا علانیہ ظاہر ہے مگرجو کہ علمائے اسلام نے یہ تقلید بعض فرق نصاریٰ نے قبل اس کے کہ مطلب قرآن مجید پر غور کریں یہ تسلیم کرلیا تھا کہ حضر ت عیسیٰ زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں۔ اس لیے انہوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو اپنی غیر محقق تسلیم کے مطابق کرنے کو بے جا کوشش کی ہے۔ پہلی آیت میں صاف لفظ ’’متوفیک ‘‘ کاواقع ہے جس کے معنی عموما ایسے مقام پر موت کے لیے جاتے ہیں۔ خود قرآن مجید سے اس کی تفسیر پائی جاتی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ۔ ’’اللہ یتوفی الانفس حین موتہا‘‘ ابن عباس او رمحمد بن اسحاق نے بھی جیسے کہ تفسیر کبیر میںلکھا ہے ’’متوفیک‘‘ کے معنی ’’ممیتک‘‘ کے لیے ہیں یہی حال لفظ ’’توفیتنی‘‘ کا ہے جو دوسری آیت میںہے اور جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جب تو نے مجھ کو موت دی یعنی جب میں مر گیا او ر ان میں نہیں رہا تو تو ان کا نگہبان تھا۔ پہلی آیت میں اور چوتھی آیت میں لفظ ’’رفع‘‘ کابھی آیا ہے جس سے حضر ت عیسیٰ کی قدر و منزلت کا اظہار مقصود ہے نہ یہ کہ ان کے جسم کواٹھا لینے کا ۔ تفسیر کبیر میںبھی بعض علماء کا قول ہے کہ لفظ ’’رفع‘‘ کا تعظیما اور تفخیما بولا گیا ہے ۔ جن علماء نے ’’متوفیک‘‘ کے معنی ’’ممیتک‘‘ کے قرار دیے تھے انہوں نے قرآن مجید کے ٹھیک ٹھیک معنی سمجھے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کو قتل نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی موت سے مرے ۔ مگر انہوں نے ’’رافعک‘‘ کے معنوں میںغلطی کی جو یہ خیال کیا کہ پھر زندہ ہوکر آسمان پر چلے گئے ۔ کیوں کہ ’’رافعک‘‘ کے لفظ سے جیسا ہم نے اوپر بیان کیا۔ آسمان پر جانا لازم نہیں آتا ۔ تفسیر کبیر میںلکھاہے کہ حضرت عیسیٰ پر موت طبعی طاری کرنے سے مقصود یہ تھا کہ ان کے دشمن ان کو قتل نہ کر سکیں۔ وہب کا یہ قول کہ وہ تین گھنٹہ تک مردہ رہے اور محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ سات گھنٹہ ، تک پھر زندہ ہوئے اور آسمان پر چلے گئے اور ربیع ابن انس کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھاتے وقت موت دی۔ بہر حال ان اقوال سے اس قدر ثابت ہوا کہ بعض علماء اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کو موت طبعی طاری ہوئی اور بعض علماء نے ’رفع‘ کے لفظ سے حضرت عیسیٰ کے جسم کا آسمان پراٹھا لینا مراد نہیں لیا، بلکہ اس سے ان کی قدر و منزلت مراد لی ہے۔ پس جب ان دونوں قولوں کو تسلیم کیا جاوے تو جو ہم بیان کرتے ہیں وہی پایا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کو یہودیوں نے نہ سنگسار کرکے قتل کیا نہ صلیب او رقتل کیا بلکہ وہ اپنی موت سے مرے اور خدا نے ان کو درجہ اور مرتبہ کو مرتفع کیا۔ ان آیتوں میں ایک او رلفظ بھی غور کے قابل ہے یعنی ’’ مادمت فیہم‘‘ اس کے صاف معنی ہیں کہ جب تک میں زندہ تھا اور اس کی سند خود قرآن مجید کی دوسری آیت میں موجود ہے جہاں فرمایا ہے ’’مادمت حیا‘‘ پس صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو معنی ’حیا‘ کے ہیں وہی معنی ’’فیہم‘‘ کے ہیں، اس کے بعد ہے ’’فلما تو فیتننی ‘‘ تو اس سے اور بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس لفظ سے ’’حیا‘‘ ہی مراد تھی اور مطلب بالکل صاف ہوجاتا ہے کہ جب تک میں ان میں تھا یعنی زندہ تھا تو میں ان پر شاہد تھا اور جب تو نے مجھے موت دی تو تو ان کا نگہبان رہا۔ پس ان دونوں آیتوں میں اس دنیا ہی میں حضرت عیسیٰ کا زندہ رہنا اور اس دنیا ہی میں اپنی موت سے مرنا بخوبی ظاہر ہوتا ہے۔ اب باقی رہی چوتھی آیت، مگر جب یہ تحقیق ہوگیا کہ یہودی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کو سنگسار کر کے قتل کیا تھا او ر عیسائی یہ یقین کرتے تھے کہ یہودیوں نے صلیب پر حضرت عیسیٰ کو قتل کیا تھا حالاں کہ یہ دونوں باتیں غلط تھیں۔ وہ سنگسار تو ہر گز نہیں ہوئے ۔ صلیب پر البتہ لٹکائے گئے مگر صلیب پر مرے نہیں۔ ’’ما قتلوہ وما صلبوہ‘‘ پہلے ے ’’ما ‘‘قافیہ سے نفس قتل کا سلب ہوتا ہے او ردوسرے سے کمال صلیب کا ۔ کیوں کہ صلیب پر چڑھانے کی تکمیل اسی وقت تھی جب صلیب کے سبب موت واقع ہوئی ، حالاں کہ صلیب پر موت واقع نہیں ہو ئی۔ ’’ولکن شبہ لہم‘‘ سے اور زیادہ تشریح اس مطلب کی ہوتی ہے۔ تشبیہ میںچار چیزیں ہوتی ہیں: ایک مشبہ اور ایک مشبہ یہ ، ایک وجہ تشبیہ ایک مشبہ لہ۔ اس آیت میں صرف دو چیزیں بیان ہوئی ہیں : ایک مشبہ جو حضرت عیسیٰ ؑ تھے۔ دوسری مشبہ لہم جو یہودی تھے اور جو درپے قتل حضرت مسیح تھے۔ مشبہ بہ قرآن میںمذکور نہیں ہے ۔ علمائے اسلام نے بعض عیسائی فرقوں کا یہ قول پایا کے شمعون یا یہودا صلیب پر چڑھایا گیا تھا انہوں نے جھٹ قرآن کے معنی بدل دیے اور یہودا یا شمعون کو مشبہ اور حضرت عیسیٰ کو مشبہ بہ اور یہودا یا شمعون کی تبدیل صورت کو وجہ تشبیہ قرار دے دیا ، حالاں کہ یہاں حرف مشبہ بہ محذوف ہے اوروہ ’’موتی‘‘ ہے اور وجہ تشبیہ وہ حالت ہے جو حضرت عیسیٰ پر طاری ہوئی تھی جس کے سبب وہ مردہ تصور ہوئے تھے ۔ پس تقدیر آیت کی یہ ہے کہ ’’ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم بالموتی‘‘ اس کی زیادہ تصریح اسی آیت کے اگلے لفظوں سے ہوتی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ ’’جو لوگ اس میں اختلاف کرتے ہیں وہ شک میںہیں۔ ان کو کچھ علم نہیں ہے بجز گمان کی پیروی کی ‘‘اور پھر اس کے بعد تاکیدا او ر یقینا فرمایا کہ ’’انہوں نے عیسیٰ کوقتل نہیں کیا اور اس مقم پر صلیب کا کچھ ذکر نہیں کیا بلکہ صرف قتل کی نفی کی اور اس سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کے اوپر جو صلیب کی نفی کی تھی اس سے نفی قتل بالصلیب مراد تھی نہ مطلق صلیب۔ ’’ثم اماتہ باجل مسمی ورفعہ الیہ کمال قال اللہ تعالیٰ بل رفعہ اللہ الیہ۔ انہی باتوں پر آنحضرت ﷺ نے عیسائی عالموں سے مباہلہ چاہا جس سے ایک نہایت عمدہ طور پر فطرت انسانی ظاہر ہوتی ہے۔ تمام اہل مذاہب خواہ صحیح مذہب رکھتے ہوںیا غلط دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ جہلا او رعلماء جہلا کا یقین مذہبی باتوں پر نہایت پختہ اور مستحکم ہوتاہے اور جو کچھ انہوں نے سمجھا ہے یا سیکھا ہے اس کے سوا اور وہ کچھ نہیںجانتے اور کوئی شبہ ان کے دل میںنہیں ہوتا ۔ ان کی مثال اندھے آدمی کی سی ہے کہ وہ اس رستہ پر جو اس کو کسی نے بتلا دیاہے چلا جاتا ہے اور اس کے ٹھیک ہونے پر یقین رکھتا ہے اور خود نہیں جانتا کہ درحقیقت یہ رستہ اسی جگہ جاتا ہے جہاں اس کو جانا ہے یا نہیں۔ پھر اگر کسی نے کہہ دیا کے میاں اندھے آگے گڑھا ہے یا دیوار ہے تو وہ بغیر کسی شک کے اس پر یقین کر لیتا ہے اور ٹھہر جاتا ہے ۔ پھر جس نے جو راہ بتائی اس طرف ہولیا ۔ یہی جہلائے اہل مذہب کا حال ہے جس مذہب میںوہ ہیں ان کو اس پر ذرا بھی شبہ نہیں۔ مگرعلماء کا حال اس کے برخلاف ہوتا ہے گو وہ بھی مذہب کی پیروی کرتے ہیں اور جس مذہب میں وہ ہیں اس کو سچ کہتے ہیںاور دل میںبھی اس پر یقین رکھتے ہیں مگر ان کا دل شبہ سے خالی نہیںہوتا ۔ وہ مذہب کے ہزاروں مسئلوں کو سچ کہتے ہیں مگر ان کی عقل ان کو قبول نہیں کرتی انکا علم انکے ویسے ہی ہونے پر ان کی تصدیق نہیں کرتا اور جب وہ اس پر سچا یقین نہیں کر سکتے تو اپنے دل کو سمجھاتے ہیں کہ گو یہ بات عقل سے اور سمجھ سے دور ہو مگرمذہب کی رو سے ہم کو یونہی ماننا اور اس پر یقین کرنا ضرور ہے۔ پس درحقیقت ان پر ان کو سچا یقین نہیں ہوتا ۔ دل میں ایک کانٹا سا کھٹکھٹا رہتا ہے اور جس پر ان کو حقیقی یقین نہیں ہوتا اس پر یقین بٹھلانا چاہتے ہیں۔ علمائے عیسائی جو حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہتے تھے او رمرنے کے بعد جی اٹھنے کا اعتقاد رکھتے تھے اور مذہبا اس پر اعتقا درکھتے تھے ۔ مگر سچائی سے دل نہیں مانتا تھا ۔ فطر ت انسانی میںیہ بات ہے کہ جو سچا شبہ اس کے دل میںہوتا ہے و ہ دور کرنے سے دو ر نہیں ہوتا اور یقین بٹھلانے سے یقین نہیں بیٹھتا ۔ بلکہ وہ شبہ جب ہی دور ہوتا ہے جب حقیقتا شبہ دور ہو جاوے اور یقین جب ہی آتا ہے جب کہ حقیقتا یقین آجاوے۔ ایسی حالت میںکوئی شخص ایسی بات کرنے پر فطرتا آمادہ نہیں ہو سکتا جو اس کے دل میں کھٹکنے والے شبہ کے برخلاف ہو ۔ اسی لیے علمائے عیسائی سے نہ جہلائے عیسائی سے کہاگیا کہ اگر تم اس پر یقین رکھتے ہو تو مباہلہ کرو اور ظاہر ہوگیا کہ وہی دل میں کھٹکنے والا شبہ اس پر آمادہ نہیںکر سکتا او رثابت ہوگیا کہ خود علمائے عیسائی کو حضرت عیسیٰ کے ابن اللہ ہونے اور مر کے جی اٹھنے پر سچا یقین نہیں تھا اور میںکہہ سکتا ہوں کہ اب بھی بجز ایسے یقین کے جو مذہبا ہوتا ہے سچا یقین نہیں ہے۔ ہم اہل اسلام کو بھی ان باتوں سے بری نہیں سمجھتے۔ ہزاروں مسلمان اس وقت موجود ہیں جو بہت سے مسئلوں پر صرف ا س وجہ سے یقین رکھتے ہیںکہ مذہبا ان پر یقین رکھنا چاہیے مگر ہو دل میں کھٹکنے والا شبہ ان کے دل میں موجود ہے۔ البتہ اسلام میں ایسے علماء اور اہل اللہ بھی گذرے ہیں جنہوں نے درحقیقت مذہب اسلام پر غور وفکر کی ہے اور حقیقتا تمام شبہات ان کے دل سے دور ہوئے ہیں اور حقیقتا ان کے دل میںیقین آیا ہے ۔ ایسے محققین کو ہمیشہ لوگوں نے کافر کہا ہے اور اب بھی کہتے ہیں۔ مگر کچھ شبہ نہیںکہ خدا کیسامنے ان کے کفر کے مقابلہ میںدوسروں کا ایمان بجوے ہم نمی آرزد۔ …………………… حضرت عیسیٰ کے معجزات سورۃ مائدہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان واقعات میں سے جو حضرت عیسیٰ پر بچنے اورجوانی کے زمانہ میںگزرے تھے چند واقعات کا جن کابیا ن سورۃ آل عمران میںبھی ہوچکا ہے بطور اپنے احسان اور اپنی نعمت کے بیان کرنا شروع کیا ہے۔ بچنے کی حالت کو یاد دلایا ہے پھر نوعمری کے زمانہ کو یاد دلایا ہے پھر نبوت کے زمانہ کو یاد دلایا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ اس طرح کا طرز کلام نہایت دلچسپ اور محبت بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ایک اعلیٰ درجہ کے شخص کو اس کے بچنے کی بھولی بھولی باتیں یاد دلائی جاتی ہیں اور پھر ان کمالوں کا ذکر کیاجاتا ہے جن کو اس نے حاصل کیا ہے ان دونوں زمانہ کی باتیں مل کر نہایت دلچسپ اور پر اثر ہو اجاتی ہین اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو دونوں زمانوں کی باتوں کو یاد دلایا ہے اور یوں فرمایا ہے کہ تو اس بات کو یاد کر جب کہ تو نے بچنے میں گفتگو کی۔ تو اس بات کو یاد کر جب کہ میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت سکھائی ۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تو مٹی سے جانوروں کی مورتیں بناتا تھا اور ان میںپھونکتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ وہ اللہ کے حکم سے زندہ ہوجاویںگے ۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تو اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرتا تھا۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تو مونے کو زندہ کرتا تھا تو اس وقت کویاد کر جب کہ میں نے تجھ کو بنی اسرائیل سے بچایا۔ اس وقت کو یاد کر جب کہ میں نے حواریوں کے دل میں ڈالا کہ مجھ پر اور تجھ پر ایمان لاویں۔ تو اس وقت کو یاد کر جب کہ تجھ سے حواریوں نے آسمان پر سے رزق اترنے کی درخواست کی۔ تو ا س وقت کو بھی یاد رکھ جب کہ میں تجھ کو اس شرک کے الزام سے جو تیری امت نے تجھ پر دھرا ہے بری کروں گا ۔ ان باتوں کے سوا سورۃ آل عمران میں ایک اور بات بھی بیان ہوئی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا کہ میںتمہارے پاس تمہارے پروردگار کی نشانی (یعنی احکام) لے کر آیا ہوں اور یہ بھی کہا کہ میں تم کو بتلاؤںگا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا اپنے گھروں میںجمع کرتے ہو۔ یہ سب بارہ باتیں ہیں جن کو ہم ایک سلسلے میں جمع کر کے ہر ایک کاترتیب سے جدا جدا بیان کریں گے ۔ اول تکلم فی المہد۔ دوم خلق طیر۔ سوم تائید روح القدس۔ چہار م تعلیم کتاب و حکمت ۔ پنجم خدا کی نشانی لانا۔ ششم حواریوں کے دل میں ایمان کا ڈالنا۔ ہفتم اندھوں اور کوڑھیوں کو چنگا کرنا۔ ہشتم موتے کو زندہ کرنا۔ نہم اخبار عن الغیب ۔ دہم مائدہ بازدہم بنی اسرائیل سے بچانا۔ دوازدہم برات عن المشرکین۔ اول: تکلم فی المہد اس امر کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں فرمایا ہے ’’ویکلم الناس فی المہد و کھلا‘‘ اور سورۃ مائدہ میںفرمایا فا شارت الیہ قالو کیف تکلم من کان فی المہد صبیا قال عبداللہ اتانی الکتاب وجعلنی نبیا۔‘‘ ان آیتوں میںصرف لفظ مہدکا ہے جس پر بحث ہو سکتی ہے مگر مہد سے صرف صغر سنی کا زمانہ مراد ہے نہ وہ زمانہ جس میں کوئی بچہ مقتضائے قانون قدرت کلام نہیں کر سکتا اس مضمون پر ہم اس سے پہلے کر چکے ہیں۔ دوم : خلق طیر یہ اس حالت کا ذکر ہے جب کہ حضرت عیسیٰ بچے تھے اور بچنے کے زمانہ میںبچوں کے ساتھ کھیلتے تھے۔ اس کی نسبت خدا نے سورۃ آل عمران میں حضرت عیسیٰ کی زبان سے یوں فرمایا ہے کہ ’’انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فیکون طیرا باذن اللہ‘‘ اور سور ۃ مائدہ میںیوں فرمایا ہے واذ تخلق من الطین کھیئۃ الطیر باذنی فتنفخ فیہا فتکون طیرا باذنی۔‘‘ سورۃ آل عمران میںیہ مضمون حضرت عیسیٰ کی زبان سے متکلم کے صیغوں میںبیان ہوا ہے اور سورۃ مائدہ میںخدا کی طرف سے مخاطب کے صیغوں میں۔ مگر سورۃ آل عمران میں اس آیت سے پہلے یہ آیت ہے کہ ’’انی قد جئتکم نایۃ من ربکم اور اسکی نسبت ہم نے ثابت کیا ہے کہ وہ سوال کے جواب میں ہے اسی سیاق پر یہ آیت ہے اور سوال کے جواب میں واقع ہوئی ہے تقدیر کلام کی یہ ہے کہ کسی شخص نے حضرت عیسیٰ کو مٹی سے جانوروں کی مورتیں بناتے دیکھ کر پوچھا کہ ’ما تفعل ‘؟ قال مجیبالہ یانی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر الخ‘‘۔ تاریخ سے بھی پایا جاتا ہے کہ جانوروں کی مورتیں بنانے کی نسبت لوگوں نے حضرت عیسیٰ سے سوال بھی کیا تھا جیسا کہ ہم آگے بیان کریںگے۔ اب اس پر بحث یہ ہے کہ کیا درحقیقت یہ کوئی معجزہ تھا اور کیا در حقیقت قرآن مجید سے ان مٹی کے جانوروں کا جاندار ہوجانا اور اڑنے لگنا ثابت ہوتا ہے۔ تمام مفسرین اور علمائے اسلام کا جواب یہ ہے کہ ہاں۔ مگرہمارا جواب ہے کہ نہیں۔ بشرطیکہ دل و دماغ کو ان خیالات سے جو قرآن مجید پر غور کرنے اور قرآن مجید کا مطلب سمجھنے سے پہلے عیسائیوں کی صیح و غلط روایات کی تقلید سے بیٹھا لیے ہیں خالی کرکے نفس قرآن پر بنظر تحقیق غور کیا جاوے۔ سورۃ آل عمران میںیہ الفاظ ہیںکہ انی خلق لکم من الطین کھیئۃ الطیرا فانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللہ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مٹی سے پرندوں کی مورتیں بتاتا ہوں پھر ان میںپھونکوںگا تاکہ وہ اللہ کے حکم سے پرند ہو جاویں۔ یہ بات حضرت عیسیٰ نے سوال کے جواب میںکہی تھی مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پھونکنے کے بعد در حقیقت وہ پرندوں کی مورتیں جو مٹی سے بناتے تھے جاندار ہوجاتی تھیں اور اڑنے بھی لگتی تھیں۔ ’’فیکون ‘‘ پر جو (ف) ہے وہ عاطفہ تو ہو نہیں سکتی کیوں کہ اگر وہ عاطفہ ہو تو ’’یکون طیرا‘‘ ان کی خبر ہوگی اور اس کا عطف ‘‘ اخلق‘ پر ہوگا اور ’یکون طیرا‘ میںیکون صیغہ متکلم کا نہیں ہے اور نہ اس کلام میںکوئی ضمیر اس طرح پر واقع ہوئی ہے کہ اسم ان کی طرف راجع ہوسکے اس لیے ’’یکون طیرا‘‘ نحوکے قاعدہ کے مطابق یایوں کہو کہ بموجب محاورہ زبان عرب کے کسی طرح ان کی خبرنہیں ہوسکتا ’’فیکون ‘‘ کی ف ، عاطفہ قرار نہیں پاسکتی ۔ اب ضرور ہے کہ وہ ف تفریع کی ہو او رپھونکنے میں اور ان مورتوںکے پرند ہوجانے میں گو کہ درحقیقت کوئی سبب حقیقی یامجازی یا ذہنی یا خارجی نہ ہو مگر ممکن ہے کہ متکلم نے ان میں ایسا تعلق سمجھا ہو کہ اس کو متفرع اور متفرع علیہ کی صورت میں یا سبب اور مسبب کی صورت میںبیان کرے جہاں کلم مجازات کی بحث نحو کی کتابوں میںلکھی ہے اس میں صاف بیان کیا ہے کہ کلم مجازات سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ در حقیقت وہ ایک امر کو دوسرے امر کا حقیقی سبب کر دیتے ہیں بلکہ متکلم اس طرح پر خیال کرتا ہے اور اس سے یہ لازم نہیںآتا کہ پہلا امر دوسرے کا امر کا حقیقی یا خارجی یا ذہنی سبب ہو۔ مگر صرف اس طرح کے بیان سے امر متفرع یا مسبب کا وقوع ثابت نہیں ہو سکتا جب تک کسی اور دلیل سے نہ ثابت ہو کہ وہ امر فی الحقیقت وقوع میں بھی آیا تھا ۔ اور جس قدر الفاظ قرآن مجید کے ہیں ان میں یہ بیان نہیں ہوا ہے کہ وہ پرندوں کی مورتیں در حقیقت جاندار اور پرند ہوبھی جاتی تھیں۔ حضرت عیسیٰ کے زمانہ طفولیت کے حالات بہت کم لکھے گئے ہیںچاروں انجیلیں جو اس زمانے میںمتعبر گنی جاتی ہیں ان میں زمانہ طفولیت کے کچھ بھی حالات نہیں ہیں یہ بات تو ممکن نہیں ہے کہ ان کے زمانہ طفولیت کے کچھ حالات ہوں ہی نہیں مگر کسی کو ان کے لکھنے پر رغبت ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ حضرت عیسیٰ کے انتقال کے بہت زمانہ بعد بعض قدیم عیسائی مورخوں نے ان کے حالات زمانہ طفولیت کے لکھنے پر کوشش کی ہے اور اس وقت ہم کو دو کتابیں انجیل طفولیت کے نام سے دستیاب ہوئی ہیں جن کو حال کے عیسائیون نے نا معتمد کتابوں میں داخل کیا ہے بہر حال ان کتابوں کی روایتوں کو بھی بہت لوگ تسلیم کرتے تھے او ر لوگوں میں مشہور تھیں ان دونوں کتابوں میں خلق طیر کا قصہ ان معمولی مبالغہ آمیز باتوں اور کرامتوں کے ساتھ جو ایسے بزرگوں کی تاریخ لکھنے میں خواہ مخواہ ملادی جاتی ہیں لکھا ہوا ہے ۔ یہ دونوں کتابیں انجیل اول طفولیت اورانجیل دوم طفولیت کے نام سے مشہور ہیں۔ انجیل اول طفولیت دوسری صدی عیسوی میںناسنکس کے ہاں عیسائیوں کا ایک فرقہ ہے مروج او رمسلم تھی اور ا ز منہ مابعد میں جو بھی اس کے اکثر بیانات پر اکثر مشہور عیسائی عالم یوسیس و تھا نا سیس وایپی فینیس و کرائی ساسٹم وغیرہ اعتقاد رکھتے تھے۔ کویس ڈی کیسٹرڈ ایک انجیل طامسن کا ذکر کرتا ہے کہ ایشیا وافریقہ کے اکثر گرجاؤں میںپڑھی جاتی تھی اور اسی پر لوگوں کے اعتقاد کا دارومدار تھا فیبریشیس کے نزدیک وہ یہی انجیل ہے۔ انجیل دوم طفولیت اصل یونانی قلمی نسخہ سے ترجمہ کی گئی ہے جو کتب خانہ شاہ فرانس میں دستیاب ہو اتھا ۔ یہ طامسن کی طرف منسوب ہے اور ابتداء انجیل مریم کے شامل خیال کی گئی ہے ۔ انجیل اول میں یہ قصہ اس طرح پر لکھا ہے اور جب کہ حضرت عیسیٰ کی عمر سات برس کی تھی وہ ایک روز اپنے ہم عمر رفیقوں کے ساتھ کھیل رہے تھے اور مٹی کی مختلف صورتیں یعنی گدھے بیل ، چڑیاں اور اور مورتین بنا رہے تھے۔ ہر شخص اپنی کاریگری کی تعریف کرتا تھا اور اوروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ تب حضرت عیسیٰ نے لوگوں سے کہا کہ میں ان مورتوں کو جو میں نے بنائی ہیں چلنے کا حکم دوںگا اور وہ فی الفور حرکت کرنے لگیں اور جب انہوں نے ان کو واپس آنے کا حکم دیا تو وہ واپس آئیں۔ انہوں نے پرندوں اور چڑیوں کی مورتیں بنائی تھیں اور جب ان کو اڑنے کا حکم دیا تو وہ اڑنے لگیں اور جب انہوں نے ان کو ٹھیر جانے کا حکم دیا تو وہ ٹھہر گئیں اور اگر وہ ان کو کھانا اور پانی دیتے تھے توکھاتی پیتی تھیں۔ جب آخر کار لڑکے چلے گئے اور ان باتوں کو اپنے والدین سے بیان کیا تو ان کے والدین نے کہا کہ بچوں آئندہ اس کی صحبت سے احتراز کر و کیوں کے وہ جادوگر ہے اس سے بچو اور پرہیز کرو اور اب اس کے ساتھ کبھی نہ کھیلو۔ اور انجیل دوم میں ا س طرح پر ہے ۔ جب حضرت عیسیٰ کی عمر پانچ برس کی تھی اور مینہ برس کر کھل گیا تھا حضرت عیسیٰ عبرانی لڑکوں کے ساتھ ایک ندی کے کنارے کھیل رہے تھے اور پانی کنارہ کے اوپر بہہ کر چھوٹی چھوٹی جھیلوں میںٹھہر رہا تھا ۔ مگر اسی وقت پانی صاف اور استعمال کے لائق ہوگیا اور حضرت عیسیٰ نے اپنے حکم سے جھیلوں کو صاف کر دیا اور انہوں نے ان کا کہنا مانا۔ تب انہوں نے ندی کے کنارہ پر سے کچھ نرم مٹی لی اور اس بارہ چڑیاں بنائیں اور ان کے ساتھ اورلڑکے بھی کھیل رہے تھے۔ مگرایک یہودی نے ان کاموں کو دیکھ کر یعنی انکا سبت کے دن چڑیوں کی مورتیں بنانا دیکھ کر بلا توقف ان کے باپ یوسف سے جاکر اطلا ع کی اور کہا کہ دیکھ تیرا لڑکا ندی کے کنارے کھیل رہا ہے اور مٹی لے کر اس کی بارہ چڑیاں بنائی ہیں اور سبت کے دن گناہ کر رہا ہے۔ تب یوسف اس جگہ جہاںحضرت عیسیٰ تھے آیا اور ان کو دیکھا تب بلا کر کہا کیوںتم ایسی بات کرتے ہو جو سبت کے دن کرنا جائز نہیں ہے۔ تب حضرت عیسیٰ نے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیاں بجا کر چڑیاں کو بلایا اور کہا کہ جاؤ اڑ جاؤ اور جب تک تم زندہ رہو مجھے یاد رکھو پس چڑیاں غل مچاتی ہوئی اڑ گئیں۔ یہودی اس کو دیکھ کر متعجب ہوئے او رچلے گئے اور اپنے ہاں کے بڑے بڑے آدمیوں سے جاکر وہ عجیب و غریب معجزہ بیان کیا جو حضرت عیسیٰ سے ان کے سامنے ظہور میں آیا تھا۔ مگر جب تاریخانہ تحقیق کی نظر سے اس پرغور کیجاتی ہے تو اصل بات صرف اس قدر تحقیق ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ بچنے میںلڑکوں کے ساتھ کھیلنے میںمٹی کے جانور بناتے تھے اور جیسے کبھی کبھی اب بھی ایسے موقعوں پر بچے کھیلنے میںکہتے ہیںکہ خدا ان میں جان ڈال دے گا وہ بھی کہتے ہوں گے۔ مگر ان دونوں کتابوں کے لکھنے والوں نے اس کو کراماتی طور پر بیان کیا کہ فی الحقیقت ان میں جان پڑ جاتی تھی۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی امر وقوعی نہ تھا بلکہ صرف حضرت مسیح کا خیال زمانہ طفولیت میںبچوں کیساتھ کھیلنے میںتھا ۔ علمائے اسلام ہمیشہ قرآن مجید کے معنی یہودیوں او ر عیسائیوں کی روایتوں کے مطابق اخذ کرنے کے مشتاق تھے۔ اور بلا تحقیق ان روایتوں کی تقلید کرتے تھے انہوں نے ان الفاظ کی اس طرح تفسیر کی جس طرح غلط سلط عیسائیوں کی روایتوں میںمشہور تھی اور اس پر خیال نہیں کیا کہ خود قرآن مجید ان روایتوں کی غلطی کی تصحیح کرتا ہے۔ سورہ مائدہ میںبھی یہی مضمون خدا تعالیٰ نے مخاطب کے صیغوں سے دوبارہ بیان فرمایا ہے۔ مگر اس مقام پر ایسی عمدگی سے سیاق کلام واقع ہوا ہے کہ باوجود اس کے کہ اس قصہ کو بعض اوقات متحق الوقوع کے ساتھ بیان کیا ہے اس پر بھی اس خاص قصہ کا وقوع کہ وہ مٹی کی مورتیں پرند ہو جاتی تھیں ثابت نہیں ہوتا۔ اس سورہ میں خدا تعالیٰ نے تمام واقعات متحقق الوقوع کو ماضی کے صیغوں سے بیان فرمایا ہے جیسے کہ ’’ اذ اید تک بروح القدس‘‘۔ ’’ اذ علمتک الکتاب والحکمۃ‘‘۔ اذ کففت بنی اسرائیل عنک اذ او حیت الی الحوارلین۔‘‘ مگرمٹی کی مورتوں کے پرند ہوجانے کے قصہ کو مستقبل کے صیغہ سے بیان فرمایا ہے جیسے کہ ’’اذ تخلق‘‘ ۔ ’’ فتفخ ‘‘۔’’ فتکون‘‘ ۔ اس سیاق کے بدلنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس مضارع کے صیغہ پر ’اذا‘ کا اثر پہنچے گا وہ تو امر متحقق الوقوع ہوجاوے گا۔ اور جس صیغہ تک اس کا اثر نہ پہنچے گا وہ امر غیر متحقق الوقوع رہے گا ۔ ا س کلام میں اذ کا اثر ’’تخلق ‘ اور ’’ تنفخ‘‘ تک پہنچتا ہے او ر’’تکون‘‘ تک نہیں پہونچنا جیسا کہ ہم بیان کریںگے۔ پس ان مٹی کی مورتوں کا جان دار ہوجانا غیر متحقق الوقوع باقی رہنا ہے یعنی قرآن مجید سے ثابت نہیں ہوتا کہ در حقیقت و ہ مٹی کی مورتیں جاندار اور پرند ہو بھی جاتی تھیں۔ اس آیت میںبھی ’’فتکون‘‘ پر کی(ف) عاطفہ نہیں ہوسکتی کیوںکہ اگر وہ عاطفہ ہو تو اس کا عطف ’’ تخلق‘‘ پر ہوگا او رمعطوف حکم معطوف علیہ ہوتا ہے اور معطوف علیہ کی جگہ قائم ہوسکتا ہے او ریہ بات ضرور ہوتی ہے کہ اگر معطوف لیہ کو حذف کردیا جاوے اور معطوف کو اس کی جگہ رکھ دیا جاوے تو کوئی خرابی اور نقص کلام میں نہ ہو نے پاوے اور اس مقام پر ایسا نہیں ہے کیوں کہ اگر معطوف علیہ کوحذف کرکے ’’فیکون طیرا‘‘ اس کی جگہ رکھ دیں توکلام اس طرح پرہوتا ہے کہ ’’ اذکر نعمتی علیک اذ تکون طیرا‘‘ اور یہ کلام محض مہمل اور غیر مقصود ہے ۔ اب ضرور ہے کہ یہ (ف) بھی اسی طرح تفریع کی ہو جس طرح سورۃ آل عمران میں (ف) تفریع کی تھی اور اس (ف) کے ذریعہ سے ’’ تنفخ‘‘ متفرع علیہ اور تکون منتفرع دونوں مل کر تخلق پر معطوف ہوںگے اور تقدیر کلام یوں ہوگی ’’ ا زکر نعمتی علیک اذ تنفخ فیہا فتکون طیرا‘‘ مگر اس صورت میں ’’فتکون طیرا‘‘ صرف ’’تنفخ‘‘ پر تفریع ہوگی اور ’’اذ‘‘ کا ا ثر جو مضارع پر آنے سے تحقیق زمانہ ماضی کا ہے یا اس امر کو متحقق الوقوع کر دینے کا ہے ’’تکون‘‘ تک نہیں پہونچتا کیوں کہ وہ اثر اس وقت پہنچتا جب کہ ’’تکون‘‘ کی (ف) عاطفہ ہوتی اور اور اس کا عطف ’’تخلق‘‘ پرجائز ہوتا ۔ اس صورت میں ’’تکون‘‘ کو محض تفریعی تعلق اپنے متفرع علیہ سے ہے اور محض تفریعی حالت اسی طرح باقی رہتی ہے جیسی کہ سورۃ آل عمران میںتھی اور اس لیے اس تفریع سے اس امر کا متفرع کاوقوع ثابت نہیں ہوتا۔ اس تما م بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن مجید سے یہ بات تو ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ بچپنے کی حالت میںمٹی سے جانوروں کی مورتیں بناتے تھے اور پوچھنے والے سے کہتے تھے ک میرے پھونکنے سے وہ پرند ہوجاویںگے مگر یہ بات کہ درحقیقت وہ پرند ہو بھی جاتی تھیں نہ قرآ ن مجید سے ثابت ہوتا ہے نہ قرآن مجید میںبیان ہوا ہے۔ پس حضرت عیسیٰ کا یہ کہنا ایسا ہی تھا جیسا کہ بچے اپنے کھیلنے میں بمقتضائے عمر اس قسم کی باتیں کیاکرتے ہیں۔ سوم: تائیدِ روح القدس اس امر کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورۃ بقر میںفرمایا ہے ’’ وایدنا ہ بروح القدس‘‘ اور سورۃ مائدہ میں فرمایا ہے ’’اذ ایدتک بروح القدس‘‘ اور سورہ مائدہ میں فرمایا ہے ’’اذ ایدتک بروح القدس‘‘ یہ آیتیں کچھ زیادہ تفسیر کی محتاج نہیں ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام موئد بتائید روح القدس ہیں۔ اگر بحث ہوسکتی ہے تو حقیقت روح القدس میںہوسکتی ہے۔ تمام علمائے اسلام اس کو ایک مخلوق جداگانہ خارج از خلقت انبیاء قرار دے کر ا سکوبطور ایلچی کے خدا و بنی میں واسطہ قرار دیتے ہیں اور جبرئیل اس کا نام بناتے ہیں ۔ ہم بھی جبرئیل اور روح القدس کو شے واحد یقین کرتے ہیں مگر اس کو خارج ا ز خلقت انبیاء مخلوق جداگانہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ خود انبیاء علیہم السلام کی ملکہ خلقت میںجونبوت ہے او ر جو ذریعہ مبدا فیاض سے ان امور کے اقتباس کا ہے جو نبوت یعنی رسالت سے علاقہ رکھتے ہیں وہی روح القدس ہے اور وہی جبرئیل۔ چہارم : تعلیم کتاب و حکمت اس امر کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں فرمایا ہے ’’ویعلمہ الکتا ب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل ورسولا الی بنی اسرائیل ‘‘ اور سورۃ مائدہ میں فرمایا ہے ’’واذ علمتک الکتاب والحکمۃ والتورۃ والانجیل ‘‘ یہ دونوںمضمون واحد ہیں اور ان میں کچھ مشکلات نہیں ہیں کیوں کہ بلا شبہ تمام انبیاء کو خدائے تعالیٰ احکام و حکمت تلقین کرتا ہے اور کتاب پڑھاتا ہے اور ان کے دل میں علم کا وہ خزانہ جمع کرتا ہے جس کو وہ تمام لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پنجم : خدا کی نشانی لانا اس امر کی نسبت سورۃ آل عمران میں خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی زبان سے یوں فرمایا ہے ’’انی قد جتکم بایۃ من ربکم‘‘ ہم ا س بات کی تحقیق سورۃ بقر میںلکھ چکے ہیں کہ آیت اورآیات اور آیات بینات سے خدا تعالیٰ کے احکام مراد ہوتے ہیںجو انبیا کو وحی کیے جاتے ہیں۔ پس اس مقام پر بھی ہم آیت کے لفظ کے یہی معنی قرار دیتے ہیں ا ورآیت سے جنس مراد لیتے ہیں نہ فرد۔ صاحب تفسیر کبیر نے بھی اس سے جنس ہی مراد لی ہے او رکہا ہے کہ ’’المراد بالایۃ الجنس لا الفرد‘‘۔، مگر اس مقام کی تفسیر کرنے سے پیش تر ہم کو اس امر کا بیان کرنا چاہیے جو سورۃ آل عمران کی آیتوں کے ربط کی نسبت ہے۔ یہ آیت او ر اس کے بعد کی آیتیں سورۃ آل عمران میں ان آیتوں کے بعد واقع ہوئی ہیں جس میں حضرت عیسیٰ کے ہونے کی بشارت ہے۔ وہ آیتیں رسولا ’’الیٰ بنی اسرائیل ‘‘ تک برابر مسلسل چلی آتی ہیں مگر ا س کے بعد جو آیت ہے ’’انی قد جئتکم با یۃ من ربکم ‘‘ اس کا او ر نیز اس کے بعد کی آیتوں کا بشارت کی آیات سے جوڑ نہیںملتا ۔ علمائے مفسرین نے اس آیت کو اور نیز اسکے بعد کی آیتوں کو شامل آیات بشارت کے کیا ہے اور جوڑ ملانے کو لفظ ’’قائلا‘‘ محذوف مانا ہے یعنی ’’رسولا الیٰ بنی اسر ائیل قائلا انی قد جئتکم بایۃ ‘‘۔ مگر ’قال‘ کے بعد ’’آن‘‘ مفتوحہ آنا کسی قدر اعتراض کے لائق تھا اس لیے زجاج نے اس جگہ اوپر کی آیتوں سے جوڑ لگانے کو ویکلم الناس رسولا‘‘ مقدر مانا ہے اور یہ معنی قرار دیے ہیں ’’ویکلم رسولا بانی قد جئتکم۔‘‘ مگر ہم کو مفسرین کے ان اقوال سے اختلاف ہے خود سیاق کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس قدر آیتیں بشارت سے متعلق تھیں وہ اس مقام پر ختم ہوگئیں جہاں فرمایا ’’ورسولا الیٰ بنی اسرائیل‘‘ اور وہ کلام منقطع ہو گیا اور ’’انی قد جئتکم بایۃ‘‘۔ سے دوسر ا کلام شروع ہوتا ہے اس لیے بشارت کی آیتوں میںتمام صیغے مستقبل کے آئے ہین جیسے ’’یکلم الناس ۔ ویعلمہ الکتاب‘‘ اور ان سب آیتوں میں حالات قبل ولادت حضرت عیسیٰ کے بیان ہوئے ہیں اور اسکے بعد صیغے متکلم کے ہیںجیسے کہ ’’انی جئتکم ۔ انی اخلق لکم۔ وابری الاکمہ وانبئکم ‘‘ اور ان میںوہ تمام حالات مذکور ہیں جو بعد ولادت حضرت عیسیٰ واقع ہوئے ہیں۔ پس ان پچھلی آیتوں کوآیات بشارات کے ساتھ مل کر دینا بالکل سیاق کلام کے برخلاف ہے ۔ صاحب تفسیر ابن عباس نے بھی ان آیتوں کو بشارت کی آیتوں سے منقطع کیا ہے اور تقدیر کلام کی یوں کی ہے۔ ’’ فلما جاء ہم قال انی قد جئتکم بایۃ‘‘ مگر اس تقدیر میںوہی نقص باقی رہنا ہے کہ ’قال‘ کے بعد ان ’مفتوحہ ‘ واقع ہوتا ہے ۔ مگر ہم تقدیر کلام کی اس طرح پرکرتے ہیں کہ فلما جاء ہم قال انی قد جئتکم بایۃ‘‘ مگر اس تقدیر میںوہی نقص باقی رہتا ہے کہ ’قال‘ کے بعد ان’مفتوحہ‘ واقع ہوتا ہے ۔ مگر ہم تقدیر کلام کی اس طرح پر کرتے ہیں کہ فلما جاء ہم قال مجیبالہم بانی قد جئتکم بایۃ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب حضرت عیسیٰ لوگوںمیں وعظ و نصیحت کرنے لگے او رخدا کے احکام سنانے لگے تو ان کی قوم نے کہا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو۔ اس کے جواب میںحضرت عیسیٰ نے فرمایا ۔ ’’انی قد جئتکم بایۃ من ربکم۔‘‘ یہ تقریر ہم نے اس لیے کی ہے کہ یہ مضمون ’’انی قد جئتکم بایۃ من ربکم ‘‘ اور وہ مضمون جو سورۃ مریم میں ہے ’’قال انی عبداللہ اتانی الکتاب وجعلنی نبیا‘‘ بالکل متحد ہے او ر یہ پچھلا مضمون جواب میں قوم کے سوال کے واقع ہوا ہے اور یہ قرینہ ہے کہ وہ پہلا مضمون بھی قوم کے جواب میںہے ۔ متی کی انجیل میںلکھا ہے کہ جب حضرت مسیح معبد میں وعظ کر رہے تھے تو سردار امام مشائخ ان کے پاس آئے او رپوچھا کہ تو کس حکم سے یہ کام کرتا ہے اور کس نے تجھے یہ حکم دیا ہے ۔ حاصل جواب مسیح یہ ہے کہ جس کے حکم سے یحییٰ غوطہ دینے والا کرتاتھا (متی باب ۲۱ ورس ۴۳، ۴۷) اب کسی اور تفسیر کی اس مقام پر ضرورت نہیں رہی کیوں کہ جس قدر انبیائؑ قوم کی طرف مبعوث ہوتے ہیں وہ خدا کی طرف سے ان کے پا س احکام لاتے ہیں اس طرح حضرت عیسیٰ بھی بنی اسرائیل کی قوم پر مبعوث ہوئے تھے اور خد اکی طرف سے ان کے لیے احکام لائے تھے۔ ششم: حواریوں کے دل میںایمان کا ڈالنا ا س کی نسبت خداتعالیٰ نے سورۃ مائدہ میں فرمایا ہے ۔ ’’واذا وحیت الی الحوارین ان آمنو بی وبرسولی قالواآمنا واشہد باننا مسلمون۔،‘‘ تمام انبیاء پر خدا تعالیٰ کی بڑی رحمت ا سکے حواریوں اور اصحابوں کا پیدا کر دینا ہے ۔ وہ اس کام میں مددگار ہوتے ہیں ۔ رنج و تکلیف کی حالت میںان سے تسلی ہوتی ہے اسی سبب سے خدا ن حضرت عیسیٰ کو حواریوں کا جو بدل و جان ا ن پر فدا تھے ایمان لانا یاد دلایا اور اپنی رحمت اور احسان کو زیادہ وضاحت سے بیان کرنے کے لیے کہا کہ ہم نے حواریوں کو کہا کہ میرے رسول پر ایمان لے آؤ یعنی میں نے ہدایت کی اور کچھ شبہ نہیںہے کہ ایمان لانا خدا ہی کی ہدایت پر منحصر ہے ۔ ہفتم : اندھوں اور کوڑھیوں کو چنگا کرنا اس مضمون کو خدا تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں حضرت عیسیٰ کی زبان سے اس طرح فرمایا ہے کہ ’’وابری الا کمہ والابرص واحی الموتی باذن اللہ ‘‘ اور سورۃ مائدہ میںیوںفرمایا ہے۔ ’’وتیری الا کمہ والابرص باذنی واذ تخرج الموتی باذنی۔‘‘ علمائے اسلام کی عادت ہے کہ قرآن مجید کے معنی یہودیوں اور عیسائیوں کی روایتوں کے مطابق بیان کرتے ہیں اس لیے انہوں نے ان آیتوں کے یہی معنی بیان کیے ہیں کہ حضرت عیسیٰ اندھوں کو آنکھوں والا اورکوڑھیوں کو چنگا کرتے تھے اور مردوں کو جلا دیتے تھے اور صرف تازہ مردوں ہوکو نہیں جلاتے تھے۔ بلکہ ہزاروں برس کے پرانے مردوں کو بھی جلا دیتے تھے چنانچہ تفیسر کبیر میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے سام ابن نوح کو ان کی قبر میں سے بلایا اور وہ زندہ ہوکر قبر میں سے نکل آئے اور اسی قسم کی اور بہت سی بے ہودہ روایتیں لکھی ہیں۔ انجیلوں میںبھی اس قسم کے بہت سے معجزے حضرت مسیح کی نسبت بیان ہوئے ہیں مگرنہایت تعجب ہے کہ خود انجیلوں سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ نے جب ان سے فروسیوں اور صدوقیوں نے آسمانی معجزہ طلب کیا تو انہوں نے معجزے کے ہونے سے انکار کیا (دیکھو انجیل متی باب ۱۲ ورس ۳۸ باب ۱۶ ورس ۴ انجیل مارک باب ۸ ورس ۱۲۔ انجیل لوک باب ۱۱ ورس ۲۹) پھر کیوں کر اس قدر معجزے حضرت مسیح کی انجیلوں میں مذکور ہیں اور وہ معجزے بھی اس قسم کے ہیں کہ ان کو سن کر تعجب آتا ہے ۔ کہیں دیوانے آدمیوں میںسے دیو نکلتے ہیں او رسوروں کے گلہ میں گھس کر ان کو دریا میں ڈبوتے ہیں۔ کہیں گونگے آدمیوں سے گونگا دیو نکلتا ہے کہیں کپڑا چھونے سے بیمار اچھے ہوتے ہیں اور کہیں صرف یہ کہہ دینا کہ جا تیری مراد پوری ہوئی سخت سے سخت بیماریوں کو اچھا کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اگر موجودہ انجیلوں پر تاریخانہ تحقیق سے نظر ڈالی جاوے تو اس سے زیادہ سچ اور کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ یہودی ہمیشہ جھاڑا پھونکی کی عادت رکھتے تھے۔ بیماروں کے لیے دعائیں پڑھ کر ان کی صحت کے لیے ان پر دم ڈالتے تھے۔ لوگوں کو برکت دیتے تھے لوگ کاہنوں اوراماموںاور مقدس لوگوں کے ہاتھ چومتے، پاؤں کو ہاتھ لگانے ، کپڑے کو چھونے یا بوسہ دینے سے برکت لیتے تھے جیسے کہ اب بھی رومن کیتھولک فرقہ میںرواج ہے ۔ انہی کی تقلید سے مسلمانوں میںبھی اس قسم کی بہت سی باتیں رائج ہوگئی ہیں۔ اسی دستور کے موافق حضرت عیسیٰ بھی بیماروں کو دعا دیتے تھے۔ ان پر دم ڈالتے تھے برکت دیتے تھے۔ لوگ ان کے ہاتھوں کو برکت لینے کے لئے چومتے تھے۔ پس یہ ایک معمولی بات تھی۔ اس بیان کے ساتھ اس بات کو اضافہ کرنا کہ جو اس طرح کرتا تھا فی الفور چنگا ہو جاتا تھا۔ اندھے آنکھوں والے ہوجاتے تھے اور کوڑھی اچھے ہوتے تھے اسی قسم کی مبالغہ آمیز تحریریں ہیں جیسے کہ ایسے بزرگوں کے حالات لکھنے والے لکھا کرتے ہیں۔ جب کہ ہم یقین کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے معجزہ دکھانے سے انکار کیا تو کہتے ہیںکہ ’’سدق کلمۃ اللہ و روح اللہ ‘‘ اور جب ان مبالغہ آمیز بندشوں کو پڑھتے ہیں تو کہتے ہیںکہ ’’ہذا بہتان عظیم ور وح اللہ و کلمۃ اللہ بری عن ذالک۔‘‘ انجیلوں میںصرف د وجگہ مردوں کے زندہ ہونے کا ذکر ہے ۔ حاکم کی بیٹی کے زندہ کرنے کا قصہ میںتو خود حضرت مسیح نے فرمایا تھاکہ وہ مری نہیں(متی باب ۹ ورس ۲۴) متی کی انجیل جو اور انجیلوں کی نسبت زیادہ معتبر تصور ہو سکتی ہے۔ اس میںسوائے اس واقع کے اور کسی مردہ کے جلانے کا مذکور نہیں ہے۔ اور انجیل لوک میںایک بیوہ کے بیٹے کے زندہ کرنے کاذکر ہے جس کا جنازہ لیے جاتے تھے (ورس ۱۱) مگر اسکا کچھ ثبوت نہیںکہ درحقیقت وہ مرگیاتھا ۔ بہت سے واقع ایسے گذرے ہیںکہ لوگوں نے ایک شخس کومردہ سمجھ کر ا سکی تجہیز و تکفین کی ہے اور بعد کو معلوم ہوا ہے کہ وہ شخص در حقیقت مر نہیں گیا تھا تعجب ہے کہ تمام انجیلوں میںان واقعوں کے سوا جو نہایت مشتبہ ہیں اور کوئی واقعہ مردوں کے زندہ کرنے کا بیان نہیںہوا۔ مسلمانوں کے حال پر اس سے بھی زیادہ افسوس ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کو تمام انبیائے سابقین سے افضل سمجھتے ہیں۔ انبیائے سابقین کے معجزے تو قرآن میںبتلاتے ہیں مگر افضل الانبیاء کے ایک معجزہ کابھی ذکر قرآن مجید میںنہیں دکھاتے بلکہ برخلاف اسکے خود آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے خدا نے فرمایا ہے کہ ’’انما ان بشر مثلکم یوحیٰ الیی انما الہکم الہ واحد‘‘ اور معجزے ہونے سے بالکل انکار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ’’قالو لولا انزل علیہ آیت من ربہ قل انما الایات عندااللہ وانما ان انذیر مبین اور ایک جگہ فرمایا ’’ ال املک نفسبی نفعا ولا ضرا الا مشا ء اللہ ولو کنت اعلم الغیب لا ستکثرت من الخیر وما مسنی السوء ان انا نذیر و بشیر لقوم یومنون اور اسی طرح کی بہت سی آیتیں ہیں۔ پس خود ہمارے سردار نے معجزوں کی نفی کی ہے۔ پھر کس طرح ہم معجزوں کو مان سکتے ہیں۔ ہاں اس بات سے انکار نہیں ہوسکتا کہ خدا نے انسان میں ایک ایسی قوت رکھی ہے جو دوسرے انسان میںاور دوسرے انسان کے خیال میںاثر کرتی ہے اور اس سے ایسے امور ظاہ ہوتے ہیںجو نہایت عجیب و غریب معلوم ہوتے ہیںاور جن میںسے بعض کی علت ہم جانتے ہیں اور بہت سوں کی علت نہیںجانتے بلکہ اس کے عامل بھی اس کی علت نہیںجانتے ہیں۔ اسی قوت پر اس زمانہ میںان علوم کی بنیاد قائم ہوئی ہے جو مسمریزم اور اسپر یچو ایلزم کے نام سے کے مشہور اور سابقین بھی اس کے عامل تھے مگر اس علم سے ناواقف تھے یا اس کو مخفی رکھتے تھے مگر جب کہ وہ ایک قوت ہے قوائے انسانی میںسے اور ہر ایک انسان میں بالقوہ موجود ہے جیسے قوت کتابت تو اس کا کسی سے ظاہر ہونا معجزہ میںداخل نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تو فطرت انسانی میں سے انسان کی ایک فطرت ہے فا فہم و تدبر۔ قرآن مجید میںلفظ ابری اورتبری کاہے جس کے معنی اچھا کرنے کے بھی ہیں اور بری کرنے کے بھی ہیں۔ یہودی شریعت میںبرص دو قسم کی قرار پائی تھی ایک وہ قسم تھی جو اس مرض میںبیمار ہوتا تھا یہودی اس کو ناپاک سمجھتے تھے (سفو لیویان باب ۱۳ ورس ۳، ۸، ۱۲، ۱۵، ۱۶، ۲۰، ۲۵، ۲۷، ۳۱ ۳۶، ۴۴، ۵۲) اور ایک قسم وہ تھی جس کے مریض کو ناپاک نہیںٹھہراتے تھے (سفر باب ۱۳ ورس ۶، ۱۴، ۱۷، ۲۳، ۲۸، ۳۵، ۳۷، ۳۹)او ر جولوگ برص سے ناپاک کیے جاتے تھے قربانی ہائے معینہ ادا کرنے کے بغیر معبد میں عبادت کے لیے داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ متی کی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ سے ایک کوڑھی نے کہا کہ اگر تو چاہے تو مجھے پاک کر سکتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ نے اس کو چھوا اس کا کوڑھ جاتا حضرت عیسیٰ نے اس کو کہا کہ اپنے تئیں امام کو دکھا اور جو نظر موسیٰ نے مقر ر کی ہے اسے دے (باب ۸ورس ۲، ۴) پاک کرنے کے لفظ سے صاف پایا جاتا ہے کہ اسکا مقصد یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ اس کو بتا دیں کہ ان دونوں قسموں کو کوڑھ میںسے کون سی قسم کی کوڑھ اس کو ہے۔ اندھے، لنگڑے اورچوڑی ناک والے کو یا اس شخص کو جس میں کوئی عضو زائد ہو اور ہاتھ پاؤں ٹوٹے ہوئے او ر کبڑے اور ٹھنگنے اور آنکھ میںپھلی والے کو معبد میں جانے اور معمولی طور پر قربانیاں کرنے کی اجازت نہ تھی )سفر لیویان باب ۲۱ ورس ۱۶ لغایت ۲۴) یہ سب ناپاک اور گنہگار سمجھے جاتے تھے اور عبادت کے لائق یا خدا کی بادشاہت میںداخل ہونے کے لائق متصور نہ ہوتے تھے۔ حضرت عیسیٰ نے تمام قدیں توڑ دی تھیں اورتمام لوگوں کو کوڑھی ہوں یا اندھے ہوں یا لنگڑے چوڑی ناک والے ہوں یا پتلی ناک کے کبڑے ہوںیا سیدھے۔ ٹھنگنے ہوں یا لمبی پھلی والے ہوں یا جالے والے سب کو خدا کی بادشاہت میںداخل ہونے کی منادی کی تھی ۔ کسی کو خدا کی رحمت سے محروم نہیں کیا ۔ اور کسی کو عبادت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ سے نہیں روکا۔ پس یہی ان کا کوڑھیوں اور اندھوں کو اچھا کرنا تھا یا ان کو ناپاکی سے بری کرنا ۔ جہاں جہا ں انجیلوں میںبیماروں کے اچھا کرنے کا ذکر ہے۔ اس سے یہی مراد ہے اور قرآن مجید میںجو یہ آیتیں ہیںان کے یہی معنی ہیں۔ انسان کی روحانی موت اس کا کافر ہونا ہے۔ حضرت عیسیٰ خدا کی وحدانیت قائم کرنے اور خدا کے احکام بتانے سے لوگوں کو اس موت سے زندہ کرتے تھے اور کفر کی موت کے پنجے سے نکالتے تھے ۔ جس کی نسبت خدا نے فرمایا ’’واذتخرج الموتی باذنی۔‘‘ مگر ہم نے جو ا س مقام پر موت سے کفر اور حیات سے ایمان مراد لیا ہے اس پر ہم کو کسی قدر بحث کرنی اور یہ ثابت کرنا کہ یہ مراد صحیح ہے ضرور ہے۔ سورۃ نمل میںخدا تعالیٰ نے کافروں پر موت کا اطلاق کیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ ’’انک لا تسمع الموتی ولا تسمع الصمک الدعا اذا ولو مدبرین وما انت بہادی العمی عن ضلالتہم ان تسمع لا من یومن بایا تنافہم مسلمون۔ (سورۃ نمل)۔ ‘‘ یعنی تو ہرگز سنا نہیں سکتا موتے کو اور نہیں سنا سکتا بحروں کو جب و ہ پیٹھ پھر کر پھریں اور تو اندھوں کو ان کی گمراہی سے راہ پرلانے والانہیں ہے تو نہیںسناسکتا مگر اس کو جو ہماری نشانیوںپر ایمان لایا ہے پھر وہ مسلمان ہیں۔ ‘‘ موتے کے مقابلے میں ’الامن یومن‘ کا لفظ واقع ہوا ہے جو صاف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ موتے کا لفظ کافروں پر اطلاق کیاگیا ہے ۔ مفسرین بھی اس مقام پر کافروں ہی سے مراد لیتے ہیں اور ’موتی ‘ اور ’صم‘ اور ’اعمی‘ کے معنی ’کالموتے ‘ ’کالصم ‘ ’کالعمی ‘بیان کرتے ہیں۔ سورۃ فاطر میں اس سے بھی صاف طرح پر احیاء و اموات کا لفظ مومن و کافر پر اطلاق ہوا ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ: ’’وما یستوی الا حیاء ولا الا موات ان اللہ یسمع من یشاء وما انت بمسمع من فی القبور (سورۃ فاطر)۔‘‘ یعنی برابر نہیںہوتے احیاء یعنی زندے اور اموات یعنی مردے اللہ تعالیٰ سنا دیتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے اور تو نہیں سنانے والا ہے ان کو جو قبروں میں ہیں‘‘ ۔ تمام مفسرین اس مقام پر بھی احیاء سے مومن اور اموات سے کافر مراد لیتے ہیں۔ تفسیر کبیر میںلکھا ہے ۔ ’’ ثما قال وما یستوی الاحیاء ولا اموات مثلا آخر فی حق المومن والکافر کانہ قال تعالیٰ حال المومن والکافر فوق حال الاعمی والبصیر الخ۔‘‘ پس آیت کے صاف معنی ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانوں میں حضر ت عیسیٰ کے اس وقت کو یاد دلایا جب کہ وہ خدا کے حکم سے کافروں کو ایما ن والا کرتے تھے خصوصا ایسی حالت میںکہ اگرچہ حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کے لیے نبی ہوئے تھے مگر وہ اور لوگوں کوبھی جو بنی اسرائیل نہ تھے ہدایت کرتے تھے اورایما ن میںلاتے تھے۔ اسی حال کی نسبت خدا نے فرمایا ۔ ’’واذ تخرج الموتی باذنی ‘‘ یعنی ’’واذ تخرج الکافر من کفرۃ باذ نی‘‘ نہم :اخبار عن الغیب اس کی نسبت خدا تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں حضرت عیسیٰ کی زبان سے فرما یا ہے کہ ’’وانبئکم بما تاکلون وما تدخرون فی بیوتکم ان فی ذالک لایۃ لکم ان کنتم مومنین۔‘‘ علمائے مفسرین نے جو اپنی تفسیر میںعجیب ولا یعنی باتوں کا لکھنا اپنا فخر سمجھتے ہیں اس آیت کی بھی تفسیر عجیب و غریب کی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ چھٹپنے ہی سے مخفی باتوں کی خبردے دیا کرتے تھے لڑکوں کو جن کے ساتھ کھیلتے تھے بتا دیتے تھے کہ تم نے کیا کھایا ہے اور تمہارے ماںباپ نے فلاں چیز (مثلا مٹھائی) تم سے چھپا کر رکھ چھوڑی ہے وہ لڑکے گھر میں آکر ماں باپ سے ضد کرتے آخر کو وہ چیز نکلتی تھی اور وہ لے لیتے تھے۔ بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ جب مائدہ نازل ہوا تو اس میں کے کھانے کو جمع کرنے کا حکم نہ تھا مگر لوگ جن مائدہ اترا تھا اس کو جمع کر رکھتے تھے اور حضرت عیسیٰ بتا دیتے تھے کہ تم نے کیاکھایا ہے اورکیا جمع کیا ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ ہمارے علما ء جو نہایت اعلیٰ درجہ کا علم و فضل رکھتے تھے کیوں کر ایسی بے ہودہ باتیں لکھ گئے ہیں آیت نہایت صاف ہے اور اس کا مطلب نہایت روشن ہے یہود اور علمائے یہود طرح بہ طرح کے حیلوں اورفریبوں سے ناجائز طور پر لوگوں کا مال مارتے تھے، لوگوں کا مال کھاتے تھے اپنے گھروں میںمال مار مار کر روپیہ دولت جمع کرتے تھے جو بالکل حرام و ناواجب تھا خود خدا تعالیٰ نے سورۃ نساء میں یہودیوں کی نسبت فرمایا ہے۔ ’’واخذہم الربوا وقد نہو عنہ واکلہم اموال الناس بالباطل و اعتدناللکافرین عذابا الیما۔‘‘ (۵۹) اور سورۃ توبہ میں فرمایاہے کہ ’’ یاایہا الذین آمنو ان کثیرا من الاخبار الرہبان لیاکلون اموال الناس با لباطل ویصدون عن سبیل اللہ والذین یکنزون الذہب الفضۃ ولا ینفقونہا فی سبیل اللہ فبشرہم بعذاب الیہم۔ ّّ (۳۴) پس اسی حرام خوری اور حرام کا مال جمع کرنے کی نسبت حضرت عیسیٰ نے فرمایا ہے کہ میںتم کو بتاؤں گا کہ تم کیا کھاتے ہو۔ اور کیا اپنے گھروں میںجمع کرتے ہو یعنی بتا دوںگا کہ حرام کامال مارتے ہو اور حرام کی دولت اپنے گھروں میںجمع کرتے ہو نہ کہ یہ بتا دوںگا کہ تم نے کیا کھایا ہے اور کیا گھر میںرکھا ہے ۔ یہ ایسی صاف و صریح آیت ہے جس کی تفسیر خود قرآن مجید کی دوسر ی آیتوں میںموجود ہے مگر افسوس ہے کہ علمائے اسلام نے اس کو بھی ایک افسانہ اورخیالی معجزہ کرکے بیان کیا ہے مگر جس کو خدا نے بصیرت دی ہے وہ صاف سمجھتا ہے کہ نہایت صاف و صریح یہ آیت ہے اور اس کے معنی وہی ہیںجو ہم نے بیان کیے۔ دہم : نزولِ مائدہ سورۃ مائدہ میں ذکر ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ سے کہا کہ خد ا سے دعا کریں کہ آسمان پر سے ان کے لیے کھانا اترے۔ حضرت عیسیٰ نے دعا مانگی۔ خدا نے کہا کہ میںتم پر کھانا اتاروں گا لیکن اگر اس کے بعد کسی نے کفر کیا تو میں ا س کو ایسا عذاب دوں گا کہ کسی کو نہ دیاہوگا۔ ہمارے مفسروں نے ان آیتوں کی تفسیر میںنزول مائدہ کی نسبت بہت سے بے سرو پا قصے اور کہانیاں لکھی ہیں جن میں ایک بھی اعتبار کے لائق نہیں ہے اور نہ قرآن مجید کے لفظوں سے ان قصوں کی تائید ہوتی ہے اور نہ ان کی نسبت کوئی اشارہ پایا جاتا ہے۔ تفسیر کبیر اور تفسیر کشاف اور اسی طرح اور تفسیروں میںبھی مائدہ اترنے کے بعد کوئی کفر کرے گا تو اس کو سخت عذاب ہوگا توانہوں نے کہا کہ ہم مائدہ کا اترنہیں چاہتے ۔ پس کوئی مائدہ نہیں اترا۔ کشاف میں لکھا ہے کہ حضرت حسن بصری نے کہا کہ ’’واللہ مانزلت۔