اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید تعلیمی ،تربیتی اورمعاشرتی مضامین جلد ہشتم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقالات سرسید سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کو حاصل ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے اور اپنے پیچھے نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مضامین جہاں ادبی لحاظ سے وقیع ہیں، وہاں وہ پر از معلومات بھی ہیں۔ ان کے مطالعے سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مذہبی مسائل اور تاریخ عقدے حل ہوتے ہیں اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں اور سیاسی و معاشرتی لحاظ سے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ نیز بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی ان میں موجود ہیں سرسید کے ان ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا ہدف رہے ہیں ان مضامین میں علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی، مزاح بھی ہے اور طنز بھی، درد بھی ہے اور سوز بھی، دلچسپی بھی ہے اور دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے اور سرزنش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اور ہر قسم کے خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے، وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اور کہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات و رسائل کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام کے لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اور نا مکمل، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ گزر گیا مگر کسی کے دل میں ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا اور کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا آخر کار مجلس ترقی ادب لاہور کو ان بکھرے ہوئے بیش بہا جواہرات کو جمع کرنے کا خیال آیا مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں پرونے کے لیے مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا انتخاب کیا جنہوں نے پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میں دور و نزدیک کے سفر کیے فراہمی مواد کے لیے ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا، مگر چونکہ ان کی طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری باحسن طریق پوری کی چنانچہ عرصہ دراز کی اس محنت و کاوش کے ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں’’ مقالات سرسید‘‘ کی مختلف جلدوں کی شکل میں فخر و اطمینان کے جذبات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ علم (مقالات سرسید مرتبہ عبداللہ خاں خویشگی صفحہ 72تا 74) جہاں اور بہت سے عجائبات قدرت الٰہی میں انہی میں سے انسان کے خیالات بھی نہایت عجیب ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک قسم کی مخلوقات ایک ہی سا خیال رکھتی ہے جانوروں کی وہ حرکات اور افعال جو جاندار ہونے کے سبب سے ہیں، اور وہ چیز جو محرک ان افعال یا حرک کی بالواسطہ یا بلا واسطہ ہے اس کا کچھ ہی نام رکھو، مگر وہ وہی چیز ہے جس کو انسانی حالت میں خیال کہتے ہیں۔ تمام افعال اور حرکات جانوروں کی بلا شبہ ارادی ہیں اور کچھ شک نہیں کہ وہ متحرک بالا رادہ ہیں ان کی تمام حرکتوں کا باعث بالواسطہ یا بلا واسطہ ایک خیال جلب منفعت مادی، جیسے غذا اور مسکن وغیرہ یا غیر مادی جیسے فرحت وانبساط اور بشاشت، یا خیال دفع مضرت مادی و غیر مادی کا ہوتا ہے۔ ہم نہیں پاتے کہ انسان میں اور کوئی چیز اس سے زیادہ ہے بلا شبہ اتنا فرق پاتے ہیں کہ جانور میں وہ خیالات محدود اور انسان میں نا محدود ہیں مگر تعجب تو ہم کو اس بات پر ہوتا ہے کہ ہر گاہ ایک قسم کے جانوروں میں ایک ہی سے خیالات ہیں اور ان پر وہ سب ایک ہی سا یقین کامل رکھتے ہیں، تو تمام انسان بھی باوجودیکہ ایک قسم کے جاندار ہیں، ایک سے خیالات اور ایک ہی سا یقین کیوں نہیں رکھتے ہیں۔ کبھی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جانوروں کے خیالات محدود ہونے کے سبب متفق ہیں اور انسان کے خیالات میں نا محدود ہونے کے سبب وہ صفت نہیں ہے مگر یہ بات تسلیم نہیں کی جا سکتی اس لیے کہ نا محدود ہونے کے لیے مختلف ہونا ضرور نہیں ہے پس انسانوں کے خیالات سے جہاں تک ہم کو واقفیت ہو اسی قدر عجائبات قدر الٰہی سے ہم کو زیادہ واقفیت ہوتی ہے اور ان خیالات کا صحیح ہونا یا غیر صحیح ہونا ہمارے اس فائدے میں کچھ نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ در صورت مختلف ہونے کے اور بھی زیادہ فائدہ دیتا ہے اس لیے ہم اپنے اس آرٹیکل میں ایک انسان کے خیالات بیان کرتے ہیں جن کو وہ اس طرح پر کہتا ہے: ’’ مجھ کو خیال آیا کہ جس قدر اور جانوروں کو کرنا ہے اتنا ہی مجھ کو بھی کرنا ہے یا اس سے زیادہ کرنا ہے مگر میرے خیال میں یہ آیا کہ انسان کے سوا تمام جاندار مخلوقات کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان کے بنانے والے کاریگر نے سب کچھ ان کے ساتھ بنا دی ہیں ان کو ان چیزوں کے بہم پہنچانے یا پید اکرنے کی حاجت نہیں ہے تمام جانداروں کی خوراک بغیر ان کی سعی و تدبیر کے پیدا ہوتی ہے سرد ملک کے جانوروں کے لیے نہایت عمدہ پشمینہ کا گرم لباس ان کے بدنوں پر پیدا کیا ہے پرند جانوروں کے لیے مینہہ سے بچنے کا باران کوٹ انہی کے بدنوں پر سیا ہے۔ گرم ملک کے جانوروں کے لیے اسی آب و ہوا کے مناسب ان کا جامہ قطع کیا ہے۔ مگر انسان کے لیے کچھ نہیں کیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو یہ سب کچھ خود کرنا ہے۔‘‘ پھر میں نے خیال کیا کہ حیوان اپنے کاموں کے کرنے کے لیے کسی سے کچھ سیکھنے یا تعلیم پانے کے محتاج نہیں ہوتے۔ خود سیکھے سکھائے ہی پیدا ہوتے ہیں شہد کی مکھی کو رس چوسنے کے لیے عمدہ قسم کے ماخذوں کی شناخت کوئی نہیں بتاتا اور اپنے گھروں کو ایسی عمدہ تقسیم سے نکالنا جس میں ایک بڑا مہندوس بھی حیران ہو جاوے کوئی نہیں پڑھاتا۔ بئے کو ایسا عمدہ اور محفوظ کا شانہ بنانا کوئی نہیں سکھاتا، مگر انسان کو بغیر سیکھے کچھ بھی نہیں آتا۔ پھر میں نے خیال کیا کہ حیوان کے کام، خواہ افعال جوارح سے ہوں یا دوسری قسم سے، اور خواہ وہ از خود ان کو آئے ہوں یا تعلیم سے نہایت محدود ہیں مگر انسان کے ہر قسم کے کام نا محدود ہیں ان سب باتوں سے میں نے خیال کیا کہ انسان کو اور جانوروں سے بہت کچھ زیادہ کرنا ہے۔ پھر میں نے خیال کیا کہ ایسے بڑے کاریگر نے جو انسان کو اور جانوروں سے بھی زیادہ درندہ بنایا ہے اور طرح طرح کی مشکلات میں ڈالا ہے تو کیا چیز اس کو دی ہے جس سے وہ یہ سب چیزیں کر سکتا ہے اور تمام مشکلوں پر فتح پا سکتا ہے؟ اتنے میں میرا دل بول اٹھا کہ ’’ عقل‘‘ میں یہ بات سن کر سوچ میں پڑ گیاکہ کیا یہ بات سچ ہے مگر میں نے خیال کیا کہ عقل سے تو یہ کام نہیں نکل سکتا۔ نہ تو وہ خود یہ کام نکال سکتی ہے اور نہ اس کے بغیر یہ مشکل حل ہو سکتی ہے یہ تو کسی دوسری چیز کے حاصل کرنے کو بطور آلہ کے ہے جیسے کہ سونا چاندی ہماری بھوک نہیں کھو سکتا مگر اس چیز کو بہم پہنچا دیتا ہے جو ہماری بھوک کھو دیتی ہے بہت سی تلاش اور جستجو میں نے کی اور خیال دوڑایا کہ وہ کیا چیز ہے جس کے حاصل کرنے کے لیے عقل بھی صرف آلہ ہے تو خیال میں آیا کہ وہ چیز ’’ علم‘‘ ہے جس کے معنی دانستن (جاننا) ہیں تب میں سمجھا کہ مجھ کو اور جانوروں سے زیادہ جو کچھ کرنا ہے وہ صرف تمام باتوں کی اصلیت دریافت کرنا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭ تعلیم (’’ انتخاب مضامین سرسید‘‘ شائع کردہ فرمان علی صفحہ2تا 15) تعلیم سے ہماری مراد موافق عرف عام کے لکھنا پڑھنا سیکھنے سے ہے ہر زمانہ میں لاکھوں کروڑوں آدمی مختلف مقاصد سے لکھنا پڑھنا سیکھتے رہتے ہیں۔ عام مقصد جس کے سبب سے تعلیم پر توجہ ہوتی ہے، خواہ تعلیم پانے والے خود اس پر متوجہ ہوں یا اطفال کے مرلیوں نے اطفال کی تعلیم پر توجہ کی ہو، یہ ہے کہ ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہوتی ہے کہ ایک جاہل کندہ نا تراش سے لکھا پڑھا آدمی زیادہ بہتر ہوتا ہے اور وہ تعلیم جس درجہ کی ہوئی ہو زندگی کے کاروبار میں اس کے لیے نہایت مفید اور کارآمد ہوتی ہے ان تعلیم پانے والوں میں لاکھوں آدمی تو ایسے ہوتے ہیں کہ ادنیٰ درجہ تعلیم تک پہنچ کر اور کچھ متوسط درجہ کی تعلیم سے آگے پڑھتے ہیں اور اپنے مذاق کے موافق علم کی شاخوں میں سے کسی شاخ کی تکمیل پر مائل ہوتے ہیں۔ کوئی شاعر بننا چاہتا ہے، کوئی ادیب، کوئی فلسفہ میں ترقی کرتا ہے اور کوئی ریاضیات میں اور کوئی دینیات میں، وعلیٰ ہذا القیاس مگر ہر ایک کے ساتھ حصول معاش کا خیال لگا رہتا ہے اور جو کچھ وہ حاصل کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے اس کو ذریعہ حصول معاش ضرور سمجھتا ہے۔ تعلیم بغیر اس کے کہ اس کے حاصل کرنے کے لیے کوئی زبان اختیار کی جائے،غیر ممکن ہے جس زمانہ میں جس زبان کا عروج ہوتا ہے وہی زبان اس کے لیے اختیار کی جاتی ہے یہ ایک کلیہ قاعدہ ہے کہ جس ملک میں جو زبان حکومت کرتی ہے اسی زبان کا عروج ہوتا ہے خلفائے بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں عربی زبان کا عروج تھا ہر شخص اسی زبان میں علوم کو سیکھنا چاہتا تھا ہندوؤں کے زمانہ میں ہندوستان میں سنسکرت زبان کا عروج تھا۔ اسی کو لوگ اختیار کرتے تھے جب مسلمانوں کی عملداری ہندوستان میں ہوئی تو فارسی زبان کا عروج ہوا اور سب نے فارسی زبان میں تعلیم پانا اختیار کیا۔ اب ہندوستان میں حکومت انگریزی ہے اور اسی زبان کو عروج ہے۔ اس لیے ہر شخص اسی زبان کے اختیار کرنے پر مائل ہے۔ ہاں مسلمانوں نے انگریزی زبان کے حاصل کرنے میں بہت کوتاہی کی اس کے کچھ ہی سبب ہوں مگر اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ وہ اپنی غلطی سے انگریزی زبان پڑھنے کو مخالف مذہب اسلام سمجھتے تھے مگر جب سے یہ خیال کم ہو گیا ہے یا دنیوی ضرورت نے انہیں مجبور کیا اسی وقت سے مسلمانوں نے انگریزی زبان میں تعلیم اختیار کرنا شروع کر دی ہے مگر بہت سے مسلمان مذہب کو دنیوی ضرورت سے مقدم سمجھتے ہیں اور اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ان میں یہ خیال کہ انگریزی پڑھنی اسلام کے برخلاف ہے، کم ہو گیا ہے اکثر حکام اور نیز بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ صرف لوگ سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لیے انگریزی پڑھتے ہیں مگر غور کرنے کی بات ہے کہ ہر سال ہندوستان کی یونیورسٹیوں سے سینکڑوں بی اے اور ایم کی ڈگری پاتے ہیں اور ان کو یقین کامل ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کے پاس اس قدر نوکریاں نہیں ہیں کہ وہ اس جم غفیر بی اے اور ایم اے ڈگری یافتوں کو دے سکے پس یقینی ڈگری یافتہ طالب علموں کو اس کا یقین ہے کہ سب کو سرکاری نوکری نہیں مل سکتی با وصف اس یقین کے جو وہ انگریزی پڑھنے پر مشغول ہیں تو ضرور ہے کہ سوائے ملازمت سرکاری کے اور کسی ذریعہ سے بھی ان کو معاش حاصل کرنے کا خیال ہے، یا اس بات کا یقین ہے کہ انگریزی پڑھا لکھا ہوا بن انگریزی پڑھے ہوئے سے دنیوی کاروبار کے لیے زیادہ مفید اور کارآمد ہے۔ بہر حال یہ بات غلط ہے کہ ہر ایک بی اے اور ایم اے سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے لیے پڑھتا ہے اور نہ ملنے کے سبب سرکار سے ناراض ہوتا ہے کیونکہ اس کو پہلے سے یقین ہے کہ سرکار سب کو نوکری نہیں دے سکتی۔ ہاں جب موقع ہوتا ہے تو ہر ایک سرکاری ملازمت ملنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کو ضرور کرنی چاہیے۔ اس زمانہ کی تعلیم میں جو بذریعہ انگریزی زبان کے ہوتی ہے اور اگلے زمانہ کی تعلیم میں جو بذریعہ عربی زبان کے ہوتی تھی، یہ فرق ہے کہ اگلے زمانہ میں تعلیم کا سامان ایسا موجود اور مہیا تھا کہ ہر شخص جو علم کی کسی شاخ میں یا شاخوں میں اس زمانہ کے موافق اعلیٰ درجہ کی تعلیم اور اس فن کا ماسٹر ہونا چاہے تو ہو سکتا تھا اور سوسائٹی جو اس زمانے میں موجود تھی اس تعلیم کی مدد کرتی تھی اور اس پر عمدہ اخلاقی اثر ڈال کر اس کو اس سوسائٹی کے لائق کر لیتی تھی اگلے زمانہ کی سوسائٹی بلحاظ اخلاق و حسن معاشرت کے ایسی عمدہ تھی کہ اس میں نقص اس زمانہ میں بھی نکالا جا سکتا مگر افسوس ہے کہ زمانہ کے انقلاب کے ساتھ وہ قائم نہ رہی۔ اس زمانہ کی تعلیم جو انگریزی زبان کے ذریعے سے ہندوستان میں ہوتی ہے اس کے لیے کوئی ایسا سامان نہیں ہے کہ جو شخص علم کی کسی شاخ میں اعلیٰ درجہ کی تعلیم پانا چاہے تو اعلیٰ درجہ کی تعلیم پا کر اس فن کا ماہر ہو سکے۔ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم دینے والی وہ یونیورسٹیاں ہیں جو ہندوستان میں موجود ہیں۔ وہ بلا شبہ بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں دیتی ہیں مگر اس تعلیم کو اعلیٰ تعلیم کہنا ہمارے نزدیک محض نا واجب ہے بلکہ وہ علم کی بعض شاخوں میں اوسط درجہ کی تعلیم ہے اور بعض شاخوں میں ادنیٰ درجہ کی تعلیم کا رتبہ رکھتی ہے۔ بالفعل جو باتباع احکام یونیورسٹیوں کے اس کے ماتحت کالجوں میں تعلیم دی جاتی ہے وہ زیادہ تر کتابی اور دماغی تعلیم سے متعلق ہے اس قسم کی تعلیم کا نتیجہ ضرور ہونا چاہیے جو مسٹر کرول نے اپنے لیکچر میں بیان کیا ہے اور جس کو اودھ اخبار نے اردو زبان میں لکھا ہے انہوں نے فرمایا کہ تعلیم کا منشاء یہ نہیں ہے کہ چند آدمیوں کی دولت بڑھ جائے یا یہ کہ غرباء کے مقابلے میں باقی ماندہ اشخاص کی زیادہ رعایت کی جائے اور نہ تعلیم کا منشاء یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے لوگ صرف اپنی باہمی محافظت کریں یا سوداگری اور تجارت ہی کو ترقی دیں بلکہ تعلیم کی خاص غایت اور اصل منشاء یہ ہے کہ لوگ نیک محض اور عمدہ قسم کے باشندے ہو جائیں اور خاموشی حاصل کریں جو زندگی کے بے داغ رہنے سے حاصل ہو سکتی ہے اور لوگوں کے سوشل اور اخلاقی خصائل کی تکمیل کر لیں اور ان بھاری اور عمدہ کاموں کا حوصلہ دلائیں جن سے ملک کی عزت اور زینت ہوتی ہے۔ سر ولیم میکورتھ ینگ نے ڈگری یافتہ طالب علموں کو مخاطب کر کے فرمایا اس کا حاصل بھی وہی ہے جو مسٹر کرول نے اپنے لیکچر میں کہا تھا سر ولیم میکورتھ نے ڈگری یافتہ طالب علموں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ان کی ڈگریاں اس بات کے لیے ہیں کہ وہ اپنے یومیہ معاملات اور گفتگو میں معزز برتاؤ اختیار کریں۔ اخلاق اور عمدہ تعلیم کی ترقی میں مدد دیں۔ سوشل نظام اور اپنے ہم جنسوں کی بہبودی کے قائم رکھنے میں کوشاں رہیں۔ المختصر ایک بھاری سلطنت کے سوبر آوردہ شہریوں کے فرائض ادا کرتے رہیں۔ مگر ہماری رائے میں اخلاقی تعلیم صرف کتابوں کی تعلیم سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ عمدہ سوسائٹی اس کی تعلیم دیتی ہے۔ ہندوستان میں جو قدیم سوسائٹی علماء اور نیک، خدا پرست، رحمدل، نیک خصلت لوگوں سے مرکب تھی وہ مدت ہوئی کہ مردہ ہو گئی اور نئی سوسائٹی جو زمانہ حال کے موافق ہو اب تک قائم نہیں ہوئی یا مکمل نہیں ہوئی۔ اس لیے وہ نتائج جن کا ذکر مسٹر کرول نے اپنے لیکچر میں کیا، یا سر ولیم میکورتھ ینگ نے ڈگری یافتہ طالب علموں سے خواہش کی، حاصل نہیں ہوتی۔ ہم اس بات کو جیسا کہ اودھ اخبار نے لکھا ہے نہایت مفید اور ضروری سمجھتے ہیں کہ اسکول ماسٹروں کو چاہیے کہ اپنے شاگردوں کے ذہن نشین کرتے رہیں کہ وہ اعلیٰ درجہ کا چلن اور شریفانہ اولو العزمیاں اختیار کریں اور اسی طرح ہمارے کالجوں کے پروفیسروں کو بھی منجملہ ایسے لوگوں کے ہونا چاہیے جن میں خیالات عالیہ پائے جاتے ہوں مگر ہماری رائے میں جب تک کہ خود اسی قوم کے چند لوگ اس قوم کی سوسائٹی کے مہذب کرنے پر درست نہیں ہو سکتی۔ اور یہی سبب ہے کہ باوجودیکہ کئی قرن گورنمنٹ کو ہندوستانیوں کو تعلیم دیتے گذرے مگر ان کی سوسائٹی کی حالت اب تک درست نہیں ہوئی۔ نہایت مشکل یہ ہے کہ دنیا میں کسی قوم کی سوسائٹی اور سوشل حالت ایسی نہیں ہے کہ جس میں ایسے امور بھی شامل نہ ہوں جن کی بناء غلط یا صحیح طور پر مذہبی امور پر مبنی نہ کہی جاتی ہو۔ پس اگر وہ امور ترقی سوسائٹی کے مانع ہیں اور غلطی سے ان کی بناء مذہبی امور پر رکھی جاتی ہے تو جب تک اسی قوم کا کوئی شخص اس غلطی کو ظاہر نہ کرے اور اس مانع کے رفع کرنے میں کوشش نہ کرے تو رفع نہیں ہو سکتی۔ غیر قوم کے شخص کا اس امر مانع پر متنبہ کرنا گو وہ کیسا ہی سچ کہتا ہو، مخالف اثر پیدا کرتا ہے، اور خیال ہوتا ہے کہ وہ شخص بسبب اختلاف قومی یا مخالفت مذہب کے ایسا کہتا ہے اگرچہ ہم قوم اور ہم مذہب والے پر بھی ہزاروں شخص طرح طرح کے اتہام لگاتے ہیں اور اس بات کی سماعت نہ ہونے پر کوشش کرتے ہیں اور گورنمنٹ تو کوئی بات جس سے مذہب میں مداخلت کرنے کا شبہ ہو اختیار نہیں کر سکتی غرضیکہ اخلاق اور شریف النفسی کی تعلیم عمدہ سوسائٹی پر منحصر ہے اور انگریزی گورنمنٹ سوائے تعلیم دینے کے اور کوئی طریقہ اختیار نہیں کر سکتی جس سے ہندوستانیوں میں سوسائٹی کی حالت اچھی ہو اور عمدہ سوسائٹی ان کی بن جاوے۔ دماغی تعلیم جس کا ہم نے اوپر ابھی ذکر کیا، کچھ شبہ نہیں ہے کہ انسان کو انسان اور اس کی عقلی اور دماغی قوتوں کے کامل اور اس کے اخلاق کو عمدہ بنانے میں بہت کچھ مدد کرتی ہے۔ مگر جب مسئلہ حصول معاش پر نظر کی جاتی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یقینی امر ہے کہ محض علمی پیشوں میں حصول معاش کی ذرا بھی گنجائش باقی نہیں ہے اور اسی لیے ان کا اور نیز ہمارے حکام کا اس طرف خیال جاتا ہے کہ حرفت اور فن کی تعلیم کو جیسے سائنس اور ٹیکنیکل ایجوکیشن سے تعبیر کیا جاتا ہے، زیادہ وسعت دی جائے۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن کے معنی تو ہم آج تک نہیں سمجھے کہ اس سے کیا مراد ہے اگر اس سے مراد حرفوں کی تعلیم ہے جیسے لوھاری نجاری، نور بانی وغیرہ وغیرہ تو اس کی ضرورت تو ہم ہندوستانیوں میں بہت کم پاتے ہیں کیونکہ اس قسم کے تعلیم یافتہ لوگوں کی کمی ہندوستان میں نہیں ہے اگر یورپ کو یا اور کسی ملک کو اس بات میں کچھ تفوق ہے تو وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ جو کام ہندوستان میں ہاتھوں سے ہوتا ہے وہ ان ملکوں میں کلوں سے ہوتا ہے مگر کلیں قائم کرنے والے لوگ نہیں ہیں جو ان میں کام کرتے ہیں بلکہ کلوں کو قائم کرنے والی ایک جدا جماعت ہے ہندوستان میں اگرچہ کہیں کہیں ایسی جماعتیں قائم ہوتی ہیں مگر ہندوستان میں عام طور پر ایسی جماعتوں کا قائم ہونا ظاہراً بہت دور اور بعض وجوہ سے اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور معلوم ہوتا ہے سائنس بلا شبہ نہایت عمدہ چیز ہے اور سائنس کا جاننے والا آج کل کے زمانہ میں قریب قریب ہر حرفت پر پورا پورا اختیار رکھتا ہے اور معاش حاصل کرنے کے لیے ایک نہایت عمدہ ذریعہ اس کے پاس ہوتا ہے، جیسا کہ یورپ کے ملکوں میں دیکھا جاتا ہے، مگر یورپ کے ملکوں کا قیاس ہندوستان پر نہیں ہو سکتا۔ یورپ میں ہر قسم کے متعدد کارخانے موجود ہیں اور اس لیے یورپ کی یونیورسٹیوں میں سائنس کی تعلیم دینا فائدہ سے خالی نہیں کیونکہ ہر قسم کی سائنس جاننے والے کے لیے ہر قسم کے کارخانے موجود ہیں جن میں وہ جا سکتا ہے اور اپنی معاش پیدا کر سکتا ہے۔ مگر ہندوستان میں اس قسم کے کارخانے نہیں ہیں اور نہ ابھی ان کے ہونے کی توقع ہے پس سائنس جاننے والا بجز اس کے کہ سائنس کا عالم ہو کر اپنے گھر میں بیٹھا رہے اور کوئی ذریعہ معاش حاصل نہیں کر سکتا۔ گورنمنٹ، ڈاکٹری، انجینئری، نقشہ نویسی وغیرہ کی جو ٹیکنیکل ایجوکیشن یا سائنس میں داخل ہیں بقدر ضرورت اس ملک کے تعلیم دیتی ہے اور اس ذریعہ سے وہ لوگ معاش بھی پیدا کرتے ہیں مگر اس سے زیادہ تعلیم کی نہ ہندوستان کی موجودہ حالت میں گنجائش ہے اور نہ وہ اس تعلیم سے کچھ معاش پیدا کر سکتے ہیں۔ بڑی ضرورت ہندوستان میں اعلیٰ درجہ کی دماغی تعلیم کی اور اخلاقی اور سوشل حالت کی درستی کی ہے جو ابھی تک نہیں ہوئی یا پورے طور پر نہیں ہوئی۔ اس کے بعد باقی امور لحاظ کے قابل ہیں پس مناسب نہیں کہ ہم دفعۃ سب امور کا ہونا چاہیں بلکہ جو کام ہمیں پہلے کرنا ہے اس کو مقدم سمجھیں اور اس کے بعد جو کام کرنے ہیں کریں۔ ٭٭٭٭٭٭ انسان میں تمام خوبیاں تعلیم سے پیدا ہوتی ہیں (تہذیب الاخلاق بابت یکم شوال1289ھ) میں سمجھتا ہوں کہ انسان کی روح بغیر تعلیم کے چتکبرے سنگ مرمر کے پہاڑ کی مانند ہے کہ جب تک سنگتراش اس میں ہاتھ نہیں لگاتا اس کا دھوندلا اور کھردرا پن دور نہیں کرتا اس کو خراش تراش کر سڈول نہیں بناتا اس کو پالش اور جلا سے آراستہ نہیں کرتا۔ اس وقت تک اس کے جوہر اسی میں چھپے رہتے ہیں اور اس کی خوش نما نسیں اور دلربا رنگتیں اور خوبصورت بیل بوٹے ظاہر نہیں ہوتے۔ یہی حال انسان کی روح کا ہے۔ انسان کا دل کیسا ہی نیک ہو مگر جب تک اس پر عمدہ تعلیم کا اثر نہیں ہوتا اس وقت تک ہر ایک نیکی اور ہر ایک قسم کے کمال کی خوبیاں جو اس میں چھپی ہوئی ہیں اور جو بغیر اس قسم کی مدد کے نمود نہیں ہو سکتیں ظاہر نہیں ہوتیں۔ ارسطو نے تعلیم کے اثر کو مجسم مورتوں کے بنانے کی تشبیہہ میں نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے وہ کہتا ہے کہ موھنی مورت ایک پتھر کے ڈھوئے میں چھپی ہوئی ہوتی ہے مگر مورت بنانے کا ہنر صرف فضول چیزوں کو اس میں سے گھڑ دیتا ہے مورت تو پتھر ہی میں ہوتی ہے مگر آذر صرف اس کو نمود کر دیتا ہے جو نسبت کہ مورت گھڑنے والے کو اس پتھر کے ڈھونے سے ہے وہی نسبت تعلیم کو انسان کی روح سے ہے بڑے بڑے حکیم اور عالم ولی و ابدال، نیک و عقلمند، بہادر و نامور ایک گنوار آدمی کی سی صورت میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں مگر ان کی یہ تمام خوبیاں عمدہ تعلیم کے ذریعہ سے ظاہر ہوتی ہے۔ جب میں جاہل اور وحشی قوموں کے حالات پڑھتا ہوں تو ان نیکیوں سے جو ان میں ہیں مگر ناشائستہ اور اس دلیری اور جرأت سے جو ان میں ہے مگر خوفناک اور اس استقلال سے جو ان میں ہے مگر بے ڈھنگا اور اس دانائی اور عقلمندی سے جو ان میں ہے مگر جانوروں کے سے مکر و فریب سے ملی ہوئی اور اس صبر و قناعت سے جو ان میں ہے اور گویا نا امیدیاں ہی ان کی امیدیں ہیں نہایت خوش ہوتا ہوں۔سچ ہے کہ انسان کے دل کے جوش مختلف طرح پر کام کرتے ہیں اور جس قدر کم و بیش عقل کی ہدایت ان کو ہوتی ہے اور جس قدر کہ عقل ان جوشوں کو درست کرتی ہے اسی قدر مختلف طور پر ان سے کام ہوتے ہیں امریکا کے حبشی غلاموں کا جب ہم یہ حال سنتے ہیں کہ اپنے آقا کے مرنے پر یا ایک کام پر سے چھڑا کر دوسرے کام میں لگانے پر جنگلوں کے درختوں میں لٹک کر اپنی جان دے دیتے ہیں یا ایک ہندو عورت اپنے خاوند کی لاش کے ساتھ زندہ جل کر ستی ہو جاتی ہے تو کون شخص ہے جو ان کی وفاداری اور محبت کی تعریف نہ کرے گا گو کہ کیسے ہی ناشائستہ اور نا مہذب طور سے ظاہر ہوتی ہے اس قسم کی جاہل اور وحشی قوموں کے دلوں میں بھی نہایت عمدہ عمدہ باتیں پائی جاتی ہیں گو وہ وحشی اپنے ہی کی حالت میں کیوں نہ ہوں لیکن اگر ان کی مناسب طور سے اور عمدہ تعلیم سے درستی کی جاوے تو وہی وحشیانہ نیکیاں کس قدر ترقی پا سکتی ہیں اور کیسے کیسے عمدہ کام اور مہذب و شائستہ نیکیاں ان سے پیدا ہو سکتی ہیں۔ مجھ کو اس بات کا رنج ہے کہ میں اپنی قوم میں ہزاروں نیکیاں دیکھتا ہوں پر ناشایستہ ان میں نہایت دلیری اور جرأت پاتا ہوں پر خوفناک، ان میں نہایت قوی استقلال دیکھتا ہوں پر بے ڈھنگا، ان کو نہایت دانا اور عقلمند پاتا ہوں پر اکثر مکر و فریب اور زور سے ملے ہوئے ان میں صبر و قناعت بھی اعلیٰ درجے کی ہے مگر غیر مفید اور بے موقع پس میرا دل جلتا ہے او رمیں خیال کرتا ہوں کہ اگر یہی ان کی عمدہ صفتیں عمدہ تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو جاویں تو دین اور دنیا دونوں کے لیے کیسی کچھ مفید ہوں۔ میری یہی خواہش ہے کہ اس قسم کی تحریرات سے نیکی کو ترقی دوں گو میری یہ خواہش پوری نہ ہو۔ مگر میں اس خیال سے تو بہت خوش ہوں کہ میں ہر پندرہ روز میں انسان کے دل کی درستی میں کچھ کچھ مدد کرتا رہتا ہوں (اس وقت رسالہ ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ پندرہ روز چھپتا تھا یہ اشارہ اسی طرف ہے محمد اسماعیل) ٭٭٭٭٭٭ تعلیم و تربیت (تہذیب الاخلاق جلد سوم بابت10محرم 1289ھ) ایک مصنف کی ایک بات کو ہم اپنی طرز پر اپنے لفظوں میں بیان کرتے ہیں تعلیم اور تربیت کو ہم معنی سمجھنا بڑی غلطی ہے بلکہ وہ جدا جدا چیزیں ہیں جو کچھ کہ انسان میں ہے اس کو باہر نکالنا انسان کو تعلیم دینا ہے اور اس کو کسی کام کے لائق کرنا اس کی تربیت کرنا ہے مثلاً جو قوتیں کہ خدا تعالیٰ نے انسان میں رکھی ہیں ان کو تحریک دینا اور شگفتہ و شاداب کرنا انسان کی تعلیم ہے اور اس کو کسی بات کا مخزن اور مجمع بنانا اس کی تربیت ہے۔ انسان کو تعلیم دینا در حقیقت کسی چیز کا باہر سے اس میں ڈالنا نہیں ہے بلکہ اس کے دل کی سوتوں کا کھولنا اور اندر کے سرجی چشمے کے پانی کو باہر نکالنا ہے جو صرف اندرونی قوی کو حرکت میں لانے اور شگفتہ و شاداب کرنے سے نکلتا ہے اور انسان کو تربیت کرنا، اس کے لیے سامان کا مہیا کرنا اور اس سے کام کا لینا ہے۔ جیسے جہاز تیار ہونے کے بعد اس پر بوجھ لادنا اور حوض بنانے کے بعد اس میں پانی بھرنا ۔ پس تربیت پانے سے تعلیم کا بھی پانا ضرور نہیں ہے تربیت جتنی چاہو کرو اور اس کے دل کو تربیت کرتے کرتے منہ تک بھر دو مگر اس سے دل کی سرجہ سوتیں نہیں کھلتیں بلکہ بالکل بند ہو جاتی ہیں اندرونی قوی کو حرکت دیے بغیر تربیت تو ہو جاتی ہے مگر تعلیم کبھی نہیں ہوتی اس لیے ممکن ہے کہ ایک شخص کی تربیت تو بہت اچھی ہو اور تعلیم بہت بری۔ یہی ٹھیک ٹھیک حال ہم مسلمانوں کے عالموں اور تربیت یافتہ لوگوں کا ہے کہ تربیت تو نہایت اچھی ہے اور تعلیم کچھ نہیں۔ ظاہر میں دیکھو تو طمطراق بہت کچھ مگر جب اصلیت ڈھونڈھو تو کچھ نہیں۔ بھاری بھر کم تو عمامہ و دستار جبہ اور کرتہ سے بہت کچھ مگر دل کی اور اندرونی قویٰ کی شگفتگی دیکھو تو کچھ بھی نہیں نہایت عمدہ قول ہے کہ کتابوں کا پڑھا دینا تو تعلیم کا نہایت ادنیٰ اور سب سے زیادہ حقیر جزو ہے۔ بلکہ اس قسم کے بہت سے پڑھنے سے جس میں اندرونی قویٰ کی تحریک اور شگفتگی نہ ہو جس قدر دل کے قویٰ کمزور اور ناکارہ ہو جاتے ہیں ایسے اور کسی چیز سے نہیں ہوتے۔ ہم اپنے ہاں کے عالموں کا حال بالکل یہی دیکھتے ہیں کہ ان کے روحانی قویٰ بالکل نیست و نابود ہو جاتے ہیں اور صرف زبانی بک بک یا تکبر و غرور اور اپنے آپ کو بے مثل و نظیر قابل ادب سمجھنے کے اور کچھ باقی نہیں رہتا۔ زندہ ہوتے ہیں مگر دلی اور روحانی قویٰ کی شگفتگی کے اعتبار سے بالکل مردار ہوتے ہیں کتابیں پڑھتے ہیں اور جس قدر عمدہ کتابیں افراط سے بہن پہنچیں ان کو اور زیادہ پڑھتے ہیں اور ان سے تربیت حاصل کرتے ہیں اور ایسے بیل کی مانند ہو جاتے ہیں جو برابر چرتا ہے اور پھر بھی چراگاہ ہی میں رہنے کی خواہش کرتا ہے پس کتابیں پڑھ لینے سے انسانیت نہیں آ جاتی بلکہ وہ کتابی علم خود ان پر بوجھ ہوتا ہے۔ اس تقریر سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ تمام خرابیوں کی جڑ جو ہم پر نازل ہیں یہی ہے کہ ہم نے اپنے دل کو اور اپنے اندرونی قویٰ کو بالکل خراب کر دیا ہے علم جو حاصل کرتے ہیں وہ بھی بعوض اس کے کہ روحانی قویٰ کو شگفتہ و شاداب کرے ان کو پژ مردہ بلکہ مردہ کر دیتا ہے اور ہمارے قویٰ کو جو در حقیقت سرچشمے تمام نیکیوں کے ہیں بالکل کمزور اور ناکارہ کر دیتا ہے۔ اور ہماری حالت تمام معاملات میں کیا دین کے اور کیا دنیا کے خراب ہوتی چلی جاتی ہے پس ہم کو اپنے پر رحم کرنا چاہیے اور ایسی تعلیم کو اختیار کرنا چاہیے جو اندرونی قویٰ کو شگفتہ و شاداب کرے اور دل کی سوتوں کو کھول کر سرجی چشمہ سے پانی باہر نکالے جس سے ہماری زندگی سرسبز و شاداب ہو۔ ٭٭٭٭٭٭٭ تربیت اطفال (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر7 بابت12ذی الحجہ 1287ھ) اگر ہم اس بات پر خیال کریں کہ انسانوں کے عیوب مثل کالے بادلوں کے جمع ہو کر ہم ہی پر برستے ہیں تو دنیا سے انسانوں کے عیوب بہت ہی کم ہو جاویں اور اگر ہم مرے ہوئے لوگوں کی آواز پر کان دھریں اور سمجھیں کہ وہ قبروں میں پڑے ہوئے زبان حال سے کیا کہہ رہے ہیں تو شاید ایک بھی برائی دنیا میں نہ رہے مگر افسوس کہ ہماری آنکھیں اندھی اور ہمارے کان بہرے ہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جب وقت گزر جاتا ہے تو بہت سی باتوں کا پچھتاوا آتا ہے کہ افسوس ہم نے یہ نہ کیا اور وہ نہ کیا اور اس وقت پچھتانے سے کیا ہوتا ہے کیونکہ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا اور لا علاج رنج کا نہایت ہی جانکاہ رنج ہوتا ہے پس اگر ہم ایسے سخت رنج سے بچنا چاہیں تو اس کا علاج صرف یہی ہے کہ موجودہ وقت کو غنیمت جانیں۔ غنیمت داں ہمیں دم کی حالست یہ بات جو ہم نے کہی ٹھیک ٹھیک انسان کی طفولیت کی حالت سے نہایت ہی مناسبت رکھتی ہے اس لیے کہ جو عمر اور وقت تربیت کا ہے جب وہ گزر جاتا ہے تو بجز لا علاج رنج رہ جانے کے اور کچھ نہیں ہوتا اور پھر ان کا نا تربیت یافتہ رہنا مثل کالی گھٹا کے ہم پر کڑکتا ہے اور ہم پر برستا ہے اور کسی کے گھر کو بہا دیتا ہے اور کسی کے خانماں کو جلا دیتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی تمام چیزوں میں قدرتی تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ اور بجز انسان کے ایسی اور کوئی چیز نہیں ہے جس کو اس تبادلہ میں کچھ دخل ہو اگرچہ انسان کو کسی چیز کے پیدا کرنے کی طاقت نہیں ہے مگر اس میں اتنی قدرت ہے کہ بہت سی چیزوں کو اپنے اختیار اور قابو میں کر کر اس قدرتی تبادلہ میں شریک ہو انسان ہی ایک ایسا وجود ہے جو تھوڑا بہت کارخانہ قدرت کے بگاڑنے یا سنوارنے میں دخل رکھتا ہے وہی ایسا ذی عقل اور ذی شعور مخلوق ہے کہ دنیا کی آئندہ رفتار کو روک سکتا ہے یا ترقی کر سکتا ہے یا ابتر و خراب حالت میں ڈال سکتا ہے۔ یہ اقتدار اس ناکامل اور فانی وجود کا جیسا کہ لڑکوں کے تربیت یا نا تربیت رکھنے سے ظاہر ہوتا ہے ایسا اور کسی چیز سے ظاہر نہیں ہوتا جبکہ ہم لڑکوں کی حالت پر غور کرتے ہیں اور ان کی بھولی بھالی اور سیدھی سادھی طبیعتوں کو ہر ایک قسم کے گناہ سے پاک پاتے ہیں اور ہر قسم کی تربیت کی استعداد ان میں دیکھتے ہیں تو ہم کو خدا کی کامل قدرت کا نمونہ دکھائی دیتا ہے اور یقین ہوتا ہے کہ وہ اس ذات کامل کی دلی بخشش کی ہوئی چیزیں ہیں اس کے بعد ایک زمانے تک وہ ہمارے ساتھ رہتی ہیں ہمارے سامنے ان کی عقل فہم کی ترقی ہوتی ہے اور ہماری تعلیم و تربیت ان میں اثر کرتی ہے اور یا تو اچھی اچھی مثالوں کے دیکھنے سے ان میں عمدہ عمدہ عادتیں اور خصلتیں بیٹھ جاتی ہیں اور یا بری بری نظیروں کے دیکھنے سے شروع ہی سے ان میں بد عادتیں اور خراب خصلتیں پڑ جاتی ہیں بہر حال لڑکپن کا موسم نکل جاتا ہے اور جو کچھ کہ لڑکوں نے ہماری صحبت اور تربیت سے نیک یا بد حاصل کیا ہو اس کا ثر دنیا میں رہ جاتا ہے۔ لڑکپن کے زمانے میں جو عمر کہ سات برس سے پندرہ برس تک ہے وہی ایسا زمانہ زندگی کا ہے جس میں آئندہ کی بہبودی کے لیے زیادہ تر کوشش ہو سکتی ہے اس زمانے میں لڑکوں کا دل ہر چیز کا جوئندہ رہتا ہے حافظہ تیز ہوتا ہے قوت غور مضبوط ہوتی ہے اچھی عادتوں کا دیکھنا اور عمدہ عمدہ نظیروں سے تربیت پانا جس کو عموماً نیک صحبت کہتے ہیں نہایت ہی موثر ہوتا ہے یہ زمانہ لڑکوں کے لیے ذہنی و عقلی اور اخلاقی تخم ریزی کا ہوتا ہے کیونکہ اس وقت تعلیم کو دل نہایت جلد قبول کرتا ہے اور اس کے تخم کو جس میں آئندہ نہایت عمدہ عمدہ پھل پھول پیدا ہوں گے بہت جلد اگا دیتا ہے لیکن اگر اس زمانے میں تربیت نہیں ہوتی تو پھر بہت ہی کم فائدہ ہوتا ہے کیونکہ جوں جوں دن گزرتے جاتے ہیں عادت میں مضبوطی آتی جاتی ہے یہاں تک کہ آخر کار عادت طبیعت سے مل جاتی ہے اور طبیعت ثانی کہلاتی ہے جس کا بدلنا نہایت ہی دشوار ہوتا ہے۔ ایک نہایت لائق شخص کا حکیمانہ قول ہے کہ ’’ لڑکپن کی طبیعت کتنی بڑے امراھم کی چیز ہے کہ آئندہ کی بھلائی یا برائی اسی کی احتیاط و غیر احتیاط پر منحصر ہے جو لڑکوں کے مربیوں کی طرف سے ہوتی ہے‘‘ پس جو لوگ کہ قومی تربیت یا قومی ترقی کے خواھاں ہیں ان کا سب سے بڑا کام یہی ہے کہ لڑکوں کی تربیت کے لیے عمدہ انتظام کریں جن سے ہم کو آئندہ کی بہبودی کی توقع ہے ورنہ ہم پر یہی مثل صادق آوے گی کہ ’’ میاں کہیں بوڑھے طوطے بھی پڑھے ہیں‘‘ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں تربیت اطفال کا کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے اور بڑا سبب ان کی حالت کے تباہ ہونے اور اولاد کے نالائق رہنے یا آوارہ ہو جانے کا یہی ہے ہم ان حالتوں کا ذکر نہیں کرتے جن میں اطفال آوارہ اور خراب ہو جاتے ہیں کیونکہ اس کو تو سب برا جانتے ہیں بلکہ ہم اس حالت کا ذکر کرتے ہیں جس میں غلطی سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری اولاد نے خوب تربیت پائی ہے غلطی اس لیے ہے کہ حقیقت میں وہ تربیت عمدہ تربیت نہیں ہے اور یہی سبب ہے کہ ان کو کچھ لیاقت نہیں آتی اور ان کے دل میں اخلاقی فیاضی اور طبیعت کی آزادگی اور دل کی کشادگی نہیں ہوتی تمام قوا جو ان میں خدا تعالیٰ نے رکھے ہیں سب پژ مردہ اور ناکارہ رہ جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان میں وہ قوا جن سے انسان اپنے کسی زمانہ عمر میں نام آور اور دل چلا اور عالی حوصلہ غیرت والا ہوتا ہے باقی نہیں رہتے۔ مسلمانوں میں اگر کسی شخص کی اولاد عوام الناس کے لونڈوں میں کھیل کود سے بچے اور اپنے ہی ہمجولیوں میں رہے اور اپنے یا اپنے ہمسر خاندان کی صحبت اٹھائے اور دو زانو بیٹھنا اور جھک کر سلام کرنا یا عین کو ٹھیک اس کے مخرج سے نکال کر سلام علیک کرنا اور ہاتھ جوڑ کر مزاج شریف پوچھنا سیکھ جاوے تو نہایت سعادت مند اور تربیت یافتہ گنا جاتا ہے اور جب اس کے ساتھ اس کو کچھ لکھنا پڑھنا بھی آتا ہو اور کسی میاں جی یا ملا سے پڑھتا بھی ہو تو وہ تربیت کے کنگورہ پر پہنچا ہوا سمجھا جاتا ہے اور اگر بخت و اتفاق سے اس نے دو چار کتابیں زیادہ پڑھ لیں اور صدرہ شمس بازغہ پڑھنے لگے تو پھر تو باوا جان پھولے بھی نہیںسماتے اور لڑکے کا میاں مولوی اور میاں فاضلی محمد کے سوا اور کوئی نام ہی نہیں لیتے اور اگر ایسا اتفاق ہوا کہ چند تعصبات مذہبی نے ان کا گلا گھونٹا اور نماز پڑھ پڑھ کر ماتھے پر سیاہ گٹا ڈال لیا اور دو چار فقہ حدیث کی کتابیں پڑھ لیں اور مسئلہ مسائل بھگارنے لگے پھر تو وہ عرش سے بھی آگے بڑھ گئے اور شبلیؒ و جنیدؒ کو بھی ٹرخانے لگے۔ مگر صرف اتنا ہی جتنا کہ بیان ہوا کافی نہیں ہے بلکہ مفید تربیت ہونے کے لیے اور بہت کچھ ہونا چاہیے پس اگر غور سے دیکھا جاوے اور انصاف کیا جاوے تو یہ تربیت کچھ تربیت نہیں ہے ایسی تربیت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکوں کے خیالات مثل جانوروں کے خیالات کے محدود ہو جاتے ہیں اور کسی قسم کی ترقی کا مادہ ان میں نہیں رہتا ان کی حرکات مودبانہ صرف ایسے بندر کی سی حرکات ہوتی ہیں جس کو سلام کہنا اور ادب سے بیٹھنا اور کھڑے رہنا سکھایا ہو۔ ان حرکات میں ان اخلاقی اوصاف کا جن سے از خود حرکات انسانی بلا تصنع قدرتی ادب و اخلاق کے مقتضی پر ہوتی ہیں کچھ بھی اثر نہیں پایا جاتا بلکہ انسان میں جو ایک مہذب دلیری اور مودب بہادری اور ممدوح خود داری ہونی چاہیے جس کو مختصر لفظ غیرت سے تعبیر کیا جاتا ہے ایسے ادب سکھانے سے باقی نہیں رہتی اس کی طبیعت بعوض اس کے کہ بلند ہونے پر مائل ہو پست ہونے پر رجوع کرتی ہے جس کا بد اثر اس کی آئندہ عمر میں ظاہر ہوتا ہے پڑھنا لکھنا آ جانے سے اور منطقی یا فلسفی ہو جانے سے کامل تربیت خیال نہ کر لینی چاہیے قطع نظر اس کے کہ علوم غیر مفیدہ کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتے صرف پڑھ لکھ لینے سے تربیت کامل نہیں ہو جاتی بہت سے پڑھے لکھے ایسے موجود ہیں جو بلحاظ تربیت کے محض ایک کندہ نا تراش ہونے سے کچھ زیادہ رتبہ نہیں رکھتے پس تربیت کامل کے لیے جیسا کہ علوم مفیدہ کا پڑھنا شرط ہے ویسا ہی اس کے ساتھ لڑکے کی زندگی کا ایسے طور پر اور ایسی حالت پر بسر ہونا ضرور ہے جس سے روز بروز اس کے خیالات کو وسعت ہوتی جاوے اس کی امنگ بڑھتی جاوے اس کے قوا شگفتہ و شاداب رہیں غیرت جو ایک بڑا جوہر انسان کا ہے اور برائیوں سے بچانے کے لیے نہایت عمدہ اور سچا محافظ ہے ہمیشہ ترقی پر رہے۔ ظاہری اخلاقی اور مودبانہ حرکات اوپر اوپر مثل روغن قاز کے نہ لگائے جاویں بلکہ مثل چشمہ شیریں کے خود اندر سے نکلیں نماز و روزہ اور کتب مذہبی کا پڑھنا فی نفسہ نہایت عمدہ چیز ہے مگر جب اس کی تعلیم ایسے بد طریقے سے ہوتی ہے جیسے کہ اب مسلمانوں میں مروج ہے اس سے بجز اس کے کہ بد تعصبات بڑھ جاویں اور بعوض نیکی اور نیک دلی کے صفات ذمیمہ ترقی پکڑیں اور مثل کانٹے دار سخت پوست کے دل کو گھیر لیں جس میں نیکی اور رحم اور وقت اور ہمدردی سچائی، اور راست بازی مطلق اثر کرنے نہ پائے اور کچھ نتیجہ نہ ہوتا ایسا تربیت یافتہ شخص بجائے اس کے کہ فخر اسلام ہوتا ننگ اسلام ہوتا ہے اس لیے مسلمانوں کو جہاں اپنی اولاد کی تعلیم کی فکر ہونی چاہیے اسی کے ساتھ اس بات کی بھی بہت بڑی فکر لازم ہے کہ زمانہ تربیت اور تحصیل علم میں لڑکوں کی زندگی بسر کرنے کی کیا تدبیر کرنی چاہیے جس سے مقاصد مذکورہ بخوب ترین وجوہ حاصل ہوں۔ کچھ خفا ہونے کی بات نہیں ہے ٹھنڈے دل سے سمجھنا چاہیے کہ مذہبی تعلیم اور پند و نصائح کا اثر صرف دل پر ہوتا ہے یہ ضرور نہیں ہے کہ خواہش پر بھی اس کا ثر ہو اور اس لیے راست باز اور متدین اور پرہیز گار عالی ہمت مستقل مزاج اور رنج و مصیبت میں ثابت قدم ہونے کے لیے یہ بات ضرور ہے کہ لڑکوں کا دل اور ان کی طبیعت ان صفات پر بخوبی حاوی ہو جاوے ورنہ تمام پند و نصائح اور نماز و روزہ نقش بر آب ہوتا ہے اور نہایت جلد سب میں فتور آ جاتا ہے اور تمام زندگی کی امیدیں اور بہبودیاں جاتی رہتی ہیں اور اس کا سبب صرف یہی ہے کہ ان سے کہا گیا پر سمجھنے نہیں دیا کہ فلانی چیز در حقیقت عمدہ ہے اور ہر چیز کی قدر صرف اس کی عمدگی ہی پر منحصر ہے۔ اگرچہ لڑکوں کی تعلیم کا فرض مقدم ان کے ماں باپ پر ہے مگر جیسی تعلیم کہ مطلوب ہے وہ بغیر اس کے کہ تمام قوم آپس میں متفق ہو کر اس کو قائم نہ کرے ممکن نہیں ہے اور اس لیے وہ فرض تمام قوم سے متعلق ہوتا ہے اور کچھ شک نہیں ہے کہ ایسے سامان تعلیم کے موجود نہ ہونے سے تمام قوم گنہگار اور شرمسار ہے اور اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ اب لوگ ہوشیار ہوں گے اور اس فرض کفایہ کے پورا کرنے پر جو بسبب ضرورت و حاجت شدید کے رتبہ میں فرض عین سے زیادہ بڑھ گیا ہے توجہ فرماویں گے۔ واللہ ولی التوفیق وھو حسبی و نعم الرفیق ٭٭٭٭٭٭٭ غیر مفید تعلیم جو تعلیم کے حسب احتیاج وقت نہ ہو وہ غیر مفید ہے ایک عقلمند آدمی کا قول ہے کہ اگر حسب احتیاج وقت لوگوں کی تعلیم و تربیت نہ ہو تو اس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ لوگ اول مفلس اور محتاج اور پھر نالائق اور کاھل اور پھر ذلیل و خوار پھر چور و بدمعاش ہو جاتے ہیں۔ پچھلی حالت تو اب تک مسلمانوں کی نہیں پہنچی اگر اسی طرح زمانہ چلا گیا تو بہت جلد یہ نوبت بھی آ جاوے گی مگر اور سب باتیں تو فضل الٰہی سے ٹھیک ٹھیک پوری ہو گئی ہیں اب یہ بات دیکھنی چاہیے کہ یہ حالت مسلمانوں کی در حقیقت اسی سبب سے ہوئی یا نہیں، مفلسی کا اصلی سبب جہل ہے اور غیر مفید علوم کا عالم اور جاہل اور دونوں برابر ہیں اس لیے کہ ان سے نہ لوگوں کو کچھ فائدہ ہوتا ہے اور نہ وہ خود کچھ اپنا بھلا کر سکتے ہیں۔ بالفعل جو علوم کہ مسلمانوں میں مروج ہیں وہ بلا شبہ غیر مفید ہیں اور حسب احتیاج وقت نہیں اور یہی باعث ان کی مفلسی اور محتاجی کا ہے چنانچہ ہم ان علوم کا مختصر ذکر اس مقام پر کرتے ہیں۔ علم دین اہل مذہب کے لیے علم دین کسی وقت غیر مفید نہیں ہو سکتا اس لیے کہ خود اس کی ذات کو ہر وقت اس کی احتیاج ہے ہاں اس کے مفید یا غیر مفید ہونے سے اس وقت بحث کی جا سکتی ہے جب کہ اس کے فائدہ کا متعدی کرنا یا غیر مذہب والوں کے حملے سے اس کی حفاظت منظور ہو مگر جو طریقہ تعلیم دینیات کا مسلمانوں میں بالفعل رائج ہے وہ ان دونوں پچھلی باتوں میں سے ایک کے لیے بھی مفید نہیں یونانی فلسفہ کا تو زمانہ جس کے مقابلہ کے لیے علم کلام نکلا تھا گیا مگر جو اعتراضات تاریخی اور علمی مذہب اسلام پر زمانہ حال میں وارد کیے جاتے ہیں ان کا جواب تو درکنار شاید ان کے سمجھنے کی بھی لیاقت نہیں ہے اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ زمانہ حال میں دینیات کی تعلیم بھی مسلمانوں میں مفید طریقہ پر نہیں ہے۔ علم لسان اس علم سے سات علم متعلق ہیں لغت، صرف نحو، معانی، بیان، بدیع، انشائ، یہ سب علوم اکثر بزبان عربی اور کبھی بزبان فارسی مسلمانوں میں پڑھائے جاتے ہیں مگر یہ سب علوم فی نفسہ کچھ علوم نہیں ہیں بلکہ حصول علم اور اس کی تدوین اور اس کے بیان کے لیے آلہ ہیں پس اگر علم لسان ذریعہ حصول علوم مفیدہ نہیں ہے تو محض بے فائدہ ہے عربی زبان اس زمانہ میں بجز علم دین کی شق اول کے ار کسی قسم کے مفید علوم حاصل کرنے کے لیے ذریعہ نہیں ہے اور اس لیے سوائے ایک حالت کے اور تمام حالتوں میں وہ علوم محض غیر مفید ہیں۔ علم منطق یہ بلا شبہ مفید ہے مگر فی نفسہ کچھ مفید نہیں بلکہ جب اور علوم مفیدہ کے شامل استعمال کیا جاتا ہے جب مفید ہوتا ہے مگر مسلمانوں میں دو وجہ سے یہ علم بھی غیر مفید ہو گیا ہے اول اس لیے کہ کسی علم مفید کی تعلیم ہی نہیں رہی جس کے ساتھ استعمال میں آنے سے اس علم کو مفید قرار دیا جاوے دوسرے اس لیے کہ اس علم کے اصول نہایت مختصر ہیں جو بکار آمد ہیں مسلمانوں نے اس کو اس قدر غیر مفید طول دیا ہے کہ ایک عمر تصور و تصدیق ہی کی بحث میں گذر جاتی ہے اور نہ کسی کا تصور ہوتا ہے نہ کسی کی تصدیق اور اس لیے اس کو خود غیر مفید کر دیا ہے۔ علم طبعی الٰہی ایک فقرہ ایک لفظ ایک حرف اس علم کا اس زمانہ میں مفید نہیں نہ دین کے کام کا نہ دنیا کے بقول شخصے، نہ لیپنے کا نہ پوتنے کا علم حساب، علم ہندسہ یہ دونوں علم بلا شبہ نہایت مفید ہیں مگر مسلمانوں میں ان کی تعلیم جس قدر مروج ہے وہ کچھ بھی مفید نہیں بڑے سے بڑے عالم وحید العصر اور فرید الدھر جناب مولوی صاحب و قبلہ کو لے لو تحصیلی مکتبوں کا ہوشیار لڑکا ان دونوں علموں کو ان سے بہتر و مفید تر جانتا ہو گا پس جس مقدار سے یہ علوم مسلمانوں میں مروج ہیں اور عمل تقسیم تک خلاصۃ الحساب پڑھ لینے اور تحریر اقلیدس کا مقالہ اول ختم کر لینے پر فضیلت کی پگڑی بندھائی جاتی ہے محض غیر مفید ہیں۔ علم ہیئت ایک اصول اور ایک مسئلہ اس علم کا جو عربی زبان میں ہے صحیح نہیں من اولہ الی آخرہ غلط اور خلاف واقع ہے پس جو چیز کہ غلط اور خلاف واقع ہے وہ کبھی مفید نہیں ہو سکتی پس شرح چغمینی اور مسجطی پڑھنے سے کیا نتیجہ مفید حاصل ہو سکتا ہے ہاں البتہ چہل مرکب ترقی پاتی جاتی ہے۔ علم آلات ہم کیوں اس کا تذکرہ کرتے ہیں اس لیے کہ مسلمانوں میں مروج ہی نہیں مگر دیکھنا چاہیے کہ یہ علم مسلمانوں میں ہے بھی یا نہیں جب بہت تلاش کرتے ہے تو بڑے بڑے عالموں کے کتب خانے میں چند ورق کا رسالہ جرثقیل اور دو یا تین صفحہ کا رسالہ کرہ ار بیس باب کا رسالہ اسطر لاب پاتے ہیں اور جب اور زیادہ تلاش کرتے ہیں اور ملکوں ملکوں میں ڈھونڈتے پھرتے ہیں تو ایک بڑی نام آور کتاب ’’ آلات رصد برجندی‘‘ پاتے ہیں مگر پھر پوچھنا پڑتا ہے کہ اس کو کوئی جانتا ہے؟ تو اس گھسیارہ کے منشی کی طرح جو دیکھتا ہے وہ روتا ہے بہر حال اگر ان کو کوئی جاننے والا دیکھے بھی تو زمانہ حال کے آلات کے مقابل میں محض لغو اور بیہودہ اور غیر مفید خیال کرے۔ علم طب اس علم کا پردہ موت و حیات نے ڈھانک رکھا ہے یعنی جتنے معالج ہیں ان کے علاج سے لوگ مرتے بھی ہیں او رجیتے بھی ہیں مگر جب زمانہ حال کی طب اور اس کے اعمال اور اس کی تحقیقات کا مقابلہ کیا جاوے تو ثابت ہو گا کہ علم طب جو مسلمانوں میں رائج ہے اگر اس میں ترقی نہ کی جاوے تو اس کی کامل فائدہ مندی نہیں ہے۔ اب مسلمانوں کے علوم کی ترکی تمام ہو گئی اور بخوبی ظاہر ہو گیا کہ ان میں کوئی علم مفید مروج نہیں ہے اور یہی باعث ان کی ذلت اور مسکنت کا ہے پس مسلمانوں پر واجب ہے کہ تعصب کو چھوڑیں اور بعد تحقیقات اور مباحثہ کے سلسلہ تعلیم مسلمانوں کا ایسا قائم کریں جو ان کے دین اور دنیا دونوں کے لیے مفید ہو۔ ٭٭٭٭٭٭ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم اور گورنمنٹ ایک زمانہ ہندوستان پر ایسا گذرا ہے کہ بڑے بڑے پولٹیشنوں کی یہ رائے تھی کہ ہندوستانیوں کو علوم جدیدہ اور زبان انگریزی کی اعلیٰ تعلیم دینا نہیں چاہیے بلکہ ان کو ایشیائی علوم میں جو محض بے سود ہیں غلطاں اور پیچاں رہنے دینا مناسب ہے تاکہ ہندوستان کو زیر رکھنے اور ہندوستان کو وحشیوں کی حالت سے آگے نہ بڑھنے اور ان کی آنکھ کے نہ کھلنے دینے کو اس سے بہتر کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ان کے بر خلاف چند نیک دل پالٹیشن ایسے تھے جن کی یہ رائے تھی کہ نہیں ہندوستانیوں کو اعلیٰ تعلیم دینا چاہیے اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو اپنا فرض ان لوگوں کے ساتھ جن پر خدا نے ہم کو حکومت دی ہے ادا نہیں کریں گے۔ چند سال تک پہلوں کی رائے غالب رہی اور ایشیائی علوم اور ایشیائی زبانوں کی تعلیم پر بڑی سرگرمی رہی آخر کار پچھلوں کی رائے غالب آئی جس کا نتیجہ ہندوستان میں یونیورسٹیوں کا قائم ہونا ہے مگر یہ مت سمجھو کہ پہلی رائے معدوم ہو گئی ہے بلکہ اب تک موجود ہے اور ا سکے پھر زندہ ہونے کے آثار معلوم ہوتے ہیں اور کیا عجب ہے کہ وہ پھر زندہ ہو جاوے یا زندہ وہ گئی ہو۔ ہندوستان کی یونیورسٹیاں مثل انگلستان کی یونیورسٹیوں کے اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں دیتی ہیں مگر اس کو اعلیٰ تعلیم کہنا نہایت شرم کی بات ہے۔ اعلیٰ تعلیم صرف چند کتابوں کے پڑھ لینے اور طوطے کی طرح یاد کر لینے اور امتحان دے دینے اور انگریزی میں (آئی ٹلی ٹیل) بول لینے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے سب سے بڑی تعلیم دینے والی عمدہ سوسائٹی ہے جس کا وجود ہندوستان میں نہیں ہے اور شاید صدیوں تک ابھی نہیں ہونے کا ایک دانشمند کا قول ہے کہ انگلستاں میں بچوں اور طالب علموں کو کتاب پڑھنے سے اس قدر تعلیم نہیں ہوتی، جس قدر کہ کان اور آنکھ سے ہوتی ہے۔ تربیت تعلیم کا بہت بڑا رکن ہے مدرسۃ العلوم میں ہم نے طالب علموں کی تربیت پرحتے المقدور کوشش کی ہے مگر انگلستان کے کالجوں اور سکولوں کی سی تربیت تو محال ہے البتہ اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کے اور کالجوں کی نسبت مدرسۃ العلوم میں تعلیم کے ساتھ عمدہ تربیت بھی ہوتی ہے۔ علاوہ اس کے انگلستان کے کالجوں میں ان طالب علموں کے لیے جو اعلیٰ درجہ کی ڈگری پاتے ہیں ان علوم میں ترقی کرنے کو جن کا ان کو مذاق ہے ہزاروں روپیہ سال کی فیلو شپ دی جاتی ہے جس سے وہ فارغ البال ہو کر اس علم میں اعلیٰ درجہ کی ترقی کرتے ہیں اور نئی نئی ایجادوں اور عمدہ عمدہ تصانیف سے ملک کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور علم کو قوم میں شائع کرتے ہیں۔ ہندوستان میں کسی کالج میں اس کا وجود بھی نہیں ہے اور ہندوستان کے طالب علم کچا پکا علم کالجوں سے حاصل کرتے ہیں جو کچھ انہوں نے سیکھا ہے اس میں روز بروز تنزل ہوتا جاتا ہے ہم نے چاہا تھا کہ مدرسۃ العلوم میں فیلو شپ مقرر کرنے کا دستور جاری کریں مگر اس کے لیے سرمایہ بہم نہیں پہنچ سکتا اس سبب سے مجبور ہیں۔ اس بیان سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان میں جو اعلیٰ درجہ کی تعلیم کہلائی جاتی ہے وہ در حقیقت اعلیٰ درجہ کی تعلیم نہیں ہے۔ بلکہ صرف ایک ادنیٰ درجہ کی تعلیم ہوتی ہے مگر جہاں کسی نے کوئی ڈگری یونیورسٹی سے پائی اس نے سمجھ لیا کہ اب میں بہت بڑا عالم ہو گیا کوس لمن الملک الیوم بجانا شروع کر دیا وہ آواز طبل سے کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتی نا واجب آزادی کو وہ اپنا ایمان بناتا ہے اور یہ سمجھتا بھی نہیں کہ آزادی کیا چیز ہے؟ حب الوطنی کا بہت جوش اس کے دل میں اٹھتا ہے مگر وہ نہیں سمجھتا کہ حب الوطنی کیا چیز ہے اور کیونکر ہوتی ہے پالٹیکس میں جو ایک بہت بڑا اور عمیق فن ہے اس میں تو وہ اپنے تئیں لاثانی سمجھتا ہے ہمارے نزدیک یہ نتیجہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم اور تربیت نہ ہونے کا ہے یہ تمام باتیں صرف انہیں لوگوں میں نہیں ہوتیں جنہوں نے یونیورسٹی کی کوئی ڈگری پائی ہے بلکہ ان طالب علموں میں بھی جنہوں نے اے، بی، سی، ڈی شروع کی ہے شور و شغب کرنا اور گورنمنٹ کی ہر ایک بات میں مخالفت کرنا اور ملک میں غل مچاتے پھرنا۔ ان کا شیوہ ہو جاتا ہے جیسے کہ اس زمانہ میں کانگریس والوں کا شیوہ ہے اگر یہی نتیجہ انگریزی تعلیم کا ہے تو ہم کو خوف ہے کہ ان پرانے پالٹیشنوں کی رائے پھر زندہ ہو جاوے گی اور اس رائے کا زندہ کرنا گورنمنٹ کا فرض ہو جاوے گا اور زیادہ تر مسلمان طالب علموں کا نقصان ہو گا جنہوں نے ابھی چند روز سے انگریزی تعلیم پر کسی قدر توجہ کی ہے۔ بنگالیوں میںدکن کے برہمنوں میںپارسیوں میں بہت کثرت سے ایسے لوگ ہو گئے ہیں جو اپنی قوم کے برے بھلے لوگوں کو سنبھال سکیں گے لیکن مسلمانوں کی ایسی حالت نہیں ہے اگر مسلمان طالب علموں نے بھی ویسا ہی طریقہ اختیار کیا جیسا کہ ان قوموں کے طالب علموں نے اختیار کیا ہے تو ان کا دین اور دنیا میں کہیں ٹھکانہ نہیں رہنے کا۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ پنجاب میں جو حضور ملکہ معظمہ قیصرہ انڈیا کا اسٹیچو قائم کرنے کی تجویز ہوئی تھی اس میں کیا امر تھا جو اس قدر شور و غوغا کیا گیا اور ایسا طریقہ برتا گیا جو تہذیب کے بالکل برخلاف تھا۔ چند لوگوں نے یہ تجویز قرار دی تھی کہ ملکہ معظمہ قیصرہ انڈیا کا اسٹیچو لاہور میں قائم کیا جائے جو لوگ اس کے بانی تھے انہوں نے اس تجویز کو قطعی قرار دے دیا تھا اور عام مجمع میں اس تجویز کو اس لیے پیش کیا تھا کہ جو لوگ اس کو پسند کرتے ہوں اس میں شریک ہوں اور جو لوگ اپنا روپیہ اس سے بہتر اور مفید کام میں لگانا چاہتے ہوں ان کو اختیار کلی تھا کہ وہ اس میں شریک نہ ہوں اور چندہ نہ دیں پس کوئی وجہ شور و شغب کرنے اور بے تہذیبی برتنے کی نہ تھی سیدھی بات تھی کہ جن لوگوں کا خیال کسی دوسرے مفید کام کی طرف تھا اس کے چندہ میں شریک نہ ہوتے ہمارے نزدیک سچی اور حقیقی اعلیٰ تعلیم پائے ہوئے لوگ اس مجمع میں ہوتے تو نہایت خاموشی سے ان لوگوں کی تقریر سنتے اور پھر ان کو اختیار تھا کہ اس میں شریک ہوتے یا نہ ہوتے مگر جو کچھ اس مجمع میں ہوا۔ اس کے ہونے کا موقع نہیں تھا ہم تو اپنے کالج کے مسلمان طالب علموں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ کسی پولیٹکل مباحثہ میں کبھی نہ پڑیں۔ پولیٹکل امور میں کسی کالج کے طالب علموں کا کام نہیں ہے بلکہ ان کو اپنے تحصیل علوم میں مشغول رہنا چاہیے پولٹیکل امور ایسے نازک اور باریک ہیں کہ بڑی معلومات اور وسیع علم اور بہت سے تجربوں کے بعد اس میں رائے لگانے کا موقع ملتا ہے جن کے معلومات نہایت محدو دہیں جن کا علم ابھی کچا ہے وہ کیا رائے اس کی نسبت لگا سکتے ہیں ۔ بہت لوگوں کا خیال ہے کہ جب مسلمان بھی اس قدر تعلیم یافتہ ہو جاویں گے جس قدر کہ بنگالی ہیں تو وہ بھی ان کے ساتھ ہو جاویں گے اور تعلیم وک ایسا ہی بدنام کریں گے جیسا کہ انہوں نے کیا ہے اگرچہ ہم مسلمانوں کی تعلیم کے دل سے خواھاں ہیں لیکن اگر اس تعلیم کا وہی نتیجہ ہو جو اور قوموں میں ہوا ہے تو خود ہم کو مسلمانوں کی تعلیم پر کوشش کرنے کا افسوس ہو گا اور ہمیں کہنا پڑیگا کہ۔ بیشک ایں فتنہ است خوابش بردہ بہ مگر ہم کو اپنے کالج کے مسلمان طالب علموں سے ایسی توقع نہیں ہے ان کو تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہوتی ہے وہ ہر گز گورنمنٹ کی مخالفت پر کمر نہیں باندھیں گے اور گورنمنٹ کی پالیسی کو سمجھیں گے اور جانیں گے کہ گورنمنٹ کو کیا کیا مشکلیں پیش آتی ہیں اور وہ کس خوبی اور عمدگی سے ان کو حل کرتی ہے اور جہاں تک ممکن ہے رعایا کی آسودگی اور بہبودی اور خوشحالی میں کوشش کرتی ہے اور اگر ہم زیادہ تر لائق زیادہ تر وفادار، زیادہ تر قابل اطمینان گورنمنٹ کے ہوں گے تو زندگی زیادہ آسائش سے بسر کریں گے پس یہی طریقہ ہمارے مسلمان طالب علموں کو اختیار کرنا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭٭ ہماری تعلیم ہماری زبان میں (تہذیب الاخلاق بابت1298ھ صفحہ133تا138) یہ خیال بہت پرانا ہے کہ اگر ہماری تعلیم ہماری زبان میں ہو تو ہمارے لیے اور ملک کی ترقی کے لیے زیادہ تر مفید ہے لارڈ میکالے سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس پر بہت کچھ عمل کیا تھا۔ کلکتہ میں ایک سوسائٹی کتابوں سے ترجمے کے لیے قائم کی تھی۔ اور بہت سی کتابیں ترجمہ بھی کی تھیں جن کا اب کہیں نشان بھی نہیں ملتا پھر دھلی کالج میں اس پر ہمت مصروف ہوئی اور زر کثیر ترجموں پر اور ان کے چھاپنے پر خرچ ہوا اب وہ کتابیں جہاں دستیاب ہوتی ہیں ردی کی قیمت سے بھی کم قیمت ہیں۔ پھر بانیان سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ نے اس مسئلہ کو نہایت اہم سمجھا اور وہ سوسائٹی اس مقصد سے قائم کی کہ علوم و فنون کی کتابیں اپنی زبان میں ترجمہ ہو کر شائع ہوں مگر وہ بھی کامیاب نہ ہوئی۔ پنجاب یونیورسٹی کالج کا جو منشاء ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ بہت پرانی بات ہے جس کو مدت ہوئی کہ اختیار کیا گیا تھا اور تجربہ کے بعد بے سود سمجھ کر چھوڑ دیا گیا تھا اس وقت جو کتابیں ورنیکلر میں صاحبان ڈائریکٹرز بنگالہ اضلاع شمال و مغرب پنجاب اور یونیورسٹی کالج لاہور نے شائع کی ہیں ان کا رواج صرف گورنمنٹ اسکولوں میں محدود ہے جہاں وہ حکماً پڑھائی جاتی ہیں اور اس کے سوا کچھ بھی ان کے قدر نہیں ہے ہر ایک ملک کے کوریڑ بک ڈپو کا دفتر اس بات کو بتا سکتا ہے کہ ملک میں ان کا رواج کس قدر ہوا ہے غالباً کوئی کتاب بھی اس طرح شائع نہیں ہوئی ہو گی جس کی نسبت کہا جاوے کہ ملک میں اس کا رواج ہوا ہے اس کا سبب یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک تعلیم سے خالی ہے اورجب تعلیم یافتہ اشخاص ملک میں نہیں ہیں تو کتابوں کا شیوع نا ممکن ہے ہم دل سے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں مگر اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ورنیکلر میں کتابوں کی موجودگی ملک کو تعلیم یافتہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی اور مزید برآں یہ کہتے ہیں کہ مشرقی علوم یا زبان کی ترقی یا ان میں علمی کتابوں کا ترجمہ ہم کو تعلیم یافتہ(بشرطیکہ تعلیم سے بر زینہ کیسی تعلیم مراد نہ لی جائے) نہیں بنا سکتا۔ نہایت زور آور یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ تمام دنیا میں کوئی ملک ایس انہیں ہے جس نے اپنی دیسی زبانوں اور دیسی علوم میں ترقی کیے بغیر عزت اور دولت، حشمت و حکومت حاصل کی ہو۔ یہ دلیل اور اس قسم کی بہت سی دلیلوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ سائنٹیفک سوسائٹی کے اخبار اور اس کی روئدادوں اور مباحثوں میں کی گئی ہیں دیسی علوم کے معنی تو ہم نہیں جانتے مگر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اور بارہا تسلیم کر چکے ہیں کہ جن ملکوں نے اس زمانہ میں اعلیٰ درجہ کی ترقی کی ہے اس کا بڑا سبب یہی ہے کہ انہوں نے تمام علوم و فنون کو اپنی زبان میں کر لیا ہے مگر جن ملکوں نے ایسا کیا ہے ان میں اور ہندوستان میں بہت بڑا فرق ہے ان ملکوں میں ایک ہی قوم اور ایک ہی زبان حکومت کرتی ہے مگر ہندوستان میں نہ ہندوستانی حکومت کرتے ہیں نہ یہاں کی زبان حکمران ہے۔ پھر ان ملکوں پر ہندوستان کا قیاس ایک بہت بڑی غلطی ہے دنیا میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں پائی جاتی کہ جہاں حاکم و محکوم مختلف زبان اور دیسی قوم، مختلف زبان مختلف خیالات کے ہوں اور انہوں نے اپنی دیسی علوم (جو کچھ کہ اس کے معنی ہوں) اور اپنی پرانی شائستگی کو ترقی دینے سے عزت و دولت و حشمت و حکومت حاصل کی ہو۔ انگلینڈ و سکاٹ لینڈ کی در حقیقت مختلف زبانیں ہیں اور اسکاچ زبان اب بھی اسکاٹ لینڈ میں بولی جاتی ہے مگر ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کسی اسکاچ مین کو یہ خیال پیدا ہوا ہو کہ وہ اپنی دیسی زبان اور دیسی علوم کو (جو کچھ کہ اس کے معنی ہوں) ترقی دے کر عزت و دولت و حشمت و حکومت حاصل کرے گا آئرلینڈ کے باشندے اگر یہی خیال رکھتے تو ان میں ایک شخص بھی ایسا لائق اور نامی پیدا نہ ہوتا جیسے کہ ہوئے خود ہمارا ہندوستان ہی اس کی نظیر کے لیے کافی ہے جب غیر قوم یعنی مسلمانوں نے ہندوستان کو فتح کیا تو یہاں کے باشندوں میں سے وہی لوگ بر سر عرضہ اور حکومت میں شریک ہوئے جنہوں نے ان کے علوم، ان کی زبان، ان کے سے خیالات، ان کا سا تمدن، ان کا سا لب و لہجہ، ان کی سی روشنی اختیار کی ہندوستان میں اس خیال کا پید اکرنا کہ ہم مشرقی علوم اور دیسی زبان اور دیسی علوم کو (جن کو ہم نہیں جانتے) ترقی دے کر عزت و دولت و حشمت و حکومت حاصل کریں گے بعینہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی امریکہ کے اصل باشندوں کو خیال دلائے کہ تم اپنی دیسی زبان اور دیسی علوم میں (جو کچھ کہ ہوں) ترقی کر کے اپنے حکمران قوم میں عزت و دولت و حشمت و حکومت حاصل کرو گے۔ قومی ترقی اور حکومت دونوں ماں جائی بہنیں ہیں جب کسی قوم میں حکومت نہ رہے تو اس کی ترقی صرف اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنی فتح مند قوم کے علوم و زبان حاصل کرنے سے اپنے فتح مندوں کے ساتھ ملکی حکومت میں حصہ لے علوم کی ان شاخوں میں اعلیٰ درجہ کی لیاقت پیدا کرے جن میں ان فتح مندوں نے کاملیت حاصل کی ہے سوشل عادات اور عملی و علمی و ملکی خیالات اس قسم کے پیدا کرے جو فاتح و مفتوح میں کسی درجہ تک مناسبت پیدا کریں۔ جب تک فاتح و مفتوح میں اس قسم کی مناسبت پیدا نہ ہو اس وقت تک باہمی دوست کا برتاؤ محالات سے ہے۔ اسی مناسبت کے نہ ہونے سے آج تک ہندوستان میں فاتح و مفتوح کا باہم دوستانہ برتاؤ نہیں ہے۔ خوشامد کی باتیں جو چاہے کہہ لے اور پولیٹکل طریقہ میں جو کچھ بیان کرنا ہو کیا جاوے مگر ہندوستانیوں کا حال اپنی فتح مند قوم کے ساتھ غلامی کی حالت سے کچھ ہی زیادہ ہے ہم اس کا الزام اپنی فتح مند قوم کے ذمہ نہیں دھرتے بلکہ خود اپنی قوم کے ذمہ ڈالتے ہیں کہ اس نے خود اپنے تئیں اس لائق نہیں بنایا کہ ہماری فتح مند قوم ہم سے دوستانہ برتاؤ کر سکے پھر علوم مشرقی کی ترقی اور چھوٹی موٹی ترجمہ کی ہوئی کتابیں ہم کو کیا نتیجہ دیں گی اور ہم کو کونسی عزت و دولت و حشمت و حکومت بخشیں گی۔ یونیورسٹی کالج لاہور نے اب تک ہم کو کس نتیجہ پر پہنچایا ہے جو آئندہ پوری یونیورسٹی ہو کر مردہ علوم مشرقی کو زندہ کر کے اور ہماری پرانی شائستگی کو پھر پیدا کر کے ہم کو پہنچاوے گی کچھ شبہ نہیں کہ یونیورسٹی کالج اب بھی ہماری ترقیوں کا سد راہ ہے اور جب وہ یونیورسٹی ہو جاوے گا اور ضرور ہو جاوے گا تو ملک کے لیے، قوم کے لیے، ملکی ترقی کے لیے، قومی ترقی کے لیے آفت عظیم ہو گا۔ ہم پر احسان رکھ کر ہم کو دھوکہ میں ڈالا جاتا ہے کہ ہم تمہارے مشرقی علوم و تمہاری مشرقی زبان کی ترقی دیتے ہیں مگر ہم پوچھتے ہیں کہ کیوں اور کس مطلب سے؟ اس کا جواب کسی پیرایہ میں کیسے ہی میٹھے لفظوں میں دیا جائے اس کا نتیجہ یہی ہے کہ غلامی کی حالت میں رکھنے کے لیے۔ گورنمنٹ نے ہمارے لیے سول سروس میں داخل ہونے کا رستہ، گو اس میں کیسی ہی مشکلات پڑ گئی ہوں ابھی تک کھلا رکھا ہے بیرسٹری کی سند، ڈاکٹری کا ڈپلومہ، انجینئری کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے کوئی امر ہم کو مزاحم نہیں ہے۔ ہندوستان میں انڈین سول سروس کے عہدے کو جس میں ہماری بدبختی سے ابھی تک چندان قابلیت کی ضرورت نہیں سمجھی گئی ہے جانے دو مگر ہائی کورٹ کی ججی حاصل کرنے سے ہماری امیدیں ابھی منقطع نہیں ہوئی ہیں۔ ہندوستانیوں کا کونسل قانونی میں داخل ہونا ابھی تک بند نہیں ہوا ہے۔ ہم کو سمجھنا چاہیے کہ ان حقوق کے واجبی طور سے حاصل کرنے کے لیے ہم کو کیا کرنا ہے؟ کیا مشرقی مردہ علوم کو زندہ کرنے والی یونیورسٹی؟ کیا ہماری پرانی شائستگی کو پھر ہمارے لیے مہیا کرنے والی تجویز؟ معمولی عہدے بھی جیسی وکالت و منصفی و سب ججی ہے بغیر انگریزی زبان کی لیاقت کے ہم کو میسر نہیں آ سکتی۔ پھر کیا مردہ علوم مشرقی کے زندہ ہونے اور ہماری مشرقی زبانوں کی ترقی سے ہم کو کچھ نتیجہ مل سکتا ہے یونیورسٹی کالج لاہور جو پوری یونیورسٹی ہونے والا ہے بجز اس کے کہ ہم کو سیدھی راہ چلنے سے روکے ہم کو ہمارے حقوق سے محروم رکھے ہم کو اس لائق نہ ہونے دے کہ ہم اپنے حقوق کا دعویٰ کر سکیں ہمارے حق میں اور کیا کر سکتا ہے؟ ہم کو ایسا لائق ہونا چاہیے کہ ہم دور دراز اور مختلف ملکوں کے سفر کرنے سے قابل ہوں ہم بساطی کی سی دکانداری سے نکلیں ہم اپنی اور اپنے ملک کی تجارت کو ترقی دیں ہماری تجارت کی محمدن اینڈ ہندو کمپنی کے نام سے کوٹھیاں لندن میں ایڈنبرا میں، ڈبلن میں، برسلز میں، سنیٹ پیٹرز برگ میں، برلن وائنا میں، قسطنطنیہ میں، پیکن میں، واشنگٹن میں اور دنیا کے تمام حصوں میں قائم ہوں۔ ہم بحری و بری سفر کو اسی طرح خوشی سے کریں جیسے کہ قومیں کرتی ہیں جس سے ہم کو عزت، دولت، حشمت اور حکومت میں شرکت حاصل ہو،پھر کیا ہمارے مردہ مشرقی علوم کا زندہ ہونا اور مشرقی زبانوں کا ترقی دینا ہماری پرانی شائستگی کو پھر قائم کرنا ہم کو اس قابل بنائے گا؟ ہر گز نہیں۔ پس ہم کو علوم مشرقی کے زندہ کرنے اور مشرقی زبانوں کے ترقی دینے کے جال میں پھنسانا صاف ایسی تدبیریں کرنا ہے کہ جہاں تک ہو سکے ہم کو ہماری ترقیات حاصل کرنے سے روکا جائے جو لوگ کہ دور اندیش ہیں وہ کبھی ایسی پالیسی کو پسند نہ کریں گے اور اس میں ہندوستان کی فلاح نہ تصور کریں گے بلکہ اپنے حق میں، ہندوستان کے حق میں، گورنمنٹ کے حق میں شدید مضر سمجھیں گے۔ ہم کو سر الیگزنڈر اربتھناٹ کلکتہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی گفتگو بھولی نہیں ہے جبکہ انہوں نے کہا تھا کہ ’’ وہ تجویزیں جن سے یونیورسٹی کے سند یافتہ لوگوں کو اس قدر فائدہ پہنچا بغیر ایک بڑے مباحثہ اور اختلاف رائے کے انجام کو نہیں پہنچیں ۔ اس سوال کے ہر پہلو پر سخت تکرار و بحث واقع ہوئی اس مضمون پر اولاً بحث ان دو فریقوں میں واقع ہوئی جن کو بطور اختصار کے اورینٹلسٹ اور یورپین کہتا ہوں اورینٹلسٹ سے مراد وہ لوگ ہیں جو یہ چاہتے تھے کہ تعلیمی سرمایہ صرف مشرقی زبانوں اور قدیمی فنون کی تعلیم میں صرف کیا جائے اور یورپین سے وہ لوگ مراد ہیں جو یہ کہتے تھے کہ یورپین لٹریچر اور علوم جدیدہ بالتخصیص انگریزی زبان کی وساطت سے سکھائے جائیں‘‘ پس حامیان لاہور یونیورسٹی بجز اس کے کہ اس متروک طریقہ کو جودر حقیقت ہمارے لیے مضر ہے پھر زندہ کرنا چاہتے ہیں اور کیا منشاء رکھتے ہیں۔ کیا اس نیک دل اور ہندوستان کے دوست سر الگزنڈر اربتھناٹ کے اس فقرہ کو ہم بھول جاویں گے کہ ’’ مگر اس اعلیٰ تعلیم کے بارے میں جن کی ترقی کی نظر سے ہماری یونیورسٹیاں قائم ہوئی ہیں ہم کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ وہ قضیہ اور مباحثہ بالکل ختم ہو گیا ہے اب اس مخالفت نے دوسری شکل اختیار کی ہے اور اب یہ اکثر بیان کاے جاتا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم جو ہمارے کالجوں اور اسکولوں میں دی جاتی ہے پولٹیکل ناراضی پھیلانے کی باعث ہوتی ہے‘‘ سرالگزنڈر نے کہا کہ ’’ اگر میری بھی یہ رائے ہوتی تو میں اس عہدہ پر نہ ہوتا جس سے مجھ کو یونیورسٹی نے افتخار بخشا ہے‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ جس قدر زیادہ مکمل تعلیم ہندوستانیوں کو دی جائے گی اسی قدر وہ زیادہ گورنمنٹ انگریزی کی قدر کرنے کے لائق ہوں گے‘‘ پس پنجاب یونیورسٹی اگر وہ قائم ہو جائے تو ہمارے حق میں بجز اس کے کہ ہمارے اعلیٰ درجہ کی یورپین تعلیم کو برباد کر دے اور پالیسی پر عمل کرے جو ہمیں برباد کرنے والی ہے اور کیا کرے گی۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یونیورسٹی کی تعلیم نے بعض تعلیم یافتہ لوگوں کو زیادہ دلیر کر دیا ہے اور انہوں نے نہایت سخت اور بعض اوقات نہایت بے جا اور نا واجب اور نا منصفانہ نکتہ چینی گورنمنٹ پر کی ہے مگر ہم دل سے یقین رکھتے ہیں اور گورنمنٹ کو بھی یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہی تعلیم یافتہ ناراض نکتہ چین جس قدر گورنمنٹ انگریزی کے قدر دان ہیں شاید دوسرا کوئی نہ ہو گا۔ پس نکتہ چینی کے اندیشہ سے ہماری تعلیم کو برباد کرنا ہمارے حق میں کچھ انصاف نہیں ہے ہم کو بالغ العلوم اور ملک العلوم کے خطاب دینا اور پیر نا بالغ کے درجہ پر رکھنا ہم کبھی پسند نہیں کر سکتے۔ ہمارے لیے سیدھا رستہ کھلا ہوا ہے کہ جہاں تک ہم سے ہو سکے یورپین لٹریچر اور یورپینس ینز میں اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی ترقی کریں جہاں تک ہم کو یونیورسٹی کے سچے خطاب حاصل ہو سکتے ہیں حاصل کریں اور جب اس سے بھی زیادہ ہم میں ہمت ہو آکسفورڈ و کیمبرج کی یونیورسٹی میں تعلیم کو جائیں۔ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی ڈگریاں حاصل کرنے میں کوشش کریں۔ اپنے تئیں مہذب و تعلیم یافتہ جنٹلمین اس کے اصلی و حقیقی معنوں میں بنائیں اور جو فیض تعلیم و تربیت و تہذیب ہم نے ان مہذب ملکوں میں حاصل کیا ہو اس کو اپنے ہم وطنوں اور ہم قوموں میں پھیلائیں بے شک ہم کو ایسا کرنے میں بہت مشکلات ہیں ادھر ہم کو اپنی قوم کی جہالت و تعصب سے مقابلہ کرنا ہے اور ادھر اپنی فتح مند قوم کے ان تنگ دل لوگوں کی مزاحمت کا برداشت کرنا ہے جو ہمارے سوشل، پولٹیکل حالت کی ترقی اپنی طبعتی تنگ دلی کے بر خلاف سمجھتے ہیں ہماری انگلش لائف، انگلش تمدن، جنٹلمین کے سے اخلاق یہاں تک کہ ہمارے تغیر لباس سے بھی وہ ایسے ناراض ہوتے ہیں اور چشم خشم آلود سے ہم کو دیکھتے ہیں جیسے کوئی ایک نہایت نیک دل بڑے مجرم کو دیکھتا ہو مگر ہم کو اپنی اور قوم کی بھلائی پر نظر رکھنی چاہیے اور جو تکالیف اور مشکلات ہم کو پیش آویں نہایت تحمل و پختہ مزاجی سے برداشت کرنی چاہئیں مگر ہم اس بات کو مخفی رکھنا نہیں چاہتے کہ گریٹ رفارمر یعنی زمانہ ان باتوں کو ضرور ہونے دے گا اور کوئی مزاحمت اور کوئی ناخوشی و خفگی اس کو روک نہیں سکے گی مگر بے شک یہ تنگ دلی کے خیالات ناراضی کو ترقی دینے والے اور فاتح و مفتوح میں ہمدردی و محبت کو توڑنے والے ہیں۔ ٭٭٭٭٭٭٭ ہماری زبان اور ہماری اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہمارے دو آرٹیکلوں نے جو اس آرٹیکل سے اوپر چھپے ہیں ہمارے پنجاب کے دوستوں کو گھبرا دیا ہے بلکہ کسی قدر رنجیدہ کر دیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان آرٹیکلوں سے ہم کو بالتخصیص پنجاب یونیورسٹی پر حملہ کرنا مقصود ہے اور اپنے حسن ظن سے اس کی بنیاد حسد پر قائم کی ہے ہم کو افسوس ہے اگر یہ کمینہ خصلت ہم میں ہے پنجاب یونیورسٹی جس کے اصول سے بلا شبہ ہم مختلف الرائے ہیں اگر وہ یونیورسٹی وہ جائے تو ملک کو اور ایسے وسیع ملک کو جس میں تین اور یونیورسٹیاں موجود ہیں کوئی معتد یہ نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اگر وہ صحیح اصول پر قائم ہوتی ہے اور اس سے ملک کو برخلاف ہماری رائے کے فائدہ پہنچنے والا ہے چشم ما روشن ہماری عین خوشی ہے کہ ملک کو فائدہ پہنچے اور ہماری رائے غلط ثابت ہو اور اگر وہ در حقیقت ملک کو فائدہ پہنچانے والی نہیں ہے تو اس کو ہونے دو اس سے مخالفت کی کچھ ضرورت نہیں ہے خود اس میں ناکامی کا بیج ہے اور وہ آپ ہی ناکام ہو جائے گا۔ ہمارا مقصد صرف اپنی قوم کو متنبہ کرنا ہے کہ در حقیقت کیا چیز اس کے لیے مفید اور اس کی ترقی کے لیے بکار آمد ہے اور گورنمنٹ کو اس بات کا جتلانا ہے کہ ہماری ترقی کے لیے اس کو کیا کرنا ہے عام تعلیم ہماری بحث سے خارج ہے کیونکہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ عام تعلیم کے لئے ہماری زبان نہایت عمدہ وسیلہ ہے جو تحصیلی و دیہاتی مکتبوں میں محدود رہنی چاہیے ہم اس بحث کو بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ ہماری زبان میں علوم و فنون کے ترجمہ سے ہم کو اعلیٰ درجہ کی ترقی تعلیم میں ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اگر بالفرض ہو بھی سکتی ہو تو اس کا نتیجہ کیا ہے؟ بنارس کالج نے سنسکرت زبان کی ترقی پر بہت کچھ توجہ کی مگر وہ ایک کو بھی سنسکرت میں ان پنڈتوں کی برابر نہیں بنا سکا جو دھوتی باندھے کمری پہنے منکنکا اور شیوالہ گھاٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنی مقدس زبان سنسکرت کو تحصیل کرتے ہیں اس کی تحصیل سے ملک کو بجز اس کے کہ بنارس میں دس پانچ منگتا پنڈت اور زیادہ ہو گئے کیا نتیجہ حاصل ہوا؟ یونیورسٹی کالج لاہور نے بلخ و بد خشاں کے طالب علموں کو جو کچھ تعلیم دی ہو ہم کو اس کا حال معلوم نہیں مگر آج تک اس نے ایک کو بھی عربی یا فارسی میں ان لوگوں کی برابر نہیں بنایا جنہوں نے مسجد کے چبوتروں اور خانقاہ کے تنگ و تاریک حجروں میں بیٹھ کر اور درود و فاتحہ کی روٹیوں پر گذران کر کے عربی اور فارسی کو تحصیل کیا اور اعلیٰ درجہ کا تبحر اس میں پیدا کیا مگر اس کا نتیجہ بجز اس کے کہ مردوں کی روٹیاں کھانے والے زیادہ ہو گئے ملک کو کیا فائدہ پہنچا؟ اگر پنجاب یونیورسٹی قائم ہو جائے اور ہم کو علوم مشرقی میںدیسی ہی تعلیم دے (گو دیسی تعلیم بھی ممکن نہیں) تو بجز اس کے کہ چند بھکاری اور چند فاتحہ کی روٹی کھانے والے ملک میں زیادہ ہو جائیں اور کیا نتیجہ ہو سکتا ہے ہم کو صاف صاف بتاؤ کہ لاہور یونیورسٹی کالج نے جن لوگوں کو انٹرنس میں پاس ہونے کی سندیں عطا کیں ہیں پروفشینسی اور ہائی پروفشینسی کے خطاب مرحمت فرمائے ہیں وہ کس مرض کی دوا ہیں اور ان سے ملک کو قوم کو اس کی دولت کو اس کی حکومت کو اس کی تجارت کو اس کے اخلاق کو اس کی روشن ضمیری کو اس کے وسعت خیالات کو کیا فائدہ پہنچا ہے یا آئندہ پہنچ سکتا ہے؟ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ اس تعلیم سے مقصد ہی یہ ہے کہ ایسے نہ ہونے پائیںتو سب کچھ تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ ہم کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ خود ہم نے اسی اصول پر سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی تھی اور بہت کچھ مباحثہ اور تکرار گورنمنٹ سے کی تھی اور اب ہم اس کے بر خلاف ہیں ہاں یہ بات سچ ہے اور جس قدر مباحثہ ہم نے کیا جو ہماری سوسائٹی کے دفتر میں موجود ہے اور بہت سے کاغذوں میں چھپ چکا ہے ابھی اس قدر مباحثہ و استدلال پنجاب یونیورسٹی کے طرفداروں نے نہیں کیا۔ مگر اس زمانہ میں اور حال کے زمانہ میں زمین آسمان کا فرق ہے سائنٹیفک سوسائٹی کی بنا کو پڑے اٹھارہ انیس برس کے قریب زمانہ گذرا وہ زمانہ وہ تھا کہ اس کے تھوڑے عرصہ پیشتر ہماری ملکہ معظمہ قیصرہ ہند نے سلطنت ہند کا اختیار اپنے ہاتھ میں لیا تھا اور اہل ہند کو مطلق معلوم نہ تھا کہ کس سے ہمارا تعلق چھوٹا اور کس سے ہمارا تعلق ہوا اور اس تبدیلی نے جو بظاہر صرف نام کی تبدیلی تھی اہل ہند کو کن کن حقوق کا مستحق کیا اور ان حقوق کے حاصل کرنے کو انہیں اپنے تئیں کس درجہ تک لائق بنانا ضروری ہے وہ زمانہ وہ تھا کہ اس میں انگریزی علوم کی حاجت نہ تھی یا یوں کہو کہ قدر نہ تھی تمام عدالتوں میں دیسی زبان مروج تھی اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں کے لیے ادنیٰ درجہ کی مشرقی تعلیم کافی تھی۔ ہندوستانیوں کو خیال بھی نہ تھا کہ ہم کوئی ایسا عہدہ بھی پا سکتے ہیں جو ہماری فتح مند قوم کے نوجوانوں یا تجربہ کار حکام کو مل سکتے ہیں اس زمانہ میں ریل و تار برقی کو کروڑوں ہندوستانیوں نے دیکھا بھی نہ تھا اور جو خیالات تجارت و ترقی کے اب پیدا ہوتے ہیں وہ اس زمانہ میں کسی کے خیال میں بھی نہ تھے سمندر کے سفر سے بجز ان حاجیوں کو جو نہایت ابتر و خراب حالت سے سفر کرتے تھے اور جس میں ڈوبنا بہ نسبت سلامت پہنچنے کے زیادہ یقین کے قابل تھا کوئی جانتا بھی نہ تھا اس زمانہ کے مناسب حال بلا شبہ ایک شخص کو جو سچے دل سے اپنی قوم و ملک کی ترقی کا خواہاں ہو اس خیال کا پیدا ہونا کہ ہم دیسی زبان کے ذریعہ سے اپنے ملک و قوم کو ترقی دیں نہایت واجب اور سچا خیال ہو سکتا ہے مگر رفتہ رفتہ تمام حجاب رفع ہوتے گئے اور خود زمانہ نے بتا دیا کہ کدھر جاتے ہو اور ٹھیک رستہ کدھر ہے۔ زمانے میں کچھ خفیف تبدل نہیں آیا بلکہ ایسا تبدل آیا جو آنکھ سے دکھائی دیتا ہے تربیت یافتہ لوگوں نے ہی نہیں بلکہ عام لوگوں نے بھی اس کو بخوبی دیکھا ہے ہم مثالاً اپنے ملک کی بڑی عدالت کا ذکر کرتے ہیں جبکہ صدر عدالت ہائی کورٹ نہیں ہوتی تھی۔ مشرقی علوم اور مشرقی زبان کے نہایت ذی علم و لائق شخص وکالت کرتے تھے اور ایسے کامیاب تھے کہ زمانہ ان پر رشک کرتا تھا وہ نام کے مولوی عالم اور مولوی فاضل نہ تھے بلکہ حقیقۃ مشرقی علوم اور مشرقی زبان کے ایسے عالم تھے کہ پنجاب یونیورسٹی کالج کو ان سے آدھا بھی پیدا کرنا نہایت مشکل ہے دفعۃ سنہ 1866ء میں صدر عدالت ہائی کورٹ عدالت ہو گئی اور یورپین علوم اور یورپین زبان نے اپنا راج کیا وہ بار آور درخت علوم مشرقی اور مشرقی زبان کے جن کی پتنگ آسمان تک پہنچی تھی اس طرح کملا کر زمین پر گر پڑے جیسے کوئی نیا نازک پودا پالے کے صدمہ سے جھلس جائے۔ اب ہائی کورٹ میں جا کر علماء علوم مشرقی کا حال دیکھو کہ ان پر مکھیاں بھنکتی ہیں نہ وہ اپنی ذات کا کچھ فائدہ کر سکتے ہیں نہ ملک کا نہ قوم کا۔ تمام عہدوں میں سے مشرقی علوم و مشرقی زبان خارج ہو گئی ہے۔ دیوانی عہدوں میں جن کی بنیاد وکالت کے امتحان پر قائم ہوتی ہے مشرقی علوم و مشرقی زبان کی قدر و پرسش نہیں رہی۔ ہم نے سنا ہے کہ ہائی کورٹ کی وکالت کے امیدواروں کی فہرست میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے نہ کوئی پنجاب یونیورسٹی کالج کا خطاب پایا ہوا ہم نے سنا ہے مگر ہم کو صحیح معلوم نہیں کہ ایک لائق تحصیلدار عالم علوم مشرقی کو امیدوار ان ڈپٹی کلکٹری کی فہرست میں اس لیے جگہ نہیں مل سکی کہ وہ انگریزی نہیں جانتا ہم گورنمنٹ کی اس تجویز کو کہ تمام اعلیٰ عہدے بجز لائق انگریزی دانوں کے کسی کو نہ دیے جائیں نہایت پسند کرتے ہیں اور جہاں تک کہ اس میں سختی ہوتی جائے ملک کا اور قوم کا اور گورنمنٹ کا سب کا فائدہ سمجھتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ ملک کی ترقی کے لیے اس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں ہے انڈین سول سروس کے فائدہ سے زیادہ تر ناراضی ہم کو اس لیے ہے کہ اس میں اعلیٰ درجہ کی تعلیم کی کوئی شرط نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں اور پنجاب میں اس وقت ایسے عہدہ دار بھی موجود ہیں جو علوم مغربی و زبان میں پوری دستگاہ رکھتے ہیں۔ ایک کے سامنے قانون کا ترجمہ جو نہایت محنت اور قابلیت سے کیا گیا ہے موجود ہوتا ہے اور دوسرے کے سامنے اصل انگریزی پھر جو شخص واقف ہیں ان دونوں کی لیاقت اور قابلیت کا اس کام میں جو ان دونوں کے ہاتھ میں یکساں ہے تفرقہ کر سکتے ہیں۔ زمانہ نے سرکاری ملازمت ہی کی حالت کو نہیں بدلا ہے بلکہ تمام حالات مبدل ہو گئے ہیں جس طرح علوم مشرقی اور زبان مشرقی عہدہ جات سرکاری میں بے کار ہو گئی ہے اسی طرح تجارت صنعت، حرفت میں بے کار ہے ہم روز مرہ کے کاموں میں بھی انگریزی کے محتاج ہیں ادنیٰ درجہ کے لوگوں کو ادنیٰ درجہ کی انگریزی کی اعلیٰ درجہ کے لوگوں کو اعلیٰ درجہ کی انگریزی کی محتاج ہے یہاں تک کہ ایک کنجڑے ترکاری فروش کو یا ایک چمار جوتی والے کو بھی اس قدر انگریزی جاننا ضروری ہے کہ وہ یہ کہہ سکے کہ ’’ خوشی ہو ٹیک خوشی نہ ہو تو ٹیک‘‘ (خوشی ہو لیجئے، خوشی نہ ہو نہ لیجئے) اعلیٰ درجہ کے علوم و زبان مغربی کی تعلیم کی ضرورت ہے ہم کو تجارت و روزمر ہ ہی کے کاموں میں نہیں ہے بلکہ اس کو ہماری سوشل اور پولیٹکل حالت سے بہت بڑا تعلق ہے۔ جس کو سمجھ ہے وہ اس بات کو سمجھتا ہے اور جس کو آنکھیں ہیں وہ اس بات کو دیکھتا ہے اور جس کو غیرت ہے وہ اس بات کا خیال کرتا ہے اور جو حقیقۃ اپنے ملک اپنی قوم کی بھلائی و ترقی کا خواہاں ہے وہ ان سب باتوں پر نہایت دور اندیشی سے نظر کرتا ہے۔ جب کہ ان انیس بیس برس کے عرصہ میں زمانہ نے ایسا تغیر و تبدل پایا ہے اور وہ تمام حالات جو اس وقت موجود تھے جب کہ ہم نے سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی تھی اور جس کے دلائل و براھین و مباحثوں کی خوشہ چینی اب پنجاب یونیورسٹی کے طرف دار کرتے ہیں اور ہم پر حسد کا الزام لگاتے ہیں بالکل بدل گئے ہیں تو ایک شخص کا جو در حقیقت اپنے ملک اپنی قوم کی بھلائی و ترقی چاہتا ہے یہ کام نہیں ہے بلکہ اس کے اختیار مین نہیں ہے کہ جو زمانہ بیس برس آگے بڑھ گیا ہے اس کو کھینچ کر بیس برس پیچھے ہٹا لاوے اور جو روشنی زمانہ نے دکھائی ہے اس کو ٹٹی کی اوجھل کر کے اس پر کالے کپڑے کی چادر ڈال دے۔ یہی انجمن پنجاب اور انجمن پنجاب کا اخبار ہے جس نے اس رائے کو مشہور کیا تھا کہ ہندوستانیوں کا انگلستان میں تعلیم کو جانے دینا خلاف مصلحت ہے۔ کیا کچھ رنج و افسوس نہیں ہے جو ملک و قوم کی ترقی چاہنے والوں نے اس رائے پر نہیں کیا ہم لارڈ لارنس مرحوم کو روتے ہیں کہ ان کی تجویز اسکالر شپ دے کر ہندوستانیوں کو ولایت بھیجنے کی برباد ہو گئی جس نے بے انتہا ملک کو اور گورنمنٹ کو نقصان پہنچایا اور ہمارے دوست ملک کی ترقی کا دعویٰ کرنے والے، ہندوستانیوں کا انگلستان میں تعلیم کو جانا خلاف مصلحت قرار دیتے ہیں۔ افسوس صد ہزار افسوس۔ ہمارے ملک کو ہماری قوم کو اگر در حقیقت ترقی کرنی اور فی الواقع ہماری ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کا سچا خیر خواہ اور وفادار رعیت بننا ہے تو اس کے لیے بجز اس کے اور کوئی راہ نہیں ہے کہ وہ علوم مغربی و زبان مغربی میں اعلیٰ درجہ کی ترقی حاصل کرے۔ ہماری دولت، ہماری حشمت، ہماری عزت، ہماری سوشل، ہماری پولٹیکل حالت سب کا مدار اسی بات پر ہے جو شخص کہ ہم کو اس راہ سے بھٹکانا چاہتا ہے بلا شبہ وہ ہمارے ملک کا دوست نہیں ہے بلکہ بلا شبہ دشمن ہے اور ہم کو دھوکہ دیتا ہے۔ ہمارے لیے اب یہ زمانہ بھی نہیں ہے کہ ہم اپنی تعلیم کامدار صرف کلکتہ یونیورسٹی کے امتحانوں پر اور بی اے اور ایم اے کی ڈگری پانے پر محدود رکھیں بلکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہندوستان کی یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کو اپنی تعلیم کے لیے صرف ایک دروازہ سمجھیں اور بسم اللہ مجریھا و مرسھا ان ربی لغفور رحیم کہہ کر جہاز پر سوار ہوں اور اپنی کامل تعلیم کے لیے کیمبرج اور آکسفورڈ کی یونیورسٹیوں کو اپنا درسگاہ قرار دیں۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ پنجاب یونیورسٹی مردہ مشرقی علوم اور مشرقی زبان کو زندہ کر کے اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی سکھلا کر ہم کو کیا بخشے گی اور ہم کو کسی رتبہ پر پہنچاوے گی۔ اس سے بجز اس کے کہ ہم ایک جال میں پھنس جائیں اور ایک ایسے بھنور میں جا پڑیں کہ تمام عمر چکر کھایا کریں اور وہیں کے وہیں رہیں اور نجات کی کچھ توقع نہ ہو اور ہر دم ڈوب جانے کا اندیشہ ہو اور کیا حاصل ہو گا اس وقت ہمارے ملک میں بہت سے عالم مشرقی علوم اور مشرقی زبانوں کے موجود ہیں مگر ہر شخص جانتا ہے کہ محض بے مصرف ہیں اور ملک کو ان سے کوئی فائدہ نہیں شاید مذہبی مراسم میں ان سے مدد پہنچتی ہو اس سے ہماری بحث کو کچھ تعلق نہیں ہے اور نہ گورنمنٹ کو نہ کسی یونیورسٹی کو جس میں گورنمنٹ دخیل ہو اس سے تعلق ہونا چاہیے۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی کسی اصول پر قائم ہو صحیح پر یا غلط پر ہم کو کچھ زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتی تو ہم ضرورت نہیں سمجھتے کہ ہم پنجاب یونیورسٹی پر کوئی حملہ کریں بلا شبہ ہم کو اس وقت خوف پیدا ہوتا ہے جب کہ ہم ایسے لوگوں کو جن کے ہاتھ میں خدا نے ہمارے ملک کی بھلائی برائی نفع نقصان سپرد کیا ہے مردہ مشرقی علوم و مشرقی زبانوں کے زندہ کرنے پر مائل پاتے ہیں۔تو ضرور سمجھتے ہیں بلکہ بلحاظ حب قومی اپنا فرض جانتے ہیں کہ اس امر کو بیان کریں کہ مردہ علوم مشرقی اور مشرقی زبانوں کے زندہ کرنے کی فکر میں پڑنا ہمارے لیے ، ملک کے لیے بلکہ گورنمنٹ کے لیے کچھ بھلائی نہیں ہے اپنی قوم کے سمجھاتے ہیں کہ ان کا مقصد مغربی علوم مغربی زبان کو اعلیٰ درجہ تک حاصل کرنا ہونا چاہیے اور گورنمنٹ سے یہ التجا کرتے ہیں کہ ہندوستان میں یورپ کے علوم اور یورپ کی حکمت کو ترقی دینا اس کا مقصد ہو۔ ٭٭٭٭٭٭ عرضداشت سرسید برائے ورنیکلر یونیورسٹی 1866ء میں سرسید نے سیاسیات میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے، اپنے حقوق کی حفاظت کرنے اور اپنی تکالیف و ضروریات کو پارلیمنٹ کے ممبران تک آسانی سے پہنچانے کے لئے ’’ برٹش انڈین ایسوسی ایشن‘‘ کے نام سے ایک انجمن کی بنیاد ڈالی۔ تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنی معروضات گورنمنٹ کی خدمت میں پیش کی جایا کریں۔ اگرچہ اس انجمن کی وساطت سے مسلمانوں کی متعدد شکایات کا ازالہ ہوا مگر اس تمام عرصہ میں سب سے اہم عرضداشت جو اس انجمن کے ممبران کے توسط سے گورنمنٹ کی خدمت میں بھیجی گئی وہ ایک ورنیکلر یونیورسٹی کی تحریک کے متعلق تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں دیسی زبان کی ایک ایسی یونیورسٹی علیحدہ قائم کی جائے جس میں بڑے بڑے تمام علوم و فنون کی تعلیم دیسی (اردو) زبان میں ہوا کرے سرسید کا خیال تھا کہ کوئی قوم اس وقت تک حقیقی ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ تمام علوم کی تعلیم اپنی مادری زبان میں حاصل نہ کرے یہی اس عرضی کا مقصد تھا جو ممبران برٹش انڈین سوسائٹی کی جانب سے سرسید احمد خاں نے خود لکھ کر اور مرتب کر کے 1867ء میں گورنمنٹ کو بھیجی تھی۔ اس تحریک کی تائید میں سرسید نے اس عرضداشت میں بڑے مدلل اور قوی دلائل دئیے ہیں جو آج بھی خاص طور پر غور کے قابل ہیں سرسید کی ذہانت اور دور بینی پر تعجب آتا ہے کہ انہوں نے ایسے وقت میں ایسی یونیورسٹی کی تحریک اٹھائی جب انگریزی تعلیم کا آغاز تھا سارے ملک پر انگریزی تسلط پورے طور پر بیٹھا ہوا تھا اور ان حالات میں اپنی مادری زبان کی یونیورسٹی قائم کرنے کا خیال دماغ میں آ ہی نہیں سکتا تھا۔ ہم ذیل میں وہ مکمل مسودہ درج کرتے ہیں جسے سرسید نے مرتب کیا تھا اور جسے ایسوسی ایشن کی طرف سے گورنر جنرل ہند کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا یہ پورا مسودہ اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ کے 9 اگست1876ء کے پرچہ میں چھپا تھا۔ اس ورنیکلر یونیورسٹی کے متعلق ایک تفصیل مضمون مولوی عبدالحق صدر انجمن ترقی اردو نے اپنی کتاب ’’ سرسید احمد خاں‘‘ میں اور مولانا حالی نے ’’ حیات جاوید‘‘ میں لکھا ہے (محمد اسماعیل پانی پتی) عرضداشت برٹش انڈین ایسوسی ایشن اضلاع شمال و مغرب بحضور جناب نواب گورنر جنرل بہادر، بہ اجلاس کونسل ’’ ہم ممبران برٹش انڈین ایسوسی ایشن اضلاع شمال و مغرب جن کے دستخط اس عرضداشت کے ذیل میں ثبت ہیں بہ دل و جان گورنمنٹ کی ان سخت کوششوں سے بخوبی واقف اور ان کی قدر و منزلت کرنے ولاے ہیں جو اس نے ہندوستانیوں کی عام تعلیم کے باب میں کی ہیں اور ان کی عوض میں ہم سب پر گورنمنٹ کی نہایت بڑی احسان مندی واجب اور لازم ہے ہم کو اچھی طرح یقین ہے کہ گورنمنٹ نے اس تعلیم کے کام کو نہایت خالص نیت اور بالکل بے غرضی سے اختیار کیا ہے تعلیم سے گورنمنٹ کا اصلی مقصود بالکل لوگوں کی بہبودی اور فلاح ہے وہ اپنی رعایا کی حالت کو ترقی دینے کے باب میں ہمیشہ ساعی رہتی ہے۔‘‘ اس یقین کے مستقل اثر سے جو ہمارے دلوں پر اچھی طرح نقش پذیر ہو گیا ہے، پیش گاہ حضور میں ایسی چند تدبیریں پیش کرنے کے لیے ہماری ڈھارس بندھی ہے جس کا عمل درآمد ہو جانے پر ہم کو کامل بھروسہ ہے کہ اس موجودہ سر رشتہ تعلیم سے لوگوں کو حد سے زیادہ فائدہ حاصل ہو گا اور ہم کو بہت بڑی توقع ہے کہ گورنمنٹ کمال فیاضی سے ان تدبیروں پر از بس سنجیدہ اور پسندیدہ توجہ فرمائے گی۔ ہم اقرار کرتے ہیں کہ جو علوم و فنون اب ایشیا کے ملکوں میں جارے ہیں جن کے موضوع اور تاریخی حالات ہمارے بہت سے مشہور مصنفوں کی کتابوں میں موجود ہیں اور اپنی اصلی حالت میں بغیر کسی طرح کے تغیر و تبدل اور ترقی کے ہم تک پہنچے ہیں ان میں سے اکثر ایسے اصول پر مبنی ہیں جو زمانہ حال میں علم کی ترقی ہونے سے بالکل غلط اور ناجائز ٹھہرے ہیں اور بعضے علم ایسے ہیں کہ اگرچہ بنیاد ان کی صحیح اور مضبوط اصول پر ہے مگر زمانہ حال کی نئی نئی تحقیقاتوں اور تلاشوں کے سبب سے ان کا رنگ ڈھنگ بالکل بدل گیا ہے اور بعضے علم ایسے ہیں کہ اب تحصیل ان کی فضول اور غیر مروج ہو گئی ہے اور برخلاف اس کے آج کل دنیا میں بہت سے ایسے علوم و فنون کی گرم بازاری ہے جو زمانہ حال کی ایجاد ہیں اور ان کا حال ہمارے بزرگوں کو بالکل معلوم نہ تھا پس یہ ایک ایسی بات ہے جس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ ایشیا میں جو علوم اور زبانیں اب جاری ہیں، ان کی تحصیل ہمارے علم کی ترقی اور روشن ضمیری کے لیے محض غیر کافی ہے اور یہ بات بھی ایسی ہی تحقیقی اور مسلم ہے کہ مذکورہ فائدہ کے حاصل کرنے کے واسطے کوئی ذریعہ اس سے بہتر نہیں ہے کہ ہم انگریزی زبان کو سیکھیں اور اب جو مالا مال خزانے علم و ہنر کے زمانہ حال میں جمع اور قائم ہوئے ہیں ہم سب اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ گورنمنٹ کی جو تدبیر اس ملک میں انگریزی زبان کے رواج دینے کی ہے وہ حقیقت میں نہایت عمدہ اور مناسب سوچی گئی ہے۔ مگر یہ بات ممکن ہے کہ جس حالت میں ہم ایک اچھے کام کرنے پر کوشش کرتے ہوں تو ہم اور ایسے کاموں سے جو زیادہ مرتبہ کے ہیں غافل ہیں اور اسی طرح سے ان کوششوں کی قدر و منزلت کو گھٹا دیویں جن کو اگر مناسب اور بلا رو رعایت کے کیا جائے تو ہم کو بہت فائدہ ہو یہ غلطی تعلیم کے سر رشتہ ایسا بے عیب اور بے داغ ہو جائے کہ اس پر کوئی حرف گیری نہ ہو سکے۔ اس سلسلہ میں ہم اس بات کا خیال کرنے سے باز نہیں رہ سکتے کہ ہم ایک اچھے کام کے پورا کرنے پر کمر باندھے رہنے سے ایسے مطالبوں سے غفلت کر رہے ہیں جو بہت بڑی قدر و منزلت رکھتے ہیں اور ضروری ہیں۔ جو گورنمنٹ خصوصاً انگریزی گورنمنٹ اپنی رعایا کے بہت سے گروھوں کو عام تعلیم دینے کا کام اختیار کرے تو اس کا فرض ایسے علم اور پن و نصیحت کی تعلیم دینا ہے جو لوگوں کے روز مرہ کے کاروبار کی تہذیب و اصلاح ہووے اور لوگوں کو قدرت اور حقائق اور حالات سے جہاں تک ممکن ہو آگاہی حاصل ہو اور ان کے دلوں میں عمدہ عمدہ اصول اور بڑے بڑے اعلیٰ درجہ کے خیال پیدا ہوں مگر اس بات کی احتیاط رہے کہ ان اصولوں اور خیالوں کی اصل و بنیاد کسی مذہبی مسائل یا کسی قومی مذہبی رسم و رواج پر نہ ہووے بلکہ وہ قدرتی اخلاق کے قوانین اور علی العلوم عقل سے تسلیم کر لینے پر مبنی ہو۔ یہ کام مشکل تو بے حد ہے مگر غیر ممکن نہیں اور اگر اس کو کامیابی کے ساتھ انجام دینے پر کوشش کی جائے تو نتیجہ اس کا ملک کے حق میں نہایت عمدہ ہو چنانچہ لوگوں کی عقل کے روشن ہونے سے ان کے مال و دولت اور جسمانی فائدوں کو ترقی ہو گی جب کہ وہ ان سب چیزوں کی ماہیت سے جو ان کے چاروں طرف نظر آتی ہیں واقف ہو جائیں گے اور ایسے فاسد خیالوں اور بے ہودہ خوف و اندیشہ کو آئندہ فوراً اور یک بیک قبول نہ کر لیا کریں گے۔ جس سے لوگوں کی طبیعتوں کو پریشانی حاصل ہوتی اور سب میں ایک ہل چل پڑ جاتی ہے اور عام امن آسائش اورانتظام میں خلل واقع ہوتا ہے علاوہ اس کے جو نفرت اور عداوت نسل اور مذہب کی غیرت سے پائی جاتی ہے وہ قدرت اور عقل کی روشنی کے آگے نیست و نابود ہو جائے گی اور بجائے ان سب کے آپس میں لحاظ و پاس اور بھروسہ قائم ہو جائے گا۔ جو گورنمنٹ سوائے ان غرضوں کے اور کسی قسم کی اور شاید اس کمتر خواہش کے سبب سے اپنی رعایا کی تعلیم پر آمادہ ہو کہ ان کو صرف اس قدر تعلیم کیا جائے کہ وہ اپنی زندگی کے معمولی کاروبار انجام دینے کے لائق ہو جائیں تو وہ گورنمنٹ رعایا کے ساتھ اس سے زیادہ چکھ نہیں کرے گی جو ایک آدمی اپنا بوجھ کھچوانے یا اور کوئی کام لینے کی غرض سے کسی جانور کے ساتھ اس کے سدھانے میں کرتا ہے مگر ہم کو دل سے یقین ہے کہ گورنمنٹ ہند کی یہ غرض اور ایسا ارادہ نہیں ہے بلکہ اس بات کو ہم تحقیق جانتے ہیں کہ اس نے جو کام تعلیم کا اختیار کیا ہے وہ بڑے بڑے اعلیٰ درجہ کے مقصدوں اور ارادوں سے شروع کیا ہے چنانچہ اس کا مشہور عمدہ ثبوت وہ تین یونیورسٹیاں یعنی مدرسہ ہائے اعظم ہیں جن میں علی العموم علم تک ہر ادنیٰ و اعلیٰ کی دسترس ممکن ہے اس لیے ہم اپنی گورنمنٹ کو اس بات کے تصفیہ پر متوجہ کراتے ہیں کہ جو سر رشتہ تعلیم کا آج سرکار کا درست اور قائم کیا ہوا موجود ہے وہ اس قابل ہے یا نہیں کہ اس سے تعلیم اصلی کے مقصد جن کا تذکرہ بالا جمال اوپر ہوا حاصل ہوویں۔ ہم نیاز مندی سے عاجزانہ عرض کرتے ہیں کہ ہماری رائے میں اس سر رشتہ سے وہ مقصد حاصل نہ ہوں گے سررشتہ مذکور کے ذریعہ سے چودہ کروڑ آدمی ہیں جو گورنمنٹ ہند کے محکوم اور مطیع ہیں چند آدمیوں کو ایک عمدہ اور معقول تعلیم کے حظ اور لطف اور فائدے حاصل ہوئے ہوں مگر جب کہ بہت سی خلقت کا ان چند تعلیم یافتہ سے مقابلہ کیا جائے تو ان کی تعداد نہایت بے حقیقت اور خفیف ٹھہرتی ہے کیونکہ خلقت کے اس انبوہ کثیر کو روشن ضمیری حاصل ہونا تو ایک طرف روشن ضمیری کا پرتو بھی اس پر نہیں پڑا ہے غرض کہ ملک باعتبار ہیئت مجموعی اپنی اصلی تاریکی کی حالت میں ہے اور اس نے علم اور شائستگی کے کسی فائدہ کا مزا نہیں چکھا ہم عرض کر چکے ہیں کہ اس عرضداشت کے پیش کرنے سے ہمارا یہ مقصد نہیں ہے کہ ایشیا کے مردہ علوم و فنون شائستگی اور خوبی کو تروتازہ کیا جائے بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ پچھلے زمانوں میں اہل یورپ نے جو علم و ہنر بہم پہنچایا ہے اور وہ زیادہ عمدہ اور مفید ہے اس کا رواج ملک میں ہووے۔ سوا اس کے ہماری خواہش یہ ہے کہ بجائے چند آدمیوں کے، گروہوں کے گروہوں کو فائدہ پہنچے، اخلاق پسندیدہ اور قومی دانائی کی نعمتیں تمام ملک پر پھیل جائیں۔ بالفعل بڑے بڑے علموں سے صرف زبان انگریزی کے ذریعہ سے واقفیت حاصل ہو سکتی ہے اور یہی بات ایسی ہے جس کے سبب سے ملک میں مفید علموں کے عموماً جلد شائع ہونے میں بڑے بڑے موانع اور ہرج واقع ہوتے ہیں اور اس کے باعث سے لوگوں کی رائے اور خیالات سے بہتر تبدیلی ہونے میں توقف ہوتا ہے اور عام تعلیم مضمحل اور پژمردہ ہو گئی ہے اور چند لوگ ایسے ذریعہ سے جس تک رسائی مشکل ہے اس علم کے ثمروں کو حاصل کر سکتے ہیں جس تک سب کی رسائی آسان اور سہل ہونی چاہیے۔ جو حال تعلیم کا ہو رہا ہے اس کا باعث یہ نہیں ہے کہ لوگ تعلیم انگریزی کی تحصیل سے گریز یا نفرت کرتے ہیں جن وقتوں میں لوگ انگریزی کی تحصیل سے گریز یا نفرت کرتے تھے ہم کو یقین ہے کہ وہ زمانہ ایسا گذر گیا ہے کہ پھر کبھی نہ آئے گا۔ انگریزی کی ضرورت اور اس کے فائدے کو لوگوں نے اچھی طرح سمجھا اور دیکھا اور علانیہ اقرار کیا ہے اور ان میں سے اکثر نے اپنی راویوں کو اپنے ہم وطنوں کی بڑی بڑی شان دار مجلسوں میں اس امر کی نسبت ظاہر کیا ہے۔ چنانچہ ہم خاص ایک شخص یعنی سرسید احمد خاں صدر الصدور علی گڑھ کے قول کو نقل کرتے ہیںـ: ’’ خاص کر میں تمہاری توجہ اس بڑی ضرورت پر مائل کرنا چاہتا ہوں جو انگریزی کی تحصیل کرنے سے اہل ہند کو ہے اس کی تحصیل ان بڑے فائدے بخشنے والے عہدوں کے باعث سے ضروری نہیں جو اس کے سبب سے حاصل ہوتے ہیں بلکہ ان بے نہایت فائدوں کے سبب سے ضروری ہے جو زندگی کے روز مرہ کے ذرا ذرا سے کاروبار میں بھی ہوتے ہیں چنانچہ انگریزی کا پورا علم ہم کو اس بات کے قابل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کے قوانین کو بخوبی سمجھ سکیں جو گورنمنٹ کے ایکٹوں اور روئیدادوں معمولی میں ظاہر ہوتے ہیں اور تجارت کامیابی کے ساتھ کر سکیں اور اہل یورپ کے ساتھ ربط و ضبط بڑھا سکیں اور بہت سے علوم و فنون میں جن کی بحث بہت قابلیت سے انگریزی زبان میں ہے کامل ہو سکیں۔‘‘ تعلیم جو اب ترقی کرنے سے تھکی ہوئی ہے اس کی اس حالت کے اور بھی کئی باعث ہیں جن میں سے سب سے بڑا باعث یہ ہے کہ صرف انگریزی کی تحصیل کے ذریعہ سے جیسے کہ اب مروج ہے علی العموم ہر ایک طالب علم باستثنائے بعض طالب علموں کے علم کے اس قدر درجہ یا اخلاق اور تربیت کے اس قدر مرتبہ کو نہیں پہنچتا یا اس کی ذات سے ظاہر نہیں ہوتا جس کی لوگ تعظیم و تکریم حرص و تقلید کریں یا جس سے ان کے والدین کو یہ معلوم ہووے کہ انہوں نے نہایت اعلیٰ درجہ کی تعلیم پائی ہے البتہ سینکڑوں میں سے ایک کا اس درجہ کی عظمت تک پہنچنا ممکن ہے جس کی بڑی خواہش کی جاتی ہے مگر ایسے طالب علم کی تعداد بہت خفیف اور تھوڑی ہے اور ہزاروں جاہلوں پر جو ان کے گردو پیش موجود ہیں کچھ اثر ان کا نہیں ہوتا۔ اس نقصان کے علاج کی غرض سے ہم اپنی تجویزیں پیش کرنے کے آرزو مند ہیں۔ ہماری خواہشیں یہ ہیں کہ جو کوششیں انگریزی زبان کی اشاعت کے لیے بالفعل کی جاتی ہیں وہ جاری رہیں بلکہ ان کو وقتاً فوقتاً ترقی ہوتی رہے مگر ایک اور طریقہ تعلیم کا جو عام تعلیم کی ترقی کے لیے زیادہ موثر تصور کیا جاتا ہے قائم اور جاری کیا جائے اور اس کے ذریعہ سے انگریزی زبان کو بجائے بہت تھوڑے آدمیوں کے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا وسیلہ بنایا جائے۔ جو طریقہ ہم تجویز کرتے ہیں وہ تعلیم کے طریقہ مروجہ سے گو علیحدہ اور غیر ہو مگر اس سے مخالف نہیں ہے۔ نتیجہ دونوں کا انجام کا رایک ہی حاصل ہو گا۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ بجائے اس بات کے کہ صرف انگریزی ہی زبان میں تعلیم کی جائے دیسی زبان کو بھی تعلیم کے اعلیٰ درجہ کے مضمون اور مطالب میں لوگوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ گردانا جائے۔ بادی النظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس تجویز کا ایک مدت ہوئی تصفیہ ہو چکا۔ مگر ہم اس کے سخت مخالف ہیں کیوں کہ ہم جو کچھ تجویز کرتے ہیں اس پر کبھی مباحثہ تک بھی نہیں ہوتا ہے۔ جس بات کا تصفیہ ہو چکا وہ یہ ہے کہ انگریزی زبان کا رواج اس ملک میں ہونا چاہیے مشرقی زبانوں کا اور مشرقی زبانوں میں جو فضول علم و ہنر مندرج ہیں ان کی تحصیل کو ترقی اور رواج دیا جائے یا نہیں جو تصفیہ اس امر کا ہوا، اس سے ہم کو بخوبی اتفاق ہے۔ وہ تصفیہ ہر طرح سے مقبول اور پسندیدہ ہے مگر جس تجویز کو ہم گورنمنٹ اور لوگوں کی غور و فکر اور تصفیہ کرنے کے واسطے پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ جس حالت میں ہم انگریزی کی تعلیم قائم رکھیں اور اس کی ترقی میں کوشش کریں تو کیا ہم کسی دیسی زبان کو اس قسم کا ذریعہ اختیار اور تجویز نہیں کر سکتے جو ایک غیر ملک کی زبان کی نسبت علم کے عموماً شائع ہونے اور لوگوں کے خیالات اور طور طریقے اور اخلاق کی ترمیم کے واسطے زیادہ تر مناسب ہو؟ کیا اہل یورپ کی روشن ضمیری اور شائستگی اور فضل و کمال کی تعلیم ایسی زبان کے ذریعہ سے جس سے وہ نا آشنا ہیں اور وہ ایک غیر ملک کی ایسی زبان ہے جس کی تحصیل ممکن نہیں کہ ہندوستان مقبوضہ سرکار کے چودہ کروڑ باشندے کولیویں بہتر اور عمدہ نہیں ہو سکتی ہے؟ یہ ممکن نہیں کہ ان کروڑوں آدمیوں کو ایک ہی زبان اور وہ بھی نئی سکھائی جا سکے۔ یہ کب ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی اس قدرت کے بر خلاف عمل کر سکیں جو بابل کے مینار پر اس نے دکھائی ہے پس اگر یہ بات ممکن نہیں تو بجز اس کے اور کوئی علاج اور تدبیر نہیں کہ اہل یورپ کی روشن ضمیری اور ان کا علم اور ان کا فضل لوگوں کے علی العموم سکھانے کے لیے دیسی زبان کو ذریعہ تعلیم ٹھہرایا جائے جو معقول رائیں کہ ھاکسن صاحب نے ہندوستان میں علم پھیلنے کے لیے ایک جلسہ کی بنیاد پڑنے پر ظاہر کیں ان کا ذہن نشین کرنا نہایت مناسب اور اچھا ہے چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے کہ میرے نزدیک اگر ہم کتابی ترتیب کے ذریعہ سے ہندوستان کو فی الحقیقت فائدہ پہنچانا چاہیں تو وہ ہم کو اسی طرح پر پہنچانا چاہیے جس طرح کہ ہم اس کو اپنی حکومت اور اپنے قوانین سے پہنچاتے ہیں یعنی کتاب کے علم کو جھگڑوں اور دقتوں سے پاک صاف اور عام فہم کر کے ان کی خاص زبان سے اس کو ہم رشتہ اور ہم پیوند کر دیں تاکہ بہت سے لوگوں کی رسائی اس تک ہونے لگے اور ان ہی مقصدوں کو اصلی اور مستحکم سمجھ کر ان کی تہذیب اور تربیت کو اپنا بڑا منشا قرار دیویں۔ علم کی اس طرح پر تعلیم کی جائے کہ وہ روز مرہ کے کام میں آئے اور فائدہ بخشے اور اس کی تحصیل میں ہر قسم کی آسانی کرنی چاہیے۔جب کہ یہ سب میری خواہشیں ہیں تو میں علم کی تحصیل کے واسطے زبان کے ذریعہ کو اس لیے از بس ترجیح دیتا ہوں کہ اول تو طالب علم کو اس میں بہت سی آسانی ہوتی ہے۔ دوسرے اس کی یہ خاصیت ہے کہ جو علم اس زبان کے ذریعہ سکھایا جاتا ہے اس کا اثر عمل میں بہت قوی اور مفید ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے اس میں ایک خوبی یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے علم خوب شائع ہوتا ہے۔ اگر علم کی تحصیل غیر ملک کی زبان کے ذریعہ سے کی جائے تو اس میں دو چند وقت صرف ہوتا ہے اول تو خود زبان ہی کے سیکھنے میں وقت خرچ ہوتا ہے اور اس کی تحصیل میں ہزاروں طالب علم اس قدر وقت کھوتے ہیں کہ پھر اس زبان کے ذریعہ سے جس کو انہوں نے حاصل کیا ہے کسی مفید علم کی تحصیل کرنے کے واسطے وقت باقی نہیں رہتا ہے۔ بہت تھوڑے طالب علم ایسے ہوتے ہیں جو بخوبی علم تحصیل کر لیتے ہیں دوسرے علم کی تحصیل خاص علم کے فائدوں کے لحاظ سے ضروری ہوتی ہے اور شاذ و نادر ایسے طالب علم پائے جاتے ہیں جن کو زبان اور علم دونوں کی تحصیل میں کامیابی حاصل ہو۔ مگر جب کہ اس کے دیس کی زبان میں علم کی تحصیل کی جاتی ہے تو طالب علم کا کچھ بھی وقت ضائع نہیں ہوتا اور یہ بات تحقیق ہے کہ ان منصوبوں سے اس کو کچھ کچھ آگاہی ہو گی جن پر اس کی رسائی اس حالت میں کہ وہ زبان جس کے ذریعہ سے ان منصوبوں کو حاصل کیا غیر ملکی ہوتی، اگر غیر ممکن نہ ہوتی تو جیسا کہ اکثر ہوتا ہے نہایت مشکل ضرور ہوتی۔ ہم نہایت ادب کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ ان لفظوں سے کہ تعلیم دیسی زبانوں کے ذریعہ سے ہونی چاہیے، ہماری یہ مراد نہیں کہ ایشیا کے علوم و فنون پھر تروتازہ کیے جائیں اور ان کی تعلیم ہو بلکہ ہم صرف اس بات کے خواستگار ہیں کہ جو علوم و فنون بالفعل یورپ میں مروج ہیں انہیں کو شائع کیا جاوے کیونکہ بجز اس کے ہماری اور کوئی غرض نہیں ہے کہ اہل یورپ کی طرح روشن ضمیری تمام ہندوستان میں عموماً پھیل جائے۔ دو کالج اب ایسے موجود ہیں جن کی سند ہم اپنی تجویز کے مفید ہونے کی تائید میں پیش کرتے ہیں ایک تو ٹامس سول انجینئرنگ کالج رڑکی کی شاخ دوسرا میڈیکل کالج آگرہ کی شاخ اردو رڑکی کالج کے انگریزی اور اردو فریقوں میں سے ہر ایک کو ایک ہی قسم اور ایک ہی درجہ کے علم سکھائے جاتے ہیں یعنی جن کتابوں کی تحصیل اردو فریق کے طالب علم کرتے ہیں وہ کتابیں بالکل ان کتابوں کا ترجمہ ہوتی ہیں جو انگریزی طالب علموں کے استعمال میں ہوتی ہیں۔ امتحان کے سوالات دونوں فریق کے یکساں ہوتے ہیں۔ ایک بند سوالوں کا انگریزی میں اور دوسرا اردو میں دیتے ہیں جو انگریزی کا ٹھیک ترجمہ ہوتا ہے امتحان کے نتیجے بھی ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں کبھی اردو فریق والے کا طالب علم انگریزی فریق اپنے ہمسر سے بہتر نمبر حاصل کرتا ہے اور کبھی انگریزی طالب علم اپنے ہمسر اردو کے طالب علم سے سبقت لے جاتا ہے دونوں فریق کے طالب علم کو مساوی فائدے حاصل ہوتے ہیں صرف ذریعہ مختلف ہوتا ہے جس سے وہ علم کی تحصیل کرتے ہیں علاوہ اس کے میڈیکل کالج آگرہ میں یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ اردو کے طالبعلم اپنے انگریزی ہمسر طالب علموں سے ان منصوبوں کے بخوبی تحصیل کرنے میں پیچھے رہ جاتے ہوں جو دونوں کو ایک ہی معین حد تک یکساں طریق پر سکھاتے ہیں۔ پس اگر دیسی زبان کو تعلیم کا ذریعہ ٹھہرایا جائے تو اس درجہ کا علم جس تک اب چند ایم اے کے سند یافتہ طالب علموں کو رسائی ہوتی ہے بے انتہا لوگوں کو حاصل ہونے لگے گا اب جو سر رشتہ تعلیم کا غیر ملکی زبان کے ذریعہ سے جاری ہے اس کی بدولت طالب علم کو ایک مرتبہ حاصل کرتا ہے اس کو وہ یونیورسٹی کے چھوڑنے اور زندگی کے معمولی کام کاج میں مصروف ہونے کے بعد جلد بھول جاتا ہے اور جلد اس کے ذہن سے وہ علم اتر جاتا ہے مگر جو طریقہ ہم نے تجویز کیا ہے اس کے ذریعہ سے جو علم ایک مرتبہ حاصل ہو جائے گا صرف وہی باقی اور برقرار نہیں رہے گا بلکہ علم کے تحصیل کا ذریعہ اس معمولی زبان کے ہونے سے جس میں ہر وقت اس کے خیالات ظاہر اور پیدا ہوتے ہیں وہ علم کی استعداد اور قابلیت کی مناسبت سے ہمیشہ ترقی اور شگفتگی پاتا رہے گا۔ اس بات کا خیال کرنا بے جا ہے کہ دیسی زبان کے ذریعہ سے اعلیٰ درجہ کی تعلیم کرنا انگریزی زبان کی اشاعت کو مضر اور ہارج ہو گا کیونکہ یہ کہنا بھی تو اسی طرح سے صحیح نہیں ہے کہ نہر اور سڑکوں دونوں کا ایسے مقاموں میں بنانا، جہاں دونوں کی ضرورت ہے مضر اور ایک دوسرے کا مخالف اور مانع ہو گا حالانکہ یہ دونوں کام ایسے جداگانہ ہیں کہ اپنی ذات سے ہر ایک فیض بخش ہے اور ایک دوسرے کا ہارج اور مزاحم نہیں ہے انہیں وجوہات سے تعلیم کا انگریزی سے ہونا ایسے دو متفرق کام ہیں کہ دونوں ایک اچھے نتیجے کے ممد و معاون ہیں حقیقت میں وہ دونوں جدا جدا آلے ایک ہی قسم کے نتیجوں کے حاصل کرنے کے لیے ہیں ہم کو کچھ شبہ نہیں بلکہ اچھی طرح یقین ہے کہ اگر اہل یورپ کے علموں اور ان کے نتیجوں کی تعلیم دیسی زبان کے ذریعہ سے کی جائے تو اس سے انگریزی زبان کی تحصیل کرنے کی خواہش پیدا ہو گی اور ہندوستانیوں میں انگریزی کے عموماً پھیلنے میں اس سے بڑی ممد ہو گی۔ بالفعل ہندوستانیوں میں ان علموں اور فضل کی تعظیم و تکریم بہت سی نہیں ہے جو اہل یورپ کو حاصل ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یورپ کی تحصیل اور تحقیق اس سے برتر نہیں ہے جو ایشیا والوں کو پہلے حاصل تھی اس کی یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی اہل یورپ کے علم و تربیت سے بالکل واقف نہیں ہیں اور یہ ان کی نا واقفیت ایسی ہے کہ جب تک ان کو اس کے دور کرنے کا ذریعہ حاصل نہ ہو گا جیسا کہ اب تک حاصل نہیں ہے اس وقت تک وہ ناواقفیت قائم رہے گی غرض کیا جائے کہ ایک ہندوستانی کلکتہ بلکہ انگلستان کی کسی یونیورسٹی میں علم تحصیل کر کے گھر کو واپس آئے اور ایم اے یا ایل ایل ڈی کی سند کے تمام اعزاز اس کو حاصل ہوئے ہوں لیکن جب وہ اپنے دوستوں سے گفتگو کرے گا تو جو علم اس نے حاصل کیا ہے اس کا کچھ بھی حال ان کو نہیں بتا سکے گا انگریزی اصطلاحیں اور الفاظ تو اس کے دل میں بھرے ہوں گے مگر مطلب اور منشا اپنی دیسی زبان میں نہیں کر سکے گا۔ اسی وجہ سے اس کا علم اس کے دوستوں اور واقف کاروں کو کچھ فائدہ نہ بخشے گا وہ اس کا علم اس کے دوستوں اور واقف کاروں کو کچھ فائدہ نہ بخشے گا وہ اس کے علم کو ذلیل اور حقیر سمجھیں گے اب اگر تعلیم اس کی دیسی زبان کے ذریعہ ہووے اور وہ تمام لوگوں پر جو اس سے ملتے جلتے ہیں اپنے علم اور تجربوں کو فوراً ظاہر کر سکے تو ان میں اس کی کسی قدر زیادہ عزت اور بڑائی ہو اور ناواقفیت کی وجہ سے نفرت کرنے کی بجائے لوگ اس کی حرص اور تقلید کریں اور ایک برتر درجہ کی تربیت کے عمدہ نتیجوں کی ان کی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہونے سے ان کو بھی اس کے مانند علم حاصل کرنے کی ترغیب ہو اور اس کا ایسا اثر ہو کہ زمانہ حال کے علموں کی تحصیل کا شوق لوگوں کے دلوں میں پھیل جائے۔ وجوہات سطورہ بالا کی رو سے ہم مسکینی اور نہایت عاجزی سے گذارش کرتے ہیں کہ گورنمنٹ ہند اعلیٰ درجہ کی تعلیم عام کا ایسا سر رشتہ قائم کرے جس میں بڑے بڑے علوم و فنون کی تعلیم دیسی زبان کے ذریعہ سے ہوا کرے اور دیسی زبان میں انہیں مضمونوں کا امتحان سالانہ ہوا کرے جس میں کہ اب طالب علم کلکتہ یونیورسٹی میں انگریزی زبان میں امتحان دیتے ہیں اور جو سند اب انگریزی زبان کے طالب علموں کو علم کے مختلف شاخوں میں لیاقت حاصل کرنے کی عوض میں عطا ہیں وہ ہی سندیں ان طالب علموں کو عطا ہوا کریں جو انہیں مضمونوں کا دیسی زبان میں امتحان دے کر کامیاب ہوں حاصل یہ ہے کہ خواہ تو ایک اردو فریق کلکتہ کی یونیورسٹی میں قائم کیا جائے یا ممالک شمالی و مغربی میں ایک یونیورسٹی دیسی زبان کی علیحدہ مقرر کی جائے۔ گورنمنٹ پنجاب نے مشرقی زبانوں کی ایک یونیورسٹی کی ضرورت کو تسلیم کر کے اس کی بنیاد ڈالنے کی کوشش شروع کی ہے اس یونیورسٹی کا مقصود اور منشا مشرقی زبانوں کا شگفتہ اور سر سبز کرنا ہے اور یہ یونیورسٹی ایک ایسا ذریعہ ہو گی جس کی بدولت اہل یورپ کے علم اور شائستگی اور تربیت ہندوستان میں پھیلے گی جس سے ہندوستان کی حالت بالکل بدل جائے گی۔ یہ بات البتہ سچ ہے کہ بالفعل ایسی کتابیں دیسی زبان میں موجود نہیں ہیں جن کے ذریعہ سے طالب علم اس درجہ تک علم کی تحصیل کر سکے جو اب یونیورسٹی میں امتحان دینے کے واسطے ضرور ہوتا ہے لیکن ایسی کتابوں کا موجود ہو جانا کوئی مشکل امر نہیں ہے جو کتابیں یونیورسٹی کے امتحان کی فہرست میں مندرج ہیں ان کے ترجمے دیسی زبان میں ہو سکتے ہیں اور بعض مضمونوں کی اصل کتابیں تصنیف ہو سکتی ہیں چنانچہ بہت سے عالم و فاضل اس کام کے لائق موجود ہیں اور علی گڑھ کی سائنٹیفک سوسائٹی اسی کام کو انجام دے رہی ہے اس نے حال ہی میں النفسٹن صاحب کی مشہور تاریخ ہندوستان کا ترجمہ مشتہر کیا ہے جو ایک کتاب یونیورسٹی کے امتحان کے مضمونوں میں سے ہے اور آئندہ بھی وقتاً فوقتاً سوسائٹی اس قسم کے ترجمے چھاپتی رہے گی۔ خاتمہ پر ہم اپنا یہ قوی یقین ظاہر کرتے ہیں کہ جس تجویز کی ہم تائید کرتے ہیں اگر اس کو جاری کیا جائے تو اس ملک کی حالت کو از سر نو عمدہ اور بہتر کرنے اور اس کے باشندوں کی طبیعتوں میں سے غلطی اور جہالت کو دور کرنے اور سب حاکم محکوموں کو برابر فائدہ پہنچانے کا یہ تجویز ایک بڑا موثر وسیلہ اور ذریعہ ہو سکی۔ہم اس لیے نہایت ادب اور بھروسہ کے ساتھ امید رکھتے ہیں کہ ہماری روشن ضمیر گورنمنٹ ہند جس نے اپنی ہندوستانی رعایا کی بہبودی اور ترقی کے لیے ہمیشہ اپنی آرزو اور فکر ظاہر کی ہے اس بڑے پایہ کی تجویز پر جو اب ہم پیش کرتے ہیں اپنی نہایت سنجیدگی اور پسندیدہ توجہ فیاضی سے کرے گی۔ الٰہی آفتاب دولت و اقبال ہمیشہ تاباں اور درخشاں رہے۔ اس عرضداشت کے جواب میں یوں تو گورنر جنرل نے اپنی خوشنودی اور ہمدردی کا بہت کچھ اظہار کیا لیکن جس امر کا اندیشہ تھا اور جس کے رفع کرنے کی عرضداشت کے آخر میں کوشش کی گئی تھی جواب میں وہی لکھا ہوا آیا جواب کا خلاصہ یہ تھا۔ 1دیسی زبانوں میں ابھی اعلیٰ درجے کی تعلیم کے لیے کافی سامان اور لوازم موجود نہیں 2 صرف ان کتابوں کا ترجمہ جو یونیورسٹی کے نصاب تعلیم میں داخل ہیں اس قدر کافی نہ ہو گا کہ جس کی بنا پر اس تجویز کو عمل میں لانے کی ہمت ہو سکے کیونکہ یونیورسٹی کی تعلیم کا مقصد صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بعض خاص خاص کتب سے واقفیت ہو جائے بلکہ یہ مقصد ہے کہ یورپ کے علوم و فنون کے فراخ دائرے میں علم کی تحصیل کے لیے طبیعت کو مستعد اور تیار کیا جائے اور کچھ عرصہ تک غالباً ہندوستان کے باشندے انگریزی کے ذریعہ سے اس بات کو حاصل کر سکتے ہیں۔ 3 اس صورت کے پسندیدہ ہونے کے باوجود گورنمنٹ کے لیے یہ غیر ممکن ہے کہ ایسے گنجان آباد ملک کو جیسا کہ ہندوستان ہے کامل تعلیم دینے کا کل خرچ اپنے ذمے لے سرسید نے ایسوسی ایشن کی عرضداشت اور گورنمنٹ کا جواب بغرض اظہار رائے ایک انگریز عالم کے پاس بھیجا۔ جن الفاظ میں سرسید نے اس کا ذکر کیا ہے اور جو جواب اس انگریزی عالم کی جانب سے موصول ہوا وہ اخبار سائنٹیفک سوسائٹی کے شمارہ بابت6ستمبر 1876ء میں شائع ہوا جسے ہم مولوی عبدالحق کی کتاب ’’ سرسید احمد خاں‘‘ سے لے کر یہاں درج کرتے ہیں۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ’’ اس ایسوسی ایشن کے سیکرٹری نے ایک نقل اس عرضداشت کی جو در باب وسعت تعلیم اہل ہند حضور میں جناب معلی القاب رائٹ آنریبل وائسرائے اور گورنر جنرل بہادر کشور ہند بھیجی گئی ہے مع اس کے جواب کے ایک بہت بڑے یورپین عالم کے پاس جس کے برابر ہندوستان میں چند ہی عالم انگریز ہوں گے اس مراد سے بھیجی تھی کہ وہ اپنی رائے اس امر میں جس کی درخواست گورنمنٹ سے کی گئی ہے ارقام فرماویں اگرچہ ہم ان صاحب کا نام نہیں بتاتے ہیں مگر چونکہ ایک بہت بڑے عالم کی رائے اور قابل توجہ حضور وائسرائے و گورنر جنرل بہادر کشور ہند کی ہے اس لیے ہم اس کو بہ حذف ان کے نام و نشان کے اس اخبار میں درج کرتے۔‘‘ (نقل چٹھی صاحب ممدوح بنام سیکرٹری ایسوسی ایشن 27اگست1876ئ) میرے عزیز صاحب! ’’ میں نے آپ کی درخواست بہت دل لگا کر پڑھی اور نہایت صدق دل سے اس نہایت مناسب جواب کی مبارکباد دیتا ہوں جو جناب معلی القاب نواب گورنر جنرل بہادر نے آپ کے پاس بھیجا ہے میری دانست میں اس امر میں مطلقاً شبہ نہیں ہو سکتا ہے کہ آپ کی تجویز مجوزہ یونیورسٹی کے اثر ہائے فائدہ بخش کو نہایت وسعت دے گی کیونکہ ہزاروں آدمی جو یہ سبب بعض حالات کے تحصیل علم انگریزی سے محروم ہیں علم مغربی کی تحصیل پر آمادہ ہوں گے اور اس کے ساتھ یہ بھی فائدہ ہو گا کہ اس ملک کی عمدہ زبانوں کو بہ احتیاط اور بطور عالمانہ تحصیل کریں گے۔‘‘ علم ریاضی و تواریخ و جغرافیہ اور وہ علم جن سے اخلاق اور عقل کی تہذیب اور ترقی ہو سکتی ہے ہندوستان کی ہر دیسی زبان میں اس خوبی کے ساتھ ہو سکتے ہیں جیسے کہ انگریزی میں بشرطیکہ ان علوم کی عمدہ عمدہ کتابوں کے خاطر خواہ ترجمے اور لائق مدرس دستیاب ہوں۔ فی الواقع آپ کی تدبیر کی تکمیل کے لیے وقت اور بہت سے بڑے بڑے عالموں کی باہمی کوشش کی ضرورت ہو گی لیکن مجھے یقین واثق ہے کہ یہ امر ممکن التکمیل ہے اور یقینی اس سے فوائد بے شمار پیدا ہوں گے۔ آپ اس امر کا یقین کامل رکھیں کہ جو کچھ اعانت قلیل میں دے سکتا ہوں ہمیشہ برضا و رغبت تمام دوں گا۔ آپ کا صادق عرضداشت میں اس امر کو صاف اور صریح الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے کہ ہمارا ہرگز یہ منشا نہیں ہے کہ ایشیا کے مردہ علوم و فنون کو تروتازہ کیا جائے بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان علوم و فنون کی جو اہل یورپ نے اس زمانے میں اپنی جدوجہد اور تحقیقات سے حاصل کیے ہیں ملک میں عام اشاعت کی جائے گورنمنٹ نے جو ملک میں مغربی تعلیم جاری کی ہے اس کا احسان مندی کے ساتھ ذکر کیا ہے لیکن موجودہ حالت میں رعایا کی صرف ایک قلیل تعداد سے فائدہ حاصل کر سکتی ہے اور عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے اس لیے جب تک دیسی زبان کے ذریعہ سے تعلیم نہ دی جائے گی ملک میں روشن خیالی نہیں پھیل سکتی اور تعلیم کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کو پر زور الفاظ میں جتایا گیا ہے کہ اس تحریک سے ہر گز یہ منشا نہیں ہے کہ انگریزی تعلیم گھٹا دی جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یا تو کلکتہ یونیورسٹی میں ایک شعبہ ایسا قائم کیا جائے کہ اس میں دیسی زبان کے ذریعہ علوم و فنون کی تعلیم اس درجہ تک دی جائے جو انگریزی میں دی جاتی ہے اور اسی قسم کے امتحان لیے جائیں اور دیسی ہی سندیں عطا کی جائیں یا ممالک مغربی شمالی میں ایک یونیورسٹی دیسی زبان کی علیحدہ قائم کی جائے اس امر کا بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ بالفعل دیسی زبان میں ایسی کتابیں موجود نہیں ہیں جن کے ذریعہ سے طالب علم اس درجہ تک علم کی تحصیل کر سکے جو اس وقت یونیورسٹی میں امتحان دینے کے لیے ضروری ہیں لیکن ایسی کتابوں کا موجود ہو جانا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ جو کتابیں یونیورسٹی کے نصاب تعلیم میں داخل ہیں ان کے ترجمے دیسی زبان میں تیار ہو سکتے ہیں اور بعض مضمونوں کی اصل کتابیں تصنیف ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ بہت سے اہل علم اس کام کے لائق موجود ہیں اور سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ اس کام کو انجام دے رہی ہیں۔ یہ ہے خلاصہ عرضداشت کا گورنمنٹ کی طرف سے جو جواب اس کا وصول ہوا اس میں چند باتیں قابل غور ہیں۔ گورنمنٹ اس امر کو تسلیم کرتی ہے کہ جمہور انام کو اعلیٰ درجہ کی تعلیم دینے کے لیے دیسی زبانیں کار آمد ہوں گی لیکن دیسی زبانوں میں ابھی اس اعلیٰ درجہ کی تعلیم کے لیے کافی سامان اور لوازمہ موجود نہیں ہے۔ دوسری بات جو زیادہ قابل لحاظ ہے یہ ہے کہ صرف ان کتابوں کا ترجمہ جو یونیورسٹی کے نصاب تعلیم میں داخل ہیں اسی قدر کافی نہ ہو گا جس کی بنا پر اس تجویز کو عمل میں لانے کی ہمت ہو سکے کیونکہ تعلیم یونیورسٹی کا مقصد صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بعض خاص خاص کتب سے واقفیت ہو جائے بلکہ یہ مقصد ہے کہ یورپ کے علوم و فنون کے فراخ دائرے میں علم کی تحصیل کے لیے طبیعت کو مستعد اور تیار کیا جائے اور کچھ عرصے تک غالباً ہندوستان کے باشندے صرف انگریزی کے ذریعہ سے اس بات کو حاصل کر سکتے ہیں تیسری بات جس کا گورنمنٹ نے اظہار کیا ہے ’’ در صورت پسندیدہ ہونے کے بھی گورنمنٹ کے واسطے یہ غیر ممکن ہے کہ ایسے گنجان آباد ملک کو جیسا کہ ہندوستان ہے کامل تعلیم دینے کا کل خرچ اپنے ذمہ لے‘‘ یعنی ملک کے اہل دولت کو بھی اپنی رضا و رغبت سے اپنے وقت، روپے اور اثر سے اس کام میں مدد دینی چاہیے جس کی تکمیل پر ہندوستان کی بہبودی اور ترقی کا انحصار ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭ طریقہ تعلیم مسلمانان (تہذیب الاخلاق بابت10ربیع الاول1289ھ) ’’ کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان‘‘ نے جو ایک سلیکٹ کمیٹی اس لیے مقرر کی تھی کہ وہ کمیٹی بعد غور و فکر و مباحثہ باہمی کے ایک رپورٹ لکھے کہ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے کونسا عمدہ طریقہ ہے اور کون کونسی زبان اور کون کون سے علوم اور کس طرح پر ان کو پڑھائے جاویں چنانچہ اس مطلب پر کمیٹی مذکورہ نے رپورٹ لکھی ہے اس میں19ممبر تھے اور سب کی رائے اس طریقہ تعلیم پر متفق ہوئی اول سیکرٹری (سرسید) نے ایک تمہیدی تقریر کی اور پھر طریقہ تعلیم بیان کیا اور پھر ممبروں نے اس پر رائے دی چنانچہ اس سب کو ہم اس مقام پر مندرج کرتے ہیں۔ گفتگو تمہیدی سید احمد خاں نے ممبروں سے یہ بات کہی کہ اس امر سے جس کی نسبت ہم رپورٹ تحریر کرتے ہیں یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم لوگ صرف وہی بات لکھیں جو زمانہ حال کے مناسب ہو اور جو اس وقت انجام بھی ہو سکے بلکہ یہ مقصد ہے کہ حالات اور حیثیات موجودہ سے قطع نظر کر کر ہم کو وہ تجویز کرنی چاہیے جو پوری پوری اور ٹھیک ٹھیک اعلیٰ درجہ پر مسلمانوں کے حق میں بہتر ہو تاکہ ہم کو معلوم ہو جاوے کہ ہم کو در حقیقت کیا کرنا ہے؟ او ربالفعل ہم کس قدر کر سکتے ہیں سید احمد خاں نے ممبروں سے کہا کہ تجویز اور عمل ان دونوں میں بڑا فرق ہے تجویز ہم کو ہمیشہ پوری اور کامل کرنی چاہیے اور اس تجویز پر عمل اس قدر جتنا کہ ہم وقتاً فوقتاً کر سکتے ہوں۔ فرض کرو کہ ہم کو ایک بہت عالیشان مکان بنانا ہے جب ہم اس کا نقشہ تجویز کریں گے تو اس تمام مکان کا پورا کامل نقشہ تجویز کریں گے اور جب اس کی تعمیر شروع کریں گے تو اسی قدر کریں گے جس قدر کہ تعمیر کا بالفعل ہم کو مقدور ہے اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ رفتہ رفتہ وہ مکان عالیشان مطابق نقشہ مجوزہ کے تیار ہو جاوے گا اور اگر ہم بلا پورا اور کامل نقشہ سونچے تعمیر شروع کر دیں گے تو ہم نے اس مکان میں سے کچھ نہ بنایا ہو گا بلکہ اس مکان کے بنانے کے لیے پھر کر اس قدر عمارت کا بھی ڈھانا پڑے گا جو بے نقشہ سوچے تعمیر کی تھی میرا مقصد اس تقریر اور تمثیل سے یہ ہے کہ اس وقت طریقہ تعلیم مسلمانوں کا پورا اور کافی تجویز کیا جاوے اور اس بات کا خیال نہ ہو کہ آیا اس وقت ہم اس کو کر بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ سید احمد خاں نے کہا کہ اس وقت دو ایک باتیں اور عرض کرنی چاہتا ہوں کہ آپ صاحب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ تعلیم ہمیشہ کسی ایک خاص مقصد کے لیے نہیں ہونی اور نہ کسی ایک گروہ کثیر کا ہمیشہ ایک ہی مقصود ہوتا ہے بلکہ ایک گروہ کثیر میں سے مختلف جماعتوں کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں ہم جس طریقہ تعلیم کے قرار دینے کی فکر میں ہیں وہ ایک بہت بڑے گروہ سے علاقہ رکھتا ہے اور یقینی مختلف جماعتوں کے مختلف مقاصد تعلیم کے ہیں پس اس وقت ہم کو ایسا طریقہ تعلیم تجویز کرنا چاہیے جو مختلف جماعتوں کے مختلف مقاصد کے پورا کرنے کو کافی ہو۔ سید احمد خاں نے اس مطلب کو دوبارہ زیادہ تر وضاحت سے بیان کیا اور یہ بات کہی کہ مثلاً ہم مسلمانوں میں ایک جماعت ایسی ہے جو گورنمنٹ کے اعلیٰ اعلیٰ عہدوں کے حاصل کرنے اور انتظام گورنمنٹ میں شامل ہو کر دنیاوی عزت حاصل کرنے اور اپنے ملک کو فائدہ پہنچانے کی آرزو رکھتی ہے ایک جماعت ایسی ہے کہ اس کو گورنمنٹ کے عہدوں کے حاصل کرنے کا کچھ خیال نہیں ہے بلکہ وہ اپنی قوت بازو سے بذریعہ تجارت یا اجرائے کار خانجات کے اپنی معاش پیدا کرنے کی خواہشمند ہے۔ ایک جماعت ایسی ہے کہ وہ صرف اپنی جائداد اور اپنے علاقجات کی درستی اور اپنے روز مرہ کی زندگی کے امورات کو بخوش اسلوبی انجام دینے کی آرزو رکھتی ہے۔ ایک جماعت ایسی ہے کہ علوم و فنون کو حاصل کرنا اور ان میں واقفیت کامل حاصل کرنا پسند کرتی ہے۔ ایک جماعت ایسی ہے کہ اس کو ان تمام چیزوں سے چنداں تعلق نہیں ہے بلکہ وہ بلحاظ اپنی معاد کے علوم دین میں دستگاہ کامل حاصل کرنا اور اسی میں اپنی زندگی بسر کرنا چاہتی ہے اور ایک جماعت عوام الناس کی ہے جن کے لیے کسی قدر عام تعلیم ہونا ضروری ہے بایں ہمہ ہر ایک کو اپنی اولاد کی نسبت یہ خواہش ہے کہ اس کے عقاید مذہبی بھی درست رہیں اور وہ ادائے فرائض مذہبی سے بھی غافل نہ ہو جاوے۔ پس جبکہ ہم تمام مسلمانوں کی تعلیم کا طریقہ قرار دیتے ہیں تو ہم کو ایسی تجویز کرنی چاہیے جس سے تمام مقاصد مذکورہ اور نیز دیگر مقاصد جو تعلیم سے متعلق ہیں حاصل ہوں۔ سید احمد خاں نے یہ بھی کہا کہ جب آپ سب صاحب ان مقاصد پر غور فرماویں گے جن میں سے امور معظمہ کو میں نے ابھی بیان کیا ہے تو آپ یقین کریں گے کہ کسی قوم کو یہ سب مقاصد جب تک کہ وہ خود ان مقاصد کے حاصل کرنے پر مستعد نہ ہو حاصل نہیں ہو سکتے پس ہم کو اپنے تمام مقاصد کے انجام کو صرف گورنمنٹ ہی پر منحصر رکھنا نہ چاہیے بلکہ یقین کرنا چاہیے کہ ان تمام مقاصد کا گورنمنٹ سے حاصل ہونا غیر ممکن اور مانند ممتنع بالذات کے ہے پس اس وقت ہم کو دو قسم کی تجویزیں کرنی چاہئیں ایک کامل اور پوری ادنیٰ سے اعلیٰ درجہ کی تعلیم تک کی جو ہمارے تمام مقاصد کو پورا کر سکیں اور جن میں ہم کو گورنمنٹ سے اس کی تعمیل کرانے کی کچھ خواہش نہ ہو بلکہ ہم کو خود اپنی سعی اور کوشش سے آپ اس کا انجام کرنا مدنظر ہو۔ دوسری تجویز ہم کو اس بات کی کرنی چاہیے کہ جب تک کہ ہم اس اول تجویز کو انجام دیں یا اس کے انجام دینے کے لائق ہوں اس وقت تک ان اصول و قواعد سے جو گورنمنٹ نے تعلیم کے لیے مقرر کیے ہیں کیونکر فائدہ اٹھاویں اور ہمارے متعدد مقصدوں سے جون جونسا مقصد تعلیم معینہ گورنمنٹ سے حاصل ہوتا ہے اس کو ہم کیونکر حاصل کریں۔ سید احمد خاں نے کہا کہ ایک بات میں اور کہنا چاہتا ہوں اور یقین کرتا ہوں کہ میری یہ بات میرے شریک ممبروں کو بری معلوم ہو گی اگرچہ افسوس ہے کہ میں اپنے شریکوں کو رنجیدہ کرتا ہوں مگر جو کہ میری رائے میں وہ بات بالکل سچ ہے اس لیے میں اس کے کہنے پر مجبور ہوں اور وہ بات یہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ جب مسلمانوں میں کچھ تعلیم کی تحریک ہوتی ہے تو ان کی سعی ہمیشہ اسی بات پر مقصود ہوتی ہے کہ وہی پورانا موروثی طریقہ تعلیم کا اور وہی ناقص سلسلہ نظامیہ درس کتب کا اختیار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس زمانہ میں اسی پورانے طریقہ پر مسلمانوں نے کئی مدرسہ تعلیم کے لیے جونپور، علی گڑھ، کانپور، سہارنپور، دیوبند، دھلی، لاہور میں جاری کیے ہیںمگر میں نہایت سچے دل سے کہتا ہوں کہ وہ محض بے فائدہ اور محض لغو ہیں ان سے کچھ بھی قومی فائدہ ہونے کی توقع نہیں ہے۔ زمانہ اور زمانہ کی طبیعت اور علوم اور علوم کے نتائج سب تبدیل ہو گئے ہیں ہمارے ہاں کی قدیم کتابیں اور ان کا طرز بیان اور ان کے الفاظ مستعملہ ہم کو آزادی اور راستی اور صفائی اور سادہ پن اور بے تکلفی اور بات کی اصلیت تک پہنچنا ذرا بھی تعلیم نہیں کرتے بلکہ بر خلاف اس کے دھوکہ میں پڑنا اور پیچیدہ بات کہنا اور ہر بات کو لون مرچ لگا دینا اور ہر امر کی نسبت غلط اور خلاف واقع الفاظ شامل کر دینا اور جھوٹی تعریف کرنا اور زندگی کو غلامی کی حالت میں رکھنا اور تکبر اور غرور کو خود پسندی کا منبع بنانا اور اپنے ابنائے جنس سے نفرت کرنا۔ ہمدردی کا نہ رکھنا، مبالغہ آمیز باتوں کا عادی کرنا، گذشتہ زمانہ کی تاریخ کو بالکل نا تحقیقی میں ڈالنا اور واقعات واقعی کو مثل قصہ و کہانیوں کے بنا دینا سکھاتے ہیں اور یہ تمام باتیں حال کے زمانہ اور حال کے زمانہ کی طبیعت کے مناسب نہیں ہیں اور اس لیے بجائے اس کہ کہ مسلمانوں کو ان سے کچھ فائدہ ہو مضرت حاصل ہونے کی توقع ہے اول تو یہی کس قدر بڑی مضرت ہے کہ ان کی عمر بے فائدہ چیز میں ضائع کی جاتی ہے پس میں چاہتا ہوں کہ میرے معزز شریک ممبر میری اس گفتگو سے رنجیدہ نہ ہوں بلکہ بر وقت تجویز طریقہ تعلیم کے ان باتوں پر بھی لحاظ رکھیں خواہ اس کو پسند کریں خواہ نا پسند کریں۔ لارڈ میکالے صاحب نے جبکہ وہ ہندوستان کی عام تعلیم کی بورڈ کے میر مجلس تھے اور اس زمانے میں گورنمنٹ کالجوں میں ایشیائی طریقہ تعلیم جاری تھا گورنمنٹ کالجوں کی نسبت ایک رپورٹ لکھی تھی اس کا منتخب میں اس مقام پر بیان کرتا ہوں انہوں نے لکھا کہ اگر گورنمنٹ کی رائے بندوبست موجودہ کو (یعنی ایشیائی تعلیم مروجہ اس وقت کو) غیر مبدل رکھنے پر ہو تو میری عرض یہ ہے کہ میرا میر مجلسی سے استعفا منظور ہو مجھ کو معلوم ہوتا ہے کہ میں اس میں کچھ کام نہیں آ سکتا میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس شے کو مجھ کو اپنی تقویت دینی ہوتی ہے جس کی نسبت مجھ کو خوب یقین ہے کہ وہ صرف ایک دھوکہ ہے مجھ کو یقین ہے کہ موجودہ بندوبست سچ کی جلدی ترقی کرنے کی طرف نہیں بلکہ معدوم ہونے والی غلطیوں کی طبعی موت کے توقف کرنے پر رجوع کرتا ہے میں خیال کرتاہوں کہ ہم کو تعلیم عام کے بورڈ کے معزز نام کا بالفعل کچھ حق نہیںہے۔ ہم ایک بورڈ یعنی مجلس میں واسطے اوڑانے سرکاری روپیہ کے اور واسطے چھاپنے ایسی کتابوں کے جو کم قیمت ہیں۔ اس کاغذ سے جس پر وہ چھاپی جاتی ہیں جب کہ وہ کورا تھا اور واسطے جھوٹی دلیری دینے نا معقول تواریخ اور نا معقول الہیات اور بیہودہ علم طبابت اور بیہودہ علم مذہبی کے اور واسطے تیار کرنے ایک فرقہ ایسے طالب علموں کے جو اپنی طالب علمی کو اپنے اوپر ایک بوجھ اور عیب پاتے ہیں۔ لارڈ میکالے صاحب کے الفاظ جو نسبت مذہب کے ہیں ان کو چھوڑ دو باقی مطلب پر غور کرو کہ بالکل سچ ہے پس اب ہم کو اپنا سلسلہ تعلیم ایسا قائم کرنا چاہیے کہ جو تمام عیبوں سے پاک ہو اور جس سے در حقیقت مسلمانوں کے دین و دنیا کی بہتری اور ترقی متصور ہو۔ ایک اور بات بھی قابل اطلاع کے ہے کہ میں اکثر مصنفین رسالوں کی بھی رائے دیکھتا ہوں اور ممبرون کی بھی رغبت پاتا ہوں اور اور لوگوں کی رائے کا بھی رحجان اس طرف دیکھتا ہوں کہ انگریزی زبان اور علوم کی تعلیم کے ساتھ عربی زبان کی اور ان علوم کی بھی جو عربی میں ہیں تعلیم دی جاوے مگر یہ رائے اس سبب سے قائم ہوئی ہے کہ ان لوگوں نے خیال نہیں کیا کہ انگریزی اور عربی کی تحصیل میں کس قدر محنت اور کس قدر وقت درکار ہوتا ہے اگر اس بات کو جاری کیا جاوے گا اور کوئی حد و تمیز اس کے لیے مقرر نہ ہو گی تو دونوں میں سے کوئی حاصل نہیں ہونے کا لڑکے نہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے پس میں چاہتا ہوں کہ تمام جذبات انسانی کو جن میں سے پرانی رسم کی پابندی سب سے زیادہ قوت رکھتی ہے اور انسان کو ٹھیک بات تک پہنچنے نہیں دیتی ذرا دل کو ٹھنڈا کر کر تجویز کیا جائے کہ در حقیقت کون بات دین و دنیا کے لیے مفید ہے جو ہم کو کرنی چاہیے۔ بیان طریقہ تعلیم ممبران شریک نے اس تقریر کو باکراہ سنا اور اس میں سے اس بات پر متفق الرائے ہوئے کہ بلا شبہ تعلیم مسلمانوں کا طریقہ دو قسم کا تجویز کرنا چاہیے ایک وہ جو خود مسلمان اس کو قائم کریں جس سے ان کے تمام مقاصد دینی و دنیوی انجام پاویں۔ دوسرے وہ جن سے مسلمان ان اصول و قواعد سے جو گورنمنٹ نے تعلیم کے لیے مقرر کیے ہیں فائدہ اٹھاویں پس امور مذکورہ حسب تفصیل ذیل پیش ہوں۔ اول قواعد تعلیم مسلمانان جن کا قائم کرنا اور جاری کرنا خود مسلمانوں کو لازم ہے۔ سید احمد خاں نے کہا کہ میں نے ان امور کے سوچنے اور سمجھنے اور غور کرنے میں شاید بہ نسبت اور ممبروں کے زیادہ وقت صرف کیا ہے اور زیادہ فکر کی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جو طریقہ تعلیم میں نے خیال کیا ہے اس کو میں بہ ترتیب بیان کر دوں۔ پھر ممبروں کو اس کے منظور کرنے یا تبدیل کرنے کا بہ خوبی موقع ہو گا۔ ذکر علوم مسلمانوں کی تعلیم دو قسم پر منقسم ہونی چاہیے ایک تعلیم عام اور دوسری خاص۔ تعلیم عام مسلمانوں کی علوم مفصلہ ذیل میں ہونی چاہیے۔ اول دینیات فقہ، اصول فقہ، حدیث، اصول حدیث، تفسیر، علم سیر، علم عقاید دوم علم ادب زبان دانی اور انشاء پردازی اردو، فارسی، عربی، انگریزی، ولیٹن، علم تاریخ، علم جغرافیہ، علم اخلاق، مینٹل سائنس یعنی علم قوائے انسانی، علم منطق، علم فلسفہ، علم سیاست مدن یعنی اصول گورنمنٹ، علم انتظام مدن یعنی پولیٹکل اکونمی سوم علم ریاضی علم حساب، علم جبر و مقابلہ، علم ہندوسہ فروعات اعلیٰ علم ریاضی کی چہارم علم طبیعات علم سکون، علم حرکت، علم آب، علم ہوا، علم مناظر، علم برق، علم ہیئت، علم آواز، علم حرارت، نیچر فلاسفی تعلیم خاص مسلمانوں کی ان علوم میں ہونی لازم ہے جن کی تفصیل ذیل میں مندرج ہے انجینئری، اینیمل فزیالوجی یعنی علم حیوانات، ایناٹومی یعنی علم تشریح، ذوالوجی حسب اینیمل فزیالوجی، باٹنی یعنی علم نباتات، جیالوجی یعنی علم طبقات الارض، منرالوجی یعنی علم جمادات، کمسٹری یعنی علم کیمیا یہ وہ علم ہیں جن میں مسلمانوں کی تعلیم ہونی چاہیے ان کی تفریق اور ان کی مقدار کی تعین ہر ایک درجہ تعلیم کے لیے جدا جدا ہو گی اور جس کا اندازہ ہر ایک درجہ کی تعلیم کے لیے کیا جاوے گا۔ طریقہ تعلیم و تربیت امراء اور اہل مقدور اور ذی دولت مسلمانوں کے لڑکوں کی تعلیم کے لیے نہایت ضرور ہے کہ ان کی عمر دس برس تک نہ پہنچنے پاوے کہ وہ اپنے گھر سے جدا رکھے جاویں اور ان کی خاص طور پر اور خاص نگرانی میں تعلیم ہو اور اس لیے ضرور ہے کہ کسی شہر کے قریب جس کی آب و ھوا عمدہ ہو اور شہر بھی چھوٹا ہو ایک پر فضا میدان تجویز کر کے مکانات تعمیر کیے جاویں اور پھول باغ لگایا جاوے۔ اسی عمارت کے شامل ایک مسجد بنائی جاوے جس میں موذن و امام مقرر ہو اور ایک کتب خانہ بنایا جاوے اور ایک بڑا کمرہ کھانا کھانے کے لیے اور ایک بڑا کمرہ ایسے کھیلوں کے کھیلنے کے لیے جو مکان کے اندر کھیلے جاتے ہیں اور باقی مختصر و مناسب کمرہ اس طرح پر کہ ہر ایک لڑکے کو ایک مناسب کمرہ بیٹھنے اور پڑھنے کو ملے۔ کسی لڑکے کے ساتھ کوئی خاص خدمتگار نہ رہے بلکہ تمام خدمتگار انہیں مکانات کے متعلق نوکر ہوں اور ہر ایک خدمتگار کو کمرے تقسیم کیے جاویں پس ان کمروں کے رہنے والے لڑکوں کی خدمت اور کمروں کا جھاڑنا اور آراستہ کرنا اور پلنگوں او ربچھونوں کا درست کرنا وہی لوگ کیا کریں گے۔ ان تمام لڑکوں کو ضرور ہو گا کہ مسجد میں ہر روز کی نمازیں جماعت سے پڑھیں اور صبح کی نماز کے بعد کسی قدر قرآن مجید بموجب اس قاعدہ کے پڑھ لیا کریں جو تجویز کیا جاوے اور ہر ایک کو ایک قسم کا یکساں لباس پہنایا جاوے اور سب مل ک رایک جگہ وقت معین پر کھانا کھاویں ان کے اوقات پڑھنے اور کھیلنے کے اور جسمانی ورزش کے سب مقرر کیے جاویں اور ہر ایک لڑکے کو ہر ایک وقت پر جو کام مقرر ہے اس کا کرنا واجب و لازم ہو۔ اس مکان پر ایک نہایت لائق اور معتمد شخص بطور اتالیق یا گورنر کے مقرر ہو تاکہ وہ تمام نگرانی اور سب طرح کا بندوبست کرتا رہے اور لڑکوں کی صحت و تندرستی کا نگراں رہے اور اس بات کی خبرداری اور نگرانی کرے کہ تمام لڑکے اوقات معینہ میں وہی کام کرتے ہیں جو اس وقت کے لیے معین ہے یا نہیں۔ لڑکوں کو اپنے گھر جانے اور ماں باپ اور عزیز و اقارب سے ملنے یا ان کو لڑکوں سے ملنے اور ان کا آرام و آسائش کا حال دیکھنے کو آنے کے لیے قواعد و مقرر ہوں اور ہمیشہ ان قواعد کی پابندی رہے۔ اتفاقیہ بیماری یا اتفاقیہ ضرورت کے واسطے ایک طبیب ملازم رہے اور اس مقام کے سول سرجن سے بھی بندوبست کر لیا جاوے تاکہ اتفاقیہ اور دفعتاً کی بیماری کی حالت میں طبیب یا ڈاکٹر کا علاج جیسا کہ ان لڑکوں کے مربیوں نے اجازت دی ہو ہوسکے۔ یہ بندوبست صرف اتفاقیہ اور ناگہانی بیماری کے لیے ہے ورنہ بحالت بیماری زاید اس کو مربی اس کو گھر پر لے جاویں گے اور خود جس طرح چاہیں گے معالجہ کریں گے۔ یہ مکان عالی شان امراء اور اہل دول کے چندہ سے تعمیر ہونا چاہیے اور اخراجات ماھواری کا اوسط لگا کر جو لڑکا اس میں داخل ہو اور سکونت اختیار کرے اس کے مربیوں سے وہ خرچ لیا جاوے۔ خوب یاد رہے کہ جب تک ہمارے لڑکے گھروں سے علیحدہ ہو کر اس طرح پر تربیت نہ پاویں گے ہمیشہ خراب اور نالائق اور جاہل اور کمینہ عادتوں کے عادی رہیں گے۔ مدرسۃ العلوم اسی شہر میں جہاں یہ مکان تعمیر ہو ایک بہت بڑا عالی شان مدرسہ تعمیر کیا جاوے اور اس کا نام انگریزی زبان میں’’ دی محمدن اینگلو اورینٹل کالج‘‘ اور عربی زبان میں’’ مدرسۃ العلوم‘‘ رکھا جاوے اس مدرسہ میں وہ لڑکے امراء اور ذی مقدور لوگوں کے جو ان مکانات میں رہتے ہیں اور نیز اور مسلمانوں کے جو ان میں نہیں رہتے عموماً تعلیم پاویں گے۔ یہ مدرسہ در حقیقت تین مدرسوں پر مشتمل ہو گا۔ اول انگریزی، دوئم اردو، سوئم عربی فارسی، جو مدرسہ انگریزی کا ہو گا اس میں بالکل انگریزی پڑھائی جاوے گی اور تمام علوم و فنون اور جو کچھ کہ اس میں تعلیم ہو گا وہ سب انگریزی میں ہو گا الاھر طالب علم کو سیکنڈ لینگوج بھی پڑھنی ہو گی لیٹن و اردو یا لیٹن و فارسی یا لیٹن اور عربی اور اس کو بشمول اپنی تعلیم کے کچھ مختصر کتابیں فقہ و حدیث و عقائد کی اردو زبان میں پڑھ لینی ہوں گی۔ اس مدرسہ کے تجویز کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اب زمانہ ایسا آتا جاتا ہے کہ جو لوگ گورنمنٹ سے اعلیٰ عہدوں کے پانے کی تمنا رکھتے ہیں اور دنیا میں نہایت اعلیٰ درجہ کی عزت جو رعایائے گورنمنٹ حاصل کر سکتی ہے حاصل کرنا چاہتے ہیں جب تک کہ وہ اعلیٰ درجہ کا کمال انگریزی زبان میں حاصل نہ کریں گے اس وقت تک یہ بات مسلمانوں کو نصیب نہیں ہونے کی، اور ایسا کمال انگریزی میں بغیر اس کے کہ اسی کو خوب حاصل کریں حاصل ہونا غیر ممکن ہے پس جو لوگ کہ اس قسم کے عہدوں اور عزتوں کے خواہاں ہیں ان کے لیے یہ تجویز کی گئی ہے۔ علاوہ اس کے ضروری ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایک جماعت اس قسم کی ہو کہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کا کمال انگریزی میں حاصل کرے کیونکہ اس جماعت سے ملک کو اور ملک کے لوگوں کو اور ترقی تعلیم کو بہت فائدہ ہو گا اور وہ ذریعہ اور منبع شیوع علوم بن جاویں گے ان کی بدولت تمام علوم انگریزی زبان سے اردو زبان میں آ جاویں گے اور ان کی ذات سے ملک کو منفعت عظیم پہونچے گی۔ اردو مدرسہ اس میں تمام علوم و فنون بزبان اردو پڑھائے جاویں گیا ور جو کچھ تعلیم اس میںہو گی وہ سب اردو میں ہو گی البتہ ہر طالب علم کو تین زبانوں میں سے کوئی زبان بطور سیکنڈ لینگوج کے اختیار کرنی ہو گی انگریزی، فارسی، عربی میں امید کرتا ہوں کہ جو لڑکا دس بارہ برس کی عمر میں اس مدرسہ میں داخل ہو گا وہ ضرور اٹھارہ برس کی عمر تک تمام سینز یعنی علوم کو اردو زبان میںاس قدر تحصیل کر لے گا جس قدر کہ درجہ بی اے کے لیے مقرر ہیں اور سیکنڈ لینگوج میں اس کو اس قدر لٹریچر آ جاوے گی جیسے کہ انٹرنس کلاس تک پڑھنے والوں کو آتی ہے۔ پس اس عمر کے اور اس قدر تحصیل کے بعد طالب علم اس سکنڈ لینگوج میں سے اس زبان کی لٹریچر کو جو اس نے اختیار کی ہے تکمیل کرنی شروع کرے اور تین برس کو اس کی تکمیل کے لیے بہت کافی ہوں گے پس اگر اس نے ان تینوں برس میں انگریزی زبان کی تکمیل کی ہے تو اس کو تین برس کی اور مہلت اس لیے بخوبی ملے گی کہ وہ عدالت کے قوانین سیکھے اور مختلف عہدوں کے لیے جو امتحان مقرر ہیں ان میں امتحان دے اور نوکری گورنمنٹ کی تلاش کرے اور اس کو حاصل کرے یا اور کسی کاروبار میں جس میں وہ چاہے مشغول ہو۔ اور اگر اس نے ان تین برس میں فارسی زبان کی تکمیل کی ہے تو اس نے یقینی گورنمنٹ کی نوکری سے تو قطع نظر کر لی ہے کیونکہ وہ تو بغیر انگریزی پڑھے حاصل نہ ہو گی پس اس کو مہلت ہے کہ جہاں تک چاہے فارسی میں کمال بہم پہونچائے اور شاعر و منشی وا دیب ہو کر دنیا میں اپنا نام یادگار چھوڑ جاوے۔ اور اگر اس نے ان تین برس میں عربی زبان کی تکمیل کی ہے تو اس نے بوجہ مذکورہ بالا سرکاری نوکری سے تو قطع نظر کر لی ہے پس اس کو بھی عربی زبان میں اور نیز ان علوم میں جو عربی زبان میں ہیں اور نیز علوم دین مثل فقہ و حدیث و تفسیر و کلام وغیرہ میں جہاں تک کہ وہ چاہے ترقی کرنے اور کمال بہم پہنچانے کا موقع حاصل ہے۔ یہ مدرسہ جو اس قسم کا تجویز کیا گیا ہے جس میں اول تمام علوم اردو زبان میں پڑھائے جاویں گے اس کا سبب یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزی مدرسوں میں کافی لیاقت لڑکوں کو نہیں آتی ایک مشکل غیر زبان کا سیکھنا ہوتا ہے پس اس تدبیر سے ہم نے ان کی ایک مشکل کو موقوف کر دیا ہے تاکہ وہ بسبب اپنی زبان کے علوم و فنون سے نہایت جلد بخوبی واقف ہو جاویں اور بعد اس کے لٹریچر میں محنت کر کر جہاں تک ان سے ہو سکے ترقی کر لیں۔ اس تدبیر سے ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ بہت کم طالب علم علوم و فنون سے گو کہ وہ اردو ہی زبان میں کیوں نہ ہوں نا واقف رہیں گے اور بہ نسبت حال کے لٹریچر پر محنت کرنے کی زیادہ مہلت ملے گی اور ان کو اس کی زبان کی لٹریچر بہ نسبت حال کے بہت زیادہ آ جاوے گی۔ اس بات پر اکثر بحث ہوئی ہے کہ سرکاری کالجوں کی تعلیم سے لیاقت کامل نہیں ہوتی اور کیوں وہ تعلیم انگلستان کے کالجوں کی تعلیم کے برابر نہیں ہے پس میری رائے میں اس کا سبب یہی ہے کہ انگلستان میں تعلیم انہیں لوگوں کی زبان میں ہوتی ہے اور تمام علوم و فنون انہیں کی زبان میں ہیں اور ہر وقت اور ہر محل پر ان کو اپنے علم کی ترقی کا موقع ہوتا ہے بر خلاف ہندوستان کے کہ ان کی تعلیم ان کی مادری زبان میں نہیں ہے اور ان کو دوسری زبان پر قادر ہونے میں نہایت مشکل پیش آتی ہے اور اس پر قادر ہونے تک تمام وقت تحصیل علوم و فنون کا گذر جاتا ہے پس اس تبدیلی سے جو اس مدرسہ کے تقرر میں کی گئی ہے امید ہے کہ وہ رکاوٹ نہ رہے گی۔ جو طالب علم کہ بذریعہ عربی زبان کے علوم تحصیل کرنے پر متوجہ تھے ان میں بھی یہ نقصان رہتا تھا کہ وہ ان علوم و فنون سے جو نہایت ضروری ہیں نا واقف محض رہتے تھے اور اس تبدیلی سے جو طریقہ تعلیم میں کی گئی ہے امید یہ ہے کہ وہ بھی ناواقف نہ رہیں گے اور عربی زبان میں بھی کمال حاصل کرنے کا ان کو موقع حاصل رہے گا عربی فارسی مدرسہ اس میں ابتداء کسی علم کی تعلیم نہیں ہونے کی، بلکہ جو انگریزی اور اردو پڑھنے والوں نے ان زبانوں میں سے جس کو بطور سیکنڈ لینگوج کے اختیار کیا ہو گا اور اردو میں علوم و فنون پڑھ لینے کے بعد عربی یا فارسی زبان کے لٹریچر و علوم میں کمال حاصل کرنے کا ارادہ کیا ہو گا تو ان کی پڑھائی فارسی عربی میں اعلیٰ درجہ تک کی اس مدرسہ میں ہو گی۔ تینوں مدرسہ مل کر در حقیقت ایک مدرسہ ہو گا اور جو کہ ہر قسم کے یعنی انگریزی سے اور اردو فارسی و عربی کے اس میں موجود ہوں گے تو سلسلہ تعلیم ہر ایک مدرسہ کا جو قائم کاے گیا ہے وہ استادوں کی تقسیم اوقات سے بخوبی تکمیل پاتا رہے گا۔ مدارس یہ چھوٹے چھوٹے مدرسے ہوں گے اور ہر شہر و قصبہ و ضلع میں جہاں ان کا قائم ہونا ممکن و مناسب ہو قائم ہوں گے ان میں تعلیم صرف ان قواعد کے مطابق ہو گی جو اردو مدرسہ کے لیے ہیں اور اسی طرح اس مدرسہ کے طالب علموں کو ایک سیکنڈ لینگوج مقرر انگریزی یا فارسی یا عربی اختیار کرنی ہو گی۔ اس مدرسہ میں اور پہلے مدرسہ اردو میں صرف اتنا فرق ہو گا کہ اس مدرسہ میں ایک حد معین تک علوم پڑھائے جاویں گے اور جب اس حد تک طالب علم پہنچ جاویں گے تو اس مدرسہ خارج ہو جاویں گے اور ان کو اختیار ہو گا کہ اس سے اعلیٰ درجہ کی تعلیم اگر چاہیں تو مدرسۃ العلوم میں داخل ہوں۔ یہ مدرسے اس مراد سے ہوں گے کہ مدرسۃ العلوم کے لیے لڑکے تیار کریں۔ ان کی مثال بعینہ ایسی ہو گی جیسے گورنمنٹ ضلع اسکول کالجوں کی بھرتی کے لیے طالب علم تیار کرتے ہیں۔ مکتب ہر گاؤں اور قصبہ جہاں جہاں ہو سکے مکتب قائم ہونے چاہئیں ان میں قرآن شریف بھی پڑھایا جاوے اور اردو زبان میں کچھ کتابیں اور حساب وغیرہ سکھایا جاوے اور اردو میں لکھنا پڑھنا بھی سکھایا جاوے اور اس مکتب میں بھی کسی قدر فارسی اور کسی قدر انگریزی سیکنڈ لینگوج ہو۔ فارسی تو صرف اس قدر ہو جس سے اردو کو مدد پہنچے اور انگریزی نہایت قلیل صرف اتنی کہ حرف پہچان لے۔ چھاپے کے حرفوں میں لکھا ہوا نام پڑھ سکے اور انگریزی ہندھے جو کلوں اور اوزاروں پر لکھے ہوئے ہوتے ہیں ان کو پہچان سکے تاکہ اگر کسی کل سے کام لینا ہو تو کام لے سکے۔ اس مکتب میں قرآن مجید نئے قاعدہ سے پڑھایا جاوے جس میں کل قرآن شریف چھ مہینے میں بخوبی ختم ہو جاتا ہے بعض لوگوں نے قرآن مجید کے کل لفظ بحذف الفاظ مکرر جدا چھانٹ لیے ہیں اور ان کو بہ ترتیب دو حرفی و سہ حرفی مرتب کر لیا ہے اور الف بے کے بعد صرف ان لفظوں کے پڑھا دینے سے کل قرآن مجید ناظران پڑھنا بخوبی آ جاتا ہے۔ اس مکتب میں نماز پڑھنا بھی بتایا جاوے گا اور چھوٹی چھوا اردو کتابیں مسئلوں کی بھی جیسے کہ راہ نجات، حقیقت الصلوہ وغیرہ ہیں لڑکوں کو پڑھائی جاویں گی۔ حفاظی مکتب جو لڑکے مسلمانوں کے قرآن مجید حفظ کرنا چاہیں یا اشخاص نابینا جو قرآن مجید حفظ کرنے کی زیادہ رغبت رکھتے ہیں ان کے لیے بڑے بڑے شہروں اور مناسب مناسب مقاموں پر مکتب مقرر ہوں جن میں وہ لوگ قرآن مجید حفظ کیا کریں مگر اس مکتب کو بالکل علیحدہ رکھنا چاہیے اور کسی مدرسہ یا مکتب کے شامل کرنا نہیں چاہیے۔ عمر تعلیم اگرچہ ابتداء جب مدرسے مقرر ہونگے ان میں عمر کا چنداں لحاظ نہ ہو گا بلکہ منتظمان کی رائے پر اور لڑکوں کی حالت پر ان کا داخلہ منحصر ہو گا مگر جبکہ انتظام بہ خوبی ہو جاوے اس وقت ہر ایک قسم کے مدرسہ کے لیے عمر کی تعین ضرور ہو گی پس لڑکوں کی تعلیم میں ان کی عمر کا حسب تفصیل ذیل لحاظ رکھنا چاہیے گا جس کے لیے پانچ درجہ قرار دیے جاتے ہیں۔ اول چھ برس سے دس برس تک، اس میں چاہیے کہ لڑکا قرآن مجید پڑھ لے اور کچھ اردو کتابیں بھی اور مسائل کی چھوٹی چھوٹی کتابیں جیسی راہ نجات اور حقیقت الصلوۃ وغیرہ ہیں پڑھ لے اور کچھ کچا پکا لکھنا بھی سیکھ لے اور اس کو اس قدر استعداد ہو جاوے کہ اردو عبارت بآسانی پڑھ لکھ سکے اور انگریزی حرفوں اور ہندوسوں کو پہچاننا اور نام پڑھ لینا سیکھ لے یہ وہ تعلیم ہے جس کا مکتبوں میں انتظام ہونا چاہیے۔ دوم گیارہ برس سے تیرہ برس تک، اس عمر میں اس قدر پڑھ لینا چاہیے جو روز مرہ کے کاموں اور امورات متعلقہ زندگی میں معاش کے کام میں درکار ہیں سیدھے سادھے مسائل، مذہبی و عقاید مذہبی سے بھی واقفیت حاصل ہو۔ یہ وہ تعلیم ہے جو مدارس مجوزہ میں تجویز کی گئی ہے۔ اہل پیشہ اور غریب آدمی بھی جو اپنے لڑکوں کو اپنے پیشہ میں مصروف کرتے ہیں اس قدر عمر تک لڑکوں کو تعلیم میں رکھنے سے کچھ اپنا ہرج نہیں سمجھتے اور اگر اہل پیشہ کے لڑکے اس قدر درجہ تک کی تعلیم پا جاویں اور ہمارے ملک میں عموماً اس قدر درجہ تک علم پھیل جاوے تو ہندوستان ہندوستان نہیں رہنے کا، بلکہ قطعہ جنت ہو جاوے اور ٹھیک ٹھیک ہندوستان جنت نشان کا لقب اس پر صادق آوے گا۔ سوم چودہ برس سے اٹھارہ برس تک اس عمر میں جملہ علوم و فنون سے جو دین و دنیا میں بکار آمد ہیں واقفیت کلی حاصل ہونی چاہیے۔ چہارم انیس برس سے اکیس برس تک، اس عمر میں خاص علوم اور خاص زبان جس میں طالب علم کمال حاصل کرنا چاہیے حاصل کرنے ہوں گے۔ پنجم بائیس برس سے پچیس برس تک، یہ وہ زمانہ ہے جس میں طالب علم بعد فراغ تعلیم ان چیزوں کو پڑھنے اور امتحان دینے میں مشغول رہے گا جن کے ذریعہ سے سرکاری نوکریاں ہاتھ آتی ہیں اور اسی قسم کے حصول معاش کے ذریعوں کو حاصل کرنے میں مشغول ہو گا۔ یہ پچھلی تینوں قسم کی تعلیمیں وہ ہیں جو مدرسۃ العلوم سے علاقہ رکھتی ہیں۔ سلسلہ تعلیم انگریزی مدرسہ کے لیے ہم کو سلسلہ تعلیم کے معین کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیمرج اور آکسفورڈ کی دو یونیورسٹیاں ہماری ہدایت کے لیے موجود ہیں پس ہمیشہ ہم کو ان کی ہی تقلید اور پیروی سے سلسلہ کتب درسیہ کا معین کرنا اور اسی طریق پر تعلیم دینا کافی ہو گا۔ اردو مدرسہ کے لیے البتہ ہم کو کتابیں تلاش کرنی اور ان کا سلسلہ تعلیم قائم کرنا پڑے گا مگر یہ بات کچھ مشکل نہیں ہے سلسلہ کتب درسیہ علوم و فنون معینہ وہی قائم رہے جو انگریزی میں ہو انہیں کتابوں کا جو انگریزی میں علوم و فنون کی پڑھائی جاویں اردو میں ترجمہ ہو اور اردو میں پڑھائی جاویں پس ان دونوں مدرسوں میں پڑھائی تو ایک سی ہو گی صرف یہ فرق ہو گا کہ جو کتاب انگریزی مدرسہ میں انگریزی زبان میں پڑھائی جاتی ہے وہ اس مدرسہ میں اردو میں پڑھائی جاوے گی۔ عربی و فارسی مدرسہ کے لیے بھی کتابوں کے متعین کرنے میں چنداں دقت نہ ہو گی فارسی زبان کے علم انشاء کی کتابیں نہایت آسانی سے بہت عمدہ اور سادہ منتخب ہو سکتی ہیں جو سلسلہ مناسب سے درس میں داخل ہوں عربی زبان میں جو سلسلہ تعلیم جاری ہے بلا شبہ اس میں تبدیلی عظیم کرنی پڑے گی سلسلہ نظامیہ جو بالفعل جاری ہے محض لغو ہے اور حال کے زمانہ کے مطابق نہیں بلا شبہ اس کو ترک کرنا اور سلسلہ جدید قائم کرنا پڑے گا۔ طالب علموں کو لغو مباحث میں ڈالنا اور الفاظ کی بحث پر ان کی عمر کو ضائع کرنا محض بے فائدہ ہے بعوض اس کے یہ بات چاہیے کہ سیدھے سادے اور صاف مسائل صرف و نحو ان کو پڑھائے جاویں بغیر کسی بحث کے تاکہ وہ بخوبی بموجب قواعد صرف و نحو عربی کی عبارت پڑھ سکیں۔ چند رسالہ منطق خالص کے جو بہت صاف اور سیدھے ہوں ان کو پڑھانے چاہیے اور علم معانی بیان کے سیدھے مسئلہ سکھانے چاہئیں اور عربی بولنے اور عربی لکھنے کی مشق کرانی چاہیے پس اس قدر تعلیم متعلق علم ادب کو کافی سمجھنا چاہیے۔ اس تعلیم کے لیے بھی کتابوں کی چنداں مشکل نہیں پڑنے کی کتب موجودہ میں سے ایسی صاف صاف کتابیں با آسانی منتخب ہو سکتی ہیں اور بعض کتابوں پر ایک عالم نظر ثانی کر کر ان میں سے فضول مباحث کو حذف کر کر کتابوں کو مناسب حال کر دے سکتا ہے۔ باقی رہی تعلیم کتب مذہبی کی بالفعل ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ کتب مذہبی میں سے ابتداء سے آخر تک کسی کتاب کے پڑھنے کا رواج نہیں ہے بلکہ مقامات معینہ ہر ایک کتاب کے پڑھ ک رباقی کتاب کو چھوڑ دیتے ہیں میری دانست میں اس طریقہ کو تبدیل کرنا چاہیے ایک آدھ متن جو عمدہ اور مفید ہو وہ بتمامہ پڑھایا جاوے اور باقی کتابوں میں سے ان مقامات کا جو اس زمانہ میں مفید اور بکار آمد ہیں انتخاب کر کر ایک چھوٹی سی کتاب بنائی جاوے مثلاً ھدایہ اس میں سے عمدہ اور مفید مقامات کا انتخاب کر کر تلخیص الھدایہ اس کا نام رکھا جاوے جو چند جزو پر ہو اور وہ بتمامہ پڑھا دیا جاوے اسی طرح کتب صحاح سنہ حدیث میں سے احادیث عمدہ و مستند و مفید و ضروری کا انتخاب کر کر تلخیص البخاری و تلخیص المسلم وھذا القیاس چھوٹی چھوٹی کتابیں بنا لی جاویں اور وہ بتمامہ پڑھائی جاویں۔ تفسیر میں جلالین شاید نہایت عمدہ ہے اور انتخاب کی بھی ضرورت نہیں رکھتی مگر وہ نہایت آسان ہے اور اس سے زیادہ قابلیت کے لیے دوسری تفسیر ہونی چاہیے بس وہ تفسیر بیضاوی ہے اس کی بھی تلخیص کی جاوے اس طرح پر کہ جہاں تک کہ اس میں مباحث عربیت سے متعلق ہیں وہ انتخاب کر لیے جاویں اور باقی امور چھوڑ دیے جاویں غرض کہ اسی طرح کتابوں کے انتخاب اور تلخیص سے ایک سلسلہ کتب درسیہ عربیہ کا قائم کر لیا جاوے پس یہ وہ طریقے ہیں جن سے میری دانست میں تعلیم مسلمانوں کی اس طریق پر جو دین و دنیا کے لیے مفید ہو جاری ہو سکتی ہے اور نکبت اور جھل جو مسلمانوں میں پھیلتا جاتا ہے اس کا علاج ہو سکتا ہے مگر ہر شخص یہ بات بخوبی اور با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریقہ تعلیم کا نہ کسی طرح گورنمنٹ اختیار کر سکتی ہے اور نہ سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں جاری ہو سکتا ہے خود مسلمان البتہ بخوبی جاری کر سکتے ہیں اور کچھ شک نہیں کہ اس کے اجراء کا مقدور بھی رکھتے ہیں صرف ہمت اور محنت اور توجہ درکار ہے۔ دوم وہ طریقہ جس سے گورنمنٹ کالجوں اور اسکولوں کی تعلیم زیادہ تر مسلمانوں کے مناسب حال ہو جاوے اور اس سے مسلمان فائدہ اٹھاویں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ گورنمنٹ کے کالجوں اور اسکولوں کو ایسا تصور کریں کہ صرف انگریزی زبان کی تعلیم کا ایک قسم کا مدرسہ ہے جیسا کہ ان کے لیے اوپر تجویز ہوا ہے اور تمام علوم و فنون اس میں بزبان انگریزی تعلیم دیے جاتے ہیں اور اردو، فارسی، عربی صرف بطور سیکنڈ لینگوج کے ہے اور صرف ان مدرسوں کو زیادہ تر مناسب اور مفید کرنے کے لیے مفصلہ ذیل باتوں پر توجہ کریں۔ اول گورنمنٹ سے درخواست کریں کہ جس قدر انگریزی کی تعلیم اب دی جاتی ہے اس میں ترقی کی جاوے اور ہر ایک درجہ کی تعلیم بالکل یونیورسٹی کیمرج اور آکسفورڈ کے برابر کر دی جاوے۔ دوم یورپ کے طالب علموں کو لٹریچر میں قدرتی دستگاہ ہوتی ہے کیونکہ وہ ان کی مادر زاد زبان ہے اس لیے ان کو تھوڑی تحصیل میں آ سکتی ہے مگر ہندوستان کے لیے کالجوں میں لٹریچر کی پڑھائی زیادہ تر کی جاوے تاکہ لیاقت تحریر و تقریر بخوبی آ جاوے۔ سوم ہر کالج میں بہ تحت انتظام پرنسپل کے ایک کلب مقرر ہو جس کا پریذیڈنٹ پرنسپل ہو اور ہر ہفتہ اس میں اعلیٰ کلاسوں کے طالب علم اسپیچیں مضامین معین میں کیا کریں اور اگر چھوڑے کلاسوں میں اس کو وسعت دی جاوے اور ہر کلاس کے ماسٹر کے اہتمام میں اس کے طالب علم ہر ہفتہ اس کی مشق کیا کریں تو ترقی لٹریچر کے لیے نہایت مفید ہو گا چہارم مسلمان گورنمنٹ سے درخواست کر کر بشمول ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن ایک کمیٹی مقرر کریں جو ان کتابوں کو منتخب کرے گی خواہ خود تالیف کرے یا تالیف کرائے گی جو سیکنڈ لینگوج کی تعلیم کے لیے درکار ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر اردو و فارسی و عربی کی تعلیم کی کتابوں میں جو بطور سیکنڈ لینگوج کے پڑھائی جاتی ہیں کچھ درستی کی جاوے اور کتابیں عمدہ و مفید اصلاح کمیٹی اس میں داخل کی جاویں تو مسلمان طالب علموں کو رغبت بھی ہو گی اور بہ نسبت حال کے ان زبانوں کی تعلیم کی بھی ترقی ہو جاوے گی اور جب عربی فارسی کی تعلیم ایک عمدہ قاعدہ پر ہو گی تو مسلمان طالب علموں کو کسی وقت پر اس کو اعلیٰ درجہ تک ترقی دینے کا موقع حاصل رہے گا۔ پنجم بڑے بڑے شہروں اور قصبوں کے مسلمان بہ منظوری گورنمنٹ ایک کمیٹی مقرر کریں جو اس بات کی تحقیقات کیا کرے گی کہ کس قدر مسلمان لڑکے شہر یا قصبہ میں ہیں اور وہ کہاں کہاں پڑھنے لکھنے میں مصروف ہیں اور کیا کرتے ہیں اس تحقیقات کی کتابیں اور فہرستیں مرتب ہوں اور ہمیشہ سہ ماہی پر ان کی جانچ پرتال ہوا کرے اور جو لڑکے پڑھتے نہیں ہیں اس کا سبب بھی دریافت کر کر اس کتاب میں مندرج کیا کریں۔ اس کمیٹی میں بجز مسلمانوں کے اور کوئی شخص اور نہ کوئی یوروپین حاکم شریک ہو مگر اس کی اطلاع و کیفیت ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن کے پاس جایا کرے اور خرچ اس کمیٹی کامیونسپل فنڈ سے دیا جاوے۔ ششم ہر کالج اور اسکول کے لیے کمیٹی ہو جس میں مسلمان بھی شریک ہوں اور ان کو کچھ وقعت اور اختیار بھی دیا جاوے اور اس کا بائی لاز خود انہیں سے بنوایا جاوے اور گورنمنٹ بعد اصلاح و ترمیم اس کو منظور کرے تاکہ گورنمنٹ کالج و اسکول مسلمانوں کے لیے بطور ایک مربی کے متصور ہوں نہ بطور ایک خوفناک چیز کے جیسا کہ اب تک رہے ہیں۔ تحصیلی و حلقہ بندی مکتبوں کو بھی اپنے مفید کرنے کے لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کے اہتمام اور نگرانی میں زیادہ تر مداخلت کریں اور سب سے عمدہ یہ بات ہے کہ اپنی طرف سے اور باہمی چندہ سے ایسے ایسے چھوٹے مکتب خود قائم کریں اور گورنمنٹ سے اس میں نصف روپیہ ملنے کی درخواست کریں۔ غرضیکہ جیسا کہ اب تک گورنمنٹ کے سر رشتہ تعلیم سے مسلمان علیحدہ علیحدہ رہے ہیں بر خلاف اس کے جہاں تک ممکن ہو اس میں اعانت و مدد کریں اور سر رشتہ تعلیم کو ایک اپنی ضروریات کے سمجھیں تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور جو جو نقصان اس میں ہوں اس کے رفع کرنے پر قادر ہوں۔ یہ تمام باتیں جو اوپر بیان ہوئیں مسلمانوں کو گورنمنٹ کالجوں و اسکولوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے کافی ہیں اس سے زیادہ اور کچھ گورنمنٹ سے درخواست کرنی یا توقع رکھنی محض بیہودہ بات ہے بلکہ اس میں سے بھی بعض باتیں ایسی ہیں کہ گورنمنٹ بمشکل اس کو قبول کرے گی۔ رائے ممبران اس تجویز کی نسبت کل ممبران سلیکٹ کمیٹی سے صلاح اور مشورہ کیا گیا جو ممبر کہ بنارس میں موجود تھے انہوں نے بالمشافہ اپنی رائیں ظاہر کیں اور جو لوگ کہ بنارس میں موجود نہ تھے ان کے پاس یہ تجویز بھیجی گئی اور انہوں نے بذریعہ تحریر کے اپنی رائیں ظاہر کیں جن کی تفصیل ذیل میں مندرج ہے۔ سید احمد خاں، مولوی محمد عارف صاحب، مولوی سید عبداللہ صاحب، محمد یار خاں صاحب، مولوی سید زین العابدین صاحب، مرزا رحمت اللہ بیگ صاحب، مولوی اشرف حسیں خاں صاحب، مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب اور منشی محمد اکرام حسین صاحب نے بلا کسی اختلاف کے مذکورہ بالا تجویز کو سند اور منظور کیا اور تمام مراتب مذکورہ بالا سے اتفاق رائے ظاہر کیا۔ مولوی سید امداد علی صاحب اور مولوی قطب الدین حسن صاحب اور مولوی حمید الدین صاحب اور منشی محمد سبحان صاحب نے بھی بالکلیہ اس تجویز سے اتفاق کیا مگر ان چاروں ممبروں نے اس بات کی خواہش ظاہر کی تلخیص کتب بذریعہ علماء کامل او رمتدین کے عمل میں آوے۔ مولوی محمد اسماعیل صاحب نے بھی جملہ مراتب مندرجہ بالا سے دلی اتفاق کیا اور یہ لکھا کہ سلسلہ تعلیم میں جو کمی بیشی کی خواہش کی ہے نہایت عمدہ اور مناسب ہے لیکن چونکہ اس رپورٹ میں ان کتابوں کے انتخاب کا پورا ذکر نہیں ہے جو اس طریقہ میں پڑھائی جاویں گی اس لیے میں اسباب میں ابھی کچھ رائے نہیں دیتا جب اس کا موقع آوے گا تب میں بالتفصیل رائے دوں گا۔ مولوی عبدالرحمن صاحب اور مولوی حفیظ الدین احمد صاحب اور میر بادشاہ صاحب نے بھی تجویز مذکورہ بالا سے اتفاق کیا مگر کتب فقہ و اصول فقہ و کتب حدیث کی تلخیص کرنے سے اختلاف رائے کیا اور کہا کہ وہ بدستور سابق تعلیم میں رہیں۔ مولوی سید فرید الدین احمد صاحب نے اپنی رائے یہ لکھی ہے کہ میں اپنے لائق فائق مسیح عصر حکیم دھر روشن ضمیر عالی دماغ سید احمد خاں صاحب بہادر سی ایس آئی عمدہ ممبر کی رائے سے بالکل اتفاق نہیں کر سکتا اس سخت مرض مہلک اور مزمن مرض جہالت کا کہ جو آج کل جسم اسلامی کو لاحق ہو گیا ہے اور جس نے ان کے سارے دین و دنیا کے امور کو نہایت فتور اور نقصان میں ڈال رکھا ہے جو علاج تجویز کیا ہے وہ محض ایک تصویر خیالی ہے جو حالت موجودہ مسلمانوں سے اس بات کی توقع وھمی بھی نہیں ہ وسکتی کہ وہ اس عمدہ علاج کے اجزائے نافع کو بہم پہنچا کر استعمال کریں۔ میں اس بات کو نہایت سچائی سے قبول کرتا ہوں کہ وہ نسخہ مجوزہ نہایت بے نظیر و لا جواب ہے اگر اس کے استعمال کا امکان ہوتا تو وہ بالکل اس مرض مہلک کی بیخ و بنیاد کو توڑ ڈالتا اور جسم اسلامی کو اعلیٰ درجہ کی صحت و طاقت کو پہنچا دیتا اور یقین ہے کہ آئندہ نسلوں میں کوئی وقت ضرور ایسا آوے گا کہ اہل اسلام بخوشی اس نسخہ کو استعمال کریں گے اور خدا کرے کہ جلد وقت آوے میرے خیال میں اس حکیم حاذق کو ضروری تھا کہ وہ دولت اور ہمت اور توفیق موجودہ مسلمانوں پر لحاظ فرما کر مطابق اس کے کوئی نسخہ تجویز کرتے کہ جس سے زیادتی اس مرض کی تو رک جاتی اور کسی قدر آثار صحت کے نمایاں ہوتے اور اسی طرح وقتاً فوقتاً بہ لحاظ حالت موجودہ کے اس نسخہ میں تبدیل عمل میں لاتے کہ یہی طریقہ بالکل قانون قدرت کے مطابق ہے اگر حکیم ممدوح بہ نظر مہربانی پھر دوبارہ توجہ فرما کر کوئی ایسی تدابیر تجویز فرماویں کہ جس کا خارج میں موجود ہونا گو بدقت ہو مگر ممکن ہو تو نہایت مناسب و بہتر ہے اور جب میری رائے یہ قائم ہوئی کہ فی الحال وہ تدبیرات محض خیالی ہیں اور کسی طرح وہ وجود پذیر نہ ہوں گی تو ان تدابیر کی نسبت مفصل رائے لکھنا محض فضول و بے فائدہ ہے تاہم اس قدر کہنا میں ضروری جانتا ہوں کہ مسلمانوں کے امور معاد کے لحاظ سے ان کی اعلیٰ اور عمدہ تعلیم میں زبان عربی کو دوم درجہ قراردینا نا مناسب ہی نہیں بلکہ مضر ہے جب ہم ایک ایسا خیالی منصوبہ قرار دیں کہ جو عمدہ حالت ترقی تعلیم مسلمانوں کی ہو تو اس میں حیف ہے کہ زبان عربی درجہ دوم میں قرار پاوے اور چند ممبروں نے جو درباب تلخیص کتب دینیہ اہل اسلام کے رائے رہی ہے اور سید احمد خاں صاحب سے اختلاف کیا ہے میں اس میں سید احمد خاں سے بالکل متفق ہوں میں خیال کرتا ہوں کہ وقتاً فوقتاً علمائے اہل اسلام اس کے در پے رہے ہیں اور بہ نظر مصالح وقت اور حالت موجودہ اہل زمان یہ تبدیل عبارت یا اختصار و تلخیص مقامات کتب تالیف کرتے آئے ہیں اور مجھ کو امید ہے کہ ہمارے یہاں کے لائق آدمی ہمیشہ اسی عمدہ رائے پر چلتے رہیں گے بخاری کی تلخیص کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کے بعض اجزاء کو ہم اپنی سمجھ کے موافق قائم رکھیں اور بعض کو نکال دیں بلکہ تلخیص کے یہ معنی ہیں کہ اس کے جو مقامات کہ مفید اور مناسب وقت ہیں اس کو نکال کر کے درس میں داخل کریں اور اس میں کوئی قباحت اور نقصان نہیں ہے اور میں اس میں بھی کوئی قباحت اور نقصان نہیں سمجھتا کہ جو غلطی یا خطا کسی کتاب میں واقع ہے اس کی گرفت کی جائے اور بلا اندیشہ وہ غلطی ظاہر کر دی جاوے میں خیال کرتا ہوں کہ ہمیشہ اول طبقہ صحابہ سے لے کر آج تک ہمارے یہاں کے علماء یہی کام کرتے چلے آئے ہیں صحابہ، تابعین، مجتہدین، فقہائ، محدثین، مشائخ کرام سب کی غلطی و خطاؤں کو بہت صراحت سے عماء نے لکھا ہے اور اس بات کو بھی بہت احتیاط سے ملحوظ رکھا کہ اگر کسی پر بے جا اعتراض یا ناجائز غلطیاں لگائی گئی ہیں تو اس کو بدلائل معقول رد کیا اور یہ بھی اسی مقام پر میں لکھنا نہایت مناسب جانتا ہوں کہ ہمارے سچے مذہب کا عمدہ اصول یہ ہے کہ کوئی عالم اور کوئی مجتہد اور کوئی صلحا سے بلکہ کوئی انسان سوائے انبیاء علیہم السلام کے ایسے درجہ میں نہیں ہیں کہ جن کے کلام میں خطا اور خلل واقع نہ ہوا ہو اگر آج ہم کسی بڑے سے بڑے عالم کے کلام کی غلطی ظاہر کریں اور اس کو عمدہ دلائل سے سچی نیت سے بغرض ہوا خواھی اسلام ثابت کر دیں تو کچھ ہم پر اعتراض نہیں ہے۔ منشی محمد اکبر حسین صاحب نے یہ رائے لکھی کہ مجھ کو جناب سید احمد خاں صاحب بہادر سی ایس آئی کی اعلیٰ اور عمدہ اور حکیمانہ تجویز سے بدل اتفاق کلی ہے ہر چند مولوی فرید الدین صاحب کا خیال اس کی تصویر خیالی ہونے کی نسبت مسلمانان ہند کی عادت و عقائد و حالات موجودہ پر نظر کرنے سے کسی درجہ تک صادق آتا ہے اور اس تدبیر بے کی تکمیل اجراء کی تمنا مرحلہ امید و بیم میں معلوم ہوتی ہے لیکن جب ہم اس تشریح اور توضیح پر نظر کرتے ہیں جو جناب سید احمد خاں صاحب ممدوح نے تجویز اور عمل ان دونوں چیزوں کے امتیاز کے باب میں فرمائی ہے تو بے تامل متفق الرائے ہو کر خدائے عزوجل سے اپنے عمدہ ارادوں کے پورا ہونے کی دعا مانگتے ہیں السعی منی والا تمام من اللہ تعالیٰ جو رائے ممبروں کی اوپر بیان ہوئی اس سے ظاہر ہے کہ جو طریقہ تعلیم کا تجویز ہوا اس سے تمام ممبروں نے اتفاق رائے کیا ہے پس اب میں نہایت خوشی سے اس رپورٹ کو ختم کرتا ہوں اور بموجب ہدایت ممبران سلیکٹ کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان کے سامنے اس امید سے پیش کرتا ہوں کہ ممبران کمیٹی ممدوح در باب تعمیل اور اجراء اس طریقہ تعلیم کے بہ تدابیر مناسبہ سعی اور کوشش فرمانی شروع کر دیں۔ مذہب اور عام تعلیم تعلیم کا عام رواج بلا شمول مذہبی تعلیم کے نا ممکن ہے (تہذیب الاخلاق جلد1نمبر2بابت15شوال1287ھ) اس مضمون میں سرسید نے جس نہایت اہم امر کی جانب مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو مذہبی تعلیم بھی لازمی طور پر دینی چاہیے ورنہ کبھی حقیقی ترقی نہیں ہو سکتی اور قوم اصلی تہذیب و شائستگی سے محروم رہتی ہے۔ کیونکہ پسندیدہ اخلاق مذہب پر مضبوطی سے قائم ہونے کے بغیر کبھی حاصل نہیں ہو سکتے اور جب تک اخلاق بلند اور عادات پسندیدہ نہ ہوں قوم کبھی مہذب اور شائستہ نہیں بن سکتی۔ اسی لیے سرسید اپنے اس مضمون میں صاف طور پر لکھتے ہیں کہ ’’ جو لوگ ہندوستان میں مسلمانوں کی عام تعلیم پر کوشش کرتے ہیں ان کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ عام تعلیم کا رواج کسی قوم کے زن و مرد میں بغیر شمول تعلیم مذہبی کے نہ ہوا ہے نہ ہو گا اور نہ دنیا میں کوئی ملک اور کوئی قوم ایسی موجود ہے جس میں عام تعلیم کا رواج بلا شمول مذہبی تعلیم کے ہوا ہو۔‘‘ مگر افسوسً بزرگ سید کی اس قابل قدر نصیحت کو ان مسلمان شرفا کی اولاد نے سرا سر فراموش کر دیا جنہوں نے ابتدائی ایام میں سرسید کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اور دنیوی تعلیم کی طرف توجہ کرتے ہوئے عزت و وقار اور دولت و عظمت حاصل کی تھی آج مسلمان شرفا اور معززین کے گھرانوں میں شاید98 فیصدی سے بھی زیادہ ایسے خاندان موجود ہیں جو مغربی تعلیم اور انگریزی طرز پر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کراتے ہیں مگر مذہبی اور دینی تعلیم سے اپنی اولادوں کو بالکل بے بہرہ رکھتے ہیں جس کے نتیجہ میں دھریت اور الحاد اور مذہب سے قطعاً بے تعلقی مسلمانوں کی نئی نسل میں روز بروز زیادہ ہوتی جاتی ہے کاش! اب بھی مسلمان بزرگ سید کی اس نیک صلاح اور احسن مشورہ پر عمل کریں اور جہاں اپنی اولادوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ دنیوی تعلیم دلاتے ہیں وہاں ان کے لیے مذہبی تعلیم کا بھی معقول انتظام کریں لیکن افسوس! مغرب پرستی کی اس عالمگیر رو میں اس کی بہت کم توقع ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) انسان کے خیالات جو آئندہ زندگی کی نسبت ہیں جس کو معاد یا آخرت کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور جو مذہبی یقین سے پیدا ہوتے ہیں انسان کی ترقی کے اکثر ھارج ہیں بلا شبہ سچا مذہب جو در حقیقت خدا کی طرف سے دیا گیا ہو وہ انسان کی کسی قسم کی ترقی کا مانع نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ انسان کا تنزل لوازم انسانیت سے خدا کا مقصد نہیں ہے۔ ورنہ انسان کو انسان بنانے کی کیا ضرورت ہوتی مگر جب اس سچے مذہب میں بھی لغو خیالات اور بد تعصبات مل جاتے ہیں تو وہ ویسا ہی انسان کی ترقی کا ھارج ہو جاتا ہے اور جبکہ لغو اور مہمل رسومات ملکی اور قومی کا اس میں خلط ہو جاتا ہے جیسا کہ اب مسلمانوں کا حال ہے تب وہ سم قاتل ہوتا ہے۔ اس مقام پر ہم کو اس امر سے زیادہ بحث کرنی منظور نہیں ہے بلکہ صرف اسی قدر ظاہر کرنا منظور تھا کہ مذہبی خیالات انسان کی ترقی پر فی الواقع کس قدر اثر رکھتے ہیں اور جس مطلب سے یہ بیان ہوا ہے وہ ابھی چند سطروں کے بعد ظاہر ہو جاوے گا۔ یہ مذہبی خیالات گو کیسے ہی حارج ترقی انسان کے ہوں مگر ہم کوئی قوم اور کوئی ملک ایسا نہیں پاتے جس میں اس قسم کے خیالات نہ ہوں مگر بلا شبہ یہ بھی پاتے ہیں کہ جس ملک میں مذہبی تعصبات نا واجب اور جہالت آمیز اور توھمات و خیالات احمقانہ اور وحشیانہ کم ہیں وہاں اسی قدر انسانیت کو ترقی ہے۔ اس ہرج کی رفع کرنے کے لیے اور تعلیم کو عموماً پھیلانے کے لیے بعض شائستہ اور تربیت یافتہ قوموں اور ملکوں میں دو طرح پر کوشش ہوئی ایک گروہ تو اس بات پر مستعد ہوا کہ مذہبی تعلیم بالکل موقوف کی جاوے جو باہمی اختلاف اور تباپن کا باعث ہے اور سب لوگ متفق ہو کر اس قسم کی تعلیم میں کوشش کریں جو بلا اختلاف سچ اور فائدہ مند ہے اگرچہ اس گروہ میں بہت بڑے بڑے عاقل اور فاضل اور لائق آدمی شامل تھے مگر ان کی کوششوں کی کامیابی کی کچھ بھی توقع نہ ہوئی اور نہ ہو گی اس لیے کہ مذہبی خیالات کو تمام انسانوں کے دلوں میں سے نکال ڈالنا جن کی تعلیم میں کوشش مقصود ہے ایک ایسا امر ہے جس کے ہونے کی ابھی سینکڑوں برس تک توقع نہیں ہے۔ دوسرے گروہ کی کوششوں کا اصلی مقصد تعلیم مذہبی پر کوشش کرنا تھا اور اور علوم کی تعلیم اس کے ساتھ بطور ضمنی تعلیم کے تھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس گروہ نے نہایت کامیابی حاصل کی تھی اور اس کے سبب سے بے انتہا علوم و فنون نے ترقی پائی اور نہ صرف اپنی قوم اور ملک کو فائدہ دیا بلکہ دور دور کی قوموں اور دور دور کے ملکوں کو ہر قسم کی خوبیوں اور فائدوں سے اپنا احسان مند بنایا اور آئندہ نسلوں کی تعلیم کے لیے کروڑوں روپیہ جمع کر جانے اور کتب خانوں اور مدرسوں اور کالجوں کے بنانے اور یونیورسٹیوں کے قائم کر جانے سے جس میں کروڑوں اور پدموں روپیہ خرچ ہو گیا تمام علوم و فنون کا دروازہ کھولا اگر اس طریقہ سے تعلیم میں کوشش کرنے کا اصلی مقصد وہ مذہبی خیال نہ ہوتا تو اس کا ہزاروں حصہ بھی اسباب رواج تعلیم کو مدد نہ پہنچتی بلکہ اس زمانہ میں جس میں کہ یہ سب ہزاروں سامان جمع ہوا ایک شخص بھی اس کی تائید نہ کرتا۔ اس طریقہ کی سعی میں جو نقصان تھا وہ صرف یہ تھا کہ بد تعصبات مذہبی کی ترقی کا اندیشہ تھا مگر تعلیم نے خود اس نقص کو مٹا دیا اور ضرورت تمدن و معاشرت نے بالکل معاملہ برعکس کر دیا یعنی جو تعلیم اس زمانہ میں اصلی مقصد ٹھہرائی گئی تھی وہ اصلی ہو گئی تعصبات بہت گھٹ گئے متعصبانہ بہت سی رسمیں موقوف ہو گئیں اور جو دو چار باقی ہیں امید ہے کہ وہ بھی دور ہوں گی اور جو انسان کی انسانیت کا مقتضی ہے وہ پوراہو گا۔ اب مسلمانوں کے حالات پر غور کرو کہ وہ لوگ تمام علوم میں تعلیم پاتے تھے فلسفہ کے بڑے دوست تھے طب و ریاضی سے محبت رکھتے تھے شعر و شاعری اور علم و ادب کے عاشق تھے اور ان سب کے ساتھ مذہبی علوم کی بھی تعلیم تھی اور اسی پچھلے خیال کے سبب ان مدرسوں اور دار العلوموں کے لیے روپیہ کی ہر طرف سے مدد پہنچتی تھی جس کے سبب سے وہ تعلیم قائم تھی حالانکہ انہی مدرسوں میں سے ایسے لوگ بھی پیدا ہوتے تھے جو لا مذہب بلکہ مذہبی خیالات کے دشمن ہوتے تھے مگر ان تمام چیزوں کے لیے مدد اور سامان بہم پہنچنے کی کچھ مشکل نہ ہوتی تھی۔ اس بات کی تصدیق کے لیے پچھلے حالات شاہد ہیں اور ہماری دو نامی یونیورسٹیاں قرطبہ اور بغداد کی گومر گئی ہیں مگر پھر بھی اس واقعہ کی سچائی پر گواہی دے رہی ہیں بھلا ان پچھلی باتوں کو جانے دو کل کی بات ہے کہ دھلی میں شاہ عبدالعزیز صاحبؒ کا مدرسہ عزیزیہ انہیں اسباب اور وجوھات سے قائم تھا جس کے پڑے ہوئے اب بھی چند لوگ زندہ موجود ہوں گے غرض ہماری ان سب باتوں سے یہ ہے کہ جو لوگ ہندوستان میں مسلمانوں کی عام تعلیم پر کوشش کرتے ہیں ان کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ عام تعلیم کا رواج کسی قوم کے زن و مرد میں بغیر شمول تعلیم مذہبی کے نہ ہوا ہے نہ ہو گا اور نہ دنیا میں کوئی ملک اور کوئی قوم ایسی موجود ہے جس میں عام تعلیم کا رواج بلا شمول مذہبی تعلیم کے ہوا ہو۔ زمانہ حال میں جس قدر وسیلے تعلیم کے موجود ہیں ان میں وہی نقص ہے جس کے سبب ہندوستان میں اور خصوصاً مسلمانوں میں اسباب تعلیم مجتمع نہیں ہوتے اور عموماً تعلیم کا رواج با وصف، بے انتہا کوشش اور سعی گورنمنٹ کے نہیں ہوتا ہے۔ مگر ہم کو نہایت انصاف سے اس بات پر غور کرنی چاہیے کہ کیا گورنمنٹ کا اس میں کچھ قصور ہے ہم نہایت سچے دل سے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ گورنمنٹ ہر قسم کے الزام سے اس باب میں بالکل بری ہے ہندوستان میں گورنمنٹ کی رعایا مختلف مذاہب کی ہے اور وہ خود ان سب سے مختلف مذہب رکھتی ہے اور اس سبب سے وہ کسی قسم کی مذہبی تعلیم کو شامل نہیں کر سکتی تھی ہم نہایت سچے دل سے کہتے ہیں کہ گورنمنٹ نے جس قدر ناطرفدار طریقہ تعلیم کا اور مذہبی خیالات سے بالکل بچا ہوا اور اچھوتا اختیار کیا ہے اور جس قدر سعی اور کوشش ہندوستان کی تعلیم میں گورنمنٹ نے کی ہے وہ دونوں بے مثل اور بے نظیر ہیں اور غالباً اس وقت دنیا کے پردہ پر اس کا نظیر موجود نہیں ہے مگر اس پر بھی جو امر عام تعلیم کی ترقی کا مانع ہے اس کا رفع کرنا گورنمنٹ کی قدرت سے باہر ہے وہ یہ کر سکتی تھی کہ اپنے تئیں مذہبی تعلیم سے بالکل علیحدہ رکھے مگر یہ نہیں کر سکتی تھی کہ تمام مذاہب ہندوستان کی یا کسی خاص مذہب یا مذہبوں کی تعلیم اختیار کرے۔ پس مسلمانوں میں ترقی تعلیم پر کوشش کر والوں کو دو باتوں سے تو نا امید ہونا چاہیے ایک عام تعلیم کے رواج اور قیام سے بغیر شمول تعلیم مذہبی کے، دوسرے گورنمنٹ کی جانب سے کسی مذہبی تعلیم کے شروع ہونے میں اور ان دونوں باتوں سے نا امید ہو کر غور کرنا چاہیے کہ اب اور کیا تدبیر ہے جس سے مسلمانوں کی بہتری اور بہبودی ہو اور ان میں عموماً تعلیم کا رواج ہو اور اعلیٰ اعلیٰ اور ہر قسم کے مفید علموں کی خواہ وہ مذہبی ہوںیا دنیاوی بنیاد قائم ہو۔ ہر شخص اس کا جواب دے سکے گا کہ صرف ایک ہی تدبیر باقی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم خود آپ اپنی تعلیم و تربیت پر مستعد و آمادہ ہوں اور یہ جو ہندی مثل مشہور ہے کہ جیٹھ کے بھروسے پیٹ اس کی عار نہ اٹھاویں بلکہ آپ کام مہا کام کی نصیحت حکیمانہ سے نصیحت پکڑیں۔ یہ بات کہنی کہ مسلمانوں کو اس کام کے انجام دینے کا مقدور نہیں رہا بالکل غلط ہے البتہ یہ بات صحیح ہے کہ کرنے والے اور اسی پر محنت اٹھانے والے نہیں ہیں اور ہاں بیشک ہمت بھی کم ہو گئی ہے جو پھر تحریک میں آ سکتی ہے۔ سلطنت اسلامیہ میں بھی یہ کام بالکل یہ گورنمنٹ کے ذمہ نہ تھا۔ شاید دو ایک مدرسہ ایسے ہوں گے جن کا خرچ گورنمنٹ دیتی تھی ورنہ تمام مدرسے صرف رعایا کی مدد سے قائم تھے جو ان کے مدرسوں یا بانیوں کو بطور نذر و نیاز کے ان کے قائم رکھنے کو روپیہ دیتی تھی کیا شاہ عبدالعزیز صاحبؒ کا مدرسہ اور شاہ غلام علی صاحبؒ کی خانقاہ بغیر لوگوں کی نذر و نیاز کے جس کو حال کی زبان میں چندہ یا سبسکرپشن یا ڈونیشن کہتے ہیں قائم رہ سکتی تھی؟ پس ہر مقام میں مسلمانوں کو مستعد ہو کر ترقی تعلیم کے لیے سعی کرنی چاہیے اور پھر وہی وسیلے رواج تعلیم کے خود اپنے آپس میں قائم کرنے چاہئیں اس طرح پر تو البتہ ترقی تعلیم اور بہبودی مسلمانوں کی عموماً توقع ہے اور بغیر اس کے کچھ توقع نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلمان اس تدبیر سے بالکل غافل ہیں کیونکہ ہم جونپور و علی گڑھ و دیوبند و دھلی و کانپور کے مدرسوں کو بھول نہیں گئے ہیں مگر جس طرز پر وہ قائم ہوئے اور جس طرح پر ان کی کارروائی ہوتی ہے وہ کچھ مفید نہیں اور اس سے مسلمانوں کی بھلائی کی کچھ توقع نہیں ہم اس بات سے خوش نہیں ہو سکتے کہ کسی جگہ چالیس طالب علم ریشائیل ادھر ادھر پورب پچھم کے جمع ہو گئے اور صد رہ و شمس بازغہ پڑھنے لگے کیونکہ سلسلہ وار تعلیم کی اور ان نو عمر بچوں کے سلسلہ تعلیم کے قائم کرنے کی ضرورت ہے جو ہونہار ہونے کو ہیں اور جس سے ہمارے ملک کی ترقی اور ہماری قوم کی عزت متصور ہے۔ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ دو چار ملاں کسی جگہ پھانے کو مقرر کر دیے جاویں اور وہ وہی پرانی کڑکھائی کتابیں دو چار دس پانچ آدمیوں کو پڑھانے لگیں بلکہ سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ اول فہمیدہ فہمیدہ ذی علم اور ذی عقل لوگ جمع ہوں اور بعد بحث و گفتگو کے یہ بات قرار دیں کہ اب سلسلہ تعلیم بنظر حالات زمانہ اور بلحاظ علوم و فنون جدیدہ کے کس طرح پر قائم ہونا چاہیے اور ہماری پرانی دقیانوسی تعلیم کے سلسلہ میں کیا کیا تبدیلی اور ترمیم کرنی چاہیے ہمارا سلسلہ تعلیم کا بلحاظ مقاصد مذہبی کس طرح پر قائم ہو اور بلحاظ مطالب دنیوی کے کس طرح جاری کیا جاوے اور جب کوئی طریقہ تجویز ہو لے اس وقت اس کے اجراء پر ہر ضلع کے لوگ اپنے اپنے ضلع میں سعی و کوشش کریں۔ ہر ضلع میں کم سے کم ایسا ایک مدرسہ قائم کرنا چاہیے جس سے ہر قسم کے مطالب اور مقاصد پورے ہوں کیونکہ تمام لوگوں کے ایک ہی مقاصد نہیں ہوتے۔ اگر کوئی شخص مولوی محدث و فقیہہ بننا چاہے تو مولوی بننے کا بھی اس میں موقع موجود ہو اگر کوئی شخص بڑا ریاضی دان بننا چاہے تو وہ بھی اپنا مقصد اس میں حاصل کر سکے اور اگر کوئی شخص علوم و زبان انگریزی میں تحصیل کامل کرنا اور عہدہ ہائے جلیلہ گورنمنٹ کو حاصل کرنا چاہے وہ بھی کر سکے جب ایسا انتظام اور سلسلہ قائم ہو جاوے گا تب مسلمانوں کی تربیت اور دینی و دنیوی ترقی کی توقع ہوتی ہے۔ اس طرح کے سلسلہ تعلیم قائم کرنے میں اگرچہ بہت سا روپیہ چاہیے لیکن روپیہ جمع کرنا کچھ مشکل نہیں ہے لوگوں کا دل اور ارادہ اور ہمت چاہیے ہر ضلع میں جس قدر مسلمان آباد ہیں اگر ہر ایک شخص تھوڑا تھوڑا روپیہ بھی دو دو ایک بلکہ آٹھ آنہ تک دے تو ہر ضلع میں اس قدر روپیہ جمع ہو جاتا ہے کہ ان تمام مطالب کے لیے ایک نہایت عمدہ مستقل مدرسہ قائم ہو سکتا ہے صرف لوگوں کا ارادہ کرنا اور اس کام کے انجام کرنے پر دل سے کوشش کرنا شرط ہے۔ ٭٭٭٭٭٭ نظامیہ سلسلہ تعلیم (تہذیب الاخلاق جلد نمبر7بابت15ذی الحجہ 1287ھ) ہم مختصر طور پر اس سلسلہ تعلیم کا ذکر کرتے ہیں جو بالفعل ہندوستان کے مسلمانوں میں رائج ہے اور جو سلسلہ نظامیہ کہلات اہے مقصود ہمارا اس کے بیان سے صرف اتنا ہے کہ لوگ اس بات پر غور کریں کہ بلحاظ حالات اور علوم مروجہ زمانہ حال کے آیا یہ سلسلہ اور طریقہ در حقیقت کافی اور مفید ہے یا واقعی اس میں کچھ تغیر و تبدیل کی ضرورت ہے۔ ہم اس آرٹیکل میں اس پر کچھ بحث کرنی نہیں چاہتے اور صرف ان علوم اور ان کی کتابوں کا ذکر کرتے ہیں جو بالفعل درس میں داخل ہیں تاکہ جو لوگ اس پر بحث کرنے پر آمادہ ہوں ان کو کسی قدر امداد ملے۔ علم صرف اس میں مفصلہ ذیل کتابیں پڑھائی جاتی ہیں میزان، منشعب، پنج گنج، زبدہ، صرف مبر فصول اکبری، شافیہ، نقود لصرف، دستور المبدی علم نحو اس میں مفصلہ ذیل کتابیں درس میں ہیں مائۃ عامل، شرح مائۃ عامل، نحو مبر، ھدایت النحو، کافیہ، ضو شرح ملا علم معانی وبیان و بدیع اس میں یہ کتابیں پڑھتے ہیں مختصر معانی تمام، مطول تا بحث ما اناقلت، ملا زادہ مختصر علم ادب اس میں یہ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں مقامات حریری چند مقالہ، دیوان متنی چند صفحہ، سبعہ معلقہ، حماستہ العرب، نفحۃ الیمین، العجب العجاب علم منطق اس میں مفصلہ ذیل کتابیں درس میں ہیں ایسا غوجی، قال اقول، میر ایسا غوجی، شرح تہذیب ملا یزدی، بدیع المیزان، قطبی، میر قطی، تصورات، شرح سلم ملا حسن، تصدیقات شرح علم ملا حمد اللہ، تصورات، شرح علم قاضی مبارک، میر زاہد رسالہ غلام یحیٰی، حاشیہ بحر العلوم بر میر زاہد رسالہ ملا جلال، میر زاہد ملا جلال علم طبعی والٰہی اس میں تین کتابیں پڑھائی جاتی ہیں میذی تمام، صدرا تا فلکیات، شمس بازغہ تمام علم حساب اس میں ایک کتاب پڑھتے ہیں خلاصۃ الحساب علم ہندسہ اس میں تحریر اقلیدس کا صرف پہلا مقالہ داخل درس ہے اور بعض طلبہ چار مقالے اور بعض چار سے بھی زیادہ پڑھتے ہیں علم ہیئت اس میں یہ کتابیں داخل ہیں تشرے الافلاک با منہیات (اور بعضے تصریح شرح تشریح الافلاک بجائے تشریح الافلاک یا منہیات کے پڑھتے ہیں) قو شجیہ، سبعہ شداد، شرح چغمینی علم کلام اس میں یہ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں شرح عقاید نفسی، خیالی، شرح مواقف، میر زاھد امور عامہ، شرح عقاید جالی، عقیدہ حافظ، حاشیہ فاضل قراباغی بر شرح عقاید جلالی علم فقہ اس میں یہ کتابیں پڑھاتے ہیں عبادات شرح وقایہ، معاملات ھدایہ، کنز الدقائق تمام، مختصر وقایہ و قدوری علم اصول اس میں یہ کتابیں داخل درس ہیں شاشی نور الانوار، توضیح، تلویح، مسلم الثبوت، دایر الاصول، حسامی تلم تفسیر اس میں یہ کتابیں پڑھاتے ہیں جلا لیز، بیضاوی، چند جزو کشاف، مدارک علم فرائض اس میں صرف ایک کتاب پڑھتے ہیں فرائض شریفی علم مناظرہ اس میں بھی ایک کتاب پڑھتے ہیں رشیدیہ علم وضع آلات اس میں بھی ایک کتاب پڑھتے ہیں رسالہ اسطرلاب مسمی بست بابی محقق طوسی اصول علم حدیث اس میں ایک کتاب نختہ الفکر پڑھتے ہیں اور بعضے اس کی شرح بھی پڑھتے ہیں علم حدیث اس میں مفصلہ ذیل کتابیں ہیں مشکواۃ المصابیح، موطا، صحاح ستہ، مگر ان کو صرف تیمنا و تبرکا تھوڑا تھوڑا پڑھ کر سندلے لیتے ہیں اور بعضے سب کتابیں کامل پڑھتے ہیں صحاح ستہ یہ ہیں صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، صحیح نسائی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ علم لغت میں قاموس علم طب میں قانونچہ، موجز، کلیات نفسی، معالجات سدیدی، شرح اشباب، حمیات شیخ سنی اور شیعہ کی تعلیم میں کچھ فرق نہیں فقط اتنا تفاوت ہے کہ مذہبی کتابیں جو فہرست مذکورہ بالا میں مندرج ہیں سنیوں کی ہیں شیعہ مذہبی کتابوں مندرجہ بالا کی جگہ اور کتابیں پڑھتے ہیں اور مذکورہ بالا کتابوں میں سے بھی بعض کتابیں پڑھتے ہیں مثل مسلم الثبوت و شرح عقاید نسفی و میر زاہد امور عامہ اور بعض مشکواۃ شریف یا صحیح بخاری و بیضاوی و کشاف میں سے بھی کچھ کچھ پڑھتے ہیں اور خاص کتابیں اپنے مذہب کے لحاظ سے بہ تفصیل ذیل ان کے درس میں ہیں۔ علم فقہ میں حدیقۃ المتقین، جامع عباسی، مختصر نافع شرح صغیر، شرح ملمعہ دمشقی، شرایع الاسلام، جواھر الکلام فی شرح شرایع الاسلام علم اصول فقہ میں معالم الاصول، اساس الاصول، زبدۃ الاصول، قوانین علم کلام میں تجرید، شرح تجرید علامہ حلی، کشف الحق، شرح کشف الحق قاضی نور اللہ، شرح باب حادی عشر۔ علم حدیث میں اصول کافی، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب استبصار تفسیر میں مجمع البیان یہ سلسلہ جو ہم نے بیان کیا ہے سلسلہ تعلیم ہے اس سے فراغ کے بعد جو کتابیں بڑے بڑے علماء کے استعمال میں رہتی ہیں اور جن کے پڑھنے پڑھانے پر وہ نہایت ناز اور فخر کرتے ہیں یہ ہیں: کتب فارابی: فصوص الحکم، جمع بین الرائین، رسالہ تحقیق عقل کتب شیخ الرئیس: شفائ، اشارات، عیون الحکمت کتب شیخ مقتول: حکمۃ الاشراق، تلویحات، ھیاکل النور، شرح ابن کرنہ بر ھیاکل النور، شرح علامہ شیرازی برھیاکل کتب میر باقر: افق المبین، ایماضات، قبات تقدیسات وغیرہ کتب محقق طوسی تحریر مجسطی، تذکرہ وغیرہ اور علیٰ ھذا القیاس اسی قسم کی کتابیں ہیں جو بلحاظ شوق اور وقت پڑھنے میں آتی ہیں اب میری یہ خواہش ہے کہ ذی عقل اور دانشمند لوگ غور کر کر اس بات کی تنقیح فرماویں کہ آیا یہ سلسلہ کافی ہے یا تبدیلی کی اس میں ضرورت ہے؟ ٭٭٭٭٭٭ مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے متعلق گورنمنٹ کا فرمان (تہذیب الاخلاق بابت یکم جمادی الثانی 1291ھ) گورنمنٹ نے جو فرمان نسبت ترقی تعلیم مسلمانان کے 13جون1873ء کو جاری فرمایا ہے اس سے مسلمانوں کو نہایت شکر گزار ہونا چاہیے در حقیقت گورنمنٹ نے بہت زیادہ توجہ نسبت ترقی تعلیم مسلمانوں کے فرمائی ہے اور جہاں تک ممکن تھا گورنمنٹ نے ان کی تعلیم کے ذریعوں کے قائم کرنے کی اجازت دی ہے۔ نہایت خوشی کی بات ہے کہ گورنمنٹ عالی نے ہماری کمیٹی کو بھی ایک عمدہ ذریعہ ترقی تعلیم مسلمانان کا تصور فرمایا ہے چنانچہ اس فرمان میں یہ فقرہ مندرج ہے ’’ بنارس میں مسلمانوں کی ایک عمدہ کمیٹی اپنے ہم مذہبوں میں علم کو ترقی دینے کے واسطے ایک اینگلو اورئنٹل کالج قائم کرنے کی تجویز کر رہی ہے‘‘ در حقیقت اصل بات یہ ہے کہ اگر مسلمان خود اپنی تعلیم کی تدبیر آپ کریں گے تو گورنمنٹ کی ہزاروں تدبیروں سے زیادہ مفید ہو گی۔ پس ہم اپنے ہم وطنوں سے التجا کرتے ہیں کہ اپنی قوم کی ترقی تعلیم کی طرف خود متوجہ ہوں اور دینی و دنیاوی فائدہ حاصل کریں۔ ٭٭٭٭٭٭ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے گورنمنٹ کی تدبیریں (تہذیب الاخلاق بابت یکم ربیع الاول1290ھ) گورنمنٹ مدراس اور گورنمنٹ بمبئی اور گورنمنٹ بنگالہ نے ہم کو کچھ کاغذات مرحمت فرمائے ہیں جن سے یہ سب حال معلوم ہوتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کی ترقی کے لیے آج کل ان تینوں گورنمنٹوں نے کیا کیا خاص تدبیریں کی ہیں حکام وقت نے جو بالفعل ہماری جہالت پر توجہ فرمائی ہے ہم کو اس سے غایت درجہ کی خوشی اور احسان مندی حاصل ہوئی ہے اور امید ہے کہ ان تدبیروں میں کامیابی ہو۔ گورنمنٹ مدراس اور گورنمنٹ بنگالہ اس معاملہ میں سبقت لے گئی ہیں اور گورنمنٹ بمبئی نے بھی بالکل عدم توجہی نہیں فرمائی ہے ہم پر لازم اور واجب ہے کہ ہم جناب نواب گورنر جنرل بہادر کشو ہند کا دل سے شکریہ ادا کریں کیونکہ انہوں نے پہلے پہل مسلمانوں کی خراب حالت پر اپنی ماتحت گورنمنٹوں کو متوجہ فرمایا۔ ان سطروں کے لکھنے سے ہماری اصل غرض یہ ہے کہ ہم بطور اختصار یہ حال ظاہر کریں کہ ان تینوں گورنمنٹوں نے خاص مسلمانوں کی ترقی تعلیم کے لیے پچھلے تین برسوں میں کیا کچھ کیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ گورنمنٹ بنگالہ گورنمنٹ ہند کی چٹھی کے جواب میں احاطہ بنگالہ کے مسلمانوں کی تعلیم کی نسبت نواب لفٹنٹ گورنر بہادر کی یہ رائے ان کے سیکرٹری نے لکھی ہے کہ صوبہ بہار کے مسلمان سرکاری ملازموں میں وہاں کے ہندو باشندوں سے کچھ کم نہیں ہیں ہاں اگر مسلمانوں کی کچھ کمی اور نقصان ہے تو بنگالیوں کے مقابلہ میں ہے جو بڑے بڑے فائدے اٹھاتے ہیں سیکرٹری گورنمنٹ بنگالہ کی اسی چٹھی میں اس بات کے دیکھنے سے ہم کو افسوس ہوتا ہے کہ حضور عالی نواب لفٹننٹ گورنر بہادر بنگالہ کو یہ یقین نہیں ہوتا ہے کہ صرف ہندوستان کی دیسی زبان کے ذریعہ سے اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہونی ممکن ہے وہ فرماتے ہیں کہ اگر ہم اعلیٰ درجہ کی تعلیم دیسی زبان کے ذریعہ سے دینا چاہیں تو ہم کو بہت سے لفظ اور زبانوں سے لینے پڑیں گے یا نئے بنانے ہوں گے اور ہندوستانی ملکوں میں ایسے الفاظ مغربی ایشیا کی زبانوں سے لیے جائیں گے چنانچہ عربی زبان پر توجہ کرنی پڑے گی کیونکہ یہی ایک وسیع اور لوچ دار مغربی زبان ہے جس میں سے ہر ایک چیز کے لیے نئے لفظ نکل سکتے ہیں خواہ ہم مصنوعی اور مرکب اردو لیویں یا نری فارسی لیویں جو نہایت آسان اور شیریں زبان ہے مگر مشکل لفظوں کے واسطے ہمیشہ عربی زبان سے کام لینا پڑے گا۔ ہماری دانست میں یہ سمجھنا بڑی غلطی ہے کہ ہندوستان کی دیسی زبان اعلیٰ درجہ کی تعلیم کے مضامین ادا کرنے کے لائق نہیں ہے ہماری زبان میں ہمیشہ سنسکرت اور فارسی اور عربی کے الفاظ مشتعمل ہو سکتے ہیں اور اس بات میں وہ بالکل انگریزی زبان سے مشابہ ہے اب ایسے زمانہ میں جبکہ ہم اوروں سے تہذیب سیکھتے ہیں لفظ مصنوعی یا مرکب کوئی چیز نہیں ہے۔ گارسن ڈیٹاسی صاحب کہتے ہیں کہ انگریزی زبان بالکل اسی طرح پر مرکب ہے جس طرح پر گلکرسٹ صاحب کی تصنیفات ہیںاور کیمل صاحب کے قاعدہ کی رو سے بھی انگریزی زبان مرکب اور مصنوعی زبان ہے۔ پھر لفظ مصنوعی یا مرکب کے کیا معنی ہیں کیا وہ سب زبانیں جن میں صرف و نحو ہے مصنوعی ہیں اس میں کچھ شک نہیں کہ ہندوستانی دیسی زبان میں سے اگر عربی فارسی کے الفاظ نکال لیے جاویں تو وہ بالکل بے بضاعت اور ٹٹ پونجیا زبان رہ جاوے گی۔ اسی طرح سے اگر انگریزی زبان میں سے بھی لیٹن اور گریک الفاظ نکال ڈالے جاویں تو اس کا بھی وہی حال ہو گا اس ملک میں دیسی زبان کے ذریعہ سے تعلیم علوم کی مانع نہیں یہ بات کسی طرح سے نہیں ہو سکتی ہے کہ اس میں عربی، فارسی، سنسکرت یا انگریزی میں سے لیٹن اور گریک الفاظ لینے پڑیں گے۔ کیونکہ خود انگریزی زبان میں اصطلاحات علمی قریب کل کے غیر زبان کی ہیں اب اگر انگریزی زبان میں صرف سیکسن زبان کے لفظ رہ جاویں تو وہ بالکل وحشیانہ زبان رہ جاوے۔ گورنمنٹ بنگالہ کے سیکرٹری نے بنگالہ کے مسلمانوں کی تعلیم کے باب میں ایک نہایت عمدہ رپورٹ تیار کی ہے ہم کو اس بات کے معلوم ہونے سے بڑا تعجب ہوتا ہے کہ بہ نسبت ان ضلعوں کے بنگالہ میں مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں سے بہت زیادہ ہے گورنمنٹ بنگال کی اس رائے سے ہم کو بالکل اتفاق ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں چند آدمیوں کو اعلیٰ درجہ کی تعلیم دینے سے تمام قصبات اور دیہات میں ابتدائی تعلیم دینا زیادہ تر مفید ہو گا۔ ہم کو یہ بات بیان کیے ہوئے ایک مدت گزر چکی کہ مسلمان سر رشتہ تعلیم پر بخوبی متوجہ نہیں ہوتے جس کا سبب کچھ تو ان کی بے پروائی اور کچھ سر رشتہ تعلیم کا نقص ہونا سمجھا جاتا ہے اس کی تائید کلیک صاحب انسپکٹر مدراس بنگالہ بھی کرتے ہیں مسٹر بلاک من صاحب نے بنگالہ کے مسلمانوں کے گروھوں کا حال لکھا ہے اور بیان کیا ہے کہ ان لوگوں میں کچھ روزوں سے تعلیم نہایت تنزل کی حالت میں ہے۔ اکثر نہایت مفلس ہوگئے ہیں اور اکثر کو نہایت کم فیس دینے کی عادت ہے بعضے انسپکٹر یہ بیان کرتے ہیں کہ بہ نسبت ہندو لڑکوں کے مسلمان لڑکے زیادہ کاھل اور اپنے مربیوں کی بری خصلتوں کے خوگر ہوتے ہیں۔ حضور عالی نواب گورنر جنرل بہادر کی چٹھی پہنچنے کے بعد گورنمنٹ بنگالہ نے اپنے سیکرٹری کو مسلمانوں کی تعلیم کی حالت اور اس کی درستی کی تدبیر کی نسبت رپورٹ تیار کرنے کا حکم دیا چنانچہ جناب برنارڈ صاحب نے نہایت عمدہ طول طویل رپورٹ اس معاملہ میں لکھی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ سرکاری مدرسوں میں مسلمانوں کی تعداد بہ نسبت ہندوؤں کے نہایت تھوڑی ہے اور وہ یہ تجویز خاص بتاتے ہیں کہ جو سرمایہ ھگلی کالج کے اخراجات کے لیے معین ہے اس کو تقسیم کر کے مسلمانوں کی آبادیوں کے خاص خاص مقاموں میں مدرسے قائم کیے جاویں اور وہ یہ رائے بھی دیتے ہیں کہ محمد محسن نے جو کچھ تعلیم کے واسطے وقف کیا ہے وہ ھگلی کالج سے نکال کر اور کلکتہ مدرسہ میں جو سرکار کی طرف سے مدد ملتی ہے اس کو اس میں ملا کر تین مدرسے نئے قائم کئے جاویں ایک چھوٹا مدرسہ ھگلی میں اور ایک بڑا مدرسہ کلکتہ میں اور ایک متوسط درجہ کا مدرسہ ڈھاکہ یا چاٹگام میں قائم ہو ان کی یہ تجویز ہے کہ ایک انگریز پرنسپل کلکتہ اور ھگلی کے مدرسوں کی نگرانی کے لیے اور دوسرا ضلع شرقی کے مدرسہ کی نگرانی کے لیے مقرر کیا جاوے۔ اس کے بعد وہ یہ تجویز بتاتے ہیں کہ جو روپیہ کشن گڑھ کالج کے لیے مل سکتا ہے اس کی تقسیم کا انتظام از سر نو ہونا چاہیے۔ سرکاری کالج اور اسکولونوں میں مسلمان طالب علموں کے کم آنے کا ایک یہ بھی سبب بیان کیا گیا ہے کہ سرکاری سر رشتہ تعلیم میں مسلمان عہدہ دار بہت کم ہیں برنارڈ صاحب کی رپورٹ میں سب سے زیادہ مرغوب اور پسندیدہ چیز یہ بھی ہے کہ مشرقی بنگالہ میں بہ نسبت ہندوؤں کے مسلمانوں کی آبادی بہت زیادہ ہے گورنمنٹ نے نہایت دور اندیشی سے عام تعلیم کی طرف خوب توجہ فرمائی ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اس تدبیر سے مسلمانوں میں جو کثرت سے دیہات میں آباد ہیں تعلیم پھیل جاوے گی۔ ہم کو برنارڈ صاحب کا اس بات کے لیے شکر کرنا چاہیے کہ انہوں نے گورنمنٹ بنگالہ کو ان اضلاع کی گورنمنٹ کی اس تدبیر کی پیروی کرنے کے لیے صلاح دی ہے کہ مسلمانوں کے لیے علم انشاء کی کتابیں تصنیف کرنے پر مصنفوں کو انعام دیا کرے۔ علاوہ مدرسے قائم کرنے کے یہ بھی تجویز کی گئی ہے کہ جس مدرسہ میں مسلمان طالب علموں کی تعداد کافی ہو اس میں خاص مدرس عربی و فارسی کے مقرر کیے جاویں نواب لفٹننٹ گورنر بہادر بنگالہ نے نہایت دور اندیشی سے ایسے مقاموں میں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تر دیہات میں ہو جیسے کہ مشرقی بنگالہ میں ہے اجازت دے دی ہے کہ مسلمان مدرس مذہبی سبق بھی خاص اس وقت میں پڑھایا کریں جو اس سبق کے لیے مقرر ہے۔ گورنمنٹ مدراس اب ہم ان تدبیروں کا ذکر کرتے ہیں جو گورنمنٹ مدراس نے مسلمانوں کی تعلیم کے واسطے تجویز کی ہیں گورنمنٹ انڈیا کا ریزولیوشن جس کے ذریعہ سے پہلے پہل گورنمنٹ ہند نے اپنی ماتحت گورنمنٹوں کو مسلمانوں کی جہالت کی طرف متوجہ کیا ہے ایسا عمدہ ہے کہ باوجود طوالت کے ہم اس کی پوری نقل کرنے سے باز نہیں رہ سکتے وہ ریزولیوشن یہ ہے: 1ہندوستان کے مسلمانوں کی تعلیم کی حالت پر گورنمنٹ ہند نے کئی مرتبہ توجہ فرمائی ہے جو نقشہ کہ حال میں جناب نواب گورنر جنرل بہادر با جلاس کونسل کے حضور میں پیش ہوا ہے اس سے ظاہر ہے کہ سوائے ممالک مغربی اور شمالی اور اضلاع پنجاب کے اور کہیں کے مسلمان کافی طور پر یا اور لوگوں کی بہ نسبت اپنی تعداد کے اندازہ پر سرکاری تعلیم سے فائدہ نہیں اٹھاتے کمال افسوس کی بات ہے کہ ایک ایسا بڑا فرقہ جس کے ہاں قدیم علم انشاء اور اعلیٰ درجہ کے علوم کی کتابیں موجود ہیں اور جس میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بالتخصیص علم کے تحصیل کرنے اور رواج دینے کے عادی ہیں، سرکاری سلسلہ تعلیم سے علیحدہ ہے اور ان خاص و عام فائدوں سے محروم رہتا ہے جن کو اور لوگ حاصل کرتے ہیں جناب نواب گورنر جنرل بہادر خیال فرماتے ہیں کہ اگر اعلیٰ درجہ کی تعلیم دیسی زبان کے ذریعہ سے دی جاوے اور حال کی بہ نسبت تحصیل علوم میں ان کو آسانی 1واضح ہو کہ گو مسلمانوں کی آبادی کی تعداد بمقابلہ ہندوؤں کے کم ہے لیکن تعداد اس قسم کے مسلمانوں کی جن سے یہ امید ہو سکتی ہے کہ اپنے لڑکوں کو گورنمنٹ کالجوں میں تعلیم دیویں قریب برابر کے ہے ان اضلاع میں ادنیٰ درجہ کے لوگ زیادہ تر ہندو ہیں۔ اگر مسلمانوں کی حاضری تمام ذاتوں کے ہندوؤں کے مقابلہ میں ان کی آبادی کے اندازہ کے ساتھ بھی ہو، تب بھی کسی طرح خاطر خواہ نتیجہ نہ ہو گا۔ ہو جاوے اور عربی اور فارسی کتابوں کی ایک مناسبت کے ساتھ قدر کی جاوے تو ان سب باتوں کو مسلمان صرف قبول ہی نہیں کریں گے بلکہ ان میں سے جو لوگ لائق اور روشن ضمیر ہوں گے وہ سر رشتہ تعلیم کے ساتھ ہمدردی بھی کریں گے۔ 2حضور نواب گورنر جنرل بہادر کی یہ مرضی ہے کہ تمام گورنمنٹ اسکول اور کالجوں میں مسلمانوں کی قدیم زبانوں اور روز مرہ کی بول چال کی زبان کو ترقی دی جاوے۔ اس میں یہ ضرور نہیں ہے کہ مضامین تبدیل کیے جائیں مگر ذریعہ تعلیم بدل دیا جاوے۔ جو انگریزی مدرسے ایسے ضلعوں میں قائم ہیں جہاں مسلمان کثرت سے رہتے ہیں، ان میں لائق مسلمان انگریزی کے مدرس مقرر کیے جاویں تو ضرور فائدہ ہو گا اور جس طرح کہ ان سکولوں میں دستور ہے جن میں دیسی زبانوں کے ذریعہ سے تعلیم ہوتی ہے اسی طرح اس قسم کے مدرسوں میں بھی بموجب قاعدہ گرانٹ ایڈ کے مسلمانوں کو مدد دی جاوے تاکہ وہ اپنے حسب دلخواہ علیحدہ مدرسے قائم کر لیں اور مسلمانوں کے واسطے دیسی زبان کی لٹریچر کی کتابیں تصنیف ہونے کے لیے زیادہ تر فیسیں دی جاویں کیونکہ یہ ایک ایسی تدبیر ہے جس کے لیے خود جناب وزیر ہندوستان نے گورنمنٹ انڈیا کو کئی مرتبہ لکھا ہے۔ 3حضور گورنر جنرل بہادر با جلاس کونسل کی مرضی ہے کہ لوکل گورنمنٹیں اور تمام حکام امر مذکورہ کی طرف متوجہ ہوں اس لیے حکم ہوتا ہے کہ یہ ریزولیوشن لوکل گورنمنٹوں اور حکام کے پاس اور ہندوستان کی تینوں یونیورسٹیوں یعنی یونیورسٹی کلکتہ اور یونیورسٹی بمبئی اور یونیورسٹی مدراس میں اس غرض سے بھیجا جاوے کہ وہ سب اپنی اپنی رائے اس امر کی نسبت ظاہر کریں کہ سرکاری تعلیم کے اصلی اصولوں کو تبدیل کیے بغیر کچھ عام تدبیریں پڑھایا جاتا ہے اور دیسی زبان بطور ایک غیر ملکی زبان کے سکھائی جاتی ہے علم ہندسہ اور حساب اور جبر و مقابلہ اور جغرافیہ سب انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں ہندوستان کے مدرسے گویا انگریزوں کے لڑکوں کی تعلیم گاہیں ہیں۔ اس بات پر جو نہایت استقلال کے ساتھ اتفاق ہو رہا ہے کہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم صرف انگریزی ہی کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے اس سے ہم کو اس کو امر کی نسبت بالکل نا امیدی ہوتی ہے کہ ہماری زبان مغربی علوم کی کتابوں سے رونق پائے گی جو سلسلہ تعلیم کا بالفعل جاری ہے وہ ہماری زبان کی ترقی اور ہماری زبان میں عمدہ لٹریچر کی تصنیفات ہونے کے بالکل بر خلاف ہے جب تک یہ سلسلہ بحال رہے گا، تب تک ہندوستان کی زبان کی ترقی کے لیے کوششیں نہیں ہو سکتیں، بلکہ اس کا ایسی حالت میں بھی رہنا محال ہے جیسے کہ مین ڈیول کی انگریزی ہے اور جاپان کے لوگ سو برس میں یورپ کی نہایت شستہ زبان کا مقابلہ کریں گے۔ ایک چٹھی جو ڈائرکٹر صاحب کے نام ہے اس میں مفصلہ ذیل مضمون مندرج ہے جس کے پڑھنے سے اس قدر افسوس ہوت اہے کہ بیان نہیں ہو سکتا وہ یہ ہے کہ خاص مانع ترقی تعلیم مسلمانان ترچنا پلی ان کا سخت افلاق ہے جس میں بہت سے مسلمان مبتلا ہیں لیکن گو وہ مفلس ہیں مگر مغرور ہیں جب میں نے مسلمانوں کے لڑکوں کو اسکولوں اور کلاسوں میں بلا فیس بھی داخل کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ کپڑے بغیر وہ نہیں آ سکتے۔ غریب سے غریب مسلمان ہر گز اپنے لڑکوں کو ویسے آدھے ننگے پن کی حالت میں باہر نہ آنے دے گا جس میں کہ بڑے دولت مند ہندو اپنے لڑکوں کو مدرسوں میں بھیج دیتے ہیں غریب مسلمان جو شرم و لحاظ کا خیال رکھتے ہیں ان کی اس عادت کی گو کتنی چوتھی اور پانچویں دفعہ میں اور مشکلات اور خرچ کی شکایت ہے جس کے بدوں مسلمانوں کی تعلیم میں کسی طرح تبدیلی جاری نہیں کی جا سکتی۔ ڈائرکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے لڑکے عموماً کسی قدر غبی اور سرد مہر ہوتے ہیں اور جس قدر ان کی عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے اسی قدر ان کی جرات اور حوصلہ گھٹتا جاتا ہے۔ چھٹی دفعہ میں وہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے لٹریچر کا مرتب کرنا غیر ممکن ہے اور ساتویں اور آٹھویں اور نویں دفعہ کا مضمون بھی کچھ اسی قسم کا ہے الغرض ڈائرکٹر صاحب آخر میں یہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعلیم کے لیے اب تک جو کچھ ہو رہا ہے ہماری رائے میں اس سر رشتہ تعلیم سے بالفعل اس سے زیادہ ہونا محال ہے مگر میں کہتا ہوں کہ سر رشتہ تعلیم میں مسلمانوں کی تعلیم کی بابت اس زمانہ میں جبکہ ڈائریکٹر صاحب نے چٹھی لکھی ہے کوئی خاص تدبیر نہیں ہوتی تھی۔ باوجودیکہ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن مدراس نے ایسی دل کی توڑنے والی چٹھی لکھی مگر گورنمنٹ مدراس مسلمانوں کی تعلیم کے معاملہ میں کوشش کرنے سے غافل نہ رہی۔ ریزولیوشن مورخہ7اکتوبر1867ء میں گورنمنٹ مدراس نے ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن کو پھر اس بات پر متوجہ کیا کہ سرکاری مدرسوں میں مسلمان طالب علم بہت کم ہیں ہم یہاں ریزولیوشن کی عبارت نقل کرتے ہیں وہ یہ ہے: ’’ یہ نہیں کہہ سکتے کہ علی العموم گورنمنٹ کالج اور اسکول جن میں بقول (پاول صاحب ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن مدراس) اور لوگوں کے ساتھ مسلمان بھی داخل ہوتے ہیں حال کے انتظام کے بموجب مسلمانوں کے لڑکوں کی تعلیم کے لیے مناسب مقام ہیں۔ ادنیٰ درجہ کے اسکول اور کلاسوں میں جن میں تعلیم بالتخصیص بذریعہ کسی نہ کسی دیسی زبان کے ہوتی ہے وہ دیسی زبان ہمیشہ ہندوؤں کی زبان ہوتی ہے پس ایسے سکول اور کلاسوں میں مسلمانوں کاایسا نقصان ہوتا ہے جس کے سبب سے اس بات پر کچھ تعجب نہیں ہو سکتا کہ ان اسکولوں اور کلاسوں میں مسلمان لڑکے کم ہیں بلکہ تعجب یہ ہونا چاہیے کہ وہ ان میں پڑھتے ہیں فی الحقیقت یہ سب اسکول اور ان اسکولوں کا طریقہ تعلیم بالکل بلحاظ ہندوؤں کے تجویز ہوا ہے۔‘‘ ہم مسلمانوں کے لیے اس سے زیادہ اور کونسی بات رنج کی ہو سکتی ہے پھر بھی ڈائرکٹر صاحب نے اپنی ایسی دل شکن اور افسردہ کرنے والی رائے دینے میں جس کو ہم اوپر نقل کر چکے ہیں دریغ نہیں فرمایا۔ ریزولیوشن مذکور میں پھر یہ حکم ہے کہ جہاں مسلمانوں کی بستیاں ہیں وہاں کے صدر مقاموں میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ مدرسے قائم کیے جاویں اور ان مدرسوں میں ابتدائی تعلیم ہندوستانی زبان میں ہووے۔ ریزولیوشن مذکور کی چوتھی دفعہ میں ایک نہایت افسوس کے قابل حال ظاہر کیا گیا ہے۔یعنی چار سو پچاسی آدمیوں میں سے جو جوڈیشل اور سر رشتہ مال میں معزز عہدوں پر ممتاز ہیں صرف انیس مسلمان ہیں اسی ریزولیوشن میں یہ بھی مندرج ہے کہ ایک ایسے ملک کے انتظام ملکی میں مسلمانوں کا شریک نہ رہنا جس پر وہ حکمرانی کر چکے ہیں ملنساری اور تدبیر مملکت کے بر خلاف ہے۔ اوپر کے بیان کے بموجب یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ یہ خرابی بالکل اسی سبب سے نہیں ہے کہ مسلمان سرکاری طریقہ تعلیم سے فائدہ اٹھانے کی خواہش نہیں رکھتے بلکہ اس کا کسی قدر یہ بھی سبب ہو سکتا ہے کہ اس سلسلہ تعلیم میں جو بالفعل جاری ہے مناسب تدبیریں نہیں ہیں۔ ایک نہایت شائستہ گورنمنٹ سے اس سے زیادہ مہربانی کی امید کسی فرقہ کو نہیں ہو سکتی اور جس مہربانی کے ساتھ کہ اس ریزولیوشن میں مسلمانوں کے ساتھ سلوک کیا گیا ہے اس کے واسطے مسلمانوں کو تہ دل سے مشکور اور ممنون ہونا چاہیے۔ گورنمنٹ کے حکم کے بموجب ڈائرکٹر صاحب نے مسلمانوں کی تعلیم کے باب میں لائق اور قابل شخصوں سے بذریعہ تحریر مشورہ لیا۔ہم ان کی چٹھیوں میں سے اس موقع پر اکثر فقرے اس غرض سے نقل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ بات معلوم ہو جاوے کہ ہمارے ہم قوم اور ہم وطن مدراس احاطہ کے مسلمان کیسی ذلیل حالت میں ہیں۔ ایچ فارٹی صاحب انسپکٹر مدراس احاطہ مدراس مستحق اس بات کے ہیں کہ ان کا شکریہ ادا کیا جاوے کیونکہ انہوں نے گورنمنٹ کے حکم کے بموجب مسلمانوں کے لیے علیحدہ مدرسہ قائم کرنے میں بڑی مستعدی کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ اس قسم کے ہر ایک مدرسہ میں ضلع اسکول کی تیسری جماعت تک کی کتابوں کے پڑھانے کا انتظام ہونا چاہیے اور انگریزی صرف بطور ایک زبان کے پڑھائی جاوے اور علوم کی تعلیم بذریعہ ہندوستانی زبان کے ہووے۔ فارٹی صاحب کی رائے کے ساتھ ہم دل سے اتفاق کرتے ہیں اور ہم ایک مدت پہلے اپنی رائے ظاہر کر چکے ہیں کہ سرکاری سر رشتہ تعلیم کی یہ ضد کہ طالب علموں کے منہ میں زبردستی سے انگریزی زبان ٹھونسیں گے، ہندوستان کی عام تعلیم کی بڑی مزاحم اور مانع ہے۔ اینگلو ورنیکلر اسکولوں میں ہر ایک علم انگریزی مسلمانوں کی تعلیم کے واسطے قائم ہو سکتی ہیں یا نہیں اور نیز اس امر کی نسبت کہ یونیورسٹی کے سلسلہ تعلیم میں عربی اور فارسی کو زیادہ ترقی دی جا سکتی ہے یا نہیں۔ یہ بھی حکم ہوتا ہے کہ یونیورسٹی لاہور کے اہل کاروں سے بھی جنہوں نے اس معاملہ پر زیادہ غور اور توجہ کی ہے گورنمنٹ پنجاب کے ذریعہ سے امر مذکور کی نسبت رائے طلب کی جاوے۔ اس ریزولیوشن کو اس موقع پر ہم نے اس لیے پورا پورا نقل کر دیا ہے کہ ہم اس کو ایک عمدہ اور بڑی چیز سمجھتے ہیں ہمارے اخبار کے پڑھنے والے اس کو دیکھیں۔ بتعمیل احکام مندرجہ ریزولیوشن مذکور گورنمنٹ مدراس نے ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن سے کیفیت طلب کی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ڈائرکٹر صاحب کی چٹھی مورخہ 18ستمبر1871ء سے ہم کو بالکل خوشی حاصل ہوتی ہے وہ اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ مسلمان ان کوششوں میں جو گورنمنٹ تعلیم کے باب میں کر رہی ہے شریک نہیں ہوتے۔ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن احاطہ مدراس یہ بھی لکھتے ہیں کہ میں خیال کرتا ہوں کہ اس احاطہ کے مسلمانوں کے خیالات اور رویہ کے تبدیل کرنے میں بہت عرصہ لگے گا۔ لیکن جس طرز سے انہوں نے یہ چٹھی لکھی ہے اس سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ مدراس کے سر رشتہ تعلیم کی کارروائی کی تبدیلی بھی ویسی ہی مشکل ہے جیسے کہ مسلمانوں کے خیالات اور رویہ کی تبدیلی مشکل ہے۔ ڈائرکٹر صاحب کی چٹھی کی تیسری دفعہ میں یہ لکھا ہے کہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم بذریعہ دیسی زبان کے محال ہے اور ایسی تعلیم کے خواہشمند ہونے کے لیے ان کے خیالات میں بہت سی تبدیلی کا ہونا درکار ہے۔ ہی ہم تعریف کریں لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی مصیبت پر دل لرزتا ہے ہم ان واقعات سے اس ضلع کے مسلمانوں کو جو اپنے لڑکوں کی تعلیم کی نسبت بے پروائی کرتے ہیں خبردار کیے دیتے ہیں ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن کہتے ہیں کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ مسلمان بے فائدہ رسموں میں فضول خرچی کرتے ہیں اور اس قدر فضول خرچ ہوتے ہیں کہ انجام کو مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن اپنے لڑکوں کی تعلیم میں روپیہ خرچ کرنا نہیں چاہتے یہ قول ڈائرکٹر صاحب کا بالکل صحیح ہے اور کوئی مسلمان ذی فہم ایسا نہیں ہے کہ اس کو سن کر شرمندہ نہ ہو۔ ھزاکسیلنسی لارڈ ھابرٹ صاحب بہادر نے، جن کا نام مسلمانوں کو غایت درجہ کی ذلت سے بچانے والا ہمیشہ یادگار رہے گا، حکم دیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ مدرسے راج مندری، کرنول، کڈپا اور آدم مقاموں میں جو مسلمانوں کی آبادیوں کے صدر مقام ہیں قائم کیے جاویں اور ان مدرسوں میں مسلمانوں کی زبانوں پر التفات کیا جاوے اور سلسلہ تعلیم بھی ایسا مرتب ہوا ہے کہ اس سے ان سب کی غرضیں نکل سکتی ہیں اور مدرس بھی مسلمانوں میں منتخب کیے جاویں۔ اگر مدراس احاطہ کے مسلمان باوجود ان خاص کوششوں کے جو گورنمنٹ کی طرف سے ہو رہی ہیں تعلیم کے ان ذریعوں سے جو ان کے قابو میں دے دیے گئے ہیں فائدہ نہ اٹھاویں تو ہم کو مسلمانوں کی آئندہ بہتری اور بہبودی سے بالکل نا امید ہونا چاہیے۔ گورنمنٹ بمبئی گورنمنٹ بمبئی ایسی مستعد نہیں ہوئی ہے جیسی کہ مدراس اور بنگالہ کی گورنمنٹ ہے لیکن وہاں بھی ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن سے مسلمانوں کی تعلیم کے باب میں رائے طلب ہوئی تھی ڈائرکٹر صاحب نے اپنی لمبی چٹھی مورخہ9ستمبر1871ء میں مسلمانوں کی تعلیم کا اچھا حال لکھا ہے اور بلحاظ اس بات کے کہ بمبئی احاطہ میں مسلمانوں کی آبادی کم ہے مسلمانوں کی تعلیم کی نسبت اچھا نتیجہ نکالا ہے وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سندھ کے مسلمان تعلیم میں کچھ گھٹے ہوئے ہیں اور اس کے علاج میں یہ تجویز کرتے ہیں کہ گورنمنٹ اسکولوں میں فارسی کلاسیں قائم کی جاویں۔ بمبئی یونیورسٹی نے فارسی زبان کو بھی ڈگری کے امتحان کی زبانوں میں شامل کر لیا ہے اور ایک پروفیسر عربی و فارسی کا انفسٹن کالج میں مقرر ہوا ہے۔ ایک مضمون اور بھی بمبئی گورنمنٹ کے ریزولیوشن مورخہ18مارچ1872میں مندرج ہے اس کو بھی بغیر ذکر کیے نہیں چھوڑنا چاہیے مسلمانوں میں ترقی تعلیم کی جو گورنمنٹ کو خواہش ہے اس کے ذیل میں اس ریزولیوشن میں یہ بھی لکھا ہے کہ عہدہ قاضی کا جس کے لیے اس سے پیشتر لکھا جا چکا ہے پھر سے قائم کرنا اور اس عہدہ کو ایسے لوگوں کو عطا کرنا جو عربی و فارسی کے عالم ہوں اور نیز پھیلانا عام تعلیم کا بذریعہ ان کتابوں کے کہ ان زبانوں میں لکھی ہوں ہماری غرض حاصل ہونے میں مدد کرے گا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ قاضیوں کے سبب سے اہل اسلام کے دلوں پر ایک اچھا اثر ہوتا تھا اور وہ گورنمنٹ انگریزی اور ہندوستان کے مسلمانوں کے باہم ایک ہمدردی قائم رکھنے کا عمدہ ذریعہ تھے۔ ہم نے اپنے اخبار کے پڑھنے والوں کے روبرو مختصر حال ان کارروائیوں کا جو ان تینوں احاطوں میں مسلمانوں کی تعلیم کے باب میں ہوئی ہیں اور اب بھی ہوتی ہیں پیش کر دیا ہے کوئی ذی شعور مسلمان ایسا نہیں ہے جو ان خاص تدبیروں کا حال سن کر سچے دل سے گورنمنٹ کا شکر گزار نہ ہو۔ لیکن ہم خیال کرتے ہیں کہ بہت کچھ اس معاملہ میں کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان کی کوششوں سے ہوا ہے کیونکہ کمیٹی مذکور نے جو انعام مسلمانوں کی تعلیم کے باب میں رسالوں پر دیے اور اس کا عمدہ اور نیک نتیجہ جس کے باعث کے یہ معاملہ ظہور میں آیا کبھی بھولا نہیں جا سکتا۔ ٭٭٭٭٭٭٭ مسلمان اور تعلیم زبان انگریزی (تہذیب الاخلاق یکم شوال1311ھ جلد اول نمبر اول دور سوم صفحہ10) وہ زمانہ تو اب گیا جب مسلمان انگریزی زبان کے پڑھنے کو کفر سمجھتے تھے خواہ انہوں نے بصدق دل اس کو قبول کیا ہو یا مسئلہ الضرورۃ تو بیح المخدورات نے اس کے قبول کرنے پر مجبور کیا ہو۔ مگر اس بات کو بہت ہی کم لوگ یقین کرتے ہوں گے کہ اب علوم و فنون نے بہت کچھ ترقی کی ہے جس سے یونانیوں کی کتابیں جن کے ہم خوشہ چیں ہیں اور ہماری مدونہ علوم کی کتابیں بالکل خالی ہیں جو علوم کہ پہلے مثل ایک بیج کے تھے وہ اب بڑھ کر مثل ایک پودے کے ہو گئے ہیں اور جو مثل پودے کے تھے وہ اب بڑھ کر ایک شاندار درخت ہو گئے ہیںاور اس لیے جو شخص علوم کی تحصیل کرنا چاہیے وہ مجبور ہے کہ اس کو یورپ کی زبانوں میں سے کسی زبان کے ذریعہ سے تحصیل کرے۔ علوم دین کی کتابوں کی ہمارے ہاں کچھ کمی نہیں ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ علماء اسلام کو بہت سے مذہبی امور کے بیان کرنے میں دیگر علوم سے استمداد لینی پڑی ہے اور اس لیے مذہبی علوم کے لیے دیگر علوم کا حاصل ہونا ضروری ہے اور وہ دیگر علوم ہمارے ہاں کی موجودہ کتابوں میں صرف یونانیوں کی تقلید سے بھرے ہوئے ہیں پورے طور پر زمانہ حال کی ترقی کے مطابق موجود نہیں ہیں اور اس لیے ہم کو مذہب کے لیے بھی کسی یورپ کی زبان کے ذریعہ سے ان علوم کے حاصل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں کے علماء اس بات کو نہیں ماننے کے اس لیے نہ ان کو معلوم نہیں ہے کہ ان قدیم علوم نے کہاں تک ترقی پائی ہے اور کس طرح ایک چھوٹا سا بیج پودا اور ایک چھوٹا سا پودا عالیشان درخت ہو گیا ہے۔ نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ یورپ کی زبانوں میں جو کتابیں ہیں ان میں کیا لکھا ہے نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ علوم جدیدہ سے یونانیوں کے اور ہمارے اگلے علماء کے علوم پر کیا مشکلیں واقع ہوئی ہیں اور جہاں تک وہ مشکلیں مسائل اسلام سے متعلق ہیں وہ کیونکر حل ہوتی ہیں۔ اگر ان کو یہ معلوم ہوتا تو یورپ کی کسی زبان کو تحصیل کرنا وہ فرض کفایہ سمجھتے۔ مگر فرض کفایہ تو جدا رہا اب تو دنیوی ضرورتیں بلکہ لوازم زندگی ایسے پیش آئے ہیں کہ بدوں انگریزی دانی کے کوئی کام ہی دنیا کا چل نہیں سکتا اس لیے مسلمان بھی طوعاً کرھاً اس بات پر مجبور ہوئے ہیں کہ انگریزی زبان سیکھیں اور اسی زبان میں علوم حاصل کریں۔ مگر مسلمانوں کو اس کی تحصیل میں جو مشکلیں ہیں ان کا حل ہونا نہایت ہی مشکل معلوم ہوتا ہے ادھر روز مرہ اخراجات زندگی بڑھ گئے ہیں ادھر اخراجات تعلیم میں بہت زیادتی ہو گئی ہے جو لوگ ذی مقدور ہیں ان کو اپنی اولاد کی تعلیم کا خیال نہیں ہے اور اگر کوئی تعلیم دلوانا بھی چاہے تو ان کی اولاد تعلیم سے ایسی بے پروا اور دل برداشتہ ہوتی ہے کہ مطلق اس پر توجہ نہیں کرتی اور کسی مدرسہ میں داخل ہونے پر بھی اپنی عمر ضائع کرتی ہے۔ جو متوسط درجہ کے لوگ ہیں اگر وہ خیال کریں تو بلا شبہ اپنی اولاد کو تعلیم دلوا سکتے ہیں اور اخراجات تعلیم بھی ادا کر سکتے ہیں مگر ان کو بھی اس کا خیال نہیں ہے کیونکہ وہ ایسی رسومات اور اخراجات لغو اور بیہودہ میں مبتلا ہیں اور ہر طرح پر زر کثیر اس میں خرچ کرتے ہیں کہ اولاد کی تعلیم کے اخراجات کا کچھ بندوبست نہیں کر سکتے۔ جو لوگ غریب ہیں او رکسی خیال سے اپنی اولاد کو تعلیم دینا چاہتے ہیں اور انہیں کی اولاد سے توقع ہے کہ شاید تعلیم پا جاویں وہ تعلیم کے اخراجات کے برداشت کرنے کا مقدور نہیں رکھتے۔ ذی مقدوروں کو اور متوسط درجہ کے لوگوں کو اس کا خیال نہیں ہے کہ اپنی قوم کے بچوں کے لیے جو اخراجات تعلیم برداشت نہیں کر سکتے کافی طور پر مدد کریں تاکہ سلسلہ تعلیم کا مستحکم طور پر جاری ہو۔ جن لوگوں کو اس کا خیال ہوا ہے وہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد جدا بنانا چاہتے ہیں اور قوتوں کو متفرق کر کے اپنا روپیہ اور اپنی قوم کے بچوں کی عزیز عمر کو ضائع کرتے ہیں اور بعوض اس کے فلاح قوم میں ممد ہوں الٹے مخل ہوتے ہیں پس سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بیل کیونکر منڈھے چڑھے گی اور ہماری قوم کا انجام کیا ہو گا۔ بعض فلاسفر قسمت کے قائل ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو امور ظاہر ہوتے ہیں بلا شبہ ان کے اسباب پائے جاتے ہیں مگر وہ اسباب کیونکر پیدا ہو گئے اس کا پتا نہیں چلتا پس یہی قسمت ہے جو ان اسباب کو پیدا کر دیتی ہے یہ خیال ان فلاسفروں کا صحیح ہو یا غلط مسلمانوں کی تعلیم پر تو یہ بالکل صادق آتا ہے اس بات کے اسباب تو موجود ہیں کہ قوم کو مسلمانوں کی تعلیم کا خیال پیدا ہو گیا ہے مگر اس بات کا سبب معلوم نہیں ہوتا کہ کیوں ان کے دل میں یہ بات سمائی ہے کہ قوم کے لیے اعلیٰ درجہ کی تعلیم کا سامان متفقہ کوشش سے مہیا کرنے کے بدلے چھوٹے چھوٹے ناقص اور بے سود مدرسے قائم کر کے ان کی عمر کو ضائع کریں اس نا معلوم سبب کو قسمت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو بد قسمتی نے گھیرا ہوا ہے اور وہ بد قسمتی ان کو تعلیم پانے نہیں دیتی۔ ٭٭٭٭٭٭ تعلیمی لحاظ سے کیا ضلع علی گڑھ کے نصیب جاگنے والے ہیں؟ (علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ12جنوری1883ئ) کیا ضلع علی گڑھ کے نصیب جاگنے والے ہیں؟ نہیں ابھی تو سوتے سوتے انگڑائیاں لے رہے ہیں آنکھیں مل رہے ہیں بعضوں نے آنکھیں کھولی ہیں مگر ھنوز نیند کا خمار آنکھوں میں ہے۔ یہ ہم نے پہیلی نہیں کہی بلکہ واقعی واقعہ بیان کیا ہے تھوڑے دن ہوئے کہ ہم نے علی گڑھ کے ضلع کے نوجوان لڑکوں کی کمیٹی کا ذکر کیا تھا جو انہوں نے اس غرض سے قائم کی تھی کہ وہ اپنے مربیوں سے درخواست کریں کہ ان کی تعلیم کا بندوبست کیا جاوے۔ اب انہوں نے اپنے مربیوں کی خدمت میں ایک درخواست پیش کی ہے نہایت خوشی کی بات ہے کہ ان نوجوانوں کو خود اپنی تعلیم کا خیال ہوا ہے اور جو کام ان کے مربیوں کو کرنا تھا وہ خود اس کے کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں ہم بھی اس بات پر ان نوجوانوں کو بلکہ ان کے مربیوں کو بھی مبارک باد دیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا ان کی آرزو کو برلاوے۔ ماحصل ان کی درخواست کا یہ ہے کہ ان کی قوم میں مختلف مقاموں میں جو مکتب ہیں اور جدا جدا ان کا خرچ ہے وہ سب یکجا کیے جاویں اور سب پڑھنے والے ایک جگہ رکھے جاویں اور تعلیم دیے جاویں اور اخراجات زائد کی اگر ضرورت ہو تو اس کا بھی بندوبست کیا جاوے۔ مگر وہ بیچارے تعلیم کے اصول سے واقف نہیں اور نہ ان کے بزرگوں نے خیال کیا ہے کہ اس زمانہ میں تعلیم کس طرح ہوتی ہے اور کن اصولوں پر چلتی ہے۔ ہم نے مانا کہ ان کے مربی چار لاکھ روپیہ سالانہ کے مالگذار ہیں اور تعلیم کے لائق ان کے پاس روپیہ وافر ہے مگر کیا روپیہ ہونے سے تعلیم ہو جاتی ہے تعلیم کے لیے ایک مشین درکار ہے جو اس کو چلاوے۔ جو لوگ تعلیم کا بوجھ اٹھاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس کے لیے کس قدر اہتمام اور کس قدر جاں کا ہی اور سمجھ اور اصول تعلیم سے واقفیت درکار ہے گورنمنٹ اسکولوں کو وہ دیکھ کر جانتے ہیں کہ دو چار ماسٹر ایک ہیڈ ماسٹر بیٹھے پڑھا لیں گے جیسے کہ مکتب میں میاں جی بٹھا لیتے تھے مگر وہ ان قوتوں اور انتظاموں سے غافل ہو جاتے ہیں جن کے سبب سے گورنمنٹ کالج یا اسکول یا مشنریوں کے کالج یا اسکول چلتے ہیں ہم تو خاں صاحبوں میں سے کسی کو ایسا نہیں پاتے جو ایک اسکول کا کام بھی چلا سکے اور اپنی زندگی اور آسائش اسی کے پیچھے لگا دے یا اصول تعلیم سے بخوبی واقف ہو۔ علاوہ اس کے علی گڑھ کے پٹھان خاندانوں کا حال کچھ چھپا ہوا نہیں ہے خود عرضی دینے والوں نے لکھا ہے کہ اگر سب چھوٹے موٹے پٹھانوں کو ملا لو جو بلند شہر اور علی گڑھ اور ایٹہ تین ضلعوں میں زمینداری رکھتے ہیں تو ان کے مجموعہ کی حیثیت چار لاکھ روپیہ سال مالگذاری کی ہوتی ہے اگر سب چھوٹے موٹے پٹھان ایک روپیہ سینکڑے کا ٹیکس بھی لگا لیں اور فرض کرو کہ وہ وصول بھی ہوتا رہے تب بھی چار ہزار روپیہ سال کی آمدنی ہوتی ہے یعنی تین سو تینتیس روپیہ پانچ آنہ چار پائی ماھواری کی اس میں کیا ہو سکتا ہے اور قابل تعلیم ادنیٰ اسکول بھی قائم نہیں ہو سکتا خراب و ناقص اسکول قائم کر کے لڑکوں کو اس میں مشغول کرنا ان کی عمر کو برباد کرنا ہوتا ہے وہ اپنی ناقص تعلیم کے سبب نہ ادھر کے ہوتے ہیں نہ ادھر کے پس ہم پٹھان خاندان کے نوجوان لڑکوں کو جنہیں اس قدر ولولہ تعلیم کا پیدا ہوا ہے ہوشیار اور خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ جو تدبیر انہوں نے سوچی ہے، وہ ان کے حق میں مفید نہیں ہے بلکہ وہ نہایت مضر ہے اس وقت تو وہ جانتے ہیں کہ ان کی تعلیم کا بندوبست نہیں ہے ہونا چاہیے، اور اگر بالفرض ناقص بندوبست ہو گیا تو وہ دھوکے اور غلطی میں پڑ جاویں گے وہ سمجھیں گے کہ اب بندوبست ہو گیا حالانکہ در حقیقت کچھ بھی نہ ہوا ہو گا۔ البتہ عمر ضائع کرنے کا پورا سامان ہو جاوے گا۔ ان نوجوانوں کی عرضداشت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دل میں یہ بات ہے کہ کسی کالج میں ان کے پڑھنے کا بندوبست کیا جاوے مگر اپنے بزرگوں کے تعصب کے ڈر سے اس کو منہ سے نہیں نکال سکتے بے شبہ یہ ان کی غلطی ہے کہ جو اصل بات ان کے دل میں ہے اس کو ظاہر نہیں کرتے یہ بھی ایشیائی صحبت کا اثر ہے انسان کا فرض ہے کہ جو اس کے دل میں ہو اس کی صفائی سے ظاہر کرے۔ ہم ان نوجوانوں کو صلاح دیتے ہیں کہ وہ اپنے مربیوں کو دوسری درخواست دیں اور صاف صاف اس میں لکھیں کہ اگر ہماری قسمت میں مدرسۃ العلوم علی گڑھ سے جہاں ہم کو خواہ نخواہ بالجبر پانچوں وقت کی نماز پڑھنے سے تکلیف اٹھانی پڑے او ربے فائدہ مذہبی کتابیں عربی یا فارسی کی پڑھنی پڑیں گی فائدہ اٹھانا نہیں لکھا اور ہماری پھوٹی ہوئی تقدیر میں ان فوائد سے محرومی لکھی ہے تو ہم کو ہندوؤں کے کالج میں بھیج دیا جاوے جہاں صرف رام رام کرنا اور ایک چندن کا ٹیکا لگانا کافی وہ گا یا کسی مشنری کالج میں بھیج دیا جاوے جہاں صرف ہر روز چند منٹ عیسیٰ مسیح ابن اللہ کی پریرسن لینی ہو گی یا کسی گورنمنٹ کالج میں بھیج دیا جاوے جہاں ان سب باتوں سے آزاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کی ناراضی جس قوم پر ہوتی ہے اس کی عجیب مت اور اس کے عجیب خیالات اور عجیب عجیب اوھام ہو جاتے ہیںکیسی ہی نیک بات اس کے سامنے پیش ہو اس کی سمجھ میں الٹی ہی آتی ہے پس بے چارے نوجوان پٹھانوں کے بچے اور ان کے مقدس اور بوڑھے بزرگ کیا کریں جبکہ خدا نے کمبخت مسلمانوں کی تقدیر ہی الٹی کر دی ہے۔ ٭٭٭٭٭ اضلاع شمال و مغرب میں تعلیم کی ترقی (اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ 5مئی1867ئ) چند روز کا عرصہ ہوا کہ ہمارے پاس اضلاع شمال و مغرب کی تعلیم کی ترقی کی رپورٹ آئی تھی اور ہم خیال کرتے ہیں کہ جو ترقی تعلیم کی ان اضلاع میں ہوئی ہے اگر اس کی نسبت بمقابلہ اور صوبوں کے کچھ تحریر کیا جاوے تو وہ ہمارے ناظرین اخبار کے نزدیک کچھ لطف سے خالی نہ ہو گا یہ رپورٹ حسب معمول واقعات اور بندشوں کا ایک مجموعہ ہے اور اس میں جا بجا مختلف مدرسوں کی حالت کی نسبت رائے دی گئی ہے اس قسم کی رپورٹیں علی العموم پڑھنے کے لائق نہیں ہوتی ہیں اور ہم ان کو صرف اسی وقت دیکھتے ہیں جب ہم کوان کے پڑھنے کی کوئی ضرورت ہوتی ہے پس ہماری یہ رائے ہے کہ تعلیم کی رپورٹ اس عام قاعدہ سے یہ کہ وہ بندشوں وغیرہ کا ایک مجموعہ ہوں کسی قدر برخلاف ہو چاہیے اور اس رپورٹ سے ہم کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ہمارے ہم وطنوں نے شائستگی میں کس قدر ترقی کی ہے ہماری دانست میں اس بات کا بیان کرنا کہ اس قدر لڑکے یونیورسٹی کے امتحان میں پاس ہوئے جو تمام مدرسوں کا عین منشاء اور مقصد سمجھا جاتا ہے اس بات کے واسطے کافی نہیں ہے کہ اس کے ذریعہ سے کوئی شخص تعلیم کی ترقی کا اندازہ کر سکے وہ ایک سامان اس اندازہ کے واسطے ہے ہماری یہ بھی رائے ہے کہ تعلیم کی رپورٹوں سے یہ بات بھی ظاہر ہونی چاہیے کہ سرکاری کالجوں اور مدرسوں کے طالب علموں کو کالجوں کے چھوڑنے کے بعد کیا روزگار ملا۔ صوبہ پنجاب میں تو ہمیشہ ایسا ہوتا ہے اور ہم خیال کرتے ہیں کہ اضلاع شمال و مغرب میں بھی اس قاعدہ کے جاری کرنے سے فائدہ حاصل ہو گا۔ یہ رپورٹ بالکل صاحب ڈائرکٹر بہادر کی لکھی ہوئی ہے اور مختلف پرنسپلوں اور انسپکٹروں کی پوری پوری رپورٹیں صاحب ڈائرکٹر بہادر کی رپورٹ میں مع ان کی رائے کے جہاں کہیں کہ اس کی ضرورت ہو درج نہیں ہیں بلکہ سرسری طور پر ان کا ذکر کیا گیا ہے اس بات کا بھی کچھ ذکر نہیں ہے کہ سر رشتہ تعلیم کے عہدہ دار کس طور سے اپنا کام انجام دیتے ہیں اور اس بات کا دریافت کرنا نا ممکن ہے کہ صاحب ڈائرکٹر بہادر کی اپنے ماتحتوں کی نسبت کیا رائے ہے اس ہم صاحب ڈائرکٹر بہادر کو ان دو باتوں کی نسبت بھی رائے دیتے ہیں اور ہم خاص تعلیم کے معاملہ کا بھی ذکر کرتے ہیں کل خرچ تعلیم کا نو لاکھ اڑتیش ہزار سات سو چونتیس روپیہ ہے جس میں سے ایک لاکھ پچیس ہزار سترہ روپیہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم میں اور باقی ادنیٰ درجہ کی تعلیم میں خرچ ہوتا ہے جس میں وہ رقم بھی شامل ہے جو امدادی کالجوں کے واسطے دی جاتی ہے اس کی رو سے فیصدی تینتالیس روپیہ آٹھ آنہ تعلیم انگریزی کا اور پچاس روپیہ دو آنہ فیصدی تعلیم اردو کا خرچ ہوتا ہے پس اس سے ہر شخص یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ ابتدائی تعلیم کا خرچ بہر کیف اس اعلیٰ درجہ کی تعلیم کے مساویٰ ہے جو کالجوں اور مدرسوں میں دی جاتی ہے مگر ہم کو اس امر میں کلام ہے کہ جن لوگوں کو تعلیم سابق الذکر دی جاتی ہے وہ اس کو بجز اس مقصد کے کہ وہ اس کے ذریعہ سے سرکاری روزگار حاصل کریں اس کی قدر شناسی کرتے ہیں یا نہیں ہم حضور لفٹننٹ گورنر بہادر سے اس رائے میں بالکل اتفاق کرتے ہیں کہ ابتدائی مدرسوں میں خالص ابتدائی تعلیم ہونی چاہیے اور اگر طالب علم اس تعلیم کے حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو ان کو اس کا خرچ دینا چاہیے پس حضور ممدوح نے واجبی طور پر صاحب ڈائرکٹر بہادر کی تجویز کو نسبت کم کرنے فیس کے نا پسند فرمایا ہے اور ہم خیال کرتے ہیں کہ جو فیس لڑکے سرکاری مدرسوں میں دیتے ہیں وہ اس تعلیم کے لحاظ سے جو ان کو دی جاتی ہے بہت کم ہے پہلی چار جماعتوں سے چھ یا آٹھ آنہ اور ادنیٰ جماعتوں کے لڑکوں سے تین آنہ فی طالب علم لیے جاتے ہیں اور یہی وجہ اس بات کی ہے کہ فیس کی آمدنی بہت کم ہوتی ہے ہماری دانست میں طالب علموں کے سرپرستوں کی حیثیت کے بموجب فیس لینی چاہیے اور اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ دولت مند اور غریب آدمی دونوں ایک ہی فیس دیں پنجاب میں ادنیٰ دفعات کے طالب علم چھ آنہ اور اعلیٰ دفعات کے طالب علم بارہ آنہ کی شرح سے فیس دیتے ہیں اور جن لڑکوں کے سرپرست دولت مند ہیں وہ بلا شبہ اس سے زیادہ دیتے ہیں یعنی بعض ان میں سے پانچ روپیہ تک فیس دیتے ہیں ہماری دانست میں صاحب ڈائرکٹر بہادر کو اس رائے پر عمل کرنا چاہیے اور فیس میں اضافہ کرنا چاہیے کیونکہ گورنمنٹ کے نزدیک اس سر رشتہ میں بہت زیادہ خرچ ہوتا ہے یہ تجویز کچھ خراب نہیں ہے اور اگر یہ جدید شرح فیس کی جاری کی جاوے گی تو وہ اضلاع شمال و مغرب کے باشندوں کی عام حالت کے لحاظ سے کچھ بہت اعتراض کے لائق نہ ہو گی بخلاف اس کے ہم گورنمنٹ کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کرتے ہیں کہ بعض مدرسوں میں معلموں کی تنخواہ کسی قدر فیس سے ادا کی جاوے۔ ہماری دانست میں یہ عمدہ تدبیر نہیں ہے کیونکہ اگر اس کا عملدرآمد ہو گا تو اس کے باعث سے لائق طالب علموں سے جبراً فیس لینی اور گورنمنٹ کو دھوکہ دینے کا طریقہ اختیار کیا جاوے گا۔ پس فیس علی العموم سرکاری خزانہ میں جمع ہونی چاہیے اور مدرسوں کو عام فنڈ سے تنخواہ ملنی چاہیے علاوہ اس کے فیس کی مقدار غیر متعین ہوتی ہے اور ہم نہیں خیال کرتے ہیں کہ جس مدرس کو فیس سے تنخواہ ملتی ہے اس کے طالب علم ویسی ہی تعظیم و تکریم کرتے ہیں جیسے کہ اس مدرس کی کرتے ہیں جو کو گورنمنٹ سے تنخواہ ملتی ہو۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭ یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے والے طلباء (تہذیب الاخلاق جلد ہفتم نمبر8بابت یکم جمادی الاول1294ھ) تعلیم کی ضرورت اب علی العموم تسلیم کی جاتی ہے اور جو مباحثے اس باب میں ہو رہے ہیں وہ کچھ خاص اصول سے متعلق نہیں ہیں بلکہ اس کے عمل درآمد کے طریقہ سے مخصوص ہیں۔ اب ہندوستان کی تعلیم کیسی ہی کیوں نہ ہو مگر وہ ان تمام مقاصد کے حاصل کرنے کو جن کی ہمیں ضرورت ہے ہنوز کافی نہیں ہے اور اس کے ناکافی ہونے کی یہ وجہ ہے کہ مدرسوں کی تعلیم کی تائید اور تشریح عملی نظیروں کے ذریعہ سے نہیں ہوتی ہے کیونکہ ہندوستان میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جس کے دیکھنے سے انسان کے خیال کو وسعت ہو اور جو باتیں کہ اور طرح پر صرف مذبذب خیالی باتیں ہیں ان کا ظہور بلحاظ عملدرآمد کے ہو بخلاف اس کے لندن اور یورپ کے بڑے بڑے شہر اس قسم کی چیزوں سے بھرے ہوئے ہیں اور ان شہروں کی سیر سے اس قسم کی تربیت حاصل ہوتی ہے جو اس تعلیم سے جو ہندوستان کے مدرسوں میں دی جاتی ہے ایسے ہی مختلف ہوتی ہے جیسے کہ وہ ان کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتی ہے وہاں کے علمی مجمعوں میں آنے جانے اور وہاں کی یونیورسٹیوں میں داخل ہونے اور وہاں کے کارخانہ جات تجارت کو دیکھنے سے خیالات کو بے انتہا وسعت ہوتی ہے اور عقلی تحقیقات کے واسطے نئے نئے موقع ملتے ہیں چنانچہ سفر یورپ کے یہ تربیت بخش فائدے یورپ میں مدت سے تسلیم کیے جاتے ہیں اور ان پر عمل کیا جاتا ہے اور جب سے کہ آہنی سڑکوں کی کثرت کے سبب سے یورپ کے ملکوںکی آمد و رفت کو نہایت ترقی ہوئی ہے صرف اسی زمانہ سے اس بڑے دورہ کا قاعدہ موقوف کر دیا گیا ہے جو سابق میں ایک جنٹلمین کی تعلیم کا ضروری جزو تھا اور ہندوستانیوں کے حق میں یورپ کی سیر سے بہ نسبت اس کے کہ اس کے ذریعہ سے ان کو نئی نئی باتوں کا علم حاصل ہو اور کچھ زیادہ کی توقع کی جا سکتی ہے ہم امیدکرتے ہیں کہ اس کا نتیجہ اس سے کچھ کم نہ ہو گا، کہ خیالات اور طریقہ خیالات بالکل تبدیل ہو جاوے گا اس وقت تک اس ملک کی دیسی تعلیم (جیسے کہ یورپ کی تعلیم کچھ عرصہ پیشتر تھی) زبان اور علم طبیعات کی تحصیل پر محدود رہی ہے جس کے ذریعہ سے اگرچہ بلا شبہ طالب علم کے ذہن کو ترقی ہوتی ہے مگر اس سے وہ عملی نتیجے پیدا نہیں ہوتے ہیں جو یورپ کی قوموں میں علم بدیہی کی تحصیل سے پیدا ہوئے ہیں جب کہ ہم علاوہ ان عام خیالات کے اس خاص تعلق پر غور کرتے ہیں جو ہندوستان کے باشندوں اور انگریزوں کے درمیان ہیں تو ہمارے ہم وطنوں کو یورپ کے جانے کے واسطے خاص خاص وجوہات معلوم ہوتی ہیں خواہ وہ ہندوستانی ریاستوں سے جاویں یا انگریزی صوبوں سے انگلستان میں وہ بغیر کسی قسم کی سرکاری قیود کے جو ضرور بالضرور ہندوستان میں باہمی میل جول کے مانع ہوتے ہیں لوگوں سے مل سکیں گے اور خاص خاص لوگوں کی دوستی سے یہ نتیجہ پیدا ہو گا کہ دونوں قوموں کے درمیان رابطہ، اتحاد اور زیادہ مستحکم ہو جاوے گا ہم نے ان عمل فائدوں کی جانب بہت کم توجہ کی ہے جو طالب علم کو یورپ کے جانے سے حاصل ہوں گے کیونکہ وہ درحقیقت بخوبی ظاہر و ہویدا ہیں جو علم اس کو وہاں حاصل ہو گا اس کے ذریعہ سے وہ ہر ایک پیشہ میں جس کو وہ کرنا چاہے ترقی اور کامیابی کے لائق ہو گا خواہ وہ پیشہ ملازمت سرکار ہو یا تجارت ہو یا کوئی علمی پیشہ ہو جیسا کہ فن انجینئری یا طبابت ہے اگر کسی مثال کی ضرورت ہو تو ہم صرف اس نازک معاملہ کا ذکر کرتے ہیں جو حال میں ٹرکی میں واقع ہوا تھا اور جس میں خاص کر ان شخصوں نے نہایت مستعدی کے ساتھ عمل کیا تھا جنہوں نے اور یورپین قوموں کے درمیان تعلیم کے فائدے حاصل کیے تھے۔ مگر یورپ کی تعلیم کے فائدے صرف خاص اسی شخص کی ذات سے مخصوص نہیں ہوتے ہیں جس نے ان کو حاصل کیا ہو بلکہ وہ ان تمام شخصوں پر بھی جو اس کے گردو پیش ہوتے ہیں کسی قدر کمی کے ساتھ موثر ہوتے ہیں خواہ تو اس سبب سے کہ وہ اپنے سرکاری کام کو نہایت لیاقت کے ساتھ انجام دے اور یا اس سبب سے کہ اس کی عمدہ تربیت یافتہ عقل اور زیادہ تر قوی دماغ سے اس کے ہم عصروں پر ایک مفید اثر پہنچے گا یا غالباً اس سبب سے کہ وہ بڑی بڑی تحقیقاتیں اور نئی نئی ایجادیں کر سکے گا پس ہندوستان کے تمام باشندوں پر فرض ہے کہ وہ ایک ایسے مقصد کی تکمیل میں جیسا کہ یہ ہے اور اس بات کا بندوبست کرنے میں کہ ہمارے ہم وطن یورپ کی تعلیم کو بہ نسبت حال کے کم دشواری کے ساتھ حاصل کر سکیں معاون اور شریک ہوں۔ اس باب میں سب سے بڑی مشکل روپیہ کے نہ ہونے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ یہ تعلیم بغیر صرف کثیر کے حاصل نہیں ہو سکتی لارڈ لارنس نے اس مشکل کو تسلیم کر کے صرف ایک سال کے واسطے سرکاری اسکالرشپیں اس غرض سے مقرر فرمائی تھیں کہ ان کے ذریعہ سے ہندوستانی لوگ لندن کو جا سکیںاور اگرچہ وہ مدت جو مقرر کی گئی تھی نہایت قلیل تھی تاہم نو شخصوں نے اس موقع پر فائدہ اٹھایا جن میں سے تین مسلمان تھے پس گورنمنٹ نے جو یہ نظیر قائم کی تھی اس کی پیروی میں خاص خاص لوگوں کو فیاضی ظاہر کرنی چاہیے۔ چنانچہ اس فیاضی کو ترغیب دینے کے واسطے علی گڑھ میں سفر یورپ پر آمادہ کرنے والی ایک ایسوسی ایشن قائم ہوئی ہے اور سید احمد خاں بہادر سی ایس آئی اس کے سیکرٹری کے طور پر کام کریں گے اس ایسوسی ایشن کا مقصد یہ ہے کہ وہ روپیہ جمع کرے اور لائق طالب علموں کو یورپ میں تحصیل علم کرنے میں مدد دے۔ یہ روپیہ یا تو بذریعہ ڈونیشن کے یورپین اور ہندوستانی لوگوں سے اور یا بذریعہ معمولی چندہ کے ان لوگوں سے جمع کیا جاوے گا جو اس ایسوسی ایشن کے ممبر ہونا چاہیں۔ ہم صرف ہندوستان کے راجاؤں اور نوابوںاور رئیسوں سے ہی چندہ یا ڈونیشن کی درخواست نہیں کرتے ہیں بلکہ ان انگریزوں سے بھی درخواست کرتے ہیں جو ہندوستان میں رہتے ہیں اور چونکہ وہ خود اس تعلیم کے ہزار فائدوں سے واقف ہیں جو انہوں نے حاصل کی ہے اس وجہ سے ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ بلا تامل ان شخصوں کی امداد کریں گے جو یورپ کی تعلیم و تربیت اور علوم کے فائدوں میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔ جو لوگ ایسوسی ایشن کے ممبر ہونا چاہیں ان کو چوبیس روپیہ سالانہ چندہ کے دینے ہوں گے اور ان کو ایسوسی ایشن کے تمام امور انتظامی میں اور ان طالب علموں کے انتخاب میں رائے دینے کا حق ہو گا جن کو اس فنڈ سے مدد دی جاوے۔ اس ایسوسی ایشن کی کارروائی کے لیے قواعد مندرجہ ذیل قرار پائے ہیں۔ بائی لاز دفعہ1 اس ایسوسی ایشن کا نام یورپ کے سفر پر آمادہ کرنے والی ایسوسی ایشن ہو گا۔ دفعہ 2 اس ایسوسی ایشن سے یہ مقصود ہے کہ اس ملک کے ہندو اور مسلمان باشندوں کو انگلستان اور یورپ کے اور ملکوں کی سیر کے واسطے ترغیب دی جاوے۔ دفعہ3 جو شخص تعلیم یا علم و ہنر کی تکمیل و تحصیل کے واسطے یورپ کو جاویں ان کی امداد کی جاوے گی لیکن جو شخص خاص اپنی ذاتی منفعت کے واسطے مثلاً تجارت کرنے یا کسی مقدمہ کی پیروی کرنے یا اسی قسم کے اور کاموں کے واسطے جاویں گے ان کو مدد نہیں ملے گی۔ دفعہ4 اس پسندیدہ مقصد کی تکمیل کے واسطے ایسوسی ایشن عوام سے یہ درخواست کرے گی کہ وہ خواہ ڈونیشن کے طور پر یا چندہ کے ذریعہ سے اس کام میں مدد کریں۔ دفعہ5 جو شخص چوبیس روپیہ سالانہ عنایت کریں گے وہ اس وقت تک کہ وہ اپنا چندہ برابر ادا کرتے رہیں ایسوسی ایشن کے ممبر تصور کیے جاویں گے۔ دفعہ6 جو شخص مبلغ چوبیس روپیہ بطور ڈونیشن کے دے وہ ایک سال کے لیے ایسوسی ایشن کا ممبر سمجھا جاوے گا۔ دفعہ7 ہر ایک ممبر کو یہ اختیار ہو گا کہ جب چاہے جب ممبری سے استعفا دے دے دفعہ8 جو روپیہ اس کی بابت وصول ہو گا وہ کسی بینک میں جو کمیٹی تجویز کرے جمع کیا جاوے گا دفعہ9 جب کہ اس قدر روپیہ وصول ہو جاوے گا کہ وہ یورپ کے جانے کے واسطے ایک یا ایک سے زیادہ آدمیوں کی مدد کو کافی ہو تو ایسوسی ایشن اس امر کا مع تعداد روپیہ اور ان شرائط کے جن کے بموجب وہ روپیہ دیا جاوے گا ایک اشتہار جاری کرے گی۔ دفعہ10 یہ اشتہار ان اختیارات میں جو کمیٹی کی رائے کے بموجب مناسب ہوں چھاپا جاوے گا۔ دفعہ11 جو شخص ایسوسی ایشن سے امداد کے خواہاں ہوں وہ علی گڑھ انسٹیٹیوٹ یا کسی اور مقام میں جس کا ذکر اشتہار مذکور میں ہو اپنی عرضی پیش کریں۔ دفعہ12 عرضی میں امور مندرجہ ذیل شامل ہو گے: اول : درخواست دھندہ کا نام مع اس کے باپ کے نام کے ہو گا اور اس کا مسکن اور قوم، مذہب اور عمر بیان کی جاوے گی۔ دوم: اس امر کا بیان کہ ا سنے کس قسم کی تعلیم پائی ہے اور ایک فہرست ان زبانوں کی جس سے وہ واقف ہو۔ سوم: یہ کہ کس مقصد کے واسطے وہ انگلستان جانا چاہتا ہے چہارم: یہ کہ کس قدر عرصہ تک اس کو انگلستان میں رہنا منظور ہے پنجم: یہ کہ وہ کس کس ملک کی سیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ششم: یہ کہ آیا وہ صاحب مقدور ہے یا نہیں دفعہ13 عرضی کے وصول ہونے پر کمیٹی درخواست دہندہ کی خصلت اور رشتہ داری وغیرہ کی نسبت اس قسم کی تحقیقات کرے گی جو اس کو مناسب معلوم ہو دفعہ14 کمیٹی کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ کسی درخواست کو منظور کرے یا نہ کرے دفعہ15 جن لوگوں کو یورپ کے بھیجنے کے واسطے کمیٹی منتخب کرے ان کے نام جن اخباروں میں کمیٹی مناسب سمجھے گی مشتہر کرے گی اور گورنمنٹ کو بھی ان سے اطلاع دے گی۔ دفعہ16 جو روپیہ منتخب لوگوں کو دیا جاوے گا وہ بینک میں اس غرض سے جمع کیا جاوے گا کہ کمیٹی کی ہدایت کے بموجب ان لوگوں کو دیا جاوے۔ اب ہم پھر تمام یورپین جنٹلمینوں سے جو در حقیقت اس تعلیم کی قدر جانتے ہیں جنہوں نے خود اس کو حاصل کیا ہے اور تمام ہندوستان کے نوابوں اور راجاؤں اور والیان ملک سے اور نیز عموماً تمام ہندو اور مسلمانوں سے جن کے فائدہ کے واسطے یہ ایسوسی ایشن قائم کی گئی ہے نہایت دل سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ ضروری فنڈ کے جمع کرنے میں اپنی خاص فیاضی سے مدد دیں۔ جو صاحب اس ایسوسی ایشن کے ممبر ہونا چاہیں ان کو اپنی درخواست مع چوبیس روپیہ کے سید احمد خاں بہادر سی ایس آئی کے پاس بمقام علی گڑھ بھیجنا چاہیے اور وہی ڈونیشن کا تمام روپیہ بڑی احسان مندی کے ساتھ جمع کریں گے۔ (دستخط) سید احمد خاں بہادر سی ایس آئی سیکرٹری علی گڑھ 27اپریل1877ء ٭٭٭٭٭٭٭ ہندوستانیوں کی تعلیم ولایت میں (تہذیب الاخلاق جلد دوم نمبر3(دور سوم) یکم ذی الحجہ 1312ھ) ہمارے چند احباب اپنی اولاد کو جنہوں نے انٹرنس یا ایف اے کا امتحان پاس کر لیا ہے ولایت میں تعلیم پانے کے لیے بھیجنے کی نسبت ہم سے صلاح پوچھتے ہیں ہم نے مناسب سمجھا ہے کہ اس باب میں جو کچھ ہماری رائے ہے اس کو مفصل لکھیں صرف انٹرنس پاس کیے ہوئے لڑکوں کا تو ولایت بھیجنا ہمارے نزدیک مناسب نہیں ہے اس سے زیادہ تعلیم پائے ہووؤں میں سے جن لوگوں کو ولایت میں تعلیم کے لیے بھیجنے کا ارادہ ہو اول یہ بات دیکھنی چاہیے کہ وہ لڑکا ذہین اور ہوشیار لائق اور ہونہار ہوتا معلوم ہوتا ہے یا نہیں اور نیز اس کامزاج ایسا سلیم اور متین ہے کہ وہاں کی ترغیبات سے اپنے تئیں قابو میں رکھ سکے گا اور آوارگی میں نہ پڑ جاوے گا جو لڑکا اس قسم کا ہو اور بخوبی اندازہ کر لیا گیا ہو کہ وہ ایسا ہی ہے اس کے بھیجنے کی ہم ضرور رائے دیتے ہیں لیکن اگر وہ ایسا نہیں ہے یا مشتبہ ہے تو اس کے بھیجنے کی ہم رائے نہیں دیتے۔ دوسرے یہ کہ اس کے مربیوں کو جو اس کو بھیجنا چاہتے ہیں اس بات کو بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کم سے کم پانچ برس تک اس کے اس قدر اخراجات کے جس میں وہ ایک اشراف کی طرف ولایت میں اپنی اوقات بسر کر سکے اور اخراجات تعلیم کو بخوبی ادا کر سکے اور نیز بعض بعض مقامات کی سیر سے بھی فائدہ اٹھا سکے متحمل ہو سکتے ہیں یا نہیں اگر متحمل نہیں ہو سکتے تو اس کا بھیجنا ہر گز مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے بجائے فائدہ کے نقصان متصور ہے اس زمانہ میں تیس ہزار روپیہ سے کم ولایت کی تعلیم میں خرچ نہیں پڑنے کا۔ اب رہی یہ بات کہ کس مطلب کے لیے بھیجا جاوے ہمارے نزدیک لڑکوں کو ولایت میں بھیجنا دو مقصد سے خالی نہیں یا اس مقصد سے کہ وہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم اور اعلیٰ درجہ کا علم کسی شاخ علم میں اور اعلیٰ درجہ کی ذاتی لیاقت حاصل کریں یا یہ کہ کوئی ایسی چیز حاصل کریں جو بعد واپسی ہندوستان ذریعہ معاش حاصل کرنے کا ہو۔ جہاں تک ہم کو خیال ہے مقصد اول کے لیے کوئی شخص ولایت نہیں گیا حالانکہ ہمارے نزدیک اسی بات کے حاصل کرنے کی ہندوستانیوں کو ضرورت اور ان کی عزت کا باعث ہے ہم کو امید ہے کہ ہمارے دوست ہم کو معاف کریں گے اگر ہم یہ کہیں کہ ولایت جا کر کسی علم میں بی اے ہو جانا یا بیرسٹر ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی علم اعلیٰ درجہ پر حاصل ہوتا ہے نہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہوتی ہے اور نہ اعلیٰ درجہ کی ذاتی لیاقت پیدا ہوتی ہے ہندوستان میں خصوصاً بنگالہ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کبھی ولایت نہیں گئے اور بہ نسبت ان لوگوں کے جو ولایت سے تعلیم پا کر آئے ہیں لٹریچر میں، قانون میں اور دیگر علوم میں زیادہ تر لائق ہیں پس سب سے اعلیٰ کام اس شخص کا جو ولایت میں اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاوے یہ ہے کہ وہ کسی شاخ علم میں ایسا ہو کر آوے کہ ہندوستان میں اپنا نظیر نہ رکھتا ہو کم سے کم یہ کہ جن لوگوں نے صرف ہندوستان میں تعلیم پائی ہے اور اعلیٰ درجہ تعلیم میں پہنچ گئے ہیں ان سے تو اعلیٰ ہو ورنہ اس قدر مشقت اور سفر دور و دراز اختیار کرنے اور اخراجات کثیر برداشت کرنے سے کیا فائدہ ہے۔ مسلمانوں میں تعلیم کی ایسی کمی ہے کہ جو ولایت گئے ہیں ان کو بھی ایسی انگریزی لکھنی نہیں آتی کہ ذی لیاقت انگریز ان کی تحریر کو پڑھ کر خوش ہو سکیں شاید کوئی اس کلیہ سے خارج ہو مگر ہمارے نزدیک تو سوائے نواب عماد الملک کے بشرطیکہ وہ دل لگا کر کچھ لکھیں کوئی خارج نہیں اور اگر کسی نے مر گر کر صفحہ دو صفحہ عمدہ انگریزی کا لکھ بھی لیا تو کچھ شمار میں نہیں۔ مرزا قتیل اور ٹیک چند بہادر نے جو ہندو تھے جس قدر لیاقت فارسی زبان میں حاصل کی تھی انگریزی زبان میں اتنی بھی آج تک کسی نے جو ولایت میں تعلیم پا کر آئے ہیں حاصل نہیں کی اگر کوئی شخص ایسا تعلیم یافتہ ہو کر آوے جیسا کہ ہم جانتے ہیں تو ہندوستان کے لوگ اس کو سر اور آنکھوں پر بٹھاویں اور اس کے لیے ذریعہ معاش اس قدر موجود ہیں کہ اور کسی کے واسطے موجود نہیں۔ اس بات پر خیال کرنا نہیں چاہیے کہ ولایت سے جو انگریز ہندوستان میں آتے ہیں وہ بھی یونیورسٹی کی ڈگریوں یا سول سروس کے امتحان سے زیادہ اور کچھ حاصل نہیں کرتے پھر جب کہ ہندوستانی بھی اسی قسم کی ڈگریاں حاصل کر لیں تو وہ کیوں نہ اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ تصور کیے جاویں۔ ولایت میں انگریزوں کے لیے چھوٹی عمر سے ایسی عمدہ سوسائٹی موجود ہے جس کے سبب سے بچنے سے دماغی اور ذہنی اور اخلاقی قوت بڑھتی جاتی ہے اور وقت کی پابندی اور سوشیل برتاؤ کی ان کو عادت مثل طبیعت ثانی کے ہو جاتی ہے اور اپنی ڈیوٹی کا وہ بہت خیال رکھتے ہیں اور جن علوم کو وہ حاصل کرتے ہیں اپنی مادری زبان میں حاصل کرتے ہیں اور لٹریچر گویا ان کی مادری زبان ہوتی ہے ہندوستانیوں کو ان میں سے کوئی بات بھی نصیب نہیں ہے پس گو کہ انگریزوں نے اور کسی ہندوستانی نے ایک ہی قسم کی ڈگری کسی یونیورسٹی سے حاصل کی ہو انگریزوں کی لیاقت اس ہندوستانی سے بہت زیادہ ہوتی ہے اور ان کا علم اس تربیت سے مل کر جو انہوں نے عمدہ سوسائٹی سے حاصل کی ہے بہت زیادہ ترقی یافتہ ہوتا ہے پس اگر کوئی ہندوستانی صرف یورپ کی کسی یونیورسٹی کی ڈگری پانے پر مغرور ہو اور یہ سمجھے کہ اس نے انگریزوں کے برابر تعلیم حاصل کر لی ہے تو اس کی محض غلطی ہے بلکہ اس کو یورپ کی یونیورسٹی کی ڈگریاں پانے سے بہت زیادہ علم و تربیت حاصل کرنی لازم ہے جب وہ کسی شاخ علم میں تعلیم یافتہ کہلایا جا سکتا ہے۔ اب باقی رہی یہ بات کہ لڑکے کو اس غرض سے ولایت بھیجا جاوے کہ وہ کوئی ایسی چیز حاصل کرے جو اس کے لیے بعد واپسی ہندوستان معاش کا ذریعہ ہو اس کے لیے چند صیغہ بلا شبہ ولایت میں موجود ہیں۔ 1سول سروس جو اب امپیریل سروس کے نام سے ملقب ہے 2بیرسٹری جس کے حاصل کرنے کے لیے قریباً کل ہندوستانی پل پڑے ہیں اور جس کا نتیجہ اکثر ہماری واقفیت میں کچھ نہیں نہ اس سے علم کی ترقی ہے نہ حصول معاش کا عمدہ ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ 3ایگریکلچرل یعنی تعلیم متعلق زراعت یہ تو سب سے زیادہ نکہدر ہے اور ہندوستان میں کوئی ذریعہ حصول معاش کا نہیں ہو سکتی۔ 4انجینئری ہماری ملاقات کسی ایسے ہندوستانی سے نہیں ہے جس نے ولایت میں انجینئری کی تعلیم اعلیٰ درجہ کی پائی ہو اور ہندوستان میں آ کر اس نے کامیابی حاصل کی ہو۔ 5ڈاکٹری۔ جس سے ملازمت سرکاری مقصود نہ ہو صرف بیرسٹری کے لیے ولایت جانا تو ہم ایک فعل عبث سمجھتے ہیں کیونکہ ہندوستان میں وہ کسی کام میں آنے کے لائق نہیں ہے۔ انجینئری۔ بلا شبہ ایک عمدہ چیز ہے مگر کلام اس میں ہے کہ وہ ان ہندوستانیوں سے جنہوں نے ہندوستان ہی میں اس فن کی تعلیم پائی ہے کچھ زیادہ معاش پیدا کر سکتا ہے۔ سول سروس کی تعلیم بشرطیکہ اس میں پاس بھی ہو جاوے بلا شبہ حصول معاش کا ذریعہ ہے مگر ہماری رائے میں اصلی عزت حاصل ہونے کا ذریعہ نہیں اور یہ ایک لمبی بحث ہے جس کو ہم اس مقام پر لکھنا نہیں چاہتے۔ ڈاکٹری کی تعلیم بلا شبہ اپنے لیے اور ملک کے لیے نہایت فائدہ مند ہے لیکن اگر اس فن کی تعلیم ولایت میں اس غرض سے حاصل کی جاوے کہ کوئی نوکری گورنمنٹ کی اس کو ملے گی تو ہماری دانست میں اس سے بدتر کوئی کام نہیں ہے البتہ اگر وہ اس نیت سے تعلیم پاوے کہ وہ ہندوستان میں آ کر پرائیویٹ طور پر اپنا کارخانہ کھولے گا تو اس سے بہتر کوئی ذریعہ عزت اور حصول معاش کا نہیں بشرطیکہ اس نے ولایت میں کامل تعلیم پائی ہو اور ہندوستان میں لوگوں کو اس پر اعتماد ہو اور اس نے اپنے اخلاق اور قومی ہمدردی سے لوگوں کو پانی طرف کھینچ لیا ہو ڈاکٹر مکند لال مرحوم جو ہمارے شہر کے رہنے والے تھے اور صرف ہندوستان کے تعلیم یافتہ تھے ان میں یہ سب باتیں جمع تھیں اور جو وسعت ان کے پیشہ سے ان کی آمدنی میں تھی وہ سب پر ظاہر ہے۔ پنجاب میں ہمارے مخدوم ڈاکٹر رحیم خاں صاحب ہیں انہوں نے بھی ہندوستان میں تعلیم پائی ہے مگر مذکورہ بالا تمام اوصاف ان میں جمع ہیں پھر جو عزت اور اقتدار مالی و ذاتی پنجاب میں ان کو حاصل ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے۔ بہر حال یہ سب امور قابل غور ہیں اور جو لوگ اپنی اولاد کو ولایت بھیجنا چاہتے ہیں وہ ان سب امور پر غور کر کے جو مناسب سمجھیں اس کو اختیار کریں۔ ہمارا ارادہ ہے کہ ہم اپنے کالج کے دو تین لڑکوں کو جو بی اے کی ڈگری تک پڑھ چکے ہوں اور ہوشیار و نیک خصلت اور نیک چلن و سعادت مند ہوں اور ان کی طبیعت تجارت کے کاموں کے مناسب بھی ہو اور مستعد و محنتی بھی ہوں ہندوستان ہی میں تجارت کے انگریزی کارخانوں میں بطور شاگرد کے کام سیکھنے کو بھیجیں۔ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ چھ مہینہ تک بطور شاگرد کے کام سیکھنا تجارت کے کام چلانے کو کافی ہو گا اور اس میں ایسی لیاقت دوکانداری اور تجارت کا کام چلانے کی آ جاوے گی جیسی کہ پارسیوں کو آتی ہے یہ بھی ہم کو معلوم ہوا ہے کہ جس کارخانہ میں ان لڑکوں کو تعلیم کے لیے بھیجیں گے ہر ایک کی بابت چالیس روپیہ ماہواری فیس دینی پڑے گی اور خرچ سکونت اس کے علاوہ ہے ہم کو امید ہے کہ خیر خواہان قوم اس کام میں ضرور ہماری مدد کریں گے اور ہم کو اس قابل بناویں گے کہ ہم ان کے اخراجات کو ادا کر سکیں اور جب وہ تعلیم پا کر واپس آویں گے تو اس وقت ہم خیال کریں گے کہ وہ دونوں کام متعلق تجارت کریں گے اور لمیٹڈ کمپنی تجارت کی ہم قائم کریں گے جس میں امید ہے کہ بہت سے خیر خواھان قوم حصہ دار ہوں گے۔ ٭٭٭٭٭٭٭ عام تعلیم پرشیا میں پرشیا واقع جرمنی کی عام تعلیم کی بابت1861ء میں ایک رپورٹ چھپی تھی اس کا خلاصہ ہم اس لیے لکھتے ہیں تاکہ ہندوستان کے مسلمان جانیں کہ تربیت یافتہ قوموں میں کس درجہ تک تعلیم کی ترقی ہے۔ 