اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید (۱) اخبارات پر تنقیدی مضامین (۲) مضامین متعلق ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ (۳) مضامین متعلق ’’ مدرسہ العلوم مسلمانان‘‘ حصہ دہم مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقالات سرسید سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کو حاصل ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے اور اپنے پیچھے نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مضامین جہاں ادبی لحاظ سے وقیع ہیں، وہاں وہ پر از معلومات بھی ہیں۔ ان کے مطالعے سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور مذہبی مسائل اور تاریخ عقدے حل ہوتے ہیں اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں اور سیاسی و معاشرتی لحاظ سے بھی نہایت فائدہ مند ہیں۔ نیز بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جوابات بھی ان میں موجود ہیں سرسید کے ان ذاتی عقائد اور مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا ہدف رہے ہیں ان مضامین میں علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی، مزاح بھی ہے اور طنز بھی، درد بھی ہے اور سوز بھی، دلچسپی بھی ہے اور دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے اور سرزنش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اور ہر قسم کے خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے، وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اور کہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات و رسائل کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال بھی نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام کے لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اور نا مکمل، جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ گزر گیا مگر کسی کے دل میں ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا اور کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا آخر کار مجلس ترقی ادب لاہور کو ان بکھرے ہوئے بیش بہا جواہرات کو جمع کرنے کا خیال آیا مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں پرونے کے لیے مولانا محمد اسماعیل پانی پتی کا انتخاب کیا جنہوں نے پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میں دور و نزدیک کے سفر کیے فراہمی مواد کے لیے ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا، مگر چونکہ ان کی طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری باحسن طریق پوری کی چنانچہ عرصہ دراز کی اس محنت و کاوش کے ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں’’ مقالات سرسید‘‘ کی مختلف جلدوں کی شکل میں فخر و اطمینان کے جذبات کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ اخبارات کیسے ہونے چاہیئں (ایک نہایت ہی مفید اور بالکل نایاب مضمون) (اخبار رفیق ہند لاہور جلد ۱ نمبر ۱۔ بابت ۵ جنوری ، ۱۸۸۴ ء یوم شنبہ صفحہ ۱،۲) مولوی محرم علی چشتی لاہور کی اخباری دنیا اور یہاں کے طبقہ وکلا میں کافی معروف ہستی ہیں۔سر سید احمد خان کے گروہ کا ہر با خبر شخص ان سے ضرور واقف ہو گا۔مگر شاید بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا علم ہو کہ وہ ہر شخص جو سر سید احمد خان، ان کے مشن ان کے دوستوں کا شدید ترین مخالف اور دشمن تھا۔وہ ابتدا میں سر سید احمد خان اور ان کے کاموں کا اتنا بڑا قدر دان ، مداح اور معترف تھا۔ کہ شاید سر سید احمد خان کا کوئی بڑے سے بڑا ہوا خواہ بھی اتنا نہ ہو۔ اس بات کو آج 76برس کا طویل زمانہ گزر چکا ہے۔جب کہ 1884 ء میں لاہور سے مولوی محرم علی چشتی نے اخبار رفیق ہند جا ری کیا۔ اس ہفت روزہ کے پہلے پرچے میں جو 5 جنوری 1884 ء کو شائع ہوا۔ مولوی صاحب نے سب سے اول جو مضمون نہایت نمایاں طور پر بڑے فخر کے ساتھ بطور ایڈیٹوریل شائع کیا وہ سر سید احمد خان کا یہی مضمون تھا۔ جسے آج ہم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔اور نہایت ممنون ہیں۔ مولوی صاحب کے لائق فرزند مولانا ابراہیم علی صاحب چشتی نے کہ جن کی مہر بانی سے ہم اس نایاب مضمون کی نقل کر سکے۔ مضمون سے پہلے مولوی محرم علی صاحب نے بحیثیت ایڈیٹر جو اس پر تمہید لکھی تھی۔ وہ اس بے انتہا عقیدت اور محبت کو بہ خوبی ظاہر کرتی ہے جو مولوی صاحب کو سر سید احمد خان سے اس وقت تھی۔جو بعد میں بے حد نفرت وحقارت اور شدید بغض وعداوت میں بدل گئی۔ ذیل میں مولوی صاحب کی تمہید اور سر سید احمد خان کا مضمون دونوں درج کیے جاتے ہیں (محمد اسماعیل پانی پتی) ہمارے آنر ایبل قبلہ عالی جناب مولوی سر سید احمد خان صاحب بہادر سی، ایس، آئی نے (اخبار) رفیق ہند کے جاری ہونے کا حال معلوم کر کے براہ مرحمت بزرگانہ ہمیں مندرجہ ذیل مضمون عطا کیا ہے۔جس کے اندراج سے ہم سب سے پہلے تیمناً اپنے ایڈیٹوریل کالموں کو مفتخر کرتے ہیں۔جس سچی اور دلی شفقت سے جناب ممدوح نے اس پرچہ کے ناچیز ایڈیٹر کی نسبت اپنے بزرگانہ حسن ظن ظاہر فرمایا ہے۔اور خاتمہ مضمون پر جس موثر طور سے اس کے لئے دعا کی ہے۔ہم اس کے لئے تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔اور یقین واثق کرتے ہیں کہ یہ ھیچمیرز پرچہ اپنے محسن مولانا کی سرپرستی اور نگرانی میں اور مستقل امداد سے ان مراتب کوپورا کرنے میں کام یاب ہو سکے گا۔ جو براہ قومی ہم دردی ان کے ملحوظ خاطر ہیں۔تاکہ جس طرح جناب ممدوح نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس پرچہ کا فونڈیشن سٹون (بنیادی پتھر رکھا ہے) یہ بھی ہمیشہ اس قابل یاد گار عزت کو خوبی سے قائم رکھ سکے۔اور ان کی برکت سے خدا وند کریم اس کی عمر اور کاروائیوں میں بھی برکت دے۔ سر سید کا مضمون کہتے ہیں کہ اخبار ایک نہایت عمدہ ذریعہ قومی ترقی ، ملکی بھلائی ، عوام کی رہنمائی ،خواص کی دل چسپی، حکام کی ہدایت اور رعایا کی اطاعت کا ہے۔مگر اس کے دوسرے پہلو پر نظر کم تر کی جاتی ہے۔اخبار جیسا ذریعہ ان بھلائیوں کا ہے۔ویسا ہی ذریعہ بہت سی برائیوں کا بھی ہے۔ بلکہ افسوس ہے کہ ہمارا ملک ابھی پہلی قسم کے اخباروں کا نہایت محتاج ہے۔ایسے اخباروں کی کمی سے اور زیادہ تر اخباروں کے پڑھنے والے نہ ہونے سے ملک میں جہالت وناخواندگی اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ کسی شہر یا قصبہ میں فی صدی پانچ آدمی بھی اخبار پڑھنے کے قابل نہ نکلیں گے اور جو نکلیں گے تو وہ اخبار پڑھنے کو تضیع اوقات اور ھرکت بے سود سمجھیں گے۔ ہندوستان کے رہنے والوں کو پولیٹیکل امور سے کچھ تعلق نہیں ہے۔سوشل حالات کی ان کو پرواہ نہیں ہے۔ پھر اخبار پڑھنا تضیع اوقات نہ سمجھیں تو کیا سمجھیں۔؟ روپیہ بلا شبہ سب سے مقدم چیز ہے۔کوئی کام ہو اور کیسا ہی مفید ہو۔اگر اس کام کے کرنے والے کو روپے کی طرف سے بے فکری نہ ہو تو نہ وہ کام کر سکتا ہے۔ اور نہ وہ کام چل سکتا ہے۔اخبار کا کار کانہ بھی اس قاعدے کلیہ سے خالی نہیں ہے۔مگر شائستہ اور نا شائستہ مہذب اور غیر مہذب ملک میں اس کے برتاؤ میں فرق ہے۔تربیت یافتہ ملک میں ایسے کام جن کا عام لوگوں سے تعلق ہے۔ عام لوگوں کے فائدے کی غرض سے کیے جاتے ہیں۔ جس میں روپیہ کا ذاتی فائدہ بھی حاصل ہو۔ مگر نا مہذب ملک میں کسی ایسے امر کا جس سے عام لوگوں کو مضرت پہنچے۔ بہ شرطیکہ اس سے روپیہ کا ذاتی فائدہ ہو ، کچھ خیال نہیں کیا جاتا۔ اس پچھلی بد خصلت کے ظاہر ہونے کا بھی اخبار ایک عمدہ ذریعہ ہے۔وہ اپنے کالموں میں ایسی خبروں کو جگہ دیتا ہے۔ جو لوگوں کے ان ذاتی اخلاق و عادات سے تعلق رکھتی ہیں۔جن کو پبلک سے کچھ تعلق نہیں۔کبھی وہ ان کے اوصاف میں صفحے کے صفحے سیاہ کردیتا ہے۔اور کبھی ان کی ہجو میں انشا پردازی اور عبارت آرائی کے جوہر دکھاتا ہے۔اخبار کے خریدنے والوں کا مداح اور انکار کرنے والوں کا ہائے ہو ز سے حاجی بنتا ہے۔سنی ہوئی خبریں ،عہدہ داروں اور اہل کاروں کی نسبت چھاپتا ہے۔ جو ایسے امور سے متعلق ہیں۔جن کا فیصلہ ایک جج کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے۔اور غلطی سے اپنے دل میں سمجھتا ہے کہ میں نے نہایت رفاہ خلائق کام کیا ہے۔لوگوں کے خوش کرنے اور اخبار کے خریدار بڑھانے کو ایسے مضامین اور اشتہارات چھاپتا ہے کہ جو پبلک کے اخلاق پر نہایت بد اثر پیدا کرتے ہیں۔غرض کہ اخبار ایک ایسی چیز ہے کہ خود آپ میں اپنی خصلت کا آئینہ ہے۔کسی نے خوب کہا ہے۔ کھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ خبروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے ہمارے ملک کے اخباروں میں پنجاب کے اخبار بلا شبہ سب سے عمدہ ہیں۔میں ان کو منزہ عن الخطا تو نہیں کہتا۔مگر اعلیٰ اور عمدہ کہتا ہوں۔ نہایت خوشی کی بات ہے کہ ان عمدہ اخباروں میں ایک اور اخبار رفیق ہند کا اضافہ ہوتا ہے۔ جس کی نسبت توقع ہے کہ نیو ایرز ڈے (سال کے پہلے دن) کو نیا پیدا ہونے والا ہے۔ہمارے شفیق مولوی محرم علی چشتی جن کی ذہانت، جودت طبع ،تیزی خیالات اور ہم دردی ء قومی مشہور ومعروف ہیں۔ اس اخبار کو نکالتے ہیں۔ہم کو خدا سے امید ہے کہ وہ اخبار ان تمام صفتوں کے ساتھ سلیم الطبع اور متحمل المزاج بھی ہو گا۔اور جس قدر ممکن ہے ۔ملک کو فائدہ پہنچے گا۔ او خدا تو ایسا ہی کر ! آمین!!! ( راقم سر سید احمد خان ، مقام علی گڑھ) انگریزی اخبار نویس ہندوستانی اخباروں کے ساتھ کیا کرتے ہیں (سائٹیفک سوسائٹی علی گڑھ ، 10 مارچ1878 ء ہمارے نزدیک اب وہ زمانہ قریب آگیا ہے۔ جس میں ہندوستانیوں کے خیالات اور رائیں قدر کے لائق ہو ں گی۔اور ہندوستانی ایک ترقی یافتہ قوم میں شمار ہوجاویں گے۔اور جس طرح اب تک ہندوستانیوں کے خیالات ہیچ وپوچ متصور ہونے کے لحاظ سے قابل التفات نہ تھے۔آئندہ وہ شائستہ قوموں کے التفات کے لائق ہو ں گے۔ بلکہ اگر ہم فکر کریں تو شاید یہ زمانہ بھی ہندوستانیوں کی نسبت ان کے پہلے زمانے کے نہایت ترقی کا ہے۔ اور وہ اپنی رایوں اور خیالات کے لحاظ سے شائستگی کا دعویٰ کرنے والوں کے نزدیک نہایت وقعت کے لائق ہوگئے ہیں۔اور جس طرح پہلے ان کی رایوں اور خیالات کو دیکھ کر وہ ہنسی اڑاتے تھے۔اور ان کی باتوں کا مضحکہ بناتے تھے۔اب بجائے اس کے ان کی باتوں پر غصہ کھاتے ہیں۔ ان کے سچے اور نیک خیالات کو بدی پر محمول کرتے ہیں۔ اور جس طرح ایک ہم سر اور ہم عصر کی بات دل پر موثر ہوتی ہے۔ اسی طرح ہندوستانیوں کی باتوں کا اثر بعض شائستہ لوگوں کے دلوں پر ہونے لگا ہے۔ چنا نچہ اس کی نہایت قوی دلیل یہ ہے کہ انگریزی اخبار نویس جو درحقیقت زمانہ کی ترقی اور تنزل کا تھر ما میٹر ہیں۔جن کے سبب ہمیشہ ملکی اور قومی ترقی یا تنزل کا اندازہ معلوم ہوتا ہے۔پچھلے زمانے میں ہندوستانی اخباروں پر ناواقفیت اور کم فہمی کا الزام لگاتے رہے اور ہندوستان کی رایوں کو دل لگی میں ٹالتے رہے۔ اور ان کے ایسے خیالات کی جہت سے ہندوستانیوں کی ترقی اور تنزل کا اندازہ کرتے رہے۔ اب ایک عرصہ سے جب سے ہندوستانیوں نے اپنے آپ کوسنبھالا ہے۔اور انگریزی اخبار نویسوں کے خیالات پر گرفت شروع کی اور ان کے بعض نا منصفانہ خیالات کی حقیقت کھول دینے کے لائق ہوئے اور ان کے بعض اخلاقی خیالات پر طعن کر نا شروع کی اور ان کو اس بات کا یقین دلایا کہ ہندوستانی دراصل جمیع قسم کی لیاقت رکھتے ہیں۔تو ان انھوں نے بجائے مضحکہ کے ان کی رایوں پر غصہ کھانا اور الزام لگانا شروع کیا ہے۔اور جو طعن ناواجب ہیں ان کے لگانے سے انھوں نے اس بات کا قصد کیا ہے کہ وہ ہندوستانیوں کی زبان کو روکیں۔اور جو تیر ہندوستانیوں کی جانب سے ان پر چھوٹتے ہیں۔ان کا انسداد کریں۔ اب وہ اس بات کو نہیں دیکھ سکتے کہ کہ ہندوستانی ان کی رایوں کا ایسا مضحکہ اڑائیں کہ جیسا کبھی انھوں نے ہندستانیوں کا اڑایا ہے۔ اور ان کو اس بات پر صبر نہیں آتا کہ جب وہ کسی رائے کو ظاہر کریں تو اسی وقت ہندوستانی اس کی مخالف رائے کو دھوم دھام سے ثابت کریں۔اور جس وقعت کو انھوں نے ہندوستانیوں کی غفلت اور بے وقعتی کے زمانے میں بڑی ہو شیاری سے حاصل کیا ہے۔ اس میں ہندوستانی خلل اندازی ہو جاوے۔اور جس طرح اپنی چرب زبانی سے انھوں نے گورنمنٹ کی نظر میں ہندوستانیوں کو حقیر بنا رکھا ہے۔ھندوستانی اس طرح نہ رہ سکیں۔ہم یقین کرتے ہیں کہ جو منشا انگریزی اخبار نویسوں کا ہندوستانی اخباروں کی نسبت ہے۔ بلا شبہ وہ پورا ہو جاتا ہے۔ بہ شرطیکہ وہ اور ہم انگریزی حکومت کے ماتحت نہ ہوتے بلکہ کسی راجہ کے تابع ہوتے۔اور اب تو ہم اور وہ ایک بیدار مغز انگریزی گورنمنٹ کے ماتحت ہیں۔ پھر کیوں کر ہو سکتا ہے کہ ایسی منصف گورنمنٹ ان انگریزی اخبار نویسوں کی خون خوار آنکھوں سے اپنی غریب رعایا کی روح تحلیل ہونے دے گی۔ کیا اب تک گورنمنٹ انگریزی پر ان کے لسانی ڈھکوسلے کھل نہ گئے ہو ں گے۔ اور وہ ہندوستانی انگریزی اخبار نویسوں کے رویوں میں امتیاز نہ کرنے لگی ہو گی۔ کیا اب اس کو ان الزاموں کایقین آ جاوے گا۔ جو انگریزی اخبار نویس ہندوستانی اخبار نویسوں پر لگانے لگے ہیں۔ ہم اس بات کو نہایت سچ کہہ سکتے ہیں کہ اب انگریزی اخبار وں اور ہندوستانی اخباروں میں صرف اس قدر فرق باقی رہ گیا ہے کہ جس قدر ہندوستانی تلوار اور انگریزی کرچ میں فرق ہے۔ اور وہ صرف اسی قدر ہے کہ ھندی تلوار کی صورت میں ذرا بھدا پن ہے۔ مگر جوہر میں کرچ سے کسی قدر زیادہ ہے۔ اگر انگریزی اخبار اس بات پر ناز کریں کہ وہ گورنمنٹ وقت کی زبان ہیں تو ان کا یہ ناز کچھ بے جا نہیں ہے۔ مگر البتہ اس ناز پر کوئی ان کا فعل یا خیال مبنی ہو تو ضرور بے جا ہے۔ اور اس لحاظ سے اپنی ہم قوم گورنمنٹ پر نا واجب طرف داری کاالزام قائم کرنا ہے۔ آج کل انگریزی اخبار نویس ہندوستانیوں پر اس بات پر الزام لگاتے ہیں کہ ھندوستانی اخبار نویس ہمیشہ ان راجاؤں یا سرداروں کی تائید کرتے ہیں کہ جو گورنمنٹ انگریزی سے ناراض ہوتے ہیں۔اور یہ بھی الزام لگایا ہے کہ یہ راجا اور سردار اسی غرض سے ھندوستانی اخبار نویسوں کو ہمیشہ روپیہ دیتے ہیں مگر یہ ایسا ناواجب اور جھوٹ الزام ہے۔ جس کے سبب سے ہندوستانی اخبار نویسوں کو الزام لگانے والوں کی اخلاقی تہذیب میں نہایت نقص معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی دانست میں ایسے خیال ظاہر کرنے سے اپنی نہایت بے وقعتی سمجھتے ہیں۔اور اس کے ظاہر کرنے والے کو نہایت حقیر جانتے ہیں۔اور وہ ایسے بے بنیاد الزام سننے سے متنفر بھی نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کو اس بات کے یقین کرنے کا موقعہ ملتا ہے کہ جب تک اس حرکت کے خود انگریزی اخبار نویس مرتکب نہیں ہیں۔اس وقت تک وہ ایسی بے بنیاد بات کا قیاس بھی نہیں کر سکتے۔ مگراس موقع پر ہم صاحب راقم جام جمشید کے نہایت ممنون ہیں کہ انہوں نے انگریزی اخبارنویسوں کے اس خیال کو بڑے شدومد سے باطل کیا ہے ۔ اوراس بات کو ثابت کردیا ہے ۔ کہ ہندوستانی راجا اور سردار تو ہندوستانی اخباروں کی پروا بھی نہیں کرتے اوران کی سرکار میں اس بات کی خبر بھی نہیں ہوتی ۔کہ ہندوستانی اخبار ان کے حق و حقوق کے کس قدر موید ہیں۔پس جب ان ہندوستانی راجاؤ ں کی یہ کیفیت ہے تو اب یہ کیوں کر قیاس میں آسکتا ہے کہ وہ ہندوستانی سردار ان کو روپیہ دیتے ہوں۔ اور دیسی اخبار ان کی طرف داری کرتے ہوں۔ اور یہ خیال صاحب راقم جام جمشید کا جہاں تک ہمارے خیال میں ہے۔ نہایت صحیح ہے اور کسی طرح اس بات کا انکار نہیں ہو سکتا کہ دیسی اخباروں کو راجا با بوؤ ں کے دربار میں کوئی پہنچنے بھی نہیں دیتا ہے۔ بلکہ بر خلاف اس کے یہ بے چارے راجا ہندوستان کے انگریزی اخبار نویسوں کی دھمکیوں سے ایسے خائف رہتے ہیں کہ اس قدر ہندوستان کے گورنر جنرل سے بھی نہیں ڈرتے۔اور جب ان کو یہ خوف ہے تو کیا عجب ہے کہ وہ اپنے اس خوف کا علاج کچھ دے کر کرتے رہتے ہوں۔ کیونکہ گورنر جنرل ہند کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ یہ صحیح پیشین گوئی کے کسی راجا سے کہے کہ ہم تم کو تخت سے اتار دیں گے۔اور انگریزی اخبار تو میرے خیال میں یہ پیشین گوئی صحیح سمجھتے ہیں کہ فلاں را جا صاحب ہم کو نہ چھیڑیں ورنہ ہم کومجبوری سے ان کو تخت سے اتارنا پڑے گا ۔ پس جب انگریزی اخبار نویسوں کو ایک عادل گورنمنٹ اور نیک نام گورنمنٹ کے عہد میں یہ منصب ہو تو جہاں تک ہندوستان کے راجا ان سے خائف ہو ں حق بجانب ہے اور اس خوف کے سبب سے جہاں تک ہو سکے ان کی رضا جوئی کریں ۔کیا بعید ہے کہ جو خوف انگریزی اخبار کا بے چارے ہندوستانیوں کے دلوں میں بیٹھ گیا ہے۔وہ ضرب المثل ہو گیا ہو۔اب اس کے قصے بنائے جاتے ہیں۔اور ان کے جواب مضمون چھاپے جاتے ہیں۔اور طرح طرح سے ان کی وہ عنایتیں جو ہندوستان کے باشندوں پر کرتے ہیں ظاہر کی جاتی ہیں۔اور گورنمنٹ کے کان تک ان کے پہنچانے کی فکر کی جاتی ہے۔مگر ابھی تک گورنمنٹ کو اس کی چنداں پرواہ نہیں ہے۔ انگریزی اخبار نویس ہندوستان میں اس قدر کسی فرقہ سے ناراض نہیں جس قدر کہ وہ ہندوستان کے اخبار نویسوں کی آزادی سے ہیں۔ اسی وجہ سے انھوں نے کبھی ہندوستانی اخباروں پر خوشامد کا الزام لگایا ہے۔ کبھی بغاوت کا الزام ثابت کیا ہے۔کبھی ۃندوستانی راجاؤ ں کی جھوٹی خوشامد کا خیالی پلاؤ پکایا ہے۔مگر ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ الزام ان کی اس قلبی حرارت سے پیدا ہوئے ہیں۔جو اب ان کے دلوں میں ہندوستانی اخباروں کی نہایت برجستہ اور سچی رایوں کے دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے۔اور ہرچند وہ اپنے ایسے خیالات کو نہایت خوب صورت صورت میں ظاہر کر نے کا قصد کرتے ہیں مگر اس قوی حرارت کے سبب سے ایک نوع کی سوختگی اس اچھی صورت پر بھی ظاہر ہو ہی جاتی ہے۔ ہمارے انگریزی اخبار نویس ہم عصروں کو چاہیئے کہ وہ اپنی نیک نام اور مشہور شائستہ قوم کی اس راست بازی اور شائستگی اخلاق پر نظر کر کے جو آج کل ہندوستان میں ضرب المثل ہو رہی ہے۔اس بات کا خیال کریں کہ ہم اور وہ ایک گورنمنٹ کے ماتحت زندگی بسر کر نے والی قومیں ہیں۔اور ہماری اور ان کی مثال گورنمنٹ انگریزی کے بمنزلہ ایک چہرہ کی دو آنکھوں کے ہے۔ جو چہرہ کی خوب صورتی اور بینائی میں ہر طرح بر ابر ہیں۔اور ایک کے نقصان میں دوسرے کی خوب صورتی میں نہایت خلل واقع ہو تا ہے۔ پس ایسی حالت میں ان کو ہندوستانی اخباروں کی طرف سے ایسے خیالات کا ظاہر کر نا نہایت بڑی کج اخلاقی کے ساتھ متصف کر تا ہے۔ اور بالتخصیص ایسی حالت میں جب کہ ان کے تمام الزام محض بے اصل اور سرا سر بے بنیاد ہوں۔ورنہ ہم کو اندیشہ ہے کہ ہندوستانی اخبار نویس جو رعایت اب تک انگریزی اخبار نویسوں کی کرتے ہیں۔آئندہ ان سے نہ ہو سکے گی اور شاید ہندوستان کی وہ سچی نکتہ چینیاں جو وہ انگریزی اخبار وں کی نسبت کریں گے کبھی نہ کبھی ضرور موثر ہو ں گی۔ ٭٭٭ گورنمنٹ اور ہندوستانی اخبارات ہمارے پچھلے پرچے میں پایونیر اخبار سے ایک انگریزی آرٹیکل نسبت ہندوستانی اخبارات کے چھپا ہے۔ جس میں آرٹیکل لکھنے والے نے ہندوستانی اخباروں کی سختی و نا ملائمی کی شکایت کی ہے۔ اس میں لکھا ہے ۔گو اس سے بہت کم ضرر پہنچنے کا احتمال ہے۔ تاہم اس کا دفعیہ پہلے سے واجب ہے۔ یہ شکایت ہندوستانی اخباروں کی روز بروز زیادہ ہوتی جا تی ہے ۔ لارڈ ناتھ بروک کے عہد میں یہ معاملہ ایک خاص معاملہ کے طور پر پیش ہوا تھا۔اور شاید کونسل کے بعض ممبروں کو خیال ہوا تھا کہ اس بے اعتدالی سے ہندوستانی اخباروں کے روکنے کی کچھ تدبیر کی جاوے۔ کونسل کے بعض ممبروں کے اس خیال کو لوگوں نے یہ سمجھا کہ گورنمنٹ کا ارادہ ہے کہ ہندوستانی اخباروں کی آزادی چھین لے۔ اور اس کی نسبت چند روز تک ہر ایک اخبار میں کوئی نہ کوئی آرٹیکل چھپتا رہے۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہندوستانی اخباروں کی آزادی چھین لینی ہندوستانیوں کی بڑی ناراضگی کا باعث ہو گی۔مگر ہم کو جو افسوس ہے وہ یہ ہے کہ ہم لوگوں نے آزادی کے معنی سمجھنے میں بڑی غلطی کی ہے۔ہم نے آزادی کے معنے یہ سمجھ رکھے ہیں کہ گورنمنٹ کی نسبت، حکام اضلاع کی نسبت، کسی فرقہ کی نسبت یا کسی شخص خاص کی نسبت جو جو دل میں آیا ،اچھا یا برا، سخت یا سست، ملائم یا نا ملائم سب کچھ لکھ دیا۔یہاں تک کہ شخص خاص کے ذاتی امور کو بھی اور شخص خاص کی نسبت دشنام دہی اور فحش الفاظ لکھنے کو بھی ہم نے اسی آزادی میں داخل سمجھا ہے۔ اگر آزادی کے معنی درحقیقت یہی ہو ں تو بلا شبہ وہ قائم رکھنے کے قابل نہیں ہے۔گورنمنٹ کی کاروائیوں پر ، ضلع کے افسر کی کار وائیوں پر رائے لکھنا اور ان کے نقصانوں کو جتانا اور اختلاف رائے کے وجوہ کو لکھنا بلا شبہ ایک جزو آزادی کا ہے۔ اور اسی آزادی کا قائم رہنا گورنمنٹ اور رعایا کے لئے نہایت مفید ہے۔ اور اسی اسی آزادی کا بحال رکھنا دانا گورنمنٹ کا کام ہے۔ مگر جب وہ آزادی حد سے تجاوز کر جائے اور بے محل مستعمل ہونے لگے۔تو اس کا قائم رہنا مشکل ہو جائے۔شاید ہمارے ہم وطن اس بات سے نا خوش ہو ں ۔ مگر جو بات ہماری سمجھ میں سچ ہے۔اس کا لکھنا ہم کو ضرور ہے۔ ہم کو قبول کرنا چاہیئے کہ ہمارے ہندوستانی اخباروں نے آزادی کو بے محل استعمال کر نا شروع کیا۔ اور گورنمنٹ کی کاروائی کی نسبت بھی جو رائیں انھوں نے لکھی ہیں، وہ بھی حد اعتدال سے بڑھ کر ہیں۔ہم کو اس بات کے قبول کرنے میں ذرا سا بھی عذر نہیں ہے کہ بعض حاکموں نے بعض ہندوستانیوں کے ساتھ نہایت نا انصافی بلکہ جبر وتعدی بلکہ ظلم کیا ہے۔ مگر ہمارا یہ کام نہیں ہے اور نہ ہی یہ آزادی میں داخل ہے کہ ہم ذکر تو ایک خاص مقدمہ کا کریں ۔ اور اس پر ایک عام نتیجہ نکالیں کہ اب جان ومال کی حفاظت خطرہ میں پڑ گئی ہے۔ اس طرح اکثر اخباروں میں نہایت سختی اور نا ملائم الفاظ سے گورنمنٹ کو اسی طرح جتایا گیا ہے کہ گویا اس کے تمام کام ایسے ہی نا انصافی سے ہوتے ہیں۔ جس سے رعایا کو امن کی توقع نہ ہو۔ اس قسم کے مضامین گو ہندوستانی اخباروں میں کسی بد نیتی سے لکھے جاتے ہوں۔ بلکہ عام ایشیائی مبالغہ آمیز تحریر اور فصاحت بیان اور لوگوں میں پسند یدہ ہونے کو تحریر ہوتے ہوں۔ مگر آزادی کی حد سے متجاوز ہیں۔ اور اسی قسم کی باتوں کے تدارک کرنے کو گورنمنٹ کے خیالات ہندوستانی اخباروں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اخباروں کی اس قسم کی کار وائی سے ہمارے ملک کا بھی بڑا نقصان ہے۔ اس لیے کہ جب اخباروں کی تحریریں حد اعتدال سے متجاوز ہو ں تو کبھی اس وقعت کی نہیں ہو سکتیں۔کہ گورنمنٹ کبھی ان کو نظر غور اور نظر التفات سے دیکھے۔ اور اخباروں کو اپنی کاروائی میں مشیر کار اور رعایا کی جانب سے وکیل سمجھے۔بلکہ ایسے اخباروں کو گورنمنٹ ہمیشہ اس نگاہ سے دیکھتی ہے کہ وہ کس قدر رعایا میں ناراضگی بے جا پھیلا رہے ہیں۔ اور ان سے کس قدر مضرت گورنمنٹ کو پہنچ سکتی ہے۔ اور مضرت کی اس حد تک پہنچنے کی منتظر رہتی ہے۔جس پر گورنمنٹ کو مداخلت کرنا ضروری ہو جاوے۔بس جب اخباروں کا یہ حال ہو کہ گورنمنٹ ان کو اس نگاہ سے دیکھتی ہو تو وہ اخبار کبھی بھی ملک کے لئے فائدہ بخش نہیں ہو سکتے۔آزادی بلا شبہ رعایا کا حق ہے۔مگر اسی وقت تک جب تک رعیت اس کے قائم رکھنے کے لائق ہو۔جو رعیت کہ آزادی کابوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔وہ کبھی آزادی کا خلعت نہیں پہن سکتی۔ پس آزادی کا دعویٰ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے تئیں آزادی کا مستحق بھی ثابت کریں۔ یہ تمام نقصان خود ہم نے اپنے بیان کیے ہیں۔ مگر اب یہ بات غور کے لائق ہے کہ آیا گورنمنٹ کو اس میں دست اندازی کر نا یا روکنا جیسے کی اکثر انگریزی اخباروں کی رائے ہے بہتر ہو گا۔اور اس مضرت کو رفع کرے گا یا اس سے بھی زیادہ مضرت پیدا کرے گا۔ ہم پچھلی بات سے اتفاق رائے کرتے ہیں۔اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں مداخلت کرنے سے حال کی مضرت احتمالی اور خیالی سے بہت زیا دہ مضرت ہو گی۔ اس وقت گورنمنٹ کو موقع ہے کہ اس آزادی کے سبب گو کیسی ہی بے موقع استعمال کی جاتی ہو۔ رعایا کے دلی حالات اور تعصبات اور برا یا بھلا خیال جو ان کو گورنمنٹ یا اس کی طرز حکومت کی نسبت ہے۔ ظاہر ہوتا رہتا ہے۔اور گورنمنٹ اندازہ کر سکتی ہے کہ رعایا کا خیال اس کے ساتھ کیسا ہے۔ علاوہ اس کے جو رنجشیں اور بخارات رعایا کے دل میں جا یا بے جا گورنمنٹ کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں۔وہ سب نکلتے رہتے ہیں اور دل ہلکا ہوجاتا ہے۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کسی سے رنجیدہ ہوا اور اس نے اس کو خوب گالیاں دیں۔اور برا بھلا کہہ لیا تو اس کا وہ رنج نہایت خفیف رہ جاتا ہے۔ بر خلاف اس شخص کے جس کو جا یا بے جا رنج پہنچا ہو اور اسے کسی طرح رنج نکالنے کا قابو نہ ہو تو وہ رنج ہمیشہ اس کے دل میں جگہ پکڑتا جاتا ہے۔ جس کی مضرت ہم اس دشنام دہی کی مضرت سے زیادہ شدید سمجھتے ہیں۔ علاوہ اس کے جس زمانہ میں کثرت سے اخبار جاری نہ تھے۔ اس زمانہ میں حال کی بہ نسبت افواہ ہا نہایت غلط اور مضرت بخش خبریں گورنمنٹ کی نسبت عوام میں زیادہ مشہور ہوتی ہیں۔اور وہ ہمیشہ قائم رہ جا تی ہیں۔ جس کا دفعیہ نا ممکن تھا اور پھر ایک دوسرے کی نقل میں بہت سی زیادتی ہو تی جا تی تھی۔ ان بہ کثرت اخبارات سے گورنمنٹ کو یہ بڑا فائدہ ہوا ہے کہ ان افواہی خبروں کا پھیلنا بہت کم ہو گیا ہے۔ اور یہ ناہیت عمدہ وبہتر امر گورنمنٹ کے لیے نہیں ہے۔ پس اگر کچھ مداخلت گورنمنٹ اخباروں کی نسبت کرے گی تو یہ فائدہ بالکل معدوم ہو جاوے گا۔اور عموماً ایک خیال پھیلے گا۔ کہ گورنمنٹ اصلی باتوں کو اخبار میں لکھنے نہیں دیتی اور اسی بنا پر پھر وہی افواہی اور زبانی گپوں اور غلط خبروں کی گرم بازاری ہو جاوے گی۔جو نہایت ہی مضر ہے۔پس ہماری رائے یہ ہے کہ ہندوستانی خبارا بقول پایو نیر کے کیسے ہی نا قابل برداشت ہو گئے ہوں۔مگر گورنمنٹ کو اس میں کسی قسم کی دست اندازی کرنا ہر گز مناسب نہیں ہے۔ باقی رہی ہندوستانی اخباروں کی اصلاح۔یہ از خود رفتہ رفتہ ہوتی جا تی ہے۔جو حالت پانچ برس پہلے اخباروں کی تھی۔اس میں اور حال کی حالت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔پولیٹیکل باتوں پر رائے دینا اور گورنمنٹ کی کاروائیوں پر ری ویو کرنا حال میں شروع ہوا ہے۔اور اس لیے اس میں غلطی کا ہونا اور خلاف اصول علم، اخلاق و قوانین کے اور علم انتظام و سیاست مدون روز بروز ہندوستانیوں میں پھیلتا جاتا ہے۔اور جوں جوں اس کی ترقی ہو گی۔اخباروں کی رائے بہ نسبت پولیٹیکل باتوں کے زیادہ تر صحیح و صائب ہوتی جائیں گی۔اور یہ نقص جو اب دکھلائی دیتا ہے۔از خود رفتہ رفتہ رفع ہو جائے گا۔لیکن اگر گورنمنٹ کی مداخلت ہوئی تو ہمارے رائے میں بہت زیادہ مضرت پیدا ہو گی۔ بلا درخواست اخبار کی روانگی اور مطالبہ قیمت اخبار (اخبار سائنٹفیک سوسائٹی علی گڑھ ، ۲۷ اکتوبر ۱۸۷۶ ئ) ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنے ہم عصر ایڈیٹر ان اخبارات کی رائے پر نکتہ چینی کریں، بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستانی اخبار با وقعت رہیں۔اور یار ساطر ہوں نہ بار خاطر ۔ اس میں کچھ شک نہیں۔ کہ قیمت اخباروں کی نہایت دقت ومشکل سے وصول ہوتی ہے۔ بلکہ بہت سی وصول بھی نہیں ہوتیں۔ مگر ایسے خریداروں کی نسبت جو کچھ اخبارات میں لکھا جاتا ہے۔ہمارے دل کو اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ اول تو بلا درخواست خریداری کسی کے نام اخبار کا جاری کرنا ایک طریقہ نا پسندیدہ ہے۔ ایک وہ پرچے بہ طور نمونہ کے بھیجنے کا مضائقہ نہیں۔ اس کے بعد اگر مرسل الیہ کی جانب سے درخواست خریداری آئی ہو تو اسی کے نام اخبار جاری کرنا چاہیئے۔ مگر با وصف نہ آنے درخواست خریداری کے اس کو برابر جاری رکھنا ہماری سمجھ میں مناسب طریقہ نہیں ہے۔ اکثر اخباروں کے اشتہار میں مندرج ہو تا ہے کہ جن لوگوں کے پاس اخبار بلا درخواست بھیجا جا تا ہے۔ ان کو چاہیئے کہ اخبار واپس نہ کریں۔بلکہ فی الفور بذریعہ خط پیڈ کے اس کی خریداری کی نا منظوری سے اطلاع دیں۔ اگر ایسا نہ کریں گے تو بر ابر اخبار جاری رہے گا۔ اور قیمت بہ حساب پیشگی یا بہ حساب ما بعد ان سے لی جاوے گی۔ مگر خیال کرنا چاہیئے کہ ہمارا کیا حق ہے۔ جو ہم ان لوگوں پر ایسی فرمائشیں کرتے ہیں۔ اور ان کو ہمارے ان احکام اور دستور العملوں کی تعمیل کیوں واجب ہے۔جو لفافہ کسی شخص کے نام پر ہے۔ اس کا حق ہے۔اور اس کے اختیار میں ہے۔کہ چاہے اس کو واپس کردے ۔چاہے اس کو کھول لے۔ اور پڑھے۔اس پر کچھ زور نہیں کہ خواہ مخواہ وہ اس کا جواب بھی لکھے۔صرف اشتہار میں یہ لکھ دینا کہ در صورت عدم ارسال خط انکاری ہم قیمت لیں گے۔کسی طرح کافی واسطے استحقاق دعویٰ کے نہیں ہے۔مرسل الیہ جواب دینے پر عقلاً ، شرعاً ، قانوناً ،مجبور نہیں ہے۔اور ادائے قیمت یا خریداری اخبار کا اس نے کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ ادائے قیمت کا ذمہ دار ہو۔ہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مقتضائے اخلاق و آدمیت یہ تھا کہ جس نے اخبار بھیجا ہے ۔اس کو کچھ جواب دیا جائے۔ مگر انصاف شرط ہے کہ جس سختی اور حکم قطعی سے ہم ان کو لکھتے ہیں،کہ اخبار واپس نہ کرو۔ بلکہ پیڈ خط انکاری لکھو۔ ورنہ قیمت لی جاوے گی۔تو ہم خود اخلاق سے گزر جا تے ہیں۔پھر ان سے اخلاق برتنے کی ہم کیا توقع کر سکتے ہیں۔ ادائے قیمت اخبار کا کچھ جھگڑا نہ ہو نا چاہیئے۔بلکہ ہم کو لازم ہے کہ اول تو ہم بلا درخواست خریداری کسی کے نام اخبار جاری نہ کریں۔اور جب تک زر قیمت پیشگی نہ آوئے کسی کو اخبار نہ دیں۔اور اگر بہ حساب نرخ ما بعد اخبار جا ری کیا جاوئے تو جب معیاد ادائے قیمت ما بعد کی گزر جاوئے گی اور قیمت ادا نہ ہو تو اخبار بند کر دیا جائے۔ اگر با ایں ہمہ ہم اخبار جاری رکھتے ہیں تو ہم دانستہ اپنا نقصان آپ کرتے ہیں۔ یا یہ توقع سخاوت مرسل الیہ کے کہ شاید احسانا کل زر قیمت دے دے۔ بھیجے جاتے ہیں پس ان دونوں صورتوں میں قیمت پر جھگڑا کرنا اچھا معلوم نہیں ہوتا ہے۔کیونکہ جو ٹھیک طریق معاملہ کا تھا وہ تو فریقین نے چھوڑ دیا۔بس اب مرسل الیہ کی مرضی پر معاملہ رہ گیا ہے کہ چاہے خوش اخلاقی اور نیک نیتی اور اخبارات کی مدد گاری کے لئے جن کی نسبت امید ہے کہ ملک کے لیے مفید ہو جاوئیں گے یا اب بھی کسی حد تک مفید ہیں۔زر قیمت ادا کرے اور چاہے کہ اس خیال سے کہ معاملہ اصول معاہدہ پر جاری نہیں رھا۔ نہ دے۔ہمارا عمل تو اسی پر ہے کہ ہمارے ہم عصر بھی اس پر توجہ فرماویں گے۔ شاید یہ خیال ہو کہ اس طریقہ سے اخبار جاری کرنے میں شاید خریداری کم ہو جاوے گی ۔ اور مطیع گر کونقصان پہنچے گا۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ اب بھی تو بہ سبب وصول نہ ہونے زر قیمت کے اس قسم کے خریداروں سے وہی نقصان پہنچتا ہے۔ بلکہ بر خلاف اس کے ہم توقع کرتے ہیں کہ اگر ہمارے سب ہم عصر اسی قاعدہ پر عمل کریں تو شیاد قیمت اخبارات کے ادا میں جو تساہلی یا کاہلی یا بے پرواہی یا نا دھندی خریدار ان کی جانب سے ہوتی ہے۔ وہ دور ہو جاوئے۔ ٭٭٭ دربار دھلی اور ایڈیٹران ہندوستانی اخبارات ( اخبار سانٹیفک سوسائٹی علی گڑھ ، ۲ نومبر ۱۸۷۶ء ) پٹیالہ اخبار نے جوہم سے د رباب نشست اور نمبر ایڈیٹران اخبار کے ہماری رائے طلب کی ہے۔اس کا ہم شکر کرتے ہیں۔ہماری یہ رائے ہے کہ اس خیال کو دل سے نکال دینا چاہیئے۔ کہ ہماری نشست کہاں ہو گی؟۔اور کس ک انمبر مقدم اور کس کانمبر موخر ہو گا۔ب لکہ اب ہم کو یہ خیال پیدا کرنا چاہیئے کہ ہم خود اپنے میں وہ خوبیاں اور اخلاق پیدا کریں کہ جس کے سبب ہم خود معزز و سب سے نمبر اول ہوں۔ اور نشست کے نمبر کا کبھی خیال نہ کریں۔ صدر ہر جا کہ نشیند صدر است کیا اگر کوئی ایڈیٹر با لفرض جو خود نا لائق اور بے عزت ہے۔اول نمبر پر بیٹھنے سے لائق ہو جاوے گا۔اور لائق و معزز ایڈیٹر پیچھے بیٹھنے سے نا لائق و بے عزت ہو جاوے گا۔اسی طرح ہم نہیں چاہتے کہ اخباروں کی قدر کا اندازہ رپورٹر آف دی ورنیکولر پریس آف اپر انڈیا پر چھوڑا جاوئے۔ بلکہ ہم کو اپنے اخباروں کی قدر کا خود اندازہ ہو گا۔ اور ہمیں اس کی بنا اپنے مضمونوں اور اپنی قوم کی رفاہ و فلاح میں کوشش کرے اور کم سے کم اپنی قوم کی پسند پر رکھنا چاہیئے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ اس مضمون کا خاتمہ ایک مذاق کی مثل اور ایک دل لگی کی حکایت پر کریں مثل تو یہ مشہور ہے کہ ایک توے کی روٹی کیا چھوٹی کیا بڑی؟۔ جناب سب ایڈیٹر بر ابر ہیں۔ کسی نے ایک ورق چھاپا ۔ کسی نے دس ورق چھاپے۔پس کسی کوتقدم وتاخر نمبر کا کیا استحقاق ہے؟۔ حکایت یہ ہے کہ عالم گیر بادشاہ اور اس کے وزیر میں مباحثہ ہوا۔ عالم گیر نے کہا کہ عالم بہت مہذب و پاکیزہ نفس ہوتے ہیں ۔ وزیر نے کہا کہ نہیں، فقرا مہذب اور پاکیزہ نفس ہوتے ہیں۔آخر یہ ٹھہرا کہ تجربہ کیا جاوئے ۔ طریق تجربہ یہ قرار پایا کہ بادشاہ نے علماء فقرا سب کی دعوت کی۔ جس مکان میں دعوت کی اس کے دو دروازے تھے۔یہ تجویز ہوئی کہ ایک دروازے سے فقرا داخل ہوں گے اور دوسرے دروازے سے علماء داخل ہو ں گے۔مگر ہر گروہ کا جو سب سے افضل و اعلیٰ ہو گا وہ پہلے آئے گا۔اور پھر اسی طرح ثم فثم۔ وقت معین پر بادشاہ مکان میں آبیٹھے۔اور ایک دروازے پر علما ء کا غول جمع ہو گیا۔اور دوسرے دروازے پر فقرا ء کا۔مگر دونوں غولوں میں کوئی بھی اندر نہیں آتا۔ بادشاہ نے کہا جا کر تو دیکھو کیا ہوا۔لوگ اندر کیوں نہیں آتے۔ وزیر نے کہا کہ حضور خود چل کر ملا حظہ فرمائیں۔غرض کہ بادشاہ اس دروازے پر گئے۔ جہاں فقرا کا غول جمع تھا۔ اور وہ ایک دوسرے سے یہ کہہ رہے تھے کہ جناب آپ سب سے بزرگ اور افضل ہیں۔ پہلے آپ چلیے۔ وہ کہتے تھے۔ توبہ استغفراللہ میں تو ناچیز جوتیوں کی خاک ہوں۔اپ سب سے بزرگ اور افضل ہیں۔سب سے اول آپ چلیے۔اسی تکرار میں کوئی شخص آگے نہیں بڑھتا تھا۔ بادشاہ اس کسر نفسی اور تہذیب باطنی کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اور متعجب ہوا۔ اور کہا چلو عالموں کے دروازے پر ،وہاں کیا ہو رہا ہے۔جب وہاں گیا تو کیا دیکھا کہ ایک کہہ رہا ہے کہ واہ سب سے بڑا عالم تو میں ہوں، سب سے آگے میں چلوں گا۔ دوسرا کہتا ہے کہ بیٹھو الف کا نام بے تو آتی نہیں۔ میرے برابر کون ہے۔جو سب سے آگے چلنے کا قصد کرے۔اسی طرح سب لوگ تکرار کر رہے تھے۔اور ہر شخص اپنے ہی کو سب سے بڑا عالم بتاتا تھا۔یہ اس کو اور وہ اس کو آگے نہیں بڑھنے دیتا تھا۔ جو آگے بڑھتا تھا۔ دوسرا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کھینچتا تھا۔اور اس کھینچا تانی میں کوئی اندر نہیں جا سکتا تھا۔ پس جناب اگر آپ نے بہ لحاظ فضل وکمال ایڈیٹروں کے نمبروں کا بکھیڑا لگا یا تو وہی عالم گیری دربار کی نقل ہو جا وئے گی۔اور خود لارڈ لٹن کو ان کو دیکھنا پڑے گا۔کہ ایڈیٹروں میں کیا ہاتھا پائی ہو رہی ہے۔ لیکن اگر آپ ہم سے رائے ہی پوچھتے ہیں کہ اول نمبر کا مستحق کون ہے تو بہ مجبوری ہم کو کہنا پڑتا ہے کہ ہوں تو میں ہی !! پس دوسرا نمبر آپ تجویز کر لیں! ہمارے ایک دوست نے کہا کہ یوں نہیں۔ سب سے پرانا اخبار کا ایڈیٹر نمبر اول ہو، ہمارے دوست تہذیب اخلاق کے ایڈیٹر بولے کہ بھئی یہ نہیں۔ سب سے بوڑھا ایڈیٹر نمبر اول ہو۔ ’’اخبار عالم ‘‘ اور اس کا اڈیٹر (اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ ، ۱۵ ستمبر ،۱۸۷۲ ئ) ہم کواس خبر کے دیکھنے سے سخت قلق ہوا کہ ہمارا ایک لائق ہم عصر جو اپنی تیز طبیعت اور حدت مزاج اور قوت حافظہ کے لحاظ سے یکتا تھا۔ اس نے اس جہان فانی سے انتقال کیا۔ہم کو اس کا نام لکھنے سے درد معلوم ہو تا ہے۔اور ہم کو یہ بات کہتے رنج ہوتا ہے کہ محمد وجاہت علی خاںصاحب مالک و راقم اخبار علم‘‘ اس جہان فانی سے انتقال کر گئے۔ ہم کو اپنے دوست کے اخلاق یاد آتے ہیں۔ اور ہم بہ جز صبر کے کیا کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھی بہت افسوس کے لائق بات ہے کہ خاں صاحب مرحوم کے بعد کوئی شخص ایسا نہیں ہے۔ جو ان کے کار خانہ کو سنبھال سکے۔کیونکہ خاں صاحب مرحوم نے صرفاا یک لڑکا چھوڑا ہے۔ جس کی عمر چار برس کی ہے۔ اور ایک بیوی ہے جو بے چاری کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ خاں صاحب ممدوح کا کار خانہ اب یوما قیوما رو بہ ترقی تھا۔ اب ان کے مطیع نے ترقی پائی تھی۔ اور ان کے پاس اب اچھا سامان مہیا ہو گیا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ سب کو یوں ہی چھوڑ گئے۔اور صرف اپنے اعمال ہمراہ لے گئے۔ دیکھیے وہاں کیا ہو تا ہے۔ ۱۔ اخبار عالم‘‘ جس کا اس مضمون میں ذکر ہے میرٹھ (یو۔ پی)کمبوہ دروازہ ،حویلی اشفاق حسین خاں سے ہفتہ وار شائع ہوا کرتا تھا۔ ۱۸۶۱ء میں اسے منشی وجاھت علی خان نے جاری کیا تھا۔جب ۱۸۶۷ ء میں ان کا انتقال ہوا تو حکیم مقرب حسین نامی ایک صاحب اس کے مالک ہوئے اور انھوں نے ایک صاحب منشی عبد الحکیم کو اس کا ایڈیٹر مقرر کیا۔اخبار میرٹھ کا مطبع دار العلوم میں چھپتا تھا اور ۱۲ صفحات کا ہوتا تھا۔سالانہ قیمت پندرہ روپیہ چار آنہ تھی۔لیکن منشی وجاھت علی خاں کے بعد کوئی لائق ایڈیٹر اس کو نہ ملا۔ اس لیے کچھ عرصہ بعد یہ بند ہو گیا۔اخبار کی عبارت ا س زمانہ کے موافق بالعموم نہایت مقفع اور مسجیٰ ہوا کرتی تھی۔اور یہ خبریں بہت تلاش اور محنت کر کے شائع کی جاتی تھیں۔مضامین اور نظمیں بھی ہوتی تھیں،کاغذ سفید اور عمدہ لگایا جاتا تھا۔چھپائی روشن اور صاف ہوتی تھی۔ ہر پنج شنبہ کو شائع ہوتا تھا۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) عربی اخبار لندن (اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ ، ۲۲ دسمبر ،۱۸۷۶ ئ) لندن میں آج کل ایک عربی اخبار جاری ہوا ہے ۔ جس کا ایڈیٹر ایک مہذب عربی ہے۔جو پہلے مسلمان تھا اور اب عیسائی ہو گیا ہے۔جو لوگ اس کے عیسائی ہونے کی خبر دیتے ہیں وہی بیان کرتے ہیں کہ اس عربی کو ترک سے نہایت نفرت ہے۔اور وہ اس قوم کی باتوں کو ہر گز پسند نہیں کرتا۔ ہم خیال کرتے ہیں کہ ایک ایسے زمانہ میں جب کہ انگلستان کو ٹرکی کی امداد کا نہایت خیال ہے۔ اس ایڈیٹر کو جو اسلام اور ترک دونوں کا مخالف ہے۔بڑی عالی دماغی اور جان کاہی سے کام کرنا پڑے گا۔اوراس کو اپنے نازک خیالوں کو بڑی کوشش کے ساتھ سنبھالنا پڑے گا۔اور جب تک کہ گلیڈ اسٹون صاحب بہادر کے فرقہ کے خیالات اور اس کی اعانت نہ کریں گے اور انھیں کی کوشش اس کے پریس کو نہ کھینچے گی اس وقت اس کی تنہا ہمت کیا کام کر سکے گی۔ اگر اس عیسائی عرب کو سب سے پہلے ناموری حاصل کرنے کا شوق تھا۔ تو اس کے اخبار کے واسطے آج کل روس کا دار السلطنت سب سے زیادہ موزوں تھا اور مناسب تھا۔ اگر یہ عیسائی عرب ایسا روشن دماغ ہے جیسا کہ یورپ کے ایڈیٹروں کی ایڈیٹری کے واسطے ہو نا چاہیئے۔اوراس کی عقلی روشنی یورپ کے آفتاب ترقی سے ما خوذ ہے۔ تو وہ ضرور ہی گلیڈ اسٹون صاحب کے فرقہ کی تدبیر مملکت کو زندہ کرنے میں کوشش کرے گا اور اگر یہ بات نہیں ہے تو صرف عربی زبان کچھ بڑا کام نہ کرے گی۔اور اس کے اخبار کی کچھ بڑی وقعت نہ ہو گی۔اور صرف تبدیلی مذہب سے وہ عیسائیوں کا خیر خواہ ثابت نہ ہو جاوئے گا۔ بلکہ عجب نہیں کہ تلون طبع کے باعث اس کی رائے بھی متلون ثابت ہو۔ ہم کو اس موقع پر یہ بات بھی بیان کرنی چاہیئے کہ جس چیز نے یورپ کی دماغی قوتوں کو منور کر رکھا ہے۔وہ یہی قدر دانی ہے۔جو وہ تمام زبانوں اور تمام علوم کی کرتے ہیں۔خاص لندن میں ایک عربی زبان کے اخبار کا جاری ہو نا۔اور پھر اس قدر شناسی کے ساتھ جاری رہنا ان لوگوں کے نزدیک جو اس کے عادی نہیں ہیں۔بلا شبہ تعجب سے خالی نہیں ہے۔اور جو لوگ یورپ کی علمی قدر دانی اور اس کی ترقی کے ذریعوں سے مطلع ہیں۔ ان کے نزدیک یورپ کا یہ علمی شوق نہایت تحسین و آفرین کے لائق ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے ملک کے باشندے اس بات سے بھی مطلع نہیں ہیں کہ اخبار کیا چیز ہے۔اور کیا اس سے نفع ہے۔وہ ابھی تک یہ بھی نہیں سمجھتے کہ اخباروں کی نکتہ چینیاں کس مصرف کی ہیں۔اور ہم کو ایسی نکتہ چینیوں سے کیا فائدہ حاصل کرنا چاہیئے۔ یہاں تک کہ جو شوق یورپ کے ادنیٰ درجہ کے لوگوں بلکہ ان لوگوں کو ہے جو وہاں کے عالموں کے نزدیک زمرہ انسانیت سے خارج ہیں۔وہ شوق اب تک یہاں کے خواص کو بھی نہیں ہے۔ یورپ کے ایک امیر کا جب کوچبان جب کہیں گاڑی لے جا تا ہے تو وہ بغیر ایک پرچہ اخبار کے نہیں جا تا۔کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ جب تک گاڑی کسی جگہ بے کار کھڑی رہے گی۔اس وقت تک اس کو خالی بیٹھنا اور وقت ضائع کرنا پڑے گا۔بر خلاف ہمارے ملک کے لوگوں کے جو اطمئنان اور فرصت کے زمانے میں بھی اخبار کو سامعہ خراشی اور تضعیہ اوقات کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کی دیسی زبان کے اخبار بھی بہت سے امراء کے ہاں اس وقت اس طرح پڑے ہو ں گے کہ ان کی چٹ نہ کھلی ہو گی۔اور لندن میں اس عربی اخبار کو بھی ہر ایک شخص نظر شوق سے دیکھے گا، اوراس پر رائے لگا دے گا۔ اور صد ہا عربی دان انگریز اس کے کارسپا نڈنٹ ہو ں گے۔ پس جس قوم کی بے دار مغزی اور کمالات اس درجہ ترقی پر ہو ں۔وہ کیوں کر تمام دنیا میں عزت کی مستحق نہیں ہو گی۔اور جس قوم کا یہ حال ہو کہ وہ اپنی پست ہمتی سے اخباروں کو دوسروں کی زبان سے بھی سننا نہ چاہیں ۔وہ کیا اس قوم کے قدم پر قدم رکھنے کا قصد کرے گی۔ ہم کو امید ہے کہ وہ عربی اخبار جو لندن میں جاری ہونے والا ہے۔ضرور ہندوستان میں بھی آؤے گا۔اور اس وقت ہم کواس کے بعد اس کی نسبت کسی رائے کے لکھنے کاموقع ملے گا۔ہمارے ہندوستانی ہم عصر ضرور اس اخبار کو ہندوستان میں طلب کریں گے اور اس کی حالت سے انگریزی قوم کی قدر دانی کا حال معلوم ہو گا۔ ٭٭٭ (۲) مضامین متعلق ’’تہذیب الاخلاق ‘‘ پرچہ تہذیب الاخلاق اور اس کے اغراض و مقاصد جب ۱۸۶۹ ء میں سر سید نے لندن کا سفر کیا تو انگریزوں کی تہذیب و شائستگی دیکھ کر ان کو مسلمانوں کی پستی اور تنزلی کی حالت پر بہت ہی دکھ اور قلق ہوا۔اپنی قوم کی اس زبوں حالی کا باعث انھوں نے ان غلط اور باطل خیالات کو سمجھا جن میں مسلمان مبتلا تھے۔چوں کہ ان کے دل میں قوم کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس لئے انھوں نے ولایت میں ہی پختہ ارادہ اس امر کا کر لیا کہ جہاں تک مجھ سے بن پڑے گا میں مسلمانوں کی اس حالت کو بدلنے کی کوشش کروں گا۔ اس واقعی حقیقت سے کسے انکار ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی عمر کے باقی ایام میں ہر آن اور ہر لمحہ مسلمانوں کی ترقی اور اصلاح میں نہایت مستقل مزاجی اور پورے خلوص کے ساتھ انتہائی اور امکانی جد وجہد کرتے رہے۔ مسلمانوں کی مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی حالت کی اصلاح کی پہلی تدبیر ان کی سمجھ میں یہ آئی کہ ایک اعلیٰ پایہ کا ماہوار رسالہ نکالا جائے۔ جس میں ایسے مضامین اور آ رٹیکل ملک کے قابل اور فاضل حضرات سے لکھوائے جا ئیں جو ان کی ان تینوں حالتوں کی اصلاح میں ممد اور معاون ہو ں اور جن کو پڑھ کر مسلمانوں کے باطل خیالات، فضول تو ہمات اور جاہلانہ اعتقادات، روشن خیالی ، بلند حوصلگی اور اچھے اخلاق سے بدل جا ئیں۔ اس پرچہ کا نام انھوں نے ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ رکھا۔ اوراس کے سر ورق کا بہت خوش نما بلاک ولایت ہی میں بنوا لیا۔ جب سر سید اپنے سفر ولایت سے واپس ہندوستان آئے تو فورا ہی انھوں نے اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانا چاہا۔ چنا چہ سفر سے واپسی پر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے خاص خاص دوستوں سے اس معاملہ میں مشورہ کیا۔ سب نے اس نیک کام کی تائید اور حمایت کی۔اور ہر ممکن امداد دینے کا وعدہ کیا۔ جس پر سر سید نے اس کے اجرا کی تیاری شروع کر دی۔ چوں کہ رسالہ جاری کرنے کے لئے سرمایہ کی ضرورت تھی۔اور سر سید اپنا سب کچھ سفر لندن پر قربان کر چکے تھے۔