اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید تاریخی مضامین جلدششم۔حصہ اول مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقالات سرسید سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کو حاصل ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے اور اپنے پیچھے نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مضامین جہاں ادبی لحاظ سے وقیع ہیں، وہاں وہ پر از معلومات بھی ہیں۔ ان کے مطالعے سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مذہبی مسائل اور تاریخ عقدے حل ہوتے ہیں اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں اور سیاسی و معاشرتی لحاظ سے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ نیز بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی ان میں موجود ہیں سرسید کے ان ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا ہدف رہے ہیں ان مضامین میں علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی، مزاح بھی ہے اور طنز بھی، درد بھی ہے اور سوز بھی، دلچسپی بھی ہے اور دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے اور سرزنش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اور ہر قسم کے خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے، وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اور کہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات و رسائل کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام کے لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اور نا مکمل، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ گزر گیا مگر کسی کے دل میں ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا اور کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا آخر کار مجلس ترقی ادب لاہور کو ان بکھرے ہوئے بیش بہا جواہرات کو جمع کرنے کا خیال آیا مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں پرونے کے لیے مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا انتخاب کیا جنہوں نے پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میں دور و نزدیک کے سفر کیے فراہمی مواد کے لیے ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا، مگر چونکہ ان کی طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری باحسن طریق پوری کی چنانچہ عرصہ دراز کی اس محنت و کاوش کے ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں’’ مقالات سرسید‘‘ کی مختلف جلدوں کی شکل میں فخر و اطمینان کے جذبات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ تہذیب اور اس کی تاریخ اور افعال انسانی کے باقاعدہ ہونے کا ثبوت تہذیب الاخلاق جلد ۵ نمبر ۱۳ بابت یکم شوال ۱۲۹۱ ھجری کے پرچے میں سر سید نے ھنری طامس بکل کی مشہور عالم کتاب ’’ھسٹری آف سویلزیشن‘‘ کے ایک اہم حصے کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے۔اور اس پر اپنے قلم سے ایک بہت مفید تمہید لکھی ہے۔ذیل میں سر سید کی تمہید مع اصل مضمون کے درج کی جاتی ہے۔کیونکہ محض تمہید کو پڑھ کر کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔جب تک اصل مضمون کا ترجمہ بھی ساتھ نہ ہو (شیخ محمد اسماعیل پانی پتی) ہم دریافت کیا چاہتے ہیں کہ سولزیشن کیا چیز ہے؟۔اور کن کن چیزوں سے علاقہ رکھتی ہے۔کیا یہ کوئی بنائی ہوئی چیز ہے۔یا قدرت نے انسان کی فطرت میں اس کو پیدا کیا ہے۔ اس کے معنی کیا ہیں،کیا یہ کوئی اصطلاح ہے۔جس ک ولوگوں نے یافیلسوفوں نے مقرر کیا ہے۔ یا یہ ایسی چیز ہے کہ اس کا مفہوم اور جن جن چیزوں سے اس کا تعلق ہے۔ قانون قدرت میں پایا جاتا ہے۔؟۔ اس امر کے تصفیے کے لیے انسان کے ھالات پر ہم کو نظر کرنی چاہیئے۔ اگر تہذیب انسانی میں ایک فطرتی چیز ہے۔وحشیوں میں شہروں میں سب میں اس کا نشان ملے گا۔ گو اس کی صورتیں مختلف دکھائی دیتی ہیں۔ الا سب کی جڑ ایک ہی ہو گی۔ انسان میں یہ ایک فطرتی بات ہے کہ وہ اپنے خیال کے موافق کسی چیز کو پسند کرتا ہے اور کسی کو ناپسند، یا یوں کہو کہ کسی چیز کو اچھا ٹھہراتا ہے۔ اور کسی چیز کو برا۔اور اس کی طبیعت اس طرف مائل ہے کہ اس بری چیز کی حالت کو ایسی حالت سے تبدیل کرلے ۔جس کو وہ اچھا سمجھتا ہے۔ یہی چیز سولزیشن کی جڑ ہے۔ جو انسانوں کے ہر گروہ میں اور ہر ایک میں پائی جاتی ہے۔ اسی تبادلے کا نام سولزیشن یا تہذیب ہے اور کچھ شبہ نہیں کہ یہ میلان یا یہ خواہش تبادلہ انسان میں قدرتی اور فطرتی ہے۔ سولزیشن یا تہذیب کی طرف انسان کی طبیعت کے مائل ہونے کے دو اصول ٹھہرے، اچھا اور برا اور برے کو اچھا کرنا سولزیشن یا تہذیب ٹھہری۔مگر اچھا اور برا قرار دینے کے مختلف اسباب خلقی اور ُخلقی ،ملکی اور تمدنی ایسے ہوتے ہیں جن کے سبب اچھا اور برا ٹھہرانے میں،یا یوں کہو کہ قوموں کے سولزیشن یا تہذیب میں اختلاف پڑ جاتا ہے۔ ایک قوم جس بات کو اچھا سمجھتی ہے اور داخل تہذیب جانتی ہے۔دوسری قوم اس بات کو بہت برا اور وحشیانہ حرکت قرار دیتی ہے۔ یہ اختلاف سولزیشن یا تہذیب کا قوموں کے باہم ہوتا ہے۔ اشخاص میں نہیں ہوتا یا بہت ہی کم ہوتا ہے۔جب کہ ایک گروہ انسانوں کااکٹھا ہو کر بستا ہے،تو اکثر ان کی ضرورتیں ان کی حاجتیں، ان کی غذائیں اور ان کی پوشاکیں اور ان کی معلومات اور ان کے خیالات ، ان کی مسرت کی باتیں اور ان کی نفرت کی چیزیں سب یکساں ہوتی ہیں۔اور اسی لیے برائی اور اچھائی کے خیالات بھی سب میں یکساں پیدا ہوتے ہیں۔اور برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کی خواہش سب میں ایک سی ہوتی ہے۔اور یہی مجموعی خواہش تبادلہ یا مجموعی خواہش سے وہ تبادلہ اس قوم یا گروہ کی سولزیشن ہے۔ مگر جب کہ مختلف گروہ مختلف مقامات میں بستے ہیں،تو ان کی حاجتیں اور خواہشیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔اور اس سبب سے تہذیب کے خیالات بھی مختلف ہوتے ہیں ،مگر ضرور کوئی ایسی چیز ہو گی کہ جو سولزیشن کی ان مختلف حالتوں کا تصفیہ کر سکے۔ ملکی حالتیں جہاں تک کہ وہ بود باش سے تعلق رکھتی ہیں۔ نہ فکر اور خیال اور دماغ سے، ان کو تہذیب سے چنداں تعلق نہیں، بلکہ صرف انسان کے خیال کو اس سے تعلق ہے۔جس کے سبب وہ اچھا اور برا ٹھہراتا ہے۔اور جس باعث خواہش تبادلہ تحریک میں آتی ہے۔ اور وہ تبادلہ واقع ہوتا ہے۔ جوسولزیشن یا تہذیب کہلاتا ہے۔ پس سولزیشن یا تہذیب کی مختلف حالتوں کا فیصلہ وہ اسباب کر سکتے ہیں۔جن کے سبب سے اچھے اور برے کا خیال دل میں بیٹھتا ہے۔ اچھے اور برے کی جگہ میں اور لفظ استعمال کروں گا، یعنی پسند اور نا پسند، انگریزی میں ایک لفظ ’’ٹیسٹ‘‘ ہے۔ جو نہایت وسیع معنوں میں مستعمل ہوتا ہے۔ ہماری زبان میں بھی اس قسم کے لفظ ہیں، جیسے کہ مزہ یا مذاق۔مگر وہ استعمال میں ایسے خاص ہو گئے ہیں کہ ان سے وہ عام اور وسیع معنی خیال میں نہیں آتے۔ اس واسطے میں اس لفظ کا ترجمہ ’’پسند‘‘ کرتا ہوں۔ پس پسند کا صحیح ہونا، جو خیال کے صحیح ہونے کی فرع ہے، بہت بڑا وسیلہ سولزیشن کی مختلف حالتوں کے تصفیے کا ہے۔ خیال کی درستی اور پسند کی صحت کثرت معلومات پر اور علم طبیعات کے بخوبی ماہر ہونے پر منحصر ہے۔انسان کی معلومات کو روز بروز ترقی ہوتی جاتی ہے۔اور اس کے ساتھ سولزیشن یا تہذیب بھی بڑھتی ہے۔کیا عجب ہے کہ آئندہ کوئی ایسا زمانہ آؤئے کہ انسان کی تہذیب میں ایسی ترقی ہو کہ اس زمانے کی تہذیب کو بھی وہ لوگ ایسے ہی ٹھنڈے دل سے دیکھیں۔جیسے کہ ہم اپنے سے اگلوں کی تہذیب کی ایک ٹھنڈے مگر مودب دل سے دیکھتے ہیں۔ تہذیب یا یوں کہو کہ بری حالت سے اچھی حالت میں لانا ، دنیا کی تمام چیزوں سے اخلاقی ہوں یا مادی، یکساں تعلق رکھتا ہے۔اور تمام انسانوں میں پایا جاتا ہے۔ تکلیف سے بچنے اور آسائش حاصل کرنے کا سب کو یکساں خیال ہے۔ہنر اور اس کوترقی دینا تمام دنیا کی قوموں میں موجود ہے۔ ایک تربیت یافتہ قوم زر وجواہر یاقوت والماس سے نہایت نفیس نفیس خوب صورت زیور بناتی ہے۔ نا تربیت یافتہ قوم بھی کوڑیوں اور پوتھوں سے اپنی آرائش کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔تربیت یافتہ قومیں اپنی آرائش میں سونے ،چاندی ،مونگے اور موتیوں کو کام میں لاتی ہے۔ ناتربیت یافتہ قومیں جانوروں کے خوب صورت اور رنگین پروں کو تیلیوں پر سے چھلے ہوئے سنہری پوست اور زمرد کے سے رنگ کی باریک اور خوش نما گھاس میں گوندھ کر اپنے تئیں آ راستہ کرتی ہے۔ تربیت یافتہ قوموں کو بھی اپنے لباس کی درستی کا خیال ہے۔ نا تربیت یافتہ قومیں بھی اس کی درستی پر مصروف ہیں۔ شاہی مکانات نہایت عمدہ اور عالی شان بنتے ہیں۔اور نفیس چیزوں سے آراستہ ہوتے ہیں۔ناتربیت یافتہ قوموں کے جھونپڑے اور ان کے رہنے کے گھونپے درختوں پر بندھے ہوئے ٹانڈ، زمین میں کھدی ہوئی کھوئیں بھی تہذیب سے خالی نہیں۔معاشرت کی چیزیں ، تمدن کے قاعدے ، عیش وعشرت کی مجلسیں،خاطر اور مدارات کے کام اور اخلاق و محبت کی علامتیں دونوں میں پائی جاتی ہیں۔ علمی خیالات سے بھی سولزیشن یا تہذیب خالی نہیں۔ بلکہ بعض چیزیں ان میں اصلی اور قدرتی طور سے دکھائی دیتی ہیں۔مثلا شاعری جو ایک نہایت عمدہ فن تربیت یافتہ قوموں میں ہے۔ ناتربیت یافتہ قوموں میں بھی عجیب عمدگی و خوبی سے پایا جاتا ہے۔یہاں خیالی باتوں کو ادا کیا جاتا ہے۔ اور وہاں دلی جوشوں واندرونی جذبوں کا اظہار ہوتا ہے۔موسیقی نے تربیت یافتہ قوموں میں نہایت ترقی پائی ہے۔ مگر ناتربیت یافتہ قوموں میں بھی عجیب کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ان کی ادا اور آواز کی پھرت،اس کا گھٹاؤ ، اس کا بڑھاؤ، اس کا ٹھہراؤ اور اس کی اپچ ،ہاتھوں کا سبھاؤ اور پاؤں کی دھمک ،زیادہ تر مصنوعی قواعد کی پابند ہے۔مگر ناتربیت یافتہ قوموں میں بھی یہ سب چیزیں دلی جوش کی موجیں ہیں۔ وہ لئی اور تال، اور راگ وراگنی کو نہیں جانتے ،مگر دل کی لہر انکی لئی اور دل کی پھڑک ان کا تال ہے۔ان کا غول باندھ کر کھڑا ہونا، طبعی حرکت کے ساتھ اچھلنا،دل کی بے تابی سے جھکنا اور پھر جوش میں آکر سیدھا ہو جانا، گو نزاکت اور فن خنیا گری سے خالی ہو ۔مگر قدرتی جذبوں کی ضرور تصویر ہے۔ دلی جذبوں کا روکنا اور ان کو عمدہ حالت میں رکھنا تمام قوموں کے خیالات میں شامل ہے۔ پس جس طرح کہ ہم تہذیب کا قدرتی لگاؤ تمام انسانوں میں پاتے ہیں،اسی طرح اس کا تعلق عقلی اور مادی سب چیزوں میں دیکھتے ہیں۔ جس چیز میں کہ ترقی یعنی برائی سے اچھائی کی طرف رجوع یا ادنیٰ درجے سے اعلیٰ درجے کی طرف تحریک ہو سکتی ہے۔ اسی سے تہذیب بھی متعلق ہے۔پس سولزیشن یا تہذیب کیا ہے؟۔انسان کے افعال ارادی اور جذبات انسانی کو اعتدال پر رکھنا، وقت کو عزیز سمجھنا ،واقعات کے اسباب کو ڈھونڈنااور ان کو ایک سلسلے میں لانا،اخلاق اور معاملات اور معاشرت اور طریق تمدن اور علوم وفنون کو بقدر امکان قدرتی خوبیوں اور فطرتی عمدگی تک پہنچانا، اور ان سب کو خوش اسلوبی سے برتنا اور اس کا نتیجہ کیا ہے؟۔روھانی خوشی اور جسمانی خوبی اور اصلی تمکین اور حقیقی وقار اور خود اپنی عزت کی عزت اور درحقیقت یہی پچھلی ایک بات ہے۔جس سے وحشیانہ پن اور انسانیت تمیز ہوتی ہے۔ اس تہذیب کے حاصل ہونے کے بقول مسٹر ایچ، ٹی، بکل صاحب چار اصول ہیں۔ اول: جو چیز ہم کو دکھائی دیتی ہے۔ اور جن کا سبب ہم کو معلوم نہیں ہوتا، ان کے سببوں اور قاعدوں کو دریافت کرنا، اور ان کے علوم کو پھیلانا، پس جس قدر کامیابیاں اس میں ہوگی اسی قدرا نسان کی ترقی ہو گی۔‘‘ دوم: اس تحقیقات سے پہلے تجسس کا خیال پیدا ہونا چاہیئے۔ جس سے ابتدا میں تحقیقات کو مدد ملتی ہے۔ اور بعد کو تحقیقات سے اس کی استعانت ہوتی ہے۔‘‘ سوم: جو باتیں اس طرح پر دریافت ہوتی ہیں۔وہ عقلی باتوں کے اثر کو زیادہ کرتی ہیں۔اور اخلاق کی باتوں کو کسی قدر کم،مگر اخلاق کی باتیں بہ نسبت عقلی باتوں کے زیادہ مستقل ہیں۔اور ان میں کمی بیشی بہت کم ہوتی ہے۔‘‘ چہارم: اس تحریک کا بڑا دشمن جو درحقیقت سولزیشن کا بھی سخت دشمن ہے۔یہ خیال ہے کہ جب تک زندگی کے امورات کی نگرانی ہر طرح پر سلطنت اور مذہب سے نہ ہو۔تب تک انسان کے گروہ کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ یعنی سلطنت رعایا کو یہ سکھلاوئے کہ ان کو کیا کرنا چاہیئے۔اور مذہب یہ سکھلاؤئے کہ کس بات پریقین کرنا چاہیئے۔ پچھلی بات میں مجھ کو مسٹر بکل سے کسی قدر اختلافات ہیں۔اس میں کچھ شبہ نہیں کہ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بادشاہ وقت ہم کو یہ بتاوئے کہ ہم کو کیا کیا کرنا چاہیئے، انسان کی ترقی اور تہذیب کا نہایت قوی مانع ہے۔ اور جس قدر کہ ہندوستان میں بلکہ تمام ایشیا میں اور ٹرکی اور ایجپٹ میں بھی نا شائیستگی اور نا تہذیبی ہے ۔اس کا بڑا سبب یہی خیال ہے کہ جو ہندوستان کی رعایا کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصا گورنمنٹ سے ناراض رکھتا ہے۔پس جب تک یہ خیال نہ جاوئے گا اور یہ خیال نہ آؤے گا کہ ہم خود سوچیں کہ ہم کو اپنے لیے کیا کرنا چاہیئے۔ اس وقت تک ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس نہ دولت ہو گی اور نہ ہی عزت وحشمت اور نہ منزلت اور تہذیب ہوگی اور نہ شایستگی۔مگر دوسرا جملہ جو مذہب سے متعلق ہے۔وہ کسی قدر صحیح ہے اور کسی قدر غلط،یعنی غلط مذہب بلا شک تہذیب کا بہت بڑا مانع ہے۔اور اگر سچے مذہب میں غلط خیالات اور بے جا تعصبات اور مسائل اجتہادیہ اور قیاسیہ اس طرح پر مل جاویں کہ عملا اور اعتقادا اصلی احکام مذہبی میںاور ان میں کچھ تفرقہ وتمیز نہ رہے۔جیسا کہ مذہب اسلام کی موجودہ حالت ہے۔ اور جو تقلید کی تاریکی میں آنکھوں سے بالکل چھپ گیا ہے۔تو بلا شبہ وہ بھی انسان کی ترقی اور تہذیب کا مثل مذہب غلط کے مانع قوی ہے۔الا سچا مذہب جیسا کہ ٹھیٹ مذہب اسلام ہے۔وہ کبھی ھارج ترقی انسان نہیں ہو سکتا ہے۔کیونکہ اس مذہب کے احکام اور تہذیب وشایستگی کے کام دونوں متحد ہوتے ہیں۔ والسلام علیٰ من اتبع الھدی۔ راقم سید احمد ترجمہ مضمون ہنری طاس بکل علم تاریخ کے مفید ہونے پر بہت کچھ کہا گیا ہے۔اور وہ ہمیشہ مرغوب بھی رہا ہے۔یہ عام رائے ہے کہ مورخوں نے جیسی محنت کی ہے۔ویسی ہی ان کو کام یابی بھی ہوئی ہے۔بہت لوگوں نے اس کو پڑھا بھی ہے اور بہت لوگوں نے اس کو سمجھا بھی ہے۔عموما اس کی بہت بڑی قدر ہے۔اور تمام تعلیم کے سلسلوں میں شامل ہے۔اس بات سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ وہ اسی اعتبار کے لائق ہے۔اور جب بالا جمال نظر ڈالی جاوئے تو قبول کرنا پڑتا ہے۔کہ ایسے سامان موجود ہیں جو نہایت عظیم الشان اور نہایت عمدہ بھی معلوم ہوتے ہیں۔ فرنگستان کے اور بڑے بڑے ملکوں کے حالات اور لڑائیوں کے واقعات نہایت احتیاط سے جمع کیے ہیں۔اور جس ثبوت پر وہ مبنی ہیں۔ان کی بھی بخوبی تحقیقات ہوئی ہے۔مذہب کی تاریخ پر بھی بخوبی توجہ کی ہے۔ علوم وفنون اور علم وادب اور مفید ایجادوں اور آخر کار انسان کے آرام وآسائش کے طریقوں پر بہت کچھ محنت ہوئی ہے۔ زمانہ قدیم کے حالات دریافت کرنے کو پرانی باتوں کی تحقیقات کی ہے۔ قدیم شہروں کی جگھیں کھود کر پرانے سکے نکالے ہیں۔ان کے حروف تہجی پڑھ کر درست کیے ہیں۔ جو زبانیں کہ حرفوں میں تحریر نہ ہوتی تھیں۔بلکہ چیزوں کی شکلوں میں لکھی جاتی تھیں، ان کے معنوں کو دریافت کیا اور ان کے مطلب کو نکالا۔ جو زبانیں کہ مدت سے بھول گئی تھیں۔ ان کو بھی نئے سرے سے یاد کیا۔انسان کی بول چال کی تبدیلی کے قاعدے دریافت کیے۔اوراس کے ذریعے سے قوموں کی ابتدائی نقل وطن کے ایسے زمانے دریافت ہوئے جا بالکل نا معلوم تھے۔علم انتظام مدن بنایا گیا،اوراس کی بدولت دولت کی کمی بیشی کے اسباب دریافت کیے۔ملکوں کے اور وہاں کے رہنے والوں کے حالات بڑی بڑی محنتوں سے جمع کیے۔ان کے نقشے بنائے۔انسان کے دینوی کاموں اور اخلاقی باتوں کا بہت کچھ حال دریافت کیا۔مثلا مختلف قسم کے جرموں کی تعداد اور کی نسبت بمقابل دوسرے کے اور ان پر جو اثر کہ زمانے اور تعلیم کے اور قسم یعنی مرد اور عورت کے سبب ہوا،اس کا اندازہ اور اور جو باتیں اس کے متعلق ہیں۔وہ سب دریافت کی گئیں۔ اس کے ساتھ جغرافیہ طبعی بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔آ ب و ہوا کے ھالات کے رجسٹر دریافت ہوئے۔پہاڑو ں کی پیمائش ہوئی،دریا ناپے گئے۔اور ان کے مخرج دریافت ہوئے۔سب قسم کی قدرتی پیداواریاں اور ان کی مخفی تاثریں معلوم کیں۔ہر قسم کی خوراک کی جو انسان کے جسم کو اور زندگی کو ضرور ہے۔ علم کیمیا کے ذریعے تفتیش کی۔اس کے اجزا شمار ہوئے اور تولے گئے۔ اور جو نسبت اس میں اور انسان کے جسم میں ہے۔اس کی بخوبی تحقیقات کی گئی۔علی ہذا القیاس، انسان کے متعلق جو باتیں ہیں،ان کی ہر قسم کی تحقیقات ہوئی ہے۔یہاں تک کہ مہذب اور شائستہ قوموں میں مرنے اور شادی کرنے،پیدا ہونے اور پیشہ کرنے یا اور کاموں میں مشغول رہنے کا اور اجرت کی کمی بیشی کا اور جو اشیاء کہ زندگی کے لئے ضروری ہیں۔ان کی قیمت کا اندازہ کیا گیا ہے۔ یہ سب واقعات اور اسی قسم کے بہت سے حالات جمع کیے گئے ہیں۔ ان کو درستی سے مرتب کیا گیا ہے اور اب وہ سب کام میں لانے کے لائق ہیں ،ان کے ساتھ اور بھی مفید باتیں شامل ہیں۔کیونکہ صرف بڑی بڑی قوموں کے ہی افعال اور خاصیتیں لکھی نہیں گئیں۔بلکہ سیاحوں نے تمام دنیا میں جو اب تک معلوم ہوئی ہے۔ سفر کیا ہے۔ اس کے تمام حصوں کی سیر کی ہے۔اور مختلف قوموں کو دیکھا ہے۔ ان کے حالات دریافت کیے ہیں۔ اب ہم اس کے ذریعے سے تہذیب وشائستگی کے ہردرجے کا اور ہر جگہ کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔جب کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اپنے ہم جنسوں کے حالات دریافت کرنے کا شوق کبھی کم نہیں ہوتا ، بلکہ اور زیادہ ہوتا جاتا ہے۔تو ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس شوق کے پورا کرنے کے وسیلے بھی روزبروز اس کے ساتھ ساتھ زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔جو باتیں دریافت ہوئی ہیں ۔وہ سب موجود اور محفوظ ہیں۔ جب ہم ان سب باتوں کو یک جا کرتے ہیں تب ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ جن چیزوں سے ہم واقف ہو گئے ہیں،وہ کس قدر مفید ہیں۔اور ان کی مدد سے انسان کی ترقی کا حال کس قدر معلوم ہوتا ہے۔ مگر جب ہم یہ بات بیان کرنی چاہیئں کہ ان سب سامانوں سے کیا کام لیا گیا ہے۔ تو یہ ساری صورت حال بدل جاتی ہے۔ انسان کی تاریخ میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ گو تاریخ کے علیحدہ علیحدہ جزوں کی نہایت قابلیت سے تحقیقات ہوئی ہیں۔لیکن کسی نے ان سب اجزا کو ملا کر ان سے ایک عام نتیجہ نکالنے کی کوشش نہیں کی اور نہ اس طریقے کو دریافت کیا۔ جس کے ذریعے سے ان تمام جزوں کی آپس میں نسبت معلوم ہو۔ یہ بات سب کے نزدیک مسلم ہے کہ بڑی بڑی باتوں کی تحقیقات کے لئے جزئیات کا استقرا کر کے کلیہ نکالتے ہیں اور خاص خاص باتوں سے عام قاعدہ نکالنے میں بڑی بڑی کوشیش کی جاتی ہیں۔تاکہ وہ قاعدے دریافت ہوں جن کی رو سے وہ کاص خاص باتیں وقوع میں آتی ہوں۔ مگرمورخوں میں یہ طریقہ عام نہیں ہے۔ ان کے دل میں ایک عجیب خیال سمایا ہے۔ کہ وہ اپنا کام صرف اسی قدر سمجھتے ہیں کہ واقعات کو اور گزرے ہوئے حالات کو بیان کر دیں۔ اور کہیں کہیں اخلاق اور انتظام مدن کی کچھ کچھ باتیں جن سے کچھ فائدہ متصور ہو لکھ دیں۔ایسے مصنفوں کا جو خیال کی سستی سے یا قدرتی نا قابلیت سے اعلیٰ درجے کی تصنیف کی قابلیت نہیں رکھتے۔ یہ طریقہ ہے کہ چند سال تھوڑی سی کتابیں پڑھ لیں اور تاریخ لکھنے کی قابلیت بہم پہنچا لی۔پھر بڑی بڑی قوموں کی تاریخیں لکھنے لگے۔اور ان کی تاریخیں ان مضمونوں کے لئے سند ہو گئیں۔ اس محدود اور تنگ طریقے کے سبب سے ایسے نتیجے پیدا ہوئے کہ جن سے ہمارے علم کی ترقی کو بہت نقصان پہنچا۔اسی طریقے کے سبب مورخوں نے ایسی وسیع ابتدائی تعلیم کو ضروری نہیں سمجھا،جس کے ذریعے سے اس علم کی تمام قدرتی باتیں بالکل ان کی گرفت میں آجائیں۔اور اسی طریقے کے سبب یہ نتیجہ ہوا کہ ایک مورخ تو علم انتظام مدن وعلم معاشرت سے ناواقف ہے۔دوسرا آئین وقانون کو کچھ نہیں جانتا ہے۔کوئی مذہبی معاملات اور تبدل رائے کے حالات سے محض ناواقف ہے۔کوئی فلسفہ مدنی کو نہیں جانتا۔کوئی علوم طبیعی سے آگاہ نہیں ہے۔ حالانکہ یہ سب علوم نہایت ضروری ہیں۔ اس لئے کہ وہ خاص باتیں جن سے انسان کے مزاج اور اس کے اطوار پر اثر ہوتا ہے۔ انھیں علوم سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگرچہ ان علموں میں سے ایک شخص کسی علم کو اور دوسرا کسی علم کو سیکھتا ہے۔ مگر بعوض اس کے کہ وہ سب علوم ایک شخص میں ملائے جاویں متفرق ہو جاتے ہیں۔اور جو مدد کہ مشابہت اور مماثلت کی ایک شخص میں ان سب علوم کے جمع ہونے سے حاصل ہو سکتی تھیں۔وہ ضائع ہو جاتی ہے۔اور اسی سبب سے کسی شخص نے ان سب علوم کو تاریخ میں ملانے کی کوشش نہیں کی۔حالانکہ وہ سب تاریخ ہی کے اجزا ہیں۔ ہاں البتہ اٹھارویں صدی کے شروع سے چند عاقل پیدا ہوئے۔جنہوں نے تاریخ کے اس نقص پر افسوس کیا۔اور حتیٰ الوسع اس کے اصلاح کی کوشش کی۔مگر ایسی مثالیں نہایت کم ہیں۔یہاں تک کہ یورپ کے تمام علم ا دب میں ایسی کتابیں تین چار سے زیادہ نہیں ہیں۔جن میں انسان کی تاریخ کی تحقیقات ان عمدہ اور عام طریقوں پر کی گئی ہو۔جن سے علم کی اور شاخوں میں کامیابی ہوئی ہے۔اور جن قاعدوں اور تجربوں سے علم کی حقیقت قائم ہو سکتی ہے۔ سولھویں صدی کے بعد سے اور خصوصا اخیر صدی میں مورخوں میں خیال کی وسعت کے نشان اور اپنی تصنیفات میں ایسے مضمونوں کے شامل کرنے کا شوق پایا جاتا ہے۔جن کواس سے پہلے وہ چھوتے بھی نہ تھے۔اس سے ایک عمدہ بات پیدا ہوئی۔اور ایک قسم کے واقعات جمع ہونے سے قاعدہ کلیہ نکالنے کا خیال پیدا ہوا۔ جس کا نشان یورپ کے قدیم علم ادب میں نہیں پایا جاتا ہے۔اس بات کا بہت بڑا فائدہ ہوا،کیونکہ مورخوں کے خیال نے وسعت پائی اور غور کرنے کی عادت پڑی جو اصلی واقفیت کے لیے ضرور ہے۔کیونکہ بغیر اس کے کوئی علم نہیں بن سکتا۔ اس زمانے میں بہ نسبت زمانہ سابق کے تاریخ کے آثار زیادہ طمانیت کے لائق موجود ہیں۔ مگر سوائے چند مثالوں کے وہ سب اب تک آثار ہی آثار ہیں۔آج تک ان اصولوں کے دریافت کرنے میں جن کا اثر قوموں کی قسمت اور ان کے چال چلن پر ہوتا ہے۔ بہت ہی کم کوشش ہوئی ہے۔اور کچھ شبہ نہیں کہ انسان کے اعلیٰ خیالات کے لیے اب بھی تاریخ بہت ہی نا کامل ہے۔اور وہ ایسی ہی بے ترتیب صورت میں ہے۔ جیسے کہ اس مضمون کی صورت ہوتی ہے۔جس کے قاعدے معلوم نہیں ہوئے۔اور جس کی جڑ قائم نہیں ہوئی۔ہمارے پاس تاریخ کا اس قدر سامان موجود ہے کہ اگر اس پر زیادہ کوشش کی جاوئے تو جس طرح کہ علوم طبعی کی مختلف شاخیں تحریر ہوئی ہیں۔اسی طرح انسان کی تاریخ بھی تحریر ہو سکتی ہے۔نیچر کی اکثر باتیں جو ظاہرا بالکل بے قاعدہ معلوم ہوتی ہیں اور کبھی یکساں نہیں رہتیں، سمجھ میں آگئی ہیں اور یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ وہ بھی عام قواعد معین کے موجب ہوتی ہیں۔قابل لوگوں نے نہایت تامل و غورسے طبعی واقعات پر اس غرض سے توجہ کی ہے کہ ان کے قاعدے معلوم ہوں اوراسی غور وتامل کو یہ نتیجہ ہوا ہے ۔پس اگر انسان کے واقعات کو اسی طرز پر دیکھیں گے تو بے شک ویسے ہی نتیجے حاصل ہوں گے۔اور یہ بات کہہ دینی کہ تاریخ کے واقعات سے کلیہ قاعدہ نہیں نکل سکتا۔ایک امر زیر تحقیقات کو بلا تحقیقات کے تسلیم کر لینا ہے۔اس قسم کے لوگ صرف ایسی ہی بات کو تسلیم نہیں کرتے،جس کو وہ ثابت نہیں کر سکتے، بلکہ ایسی باتوں کو بھی مان لیتے ہیں جو علم کی موجودہ حالت میں نہایت غیر ممکن ہیں۔جو کوئی شخص اخیر دو صدیوں سے واقف ہو گا وہ ضرور جانتا ہوگا کہ ہر ایک پشت میں کسی نہ کسی ایسے واقعے کا باقاعدہ ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔اور اس کی نسبت پشین گوئی ہو سکتی ہے۔جس کو پہلی پشت کے لوگ محض بے قاعدہ اور نا قابل پشین گوئی سمجھتے تھے۔پس تہذیب وشائستگی سے جو ترقی پائی جاتی ہے۔ہمارا یقین مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ کہ سب باتیں با قاعدہ اور ترتیب وار ہوتی ہیں۔پس ان باتوں سے یہی نتیجہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی قسم کے واقعات کا قاعدہ دریافت نہیں ہوا ہے تو ہم کو یہ نہ کہنا چاہیئے کہ یہ بے قاعدہ ہیں، بلکہ پہلے کے تجربے کو لحاظ کر کے یہ تسلیم کرنا چاہیئے کہ جو بات اس وقت سمجھ میں نہیں آتی، ممکن ہے کہ کسی آئندہ زمانے میں سمجھ میں آجاوئے۔ بے ترتیبی میں سے ترتیب نکالنے کی امید اس درجے تک ہوتی ہے کہ اکثر نامور عالموں کو بعوض امید کے یقین ہوتا ہے کہ ا گر یہی امید عموما مورخوں میں نہ پائی جائے تو اس کا سبب یہی سمجھنا چاہیئے کہ وہ لوگ نیچر کے محققوں کی بہ نسبت کم تر لیاقت رکھتے ہیں۔اور کسی قدر یہ بھی سبب ہو سکتا ہے کہ معاشرت کی باتیں جو تاریخ سے علاقہ رکھتی ہیں، زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں۔ یہی اسباب ہیں جنہوں نے اب تک علم تاریخ کو ایک علم ہونے نہیں دیا۔ نہایت مشہور اور نام ور مورخ علم طبیعی جاننے والے کے مقابلے مین کچھ بھی درجہ نہیں رکھتا۔کسی ایسے شخص نے تاریخ کی طرف بدل توجہ ہی نہیں کی ہے۔جو ذہن وعقل میں مثل کپلر ونیوٹن کے وحید عصر ہو۔اگر چہ موجودات کے حالات بھی نہایت پیچیدہ ہیں۔مگر جو مورخ فلسفے کے طور پر تاریخ لکھتا ہے۔اس کو نیچر کی تحقیقات کرنے والے کی نسبت زیادہ مشکلات پیش آتی ہیں۔کیونکہ اس کے تجربے میں وہ غلطیاں ہو سکتی ہیں جو تعصب اور جوش سے پیدا ہوتی ہیں۔اور جس قدر سامان تجربے کا نیچر میں ہے۔کہ اس کے ذریعے سے ہم دنیا میں نہایت پیچیدہ مسئلوں کو حل کر لیتے ہیں، وہ سب سامان مورخ کے کام نہیں آ سکتے۔ پس اس بات کا کچھ تعجب نہیں کہ انسان کے افعال کا علم بہ نسبت نیچر کے علم کے بچپن کی حالت میں ہے۔ بے شک ان دونوں علموں کی ترقی میں اتنا بڑا فرق ہے کہ علم طبیعی کی ایسی باتوں کو جو اب تک ثابت بھی نہیں ہوئیں،لوگ تسلیم کر لیتے ہیں کہ ضرور با قاعدہ ہوں گی۔ اور ان کی نسبت پشین گوئی بھی کرتے ہیں مگر تاریخی واقعات کا با قاعدہ ہونا کوئی تسلیم نہیں کرتا، بلکہ اس سے انکار کرتے ہیں۔ اس سبب سے جو شخص کہ علم تاریخ کو مثل دیگر علوم کے ترقی دینا چاہتا ہے۔ اس کو ابتدا ہی میں ایک بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ کہ اس سے کہا جاتا ہے کہ انسان کے معاملات میں کچھ اسرار ہیں اور وہ اسرار خدا ساز ہیں کہ ہماری عقل اور ہماری تحقیقات ان تک نہیں پہنچ سکتی۔اور انسان کے آئندہ کے حالات ہم سے ہمیشہ پوشیدہ رہیں گے۔اس کے جواب میں صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ ایسا کہنا صرف تحکماً تسلیم کرنا ہے۔کیونکہ اس کا ثبوت کچھ نہیں ہے۔ اوراس مشہور حقیقت کے مخالف ہے کہ جہاں علم بڑھتا جاتا ہے۔وہاں قاعدے اور سلسلے میں بھی زیادہ یقین ہوتا جاتا ہے۔ اوراس قاعدے کے موجب یکساں حالت میں ایک سے نتیجے پیدا ہوتے ہیں۔بہتر ہے کہ ہم اس عقدے کے حل میں زیادہ غور کریں۔اوراس بات کو دیکھیں کہ جو لوگوں کی عام رائے ہے۔کہ تاریخ کبھی علم کے درجے تک نہیں پہنچ سکتی ہے۔اس کی بنیاد درست ہے یا نہیں۔جب ہم اس کا خیال کرتے ہیں تو ہمارے دل میں ایک بہت بڑا سوال پیدا ہوتا ہے۔اور وہ سوال یہ ہے کہ آیا انسان کے افعال اور انسان کی باہمی معاشرت کے کام کسی قانون معین کے تابع ہیں یا اتفاقیہ ہیں۔اور ایسی باتوں کے نتیجے ہیں جو انسان کی سمجھ میں نہیں آتیں؟۔ ان امورکی بحث میں چند مفید خیال پیدا ہوتے ہیں، کیونکہ جو سوال کیا گیا ہے،اس کے متعلق دو مسئلے ہیں جن کے ذریعے سے تہذیب کے مختلف درجے ظاہر ہوتے ہیں،پہلا مسئلہ یہ ہے کہ تمام امور اتفاقیہ واقع ہوتے ہیں۔ اس مسئلے کے بموجب گویا ہر ایک واقع علیحدہ اور تنہا واقع ہوتا ہے۔اور کسی امر اتفاقیہ کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ایسا خیال بالکل ایک جاہل اور وحشی شخص کو ہوتا ہے۔اور پھر جوں جوں تجربہ بڑھتا جاتا ہے۔اور جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں باقاعدہ ایک دوسرے کے بعد ہوتی ہیں۔ تو یہ خیال مضمحل ہوتا جاتا ہے۔مثلا وحشی قومیں جن میں تہذیب کا اثر کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا،اور جو صرف شکار پر اپنی زندگی بسر کرتی ہیں۔ان کو بلا شک یہ خیال ہو سکتا ہے کہ ہماری ضروری خوراک کا ملنا صرف کسی امر اتفاقی کا نتیجہ ہے۔جو بیان نہیں ہو سکتا۔ مثلا شکار کبھی ملتا ہے اور کبھی نہیں ملتا۔ کبھی افراط سے ملتا ہے اور کبھی نہایت کم۔اور اسی سبب سے ان کو کبھی شبہ بھی اس بات کا نہیں ہوتا کہ نیچر کے انتظام میں ترتیب بھی ہے۔اور نہ ان کے دل میں ان تمام اصولوں کا وجود سما سکتا ہے۔ جن کی رو سے تمام واقعات وقوع میں آتے ہیں۔ اور جن اصولوں کے علم سے ہم اپنی باتوںکی آئندہ حالت کی نسبت پشین گوئی کر سکتے ہیں۔مگر جب یہی قومیں کچھ ترقی کر کے کسانوں کی حالت میں آجاتی ہیں تو وہ پہلے پہل ایسی خوراکیں کھاتی ہیں کہ جن کا ملنا ،کبھی ان کا پیدا کرنا بھی وہ اپنے فعل کا نتیجہ دیکھتی ہیں۔یعنی جو کچھ بوتے ہیں۔ وہی کاٹتے ہیں۔ ان کی ضرورتوں کے ضروری سامان زیادہ تر ان کے اختیارات میں ہو جاتے ہیں۔اور ان ہی کی محنت کے نتیجے ہوتے ہیں۔جب کہ وہ بیج زمین میں بوتے ہیںاس سے درخت پیدا ہوتا ہے۔ پھولتا ہے، پھلتا ہے ،بالیں نکالتا ہے۔جب وہ پختہ ہو جاتی ہیں تو ان سے وہی غلہ نکلتا ہے۔جو بویا تھا۔ اوراس غلے کواس بیج سے بھی کچھ مناسبت ہوتی ہے جو بویا تھا۔ان باتوں سے ان کو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس میں کوئی تدبیر اور حکمت ہے۔ یہ نتیجہ ہمیشہ یکساں ہوتا ہے۔ اب ان کو آئندہ کے لیے گو یقین نہ ہو ، مگر ایک قسم کا اعتبار اور بھر وسا پڑ جاتا ہے اور اعتبار اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جو ان کو اپنی اس پہلی اور غیر معین حالت میں تھا ۔ اسی سے ان کو ایک دھندلا سا خیال اس بات کا پیدا ہوتا ہے کہ واقعات میں کچھ تسلسل اور استحکام ہے اور کچھ کچھ وہ باتیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں جن کو آخر کار نیچر کے قانون کہتے ہیں ۔ اس بڑی ترقی کے ہر ایک قدم پر ان کا خیال صاف ہوتا جاتا ہے۔ جس قدر ان کی تحقیقات بڑھتی ہے اور تجربہ زیادہ وسیع ہوتا جاتا ہے اسی قدر ان کو قاعدہ و سلسلہ اور واقعات میں باہم موافقت ملی جاتی ہے جس کے وجود کا ان کو پہلے شبہ بھی نہ تھا۔ اس کے ظاہر ہونے سے وہ مسئلہ واقعات کے اتفاقیہ ہونے کا جو شروع میں ان کے دل میں بیٹھا ہوا تھا بودا ہوتا جاتا ہے۔ تھوڑی سی اور ترقی کے بعد استدلال کا شوق دل میں پیدا ہوتا ہے اور ان میں سے بعض لوگ اپنی تحقیقات سے کلیہ نکالتے ہیں اور اگلی رائے سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور یہ یقین کرتے ہیں کہ ہر ایک پچھلا واقعہ اپنے پہلے واقعے سے تعلق رکھتا ہے اور پہلے کا واقعہ اپنے سے پہلے واقعے سے۔ اسی طرح ساری دنیا ایک زنجیر ہے اور ہر ایک آدمی ایک سلسلے میں اپنا کام کرتا ہے۔ پر وہ اس بات کا تعین نہیں کر سکتے کہ وہ کیا کام ہو گا۔ غرضیکہ جب سوسائٹی ، یعنی گروہ انسانی عام طور پر ترقی کرتی جاتی ہے تو نیچر کے باقاعدہ ہونے کا زیادہ یقین ہوتا جاتا ہے اور اس وقت بجائے مسئلہ واقعات کے اتفافیہ ہونے کے ، دوسرا مسئلہ واقعات میں ضروری مناسبت کا قائم ہوتا ہے کہ مصنف کی یہ رائے ہے کہ غالباً انھی دونوں مسئلوں اتفافیہ اور ضروریہ سے انسان کے مختار اور مجبور ہونے کا ، یعنی تقدیر کا مسئلہ نکلا ہے اور اس بات کا سمجھ میں آنا کہ گروہ انسانی کے زیادہ تر مہذب ہونے کی حالت میں یہ تبدیل صورت کیونکر واقع ہوتی ہے کچھ مشکل نہیں ہے۔ ہر ملک میں جب دولت کا جمع ہونا ایک حد معین تک پہنچ جاتا ہے تو ہر ایک شخص کی محنت کا محاصل اس مقدار سے زیادہ ہوتا ہے جو اس کی پرورش کے لیے کافی تھا اور اس ی لیے سب لوگوں کو محنت کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ پس ایک ایسا جدا فرقہ بن جاتا ہے جس کے لوگ اپنی زادگی بلا محنت عیش و آرام سے بسر کرتے ہیں جس کے لوگ اپنی زندگی بلا محنت عیش و آرام سے بستر کرتے ہیں اور چند آدمی علم کی تحصیل میں اور اس کے پھیلانے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں اور ان پچھلے لوگوں میں سے ایسے لوگ بھی ہمیشہ نکلتے ہیں جو بیرونی واقعات پر خیال نہیں کرتے ، بلکہ اپنے دل کی باتوں کی تحقیقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور جب یہ لوگ کامل ہو جاتے ہیں تو یہی لوگ نئے فلسفے کے موجد اور نئے مذہب کے بانی ہوتے ہیں اور جو لوگ اس فلسفے یا مذہب کے پیرو ہوتے ہیں ان پر اس کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے ، لیکن ان کے موجدوں یا بانیوں پر خود ان کے زمانے کا اثر پایا جاتا ہے ، کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنے چاروں طرف کی رائے کے دباؤ سے بچ سکے اور جس کو نیا فلسفہ اور نیا مذہب کہتے ہیں وہ کچھ بالکل نئے خیالات کا پیدا کیا ہوا نہیں ہوتا ، بلکہ اس زمانے کے لوگوں کے جو خیالات ہوتے ہیں وہی خیالات ایک نئی راہ کی طرف پھر جاتے ہیں پس امر ما نحن فیہ میں بیرونی دنیا کے واقعات کے اتفاقیہ ہونے کا مسئلہ انسان کے مختار ہونے کے مسئلے کے مطابق ہے جو اندرونی دنیا سے علاقہ رکھتا ہے اور ضروری مناسبت کا مسئلہ اسی طرح انسان کے مجبور ہونے یا تقدیر کے مسئلے سے مشابہت رکھتا ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ پہلا مسئلہ متافزیشین یعنی فلسفیان فلسفہ ذہنی کا نکالا ہوا ہے اور دوسرا مسئلہ تھیولوجین یعنی علماء مذہب کا ، پہلے مسئلے میں فلسفۂ ذہنی کے حکماء واقعات کے اتفاقیہ ہونے کے مسئلے سے شروع کر کے دل میں ایک خود اختیاری ، یعنی افعال میں انسان کے مختار ہونے کا اصول قائم کر لیتے ہیں اور اسی اصول کا ایک نئی صورت میں آزادی نام رکھتے ہیں کہ انسان آزاد مخلوق ہے اور اس طرح پر ماننے سے تمام مشکلات دفع ہو جاتی ہیں ، کیونکہ پوری آزادی جو سب فعلوں کا سبب ہے خود کسی کا نتیجہ نہیں ، بلکہ مثل مسئلہ ’’ اتفاقیہ ‘‘ کے ایک ایسی حقیقت ہے جس میں زیادہ بیان نہیں ہو سکتا ۔ علماء مذہبی دوسری ، یعنی واقعات میں ضروری مناسبت کے مسئلے کو مذہبی صورت میں لاتے ہیں اور چونکہ ان کی طبیعت انتظام اور مطابقت کے خیالات سے بھری ہوتی ہے ، اس لیے وہ اس مناسبت کو جس میں کبھی فرق نہیں ہوتا خدا کے علم غیب سے منسوب کرتے ہیں اور اس اعلیٰ اور عمدہ اور پاک خیال کے ساتھ کہ خدا واحد ہے یہ مسئلہ تقدیر کا بھی لگایا جاتا ہے کہ خدا نے تمام چیزوں کو ابتداء سے ایک اندازے پر اپنی مرضی کے موافق معین و مقرر کر دیا ہے۔ ہماری زندگی کے جو حالات تاریکی میں ہیں وہ ان مختلف مسئلوں اتفافیہ اور ضروریہ سے ، یعنی مختاری اور تقدیر سے سہل طور پر صاف ہو جاتے ہیں اور بآسانی سمجھ میں آجاتے ہیں اور اس لیے اوسط درجے کی قابلیت کے لوگوں کے دل کوبہت پسند ہوتے ہیں اس زمانے میں بھی بہت سے لوگ انھی دونوں مسئلوں کے پیرو ہیں ، مگر ان مسئلوں نے اسنان کے علم کو سر چشمے کو صرف گدلا ہی نہیں کیا ، بلکہ ایسے مذہبی فرقے پیدا کیے جن کی آپس کی دشمنی نے انسان کی سوسائٹی کو برباد کر دیا اور زندگی کی اکثر باتوں کو تلخ کر دیا۔ یورپ کے عالموں کا اب یہ خیال ہے کہ یہ دونوں مسئلے غلط ہیں یا یہ کہ ان کی واقعیت کا اور صحت کا کوئی کافی ثبوت نہیں ہے ، مگر چونکہ یہ امر عظیم ہے اور نہایت ضروری ہے ، اس لیے مناسب ہے کہ جہاں تک ہو سکے ہم اس کو صاف کر لیں۔ مختاری اور تقدیر کے خیال کی ابتداء کی نسبت جو کچھ ہم نے لکھا شاید اس میں کچھ شک ہو ، مگر جس بنیاد پر وہ قائم ہیں اس میں کچھ جھگڑا نہیں ہے، تقدیر کا مسئلہ مبنی ہے ، ایک مذہبی قیاس پر اور مختاری کا مسئلہ مبنی ہے ایک ایسے قیام پر جو وجدان قلبی سے علاقہ رکھتا ہے ۔ تقدیر کے ماننے والے ایک ایسے مسئلے پر چلتے ہیں جس کا اب تک کوئی قرار واقعی ثبوت نہیں ہے۔ وہ لوگ اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ خدا نے ، جس کی نیکی مسلمہ ہے ، باوجود اپنے بالکل نیک ہونے کے ، اچھے و برے میں ، یا بدی و نکی میں ، یا پسندیدہ ہونے اور ناپسندیدہ ہونے میں تمیز کی ہے اور لاکھوں مخلوق کو جواب تک پیدا بھی نہیں ہوئی اور صرف خدا ہی کے فعل یا ارادے سے پیدا ہو سکتی ہیں ، ازل سے ابد تک بربادی اور گنہگاری میں ڈال دیا ہے اوہر یہ بات خدا نے کسی انصاف کے اصول پر نہیں کی ، بلکہ صرف اپنی قدرت کا ملہ اور مختار کل ہونے کی قدرت سے کی ہے ۔ عیسائیوں میں جو پراٹسٹنٹ فرقے کے ہیں ، ان میں یہ مسئلہ کالون کے وقت سے نکلا جس کی طبیعت نہایت قوی تھیں ، مگر نہایت تاریک ، لکین اکسٹین نے اس مسئلے کو پہلے پہل درست کیا اور معلوم ہوتا ہے کہ اکسٹین نے میجین لوگوں سے یہ مسئلہ سیکھا تھا۔ بہر حال اگر اس بات سے بھی قطع نظر کی جاوے کہ یہ مسئلہ اور اصولوں کے بھی مخالف ہے ، علمی تحقیقات میں اس مسئلے سے کچھ فائدہ نہیں ہے ، کیونکہ جب یہ مسئلہ ہمارے علم سے باہر ہے تو ہم اس کی سچائی یا جھوٹائی کی تحقیق نہیں کر سکتے۔ دوسرا مسئلہ جو مدت سے مختاری کے نام سے مشہور ہے ، آرمینین کے مذہب سے مناسبت رکھتا ہے ، لیکن درحقیقت انسان کی کانشنس کی بزرگی کے مسئلے پر مبنی ہے۔ (بری بات کرنے سے جواز خود آدمی کا دل پکڑا جاتا ہے اور آدمی کو بے چین و بے تاب کر دیتا ہے اس کو کانشنس کہتے ہیں) ہر ایک شخص کو معلوم ہوتا ہے اور بالبداھۃ جانتا ہے کہ میں آزاد ہوں اور کوئی دلیل اس خیال کو کہ ہم آزاد ہیں دور نہیں کر سکتی ۔ اب اس ختیار کامل کے وجود میں جس کے مقابلے میں تمام عام طریقے استدلال کے کچھ کام نہیں کرتے ، دو یا تین ہیں۔ پہلی بات گو صحیح ہو ، مگر ثابت نہیں ہے اور دوسری تو بلاشبہ غلط ہے اور وہ دو باتیں یہ ہیں۔ اول یہ کہ قوت غیزہ نیک و بد جس کو انگریزی میں کانشنس نس کرتے ہیں اور جس قوت کے احکام کبھی خطا نہیں کرتے ، ایک علیحدہ قوت ہے ، مگر یہ بات کہ کانشنس نس ایک علیحدہ قوت ہے اب تک کسی طرح تحقیقی نہیں ہے۔ بعض بڑے بڑے عاقلوں کی یہ رائے ہے کہ یہ طبیعت کی ایک حالت ہے۔ اگر یہی بات ہو تو بس بحث ختم ہو گئی ، کیونکہ اگر ہم یہ بھی تسلیم کر لیں کہ جب دل کے تمام قوی سے پورا پورا کام لیا جاوے تو برابر برابر ٹھیک کام کرتے ہیں ، تب بھی کوئی شخص یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ دل کی ہر ایک حالت میں ، جو اتفاقیہ کسی ایک طرح کی ہو جاتی ہے ، صحیح صحیح اور ٹھیک ٹھیک کام ہوتا ہے ، قطع نظر اس بات کے اگر یہ بھی تسلیم کیا جاوے کہ ’’ کانشنس نس ‘‘ ایک جدا قوت ہے تو بھی ہم یہ دوسری جرح پیش کریں گے کہ تاریخ سے بخوبی ثابت ہے کہ یہ قوت بہت خطا کھاتی ہے ۔ تہذیب کی ترقی کی تمام حالتوں میں جو انسان پر گزری ہیں دل کی خصوصیت ، یعنی عقیدے کا بہت بڑا اثر ہوا ہے اور وہ اثر اس زمانے کے عقیدوں کو ہر ایک شخص مانتا آیا ہے اور دوسری زمانے کے لوگ ان پر ہنسا کیے ہیں اور ہر ایک عقیدہ اپنے زمانے کے لوگوں کے دلوں میں ایسا ہی گڑا رہا ہے اور ان کے کانشنس کا جزو اعظم رہا ہے جیسے کہ اب وہ رائے ہے جس کو ہم آزادی کہتے ہیں ، تو بھی یہ بات ممکن نہیں کہ کانشنس نس کے سب نتیجے صحیح ہوں ، کیونکہ ان میں سے اکثر ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ پس جب تک یہ بات نہ مانی جاوے کہ زمانہ مختلف میں سچائی بھی مختلف ہوتی ہے تب تک وہ عقدہ حل نہیں ہو سکتا اور یہ بات محال ہے ۔ پس اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ کانشنس کی شہادت اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ وہ رائے صحیح ہے ، کیونکہ اگر ایسا ہو تو وہ باتیں جو ایک دوسرے کے بالکل مخالف ہیں دونوں برابر صحیح ہوں گی۔ علاوہ اس کے زندگی میں جو جو باتیں ہوتی ہیں ان کے دیکھنے سے ایک دوسری بات نکلتی ہے ۔ کیا ہم کو بعض حالتوں میں بھتو اور اسیب کے ہونے کا یقین دل میں نہیں ہو جاتا ؟ اور کیا پھر ہم لوگ یہی نہیں کہتے کہ ایسی چیزوں کا وجود نہیں ہے ، کوئی اور بات ہو گی جس کو ہم نے بھوت اور اسیب سمجھا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس قسم کا کانشنس یا یقین دھوکا ہے اصلی نہیں ہے ، تو ہم یہ پوچھیں گے کہ وہ کونسی چیز ہے جو صحیح اور غلط یا سچی اور جھوٹی کانشنس میں تمیز کرتی ہے۔ اگر بعض باتوں میں کانشنس ہم کو دھوکا دیتا ہے تو کیونکر یقین ہو سکتا ہے کہ اور باتوں میں دھوکا نہ دے گا اور اگر یقین نہیں ہو سکتا تو وہ کسی اعتبار کے لائق نہیں ہے اور اگر کسی طرح اس پر یقین ہو سکتا ہے تو ایک دوسری کسی ایسے شے کا وجود لازم آتا ہے کہ کانشنس اس کا تابع ہو۔ پس کانشنس کی سچائی کا مسئلہ جس کی بنیاد پر خود مختاری کے ماننے والوں نے اپنا اصول قائم کیا تھا ڈھے جاتا ہے ۔ بے شک میرے نزدیک اس بات کاش بہ کہ کانشنس نس کا وجود بطور ایک علیحدہ قوت کے ہے کہ نہیں اور تیز یہ بات کہ یہ قوت ہمیشہ سب باتوں کو یکساں نہیں بتاتی ، ایس یدو دلیلیں ہیں جن سے یقین ہوتا ہے کہ چند شخصوں کے دل کا حال معلوم کرنے سے ذہنی فلسفہ علم کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا ، مگر ان اصولوں کے تحقیق کرنے سے جو تاریخ سے نکالے جائیں اس کی تحقیقات بخوبی ہو سکتی ہے ، یعنی اس کے اصول ان باتوں سے نکالے جائیں جو ایک زمانہ دراز میں انسان کے حالات میں گزرے ہوں۔ یہ بات بلاشبہ نہایت خوشی کی ہے کہ جس شخص کے خیال میں یہ بات ہو کہ فن تاریخ بھی ایک علم ہو سکتا ہے ، اس شخص کو خود مختاری یا تقدیر کے مسئلے پر بحث کرنے کی کچھ ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ اس کو مفصلہ ذیل امور کا تسلیم کرنا کافی ہے ، یعنی ہم جو کوئی کام کریت ہیں کسی ایک یا ایک سے زیادہ غرض سے کرتے ہیں اور وہ غرض بھی کسی اور غرض کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ پس اگر سب باتوں سے اور ان کی تحریک کے قاعدوں سے واقف ہوں تو ہم بغیر کسی غلطی کے پہلے سے بتا سکتے ہیں کہ ان کا نتیجہ کیا ہو گا۔ جن لوگوں کے دل میں طرفداری نہی ہے اور جو اپنی رائے سے ثبوت موجودہ پر کام کرتے ہیں اس رائے کو قبول کریں گے کہ مثلا اگر ہم کسی شخص کے چال چلن سے بخوبی واقف ہوں تو ہم بتا سکتے ہیں کہ بعض خاص حالتوں میں وہ شخص کیا کرے گا ۔ اگر ہماری اس پیشین گوئی میں غلطی ہو تو خود مختاری یا تقدیر کو اس کا سبب نہ قرار دینا چاہیے ، کیونکہ اب تک ان دونوں باتوں کا کچھ ثبوت نہیں ہوا ہے ، بلکہ یہ خیال کرنا چاہیے کہ یا تو ہم کو اس شخص کے حالات غلط معلوم تھے یا یہ کہ ہم نے اس کے دل کی عام حرکتوں کے سمجھنے میں غلطی کی۔ اگر ہماری سمجھ صحیح ہو اور اس کے ساتھ ہی اس شخص کے مزاج کے حالات سے بخوبی واقفیت ہو تو ان حالات کے سبب ہم کوپہلے سے معلوم ہو سکات ہے کہ وہ شخص کیا کرے گا۔ پس اب خود مختاری اور تقدیر کے مسئلوں کی بحث سے قطع نظر کر کے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کے افعال میں اور ان باتوں میں جن سے ان افعال کے سرزد ہونے سے پہلے یہ بات معین ہو جاتی ہے کہ اس سے وہ افعال سرزد ہوں گے ، مطابقت کا ونا ضروری ہے ، کیونکہ یکساں حالتوں نتیجے ہونیچاہیں اور چونکہ ان افعال کے تمام اسباب یا تو اندر سے ، یعنی دل سے پیدا ہوتے ہیں یا بیرونی چیزوں سے ، اس لیے ان کے نتیجوں میں بھی فرق ہوتا ہے ، یعنی وہ فرق جو انسان کے حالات کے تبدل ، یعنی ان کے عروج اور ان کے تنزل ، ان کی خوشی اور ان کے رنج کا تاریخوں میں پایا جاتا ہے وہ سب انھی دوہری باتوں کا ، یعنی بیرونی باتوں کے اثر کا دل پر اور دل کے اثر کا بیرونی باتوں پر نتیجہ ہوتا ہے۔ یہی سب سامان ہیں جس کے ذریعے سے تاریخ فلسفے کے طور پر لکھی جا سکتی ہے ۔ ایک تو انسان کا دل ہے جو خود اپنے وجود کے قانون کی اطاعت کرتا ہے اور جب بیرونی چیزوں کا اس پر کچھ دخل نہیں ہوتا تو بموجب اپنی بناوٹ کے ترقی کرتا ہے ۔ دوسری وہ شے ہے جس کو ہم نیچر کہتے ہیں اور نیچر بھی اپنے قانون کی اطاعت کرتا ہے ، لیکن ہمیشہ انسان کے دل سے مل کر اس کی دلی خواہش اور ذہن کو اشتعالک دیتا ہے جس کے سبب انسان ایسے فعل کرتا ہے جو بعض نیچر کی مداخلت کے نہ کرتا ۔پس انسان نیچر کو تبدیل کرتا ہے اور نیچر انسان کو تبدیل کرتا ہے اور اسی آپسکی تبدیلات سے سب واقعات پیدا ہوتے ہیں۔ اب ہم کو اس دوسری تبدیلی کے قانون کے دریافت کرنے کا طریق تحقیق کرنا ہے ، لیکن اس سے پہلے اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ ان دونوں قسم کی تبدیلیوں میں سے کونسی زیادہ قوی ہے ، آیا انسان کے خیالات اور خواہشوں اور طبعی باتوں کا زیادہ اثر ہوتا ہے یا طبعی باتوں پر انسان کے خیالات اور خواہشوں کا زیادہ اثر پڑتا ہے ، تاکہ ان دونوں میں سے جونسی چیز زیادہ اثر کرنے والی ہو اسی کے دریافت کرنے میں اگر ممکن ہو تو سب سے پہلے توجہ کریں ، کیونکہ اس کے نتیجے زیادہ تر ظاہر ہوں گے اور اس سبب سے بآسانی تجربے میں آسکیں گے اور اس میں ایک یہ بھی فائدہ ہو گا کہ جب ہم بڑی قوت کے قانون کا ایک کلیہ نکال لیں گے تو بہت کم باتیں سمجھنی رہ جائیں گی ، مگر اس تحقیقات سے پہلے ہم کو ان صاف اور روشن ثبوتوں کا بیان کرنا مناسب ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دل کی حرکتیں باقاعدہ ہوتی ہے ۔ اس بیان سے رائے مذکورہ بالا قوی ہو جائے گی اور جس ذریعے سے اس امر میں تحقیقات ہوئی وہ بھی صاف ہو جائے گا۔ جو نتیجے در حقیقت وقوع میں آئے ہیں بے شک نہایت مفید ہیں اور علم اخلاق کے محقق علم الہیات کے ایسے قیاس پر چلے ہیں جو طبیعت کے علم سے متعلق ہے ، لیکن جس تحقیقات کا میں ذکر کرتا ہوں وہ بالکل بے شمار واقعات پر مبنی ہے اور وہ واقعات ایسے ہیں جو بہت سے ملکوں میں پائے گئے ہیں اور نہایت صاف طور پر ھند سے کی صورت میں تلائے گئے ہیں اور ایسے لوگوں نے ان کو جمع کیا ہے جو سرکاری اہل کار تھے اور ان کو کسی خاص مسئلے کی پچ یا کسی خاص فائدے کا پاس نہ تھا کہ جس کے سبب ان باتوں کی رپورٹ کی سچائی کو جن کی تحقیقات کا ان کو حکم تھا بگاڑتے یا خراب کرتے ۔ نہایت وسیع نتیجے جو انسان کے افعال کی نسبت نکالے گئے ہیں اور جن پر کسی کو اعتراض نہیں ہے ، وہ اسی یا اسی قسم کے ذریعے سے نکالے گئے ہیں۔ ملکوں کے حالات کے سالانہ نقشوں سے ان کا ثبوت ہوتا ہے اور وہ علم حساب کے قاعدے پر بنائے گئے ہیں اور جو کوئی اس بات سے واقف ہو گا کہ اس ایک طریقے سے کتنی باتیں دریافت ہوئی ہیں ، وہ صرف دل کی حرکات کے مطابق ہونے کو ہی نہیں مانے گا ، بلکہ اس کو یہ بھی یقین ہو جائے گا کہ اگر وہ قوی ذریعے کام لائے جائیں جو علم کی موجودہ حالت میں حاصل ہو سکتے ہیں تو اور بھی بہت سے مفید باتیں دریافت ہوں گی ، قطع نظر ان تحقیقاتوں کے جو آئندہ ہوں گی ہم کو بالفعل صرف انھی ثبوتوں سے مطلب ہے جن سے یہ پایا جاتا ہے کہ انسان کے حالات میں جو بذریعہ سالانہ نقشوں کے معلوم ہوئے ہیں بالکل مطابقت ہے۔ انسان کے افعال آسان طور پر دو قسموں میں منقسم ہیں ، ایک نیک اور دوسرے بد اور چونکہ یہ دونوں قسمیں باہم ایک دوسرے سے مناسبت رکھتی ہیں اور انہیں کا مجموعہ ہمارے اخلاق ہیں ، اس لیے یہ لازم آتا ہے کہ جس سبب سے ایک قسم زیادہ ہوتی ے اسی سبب سے اسی قدر دوسری قسم کم ہوتی ہے۔ پس اگر ہم کسی زمانے میں ایک قوم کی نیکیوں میں مطابقت پاویں تو ویسی ہی ان کی برائیوں میں مطابقت ہو گی۔ یہ دونوں قسم کے افعال جیسے کہ ان کے نام سے ظاہر ہوتا ہے ، ایک دوسرے ملے ہوئے ہیں ، یا اگر اسی بات کو دوسری طور سے بیان کریں تو یوں کہیں گے کہ اگر یہ ثابت ہو سکے کہ انسان کے برے افعال میں سو سائٹی کے تبدیلات کے مواقف فرق وتا ہے تو اس سے یہی نتیجہ نکلے گا کہ ان کے نیک افعال میں بھی ایسا ہی فر ق ہوتا ہے اور نیز یہ بھی نتیجہ نکلے گا کہ اس قسم کا فرق بڑے بڑے اور عام اسباب کا نتیجہ ہے جو تمام سو سائٹی پر اپنا اثر پہنچاتے ہیں اور خاص نتیجہ پیدا کرتے ہیں ، بلا لحاظ ان خاص شخصو کی خواہش کے جن سے سو سائٹی بنی ہوئی ہے۔ اگر انسان کے فعل سو سائٹی کے حالت کے بموجب ہوتے ہیں تو اسی قسم کی مطابقت ملنے کی ہمیں امید ہے اور اگر ایسی مطابقت نہ ملے تو ہم لوگ یہی یقین کر سکتے ہیں کہ انسان کے فعل کسی ایسا اصول کے بموجب ہوتے ہیں جس کا کچھ ٹھیک نہیں ہے اور جو ہر ایک شخص میں خاص طور پر ہوتا ہے ، مثلا خود مختاری وغیرہ ۔ اصل غرض قانون کی یہ ہے کہ بے گناہ بمقابلہ گنہگاروں کے محفوظ رہیں ، اس لیے یورپ کی گورنمنٹوں نے جب ان کو معلوم ہوا کہ لوگوں کے حالات کے نقشے کیسے مفید ہوتے ہیں تو ان جرائم کی نسبت ثبوت جمع کرنا شروع کیا جن کے لیے سزا دینی منظور تھی۔ یہ ثبوت جمع کرنا شروع کیا جن کے لیے سزا دینی منظور تھی۔ یہ ثبوت جمع ہوتا گیا یہاں تک کہ اب یہ ازخود لٹریچر ، یعنی علم ادب بن گیا ہے اور بہت سے واقعات نہایت احتیاط سے اور تحقیقات کے ساتھ جمع کیے گئے ہیں اور زمانہ سابق کے تجربے کی یہ نسبت انسان کے اخلاق کے حالات ان سے زیادہ معلوم ہوتے ہیں ، مگر چونکہ اس تمہید میں پورا پورا بیان ان نتیجوں کا نہیں ہو سکتا جو نقشوں سے نکلے ہیں ، اس لیے میں دو نہایت ضروری اور بڑی بڑی باتوں کا ذکر کروں گا اور ان کی نسبت کو بیان کروں گا۔ منجملہ سب جرموں کے قتل ایک ایسا جرم تصور کیا جاتا ہے جو بالکل بے قاعدہ ہے اور اس پر کچھ اختیار نہیں چلتا۔ گو یہ جرم ایک مدت کی بد یوں کا ایک بڑا کام ہے ، تام جب ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ اکثر یہ دفعۃً وقوع میں آتا ہے اور جبکہ پیشتر سے بندش ہوتی ہے تو اس میں بھی موافق موقعوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے جو اختیار میں نہیں ہے اور جب وقت آجائے تو شاید جرم کرنے والے کا دل ٹوٹ جائے اور پھر جرم کا کرنا یا نہ کرنا مخالف غرضوں پر منحصر ہوتا ہے ،مثلا قانون کا خوف ، ان سزاؤں کی دہشت جو دین میں لکھی ہیں ، جرم کرنے والے کی کانشنس نس و ایندہ افسوس کا اندیشہ و فائدے کی طمع و حسد و بد لہ لینے کا خیال ، و ناامیدی و غیرہ ۔ جب یہ سب باتیں جمع کی جائیں تو ایسے اسباب مخلوط ہو جاتے ہیں کہ ان سببوں میں جن کے ذریعے سے خون ہو سکات ے یا منع ہو سکات ہے کوئی خاص قاعدہ نکلنے کی امید نہیں رہتی ،لیکن اب دیکھنا چاہیے کہ اصل بات کیا ہے۔ اصل تو یہ ے کہ خون اسی طرح باقاعدہ ہوتا ہے اور خاص معلوم سببوں سے نسبت رکھتا ہے جیسے جوار بھاٹا اور تبدیل موسم ، موسیر کیوئلٹ جس نے اپنی تمام زندگی مختلف ملکوں کے نقشوں کے جمع کرنے میں صرف کی ، اپنی تحقیقات کا نتیجہ یوں بیان کرتا ہے کہ ہر ایک بات جو جرم سے علاقہ رکھتی ہے وہ مکرر ایک ہی تعداد پر وقوع میں آتی ہے اور ایسے جرائم کا بھی جن میں انسان کی پیش بینی کچھ کام نہیں کرتی یہی حال ہے ، مثلا خون جو عموما اتفاقیہ لڑائیوں کے بعد ہوا کرتا ہے۔ ہم تجربے سے جانتے ہیں کہ ہر سال خون کی تعداد قریب برابر کے ہوتی ہے اور جن اوزاروں سے خون کیا جاتا ہے وہ بھی قریب ایک ہی تعداد پر کام میں لائے جاتے ہیں۔ یہ قول 1835ء میں یورپ کے پہلے اسٹاٹیشین کا ہے اور مابعد کی تحقیقات سے اس کی صحت ہوتی آئی ہے۔ پچھلی تحقیقاتوں سے یہ ایک عجیب بات دریافت ہوئی ہے کہ جرم مکرر ایک تعداد پر صادر ہوتے ہیں اور یہ نست نیچر کے قانون کے جو ہمارے جسم کی بیماری اور بربادی سے علاقہ رکھتے ہیں ، جرم کا حال پیشتر سے زیادہ معلوم ہو جاتا ہے۔ مثلا فرانس میں ابتدائے سنہ 1826ء لغایت سنہ 1844ء تک جتنے لوگ مجرم قرار پائے اتنے ہی مرد اس زمانے میں پیرس کے اندر موت سے مرے ، فرق صرف اسی قدر ہوا کہ جرم کی تعداد کی کمی بیشی موت کی کمی پیشی سے کم ہوئی۔ اسی قسم کا قاعدہ ہر ایک علیحدہ علیحدہ جرم میں پایا گیا ہے۔ سب جرم ایک ہی قاعدہ کے بموجب ایک وقت معین کے بعد برابر صادر ہوتے گئے۔ جو لوگ یہ یقین کرتے ہیں کہ انسان کے افعال ہر شخص کے خاص مزاج کے موافق ہوتے ہیں اور سوسائٹی کی عام حالت سے کچھ تعلق نہیں ہوتا ، ان کو یہ بات عجیب معلوم ہو گی ، لیکن اس سے بھی زیادہ عجیب ایک بات یہ ہے کہ منجملہ جرائم قابل سزا کے کوئی جرم ہر شخص کے مزاج پر ایسا موقوف نہیں معلوم ہوتا جیسی کہ خود کشی ، خون یا لوٹنے کی کوششیں رک سکتی ہیں اور روکی بھی گئی ہیں۔ بعض وقت وہی شخص ان کو روک دیتا ہے۔ جس پر حملہ کیا جاتا ہے اور بعض وقت حاکم مانع ہوتے ہیں ، لیکن خود کشی کی کوشش میں روک ٹوک ہو سکتی ہے ۔ جو شخص اپنے قتل کرنے کا مصم ارادہ کر لیتا ہے ، اس کو اخیر وقت میں دشمن کی لڑائی مانع نہیں ہوتی اور وہ حاکم کی دست اندازی سے بھی آسانی سے بچ سکتا ہے ، ان کا کام گویا تنہا ہو جاتا ہے ، باہر سے اس پر کچھ مداخلت نہیں ہوتی اور بہ نسبت اور کسی جرم کے زیادہ تر خاص ایک شخص کی مرضی اور خواہش کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ بھی واضح ہو کہ برخلاف اور جرائم کے یہ جرم ساتھیوں کے ورغلانے سے بہت کم ہوتا ہے۔ پس جبکہ لوگ ساتھیوں کے ورغلانے سے یہ جرم نہیں کرتے تو ایک بڑی بیرونی بات کا اثر جس سے آزادی دب جائے ان پر نہیں ہوتا ، اس لیے خود کشی کی نسبت ، جو تنہائی میں ہوتا ہے اور جس پر قانون کا کچھ اختیار نہیں چلتا اور نہ ہوشیار پولیس اس کو کم کر سکتی ہے ، عام اصول کا نکالنا اورق اعدہ تلاش کرنا غیر ممکن معلوم ہوتا ہو گا۔ ایک اور مشکل یہ ہے کہ خود کشی کا نہایت عمدہ ثبوت بھی نکامل ہوتا ے ، مثلا ڈوب کر مرنا اتفاقیہ خود کشی میں داخل ہو سکتا ہے ، لیکن بعض قوت یہی عمدا ہوتا ہے اور اس کو اتفاقیہ کہتے ہیں۔ پس خود کش صرف غیر معین اور بے اختیار ہی نہیں معلوم ہوتی ، بلکہ اس کا ثبوت بھی نہایت تاریک ہے ۔ مذکورہ بالا وجہوں سے اگر اس کے عام سببوں کے دریافت کرنے میں ناامیدی ہو تو معقول ہے۔ جب کہ اس ایک جرم کے یہ حالات ہیں تو یہ بات بھی نہایت تعجب کی ہے کہ جو کچھ ثبوت اس کی نسبت ہمارے پاس ہے اور اس سے یہ ایک بڑا نتیجہ نکلتا ہے اور دل میں کچھ شبہ باقی نہیں رہتا کہ خود کشی سو سائٹی کی عام حالت کا نتیجہ ہے اور مجرم صرف عمل میں لاتا ہے اس بات کو جو حالات سابق کا ایک ضروری نتیجہ ہے۔ سوسائٹی کی ایک خاص حالت میں ضرور ہے کہ کچھ لوگ جن کی تعداد معین ہے خود کشی کریں۔ یہی عام قاعدہ ہے اور یہ خاص سوال کہ کون یہ جرم کرے گا خاص قاعدوں سے متعلق ہے جو عمل میں بڑے سوشل قاعدے کے ، جس کے وہ تابع ہیں ، اطاعت کرتے ہیں اور بڑے قاعدے کی ایسی قوت ہوتی ہے کہ نہ زندگی محبت اور نہ عاقبت کا خوف ان کے عمل کو روک سکتا ہے۔ اس عجیب قاعدے کے اسباب کو میں آیندہ لکھوں گا ، لیکن قاعدے کا وجود ہر شخص کو معلوم ہے جو اخلاق کی باتوں کے نقشوں کو بھی جانتا ہے۔ مختلف ملکوں میں جہاں کے نقشے ہمارے پاس موجوکد ہیں ، معلوم ہوتا ہیکہ سال بسال خود کشی کرنے والوں کی تعداد برابر ہوتی ہے۔ پس بلحاظ اس کے کہ پورا پورا ثبوت نہیں مل سکتا ہم پیشتر سے بتا سکتے ہیں کہ آنے والے زمانے میں کتنے لوگ خود کشی کریں گے ، بشر طیکہ سو سائٹی کے حالات کچھ زیادہ تبدیل نہ ہو جائیں۔ لندن میں بھی ، باوجود ان تبدیلات کے کہ جو دنیا کے سب سے بڑے اور نہایت عیاش دارالخلاففت میں ہوا کرتے ہیں ، بہت مطابقت اور قاعدہ پایا جاتا ہے ۔ امور متعلق انتظام ملکی و تجارت اور قحط سالی کی تکلیفیں ، یہی سب خود کشی کے سبب ہیں اور یہ ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، تاہم اس وسیع دارالخلافت میں قریب دو سو چالیس آدمیوں کے خود کشی کرتے ہیں۔ عارضی سبب سے سالانہ خود کشی کی تعداد میں فرق یہی ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد دو سو چھیاسٹھ ہوتی ہے اور کم سے کم دو سو تیرہ ۔ 1846ء میں جس سال ریلوے کے سبب بڑا انقلاب ہوا ، لندن میں دو سو چھیاسٹھ آدمیوں نے خود کشی کی ۔ 1847ء میں کچھ کمی شروع ہوئی اور تعداد دو سو چھپن ہوئی ۔ 1848ء میں دو سو سینتالیس اور 1849ء میں دو سو تیرہ اور 1850ء میں دو سو اتیس ۔ یہی چند ثبوت ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سوسائٹی کی یکساں حالت میں ایک قسم کے جرم ضرورمکرر ہوتے ہیں ۔ یہ یاد ر کھنا چاہیے کہ یہ نتیجہ خاص خاص منتخب واقعات سے نہیں نکالا گیا ہے، بلکہ یہ عام نتیجہ جرم کے بہت وسیع نقشوں سے نکلا گیا ہے اور ان نقشوں میں لاکھوں تجربے بہت سے ملکوں کے جن میں مختلف درجوں کی تہذیب ، مختلف قانون ، مختلف رائے ، مختلف اخلاق اور مختلف عادتیں جاری تیھں ، مندرج ہیں اور اگر ہم یہ بھی لکھیں کہ ان نقشوں کے حالات ایسے شخصوں نے جمع کیے جو خاص اسی کام کے لیے نوکر تھے اور ان کو ہر ایک ذریعہ حقیقت حال کے دریافت کرنے کا حاصل تھا اور دھوکا دینے میں ان کی کوئی غرض نہ تھی تو بے شک یہ بات تسلیم کی جائیگی کہ جرم کا ایک قاعدہ معین کے بموجب صادر ہونا ایک ایسا امر ہے کہ جو انسان کے اخلاق کی تاریخ کے اور کسی امر کی بہ نسبت زیادہ ثابت ہے ۔ ان نقشوں میں متوازی سلسلہ شہادت کا پایا جاتا ہے جو بموجب مختلف حالتوں کے نہایت احتیاط کے ساتھ جمع کیا گیا ہے اور سب سے یہی ایک نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کے جرم ایک مجرم کی برائی کا نتیجہ نہیں ہے ، بلکہ اس سوسائٹی کی حالت کا نتیجہ ہے جس میں وہ مجرم رہتا ہے۔ اس نتیجے کا ثبوت صاف و عیاں ہے اور دنیا میں سب لوگ اس کو دیکھ سکتے ہیں اور ایسا ہی کہ وہ تصورات جن کے ذریعے سے متافزیشین اور تھیولوجین نے گزشتہ واقعات کی تحقیقات کو پریشانی میںڈال رکھتا ہے ، اس کو رد نہیں کر سکتے۔ وہ لوگ جو اس بات سے واقف ہیں کہ طبعی باتوں میں نیچر کے قاعدوں کے بجا لانے میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے ، وہ اخلاق کی باتوں میں بھی ویسا ہی فرق پاویں گے ۔ یہ فرق دونوں حالتو ں میں چھوٹے چھوٹے قانونوں سے پیدا ہوتا ہے جو خاص موقعوں پر بڑے قانون سے ملتے ہیں اور ان کی اصل اور باقاعدہ تاثیر کو تبدیل کر دیتے ہیں ۔ اس کی نہایت عمدہ مثال جو ثقیل کے اس عمدہ اصول میں پائی جاتی ہے جس کو متوازی الاضلاع کے زوروں کی قوت کہتے ہیں اور جس کے بموجب قوتوں میں وہی نسبت وتی ہے جو ان قوتوں کی شکل متوازی الاضلاع کی قوتوں میں ہوتی ہے۔ یہ قاعدہ بہت بڑے بڑے نتیجوں سے بھرا ہوا ہے اور قوتوں کا ملانا اور ان کا علیحدہ علیحدہ کرنا اسی قاعدے سے متعلق ہے اور جو شخص اس دلیل سے واقف ہے جس پر یہ قاعدہ مبنی ہے وہ کبھی اس کے ٹھیک ہونے میں کسی شبہے کا بھی خیال نہ کرے گا ، مگر جب اس قاعدے کو کام میں لایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اور قاعدے اس کو چمٹے ہوئے ہیں ، یعنی ہوا کی رگڑ کے قاعدے اور ان جسموں کب بناوٹ کا اختلاف جن پر زور لگایا جاتا ہے اور جب اس قسم کے امور پیش آتے ہیں تو اصلی اور سیدھا اثر جو ثقیل کے قاعدے کا مختلف ہو جاتا ہے۔ لیکن گو قاعدے کے نتائج میں فرق ہوتا ے ، تاہم قاعدے تبدیل نہیں ہوتا ، اسی طرح پر اس بڑے سوشل قاعدے میں کہ انسان کے افعال ان کی خواہش کے نتیجے نہیں ہیں ، بلکہ حالات ماسبق کے نتیجے ہیں ، بہت فرق ہوتا ہے ، لیکن اصل حقیقت پر کچھ اثر نہیں ہوتا ۔ ایک ملک کے جرم کی تعداد میں جو سال بسال تھوڑا تھوڑا فرق ہوتا ہے اس کے سمجھنے کے لیے بیان مندرجہ بالا کافی ہے۔ بلحاظ اس امر کے کہ بہ نسبت نیچر کے سامان کے اخلاق کے متعلق بہت سے چیزیں ہیں تعجب اس بات کا ہوں ہے کہ باوجود اس کے فرق زیادہ نہیں ہے اور فرق کے ایسے خفیف ہونے کے سبب سے ہم خیال کر سکتے ہیں کہ وہ بڑے بڑے سوشل قاعدے کیسے قوی ہیں کہ جن میں ہمیشہ مداخلت ہوتی ہے ، لیکن وہ ہر ایک مشکل کو طے کرتے ہیں ۔ انسان کے جرائم میں بھی ایسی مطابقت نہیں پائی جاتی ، بلکہ جس قدر شادیاں ہر سال ہوتی ہے وہ بھی لوگوں کے مزاجد اور خواہش کے موافق نہیں ہوتیں ، بلکہ بڑے بڑے عام واقعات کے سبب سے ہوتی ہیں جن پر آدمی کا کچھ اختیار نہیں چلتا۔ یہ امر ظاہر ہے کہ شادی اور اناج کی قیمت میں ایک قسم کی خاص نسبت ہوتی ہے۔ انگلستان میں سو برس کے تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ شادیوں کو لوگوں کے ذاتی خیالات سے کچھ تعلق نہیں ہوتا ، بلکہ لوگوں کی جماعت کثیر کی آمدنی کے بموجب ہوتی ہیں۔ پس یہ بڑی سوشل اور مذہب بات قیمت خوراک اور نرخ اجرت پر منحصر ہووتی ہے۔ اسی طور پر اور باتوں میں بھی مطابقت اور قاعدہ پایا جاتا ہے، گو سبب ان کے باقاعدہ ہونے کا اب تک ظاہر نہیں ہے ، مثلا یادداشت کی غلطیوں میں بھی ایسا ہی عام قاعدہ پایا جاتا ہے جس کو ہم ثابت کر سکتے ہیں ۔ لندن اور پیرس کے ڈاکخانوں میں اخیر زمانے میں ایسے خطوں کی فہرست مشتہر ہوئی جن کے لفافوں پر لکھنے والوں نے بھول کر پتا نہیں لکھا تھا اور بالفرض اس بات کے کہ اس کا سبب مختلف ہوا ہو گا ، سال بسال وہ فہرست ایک دوسرے کی نقل ہوتی تھی۔ ہر سال اسی تعداد کے چٹھی لکھنے والے اس آسان کام کو بھولتے تھے۔ پس ہم پیشتر سے بتا سکتے ہیں کہ ہر ایک زمانہ آئندہ معین میں کتنے لوگ اس خفیف کام کو جو اتفاقیہ بات معلوم ہوتی ہے بھولیں گے۔ ایسے لوگ جن کو واقعات کے باقاعدہ ہونے کا مضبوط خیال ہے اور جنہوں نے اس بڑی حقیقت کو خوب سمجھ لیا ہے کہ انسان کے افعال جو حالات ماسبق کے بموجب ہوتے ہیں کبھی بے قاعدہ نہیں ہوتے ، گوظاہر میں بے قاعدہ معلوم ہوں ، لیکن اصل میں ایک بڑے عام انتاظم کے جزو ہیں جس کے نقشے کو ہم علم کی موجودہ حالت میں نہیں دیکھ سکتے ۔ جو اس بات کو سمجھتے ہیں اور یہی تاریخ کی جڑ اور تاریخ کی کنجی ہے ، اور ان کو بیان مذکورہ بالا سے کچھ تعجب نہ ہو گا ، بلکہ صاف یہ معلوم ہو جائے گا کہ جن نتیجوں کا اوپر ذکر ہوا انہیں کی امید ہونی چاہتے تھے اور وہی بہت دن پیشتر معلوم ہو جانا چاہتے تھے۔ اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ تحقیقات کی ترقی اب بہت جلد اور دل سے ہوتی جاتی ہے اور مجھ کو کچھ شک نہیں ہے کہ ایک سو برس کے پیشتر سلسلہ ثبوت کا پورا ہو جائے گا اور پھر شاذو نادر کوئی ایسا مورخ ملے گاجو اخلاق کی باتوں کے باقاعدہ ہونے سے انکار کرے ، جیسے کہ اب بہت کم ایسا کوئی عالم ہے جو دنیا کی باتوں کے باقاعدہ ہونے سے انکار کرتا ہو۔ واضح ہو کر ہمارے افعال کے لیے ایک قاعدہ ہونے کا ثبوت لوگوں کے حالات کے نقشوں سے نکالا گیا ہے ۔ یہ شاخ علم کی گو اب تک اپنی ابتدائی حالت میں ہے ، تاہم بہ نسبت تمام علوم کے انسان کے نیچر کی تحقیقات میں اس نے بہت روشنی بخشی ہے اور گو نہایت یہ قوی ذریعہ حقیقت کے دریافت کرنے کا ہے ، تاہم ہم کو یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ کوئی ذریعہ باقی نہیں ہے جو اس طرح پر ترقی پا سکتے ہیں اور نہ یہ نتیجہ نکالنا چاہیے کہ علوم طبیعی سے اور تاریخ سے آج تک کچھ کھ نسبت نہیں رکھی گئی ، اس لیے ان دونوں میں کچھ نسبت نہیں ہو سکتی ، جب ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ انسان اور بیرونی دنیا کیسے آپس میں ملیت ہیں تو کچھ شبہ باقی نہی رہتا کہ انسان کے افعال اور نیچر کے قاعدوں میں نسبت قریبی ہے۔ اگر علم طبیعی اور تاریخ سے آج تک نسبت نہیں رکھی گئی تو اس کا سبب یا تو یہ ہے کہ مورخوں نے اس منابت کو دیکھا نہیں یا یہ کہ دیکھا ہو ، لیکن ان کو اس قدر علم اور واقفیت نہیں کہ اس کے عمل کی تہہ کو پہنچیں ۔ اسی سبب سے بیرونی اور اندرونی باتوں کی تحقیقات میں جدائی رہی اور گو یورپ کے لٹریچر کی موجودہ حالت سے آثار پائے جاتے ہیں کہ یہ مصنوعی روک توڑ ڈالی جائے ، تاہم یہ تسلیم کرنا ضرور ہو گا کہ اب تک اس بڑی غرض کی تکمیل کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔ علم اخلاق و علم النہیات و علم باطنی کے عالم اپنے اپنے علم کی تحصیل کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ باتیں سائنس جاننے والے لوگوں سے متعلق ہیں اور اکثر یہ کہتے ہیں کہ اس قسم کی تحقیقات مذہب کے لیے مضر ہے اور انسان کی سمجھ پر غیر واجب بھروسا ہوتا ہے ، لیکن برخلاف اس کے علم طبیعی کے بڑھانے والے ، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم لوگ ترقی کرنے والے ہیں ، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم لوگ ترقی کرنے والے ہیں ، اپنی کامیابی پر فخر کرتے ہیں اور اپنی تحقیقاتوں کا مقابلہ اپنے مخالفوں کی بے حرکت حالات سے کر کے ایسے علم کی تحصیل سے نفرت کرتے ہیں جس کا بے فائدہ ہونا سب پر ظاہر ہے۔ مورخ کا یہ کام ہے کہ ان دونوں فریق کے بیچ میں پڑ کر ان کے مخالفانہ دعوے کو مطابق کر دے اور بتلا دے کہ کس مقام پر ان کے خاص خاص علوم کو مطابق ہونا چاہیے اور اس اتفاق کی صورت قائم کرنا وہی تاریخ کی بن یاد قائم کرناہے۔ چونکہ تاریخ میں انسان کے افعال کا ذکر ہوتا ہے اور انسان کے افعال بیرونی و اندرونی باتوں کے میل سے پیدا ہوتے ہیں ، اس لیے ضرور ہے کہ ان باتوں کی حقیقت دریافت کی ائے اور یہ بھی دریافت کیا جائے کہ کہاں تک ان کے قاعدے معلوم ہیں ۔ اور علم باطن اور نیچر کے جاننے والوں کے پاس آئندہ تحقیقات کے لیے کیا سامان ہیں اس کا بیان آئندہ کیا جائے گا اور اگر اس میں کچھ کامیابی ہوئی تو مصنف کی اس قدر تو تعریف ہو گی کہ اس نے اس اور بڑے خوفناک گڑھے کی ، جو ایسی باتوں کو علیحدہ کرتا ہے جس میں نسبت قریبی ہے اور جس کو کبھی جدا نہ ہونا چاہیے ، بھرنے کی کوشش کی۔ ٭٭٭٭٭ کالڈیا کی نظم میں طوفان کا ذکر (تہذیب الاخلاق جلد دوم نمبر 10 (دور سوم) بابت یکم رجب 1313ئ) کالڈیا کے کھنڈرات جب کھودے گئے تو اس میں سے بہت سے قدیم چیزیں بت اور مکانات وغیرہ نکلے ہیں ۔ انھی کھنڈرات میں سے بہت سے اینٹیں نکلیں جن پر کالڈی حرفوں اور کالڈی زبان میں بہت کچھ لکھا ہوا تھا ۔ معلوم وتا ہے کہ پہلے وہ اینٹیں بنائی گئیں اور ان پر جو لکھنا تھا وہ لکھا اور پھر ان کو آگ میں پکا لیا۔ یہ اینٹیں نینوا کے کھنڈرات میں سے ملی ہیں اور لندن کے برٹش میوزیم میں موجود ہیں۔ ان اینٹوں پر ایک نظم کندہ ہے اور گیارہ اینٹیں جو نکلی ہیں ان پر مسلسل وہ نظم چلی جاتی ہے ، مگر نظم کے سلسلے سے معلوم ہوتا ہے کہ بارہ اینٹیں تھیں ان میں سے ایک اینٹ نہیں ملی۔ مسٹر جارج اسمتھ نے 1872ء میں ان اینٹوں پر جو کچھ لکھا ہوا تھا اس کو پڑھا اور مطابق سلسلہ نظم کے جو گیارہویں اینٹ ہے اس پر طوفان کا قصہ اس طرح لکھا ہے۔ مگر اس قصے میں جو نام آئے ہیں وہ غیر مانوس ہیں ، اس لیے ہم اول ان نماموں کو مع اعراب لکھ دیتے ہیں ، تاکہ پڑھنے والوں کو آسانی ہو۔ ہسی سادرا سرپاک نام شہر انو نام دیوتا بیل بے کار زیر اور یائے مجھول ننیب پہلے دونوں نون پر کھڑا زیر انوگی ایا الف کا زیر اور یائے مشدد اوبا رتوتو نام بادشاہ شمش بفتح میم نی بو نون کے نیچے کھڑا زیر ، نام عطارد نرگال پہلے نون پر پیش ، دوسرا ساکن تیسرا مفتوح رمان اشتر یعنی زہرا ننیوا نام شہر مضمون طوفان نظم میں جو گیارہویں اینٹ پر کندہ ہے ہسی سادرا (صبح کا سورج) اپنی اولاد کے سوال کے جواب میں اس طرح اپنا بیان شروع کرتا ہے : اے ازدوبار ! (آگ کا ڈھیر) میں تجھ کو بتاؤں گا کہ میں طوفان سے کس طرح بچایا گیا تھا اور نیز بڑے خداؤں کا حکم بھی تجھ کو بتلاؤں گا۔ تو شہر سر پاک کو جود ریائے فرات کے پاس ہے جانتا ہے ۔ یہ شہر بہت قدیم تھا۔ جبکہ خداؤں کے دلوں میں اس بات کی تحریک ہوئی کہ ایک بڑے طوفان کا حکم دیں۔ ان سب کے دلوں میں ، ان کے باپ آنو کے دل میں ، ان کے مشیر جنگجو بیل کے دل میں ، ان کے تخت بردار ننیب اور ان کے پیشوا انوگی کے دل میں لاانتہا عقل کا مالک ، یعنی خدا ’’ ایا ‘‘ ان کے ساتھ تھا کہ اور اسی نے مجھ کو خداؤں کا فیصلہ بتلایا ۔ اس نے ،یعنی ’’ ایا ‘‘ نے کہاکہ ’’ سن اور توجہ کر ۔ !! ‘‘ سر پاک کے آدمی ۱؎اوبار توتو کے بیٹے اپنے گھر کے باہر جا اور اپنے لیے ایک جہاز بنا۔ انہوں نے ، یعنی خداؤں نے ارادہ کر لیا ہے زندگی کے بیج کے تباہ کرنے پر ، لیکن تو اس کو بچا اور ہر قسم کی جان کا بیج جہاز میں لا۔ جو جہاز تو بنائے گا اس کو اتنا طول میں ہونا چاہیے اور اتنا عرض اور بلندی میں (ھند سے طول و عرض اور بلندی کے مٹ گئے) اور اس کو تختوں سے ڈھانک دے۔ 1۔ یہ قدیم زمانے میں کالڈ یا کے بادشاہوں میں سے نواں بادشاہ ہے جن کا حال افسونوں میں درج ہے اور اس لفظ کے معنی ہیں شفیق۔ 12۔ جب میں نے یہ سنا تو میں نے اپنے خداوند ایا سے کہا ، اگر میں جہاز بناؤں جیسا کہ تو مجھ کو حکم دیتا ہے تو اے خداوند لوگ اور ان کے بڑے بوڑھے مجھ پر ہنسیں گے ، لیکن ایسا نے اپنے ہونٹ ایک دفعہ اور کھولے اور مجھ اپنے نوکر سے بولا ’’ آدمیوں نے میرے خلاف بغاوت کی ہے اور میں ان کا انصاف کروں گا اعلیٰ و ادنی سب کا ، لیکن تو جہاز کا دروازہ بند کر دیجیو جب وقت آئے اور میں تجھ کو بتلا دوں گا تب جہاں میں داخل ہو اور اس میں اپنے اناج کا ذخیرہ لا ۔ اپنا تمام اسباب ، اپنے گھر بار کے لوگ ، اپنے مرد نوکر اور عورت نوکر اور اپنے قریب کے رشتہ دار ، میدان کے مویشی اور میدان کے جنگلی جانوروں کو میں خود تیرے پاس بھیج دوں گا ، تاکہ وہ تیرے دروازے کے پیچھے محفوظ رہیں ۔ تب میں نے جہاز بنایا اور کھانے پینے کی چیزوں کو اس میں ذخیرہ کیا اور میں نے اندر کے حصے کو (کمروں کی تعداد کے ھند سے مٹ گئے) کمروں میں تقسیم کیا اور دروازوں کو دیکھا اور ان کو بھر دیا۔ میں نے اس کی بیرونی سطح پر اور اس کے اندر کی طرف روغن قیر مل دیا اور جو کچھ کہ میرے پاس تھا وہ میں نے فراہم کیا اور اس کو جہاز میں بھر دیا جو کچھ کہ میرے پاس سونے کا تھا یا چاندی کا اور ہر قسم کی جان کا بیج ، تمام اپنے مرد نوکر اور عورت نوکر اور میدان کے مویشی اور میدان کے جنگلی جانور اور اپنے نہایت قریبی دوست اور جبکہ شمس (آفتاب) مقررہ وقت کو لایا تو ایک آواز نے مجھ سے کہا کہ آج شام کو آسمان تباہی برسائیں گے ، اس لیے تو جہاز میں چلا جا اور اپنا دروازہ بند کر لے مقررہ وقت آگیا ہے۔ آواز نے کہا کہ آج شام کو آسمان تباہی برسائیں گے اور اس دن کے سورج کے غروب ہونے سے مجھ کو بہت ہی ڈر لگا جس دن کہ میں اپنا دریائی سفر شروع کرنے کو تھا۔ میں بہت ہی خوف زدہ تھا ، تاہم میں جہاز میں داخل ہوا اور اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیا ، تاکہ جہاز بند ہو جائے اور میں نے بڑے جہاز کو مع اس کے تمام لدے ہوئے اسباب کے پتواریے کے سپرد کر دیا۔ تب ایک بڑا سیاہ بادل آسمانوں کی گہرائیوں میں سے اٹھتا ہے اور ’’ رمان ‘‘ اس کے بیچ میں گرجتا ہے اور اس اثنا میں ’’ نی بو ‘‘ (عطارد) اور ’’ نرگال ‘‘ (مریخ) ایک دوسرے کے مقابلے میں آتے ہیں اور تخت بردار پہاڑوں اور گھاٹیوں پر پھرتے ہیں ۔ زبردست خدا وبا کا آندھیوں کا کھول دیتا ہے۔ ’’ ننیب ‘‘ نہروں میں طغیانی کو برابر جاری کر دیتا ہے اور ’’ اننگی ‘‘ زمین کی گہرائی سے سیلابوں کو اوپر لاتے ہیں اور ان کی شدت سے زمین لرزتی ہے۔ رمان کے پانیوں کا مجمع آسمان تک بلند ہوتا ہے ۔ روشنی تاریکی سے بدل جاتی ہے۔ ابتری اور تباہی سے زمین بھر جاتی ہے۔ بھائی بھائی کا خیال نہیں کرتا اورآدمی ایک دوسری کا خیال نہیں کرتے۔ آسمانوں میں خدایان بھی ڈرے ہوئے ہیں اور ’’ انو ‘‘ کے سب سے اعلیٰ آسمان میں پناہ لیتے ہیں اور جس طرح کہ کتا اپنے بھٹ میں اسی طرح خدایان آسمان کے کٹہرے کے پاس دبک جاتے ہیں ۔ ’’ اشتر ‘‘ (زہرا) رنج میں چلاتی ہے ، دیکھو ! سب کچھ کیچڑ ہو گیا ۔ جیسا کہ میں نے خداؤں سے پیشین گوئی کی تھی۔ میں نے خداؤں سے پیشین گوئی کی تھی۔ میں نے اس تباہی اور اپنی مخلوقات انسانی کی بربادی کی پیشین گوئی کر دی تھی ، لیکن میں ان کو اس لیے پیدا نہیں کرتی کہ وہ سمندروں کو مچھلیوں کے جھول کی طرح بھر دیں۔ سب خدایان اس کے ساتھ روئے اور ایک جدگہ پر روتیے پیٹتے بیٹھے۔ چھ دن اور سات راتوں تک ہوا اور طغیانی اور طوفان نہایت زور شور پر رہا ، لیکن ساتویں دن کے طلوع ہونے پر طوفان کم ہوا اور پانیوںنے جو مثل عظیم الشنا فوج کے لڑ رہے تھے اپنا زور کم کیا۔ سمندر پسپا ہوا اور طوفان اور طوفانی دونوں بند ہو گئے۔ میں سمندر میں ادھر ادھر جہاز کو چلاتا رہا ، اس بات پر زاری کرتا ہوا کہ آدمیوں کے گھر کیچڑ ہو گئے۔ لاشیں لکڑیوں کے ٹکڑوں کی طرح ادھر ادھر بہہ رہی تھیں۔ میں نے ایک سوراخ کو کھولا اورجب دونوں کی روشنی میں میرے چہرے پر پڑی تو میں کانپنے لگا اور بیٹھ گیا اور رونے لگا۔ میں نے ان ملکوں پر جہاز کو چلاتا رہا جو اب خوفناک سمندر بن گئے ہیں۔ تب ایک قطعہ زمین پانی میں سے اٹھا۔ جہاز زمین نزیر کی طرف چلا اور نزیر کے پہاڑ نے جہاز کو مضبوط پکڑ لیا اور اس کو جانے نہیں دیا۔ اسی طرح پہلا دن اور دوسرا دن اور تیسرا دن اور چوتھا دن اور پانچواں دن اور چھٹا دن بھی گزرا ۔ ساتویں دن کے طلوع ہونے پر میں نے ایک فاختہ لی اور اس کو باہر بھیجا ، فاحتہ ادھر ادھر گئی ، لیکن کوئی قیام کی جگہ اس کو نہیں ملی اور واپس آئی۔ پھر میں نے ایک ابایبل لی اور اس کو باہر بھیجا ۔ ابابیل ادھر ادھر باہر گئی، لیکن کوئی قیام کی جگہ نہیں پائی اور واپس آئی۔ پھر میں نے ایک کوالیا اور اس کو باہر بھیجا۔ کوا باہر گیا اور جب اس نے دیکھا کہ پانی کم ہو گیا ہے تو پھر قریب آیا پانی میں احتیاط سے تیرتا ہوا ، لیکن واپس نہیں آیا ، تب میں نے تمام جانوروں کو باہر چھوڑ دیا ، آسمان کی ہواؤں کے چاروں طرف اور قربانی چڑھائی ۔ پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پر میں نے قربان گاہ بنائی اور پاک برتنوں کو سات ساتھ کر کے اس پر رکھا اور نرسل بچھایا اور سیڈر درخت کی لکڑی اور میٹھی نباتات نرسل کے نیچے رکھی۔ خداؤں نے برسو نگھی ۔ خداؤں نے میٹھی خوشبو سونگھی اور مجھیوں کی طرح قربانی کے گرد جمع ہو گئے۔ جب خدانی ’’ اشتر ‘‘ آئی تو اس نے بلندی پر اپنے باپ ’’ انو ‘‘ کی بڑی کہانیں پھیلا دیں اور کہا مجھ کو اپنی گردن کی ھیکل کی قسم ہے کہ میں ان دنوں کا خیال رکھوں گی اور ان کی یاد کو کبھی نہیں بھلاؤں گی ۔ تمام خدایان قربان گاہ پر آویں صرف ’’ بیل ‘‘ نہیں آئے گا ، کیونکہ اس نے اپنے غصے کو ضبط نہیں کیا اور طوفان برپا کیا اور میرے آدمیوں کو تباہی کے سپرد کیا ۔ اس کے بعد جب ’’ بیل ‘‘ قریب آیا اور جہاز کو دیکھا تو بہت ہی بے چین ہوا اور خداؤں اور آسمان کی روحوں کے خلاف ’’ بیل ‘‘ کے دل میں غصہ بھر گیا اور وہ چلایا ’’ ایک جان بھی نہیں بچے گی ، ایک آدمی بھی تباہی سے بچ کر زندہ نہیں نکلے گا۔ ‘‘ تب خدا ’’ ننیب ‘‘ نے اپنے ہونٹ کھولے اور جنگجو ’’ بیل ‘‘ سے مخاطب ہو کر کہا ’’ سوائے ’’ ایا ‘‘ کے اور کون کر سکتا تھا ’’ ایا ‘‘ کو معلوم تھا اور اس نے اس کو ، یعنی ’’ ہسی سادرا ‘‘ کو ہر ایک چیز بتلا دی تھی ۔ ‘‘ تب ’’ ایا ‘‘ نے اپنے ہونٹ کھو لے اور جنگجو ’’ بیل ‘‘ سے مخاطب ہو کر کہا ’’ تو خداؤں کا زبردست سردار ہے ، لیکن اس طرح بے سمجھے بوجھے تو نے کیوں کام کیا اور یہ طوفان برپا کیا ۔ گنہگار اپنے گناہ کی سزا پائے اور بد کار اپنی بد کاری کی ، لیکن اس آدمی پر مہربان ہو کہ وہ تباہ نہ کیا جائے اور اس کی طرف سے اچھا خیال رکھ ، تاکہ وہ حفاظت سے رہے اور بجائے ایک اور طوفان لانے کے شیروں کو اور چرغوں کو آنے دے اور ان آدمیوں کی تعداد میں سے لے جانے دے۔ قحط بھیج زمین کے ویران کرنے کے لیے یا وبا کے خدا کو اجازت دے کہ آدمیوں کو گرا دے۔ میں نے ’’ ہسی سادرا ‘‘ کو بڑے خداؤں کا فیصلہ بتلایا نہیں تھا۔ میں نے تو صرف ایک خواب اس پاس بھیجا تھا اور وہ اس خواب کو سمجھ کر خبر دار ہو گیا۔ تب ’’ بیل ‘‘ اپنے ہوش میں آیا اور وہ جہاز میں داخل ہوا۔ میرا ہاتھ پکڑا اور مجھ کو اوپر اٹھایا ۔ اس نے میری بیوی کو بھی اٹھایا اور اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں رکھا۔ پھر وہ ہماری طرف مڑا اور ہم دونوں کے بیچ میں کھڑا ہو گیا اور یہ دعا ہم کو دی ’’ اب تک تو ’’ ہسی سادرا ‘‘ صرف انسان تھا ، لیکن اب وہ مع اپنی بیوی کے خداؤں کی برابر بلندی رتبہ کر دیا جائے گا۔ وہ ’’ ہسی سادر ‘‘ دور دراز زمین میں دریاؤں کے دھانے کے پاس رہے گا ‘‘ پھر انہوں نے ، یعنی خداؤں نے مجھ کو لیا اور مجھ کو ایک دور دراز مین میں دریاؤں کے دھانے کے پاس منتقل کر دیا۔ (انتہیٰ) اس قصے پر یورپ کے عالموں کے خیالات یورپ کے عالموں کا خیال ہے کہ یہ نظم کم سے کم دو ہزار برس پیشتر ولادت حضرت مسیح کے ہے ، یعنی 2004ء دنیوی کے ۔ وہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ قصہ کوئی اصل قصہ نہیں ہے ، بلکہ صرف فرضی قصہ ہے۔ منطقۃ البروج کے بارہ برجوں میں جب آفتاب دورہ کرتا ہے اور ہر ایک برج میں آفتاب کے جانے سے موسم کا جو حال ہوتا ہے اسی کے مناسب استعارے میں اس برج کا نام رکھا گیا ہے اور اسی کے مناسب اس برج کی صورت قرار دی ہے۔ پس یہ فرضی قصہ ہے آفتاب کی گردش کا اور اس سے موسم میں تغیر ہونے کا جبکہ وہ گیارہویں برج ، یعنی دلو میں ہوتا ہے۔ (انتہیٰ) واضح ہو کر برج دلو کی صورت آسمان پر بالحاظ ان ستاروں کے جو اس مقام پر ہیں اس طرح پر قرار دی ہے کہ ایک آدمی گھٹنے جھکائے کھڑا ہے ، اس کے ہاتھ میں اوندھا ڈول ہے اور بہت سا پانی انڈیل رہا ہے ، جس سے اشارہ کثرت بارش سے ے اور ایک ہاتھ میں کسی درخت کے پتے ہیں ، شاید زیتون کے ہوں ۔ عربی زبان میں اس صورت کا نام ’’ ساکب الماء ‘‘ رکھا گیا ہے جب آفتاب اس برج میں ہوتا ہے تو کالڈیا میں نہایت کثرت سے بارش ہوتی ہے۔ کالڈیا والے اس کو مصیبت کا مہینہ کہتے تھے اور کچھ شبہ نہیں کہ جب وہ وحشیانہ طور پر رہتے تھے اور مکانات بنانے نہیں جانتے تھے اور بارش کی کثرت ہوتی تھی اور دجلہ اور فرات دریاؤں اور اس کی ندیوں میں طغیانی ہوتی تھیں تو کالڈیا والوں کو نہایت مصیبت کا زمانہ ہوتا ہو گا۔ یورپ کے عالموں کاجب یہ خیال ہے کہ یہ اینٹیں جو نکلی ہیں بہت قدیم ہیں تو وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ’’ یہودیوں نے کالڈیا والوں سے طوفان اور دنیا کی پیدائش کا حال لیا ہے ‘‘ اور طوفان کا بیان صرف ایک افسانہ ہے۔ ہماری تحقیق اور رائے ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ یہودیوں نے کالڈیا والوں سے طوفان کا حال لیا ہے ، بلکہ طوفان جس کا ذکر توریت اور قرآن مجید میں ہے اصلی واقعہ ہے ۔ فرضی اور غیر واقعی قصہ نہیں ہے۔ وہ قصہ نوح کی اولاد میں بطور روایت چلا آتا تھا۔ نوح کی اولا د اور اس ملک کے قریب رہنے والے جہاں طوفان آیا تھا اور جن کا ملک طوفان سے بچ گیا تھا جہاں جہاں جا کر بسے اس قصے کی روایت اپنے ساتھ لیتے گئے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جو اینٹیں نینوی سے نکلی ہیں وہ بہت قدیم ہیں ، مگر اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ وہ واقعی اور اصلی طوفان کے بعد کی ہیں۔ اگرچہ ہم توریت کے زمانوں کو صحیح نہیں مانتے اور نہ اس پر یقین کرتے ہیں کہ صرف چار ہزار برس پیشتر حضرت مسیح کی ولادت کے دنیا پیدا ہوئی اور آج تک دنیا کی عمر صرف 5899برس کی ہے ،لیکن ہم اسی حساب سے بتلاتے ہیں کہ یہ اینٹیں جو نینوی سے نکلی ہیں طوفان سے پہلے کی نہیں ہو سکتیں۔ مطابق حساب عبری توریت کے طوفان آیا تھا سنہ 1657 دنیوی یعنی 2347 برس قبل ولادت حضرت مسیح کی ۔ پس اگر تسلیم کر لیا جاوے کہ یہ نظم جو ان اینٹوں پر ہے حضرت مسیح کی ولادت سے دو ہزار برس پیشتر کی ہے تو بھی اس حساب سے وہ نظم بعد طوفان کے لکھی گئی ہوگی اور روایت طوفان کی اس کے پہلے سے چلی آتی ہو گی۔ کوئی شخص جو نیچرل سائنس سے واقف ہے ہرگز یقین نہیں کر سکتا کہ طوفان ساری دنیا میں آیا تھا اور اونچے سے اونچے پہاڑ جو دنیا میں ہیں ان سے بھی پانی اونچا ہو گیا تھا اور ہمارے نزدیک قرآن مجید سے ہرگز یہ بات ثابت نہیں ہے کہ تمام دنیا میں طوفان آیا تھا۔ پس طوفان ایک محدود قطعہ زمین میں تھا جو فرات اور دجلہ کے درمیان اور اس کے گرد و نواح کی نشیبی زمین میں سمندروں کے کنزرے تک واقع ہے جہاں حضرت نوح رہتے تھے اور مینہ کی کثرت اور ان دونوں دریاؤں اور اس کی ندیوں کی طغیانی سے طوفان ہوا تھا۔ اس طرح کا طوفان ہونا کوئی عجیب اور غیر طبیعی امر نہیں ہے۔ اس زمانے میں بھی بعض قطعات ملک میں طوفان ہو جاتا ہے جیسے کہ ہمارے زمانے میں جو نپور اور مراد آباد میں ان ندیوں کی طغیانی سے جو ان میں بہتی ہیں اور دریائے سندھ کی طغیانی سے پنجاب میں اور گوھنا کی جھیل کا بند ٹوٹنے سے اس کے اطراف میں ہوا تھا ۔ کالڈیا کا ملک طوفان سے بالکل برباد ہو گیا تھا اور اس سے کوئی مورخ انکار نہیں کر سکتا کہ بعد طوفان کالڈیا میں نوح کی نسل کے لوگ اور غالبا اور ملکوں کے لوگ بھی جو طوفان کے صدمے سے محفوظ رہے تھے۔ آکر آباد ہوئے تھے۔ ان ملکوں کے لوگ طوفان کی روایت سے ناواقف نہیں تھے اور طوفان کی روایت اپنے ساتھ لائے تھے۔ اگر ہم توریت کے بیان پر اعمتاد کریں تو اس کے گیارہویں باب کی دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نوح کی نسل کے لوگ بعد طوفان شنعار میں مشرق کی طرف سے آکر آباد ہوئے۔ شنعار کالڈیا کا جنوبی حصہ ے۔ کالڈیا کا جنوبی حصہ قدیم زمانے میں شومر کہلاتا تھا جس کو توریت میں شنعار کے نام سے موسوم کیا ہے اور اب اس کو الجزیرہ اور عراق عرب کہتے ہیں اور کالڈیا کے شمالی حصے کو قدیم زمانے میں ’’ اکاد ‘‘ کہتے تھے۔ پس کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ نوح کی نسل کے جو لوگ کالڈیا میں ان کو آباد ہوئے وہ اپنے ساتھ طوفان کی روایت لائے تھے۔ ابتدائی حالت ان لوگوں کی جو قدیم زمانے میں کالڈیا میں ان کر آباد ہوئے کچھ شبہ نہیں کر محض و حشیانہ تھی۔ کچھ علم و ہنر اور فن سے واقف نہیں تھے۔ کچھ کالڈیا ہی کے لوگوں پر موقوف نہیں ہے اگلے زمانے کی قدیم قوموں کا یہی حال تھا۔ رفتہ رفتہ ان میں علم و فن اور سولیزیشن میں ترقی ہوتی گئی ہے۔ کالڈیا میں ایک غیر قوم کا شخص آیا اور اس نے ان کو تعلیم دی اور ان کو مختلف علوم و فنون سکھائے اور حروف لکھنے بتائے اور شہر آباد کرنا اور مکان بنانا بھی اسی نے لکھایا۔ اس شخص کو انہوں نے دیوتا مانا اور ’’ ایا ھان ‘‘ اس کا نام رکھا ۔ چنانچہ اس کا بت کالڈیا میں زمین کھود کر متعدد جگہ سے نکالا گیا ہے اور جو برٹش میوزیم میں موجود ہے۔ اس وقت سے جو طوفان کے بہت بعد ہے کالڈیا والوں میں سویلزیشن شروع ہوئی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کالڈیا یا نینوا میں سے جو کچھ نکلا ہے طوفان کے بعد ہے۔ ہم اس بت کا پورا حال اورجو ہم کو اس پر لکھنا ہے اس وقت لکھیں گے جب اس بت کا حال بیان کریں گے۔ اس کے بعد رفتہ کالڈیا والوں نے ہر ایک فن میں ترقی کرنی شروع کی اور جس زمانے کی یہ نظم ہے جو اینٹوں پر ملی ہے وہ زمانہ ایک اعلیٰ ترقی کا معلوم ہوتا ہے جبکہ وہ اجرام فلکی اور منطقۃ البروج کے بارہ برجوں سے اور ان کے حالات سے بخوبی واقف ہو گئے تھے اور علم ہیئت ان میں ترقی کر گیا تھا اور لٹریچر میں بھی بہت زیادہ ترقی ک تھی اور ایسے درجے پر پہنچ گئے تھے کہ زبان کالڈنی میں اشعار نظم کرتے تھے۔ اب طوفان کا زمانہ کوئی قرار دو ، اس درجے تک سویلزیشن میں ترقی کرنا کچھ شک نہیں ہے کہ بار برس ایج ، یعنی زمانہ وحشت کے بہت زمانے بعد ہوا ہو گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس زمانے میں اینٹوں پر لکھا گیا ہے اس زمانے میں کاغذ یا اور کوئی چیز جو کتاب کی صورت میں بن سکے ایجاد نہیں ہوئی تھیاور اس لیے انہوں نے اپنے اشعار اینٹیں بنا کر ان پر لکھے اور پھر ان اینٹوں کو پکا لیا ، تاکہ وہ قائم رہیں۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان اینٹوں پر جو اشعار لکھے ہیں اس میں انھی موسموں کا بیان ہے جو بارہ برجوں میں سورج کے ہونے سے ہوتے ہیں ۔ گیارہواں برج برج دلو ہے اور جب سورج برج دلو میں ہوتا ہے تو کالڈدیا میں کثرت سے پانی برستا ہے۔ اس موسم کاحال انہوں نے ان اشعار میں طوفان کے افسانے میں لکھا ہے اور اس زمانے میں جن دیوتاؤں کو کلاڈیا کے رہنے والے پوجتے تھے ان کے نام اس افسانے میں داخل کر دیے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کہ ملٹن میں پیر اڈائز لاسٹ میں خدا اور شیطان کے حالات کو بطور ایک افسانے کے نظم کیا ہے۔ پس اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ طوفان کوئی اصلی واقعہ نہیں تھا ، بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ طوفان کا اصلی واقعہ ہوا تھا اور اس واقعے کو ایک افسانے کے طور پر اس موسم کے حالات میں بیان کیا ہے جو آفتاب کے برج دلو میں آنے سے کالڈیا میں ہوتا ہے ۔ بہت سے تاریخی واقعات ایسے ہیں جو اب بھی بطور افسانے کے نظم میں لکھے ہوئے موجود ہیں اور شاعروں نے بھی موسموں کے حالات کو افسانے کے طور پر منظوم کیا ہے ، غرض ہماری صرف اس قدر ہے کہ اس افسانے سے جو اینٹ پر لکھا ہوا ہے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان کوئی اصلی تاریخانہ واقعہ نہ تھا ، بلکہ صرف کالڈیا والوں کا ایک طبع زاد افسانہ تھا۔ اس بات میں کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ یہ اینٹیں جو کالڈیا میں سے نکلی ہیں حضرت موسیٰ کے وقت سے بہت پہلے کی ہیں ، مگر خود توریت کے جو پہلے باب ہیں خواہ ان کو موسیٰ نے لکھا ہو یا عزرا نے یا کسی اور نے ، وہ سب ان روایتوں سے لکھے گئے ہیں جو اس زمانے میں نبی اسرائیل میں یا اور لوگوں میں بطور وراثت چلی آتی تھیں۔ خود توریت کا پہلا باب بلا کسی اس اشارے کے کہ خدا نے موسیٰ کو الہام کیا یا وحی بھیجی شروع ہوتا ہے اور اسی طرح شروع ہوا ہے جس طرح کوئی مشہور روایتوں کو لکھنا شروع کر ے۔ توریت کے لکھنے والے کوئی ہوں ، مگر وہ نبی اسرائیل اور نوح کی اولاد میں تھے۔ پس جو کچھ کہ توریت میں لکھا گیا ہے خود ان کی موروثی روایتوں سے لکھا گیا ہے ، نہ یہ کہ انہوں نے کالڈیا والوں سے طوفان کی روایتوں کو لیا ہو۔ ہم پر یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ ہم نے توریت کے پہلے بابوں کو الہامی اور خدا کی طرف سے وحی کئے ہوئے نہیں مانا ، حالانکہ قرآن مجید میں یہ آیت موجود ہے ’’انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی و نور یحکم بھا النبیون الذین اسلموا اللذین ھاندو والربا نیون والا حبار بما استحفظوا من کتاب اللہ و کانوا علیہ شھدا ء ‘‘ ’’یعنی ہم نے بھیجی توریت اس میں ہدایت اور نور ہے اس کے مطابق حکم کرتے تھے پیغمبر جو اس پر یقین رکھتے تھے۔ ان لوگوں پر جو یہودی تھے اور اس کے مطابق حکم کرتے تھے ۔‘‘ ربی اور احبار ، یعنی یہودی کے عالم ان احکام سے جو یاد رکھے تھے اللہ کی کتاب سے اور وہ اس پر گواہ تھے ، مگر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جہاں کہیں قرآن میں توریت کا لفظ آیا ہے اس سے وہ احکام اور وہ وحی مراد ہے جو خدا نے حضرت موسیٰ کو دی تھے۔ خود توریت کے معنی قانون کے ہیں جو دلالت کرتے ہیں اس بات پر کہ اس سے وھی احکام النہی مراد ہیں جو حضرت موسیٰ کو دیے گئے تھے اور بہت سے واقعات اور تاریخی حالات شامل ہیں اور اس لیے ہم اس تمام مجموعے کو جو بین الافتین موجود ہے سوائے وحی اور احکام الہیٰ کے جو اس میں ہیں توریت منزل من اللہ نہیں سمجھتے ، بلکہ اس مجموعے پر مجازا توریت کا اطلاق کرتے ہیں۔ جو حالات اور واقعات کہ بطور روایت کے لکھے گئے ہوں ان میں کمی اور بیشی ہونے کا احتمال قوی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں مشتبہ واقعات اور حالات کا ذکر نہیں ہے ، بلکہ صرف صحیح اور محقق حالات بیان ہوئے ہیں جن میں کسی طرح کا شک نہیں ہو سکتا اور توریت موجودہ بین الافتین اور بالتخصیص واقعات قدیم ماقبل خلق انسان اس سے خالی نہیں ہے ، مگر قرآن مجید کا حال اس سے مختلف ہے۔ اس میں کوئی لفظ بجز ان لفظوں کے جواز روئے وحی پیغمبر خدا ﷺ کے زبان مبارک سے نکلے شامل نہیں ہے اور اسی زمانے میں وہ لکھ بھی لیے گئے ، اس لیے قرآن مجید میں وہ اجتمالات نہیں ہو سکتے۔ جو توریت کی نسبت ہوتے ہیں ، گو قرآن مجید میں بھی نقلاً عقائد مسلمہ یہود یا قصص مسلمہ یہود کا بطور حجت الزامی بغیر اس بات کی بحث کے کہ وہ صحیح ہیں یا نہیں بیان ہوا ہے۔ قوم نوح کے مذہبی حالات کی تحقیق (تہذیب الاخلاق جلد دوم نمبر 9 (دورسوم) بابت یکم جمادی الثانی 1313ھ) ’’حضرت نوح نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارے لیے کوئی معبود نہیں۔ جو لوگ کہ ان کی قوم میں کافر تھے انہوں نے کہ جیسے تم آدمی ہو اس سے زیادہ یہ کچھ نہیں ہے۔ تم پر اپنی بڑائی چاہتا ہے۔ اگر خدا چاہتا تو کوئی فرشتہ بھیجتا اور ہم نے اپنے پر کھوں سے کوئی ایسی بات نہیں سنی۔ یہ تو مجنون آدمی سے زیادہ کچھ نہیں ، پھر چند روز اس کو اور دیکھو ۔ (سورہ مومنون) حضرت نوح نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ جو لوگ کہ ان کی قوم میں کافر تھے انہوں نے کہا کہ ہم تو تجھ میں اپنا سا آدمی ہونے کے سوا کچھ نہیں دیکھتے ، اور ہم نہیں دیکھتے کہ بجز کمینہ سپاٹ عقل کے آدمیوں کے اور کسی نے تیری پیروی کی ہو اور ہم تو اپنے پر تم میں کچھ بزرگی نہیں دیکھتے بلکہ تم کو جھوٹا گمان کرتے ہیں۔ حضرت نوح نے کہا کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو میںاپنے سے جدا نہیں کر سکتا ، لیکن میں تم کو ایک جاھل قوم پاتا ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کو جانتا ہوں اور نہ میں اپنے تئیں فرشتہ کہتا ہوں ۔ (سورۃ ھود) حضرت نوح نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو ۔ اس کے سوا تمہارے لیے کوئی معبود نہیں ۔ ان کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ ہم تو تجھ کو صریح گمراہی میں دیکھتے ہیں۔ حضرت نوح نے کہا کہ میں تو گمراہی میں نہیں ہوں بلکہ خدا کا رسول ہوں ۔ خدا کا پیغام تم تک پہنچاتا ہوں ۔ کیا تم تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار سے کچھ نصیحت تم میں سے کسی آدمی کے پاس آئے پھر انہوں نے حضرت نوح کو جھٹلایا۔ (سورۂ اعراف) حضرت نوح نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر میری نصیحتیں تم پر گراں ہیں تو تم اور تمہارے شریک مل کر پکا ارادہ کرو اور اپنی بات کوسو چو تو تم پر چھپی نہیں رہے گی اور پھر میرے پاس آؤ ۔ (سورۂ یونس) اس آیت میں جو ’’ شرکاء ‘‘ کا لفظ ہے تفیر کبیر میں اس سے ان کے اہل مذہب سے مراد لی ہے اور ایک قول یہ لکھا ہے کہ اس سے بت مراد ہیں جن کو وہ اپنا معبود سمجھتے تھے ، مگر ظاہرا پہلا قول صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ (جلد سوم صفحہ 614) اور ہم نے نوح کی دعا قبول کی۔ اور ہم نے اس کی مدددی۔ اس قوم پر جس نے جھٹلایا ۔ہماری نشانیوں کو ۔ بیشک وہ قوم تھی سو، یعنی بدکار (سورۂ انبیائ) جب نوح اپنی قوم کو نصیحت کرتے تھے تو ان کی قوم نے کہا کہ اے نوح ! اگر تم نہ باز آؤ گے تو تم سنگسار کئے جاؤ گے ۔ (سورۂـ شعرائ) قوم نوح کی فاسق ، یعنی بدکار تھی۔ (سورۂ ذاریات) اور نوح کی قوم تھی اظلم اور اطغیٰ ، یعنی بہت ظالم اور حد سے گزرنے والی۔(سورۂ نجم) ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ نوح نے کہا کہ اے قوم میں! تمہارے لیے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔ عبادت کرواللہ کی اوراس سے ڈرو اورمیری تابعداری کرو ، خدا تمہارے گنا بخشے گا ۔ نوح نے خدا سے کہا کہ اے میریے پروردگار ! میں نے دن رات قوم کو سمجھیا اور میرے سمجھانے سے بجز اس کے کہ بھاگیں اور کچھ نہیں ہوا۔ وہ اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے اور اپنے کپڑے لپیٹ لیتے تھے اور اپنی ابت پر اصرار کرتے تھے اور نہایت مغرور تھے ۔ میں نے ان کو پکار کر سمجھایا ، پھر میں نے ان کو علانیہ اور خاموشی سے تبلیغ کی ۔ پھر میں نے ان کو کہا کہ معافی چاہو اپنے پروردگار سے ، بیشک وہ بخشنے والا ہے۔ تم پر مینہ برساوے گا زور کا اور مال سے اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا ۔ اور تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں بہائے گا۔ تم کو کیا وا ہے کہ تم خدا کی بڑائی کا اعتقاد نہیں رکھتے ، حالانکہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے طرح طرح کا ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ کس طرح پیدا کیا اللہ نے سات آسمانوں کو اوپر تلے اور پیدا کیا ان میں چاند کو چمکتا ہوا اور پیدا کیا سورج کو روشن اور اللہ نے آگایا تم کو زمین سے ایک طرح کا اگانا ۔ پھر تم کو لے جاوے گا اسی میں اور نکالے گا تم کو ایک طرح کانکالنا، اور بنایا اللہ نے تمہارے لیے زمین کو پھیلا ہوا ، تاکہ تم اس میں چوڑے رستوں پر چلو ، نوح نے کہا کہ اے میرے پروردگار ! انہوں نے میری نافرمانی کی ، اور پیروی کی ان کی جن کے مال نے اور جن کی اولاد نے نقصان کے سوا کچھ فائدہ نہیں دیا۔ اور مکر کیا بہت بڑا مکر اور انہوں نے کہا کہ مت چھوڑو اپنے معبودوں کو اور مت چھوڑو ود کو اور نہ سواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کر۔ بیشک انہوں نے بہتوں کو گمراہ کیا اور ظالموں کو بجز گمراہی کے اور کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ بسبب اپنے گناہوں کے وہ غرق کیے گئے اوہر ڈالے گئے آگ میں نہ پایا انہوں نے اپنے لیے خدا کے سوا کوئی مدد دینے والا نوح نے کہاکہ اے میرے پروردگار ! مت چھوڑ زمین پر کافروں میں سے کسی بسنے والے کو ۔ بیشک اگر تو ان کو چھوڑے گا گمراہ کریں گے تیرے بندوں کو اور نہ جنیں گے بجز فاجروں اور کافروں کے۔ (سورۂ نوح) قرآن مجید میں جو کچھ کہ حضرت نوح کی قوم کا بیان ہوا ہے اور جس کا خلاصہ ہم نے لکھا ہے اس سے بجز ایک آیت کے جس میں بتوں کا ذکر ہے اور جس پر ہم بحث کریں گے قوم نوح کی بت پرستی معلوم نہیں ہوتی ۔ صرف ایک آیت سے استدلال ہو سکتا ہے کہ وہ معاد اور حشر اجساد کے منکر تھے۔ ہاں اسی کے ساتھ تعجب ہوتا ہے کہ حضرت نوح نے دین کی جزا کو دنیاوی باتوں میں بتلایا ، عقبیٰ کے ثواب عذاب کا ذکر نہیں کیا ، مگر یہ بات بیشک ثابت ہوتی ہے کہ نوح کی قوم نہایت بدکار ، ظالم اور نافرمان تھی اور انہوں نے سوائے خدا کے اور الہٰ قرار دیے تھے اور ان کی پرستش کرتے تھے ، مگر یہ بات تحقیق طلب ہے جو الہٰ انہوں نے قرار دیے تھے ان کی مورتیں بھی بنا کر رکھی تھیں اور ان کی پرستش کرتے تھے۔ توریت میں جس قدر بیان حضرت نوح اور ان کی قوم کا ہے اس میں بھی ان کی شرارت ، گمراہی اور بدی کا ذکر ہے ، مگر بت پرستی کا ذکر نہیں ، چنانچہ کتاب پیدائش باب اول آیت 5 میں لکھا ہے ’’ خداوند کہ شرارت انسان در زمین بسیار شدواینکہ ہر تصورے از تدبیرات قلب ایشاں ہموارہ محض بدی می بود ‘‘ اب اسی بات کی آیت 11 و 19 میں ہے ’’ و زمین در حضور خدا فاسد شد ، چہ زمین ازظلم پر گردید و خدا بزمین ملا خطہ نمود کہ اینک فاسد شدہ چونکہ ہر بشر برروئے زمین طریقہ خود را فاسد گردانیدہ بود۔ ایک اور بات بھی غور کرنے کے لائق ہے کہ توریت کتاب پیدائش باب 1 آیت 26 میں لکھا ہے : ’’ و یومر الوہیم نعسہ ادم بصلمنو الک موتنو ‘‘ یعنی اور کہا خدا نے بناویں ہم آدم کو اپنی پرچھایں سے مانند اپنی شبیہ کی ، اور چوتھے باب کی چھبیسویں آیت میں ہے : ولشیث کم ہو یولت بن و یقرا ایث شمو انوش ازھو حل لقرو بشم یھواہ۔ اور شیش اسے سے پیدا ہوا بیٹا اور پکارا اس کا نام انوش ، مگر اس سے آگے جو الفاظ آئے ہیں ان کے ترجمے میں بہت اختلاف ہے۔ مترجموں نے بعض الفاظ کو اصل سے زیادہ کر کے ترجمہ کیا ہے۔ بشپ پیٹرک کہتے ہیں مشہور آدمیوں نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ اس وقت آدمی یعنی اولاد شیش کی اپنے تئیں خدا کے نام سے پکارنے لگ۔ی بشپ پیٹرک کہتے ہیں کہ یعنی بامتیاز اولاد قائن کے اور بامتیاز اور کافر شخصوں کے جنہوں نے خدا سے انحراف کیا تھا ، اپنے تئیں خدا کا خادم اور خدا کا پوجنے والا پکارا ۔ بہر حال اس آیت سے پایا جاتا ہے کہ جو لوگ مقدس اور پاک تھے ان کو خدا کہہ کر پکارتے تھے اور یہی بنیاد پڑی خدا کے سوا اوروں کو خدا ماننے کی ، مگر اب تک یہ ظاہر نہیں ہوا کہ نوح کی قوم میں بت پرستی جاری ہو گئی تھی۔ اب ہم کو بحث کرنے کی ہے قرآن مجید کی اس آیت پر ’’ وقالوا لاتذرن آلھتکم ولا تذرن ودا ولا سواعاً ولایغوث و یعوق و نسرا‘‘ یعنی انہوں نے کہا کہ کبھی نہ چھوڑو اپنے الہوں ، یعنی معبودوں کو اور ہرگز نہ چھوڑو ود کو اور نہ سواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو۔ اس آیت میں اس بات پربحث ہے کہ ’’ قالو ا ‘‘ میں جو ضمیر ہے اس کا مرجع کیا ہے اور کہنے والے کون ہیں۔ اگر اس کے کہنے والے نوح کی قوم کے لوگ ہوں تو اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پانچوں بت جن کے نام اوپر بیان ہوئے ہیں ، قوم نوح کے بت تھے اور اگر اس کو جملہ مستانفہ قرار دیا جائے جیسا کہ سورۃ ھود میں حضرت نوح کے قصے کی اس آیت کو ’’ ام یقولون افتراہ قل ان فتریتہ فلعی اجرامی وانا بریئی مما تجرمون ‘‘ جملہ مستانفہ قرار دیا ہے اور افتراہ اور افتریتہ کی ضمیر کو قرآن کی طرف راجع کیا ہے تو ’’ قالو ا ‘‘ میں جو ضمیر ہے اس کا مرجع کفار ہوں گے اور اس صورت میں یہ پانچویں بت جن کے نا م اوپر مذکور ہوئے ہیں ۔ کفار غرب کے بت ہوں گے ، نہ قوم نوح کے۔ ہم ابھی اس کا کچھ تصفیہ نہیں کرتے ، اس لیے کہ مسٹر جارج نے جو بغداد میں برٹش رزیڈنٹ تھے 1860ء میں اور مسٹر بوٹا نے جو موصل میں فرنچ کونسل تھے 1842ء میں اور مسٹر لیاڈ نے جو انگریزی سیاح تھے 1847ء میں بابل اور نینوا کے کھنڈرات کو کھود کر بہت سے قدیم زمانے کے بت نکالے ہیں۔ ہم چاہیت ہیں کہ اول ان بتوں کا حال وقتاً فوقتاً تہذیب الاخلاق میں لکھیں اور نیز اس بات کو بھی دیکھیں کہ بائیبل میں بھی ان بتوں میں سے کسی بت کا ذکر ہے یا نہیں جو بت کہ نکلے ہیں یا جن کا ذکر بائیبل میں ہو وہ طوفان سے پہلے کے تھے یا طوفان کے بعد کے ۔ اس تحقیق کے بعد اس امر کا فیصلہ کریں گے کہ ’’ قالو ا ‘‘ کی ضمیر قوم نوح کے لوگوں کی طرف پھرتی ہے یا کفار عرب کی طرف۔ ٭٭٭٭ ذی القرنین کا وجود تاریخ روشنی میں (سرسید کا ایک نہایت ہی قابل قدر تاریخ مقالہ ) سرسید کے مضامین میں یہ ایک بہت لطیف اور اعلیٰ پائے کا تاریخی اور تحقیقی مقالہ ہے جسے سرسید نے’’ ازالۃ الغین عن ڈی القرنین‘‘ کے نام سے 1889ء میں لکھا تھا۔ قرآن کریم میں جو ’’ ذی القرنین ‘‘ کا واقعہ مذکور ہے یہ مضمون دراصل اس کی تاریخی اور تحقیقی تفسیر اور تشریح ہے۔ جو سرسید نے بڑی قابلیت اور لیاقت کے ساتھ کی ہے۔ سرسید تاریخ حقائق کے بیان کرنے میں جس محنت و کاوش اور تلاش و جستجو سے کام لیتے تھے جس اور عمدگی و نفاست کے ساتھ اسے مرتب کرتے تھے یہ مقالہ اس کا بہتر سے بہتر نمونہ ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) الحمد اللہ الذی الہ الملک و الملکوٹ ولہ اکبریاء والجبروت والصلوات والسلام علی رسولہ محمد خاتم النبییں و علیٰ آلہ الطاہرین و اصحابہ اجمعین اس رسالے میں میرا قصد ہے کہ سد یا جوج و ماجوج کی نسبت جو قصہ ذی القرنین کا قرآن مجید میں مذکور ہے ، اس کو مؤرخانہ تحقیقات سے بیان کروں اور قرآن مجید کی آیتوں کو واقعی حالات سے مطابق کر کے دکھلاؤں کہ درحقیقت وہ قصہ کیا ہے ، اور جس قدر بے سند اور ناقابل قبول روائتیں ہماری کتابوں اورتفسیروں میں اس کے ساتھ شامل کی ہیں ان سے لوگوں کو آگاہ کروں ، اور جب حقیقت اس قصے کی ہے اس کو کھول دو ں، اس لیے میں نے اس رسالے کا نام ’’ ازالۃ الغین عن ذی القرنین‘‘ رکھا ہے اور خدا سے امید ہے کہ جیسا اس کا نام ہے ویسا ہی وہ ہو گا واللہ المستعان ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تفسیر کبیر (ویسئلو نک عن ذی القرنین قل ساتلو علیکم منہ ذکرانا مکنا لہ فی الارض و آتیناہ من کل شیئی سببا فاتبع سبباً اعلم ان ھذا ہو القصۃ الرابعۃ من القصص المذکورۃ فی ھذہ السورۃ و فیسھا مسائل (المسئلۃ الاولیٰ) قد ذکرنا فی اول ہذا السورۃ ان الیمردا امر والمشرکین ان یسالوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن قصۃ اصحاب الکھف وعن قصۃ ذی القرنین و عن الروح فالموراد من قولہ و یسئلونک عن ذی القرنین ھو ذلک السوال (المسئلونک الثانیۃ اختلف الناس فی ان ذی القرنین من ہو ذکر وافیہ اقوالا (الاول) انہ الا سکندر بن فیلقوس الیو نانی قالوا والد لیل علیہ ان القرآن دل علی ان الرجل المسے بذی القرنین بلغ ملکۃ الیٰ اقصیٰ المغرب بدلیل قولہ حتیٰ اذا بلغ مغرب الشمس و جدھا تغرب فی عین حمئۃ ایضابد لیل قولہ حتیٰ اذا بلغ الشمس و ایضا بلغ مطلع الشمس و ایضا بلغ ملکہ اقصیٰ الشمال بد لیل ان باجوج و ماجوج قوم من الترک یسکنون فی اقصیٰ الشمال و بد لیل ان السد المذکور فی القرآن بقال فی کتب التاریخ انہ مبنی فی اقصیٰ الشمال فھذ الانسان المسمی بذالقرنین فی القرآن قد دل القرآن علیٰ ان مسلکہ بلغ اقصے المغرب و المشرق و الشمال و ہذا ہو تمام القدر المعمورمن الارض و مثل ہذا الملک السبیط لاشک انہ خلاف السعادات و ماکان کذالک و جب ان یکون ذکرہ مخلدا علی وجہ الدھر وات لایبقی مخفیا مستلزا والمک الذی اشتھرفی کتب اتواریخ اانہ بلغ ملیکہ الی ہذا الحدیث الاسکندر و ذالک لانہ لمامات ابوہ جمع مسلوک الروم بعد ان کانوا طوائف ثم جمع مسلوک المغرب و قھر ہم و امعن حتے انتھیٰ البحرالا ذخرثم عاد الی المصر فبی الا سکندریۃ وسماھا باسم لفسہ ثم دخل الشام و قصد بنی اسرائیل و رد بیت المقدس و ذبح فی مذبحہ ثم افطف الی ارمینیۃ وباب الابواب و دانت لہ العراقیون والقبط والبریر ثم توجہ مھودا را ابن داروث مزمنہ الی ان قتلہ صاحب حرمہ فاستولی الاسکندر علی ممالک الفرس ثم قصد والصین دغز الاسم البعیردۃ رجع الی خراسان و بنی المدن الکثیرۃ ورجع الی العراق و مرض بشہر زور و مات بھا فلما ثبت بالقرآن ان ذی القرنین کان رجلا ملک الارض بالکلیتا وما بقرب منھا و ثبت بعلم التواریخ ان الذی لھذا شانہ ما کان الا الا سکندر وجب الفطع بان المراد بذی القرنین ھو الا سکندر بن فیلقوس الیونانی ثم ذکروا فی سبب تسمیۃ بھذا لاسما وجوھا یسئلونک عن ذی القرنین خدا نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ ’’ تجھ سے پوچھتے ہیں ذی القرنین کا حال ‘‘ اب مسلمان مؤرخوں اور مفسروں نے اس بات پر غور کرنی شروع کی کہ ذی القرنین کون تھا۔ قرآن مجید میں یہ لفظ آیا تھا ’’ انا مکنا لہ فی الارض ‘‘ یعنی ہم نے اس کو قدرت دی تھی زمین میں ، اس لیے اکثر مفسرین نے تسلیم کیا ہے کہ وہ کوئی بہت بڑا بادشاہ تھا ۔ اب یہ سوچ ہوئی کہ ایسا بڑا بادشاہ جس نے تمام دنیا کو مشرق سے مغرب تک لے لیا ہو کون تھاے غالباً ایسا بادشاہ تو ان کو کوئی نہیں ملا ، اس لیے انہوں نے تلاش کیا کہ سب سے بڑا بادشاہ کون ہوا ہے ۔ تاریخ کی کتابوں کو ٹٹولا اور یہ قرار دیا کہ سکندر اعظم بن فیلقوس یونانی سب بادشاہوں میں بڑا بادشاہ تھا ، کیونکہ جب اس کا باپ مرا تو مملکت روم میں جو طوائف الملوکی تھی ان سب کو مغلوب کر کے ایک سلطنت بنا لی ، پھر مغرب کے بادشاہوں کو مغلوب کیا اور بحر اخضر تک جا پہنچا ، پھر وہاں سے پھرا اور مصر میں جا پہنچا اور وہاں اپنے نام پر اسکندریہ بنایا۔ پھر شام میں پہنچا اور نبی اسرائیل پر حملہ کیا اور بیت المقدس میں پہنچ کر قربانی کی ۔ پھر آزمینیہ اور باب الابواب میں آیا اور اہل عراق اور قبطی اور ہل بربر تک پہنچا ۔ پھر دارا پر حملہ کیا اور اس کو شکست دی اور فارس کے ملک پر قبضہ کر لیا۔ پھر ہندوستان اور چین پر چڑھائی کی اور دور دور کے ملکوں کو فتح کرتا ہوا خراسان میں آیا اور بہت سے شہر آباد کئے اور پھر عراق میں آیا اور شہر زور میں بیمار ہو کر مر گیا۔ اب اما م رازی صاحب فرماتے ہیں کہ جب قرآن سے ثابت ہوا کہ ذی القرنین ایک ایسا شخص تھا کہ جس نے تمام زمین پریا قریباً کل پر بادشاہت کی تھی اور تواریخ سے ثابت ہوا کہ ایسا بادشاہ سوائے سکندر کے اور کوئی نہیں ہوا تو اب بالیقین قرار پایا کہ ذی القرنین سے مراد سکندر بن فیلقوس یونانی ہے۔ (ھکذا فی تفسیر الکبیر) اس میں تو کچھ شک نہیں کہ جب قرآن مجید میں اس بادشاہ کا نام نہیں بتایا، بلکہ صرف اس کے چند پتے بتائے ہیں تو ہر شخص کو اس پہیلی کے بوجھنے کا خیال پیدا ہو گا، مگر ہم کو افسوس ہے کہ امام صاحب نے اس کو ٹھیک ٹھیک نہیں بوجھا نہ سکندر کے زمانے کی تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ وہ تمام دنیا پر مشرق سے مغرب تک بادشاہ ہو گیا تھا، اور نہ وہ وہاں تک جہاں آفتاب طلوع و غروب ہوتا ہے پہنچا تھا، اور نہ دنیا کا جغرافیہ ان باتوں کی جن کا ذکر امام صاحب نے اپنی تفسیر میں کیا ہے، تصدیق کرتا ہے، اس لیے ہم کو (الاول) انہ لقب بھذا لاسم لاجل بدوغہ قرنی الشمس ای مطلعھا و مغربھا کما لقب ارد شیر بن بھمن بطویل الیدین لنفوذ امرہ حیث اراد (الثانی) ان الفرس قالوا ان دار لاکبر کان قد تزوج باینۃ فیلقوس فلما قرب منھا و جد منھا رائحۃ منکرۃ فردھا علی ابیھا فیلقوس و کانت قد حملت منہ بالاسکندر رفولدت الاسکندر بعد عودھا ابیھا فبقی الاسکندر عند فیلقوس واظھر فیلقوس انا ابنہ وھو فی الحقیقۃ ابن دار الاکبر قالو والدلیل علیہ ان الاسکندر اما ادرک دارا ابن دارا وبہ رمق وضع راسہ فی حجرہ و قال لدا رایا ابی اخبرنی عمن فعل ھذا الانتقم لک منہ فھذا ما قالہ الفرس قالواوعلیٰ ھذا التقدیر فی الاسکندر ابوہ دار الاکبر وامہ بنت فیلقوس فھوا انما تولد من اصلین مختلفین جرأت ہوئی ہے کہ اپنے یقین سے یہ بات کہیں کہ امام صاحب نے جو ذی القرنین سے اسکندر یونانی مراد لیا ہے، محض غلط ہے۔ اب امام صاحب اس بات پر متوجہ ہوئے ہیں کہ سکندر کو ذی القرنین کیوں کہا ہے اور اس کی کئی وجہیں بیان کی ہیں ایک یہ کہ وہ قرنی الشمس تک ، یعنی مشرق و مغرب تک پہنچا تھا اور ایک جھوٹی حدیث کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بنائی ہے کہ سمی بذی القرنین لانہ طافہ قرنی الدنیا یعنی شرقھا و غربھا غالباً اس وجہ کے بیان کرتے وقت امام صاحب کا خیال ہے کہ زمین مربع ہے اور اس کا ایک کنارا مشرق ہے اور دوسرا کنارا مغرب ہے اور ان کناروں سے آفتاب طلوع و غروب ہوتا ہے، لیکن اگر در حقیقت زمین گول ہے تو انسان مشرق و مغرب تک کیونکر پہنچ سکتا ہے، کیونکہ آفتاب کا طلوع و غروب با عتبار افق کے کہا جاتا ہے پس انسان جہاں تک الفرس والروم وھذا الذے قالہ الفرس انما ذکروہ لانھم ارادو ان یجعلوہ من نسل ملوک العجم حتی لا یکون ملک مثلہ من نسب غیر نسب ملوک العجم وھو فی الحقیقۃ کذب وانما قال الا سکندرلہ رایا ابی علی سبیل التواضع واکرم وارا بذلک الخطاب (والقول الثانی) قال ابو الریحان البیرونی المنجم فی کتابہ الذی سماہ بالاثار الباقیۃ عن القرون الخالیت قیل ان ذی القرنین ھو اب کرب شمس ابن عبیر ابن اقریقش الحمیری فانہ بلغ ملکہ شارق الارض و سغاربھا وھو الذے اقنحربہ احد الشعراء من حمیر حیث قال قد کان ذی القرنین قبل مسلما ملکا علی فی الارض غیر مقلد بلخ المشارق والمغارب ینبغی اسباب ملک من کریم سید ثم قال ابو ریحان و یشبہ ان یکون ھذا القول قرب لان چلا جاوے افق بدلتا جاوے گا اور مشرق و مغرب کی یکساں حالت رہے گی اور کبھی بھی مشرق و مغرب تک نہ پہنچ سکے گا، اور اگر ہم بالفرض باعتبار کسی ملک کے افق کے یا بالتخصیص ملک روم کے افق کے جہاں سکندر کا دارالسلطنت تھا، زمین کے نصف کرہ فوقانی کے ایک نقطے کو مشرق اور دوسرے کا مغرب قرار دیں تو بھی سکندر وہاں تک نہیں پہنچا تھا پس یہ دلیل جو وجہ تسمیہ کی بیان کی ہے سرتاپا غلط ہے۔ ایک دلیل یہ بیان کی ہے کہ سکندر دادا کا بیٹا ہے نہ فیلقوس کا فیلقوس نے اپنی بیٹی کی شادی دارا سے کر دی تھی، مگر دارا نے اس کو نکال دیا اور اس کے باپ کے گھر بھیج دیا، لیکن وہ حاملہ ہو چکی تھی اور اپنے باپ کے گھر بیٹا جنی فیلقوس نے اس کو اپنا بیٹا بنا لیا اس کے ثبوت میں یہ دلیل بیان کی ہے کہ جب دارا زخمی ہوا اور سکندر اس کا سر گود میں لے کر بیٹھا الاذوا کانو من الیمن وھم الذین لا نخلوا اسماء ھم من ذی کذا کذی النادو ذی نواس و ذی الغون و غیر ذلک (والقول الثالث) انہ کان عبدا صالحا ملک اللہ الارض واعطاء العلم والحکمۃ واجسہ الھیبۃ ان کنا لانعرف انہ من ھو ثم ذکروا فی تسمیۃ وجوھا (الاول) سال ابن الکوا علیا رضی اللہ عنہ ذی القرنین وقال املک ھوام بنی فقال لا ملک ولا بنی کان عبدا صالحا ضرب قرنہ الایمن فی طاعۃ اللہ فمات ثم بعث اللہ فضرب علی قرنہ الایۃ فمات فبعثہ اللہ فمی بذی القرنین وملک مسلکہ (الثانی) سمی بذی القرنین لانہ القرض فی وقتہ قزمان من الناس (الثالث) قبل کان صفحتا راسہ من النحاس (الرابع) کان علی راسہ ما یشبہ القرنین (الخامس) لتاجمہ زنان (السادس) عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم سمی ذی القرنین لانہ طاف قرنی الدنیا یعنی شرفھا و غربھا (السابع) کان لہ قرنان ای ضفیر تان (الثامن) ان اللہ تعالیٰ مسخر لہ النور والظلمۃ فاذا سری یھدیہ النور من امامہ و تمدہ الظلمتہ من وراہ (التاسع) یجوبزان یقلب بذالک لشجاعتہ کما یمی الشجاع کبث کانہ بنطع اقرانہ (العاش) (ای فی المنام) کانہ صعدا الفلک فتعلق بطرفی الشمس و قرینھا و جانبھا فسمی لھذا السبب بذی القرنین (الحادی عشر) سمی بذلک لانہ دخل النور والظلمۃ (القول الرابع) ان ذی القرنین ملک من الملئکۃ عن عمرانہ سمع رجلا یقول یا ذی القرنین فقال اللھم اغفراما رضیتم ان تسموا باسماء الانبیاء حتی تسموا باسماء الملئکۃ فھذا جملۃ ما قیل فی ھذا الباب والقول تو سکندر نے دارا سے کہا کہ اے بابا جان تم کو کس نے زخمی کیا؟ پھر سکندر اگر دارا کا بیٹا نہ ہوتا تو اس کو ابا جان کیوں کہتا پس سکندر کا باپ تو دارا تھا اور اس کی ماں رومی تھی دو نسلیں مل گئیں، اس لیے اس کو ذی القرنین کہا گیا۔ ایک یہ وجہ بیان ی ہے کہ اس کے وقت میں انسانوں کے دو قرن گزرے تھے، مگر نہیں بتایا کہ دو قرن گزرنے سے کیا مراد ہے۔ ایک یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس کے سر کی دو طرفیں تانبے کی تھیں کان صفحتا راسہ من النحاس مگر اس کی کچھ تشریح نہیں کی کہ کان صفحتا راسہ من النحاس سے کیا مراد ہے ایک یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس کے سر پر پیدائشی کوئی ایسی چیز تھی جو دو سینگوں کے مشابہ تھی غالباً اسی خیال سے لوگوں میں یہ بات مشہور ہوئی ہے کہ سکندر کے سر پر دو سینگ تھے۔ ایک یہ وجہ بیان کی ہے کہ اس کے تاج میں دو سینگ بنے ہوئے تھے۔ ایک یہ کہی ہے کہ اس کی دو زلفیں تھیں، ان ہی کو دو سینگ کہا ہے۔ سب سے بڑی دلچسپ یہ وجہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نور و ظلمت دونوں کو اس کا مسخر کیا تھا، اس لیے اس کو ذی القرنین کہتے تھے۔ ایک یہ وجہ لکھی ہے کہ بسبب شجاعت کے اس کو ذی القرنین کہتے تھے، جیسے کہ شجاع آدمی کو مینڈھے سے تشبیہہ دیتے ہیں، جس کے دو سینگ ہوتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ وجہ لکھی ہے کہ سکندر نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ آسمان پر چڑھ گیا ہے اور آفتاب کے دونوں کنارے یا دونوں سینگ (بہتر یہ کہنا ہے کہ دونوں کان) پکڑ کر لٹک گیا تھا، اس لیے ذی القرنین کہتے ہیں۔ ایک یہ وجہ لکھی ہے کہ اس نے نور میں اور ظلمات میں دونوں میں سفر کیا تھا، پس ذی القرنین ہو گیا۔ ابو ریحان بیرونی نے اپنی کتاب آثار الباقیہ عن قرون الخالیہ میں حمیری خاندان کے بادشاہوں میں سے ابو کرب بن عیبر بن افریقس کو ذی القرنین قرار دیا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا ملک مشرق و مغرب تک پہنچ گیا تھا اور اس پر بڑا فرینہ یہ قائم کیا ہے کہ ذو کا لفظ حمیری خاندان کے بادشاھوں کے نام کے ساتھ مستعمل ہوتا ہے جیسے ذی نواس وغیرہ۔ مگر یہ دلیل بھی ٹھیک نہیں ہے، اس لیے کہ اول یہ ثابت ہونا چاہیے کہ ذی القرنین اسی ملک کی زبان کا لفظ ہے جس ملک کا وہ بادشاہ تھا، حالانکہ یہی امر تحقیق طلب ہے، معہذا جس قدر اعتراضات سکندر کی سلطنت اور قرآن مجید کی آیات کو اس کی مملکت کی حالت کے مطابق ہونے پر ہیں وہی سب اعتراضات ابو کرب کی سلطنت و مملکت پر بھی وارد ہوتے ہیں۔ بعض مورخوں کا قول ہے کہ ذی القرنین ایک نیک بندہ تھا، خدا کی عبادت میں اس کے دائیں قرن میں مارا گیا وہ مر گیا خدا نے اس کو پھر زندہ کیا، پھر بائیں قرن پر مارا گیا پھر مر گیا پھر خدا نے اس کو زندہ کیا، پھر بائیں قرن پر مارا گیا پھر مر گیا۔ پھرخدا نے اس کو زندہ کیا اور ذی القرنین اس کا نام ہوا اور بادشاہ ہو گیا۔ کیا یہ کچھ کم افسوس کی بات ہے جبکہ ایسی بے سروپا باتیں قرآن مجید کی تفسیروں میں لکھی ہوئی دیکھتے ہیں۔ بعض مورخوں نے کہا ہے کہ ذی القرنین فرشتوں میں سے ایک فرشتہ تھا یہ تمام اقوال جو ہم نے بیان کے ہیں تفسیر کبیر میں منقول ہیں۔ اب ہمارے مفسروں نے اس بات کی تحقیق شروع کی کہ ذی القرنین نبی، یعنی پیغمبر تھا یا نہیں بعضوں نے کہا ہے کہ نبی تھا، بعضوں نے کہا کہ نبی نہیں تھا۔ جو لوگ اس کے نبی ہونے کے قائل ہوئے، انہوں نے یہ دلیل پکڑی کہ خدا نے فرمایا ہے انا مکنا لہ فی الارض یعنی ہم نے اس کو قدرت دی زمین میں تو قدرت کے لفظ سے قدرت فی الدین قرار دینا اولیٰ ہے اور پوری قدرت دین میں نبوت ہے، اس لیے ذی القرنین نبی تھا۔ دوسری جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’ واتیناہ من کل شیئی سببا‘‘ یعنی ہم نے دیا اس کو ہر ایک چیز کا سامان اور ہر چیز کے لفظ میں نبوت بھی داخل ہے اور اس لیے ذی القرنین کو نبوت بھی دی گئی تھی۔ تیسری جگہ خدا نے فرمایا ہے ’’ قلنا یا ذی القرنین‘‘ یعنی ہم نے کہا’’ اے ذی القرنین‘‘ اور خدا جس سے بات کرتا ہے وہ نبی ہوتا ہے، پس ذی القرنین بھی نبی تھا۔ بعضوں نے کہا کہ ذی القرنین نبی نہیں تھا، مرد صالح تھا اور مکنا لہ فی الارض سے اس کی قوت سلطنت اور ’’ من کل شیئی سببا‘‘ سے ذریعہ حصول تسلط ملک پر مراد لینی چاہیے، مگر امام رازی صاحب ان الفاظ سے ذی القرنین کے نبی ہونے کو تقویت دیتے ہیں۔ مفسرین کو جو اس قدر غلطیاں یا مشکلیں ان آیتوں کی تفسیر میں پڑیں، اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ انہوں نے واقعات کی تحقیق میں الٹی راہ اختیار کی ہے، یعنی اول اس بات کی تحقیق شروع کی ہے کہ ذی القرنین کون تھا، حالانکہ اول اس بات کودریافت کرنا تھا کہ وہ سد جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے، اور ایسی مستحکم و مضبوط بنائی گئی ہے کہ مفسرین اور مورخین کے زمانے تک اس کا معدوم ہو جانا غیر ممکن ہے، فی الحقیقت کس جگہ واقع ہے صرف قیاسا یہ کہہ دینا کہ شمال میں بنی ہو گی کافی نہیں، صاف طور پر اور بالتحقیق بتانا چاہیے کہ وہ سد فلاں مقام پر موجود ہے۔ اس کے بعد تحقیق کرنا چاہیے کہ اس کو کس بادشاہ نے بنایا تھا جس بادشاہ نے بنایا ہو اسی پر قرآن مجید میں ذی القرنین کا اطلاع ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ اس بادشاہ کو ذی القرنین کہنے کی وجہ نہ معلوم ہو یا مشتبہ رہے، مگر اس کے نہ معلوم ہونے یا مشتبہ رہنے سے کوئی ھرج اصل واقعے کے ثابت ہونے میں نہیں ہوتا، کیونکہ واقعہ جس کا ثبوت درکار ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ وہ سد بنی اور فلاں مقام پر موجود ہے اور فلاں بادشاہ ہے۔اس کو بنایا۔ اس کے بعد اس بادشاہ کی مملکت اور اس کی سلطنت پر غور کرنا ہے کہ وہ حالات ان باتوں کے مطابق ہیں جو قرآن مجید میں اس بادشاہ کی سلطنت یا مملکت کی نسبت بیان ہوئے ہیں یا نہیں، کیونکہ اگر وہ مطابق ہوں تو کافی یقین ہو گا کہ اسی بادشاہ کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور اسی پر ذی القرنین کا اطلاق ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ یاجوج اور ماجوج کا تاریخانہ طور سے حال بیان کرنا چاہیے، نہ قصے اور کہانی کے طریقے پر، اور قرآن مجید کے الفاظ کے سیدھے اور صاف معنی لینے چاہئیں، نہ پیچیدہ اور دور از کار چنانچہ اب ہم اس واقعے کے بیان کرنے میں اسی طریقے کی پیروی کریں گے۔ یاجوج و ماجوج ہمارے بعض علماء نے یاجوج و ماجوج کو عربی زبان کا لفظ بنانا چاہا ہے۔ کسائی کا قول ہے کہ یاجوج ناجج النار سے نکلا ہے جس کے معنی شعلے کے بھڑکنے کے ہیں، اور ماجوج موج البحر سے نکلا ہے۔ جو کہ وہ قوم چلنے اور دوڑ مارنے میں بہت تیز اور سریع الحرکت تھی، اس لیے اس نام سے موسوم ہوئی۔ بعضوں نے کہا تاجج الملح سے نکلے ہیں جس کے معنی نمک کی نمکینی کی شدید تیزی کے ہیں۔ قتیی کا قول ہے کہ اج الظلیم سے نکلا ہے جس کے معنی دوڑ کر چلنے کے ہیں۔ خلیل کا قول ہے کہ اج مسور کی مانند دانہ ہوتا ہے اور مج الریق بھی عرب میں بولا جاتا ہے، پس یاجوج ماجوج ان لفظوں سے مشق ہوئے ہیں۔ مگر یہ سب قول غلط ہیں، صحیح قول یہ ہے جس کو تفسیر کبیر میں بھی نقل کیا ہے کہ ’’انھا اسمان اعجمیان‘‘ وذالک لانااذا ارصدنا سوفا قمر بافاذا اعتبارنا وراینا ان ان المغربین قالو احصل ھذا الکسوف فی اول النھار الثانی عند اھل الشرق بل ذالک الوقت الذی ھو اول اللیل عندنا فھو وقت العصر فی بلد و وقت طلوع الشمس فی بلد رابع ونصف اللیل فے بلد خامس واذا کانت ھذہ الاحوال معلومۃ بعد الاستقراء والا عتبار و علمنا ان الشمس طالعۃ ظاہرۃ فی کل ھذہ الاوقات کان الذی بقال انھا تخسیب فے الطین والحماۃ کلاما علی خلاف الیقین و کلام اللہ تعالیٰ مبرا عن ھذہ التھمۃ فلم یبق الا ان بصار الی التاویل الذی ذکرناثم قال تعالیٰ و وجد عندھا موضوعان بدلیل منع الصرف اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ دونوں لفظ عجمی زبان کے ہیں توریت کتاب پیدائش باب دھم آیت دوم میں یافث کے ایک بیٹے کا نام آیا ہے ماغوغ، عبری زبان میں غین کا تلفظ گاف کی آواز سے ہوتا ہے پس ماغوغ بولا جاتا ہے ماگوگ عربی میں گاف کو جیم سے بدل لیتے ہیں، اس لیے ماگوگ کا ماجوج ہو گیا۔ بائیبل کا عربی ترجمہ جو پوپ کے حکم سے ہوا اور 1671ء میں چھپا، اس میں ماغوغ کا ماجوج عربی میں لکھا ہے۔ یورپ کی زبانوں میں واؤ کا تلفظ ایسی آواز سے ہوتا ہے جو آواز مابین آواز حرف الف اور حرف واؤ یا واؤ منقلب بالف ہو اس وجہ سے جب توریت کا ترجمہ یونانی زبان میں ہوا، تو ماغوغ کا تلفظ ماگوگ یا میگاگ لکھا گیا اور میگاگ کی نسل، یعنی اس قوما المضمیر فی قولہ عنہ ھا الی مساذا یعود فیہ قولا ن (الاول) انہ عاید الی الشمس و یکون التانیث للشمس لان الانسان لما تخیل ان الشمس تغرب ھناک کان سکان ھذا الموضع کانھم سکونوا بالقرب من الشمس (والقول الثانی) ان یکون الضمیر عایدا الی العین الحامیۃ وعلی ھذا القول فالتاویل ما ذکرنا ثم قال تعالیٰ قلنا یاذالقرنین اما ان تعذب واما ان تتخذ و فیھم حسنا یدل علے انہ تعالیٰ تکلم معہ من غیر واسطۃ وذلک یدل علی انہ کان بنیا وحمل ھذا اللفظ علی ان المراد انہ خاطیہ علی السنۃ بعض الانبیاء فھو عدول عن الظاھر (البحث الثانی) قال اھل الاخبار فی صفۃ ذلک الموضع اشیاء قوم کا جو میگاگ سے نکلی گوگ یا گاگ نام ہوا اور پھر اس ملک بھی جہاں وہ آباد تھی گاگ کا استعمال ہونے لگا، مگر استعمال میں یہ دونوں لفظ ساتھ ساتھ بولے جاتے تھے جیسے گاگ میگاگ اور ایک دوسرے پر بھی اطلاق ہوتا تھا۔ عربی زبان میں بجائے گاگ میگاگ کے یاجوج ماجوج کا استعمال ہوا پس یہ دونوں لفظ ’’ عجمہ‘‘ ہیں اور بطور علم کے مستعمل ہوتے ہیں اور اسی لیے عربی زبان میں غیر متصرف مستعمل ہوتے ہیں۔ کتاب حزقیل نبی باب 38ورس2میں گوگ کا لفظ قوم پر اور ماگوگ کا لفظ ملک پر بولا گیا ہے۔ بعض مسلمان مورخوں نے لکھا ہے کہ یاجوج و ماجوج نہایت قلیل الجثہ اور صغیر القامت ہیں، یعنی صرف بالشت بھر کا ان کا قد ہے، یعنی بالشتے ہیں، اور بعضوں نے کہا کہ نہایت قوی الجثہ اور طویل القامت ہیں ان کے ناخن اور دانٹ ڈاڑھ عجیبۃ قال ابن جریح ھنال مدینۃ لھا اثنا عشرا الف باب لولا اصوات اھلھا سمع الناس وجبۃ الشمس حسین تغیب (البحث الثالث) قولہ تعالیٰ قلنا یا ذالقرنین اما ان تعذب واما ان تتخذ فیھم حسنا یدل علی ان سکان اخرا المغرب کانوا کفار اخیر اللہ ذالقرنین فیھم بین التعذیب لھم ان اقامو علی کفرھم و بین المن علیھم والعفو عنھم وھذا التخییر علی معنی الاجتھاد فی اصلح الامرین کما علیھم و ھذا التخیر علی معنی الاجتھاد فے اصلح الامرین کما خبر نیہ علیہ السلام بین المن علی المشرکین و بین قتلھم و قال الاکثرون ھذا التعذیب درندہ جانوروں کی مانند ہیں وہ آدمیوں کو مار کر ان کا کچا گوشت کھا جاتے تھے اور کھیتی پکنے کے موسم میں نکل کر تمام کھیتوں کو چٹ کر جاتے تھے یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ان کے کان اتنے بڑے ہیں کہ ایک کو بچھا کر اور ایک کو اوڑھ کر سو رہتے ہیں مگر یہ سب کہانیاں جھوٹ اور محض بے اصل ہیں وہ لوگ تاتاری ترک ہیں ہمارے علماء نے بھی لکھا ہے اور تفسیر کبیر میں اس قول کو نقل کیا ہے کہ قیل انھما من الترک یہ قوم اب تک موجود ہے اور تمام ملک تاتار اور چینی تاتار میں آباد ہے۔ مگر جب میں نے یہ بیان کیا کہ یاجوج و ماجوج گاگ میگاگ سے مغرب ہو گیا ہے اور ان میں سے ایک کو قوم کا اور ایک کو ملک کا نام بتایا ہے تو یاجوج و ماجوج کو دو شخص سمجھنا جیسے کہ ھو القتل واما اتخاذا الحسنی فیھم فھوا ترکھم احیاء ثم قال ذوالقرنین اما من ظلم ای ظلم نفسہ بالا قامۃ علے الکفر والدلیل علی ان ھذا ھ المراد انہ ذکر فی مقاتلتہ واما من امن وعمل صالحا ثم قال فسوف نعذبہ ای بالقتل فی الدنیا ثم یردالی ربہ فیعذبہ عذابا نکرا ای منکرا قطیعا واما من امن وعمل صالحا فلہ جزا الحسنی قرا حمزۃ والکسائی وحفس عن عاصم جزاء الحسنی بالنصب والتنوین والیاقون بالرفع والا ضافۃ فعلی القراۃ الاولیٰ یکون التقد یرفلہ الحسنے جزاء کما تقول لک ھذا الثوب ھبۃ واما علی القرائۃ الثانیۃ فعی التفسیر وجھان (الاول) فلہ جزاء الفعلۃ الحسنی والفعلۃ وزیر مقرر کیا اس کی سلطنت دو زمانوں پر منقسم ہوتی ہے، پہلا زمانہ وہ ہے جبکہ اس بادشاہ نے اپنی تمام ہمت روپیہ جمع کرنے اور ہر قسم کا سامان اکٹھا کرنے میں صرف کی، اور دوسرا زمانہ وہ ہے جبکہ اس نے ہر قسم کا سامان جمع کرنے کے بعد ملک گیری اور فتوحات نمایاں حاصل کیں اس کی اس حالت کا صاف اشارہ قرآن مجید سے پایا جاتا ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے، انا مکنا لہ فی الارض وآتیناہ من کل شیئی سببا فاتبع سبیا یعنی ہم نے دی اس کو قدرت زمین میں اور ہم نے دیا اس کو ہر چیز کا سامان پھر وہ درپے ہوا سامان کے، یعنی سامان جمع کرنے کے یہ فقرہ قرآن مجید کا اور خصوصاً الفاظ فاتبع سببا بالکل اس بادشاہ کے پہلے قرن یا زمانے کی ہسٹری علیھم التصرف فی المعاش و عند غروبھا یشتغلان بستحصیل مھمات المعاش حالھم بالضدمن احوال سائر الخلدق (القول الثانی) ان معناء انہ لابنات لھم و یکونون کسائرا لحیوانات عراہ ابدا و یقال فی کتب الھیئۃ ان حال اکثر الزمح کذالک جال کل من یسکن البلاد القریۃ من خط الاستواء کذلک وذکر فی کتب التفسیر ان بعضہم قال سافررت حتی جاوزت الصین فسالت عن ھولا، القوم فقیل بینک وبینھم مسیرۃ یوم ولیلۃ فبلغتم فاذا احدھم یفرش امہ الواحدۃ ویلبس الاخری ولما قرب طلوع الشمس سمعت کھیئۃ الصلصلۃ فعنشی علی ثم افقت وھم یمسحونتی بالدھن فیلما طلعت الشمس اذا ھی بتاتے ہیں مکنا کے لفظ سے اور من کل شیئی کے لفظ سے قدرت فی الدین سمجھنا اور پھر قدرت فی الدین کو نبوت قرار دینا اور اس بادشاہ کی نسبت یہ بحث کرنا کہ وہ نبی تھا اور پھر اس کے نبی ہونے کو ترجیح دینا ایسے دور از کار خیالات ہیں جن کا ذرا بھی اشارہ قرآن مجید سے نہیں پایا جاتا اور جو شاعرانہ خیالات سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ انا مکنا لہ فی الارض میں جو لفظ فی الارض کا آیا ہے اس سے تمام دنیا از مشرق تا غرب افقی مراد لینا، جبکہ وہ لفظ ایک بادشاہ کی بادشاہت کے حال میں آیا ہے، اس شاعرانہ خیال سے بھی زیادہ عجیب ہے قرآن مجید میں متعدد جگہ لفظ الارض کا خاص ملک پر، بلکہ خاص زمین پر اطلاق ہوا ہے۔ جن لوگوں نے مکے سے ہجرت نہیں کی تھی اور وہیں کافر مرے، فوق الماء کھیئۃ الزبیت فاد خلونا سریا لھم فلما ادتفع النھار جعلوا یصطادن السمک ویطرحونہ فی الشمس فیضج ثم قال تعالیٰ کذلک وقد حطئنا بسما لدیہ خبرا وفیہ وجوہ (الاول) ای کذلک فعل ذوالقرنین اتبع ھذہ الاسباب حتی بلغ ما بلغ وقد علمنا حسین ملکناہ ما عندہ من الصلاحیۃ لذلک الملک والاستقلال بہ (والشانی) کذلک جعل اللہ امر ھولا القوم علی ماقد اعلم رسولہ علیہ السلام فی ھذا الذکر (والثالث) کذلک کانت حالمتہ مع اھل المطلع کما کانت مع اھل المغرب قضی فی ھولاء کما قضی فی اولئک من تعذیب الظالمین والاحسان الی المومنین (الرابع) انہ ثم الکلام عنہ قولہ کذلک ان سے فرشتے پوچھیں گے ’’ فیم کنتم؟‘‘ یعنی تم کس حال میں تھے؟ وہ کہیں گے ’’ مستضعفین فی الارض‘‘ یعنی ہم لاچار تھے زمین میں، یعنی مکے میں لاچار و مغلوب تھے فرشتے کہیں گے الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھا جروا فیھا یعنی کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی، تاکہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ یہ تو ایک مثال ہے، بیسیوں جگہ قرآن مجید میں الارض کا لفظ خاص ملک پر اطلاق ہوا ہے پس مکنا لہ فی الارض سے صاف مراد یہ ہے کہ ہم نے اس کو ایک ملک پر بادشاہت دی تھی۔ سلطنت چین کی ایک بہت وسیع سلطنت تھی، تبت اور تمام ملک جو اس کے قریب واقع تھے، جیسے برھما، انام، سیام اور ملایا سب اس میں شامل اور فغفور چین کے پاجگزار تھے۔ چین کی والمغنی انہ تعالیٰ قال ام ھولاء القوم کما وجد ھم علیہ ذوالقرنین ثم قال بعدہ وقد احطنا بما لدیہ خبرا ای کنا عالمین بان الامر کذلک قولہ تعالیٰ ثم اتبع سببا حتی اذا بلغ بین السدین وجد من دونہما قوما لا یکا دون یفقھون قولا قالو یا ذوالقرنین ان یاجوج و ماجوج مفسدون فے الارض فھل تجعل لک خرجا علی ان تجعل بیننا وبینھم سدا قال ما مکنے فیہ ربی خیر فاعینونی بقوۃ اجعل بینکم و بینہم ردما) اعلم ان ذالقرنین لما بلغ المشرق والمغرب اتباع سببا اخروسلک الطریق حتی بلغ بین السدین وقد اتاء اللہ من العلم والقدرۃ ما یقوم بھذہ الامور وھہنسا مباحث (الاول) قرا حمزۃ تاریخوں سے ثابت ہوتا ہے کہ چوسی انگ فغفور کے وقت میں اکثر صوبے اور باجگذار ملک باغی ہو گئے تھے ای چن جب اس کا بیٹا تخت نشین ہوا تو اس نے بعض کو شکست دی، مگر کل ملک پر تسلط نہ کر سکا۔ چی وانگ ٹی جو کہ بانی سد کا ہے جب بادشاہ ہوا اور اس کا پہلا قرن یا پہلا زمانہ ساز و سامان اور اسباب قوت اور سطوت سلطنت کے جمع کرنے کا ختم ہو گیا اور اس کی سلطنت کا دوسرا قرن یا دوسرا زمانہ شروع ہوا، تو اس نے ملک میں فتوحات شروع کیں۔ خدا نے فرمایا حتی اذا بلغ مغرب الشمس وجدھا تغرب فی عین حمتہ و وجد عندھا قوما یعنی جب وہ وہاں تک پہنچا جہاں آفتاب ڈوبتا ہے تو اس کو پایا کہ وہ ایک گدلے پانی کے چشمہ میں ڈوبتا ہے اور وہاں اس نے ایک قوم ولکسائی السدین بضم السین و سدا بفتحھا حیث کان و قرا حفص عن عاصم بالفتح فیھا فی کل القران وقرا نافع وابن عامرو ابو بکر عن عاصم بالضم فیھا فی کل القرآن و قرا ابن کثیر وابو عمر السدین وسداھہنا بفتح السین فیھما وضمہا فی السین فی الموضعین قال الکسائی ھما نعتان وقیل ما کان من صنعۃ بنی آدم فھو السد بفتح السیر والجسع سدود ھو قول ابی سبیدہ وابن الانباری قال صاحب الکشاف الس بالضم فعل بمعنی مفعول ای ھو مما فعلہ اللہ واخلقہ والسد بالفتح مصدر حدث بحدثہ الناس (البحث الثانی) الاظھران موضع السدین فی تاحیۃ الشمال و قیلا چہلان بین ارمینیۃ و بین اذر بسیحان مشرق کے رہنے والوں کے لیے وہ دوسرے دن کی صبح ہے، بلکہ جو شام کا وقت ہمارے لیے ہے وہ کسی دوسرے شہر میں عصر کا وقت ہے، اور ظہر کا وقت ہے دوسرے شہر میں، اور چاشت کا وقت ہے کسی تیسرے شہر میں، اور صبح کا وقت ہے کسی چوتھے شہر میں، اور آدھی رات ہے کسی پانچویں شہر میں، اور جبکہ بعد تجربے اور استقراء کے یہ حال معلوم ہے اور اس پر اعتبار ہے اور ہم نے جان لیا کہ آفتاب ان تمام وقتوں میں نکلا ہوا رہتا ہے، تو یہ کہنا کہ وہ دلدل میں ڈوب جاتا ہے، ایسا کلام ہے جو خلاف یقین کے ہے اور خدا کا کلام اس تہمت سے پاک ہے پس اب کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم وہ تاویل کریں جو ہم نے بیان کی۔ اب امام صاحب کی اس تقریر پر غور کرو تو نتیجہ اس کا وہی ہے جو مختصر لفظوں میں ہم نے بیان کیا ہے کہ مغرب الشمس سے ایسی جگہ مراد ہے جہاں سے آدمی کو آفتاب ڈوبتا ہوا معلوم ہو، جیسے سمندر میں سفر کرنے والے کو یا سمندر کے مشرقی کنارے پر کھڑے رہنے والے کو میں آفتاب ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے انھم لا یعرفون غیر لغۃ انفسھم وما کانوا یفھمون اللسان الذی بتکلم بہ ذوالقرنین ثم قال تعالیٰ قالوا یا ذوالقرنین ان یاجوج و ماجوج مفسدون فی الارض فان قیل کیف فھم ذوالقرنین منھم ھذا لکلام بعد ان وصفھم اللہ بقولہ لا یکادون یفقھون تولا والجواب ان نقول فیہ قولاث (الاول) ان اثباتہ نفی و نفیہ اثبات فقولہ لا یکادون یفقھون قولا لا یدل علی انھم لا یفقھون شیئا بل بدل علے انھم قد یفہمون علے مشقۃ و صعوبۃ (والقول الثانی) ان اب ملک کے جغرافیے پر نظر کرو، جب یہ بادشاہ فتوحات کرتا ہوا برھما اور ملایا کے کنارے پر پہنچا تو اس کی جانب غرب خلیج آف بنگالہ تھی تو اس نے وہاں ملایا قوم کو پایا اور آفتاب کو فی عین حمئۃ یعنی خلیج بنگالہ میں ڈوبتا ہوا دیکھا سمندر کا پانی خود میلا اور کیچڑ سا دیکھائی دیتا ہے اور سورج کے غروب ہوتے وقت اس کی شعاعوں سے اس پر سرخی جھلکتی ہے اور اسی واسطے اس کو عین حمئۃ سے تشبیہہ دی۔ پھر خدا نے کہا کہ قلنا یا ذی القرنین اما ان تعذب واما ان تتخذ فیھم حسنا قال اما من ظلم فسوف نعذبہ ثم یرد الی ربہ فیعذبہ عذابا نکرا واما من امن و عمل صالحا فلہ جزاء الحسنی و سنقول لہ من امرنا یسرا یعنی ہم نے کہا کہ اے ذی القرنین (اس قوم کو جو یہاں ملی ہے، غالباً ملایا کے لوگوں کو) یا تو عذاب دے (یعنی سزا دے) یا ان پر احسان رکھ (یعنی معاف کر) اس نے کہا جس کسی نے زیادتی کی ہے اس کو ہم عذاب، یعنی سزا دیں گے، پھر پلٹا دیا جاوے گا اپنے پروردگار کے پاس (یعنی مار ڈالا جاوے گا) پھر وہ اس کو عذاب دے گا عذاب سخت، اور جو کوئی ایمان لایا (یعنی فرمانبرداری کی) اور اچھا کام کیاتو اس کے لیے اچھا بدلہ ہے اور میں کہوں گا(یعنی حکم دوں گا) اس کے لیے اپنے معاملات میں سہولت کا۔ یہ بیان اس بادشاہ کے سلوک کا ہے جو اس نے اپنی مفتوحہ قوم کے ساتھ کیا کاد معناء المقاویۃ وعلی ھذا القول فقولہ لا یکادون یفقہون قولا ای لا یعلمون ولیس لھم قرب من ان یفقہو وعلی ھذا القول فلا بدمن اضماروھو ان یقال لا یکادون بفھمونہ الا بعد تقریبہ مشقۃ من اشارۃ ونحوھا وھذہ الایۃ تصیح انہ یحتج بھا علی صحۃ القول الاول فی تفسیر کاد (البحث الرابع) فی یاجوج و ماجوج (الاول) اھما اسمان اعجیان موضوعات بدلیل منع الصرف (القول الثانی) انھما مشتقان و قرا عاصم یاجوج ماجوج بالھمزۃ وقرا الباقون ’’ قلنا یا ذی القرنین‘‘ سے یہ سمجھنا کہ خدا نے اس بادشاہ سے کلام کیا تھا صحیح نہیں ہے قرآن مجید میں ایسے مقاموں پر قلنا کا لفظ بمعنی شئنا کے آتا ہے جیسے کہ خدا نے ان یہودیوں کی نسبت جنہوں نے سبت کے دن زیادتی کی تھی فرمایا ہے قلنا لھم کونوا قردۃ خاسئین اسی طرح اس کے جواب میں قال کا لفظ آیا ہے پس اس طرح کا استعمال نہ نبوت کی نشانی ہے اور نہ خدا کے ساتھ سوال و جواب ہونے کی دلیل ہے، بلکہ جو سلوک کہ اس فتح مند بادشاہ نے اس مفتوح قوم کے ساتھ کیا اس کا بیان ہے۔ یاجوج ماجوج وقری فی روایۃ اجوج و ماجوج و قائلون یکون ھذین الاسمعین مشتقین ذکروا وجوھا (الاول) قال الکسائی یاجوج ماخوذ من تا جج النار وقلھبھا قلسر عنھم فی الحرکۃ سمو بذالک والماجوج من موج البحر (الثانی) ان یاجوج ماخوذ من قولھم اج الظلیم فی مشیہ یئج اجا اذا ھرول وسمعت خفیفہ فی عدوہ (الرابع) قال الخلیل الاج حب کالعدس والمج مج الریق فیحقل ان یکونا ماخوذ ین منھا واختلفو فی النھمسام من ای الاقوام مذکورہ بالا بیان سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ اس بادشاہ پر دو زمانے ایسے گزرے جن کا اشارہ قرآن مجید میں بھی موجود ہے اور یہ نہایت قوی قرینہ ہے کہ ان ہی مختلف دو زمانوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اس کی نسبت ذوالقرنین کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس فتح کے بعد اس نے مشرق کی طرف حملہ شروع کیا اور اس ملک کے مشرقی کنارے پر پہنچا، چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ثم اتبع سببا حتی اذا بلغ مطلع الشمس وجدھا تطلع علی قوم لم نجعل لھم من دونھا سترا کذلک و قد حطنا بما لدیہ خبرا یعنی پھر اس نے سفر کا سامان کیا، یہاں تک کہ جب وہ پہنچا جہاں آفتاب نکلتا ہے تو اس نے ایسی قوم پر اس کو نکلتا ہوا پایا کہ ہم نے ان کے لیے آفتاب کے ورے کوئی اوٹ نہیں رکھی یہ حال (اس جگہ کا ) تھا اور بے شک ہم نے جان لیا تھا جو کچھ اس کے پاس وہاں کی خبر پہنچی تھی۔ وقف احطنا بما لدیدہ خبرا کی نسبت ابن عباس ؓ تفسیر میں لکھا ہے فقیل انھما من الترک و قیل یاجوج من الترک و ماجوج من الجبل والدیلم ثم من الناس من وصفھم بقصرا القامۃ وصغرا الجثۃ یکون طول احدھم شبرا ومنھم من وصفھم بطول القامۃ و کبیر الجثۃ واثبتو لھم محالیب فی الاظفار واضراسا کاضراس السباع واختلفو فی کیفیت افساد ھم فی الارض فقیل کانوا یقتلون الناس وقیل کانو یاکلون لحوم الناس وقیل کانو یحرجون ایام الربیع فلا یسرکون لھم شیئا اخضر وبا لجملۃ فلقط الفساد محتمل لکل ’’ قد علمنا بما کان عندہ من الخبر والبیان‘‘ اسی کے مطابق ہم نے بھی توجہ کیا ہے جو معنی ہم نے ابھی مغرب الشمس کے بیان کیے ہیں وہی معنی مطلع الشمس کے ہیں، یعنی وہ ایسی جگہ پہنچا جہاں اس کو آفتاب نکلتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ یہ حال مملکت چین کے شرقی کنارے کا ہے جو بہت بڑے سمندر سے گھرا ہوا ہے جب آفتاب نکلتا ہے اس کنارے کے رہنے والوں میں اور آفتاب کو نکلتا ہوا دکھائی دینے میں کوئی چیز حائل نہیں ہوتی۔ سمندر کے پانی کی صاف سطح ہوتی ہے اور آفتاب کا نکلنا بغیر کسی حجاب کے ان ہی لوگوں پر ہوتا ہے۔ اس طرف کے ملک کے لوگوں کو زیر کرنے کے بعد اس بادشاہ نے پھر سامان درست کیا، چنانچہ خدا فرماتا ہے، ’’ ثم اتبع سببا حتی اذا بلغ بین السدین وجد من دونھما قوما لا یکادون یفقھون قولا‘‘ یعنی پھر اس نے سامان سفر کیا، یہاں تک کہ جب وہ پہنچا دو سدوں، یعنی دو پہاڑوں میں تو اس نے ان کے ورے ایک قوم ھذہ الاقسام واللہ اعلم بمرادہ ثم انہ تعالیٰ حکی عن اھل ما بین السدین انھم قالو الذی القرنین فھل نجعل لک خرجا علی ان تجعل بیننا وبینھم سدا فرا حمزۃ ووالکسائی خراجا والباقون خرجا قبل الخراج والخراج واحد و قیل ھما امر ان متغابران وعلی ہذا القول اختلفو قیل الخرج بغیر الف ھو تجعل لان الناس کلواحد منھم شیئا فیخرج ھذا اشیاء وھذا اشیاء والخراج ھم الذی یحبیبہ السلطان کل سنۃ وقال القراء الخراج ھوا الاسم الا صلی والخرج کو پایا کہ بمشکل ان کی بات سمجھتے تھے۔ یہ مقام مملکت چین کی شمالی حد پر ہے اور جس قوم کا ذکر ہے وہ تاتاری اور قدیم ستھیا کی رہنے والی تھی جو غارت گری اور لٹیرے پن میں مشاق اور لوٹ مار کی عادی تھی ان کی زبان چین کے رہنے والوں سے مختلف تھی۔ جب وہ بادشاہ اس مقام پر پہنچا تو لوگوں نے کہا جو قرآن مجید میں مذکور ہے، چنانچہ خدا فرماتا ہے قالو یا ذالقرنین ان جوج و ما یاجوج مفسدون فی الارض فھل نجعل لک خرجا علی ان تجعل بیننا وبینھم سدا قال ما مکنی فیہ ربی خیر فاعینونی بقوۃ اجعل بینکم و بینہم ودما یعنی ان لوگوں نے کہا کہ اے ذوالقرنین یاجوج و ماجوج فساد کرنے والے ہیں زمین (یعنی ملک) میں، پھر کیا ہم تیرے لیے کوئی محصول (یعنی ٹیکس یا بوجھ) مقرر کریں، اس بات پر کہ تو بنا دے ہم میں اور ان میں سد (یعنی فصیل یا دیوار یعنی ایسی روک کہ وہ ہمارے ملک میں نہ آ سکیں) کالمصدر وقال قطرب الخراج الجزیۃ والخراج فی الارض فقال ذوالقرنین ما مکنی فیہ ربی خیر فاعینونی ای ما جعلنی مسکینا من المال الکثیر و الیسار الواسع خیر مما تبذلون من الخراج فلا حاجہ بی السیہ وھو کما قال سلیمان علیہ السلام فما اتانی اللہ خیر مما اتاکم قرا ابن کثیر ما مکنی ینونین علی الاظھار والباقون بنون واحدۃ مشددۃ علی الادغام ثم قال ذوالرنین فاعینونی بقوۃ اجعل بینکم و بینہم ردما ای لا حاجۃ لی فی مالکم ولکن اس بادشاہ نے کہا کہ خدا نے جو مقدور مجھ کو دیا ہے وہ بہت اچھا ہے (یعنی کافی ہے، محصول لگا کر روپیہ لینے کی ضرورت نہیں) پھر تم میری مدد کرو محنت کرنے سے میں بنا دوں گا تمہارے اور ان کے بیچ میں مضبوط دیوار۔ پہلی بات اس آیت میں جو غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ قالو یا ذالاالقرنین کسی کا قول ہے مفسروں کا یہ خیال ہے کہ یہ اسی قوم کا قول ہے جو اس جگہ ملی تھی اور جس کی نسبت کہا گیا ہے لا یکادون یفقھون قولا مگر یہ خیال ہر گز صحیح نہیں یہ قول ان لوگوں کا ہے جو سرحد چین کے اندر اور فغفور کے ملک میں رہتے تھے اور اسی قوم کی لوٹ مار کے بچنے سے جس کی نسبت کہا گیا ہے لایکادون یفقھون قولا دیوار بنانا چاہتے تھے۔ دوسری چیز جو اس بادشاہ نے علاوہ محنت کے ان سے چاہی وہ لوہا تھا چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے اتونی زبر الحدید حتی اذا ساوی بین الصدفین قال اعینونی برجال وآلۃ ابنی بھا السد و قیل المعنی اعینونی بمال اصرفہ الی ھذہ المھم ولا اطلب المال لاخذہ لنفسی والردم ھو السد یقال ردمت الباب ای سددتہ ورد مت الثوب رقعۃ لانہ یسد الخرق بالرقعۃ والردم اکثر من السدمن قولھم ثوب مردوم ای وضعت علیہ رقاع قولہ تعالے، آتونی زبر الحدید حتی اذا ساوی بین الصدفین قال انفخوا حتی اذا ساوی بین الصدفین قال انفخوا حتی اذا جعلہ نارا قال انتونی افرغ الیہ قطرا فما استطاعوا ان یظھروہ وما استطاعوالہ نقبا قال ھذا انفخوا حتی اذا جعلہ نارا قال اتونی افرغ علیہ قطرا یعنی لا دو مجھ کو لوہے کے ٹکڑے، یہاں تک کہ جب وہ دونوں پہاڑوں میں برابر کر چکا تو کہا، دھونکو، یہاں تک کہ جب اس لوہے کو آگ، یعنی لال کر دیا تو اس نے کہا مجھ کو لا دو میں اس پر ڈال دوں پگھلی ہوئی دھات، یعنی تانبا یا پیتل یا سیسہ۔ یہ آیتیں نہایت صاف ہیں، مگر مفسرین نے ان کو عجیب طرح پر بیان کیا ہے قرآن مجید میں جو لفظ زبر الحدید آیا ہے اس کے معنی لوہے کی تختی یا لوہے کی اینٹیں قرار دیے ہیں اور پھر یہ قرار دیا ہے کہ ان لوہے کی اینٹوں کو اوپر تلے رکھ کر بطور دیوار کے چنا اور اس کو پہاڑ کی چوٹی تک اونچا کر دیا اور جب وہ پوری ہو گئی جس کی لمبائی پندرہ سو میل کے قریب تھی تو آگ جلا کر اس دیوار کو آگ کے مانند کر دیا، یعنی جیسے لوہا آگ میں جلانے سے لال مثل آگ کے ہو جاتا ہے، اسی طرح ساری دیوار مثل آگ کے ہو گئی پھر اس دیوار پر پگھلا ہوا تانبا رحمۃ من ربی فاذا جاء وعد ربی جعلہ دکاء وکان وعد ربی حقا اعلم ان زبر الحدید قطعہ قال الخلیل الزبرہ من الحدید القطعہ الضخمۃ قراۃ الجمیع اتولی بمد الالف الا حمزۃ فانہ قرا ائتونی من الایتان و قدروی ذلک عن عاصم والتقد یرا ئتونی زبر الحدید ثم حذف الیاء کقولہ و شکرتہ لہ و کفرتہ و کفرت لہ وقولہ حتی اذا ساوی بین الصدفین فیہ اضما رای فاتوہ بھا فوصع تلک الزبر بعضہا علی بعض حتی صارت بحیث تسد ما بین الجبلین الی اعلاھما ثم ڈالا اور وہ دروزوں میں بیٹھ کر جم گیا اور سب مل کر لوہے کی ایک ڈال دیوار یا ایک ڈال مثل لوہے کے پہاڑ کے ہو گئی۔ یہ تفسیر ایسی ہے جو نہ عقل میں آ سکتی ہے اور نہ قرآن مجید کی آیتوں میں اس خارج از عقل کارستانی کا اشارہ پایا جاتا ہے کسی طرح قرآن مجید سے نہیں پایا جاتا ہے کہ وہ دیوار لوہے کی اینٹوں سے چنی گئی تھی لوہا بلا شبہ دیوار کے بنانے میں کام میں لانے کو منگوایا گیا تھا، مگر یہ بات کہ اس لوہے سے دیوار چنی گئی تھی، ہر گز قرآن مجید میں نہ مذکور ہے نہ اس کی طرف اشارہ ہے۔ یہ دیوار جو سد کے نام سے مشہور ہے پہاڑی ملک میں بنائی گئی تھی اور کچھ شبہ نہیں کہ پتھروں کی چٹانوں سے بنائی تھی، مگر پتھروں کی چٹانوں کے مضبوط کرنے اور ایک کو دوسرے سے جوڑنے کو لوہا درکار تھا اس کی نسبت اس بادشاہ نے کہا کہ لوہے کے ٹکڑے مجھ کو لا کر دو۔ اس دیوار کے بنے اکیس سو بائیس برس گزرے ہوں گے، اس زمانے کی بہت سی عمارتوں کے نشان اور کھنڈر اب بھی موجود وضع المنافع علیھما حتی اذا صارت کالنار صسب النحاس المذاب علے الحدید المحی فانقصق بعضہ ببعضہا وصار جبلاصہ لدا و اعلم ان ھذا معجز قاھر لان ھذہ الزبر الکثیرۃ اذا نفخ علیہا حتے صارت کالنار لم یقدر الحیوان علی القرب منہا والنفخ علہا لا یمکن الامع القرب منھا فکانہ تعالیٰ صرف تاثیر الحرارۃ العظیمۃ عن ابدان اولئک النافخین علیھا قال صاحب الکشاف قیل بعد ما بین السدین ماتہ فرسخ والصدفین بفتحستین ہیں پتھر کی چٹانوں کی دیوار بنانے کا اور اس کو مضبوط کرنے کا کہ کوئی پتھر دیوار میں سے نکالنے سے نہ نکل سکے یہ دستور ہے کہ دو چٹانوں کو برابر رکھ کر دونوں کے سروں کے پاس سوراخ کرتے ہیں اور ان میں لوہے کے پانوں لگاتے ہیں، تاکہ ایک دوسرے سے جڑ جاوے اور نکالنے سے نکل نہ سکے اور اس لوہے کے پانوں کو جس کا ایک سرا ایک چٹان کے چھید میں اور دوسرا سرا دوسری چٹان کے چھید میں رہتا ہے، آگ سے لال کر کے ان چھیدوں میں لگاتے ہیں اور کوئی پگھلی ہوئی دھات ان چھیدوں میں ڈال دیتے ہیں، تاکہ پانوں کے سرے چھیدوں میں جم جاویں اور پتھر نکلنے نہ پاویں اور کسی طرح بغیر دیوار کے منہدم کیے نہ دیوار میں چھید ہو سکے اور نہ کوئی پتھر ٹل سکے۔ قرآن مجید کے ان لفظوں کے کہ حتی اذا ساوای بین الصدفین یہ معنی سمجھنے کہ جب وہ دیوار دونوں پہاڑوں کی چوٹیوں کے برابر اونچی ہو گئی تھی، صحیح نہیں ہے، بلکہ ساوای بین الصدفین کا اطلاق دونوں پہاڑوں میں دیوار کی بنیاد کے برابر کرنے پر صادق آتا ہے اور بنیاد کو برابر کر کے اس پر ردہ جانبا الجبلین لانھما یتصاد فان ای یتقابلان و قری الصدفین بضمتین والصدقین بضمۃ وسکون والقطر النحاس المذاب لانہ یفطر و قولہ قطرا منصوب بقولہ افزع و تقدیرہ اتونی قطرا انزع علیہ قطرا فحذف الاول لد لالۃ الثاف علیہ ثم قال فما اسطاعوا فحذف الشاء للخفنہ لان التاء قریبۃ المخرج من الطاء و قری فما اسظاعوا بقلب السین صادا ان یظھر وہ ان یعلوہ اے ماقد رو اعلیٰ الصعود علیہ لاجل ارتفاعہ و سلاسۃ ولا علے نقبہ لا جل صلابۃ لگایا جاتا ہے پس قرآن مجید کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ اس نے دونوں پہاڑوں کے بیچ میں دیوار کو برابر، یعنی موافق محاورہ عمارت لیول میں، یعنی پنسال میں کیا اور اس پر جو ردہ لگایا تھا اس میں لوہے کے پانوں لگانے کی غرض سے کہا کہ لوہے کو پھونکو اور جب وہ مثل آگ کے لال ہو جاوے اس کو لگاؤ اور اس پر پگھلی ہوئی دھات ڈال دو۔ پس یہ دیوار اسی طرح پر بنی ہے جس طرح عموماً اس قسم کی دیواریں بنتی ہیں۔ عجیب بات اس میں جو ہے وہ یہی ہے کہ پندرہ سو میل کے قریب لمبی ہے اور پہاڑوں میں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور میدانوں میں اور دریاؤں پر برابر بنتی چلی گئی ہے۔ اس دیوار کی مضبوطی ظاہر کرنے کو خدا نے فرمایا ’’ فما استطاعوا ان یظھروہ وما استطاعوالہ نقبا قال ھذا رحمۃ من ربی فاذا جاء وعد ربی جعلہ دکاء وکان وعد ربی حقا‘‘ یعنی پھر قوم یاجوج و ماجوج اس پر نہ چڑھ سکی اور نہ اس میں نقب لگا سکی اس بادشاہ نے کہا کہ یہ دیوار ایک ونحخانۃ ثم قال ذوالقرنین ھذا رحمتہ من ربی فقولہ ھذا اشارۃ الی السدای ھذا السد نعمۃ من اللہ رحمتہ علے عبادہ او ھذا لا قتدار والمتمکین من تسویۃ فاذا جاء وعدای اذا دتا مجبی القیمۃ جعل السدد کا اے مدکو کا مستویا بالارض وکل ما انبسط بعد الارتفاع فقد افدک وقرے وکاء بالمد ای ارضا مستویۃ وکان وعد ربی حقا وھھنا آخر حکایہ ذی القرنین (تفسیر کبیر) رحمت ہے، میرے پروردگار کا وعدہ آوے گا تو اس کو ریزے ریزے کر دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ سچا ہے۔ ان آیتوں کی نسبت مفسرین نے محض بے سند اور افواہی کہانی آمیز روایتوں سے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یاجوج و ماجوج اس دیوار کے توڑنے کے در پے ہیں۔ آنحضرت صلعم کے زمانے میں روپیہ برابر سوراخ کر چکے تھے، جب حضرت عیسیٰ آسمان پر سے اتریں گے اس وقت وہ اس کو توڑ کر نکلیں گے، گویا یہ وعدہ ہے خدا کا جو اس آیت میں مذکور ہے اور جب وہ نکلیں گے تو تمام دنیا کو لڑائی سے عاجز کر دیں گے آسمان پر تیر چلاویں گے وہ لہو بھری آویں گے آخر کو حضرت عیسیٰ کی بد دعا سے سب مر جاویں گے۔ یہ محض بے اصل کہانیاں ہیں اب اس زمانے میں تمام تاتار پر جو یاجوج و ماجوج کی قوم ہے چینیوں کی عملداری ہے جو چینی ترکستان کے نام سے موسوم ہے یاجوج و ماجوج، یعنی تاتاری تمام دنیا میں پڑے پھرتے ہے، نہ کسی کے کان بڑے ہیں اور نہ کسی کا گوشت کھاتے ہیں، خاصے بھلے چنگے آدمی ہیں۔ جس طرح کہ خدا تعالیٰ بجا فرماتاہے کہ اخیر کو تمام چیزیں فنا ہو جائیں گی اسی طرح اس دیوار کی نسبت بھی فرمایا ہے جیسے کہ زمین کی نسبت فرمایا کلا اذا دکت الارض دکا دکا وجاء ربک والملک صفا صفا مسٹر جیمس کار کرن نے ایک چینی تاریخ کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اس تاریخ میں اس بادشاہ اور اس دیوار کی نسبت جو کچھ لکھا ہے، اس مقام پر نقل کرتے ہیں۔ تاریخ چن جیمس کار کرن ای چن کے بعد چی وانگ ٹی فغفور ہوا اور اکثر ختائی مورخوں کی روایت ہے کہ وہ ای چن کے نطفے سے نہ تھا، کیونکہ اس کی ماں جب ایک مرد سوداگر سے حاملہ ہو چکی تھی تب اس نے فغفور کے ہاتھ اس عورت کو بیچا تھا اور اس شخص نے یہ حرکت اس امید سے کی، تاکہ تمنا دل کی پوری ہووے اور اپنی اولاد کو تخت پر دیکھے۔ اگرچہ یہ امر بعید القیاس نہیں ہے، لیکن شبہ اس نقل کی راستی پر اسی جہت سے ہوتا ہے کہ علماء ختا بسبب ایک سانحے کے جو ذیل میں مذکور ہے، اس کے نام پر ہزار ہا لعنتیں کرتے ہیں اور یہ فقرہ اس کے حرام زادہ ہونے کا توہین کے قصد سے انہوں نے تیار کیا ہے غرض یہ تحقیق ہے کہ سوداگر نے فغفور ای چن سے یہ دوستی بڑھائی اور اپنی لیاقت اس طرح اس کے نزدیک ظاہر کی کہ ای چن نے خدمت وزیراعظم کی اسے دی۔ خیر جب فغفور نے انتقال کیا وہی لڑکا تیرہ برس کی عمر میں گدی پر جلوہ بخش ہوا اور ایسے بہادر اور مدبر فغفور گنتی کے دو تین ہی ہوئے ہیں اور ایسا کام اس نے کیا کہ نام اس کا قیامت تک رہ جائے گا۔ اعیان دولت سے ایک شخص بنام لی زی غیر ملکی تھا، یعنی وطن اس کا ریاست فغفور چین سے باہر دوسرے ایک سلطان کی حد میں واقع تھا جب فرمان اس مضمون کا نکلا کہ جتنے غیر ملکی اس سرکار کی ریاست میں آئے ہیں سب اپنے اپنے وطن کو چلے جاویں، تب اس لی زی نے ایسی ایک عرضی حضور میں گزرانی اور ریاست میں اغیار کے رہنے سے جو فائدے متصور تھے سب اس خوبی اور فصاحت کے ساتھ اس نے بیان کیے کہ فغفور نے اپنے حکم کو دوسرے ہی روز منسوخ کیا اور لی زی کو وزیر اعظم بنا لیا اور اسی کی صلاح سے بادشاہ نے تمام سلاطین کو سر کیا اور شہنشاہ ختا اصل حقیقت میں ہوا۔ اس کی صورت اس طور سے ہوئی کہ پہلے کئی برس تک فغفور نے اپنے اخراجات کو حد اعتدال پر رکھا، لڑائی بھڑائی سے وہ باز رہا اور خزانے کو خوب ہی معمور کیا۔ جب دولت بامراد حاصل ہوئی فغفور نے زر پاشی شروع کی اور سلاطین میں زر کے وسیلے سے بگاڑ ڈلوا دیا اور جب ایک دوسرے سے لڑ کر قریب تباہی کے پہنچا اور اس کا حریف بھی علی ہذا القیاس ضعیف ہوا، تب فغفور نے کوئی بہانہ کر کے دونوں سے یا ایک سے بگاڑ کیا اور آناً فاناً میں اس کا ملک چھین لیا اور اسی تدبیر سے تمام سلاطین کو اس نے بے تخت و تاج کیا اور ساری مملکت ختا کا مالک ہوا، اور شہنشاہ اسی وقت سے کہلایا اور حالانکہ دولت و ملکیت خواہش سے زیادہ ہاتھ آئی تھی اور تبت بزرگ کی حد سے مشرقی سمندر تک اور ملک تاتار سے بحر جنوب تک حکمرانی ہوئی، لیکن آرام و عیش طلبی مطلق مزاج میں نہ سمائی۔ باوجودیکہ مکانات عالیشان اس نے بہت بنائے اور بے غایت تکلفات سے آراستہ کیا اور باغات میں بھی علی ھذا القیاس سامان بے پایان عیش و نشاط کا مہیا کر دیا اس پر بھی یہ قاعدہ تھا کہ چند آدمی کو لیے پوشیدہ جاتا تھا اور احوال وہاں کے حکام عدالت اور تحصیل اور محاصل زراعت کے خود دریافت کرتا تھا اور شوق اس کے دل میں یہی تھا کہ مملکت ختا کا از سر نو بندوبست کرے اور قدیم فغفوروں کی رویۃ پر نہ چلے اور اس ارادے سے جب دستورات قدیم سے ائدک فرق کرتا تھا علماء کا شور اٹھتا تھا کہ فلانی بات یاؤ اور شن اور یو کے خلاف حکم کے ہے، اس کو کرنا امتناع ہے اور یہ روک ٹوک جب فغفور کو ناگوار گزری، لی زی سے اس نے مشورت کی اور وزیر نے تمام کتب قدیم کو جمع کر کے آگ لگا دینے کی صلاح دی اور یہی بات وقوع میں آئی اس سبب سے تاریخ ختا کے اکثر مقامات میں خلاء واقع ہوا ہے اور بہت سے احوال کو مورخوں نے فقط یاد سے لکھا ہے اور یہ حرکت ختائی علماء اور شعراء کو ایسی بری معلوم ہوئی کہ چی وانگ ٹی اور شیطان میں انہوں نے فرق نہیں کیا اور والدا الزنا ٹھہرانے کے علاوہ ابلیس مجسم کا لقب اس کو دیا ہے حقیقت میں ان کے ھجوبے سبب نہیں تھی، کیونکہ ایک تو کتب قدیم کے نقصان کرنے اور سب فاضلوں کے گھر سے کتاب جبراً منگوا کے جلا دینے کی حرکت اس نے کی ہی تھی، علاوہ اس کے چار سو ساٹھ علماء کو اس قصور پر اس نے جیتا گڑوا دیا کہ اپنے اپنے کتب خانے کو بادشاہ کے پیادوں کے حوالے انہوں نے نہیں کیا تھا سوائے اس کے خوف فغفور کو یہ تھا کہ اگر زندہ رہیں گے تو حافظے سے ان کتابوں کو پھر لکھیں گے اور ہم کو عاجز کریں گے غرض طیش میں آ کر چی وانگ ٹی نے یہ خون نا حق کیا اور بے رحم اور سنگدل اور خونخوار بجا کہلایا، لیکن ان عیبوں کے ساتھ اتنا تھا کہ ختا میں اگر پانچ فغفور متواتر اسی طرح کے ہوتے تو واللہ اعلم کیا گیا وہ نہ کر اور کس کس ملک کو عمل میں نہ لاتے القصہ جب کشت و خون اور لڑائی بھڑائی سے فارغ ہوا اور انتظام ملک کا تردد کر چکا، ہمیشہ جینے اور باقی رہنے کی ہوس اس کے دل میں از بس پیدا ہوئی اور اس خیال باطل کو خوشامدیوں نے ترقی دی آخر الامر چند نوجوان مرد اور عورتوں کو اس مشرقی سمندر کی طرف روانہ کیا، اس لیے کہ سن چکا تھا کہ ادھر کے جزیروں میں ایک جزیرہ ایسا تھا کہ وہاں کے چشمے کا پانی جس نے پیا مرگ اس کے نزدیک نہیں آئی غرض وہ لوگ گئے اور پھر آئے اور ان کا بیان یہ تھا کہ مشرقی سمندر میں طوفان نے آگے بڑھنے نہ دیا، لیکن ایک مردک کا جہاز چونکہ طوفان میں بحر سے الگ ہو گیا تھا اس نے چندے بعد آن کر یہ فقرہ سنایا کہ منزل مقصود تک پہنچا تھا، لیکن چشمہ اس ایام میں جاری نہ تھا۔ غرض اس کے ہاتھ ایک کتاب آئی تھی جس میں یہ بات اس نے لکھی پائی کہ چین کا گھرانا اس خاندان کے ہاتھ سے تباہ ہووے گا جس کا نام ھو کے لفظ سے شروع ہے اس واھیات بات کے اعتبار پر فغفور نے فوراً جنگ کا سامان تیار کیا اور چونکہ ایک قوم تاتار کا نام ھوانگ تو تھا اور پہلے حروف ھو تھے، دفعۃ ان کے ملک پر چڑھ گیا اور چونکہ اچانک جا پہنچا اور سب کو بے فکر پایا، اس سبب سے ان کو پائمال کیا والا اگر پیشتر سے خبر ان کو ملتی تو شاید شکست نہ ہوتی، بلکہ غالب ہے کہ وہ تاتار خونخوار سب فغفور کو نہایت تنگ کرتے، کیونکہ وے بڑے جنگی اور صحرا کے رہنے والے تھے اور لوٹ تاراج سے ان کی اوقات اور شکار پر ان کی گزران تھی اور ہر وقت گھوڑوں پر سوار ہاتھ میں تیر کمان تلوار لیے خونخوار بنے رہتے تھے، اگرچہ وہ بھی قوم ختا سے تھے، چنانچہ بعض مورخ کہتے ہیں کہ شہزادہ چنکوئی خاندان ھیا کے تباہ ہونے سے صحرائے تاتار میں جا چھپا تھا اور بعض کا بیان ہے کہ اسی ھیائ، یعنی یو کے گھرانے کا وہ شہزادہ باپ سے روٹھ کر صحرا میں چند آدمیوں کے لیے چلا گیا تھا، وہی جد ان لوگوں کا تھا، لیکن صحرا کی آب و ہوا کی خاصیت اور قنات کے نیچے بودو باش کرنے او رکچے گوشت کھانے اور رات دن کمر بندھے رہنے کی عادتوں نے ان کو ایسا مضبوط بنایا تھا کہ شہری ختائیوں سے اور ان سے کچھ نسبت باقی نہ رہی اور ان کی گروہ ایک دوسری قوم ہو گئی اور یہی لوگ تھے کہ کسریٰ اور سکندر بھی ان کی بہادری اور مضبوطی اور سپہ گری کے قائل ہوئے اور ان سے باج نہ لے سکے اور اسی قوم کے پہلوانوں سے رستم اور اسفند یار کا مقابلہ ہوا اور افرا سیاب بھی تاتار ہی تھا۔ یہ لوگ تیر اندازی اور تلوار کے دھنی تھے اور ان کے گھوڑے بجلی تھے اور ان سے جب کسی سے بگڑتی تھی دشمنوں کو لاکھوں گھوڑوں کی ٹاپوں سے روند ڈالتے تھے اور غنیم پر دفعۃ ایسے جا پڑتے تھے کہ ان لوگوں کو حربہ کرنے کی فرصت نہیں ملتی تھی، گویا اجل سامنے موجود ہو جاتی تھی، اور ان کی رکاوٹ نہ دریا نہ جنگل نہ کوہستان کسی سے ممکن تھی۔ حاصل کلام تاتاری رسالوں میں ہر شخص ایک شہسوار خونخوار تھا اور ان لوگوں نے سینکڑوں تختوں کو الٹ دیا اور جو سامنے پڑا، خواہ دشمنی کی راہ سے خواہ لوٹ تاراج سے وہ بچ کے نہیں گیا۔ الغرض چونکہ ان کا حال اسی جلد کے تیسرے دفتر میں طوالت کے ساتھ ہے یہاں پر اتنا ہی بیان کا موقع تھا کہ نتیجہ غفلت کا معلوم ہووے کہ غافل رہنے سے ایسے تاتار خونخوار بھی مارے پڑے۔ القصہ چی وانگ ٹی باوجود اس شکست دینے کے خوب جانتا تھا کہ یہ قوم موقع پا کر انتقام ضرور لے گی اور تا وقتیکہ بدلہ اور عوض معقول نہ ہووے اس شکست کی یاد ہمیشہ دل کو صدمہ پہنچائے گی، اس سبب سے اس نے دیوار ختاکی بناکی جس کا تمام احوال عاصی نے جلد اول کے دوسرے دفتر کے چودھویں باب کے چار سے صفحے میں بیان کیا ہے۔ سینتیس برس اس نے سلطنت کی اور اس کے ایام انتقال کو مورخوں نے 210 قبل مسیح قرار دیا ہے۔ ذکر بنائے دیوار یہ دیوار قریب آٹھ کوس کے لمبی ہے اور سرحد ختا اور تاتار پر واقع ہے اور وجہ اس کی تیاری کی یہ ہوئی کہ جب قوم تاتار نے اس طرف سے بار بار یورش کر کے ختائیوں کو سخت عاجز کیا اور کوئی تدبیر ان کو ضبط کرنے کی نہیں سوجھی تب اس دیوار کی بنا کی گئی اور فغفور چی وانگ ٹی نے دو سو چالیس برس قبل حضرت عیسیٰ کے اسے شروع کیا اور عرصہ قلیل، یعنی صرف پانچ برس میں یہ تمام ہوئی اور حال اس کا یہ ہے کہ نہ پہاڑ نہ دریا کوئی مانع اس کی ساخت کا ہوا اور آٹھ سو کوس تک جو موانع سامنے آئے سب کو دفع کرتی ہوئی یہ دیوار اپنی منزل مقصود تک پہنچی ہے اور کئی مقام پر آدھ آدھ کوس کے اونچے پہاڑوں کی چوٹی پر سے یہ دیوار کھینچی ہوئی ہے اور بعض جگہ بڑے بڑے دریا پر پلوں کے اوپر سے بہ گئی ہے اور زیادہ تکلف یہ ہے کہ سمندر کے بیچ سے شروع اس طرح پر ہوئی ہے کہ صدھا جہاز پتھروں سے لدے ہوئے ڈبا دیے گئے اور اس پر اس کی بنیاد قائم ہوئی ہے اور آٹھ سو کوس تک تین گز اونچی اور اس قدر چوڑی ہے کہ چھ سوار پہلو بہ پہلو فراغت سے اس پر گھوڑے دوڑا سکتے ہیں اور سو سو قدم پر دو منزلہ اور سہ منزلہ برج بنے ہوئے ہیں، اور جب تک کہ تاتاریوں نے اپنی دولت کی بنا ختا میں نہیں ڈالی تھی تب تک ہزاروں توپیں ان پر چڑھی رہتی تھیں اور دس لاکھ فوجوں کی تقسیم تمام برجوں میں تھی غرض جب سے قضائے فلکی سے وہی لوگ جن کی یورش کے سبب سے یہ دیوار بنی تھی ختا کے مالک ہوئے تب سے وہاں کی فوج موقوف ہوئی اور برج اور دیوار بے مرمت رہنے لگے، مگر کئی باتیں عجیب و غریب اس دیوار کی ساخت میں ہوئیں کہ ختائیوں کی حکمت اور قدرت اور مستقل مزاجی کی دلیلیں ہیں، چنانچہ اول یہ کہ معماری کے سر انجام اور بڑے بڑے تختے پتھروں کے ان لوگوں نے آدھ آدھ کوس کے بلند پہاڑوں پر پہنچائے جہاں چڑھنے کا کوئی سہارا نہیں معلوم ہوتا، اور کڑارے کی بلندی ایسی ہے کہ آدمی کی چڑھائی نا ممکن نظر آتی ہے۔ اور دوسری بات تعجب انگیز ہے کہ سمندر میں جہاں تھاہ گم اور جوش و خروش بحر ذخار کا زیادہ ہے وہاں کس طرح سے نیو ڈالی گئی کہ دو ہزار برس سے ھلی نہیں، باوجودیکہ ختا کے سمندر میں ایسا طوفان دس بیس دفعہ ہر سال میں آتا ہے کہ صدھا جہاز اور تخمینۃ بارہ چودہ ہزار آدمی سالانہ ان ہی طوفانوں میں ہلاک ہوتے ہیں اور زور و شور ہوا کا ایسا ہوتا ہے کہ ایک انگریز نا خدا بہت تجربہ کار اور عقلمند کا بیان اس طور پر ہے کہ اگر یہ ممکن ہوتا کہ ایک ہی جہاز کی گلئی پر دس ہزار قرنا اور دس ہزار نقارے دفعۃ بجائے جاتے تو اسی جہاز کی پتوار پر سوا طوفان کے غل اور شور کے ان قرناؤں کی آواز کوئی شخص نہیں سن سکتا۔ الغرض جس سمندر میں ہر سال دس بیس مرتبہ یہ قیامت برپا ہو اس میں اس دیوار کا قیام عجائبات سے ہے تیسری بات یہ ہے کہ باوصفیکہ آدھی خلقت سے زیادہ اس کی تیاری میں مطابق فرمان کے ہر وقت حاضر رہتی تھی، لیکن پانچ برس کے قلیل عرصہ میں اس دیوار کا تمام ہونا تعجبات سے ہے، کیونکہ ایک انگریز سیاح نے حساب کیا تو دیکھا کہ اس دیوار کے فقط برجوں کی ساخت میں اس قدر اسباب معماری کا صرف ہوا ہے کہ انگلستان کی ہر طرح کی عمارتوں میں جو خرچ ہوا ہے شاید اس کے مقابلے میں بہت کم نکلے گا اور منصفی شرط ہے کہ تمام دیوار میں کس قدر اسباب صرف ہوا ہو گا اور چوتھی بات حیرت افزا یہ ہے کہ جس ناکے پر یہ کھینچی ہے وہاں سے منزلوں تک نہ بستی نہ انسان کی نشانی تھی اور آٹھ سو کوس تک فقط صحرا اور کوہستان اور جنگل تھا اور وہاں پر اس کارخانے کے لیے لازم ہوا ہو گا کہ سینکڑوں کوس سے مزدوروں اور کاریگروں کے لیے رسد اور دیوار کے واسطے سر انجام آوے اور اس وجہ سے مشکلیں دہ گئی ہوئی ہوں گی، لیکن ختائیوں کی حکمت اور استقلال اور ثابت قدمی سب موانع پر غالب ہوئی اور ایک نشانی ایسی رہ گئی ہے کہ روئے زمین پر کوئی یادگار انسان کی اولو العزمی کی اس کے مقابلے میں نہیں ہے، بجز اس نہر بزرگ کے جو ختا میں تین سو بیس کوس تک بنائی گئی ہے اور جس کے لیے قبلا خاں چنگیز کے پوتے کی عص اور ختائیوں کے علم اور ثابت قدمی پر لاکھ لاکھ درود بھیجنا متقضائے انصاف ہے انتہٰی یہ بات کچھ کم تعجب کی نہیں ہے کہ سکندر کی نسبت بھی کہا گیا ہے کہ جو اس کا باپ مشہور تھا وہ اس کا بیٹا نہ تھا، اسی طرح چی وانگ ٹی کی نسبت بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے مشہور باپ کا بیٹا نہ تھا۔ سکندر کی نسبت بھی کہا گیا ہے کہ اس نے آب حیات کی تلاش کی تھی اور چی وانگ ٹی کی نسبت بھی آب حیات کا دھوندنا مذکور ہوا ہے اور اسی لیے شبہ ہوتا ہے کہ چی وانگ ٹی کے حالات کو سکندر کے حالات میں ملا دیا ہے۔ چین ایسا ملک تھا کہ اگلے زمانے میں بہت کم اس کی تاریخ معلوم تھی اور ظاہرا یہی سبب ہوا ہے کہ مورخوں اور مفسروں کو سد کا مقام بتانے اور اس کے بننے کے حالات بیان کرنے میں دھوکا پڑا ہے فقط۔ ٭٭٭٭٭٭ عرب کے بتوں کے نام اور ان کے حالات (تہذیب الاخلاق جلد دوم نمبر12(دور سوم) بابت یکم رمضان1313ھ) کتابوں میں تلاش کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ عرب میں بیالیس بت تھے کچھ عجب نہیں کہ اس سے زائد ہوں، مگر کتابوں میں اسی قدر نام ملے ہیں منجملہ ان کے آٹھ بت وہ ہیں جن کا نام قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ ود، سواع، یغوث، یعقو، نسر، لات، منات، عزی علاوہ ان کے چونتیس اور بت ہیں جو لغت کی کتابوں اور دیگر کتابوں سے پائے جاتے ہیں۔ ذوالکلب، ھبل، اساف (مجاور الریح) نائلہ (معطم الطیر) سعد، کثری، تیم، ذوالشری، باجر، جہار، اوال، محرق، سمیر، عمیانس، فلس، رضا، ذوالکفین، بجہ، جریش، جلد، شارق، عائم، اقیصر، کسعہ، مدان، عوف، مناف، یالیل، جبہہ، ابراطالائ، خلصہ، شمس، ریام، فراض قرآن مجید میں جو پانچ نام ہیں یعنی ود، سواع، یغوث، یعوق، نسر، ان کی نسبت مختلف اقوال کتابوں میں لکھتے ہیں بعضے کہتے ہیں کہ قابیل ابن آدم کی اولاد کے یہ نام ہیں جن کے مرنے کے بعد ان کے بت بنائے گئے تھے۔بعض کہتے ہیں کہ قوم نوح میں سے چند نیک آدمی تھے جن کے یہ بت بنائے گئے بعض کہتے ہیں کہ ادریس کے پانچ بیٹے تھے جن کے یہ بت ہیں ان اقوال پر دو وجہ سے اعتبار نہیں ہو سکتا۔ اول اس لیے کہ س بات کی کوئی قابل طمانیت سند موجود نہیں ہے کہ قابیل یا ادریس کی اولاد کے یہ نام تھے اور نہ اس کا ثبوت ہے کہ قوم نوح میں سے ان ناموں کے چند آدمی مشہور تھے۔ دوسرے یہ کہ ان بتوں کی صورتیں جو کتابوں میں بیان کی ہیں، بعض تو ان میں سے مرد اور عورت کی صورت ہیں اور بعض جانوروں کی صورت ہیں۔ اگر انسانوں کے بت بنائے گئے ہوتے تو سب انسانوں کی صورت کے ہوتے۔ اگرچہ بخاری میں یہ روایت ہے کہ یہ قوم نوح میں چند نیک آدمیوں کے نام ہیں جن کے بت بنائے گئے ہیں، مگر اس حدیث کے سلسلہ رواۃ میں ابن جریج، عطا اور ابن عباس راوی ہیں علامہ ابن حجر عسقلائی لکھتے ہیں کہ عطا کی ملاقات ابن عباس سے کبھی نہیں ہوئی اور ابن جریج نے بھی عطا سے یہ حدیث نہیں سنی اور یہ بھی لکھا ہے کہ ابن جریج جو حدیث عطا سے روایت کرتاہے وہ ضعیف ہوتی ہے۔ ایک عام خیال یہ ہے اور ہمارے نزدیک صحیح بھی ہے کہ بت پرست یہ سمجھتے تھے کہ خدائے تعالیٰ نے کواکب کو مدبر بنایا ہے اور ان میں روحانیت بھی مانتے تھے اور اسی لیے ان کی پرستش کرتے تھے کہ خدا سے ان کے سفارشی ہوں اور ارواح طیبہ اور ارواح خبیثہ کو موثر امور کائنات سمجھتے تھے اور اسی لیے ان کی پرستش کرتے تھے، تاکہ وہ مہربان ہوں اور ان کی مضرت سے محفوظ رہیں اور اپنے خیالات کے موافق ان کی مورتیں بناتے تھے اور نیک اور خدا رسیدہ آدمیوں کی بھی مورتیں بنا کر ان کی پرستش کرتے تھے اور ان کی ارواح سے اپنی حاجات مانگتے تھے جیسے کہ اس زمانے میں اولیاء اللہ کے مزارات متبرکہ سے حاجات مانگی اور منتیں مانی جاتی ہیں۔ پس اس خیال سے مختلف صورتوں کے بت، بت پرستوں نے بنائے تھے جن کی وہ پرستش کرتے تھے۔ 1دیکھو فتح الباری جلد ہشتم صفحہ511 عراق عرب جو قدیم ملک کلدائیوں کا تھا وہاں بت پرستی کثرت سے رائج تھی پس ہم کو اس بات کی تحقیق کرنی منظور ہے کہ عرب میں جو بت تھے ان میں سے کون سے بت خاص عرب کے تھے اور کون سے بت ایسے تھے جو کلدانی قوموں میں سے عرب میں آ گئے تھے ان امور کی تحقیق قابل اطمینان نہایت مشکل ہے، کیونکہ ہمارے ہاں کی عربی کتابوں میں ان تمام امور کا قابل اطمینان ملنا محالات سے ہے، مگر جہاں تک ہم سے ممکن ہو گا ہم اس کی تحقیق کریں گے سب سے پہلے ہم ’’ نسر‘‘ جو عرب کا مشہور بت تھا اس کی نسبت لکھتے ہیں۔ یہ بات پہلے سمجھ لینی چاہیے کہ برجوں کے یا کواکب کے مجموعوں کی جو صورتیں علمائے ہیئت نے قرار دی ہیں در حقیقت آسمانوں میں وہ صورتیں بنی ہوئی نہیں ہیں، بلکہ ایک ایک مجموعہ ستاروں کا اس پر واقع ہوا ہے کہ اگر اس مجموعے کے اطراف کے ستاروں پر خط فرض کیا جاوے تو ایک صورت پیدا ہوتی ہے اور جو صورت کہ اس طرح پر پیدا ہوتی ہے ستاروں کے اس مجموعہ کا اسی صورت پر نام رکھ دیتے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ جب ایک جگہ ستاروں کا مجموعہ ہے اور ان میں سے ہم کسی ایک ستارے کا نشان دینا چاہیں تو اس کا نشان دینا نہایت ہی مشکل بلکہ غیر ممکن ہو جاتا ہے، لیکن جب ہم نے ایک صورت فرض کر لی مثلاً انسان کی یا جانور کی، تو جو ستارہ اس مقام پر آیا ہے جہاں کہ ہم نے اس صورت کا سر فرض کیا ہے اور اس ستارے کا ہم نشان دینا چاہتے ہیں تو ہم بخوبی بتا سکتے ہیں کہ وہ ستارہ اس صورت کے سر پر ہے۔اسی طرح جو ستارہ پاؤں پر ہے اس کو بخوبی بتا سکتے ہیں کہ وہ ستارہ اس صورت کے پاؤں کے مقام پر واقع ہے پس یہ صورتیں واسطے آسانی نشان دینے ستاروں کے فرض کر لی گئی ہیں، نہ یہ کہ در حقیقت آسمان پر یہ صورتیں ہیں۔ نسر آسمان کے شمالی حصے میں ایک مجموعہ ستاروں کا واقع ہے جس پر بطور مذکورہ بالا خطوط فرض کرنے سے ایک اڑتے ہوئے جانور کی صورت بن جاتی ہے جس کا نام نسر طائر قرار دیا گیا ہے اور چند ستارے اور ہیں جن پر خط فرض کرنے سے ایک جانور کی شکل بن جاتی ہے جو اوپر سے کندھے تول کر نیچے اترتا ہو اور مثلث کی مانند دکھائی دے، اس کا نام نسر واقع رکھا ہے۔ نسر کہتے ہیں کر گس یا عقاب کو جس کو ہندی میں گد اور انگریزی میں (Eagle) کہتے ہیں نسر ارض حمیر میں قبیلہ ذوالکلاع کا بت تھا اور بنو جشم ظہور اسلام تک اس کی پرستش کرتے رہے عربی کی کسی کتاب میں بجز اس کے کہ یہ بت گد کی صورت کا تھا اور کچھ زیادہ تفصیل نہیں ہے 1دیکھو فتح الباری جلد ہشتم صفحہ513 عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ طوفان نوح میں یہ پانچوں بت جن کا ذکر سورہ نوح میں ہے زمین کی تہہ میں دب گئے تھے، عربوں نے سالہا سال کے بعد ان کو زمین سے نکال کر اپنا معبود ٹھہرایا تھا، مگر مشکل یہ ہے کہ قرآن مجید سے یا توریت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ امت نوح نے قبل زمانہ طوفان مجسم بت بنا کر ان کی پرستش کی ہو امت نوح بے شک مشرک تھی اور وہ لوگ غیر خدا کی پرستش کرتے تھے، مگر یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ انہوں نے روحانیت یا کواکب یا اور کسی کی صورتوں کے بت بنا کر ان کی پرستش کی ہو۔ جناب مولوی عنایت رسول صاحب نے اپنے خط میں جو یکم رجب1313ھ کے تہذیب الاخلاق میں چھپا ہے ارقام فرمایا ہے کہ روحانیت، خواہ ملائکہ ہوں یا ارواح کواکب یا اور کوئی ارواح، ان کی پرستش بھی بت پرستی میں داخل ہے یہ بات بالکل درست ہے اور قوم نوح میں بلا شبہ غیر خدا کی پرستش جاری تھی، مگر ہم کو اس بات کی تلاش ہے کہ قوم نوح نے قبل طوفان مجسم مورتیں بنائی تھیں اور ان مجسم مورتوں کی پرستش کرتے تھے اس بات کا ٹھیک پتا اور صاف صاف ثبوت ہم کو نہیں ملتا ہے۔ حال میں کالڈیا اور نینوا کے میدان اور ٹیلے کھودے گئے ہیں اور ان میں سے بہت سے قدیم بت نکلے ہیں اور ایک بہت نسر کا بھی نکلا ہے اگر ہم توریت کے مندرجہ حساب کو صحیح سمجھیں تو حضرت نوح سنہ 1052دنیوی میں پیدا ہوئے تھے اور 1257دنیوی میں طوفان ہوا تھا اور بابل کی تعمیر سنہ 1770دنیوی میں ہوئی، یعنی113برس بعد طوفان کے اور نینوا کی تعمیر سنہ 1786دنیوی میں ہوئی یعنی 130برس بعد طوفان کے پس جو بت کہ وہاں بنائے گئے تھے وہ غالباً اسی زمانے میں یا اس کے بعد بنائے گئے ہوں گے جب وہ شہر تعمیر ہوئے تھے اور اس لیے جو بت کہ وہاں سے نکلے ہیں ان کی نسبت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ طوفان سے پہلے کے ہیں۔ یہ بت جو کالڈیا میں سے نکلا ہے اس کی کیفیت ہم اس آرٹیکل میں چھاپتے ہیں، اس کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بدن، ہاتھ، پاؤں، قدوقامت سب انسان کا سا ہے، صرف چہرہ گد کا ہے اور دو پیر ہیں اس کے ایک ہاتھ میں مقدس درخت کی تصویر ہے، یعنی اس درخت کی جو بہشت میں تھا اور جس کا پھل کھانے سے آدم کو منع کیا گیا تھا اور اس درخت کے دونوں طرف دو فرشتے ہیں جو اس کی نگہبانی یا پوجا کر رہے ہیں اور دوسرے ہاتھ میں ایک پھل ہے غالباً اسی درخت کا نہایت قدیم زمانے کے بت اکثر اسی طرح کے ہوتے تھے ان میں کچھ اعضاء انسان کے اور کچھ حیوان کے بنائے جاتے تھے اب یہ نہیں معلوم ہو سکتا کہ عرب میں جونسر کا بت تھا اس کی یہی شکل تھی یا اور کسی طرح کی چونکہ عرب میں کالڈیا سے بت لائے گئے تھے اس لیے سمجھا جا سکتا ہے کہ عرب میں نسر کا بت اسی شکل ک اتھا۔ کالڈیا میں یہ بت معلوم نہیں کس نام سے موسوم تھا، مگر کتاب دوم سلاطین اور کتاب اشعیا میں نسروک اس کا نام آیا ہے۔ اس کا ایک مندر تھا اور سنحیریب بادشاہ اشور کو اس بت کی پوجا کرتے وقت اس کے بیٹے نے مار ڈالا تھا، چنانچہ کتاب دوم سلاطین میں یہ عبارت مندرج ہے: ’’ پس سنحیریب ملک اشور رحلت نمودہ و روانہ شدہ برگشت و در نیونہ ساکن شد و واقع شد ہنگامیکہ در خانہ خدائے خود نسروک سجدہ میکرد پسرائش اور ملک و شراصر اور رابشمشیرہ زدند و بولایت اراراط فرار کردند و پسرش ایسرحدون یجایش ملک شد‘‘ (کتاب دوم سلاطین باب19ورس 36و37و کتاب اشعیا باب37ورس37و 38) ود یہ بھی ایک بت عرب میں تھا جس کی قبیلہ بنو کلاب پرستش کرتا تھا اور یہ بت دومۃ الجندل میں تھا عربی لغتوں میں واقدی کی روایت کی بنا پر صرف اس قدر لکھا ہے کہ یہ بت مرد کی صورت پر تھا اور کچھ تشریح نہیں لکھی۔ قرآن مجید میں وہ منصرف آیا ہے اور اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ عربی زبان کا لفظ ہے، کیونکہ اگر یہ عجمی لفظ ہوتا تو عجمہ اور علمیت پائے جانے کے سبب سے غیر منصرف ہوتا۔ ود کے معنی دوستی کے ہیں، مگر یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ کس خیال پر اس بات کا نام ود رکھا گیا، اور یہ بت ان پانچوں بتوں میں سے ہے جن کا ذکر سورۃ نوح میں آیا ہے اور جن کی نسبت بیان ہوا ہے کہ وہ طوفان نوح میں زمین کی تہ میں دب گئے تھے، عربوں نے کھود کر نکالا اور اپنا معبود ٹھہرایا۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ کوئی کافی ثبوت اس بات کا نہیں ہے کہ طوفان سے پہلے مجسم مورتیں بتوں کی بنا کر پوجی گئی تھیں، مگر کالڈیا میں جب بعد طوفان کے وہ آباد ہوا، بت پرستی کا بہت رواج ہو گیا تھا، کچھ عجب نہیں کہ عرب میں وہاں سے کوئی بت لایا گیا ہو اور اس کی پرستش ہونے لگی ہو کالڈی زبان میں (اد) سورج کو کہتے تھے، لیکن اس بات کا کوئی قرینہ نہیں ہے کہ ود وہی لفظ ہے جو کالڈیا میں (اد) کہلاتا تھا، مگر کالڈیا میں (اد) یعنی سورج کا جو مندر تھا اور زمین کھودنے سے وہ برآمد اور جو تصویر اس مقام سے نکلی ہے وہ وہاں کے عجائب خانہ میں رکھی ہوئی ہے جس تختی پر یہ تصویر ملی ہے اس پر لکھا ہے کہ یہ ’’ شماش‘‘ یعنی سورج کے خدا کی تصویر ہے اس تصویر کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص جس کی صورت مرد کی ہے تخت پر بیٹھا ہے جو سورج کا خدا ہے۔ اس کے آگے آسمانی روحیں سورج کو ڈوریوں میں باندھ کر لٹکا رہی ہیں اور لوگ اس کی پرستش کر رہے ہیں۔ اس شخص کے سر پر تین دائرے بنے ہوئے ہیں جو چاند، سورج اور اشتر (زھرہ) کے نشان ہیں۔ آسمان پر ستاروں کے متعدد مجموعے ہیں جن کے اطراف پر خط کھینچنے سے مرد کی شکل پیدا ہوتی ہے ان مجموعوں کے نام یہ ہیں: قیقاؤس، عوا جاثی، برساؤس، ممسک الاعنہ، حوا، جبار وغیرہ یہ تحقیق نہیں ہو سکتا کہ ’’ ود‘‘ جس کی صورت واقدی کی روایت کی بنا ء پر مرد کی بیان ہوئی ہے ان مجموعوں میں سے کس مجموعے کی طرف منسوب ہے، لیکن اس میں شبہ نہیں ہے کہ اس کی پرستش کسی مجموعہ کواکب کی پرستش ہو گی، کیونکہ بت پرست قومیں جو عرب یا کالڈیا میں بستی تھیں ستاروں میں روحانیت کو تسلیم کرتی تھیں اور ان کو مدبر فی الکائنات خیال کر کے انہی کی مجسم مورتیں بنا کر پوجتی تھیں پس ود کی صورت کسی ایسے ہی مجموعہ کواکب پر بنائی گئی ہو گی جس کے اطراف پر خط کھینچنے سے مرد کی شکل پیدا ہو جاتی ہے۔ سواع یہ بھی ان پانچ بتوں میں سے ایک تھا جن کا ذکر سورہ نوح میں آیا ہے واقدی کی روایت میں کوئی تشریح اس بت کی سوائے اس کے نہیں ہے کہ وہ عورت کی شکل پر بنایا گیا تھا۔ بخاری کی حدیث میں جو ابن عباس سے مروی ہے، مذکور ہے کہ یہ بت قبیلہ بنو ھذیل کا تھا علامہ ابن حجر نے ابن اسحاق کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ یہ بات مقام رھاط میں تھا جو ملک حجاز میں سمندر کے کنارے پر واقع ہے اور احمد بن واضح کاتب عباسی نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے کہ اس بت کو قبیلہ کنانہ کے لوگ پوجتے تھے، مگر اس کا مقام بیان نہیں کیا۔ بعض نے لکھا ہے کہ یہ بت ذوالکلاع الحمیری کی اولاد کے پاس تھا، پھر ان سے بنو حمیر کے سب قبائل کے پاس پہنچا۔ محیط المحیط میں ہے کہ اس بت کی بنو ھمدان پرستش کرتے تھے۔ واقدی کی روایت کو اگر تسلیم کیا جائے تو کچھ عجب نہیں ہے کہ یہ بت بھی کسی ایسے مجموعہ کواکب کے خیال سے بتایا گیا ہو گا جس کے اطراف پر خط کھینچنے سے عورت کی شکل پیدا ہوتی ہے ذات الکرسی، مراۃ المسلسلہ اور سنبلہ تین ایسے ہی مجموعے ستاروں کے ہیں جن کی شکل علمائے ہیئت نے عورت کے مشابہ بنائی ہے ذات الکرسی آسمان کے نصف کرہ شمالی میں واقع ہے اور اس میں تیرہ ستارے ہیں اس مجموعے کے اطراف پر خطوط کھینچنے سے ایک عورت کی شکل بن جاتی ہے جو کرسی پر بیٹھی ہوئی ہے اور مراۃ المسلمہ بھی ایک مجموعہ ستاروں کا نصف کرہ شمالی میں ہے جس میں تیئس ستارے ہیں اور اس کی شکل بھی عورت کی ہے سنبلہ جس کو عذرا بھی کہتے ہیں، منطقۃ البروج کا ایک برج ہے، جس میں چھبیس ستارے داخل ہیں اور ا سکی شکل بھی عورت کی ہے جو خوشہ گندم ہاتھ میں لئے ہوئے ہے پس غالباً سواع کی شکل انہی مجموعوں میں سے کسی ایک کی پرستش کے خیال سے بنائی گئی ہو گی۔ یغوث بخاری کی روایت سے جو ابن عباس سے مروی ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بت بنو مراد کا تھا، پھر بنو غطیف اس کی پرستش کرنے لگے اور اسی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بت مقام جرف میں تھا جو شہر سبا کے قریب واقع ہے سبا کے قریب ہونے سے غالباً یہ مراد ہے کہ جرف یمن میں واقع ہے۔ یاقوت حموی کی کتاب معجم البلدان میں لکھا ہے کہ محدثین کے نزدیک جرف یمن میں ایک مقام ہے اور ایک محدث کا نام بھی بتایا ہے جو اسی مقام کی طرف منسوب ہونے سے جرفی کہلاتا ہے، مگر بخاری کے حاشیے پر جرف کی جگہ ’’ جوف‘‘ بھی ایک نسخہ میں لکھا ہے اور غالباً یہ صحیح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ جوف یمن میں ایک وادی ہے اور غالباً یہ بت اسی وادی میں تھا عینی شرح بخاری نے اسی نسخے کو اختیار کیا ہے دو نسخے لفظ جرف پر اور لکھے ہیں ان میں سے ایک نسخہ ’’ جون‘‘ ہے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ جون ایک پہاڑ ہے اور بعض کے نزدیک یمامہ میں ایک قلعہ ہے جس کو طسم و جدیس نے جو عرب کے قدیم قبیلے تھے بنایا تھا، لیکن اگر الفاظ ’’ عند سبا‘‘ کو جو روایت بخاری میں ہیں تسلیم کیا جائے تو اس نسخے پر کچھ بھی اعتبار نہیں رہتا ایک نسخہ ’’ حوف‘‘ ہے اور غالباً یہ وہی لفظ جوف ہے جس کو بعض نے حاثے حطی سے بیان کیا ہے چنانچہ معجم البلدان میں لکھا ہے کہ جوف مراد اور جوف ھمدان دو مقام یمن میں ہیں جن کو بعض نے حاثے حطی سے روایت کیا ہے۔ محیط المحیط اور صناجۃ العرب میں لکھا ہے کہ یہ بت قبیلہ مذحج کا اور یمن کے کئی قبیلوں کا تھا اور اس کا مقام وہی بیان کیا ہے جو قبیلہ مذحج کے رہنے کا مقام ہے اور بعض نے تفسیروں میں لکھا ہے کہ بنو طے نے یغوث کو اپنی بستیوں میں رکھا اور اس کی پرستش کرتے تھے پھر بنو مراد ان سے چھین کر لے گئے بنو ناحیہ نے چاہا کہ ان سے بت چھین لیں، مگر وہ اس خوف سے بت کو لے کر بھاگے اور بنو حرث کے ملک میں آ رہے جہاں اس بت کی عرصہ دراز تک پرستش ہوتی رہی۔ واقدی کی روایت میں جو فتح الباری میں درج ہے بیان ہوا ہے کہ یہ بت شیر کی شکل کا تھا منطقۃ البروج میں ایک ستاروں کا مجموعہ ہے جس کو برج اسد کہتے ہیں اور جس میں ستائیس ستارے داخل ہیں اس مجموعے کے اطراف میں خط ملانے سے شیر کی شکل پیدا ہوتی ہے پس کچھ عجب نہیں ہے کہ یغوث کی شکل اسی مجموعے کی پرستش کے خیال پر بنائی گئی ہو۔ یعوق بخاری کی روایت میں مذکور ہے کہ یعوق بنو ھمدان کا بت تھا اور علامہ ابن حجر نے لکھا ہے کہ بنو مراد بھی اس کی پرستش کرتے تھے، مگر اس بات کا کوئی مقام نہیں کیا ہے غالباً جن شہروں میں بنو ھمدان اور بنو مراد بستے تھے انہی میں یہ بت ہو گا اور بعض تفسیروں میں لکھا ہے کہ یہ بت پہلے بنو کہان کا تھا، پھر بنو ھمدان کے پاس وراثت میں پہنچا۔ واقدی کی روایت میں اس بت کی شکل گھوڑے کی بیان ہوئی ہے، آسمان کے نصف کرہ شمالی میں ستاروں کا ایک مجموعہ ہے جس کا فرس اعظم کہتے ہیں اور اس میں بیس سارے داخل ہیں جن کی اطراف پر خط کھینچنے سے ناقص گھوڑے کی شکل پیدا ہوتی ہے جس کے پچھلے دونوں پاؤں اور کفل اور دم نہیں ہے غالباً انہی ستاروں کی پرستش کے خیال سے یعوق کے گھوڑے کی شکل پر بنایا ہو گا۔ تاریخ مسعودی میں لکھا ہے کہ بت پرستی سے پہلے 1دیکھو تاریخ مسعودی مطبوعہ پیرس جلد 4صفحہ43و 44 ستارہ پرستی شروع ہوئی تھی اور چونکہ ستارے کبھی طلوع ہوتے ہیں اور کبھی غروب ہو جاتے ہیں، اس لیے مختلف ستاروں کی مختلف شکلیں بنا کر ان کی پرستش کرنے لگے اور اس طرح بت پرستی کا آغاز ہوا اس کے بعد رفتہ رفتہ ستارہ پرستی موقوف ہو کر اس کی جگہ بت پرستی قائم ہو گئی پس کچھ عجب نہیں ہے کہ ان مذکورہ بالا پانچ ستاروں کی پرستش اسی طرح شروع ہوئی ہو اور حقیقت میں ان کی شکلیں آسمانی کواکب کی صورتوں پر بنائی گئی ہوں جیسا کہ واقدی کی روایت میں بیان ہوا ہے۔ تفسیر لباب التاویل میں لکھا ہے کہ یغوث اور یعوق یا تو اس لیے غیر منصرف آئے ہیں کہ یہ عجمی نام ہیں اور ان میں علمیت اور عجمہ دو سبب غیر منصرف ہونے کے موجود ہیں یا یہ دونوں لفظ عربی ہیں اور علمیت اور وزن فعل دو سبب غیر منصرف ہونے کے ان میں موجود ہیں ہمارے نزدیک ان بتوں کا غیر ملکوں یا غیر قوموں سے منتقل ہو کر عرب میں آنا پایہ تحقیق کو نہیں پہنچا ہے اور جہاں تک ثبوت بہم پہنچا ہے وہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بت ایام جاہلیت میں عرب میں موجود تھے اور عرب کے مختلف قبائل ان کی پرستش کرتے تھے اور اسی لیے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یغوث اور یعوق کے سوا باقی سب نام جو منصرف ہیں عربی زبان کے الفاظ ہیں اور یغوث اور یعوق اس لیے غیر منصرف آئے ہیں کہ ان میں غیر منصرف ہونے کے دو سبب موجود ہیں، وزن فعل اور علمیت نہ اس لیے کہ ان میں عجمہ اور علمیت دو سبب منصرف نہ ہونے کے پائے جاتے ہیں، کیونکہ ہمارے نزدیک یہ نام بھی عربی زبان کے ہیں پس در حقیقت یہ تمام بت جن کا ذکر اوپر ہوا اور جو سورۃ نوح میں مذکور ہیں عرب کے بت ہیں اور اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ وہ حضرت نوح کے زمانے میں طوفان سے پیشتر کالڈیا اور اطراف کالڈیا میں پوجے جاتے تھے، کیونکہ عبری اور کالڈی زبان کا لغت دیکھنے سے اور جو بت کالڈیا کے کھنڈرات کھود کر نکالے گئے ہیں ان کے نام اور صورت ملانے سے یقین ہو جاتا ہے کہ طوفان سے پیشتر کوئی بت ان بتوں کا ہم نام اور ہم شکل کالڈیا میں موجود اور معبور نہ تھا۔ پس تمام مفسرین نے جو آیت ’’ وقالو لا تذرن آلھتکم ولا تذرن ودا ولا سواعا ولا یغوث و یعوق و نسرا‘‘ میں قالو کی ضمیر کا مرجع قوم نوح کے لوگوں کو قرار دیا ہے، ہم اس سے اختلاف کرتے ہیں ہمارے نزدیک اس آیت کو نوح کے قصے سے جو اس سے پہلے اور بعد بیان ہوا ہے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ آیت بطور جملہ معترضہ کے ہے اور قالوا کی ضمیر کا مرجع، یعنی یہ بات کہنے والے کہ تم اپنے خداؤں کو نہ چھوڑنا نہ ود کو نہ سواع کو نہ یغوث کو اور یعوق اور نسر کو، خود اہل عرب ہیں جو آنحضرت ؐ کے زمانے میں ان بتوں کی عبادت کرتے تھے، اور جب سورہ نوح میں قوم نوح کے کفر و ضلالت کا ذکر ہوا کہ شرک سے ان کو منع کیا گیا تھا اور جو وبال ان پر آیا تھا اس کا ذکر بھی ہوا تو کفار عرب آپس میں کہنے لگے کہ ہم اپنے بتوں کو نہیں چھوڑیں گے پس یہ آیت سورہ نوح میں اس لیے بطور جملہ معترضہ کے اسی طرح آئی ہے جس طرح سورہ ھود میں آیت ’’ ام یقولون افتراء قل ان افتریتہ فعلی اجرامی وانا بری مما تجرمون‘‘ بطور جملہ معترضہ کے قوم نوح کے قصے کے درمیان واقع ہوئی ہے اور مفسرین نے بھی مقاتل کی روایت پر اس کو جملہ معترضہ ٹھہرایا ہے اور لکھا ہے کہ اس آیت کے مضمون کو اس قصے سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کے درمیان یہ واقع ہوئی ہے۔ مفسرین نے یقولون کی ضمیر کا مرجع قریش کو اور افتراء کی ایک ضمیر کا مرجع آنحضرتؐ کو اور دوسری ضمیر کا مرجع قرآن شریف کو قرار دیا ہے اور اسی ترکیب کے موافق شاہ ولی اللہ صاحب نے اس آیا کا ترجمہ کیا ہے کہ یا محمد ؐ آیا می گویند بر بستہ است قرآن رابگو اگر بر بستہ ام پس بر منست گناہ من و من بے تعلقم از گناہ کردن شما یعنی اے محمد! کیا قریش کہتے ہیں کہ محمد نے قرآن بنا لیا ہے، تم کہہ دو کہ اگر میں نے بنا لیا ہے تو میرا گناہ مجھ پر ہے اور میں تمہارے گناہوں سے بے تعلق ہوں۔ امام فخر الدین رازی نے خود اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ یہ بت قوم نوح کے تھے اور ان سے منتقل ہو کر عرب تک پہنچے، چنانچہ انہوں نے لکھا ہے:ـ وفیہ اشکال لان الدنیا قد خربت فی زمان الطوفان فکیف بقیت تلک الاصنام و کیف التقلت الی العرب ولا یمکن ان یقال ان نوحا علیہ السلام وضعھا فی السفینۃ وامسکھا لانہ علیہ السلام انما جاء لنقیھا و کسرھا فکیف یمکن ان یقال انہ وضعھا فی السفینۃ سعیا منہ فی حفظھا (تفسیر کبیر جلد2صفحہ325-326) (ترجمہ)’’ اس آیت میں ایک مشکل ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا طوفان کے وقت برباد ہو گئی تھی، پھر یہ بت کس طرح قائم رہے اور منتقل ہو کر عرب تک کیونکر پہنچے یہ کہنا تو ممکن نہیں ہے کہ نوح علیہ السلام نے ان بتوں کو اٹھا کر کشتی میں رکھ لیا ہو گا، کیونکہ وہ تو بتوں کو مٹانے اور توڑنے کو آئے تھے، یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ان بتوں کی حفاظت میں کوشش کی اور اس لیے ان کو اپنی کشتی میں رکھ لیا تھا۔‘‘ امام صاحب نے اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں دیا اور جواب دینا اس زمانے میں ممکن بھی نہ تھا، کیونکہ نہ اس وقت تک کالڈیا کے بت زمین کھود کر نکالے گئے تھے نہ ان کی زبان، مذہب، تاریخ اور علوم سے کوئی اس وقت تک آگاہ تھا۔ پس کس طرح اس بات کی تحقیق ممکن تھی کہ یہ بت حقیقت میں قوم نوح کے بت تھے جو طوفان سے پہلے کالڈیا میں پوجے جاتے تھے اور جو منتقل ہو کر اہل عرب کے پاس پہنچے یا یہ بت خود عرب والوں کے بت تھے جو غیر ملک اور غیر قوم سے منتقل ہو کر عرب میں نہیں آئے تھے۔ ٭٭٭٭٭٭٭ عقیدہ آمد مہدی آخر الزمان کا واقعاتی اور تاریخی پہلو (تہذیب الاخلاق جلد ہفتم بابت شعبان 1294ھ) ان غلط قصوں میں سے جو مسلمانوں کے ہاں مشہور ہیں ایک قصہ امام مہدی آخر الزمان کے پیدا ہونے کا ہے اس قصے کی بہت سی حدیثیں کتب احادیث میں بھی مذکور ہیں، مگر کچھ شبہ نہیں کہ سب جھوٹی اور مصنوعی ہیں جب کہ ایک محقق کیا با اعتبار واقعات تاریخی کے اور کیا باعتبار ان کے راویوں کے ان پر غور کرتا ہے تو ان کا غلط اور نا معتبر اور وضعی ہونا آفتاب کی طرح روشن ہو جاتا ہے اور یہ بات بھی کھل جاتی ہے کہ ان حدیثوں کے بنانے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی۔ چنانچہ ہم ان حدیثوں کو اولاً مع تاریخی واقعات کے بیان کرتے ہیں ار ان کا وضعی ہونا دکھلاتے ہیں اور پھر محدثین کے طریقے پر ان کے راویوں کی نسبت بحث کریں گے اور راویوں کا نا معتبر ہونا دکھلاویں گے جس سے ثابت ہو جاوے گا کہ مہدی آخر الزمان کی بشارت کوئی اصلی بشارت نہ تھی، بلکہ اس زمانے کے لوگوں کی صرف ایک حکمت عملی اور خلافت ہاتھ آ جانے کی تدبیروں میں سے ایک تدبیر تھی اور ان سے کسی ایسے مہدی کی جو مسلمانوں نے تصور کر رکھا ہے اور جس کا قیامت کے قریب ہونا خیال کیا ہے بشارت مقصود نہیں تھی۔ جب کہ خلفائے اربع کی خلافت ختم ہو گئی اور حضرت امام حسن نے بھی خلع خلافت کیا اور مستقل خلافت خاندان بنی امیہ میں چلی گئی تو بنی ہاشم اور بنی فاطمہ کے دل سے پھر خلافت حاصل کرنے کا جوش کبھی کم نہیں ہوا۔ اسی حالت میں واقعہ کربلا واقع ہوا جس سے بہت سے لوگوں کا دل بنی امیہ کی طرف سے متنفر اور بنی فاطمہ کی طرف مائل ہوا۔ مگر جیسا کہ بنی فاطمہ خلافت کا اپنے تئیں مستحق سمجھتے تھے بنی عباس بھی کچھ کم خواستگار خلافت کے نہ تھے، کیونکہ وہ بھی بنی ہاشم تھے اور تمام بنی ہاشم اپنے تئیں آل محمد ؐ، یعنی آنحضرت صلعم کا کنبہ سمجھتے تھے بنی عباس کو یہ بھی یقین تھا کہ بنی فاطمہ سے خلافت کا کام نہیں چلنے کا مگر ہم چلا لیں گے چنانچہ جب بنی عباس خراسان میں اپنی خلافت کی تدبیر کر رہے تھے اس وقت بنی فاطمہ کے دل میں بھی اس کا جوش ہوا تھا کہ تم سے یہ کام نہیں ہونے کا ترجمہ تاریخ طبری میں مندرج ہے کہ آنگاہ (یعنی بزمانہ تحریک خراسان بر خلافت بنی عباس) طمع افتاد بنی ہاشم را اندر خلافت و فضل ابن عبدالرحمان بن عباس بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب بیتے چند گفت و بعبد اللہ بن الحسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما داد و او را تحریص کرد بر طلب ولایت و ابو الحسن گفت کہ با عبداللہ بن الحسن بن علی بن ابی طالب و علی بن عبداللہ بن العباس ھمی رفتیم داؤد بن علی فرا نزدیک عبداللہ بن حسن شد و گفت اگر تو فرمودی پسران خویش را محمد و ابراہیم تا اندر آمدندے فردا و حرب کردندے نیک بودے کہ دولت بنی امیہ اندر شورید نہ بینی کہ خبر ہائے خراسان چگونہ ھمی آید و تباہ شدہ است و عبداللہ بن الحسن گفت ھنوز آں ھنگام نیت کہ ما را باید آمدن عبداللہ بن علی گفت یا ابا محمد شما را بر بنی امیہ ظفر نبا شد ظفر ما را بود و منم کہ ایشاں را بکشم و کار از ایشاں بستانم و ما ذلک علی اللہ بعزیز پس عبداللہ بن الحسن خاموش شد و چیزے نگفت (ورق498صفحہ2) غرض کہ اخیر زمانہ خلفائے بنی امیہ میں جبکہ ان کی خلافت میں کسی قدر ضعف بھی ہو گیا تھا اور ان کے ظلم و تعدی سے اہل حجاز ناراض بھی تھے، بنی عباس اور بنی فاطمہ بہت سی تدبیریں اور ترغیبیں خلافت حاصل کرنے کو کر رہے تھے۔ اس خلفشار میں لوگوں کے چار گروہ ہو گئے ایک گروہ تو خلفائے بنی امیہ کا طرفدار تھا جو مسند خلافت پر جلوہ آرا تھے دوسرا گروہ وہ تھا جو عبداللہ بن زبیر کی خلافت پر مائل تھا جنہوں نے مکہ معظمہ میں دعویٰ خلافت کیا تھا تیسرا گروہ وہ تھا جو بنی عباس میں سے خلیفہ ہونے کی تدبیر میں تھا اور چوتھا وہ تھا جو بنی فاطمہ میں سے خلیفہ ہونے کا طرفدار تھا۔ بنی امیہ والے گروہ کو تو بجز اس کے کہ وہ ان کی خلافت قائم رکھنے میں کوشش کریں اور مخالفوں سے لڑیں اور ان کو قتل و برباد کریں اور کوئی کام نہ تھا، مگر تین فریق جو باقی رہے ان کی تدبیریں البتہ غور کے قابل ہیں، عبداللہ بن زبیر کے طرفداروں کو کچھ زیادہ کارروائی کا موقع نہیں ملا، مگر بنی عباس و بنی فاطمہ کے طرفداروں نے نہایت عاقلانہ تدبیریں اختیار کی تھیں سب سے بڑی تدبیر یہ تھی کہ ان کی طرف سے لوگ دور دور ملکوں میں جاتے تھے اور لوگوں کو بنی امیہ سے بر خلاف اور ان کی خلافت پر مائل کرتے تھے اور سب سے بڑا ذریعہ لوگوں کے برانگیختہ کرنے کا ان وضعی حدیثوں کا پھیلانا اور لوگوں کو سنانا تھا جن سے ان لوگوں کے استحقاق خلافت کو جن کے طرفدار ان حدیثوں کو بناتے تھے، بطور پشین گوئی کے تقویت ملتی تھی وہ ان پشین گوئیوں میں یہ تو کہہ نہیں سکتے تھے کہ کوئی دوسرا پیغمبر ہونے والا ہے جس کی اطاعت سب کو چاہیے، اس لیے انہوں نے لفظ مہدی کا اختیار کیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ایک شخص جو خدا کی طرف سے ہدایت کیا گیا ہے عدل و انصاف کرنے والا پیدا ہو گا جس کی اطاعت سب کو چاہیے اور ان وضعی حدیثوں میں اس مہدی کی ایسی نشانیاں بتاتے تھے جو ان لوگوں پر صادق آتی تھیں جن کا وہ خلیفہ ہونا چاہتے تھے چنانچہ بہ امر ان واقعات کو حدیثوں سے مطابق کرنے سے بخوبی واضع ہو جاتا ہے۔ عبداللہ بن زبیر کا زمانہ بہت نہیں چلا جبکہ 20ہجری میں مطابق280ء کے یزید تخت پر بیٹھا اور واقعہ کربلا بھی ہو چکا تو اہل حجاز اس کی بدکاریوں سے نہایت ناراض تھے عبداللہ بن زبیرؓ نے یزید سے بیعت نہیں کی تھی اور حجاز کے لوگ ان کی طرف مائل تھے پس عبداللہ بن زبیر نے مکے میں اپنے آپ کو خلیفہ کیا اور عراق و حجاز و یمن و بصرے کے لوگوں نے ان کی اطاعت قبول کی یزید نے ان سب ملکوں کو باغی قرار دیا اور مدینہ منورہ کے قتل و غارت کے بعد عبداللہ بن زبیر سے لڑکے کو مکے پر فوج بھیجی وہ مکے میں محصور ہوئے اور لڑائی ہوئی، مگر یزید کے مر جانے کے سبب سے وہ فوج واپس آئی۔ یزید کے بعد معاویہ ابن یزید خلیفہ ہوا، مگر اس نے خلافت چھوڑ دی اور 65ہجری مطابق684 عیسوعی کے عبدالملک بن مروان خلیفہ ہوا اس نے اپنے وزیر حجاج کو مع فوج کثیر عبداللہ بن زبیر سے لڑنے کو مکے پر روانہ کیا عبداللہ پکڑے گئے اور 73ہجری مطابق694ء کے ان کو سولی دے کر مار ڈالا۔ 1(قتادہ) عن ام سلمۃ عن النبی صلعم قال یکون اختلاف عند موت خلیفۃ فیخرج رجل من اھل المدینۃ ھاربا الی مکۃ فیاتیہ ناس من اھل مکۃ فیخرجونہ وھو کارہ فیبا یعونہ بین الرکن والمقام و یعبث الیہ بعث من الشام فیخسف بہم بالیبداء بین مکۃ والمدینۃ فاذا رای الناس ذالک اتاہ ابدال الشام و عصائب اھل العراق فیبا یعونہ ثم ینشاء رجل من قریش اخوالہ کلب فیبعث الیہم یعثا فیظہرون علیہم ذلک بعث کلب والخیبۃ لمن لم یشہد غنیمۃ کلب فیقسم المال و یعمل فی الناس لسنۃ نبیھم صلعم ویلقی الاسلام یجرانہ الی الارض فیلبث سبع سنین (تسع سنین) ثم یتوفی و یصلی علیہ المسلمون (ابو داؤد صفحہ233) یہ فوج کشی جو دوسری دفعہ ہوئی نہایت سخت تھی اوراس غرض سے کہ لوگ عبداللہ بن زبیر کی مدد کریں ان لوگوں نے جو حضرت عبداللہ بن زبیر کے طرفدار تھے ان کے لیے حدیثیں بنا لیں انہی حدیثوں میں سے وہ حدیث بھی ہے جو ابو داؤد نے ام مسلمہ سے روایت کی ہے جس میں قتادہ بھی ایک راوی ہے اور وہ حدیث یہ ہے کہ ’’ ام مسلمہ نے آں حضرت صلعم کا فرمانا بیان کیا کہ ایک خلیفہ کے مرنے پر اختلاف واقع ہو گا، پھر ایک شخص مدینے میں سے بھاگ کر مکے میں آوے گا، پھر اس کے پاس مکے کے لوگ آویں گے اور اس کو خلیفہ بنانے کے لیے نکالیں گے اور وہ خلیفہ ہونے کو ناپسند کرے گا، پھر لوگ اس سے حجر اسود اور مقام ابراہیم کے بیچ میں بیعت کر لیں گے، پھر شام سے اس پر لشکر چڑھ کر آوے گا، پھر وہ لشکر مکے و مدینے کے درمیان کے میدان میں دھنس جاوے گا جب لوگ یہ بات دیکھیں گے تو شام کے ابدال، یعنی بزرگ لوگ اور عراق کے لشکر اس کے پاس چلے آویں گے اور اس سے بیعت کریں گے، پھر ایک شخص‘‘ قریش میں سے جس کی قوم بنی کلب رشتے میں ماموں زاد ہو گی، اٹھے گا اور ایک لشکر ان پر بھیے گا اور وہ ان پر فتح پاویں گے اور یہ لشکر قوم کلب کا ہو گا افسوس ہے اس شخص پر جو کلب کی لوٹ میں موجود نہ ہو پھر وہ شخص مال کو تقسیم کرے گا اور لوگوں میں ان کے پیغمبر کے طریقے پر عمل کرے گا اور اسلام کو زمین پر پھیلاوے گا، پھر سات برس یا نو برس جیتا رہے گا پھر مر جاوے گا اور مسلمان اس کی نماز پڑھیں گے۔ یہ شروع شروع زمانہ اس قسم کی حدیثوں کے بننے کا ہے اور ابھی تک مہدی کا لفظ وضع نہیں کیا گیا ہے، مگر محدثین نے مہدی ہی سے اس حدیث کا بھی تعلق سمجھا ہے اور اسی لیے ابو داؤد نے باب المہدی میں اس حدیث کو لکھا ہے، مگر غور کرنے سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حدیث عبداللہ بن زبیر کے لیے بنائی گئی تھی مدینے سے مکے میں آنا اور بین الرکن والمقام بیعت کا ہونا اور پہلی دفعہ جو شام کا لشکر بغیر فتح کے واپس چلا گیا اس کے دھنس جانے سے کنایہ کرنا اور عراق سے لشکر کا آنا جس نے عبداللہ بن زبیر کی اطاعت قبول کی تھی یہ سب ایسے اشارے اس پشین گوئی میں ہیں کہ ہیر پھیر کر سب اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جو پشین گوئی اس میں ہے وہ عبداللہ بن زبیر ہی اس کے مصداق ہیں۔ بنی فاطمہ نے جو تدبیر خلافت مغصوبہ کے دوبارہ حاصل کرنے کی کی تھی وہ مدت تک جاری رہی، مگر افسوس ہے کہ کامیاب نہ ہوئے۔ سب سے پہلی کوشش وہ تھی جو یزید کے وقت میں ہوئی اور اہل کوفہ کی خواہش پر حضرت امام حسین نے مسلم ابن عقیل کو وہاں بھیجا اور پھر خود بھی روانہ ہوئے اور صحرائے ماریہ میں فرات کے کنارے 21ہجری مطابق680 کے مع بہتر رفقا کے شہید ہو گئے۔ مگر بنی فاطمہ کے دل سے یہ دعویٰ زائل نہیں ہوا جبکہ 105ہجری مطابق724ء کے ہشام بن عبدالملک خلیقہ ہوا تو زاید ابن علی بن حسین علیہم السلام نے جو مدت سے اپنی خلافت کی تدبیر کر رہے تھے اور جا بجا ان کے نقیب پھیلے ہوئے تھے کوفے میں دعویٰ خلافت کیا، مگر جب ھشام کی فوج آئی تو صرف پانچ سو آدمیوں نے ساتھ دیا، شکست ہوئی اور حضرت شہید ہوئے، یعنی کناسہ میں سولی دے دی گئی۔ 2(فطر) عن علی عن النبی صلعم لو لم یبق من الدنیا الا یوما لبعث اللہ رجلا من اھل بیتی یملاء ھاعد لا کما ملئت جورا (ابو داؤد صفحہ232) جو لوگ کہ بنی فاطمہ سے گرویدہ تھے اور زید شہید کی خلافت چاہتے تھے انہوں نے اس لیے کہ لوگ بنی فاطمہ کی طرف رجوع کریں اور زید شہید کی خلافت کے حامی ہوں، وضعی حدیثیں بنا کر لوگوں میں پھیلانی شروع کیں اب ایسا مضمون ان حدیثوںمیں بیان ہونے لگا جسے سے پایا جاوے کہ بنی فاطمہ میں سے خلیفہ ہونے کی پشین گوئی ہوئی ہے اس مضمون کی بہت سی حدیثیں کتابوں میں پائی جاتی ہیں چنانچہ ابو داؤد میں حضرت علی سے روایت ہے جس میں کا ایک راوی فطر بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’ حضرت علی نے آں حضرت صلعم کا فرمانا بیان کیا کہ اگر دنیا سب چلی جاوے اور صرف ایک دن ہی باقی رہ جاوے تو بھی ضرور خدا تعالیٰ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو کھڑا کرے گا جو دنیا کو عدل سے بھر دے گا، جس طرح کہ وہ ظلم سے بھری ہو گی‘‘ 3عن ابی سعید قال ذکر رسول اللہ صلعم بلاء یصیب ھذہ الامۃ حتی لا یجد الرجل ملجاء الیہ من الظلم فیبعث اللہ رجلا من عترتی واھل بیتی فیملاء بہ الارض قسطا وعد لا کما ملئت ظلما و جورا یرضی عنہ ساکن السماء و ساکن الارض لا تدع السماء من قطر ھاشیئا الا صبتہ مدرارا ولا تدع الارض من نباتھا شیئا الا اخرجتہ حتی یتمنی الا حیاء الاموات یعیش فی ذلک سبع سنین او ثمان سنین او تسع سنین (مستدرک حاکم ) (مشکواۃ صفحہ463) اسی طرح مشکوۃ میں ایک حدیث سے غالباً حاکم کی مستدرک سے نقل کی ہے ابو سعید نے کہا کہ آں حضرت صلعم نے ذکر کیا کہ اس امت پر ایک بلا پڑے گی، یہاں تک کہ کوئی شخص اس کے ظلم سے بچنے کو کوئی ٹھکانہ نہ پاوے گا، پھر اللہ تعالیٰ ایک شخص میری اولاد اور میری اہل بیت سے کھڑا کرے گا اور اس کے سبب سے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح کہ وہ ظلم و جور سے بھر گئی ہو گی، اس سے آسمان کے رہنے والے اور زمین کے رہنے والے راضی ہوں گے اور آسمان اپنی بوندوں میں سے ذرا بھی نہیں چھوڑنے کا جو نہ برسائی ہو اور زمین نباتات میں سے کچھ نہ چھوڑے گی جو نہ اگائی ہو، یہاں تک کہ زندے مردوں کو یاد کریں گے اور اسی حالت میں وہ سات یا آٹھ یا نو برس زندہ رہے گا۔ کچھ عجب نہیں ہے کہ اسی زمانے میں اس شخص کے لیے۔ 4(علی بن نفیل) عن ام سلمۃ قال سمعت رسول اللہ صلعم یقول المہدی من عترتی من ولد فاطمۃ (ابو داؤد صفحہ232) جس کی نسبت مگھم مگھم میں پشین گوئی ہوتی چلی آتی تھی مہدی لقب وضع ہوا، کیونکہ مہدی کا لقب انہی حدیثوں کے ساتھ شامل ہے جن میں بنی فاطمہ اور اہل بیت میں سے خلیفہ ہونے کی بشارت ہے اور وہ حدیثیں بھی جن میں مہدی کا لقب بیان ہوا ہے متعدد کتابوں میں ہیں، چنانچہ ابو داؤد میں ام سلمہ سے جس کے راویں میں علی بن نفیل بھی ایک راوی ہے یہ حدیث مذکور ہے کہ ’’ ام سلمہ نے کہا کہ میں نے رسول خدا صلعم سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ میری آل میں سے اور فاطمہ کی اولاد میں سے مہدی ہو گا۔‘‘ اور ابو داؤد ہی میں ایک دوسری حدیث ابی سعید خدری 5(عمران القطان) عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ صلعم المہدی منی اجلی الحیبہۃ افنی الانف یملاء الارض فسطا وعدلا کما ملئت جورا و ظلماء یملک سبع سنین (ابو داؤد صفحہ232) سے ہے جس میں عمران القطان بھی ایک راوی ہے اور وہ یہ ہے کہ ابی سعید خدری نے آں حضرت صلعم کا یہ فرمانا بیان کیا کہ مہدی مجھ میں سے ہے، چمکتی ہوئی پیشانی اور اونچی ناک والا، بھر دے گا زمین کو عدل و انصاف سے جیسے کہ بھر گئی ہو گی جورو و ظلم سے اور وہ مالک رہے گا سات برس۔ جو حلیہ اس حدیث میں بیان ہوا ہے گویا وہ حلیہ زید شہید کا ہے۔ اتفاقات زمانہ سے حضرت زید شہید اور ان کے بیٹے حضرت قال الزیدیۃ بامامۃ ابنہ یحییٰ من بعد زید فمضی الی خراسان و قتل بالخور جان بعد ان اوصی الی محمد بن عبداللہ بن حسن بن الحسن السبط و یقال لہ النفس الزکیہ فخرج بالحجاز و تقلب بالمہدی و جائۃ عساکر المنصور فقتل (ابن خلدون صفحہ167) یحیٰی اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوئے اور ھشام کے ہاتھ سے شہید ہوئے حضرت یحیٰی نے شہید ہوتے وقت وصیت کی کہ میرے بعد محمد بن عبداللہ کی طرف رجوع کرنا حضرت محمد پڑپوتے ہیں حضرت امام حسن علیہ السلام کے انہی کا خطاب نفس زکیہ اور لقب المہدی ہے، چنانچہ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ فرقہ زیدیہ حضرت زید شہید اور ان کے بیٹے حضرت یحیٰی کی امامت کے قائل ہیں، پھر وہ خراسان کی طرف گئے اور خورجان میں شہید ہو گئے۔ شہید ہوتے وقت انہوں نے محمد بن عبداللہ بن حسن بن الحسن السبط کے حق میں وصیت کی ان کو نفس ذکیہ کہتے ہیں انہوں نے حجاز میں خروج کیا اور مہدی ان کو لقب دیا گیا، پھر منصور کا لشکر چڑھ آیا اور وہ شہید ہو گئے۔ حضرت محمد بن عبداللہ کی خلافت مستحکم کرنے کو اور اس غرض سے کہ لوگ ان کے 6(ھارون عمر و بن ابی قیس ابو اسحق شیعی)قال علی ونظر الی ابنہ الحسن قال ان ابنی ھذا سید کما سماء النبی صلعم و یستخرج من صلبہ رجل یسمی باسم بینکم صلعم یشبہہ فی الخلق ولا یشبہہ فی الخلق ثم ذکر قصۃ یملاء الارض عدلا (ابو داؤد صفحہ233) معتقد اور ان کے گرویدہ ہو جاویں ان کے طرفداروں نے بہت سی وضعی حدیثیں پھیلائیں، انہیں میں سے وہ حدیث بھی ہے جو ابو داؤد میں لکھی ہے اور جس میں ہارون اور عمرو بن ابی قیس اور ابو اسحاق بھی راوی ہیں اور وہ حدیث یہ ہے کہ حضرت علی نے اپنے بیٹے امام حسن کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ میرا بیٹا سیدھے جیسے کہ پیغمبر خدا نے ان کا یہ نام رکھا ہے اور قریب ہے کہ اس کی اولاد میں سے ایک شخص نکلے گا جس کا نام وہی ہو گا جو تمہارے نبی کا نام ہے اور انہیں کا سا خلق ہو گا، مگر صورت میں ان کے مشابہ نہ ہو گا، پھر ان کا بیان کیا کہ وہ بھر دے گا زمین کو عدل سے محمد ابن عبداللہ حضرت امام حسن کے پڑپوتے تھے اور محمد ہی ان کا نام تھا۔ پس ان کی خلافت پر لوگوں کو راغب کرنے کے لیے یہ حدیث بنائی گئی۔ علاوہ اس کے اور بہت سی وضعی حدیثییں ہیں جن میں مہدی کا محمد نام ہونے کی 7(عاصم) عن عبداللہ بن مسعود عن النبی صلعم لو لم یبق من الدنیا الا یوما لطول اللہ ذالک الیوم حتی یبعث اللہ فیہ رجلا منی او من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی زاد فطر یملاء الارض قسطا وعدلا کما ملئت ظلما وجورا وفی حدیث سفیان لا تذھب اولا تتفضی الدنیا حتے بملک العرب رجل من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی (ابو داؤد صفحہ232) بشارت ہے، چنانچہ ابو داؤد میں ایک حدیث ہے جس میں عاصی بھی ایک راوی ہے اور وہ حدیث یہ ہے کہ عبداللہ ابن مسعود نے نبی صلعم کا فرمانا بیان کیا کہ اگر دنیا بجز ایک دن کے کچھ باقی نہ رہی تو بھی اللہ تعالیٰ ضرور اس دن کو بڑھا دے گا، تاکہ اللہ اس میں ایک شخص کو مجھ میں سے یا یہ کہا کہ میری اہل بیت میں سے کھڑا کرے گا جس کا نام میرے نام کے مطابق ہو گا اور اس کے باپ کے باپ کا نام میرے نام کے مطابق اور فطر راوی نے اس قدر اور بڑھایا کہ وہ بھر دے گا زمین کو عدل و انصاف سے جیسے کہ وہ بھر گئی ہو گی ظلم و جور سے اور سفیان کی حدیث میں ہے کہ نہ جاوے گی یا نہ گزرے گی دنیا یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں سے عرب کا ایک شخص مالک ہو گا جس کا نام میرے نام کے مطابق ہو گا۔ محمد ابن عبداللہ نے حجاز میں خروج کیا تھا اور اسی لیے اس حدیث میں عرب کا نام بھی داخل کیا گیا۔ ترمذی میں بھی اسی قسم کی مندرجہ ذیل حدیثیں ہیں اور 8(عاصم) عن عبداللہ قال قال رسول اللہ صلعم لا یذھب الدنیا حتی بملک العرب رجل من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی (ترمذی صفحہ 371) 9(عاصم) عن عبداللہ عن النبی صلعم قال یلی رجل من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی (ترمذی صفحہ371) 10(عاصم)عن ابی ھریرہ قال لو لم یبق من الدنیا الا یوما لطول اللہ ذالک الیوم حتی یلی الخ (ترمذی صفحہ371) ان سب میں عاصم بھی ایک راوی ہے اور وہ حدیثیں یہ ہیں: عبداللہ نے کہا کہ رسول خدا صلعم نے فرمایا کہ دنیا نہیں جانے کی جب تک کہ میری اہل بیت میں سے ایک شخص عرب کا مالک ہو جس کا نام میرے نام کے مطابق ہو گا۔ پھر انہی عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی صلعم نے فرمایا کہ والی ہو گا ایک شخص میری اہل بیت میں سے جس کا نام میرے نام کے مطابق ہو گا اور ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلعم نے فرمایا کہ اگر دنیا سے بجز ایک دن کے باقی نہ رہے تو ضرور اللہ تعالیٰ اس دن کو بڑھا دے گا، تاکہ والی ہو ایک شخص میری اہل بیت میں سے جس کا نام میرے نام کے مطابق ہو گا۔ ابن ماجہ میں بھی اس قسم کی حدیثیں پائی جاتی ہیں۔ایک حدیث میں جس کے راویوں میں 11(یاسین عجلی ) عن علی قال قال رسول اللہ صلعم المہدی منا اہل البیت یصلح اللہ فی لیلۃ (ابن ماجہ صفحہ 749) یاسین العجلی بھی راوی ہے یہ آیا ہے کہ حضرت علی نے کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ المہدی ہم میں سے ہماری اہل بیت میں سے ہے۔ ایک رات میں اللہ تعالیٰ اس کے سب کام درست کر دے گا۔ 12(علی بن نفیل) عن سعید بن مسیب قال کنا عندام سلمۃ فتذاکر نا المہدی فقالت سمعت رسول اللہ صلعم یقول المہدی من ولد فاطمۃ (ابن ماجہ صفحۃ749) ایک اور حدیث میں جس میں علی بن نفیل بھی راوی ہے سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ ہم ام سلمہ کے پا س بیٹھے ہوئے تھے اور مہدی کا ذکر کر رہے تھے، ام سلمہ نے کہا کہ میں نے رسول خدا صلعم سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ مہدی اولاد فاطمہ سے ہو گا۔ ایک اور حدیث میں جس میں علی بن نفیل بھی راوی ہے 13(عکرمۃ بن عمار علی بن زیاد) عن الس ابن مالک قال سمعت رسول اللہ صلعم یقول نحن ولد عبدالمطلب سادۃ اہل الجنۃ انا وحمزۃ وعلی و جعفر والحسن والحسین والمہدی (ابن ماجہ صفحہ749) سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ ہم ام سلمہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور مہدی کا ذکر کر رہے تھے، ام سلمہ نے کہا کہ میں نے رسول خدا صلعم سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ ہم اولاد عبدالمطلب سردار اہل جنت ہیں اور وہ کون ہیں میں ہوں اور حمزہ اور علی اور جعفر اور حسن اور حسین اور المہدی۔ غور کرو کہ اس حدیث کے بنانے والے نے جو خاص بنی فاطمہ کا طرفدار معلوم ہوتا ہے کس حکمت سے حضرت عباس کا نام اولاد عبدالمطلب سے چھوڑ دیا ہے، تاکہ بنی عباس کے دعویٰ خلافت کو تقویت نہ پہنچے، حالانکہ طرفداران بنی فاطمہ و طرفداران بنی عباس دونوں اکثر شیعی تھے، مگر جو جس کا طرفدار تھا اس کے مفید کام کرتا تھا۔ بنی عباس نے اپنی تدبیروں میں نہایت کامیابی حاصل کی اور آخر کار وہ خلیفہ ہو گئے بنی عباس میں سے ابراہیم بن محمد بن علی بن عبداللہ بن العباس نے اپنے تئیں بلقب امام ملقب کیا، مگر وہ مروان کی قید میں پڑے اور قتل ہوئے۔ اس واقعے سے بنی عباس کی تدبیروں میں کچھ نقصان نہیں آیا، اس لیے کہ ابو مسلم خراسانی نے جو نہایت دانشمند اور مدبر شخص تھا محمد بن علی بن عبداللہ بن العباس سے خفیہ بیعت کر لی تھی اور وہ خراسان میں اس لیے گیا ہوا تھا کہ لوگوں کو بنی عباس کے خلیفہ ہونے پر مائل کرے۔ ابو مسلم کے پاس وہاں خوب جمعیت جمع ہو گئی اور بنی عباس کی طرف لوگوں کے دل مائل ہو گئے ابو مسلم نے ’’ نقیب آل محمد‘‘ اپنا لقب اختیار کیا، کیونکہ بنی عباس بھی آل محمد کہلاتے تھے اور اپنی طرف سے ستر نقیب اطراف میں لوگوں کو بنی عباس کی خلافت پر مائل کرنے کے لیے روانہ کیے اور کل دوست داران آل عباس کے لیے سیاہ لباس تجویز کیا اور ان کے لشکروں کے جھنڈے بھی سیاہ قرار پائے۔ اس زمانے میں سب سے بڑا نسخہ لوگوں کو گرویدہ کرنے کا حدیثوں کا پیش کرنا تھا، اس لیے بنی عباس کے طرفداروں نے ایسی وضع حدیثیں بنائیں جن سے خلیفہ یا مہدی ہونے کی پشین گوئی بنی عباس کے حق میں نکلتی تھی اور مسلمانوں کو ان سے مدد کرنا ان حدیثوں کی رو سے ضرور ثابت ہوتا تھا، چنانچہ اسی قسم کی وہ حدیث ہے جو مشکواۃ میں مندرج ہے اور وہ یہ ہے کہ 14 عن ثوبان قال قال رسول اللہ صلعم اذا رئیتم الرایات السود قد جاء ت من قبل خراسان فاتو ھافان فیہا خلیفۃ اللہ المہدی رواہ احمد و البیہقی فی دلائل النبوۃ (مشکواۃ صفحہ463) ’’ ثوبان نے کہا کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا جس وقت تم دیکھو سیاہ جھنڈوں کو خراسان کی طرف سے آتے ہوئے تو ان کی اطاعت کرو، بے شک انہی میں خلیفۃ اللہ مہدی ہو گا‘‘ اس حدیث کے مضمون سے صاف پایا جاتا ہے کہ ابو مسلم نے جو اپنے لشکر کے جھنڈے سیاہ قرار دئیے تھے، اس لیے ہوا خواھان بنی عباس نے یہ حدیث وضع کر کر لوگوں میں پھیلائی تھی، تاکہ لوگ ان کے مطیع ہو جاویں۔ اس سے بھی زیادہ وضعی ایک اور حدیث ہے جو ابو داؤد میں مذکور ہے کان الحرث عظیم الا زد بخراسان فخلع سنۃ سنۃ عشر ولبس السواد و دعا الی کتاب اللہ و سنۃ نبیہ و البیعۃ الرضا علی ماکان علیہ دعاۃ بنی عباس ھناک (ابن خلدون جلد3صفحہ92) انہی ہنگاموںاور تدبیروں کے زمانوں میں جو نسبت خلافت کے ہو رہی تھیں ایک شخص الحرث قوم ازد میں سے تھا اور وہ بھی خراسان میں بنی امیہ کے گروہ میں تھا، مگر اس نے خلیفہ بنی امیہ کی اطاعت کو چھوڑ دیا اورہوا خواھان بنی عباس میں شامل ہو گیا، چنانچہ تاریخ ابن خلدون میں لکھا ہے کہ 15 (ھارون عمرو بن ابی قیس ھلال ابن عمرو ) عن علی قال قال رسول اللہ صلعم یخرج رجل من وراے النہر یقال لہ الحارث حراث علی مقدمۃ رجل یقال لہ منصور یوطن او یمکن لال محمد کما مکنت قریش لرسول اللہ صلعم وجب علی کل مومن نصرہ (ابو داؤد صفحہ233) ’’ حرث ایک شخص قوم ازد کا خراسان میں تھا اس نے 116ھ میں خلیفہ بنی امیہ کی اطاعت کو چھوڑ دیا اور سیاہ لباس پہن لیا اور لوگوں کو خدا کی کتاب و پیغمبر کی سنت پر چلنے اور اس طریقے کو پسند کرنے پر جس پر کہ بنی عباس کے ہوا خواہ بیعت لے رہے تھے مشغول ہوا‘‘ اس حرث کے لیے بھی ایک حدیث بنائی گئی اور لوگوں میں پھیلائی گئی جو ابو داؤد میں مندرج ہے اور جس میں ہارون و عمرو بن ابی قیس ہلال ابن عمرو بھی راوی ہیں اور وہ حدیث یہ ہے کہ ’’ حضرت علی نے کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نہر فرات کے اس طرف سے ایک شخص خروج کرے گا جس کو حارث حراث کہیں گے، اس کی سرداری میں ایک شخص ہو گا جس کو منصور کہیںگے، بساوے گا اور جگہ دے گا آل محمد کو جس طرح کہ جگہ دی قریش نے رسول خدا صلعم کو واجب ہے ہر مسلمان پر اس کی مدد‘‘ یہ منصور وہی ہیں بنی عباس میں سے جو خلیفہ ہوئے پس ان تمام واقعات کے مطابق کرنے سے کس شخص کو شبہ باقی رہتا ہے کہ یہ سب حدیثیں وقت کی مناسبت سے اور اپنے مقاصد کے حاصل کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں۔ اسی قسم کی کئی حدیثیں ابن ماجہ میں ہیں، انہی میں سے وہ 16(یزید ابن ابی زیاد) عن عبداللہ قال بینما نحن عند رسول اللہ صلعم اذا قیل فتیتہ من بنی ھاشم فلما راھم النبی صلعم اعزو رقت عیناہ و تغیر لونہ قال فقلت ما نزل نری فی وجھک شیئا نکرھہ فقال انا اھل بیت اختار اللہ لنا الاخرۃ علی الدنیا وان اھل بیتی سیلقون بعدی بلاء و تشدید او تطریدا حتی یاتی قوم من قبل المشرق معہم رایات سود فیسالون الخیر فلا یعطونہ فیقاتلون فینصرون فیعطون ما سالوا فلا یقبلونہ حتی یدفعوھا الی رجل من اھل بیتی فیملاء ھا قسطا کما ملوھا جورا من ادرک ذالک منکنم فالیاتہم ولو حبوا علی الثلج (ابن ماجہ صفحہ748) حدیث ہے جس میں یزید ابن ابی زیاد بھی راوی ہیں اور وہ یہ ہے کہ ’’ عبداللہ نے کہا کہ ایک دفعہ ہم رسول خدا صلعم کے پاس تھے کہ دفعۃ بنی ہاشم کے چند گبرو آ گئے، جب ان کو رسول خدا صلعم نے دیکھا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ کا رنگ متغیر ہو گیا۔ عبداللہ نے عرض کیا کہ کیا بات ہے جو آپ کے چہرہ مبارک سے ایسی بات پائی جاتی ہے جو ہم کو ناخوش کرتی ہے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم اہل بیت کے لیے دنیا پر آخرت کو پسند کیا ہے اور قریب ہے کہ میری اہل بیت میرے بعد بلا میں اور تشدد میں اور ڈاواں ڈول ہو جانے میں پڑے گی، یہاں تک کہ مشرق کی جانب سے ایک قوم آوے گی جس کے ساتھ سیاہ جھنڈے ہوں گے، پھر وہ ایک نیک بات کا سوال کرے گی پھر ان کو وہ نہیں ملے گا، پھر وہ‘‘ لڑیں گے اور فتح پاویں گے اور جو مانگتے تھے وہ مل جاوے گا، پھر وہ اس کو قبول نہ کریں گے، یہاں تک کہ اس کو میری اہل بیت میں سے ایک آدمی کو دے دیں گے، اس وقت جس شخص کو میری اہل بیت میں سے وہ دیا جاوے گا تو وہ بھر دے گا دنیا کو انصاف سے جس طرح کہ وہ بھر گئی ہو گی ظلم سے جو شخص تم میں سے اس کو پاوے تو ان کا ساتھ دے، گو کہ برف پر گھسٹ گھسٹ کے ہو۔ ابو مسلم نے جو لوگوں کو بنی عباس کی خلافت پر مائل کیا تھا، مدت تک اس نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ کس شخص کو وہ خلیفہ ہونا چاہتا ہے۔ جب بہت لوگ جمع ہو گئے اور لشکر بہم پہنچ گیا اور خراسان میں بخوبی ضبط ہو گیا اس وقت اس نے عبداللہ ابو العباس کا نام ظاہر کر دیا اور اس کو خلیفہ مشہور کر دیا پس یہ حدیث صرف اس تدبیر کے پورا کرنے کو بطور پشین گوئی بنائی گئی تاکہ عبداللہ کی خلافت کا اثر اور استحکام لوگوں کے دلوں پر جم جاوے۔ ابن ماجہ میں ایک اور حدیث بھی ہے 17 (عبدالرزاق ابی قلابۃ) عن ثوبان رض قال قال رسول اللہ صلعم تقتل عن کنزکم ثلاثۃ کلھم ابن خلیفہ ثم لا یصبر الی واحد منہم ثم تطلع الرایات السود من قبل المشرق فیقتلونکم قتلا لم یقتلہ قوم ثم ذکر شیئا لا احفظہ فقال اذا رایتموہ فبا یعوہ ولو حبوا علی الثلج فانہ خلیفۃ اللہ المہدی (ابن ماجہ صفحہ749) جس میں عبدالرزاق ابی قلابہ بھی راوی ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’ ثوبان نے کہا کہ رسول خدا صلعم نے فرمایا کہ تمہارے خزانے پر تین شخص مارے جاویں گے، وہ سب خلیفہ کے بیٹے ہوں گے، پھر ان میں کسی کو نہ ملے گا پھر مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے اور تم کو ایسا قتل کریں گے کہ کسی قوم نے نہ کیا ہو گا۔ اس کے بعد اور کچھ فرمایا جو راوی کو یاد نہیں رہا پھر یہ فرمایا کہ جب تم ان کو دیکھو تو ان سے بیعت کرو گو کہ برف پر گھسٹ کر جانے سے ہو، کیونکہ وہ ہو گا خلیفۃ اللہ مہدی‘‘ جب کہ بنی امیہ کے خاندان کی خلافت ختم ہونے کو ہوئی اور بنی عباس کا ستارہ اقبال عروج پر ہوا تو ان جھگڑوں میں اس قدر خوں ریزیاں ہوئی تھیںکہ در حقیقت کسی قوم میں نہ ہوئی تھیں بنی امیہ اور ان کے طرف دار سب قتل ہوئے محمد بن علی کے سامنے ایک حمام میں ستر گروہ بنی امیہ کے قتل ہوئے تھے اور پھر ان کی لاشوں پر بچھونا بچھا کر کھانا کھایا گیا تھا۔ عبداللہ ابو العباس کا نام سفاح بسبب بے انتہا خون ریزی کے پڑ گیا تھا۔ اس خون ریزی پر خاک ڈالنے اور بنی عباس کی خلافت مستحکم کرنے کے لیے یہ حدیث بنائی گئی جس سے معلوم ہوا کہ اس خون ریزی کی پشین گوئی ہو چکی تھی اور ضرور ہونے ولای تھی۔ ابن ماجہ میں ایک اور حدیث ہے کہ 18(ابن لھیعۃ) عن عبداللہ ابن الحارث بن زیدی قال قال رسول اللہ صلعم یخرج ناس من المشرق فیوطون المہدی یعنی سلطانہ (ابن ماجہ صفحہ750) عبداللہ بن الحارث زیدی نے کہا کہ رسول خدا صلعم نے فرمایا کہ مشرق کی جانب سے لوگ خروج کریں گے اور مہدی کے لیے سلطنت و حکومت قائم کریں گے۔ بنی عباس کی کوششوںکا آخر کار نتیجہ یہ ہوا کہ عبداللہ ابو العباس سفاح سپڑ پوتے حضرت عباس کے مستقل خلیفہ ہو گئے۔ ان کے مرنے کے بعد ابو جعفر منصور دوانقی ان کا بھائی 136ھ مطابق755ء کے خلیفہ ہوا اسی کے وقت میں محمد بن عبداللہ حضرت امام حسن کے پڑوتے نے دعویٰ خلافت کیا تھا جو انجام کار قتل ہوئے اس کے مرنے کے بعد ابو عبداللہ بن منصور158ھ مطابق775ء کے خلیفہ ہوئے اور انہوںنے المہدی اپنا لقب قرار دے دیا، تاکہ لوگ جان لیںکہ المہدی جس کی پشین گوئیاں تھیں وہ آ چکا اب کوئی نہیں آنے والا مقصور اس سے یہ تھا کہ آئندہ کا فساد اور دعویٰ مہدیت بندہو۔ ان تمام حالات کو پڑھ کر ضرور ہمارے اس آرٹیکل کے پڑھنے والوںکے دل میں یہ خیال جاوے گا کہ یہ کیوں قرار دیا گیا ہے کہ جب یہ واقعات پیش آئے تو اس وقت ان کے مطابق یہ حدیثیں اپنے اپنے اغراض کے لیے بنا لی گئیں برعکس اس کے یہ کیوں نہیں قرار دیا جاتا کہ یہ سب حدیثیں تھیں اور جو پشین گوئیاں ان میں تھیں انہی کے مطابق یہ سب واقعات پیش آئے۔ مگر اس کا سبب ذرا سے غور کرنے میں بخوبی واضح ہو جاتا ہے دیکھو یہ حدیثیں دو گروہ سے متعلق ہیں ایک بنی فاطمہ اور ایک بنی عباس سے ایک قسم کی حدیثوں میں المہدی کا ہونا بنی فاطمہ میں بیان ہوا اور اس کی اطاعت ونصرت پر حکم ہے، اور ایک قسم کی حدیثوں میں بنی عباس میں المہدی کا ہونا اور اس کی مدد و اعانت کرنے کا حکم ہے اگر در حقیقت کوئی المہدی ہوتا تو وہ بنی فاطمہ میں سے ہوتا یا بنی عباس میں سے نہ یہ کہ دو مختلف شاخوں میں سے پس صاف پایا جاتا ہے کہ کوئی پشین گوئی المہدی کی نہ تھی، بلکہ ہر ایک فریق نے اپنی اپنی تائید کے لیے حدیثیں بنا لی تھیں۔ جن حدیث کی کتابوں میں یہ حدیثیں مندرج ہیں اگر وہ کتابیں قبل ان واقعات کے تصنیف ہو چکی ہوتیں اور ان میں یہ حدیثیں مندرج ہوتیں تو البتہ ایک بات قابل اعتماد ہوتی، مگر وہ سب کتابیں حدیث کی جن میں یہ حدیثیں ہیں، ان واقعات کے بہت دنوں بعد تالیف ہوئی ہیں ان حالات سے جو ہم نے بیان کیے صاف ظاہر ہے کہ یہ سب واقعات158ہجری سے پہلے ختم ہو چکے تھے اور ان حدیث کی کتابوں کے مصنف سب اس زمانے کے بعد تھے اور وہ کتابیں سب اس زمانے کے بعد تالیف ہوئی ہیں جن کی تفصیل ذیل میں مندرج ہے: نام سنہ پیدائش سنہ وفات محمد اسماعیل بخاری 194ھ 256ھ مسلم 204ھ 261ھ ابو عیسیٰ ترمذی 209ھ 279ھ ابو داؤد 202ھ 275ھ ابو عبدالرحمان احمد نسائی 215ھ 303ھ ابو عبداللہ محمد ابن ماجہ 209ھ 273ھ اس رائے کی زیادہ تقویت اس بات سے ہوتی ہے کہ امام مالک 95ہجری میں پیدا ہوئے اور 179ہجری میں فوت ہوئے اور یہ تمام واقعات ان کے سامنے گزرے، مگر ان کی کتاب موطا میں کوئی حدیث المہدی کی پشین گوئی کی نہیں ہے اور نہ بخاری و مسلم میں ہے۔ ایک بڑا دھوکا لوگوں کو یہ پڑتا ہے کہ جب سنتے ہیں یا دیکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحاح ستہ میں درج ہے تو بلا غور اس کو مان لینا چاہتے ہیں، حالانکہ مصنفین صحاح ستہ نے جہاں تک ان سے ہو سکا ہے انہوں نے روایت کی تنقیح میں بڑی کوشش کی ہے، یعنی حتی المقدور جن راویوں کو معتبر سمجھا اور انہوں نے جو حدیث نقل کی اس کو کتاب میں مندرج کیا، مگر ان حدیثوں کی تنقیح بلحاظ ان کے واقعات مندرجہ اور ان کے مضامین کے جو درایت سے تعلق رکھتے ہیں، پڑھنے والوں کی تحقیق پر چھوڑا ہے، مگر افسوس ہے کہ اس زمانے کے پڑھنے والے اس کی تنقیح کی طرف مطلق متوجہ نہیں ہوتے۔ یہ حدیثیں جو ہم نے بیان کیں اگرچہ انہی کتب میں مندرج ہیں جو صحاح میں کہلاتی ہیں، لیکن ان کے راوی بھی معتبر نہیں ہیں اور اس لیے یہ حدیثیں روایت کی تنقیح کے مطابق بھی جو محدثین کے اصول مسلمہ میں سے ہے، قابل رد کرنے کے ہیں پس اب ہم بموجب اصول محدثین کے ان حدیثوں کا مردود ہونا بیان کرتے ہیں ابن خلدون نے ان حدیثوں کے راویوں کی نسبت جو بحث ہے نہایت خوبی سے ایک جگہ جمع کر دی ہے اور ہم اسی کی نقل پر اکتفا کرتے ہیں۔ ہمارے آرٹیکل کے پڑھنے والے دیکھیں گے کہ ہم نے ہر حدیث کے پہلے بعض راویوں کا نام دوھلالی خط کے بیچ میں لکھ دیا ہے، اس سے مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کے راویوں میں سے وہ شخص بھی ایک راوی ہے اور وہی شخص نا معتبر ہے اور اسی کے راوی ہونے کی وجہ سے وہ حدیث قابل اعتبار اور لائق قبول کے نہیں رہی۔ پس اب ہم ہر ایک کی نسبت جو جرح ہے وہ لکھ دیتے ہیں۔ ابو داؤد کی روایت میں قتادہ ایک راوی ہے اور وہ مدلس ہے، 1(قتادہ) و قتادہ مدلس و قد عنعن فیہ والمدلس لا یقبل من حدیثہ الا ما صرح فیہ بالسماع (ابن خلدون صفحہ623) یعنی بیچ کے راویوں کے نام چھوڑ جاتا ہے اور اس نے اس حدیث کو عن عن کر کر بیان کیا ہے اور مدلس کی بیان کی ہوئی حدیث بغیر اس کے کہ وہ اس کا سنا صاف نہ بیان کرے قبول نہیں ہو سکتی۔ عجلی نے فطر کے حق میں کہا ہے کہ اس کی حدیثیں اچھی ہیں اور اس میں کچھ 2(فطر) قال العجلی حسن الحدیث و فیہ تشیع قلیل و قال ابن معین ثقۃ شیعی و قال احماء بن عبداللہ بن یونس کنا نمر علی فطر وھو مطروح لا نکتب منہ و قال مرۃ کنت امر بہ و ادعہ مثل الکلب و قال الدار قطتی لا یحتج بہ و قال ابو بکر بن عیاش ما ترکت الروایۃ عن الااسرء مذھبہ و قال الجر جانی زایغ غیر ثیۃ (صفحہ262) شیعہ پن ہے اور ابن معین نے کہا ہے کہ وہ ثقہ ہے شیعہ ہے، اور احمد بن عبداللہ بن یونس نے کہا ہے کہ ہم فطر کے سامنے کو چلے جاتے تھے اس سے کچھ نہیں لکھتے تھے، یعنی ہم اس کو لائق اخذ روایت کے نہیں جانتے تھے اور مرہ نے کہا ہے کہ میں اس کو مثل کتے کے چھوڑ کر چلا جاتا ہوں، اس سے روایت نہیں کرتا ہوں اور دار قطنی نے یہ کہا ہے کہ اس کی روایت سے استدلال نہ کرنا چاہیے اور ابو بکر بن عیاش نے کہا ہے کہ میں نے فطر کی روایت تو اس کی خرابی مذہب کے سبب سے چھوڑ دی ہے اور جو جانی نے کہا ہے کہ وہ کج رائے ہے، قابل اعتبار کے نہیں ہے۔ حاکم کے حق میں بلقینی نے کہا ہے کہ ذھبی نے بقدر سو حدیث موضوع کے جمع کی 3(حاکم) قال البلقینی قد جمع الحافظ الذھبی زھاء ماتۃ حدیث موضوع من احادیث المستدرک وشنع علیہ غایۃ التشنیع فی بعض المواضع و قال الحافظ ابن حجرا نما وقع للحاکم التساھل لانہ سود الکتاب لینفتحہ فاعجلہ المنیۃ او بغیر ذالک فتری الحرم (صفحہ11) ہیں جو حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہیں اور اس پر بہت تشنیع کی ہے اور برا کہا ہے اکثر جگہ اور حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ حاکم سے مستدرک میں تساھل اس لیے ہوا کہ اس نے یہ کتاب لکھی تھی کہ پھر اسی میں سے احادیث صحیحہ کا انتخاب کرے گا، مگر اس سے پہلے مر گیا۔ 14بیہقی اور شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی نے مستدرک اور کتب بیہقی کو طبقہ سوم کہ جس میں احادیث صحیح اور حسن اور ضعیف اور متہم بالوضع بھی ہیں شمار کیا ہے۔ قولہ ’’ طبقہ ثالثہ احادیثے کہ جماعہ از علماء متقدمین بر زمان بخاری و مسلم یا معاصرین آنہا یا لاحقین بانہا در تصانیف خود روایت کردہ اند و التزام صحت نہ نمودہ و کتب آنہا در شہرت و قبول در مرتبہ طبقہ اولیٰ و ثانیہ نہ رسیدہ ہر چند مصنفین آں کتب موصوف بودند بہ تبحر در علوم حدیث و وثوق و عدالت و ضبط واحادیث صحیح و حسن و ضعیف، بلکہ متہم بالوضع نیز دراں کتب یافتہ می شود و رجال آں کتب بعضے موصوف بعدالت وبعضے مستور و بعضے مجھول و اکثر آں احادیث معمول بہ نزد فقہا نشدہ اند، بلکہ اجماع بر خلاف آنہا منعقد گشتہ و دریں کتب ھم تفاصیل و تفاوت ھست بعضہا اقویٰ من البعض اسامی آں کتب این است مسند شافعی، سنن ابن ماجہ، مسند دارمی، مسند ابی یعلی موصلی مصنف عبدالرزاق مصنف ابی بکر شیبہ، مسند عبد بن حمید، مسند ابی داؤد طبالسی، سنن دار قطنی، صحیح بن حبان، مستدرک حاکم، کتب بیہقی، کتب طحاوی تصانیف طبرانی‘‘ علی بن نفیل کو عقلی نے ضعیف کہا ہے اور کہا ہے اس میں اس کا کوئی اور کوئی تابع نہیں (4-12) علی بن نفیل قد ضعفہ ابو جعفر العقیلی و قال لا یتابع بن نفیل علیہ ولا یعرف الابہ (صفحہ262) ہے اور وہ اسی روایت سے معلوم ہوا ہے اور کوئی روایت اس کی کہیں نہیں مروی ہوئی۔ (5نمبر) عمران القطان اختلف فی الاحتجاج بہ انما اخرج لہ البخاری استشہا دالا اصلا و کان یحیٰی لقطان لا یحدث عنہ و قال یحیی بن معین لیس بالقری و قال مرۃ لیس بشئے وقال احمد بن حنبل ارجو ان یکون صالح الحدیث وقال یزید بن الزریع کان حروریا و کان یری السیف علی اھل القبلۃ و قال النسائی ضعیف (صفحہ263) عمران القطان میں اختلاف ہے کہ اس کی روایت حجت ہو سکتی ہے یا نہیں بخاری نے اس کی روایت تو دوسری روایت کی تائید اور تقویت کے لیے ذکر کی ہے، اس کی اصل روایت نہیں بیان کی ہے اور یحییٰ قطان تو اس کی حدیث نہیں لیتے تھے اور یحییٰ بن معین نے کہا ہے کہ یہ قوی نہیں ہے اور مرہ نے کہا ہے کہ وہ کچھ نہیں ہے اور امام احمد بن حنبل نے کہا ہے کہ شاید اس کی حدیثیں اچھی ہوں اور یزید بن الزریع نے کہا ہے کہ اس کا عقیدہ خوارج کا سا تھا اور اہل قبلہ پر تلوار پکڑنا اور ان سے لڑنے کا قائل تھا اور نسائی نے کہا ہے کہ وہ ضعیف ہے۔ ہارون اور عمرو بن ابی قیس اور ابو اسحاق شیعی کا یہ حال ہے کہ ہارون کے حال سے ایک (6) ھارون عمرو بن ابی قیس ابو اسحاق شیعی ھارون سکت ابو داؤد علیہ و قال فی موضع فی ھارون ھومن ولد الشیعۃ وقال السلیمانی فیہ نظر (صفحہ262) جگہ تو ابو داؤد نے سکوت کیا اور دوسری جگہ کہا ہے کہ وہ شیعوں میں سے ہے اور سلیمانی نے کہا کہ اس میں نظر ہے عمرو بن ابی قیس قال ابو داؤد فی عمرو بن قیس لا باس بہ فی حدیثہ خطاء و قال الذھبی صدق لہ اوھام (صفحہ262) عمرو بن ابی قیس کے حق میں داؤد نے یہ کہا ہے کہ اس کا ڈر نہیں ہے، اس کی حدیث میں خطا ہوتی ہے ذھبی نے کہا ہے کہ وہ سچا ہے،مگر اس کو کچھ اوھام اور شبہات ہو گئے ہیں۔ ابو اسحاق الشیعی و ان خرج عنہ الشیخان فی الصحیحین فقد ثبت انہ احتلط اخر عمرہ و روایتہ عن علی مقطعۃ (صفحہ262) ابو اسحاق شیعی کی روایت اگرچہ بخاری اور مسلم میں مذکور ہیں، مگر یہ ثابت ہوا ہے کہ وہ آخر میں بھک گئے تھے اور حضرت علی ؓ سے ان کی روایت متصل نہیں ہے۔ (7,8,9,10) عاصم قال العجلی کان یختلف علیہ فی زروابی وائل یشیر بذلک الی ضعف روایتہما عنہ و قال محمد بن سعہ کان ثقۃ الا انہ کثیر الخطائ۔ عجلی نے کہا ہے کہ عاصم نے جو روایتیں زر اور بی وائل سے کی ہیں ان میں اختلاف ہے اس سے اشارہ ہے کہ ان دونوں سے اس کی روایتیں ضعیف ہیں اور محمد بن سعد نے کہا ہے کہ وہ اچھا ہے، مگر اس کی حدیث میں اکثر خطا ہوتی ہے۔ اور یعقوب ابن سفیان نے کہا ہے کہ اس کی حدیث میں اضطراب ہے اور عبدالرحمن فی حدیثہ و قال یعقوب بن سفیان فی حدیثہ اضطراب و قال عبدالرحمن بن ابی حاتم قلت لا بی ان ابازرۃ یقول عاصم ثقۃ قال لیس محلہ ھذا وقد تکلم فیہ ابن علیۃ فقال کل من اسمہ عاصم سئی الحفظ و قال ابو حاتم محلہ عندی محل الصدق صالح الحدیث ولم یکن بذلک الحافظ واختلف فیہ قول النسائی و قال ابن حراش فی حدیثہ نکرۃ و قال ابو جعفر العقیلی لم یکن فیہ الاسوء الحفظ وقال الدار قطنی فی حفظہ شئی وقال یحییٰ القطان ماوجدت رجلا اسمہ عاصم وجدتہ ردی الحفظ وقال ایضا سمعت شعبۃ یقول حدثنا عاصم ابن ابی النجور و فی الناس ما فیہا وقال الذھبی فی القراۃ وھو فی الحدیث دون الثبت صدوق فہم وھو حسن الحدیث وان احتج احد بان الشیخین خرجا لہ فنقول اخرجا مقرونا بغیرہ لا اصلالہ (صفحہ261) بن ابی حاتم نے کہا ہے کہ مین نے اپنے باپ سے کہا کہ ابو زرہ یہ کہتا ہے کہ عاصم ثقہ ہے، کہا اس کا یہ درجہ نہیں ہے اور ابن علیۃ نے اس میں کلام کیا ہے اور کہا ہے جتنوں کا نام عاصم ہے ان کا حافظہ اچھا نہیں ہے اور ابو حاتم نے کہا ہے کہ میرے نزدیک اس کا درجہ یہ ہے کہ وہ سچا ہے اور لائق حدیث کے ہے، مگر کچھ بہت یاد رکھنے والے نہیں ہیں اور نسائی کے قول اس کے حق میں مختلف ہیں اور ابن حراش نے کہا ہے کہ اس کی حدیث میں امر قابل انکار بھی ہوتا ہے اور ابو جعفر عقیلی نے کہا ہے اس میں سوائے نقص حافظہ کے اور کچھ عیب نہ تھا اور دار قطنی نے کہا ہے کہ اس کی یاد میں کچھ نقص تھے اور یحیٰی قطان نے کہا ہے کہ میں نے کسی عاصم کی یاد اچھی نہیں پائی اور کہا ہے کہ میں نے سنا ہے شعبہ سے کہ کہتے تھے مجھ سے حدیث کہی عاصم بن ابی النجود نے اور آدمیوں میں مشہور ہے جو اس کا حال ہے اور ذھبی نے کہا ہے کہ قرات میں تو وہ بہت اچھا ہے اور حدیث میں اس سے کم ہے سچا ہے اور اچھی حدیث والا ہے اور اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ بخاری اور مسلم نے تو اس سے روایت کی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اس سے دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی انہوں نے روایت کی ہے اور اصل اسی کی روایت نہیں کی۔ 11یاسین عجلی قال البخاری فیہ نظرو ھذہ اللفظۃ من اصطلاحہ قویۃ بالتضعیف جدا و اوردلہ ابن عدی فی کامل و ذھبی فی المیزان ھذا الحدیث علی وجہ الا ستنکارلہ و قال ھو معروف بہ (صفحہ266) یاسین عجلی کے حق میں بخاری نے کہا ہے کہ اس میں نظر ہے اور بخاری کی اصطلاح میں یہ لفظ بہت زیادہ ضعیف کہنا ہے اور ابن عدی نے کامل میں اور ذھبی نے میزان میں یہی حدیث اس پر انکار کے لیے ذکر کی ہے اور کہا ہے کہ وہ تو مشہور ہے اس حدیث کے معاملے میں۔ 13 عکرمۃ بن عمار علی بن زیاد عکرمہ بن عما قد ضعفہ بعض و ثقۃ آخرون و قال ابو الرازی ھومد لس فلا یقبل منہ الا ان یصرح بالسماع (صفحہ267) عکرمہ بن عمار اور علی بن زیاد عکرمہ بن عمار کو تو بعض نے ضعیف کہا ہے اور ابو حاتم نے کہا ہے کہ وہ مدلس ہے یعنی راوی چھوڑ دیتا ہے اس کی وہ حدیث ماننی چاہیے جس کو بہ تصریح یہ کہے کہ میں نے سنا ہے۔ علی بن زیاد قال الذھبی فی المیزان لا ندری من ھو وقد تکلم فیہ الثوری۔ علی بن زیاد کے حق میں ذھبی نے کہا ہے کہ ہم نہیں جانتے وہ کون ہے اور ثوراے نے بھی اس میں کلام کیا ہے۔ قالو اراہ یفتی فی مسائل ویخطی فیہا وقال ابن حبان کان ممن فحش عطاء فلاء تحتج بہ (صفحہ267) کہا ہے کہ ثوری نے اس کو دیکھا کہ بہت مسئلوں میں حکم دیتا تھا اور ان میں خطا کرتا تھا اور ابن حبان نے کہا ہے کہ وہ بہت زیادہ صرف کرتا تھا اور دیتا تھا تو اس کی حدیث سے حجت نہیں لا سکتے۔ 15ھلال بن عمرو و مجھول (صفحہ262) ھلال بن عمرو مجھول ہے، اس کا کچھ حال معلوم نہیں ہوا کہ کیسا ہے۔ شعبہ نے یزید بن ابی زیاد کے حق میں کہا ہے کہ وہ تو یونہی ان حدیثوں کو حضرت (12) یزید بن ابی زیاد قال فیہ شعبۃ کان رفاعا یرفع الا حادیث التی لا تعرف مرفوعہ و قال محمد ابن الفضل کان من کبار ائمۃ الشیعۃ وقال احمد بن حنبل لم یکن بالحافظ وقال مرۃ حدیثہ لیس بذلک و قال یحییٰ بن معین ضعیف قال ابو زرعہ لان یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ وقال ابو حاتم لیس بالقویٰ وقال الجرجانی سمعتہم یضعفون حدیثہ و قال ابن عدی ھو من شیعۃ اھل الکوفہ و مع صعفہ یکتب حدیثہ رواہ مسلم لکن مقرونا بغیرہ و با لجملۃ فالا کثرون علی صفہ وقد صرح الائمہ بضعف ھذ الحدیث قال ابو قدامہ سمعت ابا سلمۃ یقول فی حدیث یزید عن ابراھیم لو حلف عندی خمسین یمینا قسامۃ ما صدقتہ (صفحہ265) رسول اللہ صلعم تک مرفوع کر دیتا تھا جس کا رفع ثابت نہیں ہو ااور محمد بن الفضل نے کہا ہے وہ تو شیعوں کا بڑا پیشوا تھا اور احمد بن حنبل نے بھی کہا ہے کہ وہ یاد رکھنے والا نہ تھا اور مرہ نے کہا ہے کہ اس کی حدیث اس درجے کی نہیں ہے اور یحییٰ بن معین نے اس کو ضعیف کہا ہے اور ابو زرعہ نے یہ کہا ہے کہ وہ اس لائق ہے کہ اس کی حدیث لکھی جاوے اور اس کی حدیث سے حجت نہ لانی چاہیے اور ابو حاتم نے کہا ہے کہ وہ قوی نہیں ہے اور جرجانی نے کہا ہے کہ میں نے سنا ہے علماء کو کہ اس کی حدیث کی تضعیف کرتے تھے اور ابن عدی نے کہا ہے کہ وہ تو کوفے کے شیعوں میں سے ہے اور باوجود ضعف کے اس کی حدیث لکھ لی جاوے مسلم نے اس سے روایت کی ہے، لیکن دوسرے سے ملی ہوئی اور اکثر اس کو ضعیف کہتے ہیں اور سب آئمہ نے بہ تصریح اس حدیث کو ضعیف کہا ہے اور ابو قدامہ نے کہا ہے کہ میں نے ابو سلمہ سے سنا ہے کہ وہ یزید کی حدیث کو جو اس نے ابراہیم سے روایت کی ہے یہ کہتے تھے کہ اگر وہ میرے سامنے پچاس مرتبہ اپنے علم پر قسم کھا کر بھی کہے تو میں اس کو سچا نہ مانوں۔ عبدالرزاق بن ھمام تو شیعہ ہونے میں مشہور تھا اور آخر عمر میں اندھا بھی ہو گیا تھا۔ 17عبدالرزاق وابی قلابہ عبدالرزاق بن ھمام کان مشہورا باتشیع و عمی فی اخروقتہ و قال ابن عدی حدیث با حادیث فی الفضائل لم یوافقہ علیہا احد و نسبوہ الی التشیع (صفحہ 267) اور ابن عدی نے کہا ہے کہ اس نے فضائل میں ایسی حدیثیں روایت کی ہیں جو کسی نے نہیں کی اور اس کو تو سب نے تشیع کی طرف نسبت کیا ہے۔ ابو قلابۃ ذکرہ الذھبی و غیرہ انہ مدلس و فیہ السفیان وھو مشہور بالتدلیس و عنعا ولم یصرھا بالسماع فلا تقبل (267) ابو قلابہ کے حق میں ذھبی اور اوروں نے یہ ذکر کیا ہے کہ وہ مدلس ہے اور اس حدیث کے راویوں میں سفیان سے بھی جو تدلیس میں مشہور ہے اور ان دونوں نے یہ حدیث عن عن کر کے روایت کی ہے اور صاف اپنا سماع نہیں بیان کیا تو نہیں قبول کی جا سکتی۔ ابن لہیعہ کی حدیث کو طبرانی نے یہ کہا ہے کہ یہ صرف اسی سے مروی ہے اور ہم پہلے (18) ابن لھیعہ قال الطبرانی تفردبہ ابن لھیعہ و قد تقدم لنافی حدیث علی الذی خرجہ البرانی فی معجمۃ الا وسط ان ابن لھیعہ ضعیف صفحہ (268) حضرت علی کی حدیث میں جو طبرانی نے معجم اوسط میں روایت کی ہے کہہ چکے ہیں کہ وہ ضعیف ہے۔ وعبداللہ بن لھیعۃ معروف الحال و فیہ عمرو بن جابر الحضرمی وھو اضعف منہ و قال احمد بن حنبل روی عن جابر منا کیر وبلغی انہ کان یکذب وقال النسائی لیس بثقۃ قال کان ابن لھیعہ شیخا احمق ضعیف العقل و کان یقول علی فی السحاب و کان یجلس معنا فیبصر سحابۃ فیقول ھذا علی قدم فی السحاب (266) عبداللہ ابن لہیعہ کے ضعیف ہونے کا حال تو مشہور ہے اور اس حدیث میں عمرو بن جابر بھی اس کے ساتھ شریک ہے اور وہ اس سے بھی زیادہ ضعیف ہے اور احمد بن حنبل نے کہا ہے وہ تو بہت منکر حدیثیں جابر سے نقل کرتا ہے اور مجھ کو یہ دریافت ہوا ہے کہ وہ جھوٹ کہتا ہے اور کہا ہے نسائی نے کہ وہ ثقہ نہیں ہے اور نسائی نے کہا ہے کہ ابن لہیعہ ایک بوڑھا احمق آدمی تھا اور یہ کہا کرتا تھا کہ علی مرتضی ابر میں ہیں اور ہمارے پاس بیٹھا تھا، جب ابر کو دیکھتا تو یہ کہتا کہ یہ علی تھے جو ابر میں گئے۔ جس وقت حدیث کے راویوں کی نسبت بحث ہوتی ہے اس وقت یہ مشکل پیش آتی ہے کہ کسی راوی کو ایک شخص نا معتبر قرار دیتا ہے اور دوسرا اس کو معتبر سمجھتا ہے، مگر اصول حدیث میں سے یہ قاعدہ مسلم ٹھہرا ہے کہ جرح تعدیل پر مرجع ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جس شخص نے کسی کو معتبر سمجھا ہے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ا س نے اس میں کچھ نقص پایا ہے اور اس لیے اس کی شہادت ایک مثبت ہے جو منفی پر مقدم ہے پس جو لوگ ان راویوں کو معتبر قرار دیتے ہیں اس سے جو جرح کہ ان پر کی گئی ہے وہ زایل نہیں ہو سکتی اور اس لیے ان کی بیان کی ہوئی روایت معتبر نہیں ہو سکتی۔ ان راویوں میں سے بعض کی نسبت شیعہ ہونے کی وجہ سے جرح کی گئی ہو، گو ہمارے نزدیک صرف شیعہ ہونا وجہ کافی جرح کی نہ ہو، لیکن ایسے موقع میں جس میں یہ حدیثیں مذکور ہوئی ہیں کوئی حدیث جو کسی فریق کے طرفدار نے اس فریق کے حق میں شہرت دی ہو قابل اعتماد نہیں ہو سکتی اور اسی وجہ سے ہماری دانست میں وہ حدیثیں جو شیعوں نے بنی فاطمہ و بنی عباس کی نسبت مشہور کی تھیں اعتماد کے لائق نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خود اس زمانے میں بھی جبکہ سب واقعات ہو رہے تھے اور یہ عن جابر قال قال رسول اللہ صلعم من کذب بالمہدی فقہ کفر ومن کذب بالد جال فقد کذب (فواید الاخبار لابی بکر العسکاف) حدیثیں پھیل رہی تھیں ایسے بھی لوگ تھے جو مہدی کے منکر تھے، کیونکہ اس وقت ایک حدیث بنائی گئی کہ جو شخص مہدی کا انکار کرے وہ کافر ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ اگر اس وقت میں منکرین مہدی موجود نہ ہوتے تو اس حدیث کے بنانے کی ضرورت ہی نہ ہوتی اور وہ حدیث یہ ہے فواید الاخبار مصنفہ ابی بکر العسکاف میں جابر سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول خدا صلعم نے فرمایا کہ جو کوئی جھٹلاوے مہدی کے ہونے کو وہ کافر ہو گیا اور جو جھٹلاوے دجال کے ہونے کو وہ جھوٹا ہو گیا۔ مگر یہ حدیث بھی محض جھوٹی اور وضعی ہے ابن خلدون نے اس کی نسبت لکھا ہے کہ یہی وحسک ھذا غلوا واللہ اعلم بصحۃ طریقہ الی مالک ابن انس علی ان ابی بکر العسکاف عندھم متہمم وضاع (صفحہ261) بات کافی ہے کہ یہ نہایت غلو ہے اور خدا ہی اس حدیث کی صحت کے طریقے کو مالک ابن انس تک جانتا ہو گا۔ علاوہ اس کے یہ بات ہے کہ ابو بکر العسکات اہل حدیث کے نزدیک مہتمم ہے اور بہت بڑا جھوٹی حدیثیں بنانے والا ہے۔ یہ تمام جھگڑے تو بنی فاطمہ اور بنی عباس کے تھے جو اپنے تئیں مستحق خلافت (19) (زید العمی) عن ابی سعید الخدری قال سئلنا عن النبی صلعم فقال ان فی امتی المہدی یخرج یعیش خمسا او سبعا او تسعا فیجئی الیہ الرجل فیقول یا مہدی اعطنی اعطنی قال فیحسی لہ فی ثوبہ ما استطاع ان یحملہ (ترمذی صفحہ371) (ومثل ھذا فی ابن ماجہ صفحہ739) سمجھتے تھے، مگر اس میں بعض استاد اور کود پڑے اور انہوں نے ایک لفظ حدیث میں بدل کر امتی کا لفظ داخل کر دیا، تاکہ مہدی کا پیدا ہونا صرف بنی فاطمہ یا بنی عباس پر موقوف نہ رہے اور وہ حدیث یہ ہے کہ ’’ ابو سعید خدری نے کہا کہ ہم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، حضرت نے فرمایا کہ میری امت میں مہدی ہو گا، وہ خروج کرے گا اور پانچ برس یا سات برس یا نو برس‘‘ جیتا رہے گا، پھر اس کے پاس ایک شخص آوے گا اور کہے گا اے مہدی! مجھے دو، مجھے دو، حضرت نے فرمایا کہ پھر مہدی اس کو دونوں لپین بھر کر اس کے کپڑے میں ڈالے گا جس قدر وہ اٹھا سکے۔ یہ حدیث تو ترمذی کی ہے اور اسی طرح کی ایک حدیث ابن ماجہ میں ہے اور اس میں زید العمی قال فیہ ابو حاتم ضعیف یکبب حدیثہ ولا یحتج بہ وقال یحییٰ بن معین فی روایۃ اخری لا شی وقال مرۃ یکتب حدیثہ وھو ضعیف وقال ابو زرعہ لیس بقوی واھی الحدیث وقال ابو حاتم لیس بذلک وقد حدث عنہ شعبۃ وقال النسائی ضعیف (صفحہ263-264) بھی امتی کا لفظ ہے، مگر ان دونوں حدیثوں میں زید العمی ایک راوی ہے جو نا معتبر ہے اور اسی سبب سے یہ حدیث مردود ہے۔ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ ابو حاتم نے اس کے حق میں کہا ہے کہ ا س کی حدیث ضعیف ہی لکھ لی جاوے اور سند نہ پکڑی جاوے اور یحییٰ بن معین نے ایک دوسری روایت میں کہا ہے کہ وہ کچھ چیز نہیں ہے اور مرہ نے کہا ہے کہ اس کی حدیث اور وہ توضعیف ہے اور ابو زرعہ نے کہا ہے کہ وہ قوی نہیں ہے، واہی حدیثیں کہتا ہے اور ابو حاتم نے بھی یہی کہا ہے وہ تو ایسا نہیں ہے اور شعبہ نے اس سے حدیث روایت کی ہے اور نسائی نے کہا کہ وہ ضعیف ہے۔ اس حدیث کی بدولت دنیا میں بڑے بڑے کام ہوئے۔ بہت سے لوگوں نے بلا لحاظ اس بات کے کہ وہ بنی فاطمہ ہیں یا بنی عباس صرف امتی ہونے کی دلیل سے مہدیت کا دعویٰ کیا اور کبھی زیادہ اور کبھی کم لوگ ان کے معتقد ہو گئے، یہاں تک کہ ایک فرقہ مہدویہ قائم ہو گیا جن کا اعتقاد یہ ہے کہ مہدی موعود آیا اور گزر گیا شیخ مبارک، ابو الفضل کا باب بھی مہدویہ فرقے میں سے تھا۔ مگر جبکہ عام لوگوں نے دیکھا کہ جن لوگوں نے مہدیت کا دعویٰ کیا ان کے آنے سے دنیا میں وہ تبدیلیاں واقع نہیں ہوئیں جن کے ہونے کی وہ توقع کرتے تھے، انہوں نے مہدی موعود کا آنا دنیا کے خاتمہ ہونے کے قریب قرار دیا اور دجال کے پیدا ہونے اور حضرت مسیح کے آسمان پر سے اترنے کے زمانے سے مہدی موعود کے ہونے کا زمانہ ملا دیا اور اسی پر اب عام مسلمانوں کا اعتقاد ہے، مگر ہمارے اس آرٹیکل سے ظاہر ہو گیا ہو گا کہ مہدی کے آنے کی کوئی پشین گوئی مذہب اسلام میں ہے ہی نہیں، بلکہ وہ سب ایسی ہی جھوٹی روایتیں ہیں جیسے کہ دجال اور مسیح کے آنے کی۔ شیعوں نے اس سے بڑھ کر کام کیا، وہ یہ اعتقاد کرتے ہیں کہ مہدی پیدا ہوئے، جبکہ وہ دو ڈھائی برس کے ہوئے تو فرشتے ان کو اٹھا لے گئے اور ایک غار میں چھپا رکھا۔ گو سینکڑوں برس گزر گئے، مگر وہ اس غار میں زندہ موجود ہیں اور چھپے ہوئے بیٹھے ہیں، جب دنیا اخیر ہونے کو ہو گی تو وہ نکلیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور اخیر زمانے کے امام اور مہدی ہوں گے۔ امام کے معنی پیشوا کے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ اول اول یہ لقب ابراہیم بن محمد بن علی بن عبداللہ بن العباس نے اختیار کیا تھا، کیونکہ اس وقت ان کو ملک پر کچھ حکومت نہ تھی اور اس لیے خلیفہ یا امیر کا لقب اختیار نہیں کر سکتے تھے پس بامید آئندہ امام کا لقب اختیار کیا تھا، جب ہی سے پیشوایان دین کو یہ لقب ملنے لگا، چنانچہ دوازدہ امام کا (جن میں سے بارھویں شیعوں کے مذہب کے مطابق امام مہدی ہیں جو غائب ہو گئے ہیں) اسی وجہ سے امام لقب ہوا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭ اسلامی سلطنت کا زوال سرسید کا ایک نا تمام مضمون منقول از ’’ آخری مضامین سرسید‘‘ سرسید نے یہ مضمون اپنی وفات سے ایک ماہ پہلے لکھنا شروع کیا تھا، مگر اسے مکمل نہ کر سکے اور اس کا مسودہ سرسید کے لٹریری اسسٹنٹ مولوی سید وحید الدین سلیم کے پاس ناتمام حالت میں پڑا رہا۔ جب سرسید کے انتقال کے بعد مولانا سلیم نے علی گڑھ سے رسالہ معارف جاری کیا تو انہوں نے اس میں یہ مضمون شائع فرمایا۔ معلوم نہیں کہ سرسید مرحوم اس مضمون میں سلطنت اسلامیہ کے زوال و انشقاق کی تاریخ بیان کرنے کے بعد کن خیالات کا اظہار کرنا چاہتے تھے مضمون کی تمہید سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے عروج اور ان کے تنزل کی تاریخ بیان کرنے کے بعد سرسید قوموں کے عروج و زوال کے فلسفے پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے تھے جس کی موت نے انہیں مہلت نہ دی سرسید نے مضمون کا کوئی عنوان قائم نہیں کیا کہ اس ہی سے مضمون کے موضوع کا پتا چلتا سرسید کا قاعدہ تھا کہ مضمون ختم کرنے کے بعد اس کا عنوان لکھا کرتے تھے چونکہ مضمون ان کی زندگی میں پورا نہیں ہوا، اس لیے انہوں نے اس کا کوئی عنوان بھی قائم نہیں کیا۔ عنوان میں نے لکھا ہے(محمد اسماعیل پانی پتی) ہر ایک قوم کی ترقی، عروج اور نام آوری کی ایک عمر ہوتی ہے، جس طرح کہ ایک انسان کی، انسان پیدا ہوتا ہے، پڑھتا ہے، جوان ہوتا ہے، بوڑھا ہوتا ہے اور آخیر کو مر جاتا ہے۔ اس کے بڑھنے، جوان ہونے، اور بڈھا ہونے مرنے کے طبعی اسباب ہوتے ہیں جو کسی کے روکے سے رک نہیں سکتے۔ اسی طرح ایک وحشی قوم ترقی کرتی ہے، نام آور ہوتی ہے، عروج پر پہنچ جاتی ہے، پھر تنزل شروع کرتی ہے۔ بڑھاپا اسے آ جاتا ہے اور پھر ایسی گمنام ہو جاتی ہے کہ اس پر موت کا اطلاق ہوت اہے۔ قوم کا تنزل ایک طبعی امر ہے، جس طرح انسان کا بوڑھا ہونا طبعی امر ہے بڑھاپے کے امراض کو لوگ جانتے اور پہچانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مرض ہیں، مگر نہ اس کی دوا ہو سکتی ہے اور نہ وہ جا سکتے ہیں، کیونکہ وہ طبعی ہوتے ہیں اور طبیعت بدلتی نہیں جو لوگ قوم کے خیر خواہ ہوتے ہیں، وہ ان مرضوں کی تشخیص کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کا علاج ممکن ہے اور نہایت کوشش سے اس کے علاج پر متوجہ ہوتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ہمارے ہی قصور اور غفلت سے یہ مرض لگ گئے ہیں، مگر در حقیقت یہ بات یوں نہیں ہوتی بلکہ قوم کی طبیعت ہی ایسی ہو جاتی ہے کہ وہ امراض جو باعث تنزل ہیں خود قوم کی طبیعت بن جاتے ہیں اور اس لیے علاج پذیر نہیں ہوتے۔ عرب کی وحشیانہ حالت سے ترقی کی پہلی سیڑھی تمدنی حالت کی طرف مائل ہونا تھی۔ ان لوگوں نے جو خانہ بدوش پھرتے تھے مختلف مقامات پر سکونت اختیار کی اور توالد و تناسل سے آبادی کی کثرت ہوتی گئی ان کے تمدنی تعلقات صرف اسی گروہ میں محدود تھے جو ایک جگہ آباد تھی ہر ایک گروہ دوسرے گروہ سے اس طرح علیحدہ رہتے تھے جیسے مختلف قسم کے جانور کہ باوجود ایک میدان میں رہنے کے ایک دوسرے سے علیحدہ رہتے تھے۔ اس تفرق کا طبعی نتیجہ یہ تھا کہ ہر ایک گروہ کے لیے جدا جد انام اور لقب قائم ہوں، تاکہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے ملنے نہ پاوے، ایک گروہ دوسرے گروہ کے معبود کو پسند نہ کرے، بلکہ اپنے اپنے لیے جدا جدا معبور قرار دے۔ ایک دوسرے پر غلبے اور تفوق کی کوشش کرے اور ہر گروہوں میں ہمیشہ جنگ و جدل و بغض و عداوت قائم رہے۔ عرب کی یہی حالت تھی کہ جب اس نے ترقی شروع کی تھی اور گو یہ سب باتیں ترقی کے موانع میں سے تھیں، لیکن زوال پذیر تھیں، کیونکہ قوت نمو موجود تھی اور وہ ان سب موانع کو دور کر سکتی تھی جیسے کہ ایک بچے کی قوت نمو اس کے ضعف کو اور ان امراض کو جو طبعی طور پر بچپن میں لاحق ہوتے ہیں دور کرتی ہے، مگر جب یہی امراض کسی قوم میں ترقی کے بعد لاحق ہوتے ہیں تو زوال پذیر نہیں ہوتے جیسے کہ بچپن کے زمانے کے امراض بڑھاپے میں لاحق ہونے سے جا نہیں سکتے۔ ان کی قوت نمو کچھ نہ کچھ ان امراض کو دور کرتی جاتی تھی اور وہ ایک دوسرے کے حلیف ہونے لگے تھے، مگر ان میں ایک ایسی قوت نمو کی ضرورت تھی جو ان سب مرضوں کو دور کر دے۔ وہ زمانہ آیا اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انی رسول اللہ فاتبعونی کل قومیں اس کلمے کی مخالفت میں متحد ہو گئیں اور یہی اتحاد، گو کہ مخالفت میں تھا، اس قوی قوت نمو کے پیدا ہونے یا موجود ہونے کی بشارت دیتا تھا۔ تمام مختلف امراض جو قوموں میں تھے اس کے مقابل مضمحل ہو گئے یا معدوم یا قریب معدوم ہونے کے پہنچ گئے صرف ایک مرض شدید لانسلم انت رسول اللہ کل قوموں میں پھیلا ہوا رہ گیا تائید الٰہی اور نصرت سماوی نے، یا یوں کہو کہ سچ کے طبعی اثر نے یا نمو کی طبعی قوت نے اس مرض کو دور کیا اور سب نے کہا الشھد انت رسول اللہ نتبعک دفعۃً تمام موانع ترقی دور ہو گئے۔ قوت نمو اپنی پوری قوت سے اپنا کام کرنے لگی۔ سب کا معبود ایک ہو گیا، تمام اختلافات دور ہو گئے، عداوتیں مت گئیں، آپس کی لڑائیاں موقوف ہو گئیں، دینی اور دنیاوی سرداری نے ایک مرکز پر قرار پایا اور تفوق کی مخالفانہ خواہشیں جو ایک کو دوسرے کے ساتھ تھیں جاتی رہیں اور بر خلاف اس کے اطاعت و محبت اور اتفاق و ہمدردی میں تفوق حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہو گئی۔ تمام مختلف گروہیں ایک قوم ہو گئیں۔ قومیت کا اصول جو نسل پر محدود تھا وسیع ہو گیا اور جس نے کہا اشھدان لا الہ الا اللہ وان محمد الرسول اللہ کسی نسل کا تھا، اسی ایک قوم کا ہو گیا کمال قال اللہ تعالیٰ انما المومنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم واتواللہ لعلکم ترحمون قوم قوم ہو گئی، جوانی میں بھر پور ہو گئی، ترقی اور عروج کے اعلیٰ درجے پر پہنچ گئی۔ خدا نے بھی اس پر اپنا بڑا احسان جتایا اور فرمایا ھو الذی ایدک بنصرہ وبالمومنین الف بین قلوبھم لو انفقت ما فی الارض جمیعاً ما الفت بین قلوبھم ولکن اللہ الف بینھم انہ عزیز حکیم افسوس کہ جوانی کی عمر صرف دس برس رہی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد ہی وہ امراض شروع ہوئے جو جوانی کی حالت میں شروع ہوتے ہیں اور جوانی کی قوت ان کو دفع کرتی ہے اور اپنی قوت کو قائم رکھتی ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ حیات میں کسی کو کسی کے تفوق کا خیال نہ تھا، مگر انتقال ہوتے ہی یہ خیال پیدا ہوا۔ ہم دل سے قبول کر لیں گے کہ وہ خالصاً للہ تھا اور دنیاوی کچھ لگاؤ اس میں نہ تھا، مگر وہ وجود میں آیا اس کا وجود میں آنا ایک طبعی امر تھا، مگر قوم کی جوانی بھر پور تھی، اس نے کچھ زیادہ اثر نہیں کیا، تھوڑی سی حرارت ہو کر جاتی رہی، مگر بیماری نے گھر دیکھ لیا۔ گو اس بیماری نے اس وقت کچھ اثر نہیں کیا، مگر اس نے پیچھا نہیں چھوڑا، رفتہ رفتہ اپنا کام کرتی رہی، چنانچہ حضرت عثمان کی شہادت، جنگ حمل اور جنگ صفین، شہادت حضرت علی مرتضیٰ، ترک خلافت حضرت امام حسن، شہادت حضرت امام حسین، حرمین کے واقعات درد آلود، سب اسی بیماری کے نتائج میں سے تھے۔ سب سے بڑا نشان قومی تنزل کا حکومت یا سلطنت کا تقسیم ہو جانا ہے حضرت علی مرتضیٰ اور معاویہ بن ابو سفیان، امام حسن علیہ السلام نے کمال دانائی و بردباری اور عالی ہمتی اور قومی ہمدردی سے اس کو مٹایا اور ترک خلافت کیا، مگر حضرت عبداللہ بن زبیر نے حجاز میں مستقل حکومت قائم کرنے سے پھر اس علامت کو تازہ کیا، مگر تھوڑا ہی زمانہ گزرا تھا کہ عبدالملک ابن مروان نے اس حکومت کو برباد کر دیا۔ عبداللہ ابن زبیر بھی شہید ہوئے اور پھر کل سلطنت اسلامیہ کا مدار ایک مرکز پر جمع ہو گیا اور عروج جیسا کہ تھا پھر قائم ہوا گو بنی امیہ کی سلطنت بھی بنی فاطمہ علیہ السلام اور علویوں عباسیوں کے اندیشے سے خالی نہ تھی، مگر وہ ایسی مستحکم تھی کہ ایک زمانے تک کوئی شخص اس کو ہلا نہ سکا۔ مگر عباسی اپنی دھیمی اور دور اندیش اور خاموش تدبیر میں کامیاب ہوئے۔ بنی امیہ کو انہوں نے نکالا اور خود سلطنت حاصل کی، مگر پوری قوت ایک مرکز پر قائم نہ رہی بنی امیہ کے خاندان کا ایک شخص عبدالرحما ن اندلس میں جا پہنچا اور وہاں ایک مستقل جداگانہ سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہوا اور سلطنت اسلامیہ دو ٹکڑے ہو گئی۔ با ایں ہمہ عباسیوں کے وقت میں مسلمانی سلطنت غایت درجے کمال میں ترقی کر گئی تھی، مگر عیش و عشرت اور مظالم بھی،خصوصاً سادات پر اپنے درجہ کمال پر پہنچ گئے تھے۔ عہد جوانی ختم ہو گیا تھا اور مطابق قانون طبعی کے بڑھاپے کا زمانہ شروع ہونے والا تھا، وہ آموجود ہوا اورکسی تدبیر سے نہیں رکا۔ سلطنت کے ٹکڑے ہونے شروع ہو پھر ادریس نے ایک مغربی سلطنت قائم کی اور برابرہ اور مغلیہ اور زنانہ اس کے تریک ہو گئے پھر شیعوں نے خروج شروع کیا اور کتامہ اور صنہاجہ کی مدد سے مغرب اور افریقہ میں ایک اور سلطنت قائم کی اور مصر، شام اور حجاز پر بھی قبضہ کر لیا اور ادریسیوں کو بھی برباد کر دیا۔ اب تین مسلمانی سلطنتیں ہو گئیں ایک عباسیوں کی اور دوسری بنی امیہ مجددین کی اندلس میں اور عیدیین کی افریقہ، مصر، شام اور حجاز میں۔ بعد اس کے عباسیوں کی سلطنت کے اور بھی ٹکڑے ہو گئے۔ سامانیوں نے خراسان اور ماوراء النہر میں سلطنت قائم کی، علویین نے دیلم و طبرستان میں، یہاں تک کہ انہوں نے عراقین اور بغداد پر بھی قبضہ کر لیا پھر سلجوقی اٹھے اور انہوں نے ان سب کو مار ہٹایا، مگر پھر ان کی سلطنت کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ اسی طرح سلطنت مغاربہ پر جو صنہاجہ اور افریقہ میں تھی۔ یادیس کے عہد میں اس کے چچا عماد نے خروج کیا اور سلطنت کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ موحدین کی سلطنت کا بھی جو افریقہ میں تھی یہی حال ہوا۔ بنو ابی حفص نے خروج کیا، انہوں نے ملک لیا اور ایک سلطنت قائم کر دی اسی طرح تمام افریقہ کے ٹکڑے پر جدا جدا سلطنتیں قائم ہو گئیں اور مجموعی طاقت جو مسلمانی سلطنت کی تھی ٹکڑے ٹکڑے اور ریزہ ریزہ ہو گئی۔ ٭٭٭٭٭٭ سلسلۃ الملوک (ایک عجیب و غریب تاریخی فہرست) 1268 ھجری مطابق1852عیسوی میں نہایت کاوش و محنت اور تحقیق و تلاش کے بعد سرسید مرحوم نے ایک نہایت جامع اور مکمل تاریخی فہرست راجگان اندریت اور شاہان دھلی کی بتہ سی نادر کتابوں سے اخذ و انتخاب کر کے مرتب کی جس میں ابتدا سے 1852ء تک کے پانچ ہزار برس کے دھلی میں راج کرنے والے تمام راجاؤں اور بادشاہوں کے نام، سنہ جلوس، سنہ وفات اور دیگر ضروری کوائف مہیا کیے اور تیاری کے بعد اس قیمتی فہرست کو دھلی کے مطبع شرف المطابع میں چھپوا کر شائع کیا فہرست بڑی تقطیع کے 29صفحات پر آئی، کیونکہ نہایت کھلی کھلی اور خوشخط لکھی ہوئی ہے، اور جدولوں کی شکل میں ہے۔ یہ فہرست اگرچہ اس وقت قطعاً نایاب اور نابید ہے، مگر خوش قسمتی سے اس کا ایک مکمل نسخہ بہت اچھی حالت میں لاہور کی پنجاب پبلک لائبریری میں موجود اور محفوظ ہے۔ وہاں اس کا نمبر س002ء 954 ہے۔ میں بے انتہا ممنون ہوں اپنے محترم دوست مکرمی سردار مسیح صاحب ایم اے انچارج شعبہ مشرقیات پنجاب پبلک لائبریری کا کہ ان کی عنایت اور مہربانی کی بدولت میں بڑی آسانی سے اس نایاب فہرست کی نقل قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنے کے قابل ہو سکا۔ ہجری حساب سے یہ تاریخی فہرست آج سے ایک سو بارہ برس پہلے سرسید مرحوم نے مرتب کی تھی، لہٰذا اس کی عبارت اسی قسم کی ہے جو اس وقت رائج تھی اس وقت کی طرز کتابت آج کل نہ روانی کے ساتھ پڑھی جا سکتی ہے، نہ آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے، اس لیے میں نے ناظرین کی سہولت کے لیے عبارت اور مطلب کو بدلے بغیر اس کو موجودہ رسم الخط میں لکھا ہے امید ہے یہ قابل قدر مضمون تاریخ کے شائقین کو بہت سی موٹی موٹی کتابوں کی ورق گردانی سے مستغنی کر دے گا، کیونکہ اس میں سرسید مرحوم نے دھلی کی تاریخ کے متعلق وہ سب کچھ جمع کر دیا ہے جو بعض مرتبہ بڑی بڑی کتابوں کے دیکھنے کے بعد بھی حاصل نہیں ہوتا۔ اس تاریخی فہرست کے مطالعے سے بیک نظر دھلی کے تمام راجاؤں اور بادشاہوں کی تاریخ آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) بسم اللہ الرحمن الرحیم کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والا کرام والصلواۃ والسلام علی سیدنا محمد خیر خلقہ وعلیٰ آلہ واصحابہ افضل الصلواۃ واکمل السلام اللہ اور اللہ کے رسول کی حمد و نعت کے بعد سید احمد خاں بیٹا سید محمد متقی خاں بہادر مرحوم اور پوتا جواد الدولہ جواد علی خان بہادر مرحوم اور نواسہ نواب دبیر الدولہ امین الملک خواجہ فرید الدین احمد خان بہادر مصلح جنگ مغفور کا یہ عرض کرتا ہے کہ جس زمانے میں صاحب والا مناقب، عالی مناصب، عدالت گستر، رعیت پرور، مسٹر آرتھر آسٹن رابرٹس صاحب بہادر دام اقبالہ صاحب کلکٹر و مجسٹریٹ شاہجہاں آباد نے کتاب آثار الصنادید کا انگریزی میں ترجمہ شروع کیا اور اس کی نہایت صحت کی تاکید فرمائی تو بسبب اختلاف کتب تواریخ اور غلطی کاتبوں کے ہر امر کی صحت میں کمال دقت اور نہایت کلفت ہوتی تھی اور بسبب نہ مرتب ہونے سلسلہ حکومت بادشاہوں اور راجوں کے اس کتاب کی صحت نہ ہو سکتی تھی، کیونکہ اس کتاب میں اگلے بادشاہوں اور امیروں اور راجاؤں کی بنائی ہوئی عمارتوں کا حال ہے۔ پھر جب تک کہ ان بادشاہوں اور راجاؤں کا حال بصحت معلوم نہ ہو اس وقت تک اس کتاب کی صحت کیونکر ہو؟ اس واسطے میں نے دھلی کے راجاؤں اور بادشاہوں کی فہرست بنائی جس میں پانچ ہزار راجاؤں اور بادشاہوں کا حال تھا۔اتفاق سے وہ فہرست صاحب ممدوح کے ملاحظے سے گزری اور پسند طبع عالی ہوئی۔ اس سبب سے میں نے خیال کیا کہ اگر وہ بطریق اسلوب مرتب ہو جاوے اور ایک کتاب بن جاوے تو نہایت مفید ہو گی اور یہ مختصر کتاب وہ فائدہ دے گی جو بڑی بڑی کتابوں سے بھی حاصل نہ ہوتا اللہ تعالیٰ نے میرے اس ارادے کو پورا کیا اور رفتہ رفتہ وہ فہرست ایک کتاب بن گئی اور سلسلۃ الملوک اس کا نام رکھا۔ خدا کرے کہ پسند طبع صاحب ممدوح کے ہو جن کی قدر دانی اور رئیس پروری سے یہ عجیب چیز تالیف ہوئی، لیکن راجاؤں اور بادشاہوں کا حال بیان کرنے سے پہلے چند باتیں قابل جان لینے کے ہیں۔ پہلی یہ کہ جو شخص ہندوؤں کی تاریخ لکھنے کا ارادہ کرے اس کو لازم ہے کہ پہلے حضرت نوح علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کے طوفان کی تحقیق بیان کرے کہ وہ کیا تھا اور کیونکر تھا اور کب تھا، کیونکہ ہندو تو زمانے کو قدیم مانتے ہیں اور بہت پرانی پرانی تاریخوں کا ذکر کرتے ہیں اور نہایت پرانے حالات بیان کرتے ہیں اور ہم لوگ اہل کتاب اس بات کے قائل ہیں کہ جو کچھ سلسلہ اب عالم میں ہے وہ سب طوفان نوح کے بعد کا ہے، پھر ہندوؤں کی تاریخ کی صحت کیونکر ہو؟ اس واسطے پہلے طوفان نوح کا حال بیان کرنا چاہیے۔ واضح ہو کہ وہ قومیں جو ’’ مشبہ بالکتاب‘‘ ہیں (یعنی اگرچہ اپنے پاس اللہ کی بھیجی ہوئی کتاب بتاتے ہیں، لیکن ہم لوگ اس کو نہیں مانتے) حضرت نوح کے طوفان کے قائل نہیں اور وہ چار قومیں ہیں: 1ایک ہندو جن کی تاریخ ہم بیان کرتے ہیں 2دوسری خطا اور چین والے 3تیسری مجوسی، یعنی پارسی آگ کے پوجنے والے 4چوتھی اگلے زمانے کے ترک اور ان کے سوا ’’ اہل کتاب‘‘ یعنی وہ قومیں جن پر اللہ نے کتاب نازل کی، وہ سب طوفان نوح کی قائل ہیں اور وہ بھی چار قومیں ہیں: 1ایک وہ لوگ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے اگلے نبیوں کی امت میں تھے۔ 2دوسری یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت والے 3تیسری مسیحی، حضرت عیسیٰ علی نبینا و علیہ الصلواۃ والسلام کی امت والے۔ 