‘‘ قرآن مجید میںبھی نہیںبیان کیا گیا ہے کہ بعد اس گفتگو کے مائدہ اترا تھا بلکہ اترنے کا ذکر نہ ہو نا جس کے ذکر ہونے کا موقع تھا ۔ کافی دلیل اس بات پر یقین کرنے کی ہے کہ نزول مائدہ ہر گز وقوع میںنہیںآیا۔ حضرت عیسیٰ کا زمانہ ایک ایسا زمانہ تھا کہ بنی اسرائیل میںیہودیت شدت سے پھیلی ہوئی تھی ۔ یہودیوں کی عادت تھی کہ انبیا سے اس قسم کی خواہشیں کیا کرتے تھے۔ اٹھترویں زبور سے پایا جاتا ہے کہ جب بنی اسرائیل جنگل میںتھے تو یہ لفظ انہوں نے بھی کہے تھے کہ ’’آیا می شود کہ خدا در بیان سفر را آمادہ گرداند۔‘‘ (زبور ۷۸ ورس ۱۹) اس کے بعد خدا نے ان پر من و سلویٰ نازل کیا تھا ۔ اسی طرح حواریوں نے بھی حضرت عیسیٰ سے کہا ’’ہل یسطیع ربک ان ینزل علینا مائدۃ من المسائ‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مائدہ سے ان کی مراد پکا پکایا کھانے سے نہ تھی بلکہ کھانے کی چیزوں کے موجودہ ہونے سے تھی ۔ یہ سوال ایک ایسی طبیعت سے نکلا تھا جو یہودیوں کے خیالات سے بھری ہوئی تھی اس کا جواب بلحاظ ان کی طبیعت کے اس سے زیادہ عمدہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا کہ خدا کہتا کہ میںتمہارا سوال پورا کروں گا۔ مگر اس کے بعد جو کوئی گناہ کرے گا تو اسکو سخت عذاب دوںگا۔ یہودی ان مصیبتوں سے واقف تھے جو بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے ا ور جنگلوں میںپھرنے کے وقت پڑی تھیں حواریین نے ضرور اس جواب سے خوف کیا ہوگا اور سوال سے باز آئے ہوں گے ۔ جیسا کہ مذکورہ بالا روایت سے پایا جاتا ہے ۔ مروجہ انجیلوں میںیہ قصہ مذکور نہیں ہے مگر کوئی شک کرنے کی جگہ نہیںہے کہ حضر ت عیسیٰ کے تمام حالات اور واقعات ان انجیلوں میںمذکور نہیں ہیں۔ یاز دہم: بنی اسرائیل سے بچانا اس کا بیان خدا تعالیٰ نے سورۃ مائدہ میں اس طرح پر کیا ہے ۔ واذ کفقت بنی اسرائیل عنک اذا جئتہم بالبینات فقال الذین کفروا منہم ان ہذا الا سحر مبین۔ ہمارے مفسرین جو کفقت سے یہ معنی نکالتے ہیں کہ خدا نے حضرت عیسیٰ کو یہودیوں کے ہاتھ سے بچایا اور ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ خود اسی آیت سے غلط ثابت ہوتے ہے کیوں کہ کافر آسمان پر زندہ چلے جانے کو اسی وقت کھلا ہوا جادو کہتے جب وہ یقین کرتے کہ وہ زندہ آسمان پر چلے گئے حالاں کہ وہ لوگ اس بات کا یقین نہیں رکھتے بلکہ ان کویقین ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کو صلیب پر قتل کیا اور اس تفسیر پر کافروں کا یہ قول ’’ان ہذا الا سحرمبین ‘‘ صحیح نہیں ہوسکتا اوراگر کافروں کے اس قول کو تبلیغ احکام سے منسوب کیا جائے او ر یوں کہا جائے کہ حضرت مسیح کے پر اثر بیان کی نسبت کافروں نے یہ کہا تھا تو پھر ’’کففت‘‘ سے حضرت عیسیٰ کے آسمان پر اٹھا لینے سے مراد لینے کی جیسے کہ مفسرین نے لی ہے کوئی وجہ نہیں ہے۔ آیت کا صرف مطلب یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ خدا کے احکام لے کر بنی اسرائیل کو سمجھانے کو گئے تو انہوں نے حضرت عیسیٰ کو مارنے یاتکلیف دینے کا ارادہ کیا خدا نے اس سے ان کو روکا اور حضرت عیسیٰ محفوظ رہے جس کو یا ان کے وعظ کو کافروں نے کہا کہ ’’ان الا سحر مبین۔‘‘ متی کی انجیل میںبھی ا س واقعہ کا نشان پایا جاتا ہے جب کہ حضر ت عیسیٰ گدھے پر سوار ہو کر بیت المقدس خد اکے احکام سنانے کو گئے اور بہت سے بدعت کے کاموں سے منع کیا اور وہاں کے عالمو ں کو لاجواب کیا اور متعدد تمثیلیں بیان کیں اور اخیر کو فرمایا کہ ’ ’میں تم سے کہتاہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے چھن جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کے میوؤں کا لادے دی جاوے گی (بے شک بنی اسما عیل ) اورجوکوئی اس پتھر پر گرے گا کچل جائے گا اور جس پر یہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا ۔ جب سردار اماموں اور فروسیوں نے اس کی تمثیل سنیں انہوں نے معلوم کیا کہ وہ انہی کے حق میں کہتا ہے تب انہون نے چاہا کہ اسے پکڑ لیں پر وے لوگوں سے ڈرے کیوں کہ وے اسے نبی جانتے تھے (باب ۲۱) پس یہی واقعہ ہے جس کاذکر قرآن مجید میں آیا ہے اور اس آیت کو حضرت عیسیٰ کے زندہ آسمان پر چلے جانے سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے ۔ دواز دہم۔ برات عن المشرکین اس مضمون کی آیتیں سورہ مائدہ کے آخیر میںآئی ہیں اور نہایت عمدہ اور دلچسپ اوردل پر اثر کرنے والی ہیں ان میں حضرت مسیح کے خدا نہ ہونے اور حضرت مسیح کا اپنے تئیں خدا نہ کہنے کا اورجو ان کو خدا کہتے ہیں ان سے بے زار ہونے کا بیان ہے مگر ہو مطلب نہایت فصاحت و بلاغت سے خود حضرت مسیح کی زبان سے ادا کیاگیا ہے اس کے ہر ہر لفظ سے اندرونی تہذیب اور اخلاقی شائستگی اور خائے واحد ذولجلال کا ادب اور اس کی اعلیٰ قدری اور اس کے سامنے اپنا عجز و انکسار پایا جاتا ہے۔ یہ طرز کلام ایسا عمدہ ہے کہ پڑھنے والوں اور سننے والوں کے دلوں پر نہایت درجہ کا اثر کرتا ہے اور اس کی سچائی لفظوں کے ساتھ دل میںبیٹھتی جاتی ہے ۔ اس مقام پر اشارہ ہے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ اور ان کی ماں حضرت مریم دونوں کو خدا مانتے تھے یہ عقیدہ رومن کیتھولک چرچ کے پیٹرنوں کا تھا انہوں نے ورجن میری حضرت مریم کو خدا کا درجہ دیاتھا اور خد ا کی سی تعظیم و ادب کے قابل ٹھہرایا تھا اور حضرت مسیح سے برتر ان کا رتبہ سمجھتے تھے اور دسویں صدی عیسوی میں حضرت مریم کی خاص پرستش شروع ہوگئی تھی اور روز و شنبہ حضر ت مریم کی پرستش کا دن قرار پایا تھا اور اسی کی نسبت خد انے فرمایا ہے کہ ’’یا عیسیٰ ابن مریم ء انت قلت للناس اتخذونی وامی الہین من دون اللہ۔‘‘ پس اس سے یہ مطلب نہیںہے کہ کل عیسائیوں کا حضرت مریم کی نسبت یہ عقیدہ ہے بلکہ حضرت مریم کی نسبت صرف انہی عیسائیوں کے عقیدہ کی طرف اشارہ ہے جن کو وہ عقیدہ تھا۔ …………… غزوہ بدر کا واقعہ قرآن حکیم میں جنگ بد رکے واقعہ پر مخالفین اسلا م نے بہت کچھ الزام لگائے ہیںجن کی نسبت بالتفصیل ہم بحث کریںگے لیکن اول مختصرا اس واقعہ کو بلا کسی قابل بحث اشارہ کے لکھتے ہیں اور اس کے بعد اس کی بحث طلب جزئیات کو بیان کریںگے۔ بدر کا محل وقوع: بدر ایک چشمہ کا نام ہے جو وادی صفرا کے اخیر ینبوع کے قرب بحر احمر کے کنارے کے پاس مدینہ سے تین منزل پر واقع ہے ۔ اس چشمہ کے سبب سے وہ مقام مشہور ہو گیا ہے ۱۔ عرب میں پانی کی نہایت قلت ہے اور جہاں کہیں چشمہ ہوتا ہے وہ جگہ مشہور اور نہایت عزیز ہوجاتی ہے۔ آنحضرت کی جس لڑائی کا سورۃ انفال میں ذکر ہے وہ اسی مقام پر ہوئی تھی اور اسی لیے جنگ بدر کانام سے مشہور ہے۔ قافلہ قریش: شام کے ملک سے قریش کا ایک قافلہ جس میںتیس چالیس آدمی تھے ابی سفیان کے ساتھ بہت سامال و اسباب لیے ہوئے مکہ کو آتا تھا ۔ انہی دنوں مکہ کے قریش نے بہت سے آدمی لڑائی کے لیے جمع کیے اور مکہ سے کوچ کیا۔ انہی دنوں میں ۱۔ بدر بالفتح ثم السکون ماء مشہور بین مکۃ والمدینۃ اسفل وادی الصفراء بینیہ و بین الجار وھو ساحل البحر لیلۃ بہ الواقعہ المشہورۃ بین النبی صلعم واہل مکۃ ۔ (مراد صد الاطلاع) رسول خد ا ﷺ نے تین سو لڑنے والے لوگوں کے ساتھ مدینہ سے کوچ کیا۔نتیجہ یہ ہو اکہ مقام بدر پرآنحضرت ﷺ اور مکہ کے قریش سے لڑائی ہوئی۔ یہ واقعہ ۲ ہجری میںواقع ہوا۔ قریش کی پیش قدمی کا سبب: اب چند اموراس میں بحث طلب ہیں۔ اول یہ کہ ، مکہ کے قریش نے کیوں لڑائی کے لیے لوگ جمع کیے تھے اور کیوں لڑنے کے ارادہ سے نکلے تھے ۔ تمام مسلمان مورخ لکھتے ہیںکہ قریش مکہ کو یہ خرب پہنچی تھی کہ آنحضرت ﷺ کا ارادہ ابی سفیان والے قافلے کو لوٹنے کا ہے اس لیے انہوں نے اس قافلہ کے بچانے کو لوگ جمع کیے اور لڑائی کے ارادہ سے نکلے۔ اگر یہ روایتیں صحیح مان لی جاویں تو بھی یہ بات لازم نہیں آتی کہ جو خبر ان کو پہنچی تھی و ہ صحیح تھی اور درحقیقت آنحضرت ﷺ کا ارادہ اس قافلے کو لوٹنے کا تھا ۔ علاوہ اس کے جب کہ قریش مکہ نے بہت سے لڑنے والے آدمی جمع کرکے لڑائی کے ارادہ پر کوچ کیا تھا تو اس بات کا کسی طرح سے یقین نہیں ہوسکتا کہ ان کا ارادہ صر ف اسی قافلہ ہی کی حفاظت کا تھا اور خاص مدینہ پر چڑھائی کرنے کا نہ تھا ۔ بلکہ دو دلیلیں ایسی صاف ہیںجن سے پایا جاتا ہے کہ ان کا ارادہ اس سے زیادہ تھا۔ اس لیے کہ انہوں نے اس قدر جمع کیے تھے اور لڑائی کا سامان اور نفیر عام اس طرح پر کی تھی جو قافلہ کی حفاظت کی ضرورت سے بہت زیادہ تھی اور جب کہ وہ قافلہ خدشہ کے مقام سے بچ کر نکل گیا اس وقت بھی انہوںنے کوچ کو اور لڑائی کے ارادہ کو موقوف نہیں کیا اور اگر فرض کیا جاوے کہ ان کا ارادہ اس قافلہ ہی کے بچانے کا تھا تب بھی اہل مدینہ کو کسی طرح اس بات پر طمانیت نہیں ہوسکتی تھی کہ ان کا ارادہ مدینہ پر حملہ کرنے کا نہیں ہے بلکہ جو عداوت اہل مکہ کو مہاجرین اور مدینہ کے انصار سے تھی اور جس پر حملہ کرنے ا ور غارت کرنے کی وہ ہمیشہ دھمکی دیتے تھے اور اس کے خواہش مندبھی تھے وہ ایک قومی دلیل اس خیال بلکہ یقین کرنے کی تھی کہ وہ ضرور مدینہ پر بھی حملہ کریںگے۔ دوسرے یہ کہ آنحضرت ﷺ نے کیوں مدینہ سے بقصد جنگ کوچ کیا تھا۔ تمام مسلمان مورخوں کا جن کی عادت میں داخل ہے کہ بلا سند روایتوں اور غلط و صحیح افواہوں کو بلا تصحیح و تنقید اپنی کتابوں میںلکھتے ہیں او رانہی پر بناء واقعات قائم کرتے ہیں یہ قول ہے کہ آنحضرت اور ان کے صحابہ نے یہ بات خیال کرکے کہ ابی سفیان کے ساتھ کے قافلہ میںلوگ بہت تھوڑے ہیں اور مال بہت زیادہ ہے، لوٹ لینے کا ارادہ کیا تھا اور اسی وجہ سے کو چ کیا تھا ۔ اس کی خبر جب قریش مکہ کو پہنچی تو انہوں نے نفیر عام کی اور قافلہ کے بچانے کو نکلے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قریش کے ساتھ لڑنے اوران کے قافلہ کولوٹنے کا قصد اول آنحضرت ﷺ کیا اور اس کے دفع کرنے کو قریش بقصد لڑائی نکلے۔ کیا مسلمان قافلہ قریش کو لوٹنا چاہتے تھے : ان مسلمان مورخوں کی نادانی اور غلطی سے مخالفین مذہب اسلام کو آنحضرت ﷺ او رصحابہ کی نسبت قافلوں کے لوٹنے کا جو پیغمبر کی شان کے شایاں نہیںہیں اور بلا سبب لڑائی کی ابتداء کرنے کے الزام لگانے کا موقع ہاتھ آیا ہے اور بہت زور شور سے ان الزاموں کو قائم کیا ہے لیکن اس زمانہ کی حالت پر اور جو طریقہ دشمنوں کے ساتھ پیش آنے کا اس زمانہ میںبلا اعتراض کے مروج تھا اگر اس پر لحاظ کیا جاوے تو ایسا کرنے میںبھی اگر کیا گیا ہو۔ کوئی مقام اعتراض کا نہیںہوسکتا اور اگر ہم اس طریقہ تعجب انگیز کا جو حضرت موسیٰ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ اختیار کیا تھا ، اس کے ساتھ مقابلہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اگرایسا کیا گیا بھی ہوتو حضر ت موسیٰ کے برتاؤ سے بہت ہی خفیف درجہ رکھتا ہے۔ مگردرحقیقت یہ الزام محض غلط اور بے بنیاد ہیںاور وہ حدیثیں اور روایتیں جن کی بناء پر وہ الزام قائم کیے ہیں از سر تا پا غلط اور غیر مستند ہیں۔ قرآن مجید میںیہ واقعہ نہایت صفائی سے مندرج ہے اور اس میں صاف بیان ہوا ہے کہ کس گروہ کے مقابلہ میں آنحضرت ﷺ نے مقابلہ کے قصد سے کوچ فرمایا تھا۔ آیا قافلہ لوٹنے کے ارادہ سے یا اس گروہ کے مقابلہ کے لیے جس کو قریش مکہ نے لڑنے کے ارادے سے جمع کر کے کوچ کیا تھا اور آنحضرت ﷺ کا کوچ فرمانا قریش مکہ کے کوچ کرنے کے بعد ہواتھا یا اس کے قبل ہوا تھا ۔ یہ الزام محض غلط ہے: ہم قرآن مجید کی آیتوں سے ثابت کریںگے کہ آنحضرتﷺ کا خیال بھی اس قافلہ کے لوٹنے کا نہ تھا اور قریش مکہ کے بقصد جنگ فوج کثیر کے ساتھ کوچ کرنے کے بعد جس سے ہر طرح مدینہ پر ان کا ارادہ حملہ کرنے کا پایا جاتاتھا اور ادنیٰ درجہ یہ کہ بوجہ قوی احتمال ہوتا تھا مدینہ کی حفاظت کی غرض سے کوچ کیاتھا اور جب کہ قرآن مجید کی آیتوں سے یہ امر ثابت ہوتا ہے تو کوئی روایت یا کوئی حدیث جو اس کے برخلاف ہو اور کسی کتاب میں مندرج ہو اور کسی نے روایت کی ہو عقلا و نفلا مردود ہے۔ عقلا میں نے اس لیے کہا کہ جو لوگ مسلمان نہیں ہین اگر صرف تاریخانہ اصول پرنظر رکھیں تو بھی وہ اس بات کو تسلیم کریں گے یہ زبانی روایتیں جو ایک زمانہ بعد تحریر میںآئین قرآن مجید کے مقابلہ میں جب کہ ان دونوں میں اختلاف ہو قابل قبول اور لائق وثوق نہیںہو سکتیں۔ سورۃ انفال کی پانچویںآیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آنحضرت ﷺ اپنے گھر یعنی مدینہ ہی میں تھے اور وہاں سے کوچ بھی نہیں کیا تھا کہ آپس میں صحابہ کے اختلاف تھا۔ بعض تو لڑنے کے لیے نکلنا پسند کرتے تھے اوربعضے ناپسندکرتے تھے جو لوگ لڑنے کے لیے نکلنا ناپسند کرتے تھے اس کی وجہ چھٹی آیت میںبیان ہوئی ہے کہ ’’ گویا وہ موت کی طرف ہانکے جاتے ہیں اور وہ اپنے مارے جانے کو دیکھتے ہیں ۔‘‘ ادنی ٰ تامل سے معلوم ہوتا ہے کہ ابی سفیان کا قافلہ جو شام سے آتا تھا اس میں نہایت قلیل آدمی تھے ان سے لڑنے کے لیے کوچ کرنے میں اور اسکے لوٹنے میںایسی کوئی خوف کی بات نہ تھی ، بلکہ یہ خوب قریش مکہ کی اس فوج سے تھا جو انہوں نے نفیر عام کے بعد جمع کی تھی اس سے لازمی نتیجہ یہ نکلتاہے کہ قبل اس کے کہ آنحضرت ﷺ مدینہ سے کوچ فرماویں قریش مکہ لڑنے کو نکل چکے تھے یاآمادہ جنگ ہوچکے تھے۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ اس آمادگی جنگ کے بعد اور مدینہ سے کو چ کرنے سے قبل بعض صحابہ کی یہ رائے ہوئی کہ شام کے قافلہ کو لوٹ لیاجاوے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان مورخوں اور راویوں نے اس رائے کو جو بعض صحا بہ نے دی تھی غلطی سے اس طرح پر بیان کیا ہے کہ گویا پیغمبر خدا ﷺ کا ارادہ قافلہ کو لوٹنے ہی کاتھا اور جو آمادگی جنگ مدینہ میںہوئی تھی وہ قافلہ کے لوٹنے کے لیے ہوئی تھی ۔ زمانہ دراز کے بعد کسی واقعہ کے بیان میں جو افواہی چلا آتا ہو اس قسم کی غلطی کا واقعہ ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے مگر قرآن مجید سے صاف ظاہر ہے کہ وہ زبانی روایتیں غلط ہیں بلکہ جو آمادگی جنگ کی مدینہ میںہوئی تھی وہ بمقابلہ قریش مکی کے ہوئی تھی نہ واسطے لوٹنے قافلہ کے۔ اسی سورۃ کی چھٹی آیت میں جو جملہ آیا ’’بعد ماتبین۔‘‘ آیا ہے وہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر منکشف کر دیا تھا کہ اس لڑائی میں مسلمانوں کو فتح ہوگی ۔ اس کے بعد ساتویں آیت میں دو گروہوں کا ذکر ہے۔ ایک وہ گروہ جس کے ساتھ کچھ شان و شوکت یعنی لڑائی کا سامان نہ تھا، اس گروہ سے وہ قافلہ مراد ہے جو شام سے آتا تھا اور جس کے ساتھ صرف تیس چالیس آدمی تھے اور دوسراگروہ قریش مکہ کا تھا جس کے ساتھ بہت سا لشکر اور بہت کچھ شان و شوکت تھی ۔ خدا نے کہا کہ ان دونوں گروہوں میں سے ایک گروہ تمہارے لیے ہے تم اس بے شان و شوکت گروہ کو لینا چا ہتے ہو مگر خدا چاہتا ہے کہ جو حق بات ہے یعنی دین اسلام وہ ثابت ہو جاوے اور کافروں کی جڑ کٹ جاوے پس اس آیت سے بخوبی ثابت ہو تا ہے کہ لڑنے کا حکم قریش مکہ کے مقابلہ کے لیے تھا نہ اس قافلہ کے لوٹنے کے لیے۔ ساتویں آیت سے چھٹی آیت کے مضمون کی بھی زیادہ تشریح ہوتی ہے کہ بعض صحابہ جو لڑائی کے لیے نکلنے کو ناپسند کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ گویا ان کوموت کی طرف ہانکا جاتا ہے اور وہ اپنے مارے جانے کو دیکھ رہے ہیں اس خوف کا سبب یہی تھا کہ ان کو قریش مکی کے مقابلہ میں نکلنے کا حکم ہوا تھا جو لشکر کثیر کے ساتھ لڑائی کو نکلا تھا اور جس سے یقین یا احتمال قوی مدینہ پر اور مہاجرین اور انصار پر حملہ کرنے کا تھا نہ اس قافلہ پر حملہ کرنے کا جس کے ساتھ کچھ شان و شوکت یعنی سامان جنگ نہ تھا۔ بیا ن مذکورہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود قرآن مجید سے مندرجہ ذیل امر ثابت ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ مدینہ ہی میں او رمدینہ سے کوچ کرنے سے پہلے یہ بات معلوم ہوچکی تھی کہ قریش مکہ لشکر کثیر کے ساتھ جنگ کے ارادہ سے نکلے ہیں۔ دوسرے یہ کہ مدینہ ہی میں خدا نے حکم دے دیاتھا کہ قریش مکہ کے مقابلہ میں لڑنے کو جاؤ اور جن صحابہ نے اس درمیان میں قافلہ لوٹنے کی رائے دی تھی خود خدا تعالیٰ نے مدینہ ہی اسکو نامنظور کیاتھا۔ اب ہم اگر ان روایتوں پر جو قرآن مجید کے برخلاف نہیں اعتبار کریں تو معلوم ہوتا ہے اورجو واقعات پیش آئے ان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مدینہ سے جو لوگ لڑنے کو نکلے وہ قریش مکہ کے مقابلہ ان کے حملہ کے دفع کرنے کے لیے نکلے تھے نہ قافلہ لوٹنے کے لیے۔ سیرت ہشا می میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مدینہ سے مکہ کی طرف کوچ فرمایا اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کوچ قریش مکہ کے مقابلہ میںتھا نہ شام کے قافلہ پر کیونکہ وہ قافلہ شام سے آتا تھا جو مدینہ سے جانب شمال واقع ہے اور مکہ جانب غرب پڑتاہے۔ پس اگر قافلہ پر حملہ کرنے کے لیے کوچ کیاجاتا تو مدینہ سے غرب کی جانب کاراستہ اختیار کیاجاتا نہ جنوب کا۔ ’’قال ابن اسحاق طریقۃ من المدینۃ الی مکۃ۔‘‘ (صفحہ ۴۳۳) سیرت ہشامی میںلکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ مدینہ سے نکل کر نقب المدینہ میںتشریف لائے پھر وہاں سے عقیق میں، وہاں سے ذولحلیفہ میں، وہاں سے اولات الجیش میںیا ذات الجیش میں وہاں سے تربان میں وہاں سے ملل میں وہاں سے غمیس الحمام میں، وہاں سے ضحیرات الیہام میں، وہاں سے سیالہ میں، وہاں سے فج الرجاء میںوہاں سے شتوکہ میں اور جب عرق الظبیہ میںپہنچے تو وہاں ایک عرب ملا (غالبا مکہ سے آنے والا تھا ) اس سے لوگوں کا حال پوچھا مگر اس نے کچھ نہیں بتلایا پھر آنحضرت ﷺ وہاں سے چل کر سجسج میںٹھہرے پھر وہاں سے چلے اور جب منصرف میںپہنچے تو بائیں طرف مکہ کاراستہ چھوڑ دیا اور دائیں طرف پھرے اور نازیہ ہوکر بدر جانے کا ارادہ کیا اور رحقان اور وہاں سے مضیق الصفرا میںپہنچے اور بسبس بن عمر الجہنی اور عدی بن الرغیاء الجہنی کو ابو سفیان کی اور اور لوگوں کی (یعنی قریش مکہ کی )خبر دریافت کرنے کوروانہ کیا اور مضیق الصفرا کو بائین طرف چھوڑ کر دائیں طرف چلے اور وادی ذفران میںپہنچے وہاں قر یش کے آنے کی خبر ملی۔ ذفران کے مقام میںآنحضرت ﷺ نے تمام لوگوں سے جن میں انصار بھی شامل تھے قریش کے بڑھے چلے آنے کی خبر کی اور سب کو لڑنے مرنے پر مستعد پایا تب آنحضرت ﷺ وہاںسے ثنایا یعنی اصافر پر گئے اور وہاں سے خبرملی کہ قریش مکہ کا لشکر یہاں سے بہت قریب پڑا ہوا ہے آخر کار دونوں لشکروں میںلڑائی ہوئی۔ تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ اس سے پہلے شام کا قافلہ جس کے ساتھ ابی سفیان ابن حرب تھا سمندر کے کنارے کنارے ہو کر نکل گیا تھا اور بدر میں نہیںآیا تھا ۔ چنانچہ تفسیر کبیر میںلکھا ہے کہ: فخرج ابو جہل بجمیع اہل مکۃ وہم النفیبر فی المثل السایرلا فی العیر ولا فی النفیر فقیل لہ، العیر اخذت طریق الساحل و تجت فارجع الی مکہ بالناس فقال لا واللہ لایکونل ذالک ابدا۔ (تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۳۶۴)۔ یعنی جب ابو جہل مکہ سے لوگوں کو لے کر نکلا تو ا س سے کہا گیا کہ قافلہ نے سمندر کے کنارہ کا رستہ لیا اور بسلامت چلا گیا ۔ اب مکہ کو پھر چلو اس نے کہا کہ خدا کی قسم ایسا نہ ہوگا۔ پس یہ تمام واقعات ثابت کرتے ہیںکہ مدینہ سے آنحضرت ﷺ کا لڑائی کے لیے نکلنا صرف قریش مکہ کے مقابلہ میں اور ان کے حملہ کے دفع کرنے کی غرض سے اور مدینہ کو جہاں مہاجرین نے پناہ لی تھی اور مہاجرین اور انصار کو قریش کے حملہ سے بچانے کے لیے تھا۔ ہر ایک لائق شخص جس کو خدا نے معاملات جنگ کے سمجھنے کی لیاقت دی ہو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اگر حملہ آور قریش مدینہ کی دیواروں تک پہنچ جاتے تو ان کا روکنا اور ان کے حملہ کو دفع کرنا ناممکن تھا۔ مہاجرین کو وہاں گئے ہوئے پورے دوبرس بھی نہیں ہوئے تھے مدینہ میں جن لوگوں نے ان کو پناہ دی تھی اور دل و جان سے مہاجرین کے مدد گار تھے اور جو انصار کہلاتے تھے ان کی تعداد بھی بمقابلہ آبادی مدینہ اوراس کے گرد و نواح کے کچھ زیادہ نہ تھی پس جب کہ اہل مدینہ یہ حالت دیکھتے کہ ان لوگوں کے سبب سے مدینہ پر کیا آفت آئی ہے اور غنیم نے ان کو گھیر لیا ہے تو ان سب کی حالت بالکل بدل جاتی اور حملہ آوروں کا حملہ دفع کرنا غیر ممکن ہوجاتا اور اس لیے ضرور تھا کہ مدینہ سے آگے بڑھ کر ان کا مقابلہ کیا جاوے اور جو کچھ خدا کو کرنا منظور ہو وہ مدینہ سے باہر ہوجاوے۔ اور جو کچھ خدا کو کرنا منظور ہو وہ مدینہ سے باہر ہو جاوے۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے قریش کے مقابلہ کے لیے مدینہ سے باہر نکلنا اور آگے بڑھ کر ان کو روکنا ضرور سمجھا تھا اب کون شخص ہے جو ان واقعات کو انصاف کی نظر سے دیکھ کر ان کو کسی الزام کی بنیاد قرار دے سکتا ہے۔ بدر کی لڑائی میںخدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی اور دشمنوں کامال و اسباب ان کے ہاتھ آیا زمانہ جاہلیت میں غنیمت کے مال کا یہ دستور تھا کہ تقسیم ہونے سے پہلے سردار لشکر جو چاہتا تھا پسند کرتا تھا اور بر وقت تقسیم چوتھ یعنی چہارم حصہ سردار لشکر کو دیا جاتا تھا اور باقی لڑنے والو ں اور فتح کرنے والوں میں تقسیم ہوتاتھا اور خاص کسی شخص کے ہاتھ جو مال آتا تھا وہ اس کواپنی ملکیت سمجھتا تھا۔ غالبا فتح کرنے والوں میںنسبت کسی مال غنیمت کے اس قسم کا جھگڑا پید ہوا کہ کوئی اس کو اپنی خاص ملکیت قرار دیتا تھا اور کوئی اپنی ملکیت اور کوئی مشترک ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور اس وقت تک مسلمانوں کے غنیمت کے مال کی نسبت کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لیے لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے غنیمت کے مال کی نسبت پوچھا۔ اس پر یہ حکم ملا کہ مال غنیمت کسی کی ملکیت نہیں ہے۔ بلکہ خدا اور خدا کے رسول کی ملکیت ہے۔ رسول کا نام لینے سے یہ مدعا نہیں ہے کہ رسول کی ذاتی ملکیت ہے بلکہ اسطرح کے کلام سے صرف خدا ہی کی ملکیت ہونا مراد ہے خداکی ملکیت قرار دینے سے یہ مراد ہے کہ کوئی خاص شخص اس پر دعویٰ نہیں کر سکتا بلکہ خدا جس طرح پر حکم دیگا اس طرح پر کیا جاوے گا۔ سورہ انفال کی بیالیسیوں آیت میں یہ حکم آیاکہ مال غنیمت میں سے خمس خدا و خدا کے رسول کے لیے ہے یعنی خدا کے لیے ہے جو قرابت مندوںاور غریبوں اور یتیموں اور مسافروں کے فائدے کے لیے رہیگا اور چار خمس ان لوگوں میںجو لڑتے تھے یا لڑائی کے متعلق کاموں میں مصروف تھے تقسیم کیا جاوے گا۔ جور سم کہ زمانہ جاہلیت میں تھی اس سے یہ حکم تین باتوں میںمختلف تھا۔ اول۔ سردار کی چوتھ موقوف کرنے اور خدا کے لیے خمس نکالنے میں۔ دوم۔ عام طور پر کسی خاص مال پر کسی کاحق نہ ہونے میں۔ سوم۔ چو لوگ عین لڑائی میں موجود تھے اور جو لوگ لڑائی کے متعلق کسی کام پر متعین تھے ان کوبھی مال غنیمت میں سے حصہ ملنے میں۔ یہ تمام احکام اور خصوصا خمس کا نکالنا ایسے عمدہ احکام ہیں کہ ان سے بہتر اور مفید تر کوئی حکم بھی مال غنیمت کی نسبت نہیں ہوسکتا۔ جنگ بدر میں فرشتوں کی آمد کی حقیقت: لڑائی میں فرشتوں سے مدد کرنے کا مضمون سورہ انفال میں اور آل عمران میں اور سورۃ توبہ میں آیا ہے ۱۔ ان تینوں مقام کے طرز بیان میںکسی ۱۔ اذ تقول للمومنین الن یکفیکم ان یمدکم ربکم بثلاثۃ الاف من الملئکۃ منزلین۔ (۱۲۵ سورۃ آل عمران) اذ ستغیثوں ربکم فاستحاب لکم انی ممدکم بالف من الملئکۃ مردفین (آیت ۹ سورۃ انفال)۔ قدر تفاوت ہے ۔سورۃ آل عمران میں توآنحضرت ﷺ کا قول استفہا ما ہے کہ کیا فرشتوں سے خدا کامدد کرنا تم کو کافی نہیںہے۔ اور سورۃ انفال میںخدا نے کہا ہے کہ میںفرشتوں سے مدد کروں گا۔ یہ دونوں آیتیں تو بدر کی لڑائی سے علاقہ رکھتی ہیں اور سورۃ توبہ میں جو آیت ہے وہ حنین کیلڑائی سے متعلق ہے اس میں فرشتوں کا لفظ نہیں ہے بلکہ ایک ایسے لشکر کے بھیجنے کا ذکر ہے جو دکھائی نہیں دیتا تھا اب اس باب میں چند امور تحقیق طلب ہیں۔ اول یہ کہ در حقیقت لڑنے کے لیے فرشتے آئے تھے یا نہیں فرشتوں کے لڑائی کے لیے آنے سے ابوبکر اصم نے انکار کیا ہے اور جو بحث کہ انہوں نے اس پر کی ہے وہ ہم نے سورۃ آل عمران کی تفسیر میںلکھی ہے اب اس جگہ اس امر کی تحقیق کرنی چاہتے ہیں جس کا وعدہ سورۃ آل عمران کی تفسیر میںکیا تھا ۔ ہمارے نزدیک نہ ان لڑائیوں میں ایسے فرشتے جن کو لوگ ایک مخلوق جداگانہ اور متحیز بالذات مانتے ہیں آئے تھے اور نہ خدانے ایسے فرشتوں کے بھیجنے کا وعدہ کیا تھا او رنہ قرآن مجید سے ایسے فرشتوں کے بھیجنے کا وعدہ کیا تھا او رنہ قرآ ن مجید سے ایسے فرشتوں کا آنا یا خدا تعالیٰ کا ایسے فرشتوں کے بھیجنے کا وعدہ کرنا پایاجاتا ہے۔ اگر ہم حقیقت ملائکہ کی بحث کو الگ رکھیں اور فرشتوں کو ویسا ہی فر ض کر لیں جیسا کہ لوگ مانتے ہیں تو بھی قرآن مجید سے ان کا فی الواقع آنایا لڑائی میں شریک ہونا ثابت نہیں ہے ۔ سورۃ آل عمران کی پہلی آیت میں تو صرف ااستفہام ہے کہ اگر خدا تین ہزار فرشتوں سے مدد کرے تو کیا تم کو کوفی نہ ہوگا۔ اور دوسری آیت میںہے کہ اگرتم لڑائی میںصبر کرو گے تو خدا پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا مگر ان دونوں آیتوں سے اس کا وقوع یعنی فرشتوں کا آنا کسی طرح ظاہر نہیں ہوتا۔ سورۃ انفال کی آیت میںخدا نے کہا کہ میں تمہاری ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا مگر اس سے بھی فرشتوں کا فی الواقع آنانہیں پایا۔ اس پر یہ خیال کرنا کہ اگر مدد موعودہ وقوع میںنہ آئی ہو تو خدا کی نسبت خلف وعدہ کا الزام آتا ہے صے نہیں ہے کیوںکہ مدد کی حاجت باقی نہ رہنے سے مدد کا وقوع میںنہ آنا خلف وعدہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کی خدا کی عنایت سے فتح ہوگئی تھی اور فرشتوں کو تکلیف دینے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی ۔ یہ کہنا کہ وہ فتح فرشتوں کے آنے کے سبب ہوئی تھی اس لئے صحیح نہیں ہے کہ اس کے لیے اول قرآن مجید سے فرشتوں کا آنا ثابت کرنا چاہئے اس کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ فرشتوں کے آنے سے فتح ہوئی تھی ۔ روایتوں کو فرشتوں کے آنے پر سند لانا کافی نہیں ہے اول تو وہ روایتیں ہی معتبر و قابل اسناد نہیں ہیں۔ دوسرے خود ان کے مضمون ایسے بے سرو پا خیالی ہیںجن سے کسی امر کا ثبوت حاصل نہیں ہوسکتا خصوصا اس وجہ سے کہ خود راوی فرشتوں کو دیکھتے نہیں تھے۔ برخلاف اس کے قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی ایک فرشتہ بھی نہیںآیا تھا دونوں صورتوں میں اس آیت کے بعد جس میں فرشتوں کے بھیجنے کو کہا ہے یہ آیت ہے ’’وما جعلہ اللہ الا بشری لکم لتطمئن قلوبکم ما النصر الامن عنداللہ العزیز الحکیم‘‘ یعنی اور نہیں کیا اس کو اللہ نے مگر خوش بری تمہارے لیے تاکہ مطمئن ہو جاویں اس سے تمہارے دل اور فتح نہیں ہے مگر اللہ کے پاس سے بے شک اللہ غالب ہے حکمت والا ۔ یہ بات غور کے لائق ہے کہ ’’ماجعلہ‘‘ میںجو ضمیر ہے وہ کس کی طرف راجع ہے۔ امام رازی صاحب فرماتے ہیںکہ ضمیر راجع ہے طرف مصدر کے جو کہ گو صریحا مذکور نہیں ہے مگر لفظ ’’یمدکم‘‘ میںضمناََ داخل ہے یعنی ما جعلہ اللہ المدد والامداد الا بشریٰ اور زجاج کا قول ہے کہ ما جعلہ اللہ ای ذکر المدد الا بشریٰ۔ مگر امام رازی صاحب نے جو فرمایا ہے و ہ ٹھیک نہیںمعلوم ہوتا اس لیے کہ خدا نے کہا تھا کہ میں تمہاری فرشتوں سے مدد کروں گا پھر فرمایا کہ وہ یعنی یہ کہنا کہ میں تمہاری فرشتوں سے مدد کروں گا پھر فرمایا کہ وہ یعنی یہ کہنا کہ میںتمہاری فرشتوں سے مدد کروں گا صرف خوش خبری تھی پس اعلا نیہ سیاق عبارت سے ظاہر ہے کہ م’’ ما جعلہ‘‘ کی ضمیر قول امداد یا ذکر امداد کی طر ف راجع ہے جیسا کہ زجاج کا قول ہے نہ بطرف مصدر کے جو مذکور بھی نہیں ہے۔ البتہ اس صریح وصاف مرجع ضمیر کو چھوڑ کر مصدر کی طرف اس صورت میں ضمیر راجع ہو سکتی ہے کہ اول وقوع اس مدد کا یعنی فرشتوں کا آنا ثابت ہوجاوے اور وہ ابھی تک ثابت نہیں ہوا اور اسلیے مصدر کے طرف ضمیر کا راجع کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ ’’ما جعلہ ‘‘ پر ’’مانا فیہ‘‘ ہے جو عام طور پرنفی کرتا ہے اور اس لیے خدا نے پیغمبر کے اس قول کو کہ کیا تمہارے لئے کافی نہیںکہ تمہارا پروردگار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے ۔ کوئی چیز مگر بشارت یعنی صرف بشارت تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوجاویں اور سورۃ انفال کی آیت کے صاف معنی یہ ہیں کہ جب تم خدا سے فریاد کی اور اس نے تمہاری فریاد کو قبول کیا کہ میں فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا تو نہین کیا خدا نے اس قبول کرنے کو جس کے ساتھ فرشتوں سے مدد دینے کو کہا تھا کوئی چیز مگر بشارت تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوجاویں اوریہ طرز کلام قطعا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی ایسا فرشتہ جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں لڑائی کے میدان میں نہیںآیاتھا ۔ یہ تمام تقدیر اس صورت میںتھی جب کہ ملائکہ کو ایک ایسا وجود خارجی متحز بالذات تسلیم کیا جاوے جیسے کہ عموما تسلیم کیا جاتا ہے اور جومشکلیں ان آیتوں کے معنوں کے حل کرنے میں پیش آتی ہیں اور موضوع روایتوں اور جھوٹے اور بے معنی قصوں سے استدلال کرنے کی احتیاج پڑتی ہے وہ اسی صورت میںہے پڑتی اگر ٹھیک طور پر قرآن مجید کو سمجھا جاوے اور جو اس کا طرز کلام ہے اس کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جاوے تو کوئی مشکل پیش نہیں آتی اور خدا اور ا س کے کلام کی عظمت و شان اور خدا کی قدرت کاملہ کا سچا اثر انسان کے دل پر پڑتاہے۔ فتح کے اتفاقی اسباب سے جو بعض اوقات آفات ارضی و سماوی کے دفعتہََ ظہور میں آنے سے ہوتے ہیں قطع نظر کر کے دیکھا جاوے کہ ان لوگوں پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے جو فتح پاتے ہیں ان کے قوائے اندرونی جوش میںآتے ہیں۔ جرات ، ہمت ، صبر، شجاعت ، استقلال ، بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے او ریہی قویٰ خدا کے فرشتے ہیں جن سے خدا فتح مندوں کو فتح دیتا ہے اور اس کے برخلاف حالت یعنی بزدلی اور رعب ان لوگوں پر طاری ہوتا ہے جن کی شکست ہوتی ہے۔ پس ان آیتوں میں خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ میں فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا مگر وہ بجز خو ش خبری فتح کے اور کچھ نہیں ہے جس کے سبب تم میں ایسے قویٰ پر انگیختہ ہوںگے جو فتح کے باعث ہوں گے ۔ تمہارے دل قوی ہو جاویں گے لڑائی میںتم ثابت قدم رہو گے ۔ جرات ، ہمت شجاعت کا جوش تم میں پیدا ہوگا اور دشمنوں پر فتح پاؤگے۔ یہ معنی ان آیتوں کے ہم نے پیدا کیے ہیں بلکہ خود خدا نے یہی تفسیر اپنے کلام کی کی ہے جہاں اسی سورہ میں اور اس واقعہ کی نسبت فرمایا ہے کہ ’’اذ یوحیٰ ربک الیٰ ربک الی الملائکۃ انی معکم فثبنوالذین امنوا سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب ‘‘ یعنی جب تیرا پروردگار فرشتوں کو وحی بھیجتا تھا (یہ وہی فرشتے ہیںجن بھیجنے کا مدد کے لیے وعدہ کیاتھا) کہ میںتمہارے )یعنی مسلمانوں کے ) ساتھ ہوں (تو ان فرشتوں سے یہ کام لینے چاہے تھے ) کہ ثابت قدم رکھو ان لوگوں کوجو ایما ن لائے ہیں میںبہت جلد ان لوگوں کے دلوں میںجو کافر ہیں رعب ڈالوں گا۔ لڑائی میں ثابت قدم رکھنے والی کون چیز تھی وہی ان کی جرات و ہمت تھی کوئی اور شخص ان کے پاس کھڑے ہوئے ان کو شاباش شاباش نہیں کہہ رہے تھے پس صاف ظاہر ہے کہ فرشتوں سے مراد وہی قوائے انسانی تھے جن کے پاس وحی بھیجی تھی اورجو لڑنے والوں میںبھی موجود تھے اور فرشتوں سے ان کی مدد کرنے سے ان کو لڑائی میں ثابت قدم رکھنا شجاعت، جرات ، ہمت ، استقلال کو قائم رکھنا مراد تھا ۔ یہ خیالی فرشتوں کو سپاہی بنا کر اور ڈھال تلوار ، تیر کمان دے کر اور سفید سفید گھوڑوں پر سوار کر کے بھیجنا۔ قرآ ن مجید کا سیاق کلام ہی یہ ہے کہ اس میں ایسے مواقع میں جو خوف و خطر ک کے ہوتے ہیں انسانوں کے دلوں میںطمانیت اور قوت بخشنے کو فرشتوں سے مدد کرنے اوراپنے غیبی لشکروں سے امداد کرنے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس سے مقصود صرف دل میںطمانیت و سکینہ کا پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جب آنحضرت ﷺ نے مکہ سے ہجرت فرمائی اور پہاڑ کے ایک غار میں جا کر چھپے جہاں نہ لشکر تھا نہ لڑائی۔ خدا نے فرمایا ’’الاتنصروہ فقد نصرہ اللہ اذ اخرجہ الذین کفروا ثانی اثنین اذہما فی الغار اذیقول لصاحبہ لاتحزن ان اللہ معنا فانزل اللہ السکینۃ علیہ دایدہ بجنودلم تروہا و جعل کلمۃ الذین کفرو السفلی و کلمۃ اللہ ہی العلیا واللہ عزیز حکیم۔‘‘ وہاں غار میں کون سی فوج تھی اور کون سی لڑائی تھی جو خدا نے اپنا غیبی لشکر بھیجا تھا بلکہ لشکر سے صرف سکینہ مرادتھی ۔ اس آیت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور یہ کہنا کہ پہلا حملہ تو واقعہ غار سے متعلق ہے اور دوسرا ٹکڑا جہاں لشکر کے آنے کا ذکر ہے جنگ احد یا جنگ بدر یا جنگ احزاب سے متعلق ہے جیسا کہ بعض مفسروں نے کہا ہے ایک ایسا لغو کلام ہے جو التفات کے قابل نہیں ہے اور خدا کے کلام کیساتھ ایک قسم کی بے ادبی ہے کہ اپنی مرضی کے موافق جہاں سے چاہا توڑا اور جہاں چاہا جا جوڑا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ نے سورۃ توبہ میں فرمایا ’’ثم انزل اللہ سکینتۃ علی رسولہ وعلی المومنین وانزل جنود الم تروہا وعذب الذین کفروا ذالک جزاء الکافرین۔‘‘ سکینہ کی تفصیل ’’جنود الم تروہا‘‘ واقع ہوئی ہے اور ان دونوں سے مراد صرف سکینہ ہے نہ اورکچھ۔ اسی مضمون کی آیت سورۃ احزاب میںہے جہاں خدا نے فرمایاہے۔ یاایھا الذین امنو ذکروا نعمۃاللہ علیکم اذ جاء تکم جنودا فارسلنا علیہم ریحا وجنود الم تروہا وکان اللہ بما تعملون بصیرا۔‘‘ اس سے بھی عمدہ طریقہ پر ا س مضمون کو سورۃ فتح میںبیان کیا ہے جہاں فرمایا ہے۔ ’’ہواالذی انزل السکینۃ فی قلوب المومنین لیزداس وا ایمانا مع ایمانہم واللہ جنود السموات والارض وکان اللہ عزیزا حکیما۔‘‘ اسی انزال سکینہ کو خدا نے اپنے لشکروں سے تعبیر کیا ہے ۔ پس بدر کی لڑائی میںبھی نہ جنگ جو مجسم و متحیز بالذات فرشتوں کے بھیجنے کا وعدہ کاتھا نہ ایسے فرشتے بھیجے تھے بلکہ صرف مسلمانوں کے دلوں کو اوران کے قوائے جنگ کو صرف خوش خبری فتح سے تقویت دینے کا وعدہ تھا جس کو خدا نے پور ا کیا اور قلیل جماعت کو کثیر جماعت پر فتح دی ۔ اہل عرب زمانہ جاہلیت میںبہت سے قوائے غیر مر ثیہ کو مربی انسان اوردنیا میںکارکن سمجھتے تھے ملائکہ کو بھی وہ ایک قوت غیر مرئیہ جانتے تھے اورگو وہ اس بات کے قائل تھے کہ ان میں مجسم و مرئی ہوجانے کی بھی طاقت ہے مگر یہ نہیں تھا کہ ملائکہ کا مفہوم بغیر اس کے کہ وہ ان کو مجسم و مرئی سمجھیں ان کے ذہن میںنہیں آ تا تھا۔ انہی آیتوں میںجہاں خدا تعالیٰ نے لفظ ’’ جنودالم تروہا‘‘ کا استعمال کیا ہے اس بات کا ثبوت موجو دہے کہ اس زمانہ کے قوائے عرب غیر مرئیہ کو کارکن سمجھتے تھے پس یہ کہنا کہ جو معنی آیت کے ہم نے بیان کیے ہیں (اگرچہ ایسا کہنا ہم پر تہمت ہے کیوں کہ ہم نے نہیں بیان کیے بلکہ خود خدا نے بیان کیے ہیں) وہ معنی نہ اس زمانہ کے عرب جاہلیت سمجھتے تھے نہ صحابہ کرام محض غلط ہے اس زمانہ کے مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ بغیر کسی فرضی شکل و صورت کے ان کے ذہن میںفرشتوں کا خیال ہی نہیں آسکتا۔ مگرعرب جاہلیت کا ایسا خیال نہ تھا بے شک فرشتوں میںوہ مجسم ہونے و مختلف صورتوں میں ظاہر ہونے کی طاقت سمجھتے تھے مگر بلا خیال شکل و صورت و تحیز کے بھی ان کے ذہن میں فرشتوں کا خیال تھا جس کو ہم نے بلفظ قویٰ تعبیر کیا ہے۔ گو اس زمانہ کے مسلمان آیت کے معنی سمجھنے کے قابل نہ ہوں مگر اس زمانہ کے عرب بلا شبہ اس قابل تھے۔ جنگ بدر میں کتنے فرشتے اترے تھے اب باقی رہی بحث نسبت عدد ملائکہ کے ۔ یہ بات ظاہر ہے کہ ایسے مقامات میںعدد کے ذکر کرنے سے خاص عدد معین مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس امرکا مکمل ہونا جس کی نسبت عدد کابیان ہوا ہے مقصود ہوتا ہے علاوہ اس کے عددوں کا بیان مختلف مواقع پر ہوا ہے جس کے سبب کچھ اختلاف آیتوں میں نہیں ہے ۔ اسی سورۃ کی چوتھی آتے کی تفسیر میں ہم نے بیان کیا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ مدینہ میںتھے اور قریش مکی کے مقابلہ میں نکلنے کا ارادہ تھا تو ایک گروہ مسلمانوں کا بسبب کثرت مخالفین کے خائف تھا اوروہ ان کے مقابلے میںلڑنے کو جانا نا پسند کرتا تھا ۔ اس وقت مسلمانوں سے آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’لن یکفیکم ان یمدکم ربکم بثلائۃ الالف من الملائکۃ منزلین بلیٰ ان تصبروا وتتقو و یاتوکم کم من فورہم ہذا یمدد ربکم بخمسۃ الالف من الملائکہ مسومین‘‘ (سورہ اعراف آیت ، ۱۲۰ و ۱۲۱) یعنی کیا تم کو قریش مکہ کے مقابلہ کے لیے یہ بھی کافی نہ ہوگا کہ خدا تین ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا ۔ بلکہ اگرتم لڑائی میں صبر کرو اور خدا سے ڈرو اور وہ ابھی تم پر آن پڑیں تو خدا پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا پس رسول خدا ﷺ کا یہ فرمانا صرف ان لوگوں کی طمانیت اورجرات بڑھانے کے لیے تھا اور اس سے کسی عدد خاص کا تعین مقصود نہ تھا۔ مگر جب مسلمان بمقابلہ قریش مکہ بدر میںپہنچے تو معلوم ہوا کہ قریش مکہ کے لشکر میںہزارآدمی لڑنے والے ہیں جن کے مقابلہ کے لیے ہزار فرشتوں سے مدد دینے کی بشارت دینا کافی تھا اس لیے پروردگار نے فرمایا : ’’انی ممدکم بالف من الملائکۃ مردفین‘‘ اور اسی کے ساتھ بتلا دیا کہ یہ کہنا یا وعدہ کرنا صرف فتح کی خوشخبری ہے تاکہ تمہارے دل مطمئن ہو جاویں نہ یہ کہ ہزار فرشتے سپاہی بن کر تمہارے ساتھ لڑنے کو آویںگے۔ نتیجہ اس سب کا یہ نکلا کہ میںتمہارے دلوںکو ہزار آدمی کے لشکر کے برابر تقویت اورجرات دے دوں گا جس کے سبب تم ان کا مقابلہ کر سکو گے۔ (اذا یغشیکم النعاس امنۃ منہ) ہم نے سورۃ آل عمران کی تفسیر میںنسبت ’’ نعاس‘‘ کی کافی بحث کی ہے یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس مقام پر باقی آیت کی نسبت ہم کو تفسیر لکھنی ہے۔ جنگ بدر میں نزول ماء اور تطہیر کی بحث: خدا نے فرمایا ہے ’’ وینزل علیکم من السماء ماء لیطہر کم بہ و یذہب عنکم رجز الشیطان ‘‘ ہمارے مفسروں نے ان سیدھے وصاف لفظوں کی ایسی ناپاک تفسیر کی ہے جس سے تعجب ہوتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ تمام لشکر سو گیا تھا اور شیطان سب کے پاس آیا اور سب کو احتلام ہوگیا ۔ اس لیے خدا نے مینہ برسایا تاکہ نہا دھو کر جنابت سے پاک ہو جاویں۔ مگر یہ تمام باتیں محض لغو و خرافات ہیں اور قرآن مجید میں ایسا ناپاک مضمون نہیں ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اولا مدینہ سے مکی کی طرف کوچ کیا اور اثنائے راہ میں سے جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں مکہ کے رستہ کو چھوڑ کر بدر کی جانب پھرے ۔ اس میں کچھ کلام نہیں ہوسکتا کہ اس قدر منزلیں طے کرنے میں تمام لوگ گرد آلود تھے ان کے کپڑے میلے کچیلے ہوگئے تھے اور رستہ میں پانی کی بے انتہا تکلیف اٹھانی تھی ۔ بدر میں ان کو کافی پانی کے ملنے کی توقع تھی مگرجب وہ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ پانی کے چشمہ پر قریش مکہ نے قبضہ کر لیا ہے ایسی حالت میں جس قدر پریشانی اور ناامیدی مسلمانوں کو ہوئی ہوگی اس کا اندازہ ہر شخص جو کسی قدر سمجھ رکھتا ہے کر سکتا ہے ۔ بلا شبہ وہ نہایت مضطر ہوئے ہوں گے جیسے کہ ’’ اذ تستغیثوں ربکم فاستجاب لکم‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے اور اگرچہ ان کو مدینہ سے کوچ کرتے وقت فتح کی بشارت مل چکی تھی مگر ان کے دل میں شیطانی وسوسہ آیا کہ ایسی حالت میںکہ پانی پینے کو بھی میسر نہیں اور دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے فتح ہونا ناممکن ہے ۔ ایسی تنگ حالت میں خدانے مینہ برسایا تاکہ وہ نہا دھو کر میل کچیل سے پاک ہو جائیں اور جو وسوسہ فتح نہ ہونے کا پانی نہ ملنے کے سبب سے شیطان نے ان کے دلوں میں ڈالا تھا وہ دور ہوجا وے۔ پانی پی پی کرتروتازہ ہوں ان کے دل مضبوط ہو جاویں اورلڑائی میں ثابت قدم رہیں ۔ ایسی سیدھی و صا ف آیت کو جو بالکل واقعات کے مطابق ہے ہمارے مفسرین نے ایسے ناپاک طریقہ پر اسے مجمول کیا ہے کہ بجز س کے کہ خدا ان کو معاف کرے اور کچھ نہیںکہا جاسکتا وہ بزرگ یہ بھی نہیں سمجھے کہ اگر طہارت سے طہارت شرعی مراد تھی تو اس کے لیے پانی ہی کی کیا ضرورت تھی۔ اس کے لیے تو تیمم ہی کافی تھا اور یہ کہنا کہ گوتیمم شرعی طہارت ہے مگر بغیر نہائے انسان کے دل میںنجاست کا خیال رہتا ہے ان لوگوں کا کام ہے جن کو احکام شرعی پرپورا ایما ن نہیں ہے نہ صحا بہ کا۔ معرکہ بد ر میں ما رمیت اذ رمیت کی حقیقت: بدر کی لڑائی میں جب مسلما نو ں کی باوجود جماعت قلیل ہونے کے فتح ہوئی اور دشمن مارے گئے تو اللہ تعالیٰ نے تمام مجاہدین کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تم نے ان کو قتل نہیں کیابلکہ خدا نے ان کو قتل کیا ۔ پھر خاص پیغمبر ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تو نے دشمنوں کو تیر نہیں مارے بلکہ خدا نے مارے جس طرح خدا تعالیٰ ہر ایک فعل کو جو کسی ظاہری سبب سے ہو یہ سبب علۃ العلل ہونے کے اپنی طرف منسوب کرتا ہے اسی طرح اس مقام پر بھی مجاہدین کے افعال اور آنحضرت ﷺ کے فعل کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ جیسے کہ ا س سے پہلے فرمایا تھا ’’وما النصر الا من عنداللہ۔‘‘ اس آیت میں تمام مفسرین نے ’’رمیٰ‘‘ سے باوجودیکہ سیاق کلام اور مقتضائے مقام سے علانیہ تیر مارنا سمجھا جاتا ہے تیر مارنا مرادنہیں لیا ہے بلکہ ایک روایت کی بنیاد پر جس کو خود ’’قبل‘‘ کرکے بیان کیاہے جو خود دلیل اس کے غیر معتبر یا ضعیف وغیر ثابت ہونے کی ہے یہ لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک مٹھی خاک کی دشمن کے لشکر کی طرف پھینکی اور خدا کی قدرت سے اس کو اس قدر وسعت ہوئی کہ دشمنوں کے لشکر کے ہر ایک شخص کی آنکھ تک جا پہنچی وہ تو آنکھیں ملنے لگے اور مسلمانوں نے ان کو مار کر قیمہ کر دیا اور مسلمانو ں کوفتح ہوگئی۔ یہ طریقہ تفسیر کا اسی عجائب پسندی پر مبنی ہے جو ہمارے مفسرین نے بہ تقلیدیہود مذہب اسلام میں جو نہایت سیدھا اور صا ف ہے اختیار کیا ہے ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ لڑائی کے موقع کا بیان ہے اس زمانہ کے عرب تلوار و تیر کمان اور برچھی سے لڑتے تھے او ریہی ان کے ہتیھیار تھے پھر ’’رمی‘‘ سے تیر اندازی کے معنی چھوڑ کر مٹھی بھر خاک پھینکنے کے معنی لینے کس طرح پر درست ہ سکتے ہیں۔ بعض مفسرین نے ’’رمی‘‘ سے مٹھی بھر خاک پھینکنا مرادنہیں لیا بلکہ تیر کا ہی مارنا مراد لیا ہے مگر کہتے ہیں کہ یہ آیت بدر کی لڑائی سے متعلق نہیں ہے بلکہ خیبرکی لڑائی سے متعلق ہے ۱ اس لڑائی میںپیغمبر خدا ﷺ نے کمان میں تیر جوڑکر مارا تھا جو ابن ابی حقیق کو جا لگا او ر وہ مرگیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’ما رمیت و اذ رمیت ولکن اللہ رمیٰ ‘‘ مگر ان حضرات سے پوچھنا چاہیے کہ جو آیت خاص بدر کی لڑائی کے قصہ میںنازل ہوئی ہے ا سکو توڑ کر خیبر کی لڑائی کے قصہ میںلے جانے کی کیا ضرورت ہے اور بدر کی لڑائی میں ’’رمیٰ ‘‘ سے ’’رمی السہم ‘‘مراد لینے کی کیا قباحت ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو بدر ہی کی لڑائی سے متعلق رکھاہے اور ’’رمی‘‘ سے مٹھی بھر خاک پھینکنا مراد نہیں لیا بلکہ ہتھیار چلانا مراد لیا ہے اور ابی ابن خلف کے قتل سے متعلق کیا ہے اور کہا ہے کہ جب وہ آنحضرت ﷺ کے قریب آیا تو ’’رما بحرہ فکسر ضلعا عہ من اضلاعہ فحمل فمات ببعض الطریق فی ذالک نزلت الایۃ‘‘ ( تفسیر کبیر) غرض کہ مٹھی بھر خاک کی روایت غیر صحیح و موضوع ہے اور بعض مفسرین بھی اس کو صحیح نہیں سمجھتے۔ صاف صاف معنی آیت کے یہی ہیںکہ اس لڑائی میںمسلمان کافروں سے لڑ رہے تھے اور ان کو قتل کیا تھا ۔ آنحضرت ﷺ بھی بذات خاص لڑائی میںشریک تھے اور تیر وکمان سے کافروں کا مقابلہ فرماتے تھے جس سے سبب خدا نے فتح دی اور مسلمانوں سے فرمایا ’’فلم تقتلوہم ولکن اللہ قتلہم ‘‘ اور آنحضرت ﷺ سے فرمایا ’’ وما رمیت ا ذ رمیت ولکن اللہ رمیٰ۔‘‘ ۱۔ قال بعضہم انہا نزلت یوم خیبر روی الہ علیہ السلام اخذقوسا وہوعلی باب خیبر فرمی سہما فاقبل السہم حتی قتل ابن ابی الحقیق وہو علی فرسہ فنزلت ’’وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمیٰ ‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد ۳ ص ۳۷۱) جنگ بدر میںپتھروں کی بارش کا مطلب جنگ: بدر کے سلسلے میں خدا نے جو یہ فرمایا: ’’ فامطر علینا حجارۃ من السمائ‘‘ ان سے باتخصص آسمان سے پتھر برسانا مراد نہیں ہے بلکہ عموما عذاب آسمانی یاآفت و مصیبت مراد ہے ’’امطر‘‘ کا استعمال عذاب کے معنوں میں ہوتا ہے ’قال صاحب الکشاف ’’وقد کثر الامطارفی معنی العذاب ‘‘ اور امطار الحجارۃ اور رمیٰ بالجارۃ‘‘ دونوں کا ایک مقصد ہ اور اس سے واہیہ عظمیہ کا واقع ہونا مراد ہوتا ہے پس قریش مکہ کا جو قول اس آیت میں منقول ہے اس کا مطلب صرف اس قدرہے کہ اے خدا اگر قرآن سچ ہے اور تیرے پاس سے آیا ہے تو ہم پر کوئی آسمانی عذاب نازل کر یاکوئی اور سخت عذاب بھیج اور ان الفاظ سے ان کا مطلب قرآن کے حق ہونے سے انکار کرنے کا تھا۔ ماکان اللہ لیعذبہم کی تفسیر: جنگ بدر کے سلسلے میں سورۃ انفال میںجو یہ الفاظ ہیں کہ ’’وماکان اللہ لیعذبہم و انت فیہم‘‘ اس میں عذاب کو کسی خاص قسم کے عذاب سے مقید او رمخصوص نہیںکیا اس لیے اس بات پر غور کرنی ضرور ہے کہ اس عذاب سے کس قسم کا عذاب مراد ہے اگلی اور پچھلی تمام آتیوں پر غور کرنے سے اور خصوصا انتیسویں آیت پر لحاظ کرنے سے جس میںایک فیصلہ کرنے والی فتح کی بشارت دی گئیہ ہے اور چالیسویں آتے پر لحاظ کرنے سے جس میں قریش مکہ سے لڑنے اور ان کے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور چونتیسویں آیت پر غور کرنے سے جس میںقریش مکہ کو عذاب سے لڑائی میں شکست پانے اور مارے جانے کا عذاب مراد ہے اوراس مطلب کو الفاظ ’’وانت فیہم‘‘ زیادہ تر روشن کر دیتے ہیں کیوں کہ جب تک آنحضرت ﷺ مکہ میں تشریف رکھتے تھے تو قریش سے جو مکہ کے حاکم تھے لڑنا اور انکو قتل کرنا ناواجب تھا مگر جب وہاں سے آنحضرت ﷺ نے اور مسلمانوں نے ہجرت کر لی تو اب ان سے لڑنا اور ان قتل کرنا ناواجب نہیں رہا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس آیت کے بعد کی آیت میں فرمایا کہ ’’وما لہم الا یعذبھم اللہ وہم یصدرون عن المسجد الحرام۔