یہاں تک کہ گھر کے برتن اور اپنی قیمتی کتابیں بھی فروخت کرنے کے بعد ہزاروں روپے سود پر قرض لے چکے تھے۔اس لئے تجویز یہ قرار پائی کہ سر سید کا ہر دوست ساٹھ روپے سالانہ امداد دے۔ چناںچہ رقم فورا جمع ہو گئی۔ سر سید کو رسالہ جاری کرنے کی اس قدر جلدی تھی کہ وہ سفر ولایت سے ۲ اکتوبر ، ۱۸۷۰ ء کو واپس ہندوستان پہنچے، اور واپسی کے صرف ایک مہینہ ۲۲ دن بعد یکم شوال ۱۲۷۸ ھ مطابق ۲۴ دسمبر ۱۸۷۰ ء کو انھوں نے رسالہ کا پہلا پرچہ شائع کر دیا۔ اس پہلے پرچہ میں سر سید نے رسالہ کے جو اغراض و مقاصد ’’تمہید‘‘ کے عنوان سے رقم فرمائے تھے،وہ ذیل میں درج کیے جا تے ہیں۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) تمہید اس پرچے کے اجرا ء سے مقصد یہ ہے کہ ہم ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجہ کی سویلزیشن یعنی تہذیب اختیار کرنے پر را غب کیا جائے ، تاکہ جس حقارت سے سویلائزڈ یعنی مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں، وہ رفع ہو اور وہ بھی دنیا میں معزز و مہذب قوم کہلا ویں۔ سویلزیشن انگریزی لفظ ہے۔جس کا ترجمہ ہم نے تہذیب کیا ہے۔مگر اس کے معنی نہایت وسیع ہیں۔ اس سے مراد ہے کہ انسان کے تمام افعال ارادی اور اخلاقی اور معا ملات اور معاشرت اور تمدن اور صرف اوقات اور علوم اور ہر قسم کے فنون وہنر کو اعلیٰ درجہ کی عمدگی پر پہنچانا اور ان کو نہایت خوبی اور خوش اسلوبی سے برتنا، جس سے اصلی خوشی اور جسمانی خوبی حاصل ہوتی ہے۔ اور تمکن اور وقار اور قدر ومنزلت حاصل کی جاتی ہے۔ اور وحشیانہ پن اور انسا نیت میں تمیز نظر آتی ہے۔ یہ بات نہایت سچ ہے کہ کسی قوم کے مہذب ہونے میں اس قوم کے مذہب کو بھی بڑا دخل ہے۔ بے شک بعضے مذہب ایسے ہیں کہ وہ تہذیب قومی کے بڑے مانع ہیں۔بس اب دیکھنا چاہیئے کہ کیا مسلمانی مذہب بھی ایسا ہی ہے۔؟ اس باب میں مختلف رائیں ہیں۔ ایک عیسائی متعصب مورخ نے ٹرکی یعنی روم کی سیر کے بعد اپنے سفر نامے میں لکھا ہے کہ ترک جب تک مذہب اسلام کو نہ چھوڑیں گے مہذب نہ ہو ں گے۔کیو ں کہ مذہب اسلام انسان کی تہذیب کا مانع قوی ہے۔ سلطان عبد العزیز خاں سلطان روم کو جو بالفعل بادشاہ ہے۔ اس بات کی تحقیق منظور ہوئی کہ درحقیقت مذہب اسلام مانع تہذیب ہے یا نہیں؟۔ اس نے چند علماء عقلا اور وزرا کی کونسل اس امر کی نسبت رائے لکھنے کو مقرر کی۔ جس کا افسر فواد پاشا تھا۔ اس کونسل نے جو رپورٹ لکھی۔ اس کے دوفقروں کا ترجمہ اس مقام پر لکھا جاتا ہے۔ ’’ اسلام میں وہ سب سچی باتیں ہیں جو دنیا کی ترقی کو حاصل کرنے والی اور انسانیت اور تہذیب اور رحم دلی کو کمال سے درجہ پر پہنچانے والی ہیں۔ مگر ہم کو اپنی بہت سی رسوم وعادات کو جو اگلے زمانے میں مفید تھیں۔ مگر حال کے زمانے میں نہایت مضر ہو گئی ہیں ، چھوڑنا نہیں چاہیئے۔ اب دونوں رائیوں میں سے کسی ایک رائے کو سچ کر کر دکھا دینا مسلمانوں کے اختیار میں ہے۔ اگر وہ اپنے عملی کاموں سے مثل دنیا کی اور مہذب قوموں کے اپنے تئیں بھی مہذب کر دکھائیں گے تو فواد پاشا کی رائے کی تصدیق کریں گے۔ ورنہ از خود اس پہلی رائے کی تصدیق ہو گی۔ ایک اور انگریز مورخ مسلمانوں کی موجودہ حالت کی نسبت یہ لکھتا ہے کہ : ’’ ہندوستان کے مسلمان ذلیل ترین امت ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے) ہیں۔ اور قران کے مسئلوں اور ہندوستان کی بت پرستی سے مل ملا کر ان کا مذہب ایک عجیب مجموعہ ہو گیا ہے۔‘‘ ہماری سمجھ میں فواد پاشا کی رائے اور اس پچھلے انگریزی مورخ کا بیان بالکل درست ہے۔ ہم مسلمانوں میں بہت سے پرانے قصے یہودیوں کے اور بہت سی باتیں اور خیالات اور اعتقادات رومن کیتھولک کے جو ایک قدیم عیسائی فرقہ ہے۔ اور جو مدت سے عرب میں بھی مو جود تھا۔اور بے انتہا رسمیں اور عادتیں ہندوؤ ں کی بھی مل گئی ہیں۔ اور مزید براں بہت سی باتیںخود ہماری طبیعتوں یا ہماری غلط فہمیوں نے پیدا کی ہیں۔ جو درحقیقت مذہب اسلام میں نہیں ہیں۔اور اسی سبب سے مسلمانوں کی عجیب حالت ہو گئی ہے۔اور یہی باعث ہے کہ غیر قومیں ہماری اس ہئیت مجموعی پر خیال کر کر اس مجموعہ کو مذہب اسلام قرار دیتی ہے۔ اور اس کی نسبت نہایت حقارت کی رائے دیتی ہیں۔ جیسے کہ ایک انگریز مورخ نے مفصلہ ذیل رائے لکھی ہے۔ ’’ عیسائیت اس بڑی سے بڑی خوشی کے جو قادر مطلق نے انسان کو دی ہے۔صرف موافق اور مطابق ہی نہیں ہے۔بلکہ اس کو ترقی دینے والی ہے۔اور بر خلاف اس کے اسلام اس کو خراب کرنے والا اور ذلت میں ڈالنے والا ہے۔‘‘ ۱۔ یہ مت سمجھو کہ اس مصنف کا صرف یہ قول ہی قول ہے۔ بلکہ حالات اور اطوار وعادات موجودہ اہل اسلام سے اس کا ثبوت بھی ہے۔ اور جب ان سب کو لکھا جاوئے تو بہ جز رونے کے اور کچھ چارہ نہیں۔اپنی ٹانگ کھولیے اور آپ ہی لاجوں مریے۔ (سید احمد) بس اب کیا یہ غیرت کی بات نہیں ہے کہ ہم غیر قوموں سے ایسی حقارت کے الفاظ اپنی نسبت اور اپنے روشن اور سچے مذہب کی نسبت سنیں اور اپنی تہذیب وتربیت اور شائستگی کی طرف متوجہ نہ ہو ں۔ یہ جب ہی ہو سکتا ہے کہ جب ہم فواد پاشا کی رائے کو جو بڑے بڑے علماء عقلا کے اتفاق سے لکھی گئی ہے، اختیار کریں۔اور بہ خوبی ہوشیار ہو کر نیک دلی اور غور سے اپنی حالت پر خیال کریں۔اور جو رسوم وعادات ہم میں موجود ہیں، اور جو مانع تہذیب ہیں ، ان کو دیکھیں کہ وہ کہاں سے آئیں اور کیوں کر ہم میں مل گئیں۔اور یا کیوں کر خود ہم میں پیدا ہو گئیں۔اور ان میں جون جون سی ناقص ، خراب اور مانع تہذیب ہو ں ، ان کو ترک کر دیں۔اور جو قابل اصلاح ہو ان کی اصلاح کریں۔اور ہر ایک بات کو اپنی مذہبی مسائل کے ساتھ مقابلہ کرتے جاویں۔ کہ وہ ترک یا اصلاح موافق احکام شریعت بیضا کے ہے یا نہیں، تاکہ ہم اور ہمارا مذہب دونوں غیر قوموں کی حقارت اور ان کی نظروں کی ذلت سے بچیں۔ کہ اس سے زیادہ ثواب کا کوئی کام اس زمانہ میں نہیں ہے۔ یہی ہمارا مطلب ہمارے ہندوستان کے بھائیو سے ہے۔اور اسی مقصد کے لئے یہ پرچہ جاری کرتے ہیں تاکہ بذریعہ اس پرچہ کے جہاں تک ہم سے ہو سکے۔ ان کی دین ودنیا کی بھلائی میں کوشش کریں۔ اور جو نقص ہم میں ہیں،گو ہم کو نہ دکھائی دیتے ہوں۔مگر غیر قومیں ان کو بخوبی دیکھتی ہیں۔ان سے ان کومطلع کریں۔اور جو عمدہ باتیں ان میں ہیں۔ ان میں ترقی کرنے کی آن کو رغبت دلائیں۔ واللہ ولی التوفیق۔ ٭٭٭ مقا صد تہذیب الا خلاق (تہذیب الا خلاق ، بابت یکم محرم ، ۱۲۸۹ ھ) ہمارے اس پرچہ کی عمر سوا برس کی ہوئی ہے۔ اور تریسٹھ مضمون اس میں چھپے۔ اب ہم کو سوچنا چاہیئے کہ ہم کو اس سے قومی ترقی حاصل ہونے کی کیا توقع ہے۔ انسان ایک ایسی ہستی ہے کہ آئندہ کی خبر اس کو نہیں ہو سکتی۔مگر گزشتہ زمانے کے تجربے سے آئندہ زمانے کی امیدوں کو خیال کر سکتا ہے۔پس ہم کو اس پرچہ کی بابت آ ئندہ زمانے کی پیشین گوئی کرنے کے لئے پچھلے حالات اور واقعات پر نظر کرنی چاہیئے۔ جب ہم کچھ اور پچھلے ڈیڑھ سو برس پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم پاتے ہیں کہ لندن میں بھی وہ زمانہ ایسا تھا۔ جیسا کہ اب ہندوستان میں ہے۔اور وہاں بھی اس زمانے میں اس قسم کے پرچے جاری ہوتے تھے۔جن کے سبب تمام چیزوں میں تہذیب وشائستگی ہوئی تھی۔ پس اول ہم ان پرچوں کا کچھ حال بیان کرتے ہیں۔اور پھر اس پرچہ تہذیب الاخلاق کو ان سے مقابلہ کریں گے۔ اور پھر آئندہ کی حالت ہندوستان کا اس پر قیاس کر کر اپنی قومی ترقی کی نسبت پشین گوئی کریں گے۔ جب کہ یورپ میں باہمی ملکی لڑائیوں کا زمانہ تھا، تو بہت سے بڑے بڑے شہروں میں اخبار کا چھپنا اور پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔ اور خاص لنڈن میں بھی اخبار چھپنا شروع ہو گیا تھا۔ مگر اپنی قوم کی روز مرہ کی زندگی اور ان کے مزاج اور عادات اور خصلت پر نکتہ چینی کرنے میں اور اس میں سے برائیوں کے نکالنے اور عمدہ اور نیک خصلتوں کو ترقی دینے کا کسی کو کسی ملک میں خیال نہ تھا۔ہاں البتہ فرینچ لوگوں نے اس پر کچھ خیال کیا تھا۔ اور سولھویں صدی میں مانٹین صاحب نے جو ایک مشہور فرنچ عالم تھے۔ خصلت وعادات پر کچھ مضمون چھپوائے تھے۔اس کے بعد لا بروے صاحب نے جو ایک فرنچ عالم تھے۔ایک کتاب چھاپی تھی ۔ جس میں چودھویں لوئی بادشاہ فرانس کے دربار کی بناوٹوں کو نہایت سلیقہ کی طعنہ زنی سے بیان کیا تھا۔ لیکن کسی شخص کو یہ خیال نہ آیا تھا کہ کوئی ایسا پرچہ یا رسالہ نکلے جو جلد جلد ایک مناسب معیاد پر چھپا کرے اور قومی برائیوں کو جتایا کرے۔اور لوگوں کو قومی بھلا ئی کی ترقی پر رغبت دلاتا رہے۔مگر خدا نے یہ کام لنڈن کے پیغمبروں اور سویلزیشن کے دیوتاؤں سر رچرڈ اسٹیل اور مسٹر اڈیسن کی قسمت میں لکھا تھا۔ سر رچرڈ اسٹیل صاحب نے 1709ء میں ایک پرچہ نکالا۔ جس کا نام’’ ٹیٹلر ‘‘تھااس کے اصلی ایڈیٹر تو سر رچرڈ اسٹیل صاحب تھے۔مگر اڈیسن صاحب بھی کبھی کبھی مدد دیتے تھے۔یہ پرچہ ہفتہ میں تین دفعہ چھپتا تھا۔پہلا پرچہ اس کا بارھویں اپریل ۱۷۰۹ ء کو چھپا تھا۔ سر رچرڈ اسٹیل صاحب نے خود کہا تھا کہ ان کی غرض اس پرچے سے نکلنے کی یہ تھی کہ انسان کی زندگی جو جھوٹی بناوٹوں سے عیب دار ہوتی ہے۔ اسے بے عیب کریں۔ اور مکاری اور جھوٹی شیخی کو مٹا دیں۔اور بناوٹی پوشاک کو اتاریں اور اپنی قوم کی پوشاک اور گفتگو اور برتاؤ میں عام سادہ پن پیدا کریں۔ اس پرچے کے دو سو اکہتر (271) نمبر چھپے۔ چنانچہ آخیر پرچہ اس کا دوسری جنوری 1711ء کو چھپا۔ اور پھر بند ہو گیا۔ اس کے بعد سر رچرڈ اسٹیل صاحب اور مسٹر اڈیسن صاحب نے مل کر ایک اور پرچہ نکالا اور اس کا نام انسپیکٹیٹر رکھا تھا۔یہ پرچہ ہر روز چھپتا تھا۔اور وہی دونوں صاحب آخیر تک اس میں مضمون لکھا کرتے تھے۔پہلا پرچہ اس کا یکم مارچ ۱۷۱۱ ء کو چھپا تھا۔ اور صرف تین سوپینتیس نمبر اس کے چھپے تھے۔ یہ پرچہ اپنے زمانے میں بے نظیر تھا۔اور صرف ’’ٹیٹلر‘‘ کو ہی اس نے نہیں بھلا دیا تھا۔ بلکہ اس زمانہ میں جس قدر کتابیں اس قسم کی تصنیف ہوئی تھیں۔ان سب پر فضیلت رکھتا تھا۔عمدہ عمدہ اخلاق و آداب اس میں لکھے جاتے تھے۔خویش واقارب کے ساتھ سلوک کرنے کے قاعدے اس میں بیان ہوتے تھے۔اس بات کا کہ انسان اپنی اس وقت کو جس کا نام شوق ہے۔ کس طرح دیکھ بھال کر اور سوچ بچار کر کس بات میں صرف کرے۔نہایت عمدگی سے ذکر ہو تا تھا۔اور ہر ایک مضمون نہایت عمدگی اور خوبی سے اور برد باری اور عجیب وغریب مذاق سے بھرا ہو تا تھا۔ یہ پرچہ اس لئے بھی بے انتہا تعریف کا مستحق تھا کہ اس نے طرز تحریر لو گوں کو سکھا دی اور لوگوں کی گفتگو کو جو برے کلمات اور بد محاورات اور ناپاک قسموں سے خراب ہو رہی تھی درست کر دیا۔ ہر روز صبح کے وقت یہ پرچہ نکلا کرتا تھا۔ اور حاضری کھانے کے وقت تک لوگوں کے پاس آجا تا تھا۔ اور حاضری ہی کی میز پر لوگ اس کو پڑھا کرتے تھے۔ ۱۷۱۳ ء میں اس کا چھپنا موقوف ہو گیا۔ اس کے بعد سر رچرڈ اسٹیل صاحب نے مسٹر اڈیسن کی مدد سے ایک اور پرچہ نکالا جس کا نام ’’گارڈین‘‘ تھا۔ یہ پرچہ بھی ہر روز چھپتا تھا۔اور صرف ایک سوپچھتر نمبر اس کے نکلے تھے کہ بند ہو گیا۔ اس کے بعد اٹھارویں صدی عیسوی میں بہت سے پرچے اس مقصد سے نکلے۔ مگر ان میں سے ’’راملر‘‘ اور ’’ادونچرز‘‘ اور ’’ایدلر‘‘ اور ’’ورلد‘‘ اور ’’مرر‘‘ اور ’’ لونجر‘‘ نے کچھ شہرت پائی اور ان کے اور کسی کو سوا کچھ فروغ نہ ہوا۔ ان پرچوں کے جاری ہونے سے انگریزوں کے اخلاق اور عادات اور دین داری کو نہایت فائدہ پہنچا۔ اور ہر ایک سے دل پر ان کا اثر ہوا۔ جس زمانہ میں کہ جس میں پہلے پہل ’’ٹیٹلر‘‘ نکلا ہے۔ انگلستان کے لوگوں کی جہالت ، بد اخلاقی اور نا شائستگی نفرت کے قابل تھی۔ وضع دار لوگ کیا مرد کیا عورت تحصیل علم سے نفرت رکھتے تھے۔ اور علم پڑھنے کو خود فروشی یا باد فروشی کہتے تھے۔اور کمیوں کا کام سمجھتے تھے۔علم جو اب عام لوگوں میں پھیلا ہوا ہے۔ شاذ ونادر کہیں کہیں پایا جا تا تھا۔ علم کا دعویٰ تو درکنار جہالت کی شرم بھی کسی کو نہ تھی۔ عورت کا پڑھا لکھا ہونا اس کی بد نامی کا باعث ہو تا تھا۔ اشرافوں کے جلسوں میں امورات سلطنت کی باتیں ہوتی تھیں۔ اور عورتیں آپس میں ایک دوسرے کی بد گوئی کیا کرتی تھیں۔ قسموں پر قسمیں کھانا اور خلاف تہذیب باتیں کرنا گویا ایک بڑی وضع داری گنی جاتی تھی۔ قمار بازی، شراب خوری اور خانہ جنگی کی کچھ حد نہ تھی۔ چارلس دوم کے عہد میں جو خرابیاں تھیں۔ وہ شریف شریف اور اعلیٰ درجہ کے لوگوں کی گویا عادت ہو گئی تھی۔بیلوں اور ریچھوں کو کتوں سے پھڑوانا۔لوگوں کو انعام دے کر لڑوانا ،اور خود ایسے تماشوں کو دیکھ کر خوش ہو نا گویا ہر ایک امیر کے شوق کی بات تھی۔ ان تمام خرابیوں کی درستی میں سر رچرڈ اسٹیل صاحب اور اڈیسن نہایت سر گرم عمل تھے۔اور جس سرگرمی سے وہ مصروف ہوئے۔ویسی ہی کام یابی اس میں ان کو ہوئی۔ ’’اسپیکٹیٹر‘‘ میں ایک دفعہ لکھا تھا کہ ’’میں‘‘ اخلاق میں خوش طبعی کی جان ڈالوں گا۔ اور خوش طبعی کو اخلاق سے ملاؤ ں گا۔ تاکہ جہا ں تک ممکن ہو سکے۔ اس کے پڑھنے والے دونوں باتوں میں نصیحت پاویں۔ اور تا وقت کہ لوگ ان تمام خرابیوں سے جن میں اس زمانہ کے لوگ پڑے تھے۔ سنبھل نہ جائیں ، میں ہر روز ان کو نصیحت کی باتیں یاد دلاتا رہوں گا۔کیونکہ جو دل ایک دن بھی بے کار پڑا رہتا ہے۔ اس میں بے شمار عیب جڑ پکڑ جاتے ہیں۔ جس کے ریشے بہت ہی مشکل سے دور ہوتے ہیں۔ سقراط کی نسبت ایسا کہا گیا ہے کہ اس نے فلسفہ کو آسمان سے اتارا۔ اور انسانوں میں بسایا۔ مگر میں اپنی نسبت صرف اتنا کہلا نا چاہتا ہو ں کہ میں نے فلسفہ کو مدرسوں اور مکتبوں کے کتب خانوں کی کوٹھریوں میں سے نکالا اور جلسوں وچائے اور قہوہ خانوں کی مجلسوں تک میں پھیلا یا۔اور ہر ایک دل میں بسایا۔ سر رچرڈ اسٹیل صاحب اور اڈیسن کی ایسی عمدہ تحریریں ہوتی تھیں کہ ان کا اثر صرف مجلسوں کی تہذیب و زبان وگفتگو کی شائستگی ہی پر نہیں ہو تا تھا۔ بلکہ اس زمانہ کے مصنفوں پر بھی اس کا نہایت عمدہ اثر ہو تا تھا۔ ڈاکٹر دریک صاحب کا قول ہے کہ عام لوگوں کو علم وادب کا شوق اس وقت سے ہوا۔ جب کہ ’’ٹیٹلر‘‘ چھپنا شروع ہوا۔ اور ’’اسپیکٹیٹر‘‘ اور ’’گارڈین‘‘ نے اس شوق کو اور زیادہ بھڑ کا دیا۔ان پرچوں کی تا ثیر صرف لمحہ دو لمحوں کے لئے نہ تھی بلکہ انگلستان میں ہر فرقہ کے لوگوں میں نہایت مضبوطی سے پھیل گئی تھی۔ان پرچوں سے علم کو جو فائدہ ہوا، وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ ان پرچوں نے اول اول نہایت خوش اسلوبی سے گزشتہ و حال کے زمانہ کے عمدہ اور لائق مصنفوں کو بتایا اور ان کی خوبیوں کی قدر کرنے کا شوق دلایا۔ مشہور ہے کہ ملٹن صاحب کی پارید یزات لاست کا جو نہایت عمدہ اور بے نظیر کتاب ہے۔ انھی پرچوں کی بدولت فروغ ہوا۔ ان پرچوں کے مذاق ، تحریر اور رنگ ڈھنگ نے بری تحریروں کے اسباب کو بتا دیا ۔اور چھوٹی عبارت آرائی اور لغو انشا پردازی کہ جو کسبیوں کے بناؤ سنگار کی مانند تھی۔ اور رنڈیوں کے سے طعنے مینے یا لونڈیوںکی سی گالم گلوچ کو تحریروں میں سے بالکل دور کر دیا۔ اچھی وبری تحریروں میں تمیز کرنا اور سنجیدہ ومتین نکتہ چینی اور تحقیقات کا شوق پیدا کیا۔ ذہانت اور متانت دونوں کو ترقی دی اور تحریر میں مناسبت اور تہذیب کا خیال لوگوں کے دلوں میں بٹھایا۔ان باتوں سے ان پرچوں کے پڑھنے والے لئیق اور عالم مصنفوں کی تصنیفوں سے حظ اٹھانے لگے اور تمیز کے ساتھ ان کی قدر کرنے لگے۔ اڈیسن صاحب کی تحریروں سے بالتخصیص طرز عبارت بہ نسبت سابق کے بہت زیاہ صاف وشستہ وسلیس نہایت دل چسپ ہو گئی اور درحقیقت اڈیسن صاحب کی تحریر سے انگریزی زبان کے علم انشاء میں ایک انقلاب عظیم واقع ہو گیا۔ باوجودے کی زمانہ حال میں تحریروں کے عیب وہنر کو لوگ خوب جانچتے ہیں اس پر بھی اڈیسن کی تحریر بہ جزو تعریف کے اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔ علاوہ ان باتوں کے ’’اسپیکٹیٹر‘‘ کے پرچوں میں انسان کے خیالات کے مخرج اور ان خیالات سے جو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں۔ان کی تفریق نہایت خوبی اور خوش اسلوبی سے بتلائی گئی ہے۔اور اس سے نتیجہ یہ ہوا ہے کہ شاعروں کے خیالات اور ان کے اشعار وںکی خیال بندی نہایت عمدہ اور درست ہو گئی ہے۔لغو اور بے سرو پا مضمون اشعار میں سے خارج ہو گئے ہیں۔ اور ان کی جگہ پر تا ثیر مضمونوں نے پائی ہے۔ ہر ایک کو لئیق اور قابل مضمونوں کی تحریروں کے جانچنے اور ان کی قدر کرنے اور ان سے مزا اٹھانے کی لیاقت پیدا ہو گئی ہے۔ اور رفتہ رفتہ تمام قوم عالم اور محقق کے لقب کی مستحق ٹھہر گئی۔ ’’اسپیکٹیٹر‘‘ کے پڑھنے والوں کو علم انشا ء کی وہ خوبی جو اڈیسن کے ذہن میں تھی ، معلوم ہوئی۔سب لوگ اس کی تحریر کی لطف و صفائی کی تعریف کرنے لگے۔ اور سب لوگوں کو ایسے شخصوں کے جانچنے کی جو علم انشا میں ناموری کے خواہاں ہوتے تھے، لیاقت حاصل ہو گئی۔ ان پرچوں سے صرف علم انشاء اور علم ادب ہی میں ترقی نہیں ہوئی۔ بلکہ اخلاق اور عادات اور خصلت کو بھی بہت کچھ ترقی ہوئی۔ نیکی کے برتاؤ میں جو خود انسان کی اپنی ذات سے اور اپنے خویش و اقربا سے، دوست آشنا ، یگانہ وبیگانہ سے علاقہ رکھتی ہے۔ نہایت اعلیٰ درجے کی تہذیب حاصل ہوئی اور خود تہذیب وشائستگی کو ایسی عمدہ صیقل ہوئی۔ جس کی آج تک کوئی نظیر نہیں۔ ملکی امورات کی بحث ومباحثہ میں جو تیزی وعداوت اور دشمنی پیدا ہوتی ہے۔وہ تھوڑے سے عرصے میں نہایت کم ہو گئی۔اور جو لیاقت کہ صرف بحث ومباحثے میں صرف ہوتی تھی۔وہ خوش گوار پانی کی مانند خوبصورت نہروں میں بہنے لگی۔جنہوں نے اخلاق اور علم وادب کو سیراب کر کے لوگوں کے دلوں کے خراب اور برے جوش کو پاک کر دیا۔ ہندوستان میں ہماری قوم کاحال اس زمانہ سے بھی زیادہ بد تر ہے۔ اگر ہماری قوم میں صرف جہالت ہی ہوتی تو چنداں مشکل نہ تھی۔ مشکل تو یہ ہے کہ قوم کی قوم جہل مرکب میں مبتلا ہے۔ علوم جن کا رواج ہماری قوم میں تھا یا ہے ، اور جس کے تکبر اور غرور سے ہر ایک پھولا ہوا ہے۔ دین ودنیا دونوں میں بکار آمد نہیں۔ غلط اور بے اصل باتوں کی پیروی کرنا اور بے اصل اور اپنے آپ پیدا کیے ہوئے خیالات کو امور واقعی اور حقیقی سمجھ لینا اور پھر ان پر فرضی بحثیں بڑھاتے جا نا۔اور دوسری بات کو گو وہ کیسی ہی سچ اور واقعی ہی کیوں نہ ہو نہ ماننا۔لفظی بحثوں پر علم وفضیلت کا دار ومدار ان کا نتیجہ ہے۔ علم ادب وانشا ء کی خوبی صرف لفظوں کے جمع کرنے اور ہم وزن اور قریب التلفظ کلموں کے تک ملانے اور دور از کار خیالات بیان کرنے اور مبالغہ آمیز باتوں کے لکھنے پر منحصر ہے۔ یہاں تک کہ دوستانہ خط وکتابت اور چھوٹے چھوٹے روز مرہ کے رقعوں میں بھی یہ سب برائیاں بھری ہوئی ہیں۔ کوئی خط یا رقعہ ایسا نہ ہو گا کہ جس میں جھوٹ اور وہ بات جو کہ دل میں نہیں ہے مندرج نہ ہو۔ خطوط رسمیہ کے پڑھنے سے ہر گز تمیز نہیں ہو سکتی۔ کہ حقیقت میں اس خط کا لکھنے والا ایسا ہی ہمارا دوست ہے۔ جس کے لکھنے کا عموما رواج پڑ گیا ہے۔ پس ایسی طرز تحریر نے تحریر کا اثر ہمارے دلوں سے کھو دیا ہے۔اور ہم کو جھوٹی اور بناوٹی تحریر کا عادی بنا دیا ہے۔ فن شاعری جیسا ہمارے زمانے میں خراب اور ناقص ہے۔ اس سے زیادہ اور کوئی چیز بری نہ ہو گی۔ مضمون تو بہ جز عاشقانہ کے کچھ نہیں ہے۔ وہ بھی نیک جذبات انسانی کو ظاہر نہیں کرتا۔ بلکہ ان بد جذبات کی طرف اشارہ کر تا ہے کہ جو ضد حقیقی تہذیب و اخلاق کے ہیں۔ خیال بندی کا طریقہ اور تشبیہہ و استعارہ کا قاعدہ ایسا خراب و ناقص پڑ گیا ہے۔ جس سے ایک تعجب تو طبیعت پر آتا ہے۔ مگر اس کا اثر مطلق دل میں یا خصلت میں یا اس انسانی جذبہ میں جس سے وہ متعلق ہے۔کچھ بھی نہیں ہوتا۔ شاعروں کو یہ خیال ہی نہیں ہے کہ فطرتی جذبات اور ان کی قدرتی تحریک اور ان کی جبلی حالت کا کسی پیرایہ یا کنایہ و اشارہ یا تشبہیہ و استعارہ میں بیان کرنا کیا کچھ دل پر اثر کرتا ہے۔ ملٹن کی پاریدیزات لاست کچھ چیز نہیں ہے۔ بجز اس کے کہ اس نے انسان کا نیچر یعنی قدرتی بوٹ طبیعت کو بیان کیا ہے۔جو نہایت موثر انسان کی طبیعت پر ہے۔ علم دین تو وہ خراب ہوا ہے۔ جو خراب ہونے کا حق ہے۔اس معصوم سیدھے سادے اور سچے پیغمبر نے جو خدا تعالیٰ کے احکام بہت سدھاوٹ و صفائی و بے تکلفی سے جاہل ،ان پڑھ، بادیہ نشین عرب کی قوم کو پہنچائے تھے۔ اس میں وہ نکتہ چینیاں ، باریکیاں گھسیڑی گئیں اور وہ مسائل فلسفیہ اور دلائل منطقیہ ملائی گئیں کہ اس میں اس صفائی اور سدھاوٹ اور سادا پن کا مطلق اثر نہ رہا۔ بہ مجبوری لوگوں کو اصلی احکام کو جو قرآن ومعتمد حدیثو ں میں تھے۔ چھوڑنا پڑا ۔ اور زید وعمر کے بنائے ہوئے اصولوں کی پیروی کر نا پڑی۔ علم مجلس اور اخلاق وبرتاؤ دوستی کا ایک ایسے طریقے پر پڑ گیا ہے کہ جو نفاق سے بھی بد تر ہے۔ اور اخلاق صرف منہ سے میٹھی میٹھی باتیں بنانے اور اوپری تپاک جتانے کا نام ہے۔ آپس میں دو شخص ایسی محبت اور دل سوزی کی باتیں کرتے ہیں کہ دیکھنے سننے والے ان دونوں کو یک مغز ودوپوست سمجھتے ہیں۔ مگر جب ان کے دل کو دیکھو تو یک پوست ودومغز سے زیادہ بے میل ہیں۔ صرف مکاری اور ظاہر داری کا نام اخلاق رہ گیا ہے۔اور بے ایمانی اور دغا بازی کا نام ہو شیاری رہ گیا ہے۔ گفتگو پر خیال کرو تو عجب ہی لطف دکھائی دیتا ہے۔ اگر چہ اکھڑ لفظ تو نہیں ہوتے۔ مگر ہزاروں اکھڑ مضمون زبان سے نکلتے ہیں۔ نہایت مہذب و معقول و ثقہ نیک ودین دار آدمی بھی اپنی گفتگو میں تہذیب و شائستگی کا مطلق خیال نہیں رکھتا۔ دوست کی بات کو جھوٹ کہہ دینا۔ دوست کی نسبت جھوٹ کی نسبت کر دینا یہ تو اونیٰ ادنیٰ روز مرہ کی بات ہے۔ ایک نہایت نیک آدمی اپنے بڑے مقدس دوست کے بیٹے سے عین حالت تپاک اور خوش اخلاقی اور جوش محبت کی باتوں میں کہہ رہا تھا کہ تمہارے باپ تو جھوٹوں کے بادشاہ ہیں۔وہ دن رات سینکڑوں گپیں ہانک دیتے ہیں۔ ان کی بات پر کیا اعتبار ہے؟۔ پس افسوس ہے ہم کو خود اپنے پر کہ ہمارے ایسے دوست ہیں۔ اگر اشراف جوان دوستوں کی محفل میں جاؤ تو سنو کہ وہ آپس میں کیسی گالم گلوچ اور فحش باتیں ایک دوسرے کی نسبت کرتے ہیں۔ایک نہایت معزز شریف خاندانی آدمی نے جو صاحب تصنیف ہیں۔ اور اردو کے علم وادب میں مشہور ہیں۔تیس منٹ مجھ سے دوستانہ گفتگو کی۔اور میں نے خوب خیال کر کر گنا کہ ان کے منہ سے چھتیس لفظ گالیوں کے نکلے۔جن میں سے کچھ اپنی نسبت تھیں اور کچھ کتاب اور اس کے مصنف کی نسبت جس کا ذکر تھا۔ اور کچھ ادھر ادھر بیٹھنے والوں اور سننے والوں کی نسبت۔ امیروں کا حال دیکھو تو ان کو دن رات بٹیر لڑانے، مرغ لڑانے اور کبوتر لڑانے اور اور اسی طرح تمام لغویات میں اپنی زندگی بسر کرنے کے سوا اور کچھ کام ودھندا نہیں۔ غرض کہ وہ کچھ اس زمانے میں فرنگستان میں تھا۔وہی کچھ بلکہ اس سے بھی زیادہ اب ہندوستان میں موجود ہے۔ اور بلا شبہ ایک ’’ٹیٹلر‘‘ اور ایک ’’اسپیکٹیٹر‘‘ کی یہاں ضرورت تھی۔ سو خدا کاشکر ہے کہ یہ پرچہ ان ہی کے قائم مقام مسلمانوں کے لئے ہندوستان میں جاری ہوا ۔مگر افسوس ہے کہ یہا ں کوئی اسٹیل اور اڈیسن نہیں ہے۔ اسٹیل اور اڈیسن کو اپنے زمانے میں ایک بات کی بہت آسانی تھی۔ کہ ان کی تحریر اور ان کے خیالات جہاں تک کہ تھے۔ تہذیب و شائستگی و حسن معاشرت پر محدود تھے۔ مذہبی مسائل کی چھیڑ چھاڑ ان میں کچھ نہ تھی۔ہم بھی مذہبی خیالات سے بہت بچنا چاہتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں تمام رسمیں اور عادتیں مذہب سے ایسی مل گئی ہیں کہ بغیر مذہبی بحث کیے ایک قدم بھی تہذیب و شائستگی کی راہ پر نہیں چل چکتے۔ جس بات کو کہو کہ چھوڑو ، جواب ملے گا کہ مذھباً ثواب ہے۔اور جس بات کو کہو کہ سیکھو فورا کوئی بولے گا کہ مذھباً منع ہے۔ پس ہم مجبور ہیں کہ ہم کو تہذیب وشائستگی اور حسن معاشرت سیکھانے کے لئے ہم کو مذہبی بحث کرنی پڑتی ہے۔ مذہبی بحث کرنے کا ایک عجیب سلسلہ ہے کہ ایک چھوٹی سی بات پر بحث کرنے کے لئے بڑے بڑے مسائل اور اصول مذہب بحث میں آ جاتے ہیں۔اور اس لیے لاچار ہم کو کبھی فقہ سے بحث کر نا پڑتی ہے۔ اور کبھی اصول فقہ سے اور کبھی حدیث سے بحث کرنی ہوتی ہے۔ اور کبھی اصول حدیث سے اور کبھی تفسیر سے بحث کرنی پڑتی ہے اور کبھی اصول تفسیر سے۔ پس ہندوستان میں صرف اسٹیل اور اڈیسن ہی کی ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ مقدس لوتھر کی بھی بہت بڑی حاجت ہے۔ اسٹیل اور اڈیسن کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے زمانہ کے لوگ ان کی تحریروں کو پڑھتے تھے اور قدر کرتے تھے۔ ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ ہماری تحریروں کو مذہب کے خلاف کہا جاتا ہے۔اور ان کا پڑھنا باعث عذاب سمجھا جاتا ہے۔ اسٹیل اور اڈیسن اپنے ہر پرچہ کے شائع ہونے کے بعد واہ واہ کی آواز سننے سے اپنی محنت ، مشقت، فکر وخیال کی کلفت کو دور کرتے ہو ں گے۔اور ہم اپنی تحریروں کے مشتہر ہونے پر سوائے لعنت وملامت سننے کے اور کسی بات کی توقع نہیں رکھتے ہیں۔ اسٹیل اور اڈیسن جن لوگوں سے بھلائی کرتے تھے۔ ان سے بھلا سنتے تھے۔ہم جن کی بھلائی چاہتے ہیں۔ ان سے برائی پاتے ہیں۔ جن کے حق میں بھلا کہتے ہیں۔ ان سے برا سنتے ہیں۔ اسٹیل اور اڈیسن کو ہزاروں دل اپنی طرف کرلینے کچھ مشکل نہ تھے۔اور ہم کو ایک دل بھی اپنی طرف کرنا نہایت مشکل ہے۔ اسٹیل اور اڈیسن کو بنے بنائے دل اپنی طرف جھکانے تھے اور ہم کو مشکل یہ ہے کہ دل بھی ہم ہی کو بنانا ہے۔ اور ہم ہی کو اس کو جھکانا ہے۔ لوگ ہمارے ان خیالات کو جنون اور مالخولیا بتاتے ہیں۔مگر دیوانہ بکار خویش ہو شیار۔ہم خوب سمجھتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔اور اسی قلیل زمانہ میں ہم نے کیا کچھ کیا ہے۔اسی لئے ہم آئندہ کی بہتری کی خدا سے توقع رکھتے ہیں۔اور اچھے دن آنے والوں کی پشین گوئی کرتے ہیں۔ گو ان کے آنے کا زمانہ ہم نہیں جانتے۔ مگر یقین کرتے ہیں کہ ضرور بے شک آنے والے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم اس مسکین پرچہ کے ذریعہ سے ہندوستان میں وہ کچھ کریں گے جو اسٹیل اور اڈیسن نے انگلستان میںکیا ہے۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جہاں تک ہم سے ہو سکتا ہے۔ ہم اپنا فرض پورا کرتے ہیں۔ واللہ در من قال السعیی منی الاتمام من اللہ تعالیٰ انتخاب الفا ظ ماٹو برائے تہذیب الاخلاق (تہذیب الاخلاق جلد ششم نمبر ۶ ، بابت ۱۵ ربیع الاول ۱۲۹۲ ھ) جب سے ہم نے کتاب اقوام المسالک تصنیف صدر المہام امیر الامرا ء سید خیر دین وزیر سلطنت ٹونس کی پڑھی، جب سے ہم کو ٹونس کی قومی ترقی کے حالات دریافت کرنے کا بڑا شوق تھا۔ کیوں کہ ہم خیال کرتے تھے کہ جب ایسا عالی دماغ، روشن ضمیر وزیر اس سلطنت میں ہے۔ تو ممکن نہیں کہ قوم نے ترقی نہ کی ہو۔ الحمد للہ کہ اس وقت یہ توجہ جناب منشی فضل عظیم صاحب مالک پنجابی اخبار کے ہمارے پاس ٹونس کا اخبار پہنچا۔ جس کا نام ’’الرائد التونسی‘‘ ہے۔ اس کے پہلے فقرے نے ہمارے دل کو شیدا کر دیا۔ اور ہم کو اسی فقرہ سے ایسا کامل قوم کی ترقی پر یقین ہو گیا کہ اگر دفتر کے دفتر پڑھتے۔ جب بھی ایسا یقین نہ ہوتا اور وہ فقرہ جو اس اخبار کا ماٹو ہے وہ یہ ہے کہ: حب الوطنی من الایمان فمن یسع فی عمران بلادہ، انما یسعی فی اعزاز دینہ‘‘۔ بے اختیار ہمارے دل نے چاہا کہ ہم بھی اس ماٹو کو اس اخبار سے مانگ لیں اور چند حرفوں کی تبدیلی سے اس کو اپنے اس ناچیز پرچہ کا ماٹو اور اپنے دل کی صدا بنا لیں۔چنا نچہ ہم نے ایسا ہی کیا اور آئندہ سے مندرجہ ذیل فقرہ ہمارے اس نا چیز پرچہ کا زیب عنوان ہوا کرے گا: ’’ حب القوم من الایمان فمن یسع فی اعزاز قومہ انما لسعیٰ فی اعزاز دینہ‘‘ ہم اپنے دوستوں کو خوش خبری سناتے ہیں کہ ترجمہ اقوم المسالک بالکل چھپ گیا ہے اور اب عن قریب اس کے فروخت کا اشتہار دیا جاوئے گا۔ ٭٭٭ نور الآفاق اور تہذیب الا خلاق (تہذیب الاخلاق جلد ہفتم بابت یکم رجب ، ۱۲۹۴ ھ) ہم کو نہایت رنج اور افسوس ہے کہ ہمارا ناصح مشفق جس سے ہمارے خیالات کو زیادہ عمدہ ہونے کا موقع ملتا تھا۔ اور ہمارے نفس امارہ کی اس سے سر کوبی ہوتی رہتی تھی۔ اور ہمارے دلی اخلاق اس سے وسعت پاتے تھے۔دنیا سے جاتا رہا۔ یعنی ’’نور الفآق‘‘ جو بہ جواب مضامین ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کانپور میں چھپتا تھا۔ اس کے مہتمم نے اپنے پرچے مطبوعہ ۲ رجب ۱۱۹۴ ھ مطابق ۱۴ جولائی ۱۸۷۷ ء میں مشتہر کر دیا کہ آئندہ سے نور الآفاق کا چھپنا موقوف ہوا۔ وجہ موقوفی یہ لکھی کہ نور الآفاق کے جواب دینے پر کوئی متوجہ نہیں ہوا۔ اور یہ کہ دربار دہلی میں سی۔ ایس ،آئی سید احمد خاں صاحب نے سید امداد العلی خاںبہادر ڈپٹی کلکٹر مراد آباد سے بصدق دل یہ اقرار فر مایا کہ اب ہم کبھی کوئی مباحثہ مذہبی ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں نہ چھاپیں گے۔جب بفضل اللہ تعالی سید صاحب مو صوف کو یہ خیال آیا اور ان کا دل جانب حق میلان پایا۔ پس اب ہم بھی اس اخبار ’’نور الآفاق‘‘ کو موقوف کرتے ہیں کہ مقصود اصلی ہمارا یہ تھا کہ حق ظاہر ہو جاوے۔ اور حق تعالیٰ اہل اسلام کو اغوانی فرقہ نیچریہ سے بچائے‘‘۔ خیر سبب موقوفی کچھ ہی ہو۔ مگر ہم کو اپنے ناصح مشفق کے نہ رہنے کا افسوس ہے۔ مولوی سید امداد العلی خاںبہادر ڈپٹی کلکٹر مراد آباد ہمارے قدیم دلی دوست ہیں۔ گو ان کے مزاج میں ذرا غصہ ہے۔ مگر ہم نہایت صدق دل سے بیان کرتے ہیں کہ ایسے یک رنگ دوست ظاہر و باطن، حاضر و غائب یکساں جیسے کہ ہمارے مولوی امداد العلی خاں بہادر سی، ایس،آئی ہیں۔ویسے بہت کم دنیا میں ہیں۔گو انھوں نے ہمارے عقائد کو یا ہمارے مسائل کو یا ہمارے اجتہاد کو یا ہمارے خیالات کو نا پسند کیا ہو۔ اور کیسا ہی غصہ ان کو ہم پر آیا ہو۔ مگر کبھی ہمارے خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ ہماری اور ان کی دوستی میں بھی کچھ فرق ہوا ہو۔ اور جو دوستانہ محبت ان کو ہمارے ساتھ ہے۔اس میں کچھ کمی ہوئی ہو۔اور ہم نے کسی مجلس اور موقع میں حاضر و غائب بجز ان کے ادب وتعظیم کے کوئی کام نہیں کیا۔ہم نے ہزاروں آدمیوں کے سامنے کہا اور شاید لکھا بھی کہ اگر مولوی امداد العلی خاں بہادر سی، ایس،آئی ہم پر اس لئے غصہ ہیں کہ ہم نے ان کی دانست میں کوئی بات خلاف مذہب اسلام کرنے یا کہتے ہیں تو ان کا غصے ہونا نہایت قابل تعریف وتوصیف ہے۔ اور ہم کواس سے خوشی ہونی چاہیئے۔اور ان کااحسان ماننا چاہیئے۔نہ کہ رنجیدہ ہونا۔لیکن اسی کے ساتھ ہم کو خدا کا شکر بھی ا دا کرنا چاہیئے کہ ہم اپنی دانست میں وہ نہیں کرتے جو ہمارے شفیق دوست نے تصور کیا ہے۔ ہم کو نہایت آرزو ہے کہ تمام مسلمان قوم بھلائی کے کاموں میں ہر قسم کے تفرقہ کو اٹھا ڈالیں اور قومی کام میں مدد کریں۔کیوں کہ جب تک قوم نہ ہو گی۔اس وقت تک کوئی بھلائی کی صورت نظر نہیں آئے گی۔ہم نے اپنی دانست میں مدرسۃ العلوم قومی بھلائی کے لیے قائم کیا ہے۔ اور اگر ہماری قوم اس پر متوجہ ہو گئی اور اس کی پوری تکمیل کر دے گی تو ضرور فوائد عظیمہ ہماری قوم کو اس سے حاصل ہو ںگے۔ پس ہماری آرزو یہ ہے کہ تمام قوم کے اعلیٰ و ادنیٰ درجہ کے لوگ اس میں مدد کریں۔ مولوی امداد العلی خاں بہادر سی، ایس،آئی جو فضل الہیٰ سے ہماری قوم میں ایک بہت بڑے اعلیٰ افسر ورئیس ہیں اور ہمارے بہت بڑے شفیق دوست ہیں۔مدرسۃ العلوم میں ان کے شریک نہ ہونے سے ہم کو نہایت رنج ہے اور نیز قوم کی بھلائی میں نقصان ہے۔اور ہم جب ان سے ملتے ہیں اور مدرستہ العلوم میں شریک ہونے کی التجا کرتے ہیں ۔دربار دہلی میں بھی ہم نے ان سے التجا کی ۔انھوں نے فرمایا کہ دوشرط سے ہم شریک ہو ں گے۔اول یہ کہ تہذیب الاخلاق کا چھاپنا بند کرو۔یا اس میں کوئی مضمون متعلق مذہب مت لکھو۔دوسرے یہ کہ اپنے عقائد و اقوال سے جو بر خلاف علمائے متقدمین ہیں، توبہ کرو۔پچھلی بات تو میرے اختیار سے باہر تھی۔کیوں کہ جس بات پر میں یقین کرتا ہوں۔ جب تک وہ یقین زائل نہ ہو۔کیوں کر اس کے دل سے کھو سکتا ہوں ۔پس جب تک دل پر یقین نہ ہو زبانی توبہ کے لفظ بے سود ہیں۔ہاں پہلی بات میرے اختیار میں ہے۔ اگر آپ مدرستہ العلوم کی تائید میں دل سے شریک ہوں تو میں آج ہی تہذیب الاخلاق کو بند کر دوں گا۔کیوں کہ میری رائے میں جناب مولوی امداد العلی خاں بہادر سی، ایس،آئی کا دل سے مدرستہ العلوم کی تا ئید کرنا بہ نسبت جاری رکھنے تہذیب الاخلاق کے قوم کے لئے زیادہ مفید ہے۔ پس ہم اس اپنے اقرار کو موکد کرتے ہیں اور خدا سے دعا مانگتے ہیں کہ ہمارے پرانے دوست مولوی امداد العلی خاں بہادر سی، ایس،آئی کا دل خدا مدرستہ العلوم کی طرف مہر بان کر دے۔وہ ہمارے ساتھ شریک ہو ں اور مدرستہ العلوم کے لئے چندہ جمع کریں۔ جس طرح کہ ٹرکی کے چندہ میں انھوں نے ثواب کمایا۔اسی طرح اس میں بھی کماویں۔ہم آج ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا چھاپنا بند کر دیں گے۔ وما ابر ء نفسی ان النفس لا مارۃ بالسو ء الا ما رحم ربی ، ہم کو کچھ نفسیانیت نہیں ہے۔ ہماری سمجھ میں قوم کی بھلائی کے لئے جو بات آتی ہے۔ وہ کرتے ہیں ،شاید اس میں غلطی ہو۔ مگر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایک بات کے ترک ہونے سے دوسری بات زیادہ مفید قوم کو میسر ہوتی ہے۔ تو ہم کو اس کے ترک میں کیا عذر ہے۔ تامل ہے تو یہی ہے۔کہ ایسا نہ ہو کہ وہ ہاتھ نہ آؤئے اور یہ بھی جاتی رہے۔ اور وہی چوبے کی نقل ہو جاوئے کہ چھب ہونے گئے تھے۔دوبے رہ گئے۔ ٭٭٭ آخری پرچہ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ (تہذیب الاخلاق ، بابت رمضان المبارک ، ۱۲۹۴ھ) ( یہ مضمون سرسید نے اس وقت لکھا تھا۔ جب سات سال مسلسل جاری رہنے کے بعد تہذیب الاخلاق پہلی دفعہ بند ہوا۔) (محمد اسماعیل ) سوتوں کو جھنجوڑتے ہیں ۔ تاکہ جاگ اٹھیں،اگر اٹھ کھڑے ہوں تو مطلب پورا ہو گیا اور اگر نیند میں اٹھانے سے کچھ بڑ بڑائے اور کشھ جھنجھلائے۔ ادھر ہاتھ جھٹک دیا۔ادھر پیر پٹک دیا اور جھنجھلاہٹ میں پڑے اینڈتے رہے تو بھی توقع ہوئی کہ تھوڑی دیر میں جاگ اٹھیں گے۔شاید ہمارے بھائیوں کی اس اخیر درجہ تک نوبت آگئی ہے۔اگر یہ خیال ٹھیک ہو تو ہم کو بھی زیادہ چھیڑنا نہیں چاہیئے۔ اور ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کو بند کر کر دور سے نیند کے ان خمار آلودوں کو جو اب صرف جھنجھلاہٹ سے اینڈے پڑے ہیں اٹھنا اور ہوشیار ہوتا دیکھنا چاہیئے۔بچے اٹھاتے وقت کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم اٹھاؤ گے تو ہم اور پڑے رہیں گے۔ تم ٹھہر جاؤ۔ ہم خود ہی اٹھ کھڑے ہو ں گے۔بچہ کڑوی دوا پیتے وقت بسور کر ماں سے کہتا ہے کہ بی یہ مت کہے جاؤ کہ شاباش بیٹا پی لے پی لے۔تم چپ رہو میں آپ ہی آپ پی لوں گا۔لو بھائیو اب ہم بھی نہیں کہتے کہ اٹھو اٹھو پی لو پی لو۔تم چپ ہو رہو میں آپ ہی پی لوں گا۔لو بھائیو اب ہم بھی نہیں کہتے کہ اٹھو اٹھو۔ پی لو ،پی لو، اس سے میرا مطلب یہ نہیں کہ میں اپنے کو ناصح مشفق سمجھتا ہوں۔ بلکہ جو ہٹ اور جو حالت ہمارے قوم کی ہے۔ اس کو جتلانا چاہتا ہوں۔ ایک دن تھا کہ ہم بھی اسی رنگ میں مست تھے۔ایسی گہری نیند سوتے تھے کہ فرشتوں کے اٹھائے بھی نہیں اٹھتے تھے۔اب ہماری مثل یہ ہے کہ۔ لوآج میر مسجد جامع کے ہیں امام داغ شراب دھوتے تھے کل جا نماز کا کیا کیا خیالات ہماری قوم کے ہیں۔اور جو ہم میں نہ تھے۔اور کیسی کیسی کالی گھٹائیں ہماری قوم پر چھا رہی تھیں۔جو ہم پر نہ تھیں۔جب رند تھے تو فرہاد سے بڑھ کر تھے۔جب زاہد خشک تھے تو نہایت ہی اکھڑ تھے۔جب صوفی تھے تو رومی سے بر تر تھے۔اب خاکسار ہیں اور اپنی قوم کے غم خوار ہیں۔تم کو کس نے جگایا۔ دل اور زمانہ نے۔ دل کی گھڑت ایسی تھی کہ جس میں ہمیشہ غم خواری تھی۔پر سوتا تھا کہ زمانے نے جھٹکا دیا اور اٹھا دیا۔دفعتا دیکھا کہ دنیا الٹ گئی ہے۔اور رنگ برنگ کی پھلواڑی سب اجڑ گئی ہے۔قوم کی ھالت وہ دیکھی کہ خدا کسی کو نہ دکھلائے۔ اسلام کی وہ صورت پائی کہ خدا کرے کافر بھی نہ پائے۔ اسی بربادی کے سبب غیر قوم کو تو اور ہی خیال ہوا۔پر غلط ہوا۔ اور مجھ کو جو ہوا وہ خود اپنی قوم کی حالت کا ابتر ہونا تھا۔ قوم کیا دنیا کی باتوں میں اور کیا دین کے کاموں میں ایسے تاریک گڑھے میں پڑی تھی۔کہ ادھر ادھر کی چیزیں تو درکنار۔وہ اس گڑھے کو بھی نہ دیکھ سکتی تھی۔جس میں پڑی تھی۔پھر میرا دل ہی تھا۔ پتھر نہ تھا۔ جو نہ پگلتا اور نہ اپنی قوم کی حالت پر غم نہ کرتا۔ ایک مدت تک اسی غم میں پڑا سوچتا رہا۔کہ کیا کیجیئے؟۔جو خیالی تدبیریں کرتا تھا۔ کوئی بن پڑتی معلوم نہ ہوتی تھی۔جتنی امیدیں کرتا تھا۔ سب ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھیں۔ آخر یہ سوچا کہ سوچنے سے کرنا بہتر ہے۔کرو جو کچھ کر سکو۔اسی بات پر دل ٹھہرا۔ہمت نے ساتھ دیا اور صبر نے سہارا۔اور اپنی قوم کی بھلائی میں قدم گاڑا۔ اس میں خدا کی طرف کا بدلہ تو نہ جب معلوم تھا اور نہ اب معلوم ہے۔مگر قوم کی طرف کا بدلہ اسی وقت سے معلوم تھا۔جو اب ظاہر ہے۔ کافر، ملحد،مرتد، زندیق، اسلام کا دشمن، مسلمانوں کا حاجی، قوم کاعیب جو ، دین ودنیا سے آزاد، کہنا اور نام پر دوچار صلواتیں سنانا اور ہم پر اس کا مثل صادق آنا کہ ’’دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘مگر شکر ہی کہ ان کی کسی بات نے ہمارا دل نہیں دکھایا اور ہمیشہ ہمارے دل میں یہی آیا کہ اے خدا ان پر رحم کر۔ کیوں کہ وہ نہیں جانتے۔ انھی قومی بھلائی کے ولولوں میں سے ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ نکالنا بھی ایک ولولہ تھا۔ جس کا اصلی مقصود قوم کو اس کی دینی اور دنیاوی ابتر حالت کا جتلا نا اور سوتوں کو جگانا بلکہ مردو ں کو جگانا۔اور بند سڑے ہوئے پانی میں تحریک پیدا کرنا۔ یقین تھا کہ سڑے ہوئے پانی کو ہلانے سے بد بو زیادہ پھیلے گی۔مگر ھرکت آجانے سے پھر خوش گوار ہو جانے کی توقع ہوئی تھی۔پس کیا ہم نے جو کچھ کرنا تھا۔ اور پایا ہم نے کہ جو کچھ پا نا تھا۔مگر خدا سے آرزو ہے کہ اگر ہم نے وہ نہیں کیا جو ہم کو کرنا تھا تو وہ وہی کرے گا جو اس کو کرنا ہے۔ از بندہ خضوع والتجا می زیبد بخشائش بندہ از خدا می زیبد گر من کنم آں کہ آن مرا نا زیبا ست تو کن ہمہ آں کہ آں ترا می زیبد سات برس تک ہم نے بذریعہ اپنے اس پرچہ کے اپنی قوم کی خدمت کی۔ مذہبی بے جاجوش سے وہ جس تاریک گڑھے میں وہ چلی جاتی تھی۔ اس سے خبردار کیا۔ دنیاوی باتوں میں جن تاریک خیالات کے اندھیرے میں وہ مبتلا تھی۔اس میں ان کو روشنی دکھلائی۔ مذہب اسلام پر جس قدر گھٹائیں چھا رہی تھیں۔ ان کو ہٹایا اور اس کے اصل نور کو جہاں تک ہم سے ہو سکا چمکایا۔اردو زبان کاعلم ادب جو بد خیالات اور موٹے وبھدے خیالات کا مجمع ہو رہا تھا۔ اس میں بھی جہاں تک ہم سے ہو سکا۔ہم نے اصلاح چاہی۔یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس میں ہم نے کچھ کیا۔ مگر ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنی دانست میں ان باتوں میں بہ قدر اپنی طاقت کے کوشش کی۔قومی ہمدردی، قومی عزت، سلف آنر یعنی اپنے آپ اپنی عزت کا خیال، اگر ہم نے اپنی قوم میں پیدا نہیں کیا، تو ان لفظوں کو تو ضرور اردو زبان میں داخل کیا۔ ہم نے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو۔مگر ہر طرف سے تہذیب وشائستگی کا غلغہ سنا۔ قومی ہم دردی کی صداؤں کا ہمارے کانوں میں آنا، اردو زبان کے علم وادب کاترقی پانا۔یہی ہماری مرادیں تھیں جن کو ہم نے بھر پایا۔اب بہت لوگ ہیں جو ان باتوں کو پکارتے ہیں۔گو اس وقت ٹہری مہری لہریں کھاتے ہیں۔مگر پانی میں حرکت ہی آجانا کافی ہے۔پھر وہ خود اپنی پنسال میں آپ چورس ہو رہے گا۔ اس لئے مناسب ہے کہ اب ہم بس کریں اور پانی کو آپ ہی آپ چورس ہونے دیں۔ ہمارے دوست ہماری اس خاموشی کا کوئی سبب دور از کار خیال نہ کریں گے۔ اور نہ اس پر التفات کریں گے۔جو ہمارے ناصح نور الآفاق نے اپنے اخیر پرچہ میں لکھا تھا۔ بلکہ یہ خیال کریں گے کہ ہم کسی دوسری قومی بھلائی کے کاموں میں مصروف ہو ںگے، جو اس سے بھی زیادہ قوم کو مفید ہو گا۔خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’ما ننسخ من آیتہ او ننسھا نات بخیر منھا او مثلھا ۔‘‘اگر چہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے بہت سے ایسے دوست ہیں کہ جو اس پرچہ کے بند ہونے سے نہایت ہی شکستہ خاطر ہو ں گے۔مگر ہم ان سے معذرت کرتے ہیں اور اب اس پرچہ کو ان سے رخصت کرتے ہیں،اور وہ دن اب آنے والا ہے کہ ہم خود ہی ان سے رخصت ہو ںگے۔ ہم نے اپنے اس ارادہ سے اپنے بعض دوستوں کو مطلع کیا تھا۔ اور جب ان کو معلوم ہو گیا کہ ہم نے یہ ارادہ مصمم کر لیا ہے۔ تو انھوں نے ہمارے ان سات برس کے پرچوں کو ریویو لکھے ہیں۔ جن کو کم نہایت احسان مندی وشکر گزاری سے اس اپنے اخیر پرچہ میں درج کرتے ہیں۔والسلام۔ ٭٭٭ اعلان متعلق قیمت ’’تہذیب الاخلاق‘‘ سر سید کا یہ مضمون جو ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں بطور اشتہار شائع ہوا تھا ، اس لحاظ سے ایک تاریخی چیز ہے کہ اس سے پرچہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی قیمت اور اس کی تاریخ پر خاص روشنی پڑتی ہے۔ اور رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے متعلق کئی ایسی نئی باتیں معلوم ہو تی ہیں کہ جو اس سے پہلے عام طور پر معلوم نہیں تھیں۔ یہ معلومات آئندہ زمانہ کے اس مورخ کے کام آئیں گی جو ’’تہذیب الاخلاق‘‘ اور اس کی تاریخ کے متعلق کوئی تحقیقی مضمون لکھنا چاہے گا۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) سابق میں ’’تہذیب الاخلاق‘‘ ابتدائے شوال ۱۲۸۷ھ لغایت آخر ۱۲۹۱ ھ تک کے کل پرچے بہ ترتیب موجود ہیں۔ اور ان کل پرچوں کی کل قیمت بلا محصول سوا چار روپے اور مع محصول پانچ روپے ہے۔ نقد قیمت بھیجنے پر خریداروں کو مل سکتے ہیں۔ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ طرز جدید جو بالفعل جاری ہے۔ اس جدید پرچہ کا سال نبوی سنہ کے حساب سے یعنی شوال سے شروع ہوتا ہے۔ اور رمضان کے آخیر پر ختم ہو تا ہے۔ اب کی مرتبہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ ابتدائے جمادی الاول ۱۲۹۶ھ سے چھپنا شروع ہوا ہے۔ جمادی الاول ۱۲۹۶ھ سے رمضان ۱۲۹۶ ھ تک یعنی پانچ مہینے کے پرچے فروخت کے لئے علیحدہ موجود ہیں۔اور وہ دو قسم کے کاغذ پر چھپے ہیں۔اور مندرجہ ذیل نقد قیمت کے وصول ہونے پر خریداروں کو مل سکتے ہیں۔ ولایتی سفید کاغذ پر چمڑے اور ابری سے مجلد تین روپے۔ زرد قسم کے ہندوستانی کاغذ پر ٹیس بندی کے طور سے مجلد ایک روپیہ آٹھ آنے۔ شوال ۱۲۹۶ ھ یعنی آغاز سنہ ۱۳۱۰ نبوی سے جو پرچے چھپنے شروع ہوئے۔وہ بھی سب موجود ہیں۔ان پرچوں کی سالانہ قیمت چھ روپے ہے۔اور سال تمام کی پیشگی قیمت کے وصول ہونے پر خریدار کو مل سکتے ہیں۔ ضرور ہے کہ ہر ایک خریدار پورے سال کے پرچے خرید کرے۔ آئندہ برسوں کے لئے بھی جب تک یہ پرچہ جاری ہے اور جب تک کوئی جدید شرح قیمت مقرر نہ ہو یہی چھ روپے سالانہ پیشگی قیمت رہے گی۔ زر قیمت کا بھیجنا جن صاحبوں کو خریداری منظور ہو، درخواست خریداری مع کل زر قیمت حسب تشریح مذکورہ بالا مولوی صاحب خواجہ محمد یوسف صاحب سیکرٹری سائنٹیفک سوسائٹی علی گڈھ بھیج دیں، مقام علی گڈھ ۲۴ مارچ ۱۱۸۰ ء (ربیع الاخر ۱۲۹۷ ھ) راقم سید احمد خاں ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا تیسری بار اجرا ء (’’تہذیب الاخلاق‘‘ جلد اول نمبر اول) (دور سوم) بابت یکم شوال ،۱۳۱۱ ھ) آمادہ گشتہ ام دگر اینک نظارہ را پیوند کردہ ام جگر پارہ پارہ را مگر کیا پھٹا کٹا جگر نظارہ کے قابل ہوتا ہے؟۔ٹوٹا برتن کیسا ہی جوڑو، جھو جرا ہی بولتا ہے۔ دوست کہتے ہیں کہ پھر ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جاری کرو۔ ویسے ہی جیسا پہلے تھا۔۔۔ مگر کہاں وہ ولولے اور کہاں دل میں وہ جوش؟۔لوگ سوتے تھے۔ ہم جھنجوڑتے تھے۔لوگ بہرے تھے ،ہم چلاتے تھے۔ وہ زمانہ گیا۔ نہ وہ ہم رہے اور نہ وہ وہ رہے۔ لوگ جاگے ہیں اور قومی ہمدردی کا راگ گاتے ہیں۔۔۔ الاپتے ہیں۔مگر ہاں بے سرے ہیں۔زمانے نے چال بدلی ہے۔اور نئی شطرنج بچھائی ہے۔پھر نہ پرانی چالیں کام کی ہیں اور نہ چلی جا سکتی ہیں۔ بخار دھیما پڑ گیا ہے۔پھر دوا بھی ویسی تیز نہیں چاہیئے۔ تکفیر کے فتوے ٹھنڈے پڑگئے ہیں۔نفرت الفت سے بدل گئی ہے۔انا الحق جس پر منصور دار پرکھینچا گیا تھا۔ سب بولنے لگے اور اگر آج ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا کچھ کام باقی ہے تو صرف انانیت کو مٹانا اور الحق بلوانا ہے۔ بند پانی بہہ نکلا ہے ،مگر ٹیڑھی راہ چلا ہے۔اور پتلی پتلی دھاروں میں بہتا ہے۔ اب ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا کام اس کو راہ پر لانا اور سب دھاروں کو اکٹھا کر کر دریا بنانا ہے۔ دوست کہتے ہیں کہ یہ تو معمے معمے میں صرف ایک بات پر اشارہ ہے۔’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے شروع میں لکھا گیا تھا کہ اس کا مقصود مسلمانوں کو کامل درجہ کی سویلیزیشن یعنی تہذیب اختیار کرنے پر مائل کرنا ہے۔اور سیویلائزڈ قوم کی آنکھوں میں معزز بنانا ہے۔پھر سویلزیشن کے یہ معنی لکھے گئے ہیں کہ اس سے مراد ہے انسان کے تمام افعال ارادی اور اخلاقی اور معاملات اور معاشرت، تمدن اور طریقہ تمدن اور صرف اوقات اور علوم اور ہر قسم کے فنون و ہنر کو اعلیٰ درجہ کی عمدگی تک پہنچانا اور ان کو نہایت عمدگی اور خوش اسلوبی سے برتنا۔جس سے اصلی خوشی اور جسمانی خوبی حاصل ہوتی ہے۔اور تمکن و وقار اور قدر ومنزلت حاصل کی جاتی ہے۔اور وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز نظر آتی ہے۔کیا یہ سب باتیں حاصل ہو گئی ہیں۔ حاشا و کلا۔ ایک عیسائی نے ٹرکی کی سیر کے بعد کہا تھا کہ ’’ترک جب تک مذہب اسلام کو نہ چھوڑیں گے مہذب نہ ہو ں گے‘‘ کیوںکہ مذہب اسلام انسان کی تہذیب کا مانع قوی ہے‘‘۔ فواد پاشا نے کہا تھا کہ اسلام میں وہ سب سچی باتیں ہیں جو دنیا کی ترقی کو حاصل کرنے والی اور انسانیت اور تہذیب اور رحم دلی کو کمال کے درجہ پر پہچانے والی ہیں۔ مگر ہم کو اپنی بہت سی رسوم وعادات کو جو اگلے زمانے میں مفید تھیں۔مگر حال کے زمانے میں نہایت مضر ہو گئی ہیں چھوڑنا چاہیئے۔‘‘ ایک اور انگریز مورخ نے ہندوستان کے مسلمانوں کی موجودہ حالت کی نسبت یہ لکھا تھا کہ ’’ہندوستان کے مسلمان ذلیل ترین امت سے ہیں‘‘ اور قرآن کے مسئلوں اور ہندوستان کی بت پرستی سے مل ملا کر ان کا مذہب ایک عجیب مجموعہ ہو گیا ہے۔ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ اس لیے جاری ہوا تھا کہ فواد پاشا کی رائے کو سچ کر دکھائے۔ مسلمانوں میں یہودیوں کے قصے اور رومن کیتھولک کے خیالات اور اعتقادات اور ہندوؤں کی رسمیں اور عادتیں مل گئی ہیں۔اور بہت سی باتیں خود ان کی طبیعتوں نے غلط فہمیوں سے پیدا کی ہیں۔ان سب کو الگ کر کے قوم کو اصلاح پر لاوے۔اور خالص مذہب کی روشنی دکھاوئے۔پھر کیا یہ سب باتیں پوری ہو چکی ہیں۔اس لئے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی ضرورت نہیں رہی۔ حاشا وکلا۔ (دوستوں نے کہا کہ) ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے بند کرنے کے وقت کہا گیا تھا کہ ہم اس سے بھی زیادہ ایک اور مفید کام میں مصروف ہوئے ہیں۔ غالبا اس سے مراد تفسیر قرآن مجید کا لکھنا تھا۔ تفسیر قوم اور مذہب کے لئے مفید ہو یا نہ ہو۔ اس سے بحث نہیں۔ مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا نفع قوم اور مذہب کو بہ نسبت تفسیر کے بہت زیادہ تھا۔ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی اشاعت بہت زیادہ تھی۔وقتا فوقتا اس سے لوگوں کے دلوں کی تسکین ہوتی رہتی تھی۔رسم ورواج کی بندشیں برابر ٹوٹتی رہتی تھیں۔تعلیم کی ترقی کے لئے ایک نہایت عمدہ ناصح تھا۔مذہبی مشکلات کو بھی چھوٹے چھوٹے آرٹیکلوں میں حل کرتا رہتا تھا۔ اس کے بند ہونے سے یہ سب باتیں بند ہو گئیں۔تفسیر کی قیمت اس قدر گراں ہے کہ ہر ایک کی دسترس نہیں ہے۔’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی قیمت بہت تھوڑی تھی اور ہزاروں آدمی اس کو لے سکتے تھے۔تفسیر صرف امور مذہبی میں نصیحت کرنے والی ہے۔’’تہذیب الاخلاق‘‘ امور مذہبی میں ، نیچرل سائنس میں،رسوم بد کے چھڑا نے میں، اور تمام مذہبی اور دینی امور میں نصیحت کرنے والا تھا۔تفسیر کو ضرور پورا کرنا چاہیئے۔مگر ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کو بھی برابر جاری رکھنا چاہیئے۔لازم ہے۔ ہر چند دوستوں کو سمجھایا کہ سوئی بھڑ کو کیوں جگاتے ہو؟۔ اور پھر ہم پر اور اپنے پر کیوں کفر کے فتوے لگواتے ہو؟۔ کیا سخت وسست اور لعنت وملامت سننے سے تمہارا دل نہیں بھرا؟۔ جواب ملتا ہے کہ نہیں بھرا‘‘ بلکہ سخنہائے دگر را ہم شنیدن آرزو دارم بہت سے دوستوں نے اس میں مضامین لکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔نواب محسن الملک، سید مہدی علی خاں بہادر نے اس کا بیڑا اٹھایا۔سید محمود احمد اسکوائر بیر سٹر ایٹ لا، مولوی سید کرامت حسین اسکوائر بیر سٹر ایٹ لا،مولانا مولوی الطاف حسین حالی، شمس العلماء خان بہادرمولوی محمد ذکا اللہ، شمس العلماء مولوی محمد شبلی نعمانی نے تو پکا وعدہ مضامین کی تحریر کا کر لیا ہے۔ اور ممکن نہیں ہے کہ مولانا مولوی حافظ نذیر احمد اور نواب اعظم یار جنگ، مولوی چراغ علی اور شمس العلماء مولوی سید علی بلگرامی اور نواب وقار الملک مولوی محمد مشتاق حیسن سے مضا مین لکھنے کی درخواست کی جاوے اور وہ منظور نہ کریں۔ ایک اور نیچری دوست ہم کو مل گئے ہیں جو نیچرل فلاسفی کو نہایت ہی عمدہ جانتے ہیں۔ سالمات (یعنی اجزائے صفاردی مقرا طیسی) سے دنیا اور ما فیہا کا بننا خیال کرتے ہیں۔(ہم ان کا نام نہیں بتاتے ایسا نہ ہو کہ برادری سے لوگ ان کو خارج کر دیں۔) ہم اور وہ مل کر بتا دیں گے کہ نیچرل سائنس اور تمام علوم جدیدہ کس طرح پر خدائے واحد کو سچ اور مذہب اسلام کو برحق بتاتے ہیں۔غرض کہ گو ہمارا دل کیسا ہی ٹوٹا ہوا ہو۔ مگر ہم امید کرتے ہیں کہ اب کا’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ اگر پہلے سے اچھا نہ ہو گا تو برا بھی نہ ہو گا۔اور اگر وہ مکاتبات دل چسپ بھی ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ میں چھپنے لگے جو ہم میں اور مولوی مہدی علی اور نواب محسن الملک میں بعض مسائل کی نسبت ہونے والے ہیں اور جن سے قصہ آدم یاد آجاوے گا۔اور کبھی سید احمد کو حکم ملے گا کہ مہدی علی کو سجدہ کرو۔اور کبھی مہدی علی کو حکم ہو گا کہ سید احمد کو سجدہ کرو۔تب تو ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ نہایت ہی دل چسپ ہو جاوئے گا۔اور خدا نہ کرے کہ ان دونوں میں سے کوئی یہ کہے کہ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین۔ وباللہ التوفیق سید احمد ان ھذا لشئی عجاب (تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ا ( دور سوم) بابت یکم شوال ۱۳۱۱ ھ صفحہ ۹، 10۔ لو صاحب ! اور’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ نکلواؤ اور خسر الدنیا والا خرہ بنو۔ خوب ہوا کہ سب سے پہلے ہمارے مخدوم مولوی حافظ نذیر احمد صاحب پر ہی لے دے ہو گئی۔گو مولفۃ قلوب بدک ہی کیوں نہ جائیں۔مگر مولوی نذیر احمد صاحب نے کہا سچ ہے کہ ابھی ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کے جاری رہنے کی بہت ضرورت ہے۔ ہمارے دوست ایڈیٹر نجم الاخبار ‘‘ اٹاوہ نے ایک ایڈیٹوریل آرٹیکل ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ اور اس کے معاونوں کی نسبت لکھا ہے ۔گو ہم کو تعجب ہوا ہے کہ ایڈیٹوریل میں کفر کا لفظ کیوں کر ان کی مقدس زبان پر آیا۔مگر ہم نہایت خوشی سے اس کو بعینہ نقل کرتے ہیں بھئی ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘کے معاونوں ،خریداروں، پڑھنے والوں ،چھونے والوں، پاس سے دیکھنے والوں، دور سے دیکھنے والوں، خواب میں دیکھنے والوں، خیال کرنے والو ہوشیار ہو۔ ایسا نہ ہو کہ خسر الدنیا والا خرہ ہو جاؤ۔ ہم کو یہی رونا تھا کہ جب ہمارے مخدوم مولوی سید امداد علی صاحب مرحوم سی، ایس، آئی اور مکرمی مولوی علی بخش صاحب دنیا سے چل بسے تو ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کے جاری رہنے میں کیا مزہ رہا۔ مگر نہیں خدا کی خدائی خالی نہیں ہے۔ خدا شکر خورے کو شکر پہنچا ہی دیتا ہے۔ہمارے دوست ناصح اب بھی موجود ہیں۔ اللھم زدنی عمرھم واحلل عقدۃ لسانھم۔ ایڈٹیوریل مذکور یہ ہے ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ جو سر سید احمد خاں صاحب بہادر سی ،ایس،ائی اپنے دوست بد خواہ کی صلاح پر عمل کر کے دوبارہ جاری کرنا چاہتے ہیں،ہم کو نہایت افسوس آتا ہے کہ باوجود اس تجربہ کاری کے وہ ایک نہایت عمدہ نصیحت کے خلاف کرتے ہیں۔ اور من جرب المجرب حلت بہ الندامۃ کے خلاف کرتے ہیں۔ اس کم بخت ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کی بدولت جس قدر نفرت قوم اور ملک کو ہوئی تھی۔اور چاروں طرف سے ملامت اور تردیدات کی بوچھاڑ پڑتی تھی۔ اس کا بھول جانا عقل مندی کے نہایت خلاف ہے۔ جب سے ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ بند ہوا۔ لوگوں کی نفرت میںکمی ہونا شروع ہوئی،جس کا نتیجہ سب خیر خواہان سید جانتے ہیں۔ہم کو حیرت ہے کہ خیر خواہوں کی رائے سے اعراض کر کے بد خواہوں کی رائے کی طرف پھر قدم کیوں بڑھایا جاتا ہے۔ہم خیر خواہانہ صلاح دیتے ہیں کہ ہر گز ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کے اجرا کا قصد نہ کیا جاوئے۔جو قدم مذہبی تالیف قلوب کی طرف مولوی وغیرہ کو مقرر کرکے عملی طور پر بڑھایا گیا ہے۔ وہ مولوی نظیر احمد صاحب کی رائے کی پابندی کر کے نہ ہٹایا جائے۔ اگر ایسا کیا تو سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔اور جو صاحب اس پرچہ کی تائید کریں گے وہ خسر الدنیا والا خرہ کے مصداق بنیں گے۔ ایڈیٹر نجم الاخبار اٹاوہ ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ اور اس کے حامیوں کو مبارک باد (’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ یکم شوال ۱۳۱۱ ھ ، جلد اول نمبر اول بار سوم صفحہ ۱۶) ہم نے تو مخدومی مولوی امداد علی صاحب اور مکرمی علی بخش صاحب کے انتقال پر افسوس کیا تھا کہ ان کے بغیر ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ سونا رہے گا۔شکر ہے کہ ہمارا یہ خیال غلط نکلا۔اخبار جریدہ روز گار مدراس میں مولوی وکیل احمد صاحب مقیم حیدر آباد نے نہایت طولانی آرٹیکل لکھا ہے اور بتایا ہے کہ پہلے سے بھی زیادہ لوگ ہائے ھوئے کرنے کو موجود ہیں۔ نور الآفاق میں وہ خود ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کے مخالف مضامین لکھا کرتے تھے۔اور اب بھی لکھیں گے۔اس سے امیدا ہوتی ہے کہ نور الآفاق بھی بجائے کان پور کے حیدر آباد یا مدراس سے جاری ہو۔ اور ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کے لئے وہی دھوم دھام رہے جو پہلے تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ مگر مولوی صاحب ممدوح نے خدا سے دعا مانگی ہے کہ خدا ان کی زبان کو شعلہ دوزخ بنا دے۔ وہ فرماتے ہیں: عنایت کر مجھے آتش زبانی کہ لب تک لا سکوں راز نہانی بتان سنگ دل کا جی جلا دے زبان کو شعلہ دوزخ بنا دے مگر ان کو ایسی دعا کرنی نہیں چاہیئے اور اپنی زبان پر رحم کرنا چاہیئے۔ ٭٭٭ ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کے مضا مین کیسے ہونے چاہیئں؟ (’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ جلد اول نمبر ۶ (دور سوم) یکم ربیع الاول ۱۳۱۲ھ صفحہ ۱۰۱ ،۱۰۲) ہمارے بعض دوستوں نے ہم کو لکھا ہے کہ ہم کو افسوس ہے کہ ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کی نسبت لوگوں کی نا امیدی روز بروز زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔اور ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘کے مضامین عالی اور مفید اور پر جوش نہیں ہوتے۔سچ پوچھیے تو ان میں کچھ اور ہوتا ہی نہیں ہے۔ بے شک جیسا کہ ہمارے دوست چاہتے ہیں کہ ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ ایسا عمدہ نہ ہوتا ہو۔ نواب محسن الملک، مولوی مہدی علی خدا کے فضل سے اب اچھے ہو گئے ہیں اور ان کے لکھے ہوئے مضامین ان تمام نقصانوں کا جو ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ میں ہوں تلافی کر دیں گے۔ مگر یہ بات فیصلہ طلب ہے کہ حال کے ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کا بہ لحاظ حالات قوم کیا رنگ ہونا چاہیئے جب پہلا ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ نکلا تھا ،اس وقت ضرورت تھی کہ قوم کو یورپین سائنس ولٹریچر کی تعلیم پر جس کو وہ کفر یا شرعا حرام سمجھتے تھے۔متوجہ کیا جائے۔اس لئے اس کے مضامین اس بات پر ہوتے تھے۔کہ شرعا تعلیم یورپین سائنس ولٹریچر ممنوع نہیں ہے۔اورقوم کو اس کی تعلیم پر متعدد طرز سے متوجہ کیا جاتا تھا۔ پھر جو خیالات قوم میں ایسے بیٹھے ہوئے تھے۔جو ترقی اور تہذیب کے مانع تھے۔ان کو دور کیا جاتا تھا۔ اور شرعا و عقلا ان پر بحث کی جاتی تھی۔ غیر مذہب کے لوگوں سے سچی دوستی اور سچی محبت و اخلاص کو من حیث المعاشرت بھی وہ کفر سمجھتے تھے۔ اہل کتاب کے ساتھ دوستی ان کے ساتھ کھانے پینے کو باوجود حلال ہونے ماکول ومشروب کے وہ ارتداد اور خارج از اسلام ہونا جانتے تھے۔اس کی نسبت مضامین لکھے جاتے تھے۔وہ زمانہ اب نہیں رہا۔مسلمان یورپین سائنس ولٹریچر کے پڑھنے پر آمادہ ہو گئے۔ اس کے پڑھنے پڑھانے میں سخت سے سخت متعصب خاندان کو بھی اب کچھ تامل نہیں رہا ہے۔ اہل کتاب کے ساتھ مواکلت اور سوشل برتاؤ تو اب ایسا عام ہو گیا ہے اور ہوتا جا رہا ہے کہ گویا کبھی تھا ہی نہیں۔ وہ زمانی بھی ابھی تک بھولا نہیں ہے۔جب کہ بعض مسلمان انگلستان سے واپس آئے تو تمام ہندوستان میں خطوط اور اشتہار جاری ہوئے کہ کوئی مسلمان ان کے ساتھ نہ کھاوئے۔کیونکہ وہ انگریزوں کے ساتھ کھا چکے ہیں۔اوراس لئے ان کے ساتھ کھانا حرام ہے۔ وہ زمانہ بھی یاد سے نہیں اترا کہ اگر کسی اشراف اور نیک دل آدمی نے اتفاقیہ ان کے ساتھ کھاکھا لیا تو اس کے گھر میں ہمسایہ میں برادری میں رونا پیٹنا پڑ گیا کہ ہے ھے وہ بھی عیسائی ہو گیا۔پس یہ سب مرحلے طے ہو گئے ہیں۔ اور اب اس قسم کے مضا مین ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ میں لکھنے فضول ہیں۔ہاں اس بات کا فیصلہ باقی ہے کہ اب کس قسم کے مضمون ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ میں لکھے جانے چاہیں۔ ہمارے خیال میں یہ بات ہے کہ اس زمانے میں ہزاروں آدمی ایسے موجود ہیں اور جوں جوں یورپین سائنس اور لٹریچر کی تعلیم ترقی ہوتی جاوے گی۔ایسے اور موجود ہوتے جائیں گے۔جو مذہب اسلام کو اور نیچرل سائنس کو باہم ضد حقیقی تصور کرتے ہیں۔اور ان لوگوں کا خیال بڑھتا جاوے گا۔اور سمجھیں گے کہ اسلام اور نیچرل سائنس کا جمع ہونا متناقضین کے جمع ہونے کے برابر ہیں۔ ان کے دل پر ایک بڑے لائق انگریز کے اس قول کا نقش ہوتا جاوئے گا کہ یورپین سائنس اور لٹریچر مذہب اسلام کو ایسا ہی معدوم کر دیتی ہے جیسا کہ پالا چھوٹے پودے کو۔پس اس زمانہ میں ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کا یہ کام ہونا چاہیئے کہ وہ بتاوئے کی یہ رائے غلط ہے۔اور نیچرل سائنس سے کوئی نقصان مذہب اسلام پر نہیں ہوتا۔بلکہ جس قدر واقفیت نیچرل سائنس سے بڑھتی جاوئے گی۔اسی قدر زیاہ وجود ذات باری اوراس کے خالق اور صانع ہونے کا یقین بڑھتا جاوئے گا۔ اور اس لئے اب تک ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کا رخ اسی قسم کے مسائل کے حل کرنے کی طرف رہا ہے۔ہاں اگر اور کچھ ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کو کرنا ہے تو مسلمانوں کو اخراجات فضول شادی وغمی سے روکنا اور ان کو تعلیم اولاد پر روپیہ خرچ کرنے کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ تعجب یہ ہے کہ ہمارے دوست نے تو ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کو اس قدر ناپسند کیا جیسا کہ ان کی تحریر سے ظاہر ہے۔لیکن برخلاف اس کے اکثر دوست کہتے ہیں کہ جیسے عمدہ مضامین حال کے ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ میں نکلے ہیں۔ایسے عمدہ اور مفید کبھی نکلے ہی نہیں۔پس ہم ایسے دوستوں سے چاہتے ہیں کہ وہ ہم کو بتلاویں کہ حال کا ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کس رنگ کا ہونا چاہیئے۔اور کس قسم کے مضا مین اس میں مندرج ہونے مناسب ہیں۔ اورقو م کے لئے مفید اور ضروری ہیں۔جہاں تک ہماری سعی سے ممکن ہے۔ہم اس کی اصلاح پر کوشش کریں گے۔ ٭٭٭ اختتام سال ۱۲۸۹ ھجری و شروع سال۱۲۹۰ ھجری (’’ تہذیب الاخلاق ‘‘بابت یکم محرم الحرام ، ۱۲۹۰ ھجری) شکر خدا کاکہ نواسی سنہ نوے ہو گیا۔ہمارے اس پرچہ کوجاری ہوئے سوا دو برس ہوئے ہیں۔ہم کو خیال کرنا چاہیئے کہ پچھلے سال میں مسلمانوں کی ترقی تعلیم وتہذیب میں کیا کچھ ہوا اور ہمارے اس پرچہ نے کیا کیا؟۔اور لوگوں نے اس کو کیا کہا؟۔اور ہم نے اپنی قوم سے کیا سہا؟۔ حال خود ویاران خود ہمارے اور ہماری قوم کے حال پر حافظ کا یہ شعر بالکل ٹھیک ہے بدم گفتی وخور سندم عفا ک اللہ نکو گفتی جواب تلخ می زیبد لب لعل شکر خارا پرانے دل بعضے تو ہم کو برا کہتے کہتے ٹھنڈے ہو گئے۔ اور بعضے مہربان اب اور نئے دل جوش پر ہیں اور ہم کو برا کہنے پر نہایت تیز زبان مگر ہمارا دل اپنے کام سے ٹھنڈا نہیں ہے۔اور ہم کو وہی جوش محبت و ہم دردی اپنی قوم کے ساتھ ہے۔ان کی دین دنیا کی بھلائی اور تہذیب وشائستگی کی دن رات فکر ہے۔ ان کے غصہ سے ہم کو رنج نہیں۔ ان کی سخت کلامی کا ہم کو غم نہیں۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے۔اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ نہیں سمجھتے۔جو کچھ کہ وہ کرتے ہیں۔ہم جب ہی سے جانتے ہیں جب کہ وہ نہ کرتے تھے۔ من عہد تو سخت سست میدانستم بہ شکستن آں درست میدانستم ہر دشمنی اے دوست کہ بامن کردی آخر کردی نخست میدانستم ہم کو پچھلوں کے حالات سے اور خود اپنے دادا محمد رسول اللہ صلعم کے حالات سے بالکل تسلی ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے عام بھلائی پر کمر باندھی۔اور عام برائی کو دور کرنا چاہا۔اور اپنی قوم کی بہتری اور بہبودی میں کوشش کی۔تو ان کو دنیا کے ہاتھ سے اور بالتخصیص اپنی قوم کے ہاتھ سے کیا ملا؟۔کوئی سولی دیا گیا۔ کوئی آرہ سے چیرا گیا۔کوئی جلا وطن کیا گیا۔ پس ہم کو جو اپنی قوم کے ہاتھ سے ہونا چاہیئے تھا۔اس کا کروڑواں حصہ بھی ابھی نہیں ہوا۔ ہم کو دیکھنا چاہیئے کہ ہماری قوم نے ہم سے کیا کیا؟۔ کچھ نہیں کیا۔ بہت کیا تو یہ کیا کہ دوچار خط گم نام سب ودشنام کے لکھ بھیجے۔ ہم نے شکر ادا کیا کہ ہمارا تو کچھ نہیں بگڑا اور ان کا دل ٹھنڈا ہو گیا۔ اس سے زیادہ کسی کو غصہ آیا اور کوئی اخبار نویس بھی اتفاق سے ان کا دوست ہوا یا دوپتھر اور ایک کاٹ کی کل ان کے ہاتھ میں ہوئی تو انھوں نے اپنے دل کے غصہ کو جھوٹ سچ باتیں چھاپ کر یا چھپوا کر ٹھنڈا کیا۔ہم تو اس پر بھی راضی ہیں مگر اس دن ہم کو افسوس ہے جب کہ وہ لوگ خود اپنی باتوں پر افسوس کریں گے اور سمجھیں گے جو سمجھیں گے۔ہم کو ملحد اور زندیق اور لا مذہب کہنا کچھ تعجب نہیں کیونکہ ہماری قوم نے خدائے واحد ذوالجلال کے سوا باپ دادا کی رسم ورواج کو اور اپنے قدیمی چال چلن کو دوسرا خدا مانا ہے۔ اور پیغمبر آخر الزمان محمد رسول اللہ کے سوا اور بہت سے پیغمبر پیدا کیے ہیں۔ کتاب اللہ کے سوا بہت سی انسانوں کی بنائی ہوئی کتابوں کو قرآن بنایا ہے۔اور ہم اس جھوٹے خدا،اور فرضی پیغمبروں اور جعلی قرآنوں کو ایسے ہی برباد کرنے والے ہیں۔ جیسے ہمارے جد امجد ابراہیم علیہ سلام نے اپنے باپ آذر کے بت توڑے تھے۔ہم سچے خدا واحد ذوالجلال کا جلال اور سچے پیغمبر محمد رسول اللہ ؐ کی نبوت اور سچی کتاب اللہ کی اطاعت دنیا میں قائم کرنی چاہتے ہیں۔اور پھر وہ لوگ ہم کو ملحد،زندیق اور لا مذہب نہ کہیں اور نہ سمجھیں تو کیا کہیں اور کیا سمجھیں؟۔کیونکہ ہم ان کے خداؤں،پیغمبروں اور قرانوں کو نہیں مانتے۔ مگر طرفہ یہ ہے کہ ہم کو کرسٹائن بھی کہتے ہیں۔ اور ہماری قوم کے ایک اخبار نویس نے چھاپا ہے کہ ہم عیسائی ہو گئے ہیں۔اور ایک گرجا میں جا کر بپتسمہ یعنی اصطباغ لیا ہے۔ہم کو اپنی قوم کے حال پر نہایت افسوس ہوا کہ اب ہماری قوم کا یہ حال ہو گیا ہے کہ علانیہ جھوٹ بولنے اور جھوٹ چھاپنے میں کوئی شرم وغیرت وحیا نہیں آتی۔قومی ہم دردی جو خداکی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔خدا نے ہماری قوم کے دل سے کیسے مٹا دی ہے۔ کہ اس شخص کو یہ بھی غیرت نہیں ہوئی کہ میں ایک مسلمان شخص کی نسبت کس دل اور غیرت سے ایسی جھوٹی بات چھاپ دوں۔ ان باتوں سے ہم کو بہ لحاظ اپنی ذات کے کچھ بھی رنج نہیں ہوتا۔مگر جو رنج، غم و افسوس ہوتا ہے ۔وہ یہی ہوتا ہے کہ افسوس ہماری قوم پر خدا کی کیسی خفگی ہے۔جو ایسی حالتوں میں گرفتار ہے۔ ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخسرین ۔ کان پور سے ہم کو عجیب وغریب آوازیں آتی ہیں کہ جناب حاجی مولوی سید امداد العلی صاحب ڈپٹی کلکٹر بہادر نے جو رسالہ مطبوعہ ہمارے پاس بھیجا ہے۔اس میں یہ مضمون بطور نصیحت لکھا ہوا ہے: ’’ بعض اہالیان ہند نے واسطے دھوکا دینے حکام وقت کے اپنا طریقہ مذہبی اور لباس ملکی اور وضع قومی کو چھوڑ کر بر خلاف اپنے ہم مذہبوں، ہم قوموں اور ہم پیشوں کے جاکٹ اور پتلون پہننا اور میز وکرسی پر بیٹھ کر چھری کانٹے سے کھانا اور وہ ہیئت جو نصرانیوں کی ہے بنانا، اس مراد سے اختیار کیا ہے کہ ہم کو حکام وقت کہ جن کے لباس وطعام کی وضع یہ ہے اپنا مخلص ،مطیع، اور پیرو جانیں۔ اور ان کے محکومین ہم کو حکام کا ہم سر مانند صاحب لوگوں کے سمجھیں۔سو نتیجہ ان کی خبیث طینت کا کہ مکر ودغا ہے۔یوں ظاہر ہے کہ اکثر حکام سوا فریبی دغا باز سمجھنے کے ان کو اور کچھ نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان کو اچھا جانتے ہیں۔اور ان کی وضع اور چلن کو بالکل پسند نہیں کرتے ہیں۔اگر چہ بعض حکام ظاہر میں پادری منش ان کی دل شکنی اس وجہ سے نہیں کرتے کہ خیال ان کا یہ ہے کہ شاید ان کے ذریعے سے اہل اسلام کے عقائد میں کچھ فتور آسکتا ہے۔ اور ان کے دلوں میں ہمارے مذہب کی طرف کچھ رغبت پیدا ہو سکتی ہے۔ حالانکہ اس خیال کا وقوع میں آنا ہرگز ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ ان صاحبوں کی بے اعتباری نے اہل اسلام کی طبیعتوں میں اس طرح رسوخ نہیں پایا ہے کہ کوئی بات ان کی نکالی ہوئی، کہی ہوئی، یا لکھی ہوئی وہ قبول کر سکتے ہوں۔ بلکہ میرا گمان یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی سچی رائے کو بھی ان کے ذریعے سے صحیح اور درست نہیں سمجھ سکتا ہے۔بہر حال یہ اہالیان ہند کسی طرح اپنی مراد اس طریقے سے نہیں پا سکتے ہیں۔ بلکہ اپنی بد دیانتی سے خسر الدنیا والاخرۃ ہو سکتے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ اگر چہ اس تحریر کی وجہ لوگ کچھ اور ہی خیال کرتے ہیں ۔مگر ہم ان کی اسی بات کا کہ انھوں نے ہم کو اپنے ہم مذہبوں اور ہم وطنوں میں اور ہم قوموں میں شمار کیا ہے۔شکر ادا کرتے ہیں کہ۔ عمرت دراز باد کہ ایں ہم غنیمت است مگر جب ہم تھوڑی دور اور اس رسالہ کو پڑھتے جاتے ہیں تو پھر یہ فقرہ اپنی نسبت پاتے ہیں :۔ مفتی سعد اللہ صاحب کا فتویٰ ، تکفیر میں جناب سید احمد خاں صاحب کے جو ترجمہ تاریخ پر مرتب ہوا ہے۔ راقم کے پاس موجود ہے۔معلوم نہیں کہ سید احمد خاں صاحب کے حوارین اس فتوے پر بھی ایمان رکھتے ہیں یا نہیں۔ پہلے تو ہم گھبرائے کہ یہ مفتی سعد اللہ صاحب کون ہیں۔وہی ہیں جن کو ہم نے دلی میں دیکھا ہے۔ اور یہ وہی مفتی سعد اللہ صاحب کون ہیں ۔ وہی ہیں جن کو ہم نے دلی میں دیکھا ہے۔ اور یہ وہی مفتی سعد اللہ صاحب ہیں۔جنھوں نے لکھنو میں ایک نیک بخت مسلمان آل رسولؐ ابن علی اولاد نبی کے کفر اور قتل کا فتویٰ دے کر عشرہ محرم میں ان کا سر ھنو مان گڑھی سے نیزہ پر چڑھا کر لکھنو میں لانا چاہتا تھا۔ تو ہمارا دل ٹھنڈا ہو گیا۔ اور سمجھے کہ آل رسول کے قتل و کفر پر فتویٰ دینا ان کا قدیمی پیشہ ہے۔ مگر جو صاحب ہماری تکفیر کا فتویٰ لینے کو مکہ معظمہ تشریف لے گئے تھے۔اور ہمارے کفر کی بدولت ان کو حج اکبر نصیب ہوا۔ ان کے لائے ہوئے فتوؤں کو دیکھنے کے ہم مشتاق ہیں۔ یہ ہیں کرامت بت خانہ مرا اے شیخ کہ چوں خراب شود خانہ خدا گردد سبحان اللہ ہمارا کفر بھی کیا کفر ہے کہ کسی کو حاجی اور کسی کا ھاجی اور کسی کو کافر اور کسی کو مسلمان بناتا ہے۔ وللہ در من قال۔ باراں کہ درلطافت طبعش خلاف نیست در باغ لالہ روید ودر شور بوم وخس توانم آں کہ نیاز ارم اندرون کسے حسود را چہ کنم کوز خود برنج درست اب ہمارے محبوب مہدی علی اور ہمارے عزیز مشتاق حسین کا حال سنو۔یہ ہمارے دونوں دوست ایسے ہیں کہ جن کا حال کچھ چھپا نہیں ہے۔مولوی مہدی علی ک اعلم اس کی ذاتی خوبیاں ،اس کی پیاری پیاری باتیں ،اس کی سچی ایمان داری ، اس کی فصیح تقریر اس قابل ہیں کہ اگر ہماری قوم کے دل کی آنکھیں اندھی نہ ہوتیں۔تو اس کے نام سے فخر کیا کرتے۔ منشی مشتاق حیسن کی ذاتی نیکی اور نہایت سخت دین داری ، بے ریا عبادت ، سچی خدا پرستی ، غایت تشدد سے نماز روز اور احکام شریعت کی پابندی جو درحقیقت بے مثل ہے۔ اس لائق تھی کہ اگر ہماری قوم پر خدا کی خفگی نہ ہوتی تو اس سے مسلمانی کو فخر سمجھتے۔ مگر خدا نے ایسا اپنا غضب ہماری قوم پر نازل کیا ہے کہ ایک رائے یا ایک مسئلہ یا ایک آبائی رسم ورواج کے اختلاف کے سبب ایک کو نہایت حقارت سے حواری جس سے اشارہ عیسائی کا رکھا ہے۔ اور دوسرے کو ملحد کا خطاب دیا ہے۔ کبرت کلمۃ تخرج من افواھھم ان یقولون الا کذبا ۔ مگر ہمارے ان دونوں دوستوں کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیئے کہ ان کو بہ عوض سچائی اور دین داری کے یہ خطاب انہی کی قوم سے ملے ہیں۔ جن کی وہ بہتری چاہتے ہیں۔ نیک باشی و بدت گوید خلق یہ کہ بد باشی ونیکت گویند با ایں ہمہ ہم خود اپنے مخالفوں کے نہایت مداح و ثنا خواں ہیں اور دل سے ان کی تعریف کرتے ہیں۔کیونکہ ہم یقین کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر صرف حمیت اسلامی کے سبب اور بعض اپنی جبلت اور اپنی خلقی سخت مزاجی اور کجرائی کے سبب ہماری مخالفت کرتے ہیں۔ پس ہمارا اور ہمارے اکثر مخالفوں کا مطلب واحد ہے کہ ہم دونوں اسلام کے خیر خواہ اور اپنی قوم کی ترقی چاہنے والے ہیں۔صرف ہم میں اور ہمارے ان مخالفوں میں اتنا فرق ہے کہ جو کچھ ہم نے سمجھا اور سونچا اور دیکھا ہے۔ وہ انھوں نے سونچا ،سمجھا اور دیکھا نہیں۔ جب ان کے دل کو بھی خدا وہ باتیں سوجھا دے گا جو ہم کو سوجھائی ہیں تو وہ بھی ہمارے ساتھ متفق ہو جاویں گے۔ زید بن ثابت ،ابوبکر صدیق ، اور عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے جمیع قرآن پر مخالفت ہی کرتے رہے۔جب تک کہ خدا نے زید بن ثابت کے دل کو وہ باتیں نہیں سوجھائیں تھیں جو ابو بکر ؓاور عمرؓ کو سوجھائی تھیں۔لیکن جب سوجھائیں تو انھوں نے بھی تسلیم کیا کہ واللہ خیر۔ پس ہم اپنے مخالفین کے لئے یہی دعا مانگتے ہیں کہ اللھم اشرح صدوروھم للذی شرحت لہ صدری۔آمین ۔ہ ذکر پرچہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ گذشتہ سال میں بہ سبب خاص ضرورتوں کے حالات مدرسۃ العلوم مسلمانان زیادہ تر اس پرچے میں چھاپے گئے۔اس پر بھی بہت سے وہ مضامین بھی جن کے لئے یہ پرچہ موضوع ہے۔مندرج ہوئے۔ ہم نے اپنی قوم کی موجودہ برائی اور ان کی آئندہ کی بھلائی جہاں تک کہ ہو سکی،ان کو دکھائی۔ مذہبی نقائص جو انھوں نے یہود و نصاریٰ کی روایتوں سے اور ہندوؤں کے میل جول سے اختیار کییے ہیں۔ یہ رسم ورواج جو ان میں شامت اعمال سے پڑ گئے ہیں۔ اخلاق کی برائیاں جو ان میں خرابی تربیت سے آ گئی ہیں۔ ان کی کتب مروجہ تعلیم کی خرابیاں جس سے وہ کتابیں بے سود ہو گئی ہیں۔سب کچھ ان کو بتلایا ہے۔ علم ادب اور علم انشا سے بھی ہم نے غفلت نہیں کی۔کیونکہ ہم نے اپنے آرٹیکلوں کو اس طرز جدید صاف وسادہ پر لکھا ہے۔ جو دل میں سے نکلنے والی اور دل میں بیٹھنے والی ہے۔اس طرز پر لکھنے سے اپنی قوم کو موجودہ علم انشاء کی برائی کا بتلانا اور میں تبدیل کی ضرورت کا ہونا سمجھایا ہے۔اور اگر ہمارا خیال غلط نہ ہو تو ہم نے اپنی قوم میں اس کا کچھ اثر بھی پایا ہے۔ ہم نے نامی یورپ کے عالموں اسٹیل اور اڈیسن کے مضامین کو اپنی طرز اور اپنی زبان میں لکھا ہے۔جہاں کہ ہم نے اپنے نام کے ساتھ اے ،ڈی،اور ایس ،ٹی کا اشارہ کیا ہے۔اور اپنی قوم کو دکھایا ہے کہ مضمون لکھنے کا طرز کیا ہے؟۔اور ہماری اردو زبان میں ان خیالات کے ادا کرنے کی کیا کچھ طاقت ہے۔اور اگر ہماری قوم اس پر متوجہ ہو تو کس قدر اور زیادہ خوبی اور صفائی اور سادگی اس میں پیدا کر سکتی ہے۔ یہ تو ہم نے سنا ہے کہ بعض لوگوں نے ہمارے پرچہ کا نام تخریب الاخلاق اور تخریب الافاق رکھا ہے۔ جس طرح کہ ایک پرانی قوم نے قولو حطۃ نغفرلکم خطایا کم و سنزید المحسینین کی جگہ حنطۃ پڑھا تھا۔ مگر ہم نے کوئی تحریر بطور ریویو کے اس پر نہیں دیکھی۔جس میں بطور ایک عادل حکمران کے اس کی بھلائی پر مفصل رائے دی ہو۔ بعض دوستوں نے ہمارے پاس خط بیھجے ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہماری تحریر کو اور سادگی عبارت کو پسند کرتے ہیں۔اور ہمارے مضمونوں کو بھی عمدہ سمجھتے ہیں۔ہمارے ایک انگریز دوست نے ہم کو لکھا کہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اردو زبان میں بھی ہر قسم کے مضامین اور خیالات عمدگی سے ادا ہو سکتے ہیں۔ اور یہ بھی ثابت کیا کہ مذہب اسلام ایسا تنگ وتاریک راستا نہیں ہے۔جیسا کہ اب تک سمجھا جاتا تھا۔ ہم کو اس بات کے معلوم ہونے پر بڑی خوشی ہوئی ہے کہ ہمارے مخالف ہمارے دوستوں سے بھی زیادہ اس پرچہ کے مشتاق رہتے ہیں۔اوراس سے بھی زیادہ خوشی یہ ہے کہ لوگ اس کے مضا مین پر بحث کرتے ہیں۔اور رد وقدح پر متوجہ ہیں۔بعض اخبار نویسو ں نے ہمارے مضامین کے رد کرنے کا پیشہ اختیار کیا ہے۔ اور بعض جگہ ہمارے مضامین پر بہ نظر تردید بحث کرنے کو مجلسیں مقرر کی ہیں۔ بعض صاحب اس بات پر متوجہ ہیں کہ اپنی پرانی ہی کملی کو ہر مجلس کے لائق ثابت کریں۔ کان پور وگورکھ پور ومراد آباد سے ان مضامین کی تردید میں رسالے نکلے ہیں۔اور نکلنے والے ہیں۔ یہ تمام واقعات ہمارے لئے نہایت مبارک آثار ہیں۔ کیونکہ اگر یہ سب باتیں معرض بحث میں نہ آتیں تو ہم کو اپنی تحریروں کے موثر ہونے کا کچھ بھی یقین نہ ہوتا،جو عمارت بغیر گہرا کھودے بنتی ہے۔وہ جلد ڈھے جاتی ہے۔ وہی مسائل انجام کو ہر دل عزیز ہوتے ہیں جو بعد مباحثہ قائم رہتے ہیں۔ سونا اگر آگ میں نہ تایا جاوئے تو کبھی گل رخوں کے گلے کا ہار نہ ہو۔ہمارا قول ہے کہ سچ میں بھی کوئی ایسی ہی کرامات ہے کہ وہ از خود لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جاوئے۔ اس میں جو کچھ کرامات ہے وہ یہی ہے کہ مباحثہ کا اسے خوف نہیں‘‘۔ ہم کو اس بات سے بھی بڑی خوشی ہوئی ہے کہ ہمارے پرچے کا ایک مضمون ہمارے ملک کے نامی عربی اخبار النفع العظیم لا ھل ھذا لا اقلیم مطبوعہ ۱۴ ذیعقد میں بہ زبان عربی ترجمہ ہو کر چھپا ہے۔ اور مسٹر اڈیسن کا ایک مضمون امید پر جو ہم نے اپنی زبان اور اپنی طرز پر چھاپا تھا۔ وہ دوسری طرح پر بہ طور ترجمہ پٹیالہ اخبار مطبوعہ ۲۰ جنوری ، ۱۸۷۴ء میں چھپا ہے اور اس سے ہم کو امید ہوتی ہے کہ جو راہ ہم اپنے بھائیوں کو دکھانی چاہتے ہیں۔وہ اس کو پسند بھی کرتے ہیں۔ در دلش تسلیم و بر لب حرف انکار وصال گوش گوید بشنود جوں دل ز اندازش خوش است اثر ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کا دلوں پر اگر چہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس پرچے نے لوگوں کے دلوں پر بہت کچھ اثر کیا ہے۔مگر اتنا تو ضرور کہتے ہیں کہ کچھ تو اثر کیا ہے۔ ہماری قوم کے دل جو مردہ ہو گئے تھے۔ان میں ایک تحریک تو ضرور آگئی ہے۔ہر ایک دل میں کسی نہ کسی بات کا جوش ہے۔کوئی اس کے مضامین ہی کی تردید کی فکر میں ہے۔کوئی ہماری تکفیر کی دھن میں ہے۔کوئی ہماری تحریروں کو سراہتا ہے۔کوئی ان سراہنے والوں کو لعنت ملامت کرتا ہے۔ مگر ایک نہایت خوشی کی بات یہ ہے کہ بہت لوگوں کو یہ خیال ہو گیا ہے کہ بلاشبہ ہماری قوم خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے لئے کچھ کرنا چاہیئے۔اگر درحقیقت ہماری تحریروں نے ایسا اثر کیا تو ہم کو یقین کرنا چاہیئے کہ ہماری مراد حاصل ہو گئی ہے۔ ہمارے ایک دوست نے ہم سے نقل کی کہ ضلع سہارن پور میں ہمارے حال پر بحث ہو رہی تھی۔ ایک شخص نے کہا کہ اس کے مسلمانوں کے دوست ہوتے ہیں تو کچھ شک نہیں مگر نادان دوست ہیں۔ ایک صاحب نہ کہا کہ ہے تو وہ کر سٹان مگر ہماری قوم کی بھلائی اور ترقی اگر ہو گی تو اسی کرسٹان سے ہو گی۔ یہ نقل سن کر میں نہایت خوش ہوا۔ اور میں نے کہا کہ اگر درحقیقت مجھ سے ایسا ہو تو اس کرسٹانی کے خطا پر ہزار مسلمانی نثار۔ قسمت نگر کہ کشتہ شمشیر عشق یافت مرگے کہ زندگان بدعا آرزو کنند صائب نے خود ایک ناواقف شاعر سے پوچھا کہ صائب کیسا شعر کہتا ہے۔ اس نے نہایت دلی جوش سے کہا کہ آں قر مساق ہمہ خوش میگوید۔ صائب کہتا ہے کہ جیسی عزت مجھ کو قر مساق کے لفظ سے حاصل ہوئی ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ خطاب سے بھی ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح خدا کرے کہ یہ لفظ کرسٹان کا میرے لیے عزت قومی کا باعث ہو۔ اس کا اثر تعلیم وتربیت پر اس میں کچھ شک نہیں کہ ہماری کوششوں نے مسلمانوں کی تعلیم پر نمایاں اثر کیا ہے۔ اب جس مسلمانی مدرسے میں جاتے ہیں۔اور جن طالب علموں سے ملتے ہیں۔اتنی بات تو ضرور سنتے ہیں کہ جو طریقہ تعلیم بالفعل مقرر ہے۔وہ بلا شبہ تبدیل کے لائق ہے۔ بہت سی کتابیں ایسی درس میں داخل ہیں کہ جن سے عمر ضائع ہوتی ہے۔بعض علوم ایسے پڑھائے جاتے ہیں کہ جو دین کے ہیں اور نہ دنیا کے۔جو شخص کہ فارغ التحصیل ہو گا۔اگر اس کے حال پر غور کرو تو صاف معلوم ہو گا کہ دین کے کام کا ہونا تو معلوم دنیا کے بھی کسی کام کا نہیں ہوا۔ بہت سے لوگوں کی خواہش معلوم ہوتی ہے کہ کسی طرح علوم وفنون جدیدہ چپکے سے ان کے ہاتھ آجاویں مگر شرماتے ہیں۔اور علانیہ ان کی خواہش کرنے میں اپنی مولویت اور قدوسیت کی کساد بازی سمجھتے ہیں۔ جا بجا مسلمانوں کے مدرسے قائم ہوتے جاتے ہیں۔ اور ہرجگہ ان کے قائم کرنے کا چرچا ہے۔ مولوی محمد سخاوت علی صاحب نے جن کی برکت سے قصبہ انبٹھہ ضلع سہارن پور میں ایک مسلمانی مدرسہ قائم ہوا ہے۔ ہمارے ایک دوست سے فر مایا کہ اگر چہ پہلے بھی ہم کو اپنی قوم کی بھلائی کی فکر تھی۔ مگر کوئی تقاضا کرنے والا اور بار بار جگانے والا نہ تھا۔ اب پرچہ ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ نے اس حد تک چوکنا اور آگاہ کیا ہے کہ جس کے سبب اس قصبہ میں بھی ایک مدرسہ قائم ہوگیا ہے۔ خدا اس پرچہ ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ کو ہمارے لیے ہمیشہ مبارک رکھے۔اور شیخ نظام الدین صاحب مہتمم مدرسہ کی نیت میں بھی ترقی ہو جو میرے ساتھ بدل متفق ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ ہمارے مدرسہ انبھٹہ کو اور ہمارے ضلع کے کل مدارس ، دیو بند، سہارن پور، گنگوہ کو بڑی تسلی ہے۔ کہ یہ سب مدرسے اس مدرسۃ العلوم مسلمانان سے جس کے قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مستفیض ہو ں گے۔ گویا علی گڑھ ہمارے مدرسوں کے طلبا کا قصر امید ہے۔اگر درحقیقت ہم اپنی ترقی کریں گے تو وہ قصر ہمارے ہی لیے ہے۔ پس کس قدر ہم کو اس کے بانیوں کا شکر گزار ہو نا چاہیئے۔ سب سے اخیر مدرسہ جو ہماری تحریروں کے اثر سے قائم ہوا۔وہ مدرسہ ایمانیہ لکھنئو ہے۔ جس میں بشمول دیگر علوم معینہ کے مذہب شیعہ واثنا عشری کی بھی تعلیم ہوتی ہے۔اور اس سے خیال ہوتا ہے کہ ہماری کوششوں نے شیعہ و سنی دونوں کے دلوں کو جگادیا ہے۔ اگر چہ ہم اپنی رائے میں ان مدرسوں سے ان کے فوائد حاصل ہونے کی توقع نہیں رکھتے ہیں۔ جن کی ہم خواہش رکھتے ہیں۔اسی لیے ہم کو ان کے قائم ہونے سے چنداں خوشی نہیں ہے۔مگر تاہم اس بات سے نہایت خوشی ہے کہ لوگوں کی اس طرف توجہ تو ہوئی، وہ کچھ کرنے تو لگے۔ کیا عجب ہے کہ رفتہ رفتہ اس راہ پر بھی جا پڑیں،جو فی الحقیقت سیدھی اور ٹھیک ہے۔اور جس راہ سے منزل مقصود پر پہنچنا ممکن ہے۔ ناہ سے ہاں تو شروع ہوئی۔ یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ ان مدرسوں کے اخراجات میں بھی نہایت دل سے مدد کرتے ہیں۔اور ان کا قائم رہنا دل سے چاہتے ہیں۔گو ہم ان کے اس شوق اور اس فیاضی کو نقش بر آب اور ایک نہایت حقیر خصلت انسانی سمجھتے ہیں۔جس کو ہم خود غرضی کہتے ہیں۔کیوںکہ وہ لوگ بہ سبب ان مقدس مولویوں کے جو ان مدرسوں میں مصروف ہیں اور ان کی قدوسیت کا خیال لوگوں کے دل میں جما ہوا ہے۔ اور نیز اس خیال سے کہ مذہبی کتابوں اور قرآن وحدیث اور عربی پڑھانے میں روپیہ، روٹی،اناج، بھس دینے میں بڑا ثواب ہو گا۔ ان مدرسوں میںروپیہ دیتے ہیں اور مدد کرتے ہیں۔یہ کرنا کچھ کرنے میں داخل نہیں ہے۔اور اس سے قومی عزت حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اور اسی سبب سے ہم اس کی نہ کچھ زیادہ قدر سمجھتے ہیں۔اور نہ خوش ہوتے ہیں ۔ہاں اس دن خوش ہوں گے۔جب کہ ہماری قوم نہ خدا کے واسطے اور نہ اپنے ثواب کے لئے بلکہ صرف اپنی قوم کے لئے کوشش کرے گی۔اور کہے گی کہ میں اپنے ہاتھ،اپنے پانوں ،اپنی جان ، اپنی محنت اور اپنے روپے کے بدلے نہ خدا کو خریدنا چاہتا ہوں۔ نہ بہشت کو بلکہ اپنی قوم کو ،جب کہ اس طرح بلا خیال اپنے ذاتی نفع دینی ودینوی کے لوگ اپنی قوم کی بھلائی پر متوجہ ہو ں گے اس وقت البتہ ہم کو خوشی ہو گی۔لیکن یہ بھی غنیمت ہے۔جو ہو رہا ہے۔ اور امید ہے کہ آئندہ اور بھی اچھا ہو۔ اثر مذہبی خیالات پر اس پرچہ میں ہم کو عقائد و مسائل مذہبی سے بحث کرنا مقصود اصلی نہیں ہے۔ مگر جو مسلمانوں نے مثل ہندوؤں کے مذہب اور تمدن و معاشرت کو متحد سمجھ رکھا ہے۔ اس لیے بہ مجبوری ان مسائل مذہبی سے بحث آ جاتی ہے۔جو ہمارے مقصود سے علاقہ رکھتے ہیں۔ مگر ہماری قوم عجیب حالت مذہبی میں گرفتار ہے۔ ہم اہل سنت وجماعت کا ذکر کرتے ہیں۔جن کے دو فرقے القاب وھابی و بدعتی سے ملقب ہیں۔پہلے حضرت بلا شبہ عقائد میں نہایت درست اور قریب حق کے ہیں۔ الا ظاہری افعال اور سختی اور سنگ دلی اور قساوت قلبی اور تعصب پر اس قدر سر گرم ہیں کہ اندرنی نیکی ایک بھی ان میں نہیں رہی۔اور ٹھیک ٹھاک وہی حال ہے کہ جو علما یہود کا تھا۔ جو دن رات ظاہری رسومات مذہبی میں مبتلا تھے۔ اور دوسرے حضرات اگر چہ اندرونی نیکیوں کی جانب کسی قدرمتوجہ ہیں۔الا رسوم آبائی کے اس قدر پابند ہیں اور بد عات محدثہ کے اس قدر پیرو ہیں کہ رومن کیتھولک کے قدم بقدم ہو گئے ہیں بلکہ ان کو بھی مات کر دیا ہے۔ پس یہ دونوں باتیں ہمارے مقصود کی حارج ہیں۔ اور ہم ان دونوں باتوں کو اپنے سچے دل سے مذہب اسلام کے بھی بر خلاف سمجھتے ہیں۔ اور ترقی تہذیب مسلمانوں کا بھی مانع قوی جانتے ہیں۔ اور اس لیے مسلمانوں میں جہاں تک کہ یہودیت اور رومن کیتھولک آگئی ہے۔ اس کو مٹانا اور دور کرنا چاہتے ہیں۔ اور یقین کرتے ہیں کہ بغیر سچا اسلام بے میل اختیار کیے کسی چیز کی بھلائی ممکن نہیں۔ رسومات کو اور خصوصا مذہبی رسومات کو مٹانا کچھ آسان کام نہیں ہے۔ اور نہ ہم کو کچھ توقع ہے۔کہ ہم اس میں کچھ کر سکتے ہیں۔مگر تاہم لوگوں کو اس سے متنبہ کرتے جاتے ہیں اور کیا عجب ہے کہ کوئی دل نرم بھی ہوا ہو یا آئندہ ہو۔ ہم کو ہمارے شفیق نیچرل اسٹ یا دھریہ کہتے ہیں اس سبب سے کہ ہم نے اپنی تصنیفات میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ جو مذہب نیچر کے بر خلاف ہے وہ صحیح نہیں ہے۔اور اسی کے ساتھ اپنا یہ یقین بھی ظاہر کیا ہے کہ ٹھیٹ مذہب اسلام جب کہ وہ بدعات محدثہ سے پاک ہو۔بالکل نیچر کے مطابق ہے۔ اسی لیے کہ وہ سچا ہے۔اگر یہی وجہ ہمارے دھریہ ہونے کی ہو تو ہم پکے دھریہ سہی۔ بلا شبہ ہمارا یہ دلی عقیدہ ہے کہ نیچر خدا کا فعل ہے۔ اور مذہب اس کا قول اور سچے خدا کا قول وفعل کبھی مخا لف نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ مذہب اور نیچر متحد ہو ں اور بلا شبہ یہ بھی ہمارا اعتقاد ہے کہ انسان بہ سبب ذی عقل ہونے کے احکام مذہبی کا مکلف ہوا ہے۔ اگر وہ احکام عقل انسان سے خارج ہو ں تو معلول خود اپنی علت کا معلول نہ ہوگا۔ہاں یہ بات ممکن ہے کہ وہ احکام ہماری تمہاری عقل سے خارج ہوں تو الا عقل انسانی سے خارج نہیں ہو سکتے۔اور زمانہ جوں جوں انسان کی عقل وعلوم کو ترقی دیتا جاوے گا۔ ووں ووں ان کی خوبی زیادہ منکشف ہوتی جائے گی۔ مگر یہ اس وقت ہو گا جب کہ تقلید کی پٹی آنکھوں سے کھلی ہو گی۔ ورنہ کولھو کے بیل کی طرح بہ جز دن رات پھرنے کے اور کچھ نہیں جاننے کے اور کچھ نہ ہوگا۔ کوئی مذہب دنیا میں ایسا نہیں ہے جو دوسرے مذہب پر گو وہ کیسا ہی باطل کیوں نہ ہو اپنی ترجیح بہ ہمہ وجوع ثابت کردے گا۔مگر یہ رتبہ صرف اسی مذہب کو حاصل ہے جو نیچر کے مطابق ہے۔ اور میں یقین کرتا ہوں کہ وہ ایک مذہب ہے جس کو میں ٹھیٹ اسلام کہتا ہوں اور جو بدعات محدثات سے اور غلط خیال اجماع سے اور خطا اجتہادات سے اور ڈھکوسلہ قیاسات سے اور شکنجہ اصول فقہ مخترعہ سے مبرا و پاک ہے۔ پس میں تو اپنے تئیں بڑا حامی اسلام سمجھتا ہوں۔گو سارا زمانہ مجھ کو دہریہ کیوں نہ سمجھے۔ نمی گویم دریں گلشن گل و باغ و گلاز یار ویار از من نمی دانم زمنع از گریہ مطلب چیست ناصح را دل از من دیدہ از من آستین از من کنار از من ذکر مدرسۃ العلوم اس سے زیادہ عجیب بات کون سی ہو گی کہ ہم نے جو مسلمانوں کی ترقی تعلیم و تربیت کے لئے مدرسۃ العلوم کی بنا ڈالی۔اس میں بھی ہمارے چند ہم وطنوں نے مخالفت کی ہے۔ ہمارے مخدوم مولوی حاجی سید امداد العلی صاحب بہادر ڈپٹی کلکٹر کے مرسلہ رسالہ میں لکھا ہے کہ میرا یہ گمان ہے کہ کوئی مسلمان کسی سچی رائے کو بھی ان کو (یعنی مجھ) گنہگار کے) ذریعے سے صحیح اور درست نہیں سمجھ سکتا۔ اگر درحقیقت مسلمانوں کا یہی حال ہو تو وائے بر مسلمانی دوائے بر مسلمان۔ نیک طینت آدمیوں کا یہ کام نہیں ہے۔وہ تو بدوں میں بھی جو نیک بات ہوتی ہے۔اس کو پسند کرتے ہیں۔ بلکہ درو دیوار سے نصیحت لیتے ہیں کما قال۔ مرد باید کہ گیرد اندر کوش در نوشت است پند بر دیوار ہمارے مکرم معظم جناب مولوی علی بخش خان بہادر سب آرڈیننٹ جج گورکھ پور نے اپنے رسالہ شہاب ثاقب کے صفحہ ۴۴ میں لکھا ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ شیطان کے شاگرد ہوئے اور عمل آیتہ الکرسی کا اس سے سیکھا (نعوذ باللہ منہا) پس اے میرے بھائیو میں ملحد ، مرتد، زندیق، کافر، کرسٹان، شیطان سہی۔ مگر جو اچھی بات بتاؤ ں اور تمہارے فائدے کی بات کہوں۔دل سوزی سے تمہاری ہم دردی کروں۔میری وہ بات تم کیوں نہ مانو۔ حضرت ابو ہریرہ نے تو (نعوذ باللہ منہا) شیطان سے بھی نیک کام سیکھنے میں عار نہیں کی۔سبحان اللہ کیا شان اسلام رہ گئی ہے کہ جو شخص ان باتوں پر یقین کرے وہ تو پکا مسلمان اور جو یہ کہے کہ میاں وہ حدیث ثابت نہیں ہے یا وہ کوئی چور شیاطین الانس میں سے ہو گا تو نیچرل اسٹ کافر کرسٹان۔ گر مسلمانی ہمیں است کہ واعظ دارد وائے گر در پس امروز بود فردائے کیا اس سے زیادہ بدقسمتی اور بد اقبالی ،کم نصیبی مسلمانوں کی ہو سکتی ہے۔جو ایسے عمدہ کام یعنی مدرستہ العلوم کے قائم ہونے میں مخالفت کرتے ہیں۔اگر ان کی مخالفت میری ذات کے سبب سے ہے۔ تو کیسی نادانی ہے کہ ایک شخص کے سبب جو یقینی ایک دن نابود ہونے والا ہے۔ ہمیشہ کے لیے اپنی تمام قوم کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں۔ اگر انتظامی امور اور فروعی باتوں میں مجھ سے مختلف الرائے ہیں۔تو اپنی رائے کی خوبی اور عمدگی ثابت کر کر بہ غلبہ رائے ممبران کمیٹی میری رائے کو معدوم کر سکتے ہیں۔ اگر وہ اس کام کے انجام کے لائق ہیں تو مجھ کو اس سے علیحدہ کر کر خود آپ تمام کام اپنے اختیار میں لے سکتے ہیں۔ اور میں بخوشی اور بہ منت و احسان مندی اس بوجھ سے سبک دوش ہو سکتا ہوں۔ بہ شرطیکہ کوئی اس کو سرانجام دے۔پھر مخالفت چہ معنی؟۔حقیقت میں یہ نشان بد اقبالی اور ہماری قوم سے خدا کی ناراضگی کا ہے۔ کہ نہ خود آپ اپنی قوم کے لیے کچھ کرتے ہیں اور نہ ہی کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی سمجھ رکھتے ہیں۔اور جو کوئی دوسرا کرتا ہے۔اس میں وسوسے ڈالتے ہیں۔ ان مخالفت کرنے والوں کو اگر ہم یہ دیکھتے کہ اپنے ذاتی امور اور روز مرہ کے برتاؤ میں نہایت پابند شریعت اور متبع سنت ہیں تو جو کچھ وہ کہتے ہم سر جھکا کر سنتے۔مگر جب ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے ذاتی معاملات میں تو سب کچھ روا ہے۔تو پھر ہم ایسے مہمل اور بے مغز گندم نما جو فروش باتوں کو پسند نہیں کرتے۔ اگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مخالف قومی ہمدردی اور قومی عزت کے جوش میں سر گرم ہیں ۔اور مدرستہ العلوم مسلمانان کے قائم ہونے میں عرق ریزی کر رہے ہیں۔ مگر مدرسہ میں لال ترکی ٹوپی اور انگریزی جوتا پہننے سے ناراض ہیں۔ہم خود شرمندہ ہوتے اور کہتے کہ گو وہ غلطی پر ہیں۔مگر ان کی کوشش اور ہم دردی قومی اس کی مقتضی ہے کہ ان کی خاطر سے طالب علموں کو نہ بند باندھنے اور نہ نعلین پہننے کا مدرسہ میں حکم دیا جاوئے۔مگر جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمدردی کا ان میں نشان نہیں اور قومی عزت کا ان کو خیال ہی نہیں بہ جز مخالفت مجسم کے (نہ کسی کینہ عداوت سے بلکہ بہ مقتضائے طبیعت کے)اور کچھ نہیں تو ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ بولیاں ہمارے مخالف نہیں بولتے۔ بلکہ مسلمانوں کی بد اقبالی اور ان کا اوبار چہچہا رہا ہے۔ ہم ان تمام مخالفتوں سے کچھ اندیشہ نہیں کرتے۔اور خدا سے اپنی استقامت چاہتے ہیں۔ اور یقین کرتے ہیں کہ اگر خدا نے ہم کو استقامت بخشی تو ہم ضرور انشا اللہ العزیز اس کام کو پورا کریں گے۔ اے ناخدا ترس مسلمانو۔ تم اتنی ہی سی بات پر غور کرو۔ اگر ہماری قومی سعی سے ہمارا یہ قومی دار العلوم قائم ہو جاوئے۔تو بہ مجرد اس کے قائم ہونے کے بلا انتظار اس کے فوائد عظیمہ کے تمام دنیا میں اور تمام دنیا کی قوموں میں اور خصوصا سویلزڈ قوموں اور سویلزڈ ملک میں ہماری قوم کی کس قدر عزت قائم ہو گی۔اور ہماری قوم کو اس کام کے انجام پر کیسا کچھ فخر ہو گا۔ ورنہ وہی انڈین آبزرور میں آرٹیکل لکھنے والوں کا قول صادق آئے گا کہ سور کے بالوں سے کوئی ریشم نہیں بنا سکتا۔او خدا تو ہماری مدد کر! آمین ۔ اے بھائیو ابھی پچھلے پرچہ میں طریقہ تعلیم انتظام و سلسلہ تعلیم مسلمانوں مشتہر ہوا ہے۔ تم اس پر بہ خوبی غور کرو۔اور سمجھو کہ کیا بغیر اس طریقہ کے ہماری قوم میں اعلیٰ درجے کی تعلیم پھیل سکتی ہے۔اور کیا بغیر اس طریقہ تعلیم کے قومی عزت حاصل ہو سکتی ہے۔ اور کیا ان ٹٹ پونجیوں عربی مدرسوں سے جو جا بجا قائم ہوئے ہیں۔جن کے طالب علم مسجدوں میں پڑے ہوئے ٹکڑے مانگ کر کھاتے ہیں۔ہماریقوم کو کچھ فائدہ اور ہماری قومی عزت ہونے والی ہے۔حاشا وکلا! میری غرض اس تقریر سے ان مدرسوں کی ہجو کرنا نہیں۔جن کو نیک آدمیوں نے اپنی نیک دلی اور سچی نیت سے قائم کیا ہے۔اور نہ میری یہ خواہش ہے کہ ان میں کچھ فتور آئے۔ بلکہ اس تقریر سے میرا مطلب اپنی قوم کو اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ جو کچھ تم نے کیا ہے۔اور کرتے ہو اس سے بہت کچھ زیادہ تمہیں کرنا ہے۔خدا ہم سب کو اس کے انجام کی توفیق دے۔اور پھر خود اس کو انجام دے ۔آمین ! یہ بات بھی کچھ کم تعجب کی نہیں ہے کہ ہمارے ملک کے بعض اخباروں نے بھی (خصوصا جن کے ایڈیٹر مسلمان تھے)اور جن کا فرض اپنی قومی ترقی میں کوشش کرنا تھا۔ اس مدرستہ العلوم سے کافی مخالفت کی ہے۔ گو اس کا کچھ اثر ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔مگر انھوں نے اپنے ملک اور اپنی قوم کے لئے بلاشبہ ایک تریٹر ہونے میں بلا شبہ بلند نامی حاصل کی ہے۔با ایں ہمہ ہمارے ملک کے بہت سے نامی اخباروں نے ہمارے ساتھ صرف اپنی قومی خیر خواہی اور پیٹر یا ٹزم کے جوش سے ہم دردی بھی کی ہے۔ پس ہم ان اخباروں کا اور ان کے ایڈیٹروں کا جن میں سے ہم کو پنجابی اخبار لاہور اور کلکتہ اردو گائیڈ اور پٹیالہ اخبار،اور علی گڈھ سائنٹیفک سوسائٹی اخبار اور اودھ اخبار کا نام لینا چاہیئے،دلی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ در حقیقت ہم اودھ اخبار کے اس آرٹیکل کے جو اس کے ایڈیٹر عالی قدر نے نہایت نیکی اور صاف دلی محبت قومی سے اپنے اخبار مطبوعہ ۲۱ جنوری، ۱۸۷۳ء میں چھاپا تھا۔ بہت کچھ ممنون ہیں۔ ہم اپنے ملک کے اسٹیٹ پیپر پایو نیر الہ آباد کی مہر بانیوں کے کبھی بھی بھول نہیں سکتے۔جس نے ہمیشہ وقتا فوقتا ہمارے مدرستہ العلوم کے حالات مشتہر کرنے میں ہماری بڑی مدد کی ہے۔ ذکر ترقیات دیگر جو کچھ کہ پچھلے برسوں میں کمیٹی مسلمانان نے کوشش کی۔اس کا بڑا نتیجہ خاص مسلمانوں کے حق میں یہ ہوا کہ گورنمنٹ مدراس وبنگال وبمبئی نے نسبت ترقی تعلیم مسلمانان خاص خاص احکام جاری کیے ہیں۔جس کے لئے تمام مسلمانوں کو شکر ادا کرنا چاہیئے۔ چنانچہ تینوں گورنمنٹوں نے اپنی مہر بانی سے تمام کاغذ جو اس سے متعلق ہیں۔ ہم کو مرحمت فرمائے ہیں۔چنانچہ ہم آئندہ کسی پرچے میں وہ سب حال چھاپیں گے۔ علاوہ اس کے جو عام نتیجہ کمیٹی مسلمانان کے مباحثہ سے ہندوستان کو ہوا۔وہ یہ ہے کہ گورنمنٹ نے تسلیم کر لیا کہ جو تعلیم ہندوستان کی یونیورسٹیوں کی تھی۔ وہ کافی نہ تھی۔اور اہل ہند کو اور زیادہ تعلیم دینی چاہیئے۔چنانچہ اس کے لئے خاص کمیٹی بیٹھی ہے۔جو اس کا تصفیہ کرے گی۔پس ہمارے ہم وطن بھائی ہندو بھی ہماری کمیٹی کے ممنون احسان ہیں۔ علاوہ اس کے سب سے بڑا فائدہ ہماری کوششوں کا یہ ہوا کہ گورنمنٹ نے تمام علوم وفنون کی کتابوں کا جن کی فہرست ہم نے مشتہر کی تھی۔دیسی زبان میں ترجمہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور امید ہے کہ ہمارا ملک آئندہ نسلوں تک ان کوششوں کے فائدوں کو یاد رکھے گا۔ ٭٭٭ اختتام سال ۱۲۹۰ ھجری و شروع سال ۱۲۹۱ ھجری (تہذیب الاخلاق جلد ۵ بابت یکم محرم ، ۱۲۹۱ ھجری صفحہ ۲ تا ۴) از بندہ خضوع و التجا می زیبد بخشائش بندہ از خدا می زیبد گر من کنم آں کہ آں مرا نا زیبا است تو کن ہمہ آں کہ آں ترا می زیبد الحمد للہ کہ سنہ نوے پورا ہوا اور سنہ اکیانوے شروع ہو گیا۔ہمارے اس پرچہ کوجاری ہوئے سوا تین برس ہو گئے ہیں۔ پچھلا سال بھی خندہ گل وبلبل سے خالی نہیں گیا۔ہمارے آہ ونالہ نے بدستور غلغلہ رکھا۔اور ہمارے ناصحان شفیق کا بھی شور وضعف کم نہ ہوا۔ حسن شہرت عشق رسوائی تقاضا میکند جرم معشوق وگناہ عاشق بے چارہ نیست ناصحان شفیق نے ہم کو کبھی کچھ کہا اور کبھی کچھ۔آخر کار ہم کو کافر وملحد ٹھہرایا۔ دور و نزدیک کے مولوی صاحبوں سے کفر کے فتوؤں پر مہریں چھپوا کر منگوائیں اور ہمارے کفر پر ہمارے ناصح شفیق جناب مولوی حاجی سید امداد العلی صاحب نے ایک رسالہ چھاپ ہی دیا اور امداد الا فاق اس کا نام رکھا۔بھلا اور کچھ ہوا یا نہ ہوا۔بے چارے غریب چھاپے والے کو تو فائدہ ہو گیا۔ اسی سال میں ہمارے تحریرات کی تردید میں مولانا علی بخش خاں بہادر نے (جو امید ہے کہ اب تک حاجی بھی ہو گئے ہو ں گے۔اور انشا اللہ آئندہ سے ان کو حاجی ہی لکھا کریں گے،) دو رسالے تحریر فرمائے ہیں۔ جن میں سے ایک کا نام شہاب ثاقب ہے۔اور دوسرے کا نام تائید الاسلام ۔ اخباروں میں نور الانوار تو اپنا نور عالم میں برساتا ہی تھا۔مگر اس سے ایک اور پرچہ ان کے گھر کا اجالا مسمی بہ نور الآ فاق لدفع ظلمتہ اھل النفاق پیدا ہوا ہے۔جو نہایت ہی دل چسپ ہے۔اور ہمارے اس پرچہ تہذیب الاخلاق کے جواب میں نکلا ہے۔ اس کے مضا مین ظاہرا تو حاجی مولوی سید امداد العلی صاحب بہادر کے طبع زاد معلوم ہوتے ہیں۔مگر بعضے لوگ ان مضامین کو لے پالک بتاتے ہیں،بہر حال ہم کو اس سے کیا؟۔ کہ وہ میاں نذیر کے ہیں یا میاں بشیر کے کسی کے ہوں مگر دل چسپ ہیں۔خدا اس کی بھی عمر دراز کرے۔ ہم نے اپنے مضامین لکھنے اور قومی بھلائی کی کوشش میں کمی نہیں کی۔اگر چہ پچھلے سال میں کار وائی مدرستہ العلوم مسلمانان کی اکثر چھپتی رہی۔الا مضامین دل نشین سے بھی یہ پرچہ خالی نہیں رہا۔ہمارے غم زدہ ودل شکستہ دوست مولوی سید مہدی علی کا لیکچر مسلمانوں کی تہذیب پر جو اس سال کے پرچوں میں چھپا ہے۔درحقیقت ایسا کارنامہ ہے۔جس کی قدر وہی لوگ جانتے ہیں جو اس کی قدر جانتے ہیں۔ہمارے ہم عصر اڈیٹر اودھ اخبار نے اس کی ویسی ہی قدر دانی کی ہے۔جس کا وہ مستحق ہے۔ہم کو نہایت فخر ہے کہ ایسا عالی مضمون ہمارے اس ناچیز پرچے کے ذریعے مشتہر ہوا۔جو ہماری قوم کی اگلی حالت کو یاد دلاتا ہے۔ اور پچھلی حالت بتا کر شرمندہ کرتا ہے۔ اور پھر آئندہ کی بہتری کی توقع سے دل و جان کو تقویت دیتا ہے۔ بڑی مبارکی ہمارے پرچے کواس سال میں یہ ہوئی کہ جناب مولوی چراغ علی صاحب نے بھی اس میں مضمون لکھنے شروع کیے ہیں۔ ایک آدھ مضمون ان کا پچھلے سال میں چھپا ہے۔اور آئندہ بہت سے عمدہ مضامین چھپنے کی توقع ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری تحریروں کو سمجھنے میں جو کبھی کبھی نسبت مسائل مذہبی لکھی جاتی ہیں۔ اکثر لوگ غلطی کرتے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ ہمارے اصول کیا ہیں۔اور کن اصولوں پر ہماری تحریریں مبنی ہیں۔اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سال کے شروع میں ہم اپنے ان اصولوں کو لکھ دیں۔تاکہ لوگ ان اصولوں کی صحت وسقم پر غور کریں۔اگر وہ اصول صحیح ہیں تو تو امید ہے کہ جو تحریرں ان پر متفرح ہیں۔ان میں بھی کچھ غلطی نہ ہو گی۔ بایں ہمہ یہ مقولہ نہایت صحیح ہے کہ ھیچ نفس بشرخالی از خطا نہ بود اور وہ اصول یہ ہیں : اول: خدائے واحد ذوالجلال ازلی وابدی، خالق وصانع تمام کائنات کا ہے۔ دوم: اس کا کلام اور جس کواس نے رسالت پر مبعوث کیا۔اس کا کلام ہر گز خلاف حقیقت اور خلاف واقع نہیں ہو سکتا، سوم: قرآن مجید بلا شبہ کلام الہیٰ ہے۔کوئی حرف اس کا نہ خلاف حقیقت ہے اور نہ خلاف واقع۔ چہارم: قرآن مجید کی اگر کوئی آیت ہم کو بظاہر خلاف واقع یا خلاف حقیقت معلوم ہو تو دو حال سے خالی نہیں یا تو اس آیت کا مطلب سمجھنے میں ہم سے غلطی ہوئی ہے۔یا جس کو ہم نے حقیقت اور واقع سمجھا ہے۔ اس میں غلطی کی ہے۔ اس کے برخلاف کسی مفسر یا محدث کا قول ہمارے نزدیک قابل تسلیم نہیں ہے۔ پنجم: جس قدر کلام الہیٰ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ۔وہ سب بین الدفتین موجود ہے۔ایک حرف بھی اس سے خارج نہیں ہے۔اس لئے کہ اگر ایسا مانا جاوئے تو کوئی ایک آیت بھی قرآن مجید کی بطور یقین قابل عمل نہ ہو گی۔جو آیات موجود ہیں۔بین الدفتین کے بر خلاف ہو۔ نہ ملنا کسی ایسی آیت کا اس کے عدم وجود کی دلیل نہ ہو سکے گی۔ ششم: کوئی انسان سوائے رسول خدا ﷺ کے ایسا نہیں ہے کہ جس کا قول وفعل بلا سند صحیح قول وفعل رسول کے دینیات میں قابل تسلیم ہو۔ یا جس کے عدم تسلیم سے کفر لازم آتا ہو۔ اس کے بر خلاف اعتقاد رکھنا شرک فی النبوت ہے۔ مقصود یہ ہے کہ جس طرح امت وپیغمبر میں تفاوت درجہ ہے۔ اسی طرح ان کے قول وفعل میں بھی جو دینیات سے متعلق ہیں۔درجہ ورتبہ کا تفاوت ہے۔ ہفتم: دینیات میں سنت نبوی علیٰ صاحبہا الصلواۃ والسلام کی اطاعت میں ہم مجبور ہیں اور دنیاوی امور میں مجاز۔ اس مقام پر سنت سے میری مراد احکام دین ہیں۔ ھشتم: احکام منصوصہ احکام دین با لیقین ہیں۔ اور باقی مسائل اجتہادی اور قیاسی اور وہ جن کی بنا امر ظنی پر ہے۔سب ظنی ہیں۔ نہم: انسان خارج از طاقت انسانی مکلف نہیں ہو سکتا۔پس اگر وہ ایمان پر مکلف ہے تو ضرور ہے کہ ایمان اور اس کے وہ احکام جن پر نجات منحصر ہے۔عقل انسانی سے خارج نہ ہوں۔ مثلا ہم خدا کے ہونے پر ایمان لانے کے مکلف ہیں۔مگر اس کی ماہیئت ذات جاننے کے مکلف نہیں۔ دھم: افعال مامورہ فی نفسہ حسن ہیں اور افعال ممنوعہ فی نفسہ قبیح ہیں اور پیغمبر صرف ان کے خواص حسن یا قبح کے بتانے والے ہیں۔ جیسا کہ طب جو ادویہ کے ضرر اور نفع سے مطلع کر دے۔ اس مقام پر لفظ افعال کا ایسا عام تصور کرنا چاہیئے جو افعال جوارح اور افعال قلب وغیرہ سب پر شامل ہو۔ یازدھم: تمام احکام مذہب اسلام کے فطرت کے مطابق ہیں۔ اگر یہ نہ تو اندھے کے حق میں نہ دیکھنا اور سوجاکے کے حق میں دیکھنا گناہ ٹھہر سکے گا۔ دوازدہم: وہ قویٰ جو خدا تعالیٰ نے انسان میں پیدا کیے ہیں۔ان میں وہ قویٰ بھی جو انسان کے کسی فعل کے ارتکاب کے محرک ہوتے ہیں۔اور وہ قوت بھی ہے۔جو اس فعل کے ارتکاب سے روکتی ہے۔ان تمام قویٰ کے استعمال پر انسان مختار ہے۔مگر ازل سے خدا کے علم میں ہے کہ فلاں انسان کن کن قوی کو اور کس کس طور کام میں لاوئے گا۔اس کے علم کے بر خلاف ہرگز نہ ہوگا۔مگر اس سے انسان ان قویٰ کے استعمال یا ترک استعمال پر جب تک کہ وہ قوی قابل استعمال کے اس میں ہیں۔مجبور نہیں متصور ہو سکتا۔ سیزدھم: دین اسلام ان مجموع احکام کا نام ہے۔جو یقینی من اللہ ہیں۔ چہاردھم: احکام دین اسلام دو قسم کے ہیں۔ایک وہ جو اصلی احکام دین کے ہیں۔اور وہ بالکل فطرت کے مطابق ہیں۔دوسرے وہ جن سے ان اصلی احکام کی حفاظت مقصود ہے۔مگر اطاعت اور عمل میں ان دونوں کا رتبہ برابر ہے۔ پانزدھم: تمام افعال اور اقوال رسول خدا ﷺ کے بالکل سچائی تھے۔مصلحت وقت کی نسبت رسول کی طرف کرنی سخت بے ادبی ہے۔ جس میں خوف کفر ہے۔ مصلحت وقت سے میری مراد وہ ہے جو عام لوگوں نے مصلحت کے معنی سمجھے ہیں۔کہ دل میں کچھ اور کہنا یا کرنا یعنی ایسے قول اور فعل کو کام میں لانا جو درحقیقت بے جا تھا۔ مگر بندہ وقت بن کر اس کو کہہ دیا یا کر لیا۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ اصول پانزدہ ایسے ہیں کہ جن سے کوئی مسلمان انکار اور اختلاف نہیں کر سکتا ہے۔اور جب وہ لوگ جو ہم سے اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ان اصولوں پر غور کریں گے اور سجھیں گے کہ ہماری تحریریں ایسے سچے اصولوں پر مبنی ہیں تو کیا عجب ہے کہ وہ بھی ہم سے متفق ہو جاویں۔ تہذیب قومی اصلی مقصود تو ہمارا اس پرچہ کا یہ تھا کہ یہ تہذیب قومی ہے۔مسائل مذہبی کی بحث بہ مجبوری آ جاتی ہے۔ اس سال میں بھی جہاں تک ہو سکا۔ایسے مضامین جو قومی تہذیب سے علاقہ رکھتے ہیں۔اس پرچہ میں لکھے گئے ہیں۔اور کچھ عجب نہیں کہ ان مضمونوں نے کسی کے دل پر اثر بھی کیا ہو۔مگر ہم کو بہ نسبت اس کے کہ ہمارے مضمونوں نے کسی کے دل کو نرم کیا ہے۔اس بات سے زیادہ خوشی ہے کہ ہم ا پنے فرض کو ادا کرتے ہیں۔ اور یہی ہمارا مقصد ہونا چاہیئے۔ کیوں کہ بندہ کا کام صرف سعی کرنا ہے۔اور اس کو پورا کرنا اور اثر دینا خدا کا کام ہے۔السعی منی والاتمام من اللہ تعالیٰ۔ ایک مشہور مقولہ ہے۔پس شکر ہے کہ جہاں تک ممکن ہے ہم اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ مگر نہایت افسوس ہے کہ ہماری قوم ایسے جہل مرکب میں گرفتار ہے کہ اس کو اپنا بھلا یا برا مطلق نہیں سوجھتا،جو بات قومی بھلائی کی کہو۔اس کو الٹا سمجھتے ہیں۔قومی بھلائی پر کوشش کرنے والے خیال کرتے ہیں کہ تقدیر پلٹ گئی ہے۔ ادبار چھا رہا ہے۔ بھلائی کی بات کیوں کر خیال میں آسکتی ہے۔ مگو توقع نہیں توڑتے۔خدا کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے، لا تقنطو من رحمتہ اللہ پر بھروسہ کر کے کوشش کیے جاتے ہیں۔ انھی دوتین ہفتوں میں پایونیر نے ایک نہایت عمدہ آرٹیکل میں ایک مضمون قریب قریب اس مضمون کے لکھا تھا کہ قومی باتیں جب ہی ترقی پر ہو سکتی ہیں۔جب کہ قوم میں قومیت کی شرطیں بھی موجود ہوں یعنی۔ ۱۔ عام لوگوں میں وہ قوت موجود ہو جس سی کسی عمدہ بات کی قدر کی جاتی ہے۔ ۲۔آ پس ک یمیل جو ل میں آزادی اور ہم سری ہو۔ ۳۔ خیال سب کے آزاد ہو ں۔ ۴۔ اور سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ بہت سے ایسے دل موجود ہوں جن سے اس ترقی اور ایجاد کرنے والی قوت کے جواب میں جو زمانے کی تاثیر سے پیدا ہوتی ہے۔صدا نکلے۔ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی ہماری قوم میں نہیں ہے۔ پس ترقی ہو تو کیوں کر ہو۔ پس خدا سے امید ہے۔ کہ کوئی زمانہ ایسا آؤئے گا۔جو لوگ ان باتوں کو سمجھیں گے اور اپنی قوم کو قوم بناویں گے۔اور اس کی بہتری اور ترقی میں کوشش کریں گے۔ مدرستہ العلوم ان سب باتوں کو قوم میں پیدا کرنے والا ہماری دانست میں مدرستہ العلوم ہو گا۔جس کے قائم کرنے پر نہایت دل سے کوشش ہو رہی ہے۔ ہم کو اس بات کے کہنے سے نہایت خوشی ہے کہ بہت سے دل رفتہ رفتہ مدرستہ العلوم مسلمانان کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں۔اور ہر ایک کے دل میں یہ خیال ہے کہ ایسے مدرستہ العلوم کی نہایت ضرورت ہے۔پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ جن بزرگوں کو ہمارے ذاتی افعال واقوال کے سبب مدرستہ العلوم سے نفرت تھی۔ وہ بھی بر سر انصاف آتے جارہے ہیں۔اور اس بات کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ ہمارے ذاتی افعال واقوال کو مدرستہ العلوم سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ کیا عجب کہ کسی دن ہماری قسمت بھی ایسی یاور ہو جاوئے کہ جناب مولوی حاجی سید امداد العلی صاحب بھی ہمارے شامت اعمال سے قطع نظر فر ما کر مدرستہ العلوم مسلمانان کے حامی اور سر پرست بن جاویں۔آمین۔ ہماری ان کوششوں نے ہمارے ہم وطن بھائی اہل ہنود کے دل میں بھی بہت اثر کیا ہے۔ باوجودے کہ سرکاری مدارس ان کی تعلیم کے لئے نا مناسب نہیں ہیں۔اس پر بھی ان کو اپنی پاک زبان اور مقدس کتابوں کے چرچے کا شوق دل میں اٹھا ہے۔ اور وہ بھی مثل ہمارے مدرستہ العلوم کے ایک قومی مدرسہ جاری کرنے پر آمادہ ومستعد ہوئے ہیں۔ جا بجا نہایت سر گرمی اور کامیابی سے چندہ جاری ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ جس قدر چندہ ہم نے ایک سال میں ہزاروں محنتوں سے جمع کیا ہے۔انھوں نے اس سے زیادہ ایک مہینے میں اکٹھا کر لیا ہے۔ہماری نہایت خوشی ہے کہ ہندوستان کی دونوں قومیں ساتھ ساتھ ترقی کرتی جاویں۔ ہمارے ہم وطن ہندو صاحبوں کی کام یابی میں ہم کو شبہ نہیں ہے۔ وہ ہم سے تعداد میں زیادہ ہیں اور ہم سے دور اندیش بھی زیادہ ہیں۔ہم سے دولت مند زیادہ ہیںاور ہماری مانند پر فساد نہیں ہیں۔مثل ہمارے حسد وبغض وتعصب نہیں رکھتے۔اتفاق قومی ان میں ہے۔ہندوستان میں ان کی قوم کے بڑے سردار اور والیان ملک موجود ہیں۔ہماری قوم کے اول تو سردار ہی کم ہیں اور جو ہیں وہ کچھ پرواہ نہیں کرتے۔ گویا ہندوؤں کے مربی وسرپرست زندہ وموجود ہیں۔اور ہمارے مربی وسر پرست دنیا سے تشریف لے گئے ہیں۔وہ باسر ہیں اور ہم بے سر۔پس ان کی کام یابی میں کچھ شبہ نہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ہم کو اپنی کام یابی میں شبہ ہے۔ہاں اگر ہماری قوم کو بھی غیرت آوئے اور خدا ان کے دل سیدھا کرے اور پر فساد خیالات کو ان کے دل سے نکالے ۔اور قومی ہم دردی ان کے دل میں ڈالے تو ہم کو بھی اپنی کام یابی میں کچھ شبہ نہیں ہے۔ اے برادران دینی اب یہ وقت نہیں ہے کہ ہم آپس کی فساد وتکرار میں پڑیں، تو تو میں میں کر کر کسی کو کافر اور کسی کو ملحد بنا دیں اور کم وبیش جو کوشش اور سعی ہم سے ہو سکتی ہے۔اس کو بھی آپس کے اختلافوں سے بے کار کر دیں،پس امید ہے کہ ہماری قوم میری اس صدا کو توجہ سے سنے گی اور مدرستہ العلوم کی امداد میں دل وجان سے سعی و کوشش کرے گی۔واللہ المستعان ۔ اختتام سال ۱۲۹۱ ھجری وشروع سال ۱۲۹۲ ھجری (تہذیب الاخلاق جلد ششم بابت یکم محرم ، ۱۲۹۲ھجری صفحہ ۲ تا ۱۲) سوا چار سال بخریت گزر گئے۔ اب پھر نیا سال شروع ہوا ہے۔ گزشتہ برسوں میں جو کچھ ہنگامے ہوئے تھے۔ ہو لیے۔اب دم باقی رہ گئی ہے، چاند کی بڑھیا کی کہانی ہے۔کہ ہاتھی نکل گیا پر دم باقی ہے۔آج اگر ہم اپنی قسمت پر فخر کریں تو بھی بجا ہے۔اور اگر اپنی قوم کے اقبال کی فصل بہار کی آمد آمد کی خوشیاں منائیں تو بھی زیبا ہے۔ جو کچھ کہ ان سوا چار برسوں میں ہوا ہے۔کیا ایسے قلیل زمانے میں ہم کو ہونے کی توقع تھی۔توبہ،توبہ، کیا ہم کو ایسا جلد ان ناچیز پرچوں سے اپنی قوم کوجگانے اور اٹھانے کی جو مدت دراز سے غفلت کے تاریک گڑھے میں پڑی ہوئی بے خبر سو رہی تھی ،توقع تھی ، استغفراللہ ۔ وہ عید کا مبارک دن ،یعنی یکم شوال ، ۱۳۰۱ نبوی اور ۱۲۸۷ ھجری تھی، جب کہ ہمارا پہلا پرچہ نکلا۔ امید ہے کہ ہماری قوم کی تاریخ میں کبھی بھولا نہ جاوئے گا،ہماری قوم کی جو کچھ بد اقبالی تھی ۔وہ یہی تھی کہ کچھ نہ تھے۔اور جانتے تھے کہ ہم سب کچھ ہیں۔ اس غفلت کے ڈراوئے بے ہوشی نے ان کے کانوں کو بہرا کر دیا تھا۔ ان کی آنکھوں کو پتھرا دیا تھا۔ دل پتھر ہو گئے تھے۔ دماغ قابو میں نہیں رہا تھا۔ہاتھ پاؤں سست ہو گئے تھے۔ زندہ تھے۔ پرمردوں سے بد تر تھے۔ اٹھتے ،بیٹھتے ، چلتے ،پھرتے تھے پر کچھ نہ کرتے تھے۔اسی تھوڑے عرصے میں وہ حالت بالکل بدل گئی۔کچھ لوگ بخوبی ہو شیار ہو گئے۔وہ سمجھے کہ ہماری کیا حالت ہے۔اور ہم پر کیا مصیبت ہے؟۔لبوں پر جان ہے اور پھر اگر جان نہیں تو جہان نہیں،کچھ لوگ ہوشیار ہوئے پر ابھی آنکھیں ملتے ہیں۔ بہت سونے اور اندھیرے میں پڑے رہنے سے آنکھوں میں چیپڑ جما ہوا ہے۔ کچھ کھلتی ہیں۔ مگر اندھیرے سے چندھیا جاتی ہیں۔ کچھ لوگ ابھی تک نیند کے خمار میں ہیں۔ کچھ ھرکت تو ان میں آئی ہے۔مگر ابھی انگڑائی لے کر اور کروٹ بدل کر پھر غافل ہو جاتے ہیں۔جب پھر جھنجھوڑو تو ہاں اچھا کہہ کر دوسری کروٹ لے لیتے ہیں۔اور پھر غافل ہو جاتے ہیں۔کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ابھی تک بدستور غافل پڑے سوتے ہیں۔اور کچھ ایسے ہیں کہ ہوشیار ہوئے ہیں مگر بد مزاجی اور تند خوئی سے ضد میں آکر کمبل تانے پڑے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہاں ہم نہیں اٹھنے کے۔ تمہارا کیا چارہ ہے۔ ہم یونہی پڑے رہیں گے۔ بعضے ان میں سے اپنے پاس والوں کو کہتے ہیں کہ تم بھی پڑے رہو۔ مت اٹھو۔ سید احمد کون ہے جو جگاتا پھرتا ہے۔ ہم اسی بات کو سن کر خوش ہوتے ہیں اور دور ہی سے کھڑے کہتے ہیں کہ وہ اٹھے ، ول کلبلائے، خدا نے چاہا تو اب سمجھ دار بھی ہو جاویں گے۔یہی رست وخیز ہماری قوم کے اقبال کی نشانی ہے۔پتھر پسیجا تو سہی ۔اب کسی نہ کسی طرف بہہ نکلے گا،لوہا پگھلا تو سہی اب کچھ نہ کچھ ڈھل رہے گا۔ بند پانی سے بجز سڑ جانے کے اور کچھ نہیں ہوتا۔پانی کوبہنا چاہیئے۔ پھر کوئی نہ کوئی اپنا رستا بنا لے گا۔ اس وقت ہماری ساری قوم میں اس بات کا غلغلہ ہے کہ ہماری حالت اچھی نہیں۔قوم کے لئے کچھ کرنا چاہیئے کیا یہ صدا ان لوگوں کے دلوں میں جو قومی بھلائی چاہنے والے ہیں جان نہیں ڈال دیتی۔ سویلزیشن جس کے نام سے لوگوں کونفرت تھی۔ کیا اب اس کا چر چا ہرگلی کوچہ میں نہیں ہے۔ کیا نیچر کا قافیہ کیچڑ کہتے ہوئے اب لوگوں کو شرم نہیں آتی۔ (معاف کیجیے ان ضدی سونے والوں کا ذکر نہیں ہے۔) کیا قومی ہم دردی کی کسی نہ کسی تحریک اب ہر ایک کے دل میں نہیں ہے۔ کیا چار دانگ ہندوستان کے اخباروں میں تہذیب ،تہذیب، سویلزیشن ،سویلزیشن ، قومی ہم دردی، پیٹر یا ٹزم ، پیٹر یا ٹزم ، کا غلغلہ نہیں ہے۔کوئی اخبار اٹھاؤ۔اس میں کسی نہ کسی پر کوئی چھوٹا موٹا آرٹیکل دیکھ لو۔جس گلی کوچہ میں جاؤ۔ سید احمد کے تہذیب الاخلاق کا جھگڑا سن لو۔مکہ میں جاؤ تو سید احمدکو پاؤ ، مدینہ میں جاؤ تو سید احمد کا پاؤ ۔ برا کہو خواہ بھلا کہو۔ مگر ہم دعا گوؤں کو مت بھولو۔ قطع کیجیے نہ تعلق ہم سے کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی یہ ولولہ اور غلغلہ اور ہر ایک بات کا چرچا دراصل ہماری قومی بھلائی کی نشانی ہے۔اور اس پر ہم کو ذرا بھی خیال نہیں ہے کہ کسی کی کیا رائے ہے۔ اور کسی کی کیا؟۔ کیوں کہ جو بات ٹھیک نہیں ہے، وہ آج نہیں ،کل نہیں، کل نہیں پرسوں سب کو معلوم ہو جاوئے گی۔اور سب اسی پر یقین کریں گے۔ ضرور ایک دن وہ آؤئے گا کہ جو قوم کہے گی کہ ہاں سید بھی کوئی دیوانہ تھا۔ پر بات ٹھکانے کی کہتا تھا۔اگر ہمارا یہ خیال صحیح ہوا اور درحقیقت ہماری قوم میں ایسی تحریک آگئی ہو۔تو ہمارے اس ناچیز پرچے نے اپنا کام پورا کر لیا۔اور اس کی مراد پوری ہو گئی۔ والحمد للہ علی ذالک۔ مگر ہمارے بعض محب وطن جو دل سے اپنی قوم کی بھلائی اور ترقی چاہتے ہیں۔کبھی غلطی میں پڑ جاتے ہیں۔جب کبھی ان کو کسی سویلزڈ یعنی مہذب وشائستہ تربیت یافتہ قوم میں سے کسی کی کوئی وحشیانہ حرکت معلوم ہوتی ہے۔ اس کو بڑے طمطراق سے بیان کرنے لگتے ہیں اور لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب اس قوم میں بھی ایسی وحشیانہ حرکتیں ہوتی ہیں تو ہماری قوم کوکیوں برا کہا جاتا ہے۔مگر ان کو سمجھنا چاہیئے کہ اگر ہم کسی دوسرے کی آنکھ کی پھلی کو ٹوکیں تو اس سے ہماری آنکھ کا ٹینٹ نہیں چھپتا۔ہم کو اپنی آنکھ کے ٹینٹ کا علاج کرنا چاہیئے۔ دوسرے کی آنکھ میں پھلی ہو یا نہ ہو۔ بایں ہمہ وہ لوگ اس باب میں ذرا انصافانہ بھی نظر نہیں کرتے۔قوم کی محبت انصاف کو چھپا دیتی ہے۔ جس قوم کے کسی وحشیانہ حرکت کی ہم گرفت کرتے ہیں۔اس وقت اس بات کوبھول جاتے ہیں کہ اس قوم میں خوبیاں کتنی ہیں۔ہماری قوم میں وہ عیب تو ہیں مگر خوبیاں کسی میں نہیں۔اصل محبت اور سچی خیر خواہی اس قوم کی یہی ہے کہ اس کے نقصانوں کو دیکھیں۔اور ان کے مٹانے کی فکر کرے،جو لوگ نہایت ہم دردی اور قومی محبت سے اپنی قوم کے عیبوں اور نقصانوں سے مطلع کرتے ہیں۔ان کا دل اپنی قوم کی حالت پر بہ نسبت ان کے جو قوم کی طرف داری کرتے ہیں۔اور اس کے عیبوں کو چھپاتے ہیں بہت زیادہ جلتا ہے۔ اور حقیقت میں وہی لوگ محب وطن ومحب قوم ہیں۔ وذالک فضل اللہ یوتیہ من یشا ، ۔ ترقی علم انشا ء جہاں تک ہم سے ہو سکا۔ ہم نے اردو زبان کے علم ادب کی ترقی میں اپنے ان ناچیز پرچوں کے ذریعے سے کوشش کی۔ مضمون کے ادا کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔ جہاں تک ہماری کج مج زبان نے یاری دی۔الفاظ کی درستی ،بول چال کی صفائی پر کوشش کی۔ رنگینی عبارت سے جو تشبیہات اور استعارات خیالی سے بھری ہوتی ہے۔ اور جس کی شوکت صرف لفظوں ہی لفظو ں میں رہتی ہے۔اور دل پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔پرہیز کیا۔ تک بندی سے جو اس زمانے میں مقتضائے عبارت کہلاتی تھی۔ ہاتھ اٹھایا۔ جہاں تک ہو سکا ۔سادگی عبارت پر توجہ کی۔اس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہو۔وہ صرف مضمون کے ادا میں ہو۔ جو اپنے دل میں ہو۔وہی دوسرے کے دل میں پڑے۔تاکہ دل سے نکلے اور دل میں بیٹھے۔ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ہماری یہ کوشش کتنی کارگر ثابت ہوئی۔اور ہمارے ہم وطنوں نے اس کو کس قدر پسندکیا۔مگر اتنی بات ضرور دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے خیالات میں ضرور تبدیلی آگئی ہے۔اور اس کی طرف لوگ متوجہ بھی معلوم ہوتے ہیں۔اخباروںکی عبارتیں نہایت عمدہ اور صاف ہوتی جارہی ہیں۔وہ پہلا ن اپسند طریقہ ادائے مضمون کا بالکل چھوٹتا جاتا ہے۔ بھاری بھاری لفظوں اور موٹے موٹے لغتوں سے اردو زبان کا خون نہیں کیا جاتا۔ صفائی اور سادگی روز بروز عبارتوں میں بڑھتی جاتی ہے۔خیالات بھی بالکل بدلے ہوئے ہیں۔بہت کم اخبار ایسے ہو ں گے جن میں ہر ہفتہ کوئی نہ کوئی آرٹیکل کسی نہ کسی مضمون پر نہ لکھا جاتا ہو۔صرف اس بات کی کمی ہے کہ وہ سامان ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ جس سے ہماری معلومات زیادہ ہوں اور ہمارے خیالات کو وسعت ہو۔ جو مضمون ہم لکھنا چاہیئں۔ ان کے ماخذ اور ان کے حالات اور جو بحثیں کہ ان پر ہو چکی ہیں۔اور جو امور ان کی نسبت محقق ہو چکے ہیں۔ان سے آگاہی ہو اور یہی سبب ہے کہ بعضی دفعہ ہماری قوم کے آرٹیکلوں میں غلطی ہوجاتی ہے۔ اور جن امور کا تصفیہ ہو چکا ہے ۔ان ہی کو بار بار کہے جاتے ہیں۔ یہ نقص اس وقت رفع ہو گا جب کہ انواع واقسام کی کتابیں علوم وفنون کی ہماری زبان میں موجود ہو جاویں گی۔ اور ہماری قوم کوعموما ان پر دسترس ہو گی۔ سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ نے اس کام کے پورا کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ قوم کو اس طرف توجہ نہیں ہے۔ اور اسی سبب سے اس کا کام ادھورا پڑا ہے۔ نئی اردو نے درحقیقت ہماری ملکی زبان میں جان ڈال دی ہے۔ میر ودرد وظفر نے اردو اشعار میں جو کچھ سحر بیانی کی ہو۔ میر مومن دھلوی نے جو کوئی کہانی شستہ بول چال میں کہہ دی ہو۔ کہہ دی ہو۔ جو اس سے زیادہ فصیح و دل چسپ و با محاورہ نہ ہو گی جو ایک پوپلی بڑھیا بچوں کو سلاتے وقت ان کو کہانی سناتی ہے۔مضمون نگاری دوسری چیز ہے جو آج تک اردو زبان میں نہ تھی۔یہ اسی زمانہ میں پیدا ہوئی ۔اور ابھی نہایت بچپن کی حالت میں ہے۔اگر ہماری قوم اس پر متوجہ رہے گی اور ایشیائی خیالات کو نہ ملائے گی جو اب حد سے زیادہ اجیرن ہو گئے ہیں تو چند روز میں ہماری ملکی تحریریں بھی میکالی واڈیسن کی سی ہو جاویں گی۔ بعض لوگوں کو شکایت ہے کہ جو لوگ اس زمانے میں اردو لکھتے ہیں۔وہ انگریز لفظ اپنی تحریروں میں ملاتے ہیں۔مگر ان کو غور کرناچاہیئے کہ زندہ زبان میں ہمیشہ نئے نئے لفظ ملتے اور بنتے ہیں۔اور جب کوئی زبان محدود ہو جاتی ہے۔ مردہ کہلاتی ہے۔غیر زبان کے الفاظ کو اپنا کر لینا اہل زبان کا کام ہے۔مگر ان کا ملا لینا آسان کام نہیں ہے۔اہل زبان غیر زبان کے الفاظ ایسی عمدگی سے ملا لیتے ہیں کہ جیسے تاج گنج کے روضہ میں سنگ مر مر پر عقیق و یاقوت و زمرد کی پچ کاری ہے۔ بے شک وہ دوسرا پتھر ہے۔مگر ایسا وصل ہوا ہے کہ غور سے دیکھنے پر بھی اوپر سے جڑا ہوا معلوم نہیں ہوتا ہے۔ یہ بات اہل زبان کے سوا دوسرے سے نہیں ہو سکتی۔اور نہ سب اہل زبان سے۔بلکہ صرف اس سے جسے خدا نے ایسا ملکہ دیا ہو۔ یہ بات بھی غور کرنی چاہیئے کہ اہل زبان کو دوسری زبان کے لے لینے کی کیوں ضرورت پڑتی ہے۔اس کے متعدد اسباب ہوتے ہیں۔ایک مورخ جو کسی کی تاریخ لکھتا ہے۔ اس کو ضرور ہوتا ہے کہ اس ملک کے تاریخی الفاظ یعنی جو تاریخ سے متعلق ہیں۔اور ملکوں کی تقسیم اور مناسب اسی ملک کی زبان میں قائم رکھے، کیوں کہ اگر ان کے لئے اپنی زبان کے الفاظ اور اصطلاح بدل دے تو وہ تاریخ نہایت نکمی اور غیر مفید ہو جاوئے گی۔ٹونس میں جو تاریخ غیر ملکوں کی عربی زبان میں ترجمہ نہیں تصنیف ہوئی ہیں۔ان کودیکھو کہ کس قدر غیر زبان کے الفاظ معرب و غیر معرب ان میں شامل ہیں۔عربی اخبار الجوائب کو دیکھو کہ اس کا کیا حال ہے؟۔قرآ ن مجید کو پڑھو اور دیکھو کہ اس میں کس قدر الفاظ دوسری زبانوں کے داخل ہیں۔اگر عربی زبان کے علم ادب میں اور علم وفنون میں الفاظ جدیدہ شامل ہونے بند ہو جاتے تو وہ زبان بھی مثل عربی و سنسکرت وژند کے مردہ زبان ہو جاتی۔ علوم وفنون پر کتابیں لکھنے والا بعضی دفعہ مجبور ہو جاتا ہے۔ کہ جس زبان سے اس علم کو لیا ہے۔ اسی زبان کے بعض الفاظ اور مصطلحات بدستور قائم رکھے۔دیکھو یونانی زبان سے جو علم طب عربی میں ترجمہ ہوا۔کس قدر یونانی الفاظ اس میں شامل ہیں۔اگر کسی کولیژغس نہ ہو تو ضرور اس کو تسلیم کرے گا۔ عربی زبان سے کیمسٹری انگریزی زبان میں آگئی۔ آج تک بہت سے عربی لفظ انگریزی زبان کی کیمسٹری میں شامل ہیں۔ پوچھو کہ اس مقام پر میں نے کیوں لفظ کیمسٹری بولا۔اور کیمیا کا لفظ جس سے خود انگریزوں نے لفظ کیمسٹری بنایا ہے۔ کیوں نہ بولا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم لوگوں میں کیمیا کے لفظ کے ساتھ چاندی، سونا بنانے کا خیال پیدا ہوتا ہے۔جو ایک محض غلط خیال ہے۔اب وہ شخص جو اپنی قوم کی ہم دردی رکھتا ہے۔اور ان غلط خیالات کو مٹانا چاہتا ہے تو کسی جگہ کیمسٹری اور کسی جگہ کیمیا کا لفظ بول جا تا ہے۔تاکہ کیمسٹری کا لفظ اس غلط خیال کو نہ آنے دے اور کیمیا کا لفظ کیمسٹری اور کیمیا کے ایک ہونے سے کا خیال پیدا کرے۔ لٹریچر یعنی علم ادب اہل زبان کے لئے نہایت وسیع جولان گاہ ہے۔ اس میں وہ اپنی طبیعت کا زور دکھلاتا ہے۔ اسی کے ذریعے سے وہ اپنے دل کی بات دوسرے کے دل میں ڈالتا ہے۔ اپنی شستہ تقریر اور مناسب مناسب الفاظ سے لوگوں کے دلوں کو جس بات پر چاہتا ہے۔ابھارتا ہے۔ انھی لفظوں سے کبھی ہنسا دیتا ہے۔ اور کبھی رولا دیتا ہے۔پرانے دقیانوسی خیالوں کو مٹاتا ہے۔اور نئے نئے خیالات دلوں میں ڈالتا ہے۔کبھی واحد کے بدلے جمع اور کبھی جمع کے بدلے واحد کے صیغے بولتا ہے۔کبھی حاضر کو غائب اور کبھی غائب کو حاضر کہہ دیتا ہے۔ کبھی ترکیب جملہ کی دوسری زبان کی ترکیب پر گڑھ دیتا ہے۔اوراس سب میں ایک لطف اور قسم کا مزہ رکھتا جاتا ہے۔اگر وہی چال وہ چلے جو اہل زبان نہیں ہے تو سینکڑوں ٹھوکریں کھاتا ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ اہل زبان جو کہے سو سہی ہے اور غیر اہل زبان وہ چال چلے تو غلط ہے۔نہیں درحقیقت اس کا کہنا صحیح اور اس کا بولنا غلط ہوتا ہے۔اور اہل زبان ہی اس میں تمیز کر سکتا ہے۔ دوسری زبان کے لفظوں کو اپنی زبان میں بولنا کبھی عبارت کا لطف بڑھانے کے لئے ہوتا ہے اور کبھی اپنی زبان کو وسعت دینا اور نئے لفظوں کو اس میں داخل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ کبھی سامعین کو مطلب کی طرف زیادہ متوجہ کرنے کے لئے بولا جاتا ہے۔ کبھی اس مطلب کی عظمت جتانے کو کہا جاتا ہے۔ جو عظمت اس مرادف لفظ سے جو اس زبان میں مستعمل ہے۔دل میں نہیں بیٹھتی۔مثلا بعضے اہل زبان اپنی تحریر وتقریر میں مناسب موقع پر جس کی مناسبت کو اہل زبان ہی جان سکتے ہیں،جنٹل مین کا لفظ بولتے ہیں۔اگر وہ اس کی جگہ شریف یا شریفوں کا لفظ بولیں تو اس لفظ کی عظمت خاک میں مل جاتی ہے۔ اس لئے کہ ہماری زبان اور عام استعمال میں لفظ شریف کا ذلیل ہو گیا ہے۔ اس سے بہ جز اس خیال کے اس کے حسب ونسب میں کچھ نقصان نہیں ہے۔ شیخ ،سید، مغل، پٹھان ہے۔اور کوئی خیال پیدا نہیں ہوتا ہے۔مگر اس لفظ کے بولنے والا اس خیال سے زیادہ وسیع اور اعلیٰ خیال دل میں بٹھانا چاہتا ہے۔ وہ اس لفظ سے ایسا شخص بتانا چاہتا ہے۔جو رذیل آدمیوں کی نسبت خاندان میں،تعلیم میں ،حیثیت میں اطوار میں افضل ہو۔ اس کی تعلیم وتربیت اس کا چال چلن اچھا ہو۔نیک اور خوش اخلاق ہو۔ وہ ہر بات میں جو اس سے متعلق ہو حلیم ہو۔چال چلن میں ، حوصلہ ومزاج میں ،خواہش اور اردہ میں سلیم ہو ۔ ایسا ہونا تعلیم سے شروع ہوتا ہے۔ اور پڑھے کوگنا اور نیک صحبت میں بیٹھنا اس کو پورا کرتا ہے۔ اگر چہ شریف کے بھی یہی معنی ہونے چاہیئں۔مگر جو کہ اس کا استعمال ایک خاص بات پر ہو گیا ہے۔ تو یہ پورا پورا خیال اس لفظ سے دل میں نہیں آتا۔ پس ایک محب قوم اہل زبان ان خیالوں کو دل میں ڈالنے کے لئے اپنی زبان کو وسعت دیتا ہے۔اور دوسری زبان کا نیا لفظ اپنی زبان میں ملاتا ہے۔تاکہ نئے لفظ کے ساتھ ساتھ نیا خیال دل میں پیدا ہو۔ یہی حال اس قسم کے اور لفظوں کا ہے۔اگر ہم ان سب کی تفصیل لکھیں تو ہمارا یہ آرٹیکل لغت یا اصطلاحات کی ایک کتاب ہو جاوئے۔ اسی نمونہ سے ہمارے ہم وطن خیال کرسکیں گے کہ ہماری قوم کو اپنی زبان کی نسبت ابھی کیا کیا کرنا ہے۔ اور ان لغو خیالات کو چھوڑیں گے۔ کہ وہ شخص تو انگریزیت پر مرتا ہے۔انگریزی ہی بولتا ہے۔اپنی واقف کاری انگریزوںکی جتاتا ہے۔ کیوںکہ کسی جنٹل مین کو کسی جنٹلمین کی نسبت ایسے ذلیل خیالات کرنے زیبا نہیں ہے۔ اردو نظم ہم نے جونیچر کی بہت ہائے پکار کی،تو اب اس کا قافیہ کیچڑ تو نہیں رہا۔ بلکہ شاعروں نے اس کی طرف توجہ کی ہے۔ ہماری زبان کے علم ادب میں بہت بڑا نقصان یہ تھا کہ نظم پوری نہ تھی۔ شاعروں نے اپنی ہمت عاشقانہ،غزلوں اور واسوختوں اور مدحیہ قصیدوں اور ھجر کے قطعوں اور قصہ وکہانی کے مثنویوں میں صرف کی تھی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ان مضا مین کو چھونا نہیں چاہیئے تھا۔ نہیں وہ بھی نہایت عمدہ مضامین ہیں۔اور جودت طبع اور تلاش مضمون کے لیے نہایت مفید ہیں۔مگر نقصان یہ تھا کہ ہماری زبان صرف یہی تھی۔ دوسرے دوسری قسم کے مضامین۔جو در حقیقت وہی اصل مضامین ہیں۔ اور نیچر سے علاقہ رکھتے ہیں نہ تھے۔نظم کے اوزان بھی وہی معمولی تھے۔ ردیف و قافیہ کی پابندی وہی گویا ذات شعر میں داخل تھی۔ رجز اور بے قافیہ گوئی کا کوئی رواج ہی نہ تھا۔اور اب بھی شروع نہیں ہوا۔ ان باتوں کے نہ ہونے سے حقیقت میں ہماری نظم صرف ناقص ہی نہ تھی ۔بلکہ غیر مفید بھی تھی۔مگر نہایت خوشی کا مقام ہے کہ زمانے نے اس کو بھی ری فارم کیا اور اہل پنجاب اس نقص کے رفع کرنے پر مائل ہوئے۔اردو زمانہ کے اہل ادب کی تاریخ میں ۱۸۷۴ ھجری کا وہ دن جب لاہور میں نیچرل پوئٹری کا مشاعرہ قائم ہوا تھا۔ ہمیشہ یاد رہے گا۔ ھز آنر لفٹیننٹ گورنر بہادر پنجاب اور مسٹر ھالر ایڈ ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن پنجاب نے اس مشاعرہ کے قائم ہونے پر بڑی توجہ کی ہے۔ جس کی شکر گزاری ہماری قوم پر واجب ہے۔ ہماری قوم کے لائق وفائق لوگوں نے بھی اس پر بہ خوبی توجہ کی ہے۔ مولوی محمد حیسن آزاد پروفیسر عربی گورنمنٹ کالج لاہور اس مشاعرے کی بقا اور قیام میں سب سے زیاد ہمت صرف کی۔ ان کی طبیعت کے زور اور پاکیزگی مضامین اور شوکت الفاظ اور طرز ادا سے ہم لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کی مثنوی خواب امن جو آفتاب پنجاب میں چھپی۔ہمارے دلوں کو خواب غفلت سے جگاتی ہے۔مولوی خواجہ الطاف حیسن حالی اسٹنٹ ٹرانسلیٹر محکمہ ڈائریکٹر پنجاب کی مثنویوں نے تو ہمارے دلوں کے حال کو بدل دیا۔ ان کی مثنوی حب الوطن اور مثنوی مناظرہ رحم و انصاف جو پنجابی اخبار میں چھپی ہے۔ درحقیقت ہمارے زمانے کے علم وادب میں ایک کار نامہ ہے۔ان کی سادگی الفاظ ، صفائی بیان، عمدگی خیال، ہمارے دلوں کو بے اختیار کھینچتی ہیں۔ وہ مثنویاں آب زلال سے زیادہ خوش گوار ہیں۔ بیان میں ، زبان میں، آمد میں ،الفاظ کی ترکیب میں، سادگی اور صفائی میں ایسی عمدہ ہیں کہ دل میں بیٹھی جاتی ہیں۔ہاں یہ بات سچ ہے کہ ہمارے ان باعث افتخار شاعروں کو ابھی نیچر کے میدان میں پہنچنے کے لئے آگے قدم اٹھانا ہے۔ اور اپنے اشعار کو نیچرل پوئٹری کے ہم سر کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔مگر ان مثنویوں کے دیکھنے سے اتنا خیال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ خیالات میں کچھ تبدیلی ہوئی ہے۔ اور اس کا بھی تصور ہو سکتا ہے کہ ہماری قوم اس عمدہ مضمون نیچر کی طرف متوجہ رہے۔ اور ملٹن اور شکسپئیر کے خیالات کی طرف توجہ فرمائے۔ اور مضامین عشقیہ اور مضامین خیالیہ،اور مضامین بیان واقع، اور مضامین نیچرل میں جو تفرقہ ہے۔اس کو دل میں بٹھا لے۔ تو ان بزرگوں کے سبب ہماری قوم کی لٹریچر کیسی عمدہ ہو جاوئے گی۔اور ضرور وہ دن آؤ ئے گا کہ ہم بھی اپنی قوم کی کسی نہ کسی خوبی پر ایسا ہی فخر کریں گے۔جیسا کہ لوگ ملٹن اور شکسئپیر پر ناز کرتے ہیں۔مضامین بیان واقع اورمضامین نیچر ایسے ایسے پاس پاس ہیں کہ ان میں دھوکہ پڑ جاتا ہے۔مگر درحقیقت پہلا دوسرے سے بالکل علیحدہ ہے۔ پہلا تو ایک بیرونی طاقت ہے اور دوسرا اندرونی ۔ اسی پچھلے میں وہ طاقت ہے کہ جو دل میں اثر کرتی ہے۔ ابھی تک ہماری قوم کا کلام بیرونی حالت سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ مگر ہم کو امید ہے کہ وہ بہت جلد اندرونی حالت تک بھی پہنچ جاوئے گا۔ ہماری حالت ہمارا حال تو اس بڑھیا کا سا ہو گیا ہے جس کو بازار کے لونڈے چھیڑا کرتے تھے۔ اور جب وہ چھیڑنے والے نہ ہوتے تھے تو بڑھیا کہتی تھی کہ کیا آج بازار کے لونڈے مر گئے۔ہمارے کلموں کی نسبت ہماری ذات اور ہمارے ذاتی خیالات سے لوگوں نے بہت بحث کی۔لیکن اب وہ بھی ٹھنڈی ہو گئی ہے۔ بہت سے لوگ سوائے چند متعصبین کے سمجھ گئے ہیں کہ ہم اسلام کی اور مسلمانوں کی کیسی خیر خواہی کرتے ہیں۔آفتاب اسلام کو جس کی شعائیں گرد وغبار کے سبب دھندلی ہو گئی ہیں ۔اور جس کی کرنیں ہم تک نہیں پہنچتیں۔کس طرح روشن اور چمکتا ہوا کرنا چاہتے ہیں۔ اصلی سرچشمہ حیات جاودانی کو جو بہت سے ندی نالوں کے مل جانے سے گدلا اور میلا ہو گیا ہے۔ کس طرح پاک وصاف کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ اسلام جس کا مزہ صرف لوگوں کی زبان تک رہ گیا ہے۔ اور حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ اس کا اثر دل تک پہنچایا جاوئے۔ہماری آرزو ہے کہ اسلام جس کو ہم سب سے زیادہ عزیر اور سب سے عمدہ سمجھتے ہیں۔اس کا اثر مسلمانوں کے دلوں میں، ان کے اخلاق میں، ان کے چال چلن میں ، ان کے معاملات میں ، ان کے برتاؤ میں سب میں پایا جاوئے۔ اسلام کو صرف زبان ہی سے نیک نیک نہ کہا جائے۔ بلکہ مسلمانوں کو اس نیکی کا نمونہ بن کر دکھایا جاوئے ۔ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی حاجی کہلانے کے لئے حاجی بنے۔ بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ حج کا جو اثر دل میں ہونا چاہیئے۔اس کو حاصل کرے۔اندھے والا حاجی بننے سے تو اسلام کو کچھ عزت نہیں ہو سکتی۔ان کے لئے تو یہی کہنا بس ہے کہ رحمت بر اخلاق حجاج باد۔ نماز سے اگر صرف ماتھے پر گٹا ڈال لینا مقصود ہے تو وہ تو پوری روسیاہی ہے۔ نماز سے نیاز پیدا کرنا چاہیئے۔دل پر اس کا اثر بٹھانا چاہیئے۔ اگر طہارت کو صرف ہاتھ پاؤ ں دھونے پر منحصر سمجھا جائے تو اسلام کی کچھ پیروی نہیں کی۔ ظاہری طہارت تو باطنی طہارت کا اشارہ کرتی ہے۔ پھر اگر باطنی طہارت حاصل نہیں ہوئی تو یہ ظاہری طہارت نجاست سے بد تر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسلام کے جو روحانی نتیجے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو حاصل ہوں۔ورنہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔اور بکرے کی طرح کی سی داڑھی اور بکرے کی طرح وظیفوں کی جگالی اور بلی کی سی طہارت اور مکڑی کی سی فریب سے کچھ فائدہ حاصل نہ ہوگا۔واللہ مہتمم نورہ ولو کرہ المنکرون ہ۔ مدرستہ العلوم اسلامی مدرستہ العلوم کے کاروبار کی ترقی اور آپس کی موافقت میں جہاں تک ممکن تھا۔ اس سال میں بھی کافی کوشش ہوئی اور خدا کا شکر ہے کہ دونوں کسی قدر کام یاب ہوئے۔ مدرستہ العلوم کا چندہ اس سال قریب دو لاکھ روپیہ کے پہنچ گیا ہے۔ کمیٹی اس کی تعمیر کرنے کی تدبیروں میں مشغول ہے۔ اس کا پہلا درجہ جس کا نام صرف مدرسہ ہے۔جاری کر دینا بالکل تجویز ہو گیا ہے۔جو انشا اللہ العزیر بہت جلد ظہور میں آتا ہے۔اور یہ سب حالتیں ایسی ہیں کہ جن کے ایسے جلد ہونے کی توقع ہر گز نہ تھی۔اور جو جدید امیدیں اس کالج کی تا ئید سے اس سال پیدا ہوئی ہیں۔اور جن کا ذکر ابھی مناسب نہیں ہے۔وہ بھی نہایت تسلی بخش ہیں۔اور ہم کو ہمارے خدا کی رحمت تسلی دینے والی ہے۔ جس کی رحمت سے ہم کو دعویٰ ہے۔ کہ وہ ضرور ہمارے کاموں کا مدد گار ہو گا۔ آمین۔ ہم نے اپنے ہم وطنوں اور قوم کے بزرگوں سے بھی التجا کرنے میں کچھ دریغ نہیں کیا کہ غایت التجا ہماری یہ تھی کہ ہم نے ان سے عرض کیا ہے کہ جن امور کی خرابی کا ہمارے ہاتھ میں رہنے کا اندیشہ ہے۔ ان کو آپ اپنے ہاتھ میں لے لیجیے۔ اس کے جواب میں ہمارے قدیم مخدوم جناب حاجی مولوی سید امداد العلی صاحب نے لکھا کہ تم اپنے افعال واقوال سے توبہ کرو اور ہم سے ہو جاؤ ۔ تو ہم شریک ہوتے ہیں۔ اگر چہ اس بات کو اس امر سے جو پیش ترکی تھا۔ کچھ تعلق نہ تھا۔ مگر با ایں ہمہ میں اس کو قبول بھی کر لیتا۔ مگر مجھے خیال ہوا کہ اگر ہمارے محب قلبی منشی چراغ علی صاحب مجھ سے کہیں کہ تم ہم سے ہو جاؤ تو ہم شریک ہوتے ہیں تو پھر میں کیا کروں گا۔ بقول شخصے کہ ’’گوری کاجوبن چٹکیوں میں ہی جائے گا۔‘‘ میرا تو یونہی تکا بوٹی ہولے گا۔ میرے افعال و اقوال سے اور مدرستہ العلوم سے کیا تعلق ہے۔مدرستہ العلوم میں تعلیم مذہبی بلا شبہ اہل سنت و جماعت کو موافق مذہب حنفی کے اور شیعہ امامیہ کو موافق ان کے مذہب کے اصول مسلمہ کے ہونی چاہیئے۔ اس باب میں جہاں تک کوئی شخصی طمانیت چاہے اور پختگی کرے سب بجا ہے۔ مگر کسی شخص کے ذاتی مذہب یا اس کے خاص خیالات سے کیا بحث ہے۔ جناب مولوی محمد قاسم صاحب اور جناب مولوی محمد یعقوب صاحب نے جو متعصبانہ جواب دیا ہے۔اس سے ہر شخص کو جس کو خدا نے عقل اور محبت قومی اور حب ایمانی دی ہو گی۔ نفرت کرتا ہو گا۔ شیعہ مذہب کی تعلیم کا سلسلہ بالکل علیحدہ ہے۔ جس سے اہل سنت وجماعت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس یہ کہنا کیسا بے جا تعصب ہے کہ ہر گاہ اس مدرسے میں شیعہ بھی ہو ں گے۔ اس لئے ہم شریک نہیں ہوتے۔ خدا کرے کہ وہ یہ خیال فر ما کر کہ ہندوستان میں بھی شیعہ رہتے ہیں، مکہ معظمہ کوسدھاریں، مگر افسوس ہے کہ میں سنتا ہوں کہ حج و طواف میں بھی شیعہ موجود ہوتے ہیں۔ افسوس ہے کہ شیعہ و سنی میں اس زمانے میں کہ جب کہ امام محمد اسماعیل بخاری شیعوں سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ مضائقہ نہیں کہ مفاق اور شقاق بہت زیادہ ہو گیا ہے۔مگر حالت زمانے کی ایسی ہے کہ اگر شیعہ اپنے تعصب سے سنیوں کو چھوڑیں اور سنی اپنے تعصب سے شیعوں کو چھوڑیں تو دونوں غارت و برباد ہو جاویں گے۔ہندوستان میں مسلمان تعداد میں کم ہیں ۔دولت میں کم ہیں، عہدوں میں کم ہیں۔ اور اگر پھر ان میں بھی شیعہ وسنی اور خارجی و ناصبی اور وھابی اور بدعتی کا تفرقہ پڑے تو بہ جز بر باد اور غارت ہونے کے اور کیا نتیجہ ہے۔ ارے کم بختو معتصبو! تم آپس میں لڑا کرنا۔اور ایک دوسرے کو کافر کہا کرنا۔مگر جو بات سب کے فائدے کی ہے۔ اس میں کیوں ایک دل ہو کر شریک نہیں ہوتے۔ عالم گیر نے ایک عامل کی بد دیانتی کا ذکر نظیرا کسی دوسرے عامل سے کیا۔ اس نے عر ض کیا کہ حضور ایک ہاتھ میں پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ عالم گیر نے کہا کہ بلے۔مگر بوقت خوردن ہمہ برابر می شوند ۔ پس اے بزرگو اس بات میں کیوں تعصب کو کام فرماتے ہو جس میں سب کا فائدہ مشترک ہے۔ جناب مولوی محمد علی صاحب مراد آبادی کی خدمت میں بھی التجا کی۔ مگر کچھ جواب نہ آیا۔ ردا الشقاق فی جواز الا ستراق لکھنے کا کچھ مضا ئقہ نہیں۔ قومی بھلائی و قومی ہم دردی کے کاموں میں شریک نہ ہونا البتہ مضا ئقہ ہے۔ جناب مولوی سید الحاج مولانا حاجی علی بخش صاحب سے جو معاملہ پیش آیا۔وہ تو طشت از بام ہے۔ ان کی وہماری تو وہی مثل ہو گئی کہ من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو یعنی وہ ہم کو بد عہد کہتے ہیں اور ہم ان کو بد عہد کہتے ہیں۔بہر حال کسی نے بد عہدی کی ہو۔وہ بات جس سے کھنڈت پڑ گئی اس قدر ہے کہ تمام امور تعلیم مذہبی تنہا جناب ممدوح کے کیوں نہ سپرد کیے گئے۔ دیگربزرگان دین کو کیوں شریک کیا۔ وما ھذا الاشقاق مبین۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ یہ مر حلہ بھی جس طر ح پر ہوا۔ طے ہو گیا۔ یعنی ساتویں جنوری ۱۸۷۵ ء کو علی گڈھ میں بہت اعزہ اسلام جمع ہوئے اور ان سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تعلیم مذہبی کا کلی انتظام ان سات بزرگوں کے ہاتھ میں دے دیا جاوئے۔جن کے نام نامی مندرجہ ذیل ہیں۔ جناب مولوی محمد عنایت اللہ خاں صاحب رئیس بہیکم پور۔ جناب عبد الشکور خاں صاحب رئیس بہیکم پور۔ جناب مسعود علی صاحب رئیس داتاپور۔ جناب محمد اسماعیل صاحب رئیس علی گڈھ۔ جناب سید فضل حق صاحب رئیس علی گڈھ۔ محمد اسماعیل صاحب رئیس دنا ولی۔ مولوی محمد سمیع اللہ صاحب رئیس دھلوی۔ اور وہی اس بات کے مجاز رہیں اور جس کوچاہیئں اپنے ساتھ شریک کر کر کمیٹی مدیران تعلیم مذہب اہل سنت و جماعت مقرر کر لیں۔اور جس طرح چاہیئں تعلیم مذہبی کا انتظام کریں۔ ان ساتوں بزرگوں نے اس کام کو منظور کیا اور ظاہرا اب کسی کو کوئی مقام کلام باقی نہ رہا۔ گو کہ کہنے والے کی زبان نہیں پکڑی جا سکتی۔اس تجویز کو کمیٹی خزینتہ البضاعتہ نے بلا عذر تسلیم کیا۔ اور جو خط کے کمیٹی کی جانب سے ان ساتوں بزرگوں کو لکھا گیا ہمارے اس آرٹیکل کے اخیر میں بعینہ مندرج ہے۔ جس سے ہر کوئی جان سکتا ہے کہ نسبت تعلیم مذہبی کے بانیان مدسرستہ العلوم کی کیسی نیک نیتی ہے۔ اور ان کے مخالفوں نے جو امر مشہور کیا تھا۔ کہ مدرستہ العلوم میں تعلیم مذہبی میں خرابی ڈالی جاوئے گی۔ وہ محض جھوٹ اور افترا تھا۔ اور مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے جو لوگ فتویٰ لائے تھے۔ اور ہندوستان میں جو سوالات استفتا ء علماء کے سامنے پیش ہوئے تھے۔وہ کیسے اتہامات کے بھرے ہوئے تھے۔ اب ہماری دعا خدا سے یہ ہے کہ سب کے دل میں قومی ہم دردی کا درد پیدا ہو اور سب متفق ہو کر اس کام میں مدد کریں جس میں کل قوم کی بھلائی متصور ہو۔ ومن اللہ التوفیق۔ شکریہ اعانت اخبارات شکر خدا کا کہ ہمارے اس قومی کام کی مدد ہمارے ملکی اخبارات نے بھی کی۔جن کا شکر ادا کرنا ہم پر واجب ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ اب صرف تین اخبار ہمارے مخالف رہ گئے ہیں۔ ’’نور الآفاق‘‘ ، ’’نور الانوار‘‘ جو کان پور میں چھپتے ہیں اور ’’آگرہ اخبار‘‘ جو آگرہ میں چھپتا ہے۔ ’’نور الآفاق‘‘ ، کو ہم نے مدت سے نہیں دیکھا اور ’’نور الانوار‘‘ کو تو آج تک کبھی نہیں دیکھا۔ ’’آگرہ‘‘ اخبار البتہ ہمارے دیکھنے میں آتا ہے۔ اس اخبار کو دل لگی کی عادت ہے۔وہ ہمارے افعال واقوال کا مخالف اور ہمارے شامت اعمال کا ناصح مشفق ہے۔ ایسے اخبار کو ہم اپنے کام کا یعنی مدرستہ العلوم کا مخالف نہیں سمجھتے۔بلکہ ہم کو خیال ہوتا ہے کہ شاید مدرستہ العلوم کو وہ بھی اچھا جانتا ہے۔ اور اس کی ضرورت بھی تسلیم کرتا ہے۔ جو اندیشہ کہ تعلیم مذہبی کی خرابی کا تھا۔ غالبا وہ اب نہ رہا ہو گا۔ ہاں جو عظیم الشان تدبیر سوچی گئی ہے۔ اور جس میں لاکھوں روپیہ کی ضرورت ہے۔ اس کے انجام میں ’’آگرہ اخبار‘‘ کو شبہ ہے اور اسی لیے وہ کبھی اس کی ہنسی اڑا دیتا ہے۔اور خیالی مدرسہ یا شیخ چلی کا سا منصوبہ کہتا ہے۔ مگر ’’آگرہ اخبار‘‘ کا ایسا کہنا کچھ تعجب کی بات نہیں ہے۔ کیوں کہ جو بد اقبالی مسلمانوں کی ہے۔ اور خدا کی جو نا مہربانی ان پر ہے اور جس قدر نفاق ان میں ہے اور قومی ہم دردی کا ان میں مطلق نشان نہیں ہے۔اگر ان سب پر نظر کی جاوئے تو ہماری اس تدبیر کی ہنسی نہ اڑائی جاوئے تو اور کیا کیا جائے۔ہم مسلمانوں کی بد بختی کی یہی ایک نشانی کیا کم ہے کہ ’’آگرہ اخبار‘‘ جو ایک قومی اخبار ہے۔اور جس کے دو ایڈیٹر نہایت لائق مولوی ومنشی ہیں۔خود اپنے قوم کے کام کی وجہ سے کہ ایسے عظیم الشان کام کے انجام دینے کے لائق ہماری قوم نہیں ہے۔ھنسیاں اڑاوئے۔اور مثل ان دو بھائی طالب علموں کے جو ایک دوسرے کی ماں کو من حیث انہ۔ تیری ماں ہے گالی دیتا تھا اور یہ خیال نہ کرے کہ یہ ھنسی کس کی اڑائی جا رہی ہے۔اگر یہ کام درحقیقت قومی بھلائی کا تھا اور بے صرف کثیر وہ انجام نہ پا سکتا تھا۔ تو اس پر ہنسی سے زیادہ بہتر تھا کہ اس کی امداد میں کوشش کی جاتی۔اگر اس کے انتظام اور کار وائی میں کچھ اندیشہ تھا تو ہم اپنی قوم کے لیے نہایت مبارک وہ دن سمجھتے ہیں کہ جناب مولوی محمد یوسف خواجہ صاحب کا ایک عنایت نامہ کمیٹی میں آتا ہے اور وہ کمیٹی میں اس لئے شریک ہونا چاہتے ہیں کہ جو جو خرابیاں اس کے انتظام اور کار وائی میں ہوں ۔ان کو دور کریں اور اصلاح فرماویں۔ورنہ بولی ٹھٹھولی کس کو نہیں آتی۔ جس کے منہ میں زبان ہے کچھ نہ کچھ کہہ ہی لیتا ہے۔مگر ہم خدا کا شکر کرتے ہیں کہ اب ہم ان کو بھی مدرستہ العلوم کی نسبت مہر بان پاتے ہیں اور بالتخصیص ان کے اس آرٹیکل کا جو انھوں نے اخبار مطبوعہ ۲۰ جنوری ۱۸۷۵ ء میں ارقام فرمایا تھا۔دل وجان سے شکر ادا کرتے ہیں۔اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ جو اخلاق ذمیمہ اور افعال قبیحہ ہمارے ہیں، ان کو ہمارے سر مارو،کالائے بد بر یش خاوند۔ مگر جو بات اچھی اور قومی بھلائی کی ہے۔اس میں شریک ہو۔اور ج وقباحتیں اس میں ہوں ان کی اصلاح کرو، پنجابی اخبار لاہور ،کوہ نور، سائنٹفیک سوسائٹی علی گڈھ اردو گائیڈ کلکتہ کا تو ہمارا بال بال احسان مند ہے کہ انھوں نے ابتدا سے ہمارے اس قومی کام کی جس قدر تائید کی ہے۔اس کا شکریہ ہم کسی طرح ادا نہیں کر سکتے۔ اس اجڑے شہر کے اخباروں کا بھی جس کا نام لیتے دل بھر آتا ہے۔ ہم دل سے شکر ادا کرتے ہیں کہ میو موریل گزٹ نے ہم دردی قومی کے سوائے حب وطنی بھی برتنی شروع کی ہے۔ جو آرٹیکل کہ انھوں نے مدرستہ العلوم کی نسبت اپنے یکم اکتوبر ۱۸۷۴ء کے اخبار میں لکھا ہے ۔ہم اس کے نہایت شکر گزار ہیں۔ ’’ناصر الاخبار‘‘ دھلی کی عنایتوں کو اور بالتخصیص اس عنایت کو جو کہ خاص محاکمہ کے ایک آرٹیکل کے لکھنے میں کی ہے۔ ہم بھول نہیں سکتے۔ ہمارے وطن کے اخبار ہم سے اس لیے ناراض ہیں کہ مدرستہ العلوم دھلی میں کیوں نہ مقرر ہوا۔ بھائی کہاں ہے وہ دلی اور کہاں وہ دلی والے۔جو نقش کہ مٹ گیا ۔اب کیا اس کا نام لینا۔مرثیہ پڑھا کرو اور دلی اور دلی والوں کو رویا کرو۔ ’’اودھ اخبار‘‘ اور اس کے مالک ا ور شفیق ایڈیٹر صاحب تو دل وجان سے مدرستہ العلوم کے حامی ہیں۔ ان کے شکریہ میں یہی کہنا بس ہے کہ ہم ان کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ مرقعہ تہذیب لکھنئو نے جو کچھ اعانت ہمارے قومی اخبار میں کی ہے۔وہ درحقیقت ایک مرقعہ عنایت ہے۔ اور یہی نہیں ہے کہ صرف اخبار میں چند کلمات خیر لکھنے پر بس کی ہو۔ بلکہ اس جلسہ کے بعض بزرگوں نے قلم وقدم ودرم سے بھی کوشش کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔جو مضمونکہ جولائی ۱۸۷۴ء کو ضمیمہ اخبار مذکورہ میں چھپا۔اس کے لیے کمیٹی خزینتہ البضاعت حد سے زیادہ ممنون ہے۔ ہم اپنے دکھنی دوستوں یعنی ’’میسور اخبار‘‘ کے اس آرٹیکل کے لیے جو چھٹی اگست ۱۸۷۴ ء کے پرچہ میں چھپا اور قاسم الاخبار کے اس آرٹیکل کی بابت جو سترھویں اگست کے پرچہ میں چھپا۔دل سے شکر گزار ہیں۔مسلمانوں کی ایسی حالت ہے کہ جب تک دور ونزدیک کے سب مسلمان شریک ہو کر مدد نہ کریں اور ایک خزانہ آب حیات کا جمع نہ کر لیں۔جس کی نہریں بہہ کر تمام ملک کو سیراب نہ کریں۔ اس وقت تک قومی بھلائی اورقومی ترقی نا ممکن ہے۔اور اگر لوگ یہ خیال کریںکہ ہم اپنے لئے جدا جدا گڑھا کھود لیں گے اور گو اس میں پانی کچھ رساؤ ہی ہونے لگے مگر بہ یقین جان لیں کہ وہ رساؤ بہت جلد خشک اور بند ہو جاوئے گا۔جب تک کہ ہم ایک سرجیون چشمہ نہ بنا لیں۔جس کے سوتوں میں کبھی کمی نہ ہو۔ اس وقت تک قوم کی سر سبزی جو بہ منزلہ ایک نہایت وسیع باغ کے ہے۔ غیر ممکن ہے۔ ’’شمس الاخبار‘‘مدراس کا شکر کیے بغیر ہم نہیں رہ سکتے۔کہ وہ بھی اس بھلائی کے کام میں کلمتہ الخیر کہے بغیر نہیں رہتا ہے۔اس ہماری مختصر شکر گزاریوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب تمام ہندوستان کے اخبار ہمارے اس قومی بھلائی کے کام میں ممدو معاون ہیں ۔اور بالا تفاق تمام ہندوستان کو اس بات کا یقین ہے کہ مسلمانوں کی حالت اچھی نہیں ہے۔ان کی اصلاح وفلاح میں کچھ کرنا چاہیئے۔ اور اس بات کو بھی سب دوست ،دشمن نے،یار واغیار نے مخالف وموافق نے تسلیم کیا ہے کہ اس کام کے لیے مدرستہ العلوم سے بہتر کوئی تدبیر نہیں ہے۔ مگر جو کہ ہم مسلمانوں کی بد بختی سے چند باتوں کی ہم کمی ہے۔اس لیے اب تک یہ کام پورا نہیں ہوا۔قومی کاموں میں ہماری قوم کو توجہ کم ہے۔ روپیہ فضول کاموں میں خرچ کرنے میں اندھے ہیں۔الا قومی بھلائی میں خرچ کرنے کی عادت نہیں،ایک کام کا ولولہ اٹھتا ہے۔وہ قائم نہیں رہتا۔اور اس کے پورا کرنے کا خیال بہت جلد جاتا رہتا ہے۔محنت کی اور جو کام شروع کیا ہے۔اس پر کدو کاوش کرنے کی عادت نہیں ہے۔ مگر ہم کو خدا سے امید ہے کہ آئندہ کو بہ نسبت گزشتہ کے ہماری قوم اس قومی کام کے پورا کرنے میں زیادہ تر توجہ کرے گی۔ اس مقام پر جہاں اخباروں کا شکریہ ہم نے ادا کیا یہ نہ سمجھا جاوئے کہ میں اپنے ملک کے بے نظیر اخبار الشفع العظیم لا ھل ھذا لا قلیم کو بھول گیا۔وہ اخبار ہمارے ہندوستان کا فخر اور ہمارے اخباروں کا سرتاج ہے۔ اس کی زبان سے ہمارا دل وجان زندہ ہے۔ اس کے شیریں الفاظ اور موزونی کلام سے ہم کو ہماری پچھلی سب باتیں یاد آتی ہیں، اس نے جو کچھ ہم دردی اس قومی بھلائی کے کام میں کی ہے۔ اس کو سب سے اخیر اس لئے بیان کیا ہے کہ ہمارے انجام مقاصد کے لئے نیک شگون ہو جو آرٹیکل یکم دسمبر کے پرچہ میں چھپا۔ ایسا درد آمیز ومحبت خیز ہے۔ جس کے اثر کا نقش ہر صاحب کے دل پر ہوتا ہے۔ ہم ہزار ہزار زبان سے اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔اور اس آرٹیکل کو بعینہ اس مقام پر نقل کرتے ہیں تاکہ ہمارا یہ ناچیز پرچہ بھی اس لعل درخشاں کی روشنی سے منور رہے۔ و ھو ھذا الکلام فی حالۃ المسلمین الہندین وایقاظھم عن نعاس الغفلۃ فی ھذا السحین لما نری الاسلام ضیعفا و اھلہ فی حفیض المذلۃ و ضیعا کان او شریفا فیا خذنا الا سف الشدید والنہف المزید و کذلک یعارضنا الغبطۃ اذ نشوف الھنود (ای عبدۃ الاسلام) عار حیسن المعارج العظیمۃ من حیث الشروۃ والرخا و ما کان ذالک لھم الابید ترقیھم وسعیھم فی اخذ العلوم و تحصیل الفنون فانا لا نجد فی المدارس من اطفال المسلمین الا عددا یسیرا بخلاف الھنود فان اطفالھم بالرغبۃ والکشرۃ یتعلمون العلوم الحکمۃ والفنون الریا ضیۃ بلغۃ انگلیزۃ فیکیدنا احوال جمیع المسلمین لا سیعھا حالۃ الھندین فانھم مصرون علی اخذ الر ذائل وترک الفضائل لا یجاملون با نفسھم و اولادھم فکیف بالا غیار ولا یعیرون بشئی من الحوادث الکائنۃ فی ھذا الاعصار لا یعلمون اطفالھم الا البطالۃ و لا یر غبون اولادھم الا الی السفھاھۃ او الجہالۃ فتعودو ا علی ترک الشغال والحرف الجیدۃ واستعمال الملامی والملاھب وانھماک فی المعاصی و المعائب ونبذ الرغائب و ادخار العیوب والا عوار والمشالب لا یرون الی عبدۃ الا صنام کیف ببالغون فی الا حترام وتحصیل الحرف والصنائع یتعلمھم لسان الحکام حتیٰ انھم یصعدون علی المشارف العالیۃ العظیمۃ دو مایصلون المراتب الفخیۃ من الفروا التمیکن والثروت یوما فیوما واھل السلام مافیھم وقع عند الحکام ولا عزۃ بین الانام وھذا لعصور ،عصور وترقی العلوم ودھور اشاعۃ العمل علی المعلوم و اھل السلام فی ھذا الایام ایضارا قدون فی رقدۃ الغفلۃ والبطالۃ او ما یشھد ھولا النائمون فی نعاس الجھالۃ ان امۃ انگلیزۃ کیف بالغو فی اختراع الا لات العجیبۃ والا دوات الغربیۃ المساعدۃ علی التمدن والعمران فی ھذا الا وان ماشرقت مملکتھم باشراق شوارق العلیم والکمال وبرعت امتھم فی ایجاد العجائب وابداع الغرائب بانھما کھم فی تلک الاعمال فسبقو الامم السالفۃ فی العلم والعمل وفازو فوزاً عالیاً فی الفطانۃ والفضل وقد کانت امۃ انگلیزۃ فی العصور الغالیۃ والدھور الماضیۃ ھائمۃ فی فیاضی السفاھۃ والممبح والھوان و غائصین فی البحار الجھالۃ ولا متحان حتیٰ اخذو من العلوم ما اخذوا و عملو ا علی ما عملو ا الی ان یرعو و اخترعو اشیاء کثیرۃ با ذھان صافیہ وعقول وافیۃ فیالھم من عقول واذھان استوالود ابھا علی البلاد القسیحۃ اعنی ھندوستان وقد مضت مدت من الازمان علی ان امۃ انگلیزۃ استولت علی البلاد الھندیۃ و بالغت فی اشاعۃ العلوم والفنون فی ھذا البلاد فقلدھم عبدۃ الاصنام واخذوا فی تحصیل العلوم حتیٰ انملزوا الیالمناصب الجلیلۃ ولکن سلمی الھند لایلتفتون الی تعلیم العلوم یخرجو من ظلمات والجھل الی نور العقل والعلم والفضل فلو رغبو الیٰ تحصیل العلوم والفضائل لفازو الی المشارق مظیمۃ والمناصب الجلیلۃ الضخیۃ وحصل لھم العر والاعتبار والتمکین ومن وقعھم لیان علی الناس وقع السلام فالسملونالھندیون قد استھنوا الاسلام با متہانھم وصغروا الایمان بھوا نھم وانانتیقن علی انھم ان مالوا الیٰ تحصیل العلوم والفنون فی ھذا الحین فیظھر فضلھم فی قلائل الایام علی العالمین اذ اذھانھم اصفیٰ وقلوبھم اذکیٰ من اذھان الھنود وقلوبھم اذکی فلابدلھم ان یقلدو امۃ انگلیزۃ فی اخذ العلوم واستعمال المصنائع وامۃ انگلیزۃ انما ترید تعلیم رعیتہا قاطبۃ لا خصوصیۃ فیہ الھنود ولکن نحن لانجد الی ذالک سبیلا اذ المسلمون لایجعمون علی امر یکون فیہ صلاحھم واصلاحھم ولا یرغبون الی شئی یوجد فیہ فی فلاحھم ونجاحھم ولا یتفکرون فی انہ قد حان زمان انتکاسھم و طلاحھم وقربت ایام ذلھم ومراتسھم کسر طماحھم قد استحوذ علیھم الحق والطیش فضاق علیھم العیش وصار الھمج دلیلھم وسد سلہم حتیٰ انھم من یرید لھم خیرا یزعمونہ معاندانہ وذالک الخیر لا نفسھم شرا وضیرا۔ واعظم الشواھد علی ذالک احوال الجناب نجم الھند السید احمد خاں بھادر الذی بالغ فی حمایۃ الاسلام والمسلمین واراد ان یو صلھم الی المناصب الجلیلۃ والمراتب الجزیلۃ یتعلیم العلوم الدینۃ والفنون الدنویۃ علی طرق مستحسنۃ فاستجمع المسلمین علیٰ ان یخشوا ھارقا واقرا من المصاریف المدرسۃ اسلامیۃ لذالک فتشاخسو فی ھذا الامر تشاخشا کثیرا منھم من قام لتکفیرہ ومن ھم من سعی فی قطع تدبیرہ مد ابرالہ من غیر تدبر حتیٰ وقع الشغب العظیم فی الملسمین و بعض مخالفیہ اشتھروا فی الجرنالات مطاعن الموط الیہ الی ان تاخر کثیرا من الناس من نصرۃ المدرسۃ الموصوفۃ بل اصروا فی تفسیق بانیھا وھدم میا نیھا ولم ینظروا والی عواید ھا ولم یفھمو فوایدھا واقامۃ تلک المدرسۃ فی ھذا الزمان من الواجبات اذ الدھر العسوف قد استصعب علی المسلمین فذل رقا بھم اجمعین ہ لیس البلیۃ فی ایامنا عجبا بل السلامۃ فیھا اعجب العجب لیس الجمال یا ثواب یزینھا ان الجمال جمال العلم والادب لیس الیتیم الذی قد مات والدہ ان الیتیم یتیم العقل والحسب ایھا الفاخرہ جھلا بالنسب انما الناس لام واب ھل تریھم خلقوا من فضۃ ام ھدید ام نحاس ام ذھب ھل تریھم خلقو من فضلھم ھل سوی عظم ولحم وعصب انما الفخر لعقل ثابت وحیا ء وعفاف ادب و انا لا نشک فی ان اقامۃ المدرسہ الاسلامیۃ الموصوفۃ انفع للمسلمین من شغبھم ھذا اذلا طائل تحت شغبھم وکدحھم الی تکفیر الیانی وتفسیقہ ابدا الا انھم یوخرون باقوالھم البا طلۃ الفائدۃ وارایھم الکاسدۃ عن النفع العظیم والریح الحسیم الذی یحصل لا طفالھم بتعلم العلوم الجدیدۃ فی المدرسۃ الموصوفۃ فیا ایھا السلمون ادرکو زمانکم ھذا واجتھدو لتعلیم اطفالکم واحشدو المصاریف لا قامۃ المدرسۃ السلامیۃ رافۃ علی اولادکم لکی یبلغو بعد تعلم العلوم والفنون الی الشارف العالیۃ والمناصب الجزیلۃ والا فستقدمون بد قلائل الا زمان حیث لا ینفعکم الندم المعلم زین فکن المعلم مکتبا و کن لہ طالبا ماکنت مقتسبا وارکن الیہ وثق باللہ واغن بہ و کن حلماً رضین العقل محترسا لا تسامن فاما کنت منھمکا فا لمعلم یوما واماکنت منغمسا و کن فتی ناسکا محض التقی ورعا المذین مقتسنا للعلم مفترسا قمن تخلق بالاداب ظل بھا رئیس قوم اذا مافارق الروسا واعلم ھدیت بان العلم خیر صفا اضحیٰ بطالبہ من فضلہ سلما واما الذین یکفرون الابانی فلا بدلہ ان لایبالییھم اذا اسفھا ء لا محالۃ اعدا ، للکمیلا و ھذا عادت جاریۃ من قدیم الزمان تراب علی راس الزمان فانہ زمان عقوق لا زمان حقوق فکل رفیق فیہ غیرموافق وکل صدیق فیہ غیر صدیق۔ چوں کہ آج کل عام طور سے لوگ عربی نہیں سمجھتے۔لہذا ایسے حضرات کے لیے ذیل میں مندرجہ بالا عبارت کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ترجمہ میرے مرحوم فرزن شیخ محمد احمد نے کیا تھا۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ہندوستانی مسلمانوں کی ابتر حالت اور انھیں غفلت کی نیند سے جگانے کی ضرورت جب ہم اسلام کی کمزوری اور مسلمانوں کی ذلت ورسوائی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں سخت رنج ہوتا ہے۔اس رنج والم میں زیادتی اس وقت ہوتی ہے جب ہم بتوں کے پجاری ہندوؤں کو ترقی اور دولت وثروت کے اعلیٰ مدارج پر پہنچا ہوا دیکھتے ہیں۔ یہ ترقی انھو ں نے محج حصول علم اور ترقی فنون کے ذریعے سے حاصل کی۔مسلمانوں میں ہمیں مسلمان بچوں کی بہت تھوڑی سی تعداد نظر آتی ہے ۔لیکن ہندوؤں کے بچے بڑی کثرت اور بڑے شوق کے ساتھ علوم حکمیہ اور فنون ریاضیہ سیکھتے ہیں۔اور وہ بھی اپنی زبان میں نہیں بلکہ انگریزی زبان میں۔ یہ منظر دیکھ کر ہمیں مسلمانوں خصوصا ہندوستانی مسلمانوں کی حالت پر بہت افسوس ہوتا ہے۔ وہ دوبد عادات ترک کرنے اور نیک اطوار اختیار کرنے پر کسی طور آمادہ نہیں ہوتے۔ اور جب وہ اپنے اور اپنی اولاد کے ساتھ نیکی نہیں کر سکتے تو دوسروں کے ساتھ کس طرح کریں گے۔ وہ اپنی اولاد کو بے کاری کے سوا کچھ نہیں سکھلاتے۔اور بیوقوفی اور جہالت کے سوا کسی بات کی ترغیب نہیں دیتے۔انھوں نے بے کاری کو اپنا مشغلہ بنا لیا ہے۔ اور اچھے پیشے سیکھنے اور اپنے اوقات کو نیک کام میں استعمال کرنے کی بجائے لہو ولعب میں انہماک پیدا کر لیا ہے۔ انھیں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ بتوں کی پرستش کرنے والے کس طرح شب وروز مختلف قسم کے پیشے اور حکام کی زبان(انگریزی) سیکھنے میں منہمک رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ہر دم بام عروج پر چڑھتے چلے جارہے ہیں۔ عزت اور وقار میں برابر ترقی کرتے چلے جارہے ہیں۔بڑے بڑے عہدوں کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوئے ہیں اور ان کی دولت اور ثروت میں برابر زیادتی ہو رہی ہے۔لیکن اہل اسلام کی نہ حکام کے دلوں میں کوئی وقعت ہے اور نہ اہل ملک میں کوئی عزت۔ یہ زمانہ علوم کی ترقی اور پیہم جد وجہد کا ہے۔ لیکن اہل اسلام غفلت اور جہالت کی نیند سوئے ہوئے ہیں۔ انگریز قوم نے عجیب وغریب آلات ایجاد کرنے اور تہذیب وتمدن کو اجاگر کرنے والے اسباب پیدا کرنے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ اسی وجہ سے ان کی مملکت علم کی روشنی سے جگ مگ جگ مگ کر رہی ہے۔ عجیب وغریب چیزیں ایجاد کرنے کا ملکہ ان میں اس لئے پیدا ہوا ہے کہ انھوں نے اپنے آپ کو اس جانب بقلبی منہمک کر لیا ہے۔ لہذا وہ علم اور عمل میں گزشتہ تمام قوموں سے بڑھ گئے ہیں۔ اور فطانے وذکاوت اور فضیلت علم میں عظیم الشان کام یابی حاصل کی ہے۔ یہی انگریز قوم گزشتہ ایام میں سفاہت وجہالت کے طوفان میں غرق تھی۔اور ذلت ورسوائی کی راہ پر گام زن تھی۔لیکن جب انھوں نے غفلت کی زندگی کو ترک کرکے علم وعمل کی راہ پر قدم مارا تو ان کے لئے ترقی کے دروازے کھل گئے۔انھوں نے اپنی عقل وخرد کی بدولت ہندوستان جیسے عظیم ملک پر قبضہ کر لیا۔ہندوستان پر قبضہ کیے ہوئے انھیں ایک مدت گزر چکی تھی۔ اس عرصہ میں انھوں نے علوم وفنون کی اشاعت میں زبردست کوشش کی۔ہندوؤں نے بڑھ چڑھ کر ان کی تقلید کی۔ اور تحصیل علوم میں بدرجہ غایت کوشش کی۔ جس کانتیجہ یہ ہوا کہ وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہو گئے۔ لیکن مسلمان علم سیکھنے کی جانب متوجہ ہی نہیں ہوتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ جہالت کے اندھیروں میں سرگرداں پھر رہے تھے۔ اور علم وفضل کے آفتاب کی کوئی کرن ان تک نہیں پہنچتی تھی۔ اگر وہ بھی علوم وفنون سیکھنے کی جانب راغب ہوتے تو ان کے لیے بھی ترقی کے دروازے کھل جاتے۔وہ بھی ہندوؤں کی طرح بڑے بڑے عہدوں پر سر فراز ہوتے۔ اور انھیں بھی عزت حاصل ہوتی۔ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی ذلت کی وجہ سے اسلام کو بھی ذلیل کر دیا۔ تاہم اس قدر پستی کے باوجود ہمیں اس بات کایقین ہے کہ اگر وہ اب بھی علوم وفنون سیکھنے کی جانب متوجہ ہوجائیں ۔تو چند ہی دنوں میں تمام دنیا پر ان کی فضیلت ظاہر ہو جائے گی۔کیونکہ ان کے ذھن ہندوؤں کے ذھنوں سے زیادہ صاف اور ان کے دل ہندوؤں کے دلوں سے زیادہ پاکیزہ ہیں ۔ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ تحصیل علم اور صنعت وحرفت سیکھنے میں انگریزوں کی تقلید کریں۔ انگریز اپنی تمام رعایا کو علم کے نور سے منور کرنا چاہتے ہیں۔صرف ہندوؤں پر ہی ان کی نظر عنایت نہیں ہے۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمان کوئی ایسی بات اختیار کرنا نہیں چاہتے۔جس میں ان کا فائدہ ہو۔انھیں اس بات کا مطلق خیال نہیں آتا کہ ان کی ذلت اور پستی کا زمانہ آگیا ہے۔اور اگر انھوں نے اپنے آپ کوبچانے کی کوشش نہ کی تو وہ تباہ وبربادہوجائیں گے۔حماقت اور بے جا غیض وغضب ان پر غالب آگیا ہے۔جس کی وجہ سے دنیا کی آسائشوں نے ان سے منہ موڑ لیا ہے۔ان کی بدبختی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان کی بھلائی کی کوشش کرتا ہے تو وہ اسے اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔ چنانچہ اس امر کا بین ثبوت نجم الہند جناب سید احمد خاں بہادر کی ذات میں نظر آتا ہے۔ انھوں نے اسلام کی حمایت اور مسلمانوں کی خیر خواہی میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں چھوڑا ہے۔انھوں نے مسلمانوں کو دینی علوم اور دینوی فنون سکھانے چاہے۔تاکہ اس طرح وہ بڑے بڑے عہدوں تک پہنچ سکیں۔اور اپنی حالت سنوار سکیں۔ اس کے بدلے انھوں نے صرف یہ چاہا کہ مسلمان اتنی رقم اکٹھی کردیں کہ جو ان کے قائم کردہ اسلامی مدرسہ کے اخراجات کے لئے کافی ہو۔ لیکن بجائے اس کے کہ مسلمان ان کی خدمات کو بنظر تحسین دیکھتے۔ اور اپنے مقدور کے موافق اس کام میں ان کی مدد کرتے۔انھیں میں سے بعض لوگ ایسے کھڑے ہو گئے کہ جنھوں نے سید احمد خاں کے خلاف فتوی تکفیر دے دیا۔ اور ان کے کاموں میں ہر طرح کی رکاوٹیں ڈالنے لگے۔انھوں نے اپنی مخالفانہ تدبیروں سے ایک ہنگامہ برپا کر دیا۔ ان کے بعض مخالفین نے اخبارات اور رسائل میں ان کے خلاف بے بنیاد الزام لگائے اور مسلمانوں کو ان کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے لوگوں نے مدرسے کی امداد کرنے سے دست کشی اختیار کر لی۔ مسلمانوں نے مدرسے کے بانی کو ھدف مطاعن بنانے اور اس کے خلاف تفسیق وتکفیر کا بازار گرم کرنے میں تو بہت جلدی کی۔لیکن مدرسے کے فوائد کی طرف ان کی ذرا بھی نگاہ نہیں گئی۔اور انھوں نے اس بات کا مطلق خیال نہ کیا کہ اس قسم کے مدرسے کا قیام موجودہ زمانے میں بے حد ضروری ہے۔ کیونکہ زمانہ مسلمانوں پر آج کل نا مہربان ہے۔اور ان پر بہت سخت وقت آکر پڑا ہوا ہے۔اور ان کی گردنیں ذلت اور رسوائی کے بوجھ تلے آکر دبی ہوئی ہیں۔ اس نازک وقت میں اگر کوئی چیز انھیں ذلت اور رسوائی سے بچا سکتی ہے تو وہ علم ہے۔ ہمیں اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ(علی گڈھ میں قائم شدہ) اسلامی مدرسے کا قیام مسلمانوں کے لئے بے حد نفع مند ہے۔ اور بعض ناعاقبت اندیش لوگوں کی مخالفت محض کھوکھلی مخالفت ہے۔ وہ اس مدرسے کے بانی کی تکفیر سے اسے تو کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے۔ بلکہ اپنے باطل اور فاسد اقوال سے اپنے بچوں کے اس عظیم الشان نفع سے ضرور محروم کر رہے ہیں۔جو اس مدرسے میں وہ جدید علوم سیکھ کر وہ حاصل کرتے۔لہذا اے مسلمانو! وقت کے تقاضا کو سمجھو۔ اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف متوجہ ہو اور علی گڈھ کے اسلامی مدرسے کے اخراجات کے لئے دل کھول کر چندہ دو۔کیونکہ اس کا فائدہ تمہارے ہی بچوں کو پہنچے گا۔ اور وہ علوم وفنون سیکھ کر بڑے بڑے عہدوں تک پہنچ جائیں گے،لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تھوڑے ہی عرصہ بعد ہاتھ ملو گے۔لیکن اس وقت ندامت تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ باقی مدرسے کے بانی کو اپنے خلاف شور وشغب سے بد دل نہ ہونا چاہیئے۔کیونکہ ہمیشہ سے یہی ہوتا چلا آیا ہے کہ جب بھی کوئی نیک دل انسان لوگوں کی بھلائی کا کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو بے گانے تو بیگانے اپنے رفیق اور دم ساز بھی اس کی مخالفت پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اوراس کی راہ میں روڑے اٹکانے لگتے ہیں۔قدیم سے یہی روش چلی آرہی ہے۔اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ شروع سال ۱۲۹۳ ھجری (۱۳۰۷ نبوی مطابق یکم شوال ۱۲۹۳ ھجری) (تہذیب الاخلاق جلد ۷ نمبر ۱ بابت یکم شوال ،۱۲۹۳ ھجری صفحہ ۲،۳) عرب میں بہ زمانہ جاھلیت بہت سے سنہ مروج تھے۔ اولا سنہ بنائے کعبہ رائج تھا،پھر عمر بن ربیعہ کی ریاست سے سنہ رائج ہوا۔ اصحاب الفیل کے واقعہ تک وہی سنہ رائج رہا۔ پھر عام الفیل سے نیا سنہ شمار ہونے لگا۔ عرب کے قبیلوں میں بھی بہت سے سنہ رائج تھے۔جس قبیلے میں کوئی بڑا واقعہ پیش آتا تھا۔ اسی واقعہ سے نیا سنہ شمار کرنے لگتے تھے۔ آں حضرت صلعم کے وقت میں کسی سنہ کے مقرر کرنے کا خیال نہیں ہوا۔کیونکہ یہ ایک امر تمدن سے متعلق تھا۔کوئی مذہبی بات نہ تھی۔ حضرت عمر کے وقت میں اس کی ضرورت پیش آئی۔اور موسی اشعری حاکم یمن نے لکھا کہ فرمان مورخہ شعبان جو آیا ہے۔اس سے نہیں معلوم ہوتا کہ کون ساشعبان لکھا ہوا ہے۔ اس پر خیال ہوا کہ کوئی سنہ مقرر کرنا چاہیئے۔جو کہ (چونکہ کہ) تمام مہاجرین اور انصار مدینہ منورہ کے باشندے ہو گئے تھے۔ اور مہاجرین پر ہجرت سے بڑا کوئی واقعہ نہیں گزرا تھا۔اور مدینہ منورہ میں آنحضرت کے تشریف لانے اور سکونت اختیار کرنے سے بڑھ کر کوئی واقعہ نہ تھا۔ اس لیے عرب کی عادت کے موافق ھجرت سے سنہ کا شمار ہونے لگا۔درحقیقت یہ سنہ بہ نسبت عام امت محمدیہ کے خاص مہاجرین اور انصار سے اور ساکنین مدینہ منورہ سے زیادہ تر تعلق رکھتا تھا۔ مگر جوں جون اسلام کو اور حکومت اسلامیہ کو وسعت ہوتی گئی۔اور دور دور تک ملکوں میں پھیلتا گیا۔اسی سنہ کا رواج ہوتا گیا۔یہاں تک کہ اب یہی سنہ مسلمانی سنہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایک زمانے کے بعد ملکی انتظام کے لئے یہ سنہ مناسب معلوم نہ ہوا اور جب مسلمانوں کی حکومت ہندوستان میں آئی تو کسی طرح ملکی انتظام ان سنوں سے نہ ہو سکا۔ اکبر کے عہد سے پہلے جتنے مسلمان گزرے انھوں نے سنہ تو یہی قائم رکھا۔مگر ملکی سنہ کو دو ھجری سنوں سے ترکیب دے کر بنایا اور نصف مہینہ ایک سنہ کے اور نصف مہینہ دوسرے سنہ کے لے کر ایک برس قائم کیا۔ اور کاغذات ملکی پر اس طرح پر تحریر ہونے لگا کہ مثلاً خریف ۱۲۹۲ ھجری اور ربیع ۱۲۹۳ ھجری۔ یہ کاروائی بھی ملکی انتظام کے لئے کافی نہ تھی۔ اس لیے کہ ھجری سنہ کے مہینے قمری تھے۔ ملکی پیدا وار شمسی مہینوں پر موقوف تھی۔ قمری سال میں دم کم تھے۔ شمسی سال میں دن زیادہ تھے۔اور ماہ محرم جو ہجری سال کا پہلا مہینہ تھا۔کبھی ربیع میں آجاتا اور کبھی خریف میں۔اس لیے اکبر کے عہد میں یہ کار وائی ہوئی کہ سنہ تو وہی ھجری قائم رکھا جائے مگر اس کے مہینے بجائے عربی کے جو قمری تھے۔ھندی قمری کر دیے جائیں۔ جو تیسرے سال کسبیہ یعنی لوند کا مہینہ بڑھنے سے شمسی ہو جاتے تھے۔ اور اس کا فصلہ سنہ نام رکھ دیا۔ اور ملکوں میں بھی اسی طرح کچھ کچھ تبدیلی ہوئی۔مگر مذہبی امور میں بہ جنسہ وہی سنہ اور وہی مہینے قائم رہے۔ ادنیٰ غور سے ہر شخص جان سکتا ہے کہ سنوں کے حساب پر کوئی مذہبی امر متعلق نہیں ہے۔صرف مہینوں کے حساب سے امور مذہبی متعلق ہیں۔ مثلاً رمضان میں روزے رکھنے ہو ں گے۔اور ذی الحج میں حج کرنا ہو گا۔ اس سے کچھ بحث نہیں ہے کہ کون سے سنہ کا رمضان یا ذی الحجہ ہے۔ اس ھجری سنوں سے بجز اس کے کہ زمانے کا شمار قائم کیا جاوئے۔اور کچھ مطلب نہیں ہے ۔جب کہ یہ ثابت ہو ا کہ ہماری مذہبی کاروائی صرف قمری عربی مہیوں پر موقوف ہے تو ہم کو نہایت اچھا معلوم ہوتا ہے۔ کہ زمانہ کا شمار بھی ہم اپنی خاص مذہبی کاروائی سے کریں۔یعنی اس وقت سے کہ جب حضور نے اپنی نبوت کا اظہار فر مایا۔اور جبرائیل امین نے خدا کی طرف سے کہا کہ’’اقرا بسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقراء وربک الا کرم الذی علم با لقلم علم الانسان ما لم یعلم‘‘۔ اگر اس خیال پر ہم زمانہ کا شمار کرنا چاہیئں تو اول ہم کو یہ تحقیق کرنا پڑتا ہے کہ یہ نعمت عظمیٰ کب سے شروع ہوئی۔اور کس مہینے سے اس کے سال مبارک کا آغاز ہوتا ہے۔تو ہم کو قرآن مجید سے اس کا صاف پتہ ملتا ہے کہ خدا نے فرمایا ہے کہ: شہر رمضان الذی انزل فیھا القرآن‘‘ یعنی رمضان وہ مہینہ ہے کہ جس میں ہم نے قران نازل کیا اور دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ’’انا انزلناہ فی لیلۃ القدر‘‘یعنی ہم نے قرآن کو نازل کیا شب قدر میں۔ان دو آیتوں سے دو باتیں معین ہو گئیں ایک یہ کہ قران رمضان میں نازل ہوا۔ دوسری یہ کہ جس رات قران نازل ہوا۔اور اسی کے سبب اس کا نام شب قدر پڑ گیا۔وہ شب رمضان میں تھی۔پس اگر تحقیق ہو جاوئے کہ شب قدر کب تھی۔یعنی شب نزول قران کب تھی تو شروع سال نبوی بھی تحقیق ہو جاوئے گا۔ شب قدر کی نسبت جو روایتیں کتب احادیث میں مندرج ہیں،وہ نہایت مختلف ہیں۔اول اس بات میں بحث ہے کہ شب قدر ایک دفعہ ہو چکی یا ہر رمضان میں پھر پھر کر آتی ہے۔ اھل سنت وجماعت و شیعہ امامیہ کا یہی عقیدہ ہے کہ ہر سال پھر پھر کر آتی ہے۔ اور سنی وشیعہ امامیہ دونوں اس کی تلاش میں راتوں کو جاگتیاور ادوار و وظائف پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ہم بھی بہت راتیں جاگے ہیں۔ مگر ہماری بد بختی سے ہم کو نہیں ملی ہے۔ قسطلانی شرح صیحح بخاری میں امام فاکہانی کا یہ قوم نقل کیا گیا ہے کہ شب قدر صرف ایک برس ہی جناب رسول خدا صلعم کے زمانے میں ہوئی تھی۔ہم اتنا اور اس پر زیادہ کرتے ہیں کہ جب قرآن مجید نازل ہوا تھا۔اور ہم بھی امام فاکہانی کی تحقیق کو صیحح ودرست مانتے ہیں۔ خیر اس بحث کو چھوڑ دیا چاہیئے اوراس باب میں کہ وہ رمضان میں کب ہوئی تھی۔توجہ کرنی چاہیئے۔تمام روایتوں کے ملانے سے یہ نتیجہ بخوبی نکل آتا ہے کہ رمضان کے عشرہ کی اخیر طاق راتوں میں ہوئی تھی۔اور اگر وہ مہینہ انتیس کا سمجھا جاؤئے تو ان دونوں روایتوں میں تطبیق پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر چہ اس اختلاف سے ہمارے مقصد میں کچھ ہرج نہیں پڑتا۔کیونکہ جب مذہبی امور کا انجام قمری مہینہ پر ہے ۔ جوچاند دکھلائی دینے سے شروع ہوتا ہے۔ تو بعد رمضان جو پہلا چاند دکھلائی دے گا۔وہی شروع سال ہو گا۔مگر ہم شب اخیر رمضان کو شب قدر سمجھتے ہیں۔جس میں قران مجید نازل ہوا۔ اور یکم شوال روز عید المومنین کو شروع سال نبوی۔ ھجرت واقع ہوئی تھی۔ ربیع الاول ۱۳ نبوی میں یعنی نبوت سے بارہ برس پانچ مہینے بعد۔مگر تاریخ ھجری دومہینے قبل سے شروع ہوئی تھی۔ پس یکم محرم سنہ ایک ھجری مطابق تھا۔یکم شوال سنہ ایک ھجری کے اور یکم شوال ۱۳۰۱ نبوی مطابق تھا یکم شوال ۱۲۸۷ ھجری کے جس روز ہم نے تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ ابتدا ہی سے ہمارا ارادہ تھا کہ ہمارا ’’تہذیب الاخلاق‘‘ سال نبوی کے حساب سے جاری رہے۔اور شوال ہی سے اس کا شروع سال ہو۔مگر ہم اس زمانے میں بہ نسبت اجرائے پرچہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے ایک مقدس سر گھٹے ٹخنے کھلے ماتھے پر گٹہ پڑے دوست کے دست بیع ہو چکے تھے۔انھوں نے نہ مانا اور کہا کہ اجی حضرت یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ جو سنہ صحابہ کے وقت سے متفق علیہ چلا آرہا ہے۔ اور جس پر اجماع امت ہو چکا ہے۔اسی کو رکھنا چاہیئے۔ نئے سال کی کیا ضرورت ہے۔لاچار ہمارا کچھ بس نہ چلا اور انھوں نے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی جلدوں کے ٹکڑے کر دیئے۔ پہلی جلد صرف تین مہینے کی رہ گئی ہے۔ اب کہ تمام امور پرچہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے ہمارے ہاتھ میں ہیں۔اس لیے ہم اپنا قدیم ارادہ پورا کرتے ہیں۔ اور یکم شوال روز عید سے نئی جلد شروع کرتے ہیں۔ یکم شوال ۱۳۰۱ نبوی مطابق یکم شوال ۱۲۸۷ ھجری سے لغایت ۱۵ رمضان ۱۳۰۲ نبوی مطابق ۱۵ رمضان ۱۲۸۹ ھجری دوسری جلد پوری ہوئی۔ یکم شوال ۱۳۰۳ نبوی مطابق یکم شوال ۱۲۸۹ ھجری سے لغایت ۱۵ رمضان ۱۳۰۳ نبوی مطابق یکم رمضان ۱۴۹۰ ھجری تیسری جلد پوری ہوئی۔ یکم شوال ۱۳۰۴ نبوی مطابق یکم شوال ۱۲۹۰ ھجری سے لغایت یکم رمضان ۱۳۰۳ نبوی مطابق یکم رمضان ۱۲۹۰ ھجری چوتھی جلد پوری ہوئی۔ یکم شوال۱۳۰۳۵ نبوی مطابق یکم شوال ۱۲۹۱ ھجری سے لغایت یکم رمضان ۱۳۰۵ نبوی مطابق یکم رمضان ۱۲۹۲ ھجری پانچویں جلد پوری ہوئی۔ یکم شوال ۱۳۰۶ نبوی مطابق یکم شوال ۱۲۹۲ ھجری سے لغایت یکم رمضان ۱۳۰۳ نبوی مطابق یکم رمضان ۱۲۹۳ ھجری چھٹی جلد پوری ہوئی۔ یکم شوال ۱۳۰۷ نبوی مطابق یکم شوال ۱۴۲۳ ھجری سے یہ ساتویں جلد شروع ہے۔ا ورخدا سے امید ہے کہ بخیر وخوبی انجام پاوئے۔ اور اس کے ذریعے حقیقت دن محمدی واسرار دین احمدی علیٰ صاحہبا الصلواۃ والسلام لوگوں کے دلوں پر نقش ہوں اور مسلمانوں کی تہذیب ومعاشرت میں ترقی ہو۔ آمین۔ (۳)مضا مین متعلق مدرسۃ العلوم مسلمانان مدرسۃ العلوم مسلمانان کیسا ہو گا؟ (تہذیب الاخلاق ‘‘ بابت یکم رجب ۱۳۸۹ ھجری) ہ ہم سے لوگ باصرار پوچھتے ہیں کہ مدرسۃ العلوم مجوزہ میں طریقہ تعلیم کیا ہوگا۔اوراس تعلیم میں اور گورنمنٹ کالجوں کی تعلیم میں کیا فرق ہوگا۔اور جو لڑکے اس میں رہیں گے ۔وہ کیوں کر تربیت پائیں گے اور جو لڑکے اس میں نہ رہیں گے وہ کیوں کر داخل ہو ںگے۔ ہم جواب دیتے ہیں کہ جب مدرسۃ العلوم مسلمانان قائم ہوگا تو ایک جدا کمیٹی اس کے انتظام کی مقرر ہو گی۔ جو سینڈیکیٹ یعنی مجلس مدبران تعلیم کہلاو ئے گی۔اور جس میں مسلمان بلا لحاظ فرقہ شریک ہو ں گے، اس کمیٹی کی رائے پر ان سب باتوں کا انتظام منحصر ہو گا۔ مگر وہ لوگ اس جواب پر بس نہیں کرتے اور یہ بات کہتے ہیں کہ ہوگا ۔تم اس کے بانی ہو تو بتاؤ۔کہ تم نے کیا نقشہ سوچا ہے؟۔ اور کس تدبیر سے اس کا قائم ہونا سمجھا ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ مدبران تعلیم اس کو بجنسہ بحال رکھیں یا کچھ تغیر وتبدل کریں۔تم تو اپنا نقشہ ہم کو بتلاؤ تاکہ ہم کوکچھ خیال ہو کہ یہ مدرسۃ العلوم کیا ہو گا اور کس طرح ہوگا۔ بس لاچار جو ہماری سمجھ میں ہے وہ بیان کرتے ہیں۔ جو ابھی تک شیخ چلی کے خیالات سے زیادہ رتبہ نہیں رکھتا۔ ہم اس مدرسۃ العلوم کو محمدن یونیورسٹی یعنی دار العلوم مسلمانی بنانا اور بالکل آکسفورڈ اور کیمرج کی یونیورسٹی کی (جس کو ہم دیکھ) آئے ہیں۔ نقل اتارنا چاہتے ہیں اور وہ نقل اس طرح پر اترے گی۔ ذکر مکانات ایک نہایت خوش آب و ہوا شہر میں جو منجملہ شہر ہائے کلاں نہ ہو، جس میں طالب علموں کا دل پڑھنے سے اچاٹ کرنے کی بہت سی ترغیبیں موجود ہوتی ہیں۔اور نہایت چھوٹا قصبہ بھی نہ ہو۔ اور اودھ اور مشرقی اضلاع پنجاب سے بھی بہت دور نہ ہو۔(کیونکہ اس کے مغربی اضلاع کے لئے غالبا لاہور یونیورسٹی مفید ہو۔)اور نیز روھیل کھنڈ کو ٹھیک اپنے سے ملاتا ہوا ایک وسیع ٹکڑا زمین کا خوش فضا جس کی تعداد پانچ چھ سو بیگھہ پختہ سے کم نہ لیا جاوئے۔ اور اس میں سڑکیں نکال کر اور درخت لگا کر بالکل پارک کی طرح بنا دیا جائے۔ہندوستان کے رہنے والوں نے پارک کو جو قدرتی نمونہ پر ایک قسم کا بوستان ہوتا ہے ۔نہیں دیکھا ہے۔ مگر آلہ آباد کے رہنے والوں کو الفرڈ پارک جو بن رہا ہے۔دیکھ کر کچھ اس کا خیال آئے گا۔اس میدان میں مفصلہ ذیل عمارتیں بنائی جائیں گی۔ اول: مدرسۃ العلوم جو نہایت وسیع وعالی شان مکان میں بنایا جائے گا۔اس کے بیچ میں بہت بڑا ہال ہوگا۔جس میں انشا اللہ محمدن یونیورسٹی کے جلسے اور تقسیم انعام اور بعد حصول چارٹر عطائے خطاب اور حضور وائسرائے و گورنر جنرل بہادر اور جناب نواب لفٹیننٹ گورنر بہادر کے تشریف لانے کے وقت اجلاس ہوا کرے گا۔(کیا عمدہ بات ہو کہ اگر پہلا اجلاس حضور لارڈ ناتھ بروک صاحب کا ہو۔) اگرچہ یہ بات ہنسی معلوم ہوتی ہے۔ مگر خدا کی قدرت سے کچھ بعید نہیں۔(ابھی پانچ برس ان کو رہنا ہے۔) اس کے دونوں طرف چار کمرے پرنسپل اور پروفیسر اور ہیڈ ماسٹر کے لیے ہو ں گے۔اور ان کے ادھر ادھر ہر ایک جماعت کے لیے جدا جدا مناسب وسعت کے کمرے ہوں گے۔اس مدرسۃ العلوم کا نقشہ کسی بڑے انجینئر سے قریب قریب نمونہ پر رڑکی کالج کے بنایا جائے گا۔ دوم: جس طرح کہ کیمبرج و آکسفورڈ کی یونیورسٹیوں میں ہر ایک کالج کے ساتھ ایک گرجا ہے۔ اسی طرح اس مدرسۃ العلوم مسلمانان کے ساتھ دو مسجدیں مناسب قطع پر ہو ںگی۔ایک سنیوں کے لیے۔دوسری شیعوں کے لئے۔جن کا اہمتمام اسی مذہب کے لوگوں سے متعلق رہے گا۔ سوم: جس طرح کہ یونیورسٹی آکسفورڈ اور کمیبرج میں ذی مقدور طالب علم اور امیروں اور دولت مندوں کے لڑکے رہتے ہیں۔اور ان کے لیے مکانات تیار ہیں۔اسی طرح اسی احاطہ میں بہ طور مناسب سولڑکوں کے رہنے کے لئے مکانات بنائے جائیں گے۔اور بر وقت ضرورت اور زیادہ ہوتے جائیں گے۔ہر لڑکے کو ایک غسل خانہ ،ایک سونے کا کمرہ اور ایک بیٹھنے اور لکھنے پڑھنے کا کمرہ ملے گا۔ یہ مکانات بطور جائداد مدرسہ کے بنائے جائیں گے۔کیونکہ جو لڑکے اس میں رہیں گے ۔ان سے اس کا کرایہ لیا جائے گا۔اور بطور آمدنی جائداد مدرسے میں خرچ ہو گا۔ ان مکانات سکونت کے شامل اور بڑے ہال بھی بنیں گے۔ایک ان میں سے وہ ہوگا۔جس میں سب لڑکے کھانا کھائیں گے۔ اور دوسرا وہ ہوگا جس میں لڑکے چھٹی کے وقت مختلف قسم کے کھیل جن سے عقل یا بدن میں قوت ہو کھیلا کریں گے۔ چہارم: اسی میدان میں ایک قطعہ مناسب منتخب کیا جائے گا۔جس میں لڑکوں کے کھیلنے کا میدان دوب کے فرش زمردیں سے آراستہ ہو گا۔اس قطعہ میں گیند گھر بنایا جائے گا۔میدانی گیند کھیلنے کی جگہ درست کی جائے گی۔ اسی جگہ انگریزی قطع پر یعنی پٹے ہوئے مکان کے اندر بہت بڑا حوض بنایا جائے گا۔جو نہانے اور تیرنا سکھانے کے کام آئے گا۔اس کے پاس گھوڑ دوڑ کا چکر ہو گا۔جہاں لڑکے گھوڑے پر چڑھنا سیکھیں گے۔ یہ سب چیزیں بطور جائداد مدرسہ متصور ہوں گی۔کیوں کہ ان سب چیزوں کی بابت بہ طور فیس ان لڑکوں سے کچھ لیا جائے گا ۔اور کچھ حصہ اس کا مدرسے میں اور کچھ حصہ اس کا کھیل کی چیزوں کی درستی میں خرچ ہو گا۔ یہ سب اخراجات ان ہی امراء اور دولت مند لڑکوں سے متعلق ہو ں گے جو مکانات مذکورہ بالا میں سکونت اختیار کریں گے۔اور ان لڑکوں سے جو صرف مدرسہ میں پڑھنے آتے ہوں۔کچھ متعلق نہ ہو ںگے۔ پنجم: چار بنگلے اس احاطہ میں بنائے جائیں گے۔جس میں انگریز پرنسپل اور پروفیسر اور ہیڈ ماسٹر صاحب رہا کریں گے۔ ششم: ایک بنگلہ اور بنایا جائے گا جس میں گورنر یعنی منتظم مدرسہ جو تمام لڑکوں کی نگرانی اور تمام چیزوں کی نگرانی کرے گا۔رہا کرے گا۔ ہفتم: ایک جگہ انگریزی دوائی خانہ مع ایک نیٹو ڈاکٹر اور کمپاؤنڈر کے رہنے کی جگہ اور ایک یونانی دوا خانہ جس میں دوا ساز کے رہنے کی جگہ بھی ہو گی تعمیر کیا جائے گا۔ ھشتم: ایک بنگلہ اور بنایا جائے گا جو بہ نام شفاخانہ نام زد ہو گا۔اس لیے کہ اگر کوئی لڑکا کسی قسم کی بیماری سے دفعتا بیمار ہو جائے گا تو اس میں رہے۔ نہم: مکانات ،اصطبل اور شاگرد پیشہ باورچی خانہ اور گودام بطور مناسب تعمیر ہو ں گے۔ ذکر رہنے لڑکوں کا مکانات مدرسہ میں جو لڑکے ان مکانات میں سکونت اختیار کریں گے۔ان پر اسی طرح جس طرح کہ کیمرج اور آکسفورڈ کے کالجوں میں گرجا میں جانا اور نماز میں شریک ہونا ضرور ہے۔اپنی اپنی مسجدوں میں جانا اور نماز میں شریک ہونا فرض ہو گا۔یعنی لڑکوں کو پانچ وقت کی نمازوں میں حاضر ہونا اور نماز جماعت سے پڑھنا واجب ہو گا۔ اور شیعہ لڑکوں کو صرف تین وقت۔اس لیے کہ وہ ظہر، عصر ، مغرب اور عشاء ساتھ پڑھ لیں گے۔ جو لڑکے صرف مدرسہ میں پڑھنے کو حاضر ہو ں گے۔ان کو ظہر وعصر کی نمازوں میں شریک ہونا لازم ہوگا۔ اگر سیڈیکیٹ یعنی مدبران مدرسہ تعلیم سوائے مسلمانوں کے اور کسی قوم کے لڑکے کو مدرسۃ العلوم میں پڑھنے کی اجازت دیں گے تو وہ صرف مسجد میں حاضر ہونے اور نماز میں شریک ہونے اور کوئی مذہبی کام کرنے سے بری سمجھا جائے گا۔ جس طرح کہ آکسفورڈ اور کیمبرج میں غیر مذہب کا طالب علم گرجے میں حاضر ہونے اور رسومات مذہبی ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ جس قدر طالب علم آکسفورڈ اور کیمبرج میں پڑھتے ہیں۔ان کو ایک قسم کا کوٹ اور ایک قسم کی ٹوپی ملتی ہے۔ تاکہ ایک قسم کا لباس سب کا ہو جائے۔اس سے نہایت عمدہ فائدے ہیں۔جن کا بیان اس مقام پر ضروری نہیں ہے۔ مدرسۃ العلوم کے طالب علموں کو بجائے کوٹ کالے کے الپکہ کا نیم آستین چغہ لال ترکی ٹوپی جس کا رواج روم، مصر،عرب اور شام میں ہے۔