4چوتھی مسلمان، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت والے بعضے مجوسیوں نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ طوفان تمام عالم میں نہ تھا، بلکہ صرف بابل اور اس کے قرب و جوار میں تھا، اور عقبہ حلوان سے جو مدائن کا ایک شہر عراق عرب میں بغداد اور اصفہان کے بیچ میں ہے، طوفان نے تجاوز نہیں کیا۔ اسی سبب سے کیومرس کی اولاد جو مشرق میں رہتی تھی، طوفان سے بچ گئی اسی طرح ترک اور چین اور ہند والے بھی کہہ سکتے ہیں مگر یہ بات بالکل غلط ہے، کیونکہ توریت مقدس سے ثابت ہوتا ہے کہ طوفان تمام عالم میں تھا چنانچہ توریت مقدس کے رسالہ پیدائش کے ساتویں باب کے انیسویں درس میں لکھا ہے کہ پانی نے زمین پر بہت سے بہت غلبہ کیا کہ جتنے اونچے پہاڑ آسمان کے نیچے تھے سب چھپ گئے اور اسی باب کے تیئسویں درس میں لکھا ہے کہ خدا نے چاہا کہ تمام کائنات جو زمین پر تھی، انسان اور چوپایہ اور حشرات اور پرند جانور سب کو زمین پر سے مٹا دے، صرف حضرت نوح اور جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے بچ گئے۔ ہندوؤں کی تاریخ جو پانچ ہزار برس سے پہلے کی ہے، وہ تو ایک افسانہ سا معلوم ہوتا ہے الا پانچ ہزار برس کی تاریخ جو ہم لکھتے ہیں قریب القیاس اور صحیح معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی اسی پر دلیل ہے کہ طوفان کے بعد جو حال ہے وہ صحیح اور اس سے پہلے کا بطور کہانی ہے اب یہ بات قابل بیان کے رہ گئی کہ طوفان کو کتنی مدت ہوئی خاص مسلمانوں کی مذہبی کتابوں میں طوفان کی مدت کا بیان نہیں ہے، الا توریت مقدس میں جس کو مسلمان بھی مانتے ہیں عالم کی پیدائش اور طوفان کی مدت کا ذکر ہے توریت مقدس کی کتابیں جو پائی جاتی ہیں تین ہیں: 1ایک توریت سامریہ جس کو انگریزی میں سمارٹین کہتے ہیں 2دوسری اصل عبری 3تیسری یونانی جس کو انگریزی میں سپیتو ایجنٹ کہتے ہیں۔ ان تینوں توریتوں سے مدت پیدائش عالم اور زمانہ طوفان کا مختلف نکلتا ہے، مگر تاریخ والے یونانی توریت پر اعتماد کرتے ہیں، کیونکہ اس توریت کا ترجمہ دو سو ستتر برس پہلے سنہ مسیحی سے بہتر علمائے یہود نے بطلیموس ثانی کے لیے جو سکندر کے بعد دوسرا بطلیموس ہے، کیا تھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیدا ہونے کے بعد عبری توریت پر یہودیوں کی دشمنی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لانے کے سبب بھروسا نہیں کرتے اسی سبب ہم نے بھی جو طوفان کی مدت اختیار کی ہے وہ یونانی توریت مقدس کے حساب پر درست ہے، چنانچہ اس مقام پر ہم ان حسابوں کو بیان کرتے ہیں: حساب توریت یونانی نام واقعہ تعداد زمانہ کیفیت از ھبوط آدم تا طوفان 2242 از طوفان تا ولادت ابراہیم ؑ 1081 از ولادت ابراہیم تا وفات موسیٰ 5045 از وفات موسیٰ تا ظہور بخت نصر 979 اس مدت میں سے منجمین دو سو انچاس برس کم کرتے ہیں از ظہور بخت نصر تا غلبہ سکندر بر دارا 434 از زمان سکندر تا ولادت مسیح 304 از ولادت حضرت مسیح تا ہجرت 231 از ہجرت تا الیوم (1852ء مطابق1268ھ) 1230/7446 اس حساب سے بموجب طوفان کو پانچ ہزار دو سو چار برس ہوئے، اور ہم نے یہ تاریخ چار ہزار نو سو ستتر برس کی لکھی ہے کہ طوفان سے دو سو ستائیس برس بعد کی ہے اور ممکن ہے کہ اس مدت میں حضرت نوح کی اولاد تمام عالم میں منتشر ہو گئی ہو اور ہندوستان میں بھی آبسی ہو، کیونکہ طوفان کے ایک برس بعد بابل آباد ہوا اور انسان عالم میں منتشر ہونے لگے اور زبانوں کی تبدیلی شروع ہو گئی۔ حساب توریت سامریہ نام واقعہ تعداد زمانہ کیفیت از ھبوط آدم تا طوفان 1307 از طوفان تا ولادت ابراہیم 937 از ولادت ابراہیم تا وفات موسیٰ 545 از وفات موسیٰ تا ولادت حضرت مسیح 1717 اس مدت میں سے منجمین دو سو انچاس برس کم کرتے ہیں از ولادت حضرت مسیح تا ہجرت 231 از ہجرت تا الیوم (1852ء مطابق1268ہجری) 1230/6367 اس حساب بموجب طوفان کو پانچ ہزار ساٹھ برس ہوئے، مگر اس توریت پر تاریخ والے بھروسا نہیں کرتے، کیونکہ اس توریت سے ثابت ہوا کہ ھبوط آدم اور طوفان میں ایک ہزار تین سو سات برس کا فاصلہ ہے، اور جب طوفان آیا تو عمر حضرت نوح کی بالا تفاق چھ سو برس کی تھی اور حضرت آدم کی عمر نے بالاتفاق نو سو برس کی ہوئی، تو اس سے لازم آیا کہ حضرت نوح نے دو سو برس تک حضرت آدم کو دیکھا ہو اور نیز اپنے آباؤ اجداد سے ملاقات کی ہو اور یہ نہیں ہوا اس سبب سے اہل تاریخ نے اس توریت کو چھوڑ دیا۔ حساب توریت عبری نام واقعہ تعداد زمانہ کیفیت از ھبوط آدم تا طوفان 1252 از طوفان تا ولادت حضرت ابراہیم 292 از ولادت ابراہیم تا وفات موسیٰ 545 از وفات موسیٰ تا ولادت مسیح 1717 اس مدت میں سے منجمین دو سو انچاس برس کم کرتے ہیں از ولادت حضرت مسیح تا ہجرت 231 از ہجرت تا الیوم (1852ء مطابق1228ہجری) 1230/6071 اس حساب بموجب طوفان کو چار ہزار چار سو پندرہ برس ہوئے، مگر اس توریت پر بھی تاریخ والے بھروسا نہیں کرتے، کیونکہ اس تویت بموجب طوفان میں اور ولادت حضرت ابراہیم میں دو سو بانویں برس کا فاصلہ ہے، اور طوفان کے بعد حضرت نوح بالا تفاق ساڑھے تین سو برس زندہ رہے۔ اس سے لازم آیا کہ حضرت نوح نے اٹھاون برس تک حضرت ابراہیم سے ملاقات کی ہو، اور یوں نہیں ہوا، کیونکہ حضرت نوح کے بعد ہود کی امت ہوئی اور ا سکے بعد حضرت صالح کی امت ہوئی۔ اس سبب سے اہل تاریخ نے اس توریت کو بھی چھوڑ دیا۔ علاوہ اس کے یونانی توریت کے اختیار کرنے کا بڑا سبب یہ ہے کہ کتب بنی اسرائیل میں خبر تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پانچ ہزار برس کے بعد چھٹے ہزار برس میں پیدا ہوں گے یہ خبر یونانی توریت کے حساب بموجب صحیح پڑتی ہے، اور اور توریتوں کا حساب ٹھیک نہیں آتا، کیونکہ حضرت عیسیٰ کے پیدا ہونے کے بعد یہودیوں نے آپ کی دشمنی سے زمانے کی مدت کو کم کر دیا، اس حکمت سے کہ جس زمانے میں جو شخص پیدا ہوا تھا اس سے سو برس پہلے کی پیدائش بیان کی مثلاً حضرت آدم کی عمر دو سو تیس برس کی تھی جب حضرت شیث پیدا ہوئے، یہودیوں نے بیان کیا کہ اس زمانے میں حضرت آدم کی عمر ایک سو تیس برس کی تھی اسی طرح ہر جگہ کمی کر دی کہ کسی کی عمر میں بھی کمی نہ ہوئی اور زمانے کی مدت کم ہو گئی۔ جب ایسا کر چکے تو کہنے لگے کہ حضرت عیسیٰ تو شروع پانچویں ہزار برس میں پیدا ہو گئے ان کی خبر تو چھٹے ہزارویں برس میں پیدا ہونے کی تھی۔ حساب مختار اہل تاریخ انگریزی سال ما قبل سنہ مسیحی نام واقعہ زمانہ ما بین الواقعتین کیفیت 4004 ھبوط آدم 1252 موافق توریت عبری 2348 طوفان 1252 موافق توریت عبری 1992 ولادت ابراہیم 352 مخالف تینوں توریتوں کے 1451 وفات موسیٰ 545 مطابق تینوں توریتوں کے 747 بخت نصر 704 331 غلبہ سکندر بر دارا 416 ولادت مسیح 327 شروع سنہ مسیحی 4 از شروع سنہ مسیحی تاالیوم (1852ئ) 1852 5856 اس حساب بموجب طوفان کو چار ہزار دو سو برس ہوئے، مگر اس حساب پر بھی دو اعتراض ہوتے ہیں: 1ایک یہ کہ تینوں توریتوں کے برخلاف ہے۔ 2دوسرے یہ کہ اس حساب سے بھی حضرت مسیح کی ولادت چھٹے ھزارویں برس میں نہیں آتی اس واسطے اس حساب کو بھی چھوڑ دیا۔ دوسری یہ کہ ہندوؤں کے ہاں مہا بھارت کے بعد کوئی کتاب تصنیف نہیں ہوئی اور اسی سبب سے اگلے راجاؤں کا حال نہیں پایا جاتا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں یہ رواج تھا کہ ہر ایک خاندان کا بھاٹ اور جکہ ہوتا تھا، وہی اس خاندان کے حال اور نسب سے واقفیت رکھتا تھا اور اس خاندان کا سلسلہ اپنی پوتھیوں میں لکھ رکھتا تھا اور جو کچھ اور حادثات ہوتے تھے وہ بھی اسی پوتھی میں داخل ہوتے تھے یہ دستور اب تک قائم ہے ہندوستان کے جتنے قدیم زمیندار اور راجا ہیں سب کے خاندان کے بھاٹ اور جگہ اب تک موجود ہیں اور بدستور اس خاندان کا اس سے معلوم ہوتا ہے اور طرح پر معلوم ہونا ممکن نہیں اور یہی دستور فارس کے ملک میں تھا، کیونکہ شاہنامہ میں جہاں یہ مذکور آتا ہے کہ دھقان کہن سال نے یہ بات کہی اس سے وہی بھاٹ اور جگہ مراد ہے جبکہ ہندوستان کی حکومت ضعیف ہو گئی اور مسلمانوں نے غلبہ پایا تب ان کے عہد میں ہندوستان کے راجاؤں کا سلسلہ درست کرنا چاہا اور پہلی پرانی پوتھیاں اور پنے تلاش ہوئے اور ان سے فارسی میں کچھ کچھ ترجمہ ہوا ان تاریخ کی کتابوں میں اور پوتھیوں کے ترجموں میں کئی خرابیاں واقع ہوئیں۔ 1ایک یہ کہ مثلاً کسی تاریخ لکھنے والے کو کوئی پتہ پوتھی کا بابت کسی ایک خاندان کے نہیں ملا تو اس کتاب میں سے وہ سارے کا سارا خاندان لکھنے سے رہ گیا۔ 2دوسری یہ کہ کسی پوتھی میں کسی راجا کی اولاد کا مذکور تھا، حالانکہ وہ راجا نہیں ہوئے اور مسند حکومت پر نہیں بیٹھے، مگر تاریخ لکھنے والے نے ان سب کا نام سلسلہ حکومت میں داخل کر دیا۔ 3تیسری یہ کہ مثلاً کوئی راجا دو یا تین نام سے مشہور ہے، اس کو جدا جدا راجا خیال کر کر اس کا نام لکھ دیا۔ 4چوتھی یہ کہ مدت سلطنت میں جس کے اسباب بہت متعدد خیال میں آ سکتے ہیں، اختلاف کیا ہے، جس نے اپنی کتاب میں سے کوئی خاندان سارے کا سارا حذف کر دیا ہے اس نے تو مدت سلطنت حد سے زیادہ بڑھا دی ہے اور جس نے کچھ نام بڑھا دیے ہیں اس نے مدت گھٹا دی ہے پھر اس پر بھی حساب کرو تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سب یقینی غلط ہے اور ان سب سے زیادہ یہ بات ہے کہ کاتبوں نے ان تاریخوں کو غلط کر دیا ہے کہ ایک کتاب دوسری کتاب سے نہیں ملتی۔ مسلمان بادشاہوں کے عہد میں جو کتابیں تصنیف ہوئی ہیں یہ عیب ان میں بھی ہے کہ اکثر کاتبوں نے ان کتابوں کو نہایت غلط کر دیا ہے، یہاں تک کہ اگر کتاب کا دوسرے نسخے سے مقابلہ کیا جاوے تو آپس میں بہت تفاوت نکلتا ہے علاوہ اس کے خود تصنیف کرنے والوں نے بھی اس پر خیال نہیں کیا کہ جو سنہ اور سال ہم لکھتے ہیں وہ وہ حساب کی رو سے بھی ٹھیک آتا ہے یا نہیں۔ ان خرابیوں پر خیال کرنے سے آدمی بہت حیران ہو جاتا ہے اور یقین جانتا ہے کہ ہندوؤں کی تاریخ کا درست ہونا نہایت دشوار ہے ہم نے اپنی دانست میں اور اپنے مقدور بھر ان سب باتوں پر خیال کیا اور جہاں تک ہو سکا ان خرابیوں کو درست کیا اور جس جگہ ہم نے راجاؤں کی مدت سلطنت اور سال جلوس میں اختلاف پایا، اس کتاب کی بات معتبر جانی کہ جس کی مدت سلطنت اور سال جلوس حساب کی رو سے بھی صحیح آن کر پڑے۔ علاوہ اس کے بعض سنہ ایسے ہیں کہ وہ نہایت مشہور ہیں اور ان میں غلطی کا احتمال نہیں، جیسے سمت بکر ماجیت یا سا کہا سالباھن یا سال کلجگ اس کے سوا بعضی ایسی تاریخیں ہیں جو اسی زمانے سے مکانات پر کندہ ہیں جیسے کہ سلطان شہاب الدین غوری کے فتح کرنے کے بعد سپہ سالاری قطب الدین ایبک مسجد قوت الاسلام کے دروازے پر کندہ ہے اس قسم کے سال اور تاریخ کو ہم نے بطور مرکز کے قرار دیا اور جس حساب سے یہ تاریخیں صحیح نکلیں اسی حساب کو ہم نے صحیح جانا۔ غرضیکہ ہم نے اس تاریخ کے لکھنے میں وہ سعی اور کوشش کی ہے کہ ہماری دانست میں اس سے زیادہ صحت متصور نہیں الا صحت ناموں میں ہم مجبور ہو گئے کہ راجاؤں کے ناموں کی صحت کماحقہ جیسا کہ ہم چاہتے تھے ویسی نہیں ہو سکی۔ علاوہ اس کے اصلی نام اور مشہور نام راجاؤں کے ہم نے اس کتاب میں لکھے ہیں، مگر ہم کو یقین ہے کہ ان ناموں کے سوائے اور بھی نام راجاؤں کے مشہور ہوں الا ان کا احاطہ کرنا ایک امر نہایت دشوار ہے۔ تیسری یہ کہ اس کتاب میں ہندو راجاؤں کی جس قدر مدت سلطنت لکھی ہے وہ سب شمسی حساب سے ہے اور مسلمان بادشاہوں کی مدت سلطنت قمری حساب پر ہے کیونکہ تاریخ کی کتابوں میں اسی طور پر لکھا ہے، مگر امتداد زمانہ سب بحساب شمسی مندرج ہے۔ چوتھی یہ کہ مولف کتاب دستور العمل نے مدت سلطنت راجاؤں کی اب تک پال تنور تک لکھی ہے اس میں ماہ اور یوم کی کسرات جو قلیل تھیں چھوڑ دی ہیں اور جو کثیر تھیں پوری کر دی ہیں۔ ہم نے بھی اسی دستور کو اختیار کیا، کیونکہ ان راجاؤں کا سلسلہ بلا کسرات بھی درست ہونا مشکل تھا چہ جائیکہ اس میں حساب شہور اور ایام کا لکھا جاوے۔ پانچویں یہ کہ اس بیان پر یہ تفریح ہوتی ہے کہ اگر کوئی سکہ کسی راجا کا ہاتھ آوے اور جس قدر مدت سلطنت اس راجا کی اس کتاب میں لکھی ہے اس سے ایک برس زیادہ کا سن اس سکے میں پڑا ہو تو اس کتاب کی غلطی خیال نہ کریں اور جان لیں کہ یہ ایک سنہ کی زیادتی اسی کسر کی بابت ہے جو واسطے سہولت کے چھوڑ دی گئی ہے۔ چھٹی یہ کہ اس کتاب میں جن سنوں کا حال مذکور ہے ان کی تفصیل بقید مطابقت اس مقام پر لکھ دیتے ہیں: جدول مطابقت سنین نام سنہ تعداد سال طوفانی 5204 ساکہا راجا جدھشٹر 4977 سال کل جگ 4953 اسکندری 2125 سبت بکر ماجیت 1909 عیسوی 1852 ساکہا سالبا ھن 1774 ھجری قمری 1268 ساتویں یہ کہ جن کتابوں سے یہ تاریخ منتخب کی گئی ہے ان کی فہرست اس مقام پر مندرج کرتے ہیں: 1ترجمہ فارسی مہا بھارت 2ترجمہ فارسی بھاگوت 3پوتھی گرگ سنگھتا 4راجا ولی تصنیف ولی 5واجا ولی دیگر جس کے مصنف کا نام بسبب نہ ہونے سرے کے اوراق کے معلوم نہ ہوا۔ 6طبقات اکبری 7منتخب دستوارات ہند مسمی بدستور العمل جو کسی شخص نے بطور خلاصہ انتخاب کیا ہے اور فی الجملہ حساب راجاؤں کا اس میں صحیح پایا گیا۔ 8تاریخ فرشتہ، بادشاہوں کا حال اکثر اسی تاریخ پر مبنی ہے۔ 9خلاصۃ التواریخ 10مراۃ آفتاب نما 11آئین اکبری 12جام جم سلسلہ فرمانروایا دار الملک اندریت و دھلی از ابتدائے راجا جدھسٹر لغایت 1852ء مطابق1268ء ہجری اندریت کے راجاؤں کی جو فہرست ’’ سلسلۃ الملوک‘‘ میں سرسید نے 1852ء میں مرتب کی تھی، بعد میں مزید غور و خوض کے نتیجے میں آپ نے اس میں کچھ غلطیاں محسوس کیں، لہٰذا بہت کاوش، تحقیق اور تفتیش کے بعد اس طویل فہرست کی تصحیح کر کے اس کو ’’ آثار الصنادید‘‘ کے دوسرے اڈیشن میں شائع کیا جو 1854ء میں چھپا، مگر اس ایڈیشن کی قریباً تمام کاپیاں مولانا حالی کے قول کے مطابق1857ء کے غدر میں تباہ ہو گئیں (حیات جاوید ایڈیشن چہارم صفحہ117) کہیں نہ کہیں سے اس کی ایک کاپی کسی طرح بہم پہنچا کر منشی رحمت اللہ رعد (کانپور) نے 1904ء میں نہایت نفاست کے ساتھ شائع کی۔ (یہ 1904ء والا اڈیشن بھی اب بہت نایاب ہے اور عام طور سے کہیں نہیں ملتا) اس ایڈیشن میں ہندو راجاؤں اور مسلمان بادشاہوں کی جو فہرست دی ہے وہ وہی ہے جو سرسید نے 1854ء میں شائع کی تھی، لہٰذا ہم بھی وہی فہرست آثار الصنادید1904ء والے ایڈیشن سے لے کر یہاں درج کرتے ہیں جو نسبتہً زیادہ صحیح اور درست ہے اور اتفاق سے میرے کتب خانے میں موجود ہے یہ فہرست1852ء میں شائع ہونے والی فہرست سے قدرے مختلف ہے، مثلاً1852ء میں راجا جدھشٹر کے سال جلوس کی تفصیل اس طرح دی ہے 227طوفانی سند احد جدھشٹر 24سال قبل از شروع کلجگ مگر 1904کے ایڈیشن میں لکھا ہے ’’ 1450سال قبل مسیح‘‘ (جو ظاہر ہے کہ نسبۃً بہت زیادہ قریب الفہم اور آسان ہے) اسی طرح 1852ء میں ’’ امتداد زمانہ‘‘ کا ایک خانہ ہے جو 1854ء کے ایڈیشن میں اڑا دیا گیا ہے یہ ترمیم اور تصحیح شدہ فہرست ذیل میں درج کی جاتی ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) نمبر نام فرمانروا نام پدر تخمیناً سال جلوس قبل حضرت مسیح دارالسلطنت تخمیناً مدت سلطنت حالات 1 راجا جدھشٹر راجا پانڈ 1450 ھستنا پور 36سال بعد وفات کرشن اوتار کے راجا جدھشٹر نے ریاست چھوڑ کر کوہ ھمانچل میں اپنے تئیں برف میں ڈال کر گلا دیا۔ 2 راجا پریچہت ابہمن بن ارجن بن راجا پانڈ 1414 36سال راجا جدھشٹر کی اجازت سے مسند پر بیٹھا اور سانپ کے کاٹنے سے مر گیا 3 راجا جنمیجہ راجا پریچہت 1382 34سال 4 راجا شانتیک عرف راجا اشمید راجا جنمیجہ 1348 ھستنا پور 33سال 5 راجا سنہرا نیک عرف راجا ادھمن راجا اشمید 1315 ھستنا پور 32سال 6 اشومی دھج عرف راجا مہا جی راجا ادھمن 1213 32سال 7 اشین کرشن راجا مہا جی 1247 35سال 8 نمی عرف راجا دشٹ وان اشین کرشن 1212 اول ھستنا پور بعدہ کوشکی ندی و بعدہ اندرپت 35سال گنگا کے چڑھاؤ سے ھستناپور بہہ گیا اس سبب سے راجا نے پہلے دکن میں کوشکی ندی کے کنارے شہر بسانا چاہا اور پھر اندرپت میں چلا آیا 9 راجا چکر عرف اوگر سین دشت وان 1177 اندرپت 36سال 10 راجا چتر رتھ عرف سورسین اوگرسین 1141 36سال 11 کیرتھ سورسین 1105 32سال 12 برشت مان عرف رسمی کیرتھ 1073 31سال 13 سوسین عرف راجا برچھل رسمی 1042 27سال 14 راجا سونتھ عرف سکھ پال راجا برچھل 1015 28سال 15 راجا نرچک شو عرف نرھردیو راجا سکھپال 987 23سال 16 سکھی نل عرف سورج رتھ نرھر دیو 324 اندرپت 18سال 17 پریلو عرف راجا بھوپت سورج رتھ 946 26سال 18 راجا سونی بھوپت 920 25سال اس راجا نے سونی پت شہر بسایا 19 راجا میدھاوی راجا سونی 895 23سال اسی راجا کا نام دھاوا بھی ہم جانتے ہیں جس کی بنائی ہوئی لوہے کی لاٹھ ہے 20 ترپ انجی عرف شروق پتر میدھاوی 872 25سال 21 دور بہہ عرف بھیکم شرون چتر 847 19سال 22 راجا نمی عرف بدارتھ راجا بھیکم 828 21سال 23 برھد رتھ عرف راجا دسوان راجا بدارتھ 807 20سال 24 سوداس عرف اونی پال راجا دسوان 787 40سال 25 شتانیک عرف ابھی دھر اونی پال 767 23سال 26 دردمن عرف ڈنڈ پان راجا ابھی دھر 744 18سال 27 بہی تر عرف دربل رائے ڈنڈ پان 726 اندرپت 19سال 28 ڈنڈ پانی عرف دشت پال دربل رائے 707 16سال اسی راجا نے پانی پت شہر بسایا 29 راجا نمی عرف کھیم پال دشت پال 691 26سال 30 کشی مک عرف راجا کہمین کھیم پال 665 22سال 807 بسرواہ وزیر نے اسی راجا کو مارا اور گدی پر بیٹھا 31 راجا بسراوہ 643 7سال 32 سورج سین بسراوہ 636 19سال 33 راجا بیر ساہ سورج سین 617 24سال 34 راجا اینک ساہ یا رب سین برساہ 593 22سال 35 راجا ھرجیت یا پتر سال راجا انیک ساہ 571 16سال 36 راجا دربہہ راجا ھرجیت 555 20سال 37 راجا سدھی پال راجا دربہہ 535 13سال 38 راجا برست راجا سدھی پال 522 19سال 39 راجا سنجی راجا برست 503 16سال 40 راجا امر جودہ راجا سنجی 487 13سال 41 این پال راجا امر جودہ 474 اندرپت 12سال 42 راجا سروھی راجا این پال 462 22سال 43 راجا پدارتھ راجا سروھی 440 12سال 44 راجا بدھل راجا پدارتھ 428 15سال 220 بیر باہ راجا نے اس راجا کو مارا اور آپ گدی پر بیٹھا 45 راجا بیر باہ 413 12سال 220 46 مراد سنگھ بیر باہ 392 14سال 47 شترکن مراد سنگھ 382 11سال 48 مہی پت یا دھن پت شترکن 371 12سال 49 مہابل مہی پت 359 19سال 50 سروپ دت مہابل 340 14سال شاید اس راجا کے وقت میں راجا دھلو والی قنوج کے نام سے اندرپت میں شہر بسا 51 مترسین سروپ دت 326 دھلی 12سال 52 راجا سکھ وان راجا متر سین 314 8سال 53 راجا جیت مل راجا سکھ دان 306 دھلی 14سال 54 راجا پال سنگھ راجا جیت مل 292 19سال 55 راجا کلمنی راجا پال سنگھ 273 19سال 56 راجا شتر مرون راجا کلمنی 254 6سال 57 راجا جیون جات راجا شروزون 248 13سال 58 راجا پریچہت راجا جیون جات 235 8 سال 59 راجا بیرسین راجا پریچہت 227 17سال 60 راجا اودپت راجا بیرسین 210 13سال 216 دھرتی دھر وزیر نے اس راجا کو مار ڈالا اور آپ گدی پر بیٹھا 61 راجا دھرنی دھر 197 19سال 62 راجا سین دھج راجا دھرنی دھر 168 25سال 63 مہی کٹک سین دھج 153 19سال 64 مہا جودہ مہی کٹک 134 22سال 65 بیر نابھ مہا جودہ 112 13سال 66 جیون راج بیرنابھ 99 21سال 67 اودی سین جیون راج 78 دھلی 17سال 68 راجا انند جگ اودی سین 61 25سال 69 راجا راج پال راجا انند جگ 36 12سال 173 راجا بھگونت کماون کے راجا نے دلی کو فتح کیا 70 راجا بھگونت کوھی 24 13سال بکرما جیت کی لڑائی میں مارا گیا 71 راجا بکرما جیت والی اجین راجا گندھرپ سین 11سمت 42 بکرماجیت اوجین 93سال جبکہ یہ راجا سالباھن کی لڑائی میں مارا گیا، دلی میں سمندر پال جوگی مسند پر بیٹھا 72 راجا سمندر پال جوگی 11سمت 42 ب 78ء 24سال 73 راجا چندر پال سمندر پال سمت 159 ب 102ء 27سال 74 نی پال چندر پال سمت 186 ب 129ء 21سال 75 دیس پال نی پال سمت 207 150ء 14سال 76 سکھ پال دیس پال سمت221 164ء 19سال 77 گوبند پال سکھ پال سمت 240 183ء 18سال 78 مکھ پال گوبند پال سمت258 ب 201ء دھلی 22سال 79 ھرچند پال مکھ پال سمت 280 223ء 13سال 80 مہی پال امرت پال بن ھرچند پال سمت 293 236ء 15سال 81 ھرپال مہی پال سمت 308 251ء دھلی 14سال 82 مدن پال ھرپال سمت322 225ء 18سال 83 کرم پال مدن پال سمت 340 283ء 15سال 84 بکرم پال یا کھیم پال کرم پال سمت355 298ء 12 سال 222 راجا ملوک چند سے بہیراج کے راجا نے لڑ کر فتح پائی 85 ملوک چند سمت 367 310ء 2سال 86 بکرم چند ملوک چند سمت 329 312ء 13سال 87 کان چند بکرم چند سمت 382 ب 325ء 1سال 88 رام چندر کان چند سمت 383 326ء 11سال 89 دھیر چند رام چند سمت 394 337ء دھلی 15سال 90 کلیان چند دھیر چند سمت 409 352ء 16سال 91 بھیم چند کلیان چند سمت425 368ء 12سال 92 ھرچند بھیم چند سمت 437 380ء 1سال 93 گوبند چند ھرچند سمت 438 381ء 13سال 94 رانی پیم دیوی زوجہ گوبند چند سمت 451 394ء 1سال 85 رانی مری تو لوگوں نے مل کر ھرپریم فقیر کو گدی پر بٹھا دیا 95 ھرپریم سمت 452 395 8سال 96 گوبند پریم ھر پریم سمت 460 395ء 20سال 97 گوپال پریم گوبند پریم سمت 480 423ء 16سال 98 مہا پاتر گوپال پریم سمت 496 439ء 7سال 51 راجا ریاست چھوڑ کر فقیر ہو گیا، خبر سن کر راجا دھی سین بنگالے کے راجا نے دلی پر قبضہ کر لیا 99 دھی سین سمت 503 442ء دھلی 18سال 100 بلاول سین دھی سین سمت 521 424ء 12سال 101 کنور سین بلاول سین سمت 533 476ء 15سال 102 مادھوسین کنور سین سمت 548 491ء 15سال 103 سور سین مادھو سین سمت 523 506ء 2سال 104 بھیم سین سور سین سمت 529 512ء دھلی 5سال 105 کان سین بھیم سین سمت 574 517ء 5سال 106 ھرسین کان سین سمت 579 522ء 9سال 107 کہتن سین ھرسین سمت588 531ء 2سال 108 نرائن سین کہن سین سمت 590 533ء 27سال 109 دامودر سین نرائن سین سمت 417 520ء 11سال 125 بارہ آدمیوں نے ایک سو پچیس برس حکومت کی، اخیر کو ارکان ریاست نے راجا دیب سنگھ کوھستان کے راجا سے سازش کر کر دلی میں بلا لیا 110 راجا دیب سنگھ کوھی سمت 628 571ء دھلی 17سال 111 رن سنگھ دیب سنگھ سمت 645 588ء 14سال 112 راج سنگھ رن سنگھ سمت 259 602ء 9سال 113 شیر سنگھ راج سنگھ سمت 228 211ء 45سال 114 ھرسنگھ شیر سنگھ سمت 713 256ء 37ھ 13سال 115 جیون سنگھ ھرسنگھ سمت 726 229ء 50ھ 7سال 105 چھ آدمیوں نے ایک سو پانچ برس حکومت کی، آخر کو انیک پال تنور نے دلی پر فتح پائی 116 انیک پال تنور اوکرسین سمت 733 676ء 57ھ دھلی 18سال 117 باسدیو انیک پال سمت 571 294ء 75ھ 9سال 1شہر 18یوم 118 کنک پال باسدیو سمت 770 713ء 95ھ 21سال 3شہر 28یوم 1شہر کے معنی مہینے کے ہیں، اس لیے یہ عبارت اس طرح پڑھی جائے گی کہ باسدیو نے 8برس ایک ماہ اور 18دن حکومت کی۔ آئندہ تمام جگہ سرسید نے اسی طرح راجاؤں اور بادشاھوں کی مدت سلطنت تحریر کی ہے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) نمبر نام فرمانروا نام پدر تخمیناً سال جلوس دارالسلطنت تخمیناً مدت حالات 119 پرتھی پال کنک پال سمت 792 735ء 117ھ دھلی 19سال 2شہر 19یوم 120 جے دیو پرتھی پال سمت 811 754ء 137ھ 21سال 7شہر 28یوم 121 ھرپال جے دیو سمت 832 775ء 159ھ 14سال 4شہر 9یوم 122 اودے راج ھرپال سمت 842 789ء 173ھ 26سال 7شہر 11یوم 123 بچھراج اودے راج سمت 872 812ء 201ھ 11سال 2شہر 13یوم 124 انکپال بچھراج سمت 894 837ء 223ھ 12سال 3شہر 12یوم 125 رکھ پال انکپال سمت 912 859ء 245ھ 21سال 2شہر 5یوم 126 نیک پال رکھ پال سمت 938 881ء 268ھ 2سال 24یوم 127 گوپال نیک پال سمت 940 883ء 270ھ دھلی 18سال 3شہر 15یوم 128 سلکھن گوپال سمت 958 901ء 289ھ دھلی 25سال 2شہر 10یوم 129 جے پال سلکھن سمت 983 926ء 314ھ 16سال 4شہر 13یوم 130 کنور پال جے پال سمت 1000 943ء 332ھ 29سال 9شہر 11یوم 131 انیکپال کنور پال سمت 1029 972ء 362ھ 29سال 6شہر 18یوم 132 بجی پال انیکپال سمت 1059 1002ء 393ھ 24سال ایک شہر 2یوم 133 مہی پال بجی پال سمت 1083 1026ء 417ھ 25سال 2شہر 13یوم 134 اگر پال مہی پال سمت 1108 1051ء 443ھ 21سال 2شہر 15یوم 135 پرتھی راج اگر پال سمت 1129 1072ء 465ھ 22سال 2شہر 16یوم 419سال 7شہر 28یوم بیس آدمیوں نے چار سو انیس برس سات مہینے اٹھائیس دن حکومت کی، آخر کو بیلدیو چوھان نے فتح پائی 136 بیلدیو انیلدیو سمت 1152 1095ء 495ھ دھلی 2سال ایک شہر 4یوم 137 امر کنکو بیلدیو سمت 1158 1101ء 499ھ 5سال 2شہر 5یوم 138 کھرپال امر کنکو سمت 1123 1106ء 500ھ 20سال ایک شہر 5 یوم 139 سمیر کھرپال سمت 1183 1126ء 520ھ دھلی 7سال 4شہر 2یوم 140 جاھرا سمیر سمت 1190 1133ء 528ھ 4سال 4شہر 8یوم 141 ناک دیو جاھرا سمت 1195 1138ء 533ھ 3سال ایک شہر 5یوم 142 پرتھی راج عرف رائے پتھورا ناک دیو سمت 1198 1141ء 536ھ اجمیر و دھلی 49سال 5شہر ایک یوم (1) 95سال 7شہر سات آدمیوں نے پچانوے برس سات مہینے حکومت کی، آخر کو رائے پتھورا معز الدین محمد بن سام عرف سلطان شہاب الدین غوری کی لڑائی میں مارا گیا اور سلطنت مسلمانوں کے گھرانے میں چلی گئی اگرچہ غور کا بادشاہ غیاث الدین محمد بن سام سلطان شہاب الدین کا بھائی تھا، لیکن سلطان شہاب الدین نے ہندوستان کی فتح خود آپ کی تھی اور اس کو بذاتہ تسلط عظیم تھا، اس لیے سلطان شہاب الدین ہی فتح کی تاریخ سے دلی کے بادشاہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ نوٹ از طرف مرتب رائے پتھورا کے مارے جانے کے بعد دھلی کا تخت وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے مختلف خاندانوں کے قبضے میں آتا رہا اور غوری، غلام، خلجی، سادات اور لودھی ایک دوسرے کے بعد اس پر قابض ہوتے رہے، یہاں تک کہ ہندوستان کی سلطنت لودھیوں سے چھن کر مغلوں کے قبضے میں آئی، مگر درمیان میں تھوڑے عرصے کے لیے پٹھان بھی سلطنت دھلی پر قابض رہے، مگر پھر سلطنت مغلوں کے پاس واپس چلی گئی اور مغل سلطنت کا دور دورہ پھر شروع ہو گیا، جس کا خاتمہ 1857ء میں ہوا۔ سرسید نے اپنی کتاب آثار الصنادید اور اپنے مضمون سلسلۃ الملوک میں ہندو راجاؤں کے حالات بیان کرنے کے بعد ان تمام مسلمان بادشاہوں کے حالات بھی قلمبند کیے ہیں جنہوں نے شہاب الدین غوری سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک دھلی کے تخت پر حکومت کی۔ سرسید نے ان تمام مسلم فرمانرواؤں کا حال 13 خانوں میں جدول کے طور پر لکھا ہے جن کے عنوان یہ تھے:1نمبر 2نام فرمانروا 3نام پدر 4 قوم 5سال ولادت 6سال جلوس 7محل جلوس 8دار السلطنت 9 مدت سلطنت قمری 10 سال وفات 11مدت عمر 12مدفن 13حالات، مگر چونکہ ان 13خانوں کی تفصیلات صفحے کے چھوٹا ہونے کے لحاظ سے جدول کے طور پر یہاں نہیں آ سکتیں، اس لیے مجبوراً میں ان کو مسلسل عبارت میں لکھ رہا ہوں، کیونکہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ٭٭٭٭٭٭ (شاھان اسلام) نمبر143شہاب الدین الملقب بہ ابو المظفر سلطان معز الدین محمد بن بہاء الدین سام، قوم غوری، سال جلوس 587 ھ مطابق 1191ء موافق سمت 1248بکرمی، محل فتح، ترائن عرف بلاوری، کنار آب سرستی، دار السلطنت غزنیں، مدت سلطنت پندرہ سال، سال وفات سوم شعبان 602 ھجری مطابق 1205عیسوی، مدفن غزنیں اپنی بیٹی کے مقبرے میں (حالات) لاہور سے غزنیں جاتے ہوئے رتھک کے مقام پر کھگروں نے مار ڈالا اور غور کی سلطنت پر اس کا بھتیجا سلطان محمود بیٹھا اور چونکہ قطب الدین اب تک سلطان شہاب الدین کی طرف سے ہندوستان کا سپہ سالار تھا اور اس نے بہت قوت بہم پہنچائی تھی، اس واسطے سلطان محمود نے ہندوستان کی بادشاہی قطب الدین ایک کو بخش دی اور خط آزادی اور چتر بادشاہی بھیج دیا اور قطب الدین لاہور تک اس کے استقبال کو گیا۔ نمبر144سلطان قطب الدین ایبک، غلام سلطان شہاب الدین غوری، قوم ترک، سال جلوس روز سہ شنبہ ھجدھم ذی قعدہ 602ھ مطابق 1205ء محل جلوس، لاہور، دارالسلطنت دھلی قلعہ رائے پتھورا، مدت سلطنت 4سال چند ماہ سال وفات 607ھ مطابق 1210ء مدفن لاہور (حالات) لاہور میں بر وقت چوگان بازی کے گھوڑے سے گر کر مر گیا۔ امراء نے اس کے بیٹے کو تخت پر بٹھایا۔ نمبر145 آرام شاہ بن قطب الدین ایبک قوم ترک سال جلوس 207ھ مطابق 1210ء محل جلوس لاہور دارالسلطنت دھلی 1آجل کل اس قصبے کا نام تراوڑی ہے اور یہ ضلع کرنال (بھارت) میں واقع ہے (محمد اسماعیل پانی پتی) قلعہ رائے پتھورا مدت سلطنت چند ماہ (حالات) امیر علی اسمعیل سپہ سالار اور امیر داؤ ددیلمی نے اس بادشاہ کی حرکتوں سے ناراض ہو کر سلطان شمس الدین التمش کو جو بداؤں کا حاکم تھا۔ دلی میں بلا لیا اور آرام شاہ سے لڑائی ہوئی اور آرام شاہ نے شکست کھائی اور سلطان التمش تخت پر بیٹھا۔ نمبر146سلطان شمس الدین التمش غلام و داماد قطب الدین ایبک بن ایلم خاں، قوم ترک، سال جلوس 207ھجری مطابق 1210عیسوی، محل جلوس، قلعہ رائے پتھورا، دار السلطنت، دھلی، مدت سلطنت،26سال، سال وفات بستم شعبان 233 ھ مطابق 1235ئ، مدفن، قلعہ رائے پتھورا عقب مسجد قوت الاسلام (حالات) بیمار ہو کر مر گیا۔ نمبر147 رکن الدین فیروز شاہ بن شمس الدین التمش قوم ترک، سال جلوس، روز سہ شنبہ ماہ شعبان 633ھ مطابق 1235ء محل جلوس، قلعہ رائے پتھورا، دارلسلطنت، دھلی، مدت سلطنت 2 ماہ 28یوم، سال وفات 235ھ مطابق1237ء مدفن، ملک پور(حالات) ملک اعزاز الدین حاکم ملتان کی نتبیہہ کو پنجاب کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے پیچھے امراء نے سلطانہ رضیہ کو تخت پر بٹھایا۔ بادشاہ یہ خبر سن کر دلی میں آیا اور کیلو کھڑکی کے میدان میں لڑائی ہوئی، اسی لڑائی میں پکڑا گیا اور قید میں مر گیا۔ 1تاریخ فرشتہ میں سلطان شمس الدین کا تخت پر بیٹھنا 607ھ میں لکھا ہے اور خلاصۃ التواریح میں609ھ میں اور تاریخ فرشتہ میں مدت سلطنت چھبیس برس اور خلاصۃ التواریخ میں اٹھائیس برس مندرج ہے۔ دونوں تاریخوں میں تین برس کا اختلاف ہے۔ اس سبب سے سال جلوس رکن الدین فیروز شاہ کا بموجب تاریخ فرشتہ کے 233ھ میں اور بموجب خلاصۃ التواریخ کے 636 ھ میں آیا ہے اور یہ اختلاف اخیر تک چلا جاتا ہے۔ 148رضیہ سلطان بیگم بنت شمس الدین التمش، قوم ترک، سال جلوس 634ھجری مطابق 1236عیسوی محل جلوس قلعہ رائے پتھورا، دار السلطنت، دھلی، مدت سلطنت 3سال 2شہر 6یوم سال وفات پچیسویں ربیع الاول 638ھ مطابق 1240ء مدفن، شاھجہان آباد، محلہ بلبلی خانہ، گذر ترکمان (حالات) جبکہ ملک التونیہ بٹھنڈہ کے حاکم سے لڑائی ہو رہی تھی ۔ اس وقت امراء نے مخالفت کر کر سلطان رضیہ کو قلعہ بٹھنڈہ میں قید کیا اور دلی میں بہرام شاہ کو تخت پر بٹھا دیا بعد اس کے سلطان رضیہ نے ملک التونیہ سے نکاح کر لیا اور بہرام شاہ سے دو مرتبہ لڑی آخر کو ماری گئی۔ نمبر149معز الدین بہرام شاہ بن شمس الدین قوم ترک سال جلوس روز سہ شنبہ بست و ھشتم رمضان638ھ مطابق 1239ء محل جلوس قلعہ رائے پتھورا دار السلطنت دھلی، مدت سلطنت2 سال ایک ماہ 10یوم سال وفات ہشتم ذی قعدہ روز شنبہ 639ھ مطابق 1241ء مدفن ملک پور (حالات) نظام الملک مہذب الدین اور امراء نے مخالفت کر کر بادشاہ کو دلی میں محصور کیا اور تین مہینے تک ہر روز لڑائی رہی آخر کار بادشاہ کو پکڑ کر مار ڈالا اور ملک معز الدین بلبن امیر الامراء تخت پر بیٹھ گیا مگر اور امراء اس کی بادشاہت پر راضی نہ ہوئے اور علاء الدین کو جو قصر سفید میں قید تھا بادشاہ کیا۔ نمبر150سلطان علاء الدین مسعود شاہ بن رکن الدین فیروز شاہ قوم ترک، سال جلوس ذی قعدہ 639ھ مطابق 1241ء محل جلوس، قلعہ رائے پتھورا، دار السلطنت، دھلی، مدت سلطنت 4سال ایک ماہ ایک یوم، سال وفات 644ھ مطابق 1246ء (حالات) اس بادشاہ کے ظلم سے امراء ناراض ہوئے اور سلطان ناصر الدین کو بہرانچ سے بلا کر بادشاہ کیا اور 26محرم 244ھ مطابق1246عیسوی میں علاء الدین کو قید کر لیا کہ اسی زمانے میں قید میں مر گیا۔ نمبر151 سلطان ناصر الدین محمود شاہ بن شمس الدین التمش قوم ترک، سال جلوس ذی الحجہ 243ھ مطابق 1245ء محل جلوس، قصر سفید قلعہ رائے پتھورا، دار السلطنت، دھلی، مدت سلطنت 20 سال چند ماہ، سال وفات یازدھم جمادی الاول 224ھ مطابق 1265ء مدفن، دھلی (حالات) بیمار ہو کر مر گیا اور چونکہ کوئی وارث نہ تھا۔ امراء نے الغ خاں کو بادشاہ کر لیا۔ نمبر152الغ خاں الملقب بہ سلطان بلبن غیاث الدین، غلام شمس الدین التمش، قوم ترک، سال ولادت 205ھجری مطابق 1208ء سال جلوس، جمادی الاول 664ھ مطابق 1265ء محل جلوس، قصر سفید قلعہ رائے پتھوڑا، دار السلطنت، دھلی، مدت سلطنت، 21سال چند ماہ، سال وفات 282ھ مطابق 1287ء مدت عمر80سال مدفن دھلی (حالات) بیمار ہو کر مر گیا اور ملک فخر الدین کوتوال اور اور امراء نے آپس میں صلاح کر کر معز الدین کیقباد کو بادشاہ کیا۔ نمبر153معز الدین کیفیاد بن ناصر الدین بغرا خاں بن غیاث الدین بلبن، قوم ترک، سال ولادت667ھ مطابق 1268ء سال جلوس 686ھ مطابق 1287ء محل جلوس رائے پتھوڑا دارالسلطنت، قصر دھلی کیلوکھری، مدت سلطنت،2سال چند ماہ، سال وفات جمادی الآخر 289ھ مطابق 1290ء مدت عمر 20سال (حالات) بادشاہ کو فالج ہو گیا۔ اس سبب سے امراء نے کیومرث اس کے بیٹے کو سلطان شمس الدین کا لقب دے کر محرم 289مطابق 1290ء میں تخت پر بٹھایا۔ مگر امرائے خلجی نے مخالفت کی اور کیومرث کو بہادر پور میں پکڑ کر لے گئے اور بادشاہ کو لاتوں سے مار ڈالا۔ اور ملک جلال الدین خلجی تخت پر بیٹھا۔ تیرہ آدمیوں نے ترکوں میں سے جو سلاطین غوریہ کے غلاموں میں سے تھے سو برس تک بادشاہی کی بعد اس کے سلطنت خاندان خلجیوں میں چلی گئی۔ نمبر154 جلال الدین فیروز شاہ خلجی بن یغرش، قوم خلجی ترک، سال ولادت 218 ھ مطابق 1221ء سال جلوس، جمادی الآخرہ 289ھ مطابق 1290ھ محل جلوس، کیلوکھری، دارالسلطنت، دھلی، مدت سلطنت 2سال چند ماہ سال وفات 295ھ مطابق 1295ء مدت عمر77سال (حالات) ملک علاء الدین نے دغا سے بادشاہ کو کڑہ مانک پور میں بلایا اور جب بادشاہ کشتی میں سے اترتا تھا اس وقت ا سکو تلوار مار کر مار ڈالا جب یہ خبر دلی میں پہنچی تو ملکہ جہاں بادشاہ کی بی بی نے رکن الدین اپنے چھوٹے بیٹے کو تخت پر بٹھایا۔ نمبر155رکن الدین ابراہیم شاہ بن جلال الدین فیروز شاہ قوم، خلجی، سال جلوس، رمضان 295ھ مطابق 1295ء محل جلوس، کوشک سبز، دار السلطنت، دھلی، مدت سلطنت، 4ماہ، (حالات) سلطان علاء الدین سے لڑ کر بھاگ گیا۔ اور سلطان علاء الدین دلی کے تخت پر بیٹھ گیا۔ نمبر156سلطان علاء الدین بن شہاب الدین مسعود، قوم خلجی، سال جلوس، بست و دوم ذی الحجہ 295ھ مطابق 1295ء محل جلوس، قلعہ رائے پتھورا، دار السلطنت، دھلی قلعہ سیزی، مدت سلطنت 19سال چند ماہ سال وفات شب ششم ماہ شوال 715ھ مطابق 1315ء مدفن قلعہ رائے پتھورا، عقب مسجد قوت الاسلام (حالات) بیمار ہو کر مر گیا امراء نے باہم صلاح کر کے شہاب الدین کو تخت پر بٹھایا۔ نمبر157شہاب الدین عمر بن سلطان علاء الدین قوم، خلجی، سال ولادت 709ھ مطابق 1309ئ، سال جلوس، ہفتم شوال 715ھ مطابق 1315ء محل جلوس، قلعہ علائی، دارالسلطنت، دھلی، مدت سلطنت 3ماہ چند یوم (حالات) مبارک خاں ایک تدبیر سے ملک نائب مدارا المہام سلطنت کو مروا کر آپ نائب السلطنت ہوا اور چند روز بعد بادشاہ کو پکڑ کر اندھا کر دیا اور گوالیار کے قلعے میں قید کیا اور آپ بادشاہ ہوا۔ نمبر158قطب الدین مبارک شاہ بن سلطان علاء الدین قوم خلجی، سال وفات محمر 716ھ مطابق 1316ء محل جلوس، قلعہ علائی، دار السلطنت، دھلی، مدت سلطنت 5سال ایک ماہ 27یوم، سال وفات شب پنجم ربیع الاول 721ھ مطابق 1321ء (حالات) جاھر بیگ نے بسازش خسرو خاں کے بادشاہ کو قصر ہزار ستون میں مارا اور خسرو خاں تخت پر بیٹھا۔ نمبر159 حسن خاں الملقب بہ سلطان ناصر الدین خسرو خاں قوم، بروار، سال جلوس ربیع الاول 721ھ مطابق 1321ء محل جلوس، قلعہ علائی، قصر ہزار ستون، دار السلطنت، دھلی، مدت سلطنت 4ماہ چند یوم، سال وفات آخر ماہ رجب 721ھ مطابق 1321ء (حالات) غازی الملک تعلق شاہ وسال پور کے حاکم نے خسرو خاں پر فوج کشی کی اور خسرو خاں حوض علائی کے کنارے پر نکلا اور میدان اندر پت میں لڑائی ہوئی اور خسرو خاں بھاگ کر تل پت میں چھپا۔ آخر کار پکڑا جا کر مارا گیا اور تغلق شاہ بادشاہ ہوا۔ نمبر160 سلطان غیاث الدین تغلق شاہ بن ملک تغلق قوم ترک، سال جلوس، غرہ شعبان 721ھ مطابق 1321ء محل جلوس، قلعہ علائی، قلعہ تغلق آباد، مدت سلطنت 4سال چند ماہ سال وفات، ربیع الاول 725ھ مطابق 1324ء مدفن تغلق آباد (حالات) الغ خاں اس کے بیٹے نے قریب افغان پور کے ایک محل بنایا تھا اس میں بادشاہ کھانا کھا رہا تھا کہ مکان گر پڑا اور بادشاہ دب کر مر گیا اس کا بیٹا تخت پر بیٹھا۔ نمبر161سلطان محمد عادل تغلق شاہ بن غیاث الدین تغلق شاہ قوم ترک، سال جلوس ربیع الاول 725ھ مطابق 1324ء محل جلوس، تغلق آباد، دار السلطنت، شہر دھلی، بعدہ دولت آباد و باز دھلی، مدت سلطنت 27سال، سال وفات بست و یکم محرم 752ھ مطابق 1351ء مدفن، تغلق آباد (حالات ) سفر ٹھٹھہ میں بیمار ہو کر ٹھٹھہ سے چودہ کوس ورے رود سندھ کے کنارے پر مر گیا۔ نمبر162فیروز شاہ بن سالار رجب برادر خور تغلق شاہ قوم ترک، سال ولادت299ھ مطابق 1298ء سال جلوس، بست و سوم محرم 752ھ مطابق 1351ء محل جلوس، سبھوان، دار السلطنت، شہر دھلی فیروز آباد، مدت سلطنت 38سال، 7ماہ 20یوم، سال وفات سیزدھم رمضان 790ھ مطابق 1388ء مدت عمر 91سال، مدفن حوض خاص (حالات) احمد ایاز المخاطب بہ خواجہ جہاں نے دلی میں غیاث الدین محمد کو تخت پر بٹھایا تھا کہ فیروز شاہ نے اٹھا دیا بعد چند مدت کے فیروز شاہ نے اپنے جیتے جی شاھزادہ فتح خاں کو تخت پر بٹھایا اور سکہ اور خطبہ اس کے نام پر کر دیا اور جب وہ مر گیا تو محمد خاں کو ناصر الدین محمد شاہ خطاب دے کر تخت پر بٹھایا۔ مگر امراء نے اس سے مخالفت کی اور لڑ کر کوہ سرمور کی طرف بھگا دیا اور تغلق شاہ کو تخت پر بٹھایا۔ اور اسی عرصے میں فیروز شاہ مر گیا اور تغلق شاہ مستقل بادشاہ ہوا۔ غیاث الدین محمد بن تغلق شاہ، سال جلوس 752ھ مطابق 1351ء شاھزادہ فتح خاں بن فیروز شاہ ، سال جلوس 760ھ مطابق 1359ء ناصر الدین محمد شاہ بن فیروز شاہ سال ولادت 753ھ مطابق 1352ء سال جلوس 789ھ مطابق 1387عیسوی نمبر163سلطان غیاث الدین تغلق شاہ ثانی بن شاہزادہ فتح خان قوم ترک، سال جلوس 290ھ مطابق 1388ء محل جلوس: فیروز آباد دار السلطنت دھلی، مدت سلطنت 5ماہ 8یوم سال وفات بست و یکم صفر 791ھ مطابق1388ء (حالات) ملک رکن الدین وزیر نے اس بادشاہ کو مار ڈالا اور ابو بکر شاہ کو تخت پر بٹھایا۔ نمبر164ابو بکر شاہ بن ظفر خان بن فیروز شاہ، قوم ترک، سال جلوس صفر 791ھ مطابق 1388ء محل جلوس فیروز آباد، دار السلطنت، دھلی، مدت سلطنت، ایک سال چھ ماہ چند یوم سال وفات بستم ذی الحجہ 792ھ مطابق 1389ء (حالات) یہ بادشاہ امراء کو اپنے سے مخالف دیکھ کر اور ناصر الدین محمد شاہ کے آنے کی خبر سن کر میوات میں چلا گیا اور ناصر الدین محمد شاہ دلی میں آ کر تخت پر بیٹھ گیا۔ اور بعد لڑائیوں کے ابو بکر شاہ کو پکڑ کر قلعہ میرٹھ میں قید کیا کہ وہیں مر گیا۔ نمبر165ناصر الدین محمد شاہ بن فیروز شاہ، قوم ترک، سال ولادت روز دو شنبہ سوم جمادی الاول 753ھ مطابق 1351ء سال جلوس، نوزدھم رمضان 792ھ مطابق 1389ء محل جلوس فیروز آباد، دار السلطنت، دھلی، مدت سلطنت 3سال 5ماہ چند یوم، سال وفات ھفتدھم ربیع الاول 792ھ مطابق 1393ء مدت عمر43سال، مدفن، حوض خاص (حالات) بیمار ہو کر جالیسر میں مر گیا ھمایوں خاں سکندر اس کا بیٹا بادشاہ ہوا۔ نمبر166 علاء الدین سکندر شاہ بن ناصر الدین محمد شاہ قوم ترک، سال جلوس نوزدھم ربیع الاول 796ھ مطابق 1393ء محل جلوس، فیروز آباد، دار السلطنت، دھلی، مدت سلطنت، ایک ماہ چند یوم، سال وفات ربیع الثانی 796ھ مطابق 1393ء مدفن حوض خاص (حالات) بیمار ہو کر مر گیا بعد اس کے پندرہ روز تک امراء میں گفتگو رہی کہ کس کو بادشاہ کریں آخر محمود شاہ کو تخت پر بٹھایا۔ نمبر167ناصر الدین محمود شاہ، بن ناصر الدین محمد شاہ، قوم ترک، سال جلوس جمادی الاول 796ھ مطابق 1393ء محل جلوس فیروز آباد دار السلطنت، دھلی، مدت سلطنت 19سال 8ماہ چند یوم، سال وفات ذی قعدہ 815ھ مطابق 1412ء (حالات) اس بادشاہ کی سلطنت میں نہایت تزلزل رہا۔ سعادت خاں نے نصرت شاہ کو فیروز آباد میں تخت پر بٹھا دیا تھا اور پھر اقبال خاں فیروز آباد پر قابض ہو گیا اور کبھی یہ بادشاہ بھاگ گیا اور کبھی پھر آ گیا اور اسی درمیان میں امیر تیمور بھی دلی میں آیا۔ آخر کو یہ بادشاہ بیمار ہو کر کیتھل سے مراجعت کرتے وقت مر گیا۔ امراء نے دولت خاں کو بادشاہ کیا۔ (نصرت شاہ اقبال خاں اور امیر تیمور کے کوائف یہ ہیں) (1) ناصر الدین نصرت شاہ بن شاھزادہ فتح خاں بن فیروز شاہ سال جلوس 797ھ مطابق 1394ء 801ھ مطابق 1298ء شہر فیروز آباد (2) اقبال خاں عرف ملو پٹھان سال جلوس 800ھ مطابق 1397ء تا 802ھ مطابق 1299کوشک سیزی۔ (3) امیر تیمور بن امیر طراغان چغتائی، سال ولادت، شب سہ شنبہ بست و ھفتم شعبان 736ھ مطابق 1335ء سال جلوس جمادی الاول 801ھ مطابق 1398ء دھلی میں پندرہ دن تک رہا اور شب چہار شنبہ ھفتدھم شعبان 807ھ مطابق 1405کو 71سال 11ماہ 20یوم کی عمر میں وفات پائی اور سمرقند میں دفن ہوا۔ نمبر168دولت خاں لودھی، سال جلوس محرم 716ھ مطابق 1413ء محل جلوس کوشک سیزی، دار السلطنت دھلی مدت سلطنت ایک سال 2ماہ چند یوم، سال وفات 817ھ مطابق 1414ء (حالات) خضر خاں نے دلی پر فوج کشی کی اور دولت خاں کو شک سیریمیں محصور ہوا۔ آخر کار خضر خاں کے پاس چلا آیا اور اس نے فیروز آباد میں قید کیا اور وہیں مر گیا۔ نمبر169 خضر خاں بن ملک سلیمان قوم سید، سال جلوس پانزدھم ربیع الاول 817ھ مطابق 1414ء محل جلوس کوشک سیزی دار السلطنت دھلی، مدت سلطنت 7سال دو ماہ دو یوم سال وفات ھفت دھم جمادی اولیٰ 824ھ مطابق 1421ء مدفن دھلی (حالات) اٹووے میں بیمار ہو کر دلی میں آیا اور اس کا بیٹا تخت پر بیٹھا۔ نمبر170معز الدین ابو الفتح مبارک شاہ بن خضر خاں سید، سال جلوس ھفت دھم جمادی اولیٰ 824ھ مطابق 1421ء محل جلوس کوشک سیزی دارالسلطنت دھلی مدت سلطنت 13سال ایک ماہ چند یوم، سال وفات نہم رجب 873ھ مطابق 1433ء مدفن دھلی، مبارک پور کوٹلہ( حالات) مبارک آباد میں جو اس بادشاہ نے دریا کے کنارے پر بنایا تھا میران صدر اور قاضی عبدالصمد نے اس بادشاہ کو مار ڈالا اور سرور الملک وزیر کو خبر کی۔ اس نے صلاح کر کر محمد شاہ کو تخت پر بٹھایا۔ نمبر171 سلطان محمد شاہ بن فرید خاں بن خضر خاں سید سال جلوس نہم رجب 837ھ مطابق 1433ء محل جلوس کوشک سیزی، دار السلطنت دھلی مدت سلطنت 12سال چند ماہ، سال وفات 849ھ مطابق 1445ء مدفن دھلی متصل مقبرہ صفدر جنگ در سواد موضع خیر پور (حالات) بیمار ہو کر مر گیا اور اس کا بیٹا بادشاہ ہوا۔ نمبر172 سلطان علاء الدین عالم شاہ بن محمد شاہ سید سال جلوس 849ھ مطابق 1445ء محل جلوس کوشک سیزی دار السلطنت دھلی مدت سلطنت 2سال چند ماہ سال وفات883ھ مطابق 1478ء حالات بادشاہ بدائیوں میں جا پڑا اور ملک بہلول لودھی دلی پر قابض ہو کر تخت پر بیٹھا۔ نمبر173سلطان بہلول لودھی بن ملک کالا سال جلوس ھفت دھم ربیع الاول 855ھ مطابق 1451ء محل جلوس کوشک سیزی دار السلطنت دھلی، مدت سلطنت 38سال 8ماہ 7یوم سال وفات 894ھ مطابق 1488ء مدفن دھلی متصل درگاہ چراغ دھلی (حالات) بیمار ہو کر مر گیا اور خان خانان نے اس کے بیٹے کو تخت پر بٹھایا۔ نمبر174 سلطان سکندر بن سلطان بہلول لودھی، سال جلوس 894ھ مطابق1488ء محل جلوس قصبہ جلالی، دار السلطنت دھلی بعدہ آگرہ، مدت سلطنت 28سال پنج ماہ سال وفات، روز یک شنبہ ہفتم ذیقعدہ 923ھ مطابق 1517ء مدفن دھلی (حالات) اس بادشاہ کے عہد میں ہندوؤں نے فارسی لکھنا اور پڑھنا شروع کیا۔ اس سے پہلے کوئی نہ پڑھتا تھا آخر کو بیمار ہو کر مر گیا۔ نمبر175سلطان ابراہیم بن سلطان سکندر لودھی سال جلوس ذی قعدہ 923ھ مطابق 1517ء محل جلوس و دار السلطنت آگرہ مدت سلطنت 8سال چند ماہ سال وفات ہشتم رجب 932ء مطابق 1525ء مدفن پانی پت (حالات) پانی پت کے میدان میں بابر شاہ کی لڑائی میں مارا گیا اور مغلوں کے خاندان میں بادشاہت چلی گئی۔ نمبر176ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ بن شیخ عمر مرزا قوم چغتائی سال ولادت 888ھ مطابق 1483ء سال جلوس، رجب 932ھ مطابق 1525ء محل جلوس دھلی، دار السلطنت آگرہ مدت سلطنت 4سال چند ماہ، سال وفات روز دو شنبہ، ششم جمادی الاولیٰ،937ھ مطابق 1530ء مدت عمر 49سال چند ماہ مدفن کاہل (حالات) بیمار ہو کر مر گیا۔ نمبر177نصیر الدین ہمایوں بادشاہ (مرتبہ اول) بن بابر بادشاہ قوم چغتائی، سال ولادت ذی قعدہ 913ھ مطابق 1507ء سال جلوس، جمادی الاول 937ھ مطابق 1530ء محل جلوس، آگرہ دار السلطنت آگرہ بعدہ دھلی، مدت سلطنت 11سال پنج ماہ چند یوم، سال وفات یازدھم ربیع الاول 923ھ مطابق 1555ء مدت عمر 49سال سہ ماہ 26یوم، مدفن، دھلی مقبرہ ہمایوں، شیر شاہ کی لڑائی میں شکست ہوئی اور بادشاہ ایران چلا گیا۔ نمبر178فرید خاں المقلب بہ شیر شاہ بن حسن، قوم سور پٹھان، سال ولادت، رجب 877ھ مطابق 1472ء سال جلوس 947ھ مطابق 1540ء محل جلوس آگرہ، دار السلطنت دھلی، مدت سلطنت 4سال 4ماہ 15یوم سال وفات دوازدھم ربیع الاول 952ھ مطابق 1545ء مدت عمر 74سال 8ماہ چند یوم مدفن سہسرام (حالات) کالنجر کے قلعہ کی لڑائی میں باروت سے جل کر مر گیا۔ نمبر179جلال خاں الملقب بہ اسلام شاہ بن شیر شاہ قوم سور پٹھان سال ولادت صفر 902ھ مطابق 1492ء سال جلوس پانزدھم ربیع الاول 952ھ مطابق 1545ء محل جلوس قلعہ کالنجر دار السلطنت دھلی مدت سلطنت 8سال 2ماہ 10یوم سال وفات بست و پنجم جمادی الاول مدت عمر58سال 3ماہ چند یوم (حالات ) بیمار ہو کر مر گیا اور فیروز خاں تخت پر بیٹھا۔ نمبر180 فیروز شاہ بن اسلام شاہ قوم سور پٹھان، سال وفات ربیع الثانی 948ھ مطابق 1541ء سال جلوس، بست و ششم جمادی الاول 960ھ مطابق 1552ء محل جلوس و دار السلطنت دھلی، مدت سلطنت 3یوم سال وفات، بست و نہم جمادی الاول 960ھ مطابق 1552ء مدت عمر 12سال چند یوم (حالات) مبارز خاں اس کے ماموں نے مار ڈالا اور آپ تخت پر بیٹھا۔ نمبر181مبارز خاں الملقب بہ محمد عادل شاہ بن نظام خاں قوم سور پٹھان، سال ولادت، شعبان 911ھ مطابق 1505ء سال جلوس، بست و نہم جمادی الاول 960ھ مطابق 1552ء محل جلوس و دار السلطنت دھلی، مدت سلطنت یکسال 11ماہ 7یوم (حالات) ابراہیم خاں نے بنی عم شیر شاہ سے لڑ کر شکست پائی۔ نمبر182 سلطان ابراہیم قوم سور پٹھان، سال ولادت 903ء مطابق 1497ء سال جلوس، ششم جمادی الاول 926ھ مطابق1554ء محل جلوس و دار السلطنت دھلی، مدت سلطنت 2ماہ 3یوم سال وفات 975ھ مطابق 1572ء مدت عمر، 72سال (حالات) احمد خاں نے بنی عم شیر شاہ سے لڑ کر شکست پائی۔ نمبر183احمد خاں الملقب بہ سکندر شاہ بن حسین شاہ قوم سور پٹھان سال جلوس، ربیع الاول 911 ھ مطابق 1505ء سال جلوس نہم رجب 962ھ مطابق 1554ء محل جلوس فرح، دار السلطنت دھلی، مدت سلطنت2ماہ (حالات) ھمایوں بادشاہ سے شکست کھا کر بنگالے کی طرف بھاگ گیا۔ نمبر184 نصیر الدین محمد ھمایوں بادشاہ (مرتبہ دوم) بن بابر بادشاہ قوم چغتائی سال ولادت شب سہ شنبہ چہار دھم ذی قعدہ 912ھ مطابق 1507ء سال جلوس، رمضان 926ھ مطابق1554ء محل جلوس و دار السلطنت دھلی مدت سلطنت2ماہ چند یوم سال وفات یازدھم ربیع الاول 923ھ مطابق1554ء مدت عمر49سال 3ماہ 26یوم مدفن دھلی مقبرہ ہمایوں (حالات) شیر منڈل واقعہ قلعہ کہنہ میں سے اترتے وقت گر پڑا اور کئی دن بعد انتقال کیا۔ نمبر185ابو الفتح جلال الدین محمد اکبر بادشاہ بن ہمایوں بادشاہ قوم چغتائی سال ولادت شب یک شنبہ پنجم رجب 949ھ مطابق1542ء سال جلوس دوم ربیع الثانی 923ھ مطابق1555ء محل جلوس کلانور دار السلطنت آگرہ مدت سلطنت 51سال 2ماہ 11یوم سال وفات چہار شنبہ سیز دھم جمادی الاخرہ 1014ھ مطابق1205ء مدت عمر62سال 11ماہ 8یوم مدفن اکبر آباد بمقام بہشت آباد معروف بہ سکندرہ (حالات) بیمار ہو کر مر گیا۔ نمبر186 ابو المظفر نور الدین جہانگیر بادشاہ بن اکبر بادشاہ قوم چغتائی سال ولادت روز چہار شنبہ ہفتدھم ربیع الاول 977ھ مطابق 1569ء محل جلوس و دار السلطنت آگرہ مدت سلطنت، 21سال 8ماہ 13یوم سال وفات بست و ہفتم صفر 1036ھ مطابق 1626ء مدت عمر58سال 11ماہ 10یوم مدفن لاہور (حالات) بیمار ہو کر رمر گیا، امراء نے بنظر مصلحت داور بخش کو بادشاہ کر دیا اور خفیہ شاہجہاں کو بلا لیا۔ نمبر187میرزا بلاقی المخاطب بہ سلطان داور بخش بن شاہزادہ سلطان خسرو بن جہانگیر قوم چغتائی سال ولادت ذی قعدہ 1010ھ مطابق1201ء سال جلوس ربیع الاول 1036ھ مطابق 1626ء محل جلوس راجپوری دار السلطنت آگرہ مدت سلطنت 2ماہ چند یوم سال وفات 1036ھ مطابق 1262ء مدت عمر 26سال (حالات) جب کہ شاہجہاں لاہور پہنچا تو آصف خاں نے اس بیچارہ کو مار ڈالا اور شاہجہاں کو تخت پر بٹھایا۔ نمبر188شہاب الدین محمد شاہجہاں بادشاہ بن جہانگیر بادشاہ قوم چغتائی سال ولادت شب پنج شنبہ یکم ربیع الاول 1000ھ مطابق1591ء سال جلوس روز یکشنبہ بست و دوم جمادی الاول 1036ھ مطابق 1626ء محل جلوس لاہور دار السلطنت آگرہ بعدہ شاہجہاں آباد، مدت سلطنت 32سال چند ماہ، سال وفات شب دو شنبہ بست و ششم رجب 1076ھ مطابق 1665ء مدت عمر 76سال 4ماہ 26یوم مدفن آگرہ تاج گنج (حالات) عالمگیر نے قید کر کر خود تخت پر بیٹھا اور شاہجہاں نے سال نہم جلوس عالمگیری میں انتقال کیا۔ نمبر189 ابو المظفر محی الدین اورنگ زیب عالمگیر بن شاہجہاں قوم چغتائی، سال ولادت شب یک شنبہ یازدھم ذی قعدہ 1028ھ مطابق 1218ء سال جلوس روز جمعہ یکم ذی قعدہ 1028ھ مطابق 1257ء محل جلوس اغر آباد متصل سرھند دار السلطنت دھلی مدت سلطنت 50سال 27یوم سال وفات روز جمعہ بست و ہشتم ذی قعدہ1118 ھ مطابق 1706ء مدت عمر 90سال 17یوم مدفن اورنگ آباد (حالات) بیمار ہو کر مر گیا محمد معظم منعم خاں کی سعی سے دلی کے تخت پر بیٹھا اور اپنے بھائیوں سے لڑ کر فتحیاب ہوا۔ نمبر190محمد عمظم الملقب بہ شاہ عالم بہادر شاہ بن اورنگ زیب عالمگیر قوم چغتائی سال ولادت سلخ رجب 1053ھ مطابق 1243ء سال جلوس، غرہ ذی الحجہ 1118 ھ مطابق 1706 ء محل جلوس لاہور، دار السلطنت دھلی، مدت سلطنت 5سال ایک ماہ 21یوم سال وفات بست و یکم محرم 1124ھ مطابق 1712ء مدت عمر 70سال 6ماہ مدفن دھلی قطب صاحب (حالات) بمقام موضع جاجئو مضاف صوبہ اکبر آباد میں اپنے بھائی سے لڑ کر فتح پائی آخر کو آپ بھی بیمار ہو کر مر گیا اور اس کے بیٹوں میں بادشاہت پر لڑائی ہوئی اور معز الدین جہاندار شاہ سب پر غالب آیا۔ (محمد اعظم شاہ بن عالمگیر، سال جلوس1119ھ مطابق 1707ء محل جلوس احمد نگر، سال وفات 1119 ھ مطابق 1705ئ) نمبر191معز الدین جہاندار شاہ بن شاہ عالم بہادر شاہ قوم چغتائی، سال ولادت دھم رمضان 1072ھ مطابق 1661ء سال جلوس 1124ھ مطابق 1712ء محل جلوس شاہجہاں آباد و بعد فتح لاہور دار السلطنت دھلی، مدت سلطنت 11ماہ 5یوم سال وفات روز جمعہ ہشتم محرم 1125ھ مطابق 1713ء مدت عمر 52سال 3ماہ 28یوم مدفن دھلی پیش چبوترہ مقبرہ ہمایوں (حالات) فرخ سیر سے لڑ کر پکڑا گیا اور قلعہ دھلی میں مارا گیا۔ 1عظیم الشان محل جلوس ہنگامہ 2رفیع الشان محل جلوس شاہجہاں آباد 3خجستہ اختر جہاں شاہ نمبر192جلال الدین فرخ سیر بن عظیم الشان بن بہادر شاہ قوم چغتائی سال ولادت روز پنج شنبہ ھجدم رجب 1095ھ مطابق 1683ء سال جلوس 1124ھ مطابق 1712ء و جلوس ثانی 1125ھ مطابق 1713ء محل جلوس آگرہ بعد شاہجہاں آباد دار السلطنت دھلی، مدت سلطنت 2سال 3ماہ 15یوم سال وفات ہشتم ربیع الثانی 1131ھ مطابق 1718ء مدت عمر 35سال 8ماہ 20یوم مدفن دھلی صحن مقبرہ ہمایوں (حالات) عبداللہ خاں اور حسین علی خاں نے زہر دے کر مار ڈالا۔ نمبر193محمد ابو البرکات سلطان رفیع الدرجات بن رفیع الشان بن بہادر شاہ قوم چغتائی سال ولادت ہفتم جمادی الاخری 1111ھ مطابق 1299ء سال جلوس نہم ربیع الثانی 1131ھ مطابق 1718ء محل جلوس شاہجہاں آباد دار السلطنت دھلی مدت سلطنت 3ماہ 11یوم سال وفات روز شنبہ بستم رجب 1131ھ مطابق 1718ء مدت عمر 20سال ایک ماہ 13یوم مدفن دھلی مقبرہ ہمایوں (حالات) بیمار ہو کر مر گیا۔ عبداللہ خاں اور حسین علی خاں نے رفیع الدولہ کو تخت پر بٹھایا اور اکبر آباد میں ہزارے مترسین نے نیکو سیر کو تخت پر بٹھا دیا مگر نیکوسیر پکڑا گیا۔ نمبر194شمس الدین رفیع الدولہ شاہجہاں بادشاہ ثانی بن رفیع الشان بن بہادر شاہ قوم چغتائی، سال ولادت پنجم صفر1113 ھ مطابق 1702ء سال جلوس بستم رجب 1131ھ مطابق 1718ء محل جلوس شاہجہاں آباد دار السلطنت دھلی، مدت سلطنت 3ماہ 28یوم سال وفات ہفتدھم ذی قعدہ 1131ھ مطابق 1718ء مدت عمر 20سال یک ماہ 13یوم مدفن دھلی مقبرہ ہمایوں (حالات) بیمار ہو کر مر گیا، عبداللہ خاں اور حسین علی خاں کو بادشاہ نے مروا ڈالا تو عبداللہ خاں نے سلطان ابراہیم کو تخت پر بٹھا دیا، مگر وہ مغلوب ہوا۔ (سلطان نیکوسیر محل جلوس آگرہ) نمبر195روشن اختر ابو الفتح محمد شاہ بادشاہ بن خجستہ اختر جہاں شاہ بن بہادر شاہ قوم چغتائی سال ولادت بست و ششم ربیع الاول 1114ھ مطابق 1702ء سال جلوس1131ھ مطابق 1718ء محل جلوس شاہجہاں آباد دار السلطنت دھلی مدت سلطنت 29سال 9ماہ سال وفات بست و نہم ربیع الثانی 1121ھ مطابق1748ء مدت عمر47سال یک ماہ یک یوم مدفن دھلی درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء (حالات) بیمار ہو کر مر گیا اور اس کا بیٹا بادشاہ ہوا۔ 1سلطان ابراہیم بن رفیع الشان بن بہادر شاہ سال جلوس 1132ھ مطابق 1719ء 2نادر شاہ 1151ھ مطابق 1738ء نمبر196مجاہد الدین ابو النصر احمد شاہ بہادر بادشاہ بن محمد شاہ قوم چغتائی، سال ولادت روز سہ شنبہ بست و ہفتم ربیع الثانی 1140ھ مطابق 1727ء سال جلوس دوم جمادی الاول 1161ھ مطابق 1748ء محل جلوس پانی پت دار السلطنت دھلی مدت سلطنت2سال 3ماہ 8یوم سال وفات، بست و ہفتم شوال 1188ھ مطابق 1774ء مدت عمر48سال 2ماہ مدفن دھلی مقبرہ ہمایوں (حالات) عماد الملک نے پکڑا اور اندھا کر کر قید کر دیا کہ بعد چند مدت کے بیماری سے مر گیا۔ نمبر197عز الدین عالمگیر ثانی بن معز الدین جہاندار شاہ قوم چغتائی، سال ولادت 1099ھ مطابق 1687ء سال جلوس، روز سہ شنبہ دھم شعبان 1167ھ مطابق 1753ء محل جلوس شاہجہان آباد دار السلطنت: دھلی مدت سلطنت، 5سال 7ماہ 28یوم سال وفات روز پنج شنبہ ہشتم ربیع الاخر 1173ھ مطابق1759ء مدت عمر 73سال چند ماہ مدفن دھلی مقبرہ ہمایوں (حالات) عماد الملک کے کہنے سے تالح یاس خاں اور مہدی قلی خاں نے مار ڈالا اور محی الملۃ کو تخت پر بٹھایا، اور شاہ عالم نے بنگالے میں تخت پر جلوس کیا، مگر سلطنت شاہ عالم کی قائم رہی۔ احمد شاہ درانی، سال جلوس 1171ھ مطابق 1756ء نمبر198ابو المظفر جلال الدین سلطان عالی گوھر شاہ عالم بادشاہ بن عالمگیر ثانی قوم چغتائی، سال ولادت، ہفتدھم ذی قعدہ 1140ھ مطابق 1727ء سال جلوس، چہاردھم جمادی الاول 1173ھ مطابق 1759ء محل جلوس: عظیم آباد پٹنہ، دار السلطنت: دھلی مدت سلطنت 45سال سال وفات ہفتم رمضاں 1221ھ مطابق 18نومبر1806ء مدت عمر 80سال 9ماہ 20یوم مدفن دھلی قطب صاحب (حالات) بیدار بخت کو غلام قادر نے تخت پر بٹھایا تھا کہ بعد مارے جانے غلام قادر کے وہ سلسلہ برھم ہو گیا، آخر کار جنرل لیک سپہ سالار انگلشیہ نے دلی کو فتح کیا اور سرکار انگریز کی عملداری ہونے کے تین برس بعد بادشاہ نے انتقال کیا۔ 1محی الملۃ المقلب بہ شاہجہان ثانی بن محی السنہ بن کام بخش بن عالمگیر ثانی 2احمد شاہ درانی:1173ھ مطابق1759ء 3بیدار بخت بن احمد شاہ 1202ھ مطابق 1757ء نمبر199شاہ جارج سویم بن فریڈرک شاہزادہ ویلز بن شاہ جارج دویم قوم جرمن، فتح دھلی پانزدھم ستمبر1803ء (1218ئ) دار السلطنت، لندن، مدت سلطنت 17سال، سال وفات 1820ء مطابق 1236ھ مدت سلطنت 81سال مدفن : قلعہ وترا (حالات) اگرچہ لندن کے بادشاہ کی حکومت اور سلطنت ہو گئی، الا تیمور کے خاندان پر بھی لقب بادشاہی کا اور تخت و چتر اور قلعہ شاہجہان آباد کی حکومت قائم رکھی۔ ابو النصر معین الدین اکبر شاہ بن شاہ عالم قوم چغتائی سال ولادت: شب چہار شنبہ ہفتم رمضان1173ھ مطابق1759ء سال جلوس روز چہار شنبہ ہفتم رمضان 1221ھ مطابق 1806 محل جلوس شاہجہان آباد حکومت در قلعہ شاہجہان آباد مدت سلطنت 31سال 9ماہ 21یوم سال وفات جمعہ بست و ہشتم جمادی الآخر 1253ھ مطابق 1837ئ۔ نمبر200شاہ جارج چہارم بن جارج سوم قوم جرمن سال ولادت 1862سال جلوس 1820ء مطابق 1236ھ محل جلوس و دار السلطنت لندن مدت سلطنت 10سال 5ماہ 9یوم سال وفات 1830ء مطابق 1246ھ مدفن قلعہ وترا نمبر201شاہ ولیم چہارم بن جارج سوم قوم جرمن سال ولادت:1865ء سال جلوس 1830ء مطابق 1246ھ دار السلطنت: لندن، مدت سلطنت 2سال 11ماہ 24یوم سال وفات 1837ء مطابق 1253ھ (ابو الظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ بادشاہ بن اکبر شاہ) قوم چغتائی سال ولادت 1189ھ مطابق1775ء سال جلوس 1253ھ مطابق 1837ء حکومت در قلعہ شاہجہان آباد۔ نمبر202ملکہ وکٹوریہ بنت ڈیوک آف کینٹ بن جارج سوم قوم جرمن سال ولادت 1819ء مطابق 1235ھ سال جلوس 1837ء مطابق 1253ھ محل جلوس و دار السلطنت لندن (حالات) چونکہ شاہ ولیم چہارم کے کوئی وارث منکوحہ صحیحہ سے نہ تھا اس واسطے حسب دستور فرنگستان کے ملکہ وکٹوریہ کے قرابت قریبہ بادشاہ سے رکھتی تھیں تخت پر بیٹھیں۔ خاتمہ الحمد للہ کہ یہ کتاب جس طرح دل چاہتا تھا اتمام کو پہنچی اور بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ پسند طبع صاحب والا مناقب عالی مناصب مسٹر آرتھر آسٹن رابرٹس صاحب بہادر دام اقبالہ (ڈپٹی کمشنر دھلی) کے ہوئی جن کی قدر دانی اور رئیس پروری سے اس کتاب کی تصنیف شروع ہوئی تھی وآخرد عوانا ان الحمدللہ رب العالمین ٭٭٭٭٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جلد ہشتم۔ اول اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید تاریخی مضامین جلدششم۔حصہ دوئم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مسلمانان یارقند (تہذیب الاخلاق جلد دوم صفحہ536تا 556) مسٹر رابرٹ شاہ صاحب یارقند اور اس کے گرد و نواح کے ملکوں کا حال دریافت کرنے کو 1828ء میں اس طرف گئے تھے اور انہوں نے اپنے سفر کا حال ایک کتاب میں لکھا ہے جو 1871ء میں لندن میں چھپی ہے۔ ہم اس کتاب سے اس نواح کے مسلمانوں کا حال انتخاب کر کر ذیل میں لکھتے ہیں اور اس انتخاب کے لکھنے سے ہمارا مقصد اپنی قوم کو دو باتوں سے متنبہ کرنا ہے، ایک یہ کہ ہماری قوم جو ہندوستان میں رہتی ہے وہ سمجھے کہ اس نے کس قدر عادتیں ہندوؤں کی سیکھ لی ہیں اور کھانے اور پینے اور غیر قوموں سے ملنے میں ایک خیالی وھم اور جھوٹ اس کی اصل نہ شرع میں ہے اور نہ اور ملکوں کے رہنے والے مسلمانوں میں ہے اختیار کی ہے، دوسرے اس بات پر افسوس دلانا ہے کہ ہماری قوم کے لوگ کیا ہندوستان کے رہنے والے اور کیا اور ملکوں کے رہنے والے کیسے بے علم اور واقعات تاریخی سے جو دنیا میں گذرے ہیں کس قدر بے خبر اور واھیات ذٹل اور بیہودہ کہانیوں پر یقین اور اعتبار کرنے والے ہیں جس سے ان کی نادانی بے علمی بخوبی ثابت ہوتی ہے۔ انتخاب سفر نامہ رابرٹ شاہ صاحب صاحب موصوف نے کانگڑہ سے اپنا سفر شروع کیا اور جب وہ شہر لیہ میں پہنچے جو لداخ سے آگے جانب شمال میں واقع ہے تو وہاں کے لوگوں کا حال انہوں نے اس طرح پر لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب میں لہیہ میں پہنچا تو میں نے تبت کے باشندوں کے چال چلن اور رسم و رواج کو فوراً تحقیق کرنے کا ارادہ کیا لیکن جبکہ میں پہلے پہل شہر کی سیر کو نکلا تو وہاں کے لوگوں کے حالات دریافت کرنے کا جو جوش تھا وہ سب جاتا رہا اور اس کے عوض میں ایک دوسری بات کا شوق دل میں اٹھا کیونکہ جو لوگ اس ملک میں تھے یعنی تبتی، ان سے بالکل مختلف قسم کے لوگ ترکی بازار میں چلتے پھرتے یا خاموش قطاروں میں بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ ان کے سروں پر بڑے بڑے سفید عمامے تھے، لمبی ڈاڑھی اوپر چغہ زمین تک لمبا، سامنے سے کھلا ہوا۔ نیچے صدری پہنے تھے اور پاؤں میں کالے چمڑے کے موٹے موٹے بوٹ تھے ان سب باتوں سے ان کا ایک رعب داب معلوم ہوتا تھا اور ان کا برتاؤ نہایت شستہ تھا جس سے لوگوں کے دل میں ان کا ادب پیدا ہوا ان میں ہندوستانیوں کی سی خوشامد نہ تھی اور نہ تبتیوں کی سی نقالی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ گویا بندروں کے بیچ میں آدمی ہیں جب میں ان سے ملا تو ان کا مزاج بالکل خوفناک نہ پایا جیسا کہ ان کے ہم وطنوں کا سنتا تھا۔ وہ لوگ ہمارے خیمے میں آ کر بیٹھتے اور بذریعہ مترجم کے دوستانہ بات چیت کرتے تھے اور نہایت مزے سے ہماری چاء پھونک پھونک کر جرعہ جرعہ کر کر پیتے تھے برخلاف ہمارے ہندوستان کے ڈرپوک مسلمانوں کے جو اس قدر ہندو ہو گئے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کی ذات جاتی رہتی ہے ہمارے مہمان دراصل بہت اچھے لوگ تھے ہنسی مذاق سے خوش ہوتے اور جواب بھی مذاق کے ساتھ دیتے تھے آزادی کے ساتھ گفتگو کرتے مگر کبھی حد مناسب سے تجاوز نہیں کرتے تھے ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی بھی عزت کرتے ہیں اور جس سے گفتگو کرتے ہیں اس کی بھی قدر و منزلت کرتے ہیں جب رخصت ہوتے تو مودب طور پر سلام کر کے رخصت ہوتے رنگ میں اہل یورپ سے کچھ کم نہیں ہیں لال ہونٹ اور گلاب کے رنگ کا سا چہرہ ہوتا ہے جب ہم پہلے پہل وہاں پہنچے تھے تو ایک شخص عمدہ پوشاک اور اونچی ایڑی کا جوتا پہنے ہوئے ہمارے پاس آیا۔ اس کی ڈاڑھی اور موچھوں کے بال بھورے تھے اور چہرہ بہت گورا اور صاف تھا اس نے مجھ کو اس طرح سے دیکھا جیسے انگریز دیکھتے ہیں۔ میں نے اس کو انگریز سمجھ کر اس سے بات کرنا چاہا تھا کہ اتنے میں وہ مڑ کر میرے مسلمان نوکروں کے پاس جا بیٹھا معلوم ہوا کہ یا رقند کا رہنے والا ایک حاجی تھا جب ہم روکشین میں پہنچے تو وہاں کے مسلمانوں سے قرآن و مذھب کی نسبت بہت سی گفتگو ہوئی عیسائیوں کو وہ نصاریٰ کہتے ہیں اور مسلمانوں کی بہ نسبت کچھ ہی کم سمجھتے ہیں کیونکہ عیسائی اہل کتاب ہیں اور ان کے لئے توریت موسیٰ اور زبود داؤد ؑ اور انجیل عیسیؑ بھیجی گئی ہے اور ان کے خاص پیغمبر یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام درجے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسرے ہیں ہندو اور آذر بت پرستوں کو ایسا نہیں سمجھتے اسی مقام پر محمد نذر سے جو یارقند کا ایلچی ہندوستان میں آیا تھا ملاقات ہوئی اس نے اس کے ہمراہیوں نے میرے ساتھ چاء پی اور رخصت ہوئے۔ جب مسٹر شا صاحب چنگ چمون میں پہنچے تو وہاں یہ بات دریات ہوئی کہ گرد و نواح کے ملک میں جس قدر چانول ایک بکرے پر لد سکتے ہیں ان کی قیمت میں آٹھ تولے سونا یعنی بارہ پونڈ کے برابر ملتے ہے جس کے ایک سو بیس روپے چہرہ شاہی ہوتے ہیں اسی طرح سفر کرتے ہوئے مقام شہید اللہ پر پہنچے جہاں ایک چھوٹا سا قلعہ ہے اور شاہ صاحب کے آنے کی خبر سن کر شاہ یارقند نے چند سپاہی اور افسر ایک مہینہ پہلے سے وہاں متعین کر رکھے تھے وہ لوگ مسٹر شا صاحب سے نہایت دوستانہ طور پر ملے، ان کے ساتھ چاء پی کھانا کھایا شا صاحب نے بھی ایک روز ان کی دعوت کی ان لوگوں نے شا صاحب کے آنے کی خبر یارقند کو بھیجی اور جب تک یارقند سے روانگی کی اجازت نہ آئی وہیں ٹھہرے رہے مگر اس قیام کے عرصے میں اکثر آدمی یارقند سے شا صاحب کی مدارات کے لیے آتے جاتے رہے اور نہایت خاطر داری کے ساتھ ان کو وہاں رکھا۔ آخر کار جب اجازت روانگی کی آئی تو سب لوگ روانہ ہوئے۔ راستے میں اہل کارشا صاحب کے استقبال کے واسطے آتے تھے جبکہ یارقند کے قریب پہنچے تو ایک اہل کار جس کو مہاندار کہتے ہیں پیشوائی کو آیا اور تعظیم و تواضع کے ساتھ ملا مہماندار کہتے ہیں پیشوائی کو آیا اور تعظیم و تواضع کے ساتھ ملا مہماندار نے اپنے ہمراہیوں کو سواری پر سے اتار کر شا صاحب کے ملازموں کو جو پیادہ تھے سوار کرایا اور نہایت تپاک سے شا صاحب کی مزاج کی خیر و عافیت پوچھی اور مصافحہ کیا اور ان کے گھوڑے کے برابر اپنا گھوڑا کر کے ساتھ ساتھ آگے کو چلا ایک سوار سب سے آگے گھوڑا دوڑاتا اور بندوق چھوڑتا جاتا تھا یہ گویا شا صاحب کی تعظیم کے لیے سلامی کی شلخ ہوتی جاتی ہے۔ کچھ تھوڑے سے آگے بڑھنے پر ایک اور جماعت ملی جو شا صاحب کے استقبال کے لیے ٹھہری ہوئی تھی ان سے مل کر اور ان کے ساتھ چاء پانی پی کر آگے بڑھے تب یوزیاشی وزیر یارقند کا بھائی آ کر ملا اور شا صاحب سے راستے کی خیر و عافیت پوچھی مقام شہید اللہ میں جو ان کو بہت دنوں تک ٹھہرنا پڑا تھا اس کی معذرت کی۔ آخر کار اسی روز سہ پہر کو شا صاحب یوزیاشی کے خیمے میں اس سے ملنے کو گئے اس نے بہت اعزاز کے ساتھ قالین پر بٹھایا چاء منگوائی دسترخوان بچھوایا جب شا صاحب اس سے رخصت ہو کر اپنے خیمے میں آئے تو تھوڑی سی دیر بعد یوزباشی ان سے ملنے کو آیا انہوں نے زرد رنگ کی ریشمیں کشمیری پگڑی یوزباشی کی نذر کی۔ اثناء راہ میں ایک روز وزیر نے یوزباشی کے پاس ایک خط بھیجا اور اس میں مہمان یعنی شا صاحب کی خیر و عافیت دریافت کی اور لکھا کہ ان کے لیے کسی بات کی دقت یا کوتاہی نہ ہو اسی طرح ہر روز قاصد آتے جاتے رہے جو ہر مرتبہ عمدہ اور نیا خلعت پہن کر آتے تھے شا صاحب اپنی ایسی عزت اور توقیر دیکھ کر نہایت خوش ہوئے حقیقت یہ تھی کہ والئی ملک اپنے مہمان کے قریب پہنچنے کی خبر سن سن کر اس قدر خوش ہوتا تھا کہ قاصدوں کو انعام اور خلعت دیتا تھا جب کسی قدر اور یارقند کے قریب پہنچے تو ایک جماعت سواروں کی ملی جن کا سردار سیاہ پوشاک پہنے ایک مشکی گھوڑے پر سوار تھا یوزباشی نے شا صاحب سے کہا کہ یہ بیگ یعنی حاکم سنجر آپ کے استقبال کے واسطے آیا ہے جب نزدیک پہنچے تو یوزباشی نے شا صاحب اور بیگ سے ملاقات کرائی دونوں باہم گلے ملے اور نہایت تعظیم اور تواضع کے ساتھ بات چیت ہوئی بیگ کی سیاہ پوشی کی وجہ یہ تھی کہ ان کی بی بی نے وفات پائی تھی ان کے ماتم میں وہ سیاہ پوش تھے۔ یارقند کے قریب سڑکوں اور پرانے پلوں کی مرمت کرائی گئی تھی اور نہروں اور چھوٹی چھوٹی ندیوں پر نئے پل بنائے گئے تھے۔ شا صاحب لکھتے ہیں کہ مجھ کو اس قدر اپنے قدر و منزلت کی ہر گز امید نہ تھی۔ یارقند والوں نے میرے منشی دیوان بخش سے پوچھا تھا کہ جب کوئی معزز مسافر آتا ہے تو اس کی آمد میں کیا اہتمام ہوا کرتا ہے منشی نے معمولی تیاریاں سڑکوں کی مرمت وغیرہ جو یہاں ہوا کرتی ہیں بیان کی تھیں۔ اس پر انہوں نے ایسی تیاریاں کیں کہ پلوں کے پرانے شہتیر بھی بدلوا دیے تاکہ شا صاحب کے ساتھ جو سوار آویں تو ان کے گھوڑوں کے ٹاپوں کے صدمے سے وہ پرانے شہتیر ٹوٹ نہ جاویں۔ شا صاحب اس بات کا اقبال کرتے ہیں کہ سب تیاریاں جو ان کیلئے ہوئیں اور اس قدر ان کی قدر و منزلت جو ہوتی تھی اس کا ان پر بار گذرتا تھا وہ کہتے ہیں کہ ہر بستی میں اس ضلعے کا حاکم میرے استقبال کے واسطے آتا تھا جب مقام کارغلی تین میل کے فاصلے پر رہا تو وہاں کا بیگ مجھ سے ملنے آیا اور نہایت خاطر داری سے ملا۔ چند درختوں کے سایہ میں فرش بچھوا کر دستر خوان بچھایا گیا اور اس پر شوربا اور پلاؤ اور بڑی بڑی روٹیاں اور میوے چنے گئے سب نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا بعد کھانا کھانے کے لوگوں نے ظہر کی نماز پڑھی اسی جگہ ایک بخارا کے حاجی سے ملاقات ہوئی اس نے ہندوستان عرب اور روم تک کا سفر کیا تھا اس سے فارسی میں بہت گفتگو ہوئی دو گھنٹے تک میرے پاس بیٹھا رہا چاء پیتا جاتا تھا اور سفر کا حال کہتا جاتا تھا۔ شا صاحب لکھتے ہیں کہ جب ہم لوگ مقام نکلا کے ریگستان میں پہنچے تو یوزباشی نے وہاں کی ایک روایت اس طرح پر بیان کی کہ یہاں کافر آباد تھے ایک بزرگ مسمی شاہ جلال الدین صاحب نے ان کے روبرو اسلام کا وعظ کیا انہوں نے اس شرط پر مسلمان ہونا قبول کیا کہ ان کے مکان سونے کے ہو جاویں۔ شاہ جلال الدین نے کچھ دعا پڑھی ان کے سب مکان سونے کے ہو گئے مگر وہ سب کافر اپنے اقرار سے پھر گئے اور کہا کہ جو کچھ ہم چاہتے تھے وہ ہمیں مل گیا اب ہم کیوں مسلمان ہوں وہ بزرگ یہ سن کر چلے گئے زمین سے ریت ابلا اور کافروں کے تمام مکان وغیرہ اس میں غرق ہو گئے یہاں کے خزانوں کی بہت جستجو کی گئی مگر کوئی ایسا جادو ہے کہ جو کوئی اس ریگستان میں پھرتا ہے وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ شا صاحب کہتے ہیں کہ اگر میں ایلچی ہوتا تو اس سے کچھ زیادہ میری خاطر داری نہ ہوتی بلکہ میں ان لوگوں کا دوست اور ہم وطن بھی ہوتا تب بھی اس سے زیادہ مجھ پر مہربانی نہیں ہو سکتی تھی ایک روز یوزباشی نے مجھ سے کہا کہ اے شا صاحب اگر آپ فرنگی نہ ہوتے تو ہم اور آپ بھائی ہوتے اور ایک ساتھ رہتے۔ یارقند سے تین میل ورے دوسرا یوزباشی نہایت زرق برق پوشاک پہنے ہوئے تیس سواروں کے ساتھ مجھ سے ملنے کو آیا میں اور وہ دونوں گھوڑوں پر سے اترے اور مشرقی ملکوں کی رسم کے موافق گلے ملے۔ یوزباشی صاحب نے اس زور سے میرا گلا دبایا کہ میرا دم گھٹنے لگا اور خیر و عافیت مزاج کی پوچھی، پھر گھوڑوں پر سوار ہو کر شہر میں داخل ہوئے دونوں یوزباشی میرے دونوں پہلوؤں میں چلتے تھے جب شہر کے اندر پہنچے تو ایک ایسے مکان میں جس کو قالین اور فرش بچھا کر خوب آراستہ کر رکھا تھا اور آگ روشن کر رکھی تھی مجھ کو اتارا اور یوزباشی نے کہا کہ یہ مکان آپ کا ہے آپ آرام فرمائیے اس کے بعد دستر خوان بچھا، کھانے کے بعد شاغوال یعنی وزیر کا بھائی مجھ سے ملنے آیا۔ میں نے اپنی خاطر داری کی نسبت ممنونی ظاہر کی اس نے جواب دیا کہ بادشاہ کے مہمان کی ہم کتنی ہی تعظیم اور تواضح کیوں نہ کریں کسی طرح کافی نہیں ہو سکتی اس کے واپس جانے پر تھوڑی دیر میں بعد شاغوال یعنی وزیر سے ملنے کو گیا جب اس کے مکان پر پہنچا اور وزیر سے آنکھیں چا ر ہوئیں میں نے جھک کر سلام کیا وزیر وہاں سے اٹھ کر دروازے تک آیا اور مجھ سے ملا اور میرا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گیا اور آتش خانے کے قریب اپنے مقابلہ میں مسند پر بٹھایا، نہایت خاطر کی۔اور بہت سی باتیں پوچھیں میرے آنے کی خوشی ظاہر کی اور کہا کہ سلطان روم اور انگریزوں کے باہم جو محبت اور دوستی ہے اس کو میں جانتا ہوں اور انگریزوں کو اپنا دوست سمجھتا ہوں آپ نے جو اس قدر دور و دراز سفر اختیار کیا اور ہمارے بادشاہ سے ملنے کے واسطے ایسی تکلیف گوارا کی یہ ایک عمدہ ثبوت اس دوستی کا ہے۔ دوستی سے ہر ایک چیز ترقی پاتی ہے اور دشمنی سے ملک ویران ہو جاتے ہیں میں نے ان سب باتوں کا مناسب جواب دیا اور کہا کہ مجھ کو امید ہے کہ میرا یہاں آنا دونوں ملکوں کے باہم دوستانہ برتاؤ اور آمد و رفت کا باعث ہو گا کیونکہ انگریزوں کا ترکوں کی نسبت نیک خیال ہے اور جبکہ اس تمام خاطر داری اور مہمان نوازی کا حال جو میری نسبت ترکستان میں ہوئی ہے ہماری ملکہ سنیں گی تو نہایت خوش ہوں گی اسی گفتگو میں دستر خوان بچھا اور چاء میرے روبرو پیش کی گئی۔ اس کے بعد میں نے اٹھنا چاہا مگر شاغوال نے میرے شانہ پر ہاتھ رکھ کر پھر مجھے بٹھا لیا اور ان کے ایک ملازم نے ایک عمدہ ریشمین چغہ میرے شانوں پر ڈال دیا تب میں رخصت ہوا۔ شاغوال بھی میرے ساتھ اٹھا اور مجھ کو دروازہ تک پہنچا گیا۔ میرے یارقند میں پہنچنے سے پہلے میرے واسطے میز اور کرسی تیار کرا لی گئی تھی کئی دن کے بعد میں پھر شاغوال کی ملاقات کے لیے گیا اور وہ اسی طرح عزت اور خاطر سے پیش آیا ایک ریشمین چغہ عنایت کیا۔ اس کے بعد پھر کئی مرتبہ چغہ اور ٹوپیاں وغیرہ مجھ کو بھیجیں۔ یارقند میں کافروں کے لیے حکم ہے کہ پگڑی نہ باندھیں اور کمر میں ایک سیاہ ڈوری باندھے رکھا کریں مگر میرے ہندو نوکروں کو مسلمانی پوشاک پہننے کی اجازت تھی میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات میرے حال پر نہایت بڑی مہربانی ہونے کے سبب سے تھی۔ ایک روز میرا منشی شاغوال کا ایک رقعہ لے کر آیا جس میں اس بات کی شکایت تھی کہ تمہارے نوکروں نے روپیہ کے لیے کچھ جنس بازار میں فروخت کی ہم سے روپیہ کیوں نہ طلب کیا اسی کے ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ بد خواہ لوگ کہیں گے کہ ایک مہمان انگریز کی مہمانداری کی نسبت مناسب توجہ نہیں ہوتی تب میں نے اپنے منشی کو ان کے پاس بھیجا او رکہلا بھیجا کہ کچھ کپڑا میں نے نوکروں کے لیے خریدا تھا اس پر وزیر نے کہا اگر یہ بات بادشاہ کے کان تک پہنچ جاوے تو مجھ پر حد سے زیادہ عتاب ہو۔ ایک روز رمضان کے دنوں میں میں وزیر کی ملاقات کو گیا اس روز وزیر صاحب نے اپنے ہاتھ سے میرے لیے چاء تیار کی ایک دن یوزباشی نے مجھ سے کہا کہ آپ یہاں کوئی چیز ہر گز نہ خریدیے میں نے کہا کہ تھوڑی تھوڑی سی چیزوں کے مانگنے میں مجھ کو شرم آتی ہے یوزباشی نے کہا کہ جو چیز آپ کو درکار ہو خواہ وہ ہزار طلاکی ہو خواہ ایک پھول کی اس کے مانگنے میں ہر گز شرم نہ کیجئے شاغوال کو میں نے ایک ملاقات میں ایک بندوق رائفل اور ایک ریوالور اور ایک ریشمین پگڑی اور کچھ کپڑا اور ایک سو بیس پونڈ چاء نذر دی جس کو انہوں نے نہایت خوشی سے قبول کیا جب ہمارا بڑا دن قریب آیا تو میں نے اپنے نوکروں کو گوشت خریدنے کا حکم دیا مگر شاغوال کے ہاں سے پیغام آیا کہ آپ بازار سے کچھ نہ خریدیں سب چیزیں مہیا ہو جاویں گی۔ بڑے دن کو شاغوال نے ایک بڑا بھاری دستر خوان اور دو ریشمین چغہ اور ایک ٹوپی بھی بھیجی وزیر نے میری تفریح کیلئے گانے بجانے والے بھی متعین کئے تھے۔ ایک روز میں نے اپنے دوستوں کی دعوت کی جس میں میرا منشی دیوان بخش اور یوزباشی اور مہمان دار اور چار پنجا باشی شریک ہوئے ان لوگوں نے پہلی روٹی کا ٹکڑہ نمک کے ساتھ کھا کر روزہ کھولا، پھر کھانا کھایا۔ کھانے میں کچھ انگریزی اور کچھ ان کا کھانا تھا۔ یوزباشی کو اس بات کی بڑی تشویش تھی کہ کون سی چیز کھائیں اور کون سی نہ کھائیں کیونکہ کمبخت کشمیری اور ہندوستانیوں نے جو شاہ یارقند کے ملازم تھے ترکوں سے ہماری شکایت کی تھی اور یہ کہہ دیا تھا کہ سوائے سور کے گوشت کے یہ اور کچھ نہیں کھاتے ہیں کسی مسلمان کو ان کے ساتھ کھانا کھانا نہ چاہیے اس لیے یوزباشی نے میرے اور مہمانوں سے کہہ رکھا تھا کہ منشی پر نظر رکھیو جس چیز کو وہ نہ لے اس کو ہاتھ نہ لگائیو مجھ کو اس بات کی کچھ خبر نہ تھی بعد کو خبر ہوئی، پھر میرے منشی نے ان کو سمجھا دیا کہ رزیل انگریز کبھی کبھی سور کا گوشت کھاتے ہیں شا صاحب کو میں نے کبھی کھاتے نہیں دیکھا اس بات سے سب خوش ہو گئے۔ شاہ یارقند کا شغر میں تھے وہاں میرے آنے کی خبر بھیجی گئی اور جب تک مجھے وہاں آنے کی اجازت نہ ملی میں یارقند میں رہا جس وقت اجازت آئی وزیر صاحب نے مجھ سے دریافت کرایا کہ بادشاہ کی نذر کے واسطے اگر کچھ چیزیں درکار ہوں تو بہم پہنچا دی جاویں میں نے کہلا بھیجا کہ سب آپ کی نوازش ہے میں بادشاہ کے حضور میں وہی چیزیں نذر گذارنا چاہتا ہوں خاص میری اور میرے ملک کی ہیں اس پر بھی وزیر نے یوزباشی کی معرفت کچھ روپیہ اور چند خلعت میرے پاس بھیجے اور کہلا بھیجا کہ بادشاہ کے اہلکاروں کو دینے کے لیے لیتے جائیے۔اتفاق سے میری گھڑی کا شیشہ ٹوٹ گیا تھا تو میں نے ایک شیشہ منگوایا تھا مگر وزیر نے بجائے شیشے کے اپنی گھڑی میرے پاس بھیج دی تھی اب جو میں کاشغر کو جانے لگا تو وہ گھڑی میں نے ان کے پاس واپس بھیجی وزیر صاحب نے فرمایا کہ اگر یہ گھڑی مجھے پھر دکھاؤ گے تو میں سخت ناراض ہوں گا جو چیز میرے پاس سے جاتی ہے وہ پھر کر نہیں آیا کرتی اگر شا صاحب اس کو اپنے لایق نہ سمجھیں تو اور کسی کو دے دیں آخر کار یارقند سے کاشغر کی طرف روانہ ہونے کا سامان درست ہو گیا اور صبح کے وقت نہایت عمدہ خوبصورت گھوڑا داد خواہ یعنی وزیر کے اصطبل سے میری سواری کے لیے آیا اور میرے سب نوکروں اور اسباب کے واسطے بھی گھوڑے ملے اور وہاں سے روانہ ہوئے محمد اسحاق جان برادر داد خواہ شہر کے دروازہ تک مجھے رخصت کرنے کو میرے ساتھ آیا کاشغر میں پہنچنے کے بعد میں نے ان سب چیزوں کی درستی کی جو بادشاہ کی نذر کے لیے میں لے گیا تھا اور ان کو کشتیوں پر رکھا۔ قریب 9 بجے صبح کے بہت سے اہل کار مجھے بلانے آئے اور میں ان کے ساتھ بادشاہ کی ملازمت کے لیے چلا میرے ہمراہ دو یوزباشی اور محرم باشی وغیرہ تھے اور تیس یا چالیس آدمی نذر کی چیزیں لیے ہوئے تھے میں جس مکان میں فروکش تھا اس کے دروازے سے بادشاہی محل کے دروازے تک ایک چوتھائی میل کا فاصلہ سڑک کے دونوں طرف لوگوں کا ہجوم تھا جو اپنے مختلف رنگوں کی پوشاک کے باعث سے زندہ تصویروں کی مانند معلوم ہوتے تھے دروازے کے اندر پہنچ کر کئی بڑی بڑی ڈیوڑھیوں میں سے گزرا۔ ہر ایک ڈیوڑھی پر عمدہ عمدہ کپڑے پہنے ہوئے پہرہ کے سپاہی خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی اس عمارت کے جزو ہیں ان کے سوا اور لوگ قطار کی قطار ریشمین لباس پہنے بیٹھے تھے۔ ان میں جو لوگ کچھ اعلیٰ درجے کے تھے ان کی پوشاک اوروں سے زیادہ عمدہ تھی۔ پہلے پہل میں نے کالمک قوم کے سپاہی دیکھے جن کے پاس تیر و کمان و ترکش تھا۔ اندر کے صحن میں چند چیدہ مصاحب نظر آئے یہاں سوائے ایک یوزباشی کے جو کل میرے پاس گیا تھا اور کوئی میرے ہمراہ نہ رہا میں ایک دالان میں سے گزر کر ایک دروازے میں گیا پھر ایک کوٹھڑی میں سے ہو کر دربار کے کمرے میں پہنچا اس کمرے میں دریچہ کے قریب ایک شخص کو تنہا بیٹھا پایا۔ میں نے قیاس سے جانا کہ یہی بادشاہ ہے تب میں اکیلا آگے بڑھا اور جب قریب پہنچا تو بادشاہ اپنی مسند سے گھٹنوں تک اٹھے اور دونوں ہاتھ مصافحہ کیا اور ان کی اجازت سے ان کے روبرو بیٹھ گیا۔ پھر حسب قاعدہ مزاج پرسی کے لیے اٹھا مگر بادشاہ نے اٹھنے نہ دیا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا اور زیادہ تر اپنے قریب کر لیا پھر میری مزاج پرسی کی اور فرمایا کہ امید ہے کہ سفر بارام ہوا ہو گا اس کے جواب میں میں نے عذر کیا کہ میں فارسی زبان بہ خوبی نہیں جانتا بادشاہ نے ہنس کر فرمایا کہ بہ خوبی سمجھ میں آتی ہے اس کے بعد ایک لمحہ خاموشی رہی میں منتظر تھا کہ بادشاہ کچھ فرماویں اور بادشاہ منتظر تھے کہ یہ کچھ کہے آخر کار بادشاہ نے انگریزوں کی طرح موسم کی گفتگو شروع کی میں نے اس کا مناسب جواب دیا اور یہ کہا کہ میرے ہم وطنوں کو اس بات کے سننے سے بڑی خوشی حاصل ہوئی ہے کہ ہمارے دوست سلطان روم اور ان کی رعایا کے بھائیوں نے اہل چین کو نکال کر جن کے ساتھ ہماری تین لڑائیاں ہو چکی ہیں ترکستان میں ایک نئی سلطنت قائم کی ہے اور اپنی نسبت میں نے یہ کہا کہ مجھے لاٹ صاحب نے نہیں بھیجا ہے اور نہ کوئی خط دیا ہے۔ میں صرف آپ کے نام کی شہرت سن کر اپنی خوشی سے آیا ہوں بادشاہ میری باتیں سن کر سر ہلاتے جاتے تھے پھر فرمانے لگے کہ جب میں نے یہ خبر سنی کہ شا صاحب دوستی کی نظر سے میری سلطنت میں آتے ہیں مجھ کو بڑی خوشی ہوئی لاٹ صاحب تو بہت بڑے شخص ہیں میں ان کے مقابلے میں حقیر اور ناچیز ہوں میں نے جواب دیا کہ لاٹ صاحب تو بڑے ہیں مگر ہماری ملکہ جو ان کی آقا ہیں ان سے بھی بہت بڑی ہیں اس پر بادشاہ میری طرف دیکھنے لگے تب میں نے کہا کہ مجھ کو امید ہے کہ ان دونوں قوموں کے باہم دوستی اور محبت مستحکم ہو جاوے گی اور دوستوں کے درمیان بڑائی چھٹائی کی کچھ بحث نہیں ہوتی پھر میں نے عرض کیا کہ میں اپنے ساتھ انگلستان کی چند بندوقیں بطور نمونہ حضور کی نذر کے واسطے لایا ہوں امید ہے کہ وہ قبول فرمائی جاویں۔ بادشاہ ہنسے اور فرمایا کہ ہم تم تو دوست ہیں ہمارے تمہارے بیچ میں نذر نذرانہ کی کیا ضرورت تھی۔ تمہارا خیریت سے پہنچنا ہی بڑی خوشی کی بات ہے اسی کے ساتھ بادشاہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگشت شہادت کو جوڑ کر ٹیڑھی کر کے اظہار دوستی کیا اور میرے رخصت ہونے کے وقت بادشاہ نے فرمایا کہ چند روز آرام کر کے سب مقاموں کو دیکھو اس جگہ کو اور جو کچھ اس میں ہے سب کو اپنا سمجھو اب تیسرے روز پھر ہم سے اور آپ سے ملاقات اور بات چیت ہو گی پھر خدمت گار کو اشارہ کیا اس نے ایک ساٹن کا چغہ میرے شانے پر ڈالا اس کے بعد نہایت مہربانی سے بادشا ہ نے مجھ کو رخصت کیا۔ پچسویں جنوری کی شام کو مجھ سے یوزباشی سے ملاقات ہوئی یہیں کاشغر میں محرم بھی ہوا۔ یہاں کے لوگوں نے حضرت سکندر یعنی سکندر اعظم کی نسبت عجیب واقعات بیان کیے یعنی ان کی دار السلطنت سمرقند میں تھی اور انہوں نے ملک چین پر اس غرض سے کہ وہاں کے لوگوں کو دین اسلام کی طرف پھیریں فوج کشی کی راہ میں ایک مقام پر اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ ہر شخص اس جگہ ایک ایک پتھر رکھ دے وہاں ایک بڑا ڈھیر پتھروں کا ہو گیا جب چین میں پہونچے تو شاہ چین نے ان کی اطاعت قبول کی اور بغیر مقابلہ خراج گذار ہو گیا۔ سکندر کے سپاہیوں نے اس ملک کی عورتوں سے شادی کی اور حضرت سکندر نے اس مہم کے مطلب کو پورا کر کے اللہ اکبر کہا اور وہاں سے کوچ کیا جب پتھروں کے اس انبار کے پاس آئے جو سپاہیوں سے جاتے وقت جمع کرایا تھا تب حکم دیا کہ ہر شخص ایک ایک پتھر اٹھا لے سب نے ایک ایک پتھر اٹھا لیا لیکن ہزار ہا پتھر وہاں پر باقی رہ گئے ان پتھروں کے شمار کرنے سے تعداد ان سپاہیوں کی معلوم ہوئی جو چین میں اپنی چینی بیبیوں کے ساتھ رہ گئے ان لوگوں سے دو قومیں پیدا ہوئیں ایک ٹینگانی جو مسلمان ہیں (ٹینگانی ترکی لفظ ہے اس کے معنی ہیں رہ جانا) دوسری کالمک جواب بھی چین کے راستے کے قریب ملکوں میں بستی ہیں میں خیال کرتا ہوں کہ حقیقت میں یہ داستان تاتار کے فتح یابوں میں سے کسی کی ہے لیکن عام غلطی سے سکندر کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے شمالی تاتار میں ایک میدان ہے جو سنتاش کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اب بھی ایک بہت بڑا انبار پتھروں کا موجود ہے اور اس کی نسبت یہی یا اسی قسم کی کہانی مشہور ہے ٹینگانیوں کی روایت سے بھی بیان مذکورہ کی تصدیق ہوتی ہے وہ لوگ کہتے ہیں کہ تیمور لنگ کے کچھ سپاہی اس ملک میں رہ گئے اور ہم انہیں کی اولاد ہیں (لیکن تیمور لنگ کبھی اس ملک میں نہیں گیا) جب مشرقی ترکستان کا تذکرہ چلا تو لوگوں نے بیان کیا کہ چار ہزار اسی برس اب سے پیشتر اس ملک کے باشندے کافر یعنی بت پرست تھے۔ حضرت سلطان نامی ایک بادشاہ پیا ہوا اور اس نے سب کو مسلمان کیا میرے منشی نے ان لوگوں سے پوچھا کہ اس کو کسی نے مسلمان کیا تھا انہوں نے کہا کہ وہ خود مسلمان ہوا، منشی نے کہا نہیں نہیں کوئی استاد اس کا ہو گا۔ میں نے منشی سے کہا چپ رہو یہ لوگ جس طرح پر کہتے ہیں کہنے دو۔ جب تم نے ان لوگوں سے یہ سنا کہ تین ہزار برس تمہارے پیغمبر صاحب سے پیشتر مسلمان بادشاہ حکومت کرتے تھے تو ان سے تاریخی واقعات کی صحت کی کیا امید ہے، اس پر یوزباشی اور اس کے محرم نے اپنی یاد داشت کا مقابلہ کیا اور دیکھا تو منشی کی بات صحیح تھی اور پھر بیان کیا کہ حضرت سلطان کافر بادشاہ تھا اس کو عبدالنصر سامانی بغداد کے ایک مولوی صاحب نے مسلمان کیا ہے جب سلطان بچہ تھا اس وقت میں اس کے باپ نے خوبا میں دیکھا کہ وہ مسلمان ہو گا اس پر اس کا ارادہ اپنے بیٹے کو قتل کرنے کا ہوا لیکن جب اپنی بی بی سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ ابھی قتل مت کرو پہلے اس کا امتحان کر لو یعنی بتکدہ میں لے کاؤ اگر وہ ہمارے طریقہ پرستش کو قبول کرے تو زندہ رہنے دو ورنہ قتل کر ڈالو آخر لڑکے یعنی سلطان کو بت کے سامنے لے گئے وہ اس کی پرستش میں شریک ہوا اس لیے اس کو قتل نہیں کیا گیا لیکن جب مسلمان استاد کی تعلیم اس کو خفیہ ہوئی تو وہ اپنے دل میں بہت متردد ہوا اور جب اس کے باپ نے ایک مندر بنانے کا اس کو حکم دیا تو وہ اور بھی زیادہ تر متردد ہوا۔ اس نے اپنے استاد سے مشورہ کیا درویش نے کہا کہ اپنے باپ کی اطاعت کرو مگر دل میں یہ سمجھو کہ مسجد بنوا رہے ہیں جبکہ تمہارا مقصد نیک ہو گا تو صرف بت خانہ کے نام سے کچھ نقصان نہ ہو گا جب وہ مندر بنوا چکا تو ایک اور بھی بڑی مشکل پیش آئی یعنی اس کے باپ نے اسی مندر میں ایک بت نصب کیا اور اس کی پرستش کا اس کو حکم دیا اس درویش نے مثل پیشتر کے پھر اس نوجوان مسلمان کو سمجھا دیا کہ کاغذ کے دو پرچوں پر اللہ کا نام لکھ کر اپنے ہاتھوں کی گھاٹیوں میں رکھو جب بت کے سامنے ہاتھوں پر سر رکھ کر سجدہ کرو گے تو وہ خدا کی عبادت ہو گی نہ اس بت کی چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا ہے اور ان تدبیروں سے اس کا نیا عقیدہ بھی درست رہا اور اس کے والدین کے دل میں بھی کسی طرح شک نہ آیا اسی عرصہ میں چالیس لڑکے امیروں اور سرداروں کے اس نے اپنے ساتھی کر لیے اور ان کے ساتھ تیر اندازی اور فنون سپہ گری کی مشق کی۔ جب یہ سب سیکھے سکھائے آدمی اس کے قابو اور اختیار میں ہو گئے تو وہ دفعۃً اپنے باپ کے روبرو آیا اور اس کو حکم دیا کہ مسلمان ہو بادشاہ نے انکار کیا تب اس کے ساتھیوں نے بادشاہ کو گرفتار کر لیا اور اس کا منہ آسمان کی طرف کیے ہوئے پکڑے رہے اس پر بھی وہ انکار کرتا رہا، پھر اس کو زمین پر کھڑا کیا اس کے پاؤں تلے زمین پھٹنے لگی اور وہ رفتہ رفتہ دھنسنے لگا تب بھی اس کے بیٹے نے دین اسلام قبول کرنے کی ہدایت کی مگر اس نے انکار ہی کیا یہاں تک کہ وہ بالکل زمین میں غائب ہو گیا اور اس کا بیٹا یعنی سلطان بادشاہ ہوا لوگ کہتے ہیں کہ مقام ارٹاش میں یہ جگہ اب بھی نمک کے غار کی مانند نظر آتی ہے ارٹاش کاشغر سے بیس میل شمال کی طرف واقع ہے اس ملک کا وہی پیشتر دار الخلافت تھا۔ پہلی فروری کو یوزباشی اور محرم باشی نے دوپہر کے وقت میرے ساتھ پلاؤ کھایا اس کے بعد میرے ملازم مسمی کبیر نے نماز نہ پڑھی اس لیے لوگوں نے اس کو ملامت کی اور محرم باشی نے کہا کہ جو کوئی شخص کسی وقت کی نماز قضا نہ کرے تو چوری اور جھوٹ اور قتل سے اس کا کچھ ھرج نہیںہوتا کبیر نے نماز قضا کرنے پر عدم فرصتی کا عذر کیا لیکن محرم باشی کے اس مسئلہ پر کہ نماز سے ہر قسم کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں بحث کی۔ دونوں میرے منشی کے پاس گئے،منشی نے محرم باشی کے دعویٰ کے بر خلاف تصفیہ کیا اور وہ مسئلہ اسلام کا بیان کیا جس کا یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کے تمام گناہ مثل شراب خواری، قمار بازی وغیرہ اس شخص کے معاف ہوں گے جو برابر بلا ناغہ نماز پڑھتا رہے گا اور مکہ شریف کے حج کو جاوے گا لیکن انسان کے مقابلہ کے گناہ مثلاً چوری، زبردستی بے رحمی وغیرہ حج کرنے سے بھی معاف نہ ہوں گے جب تک گنہگار حتی الوسع اس کا معاوضہ دیکر مظلوم سے معافی نہ حاصل کر لے پس صرف نماز سے ایسے گناہ معاف نہیں ہو سکتے، اسی دن منشی نے متعجب ہو کر مجھ سے کہا کہ ترک لوگ غیر مذہب والوں سے نہایت آزادی کے ساتھ ملتے جلتے ہیں میں نے کہا ہاں یہ لوگ دنیا کے اور سب لوگوں کی مانند ہیں منشی ھنسا اور مجھ سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے میں نے جواب دیا کہ تم ہندوستان کے لوگ اپنے ملک کے پہاڑوں کے اندر بند رہتے ہو اور باقی دنیا کے انسانوں کی بہ نسبت تمہارے خیالات بالکل مختلف ہو رہے ہیں صرف تم ہی لوگ خواہ ہندو خواہ مسلمان اور لوگوں کے ساتھ کھانے پینے میں تعصب رکھتے ہو۔ سوائے ہندوستان کے اور کہیں یہ بات پائی نہیں جاتی اور ہندوستان میں جب انگریز تم سے یہ بات کہتے ہیں تو تم اعتبار نہیں کرتے مگر دیکھ لو ہندوستان سے نکل کر پہلے ہی قدم پر ایک سخت مسلمانی ملک میں خود تمہیں کو ایسے تعصبات کے نہ ہونے پر تعجب ہوتا ہے یہی حال تمام دنیا کا ہے منشی نے اس بات کو قبول کیا اور کہا کہ میں بھی ہندوستان میں جا کر اپنی رائے تبدیل کروں گا۔ کاشغر میں پانچویں اپریل کو بادشاہ سے دوسری ملاقات ہوئی جس کا میں مدت سے منتظر تھا یعنی سہ پہر کے وقت سرکار نے آ کر کہا کہ یا تو کوئی بڑا سردار تم سے باتیں کرنے کے لیے آوے گا یا تم ہی بادشاہ کی ملاقات کے لیے بلائے جاؤ گے میں نے جواب دیا کہ جو کچھ اتالیق غازی کا حکم ہو اس پر میں راضی ہوں بعد چند منٹ کے پھر سرکار نے آ کر کہا کہ تیار اور آمادہ رہو شام کو بلائے جاؤ گے اس کے جانے کے بعد دو بندوقیں میں نے صاف اور درست کیں آٹھ بجے شام کو میری طلبی ہوئی چنانچہ مجھ کو لوگ محل کے سامنے سے بڑے پھاٹک میں لے گئے وہاں توپیں رکھی ہوئی تھیں پھاٹک کھول کر ہم لوگ چوک میں پہنچے جہاں چین کی لالٹینیں روشن تھیں اس کے مقابلہ میں دیوان خانہ تھا جس میں نہایت عمدہ روشنی ہو رہی تھی۔ میرا رہنما مجھ کو دیوان خانہ کی سیڑھیوں پر چھوڑ کر چلا گیا میں اکیلا کمرہ سے اندر گیا اتالیق غازی ایک گوشہ میں بیٹھے تھے، مجھ کو دیکھ کر ہاتھ بڑھایا اور یہ کہہ کر کہ آرام سے بیٹھو اپنے روبرو بٹھایا بعد مزاج پرسی کے ایک ہندوستانی جمعدار ترجمان بنایا گیا تمام گفتگو لفظ بلفظ تو میں نہیں بیان کر سکتا کیونکہ گھنٹہ بھر سے زیادہ میں بیٹھا رہا اور گفتگو ہوتی رہی تھی خلاصہ تمام گفتگو کا یہ ہے: بادشاہ نے فرمایا کہ اس ملک میں آپ کے آنے سے میں اپنی بڑی عزت سمجھتا ہوں اور میں انگریزوں کے مقابلہ میں طاقت اور مرتبہ میں بہت کم ہوں۔ میں جواب دیا کہ آپ کے اور انگریزوں کے باہم ایسی ہی دوستی ہو جانے کی مجھے امید ہے جیسی کہ سلطان روم اور انگریزوں کے درمیان میں ہے اور دوستوں کے درمیان میں کمی بیشی کا کوئی خیال نہیں کیا کرتا۔ بادشاہ نے کہا خدا ایسا ہی کرے اور مجھ کو بھائی کہہ کر فرمایا کہ میری رعایا سب تمہاری غلام ہے جب قرب و جوار کی قومیں تمہارے یہاں آنے کا حال سنیں گی تو میری اور بھی عزت بڑھ جاوے گی میں نے جواب میں عرض کیا کہ نہ مجھ کو ملکہ نے بھیجا ہے نہ لاٹ صاحب نے میں آپ کی ناموری سن کر خود آیا ہوں مجھ سے آپ کو صرف اسی قدر فائدہ ہو سکتا ہے کہ میں اپنے ملک اور اپنے بادشاہ کا حال بتا دوں۔ بادشاہ نے کہا کہ تم ہمارے بھائی ہو اور بہت سے اور بھی تعظیمی کلمے کہے اور فرمایا کہ میں نے اس سے پیشتر کبھی کسی انگریز کو نہیں دیکھا تھا کہ ان کی طاقت اور سچائی کا حال سنتا رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ انگریزوں سے سوائے بھلائی کے کوئی مضر بات ظہور میں نہ آوے گی۔ میں تم کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں، جو کچھ تم صلاح دو، وہ میں کروں۔ میرا رادہ تمہارے ملک میں ایلچی بھیجنے کا ہے۔ تمہاری کیا صلاح ہے، میں نے جواب دیا کہ آپ کا ارادہ نہایت عمدہ ہے اور ایلچی بھیجنا بہت مناسب ہے پھر بادشاہ نے کہا کہ میں ایلچی بھیجوں گا اور اس کے ہاتھ ایک خط اس درخواست سے بھیجوں گا کہ وہ اس کو ملکہ کی خدمت میں روانہ کر دیں میں نے عرض کیا کہ یہ بہت بہتر تدبیر ہے بادشاہ نے پوچھا کہ کب بھیجنا چاہیے۔ میں نے کہا جب آپ کی مرضی ہو۔ میرے ساتھ خواہ مجھ سے پہلے یا میرے بعد روانہ فرمائیے مگر میری رائے یہ ہے کہ جو کچھ کرنا ہو جلد کیجئے تب بادشاہ نے فرمایا کہ میرا ایلچی بے شک تمہارے ساتھ جاوے گا اب میں یہاں پر تم کو تین دن اور ٹھہراؤں گا پھر یارقند کو چلنا پڑے گا اور ایلچی کو میں یا تو یارقند میں یا یانگ حصار میں تمہارے سپرد کروں گا میں نے کہا بہت اچھا اگر ارشاد ہو تو جو کچھ باتیں اس سے پوچھی جاویں گی وہ سب میں اس کو بتا دوں گا اور پھر وہ ایلچی ان سب امور کی نسبت حضور کی اجازت حاصل کر لے گا ورنہ جب وہ ہمارے حاکموں کے روبرو جاوے تو گفتگو کرنے میں شاید اس کو دقت پیش آوے بادشاہ نے فرمایا کہ ہاں سب باتیں ان کو بتا دیجیو اور کل شام کو اور پھر یانگ حصار میں ہم سے تم سے گفتگو ہو گی اور کہا کہ ملکہ انگلستان مثل آفتاب کے ہیں جس پر ان کی شعاع پڑتی ہے اس کو گرمی پہنچتی ہے میں سردی میں ہوں اور چاہتا ہوں کہ ان کی کچھ شعاعیں مجھ پر بھی پڑیں میں ایک چھوٹا سا آدمی ہوں چند برسوں میں خداوند کریم نے اتنا بڑا ملک عطا کر دیا ہے تم آئے میری بڑی عزت ہوئی مجھ کو امید ہے کہ تم اپنے ملک میں میری اعانت کرو گے جو کچھ مجھ سے تمہاری خدمت ہوئی ممکن ہو اس کے لیے ارشاد کرو اور اسی طرح میرے ساتھ بھی پیش آنا اب کہو واپس جا کر میرا کیا حال بیان کرو گے میں نے کہا میں کہوں گا کہ جو کچھ آپ کی شہرت ہندوستان تک پہنچی ہے وہ اصل حقیقت سے نصف ہے یہ سن کر بادشاہ ہنسے اور مصافحہ کرنے کو ہاتھ بڑھایا پھر فرمایا کہ تم اپنے آدمی ترکستان میں تجارت کے لیے بھیجا کرو ملکہ اپنا ایلچی یہاں بھیجیں یا نہ بھیجیں مگر خاص تمہارے آدمی آیا جایا کریں پھر پوچھا کہ سال بھر میں ایک آدمی بھیجو گے میں نے عرض کیا کہ اگر حضور کی اجازت ہے تو ضرور بھیجوں گا۔ بادشاہ نے فرمایا سب قسم کی سودا گری کی چیزیں بھیجنا اور ہمارے نام خط لکھنا اور جو کچھ تمہیں درکار ہو ہم سے طلب کرنا۔ تمہارے بخیریت پہنچنے کا خط ہمارے واسطے ایک نعمت ہو گا۔ میں نے جواب دیا کہ بے شک اس ذریعے سے آپ کی خیر و عافیت کا حال مجھے معلوم ہوتا رہے گا جس سے مجھ کو بڑی خوشی ہو گی میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کی سلطنت صدھا برس قائم رہے الحاصل اسی قسم کی گفتگو کے بعد میں نے چاء پی اور مجھ کو خلعت مرحمت ہوا جس کے بعد کچھ تھوڑی سی دیر بیٹھ کر میں رخصت ہوا ایک شہزادہ مجھ کو صدر دروازے تک پہنچا گیا سب لوگوں نے مجھ کو مبارکباد دی۔ چھٹی اپریل کو بادشاہ کے ہاں سے روپیہ اشرفیاں اور کچھ سونے کے ریزے کاغذ میں لپٹے ہوئے سرکار لایا اور کہا کہ یہ آپ کے ذاتی اخراجات کے لیے ہیں وہ سب مالیت تخمیناً چھ سو نوے پونڈ یعنی چھ ہزار نو سو روپے کی تھی تھوڑی دیر بعد وہی شخص پھر آیا اور پینتالیس پونڈ یعنی چار سو پچاس روپیہ منشی کے لیے لایا اور پھر ایک زردوزی سرخ ساٹن کا چغہ اور ایک اونچی مخمل کی ٹوپی میرے لیے اور کچھ کپڑے منشی اور میرے ملازموں کے لیے آئے۔ تھوڑے عرصے بعد ایک گھوڑا نہایت عمدہ اسباب سے سجا ہوا آیا اور اس کی باگ میرے ہاتھ میں دی گئی اور دعائیں پڑھی گئیں شام کو میں پھر بادشاہ کی ملازمت کے لیے گیا معمولی گفتگو کے بعد بادشاہ نے پھر یہی کہا کہ بمقابلہ ملکہ کے جو ہفت اقلیم کی حکمران ہیں میری کچھ حقیقت نہیں اس کے بعد انگلستان کے ساتھ دوستی کا تذکرہ آیا خصوصاً میری دوستی کا بادشاہ نے فرمایا کہ جب میں تمہارا مونہہ دیکھتا ہوں میرے دل میں ایک نیک شگون کا خیال پیدا ہوتا ہے میں نے عرض کیا کہ آپ کی بے انتہا نوازش سے میں اس کا مستحق نہیں ہوں اور مجھ پر کیا منحصر ہے آپ میری تمام قوم اور ملکہ پر بھی ایسی ہی مہربانی فرماتے ہیں یہ سن کر بادشاہ نے سمجھا کہ جو چیزیں صبح کے وقت مجھے عطا فرمائی تھیں ان کی نسبت گویا میں نے یہ کہا کہ وہ میری قوم اور ملکہ کے واسطے ہیں چنانچہ فرمانے لگے کہ نہیں نہیں وہ سب چیزیں خاص تمہارے لیے ہیں تمہاری ملکہ کے لیے مناسب تحفہ میں مہیا کروں گا میں تمہارے ملک کے دستوروں سے ناواقف ہوں مگر تم ہمارے دوست ہو ہم کو بتاؤ گے کہ ملک کے لیے کیا کیا چیزیں بھیجنی مناسب ہوں گی ملکہ کا مرتبہ بہت اعلیٰ ہے میں بے حقیقت ہوں میں تم سے کوئی بات نہیں چھپاتا تم میرے ملک کے حال سے واقف ہو یہاں اونی کپڑا اور اسی قسم کی اور چیزوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا پس تم کو چاہیے کہ تم مجھ کو صلاح دو میں نے جواب دیا کہ بادشاہوں کے لیے دوستی اور اتحاد ایک بہت بیش بہا تحفہ ہے جو وہ آپس میں ایک دوسرے کو دے سکتے ہیں لیکن اگر میری مصلحت کو ضرورت ہے تو میں حاضر ہوں۔ بادشاہ نے فرمایا کہ یہ امر میں تمہیں پر چھوڑتا ہوں جب یانگ حصار میں ملاقات ہو گی تب اس کا انتظام کریں گے یہاں کام کی کثرت ہے روس اور قوقان اور بخارا وغیرہ سب طرف سے لوگ یہاں آئے ہوئے ہیں لیکن یانگ حصار میں سب کام چھوڑ کر تم سے مشورہ کروں گا جو کچھ تم صلاح بتلاؤ گے وہ کروں گا خواہ خط لکھیں گے یا ایلچی بھیجیں گے یا اور جو کچھ تم کہو گے سو کریں ہے میں نے کہا کہ ایلچی بھیجنے کی رائے بہت عمدہ ہے اس کی تعمیل میں جو کچھ تائید مجھ سے ممکن ہے اس کے لیے میں حاضر ہوں پھر بادشاہ نے انگلیوں پر شمار کر کے فرمایا کہ کل چہار شنبہ ہے پرسوں پنجشنبہ اور اترسوں جمعہ کو میں اپنے لڑکے کو یہاں چھوڑ کر یانگ حصار کو روانہ ہوں گا دو دن تم یہاں اور رہو میرا ملک اور میری سب رعایا تمہاری ہے اور جمعے کے روز یانگ حصار میں مجھ سے ملو۔ مجھ کو اس جگہ سے نہایت انس ہے کیونکہ اس ملک میں میں نے پہلے پہل اسی شہر کو فتح کیا تھا میرا ارادہ ہے کہ جمعے کی نماز وہیں جا کر ادا کروں اس کے بعد سب بندوبست ہو گا اور میں دو یا تین عقلمند رئیس بھی تمہارے ساتھ کر دوں گا وہ لوگ تم کو ہاتھوں ہاتھ آرام سے میرے ملک میں سے لے جاویں گے اور تمہارے ملک میں تمہارے ہمراہ جاویں گے۔ اس کے بعد بادشاہ نے فرمایا کہ میں نہایت محجوب اور شرمندہ ہوں کہ اس سے پیشتر اس ملک میں ایک انگریز آیا تھا اس کو ولی خاں ڈاکو نے مار ڈالا۔ میں نے جواب دیا کہ ہم لوگ خوب جانتے ہیں کہ آپ کا اس میں ایماء نہ تھا اور نہ ہم آپ پر اس کا الزام لگاتے ہیں وہ مسافر انگریز نہ تھا جرمن تھا مگر پھر بھی ہم لوگوں کو اس کے مارے جانے کا بڑا رنج ہے کیونکہ وہ ہندوستان میں ہمارا مہمان تھا اور وہیں سے ترکستان میں آیا تھا پھر بادشاہ نے چھ انگلیاں اٹھا کر فرمایا کہ اتنے برس سے میرا اختیار اس ملک پر ہے اس سے پیشتر میں کچھ بھی نہ تھا میں نے عرض کیا کہ جو بادشاہ باستحقا موروثی بادشاہت حاصل کرتے ہیں اس میں ان کی کچھ لیاقت نہیں سمجھی جاتی بلکہ جو لوگ مثل تیمور اور سکندر کے اپنی قوت بازو سے بڑی بڑی سلطنتیں حاصل کرتے ہیں وہی قابل تعریف ہوتے ہیں بادشاہ نے فرمایا خدا تمہارا قول سچا کرے اور یہ بھی کہا کہ ایک اور انگریز یارقند میں آیا تھا تم اس کو جانتے ہو میں نے کہا کہ ایک انگریز مجھ کو تبت میں ملا تھا اور اس نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ مجھ کو اپنے ساتھ لے چلو مگر میں نے انکار کیا کیونکہ میں نے صرف اپنے ہی لیے حضور سے درخواست کی تھی بادشاہ نے کہا خیر لیکن جو کوئی انگریز یہاں آوے میں اس سے خوش ہوں اس کے بعد میں رخصت ہوا نیچے اوپر تین بھاری بھاری چغہ جو بادشاہ نے عطا فرمائے تھے پہنے ہوئے تھا اس لیے گرمی کے مارے میں گھبرا گیا تھا۔ میں نے چاہا کہ اس سرکار کو جو بادشاہ کے حضور میں سے میرے لیے نقد و جنس لایا تھا کچھ دوں مگر اس نے انکار کیا اور کہا کہ اگر میں مہمان سے ذرا سی بھی کوئی چیز لے لوں تو بادشاہ میری گردن مار دے گا اپریل کی بارھویں تاریخ صبح کو بادشاہ سے رخصت ہونے کو گیا ملازمان شاھی مجھ کو قلعے میں لے گئے جس کے اندر جا کر صحن کی حد پر بادشاہ کو بیٹھے پایا حسب معمول میں روبرو بٹھایا گیا اور ترجمان طلب ہوا۔ باہم مزاج پرسی کے بعد لمبی گفتگو ہوئی جس کا پورا پورا لکھنا ممکن نہیں مختصر یہ ہے کہ بادشاہ نے فرمایا کہ ایک معزز سید کو میں بطور ایلچی تمہارے ساتھ روانہ کرنا چاہتا ہوں جب اپری کاٹ میوے کی فصل آوے تب تم روانہ ہو کیونکہ اسی وقت راہ کھلی رہتی ہے اور یارقند اور شہید اللہ و کشمیر اور تبت سے اپنی خبر بھیجو پھر فرمایا کہ مہاراجہ کشمیر کے نام بھی کوئی خط لکھوں یا نہیں اس میں تمہاری کیا صلاح ہے یہ کہہ کر میرے منہ کی طرف دیکھنے لگے میں نے چاہا کہ اس کا کچھ جواب نہ دوں لیکن جب بادشاہ نے مکرر پوچھا تو میں نے کہا کہ بڑے بڑے بادشاہوں کو باجگزار رئیسوں سے خط کتابت کرنا مناسب نہیں بادشاہ نے کہا کہ میں یہی جاننا چاہتا تھا میں تمہارے ساتھ ایک شخص ایسا بھیجوں گا جو بالکل تمہارے حکم کے تابع رہے اس کو تم کشمیر سے جب جی چاہے واپس کر دیجئو پھر پوچھا کہ کشمیر میں کوئی ایسا تاجر مقرر کروں جو وہاں کے حالات لکھتا رہے۔ میں نے کہا بیشک رکھنا چاہیے اور امید ہے کہ آپ لاہور میں اپنا وکیل رکھنے کا بہت جلد اہتمام فرماویں گے یہ سب باتیں میں نے بہت رک رک کر کہیں اور یہ بھی کہہ دیا کہ ایسے امور میں صلاح دینا میرا کام نہیں ہے آپ اپنی تجویز سے کام کیجئے مگر بادشاہ سب باتوں میں دوستی کا حوالہ کر کے کہتے تھے کہ تم ہندوستان کے حال سے واقف ہو تو اس سے اور کیا ہونا ہے پھر ملکہ کی عظمت اور بزرگی کا تذکرہ ہوا اور بادشاہ نے کہا کہ ملکہ مثل آفتاب کے ہیں جس کی کرنوں سے ہر چیز کو گرمی پہنچتی ہے ایسے بڑے بادشاہ کی دوستی کے لائق تو میں نہیں ہوں مگر یہ امید رکھتا ہوں کہ مجھ کو بھی ان کی شعاعوں کی دھوپ کھانے کی اجازت ملے اور یہ بات میں اس لیے چاہتا ہوں کہ میرے چاروں طرف دشمن ہیں اس کے بعد پھر میری دوستی کا ذکر ہوا اس پر میں نے عرض کیا کہ میرا دل آپ کے دل کے ساتھ واستہ ہے آپ نے جو کچھ الطاف اور نوازش میرے حال پر فرمائی ہے اس کا حال میں اپنے ملک کے لوگوں سے کہوں گا بادشاہ نے فرمایا کہ کسی منشی کو یا کسی اور ملازم کو میرے پاس بھیجا کیجئو اور اپنی خیر و عافیت کا حال لکھتے رہیو میں بھی اپنا حال تم کو لکھوں گا اور اس ملک کی جو چیز مطلوب ہو وہ طلب کیجیو یہ سب تمہارا ہے میں نے عرض کیا کہ ضرور ایسا ہی کروں گا اس گفتگو میں بہ نسبت پیشتر کے بادشاہ کی طرف سے مہربانی کا زیادہ اظہار ہوتا تھا بات چیت ہنس ہنس کر نہایت آسان فارسی میں کرتے تھے اور ہر جملے پر جھک کر یہ کہتے شا صاحب سمجھے آخر کار چاء کے بعد مجھ کو خلعت مرحمت ہوا اور میں رخصت ہوا۔ بادشاہ نے میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے تھام کر کہا خدا حافظ اور پھر ہاتھ اٹھا کر عربی میں میری خیر و عافیت کے لیے دعا پڑھی اور چہرے پر سے داڑھی تک ہاتھ پھیر کر کہا اللہ اکبر۔ یارقند کو واپس آتے ہوئے پندرھویں اپریل کو ہم ایک گاؤں میں ناشتے کے لیے اترے وہاں ایک عجیب واقعہ پیش آیا یعنی میں یوزباشی اور پنجاباشی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور چومارو نام میرا ملازم میرے لیے کوئی چیز لایا یوزباشی میرے آدمیوں پر بہت مہربان رہتا تھا اس نے پنجاباشی سے ہنس کر کہا کہ یہ ایک ہندو ہے ہندو کسی دوسری قوم کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے پنجا باشی کی طبیعت ذرا آزاد کم تھی اس نے حقارت کے ساتھ چومارو کو دیکھ کر ترشی سے کہا کہ تو ہندو ہے چومارو نے یا تو جلدی میں یا یوزباشی کی مہربانی کے خیال کے ہنس کر جواب دیا نہیں میں مسلمان ہوں اس پر دونوں شخص اچھل پڑے اور بولے کہ دیکھو کہ اس نے اپنے منہ سے کہا کہ میں مسلمان ہوں پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولے کہ ہم دونوں آدمی اس بات کے گواہ ہیں میں چپ رہا پھر ہنس کر جواب دیا کہ ہاں میں نے بھی سنا لیکن خیر اب اس بات کو جانے دیجئے آئیے کھانا کھائیے کھانا ٹھنڈا ہوتا ہے وہ لوگ متعجب ہو کر بیٹھ گئے مگر وہی تذکرہ کرتے رہے میں نے دو ایک باتیں ہنسی کی کہہ کر اس بات کو ٹالا لیکن دیر تک میں بھی مشوش رہا کیونکہ وسط ایشیا کے متعصب مسلمانوں کی سختی کے حال سے میں واقف تھا یہ مسلمان کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اتفاق سے بھی ایک مرتبہ یہ کہہ دے کہ میں مسلمان ہوں یا صرف یا اللہ کہے تو ہم اس کو پھر بت پرستی نہیں کرنے دیتے یا وہ اسلام اختیار کر لے یا موت یوزباشی نے پھر مجھ سے کہا کہ چومارو خوب بچا کہ اس موقعے پر میرے اور پنجا باشی کے سوا اور کوئی نہ تھا ہم آپ کے سبب سے اس بات کو دبائے دیتے ہیں تاکہ قاضی کے کان تک نہ جائے۔ شام کے وقت مجھ سے اور پنجا باشی دادا خان سے ایک یورانی عمارت کا تذکرہ ہوا یہ عمارت کاشغر اور قوقان کی راہ پر مقام ارادن میں جو اس سے پندرہ میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس میں سے ایک پہاڑ میں کو پورانی سیڑھیاں ہیں جن پر سے ایک ایسے درے کی راہ ہے جس کا درازہ نہایت تنگ اور چھوٹ ہے اور درہ بہت وسیع ہے۔ یہ سیڑھیاں اور عمارت چہل ستون کہلاتی ہے یہاں کے لوگ اس عمارت کی نسبت بجز اس بات کے کہ یہ عمارت قدیم ہے اور کوئی روایت نہیں رکھتے۔ شہر یارقند کی کل آبادی میرے اندازے سے پچھتر ہزار آدمیوں سے کم نہیں ہے نیا شہر یعنی قلعہ بہت چھوٹا قریب ہزار گز مربع کے ہے اس کی آباد پانچ ہزار سے کم نہ ہو گی پس کل آبادی شہر اور قلعے کی اسی ہزار آدمیوں کی ہو گی گو تعلیم ادنیٰ درجے کی ہوتی ہے مگر انتظام تعلیم بہت اچھا ہے جہاں مسجد ہے وہاں اس کے ساتھ ایک ابتدائی مدرسہ بھی ہے زیادہ عمر کے طالب علموں کے لیے یعنی پندرہ برس سے بیس برس کی عمر کے طالب علموں کے لیے پچاس یا ساٹھ مدرسے ایسے ہیں جن میں بہ حساب اوسط سو طالب علم تعلیم پا سکتے ہیں اور ان مدرسوں کے لیے زمین عطا ہوئی ہے ہر ایک طالب علم بھی تھوڑی سی فیس دیتا ہے مگر تعلیم وہاں صرف اسی قدر ہوتی ہے کہ کچھ لکھنا پڑھنا آ جاوے اور قرآن شریف پڑھ سکیں بعض اوقات قرآن شریف با معنی بھی پڑھایا جاتا ہے اسی تعلیم کی بناء پر لوگ اپنے آپ کو ملا لکھتے ہیں اہل چین کے زمانے کی نسبت اب مدرسوں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے بالفعل اتالیق غازی نے بھی دو مدرسے جدید یارقند میں تعمیر اور قائم کئے ہیں جن کے ساتھ بڑے بڑے تالاب بھی سایہ دار بنائے ہیں۔ اندجان والوں اور اتالیق غازی کے عہد سے اسلام کا ویسے ہی سختی اور تشدد کے ساتھ برتاؤ ہے جیسا کہ بخارا میں تھا محتسب گلی کوچوں میں پھرتا اور جس مرد کو بلا دستا اور جس عورت کو بغیر برقعے کے دیکھتا ہے سزا دیتا ہے جہاں کہیں وہ گزرتا ہے ہر شخص راستہ چھوڑ کر اس خوف سے کھڑا ہو جاتا ہے کہ کہیں میری کوئی خطا نہ نکل آوے میں نے سنا ہے کہ اتالیق غازی سوائے ایسے شخص کے جو ملک میں فساد برپا کرے لڑائی کے قیدیوں کو کبھی قتل نہیں کرتا چوروں کی عام سزا پھانسی ہے اور بدکاروں کی گردن ماری جاتی ہے۔ گیارھویں مئی کو داد خواہ نے میرے لیے یوزباشی کی معرفت ایک گھوڑا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ میں نے سنا ہے آپ کوئی گھوڑا خریدنا چاہتے ہیں اگر آپ خرید لیں گے تو میری میزبانی میں بٹہ لگ جاوے گا یہ وہی عمدہ گھوڑا تھا جس کی میں نے ایک مرتبہ تعریف کی تھی پھر یوزباشی نے مجھ سے پوچھا کہ داد خواہ دریافت کرتے ہیں کہ آپ کو اور بھی گھوڑے کی ضرورت ہے میں نے کہا کہ میری تو زبان بند ہے کیونکہ جب میں گھوڑا خریدنے کی اجازت چاہتا ہوں داد خواہ اپنے پاس سے عنایت کر دیتے ہیں بہت سی چیزیں مثل خچر اور ریشم وغیرہ کے میں خریدنا چاہتا ہوں لیکن اگر بلا اجازت خریدوں تو داد خواہ ناراض ہو جاویں گے اور جو اجازت چاہتا ہوں تو وہ خود ہی عنایت کر دیں گے پس شرم کے سبب سے میں تو کچھ کہہ نہیں سکتا چپ ہوں۔ بارھویں مئی کی صبح کو داد خواہ کا ایک رقعہ منشی لے کر آیا اور مجھ سے کہا کہ آپ اپنے لیے چیزیں خرید کرتے ہیں اس سے داد خواہ بہت ناراض ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھ کو کیوں نہیں اطلاع دیتے جو میں سب چیزیں مہیا کر دوں یہ بات دوستی کے بر خلاف ہے تب میں نے منشی سے اس رقعے کے جواب میں لکھوایا کہ داد خواہ کی نوازش میرے حال پر اس قدر ہے کہ وہ مجھ کو صرف وہی چیزیں نہیں عنایت کرتے جن کی میں درخواست کرتا ہوں بلکہ وہ چیزیں بھی مرحمت فرماتے ہیں جن کی میں دل میں خواہش کرتا ہوں پس میں نے اب اپنے دل میں بھی کسی چیز کی خواہش کرنا ترک کر دیا ہے میں ان کے بار احسان سے دبا جاتا ہوں اور مجھ کو بڑی شرم آتی ہے۔ بیسویں مئی کی صبح کو یوزباشی داد خواہ کے پاس سے یہ خبر لایا کہ اب وقت روانگی کا قریب آ گیا سامان سفر گھوڑے وغیرہ تیار کرنا چاہیے اور جو چیزیں درکار ہوں وہ خرید لینی چاہئیں اور مجھ سے پوچھا کہ داد خواہ آپ کے دوست ہیں آپ ان سے کیا تحفہ لیجئے گا میں نے جواب دیا کہ ہمارے ملک میں دوست سے تحفہ لینے کا رواج نہیں ہے اس نے کہا کہ آپ اپنے ملک میں نہیں ہیں جہاں ہیں وہیں کا دستور برتنا چاہیے اور اگر آپ کسی تحفے کے لیے اپنی خواہش ظاہر نہ کریں گے تو داد خواہ ناراض ہو جاویں گے۔ بائیسویں مئی کی صبح کو میں یوزباشی کے ساتھ داد خواہ سے ملنے گیا وہاں موسم کی گرمی کا تذکرہ ہوا داد خواہ نے کہا پانی نہیں برستا جو ہوا ٹھنڈی ہو اندجان میں گرمی بہت ہوتی ہے لیکن وہاں اکثر پانی برستا ہے اس لیے وہاں کی گرمی برداشت ہو سکتی ہے میں نے کہا شاید اندجان کی آب و ہوا ہمارے ملک انگلستان کی آب و ہوا کے موافق ہے میں نے سنا ہے کہ اندجان میں جاڑے کے موسم میں برف کثرت سے پڑتی ہے اور گرمی میں پانی افراط سے برستا ہے یہی حال ہمارے ملک کا ہے داد خواہ نے کہا ہاں یہی حال ہے شاید اندجان کے ٹھیک مغرب اور مقابل میں انگلستان ہے جس کے سبب سے دونوں کی آب و ہوا یکساں ہے۔ تب میں نے سمجھایا کہ انگلستان اندجان سے شمال کی طرف واقع ہے اور قطب کے قریب ہے بہ نسبت یہاں کے انگلستان سے وہ ستارہ آسمان پر زیادہ بلند نظر آتا ہے داد خواہ نے کہا کہ میں یہ نہیں جانتا کہ ھفت اقلیم میں سے کس اقلیم میں آپ کا ملک ہے اور وہاں دن کتنے گھنٹے کا ہوتا ہے کیا سولہ گھنٹے کا ہوتا ہے میں نے جواب دیا کہ ہم دنیا کو ہفت اقلیم پر تقسیم نہیں کرتے ہمارے ہاں دنیا کے پانچ حصے ہیں پس میں نہیں کہہ سکتا کہ ہمارا ملک کس اقلیم میں ہے لیکن سب سے بڑے دنوں میں دن رات کے چوبیس گھنٹے میں سے اٹھارہ یا انیس گھنٹے کا دن ہوتا ہے داد خواہ نے ہاتھ اٹھا کر کہا کہ تم تو اقلیم پنجم کے کنارے پر ہو میں نے کہا کہ اس سے بھی اور شمال کی طرف جہاں ہمارے جہاز بڑی بڑی مچھلیاں پکڑنے جاتے ہیں وہاں گرمی کے موسم میں آفتاب شب و روز افق سے نیچے نہیں اترتا داد خواہ نے پوچھا کہ وہاں کس قسم کے لوگ آباد ہیں اور کہا کہ ہمارے قاعدے کے موافق ایسی آب و ہوا سے جسم میں بڑی طاقت پیدا ہوتی ہے میں نے وہاں کے باشندوں کا حال بیان کیا اور کہا کہ ان کے قد ہمارے سینے سے اونچے نہیں ہوتے اس پر داد خواہ نے کہا کہ وہ سردی سے ٹٹھر گئے ہوں گے میں نے پھر کہا کہ ہمارے ملک سے اکثر جہاز اور ذی علم لوگ ملکوں کی تحقیقات کے لیے جایا کرتے ہیں داد خواہ نے کہا کہ عقلمند گورنمنٹ کا یہی طریقہ ہے کہ سب باتوں سے مطلع رہے۔ شا صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے ملک اور آب و ہوا کا تذکرہ اس بات کے ظاہر کرنے کے لیے لکھا ہے کہ داد خواہ ذھین اور عالم شخص ہے کیونکہ ایشیا کے رہنے والوں کو جو یورپ کے علوم سے نا واقف ہیں اس بات کی واقفیت نہیں ہوتی کہ جس قدر شمال کی طرف جائیں اسی قدر دن اور رات میں فرق ہوتا جاتا ہے گو میں نے صرف اتنی ہی بات کہی تھی کہ قطب کے قریب کے ملکوں میں گرمی کے موسم میں ہر وقت آفتاب موجود رہتا ہے اور اس بات کو میں کہنے بھی نہیں پایا تھا کہ سردی میں آفتاب مطلق طلوع نہیں ہوتا تاہم داد خواہ نے فوراً سمجھ لیا کہ وہ ملک سرد ہو گا۔ اٹھائیسویں مئی کو یوزباشی نے آکر یہ خبر دی کہ پرسوں کی تاریخ آپ کی روانگی کی قرار پائی۔ ظہر کی نماز کے بعد میں داد خواہ سے ملنے کو گیا او ران سے پوچھا کہ ہندوستان سے میں آپ کے لیے کیا چیز بھیجوں۔ انہوں نے جواب دیا میں سپاہی ہوں سوائے بندوق کے اور کس چیز کی مجھے خواہش ہے مگر میں تمہاری خیر و عافیت چاہتا ہوں اور پھر بندوق کے لیے درخواست کرتا ہوں جو ایلچی میرے ساتھ روانہ ہونے والا تھا میں نے اس کا حال دریافت کرنا چاہا مگر داد خواہ نے بالکل لا علمی ظاہر کی اور کہا کہ اب آپ نے دروازہ آمد و شد کا کھولا ہے آپ کی دوستی اور آپ کا نام میرے دل پر نقش کالحجر ہے جو بجز موت کے مٹ نہیں سکتا۔ اس کے بعد میں سب سے رخصت ہوا۔ ٭٭٭٭٭٭ ایتھی نیم کلب لندن (تہذیب الاخلاق بابت ماہ رجب 1297ھ صفحہ231) لندن میں ایک نہایت نامی اور معزز کلب ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ معزز کوئی کلب نہیں ہے اس کلب میں جو کوئی ممبر ہوتا ہے اس کے دوست اس کو مبارکباد کی چٹھیاں لکھتے ہیں اور اس کو ایسا فخر ہوتا ہے کہ ویسا فخر کسی خطاب کے ملنے سے بھی نہیں ہوتا۔ اگر ہماری یاد میں غلطی نہ ہو تو اس کلب میں یہ قاعدہ ہے کہ کوئی شخص جو صاحب تصنیف نہ ہو یا اور کسی کمال میں مشہور نہ ہو وہ اس کلب کا ممبر نہیں ہو سکتا یہ بھی قاعدہ ٹھہرایا ہے کہ اس کلب میں بارہ سو ممبر سے زیادہ نہ ہوں گے۔ سینکڑوں آدمیوں کی درخواستیں ممبر ہونے کے لیے آتی ہیں کہ بر وقت خالی ہونے کسی ممبری کے ان کا تقرر ہو اور ان کا نام بطور امیدواران ایک رجسٹر میں مندرج ہوتا ہے 1870ء میں جبکہ ہم لندن میں تھے تین ہزار سے زیادہ امیدواروں کا نام رجسٹر میں مندرج تھا اور دس دس و بارہ بارہ برس امیدواری پر گذر گئے تھے۔ دوامی ممبروں کے سوا جن کی تعداد بارہ سو سے زیادہ نہیں ہو سکتی کوئی نامی اور مشہور شخص کسی میعاد میں کے بے آنریری ممبر ہو سکتا ہے۔ ہم کو دو دفعہ اس کلب کے آنریری ممبر مقرر ہونے کی عزت حاصل ہوئی ہے پہلے تقرر کی میعاد گذر جانے کے بعد دوسری دفعہ پھر تقرر ہوا اور جب تک ہم لندن میں رہے اس معزز کلب کے آنریری ممبر تھے۔ ایڈورڈ طامس صاحب جو نہایت ذی علم اور نامی مصنف ہیں اور قدیم زمانہ کے تاریخی حالات کی تحقیقات میں اور قدیم سکوں اور کتبوں کے انکشاف حال میں یہ طولیٰ رکھتے ہیں اور اس کلب کے منتظم ممبروں میں ہیں وہ ہمارے آنریری ممبر ہونے کے باعث ہوئے تھے جس کی عزت ہمیشہ میرے دل میں رہے گی۔ اس کلب کے روحانی خوبیوں کا لکھنا تو نہایت مشکل ہے مگر جو ظاہری باتیں ہیں ان کا کسی قدر بیان کیا جاتا ہے گو اس کا لطف بھی بغیر دیکھے حاصل نہیں ہو سکتا مثل مشہور ہے۔ شنیدہ کے بود مانند دیدہ پال مال میں ایک نہایت عالیشان مکان دو منزلہ بنا ہوا ہے ممبر جو وہاں جاتے ہیں اکثر حاضری کھا کر جاتے ہیں اور رات کا کھانا کھا کر آتے ہیں ممبروں یا آنریری ممبروں کے سوا اور کسی کو وہاں جانے کا استحقاق نہیں ہے۔ جب اس کے دروازے میں داخل ہو تو نیچے کی منزل کا ایک کمرہ ملتا ہے جس میں فرش ہے اور دو تین کوچیں بچھی ہوئی ہیں اور اس کے کونے میں ایک چھوٹا سا کمرہ بطور حجرہ کے بنا ہوا ہے جس کی دیواریں آئینہ بندی کی ہیں اس میں ایک شخص بطور مینجر کے رہتا ہے جو تمام احکام ممبران کی تعمیل کرتا ہے اس چھوٹے کمرہ کی دیواریں آئینہ بندی کی اس لیے ہیں کہ جو شخص وہاں آوے مینجر کو معلوم ہو۔ چونکہ اس کلب میں ممبر بہت دیر تک رہتے ہیں اور ان کے دوستوں کو ان کے گھر پر ان سے ملنے کا بہت کم موقع ہوتا ہے اس لیے ان کے دوست بحالت ضرورت کلب ہی میں ان سے ملنے آتے ہیں اور اس ڈیوڑھی کے کمرہ میں ٹھیرتے ہیں جو ملازم بطور چپراسی حاضر باش کے وہاں موجود ہوتا ہے اس کو اپنا ٹکٹ دیتے ہیں اور وہ چپراسی اس ٹکٹ کو اس ممبر کے پاس پہنچا دیتا ہے جس سے وہ ملنے آئے ہیں وہ ممبر وہاں آ جاتا ہے اور مل کر چلا جاتا ہے یہ ملاقات گپ شپ کی ملاقات نہیں ہوتی ضرورت بات سن لی جواب دے دیا چار پانچ منٹ سے زیادہ ملاقات میں صرف نہیں ہوتے۔ اس ڈیوڑھی کے کمرہ کے دائیں طرف ایک نہایت وسیع کمرہ بطور ھال کے ہے یہ کمرہ اخباروں کے پڑھنے کا ہے نہایت عمدہ فرش سے آراستہ ہے عمدہ عمدہ کوچیں اور آرام چوکیاں بچھی ہوئی ہیں بیچ میں درجہ دار گول میز لگی ہوئی ہے جس پر گویا تمام دنیا کے اخبار رکھے جاتے ہیں چاروں طرف دیواروں میں عمدہ سے عمدہ جغرافیہ کے نقشے اس حکمت سے لگے ہوئے ہیں کہ ایک ادنیٰ اشارہ سے کھل جاتے ہیں اور ادنیٰ اشارہ سے از خود لپٹ جاتے ہیں جو ممبر اخبار پڑھنا چاہتے ہیں اس کمرہ میں آتے ہیں اور کوچوں اور آرام چوکیوں پر بیٹھے اخبار پڑھتے ہیں اگر کسی خبر میں ایسا مضمون ہوا جس کے سمجھنے کو جغرافیہ کا نقشہ دیکھنا ضرور ہے ایک اشارہ ڈوری کا کیا نقشہ کھل گیا جب دیکھ لیا، چھوڑ دیا نقشہ از خود لپٹ گیا کوئی شخص اس کمرہ میں آپس میں باتیں نہیں کرتا خاموش مثل تصویر اخبار پڑھتے ہیں جو کوئی آتا ہے نہایت آہستہ سے چلتا ہے کہ پاؤں کی آواز نہ ہو اور دوسروں کے پڑھنے میں ھرج نہ ہو اور دھیان نہ بٹے۔ اس کے پہلو میں ایک اور بڑا کمرہ ہے اس میں لکھنے کا سامان ہر قسم کا موجود ہے بیچ میں گول میز درجہ دار لگی ہوئی ہے ہر قسم کا کاغذ اور چٹھیات لکھنے کے متعدد قسم کے کاغذ و لفافے رکھے ہوئے ہیں لکھنے کے خوبصورت مقام مہیا ہیں اور ہر جگہ دوات و قلم موجود ہے جس ممبر کو کچھ لکھنا ہو اس کمرہ میں جاتا ہے اور لکھنے میں مصروف ہوتا ہے۔ جو ممبر چٹھیاں ڈاک کی روانگی کیلئے لکھتے ہیں انہوں نے چٹھی لکھی اور اسی میں ایک نل بنا ہوا ہے اس میں ڈال دی وہ چٹھی اس مینجر کے پاس پہنچی اس نے س کا وزن کیا ڈاک کے محصول کے ٹکٹ لگائے اور روانہ کر دی۔ جو لوگ اس کلب کے ممبر ہیں ان کے نام کی چٹھیاں اکثر اسی کلب کے پتہ سے آتی ہیں جو لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں مینجر ان کو وہ چٹھیاں تقسیم کر دیتاہے جو اور ملک میں چلے جاتے ہیں وہ اپنا پتہ مینجر کو بتلا جاتے ہیں اور وہ اس پتہ پر روانہ کر دیتا ہے ہر ایک ممبر کے لیے ڈاک کا ایسا عمدہ انتظام ہے کہ شاید اس سے بہتر نہیں ہو سکتا۔ ڈیوڑھی کے کمرہ کے بائیں طرف ایک اور بہت وسیع کمرہ ہے یہ کھانے کا کمرہ ہے جو نہایت عمدگی سے کھانا کھانے کے سامان سے آراستہ ہے تمام عمدہ سے عمدہ اشیاء کھانے اور پینے کی یہاں موجود ہیں خانساماں و خدمت گار نہایت خوبصورت وردیاں پہنے حاضر ہیں جا بجا چھوٹی و بڑی میزیں لگی ہوئی ہیں ہر وقت ہر چیز موجود ہے جس ممبر کا دل چاہے اس میں جاوے اور جو چاہے کھاوے اور پیوے۔ چرٹ بھی نہایت عمدہ اقسام کے موجود ہوتے ہیں چرٹ پینے کے لیے ایک علیحدہ کمرہ ہے جس کی دیواریں اور چھت بالکل آئینہ بندی کی ہیں اس کے اندر سے باہر کا چمن پھولوں کا بالکل دکھائی دیتا ہے اس کی چھت میں دھواں نکلنے کے لیے ایک روشندان ہے جس میں سے چرٹ کا دھواں نکل جاتاہے۔ لندن میں چونکہ سردی ہے اور اس سبب سے ہمیشہ کمروں کے کواڑ بند رہتے ہیں اس لیے چرٹ پینے کے لیے علیحدہ خاص کمرہ ہوتا ہے ہر کمرہ میں چرٹ نہیں پی سکتے کیونکہ اس کا دھواں باہر نہیں نکل سکتا اور کمرہ کی دیواروں پر جو سنہرا اور گلدار کاغذ لگا ہوتا ہے اس میں چرٹ کے دھوئیں کی بو ہو جاتی ہے اور اس لیے ہر جگہ چرٹ پینا ایک بد تمیزی کی بات خیال ہوتی ہے اور چرٹ پینے کا کمرہ علیحدہ بنا ہوا ہے۔ اس کھانے کے کمرہ میں نہایت عمدہ انتظام ہوتا ہے اس میں ممبروں کو اختیار ہے کہ تنہا کھاویں یا چند ممبر جو آپس میں نہایت دوست ہیں ایک میز پر کھاویں وہ خانساماں کو حکم دیتے ہیں کہ پانچ آدمی یا چھ آدمی یا زائد یکجا کھاویں گے یہ فی الفور اسی مقدار کی میز کو آراستہ کر دیتا ہے جو ممبر وہاں جاتے ہیں اکثر ثفن اور رات کا کھانا وہیں کھاتے ہیں رات کے کھانے میں آپس میں بولنے، ہنسنے، بات چیت کرنے کی کچھ ممانعت نہیں ہے۔ ہم بھی اس کمرہ میں چند دفعہ گئے ہیں مگر ایک رات جبکہ ہمارے دوست ایڈورڈ طامسن صاحب نے بلایا تھا نہایت لطف تھا۔ قریب پندرہ سولہ آدمیوں کے ایک میز پر تھے اور اس میز پر تین شخص ایشیا کے رہنے والے تھے ایک میں، ایک حاجی محمد حسین خاں سفیر شاہ ایران، اور ایک منشی صاحب جن کا نام اس وقت یاد نہیں ہے اور مدرسۃ العالیہ دار السلطنت روس کے مدرس اول زبان فارسی کے تھے اور اسی زمانہ میں سینٹ پیٹرز برگ (پیٹرو گراڈ)سے لندن کی سیر کو آئے تھے نہایت لطف سے وہ کھانا ہوا جس میں سوائے میرے اور سب لوگ نہایت عالم و فاضل و نامی و گرامی اور ایک نہ ایک فن میں مشہور و کامل تھے۔ اوپر کی منزل اس سے بھی زیادہ عجیب ہے ایک کمرہ نوکروں کے حاضر رہنے کا ہے ایک کمرہ اس لیے ہے کہ وہاں جا کر چرٹ پی سکیں یا ٹہل سکیں۔ علاوہ اس کے نہایت وسیع کمرہ ہے سب کمروں سے زیادہ وسیع اس میں جا بجا لکھنے پڑھنے کی میزیں لگی ہوئی ہیں اور اس کے پا س نہایت عمدہ و نفیس کتب خانہ ہے جس میں داروغہ کتب خانہ حاضر رہتا ہے جو ممبر کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں کوئی کتاب یا رسالہ تالیف کرتے ہیں کوئی مضمون لکھنا چاہتے ہیں یا کسی بات کی تحقیقات پر کچھ لکھتے ہیں وہ اس کمرہ میں جاتے ہیں اور جو جگہ ان کے لیے تجویز ہوتی ہے وہاں بیٹھ کر اپنا کام کرتے ہیں جو کتاب درکار ہوتی ہے فی الفور کتب خانہ سے ملتی ہے۔ یہ کمرہ در حقیقت تصویر کا عالم ہے بات کرنی ید آواز دینی تو درکنار کھانسنا بھی نا مناسب خیال کیا جاتا ہے اس قدر آہستہ سے اٹھنا اور چلنا ہوتا ہے کہ ذرا آواز نہ ہو بلکہ بقول شخصے کہ حرکت بھی نہ معلوم ہو ہر ایک شخص اپنے خیال میں اور اپنی دھن میں ایسا مصروف ہوتا ہے کہ اس کو دنیا و ما فیہا کی خبر نہیں ہوتی بڑے بڑے عالم دانشمند اپنی فکر اور اپنے علم اور اپنی تحقیقات کا نتیجہ قلم کی زبان سے اس مقام پر دنیا کی اطلاع کے لیے ظاہر کرتے ہیں۔ اسی کمرہ میں ہم نے ڈین ا سٹانلے کو دیکھا جو نہایت مشہود عالم لندن میں ہیں وہ کسی امر کی تحریر میں مشغول و مستغرق تھے پہلی دفعہ انہوں نے بے انتہا مہربانی ہم پر یہ کی کہ کرسی پر سے اٹھ کر ہم سے ہاتھ ملایا اور پھر چپکے بیٹھ گئے یہ پہلی ملاقات تھی ہم خاموش ایک کونے میں کھڑے ہوگئے اور چپکے ان عالموں کو دیکھا کیے جو اپنے اپنے کام میں مصروف تھے ان کو دیکھ کر خدا کی قدرت یاد آتی تھی اور عقل متحیر ہوتی تھی۔ کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں۔ لندن میں ایک اخبار چھپتا ہے جس کا نام پال مال گزٹ ہے ہم کو شبہ پڑ گیا کہ یہ اخبار اسی کلب سے متعلق ہے یا اس سے علیحدہ مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ اس کلب کے اکثر ممبروں کے مضمون اور آرٹیکل اس اخبار میں چھپتے ہیں اور اسی لیے وہ اخبار نہایت عمدہ اور ذی وقعت خیال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ھموطن اس مضمون کو پڑھ کر کسی قدر خیال کر سکیں گے کہ یورپ میں کلب کس مقصد کے لئے قائم ہوتا ہے اور کیا نتیجہ اس کلب سے حاصل ہوتا ہے ہندوستان میں اگر کوئی کلب قائم ہو تو اس کا نتیجہ بجز اس کے کہ ایک مکان میں چند صورتیں جمع ہو جاویں اور حقہ کی گڑ گڑ بلند آواز ہو اور پانوں کی تواضع کی جاوے اور آپس میں مل کر کچر کچر لغو و بیہودہ باتیں کریں اور قہقہہ اڑاویں اور کاے ہو سکتا ہے زیادہ ترقی ہو تو ایک دوسرے کو کچھ سخت کہہ بیٹھتے کیا عجب ہے کہ نوبت رنجش اور سخت کلامی و ہاتھا پائی کی پہنچے ان تمام چیزوں کے لیے وہ لیاقت چاہیے جس کے لیے ایسے مجمعے موضوع ہیں جب ہم میں ایسے لوگ ہی موجود نہیں ہیں جو ایسے مقاموں اور ایسے مجمعوں کے لائق ہوں تو کیا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ ہم نے علی گڑھ سائنٹفک سوسائٹی قائم کی اس کے لیے ایسا عمدہ و عالیشان مکان بنایا جو اس وقت تک ہندوستان کے ہندوستانی مجمعوںکے لیے نہیں ہے پھر اس سے کیا نتیجہ ہے ہم وہ آدمی کہاں سے لاویں جو اپنے ملک، اپنی قوم کی بھلائی و ترقی کے لیے کچھ محنت اختیار کریں اس کو جانے دو ہم کو تو ایسے دو چار آدمی بھی نہیں ملتے جو اس مکان میں بیٹھ کر اگر کچھ نہ کریں تو اپنی قوم کی ابتر حالت پر رو دیں ہی۔ ہاں اس مکان کا باغ ایسا عمدہ آراستہ ہے جو بہت ہی کم اپنا نظیر رکھتا ہے وہ بھی کسی ہندوستانی کی سعی و کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک فیاض و عالی ہمت اور نیک دل، نیک خصلت، فرشتہ سیرت، ہمہ تن نیکی و سرتاپا خیر مجسم یورپین لیڈی کا نتیجہ ہے جس نے اپنے شوق و محنت سے اس کو آراستہ کر دیا ہے ہماری قوم میں تو اتنی بھی لیاقت نہیں ہے کہ اس پر فضا باغ کی سیر کے بھی لائق ہو پس کسی جگہ، کلب یا سوسائٹی قائم ہونے سے ہم کو کیا خوشی ہو سکتی ہے۔ اے ہمارے عزیز ہموطنو! ہماری قوم کے جو لوگ بوڑھے ہیں وہ کے دن کے ہیں ان کو خدا جلد بہشت نصیب کرے گا جو جوان ہیں ان سے ہاتھ اٹھاؤ جب درخت کی شاخ سخت (خشک) ہو جاتی ہے وہ ٹوٹ جاتی ہے پر کسی طرف پھر نہیں سکتی ہاں اپنی اولاد کی جو چھوٹی پود ہے خبر لو ان کی تعلیم و تربیت کا فکر کرو تمہاری حالت تمہارے باپ دادا کی حالت سے زیادہ خراب ہے اور تمہاری اولاد کی حالت تم سے بھی بہت زیادہ بدتر اور ابتر ہو گی اگر تم اس کی فکر نہ کرو گے تمہاری ارواح قبر میں ان کے لیے رووے گی۔ سیکرٹری محمدن کلب الہ آباد نے اپنی رپورٹ میں مدرسۃ العلوم علی گڑھ کا ذکر کیا ہے ہم نہایت سچے دل سے اور تمہاری نہایت خیر خواہی سے کہتے ہیں کہ صرف یہی ایک علاج ہے جو تمہاری اولاد کی بھلائی و بہتری کے لیے ہو سکتا ہے اے عزیز ہموطنو! تم نے اس مدرسہ کی نہایت ناشکری کی ہے اور بہت کچھ جھوٹ اور محض غلط باتیں اپنی بد اقبالی اور بد قسمتی سے اس کی نسبت کہی ہیں تم کو لازم ہے کہ تم آؤ اور اس کی حالت کو دیکھو اور خود اپنی دریافت اور اپنی تحقیقات سے اس پر رائے قائم کرو اور اس کی تکمیل پر ہمت باندھو، دیکھو، سمجھو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اس وقت تم جھوٹی باتیں بنا کر ہنس لو قہقہے اڑا لو مگر یقین جانو کہ اس کے بعد رونا اور دانت پیسنا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭ تاریخ سرکشی ضلع بجنور الٰہی تو مجھ کو توفیق دے کہ یہ تاریخ میری پوری ہو اور صحیح بات اس میں لکھنے کی ہدایت کر، کیونکہ طرفداری کی تاریخ لکھنی ایسی بے ایمانی کی بات ہے کہ اس کا اثر ہمیشہ رہتا ہے اور اس کا وبال قیامت تک مصنف کی گردن پر ہوتا ہے اس تاریخ میں جو کچھ لکھا ہے بتہ سا اس میں میری آنکھ کا دیکھا ہے اور بہت سا اپنے ہاتھ کا کیا ہوا اور اس کے سوا جو کچھ لکھا ہے وہ نہایت تحقیقات اور بہت صحیح اور نہایت سچ ہے۔ حالات و واقعات میرٹھ میں جو فساد اور نمک حرامی دسویں مئی 1857ء کو ہوئی تھی اس کی خبر گیارھویں تاریخ تک بجنور میں نہیں آئی تھی بارھویں تاریخ کو یہ خبر مشہور ہوئی اور پے در پے اس کے آثار نمودار ہوتے گئے، یعنی کنارہ گنگا تک راہ لٹنے لگی اور آمد و رفت مسافروں کی بند ہو گئی۔ بارھویں اور تیرھویں کو جو مسافر بجنور سے میرٹھ کو جاتے تھے راہ سے اولٹ آئے مگر ضلع بجنور میں اب تک کچھ غدر نہ تھا۔ کیفیت پھیلنے غدر کی بجنور میں رفتہ رفتہ ضلع بجنور میں بھی غدر شروع ہوا راہیں لٹنے لگیں سولھویں مئی 1857ء کو درمیان موضع جہال و اولینڈہ تھانہ بجنور میں غارت گری ہوئی کہ گوجروں نے مسمی دیبی داس بزاز کو لوٹا اسی طرح شہباز پور کھدر پر ڈاکہ پڑا کہ گوجروں نے مل کر اس گاؤں کو لوٹ لیا اور یہ سب سے پہلا گاؤں ہے جو ضلع بجنور میں لٹا اسی تاریخ سولہ ہزار روپیہ جو چودھری پرتاب سنگھ رئیس تاجپور نے بابت اپنی مالگذاری کے بجنور کو روانہ کیے تھے بجنور میں پہنچے اور داخل خزانہ ہوئے۔ بعد اس کے سترھویں مئی کو سربراہ ڈاک مسٹر کاری صاحب بہادر کو گھاٹ راولی پر لوٹا گیا اگرچہ ان وارداتوں کے مجرم تدبیر اور کوشش جناب صاحب مجسٹریٹ بہادر سے بہ تعیناتی تھانہ داران اور میر تراب علی تحصیلدار و افسر پولیس کے گرفتار ہوئے اور کچھ مال مغروتہ بھی برآمد ہوا اور لوگوں کو ڈر اور خوف بھی ہوا مگر گوجر اپنی بدمعاشی سے باز نہ آئے علی الخصوص اس سبب سے کہ پار کے گوجروں سے اس ضلع کے گوجروں کو حرمزدگی کرنے کی بہت مدد ملتی تھی۔ گوجروں کے فساد کا بیان اگرچہ شروع فساد سے گوجروں کی نیت بد ہو گئی تھی مگر ان کو اس کا اثر ظاہر کرنے کے لیے ایک عجیب حیلہ ہاتھ آیا قوم روہ نے جو بہت عمدہ کاشتکار اس ضلع کے ہیں اور نامردی میں بھی سب سے بڑھ کر ہیں گوجروں سے چھیڑ کی کہ ایک گوجری مع اپنے خاوند اور نائی کے سرحد موضع شہباز پور پر گنہ منڈ اور مسکن قوم روہ میں جاتی تھی روھوں نے گوجری کو پکڑ لیا اور اس کا خاوند مارا گیا نائی بھاگ کر موضع شیخوپورہ میں بساون پدھان قوم گوجر کے پاس گیا اور حاکم کو چھوڑ کر گوجروں کی برادری سے فریاد کی سب گوجر متفق ہوئے اور روھوں کا لوٹنا اور برباد کرنا مصمم ٹھہرایا، چنانچہ رامجی وانہ میں سب گوجر جمع ہوئے اور شہبا پور اور ابو الخیر پور بنکر کو جو دونوں قریب قریب تھے آ مارا، سب گھر لوٹ لیے اور اکثر جلا دیے چھ آدمی قتل و زخمی ہوئے اور گوجری کو لے گئے۔ انتظام ضلع کی تدبیریں ابتدائے فساد سے جناب صاحب مجسٹریٹ نے مناسب تدبیریں انتظام ضلع کی کرنی شروع کی تھیں۔ رجمنٹوں کے رخصتی سوار جو ضلع بجنور میں موجود تھے ان کو بھی بلا لیا تھا اور کچھ سوار بھی نوکر رکھنے شروع کیے تھے اور تھانہ داروں اور افسر پولیوں کو بھی بقدر مناسب برقنداز بڑھانے کو لکھ بھیجا تھا اور خاص شہر کی حفاظت کے لیے یہ تدبیر کی تھی کہ چودھری نین سنگھ رئیس بجنور کو اجازت دی تھی کہ رات کو شہر کا گشت کیا کریں، چنانچہ چودھری صاحب ایسا ہی کرتے تھے اور جناب مسٹر الگزینڈر شیکسپیئر صاحب بہادر کلکٹر و مجسٹریٹ اور جناب مسٹر جاج پامر صاحب بہادر بھی مناسب مناسب جگہ پر رات کو پھرتے اور خبرداری کرتے رہے اور ہم تینوں افسروں نے اپنی جمیعت ملازمین وغیرہ کے دو غول کیے پہلا غول محمد رحمت خاں صاحب بہادر ڈپٹی کلکٹر و ڈپٹی مجسٹریٹ کا تھا کہ وہ اپنے غول کو سات لے کر رات کو گشت کرتے تھے دوسرا غول مجھ صدر امین اور میر سید قراب علی تحصیلدار بجنور کا تھا کیونکہ ہمارے پاس نوکر کم تھے اس لیے دونوں آدمیوں نے مل کر ایک غول بنا لیا تھا اور یہ دونوں غول رات کے وقت علیحدہ علیحدہ شہر بجنور اور اندھیرے باغات کا جو متصل آبادی تھے اور جیل خانہ اور خزانہ کا گشت کرتے تھے اور سب طرف پھر پھرا کر ہم تینوں افسر مع اپنے اپنے غولوں کے کوٹھی جناب صاحب کلکٹر بہادر پر حاضر ہو کر تمام رات کمر باندھے کرسیوں پر بیٹھے پہرا دیتے، کیونکہ شورش ضلع میں حد سے زیادہ ہو گئی تھی اور کوئی وقت اندیشہ سے خالی نہ تھا مگر اپنے جناب صاحب کلکٹر بہادر کی مہربانی اور عنایت کا شکر ادا نہیں کر سکتے کہ ہمارے لیے سب طرح کی آسائش کا سامان وہاں مرتب تھا اور بہت اچھا شامیانہ ہمارے لیے کھڑا کر دیا تھا اور ہم بہ آسائش تمام اس میں رہتے تھے۔ 29پلٹن کی کمپنی کا سہارنپور سے بجنور میں آنا اٹھارویں مئی 1857ء کو دفعۃً ایک کمپنی تلگنوں کی جو سہارنپور سے مراد آباد جاتی تھی بجنور پہنچی اور مجھ کو یوں خبر ملی کہ وہ کمپنی بگڑ کر آئی ہے اور صوبہ دار اور دو چار تلنگہ جناب صاحب کلکٹر بہادر کی کوٹھی پر آ گئے ہیں یہ خبر سنتے ہی میں گھبرا کر صاحب ممدوح کے پاس گیا وہاں معلوم ہوا کہ بطور بدلی مراد آباد کو جانی ہے میں نے بے ادب مدح خاں صوبہ دار کو صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا کہ وہ کچھ اپنا حال اور جو مقابلہ اس کا قریب اللہ پاس گوجروں سے ہوا تھا عرض کر رہا تھا مگر اس کی بے ادبانہ گفتگو اور لا پروا اور مغرور نشست سے جو بدی اس کے دل میں تھی اس کے چہرہ سے ظاہر ہوتی تھی اس دن یہ تجویز ہوئی کہ اس کمپنی کے قیام بجنور کی تدبیر کی جاوے چنانچہ تدبیر بھی ہوئی جس سے میں بہت ڈرتا تھا مگر جب ان کی بات چیت کا جو آپس میں کرتے تھے اور نیز بازاروں میں بکتے پھرتے تھے حال معلوم ہوا تو ان کا قیام بجنور میں نہایت نا مناسب معلوم دیا اور باوجودیکہ مراد آباد سے اجازت ان کے رکھ لینے کی آ گئی تھی مگر ان کا چلان جانا غنیمت سمجھا جاتا تھا اور وہ خود بھی رہنا نہیں چاہتے تھے اس سبب سے وہ مراد آباد چلے گئے۔ مراد آبد کے جیل خانہ کا ٹوٹنا اور اس کے سبب سے ضلع بجنور میں زیادہ تر بد نظمی کا ہونا: 19مئی1857ء کو مراد آباد کا جل خانہ ٹوٹا اور یہ خبر بہت جلد ضلع بجنور میں پہنچی اور بلکہ بعض دیہات میں کچھ قیدی بھاگ بھاگ کر آ گئے اس خبر کی شہرت سے ضلع میں زیادہ تر بد نظمی ہوئی اور ہر چہار طرف دیہات سے ہزار ھا گنوار جمع ہونے لگے اور کسی کے دل میں عملداری کی دھشت باقی نہ رہی اور ہم لوگوں کو ہر دم یہ اندیشہ ہونے لگا کہ مبادا بجنور پر ڈاکہ پڑے اور خزانہ سرکاری لٹ جاوے مگر ہم لوگ بدستور اپنی ہوشیاری سے جہاں تک ممکن تھا گشت و گرداوری اور گنواروں کو رعب ظاھری دکھانے میں کچھ تقصیرنہیں کرتے تھے اور بجنور کی ایک بہت اچھی ہوا باندھ رکھی تھی کہ اس کے سبب گنواروں کے دلوں پر بجنور کا ایک خوف طاری تھا۔ سفر مینا کی باغی کمپنیوں کا نجیب آباد میں آنا اسی اثنا میں سفر مینا کے تین سو سپاہیوں نے رڑکی میں سرکشی کی اور ایک کمپنی سفر مینا کی جو رڑکی سے سہارنپور کمانڈر انچیف صاحب بہادر کے کمپ میں شامل ہونے کو بھیجی گئی تھی راستہ سے رڑکی واپس آئی اور ان سب نے مل کر رڑکی سے لنڈھورہ کو کوچ کیا اور لنڈھورہ کی رانی سے پیغام کیا کہ وہ ان کو اپنے پاس نوکر رکھ لے اس وعدہ پر کہ وہ رڑکی وغیرہ سب اس کو فتح کر دیں گے مگر اس نے منطور نہ کیا تب انہوں نے ارادہ کیا کہ نجیب آباد کے نواب کے پاس جا کر اپنا ارادہ پورا کریں، چنانچہ وہ نجیب آباد روانہ ہوئے اور بیسویں مئی کو نجیب آباد پہنچے۔ نامحمود خاں اور احمد اللہ خاں کا صوبہ داروں سے مصلحت کرنا اتنی بات تو تحقیق ہے کہ جب یہ سپاہی نجیب آباد پہنچے تو ان میں کے چند افسر اور کچھ سپاہی احمد اللہ خاں تحصیلدار نجیب آباد کے پاس گئے اور علیحدہ مکان میں بیٹھ کر کچھ گفتگو اور مصلحت کی، پھر وہاں سے احمد اللہ خاں ان سب آدمیوں کو لے کر محمود خاں کے پاس گیا اور وہاں بھی بہت دیر تک خفیہ مصلحت رہی۔ حقیقت میں اس مصلحت کا سچا اور یقینی حال نہیں معلوم ہو سکتا، مگر جو سنا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ان سپاہیوں نے نواب کو سرکشی اور اپنی نوابی قائم کرنے اور حکام انگریزی کی مخالفت کی ترغیب کی اور ظاہر ہے کہ اس کے سوا یہ سپاہی اور کیا صلاح دیتے نواب کا جواب بھی جو خفیہ تھا تحقیق نہیں معلوم ہو سکتا مگر یہ سنا ہے کہ نواب نے کہا کہ جب تک حکام انگریزی بجنور میں موجود ہیں میں ایسی جرأت نہیں کر سکتا۔ تم اس شہر میں کہ خاص میرا شہر ہے اور اس تحصیل میں جو مجھ سے متعلق ہے کچھ فساد مت کرو۔ اگر بجنور میں جا کر فساد کرو گے اور انگریزوں کو خارج کر دو گے تو پھر مجھ کو نواب ہو جانے کا بہت اچھا قابو مل جائے گا ان سپاہیوں نے بجنور آنے کا اقرار کیا اور یہ خبر کہ وہ تلنگہ بجنور کو آتے ہیں متواتر ہم وک پہنچی اور ہم کو نہایت ڈر اور خوف رہا اور ہم تینوں افسروں نے ا یسی تدبیریں سوچیں کہ در صورت آ جانے ان بے ایمانوں کے جہاں تک ممکن ہو سکے حکام اہل ولایت کی حفاظت میں کام آویں اورجناب صاحب کلکٹر بہادر کو بھی ان تدبیروں سے مطلع کیا گیا کہ ہر ایک تدبیر کا پہلے سے بندوبست رہے ہم اس میں کچھ شک نہیں کرتے کہ یہ وہ وقت ہے کہ پہلی دفعہ نا محمود خاں اور احمد اللہ خاں کے دل میں سرکشی اور بغاوت کا بیج اوگا اور اس نے اپنی حکومت کے خیالی درخت کو بہت اچھا سایہ دار سمجھا اور سرکار دولت مدار انگریزی کے احسانوں اور پرورشوں کو جو اس کے اور اس کے باپ کے ساتھ کی تھیں سب کو یک لخت بھولا۔ سفر مینا کی کمپنیوں کا نگینہ میں آنا اور تحصیل کا لٹنا: اسی تاریخ یعنی بیسویں مئی کو نگینہ میں مراد آباد کا جیلخانہ ٹوٹنے کی خبر پہنچی اور نگینہ میں بدمعاشوں کی نیت بد ہوئی اور بازار نگینہ کا بند ہونا شروع ہوا مولوی قادر علی تحصیلدار نگینہ نے اپنے چپراسیوں اور منیر الدین قائم مقام تھانہ دار کو لے کر بازار کا گشت کیا اور دکانیں کھلوا دیں اور سب کی تسلی اور تشفی کی اور سب ہندو مسلمان رئیسوں کو بلا کر ہوشیار رہنے اور اپنے اپنے محلہ کا بندوبست رکھنے کی فہمائش کی نہایت تعجب ہے کہ اکیسیویں تاریخ مئی کو گیارہ بجے منیر الدین قائم مقام تھانہ دار نگینہ نے مولوی قادر علی تحصیلدار کو یہ خبر سنائی کہ بجنور کا جیل خانہ ٹوٹ گیا، حالانکہ اس وقت تک جیلخانہ بجنور میں کچھ آفت برپا نہیں ہوئی تھی اس خبر سے مولوی قادر علی کو زیادہ تردد ہوا کہ کل مراد آباد کے جیلخانہ ٹوٹنے کی خبر پہنچنے پر دیکھیے کیا فساد ہوتا ہے اس لیے چپراسیان تحصیل کو کہا کہ کمر باندھ کر مستعد رہو اور دروازہ تحصیل بند تھا اور کھڑکی کھلی ہوئی تھی مگر تحصیلدار صاحب کو تلنگوں کی کچھ خبر نہ تھی۔ سنا گیا کہ بعد گفتگوئے نواب کے تلنگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ بغیر کنپو کے ملے اتنا بڑا فساد کرنا مناسب نہیں اس لیے انہوں نے ارادہ مراد آباد جانے کا کیا اور وہ نیب آباد سے روانہ ہو چکے تھے کہ دفعتہ تین تلنگہ براہ کھڑکی تحصیل میں چلے آئے اور تحصیلدار صاحب سے کہا کہ رسد تیار کرو۔ اس عرصہ میں بہت سے تلنگہ اندر گھس آئے اور تحصیلدار صاحب کو بیچ میں گھیر لیا اور سنگینیں چڑھا کر بندوقوں کو پایوں پر چڑھا لیا اور بجبر ان کو کچہری کے مکان میں لے گئے اور دفتر کے صندوقوں کو کمندوں سے توڑ ڈالا اور پھر خزانہ کے قفل کو توڑ کر خزانہ لوٹنے لگے اس وقت تحصیلدار صاحب کو فرصت ملی اور وہ وہاں سے مع تھانہ دار بھاگ کر ایک مکان میں جا چھپے جب تلنگہ ان کی تلاش میں پڑے تو وہ شہر کے باہر جا کر اور رستہ سے شہر میں آئے اور ایک جگہ پوشیدہ ہو گئے اور عرضی اطلاعی بہ حضور جناب صاحب کلکٹر بہادر روانہ کی شہر کے بہت سے بدمعاش ان تلنگوں کے ساتھ ہو گئے اور تحصیلدار صاحب کا اسباب لوٹ لیا اور بازار نگینہ کو لوٹتے ہوئے چلے گئے اور بدمعاشوں نے بھاگیرت کلال کو بھی جو بہت مالدار آدمی تھا لوٹ لیا جب سب تلنگہ شہر سے چلے گئے تو تحصیل دار صاحب نے نگینہ کے ہندو مسلمان رئیسوں کو جمع کیا اور جو بدمعاش شہر میں غدر مچا رہے تھے، ان کا بندوبست فہمائش اور بتوسط رئیسان نگینہ کر دیا۔ بجنور کا جیلخانہ ٹوٹنا نگینہ میں تو یہ آفت ہو رہی تھی اور ہم تینوں افسر بجنور میں بہ حضور جناب صاحب کلکٹر بہادر حاضر تھے اور درباب حفاظت خزانہ گفتگو ہو رہی تھی کیونکہ خبر یورش گنواران اور آمد آمد پلٹن سفر مینا گرم تھی اور یہ رائے قرار پائی تھی کہ کل خزانہ کنویں میں ڈال دیا جائے ہم اسی تجویز میں تھے کہ ایک بجے سے کچھ قبل دفعتہ جیل خانہ پر بندوق فیر ہونے کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ جیلخانہ ٹوٹ گیا جناب صاحب کلکٹر بہادر اور میں صدر امین اور ڈپٹی کلکٹر صاحب اور سید تراب علی تحصیلدار صاحب بندوقیں اورتلواریں لے کر جیلخانہ پر چلے اور جس طرف قیدیوں کے غول جانے کا احتمال تھا اس طرف دوڑے قریب آدھے میل کے دوڑے ہوں گے کہ اس وقت یہ خیال گذرا کہ خزانہ نہ لٹ جاوے اس لیے جناب صاحب کلکٹر بہادر نے مجھ، صدر امین کو اور ڈپٹی کلکٹر صاحب کو حکم دیا کہ خزانہ پر جا کر وہاں کا انتظام کر وچنانچہ ہم دونوں خزانہ پر واپس آئے اور فی الفور پہرہ اور ایکٹ قائم کیے اور جناب صاحب کلکٹر بہادر اور سید تراب علی تحصیلدار جیلخانہ پر تشریف لے گئے اتنے میں جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر مسلح گھوڑے پر سوار تشریف لائے اور کنجی خزانہ کی مجھ، صدر امین کو سپرد کر کے خود مع چند سواران تعاقب قید یان فرمایا ہم کو یقین تھا کہ جیلخانہ صرف اس غرض سے ٹوٹا ہے کہ قیدی اور شہر کے بدمعاش جمع ہو کر خزانہ پر حملہ کریں گے مگر قیدیوں نے جیلخانہ سے نکل کر دریا کی طرف بھاگنا شروع کیا تھا اور سب کے منہ دریا کی طرف تھے اور بھاگے جاتے تھے اس سبب سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یا یہ ہمارا خیال غلط تھا یا یہ کہ جب قیدیوں نے جناب صاحب کلکٹر بہادر کو اور جناب جارج پامر صاحب بہادر کو مستعد اور تعاقب کرتا ہوا دیکھا تو ان کو اس فاسد ارادہ کا قابو نہ ملا غرض کہ سپاہیوں کی بندوقوں سے چند قیدی مارے گئے اور کچھ زخمی ہوئے باقی جو بچے وہ جیلخانہ میں بند کئے گئے اور جناب صاحب کلکٹر بہادر خزانہ پر تشریف لائے اور فی الفور خزانہ نکالا گیا اور مجھ صدر امین نے اپنے ہاتھ سے ایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ کنویں میں ڈال دیا اور جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر نے کھادر گنگنا تک قیدیوں کا تعاقب کیا۔ جیل خانہ کا ٹوٹنا نہایت تعجب کی اور بہت غور طلب بات ہے۔ ظاہر ہے کہ باہر سے جیل خانہ پر کسی کی یورش نہیں ہوئی اور اس میں کچھ شک نہیں کہ بسبب شرارت یا سازش رام سروپ جمعدار کے جو پہلے تلنگہ کسی پلٹن کا تھا جیل خانہ ٹوٹا اور کھڑکی جیل خانہ کی کھل گئی اور ہماری دانست میں جب بہت سے قیدی جیل خانہ سے نکل چکے، تب باقی ماندہ پر بندوق سر ہوئی جیل خانہ ٹوٹنے کا سبب شاید یہ ہو کہ رام سروپ نے اس اندیشہ سے کہ باہر سے جیل خانہ پر حملہ نہ ہو اور باہر کی یورش سے اپنا نقصان زیادہ خیال کر کے یہ کام کیا ہو، مگر ایک خیال ہم کو بہت شبہ میں ڈالتا ہے، کہ اگر نجیب آباد والی مصلحت صحیح ہو تو وہی دن بلکہ وہی وقت نجیب آباد سے تلنگوں کا بجنور میں آنے کا تھا اور بعد تشریف فرما ہونے حکام انگریزی کے فی الفور رام سروپ کی بہت قدر و منزلت نواب کے ہاں ہوتی گئی اور دن بدن اس کا تقرب بڑھتا گیا، حالانکہ پہلے سے کوئی وجہ اس کے ایسے تقریب کی نواب کے دربار میں نہ تھی۔ برم پور کا لٹنا اس واقع کے بعد گوجر پر گنہ منڈ اور میں بہت کثرت سے جمع ہوئے اور روھے جو بہت مالدار تھے اور ان سے اور گوجروں سے عداوت ہو گئی تھی ان کے لوٹنے کا ارادہ کیا اور موضع برم پور پر گنہ کیرت پور پر جو ایک بہت بڑا گاؤں روھوں کا تھا چڑھائی کی اور ہزار ھا گوجر گنگا وار اور گنگا پار کے جمع تھے اور کچھ مویے بھی ان کے ساتھ تھے سب نے مل کر اس گاؤں کو آٹھ روز تک لوٹا اور گھر کھود کھود کر مال و اسباب نکالا اور گھر جلا دیے۔ مشہور ہے کہ تیس ہزار من کھانڈ لوٹی اور کل اسباب و غلہ اور مویشی تین لاکھ روپیہ کا نقصان ہوا، کیونکہ یہ گاؤں بڑا تھا، اور بہت گاؤں والوں نے امن کی جگہ سمجھ کر اپنا مال یہاں لا رکھا تھا، جس بھاؤ سے گیہوں بکتے تھے اسی بھاؤ سے اس لوٹ کی کھانڈ بکتی تھی۔ نامحمود خاں کا بجنور میں آنا اس واقعہ سے پہلے جناب صاحب کلکٹر بہادر نے جملہ رئیسان ضلع کو بجنور میں طلب کیا تھا کہ مع کمک کے واسطے انتظام ضلع کے حاضر ہوں زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ اسی روز شام کے قریب نا محمود خان نجیب آباد سے مع ساٹھ ستر آدمی پٹھان بندوقچیوں کے بجنور میں پہنچا ظاہر میں تو بلا شبہ یہ بات تھی کہ حسب الطلب آیا ہے مگر تعجب یہ ہے کہ اپنے ساتھ خالی گاڑیاں واسطے لے جانے خزانہ کے نجیب آباد کو لایا تھا اور جب ڈپٹی صاحب سے ملا تو نہایت افسوس سے ہاتھ ملا کر کہا کہ کیا غضب کیا جو خزانہ کنویں میں ڈال دیا۔ میں تو گاڑیاں واسطے لے جانے نجیب آباد کے لایا تھا۔ یہ باتیں نجیب آباد والی مصلحت کو تصدیق کرتی ہیں اور جیل خانہ ٹوٹنے کے سبب کو نہایت شبہ میں ڈالتی ہیں۔ اس رات بجنور میں بہت بڑا اندیشہ رہا کیونکہ تلنگوں کا ارادہ مراد آباد جانے کا ابھی تک کھلا نہ تھا بلکہ بجنور ہی آنے کا یقین تھا اور ہم کو کچھ امید نہ تھی کہ آج کی رات خیر سے گزرے گی اور بڑا اندیشہ ہم کو حکام انگریزی اور جناب میم صاحبہ کا تھا کیونکہ یہ نمک حرام کمبخت تلنگہ خاص حکام انگریزی کے نقصان پہنچانے کے در پے تھے۔ ہندوستانی آدمیوں یا اہلکاروں سے چنڈاں سروکار نہیں رکھتے تھے ہم اپنے دل کا حال بیان کرتے ہیں کہ جناب مسٹر الیگزنڈر شیکسپیئر صاحب بہادر دام اقبالہ جو اخلاق اور عنایت ہمارے حال پر فرماتے تھے ان اخلاقوں اور عنایتوں نے ہمارے دل میں ایسی محبت ان صاحبوں کی ڈال دی تھی کہ ان صاحبوں کی خدمت گزاری میں ہم اپنی جان کی کچھ بھی حقیقت نہیں سمجھتے تھے بے مبالغہ میں اپنے دل کی کیفیت بیان کرتا ہوں کہ محبت کے سبب ان صاحبوں کی نسبت جو وھم دل میں آتا تھا وہ برا ہی برا دکھائی دیتا تھا اور جب اس وہم کا اثر دل پر پہنچتا تھا تو دل سے ایک محبت کا بہت بڑا شعلہ نکلتا تھا اور وہ ان صاحبوں کو گھیر لیتا تھا اور ہمارا دلی ارادہ یہ تھا کہ خدا نخواستہ اگر برا وقت آوے تو اول ہم پروانہ کی طرح قربان ہو جاویں پھر جو کچھ ہو سو ہو اور میں کچھ شک نہیں کرتا کہ میرے ساتھی دونوں افسروں کا بھی یہی حال تھا ہم جب اس رات کوٹھی پر آن کر بیٹھے ہیں تو اس ارادہ سے نہیں آئے تھے کہ ہم زندہ یہاں سے پھر اپنے گھر پر آویں گے مگر نہایت خدا کا شکر ہے کہ ہماری اس سچی نیت نے ہم کو بہت بڑا پھل دیا کہ ہمارے محبوب حکام کو بھی سب طرح اپنے فضل میں رکھا اور ہم کو بھی ہر آفت سے بچایا اور آج وہ دن ہے کہ اللہ کی عنایت سے ہم سب لوگ جو اس اچھی نیت میں شریک تھے مع اپنے محبوب حکاموں کے زندہ اور سلامت اکٹھے ہیں اور دل کی خوشی سے خدا کا شکر کرتے ہیں آمین۔ سفر سینا کے تلنگوں کا وھام پور کو جانا غرضکہ وہ تلنگہ جو نگینہ آئے تھے وہاں سے دھام پور کو روانہ ہوئے جو بدعت کہ دفعۃً نادانستگی میں انہوں نے نگینہ میں کی تھی اس کی خبر دھام پور میں جا پہنچی تھی۔ تحصیلدار دھام پور نے دروازہ تحصیل بند کر لیا تھا اور سپاہی اندر تحصیل کے ہوشیار ہو گئے تھے اور بڑی خوبی یہ تھی کہ شہر کے بدمعاشوں میں سے کوئی ان کا ساتھی اور بہکانے والا اور ہمت بندھانے والا نہ ہوا بلکہ ہر سکھ رائے لوھیہ کے ہاں اس دن برات تھی اس نے برات کا کھانا اور بہت اچھی اچھی مٹھائی تلنگوں کو دیں اور رسد بھی شہر والوں نے جمع کر دی اس لیے تلنگوں نے وہاں کچھ فساد نہیں کیا اور مراد آباد چلے گئے۔ خاص بجنور کے انتظام کی اور ضلع انتظام کی زیادہ تدبیریں جیل خانہ ٹوٹنے کے بعد ضلع میں زیادہ تر غدر ہوا اور خاص بجنور پر بھی ڈاکہ آنا مشہور تھا اور گنوار ہر جگہ علی الخصوص پر گنہ منڈاور میں بہ کثرت جمع تھے اس لیے جناب صاحب مجسٹریٹ بہادر نے چودھری نین سنگھ کی معرفت دو سو آدمی ملازم فرمائے اور گرد شہر کے ناکہ بندی کر دی اور پکٹ جا بجا بٹھا دیے اور رات کو ہم افسروں کا گشت روز تشریف بری جناب صاحب کلکٹر بہادر تک بدستور رہا۔ اس سبب سے بجنور میں در حقیقت بہت اچھا امن ہو گیا اور تمام ضلع میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ بجنور میں بہت بڑا بندوبست ہے اور اس دہشت کے سبب کسی کی جرأت نہ تھی کہ بجنورپر کسی طرح کا قصد کرے مگر پر گنہ جات میں بد ستور غدر تھا اور جناب صاحب مجسٹریٹ بہادر اس کے بھی انتظام میں مصروف تھے اور سواران جدید ملازم رکھے جاتے تھے اورپیدل سپاہی بھی بھرتی ہوتے تھے اور واسطے بھیجنے مدد اور کچھ تھوڑی سی سپاہ معتمد کے میرٹھ اور مراد آباد کو بھی لکھا تھا اور یہ انتظار تھا کہ جب یہ جمعیت جمع ہو جاوے تو پرگنہ جات کا دورہ بھی رہے اور مفسدوں پر دوڑ بھی لیجائی جاوے۔ ان تدبیروں کے سوا انتظام اور مضبوطی پولیس سے بھی غفلت نہ تھی اور احکامات مناسب بنام تھانہ داران اور افسران پولیس کے جاری ہوتے تھے اور انتظام ضلع بہت اچھی اچھی تدبیروں سے ہاتھ سے نہیں دیا تھا، مگر ضلع بجنور جو ملحق تھا مظفر نگر سے اور گنگا وار اور گنگا پار کے گوجر سب آپس میں آمد و رفت رکھتے تھے اور چاند پور کا پرگنہ ملا ہوا تھا دیہات پچھاندے جاٹوں اور میواتیوں سے اور نجیب آباد کا پرگنہ ملا ہوا تھا جنگل اور بنجاروں سے اس سبب سے شورش ضلع میں بہت زیادہ ہو گئی تھی جس کا اند فاع بہت اچھی فوج کی کمک اور بدون دو ہلکی ضرب توپ کے ممکن نہ تھا۔ چودھری رندھیر سنگھ اور چودھری پرتاپ سنگھ کا بجنور میں آنا رئیسان جو کمک کو بلائے گئے تھے ان میں سے بدنصیب نا محمود خاں تو پہلے آ چکا تھا۔ اس کے دوسرے دن چودھری رندھیر سنگھ صاحب رئیس ھلدور اور اس کے بعد چودھری پرتاپ سنگھ صاحب رئیس تاجپور تشریف لائے تھے اور صرف پانچ پانچ سوار کمک کو دیے تھے اور کچھ سپاہی ان کے ساتھ تھے اور احاطہ کوٹھی جناب صاحب کلکٹر بہادر میں مقیم ہوئے تھے۔ مگر یہ قلیل کمک اس بڑے فساد کو رفع نہیں کر سکتی تھی۔ افسوس ہے کہ ان رئیسوں میں سے کسی نے توپ کے موجود ہونے کا اقرار نہ کیا۔ اگر اس وقت وہ توپیں ہمارے ہاتھ آ جاتیں جیسا کہ ہمارے بعد ضلع میں نکلیں اور اچھی طرح مدد ہوتی تو کیا عجب ہے کہ برخلاف ان حالات کے جواب پیش آئے اور کوئی صورت ضلع میں پیدا ہو جاتی بھوپ سنگھ تعلقہ دار ریہڈ و بڈھ پورہ با وصف طلب کے بہ حضور جناب صاحب کلکٹر بہادر خاطر نہیں ہوا اور نہ کچھ مدد دی۔ نا محمود خاں جو حاضر تھا اپنے آنے کے بارہ گھنٹے کے بعد بہت بے قرار تھا اور وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح میں نجیب آباد چلا جاؤں اور طرح طرح کے عذر بجنور کے رہنے میں پیش کرتا تھا مگر ہم کو اس وقت تک چنداں شبہ اس پر نہ تھا۔ ہم اس کے جھوٹے عذروں کو سچا سمجھتے تھے اور ہر طرح سے اس کی خاطرکرتے تھے کہ بجنور میں مقیم رہے کیونکہ ہم کو اس سے بڑی توقع کمک کی تھی مگر اب ہم خیال کر سکتے ہیں کہ یہ بے قراری اس کی صرف اس سبب سے ہو گی کہ بجنور میں اس کا منصوبہ پورا نہ ہوا تھا، یعنی نہ تلنگہ آئے تھے اور نہ خزانہ لے جانے کا اس کو قابو ملا تھا اس لیے وہ گھبراتا تھا اور چاہتا تھا کہ بجنور سے نجیب آباد جا کر اور کوئی نیا منصوبہ کرے۔ غرضیکہ دو روز بمشکل ٹھہرا اور پھر نجیب آباد چلا گیا۔ چند نامی دیہات کے لٹنے کا ذکر غرضکہ جہاں تک ممکن تھا انتظام کیا جاتا تھا مگر یہ گنوار فساد سے باز نہ آئے اور دیہات لوٹتے رہے پرتاپ پور پر گنہ نجیب آباد پر ڈاکہ چڑھا۔ وہاں لڑائی ہوئی اور چوکیدار اور چندا پدھان زخمی ہوا۔ اکبر آباد کے مرد ہوں اور قصائیوں نے بہت بڑا غول بنایا۔ پہلے اکبر آباد کے پٹواریوں کو لوٹا پھر سکندر پور کے جاٹوں کو جا مارا۔ پھر حاجی پور پر چڑھ آئے حاجی پور پر مقابلہ ہوا اور کئی آدمی حاجی پور کے مع بڈھا مقدم آلاھیڑی والا کے جو حاجی پور والوں کی مدد کو آیا تھا مارے گئے۔ پھر رامپور کو جا لوٹا بعد اس کے سب جاٹ آپس میں متحد ہوئے انہوں نے اکبر آباد کو جا مارا سب گھر لوٹ لیے اور جلا دیے اور پھر تماشا یہ تھا کہ یہ گنوار جو اپنا بدلا لینے کو جمع ہوتے تھے اور لام باندھتے تھے صرف یہی نہ تھا کہ اسی گاؤں کو لوٹیں جس سے عداوت ہے بلکہ جب لام تیار ہو گیا جس کو چاہا اور جس کو کمزور دیکھا لوٹ لیا انہی خرابیوں کے سبب سے جناب صاحب مجسٹریٹ بہادر نے یہ مناسب تجویز فرمائی کہ چند ذی عزت آدمی جن کا دباؤ ضلع میں ہو بطور سپرنٹنڈنٹ ضلع مقرر کیے جاویں اور وہ جمعیت مناسب ساتھ لے کر ہر ایک پر گنہ میں گشت کرتے رہیں اور جہاں گنواروں کی لام بندی سنیں ان کو متفرق کر دیں چنانچہ شفیع اللہ خاں بھائی احمد اللہ خاں بد ذات کا اور مصطفی خاں رشتہ مند نا محمود خاں کا اور سعد اللہ خاں رئیس بڈھ پورہ کا جو سابق میں تھانہ دار نگینہ تھا اس کام کے لئے نامزد کئے گئے۔ کیونکہ یہ لوگ ذی عزت تھے اور ان کا ساتھ بہت پٹھان اچھے سپاہی ساتھی اور برادری کے تھے اور بڑی منفعت یہ بھی تھی کہ یہ نالائق سرکار کو اپنے حال پر متوجہ دیکھ کر شکر سرکار کا ادا کریں گے اور خیر خواھی سرکار میں بدل مصروف رہیں گے اور اس کا نتیجہ بہت اچھا پاویں گے اور چونکہ یہی لوگ ضلع میں فساد مچا سکتے تھے، ان کو اپنی طرف کر لینے سے فساد نہ ہونے کی بھی توقع تھی۔ در حقیقت یہ تدبیر ایسی پسندیدہ تھی کہ اگر آدمی اچھے ملتے تو بہت اچھا انتظام ضلع میں رہتا۔ نگینہ کے ہندو و مسلمان سب رئیسوں نے مل کر یہ درخواست کی کہ گشت و گرداوری نگینہ کے لیے نتھے خاں جو لکڑیوں کی تجارت کا کام کرتا تھا مع قدرے جماعت کے مقرر کیا جاوے۔ شاید اگر وہ ایسی درخواست نہ کرتے تو نتھے خاں اس وقت سرغنہ مفسدان بن کر فساد شروع کرتا۔ چنانچہ ان رئیسوں کی درخواست منظور ہوئی اور نتھے خاں کے نام حکم گشت و گرداوری کا جاری کیا گیا۔ان سب حالات سے ظاہر ہے کہ ہمارے جناب صاحب مجسٹریٹ بہادر کسی وقت تدبیر سے غافل نہ رہے اور جو جو تدبیر انہوں نے کی ایسی پسندیدہ اور مستحکم تھی کہ اس سے بہتر اور کوئی تدبیر نہیں ہو سکتی۔ چاند پور پر ڈاکہ پڑنے کا ذکر چھبیسویں مئی کو عید کے دن بہت سے میواتی اور پچھاندے جاٹ چاند پور پر چڑھ آئے اور ڈاکہ ڈالنا چاہا۔ شہر والوں نے کمال مستعدی سے ان کا مقابلہ کیا اور کئی آدمی طرفین کے مارے گئے اور زخمی ہوئے اور شہر لٹنے سے بچ گیا۔ بعد اس کے پھر بہت سے گنوار دوبارہ چاند پور پر ڈاکہ ڈالنے کو جمع ہوئے جناب صاحب مجسٹریٹ بہادر نے نجف علی نائب رسالہ دار رخصتی رجمنٹ کو افسر کر کے پچیس سوار واسطے اعانت پولیس کے روانہ چاند پور کیے وہ سوار وہاں پہنچے اور دو روز مقام کیا جب ڈاکہ والے متفرق ہو گئے تو بجنور میں واپس آئے جناب صاحب مجسٹریٹ بہادر کو فی الجملہ سستی اور ڈرپوکی تھانہ دار چاند پور کی واضح ہوئی تھی اس لیے گلاب سنگھ تھانہ دار کو طلب فرما کا تنبیہہ اور چشم نمائی فرمائی۔ پھر اس نے وہاں جا کر بمعیت بھولا ناتھ جمعدار کے موضع چھلی کو جو دیہات مفسدوں میں سے تھا۔ جلا دیا اور اس نادیب سے فی الجملہ پر گنہ میں امن ہوتا گیا۔ ملازمان جدید رکھنے سے کچھ فائدہ نہ تھا مگر جس قدر سپاہی اور بڑھائے جاتے تھے کچھ ہماری دلجمعی نہ ہوتی تھی اور در حقیقت کچھ دلجمعی کی بات نہ تھی کیونکہ اس زمانے میں یا یہ کام تھا کہ اگر اتفاقیہ کوئی فوج ضلع میں آ جاوے تو اس کا مدافعہ کیا جاوے۔ یہ بات ان آدمیوں سے کسی طرح ممکن نہ تھی یا یہ کہ ضلع میں اگر کوئی نامی آدمی بگڑ جاوے تو اس کا علاج کیا جاوے مگر ان آدمیوں سے اس امر کا بھی انسداد ممکن نہ تھا، بلکہ اس وقت یہ سب آدمی بغل کے دشمن ہوتے کیونکہ تمام ضلع کی نظر نا محمود خاں پر تھی البتہ گنواروں کا انتظام اس جمعیت سے ممکن تھا مگر یہ جب ہوتا جب ان دونوں باتوں سے طمانیت ہوتی۔ اس لیے جناب صاحب کلکٹر بہادر بتاکید واسطے طلب کمک کے تحریر فرماتے تھے آخر کو فوج کی کمک سے نا امیدی ہوئی مگر جناب مسٹر رابرٹ الیگزنڈر صاحب بہادر کمشنر نے جو پچیس سوار جدید ملازم رکھ کر بریلی سے بھیجے تھے اٹھائیسویں مئی کو اور مراد آباد سے چالیس تلنگہ اسی پلٹن کے جو بگڑ کر پھر چند روز کے لئے سیدھی ہو گئی تھی بجنور کو روانہ ہوئے تھے انتیسویں مئی کو بجنور پہنچے تیسویں مئی کو رات کے وقت جناب جارج پامر صاحب بہادر اور سید تراب علی تحصیلدار بجنور ان تلنگوں کو مع بیس سوار کے جن کا افسر بہادر علی خاں رسالہ دار رخصتی مرسلہ جناب صاحب کمشنر بہادر تھا تشریف فرمائے منڈ اور ہوئے کیونکہ پرگنہ منڈ اور میں گوجروں وغیرہ گنواروں کا بہت زور تھا اور انہوں نے محمد پور اور منڈا ور پر ڈاکہ ڈالنے کو بہت بڑا لام باندھا تھا۔ احمد اللہ خاں اور شفیع اللہ خاں کا بد نیتی سے کام کرنا جناب صاحب کلکٹر بہادر کے سامنے بھی احمد اللہ خاں اور شفیع اللہ خاں اس کے بھائی نے جو کام کیے اگر خوب غور سے دیکھا جاوے تو وہ بھی خود سری اور خود مختاری کے شبہ سے خالی نہ تھے، مثلاً بنجارہ بہ ارادہ فاسد جنگل میں جمع ہوئے تھے ان پر شفیع اللہ خاں دوڑنے گیا اور ان کو مارا اور ان کا اسباب جو مشہور ہے کہ بیس پچیس ہزار روپیہ کی مالیت کا تھا لوٹ لیا اور چند بنجاریوں کو بطور لونڈیوں کے اپنے گھر پکڑ لایا تھا جب بنجاروں نے ایکا کیا اور بہت بنجارے جمع ہوئے تب ان عورتوں کو ایک ہفتہ کے بعد چھوڑا اسی طرح احمد اللہ خاں بھاگو وانہ پر جہاں پنجارے جمع تھے دوڑ لے گیا تھا اور ان میں سے چند بنجاروں کو پکڑ لیا تھا اور یہ بات سنی گئی تھی کہ کچھ روپیہ لے رک چھوڑ دیا اور یہ بھی مشہوا ہوا تھا کہ ایک بنجارہ کو مار کر درخت میں لٹکا دیا تھا اور دوڑ لے جاتے وقت راہ میں جب کنگ پور پہنچا تھا ایک پدھان کو زخمی کیا تھا اور دس ہزار روپیہ کا اسباب لوٹ لیا تھا بوڈہ گری کے جاٹوں نے چند دیہات لوٹے تھے۔ شفیع اللہ خاں ان پر دوڑ لے گیا اور مقابلہ کے وقت ان سے بھاگا۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ نا محمود خاں بلا طلب جناب صاحب کلکٹر بہادر نجیب آباد سے بجنور آتا تھا اور بمقام کیرت پور مقیم تھا شفیع اللہ خاں نا محمود خاں کے پاس کیرت پور میں گیا اور اس کو مع جماعت ھمراھیان بوڈہ گری پر لایا۔ گاؤں کو لوٹ لیا اور پھونک دیا۔ اگر ان باتوں پر لحاظ کیا جاوے تو خود سری کی بو سے خالی نہ نکلیں گی۔ نامحمود خاں کا دوسری دفعہ بلا طلب بجنور میں آنا نامحمود خاں باوجودیکہ پہلی دفعہ ہرگز بجنور میں رہنا نہ چاہتا تھا اب کی دفعہ بلا طلب جناب صاحب کلکٹر بہادر کے نجیب آباد سے بجنور کو آنا خالی شبہ سے نہ تھا، چنانچہ یکم جون کو وہ بجنور میں پہنچا اور احاطہ کوٹھی جناب صاحب کلکٹر بہادر میں اس نے ڈیرہ کیا اب کی دفعہ علامتیں بغاوت کی اس کے چہرہ سے ظاہر تھیں او روہ اپنے دل کو اپنی حکومت کے خیال سے خوش کرتا تھا اور اس کے عشق میں چور تھا اور ڈپٹی صاحب کے سامنے اس نے ایسی باتیں کیں جن سے صاف ارادہ فاسد اس کا ظاہر ہوتا تھا ڈپٹی صاحب نے مجھ کو بلا کر نا محمود خاں کی فاسد نیت سے مطلع کیا میں نے کہا کہ فی الفور جملہ حال جناب صاحب کلکٹر بہادر سے عرض کرنا چاہیے، چنانچہ اس کی باتوں سے جو فساد اس کی نیت کا ہم کو معلوم ہوا تھا ہم نے جناب صاحب کلکٹر بہادر سے عرض کیا اور یہ تجویز ہوئی کہ نا محمود خاں کو بجنور سے رخصت کیا جاوے۔ اب اس کا جانا مشکل معلوم ہوتا تھا مگر بحکمت اس کو بہ بہانہ دورہ پر گنہ چاند بور روانہ کیا مگر وہ مچلاتا ہوا دارا نگر کو چلا گیا۔ جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر کا منڈاور میں مفسدوں کو تنبیہہ کرنا اکتیسویں مئی 1857ء کو جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر مع اپنے لشکر کے بمقام منڈاور پہنچے اور جہاں جہاں گوجروں کی لام بندی کا شبہ تھا وہاں کی خبریں منگوائیں اور چار بجے خود مع سید تراب علی تحصیلدار اور لطافت علی تھانہ دار سوار ہوئے اور آسو کھیڑی تک جو گنگا کے کنارے پر ہے تشریف لے گئے اور دو جزائلیں اس گاؤں میں سے لے آئے۔ دوسرے دن یکم جون کو خبر ملی کہ موضع فضل پور میں گنواروں نے لام باندھا ہے۔ جناب صاحب ممدوح نے بیس تیس تلنگہ اور بیس سوار اور میر سید تراب علی تحصیلدار بجنور اور میر لطافت علی تھانہ دار منڈاور کو ساتھ لیا اور میر محمد علی پیشکار سڑک رئیس منڈاور اور تخمیناً ایک ہزار ساکنان منڈ اور بھی ساتھ ہوئے اور مسمیٰ بساون پدھان شیخوپورہ کو مع اس کے دونوں بیٹوں کے ساتھ لیا۔ قریب موضع فضل پور کے باغ میں بہت سے آدمی تخمیناً چار ہزار کے قریب مجتمع معلوم ہوئے۔ جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر نے سب سے پہلے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور سواروں کو ساتھ لے کر دائیں طرف سے ان پر حملہ کیا اور میں تراب علی تحصیلدار اور لطافت علی تھانہ دار اور میر علی پیشکار سڑک تلنگوں کے ساتھ ہو کر آگے بڑھے۔ گنواروں نے ھلہ دیکھ کر بندوقوں کا فیر کیا اور تلواریںکھینچ کر بمقابلہ پیش آئے جب اس طرف سے بندوقوں کی باڑ چلی تو وہ بھاگ نکلے مگر ان پر حملہ کر کے بہت سے آدمیوں کو گھیر لیا اور موضع فضل پور میں آگ لگا دی اور لوٹ لیا۔ پندرہ بیس آدمی جان سے مارے گئے اور بہت سے آدمی زخمی ہوئے اور بیس تیس آدمی ہتھیار بند گرفتار ہوئے اور بہت سے آدمی لہپی ندی اور گنگا میں ڈوب کر مر گئے اور فضل پور کے سوا جہانگیر پور اور بھوجپور اور شیخوپورہ اور حسین پور نرائن پور اور امین پور بھی جلائے گئے کہ ان گاؤں کے لوگ بھی شریک تھے۔ پچاس ہزار روپیہ کا بجنور سے میرٹھ کو جانا اسی اثناء میں دوسری جون کو جناب کپتان گف صاحب بہادر مع چند سواروں کے میرٹھ سے خزانہ لینے کو بجنور میں تشریف لائے اور پچاس ہزار روپیہ کنویں میں سے نکال کر صاحب ممدوح کے سپرد کئے گئے باوجودیکہ صاحب کے پاس سوار بہت کم تھے اور ڈاکہ والوں کے ہر طرف غول کے غول جمع تھے مگر صاحب موصوف نے بہ کمال دلاوری خزانہ ہاتھیوں پر لدوا کر چوتھی جون کو براہ گھاٹ دارا نگر میرٹھ کو لیے چلے گئے جس دلاوری سے صاحب خزانہ لے گئے ہیں ہر شخص اس کو دیکھ کر اور سن کر عش عش کرتا تھا دوسری تاریخ کو جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر نے قدیوں کو جو پرگنہ منڈ میں گرفتار ہوئے تھے روانہ بجنور کیا اور گرد و نواح کے گوجر طلب کیے اور تیسری تاریخ کو بہت سے گوجر حاضر آئے اور ان سے مچلکہ فساد نہ کرنے اور ھتیار حاضر کر دینے اور لوٹ کا مال واپس کر دینے کا لکھوایا اور اس تنبیہہ سے نہایت ڈر اور انتظام ضلع میں ہو گیا اور ایسا خیال کیا جاتا تھا کہ شاید تمام ضلع میں سے شورش جاتی رہے۔ بریلی کا بگڑنا اور مسٹر جارج پامر صاحب بہادر کا بجنور میں واپس آنا مگر افسوس ہے کہ اس انتظام سے پہلے یعنی 31مئی سنہ 1857ء کو بریلی اور مراد آباد بگڑ چکا تھا اور سب صاحب لوگ وہاں سے تشریف لے گئے تھے اگرچہ یہ خبر کچھ کچھ مشہور ہوئی تھی اور ہم اس کے اخفا کے درپے تھے مگر تیسری تاریخ کو شام کے وقت بذریعہ چٹھی معتبر خبر بگڑ جانے بریلی اور مراد آباد کی پہنچ گئی تھی اس لیے جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر کا ایسی حالت میں تلنگوں کے ساتھ رہنا کسی طرح مناسب نہ تھا اس لیے صاحب موصوف کو لکھا گیا کہ بلا عذر بجنور میں چلے آویں، چنانچہ اسی رات صاحب موصوف بجنور میں تشریف لے آئے اور صبح کو سید تراب علی تحصیلدار مع تلنگوں کے بجنور میں پہنچے اور دوسرے روز تلنگے روانہ مراد آباد ہوئے۔ بریلی بگڑنے کے بعد بجنور کا کیا جال تھا کئی روز سے ڈاک بریلی کی بند تھی اور پار کی ڈاک بھی منظم نہ تھی اور اس سبب سے ہم لوگ نہایت متردد اور فکر مند تھے اور ظاہر ہے کہ ہم سب کی بلکہ بہت سے اضلاع کی نظر بریلی پر تھی اور جبکہ بریلی اور شاہجہاں پور اور پیلی بھیت اور بدایوں اور مراد آباد سب اضلاع روھیل کھنڈ کے بگڑ چکے تھے، تو اس بجنور کے ضلع کے قائم رہنے کی کیا توقع تھی۔ جو پہاڑ اور جنگل اور گنگا کے کھادر سے ملا ہوا ہے اور جس میں کسی طرح کا سامان حفاظت اور مقابلہ یا معتمد تھوڑی سی فوج بھی جناب صاحب کلکٹر بہادر کے ہاتھ میں نہ تھی اور نہ ہاتھ آنے کی توقع تھی اور جس میں مسٹر کولبرک صاحب بہادر سنہ 1812ء میں ایک بہت بڑا کانٹوں دار درخت بو گئے تھے یعنی بسا گئے تھے اجڑے ہوئے اور جلا وطن ہوئے ہوئے بہنبو خاں باپ نا محمود خاں کو نجیب آباد میں جس کے سبب یہ گویا برباد ہوا ہوا خاندان پھر لوگوں کی نظروں میں سما گیا تھا اور اسی سبب سے ہر ایک شخص ضلع کا اپنے تئیں قدیم متوسل اور پرانا نمک خوار اور پشتینی تابعدار نا محمود خاں کا سمجھتا تھا اور ایسے تزلزل کے وقت میں ہر ایک کی نگاہ اسی پر پڑتی تھی اور در حقیقت روھیل کھنڈ کے بگڑنے کے بعد کون مصلحت دے سکتا تھا کہ حکام انگریزی ایسی حالت پر بھی ضلع نہ چھوڑیں مگر ہمارے جناب صاحب کلکٹر بہادر نے ان حالات پر بھی استقلال کو ہاتھ سے نہیں دیا اور بد ستور ضلع کے انتظام پر کمر باندھے رہے اور جناب صاحب ممدوح کی حسن تدبیر سے ہم سب کو امید تھی کہ شاید ایسے وقت میں بھی ضلع قائم رہے، بشرطیکہ اور کوئی آفت پیدا نہ ہو مگر اس آفت نے ہم کو نہ چھوڑا جس کا داغ ہمارے دل پر سے کبھی نہیں جانے کا۔ نامحمو دخاں کا تیسری دفعہ بارادہ فساد بجنور میں آنا نامحمود خاں جو دارا نگر کی جانب گیا ہوا تھا اس کو کسی نے خبر بھیجی کہ جناب صاحب کلکٹر بہادر خزانہ ھلدور کو روانہ کرتے ہیں خلدور والوں کا خاندان ضلع میں ایک بڑی دھشت والا مشہور تھا اور نا محمود خاں کو اگر کچھ اندیشہ تھا۔ تو اسی خاندان سے تھا اس نے یہ خیال کیا کہ اگر یہ معاملہ اسی طرح پر ہوا تو شاید اس کے دلی ارادوں میں زیادہ دقت پیش آوے یہ خبر سنتے ہی اس نے اپنی بدلی ہوئی نیت کا ظاہر کرنا اور اس کا اثر دکھانا اپنے دل میں ٹھان کر دفعۃًساتویں جون سنہ 1857ء کو مع اپنے ساتھی پٹھانوں کے بجنور میں چلا آیا اور شام تک کچھ اور پٹھان نجیب آباد سے بھی آ گئے تھے اور میں خیال کرتا ہوں کہ اس رات نا محمود خاں کے پاس تخمیناً دو سو ڈھائی سو پٹھان اچھے بندوقچے مع ساز و سامان موجود ہوں گے۔ ہم نے جو پٹھان اور اور لوگ نئے نوکر رکھے تھے ان کا بلکہ پرانے نوکروں کا بھی دل نا محمود خاں کی طرف پاتے تھے اور کچھ شبہ نہیں ہے اور کہ یہ سب لوگ نا محمود خاں سے ملتے تھے اور میٹھی میٹھی باتیں اس سے کرتے تھے اور کیا تعجب ہے کہ کسی راز میں بھی شریک ہوں اس زمانہ میں بجنور میں یہ آفت ہو گئی تھی کہ ہر ایک شخص کے دل میں جم گیا تھا کہ سرکار کی علمداری اٹھ جاوے گی اور بے شبہ نا محمود خاں مسند حکومت پر بیٹھے گا اس لیے ہر ایک شخص اس ضلع کا رہنے والا اس سے راہ و رسم رکھنی ضروری سمجھتا تھا۔ اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب ہمارے بھی نا محمود خاں کے ساتھیوں میں سے تھے اور ہم کو ہر گز توقع نہ تھی کہ برے وقت پر یہ لوگ ہمارا ساتھ دیویں گے بلکہ ہم یقین جانتے تھے کہ یہ سب نا محمو دخاں کے ساتھ ہو جاویں گے۔ نامحمو دخاں کے اس ارادہ کا ذکر کہ رات کو فساد کرے اسی تاریخ چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاجپور کے پاس مفصل خطوط حالات بگڑنے بریلی اور مراد آباد کے آ گئے اور خان بہادر خاں کی بے ایمانی اور نمک حرامی کی بھی مفصل خبر آ گئی اور انہوں نے وہ سب خط جناب صاحب کلکٹر بہادر کو دکھا دیے اور کمبخت نا محمود خاں کو بھی بد ذات خاں بہادر کی خبر مل چکی تھی اور در حقیقت اسی خبر سے اس نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ خان بہادر خان کی پیروی کرے اور رات کے وقت اپنا ارادہ پورا کرنے کا ٹھہرا چکا تھا مگر اس وقت تک ہم کو اس بد ذات کے ارادہ کی خبر نہیں ملی تھی صرف اتنی بات ہوئی تھی کہ جب نا محمود خاں آیا تو جناب صاحب کلکٹر بہادر نے دو دفعہ اس کمبخت کو بلایا اور وہ نہ گیا اور جب گیا تو اس کی بات چیت میں خود جناب صاحب کلکٹر بہادر نے بے رخی دیکھی اور اس کی پیشانی پر اس کے دلی ارادہ کا اثر پایا رات کو آٹھ بجے محمد سعید خاں محرر کلکٹری ساکن نجیب آباد نے مجھے خبر دی کہ محمود خاں کا ارادہ آج رات کو فساد کرنے کا ہے، کیونکہ اس بات کے سننے سے کہ جناب صاحب کلکٹر بہادر خزانہ ھلدور بھیجنے تھے نہایت برھم ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ رات کو کشت و خون ہو جاوے۔ میں نے محمد سعید خاں سے کہا کہ تم ابھی جاؤ اور تدبیر کرو کہ فساد نہ ہو اور خود اور ولی محمد کی معرفت میری طرف سے نواب کی خاطر جمع کر دو کہ خزانہ ھلدور نہیں جانے کا اور نہ وہاں بھیج دینے کی صلاح ٹھہری ہے اور اسی وقت میں نے سعد اللہ خاں بڈھ پورہ والے کو بلایا اور اس کو بہت سمجھایا کہ تم فساد کو روکو اور نواب کو سمجھاؤ اور کہہ دو کہ اگر بالفرض خدا نخواستہ دو انگریز مارے بھی جاویں گے تو کیا فائدہ ہو گا اور بدنامی اور نمک حرامی جدا ہو گی اور خدا کے ہاں جد امنہ کالا ہو گا اور اس بات کا میں ذمہ دار ہوں کہ خزانہ ھلدور نہیں جانے کا اور جناب صاحب کلکٹر صاحب بہادر کوئی ایسی بات نہیں کریں گے جس سے نواب صاحب کی سرداری اور اعتبار پر دوسرے وک ترجیح ہو پھر فساد کرنے اور بدنامی اٹھانے اور خوں ریزی ہونے سے کیا فائدہ ہے پھر میں اور سید تراب علی تحصیلدار اسی وقت جناب صاحب کلکٹر بہادر کے پاس حاضر ہوئے اور ڈپٹی صاحب بھی وہاں آئے ہوئے تھے بعد گفتگوئے مضامین ان خطوط کے جو چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاجپور کے پاس آئے تھے یہ سب حالات مفصل میں نے جناب صاحب کلکٹر بہادر سے عرض کیے اور درباب قیام اور عدم قیام حکام اور انتظام ضلع در صورت تشریف بری حکام کے بہت سی گفتگو اور مصلحت رہی۔ اسی دن مراد آباد سے یہ بھی خبر آئی تھی کہ کچھ باغی فوج اور دو توپیں بجنور کو روانہ ہونے کو ہیں اگرچہ اس وقت بھی ہم کو اس خبر کے صحیح ہونے میں کچھ شبہ نہ تھا اور عقل بھی اس بات کو قبول کرتی تھی کہ نمک حرام فوج کو بڑی غرض لوٹنے سے اور اس سے زیادہ مطلب حکام انگریزی کے نقصان جان کا تھا پھر بجنور کو ان آفتوں سے خالی چھوڑنا ہر گز قیاس میں نہیں آتا تھا مگر کئی دن بعد ہم کو بخوبی تحقیق ہو گیا کہ یہ خبر بالکل سچ تھی اور منشاء اس کا یہ ہوا تھا کہ جب وہ چالیس تلنگے بجنور سے روانہ ہو کر مراد آباد پہنچے تو سپاہیان پلٹن نمک حرام نے مراد آباد کے خزانہ کا جو روپیہ لوٹا تھا اس میں سے ان کو حصہ نہ دیا اور کہا کہ تم بجنور کا خزانہ کیوں چھوڑ آئے اور وہاں کے حکام کو کیوں زندہ چھوڑا، اس لیے ان تلنگوں نے ارادہ کیا کہ اور تلنگہ اور توپخانہ اپنے ساتھ لے کر پھر بجنور میں آویں اور اپنا ارادہ پورا کریں غرض کہ بلا شبہ یہ ان کا ارادہ پکا قرار پا چکا تھا اس لیے رات کو مصلحت کے وقت اس بات میں بھی کہ فوج باغی کے آنے پر کیا تدیر کی جاوے گی، گفتگو ہوئی تھی اور لوگوں کے دلوں کا حال دیکھ کر میری یہ رائے تھی کہ جب سب لوگوں کو یقین ہو جاوے گا کہ فوج آتی ہے اور رستہ میں ہے، تو جتنے لوگ یہاں ہیں کوئی بھی ہمارا ساتھ نہیں دینے کا اور ہم کو ایک ایسا چوھا تک بھی میسر نہیں آنے کا جو حکام انگریزی کی رفاقت کر کے گنگا پار کسی امن کی جگہ تک ان کو پہنچاوے اور بے شبہ میری رائے بہت صحیح اور نہایت پکی تھی اور ہمارے جناب صاحب کلکٹر بہادر اور اور عقلمند آدمی اس کو تسلیم کرتے تھے۔ غرض کہ بہت سی مصلحت کے بعد یہ رائے قرار پائی کہ آج ہی رات کو جناب میم صاحبہ اور عیسائی عورتیں اور بچے اور کچھ مرد بمعیت جناب مسٹر کری صاحب مظفر نگر اور وہاں سے رڑکی روانہ ہو جاویں اور صرف جناب مسٹر الیگزنڈر شیکسپیئر صاحب بہادر اور جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر بجنور میں تشریف رکھیں بارہ بجے رات کو یہ صلاح پکی ہو گئی اور جناب میم صاحبہ کی روانگی کی تیاری ہونے لگی اس وقت نا محمود خاں کی بد نیتوں کے سبب ج اب بخوبی کھل گئی تھیں، یہ رائے ٹھہری کہ بلا اطلاع نا محمود خاں میم صاحبہ کے روانہ کرنے میں مبادا کچھ فساد ہو جاوے بظاہر اس سے بھی صلاح لے لی جائے، چنانچہ جناب صاحب کلکٹر بہادر کے حکم سے اسی وقت رات کو نا محمو دخاں کے پاس جو احاطہ کوٹھی میں مقیم تھا میں گیا اور میں نے اس کو پٹھانوں کے غول میں بیٹھا ہوا پایا، میں نے اس سے عرض کیا کہ مجھ کو علیحدہ آپ سے کچھ عرض کرنا ہے۔ اول تو اس نے ایک عجیب غرور سے کہا کہ یہاں کون غیر ہے سب بھائی پٹھان ہیں کہو مگر میرے اصرار پر اٹھ کر آیا میں نے اس سے اول یہ بات کہی کہ آپ کو کس نے خبر دی ہے کہ خزانہ ھلدور جانا ہے یہ بات بالکل جھوٹ ہے اور میں ذمہ دار ہوتا ہوں کہ خزانہ نہیں جانے کا اس نے جواب دیا کہ میرا منہ کالا ہونے میں اب کچھ باقی نہیں ہے میرے ساتھ کے پٹھان مجھ کو گالیاں دیتے ہیں اور بہت برا بھلا کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خان بہادر خان اپنی موروثی گدی پر ہو بیٹھا۔ اس کمبخت کو کیا ہوا ہے جو چپکا بیٹھا ہے اور میں نے انگریزوں کا نمک کھایا ہے میں نہیں چاہتا کہ کوئی انگریز مارا جاوے اور میرا منہ کالا ہو اگر انگریزوں کو اپنی جان بچانی ہے تو یہاں سے نکل جاویں اگر کوئی پٹھان مار دے گا تو میں کاے کروں گا علاوہ اس گفتگو کے جس طرز اور انداز پر اس نے مجھ سے باتیں کیں جس کی کیفیت بات چیت کرنے میں متکلم اور مخاطب ہی خوب جانتا ہے اور سمجھتا ہے اور بیان میں نہیں آ سکتی اس سے مجھ کو بخوبی یقین ہو گیا کہ یہ کمبخت فساد کرنے پر بالکل مستعد اور بہمہ تن بلکہ بہمہ جان آمادہ ہے اس وقت جو میرے دل پر کیفیت تھی میں ہر گز بیان نہیں کر سکتا کیونکہ مجھ کو یقین ہو گیا تھا کہ آج حکام انگریزی کی جان کو ضرور نقصان پہنچے گا میں نے اس سے کہا کہ جو بات بغیر فساد کے حاصل ہو اس میں فساد کرنا اور بدنامی اٹھانی نہیں چاہیے۔ اگر آپ کی صلاح ہو تو ہم ایسی تدبیر کریں کہ جناب صاحب کلکٹر بہادر سے کہہ کر آج رات کو جناب میم صاحبہ اور صاحبوں کو یہاں سے روانہ کر دیں دو ایک روز میں جناب صاحب کلکٹر بہادر اور جناب صاحب جینٹ مجسٹریٹ بہادر خود چلے جاویں گے اور تم نواب ہو ہی، بغیر بدنامی کے تمہارا مطلب حاصل ہو جاوے گا اور اسی قسم کی اور باتیں جو مناسب و قت کے تمہیں اس سے کہیں جن سے اس کے دل میں یہ بات پڑی کہ حکام انگریزی کی جان کو نقصان نہ پہنچے اس نے جواب دیا کہ یہ کہاں کا بکھیڑاہے کہ آج جناب میم صاحبہ جاویں اور پھر حکام جاویں۔ اگر جانا ہے تو آج سب جاویں ورنہ میرا منہ کالا ہو گا۔ یعنی کوئی مارا جاوے گا۔ اس وقت تک تو میں نے پٹھانوں کو روک روک کر رکھا ہے پھر میرے قابو سے باہر جاویں گے حالی یہ ہے کہ نجیب آباد میں نا محمود خاں اور احمد اللہ خاں نے بہت سے آدمی نوکر رکھ لیے تھے اور بہت سے پٹھان ان کے ساتھی وہاں جمع تھے ایسا گمان بلکہ یقین ہوتا ہے کہ اس نے اس گروہ کو نجیب آباد سے بلایا تھا اور منتظر تھا۔ ان لوگوں کے آ جانے کا اس کی دلیل ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسی رات بہت سے آدمی نجیب آباد سے روانہ ہو چکے تھے اور جب ہم کوٹلہ بھاگے جاتے تھے، تو بہت سے غول نجیب آباد سے آتے ہوئے ہم کو ملتے تھے اور بمجرد تشریف فرما ہوئے جناب صاحب کلکٹر بہادر کے ایک معقول جمعیت نا محمود خاں کے پاس جمع ہو گئی تھی، پھر اگر یہ بات نہ تھی جو ہم خیال کرتے ہیں، تو اس طرح سے دفعتہ نجیب آباد سے آدمیوں کا بجنوز میں جمع ہونے کا کیا سبب ہو گا۔ نامحمود خاں کی بد نیتی معلوم ہونے کے بعد انتظام ضلع اور تشریف بری حکام میں مشورہ ہونا غرضکہ جب مجھ کو یقین ہو گیا کہ نا محمود خاں نے فساد کرنا بخوبی اپنے دل میں ٹھان لیا ہے اور وہ کسی طرح باز نہیں آنے کا اس وقت میں نے کہا کہ چلو ہم اور تم چل کر جناب صاحب کلکٹر بہادر سے عرض کریں کہ اب یہاں رہنا مناسب نہیں اس نے کہا میں تو نہیں جاتا اور میں صاحب کلکٹر سے کہہ چکا ہوں کہ یہاں نہ رہیں اور جو شرط نمک حلالی کی تھی اس سے میں ادا ہوا۔ اب چاہیں جاویں چاہیں نہ جاویں یہ کہہ کر اپنے پٹھانوں میں جا بیٹھا لاچار میں نے آن کر یہ سب حال جناب صاحب کلکٹر بہادر سے عرض کیا اور اس وقت درباب سپردگی ضلع اور تشریف بری حکام کی پھر مصلحت ہوئی ایسے حال میں کہ مراد آباد سے فوج باغی کے آنے کی خبر گرم تھی اور کوئی آدمی ملازمان جدید و قدیم میں سے قابل اطمینان کے نہیں تھا اور دشمن قوی بغل میں اور ظاہر ہے کہ ہم تین آدمی بجز اس کے کہ اپنی جان دے دیتے اور کیا کر سکتے۔ کچھ چارہ نہ تھا سوائے اس کے کہ حکام انگریزی سر دست حفظ جان کا کریں اور ضلع چھوڑ دیں، چنانچہ ہم سب کی یہی رائے قرار پائی اور ہمارے حکام نے بھی اس کو پسند کیا۔ اگرچہ اول اول ڈپٹی صاحب کو اس میں تامل تھا مگر پھر یہی رائے ان کے نزدیک بھی مستحسن ٹھہری۔ چودھریوں کا انتظام ضلع سے انکار کرنا اگرچہ اس وقت کوئی اور مصلحت نہ تھی بجز اس کے کہ ضلع کمبخت نا محمود خاں کے ہاتھ میں چھوڑا جاوے مگر ہمارے جناب صاحب کلکٹر بہادر نے بنظر دور اندیشی اور اس خیال سے کہ شاید اور کوئی کام کی بات نکل آوے چودھری رندھیر سنگھ رئیس ھلدور اور چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاج پور سے پوچھا کہ تم ضلع کا انتظام کر سکتے ہو۔ انہوں نے مجبوری اپنی اور نہ ہو سکنا اس کام کا اپنے سے بیان کیا اور در حقیقت ممکن نہ تھا کہ ضلع کے آدمی نا محمود خاں کو چھوڑ کر اور کسی کی حکومت قبول کرتے۔ میں نے جناب صاحب کلکٹر بہادر کے روبرو چودھری رندھیر سنگھ سے یہ بات بھی کہی تھی کہ ایسی تدبیر ہو سکتی ہے کہ بر وقت آ جانے پلٹن باغی کے جب تک کہ وہ ضلع سے چلی جاوے حکام انگریزی کی حفاظت رہے۔ چودھری صاحب نے اس امر کا ہونا بھی غیر ممکن بیان کیا غرضکہ یہ سب باتیں دو بجے رات کے طے ہوئیں اور جناب صاحب کلکٹر بہادر اور جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر نے بھی روانگی کی تیاری کی۔ میں تعریف نہیں کر سکتا اپنے جناب صاحب کلکٹر بہادر کی مروت اور اخلاق اور ہر ایک اپنے متوسل کی پرورش کے خیال کا کہ ایسے نازک وقت میں جناب ممدوح نے سب عیسائی مرد اور عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ لیا اور ہم سے پوچھا کہ تم کیا کرو گے ہم نے عرض کیا کہ ہم بھی بھاگیں گے۔ ڈپٹی صاحب کے اہل و عیال سب ھلدور جا چکے تھے سب تراب علی تحصیلدار کے اہل و عیال اور چھوٹے چھوٹے بچے اور لڑکیاں سب بجنور میں تھیں صاحب نے سید تراب علی سے فرمایا کہ ہم سب کو مثل اپنے سمجھتے ہیں اور سب کی حفاظت جان اپنے ساتھ چاہتے ہیں اگر تمہاری عورتوں اور بچوں کا ہمارے ساتھ چلنا ہو تو ہم سب کو لے چلیں گے مگر یہ امر بہت مشکل تھا ہم نے عرض کیا کہ بالفعل کوٹلہ جاویں گے اور وہاں سے جہاں امن ملے اور جو الفاظ ہماری دلجوئی اور پرورش اور مہربانی کے ہم پر فرمائے ان کا ہم شکر ادا نہیں کر سکتے۔ غرضکہ اس وقت میں اور سید تراب علی اجازت لے کر عورتوں کے اور بچوں کی روانگی کے سامان کو کوٹھی سے باہر نکلے اور نا محمود خاں سے میں نے کہا کہ اب سب صاحب جاتے ہیں تم ان صاحبوں کی حفاظت میں اب بہت کوشش کرو کیونکہ جناب صاحب کلکٹر بہادر کا ارادہ ہے کہ پار پہنچ کر گورنمنٹ کو رپورٹ کریں کہ یہ تمام ضلع تم کو مل جاوے اور اسی قسم کی مصلحت آمیز باتوں سے اس کو خوش کیا اور بخوبی اپنی خاطر جمع کر لی کہ کچھ ا ب فساد نہیں ہونے کا اس وقت میں اور سید تراب علی تحصیلدار مکان پر آئے اور فی الفور عورتوں کو اور بچوں کو سوار کر کے تین بچے رات کے جناب صاحب کلکٹر بہادر کی کوٹھی کے احاطہ کے پاس لا کر ٹھہرایا اور خود ہم دونوں جناب ممدوح کے پاس حاضر ہوئے اور سواروں کے افسروں سے کہا کہ کچھ سوار ہمراہی کو چلیں ہماری بات کو سن کر سب چپکے ہو رہے مگر قطب الدین رسالہ دار اور جو نئے سوار بریلی سے آئے تھے اور ابھی ان کا میل جول نا محمود خاں سے نہیں ہوا تھا ھمراہی کو مستعد ہوئے اور بہادر علی جمعدار اور تین چار سوار پرانے آمادہ ہوئے ہاتھی سب تیار تھے اور سوار بھی تیار ہو کر کوٹھی پر حاضر ہوئے اس وقت سید تراب علی تحصیلدار کو بھیج کر نا محمود خاں کو بلوایا گیا اور جناب صاحب کلکٹر بہادر نے فرمایا کہ ہم جاتے ہیں اور ضلع تمہارے پاس چھوڑتے ہیں تم بخوبی انتظام رکھو اور ہمارے اہلکاروں سے کام لو اور آرام سے رکھو نا محمود خاں نے کہا کہ مجھ کو خط لکھ دو جناب صاحب کلکٹر بہادر نے مجھ کو حکم دیا کہ لکھ دو میں نے اس وقت خط لکھا اگرچہ نقل اس خط کی نہیں ہے مگر جو مضمون مجھ کویاد ہے لکھتا ہوں امید ہے کہ لفظوںمیں بھی فرق نہ ہو گا۔ تحریر ہونا خط سپردگی ضلع کا بنام نا محمود خاں مضمون خط موسومہ نا محمود خاں از طرف جناب صاحب کلکٹر بہادر مرقومہ شب مابین ہفتم و ہشتم جون ’’ جو کہ بالفعل انتظام ضلع بجنور کا جب تک کہ سرکار کی مرضی ہو آپ کے سپرد ہوتا ہے آپ کو چاہیے کہ ضلع کا بخوبی انتظام کرو اور جس قدر اسباب جناب صاحب کلکٹر بہادر اور جناب صاحب جنٹ مجسٹریٹ بہادر کا کوٹھی میں ہے اور جس قدر مال و اسباب و دفتر سرکاری ہے اس کی بخوبی حفاظت رکھو‘‘ مرقوم ساتویں جون سنہ 1857ء روانہ ہونا حکام کا بجنور سے یہ خط بد دستخط نا محمود خاں کو دیا گیا اور وہ بد نصیب اس کو لے کر باہر آیا جناب صاحب کلکٹر بہادر نے کلمات رخصت ہم سے فرمائے اور جو رنج اور درد جدائی کا ہمارے دل پر تھا وہ ہم نے ظاہر کیا۔ تھوڑی دیر بعد سب صاحب سوار ہونے کو کوٹھی کے برآمدہ میں آئے اور جناب صاحب کلکٹر بہادر اور جناب صاحب جنٹ مجسٹریٹ بہادر نے بہ کمال عنایت مجھ کو اور سید تراب علی تحصیلدار کو رخصت کیا کہ اپنی عورتوں کو ساتھ لے کر چلے جاویں ہم رخصت ہوئے اور جناب صاحب کلکٹر بہادر اور سب صاحب سوار ہو کر تشریف فرما ہوئے ڈپٹی صاحب مع چودھری رندھیر سنگھ ھلدور کو چلے گئے سمجھو اس بات کو کہ وہ سب نمک حرام پرانے سوار مع بہادر علی جمعدار کے گنگا کے کنارہ پر سے نا محمود خاں کے پاس بھاگ آئے مگر نئے سوار رڑکی تک ساتھ رہے اور وہاں پہنچ گئے ان کا کورٹ (مارشل) ہوا جناب صاحب کلکٹر بہادر کی عنایت سے ان کی جان بخشی ہو گئی محمود خاں نے سور ج کو بھی اچھی طرح نکلنے نہیں دیا کہ بجنور میں اپنے نام کی منادی ان الفاظ سے کہ خلق خدا کی ملک بادشاہ کا حکم نواب محمود خاں بہادر کا، پٹوائی اور نواب بن بیٹھا۔ نامحمود خاں کے خاندان کا پچھلا حال مناسب ہے کہ اس مقام پر تھوڑا سا حال نا محمود خاں کے خاندان کابیان کروں، نا محمود خاں پوتا ہے نجیب خاں کا جو احمد شاہ کے وقت میں یعنی 1748ء دوندے خاں کا نوکر تھا اور اس کی طرف سے پرگند دارا نگر کی تحصیل کرتا تھا اس نے بہت سے لوگ اپنے ساتھ جمع کیے اور ان پر گنہ جات پر جو اب ضلع بجنور میں ہیں قبضہ کر لیا، پھر دوندے خاں کی بیٹی سے اس کی شادی ہوئی، اس سبب سے مستقل مالک اس ملک کا ہو گیا اور بادشاہ کے دربار تک بھی رسائی کر لی۔ جب عالمگیر ثانی تخت پر بیٹھا یعنی سنہ 1753ء میں تو نجیب خاں نے جیت سنگھ ڈکیت کو مار کر کچھ گنگا پار کا علاقہ بھی جو اب ضلع سہارت پور میں شامل ہے اپنے ملک میں ملا لیا اور بادشاہ کے دربار سے اس کو نجیب الدولہ امیر الامراء کا خطاب ملا اور سنہ 1755ء میں اس نے قلعہ پتھر گڑھ بنایا اور نجیب آباد بسایا۔ جب نجیب الدولہ سنہ 1770ء میں مر گیا اس کا بیٹا ضابطہ خاں اس کی جگہ بیٹھا، نواب شجاع الدولہ لکھنوا والہ نے بسبب نہ ادا ہونے روپیہ معاملہ مرھٹوں کے جس کا ضامن شجاع الدولہ ہو گیا تھا، ضابطہ خاں کو سنہ 1774ء میں اس ملک سے خارج کر دیا ضابطہ خان نے نواب عبدالاحد کی سفارش سے سنہ 1776ء میں باونی سہاڑن پور کی سند بادشاہ سے حاصل کی اور غوث گڑھ میں رہنا اختیار کیا۔ اس کے مرنے کے بعد غلام قادر خاں اس کا بیٹا اس کی جگہ بیٹھا اور ا س نے شاہ عالم کو اندھا کیا، مہاراجہ پٹیل نے اس جرم میں اس کو بعد مقابلہ گرفتار کیا اور لوہے کے پنجرہ میں قید کر کے اور ایک ایک عضو جدا جدا کر کے مار ڈالا، معین الدین خاں عرف بھنبو خاں، غلام قادر کا بھائی بھاگ کر پنجاب چلا گیا۔ جب سرکار دولت مدار انگریزی نے اضلاع دھلی کو فتح کیا تب بھنبو خاں کو بلا کی بہت خاطر کی اور پانچ ہزار روپیہ مہینے کی پنشن مقرر کر کے بریلی میں رہنے کا حکم دیا اور پھر مسٹر کولبرک صاحب بہادر کی رپورٹ سے سنہ 1812ء میں نجیب آباد میں آباد ہوا اس کے مرنے کے بعد سرکار دولت مدار انگریزی نے ترحم محمود خاں اور جلال الدین خاں اس کے بیٹے اور بیٹیوں کے ہزار روپیہ ماھواری پنشن مقرر کی اور ہر ایک شخص کو اس خاندان میں سے بہت بڑے بڑے معزز عہدے عطا فرمائے کہ تمام خاندان بہ کمال عزت اپنی زندگی بسر کرتا تھا، پھنبو خاں نے اس زمانے میں (یعنی سن 1247ھجری مطابق سنہ 1831ء کے) جب کہ ایک جعلی غلام قادر خاں دھلی میں اکبر بادشاہ کے دربار میں آیا تھا، بادشاہ کے ہاں رسائی پیدا کی اور اپنے بیٹوں کے نام خطاب حاصل کیا اب اس غدر میں اس خاندان نے سرکار دولت مدار انگریزی سے نمک حرامی کی۔ ڈپٹی کلکٹر اور صدر امینا ور میر تراب علی تحصیلدار کا بجنور میں آنا اور نا محمود خاں سے ملنا جب کہ ہم رخصت ہو کر کوٹلہ کی طرف روانہ ہوئے راہ میں ہم کو بہت سے غول سپاہیوں کے نجیب آباد سے بجنور آتے ہوئے ملے اور کوٹلہ میں شفیع اللہ خاں بھانجا محمود خاں کا ملا جو نجیب آباد سے بجنور کو آتا تھا کہ یہ سب باتیں رات والے ارادہ کو بخوبی تصدیق کرتی ہیں، ہم نے دو تین روز کوٹلہ میں قیام کیا اور ہم اس فکر میں تھے کہ یہاں سے کدھر جاویں اور کیونکر جاویں کہ اس درمیان میں متواتر احکام نا محمود خاں کے ہماری طلب میں پہنچے، آخر کو سوار ان کر ہم کو بجنور لے گئے اور سید تراب علی تحصیلدار کے قبائل نگینہ روانہ ہو گئے اور ڈپٹی صاحب بھی ھلدور سے حسب الطلب بجنور میں آئے، ہم سب نے نا محمود خاں سے ملاقات کی مگر جیسا کہ وہ چاہتا تھا، اس کو نذریں نہیں دیں، تھوڑی دیر بعد اس نے ہم کو رخصت کیا اور یہ بات کہی کہ بد ستور اپنا کام کرو، ہم نے بجنور میں دیکھا کہ رام سروپ کا بہت عروج ہے اور اس کی معرفت باغی تلنگے نواب کے پاس نوکر ہوتے جاتے ہیں اور نویں یا دسویں جون سے باغی تلنگوں کی ملازمیں شروع تھی۔ عظمت اللہ خاں کا نائب اور احمد اللہ خاں کا ڈپٹی کلکٹر اور کلن خاں کا سپہ سالار اور حبیب اللہ کا بخشی مقرر ہونا اس کے دوسرے دن سے نامحمود خاں نے نیا بندوبست کرنا شروع کیا، عظمت الل خاں منصف ٹھاکر دروازہ کو اپنا نائب اور احمد اللہ خاں تحصیلدار نجیب آباد کو ڈپٹی کلکٹر متعہد اور جنٹ مجسٹریٹ مقرر کیا مگر احمد اللہ خاں نے ایسی مداخلت بہم پہنچائی اور نواب کو بالکل ایسا اپنے قابو میں کر لیا کہ تمام انتظام فوج اور ملک اور مال اور عدالت کا اسی کو اختیار تھا اور در حقیقت نواب صرف بزا خفش رہ گیا تھا، فوج سوار اور پیادہ کے رکھنے کو حکم جاری کر دیا اور جو جو لوگ پرانے عہدے دار نواب کے خاندان کے تھے وہ اپنے پرانے عہدوں پر مامور ہونے کو طلب ہوئے اور احمد یار خان عرف کلن خاں سپہ سالار اور حبیب اللہ خاں بخشی فوج مقرر ہوا، ہم اس حال کو دیکھ دیکھ کر بہت گھبراتے تھے، علی الخلوص اس بات سے کہ جو کوئی نواب کے سامنے حکام انگریزی کا نام لیتا تھا تو وہ بہت ناراض ہوتا تھا۔ صدر امین اور تحصیلدار نے اپنی کارروائی کی کیا تدبیر کی؟ جبکہ نواب نے ہم کو کہا کہ تم سب اپنا اپنا کام کرو اس وقت میں نے اور سید تراب علی تحصیلدار اور پنڈت رادھا کشن ڈپٹی انسپکٹر نے باہم مشورہ کیا اور آپس کی ایک کمیٹی بنائی اور یہ تجویز کی کہ ہم میں سے کوئی شخص کوئی کام نہ کرے جب تک کہ باہم کمیٹی کے اس کی صلاح نہ ہو لے۔ چنانچہ اسی وقت کام کرنے کے باب میں یہ رائے ٹھہری کہ میر سید تراب علی تحصیلدار بجنور جو ضروری حکم نواب کا پہنچے اس کو لاچار تعمیل کریں اور باقی احکام سب ملتوی پڑے رہنے دیں اور باقی مالگزاری بجز اس قدر روپیہ کے جس سے تنخواہ عملہ تحصیل و تھانہ تقسیم وہ جاوے اور کچھ وصول نہ کریں، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور بخشی رام تحصیل دار کی معرفت کہ وہ بھی خیر خواہ سرکار اور ہمارا ہمراز تھا جو مالگزار آیا اس کو فہمائش کی گئی کہ روپیہ مت دے، اس تساھل تحصیل سے نواب ناراض ہوا اور احکام سخت بھیجنے لگا اور کلمات نا ملائم پروانہ جات میں تحریر ہونے لگے اور نسبت اجرائے کار دیوانی یہ رائے ٹھہری کہ جب تک ہو سکے میں صدر امین بموجب آئین سرکار دولت مدار انگریزی کام کرتا رہوں اور کسی طرح کا تعلق نواب سے اس کام کا نہ رکھوں چنانچہ مجھ صدر امین نے ایسا ہی کیا اور جو روبکاریاں اور رپورٹیں قایل ارسال بحضور جناب صاحب جج بہادر تھیں ان میں علی الاعلان کچہری میں بھی حکم تحریر ہوتا رہا کہ بحضور جناب صاحب جج بہادر بھیجی جاویں اس میں فائدہ یہ تھا کہ عوام یہ سمجھتے تھے کہ حکام انگریزی کا تسلط بدستور ہے، البتہ نواب کو یہ امر بہت ناگوار تھا اور ایسی باتوں سے اس کی دشمنی ہمارے ساتھ زیادہ ہوتی جاتی تھی مگر ہم کو توقع تھی کہ ہمارے حکام بہت جلد پھر ضلع میں تشریف لاتے ہیں۔ مراد آباد سے بجنور میں فوج باغی کے آنے کی خبر کا مشہور ہونا اور نا محمود خاں کا ان سے سازش کی تدبیر کرنا فوج نمک حرام باغی جو مراد آباد میں مقیم تھی ان کے ساتھ سازش کرنے کی نا محمود خاں کو بہت فکر تھی اور خبر آمد آمد فوج مراد آباد کی بجنور میں بہت گرم تھی اور خطوط بھی مراد آباد سے درباب قصد روانگی فوج کے جانب بجنور کو آئے تھے۔ اس لیے نا محمود خاں نے رام سروپ جمعدار جیل خانہ اور مصائب علی دفعہ دار سواران کو مع چند اپنے معتمدوں کے دھام پور روانہ کیا اور مراد آباد میں خطوط بھیجے کہ فوج کو سمجھا دیں کہ صاحبان انگریز یہاں سے معہ کل خزانہ کے چلے گئے اب یہاں نہ خزانہ ہے نہ حکام انگریزی پھر یہاں آنا بے فائدہ ہے اور اگر بہ ارادہ ملازمی میرے پاس آویں تو ان کا گھر ہے جب یہ خبر فوج والوں کو ہوئی تو انہوں نے آنا بجنور کا ملتوی کیا اور رام سروپ وغیرہ دھام پور سے واپس آئے چند روز بعد نواب کو کسی طرح معلوم ہوا کہ فوج باغی کا ارادہ ہے کہ گھاٹ دارا نگر سے گنگا پار اتریں اس لیے اس نے درباب فراہمی رسد احکام بنا تحصیلداران جاری کیے اور تعلقہ داروں کے نام بھی پروانہ رسد رسانی کے لکھے چنانچہ جو پروانہ بنام چودھری پرتاب سنگھ رئیس تاجپور لکھا تھا اس کی نقل یہاں لکھتا ہوں: نقل پروانہ دستخطی نواب محمود خاں ’’ رفعت و عوالی مرتبت عزیز القدر چودھری پرتاب سنگھ رئیس تاج پور بخیریت رہو جو بہ اطلاع آمد پلٹن مراد آباد کے پروانہ جات بنام تحصیلدار چاند پور و دھام پور وغیرہ دربارہ انتظام و فراہمی رسد وغیرہ مقام فرود گاہ لشکر پر جاری ہوئے ہیں لہٰذاتم کو لکھا جاتا ہے کہ تم بھی جس قدر ہو سکے دربارہ انتظام و دے دینے رسد وغیرہ کے ممد و معاون ان کے رہو۔ تاکید جانو‘‘ مرقوم17جون سنہ 1857ء مولوی قادر علی تحصیلدار نگینہ کا موقوف کرنا اس عرصے میں نواب کے پاس بہت سے رشتہ مند اس کے جمع ہو گئے اور اس کو اپنے رشتہ داروں کی پرورش منظور ہوئی اور یہ بھی اس کو خیال تھا کہ یہ معزز عہدہ دار بسبب خیر خواہ ہونے سرکار کے میری مرضی کے موافق کام نہیں کرنے کے اس لیے سترھویں جون سنہ 1857ء کو پہلی بسم اللہ اس نے مولوی قادر علی تحصیلدار نگینہ کو برخاست کیا اور عباد اللہ خاں اپنے رشتہ مند کو جو پیشکار تحصیل کاشی پور ضلع مراد آباد تھا تحصیلدار نگینہ مقرر کیا جب مولوی قادر علی برخاست ہو کر بجنور میں آئے نواب کچھ متوجہ نہ ہوا۔ انہوں نے اس اپنی برخاستگی کو غنیمت سمجھا ان آفتاب سے علیحدہ ہوجانا بہت اچھا جانا اب ہم اس مقام پر پروانہ برخاستگی مولوی قادر علی کو بعینہ نقل کرتے ہیں۔ نقل پروانہ دستخطی نا محمود خاں ’’ رفعت و عوالی مرتبت عزیز القدر مولوی قادر علی تحصیلدار نگینہ بعافیت باشند جو بنظر انتظام حاضر ہونا تمہارا حضور میں ضرور ہے لہٰذا حسب الحکم روبکار امروزہ تم کو لکھا جاتا ہے کہ تم کار مفوضہ اپنا سپرد برادر عزیز القدر گرامی شان محمو دعباد اللہ خاں کے کر کر حاضر حضور ہو اور تم اپنے دل میں کچھ ہراس نہ کرو کہ تم سے حضور میں کار سرکار لیا جاوے‘‘ مرقوم 17جون سنہ1857ء نامحمود خاں کا صدر امین سے مشورہ کرنا اور صدر امین کا اس کی خواہش سے انکار کرنا اسی تاریخ نا محمود خاں نے رات کے وقت مجھ صدر امین کو اپنے پاس بلایا اور نا محمود خاں اور احمد اللہ خاں نے تخلیہ میں مجھ سے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمارے ساتھ شریک ہو جاؤ اور تم ہم سے ہمارے ساتھ شریک ہونے پر حلف کرو اور جو جاگیر چاہو نسلاً بعد نسلاً اب ہم سے ٹھہرا لو اور ہم سے حلف لو کہ ہم ہمیشہ وہ جاگیر بحال رکھیں گے۔ اول تو مجھ کو بڑا ڈر ہوا کہ کیا جواب دوں پھر میں نے اپنے دل کو اسی بات پر مستقیم کیا کہ سچی اور سیدھی بات کہنی ہر وقت اچھی ہوتی ہے میں نے عرض کیا کہ نواب صاحب! میں اس بات پر حلف کر سکتا ہوں کہ میں ہر حال میں تمہارا خیر خواہ رہوں گا اور کسی وقت تمہاری بد خواھی نہ کروں گا الا گر تمہارا ارادہ ملک گیری اور انگریزوں سے لڑنے اور مقابلہ کرنے کا ہے تو میں تمہارے ساتھ شریک نہیں ہوں اور میں نے کہا کہ خدا کی قسم! نواب صاحب میں صرف تمہاری خیر خواھی سے کہتا ہوں کہ تم اس ارادے کو دل سے نکال دو حکام انگریزی کی عملداری کبھی نہیں جائے گی اگر فرض کرو کہ تمام ہندوستان سے انگریز چلے گئے تو بھی حکام انگریزی کے سوا کوئی عملداری ہندوستان میں نہ کر سکے گا اور میں نے کہا کہ تم اطاعت سرکار اپنے ہاتھ سے مت دو۔ اگر بالفرض انگریز جاتے رہے جیسا کہ تمہارا خیال ہے تو تم نواب بنے بنائے ہو تمہاری نوابی کوئی نہیں چھینتا اور اگر میرا خیال سچ نکلا تو تم خیر خواہ سرکار ہو گے اور سرکار کی طرف سے تمہاری ترقی اور بہت قدر ہووے گی اور اگر تم مجھ کو انتظام ملک میں شریک کیا چاہتے ہو تو جناب صاحب کلکٹر بہادر سے اجازت منگا لو اور یہ اقرار کر لو کہ کوئی کام نہیں کرنے کے جب تک پہلے اس کی منظوری جناب صاحب کلکٹر بہادر سے حاصل نہ کر لیں اگر نا محمود خاں میں عقل ہوتی تو سمجھتا کہ یہ سب باتیں اس کی بھلائی کی تھیں مگر چونکہ جبلت اس کی بدی پر تھی وہ ان باتوں سے ناراض ہوا اور چیں بہ جبیں ہو کر مجھ کو رخصت کر دیا اور ہر طرح ہماری دشمنی کے در پے ہو گیا اور جان لیا کہ یہ لوگ رفاقت سرکار انگریزی سے باز نہ آویں گے پھر ہم پر زیادہ تر زیادتی شروع کی میرے خاص رہنے کے مکان کی بجبر مجھ سے چھین لیا اور اپنی فوج کے افسروں کو دے دیا۔ جو اسباب میرا اس میں بند تھا وہ سب فوج والوں نے لے لیا سید تراب علی تحصیلدار کا گھوڑا بہ تعیناتی تیس سپاہیوں کے بجز چھین لیا اور ہر طرح سے در پے ہمارے آزار کے ہو گیا ہم دن رات اس فکر میں تھے کہ کسی طرح نواب کے پنجے سے نکل جاویں مگر ممکن نہ تھا۔ جناب صاحب کلکٹر بہادر بجنور ہی میں تشریف رکھتے تھے کہ علاقہ جنگل کپتان ریڈ صاحب بہادر میں بیلداران متعینہ یکسار نے فساد کرنا چاہا۔ اس لیے مسٹر اسٹمن صاحب کان ڈاکٹر معہ اپنی میم صاحب کے اور مسٹر برٹن صاحب سارجنٹ یکسار سے نجیب آباد میں آ گئے تھے اور خاص محمود خاں کے مکان میں رہتے تھے۔ ان دنوں میں ایک گروہ سواروں کا رڑکی سے آیا اور ان دونوں صاحبوں اور میم صاحب کو بخیریت یہاں سے لے گئے اور رڑ کی میں پہنا دیا۔ خزانہ کا نجیب آباد روانہ ہونا اور خزانچی پر پہرہ کا مقرر کرنا اور چودھری نین سنگھ کا نواب سے مقابلہ پر آنا اسی عرصے میں احمد اللہ خاں نے خزانہ سرکاری جو کنویں میں تھا نکالنا شروعکیا اور کچھ اس میں سے احمد اللہ خاں نجیب آباد لے گیا اور نا محمود خاں نے ہر ایک رئیس سے بھی مخالفت شروع کی جمعیت سنگھ برھمن رئیس بجنور کے گھر پر واسطے تلاشی مسماۃ پنا پاتر کے سوائی سنگھ جاٹ کو معہ جمعیت کثیر چڑھا بھیجا۔ چودھری جودہ سنگھ رئیس بجنور سے جو اسباب مسٹر لمیتر صاحب کا اس کے پاس امانت تھا طلب کیا بانکے رائے خزانچی بجنور نے کچھ اسباب اپنا خفیہ ھلدور روانہ کیا تھا اس سبب سے اور نیز اس باعث سے کہ کسی شخص نے مخبری کی کہ جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر کا ایک بکس محمولہ اشرفی و جواھر خزانچی کے پاس امانت ہے، خزانچی کے مکان پر بہ افسری و تعیناتی رام سروپ جمعدار معہ چند باغی تلنگوں کے جو معرفت رام سروپ ملازم ہوئے تھے اکیسویں جون سنہ 1857ء کو پہرہ متعین کر دیا اور رام سروپ نے طرح طرح کی تکلیں بانکے رائے خزانچی اور ان کے بھائی بہاری لال کو دیں اور کچھ روپیہ بھی رام سروپ نے لیا جب یہ باتیں ہونے لگیں تو چودھری نین سنگھ اور چودھری جودھ سنگھ رئیسان بجنور نے نواب سے ارادہ مقابلہ کیا اور دیہات سے آدمی جمع کئے ہزار ہا آدمی گنوار بجنور میں جمع ہو گئے نواب نے چودھریوں سے مصالحت چاہی، چنانچہ ایک دن رات کے وقت چودھری نین سنگھ چودھری جودہ سنگھ رئیسان بجنور واسطے صلح کے نواب کے پاس کوٹھی پر گئے مگر اس وقت ملاقات نہ ہوئی جب وہاں سے پھرے تو دونوں چودھری تحصیل میں آئے اور مجھ سے اور سید تراب علی تحصیلدار سے یہ بات کہی کہ ہمارا ارادہ ہے کہ لڑ کر نواب کو اٹھا دیں ہم نے جواب دیا کہ ہم اس میں کچھ صلاح نہیں دے سکتے۔ کیونکہ ہم کو معلوم نہیں کہ یہ امر حکام انگریزی کی مرضی کے موافق ہو گا یا نہ ہو گا۔ تمہارا جو دل چاہے سو کرو مگر یہ سمجھ لو کہ تمام اسباب جناب صاحب کلکٹر بہادر اور جناب صاحب جنٹ مجسٹریٹ بہادر کا اور خزانہ سرکاری اور دفتر اب تک موجود ہے اگر اس پر کچھ آفت پہنچی اور لٹ گیا تو بلا شبہ باعث نا رضا بندی حکام انگریزی میں ہو گا۔ منیر خاں جہادی کا بجنور میں آنا چودھریاں بجنور اور نواب سے صلح کا ہونا یہ ہنگامہ ہنوز برپا تھا کہ دفعۃً منیر خاں نامی ساکن کنج پورہ نگینہ سے جہادی بن کر معہ جمعیت چار سو آدمی کے بجنور میں داخل ہوا اور احمد اللہ خاں جو نجیب آباد گیا ہوا تھا اس فساد کی خبر پا کر بجنور میں آیا اور احمد یار خاں عرف کلن خان سپہ سالار اور نادر شاہ خاں رسالہ دار رخصتی رجمنٹ ملتان جو بجنور میں آ گیا تھا درمیان میں پڑے اور آپس میں نواب کے اور چودھری کے صلح ٹھہری احمد اللہ خاں اور دونوں چودھری صاحب تیئسویں جون سنہ 1857ء کو کچہری تحصیل میں آئے اور بہت سی گفتگو کے بعد صلح ٹھہری چودھری صاحبوں نے گنگا جل اٹھایا کہ ہم نواب کے تابعدار اور مطیع رہیں گے اور احمد اللہ خاں نے اسی جلسہ میں کلام اللہ پر مہر کی کہ ہم چودھریوں کے ساتھ برائی نہیں کریں گے اور نا محمود خاں اور عظمت اللہ خاں نے کوٹھی پر سے کلام اللہ پر مہر کر کے بھیج دی اور آپس میں صلح ہو گئی چوبیسویں جون سنہ 1857ء کو بانکے رائے خزانچی سے چار ہزار روپے لینے ٹھہرے اور وہ بکس جناب جارج پامر صاحب بہادر کا بھی جو خزانے میں تھا لیا اور خزانچی کے مکان پر سے پہرہ اٹھ گیا۔ منیر خاں جہادی کا صدر امین اور ڈپٹی کلکٹر اور تحصیلدار ڈپٹی انسپکٹر کو تنگ کرنا منیر خاں جہادی نے بجنور میں بہت غلغلہ مچایا اور مجھ صدر امین اور رحمت خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر اور سید تراب علی تحصیلدار بجنور پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے انگریزوں کی رفاقت کی ہے اور ان کو زندہ بجنور سے جانے دیا ہے اور اب بھی انگریزوں کے ساتھ سازش اور خط و کتاب رکھتے ہیں اس لیے ان کا قتل واجب ہے اور در حقیقت ہماری خفیہ خط و کتابت جناب مسٹر جان کری کرافت ولسن صاحب بہادر سے جاری تھی اور اس میں بھی کچھ شبہ نہیں کہ ہمارے ساتھ فساد کرنے میں نواب کا بھی اشارہ تھا کیونکہ اس میں بڑی حکمت یہ تھی کہ جہادیوں کے ہاتھ سے ہم لوگوں کے مارے جانے میں نواب کی کچھ بدنامی نہ ہوتی تھی اور کام نکلتا تھا اور پنڈت رادھا کشن ڈپٹی انسپکٹر کی نسبت علاوہ اس الزام کے یہ بھی جرم لگایا گیا تھا کہ عیسائی مکتب ہر جگہ بٹھاتا پھرتا تھا غرضیکہ منیر خاں نے ہم پر زیادتی کی یہ جبرو حکومت ہم کو طلب کیا اور کہلا بھیجا کہ اگر حاضر نہ ہو گے تو بہتر نہ ہو گا اور بڑی مشکل یہ ہوئی کہ چند چپراسیان تحصیل ہم سے مخالف اور جہادیوں سے جا ملے تھے۔ اس لیے لاچار میں اور سید تراب علی تحصیلدار اس کے پاس گئے۔منیر خاں نے مجھ سے درباب مسئلہ جہاد گفتگو کی میں نے اس سے کہا کہ شرع کی بموجب جہاد نہیں ہے اور اسی قسم کی گفتگو کے بعد ہم وہاں سے چلے آئے۔ اس کے دوسرے دن منیر خاں مذکور مولوی علیم اللہ رئیس بجنور کے پاس گیا اور در باب مسئلہ جہاد ان سے گفتگو کی تحقیق سنا کہ مولوی علیم اللہ نے بہت دلیری سے اس کے ساتھ گفتگو کی اور بہت دلیلوں سے اس کو قائل کیا کہ مذہب کی رو سے جہاد نہیں ہے مگر اس گفتگو پر بہت دنگہ ہوا اور منیر خاں کے ساتھیوں نے مولوی علیم اللہ کے قتل کو تلوار نکالی مگر لوگوں نے بیچ میں پڑ کر بچا دیا اس کے دوسرے دن منیر خاں مع اپنے ساتھیوں کے بجز ان چند آدمیوں کے جنہوں نے ان گفتگوؤں کے بعد ساتھ چھوڑ دے اتھا دھلی چلا گیا اور وہاں جا کر لڑائی میں مارا گیا۔ خزانہ اور اسباب حکام انگریزی کا نجیب آباد کو روانہ ہونا اور مسودہ عرضی موسومہ بادشاہ کا تحریر ہونا بعد اس کے احمد اللہ خاں نے کچھ روپیہ خزانے سے نکالا اور بہت سے آدمی ملازم رکھے اور بہت سا اسباب جناب صاحب کلکٹر بہادر اور جناب صاحب جنٹ مجسٹریٹ بہادر کا اور ڈاکٹر صاحب بہادر اور انگریزی نویشوں کا روانہ نجیب آباد کر دیا اور ڈاک سرکار جس کی تمام چٹھیوں کو 17 جون سے کھول کر پہلے پڑھ لینا شروع کر دیا تھا اور جس کو چاہتا تھا پھاڑ ڈالتا ہے اور جو کو چاہتا تھا مکتوب الیہ کو دینے کا حکم دیتا تھا، بالکل بند اور مسدود کر دی کہ بائیسویں جون سے روانگی ڈاک بجنور بند ہو گئی اس عرصے میںغلغلہ ہوا کہ خاں بہادر خاں نے فرمان حکومت ملک کٹہر کا بادشاہ دھلی سے حاصل کیا اور کٹہر کا تمام ملک اس کو مل گیا۔ نا محمود خاں کو بڑا تردد ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ ملک کٹہر میں ضلع بجنور بھی شمار میں آ جاوے اور حکومت اس ضلع کی بھی خاں بہادر خاں کو مل جاوے اس لیے ان سب نے آپس میں مل کر تجویز کی کہ ایک عرضی بادشاہ دھلی کوبھیج کر اس ضلع کی سند نا محمود خاں کے نام پر بادشاہ سے حاصل کی جاوے چنانچہ ان سب نے باہم مشورہ کر کے ایک مسودہ عرضی مرتب کیا اور عمدو خاں کے ساتھ اس کا بھیجنا تجویز ہوا۔ احمد اللہ خاں کا دورہ کو اٹھنا اور عمدو خاں کا دھلی کو مع عرضی روانہ ہونا بعد مرتب کرنے اس مسودہ کے احمد اللہ خاں نے دورہ کا ارادہ کیا بڑی غرض اس دورہ سے اپنی حکومت کا بٹھانا اور روپیہ تحصیل کرنا تھا، چنانچہ دسویں جولائی سنہ 1857ء کو اس نے بجنور سے نجیب آباد کو کوچ کیا اور تیرھویں تاریخ کو عمدو خاں عرضی موسومہ بادشاہ دھلی بجنور سے لے کر روانہ دھلی ہوا۔اسی تاریخ احمد اللہ خاں نجیب آباد سے نگینہ آیا اور چودھویں کو دھام پور پہنچا۔ وہاں جانے سے مطلب یہ تھا کہ امام بخش عرف ماڑے بدمعاش شیر کوٹ نے جو روپ چند مہاجن کو لوٹا تھا اور لاکھ ھا روپیہ کا مال لے لیا تھا اس کا تدارک کرے اور جو روپیہ اس نے لوٹا ہے وہ اس سے چھین کر اپنے قبضہ میں لاوے ماڑے نے بھی اپنے پاس سامان لڑائی درست کیا تھا اور آدمی جمع کیے تھے اور شیر کوٹ میں مستعد مقابلہ بیٹھا تھا اس لیے احمد اللہ خاں نے دھام پور میں کئی دن مقام کیا۔ ماڑے کا پچھلا حال ماڑے قوم کا شیخ اور قدیمی بدمعاش آدمی ہے نصف قصبہ شیر کوٹ کا اس کے بڑوں کی زمینداری میں تھا اس سبب سے اس کے بڑے چودھری کہلاتے تھے مگر یہ شخص بہت مفلس اور بدمعاش ہو گیا تھا چودھری پرتاپ سنگھ اس کی ماں کو ڈیڑھ روپیہ مہینہ دیتے تھے ماڑے بدمعاش مارچ سنہ 1855ء میں بہ اجلاس مسٹر چارلس جان و ینگفلڈ صاحب بہادر کے بعلت بدمعاشی بہ میعاد ایک سال قید ہوا تھا۔ وزن انگریزی کی تبدیل اور باٹوں کا چھاپہ بلفظ مہر شاہی ہونا جب کہ نا محمود خاں عرضی موسومہ بادشاہ دھلی بھیج چکا تو اس ضلع میں کچھ کچھ نشان بادشاہی عملداری کے جاری کیے جاویں اور خاص علامات حکومت گورنمنٹ کو مٹایا جاوے اس ارادہ پر اٹھارویں جولائی سنہ 1857ء کو اس نے یہ تجویز کی کہ سیر بوزن اسی روپیہ کے جو بحکم سرکار انگریزی جاری ہوا ہے موقوف ہے اور بجائے اس کے سیر قدیم بوزن سو روپیہ کے اس صورت کا جاری ہو اور اس پر ٹھپہ لگایا جاوے جس میں لکھا ہو مہر شاہی ’’ مہر شاہی‘‘ چنانچہ واسطے تعمیل اس کے احکام عام جاری ہوئے اور تحصیل نجیب آباد و نگینہ میں شاذ و نادر کہیں کہیں یہ سیر تیار بھی ہوئے الا تحصیل بجنور میں زمانہ قیام سید تراب علی تک اس کی تعمیل مطلق نہیں ہوئی تھی مگر بعد اس کے اس تحصیل میں بھی بنے۔ ماڑے سے احمد اللہ خاں کی صفائی اور ملاقات کا ہونا احمد خاں کے دھام پور میں پہنچنے کے بعد سب ہندو اور مسلمان اس کے ساتھ متفق تھے اور چودھریان شیر کوٹ نے بھی ہر طرح سے اطاعت احمد اللہ خاں کی اختیار کی تھی اور بمقام دھام پور آن کر انیسویں جولائی سنہ 1857ء کو احمد اللہ خاں سے بہ طور ملازمت ملاقات کی تھی اور زمینداران شیر کوٹ بھی احمد اللہ خاں کے شریک تھے کیونکہ ہر شخص ماڑے کا فساد رفع ہونا دل سے چاہتا تھا مگر اس وقت تک احمد اللہ خاں سے ماڑے کچھ کمزور نہ تھا اس لیے احمد اللہ خاں نے ماڑے سے صلح کرنی چاہی اور اپنے معتمدوں کو بیچ میں ڈالا بڑی منفعت اس ضلع میں احمد اللہ خاں کو یہ تھی کہ ایک پکا بدمعاش اس کے ہاتھ آتا تھا اور ضلع میں طرح طرح کے فساد برپا کرنے کو ایک بہت اچھا چلتا اوزار ملتا تھا۔ چنانچہ یہ حکمت اس کی چل گئی اور ماڑے صلح پر راضی ہو گیا اور بائیسویں جولائی سنہ 1857ء کو ہاتھی پر بیٹھ کر بعزت تمام دھام پور میں آیا اور احمد اللہ خاں سے ملازمت کی اور چار اشرفیاں اور کچھ روپیہ نذر دیے اور تلوار کھول کر احمد اللہ خاں کے آگے رکھ دی احمد اللہ خاں نے بہت خاطر کی اور وہ تلوار اپنی طرف سے اس کی کمر میں باندھ دی اور اسی دن شیر کوٹ کو رخصت کیا۔ احمد اللہ خاں کا شیر کوٹ میں جانا تیئسویں جولائی کو احمد اللہ خاں شیر کوٹ میں گئے ماڑے نے استقبال کیا اور احمد اللہ خاں کی اور تمام لشکر کی دعوت کی احمد اللہ خاں نے اس کا سو روپیہ مہینہ مقرر کیا اور اہتمام رسد اور انتظام لشکر کشی اس کے سپرد ہوا جو لوگ ماڑے کے ہاتھ سے مظلوم تھے وہ ماڑے کے نصیب کویاور اور اپنے سے زمانہ کو برگشتہ دیکھ کر روئے اور بولے کہ شعر: من زیاراں چشم یاری دا شتیم خود غلط بود انچہ ما پنداشتیم چوبیسویں جولائی کو احمد اللہ خاں چودھری امراؤ سنگھ کے گھر میں گئے چودھری صاحب نے پانچ سو روپیہ ان کے پیش کیے اور ہر طرح تابعداری سے ملے۔ چودھری امراؤ سنگھ سے بسختی باقی کا مطالبہ کرنا احمد اللہ خاں جو بد نیتی اور فساد کا ایک پتلا تھا اور دوسرا ان کا بھی استاد نواب ماڑے خاں بہادر بدمعاش ان کے ساتھ ہوا، فساد ایک درجہ سے گیارہ درجہ ہو گیا اور چودھری امراؤ سنگھ کو جو ضلع میں بہت نامی مال دار اور سب سے زیادہ کمزور مشہور تھے سونے کی چڑیا سمجھ کر بے سبب فساد شروع کیا اور یہ پیغام بھیجا کہ زر مالگذاری جو قریب بارہ ہزار روپیہ کے تھا فی الفور ادا کرو اور نا محمود خاں نے بجنور سے اور شفیع اللہ خاں اور عظمت اللہ خاں نے نجیب آباد سے سپاہ اور رسد وغیرہ سامان جنگ احمد اللہ خاں کے پاس روانہ کرنا شروع کیا اور جو توپ کے نگینہ میں معرفت نتھو خاں بجنور میں آئی تھی وہ بھی مع میگزین روانہ شیر کوٹ ہوئی اور ستائیسویں جولائی کو شیر کوٹ میں پہنچ گئی۔ چودھریاں بجنور وغیرہ کا واسطے صفائی معاملہ شیر کوٹ کے ھلدور و تاجپور کو روانہ ہونا اگرچہ یہ فساد صرف چودھری امراؤ سنگھ شیر کوٹ والا سے تھا، مگر نا محمود خاں اور اس کے صلاح کاروں کو چودھریاں ھلدور کی بڑی دھشت دل پر تھی اور چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاجپور کو بھی ایک جتھہ اور تھوک کا آدمی سمجھتے تھے ان کو یہ خیال ہوا کہ مبادا یہ لوگ چودھری امراؤ سنگھ کی مدد کریں، اس بات کے بند کرنے کو نا محمود خاں نے ستائیسویں جولائی سنہ 1857ء کو نادر شاہ خاں اور حسن رضا خاں اور چودھری نین سنگھ چودھری جودہ سنگھ رئیسان بجنور کو ھلدور اور تاجپور کے چودھری صاحب بیچ میں پڑ کر کرا دیں۔ فرمان بادشاہی کا آنا ان لوگوں کے روانہ ہونے کے بعد اٹھائیسویں جولائی سنہ 1857ء کو عمدو خاں جو نا محمود خاں کی عرضی لے کر بادشاہ کے پاس گیا تھا فرمان بادشاہی نا محمود خاں بجنور میں آیا اور اس کے ساتھ لالہ متھرا داس پدر لالہ بانکے رائے خزانچی بھی دھلی سے بجنور میں آئے اور عمدو خاں نے وہ فرمان نا محمود خاں کو دیا، چنانچہ اس کی نقل اس مقام پر لکھتے ہیں: نقل فرمان بادشاہی مورخہ 28 فروری ذی قعد سنہ 21جلوس مطابق21جولائی 1857ء 53 12 محمد بہادر شاہ بادشاہ غازی ابوظفر سراج الدین سنہ احمد ’’ قدوی خاص لائق العنایت والا حسان امیر الدولہ ضیاء الملک محمد محمود خاں بہادر مظفر جنگ مورد تفضلات بودہ بداند عرضداشت ارادت سمات آن قدوی خاص مشعر ظہور ابتری و بے نظمی در کل برگنات و دیہات آن ضلع از شورش و فساد غازرتگران و مفسدان و تدبیر انتظام آن بہ فراہمی جمعیت سوار و پیادہ بقدر تاب و توان و عرض احوال و رسوخ عقیدت و وثوق ارادت موروثی در بارگاہ خسروی بہ استدعاء بزل توجہات شاھی در خصوص انتظام آن ملک بد ستور سلف بملاحظہ قدسی گذشت و کاشف معروضات کشف فی الواقع آباؤ اجداد آن فدوی ھمہ مورد نوازشات سلاطین پیشین انار اللہ برھانہم بودہ اند و مخصوص آں لایق العنایت والا حسان در رضا جوئی و خدمت گذاری قرہ باصرہ خلافت مرزا شاھرخ بہادر مرحوم دقیقہ فرو گذاشت نکردہ (یعنی سنہ 1844ء میں جب مرزا شاھرخ شکار کو اس ضلع میں آئے تھے) باعث رضا مندی خاطر در یا مقاطر گردیدہ بود نظر براں مستحق رعایت و عنایت است و لیکن درائے خدمات سابقہ اگر فی الحال مصدر حسن خدمتی خواھد گشت مورد مزید الطاف بادشاھی خواھد گردید و درخواست آن فدوی خاص کہ عبارت از اجازت انتظام کلی آن ضلع است برتبہ پذیرائی خواھد رسید پس تاوتیکہ از پیشگاہ قدسی سند مستند شرف اجرا نیابد جملہ محاصل ملکی را بعد وضع مصارف فوج و عملہ تحصیل بطریق امانت تصور باید کرد و بار سال آن در حضور فیض گنجور باید پرداخت و نیز زر خطیر خزانہ کلکٹری و اسباب و اسپانش کہ بعد فرار انگریزاں بہ قبضہ خود در آوردہ ہمہ معہ فرد واصلباتی آن بمعیت متھرا داس و دو سوار ملازم بادشاھی کہ درانجا میر سند زود تر روانہ نماید تا فقد فدویت و ارادت آن فدوی خاص بہ محک امتحان کامل بر آید و ظہور ایں گونہ دولت خواھی و خیر اندیشی وسیلہ ترقی معارج و مراتب گردد فقط زیادہ تفضلات شناسد المرقوم 28 ذیقعدہ سنہ 21معلی‘‘ میں خیال کرتا ہوں کہ متھرا داس کو بادشاہ دھلی کے دربار میں کچھ رسائی یا تعلق نہ تھا کیونکہ وہ مدت سے دھلی کے رئیسوں میں نہیں گنا جاتا تھا ہمیشہ باہر رہتا تھا جب عمدو خاں دھلی گیا اور اس کو معلوم ہوا کہ بادشاہ خزانہ اور مال انگریزوں کا مطالبہ کرتے ہیں کچھ عجب نہیں کہ اس نے متھرا داس کا نام لکھوایا ہو کہ وہ متھر داس کو ہر طرح دبانے کا اور اس پر جبر کرنے کا قابو رکھتا تھا ورنہ خود نواب سے اور متھرا داس سے رنجش تھی اور متھرا داس کو کمال اضطرار تھا کہ اس کے بیٹے نواب کے پنجے میں سے نکلیں، چنانچہ جب متھرا داس بجنور میں آیا تو اس نے مجھ سے اور سید تراب علی سے یہ حال کہا اور اس کا دلی ارادہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہا س تدبیر میں تھا کہ کسی طرح نواب پر دباؤ ڈال کر اپنے بیٹوں کو نکال لے جاوے اور اخیر تک ہماری سمجھ میں کسی طرح کا لگاؤ اس کا نواب سے نہیں پایا گیا۔ احمد اللہ خاں کا امراؤ سنگھ کو زیادہ تنگ کرنا اور لاکھ روپیہ مانگنا اسی تاریخ یعنی اٹھائیسویں جولائی کو یہ لوگ جو بجنور سے واسطے صفائی کے روانہ ہوئے تھے تاج پور پہنچے اور شیر کوٹ میں احمد اللہ خاں نے زیادہ تقاضا ادائے باقی کا کیا یہاں تک کہ اولاً چودھریوں نے کچھ وعدہ کیا، جب نا منظور ہوا تو کچھ نقد دینا قبول کیا۔ جب وہ بھی منظور نہ ہوا تو کل روپیہ یک مشت دینا ٹھہرا، چنانچہ وہ روپیہ گڈھی میں سے ہاتھیوں پر لد کر باہر بھی نکلا مگر اس خیال سے کہ روپیہ بھی جاوے گا اور فساد رفع نہ ہو گا احمد اللہ خاں کے سامنے پیش نہ ہوا کیونکہ احمد اللہ خاں اب لاکھ روپیہ مانگتا تھا۔ یہ بہت اچھا موقع ہے اس بات کے بیان کا کہ نا محمود خاں اور اس کے کار پردازوں کو در حقیقت باقیات مالگذاری کے وصول کرنے کا منصب اور اختیار نہ تھا کیونکہ جو سند کہ جناب صاحب کلکٹر بہادر کی طرف سے اس کو دی گئی تھی اس میں اس قسم کی اجازت مندرج نہ تھی اور کیوں مندرج ہوتی اس لیے کہ اگر نا محمود خاں نیک نیتی سے اور سرکار کی تابعداری اور خیر خواہی اور اطاعت سے انتظام ضلع کا کرتا تو جو روپیہ خزانہ میں نقد اس کے پاس چھوڑا تھا وہ کافی تھا۔ پس اگر در حقیقت چودھری امراؤ سنگھ نے ادائے باقی سے انکار بھی کیا ہوتا تو بھی کچھ بے جا بات نہ تھی، حالانکہ جب چودھری صاحب ادائے باقی پر مستعد تھے اور اس پر بھی احمد اللہ خاں فساد سے باز نہ آیا تو صریح دلیل اس بات پر ہے کہ خود احمد اللہ خاں کی نیت بد تھی اور چودھریوں کا بگاڑنا اس کو منظور خاطر تھا۔ شیر کوٹ کی پہلی لڑائی غرضکہ اسی تاریخ چودھری امراؤ سنگھ نے گھاسا سنگھ اپنے چچا کو صلح کا پیغام دے کر بھیجا احمد اللہ خاں نے اس کو گرفتار کر لیا اور کچھ صورت صفائی کی نہ ہوئی بلکہ فساد زیادہ ہو گیا اور نوبت مقابلہ کی پہنچی چودھری امراؤ سنگھ گڑھی میں مع اپنی سپاہ کے جو قریب چار سو آدمی کے تھے اور اکثر ان میں بندوقچی تھے اور گڑھی میں میگزین اور سامان رسد بھی بہت تھا محصور ہو گئے۔ احمد اللہ خاں نے چودھری شیو راج سنگھ اور لچھمن سنگھ زمینداران شیر کوٹ کی حویلی پر توپ لگا دی اور اس کے ساتھ ماڑے مع ساکنان محلہ کوٹرہ شریک ہوئے اور ان چودھریوں کی حویلی کو لوٹ لیا شیو راج سنھ جو ماموں تھا چودھریان ھلدور کا مع اپنی بیوی اور اپنے بیٹے کی بیوی کے مارا گیا اور فتح چند مکھن لال کو بھی لوٹا اور فتح چند مع کئی آدمیوں کے مارا گیا اور بہت سے گھر جلا دیے اور بہت ہندو اور کچھ عورتیں ماری گئیں جب گڑھی پر حملہ کیا تو گڑھی والوں نے خوب بندوقیں ماریں اور احمد اللہ خاں کے لشکر کا بہت نقصان ہوا چار بجے کے قریب تھوڑی سی بارود میں جو بسنت سنگھ کے قریب تھی آگ جا پڑی اور اس کے اڑنے سے چودھری بسنت سنگھ جل گیا شام کے قریب لڑائی تھم گئی۔ لالہ متھرا داس کا واسطے صفائی کے تاجپور جانا ہم نے بجنور میں یہ بات سنی تھی کہ بندوق کے توڑے کا پھول اتفاقیہ بارود میں جا پڑا تھا اور شاید یہی بات سچ ہو مگر چودھری امراؤ سنگھ نے میرٹھ میں ہم سے بیان کیا کہ نبی بخش ان کے نوکر نے قصداً آگ ڈال دی اگر یہ بات یوں ہی ہوتی تو شاید وہ بڑے ذخیرہ میں بارود کے آگ ڈالتا بہر حال رات کے وقت اکثر ملازمان چودھری امراؤ سنگھ جو کوٹرہ کے رہنے والے تھے ماڑے سے سازش کر کے بھاگ گئے اور ایک تزلزل عظیم گڑھی میں پڑ گیا یہ خبر انتیسویں تاریخ بجنور میں پہنچی اور نا محمود خاں نے یہ تجویز کی کہ لالہ متھرا داس بھی واسطے صفائی کے روانہ تاجپور ہوں چنانچہ اسی تاریخ رات کو لالہ متھرا داس بجنور سے روانہ تاجپور ہوئے۔ چودھری امراؤ سنگھ کا گڑھی میں سے بھاگنا اور بسنت سنگھ کا گرفتار ہونا یہ دانائی نا محمود خاں کی بڑی قابل تعریف کے ہے کہ صفائی کیلئے کن لوگوں کو بھیجا ہے جو کمال و دوستدار نا محمود خاں کے تھے کیونکہ چودھری نین سنگھ اور جودھ سنگھ وہی دونوں آدمی ہیں کہ ابھی نا محمود خاں سے لڑنے کو مستعد تھے اور ہزاروں پھپھولے ان کے دل میں پڑے ہوئے تھے اور متھرا داس وہ شخص ہے جس کے بیٹوں پر ابھی نواب نے پہرے بٹھائے تھے اور طرح طرح کی تکفین ون کا دی تھیں۔ غرض کہ متھرا داس تاجپور میں پہنچنے نہ پایا تھا کہ اسی تاریخ یعنی انتیسویں جولائی سنہ 1857ء کو چودھری امراؤ سنگھ گڑھی میں سے نکل بھاگے اور تاجپور پہنچے عورتیں بھی اسی ہنگامی میں نکل کر گاؤں میں جا چھپیں مگر چودھری بسنت سنگھ میں چلنے کی طاقت نہ تھی وہ محلہ کوٹرہ میں کسی مخفی جگہ تھا احمد اللہ خاں کے ہاتھ آ گیا اور گڑھی میں احمد اللہ خاں داخل ہوا ار شلک فتح اور نقارہ مبارکباد ہونے لگے مشہور ہے کہ جب احمد اللہ خاں گڑھی میں داخل ہوا تو مندر جو گڑھی کے پاس تھا اس کو بھی کچھ نقصان پہنچا۔ جب احمد اللہ خاں کو خبر ہوئی تو اس نے بنظر مصلحت کہ مبادا تازہ فساد برپا ہو اس پر پہرہ متعین کر دیا کہ مندر کو کوئی نہ توڑے۔ اس فتح کے بعد احمد اللہ خاں اور نواب ماڑے خاں بہادر کا غرور بہت بڑھ گیا۔ تیسویں تاریخ کو یہ خبر بجنور میں پہنچی اور نا محمود خاں نے بھی بہت خوشی کی اور اسی تاریخ یعنی تیسویں کو لالہ متھرا داس تاجپور میں پہنچے۔ اس گڑھی میں جس قدر میگزین اور ہتھیار اور سامان رسد جمع تھا وہ سب احمد اللہ خاں کے ہاتھ آیا اور قیاس چاہتا ہے کہ نقد روپیہ اور زیور جو چودھری امراؤ سنگھ کا اور اور لوگوں کا وہاں تھا وہ بھی سب احمد اللہ خاں کے ہاتھ آیا ہو کیونکہ کئی دن تک بے مزاحمت دیگرے احمد اللہ خاں کا دخل گڑھی میں رہا اور احمد اللہ خاں نے کچھ نقد و جنس ہاتھیوں پر لدوا کر نجیب آباد بھی بھیجا اور یہی بات ہم سے چودھری امراؤ سنگھ نے بھی بیان کی مگر بعضے معتمد لوگ بیان کرتے ہیں کہ اوپر کا اسباب اور جو نقد و جنس اوپر تھا وہ احمد اللہ خاں کے ہاتھ لگا مگر پرانا خزانہ جو بہت مخفی اور گڑھی سے برجوں اور مکانوں میں دبا ہوا تھا وہ بچ رہا حق یہ ہے کہ اس بات کی سچی حقیقت سوائے چودھری امراؤ سنگھ کے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ جملہ چودھریوں کا احمد اللہ خاں سے مقابلہ کو مستعد ہونا جب یہ سخت حادثہ ضلع کے ایک بڑے رئیس پر گذرا تو اور رئیسوں کو بھی بڑا فکر اور تردد ہوا اور پہلے سے آپس میں گفتگو ہو ہی رہی تھی سب آپس میں متفق ہوئے اور احمد اللہ خاں سے گڑھی کے چھین لینے کا ارادہ کیا اور دھام اور لام بندی کی جگہ قرار پائی، چنانچہ اکتیسویں جولائی سنہ 1857ء کو چودھری رندھبیر سنگھ اور چودھری بدھ سنگھ رئیسان ھلدور مع دو ضرب توپ اور چودھری پرتاپ سنگھ مع ایک ضرب جزائل اور چودھریان کانٹ مع ایک ضرب توپ دھام پور میں جمع ہوئے اور دیہہ بدیہہ گنواری بگل یعنی ڈھولی واسطے جمع ہونے اور لام باندھنے کے بجنے لگا اور بعوض گھاسا سنگھ کے اور بسنت سنگھ چودھری صاحبوں نے نادر شاہ خاں اور حسن رضا خاں اور ثابت علی خاں کو جو رشتہ مند نا محمود خاں اور پیشکار دھام پور تھا پکڑ لیا اور دو سوار نواب کے جو ان کے ساتھ گئے تھے ان کو مار ڈالا۔ جب یہ لام بندی ہوئی تو نواب پر زمانہ تنگ ہوا اور جس طرف نواب کے ملازم جاتے تھے پکڑے جاتے تھے اور مارے جاتے تھے، چنانچہ چند سپاہی موضع نانگل میں مارے گئے اور جو خطوط احمد اللہ خاں کے پاس روانہ ہوتے تھے اکثر ان میں سے پکڑے جاتے تھے ایک خط نا محمود خاں کا جس پر بلا شبہ دستخط نا محمود خاں کے تھے اور بجنور سے روانہ ہوا تھا اور دوسرا خط عظمت اللہ خاں کا جو بلا شبہ اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا میں نے چودھری امراؤ سنگھ کے پاس دیکھے ان میں سے وہ فقرہ جو اس لڑائی سے متعلق ہے بجنسہ لکھتا ہوں انتخاب خط محمود خاں جو پکڑا گیا انتخاب خط دستخطی محمود خاں مورخہ اکتیسویں جولائی سنہ 1857ء وقت دوپہر ’’ گھاسا سنگھ اور بسنت سنگھ اور اگر امراؤ سنگھ حاضر آیا ہو اسے بھی ہمراہ اپنے حضور میں لوائے لاؤ وہاں چھوڑنا ان کا کچھ ضرور نہیں ہے اور اگر تم نے قصور بھی ان کا معاف کیا ہو تو بھی اپنے ہمراہ لے آؤ کس واسطے کہ ھنوز فساد رفع نہیں ہوا۔‘‘ ’’ قریب پچاس آدمی کے ان برخودار نے جو اپنے ھمراہی سے رخصت کر کے بجنور کو بھیجے تھے ان کو باشندگان موضع نانگل نے کہ متصل ھلدور کے واقع ہے روک کر ان میں سے پانچ چھ آدمی جان سے مار دیے اور آٹھ آدمی مجروح کر دیے اس لیے تدارک ان مفسدوں کا ضرور ہے۔‘‘ ’’ اطلاع اس کی بھی تم کو کرنی ضرور تھی لازم ہے کہ جس قدر روپیہ بارود اور ہتھیار شیر کوٹ سے تمہارے ہاتھ آئی ہے وہ سب اپنے ہمراہ لدائے لاؤ چھوڑنا ان اشیاء کا کسی صورت میں مناسب نہیں، کس واسطے اب فقط بسبب تکرار شیر کوٹ کے یہ جا بجا فساد ہوا ہے گھاسا سنگھ وغیرہ کو چھوڑنا کسی حالت میں مناسب نہیں۔‘‘ ’’ مکرر آنکہ میری صلاح یہ ہے کہ میں اب بدون تصفیہ اس فساد کے ہر گز باز نہ رہوں گا بلکہ مناسب ہے گڑھی بھی شیر کوٹ کی بالکل مسمار و منہدم کرا دو کہ آئندہ انہیں حوصلہ لڑائی کا نہیں رہے اور جس جگہ پر خدا فتح دیوے مسمار کرنا مکانات ان کے کا پر ضرور ہے۔‘‘ انتخاب خط عظمت اللہ خاں جو پکڑا گیا منتخب اس خط کا جو عظمت اللہ خاں کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے بلا تاریخ ’’ آئندگان شیر کوٹ کی زبانی معلوم ہوا کہ ان نور الابصار نے گھاسا سنگھ کے واسطے امراؤ سنگھ کے بھیجا ہے سو حال یہ ہے کہ جو گڑھی لڑتی ہے اور فتح ہوتی ہے اور آدمی مارے جاتے ہیں تو اس گڑھی کا اسباب بالکل ضبط ہوتا ہے اور یہ بھی سلف سے مشہور ہے کہ زن زمین پر آدمی سر دیتا ہے اور جل شانہ نے تجھ کو گڑھی اور اسباب مع روپیہ کے دیا ہے تو اب تجھ کو چاہیے کہ پھر قلم جاری کر اور کچھ اندیشہ ان مفسدوں کا مت کر، اب جل شانہ واسطے تیرے بہتر کرے گا۔‘‘ ’’ اب مجھ کو یقین ہے کہ آدمی تیرے پاس قریب دو اڑھائی ہزار کے ہوں گے تو اس صورت میں نظر بخدا رکھو اور اطراف میں خطوط لکھ کر آدمی جمع کرو اور دو سو سپاہی بھیجے ہیں، پہنچے ہوں گے یا نگینہ میں ہوں گے اور آج اور بھیجوں گا۔‘‘ ہندو اور مسلمانوں میں عداوت قدیم ہونے کی وجہ اس لڑائی سے پہلے ضلع میں درمیان ہندو اور مسلمان کے کچھ تنازع یا عداوت یا مذہبی تکرار نہ تھی بلکہ چودھری صاحبوں کے ہاں اکثر مسلمان لوگ نوکر تھے اسی طرح نواب کے ہاں سپاہ وغیرہ میں ہندو ملازم تھے لیکن اس لڑائی میں ہندو مسلمان میں عداوت ہو جانی ایک ضروری ہونے والی بات تھی کیونکہ ایک طرف جملہ سردار ہندو تھے اور ایک طرف جملہ سردار مسلمان تھے اور ضروری بات یہ تھی کہ ہندو سرداروں نے جس قدر اپنی کمک جمع کی وہ سب ہندو تھے اور نواب نے جو کمک جمع کی وہ سب مسلمان تھے پس ہندو اور مسلمان میں تکرار کا قائم ہونا ضرور ہوا علاوہ اس کے دم بدم ایسی باتیں ہوتی گئیں جن سے مذہبی عداوت کا ہونا بڑھتا گیا مثلاً شیر کوٹ کے مندر میں مسلمانوں کے ہاتھ سے نقصان پہنچنا یا چھتاور اور سوا ھیڑی کی مسجدوں میں ہندوؤں کے ہاتھ سے نقصان پہنچنا یا ہندوؤں کے ہاتھ سے بالتخصیص مسلمانوں کا اور مسلمانوں کے ہاتھ سے بالتخصیص ہندوؤں کا مارا جانا، چنانچہ یہ سب حالات آگے آویں گے، پھر اس عداوت نے ایسی ترقی پکڑی کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے جہان ان کا قابو ملا ہندوؤں کا بچنا اور ہندوؤں کے ہاتھ سے جہاں ان کا قابو ملا مسلمانوں کا بچنا ممکن نہ تھا اور یہ عداوت ایسی ہو گئی تھی کہ ہندوؤں کی نسبت جو باتیں مسلمان کہتے تھے یا مسلمانوں کی نسبت جو باتیں ہندو کہتے تھے قابل اعتبار کے نہ تھیں اور ضلع کا اصلی حال دریافت کرنا جو عداوت سے خالی ہونا نہایت مشکل تھا اور میں کہہ سکتا ہوں کہ ھلدور کی پہلی لڑائی تک چودھری بدھ سنگھ کی نیت بہت اچھی معلوم ہوتی تھی اور وہ دل سے ضلع میں امن چاہتے تھے بلکہ جب ہم ھلدور ہی میں تھے کہ بہت سے ہندور ھلدور کی مسجد کو توڑنے چڑھ گئے تھے چودھری بدھ سنگھ خود وہاں گیا اور اس فساد کو رفع کیا اور آگے جو حال ہم بیان کریں گے اس سے بھی نیک نیتی چودھری بدھ سنگھ کی اس زمانہ تک ظاہر ہوتی جائے گی۔ میر صادق علی اور رستم علی رئیسان چاند پور کے پاس بادشاہی فرمان کاآنا دھام پور میں اور شیر کوٹ میں تو یہ معاملہ ہو رہا تھا جو ہم بیان کر رہے ہیں اور چاند پور میں میر رستم علی اور صادق علی رئیسان چاند پور کی بے وقوفی نے گل کھلایا یعنی جو عرضی انہوں نے بادشاہ دھلی کے پاس روانہ کی تھی اس کے جواب میں فرمان شاھی پہلی اگست 1857ء کو چاند پور میں پہنچا اور انہوں نے بہت خوشی کی، چنانچہ اس فرمان کی نقل اس مقام پر لکھتے ہیں نقل فرمان نقل فرمان بادشاھی مورخہ پنجم ذی الحجہ سنہ 21جلوسی مطابق ستائیسویں جولائی 1857ء سیادت پناہ نجابت دستگاہ سید رستم علی و سید صادق علی مورد تفضلات بودہ بدانند ’’ عرضی آن فدویان مشعر بر حال خزلان و تباھی و بربادی دیہات و قریات قصبہ چاند پور از تعدی و ظلم و غارتگری و استدعائے اعانت و امداد سرکار دولت مدار و اجازت نو ملازم داشتن سپاہ سوار و پیادہ بنا بر اجرائے تحصیل و مجرا یافتن تنخواہ آنہا از آمدنی علاقد مذکور و ارسال زر باقیات معہ کاغذ جمع خرچ در حضور پر نور بملاحظہ قدسی گذشت کاشف معروضات گشت چون انسداد فتنہ و فساد بنا بر آسائش رعایا و برایا منظور خاطر است لہٰذا حکم محکم شرف اصدارمے یابد کہ آن فدیان چند سوار و پیادہ بقدر ضرورت ملازم داشتہ نمبر داران و قانو نگویان و پٹواریان و دیگر عزت مندان و ساکنان آنجا را با خود متفق ساختہ دقیقہ در مراتب بندو بست فرو گذاشت نشازندو آنچنان انتظام نمایند کہ احدے زبردست قوی پنجہ بر ہیچ کس زبردست و غریب نوعے تشدد و تعدی نمودن نتواند و سرچشمہ تحصیل جاری گردد و زر واجب الطلب بسہولت وصول گردد و کشتکار زراعات افزونی پزیرد بعد ایصال زر فصلی مرقومہ مصارف تنخواہ ملازمان و سپاہ و عملہ تحصیل و ضع کردہ زر باقیات مع کاغذ جمع و خرچ بحضور فیض گنجور رسانندھر آئینہ ظہور این معنی موجب اثبات حسن خدمت آن فدیانست بزل توجہ خسروی نسبت بحال آن فدیان خواھد رسید زیادہ تفضلات شناسند‘‘ مرقومہ پنجم ذی الحجہ سنہ21جلوسی رستم علی اور صادق علی کا پچھلا حال رستم علی اور صادق علی دونوں حقیقی بھائی ہیں اگرچہ صادق علی کو بھی ذی عقل کہنا نہایت دانانی ہے لیکن رستم علی سچ مچ کا بھولا آدمی ہے اس کو اس قسم کے معاملات میں بلکہ امورات خانگی سے بھی کچھ سروکار نہیں رہتا جو کچھ کرتا ہے صادق علی کرتا ہے یہ لوگ سادات بارہ سے ہیں اور اولاد میں ہیں سید محمود کی جس کو اکبر کے عہد میں بادشاہی دربار میں منصب ملا تھا اس کے بعد شجاعت خاں کو شاہجہاں نے تخت پر بیٹھنے سے پہلے اپنا بہت بڑا رفیق اور امیر بنایا تھا اور اس کے نام پر اس نے جہاں آباد بسایا تھا جو اب تک گنگا کے کنارہ پر موجود ہے اور اس کی قبر بھی وہیں ہے جب کہ شاہجہان اور اس کے باپ جہانگیر میں لڑائی ہوئی تو شجاعت خاں جہانگیر سے آ ملا اس لیے شاہجہان کے زمانہ بادشاہت میں ان کی قدر کم ہو گئی اور اس نے اور اس کی اولاد نے زمینداری اور تعلقہ داری اس ضلع میں پیدا کر کے جہان آباد میں اور پھر چاند پور میں سکونت اختیار کی کہ اب بھی چند دیہات زمینداری کے ان کے پاس ہیں اور رئیس کہلاتے ہیں۔ ان لڑائی میں رستم علی صادق علی نواب کے شریک نہیں ہوئے کیونکہ بسبب جدا آ جانے فرمان بادشاہی کے شاید نواب کے بر خلاف ڈیڑھ اینٹ کی مسجد جدا بنانی چاہتے ہوں، مگر چودھریوں کے بھی شریک نہیں ہوتے اور علیحدہ اپنی جگہ بیٹھے رہے اور چودھری صاحب بدستور دھام پور میں اپنے کام میں مصروف رہے۔ دھام پور اور شیر کوٹ میں لام بندی کی کیفیت غرضکہ جب چودھری صاحبوں کا لام دھام پور میں جمع ہوا تو احمد اللہ خاں نے بھی آدمی اور جمع کیے اور دوسری توپ جو نجیب آباد میں تیار ہوئی تھی وہ بھی آ گئی ہندو بیان کرتے ہیں کہ احمد اللہ خاں نے مسلمانوں کے جمع کرنے کو محمدی جھنڈا کھڑا کیا کچھ عجب نہیں جو انہوں نے ایسا کیا ہو مگر ہم اس کو معتبر نہیں سمجھتے، البتہ اس میں کچھ شک نہیں کہ جس طرح ہندو جمع ہوئے تھے اسی طرح احمد اللہ خاں نے بھی آدمی بھیج کر اور خط لکھ کر آدمی جمع کیے، چنانچہ یہ بات عظمت اللہ خاں کے خط سے بھی جو ابھی ہم نے اس کی نقل لکھی ہے، ثابت ہوتی ہے۔ جو غول ہندو خواہ مسلمان کے آن کر جمع ہوتے تھے ہر ایک غول کے ساتھ نشان اور باجا ہوتا تھا چودھری صاحبوں کی طرف قریب پچیس ہزار آدمی کے جمع ہو گیا تھا اور احمد اللہ خاں کی طرف جمعیت اس سے بہت کم تھی۔ عظمت اللہ خاں کے خط میں اس کی تعداد دو ڈھائی ہزار لکھی ہے شاید لڑائی کے وقت تک کچھ زیادہ ہو گئی ہو اس ہجوم کو دیکھ کر احمد اللہ خاں گھبرایا اور چودھری صاحبوں نے نادر شاہ خان اور حسن رضا خاں کو احمد اللہ خاں کے پاس بھیجا اور خط لکھا کہ اگر تم گھاسا سنگھ اور بسنت سنگھ کو چھوڑ دو اور جو مال اسباب گڑھی میں سے لیا ہے پھیر دو اور یہاں سے چلے جاؤ تو ہم کو تم سے کچھ پرخاش نہیں اور احمد اللہ خاں نے بھی صلح کا پیغام کیا اور گھاسا سنگھ کو بھیج دیا اور نادر شاہ خاں نے جو خط وہاں پہنچ کر لکھا چودھری پرتاپ سنگھ کے پاس موجود ہے وہ یہ ہے۔ نقل خط نادر شاہ خاں جو صلح کی باب میں گھاسا سنگھ کے ہاتھ بھیجا گیا تھا نقل خط نادر شاہ خاں موسومہ چودھری پرتاپ سنگھ بلا تاریخ ’’ چودھری صاحب مشفق مہربان کر مفرمائے مخلصان سلمہ اللہ تعالیٰ! بعد اشتیاق ملاقات کے ظاہر ہو جیو کہ خط آپ کا آیا حال معلوم ہوا حسب وعدہ اپنے کے مسمی گھاسا سنگھ کو روانہ خدمت کیا اور خاطر داری ہندوؤں کی از حد کی گئی اور تسلی تشفی بسنت سنگھ کی بدرجہ غایت کی اور کرائی اور جملہ مال و اسباب اس کا حوالہ اس کے کر دیا بلکہ جو کچھ نقصان اس کا وقوع اس معاملہ میں ہوا تھا اس کی عوض میں دو گاؤں جاگیر کے عنایت کیے اب ہمارے وعدہ کے وفا میں صرف ایک چلا جانا محمد احمد اللہ خاں کا نجیب آباد کو باقی ہے وہ اب اس طور سے منحصر ہوا ہے کہ تم سب صاحب اپنے اپنے مکان کو چلے جاؤ اور رستہ خالی ہو جاوے تو یہ بھی چلے جاویں گے اور مجھ کو معلوم ہے کہ اس طرف بھی آدمی بہت اکٹھے ہو گئے ہیں اور اس طرف بھی اطراف سے جماعت کثیر جمع ہو گئی ہے اور ہوتی جاتی ہے اس صورت میں اگر فساد ہوا تو ہزار ہا مخلوق کا خون ہووے گا اب کہ خدا نے تمہارے آنے کی شرم رکھ لی ہے اور صورت صفائی میں بھی کچھ نقص واقع نہیں ہے تم کو چاہیے کہ شکرانہ کر کے اپنے مکان کو چلے جاؤ اور اس قدر تو میرے قول کی تصدیق ہو گی باقی پر وقت پہنچنے بجنور کے کہ تم سے اور اور وعدہ ہیں وفا کیے جاویں گے اور بلکہ زیادہ اسے کہ تمہارے بزرگوں کے واسطے اس خاندان سے رعایت ہوئی تھیں رعایت کرائی جاویں گے بلکہ بعد ہو جانے صفائی کے جو جو مہم اہم ہوں گی وہ تمہارے ہاتھ سے لے جاویں گے جیسے کہ تم سے راستہ میں تذکرہ تھا آئندہ تم کو ہر طرح کا اختیار ہے بسبب ان عنایات کے جو تم نے میرے حال پر کریں ہیں یہ خط خفیہ نواب صاحب سے لکھا ہے اور جو بات کہ اس میں لکھی ہے ان کے تذکرہ کا نیچہ ہے نادر شاہ‘‘ نادر شاہ کا حال نادر شاہ خاں رہنے والا رام پور یا مراد آباد کا تھا احمد اللہ خاں اس سے کچھ اپنی دور کی رشتہ داری بھی بیان کرتے تھے اور مدت سے سرکاری رجمنٹ میں رسالدار اور کار آزمودہ اور نہایت متفنی اور رجمنٹ ملتان سے رخصتی ہو کر روانہ ہوا تھا کہ اس غدر میں بعد تشریف لے جانے جناب صاحب کلکٹر بہادر کے بجنور میں پہنچا اور نواب نے اپنا نوکر کر لیا بعد شکست پانے احمد اللہ خاں کے شیر کوٹ سے بھاگ گیا پھر کسی نے اس کی صورت نہیں دیکھی۔ چودھری بسنت سنگھ کا چھوٹنا شیر کوٹ کی دوسری لڑائی اور احمد اللہ خاں کی شکست بعداس کے چودھری صاحبوں نے ثابت علی خاں کو جو چودھری صاحبوں کی قید میں تھا واسطے صلح اور چھڑا لانے چودھری بسنت سنگھ کے بھیجا اور چودھری بسنت سنگھ پالکی میں پڑ کر چودھری صاحبوں کے لشکر میں آیا بہ مجرد پہنچنے بسنت سنگھ کے یعنی پانچویں اگست سنہ1857ء کو لڑائی شروع ہوئی احمد اللہ خاں اسی گڑھی میں جس میں چند روز پہلے اس نے بے گناہ اپنے دشمن کو گھیرا تھا محصور ہوا اور کچھ سپاہ اس کی باہر گڑھی کے رہی اور میدان کار زار گرم ہوا شیر کوٹ کے گھر لٹنے اور جلنے شروع ہوئے اور کوٹرہ کا محلہ بالکل برباد ہوا اور بہت سے مسلمان اور کچھ عورتیں بھی ماری گئیں احمد اللہ خاں کی ایک توپ پھٹ گئی اور دوسری پھڑ پہیہ سے اتر پڑی اس پر بھی اس کے سواروں نے جو سرکاری تعلیم یافتہ تھے بہت دلاوری کی اور چودھری صاحب بھی خوب لڑے آخر سپاہ احمد اللہ خاں مغلوب ہوئی اور بھاگ نکلی اور میدان چودھری صاحبوں کے ہاتھ رہا اس دن لڑائی تھم گئی اور احمد اللہ خاں گڑھی میں گھرا رہا۔ رات کے وقت احمد اللہ خاں مع چند آدمیوں کے جو اس کے پاس تھے اور اپنی ٹوٹی توپوں کو ہاتھی پر رکھ کر براہ نگینہ نجیب آباد بھاگ گیا اور چودھری صاحبوں کی فتح ہوئی اور گڑھی ان کے ہاتھ آ گئی۔ مہاراج سنگھ کا بجنور پر چڑھائی کرنا اسی تاریخ یعنی پانچویں اگست سنہ 1857ء کو چودھری مہاراج سنگھ ھلدور والہ نے جو ھلدور میں موجود تھا بشرکت چودھری نین سنگھ اور چودھری جودھ سنگھ رئیسان بجنور کے جو دھام پور سے براہ ھلدور جہالر میں آ گئے تھے بجنور میں نا محمود خاں پر چڑھائی کا ارادہ کیا اور رات کو ھلدور سے روانہ ہوئے اور مع ایک ضرب توپ اور کئی جزائیل اور تخمیناً چار ہزار آدمی کی جمعیت سے چھٹی اگست سنہ 1857ء کو دفعۃً ساڑھے پانچ بجے بجنور کے قریب آ گئے کہ ان کے ڈھول اور تاشہ کی آواز بجنور میں آنے لگی اور اونچے مکانوں پر سے ان کے لشکر کے نشان دکھائی دیتے تھے، اس وقت نا محمود خاں کے ہاں ناچ ہو رہا تھا وہ خواب غفلت سے چونکا اور ہر شخص سے پوچھتا تھا کہ یہ کیا ہے اور کون ہے اور کیوں آتے ہیں افسوس اگر میں ان کے پاس ہوتا تو کہتا کہ حضور اب معلوم ہو جاتا ہے۔ بجنور کی لڑائی اور نا محمود خاں کی شکست اسی وقت نواب کے ہاں سپاہ کی کمر بندی ہو گئی اور سعد اللہ خاں منصف امروعہ جو نواب سے ملنے آیا ہوا تھا ہاتھی پر سوار ہو کر اور کچھ سوار اپنے ساتھ لے کر دیکھنے گیا اور اس نے اپنی آنکھ سے چودھریوں کو دیکھ کر نا محمود خاں سے آن کر کہا کہ چودھری چڑھ آئے نا محمود خاں کا رنگ زرد ہو گیا اور ہوش جاتے رہے اتنے میں چودھری نین سنگھ اور چودھری جودھ سنگھ گھوڑوں پر سوار بجنور کے بازار میں آئے میں اور سید تراب علی اس وقت تحصیل کے دروازے پر کھڑے تھے میں نے چودھری جودھ سنگھ سے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے اس نے بآواز بلند یہ بات کہی کہ نواب نے اپنے ہاتھوں نوابی پر خاک ڈال دی اب تھوڑی دیر میں دیکھنا کیا ہوتا ہے اور اسی وقت چودھری نین سنگھ اور چودھری جودھ سنگھ نے شہر کی ناکہ بندی کر لی اور آدمی متعین کر دیے کہ کوئی شخص شہر میں نہ آنے پاوے اور شہر کو نہ لوٹے در حقیقت یہ بندوبست ایسی ہوشیاری سے کیا گیا تھا کہ اس دن شہر کا بچانا صرف ان دونوں چودھریوں کا کام تھا شہر کے مسلمانوں نے بھی اس دن کوئی بات اعانت اور مدد نواب کی بر خلاف چودھریوں کے نہیں کی جب کہ یہ معاملہ پیش آیا تو نواب بھی لاچار جبراً و قہراً ہاتھی پر چڑھ کر اور جو سپاہ اس وقت قریب چار سو آدمی اور تیس چالیس سوار کے موجود تھی ان کو لے کر میدان میں آیا بخارے کے باغوں پر دونوں کا مقابلہ ہوا اول ایک باڑ بندوق کی طرفین سے چلی چار آدمی چودھریوں کی طرف سے زخمی ہوئے اور ایک مارا گیا نواب کی طرف کا کوئی آدمی میں نے زخمی نہیں دیکھا اور نہ کسی کی لاش دیکھی لوگ کہتے ہیں کہ ادھر کے آدمی بھی مارے گئے اور زخمی ہوئے اتنے میں نواب کی طرف سواروں نے متفرق ہو کر توپوں پر حملہ کرنا چاہا تھا کہ دفعتہ ایک فیر توپ کا اور ایک ایک فیر جزائلوں کا چودھریوں کی طرف سے سر ہوا نواب نے توپ کی آواز سنتے ہی ہاتھی پھیر دیا اور کوٹھی پر آن کر اپنے چھوٹے بیٹے کو ہاتھی پر بٹھا بھاگ نکلا بڑا بیٹا اس کا غضنفر علی خان ننگے پاؤں گھوڑے پر بیٹھ بھاگ گیا۔ سپاہ تمام اس کی اور سوار تتر بتر ہو گئے اور شکست فاحش نواب کو نصیب ہوئی نا محمود خاں اور سعد اللہ خان مع بہت قلیل جماعت کے براہ منڈ اور نجیب آباد پہنچا اور تھوڑی دیرپہلے اس سے احمد اللہ خان جو شیر کوٹ سے بھاگا تھا نجیب آباد پہنچ چکا تھا سب بھاگے ہوئے نجیب آباد میں جمع ہو کر اور آپس میں گلے لگ لگ کر خوب روئے۔ کوٹھیوں اور سرکاری دفتر کاجلنا اور خزانہ کا لٹنا اس فتح کے ہوتے ہی تینوں چودھری صاحب اس کوٹھی پر جس میں جناب صاحب کلکٹر بہادر رہتے تھے اور اب نا محمود خاں اس میں رہتا تھا جا بیٹھے اور گنواروں نے جن کا قابو میں رکھنا نا ممکن تھا اور در حقیقت لوٹ کی توقع پر جمع ہوئے تھے یورش کی اور جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر کے بنگلہ میں سواروں کے لیے جو نا محمود خاں نے پھونس کی بارکیں بنائی تھیں ان میں آگ لگا دی اور لوٹنا شروع کیا۔ جس قدر اسباب ڈاکٹر منیٹ صاحب بہادر اور لمیتر صاحب کا کہ نجیب آباد کے جانے سے باقی رہ گیا تھا اور اس ملک کی پیدائش عیسائیوں کا اسباب جو چھکڑوں پر واسطے جانے نجیب آباد کے لدا کھڑا تھا اور جو اسباب نا محمود خاں کا اور جملہ کتابیں اور باجا اور متفرق اسباب جناب صاحب کلکٹر بہادر کا جو کوٹھی میں تھا اور جس قدر افیم اور کاغذ اسٹامپ اور اور ٹکٹ ڈاک جو کچھ کہ خزانہ میں باقی تھا اور تمام اسباب جیل خانہ اور شفاخانہ کا اور جس قدر روپیہ کوٹھی میں تھا جس کی تعداد لوگ سترہ ہزار بیان کرتے ہیں اور غالب ہے اس قدر یا اس کے قریب ہو سب لٹ گیا مگر مسٹر نمیتر صاحب کی کوٹھی جو اسباب سے خالی ہو گئی تھی چودھری جودھ سنگھ کی تدبیر سے جلنے اور خراب ہونے سے بچ گئی مشہور ہے کہ گنواروں سے وعدہ ہو گیا تھا کہ شہر کو اور لمیتر صاحب کی کوٹھی کو نہ لوٹیں مگر دفتر سرکاری مال و اسباب سرکار کی اس وقت تک کسی کو قدر نہ تھی۔ پھر ان ہی بے قابو گنواروں نے کچہری کی کوٹھی پر حملہ کیا اور انگریزی دفتر کی کتابیں اور سرویری نقشہ جات کی کتابیں اور جو اسباب لوٹنے کے قابل تھا لوٹ لیا اور کلکٹری اور فوجداری کے دفتر میں چھپر ڈال کر آگ لگا دی اور متفرق بستہ جو اور کمروں میں تھے نکال نکال کر اسی جلتی آگ میں ڈال دیے۔ چند کمرے کچہری کی کوٹھی کے جل کر گر پڑے اور ایسا آراستہ دفتر فوجداری اور کلکٹری اور صدر امینی اور رجسٹری دستاویزات کا جو ابھی نتھی الف اور بے سے مرتب ہو چکا تھا خاک ہو گیا۔ چودھریوں کے نام سے بجنور میں منادی ہونا اور اس کی عجائبات اسی ہنگامہ میں پکے باغ کا محلہ جو آبادی بجنور سے علیحدہ اور جیل خانہ کے قریب تھا دو دن تک لٹتا رہا اور گھر بھی جل گئے اور اس دن بجنور میں چودھری صاحبوں کے نام سے ان الفاظ میں منادی ہوئی کہ خلق خدا کی ملک بادشاہ کا حکم چودھری نین سنگھ اور چودھری جودھ سنگھ بجنور والوں اور ھلدور کے چودھری صاحبوں کا ڈھم، ڈھم، ان الفاظ کے سننے سے خدا کی قدرت یاد آتی تھی جب میں نے یہ منادی سنی تو کہا سبحان اللہ ہم تو کتابوں میں یہ بات پڑھتے آتے تھے کہ ’’ دو بادشاہ در اقلیمے نگنجند‘‘ یہاں یہ تماشا ہے کہ پنج بادشاہ دریک ضلع میگنجند نہیں نہیں، ان کی تمثیل یوں کہنی چاہیے کہ دہ درویش دریک گلیمی بخسپند غرضکہ اس ہنگامہ میں آبادی بجنور پر کسی طرح کا صدمہ نہیں پہنچا ایک بجے کے قریب چودھری مہاراج سنگھ کا سوار مجھ کو اور سید تراب علی تحصیلدار کو کہ ہم دونوں تحصیل کے مکان میں دروازہ بند کیے بیٹھے تھے، بل انے آیا ہم دونوں وہاں گئے اور دفتر کے کمروں میں سے آگے کے شعلے نکلتے ہوئے دیکھ کر ہمارا دل دھڑک اٹھا اور سرکاری افیم جو اس وقت لٹ رہی تھی اس کو دیکھ کر ہماری جان تلخ ہو گئی تھوڑی دیر ہم وہاں ٹھہر کر واپس آئے چار بجے سب چودھری صاحب تحصیل میں آئے اور چند منٹ ٹھہر کر چودھری مہاراج سنگھ مع اپنے ساتھی کمک کے روانہ ھلدور ہوئے اور چودھری نین سنگھ اور جودھ سنگھ نے حفاظت آبادی بجنور اور انتظام وہاں کا اپنے قبضہ میں رکھا۔ سواھیڑی اور چھتاور کے مسلمانوں کا مارا جانا ور مسجدوں کا ٹوٹنا شام کے قریب اکثر غول گنواروں کے اپنے اپنے گھر پھر گئے جاتے وقت کسی غول نے کھاری کے جولاھوں کو جو مسلمان تھے لوٹ لیا اور کئی جولاھے مار ڈالے سواھیڑی کے جاٹوں نے وہاں کے مسلمان بساطیوں کو جو مالدار تھے لوٹا اور مسجد سوا ھیڑی کو توڑ ڈالا ساتویں اگست سنہ 1857ء کو چھتاور کے جاٹوں نے اصغر علی کو جو معزز آدمی تھا اور اس سے اور جاٹوں سے عداوت چلی آتی تھی مار ڈالا۔ اور اس کی ٹانگ میں رسی باندھ کر گھسیٹا اور مسجد چھتاور توڑ ڈالی خاص بجنور میں مردھوں کے محلے میں مسلمانوں اور گوجروں میں تکرار ہوئی اور ایک آدمی مارا گیا اور طرفین کے کچھ زخمی ہوئے گوجروں نے اس محلے کو اور نیز محلہ قاضی پاڑہ کو لوٹنا اور مسلمانوں کو مارنا چاہا مگر چودھری نین سنگھ خود گیا اور فساد رفع کیا۔ اس قسم کی باتیں پے در پے ایسی ہوتی گئیں کہ ہندو اور مسلمان کی عداوت کا درخت جس کا بیج شیر کوٹ کی لڑائیوں میں بویا گیا تھا بہت بلند ہو گیا جس کا جڑ سے اکھڑنا نا ممکن تھا، مگر چودھری نین سنگھ اور چودھری جودھ سنگھ بہت اس بات کے در پے تھے کہ ہندو و مسلمان کی تکرار نہ بڑھے اور مسلمانوں کی طمانیت اور ہندوؤں کو فہمائش کرتے تھے مگر کوئی آئینی فوج نہ تھی جو چودھریوں کا حکم مانتی بلکہ وہ گنوار چودھریوں کی کیا حقیقت سمجھتے تھے۔ ان فتوحات کے بعد چودھریان ھلدور میں اور چودھری صاحب تاج پور، تاج پور میں چلے آئے اور چودھریان بجنور، بجنور میں رہے اور آٹھویں اگست1857ء کو چودھری امراؤ سنگھ اور بسنت سنگھ اپنی گڑھی شیر کوٹ میں جا بیٹھے۔ طرفین کی سپاہ اور گولہ اندازوں کا حال میں کچھ نا مناسب نہیں سمجھتا اگر اس مقام پر طرفین کی سپاہ کا کچھ حال بیان کروں نواب کی سپاہ میں سب لوگ ملازم تنخواہ دار تھے اور اکثروں کے پاس بندوقیں تھیں اور وہ لوگ بندوق لگانی بھی جانتے تھے بلکہ بہت سے پٹھان بہت اچھے بندوقچی تھے اور تخمیناً چالیس تلنگہ نمک حرام فوجی کے جس کا افسر رام سروپ جمعدار جیل خانہ تھا، بہت عمدہ سپاہی قواعد دان تھے۔ اور باقی دھنے جولاہے تھے جنہوں نے سوت کے تار کے سوا کبھی تلوار نہ پکڑی تھی سوار بھی نواب کے بہت اچھے تھے علی الخصوص چند سوار سرکاری رجمنٹوں کے جو وہاں موجود تھے وہ ہر طرح کی لڑائی جانتے تھے اور انہوں نے بہت سے سواروں کو اگر قواعد دان نہ بنایا تھا تو سپاہی تو ضرور کر لیا تھا چودھری صاحبوں کی طرف صرف مانگی پکار تھی کہ جب گنواری بگل کانوں میں پٹتا تھا سب گنوار جمع ہو جاتے تھے چودھری صاحب جو ان کو اکٹھا کرتے تھے دونوں وقت پوریاں اور کھانا پکا پکا کر دیتے تھے اس سبب سے چودھری صاحبوں نے بہت زیر باری اٹھائی چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاج پور کے ہاں مدت تک ہزار ہا گنوار جمع رہے اور پانچ پانچ چھ چھ ہزار آدمی کو انہوں نے کھانا دیا شیر کوٹ کی چڑھائی میں چودھری پرتاپ سنگھ کے سبب بہت آدمی جمع ہوئے تھے اور در حقیقت دھام پور میں لام کا اس کثرت سے جمع ہونا اور چودھریان کانٹ کا مع اپنی جمعیت کے آنا صرف چودھری پرتاپ سنگھ کا سبب تھا اور اسی جہت سے نہایت زیر باری ان لوگوں کے کھانا دینے میں چودھری صاحب نے اٹھائی علی ھذا القیاس چودھریان ھلدور بھی مدت تک ان گنواروں کے کھانا دینے میں زیر بار رہے میں نے اپنی آنکھ سے ھلدور میں دیکھا کہ دن رات چودھریان ھلدور کے ہاں ان گنواروں کو کھانا دیا جاتا تھا کوئی وقت دن رات میں ایسا نہ تھا کہ دو دو سو تین تین سو آدمیوں کا غول بیٹھا کھانا نہ کھاتا ہو چودھریان بجنور نے بھی جہاں تک ان سے ہو سکا اس قسم کی زیر باری اٹھائی پھر ان گنواروں کے غول کا یہ حال تھا کہ صرف لوٹ کے لالچ سے جمع ہوتے تھے اور لوٹنے کے سوا اور کچھ مطلب اور دلی مقصد ان کا نہ تھا اطاعت کا یہ حال تھا کہ جو اپنا دل چاہتا تھا وہ کرتے تھے اور کسی چودھری کی بات نہ مانتے تھے بلکہ بارھا چودھریوں کے سامنے سخت کلامی اور بد زبانی سے پیش آتے تھے لاچار چودھریوں کو خود دبنا پڑتا تھا بہادری کا یہ حال تھا کہ جہاں کسی کے غول میں سے کوئی آدمی زخمی ہو کر یا مر کر گرا اور سارا غول بھاگا پھر اگر رسی باندھ کر کھینچو تو نہ تھمتے تھے بہتیرا کہتے تھے کہ ارے بھائیو! پوریاں تو یوں دوڑ دوڑ کر لیتے تھے اور اب بھاگے جاتے ہو کوئی نہ سنتا تھا ہتھیار اور سامان کا یہ حال تھا کہ بڑے سے بڑے غول میں آٹھ سات دس بندوقوں سے سوا نہ ہوتی تھیں اکثروں کے پاس برچھی اور ٹوٹی تلوار یا گنڈاسہ اور بعضوں کے پاس نری لاٹھی نتیجہ اس بیان کا یہ ہے کہ نواب کی دونوں جگہ شکست ہوئی ایک اتفاقیہ بات تھی دونوں طرف کے فوجوں کا سچا سچا حال سن کر کوئی عقلمند اس بات پر رائے نہیں دینے کا کہ یہ گنواروں کی بھیڑ نواب کی فوج پر فتح پائی اصلی سبب ان دونوں جگہ کی فتح کا یہ ہوا کہ اس زمانے میں نواب کے پاس توپیں صرف دو تھیں اور وہ دونوں شیر کوٹ پر گئی ہوئی تھیں ان میں سے ایک توپ پھٹ گئی اور ایک گر پڑی احمد اللہ خاں صرف اس دہشت کے مارے کہ توپوں کا جو چودھریوں کے پاس ہیں مقابلہ نہ ہو سکے گا اور آدمیوں کی کثرت سے ڈر کر رات کو گڑھی میں سے بھاگ گیا بجنور میں نا محمود خاں کے پاس کوئی توپ نہ تھی جب اس کے کان میں چودھریوں کی توپ کی آواز پہنچی اسی ڈر سے نواب بھاگ گیا کیونکہ اس زمانے تک توپ کا ڈر بہت تھا اور یہ بات پیچھے تجربہ میں آئی ہے کہ ہندوستانی توپ سے کوئی آدمی نہیں مر سکتا۔ توپوں کا حال اب بے اختیار دل چاہتا ہے کہ کچھ تھوڑا سا توپوں کا حال بھی لکھوں طرفین کی توپیں اور طرفین کے گولہ انداز ایسے خوب تھے کہ اگر ہمالیہ پہاڑ نشانہ کی جگہ رکھ کر ان سے کہا جاوے کہ اس پر گولہ مارو تو خدا سے امید یہی ہے کہ ہمیشہ خطا کرے گا بلکہ اگر خطا سے بھی خطا نہ کرے تو خطا وار ہو گا۔ ھلدور کی شکست کے دن نواب کے گولہ اندازوں نے اس مکان پر جس میں میں اور ڈپٹی صاحب تھے ستر گولہ سے کم نہ مارا ہو گا مگر ایک بھی نہ لگا حالانکہ اس کے سامنے بہت صاف میدان اور بہت اچھا موفع نشانہ لگانے کا تھا جب کہ ہم نے ان کے توپ کے مورچہ پر اپنے مکان سے جزائیل اور بندوق کی گولیاں مارنی شروع کیں تب انہوں نے ہمارے مکان کے مقابل سے مورچہ توپ کا اٹھا لیا۔ میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ اتنی لڑائیوں میں ایک آدمی بھی توپ کے گولے سے نہ مرا ہو گا۔ رائے اس امر میں کہ ان لڑائیوں کو لوگ کیا سمجھتے تھے اس امر میں رائے لکھنے کو میں بہت عمدہ بات سمجھتا ہوں کہ یہ لڑائیاں جو ہوئیں آیا لوگوں کے دل میں جو طرفین کے طرف لڑنے کو جمع ہوتے تھے یہ بھی خیال تھا کہ ان میں سے کسی کے ساتھ ہو کر لڑنا سرکار دولت مدار انگریزی کے بر خلاف لڑائی کرنی ہے میں اس میں کچھ شک نہیں کرتا کہ نواب کے حال و قال اور جو جو کام وہ کرتا تھا ان سے سب کو ظاہر ہو گیا ہو گا کہ نواب سرکار کے بر خلاف ہے اور اس کا دلی ارادہ سرکار کی بدخواھی اور دل کی دعاء (کہ خدا اس کی دعا کو اسی پر ڈالے) زوال حکومت سرکار تھا اور چودھری صاحبوں کا کچھ ارادہ خود سری حکومت اور ملک گیری کا نہ تھا مگر ضلع کے لوگوں کا میری رائے میں یہ حال تھا کہ ان لڑائیوں میں نواب کے ساتھ ہو کر چودھریوں سے لڑنے کو سرکار سے لڑنا یا بر خلاف سرکار کے لڑائی کرنی نہیں سمجھتے تھے سب کے خیالوں میں چودھریوں اور نواب کا مقابلہ تھا جس میں گویا سرکار بیچ میں سے علیحدہ تھی اور اس میں بھی شک نہیں ہے کہ جو لوگ چودھری صاحبوں کے ساتھ ان لڑائیوں میں شریک تھے اپنے تئیں چودھری صاحبوں کا حالی اور مددگار سمجھتے تھے سرکار دولت مدار انگریزی سب کے دلوں سے الگ تھی کہ ہماری اس رائے کی تصدیق اوپر کے تمام حالات اور دفتر سرکاری کا جلنا اور تمام مال سرکاری کا لٹنا بخوبی کرتی تھی۔ جناب صاحب کلکٹر کے خط کا چودھریوں کے نام آنا ان لڑائیوں کے بعد ایک خط جناب مسٹر الگزنڈر شیکسپیئر صاحب بہادر کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کا بنام چودھریان ھلدور و چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاج پور اور چودھری امراؤ سنگھ رئیس شیر کوٹ آیا اس کے آنے کے بعد چودھری صاحبان اس بات پر متوجہ ہوئے کہ جملہ حالات ضلع کی اطلاع حکام کو کی جائے چنانچہ اس خط کی نقل اس مقام پر لکھتے ہیں۔ نقل خط نقل خط مذکور مورخہ ساتویں اگست سنہ 1857ء مقام منصوری ’’ ان دنوں میں چند خبر ھا بابت بجنور استماع میں پہنچیں سب سے دریافت ہوتا ہے کہ خاص تمہارے علاقے میں انتظام جہاں تک ہو سکے بخوبی چلتا ہے مگر نواب محمود خاں صاحب تقاضائے شدید بابت اقساط گذشتہ کے ایسا کرتے ہیں کہ کل تعلقہ داران نہایت ناراض ہیں فقط حالانکہ آپ کو واضح ہو گا کہ وقت روانہ ہو جانے ہمارا انتظام ضلع ھذا سپرد نواب صاحب کے کیا گیا اس امید سے کہ ساتھ خیر خواھی تمام انتظام ان کی طرف سے بخوبی ہو جاوے چونکہ عرصے سے کسی طرح کا خبر نواب صاحب کا ہمارے پاس نہیں پہنچا ہے بلکہ چند خطوط پاس نواب صاحب بھیجے گئے ہیں مگر جواب ایک خط کا بھی نہیں بھیجتے ہیں اس لیے لاچار ہو کر اور بسبب بے خبری اصل حال ضلع اب تم کو لکھا جاتا ہے کہ بالفعل اور تا حکم ثانی تم تعلقہ دار اپنے علاقے کا انتظام اپنے ذمے سمجھو اور زر قسط سرکاری اپنے پاس امانت رکھو فقط آج کے دن خط پاس نواب صاحب کے بھی روانہ ہوتا ہے دیکھا چاہیے کہ کیا وجوہات ان کی طرف سے پیش ہوں گی کہ خطوط ایں جانب کا بے جواب رہا یقین ہے کہ چند روز میں ان کی طرف سے جواب ایں جانب کے پاس پہنچے گا آپ کو اطلاع دی جاوے گی زیادہ لکھنا فضول ہے اس لیے کہ کوتہ اندیشاں کا حال جو نمک حرامی کے ساتھ کمر باندھ لی ہے تم کو بخوبی معلوم ہوا ہے بلاشک واضح ہو گا کہ چند روز نہیں گزرے گا کہ دخل سرکاری ہو جاوے آپ خاطر جمع رکھو بد ستور سابق بخوبی سمجھو کہ جو لوگوں نے اس زمانے میں خاطر داری نیک ادائی پیش کرے گا ان کے واسطے حد سے بہتر ہو گا۔‘‘ بجنور کی لڑائی کے وقت اپنا حال اور پار اترنے سے چودھریان بجنور کا مانع ہونا: جبکہ بجنور میں لڑائی ہوئی تو ڈپٹی کلکٹر صاحب ھلدور میں تھے اور ہماری کمیٹی کے تینوں ممبر یعنی میں اور سید تراب علی تحصیلدار بجنور اور پنڈت رادھا کشن ڈپٹی انسپکٹر بجنور میں اپنے اپنے مکان بند کیے بیٹھے تھے اور جو صدمہ ہمارے دل پر تھا اس کا بیان کرنا نا ممکن نہیں، کیونکہ ہمارے خیال میں بھی نواب کی شکست ہونی نہیں آتی تھی اور خوب ہم کو یقین تھا کہ نواب ہم تینوں کی جان نہیں بخشنے کا کیونکہ سچا جرم طرفداری اور خیر خواھی سرکار اور خفیہ خط و کتابت کا جو اس نے ہماری طرف لگا رکھا تھا اس کے سوا یہ بڑا شبہ اس کے دل میں پیدا ہوا تھا کہ چودھریوں کا لڑنا علی الخصوص چودھریان بجنور کا بمقابلہ پیش آنا یہ ہم لوگوں کے اغوا سے ہوا حالانکہ ہم اس اخیر الزام سے بالکل بری اور بے خبر تھے جب کہ نواب کی شکست ہوئی ہم نے اپنی زندگی دوبارہ سمجھی اور یہ بات چاہی کہ گنگا پار میرٹھ چلے آویں کیونکہ جو ظالم ہمارے سد راہ ہو رہا تھا اور ہم کو بجنور سے نہیں نکلنے دیتا تھا نہ رہا تھا، مگر گھاٹ پر چودھری صاحبوں کا بندوبست تھا اور غدر راہ کا ایسا ہو گیا تھا کہ بدون اعانت اور مدد چودھری صاحبوں کے ایک قدم راہ طے کرنی ممکن نہ تھی۔ اس لیے ہم نے چودھریان بجنور سے چند روز تک نہایت عاجزی سے التجا کی مگر انہوں نے ہم کو نہ نکلنے دیا اور جو ہماری قسمت میں مصیبت تھی ہم پر پڑی۔ میں کچھ برائی کا الزام اس بات میں چودھری صاحبوں کو اپنے نہ نکلنے میں نہیں دیتا بلکہ ان کو پایہ بے جا خیال دل میں رہا کہ یہ لوگ حکام انگریزی کے پاس جا کر اپنی سرخروئی اور اپنی خیر خواھی ہم سے زیادہ جتاویں گے یا یہ سمجھے کہ دفتر جلنے یا مال سرکاری لٹنے کا حال صاف کہہ دیں گے اور پھر کئی دن بعد ان کو یہ خیال ہوا کہ ان کے چلے جانے سے انتظام ضلع کا نہ ہو سکے گا اور رعایا کے دل ٹوٹ جاویں گے۔ مگر ہم کو یہاں کے رہنے سے کمال رنج تھا کہ ہم نہایت بے بس اور بے کس تھے اور ہمیشہ ہم کو یقین تھا کہ اب نواب بجنور چھین لے گا اور ہم پکڑے اور مارے جاویں گے۔ عرضیاں حالات ضلع کی بحضور حکام بھیجنا جبکہ ہم کو بجنور سے چھوٹنے اور حکام کے پاس حاضر ہونے کی توقع جاتی رہی تو ہم تینوں آدمیوں نے عرضیاں تمام حالات جنگ اور شکست ہونے نواب کی بحضور جناب مسٹر ولسن صاحب بہادر اور جناب صاحب کلکٹر بہادر اور اور حکام انگریزی کے لکھیں اور سر رشتہ کی روبکاری در باب جل جانے دفتر دیوانی کے روانہ کی اور جملہ چودھری صاحب پہلے سے بھی خط و کتابت حکام انگریزی سے رکھتے تھے اور جناب صاحب کلکٹر بہادر کے خط کے آنے کے بعد زیادہ تر متوجہ تحریر ہو گئے تھے اور ہماری کمیٹی کے ایک ممبر پنڈت رادھا کشن ڈپٹی انسپکٹر بھی اس بات کی ہمیشہ تائید کرتے رہتے تھے اور سرکار انگریزی کی حکمت جبلی اور شجاعت ذاتی کو جو اچھی تعلیم یافتہ ہونے کے سبب ان کو معلوم تھی ہر ایک کو سمجھاتے رہتے تھے اور بعض آدمیوں کی زبان پر جو یہ بات آ جاتی تھی کہ بسبب نمک حرام ہو جانے کل فوج ہندوستانی کے سرکار کی عملداری کو پائداری ہونا بہت مشکل ہے اس خیال کو شائستہ تقریر سے دور کرتے تھے اور خاص میرا قول اور دلی رائے جس میں کبھی فرق نہیں آیا یہ تھی کہ فتح و شکست کثرت و قلت تعداد آدمیوں پر موقوف نہیں ہے اور بڑی شجاعت بھی کام نہیں آتی بلکہ دانائی اور تدبیر اور قواعد جنگ اور ہتھیاروں کو علمی اور عملی قواعد سے کام لانے سے ہوتی ہے۔ پھر بہت بھیڑوں کے گھتیلے اور داؤں گیرے ایک شیر کے سامنے بھی جمع ہونا کیا حقیقت رکھتا ہے ان باتوں پر لحاظ کر کے جملہ چودھری صاحبوں نے بھی اپنی اپنی عرضیاں متضمن ان وارداتوں اور اپنی اطاعت اور فرماں بردار ہونے سرکار کے بحضور حکام روانہ کیں اور فرمان بادشاہی جو نا محمود خاں کے نام آیا تھا اور بعد بھاگنے نا محمود خاں کے اس کے کاغذات میں سے پنڈت رادھا کشن ڈپٹی انسپکٹر نے تلاش کر کے مع اور مفید اور بکار آمد کاغذوں کے نکالا تھا اس فرمان کو چودھری جودھ سنگھ رئیس بجنور خود لے کر بحضور جناب مسٹر ولسن صاحب بہادر اسپیشل کمشنر اور صاحب جج مراد آباد روانہ میرٹھ ہوئے۔ صدر امین اور تحصیلدار اور ڈپٹی انسپکٹر کا ھلدور جانا مگر ہمارا اضطرارقیام بجنور سے بدستور تھا اور ہم سنتے تھے کہ نا محمود خاں اور علی الخصوص احمد اللہ خاں اور شفیع اللہ خاں درستی سامان جنگ میں مصروف ہیں اور ان کی سپاہ بھی ان کے پاس جمع ہوتی جاتی ہے اور قریب چار ہزار آدمی ملازم کے وہاں جمع ہو گیا ہے اور ضرور ارادہ بجنور پر حملہ کرنے کا ہے بلکہ دو دفعہ خاص بجنور میں غلغلہ پڑ گیا کہ نواب چڑھ آیا اور عجیب حالت بجنور میں صرف اس غلغلہ سے ہو گئی اور چودھری جودھ سنگھ جو کنویں میں سے روپیہ تلاش کرنے کو بیٹھے تھے ایسے بے اوسان گھر پر پہنچے تھے کہ سب کی جان ہوا ہو گئی تھی اور چودھری نین سنگھ کے بھی ہوش جاتے رہے تھے اس سبب سے ہم کسی طرح اپنی جان کو بچا ہوا نہیں سمجھتے تھے اور ہر وقت بجنور سے نکلنے کی تدبیر میں تھے مگر اپنے بس کی کوئی بات نہ تھی لاچار ہم نے یہ تدبیر کی کہ کسی حکمت سے ہم ھلدور چلے جاویں چودھری رندھیر سنگھ فہمیدہ آدمی ہے ان سے کہیں کہ ہمارے روکنے سے بجز اس کے کہ ہماری جان جاوے اور کچھ فائدہ نہیں ہے ہمارے حال پر رحم کر کے ہم کو گنگا پار اتار دو۔ چنانچہ چودھری نین سنگھ صاحب بھی ھلدور جانے اور پھر واپس آنے کے اقرار پر راضی ہوئے ہم نے بجنور سے نکلنا غنیمت سمجھا اور چودھری نین سنگھ صاحب نے چند آدمی اپنے معتمد ہمارے ساتھ کئے اس فہمائش سے کہ پھر ہم کو بجنور واپس لاویں اور میں اور سید تراب علی تحصیلدار اور پنڈت رادھا کشن ڈپٹی انسپکٹر بارھویں اگست سنہ 1857ء کو ھلدور روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر بجنور کے واپس آنے سے انکار کیا مگر پنڈت رادھا کشن ڈپٹی انسپکٹر اس سبب سے کہ ان کے قبائل سب بجنور میں تھے ان کو واپس آنا ضرور تھا چنانچہ تیرھویں تاریخ کو وہ بجنور میں واپس آئے۔ ھلدور میں جو رئیس جمع تھے ان کا بیان اور وہاں کے مشورہ کی کیفیت جب ہم ھلدور پہنچے تو چودھری پرتاب سنگھ رئیس تاج پور بھی وہاں تھے اور میر صادق علی رئیس چاند پور بھی وہاں آئے ہوئے تھے اور در باب انتظام ضلع گفتگو مقصود تھی ہم نے تو مداخلت انتظام ضلع سے بدوں حکم سرکار صاف انکار کیا میر صادق علی کی یہ رائے پائی کہ جس طرح جناب کلکٹر صاحب بہادر نے اپنے خط مورخہ ساتویں اگست سنہ 1857ء میں لکھا ہے ہر ایک رئیس اپنے اپنے علاقہ کا انتظام کرے کہ اس میں پرگنہ چاند پور کی جداگانہ حکومت میر صادق علی کی قائم رہتی تھی ہم نے ھلدور سے ایک اور عرضی جملہ رئیسوں کی طرف سے اور اپنی اور سید تراب علی اور ڈپٹی صاحب کی طرف سے کہ یہ سب ھلدور میں موجود تھے جناب مسٹر ولسن صاحب بہادر کے پاس روانہ کی اور کنہیا لال ڈگری نویس محکمہ صدر امینی کو بھی بھیجا اور اسی تاریخ چودھری رندھیر سنگھ رئیس ھلدور اور چودھری پرتاب سنگھ رئیس تاج پور اور میر صادق علی رئیس چاند پور واسطے انتظام کے روانہ بجنور ہوئے کہ 14تاریخ کو میر صادق علی چاند پور چلے گئے اور چودھری صاحبان وہاں مقیم رہے ان تمام گفتگوؤں میں جیسی اچھی رائے ہم نے چودھری پرتاپ سنگھ کی پائی اور ہر وقت جیسا ڈر حکام انگریزی کا ان کے دل میں ہم نے پایا اور کسی میں نہیں دیکھا ہر دم اس کی زبان پریہ بات تھی کہ فلاں کام کرتے تو ہو مگر یہ بھی خیال ہے کہ حکام انگریزی اس پر کیا کریں گے غرضکہ ان معاملات کے بعد چودھری بدھ سنگھ صاحب سے ہم نے اپنا مطلب عرض کیا کہ ہم کو مدد دے کر پار اتروا دو ہمارے اصرار پر انہوں نے اقرار کیا اور پچاس آدمی دینے تجویز کیے اور یہ بات ٹھہری کہ سید تراب علی تحصیلدار بجنور نگینہ میں جا کر بہ اعانت رام دیال سنگھ جو اسی روز واسطے انتظام نگینہ اور لانے سانچہ توپ کے جو نتھو خاں نے نواب کے لئے بنوائی تھی روانہ نگینہ ہوتے تھے اپنے قبائل کو ھلدور میں لے آویں تاکہ ہم سب مل کر گنگا پار اتر جاویں اور سید تراب علی کو یہ بھی فہمائش ہوئی کہ تم نگینہ میں مدت تک رہے ہو وہاں کے لوگوں کو فہمائش بھی کر دو کہ ہندو مسلمان آپس میں کچھ فساد نہ کریں، چنانچہ سید تراب علی چودھویں اگست کو روانہ نگینہ ہوئے۔ انتظام ضلع کے لیے کچھ سرکاری فوج آنے کی تجویز ہونا جب یہ عرضیاں چودھری صاحبوں کی اور ہماری میرٹھ میں بحضور حکام پہنچیں تو جملہ حکام کی رائے یہ قرار پائی کہ ایسی حالت میں تھوڑی سی فوج کا مع حکام ضلع، ضلع میں بھیج دینا مناسب ہے اور کچھ تھوڑی سی فوج کی واسطے لے جانے ضلع کے تجویز بھی ہوئی اور جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر اس امر میں بہت مساعی ہوئے، چنانچہ جملہ حکام نے اس تجویز کو منظور کر کے رپورٹ واسطے فراہمی فوج مجوزہ اور صدور حکم و اجازت روانگی ضلع کے بحضور گورنمنٹ آگرہ روانہ کی اور منتظر صدور حکم رہے اور یہ تجویز کی کہ محمد رحمت خاں صاحب بہادر ڈپٹی کلکٹر اور سید احمد خاں صدر امن یعنی مصنف تا تشریف آوری حکام انگریزی انتظام ضلع از جناب سرکار کریں، چنانچہ پندرھویں اگست سنہ 1857ء بمقام ھلدور شام کے وقت ہمارے پاس ایک خط جناب مسٹر ولسن صاحب بہادر جج اور اسپیشل کمشنر بنام میرے اور ایک خط بنام محمد رحمت خاں ڈپٹی کلکٹر اور ایک خط جناب مسٹر ولیم صاحب بہادر کمشنر میرٹھ کا بنام ہم دونوں کے اور ایک خط جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر جنٹ مجسٹریٹ کا بنام ہم دونوں کے واسطے انتظام ضلع کے پہنچے اور یہ سب خط مورخہ تیرھویں اگست سنہ 1857ء کے تھے اگرچہ یہ سب خط ایک آفت کے وقت جن کا ذکر آوے گا ہم نے بجنور میں جلا دیے اور میرٹھ میں جب پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کی نقلیں بھی دفتر میں نہیں تھیں کیونکہ بہت جلدی میں اور نازک وقت میں لکھے گئے تھے مگر جو مضامین ان کے سب متحذ تھے ہم کو یاد ہیں اس مقام پر لکھتے ہیں امید ہے بے تفاوت ہوں۔ مضمون خط خلاصہ مضامین خطوط مذکورہ مورخہ تیرھویں اگست سنہ 1857ء بنام محمد رحمت خاں ڈپٹی کلکٹر و سید احمد خاں صدر امین بجنور: ’’ جو کہ تمہاری تحریر سے اور چودھریان ضلع بجنور کی تحریر سے معلوم ہوا کہ یہ سبب ظلم اور زیادتی نواب کے جوچودھریان ضلع بجنور پر اس نے کی چودھریوں اور نواب میں مقابلہ ہوا اور نواب شکست کھا کر بھاگ گیا اور اب انتظام ضلع کا ضرور ہے اس لیے تم دونوں کو لکھا جاتا ہے کہ تم دونوں اہلکار سرکاری اپنے تئیں تمام ضلع کا جانب سرکار سے منتظم سمجھ کر بالا تفاق انتظام ضلع کا کرو اور جملہ چوھریان ضلع بھی یہی درخواست رکھتے ہیں کہ تمہارے ہاتھ میں انتظام ضلع کا رہے‘‘ چودھری صاحبوں نے جو اپنی عرضیاں بھیجی تھیں ان کے جواب میں بھی یہی لکھا آیا کہ رحمت خاں صاحب بہادر ڈپٹی کلکٹر اور سید احمد خاں صدر امین کو منتظم ضلع مقرر کیا گیا تم لوگ ان کے ممد و معاون رہو اور اب حکام انگریزی مع فوج کے جلد اس ضلع میں آ جاویں گے چنانچہ جب مسٹر جان کری کرافٹ ولسن صاحب بہادر نے جو خط بنام چودھری امراؤ سنگھ رئیس شیر کوٹ لکھا تھا اور وہ ہم کو ان کے پاس سے ملا، اس مقام پر بلفظہ نقل کرتے ہیں۔ جناب مسٹر ولسن صاحب بہادر کا پروانہ چودھری امراؤ سنگھ کے نام ’’ رفعت و عالی مرتبت گرامی قدر چودھری امراؤ سنگھ صاحب سلمہ الرحمن! عرضی آپ کی مشعر حالات ظلم اور بدعت نواب محمود خاں کے پہنچی سب حال معلوم ہوا کمال افسوس و رنج ہے کہ آپ کا اس قدر نقصان عظیم ہوا اور شیو راج سنگھ اور قبیلہ اس کا قتل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کوئی آفت کسی شخص پر نازل نہیں کرتا کہ جس کے بعد کچھ تسلی نہ ہو اگر اس قدر ظلم یعنی غارت گری مال و قتل عزیزان تمہارا پٹھان لوگ نہ کرتے تو تم سب روسائے ھنود یک دل ہو کر کیونکر اس کو نکالتے اب تم سب ھنود نے اتفاق کر کر اس ظالم نواب کو نکال دیا اگر سابق سے بھی تمہارے باھم ایسا اتفاق ہوتا تو جس قدر فوج باغی اس نواح میں تھی اس کا مارا جانا کیا مشکل ہوتا اور پھر کیا ضرورت چلے آنے ہم لوگوں کی وہاں سے ہوتی اور ایسی آفات تم لوگوں پر کیوں آتے خیر سب امور اپنے وقت معینہ پر منحصر ہیں اب بفضل خدا سب تکالیف تمہاری جلد رفع ہو جاتی ہیں بطلب ہماری جو آپ لکھتے ہیں سو ہم نے واسطے جانے بجنور کے گورنمنٹ کو لکھا ہے اور شیکسپیئر صاحب بھی پہاڑ سے بولائے گئے ہیں اب عنقریب بندوبست فوج کا ہو جاتا ہے ہم تھوڑی سی فوج معتبر لے کر عنقریب آویں گے اور سید احمد خاں صدر امین اور رحمت خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر کو لکھا گیا ہے کہ تا پہونچنے ہمارے وہ انتظام وہاں کا اچھی طرح کریں گے اور مسٹر پامر صاحب جنٹ مجسٹریٹ بجنور کا جو حال آپ نے دریافت کیا تھا سو وہ مظفر نگر میں ہیں میرٹھ میں آئے تھے سو آج رات کو میراں پور میں ہوں گے بطلب خط بنام والی رام پور جو آپ نے لکھا تھا سو ہم نے کل کی تاریخ خط انگریزی مکرر آج بھی حسب درخواست آپ کے لکھ کر ان کے پاس بھیج دیں گے میرٹھ سے تالپ گنگ ڈاک ھرکارہ کی معرفت پوسٹ ماسٹر صاحب میرٹھ بٹھائی جاتی ہے بجنور سے تا اس کنارہ آپ ھرکارہ معتبر اور خواہ مرد مسلح مقرر کر دیجئے اور حالات روزانہ اس نواح سے اطلاع دیتے رہیے اور واسطے عبور ھرکارہ کے ایک ڈونگی مقرر کر دیجئے حال لگا دینے توپ کا اپنے مکان پر بہ نسبت بھانجہ نواب ظالم جو آپ نے لکھا تھا سو اھل ہند جنہوں نے توپ نہیں دیکھی توپ سے بہت ڈرتے ہیں مگر جب توپ نا واقف کے ہاتھ میں ہے تب وہ توپ ہتھیار نہیں جیسا لوگ خیال کرتے ہیں اگر یہ پٹھان لوگ تم اہل ہنود پر توپ لگا دیں تو یہ تدبیر کرنی چاہیے کہ دو دو آدمی چاروں طرف پھیل جاؤ اور بیچ میں فاصلہ سو سو قدم کا چھوڑ دو اور چاروں طرف سے ایک ہی وقت گولہ اندازوں پر حملہ کرو جب وہ توپ چلا چکیں جب توپ پچاس قدم رہ جاوے تب گویا تمہارے ہاتھ لگ گئی سمجھو مگر جو بھیڑ کی مثال خوفناک ہو کر ایک ہی جگہ کھڑے ہو جاؤ گے تو تمہارا نقصان عظیم ہو گا ورنہ توپ کچھ خاک بھی نہیں کر سکتی اور تھوڑے ہی دن کی بات ہے کہ ایک کمپنی گوروں نے آٹھ ضرب توپ کلاں کنارہ ندی ھینڈن پر تلنگوں سے چھین لی تم بھی اسی طرح عمل میں لاتے رہو‘‘ تحریر چودھویں اگست سنہ 1857ء بعض کلمات جناب مسٹر ولسن صاحب بہادر جو صاحب ممدوح نے سید احمد خاں کی نسبت فرمائے میں نہایت متامل ہوتا ہوں اس اگلی بات باین کرنے سے کہ میں اپنی نسبت آپ لکھتا ہوں اور پھر مجھ وک اس کے لکھنے پر اس لیے دلیری ہوتی ہے کہ در حقیقت میں خود نہیں لکھتا بلکہ اپنے آقا کی بات بیان کرتا ہوں اور پھر مجھ کو نہایت خوشی ہوتی ہے کہ گر میرے آقا نے میری نسبت کہی ہو میں کیوں نہ اس کو کہوں اور کس لیے نہ لکھوں کہ اپنے آقا کی بات سے خوش ہونا اور اس کو بیان کر کر اپنا فخر کرنا نوکر کا کام ہے یعنی جب میں میرٹھ آیا اور بیماری نے مجھ کو کمال ستایا تو میرے آقا مسٹر جان کری کرافٹ ولسن صاحب بہادر دام اقبالہ صاحب جج اور اسپیشل کمشنر میری عزت بڑھانے کے مجھے دیکھنے آئے اور مجھ سے یہ بات کہی کہ تم ایسے نمک حلال نوکر ہو کہ تم نے اس نازک وقت میں بھی سرکار کا ساتھ نہیں چھوڑا اور باوجودیکہ بجنور کے ضلع میں ہندو اور مسلمان میں کمال عداوت تھی اور ہندوؤں نے مسلمانوں کی حکومت کو مقابلہ کر کے اٹھایا تھا اور جب ہم نے تم کو اور محمد رحمت خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر کو ضلع سپرد کرنا چاہا تو تمہاری نیک خصلت اور اچھے چلن اور نہایت طرفداری سرکار کے سب ہندوؤں نے جو بڑے رئیس اور ضلع میں نامی چودھری تھے سب نے کمال خوشی اور نہایت آرزو سے تم مسلمانوں کا اپنے پر حاکم بننا قبول کیا بلکہ درخواست کی کہ تم ہی سب ہندوؤں پر ضلع میں حاکم بنائے جاؤ اور سرکار نے بھی ایسے نازک وقت میں تم کو اپنا خیر خواہ اور نمک حلال نوکر جان کر کمال اعتماد سے سارے ضلع کی حکومت تم کو سپرد کی اور تم اسی طرح وفادار اور نمک حلال نوکر سرکار کے رہے اس کے صلہ میں اگر تمہاری ایک تصویر بنا کر پشت ھا پشت کی یادگاری اور تمہاری اولاد کی عزت اور فخر کو رکھی جاوے تو بھی کم ہے میں اپنے آقا کا کمال شکر ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھ پر ایسی مہربانی کی اور میری قدر دانی کی خدا ان کو سلامت رکھے آمین ڈپٹی کلکٹر اور صدر امین کا بجنور میں آنا غرض کہ جب یہ حکم ہمارے نام پہنچا تو ہم نے اس کی اطاعت کرنی اپنی کمال عزت سمجھی اور میں اور محمد رحمت خاں صاحب بہادر ڈپٹی کلکٹر ھلدور سے بجنور میں آئے اور انتظام ضلع اپنے ہاتھ میں لیا اور اشتہارات عملداری سرکار دولت مدار کے جاری کیے اور تمام ضلع میں سرکار کمپنی انگریز بہادر کے نام سے منادی پٹوائی اور روبکاری اٹھا لینے انتظام کی جس کی نقل اس مقام پر لکھتے ہیں بحضور حکام روانہ کی۔ روبکار باطلاع شروع کرنے انتظام ضلع کے روبکاری کچہری فوجداری ضلع بجنور اجلاس محمد رحمت خاں صاحب بہادر ڈپٹی مجسٹریٹ و سید احمد خاں صدر امین منتظمان ضلع بجنور واقعہ 16اگست سنہ 1857ء ’’ احکام جناب صاحب کمشنر بہادر ضلع میرٹھ اور جناب صاحب جج بہادر ضلع مراد آباد اور جناب صاحب جنٹ مجسٹریٹ بہادر ضلع بجنور مورخہ 13اگست سنہ 1857ء ہمارے نام پندھرویں اگست سنہ حال کو وقت شام اس ارشاد سے پہنچے کہ ڈپٹی کلکٹر و صدر امین باہم متفق ہو کر تا تشریف آوری حکام انگریزی کے انتظام ضلع بجنور کا کریں، چنانچہ بہ مجرد پہنچنے احکام سرکار کے ہم لوگ بمقام بجنور حاضر ہوئے اور چودھری رندھیر سنگھ اور چودھری بدھ سنگھ رئیسان ھلدور اور چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاج پور بھی بمقام بجنور موجود ہیں چنانچہ ہم بہ اعانت رئیسان مذکور اور رئیسان بجنور انتظام ضلع میں مصروف ہوئے اور احکامات اور اشتہارات مناسب جاری کئے اور جہاں جہاں کہ لوگ واسطے مفسدہ کے جمع تھے ان کو متفرق کرنے کی تدبیر کی گئی لہٰذا‘‘ حکم ہوا کہ نقل اس روبکار کی بہ حضور جناب صاحب کمشنر بہادر میرٹھ اور جناب صاحب جج بہادر ضلع مراد آباد اور جناب صاحب جنٹ مجسٹریٹ بہادر ضلع بجنور کے بھیجی جاوے۔ سرکاری اسباب جو لٹ گیا تھا اس میں سے تھوڑے کا برآمد ہونا بعد اس کے ہم نے بجنور میں ایک اور منادی پٹوائی کہ جس جس شخص نے اسباب سرکاری اور صاحبان انگریز کا اس ہنگامے میں لوٹ لیا ہے وہ دے جاوے یا کسی مقام پر خفیہ رکھ جاوے اگر ایسا نہ کرے گا یا اسباب کو ضائع اور تلف کرے گا تو مجرم ٹھہرایا جاوے گا اس منادی پر بہت سی کتابیں دفتر کی اور جناب صاحب بہادر کلکٹر بہادر کے نج کی اور کچھ اسباب شفاخانہ کا اور بہت سا کاغذ اسٹامپ اور چند کتابیں سرویری نقشہ جات کی اور رجسٹری دستاویزات اور قوانین کی دستیاب ہوئیں اور کچہری تحصیل میں جمع کی گئیں۔ ھری سنگھ امین بٹوارہ نے اس اسباب کے جمع کرنے اور سرویری نقشہ جات کی کتابوں کے بہم پہنچانے میں نہایت سعی اور کوشش کی اور چودھری نین سنگھ رئیس بجنور نے جس قدر کتابیں جمع کی تھیں انہوں نے بھی تحصیل میں بھیج دیں اور اسی طرح اوربہت سا اسباب نکلنے کی توقع تھی مگر افسوس کہ تقدیر سے ہمارا ارادہ پورا نہ ہو سکا۔ رائے سید احمد خاں کی نسبت الفاظ منادی جب ضلع ہمارے سپرد ہوا تو میری یہ رائے تھی کہ پرانے لفظ منادی کے یعنی خلق خدا کی ملک بادشاہ کا حکم کمپنی صاحب بہادر کا بدلے جاویں اور بجائے ملک بادشاہ کا حکم کمپنی صاحب بہادر کا بدلے جاویں اور بجائے ملک بادشاہ کے پکارا جاوے کہ ملک مکہ معظمہ وکٹوریا شاہ لندن کا کیونکہ منادی میں ایسے الفاظ چاہئیں کہ جن سے عوام الناس بغیر شک کے یہ بات سمجھے کہ در حقیقت ملک کس کا ہے اور ہمارا بادشاہ کون ہے اور ہم کس کی رعیت ہیں، لیکن بلا اجازت حکام صرف اپنی رائے سے اس دستور قدیم کو بدلنا مناسب نہ جانا ور اس باب میں ایک خاص رائے اپنی دوسرے وقت پر موقوف رکھی۔ جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر کا میراں پور میں مقیم ہونا جناب مسٹر جارج امر صاحب بہادر نے ضلع کے حال پر کمال توجہ فرمائی اور خود میراں پور میں مقیم ہوئے تاکہ روز مرہ کا حال صاحب کو معلوم ہوتا رہے اور ہر طرح ہماری نسلی اور تشفی رہے چنانچہ علاوہ اس روبکاری کے جس کا ذکر اوپر لکھا سولھویں اگست 1857ء کو ہم نے ایک رپورٹ حالات ضلع کی بہ حضور صاحب ممدوح روانہ کی جس کی نقل اس مقام پر لکھتے ہیں نقل رپورٹ حالات ضلع مرقومہ 16اگست سنہ1857ء نقل رپورٹ میں رحمت خاں بہادر صاحب ڈپٹی کلکٹر و سید احمد خاںصدر امین منتظمان ضلع بجنور بنام مسٹر جارج پامر صاحب بہادر جنٹ مجسٹریٹ مرقومہ 16اگست سنہ1857ء ’’ حال اس ضلعے کا یہ ہے کہ سوائے پرگنہ نجیب آباد کے اور سب طرف امن ہے قصبہ نٹھور اور سیوھارہ اور میمن اور نگینہ اور کچھ لوگ بہ ارادہ مفسدہ جمع ہوئے تھے ان کے متفرق کرنے کی تدبیریں کی گئی ہیں غالب ہے کہ متفرق ہو گئے ہوں یا شام صبح ہو جاویں چودھری رندھیر سنگھ اور چودھری بدھ سنگھ رئیسان ھلدور اور چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاج پور مع جمعیت مناسب بجنور میں موجود ہیں اور انتظام ضلع میں مع رئیسان بجنور ہر طرح کی مدد دیتے ہیں حال نجیب آباد کا یہ ہے کہ سنا جاتا ہے کہ نواب محمود خاں کے پاس قریب پانچ ہزار کی جمعیت اور ایک توپ برنجی نو طیار ان کے پاس موجود ہے اور نجیب آباد میں ایک توپ اور طیار کروائی ہے اور جس قدر دیہات قرب و جوار نجیب آباد کے ہیں ان کو لوٹتے ہیں اور جلاتے ہیں ہماری دانست میں جس قدر سرکاری فوج آنے میں توقف ہو گا اسی قدر ان کے پاس جمعیت زیادہ ہوتی جاوے گی اور اگر سرکاری فوج جلد تر اس ضلعے میں آ جاوے گی تو فی الفور ان کی جمعیت منتشر ہو جاوے گی حال جاری ہونے ڈاک کا یہ ہے کہ جناب صاحب کمشنر بہادر میرٹھ اور جناب صاحب جج بہادر مراد آباد نے یہ حکم بھیجا ہے کہ ڈاک سابق جاری کی جاوے یعنی راؤلی سے مظفر نگر تو اس کے اجرأ کی تدبیر ہو رہی ہے اور حضور جو چاہتے ہیں کہ روزانہ خبر حضور کو بمقام جولی یا میراں پور پہنچے تو اس کام کے لیے ضرور ہے کہ بذریعہ سوار ہر روز یہاں کے حالات حضور میں روانہ ہوا کریں کیونکہ مظفر نگر کی ڈاک جاری ہونے سے یہ مطلب حاصل نہیں ہو گا اس واسطے مظفر نگر کی ڈاک بھی بدستور سابق جاری کریں گے اور حضور کے پاس جداگانہ معرفت سوار کی یا ھرکارہ کی روزانہ حالات یہاں کے روانہ کیا کریں گے۔‘‘ سترھویں اگست سنہ 1857ء کو ہم نے ایک اور رپورٹ روئداد ضلع کی بہ حضور جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر کے روانہ کی، اس کی نقل بھی بعینہ مندرج کرتے ہیںـ نقل رپورٹ ثانی متضمن روئداد ضلع مرقومہ 17اگست سنہ 1857ء نقل رپورٹ محمد رحمت خاں ڈپٹی کلکٹر و سید احمد خاں صدر امین منتظمان ضلع بجنور مورخہ 17اگست سنہ 1857ء ’’ اس وقت تک حال ضلع کا بدستور ہے کوئی بات نئی نہیں ہے مگر کئی باتیں قابل عرض کے ہیں حضور ان کو بعد غور ملاحظہ فرماویں اور مفصل اس کے جواب سے مطلع کریں اول یہ کہ نواب محمود خاں باوجود ان سب باتوں کے جو وقوع میں آئیں تدبیر جمع کرنے آدمیوں اور درستی توپوں میں مصروف ہے جس قدر حضور کے آنے میں توقف اور تاخیر ہو گی وہ سامان درست کرتا جاوے گا دوسرے یہ کہ اس ضلع کے رئیسوں کے پاس کچھ فوج ملازم نہیں ہے بلکہ سب زمیندار اور آپس کی برادری وقت پر جمع ہو جاتی ہے اس صورت میں ایک مدت دراز تک جمع رہنا ان لوگوں کا غیر ممکن ہے علاوہ اس کے اگر وہ لوگ جمع بھی رہیں تو اخراجات خوراک روز مرہ ان کا اس قدر پڑتا ہے کہ کوئی رئیس متحمل نہیں ہو سکتا اور سوائے اس کے کارخانہ کشتکاری بالکل تباہ اور برباد اور مسدود ہوا جاتا ہے انجام کو یہ نقصان سرکار ہی پر عائد ہو گا اور باعث بربادی زمینداروں کا ہو گا اس صورت میں جلد تر آنا حکام کا اور فوج سرکار ی کا اس ضلع میں ضرور ہے تیسرے یہ کہ حضور حکام والا مقام سے جو انتظام اس ضلع کا تا تشریف آوری حکام انگریزی ہم ملا زمان سرکاری کی سپرد ہوا ہے۔ تو ہم لوگ بہ اعانت رئیسان اس ضلع کے انتظام میں مصروف ہیں اور ظاہر ہے کہ اگر جمعیت ان لوگوں رئیسوں کی متفرق ہو جاوے گی تو کسی طرح انتظام ضلع کا ممکن نہ ہو گا، کیونکہ ہم لوگوں کے پاس کچھ جمعیت فوج وغیرہ کی جس سے انتظام ضلع کا کیا جاوے نہیں ہے اور جس قدر برقندانہ اور چپراسی تھانہ جات پر متعین تھے ان میں سے اکثر غیر حاضر ہو گئے ہیں اور مع ھذا صرف ان لوگوں سے ایسے وقت میں انتظام ضلع کا ممکن نہیں چوتھے یہ کہ اگر اس ضلع میں اندیشہ نواب محمود خاں کی یورش کا نہ ہوتا تو چنداں مشکل درباب انتظام ضلع کے نہ ہوتی ایسی حالت میں جس قدر جلد ممکن ہو سرکاری فوج کا آنا چاہیے ورنہ کوئی صورت انتظام ضلع کے قائم رہنے کی معلوم نہیں ہوتی اور نواب محمود خاں کے پاس روپیہ اور سامان سرکاری جو لے گیا ہے بہت ہے اس سبب سے اس کو فوج رکھنے میں کچھ تامل اور دریغ نہیں ہے پانچویں یہ کہ حضور جو یہ ارقام فرماتے ہیں کہ ہم میراں پور میں صرف اس واسطے مقیم ہیں کہ ہر روز خبر ضلع بجنور کی حضور کے پاس پہنچتی رہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی تشریف آوری اس ضلع اور برھمئی انتظام متصور ہے اس واسطے امیدوار ہیں کہ حضور بہ تعین تاریخ ارقام فرماویں کہ حضور کس تاریخ اس ضلع میں تشریف لاویں گے تاکہ بہ لحاظ اس کے انتظام جمع رہنے جمعیت کا کیا جاوے۔‘‘ جس قدر ہم تاکید واسطے آنے فوج سرکاری کے جناب جارج پامر صاحب بہادر کو لکھتے تھے اس سے زیادہ صاحب موصوف بدل اس میں کوشش کر رہے تھے مگر ھنوز جواب اس رپورٹ کا جو گورنمنٹ میں روانہ ہوئی تھی نہیں آیا تھا اس سبب سے صاحب ممدوح کوئی تاریخ در باب بھیجنے فوج کے ضلع میں اور کوئی دن اپنی تشریف آوری کا مقرر نہیں فرما سکتے تھے الاھر طرح سے تشفی ہم لوگوں کی اور رئیسان کی فرماتے تھے اور نہایت دانائی سے ایسی تدبیروں میں مشغول رہتے تھے کہ جس سے عوام الناس کی خاطر جمع رہے اور وہ جانیں کہ بہت جلد سرکاری فوج آنے والی ہے۔ بجنور سے براہ میران پور میرٹھ تک نئی ڈاک کابیٹھنا درباب انتظام اور اجرائے ڈاک کے ہم نے بہت کوشش کی اور روبکاری ضلع مظفر نگر میں واسطے بندوبست ھرکاروں کے گھاٹ راولی تک روانہ کی اور ایک نئی ڈاک بجنور سے میراں پور ہوتی ہوئی میرٹھ تک بٹھائی تجویز کی اور بابو کنج لال ڈپٹی پوسٹ ماسٹر کو جو نواب کے ظلم سے ڈاک خانہ سے اٹھایا گیا تھا بولا کہ ڈاک خانہ میں بٹھا دیا اور دو ھرکارہ بمقام بجنور اور دو ھرکارہ بمقام گھاٹ دارا نگر متعین کیے کہ دارا نگر کے ھرکاروں کی آمد و رفت دھرم پورہ تک ہوتی تھی اور دھرم پورہ سے جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر نے انتظام چوکیات ھرکاروں کا کر لیا تھا چنانچہ یہ سب انتظام بخوبی ہو گیا تھا اور ڈاک جاری ہو گئی تھی اور سترھویں اگست سنہ 1857ء کو ہم نے رپورٹ تکمیل اور جاری ہونے ڈاک کی بخدمت صاحب ممدوح روانہ کی۔ پنڈت رادھا کشن کا بحضور جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر بمقام میراں پور جانا پنڈت رادھا کشن ڈپٹی انسپکٹر نے یہ تجویز کی کہ وہ خود میراں پور میں جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر کے پاس جاویں اور تمام حالات ضلع کے زبانی عرض کریں اور اگر ممکن ہو تو چودھریوں کی صاحب ممدوح سے بھی ملاقات کروائیں کہ اس میں صاحب ممدوح کو بھی بخوبی حالات ضلع سے اطلاع ہو گی اور چودھریوں کو بھی اور نیز سب لوگوں کو زیادہ تر طمانیت رہے گی چنانچہ سترھویں تاریخ کو پنڈت رادھا کشن ڈپٹی انسپکٹر ایک آدمی اپنا اور ایک سوار چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاجپور کا لے کر روانہ ہوئے اور میراں پور میں صاحب ممدوح کی ملازمت حاصل کی اور تمام حالات ضلع زبانی عرض کیے اور بمقام دھرم پورہ جو کنارہ گنگ پر ہے چودھریوں کی ملازمت ٹھہرائی اور چودھریوں کو بلایا، چنانچہ چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاج پور اور چودھری رندھیر سنگھ رئیس ھلدور اور چودھری نین سنگھ رئیس بجنور دھرم پورہ میں گئے اور چودھری جودھ سنگھ جو پہلے سے پار گئے ہوئے تھے وہ بھی آ شامل ہوئے اور 18اگست سنہ 1857ء کو صاحب ممدوح کی ملازمت کی صاحب ممدوح نے سب کی تسلی اور تشفی فرمائی اتنے میں غلغلہ پڑا کہ نواب بجنور پر چڑھ آیا اور یہ غلط خبر دھرم پورہ میں پہنچی چودھری صاحبوں کا اس خبر کے سننے سے رنگ فق ہو گیا اور نہایت اضطرار کی حرکتیں کرنے لگے اور ھوش جاتے رہے مگر چودھری رندھیر سنگھ کا استقلال بدستور تھا اور وہ بخوبی اور دانائی سے صاحب ممدوح سے مصلحت کرتے رہے کہ اگر یہ خبر سچ ہو تو کیا کیا جاوے مگر در حقیقت یہ خبر غلط تھی غرضکہ صاحب ممدوح نے بعد بات چیت کے سب کو رخصت کیا اور اسی تاریخ یہ سب لوگ مع پنڈت رادھا کشن ڈپٹی انسپکٹر کے بجنور میں واپس آئے۔ دیہات قرب و جوار نجیب آباد کا پھونکا جانا باایں ہمہ احمد اللہ خاں اور شفیع اللہ خاں اپنی بد نیتی اور فساد انگیزی سے باز نہیں آتے تھے اور ہندوؤں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے اور دیہات قرب و جواد نجیب آباد کے لوٹنے اور پھونکنے میں مشغول تھے، چنانچہ شفیع اللہ خاں نے موضع موسیٰ پور کو جلا دیا تھا اور ماڑے اور عباد اللہ خاں نے جس کو نواب نے تحصیلدار نگینہ معزولی مولوی قادر علی تحصیلدار کے مقرر کیا تھا دیہات حسن پورہ و موھن پورہ و شفیع آباد و کار دلی و نراین پور پٹی جاٹاں کو کہ یہ سب گاؤں مسکن جاٹاں تھے لوٹ لیا تھا اور پھونک دیا اور میر جیون علی رئیس میمن بھی نجیب آباد میں موجود تھا اور ان کا شریک سمجھا جاتا تھا اس لیے ہم نے 19اگست سنہ 1857ء کو بہ حضور مسٹر جارج پامر صاحب بہادر رپورٹ کی اور یہ درخواست کی کہ صاحب موصوف کی طرف سے جیون علی کے نام خط جاری ہو کہ وہ شرکت سے باز آوے اور رائے ہمت سنگھ رئیس ساھن پور کے نام بھی خط طلب کیا اس مطلب سے کہ ان کا علاقہ متصل نجیب آباد کے ہے وہ اس فساد کو روکیں اور مفتی محمد اسحاق رئیس کیرت پور کے نام بھی خط مانگا اس مقصد سے کہ وہاں سے کوئی تازہ فساد اٹھنے نہ پاوے چنانچہ صاحب ممدوح نے ہماری رپورٹ کا جو جواب اور خطوط بنام رئیسان بھیجے وہ بجنسہ اس مقام پر نقل کرتے ہیں۔ نقل خط جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر جنٹ مجسٹریٹ ضلع بجنور: ’’ خالصا جب مشفق مہربان محمد رحمت خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر و سید احمد خاں صاحب صدر امین سلامت! بعد سلام شوق واضح باد خط آپ کا مورخہ امروز پہنچا آپ اسی طرح سے روز روز حال وہاں کا ارقام فرماتے رہیں اور خط آپ کا برابر بذریعہ ڈاک بخدمت صاحب کمشنر بہادر میرٹھ اور نیز صاحب کلکٹر بہادر کہ آج خبر تشریف آوری صاحب موصوف کی مقام میرٹھ پہنچی ہے بھیجا جاوے گا حسب درخواست آپ کے دو قطعہ خط موسومہ رائے ہمت سنگھ رئیس ساھنپور اور میر جیون علی رئیس میمن کے آپ کی معرفت بھیجے جاتے ہیں آپ خط مذکور پاس رئیسان موصوف بہت جلد پہنچا دیں اور ہم کو معلوم ہوا ہے کہ قبل آنے خط تمہارے کے ایک قطعہ خط بنام مفتی محمد اسحاق رئیس کیرت پور کے روانہ کر دیا ہے اور امید ہے کہ تا آنے صاحب کلکٹر اور اس مخلص کے نوبت مسلح بازی کی نہ پہنچے مگر ہر طرح لازم ہے کہ بجنور میں بے انتظامی نہ ہو اور چونکہ عشرہ محرم درپیش ہے یقین ہے کہ آپ نے تدبیر انتظام اس کی کی ہو گی اور آپ اطمینان رکھیں کہ صاحب کلکٹر اور ہم مع مدد کے جلد ارادہ تشریف لانے کا ضلع میں رکھتے ہیں، چنانچہ صاحب کمشنر بہادر ضلع میرٹھ فوج کامل جمع کرنے میں واسطے بندوبست ضلع کے ہر وقت مصروف ہیں اور ہزاروں تدبیر کرتے ہیں، مگر آپ کو بخوبی واضح ہے کہ بلا فوج کامل ہمارا آنا غیر مناسب ہو گا مناسب کہ تھوڑے عرصہ تک بالا تفاق و اعانت رئیسان آپ انتظام رکھیں اور بندوبست ہر کاران ڈاک کا بجنور سے میرٹھ تک بخوبی ہو گیا نسبت جاری ہونے آمد و رفت خطوط کے تدبیر فرماویں جو کچھ یہاں کی خبر ہے اس جا پر منتشر ہو جاوے تاکہ اسے بھی صفائی ہوا کی متصور ہو اور جو کچھ آپ کی جانب سے کوشش اور خیر خواھی سرکار میں ظاہر ہے بھولی نہ جائے گی اور سب رئیسان سے ہمارا سلام کہہ دیجئے اس وقت شب بہت گذری اس باعث سے خط علیحدہ نہیں لکھا گیا ان کی ملاقات سے ہم کو بہت دلجمعی حاصل ہوئی ہمیشہ حالات وہاں سے اطلاع فرماتے رہیں تحریر بہ تاریخ 19اگست سنہ 1857 عیسوی‘‘ خط جناب جارج پامر صاحب بہادر کا بنام رائے ہمت سنگھ رئیس ساھنپور نقل خط جناب جارج پامر صاحب بہادر بنام رائے ہمت سنگھ رئیس ساھنپور: ’’ رائے صاحب مہربان دوستان سلامت! بعد اشتیاق ملاقات فرحت آیات واضح باد جس روز کہ صاحب کلکٹر بہادر ضلع بجنور سے تشریف فرما ہوئے خزانہ سرکاری اور انتظام ضلع سپرد نواب محمو دخاں کے کیا چند روز کا عرصہ ہوا کہ دریافت ہوا کہ مابین نواب صاحب اور چودھریان کے فساد ہو کر نوبت مقابلہ کی پہونچی اور نواب صاحب بجنور سے نجیب آباد کو چلے گئے۔ آپ کو واضح ہووے کہ اس حالت میں صاحب کمشنر بہادر میرٹھ نے محمد رحمت خاں ڈپٹی کلکٹر اور سید احمد خاں صدر امین کو ارشاد فرمایا کہ بہ اعانت رئیسان ضلع انتظام ضلع کا تا تشریف آوری صاحبان ضلع کے کریں اس واسطے لازم ہے کہ ہر طرح ان کو مدد دیویں اور حکم ان کا مثل حکم سرکاری کے تصور کریں اور چونکہ بعض لوگوں سے دریافت ہوا کہ نواب صاحب ارادہ چڑھ آنے بجنور کا رکھتے ہیں تم ایسی تدبیر کرو کہ یہ مقابلہ نہ ہونے پاوے ورنہ پھر بے انتظامی اور بربادی رعایا ہو جاوے گی اور ہمیشہ اپنے حال سے مطلع کرتے رہو تحریر بتاریخ19اگست سنہ 1857ئ‘‘ خط جناب مسٹر جارج پامر صاحب بنام میر جیون علی رئیس میمن نقل خط جناب جارج پامر صاحب بہادر بنام میر جیون علی رئیس میمنـ: ’’ میر صاحب مہربان دوستان سلامت! بعد اشتیاق ملاقات فرحت آیات واضح یاد کہ مابین نواب محمود خاں اور چودھریان تعلقہ داران قوم ھنود کے تکرار ہو کر نوبت مسلح بازی کو پہونچی خونریزی ضلع سے سرکار کو نہایت افسوس ہے آپ کو واضح ہو کہ اس حالت میں چند روز سے صاحب کمشنر بہادر میرٹھ نے محمد رحمت خاں ڈپٹی کلکٹر و سید احمد خاں صدر امین کو ارشاد فرمایا کہ انتظام ضلع تا تشریف آوری صاحبان ضلع کے کریں آپ اس تجویز سے مطلع رہیں اور واضح ہووے کہ صاحبان ضلع مع فوج سرکاری واسطے بندوبست علاقہ کے ارادہ تشریف آوری کا بہت جلد رکھتے ہیں لہٰذا آپ کو ہر طرح لازم ہے کہ اپنے علاقہ میں انتظام اچھی طرح رکھو کسی طرح نوبت مقابلہ کی نہ پہنچے اور فساد نہ ہونے پاوے چونکہ تم رئیس ہو وقت تحقیقات ذمہ دار سرکار کے متصور ہو گے تحریر بہ تاریخ 19اگست سنہ 1857عیسوی‘‘ یہ سب خط ہم نے رئیسوں مذکورہ بالا کے پاس بھیج دیے اور اس بات کی رپورٹ بیسویں اگست سنہ 1857ء کو بحضور جناب جارج پامر صاحب بہادر جنٹ مجسٹریٹ بمقام میران پور روانہ کر دی اور واسطے انتظام عشرہ محرم کے جو اشتہارات کے عہد تسلط سرکار دولت مدار میں جاری ہوتے تھے وہ جاری کیے اور ہر طرح کا بندوبست مناسب کیا کہ عشرہ محرم کی بابت کسی طرح کا فساد نہ ہونے پاوے۔ نا محمود خاں کا بحضور جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر خط کا لکھنا جب کہ نا محمود خاں کو یہ خبر پہنچی کہ جناب مسٹر جارج پامر صاحب جنٹ مجسٹریٹ بہادر بمقام میرانپور مقیم ہیں اور خط و کتابت چودھری صاحبوں سے برابر ہو رہی ہے تو اس نے بھی ایک خط بنام صاحب ممدوح متضمن زیادتی چودھری صاحبان اور بشکایت اس بابت کے کہ مجھ کو چودھری صاحبوں نے مقابلہ کر کے اٹھا دیا اور تمام ضلع میں بد انتظامی کر دی چودھویں اگست سنہ 1857ء کو روانہ کیا تھا جب وہ خط صاحب ممدوح کے ملاحظہ میں گزرا تو انیسویں اگست کو صاحب موصوف نے اس کا جواب ارقام فرمایا کہ نقل اس کی اس مقام پر لکھی جاتی ہے: خط جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر بنام نا محمود خاں در جواب اس کے خط کے ’’ نواب صاحب مشفق مہربان مخلصان محمد محمود خاں صاحب ذاد عنایتہ! بعد شو ملاقات کہ بدرجہ غایت ہے واضح خاطر خطیر باد خط آپ کا مرسلہ چودھویں اگست سنہ 1857ء آج ہمارے پاس پہنچا مضمون اس کا معلوم ہوا چنانچہ بجنسہ خط کو پاس صاحب کلکٹر بہادر و صاحب کمشنر بہادر کے بمقام میرٹھ روانہ کیا گیا اور قبل از پہنچنے خط آپ کے سرکار کو معلوم ہوا کہ آپ کے ملازمان اور تعلقہ داران چودھریان کے بیچ میں بمقام شیر کوٹ و بجنور کے مقابلہ ہوا اور ہونے فساد اور اجرائے خون علاقہ میں سرکار کو بڑا افسوس ہے چنانچہ واسطے انتظام ضلع کے صاحب کمشنر بہادر نے محمد رحمت خاں ڈپٹی کلکٹر و سید احمد خاں صدر امین کو ارشاد فرمایا اور آپ اس بات کو مطلع ہوویں اور واضح ہو کہ صاحبان ضلع مع جمعیت فوج کامل کے بہت جلد تشریف لاویں گے اور وقت تشریف آوری کے سارے حال کی دونوں طرف سے تحقیق ہو جاوے گا آپ کو لازم ہے کہ تا تشریف آوری صاحبان کے آپ ہر طرح کے ملازمان کو مقابلہ سے باز رکھیے اور مکرر آپ کو لکھا جاتا ہے کہ دو دفعہ خط صاحب کمشنر صاحب بہادر معرفت تحصیلدار مظفر نگر پاس آپ کے بھیجا گیا دونوں دفعہ ڈاک سے واپس آیا اب پاس آپ کے بھیجا جاتا ہے والسلام ‘‘ نتاریخ 19اگست سنہ 1857ء یہ خط جناب کمشنر بہادر کا جس کا اس میں ذکر ہے مورخہ 15اگست سنہ1857ء کا تھا اور اس خط میں صاحب کمشنر بہادر نے نواب محمود خاں کو نصائح ارجمنڈ ارفام فرمائے تھے اور خونریزی اور مقابلہ اور ظلم سے اور طلب باقی پر اس قدر زیادتی سے منع فرمایا تھا اور جو حال نانا راؤدھوندھوپنت مرہٹہ کا بسبب عدول حکمی اور عدم بجا آوری احکام سرکار ہوا تھا وہ بھی لکھا تھا اور بخوبی سمجھا دیا تھا کہ جو لوگ بہ اطاعت سرکار کام انجام کریں گے وہ فائدہ مند اور جو اس کے برخلاف کریں گے ذلیل و خوار و سزا یاب ہوں گے۔ مشورہ در باب یورش نجیب آباد اگرچہ یہ سب تدبیریں ہو رہی تھیں مگر نا محمود خاں کی طرف سے خاطر جمع نہ تھی اور چودھری صاحبوں کو تردد تھا کہ درباب معاملہ چڑھائی نجیب آباد کیا کیا جاوے اور ہمارے ساتھی پنڈت رادھا کشن ڈپٹی انسپکٹر نے اس کا حال جناب مسٹر جارج پامر صاحب کو لکھا تھا در جواب اس کے دو قطعہ چٹھیات صاحب ممدوح کی ہمارے پاس آئیں کہ ان کو اس مقام پر لکھتے ہیں چٹھی جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر بنام پنڈت رادھا کشن ڈپٹی انسپکٹر: ’’ میرے پاس خط نواب کا نجیب آباد سے آیا اور میں نے اس کا جواب بھی لکھا ہے تعلقہ داروں سے کہہ دو کہ اپنے لوگوں سے کہہ دیں کہ وہ رستہ میں نے پھاڑا جاوے مضمون میرے خط کا یہ تھا کہ میں نے نواب کو لکھ بھیجا ہے کہ اور جگہ رئیسوں سے نہ لڑے کہہ دو ان سے کہ اگر وہ اپنا مقام نجیب آباد میں رکھے ان کو اکیلا چھوڑ دے تو ان کو بھی ایسا ہی ان کی نسبت کرنا چاہیے میں دل سے بھروسا کرتا ہوں کہ جب تک ہم آویں گے کوئی اور لڑائی نہ ہو گی۔ مسٹر شیکسپیئر صاحب بہادر میرٹھ میں پہنچ گئے ہیں ایک رجمنٹ سکھ کی آج مظفر نگر میں پہنچنے والی ہے کچھ آدمی اس میں سے مجھ کو ملیں گے مگر یہ امر موقوف افسران فوج پر ہے میں نے خطوط تمہارے پاس اور ڈپٹی محمد رحمت خاں صاحب اور صدر امین صاحب اور رئیسوں کے پاس بذریعہ سوار آج کی صبح کو بھیجے ہیں تمہارے پاس کچھ حال چٹھی میور صاحب آمدہ آگرہ مع اخبار کے اخبار تازہ سے منتخب کر کے بھیجتا ہوں۔ اس کا ترجمہ کر کے سب کو سنا دو۔ بہتر کہ تم میرے پاس کل تک چلے آؤ اور رئیسوں کو مناسب ہے کہ ایک دو روز کا توقف نجیب آباد کے جانے میں کریں جب تک نواب ہی ان سے لڑے کو نہ چلا آوے‘‘ 19اگست سنہ 1857ء دوسری چٹھی جناب جارج پامر صاحب بہادر بنام پنڈت رادھا کشن ڈپٹی انسپکٹر ’’ بذریعہ اس ڈاک کے دو چٹھی کمشنر صاحب کی بنام چودھریوں کے بھیجتے ہیں ان سے کہہ دو کہ فوج کے مہیا کرنے میں مشکل بباعث خاص حکم کمان افسر دھلی کے پیدا ہوئی ہے اور صاحب کمشنر نے اور میں نے اس باب میں بہت سا لکھا ہے غالب ہے کہ بر خلاف حکم افسر کے سر جان لارنس صاحب بہادر چیف کمشنر پنجاب تعمیل کریں اور قائل کریں ہم کو کہ ہم پھر بجنور کو عنقریب چلے جاویں میں ملفوف کرتا ہوں ایک چٹھی مسٹر ولسن صاحب بہادر کی جو میرے پاس گذشتہ شب کو آئی تھی اس سے یقین آ جاوے گا کہ میں اور کمشنر کمال کوشش کر رہے ہیں تاکہ بجنور میں پہنچ کر چودھریوں کی مدد کریں میں نے رئیس کیر تیمور کو لکھ بھیجا ہے کہ وہ کسی طرح مدد مفسدین کی نہ کریں بہ لحاظ نجیب آباد کے جو تم اپنی چٹھی میں لکھتے ہو کہ رئیس بغیر حکم سرکار کے حملہ کرنا نہیں چاہتے ان کو ہوشیاری کام میں لانا چاہیے بالفعل بے شک سرکار ان کی مدد واسطے قائم رکھنے انتظام ضلع کے تا وقت پہنچنے فوج کے چاہتی ہے اس لیے وہ بالکل مختار ہیں، چاہیں حملہ کریں یا جو کچھ واقعی ان کو ضرور واسطے رکھنے انتظام کے معلوم ہو، لیکن اگر ممکن ہو تو بہتر ہے کہ وہ انتظار ایک دو روز کا کریں تاوقتیکہ بخوبی حال ہماری مراجعت کا معلوم ہو اور میں یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ یہ کام خود بھی بہت جوکھوں کا ہے‘‘ 19اگست سنہ 1857ء رامدیال سنگھ کے روانہ ہونے کے بعد نگینہ کا حال اب اس مقام پر ہم کو مختصر حال نگینہ کا لکھنا مناسب ہے کہ ھلدور سے رامدیال سنگھ کے روانہ ہونے سے پہلے بدمعاشان نگینہ نے موضع نند پور کو لوٹ لیا تھا اس لیے رام دیال سنگھ موضع پھولسندہ میں ٹھہر گیا اور میر تراب علی نگینہ چلے گئے دوسرے دن رامدیال سنگھ کالا کھیڑی میں آیا جو نگینہ سے دکھن کی طرف دو میل ہے اور وہاں سے نگینہ والوں سے گفتگو صفائی کی شروع کی بلا شبہ نتھو خاں اور مینڈھو خاں ملازمان نواب کو آنا رامدیال سنگھ کا نگینہ میں ناگوار تھا اس لیے رامدیال سنگھ موضع پورینی میں چلا گیا جو نگینہ سے پورب کی طرف تین میل ہے اور وہاں رامدیال سنگھ نے گنواری بگل بجوا کر آدمی جمع کرنے شروع کیے جملہ رئیسان نگینہ یعنی مولوی محمد علی اور شیخ نجف علی اور میر اشرف علی ولد امیر علی اور کنور کشن سنگھ اور پدھان نیلا پت وغیرہ بموجب صلاح اور فہمائش سید تراب علی کے امن چاہتے تھے مگر ملازمان اور افسران فوج نواب کے جو وہاں موجود تھے مقابلہ پر مستعد تھے چنانچہ مینڈھو خاں پسر نتھے خاں اور اشرف علی ولد علی بخش نگینہ سے نجیب آباد گئے اور یہ بات چاہی کہ عباد اللہ خاں کو جو رشتہ مند محمود خاں اور تحصیلدار نگینہ تھا اور بر وقت بھاگنے احمد اللہ خاں کے اس کے ساتھ چلا گیا تھا پھر نگینہ میں لا کر تحصیل میں بٹھا دیں سید تراب علی تحصیلدار نے جب دیکھا کہ فساد زیادہ ہوتا ہے اور مفسد لوگ رئیسوں کے بھی قابو کے نہیں ہیں وہاں سے مع میر لطافت علی تھانہ دار منڈاور جو ان کے ساتھ تھے اپنے اہل و عیال و تھانہ دار کے اہل و عیال لے کر نگینہ سے روانہ ہوئے اور کئی آدمی مسلمان نگینہ کے اور اور پران سکھ بشنوئی ان کے ساتھ ہوئے جب موضع پورینی میں پہنچے تو گنواروں نے جو صرف لوٹ کے لالچ سے جمع تھے ان کو لوٹنا چاہا جیراج سنگھ نمبردار پورینی نے ان کی حفاظت کی اور مجبور ہو کر اور خود ساتھ جا کر پھر نگینہ میں پہنچا دیا کیونکہ ان بے قرار گنواروں کے ہاتھ سے لٹنے سے بچنا نا ممکن تھا۔ رئیسوں کا مشورہ درباب چڑھائی نجیب آباد کے جب سید تراب علی نگینہ میں پہنچے تو مینڈھو خاں اور اشرف علی ولد علی بخش پانسو چار سو آدمی ور دو جزائل نجیب آباد سے لے کر نگینہ میں آ چکے تھے سید تراب علی تحصیلدار نے سب رئیسوں کو صلاح دی کہ جس طرح ہو سکے ان لوگوں کو نجیب آباد بھیج دو سب رئیس ہندو مسلمان اس بات پر متفق ہوئے اور بہت کوشش اور تدبیر سے ان لوگوں کو نجیب آباد واپس کیا اور یہ خبر ہم کو بجنور میں ملی یہاں بجنور میں جو رئیس جمع تھے وہ آپس میں صلاح کر رہے تھے کہ اب نجیب آباد پر چڑھائی کی جاوے یا نہیں چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاجپور کی یہ رائے تھی کہ فساد زیادہ بڑھانا اچھا نہیں معلوم نہیں کہ انجام کیا ہو گا۔ جس طرح ہو سکے یہ صلح و آشتی چند روز ضلع تھامنا چاہیے بلکہ چودھری پرتاپ سنگھ کے نزدیک نگینہ پر بھی جو آدمی گئے اور وہاں بنیاد فساد کی پڑ گئی نا مناسب ہوا چودھری بدھ سنگھ صاحب رئیس ھلدور بسبب اپنی شجاعت و جواں مردی کے یہ رائے دیتے تھے کہ نجیب آباد پر یورش کی جاوے اور سب آدمیوں کو لے کر نجیب آباد پر چڑھ چلیں اور دو جگہ جو ان چودھری صاحب نے نواب کو شکست دی تھی اس سبب سے ان کا ارادہ ہمت اور جرات اور دلیری بہت بڑھی ہوئی تھی ہم کو نجیب آباد جانے میں بہت قباحتیں نظر آتی تھیں اور ہر گز ہماری رائے نہ تھی کہ یہ مانگی پکار نجیب آباد پر فتح پاوے گی اور یہ گنوار شہر کی گلیوں میں گھس کر اور نواب کے پختہ اور مستحکم مکانات پر قابو پا کر فتح یاب ہوں گے اور یہ ہماری رائے بہت سچی اور نہایت صحیح تھی کہ کبھی اس کے بر خلاف نہیں ہو سکتا بلکہ ہماری رائے میں نگینہ میں صرف ایک توپ کے سانچے پر جس کا بننا اور چھوٹنا اور پھر اس کے گولے سے کسی آدمی کا مرنا صرف ایک وھمی و خیالی نہ ہونے والی بات تھی اس قدر فساد ہونا نہایت نا مناسب تھا اور میں خوب سمجھتا تھا کہ نگینہ کا اگر فساد زیادہ ہوتا گیا تو انجام کو یہی فساد ضلع کے انتظام میں خلل ڈالے گا چنانچہ ہماری رائے بہت صحیح تھی کہ انجام کو ایسا ہی ہوا اور ہم بہت چاہتے تھے کہ نگینہ پر سے لڑائی موقوف ہو جاوے اور جس طرح ہو سکے چند روز ضلع کو تھاما جاوے کیونکہ ہم یقین سمجھتے تھے کہ تھوڑی سی بھی سرکاری فوج آنے کے بعد بخوبی انتظام ہو جاوے گا اور بلا شبہ کسی مقام پر مقابلہ کی حاجت نہ پڑے گی اور حکام انگریزی کے آنے کے بعد ایک بہت بڑی بنیاد فساد کی جس سے در حقیقت ضلع میں فساد ہوتا تھا یعنی یہ ڈر کہ اگر مسلمان غالب آئے تو ہندو مارے اور لوٹے جاویں گے اور اگر ہندو غالب آئے تو مسلمان تباہ اور جان سے ضائع ہوں گے بالکل جڑ سے اکھڑ جاوے گی کہ اتنے میں ہمارے پاس خبر پہنچی کہ فساد نگینہ موقوف ہو گیا اور ہم نے کمال خوشی سے اس کی رپورٹ بحضور جناب جارج پامر صاحب بہادر دام اقبالہ کے روانہ کی اور درباب چڑھائی نجیب آباد کے جو ہماری رائے تھی وہ لکھ کر اس معاملے میں ہدایت چاہی چنانچہ نقل اس رپورٹ کی اس مقام پر لکھتے ہیں۔ رپورٹ حالات نگینہ نقل رپورٹ محمد رحمت خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر و سید احمد خاں صدر امین مرقومہ 20اگست 1857ء ’’ حال یہاں کا یہ ہے کہ سابق میں جو خبر ہونے لڑائی کی بمقام بسی گورواں اور کوچ کرنے شفیع اللہ خاں کی جانب کیرتپور حضور میں لکھی تھی بعد تحقیقات کے معلوم ہوا کہ یہ دونوں خبریں غلط تھیں صرف اتنی بات صحیح ہے کہ احمد اللہ خاں نے کچھ اپنے آدمی کیرتپور میں واسطے جمع کرنے رسد کے بھیجے تھے ھنوز ان کا ڈیڑہ یا پیش خیمہ نہیں آیا نگینہ کا فساد رفع ہو گیا اس طرح پر کہ سب رئیس نگینہ کے ہندو اور مسلمان باہم متفق ہوئے اور انہوں نے یہ تجویز کی کہ قریب پانچ سو سات سو آدمی کے جو نجیب آباد سے آئے تھے مع چند مفسدان ساکنین نگینہ جو باعث فساد کے ہوئے تھے نگینہ سے چلے جاویں اور نگینہ میں کچھ فساد نہ کریں چنانچہ سنا گیا کہ وہ لوگ نگینہ سے نجیب آباد کو چلے گئے مگر اب تک خط میں تراب علی کا نہیں آیا یقین ہے کہ آج کل میں خط میر تراب علی کا آوے یا وہ خود مراجعت کریں سب چودھری صاحبوں کو مصلحت دی گئی ہے کہ اپنی جمعیت کو کسی طرح متفرق ہونے نہ دیں چنانچہ چودھری صاحب بھی اسی امر میں بہت سی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ان کی جمعیت متفرق نہ ہو اگرچہ تحقیق سنا گیا ہے کہ نواب محمود خاں اور ان کے ہمراہیوں نے چند دیہات زمینداری چودھریان ھلدور اور رائے ہمت سنگھ رئیس ساھنپور کے جلا دیے الا با ایں ہمہ ہم مناسب نہیں دیکھتے کہ چودھری صاحبان نجیب آباد کے اوپر حملہ کریں کیونکہ اس میں خرابیاں خیال میں گزرتی ہیں اور یہ جو تجویز تھی کہ سب لوگ بمقام کیرتپور ڈیرہ کریں یہ بھی مناسب نہیں معلوم ہوتا اب صلاح ہماری یہ ہے کہ سب رئیس بمقام سواھیڑی مقیم رہیں اور کچھ جمعیت اپنی راہ منڈ اور پر اور کچھ راہ نگینہ پر مقیم کریں تاکہ سب ناکہ نجیب آباد کے رک جاویں اور چند روز حملہ نجیب آباد کا ملتوی رہے اور ہم کو یقین کامل ہے کہ جس وقت سرکاری فوج تھوڑی بہت اس طرف اتری سب لوگ خوف کر کے مطیع ہو جاویں گے اور امید ہے کہ کسی طرح نوبت مقابلہ کی نہیں پہنچے گی اگر یہ تجویز درست آئی اور سرکاری فوج بھی جلد آ گئی تو صدھا آدمی قتل سے محفوظ رہیں گے اور رعایا سرکار کی امن میں رہے گی آئندہ اس باب میں جو رائے اور مصلحت کہ حضور کے نزدیک ہو وہ ارقام فرمائی جائے کہ مطابق اس کے تعمیل ہو ہم نے بنظیر مصلحت اب تک اس ضلع میں تحصیل جاری نہیں کی کیونکہ اکثر زمیندار مالگذار جمعیت چودھریان ان کی جمعیت میں موجود ہیں جبکہ حضور اس ضلع میں تشریف لاویں گے اور سب زمیندار اپنے اپنے دیہات میں ٹھہریں گے فی الفور روپیہ سرکاری وصول ہونا شروع ہو جاوے گا کل کی عرضی میں جو واسطے تحریر خطوط کے حضور میں عرض کیا تھا یقین ہے کہ حضور کی طرف سے وہ خطوط تحریر ہوئے ہوں گے لیکن بہت ضرور ہے کہ ایک پروانہ حضور کی جانب سے اسی مضمون کا بنام احمد اللہ خاں جو حضور کے وقت میں تحصیلدار نجیب آباد تھا تحریر ہو کر بھیجا جاوے کیونکہ افواھاً سنا گیا ہے کہ احمد اللہ خاں جمعیت کو متفرق ہونے نہیں دیتا ایسی صورت میں حضور کا پروانہ اس کا نام پہنچنا واسطے رفع فساد کے بہت مفید ہو گا اور جو کہ عشرہ محرم قریب آ گیا ہے اس واسطے ہم نے تدبیریں کی ہیں کہ کسی طرح ہندو اور مسلمانوں میں نزاع اور فساد ہونے نہ پاوے اور سب طرح سے امن رہے اور خدا سے یقین ہے کہ ہماری تدبیریں کارگر ہوں اور ضلع میں امن رہے زیادہ حذ ادب آفتاب دولت و اقبال تاباں باد۔‘‘ جواب رپورٹ کا پیشگاہ جناب پامر صاحب بہادر سے نقل خط جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر در جواب عرضی مذکورہ بالا: ’’ خاں صاحب مشفق مہربان محمد رحمت خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر اور سید احمد خاں صدر امین سلمہ! بعد اشتیاق ملاقات فرحت آیات واضح باد خط آپ کا مورخہ تاریخ امروز پہنچا اور مضمون معلوم ہوا حسب مراد آپ کی بروانہ محنت بنام احمد اللہ خاں تحصیلدار سابق نجیب آباد کے تحریر کرا کر اس مضمون کا کہ اگر نواب صاحب ارادہ مقابلہ کرنے چودھریان سے رکھتے ہیںاور تم انتظام اور مدد اس کا کرتے ہو گنہگار سرکار ہو گے آپ کی معرفت روانہ کیا جاتا ہے آپ از راہ مہربانی پروانہ مذکور احمد اللہ خاں کے پاس بہت جلد پہنچا دیجئے آپ کو واضح ہو کہ کل خطوط مطلوبہ آپ کی معرفت روانہ کئے گئے یقین کہ آج پہنچے ہوں گے ہمارے نزدیک مصلحت آپ کی نسبت مقیم ہونے چودھریان بمقام سواھیڑی اور ناکہ گھیرنا راستہ نگینہ و نجیب آباد و منڈ اور کا نہایت مناسب معلوم ہوتا ہے مگر در حقیقت ہم کو اچھی طرح معلوم نہیں ہے نہ سوا ھیڑی کہاں ہے اور ہمارے پاس وقت نقشہ موجود نہیں ہے اس واسطے ہم صاف ہدایت نہیں دے سکتے الا اگر سوا ھیڑی مذکور بجنور سے بہت دور نہیں ہے اور ایسی جگہ ہے کہ اس میں راستہ کی حفاظت اچھی طرح صحت سے ہو سکتی ہے تو بہت مناسب جگہ مقام ہوئے ان کے ہو گا اور خیال کرنا چاہیے کہ براہ نگینہ اس جانب سے کچھ نقصان نہ ہونے پاوے۔ یقین ہے کہ اس موسم میں یہ سبب بارش اور جاری ہونے ندیوں سے افضل گڑھ کا راستہ بالکل بند ہے اور یقین ہے کہ مراد آباد کے راستہ پر نگرانی آمد و رفت کی ہوتی ہے یہ تدبیر احتیاطاً کی جاتی ہے مگر چونکہ صاحب کمشنر بہادر اور مسٹر ولسن صاحب بہادر کی طرف سے خطوط مناسب پاس نواب یوسف علی خاں والئی رام پور مرسل ہوئے اور ہماری طرف سے خط نواب محمود خاں کو لکھا گیا اور پروانہ احمد اللہ خاں کو ابھی جاری ہوتا ہے یقین ہے کہ کسی طرح سے ضلع میں نوبت مسلح بازی کی نہیں پہنچے گی آج ہمارے پاس کوئی از طرف میرٹھ نہیں پہنچا کوئی خبر لائق لکھنے کے نہیں پہنچی ایک پرچہ انگریزی خبر کاغذ لاہور کا آپ کے پاس روانہ کیا جاتا ہے اس کے مضمون معرفت پنڈت رادھا کشن کے معلوم ہو گا‘‘ فقط20اگست سنہ1857ء وہ خط موسومہ رئیسوں کے جن کا ذکراس خط میں ہے ہم اوپر لکھ آئے ہیں یعنی ایک خط میر جیون علی رئیس لیمن اور ایک خط بنام رائے ھمت سنگھ رئیس ساھنپور پروانہ مسٹر جارج پامر صاحب بہادر بنام احمد اللہ خاں ’’ رفت و عوالی مرتبت عزیز القدر محمد احمد اللہ خاں بعافیت باشند جس وقت سرکار کو معلوم ہوا کہ مابین ملازمان نواب محمد محمود خاں اور رئیسان قوم ہندو ضلع بجنور کے مقابلہ بمقام شیر کوٹ اور بجنور تھا سرکار اس امر کے اوپر بہت ناراض ہوئی تم کو واضح ہو کہ اس حالت میں صاحب کمشنر بہادر میرٹھ نے نسبت انتظام ضلع بجنور محمد رحمت خاں ڈپٹی کلکٹر اور سید احمد خاں صدر امین کو ارشاد فرمایا تم اس بات پر مطلع رہو بعضے لوگوں کے بیان سے مشہور ہوتا ہے کہ نواب صاحب پھر واسطے کرنے مقابلہ چودھریان سے ارادہ رکھتے ہیں اور جمعیت مرد مان بمقام نجیب آباد فراہم کرتے ہیں یقین اور امید ہے کہ یہ خبر بالفعل غلط ہے۔ مگر ہر طرح واضح ہو کہ ایسا مقابلہ بہت نا مناسب اور سرکار کو نہایت نا پسندیدہ متصور ہو گا اور اگر ایسے کام میں تم سے انتظام اور مدد نواب صاحب کو ظاہر ہو گی تو تم گنہگار سرکار کے ہو گے اور تمہارے واسطے اچھا نہیں ہو گا اس حکم سے بخوبی مطلع رہو اور واضح ہو کہ صاحبان ضلع مع فوج انگریزی واسطے بندوبست علاقہ کے بہت جلد تشریف لاویں گے اور وقت تشریف آوری سب سرگذشت کی تحقیقات عمل میں آوے گی‘‘ مرقوم20اگست سنہ 1857ء احمد اللہ خاں کا از سر نو تحصیلدار کرنا اور نا محمود خاں کا خط بنام ڈپٹی صاحب و صدر امین یہ پروانہ ہم نے فی الفور احمد اللہ خاں کے پاس روانہ کیا اور رپورٹ روانگی کی اکیسویں اگست 1857ء کو بحضور جناب جارج پامر صاحب بہادر روانہ کی جو خط کہ جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر نے بنام محمود خاں لکھا تھا اس کے اور اس پروانہ کے پہنچنے کے بعد ظاہر میں ان لوگوں نے اطاعت کرنی چاہی احمد اللہ خاں نے کام تحصیلداری نجیب آباد کا کرنا شروع کیا اور عرضیاں ہمارے پاس اپنی مہر دستخط سے بھیجیں ہم نے بنظر مصلحت ان کو منظور کیا اور نا محمود خاں نے ایک خط منتظمین اطاعت سرکار ہمارے پاس بھیجا ہم نے اس خط کو اور جو جواب کہ ہم نے لکھا تھا اس کی نقل بحضور جناب جارج پامر صاحب بہادر روانہ کی چنانچہ نقلیں ان کی مع ان خطوط کے جو جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر اور جناب مسٹر الگزنڈر شیکسپیئر صاحب بہادر کے پاس سے متضمن پسندیدگی ہمارے جواب کے آئی اس مقام پر لکھتے ہیں نقل خط محمود خاں خاں صاحب مشفق مہربان مجمع خوبی ہائے پیکراں محمد رحمت خاں صاحب ڈپٹی و سید احمد صاحب صدر امین ضلع بجنور سلمہ اللہ تعالیٰ! بعد سلام شوق کے واضح ہو جیو کہ نقول خطوط صاحب کمشنر بہادر ضلع میرٹھ و مسٹر پامر صاحب ڈپٹی کلکٹر و جنٹ مجسٹریٹ بہادر ضلع بجنور پاس تمہارے پہونچتی ہیں کہ ان کو بخوبی معائنہ کر کے چودھری صاحبوں کو بخوبی مضمون ان کے سے فہمائش کریں کہ یہ لوگ اپنے اپنے مکانوں پر رہیں اور اجتماع نہ ہو اور شر و فساد نہ کریں اور ہم کو کسی سے کسی طرح کا فساد کرنا بموجب حکم خطوط منظور نہیں ہے اور وہ جو اشتہارات واسطے منادی کے بھیجا تھا وہ بھی مخبر اس امر کا ہے کہ کوئی شر و فساد نہ کرے اور یہ جو لوگ بمقام یورپی اور ہرگن پور اور سوا ھیڑی اور نانگل و بجنور خاص میں ہندو مسلمان جمع ہوئے ہیں ان کو کہہ دینا چاہیے کہ اپنے اپنے مکانوں پر جاویں اور اگر شور و فساد کریں گے تو مجرم سرکار انگریز بہادر کے ہوں گے اور جو کہ بموجب حکم صاحبان عالیشان انگریز بہادر کے اب آپ منتظم اس ضلع کے ہیں اگر کسی سے شر و فساد ہو گا تو جوابدھی اس کی ذمہ آں مہربان ہو گی اس صورت میں آپ کو چاہیے کہ اس معاملہ میں متوجہ ہو کر جس طرح رفع فساد کا مناسب سمجھیں ویسے کاربند ہوں اور گھاٹوں کا انتظارم بھی ضرور ہے کہ اس پار سے اکثر مفسد بھی اوترتے ہیں اور ہم بموجب احکام خطوط ھذا کے کاربند ہیں باقی خیریت ہے۔ محمد محمود خاں مہر جواب خط محمود خاں کا ڈپٹی صدر اور صدر امین کی طرف سے نقل جواب کی جو ہماری طرف سے لکھا گیا: ’’ جناب نواب صاحب والا مناقب عالی مناصب عنایت فرمائے حال نیاز مندان زاد عنایتکم! بعد ادائے سلام مسنون التماس یہ ہے عنایت نامہ آپ کا جس کے لفافے پر تاریخ اکیسویں اگست لکھی تھی مع نقل خط جناب صاحب کمشنر بہادر ضلع میرٹھ ور جناب صاحب جنٹ مجسٹریٹ بہادر ضلع بجنور جو کہ صاحبان ممدوح نے آپ کے نام پر لکھے تھے آج بائیسویں اگست کو گیارہ بجے ہمارے پاس پہونچا آپ ارقام فرماتے ہیں کہ چودھری صاحبوں کو فہمائش کرو کہ یہ لوگ اپنے اپنے مکانوں پر رہیں اور اجتماع نہ ہو اور شر و فساد نہ کریں اور ہم کو کسی سے کسی طرح کا شر و فساد کرنا منظور نہیں ہے اور جو لوگ بمقام پورینی اور ھرگن پور اور سواھیڑی اور نانگل اور بجنور جمع ہیں وہ لوگ اپنے اپنے مکانوں پر چلے جاویں، چنانچہ ہم نے آپ کے ارشاد بموجب مضمون خطوط کا چودھری صاحبان کو سمجھا دیا۔ وہ لوگ بھی بیان کرتے ہیں کہ ہم کو کسی طرح کا شر و فساد کرنا نواب صاحب سے یا اور کسی سے منظور نہیں ہے اور نہ ہم کسی سے لڑنا چاہتے ہیں اور نہ کسی سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ کسی طرح کا کچھ دعویٰ رکھتے ہیں، چنانچہ وہ لوگ بیان کرتے ہیں کہ بعد واقعہ شیر کوٹ اور بجنور کے ہم سب لوگ اپنے اپنے گھر کو چلے گئے اور جس قدر جمعیت کے جمع ہوئی تھی وہ سب بعد اس کے متفرق کر دی اور چودھری پرتاپ سنگھ بھی اپنے گھر اور چودھریان ھلدور اپنے گھر چلے گئے اور چودھریان بجنور بلا جمعیت اپنے اپنے مکانوں پر مقیم رہے مگر بعد اس کے متواتر یہ خبر چودھری صاحبوں نے سنی کہ آپ کا ارادہ بجنور اور تاجپور اور ھلدور پر یورش کا ہے اور آپ فوج اور جمعیت جمع کرتے ہیں اور تیاری توپوں میں مصروف ہیں اور دیہات قرب و جوار نجیب آباد یعنی موضع موسی پور اور شفیع آباد اور موھن پور اور نرائن پور اور کار دلی وغیرہ آپ نے پھونک دیے اور لوٹ لیے اس سبب سے ان لوگوں کو پھر اندیشہ اس بات کا ہوا کہ اگر ہم لوگ جمعیت جمع نہ کریں گے تو انجام کو خرابی ہو گی ان وجوھات سے ان لوگوں کا بیان ہے کہ ہم نے جا بجا جمعیت واسطے روکنے نواب صاحب کے یورش بجنور اور ھلدور اور تاجپور سے اور بنظر حفظ اپنے کے جمع کی ہے پورینی میں جمعیت جمع ہونے کا یہ سبب بیان کرتے ہیں کہ نتھو خاں اور مینڈھو خاں ملازمان آپ کے نگینہ میں مفسدہ کرتے ہیں اور ایک توپ کلاں واسطہ لے جانے نجیب آباد کے تیار کرواتے ہیں اور تھانہ اور تحصیل کی ڈاک بجنور میں آنے نہیں دیتے اور جو احکام سرکاری جاری ہوتے ہیں ان کو روکتے ہیں اور ان کی تعمیل نہیں ہونے دیتے اور ان کو خبر پہونچی ہے کہ نجیب آباد میں آپ کے پاس قریب ھفت ھشت ہزار آدمی کے جمع ہیں اس سبب سے وہ لوگ کہتے ہیں کہ جب تک نواب صاحب اپنی جمعیت متفرق اور موقوف نہیں کر دیں گے اس وقت تک ہم کو کسی طرح پر اطمینان نہیں ہو گی اور ان لوگوں نے ہم سے یہ بھی بیان کیا کہ بعد ان دونوں لڑائیوں کے ہم نے ایک خط بنام سعد اللہ خاں صاحب نجیب آباد میں بھیجا کہ کسی طرح ہم سے اور نواب صاحب سے صفائی ہو جاوے اور طرفین کا طرفین پر سے ارادہ یورش کا موقوف ہو جاوے اور پھر ہم نے دو خط بنام مفتی محمد اسحاق رئیس کیرتپور اس مضمون سے بھیجے کہ جس طرح پر ھو نواب صاحب سے صفائی ہو جاوے اس طرح پر کہ نواب صاحب کی یورش کا اندیشہ جاتا رہے اور پھر تیسرا خط مفتی صاحب کے نام ان کے بلائے کو بھیجا تاکہ وہ ہماری طرف سے نجیب آباد کو جاویں اور آپ سے ہر طرح پر صفائی کر لیں پس اس صورت میں بیان چودھری صاحبوں کا یہ ہے کہ ہم کو کسی طرح شر و فساد اور مقابلہ کرنا منظور نہیں ہے اگر نواب صاحب اپنی جمعیت اور فوج کو متفرق کر دیں اور توپوں کے بنوانے میں مصروف نہ ہوں اور ارادہ لڑائی کا موقوف کر دیں تو ہم بھی سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاویں اور جو کہ ہم نیاز مند بھی بدل و جان اس بات میں مصروف اور ساعی ہیں کہ کسی طرح شر و فساد نہ ہو اس واسطے آپ کی خدمت میں بخیر خواھی آپ کے التماس یہ ہے کہ آپ بھی جمع کرنا فوج کا اور تیاری توپوں کی موقوف فرماویں اور ماڑے اور مینڈھو خاں وغیرہ مفسدان کو فساد سے باز رکھ کر اپنے قبضہ میں رکھیں تو غالب ہے کہ چودھری صاحب بھی سب اپنے اپنے گھر چلے جاویں گے اور سب طرح کا انتظام ضلع کا ہو جاوے گا اور مخلوق خدا اور رعایا سرکار کی امن و امان میں رہے گی اور پھر اگر کوئی شخص فسادشروع کرے گاتو اس کی اطلاع مفصل بحضور جناب صاحب کمشنر بہادر کے کر دی جاوے گی اور اس کا نتیجہ بہت بد اس کے حق میں ہو گا اور یہ بھی آپ کو واضح ہووے کہ متواتر احکام حکام والا مقام ہمارے نام پہنچتے ہیں چنانچہ جناب صاحب جنٹ مجسٹریٹ بہادر خود گنگا کنارہ پر تشریف لائے تھے اور اب بہ انتظار آنے فوج سرکار کے میراں پور میں مقیم ہیں اور جناب صاحب کلکٹر بہادر بھی کوہ منصوری سے اوتر کر میرٹھ میں تشریف لے آئے ہیں اور حکام جناب کمانڈر انچیف صاحب بہادر اور جناب گورنر بہادر واسطے روانگی فوج کے بجنور کو صادر ہو چکے ہیں کہ بہت جلد فوج مع توپوں کے میراں پور کے مقام پر پہنچتی ہے اور بعد اس کے جناب صاحب کلکٹر بہادر اور جناب صاحب جمنٹ مجسٹریٹ بہادر اور جناب صاحب کمشنر بہادر اور جناب مسٹر ولسن صاحب بہادر بجنور میں تشریف لاتے ہیں ہماری کمال آرزو ہے کہ تا تشریف آوری حکام والا مقام سب لوگ اپنے مکانوں پر بہ آسائش رہیں بعد تشریف لانے حکام کے خود صاحبان ممدوح جس طرح پر مناسب جانیں گے بندوبست ضلع کا فرماویں گے والسلام‘‘ خط جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر درباب پسند کرنے اس جواب کے جو نا محمود خاں کو بھیجا گیا ’’ خاں صاحب بہادر مشفق مہربان محمد رحمت خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر و سید احمد خاں صاحب صدر امین ضلع بجنور سلمہ! بعد اشتیاق ملاقات بہجت آیات واضح یاد خط آپ کا مورخہ تاریخ آج کے مع خط نواب صاحب اور نقل جواب اس کے ہمارے پاس پہنچا۔ ہماری دانست میں آپ کا جواب ہر طرح مناسب ہے چنانچہ حسب مراد آپ کے خطوط مذکور بخدمت صاحب کمشنر بہادر میرٹھ روانہ کئے گئے اور احتیاطاً آپ کو واضح ہووے کہ خط صاحب کمشنر بہادر کا جس کا نواب صاحب ذکر لکھتے ہیں عرصہ دو ہفتہ سے یعنی شیر کوٹ کے معاملہ کی خبر دینے سے پیشتر تحریر ہوا مگر بسب بند ہونے ڈاک کے دو دفعہ واپس ہو کر تیسری دفعہ مع خط تمہارے نواب صاحب کے پاس روانہ کیا گیا ہماری امید ہے کہ مابین چودھریوں اور نواب صاحب کے پھر مقابلہ نہیں ہو گا اور ظاہر ہے کہ آپ بھی اس تدبیر میں مصروف ہیں یقین ہے کہ آپ کی ہوشیاری سے جو فساد نگینہ میں ہوا اس کی صلح ممکن ہے اور فساد رفع ہو جاوے گا اور اس مراد سے حسب درخوات چودھریان کے چند پروانہ جات تحریر کیے جاتے ہیں اگر مناسب و تو آپ بعد ملاحظہ روانہ کیجئے ہمیشہ وہاں کے حالات سے مطلع فرماتے ہیں‘‘ تحریر بتاریخ 22اگست1857ء وقت شب پروانہ مسٹر جارج پامر صاحب بہادر بنام بعض رئیسان نگینہ وغیرہ نقل پروانہ از جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر موسومہ کریم بخش و شیخ نجف علی و محمد علی رئیس نگینہ و سید امتیاز علی و سید شجاع علی و سید نبی علی نہٹور’’ جو کہ معلوم ہوتا ہے کہ مابین قوم مسلمانان اور قوم ھنود شہر تمہارے کے اندیشہ فساد ہونے کا ہے اور سرکار کی مراد ہے کہ کسی طرح سے ایسا فساد نہ ہووے تم کو چاہیے کہ ہر طرح تدبیر کرو کہ فساد برپا نہ ہونے پاوے اگر اچھی طرح کوشش کرو گے تو بہت بہتر ہو گا ورنہ در صورت ہونے فساد کے گنہگار سرکار کے ہو گے اور واضح ہو کہ صاحب کلکٹر بہادر اور حضور مع فوج کامل بہت جلد واسطہ انتظام ضلع کے ارادہ تشریف لانے کا رکھتے ہیں تاکید جانو‘‘ المرقوم بائیسویں اگست سنہ 1857ء خط جناب مسٹر الگزنڈر شیکسپیئر صاحب بہادر کا در باب پسند کرنے اس جواب کے جو نا محمود خاں کو لکھا گیا تھا ’’ خاں صاحب مشفق مہربان محمد رحمت خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر و سید احمد خاں صاحب صدر امین ضلع بجنور سلمہ! بعد ماوجب کے واضح ہو خط آپ کا مع خط مرسلہ نواب محمود خاں اور نقل جواب خط مذکور جو تم نے ان کے نام بھیجا ہے آج پہنچ کر کاشف حال کا ہوا جواب خط نواب محمود خاں کا جو آپ نے بھیجا ہے وہ بہت مناسب ہے اب آپ کو لکھا جاتا ہے کہ پھر نواب صاحب کو فہمائش کر دو کہ وہ بہ تبعیت حکم خط محررہ اکیسویں اگست سنہ حال آپ مع شفیع اللہ خاں و احمد اللہ خاں اپنے رشتہ داران کے نجیب آباد میں مقیم رہیں کسی طرح کی دست اندازی ضلع سے نہ کریں اور فساد اور شور شر نا حقہ سے ہاتھ اٹھاویں اگر وہ ایسا نہ کریں گے اور اسی طرح پھر مرتکب حرکات بے جا کے رہیں گے تو ان کے حق میں اچھا نہ ہو گا بلکہ بزمرہ باغبان کے تصور ہو کر دشمن سرکار دولت مدار کے سمجھے جاویں گے فقط اور وہ کہ آپ نے درباب جلد تشریف لانے ہمارے کے بمقام بجنور لکھا ہے۔ سو حال اس کا یہ ہے کہ اب فوج سرکار تادیب و تخریب باغیان و مفسدان کوتہ اندیش کی کرتی ہوئی جلد آتی ہے انشاء اللہ تعالیٰ ہم بھی جلد وہاں پہنچتے ہیں بہر کیف خاطر جمع رکھنا چاہیے اور مفسدان ناحق شناس کو جلد گو شمالی واجبی دیا جاوے گا فقط اور ایک قطعہ چودھری نین سنگھ وجودھ سنگھ رئیسان بجنور کی بدرخواست صدور حکم درباب دیے جانے تنخواہ ملازمان جو واسطے انتظام کے مقرر کئے گئے ہیں پہنچتی ہے اس کی نسبت ہماری دانست میں یہ بات مناسب ہے کہ کچھ روپیہ مہاجنان اس ضلع سے لے کر تنخواہ بھی ملازمان کی بانٹ دی جاوے اور اور کام ضروری میں جو واسطے انتظام کے مطلوب ہو آپ کے حکم سے خرچ کیا جاوے اور جن لوگوں سے کہ روپیہ لیا جاوے ان کو رسید دستخطی دے دی جاوے کہ وقت رونق افروزی وہاں گے روپیہ مذکور ان کو دے دیا جاوے گا اس واسطے آپ کو چاہیے کہ مطابق اس کے کاربند ہوں اور جہاں تک کہ ہو سکے بہ صلاح یک دیگر کوئی دقیقہ انتظام اور خیر خواھی کا فرو گذاشت نہ ہو اور روزانہ بلا توقف وہاں کے حال سے ہم کو مطلع فرماتے رہو باقی خیریت ہے‘‘ مرقوم چوبیسویں ماہ اگست1857ء از مقام میرٹھ۔ نگینہ میں از سر نو فساد کا قائم ہونا اسی اثنا میں جناب مسٹر جان کری کرافٹ ولسن صاحب بہادر نے چودھری پرتاب سنگھ رئیس تاجپور کو لکھا تھا کہ دس ہزار روپیہ کی تدبیر تم رئیس کر کے روانہ نینی تال کر دو جو کہ ظاہر میں سر دست کوئی صورت فساد کی پیدا ہونے والی نہ تھی اور نگینہ کا فساد ظاہر میں رفع ہو گیا تھا اس لیے چودھری پرتاب سنگھ رئیس تاجپور واسطے تدبیر کرنے روانگی روپیہ کے اکیسویں اگست سنہ 1857ء کو روانہ تاجپور ہوئے اور جس قدر جمعیت ان کے ساتھ تھی مع ایک ضرب جزائل کے جو بجنور میں تھی بدستور بجنور میں چھوڑ گئے مگر افسوس ہے کہ فساد نگینہ کا پھر تازہ ہو گیا اور جو آگ کہ بجھ گئی تھی پھر بھڑک اٹھی اور سبب اس کا یہ ہوا کہ جب مینڈھو خاں نجیب آباد سے سپاہی لے کر نگینہ آیا تھا تو رامدیال سنگھ نے بھی پورینی میں اور زیادہ آدمی جمع کرنے شروع کیے تھے اور دیہات سے آدمی بلائے تھے اور اس عرصے میں نگینہ کے رئیسوں نے سپاہیان آمد نجیب آباد کو بہ فہمائش روانہ نجیب آباد کر دیا تھا۔ مگر جو پورینی میں جمعیت بلائی گئی تھی وہ دم بدم زیادہ ہوتی جاتی تھی اور بشنوئیان نگینہ جو بدمعاش اور واقعہ طلب تھے سوائے پران سکھ اور دلدار اور فیصو کے کہ یہ لوگ بہت نیک نیت اس فساد میں رہے آمادہ فساد ہوئے اور نگینہ والوں سے یہ بات کہی کہ رامدیال سنگھ نگینہ پر چڑھا آتا ہے اور رامدیال سنگھ سے کہا کہ نگینہ والے پورینی پر چڑھے آتے ہیں، چنانچہ رامدیال سنگھ نے پورینی سے جانب نگینہ قدم بڑھایا ادھر سے مینڈھو خاں کچھ جمعیت نگینہ میں جمع کر کے نگینہ کے باہر نکلا اکیسویں تاریخ سنہ 1857ء روز جمعہ کو قریب بدری والہ باغ کے مقابلہ ہوا طرفین سے کچھ آدمی مارے گئے اور زخمی ہوئے اور مینڈھو خاں کی شکست ہوئی نگینہ والے بھاگ کر آبادی میں گھس آئے ان کے پیچھے رامدیال سنگھ شہر میں گھس پڑا اور نتھو خاں کا گھر جلا دیا اور لوٹ لیا اور شیخ کی سرائے کو بھی لوٹا اور جلا دیا اس وقت پھر مسلمانان نگینہ سانوئے ہوئے اور طرفین میں خوب تلوار و بندوق چلی اور طرفین کے آدمی مارے گئے رامدیال سنگھ بشنوئی سرائے میں چلا گیا شام کے وقت لڑائی تھم گئی۔ مسلمانان نگینہ کا رامدیال سنگھ کی اطاعت کرنا رات کے وقت رامدیال سنگھ نے مولوی محمد علی کے پاس پیغام بھیجا کہ جو کچھ ہوا سو ہوا اب امن امان رہے گا اور ہم قلعہ تحصیل میں آ کر بیٹھیں گے کوئی فساد نہ کرے اور سب مسلمان اپنے گھروں میں چھپ جاویں اور سامنے نہ آویں، چنانچہ مولوی محمد علی اور اشرف علی ولد امیر علی نے بہت سعی اور کوشش سے سب مسلمانوں کی فہمائش کی اور سب راضی ہو گئے اور اپنے اپنے گھروں میں چھپ بیٹھے بائیسویں اگست سنہ 1857ء کو صبح کے وقت رامدیال سنگھ کے حکم سے امن و امان کی منادی شہر میں ہوئی اور رامدیال سنگھ مع اپنی جمعیت کے قلعہ تحصیل میں چلے آئے اور کوئی مسلمان اپنے گھر سے باہر نہیں نکلا۔ رامدیال سنگھ کے ساتھیوں کا بد عہدی کر کے مسلمانوں کا قتل کرنا جس قدر گنوار اور بنجارے رامدیال سنگھ کے ساتھ صرف لوٹ کے لالچ سے جمع ہوئے تھے انہوں نے اس امر کو جو واقع ہوا اپنے اصلی مطلب کے برخلاف دیکھا اور بدمعاش بشنوئیوں نے ان کو زیادہ اشتعالک دی اور ان سب نے نگینہ کے لوٹنے کا ارادہ کیا سیڈھمل فوطہ دار تحصیل نگینہ اس وقت وہاں موجود تھا اس نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے اپنے کان سے سنا کہ رامدیال سنگھ ہر ایک شخص کو منع کرتا تھا۔ مگر وہ نہ مانتے تھے آخر کار ان بدمعاشوں نے قلعہ تحصیل میں سے جزائلیں فیر کرنی شروع کیں اور کچھ لٹیرے بھٹیاری سرا میں گھس گئے اور سرائے کو جلا دیا اور بازار کی دکانیں لوٹ لیں اور امام الدین زمیندار کے مکان پر جزائلیں لگا دیں اور دروازہ جلا دیا اور مکان لوٹ لیا اور جہاں ان کو قابو ملا لوٹ اور قتل عام شروع کر دیا اور بدمعاش بشنوئی بھی ان کے ساتھ شریک تھے پچاس ساٹھ آدمی مسلمان مارے گئے اس وقت مسلمانان نگینہ بھی اپنے اپنے گھروں میں سے ہتھیار لے کر نکل پڑے اور مارنا شروع کیا اور خوب لڑائی ہوئی اور دو سو ڈیڑھ سو آدمی ہندوجو لوٹ میں مشغول تھے مارے گئے پھر مسلمان قلعہ تحصیل میں گھس گئے وہاں سے رامدیال سنگھ بھاگ کر بشنوئی سرائے میں جا چھپا سب گنواروں نے مل کر مولوی محمد علی کے مکان پر جومالدار مشہور تھے اور جس میں میر تراب علی تحصیلدار بھی تھے حملہ کیا اور جزائل لگا دی اور دروازے پر کوڑا جمع کر کے دروازہ جلانا چاہا اور حکیم امام علی ماموں مولوی محمد علی کو قتل کر دیا اس وقت مولوی محمد علی کے مکان پر سے بھی بندوقیں چلنی شروع ہوئیں اور جو لوگ کہ تحصیل میں گئے تھے وہ بھی پھر کر وہاں آئے تب سب گنوار وہاں سے بھاگ نکلے اور رامدیال سنگھ نے شکست پائی اور اس لڑائی میں گنواروں کی ہمت اور جرأت ٹوٹ گئی۔ مسلمانوں کے قتل سے نجیب آباد میں جمعیت کا اکٹھا ہونا اور محمدی جھنڈی کا نکلناـ: یہ سب خبریں متواتر نجیب آباد میں پہنچیں اور جس وقت کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کا قتل کیا تھا، اس وقت کچھ آدمی غل مچاتے ہوئے کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کو مار ڈالا اور جورو بیٹی کی بے عزتی کی نجیب آباد چلے گئے تھے نواب کو بہت اچھا حیلہ جمعیت جمع کرنے کا ہاتھ لگا اور اس نے لوگوں سے کہا کہ دیکھا ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا اب سب مسلمانوں کو جمع ہو کر ہندوؤں کو مارناچاہیے یہ کہہ کر احمد اللہ خاں نے بائیسویں اگست1857ء مطابق یکم محرم سنہ 1274ھجری نجیب آباد کے باہر جلال آباد کے قریب توپ نکالی اور فوج بھیجی اور محمدی جھنڈا کھڑا کیا اور جمعیت کثیر جمع کرنے کے درپے ہوا اور بہت سے مسلمان مذہبی لڑائی کے ارادے سے واسطے مقابلے اور قتل ھنود کے جمع ہوئے اس تاریخ بجنور میں خبر پہنچی کہ رامدیال سنگھ کی نگینہ میں شکست ہوئی یہ مجرد اس شہر کے چودھری بدھ سنگھ رئیس ھلدور مع اپنی جمعیت اور چودھری پرتاپ سنگھ کی جمعیت کے اور توپ اور جزائل کے جو بجنور میں موجود تھی روانہ نگینہ ہوئے اور شام کے وقت نگینہ میں پہنچے اور نگینہ میں مشہور ہوا کہ چودھری بدھ سنگھ ہزاروں آدمی اور توپ لے کر نگینہ پر چڑھ آئے اس وقت رات میں مسلمانان نگینہ نے بھاگنا چاہا اور پیادہ پا عورتوں اور بچوں کو لے کر چلے اور راستے میں لٹے اور عورتیں زخمی ہوئیں اور اچھے اچھے اشرافوں کی بڑی بے عزتی ہوئی اور بشنوئی ان سب خرابیوں کے جو مسلمانوں پر اور عورتوں پر ہوئیں سر منشاء اور سرغنہ اور باعث تھے سید تراب علی تحصیلدار ہم سے کہتے تھے کہ اس وقت جو مصیبت ان کے اور مولوی محمد علی اور اور بھلے مانس مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں پر گزری تھی اور جو جو بے عزتیاں بھلے مانسوں کی ہوئی ہیں کہنے کے لائق نہیں ہیں۔ بشنوئیوں کا دوبارہ نگینہ میں یورش کرنا اور چودھری بدھ سنگھ کا مانع آنا تئیسویں اگست سنہ 1857ء صبح کے وقت چودھری بدھ سنگھ ھلدور تو نگینہ میں صفائی اور صلح کی تدبیر میں تھے اور پدھان کنور سین اور بھوپ سنگھ اور شیخ نجف علی بیچ میں پڑے تھے کہ دفعۃً بشنوئی اور بہت سے گنوار مولوی محمد علی کا گھر لوٹنے چڑھ آئے اور پھر گولیاں چلنے لگیں۔ جب چودھری بدھ سنگھ کو خبر ہوئی تو انہوں نے بہت کوشش سے سب کو روکا اور بشنوئیوں کو بہت برا بھلا کہا اس وقت چودھری بدھ سنگھ نے نگینہ والوں سے توپ کا سانچا مانگا جو بشنوئیوں کے محلہ میں تھا نگینہ والوں نے کہا کہ تم توپ کا سانچا لے جاؤ ہم کو اس سے کچھ مطلب نہیں اور گویا یہی بات صلح کی ٹھہری۔ ایک بجے رامدیال سنگھ اور موتی سنگھ مولوی محمد علی کے مکان پر آئے اور بشنوئیوں کی زیادتی اور اپنی مجبوری کا عذر کیا اس عرصے میں چودھری بدھ سنگھ نے سید تراب علی تحصیلدار اور مولوی محمد علی کو اپنے پاس بلایا کہ بغیر ہتھیاروں کے ہمارے پاس آؤ۔ چنانچہ یہ دونوں صاحب مع رامدیال سنگھ ان کے پاس گئے انہوں نے خاطر داری کی اور کہا کہ اب سب آپس میں اتفاق رکھو سید تراب علی اور مولوی محمد علی نے سب مسلمانوں کو فہمائش کی اور سب رضا مند ہو گئے اور نگینہ میں ایک صورت امن و امان کی پیدا ہوئی اور چودھری بدھ سنگھ اور رامدیال سنگھ سانچہ توپ کا لے کر ھلدور کو روانہ ہوئے۔ سواھیڑی پر احمد اللہ خاں کا چڑھ آنا اور پھونک دینا تئیسویں اگست سنہ 1857ء کو نگینہ میں تو یہ معاملہ ہو رہا تھا اور نجیب آباد میں سب سپاہی اور سوار ملازم نواب کے جمع ہو گئے تھے اور جس قدر مسلمانوں نور جولاھوں اور سوا ھیڑی کے بساطیوں وغیرہ نے جو ہندوؤں کے ہاتھ سے تکلیفیں پائی تھیں وہ سب اور اور بہت سے لوگ مسلمان جلال آباد کے قریب محمدی جھنڈے میں جا شامل ہوئے تھے اور احمد اللہ خاں کے پاس ایک جمعیت کثیر جمع ہو گئی تھی اور اسی کے ساتھ خبر شکست رامدیال سنگھ کی نگینہ میں نجیب آباد پہنچی تھی۔ احمد اللہ خاں نے ایسے وقت کو غنیمت سمجھ کر یورش کی اور سواھیڑی کو آ مارا۔ سواھیڑی میں جو جمعیت بھیجی گئی تھی وہ بہت کم ہو گئی تھی کیونکہ بہت سے آدمی اس میں کے نگینہ کی لڑائی اور لوٹ میں چلے گئے تھے اور کچھ لوگ رامدیال سنگھ کی شکست سن کر بھاگ گئے تھے کچھ تھوڑے سے آدمی اور دو جزائل وہاں موجود تھیں۔جب احمد اللہ خاں اور شفیع اللہ خاں اور ماڑے نے سواھیڑی کو گھیرا تو بہت خفیف مقابلہ ہوا۔ گنوار سب بھاگ نکلے اور جزائلیں ان کی چھن گئیں اور سواھیڑی کو دشمنوں نے پھونک دیا اور جلا دیا اور بجنور میں متواتر خبریں آنے لگیں کہ اب نواب بجنور کو مارنا ہے بلکہ دو تین کوس تک نواب کے آدمی بجنور کی جانب بڑھ آئے تھے۔ سواھیڑی پھنکنے کے وقت بجنور میں کیا حال تھا یہاں بجنور میں کچھ جمعیت نہ تھی صرف چودھری رندھیر سنگھ مع ایک ضرب توپ اور پچاس ساٹھ آدمی کے سواھیڑی کی سڑک پر مورچہ لگائے موجود تھے اور چودھری سنگھ اور چودھری نین سنگھ بھی وہاں تھے اور ہر چند واسطے جمع ہونے آدمیوں کے تدبیر کرتے تھے مگر ایک آدمی بھی جمع نہ ہوتا تھا یہاں تک کہ بجنور میں سب کے پاؤں اکھڑ گئے چودھری جودھ سنگھ عین مورچوں میں سے گھوڑا بھگا واسطے تدبیر نکال لے جانے اپنے اھل و عیال کے اپنے گھر میں پہنچے اور چودھری نین سنگھ نے بھی اپنے معتمد اپنے دولت خانہ پر بھیج دیے کہ ضرورت کی سب چیزیں مہیا رکھیں اور چودھری رندھیر سنگھ نے بھی روانگی ھلدور کا قصد کیا بلکہ توپ ادھر کو روانہ بھی کی۔ مجھ صدر امین اور ڈپٹی صاحب نے مکان تحصیل کو بند کر کے اور پانچ سات آدمی جو ہمارے ساتھ تھے ان کو لے کر اور ہتھیار بندوق سے آراستہ ہو کر اس دھیان میں ہو بیٹھے کہ اب احمد اللہ خاں بجنور میں آتا ہے جہاں تک ممکن ہو گا اس سے لڑیں گے آخر کار مارے جاویں گے اور جس قدر خطوط اور کاغذات از طرف حکام انگریزی درباب انتظام ضلع ہمارے پاس آئے تھے اور جتنی رپورٹیں کہ ہم نے یہاں سے روانہ کی تھیں اور ان کی نقلیں ہمارے پاس موجود تھیں ان سب کو ہم نے بنظر دور اندیشی جلا دیا۔ تمام شہر بجنور میں بھگی پڑ گئی بہت سے آدمی گنگا کے کنارے اور دو گنگ میں جا بیٹھے اور ایک طلاطم عظیم بجنور میں برپا ہو گیا۔ ڈپٹی صاحب اور صدر امین کا بجنور سے ھلدور کو جانا اس عرصہ میں مسلمانان بجنور جمع ہو کر چودھری رندھیر سنگھ کے پاس گئے اور کہا کہ اگر تم چلے جاؤ گے تو قصبہ لٹ جاوے گا۔ تم بدستور مورچہ پر چلو اور ہم سب تمہارے ساتھ ہیں چودھری رندھیر سنگھ نے اس بات کو قبول کیا اور مورچہ پر آئے اور توپ بھی پھیر لائے۔ چودھری جودھ سنگھ بھی وہاں آ گئے اور تینوں چودھری مع مسلمانان بجنور اور جس قدر آدمی چودھریوں کے ساتھ تھے شام تک مورچہ پر موجود رہے مگر احمد اللہ خاں اس روز بجنور میں نہ آیا اور بمقام بسی کوٹلہ اس نے مقام کیا رات کے وقت چودھری رندھیر سنگھ نے ہم سے کہا کہ میرا ارادہ یہاں کے قیام کا نہیں ہے اور چودھریان بجنور بھی جانے والے ہیں تمہارا رہنا یہاں مناسب نہیں ہے بہتر ہے کہ تم بھی آج ہی رات کو ھلدور چلے جاؤ چنانچہ ڈپٹی صاحب اور میں صدر امین اخیر رات کو بجنور سے روانہ ہوئے اور صبح ہوتے چوبیسویں اگست سنہ 1857ء کو ھلدور میں پہونچے ہم سے تھوڑی دیر پہلے چودھری بدھ سنگھ نگینہ سے ھلدور آ چکے تھے وہاں ہماری اور ان کی ملاقات ہوئی چودھری پرتاپ سنگھ صاحب نے تاجپور سے منجملہ مبلغان مطلوبہ جناب صاحب کمشنر بہادر پانچ ہزار روپیہ حسب تفصیل ذیل آپس میں جمع کر کر معرفت راجہ صاحب کاشی پور روانہ نینی تال کیے۔ چودھری رندھیر سنگھ صاحب 1500 چودھری پرتاپ سنگھ صاحب 1500 چودھری امراؤ سنگھ 1000 چودھری لیکھراج سنگھ نہٹور والہ 1000 5000 احمد اللہ خاں کا نگینہ کو جانا اور بشنوئیوں کو مارنا اور بشنوئی سرائے کو ویران کرنا علی الصباح 24اگست سنہ 1857ء کو چودھری بدھ سنگھ مع قدرے جمعیت کے ھلدور سے روانہ بجنور ہوئے تاکہ چودھری رندھیر سنگھ کو ھلدور لے آویں اور اودھر احمد اللہ خاں کو نگینہ کے خالی ہونے کی خبر ملی اور سب مسلمانوں نے جو کہ اس کے ساتھ تھے یہ بات چاہی کہ اول بشنوئیان نگینہ سے بدلہ لیا جاوے جنہوں نے رامدیال سنگھ کے وقت میں مسلمانوں پر اور ان کے تنگ و ناموس پر زیادتی کی ہے اور جس فساد کے سبب لوگ محمدی جھنڈے میں جمع ہو گئے تھے۔ اس لیے احمد اللہ خاں نے نگینہ کا جانا مقدم سمجھا اور قصد بجنور کو ملتوی کر کے جانب نگینہ مع فوج کے روانہ ہوا۔ دو بجے وہاں جا پہونچا اور بشنوئی سرا کے غارت کا ارادہ کیا شیخ نجف علی رئیس نگینہ نے احمد اللہ خاں کو اس بات سے منع کیا مینڈھو خاں پسر نتھو خاں نے شیخ نجف علی کو گالی دی اور بندوق مارنے کو اوٹھائی مگر اور لوگ درمیان میں آ گئے اتنے میں خبر آئی کہ بشنوئی سرا میں بشنوئیوں نے ایک سوار اور دو پیادوں کو مار ڈالا۔ اس خبر پر بشنوئی سرا پر توپ لگا دی اور گولہ مارنے شروع کیے تمام بشنوئی مع زن و بچہ بھاگ نکلے پانچ چھ آدمی مارے بھی گئے اور بشنوئی سرائے دو دن تک خاطر خواہ لٹی اور تمام گھر اور پکے پکے مکانات بشنوئیوں کے سب پھونک دیے ایک گھر بھی جلنے سے باقی نہیں رہا۔ مشہور ہے کہ کل لڑائیوں اور فسادوں میں باون بشنوئی مارے گئے۔ اس کے بعد احمد اللہ خاں نے سید تراب علی تحصیلدار کے گرفتار کرنے اور قتل کرنے کا حکم دیا اور ان کی تلاش کو آدمی دوڑائے۔ مگر مولوی محمد علی رئیس نگینہ نے ان کو چھپا لیا اور میر اشرف علی اور مولوی محمد علی خود احمد اللہ خاں پاس گئے اور سید تراب علی کو غریب پردیسی کہہ کر اور طرح بطرح کی خوشامدیں کر کر ان کی جان بخشی چاہی جو کہ احمد اللہ خاں وغیرہ سب پٹھان تھے اور سید کا قتل کرنا یہ لوگ برا سمجھتے ہیں اس لیے سید تراب علی کی جان بخشی کی مگر محمد علی سے حاضر ضامنی لکھوا لی اور دروازہ مکان پہرہ جات بجہت نگہبانی تعینات کیے۔ پچیسویں تک احمد اللہ خاں کا مع تمام لشکر اور ھمراھیوں کے نگینہ میر مقام رہا۔ ھلدور کی پہلی لڑائی چودھریوں کی شکست اور ھلدور کا جلنا چھبیسویں اگست کو ماڑے اور شفیع اللہ خاں اور احمد اللہ خاں نے بہ ارادہ چڑھائی ھلدور کے نگینہ سے جانب نہٹور کوچ کیا اور چودھری رندھیر سنگھ اور چودھری بدھ سنگھ اپنی تمام سپاہ کو ساتھ لے کر نقارا بجاتے اور نشان اڑاتے مع دو ضرب توپ اور چند جزائل کے بہت بڑی شان اور شوکت سے واسطے مقابلہ کے روانہ ہوئے۔اور نہٹور سے احمد اللہ خاں اور شفیع احمد اللہ خاں اور ماڑے مع اپنے لشکر کے ھلدور پر چڑھے موضع جھڑوئی اور بیگراج پور کے درمیان بان ندی پر طرفین کا مقابلہ ہوا دو توپیں چودھری صاحبوں کی طرف سے چھوٹیں نواب کے سواروں نے حملہ کیا اور گنوار جو غول کے غول چودھری صاحب کی طرف جمع تھے بھاگے اور لڑائی شکست ہوئی چودھری صاحب بھی پس پا ہوئے اور دونوں توپوں کو لے کر ھلدور آ داخل ہوئے ھلدور کے چاروں طرف پہلے سے خندق کھدی ہوئی تھی اور دمدمہ بنا ہوا تھا اور چاروں طرف ناکہ بندی ہو رہی تھی اور مورچہ لگے ہوئے تھے جب چودھری صاحب اور ان کا تمام لشکر جو ساتھ بھاگا آتا تھا ناکہ ھلدور میں داخل ہو گیا تب چودھری صاحب پھر رکے اور توپوں کو مورچوں پر لگا کر اور دمدمہ کی آڑ میں کھڑے ہو کر باڑیں مارنی شروع کیں سرکاری رجمنٹوں کے چند سواروں نے جو نواب کی فوج میں تھے مع اپنے ھمراھیوں کے جن کو انہوں نے منتخب کر لیا تھا مورچہ پر ھلہ کیا اور با وصف تنگی اور قلب ہونے ناکہ کے ناکے کے اندر گھس گئے اور پچاس ساٹھ آدمی چودھری صاحبوں کے مارے گئے گوبند سنگھ کارندہ کل چودھری پرتاپ سنگھ کا اسی ناکہ پر بہت دلاوری سے مارا گیا اس وقت چودھری صاحبوں نے قیام اپنا ناکہ مورچہ پر بھی مناسب نہ جانا اپنی تینوں توپوں کو ناکہ مورچال پر سے لے حویلی کو روانہ ہوئے تو ان سواروں نے تعاقب کیا چودھری صاحبان تو حویلی میں بخیریت آ پہنچے مگر ان کی دو توپیں جو بہت عمدہ سرکاری میگھ زین کی تھیں اور لارڈ لیک صاحب بہادر سپہ سالار انگلشیہ نے نواب احمد بخش خان بہادر والئی فیروز پور کو عنایت کی تھیں اور نیلام اسباب شمس الدین خاں کے وقت چودھری صاحب ھلدور نے خرید کی تھیں چھین لیں اور ناکہ کے باہر لے گئے اور ایک قدیمی لوہے کی موروثی توپ چودھری صاحبوں کی جو ناکہ پر تھی اور کڑہ خاں اس کا نام تھا اس کو چند گنواروں نے پھڑ پر سے اکھاڑا اور کندھوں پر رکھ بغل میں داب حویلی میں لا داخل کی حویلی کے دروازے بند ہو گئے اور ہر ایک شخص اس کا منتظر رہا کہ کب نواب آوے اور جو حویلی میں محصور ہیں کب ان کو مارے۔ اس عرصہ میں گولہ اندازان نواب نے ایک توپ جانب مشرق اس مکان کے مقابل جس میں میں اور ڈپٹی صاحب مقیم تھے آ لگائی اور گولہ مارنے شروع کیے باوجودیکہ بہت بڑا مکان نشانہ پر تھا مگر وہ گولہ انداز ایسے کامل اور استاد اپنے فن کے تھے کہ ایک گولہ بھی اس مکان پر نہ لگا جس قدر سوار نواب کے کنارہ شہر سے ناکہ کے اندر گھس آئے تھے وہ سب دونوں توپیں لے کر ناکہ کے باہر چلے گئے اور صفیں آراستہ کیے ہوئے دمدمہ اور خندق ھلدور کے باہر کھڑے رہے۔ یقینی کہا جا سکتا ہے کہ کوئی آدمی بھی سپاہ نواب کا شہر میںنہیں رہا مگر دفعۃً ھلدور کے مکانات میں آگ لگنی شروع ہوئی بلا شبہ چھیپی اور حلوائیان ساکنان ھلدور نے جو مسلمان ہیں ہندوؤں کے مکانات میں آگ لگائی۔ کیونکہ ان سے اور چودھریان ھلدور سے در باب خانہ کرایہ اور تعمیر مسجد اور دیگر امور کے قدیمی عداوت چلی آتی تھی یہاں تک کہ تمام مکانات ہندوؤں کے جلنے شروع ہو گئے اور دس بارہ آدمی قوم ھنود مارے بھی گئے اور ھلدور کے چاروں کونوں میں اس قدر آگ روشن ہوئی کہ رستہ آمد و رفت کو چونکا بند ہو گیا اور نواب کی فوج جو باہر کھڑی تھی اس کو بھی قابو ھلدور کے اندر گھسنے کا نہ ملا بہت دیر تک وہ فوج آراستہ کھڑی رہی۔ جب یہ جانا کہ آگ ایسی بھڑک گئی ہے کہ کئی دن تک نہ بجھے گی تب چار بجے کے بعد احمد اللہ خاں مع اپنے تمام لشکر کے بہ ارادہ قیام جھالو سے روانہ ہوئے راستہ میں موضع پھڑیا پور کو پھونک دیا۔ اس عرصہ میں اس کو خبر پہنچی کہ بجنور بالکل خالی ہے اس نے بجنور کے قیام کا ارادہ کیا اور کچھ سوار اور پیدل لے کر تخمیناً ڈھائی تین ہزار آدمی کی جمعیت سے گیارہ بجے رات کے بجنور میں آ داخل ہوا۔ چودھریان بجنور کا گنگا پار جانا جس وقت کہ ھلدور پر لڑائی ہو رہی تھی تو چودھری جودھ سنگھ صاحب بھی دو تین کوس کے فاصلہ سے لڑائی کا تماشہ دیکھ رہے تھے جب ان کو یقین ہو گیا کہ ھلدور کی شکست ہو گئی اور ساری ھلدور جل گئی وہ پھر کر بجنور آئے اور یہ سب حال چودھری نین سنگھ صاحب سے کہا اور دونوں چودھری صاحب مع اپنے رشتہ مندوں کے بجنور سے چل دیے اور کشتیوں پر بیٹھ گنگا پار ہوئے۔ احمد اللہ خاں نے بجنور پہنچ کر ہر چند تلاش کیا مگر پتہ نہ لگا۔ چودھری پرتاپ سنگھ کا کانٹ جانا احمد اللہ خاں اور ماڑے کا ارادہ تھا کہ ھلدور فتح کر کے تاجپور پر چڑھائی ہو گی اور نہٹور میں منادی ہوئی تھی کہ ھلدور اور تاج پور کی لوٹ معاف ہے جب خبر شکست ھلدور اور مارے جانے گوبند سنگھ اپنے کارندہ کی چودھری پرتاپ سنگھ کو پہنچی وہ بھی گھبرائے اور جانا کہ کل یہی دن میرے لیے ہے۔ اسی وقت چودھری پرتاپ سنگھ تاج پور سے کانٹ کو چلے گئے تاج پور بھی خالی ہو گیا تھا اگر کچھ فوج احمد اللہ خاں تاج پور بھیج دیتا تو اسی وقت اس پر قابض ہو جاتا۔ ھلدور میں مسلمانوں کا قتل عام ہونا ھلدور سے احمد اللہ خاں کے چلے جانے کی بڑی خوشی ہوئی اور سب کی جان میں جان آئی اور خدا خدا کر کے شام کی اور جوں توں کر کے رات بسر کی رات کے وقت جو آدمی چودھری صاحبوں کے بھاگ گئے تھے وہ بھی آ گئے اور ایک غول پھینہ والوں کا بھی آ گیا اور قریب تین ہزار آدمی کی جمعیت پھر ھلدور میں جمع ہو گئی اٹھائیسویں اگست سنہ 1857ء کو روز جمعہ مطابق ساتویں محرم سنہ 1274ھجری کے قبل طلوع آفتاب چودھری صاحبوں نے تمام رستہ ھلدور کے گھیر لیے اور جس قدر مسلمان حلوائی اور چھیپی اور کمہار وغیرہ ھلدور میں دستیاب ہوئے سب کو برابر قتل کر دیا اور بہت سی عورتیں گرفتار ہو کر کوٹھے میں قید کی گئیں اور کچھ عورتیں بھی اتفاقیہ ماری گئیں اور کچھ مرد اور کچھ عورتیں اور بچے زخمی بھاگ بھاگ کر چاند پور پہونچے جو حلوائی اور چھیپی مفسد اور حرامزادہ تھے اور غالباً انہوں نے بھی اس روز ھلدور میں فساد کیا تھا اور آگ لگائی تھی اسی روز مع اپنے اہل و عیال کے احمد اللہ خاں کے ساتھ چلے گئے تھے یہ وہ لوگ تھے جو اپنے تئیں بے قصور سمجھ کر ھلدور میں رہ گئے تھے غرضکہ شام تک ان لوگوں کا برابر قتل رہا اور جس قدر گھر مسلمانوں کے وہاں تھے وہ سب جلائے گئے اور ان کے ساتھ ہندوؤں کے بھی بہت سے گھر جو بیچ میں آ گئے جل گئے اور ھلدور کا یہ حال ہو گیا کہ بجز دو پکی حویلیوں کے کوئی گھر جلنے اور خراب ہونے اور لٹنے سے باقی نہیں رہا۔ پھونس کا نام ھلدور میں سے جاتا رہا یہاں تک کہ اگر کوئی چڑیا ایک پھونس کا تنکا اپنا گھونسلہ بنانے کو قرض مانگتی تو بھی نہ ملتا۔ ہندوؤں کو مسلمانوں سے اس قدر عداوت ہو گئی کہ چند آدمی جو اتفاقیہ ھلدور میں وارد تھے وہ بھی مارے گئے گنوار بخوبی پکار پکار کر ہم لوگوں اور ڈپٹی صاحب کی نسبت صاف صاف کہتے تھے کہ گو یہ لوگ چودھریوں سے ملے ہوئے ہیں مگر مسلمان ہیں ان کو بھی مار ڈالنا چاہیے مگر چودھری رندھیر سنگھ نے ہماری بہت حفاظت کی اور کہلا بھیجا کہ دروازہ مضبوط بند کر کے اندر بیٹھے رہو اور کسی اپنے نوکر کو بھی باہر نہ نکلنے دو ایسا نہ ہو کوئی مار ڈالے اس سبب سے تین روز تک ہم کو ھلدور میں پانی اور کھانے کی بہت تکلیف رہی۔ ڈپٹی صاحب اور صدر امین کا ھلدور سے روانہ ہونا جب یہ حال ہوا تو پھر ہم نے اپنا قیام ھلدور میں بھی مناسب نہ جانا اور تمام ضلع میں کوئی اور ایسی جگہ نہ تھی جہاں ہم رہ سکتے اس مجبوری سے ضلع کا چھوڑنا ضرور پڑا انتیسویں تاریخ کا دن جس طرح ہو سکا ہم نے ھلدور میں بسر کیا گیارہ بجے رات کے ہم پیادہ پا وہاں سے نکلے اور نہایت مشکل اور تباہی سے راستہ کاٹا صبح ہوتے ہی ہم لوگ مع ڈپٹی صاحب اور متھرا داس اور بانکے رائے خزانچی کے قریب موضع پچنیاں کے پہونچے وہاں معلوم ہوا کہ پچنیاں میں بہت لوگ ہمارے لوٹنے اور مارنے کو جمع ہیں اس لیے اس راہ کا چھوڑنا ضرور پڑا اور پلانہ کا رستہ اختیار کیا۔ موضع پلانہ میں ڈپٹی صاحب اور صدر امین پر یورش موضع پلانہ کی سرحد میں پہونچے دفعۃً دو ہزار گنوار مسلح ہم پر دوڑے اور ہمارے لوٹنے اور قتل کا ارادہ کیا مسمی بخشی سنگھ پدھان موضع پلانہ نے مجھ کو اور ڈپٹی صاحب کو پہچانا اور ان گنواروں کو روکا اور خود ساتھ ہو کر بحفاظت تمام اپنے گاؤں کی سرحد سے نکال دیا جبکہ ہم موضع کھیرکی میں پہونچے تو وہاں کے زمینداروں نے ہماری بہت خاطر کی اور ہم کو پانی اور دودھ پلایا اور ہر طرح سے ہماری اطاعت کی اور چند آدمی ساتھ ہوئے تاکہ چاند پور تک پہونچا دیں۔ چاند پور میں ڈپٹی صاحب اور صدر امین پر یورش چاند پور میں اس سے زیادہ مصیبت ہماری قسمت میں لکھی تھی کہ جب ہم قریب دروازہ چاند پور کے پہونچے اور بدمعاشان مسلمانان چاند پور کو ہمارے آنے کی خبر ہوئی دفعتہ محلہ بتیا پارہ میں ڈھول ہوا اور صدھا آدمی تلوار اور گنڈاسہ اور تمنچہ اور بندوق لے کر ہم پر چڑھ آئے۔ ہمارے مارے جانے میں کچھ شبہ باقی نہ تھا مگر فی الفور میر صادق علی رئیس چاند پور ہماری مدد کو پہونچے اور اپنے رشتہ داروں اور ملازمان کو ساتھ لے کر ان مفسدوںکو روکا۔ اس عرصہ میں اور بہت سے آدمی شہر کے ہماری اعانت کو آئے، اور ان بد ذاتوں کے ساتھ سے ہم کو بچایا اور میر صادق علی ہم کو اپنے مکان پر لے گئے اور وہاں امن دیا، دوسرے روز خود ساتھ ہو کر موضع چچولہ تک پہونچا دیا وہاں سے ہم بچھراؤں گئے اور وہاں سے عرضی مفصل سرگزشت کی بحضور حکام لکھی اور چند روز بسبب بیماری کے مقام کر کے ڈپٹی صاحب براہ خورجہ بعد پچونچانے اپنے اہل و عیال کے اور میں صدر امین سیدھا بمقام میرٹھ بحضور حکام عالی مقام حاضر ہوئے۔ رائے اس باب میں کہ ضلع میں اس تازہ فساد ہونے کا کیا سبب ہوا جب یہ فساد ہوا تو انتظام ضلع کا ہمارے ہاتھ میں تھا۔ اس سبب سے میں نہایت نا مناسب سمجھتا ہوں اگر اس قدر جلد ضلع میں فساد ہونے کا سبب نہ بیان کروں میری رائے میں کچھ شک نہیں ہے کہ اگر سرکاری فوج ضلع میں نہ آتی تو اسی طرح کا فساد ضرور ضلع میں ہوتا مگر جس قدر کہ جلد اب ہوا اس کا باعث صرف فساد نگینہ ہے، حکام انگریزی کے احکام آنے اور رئیسوں کے نام خطوط اور پروانہ جات جاری ہونے سے جن کا حال اوپر بیان ہو چکا کچھ شک نہیں ہے کہ سب کے دلوں پر سرکار کا خوف ہو گیا تھا اور ہم نے جو اشتہارات اور منادی سرکار کے نام سے تمام ضلع میں کی یہاں تک کہ خاص نجیب آباد میں بھی سرکار کے نام سے منادی ہوئی اور جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر دھرم پور تک تشریف لائے سب کو یقین ہو گیا تھا کہ اب سرکاری فوج اور حکام جلد ضلع میں تشریف لاویں گے۔ جب ہم نے ضلع کا اہتمام اٹھایا تو مسلمانوں نے اس بات کا یقین کیا کہ جو زیادتیاں ہندوؤں نے بر وقت فتح شیر کوٹ و بجنور مسلمانوں پر کیں وہ اب نہیں ہونے کیں اور نہ مسلمان ہندوؤں پر زیادتی کر سکیں گے بلکہ جیسا قاعدہ سرکاری عدالت کا تھا اسی طرح پر انتظام اور کام ہو گا اور ہمارا دل بھی یوں ہی چاہتا تھا کہ اسی طرح پر ہو مگر ہم محض بے قابو تھے اور در حقیقت ہمارا کچھ اختیار نہ تھا جو لوگ کہ ہماری مدد کو تھے وہ ہمارے تابع نہ تھے بلکہ خود رائی سے کام کرتے تھے ہماری بات بھی اگر مانتے تھے تو وہی بات مانتے تھے جو کہ پہلے سے ان کے دل میں کرنی ہوتی تھی ہمارے مددگاروں کے جو لوگ تابع اور مددگار تھے وہ خود ان کی نہ مانتے تھے جن کے تابع تھے ہم تو درکنار رہے، جو بات کہ ہمارے خلاف مرضی اور برعکس ہماری رائے کے ضلع میں ہونے کو ہوتی تھی ہم اس کے روکنے کا اور بند کرنے کا کچھ قابو نہیں رکھتے تھے، ہم خوب سمجھتے تھے کہ نگینہ میں توپ کے سانچہ پر فساد ہو گا اول تو ہماری ہر گز رائے نہ تھی کہ بالفعل اس سے کسی طرح کا مواخذہ کیا جاوے اس لیے کہ سردست وہ کسی کام کا اور کسی طر ح مضرت رساں نہ تھا اس سے آئندہ امید مضرت رسائی کی تھی اور اگر بالفرض آدمی نگینہ پر چلے بھی گئے تھے تو جس وقت رئیسان نگینہ نے مرد مان اور سپاہیان نجیب آباد کو نگینہ سے رخصت کر دیا تھا اور سب لوگ نجیب آباد چلے گئے تھے اس وقت رامدیال سنگھ کا رہنا پورینی میں نا مناسب اور بنیاد فساد کی تھا فی الفور رامدیال سنگھ کو واپس آنا چاہیے تھا ہم نے تھانہ دار نگینہ بھیجا تھا اور مولوی قادر علی تحصیلدار کو واسطے بھیجنے نگینہ کے بلایا تھا ہم صرف رئیسوں کی معرفت وہاں کا انتظام کر لیتے مگر ہر چند ہم نے کہا کہ رامدیال سنگھ کو واپس بلانا چاہیے مگر افسوس ہے کہ ہماری یہ بات وہ تھی جس کا ہمارے مددگاروں کے دل میں پہلے سے اس کا کرنا نہ تھا۔ بشنوئنان نگینہ جو قدیمی مفسد اور شورہ پشت ہیں زیادہ تر مفسدہ کے باعث ہو گئے، اور نگینہ میں فساد کروا دیا۔ مسلمانوں نے دیکھا کہ بدستور ہندو مالک اور حاکم ہیں اور ہندو جو چاہتے ہیں کرتے ہیں اور مسلمانوں کو مارتے ہیں جیسا کہ نگینہ میں پیش آیا اکثر آدمی نجیب آباد چلے گئے نواب نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر محمدی جھنڈا کھڑا کر دیا اور دفعتہ ضلع میں فساد برپا ہو گیا اور مذہبی لڑائی قائم ہو گئی۔ چاند پور میں ڈپٹی صاحب اور صدر امین پر بلوہ ہونے کا سبب چاند پور میں جو ہم پر آفت پڑی گو اصلی منشاء اس کا یہی تھا کہ ہم سرکار کے خیر خواہ اور طرفدار تھے اور علانیہ سرکار کی طرفداری کر کر انتظام ضلع کا اٹھا لیا تھا لیکن اس قدر عام بلوے کے ہمارے پر ہونے کا یہ سبب تھا اور سب بلوائی پکار پکار کر کہتے تھے کہ چودھریوں سے سازش کر کے نگینہ میں مسلمانوں کو مروا دیا اور لوگوں کی جورو بیٹی کی بے عزتی کروائی اور ھلدور میں اپنے سامنے مسلمانوں کو ذبح کروایا اب ہم زندہ نہ چھوڑیں گے، چنانچہ یہ سب باتیں ہم اپنے کان سے سنتے تھے اور ھلدور میں حلوائیان اور چھیپوں کے زخمی مرد اور عورت اور بچے جو بچ کر بھاگے تھے وہ تھوڑی دیر پہلے ہم سے چاند پور میں پہنچ چکے تھے، ان کا حال دیکھ کر زیادہ تر لوگ ناراض ہو رہے تھے کہ ہم بے گناہ دفعتہ وہاں جا پہنچے فہمیدہ آدمی تو سمجھ گئے کہ یہ کام انہوں نے نہیں کیا مگر جاھل لوگوں نے نہ مانا، غرضکہ ہماری رائے میں یہ ہے کہ جس طرح ہم چاہتے تھے اگر سب لوگ ہماری رائے پر کام کرتے تو بلا شبہ اتنے عرصہ تک ضلع تھما رہتا کہ یا سرکاری فوج ضلع میں آ جاتی یا لوگوں کو سرکاری فوج آنے سے بالکل توقع جاتی رہتی۔ ھلدور کی دوسری لڑائی اور چودھریوں کی شکست ہمارے جانے کے بعد چودھری صاحبان ھلدور پھر جمعیت اکٹھا کرنے کی فکر میں پڑے اور اپنی حویلی کی حفاظت میں مصروف ہوتے۔ چنانچہ بہت سے آدمی ھلدور میں جمع ہو گئے اور احمد اللہ خاں اور ماڑے بمقام بجنور مقیم رہے تیسویں اگست سنہ 1857ء روز یک شنبہ مطابق نویں محرم سنہ 1274ھجری کو احمد اللہ خاں اور ماڑے نے پھر ھلدور پر چڑھائی کی اور سوتی جمعیت سنگھ رئیس بجنور اور لالہ خوب چند وکیل صدر امینی بجنور کو جو زمانہ سابق میں کارندہ چودھریان ھلدور تھا ساتھ لیا کہ اول جا کر صلح اور صفائی کروا دیں ادھر سے لشکر احمد اللہ خاں کا ھلدور پر روانہ ہوا اور جب چودھری پرتاپ سنگھ تاج پور سے کانٹ چلے گئے تھے تو کانٹ والوں نے کچھ اپنی جمعیت اور ایک ضرب توپ تاج پور میں واسطے حفاظت مکانات چودھری پرتاپ سنگھ کے بھیج دی تھی اور وہ تاج پور میں موجود تھی چنانچہ تاج پور سے ایک گروہ مع اس توپ کے واسطے کمک چودھریان ھلدور کے مع نرائن سہائے روانہ ہوا تھا وہ متصل ھلدور پہنچ گیا تھا اور ایک باغ میں متصل ھلدور مورچہ لگایا تھا جب احمد اللہ خاں کا لشکر ھلدور کے قریب پہنچا تو بلدیہ کی بھوڑ پر لشکر ٹھہرا اور وہ دونوں آدمی ھلدور میں چودھری صاحبان کے پاس گئے مگر کوئی صورت صفائی کی نہ ہوئی تھوڑی دیر بعد جب ان دونوں آدمیوں کے واپس آنے میں دیر ہوئی تب احمد اللہ خاں نے ھلدور کو گھیر لیا اور تاج پور والا غول سے مقابلہ کر کے اس کو بھگا دیا اور کانٹ والی توپ چھین لی۔ سوتی جمعیت سنگھ اور لالہ خوب چند ھلدور میں سے نکل کر چلے گئے اور ھلدور پر لڑائی شروع ہوئی جس قدر آدمی کہ چودھری صاحبوں کے پاس تھے وہ حویلی میں محصور ہو گئے اور اندر سے بندوقیں مارنی شروع کیں احمد اللہ خاں کے گولہ اندازوں نے ہرچند کئی طرف سے مورچہ لگائے مگر کوئی موقعہ ایسا ان کے ہاتھ نہ آیا کہ حویلی کی دیوار گولے سے ٹوٹ سکے اور بندوق تلوار کچھ کام نہ کرتی تھی اس لیے بہت دیر تک گولے چلتے رہے اور احمد اللہ خاں کے لشکر کے چند آدمی جو حویلی کے دروازوں پر حملہ کرنا چاہتے تھے مارے گئے جب حویلی ٹوٹ نہ سکی تو احمد اللہ خاں نے وہاں سے کوچ کر کر نہٹور میں مقام کاے اور دوسرے روز اکتیسویں اگست1857ء مطابق دسویں محرم سنہ 1274ھجری کو بھی وہیں مقام رہا۔ یکم ستمبر کو نہٹور سے جانب بجنور کوچ کیا اور رستہ میں موضع نانگل کو جہاں زمانہ مقابلہ شیر کوٹ میں کئی سپاہی نواب کے مارے گئے تھے لوٹ لیا اور جلا دیا اور بہت سے آدمیوں کو قتل کر دیا۔ چودھری بدھ سنگھ اور چودھری مہاراج سنگھ نے اب رکھنا اپنے اہل و عیال کا ھلدور میں مناسب نہ جان کر دونوں چودھری صاحب مع اپنے تمام اہل و عیال کے ھلدور سے پھینہ چلے گئے اور صرف چودھری رندھیر سنگھ ھلدور میں مقیم رہے اور بعد پہنچانے اپنے اہل و عیال کے پھینہ میں چودھری بدھ سنگھ پھر ھلدور کو واپس آئے اور چودھری مہاراج سنگھ تاج پور گئے اور کانٹ سے چودھری پرتاپ سنگھ صاحب کو بلایا اور وہ دونوں مل کر ھلدور میں آئے اور بعد مشورہ اور گفتگو کے دوسرے دن چودھری پرتاپ سنگھ تاج پور کو چلے آئے۔ جلال الدین خاں کی مختاری کی تجویز ہوئی اور چودھریوں سے صفائی کی گفتگو اس معرکہ کے بعد تمام ضلع میں نواب کی بے کھٹکے حکومت ہو گئی اور جملہ مشیران نواب انتظام ضلع کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ رائے قرار پائی کہ جملہ چودھریوں سے صفائی کی جاوے اور جلال الدین خاں نائب نواب اور مختار کل مقرر ہو جلال الدین خاں کو اس عہدہ پر مقرر کرنے اک سبب یہ تھا کہ احمد اللہ خاں سے سب چودھری بہت ناراض تھے اور اگر وہی کارکن رہتا تو چودھریوں سے صفائی ہونے میں دقت پڑتی دوسرا یہ سبب تھا کہ ان دنوں میں ضرورت روپیہ کی بہت تھی اور احمد اللہ خاں کو روپیہ ملنا بہت دشوار تھا اور جلال الدین خاں کو لوگ معتبر آدمی سمجھتے تھے اس کی معرفت سبیل روپیہ کی بھی باسانی متصور تھی چنانچہ مسودہ اقرار نامہ مختاری کل تحریر ہوا اور جملہ چودھریوں سے گفتگو اور پیغام سلام صفائی کے ہونے لگے اور سعد اللہ خاں منصف امروھہ نے چودھریوں کے نام خطوط واسطے صفائی کے لکھے اور اس میں وعدہ لکھا کہ بعد تحریر ہو جاوے گی سعد اللہ خاں نے جو خط اس باب میں چودھریوں کے نام لکھے اس کی نقل بجنسہ اس مقام پر لکھتے ہیں: نقل خط سد اللہ خاں بنام چودھریان درباب صفائی نقل خط سعد اللہ خاں موسومہ چودھری رندھیر سنگھ و بدھ سنگھ و مہاراج سنگھ بلا اندراج تاریخ: چودھری صاحبان مشفق مہربانان دوستان سلمہ اللہ تعالیٰ! بعد شوق ملاقات مسرت سمات کہ مزیدی براں متصور نیست شہود ضمیر محبت تنویر گردایند مے آید الحمد للہ والمنت کہ خیریت جانین حاصل نامہ محبت شمامہ ھمدست حکیم شجاع علی صاحب و سید امتیاز علی صاحب وصول آوردہ کاشف ما فیہا گردید حال اینست کہ مختار نامہ کل معاملات از جانب نواب صاحب بہادر بنام محمد جلال الدین خاں صاحب بہادر قرار یافتہ است و مسودہ ہم تسطیر شدہ مگر تا ایں وقت صاف نگردیدہ مرہ بر آن نشدہ است تا وقتیکہ ایں معاملہ بظہور نرسد ازیں باعث در رسیدن ایں جانب نزد آں صاحبان تامل است لہٰذا بقید قلم مے آید کہ اگر ایں معاملہ تا دوپہر بانجام رسید ضرور سوار شدہ در کیرت پور شب باش خواھم شد و اطلاع بہ آں صاحبان خواھم رسانید زیادہ خیریت است و حکیم صاحب و سید امتیاز علی صاحب را نزد خود مقیم داشتہ ام و اگر امروز تصفیہ نشدہ دو سہ روز انتظار نمودن تصفیہ ضرور است جلال الدین خاں کی مختاری کا التوا اور کونسل کا تقرر مگر یہ انتظام موقوف رہا اس سبب سے کہ احمد اللہ خاں اس بندوبست سے بہت ناراض تھا اس نے تمام افسران کو اپنے ساتھ ملا لیا تمام افسران فوج نے احمد اللہ خاں سے عہد کیا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اگر محمود خاں تم کو بے دخل کرے گا تو ہم سب تمہارا ساتھ دیں گے لاچار یہ بندوبست ملتوی رہا اور اس کی صلاح سے ایک کونسل مقرر ہوئی کہ جو انتظام ضلع کا ہو کونسل سے ہوا کرے، چنانچہ جو روبکاری نا محمود خاں نے اس معاملہ میں لکھی اس کی نقل بجنسہ اس مقام پر لکھی جاتی ہے۔ روبکار تقرر کونسل روبکاری محکمہ بہ اجلاس امیر الدولہ ضیاء الملک ذوی القدر نواب محمد محمود خاں بہادر مظفر جنگ واقع 13ستمبر سنہ 1857ء جو کہ ایں جانب نے بہ سبب بد انتظامی ضلع بجنور کے محمد احمد اللہ خاں بہادر و محمد احمد یار خاں و محمد شفیع اللہ خاں و اخوند زادہ عبدالرحمان خاں و سید احمد شاہ کو بنظر رفاہ خلائق اور واسطے انتظام مالی و ملکی ضلع بجنور کے اپنی طرف سے مختار کار عام مقرر کیا اور کل انتظام ضلع کا سپرد صاحبان مرقومہ بالا کے کیا تو ضرور ہے کہ جو معاملات بیچ انتظام ملک خواہ پروانہ جات و چٹھیات واقعہ جات یا اور کوئی امر متعلقہ نظامت و فوجداری اجرا پاوے تو بصلاح مشورہ صاحبان مرقومہ بالا کے تجویز ہو کر روبروئے ایں جانب پیش ہووے اور ایک عرضی بھی سب صاحبوں کی طرف سے مشعر باطلاع اتفاق رائے کے گذرنی چاہیے تو اس وقت ہونا حکم منظوری تجویز یا دستخط ایں جانب بہت مناسب ہو گا لہٰذا حکم ہوا کہ جو امر تجویز صاحبان مرقومہ بالا سے اجرا پاوے تو بالا تفاق سب صاحبان کے تجویز ہو کر مع قطعہ عرضی کے ہمارے رو برو پیش ہو تو جب دستخط اور حکم ہمارا ہو گا اور در صورت خلاف رائے صاحبوں کے کوئی امر تجویز کیا ہوا کسی کا قابل پذیرائی کے نہ ہو گا اطلاعاً نقل روبکار ھذا کی پاس ان پانچوں صاحبوں کے بھیجی جاوے اصل روبکار سر رشتہ میں رہے۔ کچہری کے لیے مہروں کا بننا اسی زمانہ میں نئی مہریں فوجداری اور کلکٹری کی نا محمود خاں اور احمد اللہ خاں نے بنوائیں ان مہروں پر الفاط وللہ ملک السموت والارض بڑھایا گیا اور بجائے سنہ عیسوی کے سنہ ہجری لکھے گئے پہلی دفعہ جو مہریں بنیں ان میں تو فقط ضلع بجنور موقوف کر کے لفظ ’’ تحت حکومت نجیب آباد‘‘ کھودا گیا۔ سعد اللہ خاں کا صفائی چودھریوں میں دخیل رہنا اگرچہ کونسل مقرر ہونے سے جلال الدین خاں کی مختاری کل ملتوی ہو گئی اور سعد اللہ خاں کا بخوبی اختیار نہ ہوا کیونکہ سعد اللہ خاں کا اختیار جلال الدین کی مختاری پر منحصر تھا، مگر پھر بھی سعد اللہ خاں بد ستور چودھری صاحبوں کی صفائی کے معاملہ میں دخیل رہا اور واسطے دوستی اس معاملہ کے اور بلانے چودھریوں کے سعد اللہ خاں بمقام نہٹور گیا اور سب چودھریوں کو بلایا اور پیغام بھیجا مگر کوئی ان میں سے نہ آیا لاچار سعد اللہ خاں بلا حصول مطلب سولھویں ستمبر سنہ 1857ء کو نگینہ میں واپس آیا۔ پڑاولی کی لڑائی اور چودھریان کی شکست چودھری بدھ سنگھ اور چودھری مہاراج سنگھ نے ارادہ کیا کہ پھر ایک دفعہ نواب سے مقابلہ کیا چاہیے اور اپنی برادری کو خطوط لکھے اور چودھری پرتاپ سنگھ سے بھی کمک چاہی چنانچہ موضع پھینہ میں لام جمع ہوا اور چودھریان کانٹ اور نرائن سہائے مع جزائل چودھری پرتاپ سنگھ کی طرف سے اور گلاب سنگھ چکارسی والا اور کچھ زمیندار پھینہ کے اور اور زمیندار دیہات کے کمکی چودھری بدھ سنگھ صاحب کے پھینہ میں جمع ہوئے اور کچھ آدمی ھلدور میں اکٹھے ہوئے اور یہ مارا لام جمع ہو کر بہ ارادہ چڑھائی نجیب آباد روانہ ہوا۔ احمد اللہ خاں نے یہ خبر سن کر کچھ فوج اپنی بمقام نگینہ اور کچھ فوج بمقام کیرت پور بہ افسری شفیع اللہ خاں روانہ کی اور ادھر سے چودھری صاحب اپنا لام لے کر اٹھارویں ستمبر سنہ 1857ء کو متصل پڑاولی کے پہنچے اور طرفین میں مقابلہ شروع ہوا تھوڑی لڑائی کے بعد چودھری صاحب کی شکست ہوئی تمام گنوار جو جمع ہوئے تھے بھاگ نکلے اور ایک موروثی توپ چودھریان ھلدور کی جس کا نام کڑہ خاں تھا مع تین جزائلوں اور دو گردوں کے نواب کی فوج نے چھین لیے اور چودھری بدھ سنگھ اور مہاراج ھلدور ہوتے ہوئے پھر پھینہ میں پہنچے اس فتح پر شفیع اللہ خاں کا بہت بڑا نام ہوا اور لقب بہادر اس کو دیا گیا اور جنرل جرار بھی کہلانے لگا چنانچہ اکثر کاغذات میں اس کا یہ لقب دیکھا گیا۔ چودھریوں سے پھر صلح کے پیام اس لڑائی کے بعد احمد اللہ خاں اور نواب کے مشیروں نے چاہا کہ یا جملہ چودھریاں کی بیخ کنی کر دی جائے ورنہ وہ لوگ مقابلے سے باز نہ آویں گے اور ان کی طرف کا کھٹکا رفع نہ ہو گا یا ان سے بخوبی صلح اور صفائی ہو جاوے۔ چودھری صاحبان بھی در صورت طمانیت رفع فساد چاہتے تھے چنانچہ ادھر سے چودھریوں نے بھی پیغام صلح بھیجے اور خطوط بھی لکھے جن کا حاصل یہ تھا کہ بسبب خوف بد سلوکی اور اندیشہ جان و آبرو کے حاضر نہیں ہو سکتے ہر چند نواب کی طرف سے چودھریوں کی تشفی ہوتی تھی مگر ان کو طمانیت نہ ہوتی تھی اور اعتبار نہ آتا تھا چنانچہ سعد اللہ خاں کے خط کی نقل جو بنام چودھری پرتاپ سنگھ صاحب کے اس معاملے میں بیسویں ستمبر سنہ 1857ء کو تحریر ہوا بجنسہ لکھتے ہیں۔ نقل خط سعد اللہ خاں بنام چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاجبور در باب صفائی ’’ چودھری صاحب مشفق مہربان دوستان سلمہ اللہ تعالیٰ بعد سلام شوق واضح ہو خط تمہارا پہنچا حال دریافت ہوا ہم کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے ایام کچھ برے آ گئے ہیں ورنہ ہر گز تم سے ایسی بات ظہو رمیں نہ آتی کہ تم مجھ سے اندیشہ کرتے ہو اور میں تم کو اپنے فرزند سے کمتر نہیں جانتا جبکہ تم کہنے میرے سے باہر ہو تو پھر کیا علاج کروں چاہیے کہ بلا اندیشہ تم نگینہ میرے پاس چلے آؤ اور کچھ اندیشہ کسی طر ح کا مت کرو۔ اگر میرے پاس نہ آؤ گے تو اور جو کچھ تدبیر تمہارے نزدیک بہتر ہو وہ کرو اور اگر ایسی ہی لیت و لعل میں رہو گے خراب اور برباد ہو جاؤ گے تاکید جانو اور بلا اندیشہ چلے آؤ اور جب تم مجھ کو مربی جانتے ہو تو پھر کیا خوف ہے ہر گز ہر گز کچھ خوف نہ کرو زیادہ خیریت ہے اور اسی شب میں روانہ ہو کر میرے پاس آ جاؤ اور مجھ کو تمہاری حیرانی کا بڑا تردد ہے واللہ باللہ اگر میں تم کو محمد اسماعیل خاں سے کمتر جانتا ہوں تو خدا اس کا آگاہ ہے اور تم کو بھی یہ معلوم ہے فقط‘‘ پہلی صفر 1247ھجری غضنفر علی خاں کا نہٹور میں جانا اور چودھری رندھیر سنگھ کی ملاقات غرضکہ سعد اللہ خاں کی معرفت پیغام صفائی اور حاضر ہو جانے کے چودھری پرتاپ سنگھ سے ہوئے اور نتھے خاں نے چودھری امراؤ سنگھ صاحب رئیس شیر کوٹ سے گفتگو صفائی کی کی اور غضنفر علی خاں بڑا بیٹا نا محمود خاں کا مع ماڑے اور لشکر مناسب کے نہٹور روانہ ہوا کہ اگر چودھریان ھلدور حاضر ہو جاویں تو بہتر ورنہ پھر ھلدور کو تباہ کیا جائے اور جیراج سنگھ پورینی والا اور لیکھراج سنگھ نہٹور والا کی معرفت چودھری رندھیر سنگھ کو پیغام بھیجے گئے بعد گفتگو اور طمانیت کے چودھری رندھیر سنگھ نہٹور میں آنے پر راضی ہوئے۔ اور پچسویں ستمبر1857ء کو چودھری صاحب نہٹو رمیں آئے اور غضنفر علی خاں سے ملاقات کی چودھری صاحب نے ایک دو شالہ بطور خلعت ان کو دیا اور یہ بات کہی کہ چودھری بدھ سنگھ اور چودھری مہاراج سنگھ کو بھی حاضر کر دو انہوں نے اقرار کیا کہ بلا دوں گا بعد ملاقات کے چودھری رندھیر سنگھ صاحب ھلدور کو رخصت ہوئے اور یعقوب علی خاں رام پوری مصاحب غضنفر علی خاں اور مان سنگھ بھائی لیکھراج سنگھ کا واسطے لانے چودھری بدھ سنگھ اور مہاراج سنگھ کے ان کے ساتھ ھلدور میں گئے اور وہاں سے موضع پھینہ میں چودھری صاحبوں کے پاس پہنچے، مگر چودھری بدھ سنگھ اور مہاراج سنگھ نہ آئے اور بہ لطائف الحیل آنے سے انکار کر دیا اور کئی دن بعد گنگا پار بہ حضور حکام چلے گئے۔ چودھری پرتاپ سنگھ اور امراؤ سنگھ کا نگینہ میں آ کر نجیب آباد جانا اور نا محمود خاں سے ملاقات کرنا آخر کار بعد نامہ و پیغام یہ بات ٹھہری کہ چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاج پور موضع پورینی میں آویں اور سعد اللہ خاں سے زبانی گفتگو کر کے تاج پور واپس چلے جاویں، چنانچہ پرتاپ سنگھ پورینی میں آئے اور سعد اللہ خاں نگینہ سے پورینی میں گیا اور چودھری پرتاپ سنگھ کا ہاتھ پکڑ کر ہاتھی پر بیٹھا لیا اور نگینہ لے آیا اس کے بعد چودھری امراؤ سنگھ رئیس شیر کوٹ نگینہ میں آئے اور سعد اللہ خاں سے ملاقات ہوئی جب محمود خاں کو خبر پہنچی کہ دونوں چودھری نگینہ میں آ گئے ہیں اس نے سعد اللہ خاں کو خط لکھا کہ دونوں چودھریوں کو نجیب آباد میں لے آؤ سعد اللہ خاں ان کو نجیب آباد لے گیا اور چھبیسویں ستمبر کو چودھری صاحبوں نے کچھ اشرفیاں نذر دیں اور نا محمود خاں نے ایک دو شالہ ان کو بطور خلعت دیا اور دوسرے دن رخصت کر دیا۔ شیر کوٹ میں ہندوؤں کا قتل ہونا جبکہ چودھری امراؤ سنگھ شیر کوٹ سے نگینہ کو روانہ ہوئے تو غضنفر علی خاں اور ماڑے نے نہٹور سے دھام پور کو کوچ کیا اور غضنفر علی خاں تو دھام پور میں ٹھہرا رہا اور ماڑے بد نصیب بے رحم شیر کوٹ میں گیا 26ستمبر کو اس ارادے سے کہ وہاں کے ھنود کو قتل کرے شیر کوٹ میں ہندوؤں نے وہاں سے بھاگنا چاہا۔ برھان الدین قاضی شیر کوٹ نے پٹواریوں کو جو قوم کے بنیہ تھے اپنے گھر میں بلا کر اکٹھا کر لیا اس عرصے میں بہت سے لوگ دروازہ قاضی پر جمع ہوئے اور شور و غل برپا ہوا قاضی نے ان سب لوگوں کو جو متوقع پناہ اس کے گھر میں رہے گھر گھر کے باہر نکال دیا اور اس کے دروازے کے آگے وہ لوگ مارے گئے غرضیکہ اکتیس آدمی پٹواری اور برھمن اور بھاٹ نہایت ظلم اور قساوت قلبی سے ذبح کئے گئے دو آدمی تو زخمی ہو کر بچ گئے اور انتیس آدمی مارے گئے اس وقت سے ماڑے حرامزادہ کی بڑی دہشت لوگوں کے علی الخصوص ہندوؤں کے دل میں بیٹھ گئی کہ جدھر ماڑے کا لشکر جاتا تھا لوگ تھرا جاتے تھے اور کانپ اٹھتے تھے۔ آپس میں باغیوں کے ملک کا تقسیم ہونا ان واقعوں کے بعد ماڑے کو بہت زور ہو گیا اور نا محمو دخاں کے خاندان میں درباب تقسیم ملک نزاع ہوا ماڑے نے غضنفر علی خاں کو اپنے ساتھ کر لیا اور اس نے چاہا کہ احمد اللہ خاں کو بالکل بے دخل کیا جاوے۔ کئی دن تک آپس میں رنجش رہی پھر باہم صفائی ہوئی اور تقسیم ملک کی اس طرح پر قرار پائی کہ نا محمود خاں کو بارہ ہزار روپیہ مہینہ نقد ملا کرے اور تحصیل نگینہ و دھام پور و چاند پور، ماڑے خاں و غضنفر علی خاں کے حصے میں دی جاوے اور تحصیل نجیب آباد و بجنور احمد اللہ خاں کے حصے میں اور آٹھ ہزار روپیہ مہینہ غضنفر علی خاں اور ماڑے نا محمود خاں کو دیں اور چار ہزار روپیہ مہینہ احمد اللہ خاں کو دے چنانچہ یہ بندوبست چند روز تک قائم رہا۔ جناب صاحب کمشنر بہادر میرٹھ کا چودھری بدھ سنگھ کو مدد دے کر پھر ضلع کو روانہ کرنا چودھری بدھ سنگھ اور چودھری مہاراج سنگھ جو میرٹھ میں بحضور حکام حاضر تھے۔ انہوں نے بار بار جناب صاحب کمشنر بہادر میرٹھ سے عرض کیا تھا کہ اگر تھوڑی سی بھی کمک ہم کو ملے تو ہم پھر نا محمود خاں سے مقابلہ کریں اور اس کو ضلع سے خارج کر دیں اور پھر ہم اپنی برادری کے بہت سے لوگ مقابلے کو جمع کر لیں گے اگرچہ جناب صاحب کمشنر بہادر کو اس میں تامل تھا مگر بسبب اصرار بار بار عرض کرتے چودھریان کے جناب صاحب کمشنر بہادر نے اس کی کمک تجویز کی اور لالہ گور سہائے ناظم حسن پور کے پاس جس قدر جمعیت تھی اس کا ساتھ کرنا اور کچھ فوج راؤ گلاب سنگھ رئیس کوٹیسر کا کمک کر دینا تجویز کیا اور جملہ رئیسان ضلع بجنور کے نام حکم نامے جاری کیے کہ کوئی شخص نا محمود خاں کی اعانت نہ کرے اگر کرے گا تو مجرم سرکار ہو گا چنانچہ سترھویں اکتوبر سنہ 1857ء کو یہ سب امور تجویز ہوئے اور حکم نامہ جات بنام رئیسان ضلع بجنور تحریر ہوئے اور چودھری صاحبان کو میرٹھ سے رخصت کیا نقل اس حکم نامہ کی بعینہ اس مقام پر لکھی جاتی ہے حکم نامہ جناب صاحب کمشنر میرٹھ جو بنام رئیسان ضلع بجنور جو در باب اعانت چودھری بدھ سنگھ تحریر ہوا نقل حکم نامہ جناب ایڈورڈ فلپ ولیمس صاحب بہادر کمشنر میرٹھ بنام جملہ رئیسان ضلع بجنور ’’ جو کہ چودھری بدھ سنگھ تعلقہ دار ھلدور اور ناظر گور سہائے ناظم حسن پور واسطے دفعیہ اور اخراج نواب محمود خاں و جلال الدین خاں و عظمت اللہ خاں و احمد اللہ خاں و شفیع اللہ خاں و ماڑے وغیرہ باغیاں کے مع فوج راؤ گلاب سنگھ رئیس کوٹیسر وغیرہ متعین ہوئے ہیں اس واسطے یہ حکم نامہ بنام تمہارے جاری ہوتا ہے کہ جو کوئی منجملہ تمہارے یا رشتہ داران جو ملازمان یا باشندگان شہر تمہارے کے باغیان مذکور کو پناہ یا مدد دے گا یا اس کی نوکری کرے گا تو مجرم سرکار متصور ہو کر کل جائداد منقولہ و زمینداری وغیرہ تمہاری ضبط سرکار ہو کر تدارک سنگین ہو گا اور مسکن تمہارا مثل باغیان مالا گڑھ اور تھانہ بھون وغیرہ کے کر دیا جاوے گا چاہیے یہ کہ آفت اپنے اوپر مت لاؤ اور بیوقوف اور جاھل لوگوں کے دھوکہ میں مت پڑو کہ اب سرکار کی طرف سے خواہ مخواہ برملا سب کا تدارک ہو گا اپنی عقل کو دخل دو اگر سرکار سے ساری خلقت کے صاف کرنے کے واسطے تجویز ہوتا تو پھر ملک کے رکھنے سے کیا حاصل تھا جو لوگ اور طرح سے بیان کرتے ہیں سب جھوٹ اور تمہاری خرابی کے واسطے کہتے ہیں البتہ جو لوگ مفسد اور سرکش ہیں اور سرکشی کی پناہ کے سبب مشہور ہو گئے ہیں ان کا تدارک ہو گا اور باقی جو اور لوگ سرکار کے خیر خواہ بنے رہے ان کے واسطے سب طرح سے فائدہ ہے اور ان کے واسطے بر وقت پہنچنے فوج سرکار کے کسی طرح اندیشہ نہیں اس واسطے تم کو لازم ہے کہ اب مفسدوں سے بالکل علیحدہ ہو جاؤ نہ ان کو کسی طرح فوج کی مدد دو نہ ان کو پناہ دو اور جو تم ایسا کرو گے تو یہ خیر خواھی تمہاری ظاہر ہو جاوے گی اور اس وقت تم کو اختیار ہے اور اگر اب تم مفسدوں کے ساتھ ہو جاؤ گے تو اب فوج سرکاری عنقریب پہنچے گی اور جیسا مفسدوں کا تدارک ہو گا ایسا ہی تمہارا ہووے گا‘‘ 17اکتوبر سنہ 1857ء چودھری بدھ سنگھ کا دھنورہ میں آنا ان تحریرات کے بعد دونوں چودھری صاحب گھاٹ گڈھ مکتیسر نگینہ کا اوتر کر اور فوج راؤں گلاب سنگھ رئیس کوٹیسر اور ناظر گور سہائے ناظم حسن پور کو مع اس کی جمعیت کے ساتھ لے کر دھنورہ میں پہنچے اور پروانہ جات جناب صاحب کمشنر بہادر موسومہ رئیسان ضلع بجنور چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاج پور کے پاس پہنچائے کہ جملہ رئیسان مکتوب الیہم کے پاس پہنچا دیں۔ چودھری پرتاپ سنگھ کا دوبارہ روپیہ نینی تال کو بھیجنا اس زمانہ میں چودھری پرتاپ سنگھ کچھ روپیہ نینی تال روانہ کرنے کو تھے، چنانچہ انہوں نے چار ہزار روپیہ حسب تفصیل ذل 19اکتوبر سنہ 1857ء کو روانہ نینی تال کیے۔ چودھری پرتاپ سنگھ 2000 امید سنگھ سیتا رام چودھریان رتن گڈھ 2000 4000 اور بعد اس کے اپنے آدمیوں کی معرفت وہ حکم نامہ جات سب رئیسوں کے پاس روانہ کیے کہ وہ حکم نامے اٹھائیسویں پرتاپ سنگھ نے سامان رسد واسطے فوج مقیم دھنورہ کے تیار کیا اور اس عرصہ میں ایک توپ برنجی جو انہوں نے بنوائی تھی وہ بھی تیار کر لی۔ چودھری امراؤ سنگھ کا کاشی پور جانا چودھری امراؤ سنگھ رئیس شیر کوٹ نے اپنا رہنا بسبب اس ہنگامہ کے شیر کوٹ میں مناسب نہ سمجھا، وہ اسی تاریخ شیر کوٹ سے کاشی پور چلے گئے۔ احمد اللہ خاں اور ماڑے کا واسطے مقابلہ چودھری بدھ سنگھ کے چاند پور میں جمع ہونا ماڑے خاں بمجرد سننے خبر چڑھائی چودھریان ھلدور مع اپنے لشکر کے بمقام چاند پور پہنچا اور اس کے بعد شفیع اللہ خاں اور احمد اللہ خاں مع اپنے لشکر کثیر کے چاند پور میں جمع ہوئے اور اکثر رئیسوں کے نام خط لکھے کہ تم بھی آن کر شامل ہو مگر کوئی شریک نہ ہوا، اگرچہ توقع تھی کہ بہت بڑا مفسدہ ہو گا کیونکہ سب مسلمان ضلع کے یقین جانتے تھے کہ در صورت غلبہ چودھریان کے کوئی دقیقہ زیادتی اور جبر کے باقی نہیں رہے گا کہ ہندوؤں کے ہاتھ سے مسلمانوں پر نہ ہوا ہو گا مگر سب رئیسوں کو حکمنامہ جناب صاحب کمشنر بہادر کا بہت خوف تھا، اس سبب سے سوائے ملازمین نواب کے کہ تعداد میں آٹھ نو ہزار سے زیادہ ہوں گے اور کوئی شریک نہ ہوا، مگر چودھری صاحبوں کی طرف بھی جمعیت کثیر نہ ہونے پائی اس اندیشہ سے کہ اگر نواب غالب آیا تو کوئی ایسا ظلم نہ ہو گا جو مسلمانوں کے ہاتھ سے ہندوؤں پر نہ ہو گا مع ھذا اگر ناظر گور سہائے حملہ کرنا تو ایک راہ نکل جاتی باغیان ضلع بجنور کو ضلع مراد آباد میں دھنورہ وغیرہ پر بند یا تھا وہ آگے نہ بڑھ سکا بلکہ متفرق ہو گیا اور چودھری صاحبان نے وہاں سے مراجعت کی۔ چودھری بدھ سنگھ کے لام کا دھنورہ سے ٹوٹ جانا احمد اللہ خاں اور شفیع اللہ خاں اور ماڑے نے تجویز کی کہ جب تک بنیاد ھلدور باقی ہے یہ فساد بھی قائم ہے اس لیے اس نے چاند پور سے ھلدور پر چڑھائی کی۔ ھلدور کی تیسری لڑائی اور چودھری رندھیر سنگھ کا گرفتار ہونا ھلدور میں چودھری رندھیر سنگھ مع قدرے جمعیت کے موجود تھے جب انہوں نے احمد اللہ خاں کے لشکر کے آنے کی خبر سنی حویلی میں محصور ہو گئے، لشکر احمد اللہ خاں نے حویلی کو گھیر لیا طرفین کی طرف سے گولیاں چلتی رہیں اور آدمی بھی مارے گئے، آخر کار رات کے وقت چودھری رندھیر سنگھ نے اپنے ساتھ کے آدمیوں کو اجازت دی کہ جس طرح پر چاہیں اپنی جان بچاویں اور حویلی میں سے نکل جاویں چنانچہ اکثر آدمی نکل گئے، صبح کو تاریخ تیسری نومبر سنہ 1857ء احمد اللہ خاں کا لشکر حویلی میں داخل ہوا، اور چودھری رندھیر سنگھ کو گرفتار کر لیا، اور رامدیال سنگھ پھوپھی زاد بھائی، رندھیر سنگھ کا اور اور پانچ چھ آدمی رشتہ مند ان کے مارے گئے اور چودھری رندھیر سنگھ کو قید کر کے براہ نگینہ نجیب آباد لے گئے اور ایک مکان میں نظر بند کر دیا جس قدر اسباب ھلدور میں تھا سب لٹ گیا اور مکانات چودھریان ھلدور کے جلا دیے گئے اور ھلدور ویران محض ہو گئی۔ ماڑے کا تاجپور پر چڑھنا اور چودھری پرتاپ سنگھ کا گنگا پار جانا جبکہ احمد اللہ خاں اور ماڑے چاند پور سے ھلدور کو روانہ ہوئے تھے یعنی دوسری نومبر سنہ 1857ء کو اس وقت ماڑے خاں نے چودھری پرتاپ سنگھ کو خط لکھا کہ میرا لشکر عنقریب تاجپور میں داخل ہو گا رسد تیار کرو، اس خط کے ساتھ ہی خبر شکست ھلدور اور گرفتاری چودھری رندھیر سنگھ کی تاجپور میں چودھری پرتاپ سنگھ کو پہنچی، انہوں نے جانا کہ میرا بھی یہی حال ہونے والا ہے اس لیے تدبیر روانگی کی کر کے پانچویں نومبر سنہ 1857ء کو تاجپور سے روانہ ہوئے اور ساتویں تاریخ کو گڈھ مکتیسر میں پہنچے چنانچہ نقل خط ماڑے خاں اس مقام پر لکھی جاتی ہے۔ خط ماڑے خاں بنام چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاجپور ’’ چودھری صاحب مشفق مہربان کرم فرمائے بر حال نیاز مندان چودھری پرتاپ سنگھ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ! بعد سلام شوق اینکہ ارادہ لشکر ایں جانب بطرف تاجپور است مناسب است کہ آن صاحب تدبیر رسد وغیرہ سازند چناں نشور کہ یہ کیسے نہج تکلیف مردمان لشکر را شود باقی خیریت است فقط رقیمۃ الشرق چودھری امام بخش عرف ماڑے خاں از مقام چاند پور‘‘ مور سنہ دوم ربیع الاول سنہ 1247ھجری مہر امام بخش باغیاں گنگا پور کا بجنور میں آنا اس ہنگامہ کے بعد نا محمود خاں اور اس کے ہمراہی سب طرف سے بے فکر ہو گئے اور چودھریوں میں سے کسی کا اندیشہ ان کے دل میں نہ رہا اور عیش و عشرت میں مشغول ہو گئے گنگا پار کے جو باغی تھے انہوں نے بھی اپنے لیے بجنور سے زیادہ کوئی مامن نہ دیکھا چنانچہ دلیل سنگھ اور قدم سنگھ گوجر اور رضا حسن عرف چھٹن اور عنایت علی خاں قاضی تھا نہ بھون مع اپنے رفیقوں اور ساتھیوں کے اس ضلع میں آئے، اس ضلع کے باغیوں نے ان کو امن دیا، ان کے سوا مرزا الطاف اور مرزا حاجی اور مرزا مبارک شاہ شاہزادگان مفرور دھلی اس ضلع میں آئے اور نا محمود خاں اور ماڑے نے اول اول بہت عزت اور توقیر کی۔ باغیان گنگا پار کا اترنا اور چند چوکیات اور تھانہ جات سرکاری کو لوٹنا ان باغیوں نے اس ضلع میں ان کو زیادہ تر فساد مچایا اور نا محمود خاں اور احمد اللہ خاں اور شفیع اللہ خاں ماڑے کو ورغلانا اور گنگا پار اترنے اور ضلع مظفر نگر اور سہارنپور میں فساد مچانے او رغدر ڈالنے پر ترغیب دی، یہ جاہل ان کے دموں میں آ گئے اور پار اترنے پر مستعد ہو گئے اور کئی دفعہ پار کو اترے اور چند چوکیات سرکاری میں نقصان پہنچانا چنانچہ رضا حسن عرف چھٹن ساکن موضع سرائے ضلع مظفر نگر نے مع پچاس آدمیوں کے گنگا اتر کر چوکی دھرم پورہ کو پھونک دیا اور چار برقنداز چوکی کے مار ڈالے اور دو گھوڑیاں وہاں سے چھین کر گنج آ سکیں میں چلا آیا سردار خاں ساکن علاقہ ٹھاکر دوارہ اور دلیل سنگھ گوجر بہت سے گوجر اپنے ساتھ لے کر رات کے وقت سوتی کے نانگل سے اترا اور سرکاری پکٹ سے مقابلہ کیا اور کچھ گھوڑے لوٹ لایا انہیں گوجروں اور پار کے باغیوں نے چوکی الہ آباد اور تھانہ بھوکر ھیڑی کو راولی کے گھاٹ سے اتر کر لوٹ لیا عنایت علی خاں قاضی کھیڑہ مجاہد پور کی چوکی پر اترا اور دو ہندو بر قنداز پکڑ لایا، ایک کو مار ڈالا ایک کو مسلمان کر لیا، اسی طرح قاضی عنایت علی اور دلیل سنگھ گوجر اور رضا حسن عرف چھٹن دو ضرب توپ اور دو ہزار آدمی کی جمعیت سے میراں پور پر اتر آئے اور میراں پور کے تھانہ کو اور کچھ دوکانوں کو لوٹ لیا اور کئی آدمی کو قتل کیا اور نا محمود خاں کے نام کی منادی پٹوائی اور پھر بھاگ آیا۔ پہلا ڈاکہ کنھکل کا اور کرانی صاحب برقی تار والہ کا گرفتار ہونا ان وارداتوں کے بعد باغیوں کو اور زیادہ حوصلہ ہوا اور شفیع اللہ خاں نے روڑکی پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا چنانچہ نجف خاں ساکن نجیب آباد ایک گروہ فوج کا افسر کل مقرر ہوا اور جنگ باز خاں جو سابق میں برقنداز کوتوالی جوالا پور تھا اور پھر کول میں بھی رہا تھا اور کفایت اللہ خاں ساکن نجیب آباد جو پہلے کمپونڈر شفاخانہ رڑکی تھا اور پھر ریڈ صاحب کے محکمہ میں پندرہ روپیہ مشاہرہ کا نوکر تھا اور عمر خاں رسالہ دار اور علی بہادر خاں افسران ماتحت مقرر ہوئے اور ساتویں جنوری سنہ 1858ء کو وہ فوج سوار اور پیادہ کی مع اپنے افسروں کے پایاب گنگا اتری اور کچھ پیدل میا پور کے ڈرام نہر پر ہو کر اتر آئے اور چوکی میا پور پر حملہ کیا۔ چھ نفر سواران نہر جو اس چوکی پر متعین تھے ان کے پانچ گھوڑے کھول لیے اور چوکی کا محاصرہ کر کے پارک کو آگ دے دی اور نجعل حسین خاں لیس ساکن منگلور اور تفضل حسین سوار ساکن منگلور اور نادر علی ساکن پور قاضی اور گنیش سنگھ پوربیہ پانچ سواروں کو گرفتار کر لیا، اور نبی بخش سوار سوار ساکن رڑکی حکمت عملی سے بھاگ گیا، بعد اس کے اور ملازمان سرکاری کی تلاش ہوئی اور میا پور کے گودام سے ایک کرانی صاحب مہتمم تار برقی اور مولا مستری اور ھولاس ٹنڈیل اور پندرہ بیلدار لال ٹوپی والا گرفتار کیے اور کپتان ریڈ صاحب بہادر کے دونوں بنگلوں میں آگ دے دی مولا بخش اور محمد حسن چوکیدار بھی گرفتار ہوئے تھے مگر حکمت عملی سے بھاگ گئے، بعد اس کے یہ سب باغی کنکھل میں آئے اور تار برقی پل میاپور سے کنکھل توڑدیا اور کنکھل میں نا محمود خاں کی منادی بنوائی اور جملہ باشندگان کنکھل کو امن دیا پھر ہر وار میں گئے وہاں بھی نا محمود خاں کے نام کی منادی کرائی اور گیارہ بجے دن کے مع ان لوگوں کے کہ جن کو گرفتار کیا تھا گنگا کے اس پار موضع انجنی میں جہاں ان کی اور فوج تھی چلے آئے۔ حکم انگریزی کا کنکھل پر کوچ کرنا تین بجے دن کے اس واردات کی خبر رڑکی میں اور وہاں سے منگلور میں جہاں کچھ فوج حرکاری مقیم تھی پہنچی! رات کو حکام انگریزی اور کچھ فوج نے کوچ کیا صبح ہوتے آٹھویں سنہ 1858ء کو افسران اور فوج مندرجہ حاشیہ بمقام میاپور پہنچی اسی وقت مسٹر ملول صاحب بہادر اور کپتان ڈریمنڈ صاحب بہادر اور کپتان بارگن صاحب بہادر اور تامسن صاحب بہادر چار سوار اور خادم علی جمعدار سواران نہر ساکن منڈ اور کو ساتھ لے کر کھادر گنگا میں کنارہ گنگا تک بمقابلہ گھاٹ چانڈی گئے اور اس پار سے ایک فقیر کو بلا کر حال فوج باغیان کا پوچھا اس نے بیان کیا کہ موضع انجنی میں فوج پڑی ہے چنانچہ اس کو ہمراہ لے کر مقابلہ گھاٹ انجنی جا کر کھڑے ہوئے اوردیکھا کہ کنارہ پر باغیان کی فوج پڑی ہے ان لوگوں نے جانا کہ یہ لوگ پار اترنے کا ارادہ کرتے ہیں انہوں نے نقارہ بجایا سب سپاہ پریٹ باندھ کر کھڑی ہوئی اور ہتھیار سنبھالنے لگی یہ صاحب کھڑے دیکھا کیے باغیوں نے اسی کنارہ سے بندوقوں کی فیر کی، سب صاحب کھڑے ہنسا کیے، تھوڑی دیر بعد سب صاحبوں نے اپنے خیمہ گاہ پر مراجعت کی تھوڑی راہ طے کی تھی کہ باغیوں نے ایک توپ فیر کی، اس کا گولہ ریت میں ان صاحبوں سے تھوڑے فاصلہ پر گرا۔ 1بارگن صاحب بہادر بریگیڈئیر میجر کپتان بارگن صاحب بہادر کپٹان ڈریمنڈ صاحب بہادر سپرنٹنڈنٹ نہر تامسن صاحب بہادر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نہر فلپ صاحب بہادر سپر وائزر نہر ملول صاحب بہادر جنٹ مجسٹریٹ سہارنپور سپاھیان پلٹن سکھ 100نفر سپاھیان پلٹن گورکھا 50نفر سپاھیان پلٹن گورہ 10نفر سواران رجمنٹ اول خاکی 25نفر توپ دو ضرب دوسرا ڈاکہ کنکھل کا اور باغیوں کا مارا جانا نویں جنوری سنہ 1858ء کو بارہ بجے شیو پرشاد نیٹو ایجنٹ نہر نے خبر دی کہ نواب کی فوج پار اتر رہی ہے افسران انگریزی نے بگل تیاری کا کیا اور ڈریمنڈ صاحب بہادر نے ڈرام نہر پر کھڑے ہو کر دوربین سے دیکھا کہ در حقیقت فوج اتر رہی ہے کچھ تو اس پر اتر آئی ہے اور کچھ پایاب پانی میں چلی آئی ہے۔ یہ نادان اس ارادہ سے اترے تھے کہ کنکھل میں مقام کریں گے کیونکہ سب کے ساتھ آٹا اور مختصر برتن اور اوڑھنا بچھونا بھی تھا۔ کپتان ڈریمنڈ صاحب بہادر نے بمجرد دریافت اس بات کے ڈرام نہر کا کھول دیا اور پانی نہر کا گنگا میں چھوڑ دیا اور فلپ صاحب بہادر کو اس پر متعین کر کے خود کنکھل کو تشریف لائے یہ دانائی اور یہ حکمت کپتان ڈریمنڈ صاحب بہادر کی بہت قابل تحسین ہے در حقیقت اس حکمت سے دشمن کو موت کے چنگل میں پکڑ لیا اور بجائے آب شمشیر موج آب سے ان کا کام تمام کیا۔ یہ فوج باغیوں کی وج اتری ان میں سب کا سردار شفیع اللہ خاں بھانجا محمود خاں کا تھا اور عبدالرحمان خاں اور عباد اللہ خاں اور وہ سوار جو پہلے اترے تھے سب شریک تھے اور قریب ہزار آدمیوں کے سوار و پیادہ اور تین ہاتھی جن میں سے ایک پر شفیع اللہ خاں سوار تھا، مع تین ضرب توپ نیل دھار اتر آئے تھے اور ان میں سے چار سو ساڑھے چار سو آدمی تخمیناً سوار و پیادہ ڈرام کے پانی کو اتر کر کنکھل کے متصل مقام دجہہ تک آ گئے تھے اور کچھ ڈرام کے پانی میں تھے۔ غرضکہ وہ لوگ کنکھل میں داخل ہونے نہ پائے تھے کہ افسران انگریزی مع اپنی فوج کے ان کے مقابل ہوئے اور حویلی ایکڑی والہ پر مورچہ توپ قائم کیا باغیوں نے باڑ بندوقوں اور توپوں کی سر کی جب قریب آئے تو سرکاری فوج نے توپوں کا گروپ ان پر مارا بیسیوں آدمی گر پڑے اور مارے گئے باغیوں کا منہ پھر گیا اور بھاگ نکلے سرکاری فوج نے دفعتہ دھاوا کر دیا اور مارے بندوقوں کے جس قدر آدمی کہ ڈرام کے پانی کو اتر آئے تھے اور جس قدر کہ پانی کے بیچ میں تھے اور جس قدر کہ اس کنارہ ڈرام کے کھڑے تھے سب کو مار دیا اور بیسوں آدمی ڈرام کے پانی میں جو بسبب چھوٹ جانے آب نہر کے گہرا ہو گیا تھا ڈوب گئے اور مقام دجہہ غنیم سے چھین لیا عین اس معرکہ میں کپتان بارگن صاحب بہادر نے کمال دلیری سے تنہا اپنا گھوڑا شفیع اللہ خاں کے ہاتھی کے پیچھے ڈالا اور بندوق فیر کی کفایت اللہ خاں جو خواصی میں بیٹھا تھا اس کو گولی لگی وہ مر کر گر پڑا جب صاحب بہادر نے دوسرا فیر شفیع اللہ خاں پر کیا اس کی فضا نہ تھی، وہ خالی گیا اور شفیع اللہ خاں ہاتھی بھگا کر بھاگ گیا۔ بہت سے ہتھیار اور گھوڑے سواروں کے جو مارے گئے تھے اور ایک تھیلہ میگزین کو جو ہاتھی پر سے گرا تھا فوج سرکاری کے ہاتھ آیا اور فتح و نصرت نصیب اولیائے دولت سرکار ہوئی اس معرکہ میں چار سو آدمی تخمیناً باغیوں کا مارا گیا حسن رضا خاں جو کنارہ آب ڈرام پر سر ننگے زخمی ہو کر بیٹھ گیا تھا اس کا سر تلوار سے کاٹ لیا سرکاری فوج میں کسی شخص کے پھول کی بھی چوٹ نہیں آئی باقی آدمی باغیوں کے جو کنارہ نیل دھارا پر تھے مع توپوں کے بھاگ گئے شیو پرشاد نیٹو ایجنٹ نہر کو بجلد وے اس خبر رسانی کے سو روپیہ انعام ملے۔ اس شکست کے بعد باغیوں میں تزلزل پڑنا اور معافی اراضیات مضبوطہ کی تجویز: جب اس شکست کی خبر نجیب آباد میں پہنچی تمام فوج باغیان میں کھل بلی پڑ گئی اور سب کے ارادے جو پار اترنے کے تھے وہ سست پڑ گئے اور ہر ایک باغی اپنے اپنے برگنہ جات کے بندوبست میں جو بر وقت تقسیم ملک ان کے حصہ میں آئے تھے مصروف ہوئے اور سلاطین دھلی اور تلنگان باغی جو جمع تھے متفرق ہونے لگے اور بربلی کی طرف کسی نہ کسی حیلہ اور بہانے سے چلے گئے اس وقت احمد اللہ خاں نے یہ خیال کیا کہ کسی طرح رعایا اس ضلع کو اپنے شریک کیا جاوے یہ ایک مشہور بات ہے کہ بسبب ضبط ہو جانے اراضیات معافی عہد سرکار میں معافی دار سرکار دولت مدار انگریزی سے آزردہ خاطر ہیں اس امر کو احمد اللہ خاں نے واسطے شریک کرنے رعایا اس ضلع کے بہت اچھا حیلہ سمجھا اور سولھویں جنوری سنہ 1858ء کو حکم دیا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ جو معافیات عہد انگریزی میں ضبط ہوئی ہیں واگذاشت کی جاویں اور پروانہ جات بنام جملہ تحصیل داران کے جاری کیے کہ فہرست ان معافی داروں کی جو عہد انگریزی میں ضبط ہوئی ہیں واسطے گذاشت معافیات کے پیش کریں اور جو پروانہ جات کہ اس اسباب میں اس نے جاری کیے ان کی نقل اس مقام پر لکھتے ہیں۔ نقل پروانہ احمد اللہ خاں موسومہ تحصیل داران در باب طلب فہرست معافی داران ’’ جو کہ بعنایت الٰہی یہ ملک بہ فیض و تصرف ہمارے آیا ہے اور فضل الٰہی سے جب تک نسلاً بعد نسلاً یہ ملک ہمارے فیض و تصرف میں رہے ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو معافیات عہد انگریزی میں ضبط ہو کر جمع مقرر ہو گئی ہے ان کو اور وارثان ون کے کو معاف و بحال رکھی جاویں گی اور جمع اراضیات معافیات کی سنہ حال سے نہ لی جاوے کس واسطے کہ یہ غریب دعاگو ہیں اس واسطے حسب الحکم روبکار امروزہ تم کو لکھا جاتا ہے کہ تم جمیع معافی داران کو اطلاع دو کہ ہر ایک معافی دار عرضی اپنی بہ استدعائے معافی اراضی معافی کے بہ قید تعداد اراضی اور جمع اور نام گاؤں کے بہ حضور ایں جانب گذرانے کے بعد تحقیقات و اراضی معاف و گذاشت کی جاوے گی‘‘ المرقوم 16جنوری سنہ 1858ء جناب صاحب کلکٹر بہادر کا میرٹھ سے رڑکی کو کوچ کرنا سولھویں فروری سنہ 1858ء کو چٹھی صاحب سیکرٹری گورنمنٹ مورخہ 15فروری سنہ 1858ء نمبر85بنام صاحب کلکٹر بہادر ضلع بجنور بمقام میرٹھ پہنچی کہ تم مع عملہ ضلع بجنور بمقام رڑکی روانہ ہو اور واسطے انتظام روھیل کھنڈ کے فوج کی لام بندی کا بمقام رڑکی حکم ہوا، چنانچہ جناب مسٹر الگزنڈر شیکسپیئر صاحب بہادر صاحب کلکٹر اور مجسٹریٹ ضلع بجنور اور جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر جنٹ مجسٹریٹ ضلع بجنور رڑکی میں تشریف لائے اور باقی عملہ اور رئیسان ضلع بجنور جو گنگا پار تھے حسب تفصیل ذیل اور بتواریخ مختلف رڑکی میں پہنچے۔ سید احمد خاں صدر امین بجنور 21فروری مولوی قادر علی تحصیلدار نگینہ 21فروری کیسری سنگھ مہاجن گنج آسکین 21فروری عملہ کلکٹری و فوجداری 21,22فروری چودھری بدھ سنگھ و چودھری مہاراج سنگھ رئیسان ھلدور 22فروری گلاب سنگھ زمیندار شیر کوٹ 22فروری امراؤ سنگھ پسر رائے ھمت سنگھ رئیس ساھن پور 22فروری دھری نین سنگھ رئیس بجنور 23فروری پران سکھ اور خوشحال چند بشنوئیان نگینہ 23فروری محمد رحمت خاں صاحب بہادر ڈپٹی کلکٹر 24فروری چودھری پرتاپ سنگھ رئیس تاجپور 24فروری چودھری امراؤ سنگھ رئیس شیر کوٹ مع خوشحال سنگھ 25فروری چودھری جودھ سنگھ رئیس بجنور 26فروری میر قاسم علی تحصیلدار چاند پور 3مارچ سید تراب علی تحصیلدار بجنور 18مارچ پنڈت کالکا پرشاد منصف نگینہ 22مارچ نامحمود خاں کا نسبت تقسیم ملک کے نیا انتظام اور ولی عہد مقرر کرنا یہاں تو لام بندی فوج کی واسطے انتظام روحیل کھنڈ کے ہو رہی تھی اور بجنور میں بیوقوف اپنے تئیں مالک ملک کا جان کر تقسیم ملک اور انتظام ولی عہدی میں مصروف تھے جو تقسیم کہ پہلے ہوئی تھی اس کا منشاء نا محمود خاں یہ سمجھا تھا کہ تحصیل نگینہ اور دھام پور اور چاند پور کا مالک غضنفر علی خاں اس کا بیٹا رہے گا حالانکہ بر خلاف اس کی توقع کے ماڑے خاں تنہا اس کا مالک ہو گیا اور سب کو بے دخل کر دیا اس سبب سے دوبارہ باہم باغیوں کے نزاع پیدا ہوا اور واسطے رفع اس نزاع کے سب لوگ نجیب آباد میں جمع ہوئے اور از سر نو انتظام ملک کا عمل میں آیا اور جو روبکاری اس جدید انتظام کی بابت لکھی گئی تھی اس کی نقل ہم بجنسہ اس مقام پر لکھتے ہیں اگرچہ اس روبکاری پر تاریخ نہیں ہے مگر تحقیقات سے معلوم ہوا کہ بائیسویں فروری سنہ 1858ء کو یہ روبکاری لکھی گئی اس وقت میں کہ سب باغی آپس کے رفع نزع میں مشغول تھے سید تراب علی تحصیلدار بجنور جو نگینہ میں باغیوں کے ہاتھ میں پھنس گئے تھے باعانت مولوی محمد علی اور میر اشرف علی رئیسان نگینہ جو انجام تک خیر خواہ سرکار رہے نگینہ سے نکل آئے۔ نقل روبکار تقسیم ملک اور تقرر ولی عہد ’’ روبکار بہ اجلاس امیر الدولہ ضیاء الملک ذوی القدر نواب محمد محمود خاں بہادر مظفر جنگ مرقوم‘‘ جو کہ آج کی تاریخ میں ہم کو انتظام کرنا مالی و ملکی ضلع نجیب آباد کا ساتھ اس وجوہ کے پر ضرور ہوا کہ ہم نے اپنی طرف سے جو اختیارات اپنے تھے وہ کل اختیارات برخوردار محمد احمد اللہ خاں کو دیے تشریح ان اختیاروں کی یہ ہے کہ برخوردار مذکورۃ الصدر کو اختیار ہے کہ پیشگاہ اپنے سے احکامات موقوفی و بحالی محکمہ نظامت و فوجداری اور نیز فوج میں اجراء کریں چنانچہ اسی سبب سے خرچ جیب خاص اپنی کا مبلغ آٹھ ہزار روپیہ مقرر کر لیے اور اسی میں خاندان نواب محمد کلو خاں و نواب محمد ملھو خاں مرحوم اور ملازمین نج بھی آ گئے اور جو کہ برخوردار غضنفر علی خاں کو اولاد اکبر اپنا سمجھ کر ولی عہد گردانا اور ہزار روپیہ مشاہرہ واسطے اصراف لابدی اس کے مقرر کیے تاحین حیات ہماری اس کو معاملات ملکی و مالی یا اجرائے احکامات میں کسی طرح کی مداخلت نہ ہو گی اور اسی طور سے مشاہرہ اولاد اپنی اور والدہ اور جملہ خاندان نواب محمد سلطان خاں مرحوم و نواب مرتضیٰ خاں خلف نواب افضل خاں مرحوم مقرر کیا کہ تفصیل اس کی بیچ تحت روبکار کے مندرج کی جاتی ہے اور سابق میں ہم نے ایک اقرار نامہ کہ جس کا مضمون بتاریخ انیسویں شوال سنہ 1273ھجری در باب اولاد نواب محمد سلطان خاں مرحوم و نواب مرتضیٰ خاں خلف نواب افضل خاں بہادر مرحوم کے تحریر کیا ہے وہ جائز و برقرار رہے گا اور دوجہ نیل فوج کے بہ تحت برخوردار نور چشم محمد احمد اللہ خاں بہادر کے کیے گئے ایک برخوردار محمد شفیع اللہ خاں بہادر کہ جو فوج ماتحت برخوردار محمد احمد اللہ خاں بہادر کے تھی اور ایک چودھری امام بخش چنانچہ چودھری امام بخش سے بیچ اس ملک کے بہت کار نمایاں ہوئے ہیں تو اس نظر سے چودھری مذکور الذکر کو فرزندی اپنی میں لے کر بطور عطیہ جاگیر پرگنہ شیر کوٹ میں انیس ہزار روپیہ کی نسلاً بعد نسلاً مرحمت کی برخوردار محمد احمد اللہ خاں کو چاہیے کہ پیشگاہ اپنے سے فہرست دیہات تحصیلدار شیر کوٹ سے طلب کر کے حضور میں بھیج دیں کہ تجویز مناسب عمل میں آوے گی سند چودھری مذکورۃ الصدر کو دی جاوے گی اور اگر خواستہ ایزدی سے بعد انتظام ملک میان دو آب کے کل پرگنہ شیر کوٹ کا نسلاً بعد نسلاً عطا کیا جاوے گا اس میں کچھ شک و شبہ نہ ہو گا اور مشاھرہ جرنیل کا کہ جو فوج اس کے پاس ہے اس پر چھ سو روپیہ مقرر کیا اور برخوردار احمد یار خاں جو سابق سے سپہ سالار مقرر ہیں ہر دو فوج کے سپہ سالار رہیں گے اور سپہ سالار مذکورہ رتبہ جرنیلی سے زیادہ رکھتے ہیں اور قواعد فوج کا یہ قرار پاے اکہ جو جرنیل کہ گمان پر جاوے ہر روز بطرز روزنامچہ پاس سپہ سالار کے بھیجتے ہیں اور سپہ سالار کو یہ لازم ہے کہ رپورٹ اپنی بترسیل اصل مرضی کے مع مثل خدمت میں برخوردار محمد احمد اللہ خاں کے واسطے صدور حکم اخیر کے بھیجتے رہیں اور جو مقدمات کہ خفیف ہیں اس میں جرنیلوں کو اختیار رہے کہ بعد انفصال مقدمہ کے اطلاع سپہ سالار کو دیا کریں اور سپہ سالار بموجب قاعدہ مذکورہ بالا کے بخدمت برخوردار موصوف کے مرسل رکھا کریں اور برخوردار مذکور نقشہ ماھواری کا حضور میں بھیجتے رہیں تو اس صورت میں لازم بل الزام یہ امر ہوا کہ برخوردار محمد احمد اللہ خاں اقرار نامہ اس مضمون کا تحریر کر دیں کہ جیسے عہد نواب نجیب الدولہ بہادر مرحوم میں نواب سلطان خاں بہادر مرحوم کا تھا اسی طرح سے برخوردار مذکور کار بند رہے اس میں کچھ تجاوز و تفاوت نہ لاویں اور برخوردار مذکور کو مسند نشینی ہماری اور ہماری اولاد سے کچھ دعویٰ نہیں ہو گا۔ تفصیل تنخواہ خاندان و جیب خاص15020 محمد غضنفر علی خاں بہادر ولیعہد 1000، معظم علی خاں بہادر 500، والدہ صاحبہ 200، صاحبزادی صاحبہ 100، بیگم صاحبہ300، ھمشیرہ صاحبہ 70، نواب جلال الدین خان بہادر 1000، نواب محمد عظمت اللہ خاں بہادر200، احمد اللہ خاں صاحب1000(بوجہ خاندان 500 بوجہہ کار سرکار500) محمد شفیع اللہ خاں صاحب400(بوجہ خاندان 200بوجہ کام کے 200) احمد یار خاں صاحب سپہ سالار 400(بوجہ خاندان 200، بوجہ کام کے 200) عبدالرحمن خاں صاحب200(بوجہ خاندان150بوجہ کام 50) مصطفیٰ خاں صاحب200(بوجہ خاندان 150 بوجہ کام کے 50) حبیب اللہ خاں صاحب بخشی فوج 200 (بوجہ خاندان 150بوجہ کام کے 50) حفیظ اللہ خاں صاحب 200(بوجہ خاندان 150بوجہ کام کے 50) عباد اللہ خاں صاحب 200(بوجہ خاندان 150 بوجہ کام کے 50) عزیز اللہ خاں صاحب 200(بوجہ خاندان 150 بوجہ کام کے 50) کریم اللہ خاں صاحب 200(بوجہ خاندان 150 بوجہ کام کے 50) لہٰذا حکم ہوا کہ احکامات مندرجہ متن روبکار ھذا حسب ضابطہ بنام تحصیلداران و تھانہ داران ضلع نجیب آباد و بنام سپہ سالار و بنام جرنیل برخوردار محمد شفیع اللہ خاں و بنام جرنیل چودھری امام بخش کے جاری ہوں کہ موافق اس کے کاربند ہوں اور ایک نقل روبکار ھذا پاس برخوردار محمد احمد اللہ خاں بہادر کے بھیجی جاوے کہ حسب منشاء روبکار ھذا کے کار بند ھوویں اور اشتہارات واسطے آگاہی خاص و عام مشتہر کیے جاویں۔ اراضی مضبطہ عہد سرکاری کے معافی کے اشتہارات جو باغیوں نے جاری کیے۔ جب کہ نا محمود خاں کو فراہمی فوج کی بہ مقام رڑکی خبر پہنچی تو اس نے یہ بات چاہی کہ کسی طرح رعایا اس ضلع کو بھی ورغلا کر لڑائی میں اپنے ساتھ شریک کیا جاوے اسی خیال سے اس نے تئیسویں فرور ی سنہ 1858ء کو حکم دیا کہ اراضیات معافی جو سرکار میں ضبط ہوئی ہیں ان کی نصف جمع معاف ہو اور جو معافی دار کہ ہمارے ساتھ بمقابلہ انگریزان گنگا پار اترے اس کی کل جمع معاف ہو۔ ظاہر ہے کہ اس اشتہار نے ضلع میں کچھ تاثیر نہیں کی کیونکہ بہت جلد یعنی ہوتھی مارچ سنہ 1858ء کو اس نے دوسرا اشتہار متضمن معاف کرنے کل جمع اراضیات معافی سابق کے جاری کیا مگر جاری رائے میں اس پر بھی رعایا اس ضلع میں سے بجز ان لوگوں کے جو ملازم نواب تھے اور کوئی سرکار کے مقابلہ پر نہیں آیا بلکہ ملازمین میں سے بھی بہت لوگ جان چھپا کر بھاگ گئے چنانچہ ہم اس مقام پر چوتھی مارچ سنہ 1858ء کے اشتہار کو بجنسہ نقل کرتے ہیں کہ اس میں پہلے اشتہار کا مضمون بھی بلفظہ مندرج ہے۔ فل اشتہار باغیان در باب معافی اشتہار کچہری نظامت ضلع نجیب آباد اجلاس محمد احمد اللہ خاں صاحب بہادر واقعہ 4مارچ سنہ 1858ء ’’ روبکار مورخہ 23فروری سنہ 1858ء اجلاس نواب محمد محمود خاں صاحب بہادر بدیں خلاصہ کہ سابق میں واسطے معافی نصف جمع اراضی ملک معافیات ضلع کے اشتہار عام جاری کیا گیا تھا اور واسطہ معافی نصف دیگر کے یہ حکم تھا کہ جو معافی دار شامل قتل کفاران بہ مقام گنگا پار ہمراہ لشکر کے ہووے گا اور سرکار سے سند حاضری کی اس کو ملے گی بذریعہ اس سند کے مستحق معافی کا ہو گا اور اگر شہید ہو جاوے گا تو وارثان اس کے کو معافی ہو گی اور اب حضور کو بنظر ترحم اور افلاس معافی داران کے مناسب متصور ہوا کہ معافیات کل معاف کی جاویں اور ایک فہرست جملہ معافیات بہ قید اراضی معافی اور نام معافی داران ہر ایک تحصیل سے طلب ہووے اور ہر ایک معافی دار سے بقدر حیثیت اس کے اقرار نامہ اس مضمون کا لیا جاوے کہ جس وقت سرکار کو ضرورت ہووے تو ہمراہ لشکر آدمی مسلح واسطہ امداد کے دیا کرے صادر ہوئی لہٰذا یہ اشتہار واسطہ آگاہی خاص و عام کے جاری ہوتا ہے کہ جن معافی داران کو دعویٰ معافیات کرانے اپنی معافی کا ہے وہ میعاد پندرہ یوم کے سامنے حضور کے جہاں لشکر ہو حاضر ہو کر عرضی اپنی حاضری کی گذارنے اس وقت تحقیقات مراتب مذکورہ کی ہو کر در صورت استحقاق حکم معافی کا دیا جاوے گا۔‘‘ تفصیل باغیوں کی فوج کی بقید مقامات جہاں متعین تھی ان اشتہارات کے بعد احمد اللہ خاں اور اس کے صلاح کاروں نے ہر ایک مقام پر جہاں جہاں سے سرکاری فوج کے اترنے کا احتمال تھا کچھ کچھ فوج متعین کی ایک مقام سے دوسری مقام پر ادلی بدلی ہوتی رہتی تھی مگر جب فوج سرکاری اس ضلع میں اتری ہے اس وقت جس جس مقام پر جس جس قدر فوج موجود تھی اس کی تفصیل اس مقام پر لکھی جاتی ہے میں یہ نہیں کہتا کہ یہ تفصیل بالکل صحیح اور حقیقی ہے مگر جہاں تک ممکن ہوا ہے تحقیقات کر کے لکھا گیا ہے۔ فہرست فوج باغیان سپاہ سوار سپاہ پیادہ نام مقام نام افسران نام رسالہ داران تعداد سواران میزان نام غول تعداد میزان تعداد توپ آنبہ سوت احمد اللہ خاں عطاء اللہ خاں 50 احمد اللہ خاں 4000 6 شفیع اللہ خاں نیاز احمد خاں 70 شفیع اللہ خاں 700 قلندر علی خاں 40 از ھمراھیان ماڑے 1000 عمر خاں برادر عمدو خاں 32 کاظم علی خاں 36 شیو رام گوجر 31 سواران رجمنٹ باغی ھمراھیان قاضی عنایت علی 80 از ھمراھیان ماڑے 120 بہاء الدین خاں 34 میزان 208 5700 6 نجیب آباد محمود خاں مصطفی خاں حفیظ اللہ خاں کریم اللہ خاں عزیز اللہ خاں عمدو خاں نجو خاں جمعدار 100 اردلی محمود خاں 1000 میزان 100 1000 10 نانگل عظمت اللہ خاں کلن خاں عبدالرحمن خاں حبیب اللہ خاں 50 50 1000 1000 4 دارانگر ماڑے خاں قاضی عنایت علی دلیل سنگھ گوجر سواران رجمنٹ باغی ھمراھیان قاضی عنایت علی دیگر ھمراھیان قاضی عنایت علی سواران ماڑے گوجران ھمراھیان دلیل سنگھ 20 50 400 70 ھمراھیان ماڑے ھمراھیان دلیل سنگھ گوجر 4000 500 میزان 298 4500 8مع جزائل افضل گڑھ نتھو خاں نظام علی خاں غلام محمد خاں عرف گامی خاں نائب 70 ھمراھیان نتھو خاں ماڑے از ھمراھیان ماڑے 150 500 250 2 میزان کل 1526 12550 30 جنرل جونس صاحب بہادر کا رڑکی میں پہنچنا یہاں تو نواب نے ہر طرح سے ناکہ بندی کر رکھی تھی اور ادھر سرکاری فوج بمقام رڑکی جمع ہوئی تھی کہ دفعۃً تیرھویں اپریل سنہ 1858ء کو جنرل جونس صاحب بہادر اس فوج کے کمانڈر مقرر ہو کر رڑکی میں داخل ہوئے اور میجر چرچل صاحب بہادر کو حکم دیا کہ کنکھل میں جا کر پل جو تیار ہوتا ہے اس کی حفاظت کریں اور میجر اسماعیل صاحب بہادر کو حکم ہوا کہ بڑی توپیں اور لڑائی کا سامان نانگل کے گھاٹ کے سامنے لے جا کر غنیم کو اس طرح پر دکھلائیں کہ گویا پایاب پانی میں ہو کر دریا کے پار اترتے ہیں۔ پل کشتیوں کا شیشم والی گھاٹ پر بندھنا اور کچھ فوج سرکاری کا پار اترنا اور رڑکی سے لشکر کا کوچ ہونا چودھویں اپریل سنہ 1858ء کو کپتان ڈریمنڈ صاحب بہادر افسر کمان انجینئر اور کپتان برن لو صاحب بہادر انجینئر دو توپیں ہاتھیوں پر رکھ کر مع ایک کمپنی گورہ اور ایک کمپنی سکھ آٹھ بجے کے قریب موضع کنکھل سے بمقام گھاٹ شیشم والی گنگا پار اتر گئے اور مورچہ لگا دیے غنیم کی طرف سے کوئی مقابل نہیں ہوا، تخمیناً دو سو آدمی جو وہاں متعین تھے وہ بھاگ گئے پندرھویں تاریخ تک پل کشتیوں کا بخوبی تیار ہو گیا، اور اسی تاریخ کل لشکر کا رڑکی سے کوچ ہوا اور گنگا کا نالہ اتر کر پل کے پاس مقام ہوا، اور سولھویں تاریخ کو کل لشکر کا تو وہیں مقام رہا مگر توپ خانہ اور ملتانی رسالہ اور کوک صاحب کی پلٹن پار اتر گئی۔ اسی تاریخ میجر اسماعیل صاحب بہادر نے اپنے لشکر کو گنگا کے کنارہ پر بڑھا کر اسی کنارہ سے غنیم کے لشکر پر توپیں ماریں اور ادھر سے بھی توپیں چھوٹیں اور پھر اپنی فرودگاہ پر واپس آئے۔ آنبہ سوت کی لڑائی اور سرکار کی فتح سترھویں تاریخ کو اسی طرح میجر اسماعیل صاحب بہادر نے پھر گنگا کے کنارہ پر آن کر توپ چلائی اور اسی تاریخ کو تمام لشکر نے مقام فرودگاہ متصل پل سے حسب انتظام مندرجہ حاشیہ کوچ کیا اور پل کو اتر کر آنبہ سوت کی طرف چلا، یہ رستہ مشکل تھا اور دونوں طرف سڑک کے جنگل ہے، بعضی جگہ بہت گھنا ہے اور کہیں کم ہے، جبکہ کپتان ڈریمنڈ صاحب بہادر نے گنگا کے پار مورچہ لگایا تھا تو احمد اللہ خاں دارا نگر میں تھا، اس کو خبر پہنچی کہ دو انگریز اور تھوڑی سی فوج پار اتر آئی ہے اس لیے اس نے دارا نگر سے آنبہ سوت پر کوچ کیا اور ماڑے کے لشکر میں سے ہزار سپاہی اور کچھ سوار اپنے ساتھ لے کر سولھویں تاریخ کو آنبہ سوت پر پہنچا، اور سترھویں کو اس نے بھی آنبہ سوت سے گنگا کی طرف کوچ کیا تھا، جب ہماری فوج 1ہر اول: 60 پلٹن رائفل کی ایک کمپنی جو محاربہ متفرقہ کے لیے تجویز ہوئی تھی 60رائفل کی ایک کمپنی جو دو ضرب توپ کی محافظت کرتی تھی سیپیر اور مینیر اور ایک رسالہ سواران قلب لشکر: ایک رسالہ سواران اور توپخانہ کپتان آسٹن صاحب بہادر 60پلٹن رائفل مع پنجابی پیدل کا برگٹ اسباب حرب اور خزانہ مع سواران رسالہ ملتانی لشکر کا عقب: ایک کمپنی پیادگان پنجابی اور ایک رسالہ سواران لشکر قلب کے دونوں طرف ایک ایک کمپنی پیادگان ہندوستانی اور آدھی آدھی کمپنی سواران متعین تھیں۔ پیلی ندی پر چھ میل راہ چل کر پہنچی تو فوج ہر اول کو معلوم ہوا کہ غنیم یہاں موجود ہے میجر مٹر صاحب بہادر نے کمال دانائی اور چستی سے ایک بلند جگہ پر رائفل پلٹن کی ایک کمپنی متعین کی اور سواران اور توپ خانہ کو آگے بڑھا کر سرحد موضع شام پور قریب رسیا بڑ کے لڑائی شروع کی۔ اسی وقت جنرل جون صاحب بہادر نے حکم دیا کہ کپتان کیورٹین صاحب بہادر کا رسالہ اور کپتان اسٹن صاحب بہادر کا توپخانہ لشکر کے آگے دوڑایا جاوے اور پیادہ صف باندھ کر غنیم کے قیام گاہ پر بڑھیں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا کہ احمد اللہ خاں دارانگر سے خبر سن کر آنبہ سوت پر آیا، در حقیقت اس کا ارادہ چھاپہ مارنے کا تھا لیکن وہ اس ارادہ سے نا امید ہوا اور سرکاری توپ خانہ اور رائفل کی پلٹن اور ملتانی رسالہ نے غنیم پر ایسی آگ برسائی کہ وہ بالکل سراسیمہ ہو گئے۔ اس وقت جنرل جون صاحب بہادر نے دفعۃ سواروں اور توپ خانہ کو آگے بڑھنے کا حکم دیا اور کپتان کیورٹین صاحب نے ہر مقام پر غنیم پر یورش کی اور شراپنل کا گولہ برابر غنیم پر پڑنے لگا۔ دشمن بھاگ نکلا اور بجز چند توپوں اور بندوقوں کے فیر کرنے کے اس سے اور کچھ نہ ہو سکا، خاص آنبہ سوت پر جو بہت مشکل اور مورچہ کیلئے بہت عمدہ جگہ تھی اور غنیم نے بہت مدت سے یہاں مورچہ درست کیا تھا اس کو بھی چھوڑ کر بھاگ گیا، یہاں تک کہ سینکڑوں آدمی جوتیاں اور وردی کے کپڑے اور اپنے ہتھیار پھینک کر بھاگے، تمام جنگل اور سڑک پر ہتھیار بکھرے ہوئے تھے اور ہر ہر قدم پر لاش پڑی تھی میں جو لشکر محارب کے پیچھے پیچھے چلا آتا تھا قصداً لاشوں کو دیکھتا تھا کہ شاید کوئی شناخت میں آوے مگر کوئی نامی آدمی نہیں مارا گیا البتہ دو لاشیں تلنگان نمک حرام کی نظر پڑیں اور میری دانست میں تخمیناً تین سو ساڑھے تین سو آدمی غنیم کا مارا گیا اور سرکار کی طرف بجز ایک آدمی کے اور کسی کا نقصان نہیں ہوا، چار توپیں دشمنوں کی اور تمام اسباب میگزین اور ڈیرہ و خیمہ جو آنبہ سوت پر کھڑا ہوا تھا سب چھین لیا مگر دو توپیں غنیم کے آدمی لے کر نجیب آباد بھاگ گئے تھوڑی دیر کے بعد لشکر وہاں سے آگے بڑھا اور موضع بھاگووالہ پر پہنچ کر مقام کیا یہاں سے آٹھ میل نجیب آباد اور آٹھ میل نانگل تھی۔ بعد شکست کھانے احمد اللہ خاں مع چند سواروں کے جدا بھاگا اور شفیع اللہ خاں مع چند سواروں کے جدا بھاگا اور بہت سے سوار و پیادہ سیدھے نجیب آباد کو بھاگے اور کچھ نانگل کی طرف گئے اور اکثر آدمی جوتیاں اور ہتھیار اور وردی پھینک کر جنگل میں چھپ گئے، جب اس مقام پر لڑائی ہو رہی تھی اور اس سے تھوڑی دیر پہلے میجر اسماعیل صاحب بہادر نے نانگل کی طرف سے دشمن پر گولے مارے تھے جو فوج دشمن کی نانگل پر متعین تھی وہ بھی سراسیمہ ہو گئی تھی اور بہت سے بھاگ نکلے تھے کہ اس عرصہ میں شفیع اللہ خاں بھاگا ہوا نانگل میں پہنچا اور اس کے تھوڑی دیر بعد احمد اللہ خاں پہنچا اور یہ سب مل کر نجیب آباد آئے اور اسی وقت بھاگنے کی تیاری کی پانچ بجے تک جملہ باغیان نجیب آباد سے بھاگ گئے، دو ضرب توپ جو آنبہ سوت سے بھگا کر لائے تھے اور چار ضرب توپ جو نانگل سے بھگا کر لائے تھے اور ایک ضرب توپ جو خاص نا محمود خاں کی اردلی کی تھی ان توپوں کو اپنے ساتھ لے گئے اور چودھری رندھیر سنگھ اور کرائی صاحب مہتمم تار برقی کو بھی اپنے ساتھ لے گئے اور نجیب آباد کی تمام رعایا شہر سے نکل گئی اور شہر بالکل خالی ہو گیا۔ نانگل کے گھاٹ سے سرکاری فوج کا اترنا اسی تاریخ جنرل جون صاحب کو خبر پہنچی کہ نانگل سے بھی غنیم اپنے خیموں کو استادہ چھوڑ کر بھاگ گیا، اسی وقت میجر اسماعیل صاحب کو حکم دیا کہ بھاری توپیں اور سامان حرب گنگا کے پار اتاریں چنانچہ اس کی تعمیل ہوئی اور میجر اسماعیل صاحب کا توپخانہ اور پہلا پنجاب رسالہ مع بھاری توپوں کے پایاب گنگا اتر آیا اور رات کے وقت میجر ھوس صاحب بہادر نانگل سے اس لشکر میں آئے اور ملاقات کر کے اپنی فرودگاہ کو پھر گئے۔ نجیب آباد پر سرکار کی چڑھائی اور سرکار کی فتح اٹھارھویں تاریخ کو اسی قاعدہ سے لشکر کا کوچ بھاگووالہ سے نجیب آباد ہوا، جب لشکر قریب مالن ندی کے پہنچا تو غنیم کی طرف سے تین آواز توپ کی آئی۔ کچھ شک نہیں ہے کہ سردار باغیوں کے بالکل بھاگ گئے تھے اور تمام شہر خالی پڑا تھا، مگر کچھ سپاہی پتھر گڈھ کے قلعے میں تھے، جب انہوں نے بھاگنا چاہا تو توپیں چھوڑ دیں تاکہ ان کو بھاگنے کی فرصت نہ ملے۔ جنرل جون صاحب بہادر نے اسی وقت برگیڈیر کوک صاحب کو حکم دیا کہ آگے جاویں، چنانچہ صاحب ممدوح آگے بڑھے، شہر بالکل خالی پڑا تھا، جب قلعہ پتھر گڈھ کی طرف بڑھے تو کچھ باغی قلعہ میں سے بھاگتے دکھائی دیے۔ ان کے تعاقب میں سواروں نے گھوڑے ڈالے اور تیس آدمی ان کے مارے شہر اور قلعہ بالکل فتح ہو گیا اور سرکار دولت مدار کے قبضہ میں آ گیا، قلعہ میں سے چھ ضرب توپ اور گولہ اور سامان حرب اور شہر میں سے دو توپیں ایک احمد اللہ خاں کے دروازہ پر سے ، ایک اس کارخانہ میں سے جہاں توپیں بنتی تھیں اور ایک شہر اور قلعہ کے بیچ میں جو میدان ہے وہاں سے سرکار دولت مدار کے ہاتھ آئیں شہر نجیب آباد کا لٹ گیا اور تمام شہر میں بکثرت آگ لگ گئی۔ شہر نجیب آباد میں آگ کا لگنا نہایت افسوس ہے کہ ہمارے حکام کو اس طرح سے شہر کا جلانا منظور نہ تھا شاید اتفاقیہ آگ لگی اور بسبب اس کے کہ شہر خالی پڑا تھا اور پانی بھی وہاں بہت کم باب ہے آگ کے بجھانے کا کچھ علاج نہ ہوا، مگر عموماً یہ بات مشہور ہوئی کہ ہندوؤں نے جن کے گھر نواب نے جلا دیے تھے اس فرصت کے وقت کو غنیمت سمجھ کر قصداً تمام شہر میں آگ لگوا دی اور جو رنج کہ ان کے دلوں میں تھا، اس کا بدلہ بخوبی نکال لیا اور کچھ شک نہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ قلعہ پتھر گڈھ کا حال مناسب ہے کہ قلعہ پتھر گڈھ کا بھی کچھ تھوڑا حال لکھوں نجیب خاں نے سنہ 1755ء میں یہ قلعہ بنایا سنہ 1758ء میں نجیب خاں سے اس قلعہ پر لڑائی ہوئی جھنکو راؤ سیندھیا اور ملہار راؤ مرھٹے نے چانڈی کے متصل گٹو مکھ گھاٹ سے اتر کر نجیب آباد کو اور اس قلعہ کو لوٹا تھا، پھر شاہ عالم کے وقت میں ضابطہ خاں پر نواب نجف خاں اور سیندھیا اور ٹکوجی مرھٹے نے چڑھائی کی اور پتھر گڈھ پر توپیں ماریں اور لوٹ لیا۔ پھر سنہ 1774ء میں شجاع الدولہ نے اس قلعہ پر تسلط کیا پھر سنہ 1801ء میں سرکار دولت مدار انگریزی کا اس ملک پر تسلط ہوا پھر سنہ 1805ء میں امیر خاں نے اس نواح میں غدر مچایا اب سنہ 1858ء میں ان نمک حراموں نے اس خاندان کا نام نشان مٹا دیا۔ جلال الدین خاں اور سعد اللہ خاں کا گرفتار ہونا اور مارا جانا انیسویں تاریخ کو خبر ملی کہ جلال الدین خاں بھائی محمود خاں کا اور سعد اللہ خاں جو پہلے منصف امروھ تھا کوٹ قادر میں ہیں اسی وقت جناب صاحب کلٹر بہادر اور میجر اسماعیل صاحب بہادر کچھ سوار ساتھ لے کر ان کی گرفتاری کو گئے مگر پہنچنے سے پہلے ان دونوں نے اپنے تئیں ملتانی سواروں کے حوالے کر دیا تھا چنانچہ وہ دونوں گرفتار ہوئے اور گوروں کے پیرہ میں مقید ہوئے اور بیسویں تاریخ سے ان کا کورٹ شروع ہوا اور بعد ثبوت جرم کے جنرل جون صاحب بہادر کے حکم سے نور پور کے مقام 23تاریخ کو گولی سے مارے گئے۔ باغیوں کے مکانات حکومت کا اڑانا بیسویں اپریل سنہ 1858ء کو یہ تجویز ہوئی کہ مکانات نا محمود خاں اور جلال الدین خاں جو ان کی سرداری اور حکومت کے نشان ہیں اڑا دیے جاویں تاکہ سرکار کی کمال ناراضی ان پنشن دار نمک حراموں سے ظاہر ھو اور لوگوں کو بخوبی عبرت ہو، چنانچہ اسی تاریخ اس حکم کی تعمیل ہوئی اور دیوان خانہ جو بہت بڑا مکان اور حکومت کی جگہ تھی اڑا دیا گیا۔ اسی تاریخ یہ تجویز ہوئی کہ ایک کمپنی سکھ اور توپخانہ اسی تحت حکومت میجر اسماعیل صاحب بہادر اور اول پنجاب رسالہ تحت حکومت کپتان ھوس صاحب بہادر پتھر گڈھ میں رہے اور جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر جنٹ مجسٹریٹ انتظام نصف شمالی ضلع کا اپنے ذمہ لیں، چنانچہ صاحب ممدوح ہمراہ اس فوج کے بمقام نجیب آباد مقیم رہے اور جناب صاحب کلکٹر بہادر نے مجھ صدر امین کو حکم دیا کہ تم بھی جناب صاحب جنٹ مجسٹریٹ بہادر کی خدمت میں حاضر رہ کر ان کی اطاعت میں کام کرو، چنانچہ میں نے اس حکم کی تعمیل کی اور صاحب ممدوح کی تابعداری میں حاضر رہا۔ نگینہ پر باغیوں کا جمع ہو جانا اور رندھیر سنگھ کی رہائی جب یہ باغی نجیب آباد سے بھاگے ہیں تو نگینہ ہوتے ہوئے دھامپور گئے اور رستہ میں احمد اللہ خاں نے چودھری رندھیر سنگھ کو اپنی قید میں سے چھوڑ دیا او ر وہ باعانت زمینداران پورینی نجیب آباد میں پہنچے اور لشکر میں شامل ہوئے، نگینہ والے بھی شہر کو خالی کر کے بھاگ گئے جب حرامزادہ ماڑے نے دارانگر میں خبر سنی کہ فوج سرکاری نجیب آباد میں داخل ہو گئی تو اس نے سرکار کے مقابلہ کا ارادہ کیا اور دارانگر سے مع اپنی تمام فوج کے براہ بجنور نگینہ کو آیا اور بجنور میں ھردیال جاٹ کو قتل کیا اور چند ہندوؤں کو گرفتار کر کے نگینہ لے آیا، اور نگینہ کے باغوں میں مورچے قائم کیے اور احمد اللہ خاں کے بلانے کو سوار بھیجے اور جتنی فوج کہ متفرق ہو گئی تھی اور جتنے باغی فرار ہوئے تھے سب کو بلا کر جمع کیا، چنانچہ سب باغی یعنی ماڑے خاں اور قاضی عنایت علی اور دلیل سنگھ گوجر اور احمد اللہ خاں اور شفیع اللہ خاں اور حبیب اللہ خاں اور کلن خاں اور نتھو خاں متعینہ افضل گڈھ کل اپنی جمعیت اور توپوں کو لے کر بمقام نگینہ جمع ہوئے مگر نا محمود خاں نگینہ پر نہیں آیا بلکہ سوھارہ میں جا کر مع ایک ضرب توپ اور کچھ سواروں کے مقیم ہوا اور بیسویں تاریخ رات کے وقت جناب صاحب کلکٹر بہادر کو بذریعہ مخبروں کے جو جناب ممدوح نے مقرر کر رکھے تھے مفصل خبر غنیم کے ہر ایک مورچہ اور توپوں کی تعداد کی نجیب آباد میں پہنچی اور میر اشرف علی ساکن نگینہ نے جو نواح نگینہ میں موجود تھا اور سرکار کے خیر خواھوں میں ہے مفصل حالات کی عرضی بحضور جناب صاحب کلکٹر بہادر روانہ کی غرضکہ جملہ حالات نگینہ کے بخوبی بمقام نجیب آباد دریافت ہو گئے۔ نگینہ کی لڑائی اور سرکار کی فتح اکیسویں تاریخ کو فوج کا نجیب آباد سے نگینہ پر کوچ ہوا اسی ترتیب سے ہر اول اور عقب اور یمین ویسار لشکر کا روانہ ہوا جس وقت کہ لشکر نہر کے پل پر پہنچا جہاں سے نگینہ تین میل رہتا ہے جوانان سیپر مینیر نے فی الفور پل پر درختوں کی ٹہنی کاٹ کر ڈالیں اور توپ خانہ اسپی اور رائفل کی پلٹن پل پر سے اتر گئی۔ اس وقت غنیم کے سوار دکھائی دیے فی الفور 6رسالہ ڈرگون اور دو ضرب توپ اور جوانان محاربہ متفرق دائیں ہاتھ کی طرف متعین ہوئے اور سواران ملتانی بائیں ہاتھ پر اور توپ خانہ محاصرہ آگے بڑھایا گیا۔ باغیوں کی طرف سے گولہ چلنا شروع ہوا سرکار کی طرف سے بھی توپ سر ہوئی اور 7رائفل کی پلٹن اور پہلی پلٹن پنجابی آگے بڑھی اور سترہ پلٹن اس کی تائید میں رہی پلٹن پیادگان سکھ نے آگے بڑھ کر باڑ ماری غنیم سراسیمہ ہو کر بھاگ نکلا داھنی طرف سے سرکاری فوج نے بڑھنا شروع کیا اور کپتان کیوڑٹین صاحب بہادر نے ملتانی رسالہ کے سوار ساتھ لے کر بائیں طرف کو رخ کیا غنیم کی فوج بے اختیار بھاگی جاتی تھی اور صدھا آدمی مارے جاتے تھے تمام مورچہ دشمن کے سرکار کے قبضے میں آ گئے 7پلٹن رائفل اور پہلی پلٹن پنجابی نے یورش کر کے پانچ توپیں غنیم کی ایک مورچہ پر سے چھین لیں اور کپتان بٹ صاحب بہادر نے بمعیت جوانان کار یورش کر کے فوج غنیم کے بائیں طرف سے دو توپیں اور دو جزائل چھین لیں اور ایک توپ ماڑے کے مکان میں سے سرکار کے قبضے میں آئی۔ جس فوج نے دائیں طرف سے غنیم پر یورش کی تھی اور باغی بھاگے جاتے تھے اس وقت سرکاری فوج متصل پکے باغ کے جو بائیں کے نام سے مشہور ہے پہنچی اس باغ میں کچھ لوگ مسلح شہر سے بھاگ کر آن چھپے تھے اور کچھ باغی بھی بھاگتے وقت گھس گئے تھے منجملہ ان کے عنایت رسول جو نامی باغی اور مشہور اور حرامزادہ تھا مع جان محمد اپنے ملازم کے اس باغ میں گھس گیا تھا جب سرکاری فوج کے چند سوار اس باغ کے قریب پہنچے تو اس نے یا اس کے نوکر نے ان سواروں پر بندوق فیر کی اس وقت یقین ہوا کہ اس باغ میں باغی چھپے ہوئے ہیں سرکاری فوج نے اس باغ میں جا کر قریب پچاس ساٹھ آدمی کے قتل کیا اور ساٹھ ستر آدمیوں کو زندہ پکڑ کر گولیوں سے مار دیا عنایت رسول مع اپنے نوکر کے مارا گیا اور اکثر آدمی قاضی محلہ کے جو اس باغ میں چھپے ہوئے تھے وہ بھی مارے گئے جس قدر عورتیں اس باغ میں سے نکلیں ان سے کسی نے کچھ مزاحمت نہ کی۔ تار برقی والہ صاحب کا زندہ ملنا کپتان کیورٹین صاحب بہادر نے جو ملتانی رجمنٹ کے سوار لے کر بائیں طرف گئے تھے چار میل تک باغیوں کا تعاقب کیا موضع بچھیڑہ کے نیچے دھام پور کی سڑک پر چار توپ اور چھ ہاتھی غنیم کے چھین لیے اور جس قدر لوگ ہاتھیوں پر سوار تھے سب کو قتل کیا اور کرانی صاحب مہتمم تار برقی جو نا محمود خاں کی قید میں تھا منجملہ انہیں ہاتھیوں کے ایک ہاتھی پر سوار تھے کپتان صاحب صحیح و سلامت اس کو لشکر میں لے آئے۔ جس روز نگینہ میںلڑائی ہوئی ہے اس روز باغیوں کو سرکاری فوج آنے کا یقین نہ تھا اس لیے دلیل سنگھ گوجر باغی مع ایک توپ اور سو سواروں کے رسد لینے کو بڈھ پورہ گیا تھا اور وہاں کے مہاجنوں کو لوٹ کر نگینہ پھرا آتا تھا اس عرصے میں غنیم کی شکست ہو چکی تھی جب دلیل سنگھ موضع شریف الملک پور عرف قاضی والے کے پاس پہنچا چند سرکاری سواروں نے اس کا تعاقب کیا اور توپ اس سے چھین لی اور سب سواروں کو مع دلیل سنگھ کے بھگا دیا اس لڑائی میں پندرہ تویں اور کل میگزین سرکار کے قبضہ میں آئیں اور ایک توپ جس کو باغیوں نے نیا بنایا تھا اور چھوٹنے کے وقت پھٹ گئی تھی میدان میں سے ٹوٹی پڑی پائی۔ جناب کپتان ھوس صاحب بہادر کا بڈھ پور جانا اور سعد اللہ خاں کو مارنا جس وقت نگینہ پر لڑائی شروع ہونے کو تھی نجیب آباد میں میجر ھوس صاحب بہادر نے اپنے رجمنٹ کے سوار ساتھ لے کر بڈھ پورہ کو کوچ کیا تھا اس ارادے سے کہ باغی اس طرف سے بھاگنے نہ پائیں افسوس ہے کہ صاحب کے پہنچنے سے بہت پہلے دلیل سنگھ بڈھ پورہ سے پھر چکا تھا میجر صاحب نے بڈھ پورہ کے جنگل میں تلاش کیا تو سعد اللہ خاں سابق تھانہ دار نگینہ جو باغیوں کی طرف سے سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا جنگل میں بھاگتا ہوا ملا اور اسی جگہ مع ایک اور سوار کے مارا گیا۔ شہر نگینہ کا انتظام بہ مجرد فتح ہونے نگینہ کے جناب صاحب مجسٹریٹ بہادر اور جناب اندرسین صاحب بہادر برگٹ میجر مع سپاہیان پلٹن خاکی کے شہر نگینہ میں تشریف لے گئے اور سید تراب علی تحصیلدار کو واسطے انتظام شہر کے اپنے ساتھ لیا اور شہر کی ناکہ بندی کر کے جیسا کہ چاہیے انتظام شہر کا فرمایا اور تین سو آدمی شہر میں سے گرفتار کیے۔ ان میں سے چون آدمی اسی وقت مارے گئے اور باقیوں نے اسی وقت رہائی پائی۔ اسی وقت جناب صاحب مجسٹریٹ بہادر نے مولوی محمد علی رئیس نگینہ کو جو خیر خواہ سرکار تھے تلاش کر کے بلایا اور اپنے لشکر میں رہنے کا حکم دیا اور جہاں تک ممکن ہوا ان کے گھر کو بھی لٹنے سے بچایا باقی تمام شہر نگینہ کا شام تک لٹتا رہا۔ اس لڑائی میں سرکار کی جانب سے بہت کم نقصان ہوا، مگر افسوس ہے کہ لفٹننٹ کا سٹلنگ صاحب بہادر اس معرکے میں بہت دلاوری سے کام آئے۔ رات کے وقت جناب صاحب کلکٹر و مجسٹریٹ بہادر نے مولوی قادر علی تحصیلدار نگینہ کو بدستور نگینہ کی تحصیلداری پر مامور کیا اور سید تراب علی تحصیلدار بجنور کو حکم دیا کہ تم نگینہ میں ٹھہرو اور تمام تحصیل و تھانہ جات متعلقہ تحصیل نگینہ کا انتظام کرو اور جس قدر کہ آدمی مناسب سمجھو نوکر رکھ لو۔ چنانچہ سید تراب علی نے بخوبی انتظام کیا جس سے حکام بخوبی راضی رہے۔ دھام پور کو لشکر کا کوچ صبح بائیسویں تاریخ کو لشکر نے نگینہ سے کوچ کیا اور دھامپور پہنچ کر مقام ہوا ایک توپ جو نا محمود خاں کے ساتھ سیوھارہ کی طرف گئی تھی اور وہاں سے بھاگتے وقت رستہ میں رہ گئی تھی اس کی اطلاع زمینداران موضع گنگا دھر پور پرگنہ میوھارا نے چودھری پرتاپ سنگھ کو دی انہوں نے اپنے آدمی متعین کر کے اس توپ کو منگا لیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جملہ باغی اس ضلع سے بھاگ گئے اور مراد آباد کی طرف چلے گئے۔ کل لشکر کا مراد آباد کو کوچ کرنا جو کہ مراد آباد میں فیروز شاہ آ گیا تھا اس لیے تمام لشکر نے 23تاریخ کو مراد آباد کی طرف کوچ کیا اور جناب مسٹر انگزینڈر شیکسپیئر صاحب بہادر نے بمقام نور پور تمام ضلع کا انتظام اپنے ذمے لے لیا اور لشکر سے جدا ہوئے جنرل جون صاحب بہادر نے ہمارے جناب صاحب کلکٹر بہادر کی کمال احسان مندی ظاہر کی کہ آپ نے ہم کو بخوبی مدد دی اور بسبب واقفیت ضلع کے خبروں کے پہنچانے اور رسد کے تیار کرنے میں بلاناغہ آپ نے کمال کوشش کی اور اسی وقت جنرل جون صاحب بہادر نے فوج مقیم میراں پور کو جو مقابلہ گھاٹ دارا نگر پایاب کی حفاظت کرتی تھی حکم دیا کہ دریا عبور کر کے بجنور میں داخل ہوں چنانچہ پچیسویں تاریخ کو اس فوج نے عبور کیا۔ جناب مسٹر الگزنڈر شیکسپیئر صاحب بہادر اور جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر کا بفتح و فیروزی بجنور میں داخل ہونا جناب صاحب کلکٹر بہادر نے جس قدر توپیں فتح نگینہ میں ہاتھ آئی تھیں جنرل جون صاحب سے اپنے قبضہ میں لیں اور باوجودیکہ اس وقت سب فوج کا کوچ مراد آباد کی طرف ہو گیا مگر صاحب ممدوح بہ کمال دانائی و دلاوری سب توپوں کو اپنی حفاظت میں لے کر پچیسویں جون کو بجنور میں داخل ہوئے جس انتظام سے توپیں آئی تھیں ہر شخص اس کو دیکھ کر تعجب کرتا تھا۔ جناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر جنٹ مجسٹریٹ نے اسی قلیل عرصہ میں نجیب آباد اور کیرت پور اور منڈ اور وغیرہ کا بخوبی انتظام کیا اور تھانہ اور تحصیل اور چوکیات بٹھا کر اسی تاریخ بجنور میں تشریف لائے اور میں بھی ہم رکاب صاحب ممدوح بجنور میں پہنچا اور چھبیسویں تاریخ سے کچہری صدر امینی کی کھول دی۔ چھبیسویں تاریخ کو فوج مقیم میراں پور اور کپتان سیج صاحب بہادر اور سواران رسالہ پولیس اور اٹھائیسویں تاریخ کو میجر ھوس صاحب بہادر اور میجر اسماعیل صاحب بہادر مع چار ضرب توپ بجنور میں داخل ہوئے۔ ضلع میں اس قدر جلد انتظام ہونا نادرات سے ہے اپریل کا مہینہ نہیں گزرنے پایا تھا کہ جناب مسٹر الگزنڈر شیکسپیئر صاحب بہادر اورجناب مسٹر جارج پامر صاحب بہادر کی حسن تدبیر اور سعی و کوشش سے تمام ضلع میں امن ہو گیا۔ تمام ضلع میں تھانہ جات اور چوکیات اور تحصیلیں قائم ہو گئیں اور ہرایک جگہ زر مالگذار سرکار تحصیل ہونا شروع ہو گیا۔ یہ وقت بہت نازک تھا کہ رعایا کی تسلی اور باغیوں کی سزا دھی دونوں ساتھ ہوتی تھیں۔ یہ دونوں کام ایسے شائستہ تدبیروں سے انجام پائے کہ ہر ایک کے دلوں پر حکومت اور قوت سرکار کی دھشت ہر دم بڑھتی گئی اور اسی کے ساتھ رعایا تسلی و دلاسا پاتی گئی خیال کرنا چاہیے کہ یہ ضلع بالکل ملا ہوا ہے پہاڑ اور بہت بڑے بڑے جنگلوں سے جبکہ سرکار کی بخوبی عملداری تھی جب بھی اکثر ڈاکو اس میں رہتے تھے اب کہ کثرت باغیان کی اس ضلع میں تھی ایسا خیال میں گزرتا تھا کہ اس ضلع کے بہت لوگ جو ضلع سے واقف ہیں جنگل میں چلے جائیں گے اور نئے سرے سے ایک جماعت ڈاکوؤں کی پیدا ہو جاوے گی صرف ان دونوں حاکموں کی حسن تدبیر تھی کہ ان خرابیوں میں سے کوئی بھی ہونے نہ پائی اور جس قدر کہ آدمی جنگل میں چلے گئے تھے سب جنگل سے نکل کر اپنے اپنے مکانوں میں آ گئے اور اپریل کا مہینہ گزرنے سے پہلے جنگل کی راھیں سب صاف ہو گئیں اور کوٹ دوار اور لالی ڈھانگ کی منڈیوں میں بخوبی تجارت جاری ہو گئی ایسا جلد ضلع کا انتظام ہونا ایک نادرات اور بہت بڑا اثر ان دونوں صاحبوں کی حسن تدبیر کا ہے اب مناسب ہے کہ میں بھی اپنی کتاب کو ان دونوں با انصاف اور مدبر حاکموں کی دعائے ترقی عمر و دولت اور اقبال پر ختم کروں۔ دولت و فتح و ظفر اقبال و جاہ و منزلت در تضاعف باد دایم ختم کر دم بر دعا خاتمہ جو امر کہ دنیا میں پیش آوے آدمی کو لازم ہے کہ اس پر غور کرے اور اس کا مال اور نتیجہ سوچے اور اس سے ایک نصیحت کی بات سمجھ لے یہ ہنگامہ فساد جو پیش آیا صرف ہندوستانیوں کی ناشکری کا وبال تھا اس زمانہ کے بہت سے آدمی ایسے ہیں کہ سرکار دولت مدار انگریزی ہی کی عملداری میں پیدا ہوئے اور بہت سے ایسے ہیں کہ انہوں نے سرکار ہی کا عملداری میں ہوش سنبھالا ہے غرضیکہ ہندوستانیوں نے آنکھ جو کھولی تو سرکار ہی کی عملداری کو دیکھا اور کوئی عملداری نہیں دیکھی تاریخ دیکھنے کا اور کتابوں سے پچھلے حالات دریات کر کے عبرت پکڑنے کا ہندوستان میں مطلق رواج نہ رہا اس سبب سے تم لوگ نہیں جانتے تھے کہ پچھلی عملداریوں میں کیا کیا ظلم اور کیا کیا زیادتیاں ہوتی آئی ہیں کوئی شخص کیا امیر اور کیا غریب چین سے نہیں رہتا تھا اگر تم پچھلی عملداریوں کے ظلم و زیادتیوں سے واقف ہوتے تو سرکار انگشیہ کی عملداری کی قدر جانتے اور خدا کا شکر ادا کرتے مگر تم نے کبھی خدا کا شکر ادا نہیں کیا اور ہیشہ ناشکری کرتے رہے اس لیے خدا نے اس ناشکری کا وبال تم ہندوستانیوں پر ڈالا اور چند روز سرکار دولت مدار انگلشیہ کی عملداری کو معطل کر کے پچھلی عملداریوں کا نمونہ دکھلایا۔ اے باشندگان ضلع بجنور! تم خیال کرو کہ اس ضلع میں تین حالتیں گذر گئیں چند روز تعطل عملداری رہا کہ کسی کی عملداری کو زور و طاقت نہ تھی اس زمانہ میں خیال کرو کہ باہم رعایا نے کس قدر اپنے ہم جنسوں پر ظلم و زیادتی کی ہزاروں گھر لوٹ لیے اور بیسویں گاؤں جلا دیے۔ سینکڑوں آدمی مارے گئے ہزاروں آدمی لٹ کر فقیر ہو گئے کسی کا مقدور نہیں تھا کہ ایک گاؤں میں سے دوسرے گاؤں تک بے خطر راستہ چل سکے پھر مسلمانوں نے اول اور آخر اس ضلع میں زور پکڑا اور جو بہت بڑے موروثی نواب کہلاتے تھے اور گویا انہی کے بزرگوں نے اس ضلع کو بسایا تھا انہوں نے عملداری کی ان کی عملداری کا مزہ دیکھ لیا کہ کس قدر ہندو اس ضلع کے تباہ و برباد اور قتل اور غارت ہوئے بڑے بڑے رئیس اس ضلع کے تباہ و برباد ہو کر جلا وطن ہو گئے بیسیوں ہندو بے گناہ پکڑے گئے اور مارے گئے اور مال اسباب گھر سب لٹ گئے مسلمانوں کو جو اس وقت میں ان نوابوں کے ہاتھ سے نقصان نہیں پہنچا یہ بات بھی ایک مصلحت کی تھی کہ وہ بد ذات جانتے تھے کہ کسی طرح مسلمان ہمارے بر خلاف نہ ہو جائیں اگر خدانخواستہ ان کی حکومت کو ذرا بھی پائداری ہو جاتی تو تم مسلمان بھی دیکھ لیتے کہ انہی تمہارے ہم مذہب لوگوں سے تم پر کیا کیا زیادتیاں اور کاے کیا ظلم ہوتے ان نوابوں کی عملداری کے درمیان میں چند روز ہندوؤں کا غلبہ اور زور ہو گیا اور چودھریوں نے اس ضلع میں ان دنوں حکومت کر لی تم نے ہندوؤں کی حکومت کا مزہ چکھ لیا کہ ان کے ہاتھ سے مسلمانوں پر کیا گذرا اور کتنے گھر لٹے اور کتنے گاؤں مسلمانوں کے جلے اور جورو بیٹی تک کی بے عزتی ہوئی تم سچ بتاؤ کہ سرکار انگلشیہ نے چون برس اس ضلع میں عملداری ک کسی شخص ہندو مسلمان نے کسی قسم کی تکلیف اور ایذا پائی؟ پھر تم یہ خیال نہ کرو کہ ان ہی ایام غدر میں ان ہندوستانیوں کی حکومت نے یہ آفتیں تم پر ڈھائی تھیں اگلے بڑے بڑے بادشاہوں کی عملداریوں کا حال تاریخ کی کتابوں سے دیکھو کہ ان منتظم عملداریوں میں کیا کیا ظلم اور کیا کیا آفتیں رعایا پر رہتی تھیں۔ یہ آرام جو سرکار دولت مدار انگلشیہ کی عملداری میں تھا اس کا لاکھواں حصہ بھی نصب نہ تھا دیکھو سرکار انگلشیہ کی عملداری میں ہندو مسلمان سب امن سے اور آسائش سے رہتے ہیں کوئی زبردست، زردست پر ظلم نہیں کر سکتا ہر شخص اپنے اپنے مذہب کے موافق خدا کی یاد اور پر میشر کی پرستش میں مصروف ہے کوئی کسی سے معترض نہیں ہندو اپنے مذہب کے موافق شیوالے بناتے ہیں اور پوجا کرتے ہیں مسلمان اپنے مذہب کے موافق مسجدیں بناتے ہیں اذانیں دیتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں کوئی روکنے والا اور منع کرنے والا نہیں سوداگر اپنے تجارت کے کام میں مشغول ہیں لاکھوں روپیہ کا مال ایک بڈھے ضعیف گماشتہ کے ساتھ کر کر ہزاروں کوس بھیجتے ہیں اور نفع اٹھاتے ہیں کسی ڈاکو ٹھگ کا اندیشہ نہیں رہا رستہ کیسے صاف ہیں کہ رات کو عورتیں ہزاروں روپیہ کا زیور پہنے ہوئے گاڑی میں بیٹھ منزلوں چلی جاتی ہیں اور کچھ کھٹکہ نہیں ہوتا زمیندار کاشتکار اپنی کھیتی کے کام میں مشغول ہیں جو روپیہ مال گذاری کا ان سے ٹھہر گیا اس سے زیادہ ایک حبہ بھی کوئی نہیں لیتا غرضکہ یہ انصاف اور یہ آسائش اور یہ آزادی اور یہ عدم مزاحمت ہر کسی کے حال اور قال اور مذہب اور ملت سے جیسا کہ ہماری سرکار انگلشیہ کے عہد میں ہے کسی کے عہد میں نہیں ہوا تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے ان احسانات کا شکر ادا نہیں کیا اس کا وبال تم پر پڑا اور چند روز تغیر عملداری کر کے تم کو مزا چکھا دیا۔حکمت الٰہی اس میں یہ تھی کہ اب تم ہماری سرکار انگلشیہ کی عملداری کی قدر جانو اور اس کی سایہ حمایت کو اپنے سر پر ظلم ھما سے بہتر سمجھ کر خدا کا شکر ادا کرتے رہو۔ ہندوستان میں اکثر یہ طریق رہا ہے کہ جب کوئی زبردست کسی ملک پر قابض ہوا تو رعایا نے اس کی اطاعت قبول کی اور سب لوگ اس کے ساتھی ہو گئے جب وہ چلا گیا اور دوسرا آیا پھر اسی کے مطبع ہوئے سمجھو اس بات کو کہ یہ امر سرکار دولت مدار انگلشیہ کی عملداری کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا اگلی ہندوستانی عملداریوں میں رعایا کو آزادی حاصل نہیں تھی ہر طرح پر حاکم وقت کے ظلم و زیادتی اور بے جا حکومت میں دبے ہوئے رہتے تھے تمام مال اسباب رعایا کا در حقیقت ان ظالموں کا تھا کہ جس کا چاہتے تھے ضبط کر لیتے تھے اور جس سے چاہتے تھے تقصیر بے تقصیر ڈانڈ لیتے تھے ایسی عملداری کا کچھ حق رعایا پر نہیں ہوتا بر خلاف ہماری سرکار انگلشیہ کی عملداری کے کہ اس میں عام رعایا کو آزادی حاصل ہے ہر شخص اپنی چیز کا آپ مالک ہے اور وہ جو چاہتا ہے سو کرتا ہے سرکار دولت مدار انگلشیہ جس طرح اپنا حق محفوظ رکھتی ہے اسی طرح حقوق رعایا کی بھی حفاظت کرتی ہے اگر ایک ادنیٰ چمار سرکار کی رعیت کا یہ جانتا ہے کہ ایک پیسہ بھی میرا سرکار نے نا حق لے لیا ہے تو اس کی نالش خود سرکار پر کر کر اپنا انصاف پا سکتا ہے گویا اس عملداری میں رعایا اور حکام سب شریک ہیں اس قسم کی عملداری کا ایک حق رعایا پر ہوتا ہے جس کا ادا کرنا ہر ایک رعیت پر واجب ہے اور وہ حق یہ ہے کہ ایسی عملداری کی رعایا کو طرفداری اپنے گورنمنٹ کی واجب اور لازم ہوتی ہے اور نہ کرنے کی صورت میں مجرم اور قصور وار ہوتا ہے پس اس نازک وقت میں سب ہندوستان کی رعایا کو واجب تھا کہ سرکار انگلشیہ کی طرف داری کرتی اور جو حق عملداری سرکار کا ان کے ذمہ تھا اس کو ادا کرتے اور طرفداری کے یہ معنی ہیں کہ جہاں تک ہو سکتا سرکار کی امداد و اعانت کرتے اور مخالفین سرکار کو مدد نہ دیتے اور یہ تمام رعایا ہندوستان کی ایک بہت اچھی کمک ہوتی جو ہر جگہ مخالفین سرکار کے دفعیہ کو مستعد رہتی تاکہ سرکار زیادہ تر رعایا کے حال پر متوجہ ہو کر ہندوستان کی رعایا کو اس سے بھی زیادہ آزادی اور عزت دیتی جیسا کہ گورنمنٹ کی خوبی، رعیت پروری اور انصاف گستری ہے ایسا ہی رعایا کا ایمان اپنی گورنمنٹ کی طرفداری ہے تم لوگ اس سے غافل رہے بلکہ اس کے برعکس کیا اور تمام اپنے ہم وطنوں کی عزت کو خاک میں ملا دیا اے کاش! اگر تم ایسا نہ کرتے تو یہ روز بد جو تم کو بسزائے تمہارے اعمال کے نصیب ہوا ہے کیوں ہوتا۔ اب بھی تم کو چاہیے کہ حق گورنمنٹ ادا کرو اور جو روسیاہی تم کو گورنمنٹ سے حاصل ہوئی ہے اس کو آب زلال اطاعت اور فرمان برداری اور دلی طرفداری گورنمنٹ سے دھوؤ تاکہ نتیجہ نیک پاؤ مرد باید کہ گیرد اندر گوش ور نوشت است پند بر دیوار اعلان واضح ہو کہ بعوض اس خیر خواھی کے کہ جو اس ہنگامہ میں ان تین ملازمان سرکار دولت مدار سے ظہور میں آئی سرکار دولت مدار نے بموجب رپورٹ جناب مسٹر الگزنڈر شیکسپیئر صاحب بہادر دام اقبالہ مورخہ پانچویں جون سنہ 1858ء نمبر52و تئیسیوں جون سنہ 1858ء نمبر75 اور رپورٹ جناب صاحب کمشنر بہادر روھیلکھنڈ دام اقبالہم مورخہ یکم جولائی سنہ 1858ء اور رپورٹ حکام عالی مقام صدر دیوانی عدالت مورخہ انیسویں جون سنہ 1858ء نمبر732 اور حکم گورنمنٹ مورخہ بارھویں جولائی سنہ 1858ء نمبر2379سید احمد خاں صدر امین بجنور کو عہدہ صدر الصدوری مراد آباد پر مقرر فرمایا اور علاوہ اس کے دو سو روپیہ ماھواری پنشن حین حیات ان کے اور ان کے بڑے بیٹے کے مقرر فرمائے اور محمد رحمت خاں ڈپٹی کلکٹر بجنور کو دیہات زمینداری متصل خورجہ ضلع بلند شہر میں جس کی جمع ماگذاری پانچ ہزار روپیہ سالانہ سے کم نہ ہو مرحمت ہونے تجویز فرمائے اور میر تراب علی تحصیلدار کو اوپر عہدہ فاخرہ ڈپٹی کلکٹری و ڈپٹی مجسٹریٹی کے ممتاز فرمایا اور دیہات زمینداری ضلع آگرہ میں جس کی جمع مالگذاری ڈھائی ہزار روپیہ سالانہ سے کم نہ ہو مرحمت ہونے تجویز فرمائے چنانچہ اس کی منظوری سنہ 1858ء نمبر2703آ گئی اب دیکھو ہماری قدر دان گورنمنٹ کی قدر دانی گو کہ جن لوگوں نے اس ہنگامہ میں اپنی خیر خواھی ظاہر کی کس قدر ان کی قدر و منزلت بڑھائی۔ ٭٭٭٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The End