‘‘ یعنی اب ان کے لیے کیا ہے کہ اللہ ان کو عذاب دے اور وہ روکتے رہیں ۔ (مسلمانوں کو) مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ میں آنے سے۔ تفسیر کبیر میںلکھا ہے کہ قریش مکہ کا مسجد حرام میں آنے سے روکنا ان کے عذاب کا سبب تھا ۔ پس وہ عذاب بجز ا سکے کہ لڑائی میں شکست پانے کا عذاب ہو اورکوئی نہیں ہو سکتا۔ علاوہ اس کے قرآن مجید میںلڑائی میں قتل ہونے کو علانیہ اور بالتصریح عذاب سے تعبیر کیا ہے ۔ چنانچہ سورۃ توبہ میں فرمایا ہے: قاتلوہم یعذبہم اللہ بایدیکم ویخزہم وہ ینصرکم علیہم و یشف صدور قوم مومنین (سورۃ توبہ آیت ۱۴)۔ یعنی مارو ان کو عذاب دے گا ان کو اللہ تمہارے ہاتھوں سے اور خوار کرے گا ان کو اور مدد کرے گا تمہاری اور چین دے گا دلوں کو ایمان والوں کی ایک قوم کے۔ مفسرین نے بھی اس عذاب سے لڑائی میںشکست پانے اور قید و قتل ہونے کا عذاب مراد لیا ہے چناں چہ تفسیر کبیر میں ۱۔ ثم بین تعالیٰ مال جلہ یعذبہم فقال وہم یصدون عن المسجد الحرام ۔ (تفسیر کبیر ) لکھا ہے ۱ کہ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ ان کو عذاب نہ دے گا جب تک کہ خدا کا رسول ان میں ہے ا س آیت میںفرمایا کہ ان کوعذاب دے گا کہ اب خدا کا رسول ان میںسے نکل آیا ہے پھر علماء نے اس عذاب میںاختلاف کیا ہے بعضوں نے کہا کہ بد رکی لڑائی میںوہ عذاب ان کو ملا اور بعضوں نے کہا کہ مکہ کی فتح کے دن۔ غرض کہ ان علماء نے عذاب سے لڑائی میں شکست پانے کا عذاب مراد لیا ہے۔ اب اس آیت کے ان لفظوں پر ’’وما کان اللہ معذبہم وہم ییستغفرون‘‘ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ استغفار کرتے ہیںبلکہ اس سے نفی استغفار مراد ہے ۔ پس ان لفظوں کے معنی یہ ہیں۔ در حالیکہ وہ استغفار کرتے تو خدا ان کو عذاب نہ کرتا مگر وہ استغفار نہیں کرتے تو خدا ان کو عذاب نہ کرتا مگر وہ استغفار نہیںکرتے اس لیے انکو خدا عذاب دے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام علماء صاحب کشاف کو علم ادب کا بہت بڑا عالم سمجھتے او رجو معنی انہوں نے بیان کیے ہیں ا س کو سب تسلیم کریں گے ۔ ۱۔قال ابن عباس ۔ وما لہم ان الا یعذبہم اللہ واعلم انہ ،تعالیٰ بین فی الایۃ الاولی ان لا یعذبہم مادام رسول اللہ فیہم ذکر فی ہذہ الایۃ انہ لا یعذبہم اذ اخرج الرسول من بینہم ، ثم اختلفو فی ہذا العذاب فقال بعضہم الحقہم عذاب المتوعد بہ یوم بدر و قیل بل یوم فتح مکہ ۔(تفسیر کبیر جلد ۳صفحہ ۳۸۰) ۲۔ ہم یستغفرون فی المواضع المحال ومعناء نفی الاستغفار عنہم ای لو کانواممن یومن ویستغفر من الکفر کما عذبہم لقو لہ وما کان ربک لیہکل القری بظلم واہلہا مصلحوں ولکنہم لا یومنون ولا یسغفرون ولا یتوقع ذالک منہم ۔ (تفسیر کشاف صفحہ ۵۱۲) جنگ بدر کا موقع: جنگ بدر کے سلسلے میں خدا نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’ از انتم بالعدوۃ الدنیا باالعدوۃ القصویٰ والرکب اسفل منکم ولو توا عدتم لا ختلفتم فی المیعد ولکن لیقضی اللہ امرکان مفعولا۔‘‘ یعنی جس وقت کہ تم تھے ورلے کنارہ پر اور وہ تھے پرلے کنارہ پر اور قافلہ تھا تم سے نیچے (یعنی سمندر کے کنارہ پر) اور اگر تم ( اس مقام پر لڑنے کا ) وعدہ کر لیتے تو البتہ تم وعدہ خلافی کرتے ولیکن (یہ اس لیے ہوا) تاکہ پورا کر دے اللہ اس کام کو جو کرنے کو تھا۔ اس آیت میںنہایت صفائی سے خدا تعالیٰ نے ان مقامات کا بیا ن کیا ہے جہاںآنحضرت ﷺ اور قریش مکہ کا لشکر موجود تھا اور جس راہ سے ابوسفیان والا قافلہ نکل گیا تھا ۔ اس آیت سے ہشامی کی روایت جو ابھی ہم لکھ آ ئے ہیں بخوبی تصدیق ہوتی ہے کہ ابو سفیان کا قافلہ سمندر کے کنارہ ہو کر نکل گیا تھا ۔ مگر یہ الفاظ جو اس آیت میںہیںکہ ’’ولو تو اعدتم لا ختلفتم فی النمیعاد‘‘ اس کی تفسیر میںمفسرین نے غلطی کی ہے ۔ اس غلطی کا سبب یہ ہے کہ ابتدا ہی سے ان کو یہ غلط خیال ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ کا ارادہ قافلہ کے لوٹنے کا تھا اور ہم نے خود قرآن مجید کی آیتوں سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ خیال محض غلط ہے پس اسی غلط خیال کے سبب سے وہ سمجھتے جیسے کہ تفسیر کبیرمیںبھی لکھا ہے کہ قریش مکہ سے تفاقیہ اور ناداستہ لڑائی ہوگئی اور اگر ان سے لڑائی کا وعدہ کیا جاتا تو وعدہ خلافی کرنے اس لیے کہ مسلمان بہت تھوڑے تھے اور قریش بہت زیادہ۔ مگر یہ رائے بالکل غلط ہے خود قرآن مجید سے ثابت ہے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا رسول خد اﷺ خاص قریش مکہ کے مقابلہ کے لیے نکلے تھے بلکہ خدا کا حکم تھا کہ قریش مکی ہی سے لڑو۔ پس مذکورہ بالا تفسیر کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی اس آیت میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے لشکر کا اور قریش مکہ کے لشکر کا مقام بیان کیا ہے اور اس میں کچھ شک نہیں جیسا کہ تمام مفسرین اور مورخین قبول کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا لشکر پانی سے دور اور خراب جگہ پر تھا اور قریش مکی کا لشکر پانی سے دور اور خراب جگہ پر تھا اور قریش مکی کا لشکر بہت اچھے مقام پر تھا او ر پانی اس کے قبضہ میںتھا ۔ ایسے خراب مقام پر دفعۃ لڑائی ہوگئی۔ پس خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر پہلے سے اس مقام پر لڑنے کا وعدہ کیا جاتا تو تم وعدہ خلافی کرتے اور اس مقام پر لڑنے کا وعدہ کیا جاتا تو تم وعدہ خلافی کرتے اور اس مقام کی خرابی دیکھ کر اس مقام پر لڑنا منظور نہ کرتے لیکن اسی جگہ لڑائی ہوگئی اور جو خدا کو کرنا منظور تھا وہ خدا نے کر دیا۔ (اذبریکہم اللہ) اس آیت میں مفسرین کو یہ مشکل پیش آئی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے خواب میں آنحضرت ﷺ کو بہت سے لوگوں کو تھوڑا سا دکھلایا تو پیغمبر کا خواب خلاف واقع اور غلط ہوا حالاں کہ پیغمبر کا خواب خلاف واقع اور غلط نہیں ہوتا، مگر یہ شبہ آیت کے معنی اور طرز بیان پر غور نہ کرنے کے سبب سے واقع ہوا ہے حالاں کہ آیت میںکوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر کوئی شبہ ہو سکے۔ تمام سیاق قرآن مجید کا اسطرح پر واقع ہے کہ خدا تعالیٰ بندوں کے افعال کو بہ سبب علۃ العلل ہونے کے اپنی طرف نسبت کرتا ہے اس طرح آنحضرت ﷺ کے خواب دیکھنے کو اپنی طرف نسبت کیا ہے کہ خدا نے ان کو خواب میں دکھلایا تھوڑا۔ اس طرح پر کہنا قرآن مجید کے سیاق کے مطابق ان معنوں میں ہے کہ جب تونے ان کو خواب میںدیکھا تھوڑے سے اور اگر ان کو دیکھنا بہت سے تو بے شک بزدلی کرتے اور کام میں جھگڑا کرتے۔ اس آیت کے بعد کی آیت سے حضور ﷺ کے خواب کی تصدیق ہوتی ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ جب قریش مکہ سے مقابلہ ہو ا تو مسلمانوں کی آنکھوں میں وہ تھوڑے سے معلوم ہوئے۔ قلیلا کالفظ دونوں روایتوں میںواقع ہوا ہے اگرپہلی آیت میں قلیلاکے لفظ سے شوکت اور عظمت اور جرات میں قلیل لیے جاویں تو دوسری آیت میںبھی جب کہ مقابلہ ہوا ’’قلیلا‘‘ کے یہی معنی لیے جاویںگے اور اگر پہلی آیت میں قلیلا کے لفظ سے قلیل فی العدد مراد لی جاوے تودوسری آیت میں بھی قلیل فی العدد مراد لی جاوے گی جس سے ظاہر ہوتاہے کہ مقابلہ کے وقت کل لشکر قریش کے مقابلہ میںنہیں آیا تھا بلکہ ان میںسے تھوڑے سے آدمیوں سے مقالہ ہواتھا جس کا سبب خود اس دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کیوںکہ قریش مکہ نے دیکھا کہ آنحضر ت ﷺ کے ساتھ تھوڑے سے آدمی ہیں اس لیے انہوں نے بھی تھوڑے سے آدمیوں سے مقابلہ کیا اور جو امر کہ آنحضرت ﷺ نے خواب میں دیکھا تھا وہ سچاہوا۔ اذ زین لہم الشیطان اعمالہم سے کیا مراد ہے: اللہ تعالیٰ قرآن شریف میںفرمایا ہے کہ۔ ’’واذ زین لہم الشیطن اعمالہم وقال لا غالب لکم الیوم من الناس وانی جار لکم فلما تراء ت الفئتن نکص علی عقبیہ وقال انی بری منکم انی اراما لاترون انی اخاف اللہ واللہ شدید العقاب۔‘‘ یعنی اورجب اچھا کر دکھایا ان کے لیے شیطان نے ان کے عملوں کو اور کہا نہیں ہے کوئی غالب تم پر لوگوں میں سے آج کے دن اور بے شک میں تمہارا حمایتی ہوں پھر جب آمنے سامنے ہوئے دونوں گروہ تو الٹا پھرا الٹی ایڑیوں پر اور کہا کہ بے شک میںالگ ہوں تم سے ۔ بیشک میںدیکھتا ہوں وہ جو تم نہیں دیکھتے۔ بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے۔ ہمارے مفسرین نے ا س آیت کی تفسیر میں عجیب و غریب باتیں لکھی ہیں ۱ وہ کہتے ہیں کہ جنگ بدر میں شیطان سراقہ بن مالک بن جعشم کی صورت بن کر جو بکر بن کنانہ کے سرداروں مین سے تھا مع اپنے ساتھ کے لوگوں کے قریش مکہ کے پاس آیا اور کہا کہ ہم تمہارے مدد گار ہیں اور کہا کہ اب کوئی تم پرغالب نہیں ہونے کا اور اس وقت حرث بن ہشام کے ہاتھ میں ہاتھ دئے ہوئے کھڑا تھا مگرجب اس نے مسلمانوں کے لشکر میںحضرت جبریل کو اور فرشتوں کو دیکھا تو ہاتھ چھڑ اکر بھاگا اور کہا کہ جو میں دیکھتا ہوں تم نہیں دیکھتے۔ شیطان کا سراقہ بن مالک کی صورت بن کر آنے کی یہ دلیل لکھی ہے کہ جب کفار قریش مکہ کو پھر کر گئے تو لوگوں نے کہا سراقہ کے آدمی بھاگ گئے۔ جب یہ خبر سراقہ کو پہنچی تو ا س نے کہا کہ سراقہ کے آدمی بھاگ گئے۔ جب یہ خبر سراقہ کو پہنچی تو اس نے کہا کہ خد اکی قسم مجھ کو تمہارا جانامعلوم بھی نہیں ہوا ابھی تمہاری شکست کی خبر مجھ کو پہنچی ہے۔ اس وقت لوگوں نے کہا کہ وہ شخص جو سراقہ کی صورت میں آدمی لیے ہوئے تھا سراقہ نہ تھا بلکہ شیطان تھا۔ ۱۔وذالک لان کفار قریش لما رجعوا الی مکہ قالو ا ہزم اناس السراقہ فبلع ذالک سراقۃ فقال واللہ ماشعرت بمسیر حتیٰ بلغنی ہزیمیتکم فعند ذالک تبین للقوم ان ذالک الشخص ما کان سراقہ بل کان شیطانا ۔ (تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۳۸۸) نہایت افسوس ہے کہ ہمارے مفسروں نے کیسی لغو اور بے ہودہ او ربے سمجھ اوربے ٹھکانہ باتوں کو قرآن کی تفسیر میںداخل کیا ہے او ران کو تفسیر کی بنیاد قرار دیا ہے خدا ان پر رحم کرے۔ مگر حسن اور اصم دو مفسروں کا قول ہے کہ شیطان کسی آدمی کی صورت نہیں بنا تھا بلکہ ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تھا ۔۱ پہلا قول تو محض لغو ہے او رحسن او راصم کا قول ایسا ہے جو تسلیم ہونے قابل ہے۔ بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ قریش مکہ کی حالت کو ان کی زبان حال سے بیان فرماتا ہے۔ پہلی آیت میں غرور اور تکبر سے وہ لڑائی کے لیے نکلے تھے اس کا اشارہ کیا اور دوسری آیت میںفرمایا کہ ’’ زین لہم الشیطن اعمالہم‘‘ یعنی ان کے نفس نے کہا کہ میںتمہارا ہمایتی ہوں مگرجب دونوں لشکر مقابل ہوئے تو ان کی جرات اور ہمت جو کچھ تھی وہ پست ہوگئی اور آثار فتح و نصرت لشکر اسلام کے ظاہر ہوئے اور ان کا نفس شر یر پسپا ہوا جس کو خدا تعالیٰ نے نہایت فصیح طور پر بیان فرمایا ۔ ’’ فلما تراء ت الفئتن نکص علی عقبیہ وقال انی بری منکم انی اریٰ ما لاترون‘‘ اور جب انسان کی نخوتت اور غرور کے برخلاف امر واقع ہوتا ہے تو اس کے نفس امارہ کو قدرتی طور پر خورف لاحق ہوتاہے خصوصا مواقع جنگ میںجہاں ہر طرح پر فتح کی امید ہو اور شکست ہو جاوے پس خدا تعالیٰ نے مشرکین کے نفس شریر کی اس حالت کو ان لفظوں سے بیان کیا کہ ’’ انی اخاف اللہ واللہ شدید العقاب‘‘ اور کیا بلحاظ سامان لڑائی کے او ر کیا بلحاظ آسائش و خوراک و قوت جسمانی کے نہایت ضعیف تھے۔ ا س لیے خدا نے فرمایا کہ اس ۱۔ ان الشیطان زین بوسوستہ من غیران یتحول فی صورۃ الانسان وھو قول الحسن الا صم۔ قدر تفاوت میںتخفیف کی جاوے تب بھی اگر تم ثابت قدم رہو گے تو دوگنوں پر غالب آؤگے پس ان آیتوں میں سے کسی آیت میں تعین عدد خاص مراد نہیںبلکہ صرف تحریض علی القتال و ثبات فی القتال مراد ہے۔ قیدیان بدر کا مسئلہ : بدر کے قیدیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ماکان لنبی ان یکون لہ، اسریٰ حتیٰ یثخن فی الارض تریدون عرض الدنیا واللہ یرید الاخرۃ واللہ عزیز حکیم‘‘ یعنی۔ نہیںہے نبی کے لیے کہ ہوں اس کے لیے قیدی یہاں تک کہ گھمسان کر دے زمین میںیعنی ملک میں۔ تم چاہتے ہو مال دنیا کا اور اللہ چاہتا ہے آخرت کو اور اللہ غالب ہے حکمت والا۔ واقعہ یہ ہے کہ بدر لڑائی میں قریش مکی کے تمام لشکر سے جوا ن کے ساتھ آیاتھا لڑائی نہیں ہوئی تھی بلکہ ایک گروہ سے جو لڑنے کو نکلا تھا لڑائی ہوئی تھی جیسا کہ اسی صورۃ کے مندرجہ حاشیہ آیت سے ثابت ہوتا ہے ۱۔ اس گروہ کو جو مقابلہ میں آیا تھا شکست ہوئی تھی اور تمام لشکر قریش مکی کا ایسا پریشان ہوگیا تھا کہ کسی کو پھر مقابلہ کرنے کی جرات نہیںہوئی اور مسلمانوں نے ان کا تعاقب بھی نہیں کیا۔ جیسے کہ خدا نے اسی صورت میںفرمایا: ’’ ان تستفتحو فقد جاء کم الفتح و ان تنتہوا فہو خیرلکم‘‘ مگرقریش مکہ کے لشکر میں ستر آدمی بطور قیدی کے گرفتار ہوگئے تھے ۔ ان قیدیوں کی نسبت آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ کیاکیا جاوے حضرت عمر اور سعد بن معاذ نے رائے دی کہ سب کو قتل ۱۔واذ یریکموہم اذاالتفیتم فی اعینکم قلیلا ویقللکم فی اعینہم لیقضی اللہ امر ا کان مفعولا والی اللہ ترجع الامور۔ ۴۶۔ کرنا چاہے۔ حضرت ابو بکر نے کہا کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جاوے چنانچہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا ۔ فدیہ لینے پر خدا نے اپنی ناراضی ظاہر کی کیوں کہ وہ لوگ بغیر لڑنے کے پکڑے گئے تھے اور اس لیے لڑائی کے قیدی جن سے فدیہ لیا جاسکتا نہیں تھے۔ اسی پر خداکی ناراضی ہوئی اور خدا نے فرمایا ’’ماکان لنبی ان یکن لہ اسری حتیٰ یثخن فی الارض‘‘ جن لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ان کے قتل نہ کرنے پر خدا کی ناراضی ہوئی تھی کسی طرح پر صحیح نہیں ہوسکتی اس لیے خدا تعالیٰ نے جب انکا قیدی جنگ ہونا ہی نہیں قرار دیاتو ان کے نہ قتل کرنے پر کیوں کر ناراضی ہوسکتی تھی۔ غزوہ بدر اور نزول ملائکہ تمام مسلمان اس پر یقین رکھتے ہیں اور تمام احادیث اور تاریخ کی کتابوں میںیہ لکھا ہو اہے اور تمام مفسرین کا دعویٰ ہے کہ سورۃ آل عمران میںلکھا ہو اہے کہ جنگ بدر میں مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتے آسمان سے نازل ہوئے تھے ۔ مگر میں ا س بات کا بالکل منکر ہوں مجھے یقین ہے کہ کوئی فرشتہ لڑنے کو سپاہی بن کر یا گھوڑے پر چڑھ کر نہیں آیا ۔ مجھ کو یہ بھی یقین ہے کہ قرآن مجید سے بھی ان جنگ جو فرشتوں کا اترنا ثابت نہیں ہے۔ مگرتمام مسلمانوں کا اعتقاد اس کے برخلاف ہے وہ یقین کرتے ہیں کہ درحقیقت فرشتوں کا رسالہ لڑنے کو اترا تھا وہ نادانی سے یہ بھی کہتے ہیںکہ فرشتوں کا لڑائی کے لیے اترنا منصوص ہے اور اس سے انکار کرنا قرآن کا انکار کرناہے مگر ان کا یہ خیال محض غلط ہے۔ مجھ کو فکر تھی کہ اور کسی مسلمان نے بھی اس سے انکار کیا ہے یا نہیں۔ تو مجھ کو ایک مسلمان ملا جس نے اس سے انکار کیا ہے۔ تفسیر کبیر میںلکھا ہے کہ ابوبکر آصم اس سے سخت منکر تھے انہوں نے اپنے انکار کی چار دلیلیں بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک فرشتہ بھی تمام دنیا کے غارت کر دینے کو کافی تھا پھر فرشتوں کی فوج بھیجنے سے کیا فائدہ تھا ۔ دوسرے یہ کہ جو کفار کہ لڑے انکو بھی لوگ جانتے تھے پھر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کفار کو فرشتوں نے مارا تھا ۔ تیسرے یہ کہ اگر فرشتے لڑے تھے تو وہ لوگوں و دکھائی دیتے تھے یا نہیں اور اگر دکھائی دیتے تھے تو آدمیوں کی صور ت میں دکھائی دیتے تھے یا اور کسی صورت میں۔ اگر آدمیوں کی صورت میںدکھائی دیتے تھے تو وہ آنحضرت ﷺ کا لشکر میں شمار ہوتے تھے تو وہ آنحضرت ﷺ کا لشکر تین ہزار اس سے زیادہ ہوگیا ہوگا اور اتنا لشکر کسی نے بیان نہیںکیا اور قرآن کے بھی برخلاف ہے۔ کیوںکہ دشمنوں کی آنکھوں میں تھوڑا لشکر دکھائی دیتا تھا اور اگر اور کسی صورت پر دکھائی دیتے تو تمام لوگوں کے دل پر دہشت پڑ جاتی اور اگر وہ لوگوں کودکھائی نہ دیتے تو کفار کو لوگ بغیر قتل کرنے والے کے قتل ہوتاہوا دیکھتے اوریہ واقعہ اعظم معجزات میں ہوتا ۔ مگر اس طرح پر کفاروں کا مارا جانا وقوع میںنہیں آیا۔ چوتھے یہ کہ جو فرشتے آئے تھے ان کے اجسام کثیف تھے یالطیف ۔ اگر کشیف تھے تو ان کو سب لوگ دیکھتے ۔ حالاں کہ ان کو کسی نے نہیں دیکھا اور اگر ان کے اجسام ہواکی طرح لطیف تھے تو گھوڑے پرسوار ہوکر نہیں آسکتے تھے۔ امام فخر الدین رازی نے ان شبہوں میں سے کسی کا جواب نہیں دیا اور ملا نوں کی طرح یہ بات کہی کہ ایسے شبہے کرنا اس شخص کے لائق ہیں جوقرآن اور نبوت کا منکر ہو۔ مگرجو شخص کہ قرآن اور نبوت کو مانتا ہے اس کو ایسے شبہے کرنے لائق نہیں۔ پس ابوبکر آصم کو لائق نہ تھا کہ ان باتوں کا انکار کرتا باوجود اس کے کہ نص قرآن سے ان کا ہونا پایاجاتا ہے اور ایسی حدیثیوں میں جو تواتر کے قریب ہیں ان کا بیان ہے۔ امام صاحب نے اخیر بات تو یقینی غلط کہی ہے کیوں کہ تواتر تو درکنار کس صحیح اور قوی حدیث سے بھی ان باتوں کا ثبوت نہیں ہے۔ تمام ضعیف اور موضوع حدیثیں ہیںجن میں ایسی باتیں مذکور ہیں علمائے محققین ایسی حدیثوں پر اعتماد نہیں کرتے اوراصول حدیث سے بھی ان کی تقویت نہیں ہوتی۔ پہلی بات بھی امام صاحب کی صحیح نہیںہے ۔ کیوں کہ قرآن مجید سے فی الواقع سپاہی بن کر فرشتوں کا اترنا پایانہیں جاتا ۔ بلکہ صرف وہ ایک بشارت تھی مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط کرنے اور لڑائی میں ثابت قدم رہنے کی۔ جیسے کہ خود خدانے اس جگہ اور سورۃ انفال میں فرمایا ہے: ’’وما جعلہ اللہ الا بشریٰ لکم ولتطمئن قلوبکم بہ‘‘ مگر اس سورۃ میںجنگ بدر کے واقعہ کا جس سے یہ آیت متعلق ہے بہت ہی تھوڑا بیان ہے اور سورۃ انفال میں وہ واقعہ بالا ستیعاب بیان ہو اہے اور اس میں ہزار فرشتوں کی مدد کاذکر ہے۔ ہمارے نزدیک نہ ان لڑائیوں میں ایسے فرشتے جن کو لوگ ایک مخلوق جداگانہ متحیز بالذات مانتے ہیں۔ آئے تھے اورنہ خدا نے ایسے فرشتے بھیجنے کا وعدہ کیا تھا اور نہ قرآن مجید سے ایسے فرشتوں کا آنا یا خدا تعالیٰ کا ایسے فرشتوں کے بھیجنے کا وعدہ کرنا پایا جاتا ہے۔ اگرہم حقیقت ملائکہ کی بحث کوالگ رکھیں اور فرشتوں کو ویسا ہی فرض کر لین جیسا کہ لوگ مانتے ہیں تو بھی قرآن مجیدسے ان کا فی الواقع آنا یا لڑائی میں شریک ہونا ثابت نہیں ہے ۔ سورۃ آل عمران کی پہلی آیت میںتوصرف استفہام ہے کہ اگر خدا تین ہزار فرشتوں سے مدد کرے تو کیا تم کو کافی نہ ہوگا؟اور دوسری آیت میںہے کہ اگر تم لڑائی میںصبر کرو گے تو خدا پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔ مگران دونوں آیتوں سے اس کا وقوع یعنی فرشتوں کا آنا کسی طر ح ظاہر نہیں ہوتا ۔ سورۃ نفال کی آیت میں خدا نے کہا کہ ’’ میں تمہاری ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا۔ مگر اس سے بھی فرشتوں کا فی الواقع آنا نہیںپایا جاتا۔ اس پر یہ خیال کرنا کہ اگر مدد موعودہ وقوع میںنہ آئی ہو تو خد اکی نسبت خلف وعدہ کا الزام آتا ہے صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ مدد کی حاجت باقی نہ رہنے سے مدد کاوقوع میں نہ آنا خلف وعدہ نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو خد ا کی عنایت سے فتح ہوگئی تھی ۔ او رفرشتوں کو تکلیف دینے کی ضرورت باقی نہیںرہی تھی۔ باقی یہ کہنا کہ وہ فتح فرشتوں کے آنے کے سبب سے ہوئی تھی اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اس کے لیے اول قرآن مجید سے فرشتوں کا آنا ثابت کرنا چاہیے۔ اس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ فرشتوں کے آنے سے فتح ہوئی تھی روایتوں کو فرشتوں کے آنے پر سند لانا کافی نہیں ہے اول تو وہ روایتیں ہی معتبر اور قابل استناد نہیں۔ دوسرے خود ان کے مضمون ایسے بے سروپا اور خیالی ہیں جن سے کسی امر کا ثبوت حاصل نہیں ہو سکتا خصوصا اس وجہ سے کہ خود راوی فرشتوں کو دیکھتے نہیں تھے۔ برخلاف اس کے قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی ایک فرشتہ بھی نہیںآیا تھا ۔ دونوں سورتوںمیں اس آیت کے بعد جس میں فرشتوں کے بھیجنے کو کہا ہے۔ وما جعلہ اللہ الا بشریٰ لکم ولتطمئن قلوبکم بہ وما النصر الامن عندااللہ العزیزالحکیم یعنی۔ اور نہیں کیا اسکو اللہ نے مگر خوش خبری تمہارے لیے تاکہ مطمئن ہو جاویں اس سے تمہارے دل اور فتح نہیںہے مگر اللہ کے پاس سے بے شک اللہ غالب ہے حکمت والا۔‘‘ یہ بات غور کے لائق ہے کہ ’’ماجعلہ‘‘ میں جو ضمیر ہے وہ کس کی طرف راجع ہے ۔ امام رازی فرماتے ہیںکہ ’’ضمیر راجع ہے طرف مصدر کے جو کہ گو صریحاَ مذکور نہیں ہے مگر لفظ ’’یمدکم ‘‘ میں ضمنا داخل ہے یعنی ماجعلہ اللہ المدد والا مداد الا بشریٰ اور زجاج کا قول ہے کہ ماجعلہ اللہ ای ذکر المددالا بشریٰ مگر امام رازی صاحب نے جو فرمایا وہ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔ اس لیے کہ خدا نے کہا تھا کہ میںتمہاری فرشتوں سے مدد کروں گا ۔ پھر فرمایا کہ وہ یعنی یہ کہنا کہ میںتمہاری فرشتوں سے مدد کروں گا صرف خوش خبری تھی ۔ پس علانیہ سیاق عبارت سے ظاہر ہے کہ ’’ما جعلہ‘‘ کی ضمیر قول امداد یاذکر امداد کی طرف راجع ہے جیسا کہ زجاج کا قول ہے۔ نہ بطرف مصدر کے جو مذکورہ بھی نہیں ہے البتہ اس صریح مرجع ضمیر کو چھوڑ کر مصدر کی طرف اس صورت میںضمیر راجع ہوسکتی ہے کہ اول وقوع اس مدد کا یعنی فرشتوں کا آنا ثابت ہو جاوے اور وہ ابھی تک ثابت نہیںہوا اور اس لیے مصدر کی طرف ضمیر کا راجع کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ ’’ماجعلہ‘‘ پر ما نافیہ جو عام طور پر نفی کرتا ہے اور اس لیے سورۃ آل عمران کی آیت کے صاف معنی یہ ہیں کہ ’’نہیں کیا خدا نے پیغمبر کے اس قول کو کہ کیا تمہارے لیے کافی نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے۔ کوئی چیز ، مگر بشارت ۔ یعنی صرف بشارت تاکہ تمہارے دل مطمئن ہو جاویں‘‘ اور سورۃ انفال کی آیت کے صاف معنی یہ ہیں کہ ’’ جب تم نے خدا سے فریاد کی اور اس نے تمہاری فریا د کو قبول کیا کہ میں فرشتوں سے تمہاری مدد کرو ںگا تو نہیں کیا خدا نے اس قبول کرنے کو جس کے ساتھ فرشتوں سے مدد دینے کو کہا تھا کوئی چیز مگر بشارت تاکہ تمہارے دل مطمئن ہو جائیں ‘‘ اور طرز کلام قطعا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی ایسا فرشتہ جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں لڑائی کے میدان میں نہیںآیاتھا ۔ یہ تمام تقریر اس صورت میں تھی جبکہ ملائکہ کو ایک ایسا وجو دخارجی متحیز بالذات تسلیم کیاجاوے جیسے کہ عموما تسلیم کیا جاتا ہے اور جو مشکلیں ان آیتوں کے حل کرنے میںپیش آتتی ہیں اور موضوع روایتوں او ر جھوٹے اور بے معنی قصوں سے استدلال کرنے کی احتیاج پڑتی ہے۔ وہ اسی صورت میںپڑتی ہے۔ لیکن اگر ٹھیک طورپر قرآن مجید کو سمجھا جاوے اور جو اس کا طرز کلام ہے اس کو ہمیشہ پیش نظر رکھاجائے تو کوئی مشکل پیش نہیںآتی اور خدا اور اسکے کلام کی عظمت و شان اور خدا کی قدرت کاملہ کا سچا اثر انسان کے دل پر پڑتاہے۔ فتح کے اتفاقی اسباب سے جو بعض اوقات آفات راضی و سماوی کے دفعتا ظہور میںآنے سے ہوتے ہیں۔ قطع نظر کرکے دیکھا جاوے کہ ان لوگوں پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے جو فتح پاتے ہیں۔ ان کے قوائے اندرونی جوش میںآتے ہیںجرات، ہمت، صبر ، شجاعت ۔استقلال ، بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور یہی قویٰ خدا کے فرشتے ہیں جن سے خدا فتح مندوں کو فتح دیتا ہے اور اس کے برخلاف حالت یعنی بزدلی اور رعب ان لوگوں پر طاری ہوتا ہے جن کی شکست ہوتی ہے۔ پس ان آیتوں میں خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ’’میں فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا ۔ مگروہ بجز خوش خبری فتح کے اور کچھ نہیں ہے جس کے سبب تم میں ایسے قویٰ بر انگیختہ ہوں گے جو فتح کاباعث ہوں گے تمہارے دل قوی ہو جائیںگے۔ لڑائی میں تم ثابت قدم رہو گے۔ جرات، ہمت، شجاعت کا جوش تم میںپیدا ہوگا اور دشمنوں پر فتح پاؤگے۔ یہ معنی ان آیتوں کے ہم نے پیدا نہیںکیے ہیں بلکہ خود خدا نے یہی تفسیر اپنے کلام کی کی ہے۔ جہاں اسی سورہ میں اور اسی واقعہ کی نسبت فرمایا ہے کہ ’’اذ یوحی ربک الی الملائکۃ انی معکم فثبتوالذین آمنو سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب۔‘‘ یعنی جب تیرا پروردگار فرشتوں کو وحی بھیجتا تھا (یہ وہی فرشتے ہیں جن کے بھیجنے کا مدد کے لیے وعدہ کیا تھا) کہ میںتمہارے (یعنی مسلمانوں کے ) ساتھ ہوں (توان فرشتوں سے یہ کام لینے چاہے تھے) کہ ثابت قدم رکھو ان لوگوں کو جوایمان لائے ہیں ۔ میںبہت جلد ان لوگوں کے دلوں میںجو کافر ہیں رعب ڈالوںگا۔‘‘ لڑائی میںثابت قدم رکھنے والی کون چیز تھی؟ وہی ان کی جرات و ہمت تھی۔ کوئی اور اشخاص ان کے پاس کھڑے ہوئے ان کو شاباش شاباش نہیں کہہ رہے تھے ۔ پاس صاف ظاہر ہے کہ فرشتوں سے مرادوہی قوائے انسانی تھی جن کے پاس وحی بھیجی تھی اور جو لڑنے والوں میں موجود تھی اورفرشتوں سے ان کی مدد کرنے سے ان کو لڑائی میںثابت قدم رکھنا اورشجاعت ، جرات ، ہمت استقلال کو قائم رکھنا مراد تھا، نہ خیالی فرشتوں کوسپاہی بناکر اور ڈھال تلوار ، تیر کمان دیکر اور سفید گھوڑوں پر سوار کرکے بھیجنا۔ قرآن مجید کا سیا ق کلام ہی یہ ہے کہ اس میں ایسے مواقع میں جو خوف و خطر کے ہوتے ہیں۔ انسانوں کے دلوں میں طمانیت او رقوت بخشنے کو فرشتوں سے مدد کرنے اور اپنے غیبی لشکروں سے امداد کرنے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس سے مقصود صرف دل میں طمانیت و سکینہ کا پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جب آنحضرت ﷺ نے مکہ سے ہجرت فرمائی اور پہاڑ کے ایک غار میں جا کر چھپے ۔ جہاں نہ لشکر تھا نہ لڑائی تو خدا نے فرمایا۔ ’’الا تنصروۃ فقد نصر ہ اللہ اذ اخرجہ الذینکفروا ثانی اثنین ا ذہما فی الغار اذ یقول لصاحبہ لا تحذن ان اللہ معنا فانزل اللہ سکینہۃ علیہ وایدہ بجنود لم تروہا وجعل کلمۃ الذین کفرو السفلیٰ وکلمۃ اللہ ہی العلیا واللہ عزیزحکیم ۔‘‘ (سورۃ توبہ ،آیت ۴۰ پارہ ۱۰) وہاں غار میںکون سی فوج تھی اور کون سی لڑائی تھی جو خد نے اپنا غیبی لشکر بھیجا تھا ، بلکہ لشکر سے صرف سکینہ مراد تھی ۔ اس آیت کوٹکڑے ٹکڑے کرنااور یہ کہنا کہ پہلا جملہ تو واقعہ غار سے متعلق ہے اور دوسرا ٹکرا جہاں لشکر کے آنے کاذکر ہے جنگ احد یا جنگ بدر یا جنگ احزاب سے متعلق ہے۔ جیسا کہ بعض مفسروں نے کہا ہے۔ یہ ایک ایسا لغو کلام ہے جو التفات کے قابل نہیں ہے ۔ اور خدا کے کلام کے ساتھ ایک قسم کی بے ادبی ہے کہ اپنی مرضی کے موافق جہاں سے چاہا توڑا اورجہاںچاہا جا جوڑا۔ اسی طرح خدا نے سورۃ توبہ میں فرمایا ’’ثم انزل اللہ سکینۃ علی رسولہ وعلی المومنین وانزل جنودا لم تروہا و عذب الذین کفروا واذلک جزاؤ لکافرین‘‘ سکینہ کی تفصیل ’’جنودالم تروہا‘‘ واقع ہوئی ہے اور ان دونوں سے مراد سکینہ ہے نہ کچھ اور۔ اسی مضمون کی آیت سورۃ احزاب میں ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے۔ ’’یاایہا الذین آمنو اذکروانعمت اللہ علیکم اذ جاء تکم جنوا فارسلنا علیہم ریحا و جنودا لم تروہا وکان اللہ بما تعملون بصیرا۔‘‘ ا س سے بھی عمدہ طریقہ پر اس مضمون کو سورۃ فتح میں بیا ن کیا ہے۔ جہاںفرمایا ہے ’’ ہو الذی انزل السکینۃ فی قلوب المومنین لیز دادوا اممانا مع ایمانہم واللہ جنود السموات والارض وکان اللہ عزیزا حکیما۔ اسی انزال سکینہ کو خدا نے اپنے لشکروں سے تعبیرکیاہے۔ پس بدر کی لڑائی میں بھی نہ نہ جنگجو مجسم متحیز بالذات فرشتوں کے بھیجنے کا وعدہ کیا تھا ۔ نہ ایسے فرشتے بھیجے تھے ۔ بلکہ مسلمانوں کے دلوں کو اور ان کے قوائے جنگ کو صرف خوش خبری فتح سے تقویت دینے کا وعدہ تھا جس کو خدا ن پورا کیا اور قلیل جماعت کو کثیر جماعت پر فتح دی۔ اہل عرب زمانہ جاہلیت میں بہت سے قوائے غیر مرثیہ کو مربی انسان اور دنیا میںکارکن سمجھتے تھے۔ ملائکہ کو بھی وہ ایک قوت غیر مرثیہ جانتے تھے اور گو وہ اس بات کے قائل تھے کہ ان میں مجسم و مرئی ہونے کی بھی طاقت ہے۔ مگر یہ نہیں تھا کہ ملائکہ کامفہود بغیر اس کے کہ وہ ان کو مجسم ومرئی سمجھیں۔ ان کے ذہن میںنہیںآتا تھا ۔ ان ہی آیتوں میں جہاں خدا تعالیٰ نے لفظ ’’جنودا لم تروھا ‘‘ کا استعمال کیا ہے اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ اس زمانہ کے عرب قوائے غیر مرثیہ کو کارکن سمجھتے تھے پس یہ کہنا کہ جو معنی آیت کے ہم نے بیان کیے ہیں (اگرچہ ایسا کہنا ہم پر تہمت ہے کیوں کہ ہم نے نہیں بیان کیے۔ بلکہ خود خدا نے بیان کیے ہیں) وہ معنی نہ اس زمانہ جاہلیت کے عرب سمجھتے تھے نہ صحابہ کرام ۔محض غلط ہے اس زمانہ کے مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ بغیر کسی فرضی شکل و صورت کے انکے ذہن میں فرشتوں کا خیال ہی نہیںآسکتا۔ مگر عرب جاہلیت کاایسا خیال نہ تھا ۔ بے شک فرشتوں میںوہ مجسم ہونے اور مختلف صورتوں میںظاہر ہونے کی طاقت سمجھتے تھے۔ مگر بلاخیال شکل و صورت و تحیز کے بھی ان کے ذہن میں فرشتوں کاخیال تھا جس کو ہم نے بلفظ قویٰ تعبیر کیا ہے۔گو اس زمانہ کے مسلمان آیت کے معنی سمجھنے کے قابل نہ ہوں مگر اس زمانہ کے عرب بلاشبہ اس قابل تھے ۔ اب باقی رہی بحث نسبت عدد ملائکہ کے تو یہ بات ظاہر ہے کہ ایسے مقامات میں عدد کے ذکر کرنے سے خاص عد د معین مقصود نہیں ہوتا بلکہ اس امر کامکمل ہونا جس کی نسبت عدد کا بیان ہوا ہے مقصود ہوتا ہے ۔ علاوہ اس کے عددوں کا بیان مختلف واقع پر ہوا ہے جس کے سبب کچھ اختلاف آئیتوں میں نہیں ہے ۔ جب آنحضرت ﷺ مدینہ میں تھے اورقریش مکہ کے مقابلہ میں نکلنے کاارادہ تھا تو ایک گروہ مسلمان کا بسبب کثرت مخالفین کے خائف تھے اوروہ ان کے مقابلہ میںلڑنے کو جانا نا پسند کرتا تھا اس وقت مسلمانوں سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’لن یکفیکم ان یمدکم ربکم بثلاثۃ آلاف من الملائکۃ منزلین بلیٰ ان تصبروا وتتقو ویاتو کممن فورہم ہذا یمددکم ربکم بخمسۃ آلاف من الملائکۃ مسمومین (سورہ آل عمران آیات ۱۲۳۔ ۱۲۴) یعنی ’’کیا تم کوقریش مکہ کے مقابلہ کے لیے یہ بھی کافی نہ ہوگا کہ خدا تین ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے۔ بلکہ اگر تم لڑائی میںصبرکرو اور خدا سے ڈرو اوروہ ابھی تم پر آن پڑیں تو خدا پانچ ہزار فرشتوںسے تمہاری مددکرے گا۔‘‘ پس رسول خد اﷺ کایہ فرمانا صرف ان لوگوں کی طمانیت اورجرات بڑھانے کے لئے تھا اور اس سے کسی عدد خاص کا تعین مقصود نہ تھا۔ مگر جب مسلمان بمقابلہ قریش مکہ بدر میںپہنچے تو معلوم ہو اکہ قریش مکہ کے لشکر میںہزار فرشتوں سے مدد دینے کی بشارت دنیا کافی تھا اس لیے پروردگار نے فرمایا ’’انی ممدکم بالف من الملائکۃ مردفین‘‘ اور اسی کے ساتھ بتلا دیا کہ یہ کہنا یاوعدہ کرنا صرف فتح کی خوش خبری ہے تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوجائیں نہ یہ کہ ہزار فرشتے سپاہی بن کر تمہارے ساتھ لڑنے کو آئیںگے نتیجہ اس سبب کا یہ نکلا کہ ’’میں تمہارے دلوںکو ہزار آدمی کے لشکر کے برابر تقویت اور جرات دے دوںگا۔ جس کے سبب تم ان کامقابلہ کر سکوگے۔‘‘ ختم شد…………The End