اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید ملکی و سیاسی مضامین جلد نہم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقالات سرسید سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کو حاصل ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے اور اپنے پیچھے نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مضامین جہاں ادبی لحاظ سے وقیع ہیں، وہاں وہ پر از معلومات بھی ہیں۔ ان کے مطالعے سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مذہبی مسائل اور تاریخ عقدے حل ہوتے ہیں اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں اور سیاسی و معاشرتی لحاظ سے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ نیز بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی ان میں موجود ہیں سرسید کے ان ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا ہدف رہے ہیں ان مضامین میں علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی، مزاح بھی ہے اور طنز بھی، درد بھی ہے اور سوز بھی، دلچسپی بھی ہے اور دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے اور سرزنش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اور ہر قسم کے خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے، وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اور کہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات و رسائل کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام کے لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اور نا مکمل، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ گزر گیا مگر کسی کے دل میں ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا اور کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا آخر کار مجلس ترقی ادب لاہور کو ان بکھرے ہوئے بیش بہا جواہرات کو جمع کرنے کا خیال آیا مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں پرونے کے لیے مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا انتخاب کیا جنہوں نے پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میں دور و نزدیک کے سفر کیے فراہمی مواد کے لیے ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا، مگر چونکہ ان کی طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری باحسن طریق پوری کی چنانچہ عرصہ دراز کی اس محنت و کاوش کے ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں’’ مقالات سرسید‘‘ کی مختلف جلدوں کی شکل میں فخر و اطمینان کے جذبات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ مہذب ملک اور نا مہذب گورنمنٹ (تہذیب الاخلاق جلد ششم بابت یکم رمضان ۱۲۹۲ھ صفحہ ۱۴۵ تا ۱۴۹) ملک جب نا مہذب ہوتاہے تو ضرور کچھ نہ کچھ گورنمنٹ میں ناتہذیبی آ جاتی ہے ۔ اور جب گورنمنٹ مہذب ہوتی ہے تو کسی نہ کسی قدر تہذیب ملک میںہوتی جاتی ہے۔ ملک کا نا مہذب ہونا تو ا س ملک کے باشندوں کا نا مہذب ہونا ہوتا ہے کیوں کہ جب یہ کہیں کہ انگلینڈ‘فرانس‘ جرمنی ‘ امریکہ نہایت مہذب ملک ہیں تو اس کے معنی ہیں ہوں گے کہ وہاں کے رہنے واے تہذیب و تربیت یافتہ ہیں۔ ہندوستان کو جو نامہذیب یا نیم وحشی ملک بتایا جاتا ہے اس کا یہی سبب ہے کہ یہاں کے رہنے والے نا مہذب یا نیم وحشی گنے جاتے ہیں۔ مگر ہم کوغور کرنا چاہیے کہ گورنمنٹ کا نامہذب ہونا کیا چیز ہے؟ اور مسلمانی گورنمنٹیں جس قدر ہیں ان کے نامہذب ہونے کا کیا سبب ہے؟ گورنمنٹ کافرض یہ ہے کہ جن لوگوں پر وہ حکومت کرتی ہے ان کے حقوق کی خواہ وہ حقوق مال و جائداد سے متعلق ہوں خواہ کسب و پیشہ و معاش سے‘ خوا ہ آزادی مذہب و آزادی اور آزادی زندگی سے ان کی محافظ ہو‘ غیر مساوی قوتوں سے کسی کو نقصان پہنچنے دے‘کمزور مستحق کو غیر مستحق زور آور سے پناہ میںرکھے۔ ہر شخص اپنی ملکیت سے اپنے ہنر سے پورا پورا متمنع ہو۔ اوراس کا مہذب ہونا یہ ہے ہ ان تمام فرائض کے پورا کرنے کو قوانین اس کی سلطنت میں جاری ہوں ہر شخص ادنیٰ سے اعلیٰ تک یہاں تک کہ خود گورنمنٹ بھی ان قوانین کے تابع ہو اور وہ قانون ایسے ہوں کہ تمام رعایا کے حقوق اس کی رو سے مساوی ہوں اور اس کے ساتھ وہ قوت بھی ہو (جس کو گورنمنٹ کہتے ہیں) اور جو ہر شخص کو بلا لحاظ مرتبہ ان قوانین کا پورا پورا مطیع کرے ‘ جس گورنمنٹ میں یہ چیزیں نہیں ہیں وہ گورنمنٹ نا مہذب و ناتربیت یافتہ کہلاتی ہیں اور اس کے ملک میں کبھی امن نہیں رہتا‘ ملک کی ‘ مال کی‘ دولت کی‘ قوم کی‘ رعایا کی کبھی ترقی نہیں ہوتی۔ اس اصول کا نتیجہ تمام مسلمانی سلطنتوںمیں پایا جاتا ہے۔ کوئی مسلمانی سلطنت اس وقت دنیا میں ایسی موجود نہیں ہے جس پر مہذب گورنمنٹ کا اطلاق ہو سکے‘ یا اس کا ملک اور اس کے رعایا ترقی یافتہ حالت میں ہو‘ یا وہاں کی رعایا کو اپنے تمام حقوق مالی و ذاتی حاصل ہوں‘ یا اپنے مال و ذات پر بالکلیہ امن رکھتی ہو‘ یا کمزور مستحق کو غیر مستحق زور آور کا اندیشہ نہ ہو۔ ایسی قوم کی گورنمنٹ جو دینی اور دنیوی دونوں کاموں میں اپنے تئیں پابند و مجبور ان احکام کا سمجھتی ہے جس کو اس نے مذہبی احکام تسلیم کر رکھا ہے اس کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ کوئی دنیوی کام بھی بغیر مذہبی سند یا بدونمذہبی اجات کے نہیںکیا جا سکتا اور جس طریقہ پر کوئی دنیوی کام پہلے ہو چکا ہے اس سے مختلف طریقہ پر کوء دنیوی کام بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ لوگ اس بات کو بھی تحقیق کرنا نہیں کہ درحقیقت اس مذہب میں جس کے وہ پیرو ہیں وہ ایک اصلی حکم ہے جس میں کچھ شبہ نہ ہو یا نہیں۔ بلکہ وہ صرف اگلوں کی رائے یا فعل پر بلا دریافت سبب کے اعتماد کلی رکھتے ہیں اور ا سکے برخلاف کو مذہبی حکم کی برخلافی سمجھتے ہیں گو کہ اصلی حکم مذہب کا اس کے برخلاف ہی کیوں نہ ہو ا س قسم کے لوگوں کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ وہ اس بات میں بھی مذہبی سند کی تلاش کرتے ہیں۔ کہ بربچ الودد بندوق کا استعمال جائز ہے یا نہیں۔ سپاہیوں کو تنگ و چست وردی پہنانا درتس ہے یا نہیں۔ جزیرہ عرب میں ریل بنانا خلاف مذہب ہے یا نہیں۔ یہاں تک کہ ریل میں سوا ر ہونے کی نسبت بھی مذہبی اجازت کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ایسا ملک اور ایسی قوم ہمیشہ تنزل کی حالت میں رہتی ہے۔ تہذیب و شائستگی کی ہوا بھی وہاں تک نہیں جاتی۔ کوئی مستحکم قانون اس کے ہاں نہیں ہوتا‘کسی شخص کے حقوق محفوظ نہیں ہوتے۔ کوئی شخص مال سے پورا پورا تمتع حاصل نہیں کر سکتا۔ نہ کبھی ملک میں امن ہوتا ہے۔ کل مسلمان گورنمنٹوں کا جو کہ اس وقت دنیا میں موجود ہیں ان کا یہی حال ہے۔ سب سے مقدم و مرم مسلمانی گورنمنت جو اس وقت دنیا میں موجود ہے وہ سلطان ٹرکی کی گورنمنٹ ہے جس کو لوگ سلطنت روم کہتے ہیں۔ اگرچہ سلطنت ٹرکی نے بہت سی باتوں میں تبدیلی کی ہے جس سے جاں بلب کی حالت سے کسی قدر سنبھلی ہے لیکن اب بھی انہی اسباب سے مرض الموت میں گرفتارہے۔ کوئی سال امن کا اس میں نہیں گزرتا‘ کبھی کریٹ میں فساد ہے اور کبھی شام میں‘ کبھی عرب میں تلوار چل رہی ہے اور کبھی یونان کے کنارہ میں۔ زمانہ موجود مں ادھر ہرزی گرونا باغی ہو رہ اہے اور ادھر سرویا۔ کوئی قانون دیوانی یا فوجداری کا موجود نہیں ہے کوئی ایسا محکمہ آزاد جو ٹھک انصاف کرے پیدا نہیں ہے جو محکمے برائے نام ہیں وہ خود اپنے کام کی تعمیل میں ڈگریات کے اجراء میںمظلوم کو اس کا حق پہنچانے پر قادر نہیں ہیں حج جو قاضی کہلاتے ہیں آزاد نہیں ہیں۔ یا تو اپنے سے اوپر کے افسر کے یا کسی اعلیٰ اہل خاندان کے رعب میں یا کسی با وقعت شخص کی سفارش کے پھندے میں اور ان سب پر خود اپنے تعصب مذہبی کے حال میں۔ اور اس سے بھی زیادہ رشوت ستانی کی عادت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ کسی کو گورنمنٹ پر طمانیت نہیں ہے‘ کسی شخص کو اپنا حق پانے کی پوری توقع نہی ہے‘ کسی غیر مذہب والے کو پورا پورا انصاف ملنے کی امید نہیں ہے‘ ملک تنزل میں ہے‘ تجارت ابتر حالت میں ہے۔ کوئی کیسی تجارت کی اپنا کام جاری نہیں کرتی۔ ملک میں سونے‘ چاندی‘ تانبے‘ لوہے ‘ ٹین کی ‘ کوئلے کی کانیں بھری پڑی ہیں‘ مگر کوئی کمپنی کھڑی نہیں ہو سکتی۔ کسی قسم کی تجارت ترقی نہیں پاتی تمام ملک کی آمدنی دوسرے ملک میں یا تو قرضہ کے سود میں یا ہتھیاروں کی خرید میں چلی جاتی ہے۔ قرض پر گزارن ہے ۔ وہ بھی اپنے ملک سے نہیں ملتا۔ غیر ملکوں ی رعایا سے بمنت و خوشامد لیا جاتاہے اوریہ نتیجہ تمامہ اسی غلط خیال کا ہے جس کے بموجب دینی و دنیوی دونوں قسم کے کاموں کو مذہب میں شامل سمجھا ہے۔ وانتم اعلم بامو ر دنیا کم ککے جملہ کو چھوڑ دیا ہے۔ یہ حال جو ہم نے لکھا ہے کچھ سلطنت اسلامی ہ روم ہی کا نہیں ہے بلکہ تمام چھوٹی بڑی گورنمنٹوں کا یہی حال ہے۔ ایران کا حال دیکھ لو‘ افغانستان و ترکستان پر نظر ڈالو‘ ہندوستان کی چھوٹی چھوٹی مسلمان ریاستوں کو دیکھ لو۔ تو سب کا ایک سا حال ہے ‘ ہاں بعض مسلمانی ریاستوں کو دیکھ لو۔ تو سب کا ایک سا حال ہے ہاں بعض مسلمانی ریاستوںنے کسی قدر تبدیلی کی ہے اوروہ بقدر تبدیلی کے کسی قدر اچھی حالت میں ہوتی جاتی ہیں۔ اورایسی ریاستیں اس وقت صرف دو ہیں جن کا نام لیا جا سکتا ہے ٹونس اور مصر۔ چند مہینے ہوئے کہ امیر الامراء سید خیر الدین وزیر ٹونس نے ان مقدما تک انفصال کے لیے جو سلطنت بیلجم کے رہنے والوں میںباہم ‘ یا ان میں اور ٹونس کی رعایا کے درمیان ہوں ایک جداگانہ محکمہ مقرر کیا تھا جس میں تین جج اجلاس کریں قاجی ٹونس پہلا جج ہو اور ایک اور جج ٹونس کا اور ایک جج بیلجم کا شریک ہو‘ جس سے ملک کو اور انتظام مملکت اسلامیہ کو بڑا فائدہ پہنچا۔ گو قاضی و مفتی کہا کیے کہ ایسا کرنے کے لیے کوئی مذہبی سند نہیں ہے‘ مگر وہ وزیر روشن ضمیر خوب سمجھتا تھا کہ امورات دنیوی سے احکام مذہبی کو کچھ تعلق نہیں ہے۔ پٹیالہ اخبار بہ سند الجوائب ہم کو خبر سناتاہے کہ خدیو مصر اسماعیل پاشا نے بھی یہ منظور ی حضرت سلطان روم سلطان عبدالعزیز خاں خلد اللہ ملکہ کے اسی قسم کے محکمے مقرر کیے ہیں چنانچہ اس اخبار میں ان کے تقریر کی کیفیت حسب مندرجہ ذیل لکھی ہے۔ ہر شخص جانتاہے کہ مصر میں دیسی اور پردیسیوںکے آپس میں جو دعوے ہوتے تھے ان کے فیصلے کی کیا شکل ہوتی تھی۔ دستور یہ تھا کہ اگر مدعی دیسی ہو اور مدعا علیہ پردیسی رعیت ریاست غیر تو مدعی اس بات پر مجبور ہوتا تھا کہ اپنے دعویٰ کو اس بالیوز کے ہاں دائر کرے جو مدعا علیہ کی گورنمنٹ کی طرف سے مامور ہو ۔ پھر اگر بالیوز کا فیصلہ مدعی کے برخلاف ہو اور وہ اس کی اپیل کیا چاہے تو ا س کو مدعا علیہ کی گورنمنٹ کے ملکی محکموں کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ مثلاً اگر مصرعی مدعی ہو اور امریکی مدعا علیہ تو بے چارہ مصری کو اپیل کرنے امریکہ ہی جانا پڑے گا۔ یہ قاعدہ مصر میں مدت سے جار ی تھا اور جن غیر سلطنتوں سے عہد نامے ہیں ان کے حقوق میں داخل تھا۔ اس صورت میں جو جھگڑے دیسی اور پردیسیوں کے آپس میں ہوتے تھے ان کی حالت نہایت خراب اورغیر منتظم تھی۔ اہل مصر کی یہ تکلیف اور دقت دیکھ کر یہ قاعدہ خدیو مصر کے دل میں کانٹیکی طرح کھٹکتا تھا۔ چناں چہ خدیو ممدوح آٹھ برس سے اس بات کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ قاعدہ موقوف ہو جاتے اور چاہتے تھے کہ اس کے عوض ایسے نئے محکمے جاری ہو جائیں کہ جن میں بے دقت انصاف ہو۔ چنانچہ سلطنت روم کی مدد اور سلطنتوں کے اتفاق رائے سے جن کے ساتھ رابطہ اتحاد قائم ہے اس کوشش کا یہ ثمرہ ہوا کہ ان دنوںحسب مراد خدیو مصر تین محکمے قائم ہو گئے ۔ ایک خاص مصر میں دوسرا اسکندریہ میں تیسرا اسماعیلیہ میں۔ ان محکموں کے ممبر آدھے دیسی اور آدھے پردیسی ہیں اور افسر کل دیسی ہیں اور اسکندیہ میں جو محکمہ قائم ہوا ہے وہ اپیل کا محکمہ ہے ۔ اسی وجہ سے اسکندریہ میں ا سکی کل رسمیں ادا ہوئیں۔ گو ان محکموں کے بعض ممبر جیسا کہ یہم نے اوپر بیان کیا ہے پردیسی ہوں گے مگر اس وجہ سے کہ ان کا تقرر حکومت مصر کی طرف یس ہے اور ان کی معاش کا انتظام بھی حکومت مصر ہی کے ذمہ ے اور ان کی ٹوپی ترکی ہو گی اور لباس عثمانی ہو گا اس وجہ سے وہ پردیسی نہ سمجھے جائیں گے بلکہ مصر کے قاضی سمجھے جائیں گے۔ پس یہ محکمے بالکل مصری محکمے ہوں گے۔ اور ا س میں کچھ شبہ ہیں ہے کہ جو مقدمے دائر ہوں گے ان پر کمال عدل وا نصاف سیحکم ہو گا۔ علیٰ ھذا جو دعویٰ پردیسیوں (یعنی رعایا سلطنت ہائے غیر) کی طرف سے ان پر ہو گا اور انہی محکموں سے قطعی فیصلہ ہو گا ۔ پس اب اور آئندہ کوئی مقدمہ ایسا نہ ہو گا جس کے سننے کا حق بالیوزوں کے محکموں کو حاصل ہو۔ جو خوبیاں اس نئے قاعدے میں ہیں وہ بیان کی محتاج نہیں ہیں اور جو کہ دیسی اور پردیسی دونوں اس قاعدے سے فائدہ اٹھائیں گے اس لیے اس اس نیک کام سے خوش رہیں۔ ان نئیے محکموں کے جاری ہونے کی کیفیت یہ ہے کہ دو شنبہ کے دن جمادی اولیٰ کی چوبیسویں اور جون کی اٹھائسویں تاریخ پہلے شریف پاشا وزیر حقانیہ و تجارت مصر نے راس التین نامی شہر حکومت واقع اسکندریہ میں ان محکموں کے ججوں کو جن میں آدھے مصری اور آڈھے رعایائے ممالک غیر تھے۔ نہایت مہربانی اور عزت کے ساتھ اکٹھا کیا۔ پھر اپنے ساتھ راس التین کے درباری کمرے میں چلے گئے۔ اس کمرے میں محمد توفیق پاشا وزیر صیغہ امور داخلی اور منصور پاشا اور اسماعیل صدیق پاشا اور بعض اور امرائے دولت مصر پہلے سے موجود تھے۔ جب دربار جم چکا تو جناب خدیو مصر مصاحبوں سمیت درباری کمرے میں رونق افروز ہوئے اوریہ ھئیت مجموعی تمام درباریوں کا سلام لیا۔ پھر جناب خدیو نے اہل دربار کی طرف مخاطب ہو کر زبان فرنچ میںمندرجہ ذیل تقریر کی: تقریر خدیو مصر ہمار ے نیک بزرگ اور صاحب شوکت حاکم حضرت سلطان معظم (یعنی سلطان روم) کی مدد سے ان سلطنتوںکی موافقت سے جو ہم سے رابطہ دوستی رکھتی ہیں مجھے امور عدالت کی بنا ء اصلاح اورنئے محکموں کے اجراء کی اجازت حاصل ہوئی ہے یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں اپنے گرد ذی عزت ججوں کا ایک ایسا مجمع دیکھتا ہوں کہ عدل اور انصاف ان کے ہاتھ میں کمال امینت اور وثوق کے ساتھ سونپا گیا ہے۔ تم لوگوں کی روشن عقلیں‘ امن کامل کے تمام فائدوں کی ذمہ دار ہیں۔ تم لوگوں کی تجویزیں مسلم اور ناطق اور معتبر اور لوگوں کی عزت اور اطاعت کا وسیلہ ہوں گی۔ انشاء اللہ یہ بات دنیا میں مشہور ہو جائے گی اور تواریخ مصر میں لکھی جائے گی اور زمانہ حال کے نئے تمدن کے دائرہ کا نقطہ مرکز ٹھہرے گی ۔ مجھے یقین کامل ہے کہ خداکی اعانت اور عنایت سے یہ امر عظیم آئندہ کی امن و امان کا باعث ہو گا۔ جب یہ تقریر ختم ہو چکی تو اہل دربار نے تھوڑی دیر سکوت کیا اور پھر اظہار سرور اور ادائے شکر اور مبارک باد کی طرف مائل ہوئے۔ چنانچہ شریف پاشا نے تمام ججوں کی طرف سے نیابتا زبان فرنچ میں مندرجہ ذیل تقریر کی: جناب عالی! میں حضور سے اجازت چاہتا ہوں کہ بہ حیثیت وزیر حقانیہ ججوں کی طرف سے نیابتا حضور کو مبارک باد دوں کہ اس قاعدے کے مقرر ہونے اور ان محکموں کے جاری ہونے سے بہت بڑی ترقی کا اثر ظاہر ہوا ۔ میں حضور سے امید وار ہوں کہ حضور یہ مبارک باد اور شکریہ قبول فرمائیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ جج لوگ حضور کے اعتماد کے بموجب سلطنت کے حالیہ اور آئندہ فائدوں کے لیے دل و جان سے کوشش کریں گے۔ کیوں کہ عدل و انصاف جو ان لوگوں کا کام ہے اس کے یہی معنی ہیں کہ یہ لوگ اپنے عہدہ کا حق نہایت ہوشیاری اور دیانت اور شرافت کے ساتھ ادا کرتے رہیں حضور کے فرماں بردار کو یقین ہے کہ یہ لوگ حضور کی رائے روشن کے فیض سے سعادت امنیت حاصل کر کے اپنے عہدہ کے فرائض جیسا کہ چاہیے اداکریں گے اور آثار حسنہ کے پھیلانے میں نہایت موثرمدد دیں گے اور اس بزرگی کے حاصل کرنے پر حریص ہوں گے کہ ان کے نام نامی ہماری اولاد کے لوح دل پر نقش ہو جائیں۔ اس قاعدے کا جاری ہونا قطع نظر اس کے کہ سلطنت مصر کی حالیہ اور آئندہ سرسبزی سے علاقہ رکھتا ہے یہ کتنی بڑی بات ہے کہ حضور کے عہد حکومت کی خوبیوں میں سے ایک بے نظیر یادگار ہے۔ اس تقریر کے ختم ہون کے بعد کل صیغوں کے وزراء اورممبران مجلس خاص (پریوی کونسل) اور افسران بری و بحری اور حکام ممالک اور تاجران معتبر اور افسران بنک نے درجہ بدرجہ جناب حدیو کی حضور میں مبارک باد دی اور شکر اد اکیا ۔ پھر لوگ خوشی اور شادمانی کی طرف متوجہ ہوئے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ رسم افتتاح نہایت خوبی کے ساتھ ادا ہوئی۔ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد غیر سلطنتوں کے سفیروں نے علی الترتیب روبرو استادہ ہو کر ان محکموں کے کھلنے کی مبارک باد دی اور اس بات کا شکریہ ادا کیا کہ مختلف سلطنتوںکے اتفاق رائے اور تائید سے حضور نے صیغہ عدالت میں معقول اصلاح کی اور دعا دی کہ یہ رسم افتتاح روز بروز ملک مصر کے تمدن اور ترقی کا باعث ہو۔ کیسی خوشی کی بات ہے کہ اس موقع پر خدیو مصرو شریف پاشا نے فرنچ میں اسپیچ کی۔ دنیا میں دو قسم کے امور ہیں‘ ایک روحانی اور دوسرے جسمانی؟ یا یوں کہیے کہ ایک دینی اور دوسرے دنیاوی۔ سچا مذہب امور دنیای سے کچھ تعلق نہیں رکھتا ہاں چند معظم باتوں کو جن کا اثر اخلاق پر زیادہ ہے اور گو وہ دنیاوی ہوں بیان کر دیتا ہے ۔ کچھ شبہ نہیں ہے کہ اسلام بھی جو بے شک ایک سچا مذہب ہے ۔ انہی اصولوں پر مبنی ہے اورہمارے رسول مقبول کا یہ قول کہ ما اتاکم من امردینکم فخذو ہ وما نھا کم عنہ فانتھوا اس پر دلیل کام ہے او قرب زمانہ نبوت میں اسی اصول پر عمل درآمد رہا اور کچھ کچھ اس کا اثر عہد خلفاء تک بھی باقی رہا۔ جنہوںنے حد سماعت مقدمات کی تیس برس اور پھر پندرہ برس اور دعویٰ شفح کے لیے حد سماعت ایک مہینہ مقر ر کی اور گواہ سے قسم لینے اور قرآن مجید اس کے ہاتھ میںرکھنا تجویز کیا۔ جس کی کوئی سند یا اجازت مذہب میں نہ تھی‘ مگر رفتہ رفتہ وہ عمدہ اصول بالکل نسیاً نسیاً ہو گیا۔ اگلے زمانہ کے نیک اور متدین مگر مذہب کی طرف زیادہ متوجہ عالموں نے یہ خیال کیا کہ جہاں تک ہو سکے ہو ایک کام کسی مذہبی سند پر کیا جاوے ۔ پس جو واقعہ یا امر پیش آتا ہے اس کے لیے فکر کرتے ہیں اس کو کس مذہبی سند سے متعلق کریں اور پھر خواہ مخواہ کھینچ تان کر اور تاویلات اور استدلالات دور ازکار کر کر کسی نہ کسی سند کے متعلق کر دیتے تھے۔ یا کسی اصول عام کے جس کو خود انہیں نے قائم کی اتھا تابع کر دیتے تھے۔ ان علما کے اوال و استدلات رفتہ رفتہ مدون ہونے لگے جن کی بدولت کتب فقہ و اصول فقہ ہمارے ہاں پیدا ہو گئیں۔ اس زمانہ میں تمام لوگ ان علماء کے اقوال و استدلال کو ایک رائے سے زیاہد رتبہ کا نہیں سمجھتے تھے۔ مگر رفتہ رگتہ خود ان علما ء کے اقوال بطور سند کے تصور ہونے لگے اورپھر ایک زمانہ کے بعد وی مذہب اسلام سمجھا گیا اور شرع اس کا نام ہو گیا اور غیر مذہب والوں نے شرع محمدی اس کانام رکھا اور جو نقائص اس میں معلوم ہوئے اس سے اسلام میں انہوں نے نقص سمجھے۔ حالاں کہ اسلام اس سے بالکل بری ہے۔ اگر بالفرض تمام اجتہادات و استدلالات حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ میں نقص ثابت ہو جاوے تو بھی اسلام میں کچھ نقص نہیں آتا۔ وہ جیسا خدا کے ہاں سے اترا ویسا ہی پاک و صاف ہے۔ اس طریقہ سے جو علماء نے اختیار کیا ایک یہ فائدہ تو بلاشہ ہوا کہ مسلمانی فقہ ایسی عمدہ اور موجد و مدلل ہو گئی کہ کسی قوم میں ویسی عمدہ فقہ نہیں۔ مگر مفصلہ ذیل نقصان بھی پیدا ہوئے۔ اول یہ کہ تمام لوگوں کے خیالوں میں یہ غلط مسئل جم گیا کہ مذہب اسلام تمام دنیاوی امور سے بھی متعلق ہے اور کوئی دنیاوی کام بے سند یا اجازت مذہبی کے نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے یہ کہ جو مسائل علماء نے اپنے اجتہاد و قیاس سے و بلحاظ حالات وقت و عادت اہل زمانہ یا رواج ملک قرار دیتے تھے اگر وہ مسائل رتبہ میں بطور رائے ایک عالم یا جج یا مفتی و قاضی کے رہتے تو کچھ نقصان نہیں تھا۔ مگر نقصان یہ ہوا کہ وہ عین مذہب اسلام کے مسائل قرار پاگئے اور سوائے پیغمبر خدا صلعم کے اور بہت سے لوگوں کو مرتبہ شارع ہونے کا مل گیا۔ تیسرے یہ کہ اب ان مسائل کے برخلاف کرنا خلاف مذہب اسلام کے کرنا تصور ہو ا جو فی الحقیقت ایسا تصور کرنا خلاف مذہب اسلام ہے اس کے برخلاف کرنا۔ چوتھے یہ کہ جب یہ خیال جما کہ مسائل مذکورہ عین مذہب اسلام ہے تو ضرور ہوا کہ اس کا خدا کا دیا ہوا مانا جاوے اور جب خدا کادیا ہوا مانا گیا تو ضرور ہوا کہ اس کا کافی اورکامل سمجھا جاوے۔ اس خیال نے اس بات پر مائل کیا کہ کتب فقیہ کے واسطے سیاست ملکیہ کے بالکل کافی اور اب ہم کو نہ سول کوڈ کی ضرورت ہے نہ سول پرسیجر کی نہ کریمنل کوڈ کی ضرورت ہے نہ کریمنل پرسیجر کی نہ ریونیو کوڈ کی ضرور ہے نہ ٹریڈ کوڈ کی حالاکہ موجودہ فقیہ ان میں سے ایک کے لیے بھی کافی نہیں ہیں۔ ان تمام نقصوںنے کل سلطنت ہائے اسلامیہ کو ڈبو دیا اور غارت و برباد کر دیا اور جو رہی سہی ہیں وہ بھی غارت و برباد ہوتی جاتی ہیں۔ قبو ل کرو علمائے متقدمین اسلام بڑے عالم تھے‘ برے ذہین تھے بڑے فلسفی تھے‘ منتظم تھے مگر جو کچھ کہ انہوںنے دنیاوی امور کی نسبت کیا اورلکھا وہ اس زمانہ کی حالت کے نہایت مناسب تھا اوریہی سبب تھا کہ اس زمانہ میں سب سے مقدم اور سب سے اعلیٰ اور سب سے بڑے فتح مند تھے۔ مگر زمانہ روز۔ ہندوستان اور انگلش گورنمنٹ (از ’’آخری مضامین سرسید‘‘) اور آخر کار جو ہونا تھا وہ ہوا اور جو ہونا ہے وہ ہو گا۔ ایک عطیم مصیبت ہندوستان پر غدر ۱۸۵۷ء کی گزر چکی ھتی۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں تہذیب کی کمی تھی اور ہندوستانی نہیں سمجھتے تھے کہ گورنمنٹ کی ہم رعیت ہیں‘ ہم پر اس کا کیا حق ہے اور ہمارا اس کے ساتھ کیا فرض ہے؟ اور تعلیم کی کمی سے آپس میں حاکم و محکوم میں ارتباط بھی کم تھا۔ اس زمانہ کے قریب ہندوستان میں یونیورسٹیاںقائم ہوئیں جن کا مقصود ہندوستانیوں کو انگلش ایجوکیشن میں اعلیٰ درجہ تک تعلیم دینا ھتا۔ بہت سے مدیران ملک ہندوستانیوںکو اعلیٰ درجہ کی تعلیم دینی پسند کرتے تھے اور کچھ ناپسند کرتے تھے اورگورنمنٹ کا فرض قرار دیتے تھے‘ مگر اس بات پر کسی کا خیال نہ تھا کہ تعلیم کے ساتھ تربیت کا ہونا بھی لازم ہے ۔ کیوںکہ صرف تعلیم سے آدمی آدمی نہیں رہتا اور اس کے اخلاق درست نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک منہ زور گھوڑے کی مانند ہو جاتا ہے جو سوار کے قابو میں نہیں رہتا۔ تعلیم کا درخت جو ہندوستان میں بویا گیا وہ بنگال میں اور جنوبی ہندوستان میںبڑاہوا۔ بخوبی پھلا اور پھولا اور بارآور ہوا۔ مگر آخر کار بار خاطر ہوا نہ یار شاطر۔ اپر انڈیا کے باشندوں نے عام طور پر ارو تمام ہندوستان میں مسلمان قوم نے اس سے فائدہ حاصل نہیںکیا۔ مسلمانوں نے اب اس سے فائدہ اٹھانا شروع کیا ہے۔ معلوم نہیں کہ پھل لانے مٰں یعنی اعلیٰ تعلیم تک پہنچنے کے بعد وہ بھی بار خاطر ہوںگے یا با ر شاطر۔ مگر ہماری رائے یہ ہے کہ اکثر اشراف خاندان کے مسلمان لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہوئی اور درستی اخلاق کا بھی سبق پڑھایا گیا۔ ان کی عمدہ سوسائٹی بن گئی جو درستی اخلاق کے لیے نہایت ضرور ہے۔ تو اعلیٰ تعلیم تک پہنچنے پر وہ بار خاطر نہ ہوں گے بلکہ یار شاطر ہوں گے۔ بہرحال اس وقت جو تعلیم ہندو بنگالیوں کو‘ بمبئی کے پارسیوں کو‘ بمبئی و پونا کے برہمنوںاور مرہٹوںکو دی گئی ہے اور اعلیٰ درجہ کی تعلیم کہا جاتا ہے اس سے ہندوستان کے حق میں کوئی اچھا پھل ہاتھ نہیںلگا۔ پہلے تو انہون نے اپنے تئیں اعلیٰ درجہ کا تعلیم یافتہ اوراعلیٰ درجہ کا اسٹیٹسمین یعنی مدبر امور سلطنت سمجھ لیا۔ پھر اس بات کے درپے ہویکہ انگلش گورنمنٹ جس طرح کہ یورپ میں حکومت کرتی ہے اسی طرح ہندوستان میں حکومت کرے اور گورے کالے اور فاتح مفتوح کے کچھ فرق نہ سمجھے۔ پھر انہوں نے اس تعلیم سے ایک لفظ آزادی کا سیکھا اور اس کے معنی یہ سمجھے کہ جو کچھ منہ میںآوے یا خیال میں گزرے بلحاظ اس بات کے کہ وہ صحیح ہے یا غلط موقع ہے یا بے موقع۔ اس کی تائید کے لیے کافی دلیلیںہیں یا نہیں‘ اس سب کو کہنا اور چھاپنا اور تمام ہندوستان میںشائع کرنا ہے۔ پھر انہوںنے ایک لفظ ایجی ٹیشن کا سیکھا اور کہا کہ دیکھو آئرلینڈ والے ایجی ٹیشن گورنمنٹ کی تجویزوں پر کرتے ہیں۔ انجمنیں اور سوسائٹیاں ایجی ٹیشن کے لیے بناتے ہیں اور اسپیچوں اور تحریروں میںجو کچھ چاہتے ہیں کہتے ہیں۔ پھر ان کے خیال میں گزرا کہ انگریزی گورنمنٹ اسی قسم کی گورنمنٹ ہے۔ کہ وہ علم ایجی ٹیشن سے ڈرتی ہے اورجب تک ایجی ٹیشن نہ لیا جاوے۔ اس وقت تک کوئی مطلب انگلش گورنمنٹ سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ پھر وہ سمجھے کہ ایجی ٹیشن جب تک عام نہ ہو اور عام رعایا یا ملک کے باشندے ایجی ٹیشن پر متفق نہ ہوں۔ اس وقت تک نہ ایجی ٹیشن ہو سکتا ہے اور نہ مفید ہوتا ہے انہون نے ایجی ٹیشن کے عام کنے پر کوشش شروع کی۔ جب تک کہ گورنمنٹ کی برائیاں صحیح یا غلط واجب یا ناواجب عام لوگوںمیںنہ پھیلائی جاویں ۔ اس وقت تک بمقابلہ گورنمنٹ کے عام ایجی ٹیشن کی بنیاد قائم ہی نہیں ہو سکتی۔ اس خیال پر نیشنل کانگریس کا وجود ہوا اور اس نے گورنمنٹ کی نسبت جہاں تک ہو سکا برائیوں کو تمام ہندوستان میں پھیلایا اور جن باتوں پر اس سے پہلے لوگوں کو خیال بھی نہ تھا۔ ان کو ایک برائی کے پیرایہ میں بیان کر کر لوگوں کوچوکنا کردیا اور برٹش گورنمنٹ کی صورت کو ایک خود غرض گورنمنٹ اور ہندوستان کو لوٹنے والی گورنمنٹ کی بنیا د بنا کر لوگوں کو دکھایا اوراپنے گروہ کو ایک تعلیم یافتہ لوگوں کاگروہ قرار دیا۔ جن کی پیروی ان تمام لوگوں نے اختیار کی جو کالجوں سے تعلیم پا چکے تھے اور جو تعلیم پا رہے تھے۔ یہاں تک کہ اسکول کے لڑکوں نے جو اے بی سی ڈی کاتلفظ بھی بخوبی ادا نہیں کر سکتے تھے۔ ان کی پیروی کرنا اور تعلیم یافتہ گروہ میں شاملہ ہونا اپنا فخر سمجھا۔ ہرگز اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ ایجی ٹیشن کرنے والوں کو جو گروہ ہے اس کی نیت گورنمنٹ سے بغاوت کرنا یالوگوںکو بغاوت پر آمادہ کرنا ہے۔ مگر جو کچھ انہوں نے کیا اور جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ اس سے عام ناراضی کا گورنمنٹ میں پھیلانا لازم اور ضروری ہے اور زیادہ افسوس یہ ہے کہ وہ ناراضی اکثر بلکہ عموماً ناواجب اور محض بے جا ہے اور اس سے از خود باغیانہ خیالا ت لوگوں میں پیدا ہو تے ہیں۔ بے شک یہ ناراضی پھیلانے والے اپنے تئیں خیر خواہ اور وفادار گورنمنٹ کا کہتے ہیں اور غالبا سچ بھی ہو۔ مگر جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ ا س سے عام رعایا میں ناراضی اورگورنمنٹ سے برخلافی پیدا ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں۔ کہ لوگوں کی باہمی بات چیت میں جو گورنمنٹ سے متعلق ہے ۔ ٹرن بدلی ہوئی ہے۔ تمام یا قریباً تمام اخباروں کی وہ اردو زبان کے ہوںیا ہندی کے یا مرہٹی زبان میں ہوں یا گجراتی یا انگریزی زبان میںہوں جو ہندوستانیوں کی جانب سے جاری ہیں تو بدلی ہوئی ہے اور اس بات سے کہ انہی وجوہات سے بہ نسبت سابق کے عام لوگوںکے دلوں میں گورنمنٹ سے ناراضی پھیل گئی ہے۔ کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ مسلمان سوائے بعض کے اب تک نیشنل کانگریس میں اور اس کے ایجی ٹیشن میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ اورجو شامل ہوئے ہیں۔ انہوںنے نہیں سمجھا کہ اس سے قوم کو اور ملک کو کیا نقصان پہنچنا ہے اور آئندہ پہنچے گا۔ جو لوگ کہ ایجی ٹیشن کی مخالفت کرتے ہیں ان کی نسبت ایجی ٹیشن کرنے والے کہتے ہیںکہ وہ گورنمنٹ کی خوشامد کرتے ہیں۔ مگ ان کا جو دل چاہے کہیں۔ ایجی ٹیشن سے مخالفت کرنے والے اپنے دلی یقین سے یہ سمجھتے ہیںکہ گورنمنٹ اگر ان ایجی ٹیشن کرنے والوںکی درخواستیں منظور کر لے (حالانکہ ایسا ہونا ناممکن ہے ) تو ہندوستان کے انتظام اور اس کے امن و امان میں خلل عظیم واقع ہو گا اور اسی یقین پر وہ ان کی مخالفت کرتے ہیں نہ گورنمنٹ کی خوشامد سے۔ اگرچہ مسلمان نیشنل کانگرس کے ایجی ٹیشن میں شریک نہیں ہوتے لیکن اکثر ان اخباروں نے بھی سوائے بعض کے جو مسلمان ایڈیٹروں کے ہاتھ میں ہیں اور اخباروں کی دیکھا دیکھی اپنے جامعہ سے قدم باہر رکھ دیا ہے اور مضامین کی تحریر میں ان کے قلم میں بھی کوئی روک نہیں رہی‘ جونہایت افسوس کے قابل ہے مگر ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر بالفرض ہندوستان کے تمام ہندو اور مسلمان نیشنل کانگریس کے ساتھ ایجی ٹیشن میں شریک ہو جاویں ‘ اور تمام اخبار ہندو اورمسلمانوں کے مضامین خلاف واقع اور برخلاف گورنمنٹ لکھنے پر متفق ہوں جاویں‘ تو بھی گورنمنٹ کی کچھ نقصان نہیں ہونے کا۔ ہاں بمجبوری گورنمنٹ کو دائرہ آزادی کو اس وقت سے زیادہ تنگ کرنا پڑے گا اور بمجبوری اس کو ہندوستانی اخباروں کی آزادی چھین لینے پر قانون بنانا پڑے گا اوریہ گورنمنٹ کا کچھ قصور نہیں ہو گا۔ جو کچھ گورنمنٹ کرے گی وہ ہندوستانیوں ہی کی بداعمالی کی سزا ہو گی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ غدو ۱۸۵۷ ء کے بعد جو گورنمنٹ نے تمام ہندوستانیوں سے ہتھیار چھین لیے اور بغیر لائسنس کے کسی کو ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی۔ اس میں گورنمنٹ کا کچھ قصور ہی نہیں بلکہ یہ ہندوستانیوں کے اعمال کی سزا ہے۔ جو انہوں نے غدر ۱۸۵۷ء میں کیے تھے۔ ہر ایک انصاف کرنے والا سمجھتا ہو گا۔ کہ ہندوستانیوںنے اپنی بد اعمالی ایسے درجہ کو پہنچا دی تھی کہ گورنمنٹ کو بمجبور قانون اسلحہ کا جاری کرنا پڑا تھا۔ جن لوگوںنے اس زمانہ میں ترکی فتحیابی ہندوستان میں متعدد جلسے کیے تھے اور سلطان کو مبارک بادی کے تار اور ایڈریس بھیجے۔ وہ خود سمجھتے ہوں گے کہ اس خفیف الحرکتی سے کی نتیجہ ہے۔ یورپ کی سلطنتوں کی پالیسی ٹرکی کی نسبت جو ہوئی ہے وہ تبدیل نہیں ہو سکتی۔ ہندوستانکے مسلمان سلطان ٹرکی کی کیا مدد کر سکتے ہیں اوراس خوشی منانے سے سلطان کو کیا فائدہ ہوا ہے اور ہندوستان کے مسلمانوںکو جنہوں نے یہ خوشی منائی کیا نتیجہ حاصل ہوا۔ بجز اس کے کہ چند حمق اور جاہلوں نے یہ سمجھا کہ سلطان ٹرکی کی فتحیابی پر خوشی منانے والے نہایت پکے مسلمان ہیں۔ جو سلطان کی فتحیابی پر خوشی مناتے ہیں اور خوشی منانے والوں نے اپنی بزرگی اور تقدس کو احمقوں اور جاہلوں کے نزدیک ثابت کرنا چاہا۔ ہم جب ا ن کو بڑ ادیندار سمجھتے کہ وہ روس کی رعیت ہوتے اور سلطان ٹرکی کی فتح یابی پر اس طرح جشن مناتے اور خوشیاں کرتے‘ معلوم نہیںکہ کتنے آدمی پھانسی پاتے اور کتنے گولی سے مارے جاتے اور کتن سائبیریا بھیجے جاتے۔ غالباً گورنمنٹ ن بھی اس کو ناپسند کیا ہو گا مگر یہ انگلش گورنمنٹ کا رحم ہے‘ جس نے ان باتوں پر کچھ مواخذہ نہیں کیا۔ تمام ہندوستان کے باشندوں کی او ر بالتخصیص مسلمانوں کی خیر و عافیت اسی میں ہے کہ سیدھی طرح انگلش گورنمنٹ کے سایہ عاطفت میں اپنی زندگی بسر کریں اور خوب سمجھ لیں کہ مذہب اسلام کی یہی ہدایت ہے۔ کہ جن کی ہم رعیت ہو کر اور مستامن ہو کر رہتے ہیں ۔ ان کے ساتھ وفادر رہیں‘ اور انکی بدخواہی نہ اپنے دل میں لاویں اور نہ بدخواہوں کے ساتھ شریک ہوں ۔ ان کو اپنا دنیوی شہنشاہ اور خداوند جل شانہ ‘ کو شہنشاہو ں کا شہنشاہ اور اپنا مالک حقیقی سمجھتے رہیں۔ سعی رحمۃ اللہ علیہ نے بوستان میں لکھا ہے :شعر: بزد گر بدورش بنام چناں کہ سید بدوران نوشیروان جس کا مطلب یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم خدا کا شکر فرماتے تھے کہ وہ سلطان عادل نوشیروان کے عہد میں پیدا ہوئے‘ نوشیرواں آتش پرست بادشاہ تھا‘ لیکن عادل تھا۔ اس کے زمانہ میں پیدا ہونے پر اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کا شکر کیا ہے تو ہم کو ایسے بادشاہ کی رعیت ہونے سے جس نے ہماری مذہبی امور بجا لانے میں ہم کو کمال آزدی دے رکھی ہے کیوں نہ خدا کا شکر بجا لاویں اور اس کی درازی عمر و دولت و اقبال کی کیوں نہ خدا سے دعا کریں۔ امپریس اوروائسرائے (اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ ۵ مئی ۱۸۷۶ئ) ملکہ معظمہ گریٹ برٹن و آئرلینڈ اب ہندوستا ن کی ایمپریس یعنی (شہنشاہ) ہیں۔ کوئین کی حیثیت سے ملکہ ممدوحہ پر بلحاظ اس حلف کے جو تخت نشینی کے دن انہوں نے اٹھایا تھا ی فرض ہے کہ وہ اپنی انگریزی رعایا پر ان کے قوانین مقررہ کے بموجب حکمرانی کریں اور وہ اپنے ممالک واقع سلطنت برطانیہ میں اپنے وزیروں کے ذریعہ سے حکمرانی کرتی رہیں جو ملکہ ممدوحہ کے تمام سرکاری کاموں کی نسبت پارلیمنٹ اورانگلستان کے باشندوںکے سامنے جواب دہ ہیںکیونکہ قاعدہ کے موجب ملکہ معظمہ بذات خود کوئی ناانصافی نہیں کر سکتی ہیں۔ علی ٰ ھذا ہندوستان کی امپریس کی حیثیت سے بھی وہ ایک ایسی بادشاہ ہیں جو قانون کا پابند ہو اورگو ملکہ ممدوحہ نے اپنی ہندوستان کی نسبت تخت نشینی کے وقت کوئی حلف نہیں اٹھایا ہے اور خاندان مغلیہ کے بادشاہان سابق نے بھی درحقیقت ا س قسم کا کوئی حلف نہیں اٹھایا تھا مگر ایسے حلف کے نہ ہونے سے ہندوستان کے امپریس اور جزائر برطانیہ کے کوئین ہونے کی حیثیت سے ملکہ معظمہ کے رتبہ میں کوئی بڑا فرق نہیں ہو سکتا بلکہ برخلاف اس کے ہندوستان کی امپریس ہندوستان کے باشندوں پر ان ہی قوانین و ضوابط کے بموجب حکمرانی کیا کریں گی۔ جن کے بموجب انہوںنے اب تک حکمرانی کی ہے ۔ گو ہندوستان کے تمام راجے یہ بات تسلیم کریںگے کہ حضور ملکہ معظمہ کو بہ لحاظ بادشاہت کے سب سے بڑا رتبہ اور اختیار حاصل ہے۔ مگر صرف حضور ممدوحہ کی مرضی بمنزلہ کسی قانون کے بھی نہیں ہے اور وہ اپنی طبیعت سے کچھ بھی نہیں کر سکتی ہیں اور صاحب وائسرائے بہادر بھی خاص ایمپریس ے اس قدر جواب دہ نہیں ہیں جیسے کہ وہ حضور ممدوحہ کے وزرائے سلطنت کے ہیں اور ان کے ذریعہ سے پارلیمنٹ اور علی العموم سب لوگوں کے جواب دہ ہیں۔ ہم یقین کرتے ہیں کہ اس باب میں لوگوں کو بڑی غلط فہمی ہوئی ہے اور بعض ہندوستانی راجے یہ توقع کر رہے ہیں کہ امپریس آف انڈیا کے اختیارات کے سامنے صاحب وائسرائے بہادر کو کچھ اختیار حاصل نہ ہو گا اورحضور ممدوحہ اس نئے خطاب کے بموجب ایک نئی عدالت اپیل کے اختیارات عمل میں لاویں گی۔پس اس امر کا نہایت صاف صاف طورپر بیان کرنا مناسب ہے کہ خطاب کی تبدیلی سے حضور ملکہ معظمہ کا رتہ کسی طرح تبدیل نہ ہو گا اور صاحب وائسرائے بہادر کے اختیارات اس وجہ سے کہ جزائر برطانیہ کی ملکہ معظمہ ہندوستان کی امپریس ہو گئی ہیں کسی طرح پر م نہ ہوں گے اوریا ان میں کچھ تغیر واقع ہو گا۔ پالیمنٹ کو اب بھی سب سے زیادہ اختیار حاصل ہو گا جیسا کہ سابق میں ا س کو حاصل تھا اور بغیر اس کی مرضی کے ملکہ معظمہ امپریس کا خطاب بھی شاید اکتیار نہیں کر سکتی تھیں۔ صاحب وائسرائے پارلیمنٹ اور حضور ملکہ معظمہ کے وزیروں کی مرضی کے اور اس سے بھی زیادہ تابع ہیں۔ یعنی پارلیمنٹ ک عام منظوری کے بغیر کوئی وائسرائے ہندوستان میں عرصہ دراز تک اپنے عہدہ پر نہیں رہ سکتا۔ علاوہ اس کے اگر ضرورت ہوتو جناب ملکہ معظمہ کے وزراء صاحب وائسرائے ہندوستان کو واپس طلب کر سکتے ہیں بشرطیکہ وزرائے موصوف ہمیشہ پارلیمنٹ کی منظوری حاصل کر لیں‘ کیونکہ اگر پارلیمنٹ صاحب وائسرائے کے موید ہو گی تو ان کی برطفی منسوخ ہو جاوے گی اور وزیروں کو بمجبوری استعفا دینا پڑے گا۔ علاوہ اس کے جب تک وزرائے سلطنت اور پارلیمنٹ کو وائسرائے پر اعتماد ہو گا اس وقت تک اس ملک سے کوئی عرضی یا اپیل یا شکایت بشرطیکہ وہ وائسرائے کی معرفت نہ بھیجی جاوے ہندوستان کے امپریس یا انگریزی پارلیمنٹ تک نہیں پہنچ سکتی۔اگرچہ بادشاہان مغلیہ کی حکومت سلطنت برطانیہ کی گورنمنٹ کے قبضہ میںآئی ہے مگر انگریزی عہد میں وہ حکومت خود رائے نہیں رہی سلطنت مغلیہ میں بادشاہ خود مختار ہوتا تھا اوروہ کسی شخص کا جواب دہ نہٰں ہوتا تھا اور اس کی مرضی بمنزلہ قانون کے ابلکہ اکثر اوقات قانون سے بھی کچھ بڑھ کر ہوتی تھی سلطنت مغلیہ میں پارلیمنٹ کا سا جلسہ نہیں ہوتا تھا اگرچہ روزانہ دربار ہوتے تھے مگر امرائے دربار اور وزیروں کو صرف یہی فکر ہوتی تی کہ وہ بادشاہ کی مرضی کے مطابق عمل کریں اور اس کے روبرو ایسی بات کہیں جس سے وہ خوش ہو۔ غرض کہ کسی شخص کی یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ خاص اپنی رائے کو آزادانہ طور پر ظاہر کرے علاوہ اس کے سلطنت مغلیہ میں مذہب اسلام کے سبب سے بادشاہ کے ذمہ بڑی پابندی تھی جیسے کہ اس سے پہلے ترکوں اور افغانیوں کے عہد میں تھی بادشاہ اکبر کے عہد میں اورنگ زیب کے زمانہ تک بادشاہ وقت نے علما کی حکوت اور اختیار کو بالکل منسوخ کر دیا تھا اور اکبر اور جہانگیر اور شاہ جہان کے عہد میں علماء کو بہ نسبت اس کے کچھ اختیار حاصل نہ تھا کہ جیسا کہ انگلستان میں ملکہ ایلزبتھ کے عہد میں مذہب رومن کیتھولک کو حاصل تھا۔ پس ان صورتوں میںشاہان مغلیہ کے اختیارات بے انتہا تھے اگرچہ کو ئی سرکش گورنر کسی دور دراز صوبہ میں یا کوئی باغی راجہ کسی ملک میں بادشاہ سے مقابلہ کرتا تھا۔ مگر تمام دربار اور داراسلطنت اور اس کے گرد و نواح کے تمام صوبوں میں بادشاہ کی حکومت سب پر غالب تھی اور خاندان مغلیہ کا ہر ایک بادشاہ قانون اور عدل و انصاف کے برخلاف عمل کر سکتا تھا۔ اور جو شخص جس کو چاہے پھانسی دے سکتا تھا اور اس کی عورت اوربچوں کو بطور غلام کے بازار میں فروخت کر سکتا تھا‘ اور اس کی جائداد کوضبط کر سکتاتھا۔ عوام کی رائے کی کچھ وقعت نہیں کی جاتی تھی‘ پالیمنٹ کا کچھ اختیار نہیں ہوتا تھا اور کوئی موروثی امیر ایسے نہیں ہوتے تھے جن میں سے کوئی بادشاہ کے احکا م کے عدل و انصاف کی نسبت زبان ہلائے اورلوگوں کی تمام قومی ہمت اور تمام آزادی اور جوش طبیعت بادشا کی خود مختاری کے سبب سے پست ہو گیا تھا اورااس ظلم و ستم کی روک ٹوک صرف لوگوں کی بغاوت سے ہوتی تھی۔ دربار کی یہ کفییت تھی ہ لوگوں کے رشتہ داروں کو ان کی آنکھوں کے سامنے بغیر کسی قانون یا انصاف کے ایذا دی جاتی تھی یا وہ قتل کیے جاتے تھے اوران کی یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس کی نسبت اپنی ناخوشی بھی ظاہر کریں سلطنت مغلیہ کے امراء بادشاہ کے غلام تھے اور اگر بادشاہ کے جی میں آتا تھا کہ تو وہ ان کی ترقی اپنی سلطنت میںنہایت اعلیٰ درجہ کے عہدوں پر فائز کر دیتاتھا یا ان کو ایسا ذلیل کر تا تھا جیسے کہ مجرموںکی حالت ہوتی ہے۔ گورنمنٹ انگریزی کی حکومت بھی اسی طرح خود مختار رہی ہے مگر ابتدا سے اس کیو ایک اعلیٰ درجہ کا مقصد مدنظر رہا ہے یعنی اس نے ہمیشہ اس باب میں کوشش کی ہے کہ وہ اپنے ملک کا انتظام انگلستان کے باشندوں کی عام رائے اور یور پ والی میں برابر جاری ہو۔ جب کبھی گورنمنٹ موصوف کا کوئی کام نکتہ چینی کے لائق ہوتاہے تو بہ نسبت ہندوستان کے انگلستان کے باشندے اس کی نسبت زیادہ تر واویلا مچاتے ہیں اور یہ ایک ایسا امر ہے کہ وہ ملکی مطالب کے لحاظ سے نہایت وقعت کے لائق ہیں۔ چنانچہ جب کہ وارن ہیسٹنگز صاحب اس فوج میں جو روھیلوں پر حملے کرنے کے واسطے بھیجی گئی تھی شامل ہوئے تھے تو ہندوستان کے باشندوں نے اس کی نسبت مخالف رائے ظاہر نہیں کی اور جس وقت صاحب ممدوح نے اودھ کی بیگمات کا مال وا سباب لوٹنے میں مدد دی تو نواب وزیر کو اس کے سب سے بڑا خوف ہوا مگر بنگالہ کے باشندوںنے اس کی نسبت بھی کچھ واویلا نہیں کی بلکہ بخلاف اسکے وہ صاحب ممدوح کے نہایت ثنا خواں رہے اور اگر شکایت کی تو صاحب ممدوح کے ہم وطنوںہی نے کی اور یہ شکایت نہایت تلخ لفظوںمیں سلطنت برطانیہ کی پارلیمنٹ میں ظاہر کی گئی اوجب تک انگریزوں کو یہ یقین تھا کہ صاحب موصوف نے بڑی ناانصافی اور ظلم کیا اس وقت تک انہوںنے اس کی عمدہ عمدہ خدمات کی جانب کچھ توجہ نہ کی لیکن ہمارے زمانہ میں انتظام ملک کی صورت کسی قدر تبدیل ہو گئی ہے اور انگریزی انتظام کے سبب سے لوگوں کو یہ جرات ہو گئی ہے کہ وہ اب عام معاملات کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں اور جس کو وہ ہندوستانی حکومت میں کبھی نہیں ظاہر کر سکتے تھے۔ گو چالاک یا جاھل آدمی اس قسم کی رائے کسی فاسد نیت سے ظاہر کریں مگر تاہم یہ امر کافی ہے کہ جب کبھی حکام سے کویء اصلی ناانصاف سرزد ہو تو وہ رائے سنی جاوے۔ انگلستان میں بہ نسبت اس ملک کے عوام کی رائے کی نہایت زیادہ وقعت ہکی جاتی ہے ۔ مگر جو اثر انگلستان میںعام کی رائے کا ہندوستان کے انتظام پر ہوتا ہے اس کوہماری دانست میں ہندوستان کے باشندے کچھ وقعت کے لائق نہیں خیال کرتے اوراب تک انگلستان کی پارلیمنٹ کو مختلف سرکاری ملازموں کا حاکم بالادست نہیں سمجھتے بلکہ یہ خیال کرتے ہیں کہ جو راجے اپنی گدی سے اتارے جاویں ان کے استغاثہ کے واسطے وہ ایک عدالت ہے اور کوئی لاقء منتظم اس بات کے جاننے سے خوش ہو کہ ہندوستانیوںنے اس کی خدمتوں کی قدر شناسی کی مگر سب سے بڑا صلہ اس کو اس وقت حاصل ہو گا جب کہ اس کے ہم وطن اس کی خدمتوں کی قدر شناسی کریں گے۔ افسوس یہ ہے ہ آج کل انگلستان والوں کی رائے وارن ہیسٹنگز کے عہد کی بہ نسبت کچھ زیادہ معقو ل نہیںہے اور وہ لوگ اب بھی اہل یورپ کی ان خدمتوں کی جانب التفات نہیں کرتے جس کو وہ نہایت ایمانداری اور وفادار ی کے ساتھ انجام دیں اور وہ ہندوستانی حاکموں کی بے جا اور بے انتہا شکایتوں کو فوراً سن لیتے ہیں مگر ہم امید کرتے ہیں ہکہ آئندہ زمانہ میں انگریزوںکی رائے عام معاملات میں زیادہ عمدہ ہو گی۔ ہندوستانیو ں کے واسطے یہ بات نہایت خوشی کی ہے کہ وہ بھی اب اس حق میں شریک ہوتے جاتے ہیں جو انگریزوں کو پیدائش سے حاصل ہے اور وہ اب ایک خودمختار حکومت کے غلام نہیں ہیں۔ بلکہ ایک ایسی گورنمنٹ کی رعایا ہیں جو قوانین کی پابند ہے اورجس کے عہد میں ان کی خواہشیں اور حاجتیں عوام کے روبرو پیش کی جاتی ہیں اور ان پر توجہ کی جاتی ہے۔ ٭٭٭ بعض سرکاری انتظاموںسے رعایا کیوںمتنفر ہے؟ (اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ ۳۱ مارچ ۱۸۷۴ئ) ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری گورنمنٹ نصفت شعار نے صرف بنظر نفع رسانی مخلوق کے بہت سے ایسے انتظام کر رکھے ہیں کہ اگر ان کا اصل منشاء کے موافق رعایا کو فائدہ پہنچایا جاوے تو اس کا فائدہ بے انتہاہو اور اس کے لحا ظ سے رعایا پر بے انتہا شکر گزاری لازم ہو۔ مگر افسوس ہے کہ ایسے بے نظیر اور عمدہ انتظاموں کو ہندوستان کی اکثر رعایا نہایت ناپسند کرتی ہے اور بعض اوقات اس کا تنفر اس درجہ تک بڑ ھ جاتاہے کہ اگر اس پر تشدد کیا جاوے تو رعایا اس کو ایسا سلوک سمجھتی ہے کہ جیسا کہ ایک مجرم کے ساتھ بنظر اس کی سزا کے کیا جاتاہے۔ دیکھو مثلاً شفاخانوں کا جاری کرنا ہی ایک ایسا انتظام ہے جو سراسر رعایا کی بہبودی کا سامان ہے اور اگر رعایا اس سے حسب منشاء گورنمنٹ سے فائدہ حاصلکرنے کا قصد کرے تے اس میں بہت ہی کچھ فائدہ رعایا کا متصور ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستانی رعایا سرکاری شفاخانوں سے نہایت متنفر رہتی ہے اور اگر بعض اوقات شفاخانہ کے علاج پر رعایا کو مجبور کیا جاوے تو وہ اس علاج کو موت سے کچھ کم نہیں سمجھتی یا مثلا ٹیکہ کا محکمہ ہے جس کے اجراء سے سراسر فائدہ رعایاکا ہے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی محلہ میںکوئی ٹیکہ والاپہنچتاہے تو اس محلہ کے لوگ اس کو نہایت خوں خوار آنکھو ںسے دیکھتے ہیں اور اپنے بچوں کو گھروں میںلے جاتے ہیں اور چھپا دیتے ہیں اوراگربہ جبر کسی بچہ کو پکڑ لیا جاتاہے تو بعض اوقات ان کے ماں باپ روتے پیٹتے ہیں۔ یا مثلاً ایک زمانہ میں چوکیداری کا ٹیکس تجویز ہوا تھا جس کی تعداد نہایت قلیل تھی او راس کے فائدے اعلیٰ درجے کے تھے مگر ہمیشہ رعایا اس کو ایک قہر الٰہی کہتی رہی اور ہمیشہ ہر محلہ مین ایک شور و غل رہا کہ آج فلاں شخص کے کواڑوںکا نیلام ہے اور کل فلاں شخص کی چارپائی کا نیلا م ہے اب محکمہ چنگی ہے ک اس کے فائدے بھی بے انتہا ہیں مگر اس سے تمام مخلوق نالاں ہے اور وہ اپنی زندگی کو اس کے سبب سے نہایت تلخ سمجھتی ہے ۔ پس ہم کو غور کرنا چاہیے کہ اس کا کیا سبب ہے اورہندوستان کی رعایا کیوں ایسی وحشیانہ حالت میں ہے کہ گورنمنٹ کے مشفقانہ انتظامات سے بی وہ رنجیدہ رہتی ہے۔ آیا اس کا سبب فی الواقع رعایا ہی کی طر ف سے یدا ہوا ہے یا گورنمنٹ کے انتظام میں کوئی قصور ہے۔ چنانچہ غور کرنے کے بعد جہاں تک ہم کو یقین ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اس کا سبب صرف رعایا یا صرف گورنمنٹ ہی نہیں ہے بلکہ طرفین سے ہے اورہر ایک کا ایک ایک سبب ہے۔ جو سبب رعایا کی طرف سے پیدا ہوا ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ بلاشبہ ہندوستان کی رعایا اپنے جہل کے سبب سے کسی مفید بات کی حقیقت کو نہیں دریافت کر سکتی اور جس قسم کے منافع پر ایسے انتظام مشتمل ہوئے ہیں ان سے ہرگز اس کو اطلاع نہیں ہے اوریہ بات بالکل سچ ہے کہ بہت سے کاموں کو وہ ایسے اندھادھندی سے کرتی ہے کہ اس کے سبب سے اس کو وحشیانہ حالت سے نکلنا بہت ہی مشکل ہو گیا ہے یہاں تک کہ وہ تاریکی میںمبتلا ہے کہ وہ مذہبی امور سے علاوہ دنیوی معاملات میں بھی رسم و رواج کی نہایت پابند ہے اورجس کام پر اس کو ایک مدت سے عادت ہے اب اس کو اس عادت کا ترک کرنا نہایت سخت مشکل ہو گیا ہے چنانچہ یہاں تک وہ بے خبر ہے کہ علاج کے طریقہ میں بھ یوہ بالکل آباء و اجداد کے طریقہ پر چلنے کے سوا اور کچھ نہیں جانتی ۔ حکیم صاحب کے روبرو مریض کا جا کر بیٹھنا اور پرانے طریقہ کے موافق کچھ معمولی حال عرض کرنا اور حکیم صاحب کا بے سنے سنائے اس کی کلائی پر ہاتھ رکھ کر (خواہ وہ کہیں ہو اور خواہ وہ اس کو کسی طرح پکڑ لیں) بے دھڑک سونف کا سنی لکھ دیکنا اور مریض کا اس کاغذ کو سپرد کر کے عطار سے دوا مانگ لینا اور عطار کا ایک بوتل میں سے تمام جہان کے شربت اور ایک شیشہ میں سے تمام جہان کے عرق دے دینا ہندوستانیوں کی حالت پر نہایت افسوس دلاتا ہے اور جو خطرہ اس طریقہ سے ہندوستانیوں کو لاحق ہے وہ از بس مضرت کا باعث ہے ۔ مگر ہمارے ہندوستانی بھائی ایسے بے پروا اورمرنے پر ایسے دلیر ہیں کہ ان کو ہرگز مرنے کی پروا نہیں ہے۔ مگر پرانے طریقہ کو نہ چھوڑنے پر اصرار ہے۔ پس یہ سب باتیں سراسر ان کے جہل پر مبنی ہیں۔ ہندوستانیوں میں زچہ کے علاج اور چیچک والے کی جو تدبیریںہوتی ہیں اس میںذرہ شبہ نہیں ہے کہ وہ قطعاً موت کے سامان ہوتے ہیں۔ گو یہ امر آخر ہے کہ کوئی شخص زندہ رہ جاوے اور ان دونوں علاجوں میں زیادہ دخل ان کی جہالت کو اور کسی قدر دخل ان کی طرز معاشرت کو بھی ہے ۔ اور یہ ہم نے اس وسطے تفصیل کی ہے کہ اگر بعض ہندوستانی واقف بھی ہوں اور اپنی واقفیت سے کچھ کرنا چاہیں تو ان کی طرز معاشرت اور ان کی خانہ داری کے برتائو اوربعض قومی دستور ان کو ایسی تدبیر سے باز رکھتے ہیں اور اس کا ثمرہ آخر کار یہی ہوتا ہے کہ عورتیں اور بچے ضائع ہو جاتے ہیں۔ ہم کو یہ بات بہ تجربہ معلوم ہوئی ہے کہ ہندوستان میں نوجوان عورتیں مرض دق میں بہت زیادہ مرتی ہیں او اس کا سبب صرف یہ ہوتاہے کہ جو بے اعتدالیاں بوقت ولادت ہوتی ہیں ان کے سبب سے وہ رحم کی خرابی میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور جو حرارت ان کو اس وجہ سے لگ جاتی ہے اس کو دق کہا جاتاہے اور وہ ان کی جان کو تباہ کر دیتی ہے اوریہ موقع نہایت رحم کا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ واقف کار ہندوستانی اس مصیبت کو خوب جانتے ہیں۔ علیٰ ھذا القیاس چیچک کے مرض میں ہندوستانیوں کے عجیب عجیب کرشمے ہوتے ہیں۔ ایک تویہ خبط ہے کہ اس کو خام فہم ضعیف الاعتقاد ہندوستانی آسیب اور بھوت خیال کرتے ہیں اوراس کی وجہ سے مریض کو ایسے تنگ و تاریک اوربند مکان میںرکھتے ہیں کہ وہاں صحیح المزاج قوی بھی مرجاوے نہ کہ چھوٹی عمر کے ضعیف بچے اور دوسرے یہ کہ اس مرض میں کسی قسم کی تدبیر اور علاج کونہایت برا سمجھتے ہیں اور اگر کوئی شائستہ حضرات علاج کی طرف رجوع فرماتے ہیں تو وہ ایسی حار اوریابس ادویہ کا استعمال کرتے ہیں کہ وہ بہت جلد مریض کا کام تمام کر دیتاہے ۔ اورچیچک کے مریض کے ساتھ ان کے ایسے برتائو سے اور اس کثافت سے اور میلے پن سے جو ا ن کے ہاں ہوتا ہے او ر اس بے خبری سے جو ان کی عادت میں داخل ہے یہ نتیجہ پیداہوتاہے کہ جس کو شدت سے چیچک نکلتی ہے وہ یا کانا ہو جاتا ہے یا اندھا ہو جاتا ہے۔ یا اس کے ہاتھ پیر رہ جاتے ہیں یا کسی کی ناک بگڑ جاتی ہے یا کسی کے کان خرا ب ہوجاتے ہین غرض ک اس کی صورت انسانیت کے اشکال مختلفہ سے متجاوز ہو کر اخدا کی دوسری مخلوق کی صورت اس کو مل جاتی ہے۔ غرض کہ ایسے ایسے امور کی بنا پر بلاشبہ ہندوستانیوں کے نہایت جہل اورنہایت بے وقوفی پر ہے اور جب تک وہ اس جہل سے نہ نکلیں گے ہرگز ان کی حالت اس لحاظ سے اچھی نہ ہو گی اورجو صدمات ا ن کو اٹھانے پڑتے ہیں وہ ہمیشہ ان کے جگر وسیہ کو چاک کرتے رہیں اور اس وجہ سے ان کی دنیاوی حیات جانوروں سے بی بدتر رہے گی۔ اب یہاں تک تو ہم نے سرکاری تدابیر سے فائدہ حاصل نہ کرنے کے ان اسباب کو بیان کیا ہے جو خاص رعایا کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں۔ اب ہم ان اسباب کو بیا ن کرنا چاہتے ہیں جو خاص انتظام ہی کے متعلق پیدا ہوتے ہیں ۔ منجملہ ان کے ایک ان ملازموں کی کج اخلاقی اورظلم و زیادتی اور اگر ہم سچ سچ کہیں تو بعض اوقات ان کی بدمعاشی اس بات کا باعث ہے کہ ہندوستانی ان کی صورت دیکھنے او ر ا ن کے پاس جانے سے اپنا مرنا بہتر ہے سمجھتے ہیں۔ ہندوستان کی قوم بہت زیادہ عادی نرمی اور خوش اخلاقی کی ہے اور یہ بات سرکاری سررشتوں میںنام کو بھی نہیں ہے ۔ جو بات علی المعموم نہ ہو کہ جو انگریزی برے ڈاکٹر ہوتے ہیں وہ تو ہرگز غریب رعایا کا علاج کرنا پسند نہیں کرتے اوروہ مجبور ہیں کہ کسی کے ساتھ خوش اخلاقی نہیں کر سکتے‘ کیونکہ بد اخلاقی اس قدر انکی جبلت میں بیٹھ گئی ہے کہ اب خوش اخلاقی کو وہ بہ تصنع کرنا چاہتے ہیں اور نہیں ہو سکتی۔ رہے وہ ڈاکٹر صاحب جو کالے ڈاکٹر کہلاتے ہیں‘ ان کے مزاج کچھ انگریزی ڈاکٹر صاحب سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں اور شاید ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ڈاکٹر الے مٰں جو ایک سیاہی کا مفہوم ہوتا ہے وہ ان کے دماغ کو محیط ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے اخلاقی روشنی ان میں بالکل نہیں رہتی اگر غربا چاہیں کہ اپنے ملک کی رسم کے موافق اپنے گھر کی عورتوں یا بچوں کے علاج ان سے کراویں تو وہ کیوں کسی کے گھر جانے لگے تھے۔ ضرور ہے کہ وہ بے چارہ اپنی آبرو کو ضائع کر کے اپنی عورتوں کو شفاخانہ لے جاوے جب ڈاکٹر صاحب کے علاج سے مستفید ہو گا پس نہ وہ لے جاوے گا نہ ان سے علاج کا خواستگار ہو گا اور اگر سعی سفارش سے ڈاکٹر صاحب کسی ایک کے گھر گئے تو جب تک بگھی نہ ہو اور ڈاکٹر صاحب کی فیس نہ دے ڈاکٹر صاحب ہرگز نہیں جاویں گے اور ہندوستان میں ایسے لوگ کہاں ہیں جن کے پاس علی العموم بگھیاں اور فیس کی گئی تیار رہے۔ پس وہ بے چارے ان ڈاکٹروں کے پاس تک نہیں آتے اور ہم حیران ہیں کہ جو شفاخانے سرکار کی جانب سے مقرر ہیں اور ڈاکٹر اس کے ملازم ہیں ان کے واسطے فیس کیوں واجب ہو جاتی ہے۔ اگرفیس مریض کی رضا پر موقوف رہے تو کیا حرج ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب کو اگر کوئی شریف یاد کرے تو ڈاکٹر صاحب کیوں اعماض فرماتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک ان کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ بشرط ضرورت اگر جانے میں کسی جگہ کے عذر کریں وہ تو جواب دہ ہوں۔ مگر یہاں یہ دقت ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب کو کوئی مجبور کر کے لے جاوے تو مریض کی خیر نہیں معلوم ہوتی۔ غرض کہ یہ مرحلہ نہایت سخت دشوار گزار ہے۔ دوسرے یہ کہ ڈاکٹر صاحب کے ماتحت ملازم بسا اوقات مریضوں کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں کہ یا تو مریض کچھ نذر و نیاز سے ان کو راضی کرے ورنہ اس کو شفاخانہ میں گھسنا دشوار ہے۔ ٹیکہ کے ملازم بھی اپی خود غرضی اورنفع کے واسطے بچوں پر وہ تشدد کرتے ہیں کہ ان کے ماں باپ صبر نہیں کر سکتے اور وہ کچھ پروا نہیں کرتے اور انہوں نے یہ ایک حیلہ تجویز کیاہ کہ اگر وہ ان کی زیادتی کے خوف سے کچھ عذر کریں تو اب وہ تھانہ سے مدد مانگنے اور تحصیلدار صاحب سے کمک لینے کے مجاز گردانے گئے ہیں۔ پس رعایا کے واسطے بچوں کا علاج ایک سخت مصیبت ہو گئی ہے ۔ یہ لوگ بعض اوقات اپنی کار گزاری ظاہر کرنے کے واسطے ٹکیہ بے پروائی سے خراب لگاتے ہیں او اس کے آبلہ کو بچہ کے ماں باپ کے دھمکانے کے واسطے بار بار چھیل دیتے ہیں اور اس کا نتیجہ بعض اوقات بچہ کی ہلاکت کا باعث ہوتاہے چنانچہ پنجابی اخبار مطبوعہ ۲۵ مارچ ۱۸۷۶ء میں انبالہ کی ایک خبر ہماری رائے کی بالکل تصدیق کرتی ہے اورہم کو نہایت افسوس دلاتی ہے۔ وہ یہ ہے : ’’چیچک کے ٹیکہ کا انتظام سرکاری بہ نظر رفاہ عام تجویز ہوا ہ مگر ملازمان سرشتہ مذکور کی زیادتیوں سے نتیجہ برعکس ظہور میں آتا ہے۔ اول تو جب یہ لوگ کسی بچہ کو ٹیکا لگانے کے واسطے آتے ہیںتو اس کے وارثان کو بہت خوف دیتے ہیں اور طفلک کو ایسی اذیب پہنچاتے ہیں کہ جس میں وارثان کا دل دکھے اور وہ کچھ دے یا کریں۔ چنانچہ ب لاچاری وہ دے دیتے ہیں او رلڑکوں کا خوف کے مارے یہ حال ہے کہ چھپتے پھرتے ہیں۔ چنانچہ ایک موضع کا ذکر ہے کہ وہاں یہ حضرات پہنچے۔ وہاں ایک عورت بیوہ کے ایک ہشت سالہ لڑکا تھا اس نے ان لوگوں کو دیکھ کر اپنی ماں یس کہا کہ تو بھی ان کو کچھ دے دے جیسا کہ اورلوگ دیتے ہین۔ عورت مفلس تھی۔ اس نے کہا کہ آ ج تو کھانے کو بھی نہیں ہے کہاں سے دوں؟ لڑکا مایوس ہر کر ایک گوشہ میں جا چھپا اور اس کی والدہ دست بستہ ہو کر ملازمان مذکور کے پاس گئی اور اس کہ اکہ میں بیوہ مفلس بے کس ہوں۔ میرے لڑکے کے سال گزشتہ ٹیکا لگ چکا ہے اب معاف فرمائو وہاں سے جواب ملا کہ بلا سبب معافی نہیں ہو سکتی۔ لوگوںنے سمجھایا کہ جس طرھ ہو سکے ان کو کچھ دے دے۔ لاچار وہ ایک کٹورا برنجی بنا بر رہن لیکر تمام گائوں میں پھری۔ کسی نے نہ خرید ااورنہ رہن رکھا ۔ لاچار وہ واپس آی اور سب سرگزشت سنائی مگر ان کو کچھ رحم نہ آیا اور جبراً عورت کے گھر واسطے پکرنے طفلک کے گھس گئے۔ طفلک پہلے سے محو ف ہو کر نیم جا ن تھا ۔ پھر ان کی شکل دیکھ کر روہی ملک عدم ہوا۔ اب غور کیجیے گا اس کا م کا نتیجہ بسبب نالائقی ملازمان کے کیا نکلا اورجو منشاء سرکار کا تھا وہ یک قلم جاتا رہا‘‘۔ پس اگر یہ خبر صحیح ہے اور اس کے راقم نے اس کو مطابق واقع کے لکھا ہے تو اب دیکھنا چاہیے کہ کس قدر ظلم غریب رعایا کی جان پر ہوتا ہے اور ظلم بھی ایسا کہ جان فرسا کہ جب تک اس کا گمان و خیال بھی رعایا کے دل پر رہے گا کسی طرح امید نہیں ہو سکتی کہ وہ ایسے سرکاری انتظاموں کو خوشی سے پسند کرے اوراس سے فائدہ اٹھاوے اور گو ہم کو کسی قدر شبہ خاص اس خبر کی صداقت میں ہے لیکن اس کے قریب قریب تو ضرور ہے کہ بعض زیادتیاں ہوتی ہیں جو نہایت افسوس ناک اور گورنمنٹ کے اصلی منشاء کے بالکل منافی ہیں۔ علیٰ ھذا القیاس چوکیداری کی یہ کیفیت تھی کہ اس کا کچھ بیان نہیں ہو سکتا تھا۔ اول تو ہم کو یقین کامل ہے کہ حضرات پنچ ایسی پنچایت کرتے تھے کہ ان کی پنچایت سخت مزاحمت کے لائق ہوتی تھی۔ ان کی پنچائت کا یہ نتیجہ یقینی تھا کہ جو شخص جس ٹیکس کا مستحق تھا اس پر وہ ہرگز نہ ہو تا تھا بلکہ کم یا بیش ہوتا تھا۔ بعض امیر آدمی رعایتی ہوتے تھے جو کچھ بھی نہ دیتے تھے‘ بعض وہ چکے پیسنے والی جو روز اناج پیس کر دھیلے کی کوڑیاں سخت مصیبت سے کماتی تھی چوکیدارہ دیتی تھی اورپنچوں کی میزان عدالت میں سب برابر ہوتے تھے اور یہی سبب تھا کہ ہمیشہ چکی چولھے سے زیادہ نیلام ہوئے وار بدنامی ہو گئی۔ دوسرے چوکیداری کے بخشی صاحبوں اور ان کے ملازموں کی بے رحمیاں اس کا باعث ہوئیں کہ مخلوق پر تشدد ہو گیا۔ اگر حکم سرکار ایک دن میں وصول کرنے کا تھا تو وہ ایک منٹ میں وصول کرتے تھے اور اگر حکم سرکار تنبیہہ کا ہوتا تھا تو وہ گھر جانے کو تیار ہو جاتے تھے۔ مگر چوں کہ اب وہ قصہ ہی اکثر جگہ سے جاتا رہا تو کیا ضرورت ہ کہ ہم اس کی نسبت زیادہ تفصیل کریں۔ محکمہ چنگی کی خوبیاں ہم نے ایک مرتبہ نہایت تفصیل کے ساتھ لکھ چکے ہیں اور جو نفع اس کے سبب سے رعایا کو پہنچے وہ بلاشبہ نہایت قدر کے لائق ہیں جن کی تفصیل ہم پہلے کر چکے ہیں ۔ اب ہم کو مناسب ہے کہ بعض اس کی خرابیاں بھی بیان کریں جن کے سبب رعایا ایسے مفید محکمہ کو اس قدر مصیبت کا باعث سمجھتی ہے کہ اس کا کچھ بیان نہیںہو سکتا اور اس کے احکام اور اس کی تعلیموں سے یہاں تک گھبرائی ہوئی ہے کہ کچھ اس کی انتہا نہیں ہے مگر چوں کہ ہمارے اس پرچہ میں اب گنجائش نہیں ہے اس کے متعلق خرابیون کی تفصیل زیادہ طوالت کو مقتضی ہے ۔ اس جہت سے ہم اس موقع پر ا س کو فروگزاشت کرتے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ فرصت میں ہم کو اس بات کا موقع ملے گا کہ ہم اس کی تفصیل کریں اورجو کارسپانڈنٹ ہمارے پاس اس بارے میں آئے ہیں ان کا آئندہ ذکر کریں اور کچھ ہم کو کسی خاص شکایت سے بحث نہیں ہے مگر علی العموم جو امور رعایا کے سراسر تکلیف کا باعث ہیں ان کو لکھنا ہم اپنا فرض سمجھیں گے۔ ٭٭٭ خطاب شہنشاہی (اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ ۲۴ مارچ ۱۸۷۶ء آج کل انگلستان کی پارلیمنٹ میں ایک عظیم الشان معاملہ پر بحث ہو رہی ہے۔ اور وہ معاملہ ایسا پر لطف ہے ہ اس کی طرف تمام عقلاء کی توجہ مائل ہے ۔ جو لطف آمیز تقریریں ممبران پارلیمنٹ اس باب میں کر رہے ہیں ان کے دیکھنے سے ایک عالی دماغ قوم کے وسیع خیالات کی کیفیت معلوم ہوتی ہے اورجس لطف و خوبی سے ہر ایک دوسرے کے دلائل کو قطع کرتا ہے وہ بے انتہا دلچسپ ہیں وہ عظیم الشان معاملہ یہ ہے کہ حضور ملکہ معظمہ کے لیے خطاب شہنشاہی ہو نا چاہیے یا نہیں؟ پس جو فرقہ پارلیمنٹ کے ممبروں کا گورنمنٹ کا طرفدار ہ۔ وہ نہایت مضبوطی کے ساتھ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ ملکہ معظمہ کو خطاب شہنشاہی ملنا چاہیے اورجو فرقہ گورنمنٹ کا مخالف ہے وہ اس خطاب کو بعض وجود سے ناپسند کرتا ہے اور ان دونوں فرقوں کے اختلاف کی بنا پر جن بے نظیر دلائل پر ہے بلاشبہ وہ ایسے نہیں ہیں کہ سامعین ان سے بے پروائی کریں۔ بلحاظ اس عزت اور امتیاز کے جو حضور ملکہ معظمہ کو ہندوستان کی سلطنت کی وجہ سے حاصل ہے اور نیز بلحاظ اس بات کے کہ ہندوستان کی آبادی کس قدر معزز اور ذی فخر باشندوں پر مشتمل ہے اور اس لحاظ سے کہ کس قدر بڑی قوم ملکہ معظمہ کے زیر حکم ہے‘ گورنمنٹ کا طرفدار اس بات کو مناسب سمجھتا ہے کہ ملکہ معظمہ کو شہنشاہ ہند کا خطاب دیا جاوے اور جو قدیمی خیال ملکہ معظمہ کے خطاب کی نسبت انگلستان کو ہے اس کواب پورا کی اجاوے اور اس میں کسی طرح کا شبہ نہیں ہے کہ یہ امور ضرور اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ملکہ معظمہ شہنشاہ کے خطاب سے مخاطب ہوں۔ پارلیمنٹ کا دوسرا فریق اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ ان وجوہ سے ملکہ معظمہ شہنشاہ کے خطاب سے مخاطب کی جاویں کیوں کہ اول تو اس کے نزدیک یہ خطاب ایک قسم کے غرور پر مبنی ہے جو پرانی مشرقی سلطنتوں کا شعار تھا۔ دوسرے اس سے ایک ایسی خود مختاری کی بو پائی جاتی ہے جو انگلستان کی گورنمنٹ کی شائستگی کے خلاف ہے ۔ تیسرے یہ کہ ہندوستان کچھ ایسا بڑا ملک نہیں ہے اور اس کے سب سے ملکہ معظمہ کو کوئی فخر کا موقع نہیں ہے ۔ غرض کہ اس فرقہ ے نزدیک ہندوستان کویء ایسا ملک نہیں ہے جس کے لحاظ سے ملکہ معظمہ اپنے آپ کو شہنشاہ کہہ سکیں بلکہ وہ اپنے نزدیک ان جزائر کو بلحاظ قوت سلطنت کے بہتر جانتا ہے جو بتدریج ملکہ معظمہ کی حکومت میں شامل ہوتے جاتے ہیں اور اس فرقہ کا خیال ہے کہ شاید سلطنت کی قوت کے لحاظ سے یہ جزائر ہندوستان کی بہ نسبت زیادہ فخر کے لائق ہیں اس فرقہ کو یہ بھی تامل ہے کہ ملکہ معظمہ حامی دین کے خطاب سے کیوں کر مخاطب ہو سکتی ہیں کیوں کہ ہندوستان مختلف قسم کے مذاہب کے باشندوں پر مشتمل ہے ۔ یہ دشواری صحیح ہو سکتا ہے وہ یہ بھی خیال کرتا ہے ک شہنشاہ کا خطاب ایک ایسے بادشاہ کو ملنا چاہیے جس نے بزور شمشیر ملک پر غلبہ حاصل کیا ہو اور ایسی بات کا یاد دلانا کچھ مناسب بات نہیں ہے۔ اب ہم کو یہ بات خیال کرنی چاہیے کہ جو وجوہ اس مخالف فرقہ نے خطاب کے نامناسب ثابت کرنے کے لیے پیش کی ہیں وہ کہاں تک صحیح ہیں اور اگر صحیح ہیں تو کس قدر قوی ہیں تاکہ ان کے لحاظ سے یہ خطاب نامناسب ثابت ہو سکے۔ سب سے اول تو ہم کو یہ بات دیکھنی چاہیے کہ کیا ہندوستان فی الواقع ایسا ہی ملک ہے کہ اس کے لحاظ سے ملکہ معظمہ اپنے ااپ کو شہنشاہ نہیں کہہ سکیں‘ ہمارے نزدیک یہ بالکل صحیح نہیں ہے ۔ ہندوستان کی عزت اور وسعت ہمیشہ انگلستان کی پارلیمنٹ نے تسلیم کی ہے اور اس کو انگلستان کے تاج کا ایک روشن ہیرا بیا ن کیا گیا ہے۔ پس ایسے صریح امر کی نسبت انگار کرنا کچھ تعریف کے لائق بات نہیں ہے۔ بلاشبہ ہندوستان اپنی وسعت اور زر ریز ملک ہونے کے لحاظ سے ایک ایسا ہی ملک ہے کہ اس کو انگلستان کے تاج کا روشن ہیرا کہا جاوے اورآبادی کے لحاظ سے بھی اس کو اگر انگلستان کا ہمسر حصہ اور آبادی کے لحاظ سے بھی اس کو اگر انگلستان کا ہمسر حصہ خیا ل کیاجاوے تو کچھ بعید نہیں‘ قوت کے لحاظ سے بھی وہ جیسے بڑے بڑے راجائوں اور والی ممالک پر مشتمل ہے وہ اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اگر اس کو چھوٹی چھوٹی سلطنتوں کا مجموعہ خیال کیا جاوے تو کچھ بے جا نہیں اورفی الواقعہ ایسا ہی ہے کیوں کہ یورپ کی بعض خود مختار ریاستیں اپنی وسعت کے اعتبار سے ہندوستان کے ایک راجا یا نواب کی ریاست سے بڑھ کر نہیں ہینَ پس جب ایسی چند ریاستوں پر ہندوستان مشتمل ہے تو اب ملکہ معظمہ کو کطاب شہنشاہی کے حاصل کرنے کے واسطے ایک معقول وجہ ہے۔ اور اس بات کا دعوی کرنا کہ ہندوستان کی بہ نسبت جزیرہ آسٹریلیا زیادہ انگلستان کی تقویت کا باعث ہے صرف دعویٰ ہے جس کی صحت پر کوئی دلیل نہیں ہے کیا صرف اس بات کا خیا ل کر لینا کہ ان جزائر میں وہ قومیں پیدا ہوں گی جو آئندہ سلطنت کا مرکز بن سکیں گی ہندوستا ن کو آسٹریلیا سے کم ثابت کر سکتا ہے ہرگز نہیں بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو آسٹریلیا کبھی سلطنت کے لائق قومیں پیدا کرے گا اس آسٹریلیا کے برابر ہندوستان کے راجا سلطنتین کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ اس خطاب سے خود مختاری کی بو آتی ہے۔ کیوںکہ بادشاہ اور شہنشاہ میں صرف مدارج کا فرق ہے اور جب کہ ملکہ معظمہ ان مدراج کی مستحق ہیں تو کیوں کر وہ شہنشاہ نہیں ہو سکتیں اور اگر خود مختاری کی بو تسلیم بھی کی جاوے تو بھی کچھ مضائقہ نہیں کہ کیوں کہ خود مختاری ہمیشہ وہ قابل اعتراض ہوتی ہے جو اپن مدارج سے زیادہ ظاہر کی جاوے اور جب کہ ملکہ معظمہ کی یہ خود مختاری ان کے مدارج کے لحاظ سے زیادہ نہیں ہے تو اس خطاب کے ہونے پر کیا خرابی ہے‘ اگر ایک راجا خود بخود اپنے تئیں بادشاہ بتنا لے تو اس کی یہ خود مختاری قابل اعتراض ہو سکتی ہے ۔ اور اگر بادشاہ اپنے کو بادشاہ کہے تو یہ خود مختاری نہیں ہے۔ اسی طرح جو بادشاہ مستحق خطاب شہنشاہی ہو اس کے واسطے یہ خطاب موجب خود مختاری نہیں ہے اوراس میں ذرا شبہ نہیں ہے کہ ملکہ معظمہ ا س کی مستحق ہیں۔ یہ امر بھی قابل تسلیم نہیں ہے کہ جب ملکہ معظمہ حامی دین کہلاویں گی تو ان کو کس دن کے لحاظ سے حامی کہیں گے۔ کیونکہ یہ بات علی العموم تسلیم کی گئی ہے کہ ملکہ معظمہ کو تمام ادیان کی حفاظت علی السویہ منظور ہے اور اپنی حکمرانی میں اس بات کی بڑی رعایت فرماتی ہیں کہ معاملات مذہب میں کسی کا کسی ک ساتھ اختلاف نہ کیا جاوے۔ پس جب کہ ان کی جانب سے جمیع ادیان کی حفاظت ظاہر ہوتی ہیتو اب کیا مضائقہ ہے کہ حامی ادیان کہا جوے اور اس خطاب کے سبب سے ملکہ معظمہ کی اس خاص عزت کو ظاہر کیا جاوے۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ جس ملک کے لحاظ سے ملکہ معظمہ کو خطاب شہنشاہی دیا جاتا ہے اس ملک کے باشندے اپنی مختلف قسم کے ادیان کی حفاظت کے لحاظ سے ملکہ معظمہ کے نہایت مشکور ہیں اور اسی وجہ ہسے وہ اس وقت نہایت خوش ہوں گے جب کہ ملکہ معظمہ حامی ادیان کے خطاب سے مخاطب ہوں گی بلکہ اس وقت حق الیقین کا مرتبہ اس باب میں حاصل ہو گا کہ ملکہ معظمہ جن کے خطاب کا انتہائی فقرہ حامی دین ہے ضرور حامی ادیان ہیں اور اگر اس لحاظ سے شبہ ہے کہ دین لفظ مفرد ہے اورادیان کا لفظ خطاب میں بصیغہ جمع نہیں ہے تو یہ شبہ کچھ ایسا نہیں ہے کہ اس سے خطاب شہنشاہی صحیح نہ ہو بلکہ غایت درجہ یہ شبہ عبارت کے متعلق ہو گا جو بادنیٰ تغیر اصلاح پذیر ہو سکتاہے۔ جن لوگوں نے شہنشاہ کے لفظ سے غرور ثابت کیا ہے ان کی بڑی غلطی ہے کیوں کہ غرور ہمیشہ خلاف واقع کیفیت کو تعلی سے بیان کرنے کا نام ہے اورشہنشاہ کا خطاب ملکہ معظمہ کی نسبت کوئی خلاف واقع کیفیت نہیں ہے اور صرف اس بات کا خیال کرنا کہ پہلے یہ لفظ جابر بادشاہون پر بولا گیا ہے اس امر کو ثابت نہیں کرسکتا کہ ملکہ معظمہ کو اس کا استحقاق نہیں ہے ۔ کیوں کہ اگر غلطی سے ایک انجیل کو حاتم اور ایک نامرد کو رستم کہا گیا ہو تو کیا ا س وجہ سے حاتم کو بھی حاتم نہ کہہ سکیں گے جو حقیقت میں اس کا مستحق تھا اورکیا اس خیال سے رستم کو رستم نہ کہیں گے جو فی الواقع رستم تھا بلکہ ان کی نسبت اس قدر خیال کرنا کافی ہو گا کہ اپنے آپ کو ان پہلے جابروں کا شہنشاہ کہنا ان کے نزدیک ایک جبر اور غرور کی نشانی تھی۔ ہاں البتہ اگر شہنشاہ کے معنی ہی جابر کے ہوں تو شاید یہ اعتراض صحیح ہو اور یہ تو غلط ہے کہ شہنشاہ کے معنی جابر کے ہیںَ اگر مسٹر لو صاحب اپنی چست تقریر سے یہ بات ثابت کر دی کہ جس استحقاق کے لحاظ سے شہنشاہی کا خطاب ہونا چاہیے وہ استحقاق ہی ملکہ معظمہ میں نہیں ہے تو البتہ ہم تسلیم کریں گے کہ ہاں یہ خطاب نامناسب ہے اور اس کو نامناسب ثابت کرنا کچھ صحیح نہیں ہو سکتا۔ ہم نہایت تائید کرتے ہیں کہ مسٹر ڈسریلی صاحب کے اس خیال کی کہ وہ ملکہ معظمہ کے واسطے شہنشاہی کا خطاب صرف اس فخر و عزت کے ہی استحقاق کے لحاظ سے جائز بیان کرتے ہیں جو فی الواقع اس کے واسطے درکار ہے اور جو فرقہ اس کا مخالف ہوا ہے وہ بھی اس استحقاق میں کچھ کلام نہیں کر سکتا۔ اگر اس کو کلام ہے تو ایسے زائد احتمالات جو اس موقع کے مناسب نہیں ہیں ۔ پس ہم ہندوستان کے باشندے نہایت خوش ہیں کہ ہماری ملکہ معظمہ شہنشاہ کے خطاب سے مخاطب ہوں۔ ٭٭٭ البرٹ بل (علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ۳ امارچ ۱۸۸۳ئ) آنربیل ۔ سی ۔ بی ۔ البرٹ صاحب لاممبر کونسل گورنر جنرل آف انڈیا نے مجموعہ ضابطہ فوجداری کی چند دفعات کی ترمیم میں ایک بل کونسل میں پیش کیا ہے ۔ اس بل کی رو سے مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۲۲ کی ترمیم ہو گی اس دفعہ کی رو سے بجز یورپین کے کوئی ہندوستانی جسٹس آف پیس یعنی ایسا حاکم جو یورپین کی نسبت مقدمات فوجداری کی سماعت کرے مقرر نہیں ہو سکتا۔ اس بل کی رو سے ہندوستانیو ں کو یہ اختیارمل سکے گا۔ اسی طرح مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۲۵ اور دفعہ ۴۴۳ وغیرہ کی ترمیم ہو گی۔ یعنی جملہ صاحبان سنشن جج و مجسٹریٹ ضلع ہندوستانی ہوں یا یورپین جسٹس آف دی پیس ہوں گے۔ حاصل اس سب کا یہ ہے کہ اگر یہ بل پاس ہوجاوے تو بعض ہندوستانی حکام کو یورپین صاحبان کی رعیت برطانیہ کی نسبت بھی مقدمات فوجداری کی سماعت کا اختیار حاصل ہو جاوے گا۔ اس بل سے یورپین صاحبان نے جو ہندوستان میں رہتے ہیں اور ہر قسم کا کاروبار تجارت اور کاشت چاء و قہوہ وغیر ہ کرتے ہیں اور اپنی نارضامندی ظاہر کی ہے اورہر جگہ و ہر مقام پر بہت ری بڑی میٹنگیں اور مجلسیں اس بل کے خلاف قائم کی ہیں کسی امر پر یورپین لوگوں نے جو ہندوستان میں رہتے ہیں اس قدر شدید مخالفت کی ہے کہ جیسی کہ اس بل پر کی ہے مگر ہم اس بات کے معلوم ہونے سے نہایت خوش ہیں کہ ہندوستان کے کسی حصہ میں ہندوستانیوں نے یورپین لوگوں کی مجلسوں کے مقابلہ میں کوئی مجلس قائم نہیں کی اورنہ ہندوستانیون کو آئندہ اس معاملہ میں کوئی مجلس قائم کرنی چاہیے۔ ان کو لازم ہے کہ وہ بالکل خاموش رہیں ۔ کوئی ایک ہندوستانی بھی یہ نہیں خیال کرتا کہ اس کو یورپین کی نسبت مقدمات فوجداری کی سماعت کا اختیار ہونے سے اس کو کچھ زیادہ شیخی ہو جاوے گی۔ اس کو کچھ پروا نہیں ہے کہ ایک مجرم یورپین کا مقدمہ اس کے سامنے آوے یا نہ آوے بلکہ اس وقت تک قانون میں جو ایسا تفرقہ موجود ہے یہ خود قانون میں نقصان ہے جس میں قومی رعایت رکھی گئی ہے ہر ایک منصف عادل گورنمنٹ کا یہ فرض ہے کہ انصاف کو قائم رکھے اور ہر قوم کے لیے جو اس کی رعیت ہون یکساں قانون جاری کرے ۔ پس مسٹر البرٹ کے بل سے گورنمنٹ کے قانون میں جو نقصان ہے وہ رفع ہوتا ہے اورجو وعدہ ملکہ معظمہ قیصرہ ہند نے کیا ہے کہ اس کی تمام رعایا کے حقوق برابر ہوں گے اس کی تکمیل ہوتی ہے ضرور کہ اس کی تکمیل ہو گی۔ پس ہندوستانیوں کو کچھ ضرو ر نہیں ہے کہ یورپین صاحبو ں نے جو کارروائی کی ہے اس کے مخالفت کوئی کارروائی کریں اورہم کو امید ہے کہ کسی ہندوستانی یا کسی ہندوستانی سوسائٹی کو کسی کارروایء کرنے کا خیال بھی نہیں ہے اس معاملہ میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ خیر یہ بل پاس ہو یا نہ ہو جو ہونا ہو گا وہ ہو گا مگر ہماری رائے میں اس بل کے پیش ہونے سے بہت بڑا فائدہ ہوا کہ گورنمنٹ آف انڈیا اور انگلینڈ کی گونمنٹ اور پارلیمنٹ کے دونوں ہائوسوں کو خوب معلوم ہو گیا کہ یورپین صاحبان کی جو ہندوستان میں رہتے ہیں ہندوستانیوں کی نسبت کیسی فیلنگ ہے اور اسی پر یورپین صاحبان کی سوشل حالت کا جو ہندوستانیوں کے ساتھ ہے اورجس کی شکایت ہمیشہ ہندوستانی کرتے ہیں بخوبی اندازہ ہو سکتاہے ایک صاحب نے فرمایا کہ افسوس ہے کہ اس مباحثہ کے سبب سے جو اس بل پر پیش آیا ہ یورپین صاحبان کی فلنگ ہندوستانیوں کی نسبت خراب ہو جاوے گی۔ سنتے والے نے کہا کہ اب کون سی اچھی ہے جو آئندہ خراب ہونی باقی ہے۔ مگر ان صاحب نے جو کہا اس پر انہو ں نے غور نہیں کیا ۔ ایک قوم کی دوسری قوم کے ساتھ اچھی یا بری فیلنگ کا ہونا یانہ ہونا صرف قانون پر منحصر ہے جب قانون میں یکتائی نہ ہو گی تو ایک قوم کے لیے ایک قانون اور دوسری قوم کے لیے دوسرا قانون ہے تو کبھی ان دونوں قوموں کی فیلنگ آپس میں اچھی نہیں ہو سکتی لیکن جب دونوں قوموں کے لیے یکساں قانون ہوں اور دونوں کے ساتھ ایک ہی قانون سے بائو کیا جائے اس وقت درحقیقت دونوں قوموں کی فیلنگ عمدہ ہو جاتی ہیں ۔ پس ہندوستانیوں اور انگریزوں میںاصلی محبت و ملاپ اس وقت ہو سکتا ہے جب کہ قانون میں دونوں قوموں کے لیے کچھ تفرقہ نہ رہے۔ ٭٭٭ مضمون کیا سبب ہوا ہندوستان کی سرکشی کا؟ (اس سوال کا جواب ذیل کے صفحات میں دیا جاتا ہے) (منقول از حیات جاوید) ۱۸۵۷ء وہ منحوس سال تھا جس میں شمالی ہند کے مسلمانوں کو قیامت خیز حادثات سے سابقہ پڑا۔ ہزاروں بے گناہ مسلمان سولی پر چڑھا دیے گئے۔ سینکڑوں مسلم خاندان تباہ ہو گئے۔ ان کی جاگیریں ضبط کر لی گئیں۔ ان کی جائدادیں برباد کر دی گئیں۔ ان کے مکانات کھود کر پھینک دیے گئے ان کے سرسبز و شاداب زمینوں پر گدھوں کے ہل چلوا دیے گئے۔ بیسیوں بے قصور مسلمانوں پر مقدمات قائم کر کے ان کو سنگین سزائیں دی گئیں ۔ بہت سو کو کالے پانی بھجوا کر ان کی زندگی حرام کر دی گئی۔ اور بالآخر وہ وہیں مر کھپ گئے۔ غرض مسلمان بے طرح انگریز کے غصے کا شکار ہو رہے تھے۔ اور زمین میں ان کے لیے کہیں پناہ کی جگہ باقی نہ رہی تھی۔ اس وقت انگریز کی نظر میں سب سے بڑا گناہ مسلمانوں کی حمایت اورہمدردی تھی۔ اورجس نے ذرا بھی ایسا ارادہ کیا اسے پھانسی کی سزا ملی۔ ہاں مسلمانوں کے خلاف بیانات اور گواہیاں دینے والوں کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا ان کو جائدادیں اور جاگیریں ملتی تھیں۔ ا ن کو خوشنودی کے پروانے اور خیر سگالی کی سندیں عطا کی جاتی تھیں۔ خطابات اور اعزازات دیے جاتے تھے اور ہر طرح ان کے دل جوئی اور خاطر مدارت کی جاتی تھی۔ ایسے وقت میں کلمہ حق کہنا اورسچی بات سنانا اپنے آپ کو جان بوجھ کر موت کے منہ میں دھکیل دینا تھا۔ انگریز کو اپنے غصہ میں مسلمانوں کے حق میں کوئی بات سنننے ک لیے یار نہ تھا۔ اور سلطنت اس شخص کو ملک کا بہت بڑا غدار اور دشمن سمجھتی تھی۔ جو ایک لفظ بھی مسلمانوں کی حمایت اور ہمدردی میں کہے ۔ اس سے زیادہ خطرناک کام اس وقت اور کوئی نہ تھا۔ کہ کوئی شخص یہ بات کہے کہ مسلمان بے قصور اور بے گناہ ہیں۔ ان کو ناحق سزائیں دی جا رہی ہیں۔ اور ان کو بے فائدہ برباد اور تباہ کیا جا رہا ہے۔ ایسے سخت و صعب زمانہ میں اور ایسے ہولناک اور پرآشوب وقت میں سارے ہندوستان میں سرسید ہی ایسا بہادر اور دلیر۔ نڈر اور بے باک شخص تھا جس نے جان پر کھیل کر بری آزادی اور بے خوفی سے بغاوت ۱۸۵۷ء کے اسباب اور مسلمانوں کی اس سے بریت کے متعلق یہ مضمون لکھا جیس آج ہم ناظرین کرام کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ سرسید نے اس عجیب دلیرانہ مضمون کی پانچ سو کاپیاں چھپوائیں اور پارلیمنٹ کے ممبروں اور معززین کو بھیج دیں تاکہ وہ دیکھیں کہ مسلمانوں پر اس معاملہ میں ناحق ظلم ہوا ہے علاوہ ازیں ایک کاپی گورنمنٹ آف انڈیا کو بھی روانہ کر دی۔ مضمون شائع ہوتے ہی سرسید کے خلا ف انگلستان اور ہندوستان میں انگریز کا غصہ بھڑک اٹھا کہ سرکایر نوکر ہو کر اس نے ایسا باغیانہ مضمون لکھا۔ نہ سرف مضمون لکھا بلکہ اسے چھپوا کر شائع کیا۔ انگلستان کے اخبارات نے بھی خوب شور مچایا کہ ایسے باغی اور مفسد کو سخت ترین سزا دینی چاہیے۔ جس نے ایسے وقت کو سخت ترین مسلمانوں کی حمایت کیہے اور انہیں بے قصور اور بے گناہ بتایا ہے۔ پارلیمنٹ کے ممبران اور ہندوستان کے اعلیٰ انگریز افسران نے بھی اپنے نہایت غصہ و غضب کا اظہار کیا۔ چنانچہ مسٹر سیل بیڈن فارن سیکرٹری گورنمنٹ ہند نے کونسل میں تقریر کرتے ہوئے بڑے زور و شدت سے کہا کہ اس شخص نے نہایت باغیانہ مضمون لکھا ہے۔ اس سے سختی کے ساتھ باز پرس ہونی چاہیے اوراس سے اس بات کا جواب لینا چاہیے کہ کیوں اس نے ایسی نامعقول حرکت کی ؟ اور اگر وہ کوئی معقول جواب اپنی نامعقول حرکت کا نہ دے سکے تو اسے بڑی سخت اور عبرت ناک سزاد ینی چاہیے۔ اس مضمون کو شائع کرنے کا لازمی نتیجہ تھاکہ سرسید فوراً گرفتار کر کے گولی سے اڑا دیے جاتے۔ کیوں کہ انہوںنے ہنگامہ ۱۸۵۷ء کا سارا الزام بڑی دلیری اور آزادی کے ساتھ اس مضمون میں انگریزوں پر ڈالا تھا۔ مگر چوں کہ یہ کام سرسید نے محض مسلمانوں کی قومی ہمدردی سے متاثر ہو کر بڑے خلوص اور نہایت سچائی کے ساتھ کیاتھا لہٰذا بعض اعلیٰ سرکاری حکام اور یگر ممبران پارلیمنٹ نے کہا اورلکھا کہ سید احمد خان نے اس مضمون میں کوئی بات حق اور انصاف کے خلاف نہیں لکھی۔ اور جو کچھ کہا دلی سچائی کے ساتھ کہا ل لہٰذا اس سے کوئی مواخذ نہ کیا جائے اور اس کے مضمون کو غور اورانصاف کے ساتھ پڑھا جاوے یہ مضمون نہایت نایاب اورناپید تھا کیوں کہ تقریباً ساری مطبوعہ کاپیاں سرسید ولایت بھیج چکے تھے اور ہندوستان میں اس کی عام اشاعت نہیں ہوئی تھی۔ مگر مولانا حالی نے کہیں سے اسے فراہم کر کے حیات جاوید کے ساتھ بطور ضمیمہ ۱۹۰۱ء میں شائع کر دیا۔ وہیں سے لے کر ہم اسے ناظرین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ورنہ بظاہر اورکوئی ذریعہ ایسا نہ تھا کہ ہم اس اہم اور بے نظیر مضمون کو حاصل کر سکتے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) سرکشی کے معنی اور اس کی مثالیں اس کا جواب دینے سے پہلے ہم کو بتانا چاہیے کہ سرکشی کے کیا معنی ہیں جان لو کہ اپنی گورنمنٹ کا مقابلہ کرنا یا مخالفوں کے ساتھ شریک ہونا مخالفانہ ارادے سے حکم نہ ماننا اورنہ بجا لانا یا نڈر ہو کر گورنمنٹ کے حقوق اور حدود کو توڑنا سرکشی ہے مثلاً ۱۔ نوکر کا یا رعیت کا اپنی حکومت سے لڑنا اور مقابلہ کرنا۔ ۲۔ یا مخالفانہ ارادے سے حکم کا نہ ماننا اورنہ بجا لانا۔ ۳۔ یا مخالفوں کی مدد کرنا اور ان کے شریک ہونا۔ ۴۔ یا رعیت کا نڈر ہوکر آپس میں لڑنا اور حد معنہ گورنمنٹ سے تجاوز کرنا۔ ۵۔ یا اپنی گورنمنٹ کی محبت اور خیر خواہی دل میں نہ رکھنا اور مصیبت کے وقت طرفداری نہ کرنا۔ اس نازک وقت میں جو ۱۸۵۷ء میں گزرا اس اقسام کی سرکشیوں میں سے کوئی بھی سرکشی ایسی نہیں ہے جو نہ ہوئی ہو بلکہ بہت تھوڑے دانا آدی ایسے نکلیں گے جو پچھلی بات سے خالی ہوں حالاں کہ یہ پچھلی بات جیسی ظاہر ہے کم ہے ویسی ہی قدر میں بہت زیادہ ہے۔ سرکشی کا ارادہ دل میںکیوں آتا ہے؟ سرکشی کا ارادہ جو دل میں پیدا ہوتا ہے اس کا سبب ایک ہی ہوتا ہے یعنی پیش آنا ان باتوں کا جو مخالف ہوں اور ان لوگوں کی طبیعت اورطینت اور ارادہ اوعزم اوررسم و رواج اور خصلت اور جبلت کے جنہوں نے سرکشی کی۔ ۱۸۵۷ ء کی سرکشی کسی ایک بات سے نہیں ہوئی بلکہ بہت سی باتوں کا مجموعہ تھا اس بیا ن سے ثابت ہوتاہے کہ کوئی خاص بات عام سرکشی کا باعث نہیں ہو سکتی ہاں عام سرکشی کا باعث یا کوئی ایسی عام بات ہو سکتی ہے کہ جو سب کی طبیعتوں کے مخالف ہو یا متعدد باتیں ہوں کہ کسی نے کسی گروہ کی اور کسی نے کسی گروہ کی طبیعتوں کو پھیر دیا ہو اور رفتہ رفتہ عام سرکشی پیدا ہو گئی ہو۔ ۱۸۵۷ء کی سرکشی میں یہی ہوا کہ بہت سی باتیں ایک مدت درازسے لوگوں کے دلوں میںجمع ہوتی جاتی تھیں اوربہت بڑا میگزین جمع ہو گیا تھا ۔ صرف اس کے شتابے میں آگ لگانی باقی تھی کہ سال گزشتہ میں فوج کی بغاوت نے اس میں آگ لگا دی۔ چپاتی بٹنا کوئی سازش کی بات نہ تھی ۱۸۵۶ء میں ہندوستان کے اکثر ضلعوں میں دیر بدیر چپاتی بٹی اور اسی کے قریب زمانہ میں سرکشی ہوئی۔ اگرچہ اس زمانہ میں تما م ہندوستان میں وبا کی بیماری تھی اور خیال میں آتاہے کہ اس کے دفع کرنے کو بطور ٹوٹکہ یہ کام ہوا ہے کیونکہ جاھل ہندوستانی اس قسم کے ٹوٹکے بہت کیا کرتے ہیں۔ مگر حق یہ ہے کہ اس کا اصلی سبب آج تک نہیں کھلا لیکن اس یں یہ قاعد ہ ہے کہہ ا س قسم کی چیز البتہ ایک نشانی ہوتی ہے واسطے تصدیق زبانی پیغام کے اور ظاہر ہے کہ اس چپاتی کے ساتھ کوئی زبانی پیغام نہ تھا۔ اگو ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ باوجود منتشر ہونے کے اورہر قوم او ر ہر طبیعت کے آدمیوں میں پھیلنے کے مخفی رہتا۔ جس طر ح کہ ہندوستان میں سرکشی پھیلی اور یہاں سے وہاں اور وہاںسے وہاں دوڑی ۔ صاف دلیل ہے کہ پہلے سے کچھ سازش نہ تھی۔ روس اور ایران کی سازش کچھ نہ تھی روس اور ایران کی سازش سے ہندوستان میں سرکشی کا خیال کرنا نہایت بے بنیاد بات ہے۔ ہندوستانیوں پر جو معلوم نہیں کہ روسیوں کو کیا سمجھتے ہوں گے کیوں کہ ان سے سازش کا احتمال ہو سکتا ہے۔ ایرانیوں سے ہندو کسی طرح سازش نہیں کر سکتے۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں اور ایرانیوںمیںموافقت ہونی ایسی غیر ممکن ہے جیسے پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک میں۔ اگر دن اور رات کا ایک وقت میں جمع ہو جانا ممکن ہے تو البتہ سازش کا ہونا بھی ممکن ہے۔ تعجب ہے کہ جب روس اورایران میں محاربات درپیش تھے تب ہندوستان میں کچھ نہ تھا اورجب ہندوستان میں فساد ہوا تو وہاں کچھ نہ تھا۔ اورپھر سازش کا خیال کیا جائے۔ اشتہار کا ذکر جو شاہزادہ ایران کے خیمہ سے نکلا اشتہار جو مشہور ہے کہ ایران کے شاہزادے کے خیمہ سے نکلا اس کا کوئی لفظ ہندوستان کی سازش پر دلالت نہیںکرتا۔ اس کا مضمون صاف اپنے ملک کے لوگوں کی ترغیب کا ہے۔ ہندوستان کی خرابی کا ذکر اس بنیا د پر ہے کہ ایرانیو ں کو زیادہ تر آمادگی لڑائی پر ہو۔ نہ اس مطلب سے کہ ہندوستان سے سازش ہو چکی ہے۔ دلی کے معزول بادشاہ کا ایران کو فرمان لکھنا عجب نہیںمگر بنیاد سرکشی نہیں دلی کے بادشاہ معزول کا ایران کو فرمان لکھنا ہم کچھ تعجب نہیں سمجھتے ۔ دلی کے معزول بادشاہ کا یہ حال تھا کہ اگر اس سے کہاجاتا کہ پرستان میں جنوں کا بادشاہ آپ کا تابعدار ہے تو وہ اس کو سچ سمجھتا اور ایک چھوڑ دس فرمان لکھ دیتا۔ دلی کا معزول بادشاہ ہمیشہ خیال کیا کرتا تھا کہ میں مکھی اور مچھر بن کر اڑ جاتا ہوں اور لوگوں کی اور ملکوں کی خبر لے آتا ہوں اور اس بات کو وہ اپنے خیا ل میں سچ سمجھتا تھا اور درباریوں سے تصدیق چاہتا تھا اور سب تصدیق کرتے تھے۔ ایسے مالی خولیا والی آدمی نے کسی کے کہے سے کوئی فرمان لکھ دیا ہو تو تعجب کی بات نہیں۔ مگر حاشا کہ وہ کسی طرح بھی سازش کی بنیا د ہو۔ کیا تعجب نہیں آتا کہ اتنی بڑی سازش اتنی مدت سے ہو رہی ہو اورہمارے حکام بالکل بے خبر رہیں۔ سرکشی کے بعد بھی کیا فوجی اورکیا ملکی کسی باغی نے بھی آپس میں کسی قسم کی سازش کا کبھی تذکرہ نہیں کیا حالانکہ سرکشی کے بعد ان کو کس کا ڈر تھا؟ اودھ کی ضبطی اس عا م فساد کا باعث نہیں ہوئی اودھ کی ضبطی کو بھی ہم سب اس سرکشی کا نہیں سمجھتے ۔ اس میںکچھ شک نہیں کہ اودھ کی ضبطی سے سب لوگ ناراض ہوئے اور سب نے یقین کیا کہ آنربل ایسٹ انڈیا کمپنی نے خلاف عہد اور اقرا ر کے کیا۔عموماًرعایا کو ضبطی اودھ سے اس قدر ناراضی ہوئی تھی جتنی کہ ہمیشہ ہوا کرتی تھی۔ جب کمپنی کسی ملک کو فتح کرتی ہے تو جس کے آگے بیان آگے آئے گا زیادہ تر ڈر اور خوف اور ناراضی دلی والیان اورریسان خود مختار ہندستان کو ہوتی تھی۔ سب کو یقین تھا کہ اسی طرح سب کے ملک اورسب کی ریاستیں اورحکومتیں چھین لی جاویں گی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ صاحب ملک رئیسوں میں سے کوئی باغی نہیں ہوا اس فساد میں اکثر وہی لوگ ہیں جن کے ملک ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ اس کے جوا ب میں یہ مت کہو کہ جھجر کا نواب اور بلب گڑھ کا راجہ اور فلاں فلاں باغی ہو گیا۔ قو م کی سازش کے واسطے اٹھا دینے غیر قوم کی حکومت کے نہیں اس فساد کو یہ بھی خیال نہیں کرنا چاہیے کہ اس حسرت اورافسوس کے باعث سے کہ ہندوستانیوں کے قدیم ملک پر غیر قوم کے ہندوستانیوں کے قدیم ملک پر غیر قوم قابض ہو گئی تھی۔ تما م قوم نے اتفاق کر کے سرکشی کی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہماری گورنمنٹ کی عملداری دفعتہ ہندوستان میں نہیں آئی تھی بلکہ رفتہ رفتہ ہوئی تھی جس کی ابتدا ۱۸۵۷ء وقت شکست کھانے سراج الدولہ کے پلاسی پر سے شمار ہوتی ہے۔ اس زمانے سے چند روز بیشتر تک تمام رعایا او ررئیسوں کے دل ہماری گورنمنٹ کی طرف کھینتے تھے ۔ اور ہماری گورنمنٹ او ر اس کے احکام متعہد کے اخلاق اور اوصاف اور رحم او ر استحکام عہود اور رعایا پروری اور امن و آسائش سن سن کر جو عملداریاں ہندو اور مسلمانوں کی ہماری گورنمنٹ کے ہمسائے میںتھیں وہ خواہش رکھتی تھیں کہ اس بات کی کہ ہماری گورنمنٹ کی حکومت کے سایہ میں ہو۔ بادشاہان ملک غیر بھی کمال اعتماد رکھتے تھے اس کو بھی بہت ہی پکا اورپتھر کی لکیر سمجھتے تھے۔ باوجود ے کہ ہماری گورنمنٹ کو پہلے کی نسبت اب بہت بڑا اقتدار ہے۔ برعکس ہندوستانیوں کے کہ ہندوستانکے رئیسوں اور صوبہ داروںاوروالیان ملک کو جو طاقت و اختیار پہلے تھا اس کا عشر عشیر بھی اب نہیں۔ حالانکہ ان زمانوں می ںبہت سی لڑائیاں ہماری گورنمنٹ کو ہندوستان کی ہر قوم ہندو و مسلمان سے پیش آئیں اور ہماری گورنمنٹ فتح یاب ہوتی گئی اور تمام ہندوستانیوں کو یقین تھا کہ ایک دن تمام ہندوستان پر ہماری گورنمنٹ کی حکومت ہو گی اوریہ سب رعایا ہندوستان کی کیا ہندو اور کیا مسلمان ایک دن ہماری گورنمنٹ کے قبضہ قدرت میں آئے گی ۔ باوجود ان باتوں کے اس زمانے میں کسی طرح کی سرکشی اور گورنمنٹ کا مقابلہ نہیںہوا۔ کہ سب تاریخیں اس ذکر سے خالی ہیں۔ اگر یہ فساد اس سبب سے ہوتا تو ضرور ہے کہ ان فسادوں کا نمونہ ان زمانوں میں بھی پایا جاتا خصوصاً اس سبب سے کہ ان زمانوں میں ایسے فسادات کا قابو زیادہ تھا۔ ان محاربات کے وقت میں جو ۱۸۳۹ء میں شروع تھے۔ جب کہ کسی طرح کی سرکشی ہندوستان میںنہیں ہوئی تھی باوجود یکہ صدھا سال تک ہندوستان انہیں ملکوں کے بادشاہوں کے تحت حکومت تھا جن سے کہ محاربات درپیش تھے اور انہیں بادشاہوں کے سبب مسلمانوں کا وجود اور عروج ہندوستان میں ہوا تھا تو اب ہرگز خیال میں بھی نہیں آتا کہ اب کا فساد مسلمانوں نے حکومت اور اپنی سلطنت کے جاتے رہنے کے رنج سے کیا ہو۔ دلی کے معزول بادشاہ کی وقعت دلی کے لوگوں میں اور ان شہروں میں جو دلی کے قریب تھے کچھ بھی نہ تھی مگر بیرون جات میں لارڈ امہرست کا کہنا کہ خاندان تیمور دلی کا بادشاہ نہیں دلی کے معزول بادشاہ کی سلطنت کا کوئی بھی آرزو مند نہ تھا۔ اس خاندان کی لغو اوربیہودہ حرکات نے سب کی آنکھوں سے اس کی قدر و منزلت گرا دی تھی۔ ہاں بیرون جات کے لوگ جو بادشاہ کے حالات اور حرکات اوراقتدار اور اختیار سے واقف نہ تھے بلاشبہ بادشاہ کی بڑی قدر سمجھتے تھے اور اس کو ہندوستان کا بادشاہ اور آنر بل ایسٹ انڈیا کمپنی کو منتظم ہندوستان جانتے تھے۔ الا خاص دلی کے اور اس کے قرب و جوار میں رہنے والے بادشاہ کی کچھ بھی وقعت خیال میں نہ لاتے تھے باوجود ن سب باتوںکے ہندوستان کے سب آدمیوں کو بادشاہ کے معدوم ہونے سے کچھ بھی رنج نہ تھا۔ یاد ہو گا کہ جب ۱۸۲۷ء میں لارڈ امہرست صاحب بہادر نے علانیہ کہہ دیا تھا کہ ہماری گورنمنٹ اب کچھ تیموریہ خاندان کے تابع نہیں بلکہ وہ خود ہندوستان کی بادشاہ ہے تو اس وقت رعایا اور والیان ہندوستان کو کچھ بھی خیال نہیں ہوا تھا گو خاص بادشاہی خاندان کو کچھ رنج ہوا ہو۔ پہلے سے کچھ سازش مسلمانوں میں جہاد کی نہ تھی مسلمانوں کا بہت روزوں سے آپس میں سازش اورمشورہ کرنا اس ارادے سے کہ ہم باہم متفق ہو کر غیر مذہب کے لوگوں اپر جہاد کریں اور ان کی حکومت سے آزاد ہو جائیں نہایت بے بنیاد بات ہے۔ جب کہ مسلمان ہماری گورنمنٹ کے مستامن تھے کسی طرح گورنمنٹ کی عمل داری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے۔ مولوی محمد اسماعیل کے وعظ اور جہاد کا ذکر بیس تیس برس بیشتر ایک بہت بڑے نامی مولوی محمد اسماعیل نے ہندوستان میں جہاد کا وعظ کہا اورآدمیوں کو جہا دکی ترغیب دی اس وقت اس نے صاف بیان کیا کہ ہندوستان کے رہنے واے جو سرکار انگریزی کی امان میں رہتے ہیں ہندوستان میں جہاد نہیں کر سکتے۔ اس لیے ہزاروں آدمی جہادی ہر ایک ضلع ہندوستان میں جمع ہوئے اورسرکاری عمل داری میں کسی طرح کا فساد نہیں کیا اور غربی سرحد پنجاب پر جا کر لڑائی کی اور جو ہر ضلع میں پاجی اور جاہلوں کی طرف سے جہاد کا نام ہوا اگر ہم اس کو جہاد ہی فرض کر لیں تو بھی ا س کی سازش اور صلاح قبل دسویں مئی ۱۸۵۷ء مطلق نہ تھی۔ اس ہنگامہ میں کوئی بات مسلمانوں کے مذہب کے مطابق نہیں ہوئی غور کرنا چاہیے کہ اس زمانے میں جن لوگوں نے جہاد کا جھنڈا بلند کیا ایسے خراب اور بد رویہ اوربد اطوار آدمی تھے کہ بجز شراب خوری اور تماش بینی اورناچ اور رنگ دیکھنے کے کچھ وظیفہ ان کا نہ تھا۔ بھلا یہ کیوں کر پیشوا اورمقتدا جہاد کے گنے جا سکتے تھے۔ اس ہنگامے میں کوئی بات بھی مذہب کے مطابق نہیں ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ سرکاری خزانہ اور اسباب جو امانت تھا اس میں خیانت کرنا۔ ملازمین کو نمک حرامی کرنی مذہب کی رو سے درست نہ تھی۔ صریح ظاہر ہے کہ بے گناہوں کا قتل علی الخصوص عورتوں اور بچوں اور بڈھوں کا مذہب کے بموجب گناہ عظیم تھا۔ پھر کیوں کر یہ ہنگامہ غدر جہاد ہو سکتا تھا۔ ہاں البتہ چند بدذاتوں نے دنیا کی طمع اور اپنی منفعت اور اپنے خیالات پورا کرنے اور جاہلوں کے بہکانے کو اور اپنے ساتھ جمعیت جمع کرنے کو جہاد کا نام لے دیا۔ پھر یہ بات بھی مفسدوں کی حرمزدگیوں میں سے ایک حرمزدگی تھی نہ واقع میںجہاد۔ دلی میں جہاد کا فتویٰ جو باغیوں نے چھاپا وہ دراصل جھوٹا ہے دلی میں جو جہاد کا فتویٰ چھپا وہ ایک عمدہ دلیل جہاد کی سمجھی جاتی ہے مگر میں نے تحقیق سنا ہے اوراس کے اثبات پر بہت دلیلیں ہیں کہ وہ محض بے اصل ہے۔ میں نے سنا ہے کہ جب فوج نمک حرام اور میرٹھ سے دلی سے گئی تو کسی نے جہاد کے باب میں فتویٰ چاہا۔ سب نے فتویٰ دیا کہ جہاد نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ اس پہلے فتویٰ کی میں نے نقل دیکھی ہے مگر جب کہ وہ اصل فتویٰ معدوم ہے تو میں اس نقل کو نہیں کہہ سکتا۔ کہ کہاں تک لائق اعتماد کے ہے۔ مگر جب بریلی کی فوج دلی میں پہنچی اور دوبارہ فتویٰ ہو جو مشہور ہے اور جس میں جہاد کرنا واجب لکھا ہے بلاشبہ اصلی نہیں۔ چھاپنے والا اس فتویٰ کا جو ایک مفسد اور نہایت قدیمی بدذات آدمی تھی جاہلوں کے بہکانے اور ورغلانے کو لوگوں کے نام لکھ کر چھاپ کر اس کو رونق دی تھی۔ بلکہ ایک آدھ مہر ایسے شخص کی چھاپ دی تھی جو قبل غدر مر چکاتھا مگر مشہور ہے کہ چند آدمیوں نے فوج باغی بریلی اور اس کے مفسد ہمراہیوں کے جبر اور ظلم سے مہریں بھی کی تھیں۔ دلی میں مولویوں کا بڑا گروہ جو معزول بادشاہ کو بدعتی سمجھتا تھا اور اس کی مقبوضہ مسجدوں میں نماز نہ پڑھتا تھا دلی میں ایک بڑا گروہ مولویوں اوران کے تابعین کا ایسا تھا کہ وہ مذہب کی رو سے معزول بادشاہ دلی کو بہت برا اور بدعتی سمجھتے تھے۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ دلی کی جن مسجدوں میں بادشاہ کا قبض و دخل اور اہتمام ہے ان مسجدوں میں نماز درست نہیں۔ چناں چہ وہ لوگ جامع مسجد ہوئے فتوے اس معاملے میں موجود ہیں ۔ پھر کبھی عقل قبول نہیں کر سکتی کہ ان لوگوںنے جہاد کے درست ہونے میں اور بادشاہ کو سردار بنانے میں فتویٰ دیا ہو۔ جن کی مہریں فتوے پر چھاپی ہیں ان میں سے بعضوں نے عیسائیوں کو جان اور عزت کی پناہ دی تھی جن لوگوں کی مہر اس فتوے پر چھاپی گئی ہے ان میں سے بعضوں نے عیسائیوں کو پناہ دی اور ان کی جان او عزت کی حفاظت کی۔ ان میں سے کوئی شخص کی لڑائی پر نہیں چڑھا مقابلے پر نہیں آیا۔ اگر واقع میں وہ ایسا ہی سمجھتے ہیں جیسا کہ مشہور ہے تو یہ باتیں کیوں کرتے ۔ غرض کہ میری رائے میں کبھی مسلمانوں کے خیال میں بھی نہیں آیا کہ باہم متفق ہو کر غیر مذہب کے حاکموں پر جہاد کریں اور جاہلوں اور مفسدوں کا غلغلہ ڈال دینا کہ جہاد ہے جہاد ہے اور ایک نعرہ حیدری پکارتے پھرنا قابل اعتبار کے نہیں۔ ہاں البتہ مسلمانوں کو جس قدر ناراضی باعتبار مذہب کے تھی اورجس سبب سے تھی وہ ہم آئندہ صاف بیان کریں گے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ہندوئوں کی بہ نسبت مسلمانوں کو ہر ایک بات زیادہ تر ناراضی تھی اوریہی سبب ہے کہ مسلمان بہ نسبت ہندوئوں کے بعض اضلاع میں زیادہ تر مفسد ہو گئے۔ گو جن اضلاع میں کہ ہندوئوں نے فساد کیا تھا وہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ پہلے سے فوج میں بغاوت کی صلاح نہ تھی فوج میں ہرگز مشورہ اور پہلے سے صلاح نہ تھی۔ تحقیقی بات ہے کہ باغیان فوج نے بعد بغاوت بھی کبھی اس بات کا آپس میں بھی ذکر نہیں کیا۔ ہاں بارک پور کے واقع کے بعد اورخصوصاً اس زمانے میں جب کہ پنجاب میں قواعد جدید سکھانے کو متعدد پلٹنوں کے آدمی جمع کیسے گئے آپس میں یہ صلاح ٹھہری اور اس پر یہ اتفاق ہوا کہ جدید کارتوس کبھی استعمال میں نہ لائیں گے۔ اس وقت بھی اور کسی قسم کا ارادہ اور نیت نہ تھی بلکہ یقینی سمجھتے تھے کہ سرکار اس بات کو موقوف کر دے گی۔ اگرچہ یہ موقوف ہوا مگر دسویں مئی ۱۸۵۷ء کے بعد موقوفی سے کچھ فائدہ اس فساد کے رفع ہونے میں جو ہو گیا تھا نہ تھا اور وہ آگ اس قابل نہ تھی کہ ایسی تدبیروں سے بجھ سکے۔ پہلے سے فوج باغی کی بادشاہ دھلی سے سازش نہ تھی فوج باغی کا پہلے دلی کے معزول بادشاہ سے سازش کرنا محض بے اصل ہے ۔ دلی کے بادشاہ کو کوئی شخص ولی اور مقدس نہیں سمجھتا تھا۔ اس کے منہ پر لوگ اس کی خوشامد کرتے تھے اور پیٹھ پیچھے ہنستے تھے۔ لوگ اس کے مرید ہوتے تھے۔ کسی فائدے کی نظر سے نہ بطور اعتقاد ۔ کچھ عجب نہیں کہ کسی پلٹن کا کوئی تلنگہ یا صوبہ دار مرید ہوا ہو مگر اس بات کو سازش بغاوت سے کچھ بھی علاقہ نہیں ہے۔ بلاشبہ فوج باغی دلی پر جمع ہو گئی مگر جب اس نے سرکار سے بگاڑ دی تھی تو دلی کے بادشاہ کے سوا ایسا کون شخص تھا کہ جس کی طرف فوج رجوع کرتی۔ اس میں کچھ پہلے سے سازش کی حاجت نہ تھی۔ بلاشبہ جو ہئیت بادشاہ کی سرکار نے بنا رکھی تھی وہ بہت نامناسب اور قابل اعتراض کے تھی اور جناب لارڈ الن برا صاحب بہادر نے جو تجویز کی تھی وہ بے شک لائق منظوری کے تھی بلکہ اس سے زیادہ عمل درآمد کرنا واجب تھا۔ بے شک دلی کا بادشاہ بھوبل میں ایک چنگاری تھا جس نے ہوا کے زور سے اڑ کر تمام ہندوستان کو جلا دیا۔ شریک نہ ہونا ہندوستانیوں کا لیجسلیٹو کونسل میں اصلی سبب فساد کا ہوا اصلی سبب اس فساد کا میں تو ایک ہی سمجھتا ہوں ۔ باقی جس قدر اسباب ہیں وہ سب اس کی شاخیں ہیں اوریہ سمجھ میری کچھ وھمی اور قیاسی نہیں ہے بلکہ اگلے زمانے کے بہت سے عقل مندوں کی رائے کا اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے اور تمام مصنفین پرنسپل آف گورنمنٹ کے اس باب میں میرے طرف دار ہیں اور تمام تاریخیں یورپ اور افریقہ کی میری رائے کی صداقت پر بہت معتمد گواہ ہیں۔ یہ بات بہت ضروری تھی سب لوگ تسلیم کرتے چلے آئے ہیں کہ واسطے اسلوبی اور خوبی اور پائے داری گورنمنٹ کے مداخلت رعایا کی حکومت کے معاملات میں واجبات سے ہے۔ حکام کو بھلائی یا برائی تدبیر کی صرف لوگوں سے معلوم ہوتی ہے۔ بیشتر اس سے کہ خرابیاں اس درجہ کو پہنچیں کہ پھر جن کا علاج ممکن نہ ہو ۔ شعر سر چشمہ شاید گرفتن بمیل چو پرشد نشاید گزشتن بہ پیل اور یہ بات نہیں حاصل ہوتی جب تک کہ مداخلت رعایا کی حکومت ملک میں نہ ہو۔ علی الخصوص ہماری گورنمنٹ کو جو غیر ملک کی رہنے والی تھی اورمذہب اور رواج اور راہ و رسم اور طبیعت اور عادت بھی اس ملک سے مختلف رکھتی تھی۔ اس بات پر خیال رکھنا واجبات سے تھا گورنمنٹ کا انتظام اور اس کی خوبی اور اسلوبی اور پائے داری ملکی اطواراور عادات کی واقفیت اور پھر اس کی رعایت پر موقوف ہے کیوں کہ اگلی تاریخوں کے دیکھنے سے جو درحقیقت ایک روزنامچہ ہے عادات اور خیالات اور اطوار مختلفہ نوع انسان کا معولم ہو سکتا ہ کہ ان کی عادتیں اور خیالات اور اطوار موافق کیس عقلی قاعدے کے حاصل نہیں ہوئی ہیں بلکہ ہر ایک ملک اور قوم میں بہ حسب اتفاق ہو گئی ہیں ۔ پس قواعد گورنمنٹ ان اوضاع اور اطوار پر موقوف ہیں نہ یہ کہ وہ اوضاع اور اطوار اور عادات قواعد گورنمنٹ پر اور اسی بات پر گورنمنت کی پائے داری اور قیام ہ۔ کیوں کہ جب تک وہ عادتیں اور اخلاق رعایا کے دل میں مستحکم اور بمنزلہ خاصی انسانی کے نہ ہو گئے ہوں اس وقت تک ان کے برخلاف کرنا صریح خاصیت انسانی کے برخلاف کرنا اور سب کو رنجیدہ کرنا ہے۔ کیا ہم بھول جائیں گے بنگالے کی اس بے انتظامی کی حالت کو جو ۱۷۶۵ء میں بروقت تفویض ہونے دیوانی بنگلہ کمپنی انگریز بہادر اسی ناواقفیت ک سبب ہوئی تھی باوصفیکہ جان کلارک مارشمن صاحب کی تاریخ اسے یاد دلا رہی ہے اور کیا یاد نہ رہے گی ہم کو وہ خوبی جو بنگالے میں لارڈ ہسٹنگز صاحب بہادر کی زبان دانی اور ملکی راہ و رسم کی واقفیت سے حاصل ہوئی تھی۔ بلاشبہ پارلیمنٹ میں ہندوستان کی رعایا کی مداخلت غیر ممکن اور بے فائدہ محض تھی مگر لیجسلیٹو کونسل میں مداخلت نہ رکھنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ پس یہی ایک بات ہے جو جڑ ہے تمام ہندوستان کے فساد کی اور جتنی باتیں اور جمع ہوتی گئیں وہ سب اس کی شاخیں ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہماری گورنمنٹ نے ملکی حالات اور اطوار دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہم اس کے بدل مقرہیں اور بعض قوانین گورنمنٹ اور ہدایات بورڈ آف ریونیو اور آنریبل تامسن صاحب کے ہدایات نامہ مال کو اس کا گواہ سمجھتے ہیں مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ گورنمنٹ نے رعایا کے حالات اور خیالات اور عادات اور اوضاع اور اطوار اور طبیعت اورطنیت اور لیاقت کے دریافت کرنے میں توجہ نہیں کی ۔ بلاشبہ ہماری گورمنٹ کو نہیں معلوم تھا کہ ہماری رعیت پر دن کیسا گزرتا ہے اور رات کس مصیب کی آتی ہے اور وہ دن بدن کس مصیبت میں پڑتے جاتے ہیں اور کیا کیا رنج روز بروز ان کے دل میں جمتے جاتے ہیں جو رفتہ رفتہ بہت کثر ت سے جمع ہو گئے تھے۔ اور ایک ادنیٰ تحریک سے دفعتہ بہہ پڑے۔ اس سبب سے رعایا کا منشا گورنمنٹ پر نہ کھلا اور گورنمنٹ کا نیک ارادہ ہندوستانیوں پر ظاہر نہ ہوا بلکہ برعکس سمجھا گیا لیجسلیٹو کونسل میں ہندوستان کے شریک نہ ہونے سے صرف اتنا ہی نقصان ہوا کہ گورنمنٹ کو اصلی مضرت قوانین و ضوابط کی جو جاری ہوئے بخوبی معلوم نہیں ہو سکی اور اغراض عام رعایا جس کا لحاظ رکھنا گورنمنٹ کو واجبات سے تھا ملحوظ نہیں رہیں اور رعایا کو اس مضرت کے رفع کرنے اور اپنے مطلب کے پیش کرنے کی فرصت اور قدرت نہیں ملی بلکہ بہت بڑا نقصان یہ ہوا کہ رعایا کو منشاء اور اصلی مطلب اور دلی ارادہ گورنمنٹ کا معلوم نہ ہوا۔ گورنمنٹ کی ہر تجویز پر رعایا کو غلط فہمی ہوئی۔ جو تجویز گورنمنٹ کی ہوتی تھی ہندوستانیوں کو بہ سبب اس کے کہ وہ لوگ اس میں شریک نہ تھے ۔ اور اس کی لم سے وہ واقف نہ تھے۔ اس لیے ان کو اس کی بنیاد معلوم نہ ہوئی اور وہ ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ یہ بات ہمارے اور ہمارے ہم وطنوں کے خراب اوربرباد اور ذلیل اور بے دھرم کرنے کو ہے اور وہ بعض باتیں جو درحقیقت گورنمنٹ سے برخلاف رواج اور مخالف طبیعت اورطینت ہندوستانیوں کے صادر ہوئی تھیں قطع نظر اس کے کہ وہ فی نفسہ اچھی تھیں یا بری زیادہ تر ا ن کے غلط خیالات کو تقویت دیتی تھیں۔ رفتہ رفتہ یہ نوبت پہنچ گئی کہ رعایا ہندوستان کی ہماری گورنمنٹ کو میٹھے زہر اور شہد کی چھری اور ٹھنڈی آنچ پر مثال دیا کرتی تھی اور س کو اپنے دل میں سچ سمجھتی تھی اور یہ جانتی تھی کہ اگر ہم آج گورنمنٹ کے ہاتھ سے بچے ہوئے ہیں تو کل نہیں اور کل ہیں تو پرسوں نہیں اور کوئی شخص ان کے حالات کو پوچھنے والا اور کوئی تعبیر ان کے اس غلط خیال کو دور کرنے والی نہ تھی۔ جب کہ رعایا کاگورنمنٹ کے ساتھ یہ حال ہو کہ جو دلی دشمن کے ساتھ ہونا چاہیے تو پھر کیا توقع ہو سکتی ہے وفاداری کی ایسی گورنمنٹ کو ایسی رعایا سے اور جب کہ ہماری گورنمنٹ درحقیقت ایسی نہ تھی تو ان کو غلط خیالات کا ہندوستانیوں کے دل میں جمنا اور جو رنج کہ ان کے دل پر تھا ان کا علاج نہ ہونا صرف اسی سبب سے تھا کہ لیجسلیٹو کونسل میں ہندوستان شریک نہ تھے۔ اگر ہوتے تو یہ سب باتیں رفع ہو جاتیں۔ اب اگر غور سے دیکھا جائے تو صرف یہی ایک بات ہے جس نے اپنی بہت سی شاخیں پیدا کر کے تمام ہندوستان میں بے جا فساد کر دیا۔ یہ مت کہو کہ ہماری گورنمنٹ نے چھاپہ خانوں میں سوائے گلی اور اافترا اور جن باتوں سے فتنہ یا کسی سرکشی وقوع میں آئے اور سب امورات چھاپنے کی اجازت دی تھی۔ اورقانون جاری ہونے سے پہلے مشہور کیا جاتا تھا کہ اورہر شخص کو اس پر عذرا ت پیش کرنے کا خیال تھا کیوں کہ یہ امور ان بڑی عظیم الشان باتوں کے علاج کو جس کا ہم ذکر کرتے ہیں محض ناکافی بلکہ محض بے فائدہ تھے۔ اور ہم نہیں چاہتے کہ اس مقام پر ہم سے یہ گفتگو کی جائے کہ ہندوستانیوں کا جو نہایت جاہل ہیں اور بے ترتیب لیجسلیٹو کونسل میں شریک ہونا کس طرح ہوتا اور کیا قاعدہ ہندوستانیوں کی شرکت کا نکلتا اور اگر رعایائے ہندوستان کو مثل پارلیمنٹ کے لیجسلیٹو کونسل میں مداخلت دی جاتی تو طریقہ ان کے انتخاب کا کیا ہوتا اور اس میں بہت سی مشکلیں پیش آتیں پس اس مقام پر ہم کو صرف اتنا ثابت کرنا ہے کہ یہ بات گورنمنٹ کے لیے بہت اچھی اور پر ضرور تھی اور اسی کے نہ ہونے کے سبب یہ فساد برپا ہوئے اور طریقہ مداخلت رعایا کی بابت ہماری علیحدہ رائے ہے کہ اس کو دیکھنا چاہیے اورجو بحث ہو وہاں کرنی چاہیے۔ سرکشی کا ہونا پانچ اصول پر مبنی ہے یہ نقص جو ہماری گورنمنٹ میں تھا اس نے تمام ہندوستان کے حالات میں سرایت کی اور جس قدر اسباب میں سرکشی کے جمع ہو گئے تو وہ اسی ایک امر پر متفرع ہیں مگر غور کر کے سب کو احاطہ میں لایا جائے تو پانچ اصول پر مبنی ہوتے ہیں۔ اول۔ غلط فہمی رعایا یعنی برعکس سمجھنا گورنمنٹ کا۔ دوم۔ جاری ہونا ایسے آئین اور ضوابط اورطریقہ حکومت کا جو ہندوستان کی حکومت اور ہندوستانیوں کی عادات کے مناسب نہ تھے یا مضرت رسانی کرتے تھے۔ سوم۔ ناواقف رہنا گورنمنٹ کا رعایا کے اصلی حالات اور اطوار اور عادات اور ان مصٓئب سے جو ان پر گزرتی تھیں اور جن سے رعایا کا دل گورنمنٹ سے پھٹتا جاتا تھا۔ چہارم۔ ترک ہونا ان امور کا ہماوری گورنمنٹ کی طرف سے جن کا بجا لانا ہماری گورنمنٹ پر ہندوستان کی حکومت کے لیے واجب اور لازم تھا۔ پنجم۔ بد انتظامی اور بے اہتمامی فوج کی۔ اب ہم ان پانچوں اصل کی افصیل اور اس کی ہر ہر شاخ کو جدا جد اکر کے بیان کرتے ہیں وباللہ التوفیق۔ اصل اول اول غلط فہمی رعایا غلط فہمی رعایا یعنی برعکس سمجھنا تجاویز گورنمنٹ کا۔ اس مقام پر جتنی باتیں ہم بیان کرتے ہیں ان سے ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ درحقیقت ہماری گورنمنٹ میں یہ باتیں تھیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ لوگوں نے یوں غلط سمجھا اورسرکشی کا سب ہو گیا۔ اگر ہندوستانی آدمی بھی لیجسلیٹو کونسل میں مداخلت رکھتے تو یہ غلط فہمی واقع نہ ہوتی۔ مداخلت مذہبی سمجھنا مداخلت مذہبی کچھ شبہ نہیں کہ تمام لوگ جاہل اور قابل اور اعلیٰ اور ادنیٰ یقین جانتے تھے کہ ہماری گورنمنٹ کا دلی ارادہ ہے کہ مذہب اور رسم و رواج میں مداخلت کرے اور اب کو کیا ہندو اور کیا مسلمان ‘ عیسائی‘ مذہب اور اپنے ملک می رسم و رواج پر لا ڈالے اور سب سے بڑا سبب اس سرکشی میں یہی ہے۔ ہر شخص دل سے جانتا تھا کہ ہماری گورنمنٹ کے احکام بہت آہستہ آہستہ ظہور میں آتے ہیں اور جو کام کرنا ہوتا ہے رفتہ رفتہ کیا کرتے ہیں ۔ اس واسطے دفعتہ اور جبراً مسلمانوںکی طرح دین بدلنے کو نہیں کہتے مگر جتنا جتنا قابو پاتے جائیں گے اتنی اتنی مداخلت کرتے جائیں گے اور جو باتیں رفتہ رفتہ ظہور میں آئیں گی جن کا بیان آگے آئے گا ان کے اس غلط شبہ کو زیادہ تر مستحکم اور مضبوط کرتی گئیں۔ سب کو یقین تھا کہ ہماری گورنمنٹ علانیہ جبر مذہب بدلنے پر نہیں کرے گی بلکہ خفیہ تدبیریں کر کے مثل نابو د کر دینے علم عربی و سنسکرت کے اور مفلس اور محتاج کر دینے ملک کے اورلوگوں کو جو ان کا مذہب ہے اس کے مسائل سے ناواقف کر کے اور اپنے دین و مذہب کی کتابیں اور مسائل اور وعظ کو پھیلا کر نوکریوں کا لالچ دے کر لوگوں کو بے دین کر دیں گے۔ سکندرہ کے یتیموں کا ذکر ۱۸۳۷ء کی قحط سالی میں جو یتیم لڑکے عیسائی کیے گئے وہ تمام اضلاع کے ممالک مغربی و شمالی میں ارادہ گورنمنٹ کا ایک نمونہ گنے جاتے تھے کہ ہندوستان کو اس طرح پر مفلس اور محتاج کر کے اپنے مذہب میں لے آئیں گے ۔ میں سچ کہتا ہوں کہ جب سرکار آنریبل ایسٹ انڈیا کمپنی کوئی ملک فتح کرتی تھی تو ہندوستان کی رعایا کو کمال رنج ہوتا تھا اور یہ بھی میں سچ کہتا ہوں کہ منشاء اس رنج کا اور کچھ نہیں ہوتا تھا بجز اس کے کہ لوگ جانتے تھے کہ جوں جوں اختیار ہماری گورنمنٹ کا زیادہ ہوتا جائے گا اور کسی دشمن اور ہمسایہ حاکم کے مقابلے اور فساد کا اندیشہ نہ رہے گا ووں ووں ہمارے مذہب اور رسم و رواج میں زیادہ تر مداخلت کریں گے۔ مذہبی گفتگو بہت ہوئی ہماری گورنمنٹ کی ابتدائے حکومت ہندوستان میں گفت گو مذہب کی بہت کم تھی روز بروز زیادہ ہوتی گیء اور اس زمانی میں بدرجہ کمال پہنچ گئی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ہماری گورنمنٹ کو ان امور میں کچھ مداخلت نہ تھی مگر ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ یہ سب معاملے بموجب حکم اور بموجب اشارہ اور مرضی گورنمنٹ کے ہوتے ہیں یہ سب جانتے تھے کہ گورنمنٹ نے پادری صاحبوں کو ہندوستان میں مقرر کیا ہے ۔ گورنمنٹ سے پادری صاحب تنخواہ پاتے ہیں۔ گورنمنٹ اور حکام انگریزی ولایت زا جو اس ملک میں نوکر ہیں وہ پادری صاحبوں کو بہت سا روپیہ واسطے خرچ کے اور کتابیں بانٹنے کو دیتے ہیں اور ہر طرح ان کے مددگار اور معاون ہیں۔ حکام متعہد کا مشنری طریقہ برتنا اکثر حکام متعہد اور افسران فوج نے اپنے تابعین سے مذہب کی گفت گو شروع کی تھی ۔ بعضے صاحب اپنے ملازموں کو حکم دیتے تھے کہ ہماری کوٹھی پر آن کس پادری صاحب کا وعظ سنو اور ایسا ہی ہوتا تھا۔ غرض کہ اس بات نے ایسی ترقی پکڑی تھی کہ کوئی شخص نہیں جانتا تھا کہ گورنمنٹ کی عمل داری میں ہمارا یا ہماری اولاد کا مذہب قائم رہے گا۔ پادری صاحبوں کا وعظ پادری صاحبوں کے وعظ نے نئی صورت نکالی تھی۔ تکرار مذہب کی کتابیں بطور سوال وجواب چھپنی اور تقسیم ہونی شروع ہوئیں۔ ان کتابوں میں دوسرے مذہب کے تقدس لوگوں کی نسبت الفاظ اور مضامین رنج دہ مندرج ہوئے ۔ ہندوستان میں دستور وعظ اور کتھا کا یہ ہے کہ اپنے اپنے معبد یا مکان پر بیٹھ کر کہتے تھے جس کا دل چاہے اور جس کو رغبت ہو وہاں جا کرسنے۔ پادری صاحبوں کا طریقہ اس کے برخلاف تھا۔ وہ خود غیر مزہب کے مجمع اور تیر تھ گاہ میلہ میں جا کر وعظ کہتے تھے۔ اور کوئی شخص صرف حکام کے ڈر سے مانع نہ ہوتا تھا۔ بعض ضلعوں میں یہ رواج نکلا کہ پادری صاحبوں کے ساتھ تھانے کا ایک چپراسی جانے لگا۔ پادری صاحب وعظ میں صرف انجیل مقدس ہی کے بیان پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ غیر مذہب کے مقدس لوگوں کو اور مقدس مقاموں کو بہت برائی سے اورہتک سے یاد کرتے تھے جس سے سننے والوں کو نہایت رنج اوردلی تکلیف پہنچتی تھی اور ہماری گورنمنٹ سے ناراضی کا بیج لوگوں کے دل میں بویا جاتا تھا۔ مشنری سکول مشنری سکول بہت جاری ہوئے اوران میں مذہبی تعلیم شروع ہوئی۔ سب لوگ کہتے تھے کہ سرکار کی طرف سے ہیں۔ بعض اضلاع میں بڑے بڑے عالی قدر حکام متعہد ان سکولوں میں جاتے تھے اورلوگوں کو ان میں داخل اور شامل ہونے کی ترغیب دیتے تھے۔ امتحان مذہبی کتابوں سے لیا جاتا تھا۔ اورطالب علموں سے جو لڑکے کم عمر ہوتے تھے پوچھا جاتا تھا کہ تمہارا خدا کون؟ تمہارا نجات دینے والا کون؟ اور وہ عیسائی مذہب کے موافق جوا ب دیتے تے ۔ اس پر ان کو انعام ملتا تھا۔ ان سب باتوں سے رعایا کا دل ہماری گورنمنٹ سے پھرتا جاتا تھا۔ یہاں ایک بڑا اعتراض یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر لوگ اس تعلیم سے نارا ض تھے تو اپنے لڑکوں کو ان سکولوںمیں کیوں داخل کرتے تھے۔ اس بات کو عدم ناراضی پر خیال کرنا نہیں چاہیے۔ بلکہ یہ ایک بڑی دلیل ہے ہندوستان کے کمال خراب حال اور مفلس اور نہایت تنگ اور تباہ حال ہونے پر ۔ یہ صرف ہندوستان کی محتاجی اور مفلسی کا باعث تھا کہ لوگ اس خیا ل سے کہ ان سکولوں میں داخل ہو کر ہماری اولاد کو کچھ وجہ معیشت اورروزگار حاصل ہو گا ایسی سخت بات جس سے بلاشبہ ان کو رنج اور روحانی غم تھا گوارا کرتے تھے نہ رضامندی سے۔ دیہاتی مکاتب دیہاتی مکتبوں کے مقرر ہونے سے سب لوگ یقین سمجھتے تھے کہ صرف عیسائی بنانے کو یہ مکتب جاری ہوئے ہیں۔ پرگنہ وزیٹر اورڈپٹی کمشنر جو ہر گائوں اور قصبہ میں لوگوں کو نصیحت کرتے تھے کہ لڑکوں کو مکتب میں داخل کرائو ۔ ہر ہر گائوں میں پادری ان کا نام ھتا۔ جو گائوں میں پرگنہ وزیٹر یا ڈپٹی کمشنر پہنچا اور گنواروںنے آپس میں اس کا چرچا کیا کہ کالا پادری آیا۔ عوام الناس یوں خیال کرتے تھے کہ یہ عیسائی مکتب ہیں اور کرسٹان بنانے کو بٹھاتے ہیں اورفہمیدہ آدمی اگرچہ یہ نہیں سمجھتے تھے مگر یوں جانتے تھے کہ ان مکاتب میں صرف اردو کی تعلیم ہوتی ہے ۔ ہمارے لڑکے اس میں پڑھ کر اپنے مذہب کے احکام اورمسائل اور اعتقادات اور رسمیات سے بالک ناواقف ہو جائیں گے اور عیسائی بن جائیں گے ۔ اوریوں سمجھتے تھے کہ گورنمنٹ کا یہی ارادہ ہے کہ ہندوستان کے مذہبی علوم کو معدوم کر دے تاکہ آئندہ کو عیسائی مذہب پھیل جائے۔ اکثر اضلاع شرقی ہندوستان میں ان مکتبوں کا جاری ہونا اورلڑکوں کا داخل ہونا صاف تحکماً ہوا اور کہہ دیا کہ گورنمنٹ کا حکم ہے کہ لڑکیوں کو داخل کیا جائے۔ لڑکیوں کے اسکول کا اجراء لڑکیوں کی تعلیم کا بہت چرچا ہندوستان میں تھا اور سب یقین کرتے تھے کہ سرکار کا مطلب یہ ہے کہ لڑکیاں سکول میںآئیں اور تعلیم پائیں اور بے پردہ ہوجائیں۔ یہ بات حد سے زیادہ ہندوستانیوں کو ناگوار تھی ۔ بعض بعض اضلاع میں اس بات کا نمونہ قائم ہو گیا تھا۔ پرگنہ وزیٹر اورڈپٹی انسپکٹر یہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم سعی کر کے لڑکیوں کے مکتب قائم کر دیں گے تو ہماری بڑی نیک نامی گونمنٹ میں ہو گی۔ اس سبب سے وہ ہر طرح پر مکتبوں کی فہمائش کرتے تھے اور اس سبب سے زیادہ تر لوگوں کے دلوں کو ناراضی تھی اور اپنے غلط خیالات کا ان کو یقین ہوتا جاتا تھا۔ بڑے کالجوں میں طریقہ تعلیم کا تبدل بڑے بڑے کالج جو شہروں میں مقرر تھے اول اول گو ان سے بھی کچھ کچھ دہشت لوگوں کو ہوئی تھی۔ اس زمانے میں شاہ عبدالعزیز جو تمام ہندوستان میں نہایت نامی مولوی تھے۔ مسلمانوںنے ان سے فتویٰ پوچھا ۔ انہوں نے صاف جواب دیا کہ کالج انگیرزی میں جانا اورپڑھنا اور انگریزی زبان کا سیکھنا بموجب مذہب کے سب درست ہے۔ اس پر سینکڑوں مسلمان کالجوں میں داخل ہوئے مگر اس زمانے میں کالجوں کا حال ایسا نہ تھا بلکہ ان میں تعلیم کا سررشتہ بہت اچھا تھا۔ ہر قسم کے علوم فارسی اور عربی سنسکرت اور انگریزی پڑھائے جاتے تھے۔ فقہ اور حدیث اور علم ادب پڑھانے کی اجازت تھی۔ فقہ میں امتحان ہوتا تھا۔ سندیں ملتی تھیں کسی طرح کی ترغیب مذہبی نہ تھی۔ مدرس بہت ذی عزت اور معتبر اور مشہور اور ذی علم اورپرہیز گار مقر ر ہوتے تھے۔ مگر آخر کو یہ بات نہ رہی۔ قدر عربی کی کم ہو گئی اورفقہ اور حدیث کی تعلیم یکسر جاتی رہی۔ فارسی بھی چنداں قابل لحاظ نہ رہی۔ تعلیم کی صورت اور کتابوں کے رواج نے بالکلیہ تغیر پکڑا اور اردو اور انگریزی کا رواج بہت زیادہ ہوا جس کے سبب سے وہی شبہ کہ گورنمنٹ کو ہندوستان کے مذہبی علو کا معدوم کرنا منظور ہے قائم ہو گیا۔ مدرس لوگ معتبر اور ذی علم نہ رہے۔ وہی مدرسہ کے طالب علم کہ جنہوں نے ابھی تک لوگوں کی آنکھوں میں اعتبار پیدا نہ کیا تھا مدرس ہونے لگے اس لیے کہ ان مدرسوں کا بھی وہی حال ہو گیا۔ گورنمنٹ کا اشتہار در باب استحقاق نوکری ادھر تو دیہاتی مکاتب اور کالجوں کا یہ حال تھا کہ ان پر سب کو شبہ رواج دینے مذہب عیسائی کا ہو رہا تھا کہ دفعتہ پیش گاہ گورنمنٹ سے اشتہار جاری ہوا کہ جو شخص مدرسے کا تعلیم یا فتہ ہو گا اور فلاں فلاں علوم اور زبان انگریزی میں امتحان دے کر سند یافتہ ہو گا وہ نوکری میں سب س مقدم سمجھا جائے گا ۔ چھوٹی چھوٹی نوکریاں بھی ڈپٹی انسپکٹروں کے سرٹیفکیٹ پر جن کو ابھی تک سب لوگ کالاپادری سمجھتے تھے منحصر ہو گئیں اوران غلط خیالات کے سبب لوگوں کے دل پر ایک غم کا بوجھ پڑ گیا اور سب کے دل میں ہماری گورنمنٹ سے ناراضی پیدا ہو گئی تھی۔ اورلوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کو ہر طرح بے معاش اور محتاج کیا جا رہا ہے تاکہ مجبور ہو کر رفتہ رفتہ ان لوگوں کی مذہبی باتوں میں تغیر و تبدل ہو جائے۔ جیل خانوںمیں اخلاط اکل و شراب اسی زمانہ میں بعض اضلا ع میں تجویز ہوئی کہ قیدی جیل خانوں میں ایک شخص کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھائیں گے جس سے ہندوئوںکا مذہب بالکل جاتا رہتا تھا۔ مسلمانوں کے مذہب میں اگرچہ کچھ نقصان نہیں تھا مگر اس کا رنج سب کے دل پر تھا کہ سرکار ہر ایک کا مذہب لینے پر آمادہ اور ہر طرح پر ا س کی تدبیر میں ہے۔ پادری اے ایڈمنڈ کی چٹھیات کا اجراء یہ سب خرابیاں لوگوں کے دلوں میںہورہی تھیں کہ دفعتہ ۱۸۵۵ء میں پادری ایڈمنڈ نے دارالامارات کلکتہ سے عموماً اور خصوصاً سرکاری معز ز نوکروں کے پاس چٹھیات بھیجیں جن کا مطلب یہ تھا کہ اب تمام ہندوستان میں ایک عمل داری ہو گئی۔ تار برقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہو گئی رینوے سڑک سے سب جگہ کی آمدورفت ایک ہو گئی‘ رینوے سڑک سے سب جگہ کی آمدورفت ایک ہوگئی۔ مذہب بھی ایک چاہیے‘ اس لیے مناسب ہے کہ تم لوگ بھی عیسائی مذہب ہو جائو۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ان چٹھیات کے آنے کے بعد لوگ خوف کے مارے سب کی آنکھوں میں اندھیرا آ گیا۔ پائوں تلے کی مٹی نکل گئی۔ سب کو یقین ہو گیا کہ ہندوستانی جس وقت کے منتظر تھے وہ وقت اب آ گیا۔ اب جتنے سرکاری نوکر ہیں اول ان کو کرسٹان ہونا پڑے گا۔ اورپھر تمام رعیت کو ۔ سب لوگ بے شک سمجھتے تھے کہ یہ چٹھیاں گورنمنٹ کے حکم سے آئی ہیں۔ آپس میں ہندوستانی لوگ اہل کاران سرکاری سے پوچھتے تھے کہ تمہارے پاس بھی چٹھی آئی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھاکہ تم بھی بسبب لالچ نوکری کے کرسٹان ہو گئے۔ ان چٹھیوں نے یہاں تک ہندوستانی اہل کاروں کا الزام لگایا کہ جن کے پاس چٹھیاں آئی تھیں وہ مارے شرمندگی اور بدنامی کے چھپاتے تھے اور انکار کرتے تھے کہ ہمارے پاس تو نہیں آئی۔ لوگ جواب دیتے تھے کہ اب آ جاوے گی کیا تم سرکار کے نوکرنہیں ہو۔ اگر سچ پوچھو تو یہ چٹھیاں تمام ہندوستانیوں کے شبہات کو پکا اور مستحکم کرنے والی تھیں چناں چہ انہوں نے کر دیا اور اس کو مٹانے کو کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ کچھ عجب نہ تھا کہ اس زمانے میں کچھ برہمی اور تھوڑ ا بہت فساد ملک میں شروع ہو جاتا چناں چہ اس وقت کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جناب معلیٰ القاب نواب لفٹنٹ گورنر بہادر بنگال نے بہت جلد خبر لی اور ایک اشتہار جاری کیا جس سے فی الجملہ لوگوں کے دلوں میں تسلی ہوئی اور وہ اضطرار جو ہو گیا تھا وہ دھیما ہوا مگر جیسا کہ چاہیے ویسا قلع قمع اس کا نہ ہوا۔ لو گ سمجھے ہ بالفعل یہ بات موقوف ہو گئی۔ پھر کبھی قابو پر کے وقت پر جاری ہو گی۔ مسلمانوں کو مداخلت امور مذہبی سے زیادہ رنج ہونا اور اس کا سبب ان سب باتوں سے مسلمان بہ نسبت ہندو کے بہت زیادہ ناراض تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہندو اپنے مذہب کے احکام بطور رسم و رواج کے ادا کرتے ہیں اور نہ بطور احکام مذہب کے۔ ان کو اپنے مذہب کے احکام اور عقائد اور وہ دلی اور اعتقادی باتیں جن پر نجات عاقبت کی موافق اور ان کے مذہب پر منحصر ہے مطلق معلوم نہیں ہے اورنہ ان کے برتائو میں ہے۔ اس سبب سے وہ اپنے مذہب میں نہایت سست ہیں اور بجز ان رسمی باتوں کے اور کھانے پینے کے پرہیز اور کسی مذہبی عقیدے مں پختہ اور متعصب نہیں ہیں۔ ان کے سامنے ان کے عقیدے کے جس کا دل میں اعتقاد چاہیے برخلاف باتیں ہوا کریں ان کو کچھ غصہ یا رنج نہیں آتا۔ برخلاف مسلمانوں کے کہ وہ اپنے مذہب کے عقائد کے بموجب جو باتیں کہ ان کے مذہب میں نجات دینے والی ہیں اورعذاب میں ڈانے والی ہیں بخوبی جانتے ہیں اور ان احکام کو مذہبی احکام اور خدا کی طرف سے احکام سمجھ کر کرتے ہیں ۔ اس سبب سے اپنے مذہب میں پختہ اورمتعصب ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر مسلمان زیادہ تر ناراض تھے اورہندوئوں کی بہ نسبت زیادہ تر فساد میں ان کا شریک ہونا قرین قیاس تھا چناں چہ یہی ہوا۔ بلاشبہ جتنی گورنمنٹ کی مداخلت مذھب میں خلاف قواعد ملک داری ہے ویسا ہی مذہب کی تعلیم کو روکنا ‘ علی الخصوص اس مذہب کے جس کو وہ حق سمجھتے ہیں برخلاف اور بے جا ہے مگر ہمارا مطلب صرف اتنا ہے کہ باوجود ے کہ ہماری گورنمنٹ ایسی ہی ہے مگر کام اس طرح پر ہوئے کہ رعایا کا یہ غلط شبہ رفع نہ ہوا۔ اصل دوم دوم اجرائے ضوابط آئین نا مناسب جاری ہونا ایسے آئین اور ضوابط کا اور طریقہ حکومت کا جو ہندوستانیوں کے عادات کے مناسب نہ تھے۔ ایکٹ ۲۱‘ ۱۸۵۰ء لیجسلیٹو کونسل سے بھی امور مذہبی میں مداخلت ہوئی۔ ایکٹ ۲۱‘ ۱۸۵۰ء صاف مذہبی قواعد میں خلل انداز تھا۔ پھر اس ایکٹ سے ایک بدگمانی لوگوں کو تھی کہ یہ ایکٹ خاص واسطے سے ترغیب عیسائی مذہب قبول کرنے کے جاری ہوا ہے۔ کیوں کہ یہ بات ظاہر تھی کہ غیر مذہب کا کوئی آدمی ہندوئوں میں شامل نہیں ہو سکتا۔ پس ہندو تو اس قانون کے مفاد سے محروم تھے ۔ غیر مذہب کا کوئی آدمی اگر مسلمان ہو جائے تو اس کو اپنے مذہب کی رو سے جو ا س نے اختیار کیا ہے اپنے مورثوں کا متروکہ جو غیر مذہب میں تھے لینا منع ہے۔ پس کوئی نو مسلم بھی اس ایکٹ سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا البتہ عیسائی مذہب جس نے قبول کیا ہے وہ فائدہ مند ہو سکتا تھا۔ اس سبس سے لوگ خیال کرتے تھے کہ علاوہ مداخلت مذہبی کے اس ایکٹ سے صاف ترغیب عیسائیت قبول کرنے کی ہے۔ ایکٹ ۱۵‘ ۱۸۵۶ ایکٹ ۱۵‘ ۱۸۵۶ء درباب بیوہ ہندو کے رسوم مذہبی میں خلل ڈالتا تھا۔ گو اس میں بڑی بحثیں ہوئیں اور بیوستے بھی لیے گئے مگر ہندو لوگ جو مذہب سے زیادہ پابند رسم و رواج کے ہیں اس ایکٹ کو نہایت نا پسند کرتے تھے بلکہ باعث اپنی ہتک عزت اوربربادی خاندان کا جانتے تھے اوریوں بدگمانی کرتے تھے کہ یہ ایکٹ اس مراد سے جاری ہوا ہے کہ ہندوئوں کی بیوائیں خود مختار ہو جائیں اور جو چاہیں سو کرنے لگیں۔ عورتوں کی فعل مختاری ضابطہ عورتوں کی فعل مختاری کا جو فوجداری عدالتوں میں جاری تھا کسی قدر ہندوستانیوں کی عزت اور آبرو اور رسم و رواج میں نقصان پہنچاتا تھا۔ منکوحہ عورتیں تک فوجداری سے فعل مختار ہو گئیں۔ ولیوں کی ولایت عورتو ں پر سے اٹھ گئی اوریہ باتیں صریح مذہب میں نقصان پہنچاتی تھیں۔ دیوانی عدالت پر جو اس کا تدارک حوالہ کیا گیا تھا بلاشبہ ناکافی اور بے فائدہ تھا اور جس بات کا فی الفور تدارک ہونا ازروئے مذہب اور رسم و رواج کے چاہیے تھا وہ ایسی تاخیر اور جھمیلے مٰں ڈالا گیا تھا کہ زیادہ تر فساد اس سے برپا ہوتا تھا۔ دیوانی کی ڈگریاٹ بابت دلا پانے زوجہ کے بہت ہی کم تعمیل ہوئی ہو ں گی۔ اکثر مقدمات ایسے نکلیں گے کہ عورت نے غاصب کے گھر دو تین بچے بھی جن لیے اور ہنوز مدعی اس کی نشان دہی کی تدبیر میں سرگردان ہے۔ بعض قوانین خلاف مذہب با وصف متحد المذہب ہونے متخاصمین کے چند ایکٹ اور قانون ایسے ہیں کہ جن کی رو سے باوصف متحد المذہب ہونے متخاصمین کے برخلاف ان کے مذہب کے مقدمات دیوانی عدالت سے فیصل ہوتے تھے ۔ ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہماری گورنمنٹ کسی مذہب کی طرف داری کرے مختلف مذہب ہونے کی صورت میں بلاشبہ انصاف کا لحاظ چاہیے۔ بشرطیکہ وہ انصاف دونوں مذہبوں کے یا دونوں اہل مقدمہ کے معاہد کے برخلاف نہ ہو۔ الا حب طرفین متحد المذھب ہوں تو ضرور ہے کہ ان ہی کے مذہب یا ان ہی کے رسم و رواج کے مطابق مقدمات حقوق متعلقہ دیوانی کے فیصل ہوں۔ ضبطی اراضی لا خراج قوانین ارضیات لا خراج جس کا آخر قانون ۲‘ ۱۸۱۹ء ہے حکومت ہندوستان کو نہایت مضر تھا۔ ضبطی اراضیات نے جس قدر رعایائے ہندوستان کو ناراض اور بد خواہ ہماوری گورنمنٹ کا کر دیا تھا اس سے زیادہ اور کسی چیز نے نہیں کیا تھا۔ لارڈ منرو اور ڈیوک آف ولنگٹن صاحب کا قول سچ فرمایا تھا لارڈ منرو اور ڈیوک آف ولنگٹن صاحب بہادر نے کہ ضبط کرنا معافیات کا ہندوستانیوں سے دشمنی پیدا کرنی اور ان کو محتاج کر دینا ہے ۔ میں بیان نہیںکر سکتا کہ ہندوستانیوں کو کس قدر ناراضی اور دلی رنج اور ہماری گورنمنٹ کی بدخواہی اورنیز کسی مصیبت اورتنگی معاش اس سبب سے ان کو تھی ۔ بہت سی معافیات صدہا سال سے چلی آتی تھیں اور ادنیٰ ادنیٰ حیلہ پر ضبط ہو گئیں۔ ہندوستانی صاف خیال کرتے تھے کہ سرکار نے خود تو ہماری پرورش نہیں کی بلکہ جو جاگیر ہم کو اور ہمارے بزرگوں کو الے بادشاہوں نے دی تھی وہ بھی گورنمنٹ نے چھین لی۔ پھر ہ کو اور کیا توقع گورنمنٹ سے ہے۔ ضبطی اراضیات کے باب میں اگر ہماری گورنمنٹ کی طرف سے یہ غدر صحیح اورواقعی بھی سمجھا جائے کہ اگر ضبطی اراضیات لاخراجی نہ ہوتی تو واسطے پورا کرنے اخراجات گورنمنٹ کے جس کو نہایت کفایت شعاری سے مان لینا چاہیے ہندوستانی آدمیوں سے اور کسی محصول کے لینے کی تدبیر کرنی پڑتی مگر رعایا کو اس سے کسی طرح تسلی نہیں اور جو مصیب کہ ان پر پڑی اس کا دفعیہ نہیں ہو سکتا۔ دیکھو اس زمانے میں جہاں جہاں باغیوں نے اشتہارات واسطے بہکانے اور ورغلانے رعایا کے جاری کیے ہیں سب میں بجز دو باتوں کے یعنی مداخلت مذہبی اور ضبطی معافیات کے اور کسی چیز کا ذکر نہیں ہے۔ اس سے بخوبی ثابت ہے کہ یہ دونوں باتیں اصل منشاء اور بہت بڑا سبب ناراضی اہل ہند کا تھا۔ علی الخصوص مسلمانوں کا جن کو یہ نقصان بہت زیادہ بہ نسبت ہندوئوں کے پہنچا تھا۔ نیلام زمینداری اگلی عمل داریوں میں بلاشبہ حقیقت زمینداری کی خانگی بیع اور رہن اور ہبہ کا دستور تھا مگر یہ بہت کم ہوتا تھا او ر جہاں جہاں ہوتا تھا بہ رضامندی اور بہ خوشی ہوتا تھا۔ بعلت باقی یا بعلت قرضہ جبراً اور تحکماً نیلا حقیت کبھی دستور نہیں ہوا۔ ہندوستان میں زمیندار اپنی موروثی زمینداری کو بہت عزیز سمجھتے ہٰں۔ اس کے زوال سے ان کو کمال رنج ہوتا ہے۔ اگر یہ خیال کیا جائے تو ہندوستان میں ہر ایک محال زمینداری کا ایک چھوٹی سی سلطنت دکھائی دیتی ہے ۔ قدیم سے سب کی رضامندی سے ایک شخص سردار ہوتا تھا۔ وہ ایک بات تجویز کرتا تھا اور ہر ایک حقیقت دار کو بقدر اپنے حصہ زمینداری کے بولنے اور دخل دینے کا اختیار ہوتا تھا۔ رعیت باشندہ دیہہ کے چودھری بھی حاضر ہو کر کچھ کچھ گفتگو کرتے تھے۔ اگر کسی مقدمہ نے زیادہ طول پکڑا تو کسی بڑے گائوں کے مقدم اور سردار کے حکم سے فیصلہ ہو گیا۔ ہندوستان کے ہر ایک گائون میں بہت خاصی صورت ایک چھوٹی سلطنت اور پارلیمنٹ کی موجود تھی۔ بے شک بادشاہ کو جس قدر اپنی سلطنت کے جانے کا رنج ہوتا تھا اتنا ہی زمیندار کو اپنی زمینداری جانے کا غم تھا۔ ہماری گورنمنٹ نے اس کا مطلق خیال نہ کیا ابتدائے عمل داری آج تک شاید کوئی گائوں باقی ہو گا جس میں تھوڑا بہت نہ انتقال ہوا ہو۔ ابتدا ابتدا میں ان نیلاموں نے ایسی بے ترتیبی سے کثرت پکڑی کہ تمام ملک الٹ پلٹ ہو گیا۔ پھر ہماری گورنمنٹ نے اس کے تدارک کو قانون اول ۱۸۲۱ء جاری کیا اورایک کمیشن مقرر ہوا۔ اس سے اور اس قسم کی صدہا خرابیاں برپا ہو گیئں یہاں تک کہ یہ کام حسب ذیل خواہ انجام نہ ہو سکا اورآخر کار یہ محکمہ بند ہو گیا۔ اس مقام پر ہم یہ گفتگو کرنی نہیں چاہتے کہ اگر سرکار وصول مال گزاری کا یہ قاعدہ مقر نہ کرتی تو پھر کیا کرتی اور جب کہ زمین مال گزاری سرکار میں مستغرق اور اس کی ذمہ دار سمجھی جاتی ہے تو کیوں نہیں نیلام ہوتی کیوں کہ ہما س مقام پر صرف یہ بات بیان کرتے ہیں ہ سرکشی کے یہ اسباب ہوئے خوہ ان سببوں کا ہونا بہ مجبوری ہوا خواہ ناواقفی سے اور اگر اس امر کی بحث دیکھنی ہو تو ہماوری دوسری رائے طریقہ انتظام ہندوستان ہے اس کو دیکھو۔ مگر اتنی بات یہاں لکھ دیتے ہیں کہ زمین کا مال گزاری میں مستغرق سمجھنا بہت قابل مباحثہ ہے درحقیقت دعویٰ سرکار کا پیداوار پر ہے نہ زمین پر۔ بعوض زر قرضہ نیلا حقیت کے رواج نے بہت سے فساد برپا کیے مہاجنوں اور روپیہ والوں نے دم دے کر زمینداروں کو روپے دیے اور قصداً ان کی زمنداری چھیننے کو بہت فریب برپا کیے اور دیوانی میں ہر قسم کے جھوٹے سچے مقدمات لگائے اور قدیم زمینداروں کو بے دخل کیا اور خود مالک بن گئے۔ ان آفات نے تمام ملک کے زمینداروں کو ہلا ڈالا۔ سختی بندوبست بندوبست مال گزاری جو ہماری گورنمنٹ نے کیا نہایت قابل تعریب کے ہے مگر اگلے بندوبستوں کی نسبت سنگین ہے۔ اگلی اعمل داریوں میں بطور خام تحصیل مال گزاری لی جاتی تھی۔ شیر شاہ نے ایک تہائی پیداوار کا حصہ گورنمنٹ مقرر کیا تھا۔ شیر شاہ نے ایک تہائی پیداوار کا حصہ گورنمنٹ مقرر کیا تھا۔ کچھ شک نہیں ہ اس طریقہ میں بہت مشکیں تھیں اور گورنمنٹ کو نقصان متصور تھا۔ مگر کاشت کار سب آباد رہتے تھے اورکسی کو ٹوٹا دینا نہ پڑتا تھا۔ اکبر اول نے اسی بندوبست کو یعنی پیداوار کا تہائی حصہ لینا پسند کیا اور اسی کو جاری کیا۔ مگر بندوبست پختہ کر دیا۔ جس کا ذکر لارڈ الفسٹن صاحب کی عمدہ تاریخ میں مندرج ہے اورآئین اکبری میں بھی اس کا بیان ہے ۔ اکبر نے اقسام زمین کے مقرر کیے۔ اول قسم کی زمین سے جس کا نام پولچ تھا اورہر سال بوئی جاتی تھی برابر مال گزاری کا حصہ لیا جاتا تھا۔ دوم قسم کی زمین جس کا نام پڑوتی تھا اور ہمیشہ کاشت نہ ہوتی تھی بلکہ چندے واسطے زور بڑھانے کے چھوڑ دیتے تھے اس زمین سے انہیں سالوں کی بابت مال گزاری لی جاتی تھی جس سے وہ کاشت ہوتی تھی۔ سوم قسم کی زمین جس کا نام چچر تھا اورتین چار برس سے بے تردد تھی اور اس کی درستی کے لیے خرچ بھی درکار ہوتا تھااور سالی زراعت میں پچدو لیا جاتا تھا اورھر بڑھتا جتا تھا یہاں تک کہ پانچویں میں پورا ہوتا تھا۔ چہار قسم کی زمین جس کا نام بنجر تھا اور پانچ برس سے زیادہ بے تردد پڑی تھی اوربھی ملائم شرطیں تھیں۔ اس خام بندوبست کا نقدی سے بدلنا اس طرح پر تھا کہ پیداوار ہر بیگہ کی اور ہر قسم زمین کی اوسط کے حساب سے غلہ کے وزن پر نکالی جاتی تھی مثلاً بیگہ پیچھے نو من غلہ کی پیداوار نکالی اور تین من غلہ اس بیگہ کا کاشت کار سے لینا حکومت کا حصہ ٹھہر گیا۔ پھر اوسط نرخ ناموں سے قیمت غلہ قرار دی گئی اور وہ نقسدی اس بیگہ کی ٹھہر گئی۔ پھر اس میں بڑی رفاہ یہ تھی کہ اگر کاشت کار بعض نقدی گرانئی نرخ سمجھ کر تین من غلہ دے دے تو اس کو اختیار تھا ۔ سرکاری بندوبست میں ان میں بہت سے باتوں کا خیال نہیں رہا۔ افتادہ زمین پر برابر محصول لگ گیا۔ ہر سال برابر جوتے جانے سے زور کم ہوتا گیا۔ پیداوار کم ہونے لگی۔ جو حساب بندوبست کے وقت لگایا تھا وہ نہ رہا۔ اکثر اضلاع میں ہر ایک بندوبست سخت ہو گیا۔ زمینداروں اور کاشت کاروں کو نقصان عائد ہوئے ۔ رفتہ رفتہ وہ بے سامان ہو گئے۔زراعت کا سامان بہت کم ہو گیا اور اس سبب سے جو زمین کاشت کرتے تھے وہ جیسا کہ چاہے کمائی نہ گئی۔ اس سبب سے بھی کمی پیداوار ہوئی۔ ادائے مال گزاری کے لیے وہ قرض دار ہوتے۔ سود قرضہ زیادہ ہونے لگا۔ بہت سے زمیندار مال گزور جو بہت اچھا سامان معقول خرچ رکھتے تھے مفلس ہو گئے۔ جن دیہات میں افتادہ زمین سوا رتھی وہ اور زیادہ خراب ہو گئی۔ آنریبل تامسن صاحب بہادر اپنے ہدایت نامہ کی دفعہ ۶۴ میں لکھتے ہیں کہ آئین نہم ۱۸۳۳ ء کے بندوبست میں علی العموم یہ بات نظر آتی ہے کہ اچھے دیہات کی جمع کچھ نرم تجویز ہوئی اورخراب دیہات کی جمع سنگین ہو گئی۔ زمینداروں کی ناجائز منفعتیں جاتی رہیں۔ اگرچہ یہ بات بہت اچھی تھی مگر بندوبست کے وقت اس کی رعایت چاہیے تھی جو نہ ہوئی غرض کہ ان اسباب سے زمینداروں اور کاشت کاروں کو مفلسی نے گھیر لیا تھا۔ جس کے سبب سے باوجود امن و آسائش کے جو زمینداروں کو تھی ان کے دل سے پچھلی عمل داریوں کی یاد بھولتی نہ تھی۔ تعلق داریوں کی شکست علی الخصوص اودھ میں تعلقہ داری بندوبست کا شکست کر دینا اگرچہ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس میں کچھ ناانصافی ہوئی مگر عمدہ سبب فساد کا ہوا۔ خصوصاً ملک اودھ میں یہ تعلقہ دار راجہ بنے ہوئے تھے۔ اپنی تعلقہ داری کے دیہات میں حکومتیں کرتے تھے ۔ نفع اٹھاتے تھے وہ بادشاہت اورمنفعت ان کی دفعۃ جاتی رہی۔ اس باب میں بھی کہ اگر سرکار یہ نہ کرتی تو اصل زمینداروں کو ان ظالموں کے ہاتھ سے کیونکر نکالتی ہم اس مقام ر بحث نہیں کریں گے بلکہ اس کی بحث ہماری دوسری رائے میں ہے۔ یہاں صرف یہ بیان کرنا ہے کہ شکست تعلق دار ی بھی سبب سرکشی ہے۔ اسٹامپ اسٹامپ کا جاری ہونا ایک ولایتی پیداوار ملک کا قاعدہ ہے جہاں کی آمدنی گویا کہ نہیں لی جاتی۔ ہندوستان میں اس کا جاری کرنا اورپھر رفتہ رفتہ اس کی قیمت میں اضافہ ہوتا جانا جس کی انتہا اب قانون دہم ۱۸۲۹ء میں ہے بلاشبہ خلاف طبائع اہل ہند بلکہ بہ نظر حالات مفلسی اہل ہند نامناسب تھا۔ اسٹامپ کے جاری ہونے میں پچھلے لوگ بہت بحث کر گئے ہیں اوربہت سی دلیلیں پیش ہوئیں ہیں کہ اس کا اجراء مفید ہے اور بہت غالب تر دلیلیں پیش ہوئیں کہ اصلی بات برخلاف اس کے ہے مگر ہم اس مقام پر اس سب بحثوں سے قطع نظر کرتے ہیں اور اتنا لکھنا کافی سمجھتے ہیں کہ ان بحثوں کی حاجت ان ملکوں میں ہے جہاں کی رعایا تربیت یافتہ اورمتمول اور راست باز معاملہ فہم ہے۔ ہندوستان کی رعایا جو دن بدن مفلس ہوتی جاتی ہے وہ ہرگز یہ زیر باری اٹھانے کے لائق نہیں۔ سب عقلا اس محصول کو ناپسند کر گئے ہیں۔ ان کا قول یہ ہے کہ دستاویزات پر محصول لگانا جتنا قابل الزام اور بے وجہ محض ہے اس سے زیادہ برا وہ محصول ہے جو کاغذات پر انصاف کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔علاوہ زیر باری اخراجات کے بہت سی صورتوں میں عدالت گستری سے باز رکھتا ہے چناں چہ مل صاحب کی کتاب پولٹکل اکونمی اور لارڈ بروم صاحب کی پولٹکل فلوزوفی اس کے ناپسندیدہ ہونے سے پر ہیں اورجس قدر کہ ولایت میں اس پر عذر ہے اس سے بہت زیادہ ہندوستان میں اس کے رواج پر الزام ہے۔ دیوانی عدالت کا انتظام پنجاب سے اچھا ہے مگر اصلاح طلب ہے دیوانی عدالت کا انتظام جو پریذیڈنسی بنگال اور آگرہ میں ہے وہ نہایت شائستہ ہے۔ اس کو اس غدر میں کچھ مداخلت نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اکثر حکام کی رائے اس کے برخلاف ہو گی اور پنجاب کے انتظام کو پسند کرنے ہوں گے۔ مگر یہ گفتگو نہایت قابل بحث کے ہے ۔ قانون پنجاب کا ایک مجمل مطلب ہے ۔ ان ہی قوانین کا جو اس ملک میں جاری ہیں ان کے بسط اور پھیلائو اورعمل کے واسطے قواعد مقرر نہیں ہیں۔ ہر حاکم اس میں خود مختار ہے ۔ سب حاکموں کی رائے سلیم ہونی ضرور نہیں ہے۔ پرھ اس میں کس قدر خرابیاں انجام کو پڑتی متصور ہیں۔ دیوانی کا محکمہ سب محکموں سے زیادہ تر عمدہ ہے جس پر نہایت اہتمام چاہے۔ یہی محکمہ ہے جس پر آبادئی ملک اور اجرائے تجاررت اور افزانئی بنج بیوپار و استحکام حقوق منحصر ہیں۔ پنجاب میں یہ محکمہ نہایت کم قدر ہو رہا ہے ۔ حکام مطلق متوجہ نہیں‘ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ متوجہ ہونے کی فرصت نہیں۔ جس قدر مقدمات غور طلب بہ سبب انتقالات اور معاملات کثیر اور بہ سب زیادہ مدت ہونے عمل داری سرکار کے اس ملک میں ان ملکوں کی عدالتوں میں درپیش ہوتے ہیں وہ ابھی تک پنجاب میں نہیں اور جب ہوں گے تو اس میں شک نہیں کہ قوانین پنجاب ان کی درستی سے فیصلہ کرنے کا کافی نہیں اس غدر میں دیوانی عدالت کا جس قدر اثڑ پایا جاتا ہے وہ صرف اتنا ہے اول انتقالات حقیت دوم مقروض ہونا یا مدیون ہونا لوگوں کا کہ یہ دونوں باتیں آپس میں دلی رنج تھا‘ اور یہ قاعدہ ہے کہ جب عمل داری کو سستی ہوتی ہے آپس کے تنازع سے فسادات برپا ہوتے ہیں پھر ان دونوں باتوں میں جو لوگوں کو آپس میں رنج تھا سب سے بڑا سبب اس کا یہ تھا کہ انتقالات ناواجبی اور قرضہ ناجائز لوگوں کے سر پر ہو گیا تھا۔ وہ جھوٹی ڈگریوں کے مدیون ہو گئے تھے۔ اور اسی سبب سے دیوانی عدالت پر الزام لگایا جاتا ہے۔ خیال کرنا چاہیے کہ جس قدر کم توجہی اور ابتری اور سرسری تحقیقات اور خود اختیاری حکام مجوز مقدمات دیوانی کی پنجاب میں ہے‘ وہ بہت اس سے زیادہ خرابیاں پیدا کرے گی۔ دیوانی عدالت کی تاثیر دس برس میں ظاہر نہیں ہوتی‘ پچاس برس بعد پنجاب کو ممالک مغربی شمالی کے انتظام اور تاثیر عدالت دیوانی سے مقابلہ کرنا چاہیے‘ نہ اب ہم اس بات کو منظور کرتے ہیں کہ پریسیڈنسی بنگال اور آگرہ کا قانون متعلق مقدمات دیوانی قابل اصلاح ہے۔ انفصال مقدمات میں بہت کم تاخیر ہوتی ہے‘ اسٹامپ کے بیش قیمت ہونے سے اپیل کے ہر مقدمہ میں بہت سے درجات قائم ہونے سے لوگوں کو زیر باری ہے۔ حکام دیوانی کو بعض قسم کا اختیار نہ دینے سے انفصال مقدمات میں ہرج تھا۔ سو اس کو ایکٹ ۱۹‘ ۱۸۵۳ء نے کچھ کچھ رفع کیا اورجس قدر باقی ہے وہ قابل اصلاح ہے۔ اس میں اگر زیادہ گفتگو دیکھنی منظور ہو تو ہماری دوسری رائے کو جو درباب انتظام ہندستان ہے اس کو ملاحظہ کرو۔ اصل سوم نا واقف رہنا گورنمنٹ کا رعایا کے اصلی حالات اور اطوار اور عادات اور ان مصائب سے جو ان پر گزرتے تھے ‘ اور جن سے رعایا کا دل ہماری گورنمنٹ سے پھٹتا جاتا تھا۔ سوم ۔ ناواقفیت گونمنٹ حال رعایا سے اس میں کچھ شک نہیں کہ ہماری گورنمنٹ کو رعایا کے حالات اور اطوار اور جو جو دکھ ان کو تھے‘ ان کی اطلا ع نہ تھی اور اطلا ع ہونے کا کیا سبب تھا؟ کیوں کہ حالت اور اطوار کی اطلاع اختلاط اور ارتباط اور باہم آمدورففت بے تکلفانہ سے ہوتی ہے اوریہ بات جب ہوتی ہے کہ ایک قوم دوسری قوم میں مل جل کر اور محبت و اخلاص پیدا کر کے بطور ہم وطنوں کے توطن اختیار کر لے۔ جیسا کہ مسلمان غیر مذہب اورغیر ملک کے رہنے والوں نے ہندوستان میں توطن اختیار کر کے پیدا کیا اور غیر ملکیوں سے برادرانہ راہ و رسم پیدا کی۔ مگر درحقیقت ہماری گورنمنٹ کو یہ بات جو اصلی سبب رعایا کے حالات کی اطلا ع کا ہے حاصل نہیں ہو سکیت اور نہ اس طرح کی سکونت مختلطانہ ہماری گورنمنٹ کو ہونی متخیل ہے۔ اب رہی یہ بات کہ رعایا خود اپنے مصائب کی اطلاع کرتی تو اس کا قابو رعایا کو نہ تھا کیوں کہ رعایائے ہندوستان کو تجاویز گورنمنٹ میں ذرا بھی مداخلت نہ تھی اور اگ رکسی نے کچھ بے قاعدہ کوئی عرضی پرچہ بھیجا یا بحصور نواب گورنر جنرل بہادر پیش کیا وہ بہ طور استغاثہ تصور کیا گیا نہ بہ طور استحقاق مداخلت تجاویز گورنمنٹ میں اور اسی لیے کچھ فائدہ حاصل نہ ہوا۔ حکام اضلاع کے حالات رعایا سے مطلق واقف نہ تھے اب ضرور ہوا کہ کوئی شخص حالت رعایا کی اطلاع گورنمنٹ میں کرے وہ اطلاع پر وہ خود اس سے واقف تھے اور کوئی راہ نہ تھی ان کو اطلا ع حاصل ہونے کو‘ اور ان کی عدم تعجہی ا س باب میں اور ان کی نازک مزاجی ایک مشہور بات ہے ان کے رعب سے سب ڈرتے تھے‘ کسی کو سچی بات علی الخصوص وہ کہ مخالف طبع اور مزاج حاکموں کے ہوتی تھی‘ کہنے کا مقدور نہ تھا‘ ہر شخص ملازم اور درباری رئیس سب ڈر کے مارے خوشامد کی بات کہتے تھے‘ اور ہماری گورنمنٹ نوعیہ نے ان باتوں سے گورنمنٹ شخصیہ کی صورت پیدا کی تھی۔ پھر یہ ریقہ اطلاع حالات رعایا کا بذریعہ حکام اضلاع ناکافی ہی نہ تھا بلکہ درحقیقت معدوم تھا۔ اس لیے رعایا کے ہمیشہ ہماری گورنمنٹ سے مخفی رہے جو نیا قانون گورنمنٹ سے جاری ہو ا اس سے جو مضرت رعایا کے حال اور رفاہ اور فلاح کو پہنچی اس کا رفع کرنے والا اور اس کی خبر دینے والا کوئی نہ تھا۔ اس قسم کے امور میں کوئی غم خوار رعایا کا نہ تھا۔ بج ان کے لہو کے جو جل جل کر ا ن کے بدن میں رہتا تھا اور بجز ان کی بے کسی کے جس پر وہ آپ رو کر چپ رہتے تھے۔ مفلسی ہندوستان علی الخصوص مسلمانوں کی نوکریاں بہت قلیل تھیں۔ روزگار پیشہ جو قاطبۃ مسلمان تھے بہت تنگ تھے مفلسی اور تنگی معاش ہندوستان کی رعایا کو ہماری گورنمنٹ کی حکومت میں کیوں نہ ہوتی۔ سب سے بڑی معاش رعایا نے ہندوستان کی نوکری تھی اور یہ ایک پیشہ گنا جاتا تھا۔ اگر چہ ہر ایک قوم کے لوگ روز گار نہ ہونے کے شاکی تھے مگر یہ شکایت سب سے زیادہ مسلمانوں کو تھی۔ غور کرنا چاہیے کہ ہندو جو اصلی باشندے اس ملک کے ہیں زمانہ سلف میں ان میں سے کوئی شخص روزگار پیشہ نہ تھا۔ بلکہ سب لوگ ملکی کاروبار میں مصروف تھ۔ برہمن کو روزگار سے کچھ علاقہ نہ تھا بیش برن جو کہلاتے ہیں وہ ہمیشہ بیوپار اور مہاجنی میں مصروف تھے۔ چھتری جو اس ملک کیھ کسی زمانے میں حاکم بھی تھے پرانی تاریخوں سے ثابت ہے کہ وہ بھی روزگار پیشہ نہ تھے۔ بلکہ اس زمین سے اور ایک ایک ٹکڑہ زمین کی حکومت سے بہ طور بھیا چارہ علاقہ رکھتے تھے۔ سپاہ ان کی ملازم نہ تھی بلکہ وہ طور بھائی بندی کے وقت پر جمع ہو کر لشکر آراستہ ہوتا تھا جیسا کہ کچھ تھوڑا سا نمونہ روس کی مملکت میں پایا جاتا ہے۔ البتہ قوم کائستھ اس ملک میں قدیم سے روزگار پیشہ دکھلائی دیتے ہیں۔ مسلمان اس ملک کے رہنے والے نہیں ہیں ۔ اگلے بادشاہوں کے ساتھ بہ وسیلہ روزگار کے ہندوستان آئے اور یہاں توطن اختیار کیا اس لیی سب کے سب روزگار پیشہ تھے اور کمئی روزگار سے ان کو زیادہ تر شکایت بہ نسبت اصلی باشندوں اس ملک کے تھی عزت دار سپاہ کا روزگار جو یہاں کی جاہل رعایا کے مزاج سے زیادہ تر مناسبت رکھتا ہے ہماری گورنمنٹ میں بہت کم تھا۔ سرکاری فوج جو غالباً مرکب تھی تلنگوں سے اس میں اشراف لو گ نوکری کرنی معیوب سمجھتے تھے۔ سواروں میں البتہ اشرافوں کی نوکری باق تھی مگر وہ تعداد میں اس قدر قلیل تھی کہ اگلی سپاہ سوار سے اس کو کچھ بھی نسبت نہ تھی۔ علاوہ سرکاری نوکری کے اگلے عہد کے صوبہ داروں اور سرداروں اور امیروں کے نج کے نوکر ہوتے تھے‘ کہ ان کی تعداد بھی کچھ کم خیال نہیں کرنی چاہیے۔ اب یہ بات ہماری گورنمنٹ کی نہیں ہے‘ اس سبب سے حد سے زیادہ قلت روزگار کی تھی۔ اسی مفلسی کے سبب لوگوں کا ایک آنہ اور ڈیڑھ آنہ یومیہ یا سیر بھر اناج پر باغیوں کی نوکری اختیار کرنا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب باغیوں نے لوگوں کو نوکر رکھنا چاہا ہزار ہا آدمی نوکری کو جمع ہو گئے اور جیسے بھوکا آدمی قحط کے دنوں میں اناج پر گرتا ہے اسی طرح یہ لوگ نوکریوں پر جا گرے ملحد گرسنہ درخانہ خالی بر خواں عقل باور نہ کند کز رمضاں اندیشہ بہت سے آدمی صرف آنہ ڈیڑھ آنہ یومیہ پر نوکر ہوئے تھے۔ اور بہت سے آدمی بعوض یومیہ کے ڈیڑھ سیر اناج پائے تھے۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کی رعایا جیسی نوکری کی خواہش مند تھی ویسی ہی مفلسی اور ناداری سے محتاج اورتنگ بھی تھی۔ خیراتی پنشن اور انعام بند ہونے سے ہندوستان کا زیادہ محتاج ہونا ایک اور راہ تھی اگلی عمل داریوں میں آسودگی رعایا کی یعنی جاگیر روزینہ انعام اکرام۔ جب شاہ جہان تخت پر بیتھا تو صرف بروز تخت نشینی چار لاکھ بیگہ زمین اور ایک سو بیس گائوں جاگیر میں اور لاکھوں روپیہ انعام میں دیے۔ یہ بات ہماری گورنمنٹ میں یک قلم مسدود تھی ۔ بلکہ پہلی جاگیریں بھی ضبط ہو گئی تھیں جس کی ضبطی سے ہزار ہا آدمی نان شبینہ کو محتاج ہو گئے تھے۔ زمین داروں ‘ کاشت کاروں کی مفلسی کا حال بیان کر چکے اہل حرفہ کا روزگار بہ سبب جاری ہونے اور رائج ہونے اشیائے تجارت ولایت کے بالکل جاتا رہا تھا۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں کوئی سوئی بنانے والے اور دیا سلائی بنانے والے کوبھی نہیں پوچھتا تھا۔ جو لاہوں کا تار تو بالکل ٹوٹ گیا تھا اور جو بد ذات سب سے زیادہ اس ہنگامہ میں گرم جوش تھے۔ خدا کے فضل سے جب کہ ہندوستان بھی سلطنت گریٹ برٹین میں داخل تھا تو سرکار کو رعایا کی اس تنگی حال پر توجہ کرنی اور ان کے ان روحانی اور دلی رنجشوں کے مٹانے میں سعی کرنی ضرور تھی۔ کمپنی نوٹ سے ملک کی زیر باری کمپنی نوٹ سے ایک نئی طرح ی زیر باری ملک کو ہوئی تھی جو کسی پہلی عمل داری میں اس کی نظیر نہیں ہے۔ جتنا روپیہ قرض لیا جاتا تھا اس کے سود کے وصول کرنے کی تدبیر بلکہ سود اور اخراجات اور انتفاع کے وصول کرنے کی تدبیر ملک سے ہوتی تھی۔ صرف مفلسی کے سبب سے رعایا کا تبدل عمل داری چاہنا غرض کہ ہر طرح سے ملک مفلس اور تاج ہو گیا۔ اگلے خاندان جن کو ہزاروں کا مقدور تھا معاش سے بھی تنگ تھے اور یہ ایک اصلی سبب ناراضی رعایا کا گورنمنٹ سے تھا۔ لوگو کے دل جو تبدل عمل داری کو چاہتے تھے اور نئی عمل داری کے راغب اور دل سے اس سے خوش تھے میں سچ کہتا ہوں کہ اسی سبب سے تھے۔ ہم سچ کہتے ہیں کہ اورپھر ہم سچ کہتے ہیں کہ ہم بہت سچ کہتے ہیں کہ جب افغانستان سرکار نے فتح کیا لوگوں کو بڑا غم ہوا۔ کیا سبب تھا‘ صرف یہ تھا کہ اب مناسب پر علانیہ دست اندازی ہو گی۔ جب گوالیار فتح ہوا پنجاب فتح ہوا‘ اودھ لیا گیا‘ لوگوں کا کما ل رنج ہوا کیوں ہوا؟ اس لیے ہوا کہ ا کے پاس ہندوستانی عمل داریوں سے ہندوستانیوں کو بہت آسودگی تھی۔ نوکریاں اکثر ہاتھ آتی تھیں۔ ہر قسم کی ہندوستانی اشیاء کی تجارت بہ کثر ت تھی ۔ ان عمل داریوں کے خراب ہونے سے زیادہ افلاس اور محتاجی ہوتی جاتی تھی۔ ہماری گورنمنٹ کی عمل داری میں خوبیاں اور بھلائیاں بھی حد سے زیادہ تھیں میں سب پر عیب نہیں لگاتا بقول شخصے عیب ہا جملہ بہ گفتنی ہنرش نیز بگو نفی حکمت مکن از بہر دل عامے چند امن اور آسائش اور آزادی ‘ رستوں کا صاف ہونا ‘ ڈاکوئوں اور رہزنوں کا نیست و نابود ہونا ‘ سڑکوں کا آراستہ ہونا مسافروں کی آسائش‘ بیوپاریوں کا مال دور دور تک بھیجنا‘ غیرب اعلیٰ ادنیٰ کے خطوط کا دور دست ملکوں میں برابر پہنچنا‘ خون ریزی اور خانہ جنگی کا بند ہونا‘زبردست سے زبردست کا زور اٹھنا اور اسی قس کی بہ سی باتیں ایسی اچھی تھیں کہ کسی عمل داری میں نہ ہوئی ہیں نہ ہوں گی۔ مگر غور کرو کہ ان باتوں سے وہ مصیبت جس کا ہم ذکر کرتے ہیں نہیں جاتی۔ ایک اور بات دیکھو کہ یہ نفع عمل داری کا جو مذکور ہوا کن لوگوں کو زیادہ تھا۔ اول عورتوں کو کہ سب طرح سے آسائش میں تھیں۔ خانہ جنگی میں اولاد کا مارا جانا‘ ٹھگوں کے ہاتھ سے لٹنا‘عاملوں کے ہاتھ سے خاوندوں اور بچوں کا محفوظ نہ رہنا اورہزار طرح کے مصائب سے محفوظ تھیں۔ پھر دیکھ لو کہ کس قدر خیر خواہ اور مداح سرکار کی عمل داری کی تھیں۔ مہاجن اور تجارت پیشہ لوگ بہت آسائش سے تھے۔ پرھ ان میں سے کوئی بھی بدخواہ نہ تھا۔ حاصل یہ کہ جن لوگوں کوعمل داری سرکار سے نقصان نہیں پہنچا تھا ان میں سے کوئی بدخوا ہ نہ تھا۔ اصل چہارم چہام۔ نہ کرنا ان باتوں کا جن کا کرنا گونمنٹ پر واجب تھا ترک ہونا ان امور کا ہماری گورنمنٹ کی طرف سے جن کا بجا لانا ہماری گورنمنٹ پر ہندوستان کی حکومت کے لیے واجب اور لازم تھا۔ محبت اور اتحاد ہندوستانیوں سے نہ کرنا جو مراتب کہ ہم اس مقام پر لکھتے ہیں گو وہ ہمارے بعض حکام کے ناگوار طبع ہوں مگر ہم کو سچ لکھنا اور دل کھول کر کہنا ضرور ہے یہ وہ بات ہم کہتے ہیں کہ جس سے جنگلی وحشی دام میں آتے ہیں۔ کیا لارڈ ہیکنز ایسسیز کافی نہیں کہ ہم اس مقام پر دوستی اور محبت اور ربط اور اتحاد کے فائدے بیان کریں۔ ہاں اتنی بات بیان کرنی تو ضرور ہے کہ آپس کی محبت اور ہمسایہ کی دوستی سے گورنمنٹ اور رعایا کی محبت بہت بڑھ کر ہے۔ دوست تو ایک شخص سے دوستی کرنی پڑتی ہے۔ اور گورنمنٹ کو تمام رعایا سے ایسا ارتباط پیدا کرنا پڑتا ہے کہ رعیت اور گونمنٹ سب مل کر ایک ہو جائیں ۔ رعیت چو بیخ ست سلطاں درخت درخت اے پسر باشد از بیخ سخت کیا یہ بات ہندوستان میںہماری گورنمنٹ سے نہیں ہو سکتی تھی کیوں نہ ہو سکتی تھی۔ اس لیے کہ ہم کو دن رات تجربہ ہوتا ہے کہ دو غیر ملک اور مختلف مذہب کے آدمیوں میں اتحاد ہوتا ہ اس صورت مں کہ وہ اتحاد کرنا چاہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دوہم قسم اور ہم مذہب اور ہم وطن آدمیوں میںکمال دشمنی اور عداوت ہوتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ محبت اور اتحاد اور دوستی ہونے کو اتحاد مذہب اورہم وطن اور ہم قوم ہونا ضرور نہیں۔ کیا پال مقدس کی یہ نصیحت حکمت آمیز نہیں ہے کہ جیسے ہم تم سے محبت کرتے ہیں ویسا ہی خدا وند تمہاری محبت آپس میں دوسروں کے ساتھ بڑھنے اور زیادہ ہونے دیوے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف اپنے پڑوسیوں اورہم قوموں سے بلکہ سب سے یہاں تک کہ دشمنوں سے سچی محبت ہو اووہ محبت مہربانی بڑھتی جائے اور کیا مسیح مقدس کا یہ قوم دل کو تسلی دینے والا نہیں کہ جو کچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں ویسا ہی تم بھی ان سے کرو کیوں کہ توریت اور نبیوں کی کتاب کا خلاصلہ یہی ہے۔ ۲۔ مراد مسیح مقدس کی اس نصیحت سے محبت ہے۔ غرض کہ کوئی عقل مند اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ کہ محبت اور اتحاد بہت عمدہ چیز ہے۔ اور بہت اچھے اچھے نتیجے دیتی ہے اور بہت سی برائیوں کو روکتی ہے ۔ آج تک ہماری گورنمنٹ نے یہ محبت ہندوستان کی رعایا کے ساتھ پیدا نہیں کی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ پال کا خط باب ۳ درس ۱۲۔ ۲۔ مئی باب ۷ درس ۱۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ایک عام قاعدہ محبت کا جبلت انسانی بلکہ حیوانی میں بھی قدرتی پیدا کیا گیا ہے کہ اعلیٰ کی طرف سے ادنیٰ کی طرف محبت چلتی ہے۔ باپ کی محبت بیٹے کی طرف پہلے اس سے شروع ہوتی ہے کہ بیٹے کو باپ سے۔ اسی طرح مرد کی محبت اپنی عورت کی طرف عورت کی محبت سے جو مرد ی طرف ہے مقدم ہے۔ اسی بنا پر یہ بات ہے کہ ادنیٰ جو اعلیٰ سے محبت شروع کرے وہ خوشامد گنی جاتی ہے۔ نہ محبت۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری گورنمنٹ کو اول چاہیے تھا کہ رعایا کے ساتھ محبت اور اتحاد کرنے میں تقدم کرتی پھ محبت کا یہ قاعدہ جو ہزار ہا تجربہ سے حاصل ہوا ہے کہ خواہ مخواہ محبت دوسرے کے دل میں اثر کرتی ہے اور اپنی طرف کھینچ لاتی ہے رعایا کے دل میں اثر کرتی ہے اور رعایا اس سے زیادہ ہماری گورنمنٹ کی محبت کرتی بلکہ فریفتہ ہو جاتی۔ عشق آن خانماں خرابے ہست کہ ترا آورد بخانہ ما مگر افسوس کہ ہماری گورنمنٹ نے ایسا نہیں کیا۔ اگر ہماری گونمنٹ دعویٰ کرے کہ یہ بات غلط ہے ۔ ہم نے ایسا نہیں کیا بلکہ محبت کی اور نیکی کا بدلا بدی پائی تو اس کا انصاف ہم خود گورنمنٹ کے سپرد کریں گے اگر یہ بات یوں ہی ہوتی تو رعایا کو بلاشبہ ہماری گورنمنٹ کی محبت سے زیادہ محبت ہوتی۔ بے شک محبت ایک دل کی چیز ہے جو کہے سے اور بنانے سے نہیں بنتی ظاہر میں بھی اگرچہ اس کے آثار پائے جاتے ہیں۔ الا سچ یہ ہے کہ نہ وہ بیان ہو سکتی ہے اور نہ نشان دی جا سکتی ہے‘ مگر دل اس کو خوب جانتا ہے بلکہ اس کے ہاتھ میں ایک ایسی سچی ترازو ہے کہ وہ کمی بیشی کو بھی پہچانتا ہے۔ دل راز دل رہیست دریں گنبد سپہر از سوئے کینہ کینہ و از سوئے مہر مہر ہماری گورنمنٹ نے اپنے آپ کو آج تک ہندوستانیوں سے ایسا الگ اور ان میل رکھا ہیھ جیسے آگ اور سوکھی گھاس۔ ہماری گورنمنٹ اور ہندوستان پتھر کے دو ٹکڑے ہیں سفید اور کالے کہ الگ الگ پہچانے جاتے ہیں اورپھر ان دونوں میں ایک فاصلہ ہے کہ دن بدن زیادہ ہوتا جاتا ہے ۔ حالانکہ ہماری گورنمنٹ کو ہندوستا ن کی رعایا کے ساتھ ایسا ہونا چاہیے کہ جیسے ابری کا پتھر کہ باوجود دو رنگ کے ایک ہوتا ہے۔ سفید رنگ میں سیاہ خال بہت خوب صورت معلوم ہوتے ہیں او رسیاہی سفید ی عجب بہار دکھلاتی ہے۔ ہم ناانصافی کی با ت نہیں کہتے ۔ ہماری گورنمنٹ کو بلاشبہ عیسائیوں کے ساتھ ایک خاص محبت دینداری کی رکھنی چاہیے مگر ہم اپنی گورنمنٹ سے رعایائے ہندوستان پر وہ برادرانہ محبت اور برادرانہ محبت پر وہ الفت چاہتے ہیں جس کی نصیحت پطرس مقدس نے کی ہے۔ اب غور کرو کہ ہمارے حکام اور ہندوستانیوں کا خون ایک نہ تھا۔ مذہب ایک نہ تھا۔ رسم و رواج ایک نہ تھا۔ دلی رضامندی رعایا کو نہ تھی۔ آپس میں محبت اور اتحاد نہ تھا۔ پھر کسی بات پر ہمارے حکام ہندوستان سے وفاداری کی توقع رکھتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ پطرس خط ۲ باب ۱ در س ۷۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پچھلی عمل داریوں میں جب تک ہندوستانیوں سے محبت نہ ہوئی آسائش نہ ہوئی ہندوستانیوں کی پچھلی سلطنتوں کا حال دیکھو‘ اول ہندوستان پر مسلمانوں نے فتح پائی۔ ترکوں اور پٹھانوں کی سلطنت میں ہندوستان کی رعایا سے محبت اورمیل جول نہ ہوا‘ جب تک آسائش اور آسودگی سلطنت نے صورت نہ پکڑی۔ مغلیہ سلطنت میں اکبر اول کے عہد میں ملاپ بخوبی شروع ہوا ‘ اور شاہ جہان کے وقت تک بدستور رہا۔باوجودیکہ اس زمانے میںبھی رعایا کو بے نظمی اصول سلطنت کے سبب تکلیفیں پہنچتی تھیں مگر وہ زخم مندمل ہو جاتا تھا ۔ اس برادرانہ محبت سے جو آپس میں تھی ۱۷۷۹ء میں یعنی عالمگیر کے عہد میں یہ محبت ٹوٹ گئی اوریہ سبب مقابلہ اور سرکشی کے قوم ہندو کے مثل سیوا جی مرہٹہ وغیرہ کے عالمگیر جملہ قوم ہدندو سے ناراض ہوا اور اپنے صوبہ داروں کے نام حکم بھیجے کہ جملہ قوم ہندو کے ساتھ بہ سخت گیری پیش آئے‘ اور ہر ایک سے جزیہ لے۔ پھر جو مضرت اور ناراضی رعایا کو ہوئی وہ ظاہر ہے ۔ غرض کہ ہماری گورنمنٹ نے سو برس کی عمل داری میں بھی رعایا سے محبت اور الفت پیدا نہ کی۔ ہندوستانیوں کی بے توقیری اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ رعایا کو باعزت رکھنا اور ان کی تالیف قلوب کرنی یعنی ان کے دونوں پہلوئوں کو ہاتھ میں رکھنا بہت بڑا سبب ہے؟ پائے داری گورنمنٹ کا۔ تھوڑا ملے اور آدمی کی عزت ہو تو وہ بہت زیادہ خوش ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ بہت ملے اور تھوڑی عزت ہو‘ بے عزتی کرنی کسی کی ایسی ہے بد چیز ہے کہ آدمی کے دل کو دکھاتی ہے۔ یہی چیز ہے کہ بغیر ظاہری نقصان پہنچائے عداوت کرتی ہ اور اس کا ایسا گہرا زخم ہوتا ہے کہ کبھی نہیں بھرتا: جراحات السان لھا التیام ولا بلتام ساجرح اللسان تالیف کی خاصیت اس کے برخلاف ہے۔ یہ وہ چیز ہے کہ اس سے دشمن دوست ہوتا ہے‘ اور دوستوں کی محبت زیادہ ہوتی ہ ۔ بے گانہ ہوتا ہے یہی چیز ہے کہ جس سے وحشی جنگل کے جانور چرند پرند تابع دار ہوتے ہیں۔ پھر اگر رعایا کے ساتھ ہو‘ تو وہ کس قدر مطبع اور فرماں بردار ہوں گے۔ ابتدائے عمل داری میں یہ چیز تھی کہ جس نے سب کے دلوں کو ہماری گورنمنٹ کی طرف کھینچ لیا تھا ایک دلی اطاعت پیدا کر دی تھی۔ بے شک ہماری گورنمنٹ ان باتوں کو بھول گئی۔ بلاشبہ تمام رعایا ہندوستان کی اس بات کی شاکی ہے کہ ہماری گورنمنٹ نے ان کو نہایت بے قدر اور بے وقر کر دیا ہے ۔ ہندوستان کے اشراف آدمی کی ایک چھوٹے سے یورپین کے سامنے بھی ایسی قدر نہیں ہے جیسی کہ ایک چھوٹے یورپین کی ایک بہت بڑے ڈیوک کے سامنے ۔ یوںتصور کیا جاتا تھا کہ ہندوستان میں کوئی جنٹلمین نہیں ہے۔ حکام اضلاع کی سخت مزاجی اور بدزبانی یہ سب باتیں یعنی محبت اور الفت اورعزت اور تالیف رعایا کی گورنمنٹ کی طرف سے ظاہر ہو تی ہیں بہ وسیلہ ان حکام معتمد کے جو ہماری گورنمنٹ کی طرف سے ہندوستان کی کارپردازی اور رعایا سے معاملہ اورمیل جو ل اور ملاقات رکھتے ہیں۔ گورنمنٹ کا ارادہ کیسا ہی نیک ہو وہ کبھی ظاہر نہ ہو گا جب تک یہ وگ اس کے ظاہر ہونے پر کمر نہ باندھیں۔ اگلے حکام متعہد کے عادات اور روش اور اخلاق بہت برخلاف تھے۔ حال کے حکام متعہد سے وہ پہلے لوگ بہت عزت کرتے تھے ۔ ہندوستانیوں کی۔ ہر طرح سے خاطر دار ی کرتے تھے۔ ان کے دلوں کو اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے۔ دوستانہ ان کے رنج و راحت میں شریک ہوتے تھے۔ باوجود ے کہ وہ بہت بڑی سرداری اور حکومت ہندوستان میںرکھتے تھے اورتحشم اور رعب اور دبدبہ جو شان حکومت ہے‘ وہ بھی ہاتھ میں رکھتے تھے پھر ایسی محبت اور عزت ہندوستانیوں کی کرتے تھے کہ ہر ایک شخص مل کر ان کے اخلاق اور ان کی محبت کا فریفتہ ہو جاتا تھا اورتعجب سے کہتا تھا کہ یہ کیسے اچھے لوگ ہیں کہ باوجود اس کے حشمت و شوکت اور حکومت کے بے غرور ہیں اور کس طرح اخلاق سے ملتے ہیں۔ ہندوستان میں جو لوگ بزرگ گنے جاتے تھے ان سے اسی طرح پیش آتے تھے۔ بے شک ان لوگوں نے پطرس مقدس کی پیروی کی تھی اور برادرانہ محبت اور برادرانہ محبت پر الفت بڑھائی تھی۔ حال میں جو حکام متعہد ہیں ان میں سے اکثروں کی طبیعتیں اس کے برعکس ہیں۔ کیا ان سے غرور اور تکبر نے تمام ہندوستانیوں کو ان کی آنکھوں میں ناچیز نہیںکر دیا ہے؟ کیا ان کی بدمزاجی اوربے پروائی نے ہندوستانیوں کے دل میں بے جا دہشت نہیں ڈالی ہے؟ کیا ہماری گورنمنٹ کو نہیں معلوم کہ بڑے سے بڑا ذی عزت ہندوستانی حکا م سے لرزاں اور بے عزتی کے خوف سے ترساں نہ تھا؟ اور کیا یہ با چھپی ہوئی ہے کہ ایک اشراف اہل کار صاحب کے سامنے مسل بڑھ رہا ہے اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر باتیں کر رہا ہے کہ صاحب کی بدمزاجی اور سخت کلامی بلککہ دشنام دہی سے دل میں روتا جاتا ہے اورکہتا ہے کہ ہائے افسوس روٹی اور کہیں نہیں ملتی اس نوکری سے تو گھاس کھودنی بہتر ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ پطرس خط ۲ باب ۱ درس ۷۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میںسب حکام پر یہ الزام نہیں لگاتا بے شک ایسے حکام بھی ہیں کہ ان کی محبت اور ان کے اخلاق اور اوصاف سب میں مشہور ہیں اورتمام ہندوستانی ان کو چاند اور سورج کی طرح پہچانتے ہیں اور ان کو اگلے حکام کا نمونہ سمجھتے ہیں اور حقیقت میں وہ اسی نصیحت پر چلتے ہیں جو مسیح مقدس نے شمعوں مقدس اور اندریا کو فرمائی تھی۔ جب کہ وہ دریا میں مچھلیوں کے شکار کو جال ڈالتے تھے کہ میرے پیچھے چلے آئو‘ میں تم کو آدمیوں کا شکار کرنے والا بنائوں گا۔ انہوںنے اپنی نیک خصلت سے رعایا کو اپنی محبت کے جال مٰں کھینچ لیا ہے ۔ ان حاکموں نے اپنی حکومت کا رعب بھی رکھا ہے اور پھر بے جا غرور بھی رعایا کے ساتھ نہیں کیا‘ اور وہی مبارکی حاصل کی جو مسیح نے فرمائی تھی ’’مبارک وہ ہیں جو دل میں بے غرور ہیں اس لیے کہ آسمان کی بادشاہت ان ہی کی ہے‘‘۲۔ ان حاکموں نے اپنا حلم انصاف والا رعایا کو بتایا اور زمین پر حکومت کی۔ جیسا کہ یسوع مقدس نے فرمایا تھا ’’مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں ا س لیے کہ زمین کے وارث ہوں گے‘‘۳۔ ان حاکموں نے اپنی روشنی عیسیٰ مسیحؑ کے قول کے بموجب اس طرح رعایا کو دکھلائی کہ ’’تمھاری روشنی آدمیوں کے سامنے ویسی ہی چمکے۔ تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کا جو آسمان پر ہے شکر کریں‘‘۴۔ اس قسم کے حاکم اگرچہ کم تھے مگر جہاں تھے عزیز تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ متی باب ۴ ورس ۱۹۔ ۲۔ متی باب ۵ ورس ۳۔ ۳۔ متی باب ۵ ورس ۵۔ ۴۔ متی باب ۵ ورس ۱۶۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کو یہ باتیں زیادہ ناگورتھیں اور اس کا سبب اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ یہ باتیں ہر ایک قوم کے لوگوں کو ناگوار تھیں مگر مسلمانوں کو زیادہ گراں گزرتی تھیں۔ مگر اس کا سبب بہت روشن ہے کہ صدھا سال سے مسلمان ہندوستان میں بھی باعزت چلے آتے ہیں۔ ان کی طبیعت اور جبلت میں ایک غیرت ہے دل میں لالچ روپیہ کی بہت کم ہے‘ کسی لالچ سے عزت کا جانا نہیں چاہیے۔ بہت تجربہ ہوا ہو گا کہ اور قوم والے جو باتیں بغیر رنج اٹھا لیتے ہیں مسلمانوں کو اس سے بھی ادنیٰ بات کا اٹھانا نہایت مشکل ہوتا ہے‘ ہم نے مانا کہ مسلمانوں میں یہ خصلتیںبہت بری ہیں مگر مجبوری ہے۔ خدا نے جو طبیعت بنائی ہے وہ بدلی نیں جاتی‘ اس میں مسلمانوں کی بدبختی سہی مگر کچھ قصور نہیں۔ یہی رنج تھے جن کے باعث تبدل عمل داری کو دل چاہتا تھا۔ سرکار کے خلاف خبریں سن کر دل خوش ہوتا تھا۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ہماری گورنمنٹ کو مسلمانوں کی بھلائی سے اغماض نہ تھا۔ ان کی لیاقت اور تعلیم انکا ادب سب پیش نظر تھا۔ مگر یہ لوگ اس سے بے خبر تھے اورہماری گورنمنٹ کا ارادہ اور دلی نیت حکام کے وسیلے سے ظاہر نہیں ہوتی تھی۔ ہندوستانیوں کی ترقی کا نہ ہونا اور لارڈ بنٹنگ نے جو ترقی کی وہ کافی نہ تھی اہل ہند علی الخصوص مسلمانوں کی ناراضی کا بڑا سبب یہ تھا ک اعلیٰ عہد ہ جات پر ترقی بہت کم تھی۔ بہت ہی کم زمانہ گزرا ہے کہ یہ لوگ تمام ہندوستان میں معزز تھے۔ بڑے بڑے عہدے پاتے تھے۔ ان کا عزم اور ان کا ارادہ اب بھی ویسا ہی تھا ۔ اسی طرح اپنی قدر منزلت کی ترقی چاہتے تھے اور ظاہر میں کوئی صورت نظر نہ آتی تھی ابتدائے عمل داری میں سرکار جو لوگ خاندانی اور معزز تھے وے منتخب ہو کر عہدے پاتے تھے۔ رفتہ رفتہ ی یہ بات نہ رہ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ان لوگوں مٰں چنداں لیاقت نہ تھی۔ اس لیے امتحان کا قاعدہ ہماری رائے میں کسی طرح قابل الزام کے نہیں اورنہ درحقیقت کسی کو اس کا رنج ہے ۔اس میں کچھ شک نہیں کہ ہندوستان سے عمدہ اہل کار ہاتھ آئے مگر ایسے ایسے لوگ ان معزز عہدوں پر مقرر ہو گئے جو ہندوستانیوں کی آنکھوں میں نہایت بے قدر تھے۔ سرٹیفکیٹ ملنے میں خاندانی اور ذی عزت ہونے کا بہت کم لحاظ رہا۔ جس قدر ہندوستانیوں کی ترقی لارڈ بنٹنگ صاحب بہادر نے کی اس سے زیادہ پھر نہیں ہوئی‘ کچھ شک نہیں ہے کہ وہ ترقی بہ سبب قلت عہدہ جات کے نہایت ناکافی تھی۔ بڑے بڑے اعلیٰ حاکم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ جیسی ترقی ہندوستانیوں کی چاہیے تھی ویسی نہیں ہوئی۔ بادشاہانہ دربار کا نہ ہونا اہل ہند کی قدیم عادت تھی کہ اپنے بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہوتے تھے۔ بادشاہ کی شان و شوکت اور تجمل اور تحشم دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ ایک قاعدہ جبلت انسانی میں پڑا ہے کہ اپنے بادشاہ اور مالک سے مل کر دل خوش ہوتا ہے‘ یہ بات جاننا ہے کہ یہ ہمارا اصل بادشاہ اورہمارا مالک ہے۔ ہم اس کے تابع اور رعیت ہیں علی الخصوص اہل ہند کو قدیم سے اس کی عادت پڑ ی ہوئی تھی جو اب تک نایاب تھی۔ لارڈ آکلنڈ اور لارڈ الن برا صاحب بہادر نے جو دربار کیے وہ بہت ہی مناسب تھے نواب گورنر جنرل بہادر اگرچہ دورہ میں دربار کرتے تھے‘ مگر ہندوستانیوں کی مراد تک پورا نہ تھا لارد آکلنڈ اورلارڈ الن برا صاحب بہادر نے البتہ شاہانہ دربار کیے۔ شاید ولایت میں یہ طریقہ کچھ ناپسند ہوا ہو‘ مگر حق یہ ہے کہ ہندوستان کے حالات کے مناسب تھا‘ بلکہ اب بھی جیسا چاہیے تھا ویسا نہ ہوا تھا۔ خدا ہمیشہ ہماری ملکہ معظمہ وکٹوریا کا محافظ رہے خدا ہمیشہ ہمارے ناظم مملکت ہند نائب مناب ملکہ معظمہ اور گورنر جنرل بہادر ہندوستان کا محافظ رہے ہم کو امید ہے کہ اب کوئی آرزو اہل ہند کی بے پور ی ہونے باقی نہ رہے گی۔ سچ ہے کہ حقیقی بادشاہت خدا تعالیٰ کو ہے‘ جس نے تمام عالم کو پیدا کیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی حقیق سلطنت کا نمونہ دنیا میں بادشاہوں کو پیدا کیا ہے تاکہ اس کے بندے اس نمونے سے اپنے حقیقی بادشاہ کو پہچان کر اس کا شکریہ ادا کریں ۔ اس لیے بڑے بڑے حکیموں اور عقل مندوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ جیسا کہ اس حقیقی بادشاہ کی خصلتیں داد و دہش اور بخشش اور مہربانی کی ہیں‘ اسی کا نمونہ ان مجازی بادشاہوں میں بھی چاہیے۔ یہی بات ہے کہ جس کے سبب بڑے بڑے عقل مندوں نے بادشاہ کو ظل اللہ ٹھہرایا ہے۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس طرح خداوند تعالیٰ کی بے انتہا بخشش اپنے تمام بندوں کے ساتھ ہے اسی طرح بادشاہوں کی بخش اور انعام اپنی ساری رعیت کے ساتھ چاہیے۔ اگرچہ ابتدا میں یہ بات خیال میں آتی ہے کہ ذرا ذرا سی بت میں انعام و اکرام دینا بے فائدہ خزانہ کا خالی کرنا ہے۔ مگر یہ بات یوں نہیں۔ بلکہ انعام و اکرام کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ رعیت کو اپنے بادشاہ کی محبت بڑھتی ہے۔ کلیہ قاعدہ ہے کہ الانسان عبید الحسان۔اس لیے تمام رعیت اپنے بادشاہ کا انعام و اکرام دیکھ کر اس سے خواہ مخواہ دلی محبت پیدا کرتی ہے اور اچھی اچھی خدمت گزاریوں اور خیر خواہیوں کا حوصلہ رکھتی ہے ۔ تاریخ کی کتابوں سے ظاہر ہے کہ اگلی عمل داریوں میں یہ بات بہت رائج تھی ہر ہر طرح سے انعام و اکرام رعایا کو اور سرداروں کو ملتا تھا۔ برے بڑے قیمتی خلعت اورعمدہ عمدہ تحفے اورنقد روپیہ اور زمین جاگیر انعام میں ملتی تھی۔ خاندانی آدمی خطاب پاتے تھے ہم چشموںمیں عزت پیدا ہوتی تھی۔ ان کے دل میں بڑے بڑے حوصلے آتے تھے اور ہندوستان کی رعایا اس بات کو بہت پسند کرتی تھی۔ بلکہ صدھا سال سے اس کے عادی ہو رہے تھے ۔ ہماری گورنمنٹ نے یہ سلسلہ بالکل موقوف کر دیا تھا۔ کسی شخص کو رعیت میں سے اس قسم کے ظاہری انعام و اکرام کی توقع نہیں رہی تھی اور اسی باعث سے تبدل عمل داری کو ان کا دل چاہتا تھا۔ یہاں تک کہ جب کبھی آنریبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے ٹھیکہ ختم ہونے اورملکہ معظمہ کی عمل داری ہونے کی خبر سنتے تھے تو خوش ہوتے تھے۔ اگلے بادشاہوں کے عہد میں انعام و اکرام دو قسم کا ہوتا تھا۔ ایک وہ جو ادشاہ اپنی عیاشی اور اپنی ناپسندیدہ خصلتوں کے پالنے میں خرچ کرتا تھا۔ یہ بات درحقیقت ناپسندیدہ تھی اور ہندوستانی بھی اس کو ناپسند کرتے تھے بلکہ پاجیوں اور غیر مستحقوں کے انعام سے ناراض ہوتے تھے۔ دوسری قسم کا انعا م وہ تھی جو بادشاہ اپنے خیر خواہوں نوکروں اور فتح نصیب سرداروں ‘ اپنی رعیت کے علماء اور صلحاء اور فقرا اور شعراء اور خانہ نشینوں اوربے رزقوں کو دیتا تھا۔ اس قسم کے انعام کی سب خواہش رکھتے تھے اور ایس کے نہ ہونے سے ناراض ہیںَ گو ان باتوں سے رعایا کم ہمت اور آرام طلب ہو جاتی ہے اور محنت کش اور قوت بازو سے روٹی کمانے والی نہیں رہتی اس لیے بادشاہ کو اس قسم کے انعام سے قطع نظر کر کے دوسری قسم کا انعام یعنی آزادی دینا بہتر ہے تاکہ ان کو خود روٹیکمانے کی گنجائش ملے ۔ یہ بات سچ ہے کہ مگر یہ انعام اس وقت جاری ہو سکتا ہے جب کہ رعایا آسودہ اور تربیت یافتہ ہو نہ یہ کہ وحوش سیرتوں کی ناک میں سے نکیل نکال کر بے آب و دانہ جنگل میں ہانک دیں کہ خود دانہ و پانی ڈھونڈ لو ۔ ان کا انجام کیا ہو گا بجز اس کے کہ گویا مر جائیں گے یا وہی وحشیوں کی سی حرکتیں کریں گے جس سے ہماری مراد ہندوستان کی یہ سرکشی ہے۔ جس قدر اصلی سرکشی ہندوستان میں ہوئی اس سے زیادہ دکھائی دی غصہ ایک ایسی چیز ہے کہ معاملات کی اصلیت کو آنکھ سے چھپا دیتا ہے۔ طبیعت انتقام اور سیاست کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے ۔ سچ ہے کہ جو وارداتیں ہندوستان میں ۱۸۵۷ء میں پیش آئیں اسی لائق تھیں کہ ہمارے کو جس قدر غصہ آئے اور جس قدر انتقام اور سیاست کریں سب بجا ہے۔ مگر ہندوستان کے حالات پر غور کرنا چاہیے کہ درحقیقت کس قدر سرکشی ہندوستان میں اصلی تھی اورکیوں اس قدر بڑھ گئی تھی اورکیوں اس قدر دکھائی دی‘ اور بدنصیب مسلمان کیوں زیادہ مفسد بعض اضلاع میں دکھائی دیے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ صدھا سال سے عمل داری ہندوستان میں تزلزل تھا۔ رعایائے ہندوستان کو یہ موروثی عادت تھی کہ جب کوئی امیر یا بادشاہ زادہ تابو یافتہ ہو کر اس کے ساتھ ہزاروں آدمی جمع ہو گئے۔ اس کی نوکری کو ا س کی طرف سے عاملی کو ‘ اس کی طرف سے انتظام کو کسی طرح اپنا قصور نہیں سمجھتے تھے۔ ہندوستان میں یہ ایک مشہور مثل ہے کہ نوکری پیشہ کا کیا قصور۔ جس نے نوکر رکھا تنخواہ دی اس کی نوکری کی۔ البتہ جب سردار اٹھایا جائے اور اس کی جگہ دوسرا سردار قائم ہو۔ اس کی اطاعت نہ کرنے کو قصور سمجھتے تھے۔ ہندوستان کے امیروں اور سرداروں کی عادت‘ علی الخصوص ان کی جو قبل عمل داری سرکار کے ہندوستان پر متسلط تھے اور جس کے سبب ہندوستان طوائف الملوک ہو رہا تھا یہی تھی کہ ملازمین سیف و قلم سے کسی طرھ مزاحمت نہ کرتے تھے۔ وہی عادت تمام ہندوستان کے لوگوں کو پڑی تھی۔ جب ہندوستان میں مفسدوں نے سر اٹھایا اورلوگوں کو نوکر رکھنا چاہا ہزاروں آدمی جو روٹی سے محتاج اور نوکریوں کے خواہش مند تھے جاکر نوکر ہوئے ۔ سب کہتے تھے کہ ہمارا کیا قصور ہے۔ ہم تو نوکری پیشہ ہیں‘ عام رعایا میں سے بہت سے لوگ اس اپنی قدیمی عادت سے کہ اب جو سردار ہے اس کی اطاعت کریں‘ ہم تو رعیت ہیں جو زبردست ہے ا س کے تابع ہیں باغیوں کے تابع ہو گئے بہت سے اہل کاران سرکاری یہ سمجھے کہ باغیوں سے ظاہر داری کر کے جان بچائیں اور جب ساکار کا تسلط ہو پھر سرکارکے تابع ہوں وہ بھی محروم ہو گئے۔ حالانکہ کہ شک کا مقام نہیں کہ وہ دل سے سرکار کے تاب تھے۔ اکثر لوگوں اور اہل کاروں سے دفعتہ مجبوری خواہ نادانی خواہ بہ مقتضائے بشیرت کوئی بات ہو گئی انہوں نے خیال کیا کہ اب ہمارے اس قصور اتفاقیہ یا مجبورانہ یا جاہلانہ سے سرکار دربزر نہیں کرے گی۔ اور سزا دے گی۔ اس خوف اور ڈر سے لاچار باغیوں کے ساتھ جا شامل ہوئے۔ بہت سے آدمیوں نے درحقیقت کچھ نہیں کیا تھا مگر بہ خوف اور بہ سبب اور خیالات چند در چند باغیوں میں مل گئے۔ بہت لوگوں نے اس زمانہ میں وہ باتیں کیں جن باتوں کو وہ لوگ اپنے ذہن اور اپنی سمجھ میںں جرم مخالف سرکار نہیں سمجھتے تھے۔ اگر تمام ہندوستان کے حالات بغاوت پر نظر کی جائے گی تو ہم کو یقین ہو کہ دونوں قومیں جو ہنمدوستان میں بستی ہیں‘ برابر بلکہ ایک سے زیادہ ایک اور ایک سے زیادہ ایک اس فساد میں نظر پڑیں گی اور اس کے اثبات پر تمام حالات ہندوستان کے گواہ موجو د ہیں مگر جن اضلاع میں مسلمانوں زیادہ تر مفسد دکھائی دیے اس کاسبب صرف یہی نہیں خیال کرنا چاہیے کہ دلی کی سلطنت پر مسلمان بادشاہ نے دعویٰ نہیں کیا تھا اور درحقیقت مسلمان اسی قدر مفسد ہوء تھے جیسا کہ نظر پڑے۔ نہیں حکام کا مزاج دفعتہ ان باتوں سے جو ظاہر میں مسلمانوں سے ہوئیں ناراض ہو گیا۔ ان کے مخالفوں کو بڑی گنجائش ہو گئی۔ خود غرضانہ باتیں پیش کرنے کو تھوڑی بات کو بہت بڑھا کر کہا۔ ادھر حکام کو زیادہ ناراضی ہوئی‘ ادھر مسلمانوں کو زیادہ تر خوف اور مایوسی ہوئی اور اپنی تقدیر کے جتنے تھے اس سے زیادہ مفسد دکھائی دیے اس میں کچھ شک نہیں کہ پانچویں قسم کی بغاوت مسلمانوں میں تھی اوروہ تبدل عمل داری کے خیال سے بہت خو ش ہوتے تھے۔ جس کا سبب ہر ایک مقام پر ہم بیان کرتے آئے ہیں ۔ باایں ہمہ ہماری گورنمنٹ پر مخفی نہ ہو گا کہ اس حال پر بھی جاں بازی کی خیر خواہیاں اس ہنگامہ میں کس سے زیادہ ظہور میں آئی ہیں۔ خدا کے آگے جس کو حقیق بادشاہت ہے اور دنیا کے بادشاہوں ک آگے جن کو مجازی سلطنت ۱ خداوند نے عطا کی ہے سب گنہگار ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ زبور ۴۳ ورس ۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ فرمایا دائود مقدس علیہ السلام نے کہ اے خداوند! اپنے بندے سے حساب نہ لے۔ کیوں کہ کوئی جان دار تیرے حضور بے گناہ ٹھہر نہیں سکتا‘ اے خدا اپنے کامل کرم سے مجھ پر رحم کر اور اپنے رحموں کی فراوانی سے میرے گناہ مٹا دے‘ مجھے میری برائی سے خوب دھو اورمجھے میرے گناہ سے پاک کر آمین۱۔ ملکہ معظمہ کا اشتہار نہایت قابل تعریف ہے بلکہ خدا کے الہام سے جاری ہوا ہے خداوند ہمیشہ ہماری ملکہ معظمہ وکٹوریا کا حافظ ہے میں بیان نہیںکر سکتا۔ خوبی اس پر رحم اشتہار کی جو ہماری ملکہ معظمہ نے جاری کیا بے شک ہماری ملکہ معظمہ کے سر پر خدا کا ہاتھ ہے۔ بے شک یہ رحم اشتہار الہام سے جاری ہوا ہے۔ ہندوستان کا بہت قدیم قاعدہ چلا آیا ہے کہ جب دارالسلطنت پر کوئی بادشاہ خواہ ازروئے استحقاق کے اور خواہ بغیر استحقاق کے قائم ہو ا سب سردار ملکوں کے اس کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اس ہنگامے میں بھی یہی ہوا کہ جب دلی کا بادشاہ تخت پر بیٹھا اور ملکوں میں خبر پہنچی کہ دلی کا بادشاہ نے تخت سنبھالا ہے سب نے بادشاہ کی طرف رجوع کی۔ جب کہ دلی کا بادشاہ پکڑ ا گیا اور وہ دار السلطنت جنھوں نے سر اٹھایا ہے اطاعت کریں گے ۔ شاید باغی فوج کے لوگ رہ جاتے۔ مگر یہ امر جو ظہور میں نہ آیا اس کا سبب لکھنا ہم اپنی اس رائے مٰں ضرور نہیں سمجھتے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ زبور ۵۱ ورس ۱‘۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل پنجم بد انتظامی اور بے اہتمامی فوج پنجم ۔ بد انتظامی و بے اہتمامی فوج ہماری گورنمنت کا انتظام فوج ہمیشہ قابل اعتراض تھا۔ فوج انگلشیہ کی کمی ہمیشہ اعتراض کی جگہ تھی۔ جب کہ نادر شاہ نے خراسان پر فتح پائی اورایران ‘ افغانستان ‘ دو مختلف ملک اس کے قبضے میں آئے اس نے برابر کی دو فوجیں آراستہ کیں ایک ایرانی قزلباشی دوسری افغانی جب ایرانی فوج کچھ عدول حکمی کا اراد ہ کرتی تو افغانی فوج اس کے دبانے کے لیے موجود تھی اور جب افغانی فوج سرتابی کی کوشش کرتی تو قزلباشی اس کے تدارک کے لیے موجود ہوتی۔ ہماری گورنمنٹ نے یہ کام ہندوستان میں نہیںکیا۔ ہم نے مانا کہ ہندوستانی فوج سرکار کی بڑی تابع دار اور خیر خواہ اور جاںنثار تھی مگر ی کہاں سے عہد ہو گیا تھا کہ کبھی اس فوج کے خلاف مرضٰ حکم نہ ہوگا۔ اورکسی حکم سے یہ فوج آزردہ خاطر نہ ہو گی۔ پھر در صورت ناراض ہو جانے اس فوج کے جیسا کہ ہوا کیا راہ رکھی تھی ہماری گورنمنٹ نے جس سے اس تمردی کا رفع دفع فی الفور ہو سکتا؟ مسلمانوں اور ہندوئوں کو مخلوط کر کے پلٹنوں میںنوکر رکھنا یہ بات سچ ہے کہ ہماری گورنمنٹ نے ہندومسلمان دونوں قوموں کو جو آپس میں مخالف ہیں نوکر رکھا تھا۔ مگر بہ سبب مخلوط ہو جانے کے ان دونوں قوموں کے ہر ایک پلٹن میں یہ تفرقہ نہ رہا تھا۔ ظاہر ک کہ ایک پلٹن کے جتنے نوکر ہیں ان میں بہ سبب ایک جا رہنے کے اور ایک لڑی میں مرتب ہونے کے آپس میں اتحاد اور ارتباط برادرانہ ہو جاتاتھا۔ایک پلٹن کے سپاہی اپنے آپ کو ایک برادری سمجھتے تھے اور اسی سبب سے ہندوستان مسلمان کی تمیز نہ تھی۔ دونوں قومیں آپس میں اپنے آپ کو بھائی بھائی سمجھتی تھیں۔ اس پلٹن کے آدمی جو کچھ کرتے تھے سب اس میںشریک ہو جاتے تھے۔ ایک دوسرے کا حامی و مددگارہ ہو جاتا تھا۔ اگر مسلمانوں کی جدا پلٹن ہوتی تو شاید مسلمانوں کو کارتوس کاٹنے میں عذر نہ ہوتا اگر انہیں دونوں قوموں کی پلٹنیں اس طرح پر آراستہ ہوتین کہ ایک پلٹن نرمی ہندوئوں کی ہوتی جس میں کوئی مسلمان نہ ہوتا اور ایک پلتن نری مسلمانوں کی ہوتی جس میں کوئی ہندو نہ ہوتا تو یہ آپس کا اتحاد اور برادری نہ ہونے پاتی اور وہی تفرقہ قائم رہتا۔ اورمیں خیال کرتا ہوں کہ شاید مسلمان پلٹنوں کو کارتوس جدید کاٹنے میں بھی کچھ عذر نہ ہوتا۔ فوج ہندوستانی کا نہایت مغرور ہو جانااور اس کے اسباب فوج انگلشیہ کے کم ہونے سے رعایا کو بھی جو کچھ خوف تھا جو صرف ہندوستانی ہی فوج کا تھا۔ علاوہ اس کے ہندوستانی فوج کو بھی بے انتہا غرور تھا۔ وہ اپنے سوا کسی کو نہیں دیکھتے فوج انگلشیہ کی کچھ حقیقت نہیں سمجھتے تھے۔ تمام ہندوستان کی فتوحات صرف اپنی تلوار نہیں زور سے جانتے تھے۔ ان کا یہ قول تھا کہ برہما سے للے کر کابل تک ہم نے سرکار کو فتح کر دیا ہے۔ علی الخصوص پنجاب کی فتح کے بعد ہندوستانی فوج کا غرور بہت زیادہ ہو گیا تھا۔ اب ان کے غرور نے یہاں تک نوبت پہنچائی تھی کہ ادنیٰ ادنیٰ بات پر تکرار کرنے پر مستعد تھے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ فوج کے غرور اورتکبر کی یہاں تک نوبت پہنچی تھی کہ کچھ عجب نہ تھا کہ وہ کوچ اور مقام پر تکرار کرنے لگتی۔ ایسے وقت میں جب فوج کا یہ حال تھا کہ ان کے سر غرور اور تکبر سے بھرے ہوئے تھے اور دل میں یہ جانتے تھے کہ جب بات پر ہم اڑیں گے اور تکرار کریں گے خواہ مخواہ سرکار کو ماننا پڑے گا۔ ان کو نئے کارتوس دیے گئے جس میں وہ یقین کرتے تھے کہ چربی کا میل ہے اور اس کے استعمال سے ہمارا دھرم جاتا رہے گا۔ انہوںنے اس کے کاٹنے سے انکار کیا جب بارک پور کی پلٹن اس جرم میں موقوف ہو گئی اور حکم سنایا گیا تو تمام فوج نہایت رنجیدہ وہوئی کیوں کہ وہ یوں سمجھتے تھے کہ بہ سبب تخلل مذہب کے بارک پور کی پلٹن کا کچھ قصور نہ تھا۔ وہ محض بے قصور اور سرکارت کی ناانصافی سے موقوف ہوئی ہے۔ تمام فوج نہایت رنجیدہ تھی کہ ہم نے سرکار کے سات رفاقتیں کیں اپنے سر کٹائے۔ سرکار کو ملک در ملک فتح کر کے دیے اور سرکار ہمارا مذہب لینے کی درپے ہوئی۔ جنوری ۱۸۵۷ء کے بعد فوج میں صلاح اور پیغام ہوئے کہ کارتوس نہ کاٹیں گے اس وقت کچھ فساد نہ ہوا کیوں کہ فوج پر بجز موقوفی کے اور کچھ جبر نہ ہوا تھا۔ مگر تمام فوج کے دل میں کچھ تو بہ سبب یقین ہونے چربی کارتوس میں اور کچھ بہ سبب رنج موقوفی پلٹن بارک پور کے اور سب سے زیادہ بہ سبب غرور خود بینی اور اس خیال سے کہ جو کچھ ہیں ہم ہی ہیں مصمم ارادہ ہو گیا کہ ہم میں سے کوئی بھی کارتوس نہیں کاٹنے کا۔ اس میں کچھ ہی ہو جائے۔ بلاشبہ بعد واقعہ بارک پور آپس میں فوجیوں کے خط و کتابت ہوئی۔ پیغام آئے کہ کارتوس جدید کوئی نہ کاٹے۔ اب تک تمام فوج کے دل میں ناراضی اور غصہ تو تھا مگر میری رائے میں ابھی تک کچھ فاسد ارادہ نہیں تھا۔ میرٹھ میں سزائے نامناسب کا ہونا اور یہ سبب رنج اور غرور کے فوج کا سرکشی ہونا دفعتہ تقدیر سے کم بخت مئی ۱۸۵۷ء کی آ گئی۔ میرٹھ میں سپاہ کو بہت سخت سزا دی گئی۔ جس کو ہر ایک عقل مند بہت برا اورناپسند جانتا تھا۔ اس سزا کا رنج جو کچھ فوج کے دل پر گزر ا بیان سے باہر ہے وہ اپنے تمغوں کو یاد کر تے تھے اور بجائے اس کے بیڑیوں اور ہتکڑیوں کو پہنے وہئے دیکھ کر روتے تھے۔ وہ اپنی وفاداریوں کا خیال کرتے تھے اور پھر اس کے صلہ میں جو ان کو انعام ملا تھا دیکھتے تھے اور علاوہ وہ اس کے ان کا بے انتہا غرور جو ان کے سر میں تھا اورجس کے سبب وہ اپنے تئیں بہت ہی بڑا سمجھتے تھے ان کو زیادہ رنج دیتا تھا۔ پھر سب فوج مقیم میرٹھ کو یقین ہو گیا کہ یا ہم کو کارتوس کاٹنا پڑے گا یا یہی دن نصیب ہو گا۔ اسی رنج اور غصہ کی حالت میں دسویں مئی کو فوج سے وہ حرکت سرزدہ ہوئی کہ شاید اس کی نظیر بھی کسی تاریخ میں نہیں ملنے کی۔ اس فوج کو کیا چارہ رہا تھا۔ اس حرکت کے بعد بجز اس کے جہاں تک ہو سکے مفسدے پورے کرے۔ بعد فساد میرٹھ کے فوج کو گورنمنٹ کا اعتبار نہ رہا جہاں جہاںفوج میں یہ خبر پہنچی تمام فوج زیادہ تر رنجیدہ ہوئی۔ میرٹھ کی فوج سے جو حرکت ہوئی تھی اس سے تمام ہندوستانی فوج نے یقین جان لیا تھا کہ اب سرکار کو ہندوستانی فوج کا اعتبار نہ رہا۔ سرکار وقت پا کر سب کو سز ا دے گی اور اس سبب سے تمام فوج کو اپنے افسروں کے فعل اور قول کا اعتبار اور اعتماد نہ تھا۔ سب آپس میں کہتے تھے کہ اس وقت تو یہ ایسی باتیں ہیں ۔ ب وہ نکل جائے گا تو یہ سب آنکھیں بدل لیں گے۔ میں بہت معتبر بات کہتا ہوں کہ دلی میں جو فوج باغی جمع تھی اس میں سے ہزاروں آدمیوں کو اس بے جا حرکت اور بے فائدہ بغاوت کا رنج تھا۔ وہ روتے تھے اور کہتے تھے کہ ہماری قسمت نے یہ کام ہم سے کرایا ۔ پھر بہت افسوس کرتے تھے اورکہتے تھے کہ اگر ہم نہ کرتے تو کیا کرتے۔ ایک نہ ایک دن سرکار ہم کو تباہ کر دیتی کیوں کہ سرکار کو اب ہندوستانی فوج پر اعتماد نہیں رہا تھا۔ وہ قابو کا وقت جب پاتے ہم کو تباہ کر دیتے۔ ابتدائے غدر میں جب ہنڈن پر فوج کشی کا ارادہ وہا ہے ہنوز فوج روانہ نہ ہوئی تھی کہ بعضے آدمیوں کی صاف رائے تھی کہ جس وقت دلی پر فوج سے لڑائی شروع ہوئی بلاشبہ تمام ہندوستانی فوج بگڑ جائے گی۔ چناں چہ یہی ہوا۔ سبب اس کا یہی تھا کہ فوج سے لڑائی شرو ع ہونے کے بعد ممکن نہ تھا کہ باقی فوج سرکار سے مطمئن رہتی۔ وہ ضرور سمجھتی تھی کہ جب ہمارے بھائی بندوں کو مار لیں گے تب ہم پر متوجہ ہوں گے۔ اس لیے سب نے فساد پر کمر باندھ لی اوربگڑتے گئے ۔ جن کے دل میں کچھ فساد نہ تھا وہ بھی بہ سبب شامل ہونے فوج کے اس جتہے سے الگ نہ ہوسکے۔ ہندوستانی رعایا جانتی تھی کہ سراکار کے پاس جو کچھ ہے وہ ہندوستانی فوج ہے۔ جب تمام فوج کا بگڑنا مشہور ہو گیا سب نے سر اٹھایا۔ عمل داری کا ڈر دلوں سے جاتا رہا اور سب جگہ فسادبرپا ہو گیا۔ پنجاب میں سرکشی نہ ہونے کے سبب اب ہماری اس رائے کو پنجاب کے حالات پر تولو۔ پنجاب کے مسلمان بہت ستم رسیدہ تھے سکھوں کے ہاتھ سے۔ سرکاری عمل داری سے ان کا چنداں نقصان نہ ہوا تھا۔ سرکار نے پنجاب میں ابتدائے عمل داری میں بہت تشدد کیا تھا۔ اور اب دن بدن رفاہ کرتی جا رہی تھی۔ برخلاف ہندوستان کے کہ یہاں بالعکس تھا۔ ابتدائے عمل داری میں تمام ملک کے ہتھیار لے لیے گئے۔ کسی کو قابو فساد کا نہ رہا تھا۔ اگرچہ وہ تمول سکھوں کو جو پہلے تھا نہ رہا تھا۔ مگر ان کا کمایا ہو اروپیہ جو ان کے پاس جمع تھا ابھی خرچ ہو چکا تھا اوروہ مفلسی جو ہندوستان میں تھی وہاں ابھی نہیں آئی تھی۔ اس کے سوس تین سبب اور بہت قوی تھے جو پنجاب نہ بگڑا اول یہ کہ فوج انگلشیہ وہاں موجود تھی۔ دوسرے یہ کہ وہاں کے حکام کی ہوشیاری سے دفعتہ بے خبری میں ہندوستانی فوج کے ہتھیار لے لیے گئے۔ یہ سبب طغیانی اورکثرت سے واقع ہونے دریائوں اوربند ہوجانے گھاٹوں کے ہندوستانی فوج بے قابو ہو گئی فوج کا فساد برپا نہ ہو سکا تیسرے یہ کہ تمام سکھ اورپنجان اور پٹھان جن سے احتمام فساد کا تھا سرکار میں نوکر ہو گئے تھے اورلوٹ مار کا لالچ اس پر مزید تھا۔ جو بات رعایائے ہندوستان اور روزگار پیشہ کو باغیوں کے ہاں بہ مشکل اور بذلت حاصل ہوتی تھی وہ اہل پنجاب کو سرکار کے ہاں بہ عزت و بلا دقت نصیب تھی۔ پھر حالات پنجاب کے ہندوستان کے حالات کے بالکل مخالف تھے۔ ترجمہ چٹھی پادری ای ایڈمنڈ جس کا ذکر سرسید نے اس مضمون میں کیا ہے بخدمت تعلیم یافتہ باشندگان ہند معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ اس مضمون پر سرگرمی کے ساتھ غور کیا جائے کہ سب لوگوں کو ایک ہی مذہب اختیار کرنا چاہیے یا نہیں۔ ریلیں دخانی جہاز اور تار برقی نہایت تیزی کے ساتھ دنیا کی تمام قوموں کو ملا رہی ہیں جس قدر زیادہ قومیں ملتی جاتی ہیں اسی قدر زیادہ اس نتیجہ کا یقین ہوتا ہے کہ تمام لوگوں کی ایک ہی حاجتیں اور ایک ہی اندیشے اور ایک ہی امید و بیم ہیں اوریہ بات بھی بہت متیقن ہے کہ موت سب کے لیے اس سین کو ختم کر دیتی ہے توپھر کیا ایسے مسائل نہیں ہیں جن سے زندگی کے رنج اورتفکرات کم ہو سکیں اور جن سے تمام لوگوں کو موت کے وقت آرام مل سکے؟ کیا یہ فرض کر لینا معقول ہے کہ ہر ایک قوم کو رجماً بالغیب محض قیاس کے ذریعہ سے اپنے واسطے راستہ نکالنا چاہیے؟ یا جس خدا نے سب کو بنایا ہے اس نے اپنے خاندان کے مختلف لوگوں کے لیے موجودہ اور آئندہ خوشی حاصل کرنے کے واسطے مختلف طریقے مقرر کیے ہیں ؟ بے شک یہ بات نہیں ہو سکتی۔ پس مذہب عیسویں ہی ایسا مذہب ہے جو خد ا کے پاس سے براہ راست الہام کے ذریعے سے آنے کا دعویٰ کرتا ہے اور یہی ایسا مذہب ہے جس سے اس دنیامیں اور دوسری دنیا میں جس کا حال اس سے منکشف ہوتا ہے خوشی حاصل ہو سکتی ہے۔ دنیا کے کسی دوسری مذہب سے اس مذہب کو ممتاز کرنے کے لیے اس میںیہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ یہ انسان کے دل اور عقل سے پیدااپیل کرتا ہے ۔ اوردنیا میں صرف یہی مذہب ہے جو محض دلیل کے زور سے پھیلا ہے۔ جو قومیں اس مذہب پر اعتقاد رکھتی ہیں وہ سب سے زیادہ غور و خوض کرنے والی اور دنیا میں سب سے زیادہ شائستہ ہیں۔ پس بہرکیف اس مذہب کو حق حاصل ہے کہ اس پر غور کی جائے۔ چوں کہ ہم نے خود اس سے نہایت ہی بڑی برکتیں حاصل کی ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں ک اور لوگوں کو بھی ان کے حاصل کرنے کی ترغیب کی جائے اور اس لیے یہ سنجیدہ اور سرگرم اپیل آپ سے کیا جاتا ہے کہ بہ طور خود آپ سے اس اہم مضمون کو امتحا ن کریں۔ اس مذہب کی تائید میںبے شمار دلیلیں ہیں‘ مگر اس مضمون میںان میںسے صرف ایک پر بحث کی جائے گی مگر وہ اس امر کو مستحکم کرنے کے لیے بالکل کافی ہو گی۔ ایک شخص یسوعؑ نامی ملک یہودیہ کے مقام پر بیت اللحم میںتقریباً ۱۱۵۹ برس گزرے پیدا ہوا تھا وہ عالی خاندان اور دولت مند نہ تھا لیکن اس نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ مجھ کو خدا نے بھیجاہے تاکہ میں لوگوںنے صرف وہی راستہ بتائوں جو خدا کی طر ف رہنمائی کرے۔ اس ملک میں تین سال وعظ کرتے پھرنے کے بعد سلطنت روما نے یہودی علماء کی درخواست پر اس کو مار ڈالا ۔ یہاں تک کہ سب مانتے ہیں جس طرح جولیس سیزر کی موت ایک امر واقعی ہے اسی طرح یسوع کی موت بھی ایک امر واقعی ہے۔ اور کسی شخص کو نہ ایک میں شبہ ہے نہ دوسرے میں۔ یہودی جو یسوع اور اس کی تعلیم کے سب سے بڑے دشمن ہیں اس پر فخر کرتے ہیں اور یہ سب سے بہتر شہادت ہے جس کی ہم سب خواہش کر سکتے تھے۔ اس کے پیرو کہتے ہیں کہ وہ مر کر دوبارہ زندہ ہوا۔ یہ ایک بڑا واقعہ ہے جس پر تمام مذہب عیسوی منحصر ہے۔ اگر یہ ایک بڑا واقعہ ہے جس پر تمام عیسوی منحصر ہے۔ اگر یہ سچا ہے تو انجیل بھی سچی ہے کیوں کہ کوئی شخص مر کر زندہ نہیں ہو سکتا جب تک خدا کی مدد شامل نہ ہو۔ اور خدا اس شخص کو ہرگز مردہ سے زندہ نہ کرے گا جس کی زندگی اور تعلیم اس کو پسندیدہ نہ ہو۔ اگر یہ غلط ہے تو انجیل بھی غلط ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ اصل انگریزی چٹھی بھی ۱۱۵۹ لکھا ہے ظاہراً یہ چھاپہ کی غلطی معلوم ہوتی ہے کیوں کہ پادری ای ایڈمنڈ کی چٹھی ۱۸۵۷ء میں شائع ہوئی تھی اور اس وقت عیسیٰ مسیح کی ولادت کے حساب سے یہی سنہ ہونا چاہیے تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نہایت ادب سے اور سرگرمی سے آپ کو تاکید کرتے ہیں کہ آپ اپنی تمام توجہ اس مسئلہ پر مبذول فرمائیں کہ آیا یسوع زندہ ہوا یا نہیں ہم کو اس امر پر گواہ لانے چاہئیں اور وہ حسب ذیل ہیں: پیٹر‘ جیمز‘ جان‘ متھیو‘ متھیاس‘ ٹومس‘ جیوڈ ‘ میری میگڈلین‘ کلیوفس اور پانسو اور جن کے نام اب معلوم نہیںہیںَ بہت سے ان میں سے خاص دوست تھے جو یسوع کی موت سے پہلے تین سال تک متواتر اس کے ساتھ رہے تھے اسلیے وہ اس کی شناخت میںغلطی نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے اس کی وفات سے پچاس دن کے اندر اندر آ کر ظاہر کیا کہ وہ اسی جگہ اور انہی لوگوں میں جنہوںنے اس کو مصلوب کیا تھا دوبارہ پیدا ہوا۔ اگرچہ اس بات کے ظاہر کرنے میںان کا کچھ فائدہ نہ تھا بلکہ ہر چیز کے کھو دینے کا خطرہ تھا۔ یہاں تک کہ جانوں کے بھی ضائع ہو نے کا احتمال تھا مگر اس پر بھی انہوں نے کئی ہزار آدمیوں کو اس بات کا یقین کرنے کی ترغیب دی کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں سچ ہے۔ یہاں تک کہ وہی لوگ جو اس کو نہیں مانتے تھے اور حقیر سمجھتے تھے اور اس سے نفرت کرتے تھے اب اس کے نام کی عزت اور پرستش کرنے لگے۔ جب تک وہ زندہ ہے نہ صرف یہودیہ میں بلکہ تمام سلطنت روما میں اس واقعہ کا ذکر کرتے رہے بہت سے لوگوں نے اپنی صداقت کو اس طرح ثابت کیا کہ اس بات کے کہنے کے عوض میں اپنے لیے موت اور سخت اذیت گوارا کی جب کہ وہ صرف یہ کہہ کر چھوٹ سکتے تھے کہ یہ بات جھوٹ ہے۔ اگرچہ وہ جاہل اور ان پڑھ تھے مگر انہوںنے تمام سلطنت روما میں ہزاروں کو ایسی ترغیب دی کہ وہ ان کا یقین رکنے لگے اور اپنے مذہب ترک کر کے باوجود لوگوں کی نفرت اورقتل ہونے کے اس مذہب کو جس کی وہ تعلیم دیتے تھے قبول کر لیا۔ وہ دنیاوی آرام و عزت کا وعدہ نہیں دلاتے تھے کہ جس سے لوگوں کو ان کا یقین کرنے کی ترغیب ہو بلکہ معاملہ برعکس تھا۔ ان کے نزدیک یہ کافی نہ تھا۔ کہ ان کے خیالات کی برائے نا م پیروی کی جائے بلکہ وہ انکسار اورپاکیزہ زندگی چاہتے تھے جیسے قدرتاً سب لو گ ناپسند کرتے ہیں وہ کہتے تھے کہ یہ دنیا مذہب بھی کسی کو (مرنے سے ) نہیں بچا سکتی۔ اگرچہ وہ ان کو خود اس بات سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا تھا اور دوسروں کو بھی یہی تعلیم دی کہ ان کو بھی کسی فائدہ کی امید نہیں رکھنی چاہیے تاہم انہوں نے یسوع مسیح کے دوبارہ زندہ ہونے کا ایسا موثر طریقے سے یقین دلایا کہ یہ مسئلہ جس کا ان پڑھ ماہی گیر غریب بخار کے بیٹے کی نسبت وعظ کیا کرتے تھے سلطنت روما کے زاویہ خمول سے تمام سلطنت میں ان کی موت کے بعد بھی پھیل گیا۔ اور اس نے ہر ایک مذہب کو اگرچہ زمانہ ہائے دراز سے اس کو مانتے چلے آئے تھے اکھاڑ پھینکا۔ یسوع مسیح کے دوبارہ زندہ ہونے کے ثبوت ہمارے پاس ان لوگوں کی شہادت موجود ہے جو اس مسئلہ کے واعظ نہیں ہوئے‘ ان سپاہیوں نے جو قبر پر پہرے کے لیے مقرر کیے گئے تھا اس واقعہ کو دیکھا اور (یہودی) عالموں سے اس بات کا تذکرہ بھی کیا۔ انہوں نے جسم کے غائب ہونے کی وجہ بتانے کے لیے جس کو سب تسلیم کرتے تھے ایک بے ہودہ حکایت کا گھڑ لینا ضروری سمجھا۔ صرف عوام الناس کی شہادت جس کی ہر شخص خواہش کر سکتا ہے ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ کہہ سکتے ہیںکہ کیا وجہ ہے کہ یسوع نے عام طور پر سب لوگوں کے سامنے اور خصوصاً ان لوگوں کے سامنے جنہوں نے اس کو مصلوب کیا تھا اپنے تئیں ظاہر نہیں کیا۔ اس کے مختلف وجوہات بیان کیے جا سکتے ہیں جو اس مسئلہ کی ماہیت سے جس کی وہ تلقین کرتے تھے اخذ کیے گئے تھے۔ ان وجوہات کا بیان کرنا اس وقت ناممکن ہے۔ لیکن یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اس شہادت کا ماجود نہ ہونا اس واقعہ کی سچائی پر کوئی اثر نہیں ڈالتا۔ اگرچہ بہت سے آدمیوں نے جو ا سکو خوب اچھی طرح جانتے تھے اس کو دیکھا‘ اس سے باتیں کیں اور اس کے ساتھ کئی موقعوں پر کھانا کھایا تو یہ سوال کرنا کہ کیا وجہ ہے اور لوگوں نے اس کو نہیں دیکھا درحقیقت ان کی شہادت کو متزلزل نہیں کر سکتا۔ جہاں کہیں وہ ظاہر ہوا تمام لوگوں نے جو اس وقت وہاںموجود تھے ا سکو دیکھا۔ چنانچہ ایک موقع پر پانسو آدمیوں تک نے دیکھا پس ظاہر ہے کہ یہ خیالی نہیں بلکہ واقعی بات تھی۔ ایک شخص مسمی ٹامس نے کہا کہ جب تک کہ میں اس کے ہاتھوں میں میخوں اور پہلو میں برچھے کے سوراخوں کو اپنے ہاتھ ڈال کر نہ دیکھ لوں گا اس وقت تک یقین نہ کروں گا کہ وہ ہمار ا پرانا دوست ہی ہے۔ مگر اس کی بھی تسلی ہو گئی۔ ہم نہایت سرگرمی کے ساتھ التجا کرتے ہیںکہ آپ ان واقعات پر غور کریں اور اگر شہادت میں کوء ینقص ہو تو ہمیں بتائیں ورنہ اس بات کو تسلی کریں کہ یسوع مسیح مردہ سے زندہ ہوا اور انجیل پر ایمان لائیں۔ یسوع مسیح کے دوبارہ جی اٹھنے سے سب لوگوںکو اس امر کا یقین ہوتا ہے کہ خدا نے ایک دن ایسا مقرر کیا ہے جب کہ وہ راست بازی میں دنیا کا انصاف کرے گا اور وقت تم اس کے سامنے کھڑے ہو گے اور تمہٰں اپنے بد خیالات بد الفاظ اور ابد اعمال کی جن کے تم مجرم ہوئے ہو جواب دہی کرنی پڑے گی۔ کیا تم ایسا کرنے کے لیے تیار ہو؟ کوئی متنفس نہیں ہے جو کہ تیار ہو لیکن جو شخص یسوع مسیح کو اپنا نجات دہندہ مانے گا اس کے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے۔ کیوں کہ اس اعتقاد کے ساتھ ہی پاکی بھی عطا ہوجاتی ہے۔ پس وہ اس خوف ناک دن کی جواب دہی کے لیے بھی تیار ہو جائے گا۔ چوں کہ تم اپنی ابدی خوشی کی قدر کرتے ہو اس لیے ہم تم کو تاکید کرتے ہیں کہ اس بڑے مضمون کی آزمائش کرو اور خدا سے دعا کرو کہ وہ روح القدس کی تعلیم کے ذریعے سے تم کو ٹھیک ٹھیک طور پر اس کام کو کرنے کے قابل بنا دے اس بات پر تخلیہ میں غور کرو اور اس کی آزمائش کرو اور دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر بھی جن کے نام یہی چتھی لکھی گئی ہے سوچو۔ اور اپنی توجہ کا مرکز صرف ایک امر پر مبذول رکھو کہ آیا وہ لوگ اعتبار کے قابل ہیں یا نہیں۔ جنہوںنے یہ کہا ہے کہ ہم نے یسوع مسیح کو مردہ سے زندہ ہونے کے بعد دیکھا۔ اگر ایسا کرو گے تو تم کو تمام اصول شہادتر سے اس بات کا یقین ہو جائے گا کہ یہ یسوع مسیح بے شک مر کر زندہ ہوا اور اس لیے انجیل سچی ہے اوریہی ایک خدا کی طرف سے الہامی کتاب ہے ۔ پس دلیر بنو اور کھلم کھلا ایمان لاو کیوں کہ مسیح نے خود کہا ہے ’’جو کوئی مجھ سے اور میرے لفظوں سے اس بدکاری اور گنہ گاری کی زندگی میں روگردانی کرے گا اس سے ابن آدم بھی جب وہ پاک فرشتوں کے ساتھ اپنے باپ کے جلال میں آئے گا روگردانی کرے گا‘‘ ہماری تمنا ہے کہ اس ملک میں گرجائوں کو ہندوستانیوں سے بھر اہوا دیکھیں جہاں نہ صر ف غیر ملک کے لوگ بلکہ تمہارے ہم وطن بھی انجیل کی خوش خبری کی باقاعدہ طور سے منادی کر یں ۔ وہاں عورتوں اور مردون کو بھی اپنے گناہوں سے توبہ کرنے اور اپنے خدا سے ملاقات کرنے کے لیے تیار ہونے کی تاکید کی جائے گی۔ وہاں بچوں کو اخلاق اور سچائی کی تعلیم دی جائے گی اور اس دنیا میں اپنے چال چلن کی درستی کرنے اور دوسری دنیا کے لائق بنانے کے واسطے پاکی اور نجات کے سبق پڑھائے جائیں گے اوروہاں یہ بھی بتایا جائے گا کہ موت اب ایسا دشمن نہیں رہا جس سے آئندہ ڈرنا چاہیے کیوں کہ ہمارے نجات دہندے یسوع مسیح نے اس کا ڈنک نکال دیا ہے اور اس کو نیست و نابود کر کے انجیل کے ذریعے زندگی اور حیات ابدی کو روشن کر دیا ہے۔ خدا ہی نے ہم کو یقین دلایا ہے کہ اب بھی یہی حال رہے گا۔ ہم اس وقت کے آنے کی خواہش کرتے ہیں جب کہ لوگ اس کو بخوبی سمجھ جائیں گے کیوںنہ اسی نسل میں یہ بات ہو؟ کیا یہ احمقانہ دزلیل اور خراب بت پرستی کے مقابلے میں جس سے یہ زمین آلودہ ہو رہی ہے بے حد ترقی نہیں ہو گی۔ ہم تم کو عقل مند سمجھ کر کہتے ہیں۔ جو کچھ ہم کہتے ہیں اس کو جانچ لو۔ نقل اشتہار گورنمنٹ بنگال جس کا ذکر سرسید کے مضمون میں ہوا ہے دریں نزدیکی بسمع مبارک نواب معلی القاب لیفٹیننٹ گورنر بہادر بنگال چناں رسیدہ کے بعضے اشخاص از راہ تعصب و نادانی محض برائے حریانی و پریشانی جمہور خلائق چند سخناں بے اصل و نالائق متعلق بہ مذہب و ملت و رسم و طریقت ہنود و مسلمانوان چناں مشہور و اعلنا کردہ اند کہ باستماع خطرات پر خطر در دل مردماں جا کردہ جناب نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر را بسیار حیرت و حسرت است کہ سکنہ ایں ملک حقیقت را دریافت نہ کردہ صرف بافساد مفسدان چرا خود را زیر بار تشویش مے کنند لا جرم بذریعہ اشتہار عام حقیقت نفس الامری اختراعارت کہ بہ گوش حقیقت نیوش نواب محتشم الیہ در آمدہ مشتہر کردہ مے شود تا کافہ انام بر حقیقت حال و ار سند و بہ یقین معلوم نمایند کہ سرکار بہادر را نوعے در ملت و مذہب و طریق و رسم و راہ رعایا مداخلت و مزاحمت نیست و آئندہ را نیز نہ خواھد بود بلکہ حفاظت جان و مال و عزت و حرمت اینان پیش نہادست و مساعی جمیلہ دریں باب بہ کار مے آید و آمدنی است۔ اول ایں کہ بعضے پادریان کلکتہ بہ طریق طریقہ و وظیفہ معمولی خود افراد سوال دوبارہ مذہب و ملت بہ طریق مناظر ہ و مباحثہ چاپ کر دہ ملفوف بہ لفافہا عموما ً پیش ہندوستانیاں فرستادہ آن ھا از غلط فہمی خود انگاشتند کہ آنچناں مضامین باشارہ سرکار ابد پایدار بظہور رسیدہ حالاں کہ سرکار بہادر را ازاں ہیچ گونہ اطلاعے و آگاہی نیست و نیز ہرگز و ہر آینہ سرکار عالی اقتدار چنان نبودہ کہ ترغیب و تحریص کسے ا رعایا بسوئے ملت و دین خو د فرماید چہ ظاہر ست کہ رعایائے ایں ملک ہر قسم مردم اند و ملت و مذہب و کیش و آئین جداگانہ میدارند و رقبہ ایشاں تحت رقبہ اقتدار سرکار والا اقتدار ست و نظر لطف و کرم برحال آنہا مساوی و یکسان ست باوجود امتداد ملت سلطنت سرکار ابد اپائداد ہیچ وقتے مزاحمت و تعرض کیش و ملت کدامی اہل اسلام و دیگر مذہب بعمل نیامدہ و پادری صاحبان ایں قسم امور از طرف خود اجرا میکنند و ایں ہمہ گویا لوازمہ عادات معمولی شان ست چنانکہ مسلمانان و ہنودان در مساجد و معابد وعظ و نصائح میکنند و اظہار و ابراز امورات شرعی و ترغیب و اجتناب از نواحی میسازند و اگر تامل کردہ شود صاف واضح شد و ایں معنی سخنے نو و امرے جدید نیست بلکہ طریق مناظرہ و مباحثہ درمیان علمائے مختلف المذاہب ہموارہ جاری ست و از ہمچو امورات سرکار بہادر را ہیچ علاقہ نیست۔ دوم ۔ ایں کہ در بعض اخبار اخبار کردہ و در عوام نیز شہرت یافتہ است کہ بالفعل از طرف سرکار آں چناں قوانین جاری شدنی ست کہ ازاں رسم تعزیہ داری و مراسم ختنہ و پردہ نشینی زنان شرفا وغیرہ احکامات شرع و شاستر برافتد و یکسر موقوف گردد حالاں کہ ایں ہم غلط است و افترائے محض۔ سرکار بہادر را در راہ و رسم و کیش و مذہب کدامی کس دست اندازی منظور نیست بلکہ ایں معنی برخلاف طریقہ رعیت پروری کہ سجیہ مرضیہ سرکار بہادر ست بودہ است۔ سوم۔ ایں کہ صاحب سپرنٹنڈنٹ جیل خانہ بعضے اضلاع بلا اطلاع و واقفیت سرکار والا اقتدار حکم ستیدہ گرفتن ظروف اکل و شرف از قیدیان عیال و تصور تفرقہ و امتیاز در مصائب قید و راحت خانہ صادر کر دہ بود لیکن سرکار بہادر رامعلوم گردید کہ ایں امر نقصائے است در مذہب اناں و از لاعلمی مہتمم جیل خانہ آں چناں حکم صادر گردیدہ علی الفور بسبیل ڈاک برقی حکم محکم موقوفی آں صادر گشت۔ چہارم۔ ایں کہ بسمع معدلت مجتمع در آمد کہ سکنہ ایں مملکت بنائے اسکول و اسباب علوم و تحصیل فنون و ترویج زبان انگریزی را اسباب تبدیل ملت و تخریب بنائے دین و مذہب می پندارند و ازیں جاست کہ بسے از مردمان در تحصیل علم و تکمیل فنون تعلل و تہادن می کنند و بعض اشخاص بفرستادن اطفال در اسکول مضائقہ می دارند ظاہرا منشائے آں جز نامفہمی و بے دانشی نیست و الا اصل این ست کہ ہر گاہ بحضور سرکار والا اقتدار متحقق گردید کہ رعایائیء ایں مملکت بہ سبب بے علمی و بے ہنری از طریقہ کسب معاش چناں بے خبر اند کہ از اوقات گزاری خود ہا با راحت و آسائش معذور ان لا جرم بحم والائے جناب ملکہ انگلستان کہ از راہ تفضلات خروا نہ صدو ریافت برائے تعلیم و تربیت آنہا باہتمام تمام و صرف مالا کلام در ہر یک اضلاع و امصار مدارس سکول و کالج بنا گردید و در ہر ضلع صاحبان بعہدہ انسپکٹر و بہ نیابت شان متعدد ہندوستانی برائے طریقہ تربیت معین گشتند و برائے درس و تدریس و تعلیم کسب و علوم و فنون زبان انگریزی وغیر ہ آں تاکیدمزید شد تا باشندگان ایں ملک عموماً از جہل و بے دانشی وارفتہ بہ تحصیل علم و دانش بہ خوبی تحصیل معاش نمائند و از تنگنائے تنگی و عسرت برآمدہ با مسرت و عشرت صرف اوقات خود ہا نمایند۔ مخفی نیست کہ باشندگان ملک یوروپ یعنی ولایت انگلشیہ باعث تحصیل علوم ہرگونہ امورات را از رسائی عقل رسائے خود بہ خوبیہائے تمام انجام می دہند۔ بہ خلاف اھالی ایں دیار کہ باعث بے علمی و بے دانشی بے سلیقہ محض اند اگر علم و ہنر و فہم و دانش در ایناں شائع گردد ہر یکے لوازمہ آسائش و آرام را جامع شود وتشریف شاہی را کماہی نہ دریافتن و نیکی را بجائے خود حمل نہ کردن چہ قدر افسوس و حسرت است کہ بشرح نمی آید جناب لیفٹیننٹ گورنر بہادر چناں قیاس می فرمایند کہ بنائے ایں ہمہ خیالات فاسدہ براہ غلط فہمی ست نہ ازروئے تعصب و بد باطنی ۔ باید دانست کہ غرض سرکار بہ تربیت و تعلیم انگریزی آں نیست کہ حرفے بردین و آئین شاں در آید بلکہ ہر کس مجازست کہ علم و ہنر کہ مرغوب و مطبوع باشد و باعث فائدہ داند بہ تحصیل آں بپروازد مگر ایں ہم دانستنی ست کہ بالفعل بہ زبان انگریزی کتب و رسائل ہر فن موجو د ست و ہمیشہ تجربہائے متعدد و اختراعات نو بہ نو بر روئے کار می آیند کہ بزبان دیگر حاصل نیست و زبان انگریزی زبان والی ملک و صاحب سلطنت ست و در عدالت ہا باعث افہام و تفہیم عوام زبان مروجہ ایں ملک جاری ست دریں صورت تحصیل و تکمیل زبان انگریزی و اردو بنگلہ برائے حصول معاش و ترقیات حرمت و عزت و اقبال بلاشک ست و از واجبات است۔ مخفی مباد کہ از آوانے کہ نواب معلیٰ القاب لفٹیننٹ گورنر بہادر احوال ایں دیار را بہ چشم خود دیدہ و از اکثر اشخاص شنیدہ ہمت والا نہمت محتشم الیہ بہ فکر و درستی اوضاع باشندگان ایں ملک و بہ ایجاد طریق تعلیم و تربیت و آرام و آسائش در حفظ عز و حرمت ہر یک عموماً مصروف ست و از غایت مہربانی و دل سوزی اصلاح حال شرفا و نجبا و زمینداراں و رعایا خصوصاً مد نظر ست۔ لہٰذا اشتہار دادہ می آید کہ ہمگنان سکنہ ایں ملک بر نیک نیتی وبلند ہمتی سرکار والا اقتدار واقف و مطلع بودہ شکر کدا بجا آرند و باطمینان تمام اوقات خود ہا بسر کردہ بہ دعائے دوام دولت ابد مدت سرکار دولت مدار مصروف باشند۔ ٭٭٭ ڈاکٹر ہنٹر کی غلط فہمیوں کا ازالہ ۱۸۵۷ء کے قیامت خیز ہنگامہ کے ۱۴ برس بعد ۱۸۷۱ء میں بنگال کے ایک معزز سرکاری افسر ولیم ہنٹر آئی سی ایس نے مسلمانوں کے خلاف انگریز حکمرانوں کے دلو ںمیں نفرت اور حقارت پیدا کرنے کے لیے انگریزی میں ایک کتاب Our Indian Musalmans (ہمار ے ہندوستانی مسلمان) کے نام سے لکھی جس کا موضع یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمان انگریزون سے لڑنا اور ان پر جہاد کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ نیز بغاوت اور وہابیت مترادف الفا ظ ہیں جو وہابی ہو گا وہ ضرور باغی ہو گا ( اس وقت ہندوستان میں وہابیت کا بڑا زور شور تھا) سرسید نے جب یہ کتاب دیکھی تو ان کا حساس دل تڑپ اٹھا اور باوجود گونا گوں سخت مصروفیات کے انہوں نے اس اشتعال انگیز کتاب کا نہایت مدلل اور محققانہ جواب لکھا سرسید کا یہ مقالہ پہلے انگریزون کے مشہور روزنامہ پانیر الہ آباد میں چھپا۔ پھر سرسید نے اسے انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں اپنے اخبار علی گڑھ سائنٹفک سوسائٹی میں ۲۴ نومبر ۱۸۷۱ء سے ۲۳ فروری ۱۸۷۲ تک کے پرچوں میں بالا قساط شائع کیا ۔ اس مدلل جواب سے معقول پسند انگریزوں کا غصہ اور تعصب مسلمانوں کے برخلاف بہت حد تک کم ہو گیا۔ (شیخ محمد اسماعیل پانی پتی) آج کل علی العموم سب لوگوں کی توجہ ہندوستان کے مسلمانوں کے دلی خیالات کی جانب مائل ہو رہی ہے اوراس توجہ کی تین باتیں زیادہ باعث ہیں۔ ایک تو وہابیوں کے مقدمات اور دوسرے ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی وہ کتاب جو انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی بابت لکھی ہے اور تیسر ے مسٹر نارمن صاحب چیف جسٹس کا قتل … ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی کتاب (ہمارے ہندوستانی مسلمان) کا ہندوستان کے لوگوں میں بہت چرچا ہے اور تمام فرقوں کے لوگ اس کو نہایت شوق اور توجہ سے دیکھتے ہیں۔ چنانچہ میں نے بھی اس امید سے اس پیچید ہ معاملے میں جو عوام کے نزدیک ایک دقیق بات ہے مجھ کو کچھ روشنی حاصل ہو کیوں کہ میں نے یہ بات سنی تھی کہ اس کتاب کا مصنف مسلمانوں کا بڑا دوست اور نہایت بڑالائق عالم ہے۔ پس کوئی شخص اور خصوصاً کوئی مسلمان ایسا نہ ہو گا کہ جو اس لائق مصنف کی اس تصنیف کو دیکھ کر اس کی علمی لیاقت کا اقرار نہ کرے گا۔ اور اس کے طرز بیان کو مکالی صاحب کے طرز بیان کے موافق نہ خیال کرے گا۔ مگر ہماری دانست میں ایک ایسے مصنف کے واسطے جو ہندوستانیوں اور انگریزوں دونوں کی اطلاع کے واسطے ایک کتاب تصنیف کرے صرف علمی لیاقت ہی کافی نہیں بلکہ اس پر اس امر کی احتیاط بھی لازم ہے کہ وہ اپنے مضامین کو مضرت آمیز خیالات سے نہ رنگے اور جو قدر و منزلت ایک تاریخی کتاب کی ہونی چاہیے اس کا لحاظ کرے۔ میرے علم و یقین کے موافق ہندوستان کے بہت سے حاکم اس بات پر مطمئن ہیں کہ انگریزی علم ان کی کتابیں اور اخبار دونوں کا اثر ہندوستانی لوگوں کے دل تک نہیں پہنچتا۔ پس عام معاملات میں تو لاکھوں آدمیوں کی نسبت یہ یقین صحیح ہے مگر خاص خاص معاملات میں جیسے کہ مثلاً انگریزوں کی طبیعت کی جو کیفیت ہندوستانیوں کی نسبت ہے یا جو معاملات مذہب سے متعلق ہیں یا محصول وغیرہ سے متعلق ہیں ان حکام کا یہ یقین بالکل صحیح نہیں ہے کیوں کہ ہندوستانی لوگ ایسے معاملات تو نہایت غور و فکر کے ساتھ دیکھتے ہیں اور جن مضامین میں ان کی برائی اورذلت ہو یا جن باتوں سے ان کے خیالات کی غلط کیفیت معلوم ہوتی ہو ایسے مضامین کا ان کے دلوں پر یقین ہو جاتاہے ۔ اور انجام کار ان سے بد نتیجہ نکلتا ہے اور گو ایسی باتوں کو عام لوگ خود نہیں پڑھ سکتے مگر پڑھے لکھے لوگوں سے ان کو سن ضرور لیتے ہیں اور جب سن سنا کر آپس میں اس کا ذکر کیا جاتاہے تو پھر بہت مبالغہ کے ساتھ اس کو بڑھا دیتے ہیں اور اسی صورت سے بہت سے لوگ مذہبی معاملات وغیرہ پر نہایت شوق و رغبت سے رائے دیتے ہیں۔ جو بات کسی کتاب یا اخبار میں لکھی جاتی ہے اس کو عوا م الناس تمام انگریزی قوم کے خواہ وہ ملزم سرکار ہو یا نہ ہو ادنیٰ محرر سے لے کر صاحب گورنر جنرل بہادر باجلاس کونسل تک کی بلکہ خاص ملکہ معظمہ کی رائے سمجھتے ہیں اور جب یہ حالت ہے تو اہل تصنیف پر یہ بات واجب ہے کہ جب وہ کسی بڑے معاملے کو بیان کریں تو اول اس کی اصلی کیفیت کو نہایت درجہ کی احتیاط اور تحقیق سے دریافت کر لیا کریں اور بعد دریافت کے بھی وہ ایسے معاملات میں اہل تصنیف کے سے مبالغے یا اور قسم کی غلط بیانی کو کام نہ فرمایا کریں۔ بھلا جب ہم یہ بات اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ایک ایسے افسر نے جو نہایت علی رتبہ عہدہ پر ممتاز ہے اور جس پر سرکار کی بھی نظر مہربانی ہ یایسی باتیں اورغلط خیال مسلمانوں کی نسبت بیان کیے جاتے جیسے ہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی کتاب میں لکھے گئے ہیں تو ہم مسلمان خواہ مخواہ بھی سمجھیں گے کہ شاید تما م انگریز ڈاکٹر صاحب کی رائے سے متفق ہوں گے ۔ مجھ کو ڈاکٹر صاحب کی کتاب سے بڑی باتوں کی توقع تھی۔ لیکن بڑا افسوس ہے کہ میری توقع اور بھی بہت سے آدمیوں کی طرح مایوسی میں بدل کر رہ گئی اور گو ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کے بڑے دوست ہیں لیکن ان کی اس آخیر دوستی نے جو ان کی اس کی پچھلی کتاب سے ظاہر ہوتی ہے ہم لوگوں کو بڑا نقصان پہنچایا اور جب میں نے اس کتاب کو پڑھا تو برملا میں نے کہا کہ خدا مجھ کو میرے ایسے دوستوں سے بچائے۔ جو محبت اور مہربانی اس تمام کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے مسلمانوںکے ساتھ کی ہے بلاشبہ میںاس کو تسلیم کرتا ہوں اوراس محبت کے عوض میں مصنف کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ لیکن اس شکریے کے ساتھ عالی دماغ مصنف نے اپنی کتاب لکھی ہے اس طریقے سے اس نے اپنے تمام نیک ارادوں کو باطل کر دیا ہے اور ان سے اپنے قلم کی طاقت سے اس طرح کام لیا ہے جن سے انگریزوں کے دلوں میں مسلمانوں کی نسبت ( جو پہلے بھی کچھ عزیز نہیں تھے) اور بھی زیادہ کاوش پیدا ہو۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب لکھتے ہیں کہ میری اس کتاب کے مطالب صرف بنگلے کے مسلمانوں سے متعلق ہیں کیوں کہ میں نے صرف انہیں سے واقف ہوں مگر جو شخص اس کتاب کو دیکھے گا وہ اس کے بہت سے فقروں سے اس بات کا یقین کرے گا کہ مصنف مذکور نے کچھ خاص بنگالے کے مسلمانوں ہی کے حالات میں اپنی کتاب کو محدود نہیں کیا بلکہ اس نے تمام ہندوستان کے مسلمانوں کو شامل کر لیا ہے۔ چنانچہ اس کتاب کا عنوان ہی ہمارے اس بیان کا شاہد ہے۔ وہ عنوان یہ ہے : ’’ہمارے ہندوستان کے مسلمانوں پر کیا ازروئے ایمان کے ملکہ معظمہ سے بغاوت کرنا فرض ہے؟‘‘ علاوہ اس کے ان کتاب کے صفحہ گیارہ میں یہ فقرہ لکھا ہے کہ: ’’یہ مباحثے ایسے ہیں جن سے یہ بات معلوم ہو جائے کہ تمام مسلمان اپنے بغاوت سکھانے والے پیشوائوں کی زہر آمیز نصیحتوں کو نہایت شوق و ذوق سے سنتے ہیں اور ایسے آدمی بہت تھوڑے ہیں جو اپنی تیزی طبیعت سے اپنی شرع کا مطلب اورکچھ ٹھہرا کر بغاوت کے بڑے فرض سے بچ جاتے ہیں‘‘۔ بعد اس کے اسی صفحہ میں یہ لکھا ہے کہ : ’’ہندوستان کے مسلمان اب بھی ہندوستان گورنمنٹ انگریزی کے لیے موجب خطر ہیں جیسے کہ ایک مدت سے موجب خطر چلے آئے ہیں‘‘۔ پس گو مصنف مذکور صرف بنگالے کے مسلمانوں کی کیفیت سے واقف ہے مگر کیفیت وہ تمام ہندوستان کے مسلمانوں کی بیان کر تا ہے ۔ پس چوں کہ میںہندوستان کا ایک سیاح اور واقف کار باشندہ ہوں اس لیے مجھ کو چاہیے کہ میںڈاکٹر صاحب کی مخالفت اور اپنے ہم وطنوں کی طرف داری میں اپنی زبان کھولوں اور گو میں خوب جانتا ہوں کہ جو کام میں نے شروع کیا ہے اس میں مجھ کو نہایت سخت دقت پیش آئے گی اوروہ دقت ایسی ہی ہو گی جیسے کہ اس حالت میں ایک قم کے کسی معاملے کے موئیدوں کو پیش آیا کرتیہے جب کہ اس قوم کی نسبت کسی غیر قوم کے آدمی نے بلا جھجک کے ایک رائے قائم کر دی ہو۔ اب میں بشپ آف منچسٹر کے ان لفظوں کے ساتھ جو انہو ںنے مقام ناٹنگھم میں ماہ گزشتہ میں فرماتے تھے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ میری تحریر پر بلا کسی رو رعایت کے انصاف کے ساتھ توجہ کی جائے اور وہ الفاظ یہ ہیں: ’’جس شخص کا عقیدہ درست ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور جس شخص کا عقیدہ سچا ہو گا اس کے چال چلن میں ہرگز کمی نہ ہو گی‘‘۔ چوں کہ میرا عقیدہ بھی اس بات میں درست ہے کہ میں جو لکھنا چاہتا ہوں اس سبب سے میں امید کرتاہوں کہ میں سب لوگوں کے دل پر اس بات کو منقش کر دوں گا کہ جو چیز چمکے وہ سب سونا ہی نہیں ہوتا اورجس با ت کا ڈاکٹر ہنٹر صاحب یقین دلاناچاہتے ہیںوہ سب سچ ہی نہیں ہے۔ چوں کہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے وہابیت اورگورنمنٹ انگریزی سے بغاوت کرنے کو ایک ہی بات بیان کی ہے۔ لہٰذ ا اول میں اسی امر کی نسبت گفتگو کرتا ہوں تاکہ معلوم ہو کہ اس عالم ڈاکٹر نے ہندوستانیوں کی اطلاع کے واسطے وہابیت کے کیا معنے بیان کیے ہیں۔ بعد اس کے میں جہاد کے مسئلہ پر غور کروں گا۔ میری دانست میں تمام دنیا کے باشندوںنے شاید وہابہت کے اصلی معنی کو بہت کم سمجھا ہے اور اس کی اصلیت کو اس طرح پر بیان کرنا کہ وہ عوام کی سمجھ میں بھی بہ خوبی آ جاوے نہایت مشکل ہے۔ میری دانست میں جو نسبت مذہب پراٹسٹنٹ کو اسلام کے اور فرقوں کے ساتھ ہے وہی نسبت ایک وہابی کو اسلام کے اور فرقوں کے ساتھ ہے۔ سابق میں وہابیت کی بابت ایک کاب کا ترجمہ انگریزی زبان میںکیا گیا تھا اور ۱۸۵۲ء میں وہ رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے رسالہ کی تیرھویں جلد میں چھپا تھا چناں چہ اس رسالہ میں عقائد وہابیت کی نہایت صحیح تشریح کی گئی مگر ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے ان کا اختصار کر کے سات مسئلے حسب ذیل تفصیل بیان کیے ہیں: اول ۔ ایک صانع کی ذات ماننا۔ دوم ۔ انسان اور اس کے پیدا کرنے والے کے درمیان شفاعت کے کسی ذریعہ کو مطلقاً تسلیم نہ کرنا اور اولیائوں سے استعانت اور امداد طلب کرنے کو برا سمجھنا بلکہ خاص حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا معتقد نہ ہونا۔ سوم ۔ مسلمانوں کی شریعت کے معنی کو خاص اپنی رائے سے تعبیر کرنے کا استحقاق رکھنا اور متقدمین و مجتہدین کے اقوال کو قرآن مجید کی اس تفسیر کو صحیح نہ سمجھنا جو متقدمین کی ہے۔ چہارم۔ جو زیادتی اس زمانہ کے مسلمانوں یا اوسط زمانہ کے مسلمانوں نے سچی شرع میں اپنی رائے کی کی ہے اس کو ناجائز سمجھنا۔ پنجم۔ ہمیشہ امام مہدی کے ظہور کا منتظر رہنا جو کافروں پر سچے مسلمانوں کو فتح یاب کریں گے۔ ششم۔ اعتقاد اور عمل دونوں میں تمام کفارپر جہاد کرنے کے فرض کو تسلیم کرنا ہفتم ۔ مرشد کی کامل اطاعت کرنا۔ اول تو ان مسئلوں میں مطلقاً چند غلطیاں ہیں اور خصوصاً دوسرے مسئلہ کے اخیر جزو کی عبارت ایسی مشتبہ ہے کہ اس سے معنے صاف نہیں معلوم ہوتے حالانکہ اس مسئلہ کی تعبیر اس طرح پر ہونی چاہیے: ’’اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بجز ایک خدا کے بھیجے ہوئے اور صاحب الوحی آدمی کے اور کچھ نہ سمجھنا او ر بارگاہ خداوندی کے روبرو ولیوں یا پیغمبروں بلکہ خاص حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت شفاعت کا معتقد نہ ہونا‘‘۔ تیسرے مسئلہ کی عبارت بھی مشتبہ ہے اور میں اس میں یہ ترمیم کرتاہوں: ’’ہر ایک شخص کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی عقل کے موافق قرآن کے معنی کو بیان کرے اور جو تشریح اس کی کسی پہلے مجتہد نے کی ہے اس پر ٹھیک ٹھیک عمل کرنا اپنا فرض نہ سمجھے‘‘۔ پانچواں مسئلہ بالکل مشتبہ ہے اور اس کے اصلی معنی بہت کچھ بدل گئے ہیں۔ مگر یہ مسئلہ مسلمانوں کا ایسا ہی ہے جیسا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں ہے۔ یعنی یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے اور عیسائی دوسری بار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیدا ہونے کے معتقد ہیں۔ اسی طرح پر مسلمان یقین کرتے ہیں کہ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ کے دوسری مرتبہ دنیا میں آنے سے پہلے ایک امام زمین پر سچے مسلمانوں کو فتح یاب کرنے کے واسطے پیدا ہوں گے مگر بہت سے مسلمان اس پر یقین نہیں کرتے ہیں اور وہ یہ خیال کرتے ہیںکہ یہ قصہ یہودیوں کی ایجاد ہے جو مسلمانو ں کے مذہب میں داخل ہو گیا ہے ۔ پس گو اس کی اصل حقیقت کچھ ہی کیوں نہ ہو لیکن بہر کیف یہ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اس کے اصلی مطلب کو بدل دیا ہے اوراس زمانہ کے وہابیوں کی نسبت یہ بیان کیا ہے کہ ان کو انگریزوں پر فتح یاب ہونے کے لے اس زمانہ میں ایک ایسے اما م کے پیدا ہونے کی توقع ہے ۔ چھٹے مسئلہ میں بھی ڈاکٹر صاحب موصوف نے کچھ تصرف کیا ہے ۔ حالانکہ اگر وہ یہ الفاظ اور زیادہ کر دیتے کہ: ’’بشرطیکہ مسلمان جہاد کرنا چاہیں وہ ان کافروں کی رعایا نہ ہوں جن پر جہاد کیا چاہتے ہوں اور امن و امان ک ساتھ رہتے ہوں۔ اور ان کے حق میں تشدد نہ کیا جاتا ہو اورانہوں نے اپنا اسباب اور بال بچے ایسے کافروں کی حفاظت میں نہ چھوڑے ہوں اوران کے اور ان کافروں کے درمیان کسی قسم کا عہد و پیمان نہ ہو اور مسلمانوںکو اپنی طاقت پر فتح یابی کا بھروسا ہو‘‘۔ تو جو معنی انہوںنے اس مسئلہ کے بیان کیے ہیں وہ صحیح ہوتے۔ لیکن چونکہ ان کا دلی مقصد یہ ہے کہ وہ وہابیوں کے مسئلوں کو اس طرح پر بیان کریں جس سے نہایت سختی سے ظاہر ہو اس وجہ سے انہوں نے دانش مندی کے ساتھ ان سب باتوں کا بیان فروگزاشت کر دیا ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ مرشد کے لفظ سے جو ساتویں مسئلہ میں بیان ہوا ہے مصنف موصوف کی کیا مراد ہے اگر اس سے ان کی مراد ایمان کے رہنما سے ہے تو یہ ان کی غلطی ہے کیوں کہ تیسرے مسئلہ کے بموجب ان پر بلا سوچ سمجھے کسی مرشد کی اطاعت کرنا نہیں ہے اور اگر ان کی مراد اس سے بادشاہ مذہب اسلام سے ہے تو ان کا بیان صحیح ہے۔ مگر صاحب موصوف ایک بات کا بیان کرنا بھول ئگے ہیں وہ یہ ہے ک جب تک کوئی کافر بادشاہ مسلمانوں کے مذہب میںدست اندازی نہ کرے اس وقت تک ان پر اس کافر کی بھ اطاعت کرنا فرض ہے۔ اب میں اس مضمون کے پڑھنے والوںکی خدمت میں یہ درخواست کرتا ہون کہ جو مطلب مٰں نے ان مسائل کا بیان کیا ہے ذرا وہ اس کو یاد رکھیں۔ کیوں کہ جو معنی ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے بیان کیے ہیں وہ مشتبہ ہیں اوران سے دھوکے کا گمان ہے۔ اب میں یہاں سے وہابیت کی اصلیت بیان کرتا ہوں کہ سابق میں اس وہابیت کا کیا نام تھا اور یہ نام کس وقت رکھا گیا تہے اور اس کی کیا وجہ تھی؟ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۵۷ میں تحریر فرماتے ہیں کہ: وہابیت ایک ایسا طریقہ ہے جس کی رو سے مذہب اسلام ایک خالص توحید کی صورت ہو جاتا ہے یہ بالکل صحیح ہے لیکن اس موقعہ رپ میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ قبل اس کے یہ کہ حال کے زمانہ کے مسلمانوں نے مذہب اسلام میں نئی باتیں اور اختراعی رسمیں ایجاد کیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اسلام کی بعینہ یہی صورت تھی۔ مذہب اسلام ابتدا میں بہت سے برسوں تک ایسا مذہب رہا جس کا منشا صرف ذات باری کی پرستش تھی۔ مگر سن ہجری کی دوسری صدی میں جب کہ اس کے اصول کی نسبت علماء کے خیالات قلم بند ہوئے تو اس کے چار فرقے قائم کیے گئے یعنی حنفی و شافعی و مالکی و حنبلی اورکچھ عرصہ تک مسلمانوں کو یہ اختیار حاصل رہ کہ ان فرقوں میں سے جس کسی مسئلہ کو چاہیں اختیار کر لیں اور اس کی پیروی کریں لیکن جب بنی امیہ اور بنی عباس بادشاہ ہوئے تو انہو ںنے ایک حکم تمام مسلمانوں کے نام اس مضمون کا جاری کیا کہ وہ ان چار فرقوں میں سے کسی ایک فرقہ کے تمام مسئلوں کو قبول کرلیں ۔ چنانچہ اس حکم کے بعد جو لوگ اس کے خلاف کرتے تھے ان کو سزا دی جاتی تھی۔ چنانچہ اسی جبری حکم کے باعث سے آزادانہ رائے کا اظہار مسدود ہو گیا اور مذہبی دست اندازی کا بڑا زور شور ہوا۔ مگر اس وقت میں بھی بہت سے آدمی ایسے تھے جو خفیہ اصلی مذہب کے پابند تھے اور ظاہر ان کی یہ جرات نہ تھی کہ سوائے چند معتمد آدمیو ں کے کسی سے اپنی رائے کا اظہار کریں اورایسے لوگ اس زمانہ میں اہل حدیث کہلاتے تھے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے معتقد رتھے اور مندرجہ بالا چاروں فرقوں کے مسئلوں کے پابند نہ تھے ۔ پس رفتہ رفتہ حکم مذکور الصدر اور زیادہ تشدد کے ساتھ جاری کیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ آخر کار وہ بہت سے مسلمانوں کے مذہب کا ایک بڑا اصول ہو گیا اورپھر اہل حدیث سے بھی عوام الناس رفتہ رفتہ عداوت کرنے لگے او ر اصول شرع میں سچے مسلمانوں کے نزدیک وہ قابل ملامت قرار دیے گئے۔ غرض یہ کہ ۱۷۰۰ء کیک شروع تک تمام مسلمانوں کی یہی حالت تھی۔ اس کے بعد عرب میں ایک ملکی لڑائی برپا ہوئی۔ چنانچہ عبدالوہاب بادشاہ نجد کے بیٹے نے اپنے مخالفوں کو شکست دی اور خاص اپنے پیدا کیے ہوئے تخت پر بیٹھا۔ مگر اس کا عقیدہ بھی وہی ھتا جو اہل حدیث کا تھا اورچوں کہ وہ اپنے عہد میں سب سے زیادہ قوت رکھتا تھا لہٰذا اس نے اعلانیہ اصلی مذہب کے عقائد کی ہدایت کی اور جہاں تک ہو سکا اس کو جاری کیا اور اس کی وفات کے بعد اسی کے عقیدہ کا ایک اور بادشاہ تخت نشین ہوا جس نے اپنے جلوس کے بعد بہت جلد مکہ معظمہ کی زیارت کی تیاری کی لیکن جس وقت ا نے مکہ معظمہ کے شریف سے اپنے عقیدہ کے بموجب زیارت کی اجازت چاہی تو اس نے اس کی ردخواست کو قبول نہ کیا۔ اس وقت اس باداہ نے کہا کہ کسی شخص کو یہ استحقاق حاصل نہیں ہے کہ مجھ کو مکہ میں جانے سے روکے ۔ چنانچہ وہ اندر گھس گیا اور مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ دونوں کو فتح کر لیا۔ بعداس کے اس نے تمام دستوروں اور رسموں کو موقوف کیا جو خالص مذہب اسلام میں لوگوں کی طرف سے داخل ہو گئی تھیں اورجو چار نشان اس درگاہ مقدس کے اندر گویو ان چاروں فرقوں کے پیروئوں کے واسطے بنائے گئے تھے ان کو اور بعض اولیاء کی قبروں کو جن کو بہت لوگ بمنزلہ بت کے پوجتے تھے توڑ ڈالا۔ پھرچند روز بعد اس بادشاہ کو محمد علی پاشا مصر نے شکست دی جس کے سبب سے وہ مجبور ہو کر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے چلا گیا۔ پس جاہل مسلمانوں کو ان زیادتیوں سے (جیسا کہ وہ اپنی رائے میں سمجھتے تھے) جو اہل حدیث نے کی تھیںنہایت رنج ہوا جب کے سبب سے جاہل قوم ترک اور عبدالوہاب کے معتقدوں کے درماین ایک سخت عداوت پیدا ہو گئی ۔ پس اس زمانہ سے عبدالوہاب کے پیرو بجائے اہل حدیث کے وہابی کہلانے لگے۔ یہودیوں نے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معتقدوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا تھا جن کو وہ نصرانی کہتے تھے اور ہندوستان میں اہل اسلام کی حکومت میں قوم ترک اور وہ پٹھان بادشاہ جو حنفی فرقہ میں سے تھے اورمذہبی تحمل سے بالکل مخالف تھے اور قوم مغل کے بادشاہوں کے عہد میں بجز اکبر کے عہد کے پچھلے زمانہ کی یہی حالت رہی اس سبب سے اس زمانہ میں اہل حدیث کے پیرو یعنی وہابی بغیر اندیشہ کے اپنے مسئلوں کی ہدایت نہیں کر سکتے تھے۔ البتہ اب حکومت انگریزی کے قائم ہونے کے بعد انگریزوں نے اس اصول کے باعث سے کہ وہ کسی کے مذہب میں مطلق دست اندازی نہیں کرتے ہیں اہل حدیث کے پیرو پھر خبردار ہوئے اور انہوں نے اعلانیہ اور بلا خود و خطر وعظ کہنے شروع کیے ۔ پس ہندوستان کے مسلمان بھی ان سے ایسی ہی دلی عداوت رکھنے لگے جیسے کہ ترک عرب کے اہل حدیث سے عداوت رکھتے تھے اوروہ بھی ان کو وہابی سمجھتے تھے۔ وہابیت کی یہ تاریخ ہے جو صدر میں بیان کی گئی ہے جس سے ڈاکٹر ہنٹر صاحب اس قدر خائف ہیں۔ صفحہ ۲۲ کے حاشیہ میں ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ لفظ وہابیت حال کے زمانہ کا ہے اوریہ فرقہ اول غازی یا جہادی کہلاتا تھا۔ حالانکہ صاحب موصوف کی یہ محض غلطی ہے ۔ غازی یا جہادی وہ شخص ہوتے ہیں جو بلا تخصیص کسی قوم و فرقہ کے ایک مذہبی لڑائی میں شریک ہو جاتے ہیں۔ سابق میں تمام فرقوں میں جہادی ہو چکے ہیں اوراب بھی موجود ہیں۔ پس تمام وہابیوں کو علی العموم جہادی کہنا بالکل غلطی ہے جو مذہبی لڑائی یروشلم یعنی بیت المقدس میں ہوئی تھی اس میں عیسائی بھی جہادی تھے۔ اب میں اپنے اگلے مضمون میں سرحد کی ان قوموں کا مذہب اورعقیدہ بیان کروں گا جن میں ڈاکٹر ہنٹر صاحب باغیوں کا لشکر قائم کرتے ہیں۔ ہندوستان کے گوشہ شما ل و مغرب کی سرحد پر جو پہاڑی قومیں رہتی ہیں ان کے ہم مذہب جس قدر ہندوستان میں رہتے ہیں ان سب میں وہ قومیں اپنے مذہب کی زیادہ پابند ہیں اورجس طرح پر ان قوموں اپنے مذہب کی زیادہ پابند ہیں اور جس طرح پر ان قوموں کو اپنے مخالف مذہب مسلمانوں کے تین فرقوں سے عداوت نہیں ہے۔ چنانچہ یہ قوم اپنے مذہب میں اس قدر سخت ہے کہ اگر کوئی اور ان کے ملک میں آ جاوے تو جب تک وہ اپنے مذہبی عقائد کو مثل ان کے نہ کرے اس وقت تک وہاں اس کی جان و مال کی خیر نہیں ہوتی۔ چند سال کا عرصہ ہوا کہ ایک میرے دوست حاجی سید محمد مرحوم شافعی المذہب ساکن جارجیا اتفاق سے سرحد کی انہیں قوموں میں گئے تھے۔ مجھ سے کہتے تھے کہ مجھ کو شافعی ہونے کے سبب سے اس قوم میں طرح طرح کی مصیبتیں اٹھانی پڑیں اورگو میں دیہات و قصبات بلکہ مساجد میں امن تلاش کرتا تھا لیکن مجھ کو دراصل مسجد میں بھی امن نہ معلوم ہوتا تھا۔ یہ پہاڑی قومیں حنفی لوگوں کی فروعات کو بجائے اصول کے سمجھتی ہیں چناں چہ انہی فروعات حنفیہ مٰں سے ایک کتاب درمختار ہے جو ۱۰۷۱ء یا ۱۶۶۰ء میں لکھی گئی تھی اورفروعات حنفیہ میں سے یہ کتاب نہایت معتبر اور معتمد علیہ ہے اس کتاب میں چند اشعار عربیہ اس مضمو ن کے درج ہیں جن میں فروعات حنفیہ کو اور ائمہ کی فروعات پر ترجیح دی ہے اور اوروں کو برا لکھا ہے انہی شعروں میں سے ایک شعر کا ترجمہ یہ ہے ’’خدا کی لعنت اورقہر بے شمار اس شکص پر جو امام ابو حنیفہ کا پیرو نہیں ہے‘‘۔ یہ پہاڑی قومیں اولیاء کرام کے مقابر اور مزاروں کو خصوصاً پیر باب ا کے مقبرہ کو جو بونیر میں ہے اور کاکا صاحب کے مزار کو جو کوئٹہ میں ہے۔ نہایت خلوص عقیدت سے پوجتے ہیں اور مجھ کو صدھا پہاڑی لوگوں کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے لیکن میری نظر آج تک کوئی پہاڑی پٹھان ایسا نہیں گزرا جو سوائے حنفی مذہب کے اورکسی مذہب کا پیرو ہو یا وہابیت کی جانب ذرا بھی میلان رکھتا ہو البتہ حیات افغانی میں جس کو گورنمنٹ کے ایک خیر خواہ اور ملازم نے اردو زبان میں تصنیف کیا ہے (جو ۱۸۶۷ء میں لاہور میں چھپی ہے) یہ فقرہ لکھا دیکھا ہے: ’’چند سال سے ملا سید میر کوئٹہ کے پیرو وہابی سمجھے جاتے ہیں اور اخوند کے پکے پیرو جو حنفی المذہب ہیں ملا سید میر کے معتقدوں کو گمراہ سمجھتے ہیں اور اکثر عثمان زئی اور ناصر اللہ کی اولاد وغیرہ جو گڑھی اسماعیل کا باشندہ تھا۔ ملا سید میر کے طرف دار اور باقی پہاڑی قومیں اخوند سوات کی پیرو ہیں‘‘۔ پس اس فقرہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سرحد کی قوموں کے عقیدہ میں وہابیت کا نام کو بھی اثر نہیں ہے ۔ بایں لحاظ اس بات کا ہرگز گمان نہٰں ہو سکتا کہ سرحد کے پٹھانوں اور وہابیوں میں کسی طرح سازش ہو سکتی ہے۔ چناں چہ ۱۸۲۴ ء میں وہابیوں نے پہاڑیوںمیں جا کر قیام کیا اورانہوں نے اس بات کا قصد کیا کہ سکھو ں پر ہم لوگ جہاد کریں اور شہید ہوںلیکن چوں کہ پہاڑی قومیں ان کے عقائد کے مخالف تھیں اس لیے وہ وہابی ان پہاڑیوں کو ہرگز اس بات پر راضی نہ کر سکے کہ وہ ان کے مسائل کو بھی اچھا سمجھتے۔ مگر البتہ چوں کہ وہ سکھو ں کے جور و ستم سے نہایت تنگ تھے اس سبب وہ وہابیوں کے اس منصوبہ میں بھی شریک ہو گئے کہ سکھوں پر حملہ کیا جاوے اور آخر کار وہابیوں اور پہاڑیوں نے متفق ہو کر سکھوں پر حملہ بھی کیا۔ لیکن چوں کہ یہ قوم مذہبی مخالفت میں نہایت سخت ہے اسسبب سے اس قوم نے مولوی محمد اسماعیل صاحب اور سید احمد صاحب کو شہید کیا۔ پس ان باتوں کو ذرا اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہیے۔ کیوں کہ ان سے وہابیوں کی وہ تاریخ بخوبی معلوم ہوتیہے جس کو ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے پہاڑی قوموں کے ساتھ وہابیوں کی سازش خیال کیا ہے۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اپنی کتاب کے پہلے باب میں وہابیوں کے باغی لشکر قائم ہونے کی ایک کیفیت بیان کی ہے۔ مگر چوں کہ مجھ کو اس تحریر میں چند در چند شبہات ہیں اس لیے میں بھی ہندوستان کے وہابیوں کی ایک مختصر کیفیت لکھتا ہوں اور جب تک میں ایک مختصر کیفیت وہابیوں کی نہ بیان کروں گا اس وقت تک یہ بات اچھی طرح نہٰں کھلے گی کہ ڈاکٹر صاحب کو کن امور میں دھوکہ ہوا ہے اور اس معاملہ میں اصلی کیفیت کو ڈاکٹر صاحب نے کس مبالغہ اور زیادتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ہندوستان کے وہابیوں کی تاریخی کیفیت پانچ زمانوں سے متعلق ہے۔ پہلا زمانہ ۱۸۲۳ء سے شروع ہوتا ہے اور ۱۸۳۰ء تک پورا ہوتا ہے اور وہ یہ زمانہ ہے جس میں مولوی محمد اسماعیل صاحب اور سید احمد صاحب نے ان سکھوں پر جہاد کیا تھا جو اپنی مسلمان رعایا کو تکلیف پہنچاتے تھے اورانتہا اس زمانہ کی اس وقت تک ہوئی جب کہ پشاور دوبارہ ان کے پیروئوں کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ دوسرازمانہ ۱۸۳۰ء سے ۱۸۳۱ء تک یعنی پشاور کی فتح ثانی سے لے کر مولوی محمد اسماعیل صاحب اور سید احمد صاحب کی وفات تک ہے۔ تیسرا زمانہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب کہ یہ دونوں بزرگ شہید ہوتے او ر انتہا اس زمانہ کی اس وقت تک ہے جب کہ گورنمنٹ انگریزی پنجاب پر قابض ہوئی اوروہابی لوگ مع عنایت علی اورولایت علی سرحد سے اپے گھروں کو بھیجے گئے یعنی ۱۸۳۱ء سے لے کر ۱۸۴۷ء تک ہے۔ چوتھا زمانہ اس وقت سے مراد ہے جب کہ ولایت علی اور عنایت علی نے دوبارہ سرحد پر حملہ کیا اور انتہا اس زمانہ کی ان دونوں کے مارے جانے تک ہوئی۔ پانچواں زمانہ حال کا زمانہ ہے جس کو ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے صریح غلطی سے وہابیوں کی بغاوت کا زمانہ بیان کیا ہے۔ پس ان پانچوں زمانوں میں وہابیت کا پہلا زمانہ نہایت عمدہ تھا اور جو کام اس زمانہ کے وہابی کرتے تھے ان سے گورنمنٹ انگریزی واقف تھی اور کسی طرح ان لوگوں کی طرف گورنمنٹ کی بد خواہی کا گمان نہیں ہوتا تھا ۔ چناں چہ اس زمانہ میں علی العموم مسلمان لوگ عوام کو سکھوں پر جہاد کرنے کی ہدایت کرتے تھے تاکہ وہ اپنے ہم وطن مسلمانوں کو اس قوم کے ظلم و تعدی سے نجات دیں اس زمانہ میں مجاہدین کے پیشوا سید احمد صاحب تھے مگر وہ وعظ نہ تھے۔ واعظ مولوی محمد اسماعیل صاحب تھے۔ جن کی نصیحتوں سے مسلمانوں کے دلوں میں ایک ایسا ولولہ اثر خیز پیدا ہوتا تھا جیسا کہ کسی بزرگ کی کرامت کا اثر ہوتا ہے مگر اس واعظ نے اپنے زمانہ میں بھی کبھی کوئی لفط اپنی زبان سے ایسا نہ نکالا جس سے ان کے ہم مشربوں کی طبیعت ذرا بھی گورنمنٹ انگریزی کی طرف سے برافروختہ ہو۔ بلکہ ایک مرتبہ وہ کلکتہ میں سکھوں پر جہاد کرنے کا واعظ فرما رہے تھے کہ اثنائے وعظ مٰں کسی شخص نے ان سے دریافت کر لیا کہ تم انگریزوں پر جہاد کرنے کا واعظ کیوں نہیں کرتے وہ بھی تو کافر ہیں۔ اس کے جواب میں مولوی اسماعیل صاحب نے فرمایا کہ انگریزوں کے عہد میں مسلمانوں کو کچھ اذیت نہیں ہوتی اور چوں کہ ہم انگریزوں کی رعایا ہیں اس لیے ہم پر اپنے مذہب کی رو سے یہ بات فرض ہے کہ انگریزوں پر جہاد کرنے میں ہم کبھی شریک نہ ہوں۔ پس اس زمانہ میں ہزاروں مسلح مسلمان اور بے شمار سامان جنگ کا ذخیرہ سکھوں پر جہاد کرنے کے واسطے ہندوستان میں جمع ہو گیا مگر جب صاحب کمشنر اور صاحب مجسٹریٹ کو اس امر کی اطلا ع ملی تو انہوں نے گورنمنٹ کو اطلاع دی۔ گورنمنٹ نے ان کو صاف لکھا کہ تم کو اس معاملہ میں دست اندازی نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ ان کا ارادہ کچھ گورنمنٹ انگریزی کے مقاصد کے خلاف نہیں ہے۔ غرض یہ کہ ۱۸۲۴ء میں یہ لوگ سکھوں پر جہاد کرنے کے واسطے سرحد پر پہنچے اور اس کے بعد ہندوستان سے برابر ان کے پا س مدد پہنچتی رہی اور گورنمنٹ بھی اس امر سے بہ خوبی واقف تھی جس کے ثبوت میں ایک مقدمہ کی کیفیت نظیراً میں درج کرتاہوں: دہلی کے ایک ہندو مہاجن نے جس کے پاس جہادی لوگوں کی امداد کے واسطے روپیہ جمع کیا جاتا تھا امداد کے رویہ میں کچھ تغلب کیا اور مسٹر ولیم فریزر صاحب بہادر متوفی کمشنر دہلی کے روبرو اس پر نالش ہوئی اور انجام کار مولوی محمد اسحاق صاحب مدعی کے حق میں اس دعوے کی ڈگری ہوئی اور جو روپیہ مدعاعلیہ سے ڈگری کا وصول ہوا وہ اور ذریعہ سے سرحد کو بھیجا گیا۔ بعد اس کے اس مقدمہ کی اپیل صدر کورٹ الہ آباد میں ہوئی وہا ں بھی عدالت ماتحت کا فیصلہ بحال رہا۔ اس زمانہ میں وہابیوں نے سرحد کی قوموں کی مدد سے پشاور کو فتح کر لیا۔ اوربعد فتح کے دوست محمد خاں والی کابل کے بھائی سلطان محمد خاں کے حوالہ کر دیا مگر سلطان محمد خاں نے فریب سے تھوڑے عرصہ بعد پشاور کو رنجیت سنگھ کے ہاتھ فروخت کر ڈالا۔ مگر دوسرے زمانہ میں گویا وہابیت کا زوال شروع ہو گیا تھا۔ چناں چہ جب پھر سکھوں کا پشاور پر قبجہ وہا گیا تو سید احمد صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب کے پیرئوں کا بالکل جی ٹوٹ گیا کیوں کہ ان کو معلو م ہو گیا تھا کہ سرحد کے پٹھان ہمارے مذہب کے باعث ہم سے دلی عداوت رکھتے ہیں اب ہم کو ان سے کسی قسم کی امداد کی توقع نہیں رکھنی چاہیے اور ہماری یہ قلیل جماعت کسی طرح کامیابی کے ساتھ سکھوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی اوراسی وجہ سے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اب ہم کو اپنے مذہب کی رو سے یہ جہادجائز نہیں رہا۔ علاوہ اس کے لوگوں کے باہم بھی اس امر میں اختلاف ہو گیا کہ آیا سید احمد صاحب ان کے پیشوا ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں یا نیں چنانچہ ان میں سے تو اکثر کی یہ رائے تھی کہ وہ اس کام کے لائق نہیں ہیں اور بعض نے اس کے خلاف بیان کیا۔ مگر مولوی اسماعیل صاحب نے اس حالت میں بھی ان جھگڑوں کے دفعیہ کی حتی الامکان کوشش کی اور ایک کتاب موسوم بہ منصب امامت لکھی (جو ۱۲۶۵ء مطابق ۱۸۴۹ء کلکتہ میں مطبع ہوئی) لیکن ان کی یہ تمام کوششیں بے فائدہ ہوئیں اور انجام کار وہ جماعت بالکل ٹوٹ گئی جس میں کے ہزاروں آدمی ہندوستان میں اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ چناں چہ منجملہ ان کے ایک نہایت مشہور و معروف مولوی محبوب علی تھے (جن کا انتقال ۱۸۶۴ء میں ہوا) اور دوسرے مولوی حاجی محمد بنگالہ کے رہنے والے تھے مگر چوں کہ ان کا نکاح دہلی میں ہوا تھا اس سبب س وہ کئی برس تک دہلی میں رہے اور ۱۸۷۰ء کو مقام الور میں انہوں نے وفات پائی۔ شاید اس مضمون کے پڑھنے والے ا س عجب بات کے سننے سے بھی خوش ہوں کہ مولوی محبوب علی صاحب وہی شخص تھے جن کو ۱۸۵۷ء میں باغیوں کے سرغنبہ بخت خاں نے عین ہنگامہ غدر میں طلب کیا ارو ان سے یہ درخواست کی کہ آپ اس زمانہ میں انگریزوں پر جہاد کرنے کی نسبت ایک فتویٰ پر اپنے دستخط کر دیں مگر مولوی محبوب علی صاحب نے صاف انکار کر دیا اور بخت خاں سے کہا کہ ہم مسلمان گورنمنٹ انگریزی کی رعایا ہیں ہم اپنے مذہب کی رو سے اپنے حاکموں سے مقابلہ نہیں کر سکتے اور طرہ یہ بر ایں یہ ہوا کہ جو ایذا بخت خاںاور اس کے رفیقوں نے امگریزوں کی میموں اور بچوںکو دی تھی اس کی بابت بخت خاں کو سخت لعنت ملامت کی۔ اس زمانہ کے بعد سید احمد صاحب کے پیرو بہت ہی کم ہو گئے اور آخر کار وہ ۱۸۳۱ء میں اپنے اکثر رفیقوںکے خاوی خاں کی دغا بازی سے شیر سنگھ کے مقابلہ میں شہید ہو گئے اوران کے شہید ہوتے ہی جو لوگ جہادیوں کے ہمراہ تھے ان میں سے بہت سے لوگوں نے جہادیوں کا ساتھ چھوڑ دیا اور لوگوںنے ان کا دل تھامنے کے لیے مصلحتاً یہ خبر مشہور کر دی کہ سید احمد صاحب اب تک زندہ ہیں صرف بطور کرامات غائب ہو کر کسی پہاڑ کے کھوہ میں پوشیدہ ہو گئے ہیں۔ مگر ٓخر کار اس دھوکہ کا حال کھل گیا تو سید احمد صاحب کے پروانے گھروں کو لوٹ آئے اور اس زمانہ کے بعد جہاد کی امداد کے واسطے ممالک مغربی و شمالی سے آدمی اور روپیہ وغیرہ کا پہنچنا بالکل بند ہو گیا ۔ اور کچھ واقعات اس زمانہ کے بعد ہوئے وہ چنداں دلچسپ نہیں۔ اس مقام پر میں یہ بات بیان کرتا ہوں کہ سید احمد صاحب نے پشاور میں سکھوں کا پھر قبضہ ہونے کے بعد اپنے ان رفیقوں کو جو جہاد میں جا ن دینے پر آماد ہ تھے یہ کہا کہ تم جہاد کے لیے مجھ سے شرعی بیعت کرو۔ چناں چہ کئی سو آدمیوں نے اسی وقت بیعت کی اور یہ بات تحقیق ہے کہ جو شخص شیر سنگھ کے مقابلہ کی لڑائی میں بچ رہے ان میں صرف چند آدمی تھے اپنے پیشوا سید احمد صاحب کی شہادت کے بعد پہاڑی میں باقی رہ گئے تھے جن میں سے اکثر لوگ پٹنہ اور دیگر اضلاع بنگالہ کے رہنے والے تھے۔ اس کے بعد مولوی عنایت علی اور ولایت علی ساکن پٹنہ ان کے سردار ہونے لیکن انہوں نے جہاد کے سرانجام دینے میں کچھ کوشش نہیں کی اور جب پنجاب پر گورنمنٹ انگریزی کا تسلط ہوا تو مولوی عنایت علی اور ولایت علی مع اپنے اکثر رفیقوں کے ۱۸۴۷ء میں اپنے گھروں کو واپس بھیج دیے گئے۔ پس اس سے ہم کو یہ بات معلوم ہو گئی کہ خاص پٹنہ یا بنگالہ کے اور ضلعوں سے بلکہ عموماً ہندوستان سے روپے اور آدمی اس وہابیت کے پہلے تین زمانوں میں ضرور سرحد کو بھیجے گئے تھے لیکن میری رائے میں یہ بات بہت کھلی ہوئی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی آدمی انگریزی گورنمنٹ پر حملہ کرنے کے واسطے ہرگز نہیں گیاتھا اورنہ ان سے یہ کام لیا گیا اور نہ تین زمانوں میں سے کسی کو اس بات کا کچھ خیال ہوا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی نیت بغاوت کی جانب مائل ہے مگر باایں ہمہ ہمارے ڈاکٹر ہنٹر صاحب اپنی کتاب کے صفحہ ۲۹ میں یہ بیان کرتے ہیں کہ : ’’تیس برس کا عرصہ ہوا ہو گا جب ایک خلفیہ بہ طریق رسالت بنگالہ کو آیا اور وہاں اس نے قیام کیا اور قرب و جوار کے تمام زمین دار اس کا اعتبار کرنے لگے اور اس نے بڑی مضبوطی اور موثر بیان کے ساتھ جہاد کا وعظ کیا اور جو لشکر سرحد پر تھا ا س کے پاس بھیجنے کے واسطے اس نے پٹنہ کے آدمی کو اور روپیہ بھیجا‘‘۔ یہ سب ۱۸۴۱ء یا اس کے قریب کا ذکر ہے جس سے کئی برس بعد سرکار انگریز ی کا تسلط ہوا تھا۔ پس کیا ڈاکٹر ہنٹر صاحب کو فی الواقع یہ یقین ہے کہ اس زمانہ میں روپیہ اور آدمی اس غرض سے بھیجے گئے تھے کہ سرحد کی قوموں کو انگریزوں پر حملہ کرنے میں مدد پہنچے؟ میں خیال کرتا ہوں کہ شاید ڈاکٹر صاحب اس بات کو تو تسلیم کریں گے کہ ۱۸۴۱ء سے کئی بتد پہلے بھی سکھوں پر مسلمانوں کا جہاد ہو رہا تھا اورغالب ہے کہ جن آدمیوں اور روپوں کا ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا ہے وہ پنجاب کے بادشاہوں کی رعایا کو شکست دینے کے واسطے بھیجے گئے ہوں۔ اب یہاں سے میں یہ بات ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ چوتھے زمانہ میں (یعنی زمانہ حال) بھی میری ان ہم مذہبوں کی نسبت جو اب ہندوستان میں رہتے ہیں کسی قسم کی بدگمانی کا کوئی وجہ نہیں ہے۔ مگر چوں کہ انگریز لوگ مسلمانوں کی عام رائے اور خیالات سے ناواقف ہیں اوراس سبب سے شاید میرے خیالات یا تحریر پر وہ بہت کم التفات اوراعتماد کریں گے لیکن اس امر کے سبب مجھ کو ایک ایسے معاملہ کے اظہار سے نہ ڈرنا چاہے جس کو میں اپنے ذہن میں بالکل سچ سمجھتا ہوں۔ جب مولوی عنایت علی اور ولایت علی ۱۸۴۷ء میں ہندوستان کو لوٹ آئے تو اس وقت سید احمد صاحب کے چند پیرو سرح پر باقی رہ گئے اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ ان دو شخصوں نے پٹنہ اور اس کے قرب و جوار کے آدمیوں کو اس بات کی ترغیب دینے میں ہرگز کوتاہی نہیں کی کہ وہ جہاد میں شریک ہوں اور اس کام کے واسطے روپیہ جمع کریں ۔ چناں چہ وہ برابر بڑی سرگرمی سے کوشش کرتے رہے اور جس بات کا اب تک ان کو دل سے خیال تھا کہ اس کا اظہار انہوں نے ۱۸۵۱ء مین اس طرح پر کیا کہ وہ پھر ہندوستان کی سرحد کی جانب چلے گئے مگر ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے یہ خیال کیا کہ ہیہ لوگ دوبارہ سرحد کو انگریزو ں پر حملہ کرنے کی نیت سے گئے تھے اور انہوں نے بجائے سکھوں کے انگریزوں پر جہاد کیا تھا حالانکہ جب ان لوگوں کو انگریزوں سے کسی طرح کی شکایت نہ تھی تو پھر ان کا یہ ارادہ کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔ البتہ جوظلم و تعدی سکھ لوگ مسلمانوں پر کستے تھے اس سے ہم کو یہ بات معلوم ہو گئی تھی کہ مسلمان سکھوں پر کسی وجہ سے حملہ کرنا چاہتے تھے ۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے یا کسی اور شخص نے اس بات کی کوئی وجہ نہیں بیان کی کہ مسلمانوں کے دل میں انگریزوں سے یہ عداوت دفعتہ کیوں کر پیدا ہو گئی تھی۔ کیوں کہ مسلمانوں کو انگریزوں سے کچھ عداوت نہ تھی بلکہ جو سکھ جموں میں رہتے تھے ان پر وہ حملہ کرنا چاہتے تھے۔ مجھ کو اس شخص کی زبانی معلوم ہوا ہے جس کی ملاقات خاص مولوی عنایت علی اور ولایت علی سے اس وقت میںہوئی تھی جب وہ سرح د کو جاتے تھے۔ اس وجہ سے مجھ کو اس کی صداقت میں کسی طرح کا کلام نہیں ہے اوریہ بات بہ خوبی یاد رکھنی چاہیے کہ یہ وہابی اپنے مذہب کے بڑے پکے ہیں اور نہایت سچے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اصول سے کسی حال میں منحرف نہیں ہوتے اور جن شخصوں کی نسبت میں یہ لکھ رہا ہوں وہ اپنے بال بچوں اورمال و اسباب کو گورنمنٹ انگریزی کی حفاظت میں چھوڑ گئے تھے اور ان کے مذہب میں اپنے بال بچوں کے محافظوں پر حملہ کرنا نہایت ممنوع ہے۔ اس لحاظ سے اگر وہ انگریزوں سے لڑتے اورلڑائی میں مارے جاتے تو بہشت کی خوشیوں اور شہادت کے درجہ سے محروم ہو جاتے بلکہ اپنے مذہب میں گنہ گار خیال کیے جاتے ۔ ہم کو یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ وہابیوں کی باقی ماندہ جماعت سرحد پر نہایت قلیل رہ گئی تھی اورپہاڑی قومیں ان کے مذہب کے باعث سے ان سے سخت عداوت رکھتی تھیں۔ پس جب ہم ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی کتاب میں اس قسم کے فقرے پڑھتے ہیں کہ لارڈ ڈلہوذی صاحب نے اپنے دوسرے مراسلہ میں سرحد کی ان قوموں پر حملہ کرنے کی تجویز کی نسبت کچھ بحث کی تھی جن کی بیہودہ عداوت کو جو ان کو کفار کے ساتھ تھی ہندوستان کے متعصب معتقد وہابیوں نے غایت درجہ تک بھڑکا دیاتھا‘‘ (صفحہ ۲۲)تو ہم کو بلکہ ہر ایک شخص کو ہنسی آتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب شاید اس نہایت ضروری امر کو بھول گئے ہیں کہ یہ پہاڑی قومیں قدیم زمانہ سے سرکش اور مفسد ہیں اورجو قومیں ان کی سرحد پر رہتی ہٰں خواہ وہ کافر ہوں یا مسلمان ان کو انہوںنے کبھی چین نہیں لینے دیا اور بلا امتیاز کسی کے خود دہلی کے مسلمان بادشاہوں اور سکھوں کے ساتھ لڑتے رہے ہیں اور مثل اس آئر لینڈ کے باشندے کے جو میلہ میں تماشائیوں سے خواہ مخواہ جنگ و جدل کا خواہاں ہوتا ہے جب تک اس قوم سے کوئی شخص لڑنے کے لیے موجود ہوتا ہے اس وقت تک اس کو اس بات کی کچھ پروا نہیں ہوتی کہ وہ شخص کون ہے۔ یہاں تک کہ نادر شاہ سا شخص بھی جو بڑا ظالم تھا اور جس کے نام سے تمام ملک ہندوستان لرزتا تھا ان کو ہرگز اپنا مطیع نہ کر سکا۔ اورولایت علی اور عنایت علی اور ان کے قلیل ہمراہیوں کی نسبت اب تک کوئی ایسی بات نہیں معلوم ہوئی کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ ہندوستان میں گورنمنٹ انگریزی پر حملہ کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے۔ چنانچہ ۱۸۵۱ء سے چند برس بعد ان کا انتقال ہوا اوراس کے بعد ان کے تمام ہمراہی ادھر ادھر چلے گئے۔ البتہ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ جب تک یہ مولوی سرحد پر مقیم رہے اس وقت تک آدمی اور روپیہ پٹنہ اور بنگالہ کے دیگر اضلاع سے سرحد پر پہنچتا رہا لیکن کسی شخص کو یہ یقین نہ تھا کہ وہ انگریزوں پر حملہ کرنے میں کام آویں گے اور نہ ی امر کچھ قرین قیا س ہے کہ ایسی کمزور فوج ایسی زبردست انگریزی سلطنت کے تباہ کرنے کا ارادہ کرے۔ پس میرے علم و یقین کے موافق وہابیت کے پانچویں زمانہ کو بھی جہاد سے تعلق نہیں ہے۔ کیوں کہ خوب جانتا ہوں کہ مولوی ولایت علی اور عنایت علی کے انتقال کے بعد جہاد کے سرانجام دینے کے واسطے بنگالہ نے نہ تو روپیہ بھجا گیا اورنہ آدمی گئے ۔البتہ ۱۸۵۷ ء کے ہنگامہ کے بعد ہندوستان کے بعض سرکش آدمی جن کے ساتھ کچھ باغی بھی تھے ملکا اور ستانا واقعہ ترائی نیپال اور بیکانیر اور راجپوتانہ کے بیابانوں میں جار ہے تھے اوروہاں ان کے جار ہنے کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے ان مقامات کو ان سنگین سزا سے بچنے کے لیے امن کا مقام خیال کیا تھا جو غدر کے سبب ان کے ایام میں لوگوں کو سرکار کی طرف سے ہوئی تھی ۔ اور جو لوگ گوشہ شمال و مغرب کی سرحد کو بھاگ گئے تھے ان کا ایک عام خود سے ایک موقع پر جمع ہو جانا ایک عقل مندی کی بات تھی حالانکہ اس مجمع میں خاص مسلمان ہی نہ تھے بلکہ ہر قوم کے ہندو اور مسلمان سب تھے پس ان لوگوں کی نسبت یہ خیال کرنا کہ (جیسا کہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے بیان کیا ہے) کہ وہ گورنمنٹ پر حملہ کرنے کی نیت سے جمع ہوئے تھے۔ میرے نزدیک ایک ایسی بے ہودہ بات ہے کہ اس کی جانب کوئی دانش مند التفات نہ کرے گا۔ البتہ یہ بات ممکن ہے کہ ان مفروروں کی جماعت میں سے بعض شخص ایسے بھی ہوں گے جو اپنے گھر والوں سے ہندوستان میں خط و کتابت رکھتے ہوں اوراس بات کا بھی کچھ تعجب نہیں ہے کہ ان کے عزیز و اقارب ان کو روپیہ پیسہ بھیجتیہوں اس لیے کہ کہ ان کی بغاوت کے سبب سے ان کے قرابتی لوگوں پر یہ بات لازم نہ تھی کہ وہ ان سے خط و کتابت نہ کرتے بلکہ ایسی ہی حالت میں اپنے یگانہ اپنے کا زیادہ خیال کیا کرتے ہیں اور پاس محبت سے ایسے شخص کی مدد کرنا گویا اپنے ذمہ فرض سمجھتے ہیں۔ پس ظن غالب یہ ہے کہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی اس خیال بندی کے واسطے کہ گورنمنٹ انگریزی پر جہاد کرنے کے واسطے برابر انتظام کے ساتھ روپیہ اور آدمی یہاں پہنچتے تھے۔بلاشہ یہی معاملہ ایک بڑی پکی بنیاد ہوئی ہو گی اور دوسری وجہ اس خیال کی شاید یہ ہوئی ہو کہ ہندوستان سے اخوند سوات کے پاس روپیہ جاتاتھا مگر جو لوگ میرے اس مضمون کو پڑھیں گے وہ غالباً ا س بات سے واقف ہوں گے کہ مسلمانوں کی شریعت میں ہر مال دار مسلمان پر سال کے اخیر میں اپنی مالیت کا چالیسواں حصہ خدا کے واسطے نکالنا فرض ہے اور اس چالیسویں حصہ کا ان کی شریعت میں زکوۃ کہتے ہیں۔ پس گو اس سے مسلمان اپنی شریعت کے اس فرض کو ادا نہیں کرتے اور اس صورت میں اپنے ہم جنسوں کا فائدہ نہیں چاہتے لیکن جو پکے مسلمان وہابی کہلاتے ہیں یا جن کی طبیعت کا میلان اس سچے عقیدہ وہابیت کی طرف ہے وہ اس فرض کو کبھی مثل اور فرضوں کے نہات مضبوطی اور احتیاط کے ساترھ ادا کرتے ہیں اورجو روپیہ اپنے خزانہ میں سے زکوۃ کے طور پر نکالتے ہیں اس کو حتی الامکان اپنے قرب و جوار کے مساکین اور ان مسافروں میں تقسیم کر دیتے ہیں جن کا گزر ان قصبوںاور دیہات میں ہو اور مسافر و مساکین کے علاوہ ان نامی گرامی متوکل عالموں اور عابدوں کو دے دیتے ہیں جو ترک تعلق کر کے گوشہ عزلت میں بیٹھے ہوں اور ان کے سوائے جو طلباء مسجدوں وغیرہ میں رہتے ہیں ان کی تعلیم کے واسطے بھی دے دیتے ہیں اوراس رفاہ کے کام اور نیک فعل میں ان پر مذہب کی رو سے کچھ یہ بات فرض نہیں ہے کہ جس شخص کو وہ زکوۃ کا روپیہ دیں اس کے حالات کی تحقیق بھی کر لیا کریں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ کے مسلماونں کو بغاوت میں مدد دینے کے الزا م سے محفوظ رہنے کا اس قدر اندیشہ ہو گیا ہے کہ اب وہ مسافروں وغیرہ کو اس قسم کا روپیہ نہیں دیتے اوراکثر اوقات اس باب میں احتیاط کرتے ہیں ۔ اورحقیقت میں بھی ایسا ہی ہے کہ جو مسلمان زکوۃ دینے والے ہیں وہ ضرور اس الزام میں مشتبہ ہیں۔ اخوند سوات کی نسبت مجھ کو بھی گمان ہے کہ بلاشبہ اس کے پاس بہت سے دولت مند مسلمان زکوۃ بھیجتے ہوں گے لیکن اس بات کا یقین ہے کہ اخوند سوات وہابی نہیں ہے اور جو روپیہ اس کے پاس پہنچتاہوگا اس کو گورنمنٹ پر جہا د کرنے کے کچھ سروکار نہ ہو گا۔ دہلی میں مولانا شاہ عبدالعزیز مرحوم کا مدرسہ اورشاہ غلام علی صاحب کی خانقاہ دونوں ایسے مقام تھے کہ وہاں علاوہ ہندوستان کے تمام دنیا میں سے روپیہ پیسہ آتا تھا ۔ پس اگر کوئی شخص یہ بات کہہ دے کہ شاہ عبدالعزیز صاحب کے مدرسہ اور خانقاہ میں جہادکے واسطے روپیہ آتا تھا تو اس وقت یہ بات بھی تسلیم کی جاوے گی کہ اخوند سوات کے پاس جہاد کے واسطے روپیہ جاتا تھا۔ یہ ہم نے ہندوستانی وہابیوں کی گویا مختصر تاریخ بیان کی ہے اورمیں درخواست کرتا ہوں کہ جب وہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی کتاب کی نسبت میری رائے کو پڑھیں گے تو وہ اس مختصر تاریخ کا ضرور خیال رکھیں گے میں یقین کرتا ہوں کہ میرے اس مضمون سے یہ بات بہ خوبی ثابت ہو گئی کہ ہندوستان کے وہابیوں کا وہ جہاد جس کو ڈاکٹر ہنٹرصاحب نے گورنمنٹ انگریزی کے متعلق بیان کیا ہے صرف سکھوں کے مغلوب کرنے کے واسطے ہوا تھا اورگو باغیوں کی اس جماعت نے جو مقام ملکا اور ستانا میں رہتے تھے ۱۸۵۷ء کے بعد ہماری گورنمنٹ کو کسی قسم کی تکلیف دی ہو لیکن سرحد کی جماعت کو جس میںہندو او ر مسلمان دونوں شریک ہیں ہرگز جہادیوں کی جماعت نہیں کہہ سکتے۔ جب ہم ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی کتاب کھولتے ہیں تو ہم اس کے اول ہی صفحہ میں یہ فقرہ درج پاتے ہیں : ’’کئی سال سے ہماری سرحد پر باغیوں کی ایک جماعت نے شورش مچا رکھی ہے اور اکثر اوقات وہاں کے متعصب گروہوں نے ہمارے لشکر پرآ کر حملہ کیا ہے اوردیہات میں آ گ لگا دی اور ہماری رعایا کو قتل کیا۔ چناں چہ ہماری فوج کو ان کی یورش کی وجہ سے تین مرتبہ سرحد پر بڑی بڑی لڑائیوں میںجانا پڑا۔‘‘ پس ڈاکٹر صاحب کی یہ تحریر نہایت لطف کی ہے کیوں کہ اس کے مطالب کو ان الفاظ سے مزین اور مستحکم کیا ہے ’’باغیوں کی جماعت‘‘ ’’متعصب گروہوں‘‘ لیکن ہمارے مضمون کے ایسے پڑھنے والے جو تعصبات سے بری ہیں فوراً ڈاکٹر صاحب سے یہ بات دریافت کریں گے کہ اس جماعت سے صاحب موصوف کن لوگوں کو مرا دلیتے ہیں۔ اگر صاحب موصوف اس جماعت سے ان وہابیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو سکھوں پر جہاد کرنے کے واسطے سرحد پر سکونت پذیر ہوئے تھے تو میں بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ بیان محض بے اصل ہے اور اگر ان کی مراد اس جماعت سے وہ لوگ ہیں جو ۱۸۵۷ء کے بعد ملکا اور ستانا میں جا رہے تھے جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے تو اس صورت میں ڈاکٹر ہنٹر صاحب کے اس سوال کا کیا مطلب ہو گا کہ : ’’کیا ہندوستان کے مسلمانوں پر اپنے مذہب کی رو سے ملکہ معظمہ پر جہاد کرنا فرض ہے؟‘‘ کیوں کہ ان لوگوں کے فتنہ و فساد کو اس سے کیا تعلق ہو گا؟ ڈاکٹر ہنٹر صاحب اپنی کتاب کے اول صفحہ میں لکھتے ہیں کہ: ’’بارہا سرکاری تحقیقاتوں سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ہندوستان کے تما م اضلاع میں سازش و فساد کا گویا جال پھیل رہا ہے اورپنجاب سے آگے جو پہاڑ برف سے ڈھکے ہوئے ہیں وہاں سے لے کر ان گرم میدانوں تک جن سے گزر کر دریائے گنگ سمندر میںگرتا ہے برابر باغی لوگ بستے ہیں اور سرکاری راستوں سے برابر دو ہزار میل تک یہ لوگ روپیہ اور آدمی منزل بمنزل باغیوں کے لشکر میں بھیجتے ہیں اور اس سازش میں اکثر دولت مند اور تیز فہم لوگ بھی شریک ہیں مگر وہ اپنے روپیہ کو بڑے انتظام اورہوشیاری سے روانہ کرتے ہیں۔ پس ایسے امور کے لحاظ سے گویا اب بغاوت کا نہایت خوفناک کام بمنزلہ ایک ساہوکاری کے ہو گیا ہے ‘‘۔ پس اس فقرہ کے دیکھنے سے اور جو فقرہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب کے آغاز میں لکھا ہے اس کے دیکھنے سے اس بات کا یقین ہونا کہ یہ سازش بنگالہ کے مسلمانوں نے انگریزی حکومت کے تہ و بالا کرنے کے واسطے علانیہ تمام ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ کی ہو گی۔ حالانکہ میری دانست میں ڈاکٹر ہنٹر صاحب بھی اس بات کو تسلیم کریں گے کہ یہ سازش بغاوت کے علاوہ اور امور میں بھی ہو سکتی ہے ۔ کیوںکہ میری اور ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی دونوں کی رائے میں اب یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ہندوستان میں کبھی سکھوں پر حملہ کرنے کے واسطے بھی یہ سازش ہوئی تھی۔ پس اس سازش کو گورنمنٹ ہند کے مطالب کے خلاف بیان کرنا اور اس کے سبب کے تمام فرقہ اہل اسلام کی جانب سے عام لوگوں کو بدظن کرنا ہرگز بجا نہیں معلوم ہوتا۔ بعد اس کے صفحہ ۱۰ میں ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں: ’’جو لوگ متمول ہیں وہ تو اس طرح پر سازش میں شریک ہیں۔ باقی جو مسلمان ہیں وہ علی العموم اس فکر میں ہیں کہ آیا ہم پر جہاد کرنا فرض ہے۔ چناں چہ تھوڑے عرصے سے ہندوستان کے انگریزی اخبار نویس اس بات پر بڑی ہنسی اڑا رہے ہیں کہ جو مسلمان سرکار کے بڑ ے خیر خواہ ہیں وہ اس امر کی تحقیق میں نہایت سرگرم ہیں کہ آیا ہم بغیر کسی طرح کی اخروی خرابی کے جہاد کے فرض سے بچ سکتے ہیں یا نہیں‘‘۔ اس فقرہ کو دیکھ کر بے تامل یہ بات کہتا ہوں کہ میرے ہم وطنوں کی نسبت آج تک ایسے تحقیر آمیز کلمات کسی شخص نے نہیں لکھے اور ایسی بے جا تحریر کسی نے نہیں کی۔ جس سے ظاہر ہوتاہے کہ شاید ڈاکٹر ہنٹر صاحب کو ہندوستان کے مسلمانوں کے خیالات سے کچھ آگاہی نہیں ہے اور جس بنیاد پر انہوں نے اپنی دانست میں ان باتوں کی صحیح سمجھ رکھا ہے وہ محض پوچ ہے۔ مسلمانوں نے جو اس باب میں بحث و گفتگو کی تھی کہ آیا ہم پر جہاد فرض ہے یا نہیں اس کا یہ سبب نہ تھا جو ہنٹر صاحب خیال فرماتے ہیں کیوں کہ جو مسلمان ہندوستان میں رہتے ہیں وہ کچھ اس بات کے محتاج نہ تھے کہ جو مسائل ان کے مذہبی ہدایت پر مبنی ہے وہ ان کو از سرنو سکھائے جاویں بلکہ درحقیقت وہ ان سے خوب واقف تھے اورایسے مباحثوں سے ان کا اصلی مطلب صرف یہ تھا کہ بعض ناواقف لوگوں کی غلط بیانی سے جو اس باب میں ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف یس انگریزوں کی طبیعت برہم ہوتی تھی اس برہمی سے ایک طرح کی مضرت ہندوستان کے مسلمان اپنے حق میں سمجھتے تھے اور اس مضرت کو وہ اس طرح پر دفع کرنا چاہتے تھے کہ لوگوں کی اس غلط بیانی کی اصلاح کریں جس سے ایک غلط الزام ان پر لگتا ہے۔ چنانچہ بعض اخبار نویسوں نے جو اس باب میں کچھ لکھا لکھایا تھا اول انہوں نے اس کا کچھ خیال بھی نہ کیا۔ مگر جب انہوںنے دیکھا کہ اب اس معاملہ میں طول ہوتا جا تا ہے اور ہمارے ذمہ ایک غلط مذہبی تہمت لگتی ہے اورسرکار کے ساتھ بدخواہی کرنا گویا مسلمانوں کا ایک فرض ٹھہرتا ہے اس وقت انہوں نے مجبور ہو کر ان فقروں کو چھاپنا ضروری سمجھا جن کا ڈاکٹرہنٹر صاحب نے حوالہ دیا ہے۔ حالانکہ یہ فقرے کچھ آج کے نہیں ہیں بلکہ صدہا برس سے موجود ہیں اور ہمیشہ مسلمان ان کے معتقد رہے ہیں۔ صفحہ ۱۲ میں ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے ان باغیوں کا ذکر کیا ہے جو سرحد پر رہتے ہیں اورانہیں کے ذیل میں سید احمد صاحب کے بھی حالات بیان کیے ہیں اور جس طرح پر وہابیت کے مخالفوں نے مذاق سے یہ کہہ دیا تھا کہ سید احمد صاحب گویا ایک پیغمبر ہیں اور ان کے فلاں شخص چار خلیفہ ہیں اور اسی طرح پر ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے بھی ان کو پیغمبر لکھا ہے اور صفحہ ۱۳ میں بیان کیا ہے کہ ان کے چار خلیفہ بھی تھے اوریہ بھی ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ : ’’سید صاحب نے اپنے گماشتے اس واسطے مقرر کر دیے تھے کہ جو بڑے بڑے قصبے ان کی راہ میں واقع تھے وہاں جاکر وہ لوگ تجارت کے منافع میں سے اپنا ایک محصول لیا کریں‘‘۔ مگر ہماری دانست میں ڈاکٹر صاحب کے اس بیان کے واسطے کچھ سند نہیں ہے صفحہ ۱۴ میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : ’’سید احمد صاحب نے ان خلیفوں کی دنیوی طمع کو اپنے لوٹ کھسوٹ کے بڑے بڑے وعدوں پر بہت کچھ بڑھا رکھا تھا اور ان کے عقیدہ کو اس بات پر پکا کر دیا تھا کہ مجھ کو خداوند تعالیٰ نے تمام کفار یعنی سکھوں سے لے کر چین والوں تک کے نیست و نابود کرنے کا حکم دیا ہے‘‘۔ مگر جب ہم سید احمد صاحب کی اس التجا سے کہ ’’تمام مسلمانوں سکھوں پر جہاد کرنے میں شریک ہوں‘‘ ڈاکٹر صاحب کے بیان کو مطابق کرتے ہیں تو ہم کو چین والوں کا ذکر کا کہیں پتہ بھی نہیں ملتا۔ پس امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب ہم کو ازراہ مہربانی اس امر سے ضرور مطلع فرماویں گے کہ انہوں نے چین والوں کا ذکر کہاں سے لیا ہے او ر اس کی کیا سند ہے۔ صفحہ ۱۵ میں ڈاکٹر صاحب موصوف بیان فرماتے ہیں : ’’شمالی ہندوستان کے ان سرداروں اور راجائوں نے جو دل میں کچھ ناراض تھے برابر سید احمد صاحب کے لشکر کو فوجیں بھیجی تھیں‘‘۔ اگر ڈاکٹر صاحب اس مقام پر اپنا مطلب زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کرتے تو نہایت مناسب ہوتا کیوں کہ اس فقرے سے کسی شخص کو صاف صاف یہ بات نہیں سمجھ آتی کہ یہ ناراض سردار کون تھے اوروہ کس سے ناراض تھے۔ علاوہ اس کے جو ماجرہ کوہ ہمالیہ میں واقعہ ہوا تھا اس کے بیان میں صاب موصوف نے اپنی قوت متخیلہ سے زیادہ کام لیا ہے او را سکے بعد فقرہ ذیل میں اس سے بھی زیادہ کچھ خیال بندی فرمائی ہے: ’’سید احمد صاحب نے جو خلیفہ ۱۸۲۱ء میں بمقام پٹنہ معین کیے تھے ان میں سے د و شخص سرح دکی جانب گئے اورانہوں نے وہاں جا کر اس بات کو لوگوں کے خوب ذہن نشین کرایا کہ سید احمد صاحب نے انتقال نہیں فرمایا بلکہ وہ صرف بہ طور کرامت غائب ہو گئے ہیں۔ آئندہ کسی مناسب وقت میں ایک ملکوتی فوج لے کر ظاہر ہوں گے اور ہندوستان سے کفار کو نکال دیںگے‘‘۔ یہ بیان محض افتراء ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس بیان کو وہابیوں کے ساتویں عقیدہ کے اس معنی کی تصدیق کے واسطے درج کیا ہے جو انہوں نے اپنی طرف سے بیان فرمائے ہیں۔ شاید ڈاکٹر صاحب نے یہ بات کسی ایسے شخص کی زبانی سنی ہو گی جو وہابیوں کے مخالف عقیدہ رکھتا ہو گا یا وہابیوں پر ایک جھوٹا الزام لگانے کے واسطے آمادہ ہو گا ۔ کیسے افسوس کی بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب میں مسلمانوں کے عقائد بیان کرنے میں نہایت پوچ باتوں پر بھروسہ کیا اور ایک ایسے عالم نے صریح ظلمت و نور میں امتیاز نہیں کی جس کے سبب سے اس کی ہوشیاری میں بڑا بٹہ لگتا ہے۔ ایک اور فقرہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اپنی کتاب میں ایسا لکھا ہے کہ جو انگریز اپنی رعایا کے دلوں میں اپنی محبت کا تخم بونا چاہتے ہیں وہ ہرگز ایسے فقرہ کو نہ لکھیں گے جس سے ان کے مطلب میں خلل پڑتا ہے۔ وہ فقرہ یہ ہے : ’’ہر ایک مسلمان نے جو اس قدر سرگرم تھا کہ عیسائی گورنمنٹ کے عہد میں ایک خاموش نہیں رہ سکتا تھا۔ اپنی کمر باندھی اور ستانا کے لشکر میں جانے کو مستعد ہوا‘‘۔ پس تمام ایسے مسلمانوں کی نسبت جو ہندوستان میں چپ چاپ بیٹھے تھے یہ کیسی عام تہمت ہے ۔ معلوم ہوتا ہے شاید ڈاکٹر صاحب اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ مسلمانوں کے مذہب میں خصوصاً وہابیوںکے عقائد کے موافق اس باب میں کیا ہدایت ہے۔ یا شاید ڈاکٹر صاحب دیدہ و دانستہ ان کے غلط معنی بیان کرتے ہیں۔ وہابی لوگ اپنے رسول کے احکام کی سچی سچی اطاعت کرتے ہیں اور یہ بات مشہور ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مکہ کے مسلمانوں کو اذیت پہنچی تو آنحضرتؐ نے اپنے پکے پیروئوں کو حکم دیا کہ وہ حبش کی عیسائی سلطنت میں جا کر پناہ لیں۔ پس اب یہ بات کہنا کہ پکے مسلمان انگریزی سلطنت میں خاموش نہیں رہ سکتے تھے اور سرحد پر جانا چاہتے تھے ۔ محض افترا ہے۔ کیا ڈاکٹر ہنٹر صاحب کے نزدیک جو مسلمان ہندوستان میں باقی رہے تھے ان میں کوئی بھی پکا مسلمان نہ تھا۔ میں نے یہ بیان کیا تھا کہ جو لوگ جہاد کے واسطے سرحد پر جمع ہوئے تھ وہ گورنمنٹ انگریزی پر جہاد کرنا نہیں چاہتے تھے۔ چناں چہ میرے اس بیان کی تصدیق ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی اس تحریر سے ہوتی ہے جو ان کی کتاب کے صفحہ ۳۳ میں موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’اسی سال یعنی ۱۸۵۲ء میں انہوں نے ہمارے ایک رفیق یعنی ریاست امب کے سردار پر حملہ کیا جس کے سبب سے انگریزی فوج کا روانہ کرنا ضرور معلوم ہوا‘‘۔ بعد اس کے ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ : ’’میں ان زیادتیوں اور لوٹ کھسوٹ اور قتل و قتال کا مفصل ذکر نہیں کرتا جن کے باعث سے ۱۸۵۸ء میں گورنمنٹ انگریزی کو سرحد کی قوموں سے لڑنا پڑا اور اس عرصہ میں سرحد کی قوموں کو ہمیشہ متعصب مسلمانوں نے گورنمنٹ انگریزی کی مخالفت پر برانگیختہ رکھا‘‘۔ پس میں پوچھتا ہوں کہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب اپنے اس بیان کی کیا سند رکھتے ہیں اور ان کو کیسے معلوم ہوا کہ سرحد کی قوموں کی یہ دائمی مخالفت متعصب مسلمانوں کو برانگیختہ کرنے کی ھتی۔ اگر صاحب موصوف نے اپنے اس خیال کو اس بنا پر پیدا کیا ہے کہ سرحد کی قومیں سینکڑوں برس سے ان لوگوں کے ساتھ جنگ و پرخاش رکھتی تھیں جو ان کے متصل رہتے تھے تو میری دانست میں صاحب موصوف کی جانب سے ہمارے مسلمانوں پر ناحق کی تہمت ہے۔ اور مجھ کو اس کے سبب سے سخت حیرت ہے۔ کیوں کہ وہ قومیں تو خود ہی اس قدر جنگ جو اور کینہ پرور ہیں کہ کسی کی ترغیب و تحریک کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ : ’’اس عرصہ میں یعنی ۵۲ و ۱۸۵۸ء میں ان باغیوں نے جو ستانا میں تھے بہ نظر دانش مندی ی کام کیا کہ خود تو سرکاری فوج سے علانیہ مقابل نہ ہوئے مگر در پردہ سرحد کی قوموں کے دلوں میں جوش و خروش پیدا کرتے رہے ۔ اور متعصبانہ اثر ان کی طبیعتوں میں ڈالتے رہے‘‘۔ مگر ان کے اس بیان سے میرے اس قول کی تصدیق ہوتی ہے جس جہاد کا منصوبہ ہندوستان میں ہوا تھا وہ سکھوں کی نسبت تھا۔ گورنمنٹ انگریزی پر حملہ کرنے کے واسطے نہ تھا۔ کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو جو لوگ مذہبی جوش و خروش میں اکثر سکھوں سے لڑتے تھے دس برس تک گورنمنٹ انگریزی پر حملہ کرنے سے باز نہ رہتے تھے اوریہ ایک ایسی بات تھی جس کو میری دانست میں سب لوگ تسلیم کریںگے۔ مگر ڈاکٹر ہنٹر صاحب اس قابل تسلیم بات سے اس لیے اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں کہ اس کے سب سے ان کا یہ قصہ نہایت پرتاثیر ہو جاوے اور جو سرنامہ انہوں نے اپنی کتاب کے واسطے تجویز کیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ : ’’کیا ہندوستان کے مسلمانوں پر ملکہ معظم پر جہاد کرنا فرض ہے‘‘۔ اس سرنامہ کے معنی کو تقویت حاصل ہو۔ اب ہم سنہ ۱۸۵۷ء اور۵۸ و ۶۱و۶۳ کا ذکر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ۱۸۵۷ ء میں ستانا کے باغیوںنے گورنمنٹ انگریزی پر حملہ کرنے کے واسطے ایک عام سازش کرنی چاہی اور نہایت جرات کے ساتھ انہوں نے گورنمنٹ انگریزی سے اس بات کا تقاضہ کیا کہ وہ ان کو ایک تاوان کے وصول میں مدد دے۔ اپنی کتاب کے حاشیہ میں ایک مقام پر صاحب موصوف نے خاص کر یہ بیان کیا ہے کہ قوم یوسف زئی اورپنج تار بھی اس سازش میں شریک ہیں ۔ پس میں یہ بات جانتا ہوں کہ البتہ پچھلی دونوں قومیں ۱۸۵۷ء میں گورنمنٹ انگریزی سے لڑنے کا ضرور ارادہ رکھتی ہوں گی ۔ اس لیے کہ اس ہنگامہ میں لوٹ کھسوٹ اور دنیوی فائدہ کا نہایت عمدہ موقع حاصل تھا اور اس عرصہ میں بلاشبہ بہت سی اور قومیں بھی اس بات پر ایسی آمادہ تھیں کہ ان کو کچھ ستانا کے باغیوں کی تحریک کی ضرورت نہ تھی۔ علاوہ اس کے اس بات کو سن کر ہر شخص تعجب کرے گا کہ جب ۱۸۵۷ء میں ستانا کے باغیوں کی جانب سے ایسی عام سازش ہوئی تھی تو صرف ایک ہی برس بعد یعنی ۱۸۵۸ء میں ستانا اور سرحد کی قوموں کے باہم کیوں اس قدر نفاق ہو گیا کہ ان قوموں نے ان پر حملہ کیا اور ان کا بڑا متعصب سردار سید عمر شاہ نامی جس کا ذکر صفحہ ۵۲ کے حاشیہ میںہے اس حملہ میں ماراگیا۔ میری دانست میں تو اس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ پہاڑی قوموں میں ان کا کچھ رعب نہ تھا۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب کا بیان یہ ہے کہ یہ لوگ قرب و جوار کے پہاڑی باشندوں سے محصول لیا کرتے تھے (صفحہ ۲۴) مگر میری رائے یہ ہے کہ عنایت علی اور ولایت علی کے انتقال کے بعد چند آدمی پہلی جماعت کے رہ گئے تھے اور وہ اس قدر کمزور تھے اور خود ان میں باہم اس قدر نفاق تھا کہ وہ اس قسم کا ارادہ ہرگز نہیں کر سکتے تھے۔ البتہ ۱۸۵۷ء میں اور اس کے بعد کچھ سرکار فوج کے بگڑے ہوئے سپاہی اور کچھ اور لوگ ستانا میں جمع ہو گئے تھے ۔ اوران میں ہندو اور مسلمان سب تھے اورہمارے پہلے بیان کے موافق یہ وہی لوگ تھے جو ہندوستان سے جلا وطن کر دیے گئے تھے۔ اب ہم کو خود ڈاکٹر ہنٹر صاحب کے بیان سے یہ بات ثابت ہو گئی (صفحہ ۲۴) کہ ۱۸۵۰ء سے لے کر ۱۸۵۷ء تک ان متعصب مسلمانوں اور انگریزی فوج میں کبھی لڑائی نہیں ہوئی جن کا ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے لکھاہے۔ البتہ ۱۸۵۷ء کے بعد کئی لڑائیاں ہوئیں لیکن ان لڑائیوں سے کیا نتیجہ نکلا ۔ میری دانست میں تو ان سے صاف صاف یہ نتیجہ نکلا کہ جو کچھ اس کے بعد ظہور میں آیا اس میں اغوا کرنے والے سرکاری فوج کے باغی سپاہی تھے۔ سید احمد شاہ صاحب کے گروہ میں کا ایک شخص بھی اس میں شریک نہ تھا۔ اورجس سے ڈاکٹر ہنٹر صاحب کے اور اقوال کی سند نہیں ہے اسی طرح ان کے اس قول کی بھی اصل نہیں ہے کہ جو شعلہ ہندوستان میں بھڑکا تھا اس شعلہ کو ہندوستان کے متعصب مسلمان اور زیادہ بھڑکاتے تھے۔ جو ہنگامے گورنمنٹ انگریزی کے مقبوضہ دیہات میں بچوں کی چوری اور غارت گری اور آتش زدگی وغیرہ کے ظہورمیں آئے ہیں ان میں سرحد کی قوموں کی بہت کچھ سازش اور شرکت تھی۔ پس ان ہنگاموں کو سید احمد صاحب کے پیروئوں کی طرف منسوب کرنا اور ان کے باعث سے ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو مہتم کرنا نہایت ہی نازیبا ہے۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی کتاب کے باب اول کے آخر میں امیلا کی لڑائی اور سرحد کی قوموں کے اس فساد کا بھی ذکر ہے جو ۱۸۶۸ء میں انہوں نے کیا تھا۔ مگر اس مقابلہ کی نسبت میری یہ رائے ہے ( اور جو انگریزی افسر ا س موقع پر موجود تھے وہ بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں) کہ ان کا یہ مقابلہ کچھ مقام ملکا کے باغیوں کی محبت کے سبب سے نہ تھا بلکہ گورنمنٹ انگریزی نے جو ان کی مرضی کے خلاف ان کے ملک میں ہو کر حملہ کیا تھا اس سبب سے وہ ناراض ہو گئی تھیں مگر ان کی ناراضگی بھی حق بجانب تھی۔ اگر ان کو یہ اطلاع ہوتی کہ ہم صرف درہ امیل کے راستے چاہتے ہیں تو غالباً وہ سب گورنمنٹ انگریزی کی طرف دار ہوتیں۔ مگر ان کو ہمارے منصوبوں کی اطلاع نہ ہوئی ۔ اس سبب سے ان کے دل میں شبہ پیدا ہوا اور اسی شبہ کے سبب سے انہوں نے ستانا کے گروہ کی طرف داری کی ۔ مگر میں یقین کرتا ہوں کہ ایسے موقعوں پر اگر بجائے پہاڑی قوموں کے انگریز لوگ ہوتے اوران کو ایسی صورت پیش آتی تو وہ بھی ایسا ہی کرتے۔ صفحہ ۳۹ میں ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے محمد اسحاق اور محمد یعقوب اور مولوی عبداللہ ان تین سرداروں کا ذکر ہے ۔ لیکن یہ نہیں لکھا کہ یہ تینوں سردار کہاں سے آئے تھے۔ آیا پٹنہ سے آئے تھے یا جنوبی بنگالہ سے یا شمالی ہندوستان سے یا کہیں اور سے آئے تھے ۔ حالانکہ ہر شخص ان کے حالات کی تفتیش او ر تحقیق کا خواہاں ہے۔ میں ان کے ناموں سے محض ناواقف ہوں اور گو میں ان کی نہایت تحقیقات کی مگر مجھ کو کہیں پتا نہیں لگا ۔ ہنٹر صاحب نے گورنمنٹ پنجاب کی طرف سے اس بات پر افسوس کا ظاہر کیا ہے کہ گورنمنٹ موصوف ہندوستان کے متعصب مسلمانوں کو ہندوستان سے نہ نکال سکتی ہے اورنہ ان کو اس شرط سے گورنمنٹ کا مطیع کر سکتی ہے کہ وہ گورنمنٹ کی اطاعت قبول کریں اور ہندوستان میں اپنے گھروں کو لوٹ آویں (صفحہ ۴۱ و ۴۲) مگر صاحب موصوف نے یہ نظر دانش مندی یہ نہیں لکھا کہ وہ متعصب مسلمان ۱۸۵۷ء کے باغی تھے یا سید احمد صاحب کے گروہ کے باقی ماندہ لوگ تھے۔ اگر صاحب موصوف اس بات کا بھی مفصل ذکر کرتے تو یہ باب عمدہ طورسے ختم ہو جاتا ۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی کتاب کے صفحہ ۴۵ میں ایک شریر اور زبردست آدمی تتو میاں نامی کی ان زیادتیوں کا ذکر ہے جو اس نے معاملات اراضی کے متعلق کی تھیں اور ہندوئوں کی گایوں کو بہ جبر حلال کیا تھا اوریہ بھی لکھا ہے کہ اسی عرصہ میں کسی دولت مند کی بیوہ لڑکی کا نکاح بغیر رضا مندی اس کے وارثوں کے اس گروہ کے کسی سردار سے ہوا تھا اور ان سب باتوں کو ڈاکٹرہنٹر صاحب نے وہابیوں کی ایک ایسی سازش کا نتیجہ قرار دیا ہے جو انگریزی حکومت کے تہ و بالا کرنے کے واسطے کی گئی تھی۔ حالاں کہ یہ سب ایسی لغو اور فضول تہمتیں ہیں کہ ان کا جواب دینا بھی فضولیات سے معلو م ہوتاہے ۔ کیوں کہ ایسے فساد اور جھگڑے ہمیشہ تمام ہندوستان میں ہوتے رہے ہیں مگر ان کو کبھی سرکاری معاملات سے کچھ سروکار نہیں ہوا اور نہ ان کو کسی نے انگریزوں پر جہاد سمجھا۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے سید احمد صاحب کے کرامتاً غائب ہو جانے کے قصے کو کسی قدر مبالغہ اور اصرار کے ساتھ بیان کیاہے ‘ حالانکہ یہ ایک ایسا لغو قصہ ہے جس کو اس وقت کے عام مسلمان بھی اپنے اعتقاد میں نہایت ضعیف سمجھتے تھے۔ پس جس قدر کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے ان مسلمانوں کو ضعیف الاعتقادی کو لوگوں کے ذہن نشین کرنا چاہتے ہیں درحقیقت اس کی کچھ بھی اصل نہ تھی۔ اب میں اس مضمون کے ناظرین کو اس خط کے مضمون کی طرف مائل کرتا ہوں۔ جو بنگالہ کے ایک بڑے راسخ العتقاد عالم نے لکھا تھا۔ اس خط میں عالم مذکور نے اولاً سید احمد صاحب کے کرامتاً غائب ہو جائے کے قصے کی اصلیت دریافت کی ہے اور اس کے بعد اپنے اپنے معتقدین کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ وہاں سے اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے آویں۔ پس ذرا سوچنا چاہیے کہ اس عالم کی چٹھی اور اس کی ہدایت کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ۔ ہمارے نزدیک تو اس سے صاف یہ عمدہ نتیجہ نکلگتا ہے کہ یہ شخص اپنی صفائی طبیعت سے اس بات کو بہت برا سمجھتا تھا کہ مذہبی سرگرمیوںکو دھوکا بازی سے برانگیختہ کرے اور اس کا منشا یہ ہرگز نہ تھا کہ وہ سلطنت انگریزی میں کسی قسم کا فتور برپا کرے۔ حالاں کہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اس کو بھی ایک متعصب عالم لکھا ہے۔ ڈاکتر ہنٹر صاحب کی کتاب کے صفحہ ۶۱ میں سید احمد صاحب اور عبدالوہاب کی ایک مفصل تاریخ لکھی ہے وہ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’جو بات اب تکان کے دل میں بہ طور خواب و خیال کے تھی وہ انجام کار ایک آتشیں شعلہ کے بن کر اس درجہ کو پہنچی کہ وہ اپنے دل میں جملہ اضلاع ہندوستان میں اسلام کا جھنڈا قائم خیال کرنے لگے اور انگریزوں کے مذہبی آثار کو ان کی نعشوں کے ساتھ کو یا زمین میں مدفون سمجھنے لگے‘‘۔ پس اس میں شبہ نہیں کہ سید احمد صاحب اور اگر ٹھیک ٹھک سمجھو تو مولوی اسماعیل صاحب نے اپنی ہمت کو اس با ت پر مصروف کیا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو ہندوستان میں اپنے مذہب اسلام کی تہذہب اور اصلاح کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ ہندوستان میں بہت سی بے اصل باتیں مسلمانوں کے مذہب میں داخل ہو گئی تھیں‘ اور اسی لحاظ سے ڈاکٹر صاحب کا یہ قول نہایت صحیح ہے کہ سید احمد صاحب تمام اضلاع ہندوستان میں اپنی مذہبی تہذیب کا جھنڈا قائم کرنا چاہتے تھے۔ مگر یہ بالکل غلط ہے کہ وہ گورنمنٹ انگریزی کے مذہب کے نیست و نابود کرنے کی فکر میں تھے۔ میری دانست میں ڈاکٹر صاحب کی یہ رائے بالکل بے سند ہے اور اس قابل نہیں ہے ‘ کہ اس پر ذرا بھی التفات کیا جائے ۔ جو اطلاع سید احمد صاحب نے مسلمانوں کو دی تھی وہ صرف اس بات کی تھی کہ وہ سکھوں پر جہاد کرنے کے لیے آمادہ ہوں۔ پس ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی رائے خود سید احمد صاحب کی اس ہدایت ہی سے بالکل مختلف ٹھہرتی ہے کہ وہ ان کے اعتقاد کے بالکل خلاف ہوتی۔ میں جانتا ہوں بلکہ مجھ کو یقین ہے کہ غالباً اس معاملہ میں ڈاکٹر صاحب کو کسی ایسے شخص نے دھوکا دیا ہے جو وہابیت کے خلاف اعتقاد رکھتا ہے۔ جس موقع پر ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے وہابیوں کی کتابوں کا ذکر کیا ہے وہاں انہوںنے یہ فقرہ لکھا ہے کہ : ’’وہابیوں کی کتابوں میں دین دار اور خدا پرست آدمیوں کا سب سے بڑا فرض یہی لکھا ہے کہ وہ جہاد کریں‘‘۔ اور بعدا س کے پھر صفحہ ۶۶ میںلکھا ہے کہ : ’’وہابیوںنے نظم اورنثر زبان میںانگریزوں پر جاد کرنے کی بابت اس کثرت سے رسالے لکھے ہیں کہ اگر ان سب کا حد سے زیادہ مختصر خلاصہ کیا جاوے تو بھی ان سے ایک بڑے حجم کی کتاب تیار ہو‘‘۔ اور اسی ذیل میں صاحب موصوف نے مسلمانوں کی ان پیشن گوئیوں کا ذکر کیا ہے جو انگریزی حکومت کے زوال کی نسبت کی گئی ہیں اور مسلمانوں کی چودہ کتقابوں کی ایک فہرست بھی لکھی ہے اوران میں سے چند فقرے نقل کیے ہیں‘ جن کا ذکر آئندہ آئے گا جن کے ضمن میں ڈاکٹر صاحب کی بہت کھلی ہوئی غلطیاں بھی ظاہر ہوں گی۔ جہاد تو ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے جواز و عدم جواز اور اس کے شروط کا ذکر مسلمانوں کی آسمانی کتاب یعنی قرآن شریف اور احادیث نبی اورفقہ کی تمام کتابوں میں برابر موجود ہے۔ اس سبب سے ڈاکٹر صاحب کو یہ لکھنا زیبا تھا کہ تمام مسلمانوں کی مذہبی کتابوں میں جہاد کا ذکر ہر جگہ ہے یہ مناسب تھا کہ صرف وہابیوں کی کتابوں کا ذکر اس میں ہے اور اگرڈاکٹر صاحب نے یہ سمجھا ہے کہ جہاد وہابیوں کے نزدک سب سے بڑا فرض ہے تو ان کویہ لکھنا بھی ضرور تھا کہ وہ کن کن صورتوں میں فرض ہے میری دانست میں ڈاکٹر صاحب کا یہ بیان بالکل غلط ہے کہ وہابیوں نے خاص جہاد کے باب میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ چناں چہ جب ہم ان کتابوں کے مطالب کو غور سے دیکھیں گے تو ڈاکٹر صاحب کی یہ غلطی بھی ظاہر ہو جاوے گی۔ صاحب موصوف نے اول صراط مستقیم کا ذکر کیا ہے ( یہ وہ کتا ب ہے ‘ جس کو ۱۲۳۳ء مطابق ۱۸۱۸ء میں مولوی اسماعیل صاحب دہلوی نے تصنیف کیا تھا ) اس کتاب میں صرف ایک مقام پر جہاد کا ذکر ہے۔ پس صاحب موصوف نے اپنی کتاب کے صفحہ ۶۴ میں جو کچھ اس کے متعلق لکھا ہے اور ترجمہ کیا ہے وہ بالکل صحیح نہیں ہے صحیح یہ جیسا ہم لکھتے ہیں: ’’باید دانست کہ جہاد امریست کثیر القواعد عمیم المنافع کہ منفعت آں بوجوہ متعددہ بہ جمہور انام می رسد بمشابہ باراں کہ منفعتش نبات و حیوان و انسان را احاطہ کردہ و منافع ایں امر عظیم دو قسم است۔ منفعتی عامہ کہ مومنین مطیعین و کفار متمردین و فساق و منافقین بلکہ جن و انس و حیوان و نبات دراں اشتراک می دارند و منافع مخصوصہ بجمایات خاصہ یعنی بعضی اشخاص را منفتعی حاصل میشود و بعضی دیگر را منفتعتی دیگر ۔ اما منفعت عامہ پس بیانش آں کہ چناں کہ بہ تجربہ صحیحہ ثابت شدہ کہ بسبب عدالت حکام و دیانت اہل معاملات و سخا و جود ارباب اموال و نیک نیتی جمہور انام برکات سماویہ مثل نزول باران بروقت و کثرت نبات و اتفاق مکاسب و معاملات و دفع بلایا و آفات و نمو اموال و ظہور ارباب ہنر و کمال بیش از بیش متحقق می گردد ہمچنیں مثل آں بلکہ صد چند ازاں بہ سبب شوکت دیں حق و عروج سلاطین متدینین و ظہور حکومت ایشاں در اقطار و اکناف زمین وقوت عسا کر ملت ۔ حقہ و انتشار احکام شرع در قریٰ و احصار بہ ظہور میر سد۔ چنانچہ حال ہندوستان را با حال روم و توران در نزول برکات سمادیہ سنجید بلکہ حال ہندوستان را دریں جز زمان کہ سنہ یک ہزار دو صدوسی و سوم است کہ اکثرش دریں ایام دارالحرب گر دیدہ بہ حال ہمیں ولایت کہ بیش ازیں دو صد یا سہ صد سال بودہ در نزول برکات سمادیہ و ظہور اولیائے عظام و علمائے کرام قیاس باید کرد‘‘۔ علاوہ اس بات کے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس عبارت کا ترجمہ غلط کیا ہے اور اس جملہ کو بھی ترک کر دیا ہے کہ :’’تجربہ صحیحہ‘‘ جو تمام عبارت کی بنیاد ہے ۔ بلاشبہ مولوی اسماعیل صاحب نے اپنی کتاب کے اس فقرہ میں عام طور پر جہاد کا ذکر ضرور کیا ہے ‘ مگر اس جہاد کا ذکر ہے جو کا وجوب یا جواز بہت سی شرطوں کے ساتھ مشروط ہے۔ کچھ مولوی اسماعیل صاحب نے سکھوں یا ہندوئوں یا انگریزوں کا ذکر نہیں کیا۔ پس ان کی ایسی کتاب میں سے جو فقہ کی اور کتابوں کی مانند جہاد کی فصل پر بھی مشتمل ہے ڈاکٹر صاحب کا خاص اس فقرہ کو نقل کرنا اور اس پر یہ رائے دینا کہ یہ انگریزوں کی نسبت ہے ہرگز ڈاکٹر صاحب کے شایان حال نہیں ہے۔ جہاں مولوی اسماعیل صاحب نے حکام کے انصاف‘ اہل معاملات کی دیانت اور مال داروں کی سخاوت کا ذکر کیا ہے وہاں مولوی اسماعیل صاحب نے خاص مسلمان حاکموں کا انصاف وغیرہ مراد نہیں لیا بلکہ علی العموم اس کا یہ مطلب ہے کہ جو لوگ خواہ وہ کسی مذہب کے ہوں ان صفات کے ساتھ موصوف ہوں گے وہ خدا کے فضل و کرم کے مستحق ہوں گے۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اس بات پر بھی گرفت کی ہے کہ مولوی اسماعیل صاحب نے اپنی کتاب میں ہندوستان کی اس حالت سے جو سولھویں اور سترھویں صدی میں تھی اور اس حالت سے جو انیسویں صدی میں ہے باہم مقابلہ کیا ہے ۔ مگر مقام تعجب کا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس رائے کے ظاہر کرتے وقت اس بات کا خیال نہ کیا کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں زمانہ تک تو ہندوستان میں مسلمانوں ہی کی حکومت رہی تھی۔ اور مولوی صاحب نے اپنے اس بیان میں اس عہد کو بھی ۱۸۱۸ء کی مانند برا بیان کیا ہے۔ پس اگر مولوی اسماعیل صاحب کے بیان کی نسبت یہ گرفت صحیح خیال کی جاوے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر مولوی اسماعیل صاحب اٹھارویںصدی کے وسط میں ہوتے تو وہ خود اپنی ہی گورنمنٹ کے حق میں جہاد کا وعظ کہنا کیسے جائز سمجھتے۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے لفظ ’’دار الحرب‘‘ کے ترجمہ کی صحت کا بھی خیال نہیں فرمایا۔ کیوں کہ انہوں نے اس کا ترجمہ ’’دشمن کے گھر‘‘ لکھا ہے اس لیے کہ اس صورت میں انہیں کے دلائل کے بہ موجب وہ تمام مسلمانوں کو بغاوت سے باز رکھتا ہے۔ جو مضمون اس عالم ڈاکٹر نے انگلش میں مطبوعہ ۱۶ مئی ۱۸۷۱ء میں چھپوایا ہے اس کا بھی خلاصہ ذیل میںلکھا جاتا ہے: ’’ہم یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ مسلمانوں کی تمام معتبر کتابوں کے بہ موجب ہندوستان دارالسلام نہیں رہا بلکہ وہ دارالحرب بن گیا ہے۔ پس جو مسلمان رعایا اب زیادہ پر جوش ہے خود اس کے حق میں بھی اورنیز ہمارے حق میں بھی یہ بات کچھ خفیف نہیں ہے کہ ہندوستان اب دارالحرب ہو گیا ہے اور اس صورت میں ان پر ہم سے بغاوت کرنا اور اس کو پھر دارالاسلام بنانا فرض نہیں ہے ۔ مگر ہم اپنے پہلے مضامین میں یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ ہندوستان اب دشمن کا ملک ہے‘ اس سبب سے اس زمانہ کے مسلمانوں کو بھی اپنی کتابوں کے بہ موجب فرض ہے کہ وہ ساکت رہیں بلکہ اس پر خدا کی مشیت غالب ہے اور بناوٹ کرنے سے جن خطرات کا احتمال ان کے مذہب کی نسبت ہے وہ احتمال اس بات پر ان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ جہاد کو اب ناجائز سمجھیں‘‘۔ ’’صرا ط مستقیم‘‘ ان چودہ کتابوں میں سے پہلی کتاب ہے جن کی نسبت ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۶۶ میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ : ’’جن کتابوں کے وہابی لوگ زیادہ معتقد ہیں ان کے نام سننے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان میں بغاوت اور فساد کا ذکر ہے‘‘۔ مگر میں اپنے پہلے مضمونمیں یہ بات بخوبی ثابت کر چکا ہوں کہ اس کتاب کو گورنمنٹ انگریزی پر جہاد کرنے سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ ایک اور مقام پر ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۶۵ اور ۶۶ میںپیشن گوئیوں کے ایک نظم رسالہ کا ذکر کیا ہے مگر میری دانست میں جو مطلب اس کا ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے بیان کیا ہے وہ محض غلط ہے ۔ اس لیے کہ وہ رسالہ اور وہ مثنوی جس کو مولوی کرم علی ساکن کان پور نے تصنیف کیا تھا وہ ۱۸۲۴ء اور ۱۸۳۰ء کے درمیان اس وقت تصینف ہوئی تھی جب سید احمد صاحب سکھوں پر جہاد کر رہے تھے۔ پس ایسی کتابوں اور ایسے رسالوں کے ذکر کرنے سے بجز اس کے کہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اپنی کتاب کی رونق تصور کی ہے اورکچھ فائدہ نہیں ہے اور جن دلائل سے انہوں نے اس امر کا ثبوت چاہا ہیکہ ملکہ معظمہ پر جہاد کرنا مسلمانوں کا فرض ہے ان دلائل کو ان رسالوں اور قصیدوں کے ذکر سے کچھ بھی تقویت نیں ہوتی اورجب ان رسالوں کے معی کو غور سے دیکھا جاتا ہے تو کوئی بات ان میں ایسی نہیں معلوم ہوتی جس کی نسبت یہ گمان ہو سکے کہ وہ گورنمنٹ انگریزی سے لوگو کو باغی بنانے کے لیے لکھے گئے ہیں اور اگر اس مضمون کے دیکھنے والے اس بات کا خیال کریں کہ یہ رسالے کس زمانہ میں تصنیف ہوئے تھے تو ان کو خود ہی معلوم ہو جاوے گا کہ ان میں دراصل کن لوگوں کے خطاب ہے اوراسی سبب سے میں ڈاکٹر صاحب کے اس فقہ کی صحت و عدم صحت کا تصفیہ ناظرین حق پسند کی منصفانہ رائے پر چھوڑتا ہوں: ’’وہابیوں نے نظم و نثر میں انگریزوں پر جہاد کرنے کے باب میں اس کثرت سے کتابیں تصنیف کی ہیں کہ اگر ان سب کا نہایت مختصر خلاصہ کیا جاوے تو بھی ایک بڑ ے حجم کی کتاب تیار ہو‘‘۔ تیسری کتاب شرع وقایہ عربی ہے جس کو میں اور تمام ہندوستان کے مسلمان جانتے ہیں اور جس کو تصنیف ہوئے بھی کئی سو برس کا عرصہ ہو چکا ہے۔ یہ کتاب حنفیوں کی فروعات میں ہے اور قطع نظر اس کے کہ وہ وہابیوں کے نزدیک معتبر ہے یا غیر معتبر یہ بات ظاہر ہے کہ وہ ہندوستان میں اس فرقہ کے پیدا ہونے سے بہت پہلے موجود تھی اور اس میں جہاد کی بابت صاف یہ لکھاہے کہ وہ سے مسلمانوں پر اس وقت فرض ہے جب کہ کفار مسلمانو ں کو ایذا پہنچاویں چناں چہ اس بات کو خود ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے بھی اپنی کتاب کے صفحہ ۶۶ میں صراحۃً تسلیم کیا ہے۔ چوتھی کتاب شاہ نعمت اللہ ولی کشمیر کا (جنہوں نے ۱۰۲۸ھ مطابق ۱۶۱۸ء میں وفات پائی) ایک پرانا قصیدہ ہے جس میںانہوں نے بہ طور پیشن گوئی یہ لکھا ہے کہ گورنمنت انگزیزی کو ایک وقت عین زوال ہو گا اوراسی قسم کی اس میں اور چند پیشن گوئیاں ہیں جن کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے صفحہ ۶۶ میں کیا ہے مگر تعجب کی بات ہے کہ جس مقام پر پہلے ڈاکٹر صاحب نے وہابیوں کے عقائد کا حال بیان کیاتھا وہاں انہوںنے یہ بھی لکھا تھا کہ وہابی لوگ اولیاء اللہ کی کرامات کے قائل نہیں ہیں۔ پھر کیوں کر ڈاکٹر صاحب کا یہ بیان صحیح ہو سکتا ہے کہ وہابی لوگ اولیاء اللہ کی اس غیب دانی کے معتقد ہیں۔ یہ تو ایسی بات ہے کہ جو لوگ وہابیت کے خلاف قبر پرستی کرتے ہیں وہ بھی اس کے قائل نہیں ہیں اس لیے کہ اس قسم کی باتیں تو اکثر نجومی اور رمال و جفار لوگ بیان کرتے ہیں اور اگر خدا کے نیک بندے کوئی ایسی پیشن گوئی کرتے ہیں تو ان کی نیت میں فساد نہیں ہوتا۔چناں چہ دیکھو اکثر عیسائی پادری بھی دنیا کے انجام کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں اور سلطنت روم و فرانس وغیرہ کے زوال کی بابت پیشن گوئیاں کرتے ہیں اورپیشن گوئیوں کو سینٹ جان کے الہام پر مبنی سمجھتے ہیں ۔ چناں چہ جو لوگ تھوڑی سی بھی عقل و فہم رکھتے ہیں وہ بھی ایسی پیشن گوئیوں کو کسی حالت میں بھی قابل اعتما د نہیں سمجھتے اور خاص وہابیوں کا تو یہ عقیدہ ہے کہ پیشن گوئی کوئی ہرگز قابل اعتبار نہیں ہوتی کیوں کہ علم غیب کا ثبوت اور بشر کے واسطے تو کیا خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے بھی نہیں ہے چناں چہ خود قرآن پاک میں خاص آں حضرت صلعم کی نسبت لکھا ہے کہ : قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ماشاء اللہ ولو کنت اعلم الغیب لا ستکثرت من الخیر وما مسنی السوئ۔ ان انا الا نذیر و بشیر لقوم یومنون یعنی کہہ دو تم اے محمد رسول اللہ لوگوں کو کہ مجھ کو خود اپنی ذات کے نفع اور نقصان کا بھی اختیار نہیں ہے۔ بلکہ جو خدا چاہے وہی ہوتاہے‘ اور میں کوئی غیب کی بات نہیں جانتا اور اگر میں علم غیب رکھتا ہوتا تو بہت سی بھلائی کی باتیں جمع کر لیتا اور اپنے اوپر کوئی برائی نہ آنے دیتا۔ میں کوئی غیب دان یا فرشتہ یا برائی بھلائی کا مالک نہیں ہوں بلکہ میں تو صرف مومنوں کو بشارت دینے والا اور عقبیٰ کی خرابیوںسے ڈرانے والا ایک آدمی ہوں۔ پانچویں کتاب قیصر روم ہے۔ اس کو بھی وہابیوں کے اعتقادات سے کچھ علاقہ نہیں ہے کیوںکہ یہ ایک تاریخ کی کتاب ہے جس کو گورنمنٹ روم ک ایک ملازم ابراہیم آفندی نے عربی زبان میں لکھا ہے ۔ پھر اس کا خلاصہ بہ زبان فارسی ۱۲۲۱ھ مطابق ۱۸۶۴ء کو کانپور میں چھاپا چناںچہ من جملہ اور باتوں کے اس کتاب میں ان لڑائیوں کا بھی ذکر ہے جو سلطان محمود اول کے عہد میں وہابیوں اور ترکوں کے باہم ہوئی تھیں۔ چھٹی کتاب آثار محشر ہے جس کو مولوی محمد علی صاحب نے تصنیف کیا تھا۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب اس کی نسبت تحریر فرمات ہیں کہ : ’’اس کتاب میں یہ پیشن گوئی کی گئی ہے کہ پنجاب کی سرحد پر خیبر کی پہاڑیوں پر ایک ایسی لڑائی ہو گی کہ ابتدا میں انگریز مسلمانوں کو مغلوب کریں گے اور مسلمان مغلوب ہو کر اپنے امام موعود کی تلاش کریںگے۔ بعد اس کے ایک اور لڑائی ہو گی جو چار روز تک رہے گی اور ا س لڑائی میں مسلمان فتح یاب ہوں گے اورانگریزوں کو ایسی شکست فاش ہو گی کہ ا س کے سبب سے انگریزوں کے دماغوں میں سے اپنی حکومت کا خیال جاتا رہے گا۔ اس کے بعد امام مہدی علیہ السلام ظاہر ہوں گے اور جو مسلمان اس وقت میں حاکم ہوں گے وہ امام صاحب سے ملنے کے لیے مکہ معظمہ جاویں گے اوریہ واقعات بعد اس کسوف و خسوف کے واقع ہوں گے جو ماہ رمضان میں ہوں گے‘‘۔ مگر میں حیران ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ بات کہاں سے نکالی ہے۔ میرے ذہن میں تو بجر اس کے اورکچھ نہیں آتا کہ یا تو ڈاکٹر صاحب اپنے اس بیان سے اپنی کتاب کے پڑھنے والوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں اور یا وہ نہایت درجہ کے ناواقف ہیں کیوں کہ ان کے ذمہ ان دونوں الزاموں میں سے ایک ضرور عائد ہوتا ہے۔ حالاں کہ میرے علم و یقین میں یہ دونوں باتیں ڈاکٹر صاحب کی شان سے بعید معلوم ہوتی ہیں اب میں اپنے ناظرین مضمون کے ملاحظہ کے واسطے آثار محشر کا خلاصہ مطلب ذیل میں درج کرتا ہوں اور اس بات سے ان کو متنبہ کرتاہوں کہ ایسی ہی خیبر کی پہاڑیاں جن کے سبب سے دھوکا دہی یا ناواقفیت کا الزام ڈاکٹر صاحب پر عائد ہوتا ہے حوالی مدینے منورہ میں بھی واقع ہیں اوروہ بھی خیبر کی پہاڑیاں مشہور ہیں۔ خلاصہ مذکور یہ ہے: ’’قیامت کے قریب سلطان روم اور ایک عیسائی بادشاہ میں لڑائی ہو گی۔ اس لڑائی میںسلطان روم کو دو عیسائی بادشاہ مدد دیں گے (جس طرح پر کریمیا کی لڑائی میں سلطان روم کو مدد دی گئی تھی) نچاں چہ وہ لڑائی شام کے میدانوں میں ایک عرصہ تک ہوتی رہے گی اور اثناء جنگ میں کبھ کسی کو اور کبھی کسی کو فتح یابی ہو گی۔ مگر انجام کار عیسائی بادشاہوں کی معاونت سے سلطان روم کو فتح نصیب ہو گی۔ اسکے بعد سلطان روم ان عیسائی بادشاہوں مٰں اس بات پر تنازع ہو گا کہ یہ فتح مجھ کو ہوئی ہے ۔ اور وہ کہیں گے کہ فتح ہم کو ہوئی ہے اور انجام اس نزع کا یہ ہو گا کہ یہ دونوں عیسائی بادشاہ جو سلطان روم کے رفیق بنیں گے اس بادشاہ کے موافق ہو کر جو سلطان روم کا مخالف ہو گا پھر سلطان رو م کو شکست دیں گے اور سلطنت روم پر قبضہ کر کے اپنی حکومت خیبر کی ان پہاڑیوں تک پھیلا دیں گے جو مدینہ منورہ کے قریب واقع ہیں ۔ پس جب نوبت یہاں تک پہنچے گی تو مسلمان یہ سمجھ کر امام مہدی علیہ السلام کو تلاش کریں گے کہ اب ان کے ظہور کا زمانہ آ گیا ہے اور امام مہدی علیہ السلام اس زمانہ میں مدینہ منورہ میں ہوں گے۔ بعدے چند وہاں سے مکہ معظمہ کو تشریف لے جائیں گے اور مکہ معظمہ میں تمام مسلمان ان کے پاس جمع ہو جاویں گے اورچند روز بعد ایک خراسانی امیر ایک جم غفیر لے کر اما م مہدی علیہ السلام کے پاس آوے گا امام مہدی اس کی مدد سے عیسائیوں کو شکست دیں گے اورمسلمانوں کی حکومت تمام دنیا میںقائم کریں گے۔ اسی عرصہ میں دجال نابکار پیدا ہو گا اورمسجد دمشق میں اس دجال کے ہلاک کرنے کے واسطے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نزول فرمائیں گے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ مل کر دجال کو ہلاک فرماویں گے۔ اس کے بعد چند اور ایسے ہی امور ظہور میں آویں گے اورپھر ہنگامہ قیامت برپا ہو گا۔ پس خیبر کی پہاڑیوں کا تو یہ حال ہے جو میں نے بیان کیا ہے اوراس کتاب کی نسبت میری رائے یہ ہے کہ اس سے اکثر مضامین مسلمانوںکے اعتقاد میں ایک روایت کا حکم رکھتے ہیں اور برے بڑے علماء اور فضلاء بھی اس کو کچھ قطعی حکم نہیں سمجھتے وار میرا عقیدہ بھی اس کی نسبت ایسا ہی ہے۔ جن چود ہ کتابوں کا ذکر ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اپنی کتاب میں کیا ہے ان میں سے ساتویں کتاب تقویۃ الایمان ہے چناں چہ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے رسالہ (جلد ۱۳‘ ۱۸۵۲ئ) میں چھپا تھا۔ مگر اس کتاب کو وہابیت یا جہاد سے کچھ تعلق نہیں ہے اور اس امر کی تصدیق اس کے انگریزی ترجمہ کو پڑھ کر ہر ایک انگریز کر سکتا ہے۔ آٹھویں کتاب ایک تذکرہ ہے مگر میں نے نہ اس کتاب کا نام سنا اور نہ مجھ کو یہ معلوم ہوا کہ اس نام کی کوئی کتاب مولوی محمد اسماعیل دہلوی صاحب نے تصنیف فرمائی تھی۔ البتہ اس کے نام سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس میں کچھ نصیحت آمیز باتیں لکھی ہوں گی۔ نویں کتاب ’’’نصیۃ المسلمین‘‘ ہے اور س میں پانچ باب ہیں۔ پہلے باب میں تو بت پرستی کا حال لکھا ہے۔ دوسرے باب میں اس فعل کی مذہب لکھی ہے۔ تیسرے باب میں یہ لکھا ہے کہ کسی مخلوق کو مثل خد اکے سمجھ لینا بت پرستی میں داخل ہے۔ چوتھے باب میں مشرق کے مسلمانوںکے شرک آمیز طریقوں کا ذکر ہے پانچویںباب میں اس عذاب کا ذکر ہے جس کے بت پرست عاقبت میں مستحق ہوں گے۔ مگر اس تمام کتاب میں میری نظر سے ایک فقرہ بھی نہیں گزرا جس سے یہ بات ترشح ہوتی ہو کہ اس میں گورنمنٹ پر جہاد کرنے کی ترغیب ہے۔ دسویںکتاب ’’ہدایۃ المومنین‘‘ ہے اس نام کی جس کتاب کو میں جانتا ہوں وہ صرف تعزیہ داری کے ذکر میں ہے۔ گیارھویں کتاب عربی زبان کی ’’تنویر المعینین‘‘ ہے جوکسی زمانہ میں مع اردو ترجمہ کے کلکتہ میں چھپی تھی ۔ اس کتاب میں کہیں جہاد کا نام و نشان بھی نہیں ہے بلکہ اس میں صرف اس امر کا بیان ہے کہ مسلمانوں کو نماز میں رفع یدین کرنا چاہیے۔ چناں چہ پورا نام اس کتاب کا ’’تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین‘‘ ہے اور اس کے معنی یہ ہیں’’روشنی آنکھوں کی رفع یدین کے ثبوت میں‘‘ لیکن بڑا تعجب ہے کہ ڈاکتر ہنٹر صاحب نے اس کتاب کو جہاد سے کیوں منسوب کیا ہے ۔ بارھویں کتاب ہے جس کو شاہ سید احمد اور مولوی محمد اسماعیل صاحب کے پیدا ہونے سے بہت پہلے شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی مولوی محمد اسماعیل صاحب کے دادا نے (جنہوںنے ۱۱۷۴ھ مطابق ۱۷۶۰ء میں وفات پائی) تصنیف کیا تھا۔ یہ احکام تقلید اور اجتہاد میں ہے ۔ اس کتاب میں بھی جہاد کا کہیںذکر نہیں ہے بلکہ اس میں صرف اس بات کا بیان ہے کہ آیا انسان کو دینیات میں اپنی رائے اور اجتہاد سے کام لینا چاہیے یا پہلے لوگوں کی تقلید کرنی چاہیے۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس عالم ڈاکٹر نے لفظ اجتہاد اور جہاد کو ایک معنی سمجھا ہے۔ جس کے سبب سے ان کو یہ غلطی ہوئی ہے۔ تیرھویں کتاب ’’تنبیہ الغافلین‘‘ ہے یہ ایک چھوٹا سا رسالہ ہے اردو کا جس کو شاہ سید احمد صاحب نے اپنے پیروئوں اور اورمسلمانوں کی ہدایت کے واسطے لکھا تھا۔ اس کتاب کے دیباچہ میں دنیا کی بے اثباتی کا ذکر ہے اور اس بات کی ہدایت ہے کہ دنیا محض ایک ناپائدا ر شے ہے اور اس کا لالچ ہرگز نہ کرنا چاہیے اور باقی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ مسلمانوں پر یہ بات فرض ہے کہ وہ کسی مخلوق کو معبود نہ سمجھیں۔ مگر اس میں جہاد سے کچھ بحث نہیں ہے۔ چودھویں کتاب ’’اربعین‘‘ ہے مگر یہ اربعین ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی مثل ہم اوربہت سی کتابیں دیکھتے ہیں کیوںکہ وہ صرف ان چالیس حدیثوں کا نام ہے جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں سے منتخب کی گئی ہیں پس آج تک میں نے کوئی چہل حدیث ایسی نہیں دیکھی جس کو کسی وہابی نے تالیف کیا ہو اور اس میں ج ہاد کی ترغیب ہو۔ اب میں وہابیوں کی اس تحریر کا ذکر کرتا ہوں جو ہندوستان کے مسلمانوں کی ہجرت کے باب میں ہے اور جس کا تذکرہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی کتاب کے صفحہ ۷۰ میںموجود ہے۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اس کے اول حصہ کو کلکتہ ریویو کے صفحۃ ۲۹۴ سے لیا ہے اوردوسرے حصہ کو جامع التفاسیر سے (اور کلکتہ ریویو کے صفحہ ۳۹۱ میں وہ دوسرا حصہ بھی موجود ہے ) مگر ا ساول حصہ میں جو فقرہ صاحب راقم کلکتہ ریویو نے سب سے پہلے لکھا ہے ہم کو اس کی سند نہیں معلوم ہوئی کہ وہ کس کتاب سے لکھا ہے ۔ وعلیٰ ھذا القیاس جو حصہ جامع التفاسیر سے نقل ہوا ہے۔ وہ بھی تصر ف سے خالی نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ جو ترجمہ تصر ف سے خالی نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ جو ترجمہ مصنف جامع التفاسیر نے قرآن کی اس آیت کا کیا ہے : قل یا عبادی الذی آمنوا اتقو اربکم للذین اھسنو ا فی ھذہ الدنیا حسنۃ وارض اللہ واسعۃ۔ انم یوفی المصابرون اجرھم بغیر حساب۔ وہ تو صرف یہ ہے (کہہ دو تم اے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے بندوں سے کہ اے بندو ڈرو تم اپنے رب سے اور جان لوتم اس بات کو کہ جو لوگ دنیا میں نیکو کار ہیں ان کے لیے عقبی میں بھی عیش ہیں اور خدا کی زمین بہت وسیع ہے۔ جو لوگ تکلیف و اذیت پر صبر کرتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ پورا اجر دیتا ہے) اور اس ترجمہ میں صاحب جامع التفاسیر نے اور مفسرین کی رائے سے اتفاق کر کے اس فقرہ کی شان نزول میں ’’خدا کی زمین وسیع ہے‘‘ یہ لکھا ہے کہ جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ک پیروئوں یعنی مسلمانوں کو ابتدا اسلام میں اہل مکہ سے ازیت پہنچی تو آں حضرت ان مسلمانوں سے یہ ارشاد فرمایا کہ تم والی حبش کی حکومت میں چلے جائو۔ حالانکہ اس زمانہ میں حبش کا حاکم ایک عیسائی تھا۔ چناں چہ خداکے اس کلام میں آں حضرت کے اس حکم کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کی کتاب میں وہابیوں کی تحریر مذکور کے ایک اور فقرہ کا ترجمہ درج ہے مگر ڈاکٹر صاحب نے جو اس ترجمہ میں گل گھونٹنے کا ذکر کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ اس کا صرف یہ ہے کہ: ’’اگر ہم سچی بات کہیں تووہابیت مخالف مسلمان ہی ہماری زبان پکڑیں گے‘‘۔ علاوہ ازیں اس کے مصنف نے خدا سے یہ دعا مانگی ہے کہ جیسے میرے استاد حضرت مولوی اسحاق صاحب کو مکہ معظمہ کی مٹی نصیب ہوئی اسی طرح مجھ کو بھی مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ کی خاک نصیب ہو۔ پس جو شخص اس مضمون کو پڑھے گا اس کو یہ ضرور معلوم ہوگی کہ اپنے مذہب کا پکا اور اپنے دین کا متدین آدمی ہمیشہ ایسی ہی آرزوئیں کیا کرتا ہے اور حتی الامکان اوروں کو بھی اس کی ہدایت کرتاہے۔ اب ہم راقم کلکتہ ریویو کے اس فقرہ کو بھی نقل کرتے ہیں جس کو ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے کسی مصلحت سے چھوڑ دیا ہے وہ فقرہ یہ ہے کہ : ’’ہجرت کا مسئلہ کچھ خاص اسلام ہی سے متعلق نہیں ہے بلکہ عیسائی مذہب میں بھی اس کا وجود ہے چنانچہ مسلمانوں میں مشتاقان زیارت کا اور عیسویں مذہب میں رومن کیتھولک کے پیروئوں کا اوران لوگوں کا جو یروشلم میں مرنے کو ثواب کی بات جانتے تھے ایک سا ہی مطلب معلوم ہوتا ہے کیوں کہ یہ سب لوگ اس بات کے دل سے خواہاں ہوتے ہیں کہ اگر ہماری زندگی کے آخری ایام کسی ایسی بزرگ اور مقدس جگہ میں بسر ہوں جہاں ہم عصیاں کاری سے محفوظ رہیں‘‘۔ پس اگر ہندوستان سے ہجرت کرنے کے مسئلہ کی کچھ اصل ہوتی تو جن مسلمان لوگوں کو ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے مفسدہ پرداز اور گورنمنٹ کے حق میں ایک خطرناک چیز بیان کیا ہے اور وہ یہاں کیوں ٹھہرتے ۔ سیدھے مکہ ہی کو نہ جاتے۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۷۱‘ ۷۵ میں وہابی مسلمانوں کے جن چار فرقوں کا ذکر کیا ہے اب ہم ان میں سے تیسرے فرقہ یعنی مولویوںکا ذکر کرتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کے دو فرقوں کو بھی اس غرض سے نقل کرتے ہیں کہ ناظرین مضمون ان کو پڑھ کر ذرا ڈاکٹر صاحب کی رائئے کی وقعت کا اندازہ کریں۔ وہ فقرے یہ ہیں: ’’میں نہایت افسوس کروں گا کہ اگر کوئی شخص یہ خیال کرے گا کہ میں نے لفظ وہابی کو مفسد معنی میںلکھا ہے ۔ ہندوستان میں حکومت انگریزی کی گویا یہ بد نصیبی ہے کہ اگر مسلمانوں کی تہذیب کا ارادہ کیاجاوے تو یہاں کے مسلمان کافر فتح مندوں کے دشمن بن جاویں گے اور جہاں کہیں مسلمان اپنے مذہبی مسائل کو ا سر نو تازہ کرنا چاہتے ہیں وہاں کے حکام سے ضرور بغاوت کرتے ہیں‘‘۔ مگر کیسے افسوس کی بات ہے کہ ابھی وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہابیت سے مفسد پردازی میری مراد نہیں ہے۔ اورابھی وہ یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو بغاوت لازم ہے۔ اس لحاظ سے وہ صرف پانچ صفحوں میں بھی اپنی رائے کو ایک طرح پر نہیں لکھ سکتے ۔ اورسب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحریر میں مذہب اسلام کو مورد الزام بنایا ہے جس کا میرے ثبوت نے بالکل باطل کر دیا ہے ۔ مگر صاحب موصوف کی طبیعت میں وہابیوں کی سازش اور جہاد کا خیال ایسا سمایا ہوا ہے کہ علی العموم جو بات مذہب اسلام کی ہوتی ہے وہ اس کو لوٹ پھیر کر اپنے ہی کلام اور مطلب کی موید بنا لیتے ہیں اور گو میری یہ رائے ہے کہ جس مسئلہ کو ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اس پچھلے فقرہ میں بیان کیا ہے اس کو کسی طرح وہابیت سے علاقہ نہیں ہے۔ لیکن تاہم میں اس بات کو بلاشبہ سلیم کرتا ہوں کہ بعض وہابی ایسے متعصب ہوتے ہیں کہ و ہ صرف کافروں ہی کو نہیں بلکہ ان مسمانوں کو بھی ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں جو ان کے عقیدہ کے خلاف عقیدہ رکھتے ہیں اور خود وہ اہل سنت و جماعت مسلمان بھی جو وہابی نہیں ہیں وہابیوں کے نزدیک برے خیال کیے جاتے ہیں حالاں کہ وہابی ایسے لوگوں سے ملنے جلنے یا ان سے صحبت رکھنے اور ان کے رنج و راحت میں شریک ہونے بلکہ ان کے ساتھ نماز پڑھنے تک کو برا جانتے ہیں۔ لیکن درحقیقت ایسے متعصب وہابی منافق لوگ ہیں اور ان کی رائیں سراسر غلطی پر مبنی ہیں اور ان کے ایسے قول و فعل خاص ان ہی کی ذات سے علاقہ رکھتے ہیں کچھ وہ وہابیت کے اصول نہیں ہیں۔ مگر ڈاکٹر صاحب کو اس بات کی خبر نہیں ہے کہ جیسے بعض وہابی متعصب ہیں ایسے ہی بہت سے پکے وہابی اور وہابیوں کے علاوہ اور مسلمان جو وہابیت کی جانب میلان خاط رکھتے ہیں ایسے بھی ہندوستان میں موجود ہیں کہ جس طرح اپنے وہابیت کے خالص عقیدہ کو خداوند تعالیٰ کے ساتھ پاک و صاف رکھتے ہیں اسی طرح وہ اس بات کو بھی اپنی بھلائی کا باعث جانتے ہی کہ ہمارے اس خالص عقیدہ کا اثر ہمارے ہم جنسوں کی نسبت بھی ایسا ہی ہو اور دنیا میں سب لوگ خلوص و اتحاد سے رہیں اور جس طرح سے وہ اپنے عقیدہ کو خدا کی رحمت کا سبب جانت ہیں اسی طرح وہ اس کو دنیا میں بھی باہمی رحمت و محبت کا منشاء خیال کرتے ہیں ۔ پس میری دانست میں جو لوگ ایسے ہیں ان کے اتباع سے اور لوگوں کو ضرور فائدہ ہو گا اور جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ اگر تھوڑے سے وہابی متعصب ہیں تو بہت سے نیک نیت اور صاحب دل بھی موجود ہیں ۔ پس اس صورت میں ڈاکٹر ہنٹر صاحب کا یہ قوم کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا کہ علی العموم مسلمانوں کے مذہب کی تہذیب اس بات کی موجب ہے کہ مسلمانوں کے دل میں کافر فتح مندوں کی طرف سے بغض و عداوت پیدا کرے۔ میں دل سے یقین کرتا ہوں کہ مسلمانوں کی مذہبی تکمیل کے اور اپنی گورنمنٹ کے ساتھ خیر خواہی کرنے کے گویا ایک ہی معنی ہیں۔ ۷۸ صفحہ میں جہاں ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے وہابیوں کی چوتھی جماعت کا ذکر کیا ہے کہ وہاں بھی یہ فرمایا ہے کہ ہر ضلع میں باغیوںکی ایک جماعت اس غرض سے موجود ہے کہ روپیہ اور آدمی جمع کرے اور اس کو جہاد کے صرف واسطے مہیا رکھے۔ چناںچہ ان کے جس فقرہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اس نے ہر ایک گھر کے سرپرست کو یہ حکم دیا کہ وہ ہر شخص کی خوراک میں سے بھی ایک مٹھی خدا کے نام کی بھی نکال لیا کرے‘‘۔ مگر میری دانست میں ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے یہ ایک ایسے فرضی لوگوں کا ذکر کیاہے جن سے بڑھ کر آج تک دنیا میں کوئی قوم شائستہ اور ہمدرد نہیں ہوئی کیوں کہ ہندوستانی لوگ تو مدت میں استقلال مزاج اور دور اندیشی اور اتفاق اور خاموشی اورراز داری اور عوام کی طبیعتوں پر حاوی ہونے کے طریقوں کو بھول گئے ہیں اورجب تک یہ سب باتیں کسی قوم میں نہ ہوں اس وقت تک جیسی سازش کا خیال ڈاکٹر ہنٹر صاحب ہندوستان کے وہابیوں کی نسبت کرتے ہیں ایک ہفتہ بھی قائم ہیں رہ سکتی اور ہندوستان تو کیا یہ و ہ صنعتیں ہیں کہ یونان اور روم کی نامی ہمدرد قوموں نے بھی نہیں ہوئیں۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب کے اس خیال کی اصل صرف اس قدر ہے کہ کسی زمانہ میں سکھوں پر جہاد کرنے کے واسطے ایک اتفاق ہو ا تھا اور اس سے گورنمنٹ کے ساتھ بغاوت کرنے کا تو ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے ہی طومار باندھا ہے ۔ مگر خدا کا ہزار ہزار شکر ہے کہ انگریزوں کی ذی ہوش اور حق پسند قوم نے اپنی دانائی کے سبب سے ان کی تحریر پر کچھ التفات نہیں کیا۔ دوسرے باب کے اخیر میں ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے ان سرکاری تحقیقاتوں کا ذکر کیا ہے جو وہابیوں کی سازش کے باب میں کی گئیں مگر ان تحقیقاتوں کے نتیجہ کی نسبت اس سبب سے کچھ رائے نہیں دیتا کہ آئندہ خود وہ زمانہ ہی آجاوے گا جس میں ان تحقیقاتوں کی حقیقت کھل جائے گی مجھ کو اس وقت ان کی نسبت کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ نہاں کے ماند آں رازے کز و سازند محفلہا تیسرے باب کے شروع میں ہم کو بجز اس کے اور کوئی چیز نہیں معلوم ہوئی کہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اپن علمی لیاقت کو ظاہر کیا ہے اور عبارتا ارائی کے ساتھ پیچیدہ بیان میںمطلب کو دقیق کر دیا ہے اور حالاں کہ جس صاف اور سیدھی بات کو انہوں نے اس قدر پیچیدگی کے ساتھ بیان کیا ہے وہ دراصل ایسی پیچیدہ ہے ۔ اس کے بعد انہوںنے چند ایسے فتووں کا ذکر کیا ہے جو گزشتہ سنوں میںملکہ معظمہ پر جہاد کرنے کی بابت ہوئے تھیاور جو ڈاکٹر صاحب نے ان فتوئوں کا ہے اس کو صاحب موصوف نے اپنی معمولی عادت کے مطابق ایک خیالی اور فرضی طور سے بیان کیا ہے۔ مگر چوں کہ اس باب میں مسلمانوں کے ایسے فعل کا سبب پہلے ہی بیا ن کر چکا ہوں اس لیے دوبارہ کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے شیعہ لوگوں کا کچھ ذکر لکھا ہے اور جو تعریف ان لوگوں کی کی ہے گو وہ بھی مشروط بہ شرائط ہے لیکن میں اس طرح سے بھی خوش ہوں۔ کیوں کہ میری دانست میں یہی غنیمت ہے کہ اس عالم ڈاکٹر نے مسلمانوں کے ایک تفرقہ کی تو تعریف کی ۔چناں چہ میں ان کی اسی قدر مہربانی اور رحم کا شکر گزار ہون۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنے کمال علمی اور تیزی فہم سے یہ بات ثابت کی ہے کہ ہندوستان اب دارالحرب ہے اور جو رائے ہندوستان کے داراسلام ہونے کی نسبت کلکتہ کی اسلامی مجلس نے دی تھی اس ک بہت بڑی دلائل سے باطل کیا ہے۔ چنان چہ جو دلائل اس رائے کی ابطال میں اس عالم ڈاکٹر نے بیان کیے ہیں ان سے بھی اتفاق کرتا ہوں ولیکن ساتھ ہی اس کے میں یہ بات کہتا ہوں کہ اگر مجلس مذکور نے ہندوستان کا دارالسلام ہونا اس کے لغوی معنی کے لحاظ سے ثابت کیا ہے تو مجھ کو اس کی رائے سے اتفاق نہیں ہے ۔ اور اگر اس نے اصطلاحی معنی کے لحاظ سے ثابت کیا ہے تو میں اس کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔ کیوں کہ جو شخص یہ خیا ل کرے کہ کوئی ملک لفظ دارالسلام یا درالحرب کے لغوی معنی کے لحاظ سے یا دارالسلام ہو سکتا ہے یا دارالحرب ہو سکتا ہے اورکوئی حالت متوسط ن دونوں کے درمیان نہیں نکل سکتی تو اس کا یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ البتہ یہ بات صحیح ہے کہ حقیقی دارالسلام وہی ملک ہے جس پر دارالحرب صادق نہ آتا ہو۔ مگر ایک صورت سے بعض ملک ایسے ہیں جو ایک اعتبار سے دارالسلام اورایک اعتبار سے دارالحرب بھی ہو سکتے ہیں ۔ چناں چہ ہندوستان بھی آض کل ایسا ہی ملک ہے۔ جہاد کے باب میں میرا سب سے پہلا مضمون تو رسالہ نمبر ۲ مطبوعہ میرٹھ میں چھپا تھا جس کا نام خیر خواہان مسلمانان ہند تھا اوردوسرا اور تیسرا مضمون اخبار پایونیر مطبوعہ چوتھی و پانچویں اپریل ۱۸۷۱ء میں چھپا تھا اور چوتھا مضمون علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ مطبوعہ ۱۳ مئی ۱۸۷۱ء میں چھپا تھا اور ایک نہایت عمدہ آرٹیکل ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی کتاب کی نسبت پایونیر مطبوعہ ۲۳ نومبر ۱۸۷۱ء میں چھپا تھا جس میں جہاد کی بحث کا گویا خاتمہ ہو گیا۔ لیکن چوں کہ ہنوز ڈاکٹر صاحب کی دو ایک صریح غلطیوں کی اصلاح اور باقی ہے اس سبب سے اب میں اس کی نسبت کچھ گفتگو کرتا ہوں۔ صفحہ ۱۲۸ میں ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’وہابیوں کا اول عقیدہ یہ ہے کہ اب ہندوستان دشمن کا ملک ہو گیا ہے اور اس سبب سے وہ مسلمان ہندوستان کے حکام پر جہاد کرنا فرض خیال کرتے ہیں‘‘۔ اور اسی مطلب کو ڈاکٹر صاحب نے صفحہ ۱۴۰ میں ذرا تیز عبارت کے ساتھ یوں تعبیر کیا ہے: ’’وہ ہندوستان کے وہابی جن کی مذہبی حرارت ان کی علمی ہدایت سے زیادہ ہے یہ سمجھ کر کہ ہندوستان ان کے نزدیک اب دشمن کا ملک ہو گیا ہے اپنے حکام پر جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں‘‘۔ پس ڈاکٹر ہنٹر صاحب کا یہ کل بیان ایک سخت اور ناسزا تہمت اس قوم کے حق میں ہے جو ہندوستان کے دارالحرب ہونے ہی کے لحاظ سے گورنمنٹ پر جہاد کرنے کو ناجائز سمجھتی ہے۔ چنانچہ اس نے اسی خیال سے اب تو کیا ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ میں بھی گورنمنٹ پر جہاد نہیں کیا جس کی برابر آج تک ہندوستان میں کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ پس اگر ڈاکٹر صاحب اب بھی یہ بات کہیں کہ ان کا یہ خیال صحیح ہے تو میں ان سے اس امر کا ثبوت چاہتا ہوں کہ وہابیوں نے ہندستان کے رہنے والے انگریزوں پر جہاد کرنا کب جائز سمجھتا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ملکہ معظمہ کے مولویوں کا کچھ ذکر کیا ہے۔ چنانچہ صفحہ ۱۲۳ پر وہ تجویز فرماتے ہیںکہ: ’’یہ بات اس پر اور بھی دلالت کرتی ہے کہ وہ بڑے بڑے فتووں یعنی مولوی عبدالحئی صاحب کے فتوے اور مکہ معظمہ کے مولویوں کے فتویٰ میں علی الخصوص اس بات کا ذکر ہے کہ ہندوستان دارالسلا م ہے مگر گو انہوںنے بڑے بچائو کے ساتھ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا کہ اس وجہ سے ان کو جہاد کرنا جائز ہے‘‘۔ اورپھر صفحہ ۱۳۰ میں لکھتے ہیں کہ: ’’اسی وجہ سے میں مکہ کے (جو تعصب اور مذہبی سرگرمی کا گھر ہے) مولویوں کے فتویٰ کی نسبت جن کا یہ مقولہ ہے کہ ہندوستان دارالسلام ہے یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے اپنی رائے میں کلکتہ کی اسلامی مجلس کی طرح سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جہاد کرنا ناجائز ہے بلکہ اس بات کو انہون نے انے ان ہم مذہبوں کی رائے پر چھوڑ دیا ہے جو ہندوستان میں ہیں تاکہ اس سے وہ کوئی اورنتیجہ قائم کر لیں جس کا خلاصہ یہ ہو کہ اس وجہ سے جہاد کرنا فرض ہے‘‘۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ اتہام کیوں لگایاہے کہ اوروہ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ اس سوال میں جو مکہ کے مولویوں سے دریافت کیا گیا تھا‘ ہندوستان میں جہاد کی صحت و عدم صحت کا ذکر نہیں ہے۔ اور جس بات کا سوال میں ذکر ہو اس کو مجیب اپنے جواب میں کیوں کر بیان کر سکتاہے۔ پس اس لحاظ سے جو امر ڈاکٹر صاحب نے خیال کیا ہے وہ نہایت بے جا اور بالکل بے اصل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب صفحہ ۱۳۶ میں لکھتے ہیں کہ: ’’ہندوستان دار السلام سے دار الحرب مخفی طور پر بن گیا ہے‘‘۔ اور جو تدبیریں ڈاکٹر صاحب کے قول کے بہ موجب گورنمنٹ ہند نے ہندوستان کے دارالحرب بنانے کی کی تھیں وہ یہ تھیں کہ اس نے ہندوستان کے مسلمان صوبوں سے اپنا دامن چھڑایا اورہندوستان کے سکوں پر انگریزی بادشاہوں کی تصویریں جاری کیں۔ قوانین اسلام کو منسوخ کیا اور سب سے اخیر وقت میں یہ کیا کہ ایکٹ ۱۱] ۱۸۶۴ء کے بہ موجب عہدہ فضا کو توڑ دی امگر ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی یہ رائے میرے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ کیوںکہ یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستان پلاسی کی لڑائی سے دارالحرب ہوا ہے۔ اس لیے کہ دارالسلام سے دارالحرب ہونے کے لیے جو ملک کو یہ بات کافی ہے کہ اس کے کافر حکام کو اپنی مرضی سے موافق عمل درآمد کا اختیار حاصل ہو جاوے اور اس کے موافق عمل کرنا دوسری بات ہے۔ مگر میں ایسا جانتا ہوں کہ شاید اس موقع پر شاہ عبدالعزیز صاحب کے اس فتوے کا خیال ڈاکٹر صاحب کو نہیں رہا جو انہوںنے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۴۰ میں نقل کیاہے اوجس کا ایک فقرہ یہ ہے کہ : ’’جس وقت کفار کو کسی ملک میں اس قدر قدرت حاصل ہو جاوے کہ وہ اپنی مرضی کے موافق عمل درآمد کر سکیں اور احکام اسلام کے قائم رکھنے اور منسوخ ہونے پر قادر ہو جاویں تو وہ ملک باعتبار سیاست کے دارالحرب ہو جاتا ہے‘‘۔ حالانکہ یہ فتویٰ شاہ عبدالعزیز صاحب نے اس وقت لکھا تھا جب کہ ان اسباب میں سے ایک سبب بھی ظہور میں نہیں آیا تھا۔ جن کو ڈاکٹر صاحب نے اپنی دانست میں ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا باعث قرار دیا ہے۔ چناں چہ اس کو پچاس برس کے قریب عرصہ بھی گزر گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک اور غلطی قابل اس کے ہے کہ لوگ اس پر توجہ دیں۔ ڈاکٹر صاحب صفحہ ۱۴۱ لکھتے ہیں کہ: ’’جومسلمان زیادہ تربیت یافتہ ہیں وہ گو اس امر کو افسوس اور مجبوری کے ساتھ قبول کرتے ہیں لیک وہ اس کو بغاوت کا سبب نہیں کہتے بلکہ اپنی مذہبی رسوم کی کمی کا باعث خیال کرتے ہیں‘‘۔ بلکہ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بیا ن کیا ہے کہ جو مسلمان بہت بڑ ے دین دار ہیں وہ ہندوستان میں جمعہ کو بھی فرض نہیں کہتے اور ان لوگوں میں سے ایک تو مولوی محمد وجیہہ صاحب پروفیسر کالج مسلمانان کلکتہ اور دوسر ے قاضی فضل الرحمن صاحب کا نام لکھا ہے کہ ان لوگوں نے اسی سبب سے جمعہ کی نماز ترک کر دی ہے کہ ہندوستان دارالحرب ہو گیا ہے ۔ حالاں کہ نہایت سچے وہابیوں کے نزدیک جمعہ کے جواز کی شرط صرف تین مسلمانوں کی جماعت ہے جس کو وہ ایسی شرط سمجھتے ہیں کہ اگر وہ دارالسلام میں بھی متحقق نہ ہو تو ا ن کے نزدیک جمعہ نہیں ہوتا البتہ شافعی المذہب کے لوگ چالیس آدمیوں کی جماعت کو شر ط سمجھتے ہیں۔ مگر حنفی مذہب لوگوں کو اس باب مٰں ایسی احتیاط ہے کہ وہ جمعہ کی فرضیت سے پہلے اس کے تحقق کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ اورجن لوگو ں کانام ڈاکتر صاحب نے لکھا ہے وہ بھی حنفی المذہب ہیں اور ان کے نزدیک جمعہ کی شرائط متحقق نہ ہوتی ہوں گی۔ پس اس صورت میں ان لوگوں پر یہ تہمت لگانا کہ وہ ہندوستان کو دار الحرب سمجھ کر نماز نہیں پڑھتے نہایت بڑی غلطی ہے اوراز بس بے جا اورنامناسب تہمت ہے۔ تیسرے باب کے خاتمہ پرڈاکٹر ہنٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ : ’’مجھ کو ہندوستان کے مسلمانوں سے دلی خیر خواہی اور محبت کی ہرگز توقع نہیں ہے بلکہ میں ان کی ذات سے بڑی امید یہ کر سکتا ہوں کہ وہ حکومت انگریزی قبول کرنے میں سرد مہری کریں گے‘‘۔ اگر ڈاکٹر صاحب موصوف کو ہم لوگوں کے مسلمان ہونے کے باعث سے اس قدر مایوسی ہوئی ہے تو میں ان سے یہ درخواست کرتاہوں کہ وہ قرآن شریف کی اس آیت کی طرف توجہ فرمائیں: ولتجدن اشد الناس عداوۃ للذین آمنوا الیھود والذین اشرکو اولتجدن اقربھم مودۃ للذین آمنوا الذین قالو انا نصریٰ ۔ ذالک بان منھم قسیسین ورھبانا واانھم لا یستکبرون جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے محمد ؐ تم پائوگے تمام آدمیوں میں سے سخت دشمن مومنین کا یہودیوں اور مشرکوں کو اور پائو گے تم مومنین کا دوست ان لوگوں کو جو اپنے کو نصاریٰ کہتے ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ نصاریٰ میں اکثر پادری اور عابد ہیں اور وہ بہت سا گھمنڈ نہیں رکھتے۔ یہ مسئلہ مشہور ہے کہ جیسا کوئی کرتا ہے ویسا ہی اس کو نتیجہ ملتا ہے۔ پس اگر مسلمان یہ جز سر مہری کے قوم حکمران کی جانب سے اور کچھ سلوک نہیں دیکھتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب کو مسلمانوں کی سرد مہری پرکچھ متحیر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم دونوں قوموں یعنی عیسائی اور مسلمان کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول یاد رکھنا اور اس پر عمل کر نا چاہیے کہ : ’’جس سلوک کے تم اور آدمیوں سے متوقع ہو تم کو بھی اس طرح پر ان کے ساتھ سلوک کرنا چاہیے‘‘۔ اس باب کے خاتمہ پر ایک حاشیہ میں ڈاکٹر صاحب نے مسلمانوں سے مندرجہ ذیل سوال کا جواب دریافت کیا ہے جو ان کے نزدیک ایک سخت سوال ہے۔ سوال : اے علماء و محققان شرع اسلام! تمہاری اس معاملہ میں کیا رائے ہے کہ اگر کوئی مسلمان بادشاہ ہندوستان پر ایسے وقت میں حملہ کرے جب کہ وہ انگریزوں کے قبضہ میں ہوتو اس ملک کے مسلمانوں کو انگریزوں کی امان ترک کرنی اور اس غنیم کو مدد دینی جائز ہے یا نہیں؟ ا س سوال کے جواب سے بیشر میں چند فقرے جہاد کے متعلق نقل کرتا ہوں اور میں یقین کرتا ہون کہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب کے حسب ذیل سوال کا جواب بھی دوں گا اور جواب دینے سے بیشتر ان کا بیان کرنا میرے نزدیک مناسب بھی ہے اور وہ فقرے یہ ہیں: ’’مذہب اسلام میں نہایت عمدہ اور ثواب کا کام ایک غائب خدا کے وجود پاک اور توحید کا اقرار کرنا اور عموماً سب لوگوں کو اس کی ہدایت کرنا ہے۔ لیکن چوں کہ یہ توقع نہیں تھی کہ کفار کے ملکوں میں ان مسلمانون کو جو ازروئے نصیحت ہدایت کرنا اور وعظ کے ذریعے سے ترغیب دینا اور علانیہ ایک خدا کی پرستش کرنا چاہیں‘ کافی امن و امان حاصل ہو۔ لہٰذا اسلام کی فضیلت قائم کرنے اور مسلمانوں کے واسطے امن و آسائش کا بندوبست کرنے کے واسطے جو اپنے مذہب کے عمدہ مسائل کی نسبت وعظ کرنا اور ان ملکوں میںامن کے ساتھ رہنا چاہتے تھے فوراً تلوار کی طرح رجوع کی گئی تاکہ ان لوگوں کی عادا ت اور طور طریق وغیرہ معتقدوں کے واسطے بہ طور نظیر کے ہوں اوریہ عمدہ مقصد یعنی یہ کہ مسلمان امن و امان سے رہیں اور ایک سچے خدا کی پرستش کی وعظ کہیں‘ ان طریقوں میں سے ایک طریقہ سے حاصل ہو سکتا تھا۔ اول برضا و رغبت لوگوں کے مذہب اسلام قبول کرنے سے ۔ دوم اس باہمی اتفاق کے ساتھ جو دشمنوں پر حملہ کرنے اور اپنی حفاظت کی غرض سے کیا جاوے امن و امان قائم کرنے کے لیے۔ سوم تلوار کے زور سے اورجس وقت یہ مقصد حاصل ہو جاتا تھا تو فوراً تلوار روک لی جاتی تھی اور اگر پچھلے دو طریقوںمیں سے کسی طریقہ میں امن و امان قائم ہو سکتا تھا تو فریقین کو رعایا یا ایک دوسرے کی مذہبی رسول میں دست اندازی کرنے کا کچھ اختیار حاصل نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ ہر ایک شخص کو یہ اختیار حاصل ہوتا تھا کہ بلا مزاحمت اپنی تمام مذہبی رسول کو ادا کرے‘‘۔ پس ان فقروں سے صاف ظاہر ہے کہ جس وقت تک مسلمان کامل امن و امان کے ساتھ خدا کی وحدانیت کا وعظ کہہ سکیں۔ اس وقت تک کسی مسلمان کے نزدیک اپنے مذہب کی رو سے اس ملک کے بادشاہو ں پر جہاد کرنا جائز نہیں ہے۔ خواہ وہ کسی قوم کے کیوں نہ ہوں ۔ قرآن شریف کے بعد وہابیوں کی معتبر کتابیں بخاری اورمسلم ہیں اور ان دونوں میں یہ لھکا ہے کہ ’’جس وقت ہمارے رسول خدا محمد صلعم نے کسی کافر قوم پر جہاد کرنے کے واسطے کوچ فرمایا تو آں حضرت نے شام تک لڑائی ملتوی فرمائی تاکہ یہ بات معلوم ہوجاوے کہ قرب جوار کے کسی ملک میں اذان ہوتی ہے یا نہیں۔ اور اگر کبھی یہ بات معلوم ہو جاتی تھی کہ وہاںاذان ہوتی ہے تو آں حضرت ہرگزاس کے باشندوں سے نہیں لڑتے تھے‘‘ پس ان حضرات کا اس سے یہ مقصد تھا کہ اذان کے سننے سے وہ یہ بات دریافت کر سکیں کہ اس جگہ کے مسلمان اپنے مذہبی فرائض کو بلامزاحمت کسی کے ادا کر سکتے ہیں یا نہیں اور اب ہم مسلمان ہندوستان میں بھی اس طرح پر رہتے ہیں کہ مذہبی معاملہ میں ہم کو ہر ایک قسم کی آزادی حاصل ہے۔ اپنے مذہبی فرائض کو کھٹکے ادا کرتے ہیں۔ جس قدر بلند آواز سے چاہیں اذان دیتے ہیں اور شوارع عامہ میں یہ بہ خوبی آزادی کے ساتھ اس طرح سے وعظ کہہ سکتے ہیں جیسے کہ عیسائی پادری کہویت ہیں اور بلا خوف و خطر ان الزاموں کا جواب دے سکتے ہیں جو عیسائی پادری مذہب اسلام پر لگاتے ہیں بلکہ مذہب عیسویں کے خلاف برخلاف ہم کتابیں بھی چھاپتے ہیں اور عیسائیوں کو بلا کسی اندیشہ یا مزاحمت ک مسلمان بھی کر لیتے ہیں۔ پس میں ڈاکٹرہنٹر صاحب کے سوال کا یہ جواب دیتا ہوں کہ انگریزوں کی امان سے علیحدہ ہونا اور غنیم کو مدد کرنا کسی حالت میں کسی مسلمان کا مذہبی فرض نہیں ہے او ر اگر ایسا کریں تو گنہگار خیال کیے جاویںگے کیوں کہ ان کا یہ فعل اس پاک معاہدہ کا توڑنا ہو گا جو رعایا اور حکام کے درمیان ہے اور جس کی پابند ی مرتے دم تک کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ البتہ میں یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ اگر آئندہ کوئی مسلمان یا اور بادشاہ ہندوستان پر حملہ کرے تو اس صورت میں باعتبار عمل درآمد کے ٹھیک ٹھیک مسلمان کیا کریں گے کیوںکہ وہ شخص حقیقت میں نہایت دلیر ہے جو اپنے دلی دوستوں اور رشتہ داروںکے سوائے عام شخصوں کی طرف سے بھی کچھ جواب دے بلکہ میری دانست میں تو شاید رشتہ داروں اور دوستوں کی طف سے بھی کچھ جواب دینا مشکل ہے۔ چناں چہ جو ملکی لڑائیاں انگلستان مین ہوئی تھیں ان میں باپ بیٹوں سے اور بھائی بھائی سے لڑے تھے۔ پس کوئی شخص یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ کسی بڑے ملکی ہنگامہ میں کل قوم کا کیا حال ہو گا۔ میں یقین کرتا ہوں کہ ایسی صورت میں جو کچھ مسلمانوں کو اپنی ملکی حالت کے لحاظ سے مصلحت معلوم ہو گی اس پر وہ عمل کریں گے خواہ وہ حالت ان کے موافق ہو یا نہ ہو۔ میری دانست میںڈاکٹرہنٹر صاحب کا یہ سخت سوال ہندوئوں سے بھی اسی طرح متعلق ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ مسلمانوں سے پس اس لحاظ سے دونوں قوموں سے اس کا دریافت کرنا ضرور ہے۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی کتاب کے چوتھے باب میں بھی گو ایک نہایت دلچسپ معاملہ کا ذکرہے لیکن افسوس یہ ہے کہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو دراصل مسلمانوں یا گورنمنٹ ہند کے حق میں کچھ کارآمد ہو۔ اس سبب سے میں صرف دچند امور کی نسبت رائے دیتا ہوں جن کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے۔ صفحہ ۱۴۴ میں ڈاکٹر صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ: ’’جو اختیارات گرفتاری کے باب میں قانونی کونسل نے حکام کار پرداز کو عطا کیے ہیں ان کے ذریعہ سے گورنمنٹ اس خرابی کا بخوبی بندوبست کر سکتی ہے کیوں کہ اس صورت میں سرغنہ لوگ حراست میں رہیں گے اور ان کو اپنے مذہب کے معاملات میں پھر کسی طرح کا فخر حاصل نہ ہو گا اور جن شخصوں کو عدالت سے جس دوام کا حکم ہوتاہے ان کے ساتھ گورنمنٹ کچھ نرمی سے پیش آتی ہے مگر چند عرصہ کے بعد وہابیت کے معتقد ہو کر مسلمانوں میں لوٹا دیے جاتے ہیں‘‘۔ مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب دو اصلی اور برے بڑے اصول سے ناواقف معلوم ہوت ہیں جن میں سے ایک تو یہ ہے کہ جس قدرکسی قوم کو اس کے مذہب کی وجہ سے زیادہ اذیت دی جاتی ہے اسی قدر اس قوم کے آدمی اس کی زیادہ پابندی کرتے ہیں ۔ دیکھو اگر ابتدا میں عیسائیوں کو زیادہ ایذا نہ پہنچتی تو مذہب عیسوی ہرگز اس قدر عروج کو نہ پہنچتا جو آج کل اس کو حاصل ہے ۔ وعلیٰ ہذا اگر مکہ معظمہ میںمسلمانوں کو اذیت نہ ہوتی تو وہ ہرگزان لاکھو ں آدمیوں کا مذہب نہ ہوتا جو آج کل حضرت محمد رسول اللہ صلعم کے پیروہیں۔ پس ڈاکٹر صاحب کا یہ قول کہ جو مسلمان ایک مرتبہ جلا وطن کیے جاتے ہیں وہ جلاوطنی سے واپس آنے کے بعد وہابیت کے زیادہ معتقد ہوتے ہیں یقینا غلط ہے۔ دوسرے یہ کہ جو شخص اصل میںمجرم ہوں صرف انہیںکو سزا دینی گورنمنٹ کے حق میں مفید ہے اور اصول سیاست کے موافق ان شخصوں کو سزا دینی جو بے گناہ خیال کیے جاتے ہیں ایک سخت غلطی ہے اور جس قدر گورنمنٹ سے اس معاملہ میں چوک ہو گئی اسی قدر اس کے مخالفوں کو زیادہ ہمت حاصل ہوگئی۔ بے جا سزا دنے سے صرف مفسدوں کی ہی طبیعتیں برگشتہ اور افروختہ نہیں ہوتیں بلکہ جو شخص گورنمنٹ کے سچے خیر خواہ ہوتے ہیں وہ بھی اس کے باث سے آزردہ ہو جاتے ہیں اور ان کی خلوص آمیز خیر خواہی بہت کم ہو جاتی ہے۔ صفحہ ۱۴۵ میں ڈاکٹر ہنٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ : ’’اس بات س کان بند کر لینے میں کچھ فائدہ نہیں ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ہمارے ذمہ بہت سے ایسے الزام لگاتے ہیں جن سے بر کر آج تک کبھی کسی گورنمنٹ کے ذمہ قائم نہیں کیے گئے۔ وہ ہمارے ذمہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہم نے ان کے مولویوں کی معاش اور عزت کا راستہ بند کر دیا ہے۔ کیوں کہ ہم نے ایک ایسا طریقہ تعیم جاری کیا ہے جس کے باعث سے تمام قوم کو معاش کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا اور وہ بالکل مفلس ہو گئی۔ ان کے قاضیوں کے موقوف کرنے سے جو نکاح وغیرہ کا فتویٰ دیا کرتے تھے ہزار ہا آدمیوں کو مصیبت و خرابی میںڈال دیا ہے اور وہ ہمارے ذمہ یہ تہمت لگاتے ہیں کہ ہم نے ان کو ان کے مذہبی فرائض ادا کرنے کے ذریعوں سے محروم کر کے ان کی جان کو خطرہ میں پھنسا دیا ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے ذمہ یہ تہمت ہے کہ ہم نے دیدہ و دانستہ ان کے مذہبی اوقات میں خیانت کر کے جو روپیہ ان کے مذہبی اخراجات کے واسطے جمع ہوتا تھا اس میں دست اندازی کی ہے‘‘۔ پس یہ بات تو کچھ تعجب کی نہیں ہے کہ مسلمانوں میں سے بعض لوگ گورنمنٹ پر اس قسم کا الزام لگا دیں کیوں کہ تعلیم یافتہ اور دانش مند مسلمان اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ ایک غیر گورنمنٹ سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ ان کے دستوروں اور ان کے طریقہ تعلیم کا ایسا ہی لحاظ کرے گی جیسا کہ خاص ان کے مذہب بادشاہوں کے عہد میںہوتا تھا ۔ ہم کو یاد کرنا چاہیے کہ جب ملک ہسپانیہ پر ہم مسلمانوں کی حکومت تھی اور جب کہ ہم نے ہندوستان کو سب سے اول فتح کیا تھا تو ا س زمانہ میں ہمارا طریقہ کیا تھا ۔ چنانچہ اس زمانہ میں ہسپانیہ کے باشندے او ر ہندو ان تمام فائدوں کا ایک حصہ حاصل کرنے سے بھی بہت خوش ہوتے تھے جو ہم کو جع ہندوئوں کے آج کل ہندوستان کے حاکموں کی حکومت میں حاصل ہوتے ہیں اور قاضیوں کے عہدے موقوف کرنا جو عقد نکاح کی اطلاع کو مذہب کی رو سے تحریر کیا کرتے تھے ملک کی موجودہ حالت کے لحاظ سے البتہ ایک سخت غلطی تھی ۔ مگر اس کے باعث ہمارے مذہب میں کچھ خلل واقع نہیں ہوا۔ کیوں کہ بعض شخصوںکی یہ رائے ہے کہ مذہب اسلام کے بہ موجب عورت اور مرد کے درمیان نکاح ایک معاہدہ ازدواج کا حیات کے واسطے طے ہوتا ہے جس کے لیے بعض صورتوں میں صرف دو گواہوں کی ہی موجودگی کافی ہے۔ کچھ قاضی یا مولوی کی موجودگی ضرور نہیں ہے۔ ڈاکٹر ہنٹر صاحب شاید اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ ہندوستان کے قاضی بالکل ناخواندہ ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ اعلیٰ درجہ کے مسلمان ان کی بہت کم توقیر کرتے تھے۔ اگر ہمار ی گورنمنٹ ہمارے مذہبی اوقاف کو بے جا طورسے صرف کرتی ہے اور جو روپیہ ہماری تعلیم کے واسطے جمع کیا جاتا ہے اس میں تصرف کرتی ہے تو ہمارے حق میں یہ نہایت اچھی بات ہے کہ قانون کی رو سے ہم کو خاص اس کی عدالتوں میںاس پر دعویٰ کرنے کا اختیار حاصل ہے اور خدا کا شکر ہے کہ ہم ہمیشہ ایسا کرسکتے ہیں۔ صفحہ ۴۵ میں ڈاکٹر ہنٹر صاحب بیان فرماتے ہیں کہ : ’’مسلمان لوگ ہمارے ذمہ یہ تہمت لگاتے ہیں کہ ہم نے ان کے مذہبی فرائض ادا کر نے کے وسیلوں سے محروم کر کے ان کی جانوں کو خطرہ میں ڈال دیا ہے‘‘۔ میری سمجھ میںڈاکٹر صاحب کا مطلب نہیں آیا۔ کیوں کہ اگر ان کی غرض صرف یہ ہے کہ گورنمنٹ نے مسلمانوں کے تہواروں کی تعطیلوں میں دست اندازی کی ہے جیسا کہ انہوںنے صفحہ ۱۷۸ اور ۱۸۸ میں بیان کیا ہے تو میں ان سے اتفاق نہیں کرتا کیوںکہ ہندوستان میں کسی جگہ مسلمانوں کو ان تہواروں کی ممانعت نہیں ہے۔ بعد اس کے ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے ان سبیوں کی تفصیل بیان کی ہے جن کے باعث سے مسلمان فی زمانہ مفلس ہو گئے ہیں اور گورنمنٹ کے ذمہ یہ الزام لگایا ہے کہ اس نے اپنی رعایا میں سے اس فرقہ کی تعلیم و تربیت کی جانب سے غفلت اختیار کر لی ہے۔ مگر میںاپنے نزدیک گورنمنٹ کو کچھ اس کا ذمہ دار خیال نہیں کرتا۔ صفحہ ۱۷۴ میں ڈاکٹر صاحب موصوف بیان فرماتے ہیں کہ: ’’مسلمان سرکاری طریقہ تعلیم سے فائدہ نہیں اٹھاتے کیونکہ ہمارا طریقہ تعلیم مسلمانوں کے خیالات کے برخلاف اور ان کی ضرورتوں کے ناموافق اور ان کے مذہب میں ناپسندیدہ ہے حالانکہ ایسی تعلیم سے ہندو صدہا برس کی خواب غفلت سے بیدار ہو گئے ہیں اور اس کے سبب سے عام لوگوں کی طبیعتوں میں ایسے ایسے عالی خیالات پیدا ہوئے ہیں جو ایک عمدہ قوم میں ہوا کرتے ہیں‘‘۔ پس میری رائے میں ڈاکٹر صاحب کا یہ قوم بلاشبہ بہت صحیح ہے جس کے پچھلے فقرہ سے میں اتفاق کرتا ہون اور وہ یہ ہے کہ سرکاری طریقہ تعلیم مسلمانوں کے بالکل خلاف ہے اور ڈاکٹر ہنٹر صاحب اس بات کو ان کی ناراضی اور گورنمنٹ کی بدخواہی سے جو منسوب کرتے ہیں تو یہ صرف انہیں کی رائے ہے ۔ لہٰذا میں اس کے مقابلہ میں یہ رائے دیتا ہوں کہ ان کا یہ خیال محض غلط ہے۔ مروجہ طریقہ تعلیم کی نسبت جس کو ہندو لوگ نہایت شوق سے قبول کرتے ہیں اور جو مسلمانوں کے خیالات کے برخلاف ہے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان دونوں قوموں میںنہایت اختلاف ہے۔ ہدوئوں کے بہت سے فرقے ایسے ہیں جو اپنے مذہبی مسائل سے کبھی بحث نہیں کرتے ارو اسی وجہ سے ان کو اس طریقہ تعلیم کی نسبت کچھ اعتراض نہیں ہے جو ان کے مذہب کے برخلاف بھی ہو اورمسلمانوں پر تو یہ فرض ہے کہ وہ اپنے مذہب کے تمام مسئلوں سے آگاہی حاصل کریں اور ان کے بہ موجب عمل درآمد کریں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اب تک ایسی تعلیم سے کنارہ کر رکھا ہے جو ایک غیر زبان کے ذریعہ سے سکھائی جاتی ہے اور جس کو وہ اپنے عقیدہ کے برخلاف سمجھتے ہیں۔ تمام تاریخوں سے یہ بات ثابت ہے کہ جو نئے مسائل کسی عقیدہ مسلمہ کے برخلاف جاری کیے جاتے ہیں ان کو لوگ ہمیشہ بدگمانی اور حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ سقراط کی نسبت اس کے مشرک ہم وطنوں نے سرف اس وجہ سے اس کے قتل کا فتویٰ جاری کیا تھا کہ وہ توحید میں پکا تھا اور کوپر نیکس نے جو طریقہ جاری کیا تھا اس کو بھی کسی زمانہ میں بہت سے عیسائی ناپسند کرتے تھے۔ اور جو شخص اس کے طریقوں کو قبو ل کرتے تھے ان کو بھی سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ لیوتھر نے جو قاعدہ جاری کیا تھا اس سے بھی لوگ بہ خوبی رضا مند نہ تھے اورجب مسلمانوں نے اہل یونان کے اصول حکمت کو اختیار کیا تو سچے مسلمان ان پر بہت کچھ نفرین کرتے تھے علیٰ ہذا جو لوگ حالات ارض سے واقف ہیں ان کا مسئلہ بہ نست اس کے جو بائبل میں بیان کیا گیا ہے زیادہ پرانا تھا۔ پس اس کے سبب سے ابتدا کے عیسائی نہایت برانگیختہ ہوئے اور گو یہ زمانہ بھی ترقی کا زمانہ ہے مگر جو رونق او ر عظمت قدیمی سلطنت رو کو کسی زمانہ میں حاصل ہوئی تھی وہ کچھ ایک دن کا کام نہ تھا۔ اسی طرح یہ توقع نہیں ہو سکتی کہ اس زمانہ کے موافق جو کسی حالت میں تغیرات سے خالی نہیں ہے مسلمانوں کے ایسے عادات جو ہندوئوں کی نسبت زیادہ تر سخت مادے سے مرکب ہیں نہایت جلد بدل سکیں بلکہ اس بات کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔ پس ہم کو لازم ہے کہ اول ہم سعی و کوشش کریں اور پھر اس کے نتیجہ کے منتظر رہیں۔ گو اس وقت بھی بہت سے آدمی قومی تہذیب میں مصروف ہیں لیکن معلو م ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے مسلمانوں کی تعلیم کے واسطے تجویز کیا ہے اس کو میں پسند نہیں کرتا اور نہ میری دانست میں وہ قابل عمل درآمد ہے۔ مگر جو بات صاحب موصوف کو منظور ہے وہ گورنمنٹ کی دست اندازی سے ہرگز حاصل نہ ہوئی بلکہ وہ ہماری کوششوں سے حاصل ہو گی۔ صفحہ ۲۱۰ میں ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ : ’’ہم کو چاہیے کہ مسلمانوں کے لڑکوں کو اپنے طریقہ تعلیم کے بہ موجب تعلیم دیں ۔ اگر ہم ان کے مذہب میں یا جس طریقہ سے وہ اپنے مذہبی فرائض سیکھتے ہیں اس طریقہ میں دست اندازی نہ کریں تو شاید اس تدبیر سے اس مذہب کی نسبت لوگوں کا اعتقاد کم ہو جاوے گا اور اگر اعتقاد کم نہ ہو گا تو اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ تعصب تو بہت ہی کم ہو جاوے گا اورمسلمانوں کی نئی امت کے آدمی یقینا ان باتوں کی پیروی کریں گے جن کے باعث سے وہ ہندو جو کسی زمانہ میں تمام دنیا میں سب سے زیادہ متعصب تھے ایسے برباد ہو گئے جیسے کہ وہ آج کل ہیں۔ ایسی بردباری سے معلوم ہوتا ہے ہ وہ اپنے بزرگوں کی نسبت اپنے مذہب کے کم معتقد ہیں اور جو بے رحمی وہ کبھی کیا کرتے تھے یا جو جرم ان سے پہلے سرزد ہوتے تھے وہ اس بردباری کے باعث اب ان سے وقوع میں نہیں آتے اورجو سختی اور تکلیف وہ ایک ایسے مذہب کی خاطر گوارا کرتے تھے جس کی نسبت ان کے خیالات صحیح نہ تھے ویسی سختیاں اب نہیں اٹھاتے جیسا کہ آئندہ مسلمان بھی ہو جاویں گے۔ مین اس مقام پر اس بات کا ذکر تو نہیں کرتا کہ ہندو اور مسلمان ایسی بے پروائی کی حالت میں کسی ذریعہ سے اعلیٰ درجہ کے اعتقاد پر پہنچ سکتے ہیں مگر یہ مجھ کو یقین ہے کہ وہ دن بھی کبھی ضرور آ جاوے گا اور ہمارا طریقہ تعلم جس سے اب تک برابر خوبیاں پیدا ہوتی ہیں اول منزل اس رجہ تک پہنچنے کی ہے اور میں جانتا ہوں کہ اب تک ہندوستان میں انگریز لوگوں کی کوششیں عقیدہ باطل کے رفع کرنے میں کچھ کارآمد نہیں ہوئیں‘‘۔ میں ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی اس رائے کی تعریف نہیں کر سکا۔ بلاشبہ اگر گورنمنٹ اپنی مسلمان رعایا سے صفائی اور انصاف کے ساتھ پیش نہ آوے گی اور جس فریب آمیز طریقہ کی ڈاکٹر صاحب نے سفارش کی ہے ا س پر عمل کرے گی تو میری رائے میں اس زمانہ اورآئندہ زمانہ میں بھی بہت بڑی دقت پیش آئے گی۔ گورنمنٹ کو چاہیے کہ وہ علانیہ میکالی صاحب کے لفظوں کے ساتھ یہ بات کہہ دے کہ ’’مروجہ طریقہ تعلیم سے حقیقی مسائل کچھ جلد شائع نہیں ہوتے بلکہ جو غلطیاں از خود رفع ہو سکتی ہیں ان کے رفع ہونے میں بھی اس کے باعث اور زیادہ دیر ہوتی ہے اور اس کے باعث سے بے ہودہ تواریخ اور بے ہودہ علم الہیات کی مصنوعی ترغیب دی جاتی ہے اور ایسے طالب علم پیدا ہوتے ہیں جو اپنی قوت علمیہ کو دشواری اور الزام کا باعث پاتے ہیں۔ یہ کلمات مروجہ طریقہ تعلیم سے اب تک منسوب ہو سکتے ہیں حالانہ وہ ۱۷۵۳ء میں لکھے گئے تھے اگر لارڈ میکالی صاحب کی عمدہ رائے پر پورا پورا عمل کیا جاتا تو اس ملک میں تعلیم کی اور ہی کچھ کیفیت ہوتی مگر چوں کہ یہ موقع ہندوستانیوں کی تعلیم پر گفتگو کرنے کا نہیں ہے اور سبب سے میں آئندہ کبھی اس ضروری معاملہ کی نسبت اپنے رائے مفصل بیان کروں گا۔ جو خرابیاں بالفعل موجو ہیں ان کا باعث بیشتر حاکم اور محکوم کے درمیان اتفاق اورہمدردی کا نہ ہونا ہے اور ڈاکٹر ہنٹر صاحب کے سے خیالات سے یہ جز اس کے کہ یہ معاشرت زیادہ ہو اور کچھ نتیجہ نہیں ہوتا۔ اور میں یہ بات تسلیم کرتا ہون کہ عادات اور خیالات کے اختلاف کے لحاظ سے ایسے ہندوستانی شرفاء کی تعداد نہایت قلیل ہے جن کے ساتھ اہل یورپ دلی ارتباط و اختلاط رکھتے ہوں لیکن میں یقین کرتا ہوں کہ ان لوگوں کی تعداد آئندہ ہر سال زیادہ ہو تی جاوے گی۔ اگر ہندوستانیوں کی طبیعتوں میں ہمدردی اور اعتبار کا اثر پیدا کیا جاوے تو اس عمدہ مقصد کے حصول میں کچھ بہت زیادہ عرصہ نہیں ہو گا۔ گورنمنٹ کو چاہیے کہ مسلمانوں ک دل میں اس خیال کو رفع کر دے کہ گورنمنٹ ہمارے برخلاف ہے اور ہماری ذلت کی خواہاں ہے۔ خاتمہ پر میں یہ بات کہتا ہوں کہ اگرچہ میں اس محبت اورخیر خواہی کے سبب سے ڈاکٹر صاحب کا نہایت دل سے ممنون ہوں جو انہوں نے اپنی کتاب میں بعض مقامات پر میرے ہم مذہبوں کی نسبت ظاہر فرمائی ہے لیکن میں ان کی طرز تحریر پر نہایت افسوس کرتا ہوں۔ میرے دل سے یہ خیال ہرگز دور نہیں ہو سکتا کہ جس وقت ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنی کتاب کا لکھنا شروع کیا ہو گا اس وقت ان کو مسلمانوں کے مطالب کی ترقی کا زیادہ خیال تھا اور وہ خیال آخر تک باقی نہ رہا ۔ چناں چہ ان کی کتاب کے پچھلے صفحوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ میری دانست میں ڈاکٹر ہنٹر صاحب کو اپنی تحریر کے وقت وہابیوں کی سازش کا خیال ہو گا اور اسی پر انہوں نے عمل کیا ہے۔ صاحب ممدوح کی کتاب بہ لحاظ اصول سیاست کے بالکل غلط ہے اور تواریخ کے لحاظ سے کسی قدر کم غلط ہے اور یہ بات میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ جو اثر ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی علمی لیاقت سے ہندوستان کے باشندوں پر ہوا ہے اس کا رفع کرنا ہر ایک کا کام نہیں ہے اور یہ اثر ہندوستان کی نسبت اس سبب سے اور بھی زیادہ قوی ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی کتاب کو ہندوستان میں سب سے اعلیٰ حاکم نے منظور کر لیا تھا۔ پس جس صورت میں ایسی غلط باتیں تمام ملک میں مشہور ہو گئیں تو میرا خامو ش رہنا مناسب نہ ہوتا۔ چنانچہ میں نے حتی الوسع ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی غلطیوں کی تردید کی ہے اورگو میری کوششیں بے فائدہ ہوں لیکن میں نے تو اپنا فر ض ادا کردیا ۔ (سر سید نے اس مضمون میں یہ بات بار بار لکھی ہے کہ حضرت سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید انگریزی حکومت کے ہرگز ہرگز مخالف نہ تھے اور نہ ہی انہوں نے کبھی ان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا ہے۔ سرسید کے اس بیان کی تائید بعد کے متعدد مورخین نے بھی کی ہے ۔ چنانچہ نواب صدیق حسن نے ترجمان وہابیہ مطبوعہ امرتسر کے صفحہ ۲۱ و ۸۸ پر نیز سوانح احمدی مولفہ مولوی محمد جعفر تھانیسری میں بیس مقامات پر اسی طرح حضر ت شاہ اسماعیل شہید کی سوانح موسسوم بہ حیات طیبہ کے صفحات ۱۵۹‘ ۲۹۲‘ ۲۹۴ پر بھی اسی خیال کو پیش کیا گیا ہے۔ مگر حال میں بعض اصحاب نے ان حقائق کے برخلاف یہ لکھنا شروع کر دیا ہے کہ حضرت سید احمد بریلوی اور حضرت شاہ اسماعیل کا اصل مقصد انگریزوں کے خلاف جہاد تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسے حضرات کا یہ بیان واقعات کے مطابق نہیں او ر نہ اس دعویٰ کا کوئی واضح ثبوت موجود ہے ۔ محمد اسماعیل )۔ انڈین آبزرور اور مسلمان (تہذیب الاخلاق بابت ۱۵ رمضان المبارک ۱۲۸۹ھ) ہماری یہ رائے ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کی ایسی حالت ہے جو لفظ سخت اور خراب سے خراب ان کی نسبت استعمال کیے جائیں وہ سب درست اور بجا ہیں اور اسی سبب سے ان ان سویلائزڈ الفاظ سے جو انڈین آبزرور میں آرٹیکل لکھنے والے ہم مسلمانوں کی نسبت لکھتے ہیں ‘ ہم کو کچھ ناراضی نہیں ہوتی۔ بلکہ اس قسم کی تحریر سیہم کو توقع ہوتی ہے کہ ہماری قوم کو غیر ت اور شرم آئے گی اور وہ اپنی حالت کی درستی اور اصلاح پر متوجہ ہوگی ۔ پس اس آرٹیکل میں ہمارا مطلب اسی قدر ہے کہ ہم اپنی قوم کو جتلا دیں کہ ہمارے زمانہ کے علم کے دیوتا نے ہماری نسبت کیا کہا ہے۔ سیلیکٹ کمیٹی خواستگا ر ترقی تعلیم مسلمانان میں یہ سوال بحث میں آیا تھا کہ ’’ہندوستان مٰں انگریزی تعلیم کا اثر ایسا کیوں نہیں ہوتا جیسا کہ انگلستان میں ہوتا ہے‘‘ پس اس کا جواب انڈین آبزرور کا آرٹیکل لکھنے والا یہ دیتا ہے کہ ’’ان کو (یعنی مسلمانوں کو) گورنمنٹ کی ذات سے یہ توقع نہٰں کرنی چاہیے کہ وہ سور کے بالوں سے ریشم کی تھیلی بنا دے‘‘ بس اب ہم اپنی قوم سے پوچھتے ہیں کہ علم کے دیوتا نے ہم کو سور کا خطاب دیا ہے۔ پس ہم کو اسی خطاب میں خوش رہنا چاہیے یا کوشش کر کے اور اپنی حالت کو درست کر کے دنیا کو بتلانا چاہیے کہ اس خطاب کا مستحق کون تھا۔ دوسرا جواب اسی سوال کا اس آرٹیکل کے لکھنے والے نے یہ دیا ہے کہ ’’جس شے پر اس کا (یعنی تعلیم کا) اثر ہوتا ہے وہ دونوں ملکوں (یعنی ہندوستان اور انگلستان) میں مختلف ہے گو آلہ دونوں کا ایک ہی ہو ۔ سنگریزہ یا کنکر سے ایک روشن ہیرا یا لعل نہیں بن سکتا‘‘ پس اب ہم پوچھتے ہیںکہ آیا ہمار ی قوم کو سنگریزوں میں اور کنکروں میں پڑا رہنا اورہر ایک کی ٹھوکریں کھانا اور دشنام سننا ہی پسند ہے یا اپنی حالت میں کچھ ترقی کرنے کا بھی ارادہ ہے؟ یہ سچ ہے کہ جو شخص بد زبان کسی کی نسبت استعمال میں لانا ہے وہ خود اولا اپنے آپ کو ان سویلائزڈ ثابت کرتا ہے اوریہ بھی سچ ہے کہ ا س آرٹیکل کا لکھنے والا ہم کو متکبر اور سخت متعصب بتاتا ہے حالانکہ وہ ہم سے بھی زیادہ معلوم ہوتا ہے مگر ہم اس کو اس پر خیال نہیں کرنا چاہیے بلکہ جو لفظ ہمارے دشمن نے ہمارے حق میں کہیں ہوں ان سے بھی ہم کو نصیحت پکڑنی چاہیے۔ ایک مقام پر اس آرٹیکل کا لکھنے والا یہ کہتا ہے کہ ’’کمیٹی کو مناسب ہے کہ… اس امر کی تفتیش کرے کہ آیا اس قوم میں (یعنی مسلمانوں میں) کبھی کوئی بڑا فلسفی یا شاعر پیدا بھی ہوا ہے جو ایمانداری کے ساتھ اپنی نسبت خود یہ باتیں بیان کرے جو کمیٹی نے بیان کی ہیں‘‘ اگر اس عبارت کا مطلب ہے کہ ہمارے ملک کے ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن کے وقت میں کوئی شخص ہماری قوم کا ایسا ہوا ہے کہ یا نہیں تو اس کا جواب صاف ہے کہ نہیں اور اگر کبھی کے لفظ سے غیر معین زمانہ مراد ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آرٹیکل کے لکھنے والے کو دوبارہ کیمبرج یونیورسٹی میں جا کر ہسٹری آف فلاسفی اورہسٹری آف اورئنٹل لٹریچر پڑھنی چاہیے۔ وہابی ۔ اہل حدیث یا متبع حدیث (علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ بابت ۲ فروری ۱۸۸۹ئ) ہم تو اس بات کی کہ لوگوں نے کسی کا کیا نام رکھا ہے کچھ پرواہ نہیں کرتے ۔ جو شخص کسی کو برے نام سے پکارتا ہے وہ خود اپنی آپ حقارت کرتا ہے ۔ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہ طور حقارت کے (نغوذ باللہ منہا) نزارین یا ناصری منسوب بہ قصبہ ناصرہ کہتے تھے۔ مگر اس سے کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں کچھ بٹہ لگتا تھا؟ بلکہ انہی کا منہ کالا کرنا ہوتا تھا جو اس طرح بہ نظر حقارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام لیتے تھے۔ اسی طرح جن لوگوں نے مسلمان نیک بندوں متبع سنت کا بہ طور حقارت کے وہابی نام رکھا تھا‘ انہون نے حقارت کی تھی ان بزرگوں کی جنہوں نے اپنے پیروئوں کا یہ نام رکھاتھا۔ مگر جناب مولوی ابو سعید محمد حسین کو وہابی نام ہونا گوارا نہ تھا۔ انہوں نے گورنمنٹ سے درخواست کی تھی کہ اس فرقے کو جو درحقیقت اہل حدیث ہے اور لوگوں نے ازراہ ضد و حقارت کے اس کا نام وہابی رکھ دیا ہے گورنمنٹ اس کو وہابی کے نام سے مخاطب نہ کرے۔ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب کو اس نام کے گوارا نہ ہونے کی ایک معقول وجہ بھی تھی ان واقعات کے سبب سے جو اسماعیل پسر عبدالوہاب کے زمانہ میں حجاز میں گزرے تھے جو اپنے باپ عبدالوہاب کے مسائل کا معتقد تھا جس کی طرف اس فرقے کو منسوب کیا جاتا ہے۔ ان واقعات کے سبب سے سلطان ٹرکی بھی اس فرق کو مخالف سمجھتا تھا۔ وہی خیال ترکوں کا بذریعہ ان تاریخوں کے جو انگریزی زبان میں وہابیوں کے حالات میں تحریر ہوں ہندوستان کے انگریزوں میں آیا اور بعض واقعات مشتبہ جو ہندوستا ن کی سرحد پر گزرے‘ ان سے اس خیال کو زیادہ تقویت ہو گئی اور ان اسباب سے وہابی کے لفظ میںایک مفہوم مخالف سلطنت ہونا بہ طور ایک جزو اس کے معنوں کے سمجھا جانے لگا۔ حالانکہ یہ خیال محض غلط تھا۔ وہابیت کو سلطنت کی مخالفت سے کچھ تعلق نہ تھا اور بلاشبہ گورنمنٹ کے کسی فرقے کی نسبت ایسے لفظ کا استعمال کرنا جس کے معنی میں مفہوم مخالف سلطنت شامل ہو گیا ہو مناسب نہ تھا اورمولوی محمد حسین صاحب کو اس کا گوارا نہ کرنا نہایت بجا تھا۔ ہم کو امید ہے ہ وہ فرقہ جس کو وہابی کہتے ہیں اور جو اپنے عقائد اور مسائل مذہب میں نہایت سخت اور پختہ ہے اور خدائے واحد کے سوا ظاہرا و باطنا و حیلۃ و صریحۃ اور کسی کی طرف التجا نہیں کرتا ۔ وہ اس مسئلے پر بھی نہایت پختہ ہے کہ جس سلطنت سے مخالف نہیں کر سکتے خواہ وہ سلطنت عیسائیو ں کی ہو یا یہودیوں کی یا بت پرستوں کی۔ یہاں تک کہ اگر ا س سلطنت میں مذہبی آزادی نہ ہو تو اس سلطنت سے ان کو ہجرت کرنا لازم ہوتا ہے مگر مخالفت کرنا جائز نہیں ہوتا۔ انگلش گورنمنٹ ہندوستان میں خود اس فرقے کے لیے جو وہابی کہلاتا ہے ایک رحمت ہے۔ جس طرح ہندوستان میں کل مذہب کے لوگوں کو کامل مذہبی آزادی ہے جو سلطنتیں اسلامی کہلاتی ہیں‘ ان میں بھی وہابیوںکو ایسی آزادی مذہب ملنا دشوار بلکہ ناممکن ہے سلطان کی عمل داری میں وہابی کا رہنا مشکل ہے اورمکہ معظمہ میں تو اگر کوئی جھوٹ موت بھی وہابی کہہ د ے تو اسی وقت جیل خانے یا حوالات میں بھیجا جاتا ہے ۔ گو وہ کیسا ہی مقدس اور نیک مولوی ہو یا سی ۔ ایس۔ آئی ۔ پس وہابی جس آزادی مذہب سے انگلش گورنمنٹ کے سایہ عاطفت میں رہتے ہیں دوسر ی جگہ ان کو میسر نہٰں ہندوستان ان کے لیے دارالامن ہے۔ پس وہابیوں کی نسبت یہ خیال کہ ان کا سلطنت کے مخالف ہونا لازمی ہے‘ ایک غلط خیال تھا اور تمام مسلمانوں کو مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب کا ممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے اس غلط خیال کو دور کرنے میں کوشش کی اور سب سے زیادہ انگلش گورنمنٹ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جس نے مولوی ابو سعید محمد حسین کی کوششوں کو منظور کیا۔ غرض کہ مولوی محمد حسین کی کوشش سے گورنمنٹ نے منظور کر لیا کہ آئندہ سے گورنمنٹ کی تحریرات میں اس فرقہ کو وہابی نام سے تعبیر نہ کیا جاوے بلکہ اہل حدیث کے نام سے جس کا نام وہ فرقہ اپنے تئیں مستحق سمجھتا ہے موسوم کیا جاوے۔ زمانہ کی ترقی کا نشان (اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ یکم دسمبر ۱۸۷۶ئ) سب سے بڑا نشان زمانہ کی ترقی کا ہماری دانست میں یہ ہے کہ جو تعصبات ناجائز خیالات فاسدہ کے سبب سے دلوں میں جاگزیں ہوتے ہٰں وہ کم ہو جاویں اور وہ باہمی مخالفت جو دراصل عام لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جاوے اور قومی عزت کی حمایت کا خیال عام لوگوں کے دلوںمیں پیدا ہو جاوے ۔ پس ہم نہایت خوش ہیں کہ ہمارے اس زمانہ میں اس قسم کے آثار نمایاں ہیں اور اب اس بات کا ثبوت ہوتا جاتاہے کہ تعصبات ناجائز بہت کم ہو گئے ہیں اور قومی عزت کے معنی لوگ سمجھنے لگے ہیں اور ا س کا نہایت پر لطف اثر ان کی طبیعتوں پر ہوتا جاتاہے ۔ اب ہم کو بجائے ایسی خبروں کے کہ باہمی نفسانیت سے فلاں فلاں قوم میںیہ فساد ہوا ی خبر سنتے ہیں کہ فلاں قوم کے سرگروہ نے اپنی قوم میں فلاں عیب کی گرفت کی اور اس کی اصلا ح کا خواہاں ہوا اور بجائے دشمن کہنے کے دوسری قوم کو اپنا بھائی کہہ کر خوش کرنا چاہا۔ ٹرکی کے معاملات میں جب عام لوگوں نے توجہ کی اور عام مسلمانوں نے اس کی ہمدردی کا قصد کیا تو بہت سے ایسے لوگوں کا خیال جو ہندوستا ن کے باشندوں کے جھگڑوں سے آگاہ ہیں اس طرف لگا ہوا تھا کہ جس طرح سلطنت ٹرکی کی اعانت کے واسطے فرقہ اہل سنت و جماعت آمادہ ہو ا ہے دیکھنا چاہیے کہ گروہ حضرات شیعہ بھی اس طرح توجہ فرماتے ہیں یا نہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بہت جلد اس تردد کو ان حضرات شیعہ نے رفع کر دیا جو نہایت دلی توجہ سے چندہ کی کمیٹیوں میں شریک ہو گئے اور مثل سنیوں کے ہمدردی ظاہر کرنے لگے جس کے سبب سے ہم کو یقین ہو گیا کہ یہ سب ترقی کے آثار ہیں اور اب وہ زمانہ آگیا ہے جس میںلوگوں کو قومی عزت کے معنی معلوم ہو گئے ہیں۔ بلاشبہ دانش مند شیعہ اس بات کا خوب جانتے ہیں کہ ان میں اور سنیوں میں ایک خاص مذہبی معاملہ کی مخالفت ہو لیکن یہ مخالفت کچھ اس بات میں موثرنہیں ہے کہ جو عام صدمہ مسلمانوں پر آ کر پڑے اس میں سنی و شیعہ علیحدہ ہو جائیں اور ایک دوسرے کی توہین گوارا کریں۔ دیکھو یہ مقابلہ اور قوموں کے سنی اور شیعہ ایک ہی نام سے پکارے جاتے ہیں اور ایک ہی بزرگ نبی کی امت شمار کیے جاتے ہیں۔ ایک ہی کلمہ کو دونوں پڑھتے ہیں ۔ ایک ہی قبلہ کی طرف سر جھکاتے ہیں۔ پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ اب ایک ایسے صدمہ کے وقت جس میں ایک گروہ مبتلا ہوا دوسرا گروہ علیحدہ ہو جاوے۔ بلاشبہ وہ شخص نہایت گندہ طبیعت ہے اور اس کی رائے نہایت نفرت کے لائق ہے جس نے اس موقع پر رائے ظاہر کی تھی کہ شاہ کج کلاہ ایران کے واسطے اب موقع ہے کہ وہ کربلا معلیٰ پر قبضہ کر لیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص ابھی اس کثافت سے پاک نہیں ہوا جس کے سبب سے باہمی مخالفتین پیدا ہوتی ہیں اورقومی اتفاق غارت ہوتا ہے ۔ کیا وہ نہیں جانتا کہ اگر خدانخواستہ ٹرکی کی یہ حالت ہوئی تو شاہ ایران کو کربلا معلیٰ کا اپنے قبضہ میں کر لینا چنداں موجب فخر نہ ہو گا جس قدر کہ ان کو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی حفاظت ضروری ہو گی۔ کیا وہ شخص یہ نہیں خیال کرتا کہ کربلا معلی میں جس مقدس ذات کے ہونے سے تم اس کی عظمت کرتے ہو وہ مقدس ذات ایک ٹکڑہ اس مقدس ذات کا ہے جو مدینہ طیبہ میں موجود ہے۔ اور جس کی عظمت اس پر مقدم ہے۔ پس کیا صرف کربلا معلی کا اپنے قبضہ میں کر لینا جز ایمان سمجھا گیا ہے اور مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کی حفاظت کی فکر بالائے طاق ہے۔ مگر نہایت خوشی کی بات ہے کہ اشاہ کج کلاہ ایران نہایت روشن دماغ اور نہایت بے تعصب شخص ہیں انہوں نے بجائے اس کے کہ ایسے وقت میں ایسے خیالات کے پابند ہوتے سلطان ٹرکی سے اس بات کا وعدہ فرمایا کہ ایران سے پچاس ہزار جرار فوج ٹرکی کی امداد کے واسطے پہنچے گی اور ایک عمدہ اورنہایت مدح کے لائق کام انہو ں نے کیا کہ اپنی قلم رو میں ایک اشتہار اس مضمون کا جاری فرمایا ہے کہ تمام سنی اور شیعہ ایک ہی فرقہ اسلام کے دو گروہ ہیں اور یہ دونوں باہم ایک ہی ہیں ۔ پس جو لوگ اس قسم کی باتوں کے مرتکب ہوتے ہیں جس سے باہمی مخالفت بڑھے اور ایک فرقہ سے دوسرے فرقہ کو اذیت پہنچے وہ ہرگزنہ کرنی چاہئیں اور اگر کوئی ا س کا مرتکب ہو گا تو اس کے ساتھ ویسے ہی پیش آیا جاوے گا۔ اس اشتہار نے صرف یہی کام نہیں کیا کہ سنیوں کے دل میں شاہ ایران کی بڑی عظمت اور وقعت پیدا ہو گئی ہے بلکہ اس سے یہ بھی بہ خوبی ثابت ہو گیا ہے کہ شاہ ایران نہایت روشن دماغ شخص ہیں اور یہ بھی معلوم ہو گیا ہے کہ جو نزاع آپس میں زیادہ کر دیا گیا ہے اس کے باعث صرف وہ عوام شیعہ ہیں جن کو کوچہ تہذیب میں دخل نہیں ملا۔ ورنہ جو حضرات خواص میں شمار کیے جاتے ہیں وہ ہرگز آپس میں مخالفت اور رنج کو پسند نہیں فرماتے اور جب اسلا پر کوئی حرف آتا ہے تو سب آپس میں متفق القلب ہو کر سب کی قومی عزت ایک ہی سمجھتے ہیں ۔ ہم نہایت خوشی کے ساتھ اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ ہمارے ہندوستانی ہم وطن بھی اب اسی طریقہ کو پسند کرنے لگے ہیں جس میں غیر محدود تعصب سے اجتناب ممکن ہو چنانچہ بعض نیک طینت لوگوں نے حضرات شیعہ میں سے بھی اس با ب میں کوشش کرنے کا قصد کیا ہے کہ بے جا تعصب چھوڑ دیا جاوے اور جو رنج دہ طریقہ عوام میں ہے اس کو مذمت یا ظلم ثابت کیا جاوے اور ہم نے سنا ہے کہ دہلی میں اس باب میں بعض لائق آدمیوں نے کامیابی حاصل کی ہے اور ایک مستعد اورمنصنف شیعہ نے اس باب میں ایک رسالہ تحریر کیا ہے۔ ہماری دانست میں جس لائق شکص نے یہ رسالہ تصنیف کیا ہے بلاشہ اس نے اپنی قومی تہذیب کی بنیاد ڈالی ہے اور اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ وہ اپنے اس خیال کے سب سے بڑی مدح کے لائق ہے۔ اورجو لوگ اس کی مخالفت میں کمر بستہ ہیں وہ اس ترقی کے زمانہ میں جو بالک بے تعصبی کو پسند کرتا ہے ہرگزمدح کے لائق نہ ٹھہریں گے۔ چوں کہ وہ رسالہ ہماری نظر سے نہیں گزرا س سبب سے بھی ابھی ہم اس کی نسبت کچھ زیادہ نہیں لکھ سکتے اور اپنی اس رائے میں ذیل میں صرف اشتہار کو نقل کرتے ہیں جو حضرت شاہ ایران نے مشتہر فرمایا ہے وہو ہذا: ترجمہ اعلان شاہ ایران جس روز سے اسلام حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ ولم کی رسالت کے ذریعہ جہاں میں محکم و برقرار ہوا ہے تمام مسلمان باہم بھائی ہیں اور اصول دین و کتاب و قبلہ میں سب متفق ہیں اور ایک رائے ہیں اور اسی سبب سے بہ فضل خدا جو روز روز مسلمانوں کی کثرت اور اسلام کی ترقی ہے اتفاق ہی کے باعث سے ہے اور اگر کچھ آپس میں بعض فروعی مسائل میں فرق ہے تو وہ جزئی اختلاف ہے ۔ جیسے چار اماموں مین بھی بعض مسائل میں ایسا فرق آیا ہے۔ یہ ذرا سا فرق دینی بھائیوں میں تفرقہ و جدائی کا باعث نہیں ہو سکتا۔ جس طرح فقہ امامیہ اثنا عشریہ جعفری مذہب کی کمال حرمت کرتا ہے اسی طرح اہل سنت کو دینی برادر اپنا جانتا ہے اورسمجھتا رہا ہے اورتمام بزرگ و اشرف مقاموں میں جیسے مکہ و مدینہ ہے اور سب زیارت گاہوں میں برابر شریک و داخل ہوتے ہیں اورنہایت سلوک اور ملاپ س باہم خوش و خرم ہیں اورجو بات بعض شیعہ جاھل اپنی نادانی و ناواقفیت سے کہتے ہیں اورکرتے ہیں برخلاف رائے علمائے دین مبین کے ہے۔ اس میں ہرگز کوئی اس بات سے راضی نہیں اور کیوں کر ہو سکتا ہے کہ معاذ اللہ تبرا و سب و بخض اصحاب کبار و روسائے صحابہ سے مقبول رائے علمائے شریعت و عقلائے دنا کے ہو مگر ظاہر ہے کہ ہر ایک فرقہ اور ہر ایک وقت میں تمام مذہب کے علماء اپنے جاہلوں کو سب بداعمال اور بداقوال سے نہیں روک سکتے جیسے سنا جاتا ہے کہ بعض خوارج بھی خاندان اہل بیت رسالت سے کینہ رکھتے ہیں۔ اور معاذ اللہ برا کہتے ہیں۔ لہٰذا لازم ہوا کہ سب کو عام اطلاع ہو جاوے کہ تمام اہل اسلام لحاظ و مروت شرع و آئین اسلام کا بڑا خیال رکھیں اور گفتگو میں بزرگان دین و خلفائے راشدین کے نام لیتے وقت قاعدہ ادب کو ہاتھ سے نہ دیں۔اگر فی الواقع کوئی نادان جہالت کی راہ سے ایسی پوچ و رکیک باتیں زبان پر لاوے تو حکام اور نوکراں کچہری اس بات کے مجاز ہیں کہ اعلیٰ درجہ کی زجر و تنبہہ تادیب کریں اور ہرگز اسلامی بھائیوں میں رنج و عداوت نہ پیدا ہونے دیں اور حضرت سلطان روم خلد اللہ ملکہ سے بھی یہ امید ہے کہ وہ خوارج کو سب و شتم اہل بیت سے منع فرماویں اور ہمارے سب ملازموں کو چاہیے کہ جو بات غلط شیعوں کی نسبت منسوب ہے اس کے روکنے کو اپنا فرض سمجھیں کہ کوئی نادان احمق جاہل شیعہ بدزبانی نہ کرے۔ فوراً اس شیطانی وسوسہ والے کو سزائے کامل دیں اور تعذیر عرفی و شرعی واجب جانیں۔ یور پ کی موجودہ حالت (اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ ۲۴ نومبر ۱۸۷۶ئ) صاحب راقم پانیر نے جو ۱۰ نومبر کے پانیر میں اپنے کارسپانڈنٹ کی ایک چٹھی درج کی ہے اس کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب انگلستان یورپ کے سلاطین کے دل سے ضرور ا س خیال کو رفع کرنا چاہتا ہے کہ انگلستان بزدل ہے جب کہ جرمن اور فرانس کی باہم جنگ ہوئی تھی تو انگلستان سکوت کو لوگوں نے اس کی بزدلی پر محمول کیا تھا اور انگلستان کی قوت کو ضعیف سمجھ لیا تھا پس اب انگلستان ہرگزاس بات کو مناسب نہیں سمجھتا کہ اس پر بزدلی کا الزام باقی رہے اور وہ اپنی قوت بری بھاریجنگ سے ثابت نہ کردے۔ اسی وجہ سے انگلستان کے وزیر کی یہ رائے ہے کہ انگلستان کو دل توڑ کر جنگ کرنی چاہیے اور روسیون کے صفحہ خاطر یہ خیال تلوار کی نوک سے چھیل دینا چاہیے کہ انگلستان بزدل اور کمزور ہے بلکہ یہ ثابت کرنا چاہیے کہ وہ تن تنہا بغیر کسی کی مدد کے جنگ کرنے پر آمادہ ہے اور اگر انگلستان ایسا کرے گا تو اس کے سبب سے بلاشبہ انگلستان کی عزت مستحکم ہو جائے گی۔ اگر بہ نظر انصاف دیکھا جاوے تو روس کی خود مختارانہ کارروائیاں ضرور انگلستان کی شوکت میں خلل ڈال رہی ہیں اور روس کے دماغی نش کو ظاہر کر رہی ہیں روس کو کچھ ا س بات کا خوف نہیں معلوم ہوتا کہ ہماری اس خود سری کا اثر انگلستان کے دل پر کیا ہو گا اورانگلستان ہمارا کیا کر سکے گا۔ پس اگر روس کے ایسے خیالات کے بعد بھی انگلستان چپ رہے اور روس کی کارروائیوں کو آنکھوں سے دیکھا کرے تو اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ انگلستان کی عزت میں نہایت خلل آوے گا اور روس کے حوصلے انگلستان کی قوت کو بڑا دھبہ لگا دیں گے۔ کارسپانڈنٹ مذکور کی یہ بھی رائے ہے کہ انگلستان کی آمادگی سے روس کو یہ معلوم ہو گیا ہے کہ انگلستان اب صبر نہ کرے گا اور جو اثر بلگیریا کے ظلم کی خبروں کا انگلستان کے دل پر تھا وہ روس کے ارادوں نے بالکل رفع کر دیا ہے پس ضرور انگلستان ٹرکی کا ساتھ دے کر روس سے لڑے گا اور وہ اپنی نہایت بے نظیر قوت ظاہر کرنے کے واسطے اپنی جرار فوج کے سپاہیوں کا خون گر م کر ے گا۔ اس میں کسی طرح کا شبہ نہیں ہے کہ جہاں تک ہو سکا انگلستان نے امن اور صلح کو قائم رکھا مگر اب امید نہیں معلوم ہوتی کہ یہی امن قائم رہے گا اور بغیر میدان میں آنے انگلستان کی شرکت کا اثر روس کے دل پر ہو۔ یور پ میں اب اس بات کو بھی تسلیم کر لیا گیا ہے کہ جس طرح ۱۸۵۴ء کی جنگ اس گروہ کی غلطی سے ہوئی تھی جس کو ایسے معاملات میںمشورہ دینے کی لیاقت نہ تھی اسی طرح اب یہ لڑائی صرف بلگیریا کے ظلم کے حیلہ اور دھوکہ سے ہونے والی اور اس بات کے تسلیم کرنے میں ہماری دانست میں اس بات ک ایہ خوبی جواب حاصل ہوتا ہے کہ اس خون ریزی کا الزام جو سرویہ اور ٹرکی کی لڑائی میں ہوئی کس کی جانب ہے اور سلطان روم انصاف کے لحاظ سے تمام سلطنتوں کے نزدیک معذور ہیں یا نہیں۔ ہم کو یقین ہے کہ جس وقت روس کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اب انگلستان بھی یورپ میں امن و امان قائم رکھنے پر آمادہ ہو گیا ہے اور وہ اپنی بڑی قوت کے بھروسہ پر اس معاملہ کو زور کے ساتھ طے کرنا چاہتاہے تو پھر روس کے حوصلے پست ہو جاویں گے اروبلاشبہ روس کو سکوت کرنا پڑے گا۔ چنانچہ اسی وجہ سے جب کونٹ شنویلاف صاحب کو انگلستان کی طبیعت کا حال معلوم ہوا اور انہون نے جانا کہ اگر روس کچھ قصد کرے گا تو ضرور انگلستان ٹرکی کے ساتھ ہو کر لڑے گا اس پر انہوں نے امن قائم رکھنے کی کوشش کی گو ان کی کوشش کا کوئی اثر اب تک ظاہر نہیں ہوا۔ روس اپنی دانست میں اس وقت کو نہایت غنیمت سمجھ رہا ہے اور وہ جانتا ہے کہ انگلستان تن تنہا ہے مگر ہماری دانست میںیہ خیال روس کا بالکل غلط ہے ۔ اگر انگلستان ٹرکی کی قوت کو اپنے ساتھ ملا لے گا تو روس کو یقین کرنا چاہیے کہ پھر روئے زمین کی قوت مل کر ٹرکی اور انگلستان کی قوت کو ضعیف نہیں کر سکتی اور اس میں ذرا شبہ نہیں ہے کہ یہ دونوں قوتیں مل کر ایک ہو جاویں گی اورجو غلطی اب تک انگلستان نے کی ہے آئندہ وہ غلطی کو پسند نہ کرے گا۔ کارسپانڈنٹ مذکور کی یہ رائے ہے کہ گو ان تمام سامانوں کے دیکھنے سے جو اب تک یورپ میں جمع ہوئے ہیں اس باب میں تردد ہے کہ یورپ میں امن قائم رہے گا یا نہ رہے گا مگر ابھی تک کسی کو یہ بھی یقین نہیں ہے کہ خواہ مخواہ جنگ ہو گی بلکہ ظن غالب یہی ہے کہ جنگ نہ ہو گی۔ کیوں کہ جس وقت سے انگلستان نے اپنا قصہ ظاہر کیا ہے روس نے اس بات کی درخواست کر دی ہے کہ ٹرکی آئندہ ان شرطوں پر صلح کر لے کہ عیسائی گورنر مقر ر کیے جاویں اور حکا م دیسی تجویز کیے جاویں اور سرکیشیاوالے نکال دیے جاویں اور ہمیشہ کے انتظام کے واسطے ایک کمیشن مقرر ہو جاوے جس میں سے وہ شرطیں عاید ایسی ہیں ہ ٹرکی کو پہلے سے مدنظر تھیں۔ علاوہ اس نے رومی وزیر پہلے سے صلح کے خواہاں ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ بلا وجہ مخلوق کا خون بہایا جاوے مگر اس میں ذرا بھی شبہ نہیں ہے کہ رومی وزیر بے عزتی کی صلح ہرگز نہیں کریں گے۔ چنانچہ جو مراسلہ مقام ویٹنا سے ۲۰ اکتوبر کے اور لینڈ میل کے نام سے آیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ رومی وزیر صلح کے خواہاں ہیں بہ شرطیکہ اس صلح میں ٹرکی کی بے عزتی نہ ہو۔ اس مراسلہ کے آخری حصہ میں کارسپانڈنٹ لکھتا ہے کہ ترک نہایت شجاع اور بڑے بہادر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو ہرگز کسی کی مد د کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم بلا مدد غیرے اکیلے روسیوں سے لڑیں گے اورجب ان سے کوئی یہ کہتا کہ تمہارے پا س سامان جنگ کہاں ہے روپیہ تمہارے پاس کہاں ہے جو تم لڑو گے تو وہ نہایت استقلال سے یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم کو عیسائی فوج کے اخراجات کی کچھ ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم بہت تھوڑے روپیہ میں لڑ سکتے ہیں اور اگر ہم کو ہماری حاجت کے موافق روپیہ کی ضرورت ہو گی تو ہم کو اس قدر روپیہ مہیا ہو جاوے گا۔ وہی کارسپانڈنٹ لکھتا ہے کہ روسیوں کی حالت سے معلوم ہوتا ہے کہ خداوند تعالیٰ نے ترکیوں کی فطرت میں خوف رکھا ہی نہیں ہے اور اگر ان پر بہ جز لڑائی ڈالی جاوے گی تو وہ دم اخیر تک ا س کی برداشت کریں گے۔ کارسپانڈنٹ مذکور کی اس رائے کے دیکھنے کے بعد اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ترکیوں کا یہ مقولہ کہ ہم سات برس کے بچہ سے لے کر ستر برس کے بوڑھے تک کے ہتھیار باندھ لیں گے۔ اور جس سلطنت پر ہم نے پانچ سو برس سے بڑے زور کے ساتھ حکومت کی ہے اس کو باقی رکھیں گے بلاشبہ صحیح ہے اورجس حالت میں ایسے سپاہی انگلستان کے ساتھ یک دل ہو جاویں گے تو روس کی وہ فوج جو بخارا کے گرد میں چند وحشی قوموں کو مار کر شیر ہو گئی ہے انگلستان کے مقابلہ میں نہایت بزدل ثابت ہو گی اور جو خیالات ا س کے دماغ میں خیالی پلائو کی طرح پک رہے ہیں وہ فوراً اس تلوار کے زخم سے اڑ جاویں گے جو اپنی نہایت چمکتی دھار کے پہلے ان کی نظروں کو خیرہ کر دے گی۔ اب کسی طرح کا شبہ نہیں ہے کہ انگلستان ہرگز اپنے ذمہ بزدلی کا الزام نہ لے گا اورمردانہ وار اپنی قوت و سلطنت کو یورپ میں ظاہر کرنے کا قصد کرے گا جس کے سبب سے روس کے ارادوں کی مزاحمت ہو سکے۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End