1861ء میں پرشیا میں پچیس ہزار ایک سو چھپن سرکاری ابتدائی سکول تھے اور آٹھ سو تیرہ خانگی جن کی کل میزان پچیس ہزار نو سو انہتر ہوئی۔ سرکاری اسکولوں میں ستائیس لاکھ تہتر ہزار چار سو تیرہ لڑکے و لڑکیاں پڑھتی تھیں اور خانگی اسکولوں میں اڑتالیس ہزار تین سو بیالیس جس کی میزان اٹھائیس لاکھ ایک ہزار سات سو پچپن ہوئی۔ پرشیا کے ملک کی آبادی ایک کروڑ چوراسی لاکھ اکیانوے ہزار دو سو بتیس آدمیوں کی ہے اس حساب سے فی سات سو بارہ آدمیوں میں ایک اسکول ہوتا ہے اور اوسط لڑکوں کا فی اسکول ایک سو دس کے قریب پڑتا ہے۔ ان اسکولوں کے سوا چار سو پینتالیس چھوٹے لڑکوں کے پڑھنے کے لیے مکتب تھے جن میں بتیس ہزار سات سو پنتالیس لڑکے پڑھتے تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے مدرسہ اس سے علاوہ ہیں مگر 1861ء میں کل طالب علم جو تمام مدرسوں اور اسکولوں اور مکتبوں میں پڑھتے تھے ان کی تعداد بتیس لاکھ چھیانوے ہزار پانسو چھیالیس تھی اور کل مدرس چھتیس ہزار تین سو چودہ تھے جن میں تینتیس ہزار تریسٹھ مرد اور تین ہزار دو سو اکیاون عورتیں تھیں اور متوسط اور اعلیٰ مدرسوں میں نو ہزار نو سو تیرہ مدرس تھے۔ اسی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ 1861ء میں ان لوگوں میں جو فوج میں بھرتی تھے اس بات کا تخمینہ کیا گیا کہ کس قدر آدمی بن پڑھے ہیں تو معلوم ہوا کہ فی صدی دو آدمی بن پڑھے تھے مگر یہ زمانہ اب گیا اس عرصہ میں اب اور زیادہ ترقی تعلیم کی ہو گئی ہے جب میں ولایت میں تھا تو ایک جرمنی عالم سے میری بہت ملاقات تھی اور ان سے جرمنی کی تعلیم کا بہت ذکر رہتا تھا وہ مجھ سے فرماتے تھے کہ اب پرشیا میں فی ہزار ایک آدمی بھی بن پڑھا بمشکل نکلے گا۔ اب ہندوستان کے مسلمانوں کے حال پر خیال کرو کہ اگر ان میں پڑھے ہوئے آدمی تلاش کیے جاویں تو فی ہزار ایک آدمی بھی پڑھا ہوا بمشکل نکلے گا پس غور کرنے کا مقام ہے کہ ہم کو اپنی قومی ترقی اور تربیت و شائستگی کے لیے کیا کچھ کرنا ہے۔ جو حال کہ ہم نے اوپر بیان کیا اس میں سرکاری اسکولوں اور سرکاری کالجوں کا نام آیا ہے اس سے یہ نہ سمجھا جاوے کہ ان اسکولوں اور کالجوں کا خرچ سرکاری خزانہ میں سے دیا جاتا ہے نہیں تمام اسکولوں اور مکتبوں اور کالجوں کا خرچ رعایا دیتی ہے مگر وہاں تعلیم کے باب میں ایک خاص قانون ہے اس کے مطابق جو اسکول یا مدرسے قائم ہیں وہ سرکاری کہلاتے ہیں اور باقی خانگی ورنہ حقیقت میں وہ سب رعایا کی طرف سے ہیں۔ جرمنی میں جو رعایا کی تعلیم کا قانون ہے نہایت ہی عمدہ ہے مگر وہ قانون ہندوستان سے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ آباد ہیں کسی طرح مناسبت نہیں رکھتا بلکہ انگلینڈ اور ویلز میں بھی اس کے مطابق عمل درآمد ہونا نہایت دشوار ہے چہ جائیکہ ہندوستان اور اس لیے ہماری یہ رائے ہے کہ جب تک کہ ہندوستان کی ہر ایک قوم خود آپ اپنی قوم کی تربیت کی طرف متوجہ نہ ہو گی اور خود آپ اپنی قوم کی تعلیم کا بندوبست نہ کرے گی اس وقت تک قومی تعلیم کا ہونا غیر ممکن ہے ۔ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان اپنے لغو خیالات اور بیہودہ تعصبات میں مبتلا ہیں اور اپنی قوم کی بھلائی اور ان کی تعلیم و تربیت کی کچھ فکر نہیں کرتے ہمارا دل جلتا ہے اور کمال رنج ہوتا ہے اس وقت ہمارا قلم نہیں رکتا اور زبان حال سے میر کا یہ شعر پڑھتا ہے۔ ضبط کروں میں کب تک آہ چل رے خامہ بسم اللہ اور پھر کہتا ہے جو کہتا ہے اور لکھتا ہے جو لکھتا ہے ٭٭٭٭٭٭٭ مصر میں علوم کی تعلیم (علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ 19مئی 1883ئ) ہم نے آج کے اخبار میں عربی اخبار الاھرام سے جو اسکندریہ میں چھپتا ہے لارڈ ڈفرن کی اسپیچ کا ترجمہ جو مصر کے مدرسوں اور علوم کی تعلیم سے متعلق ہے چھاپی ہے اور اس کے چند فقروں پر اپنے ملک کے لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک کے سب لوگ اس بات کو تسلیم کریں گے کہ علوم و فنون جدیدہ کے ترجموں میں اور ان کے ذریعہ سے ملک میں اعلیٰ درجہ کی تعلیم پھیلانے میں مصر میں جو کوشش ہوئی وہ بے نظیر ہے اور در حقیقت نہایت عمدہ ترجمے ہوئے ار مفید مفید کتابیں لکھیں گئیں لیکن اب وہ سب بے کار ہیں اس لیے کہ ان کے ترجمے ہوتے ہوتے اور درس میں آتے آتے تک علوم و فنون نے ایسی ترقی کر لی کہ وہ کتابیں مثل تقویم پارینہ کے بے کار ہو گئیں لارڈ ڈفرن نے فرمایا کہ ’’ جو کتابیں صنائع اور فنون کے مدارس میں زیر درس ہیں وہ تقویم پارینہ ہو گئیں اور یہ اس وجہ سے کہ کتابوں کے عربی میں ترجمہ ہونے اور ان کے مشتہر ہونے میں بے موقع تاخیر ہوئی ہے۔‘‘ پس جو لوگ ہمارے ملک میں بذریعہ ترجموں کے اعلیٰ درجہ کی تعلیم دینا خیال کرتے ہیں وہ کیسی غلطی میں ہیں علوم میںدن رات اس قدر ترقی ہوتی جاتی ہے جس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ پس جب تک کہ اسی زبان میں کافی لیاقت حاصل نہ ہو جس زبان میں وہ علم پیدا ہوتے ہیں اور ترقی پاتے ہیں اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل ہی نہیں ہو سکتی۔ ایک اور مثال ہم خود اپنے ہاں کی دیتے ہیں ہمارے علوم و فنون جو ہمارے باپ دادا نے حاصل کئے تھے وہ ایک درجہ پر پہنچ کر ٹھہر گئے تھے ان کی ترقی بند ہو گئی تھی وہ تمام علوم عربی زبان میں تھے اور جہاں تک انہوں نے ترقی پائی تھی عربی زبان میں پائی تھی اس کے بعد فارسی زبان میں بہت سے ترجمے ہوئے اور کتابیں بھی تالیف ہوئیں۔ مگر کیا ان ترجموں کو پڑھ کر کوئی عالم ہو گیا ہے پس یہ خیال کہ ہم علوم و فنون جدیدہ کو اعلیٰ درجہ پر بذریعہ ترجموں کے حاصل کر لیں گے، محض ایک لغو اور بیہودہ خیال ہے۔ مصر کے مشہور مدرسہ ازھریہ کا ذکر لارڈ ڈفرن نے اپنی اسپیچ میں کیا ہے جس میں تین سو مدرس ہیں اور آٹھ ہزار طالب علم پڑھتے ہیں اس مدرسہ میں اسی قدیم طریقہ پر تعلیم ہوتی ہے جس طریقہ پر ہمارے ملک کے علماء اس زمانہ میں طالب علموں کو تعلیم دیتے ہیں اس مدرسہ میں علم کلام، فقہ، صرف، نحو، منطق، فلسفہ، علم ادب عربی میں پڑھایا جاتا ہے۔ اب ہم کو غور کرنا چاہیے کہ اس کا نتیجہ کیا ہے؟ اس کا نتیجہ خود لارڈ ڈفرن کی سپیچ سے جو بالکل صحیح و درست طور پر انہوں نے بیان کیا ہے پایا جاتا ہے، جہاں انہوں نے یہ کہا ہے کہ ’’ مصریوں کو اس شکایت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ عموماً مصر کے محکمہ جات میں بہت سے یورپین موجود ہیں کیونکہ خاص مصر کے لوگوں میں ایسے اشخاص کا سر دست دستیاب ہونا جن میں ہر ایک قسم کی ضروری لیاقتیں پائی جاتی ہوں اور جو ان تمام کاموں کو سنجیدگی سے چلا سکیں جن کی باگ مجبورانہ غیر ملک کے لوگوں میں ہے محال سے کم نہیں‘‘ پس ہمارے ملک کے لوگوں کو جو اسی پرانی قسم کی تعلیم کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کونسا پھل اٹھانے کی توقع ہے۔ یہی مصیبت سر سالار جنگ مرحوم کو تھی کہ اس ملک کے لوگوں کو کسی قسم کے کام کی لیاقت نہیں تھی اور گورنمنٹ انگریزی کے عہدہ دار جیسی لیاقت رکھتے تھے اتنی بھی لیاقت دکن کے لوگوں میں نہ تھی لاچار وہ گورنمنٹ انگریزی کے عہدہ داروں کو بلا بلا کر نوکر رکھتے تھے جن کی لیاقت کے سبب اس ملک میں کسی قدر صورت انتظام ظاہر ہونے لگی تھی پس دکن کے لوگوں کو لارڈ ڈفرن کی اس گفتگو سے نصیحت پکڑنی لازم ہے۔ ایک اور عجیب بات مصر کے طالب علموں میں پائی جاتی ہے جو بعینہ ہمارے ملک کے لڑکوں میں بھی اکثر موجود ہے لارڈ فرن نے کہا ہے کہ ’’ مصر کا ایک لڑکا چھوٹے ہی سن میں سمجھ دار نظر آتا ہے اور ا س کو خاص قسم کی قابلیت، ریاضیات اور علم لغات میں ہوتی ہے مگر جب وہ ترقی کے ایک محدود درجہ تک پہنچتا ہے تو اس کی عقل اس قدر علوم عالیہ کے سیکھنے میں ترقی نہیں کرتی جتنا کہ اس کا جسم ترقی کرتا ہے‘‘ یہی حال ہمارے ملک کے اکثر مسلمان لڑکوں کا ہے۔ اسی سلسلہ میں لارڈ ڈفرن نے کہا کہ ’’ کم سنی میں شادی کا ہونا ایک بہت بڑا سبب ہے جو اس کو ترقی کے سلسلہ سے جدا کر دیتا ہے بہت سے طالب علم ہیں جن کو تعلیم کی بینچوں پر بیٹھا دیکھو گے مگر وہ اپنے کندھوں پر جورو کا بوجھ لادے ہوئے ہیں‘‘ میںاس قدر اور اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ دو تین بچے بھی گھر میں رو رہے ہیں۔ ہمار امقصد ان تحریروں سے اپنی قوم کو اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ یہ جو مقدس اشخاص علوم مفیدہ کے حاصل کرنے سے قوم کو باز رکھتے ہیں اور مذہبی تعصب کو کام میں لاتے ہیں اور مذہبی ٹٹی کی آڑ میں لوگوں کو اغوا کرتے ہیں وہ قوم کے، اسلام کے، مسلمانوں کے در حقیقت دشمن ہیں بعضے تو صرف اپنی دکانداری اور مشیخت قائم رکھنے کو اور بعضے صرف اپنا تقویٰ اور تقدس لوگوں میں جتانے کو قوم کو غارت کرتے ہیں ان کا دعویٰ دینداری ادعائے تقدس محض جھوٹا ہے اسلام ایک نہایت روشن اور سچا جوہر ہے اس کو علوم سے اور حقائق اشیاء کے معلوم ہونے سے جہاں تک کہ طاقت بشری میں ہے کچھ نقصان نہیں پہنچتا البتہ علماء کی دکانداری اور مقدسین کے بناوٹی تقدس اور متوھمین کے توھم باطل کو ضرور نقصان پہنچتا ہے پس قوم کو اپنے حال پر خود غور کرنا چاہیے کہ در حقیقت ان کو کیا کرنا چاہیے۔ علاوہ اس کے یہ بات نہایت غور طلب ہے کہ باوجویکہ مسلمان مختلف آب و ہوا کے ملکوں میں آباد ہیں اور مختلف قوموں کے لوگ ہیں مختلف عملداریوں میں رہتے ہیں ان کی حیثیت بھی مختلف ہے کہیں خود مختار بادشاہ ہیں کہیں خود مسلمان بادشاہ کی رعیت ہیں کہیں غیر قوم و مذہب کے سلاطین کی رعایا ہیں مگر کیا سبب ہے کہ حالت سب کی یکساں ہے جو خراب حالت کہ ہم ہندوستان کے مسلمانوں کی پاتے ہیں بجنسہ مصر کے مسلمانوں میںپائی جاتی ہے اور اسی حالت کا نمونہ ٹونس، مراکو، ترکی میں دیکھتے ہیں شام و روم ایران و بخارا سب یکساں حالت میں ہیں اس پر غور کرنا مسلمانوں کی بہبودی چاہنے والوں کو نہایت ضرور ہے اور قوم کے لیے نہایت مفید، خدا کرے کہ علماء کرام میں سے کوئی شخص اس کے اسباب بیان کرنے پر اور اس عقدہ کے حل کرنے پر متوجہ ہو۔ ٭٭٭٭٭٭ مصر کی معاشرت اور اس کی تہذیب (تہذیب الاخلاق جلد اور نمبر7بابت15ذی الحجہ 1287ھ) مشہور ہے کہ مسلمانی ریاستوں میں سے مصر نے تہذیب و شائستگی میں بہت ترقی کی ہے س لیے ہم اس کا کچھ حال جو ہماری آنکھ کا دیکھا ہے لکھتے ہیں۔ مصر کی تہذیب و شائستگی کا حال بیان کرنے کے لیے وہاں کے باشندوں کو چار فرقوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ اول: یورپین یعنی فرنچ اور اطالین اور گریک اور کچھ انگریز جو بطور رعایا یا تجار وہاں بسے ہوئے ہیں۔ دوم: مسلمان امراء و روساء و عہدہ دار جو اس ملک میں رہتے ہیں، یعنی اعلیٰ درجہ کے مسلمان باشندے مصر کے۔ سوم: عیسائی مصری یعنی مصر کے رہنے والے جنہوں نے قدیم یا حال کے زمانہ میں مذہب عیسائی اختیار کیا ہے اور جو اکثر قبطی نسل کے ہیں۔ چہارم: متوسط درجہ اور ادنیٰ درجہ کے مسلمان باشندے مصر کے یورپ کی قومیں جو مصر میں ہیں اگرچہ وہ بہ نسبت ان یورپین قوموں کے جو خاص یورپ میں رہتی ہیں تہذیب و شائستگی میں گھٹی ہوئی ہیں لیکن پھر بھی نہایت مہذب اور شائستہ اور تربیت یافتہ ہیں ان کے مکان نہایت صاف اور بخوبی بقدر اپنے اپنے مقدور کے آراستہ پھولوں اور پھولدار درختوں اور بیلوں کو جا بجا مکان پر چڑھانے سے پیراستہ ہیں ہر ایک یورپین کا مکان اسی طرح پر بقدر اپنے مقدور کے آراستہ ہے الا بہت مفلس یورپین جو قدیم شہر کے اندر عام لوگوں سے ملے ہوئے رہتے ہیں اور جن میں سے ایک شخص گریک کے گھر میں خود گیا تھا مثل عام مصریوں کے گھروں کے خراب ہیں۔ یورپین کی عورتیں بھی نہایت خوبی اور صفائی سے رہتی ہیں نفیس نفیس لباس پہنے ہوئے پھرتی ہیں بات چیت نہایت تہذیب اور شائستگی سے کرتی ہیں اور یورپین مرد عموماً صاف اور درست معمولی لباس کوٹ پتلون پہنے ہوئے رہتے ہیں الا یورپ کی ٹوپی سو میں دو چار پہنتے ہوں گے ورنہ سب کے سب ترکی لال ٹوپی پھندنے دار پہنتے ہیں ان کا لباس اور بدن اور کھانا اور کھانے کے برتن پاک صاف اجلے اور درست رہتے ہیں یورپین زن و مرد اپنی یورپ کی زبان بھی بولتے ہیں اور عربی بھی خوب بولتے ہیں جو بالفعل تمام مصریوں کی زبان ہے بات چیت ان لوگوں کی نہایت شائستہ اور مہذب اور لہجہ گفتگو مثل مہذب آدمیوں کے لہجہ کے ہے۔ مسلمان امراء و روساء و عہدہ داران نے بالکل اپنا قدیم طریقہ اور قدیم لباس اور پرانا طرز زندگی چھوڑ دیا ہے سب کے سب کوٹ پتلون پہنتے ہیں اور لال پھندنے دار ترکی ٹوپی اوڑھتے ہیں مثل یورپین کے اپنے مکانات کو صاف اور پھولوں اور پھولدار درختوں سے آراستہ رکھتے ہیں میز و کرسی پر بیٹھتے ہیں چھری کانٹے سے کھانا کھاتے ہیں اکثر فرنچ اور عربی اور ترکی تینوں زبانیں جانتے ہیں ان کی نسبت مجھ کو کہنا چاہیے کہ اگر بالکل یورپین کی مانند مہذب نہیں ہو گئے ہیں تو ان کی پوری پوری نقل تو ضرور کی ہے۔ عیسائی مصری بھی تہذیب و شائستگی میں کم نہیں انہوں نے اپنے ہم مذہب یورپین بھائیوں کا سا برتاؤ اور طریقہ اختیار کیا ہے میں دو ایک عیسائی مصریوں سے ملا اور ان کو تہذیب و شائستگی میں آراستہ پایا۔ وہ سب قبطی نسل کے تھے اور ان میں سے ایک شخص باوجودیکہ بجز عربی زبان کے اور کوئی زبان نہیں جانتا تھا مگر ہر بات اور عادت اور بات چیت میں مثل یورپین جنٹلمین کے مہذب تھا مصری عیسائی لڑکیوں کے پڑھانے کے لیے مشنریوں نے اسکول بھی بنائے ہیں اور ان لڑکیوں کو عربی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اور انجیل اور اور دعاؤں کی کتابیں عربی زبان میں پڑھائی جاتی ہیں۔ متوسط درجہ اور ادنیٰ درجہ کے مسلمان مصری جو بہت کثرت سے ہیں نہایت خراب اور ابتر حالت میں ہیں میلے اور نہایت میلے اور لباس نہایت خراب اکثر نیلا کرتا جس کا گریبان کھلا ہوا ہے پہنے ہوئے ہیں اور ٹانگوں میں کوئی چیز نہیں، بالکل ننگی اور کپڑا ایسا میلا کہ شاید پہننے کے بعد کبھی دھونے کی نوبت نہیں آتی ہو گی پاس بٹھانے کو دل نہیں چاہتا بدن و کپڑوں میں سے بری بو آتی ہے۔ متوسط درجہ کی عورتوں کی حالت بہ نسبت مردوں کے اچھی معلوم ہوتی ہے مگر ادنیٰ درجہ کی عورت و مرد کی نہایت خراب حالت معلوم ہوتی ہے اور جو کہ یہی لوگ سب سے زیادہ کثرت سے ہیں اس لیے مصر باعتبار خلقت کے آنکھ میں نہایت برا اور خراب معلوم ہوتا ہے اگر مصر کے بازاروں میں جاؤ اور عام طور پر وہاں کی خلقت پر نظر ڈالو تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کہ ہندوستان میں قحط کے دنوں میں بھنٹیر کی طرف کے لوگ عورت و مرد نیلے کرتے پہنے ہوئے اور تباہ حالت میں چلے آتے ہیں تمام یورپین کیا مرد اور کیا عورت ان لوگوں میں ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے اندھیری رات میں تارے یا کوڑے میں موتی۔ اس درجہ کے لوگوں کا لہجہ گفتگو ایسا ناشائستہ اور خراب ہے کہ ان کی نا مہذب آواز کی دل پر چوٹ لگتی ہے بہت بلند اور حلق میں نکلنے والی اور نہایت درشت آواز سے جس میں گردن کی رگیں تن جاتی ہیں باتیں کرتے ہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دو جانور آپس میں لڑتے ہیں اور باوجودیکہ وہاں مسلمان گورنمنٹ ہے تب بھی اس فرقہ کے لوگ یورپین کے سامنے بہ سبب اپنے ناشائستہ اور نا مہذب ہونے کے نہایت ذلیل ہیں اور جانوروں سے بدتر ان کا حال ہے سلطنت اسلام ہے الا اسلام صرف ان مسلمانوں کے ناشائستہ اور نا تربیت یافتہ ہونے سے غیر قوموں کی آنکھ میں ذلیل ہے۔ پہلے پہل جب میں نے مصریوں کو آپس میں بات چیت کرتے دیکھا تو میں نے خیال کیا کہ بہ سبب عربی زبان ہونے کے جس میں حروف حلقی زیادہ ہیں ان کا لہجہ ایسا خراب ہے مگر میں نے جب قبطی عیسائیوں کو دیکھا جو تربیت یافتہ تھے ان کا لہجہ نہایت سبک اور آواز نرم اور آہستہ بات کرنا سب کچھ عمدہ تھا ان کے منہ سے لفظ پیارے معلوم ہوتے تھے اور عورتوں کے منہ سے تو عربی لفظ نہیں نکلتے تھے بلکہ پھول جھڑتے تھے۔ مجھ پر میری عمر میں ایک زمانہ ایسا گذرا کہ تھوڑی دیر کے لیے میں نے خیال کیا کہ شاید جین مذہب حق ہے جبکہ میں نے تمام چیزوں کو آفت میں اور جینیوں کے مندر کو امن میں دیکھا اور مصر کی سیر میں مجھ پر ایک زمانہ ایسا گذرا کہ تھوڑی دیر کے لیے میں نے خیال کیا کہ شاید عیسائی مذہب حق ہے کیونکہ ہر مقام پر جو خوبی اور عزت اور برکت خدا نے عیسائیوں کو دی ہے وہ اور کسی کو نہیں دی پس کیا شرم کی بات ہے کہ مسلمان اپنے نا مہذب اور ناشائستہ ہونے سے اسلام کو داغ لگائیں اور اس کو حمیت اسلامی کے بر خلاف نہ سمجھیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مصر کی عورتوں میں باہر نکلنے کا عام رواج ہے غریب عورتیں پیادہ بھرتی ہیں اور ذی مقدور خاندان کی عورتیں بروم اور فٹن اور چرٹ پر سوار ہو کر پھرتی ہیں مگر باہر پھرنے کا ایک خاص قسم کا لباس ہے کہ اس میں بجز آنکھوں کے اور کچھ نہیں معلوم ہوتا آنکھوں کے نیچے ناک پر سیاہ رنگ کا لمبا ہاتھی کی سونڈ کی طرح ایک کپڑا لٹکاتی ہیں جس سے نہایت ہیبت ناک صورت ہو جاتی ہے ان کی ہیئت مجموعی ایسی معلوم ہوتی ہے کہ گویا ممی قبر میں سے نکل کر پھرتی ہے۔ امیر عورتوں کے باہر نکلنے کا لباس ان سے کسی قدر بہتر ہے خدیو مصر کی بیگمات جو حرم کہلاتی ہیں ایک دفعہ سواری میں مجھ کو ملیں نہایت عمدہ بروم میں کھلے میدان سوار تھیں چار گھوڑے جتے ہوئے تھے اور گورے کوچوان انگریزی وردی پہنے ہوئے پیشتر گھوڑوں کو ھانکتے تھے ایک یورپین فوجی افسر گھوڑے پر سوار آگے آگے تھا اور چار سوار مصری فوجی پیچھے تھے اور ایک حبشی خواجہ سرا گھوڑے پر سوار ساتھ ساتھ تھا۔ یہ بات خیال کرنی کہ مصری گورنمنٹ نے اپنے ملک کو مہذب اور شائستہ کرنے میں کس قدر کامیابی حاصل کی ہے، ایک نہایت مشکل کام ہے کیونکہ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے اس ملک کے حالات سے نہایت واقفیت ہونی چاہیے، تاہم باوجودیکہ عام لوگ ایسی خراب اور ذلیل و ناشائستہ حالت میں ہیں اس پر بھی تہذیب و شائستگی کی بہت ترقی معلوم ہوتی ہے شہر جو کہ نہایت میلا اور خراب اور بد وضع مردوں کے رکھنے کی بدبو دار تہ خانوں کی مانند تھا، نہایت عمدہ ہوتا جاتا ہے شہر کے غربی جانب بلاق تک ایسا عمدہ شہر آراستہ ہوا ہے کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے نہایت نفیس سڑکیں اور جا بجا حوض و فوارہ اور چوکوں میں خوبصورت خوبصورت پھولوں کے باغچہ تیار ہو گئے ہیں تمام دوکانیں اور مکانات اور ہوٹلیں انگریزی طور پر تیار ہیں مصر کا شہر غربی جانب کا بلاق تک ہر گز افریقہ کا شہر نہیں معلوم ہوتا بلکہ یورپ کا عمدہ نفیس شہر معلوم ہوتا ہے۔ صرف د ونقص عظیم پائے جاتے ہیں ایک تو یہ کہ یہ خوبی جس قدر ہوئی گورنمنٹ کی طرف سے ہوئی رعایا ایسی مہذب نہیں ہے کہ وہ خود یہ سب کام کرے دوسرے یہ کہ شہر کی اس نفیس طرف جس قدر آبادی ہے وہ اکثر یورپین کی ہے اور وہی رہتے ہیں اور عیش و آرام کرتے ہیں اور فرحت اور خوش حالی سے زندگی بسر کرتے ہیں اور مسلمان اب تک اکثر اسی مویشی خانہ میں بندھتے ہیں اور ذلت اور نکبت سے نہیں نکلے۔ مصر میں اس کی گورنمنٹ کی کوشش سے تہذیب و شائستگی پھیلنے کا ایک اور بڑا نشان یہ ہے کہ تعلیم کے قواعد کسی قدر رائج ہوتے جاتے ہیں مصر کے مدرسہ کو جو خدیو کا مدرسہ کہلاتا ہے، میں نے دیکھا نہایت عمدہ ہے اور وہاں صرف تعلیم ہی نہیں ہوتی بلکہ لڑکوں کو تہذیب و شائستگی بھی سکھائی جاتی ہے تمام لڑکے نو عمر نہایت عمدہ اور خوبصورت وردی پہنے ہوئے تھے۔ انگریزی بوٹ اور کوٹ پتلون اور سرخ ترکی ٹوپی پھندنے دار پہنے ہوئے اور میز و کرسی پر اپنی اپنی جماعتوں میں بیٹھے ہوئے نہایت خوبصورت دکھائی دیتے تھے ہر ایک علم پڑھنے والوں کو وردی کی رنگت میں یا کسی خاص وضع کے تمغے کا فرق تھا۔ تمام علوم و فنون عربی زبان میں جو ان کے ملک کی زبان ہے پڑھائے جاتے ہیں علاوہ اس کے انگریزی اور فرنچ اور جرمن زبان سکھلائی جاتی ہے اور انجام کار لائق لڑکوں کو تکمیل علم کے لیے جرمن و فرانس اور لنڈن میں بھیجا جاتا ہے۔ ہر قسم کا ہنر مصریوں میں ترقی پر ہے تمام کام ریل کے چلانے کا مصری خود آپ کرتے ہیں دھوئیں کی کل سے کام لیتے ہیں دھوئیں کا پمپ اور دھوئیں کا ھل گنوار دھقانوں کو چلاتے میں نے دیکھا کاغذ بنانے کی کل جو دھوئیں سے چلتی ہے مصری چلاتے ہیں اور کاغذ بناتے ہیں دھوئیں کی کل سے مصری چھاپے خانے کا کام کرتے یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کے سبب مصریوں کو ہندوستان کے مسلمانوں سے باوجودیکہ ہندوستان کے مسلمان ان سے بہت زیادہ خوشحال ہیں ہم فوقیت دیتے ہیں۔ میوزیم مصر کا یعنی عجائب خانہ ایسا عمدہ ہے کہ مصر کی پرانی چیزوں کے لیے اپنا نظیر نہیں رکھتا پرانی لاشیں جو ممی کہلاتی ہیں اور پرانی صنائع مصر کی نہایت خوبصورت اور عمدگی سے آراستہ ہیں اور بہت فائدہ بخش عبرت انگیز اور حیرت خیز ہیں۔ ولیم ھورڈرسل صاحب نے جو ایک مشہور نامی گرامی قابل شخص ہیں اپنے روزنامچہ میں مصر کی گورنمنٹ کی نسبت ایک رائے لکھی ہے جو کہ نہایت دلچسپ ہے ہم اس کو اس مقام پر لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے: ’’ اس بات کی نسبت رائے دینی کہ مصر ترقی کی حالت میں ہے یا تنزل کی اس وقت ہو سکتی ہے جبکہ اس ملک کے حالات کا ایک خاص علم ہو نامی لوگ جو مصر میں جاتے ہیں ان کے ساتھ مدارات کرنے میں اسماعیل پاشا کو یورپ کی شائستہ اور مہذب قوموں سے کچھ سیکھنا نہیں ہے ممکن ہے کہ یہ بات لوگوں کی حیثیت کے لیے کسوٹی نہ ہو اور نہ میں اس کے کسوٹی ہونے پر استدلال کرتا ہوں مگر اس سے یہ مقصود ہے کہ انگلستان کے لوگ بے تمیزی سے اس کی نکتہ چینی نہ کریں بلکہ اس قوم کی جس کی عزت اس کے بادشاہ کی ذات میں ہے شکر گزاری کریں۔‘‘ میں تمام ہندوستان میں پھرا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ اگر کوئی اجنبی شخص گو کہ وہ فہیم ہو لیکن ہندوستان کے حالات سے نا واقف ہو صرف رعایا اور دھقانی اور قصباتی بازاریوں سے ظاہری صورت دیکھ کر انتظام انگریزی کی نسبت اتہام لگائے اور اپنی رائے قائم کرے تو کیسی مشکل کی بات ہے کلکتہ میں گورنر جنرل یا کسی صوبہ میں چیف کمشنر یا کوئی کلکٹر یا جج بلکہ اور ادنیٰ عہدہ دار کو مع اس کے ملازمین اور چپراسیان اردلی اور جلوس کے رعایا کی حیثیت سے مقابلہ کرو اور غور کرو کہ محل کے رہنے والوں کی کیا کیفیت دکھائی دیتی ہے خیال کرو کہ ہم نے ہندوستان کے لوگوں سے ڈوننگ اسٹریٹ میں سلطان کے بال کا ایک گونہ مفت خرچ دلایا ہے غور کرو کہ اس عملداری میں جو دنیا میں نہایت عمدہ ہے (یعنی انگریزی عملداری میں) کیا کیا ہوت اہے، تب مسلمان حکمران (یعنی خدیو مصر) پر پتھر پھینکو جو فی الحقیقت اپنی رعایا کو اسی حال میں رکھنا چاہتا ہے جس حال میں ان کے باپ دادا رہتے تھے اور با وصف اس کے اس نے اپنے ملک کو ضروری باتوں میں کامیابی بخشی ہے اور ترقی دی ہے اس نے سڑکیں اور پانی کے جھرنے بنوائے، دار السلطنت یعنی شہر قاہرہ کو آراستہ کیا ہنر اور محنت کو بڑھایا اور جہاں تک اس سے ہو سکا اس نے اس زنجیر کو توڑ ڈالا جو مسلمانوں کو عیسائیوں سے جدا کرتی ہے ۔ فرض کرو کہ اگر اسماعیل پاشا ہر آدمی کو جو اس کے ملک میں رہتے ہیں ان کے گھر سے اور ان کے پیشہ سے چھوڑا کر چند سال کے لیے سرکاری خدمت پر مجبور کرے تو اس حالت میں اس کے اطوار کی نسبت کیا کچھ نہ کہا جاوے گا۔ فرض کرو کہ اگر اسماعیل پاشا کروڑوں اپنی رعایا سے کہے کہ تم کو محصول دینا پڑے گا اور جو میں حکم دوں گا وہی کرنا ہو گا لیکن تم کو کوئی جلیل عہدہ سلطنت میں نصیب نہ ہو گا اور فوجی اور جہازی اور سول کے کاموں میں بجز ادنیٰ کاموں کے اور کوئی کام تم کو نہ ملے گا تو ہم لوگ کس قدر اس کو لعنت ملامت کریں گے۔ مسٹر رسل کی یہ رائے در حقیقت نہایت عمدہ اور منصفانہ ہے اور جس عالی رتبہ اور فیاض طبیعت کے وہ ہیں اسی رتبہ کی یہ رائے ہے مگر نا مہذب گورنمنٹ اور نا مہذب قوم کو اس کو پڑھ کر پھولنا اور خوش ہونا نہیں چاہیے مہذب اور تربیت یافتہ گورنمنٹ میں اگر کوئی نقص ہوتا ہے تو ہزاروں بھلائیاں بھی ہوتی ہیں جیسے کہ ان گورنمنٹوں میں جن کی طرف مسٹر رسل صاحب نے اشارہ کیا ہے مگر نا مہذب اور نا تربیت یافتہ گورنمنٹ میں یہ ہوتا ہے کہ اس میں برائی ہی برائی دکھائی دیتی ہے اور بھلائی ایسی قلیل ہوتی ہے جو خیال میں نہیں آتی اگر یہ بات سچ ہو جیسا کہ مسٹر رسل نے خیال کیا ہے کہ مسلمان حاکم یعنی خدیو مصر اپنی رعایا کو اسی حالت میں رکھنا چاہتا ہے جس حالت میں ان کے باپ دادا تھے تو حقیقت میں وہ حاکم کافر اور ظالم فرعون سے کچھ اور زیادہ درجہ نہیں رکھتا ہے اور جو بھلائی کہ اس نے کی ہو اس بھلائی سے زیادہ نہیں ہے جو فراعنہ مصر رعایا کو ظلم سے بیگار میں پکڑ کر کام لیتے تھے اور پیاز اور سوکھی روٹی کھانے کو دے کر ان کے ساتھ بڑی نیکی کرتے تھے جو گورنمنٹ کہ اپنی رعایا کی ترقی کی دل سے خواہاں نہیں وہ حقیقت میں گورنمنٹ نہیں ہے بلکہ رعایا کی دشمن ہے۔ مہذب قوم اور نا مہذب قوم میں بھی یہی فرق ہوتا ہے یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ مہذب قوم میں کوئی نقص یا عیب یا برائی نہ ہو مگر البتہ یہ ہوتا ہے کہ ان برائیوں کے ساتھ لاکھوں کروڑوں بھلائیاں بھی ہوتی ہیں مگر نا مہذب قوم میں بجز برائیوں کے اور کچھ نہیں دکھائی دیتا نا مہذب قومیں گناہ کو ایسے برے طور سے استعمال کرتی ہیں جس سے اس گناہ کی بدیاں بہت زیادہ عام اور تمام قوم کو خراب کرنے والی ہو جاتی ہیں مہذب قومیں اگرچہ وہی یا اسی قسم کا گناہ کرتی ہیں مگر وہ اس طرح پر وقوع میں آتا ہے کہ اس کی بدی عام ہونے نہیں پاتی قوم کی قوم کو غارت و تباہ نہیں کرتی سچ ہے: شرط سلیقہ ہے ہر ایک کام میں عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے نا مہذب قوم نیکی بھی ایسی بری طرح کرتی ہے کہ یا تو وہ نیکی نیکی نہیں رہتی یا غیر مفید اور بے محل ہو جاتی ہے مہذب قوم جو نیکی کرتی ہے وہ ایسے سلیقہ اور خوبی سے کرتی ہے کہ وہ نیکی زیادہ عمدہ اور بتہ مفید اور بر محل ہوتی ہے۔ نامہذب قوموں میں اعتدال نہیں ہوتا نیکی کی طرف اگر متوجہ ہوتی ہیں تو اس کو اتنا کھینچتی ہیں کہ ٹوٹ جاتی ہیں بدی کی طرف متوجہ ہوتی ہیں تو اس کو اتنا بڑھاتی ہیں کہ شیطان کے بھی کان کاٹتی ہیں۔ اس زمانہ میں ہمارے بھائی بند مسلمان صاحبوں کا یہ حال ہے کہ اگر کسی مہذب قوم کا ذکر ان کے سامنے کرو تو اس قوم کی برائیوں اور عیبوں کا ذکر کرتے ہیں اے صاحب! یہ کون کہتا ہے کہ مہذب قوموں میں کوئی عیب نہیں ہوتا مگر یہ تو دیکھو کہ ان میں ان عیبوں کے ساتھ بہت سی بھلائیاں اور خوبیاں بھی ہیں ہم ان کے عیبوں کو کیا تکیں جبکہ ہم میں عیب ہی عیب بھرے ہیں مثل مشہور ہے کہ ’’ چھاج بولے سو بولے چھلنی بھی بولے جس میں بہتر سو چھید‘‘ ٭٭٭٭٭٭ محل سرا خدیو مصر کی ناگفتہ بہ حالت (تہذیب الاخلاق15جمادی الثانی1288ھ) جب کہ ہم یہ خواہش کرتے ہیں کہ ہم اپنے بھائیوں کو غیر قوم کے ان خیالات سے مطلع کریں جو وہ ہماری زندگی بسر کرنے کی نسبت رکھتے ہیں تو ہم کو نہایت مشکل پیش آتی ہے اس لیے کہ تربیت یافتہ قومیں جس طرح اپنی زندگی بسر کرتی ہیں ان سے ہمارے بھائی بند واقف نہیں ہیں اور یہ بھی بڑے شکر کا مقام ہے کہ غیر قوم کے لوگ بھی بخوبی اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ ہم لوگ کس طرح اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اگر واقف ہوتے تو ہم نہیں خیال کر سکتے کہ وہ اور بھی کس قدر زیادہ حقارت اور ذلت کی نظر سے ہم کو دیکھتے۔ ہم لوگ روپیہ خرچ کرنے میں مہذب قوموں سے بہت زیادہ فضول خرچ ہیں ہم کچھ روپیہ خرچ کرنے میں دریغ نہیں کرتے ہمارے اخراجات زندگی بسر کرنے کے ان مہذب قوموں کے اخراجات سے کچھ کم نہیں ہیں اگر ہم ہندوستان کے کسی نواب یا راجہ یا مسلمان امیر یا متمول ہندو کے اخراجات کا تہمینہ کریں تو بلا شبہ مہذب قوم کے اسی درجہ کے امیروں سے زیادہ نکلے گا مگر افسوس اس پر آتا ہے کہ باوجود ان سب باتوں کے مہذب قوم کے لوگ فرشتوں کی مانند صفائی اور لطافت اور خوبی سے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور ہم مانند ایک میلے کچیلے جانور کے بہت لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یورپ کی قوموں کی طبیعت میں ایک قدرتی صفائی اور لطافت ہے اور ایشیا کی قوموں کی طبیعتوں میں قدرتی کثافت اور غلاظت ہے یہ بھی ایک رائے ہے کہ ایشیا کی قوموں کی رسومات مذہبی ایسی ہیں جو انسان کی طبیعتوں کو کثافت کا عادی کر دیتی ہیں۔ مگر یہ رائیں کسی طرح تسلیم نہیں ہو سکتیں اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ انسان کے مہذب ہونے کے لیے آب و ہوا اور موقع ملک کو بہت بڑا دخل ہے مگر ایشیا کا ملک یا ہندوستان ایسا نہیں ہے جو وہاں کے باشندوں علی الخصوص مسلمانوں کو تہذیب میں ترقی کرنے کا مانع ہو۔ مذہب اسلام جب کہ وہ تعصبات اور توھمات سے جس نے ہندوستان میں اس کو بہ نسبت اور ملکوں کے بھی زیادہ گھیر لیا ہے پاک و صاف ہو تو وہ انسان کے مہذب ہونے کا خود ذریعہ ہے چہ جائیکہ وہ خارج یا مزاھم ہو اصل بات یہ ہے کہ تربیت اور عادت کو تہذیب میں بہت بڑا دخل ہے ہماری تربیت ایسے ناقص طریقہ پر ہوتی ہے جس کے سبب سے ہماری طبیعتوں میں صفائی اور نفاست نہیں رہتی۔ ابراہیم پاشا خدیو مصرکا بڑا بیٹا جب کہ چھوٹا تھا اس کے باپ اسماعیل پاشا خدیو مصر نے یہ تدبیر سوچی کہ اس کی پرورش یورپین عورتوں کے ذریعہ سے ہو تاکہ اس کو بچپن ہی سے صفائی اور مہذب قوموں کی مانند زندگی بسر کرنے کی عادت پڑے۔ حقیقت میں یہ تدبیر نہایت عمدہ اور نہایت دانشمندی کی تھی چنانچہ اس نے لنڈن سے ایک عورت کو جس کا نام املین لاٹ تھا اس کام کے لیے نوکر رکھ کر بلایا اور وہ چند روز ابراہیم پاشا پر نوکر رہی جب کہ وہ اپنے ملک میں واپس گئی تو اس نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’ حرم لیف (Harm life) ‘‘ رکھا ہے یعنی محل سرائے کی رہنے والی بیگمات کی زندگی بسر کرنے کا حال ہم اس کتاب سے بالفعل مفصلہ ذیل مضمون منتخب کر کر لکھتے ہیں اور آئندہ بھی لکھیں گے اور امید کرتے ہیں کہ ان حالات سے ہمارے بھائیوں کو غیر قوم کے خیالات کا کچھ حال جو و ہ ہماری زندگی بسر کرنے کی نسبت رکھتے ہیں معلوم ہو گا۔ وہ لکھتی ہے کہ ’’ جب میں محل سرائے میں داخل ہوئی تو مجھ کو ایک کمرہ رہنے کو ملا مگر اس کمرہ کا سامان ایسا خراب تھا جسے دیکھ کر مجھے کمال نفرت ہوئی وہ کمرہ خود بھی نہایت چھوٹا اور خراب تھا اور کچھ بھی سامان اس میں نہ تھا ہمارے ملک (یعنی لنڈن) کی اشراف بینیوں کے ہاں جو عورتیں مزدوری کرنے کو آتی ہیں وہ بھی ایسے کمرہ میں دو رات بھی بسر نہ کریں گی اس کمرہ میں نہ بیٹھنے کے لیے کوئی کرسی تھی اور نہ لکھنے کے لیے کوئی میز تھی اور نہ کپڑا پہننے کے لیے کوئی علیحدہ جگہ تھی۔‘‘ مذکورہ بالا تحریر سے یہ بات معلوم ہو گی کہ مہذب قوم کے لوگ کم درجہ کے بھی اپنے رہنے کے کمرہ میں کن چیزوں کو اشد ضروری سمجھتے ہیں اور لکھنے اورپڑھنے کے سامان نہ ہونے سے کیسا تعجب کرتے ہیں۔ وہ لکھتی ہے کہ ’’ اس کمرہ کے پلنگ کا بچھونا ایسا خراب اور سخت مثل تخت کے تھا کہ ہمارے وطن (یعنی انگلینڈ) میں اگر نہایت غریب گنوار کی چھوٹی سی جھونپڑی میں بھی ایسا بستر ہوتا تو اس جھونپڑے کی بے عزتی ہوتی مجھ کو اپنے وطن کے گھر کا خیال آتا اور خدیو مصر کے محل میں آنے کا نہایت ہی افسوس ہوتا ہر دم یہی کہتی تھی کہ اگر نہ آتی تو بہتر ہوتا۔‘‘ اس کمرہ میں نہ تو کوئی سنگار میز تھی اور نہ ان لوازمات ضروری میں سے کوئی چیز تھی جو عورتوں کی خوابگاہ میں ہونی چاہیے۔ پھول سجانے کے لیے کوئی گلدان تک نہ تھا۔ مذکورہ بالا فقرہ سے تفاوت خیالات بخوبی واضح ہوتا ہے کہ مہذب قوم کے ادنیٰ لوگ بھی جن چیزوں کو ضروری سمجھتے ہیں ہم کو ان کا کبھی خیال بھی نہیں آتا۔ وہ لکھتی ہے کہ ’’ البتہ اس کمرہ میں قالین بچھا ہوا تھا اور کھڑکی کے پاس مشجر سے منڈھی ہوئی ایک کوچ رکھی ہوئی تھی سب سے بڑی عجیب چیز جو اس میں تھی وہ کپڑے رکھنے کی دراز دار الماری فرانس کی بنی ہوئی تھی اور گویا یہ خاص میری خاطر داری کے لیے تھی کیونکہ روم اور مصر کی عورتیں پہننے کے کپڑے بخاریوں میں رکھتی ہیں جو دیواروں میں مثل طاق کے بنتی ہیں۔‘‘ وہ لکھتی ہے کہ ’’ بیگمات کے بیٹھنے کے دو کمرے تھے ان میں نہایت عمدہ قالین بچھے ہوئے تھے مگر جا بجا سفید چربی کے داغ پڑے ہوئے تھے سبب یہ تھا کہ بے تمیزی سے لونڈیاں ہاتھوں سے شمعیں جلا کر لیے ہوئے ادھر ادھر پڑی پھرتی ہیں اور چربی کی بوندیں قالین پر ٹپکتی جاتی ہیں اور وہی بچھا رہتا ہے۔ دیواروں کے پاس مشجر کپڑے سے مندھی ہوئیں کوچیں بچھی تھیں اور بیچ دیوار میں بہت بڑا آئینہ زمین سے چھت تک کا لگا ہوا تھا چھت نقش و نگار سے آراستہ تھی بیچ میں سنگ مر مر کی ایک میز جس کے پایوں پر گلٹ کا کام تھا رکھی ہوئی تھی اور اس کے چاروں پایوں پر آٹھ آٹھ بتی کے چار جھاڑ چاندی کے جن میں سرخ رنگ کی فانوسیں چڑھی ہوئی تھیں رکھے ہوئے تھے تمام مکان میں کوئی تصویر رکھی نہ تھی کچھ سامان بے ترتیب رکھا ہوا تھا اور بہت سی چیزیں وہاں نہ تھیں جن کی در حقیقت مکان کی آراستگی کے لیے ضرورت تھی کافی رکھنے کی چھوٹی بقدر رکابی کے گول میزوں پر سیپ کی پچی کاری بہت خوبصورت تھی مگر جو کہ میری نظر میں اپنے وطن کے امیروں کے ڈرائینگ روم کی سجاوٹ اور عمدگی سامان کی سمائی ہوئی تھی اس لیے یہ سب چیزیں نہایت حقیر معلوم ہوتی تھیں غرضکہ محل سرائے کا یہ حال تھا کہ کہیں کوئی چیز ہے اور کہیں نہیں ہے اور ایسا مکان معلوم ہوتا تھا کہ جیسا چاہیے ویسا آراستہ نہیں ہوا۔‘‘ مجھے افسوس ہے کہ املین لاٹ نے ہندوستان میں آ کر کسی ہندوستان کے نواب یا راجہ کی نوکری نہیں کی اگر ہندوستان کی محل سراؤں کا حال دیکھتیں تو اور بھی زیادہ خوش ہوتیں۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس زمانہ سے جس کا حال املین لاٹ نے لکھا ہے مصر اب بہت زیادہ ترقی پر ہے اور یورپ سے زیادہ اختلاط ہونے کے سبب تہذیب و شائستگی میں اس نے بہت ترقی کی ہے۔ ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The End