اور اب وہ ٹوپی خاص ترکوں یعنی مسلمانوں کی ٹوپی سمجھی جاتی ہے۔ دی جائے گی۔اس کے سوا ہر شخص کو اختیار ہو گا کہ وہ جو چاہے لباس پہنے۔ تمام طالب علم جو مکانات مدرسہ میں سکونے رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں۔جب مدرسے میں یا کتب خانے میں یا عجائب خانے میں یا اخبار گھر میں آئیں گے تو بغیر اس ٹوپی اور چغہ کے آنے کے مجاز نہ ہوں گے۔اور مدرسے کے رہنے والے طالب علم جب ان دنوں کہ مدرسہ کھلا ہو گا۔اگر مدرسہ سے باہر جائیں تو بھی چغہ اور ٹوپی پہن کر جائیں گے۔ ہر طالب علم کو مدرسہ میں انگریزی جوتا اور موزہ پہن کر آنا ہو گا۔ ننگے پاؤ ں پھرنے یا ہندوستانی جوتا پہن کر آنے کی اجازت نہ ہوگی۔ کوئی طالب علم دھوتی پہن کر مدرسہ آنے کا مجاز نہ ہوگا۔ تمام طالب علم جو وہاں رہتے ہوں گے بعد نماز صبح پیادہ پا ہوا خوری کے لیے احاطہ میں ایک قاعدہ کے ساتھ پھریں گے۔اور جاڑوں میں قبل مغرب اور گرمیوں میں بعد مغرب گاڑیوں میں ہوا کھانے جائیں گے۔ان کے لیے ایک قسم کی گاڑیاں ہوا خوری کے لیے جس میں جوڑی گھوڑوں کی جتی ہوگی۔اور سولہ یا بارہ لڑکے اس میں بیٹھ سکیں گے، مہیا اور موجود رہیں گی۔ لڑکوں کے پڑھنے، کھیلنے ،کھانے اور سونے ، نہانے اور کپڑے بدلنے سب کے وقت مقرر ہو ں گے۔اور ہر لڑکے کو اس وقت وہی کام کرنا ہو گا۔جو وقت اس کام کے لیے مقرر ہے۔یہاں تک کہ جو وقت سونے کا ہے اگر کوئی طالب علم چاہے گا کہ میں اس وقت پڑھ لوں اور تھوڑی دیر بعد سو جاؤں گا تو وہ ایسا نہ کر سکے گا۔بلکہ اس کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ سونے کے وقت سو جائے، اگرچہ بالفرض نیند نہ آئے تو پلنگ پر آنکھیں بند کیے پڑا رہے۔ کھیلنے کے لیے متعدد قسم کے کھیل کے سامان موجود ہو ں گے۔اور جو کھیل جس کو پسند ہوگا۔وہ وہی کھیل اختیار کرے گا۔گھوڑے پر چڑھن۔ بندوق لگانا، تیرنا یہ سب کام بھی مناسب طور پر اور اندازہ پرسکھایا جائے گا۔ الفاظ بد جو لڑکوں کی زبان پر چڑھ جاتے ہیں۔ان کے بولنے کا سخت امتناع ہو گا۔یہاں تک کہ اگر کوئی لڑکا کسی کو جھوٹا کہہ بیٹھے گا تو وہ بہ منزلہ دشنام سخت کے سمجھا جائے گا۔ تمام طالب علم مدرسہ کے رہنے والے ایک کمرہ میں ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔طرز کھانے کا یا تو ہوسٹل طرز ترکوں کے ہو گا۔جو میز کرسی پر بیٹھ کر کھانے کے یا مثل عربوں کے ہو گا۔جو زمین پر بیٹھ کر اور چوکی پر رکھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ ان دونوں طریقوں میں وہ طریقہ اختیار کیا جائے گا جس کو خودلڑکے کثرت رائے سے پسند کریں گے۔ تمام چیزیں کھانے کی وقتا فوقتا پکائی جائیں گی اور ہر موسم کا میوہ بھی لڑکوں کو مناسب طور پر دیا جائے گا۔اور ہر ہفتہ ایک خاص کھانا خود لڑکوں کی فرمائش سے پکایا جائے گا۔جس کو وہ خود اپنی کثرت رائے سے قرار دیں گے۔ بشرطیکہ بہ لحاظ موسم وہ صحت کو مضر نہ ہو۔ تمام اسباب پلنگ وغیرہ بچھونا فرش سب منتظم مدرسہ مہیا کرے گا۔ کسی سامان یا فرنیچر کی کسی طالب علم کو فکر وتدبیر نہ ہوگی۔ تمام خدمت گار فراش، سقہ، دھوبی، باورچی ،کہار سب منتظم مدرسہ مقرر کرے گا۔اور وہی تمام خدمت لڑکوں کی کریں گے،کسی طالب علم کو اپنا خاص خدمت گار رکھنا ضرور نہ ہوگا۔بجز کسی حالت کہ جس کو منتظم مدرسہ منظور کرے۔ لڑکوں کو صفائی سے رہنے کی نہایت تاکید ہوگی۔اور قبل اس کے کہ کوئی لڑکا سکونت کے لئے مکانات میں داخل ہو یہ بات دیکھ لی جائے گی کہ جس قسم کے کپڑے وہ پہنتا ہے۔اس کے پاس اسی قدر تعداد سے ہیں۔جن سے وہ صفائی اور اجلے پن سے رہ سکے۔ یا نہیں۔ کسی لڑکے کو اجازت نہ ہوگی کہ وہ گوٹے اور کناری لگا ہوا یا بازار کا رنگا ہوا رنگین و نیم رنگ یا ایسا باریک جس میں سے بدن دکھائی دے یا ایسا تنگ جس سے چوچی اور پیٹ نظر آؤئے کپڑا پہنے۔ کسی لڑکے کو اجازت نہ ہوگی کہ وہ بہت بڑے بڑے بال جو کان کی لو سے زیادہ نیچے ہوں سر پر رکھے یا کاکلیں بنائے یا پٹیاں جمائے یا سسی لگائے یا انگوٹھی وچھلے پہنے یا کسی انگلی پر مہندی لگائے۔ کوئی شخص مدرسے میں اور کوئی طالب علم جو وہاں رہتا ہے،پان کھانے یا ھندوستانی حقہ یا چرٹ پینے کا مجاز نہ ہوگا۔ جو لڑکے وہاں رہتے نہ ہوں، صرف پڑھنے آتے ہوں ان کے لیے ایک جگہ تجویز کی جائے گی جہاں ان کی ٹوپی اور چغہ اور انگریزی جوتے رکھے جائیں گے۔جب وہ مدرسہ میں آئیں گے،وہاں سے پہن کر چلے آئیں گے۔اور جب جائیں گے وہاں رکھ جائیں گے۔ جو لڑکے پڑھنے آئیں گے اگر وہ میلے ہو ں گے اور صاف کپڑے پہنے نہ ہو ں گے تو جماعت میں بیٹھنے کی ان کو اجازت نہ ہو گی۔ بیرونی احاطہ مدرسہ پر کچھ مکانات بنانے اور بنوانے کی فکر کی جائے گی۔تاکہ غریب لڑکے جو اس قدر کرچ سکونت اختیار نہیں کر سکتے۔ ان مکانوں میں بطور خود جس طرح چاہیں رہیں۔ تنبیہہ وتادیب لڑکے جو تقصیر کریں گے ان کو کسی قسم کی سزائے بدنی یا ایسی سزا جس سے رفتہ رفتہ غیرت جاتی رہتی ہے، نہیں دی جائے گی۔ماسٹروں کو اختیار ہو گا کہ جو لڑکا کچھ تقصیر کرے یا سبق یاد نہ کرے تو اس کو یہ سزا دیں کہ جس قدر وقت پڑھنے کا ہے ،اس کے علاوہ ایک گھنٹہ یا دوگھنٹے اور پڑھے۔اس کو چھٹی اور لڑکوں کے ساتھ نہ دی جائے۔یا جماعت میں وقت معین تک کھڑا کر دیا جائے۔ تاکہ ا ور لڑکے دیکھیں کہ اس نے تقصیرکی ہے۔اگراس سے بھی زیادہ سزا کے لائق تقصیر ہو تو ہیڈ ماسٹر صاحب کو لکھ کر رپورٹ کی جائے گی۔اور ہیڈ ماسٹر دریافت حال کرنے کے بعد یہ سزا دے سکے گا کہ ایک خاص تپائی پر معیاد معین تک اس کو کھڑا کر دے گا اور ایک کاغذ کی ٹوپی جس پر آلو کی صورت بنی ہوگی،سر پر رکھ دے گا۔ یہ سزا بھی کم عمر طالب علموں کو دی جائے گی۔مگر جو طالب علم ہوشیار اور سمجھ دار ہو گئے ہیں۔ان کو صرف فہمایش زبانی ہوگی۔اور جو لڑکا ایسا نالائق ہو گا کہ اس قسم کی سزاؤں سے اس کو غیرت نہ ہو گی۔اور شرارت نہ چھوڑے گا تواس کو مدرسہ سے خارج کر دیا جائے گا۔تاکہ اور لڑکے اس کی بد خصلتیں نہ سیکھنے پائیں۔ جو لڑکے کسی قسم کے کھیل میں شرارت کریں گے اور خلاف قاعدہ عمل کریں گے تو ان کی سزا یہی ہوگی کہ وہ چند مدت کے لیے اس کھیل سے خارج کردے جائیں۔ اوراس میں شامل نہ ہو ں گے۔ جو لڑکے آپس کی ملاقات اور سوشل باتوں میں کوئی تقصیر کریں گے۔وہ چند روز کے لیے سوسائٹی سے خارج کر دیے جائیں گے۔اوراس میں شامل نہ ہو ںگے۔ جو لڑکے آپس کی ملاقات اور سوشل باتوں میں کوئی تقصیر کریں گے وہ چند روز کے لیے سوسائٹی سے کارج کر دیے جائیں گے، نہ ان کو ساتھ کھانا ملے گا اور نہ کھیلنا۔ اور نہ بات چیت کرنا، اور جس لڑکے کے لیے یہ سزائیں کافی نہ ہوں گی وہ مدرسہ سے خارج کر دیا جائے گا۔ جھوٹ بولنا گو وہ کیسی ہی خفیف بات میں کیوں نہ ہو،ایک بہت بڑا جرم سوسائٹی کا سمجھا جائے گا۔اس طرح کسی کو جھوٹا کہہ بیٹھنا جرم سو سائٹی متصور ہو گا گو کہ اس شخص نے جھوٹ ہی کیوں نہ بولا ہو۔ حالت بیماری کسی قسم کی بیماری کی حالت میں فی الفور ڈاکٹر صاحب یا ھندوستانی طبیب سے جو مدرسے سے متعلق ہو گا، حسب مرضی لڑکوں کے مربیوں کے رجوع کی جائے گی۔دونوں قسم کے دوا خانوں سے دوا ملے گی۔اور فی الفور ان کے مربیوں کو اطلاع کی جاوئے گی۔تاکہ جس طرح ان کی مرضی ہو کیا جاوئے۔ یہ تمام طریقے تو لڑکوں کے رہنے اور تربیت پانے کے تھے اب اصل مقصد تعلیم ہے جو بیان کیا جاتا ہے۔ طریقہ داخلہ وفیس یہ بات خوب یاد رہے کہ ہر شخص کو آمدنی مدرسہ کے اضافہ ہونے کی فکر رہنی چاہیئے۔کیونکہ جس قدر آمدنی زیادہ ہو گی۔اسی قدر عمدہ سامان تعلیم مہیا ہوتا جائے گا۔ اس لیے گو کہ اس مدرسہ کی بنا اس روپیہ کی آمدنی سے ہو گی جو چندہ سے جمع ہوتا ہے۔تو بھی فیس ماہواری اور فیس داخلہ لینے کا قاعدہ جاری رہے گا۔ البتہ ممبران کمیٹی کا اختیار ہو گا کہ جو غریب لوگ ہوں ان سے فیس نہ لی جائے اور بلا فیس داخل کریں۔ یا نہایت قلیل فیس اس کے لئے مقرر کریں۔اس تدبیر سے غریب اور محتاج لڑکوں کی تعلیم میں بھی ہرج نہ ہوگا اور پھر وہ فیس انھی لڑکوں کی تعلیم میں خرچ ہو گی۔ طریقہ تعلیم انگریزی کالجوں میں تمام طالب علموں کو یکساں علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ جو چیزیں ایک لڑکا جانتا ہے۔ وہی دوسرا جانتا ہے۔ گویا کہ وہاں کے طالب علم مثل چھاپہ کی کتابو ں کے ہوتے ہیں۔یہ طریقہ پسند یدہ نہیں ہے۔ بلکہ ہر قسم کے علوم کی جدا جدا شاخیں مقرر ہو ں گی اور طالب علموں کو اختیار ہو گا کہ جس قسم کا علم تحصیل کرنا چاہیں،اس میں داخل ہوں۔ ابتدائی تعلیم البتہ سب کی یکساں ہوگی۔اور وہ علوم بقدر حاجت سب کو یکساں پڑھائے جائیں گے۔جو دیگر علوم کے لیے بمنزلہ آلہ کے ہیں۔اور جو عام تعلیم کہلاتی ہے۔جس کی واقفیت عموماً سب کو چاہیئے۔اگر اس درجہ تک تعلیم پانے کے بعد حسب تفصیل ذیل جدا جدا قسمیں علوم کی بنادی جائیں گی۔اور ہر شخص کو اختیار ہو گا کہ جون سا علم چاہے اختیار کرے۔پھر اسی میں اس کی تعلیم ہوگی۔ اسی میں اس کا امتحان ہوگا۔اس میں خطاب پائے گا۔اور اسی علم کا عالم کہلائے گا۔اور وہ قسمیں یہ ہوں گی۔ اول: علم ادب ۔یعنی علم انشاء جس کو زبان دانی کہتے ہیں صرف تین زبانوں کا علم انشاء سکھایا جائے گا۔انگریزی،عربی، فارسی اور اس میں اردو بھی شامل سمجھی جائے گی۔ کسی لڑکے کو مجبور نہ کیا جائے گا، بلکہ اس کو اختیار ہو گا کہ ان زبانوں میں سے جون سی زبان کا چاہے علم ادب سیکھنا اختیار کرے اور چاہے کہ دو زبانوں کا علم ادب سیکھنا پسند کرے۔ زبان دانی حقیقت میں کوئی علم نہیں ہے۔لیکن چونکہ اب ہم مسلمانوں کے لیے عربی وفارسی ایسی ہی غیر اور اجنبی زبان ہو گئی ہے۔ جیسے کہ انگریزی ہے۔ اس لیے ہم کو ان زبانوں کا علم حاصل کرنا بمنزلہ ایک علم کے ہو گیا ہے۔اور اب ہم کو زبان دانی میں کامل مہارت کی نہایت ضرورت ہو گئی ہے۔اور ہماری بہت سی دینوی ضرورتیں بلکہ دینی ضرورتیں بھی کامل زبان دانی پر منحصر ہو گئی ہیں۔ خصوصا انگریزی زبان کی نہایت عمدہ اور کامل زبان دانی پر۔ اسی قسم سے متعلق رہے گا۔ علم تاریخ اور جغرافیہ کیوں کہ علم ادب اور تاریخ وجغرافیہ بالکل لازم وملزوم ہیں علم ادب پڑھانے کو تاریخ کا سکھانا اور تاریخ کے لئے جغرافیہ کا سکھانا لازم وملزوم ہے۔ اسی قسم میں ہر ایک زبان کی جس میں علم ادب پڑھایا جائے۔صرف ونحو اور معنی وبیان وعروض وقافیہ سب داخل ہے۔ اور مشکل کتابیں نظم ونثر کی لکھنی سب اس میں شامل ہیں۔ انگریزی زبان کا علم ادب سیکھنے والوں کو لیٹن زبان کا سیکھنا بھی ضروریات سے ہوگا۔ اور گریک یعنی یو نانی کا بھی کسی قدر اس کے ساتھ سیکھنا طالب علم کی خوشی پر منحصر ہو گا۔ دوم علم ریاضی: اس علم کی چھتیس شاخیں ہیں اور اس میں تمام علوم جو ہندسہ اور حساب اور جبر مقابلہ اور ہیئت و مثلث و علم جزئیات و کلیات اور ہندسہ بالجبر اور علم مناظر وغیرہ سب شامل ہیں۔ اسی شاخ میں انجئینری اور علم آلات یا علم جر ثقیل، علم حرکت وسکون، علم آب،علم ہوا،اور پیمائش اور نقشہ کشی اور طیاری وتخمینہ نقشہ مکانات شامل رہے گا۔ سوم علم اخلاق: اس قسم میں علم اخلاق اور علم قوی انسانی اور علم منطق وفلسفہ اور فلسفہ مع اصول علم وحکمت اور علم سیاست مدن یعنی اصول گورنمنٹ اور علم انتظام مدن اور اصول قوانین اقوام قدیم اور اصول قوانین اقوام مختلفہ جو انٹر نشینل لاء کہلاتا ہے۔اور اصول قوانین مروجہ زمانہ حال سب داخل ہیں۔اس میں شامل تاریخ قوانین اور روم کبیر کے پرانے قوانین جن پر قوانین اقوام یورپ زمانہ حال مبنی ہیں۔ چہارم علوم طبیعات:یعنی وہ علوم جو انگریزی زبان میں نیچرل سینسر کہلاتے ہیں۔اور اس میں مفصلہ ذیل علوم داخل ہیں۔ کیمسٹری یعنی علم کیمیا۔ مائینورو لوجی یعنی علم معدنیات۔ باٹنی یعنی علم نباتات۔ زواولوجی یعنی علم حیوانات۔ علم تشریح۔ علم برق وغیرہ۔ پنجم علم الہیات اسلامی: اس قسم میں علم عقائد علم تفسیر و علم فقہ، علم حدیث،اصول فقہ، اصول حدیث، علم سیر، علم کلام داخل ہوں گے۔ اس پانچویں قسم کے لیے دو حصے جدا گانہ ہو ںگے، ایک سنیوں کے لئے، ایک شیعوں کے لئے ۔ اور اس قسم کی تعلیم کا انتظام بھی جدا جدا ممبروں سے متعلق ہو گا۔ سنی مذہب کے ممبر سنیوں کی اس تعلیم کا اور شیعہ مذہب کے ممبر شیعہ مذہب کی تعلیم کا انتظام کریں گے۔ نہایت سختی کے ساتھ قید ہو گی کہ کسی وقت اور کسی موقع پر شیعہ وسنی لڑکے آپس میں کچھ ذکر مذہب کا نہ کیا کریں گے۔اور جو طالب علم کرے گا۔وہ سوسائٹی کے بر خلاف کام کرنے کے جرم کا مجرم تصور ہو گا۔اور سوسائٹی سے علیحدہ کر دیا جائے گا۔ زبانیں جن میں علوم تعلیم ہو ںگے ایک حصہ اس مدرسے کا انگریزی کا ہو گا۔اس میں تمام علوم وفنون جو اوپر مذکور ہوئے سب انگریزی میں پڑھائے جائینگے۔الا ھو ایک طالب علم کو دوسری زبان بھی مفصلہ زبانوں کے سیکھنی پڑے گی۔لیٹن واردو یا لیٹن وفارسی یا لیٹن و عربی اور اس کو بشمول اپنی تعلیم کے کچھ مختصر کتابیں فقہ وحدیث وعقائد کی عربی یا فارسی یا اردو کسی ایک زبان میں پڑھنی ہو ںگی۔ دوسرا حصہ اس مدرسے کا اردو ہو گا۔اور تمام علوم وفنون مذکورہ بالا سب اردو میں پڑھائے جائیں گے۔مگر اسی کے ساتھ ہر ایک طالب علم کو دوسری کوئی زبان مفصلہ ذیل زبانوں میں سے سیکھنی پڑے گی۔ انگریزی یا فارسی یا عربی۔ تیسرا حصہ اس مدرسے کا عربی ،فارسی کا ہو گا۔اور یہ حصہ ان لڑکوں کے لیے ہو گا جو عربی یا فارسی کا علم ادب یا مسلمانی مذہب کی الہیات پڑھنی چاہتے ہوں۔جو قسم پنجم تعلیم ہے۔ اس میں اکثر طالب علم دوسرے حصہ مدرسے کی تحصیل تمام کرنے کے بعد ترقی کر کے آؤیں گے۔اور ایسے طالب علم بھی داخل ہو ں گے جنھوں نے خارج از مدرسہ کہیں تعلیم پائی ہو۔ اور صرف ان ہی دونوں قسموں کے علوم کو پڑھنا چاہتے ہوں۔اور ان علموں کے پڑھنے کی لیاقت و استعداد بھی رکھتے ہوں۔ مدرسان وپروفیسران ہر ایک حصہ مدرسے میں نہایت اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہو گی اور نہایت لائق و قابل پرو فیسر ومدرس ہر حصہ کے ہوں گے۔پرنسپل انگریزی مدرسہ نہایت نیک اور نہایت لائق و نامی شخص ہو گا۔جیسے کہ ایک زمانے میں ڈاکٹر بلیٹن بنارس کالج میں تھے۔یا اب ہمارے زمانے میں مسٹر گریفتھ صاحب بنارس کالج میں اور مسٹر وٹین صاحب آگرہ کالج میں ہیں۔ انگریزی کالج کا پروفیسر بھی ایسا ہی عالم ا ور نیک شخص ہو گا،جیسے کہ اس وقت میں مسٹر ڈیارٹن صاحب بنارس کالج میں ہیں۔ انگریزی نیچرل سائنس اور میتھی میٹکس کا پروفیسر بھی کوئی نہایت لائق اور نیک انگریز ہو گا۔نہایت مضبوط ارادہ ہے کہ کوئی دقیقہ عمدگی اور عمدہ تعلیم کا فرو گزاشت نہ کیا جائے۔ علاوہ ان کے انگریزی حصہ میں ہندوستانی ماسٹر بھی ہوں گے۔جنھوں نے انگریزی کالجوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور یونیورسٹیوں کے خطاب پائے ہیں۔ اردو حصہ بھی انگریزی حصہ کے افسروں کے تابع اور ان کی نگرانی میں رہے گا۔اور اس کے ہندوستانی پروفیسر ہو ں گے جو ان علوم کو پڑھا سکتے ہو ں گے۔ اور افسران حصہ انگریزی ان کی مدد کرنے اور ان کو ہدایت کرتے رہیں گے۔اور مضامین مشکلہ بتا دیا کریں گے۔ عربی اور فارسی کے علم ادب کے لئے ایک بہت بڑا مولوی ادیب پیش قرار مشاہرہ پر نوکر ہو گا اور وہی مدرس اول کہلائے گا۔اور اس کے ماتحت بقدر حاجت اور بھی پروفیسر یعنی مدرسان ملازم ہو ں گے۔ مسلمانی علم الہیات یعنی قسم پنجم کی تعلیم کے دو بڑی عالم ایک سنی مذہب کا اور دوسرا شیعہ مذہب کا نوکر ہو گا تاکہ اپنی اپنی جماعت کو علوم مذکورہ کی تعلیم دے۔ مدرسہ میں ہمیشہ مختلف علوم پر لیکچر ہوا کریں گے۔اور مہینے میں ایک دفعہ مذہبی مدرس اپنی اپنی مسجدوں میں اپنے مذہب کے لڑکوں کو مذہبی لکچر سنایا کریں گے۔ خود لڑکے بھی باہم مل کر ایک کلب جس کا نام انشا ء اللہ تعالی مثل کیمرج کی کلب کے یونین کلب کہلائے گا۔جس کا ترجمہ مجلس متفقہ ہے۔مقرر کریں گے۔اس میں علمی باتوں اور دنیاوی علوم میں مبا حثہ ہوا کرے گا۔اور قواعد اسپیچ بعینہ وہی ہوں گے جو کیمبرج یونین کلب میں ہیں۔ مدرسے کی بنیاد جس دن رکھی جائے گی۔ وہ دن ہمیشہ مدرسے کی سال گرہ کا ہو گا۔اس دن ہمیشہ مدرسے کی یاد گاری کے لیے مجلسیں اور خوشیاں کی جائیں گی۔ مدرسے کی بنیاد کے دن جس قدر حکام انگریزی اور نامی رئیسان و راجگان ونوابان مو جود ہو ں گے۔ان سب کے نام سنگ مرمر پر کندہ ہوں گے۔اور وہ پتھر مدرسے کے بڑے ہال میں لگایا جائے گا۔ ہم کو خدا سے امید ہے کہ اس پتھر پر سب سے اول لارڈ نارتھ بروک ہمارے زمانے کے وائسرائے و گورنر جنرل ھندوستان کا نام نامی ہو گا۔ علاوہ اس کے سنگ مر مر پر ان تمام لوگوں کے نام نامی جنھوں نے پانچ سوروپیہ یا اس سے زیادہ چندہ دیا ہو گا مع تعداد چندہ کند ہو کر مدرسے کے بڑے ہال میں لگایا جائے گا۔تاکہ آئندہ کی نسلیں یاد رکھیں کہ کون لوگ ان کے مربی ہوئے تھے۔ جو لوگ بڑے بڑے حامی اس مدرسہ کے ہوئے ہیں۔ ان کی روغنی قد آدم تصویریں نہایت عمدہ سنہری چوکھٹوں میں لگی ہمیشہ کی یاد گاری کے لیے مدرسہ میں رکھی جائیں گی۔ اور امید ہے کہ سب سے پہلے لارڈ ناتھ بروک ہمارے زمانے کے وائسرائے و گورنر جنرل ہندوستان کی ہو گی۔اور ہندوستانیوں میں اپنی قوم کے خیر خواہ جناب عالی خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر اعظم راج پٹیالہ کی ہو گی جنھوں نے نہایت تو جہ اس کام میں فرمائی ہے۔ ہم کو یہ بھی امید ہے کہ حضور عالی جناب نواب محمد کلب علی خاں بہادر والی رام پور کی جانب سے اس مدرسے کے لیے ایسی مدد ملے گی کہ ھندوستان والیان ملک میں سے سب سے اول ان کی تصویر رکھی جائے گی۔اور خدا ایسا کرے کہ ان کے پاس ان کے وزیر عظم مولوی محمد عثمان خاں صاحب کو جگہ ملے۔ یہ سب باتیں تو ابھی مثل ایک خواب کے ہیں۔یا تو خدا نخواستہ وہی مثل ہو گی کہ اتنے میں آنکھ کھل گئی یا انشا اللہ تعالیٰ بعینہ اس کا ظہور ہو گا۔اور ٹھیک تعبیر ہو گی۔ ہم کو خدا سے امید ہے کہ ٹھیک تعبیر ہی ہو گی ۔کیونکہ الرویا شعبۃ من النبوۃ، نہایت متبرک قول ہے۔ اب دعا ہے کہ خدا ہمارے کام میں برلت دے اوراس امر عظیم کو جو ہماری طاقت سے باہے ہے۔اپنے فضل وکرم سے پورا کرے۔ آمین ،ثم آمین۔ ٭٭٭ مجوزہ مدرسۃ العلوم مسلمانان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ سچی رائے میں بھی کوئی ایسی کرامات نہیں ہوتی کہ وہ از خود لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جائے۔اس میں جو کچھ کرامات ہوتی ہیں۔وہ صرف اسی قدر ہوتی ہیں کہ مباحثہ کا اس کو خوف نہیں‘‘۔ مجوزہ ٭٭ مجوزہ مدرسۃ العلوم مسلمانان پر جو بحث اخباروں میں ہوئی (بلا لحاظ اس بات کے کہ وہ ہماری تدبیر کے موافق تھی یا مخالف) اس سے ہم کو نہایت خوشی ہوئی ہے۔ اور اس بات کے دیکھنے سے کہ لوگوں نے اس پر توجہ کی اور مباحثہ کیا۔ہم کو اپنے مقصود کے حاصل ہونے کی قوی تر امید ہوئی ہے۔ نہایت نامی اخبار پایونئیر میں آرٹیکل لکھنے والا ہم کو یقین دلاتا ہے کہ گورنمنٹ کالجوں اور سکولوں میں مسلمان طالب علموں کی تعداد کم نہیں ہے۔اس خوش خبر سے ہم نہایت خوش ہیں،اور اپنے تئیں مبارک باد دیتے ہیں۔مگر یہ کہتے ہیں کہ جس تعداد کو اس آرٹیکل لکھنے والے نے کافی سمجھا ہے۔ وہ ہماری رائے میں بہت کم ہے۔اور بہت زیادہ ہونی چاہیئے۔اس تعداد سے ہماری تسلی نہیں اور زیادہ ہو۔اور زیادہ ہو۔ پس ہماری یہ خواہش ہے کہ غالبا کسی انسان دوست آدمی کی نگاہ میں کسی طعنہ یا نفرین کے قابل نہ ہو گی۔جو تعداد کہ مسلمان طالب علموں کی اب گورنمنٹ کالج یا سکولوں میں ہے۔کیوں ہم اس پر قناعت کریں،اور جو لوگ اس تعلیم میں کچھ نقصان دیکھتے ہیں (گو ان کا ایسا خیال غلط ہی ہو۔) کیوں کہ ان کی ترقی تعلیم کے لیے کوشش کریں۔ ’’انڈین آبزرور‘‘ مطبوعہ ۲۸ ستمبر ۱۸۷۲ ء میں آرٹیکل لکھنے والے نے ہم کو سخت متکبر اور متعصب کہا ہے۔اور یہی سبب ہم کو گورنمنٹ کالجوں اور اسکولوں سے کم فائدہ حاصل کرنے کا قرار دیا ہے۔ اس آرٹیکل کو پڑھ کر اول اول تو ہم کو بہت تردد و خوف معلوم ہوا۔تردد تو اس بات کا ہوا کہ یہ کس کا لکھا ہے۔مسٹر ڈی ،پی، آئی کا یا مسٹر سی۔ایس کا اور خوف اس بات کا تھا کہ اگر پچھلے کا ہو تو ایسا نہ ہو کہ وہ کبھی ہمارے ملک کا گورنر لیفٹننٹ بن جائے،اور مسلمانوں کی زندگی اس کے ہاتھ میں پڑ جائے۔مگر چونکہ اس آرٹیکل کے اکثر مضمون وہ ہیں کہ جو مدت ہوئی ہم سن چکے ہیں۔اس لیے ہمارا وہ تردد اور خوف دونوں جاتے رہے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ ہاں ہم متکبر بھی ہیں اور متعصب بھی۔پر کیوں نہ ہم ایسا طریقہ تعلیم اختیار کریں جس سے ہمارے تکبر وتعصب میں بھی خلل نہ آئے اور ہم تعلیم بھی پائیں۔ ’’انڈین آبزرور‘‘ کا آرٹیکل لکھنے والا ہم کو طعنہ دیتا ہے کہ خاص مسلمانوں کے کالج قائم کرنے کے لیے کافروں سے یعنی (انگریزوں) سے مدد کیوں لی جاتی ہے۔اور یہ بھی لکھتا ہے کہ اگر ایسا مدرسہ خود مسلمانوں ہی کوششوں سے قائم ہو گا تو یہ ترقی وبہتری کی دلی خواہش کا ثبوت ہو گا۔لیکن اگر لارڈ نارتھ بروک جیسے لوگوں کی سخاوت سے قایم ہوا تو کچھ دلی خواہش کا نشان نہ ہوگا۔ اگر چہ ایسا لکھنا ایک عیسائی کو اور خصوصا اس قوم والے کو جس سے ہم نے مدد مانگی۔اور جو اپنے تئیں انسان کا سچا خیر خواہ و سچا دوست سمجھتی ہے۔زیبا نہ تھا۔ مگر ہم دل سے قبول کرتے ہیں کہ جو کچھ اس آرٹیکل لکھنے والے نے لکھا ہے صحیح ہے۔اور بالکل سچ ہے۔اور ہم اپنی قوم سے یہ بات کہتے ہیں کہ درحقیقت وہ نہایت نالائق اور بے شرم وبے حیا اور تمام قوموں میں ذلیل ہو گی۔جو اب بھی ایسے طعنے سن کر اس مدرسہ کے قائم ہو جانے میں دل وجان سے روپیہ سے اور کوشش سے مدد نہ کرے۔ ’’انڈین آبزرور‘‘ میں آرٹیکل لکھنے والا ہماری ناقص انگریزی کی ہنسی اڑاتا ہے۔مگر ہم کو اس سے کچھ رنج نہیں ہے۔کیونکہ یہ جو کچھ ہے۔انڈین ایجوکیشنل سسٹم کی عمدگی کا ثبوت ہے۔ہم مجبور ہیں کیونکہ ہماری یونیورسٹیاں اور ہمارے ملک کے ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن کی ایسی ہی تعلیم ہے۔اور صرف ہماری ہی ایسی تعلیم نہیں،ہزاروں در ہزاروں کی ایسی ہی تعلیم ہے۔ اسی لیے ہم اس سے بھاگتے اور نفرت کرتے ہیں۔ اردو اخباروں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مدرسے کے قائم ہونے کی تجویز کے مشتہر ہونے پر لوگوں کے دلوں میں بغیر کامل غور و فکر کرنے کے بے جا ولولے پیدا ہوئے ہیں۔کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس مدرسہ میں کے آدمی تعلیم پائیں گے۔ایسا کالج خواہ ایک مقرر کیا جائے یا دس مسلمانوں کی ترقی کا باعث نہیں ہو گا۔بلکہ وہ یہ تدبیر بتاتے ہیں کہ چھوٹے اسکول مسلمانوں کے جا بجا قائم کرائے جائیں۔تب مسلمانوں کی ترقی ہو گی۔ہم اس رائے کے مخالف نہیں ہیں۔ مگر اپنی قوم کو سمجھاتے ہیں کہ اس رائے میں کسی قدر نقص ہے۔ہم مسلمانوں ک وقومی ترقی اور قومی عزت کی ترقی دینے کی خواہش کرتے ہیں۔اور یہ ترقی جب ہی ہو سکتی ہے۔جب ہماری قوم کے لڑکوں کو کوئی ایسا موقع ملے۔جس سے ان کی عادت اور خصلت اور طریق معاشرت اور اخلاق درست ہوں۔اور نیز ان کو علوم میں اعلیٰ درجے کا کمال حاصل کرنے کا موقع ملے۔اور یہ بات جب تک کہ کوئی ایسا دار العلوم جیسا کہ تجویز ہوا ہے۔ قائم نہ ہو حاصل ہونی غیر ممکن ہے۔قومی عزت جب ہی ہو سکتی ہے جب کہ قوم میں ایسے کچھ اعلے درجے کے عالم بھی موجود ہوں ۔جو قوم کے لئے بمنزلہ تاج کے ہوں۔پھر اس کے بعد متوسط درجے کے عالم موجود ہوں۔ پھر اس کے بعد عام لوگوں میں تعلیم پھیلائی جائے۔اگر بالفرض ہم نے چھوٹے چھوٹے دس لاکھ مسلمانی اسکول قائم کر دیے اور اوسط اور اعلیٰ درجے کی تعلیم کا کچھ سامان نہ کیا تو نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمارے لڑکے ویسے کے ویسے ہی گدھے کے گدھے رہیں گے۔اور مبادی الھساب اور سورج پور کی کہانی اور انگریزی میں مسٹر کیمسن صاحب کا ترجمہ تاریخ ہندوستان پڑھتے پڑھتے نسلیں گزر جائیں گی اور پھر ڈائریکٹر صاحب اپنی رپورٹ میں لکھ دیں گے کہ یہ تو ابھی سوسائٹی میں بھی ملنے کے لائق نہیں ہوئے ہیں۔شاید جو کتابیں انھوں نے پڑھی ہیں۔وہ پڑھا سکیں۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی قوم کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کاموقع پیدا کریں۔تاکہ جس کا دل ہو۔وہ آئے اور وہاں تعلیم حاصل کر سکے۔جس سے اس کی قوم کی عزت ہو۔ اگر ایک شخص بھی ہماری قوم کا اس کالج سے ایسی تربیت پائے گا۔تو اس سے ہماری قوم کوعزت ملے گی۔اگر فرض کرو کہ ایک بھی اس کالج میں تعلیم نہ پائے گا تو ہمارے دل کا یہ داغ تو ہائے ہماری قوم کے لیے ایسی تعلیم کا جیسے کہ دل چاہتا ہے موقع نہیں ضرور مٹ جائے گا۔پس عام تعلیم کے دھوکے میں پڑنا اور اس امر اہم سے درگزر کرنا نہایت بد قسمتی مسلمانوں کی ہو گی۔چھوٹے چھوٹے مسلمانی سکول عام تعلیم کے قائم کرنے کچھ مشکل نہیں ہیں،جو سب سے مشکل اور سب سے زیادہ ضروری اور تقدم ہے یہی ہے۔اس وقت اسی کے انجام پر سب کو توجہ کرنی چاہیئے۔ ایک دوسرا بے جا ولولہ لوگوں کو اور بغیر کافی فکر کے خصوصا اہل پنجاب کو یہ اٹھا ہے کہ ہم خود ہی اپنے لیے ایسا کالج کیوں نہ قائم کریں۔ بجائے اس کے کہ شمال مغربی اضلاع کے کالج اس کی مدد کریں اور وہ لوگ اپنی رائے کی تائید میں بیان کرتے ہیں کہ کیا وہ ایک کالج ہمارے لیے اور تمام ہندوستان کے لیے کافی ہو گا۔یہ عذر بھی پیش کیا جاتا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کالج کی شمال مغربی اضلاع کے رئیسوں میں سے کسی نے مدد نہیں کی تھی۔ مگر حقیقت میں اس قسم کے خیالات کا ابتدا میں پیدا ہونا پوری دلیل بد قسمتی مسلمانوں کی ہے۔در حقیقت تاریکی کا فرشتہ روشنی کے فرشتے کی صورت بنا کر ان کو دھوکہ دیتا ہے۔ہم کب کہتے ہیں کہ یہ ایک کالج ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے لیے کافی ہو گا۔مگر یہ کہتے ہیں کہ پہلے سب ایک نمونہ بنانے میں دل وجان سے ہو کر کوشش کرو۔ اس نمونہ کوپورا پورا پہلے بنا لو۔ اس کی خوبیاں اور فوائد لوگوں کو دیکھنے دو۔ یہی کام سب سے زیادہ مقدم اور سب سے زیادہ مشکل ہے۔ جب ایک نمونہ قائم ہو جائے گا تو پھر از خود اس کی مثالیں قائم ہوتی جائیں گی۔ پہلی دفعہ اس کا قائم ہونا اور چل جانا مشکل ہے۔پھر کچھ مشکل نہ ہو گی۔جو روپیہ اس کے تخمینہ کے لیے کیا گیا ہے۔ جب کہ ہماری قوم کے لووگ اس کے فوائد سے واقف ہو جائیں گے تو اس قدر روپیہ ایک پریذیڈنسی تو کیا ایک ایک ضلع سے جمع ہو سکے گا۔اور ہم ہر ہر ضلع میں ایسا کالج بنا سکیں گے۔لیکن اگر ابھی شروع ہی میں اس کی مزاحمت ہوئی اور ہر ایک نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانی شروع کی تو نہ یہ ہوگا اور نہ وہ ہوگا۔اور ہماری قوم اسی طرح ذلت اور خدا کی پھٹکار میں مبتلا رہے گی۔ پنجاب یونیورسٹی کالج اگر غور کر کے دیکھو تو خالص پبلک کی جانب سے نہ تھا۔ بے شک وہ نہایت عمدہ چیز ہے۔اور ہم اسکی بہت تعریف کرتے ہیں۔اوراس کے بانیوں کے بہت شکر گزار ہیں۔الا اس کو ایسا ہی رفاہ عامہ کا کام سمجھتے ہیں۔جیسا کہ گورنمنٹ ایسے ہی اور کام اپنی رعایا کے فائدہ کے لیے اور رفاہ عامہ کے کیا کرتی ہے۔ مگر یہ تدبیر اس مجوزہ کالج کے قائم کرنے کی ایسی تدبیر ہے کہ جو خالص رعایا کے دل سے نکلی ہے۔اور کود ہماری قوم نے اپنے بھائیو ں کی ترقی وبہتری کے لیے از خود اپنی تجویز سے اور اپنی رائے اور مرضی سے قائم کی ہے۔ اور اسی سبب سے اپنے بھائیوں اور ہم قوم سے بادعائے برادری وہم قومی چندہ مانگا جاتا ہے۔پنجاب یونیورسٹی کاچندہ حکام کو خوش کرنے کے لیے تھا۔ اور یہ چندہ اپنے قریب المرگ اور جاں بہ لب رسیدہ ماں جائے بھائیو کی جان بچانے کو ہے۔ہمیں ان دونوں کالجوں کے چندوں میں زمین آسمان کا فرق معلوم ہوتا ہے۔اس کالج کا چندہ جمع کرنے کو ہمارا حق ہے۔ کہ ہم اپنے قومی بھائیو سے ہاتھ جوڑ کرچندہ لیں۔ٹھوڑی میں ہاتھ ڈال کر چندہ لیں۔کان پکڑ کرچندہ لیں۔ سخت سست کہہ کر چندہ لیں۔کیا یونیورسٹی پنجاب کالج کا ایسا حق تھا کہ۔غرض ہماری اس وقت یہ ہے کہ ہماری قوم کو چاہیئے کہ اس وقت تمام خیال کو دل سے دور کریں اور تمام ولولوں کو دل سے مٹا دیں۔ اور صرف یہی ایک ولولہ دل میں رکھیں کہ یہ کالج موزہ قائم ہو جائے،جہاں تک ممکن ہواس کی تائید کریں۔کہ یہی بات ان کے حق میں بہتر ہے۔ہم اپنی سی کیے جاتے ہیں۔اور کہے جاتے ہیں،یہی ہمارا فرض ہے کہ آئندہ ہونا یا نہ ہونا خدا کے ہاتھ میں ہے۔واللہ المستعان ۔ ٭٭٭ ہاں اور چھیڑو (سر مور گزٹ ناھن ، بابت ۱۵ اکتوبر ۱۸۸۹ ئ) ۱۸۸۹ ء میں جب سر سید نے مسودہ قانون ٹرسٹیان مدرسۃ العلوم علی گڑھ مرتب کیا تو اس میں ایک شق یہ بھی رکھی کہ سر سید مدرسۃ العلوم علی گڑھ کے آنریری لائف سیکرٹری ہوں گے ۔اور ان کے بیٹے سید محمود نائب سیکرٹری اور ان کی وفات کے بعد سید محمود لائف سیکرٹری بن جائیں گے۔اس پر بعض ٹرسٹیوں نے جن میں پیش پیش مولوی سمیع اللہ خاں صاحب تھے، شدید اختلاف کیا، اور کہا کہ سر سید کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو اپنا جانشین مقرر کر دیں۔سر سید مخالفین کے اعتراضات تو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کر لیا کرتے تھے۔مگر دوستوں کی مخالفت انھیں کسی طرح گوارہ نہ تھی۔ اس وجہ سے انھوں نے مسودہ قانون ٹر سٹیان کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف اپنے اخبار علی گڑھ انسیٹیوٹ گزٹ میں بڑے سخت مضامین لکھے۔ ان ہی میں سے ایک مضمو ن یہ ہے جو ہم اخبار سر مور گزٹ ناھن مورخہ ۱۵، اکتوبر ۱۸۸۹ء سے لے کر درج کر رہے ہیں۔ کیونکہ انسٹیوٹ گزٹ کے وہ پرچے ہمیں نہیں مل سکے۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ہمارے ایک دوست پوچھتے ہیں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مدرسۃ العلوم علی گڑھ کا کام آپ کی رائے سے چلے تو کالج کمیٹی مقرر کرنے سے کیا فائدہ؟۔ مگر ہم کو افسوس ہے کہ ہمارے دوست نے نہ کبھی کچھ دیکھا ہے اور نہ سمجھا ہے۔ ان کو کچھ معلوم نہیں کہ سویلائزڈ دنیا میں جو کام قومی بھلائی کے قائم ہوتے ہیں۔ وہ کیوں کر قائم ہوتے ہیں۔اور کس طرح انجام پاتے ہیں۔ صرف ایک شخص کی محنت اور ایک شخص کی رائے سے۔اور جب اس اصول سے انحراف کیا جائے گا تو وہی ھندی مثل صادق آئے گی کہ ’’ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں۔‘‘ جب کوئی شخص ایک کام قومی فائدے کے لئے شروع کرتا ہے اور اپنی جان کو محنت میں ڈالتا ہے تو کمیٹی اس واسطے مقرر ہوتی ہے کہ اس کی امداد کرے۔اس کی محنت میں شریک ہو۔ اس کے ارادوں کو تقویت دے۔تاکہ اس کاکام پورا ہو۔ نہ یہ کہ اس کی رائے سے اور اس کے کام سے مخالفت کر کے اس کام کے پورا کرنے میں خلل انداز ہو۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جب چند آدمی ایک بات پر رائے دیں گے تو ضرور ہے کہ آرا میں اختلاف واقع ہو گا۔مگر اس اختلاف آرا کو ایسے کام میں دخل دینا جو ابھی تکمیل کو نہیں پہنچا ہے۔اور جس کا تکمیل کو پہنچنا صرف اسی شخص کی محنت و جان بازی پر منحصر ہے۔جس نے اس کو سوچا اور شروع کیا۔اور کسی حد تک اس کو پہنچایا۔ بالکل اس کام کو برباد کرنا اور اس کے ساتھ پوری دشمنی کرنا ہے۔ احمق سے احمق بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص ایک کام کو انجام دے رہا ہے ۔اور وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح پر میں اس کو انجام دے سکتا ہوں۔اب کمیٹی کے ممبر صاحب تشریف لائے اور فرماتے ہیں کہ نہیں صاحب! ہم کو اس طرح پر کام کرنے سے اختلاف رائے ہے۔کام کرنے والا اپنے یقین وایمان سے جانتا ہے اور کہتا ہے کہ اس رائے کے مطابق نہ مجھ سے کام ہو سکتا ہے۔اور نہ میں اس کو انجام دے سکتا ہوں۔ ایسی حالت میں اس کام کے برباد اور ملیا میٹ ہو جانے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ کمٹیوں کے نا سمجھ اور نادان ممبروں پر نیک حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ ایمان کی مثل صادق آتی ہے۔ممبر ہوئے اور یہ جانا کہ ہم کو رائے دیناہمارا فرض ہے۔ مگر اس فرض کو مطلق نہ سمجھا۔ ان کا فرض یہ تھا کہ اس کام کے کرنے والے کی مدد کرتے،اور اس کے انجام میں شریک ہوتے۔ نہ یہ کہ چلتی گاڑی میں روڑا اٹکا کر اس کام کو برباد کرتے۔ اگر تم میں خود اس کام کو کرنے کی اور اس کو اپنی رائے کے مطابق انجام دینے کی قابلیت تھی۔ تو تم آج تک کہاں چھپے بیٹھے تھے۔اور کیوں نہ اس کام کو خود تم نے شروع کیا؟۔ ایمان داری اور سچائی کا زعم اور بے سمجھے اور بے محل اس کو کام میں لانا بالکل ایسا ہی ہے۔جیسا کہ ایک بت پرست نہایت سچائی اور ایمان داری سے ایک بت کی پرستش کرتا ہے۔پھر تمھاری ایسی سچائی اور ایمان داری بھاڑ میں جلا دینے کے لائق ہے نہ کہ قدر ومنزلت کے لائق ۔ اسلام کی اتنی بڑی وسعت دنیا میں پہلے صرف ایک شخص (محمد ﷺ) کی جو بانی تھا۔اس کی اطاعت اور اس کے حکم کی تعمیل سے۔ امریکہ کی اتنی بڑی سلطنت جو دنیا میں آزاد سلطنت کہلاتی ہے۔ ایک شخص واشنگٹن کی اطاعت اور فرمانبرداری سے جو اس کا بانی تھا۔ کوئی مثال چھوٹی یا بڑی اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔کہ وہ بجز اس شخص کی رائے سے جو اس کا بانی ہوا ہے۔اور کسی کی مداخلت سے انجام پائی ہو۔ بے شک وہ اپنی مدد اور اعانت کے لئے اور لوگوں کو اپنے ساتھ شریک کرنا چاہتا ہے۔جو قانون قدرت کے مطابق ہے۔پس جو لوگ اس کو اوراس کے کام کو پسند کرتے ہو ں۔وہ شریک ہوں اور جو نہیں پسند کرتے وہ علیحدہ ہو جائیں۔ لیکن خوب سمجھ لینا چاہیئے کہ جو کسی کام کا بانی ہوتا ہے۔وہ ان مشکلات کو اول سمجھتا ہے۔اور ان کی مداخلت پر بھی خوب مستعد ہوتا ہے۔وہ کام پورا ہو یا بر باد ہو جائے۔یہ خدا کی مرضی ہے۔مگر وہ اپنے قصد مصمم سے ہر گز منحرف نہیں ہوتا۔اگر کسی میں جان ہو تو جان بازی کو بھی حاضر ہے۔اور اگر لچا پن اختیار کرنا ہو تو جوتی پیزار کو بھی حاضر ہے۔اگر ہم نے ایک دوست کو لکھا کہ اگر ہماری رائے پر مدرسۃ العلوم علی گڑھ نہ چلے تو نہیں چلنے کا۔ اس میں ہم نے کیا غلط لکھا؟۔ اور اگر ہم نے یہ لکھا کہ اگر ہم سے اختلاف کیا جاتا ہے تو ہم سیکرٹری ہونا چھوڑ دیں گے۔اور کالج کو ملیا میٹ کر دیں گے۔تو اس سے ممبروں کو کیوں خوف ہوا؟۔اور ہمارے دوست نے کیوں سمجھا کہ ہم ممبروں کو خوف دلاتے ہیں۔ تاکہ وہ ہماری رائے سے بہ نسبت تقرر سید محمود کے اختلاف نہ کریں۔اگر کسی میں اس بوجھ کے اٹھانے کی اور اس قومی کام کے انجام دینے کی طاقت ولیاقت تھی تو وہ خم ٹھونک کر سامنے آیا ہوتا کہ ہم انجام دیں گے۔ خوف زدہ ہونے کے کیا معنی ہیں؟۔ سن لو ! اے دور ونزدیک کے دوستو! سن لو اے دکھن اور اتر کے دوستو ! سن لو اے پورب اور پچھم کے دوستو! سن لو اے آسمانوں اور ازمینوں کے رہنے والو ! سن لو اور وہ بھی جو مادر زاد بہرے ہیں کہ بے شک یہ کام جو میں نے کیا ہے۔وہ قومی کام ہے۔ قوم کی بھلائی اور بہتری کے لیے کیا ہے۔ مگر میں نے کیا ہے۔ اور میں ہی انشا ء اللہ انجام تک پہنچاؤں گا۔اے مخالفو ہوشیار رہو! رنڈیوں کی طرح کانا پھوسی کرنے اور نہایت بزدلوں کی طرح فرضی اور جھوٹے ناموں سے آرٹیکل چھپوانے سے کام نہیں چلتا۔ خود تمہارا جھوٹ جو تم نے جھوٹا نام اختیار کرنے سے اپنے اوپر ثابت کیا ہے۔خود تم کو شرماتا ہوگا۔اگر مرد ہو تو چلو فرانس کی عمل داری میں۔اگر سچے ہو اور ایمان داری اور سچائی پر بھروسہ کرتے ہو تو چلو پیرس میں جو دنیا کا فردوس ہے۔ اور ایک آن میں ہماری اور اپنی قسمت کا فیصلہ کر لو۔ان نالائق باتوں اور تو تو، میں میں سے کیا فائدہ؟۔ میں ان لوگوں کو دیکھنا چاہتا ہوں جو کہتے ہیں کہ ہم علی گڑھ میں رہ کر مدرسے میں فساد ڈلوائیں گے۔تاکہ لوگ دیکھیں کہ وہ اور ہم کوٹھیوں میں رہتے ہیں یا جیل خانوں کی کوٹھریوں میں۔خوب سمجھ لو کہ کس درجہ کے نتیجہ تک ہم مستعد ہیں۔جس مدرسہ کو ہم نے جان بیچ کر بنایا ہے۔ اس کی بر بادی بے جان جائے امکان سے خارج ہے۔آگ کو مت پھونکو۔اگر پھونکتے ہو تو اس کے شعلوں کا بھی اندازہ کر لو۔ اے سید ! زیادہ جوش میں مت آؤ۔یہ ازلی حکم ہے کہ الحق یعدو و یعلی۔ میں اس کو دل سے قبول کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اے آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والو! سب مل کر کہو (آمین)۔ ایک دل چسپ دور اندیشی (سر مور گزٹ ناھن، بابت ۸۔ جولائی ۱۸۸۹ئ) ہم نے سن اہے کہ ہمارے چند دوست ایک جگہ جمع تھے۔ اور قومی ہم دردی کے سبب سے اس بات پر غور کر رہے تھے کہ سید احمد کے بعد مدرسۃ العلوم علی گڑھ کا کیا حال ہو گا؟۔ ایک دوست نے کہا کہ کچھ اندیشہ کی بات نہیں ہے کہ تعلیم کی ضرورت پر اب ہر ایک شخص کو یقین ہو گیا ہے۔ اور مدرسۃ العلوم علی گڑھ اب تیار ہو گیا ہے۔ بنی بنائی چیز کا ہاتھ میں لینا ہر ایک پسند کرے گا۔آمدنی بھی اس قدر ہے کہ موجودہ حالت قائم رہ سکتی ہے۔ اور سید احمد خاں کے مرنے سے اس میں کچھ نقصان نہیں ہو سکتا کیوںکہ بہ ظاہر وہ آمدنی مستقل ہے۔ دوسرے دوست نے فرمایا کہ ہاں سچ ہے۔کچھ شک نہیں ہے کہ سید احمد خاں کے جانے کے بعد یعنی ان کے مر جانے کے بعد بورڈنگ ہاؤس میں اس قدر اخراجات نہیں ہو ں گے اور طالب علم زیادہ آؤیں گے۔کالج وسکول میں بھی سید احمد خاں نے بہت زیادہ خرچ بڑھا کر رکھا ہے۔ کم تنخواہ کے لوگ مقرر کر کے بہت تخفیف سے کام چل سکے گا۔اور ان کے مر جانے پر جو چند رکاوٹیں ہیں وہ بھی جاتی رہیں گی۔ میں اپنے دوستوں کا بہت شکر گزار ہوا کہ ان کو مدرسۃ العلوم کی اس قدر فکر ہے۔اور اس کے لیے دور اندیشیاں جو میری عین تمنا ہے۔ فرماتے ہیں۔اگر مجھ کو یقین ہو جائے کہ میری زندگی مدرسۃ العلوم کی ترقی کے لیے ایک رکاوٹ ہے تو میں خود کشی کے لیے تیار ہوں۔تاکہ ہمارے دوستوں کو مدرسۃ العلوم کی ترقی کے لیے انتظار نہ کھینچنا پڑے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے دوستوں کے وہی ٹکیل پرانے خیالات ہیں۔وہ بورڈنگ ہاؤس کو ایسے ہی لوگوں سے بھرنا چاہتے ہیں ۔جو مسجدوں میں مردوں کی فاتحہ کی روٹیاں کھانے پر بسر اوقات کرتے ہیں۔ افسوس کہ ان کو تعلیم کی بھی ابھی قدر نہیں ہوئی ہے۔ تھوڑی تنخواہ کے پروفیسر اور ٹیچر کیا تعلیم دے سکتے ہیں؟۔ انھوں نے کبھی چار روپیوں سے زیادہ تنخواہ کا میاں جی دیکھا ہی نہیں۔بلا شبہ ایک میاں جی کو پانسو اور سات سو روپیہ ملنا ان کو متعجب کرتا ہو گا۔ اگر ہمارے بعد مدرسۃ العلوم کا یہی حال ہونا ہے۔جس کی دور اندیشی ہمارے دوست کرتے ہیں تو ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ قبل اس کے مدرسۃ العلوم کا یہ حال ہو ایک شدید بھونچال آئے اور ہمارا پیارا مدرسۃ العلوم زمین میں دھنس جائے۔آمین۔ اب ھم اپنے دوستو سے التجا کرتے ہیں کہ ہم کو کوئی ایسی تدبیر بتائیں کہ ہمارے مرنے کے بعد مدرسۃ العلوم کا ایسا حال نہ ہونے پائے۔ پیی ریڈنگ تھیٹر کسی ایسے نے پتھر نہیں مارا ،جس کے پتھر کی چوٹ لگتی (سر مور گزٹ ناھن ، بابت ۸، اپریل ۱۸۸۹ ئ) کہتے ہیں کہ جب منصور کو سنگسار کرنے لگے تو تمام علماء وفضلا ومشاہیر اس لیے جمع ہوئے کہ پتھر ماریں۔لوگ پتھر مارتے تھے اور منصور شاداں تھا۔ اس مجمع میں شبلی علیہ الرحمۃ بھی موجود تھے۔لوگوں نے ان کو بھی مجبور کیا کہ وہ بھی پتھر ماریں۔ شبلی نے ایک کنکری اٹھا کر منصور کو ماری۔ وہ بلبلا گیا اور ھائے وائے کرنے لگا۔لوگوں نے پوچھا کہ شبلی کی کنکری کی تجھے کیوں چوٹ لگی۔ منصور نے کہا اس لیے کہ اور لوگ بے سمجھ تھے اور شبلی سمجھتا تھا۔ اور پھر کنکری ماری۔ہم نہایت خوش ہیں کہ گو پیی تھیٹر میں ایک شبلی تھا۔ مگر اس جرم پر پتھر مارنے والوں میں کوئی شبلی نہ تھا۔ مخدومی منشی احمد علی شوق نے آزاد میں جو لکھا، ہمارے مکرم منشی سراج الدین (ایڈیٹر سرمور گزٹ ناھن) نے جو مہربانی کی۔اور جن دوستوں نے ہمارے ساتھ ہم دردی کی ہمارے دل کواس سے تقویت ہے۔مگر جب ہم کو کسی کے پتھر کی چوٹ نہیں لگتی تو وہ لوگوں سے کیوں الجھتے ہیں۔اور پتھر پھینکنے والوں کے بھی ہم دل سے شکر گزار ہیں ،مگر افسوس ہے کہ جب ان کو یہ بات معلوم ہو گی کہ ان کے پتھر کی ہم کو چوٹ نہیں لگتی تو ان کو افسوس ہو گا۔اور رنج ہوگا۔ اس مقام پر ہم اپنے دوست کا ایک خط چھاپتے ہیں،گو کہ اس کے چھاپنے سے ہم کو شرم آتی ہے۔ مگر بہ پاس خاطر احباب اس کے چھاپنے پر مجبور ہیں۔ وہ خط یہ ہے ھو العزیز ۲۹ مارچ ۱۸۸۹ئ از جھنگ پنجاب نمودم رشتہ الفت بہ آل مصطفیٰ محکم بروز حشر دردست من ایں جبل متیں باید عالی جناب سر سید! السلام علیکم۔ ۶ تاریخ سنہ رواں کی رات کو ایسے عالی شان مجمع میں آپ نے اسٹیج پر رونق افروز۔۔۔۔ ساتھ ساتھ زبان در افشاں سے گوہر آب دار مسلمانوں کی حالت زار ونزار پر۔۔۔۔ اگر ہزار در ہزار درہم ودینار ان کی خریداری میں صرف کر دیے جائیں،تو میری دانست میں صادق ہم درد قوم کے صراف کی نگاہ میں بہ قیمت کس وشمار قطار میں ہو گی۔ لیکن جس درد کی دوا کے لیے بزرگان قوم نے در بدر پھرنا اور طرح طرح کے کھیل کھیلنا گوارا فر مایا ہے۔ اسی دکھ نے اکثر خیر خواھوں کو اس مصرعہ کا پورا پورا مصداق بنا دیا ہے:ع مفلسی آں چہ ما کرد بہ قارون زر کرد حافظ شیرانی کی غزل کے اخیر میں جو دوشعر آپ نے لگائے ہیں۔انھوں نے میرے دل میں ایسا اثر پیدا کیا ہے کہ جس کا بیان نہایت دشوار ہے۔بے اختیار پر حسرت دل سے نکل گیاع قربان آں کرم کہ تو بر قوم کردہ در آل مصطفیٰ بہ سیادت رسیدہ اس پر میرے دوست مولوی محمد علی صاحب نے جن کو شاعری میں کچھ دعویٰ ہے۔چھ شعر موزوں کر دیے گو وہ اس بیت سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔ چشمان تو زیر ابروان اند دندان تو جملہ در دھان اند پرچوں کہ صادق دل کی فر مائش موزوں ہو گئی، اس لئے ان کو بھی اخیر میں تحریر کرتا ہوں۔ آپ کاقیمتی وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا۔اور یہ جو گستاخی ہو گئی ہے۔اس کے واسطے معافی کا تہہ دل سے خواستگار ہوں۔اور نہایت دل سوزی سے اپنے پاک پروردگار کے دربار میں عجز وانکسار کرتا ہوں۔اور صدق دل سے دعا مانگتا ہوں کہ یا الہٰ العالمین شوکت الاسلام کے جہاز بزرگوار نا خداکو عمر نوحی اور گنج قارونی سے بڑھ کر عطا فرما۔آمین، آمین، آمین اے آں کہ درکمال بہ حدے رسیدہ کاں جا حریف خویش کسے را ندیدہ با قوم کردی آن چہ پدر با پسر کند و زقوم گفتہ ھا کہ نہ شاید شنیدہ دادی بقوم بادہ کہ بس خوش گوار بود و زدست قوم جام مکدر چشیدہ لیکن ترا بہ قوم کرم ھاست روز وشب گویا کہ از خمیر کرم آفریدہ در آل مصطفیٰ چوں کرم ھست فطرتا از فطرت ست ایں کہ کرم را گزیدہ بر خوان علی بہ خدمت سید بشوق دل بیتے کہ در محامد سید شنیدہ قربان آل کرم کہ تو بر قوم کردہ در آل مصطفیٰ بہ سیادت رسیدہ آپ کا دلی نیاز مند محمد حسن اول مدرس ۔جیوبلی ہائی سکول جھنگ برادرم مولوی محمد حسن صاحب نے اس عنایت پر یہ عنایت کی کہ پانچ روپے کے ٹکٹ کی قیمت بذریعہ منی آرڈر ہمارے پاس بھیج دیے۔تاکہ تھیٹر کے فنڈ میں داخل ہو کر غریب طالب علموں کی امداد میں خرچ ہو ں۔ ٭٭٭ ہماری قوم کیا اس سے آپ کی مراد سادات سے ہے؟۔ نہیں حضرت انسان سے مراد ہے۔ جو کلمہ ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں۔ جو ہمارے داداکی امت میں داخل ہیں۔مگر ’’ہماری قوم‘‘ کہہ کر آپ چپکے ہو رہے۔اس کا کچھ سر معلوم ہوا نہ پاؤں۔ہماری قوم سے آپ کا مطلب کیا ہے ؟۔ حضرت! بات یہ ہے کہ کل ہمارے ایک دوست مولانا روم کی مثنوی دیکھ رہے تھے۔اس میں عرب بدو کے کتے کی حکایت تھی۔ اس کو سن کر میرا خیال اپنی قوم پر گیا۔دل نے کہا ہماری قوم کا بھی یہی حال ہے۔پھر دل نے کہا کہ نہیں پھر کہا کہ ھاں ،پھر کہا کہ نہیں۔پھر کہا ھاں ، اس کافیصلہ میں نہ کر سکا۔اور اس کا خیال اب تک میرے دل میں ہے۔اور بے ساختہ میری زبان سے نکل جاتا ہے کہ ہماری قوم‘‘ پس جب تمہارے دل کی بھی وہی حالت ہو جو میرے دل کی ہے اور تمہارے دماغ میں بھی وہ سب خیالات جمع ہو جاویں اور سما جاویں جو میرے دماغ میں ہیں تو آپ کو بھی ’’ہماری قوم‘‘ کہہ اٹھنے کا مطلب معلوم ہو۔ ہماری قوم سے مطلب یہ ہے کہ ہماری قوم نے اپنے لیے کیا کیا اور کیا کچھ کر سکتی ہے،اور کیوں نہیں کرتی؟۔ یہ تو میں نے مانا کہ آپ کے دل میں جو قومی خیالات ہیں۔وہ مثل مجذوبوں کے آپ کے منہ سے ’’ہماری قوم‘‘ کا لفظ نکلوا دیتے ہیں۔ مگر بدو عرب کے کتے کی حکایت سن کر بھی آپ نے کہا ھاں ،کبھی آپ نے کہا ناں،اور اسی تذبذب میں رہے کہ ھاں ٹھیک ہے یا نا۔ اس کا کیا سبب ہے؟۔ حضرت بات یہ ہے کہ میں نے اس زمانہ میں اپنی قوم کو نہایت خراب حالت میں دیکھا ہے۔جن پر ٹھیک یہ مثل صادق آتی ہے کہ ع نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نی ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے گئے دونوں جہان کے کام سے ہم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے قوم کی اس خراب حالت سے میرا دل دکھا،اور میں نے یقین کیا کہ تعلیم اور صرف تعلیم ہی ان کی خراب حالت درست کرنے کا علاج ہے۔ میں نے ان کے لیے ایک مدرسۃ العلوم بنایا، مگر اس کا بننا اور چلنا صرف قوم کی امداد پر منحصر تھا۔جب میں دیکھتا ہوں کہ قوم نے اس میں بہت کچھ مدد کی ہے۔ اور قوم کی مدد سے ہی ایسا عالی شان مدرسہ بہت کچھ بن گیا ہے۔مسجد مدرسہ کی بہت عمدہ ونفیس تیار ہو گئی ہے۔ اور جو کچھ ابھی تک ہوا ہے۔وہ قوم ہی کی مدد سے ہوا ہے۔تو میرے دل سے نا کا لفظ نکلتا ہے۔مگر جب یہ خیال آتا ہے۔ کہ پورے جوش اور پوری ہم دردی جیسی اس کام میں اور قومی مدد ہونی چاہیئے تھی۔ویسی نہیں ہوئی۔تو میرے دل سے ھاں کا لفظ نکلتا ہے۔پھر جب میں سوچتا ہوں کہ پنجاب کے مسلمانوں نے تو دلی ہم دردی کی ہے۔اور نہایت دلی جوش سے امداد کی ہے۔اور زندہ دل ان کا خطاب ہو گیا ہے۔تو یہ خیال بے اختیار میرے دل سے ھاں کہلواتا ہے۔ پھر جب میں شمال مغربی اضلاع اودھ اور بنگال کا خیال کرتا ہوں ۔ جنھوں نے کچھ بھی نہیں یا بہت قلیل اس قومی کام میں مدد کی ہے۔تو از خود ھاں کا لفظ بصد آہ و نالہ میری زبان پر آتا ہے۔ علی گڑھ کے چند رئیسوں نے دل سے خواہ بمقتاضائے ریاست امداد کی ہے۔جن کا میں دل سے شکر گزار ہوں۔اور اس لئے دل میں آتا ہے کہ بجائے ھاں کے نا کہوں۔ آج صبح کا وقت تھا۔ اور میں اسی خیال میں بیٹھا تھا کہ ہاں کہنا ٹھیک ہے یا نہ کہنا۔کہ اتنے میں بگھی کی گھڑ گھڑ کی آواز آئی۔نوکر نے کہا کہ حاجی احمد سعید خاں صاحب رئیس بھیکم پور ہیں۔وہ آئے اور پانسو روپے نقد کالج کے لیے عنایت فرمائے۔ پھر تو میں نانا دو دفعہ اور ھاں ایک دفعہ کہنے لگا۔ غرض کہ مختلف ھالات پیش آتے ہیں۔کبھی نا کہنے کو دل چاہتا ہے اور کبھی ہاں کہنے کو۔مگر میں تو ھاں کہنے کا تصفیہ کرانا چاہتا ہوں۔کیونکہ میں اس قومی کام کے پورا ہونے اور قائم رہنے کا کسی میں ولولہ نہیں پاتا۔ خیر یہ تو آپ کو اختیار ہے کہ آپ نا کا تصفیہ کریں یا ہاں کا۔مگر جب تک بدو عرب کے کتے کی کہانی نہ معلوم ہو۔ اس وقت تک نہ آپ کی نا کا مطلب سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہاں کا۔حضرت وہ کہانی یہ ہے کہ ایک بدو عرب کا تھا۔اور ایک کتا اس کے پاس تھا۔ وہ سفر کر رہا تھا۔اور کتا اس کے ساتھ ساتھ تھا۔ مگر راستے کے کنارے پر کتا گر پڑا۔اور بے حال ہو گیا اور دم توڑنے لگا۔ اور قریب المرگ ہو گیا۔بدو اس کے پاس بیٹھا ہوا سر پیٹ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میرے رفیق اب تو مجھ سے جدا ہونے کو ہے۔ اتنے میں ایک اور مسافر اس راستے سے گزرا۔اور بدو کا یہ حال دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔اور بدو سے کہنے لگا کہ تم اس قدر روتے دھوتے کیوں ہو؟۔حال کیا ہے؟۔ اس نے کتے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ کتا میرا رفیق ہے۔ ساری رات میری چوکسی کرتا ہے۔ اور چوروں اور دشمنوں کو میرے پاس آنے نہیں دیتا۔دن کو شکار مار لاتا تھا۔اور میرے آگے رکھ دیتا تھا۔ اور نہایت قانع تھا۔ جو لقمہ کہیں سے لاتا۔وھی کھا لیتا تھا اور صبر کرتا تھا۔اور جو کچھ میں حکم کرتا تھا،بجا لاتا تھا۔ اور اب اس کا یہ حال ہے کہ دم توڑ رہا ہے اور مرنے کو ہے۔ مسافر نے کہا کہ اس کو شکار کرنے میں کوئی ایسا زخم کسی درندہ جانور کا لگا ہے۔جس کے سبب سے اس کا یہ حال ہو گیا ہے۔ بدو نے کہا نہیں نہیں کوئی زخم نہیں لگا، مگر چند روز سے اس کو کھانا نہیں ملا۔ اور بھوک کے مارے مر رہا ہے۔ اور اب اس کے مرنے میں کچھ باقی نہیں ہے۔ اتنے میں اس مسافر کی نگاہ عرب کے سامان پر پڑی۔اس کی زنبیل میں بہت سا کھانا بھرا تھا۔ اس نے کہا تمہارے پاس تو بہت سا کھانا ہے۔ تم نے اس میں سے اس کتے کو کیوں نہ دیا۔ بدو نے کہا واہ یہ تو میری زاد راہ ہے۔ مسافرت میں میں اس سے کھاتا ہوں اور اپنی زندگی بسر کرتا ہوں۔ اگر اس میں سے میں اپنے کتے کو دے دوں تو خود کیا کھاؤں۔ مسافر نے کہا تم رویا کرو،تمھاری قسمت میں رونا ہی لکھا ہے۔یہی حال ہماری قوم کا ہے۔ قوم کے تباہ حال پر روتے اور افسوس تو بہت کرتے ہیں۔ مگر اس کی امداد کچھ نہیں کرتے۔ اپنی زنبیل میں بہت کچھ بھرا رکھتے ہیں۔ مگر اس میں سے کتے کو نہیں دیتے۔ اوراس کے بھوکے مرنے پر روتے ہیں۔ اسی سبب سے تو میں کبھی اپنی قوم کی نسبت کہتا ہوں۔ھاں یعنی اس قوم کابدوی کا سا حال ہے۔ اور کبھی کچھ ان کی ہم دردی دیکھ کر کہتا ہوں کہ نا۔مگر اخیر کو تصفیہ ہاں ہی کرنا پڑتا ہے۔ خدا ان کو توفیق دے۔ کہ سب لوگ بقدر اپنی حیثیت کے قوم کی مدد کریں،اگر ایسا کریں تو جو خراب حال قوم کا ہے۔وہ چند روز میں بدل جاوئے۔اور قوم کو اپنی قوم کی حالت پر رونا نہ پڑے۔ ٭٭٭ مدرسۃ العلوم مسلمانان کی روئدادیں ’’تہذیب الاخلاق میں نہ چھپیں‘‘ (تہذیب الاخلاق‘‘ جلد ۵، و صفحہ ۶۰ بابت یکم ربیع الثانی ۱۲۹۱ ھجری) ایک ہمارے دوست نے ہم کو نصیحت کی کہ تم جو مدرسۃ العلوم کمیٹی کی روئدادیں تہذیب الاخلاق میں چھاپتے ہو۔ اس سے لوگ سمجھتے ہیں کہ مدرسۃ العلوم اور تہذیب الاخلاق ایک چیز ہے۔آئندہ سے مت چھاپا کرو۔ اول تو ہم کو اس بات کے سننے سے تعجب ہوا ۔پھر ہم نے خیال کیا کہ شاید یوں ہی ہو۔ اس لیے جواب دیا کہ بہت خوب۔ مگر شاید اس کے حالات کی خبر لکھنا کچھ جرم نہ ہو۔ مدرسۃ العلوم کی حالت عنایت الہیٰ سے بہت اچھی ہے۔ روز بروز اس کے چندے کو ترقی ہوتی جاتی ہے۔ اکتسویں مارچ تک اس کا چندہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار آٹھ سو سترہ روپے آٹھ آنے ہو چکا ہے۔نہایت نیک اور خدا پرست متقی اور عالم با شرع نے بھی چندہ دیا ہے۔ اور کمیٹی کی ممبری قبول کی ہے۔نہایت خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے شیعہ بھائی بھی دل سے اس مدرسے کا قائم ہونا چاہتے ہیں۔ ہم ک وجناب مجتہد العصر سید علی محمد صاحب سملہ اللہ تعالیٰ سے اس معاملے میں بہت کچھ امداد کی توقع ہوئی ہے۔ حضور حاجی حرمین شریفین نواب محمد کلب علی خاں بہادر والی رام پورہ فرزند دل پذیر انگلشیہ کمیٹی مدرسۃ العلوم کے پیٹرن، یعنی مربی وسرپرست ہوتے ہیں۔اور پندرہ ہزار روپے نقد اور بارہ سو روپیہ ساختہ کی جاگیر وقفی قیمتی تیس ہزار روپیہ کی بطور سرمایا مدرسہ مر حمت فر مائی ہے۔ اور فونڈیشن کے اخرا جات جو پانچ ہزار روپیہ سے کم نہ ہو ں گے،اپنے ذمے قبول فرمائے ہیں۔اور عطیہ کی میزان کل پچاس ہزار روپیہ کی ہوتی ہے۔ گورنمنٹ اضلاع شمال ومغرب نے ایک نہایت عمدہ اور وسیع قطعہ زمین تعداد پونے دو سو بیگھہ پختہ کا واسطے تعمیر مکان مدرسہ اور باغ متعلق مدرسہ مرحمت فرمائے ہیں۔ کمیٹی نے فی الفور باغ کی درستی کی تدبیریں شروع کی ہیں۔اور بہ نظر ان امداد وعنایات کے جو حضور سر ولیم مور صاحب بہادر ایل ،ایل ،ڈی ،کے ،سی،ایس آئی نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر اضلاع شمال ومغرب نے فرمائی ہے۔ اس باغ کا نام ’’دی میور پارک‘‘ رکھنا تجویز ہوا ہے۔ اب ہم اپنے مسلمان بھائیو سے عرض کرتے ہیں کہ جو جو لوگ اس خیال سے ہمت ہارے ہوئے تھے۔ کہ اتنا بڑا کام کیوں کر انجام ہو گا، ان کو غور کرنا چاہیئے کہ بہت کچھ اس کام میں ہوتا جاتا ہے۔اور اب ہمت نہیں ہارنی چاہیئے۔اور مستعد ہو کر اس کام میں کوشش کرنی ضرور ہے۔ ہمت مرداں مدد خدا مشہور مقولہ ہے۔ہمت کرو اور جس قدر بڑا اور زیادہ مشکل کام ہے۔ اتنی ہی زیادہ کوشش کرو۔ خدا سب مشکلوں کو آسان کرنے والا ہے۔: مشکلے نیست کہ آساں نشود مرد باید کہ ھراساں نشود ٭٭٭ دار العلوم مسلمانان کے مخالفین (’’تہذیب الاخلاق‘‘ بابت ، ۱۰ صفر ۱۲۹۰ ھجری) اعوذ برب الناس ملک الناس الہٰ الناس من شر الوسواس الخناس الذی یو سوس فی صدور الناس من الجنۃ والناس۔ ہماری یہ رائے ہے کہ جب مختلف رائیں پھیلیں تو بہ عوض اس کے کہ کسی رائے کا حامی اپنی رائے کی حمایت کرے یہ بہتر ہے کہ اس کا تصفیہ لوگوں کی رائے پر چھوڑا جائے۔ مگر ہمارے دوست ہم سے کہتے ہیں کہ مدرسۃ العلوم مسلمانان کی نسبت جو مخالفت لوگوں نے کی ہے۔اس میں سکوت مناسب نہیں ہے۔ اس لیے بہ مجبوری ہم کچھ لکھتے ہیں کہ آزردن دل دوستان جہل است وکفارہ یمین سہل‘‘ نمے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید کہ سالک بے خبر نہ بود زراہ و رسم منزلہا جہاں تک کہ ہم نے مخالفین کی تحریرات کو دیکھا،اور ان کے خطوط کو پڑھا،ہم نے سات قسم کے لوگوں کو دار العلوم مسلمانان کے مخالف پایا۔ اول: خبیث النفس و بد باطن: جو ہماری ان تمام محنتوں کو اور ہمارے تمام کاموں کو جو ہم اپنی دانست میں اپنی قوم کی بھلائی کے لئے کرتے ہیں۔ ہماری ذاتی غرض پر محمول کرتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں۔ اپنی نام آوری اور شہرت کے لئے اور حکام وقت کے سامنے اپنا رسوخ پیدا کرنے کو اور ان کو دھوکا وفریب دینے کو کرتے ہیں۔’’ وما ابری نفسی۔ ان النفس لا مارۃ با لسو ء الا ما رحم ربی‘‘مگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری اس برائی ہی نے اوراس کمینہ خواہش نے ہم کو قوم کی بھلائی کے لیے آمادہ کیا ہو۔ اور ہماری بدیوں ہی سے ہماری قوم کی بھلائی ہوتی ہو۔تو ہماری قوم کا اس سے کیا نقصان ہے۔ ہمارے دل کے بھیدوں کے جاننے والے اور ہماری نیتوں کاتصفیہ کرنے والے ہمارے مخالف نہیں ہیں۔اور نہ ان کے تصفیہ کی ہم کو آرزو ہے۔کہ وہ اس بات کا تصفیہ کریں،کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ ان کے لیے بہتر ہے یا نہیں۔ شہرت کا نہ ہونے دینا ہماری طاقت سے باہر ہے۔جو کوئی کچھ کام کرتا ہے۔کرنے والے کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ پس ہم پر بد گمانی کرنے والے ہم کو بتا دیں کہ کس طرح ہم اپنی شہرت کو روکیں۔اگر ہم میں یہ بدی جو ہمارے مخالف ہم کو بتاتے ہیں،تو وہ اپنی نیکی اور کرم سے اس سے در گزر کریں۔خواہ ہم کو ایک کمینہ خصلت والا انسان تصور فرمائیں۔ نہ یہ کہ جو کام قومی بھلائی کے ہیں، ان میں ھارج ہوں۔ دوم: حساد۔ مدت سے ہمارے پرانے یار ہماری ترقیات سے جو خدا نے نہ صرف اپنی عنایت سے ہمارے کسی استحقاق سے ہم کو دیں۔ہم پر خفا ہیں، مگر ان کو انصاف کرنا چاہیئے کہ ان کو خدا پر خفا ہونا مناسب ہے نہ مجھ پر۔اگر مجھ کو سی،ایس، آئی ملی اور ان کو باوصف دلی خواہشوں کے نہ ملی، یا کوئی شخص قاعدہ پچپن سالہ کے سبب علیحدہ ہو گیا اور مجھے کچھ مہلت ملی ۔۔۔۔ یا بات میرے لیے ہوئی اور ان کے لیے نہ ہوئی تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔پس اب وہ اپنا فخر اور دل کی ٹھنڈک ایسی میں سمجھتے ہیں کہ ہمارے کاموں میں جھوٹے سچے عیب نکالیں،جھوٹی سچی تمہتیں ہم پر لگائیں۔اور اپنے دل کے جلے پھپھولے پھوڑیں۔ ایسے وقت میں سمند ناز پر ایک اور تازیانہ ہوا۔ کہ دار العلوم مسلمانان کی بنیاد پڑی۔حاسدوں نے خیال کیا کہ اب تو سید احمد نے بھوت بننے کا سامان کیا کہ مرے پر بھی زندہ رہے گا۔یہ خیال جیسا ان پر شاق گزرا ہو گا۔اس جس قدر ان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوا ہو گا۔اس کا حال ان کا دل ہی جانتا ہو گا۔پس اب ان کا کیا کام ہے؟۔ کہ بہ جزو اس کے کافر بنیں اور دار العلوم مسلمانان کی بنیاد کو کھودا کریں۔مگر ان کو حافظ کا یہ شعر خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ پس تجربہ کردیم دریں دیر مکا فات با درد کشاں ہر کہ در افتاد بر افتاد گر جاں بدھی سنگ سیہ لعل نہ گردد با طینت اصلی چہ کنند بد گہر افتاد سویم: بعض متعصب وھابی جن کو میں یہود ھذا الامت سمجھتا ہوں۔اور جن کے تمام اعمال صرف دکھلاوئے کی باتوں پر منحصر ہیں۔اور جو انگریزی زبان پڑھنے کو حرام سمجھتے ہیں۔انگریزوں اور کافروں سے صاحب سلامت کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔ اور ان سے دوستی کفر سمجھتے ہیں۔ان کی اہانت اور تذلیل کو بڑی دیانت داری سمجھتے ہیں۔ان کے ساتھ ہم دردی کرنا کفر خیال کرتے ہیں۔اگر اتفاقا ان سے مصافحہ کی نوبت آجاؤئے تو ہاتھ دھو ڈالنا فرض کرتے ہیں۔اگر دھوکے میں عیسائی سے صاحب سلامت ہو جاوئے تو جا کر اس سے یہ کہنا کہ میرا سلام پھیر دے ،اس کا کفارہ جانتے ہیں۔ مگر صرف دو باتوں کو مباح سمجھتے ہیں۔کافروں کی نوکری کرنا، تاکہ ڈپٹی کلکٹری نہ جاتی رہے۔اپنی غرض کے لیے کافروں کے پاس جا کر آداب وتسلیم بجا لانا۔تاکہ جب کسی مجلس میں نواب یا گورنر یا لیفٹیننٹ ہو ں تو اس بات کے کہنے کا کہ آپ کے قدموں سے یہ عزت ہوئی کا موقعہ رہے۔میں ایسی دین داری سے کفر کو بہتر سمجھتا ہوں۔میں اسلام کو نور خالص جانتا ہوں،جس کا ظاہر و باطن سب یکساں ہے۔تمام دنیا سے اور کافر سے سچی دوستی اور سچی محبت اور سچی ہم دردی اعلیٰ مسئلہ اسلام کا سمجھتا ہوں۔ جس طرح میں خدا کے ایک ہونے پر یقین کو رکن اعظم یا عین ایمان جانتا ہوں۔ اسی طرح تمام انسانوں کو بھائی جاننا تعلیم اسلام کا اعلیٰ مسئلہ یقین کرتا ہوں۔مگر ان کے مذہب کو اچھا نہیں سمجھتا۔ یہ متعصب وھابی وہ لوگ ہیں جو علوم کے بھی دشمن ہیں فلسفہ کووہ حرام بتاتے ہیں۔منطق کو وہ حرام سمجھتے ہیں، علوم طبیعات کاپڑھنا ان کے نزدیک کفر میں داخل ہونا ہے۔پس ایسے آدمی جس قدر مجوزہ دار العلوم مسلمانان کی مخالفت کریں کچھ بعید نہیں ہے۔ چہارم : خود غرض یا خود پرست۔ یعنی وہ لوگ جو دنیا میں بہ جز اپنی غرض کے اپنی حظ نفسانی کے دنیا و ما فیھا سے غرض نہیں رکھتے۔وہ نہیں جانتے کہ قومی ہم دردی اور قومی عزت کیا چیز ہے۔وہ ہمیشہ اس خیال میں ہیں کہ لوگوں کو فائدہ پہنچنے سے ہم کو کیا فائدہ ہے۔ قوم کی بھلائی کے لئے روپیہ دینا سب سے بڑی حماقت سمجھتے ہیں۔ مگر جب ان کو لوگ شرمندہ کرتے ہیں تو ہم پر یا مجوزہ دار العلوم پر جھوٹے الزام لگانے پر مستعد ہوتے ہیں۔ تاکہ اپنے عیبوں کو جھوٹے الزاموں کی چادر سے ڈھانکیں۔ ٹٹ پونجئے اخبار نویس جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے مضامین چھاپنے سے ہمارے اخبار کے دوچار پرچے زیادہ بک جاویں گے۔ ششم: بے تمیز یعنی وہ لوگ جو ہمارے ذاتی خیالات اور قومی معاملات میں تمیز نہیں کرتے۔ اور ہمارے مقصد کو جو دار العلوم کے قائم کرنے سے ہے ، نہیں سمجھتے۔ ساتویں ۔ نادان مسلمان جن کے دل میں پہلی پانچ قسم کے لوگوں سے بحث کرنا محض نادانی ہے۔ اس لیے کہ وہ نادان نہیں ہیں۔ بلکہ دیدہ ودانستہ اپنی اغراض نفسانی سے مخالفت کو اختیار کیا ہے۔ ہاں پچھلی دو قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ ان کی تشفی خاطر کے لیے کچھ لکھنا شاید مناسب ہو۔ا ور غالبا اسی قسم کے لوگوں کی طمانیت کے لیے ہمارے دوستوں نے ہم کو کچھ لکھنے کی تکلیف دی ہے۔ مگر ہم کو اتنا ہی کافی سمجھتے ہیں کہ ان مکاید مخالفین کی جن سے وہ پچھلی دو قسم کے مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ کچھ تشریح کر دیں۔ کید اول ۔ دار العلوم مسلمانان کی کمیٹی جو دسویں فروری ۱۸۷۳ ء کو ہوئی،اس میں پوری تجویز اس طریقہ تعلیم کی جو دار العلوم مسلمانان میں ہوگی، پیش ہوئی ہے۔اور جو جو علوم اس میں پڑھائے جاویں گے۔سب بیان ہوئے ہیں۔ یہ تجویز چند روز پہلے کمیٹی میں پیش ہونے سے پہلے مرتب ہو گئی تھی۔ ہم نے اس خیال سے کہ ان پچھلی دو قسم کے مسلمانوں کے دل میں کچھ وسوسہ باقی نہ رہے۔ کان پور کے ایک چھاپہ خانے میں ایک سوال بطور استفتا ء یہ ہے جو بجنسہ ہم اس مقام پر نقل کرتے ہیں: نقل استفتا ء کیا فرماتے ہیں علمائے شرع شریف کہ ان دنوں میں بعض مسلمانوں نے علوم دینی اور علوم دنیاوی مسلمانوں کے ایک مدرسہ قائم کرنا تجویز کیا ہے۔ اور جو جو علوم اس میں پڑھائے جاویں گے۔اور جس طرح کہ مدرسوں اور طالب علموں کو تنخواہ ملے گی اس کی تجویز انھوں نے چھاپی ہے۔جو بجنسہ اس سوال کے ساتھ مرسل ہے۔پس پہلا سوال یہ ہے کہ ایسے مدرسے کے قائم وجاری ہونے کے لیے عموماً چندہ دینا یا اس طرح پر خاص کر کے چندہ دینا کہ ہمارا روپیہ فلاں قسم کی علم کی تعلیم میں صرف کیا جاوئے۔اور فلاں علم کی تعلیم میں صرف نہ کیا جاوئے۔ شرعا درست ہے یا نہیں۔؟۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس تجویز میں جو علوم پڑھانے مندرج ہیں،ا ن میں سے کون سے علوم ایسے ہیں کہ جن کے پڑھانے کے لیے مسلمانوں کو چندہ دینا جائز ہے۔اور کون سے ایسے ہیں جن کے لیے جائز نہیں؟۔ بینوا توجروا۔ ہر ایک مسلمان شخص خیال کر سکتا ہے کہ سائل نے نہایت صفائی اور سچائی سے بلا کسی ایما و اشارہ کے تمام طریقہ تعلیم کو بجنسہ علماء کے سامنے پیش کر دیا، جو کچھ ان کے ایمان میں آوے جواب لکھیں۔ اس پر قسم اول ودوم وسوم کے لوگوں میں سے بعض نے اس کے مقابلہ میں کان پور کے اخبار ’’نور الانوار‘‘ میں ایک استفتاء چھپا ہے۔ جس کی نقل بلفظہ یہ ہے: نقل استفتا ء مطبوعہ اخبار کان پور کیا فرماتے ہیں علماء دین اس میں کہ ان دنوں ایک شخص ان مدارس کو جن میں علوم دینی اور ان علوم کی جو دینی کی تائید میں ہے۔ تعلیم ہوتی ہے۔جیسے مدرسہ اسلامیہ دیو بند اور مدرسہ اسلامیہ علی گڑھ اور مدرسہ اسلامیہ کان پور کو لغو اور برا کہتا ہے۔ اور ان مدارس کی ضد میں ایک مدرسہ اپنے طور پر تجویز کرنا چاہتا ہے۔اور اس شخص کا حال یہ ہے کہ صد ھا امور کو جو بہ موجب آیات اور احادیث اور روایات فقیہہ با تفاق اھل اسلام نا جائز ہیں۔دین کے پیرایہ میں رواج دیتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو اس شخص کے افعال اور عتقادات پر اعتماد نہیں ہے۔پس اس مدرسہ کے لیے جو ایسا شخص کہ اہل اسلام سلف اور حال کے امور مذہبی میں مخالف ہے۔اپنے طور پر ایک مدرسہ ضد میںمدارس اسلامیہ قدیم و حال کے تجویز کرنا چاہتا ہے۔ اور ان میں کچھ علوم دنیا ویہ اور کچھ علوم مذہبی اپنے طور پر تعلیم کرانا اس کو منظور ہے۔مسلمانوں کو ایسے مدرسے میں چندہ دینا درست ہے یا نہیں؟۔ بینو ا توجروا۔ اب ہم ان مسلمانوں پر جو ذرا بھی سمجھ رکھتے ہیں اس بات کا تصفیہ چھوڑتے ہیں۔کہ آیا یہ کان پور کا استفتاء سچائی اور نیک نیتی اور ایمان داری سے لکھا گیا ہے۔یا بالکل کذب واتہام سے بھرا ہوا ہے۔ ہماری تجویز تعلیم کے پڑھنے والوں نے دیکھا ہو گا کہ ابتدائے تعلیم سے انتہا تک فقہ وحدیث وتفسیر وغیرہ دینیات اسلامی کا اس میں پڑھانا تجویز ہوا ہے۔ان طالب علموں کے لیے تنخواہیں تجویز کی ہیں۔جو لوگ دینیات میں بعد امتحان کامل نکلیں اور مولوی بن جاویں۔ان کے لیے پچاس پچاس روپیہ ماہواری ملنا صرف اس غرض سے تجویز ہوا ہے کہ وہ اور زیادہ کمال اس میں پیدا کریں۔اس تجویز میں خاص قاعدہ بنایا گیا ہے۔جو کتابیں مذہبی پڑھانے کو انتخاب کی جاویں۔وہ ایسی ہوں جن پر مسلمانان ھند اکثر متفق ہوں۔پس ان تجویزوں کی کان پور سے استفتاء سے مقابلہ کرنے پر ہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے۔کہ وہ استفتاء سچائی اور ایمان داری اور نیک نیتی سے لکھا گیا ہے یا نہیں۔ جو مذہبی تعلیم اس مدرسہ میں تجویز ہوئی ہے اور جو تجویز اس کی ترقی کی کی گئی ہے۔وہ آج تک کسی مدرسہ اسلامی کو نصیب نہیں ہوئی۔بے چارہ غریب مدرسہ دیو بند و علی پور وکان پور تو کس گنتی میں ہیں۔ہم موجودہ اسلامی مدرسوں کی یہ بڑائی نہیں بتاتے کہ ان میں مذہبی تعلیم ہوتی ہے۔بلکہ اس بات میں ان کی شکایت کرتے ہیں کہ سوائے مذہب کے اور بہت سی چیزیں پڑھائی جاتی ہیں۔جو محض لغو و بے فائدہ ہیں۔اور دین ودنیا دونوں میں بہ کار آمد نہیں۔ان کا سلسلہ تعلیم نہایت ناقص ہے جس میں عمر ضائع ہوتی ہے۔ان اس میں اصلاح ودرستی کرنی چاہیئے۔لہذا جو کچھ حالت ان مدرسوں کی ہے۔ اس سے ہم کو قومی ترقی اور قومی عزت حاصل ہونے کی کچھ توقع نہیں ہے۔ ان کا نتیجہ قوم کے حق میں بجز اس کے کہ وہاں کے طالب علم مسجدوں میں پڑے ہوئے بھیک کے ٹکڑے کھایا کریں۔اور کچھ نہیں ہے۔ اس لیے ایسا دار العلوم قائم ہو۔جو دین ودنیا دونوں کی بہبودی اور ترقی کا باعث ہو۔اور ان تمام لا وارث ڈاواں ڈول مدرسوں کا حامی اور سر پرست اور نگران ہو۔ اب غور کرنا چاہیئے کہ کان پور والے ایمان دار شخص نے ہماری اس تجویز کو یوں تعبیر کیا ہے کہ وہ شخص مدرسہ اسلامیہ علی گڑھ وکان پور و دیو بندکو لغو اور برا کہتا ہے۔ اور اس کو اس مدرسہ میں علوم مذہبی اپنے طور پر تعلیم کرانا منظور ہے۔پس اب مسلمانوں کو خود اس کان پوری سائل کی ایمان داری اور سچائی اور نیک نیتی کا تصفیہ کرنا چاہیئے۔ اس سائل نے ہم میں بہت سے مذہبی نقص بتلائے ہیں۔ ہم قبول کرتے ہیں کہ وہ نقص ہم میں اہی۔ مگر ان نقصوں سے اور مدرسوں میں چندہ نہ دینے سے کیا تعلق ہے۔؟۔ سائل کو یہ لکھنا تھا کہ فلاں فلاں علوم جو اس مدرسہ میں پڑھائے جائیں گے ان کا پڑھانا کفر ہے۔اس لیے ان علوم کے پڑھانے میں چندہ نہیں دینا چاہیئے۔اگر مجھ میں نقص ہے۔ اور میرے افعال اور اعتقادت پر مسلمانوں کو اعتماد نہیں ہے۔تو اس کا نتیجہ یہ نہیں ہے کہ جو سائل نے سوال میں قائم کیا ہے۔بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو اور خود کان پوری سائل کو اگر کچھ غیرت وہمت اور جوش اسلام اور قومی ہم دردی ہے۔کمیٹی کے اجلاس میں تشریف لاویں اور ممبروں کو صلاح دیویں کہ ہمارے ہاتھ سے اہتمام نکال کر دوسروں کے ہاتھ میں دے دیویں۔اس وقت کمیٹی میں باون ممبر ہیں ،جن میں سے بہت سے عالم اور دین دار ونیک بخت ہیں۔اور کچھ شبہ نہیں کہ وہ جو ایمان داری سے بہتر سمجھیں گے، کریں گے،اگر ہمارے مخالف اور کان پوری سائل ایسا کریں،ہماری نہایت خوشی اور دل کی رضا مندی ہے۔ ورنہ خالی بیٹھے ہوئے بک بک کرنے اور لوگوں کو اغوا کرنے اور جھوٹے اتہام لگانے سے کیا فائدہ ہے۔ کیا یہ باتیں گناہ میں داخل نہیں ہیں یا دوبارہ حج کرنے کا ارادہ ہے۔ دار العلوم مسلمانان کے قواعد ایسی عمدگی سے تجاویز ہوئے ہیں۔ کہ متعصب سے متعصب وھابی اس پر کچھ اعتراض نہیں کر سکتا۔اس کی دفعہ ۲۰ میں یہ قاعدہ تجویز ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص اس دار العلوم مسلمانان میں کسی خاص قسم کے علم کی تحصیل کرنا چاہے تو وہ اس خاص علم کو پڑھ سکتا ہے۔پس جو متعصب وھابی انگریزی پڑھنے کو کفر سمجھتا ہے۔اور فلسفہ و منطق و علوم طبیعات کا پڑھنا نا جائز جانتا ہے۔وہ اس دار العلوم مسلمانان میں وہی زبان اور وہی علوم پڑھ سکتا ہے۔ جن کو وہ جائز جانتا ہے۔اور جو متعصب وھابی خاص اپنے علوم کے سوا چندہ دینا کفر جانتا ہے۔تو وہ صرف خاص ان ہی علوم کے پڑھانے کو چندہ دے سکتا ہے۔پس جب کہ ایسی سچائی اور صفائی سے اصول قائم کیے گئے ہیں۔تو لوگ خیال کر سکتے ہیں کہ دار العلوم مسلمانان کے مخالفین کس نیت اور کس طبیعت سے دار العلوم مسلمانان کے مخالف ہوئے ہیں۔ دار العلوم مسلمانان صرف وھابیوں یا گوشہ نشینوں یا تارک الدنیا عالموں کے لیے نہیں بنایا جاتا۔ بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے بنتا ہے۔جن میں مختلف اغراض اور طبیعت کے لوگ شامل ہیں، جو مسلمان دنیا دار ہیں اور دنیا میں روٹی کمانا اور عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اور سرکاری عمدہ اور اعلیٰ عہدوں پر مقرر ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔ جو انگریزی زبان اور علوم میں کامل دست گاہ حاصل کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ان کے لیے تمام علوم انگریزی موجود ہیں۔اور جو لوگ فلسفہ ومنطق وطبیعات کا پڑھنا حرام نہیں جانتے۔ان کے لیے وہ علوم بھی موجود ہیں۔جو ان تمام علوم کو کفر سمجھتے ہیں اور صرف دینیات کو اور ان علوم کو جو اس کے معاون میں پڑھنا جائز جانتے ہیں۔ان کے لیے وہ علوم بھی موجود ہیں۔پس ظاہرا بجز خبیث طینت کے اور کوئی چیز دار العلوم مسلمانان سے مخالفت کرنے کی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ کان پور سے جو مہیب مہیب آوازیں آتی ہیں۔اور عجیب عجیب رسالے نکلتے ہیں۔اور مدارس استفتاء چھاپے جاتے ہیں۔ اس کا سبب ہمارے دوستوں کو معلوم نہیں ہے۔ہم سے جناب کان پور کے سیکرٹری کی خدمت میں تقصیر ہو گئی ہے۔ اگر چہ ان کے شفیع مکرمی خواجہ ولی اللہ صاحب کویقین ہو گا کہ اس میں ہماری کچھ تقصیر نہیں ہے۔مگر جناب پرائیویٹ سیکرٹری کو اس کا یقین نہیں آتا۔پس یہ ذاتی رنجشیں ہیں ،جو ان صورتوں میں ظاہر ہوتی ہیں۔ہمارے دوستوں کو ان پر خیال کرنا اور ہم کو ان لغویات پر متوجہ ہونے کی تکلیف دینا محض بے فائدہ ہے۔ کید دوم۔ یہ بات سچ ہے کہ ہم کو متعدد مسائل میں مسلمانوں سے اختلاف ہے۔ ہم تقلید کو تسلیم نہیں کرتے۔ مذہب کو تقلیداً قبول کرنے سے تحقیقاً اس پر ایمان لانا بہتر ہے۔اور اسی طرح بہت سے مسائل اعتقادی وتمدنی ہیں، جن سے یا جن کے طرز بیان و طریقہ استدلال سے ہم کو اختلاف ہے۔ اور ہم اس کو ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں چھاپتے ہیں اور چھاپیں گے۔ہمارے مخالفین عام مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی غرض سے ان مسائل کو اور ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کو دار العلوم مسلمانان میں شامل کرتے ہیں۔فرض کرو کہ ہم بد اعتقاد سہی۔ مگر دار العلوم مسلمانان میں تو پڑھانے اور سبق دینے والا نہیں ہوں۔مدرس تو کمیٹی کی تجویز سے تمہارے وہی مولوی مقرر کریں گے، جن کو تم اچھا سمجھتے ہو۔اور کیا عجب ہے کہ جناب مولوی بشیر الدین صاحب ہی اگر وہ قبول کریں تو مدرس اعلیٰ مقرر ہوں۔پھر میری بد اعتقادی سے دار العلوم مسلمانان سے کیا تعلق؟۔کتب دینیہ جو اس مدارس میں پڑھائی جاویں گی۔وہ کچھ میری تصنیف ہوئی کتابیں نہ ہوں گی۔ وہی منبہ وقدوی و ھدایہ ہوں گی۔جن پر مسلمانوں کا اعتقاد ہے۔پھر میری کسی تحریر وتقریر سے دار العلوم مسلمانان کا کیا تعلق ہے؟۔ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کچھ کمیٹی اسلامی کا (جو دار العلوم مسلمانان کے قائم کرنے کو مقرر ہوئی ہے۔)کاغذ نہیں ہے۔ اس کو دار العلوم مسلمانان سے یا کمیٹی اسلامی سے کچھ تعلق نہیں ہے۔وہ ایک پرچہ سے جو اس سے علیحدہ بلکہ شاید اس کے مقرر ہونے سے بھی پہلے جاری ہو چکا ہے۔اس کو چند دوستوں نے اپنے خاص خرچ سے جاری کیا ہے۔ جو کچھ وہ چاہتے ہیں وہ اس میں چھاپتے ہیں۔فرض کرو کہ اس میں کفر وارتداد کی باتیں چھپتی ہیں۔مگر یہ تو بتاؤ کہ اسے مجوزہ دار العلوم مسلمانان سے کیا تعلق ہے۔؟ اب اس بات کو بخوبی سمجھ کر ہر ایک شخص جس کو خدا نے ذرا بھی عقل اور ایمان داری دی ہے۔یقین کرے گا کہ تہذیب الاخلاق اور ہمارے اختلافات کو جو ہمارے مخالف مجوزہ دار العلوم مسلمانان کے بیچ میں مانتے ہیں۔یہ صرف ان کی دھوکا دہی اور تدلیس ہے۔ورنہ ان دونوں سے کچھ علاقہ نہیں ہے۔مجوزہ دار العلوم مسلمانان میں تو وہی عقائد سکھائے جائیں گے اور وہی کتابیں مذہبی پڑھائی جاویں گی جن کو عام مسلمان مانتے ہیں۔اور وہی خواجہ ضیا الدین اور مولوی بشیر الدین صاحب مدرس ہو ں گے جو اس زمانہ کے مولوی ہیں۔ کید سوم: ہمارے مخالفین ممبران کمیٹی کی پوری تجویز کو چھپا کر لوگوں کو اس دھوکا میں ڈالتے ہیں کہ جو روپیہ چندہ سے جمع ہو گا وہ سود میں لگایا جائے گا۔اور پرامیسری نوٹ خریدے جائیں گے۔اور یہ شہرت ہے کہ اسی لیے مسلمان چندہ دینے کو معصیت سمجھتے ہیں۔اس بات میں مخالفین نے کچھ سچ کہا ہے۔ اور کچھ جھوٹ ملایا ہے۔۔۔ تمام ھندوستان کے مسلمان جانتے ہیں کہ مولانا شاہ عبد العزیز صاحب نے پرامیسری نوٹ کا منافع لینے کے جواز پر فتویٰ دیا ہے۔ اور اس فتویٰ کی بنیاد پر ہزاروں مسلمانوں کے پاس پرامیسری نوٹ موجود ہیں۔ جن کا منافع وہ لیتے ہیں۔اور مثل شیر مادر سمجھتے ہیں۔اور شیعہ مذہب کے مسلمان تو اس کے جواز میں کچھ شبہ بھی نہیں سمجھتے۔ہاں البتہ ایسے بھی سنی مسلمان ہیں جو پرامیسری نوٹ کے منافع کو سود وحرام سمجھتے ہیں۔ کمیٹی نے زر چندہ سے پرامیسری نوٹ خریدنے اور جائداد خریدنے دونوں کی اجازت دی ہے۔اور قاعدہ مقرر کر دیا ہے کہ جو شخص اپنے چندہ میں یہ شرط لگائے کہ اس کا روپیہ پرامیسری نوٹ خریدنے میں نہ لگایا جائے، بلکہ صرف جائداد خریدنے میں صرف ہو، ان کا روپیہ علیحدہ امانت رہے۔اور جائداد خریدنے میں صرف ہو۔اس قسم کے چندہ کے لیے جدا رجسٹر بنے ہیں۔اس کا حساب جدا لکھا جاتا ہے۔ اور جس قدر روپیہ مشروط بہ جائداد آیا ہے۔ بہ دستور امانت ہے اور بجز خرید جائداد کے اور کسی کام میں صرف نہ ہو گا۔ پس سود کے بہانہ سے روپیہ کا نہ دینا صرف اپنی دون ہمتی اور قومی ہم دردی نہ ہونے کے عیب کو چھپانا ہے۔ اور ہمارے مخالفوں کو اس کو طول دینا اور بڑھانا اور سود سود پکارنا صرف جھوٹے مکر سے لوگوں کو اغوا کرنا ہے۔ ورنہ ہر ایک نیک دل آدمی یقین کر سکتا ہے کہ اگر وہ اپنا زر چندہ پرامیسری نوٹ کی خریداری میں نہیں لگانا چاہتا تو ہر گز اس میں لگایا نہیں جاؤئے گا۔ کید چہارم: ہم نے ایک خاص اپنے رائے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ مطبوعہ یکم رجب ۱۲۸۹ھ میں چھاپی تھی۔ اس باب میں کہ دار العلوم مسلمانان میں کس طرح طالب علموں کا رہنا وتربیت پانا چاہیئے۔اس کے شروع ہی میں ہم نے بتایا ہے کہ ان امور کی نسبت جو قواعد قرار پاویں گے۔ جو مجلس مدبران تعلیم کے نام سے نام زد ہو گی۔اور جو کچھ کہ ہم نے اس میں بیان کیا ہے۔وہ صرف ہماری ہی رائے ہے۔ہمارے مخالفین نے ہماری اس رائے کو دیدہ دانستہ قصدا لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے یہ مشہور کیا کہ یہ وہ قواعد ہیں جو مجوزہ دار العلوم مسلمانان میں جاری ہوں گے۔حالانکہ یہ بالکل جھوٹ اور اتہام ہے۔کیونکہ اگر ممبران کمیٹی اس کو نا پسند کریں تو ایک بھی اس میںسے جاری نہیں ہو سکتا۔مجھ اکیلے کی رائے اکیاون موجودہ ممبروں کی رائے کے مقابلہ میں یا اس کمیٹی کے ممبروں کے مقابلہ میں جو مدبران تعلیم کے نام سے مقرر ہو۔کیا پیش کی جا سکتی ہے۔ بلا شبہ جس طرح اور ممبروں کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا اختیار ہے۔اسی طرح مجھ کو بھی اپنی رائے ظاہر کرنے کا حق ہے۔ مگر جاری وہی چیز ہو گی جو کثرت رائے ممبران سے منظور ہو گی۔ بلا شبہ میری رائے ہے۔اور میں اس پر نہایت مضبوط ہوں۔کہ مسلمان لڑکوں کو تعلیم سے زیادہ تربیت کی حاجت ہے۔ان کی غچلی پنے کی عادت ان سے چھڑانا،ان کو صفائی وپاکیزگی کی عادت ڈالنا،ان کی رفتار ،گفتار وپوشاک کو درست کرنا انتہائی ضروری ہے۔اور جب وہ وقت آؤئے گا اور منتظمان مدرسہ کی کمیٹی جمع ہو گی ۔اور میں بھی اگر زندہ رہا تو اور اس کمیٹی کا ممبر منتخب ہو ں گا تو نہایت فصیح وبلیغ تقریر سے جو میرے دل میں جمع ہے۔وہ اور ممبروں کے دلوں میں ڈالنا چاہوں گا۔اور جہاں تک میرے بیان میں طاقت ہے۔میں اپنی رائے کی خوبی اور صحت اور صفائی اور سچائیومفید ثابت کرنے میں کوشش کروں گا۔اگر ممبران کمیٹی میری رائے کے موافق ہو گئے تو میں یقین کرو ں گا کہ مسلمانوں کے بد اقبالی کے دن گئے اور بہتری کے دن آئے۔اور اگر میری رائے منظور نہ ہوئی تو میں سمجھوں گا کہ ابھی تھوڑی سی نحوست مسلمانوں پر باقی ہے۔ اس حقیقت سے واقف ہو کر ہر ایک نیک دل آدمی یقین کرے گا کہ ہمارے مخالفوں نے اس باب میں جو کچھ لکھا ہے۔اور جو امر نسبت دار العلوم مسلمانان کے بیان کیے ہیں۔ کس قدر لغو اور خلاف واقع ہیں۔زیادہ تر تعجب یہ ہے کہ اگر میری ہی ذاتی باتوں کو اور میری ہی خاص رایوں کو دار العلوم مسلمانان کی نسبت منسوب کرتے ۔اور اس میں کچھ کمی اور زیادتی نہ کرتے تو بھی ایک بات تھی۔ انھوں نے تو اس میں لفظا اور معنا تحریف کی ہے۔ اور یہودیوں کے بھی کان کاٹے ہیں۔ لاچار جو کچھ ہم نے اپنی اس رائے میں لکھا ہے۔ اس کا مختصرا پھر اعادہ کرتے ہیں۔ ہم نے اس میں یہ رائے دی تھی کہ طالب علموں کو اختیار ہو گا کہ جیسا لباس چاہیئں پہنیں۔الا مدرسہ میں کالے الپکے کا چغہ اور لال ترکی ٹوپی جس کا رواج روم وعرب اور شام میں ہے۔ اور اب وہ ٹوپی خاص ترکوں یعنی مسلمانوں کی سمجھی جاتی ہے۔ پہننی ہو گی۔ ہماری اس رائے کو دروغ گویوں نے انگریزی لباس اور کوٹ پتلون کا پہننا قرار دیا ہے۔ ذرا ایمان داری سے غور کرناچاہیئے کہ اس وقت کتنے مسلمان نکلے گے کہ جن کے پاس الپکے کے چغے موجود ہو ں گے۔ کون مسلمان ہے جو کالے الپکے کا چغہ نہیں پہنتا اور اس کو حرام سمجھتا ہے۔اور انگریزی کوٹ جانتا ہے۔ اگر بمئبی میں جا کر حاجیوں کا غول جہاز پر سے اترتے دیکھو تو جانو کس قدر حاجی عرب سے لال ٹوپی پہنے ہوئے آئے ہیں۔کتنے تعجب کی بات ہے کہ گبری قبا اور انگر کھہ اور لکھنئو اور بنارسی ٹوپی تو بالکل جائز ہے۔ اور کالا چغہ جس کا پہننا آں حضرت صلعم سے بیان ہوا ہے۔ اور لال ٹوپی جو گروہ اعظم مسلمانان کی ہے۔اور عرب میں بھی جاری ہو ۔وہ معیوب ہو۔۔۔ بریں عقل ودانش باید گریست۔۔۔۔ اگر ہمارے مخالف صحیح صحیح بیان پر اکتفا کرتے تو بھی خیر تھی۔ مگر اس اتہام کو تو دیکھو کہ چغہ کو انگریز کوٹ اور اس لباس کو انگریزی لباس بیان کیا ہے۔ دوسری تجویز ہماری یہ تھی کہ ہر طالب علم کو مدرسہ میں موزہ یعنی جراب اور انگریزی جوتا پہن کر آنا ہو گا۔اس تجویز کو تو مخالفوں نے اس طرح بیان کیا کہ گویا ہم نے سب طالب علموں کا کرسٹان کرنا تجویز کر دیا۔ قطع نظر اور سب باتوں کے ہم کہتے ہیں کہ اس وقت ہر قصبہ اور شہر میں جا کر دیکھو کہ کس قدر مسلمان اور مسلمانوں کے بچے انگریزی جوتا پہنتے ہیں۔اور کوئی ذرا بھی برا نہیں جانتا۔ ۔پس اگر ہم نے بھی انگریزی جوتا پہننا تجویز کیا تو کیا قیامت کی اور کیوں ظالب علموں کو کرسٹان بنا دیا۔ پس ہرایک نیک دل آدمی یقین کر سکتا ہے کہ یہ تمام غوغا مخالفوں کا صرف خبث طینت پر مبنی ہے۔ نہ کہ کسی اصلیت پر۔ تیسری تجویز ہماری یہ تھی کہ سب طالب علم ایک جگہ کھانا کھاویں اور طرز کھانے کا یا تو مثل ترکوں کے ہو جو میز پر کھانا کھاتے ہیں۔ یا مثل عربوں کے ہو۔ جو زمین پر بیٹھ کر اور چوکی پر کھانا رکھ کر کھاتے ہیں۔ اسی بات کو مخالفوں نے چھری کانٹے سے کھانا تعبیر کیا ہے۔ مگر اس کو کچھ ہی تعبیر کرو ۔ہم اس طریقہ کو نہایت پسند کرتے ہیں۔اور بلا شبہ کمیٹی کو یہی رائے دیں گے ۔اور اگر اور ممبر ہماری رائے کو نا منظور کریں گے تو بلا شبہ ہمارا کچھ بس نہیں چلنے کا۔مگر دل میں کہیں گے کہ افسوس خود ممبر بھی تعلیم کے محتاج ہیں۔ چوتھی تجویز جو سب سے زیادہ قیامت بر پا کرنے والی تھی۔ وہ یہ تھی کہ جو لوگ اس مدرسے کے بڑے حامی ہوئے ہیں۔ ان کی رو غنی تصویریں قد آدم نہایت عمدہ سنہری چوکھٹوں میں ہمیشہ کی یاد گاری کے لیے مدرسہ میں رکھی جاویں۔ ظاہر ہے یہ بات کچھ اصول تعلیم اور بنا مدرسہ سے متعلق نہ تھی۔ اور نہ اس وقت اس بات کی بحث ہے۔ کہ وہ شرعا جائز ہیں یا نہیں۔یہ صرف اپنے شوق کی بات ہے۔مجھے تصویر سے شوق ہے ۔میں اپنے گھر میں تصویریں رکھتا ہوں۔وہاں بھی خوب صورتی اور شان کے لیے تصویریں رکھنا تجویز کرتا ہوں۔ میں تصویریں تیار کر کے وہاں لو جاؤں گا۔ حامیان مدرسہ کی نہایت خوب صورت اور مخالفان مدرسہ کی نہایت ہیبت ناک و بد صورت، ممبران کمیٹی اگر مجھ کو وہاں رکھنے نہ دیں گے تو میں اپنے گھر میں لا کر رکھ لوں گا۔اس میں جھگڑا کیا ہے۔ اور مدرسہ سے مخالفت کی کون سی بات ہے۔؟۔ آہ! کیا افسوس کی بات ہے۔ حافظ ہی بے شک نہایت عمدہ شخص تھا۔ اس کا یہ شعر میرے دل کو لگ گیا ہے:۔ واعظاں کیں جلوہ در محراب ومنبر میکنند چوں بخلوت میروند آں کار دیگر میکنند سینکڑوں مسلمان ہو نگے۔جنھوں نے نہایت آرزو سے اپنی تصویریں بنوائی ہو ن گی۔یہاں تک کہ ہمارے قدیم دوست مخدوم جناب حاجی مولوی سید امداد العلی صاحب بہادر ڈپٹی کلکٹر کان پور نے بھی با وصف اس قدر اتقا کے نہایت معرکہ آرائی سے اپنی تصویریں کھنچوائیں ہیں۔ جو ہمارے کمرے میں نہایت عمدہ چوکھٹے میں موجود ہیں۔ پس ہم نے کیا آفت برپا کی کہ جو مدرسے کے ہال میں تصویروں کا رکھنا تجویز کیا۔ غرض کہ اگر لوگ ان باتوں پر غور سے اور انصاف سے نظر کریں گے تو اصل بات اور مخالف اور موافق کی نیک نیتی یا بد نیتی کسی طرح پو شیدہ نہیں رہ سکتی۔ کید پنجم: وہ لوگوں کو یہ کہہ کر بہکاتے ہیں کہ میاں یہ سب خیالی پلاؤ ہیں۔ اس قدر روپیہ جمع نہ ہو گا نہ یہ مدرسہ قائم ہو گا۔ پس اس میں چندہ دینا محض بے فائدہ ہے۔ سید احمد ہی کے دم تک یہ چرچا ہے۔ پھر کون کچھ کرتا ہے۔ اس بات کا تو ہم کو بھی رنج ہے۔ کہ ہمارے بعد کون مسلمانوں کی خبر لے گا۔ غالبا سب یتیم ہو جاویں گے۔مگر خدا کی رحمت سے ہم نا امید نہیں ہیں۔ضرور کوئی نہ کوئی پیدا ہووئے گا۔ روپیہ بغیر بلا شبہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ خصوصا ایسی ابتر حال قوم کا۔ جیسے کہ ہندوستان کے مسلمان ہیں۔بغیر زر کثیر کے سنبھالنا نہایت ہی دشوار ہے۔مگر انصاف کرنا چاہیئے کہ ایسی حالت کا یہ علاج ہے کہ ہم سب مل کر کوشش کریں اور سب یک دل ویک جان ہو کر روپیہ فراہم کرنے پر کوشش کریں یا یہ کہ لوگوں کو بہکا دیں۔کہ میاں چندہ دینے سے کیا فائدہ۔ اس قدر روپیہ کب جمع ہو سکتا ہے۔ کید ششم: وہ لوگوں سے یہ کہتے ہیں کہ اس مدرسہ میں تو کافروں کے علوم جدیدہ پڑھائے جائیں گے۔ جو علم ہمارے باپ دادا پڑھتے آئے تھے۔ ان کو چھڑانا چاہتے ہیں۔ یہ مکر ان کا کسی قدر سچ ہے۔ اور کسی قدر جھوٹ۔ جس شخص نے تجویز وطریقہ تعلیم کو پڑھا ہو گا۔وہ بخوبی جانتا ہو گا کہ علوم مذہبی مثل حدیث وتفسیر و فقہ ، وغیرہ ہم وہی پڑھانا چاہتے ہیں۔ جو ہمارے باپ دادا پڑھتے آئے تھے۔ عربی زبان بھی ہم وہی سکھانا چاہتے ہیں جو ہمارے باپ دادا سیکھتے چلے آئے ہیں۔ ہاں بے شک دنیاوی علوم جو ہم پہلے پڑھتے تھے۔ ان کو ہم اس زمانہ میں کچھ مفید نہیں سمجھتے ہیں۔ بلکہ صحیح بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ اور اس لیے بعوض ان دنیاوی علوم کے وہ دینوی علوم پڑھانا چاہتے ہیں۔جو اس زمانہ میں مفید ہیں۔اور جن کا پڑھانا اور جاننا انسان کو دنیا میں انسان بنانے کے لیے نہایت ضرور ہے۔ اور جن کے نہ جاننے سے ہماری قوم کا لکھا پڑھا شخص بھی محض کودن رہتا ہے۔ہماری رائے میں دنیا میں قومی عزت،قومی بہبودگی اور قومی آسودگی اور قومی تمول انھی علوم کے جاننے پر منحصر ہے۔ اور ذریعہ حصول معاش بھی وہی علم ہیں۔خواہ وہ ذریعہ سرکسری نوکری کا ہو یا تجارت کا یا کسی اور پیشہ کے اختیار کرنے کا۔ اور اس لئے انھی علوم کے رائج کرنے کے لیے اس دار العلوم کے قائم کرنے کی تجویز ہوئی ہے۔ پس یہ تو بلا شبہ لا علاج بات ہے۔اگر وھابی اور نادان مسلمان ان دنیاوی علوم کے پڑھانے سے ناراض ہیں جو اس مدرسہ میں پڑھائے جاویں گے۔اور اس سبب سے چندہ دینے و مدد دینے میں کوتاہی کرتے ہیں تو ان کی یہ حماقت ان کو مبارک رہے۔ہم ایسوں سے چندہ نہ ملنے کا کچھ افسوس نہیں کرتے۔اس قسم کے لوگ جانوروں کی مانند ہیں۔ کیا ہم جانوروں سے دار العلوم میں مدد ملنے کی توقع کر سکتے ہیں۔ اے میرے دوستو تم خوب غور کرو کہ یہ دار العلوم اپنی قوم کی بھلائی وبہتری اور ان میں علم کی روشنی پھیلانے اور ان کو روشن ضمیر کرنے اور ان میں اعلیٰ درجے کی لیاقت اور تہذیب وشائستگی پھیلانے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ تاکہ وہ بھی مثل دیگر معززاقوام کے معزز ہو ں۔ پس ہم نہایت نالائق اور مردہ ہمت ہو ں گے۔اگر ہم اپنے مخالفین کے ڈر سے اپنے عمدہ مقصد کو چھوڑ دیں۔ تم خیال کرو کہ اگر ہم نے اپنے اس اعلیٰ مقصد کو چھوڑا اور اس دار العلوم کو ایک ایسا ہی تاریک مدرسہ بنا دیا جیسا کہ اس زمانے میں ایشیائی مدرسوں کا حال ہے۔ تو شاید ہماری نام وری تو ہو۔ مگر ہم نے اپنے ملک اور اپنی قوم کے ساتھ کچھ بھلائی نہ کی ہو گی۔ بلکہ نہایت دشمنی کی ہو گی۔ اور اندھیرے پر اندھیرا ڈالا ہو گا۔ اور اندھے کو اور کنویں میں دھکیل دیا ہو گا۔اور با لفرض اگر ہم اپنے مطلب میں کام یاب نہ ہوئے اور وھابیوں کے سرگروہوں کے تعصب اور اپنے ملک اور اپنی قوم کے بد خواہوں اور ٹریٹروں کی کوشش اورہمارے مخا لفوں کی سعی یا مسلمانوں کی حماقت اور نادانی اور نا فہمی سے ایسا دار العلوم جیسا کہ ہم چاہتے ہیں۔قائم نہ ہو۔اور لوگ کچھ مدد نہ کریں تو ہم کو کچھ رنج و افسوس نہ ہو گا۔کیونکہ ہمارا فرض صرف کوشش کرنا ہے۔ اس کا پورا ہونا یا نہ ہونا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ہم کو صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہیئے۔ ’’السعی منی والا تمام من اللہ تعالیٰ‘‘ ہم کو اپنے بعضے دوستوں سے تعجب ہے کہ وہ ہمارے مخالفین کی مخالفت سے بہت ڈر گئے ہیں۔اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی مخالفت بہت اثر کرے گی۔ اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کی مخالفت نے چندہ کے وصول ہونے میں ہرج ڈالا ہے۔مگر میں اس خیال کی صحت کو دل سے تسلیم نہیں کرتا۔کیونکہ جن لوگوں میں قومی ہمدردی کا کچھ بھی اثر ہے۔ وہ سب چندہ بھی دیتے ہیں۔اور دل سے اس دار العلوم کا قیام بھی چاہتے ہیں۔۔۔ حیدر آباد میں لوگ سب کمیٹی مقرر ہونے کے خواہش مند معلوم ہوتے ہیں۔ پریسیڈنسی مدارس کے لائق آدمی اس قدر ہماری تجویزوں کو پسند کرتے ہیں کہ صوبہ مدراس کے مسلمانوں کی تعلیم بھی ہماری کمیٹی اور ہمارے مجوزہ دار العلوم میں شامل کرنے کو تحریکیں شروع کی ہیں۔ شمس الاخبار مدراس میں اس کمیٹی کی روئدائیں ہمیشہ چھپتی رہتی ہیں۔پٹنہ کے لوگ بھی سب کمیٹی مقرر کرنے کے خواہش مند معلوم ہوتے ہیں۔ اور چندہ بھی برابر ہوتا جاتا ہے۔اور وصول بھی ہوتا جاتا ہے۔ اب ہم عنقریب چندہ جدید کی فہرست چھاپیں گے۔جس سے معلوم ہو گا کہ کس قدر چندہ جدید ہوا ہے۔ چندہ جو اب تیزی سے ترقی نہیں پاتا،اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ جو ہمارے بعض دوستوں نے سمجھی ہے۔ بلکہ اس کی دو وجہ ہیں۔ایک ضعیف اور ایک قوی۔ ضعیف وجہ یہ ہے کہ جو لوگ فیاضی سے اور دلیری سے دینے والے تھے۔ انھوں نے جلد جلد چندہ دیا۔اس لیے ضروری تھا کہ اول اول تیزی سے چندہ چلے اور اب ضرور ہے کہ آہستہ آہستہ ترقی پاوئے۔تمام چندوں کا یہی نیچر ہے۔جس طوح کی اول اول تیزی سے چلتا ہے۔ اگر اسی طرح برابر چلا جاوئے تو ہم تو فرانس اور جرمن دونوں بادشاہتوں کو مول لے لیں۔ دوسرا قوی سبب یہ ہے کہ ہمارے دوست بھی اور وہ بھی جو دل وجان سے اس دار العلوم کا قیام چاہتے ہیں۔اور خود ہماری کمیٹی کے ممبر چندہ وصول کرنے میں سعی و کوشش نہیں کرتے۔تقصیر معاف ہو۔ فضل الہیٰ سے ہماری کمیٹی کے باون ممبر ہیں۔ ان میں سے سوائے ایک کے کہ جس کے آگے ہم سب کو سر جھکانا چاہیئے۔ اور کس نے کیا کیا ہے۔ صرف ایک ہمارا دم ہے۔ ہم کو جس قدر وقت وفرصت ملتی ہے۔اسی قدر ہم کرتے ہیں۔ اس تجویز سے ہم کو اپنے ممبروں کی شکایت مقصود نہیں ہے۔ بلکہ ان کو جوش دلانا مقصود ہے۔ انھیں چاہیئے کہ محنت کریں اور در در پھر کر اپنی قوم کے لیے چندہ مانگیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب یہ وقت نہیں رہا ہے کہ صرف کاغذ کے گھوڑے دوڑانے سے کام چلے۔ بلکہ خود شہر بشہر اور ضلع بہ ضلع دورہ کرنے اور اسپیچیں سنانے اور لوگوں کے دلوں میں جوش لانے کا وقت ہے۔ اس کام کے لیے علاوہ فرصت اور وقت کے روپیہ کا ہونا بھی درکار ہے۔ کہ بدوں خرچ کے دورہ نہیں ہو سکتا۔اور کمیٹی کی تھیلی میں جو گیا۔پھر نکلتا نہیں ہے۔پس دورہ کرنے کا وقت،اس کی محنت ،اس کا خرچ سب ہم کو اپنی جیب سے کرنا ہے۔اگر خداکی مرضی ہے تو ہم سب کچھ کریں گے۔ اگر زندہ ہیں اور خدا کی بھی یہی مرضی ہے تو اپنے مخالفوں کو دکھائیں گے کہ خدا نے کیا کیا،اور اگراس میں آنکھ بند ہو گئی ۔ اور لحد میں جا سوئے تو یہ امید رکھیں گے کہ ع مردے از غیب بیروں آمد وکارے کنند جو تجویز دار العلوم مسلمانان کی ہم نے لکھی ہے۔ بے خبر لوگ اس کا لطف نہیں جان سکتے۔اگر ہماری قوم با خبر ہوتی تو اس کا لطف جانتی۔اور اس کی قدر جانتی۔ با ایں ہمہ ہماری ہی قوم کے بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جنھوں نے بخوبی اس کا مطلب سمجھا ہے۔ اور تجویز مذکورہ کے چھپنے کے چند روز بعد ہی ایک صاحب کا خط ہمارے پاس آیا۔ جن سے اور ہم سے اس وقت تک ملاقات بھی نہ تھی۔اس خط کو بجنسہ ہم چھاپتے ہیں اور اس تسلی کے ساتھ کہ ناقدروں کے ساتھ ہمارے قدر کرنے والے بھی موجود ہیں۔ گو کہ صحیح مقولہ یہی ہے کہ ’’قدر مردان بعد مردن‘‘ نقل خط بعالی جناب فیض مآب مربی وسرپرست مسلمانان ھند جناب مولانا مولوی سید احمد خاں صاحب بہادر ستارہ ء ھند دامت برکاتہ ،! تسلیم! میں نے اخبار سائنٹیفک سوسائٹی علی گڑھ مطبوعہ ۶ ستمبر ۱۸۷۲ ء میں آپ کا وہ مضمون جو مدرستہ العلوم کی نسبت تھا۔ چھپا ہوا دیکھا۔ یہ الہامی مضمون مسلمانوں کے لیے مژدہ جان فزا ہے۔آپ نے وہ فکریں کی ہیں کہ جن سے مسلمان شائستگی میں یورپ کی شائستہ اقوام سے بھی زیادہ ہو جاویں۔اور ان کو لندن جانے کی پھر دقتیں نہ اٹھانا پڑیں۔ اب کھلا کہ آپ کا لندن جانا مکہ جانے سے زیادہ مفید ثابت ہوا۔ آپ اگر مکہ جاتے تو آپ ہی کی ذات کا فائدہ تھا۔ایک مخلوق خدا جو تباہی میں تھی۔ ان کی دست گیری کون کرتا۔میں نے جب سے آپ کا یہ مضمون دیکھا ہے۔بے اختیار یہ جی چاہتا ہے کہ اس شخص کے قدم چومے ہوتے۔جس نے ہم کو ڈوبتے دیکھا اور گمراہی کے دریا سے نکالا۔آپ نے مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے کہ جس کا شکریہ ادا کرنا مسلمانوں کی طاقت بشری سے باہر ہے۔بہر حال ع۔ تم سلامت رہو ھزار برس ھر برس کے دن ہوں پچاس ھزار ایک بات پر مجھ کو بادی النظر میں شبہ ہوا تھا کہ مدرسۃ العلوم میں تصویریں کیوں کر ہو ں گی۔تصویر کا تو رکھنا ممنوع ہے۔لیکن جب خیال کیا تو معلوم ہوا کہ شارع علیہ سلام نے جو تصویر کی نسبت حکم کیا ہے۔ وہ صرف مشباہت اہل ہنود کا سبب تھا۔ کہ مبادا مسلمان بھی ان کی پرستش کرنے لگیں۔ اور جب کہ ہمارا عقیدہ یہ نہیں ہے تو پھر کوئی الزام عائد نہیں ہو سکتا ۔ بلکہ اس مدرسہ میں تصویروں کا رکھنا ایک طرح سے لوگوں کو جوش دلانا ہے کہ سچ ہے ع۔ مرد آخر بیں مبارک بندہ است یہ نہیں معلوم ہوا کہ چندہ کی تعداد کہاں تک پہنچ گئی ہے۔ کیسی خوشی کا وہ دن ہو گا کہ جس دن مدرسہ کی بنیاد قائم ہو گی۔ خدا کرے کہ اب تمنائے دل جلد پوری ہو۔آمین ثم آمین۔ جہاں پر کہ ذکر مکانات کا کیا گیا ہے۔اور جس شہر میں کہ مدرسہ قائم ہوگا۔ان صفات کے ساتھ کہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے۔اگر حق اللہ پوچھیئے تو وہ شہر علی گڈھ کا ہے۔ آپ کا تابع دار۔فرماں بردار احقر معصوم علی پس ہماری تمنا ہم قو موں سے یہ تھی کہ بد گمانی کے عوض اگر نیک گمان کریں،اور نیک کام میں مدد دیں اور غلطیوں کی اصلاح پر کوشش فرماویں۔تو صرف مخالفت کرنے سے ھزار درجہ ہمارے اور ہماری قوم کے لیے بہتر ہو گا۔ واللہ یھدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم۔ اب خاتمہ تحریر پر ہماری درخواست با لتخصیص ایڈیٹران ’’اودھ اخبار اور پنجابی اخبار لاہور‘‘ سے یہ ہے کہ اپنی عنایت و مہر بانی سے جیسی کہ وہ ہمیشہ فرماتے رہے ہیں۔ہماری اس تحریر کو اخباروں میں مندرج فرما کر ہم کو ممنون منت فرمائیں۔اور ان کے سوا اگر اور اخبار نویس بھی اپنے اخبار میں اس تحریر کو جگہ دیں تو دل سے ان کی عنایت کے شکر گزار ہو ں گے۔ ٭٭٭ مسلمانوں کی تعلیم میں متفقہ کوشش کی ضرورت (تہذیب الاخلاق (دور سوم) جلد اول نمبر ۱ بابت ماہ یکم شوال ۱۳۱۱ ھجری صفحہ ۵) سلام علیکم ۔ ملام صاب سلام صاب۔ حجرت السلام علیکم! ہاں صاحب کہو تو سہی وعلیکم۔ کیوں آج تو عید ہے اور پھر سنا ہے کہ اب پھر ’’تہذیب الاخلاق‘‘ بھی جاری ہوتا ہے۔پھر آپ سست اور چپ کیوں ہیں؟۔ نہیں حضرت میں چپ نہیں ہوں ،بلکہ مسلمانوں کو عید گاہ جاتے اور آتے دیکھ رہا ہوں۔ اور ان کی حالت کو سوچ رہا ہوں۔ کیا سبب ہے کہ جو بوڑھے ہیں۔ریش دراز ، ریش سفید ہیں ان کے چہروں پر نور نہیں؟ جو جوان ہیں ان کے چہروں پر بشاشی نہیں؟ چلتے پھرتے ہیں۔ مگر دل مردہ ہیں۔ آخر اس کا کچھ سبب بھی ہے؟۔ ھزاروں مسلمان اس طرف سے گزرے ،سوائے دو چار کے سب پیدل تھے۔ میں سمجھا کہ ثواب کی نظر سے پیدل جاتے ہیں۔ ایک راہ سے جاویں گے۔اور دوسری راہ سے آویں گے۔تاکہ دونوں راستے ان کی نماز کے گواہ رہیں۔ مگر جب تحقیق کیا تو معلوم ہوا کہ عصمت بی بی از بے چادری۔ ان میں سے کسی کے پاس سواری ہے ہی نہیں۔ پھر دیکھو امام کی بے وقوفی! کہ ان کو خطبہ میں روزہ کے احکام بتاتا ہے۔ ان کو روز روزہ ہی رہتا ہے۔ شام کو کھانا ہی میسر نہیں کہ اتمو االصیام الی اللیل کی تعمیل ہو سکے۔اس پر اور بے وقوفی دیکھو کہ فطرہ کے احکام بتاتا ہے۔ اور یہ نہیں سمجھتا کہ سب کے سب تو فطرہ لینے والے ہیں۔دینے والا کون ہے ۔جن کو یہ احکام بتاتا ہے۔؟۔ دنیا بغیر نہ دنیا چلتی ہے۔اور نہ دین چلتا ہے۔ قرآن پڑھو۔ جب خدا نے یہودیوں کو ذلیل کرنا چاہا تو دنیاوی عزتوں کو ان سے چھین لیا۔ ضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ و با ؤ ا بغضب من اللہ۔ ظاہرا یہی حال مسلمانوں کا ہے۔ نعوذ با للہ منھا پھر آپ نے کوئی تدبیر سوچی ہے؟۔ ھاں سوچی تو ہے۔ مگر تقدیر کے آگے تدبیر کیا چلتی ہے؟۔۔۔سوچ سوچ کر مدرسۃ العلوم قائم کیا ہے۔ مسلمانوں ک وتعلیم دینا، ہم دردی سیکھانا، مذہب، مذہب کی عادت دالنا ،تربیت دے کر مسلمان بنانا۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے؟۔ حضرت آپ نے مسلمانوں کی مفلسی کا تو وہ حال بتایا۔ مگر مدرسۃ العلوم میں بھی تو بغیر روپے کے نہ تعلیم ہو سکتی ہے۔ نہ تربیت ۔ پھر اس سے کیا نتیجہ ہو گا؟۔ ھاں یہ سچ ہے مگر بغیر روپیہ کے کیا ہو سکتا ہے؟۔ اے زر تو خدائی ولیکن بخدائی ستار عیوب و قاضی الحاجاتی اسی سرگردانی میں ہم بھی ہیں۔ بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔قوم کا حال کیسا ہی ابتر ہو۔ اگر سب متفق ہو کر مدد کریں تو سب کام پورے ہو سکتے ہیں۔ اگر اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد جدا جدا بنائیں تو جہنم میں جائیں۔ من شذ شذ فی النار دیکھو اسی سرگردانی اور پیرانہ سالی وناتوانی اور کسی قدر بیماری کی حالت میں بھیک مانگنے اورقوم کے لیے روپیہ جمع کرنے کو پنجاب جاتا ہوں۔ اگر لوگوں نے مدد کی تو سب کچھ ہو جائے گا۔ مگر وہاں کے بعض طعنے دیتے ہیں اور کہتے ہیں۔ ’’السوال علی السوال حرام ‘‘ ھاں حضرت آپ کا کہنا درست ہے۔ اس زمانہ میں اس بات کا بہت کم خیال ہے۔ کہ وہی کام کریں جو درحقیقت قوم کے لیے مفید ہو۔ایسے لوگ کہاں جو اپنی خواہشوں پر قوم کی بھلائی کو مقدم رکھیں۔ مگر پنجاب کے لوگ سمجھ دار ہیں۔ بے شک وہ سوچیں گے کہ در حقیقت قوم کی بھلائی کس میں ہے؟۔ اور وہی کام کریں گے۔ جس میں درحقیقت قوم کی بھلائی ہے۔ سید احمد چندہ مدرسۃ العلوم مسلمانان (تہذیب الاخلاق ‘‘ بابت ۱۵ جمادی الا ول ۱۲۹۰ ھجری) سیکرٹری کمیٹی خزانۃ البضا عۃ نے انگلستان میں بھی مدرسۃ العلوم مسلمانان کے لیے چندہ جمع کرنے کو ایک سرکلر روانہ کیا ہے۔اور اپنے دوستوں سے جو انگلستان میں ہیں، اس بات کی درخواست کی ہے کہ وہاں بھی چندہ جمع کرنے کی کمیٹی بنائی جاوئے۔اور یہ بھی درخواست کی ہے کہ رائٹ آنر یبل لارڈ لارنس جی۔سی، بی،جی، سی ،ایس ،آئی اس کمیٹی کے پریذیڈنٹ۔۔۔۔ اور مار کوئیس آف سالس بری ارل آف ڈربی لارڈ اسٹینلی آف ایلڈرلی۔ سر بارٹل فریر، جی، سی ،ایس، آئی۔ سر لارنس پیل۔ سر رابرٹ منٹگمری، کے،سی، ایس، آئی ،اس کمیٹی کے ممبر۔ اور ایڈورڈ ٹامس صاحب، ایف ۔ آر۔ایس۔ آئی اس کمیٹی کے سیکر ٹری ہوں۔ سید احمد خاں نے اس درخواست کی منظوری کے لیے جناب لارڈ لارنس، اور لارڈ اسٹینلی اور سر بارٹر فریر اور سر چارلس ٹریو یلین اور سر رابرٹ منٹگمری اور ایڈورڈ ٹامس صاحب کو بہ طور نج کے چٹھیاں لکھیں۔ امید ہے کہ یہ تدبیر کار گر ہو گی۔اور اگر لندن میں مذکورہ بالا امراء نے کمیٹی بنانا منظور کر لیا تو مدرسۃ العلوم مسلمانان کے چندے کو بہت بڑی مدد ملے گی۔ سید احمد خاں سیکرٹری نے اپنی اس تدبیر سے حضور عالی ہز گریس ڈیوک آف آر گائل وزیر اعظم ہندوستان کو بھی اطلاع دے دی ہے۔ جو سرکلر کہ سید احمد خاں نے لندن روانہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے ۔ سرکلر از طرف مجلس خزنتہ البضا عۃ التا سیس مدرسۃ العلوم مسلمانان جس کی رجسٹری بموجب ایکٹ ۲۱، ۱۸۶۰ ء کے ہو چکی ہے۔ مقام بنارس واقع اضلاع شمال ومغر ب ھندوستان جب سے سلطنت مغلیہ کا ھندوستان میں زوال شروع ہوا۔ اس وقت سے مسلمانوں کی صرف دولت اور اختیار کو ہی تنزل نہیں ہوا۔ بلکہ ان کی تعلیم میں بھی بہت کچھ تنزل ہو گیا ہے۔ھندوستان میں انگریزی سلطنت شروع ہونے کے بعد کچھ عرصہ تک مسلمان مشرقی علوم اور مشرقی ادب خصوصا عربی اور فارسی پڑھتے رہے۔ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی عمل داری میں جو اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے ہندوستانیوں کو ملنے ممکن تھے۔ ان پر مسلمان ممتاز ہوئے تھے۔لیکن با لفعل جب سے انگریزی زبان کا جاننا گورنمنٹ کی ملازمت کے لیے ایک امر ضروری ہو گیا ہے۔ تب سے سرکاری عہدے داروں کی فہرست میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے۔ بعض اضلاع میں مسلمان عہدہ داروں کی تعداد بمقابلہ ہندوؤ ں کے اس قدر کم ہے کہ فی صدی تین مسلمان ہیں۔ اور یہ بات ھندوستان کے لیے پولٹیکل اور سوشل دونوں طرح پر نہایت بڑی خرابی سمجھی جاتی ہے۔ نہایت افسوس ہے کہ افلاس اور جرائم جو جہالت کے ضروری نتیجے ہیں۔ مسلمانوں میں بڑھ گئے ہیں۔اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سب خرابیاں جن میں آج کل مسلمان مبتلا ہیں۔صرف عمدہ تعلیم ہی سے دور ہو سکتی ہیں۔ جو سلسلہ تعلیم کا گورنمنٹ نے اس ملک کے لوگوں کے سخت تعصبات کے سبب سے بہ مجبوری اختیار کیا ہے۔گو کہ وہ نہایت فیاضی کے اصول پر مبنی ہے۔جس میں کسی کی طرف داری نہیں ہے۔تو بھی مسلمانوں کی خانگی اور سوشل ضروتوں کے لیے کافی نہیں ہے۔۔۔۔ مشرقی زبان اور مشرقی علم وادب کی کافی ترقی کا نہ ہونا۔۔۔۔ اعلیٰ درجہ کے علوم کی تعلیم کا صرف انگریزی زبان کے ذریعے سے ہونا۔۔ ایک ہی سی تعلیم کا تمام لوگوں کے لیے مقرر ہونا۔۔۔ یہ سب ایسے اسباب ہیں،جن کے باعث سرکاری سلسلہ تعلیم سے مسلمانوں کی (جو اپنی زبان اور علم و ادب کو پسند کرتے ہیں۔اور ان کی تبدیلی پر راغب نہیں ہوتے۔) تمام ضرورتیں رفع نہیں ہوتیں۔ مسلمان طالب علموں کی تعداد اب تک گورنمنٹ کالجوں اور سکولوں میں نہایت کم ہے۔ اور گو گورنمنٹ ھند نے یہ صلاح ومشورہ اپنے ماتحت کی گورنمنٹوں کے ان موانع کے دفیعہ کی بھی کوشش کی ہے۔ جن کے باعث سے مسلمان اپنے لڑکوں کو سرکاری مدرسوں میں تعلیم کے لیے نہیں بھیجتے۔تاہم نہایت مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کہ خود مسلمانوں کو اس امر میں کوشش کرنی چاہیئے۔ چند نہایت لائق اور معزز مسلمانوں نے متفق ہو کر آکسفورڈ اور کیمبرج کے قاعدہ کے موافق ایک عمدہ مدرسۃ العلوم مسلمانان کے قائم کرنے کی تجویز کی ہے۔اور یہ تجویز کیا ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ طالب علم مدرسہ میں رہیں۔اور اس لیے چند قاعدے بھی بنائے ہیں۔۔۔۔ جو طریقہ زندگی کا بالفعل ھندوستان میں ہے۔وہ کسی قسم کے عمدہ تحصیل علم کے لیے مناسب نہیں ہے۔اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مدرسہ میں رہنے کا قاعدہ اس بڑے نقصان کا علاج ہو گا۔۔۔ جس قدر کہ انگلستان کی یونیورسٹیوں میں مدرسہ میں طالب علم کا رہنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ہندوستان میں اس سے بھی بہت زیادہ ضروری ہے۔ اس لیے کہ ھندوستان کے دولت مند گھرانوں کی باتوں کا اثر تعلیم کے لیے نہایت مضر ہے۔ آکسفورڈ اور کمیبرج کے قاعدہ کے موافق مدرسۃ العلوم مسلمانان کے قائم ہونے سے طالب علموں کے دلوں میں ایک نئی روح بھر جائے گی۔اور اعلیٰ درجہ کے مسلمانوں کو بھی اپنی طرف راغب کر لے گی۔ اس تجویز کو گورنمنٹ ھند نے بھی بہت پسند کیا ہے۔ اور نہایت فیاضی سے امداد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ایک برس کے قریب ہوا۔ جب سے چندہ جاری ہے۔اور بہت ساروپیہ لوگوں نے اس چندے میں مرحمت فرمایا ہے۔ حضور عالی جناب لارڈ نارتھ بروک صاحب وائسرائے اور نواب گورنر جنرل بہادر ھندوستان نے بھی ایک ہزار پونڈ ،یعنی دس ہزار روپیہ چندہ دینا کیا ہے۔ مسلمان خود اپنے ہم مذہبوں یعنی مسلمانوں اور انگریزوں سے اس چندے کی درخواست کرتے ہیں۔اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ انگلستان کے لوگوں پر جو ھندوستان کے حاکم اور انسان کے خیر خواہ ہیں۔ہمارا ایک خاص استحقاق ہے۔ھندوستان میں گورنمنٹ کی رعایا میں مسلمانوں کی تعداد تین کروڑ ہے۔ بالفعل ان کے یہ کوشش ہے کہ ایک یونیورسٹی کی بنا ڈالیں۔جو بعد میں خود ترقی پا کر تمام ھندوستان میں سکولوں اور کالجوں میں پھیلا دے۔اور ان کالجوں اور اسکولوں میں ایسی تعلیم ہو۔ جو خاص مسلمانوں کی حالت اور اس نسبت کے جو مسلمانوں اور انگریزوں میں ہے۔ مناسب ہووئے۔ وہ خاص علوم جن میں تعلیم ہو گی۔ وہ مغربی علوم ہو ں گے۔ جو علم طبیعات اور علم قوی انسانی کہلاتے ہیں۔ جن کی اس ملک میں نہایت ضرورت ہے۔اور جن کے بغیر کسی قوم کی اصل ترقی نہیں ہو سکتی ہے۔اور ان علوم کی تعلیم بذریعہ ھندوستانی زبان کے ہو گی۔ اور اور علوم جو مدرسۃ العلوم مسلمانان میں سکھائے جائیں گے۔وہ یہ ہیں۔ انگریزی، علم ادب اور قدیم زبانیں، جن کے ساتھ مشرقی علم وادب بھی ہو گا۔۔۔۔ اسی سلسلہ تعلیم سے یہ امید ہے کہ مسلمان اپنی قومی تعلیم بھی پاویں گے اور انگریزی زبان کی طرف بھی زیادہ تر متوجہ ہو ںگے۔ جو کہ سرکار انگریزی کی عمل داری میں ہر قسم کی نوکری کے لیے ایک ضروری شرط قرار دی گئی ہے۔۔۔ یہ لوگ آج تک انگریزی زبان اور انگریزی علوم کو سرکاری نوکری حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔اور اس سبب سے دولت مند لوگ جو نوکری کی خواہش نہیں رکھتے۔ سرکاری سلسلہ تعلیم سے پرہیز کرتے ہیں۔ مگر بالفعل اکثر معزز مسلمانوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ انگریزی زبان اور انگریزی علم وادب کو اب اور نظر سے دیکھیں۔ اور انگریزی عمل داری میں اس کو پیٹ پالنے کا ذریعہ نہ سمجھیں۔ بلکہ روشن ضمیری اور فہم وفراست کے لیے ان کو حاصل کریں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ مسلمانوں کی ترقی کے لیے جو بالفعل کوشش ہو رہی ہے۔اس میں اگر کام یابی ہو،تو ہندوستان اور انگلستان کے باہم جو پولٹیکل اور سوشل رشتے ہیں۔وہ اور زیادہ مستحکم اور مضبوط ہو جائیں گے۔ نیز دوستانہ بھی ہوجائیں گے۔ جو عظمت ھندوستان میں مسلمانوں کو حاصل تھی۔اور ان کے بعد وہ عظمت انگریزی قوم کو حاصل ہوئی ہے۔ اسی لیے انگریزوں کو رقیب سمجھنے پر مسلمانوں کی طبیعت مائل ہوئی ہے۔ لیکن نہایت لائق اور معزز مسلمان بخوبی واقف ہیں کہ انگلستان کی شائستہ حکومت نے ھندوستان کو بڑے بڑے فائدے بخشے ہیں۔اور یہ لوگ اپنے ہم مذہبوں کو جہالت اور ذلت کی حالت سے جو بالفعل ان کی ہے۔ نکالنے کے لیے ایک ایسا سلسلہ اصلی اور پختہ تعلیم کا بنانا تجویز کر رہے ہیں کہ جن سے مسلمانوں کی آئندہ نسل کے لوگ شائستہ باشندے اور گورنمنٹ کی بہتر رعایا ہو ں گے۔ مدرسہ مجوزہ ایک چھوٹے شہر میں قائم ہونے والا ہے۔اور چونکہ یہ شہر ایک مقام متوسط میں واقع ہے۔ اس لیے ہندوستان کے مسلمان ہر ایک حصہ ھندوستان سے باآسانی وہاں پہنچ سکیں گے۔۔۔ تعلیم کے ساتھ مدرسہ میں رہنے کا قاعدہ جاری کرنے سے یہ بھی غرض ہے کہ جو طالب علم ھندوستان کے دور دراز حصے سے اس مدرسہ میں تعلیم کے لیے آؤیں۔ا ن کو کچھ دقت نہ ہو۔ مسلمانوں نے چلدہ فراہم کرنے کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی ہے۔ اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس مدرسے کی عمارت وغیرہ اور تقرر اسکالر شپ کے لیے ایک لاکھ پچاس ہزار پونڈ درکار ہو ں گے۔ جس کے پندرھویں حصے کے قریب چندہ ہو چکا ہے۔ اور یہ تجویز ہے کہ جو لوگ اس قدر چندہ دیں کہ جو فیلو شپ یا سکالر شپ یا انعام کے لیے کافی ہو۔ان کو اختیار ہو گا کہ اس بات کی ہدایت کریں کہ ہمارا چندہ اسی کام میں لگایا جائے،اور یہ بھی تجویز ہے کہ جو لوگ مدرسے کے لیے سوپونڈ یا اس سے زیادہ چندہ دیں۔ان کی یاد گاری کے لیے خاص تدبیر کی جائے۔ جو نام وری کہ انگلستان کو اس کی دولت مندی اور فیاضی اور سخاوت کے سبب حاصل ہے۔ اور جو خاص تعلق انگلینڈ کو ھندوستان کے ساتھ خدا نے قائم کیا ہے۔ اس کے سبب سے مسلمانوں نے ایسے دور دراز ملک میں اور ایسے لوگوں سے جو بہ لحاظ قومیت اورمذہب کے بالکل مختلف ہیں۔اور امید ہے کہ انگلستان کی قوم جو ہمیشہ انسانیت اور انسان کی عام بھلائی کے کاموں میں مدد کرنے کو مستعد رہتی ہے۔ ایسے لوگوں کی مدد کرنے سے انکار نہیں کرے گی جو اس کے ساتھ نہایت قریب رشتہ پولٹیکل کا رکھتے ہیں۔اور جن کو انگریزی رعایا کے بالکل حقوق حاصل ہیں۔ مگر بہ باعث نہ ہونے شائستگی اور تہذیب کے ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ (دستخط) سید احمد خاں بہادر ،سی ۔ایس۔آئی۔ لائف آنریری سیکر ٹری کمیٹی خزنۃ البضاعۃ لتاسیس مدرستہ العلوم لل مسلمین۔ ٭٭٭ ۱۔یہ واضع ہو کہ جو لوگ لندن میں چندہ دینا چاہیئں وہ اپنا چندہ لندن میں مسٹر ہنری ایس کنگ اینڈ کوکی کوٹھی مہاجنی میں جو کارنہل میں بہ نمبر ۶۵ واقع ہے، جمع کرا سکتے ہیں۔ مراسلات متعلق مدرستہ العلوم مسلمانان (تہذیب الاخلاق‘‘ بابت ۱۵ جمادی الثانی ۱۲۹۰ ھجری ) جامع المناقب خیر خواہ اسلام وترقی خواہ مسلمانان جناب سید احمد خاں صاحب بہادر سی۔ایس۔آئی سیکرٹری کمیٹی مدرستہ العلوم مسلمانان سلامت! آپ نے جو تجویز مدرستہ العلوم مسلمانان کے قائم کرنے کی کی ہے۔اس کو تو کوئی شخص برا نہیں جانتا۔ غالبا سب مسلمان ایسے مدرسہ کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کے شدید مخالف بھی اس کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں۔مگر بعض باتیں جو خلاف رسم ورواج اور خلاف مذہب اسلام اس میں تجویز ہوتی ہیں۔اس کی نسبت لوگ غل مچاتے ہیں ۔اور ان کا غل مچانا بھی درست ہے۔ مگر جب آپ کے حواریوں سے ملا قات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جو باتیں مخالفین مشہور کرتے ہیں وہ محض غلط ہیں۔ پس بہ مجبوری میں آپ سے چند سوالات مفصلہ ذیل کرتا ہوں۔اس امید سے کہ آپ ان سوالات کو مع جوابات کے پرچہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں چھاپہ کردیں گے۔اسی پرچہ کے ذریعے سے میری نظر سے گزر جاوئے گا۔اور اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو یقین ہو گا کہ جو کچھ لوگ کہتے ہیں وہ سب سچ ہے۔زیادہ نیاز مند والسلام حقیقت طالب سوال:: کمیٹی مدرسہ نے یہ تجویز کی ہے کہ آپ کا ایک بت اور ان لوگوں کی جو قیام مدرسے میں مدد کریں گے۔قد آدم یا نصف قد آدم تصویریں مدرسے میں رکھی جاویں گی۔میں نے سنا ہے کہ پہلے تو قد آدم تصویریں رکھنی تجویز ہوئی تھیں۔اور اب نصف قد کی رکھنی قرار پائی ہیں۔اگر یہ سچ ہو تو پورے قد اور نصف قد میں کیا فرق سمجھا ہے۔ جواب جو کچھ آپ نے سنا ہے محض غلط ہے۔ کمیٹی نے نہ میرا بت رکھنا تجویز کیا ہے اور نہ ہی کسی کی تصویریں قد آدم یا نصف قد مدرسے میں رکھنی تجویز کی ہیں۔ سوال: کیا کمیٹی نے یہ تجویز کیا ہے کہ مدرسے میں طالب علموں کو انگریزی لباس کوٹ پتلون، اور انگریزی جوتا پہننا یا کسی قسم کی خاص ٹوپی یا لال ٹوپی یا کیمبرج کا چغہ پہنانا تجویز کیا ہے۔ جواب: محض غلط ہے۔کمیٹی نے اس باب میں کچھ بھی تجویز نہیں کیا۔ سوال: جو طالب علم مدرسے میں رہیں گے،ان کو چھری کانٹے سے انگریزوں کی طرح کھانا ہوگا اور گردن مروڑی مرغی ان کو کھلائی جائے گی یا نہیں۔ جواب: افسوس ہے کہ یہ آپ کا سوال فی جملہ اخلاق کے بر خلاف ہے۔مگر جواب یہ ہے کہ کمیٹی نے طالب علموں کو چھری کانٹے سے کھلانا اور میز پر کھلانا تجویز نہیں کیا ہے۔ یہ سب باتیں محض غلط ہیں۔ اور چوں کہ کمیٹی میں تمام ممبر مسلمان ہیں۔اور وہ سب مرغی کو گردن مروڑ کر مار ڈالنا حرام سمجھتے ہیں۔پس طالب علموں کو گردن مروڑی مرغی ہر گز نہیں کھلانے کی۔ سوال: مذہبی کتابیں کون سی پڑھائی جائیں گی۔کیا نئے احمدیہ مذہب کی جو قریب ارتداد ہے۔کتابیں تصنیف ہو کر پڑھائی جاویں گی۔ جواب: جب کہ آپ ان امور کو خود مجھ سے استفسار فرماتے ہیں۔تو آپ کو ایسی کنایہ آمیز باتیں لکھنی ہر گز مناسب نہ تھیں۔اور نہ مقتضائے اخلاق تھا۔ مگر چونکہ آپ نے بحیثیت سیکرٹری مجھ سے یہ باتیں استفسار کی ہیں،اس لیے بہ مجبوری جواب دیتا ہوں۔ جناب من! مذہبی کتابیں سنیوں کی وہی پڑھائی جاویں گی جو ہمیشہ سنی پڑھتے آتے ہیں۔اور شیعوں کو وہ پڑھائی جاویں گی ۔جو ہمیشہ شیعہ پڑھتے آئے ہیں۔ احمدیہ مذہب کی(اگر آپ کے نزدیک کوئی ایسا مذہب قائم ہوا ہے) کوئی کتاب نہیں پڑھائی جاوئے گی۔ ۱۔یہاں احمدیہ مذہب سے مراد ان دینی عقائد سے ہے جو سر سید احمد خاں کے تھے۔ اور جن کو عوام اس وقت عام طور پر ارتداد اور الحاد سے تعبیر کرتے تھے۔ محمد اسماعیل پانی پتی سوال: مدرستہ العلوم مسلمانان میں جو قائم ہونا تجویز ہوا ہے۔ زبان انگریزی پڑھائی جاوئے گی یا نہیں۔اور انگریزی علوم بھی پڑھائے جاویں گے یا نہیں۔اور اگر پڑھائے جائیں گے تو انگریزی علوم کا پڑھانا گناہ اور معصیت ہے یا نہیں۔اوراس کے پڑھنے سے طالب علموں کے دلوں میں ارتداد اور ب رگشتگی اسلام سے پیدا ہو گی یا نہیں۔اور ان کی عادت میں انگریزیت سما جاوئے گی اور ول اور گڈ امی بولنے لگیں گے یا نہیں۔ جواب: سبحان اللہ! کیا عمدہ الفاظ آپ کے سوال کے ہیں؟۔کمیٹی میں اب تک صرف ایک تجویز تعلیم کی پیش ہوئی ہے۔جس کی نسبت ابھی تک تصفیہ کامل نہیں ہوا ہے۔مگر اکثر ممبروں نے پسند کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی زبان اور انگریزی علوم ان طالب علموں کو پڑھائے جائیں گے۔جو ان علوم کو پڑھنا چاہیئں گے،کمیٹی میں کبھی اس بات کا فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ انگریزی زبان اور انگریزی علوم کا پڑھانا گناہ ہے یا نہیں۔یہاں سے میں اس کا جواب نہیں دے سکتا۔اور اس بات کا حال بھی میں پیش تر سے نہیں بتا سکتا کہ طالب علموں کے دلوں میں اس تعلیم سے ارتداد اور برگشتگی اسلام سے پیدا ہو گی اور ان میں انگریزیت سما جاوئے گی۔اور ول اور گڈ امی بولنے لگیں گے یا نہیں۔یہ بات تجربہ سے معلوم ہو سکتی ہے۔ سوال: رافضیوں کو خلاف دین سمجھا جاتا ہے یا نہیں۔اور ان کے مذہب کی کتابیں پڑھانا گناہ ہے یا نہیں اور مدرسہ میں شیعہ مذہب کی تعلیم ہو گی یا نہیں۔ جواب: کمیٹی نے شیعہ مذہب کی تعلیم بہ ذریعہ شیعہ ممبروں کی تجویز سے کی ہے۔اور چوں کہ شیعہ مذہب کے مسلمانوں نے بھی چندہ دیا ہے۔اس کی آمدنی سے شیعہ مذہب کی تعلیم ہو گی۔ اور شیعہ مذہب کے ممبر اس کا اہتمام کریں گے۔سنی ممبروں سے کچھ تعلق نہیں ہوگا اور شیعہ ممبر اپنے مذہب کو خلاف دین واسلام نہیں سمجھتے۔نہ شیعہ مذہب کی کتابیں پڑھانا گناہ جانتے ہیں والسلام۔ راقم سید احمد سیکرٹری کمیٹی خزنۃ البضا عۃ خط جناب مولوی علی بخش خاں بہادر بنام مولوی سید مہدی علی صاحب اوراس پر سر سید کا تبصرہ سیدنا و مولانا! تسلیم۔ میں ایک اپنے دل کی بات بعد مدت ظاہر کر کے مشورہ چاہتا ہوں۔وہ یہ ہے کہ مدرستہ العلوم مسلمانان کے باب میں انواع واقسام کی رائیں میری نظر سے گزرتی جاتی ہیں۔مگر میں نے اپنی رائے اس وقت تک ایک خاص امر میں ظاہر نہیں کی ہے۔اب کہ سید محمود صاحب کی رائے میں نے دیکھی تو وہ شبہ کسی قدر رفع ہوا کہ غالبا ہماری مذہبی کتابوں میں اصلاح کی نہ ٹھہرے گی۔ اور دینیات میں شاید دست اندازی ہو کر ملت نیچریہ کی تعلیم نہ ہو گی۔چونکہ میں اس قدر امر میں سید احمد خاں صاحب سے مخالف نہیں ہوں کہ ہماری قوم کو علوم جدیدہ کی تعلیم ضروری ہے۔اور تعلیم موجودہ غیر کافی ہے۔صدرا، میبذی،شرح،چغمینی وغیرہ کتب معقولات سے اب کام نہیں چلتا ہے۔لہذا اگر کوئی مدرسہ ایسا قائم ہو کہ اس میں علوم جدیدہ انگریزی سے ترجمہ ہو کر پڑھائے جاویں تو ہم دردی قوم کا پورا نتیجہ نکلے گا۔مگر پھر بھی تحصیل فقہ، حدیث وتفسیر میں ہر گز خلل نہ آنے پائے گا۔ مگر چند ماور ابھی میرے جی میں کھٹکتے ہیں۔جس سے میں خود بھی چندہ دینے سے باز رہا ہوں۔ اور اپنے احباب سے بھی فرمائش کرنے سے معذور رہا تھا۔اگر آپ محض محبت کی نظر سے سچ سچ اصلی حالات سے میری خاطر جمع کر دیں تو خوب ہو۔اور وجہ زیادہ تر شبہ کی یہ ہوتی ہے کہ وہی شبہات شاہ رکن الدین صاحب نے سید احمد خاں صاحب سے پوچھے تھے۔اور انھوں نے یہ جواب دیا کہ یہ کمیٹی کی رائے پر منحصر ہے۔اس سے سب کو اور بھی شبہ پڑ گیا کہ اگر خدا نخواستہ کمیٹی نے بھی وہی رائے دی جس کو ہم خلل اندازی دین سمجھتے ہیں تو ایسے مدرسہ میں روپیہ خراب کرنا معصیت ہے۔ھاں سید محمود صاحب کی تقریر سے میرا جی خوش ہوا۔اور وہ کسی قدر پابند دینیات کے بھی معلوم ہوتے ہیں۔کیوںکہ میں نے سنا ہے کہ لندن میں نماز عید بھی پڑھی اور روزے بھی رکھے۔اور سوائے ایک لفظ سخت کے ان کی تقریر میں سختی بھی کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔گو ان کی رائے کسی قدر مخالف اسلام ہو۔مگر وہ دوسری بات ہے۔مدرستہ العلوم مسلمانان کے بارے میں بھی اچھی بات لکھی ہے۔سید صاحب! آپ یہ سمجھتے ہوں کہ میں سید احمد خاں کا ہر بات میں مخالف ہوں۔ہرگز نہیں۔میرے نزدیک امور دینوی میں جس قدر ترویج علوم جدیدہ ہیں وہ ساعی ہوتے ہیں،بہ ظاہر مجھ کو اچھا معلوم ہوتا ہے ۔ھاں ابتدا میں جو وضع طالب علموں کی اور اصلاح کتب دینی کی ان کی رائے میں دیکھی تھی۔تو مجھ کو بڑا خطرہ پیدا ہوا تھا۔اب تو کچھ دوسرا ڈھنگ سید محمود ڈالا چاہتے ہیں۔جس سے امید ہے کہ دست اندازی عقائد اسلام اور کتب مذہبی میں نہ ہو گی۔اب میں اپنے شبہات بیان کر کے آپ سے رائے لینا چاہتا ہوں، جلد جواب دیجیئے۔(جو شبہات کہ جناب) مولانا صاحب نے لکھے ہیں بہ جنسہ ذیل کے خط میں بہ طور سوال وجواب کے تحریر ہوں گے) مجھ کواس وقت بلکہ مدت سے سخت افسوس ہے کہ ہماری قوم میں سید احمد خاں صاحب ایک شخص لائق اور نامور اور معزز و ذی عقل پیدا ہوئے۔اور ترقی قومی پر ان کا رادہ ظاہر کیا گیا۔مگر اپنی خود رائی سے مذہبی دست اندازی وانقلاب دین ایسا ان کی طبیعت میں جم گیا کہ اصلی غرض فوت ہو گئی۔اور تمام قوم کو ان سے نفرت ہو گئی۔مجھ کو بھی جس قدر مخالفت ہے ان کے خیالات مذہبی سے ہے۔نہ کہ ان کی ذات خاص یا تعلیم علوم جدیدہ سے۔واللہ علی مانقول شھید۔والسلام۔ راقم نامہ سیاہ علی بخش عفی عنہ چند روز ہوئے کہ مولوی سید مہدی علی صاحب نے یہ خط میرے پاس بھیجا تھا کہ میں ان شبہات کا جواب دوں۔چونکہ ہمارے قدیم دوست مخدوم جناب مولوی علی بخش خاں صاحب بہادر کی اس تحریر سے ہوئے ۔ہم دردی ومحبت،وصداقت پائی جاتی ہے۔ اس لیے میں اولا ان کے شبہات کا جواب لکھتا ہوں اوراس کے بعد کچھ اور بھی ان کی خدمت عالی میں عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ شبہ اول اس مدرسہ کے واسطے لاکھوں روپیہ چاہیئے،جس کی امید نہیں ہے۔پھر اگر اس قدر سرمایا جمع نہ ہوا تو ہمارا روپیہ کیا ہوگا؟۔ جواب: اگر مسلمان متوجہ ہو ں گے اور کوشش کریں گے تو جس قدر روپیہ درکار ہو گا اس کا جمع ہونا کچھ مشکل نہیں ہے۔ علاوہ اس کے یہ مدرسہ کچھ ہمارے ہی زمانے کے لوگوں کے لیے نہیں قائم ہو رہا۔بلکہ تمام نسلوں کے لیے جو آئندہ آنے والی ہیں،قائم ہونا ہے۔اگر ہم اپنی زندگی میں اس کام کو پورا نہ کر پاویں تو ہمارے بعد کوئی اور بندہ خدا کھڑا ہو جاوئے گا۔جو پورا کرے گا۔اسی طرح کوشش چلی جاوئے گی۔ جب تک کہ یہ کام پورا ہو۔۔۔ علاوہ اس کے جو تدبیر اس کے قیام کی کی گئی ہے۔وہ ایسی سوچ سمجھ کر کی گئی ہے،جس سے بظاہر یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ مدرسہ قائم نہ ہو۔جس قدر روپیہ اب چندہ ہو گیا ہے۔اور قریب لاکھ روپے کے اس کو قبول کرو اور یہ بھی فرض کرو کہ آئندہ چندہ جمع نہ ہوگا تو بھی اس کی آمدنی سے سرمایا بڑھتا چلا جاوئے گا اور چند سال میں وہ سرمایا اس قدر جمع ہو جائے گا کہ قیام مدرسہ کے لیے مکتفی ہو گا۔البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اگر آئندہ چندہ بند ہو جاوئے تو دیر کو مدرسہ قائم ہوگا۔اور اگر چندہ ہوتا گیا اور مسلمانوں نے مدد کی تو بہت جلد اس کا قیام ممکن ہے۔پس یہ خیال کرنا کہ مدرسہ قائم نہ ہوگا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ موجودہ حالت میں بھی کسی نہ کسی دن ضرور قائم ہوگا۔پس اگر بالفرض اس وقت روپیہ کافی جمع نہ ہو تو جس قدر روپیہ آپ دیں گے وہ بطور سرمایا رہے گا۔اوراس کی آمدنی سے وہ سرمایہ اور آپ کا ثواب بڑھتا جاوئے گا۔یہاں تک کہ وہ سرمایہ کافی تعداد تک پہنچ جائے گا۔شاید بعض صاحبوں کو یہ خیالات شیخ چلی کے سے خیالات معلوم ہو ں گے۔لیکن اگر شائستہ ملکوں کے حالات پر غور کرو تو بہت سی اس قسم کی مثالیں پاؤ گے اور دنیا میں بھی اس قسم کی بہت سی مثالیں موجود ہو ںگی۔رہی تا خیر، یہ ایک مجبوری بات ہے۔ جس کا علاج بجز اس کے ہم سب مسلمان دل سے اس کام پر متوجہ ہوں اور ان لغو بحثوں کو جن کا مدرستہ العلوم مسلمانان سے کچھ تعلق نہیں ہے۔چھوڑ دیں اور کچھ چارہ نہیں ہے۔ شبہ دوم واقع میں بعد جمع چندہ اور قیام مدرسہ کے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے خیالات کی تعلیم تو نہ ہونے لگے گی۔کمیٹی ایک ہی جلسے میں تو سب کچھ دکھانے پر آمادہ نہ ہو جاوئے گی۔ جواب: درحقیقت جب آپ ایسا شخص ایسے شبہات پیش کرتا ہے تو نہایت افسوس ہوتا ہے۔خود آپ ہی خیال کریں کہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے خیالات کو مدرستہ العلوم مسلمانان کی تعلیم سے کیا تعلق؟۔کمیٹی کی نسبت جو آپ ایسا خیال فرماتے ہیں۔کیسا افسوس آتا ہے؟۔قبول کیجیے کہ میں ایک نالائق ممبر ہوں اور بد مذہب کمیٹی کا ممبر ہی سہی۔اور مولوی مہدی علی صاحب بھی مشتبہ ہی سہی۔مگر آپ کو مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب کے علمو فضل وتقوی ودین داری میں اور مولوی محمداسماعیل صاحب کے علم واتقاء دین داری میں اور مولوی محمد فرید الدین احمد صاحب و مولوی امانت اللہ صاحب وغیرہ ممبران کی نیک نیتی، نیک بختی اور دین داری میں کیا شبہ ہے؟۔جو آپ فرماتے ہیں کہ ایسا تو نہ ہو کہ کمیٹی ایک ہی جلسہ میں سب کچھ کر دکھائے۔یہ بات آپ سے متین آدمی کے کہنے کی نہیں ہے۔مع ھذا اگر آپ کو یہ شبہ ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ آپ خود بھی کمیٹی کے ممبر ہو جایئے۔اور لوگوں کو بھی جو آپ کی رائے میں درست اور ٹھیک ہوں اور جن کے بارے میں آپ کو کچھ شبہ نہ ہو۔ ممبروں میں داخل کرایئے۔تاکہ اکثر آپ کی رائے کی تائید کرنے والے ہو جائیں۔ہر بات میں غلبہ اسی رائے کو رہے۔جس کو آپ کی رائے کے لوگ پسند کریں۔اور اس صورت میںمخالف پارٹی (اگر آپ کی رائے میںکوئی مخا لف پارٹی ہے)نہایت ہی کمزور ہو جائے گی۔پس درحقیقت ایسا کرنا قومی بھلائی وہم دردی ہے۔اور کسی مضمون کے لکھ دینے اور رسالہ کے چھاپ دینے سے بہت زیادہ مفید اور موثر ہے۔اس لیے سچی بات کے سننے کے بعد مجھے امید ہے کہ آپ بھی کمیٹی کا ممبر ہونا قبول فرماویں گے۔اور جو خرابیاں کہ کمیٹی میں ہوں۔ان کی درستی پر دل سے متوجہ ہوں گے۔ہمارے دل کی صفائی اور خاص قومی بھلائی کی نیت اور اپنی رائے پر اصرار تو صاف اسی بات سے ثابت ہے کہ جو لوگ اپنے تئیں ہمارا مخالف بتاتے ہیں۔ان ہی کی ہم منت کرتے ہیں کہ برائے خدا آپ بھی کمیٹی کے ممبر ہو جایئے اور اپنی عمدہ رائے سے جو خرابیاں کمیٹی میں ہوں ان کی اصلاح کیجیئے۔باقی رہا تہذیب الاخلاق، اس کی نسبت آپ نے جو کچھ لکھا ہے۔اس کی بابت اگر چہ اس وقت لکھنے کا موقع نہیں ہے۔ مگر پھر بھی اخیر کو میں کچھ لکھوں گا۔اس لیے کہ میں یہ خیال کرتا ہوں کہ آپ بہ نظر تعمق اس معاملے پر غور نہیں کیا۔ شبہ سوم: پوشاک ولباس و اکل وشرب وضع طلبائے مسلمین کا بدلا جاوئے گا یا نہیں اور کس قسم کا ہو گا؟۔ جواب: پوشاک ولباس و اکل وشرب وضع طلبائے مسلمین کا بدلا جانا کمیٹی نے تجویز نہیں کیا اور نہ ہی بدلا جانا کوئی امر ضروری و لابدی ہے۔جو لوگ حقیقت تعلیم پر نہایت غور کر چکے ہیں۔ہاں ان کی رائے میں یہ بات ہے کہ ایک سی وضع پر طالب علموں کو رکھنا،ان کی تربیت ،ان کے اخلاق ان کی باہمی دوستی پر بہت موثر ہے اور شاید بعض فقراء کے خانوادوں نے بھی اسی لحاظ سے خاص ایک قسم کا نشان و لباس اپنے گروہ کے لیے تجویز کیا ہے۔پس اگر ممبران کمیٹی اس دقیق نقطہ پر غور کریں گے۔اور سب طالب علموں کو ایک سی وضع رکھنا مناسب سمجھیں گے تو کچھ قواعد مقرر کریں گے۔اور بہر حال جو تبدیلی وتجویز ہو وہ وہی ہو گی جس کو تمام مسلمان ممبر یا اکثر پسند وتجویز فرماویں گے،پس کیا عمدہ بات ہے کہ آپ بھی اس کمیٹی کے ممبر ہوں۔اور جو بات قرار پاوئے ۔وہ آپ کی رائے سے قرار پائے۔پس اگر اب بھی آپ ممبر ہونا قبول نہ فرمائیں تو بہ جز مسلمانوں کی بد بختی کے اور کیا تصور کیا جاوئے۔ شبہ چہارم: اگر خاص درجہ تعلیم کتب دینی کے واسطے روپیہ دیا جاوئے تو وہ اس شرط خاص کے ساتھ منظور ہو کر تعمیل شرط ہو گی یا نہیں؟۔ جواب: ضرور اسی شرط پر منظور ہو گا ،اور اسی کام میں خرچ کیا جاوئے گا۔ شبہ پنجم: علما ء مسلمین واسطے تعلیم کے کس قسم کے لوگ منتخب کیے جاویں گے۔وہ ہی مشرقی تعلیم یافتہ جن کی توہین سے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ بھرا ہوا ہے۔یا کسی دوسری قسم سے؟۔ جواب: علماء مسلمین کو مسلمانوں کی جماعت منتخب کرے گی جس جماعت میں انشا اللہ آپ بھی داخل ہو ں گے۔’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں گو ان کی توہین ہی کیوں نہ ہوتی ہو۔اس لئے کہ ایڈیٹر ’’تہذیب الاخلاق‘‘ پر ان مسلمان علماء کا منتخب کرنا منحصر نہیں ہے۔ شبہ ششم: اس مدرسہ کے قائم ہونے میں کتنی مدت درکار ہے؟۔ جواب: اس کی خبر خدا کو ہے۔وہی غیب کا حال جاننے والا ہے۔مگر بظاہر حال یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر آپ بھی معین ہوجاویں۔اور مسلمان بھی دل سے مدد کریں تو بہت جلد قائم ہو جاوئے گا۔ورنہ بلا شبہ دیر ہو گی۔مگر اتنا یقین جان لیجیئے کہ اب یہ مدرسہ کسی کے روکے رکتا نہیں۔افسوس ہے کہ ہماری یہ خواہش تھی کہ اس مدرسے کی بنا خاص مسلمانوں کے نام پر بلا امداد دوسری قوم کی تاریخ کی کتابوں میں بطور یاد گار کے رہے۔مگر خدا نے ایسا نہیں چاہا۔اور دوسرے ملک سے ہم کو مدد مانگنا پڑی۔جو تدبیر کہ لندن میں سب کمیٹی قائم کرنے اور چندہ جاری کرنے کی کی گئی ہے۔ اگر وہ پوری ہو گئی تو آپ دیکھیں گے کہ کیا ہوا ہے؟۔اور اگر بالفرض وہ بھی نہ چلی تو ہماری موجودہ حالت سے بھی ایک نہ ایک دن یہ مدرسہ قائم ہوگا اور جولوگ اس میں شریک نہیں ہوتے۔ان کو اپنی مخالفت پر نہایت افسوس ہو گا۔ شبہ ھفتم: کب تک انتظار کر کے اپنے روپیہ کی واپسی اھل اسلام کر سکیں گے یا کبھی واپس نہ ہوگا،برسوں تک یہی کہا جاوئے گا کہ صبر کرو۔ انتظار دیکھو؟۔ جواب: جو مال کہ خدا کے نام وقف کیا جاتا ہے۔وہ کسی کی ملکیت نہیں رہتا۔پس صدقہ کی واپسی کا خیال نا مناسب ہے ۔البتہ یہ دیکھنا چاہیئے کہ جو روپیہ آپ نے دیا ہے۔وہ نیک کام پر خرچ ہو رہا ہے ۔ یا نہیں۔اور وہ نیک کام دو ہو ںگے۔یا تو اس روپیہ کی آمدنی سے علم پڑھایا جاتا ہوگا۔یا اس کی آمدنی سے اصل سرمایا بڑھ رہا ہو گا۔اور یہ دونوں کام حالا وسالا نہایت ثواب عظیم کے ہیں۔جو مال وقف کرنے اور صدقہ دینے سے مقصود ہیں۔ شبہ ھشتم: جو مدارس بالفعل جاری ہیں۔ان پر بحالت کم جمع ہونے چندہ کے اور چھوٹا سکول جاری ہونے کے کیا ترجیح مدرستہ العلوم کو ہوگی۔ جواب: آپ نے ملا حظہ فرمایا ہو گا کہ ممبروں کی یہ رائے نہیں ہے کہ چھوٹا سا سکول تھوڑے سے روپے سے جاری کیا جاوئے۔ بلکہ درصورت کم جمع ہونے روپیہ کے اس کی آمدنی اصل سرمایہ میں جمع ہوتی جاوئے گی۔تاکہ مقدار مطلوبہ حاصل ہو جاوئے۔ جناب عالی! اب ایک عرض میری بھی سنیے کہ اگر ان جوابوں سے آپ کی تشفی خاطر ہو گئی ہے تو برائے خدا آپ بھی کمیٹی کی ممبری قبول کیجیے۔اور ہمارے ممد ومعاون ہو جایئے۔اور ہماری صفائی اور صدق نیت پر رحم کیجیئے کہ کس طرح ہماری یہ خواہش ہے کہ جو لوگ ہماری خاص رایوں کے مخالف ہیں۔انھی کے ساتھ ہم سب کام ڈالتے اور انہی کی رائے پر چلنا چاہتے ہیں۔پس اب ہم پر کچھ الزام نہیں ہے۔ اگر کچھ الزام ہے تو انھی پر ہے جو اس کام کا لینا قبول نہیں کرتے ہیں۔ شاہ رکن الدین صاحب نے بلا شبہ مجھے خط لکھا تھا۔ مگر جب میں یہ بات دیکھتا ہوں کہ لوگ میری ذاتی باتوں کو کمیٹی کی طرف اور مدرستہ العلوم کی طرف دیدہ دانستہ اتہاما یا غلطی سے منسوب کرتے ہیں ۔تو میں شاہ رکن الدین صاحب کو بہ جز اس کے ہر بات اپنے مدرسہ کی کمیٹی کی رائے پر منحصر ہے۔اورکیا جواب دے سکتا ہوں؟۔اگر مجھ سے سوال کرنے والے یہ سمجھیں کہ یہ ایک شخص یا ایک ممبر کی رائے ہے تو مجھے اپنی رائے ظاہر کرنے میں نہ کبھی پہلے عذر ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔ اب میں آپ سے کچھ اور بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔اس امید سے کہ جس متانت اور صدق دلی سے آپ نے مولوی مہدی علی صاحب کو یہ خط لکھا ہے۔اسی متانت اور صاف دلی سے اس تحریر پر بھی توجہ فرمائیں۔آپ مجھ کو مذہبی سخت الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ اور ملت نیچریہ میری طرف منسوب کرتے ہیں۔اور مذہب کا انقلاب دینے والا قرار دیتے ہیں۔اور اسی سبب سے مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔میں ان باتوں سے کچھ ناراض نہیں ہوں،کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے اس مطلب پر غور نہیں فرمایا ہے۔ آپ کو یہ الفاظ فرمانے ا س وقت مناسب تھے۔جب کہ میری کوئی تحریر یا تقریر اسلام کے بر خلاف دیکھی ہوتی یا اسلام پر میں نے اعتراضات وارد کیے ہوتے۔حالانکہ جب میری تمام تحریر وتقاریر کا منشاء اور قال یہ ہے کہ جو اعتراض معترضوں نے اور مخالف مذہب والوں نے اسلام پر کیے ہیں۔وہ درحقیقت اسلام پر وارد نہیں ہوتے۔تو ایسی حالت میں حامی اسلام ہو یا ملحد ومرتد۔ فرض کرو میری تمام تحریریں غلط سہی۔مگر میں اپنی اس تحریر سے جب بریت اسلام کی معترضین کے اعتراضوں سے اپنی دانست میں ثابت کرتا ہوں تو آپ کو ایسے الفاظ ایک مسلمان حامی اسلام کی نسبت کہنے کیوں کر زیبا ہیں۔ھاں البتہ یہ آپ فرما سکتے ہیں کہ غلط اصولوں پر جواب دیا ہے۔ جواب دینے میں غلطی کی ہے۔مگر اس مجیب کو دہریہ ونیچرل اسٹ کیوں کر فر ما سکتے ہیں۔ مثلا کوئی شخص ایک نہایت خوب صورت کی نسبت یہ کہتا ہے کہ وہ کالا تل جو اس کے چہرہ پر ہے۔اس سے وہ چہرہ نہایت بد صورت ہو گیا ہے۔ اب دو شخص اس برائی کو رفع کرنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ایک شخص نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ اس خوب صورت چہرے پر کالا تل ہے ہی نہیں۔اور دوسرے شخص نے اس بات کو تو تسلیم کیا کہ تل تو ہے۔مگر یہ بات ثابت کرنا چاہی کہ اس تل سے اس کے حسن کو اور زیادہ خوبی اور چہرہ کو نہایت ہی خوب صورتی ہو گئی ہے۔پس اب ان دونوں باتوں میں سے کس شخص کو آپ اس خوب صورت چہرہ کا دشمن کہیں گے۔اور بد خواہ قرار دیں گے۔غالبا دونوں شخصوں کو۔ اس معترضین نے جو عیب لگایا ہے۔اس کو رفع کرنے والا سمجھیں گے۔پس یہی حال میرا اور میرے مخالفین اسلام کی نسبت ہے۔ میری یہ رائے ہے کہ علوم جدیدہ ھندوستان میں اور تمام اسلامی ملکوں میں روز بروز پھیلتے جاویں گے۔اگر کوئی ہزار تدبیریں ان کے روکنے کی کرے۔رک نہیں سکتے۔اور یہ بھی میں اپنی رائے میں (خواہ وہ غلط ہو یا سہی۔)یہ بات کچھ نئی نہیں ہے۔ جب مسلمانوں میں فلسفہ یونانی نے رواج پایا تو اس وقت بھی علمائے اسلام کو یہی کرنا پڑا کہ یا تو حکمت یونان کے مسئلہ کو جو مخالف اسلام تھا باطل کیا یا مسائل اسلام کو مطابق حکمت یونان کر دکھایا۔اور ایسا کرنے میں رکیک رکیک اور ضعیف ضعیف تاویلوں کے بھی مرتکب ہوئے جیسے کہ شاہ عبد العزیز صاحب نے کل فی فلک یسبحون کی تفسیر میں کی ہے۔ وقس علیٰ ھذا۔ میں یہ سمجھا ہوں کہ وہی زمانہ بلکہ اس سے بھی زیادہ مشکل اب آگیا ہے۔اور میں فرض سمجھتا ہوں کہ جو لوگ لکھے پڑھے ہیں (میں اپنے تئیں خود کو لکھے پڑھوں میں نہیں سمجھتا ہوں۔)وہ ھال کے علوم جدیدہ کا مقابلہ کریں۔اور اسلام کی حمایت میں کھڑے ہوں۔اور مثل علمائے سابق کے یا تو مسائل حکمت جدید کو باطل کر دیں یا مسائل اسلام کو ان سے مطابق کر دیں کہ اس زمانہ میں صرف یہی صوت حمایت اور حفاظت اسلام کی ہے۔ ان خیالات کے باعث میں مذہب اسلام کے مسائل سے بحث کرتا ہوں، اور جو مسائل حکمت جدید کا میری رائے میں تردید کے قابل نہیں ہے۔ تو مذہب اسلام کے مسئلے کو تطبیق دیتا ہوں۔اب فرض کرو کہ میں نے اس تطبیق میں بہ سبب اپنی جہالت وبے علمی کے غلطی کی ہو۔مگر ایسا شخص جو بتمامہ حمایت اسلام میں مصروف ہو ان الفاظ کا مستحق ہے۔جو آپ سا متین آدمی (جس پر قوم کو فخر کرنا چاہیئے۔اور قوم کو اس سے بہبودی کی امید کرنا چاہیئے۔)ارشاد فرماتا ہے۔ آپ خیال فرمایئے کہ میری رائے میں یہ مسئلہ حکمت جدید کا کہ ’’تمام کواکب کرامت معلق ہیں فضائے بسیط میں۔‘‘ایسا مستحکم ہے کہ اس کی تردید نہیں ہو سکتی۔فرض کرو کہ میرا ایسا یقین کرنا فی نفسہ غلط ہو۔مگر مجھے یقین ہے کہ اب میں صرف بنظر حمایت اسلام یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید سے بھی آسمان مجسم محیط اطراف عالم کا ہونا ثابت نہیں۔فرض کرو کہ میرا یہ قول ہی فی نفسہ درست نہ ہو۔مگر جس منشاء سے میں نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے۔میں مشیت قرآن ومصدق و حامی اسلام ہوں،یا نیچرل اسٹ یا مرتد؟۔ اگر خدا نے آپ کو زیادہ علم دیا ہے تو آپ اس مسئلہ حکمت جدید کی تردید کر کے آسمان محیط عالم کو ثابت کریں۔اور قرآنمجید کی تصدیق فرماویں۔تو میرے اور آپ کے منشاء میں کچھ فرق نہ ہوگا۔پس کس طرح ہم ایک دوسرے پر الفاظ سخت مذہبی کا اطلاق کر سکتے ہیں۔ یا میری سمجھ میں کسی وجود خارجی غیر محسوس کا مغوی الانسان ہونا محلات سے ہے۔ میں اس مسئلہ کا حل اس طرح پر کرتا ہوں کہ قرآن مجید سے بھی اس کا وجود خارج من الانسان ہونا ثابت نہیں۔پس اس میری تحریر کا منشاء گو وہ غلط ہو، حمایت وتصدیق قرآن مجید ہے یا بر خلاف اس کے۔ یا میری رائے میں مخالفین کی وجوہات نسبت برائی غلامی ایسی ہیں جو رفع نہیں ہو سکتیں۔ میں کہتا ہوں کہ اسلام نے بھی اس برائی کو مٹا دیا ہے۔ پس یہ کہنا حمایت اسلام پر مبنی ہے یا اس کی مخالفت پر مبنی ہے۔ میں نے دیکھا کہ شیعوں کا اعتراض جو حدیث قرطاس کے معاملہ میں حضرت عمر پر ہے۔بعض لوگوں نے اس حدیث کو تسلیم کر کے اس کا جواب دیا ہے۔اور بعضوں نے اس حدیث سے ہی انکار کیا ہے۔پس ان میں سے کوئی مخالف حضرت عمر کا قرار پا سکتا ہے۔ پس اب آپ ان باتوں پر خیال فرما کر ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی نسبت اور میری نسبت جو چاہیں رائے قائم کر لیں۔ مگر اتنا ضرور یاد رکھیں کہ بہت جلد زمانہ آنے والا ہے۔جو لوگ سمجھیں گے کہ میری کتاب خطابات احمدیہ اور میرا ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کو فرماویں۔مگر مدرستہ العلوم کی کمیٹی میں شریک ہو جاویں اور للہ فی اللہ مسلمانوں کی بھلائی پر کوشش فرماویں۔آپ کے سبب سے مسلمانوں کا بہت فائدہ ہوگا۔اور کمیٹی میں بھی آپ عمدہ تجویزیں بتلا سکیں گے،پس تمام خیالات کو دور کیجیے اور دین ودنیا کی خوبی حاصل فرمایئے،زیادہ بہ جز تسلیم کے اورکیا عرض کروں۔ والسلام راقم سید احمد ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End