اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید مذہبی و اسلامی مضامین حصہ اول جزو اول مرتبہ مولانا محمد اسماعیل ، پانی پتی مقدمہ مقالات سر سید (نوشتہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی) سر سید کی تصانیف اور مقالات سرسید کے متعدد عظیم الشان کارناموں میں سے ان کی ادبی خدمات کو نہایت نمایاں حیثیت حاصل ہے ۔ انہوںنے سولہ سترہ برس کی عمر میں قلم سنبھالا اور وفات تک برابر لکھتے رہے۔ اس طویل عرصے میں انہوں نے کئی اخباروں کی ایڈیٹری بھی کی اور مختلف موضوعات پر بہت سی کتابیں بھی تصنیف اور تالیف کیں دوسروں کی کتابیں بھی تصحیح کے بعد شائع کیں مگر سرسید کی ادبی حیثیتوں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلیٰ مضمون نگار تھے اور انہوںنے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق بڑی محنت و کاوش اوربڑی لیاقت و قابلیت سے لکھے اوراپنے پیچھے ایک عظیم الشان ذخیرہ نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا چھوڑ گئے ۔ اس کے علاوہ بہت سی مستقل تصانیف بھی ان کی یادگا ر ہیں جن کی فہرست حسب ذیل ہے: ۱۔ ’’جام جم‘‘ : ہندوستان کے سلاطین مغلیہ کی تاریخ فارسی میں مطبوعہ ۱۸۴۰ئ۔ ۲۔ ’’انتخاب الاخوین‘‘: قوانین دیوانی متعلقہ منصفی کا خلاصہ مطبوعہ ۱۸۴۱ئ۔ ۳۔ ’’جلاہ القلوب بذکر المحبوبؐ‘‘: قدیم طرز کا ایک مولود مطبوعہ ۱۸۴۳ئ۔ ۴۔ ’’تحفہ حسن‘‘ : تحفہ اثنا عشریہ کے دو بابوں کا اردو ترجمہ مولفہ ۱۸۴۴ئ۔ ۵۔ ’’’تسہل فی جر الثقیل‘‘: علم جر الثقیل کے متعلق ایک فارسی رسالے کا ترجمہ مطبوعہ ۱۸۴۴ئ۔ ۶۔ ’’آثا ر الصنادید‘‘: دھلی کی تاریخی عمارات کا حال‘ مطبوعہ ۱۸۴۷ئ۔ ۷۔ ’’ترجمہ فیصلہ جات صدر شرقی و صدر غربی‘‘: مقدمات کے متعلق اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے مرتبہ ۱۸۴۹ئ۔ ۸۔ ’’کلمۃ الحق‘‘ : پیری مریدی کے مروجہ طریقوں کی مذمت میں مولفہ ۱۸۵۰ئ۔ ۹۔ ’’رسالہ راہ سنت و رد بدعت‘‘: اہل حدیث کے مشرب کے موافق سنت کی تائید اور ’’بدعت‘‘ کے رد میں مصنفہ ۱۸۵۰ئ۔ ۱۰۔ ’’نمیقہ‘‘ : متعلق تصوف بہ صورت ایک خط بہ زبان فارسی‘ مطبوعہ ۱۸۵۲ئ۔ ۱۱۔ ’’سلسلۃ الملوک‘‘: راجگان و شاہان دہلی کی تاریخ بہ صورت جدول ‘ مطبوعہ ۱۸۵۲ئ۔ ۱۲۔ ’’ترجمہ کیمیائے سعادت‘‘: امام غزالی کی مشہور کتاب ’’کیمیائے سعادت‘‘ کی ابتدائی تین فصلوں کا اردو ترجمہ محررہ ۱۸۵۳ئ۔ ۱۳۔ ’’تاریخ ضلع بجنور‘‘: اس تاریخ کا مکمل مسودہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں تلف ہو گیا مولفہ ۱۸۵۷ئ۔ ۱۴۔ ’’تاریخ سرکشی بجنور‘‘: ہنگامہ ۱۸۵۷ء کے موقع پر بجنور میں جو حوادث پیش آئے ‘ ان کی مفصل روئیداد ‘ مطبوعہ ۱۸۵۸ئ۔ ۱۵۔ ’’رسالہ اسباب بغاوت ہند‘‘: ۱۸۵۷ء کی بغاو ت کے اسباب و علل مطبوعہ ۱۸۵۹ئ۔ ۱۶۔ ’’گزارش در باب تعلیم اہل ہند‘‘: ہندوستانیوں کی ابتدائی تعلیم کے متعلق گورنمنٹ کو کچھ مشورے اردو اور انگریزی میں‘ مطبوعہ ۱۸۵۹ئ۔ ۱۷۔ ’’تحقیق لفظ نصاریٰ‘‘: ’’نصاریٰ‘‘ کے متعلق انگریزوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے یہ رسالہ ۱۸۵۹ء میں سرسید نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع کیا۔ ۱۸۔ ’’تبیین الکلام بی تفسیر التوراۃ و الانجیل علیٰ ملۃ الاسلام: (در دو جلد) توریت اور انجیل کی تفسیر اور قرآن و حدیث سے اس کی تطبیق مولفہ ۱۸۶۲ئ۔ ۱۹۔ ’’سیرت فریدیہ ‘‘ : سر سید کے نانا خواجہ فرید الدین وزیر اکبر شاہ ثانی کی سوانح عمری مطبوعہ ۱۸۶۴ئ۔ ۲۰۔ ’’ترجمہ فوائد الافکار فی اعمال الفرجار‘‘: علم ہیئت کے متعلق مطبوعہ ۱۸۶۴ئ۔ ۲۱۔ ’’قول متین در ابطال حرکت زمین‘‘: حرکت زمین کے مسئلے کی تردید قدیم خیالات کے موافق ‘ مطبوعہ ۱۸۶۵ئ۔ ۲۲۔ ’’رسالہ علاج ہیضہ‘‘: بہ موجب اصول ہومیو پیتھک مطبوعہ ۱۸۶۸ئ۔ ۲۳۔ ’’احکام طعام اہل کتاب‘‘: یہود و نصاریٰ کے ساتھ کھانے پینے کے متعلق شریعت اسلامیہ کے احکام مطبوعہ ۱۸۶۸ئ۔ ۲۴۔ ’’سر نامہ مسافران لندن‘‘: سفر لندن کے حالات اور وہاں کی معاشرت‘ مطبوعہ ۱۸۶۹ء (در اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ)۔ ۲۵۔ ’’الخطبات الاحمدیہ فی العرب و السیرۃ المحمد یہ ‘‘: سر ولیم میور کی کتاب ’’لائف آف محمد‘‘ کا جواب۔ انگریزی در ۱۸۷۰ء ۔ اردو در ۱۸۸۷ئ۔ ۲۶۔ ’’ہندوستان کا طریقہ تعلیم : (انگریزی) ہندوستان میں رائج انگریزی طریقہ تعلی پر اعتراضات مطبوعہ ۱۸۷۰ء ۲۷۔ ’’ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب پر ریویو‘‘: مسلمانوں کے خلاف ڈاکٹر ہنٹر کی زہریلی کتاب ’’انڈین مسلمانز‘‘ کا جواب انگریزی میں مطبوعہ ۱۸۷۱ئ۔ ۲۸۔ ’’النظر فی بعض مسائل الامام الغزالی‘‘: حضرت امام غزالی کے بعض رسائل و مسائل پر تنقید مطبوعہ ۱۸۸۰ء ان کے مقالات پر تبصرہ تصانیف سے قطع نظر ان کے بیش بہا مضامین لٹریچر کے لیے مایہ ناز اورعوام و خواص ک لیے بے حد مفید ہیں۔ ان سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور نظر میں وسعت پیدا ہوتی ہے ۔ مذہبی مسائل اور تاریخی عقدے حل ہوتے ہیں۔ اخلاق و عادات کی اصلاح کے لیے بھی وہ بے نظیر ہیں سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے نہایت فائدہ مند ہیں: بہت سے مشکل سوالوں کے تسلی بخش جواب بھی ان میں موجود ہیں۔ سرسید کے ذاتی عقائد اور ا ن کے مذہبی خیالات کے متعلق بھی ان سے کافی روشنی ملتی ہے (جو اپنے زمانے میں زبردست اعتراضات کا نشانہ بنے رہے ہیں) ان میں علمی حقائق بھی ہیں اورادبی لطائف بھی ان میں سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی ۔ ان میں اخلاق بھی ہے اور موعظت بھی ان میں مزاح بھی ہے اور طنز بھی ان میں درد بھی ہے اور سوز بھی ‘ ان میں دل چسپی بھی ہے اوردل کشی بھی۔ ان میں نصیحت بھی ہے اور سوزش بھی غرض سرسید کے یہ مضامین و مقالات ایک سدا بہار گلدستہ ہیں جن میں ہر رنگ اورہر قسم کے خوش بو دار پھول موجو د ہیں۔ یہ مضامین سرسید نے جن اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً لکھے وہ مدت ہوئی عام نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے اورکہیں ان کا سراغ نہیں ملتا تھا۔ پرانے اخبارات کے فائل کون سنبھال کر رکھتا ہے۔ سرسید کی زندگی میں کسی کو اس کا خیال نہ آیا کہ ان تمام بیش قیمت جواہرات کو جمع کر کے فائدہ عام ک لیے شائع کر دے۔ صرف دو ایک نہایت ہی مختصر مجموعے شائع ہوئے مگر وہ بھی بے حد تشنہ اورنامکمل جو نہ ہونے کے برابر تھے۔ سرسید کے انتقال کے بعد نصف صدی کا طویل زمانہ پورا گزر گیا مگر کسی کو ان مضامین کے جمع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا۔ پچاس پر بارہ سال اور بھی گزر گئے مگر کوئی اس طرف متوجہ نہ ہوا۔ اب آ کر مجلس ترقی ادب کو ان بیش بہا بکھرے ہوئے جواہرات کے جمع کرنے کا خیال آیا۔ مجلس نے ان جواہرات کو ڈھونڈنے اور ان کو ایک سلک میں منسلک کرنے کے لیے مجھ ناچیز کا انتخاب کیا۔ پرانے اخبارات اور قدیم رسالوں کے فائلوں کی تلاش میںجگہ جگہ کے چکر لگانے اور فراہمی کے بعد ان کے بوسیدہ اور دریدہ اوراق کو غور و احتیاط سے پڑھنے کے بعد ان میں سے مطلوبہ مواد فراہم کرنا بڑے بکھیڑے کا کام تھا ۔ مگر چونکہ طبیعت شروع ہی سے دقت طلب اور مشکل پسند واقع ہوئی ہے۔ اس لیے میں نے یہ ذمہ دار ی قبول کر لی اور آج میںاپنی عرصہ دراز کی محنت و کاوش کے شیریں ثمرات ناظرین کرام کی خدمت میں پیش کر رہاہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مجلس ترقی ادب کو اس وقت اس ضروری اور اہم کام کا خیال نہ آتا تو پھر یہ نادر و نایاب مضامین کبھی جمع نہ ہو سکتے ‘ جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ سرسید کے علمی اور ادبی کارناموں کا ایک نہایت ہی بیش بہا اور اہم حصہ قوم کی غفلت کے باعث ضائع ہو جاتا۔ پاکستان و ہندوستان کے تمام علمی طبقے کو اس عظیم ادبی خدمت پر مجلس ترقی ادب کا شکر گزار ہونا چاہیے جس نے یہ ادبی جواہر ریزے بڑی معقول رقم خرچ کر کے نہایت نفاست کے ساتھ شائقین علم کی خدمت میں پیش کیے ۔ یہ مضامین اور مقالات پیش کرتے ہوئے ضروری ہے کہ سرسید کی ادبی حیثیت اوران کی مقالہ نگاری کی خصوصیات پر ایک معمولی تبصرہ کیاجائے۔ تاکہ ناظرین کرام کو اس عظیم رہنما کی اس مخصوص حیثیت سے بھی پوری واقفیت ہو جائے اور وہ ان مقالات کی افادیت سے اچھی طرح روشناس ہو سکیں۔ سرسید کی ادبی حیثیت پر اب تک بہت ہی کم لکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ مندرجہ ذیل سطور سے اس کمی کی بہت حد تک تلافی ہو سکے گی۔ سرسید کو لکھنے پڑھنے کا چسکا شروع ہی سے تھا انہوںنے بہت چھوٹی عمر میں بڑے شوق کے ساتھ لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا اور سترہ برس کی عمر میں وہ اپنے بھائی کے پرچے میں جس کا نام ’’سید الاخبار‘‘ تھا روانی کے ساتھ مختلف موضوعات پر مضامین لکھنے اور اخبار کو ایڈٹ کرنے لگے تھے۔ انہوںنے ہوش سنبھالتے ہی مضمون نگاری شروع کی اور بہت جلد ملک کے سب سے بڑے مقالہ نگار بن گئے۔ اگرچہ ان کی زندگی بڑی مصروف تھی اور ان کو بہت سے ضروری فرائض انجام دینے پڑتے تھے مختلف رسالوں میں وہ مختلف مصروفیتوں میں بہت زیادہ مشغول رہے۔ مگر کسی حالت میں بھی قلم ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ مضمون نویسی انکا سب سے زیادہ محبوب مشغلہ تھا۔ اور وہ اس مشغلے میں بڑا اطمینان او ر سکون محسوس کرتے تھے۔ وہ خود کہتے ہیں ’’جیسا تصنیف و تالیف میں میرا جی لگتا ہے ایسا کسی اور کام میں نہیں لگتا‘‘۔(’’حیات جاوید‘‘ صفحہ ۴۸۲) اس کی تشریح شمس العلماء مولانا حالی ان الفاظ میں فرماتے ہیں: ’’رنج میں ‘ خوشی میں‘ صحت میں‘ خلوت میں‘ جلوت میں اس مشغلے سے ان کا جی نہیں اکتاتا تھا۔ گرمی کی دوپہروں میں جب کہ آدمی ضرور تھوڑ ا بہت آرام کر لیتاہے یہ شخص ہمیشہ تصنیف و تالیف میں مصروف پایا جاتا تھا۔ بیمار ی کی حالت میں بھی ان کو کبھی نہیں دیکھا کہ دوپہر کو پلنگ پر جا کر کمر سیدھی ہو ۔ بارہا ایسا اتفاق ہوتا تھا کہ علالت یا کسی اور وجہ سے رات کو نیند اچاٹ ہو گئی اور انہوںنے میز کرسی پر بیٹھ کر کسی مضمون کے لکھنے میں صبح کر دی۔ جہاں اور لوگ بیماری کی راتیں ہائے وائے کرکے بسر کرتے ہیں۔ وہاں یہ شخص اس دماغ سوز مشغلے سے دل بہلاتا تھا‘‘ (حیات جاوید صفحہ ۴۸۲) سرسید کی مضمون نویسی کی تین نمایاں اور اہم خصوصیات قابل ذکر ہیں: (الف) پہلی یہ کہ دوستوں اور ملاقاتیوں کا کتنا ہی ہجومہو کام کی کتنی ہی کثرت ہو پاس کتناہی شورمچ رہا ہو قریب بیٹھے ہوئے لوگ کتنے ہی زور زور سے باتیں کر رہے ہوں ملازم اور ماتحت بار بار آ کر خواہ کچھ پوچھ رہے ہوں غرض کتنی ہی مصروفیت ان کو ہو یا کیسے ہی جھگڑے اورجھمیلے کے کاموں میں وہ پھنسے ہوئے ہوں مگر ان میں سے کوئی بات بھی ان کی توجہ کو منتشر نہیں کر سکتی تھی اور وہ بڑے سکون کے ساتھ مضمون لکھنے میں مصروف رہتے تھے۔ (ب) دوسری خصوصیت ان کی یہ تھی کہ جو تحقیقی یا مذہبی یا تاریخی مضمون وہ لکھنا چاہتے تھے اس کے تمام پہلو پہلے سے ان کے زہن نشین ہوتے تھے۔ جو جو اعتراضات ان کے اس مضمون پر وارد ہو سکتے تھے ان سب کے جوابات وہ پہلے سے سوچ لیتے تھے اور ان کو اپنے مضمون میں عمدگی کے ساتھ بیان بھی کر دیتے تھے۔ مضمون کا جو ڈھانچہ وہ پہلے سے بنا لیتے تھے اسے بعد میں نہیں بدلتے تھے جتنے حوالوں کی اس مضمون کے لیے ضرورت ہوتی تھی وہ پہلے ہی بڑی عمدگی کے ساتھ انکے ذہن میں محفوظ ہوتے تھے۔ غرض جس طریقے سے وہ مضمون لکھتے تھے وہ انہی کے لیے خاص تھا عام مقالہ نگاروں میں یہ بات دیکھنے میں نہیں آتی وہ بار بار اپنے لکھے ہوئے فقرو ںکو کاٹتے اور بار بار مضمون کی ترتیب کو بدلتے رہتے تھے۔ چنانچہ میں نے ایک بڑے فاضل ادیب کو دیکھا جو پانچ زبانیںجانتے تھے اور پچاس سے زیادہ کتابوں کے مصنف اور مترجم تھے۔ وہ اپنے مسودے کو بارہ بارہ تیرہ تیرہ مرتبہ بدلتے یہاں تک کہ پتھر پر کاپی جمنے کے بعد بھی وہ اپنے مضمون میں ترمیم کرتے رہتے تھے۔ (ج) تیسری خصوصیت ان کی مضمون نگاری کی یہ تھی کہ جتنی زبردست قوت استدلال ان میں تھی وہ عام مضمون نگاروں میںبہت ہی کم ہوتی ہے۔ سرسید کی مضمون نویسی اور مقالہ نگاری کو آسانی کے ساتھ دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ۱۔ طرز قدیم یا ابتدائی دور۔ ۲۔ طرز جدید یاآخری زمانہ۔ جس دور میں انہوںنے آنکھ کھولی تھی اس وقت ادب اور زبان پر مسجع اورمقفیٰ عبارت کی حکومت تھی دور ازکار تشبیہیں مبالغہ آمیز تحریریں ‘ مشکل فقرے ‘ ادق محاورے اس وقت مضمون نگاری اور ادبیت کی شان سمجھے جاتے تھے اور ان پر فخر کیا جاتا تھا۔ سرسید بھی اس وقت اسی رنگ میں رنگین تھے اس وقت تک عام روش سے ہٹ کر انہوں نے اپنا علیحدہ رستہ نہیں بنایا تھا۔ ’’جلاء القلوب‘‘ اور ’’آثا ر الصنادید‘‘ اور ’’سلسلۃ الملوک‘‘ ان کی اسی وقت کی یادگاریںہیں سرسید کے طرز قدیم کی نگارش کے بہت سے عمدہ نمونے ان مقالات اورکتابوں میں آسانی سے مل جاتے ہیں۔ اس کے بعد جلد ہی وہ اس طرز نگارش سے اکتا گئے جس کو انہوںنے اس وقت کے ماحول کے مطابق شوق کے ساتھ شروع کیا تھا۔ اب انہوں نے سادہ صاف اور آسان عبارت میںاپنے مافی الضمیر کو بیان کرنا شروع کیا ۔ یہ اسلوب غالباً ہنگامہ ۱۸۵۷ء کے بعد اختیار کیا ہے اور بالآخر اس طرز تحریر کے موجد اور بانی ہوئے جو آج رائج ہے۔ اپنی اس اولیت اور اصلاح کا سرسید صاحب خود ان الفاظ میں ذکر فرماتے ہیں: سرسید کا اپنا بیان ’’جہاں تک ہم سے ہو سکا ہم نے اردو زبان کے علم ادب کی ترقی میں اپنے ان ناچیز پرچوں (تہذیب الاخلاق) کے ذریعے سے کوشش کی۔ مضمون کے اداء کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا ۔ جہاں تک ہماری کج مج زبان نے یاری دی الفاظ کی درستی اور بول چال کی صفائی پر کوشش کی۔ رنگینی عبارت سے جو تشبیہات اور استعارات خیالی سے بھری ہوتی ہے اور جس کی شوکت صرف لفظوں ہی لفظوںمیںرہتی ہے اورلد پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا پرہیز کیا ۔ تک بندی سے جو اس زمانے میں مقفیٰ عبارت کہلاتی ہے۔ ہاتھ اٹھایا جہاں تک ہو سکا سادگی عبارت پر توجہ کی اس میں کوشش کی کہ جو کچھ لطف ہووہ صرف مضمون کے اداء میں ہو۔ جو اپنے دل میں ہو وہی دوسرے کے دل میں پڑے تاکہ دل کی نکلے اور دل میںبیٹھے۔ ہم کچھ نہیںکہہ سکتے کہ ہماری یہ کوشش کہاں تک کارگر ہوئی اورہمارے ہم وطنوںن اس کو کس قدر پسند کیا مگر اتنی بات ضرور دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے خیالات میں ضرور تبدیلی آ گئی ہے اوراس کی طرف لوگ متوجہ بھی معلوم ہوتے ہیں۔ اخباروںکی عبارتیں بہت عمدہ اور صاف ہوتی جاتی ہیں وہ پہلا سا ناپسند طریقہ ادائے مضمون کا بالکل چھوٹتاجاتا ہے۔ بھاری بھاری لفظوں اور موٹے موٹے لغتوں سے اردو زبان کا خون نہیںکیا جاتا صفائی اور سادگی روز بہ روز عبارتوں میں بڑھتی جاتی ہے۔ خیالات بھی بالکل بدلے ہوئے ہیں۔ بہت کم اخبار ایسے ہوں گے جن میںہر ہفتے کوئی نہ کوئی آرٹیکل عمدہ و سلیس عبارت میں کسی نہ کسی مضمون پر نہ لکھا جاتا ہو۔ نئی اردونے درحقیقت ہماری ملکی زبان میں جان ڈال دی ہے ۔ میر و درد اور ظفر نے اردو اشعار میں جو کچھ سحر بیانی کی ہو کی ہو۔ مومن دہلوی نے کوئی کہانی شستہ بول چال میں کہہ دی ہو کہہ دی ہو۔ جو اس سے زیادہ فصیح و دل چسپ و بامحاورہ نہ ہو گی جو ایک پوپلی بڑھیا بچوںکے سلاتے وقت ان کو کہانی سناتی ہے۔ مضمون نگاری دوسری چیز ہے جو آج تک اردو زبان میں نہ تھی۔ یہ اسی زمانے میں پیدا ہوئی اور ابھی نہایت بچپن کی حالت میں ہے۔ اگر ہماری قوم اس پر متوجہ رہے گی اور ایشیائی خیالات کو نہ ملائے گی جو اب حد سے زیادہ اجیرن ہو گئے ہیں تو چند ہی روز میں ہماری ملکی تحریریں بھی میکالے اور اڈیسن کی سی ہو جائیں گی‘‘۔ (’’تہذیب الاخلاق ‘‘ بابت یکم شوال ۱۲۹۲ھ)۔ مندرجہ بالا فقرات میں سرسید نے وہ سب باتیں بیان کر دی ہیں جو ا کی طرز تحریر اوران کے مضامین کا طغرائے امتیاز ہیں اور جن کی بہ دولت وہ جائز طور سے ’’مجدد ادب اردو‘‘ کے لقب کے مستحق ہیں۔ جو اثراردو لٹریچر پر ان کے اداز بیان سے پڑا ہے اس کو بھی یہ طور فخر سرسید نے اپنے اس آرٹیکل کے آخر میں درج کر دیا ہے۔ ابتدا میںجو کچھ سرسید نے لکھا چونکہ وہ اس وقت کی عام روش کے مطابق تھا لہٰذا اس طرز تحریر میں کوئی خاص بات نہیں مگر ہاں بعد کے ایام میںسرسید نیجو عام فہم سلیس اور آسان عبارت کا طرز اختیار کیا اور مختلف موضوعات پر سینکڑوں مضامین اور مقالے نہایت روانی کے ساتھ لکھے وہ حقیقی کارنامی سرسید کا ہے۔ اس کارنامے کی بدولت بہ قول مولانا حالی ان کو ’’فادر آف اُردو‘‘ کہنا کچھ مبالغہ نہیں ہے۔ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے بعد سرسیدنے جو عبارت آرائی کو ترک کر دیا اور سلاست زبان اور روانی بیان کی طرف متوجہ ہوئے تو اس کی وجہ دریافت کرنی مشکل نہیں۔ ۱۸۵۷ء کے بعد سرسید کا خطاب عوام الناس سے تھا جو ثقافتی معاشرتی اور سیاسی طور پر تباہ حال ہو چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کو مرصع و مسجع اردو پسند نہیںآ سکتی تھی۔ کہ فقرے کے فقرے ہی پلے نہ پڑتے تھے۔ سرسید چاہتے تھے کہ عوام الناس میں بیداری کی ایک لہر پیدا ہو اور سلیس طرز تحریر مقبول ہو جو ان کی سمجھ میں آئے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ۱۸۵۷ء کے بعد عملاً ایک غیر جانب دار علمی زبان کی بنیاد رکھی جو تشبیہات اور استعارات کی رنگینی سے خالی تھی جس کا مفہوم فوراً ہر کہ و مہ کے ذہن نشین ہو جاتا تھا۔ جو کچھ وہ کہنا چاہتے تھے اس کے لیے سلیس اور رواں زبان ہی کی ضرورت تھی۔ تشبیہ اور استعارے کے چٹخارے یہا ں حلقہ بیرون در تھے۔ انہوں نے ایک ایسی زبان استعمال کی جو ہر مفہو م کے لیے مناسب ذریعہ اظہار تھی اور ساتھ ہی جوش و خروش اورگھن گرج سے بھی خالی تھی۔ سرسید اپنے دور کے سب سے بڑے مضمون نگار اور سب سے اعلیٰ مقالہ نویس تھے۔ ان کی ہر قسم کی بے شمار تحریریں کیا علمی کیا ادبی‘ کیا تاریخی‘ کیا سوانحی‘ کیا اخلاقی ‘ کیا ثقافتی‘ کیا سیاسی ‘ کیا تنقیدی جو ان کی مختلف کتابوں‘ ان کے مختلف رسالوں اور اخباروں اور ان کے بکثرت مکتوبات میں پائی جاتی تھیں ان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس موضوع کے متعلق جو پیرایہ بیان مناسب اور موزوں تھا۔ انہوںنے وہی اختیار کیا ہے۔ قول مولانا حالی سرسیدکے ہاںہر مقام کے مقتضا کے موافق ان کی تحریر کا رنگ خود بہ خود بدل جاتا ہے۔ اگر ان کے علمی و تاریخی مضامین میں دریا کے بہائو جیسی روانی ہے تو مذہبی اور پولیٹیکل تحریروں میںچڑھائو کی تیرانی کا سا زور ہے۔ اعتراضات کے جواب میں متانت اور سنجیدگی ہے اوربے دلیل دعوئوں کے مقابلے میں ظرافت و خوشی طبعی نصیحتیں نشتر سے زیادہ دل خراش اور مرہم سے زیادہ تسکین بخش ہیں۔ غصہ مہربانی سے زیادہ پر لطف ہے۔ اورنفرین آفرین سے زیادہ خوش آئند۔ وہی قلم جو اخلاق کے بیان میں ایک ناصح مشفق کے ہاتھ میں نظر آتاہے وہ عدالت کے فیصلوں میں ایک کہنہ مشق جج کے ہاتھ میں دکھائی دیتا ہے ۔ اور سالانہ رپورٹوںاور جلسوں کی روئیداد وں میںایک تجربہ کار سیکرٹری کے ہاتھ میں معلوم ہوتا ہے‘‘۔ ان کے مضامین کی صف بندی مضامین اور مقالات کے سلسلے میں سرسید مرحوم نے جن مختلف موضوعات اور عنوانات پر مختلف اوقات اور مختلف زمانوں میں حسب ضرورت اور حسب موقع قلم اٹھایا ہے جہاں تک میںنے تلاش اور جستجو کی ہے ان کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: (۱) مذہبی اور اسلامی مضامین (۲) قرآن کریم اور بائبل کی تفسیر کے متعلق مضامین (۳) مناظرانہ رنگ کے مضامین (۴) فلسفیانہ مضامین (۵) علمی اور تحقیقی مضامین (۶) سرسید کے ذاتی مذہبی عقائد اور ان کی تشریحات اور اعتراضوں یا الزاموں کے جوابات (۷) اخلاقی اور مصلحانہ مضامین (۸) تعلیمی اور تربیتی مضامین (۹) معاشرت کی اصلاح کے متعلق مضامین (۱۰) تاریخی مضامین (۱۱) سیاسی مضامین (۱۲) ادبی مضامین (۱۳) سوانحی مضامین (۹۱۴ اخبارات پر تبصرے (۱۵) رسائل پر تنقید (۱۶) کتب پر ریویو (۱۷) فن اخبار نویسی پر خیالات (۱۸) خاص رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘ ‘ کے متعلق مضامین (۱۹) تنقیدی مضامین (۲۰) علی گڑھ کالج کے متعلق مضامین (۲۱) مراسلات اور استفسارات کے جوابات (۲۲) سیاسی حالات اور واقعات حاضرہ کے متعلق اظہار خیال (۲۳) مضامین کے متعلق حکومت ٹرکی (۲۴) بعض متفرق مضامین ۔ سرسید کے ان موضوعات کی فہرست کے بعد اب مجھے یہ دکھانا ہے کہ (۱) ان کے مقالات میں کیا کیا خوبیاں تھیں؟ (۲) ان کے مقالات میں کیا خاص خاص باتیں پائی جاتی تھیں (۳) ان کی تحریروں میں کیا کیا نقائص تھے؟ (۴) ان کی ادبیات کا اثر اردو لٹریچر پر کیا پڑا؟ (۵) اس سے ادیبوں نے کیا فیض پایا؟ میں یہاں یہ تمام امور انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کروں گا کیوںکہ تفصیل کی گنجائش نہیں صرف اشارے ہی لکھوں گا جو یہ ہیں : مضامین کی خصوصیات (۱) سرسید کے مضامین مسلمانوں کی سچی ہم دردی سے لب ریز ہوتے ہیں جن میں ریاء دکھاوا اورنمائش قطعاً نہیںہوتی۔ (۲) اپنے دوسرے دور کی مضمون نگاری کے ایام میں سرسید سیدھے اور صاف الفا ظ میں اپنا مطلب بیان کرتے ہیں بہت حد تک مشکل الفاظ اورپیچیدہ عبارات سے پرہیز کرتے ہیں تاکہ ان کا مافی الضمیر لوگوں کی سمجھ میںآسانی سے آ جائے۔ (۳) ان کی عبارت عموماً دل نشیں اور موثر ہوتی ہے۔ (۴) مضامین میں بالعموم عربی فقرات‘ قرآنی آیات اور احادیث نبوی کا بہ کثرت استعمال کرتے ہیں۔ ساتھ ہی فارسی اشعار ضرب الامثال اور محاورات بھی کم نہیں ہوتے۔ (۵) اپنے مضامین میں ہر جگہ اگرچہ مغربی تہذیب اور یورپی شائستگی کے گن گاتے ہیں مگر قدیم مشرقی طرز معاشرت کا بھی خاص لحاظ رکھتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی بے ہودہ مراسم اور جاہلانہ معتقدات کے سخت مخالف بلکہ دشمن ہیں اور مضامی میں ان کا در ہر جگہ بڑی سختی کے ساتھ کرتے ہیں۔ (۶) سرسید کے پیش تر مضامین نہایت دل سوزی کی نصیحتوں اور بلند ترین اخلاقی نکات سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔یہ حکیمانہ نکات ان کے مضامین میں اس قدر زیادہ یں کہ اگر انکو ان کی تمام تالیفات اور اخباروں اور رسالوں سے لے کر ایک جگہ جمع کیا جائے تو وہ ہماری درستی اخلاق کیلیے بہترین دستور العمل بن سکتے ہیں۔ (۷) جس موضوع پر وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اس کے لیے مناسب پیرایہ بیان اختیار کرتے ہیں۔ (۸) سرسید کے مضامین میں بالعموم فقرے چھوٹے چھوٹے اور پیرے مختصر ہوتے ہیں تاکہ مضمون پڑھتے ہوئے قاری کی طبیعت نہ گھبرائے ۔ مگر اس کے ساتھہی یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ بعض بعض جگہ ان کے فقرے طویل اور پیچ دار بھی ہوتے ہیں اور عبارات مغلق ‘ مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ (۹) سرسید اپنے مضامین میں جو کچھ بیان کرنا چاہتے ہیں اس کو دلائل اور براہین کے ساتھ پیش کرتے ہیں اٹکل پچو باتیںکرنے کے عادی نہیںالبتہ اپنی تفسیر القرآن میں انہوںنے بعض آیات کی تشریح ایسی کی ہے جس کو مولانا حالی جیسے سرسید کے مداح بھی نامناسب اور غیر مصلحت آمیز سمجھتے ہیں۔ (۱۰) ان کے مضامین کا انداز اکثر نہایت خطیبانہ ہوتا ہے۔ اور قوم کی فلاح و بہبود کے جذبات سے بھرپور۔ دیکھیے کس درد کس سوز اور کس قدر خلوص کے ساتھ ایک جگہ فرماتے ہیں’’اے میرے پیارے نوجوان اے میری قوم کے بچو اپنی قوم کی بھلائی کی کوشش کرو ہمارا زمانہ تو اخیر ہے۔ اب خدا سے یہ دعا ہے کہ کوئی نوجوان اٹھے اور اپنی قوم کی بھلائی میں کوشش کرے‘‘۔ (۱۱) نصیحت اور موعظت کے وقت بھی اکثر اوقات عبارت اتنی دلچسپ اور پر لطف لکھتے ہیں کہ آدمی مزے لے لے کر پڑھتا ہے مثلا ایک اخلاقی مضمون بحث و تکرار کی تمہیداس طرح اٹھاتے ہیں: ’’جب کتے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بری نگاہ سے آنکھیں بدل بدل کر دیکھنا شروع کرتے ہیں ۔ پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز ان کے نتھنوںسے نکلنے لگتی ہے پھر تھوڑا سا جبڑا کھلتا ہے اور دانت دکھائی دینے لگتے ہیں اورحلق سے آواز نکلنی شروع ہو جاتی ہے ۔ پھر باچھیں چر کر کانوںسے جا لگتی ہیں ۔ اورناک سمٹ کر ماتھے پر چڑھ جاتی ہے ڈاڑھوں تک دانت باہر نکل آتے ہیں۔ منہ سے جھاگ نکل پڑتے ہیں اورعنیف آواز کے ساتھ اتھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں۔ اس کا ہاتھ اس کے گلے میں اور اس کی ٹانگ اس کی کمر میں ا س کا کان اس کے منہ میں اور اس کا ٹینٹوا اس کے جبڑے میں اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو بھنبھوڑا۔ جو کمزور ہوا دم دبا کر بھاگ نکلا ۔ نامہذب آدمیوں کی مجلس میں بھی آپس میں اسی طرح پر تکرار ہوتی ہے۔ پہلے صاحب سلامت کر کر آپس میں مل بیٹھتے ہیں ۔ دھیمی دھیمی بات شروع ہوتی ہے۔ ایک کوئی بات کہتا ہے دوسرا بولتا ہے واہ یوں نہیںیوں ہے۔ وہ کہتا ہے واہ تم کیا جانو۔ وہ بولتا ہے تم کیا جانو۔ دونوں کی نگاہ بدل جاتی ہے۔ تیوری چڑھ جاتی ہے ۔ رخ بدل جاتاہے۔ آنکھیں ڈراونی ہو جاتی ہٰں باچھیں چر جاتی ہیں۔ دانت نکل پڑتے ہیں تھوک اڑنے لگتا ہے۔ باچھوں تک کف بھر آتے ہیں۔ سانس جلدی جلدی چلنے لگتا ہے۔ رگیں تن جاتی ہیں۔ آنکھ ناک بھوں ہاتھ عجیب عجیب حرکتیںکرنے لگتے ہیں ۔ عنیف عنیف آوازیں نکلنے لگتی ہیں ۔ آستینیں چڑھا ہاتھ پھیلا اس کی گردن اس کے ہاتھ میں اور اس کی ڈاڑھی اس کی مٹھی میں لپاڈکی ہونے لگتی ہے۔ کسی نے بیچ بچائو کر کر چھڑوایا تو غراتے ہوئے ایک ادھر چلا گیا اور دوسرا ادھر اور اگر کوئی بیچ بچائو کرنے والا نہ ہوا تو کم زور نے پٹ کر کپڑے جھاڑتے سر سہلاتے اپنی راہ لی…‘‘ (۱۲) اپنی قوم کی پستی و فلاکت اور ان کی غربت اور بدحالی کو دیکھ دیکھ کر سرسید کا حساس دل نہایت ہی پژمردہ ہو گیا تھا۔ اسی لیے ان کو مسلمانوں کے تنزل کا نوحہ گانے اور ان کی ابتر حالت کارونا رونے کے سوا اور کوئی کام نہ رہا تھا۔ مگر کبھی کبھی ان کی فطری زندہ دلی بھی عود کر آتی تھی اور اس وقت وہ ایسے دلچسپ اور ایسے پر لطف مضمون لکھتے تھے کہ پڑھ کر بڑا مزا آتا تھا مثال کے طور پر وہ مضمون دیکھیے جو سرسید نے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں ’’امید کی خوشی ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ اسے نہایت شگفتہ مضمون میں خصوصاً وہ لوری جو ماں اپنے بچے کو دیتی ہے اردو ادب میں ایک شاہکار چیز ہے۔ (۹۱۳ اخباروں اور رسالوں کے ایڈیٹرو کا عام قاعدہ ہوتا ہے کہ جو تعریفی خطوط ان کو موصول ہوتے ہیں ان کو بڑے طمطراق کے ساتھ شائع کرتے ہیں ۔ ایک بلند پایہ علمی و ادبی ماہ نامہ تو اس قسم کے توصیفی خطوط ’’عالم ہمہ افسانہ ما دارد و ماہیچ‘‘ کے عنوان سے مسلسل طور پر باقاعدہ شائع ہوتا تھا مگر سرسید کا یہ انداز نہ تھا۔ جو مضامین ان کی تعریف و توصیف میں آتے تھے وہ ان کو شائع نہیں کرتے تھے ۔ یا تو واپس کر دیتے تھے یا ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے تھے۔ ایسے ہی وہ اس قسم کے مضامین بھی شائع نہیں کرتے تھے جن میں مضمون نگار کا نام لکھا ہوا نہ ہوتا تھا ۔ چنانچہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں ایک جگہ خود فرماتے ہیں: ’’ہمارا دستور نہیں کہ کوئی بے نام مضمون تہذیب الاخلاق میںچھاپیں اورنیز کوئی ایسا مضمون جو ہمارے ذاتی افعال کی حمایت میں ہو ہم کو اپنے پرچہ تہذیب الاخلاق میں چھاپنا پسند نہیں۔ اس لیے کہ من آنم کہ من دانم۔ ہم اس سے زیادہ الزام کے لائق ہیں۔ فرض کرو کہ وہ باتیں ہم میںنہ ہوں مگر ان کے علاوہ اور باتیں ان سے بھی بد تر ہمارے میںموجود ہوں پس ہمارے ذاتی افعال کی حمایت میں کیا فائدہ ہے۔ ہماری تو وہی مثل ہے کہ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘‘۔ مگر بعض اوقات خود سرسید فرضی ناموں سے مضامین لکھا کرتے تھے ۔ ایسے مضامین کے آخر میں وہ اے ڈی یا (ایس ٹی) کے حروف لکھ دیا کرتے تھے او اس کی مقصد کسی کی تنقیص نہیںہوتی تھی۔ بلکہ یہ ہوتا تھا کہ ایک ہی نام ’’سید احمد‘‘ کو پڑھتے پڑھتے لوگ اکتا نہ جائیں۔ (۱۴) سرسید کا قاعدہ تھا کہ اپنے مخالفین کی مخالفت کو اپنے مضامین میں (۱) یا تو مذاق میں اڑا دیتے تھے (۲) یا بے پروائی کے ساتھ ٹھکرا دیتے تھے (۳) یا مخالفت پر رنج و افسوس کا اظہار کرکے خاموش ہو جاتے تھے (۴) مگر بعض اوقات غصہ بھی آ جاتا تھا اس وقت وہ بہت سختی کے ساتھ اپنے مخالفین کا اپنے مضامین میں ذکر کرتے تھے اور ان کے متعلق بہت درشت الفاظ استعمال کرتے تھے ۔ (۱۵) مضامین میں منافقت اورماہنت سے قطعاً کام نہیں لیتے تھے اورجو بات کہنی ہوتی تھی بڑی آزادی کے ساتھ صاف صاف کہہ دیتے تھے چاہے کوئی برا مانے یابھلا۔ اپنی صاف گوئی کے متعلق خود ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’میرے سچے مذہب نے مجھے سکھایاہے کہ سچ کہنا اور سچ کرنا۔ نہایت کمینہ وہ آدمی ہے جو کہتا ہے کہ کچھ ہو اور کرتا کچھ ہو۔ اور اس سے بھی زیادہ کمینہ وہ شخص ہے جو شریعت کے حکم سے واقف ہو اور پھر رسم و رواج کی شرم سے یا لوگوں کے لعن و طعن سے ڈر سے اس کے کرنے میں تامل کرے‘‘۔(حیات جاوید صفحہ ۱۹۸) (۱۶) اپنے مضامین میں اس بات کو بڑے زور سے بار بار پیش رکتے تھے کہ ترقی کرنے اور عروج حاصل کرنے کے لیے نیز خدا کی درگاہ میں مقبول ہونے کے لیے لمبے چوڑے دعووں دھوں دھار تقریروں اور فصیح و بلیغ تحریروںکی ضرورت نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے اور صرف عمل ہی سے دنیوی بھلائی اوردینی بہبودی حاصل ہو سکتی ہے۔ (۱۷) سرسید کا قاعدہ تھا کہ مضمون لکھتے وقت ایک ہی قسم کے الفاظ کے آگے وقفہ (۔) دینے کی بجائے ہر لفظ کے آگے اور کا لفظ لکھا کرتے تھے۔ مثلاً ایک جگہ مزاحیہ رنگ میںلکھتے تھے ۔ سبحان اللہ ہمار ا بھی کفر کیا کفر ہے کہ کسی کو حاجی اور کسی کو پاجی اور کسی کو کافر اور کسی کو مسلمان بناتاہے‘‘۔ ایک دوسرا فقرہ اسی طرح استعمال کیا ہے ’’ان کی طبیعت کے زور اور پاکیزگی مضامین اور شوکت الفا ظ اور طرز ادا سے ہم لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ‘ ‘ یا یہ فقرہ ’’سویلزیشن سے مراد ہے انسان کے تمام افعال اور اخلاق اور معاملات اور طریقہ تمدن اور صرف اوقات اور علوم اور ہر قسم کے فنون کو اعلیٰ درجے کی عمدگی پر پہنچانا‘‘۔ (۱۸) سرسید نے اپنے مضامین میںاکثر جگہ بلا ضرورت انگریزی الفاظ کا استعمال بہت کثرت کے ساتھ کیا ہے اور اس کا جوازیہ پیش کیا ہے کہ زندہ اور ترقی کرنے والی زبان میںنئے الفاظ ملنے چاہئیں خواہ کسی زبان کے ہوں‘‘۔ (۱۹) مترادفات کا استعمال بھی سرسید کے مضامین میں اکثر پایا جاتاہے مثلاً علاوہ ان کے تین قومیں اور ہندوستان میں ہیں جو اپنے تئیں مودب و مہذب و تربیت یافتہ و شائستہ سمجھتی ہیں‘‘۔ (۲۰) آخر ی زمانے کی مضمون نویسی میں مفقیٰ اور مسجع عبارت کے نمونے بھی سرسید کے مضامین میں ملتے ہیں مگر کم مثلا ً ایک جگہ لکھتے ہیں ’’یہ نہیں ہو سکتا کہ کھانے تو ہوں فرعونی اور طریق کھانے کا ہو مسنونی‘‘۔ (۲۱) سرسید کے مضامین میں ظرافت کا عنصر بھی خاصا ہوتا تھا مگر پھکڑ پن سے خالی اور بازاری الفاظ سے معرا ۔ مزاحیہ فقرے ایسے لطیف ہوتے تھے کہ مخالف کو ناگوار بھی نہ ہوں اور طنز بھی بھرپور ہو مثلاً ایک ایڈیٹر نے لکھا ہے کہ ’’جو آدمی پرچہ تہذیب الاخلاق کی تائید کرے گا وہ خشر الدنیا و الآخرۃ کا مصداق ہو گا۔‘‘ اس کے جواب میں سرسید فرماتے ہیں ’’بھئی تہذیب الاخلاق کے معاونوں ‘ خریداروں‘ پڑھنے والوں‘ چھونے والوں‘ پاس سے دیکھنے والوں‘ دور سے دیکھنے والوں ‘ خواب میںدیکھنے والوں‘ خیال کرنے والوں سے ہوشیار ہو جائو۔ ایسا نہ ہو ’’خسر الدنیا و الآخرۃ‘‘ ہو جائو‘‘۔ اسی طرح ایک صاحب نے تہذیب الاخلاق کی مخالفت میں خداسے دعا مانگی: عنایت کر مجھے آتش زبانی کہ لب تک لا سکوں راز نہانی بتان سنگ دل کا دل جا دے زباں کو شعلہ دوزخ بنا دے اس پر سرسید تحریر فرماتے ہیں : ’’مولوی صاحب نے خدا سے یہ دعا مانگی ہے کہ خدا ان کی زبان کو شعلۂ دوزخ بنا دے مگر ان کو ایسی دعا کرنی نہیں چاہیے اور اپنی زبان پر رحم کرنا چاہیے‘‘۔ (۲۲) عام ادیبوں کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ صرف ایک یا دو قسم کے مضامین لکھ سکتے ہیں مگر سرسید میں یہ وصف تھا کہ انہوں نے بہ کثرت موضوعات پر لمبے لمبے مضمون لکھے ہیں اور ان میں پورے طور پر کامیاب ہوئے ہیں۔ (۲۳) انہوںنے بہت سے انگریزی مضامین کو اردو کا لباس پہنایا ہے مگر ان کا ترجمہ نہیں کروایا بلکہ ان کا مطلب اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اس سے ان کی سب سے بڑی غرض تو قوم کی اصلاح تھی مگر اس کے علاوہ یہ بھی غرض تھی کہ اہل یورپ کے عمدہ اور چیدہ خیالات و افکار سے اہل وطن شناشا ہوں ۔ تیسر ی غرض یہ تھی کہ اردو کا دامن گونا گوں مفید مضامین سے بھر جائے۔ (۲۴) علمی مضامین اردو میں آسانی سے بیان نہیں ہو سکتے کیوں کہ اس میں ابھی اصلاحات کی کمی ہے ۔ مگر سرسید نے ایسی سلاست کے ساتھ علمی مضامین پر قلم اٹھایا ہے کہ الفاظ کی کمی ان کی راہ میں حائل نہ ہوئی۔ (۲۵) سرسید کی مضمون نویسی کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے قدیم موضوعات کو نئے اسلوب نگارش کے ساتھ اس طر ح پیش کیاہے کہ وہ ایک نئی چیز معلوم ہونے لگے۔ (۲۶) مضمون نویسی کے متعلق ان کا ایک اصول یہ تھا (اور وہ ہمیشہ اس پر کاربند رہے ) کہ طرز بیان سادہ اور سلیس ہو مضمون میں الفاظ کے چٹخارے نہ ہوں بلکہ حقیقت ہو اور مضامین کی تحریر میں صفائی اور سچائی ہمیشہ مد نظر رہے۔ (۲۷) اگرچہ وہ اعلیٰ درجے کے مضمون نگار اور بہترین مقالہ نویس تھے مگر انہوں نے کبھی ادبیت اور انشا پردازی کا دعویٰ نہیں کیا۔ وہ ادیب اور انشا پرداز سے زیادہ مصلح اور ریفارمر تھے ۔ اسی لیے وہ اصلاح کے جوش میں انشا پردازوں کے مقررہ قواعد اور اہل زبان کے مجوزہ محاوروں کا قطعاً لحاظ نہیں کرتے تھے جو کچھ ان کے دل میں آتا تھا بے اختیار ان کے قلم سے ٹپک پڑتا تھا۔ (۲۸) ان کے خیالات میں بے شک بڑا خلوص ہے جو دل پر اکثر خاص اثر کرتا ہے مگر باوجود ا س کے ان کی بعض تحریریں قاری کی الجھن کا باعث ہوتی ہیں۔ (۲۹) سرسید کا انداز بیان مذہبی مضامین لکھتے وقت اکثر مناظرانہ ہو گیا ہے ۔ (۳۰) مذہبی مقالات میں معقولات سے استفادہ سرسید کے مضامین کی خاص صفت ہے۔ (۳۱) اکثر ایسے مضامین اور خطوط بھی سرسید کے پاس آتے تھے جن میں سوائے گالیوں اور سب و شتم کے اور کچھ نہ ہوتا تھا مگر سرسید نے کبھی ان کا کوئی جواب نہیں دیا اور ایسے ہر مضمون کو ضائع کر دیا چنانچہ مولانا حالی لکھتے ہیں:’’ جو فضول تحریریں لوگ ان کے پاس بھیجتے تھے ان کا کچھ جواب نہیں دیتے تھے کبھی انہوں نے کسی تحریر کو اس خیال سے کہ مخالف کو الزام دینے یا شرمندہ کرنے کا موقع رہے اپنے پاس دستاویز بنا کر نہیں رکھا‘‘۔ (حیات جاوید صفحہ ۷۸۸)۔ (۳۲) سرسید کے کلام میں بعض متروک الفاظ بھی اکثر ملتے ہیں جن کو انہوں نے ترک کرنے کا آخر وقت تک خیال نہ کیا مثلاً : ’’اپنے تئیں‘‘ بجائے ’’اپنے آپ کو‘‘۔ ’’کر کر ‘‘ بجائے ’’کر کے‘‘۔ ’’جو کہ ‘‘ بجائے ’’چونکہ ‘‘۔ ’’چھاپہ ہوئی ہے ‘‘ بجائے ’’چھپی ہے ‘‘۔ ’’خرید کر کے‘‘ بجائے ’’خرید کر ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ (۳۳) سرسید کے مضامین اور تحریروں میں بعض غلط لفظ اور فقرے بھی نظر آتے ہیں مثلاً ’’بہ طور ایک نیکی کے‘ ‘ ’’بہ نسبت بدی کے‘‘۔ ’’بہ ذریعہ تسخیر کواکب کے ‘‘ ’’بہ ذریعہ ایک ڈیپوٹیشن کے‘‘ ’’میرے پاس بہ ذریعہ ڈاک کے‘‘ ’’بہ طور نمونہ کے‘‘ ’’پیر پھٹک دیا‘‘ ’’ترغیب کرتے ہیں‘‘ (بجائے ’’ترغیب دیتے ہیں‘‘)۔ ’’رسومات‘‘ (بجائے رسوم) ’’ان بزرگوں کے سبب ہماری قوم کی لٹریچر کیسی عمدہ ہو جاوے گی‘‘ ’’اُصولوں‘‘ (بجائے اصول)۔ (۳۴) بعض پیچیدہ جملوں سے بی سرسید کے مضامین خالی نہیں مثلا ’’انگریزی گورنمنٹ کی ابتدا ۱۷۵۷ء وقت شکست کھانے سراج الدولہ کے پلاسی پر سے شمار ہوتی ہے ‘‘ یا ’’آپ کا عنایت نامہ اور چند اجزا سوال جواب پہنچ زائد از حد آپ کی عنایت کا شکر کرتا ہوں‘‘۔ (۳۵) سرسید کی تحریروں میں بعض مشکل اور دق الفاظ ہیں مثلا ’’معمم‘‘ (بڑے بڑے عمامے باندھنے والے) مشمل ( جن کے شملے بہت بڑے بڑے ہوں) وغیرہ۔ مگر ان جزوی اور معمولی باتوں کے جو اوپر بیان ہوئیں سرسید کے مضامین اور مقالات کی عظمت اور رفعت کم نہیں ہوتی جہاں بہت سی خوبیاں ان کی تحریروں میں پائی جاتی ہیں اگر دو چار نقائص بھی ان میں ہوں (اور نقائص سے کس انسان کا کلام خالی ہے؟) تو ان کے باعث ان کے کلام کا رتبہ کم نہیں ہوتا۔ کما قال اللہ تعالیٰ ان الحسنات یذھبن السئیات مولانا حالی کیا خوب فرماتے ہیں کچھ نقص انار کی لطافت میں نہیں ہوں اس میں اگر گلے سڑے چند دانے (۳۶) فن مقالہ نگاری موجودہ حالت میں درحقیقت سرسید کے زمانے سے قبل عام طور پر رائج نہ تھا۔ سرسید ہی نے اس کو شروع کیا ترقی دی اور عروج پر پہنچایا اس لیے وہی موجودہ مقالہ نگاری کے بانی ہیں۔ (۳۷) سرسید انگریزی مضامین اور انگریز مصنفین کے عام طور پر بڑے مداح ہیں ‘ مگر اس کے بالمقابل عربی مصنفین سے سوائے ایک دو کے بہت ناراض ہیں۔ عربی مصنفین میں سیحضرت امام غزالی کے متعلق انہوں نے متعد مضامین لکھے ہیں ان کے رسائل شائع کیے ہیں اور ان کے فلسفیانہ افکار و خیالات پر تبصرے کیے ہیں۔ (۳۸) ان کی تحریروں میں بعض فقر ے بے شک مسلمانوںکے بعض فرقوں اور امت مسلمہ کے اکثر افراد کے لیے بجا طور پر نہایت دل آزار ہیں مثلاً ’’میں تو ان صفات کو جو ذات نبویؐ میں جمع تھیں دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں ایک سلطنت اور ایک قدوسیت اول کی خلافت حضرت عمر ؓ کو ملی اور دوسری کی خلافت حضرت علیؓ و آئمہ اہل بیتؓ کو… حضرت عثمانؓ نے سب چیزوں کو غارت کر دیا حضرت ابوبکر صدیقؓتو صرف برائے نا م بزرگ آدمی تھے‘‘۔ سخت تعجب ہوتا ہے کہ سرسید جیسے مرنجان مرنج اور صلح کل انسان کے قلم سے ایسے خلاف واقعہ اور دل شکن جملے کس طرح نکل گئے؟ (۳۹) سرسید کی شگفتہ تحریروں اور ان کے سلیس مضامین کا اثر ان کے مخالفین اور معاندین پر بھی بہت زیادہ پڑا اور وہ سرسید کا جواب دینے کے لیے وہی طرز بیان اور طریق نگارش اختیار کرنے پر مجبو ر ہوئے جو سرسید کا تھا اور یہ بات سرسید کے مضامین کی برتری اور فوقیت کی زبردست دلیل ہے۔ سلیس اُردو لکھنے کا جو رواج اس وقت ہوا وہ برابر ترقی کرتا جار ہا ہے۔ اور علماء کرام بھی کہ جن کی طرز تحریر کی ایک خاص روش تھی اب عام فہم اور سلیس اردو لکھنے لگے ہیں۔ (۴۰) ساتھ ہی سرسید کے مضامین اور ان کی تحریروں کا اثر ان کے مداحوں دوستوں اور معتقدین پر بھی زبردست پڑا۔ انہو ںنے وہی طرز تحریر اختیار کی جو ان کے قائد کی تھی مثلاً شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی ‘ نواب محسن الملک ‘ نواب اعظم یار جنگ‘ مولوی چراغ علی‘ شمس العلماء مولوی سید علی بلگرامی‘ خان بہادر شمس العلامء مولانا ذکاء اللہ اور ان کے لائق اور قابل فرزند مولانا عنایت اللہ دہلوی‘ مولوی سید وحید الدین سلیم پانی پتی اور مولوی عبدالحلیم شرر لکھنوی وغیرہ۔ بالآخر یہی لوگ نثر اردو کے امام مانے گئے اور بعد کے لوگوں نے انہی کی تقلید کر کے ادب و انشاء میں نام پیدا کیا۔ سرسید کا مقام غالباً کیا بلکہ یقینا سرسید ہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے یہ نکتہ پا لیا تھاکہ علوم و فنون کا انکشاف اور سائنس کی ترقی کی ایسی صورت ہے کہ اگر ہم نے اردو کے قالب میں بنیادی تبدیلیاں نہ کیں تو وہ اسی طرح فسانہ عجائب کی رنگینی کی ترجمان ہو سکے گی لیکن حقائق حیات اور بدلتے ہوئے ماحول کے کوائف کی زبا ن نہ بن سکے گی علاوہ ازیں انہوںنے نثر کو با مقصد بنانا چاہا جسے انگریزی میں (Purposire) کہتے ہیں۔ ادب برائے ادب سے اسے دور کا واسطہ بھی نیں ہوتا۔ اس کا منصب یہ ہوتا ہے کہ ایک مقصد یا متعدد مقاصد پورے کرے۔ سرسید نے دیکھا ک مغرب کے فشار تہذیب جبر تاریخ اور لزو م وقایع کے ماتحت سائنسی انکشافات اس طرح سیلاب کی طرح بڑھتے چلے آ رہے ہیں کہ نوجوانوں کا طبقہ متذبذب بد گمان بلکہ بد عقیدہ ہو گیا ہے ۔یہ بات ملحوظ رکھ کر انہوںنے قرآن مجید کی بعض آیات کی ایسی تفسیر کی جسے آج شاید بالرائے کہا جا سکے لیکن بہرحال ان کا مقصد نیک تھا۔ نیت درست تھی۔ اور نیت درست ہو تو اعمال کا معاملہ خدا کے ہاتھ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں سرسید نے بہت سی باتیں مسلک جمہور کے خلاف بھی کیں لیکن ان کے خلوص کی بنا پر آج ان باتوں سے پیدا شدہ تلخی کم ہو گئی ہے اور سرسید کی نیک نیتی روشن سے روشن تر ہو گئی ہے۔ ایک سلسلہ مضامین میں جسے مجلس ترقی ادب نے حصہ سوم کا نام دیا ہے ۔ انہوں نے نہایت متانت سلاست ٹھنڈے دل اورمنطق کی تمام موشگافیوں سے کام لے کر فلسفیانہ مضامین لکھے مثلاً ’’اما م غزالی کے فلسفیانہ خیالات‘‘ ’’التفرقہ بین الاسلام والذندقہ پر ایک نطر‘‘ یہ دو بہت سیر حاصل مضامین ہیں اور ان کے اسلوب نگارش سے پتہ چلتا ہے کہ سرسید نے اردو زبان کی تامام ممکنات کو ٹٹول لیا تھا۔ تبھی تو وہ بے تکلف ہر موضوع پر طبع آزمائی کرتے چلے جاتے تھے۔ بے شک ان کے انداز میں رنگینی اور صنعت گری نہیں تھی لیکن وہ عالمانہ متانت اور غیر جانب داری تھی جو فلسفیانہ مضامین سے منسوب ہے۔ اسی جلد میں ’’العلم حجاب الاکبر‘‘ ذاتہ وصفاتہ تعالیٰ شانہ جیسے مضمون سما گئے ہٰں جن کے متعلق کبھی گمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ اردو میں بیان کیے جا سکیں گے نمے دانم نمے دانم …مختصر سا مضمون ہے لیکن بہت رفیع ہے اور اردو کے امکانات کو خوب روشن کرتا ہے۔ اسی طرح چوتھی جلد مٰں علمی اور تحقیقی مضمون ہیں۔ ان کے متعلق بہت گفتگو کی گنجائش ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ جس زبان میں سرسید ’’التناسخ‘‘ ’’مسمر یزم‘‘ کیا دنیا و مافیہا چھ دن میں بن گئی ہے؟ لکھ سکیں گے اس زبان کی علمی ثروت اور اس کے روشن مستقبل کی طرف سے ہمیشہ پر امید رہنا چاہیے۔ کوئی شک نہیں کہ سرسید کی مذہبی اور فقہی تحقیقات پر بے شمار اعتراضات ہوئے ہیں لیکن ہمیں ادبی نقطہ نظر سے یہ دیکھنا ہے کہ ایسے معرکے کے مضمون اردو میں بہ کمال سلاست و روانی و بہ غایت ابلاغ و اظہار لکھے کس طرح گئے۔ یہ سرسید کا جوہر ھتا جو زبان کے پرانے لفظوں سے نئے معانی تراشتا تھا۔ چوتھی جلد میں سرسید نے شائستگی یا تہذیب پر جو مضمون لکھا ہے اس کے بعض فقرے تو بالکل آج کل کے علما کے لکھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے شائستگی پر مذہب کا اثر ایک ذیلی عنوان قائم کیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس عنوان کے تحت انہوں نے بہت اچھا لکھا ہے تہذیب اور مذہب کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ۔ یہاں تک کہ فنون لطیفہ مذہب اور متعلقہ تصورات ہی سے اکثر پیدا ہوتے ہیں۔ پانچویں جلد اخلاقی اور اصلاحی مضامین پر مشتمل ہے اور غالباً اس کے مطالب کے متعلق نسبتتاً کم نزاع ہو گی۔ بہرحال سوم و عادات اور پردے سے لے کر آزادی رائے اور کاہلی تک سرسید نے اظہار خیال کیا ہے اور ہمیشہ نئی بات کی ہے یہ نہیں کہ پرانے خیالات کو پھر نئے الفاظ کا جامعہ پہنا دیا ہو۔ سچ یہ ہے کہ سرسید نے اور خدمتوں سے قطع نظر اپنے مضامین کے ذریعے اردو زبان کی تمکنات کی توضیح کر دی اور ہم پر واضح ہو گیا کہ دقیق سے دقیق مابعد الطبیعیاتی بات سے لے کر ذات باری تعالیٰ تک اردو میں بحث کی جا سکتی ہے۔ پہلے کہا جا چکا ہے کہ انہو ں نے اپنی انشا پردازی میں رنگینی کا عنصر نہیں رکھا لیکن ہمارے خیال میں یہ بات قصداً کی گئی ہے کہ لوگ مطالب سے ہٹ کر محض پیکر یا ہئیت کی طرف متوجہ نہ ہو جائیں۔ حالی نے بھی کسی حد تک سرسید کی پیروی کی تھی لیکن سرسید کا خلوص ان کی دیانت داری اور ان کی نرمی طبع اس طرح کلا م سے پھوٹتی تھی کہ انسان رنگینی یا اسلوب کی دل نشینی کا خیال ہی نہ کرتا تھا۔ مضامین سے قطع نظر سرسید کا کمال یہ کیا کم ہے کہ انہوں نے اپنے سوز دروں سے ایسے رفقا پیدا کر لیے جنہوں نے ہر معاملے میں ان کا ہاتھ بٹایا اور مسلمانوں کے احیائے علمی کے آغاز کا باعث ہوئے۔ ان کے مکاتیب دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ مذہبی ناظرین سے لے کر ادیبوں تک سب سے ان کے یکساں اچھے تعلقات ہیں اور حقی المقدور وہ کسی کو اپنے دام خیال سے نکلنے نہیں دیتے کہ ان کے سامنے جو کام تھا یعنی مسلمانوں کا احیائے علمی و معاشرتی وہ ایک شخص کے ذریعے نہیں بلکہ ایک جماعت کے ذریعے سرانجام ہونا تھا۔ سرسید کے مضامین اورمقالات فراہم کرنے میں مجھے سب سے زیادہ اور سب سے قیمتی امداد حضرت شمس العلماء مولانا سید ممتاز علی صاحب مرحوم کے کتب خانے سے ملی جہاں تہذیب الاخلاق کی تمام جلدیں محفوظ ہیں ۔ میں نہایت ممنون ہوں حضرت شمس العلماء کے لائق فرزند سید امتیاز علی تاج صاحب کا کہ انہوں نے مجھے تہذیب الاخلاق کے فائلوں سے سرسید کے مضامین نقل کرنے کی اجازت دی۔ اخبار ’’علی گڑ ھ سائنٹفک سوسائٹی‘‘ اور ’’علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ‘‘ اور رسالہ ’’رائل محمدنز آف انڈیا‘‘ کے فائل مجھے یونیورسٹی الائبریری لاہور سے مل گئے۔ میں اس سلسلے میں اپنے محترم دوست سردار مسیح صاحب ایم اے انچارج شعبہ مشرقیات پنجاب پبلک لائبریری لاہور کا بھی بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ نے سرسید کی بعض نایاب تحریریں مجھے مہیا کر کے دیں۔ جن جن اخباروں‘ رسالوں اور کتابوں سے میں نے سرسید کے یہ مقالات جمع کیے ہیں ‘ میں ان سب کے مولفین اور مرتبین کا نہایت درجہ ممنون ہوں اورتہہ دل سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان کی بدولت میں سرسید مرحوم کے یہ مضامین فراہم کر سکا۔ میں آکر میں نہایت ہی رنج کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کرتا ہوں کہ میرے نہایت ہی لائق فرزند شیخ محمد احمدجنہوں نے پرانے فائلوں سے ان مضامین اور مقالات کو ڈھونڈنے انہیں نقل کرنے عربی تحریروں کے جمع کرنے اورپھر پروفوں کو پڑھنے میں نہایت مستعدی کے ساتھ میری مدد کی ‘ صد ہزار افسوس کہ یہ نہایت ہی قابل نوجوان جس نے بہت ہی قلیل عرصے میں بہت سی اعلیٰ پائے کی تاریخی عربی کتب کا نہایت سلیس اور شگفتہ اردو میں ترجمہ کیا صرف ۳۴ سال کی عمر میں۹ جنوری ۱۹۶۲ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ کل من علیھا فان و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام ۔ خاک سار محمد اسماعیل پانی پتی رام گلی نمبر ۳‘ لاہور مناجات سرسید بدرگاہ رب العزت (منقول از حیات جاوید حصہ اول صفحہ ۱۵۰) ۱۸۵۷ء کے قیامت خیز اور خونی ہنگامہ کے بعد جب خدا خدا کر کے ملک میں امن قائم ہوا اور ملکہ وکٹوریا نے عام معافی کا اعلان کر دیا تو سرسید اس وقت مراد آباد (یو۔پی) میں صدر الصدور تھے۔ ان کی تحریک پر شہر کے مسلمانوں کا ایک عظیم مجمع اظہار شکر کے لیے حضرت شاہ بلاقی کی درگاہ میں ۲۸ جولائی ۱۸۵۹ء کو جمع ہوا۔ نماز عصر کے بعد تقریر سے پہلے سرسید نے یہ لکھی ہوئی مناجات نہایت بلند آواز سے تمام حاضرین کے سامنے پڑھی ۔ ا س مناجات کے متعلق مولانا حالی ’’حیات جاوید ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’اس میں نہ تو شاندار الفاظ ہیں نہ بیان کی رنگینی ہے نہ کوئی تصنع ہے نہ کوی بناوٹ ہے سیدھے سادے فقرے اور بے ساختہ جملے ہیں۔ مگر اس کے ہر فقرے اور ہر جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی تباہی اور بربادی نے اس شخص کے دل میں عجیب بے چینی کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے جو کسی طرح کم نہ ہوتی تھی۔ بلکہ برابر بڑھتی جاتی تھی اور اس بات کی خبر دیتی تھی کہ وہ سرسید کو اخیر دم تک اس چیٹک سے خالی نہ رہنے دے گی۔ اس مناجات کے الفاظ سرسید کے دل کی اصلی حالت کو نہایت واضح طورپر ظاہر کرتے ہیں‘‘ پس ہمیں مناسب معلوم ہوا کہ اس پر درد اور پر اثر دعا سے سرسید کے مضامین کی ابتدا کریں۔ اس دعا کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف سے اس درد اور تڑپ کانہایت زور اور شدت سے اظہار ہوتا ہے۔ جو سرسید کے دل میں اپنی قوم کا تھا ‘ مگر افسوس اس تمام ہمدردی و غم خواری اور اس تمام درد و کرب کا صلہ قوم کی طرف سے سوائے کفر کے فتوئوں کے سرسید کو اور کچھ نہ ملا۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ’’اے خدا! تو ہمارا حقیقی پروردگار ہے۔ اے خدا اصلی بادشاہت اور حقیقی سلطنت تجھ ہی کو سزاوار ہے ۔ اے خدا! مالک الملک! تو ہی ہے جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ اے خدا! سارے عالم اور تمام مخلوقات کی جانیں اور سب آدمیوں کے دل تیرے ہاتھ میں ہیں۔ جس طرف تو چاہتا ہے ان کو پھیرتا ہے ارو جو چاہتا ہے سو کرتا ہے۔ تیرا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ تیرے کام میں کسی کو چون و چرا کی قدرت نہیں۔ اے خدا ہم تیرے عاجز بندے سراسر تیرے گنہگار ہیں۔ اے خدا ہماری شامت اعمال نے ہم کو گناہ کے دریا میں سر تک ڈبو دیا ہے۔ اے خدا! ہم تیرے ہر وقت قصور وار ہیں۔ جب تک تیری مدد نہ ہو ہم ایک دم گناہ سے پاک نہیں رہ سکتے۔ اے خدا تیرے سوا کوئی ہمارے گناہ بخشنے والا نہیں۔ ہم نہایت عاجزی اور کمال انکسار سے اپنے گناہوں کی معافی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے تجھ سے مانگتے ہیں۔ اے خدا! تیرے غضب سے تیری رحمت سبقت لے گئی ہے ۔ اپنی رحمت کا ملہ سے ہمارے گناہ معاف کر۔ اے خدا! جس طرح تیری حکمت سے میلا کپڑا می سے پاک ہوتا ہے اسی طرح ہم کو ہمارے گناہوں کی ناپاکی سے پاک کر ۔ اے خدا! اپنی بے انتہارحمت سے ہمارے دل کو تمام برائیوں اور ناپاک چیزو ں سے جو دل کو ناپاک کرتی ہیں صاف کر اے خدا! ہمارے دل کے گناہوں کو مٹا اور ہماری روح کو روح القدس کی تائید سے قوی کر ۔ تیرے سوا ہمارا حقیقی ماو ا اور اصلی ملجا اور کوئی نہیں آمین! الٰہی! ہمارے گناہ حد سے زیادہ ہو گئے تھے ۔ الٰہی ہماری شامت اعمال کی کچھ انتہا نہ رہی تھی اگرچہ ہم یقین کرتے ہیںکہ ہر ایک کے اعمال کی سزا اور جزا کا ایک دن بیشک آنے والا ہے اور جس کا تو نے اپنے سچے نبیوں سے وعدہ کیا ہے اور اسی دن تیری رحمت اور تیرے فضل کے سوا کسی کا چھٹکارا نہیں۔ کیونکہ تیرے آگے سب گنہگار ہیں۔ مگر ان پچھلے دو برسوں میں جو تیری نگاہ قہر آلود تیرے عاجز بندوں کی طرف ہوئی وہ بیشک ہماری شامت اعمال کا ظاہری نتیجہ تھا۔ الٰہی! ہم اپنے گناہوںسے توبہ کرتے ہیں ۔ الٰہی! ہم اپنے گناہوں کی تجھ سے معافی مانگتے ہیں الٰہی! تو ہمارے گناہ سب معاف کر آمین! الٰہی! پچھلا زمانہ تیری مخلوقات پر ایسا گزرا کہ انسان اور حیوان اور تمام چرند پرند بلکہ شجر و حجر کو بھی چین اور آرام نہ تھا ۔ کوئی شخص بھی اپنی جان و مال اور آبرو پر مطمئن نہ تھا۔ ان پچھلے فسادوں نے زمین و آسمان کو گویا الٹ پلٹ کر دیا تھا۔ الٰہی! تو نے اپنے فضل و کرم سے ان تمام فسادوں اور آفتوں کو دورکیا۔ الٰہی تو نے پھر اپنے عاجز بندوں پر رحم کیا اور جو امن و آسائش ان بدبخت برسوں سے پہلے تو نے اپنے بندوں کو دی تھی پھر وہی امن و آسائش تو نے اپنے بندوںکو نصیب کی۔ الٰہی تیرے اس رحم کا ہم دل سے شکر ادا کرتے ہیں۔ الٰہی تو ہمارے اس شکرانے کو جو تیری درگاہ کے لائق نہیں ہے اپنے فضل و کر م سے قبول کر آمین! پر درد اور عاجزانہ دعا (تہذیب الاخلاق بابت ۱۰ محرم ۱۲۸۹ھ) یہ دوسری پردرد اور عاجزانہ دعا ہے جس سے ہم سرسید کے قابل قدر مقالات کی ابتدا کر رہے ہیں ان دونوں دعائو ں کے پڑھنے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح ظاہر ہو جاتی ہے کہ سرسید کے سل میں اسلام کا کتنا دردتھا ارو وہ مسلمانوں کے کس قدر ہمدرد تھے اور کس درد اور تڑپ کے ساتھ خداوند کریم کے حضور عاجزانہ طور پر دعائیں مانگتے تھے۔ یہ دعا جو ذیل میں آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں سرسید نے ۲۷ فروری ۱۸۷۲ء کو ایک عام جلسہ میں پڑھی تھی ۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) اے خدا ! اے خدا! بے شک خدا تو ہی ہے ۔ تیرے سوا کئی نہیں۔ اے خدا اے خدا بے شک تو ہی ازلی ہے اور تو ہی ابدی ہے تیرے سوا کوئی نہیں۔ تو ہی ہمارا خالق ہے اور تو ہی ہمارا مالک ہے ۔ تو ہی ہمارا معبود ہے اور تو ہی ہمارا مسجود ۔ تو ہی ہماری دعاہے اور تو ہی ہمارا مدعا ۔ تو ہی ہمارا مقصد ہے ور تو ہی ہمارا مقصود ۔ الٰہی ہم تجھی کو چاہتے ہیں اور تجھی سے چاہتے ہیں۔ الٰہی ہم تجھی کو مانگتے ہیں اور تجھی سے مانگتے ہیں۔ اے میرے پیارے اللہ! ہمارا دل ‘ ہماری جان ‘ ہماری روح تیری ہی ہے اور تیرے ہی لیے ہے ۔ اے قادر مطلق خدا! یہ تمام قویٰ جو ہم میں ہیں تجھی سے ہیں اورتیرے ہی لیے ہیں۔ پس اپنی چیز کو اپنی ہی مرضی کے تابع رکھ۔ الٰہی ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں ہماری شامت اعمال نے ہم کو گناہوں کے کالے دریا میں ڈبو دیا ہے ۔ الٰہی ہم نے تیری تقصیر کی ہے اور تیری امانت میں خیانت کی ہ۔ جو چیزیں تو نے ہمٰں جن کاموں کے لیے دی تھیں ان سے ہم نے وہ کام نہیںلیا۔ الٰہی ہمارے نفس امارہ نے ہم کو بہکایا اور گنا ہ میںڈالا۔ الٰہی ہ نے تیری نافرمانی کی اور تجھ سے یکتا خدا کی حکم عدولی کی۔ ہم بال بال گنہگار ہیں۔ گناہوں کے عمیق دریا میں غرق ہیں مگر تیرے ہی سہارے کی امید ہے۔ پس اے ہمارے غفور الرحیم خدا ہماری دستگیری کر اور ہم کو گناہوں سے نکال اور آپ رحمت سے ہمارے گناہوں کو دھو اور ہمارے دل کو برف سے زیادہ سفید اور اپنی ذات کے نور سے سورج سے بھی زیادہ چمکیلا کر۔ اے خدا تو بے شک بے نیاز ہے تیری بے نیازی ہم کو تسلیم ہے مگر کیا تو ہم سے بھی بے نیاز ہے۔ گیرم کہ غمت نیتست غم ما ہم نیست۔ نہیں نہیں حاشا و کلا تو ہمارے ماں باپ سے بھی زیادہ ہمار غم خوارہے۔ جیسے کہ ہم تجھ سے بے نیاز نہیں ہیں۔ ویسا ہی تو بھی ہم سے بے نیاز نہیں ۔ اے خدا ا؁ے خدا۔ ہمارا اور تیرا یہ رشتہ کہ تو ہمارا خدا ہے اور ہم تیرے بندے اور تو ہی ہمارا خالق ہے اور ہم تیری مخلوق کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔ اے ہمارے عظیم الشان خدا! اگر تجھ کو خدائے ذوالجلال و حدہ لا شریک ہونے کی عزت حاصل ہے تو ہم کو بھی تیرے بندے ہونے پر بہت ہی کچھ فخر ہے۔ پس اپنے جلال کو دیکھ اور اپنے بندوں کی دستگیری کر۔ الٰہی ہمارا دل اور ہماری جان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین و رحمۃ للعالمین پر فدا ہو جن کو تو نے ہماری ہدایت کے لیے بھیجا اور جن کی ہدایت سے ہم نے تجھ کو جانا۔ پس تجھ سے ہم نے رسول اللہ کو پایا ار محمد رسول اللہ سے تجھ کو۔ محمد از تو میخواھم خدا را خدایا از تو خواھم مصطفی را پس اے خدا تو ہمیش ہم کو ان کی راہ پر رکھ اور ان پر اور ان کی آل و اصحاب پر اپنی رحمت نازل کر۔ اللھم صلی علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید عقائد مذہب اسلام (تہذیب الاخلاق بابت یکم جمادی الثانی و ۱۵ جمادی الثانی ۱۲۸۹ھ) عقیدہ اول تمام موجودات کا خالق یا ان کے وجود کا سبب اخیر یا علت العلل کوئی ہے اور اسی کا نام ہے اللہ۔ مذہب اسلام کا سب سے پہلا عقیدہ یہ ہے کہ تمام کائنات کا کوئی نہ کوئی خالق ہے ۔ یہ سب کچھ جو موجود ہے اور جس کو ہم کسی طرح جان سکتے ہیں یا سمجھ سکتے ہیں یا خیال کر سکتے ہیں ایک ایسے سلسلہ سے مربوط ہے کہ ایک کا وجود دوسرے پر ور دوسر ے کا تیسے پر منحصر ہے۔ پس ضرور ہے کہ یہ سلسلہ کسی اخیر وجود یا علت یا سبب پر منتہی ہو ۔ ارو جس پر یہ منتہی ہو وہی خالق اور خدا اور رب العالمین ہے۔ ا س بات پر یقین نہیں ہو سکتا کہ یہ سب کچھ جو موجود ہے خود آپ ہی اپنے وجود کی اخیر علت ہے ۔ اگر موجودات میں سے ہر چیز اپنے وجود کی اخیر علت ہے ۔ اگر موجودات میں سے ہر چیز اپنے وجود میں کسی دوسرے وجود کی محتاج نہ ہوتی یا کسی کا وجود کسی دوسرے وجود کا معلول نہ ہوتا تو شایدہم ایسا یقین کر سکتے۔ مگر جبکہ ہر ایک چیز کو کسی علت کا معلول پاتے ہیں تو انہی چیزوں کے مجموعہ کو کس طرح کسی علت العلل کا معلول نہ سمجھیں۔ تمام چیزیں جو بوجود حقیقی موجود ہیں نہ ممتنع ہیں نہ قابل عدم۔ اگر وہ ممتنع ہوتیں تو موجود کیوں ہوتیں اور اگر قابل عدم ہوتیں تو کبھی غیر موجود بھی ہوتیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی موجود حقیقی کبھی معدوم نہیں ہوتا صرف عوار یا صور کا تبدل ہوتا رہتا ہے۔ پانی ہو ا میں تبدیل ہو جاتاہے ہواپانی بن جاتی ہے۔ بہت سی چیزیں ہیں جو مٹی ہو جاتی ہیں اور پھر مٹی سے عجیب عجیب چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ غرض کہ کوئی شے معدوم نہیں ہوتی صرف عوارض یا صورت کا ادل بدل ہوتا رہتا ہے۔ پس اگر تمام موجودات کے عوارض نوعیہ یا شخصیہ معدوم ہو جاویں توجو کچھ باقی رہے گا وہ ناقابل عدم ہو گا۔ وقد قال اللہ تبارک و تعالی کل من علیھا فان و یبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔ بلاشبہ اس بات کا فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ تمام موجودات کے عوارض نوعیہ و شخصیہ کے معدو م ہو جانے کے بعد جو وجود ناقابل عدم باقی رہے گا وہ کیا ہے اور وہ ایک ہو گا یا کئی‘ مگر اس بات کے فیصل نہ ہونے سے خالق کے وجود سے انکار نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ اس ناقابل عدم موجود کی حقیقت کو یا اس کی وحدت و کثرت کو خالق کے وجود کے ہونے یا نہ ہونے سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ اگر وہ متعدد ہوں تو البتہ یہ سوال کرنا پڑے گا کہ قبول عوارض کی قوت خود انہی میں ہے یا کسی دوسرے موجود سے ہے۔ خود انہی میں ہے تو ہم اس لیے نہیں مانتیکہ جب ہم تمام موجودات و مع عوار ض نوعیہ و شخصیہ کے معدوم تصور کرنے کے بعد جو متعددوجود ناقابل عدم باقی رہیںگے ضرور وہ بھی ایک دوسرے کے معاون ہوں گے ‘ مگر ان کے ایسا ہونے کے لیے بلا کسی علت مشترک کے کوئی وجہ نہیں ہے۔ اب کچھ شبہ نہیں رہتا کہ ان میں اس معاونت کی علت مشترک کوئی اور وجود ہو اور اسی وجود کو ہم کہتے ہیں اللہ۔ اور اگر وہ واحد ہو تو یہ سوال ہو گا کہ قبول عوارض کی قوت خود اسی میں ہے یا کوئی دوسرا وجود ا س کی علت ہے۔ اگر اسی میں ہو تو اسی کا نا م اللہ ہے اور اگر کوئی دوسرا وجود اس کی علت میں ہو تو اسی علۃ العلل کا نام اللہ ہے۔ کبراء اسلام کی رائے میں مختلف رہی ہے۔ اکثر کہتے ہیں کہ ایس وجود ناقابل عدم میں دونوں قوتیں فعل و انفعال کی یعنی جس کو قوت قبول عوارض کہتے ہیں موجود ہیں اور اسی سبب سے وہ لوگ وحدت وجود کے قائل ہیں اوریوں کہتے ہیں۔ خود کوزہ و خود کوزہ گر وہ خود گل کوزہ خود برسر بازار خریدار برآمد بشکست درواں شد اور بعضے کہتے ہیں کہ اس قوت انفعال کی علت دوسرا وجود ہے اور اس سبب سے وہ لوگ وحدت الشہود کے قائل ہیں ۔ مگر اصل یہ ہے کہ : آں برتر از خیال و قیاس و گمان و وہم وزہرچہ گفتہ اندوشنیدم و خواندہ ایم بہرحال ان دونوں مسئلوں میں کوئی سا مسئلہ صحیح ہو اس اسلامی مسئلہ میں کہ تمام موجودات کا کوئی خالق ہے۔ کسی طرح کا تبدل نہیں آتا۔ وحدت الشہود کے مسئلہ کو لوگوں نے کفر جانا ہے۔ وہ اس دھوکے میںپڑے ہیں کہ اس وجود ناقابل عدم کو بھی جس میں اس قوت انفعال کی علت دوسرا وجود مانا ہے ازلی و ابدی ماننا پڑے گا۔ جو ٹھیک ٹھیک شرک ہے یا ان کا مذہب ہے جو خدا اور مادہ دو چیزوں کا ازلی و ابدی مانتے ہیں اور بعضے اسی کو ظلمت اور نور سے تعبیر کرتے ہیں مگر یہ ان لوگوں کی سمجھ کی غلطی ہے کیونکہ معلول کا وجود علت کے وجود کے وجود کے سب سے ہے تو شرک کہاں رہا۔ علت ازلی و ابدی کا معلول بھی ازلی و ابدی ہے۔ ہم تم بھی جبکہ علت ازلی و ابدی کے معلول ہیں تو ازلی و ابدی ہیں۔ تم بھی ازلی و ابدی ہو ہم بھی ازلی و ابدی ہیں۔ مخلوق شدیم و با خالق گشیتم جائیکہ خدا بود من ہم بودیم پس انہی موجودات کے وجود سے ہم خالق پر یقین کرتے ہیں۔ اس پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ تو یقین نہیں ہے بلکہ ایک خیال ہے جس کا تجربہ نہیںہوا۔ اور خیال کے مفہوم میں امکان اس بات کا ہے کہ بعد تجربہ کے وہ مطابق واقع کے ہو یا نہ ہو۔ دونوں داخل ہیں۔ ہم نے اس خیال کا تجربہ نہیں کیا پھر اس کے مطابق واقع ہونے پر کیونکر یقین ہو سکتا ہے۔ یہ کہنا سچ ہے مگر ہمارے خیالات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کو خود ہماری طبیعتوں نے پیدا کیا ہو یا اسباب غیر محققہ خیالیہ سے ہم میں پیدا ہوئے ہوں۔ بلاشبہ ہم اس قسم کے خیال کے مفہوم میں امکان اس بات کا کہ بعد تجربہ کے مطابق واقع کے ہو یا نہ ہو داخل ہے۔ مگر ہمارے خیالات جو دوسری قسم کے ہیں جن کو نہ از خود ہماری طبیعتوں نے پیدا کیا ہے اورنہ وہ اسباب غیر محققہ خیالیہ سے ہم میں پیدا ہوئے ہیں بلکہ ان کو کسی دوسرے حقائق محققہ نے پیدا کیا ہے۔ وہ ہمیشہ ہوتے ہیں اور بالکل مطابق واقع کے بعد تجربہ کے۔ جبکہ ہم سنتے ہیں ایک آواز یا دیکھتے ہیں ایک دھواں تو ہم خیال کرتے ہیں کہ وہاں سے ایک آگ۔ ہمارا ایسا خیال کرنا بھی ایک خیال ہے مگر اس قسم کا نہیں ہے جو از خود ہماری طبیعت میں آ گیا ہو یا اسباب غیر محققہ خیالیہ نے ہم میں پیدا کیا ہو ۔ بلکہ ایک ایسا خیال ہے جس کو دوسرے حقائق محققہ نے پیدا کیا ہے۔ ہمارا ایسا خیال ہمیشہ ہوتاہے ٹھیک اور بعد تجربہ کے بالکل مطا بق واقع کے اگر ہم نے خود اس چیز میں جس نے ہم میں ایسا خیال پیدا کیا ہے غلطی نہ کی ہو۔ جبکہ ہم پاتے ہیں چند چیزوں کو ایک جگہ ترتیب سے رکھا ہوا یا خوبصورت بنا ہوا تو ہم یقین کرتے ہیں کہ ان کا کوئی رکھنے والا یا بنانے والا ہے۔ پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس تمام موجودات کو ایسی عمدہ ترتیب سے رکھا ہوا اور ایسی حکمت سے بنا ہوا اورایسی خوبصورتی سے ڈھلا ہوا تو یقین کر سکتے ہیںکہ کوئی ان کا ترتیب دینے والا اور بنانے والا ہے جبکہ ہم ایک پتھر کو جو رستہ میں پرا ہوا ہے دیکھ کر یقین کرتے ہیں کہ اس کو کسی نے یہاں ڈالا ہے۔ تو ہم کیوں کر اس بات پر یقن نہ کریں گے کہ ان سب چیزوں کو بھی جو انسان کی قدرت سے باہر ہیں کسی بڑے دانا کاریگر نے بنایا ہے۔ اور اسی کاریگر کو ہم کہتے ہیں خدا۔ یہ خیال ہمارا جو خدا کے ہونے پر ہوا ہے ااس کو ایسی چیزوں نے پیدا کیا ہے جو ایک حقیقت ہیں یا یوں کہو کہ جو حقائق محققہ ہیں اور ہم نے اس قسم کے خیال کو ہمیشہ ٹھیک اور بعد تجربہ کے مطابق واقع کے پایا ہے۔ اس لیے ہم اس خیال پر بھی یقینکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بعد تجربہ کے بھی جب کبھی کہ ہو یہ ہمارا خیال بالکل مطابق واقع کے ہو گا۔ اور اسی لیے ہم اس کو خیال نہیں کہتے بلکہ یقین کہتے ہیں۔ پس یہ تمام موجودات عام عقل انسانی کے لیے بخوبی اس بات کی رہنما ہیں کہ ان کا کوئی خالق ہے اور اس لیے وجود خالق پر ایمان لانے کا مسئلہ ایسا ہے کہ عام عقل انسانی اس کو بخوبی سمجھ سکتی ہے اور اسی سبب سے انسان اس پر ایمان لانے کو مکلف ہوا ہے۔ اگر یہ مسئلہ عقل انسانی میں آنے کے یا یوں کہو کہ انسان کی سمجھ کے لائق نہ ہوتا تو انسان ہرگز اس مسئلہ پر ایمان لانے کو مکلف نہ کیا جاتا۔ کما قال اللہ تعالی لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا بانی اسلام کا یہ منشا نہیں ہے کہ وجود صانع کا مسئلہ انسان بغیر سمجھے مان لیں یا اس وجہ سے اس کو تسلیم کر لیں کہ پیغمبروں نے فرمایا ہے بلکہ بانی اسلام صاف صاف الٰہی موجودا ت کی دلیلوں سے اور نیچر یعنی قدرت اور فطرت کے عجائبات کو بتلا بتلا کر اور دکھلا دکھلا کر وجود صانع پر ایمان لانے کو کہتا ہے۔ کس پیاری اور سچی زبان سے فرمایا ہے کہ اسی کی نشانیوں میںسے ہے کہ تم کو متی سے پیدا کیا۔ پھر اب تم انسان ہو جا بجا پھیلے ہوئے‘‘۔ ’’اسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہارے لیے تم ہی سا جوڑا پیدا کیا تاکہ اس سے دل کو چین رہے اورایک عجیب قسم کی محبت اور دل کی پگلاہٹ تم میں رکھی سمجھنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں‘‘۔ اسی کی نشانیوں میںہے آسمان اور زمین کا پیدا کرنا ۔ تمہاری بولیوں کا تمہاری رنگتوںکا مختلف ہونا۔ اسی بات میں تمام دنیا کے لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘۔ ’’اسی کی نشانیوںمیں سے را ت کو تمہارا سو رہنا اور دن کو روٹی کے دھندے میں لگنا‘‘۔ [’’اسی کی نشانیوں میں سے بجلی بھی ہے جس میںکڑک کا خوف اورمینہ کی طمع ہ کہ پانی برسنے سے مری ہوئی زمین زندہ ہو جاتی ہے‘‘۔ ’’اسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ آسمان اور زمین اسی کے حکم سے تھمے ہوئے ہیں‘‘۔ ’’وہی اللہ ہے جو ہوا کو چلاتا ہے ۔ پھر اس میں بادلوں کو ہنکاتا ہے پھر تمام آسمان میں جس طرح چاہتا ہے پھیلا دیتا ہے ۔ پھر ان کو تہ بہ تہ کر دیتا ہے۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بوندیاں نکلتی ہیں‘‘۔ ’’آسمان سے اندازہ کے موافق مینہ برساتا ہے پھر اس کو زمین پر ٹھہراتا ہے۔ پھر اس کے سبب تمہارے لیے باغوںمیں بہت سے میوے اور کھجوریں اور انگور پیدا کرتا ہے۔ جن کو تم کھاتے ہو۔ پہار میں سے درخت اگاتا ہے جس میں سے تیل نکلتا ہے‘‘۔ ’’تمہارے لیے تو جانوروں میں بھی بڑی نصیحت ہے۔ ان کی چھاتیوں میں سے جو کچھ نکلتا ہے۔ اس کو پیتے ہو اور بہت سے فائدے اٹھاتے ہو۔ بعضے جانور تمہارے کھانے میںآتے ہیں۔ جانور بھی تم کو اٹھائے پھرتے ہیں اورکشتیاں بھی تم کو اٹھا کر لے جاتی ہیں‘‘۔ ’’زمین پر کس حکمت سے پہاڑ بنائے ہیں۔ تاکہ وہ تلی رہی پھر ان میں گھاٹیاں بنائیں ہیں تاکہ رستہ چلنے میں حرج نہ ہو‘‘۔ ’’اسی نے بنائی ہے رات اوردن سورج اور چاند جو اپنے اپنے گھیرے میں پھرتے ہیں۔‘‘ ’’تم اونٹ ہی کو کیوں نہیں دیکھتے کہ کیسے عجیب طور پر بنایا ہے ار آسمان کو کس طرح اونچا کیا ہے اور پہاڑوں کو کس طرح پر گاڑا ہے اور زمین کو کس طرح پر بچھایا ہے‘‘۔ ’’غرضیکہ اسی طرح جا بجا قرآن مجید میں بانی اسلام نے صانع کے وجود پر ایمان لانے کو تمام موجودات سے جس کو ہم دیکھتے ہیں استدلال کیا ہے اورکسی جگہ یہ بات نہیں فرمائی کہ تم بے سمجھے خدا پر ایمان لے آئو‘‘۔ ایک جگہ فرماتا ہے کہ ’’اگر کافروں سے بھی یہ بات پوچھ لو کہ آسمان و زمین کس نے بنایا اور چاند اور سورج کو کس نے تابعدار کیا تو کہینگے کہ اللہ نے ‘‘۔ ’’اور اگر ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان پر سے مینہ برسایا جس سے مری ہوئی زمین کو پھر زندہ کیا تو کہیں گے اللہ نے‘‘۔ پس مذہب اسلام کا کیا سچا مسئلہ ہے کہ تمام انسانوں کو ‘ جنگلی ہو یا پہاڑی‘ شہری ہو یا دیہاتی‘ تربیت یافتہ ہوں یا نا تربیت یافتہ‘ کسی نبی کی ان کو خبر پہونچی ہو یا نہ پہنچی ہو‘ کوئی مذہب ان کو دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو‘ اس بات پر ایمان لانا فرض ہے کہ تمام موجودات کا کوئی صانع ہے اور وہی اللہ جل شانہ و جل جلالہ ۔ عقیدہ دوم وہ ہستی جس کو ہم اللہ کہتے ہیں واحد فی الذات ہے۔ یعنی مثل ا س کے دوسری ہستی نہیں۔ تمام موجودات پر جب ہم نظر کرتے ہیں تو بادی النظر میں ہم کو عجیب مختلف قسم کی چیزیں دکھائی دیتی ہیں اور ہ سمجھتے ہیں کہ ایک کو دوسری سے کچھ تعلق نہیں مگر جب یہ تعمق نظر ڈالتے ہیں اور بخوبی سوچتے ہیں تب سمجھتے ہیں کہ تما م موجودات آپس مٰں نہایت مناسبت رکھتی ہیں اور سب کی سب ایک راہ پر چلتی ہیں۔ ایک کو دوسری سے ایسی مناسبت ہے کہ اگر ایک چیز بھی موجودات میں سے معدوم ہو جاوے تو اس گورکھ دھندے میں اتنا ہی نقصان آ جاوے۔ تمام موجودات ایسی تدبیر و حکمت و مناسبت سے موجود ہیں جیسے ایک گھڑی یا کل کے مختلف پرزے ااپس میں مناسبت رکھتے ہیں اور اس سے ہم کو اس بات کی ہدایت ہوتی ہے کہ یہ گورکھ دھندا ایک ہی دانا حکیم کا نکالا ہوا ہے اور ایک ہی کاریگر کا بنایا ہوا ہے اور عام عقل انسانی اس دلیل سے خدا کی وحدانیت پر اقرار کر سکتی ہے اس لیے اس مسئلہ پر بھی ایمان لانا اسی طرح ہر ایک انسان پر فرض ہے جس طرح کہ وجود خالق کے مسئلہ پر ایمان لانا فرض ہے۔ بلاشبہ یہ مسئلہ بہ نسبت پہلے مسئلے کے کسی قدر زیادہ باریک ہے۔ جو لوگ کہ نیچرل فلازفی‘ یعنی علم طبیعیات سے زیادہ واقف ہیں ارو جنہوں نے موجودات عالم میں سے بہت چیزوں کی بناوٹ اور پیدائش اور پھر ان کے انقلاب کا بقدر طاقت بشری علم حاصل کیا ہے۔ ان کا یقین اس مسئلہ پر سب سے زیادہ پختہ اور مستحکم ہے ۔ اور ان سے کم درجہ کے لوگوں کو خود کسی قدر غور و فکر کی حاجت ہوتی ہے ۔ اور اس سے ادنیٰ درجہ کے لوگ دوسرے کی تنبیہہ سے متنبہ ہونے اور کسی سے اس کا بیان سننے کے محتاج ہوتے ہیں۔ مگر یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ عام عقل انسانی کی سمجھ سے باہر ہو۔ تحقیقات کامل سے خواہ خود سوچنے سے یا کسی کے سمجھانے سے انسان کو بخوبی سمجھ سکتاہے اور یہی وجہ ہے جکہ اس مسئلہ پر ایمان لانا بموجب مذہب اسلام کے تمام انسانوں پر فرض ہے۔ بانی اسلام نے بھی اس مسئلہ کو کارخانہ قدرت کی دلیل سے سمجھایا ہے اور کسی جگہ بغیر سمجھے ایمان لانے کو نہیں فرمایا۔ ایک جگہ فرمایا ہے : ’’اسی کا ہے جو کچھ کہ آسمان و زمین میں ہے اورجو اس کا ہے (یا اس کے پاس ہے) اس کی اطاعت سے نہ منحرف ہوتا ہے اور نہ تھکتا ہے۔ رات دن اسی کی بزرگی کی یاد کرتا ہے اور ذرا بھی سستی نہیں کرتا کیا انہوں نے زمین کی چیزوں میں سے کسی کو خدا ٹھہرایا ہے۔ اگر آسمان و زمین میں بہت سے خدا ہوتے تو دونوں کاکارخانہ بگڑ جاتا۔ ایک اور مقام پر بانی اسلام نے اس سے بھی زیادہ وضاحت فصیح و موثر زبان سے نیچر سے خدا کی وحدانیت پر اس طرح استدلا ل کیا ہے کہ ’’کس نے پیدا کیا آسمان اور زمین اور کس نے برسایا تمہارے لیے مینہ۔ پھر اس سے نہایت پر رونق باگ اگائے۔ تم کو تو ان کے اگانے کی قدرت تھی نہ پھر کیا خدا کے ساتھ کوئی دوسرا خدا ہے؟‘‘ ’’کس نے زمین کو تمہارے رہنے کی جگہ بنایا اور کس نے اس کے بیچ میں نہریں بہائیں کس نے اس پر پہاڑ گاڑے اورکس نے دو سمندروں کے بیچ میں زمین کا پردہ پیدا کیا۔پھر کیا خدا کے ساتھ کوئی دوسرا خدا ہے‘‘۔ ’’کون تم کو اندھیرے جنگلوں میں اور سمندر میں رستہ بتاتا ہے۔ کون مینہ برسنے سے پہلے اپنی مہربانی کی خوشخبری دینے والی ٹھنڈی ہوا چلاتا ہے۔ پھر کیا خدا کے ساتھ کوئی دوسرا خدا ہے۔ اگر تم سچے ہو تو اس کی دلیل لائو‘‘۔ پس دیکھو کہ کس طرح بانی اسلام نے توحید کا مسئلہ صرف کارخانہ قدرت کی حکمت اور اس کی مناسبت سمجھا کر انسانوں کو سمجھایا کہ یہ نہیں کہا کہ خواہ نخواہ بے سمجھے خدا کو مان لو اور جب کہ یہ مسئلہ ایسا تھا کہ ہر ایک انسان اس کو سمجھ سکتا تھا۔ اس لیے بانی اسلام نے تما م انسانوں کو اس مسئلہ پر ایمان لانے کا مکلف کیا اورکہہ دیا کہ تعالیٰ اللہ عمایشر کون۔ ہاں بیشک ایک شبہ اس پر وارد ہوتا ہے کہ اس تمام کارخانہ قدرت سے جو ہم دیکھتے ہیں اورسمجھتے ہیں یہ خیال مٹ نہیں سکتا کہ کیا عجب ہے کہ مثل اس کارخانہ قدرت کے کوئی اور کارخانہ قدرت ہو جس کو اس سے کچھ تعلق نہ ہو اور اس کارخانہ قدرت کا ایسا ہی کوئی صانع اور علت العلل اور موجود بالذات ازلی و ابدی ہو جیسا کہ اس کارخانہ قدرت کا ہے تو پھر توحید خدا کی کس طرح پر ثابت ہو گی۔ ہم اس شبہ کو تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بلاشبہ یہ ایک خیالی شبہ ہے جو رفع نہیں ہو سکتا۔ مگر اسلام اور ایمان کی بنیاد خیال پر نہیں ہے۔ فلسفیہ اور عقلیہ مباحث کو جو حالت فرضیہ غیر وجود سے ہوتی ہیں یقین سے اور ایمان سے کچھ مناسبت نہیں ہے۔ مولانا روم نے اس کے حق میں نہایت خوب فرمایا ہے۔ پائے استدلالیاں چوبیں بود پاء چوبیں سخت بے تمکیں بود یقین کے لیے ضرور ہے کہ معترض اول اس بات کا یقین دلائے کہ درحقیقت ایسا ہی دوسرا کارخانہ قدرت موجود ہے اور اس وقت کہے کہ خدا کی توحید ثابت نہیں مگر وہمی و فرضی باتوں سے خدا کے متعدد ہونے کا ثبوت نہیں ہو سکتا۔ مذہب اسلام کی رو سے انسان کو صرف اسی بات کا یقین کہ تمام چیزوں کا جن کو ہم دیکھتے ہیں اورسمجھتے ہیں اور جو وجود پذیر ہیں ان سب کا خدا ایک ہی ہے کافی اور وافی ہے اور اسی قدر پر انسان مکلف ہے۔ امنا بہ والحمد للہ علی ذالک عقیدہ سوم متعلق بہ صفات باری جل جلالہ وہ ہستی جس کو ہم خدا یا علۃ العلل کہتے ہیں نہ ہمارے دیکھنے میں آتا ہے نہ چھونے میں اورنہ خیال میں ‘ تو ہم بجز اتنی بات جاننے کے کہ ہے اور کچھ حقیقت اس کی ذات کی نہیں جان سکتے ۔ خدا بھی تو اپنی ذات کی حقیقت ہم کو نہیں بتا سکا۔ موسیٰ نے پوچھا کہ فرعون کے پاس تیرا پیغام لے کر جائوں تو کیا بتائوں کہ تو کون ہے تویہی جواب ملا کہ ’’میں وہی ہوں جو ہوں‘‘ پس جبکہ ہم ایک ذات کی حقیقت نہیں جان سکتے تو اس کی صفات کی حقیقت بھی نہیں جا ن سکتے بلکہ درحقیقت اس کو کسی صفت کا محل نہیں قرار دے سکتے۔ تمام صفات جن کو ہم خیال کر سکتے ہیں ۔ وہ سب مفہومات ہیں جو ہم نے بلحاظ ان چیزوں کی حالتوں کے جن کو ہم دیکھتے ہیں یا چھوتے ہیں یا سونگھتے ہیں یا سنتے ہیں یا سمجھتے ہیں اخذ کرتے ہیں مگر جب کہ وہ ہستی ہماری ان سب ہستیوں سے اوپر ہے ہم کیونکر اسے جان سکتے ہیں کہ وہ صفات اس میں بھی ہیں یا وہ ان صفات کامحل بھی ہو سکتی ہیں۔ ان کو یوں کہا جاتا ہے کہ وہ صفات تو اس میں ہیں مگر ویسی نہیں ہیں جیسا کہ ہم جانتے ہیں یعنی جو حقیقت ان صفات کی ہم نے موجودات عالم سے اخذ کر کر سمجھی ہے وہ حقیقت ان صفات کی نہیں ہے جو اس میں ہیں اور یہ کہنا ہمارا صاف صاف یہ کہنا ہے کہ ان صفات کا جن کوہم جانتے ہیں اس میں ہونا نہیں جانتے۔ خدا کو ہاتھ پائوں والا منہ والا ‘ بولتا‘ چلتا‘پھرتا‘ سنتا‘ دیکھتا‘ کرتا کراتا‘ جیتا جاگتا‘ خوش ہونے والا‘ خفا ہونے والا سب کچھ کہتے ہیں مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں ہ ہمارے سے ہاتھ پائوں ‘ ہمارا سا منہ ‘ ہمارا سا بولنا ہمارا سا چلنا پھرنا‘ مارا سا سننا‘ ہمارا سا کرنا کرانا‘ ہمارا ساجینا جاگنا ہمارا سا خوش و خفا ہونا نہٰں ہے مگر جب پوچھو کہ اگر ویسا نہیں ہے تو پھر کیسا ہے تو جواب یہی ہو گا کہ ہم نہیں جانتے۔ بات کا تو بہت الٹ پھیر ہوامگر نتیجہ یہی نکلا کہ ان صفات کا جن کو ہم جانتے ہیں اس میں ہونا نہیں جانتے۔ صفات باری کا اس کی نسبت پر یقین کرنا اس یقین سے نہیں ہے کہ درحقیقت وہ صفتیں جس طرح پر ہم ان کو جانتے ہیں اس میں ہیں یا وہ ان کا محل ہے ۔ بلکہ وہ یقین اس وجہ سے ہے کہ ایسی ذات کو جو علت العلل ہے ان صفات کے مشابہ صفتوں کا موصوف یا ان صفات کی مانند قدرتوں پر قادر ہونا لازم ہے‘ کیونکہ بغیر ان کے وہ علت علت العلل نہیں ہو سکتی جس کا علت العلل ہونا تسلیم کیاتھا۔ زندگی اور موت دو صفتیں ہیں جن کے مفہوم کو ہم نے جاندار چیزوں کے حالات سے اخذ کیا ہے۔ پس کیا ہم یقین کر سکتے ہیں کہ اس زندگی یا موت کا جس کو ہم جانتے ہیں خدا محل ہو سکتاہے۔ بااینھمہ ہم ا س کو حسی لایموت کہتے ہیں۔ دہریوں نے مسلمانوں کی مذہبی کتابوں میں ان لفظوں کو جو صفات باری کی نسبت بولے گئے ہیں انہی مفہومات کا ذکر کیاہے جو انہوں نے موجودات کے حالات سے اخذ کیے ہیں ار پھر ان صفات کے منکر ہو کر کہنے لگے کہ ہم کیونکر یقین کریں کہ صفت قدرت کی یا رحم کی اس میں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم کب یقین کرتے ہیں اور ہم کب ان صفتوں کا جن کو ہم جانتے ہٰں اس کو محل قرار دیتے ہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ جن صفتوں کو ہم جانتے ہیں ویسی ہی کچھ علت العلل کی ذات کو لازم ہیں اور اسی لیے اس کے لوازم ذاتی ہونے پر یقین ہے اور چونکہ ذات اور لوازم ذات عین ذات ہوتے ہیں اس لیے ہم اس کی صفات کو عین ذات اور ذات کو عین صفات قرار دیتے ہیں اور اسی بنا پر ترانہ گاتے ہیں کہ : انا صفۃ من صفات اللہ و صفاتہ عینہ فانا عینہ اور کبھی یوں کہتے ہیں کہ : لیس فی جبتی سوا اللہ اور جب زیادہ کھول کر کہنا چاہتے ہیں تو یوں کہتے ہیں کہ : انا احمد بلامیم عشق گر مرد است مردی بر سرکار آورد ورنہ چوں موسیٰ بسے آورد و بسیار آورد گر ہمی خواہد کہ وصف ذات خود ثابت کند یک انالحق گوئی دیگر برسر دار آورد یوسف یعقوب را بردن بہ بازارش چہ سود مرد عشقے ہمچو احمد را بہ بازار آورد غرض کہ ہم تمام صفات کو با بطور ایجاب یا بطور سلب ذات باری کی طرف نسبت کرتے ہیں اور اس میں ان صفات ک یہونے اورنہ ہونے کا بھی یقین کرتے ہیں۔ مگر نہ اس وجہ سے کہ وہ ان کا محل ہے بلکہ اس وجہ سے کہ ہم کو ان مفہومات کے من حیث الاطلاق لوازم ذاتی علت العلل کے ہونے پر یقین کلی ہے۔ بایینھمہ جس طرح ہم اس کی ذات کی حقیقت کو نہیں جانتے اسی طرح اس کی صفات کی حقیقت کو بھی نہیں جانتے۔ بانی اسلام نے بھی ان کی حقیقت کا جاننا ہمارے ایمان کا جزو نہیں قرار دیا بلکہ خود اس نے ان کی حقیقت کو کچھ نہیں بتلایا۔ غفور ‘ رحیم ‘ قادر ‘ حی لایموت بتایا اور اس بتانے سے اس کی ذات کا ان کا محل ہونا لازم نہ آیا تو ایسا خیال کرنا خود ہماری غلطی ہے۔ خدا کے ساتھ جن صفتوں کو ہم بتاتے ہیں گو ان کے مفہومات تو موجودات کے حالات سے اخذ کیے ہوئے ہیں مگر خدا کی طرف من حیث الاطلاق نسبت کرتے ہیں بلکہ اطلاق کی قید سے بھی مطلق رکھتے ہیں تاکہ صرف مفہوم ہی مفہوم باقی رہ جاوے اور اسی لیے جب کسی صفت کو کہتے ہیں کہ ہے تو ی بھی کہتے ہیں کہ ایسی نہیں ہے۔ یہ ایک بحث عام صفات باری کی نسبت تھی اور آئندہ ہم وقتاً فوقتاً ہر ایک صفت کی نسبت خاص خاص بحث کریں گے۔ واللہ ولی التوفیق منتہی الکلام فی بیان مسائل الاسلام (از ’’آخری مضامین سرسید‘‘) جو لوگ مذہب اسلام کی مخالفت اوراس پر نکتہ چینی کرتے ہیں وہ زیادہ تر ان کتابوں پر متوجہ ہوتے ہیں جو کتب احادیث و تفاسیر و کتب سیر کے نام سے مدون ہیں اور جن کو خود اہل اسلام نے لکھا ہے اور جب کوئی مسلمان ان احادیث کی تنقیح کرتاہے اور کسی کو مقبول اور کسی کو مردود قرار دیتا ہے یا تفاسیر اورسیر کی کتابوں کے مضامین کو غلط ٹھہراتا ہے تو اس پر مذہب اسلام کی طرفداری کا الزام لگاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیںکہ مذکورہ بالا کتابوں میںایسی باتیں بھی پائی جاتی ہیں جو: (۱) خود قرآن مجید کے بھی برخلاف ہیں اور (۲) ایسی بھی پائی جاتی ہیں جو تاریخ محققہ اور مشہورہ کے متناقض ہیں اور (۳) ایسی بھی پائی جاتی ہیں جن کو حس اور مشاہدہ جھٹلاتا ہے اور (۴) ایسی بھی پائی جاتی ہیں جن کو عقل انسانی کسی طرح قبول نہیں کرتی۔ اس قسم کی روایتوں سے جو مسلمان انکار کرتے ہیں اور ان کو غلط ٹھہراتے ہیں اس سے ان کا صاف مطلب یہ پایا جاتا ہے کہ قرآن مجید کی صداقت ظاہر کرنے کو اس کے مخالف کو حدیثیں اور روایتیں ہیں ان س انکار کریں اور تاریخ محققہ اور مشہورہ اور حس اور مشاہدہ اور عقل انسانی کے برخلاف جو حدیثیں اور روائتیں ہیں ان کا اس لیے انکار کرتے ہیں کہ مذہب اسلام پر کوئی حرف نہ آنے پائے اور تعجب یہ ہوتا ہے کہ (۵) ایسی حدیثوں اور روایتوں کو جن سے بانی اسلام کے مناقب پائے جاویں ‘ تسلیم کرتے ہیں کہ جن سے بانی اسلام پر کسی قسم کی منقصت لازم آتی ہے اس کو نہیں مانتے۔ (۶) اور جو حدیثیں اور روائتیں وقار نبوت کے برخلاف ہیں ان کو بھی نہیں مانتے اورکوئی عقلی دلیل اس بات کی نہیں بیان کر سکتے کہ کیوں ان حدیثوں اور روایتوں کو مانا اور کیوں ان روایتوں اور حدیثوں کو نہیںمانا‘ مگر اس ماننے اور نہ ماننے کے لیے ایسی بنا عقائد پر منبی ہے تو وہ شخص جو مذہب اسلام کو نہیں مانتا قبول نہیں کر سکتا۔ بلکہ ان کے ماننے اور نہ ماننے کے لیے ایسی عقلی اور روشن دلیل چاہیے کہ جس کو غیر مذہب والا بھی مان سکے۔ یہ قول تو مخالفین مذہب اسلام کاہے مگر ہم اس پر یہ اور زیادہ کرتے ہیں کہ جب کسی راسی کی ایک روایت پر یا کسی حدیث کی کتاب کی کوئی حدیث یا کسی محدث یا مفسر عالم یا مجتہد کے قول کو صحیح مانا جاتا ہے تو جب اسی راوی کی دوسری روایت یا اسی حدیث کی کتاب کی دوسری حدیث یا اسی مفسر یا محدث یا عالم یا مجتہد کے دوسرے قول کو غلط قرار دیا جاتا ہے تو خود مسلمان ہی معترض ہوتے ہیں کہ کیوں ا س راوی کی روایت اور اس حدیث کی کتاب کی حدیث کو اور اسی محدث یا مفسر یا عالم یا مجتہد کے قول کو صحیح مانا تھا اور اب کیوں اسی راوی کی روایت اور اسی حدیث کی کتاب کی حدیث اور اس محدث یا مفسر یا عالم یا مجتہد کے دوسرے قول کو غلط مانا جاتا ہے۔ ہم ان امور کی نسبت جو کچھ لکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی بنیاد عقائد مذہبی پر رکھنی نہیں چاہتے ۔ بلکہ ایک ایسے عام واقعات پر مبنی کرنا چاہتے ہیں کہ جن سے ہماری دانست میں کوئی انسان انکار نہیں کر سکتا۔ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جو واقعہ کسی زمانہ میں گزرتا ہے بشرطیکہ وہ واقعہ ایساہو کہ آئندہ زمانہ کے لوگ اس کے تذکرہ میں مشغول رہتے ہوں اور اس کا چرچا قائم رکھتے ہوں تو جس قدر زمانہ گزرتا جاتا ہے اسی قدر ا س میں زائد باتیں جو اس واقعہ میں درحقیقت نہیں ہوتیں ملتی جاتی ہیں۔ دنیاوی واقعات میں ایسا کم ہوتا ہے بلکہ ‘ نہیں ہوتا کہ آئندہ زمانہ کے لوگ مدت دراز تک اسکے تذکرے اور چرچے میں مشغول رہتے ہوں اور یہی سب ہے کہ تاریخانہ واقعات میں جو بادشاہوں اور سلطنتوں اور ملکوں کے حالات میں لکھے جاتے ہیں ایسی زائد اور بے اصل باتوں کا میل کمتر ہوتا ہے مگر واقعات مذہبی ایسے قسم کے ہوتے ہیں جن کا تذکرہ اور چرچا زمانہ دراز تک قائم رہتاہے ۔ بلکہ برابر چلا جاتاہے۔ اس لیے زائد اور بے اصل باتیں ان واقعات میں شامل ہوتی جاتی ہیں۔ مذہب اسلام بھی اس عام قاعدہ سے بری نہیں رہا۔ بلکہ اس میں ایسے اسباب پیش آئے کہ اس میں زائد اوربے اصل باتوں کے شامل ہونے کے زائد اسباب تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جہاں تک ان واقعات کا جو آنحضرت کے زمانہ میں گزرے اور ان اقوال و افعال کا جو آنحضرت نے فرمائے یا کیے سب کا زبانی روایتوں پر مدار تھا اور اس میں زائد بے اصل باتوں کے شامل ہونے کے بہت سے اسباب موجود تھے۔ اول۔ امتداد زمانہ ہی اس بات کا مقتجی تھا کہ زائد اور بے اصل باتیں اس میں شامل ہوتی جاویں۔ دوم۔ ان باتوں کو گو وہ زائد اور بے اصل ہی ہوں لوگ زیادہ پسند کرتے تھے جن سے تقدس اور تفوق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مترشح ہوتا تھا۔ سوم۔ جو راوی اس زمانہ کے واقعات کو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کو روایت کرتے تھے وہ نہایت مقدس‘ معز ز و مکرم‘ لائق ادب سمجھنے جاتے تھے جس نے بہت لوگوں کو صحیح و غلط روایت کرنے پر اور موضوع و بے اصل روایت بنا لینے پر راغب کیا تھا۔ چہارم ۔ راویوں کا ان واقعات کے اسباب ے سمجھنے میں جن کے سبب سے وہ واقعات پیش آئے تھے غلطی کرنا اور اس کا ایسا مطلب قرار دینا جو واقعی نہ تھا۔ پنجم۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا اس کے مطلب اورمقصد اور منشاء کے سمجھنے میں غلطی کرنا اور اس کا ایسا مطلب قرار دینا جو مقصود نہ تھا۔ ششم۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری بات سنے بغیر صڑف اسی قدر کو روایت کر دینا جس قدر کہ ادھوری بات سنی تھی۔ ہفتم ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہودیوں اور عیسائیوں اور عرب جاہلیت کے حالات اور عقائد یا واقعات کا بھی تذکرہ فرمایا کرتے تھے مگر سننے والے نے یہ سمجھا کہ ان باتوں کو خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور اس کو آنحضرت کے فرمودہ کے طور پر روایت کر دیا۔ ہشتم۔ ایک غلط افواہ کا لوگوں میں مشہور ہو جانا اور پھر اس کا بطور روایت کے بیان ہونا۔ نہم ۔ آپس میں تنازعات کا ہونا اور ہر ایک گروہ کا اپنے مقصد کے موافق روایتوں کا بنانا اور روایت کرنا۔ دہم ۔ مختلف عقائد پر لوگوں کا ہونا اور اپنے اپنے عقائد کی تائید میں روایتوں کا بیان کرنا۔ یاز دہم۔ بددیانت لوگوں کا امراء و سلاطین کے خوش کرنے کو جھوٹی روایتوں کا بیان کرنا۔ دواز دہم۔ منافقین اور مخالفین مذہب کا جھوٹی روایتوں کو شائع کرنا یا اصلی روایتوں میں کمی بیشی کر دینا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک مدت دراز تک زبانی روایت کا سلسلہ جاری رہا اور اس وقت منقطع ہوا جب کہ معتدبہ کتابیں حدیث کی لکھی گئیں مگر اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جس قدر حدیث کی کتابیں لکھی گئیں ان کی بنیاد انہیں زبانی روایتوں پر مبنی تھی۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ محدثین نے خدا ان پر رحمت کرے جہاں تک کہ ان سے ہو سکا ‘ کسی نے کم اور کسی نے بہت زیادہ اس بات میں کوشش کی کہ صحیح روایتوں کو اپنی کتاب میں جمع کر یں۔ چنانچہ موطا امام مالک اور بخاری ‘ مسلم نے اور اس کے بعد ترمذی ‘ سنن ابو دائود ‘ نسائی اور ابن ماجہ نے اس میں بہت کامیابی حاصل کی اور علماء نے ان کتابوں کو قبول کیا اور ان کی شروح لکھنے اور مقامات مشکلہ کے حل کرنے میں متوجہ ہوئے۔ ان کی کوشش کا زیادہ تر بلکہ بالکلیہ راویوں کے معتبر اور نامعتبر ہونے پر مدار تھا مگر جن لوگوںکو مرے ہوئے ایک زمانہ گزر گیاتھا ان کے معتبر ہونے کو اس طرح پر تحقیق کرنا جس پر یقین کامل ہو اگر ناممکن نہ تھا تو نہایت مشکل ضرور تھا ۔ مگر اس حدیث کے مضامین کے لحاظ سے اس کے صحیح یا غیر صحیح ہونے پر ان لوگوں کو کچھ خیال نہ تھا۔ اس زمانہ میں جس قدر مذاہب موجو د تھے کیا یہودی اور کیا عیسائی اور کیا آتش پرست اور کیا بت پرست سب کے سب سپر نیچرل ‘ یعنی ما فو ق الفطرت واقعات کے واقع ہونے کے قائل تھے اور یہودی اور عیسائیوں میں ایسے واقعات کثرت سے مشہور تھے اور مسلمان خدا کو قادر مطلق پر یقین کرنے تھے جن سے ان کا یہ مقصد تھ اکہ خدا ایسے امور کے کرنے پر بھی مختار ہے جو مافو ق الفطرت ہوں اسی لیے جو روایتیں اور حدیثیں ایسی ہوتی ہیں جن میں واقعات مافو ق الفطرت کا بیان ہوتاتھا۔ ان کو بلا کسی شبہ اور تردد کے حدیث کی کتابوں میں داخل کر لیا جاتا تھا۔ غرضیکہ تمام کتب احادیث اور بالتخصیص کتب تفاسیر اور سیر اس قسم کی روایات کا مجموعہ ہیں۔جن میں صحیح اور غیر صحیح اور قابل تسلیم ناقابل تسلیم حدیثیں اور روایتیں مندرج ہیں۔ یہ سب باتیں جو ہم نے بیان کیں تاریخانہ واقعات ہیں جو اسلام پر گزرے ہیں اور کوئی بات اس میں ایسی نہیں ہے جو کہ سوائے معتقدین اسلام کے اور کوئی اس کو تسلیم نہ کرتا ہو اوراس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی شخص کسی مذہب کا ہو بشرطیکہ وہ تاریخی واقعات سے واقف ہو ۔ ان واقعات کے صحیح ہونے سے انکار نہیںکر سکتا۔ اب ہم پوچھتے ہیں کہ ایک محقق کو جو یہ چاہتا ہو کہ ان حدیثوں اور روایتوں میں سے صحیح کو غیر صحیح سے تمیز کرے عقلاً بغیر پابندی مذہب کے کیا کرنا لازم ہے؟ عقل یہ حکم کرتی ہے ک سب سے اول کام یہ کام ہو گا کہ اسی زمانہ کی اسی تحریر کو تلاش کرے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہو لکھا ہو تاکہ اس سے ان زبانی روایتوں کا مقابلہ کرے اور جس زبانی روایت کو اس تحریر کے مخالف یا متناقض پاوے اس کو غلط قرار دے۔ ایسی تحریر بجز اس کتاب کے جس کو مسلمان قرآن مجید کہتے ہیں اور کوئی نہیں ہے اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن مجید اس زمانہ کے رواج کے موافق لکھا جاتا تھا اور وہ متفرق چیزوں پر لکھا جاتا تھا بعد انتقال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت ابوبکرؓ کی خلافت میں ایک جا جمع ہوا جس میں بہت سے اقوال اور احکام رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے اور چند واقعات جو اس زمانہ میں واقعہ ہوئے مندرج ہیں ۔نعوذ باللہ اس کو کتاب منزل من اللہ نہ مانو‘ مگر کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ وہ کتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور کم سے کم یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین زمانہ میں لکھی گئی تھی۔ پس اگر کوئی زبانی روایت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہو اور اس کتاب کے اقوال اوراحکام اور واقعات مندرجہ کے خلا ف یا متناقض ہو تو بلا لحاظ مذہب عقل اس بات کی مقتضی ہے کہ اس زبانی روایت کو غلط سمجھا جاوے اور مذہب اسلام میں سے اس کو اسی طرح نکال کر پھینک دیا جاوے جس طرح دودھ میں سے مکھی نکال کر پھینک دی جاتی ہے اور یہی عقلی اصول مذہب اسلام میں ٹھہرا ہے۔ کہ جو حدیث یا روایت قرآن مجید کے برخلاف یا اس کے متناقض ہو اس کو نامعقول اور مردود کیا جائے ۔ پس ہمارا ایسا کرنا اس مطلب سے نہیں ہے کہ قرآن مجید کی صداقت میں (جو ہمارے نزدیک بلاشبہ صادق ہے) کچھ فرق نہ آوے بلکہ ہر انسان ایسای ہی کرے گا جیسا کہ ہم کرتے ہیں۔ ایسا کرنے میں ہم نے قرآن مجید کے ساتھ کوئی عجیب کام نہیں کیا بلکہ ایسا ہی کام کیا ہے جو عموماً ایسی حالت میں کیا جاتا ہے۔ مثلاً ہمارے پاس تزک تیموری‘ تزک بابری‘ تزک جہانگیری‘ جو خود ان بادشاہوں کی لکھی ہوئی ہیں یا ایسی تاریخیں جو خود ان بادشاہوں کی لکھی ہوئی ہیں یاایسی تاریخیں جو ہم عہد مصنفوں نے لکھی ہیں موجود ہیں اب ہم کو ایک زبانی روایت پہنچ جو بالکل مختلف یا متناقض ان حالات کے ہے جو کتابوں میں مندرج ہیں تو ہم بلاشبہ اس زبانی روایت کو غلط اور مردود قرار دیں گے۔ پس کیا وجہ ہے کہ قران مجید کے مقابلہ میں ایسی زبانی حدیث یا روایت کو جو قرآن مجید کے مخالف یا متناقض ہے مردود اور نا مقبول نہ قرار دیں۔پس یہ خیال کہ ہم قرآن مجید کی صداقت قائم رکھنے کو ان زبانی روایتوں سے انکار کرتے ہیں کیسا لغو اور بے ہودہ اور بے اصل خیال ہے۔ دوسرے امر کی نسبت ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں تو کوئی ایسی بات جو تاریخ محققہ اور مشہودہ کے برخلاف ہو۔ پائی نہیں جاتی۔ ہاں اس میں کچھ شبہ نہٰں کہ بعض قصص جو یہودیوں اور عیسائیوں میں یا عرب جاہلیت میں مشہور تھے ان کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ مگر جو فضول اور زائد اور بے اصل باتیں ان قصص مشہور میں شامل تھیں اورجو عقلاً بھی غلط معلوم ہوتی تھیں وہ قرآن مجید میں نہیں ہیں۔ گو کہ مفسروں نے اپنی تفسیروں میں ان کو بھی داخل کر لیا ہو۔ باقی رہیں اور حدیثیں اور روایتیں جو زبانی زبان پر مبنی ہیں اگر کسی تاریخ محققہ کے برخلاف ہیں تو یہ برخلافی ان کے نامعتبر ہونے کی دلیل کافی ہے۔ اور وہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کی گئی ہیں تو اول اس بات کا کافی ثبوت ہونا چاہیے کہ درحقیقت اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ دوم اس بات کا ثبوت چاہیے کہ جو لفظ راویوں نے بیان کیے ہیں وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے تھے۔ تیسرے اس بات کا ثبوت چاہیے کہ جو معنی ان لفظوں کے شارحین و مفسرین نے بیان کیے ہیں ان کے سوا اور کوئی معنی ان کے نہیں ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ایک امر بھی نہیں ہے تو اس روایت کو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ تیسرے امر کی نسبت ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کو کوئی ایسی حدیث جس کو صحیح طور پر حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کہہ سکیں معلوم نہیں ہے۔ جو حس اور مشاہدہ کے برخلاف ہو اور اگر کوئی روایت ایسی ہو اور اس کو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کیا ہو تو جب تک وہ تینوں امر ثابت نہ ہوں جن کا ابھی ہم نے کیا ہے اس وقت تک اس کو حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہہ سکتے ۔ پس یہ خیال کرناکہ ایسی روایتوں سے ہمارا انکار کرنا اس لیے ہے کہ مذہب اسلام پر کوئی حرف نہ آنے پائے کس قدر غلط اور ناواجب ہے۔ چوتھے امر کی نسبت ہم یہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ حدیث کی کتابوں میں ایسی حدیثیں مندرج ہیں جو عقل انسانی کے برخلاف یا مافوق الفطرت ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ لوگ واقعات مافو ق الفطرت کے واقع ہونے کو تسلیم کرتے تھے ۔ جیسا کہ اور تمام مذاہب کے معتقد بھی اس کوتسلیم کرتے تھے۔ پس یہ اعتراض ایسا عائتہ الورود ہے کہ کوئی شخص جو کسی مذہب کا معتقد ہو خواہ یہودی مذہب کا یا عیسائی مذہب کا یا اور کسی مذہب کا اس اعتراض سے بچ نہیں سکتا۔ لیکن جب کوئی محقق ان پر نظر ڈالتا ہے تو کہتا ہے کہ ان کا مافوق الفطرت یا خلاف عقل ہونا اس کے نامعتبر اور ناقابل ہونے کو کافی ہے۔ خود علمائے علم حدیث نے احادیث موضوع کے امتیاز کرنے کو جو قاعدے بنائے ہیں ان میں ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ جس حدیث میں ایسے امور مذکور ہوں جو مافوق الفطرت یا خارج از عقل ہوں تو ہو حدیثوں پر جاری نہیں کرتے کتب مشہور احادیث میں اور خصوصاً ان سات کتابوں میںمندرج ہیں جن کے نام اوپر بیان ہوئے ہیں مگر ایک محقق اس بات کی کوئی وجہ نہیں پاتا کہ کیوں اس قاعدہ کو ان حدیثوں کی کتابوں پر جاری نہ کیا جاوے۔ اگر ان امور سے قطع نظر کی جاوے تو انہیں تینوں باتوں کا ثبوت درکار ہو گا جو ہم نے اوپر بیان کی ہیں یعنی یہ کہ درحقیقت اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اور جو لفظ راویوں نے یہاں بیان کیے ہیں وہی لفظ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے تھے اور جو معنی ان لفظوں کے شارحین اور مفسرین نے اختیار کیے ہیں ان کے سوائے اور کوئی معنی ان لفظوں کے نہیں ہیں۔ اگ ان میں سے پہلی دو باتیں ثابت نہ ہوں سکیں تو اس کو حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ اگر تیسری بات ثابت نہ ہو سکے تو محقق ان معنوں کا پابند نہیں ہو سکتا کہ جو شارحین اور مفسرین نے قرار دیے ہیں۔ پس ایسی حدیثوں سے انکار کرنے پر یہ کہنا کہ اس لیے ان سے انکار کیاگیا ہے کہ مذہب اسلام پر کوئی حرف نہ آنے پاوے کیسا غلط اور بے جا اعتراض ہے۔ پانچویں امر کی نسبت ہم یہ کہتے ہیں کہ جن حدیثوں یا روایتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مناقب بیان ہوئے ہیں ور وہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیںہوتا صحابہ کے اقوال ہوتے ہی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہے ہیں۔ پس جو کچھ ان میں بیان ہوا ہے وہ رائے ان بیان کرنے والوں کی ہے۔ پس کسی کو حق نہیں ہے کہ یہ کہے کہ یہ رائے اس بیان کرنے والے کی نہیں ہے۔ اور اس لیے ضرور ہے کہ وہ حدیثیں بطور اس راوی کی رائے کے تسلیم کی جاویں۔ حدیث یا تفسیر یا سیر کی کتابوں میں ہم کوئی روایت ایسی نہیں پاتے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعوذ باللہ منقصت کی ہو یا کسی شخص نے جو آنحضرت کی رسالت اور اسلام کی حقیقت کا مقر ہو ایسی روایت بیان کی ہو اور اس لیے یقین ہوتا ہے کہ ایسی روایت کا بیان کرنا صرف دو شخصوں کا کام ہے۔ یا منافقوں کا یا کافروں کا اور ظاہر ہے کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں بہ سبب نفاق اور کفر کے جو مورث عداوت ہے کہتے ہیں اس لیے ضرور ہے کہ ا س کو مردود سمجھا جائے ۔ ایسا کرنے میں ہم قاعدہ طبیعت انسانی سے کچھ زیادہ نہیں کرتے کیونکہ اس زمانہ میں بھی اگر کوئی کسی کا دشمن یا مخالف مانا جاتا اور یقین کیا جاتا ہے کہ دشمنی اور عداوت کی وجہ سے کہتا ہے۔ پس ایسی بات کے تسلیم نہ کرنے میں ہم عام طبیعت انسانی سے کچھ زیادہ نہیں کرتے۔ چھٹے امر کی نسبت ہم یہ کہتے ہیں کہ ہاںہم ایسی روایتوں کو بھی نہیں مانتے ‘ جو وقار نبوت کے برخلاف ہوں ایسا کرنے میں بھی ہم عام طبیعت انسانی کے برخلاف نہیں کرتے ‘ کیونکہ ہم نے بہت سی قطعی دلیلوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل ترین خلق تسلیم کر لیا ہے اور رسو ل خدا بھی مانا ہے تو ایسے امور کو جو اس وقار کے برخلاف ہوں ‘ ہرگز تسلیم نہیں کرتے۔ ایسا کرنے میں بھی ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتے جو عموماً کیا کرتے ہیں۔ اس زمانہ میں بھ جس شخص کو ہم عمدہ خصلت اور صاحب دیانت‘ ذی وقار سمجھ لیتے ہیں تو اگر کوئی شخص ایسا امر بیان کرے جو اس کے وقار کے شایان نہ ہو تو اس کو بھی ہم تسلیم نیں کرتے پس اگر ہم نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی ایسا کیا تو کچھ تعجب کی بات نہیں ہے۔ محدثین نے حدیث کے روایت کرنے میں تین لفظ اختیار کیے ہیں اخبرنا اور انباناً اور عن۔ پہلے دو لفظ تو اس بات کی دلالت کرتے ہیں کہ پچھلے راوی نے پہلے راوی سے خود وہ روایت سنی ہے‘ مگر عن کے لفظ سے یہ لازم نہیں ہے کہ پچھلے راوی نے پہلے راوی سے وہ روایت سنی ہو اور ممکن ہے کہ نہ سنی ہو ‘ بلکہ اس پچھلے راوی اور اس کے اوپر کے راوی میں اور جو لوگ بھی ہوں‘ جن کے نام چھوٹ گئے ہوں اور ایسی بھی حدیثیں ہیں جن کی روایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچی بلکہ صرف صحابہ یا تابعین اورتبع تابعین تک پہنچی ہے۔ اگر ایسی حدیثوں میں ایسے مضمون ہوں جن پر کوئی جرح و قدح نہیں ہو سکتی یعنی از روئے درایت کے وہ مضمون غلط نہیں معلوم ہوتے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان حدیثوں کے قبول کرنے سے انکار کریں۔ تفسیروں اور سیر کی کتابوں میں خواہ وہ تفسیر ابن جریر ہو یا تفسیر کبیروغیرہ اور خواہ وہ سیرۃ ابن اسحق ہو خواہ سیرت ابن ہشام اور خواہ وہ روضۃ الاحباب ہو یا مدراج النبوۃ وغیرہ ان میں تو اکثر ایسی لغو اورنامعتبر روایتیں اور قصے مندرج ہیں جن کا نہ بیان کرنا ان کے بیان کرنے سے بہتر ہے۔ ٭٭٭ طبقات علوم الدین (تہذیب الاخلاق بابت ۱۵۔ محرم ۱۲۸۸ھ) ہم خیال کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں جو مسلمان بعض مسائل مذہبی کی تدقیقات کو دیکھ کر متعجب ہوتے ہیں اور اس تدقیق کو خلاف جمہور کو اور خرق اجماع سمجھتے ہیں ‘ غالباً اس کا سبب یہ ہے کہ وہ علوم دین کے طبقات سے واقف نہیں‘ اس لیے مناسب ہے کہ کچھ ان کا ذکر کیا جائے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البلاغہ میں طبقات علوم الدین کی تفصیل اس طرحبیان کی ہے: طبقہ اول حدیثوں کے پہچاننے کا علم کہ کون سی صحیح ہے اور کون سی ضعیف ؟ اور کون سی معتبر ہے اور کون سی نامعتبر؟ چنانچہ اس کام کو علماء محدثین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے اختیار کیا اور حدیث کی کتابیں اس میں تالیف کیں۔ طبقہ دوم کلام الٰہی اوران حدیثوںکے معنی بیان کرنے کا علم کہ مطابق محاورہ استعمال زبان عرب کے اس کے کیا معنی ہیں؟ چنانچہ اس کام کو علماء علم ادب نے اختیار کیا۔ طبقہ سوم کلام الٰہی اور حدیثوں کے معنوں کوبطور اصطلاحات شرعیہ قرار دینے اور ان سے احکا م شرعیہ کے نکالنے اور ایک حکم سے دوسرے پر قیاس کرنے اور اشارات و کنایات اور ایک حکم سے دوسرے پر قیاس کرنے اور اشارات و کنایات عبارت سے حکم نکالنے اور ناسخ منسوخ قرار دینے اور راحج مرجوح ٹھہرانے کا علم۔ چنانچہ اس کام کو فقہاء نے اختیار کیا۔ طبقہ چہارم مذہب اسلام کے اسرار جاننے کا علم اور یہ وہ علم ہے جس میں مذہب اسلام میں جو کچھ ہے اس کی حقیقت اوراصلیت اورجو حکمت کہ شارع نے اس میں رکھی ہے وہ بیان کی جاتی ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ یہی علم ہے جس سے آدمی پکا مسلمان ہوتا ہے اور اس کا ایمان مثل ایسے شخص کے کامل یقین کے پختہ ہو جاتا ہے جس کو کسی نہایت سچے شخص نے یہ بات کہی ہو کہ سنکھیا زہر قاتل ہے‘ اس کے کھانے سے آدمی مر جاتا ہے اور ا س شخص نے بسبب اس قائل کی سچائی اور معتبری کے اس کی تصدیق کی اور پھر قواعد علم کی حکمت سے یہ بات بھی جانی کہ زہر میں حرارت اور یبوست بے انتہاہے اوروہ دونوں کاصیتیں انسان کے مزاج کے برخلاف ہیں اور اس لیے اس کو مار ڈالتی ہیں اور اس بات کے جاننے سے اس کا یقین اس قابل پر اور اس کی بات پر اور زیادہ پختہ ہو جاتا ہے پس اسرر دین کے علم کا یہی نتیجہ ہے کہ وہ انسان کے ایمان کو ایسا پختہ کر دیتا ہے کہ کسی طرح ڈگمگا ہی نہیں سکتا۔ شاہ صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگرچہ عالم عالموں نے فقہ کو لب لباب علوم دین کا سمجھا ہے۔ مگر ان کے نزدیک علم اسرار دین ہی سب کا سرتاج ہے۔ پھر وہ قسمیہ بیان کرتے ہیں کہ یہی علم اس لائق ہے کہ بعد ادائے فرائض کے آدمی اسی علم میں اپنے تمام اوقات عزیز صرف کرے اور ذخیرہ آخرت لے جاوے۔ شاہ صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ جبکہ اس قسم کے مطالب پر لوگ غور کرتے آئے ہیں اور مسائل اور مطالب نکالتے رہے ہیں تو اب علم اسرار دین پر گفتگو کرنا اور بحث کرنا خرق اجماع ہی نہیں رہا میں کہتا ہوں کہ خرق اجماع کیسا اب اس پر بحث کرنا فرض عین ہو گیا ہے۔ حال یہ ہے کہ جو حالات کہ انسان کی روح سے متعلق ہیں اور جو انکشافات کہ انسان کی روح پر ہوتے ہیں اور اعمال صالح اور غیر صالح سے جو کیفیت انسان کی روح میں پیدا ہوتی ہے اورجو حالات کہ اس پر بعد موت کے طاری ہوتے ہیں جس کو معاد کہتے ہیں ۔ وہ بدون تمثیل کے سنان کے خیال میںنہیں آ سکتے ‘ کیوں کہ جو چیز کہ ہماری آنکھ سے دکھائی نہیں دیتی‘ نہ ہم اس کو چھو سکتے ہیں تو اس کا خیال ہمارے دل میں بجز ایسی چیزوں کی تمثیل کے جن کو ہم جانتے ہیں اور دیکھتے ہیں اور کسی طرح پر نہیں آ سکتا۔ مثلاً اگر عذاب قبر میں گنہگاروں کی نسبت سانپوں کا چمٹنا اور کاٹنا بیان کیا جاوے تو اس کایہ مطلب نہیں ہوتا کہ درحقیقت سچ مچ کے یہ سانپ جن کو ہم دنیا میں دیکھتے ہیں مردے کو چمٹ جاتے ہیں بلکہ جو کیفیت کہ گناہوں سے روح کو حاصل ہوتی ہے اس کا حال انسانوں میں اس رنج و تکلیف و مایوسی کی مثال سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ جو دنیا میں سانپوں کے کاٹنے سے انسان کوہوتی ہے۔ عام لوگ اور کٹ ملا اس کو واقعی سانپ سمجھتے ہیں اور عارف باللہ اس کی حقیقت اور اصلیت پر لے لے جاتے ہیں ۔ اوراسی اصلیت کے جاننے اوربیان کرنے کو علم اسرار دین کہتے ہیں اوریہ وہی علم ہے جس سے انسان کا ایمان تصدیق کے درجہ سے بھی بڑھ کر علم الیقین اور حق الیقین ‘ بلکہ عین الیقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔ اگلے زمانہ میں علماء کی رائے تھی کہ علم اسرار دین کو عام لوگوں میں پھیلانے سے جو ان کی سمجھ سے باہرہے۔ کچھ فائدہ نہیں‘ بلکہ ان کی تصدق کو تشکیک میں ڈالتا ہے۔ مگر اب وہ زمانہ نہیںرہا۔ حال کے زمانہ میں ہر چہار ہر طرف علوم کی ترقی بہت زیادہ ہو گئی ہے ۔ اور اس کی شعاعیں تمام دنیا میںپھیل گئیں اور پھیلتی جاتی ہیں ارو پھیلتی جاویں گی۔ بعض ملکوں میں تو عوام اور خاص و خواص سب کے خیالات کو وسعت نہ ہو گئی اور بعض ملکوں میں شاید ابھی عوام کے خیالات کو وسعت نہ ہوئی ہوالا عام کے خیالات کو تو ضرور وسعت ہو گئی ہے اور اس لیے اب دین کی تمثیلی باتوں کا بیان کرنا کافی نہیں رہا بلکہ اسرار دین کے علانیہ بیانکرنے کا وقت ہے اور جو بات کہ اگلے زمانہ میں کسی عالم کے دو چار شاگرد رشید جانتے تھے اس کو عموماً ہر ایک کو بتلانا چاہیے تاکہ حقائق مسائل اور اسرار دین سے لوگ واقف ہو کر اپنے مذہب کی سچائی پر مطمئنن ہوں اور کٹ ملائوں کے اس فتویٰ کفر سے کہ عذاب قبر سے انکار کیا اور معراج کے منکر ہونے اور شیطان کے وجود کو حیز جداگانہ میں نہ ماننے سے نص قرآنی کا انکار کیا کچھ ڈرنا نہیں چاہیے۔ اگلے لوگوںنے جن میں سب کے سرتاج امام حجۃ الاسلام غزالیؒ ہیں اور سب کے آخر شاہ ولی اللہ صاحبؒ ہیں ان کی نسبت بھی ان کٹ ملائوں نے اسرار دین کے بیان کرنے کے سبب سے بہت سے کفر کے فتوے دیے ہیں۔ ان فتووں سے ان کو تو کچھ نہیں بگڑا مگر ان کٹ ملائوں کی ہنڈیا میں جو تھا وہی ان کے چمچوں میں نکل آیا۔ اس علم یعنی علم اسرار دین میں احیاء العلوم امام حجۃ الاسلام غزالیؒ کی اور حجۃ اللہ البلاغہ شاہ ولی اللہ صاحبؒ کی نہایت عمدہ کتابیں ہیں مگر زمانہ حال کے مطابق ان کو بھی کامل نہ سمجھنا چاہیے اس لیے کہ اس زمانہ میں بہت سی چیزیںاب معلوم یامروج ہوئی ہیں جو اس زمانہ میں نہ تھیں اور یہ کہ طز تحریر و طریق تقریر اور مناط استدلال اور طریقہ ایراد اس زمانہ میںنئے طور پر شروع ہوا ہے جو ان زمانوں میں نہ تھا اور یہ کہ حال کے زمانہ کے لوگوں کے خیالات کو بہ نسبت اس زمانہ کے بہت زیادہ وسعت ہو گئی ہے اور یہ کہ ان کتابوں میںبہت باتیں بر بنیاد امورات مسلمہ مذہبی بیا ن کی گئی ہیں جو صرف معتقدین اسلام کے لیے بلاشبہ مفید ہیں مگر بلحاظ شان و قدر و منزلت اس علم کے اس بیان کا ایسا عام ہونا چاہیے جو معتقدین اور غیر معتقدین سب کے لیے مفید اور برابر موثر ہو۔ پس وہ مطالب اس لائق ہیں کہ ان کو حال کے پیرایہ تقریر کے مطابق از سر نو بیان کیا جاوے‘ مگر یہ کام اسی سے ہو سکتا ہے جس پر خدا کی مہربانی ہو گی اور اس کے دل کو نور ایمان سے منور کیا ہو اور کچھ حصہ علم لدنی سے عطا فرمایا ہو ‘ وان من اعظم نعم اللہ علی ان اتانی منہ حظاً و جعل لی منہ نصیباً وما انفک اعتف بتقصیری و ابرء وما ابرء نفسی ان النفس لا مارۃ بالسوئ۔ احادیث (تہذیب الاخلاق جلد دوم نمبر ۲ (دور سوم) باب یکم ذی قعدہ ۱۳۱۲ھ) متقدمین صحابہ اور خصوصا ً حضرت عمر رضی اللہ تعالی ٰ عنہ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حدیثیں اور روایتیں کی جاویں کیونکہ یہ بات غیر ممکن تھی کہ جو کچھ آپ نے فرمایا وہ پختہ سوائے معدود حدیثوںکے لفظ لفظ لوگوں کو یاد رہا ہو اور انہیں لفظوں کو بلا تبدیل اور بلا تقدیم و تاخیر الفاظ لوگ بیان کر سکیں اور ان کے بیان کرنے میں بھی نہایت شبہ تھا کہ بیان کرنے والا ٹھیک ٹھیک وہی مطلب بیان کرتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا یا نہیں اور جو الفاظ کہ اس نے بیان کیے ہیں وہ ٹھیک ٹھیک اس مقصد کے لیے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا مناسب ہیں یا نہیں۔ مگر حدیثوں کا بیان کرنا رک نہیں سکتا تھا جو امر پیش آتا تھا ماس میں بالطبع لوگ دریافت کرنا چاہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں کیا فرمایا ہے یا آپ کے وقت میں کیا ہوتا تھا اور اسی پر دین و دنیا دونوں کا معاملہ چلتا تھا چنانچہ خود صحابہ نے اور ان سے تابعین اور تبع تابعین نے اور ان سے اور لوگوںنے بہت سی حدیثیں روایت کیں یہاں تک بری بڑی کتابیں حدیث کی جو اب ہمارے لیے سرمایہ علم و عمل ہیں موجود ہو گئیں۔ ہم کو ان بزرگوں کا جنوںنے حدیثوں کو جمع کرنے میں کوشش کی نہایت دل سے شکر گزار ہونا اور ان کا اور ان حدیثوں کا ادب کرنا لازم اور ضرور ہے ۔ مگر اسی کے ساتھ ہم کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ وہ حدیثیں کیوںکر جمع ہوئیں اور جن لفظوں سے وہ جمع ہوئیں وہ لفظ بعینہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ ہیں یا نہیں۔ اس باب میں کہ حدیث بلفظہ روایت کرنی لازم ہے یا بالمعنی بھی روایت کرنا جائز ہے محدثین میں اختلا ف رہا ہے ۔ ایک گروہ محدثین کا حدیث کو بالمعنی روایت کرنا جائز نہیں سمجھتا بلکہ بلفظہ روایت کرنا ضروری سمجھتا ہے ۔ چنانچہ فح المغیث شرح الفیۃ الحدیث میں جو حافظ زین الدین عراقی کی تصنیف ہے لکھا ہے: قیل لا یجو زلہ الرواایۃ بالمعنی مطلقا قال طائفۃ من المحدثین و الفقھاء والاصولیبن من الشافعیۃ و غیر ہم قال القربطی وہوا لصحیح من مزہب مالک حتی ان بعض من ذھب لحذا شدد فیہ اکثر التشدید فلم یجز تقدیم کلمۃ علی کلمۃ ولا حرف باخر ولازیادۃ حرف ولا حذفہ فضلا عن اکثر ولا تخفیف ثقیل ولا تثقیل خفیف ولا رفع منصوب ولا نصب مجرور اوالمر فوع ولو لم یتغیر المعنی فی ذالک کلہ ہل اقنصر بعضھم علی اللفظ ولو خالف اللغۃ الفصیحۃ و کذالو کان لحنا کما بین تفصیل ھذا کلہ الخطیب فی الکفایۃ۔ (فتح المغیث صفحہ ۲۷۶) (ترجمہ) محدثین فقہا اور اصولیین شافعیہ وغیرہ کا ایک گروہ روایت بالمعنی کو مطلقاً روا نہیں رکھتا۔ قرطبی نے کہا ہے کہ امام مالک کا اصلی مذہب بھی یہی ہے۔یہاں تک کہ جو اس طرف گئے ہیں ان میں سے بعض نے اس باب میں بہت سختی کی ہے۔ پس ان کے نزدیک ایک کلمہ کا دوسرے کلمہ پر یا ایک حرف کا دوسرے حرف پر مقدم لانا جائز نہیں ہے نہ ایک حرف کا دوسرے حر ف کی جگہ بدلنا نہ ایک حرف کو زیادہ یا کم کرنا چہ جائیکہ بہت سے حرفوں کو نہ ثقیل کو خفیف کرنا اورنہ خفیف کو ثقیل کرنا ‘ نہ منصوب کو رفع دینا ار نہ مجرور یا مرفوع کو نصب دینا۔ اگرچہ ان تمام صورتوں میں معنی نہ بدلتے ہوں بلکہ انہوں ن لفظ ہی پر بس کی ہے۔ چاہے لغت فصیح کے برخلاف ہی ہو اور ایسا ہی چاہے غلط ہو خطیب نے کفایہ میں اس کو مفصل بیان کیا ہے‘‘۔ اس تشدد میںجو بلفظہ ھدیث کے بیان کرنے کی نسبت تھا بعض بزرگوںنے نرمی کی اروکہا کہ صرف صحابہ کو یا صحابہ اور تابعین کو بالمعنی روایت کرنی جائز ہے اورکو نہیں‘ چنانچہ فتح المغیث میں لکھا ہے کہ : وقیل لا یجو ز لغیر الصحابۃ خاصتہ لظھور الخلل فی اللسان بالنسبۃ لمن قبلھم بخلاف الصحابۃ فھم ارباب اللسان واعلم الخلق بالکلام حکاہ الماوردی و الرویانی فی باب القضاء بل جز ما بانہ لا یجوز لغیر الصحابی وجعلا الخلاف فی الصحابی دون غیرہ و قیل لا یجوز لغیر الصحابۃ والتابعین بخلاف من کان منھم و بہ جزم بعض معاصری الخطیب و ھو حفید القاضی ابی بکر فی ادب الروایۃ قال لان الحدیث اذا قیدہ بالاسناد وجب ان لا تختلف لفظہ فید خلہ الکذب۔ (فتح المغیث صفحہ ۵۷۶ و ۵۷۷) (ترجمہ) ’’اور کہا گیا ہے کہ صحابہ کے سوا دوسروں کے لیے روایت بالمعنی کرناروا نہیں ہے۔ کیونکہ زبان میں بہ نسبت ان کے جو پہلے تھے خلل آ گیا ہے ۔ برخلاف صحابہ کے اس لیے کہ وہ اہل زبان اور کلام کو خوب سمجھنے والے تھے۔ ماوردی اور رویانی نے باب القضاء میں اس کا ذکر کیا ہے بلکہ اس بات پر زور کے ساتھ بیان کیا ہے کہ صحابی کے سوا دوسرے کو روایت بالمعنی جائز نہیں۔ مگر یہ ان کا اختلاف صرف صحابی میں ہے نہ اوروں مٰں اور بعض کہتے ہیں کہ صحابہ اور تابعین کے سوا دوسروں کو روایت بالمعنی جائز نہیں ہے اور خطیب کے ایک معاصر یعنی قاضی ابوبکر کے پوتے نے ادب الروایۃ میں اس کو زور کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ جب حدیث میں اسناد کی قید لگائی تو یہ واجب ہے کہ لفظ نہ بدلیں تاکہ جھوٹ داخل نہ ہو جائے‘‘۔ باوجود اس قید کے بھی یہبات کہی گئی کہ روایت کرنے کے بعد راوی کو ایسے الفاظ کا کہہ دینا ضرور ہے جن سے معلوم ہووے کہ حدیث کے بعینہ وہی لفط نہیں ہیں جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے تھے۔ چنانچہ فتح المغیث میں لکھا ہے کہ : ولیقل الراوی عقب ایرادہ للحدیث بمعنی ای بالمعنی لفظ اوکماقال فقد کان انس رضی اللہ عنہ کما عند الخطیب بی باب المعقود لمن اجاز الروایۃ بالمعنی لقو لھا عقب الحدیث و نحوہ من الالفاظ کقولہ او نحو ھذا اوشبھہ او شکلہ فقا روی الخطیب ایضا عن ابن مسعود ان قال سمعت رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ثم ار عدو ار عدت ثیابہ وقال او شبہ ذا او نحو ذا وعن ابی الدردا انہ کان اذا فرغ من الحدیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ھذا او نحو ھذا او شکلہ وروا ھا کلھا الدارمی فی مسندہ منحوھا ولفظہ فی ابن مسعود وقال او مثلہ او نحوہ او شبیہ بہ وفی لفظ آخر لغیرہ ان عمرو بن میمون سمع یوما ابن مسعود یحدث ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم وقد علاہ کرب وجعل العرق ینحدر منہ عن جبینہ وھو یقول اما فرق ذالک واما دون ذالک واما قریب من ذالک و ھذا کشک من المحدث والقاری ایھما علیہ الا مربہ فانہ یحسن ان یقول او کما قال ۔ (فتح المغیث صفحہ ۲۷۹) (ترجمہ) ’’راوی کو حدیث بالمعنی بیان کرنے کے بعد کہنا چاہیے کہ او کما قال ۔ خطیب نے ایک باب میں جس میں ان کا بیان ہے جن کو روایت بالمعنی کی اجازت ہے کہا ہے کہ انس رضی اللہ عنہ حدیث کے بعد کہتے ہیں کہ اس کے قول کی مانند یا ایسا یا اس جیسا یا اس سے ملتا جلتا۔ خطیب نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے پیغمبر خدا سے سنا ہے پھر کانپے اور ان کا کپڑا ہلنے لگا اور کہا اس کی مانند یاا س کی مثل اور ابودرداء سے روایت کی کہ جب وہ حدیث بیان کر چکتے تو کہتے کہ یہ کہا تھا یا اس کی مثل یا اس جیسا۔درامی نے اپنی مسند میں یہ سب کچھ بیان کیا ہے۔ ابن مسعود کے الفاظ اس میں یہ ہیں: اس کی مثل یا اس کی مانند یا اس کے مشابہ اور دوسرے راوی نے اور الفاظ بیان کیے ہیں چنانچہ عمر بن میمون نے کہا کہ میں ںے ایک روز ابن مسعود کو حدیث بیان کرتے سنا ہے اور ان کو تکلیف ہونے لگی اورپسینہ ان کی پیشانی سے ٹپکتا تھا اور وہ کہتے تھے کہ اس سے زیادہ یا اس سے کم یا اس کے قریب غرضیکہ ایسا لفظ کہے جس سے قاری اور محدث کا شک ظاہر ہو‘‘۔ باوجود اس کے صحابہ اور تابعین برابر حدیث کو بالمعنی روایت کرتے تھے جیسا کہ فتح المغیث کی مندرجہ ذیل عبارت سے ظاہر ہوتا ہے: وعن بعض التابعین قال لقیت اناسا من الصحابۃ فاجتمعوا فی المعنی و اختلفواعلی فی اللفظ فقلت ذالک لبعضھم فقال لا با س بہ مالم یحل معنا ہ حکاہ الشافعی وقال حذیفہ انا قوم عرب نور دا لا حادیث فنقدم و نو خر وقال ابن سیرین کنت اسمع الحدیث من عشرۃ المعنی واحد االلفظ مختلف وممن کان یروی بالمعنی من التابعین الحسن و الشعبی والنحفی بل قال ابن الصلاح انہ الذی شھد بہ احوال الصحابہ والسلف الاولین فکثیرا ما کانو ا ینقلون معنی ااحدا فی امر واحد بالفاظ مختلفۃ وما ذاک لان معولھم کان علی المعنی دون اللفظ (فتح المغیث صفحہ ۲۷۵) (ترجمہ) ’’ایک تابعی کہتے ہیں کہ میں بہت سے صحابیوں سے ملا ہوں جو معنی میں متفق اور الفاظ میں مختلف تھے۔ میں نے ایک صحابی سے کہا تو کہنے لگے کیا مضائقہ ہے کہ اگر معنی نہ بدلیں۔ یہ شافعی کا بیان ہے اور حذیفہ کہتے ھتے ہم قوم عرب ہیں‘ جب حدیث بیان کرتیہیں الفاظ آگے پیچھے کر دیتے ہیں ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں دس آدمیوں سے حدیث سنتا تھا ۔ معنی یکساں اور الفاظ جدا جدا ہوتے تھے۔ تابعین میں سے حسن شعبی اور نخعی روایت بالمعنی کرتے تھے۔ ابن صلاح کہتے ہیں کہ صحابہ اور سلف اولین کے حالات اس پر شاہد ہیں کہ وہ اکثر ایک مطلب کو مختلف الفاظ میں بیان کرتے تھے کیونکہ ان کا زیادہ تر خیال مضمون پر ہوتا تھا۔ نہ الفاظ پر۔‘‘ قال الحسن لولا المعنی ماحدثنا وقال الثوری لو اردنا ان نحدثکم بالحدیث کما سمعناہ ما حدثنا کم بحرف واحد ۔ (فتح المغیث صفحہ ۲۷۷)۔ (ترجمہ) ’’ حسن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ک اگر روایت بالمعنی کی اجازت نہ ہوتی تو ہم حدیث بیان نہ کر سکتے اور ثوری کہتے ہیں کہ اگر ہم حدیث اسی طرح سے بیان کرنا چاہیں جس طرح سنی ہو تو ایک حرف بھی بیان نہیںکر سکتے‘‘۔ بالآخر حدیثوںکا بعض شرطوں سے بالمعنی روایت کرنا محدثین کے نزدیک جائز قرار پایا‘ چنانچہ امام سخاوی فتح المغیث میں لکھتے ہیں: ولیر و البالالفاظ التی سمع بھا مقتصر ا علیھا بدون تقدیم ولا تاخیر و لا زیادۃ ولا نقص لحرف فاکثر ولا ابدال حرف او اکثر بغیرہ ولا مشد بمثقل او عکسہ من لا یعلم مدلوھا ای الالفاظ فی اللسان ومقاصد ھا وما یحل معنا ھا و المحتمل من غیرہ والمرادف منھا وذالک علیٰ وجہ الوجوب بلا خلاف بین العلماء (فتح المغیث صفحہ ۲۷۵)۔ (ترجمہ) ’’اس باب میں سب کا اتفاق ہے کہ جو شخص عربی زبان کے الفاظ کے مدلول اور اس کے مقاصد اور معنی کے متغیر ہونے اور متحمل اورغیر متحمل معنی اور مرادف کو نہیں جانتا اس کے لیے ضرور ہے کہ انہی الفاظ سے روایت کرے جو اس نے سنے ہیں بغیر تقدیم و تاخیر کے اور بغیر ایک حرف کی بھی زیادتی یا کمی کے اور بغیر ایک حرف کے بھی بدلنے کے اورمشدد کی جگہ ثقیل اور ثقیل کی جگہ مشدد لانے کے‘‘۔ واما غیرہ من یعلم ذالک و یحققہ فاختلف فیہ السلف و اصحاب الحدیث و ارباب الفقہ والاصول فالمعظم منھا اجاز لہ الروایۃ بالمعنی اذا کان قاطعا بانہ ادی معنی اللفظ الذی بلغہ سواء فی ذالک المرفوع او غیرہ کان موجبہ العلم اوالعمل وقع من الصحا بی او التابعی او غیر ھما حفظ اللفظ امر لا صدر فی الفتاء اولمناظرۃ او الروایۃ اتی بلفظ مرادف لہ ام لا کان معناہ غامضا او ظاہرا حدیث لم یحتمل اللفظ غیر ذالک المعنی و غلب علیٰ ارادۃ الشارع بھذ ا اللفظ ماھو موضوع لہ دون التجویز فیہ و الاستعارۃ۔ (فتح المغیث صفحہ ۲۷۵) (ترجمہ) ’’او جو لوگ ان لوگوں کے سوا ہی جو ان سب باتوں کو جانتے ہیں ان کے روایت بالمعنی کرنے میں اہل حدیث اہل فقہ اور اہل اصول میں اختلاف ہے۔ بہت سے لوگوں نے ان کو بالمعنی روایت کرے کی اجازت دی ہے۔ اگر روایت کرنے والا قطعاً سمجھتا ہو کہ جو لفظ ا س نے سنا اس کے معنی پورے پورے اد اکر دیے ہیں۔ ارو روایت مرفوع یا غیر مرضوع الم پر دلالت کرتی ہو یا عمل پر صحالی سے ہو یا تابعی سے یا ان کے سوا کسی اور سے منقو ل ہو۔ راوی نے الفاظ یاد رکھے ہوں یا نہیں۔ افتاء ارو مناظرہ میں ہو یا روایت میں اس کامرادف لفظ بیان کیا ہو یا نہیں۔ اس کے معنی مبہم ہوں یا ایسے ظاہر کہ اس لفظ سے دوسرے معنی کا احتمال نہ نکل اور اس لفظ سے جو کچھ شارع نے مراد لی ہے راوی کا ظن ظالب بھی اسی طر ف گیا ہو اور اس معنی لینے میں مجاز ہو نہ استعارہ۔ ان روایتوں سے بخبوی ظاہر ہے کہ ابتداء یعنی صحابہ و تابعین کے زمانہ سے حدیث کی روایت بالمعنی کرنے کا دستور تھا اور جو حدیثیں صحاح ستہ میں اور دیگر کتب حدیث میں لکھی ہیں سواے شاذ و ناذر چھوٹی حدیثوں کے وہ سب بالمعنی روایت کی گئی ہیں یعنی آنحضرت نے جو بات جن لفطوںسے فرمائی تھی وہ لفظ بعینہ و بجنسہ نہیں ہیں بلکہ راویوں نے جو مطلب سمجھا اس کا ان لفظوں میں جن میں وہ بیان کرسکتے تھے بیان کیا پھر اسی طرح دوسرے راوی نے پہلے راوی کے اور تیسرے راویکے بیانکو اپنے لفظوں میں بیان کیا اور علی ھذا القیاس اس حدیث کی کتابوں میں جو حدیثیں لکھی گئیںوہ اخیر راوی کے لفظ ہیں اور معلوم نہیں ہوتا کہ اس درمیان میں اصلی الفاظ سے کس قدر لفظ ادل بدل اور الٹ پلٹ ہو گئے اورکچھ عجب نہیں کہ کسی نے حدیث ک اصل مطلب کو سمجھنے میں بھی غلطی کی ہو اور اصلی حدیث کا مطلب بھی بدل گیا ہو اور اس کے معنی غلط مطلب سمجھنے کی مثال میں متعدد حدیثیں بھی موجود ہیں۔ خود صحابہ نے حدیث سماع موتیٰ اور حدیث تعذیب المیت ببکاء اہلہ کا مطلب غلط سمجھا تھا۔ اسی باعث سے کہ حدیثوں کی روایت کے جو الفاظ ہیں وہ اخیر راویوں کے ہیں جبکہ اصلی زبان عرب میں علماء علم ادب نے حدیثوں کو سند نہیںسمجھا۔ چنانچہ کاب الاقتراح میںلکھا گیا ہے: واما کلامہ صلی اللہ علیہ وسلم فیستدل منہ بماثبت انہ قالہ علی اللفظ المروی و ذالک نادر جداانما بوجد فی الاحادیث القصار علیٰ قلۃ ایضا فان غالب الاحادیث مروی بالمعنی وقد تدا و لتھا الاعاجم و المولدون قبل تدوینھا فردوھا بما ادت الیہ عبارتھم فزادوا ونقصوا وقدموا واخروا وابد لو الفاظاً بالفظ و لھذا تری الحدیث الواحد فی القصۃ الواحدۃ مرویا علی اوجہ شتیٰ بعبارات مختلفۃ و منثم انکر علی ابن مالک اثباتہ القواعد النحویہ بالفاظ الواردۃ فی الحدیث قال ابو حیان فی شرح الشھیل قدا کثر ھز المصنف من الاستدلال بما وقع فی الاحادیث علی اثبات القواعد الکلیۃ فی لسان العرب ومارایت احدامن التقدمین و المتاخرین سلک ھزہ الطریقۃ غیرہ علی ان الواضعین الاولین لعلم النحو المستقرین للا حکام من لسان العرب کابی عمر بن العلا و عیسیٰ بن عمر والخلیل و سیبویہ من ائمہۃ البصیرین والکسائی اسلفراء عولی بن مبارک الاحمر و ھشام الضریر من ائمۃ الکوفیین لم یفعلو ا ذا لک و تبعھم علی ھذا الملک المتاخرون من الفریقین و غیرھم عن نحاۃ الاقالیم کنحاۃ بغداد واھل الاندلس و قدجری الکلام فی ذالک مع بعض المتاخرین الا ذکیاء فقل انما ترک العلماء ذالک لعدم وثوقھم ان ذالک لفظ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ازلو وثقو ابذالک لجری مجری القرآن فی الرواۃ جو زوا النقل بالمعنی فتجد قصۃ واحدۃ قد جرت فی زمانہ صلی اللہ علیہ وسلم لم تنقل بتلک الالفاظ جمیعھا نحوما روی من قولہ زوجھتکھا بما روک من القرآن ملکتھا بما معک خذھا یقیناً انہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یلفظ بجیع ھذہ الالفاظ بل لانجزم بانہ قال بعضھا از یحتمل انہ قال لفظاً مرادفاً لھذہ الالفاظ غیر ھافاتت الواردۃ بالمرادف ولم تات بلفظہ اذا لمعنی ہوا المطلوب ولا سیما مع تقادم السماع وعدم ضبطہ بالکتابۃ والاتکال علی الحفظ فما لضابط منھم من ضبط المعنی و اماضبط اللفظ فبعید جداً لا سیما فی الاحادیث الطوال و قد قال سفیان الثوری ان قتلت لکم انی احد ثکم کما سمعت فلا تصد قونی انما ھو المعنی ومن نظر فی الحدیث ادنیٰ نظر علم علم الیقین انھم انما یروون بالمعنی… وقال ابو حیان انما امعنت الکلام فی ھذہ المسئلۃ لئلا یقول المبتدی مابال النحویین یستد لون بقول العرب و فیہم المسلم و الکافر و لایستدلون بماروی فی الحدیث بنقل العدول کالبخاری و مسلم و اضرابھما فمن طالع ماذکرناہ ادرک انسبب الذری لا جلہ لم یستدل النحاۃ بالحدیث انتھی کلام بن حیان بلفظہ… وقال ابو الحسن ابن الصائغ فی شرح الجمل تجویز الرواۃ بالمعنی علی اثبات اللغۃ بالحدیث و اعتدمدو ا فی ذالک علی القرآن و صریح النقل عن العرب ولولا تصریح العلما ء بجوا ز النقل بالمعنی فی الحدیث لکان الاولی فی اثبات فصیح اللغۃ کلام النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا نہ افصح العرب و ھکذا فی خزانۃ الادب للعلامۃ عبدالقادر البغدادی ناقلاعن السیوطی و مصححاً لہ۔ (الاقتراح للسیوطی ۔ صفحہ ۱۹‘ ۲۰‘ ۲۱) (ترجمہ) ’’پیغمبر خد اکے اس کلا م سے استدلال کیا جاتا ہے جس کی نسبت ثابت ہو چکاہے کہ یہی الفاظ جو روایت کیے گئے ہیں آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہیں اوریہ بہت ہی کم ہے صرف چھوٹی چھوٹی حدیثوں میں ہے ورنہ اکثر حدیثین بالمعنی روایت ہوئی ہیں اورعجمیوں اور مولدین نے حدیثوںکو ان کے جمع ہونے سے پہلے استعمال کیا ہے۔ پھر خود ان کی عبارت حدیثوںکے مطلب کو جہاں کھینچ کر لے گئی وہیں پہنچا دیا گیا ایک حدیث ایک ہی مضمون کی مختلف طورپر جدا جدا عبارتوں میں بیان ہوئی ہے اور اسی لیے ابن مالک پر اعتراض کیا گیا ہے کہ اس کے الفاظ حدیث کے قواعد نحویہ کو ثابت کیا ہے۔ابوحیان شرح تسہیل میں لکھتا ہے کہ اس مصنف نے عربی زبان کے قواعد کلیہ کو اکثر الفاظ حدیث سے ثابت کیا ہے اور اس کے سوا متقدمین اور متاخرین میں سے کوئی بھی اس طریقہ پر نہیں چلا ۔ علم نحو کے اول بانیوںاور زبان عربی کے قواعد کے محققوں جیسے ابو عمر ابن علائ‘ عیسیٰ بن عمر اور سبیویہ نے بصری نحویوں میںسے اور کسائی فرائ‘ علی بن مبارک احمر اور ہشام الضریر نے کوفی نحویوں میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا اور دونوں قسم کے نحوی متاخرین میں سے ہیں اور بغداد اور اندلس وغیرہ مختلف ملکوں کے نحوی بھی اسی طریق پر چلے ہیں ۔ متاخرین میںسے ایک عالم کے سامنے اس کا تذکرہ آیا تو اس نے کہا کہ علامء نے اس طریقہ کو اس لیے ترک کیاہے کہ ان کوہرگز اعتماد نہیں ہے کہ یہ الفاظ بعینہ پیغمبر خدا کے ہیں۔ اگر وہ اعتماد کرتے تو قواعد کلیہ کے ثبوت میں حدیث بھی بمنزلہ قرآن کے ہوتی اوریہ دو باعث سے ہوا ۔ ایک تویہ کہ راویوںنے روایت بالمعنی کو جائز سمجھا اور تم دیکھو گے کہ ایک واقعہ جو پیغمر خدا کے زمانے میں ہوا تھا انہی تما م الفاظ میں منقول نہیںہوا ہے۔ جیسے کہیں کہ زوجتکھا بما معک او ر کہیں ملتکھا بما مک اور کہیں خذھا بما معک الفاط بیان ہوئے ہیں اور ہم یقینا جانتے ہیں کہ پیغمبر خدا نے یہ تمام الفاظ نہیں کہے بلکہ ہمیں اس کا بھی یقین نہیںہے کہ ا میں سے کوئی لفظ کہا ہو کیونکہ ممکن ہے کہ پیغمبر خدا نے ان الفاظ کا کوئی اور مرادف لفظ فرمایا ہو پھر راویوںنے وہ لفظ نہ بیان کیا ہو وار اس کا مرادف لفظ کہہ دیا ہو اس لیے کہ مطلب تو معنی سے ہے اور خاص کر جب بار بار سنا گیا اور لکھا نہ گیا اور حافظہ پر بھروسا کیا گیا پس ضابطہ وہی ہے جس نے مضمون یاد رکھا اورلفظ یاد رکھنا تو مشکل ہے ۔ خاص کر لمبی حدیثوں میں اور سفیان ثوری نے کہا ہے کہ اگر میں تم سے کہوں کہ میں نے جس طرح یہ حدیث سنی ہے اسی طرح تم سے بیا ن کرتا ہوں تو ہرگز یقین نہ کرنا‘ بکہ وہ تو صرف حدیث کا مضمون ہے اور جو شخص ذرا بھی اس حدیث پر غور کرے گا اس کو یقین ہوجائے گا کہ سب بالمعنی روایت کرتے ہیں۔ ابوحیان کہتے ہیںکہ میں نے اس مسئلہ میں زیادہ گفتگو اس لیے نہیں کی کہ مبتدی یہ نہ کہہ دے کہ نحوی عرب کے قول سے جن میں مسلم اور کافر دونوں ہی شامل ہیں استدلال کرتے ہیں اور الفاظ حدیث سے جو بخاری اور مسلم وغیرہ ثقہ اور معتمد لوگوں سے روایت کی ہوئی ہیں استدلال نہیں کرتے۔ پس جو شخص ہمارے پچھلے بیان کو غور سے پڑھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ نحویوں نے حدیث سے کیوں استدلال نہیںکیا… اور ابوالحسن ابن ضاغ شرح جمل میں کہتے ہیں ہ روایت بالمعنی کا جائز رکھنامیرے نزدیک اس بات کا سبب ہے کہ سبیویہ جیسے نحویوں نے زبان کے کلیہ قواعد ثابت کرنے میں حدیث سے سند نہیں لی اور اس باب مین قرآن اور عرب کے کلا م پر اعتماد کیا ہے اور اگر علماء حدیث روایت بالمعنی کو جائز نہ رکھتے تو پیغمبر خدا کا کلام زبان فصیح کے ثابت کرنے میں زیادہ قابل اعتماد تھا کیونکہ پیغمبر خدا تمام عرب سے زیادہ فصیح تھے۔ علامہ عبدالقادر بغدادی نے خزانۃ الادب میں سبوطی کے قول کو نقل کر کے اس کی تصدیق کی ہے‘‘۔ علماء علم حدیث نے جس قدر حدیثوں پر کوشش کی شکر اللہ سعیہم ان کی کوشش صرف راویوں کے ثقہ اور معتقد ہونے کے دریافت کرنے میں ہوئی۔ مگر ہم کو نہیں معلوم ہوتا کہ جو حدیثیں معتبر سمجھی گئی ہیں ان کے مضمون کی صحت اور عدم صحت دریافت کرنے کا کیا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ حدیثوں کی تقسیم مرفوع ‘ متصل‘ مستند وغیرہ پر کی گئی ہے۔ مگر وہ تقسیم بھی بلحاظ اسناد راویوں کے ہیںںہ بلحاظ درایت یعنی بلحاظ صحت یا عدم صحت یا مشتبہ ہونے مضمون حدیث کے۔ ہاں بلاشبہ موضوع حدیثوں کے پہچاننے کے لیے محدثین چند قواعد بنائے ہیں جن کے مطابق مضمون حدیث پر لحاظ کر کے اس حدیث کو موضوع قرار دیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ صحاح ستہ یا حدیث کی اور معتبر کتابوں میں کوئی موضو ع حدیث ہے مگر جب کہ یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ روایت حدیثوں کی باللفظ نہیں ہے مگر بلکہ بالمعنی ہے اور الفاظ حدیث کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ نہیں ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان حدیثوں کے مضامین کی صحت نہ جانچہ جاوے تاکہ ظاہر ہو کہ جو مضمون اس حدیث میںبیان ہوا ہے اس کے بیان کرنے میں راوی سے تو کوئی غلطی نہیںہوئی ہے کہ جب وہ حدیثین معتبر کتابوں میں لکھی گئی ہیں تو یہ تصور کر لینا چاہیے کہ ان کے مضمونوں کی صحت بھی جانچ لی گئی ہے۔ خصوصاً اس صورت میں کہ یہ خود الماء اسلام ان حدیثوںمیں سے جو حدیث کی معتبر کتابوں میں لکھی گئی ہیں متعدد حدیثوں کو صحیح نہیں قرار دیتے۔ تمام علماء اس بات پرمتفق ہیں کہ اگر کسی حدیث میں مندرجہ ذیل نقصوں میںسے کوئی نقص پایا جاوے تو وہ حدیث معتبر نہیں ہے بلکہ موضوع ہے ۔ چنانچہ شاہ عبدالعزیز صاحب عجالہ نافعہ میں لکھتے ہیں کہ: علامت وضع حدیث و کذب راوی چند چیز است: اول آنکہ خلاف تاریخ مشہور روایت کند۔ دوم آنکہ راوی رافضی باشد و حدیث در طعن صحابہ روایت کند ویا ناصبی باشد و حدیث در مطا عن اہل بیت باشد و علیٰ ھذا القیاس۔ سوم آنکہ چیزے روایت کند کہ بر جمیع مکلفین معرفت آن وہ عمل برآں فرض باشد واومنفرد بود برروایت۔ چہارم آن کہ وقت و حال قرینہ باشد بر کذب او۔ پنجم آنکہ مخالف مقتضائے عقل و شرح باشد و قواعد شرعیہ آنر تکذیب نماید۔ ششم آنکہ در حدیث قصہ باشد از امر حسی واقعی کہ اگر بالحقیقت متحقق میشد ھزاراں کس آنر انقل میکر دند۔ ہفتم رکاکت لفظ و معنی مثلاً لفظی روایت کند کہ برقواعد عربیہ درست نشود یا معنی کہ مناسب شان نبوت و وقار نباشد۔ ہشتم افراط در و عید شدید بر گناہ صغیرہ یا افراط در وعدہ عظیم بر فعل قلیل۔ نہم آنکہ ہر عمل قلیل ثواب حج و عمرہ نماید۔ دہم آنکہ از عاملان خیر ثواب انبیاء موعود کند۔ یاز دہم خود اقرار کردہ باشد بوضع حدیث۔ امام سخاوی نے فتح المغیث میں ابن جوزی سے حدیث کے موضوع ہونے کی یہ نشانیاں لکھی ہیں۔ اول جو حدیث کہ عقل اس کے مخالف ہو اور اصول کے متناقض ہو۔ دوم ایسی حدیث جو حس اور مشاہدہ اس کو غلط قرار دیتا ہو۔ سوم وہ حدیث جو کہ مخالف ہو قرآن مجید یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی کے۔ چہارم جس میں تھوڑے کام پر وعید شدید کا اجر عظیم کا وعدہ ہو۔ پنجم رکت معنی ا س روایت کی جو بیان کی گئی۔ ششم رکت یعنی سخافت راوی کی۔ ہفتم منفرد ہونا راوی کا۔ ہشتم منفرد ہونا ایسی روایت میں جو تمام مکلفین سے متعلق ہو۔ نہم یا ایسی بڑی بات ہو جس کے نقل کرنے کی بہت سی ضرورتیں ہوں۔ دہم جس کے جھوٹ ہونے پر ایک گروہ کثیر متفق ہو۔ یہ جو کچھ ہم نے بیان کیا یہ خلاصہ ہے اس کا جو ابن جوزی نے بیان کیاہے لیکن ہم اس مقام پر ابن جوزی کی عبارت بعینہ جو فتح المغیث میں نقل کی گئی ہے نقل کرتے ہیں: قال ابن الجوزی و کل حدیث رایتہ یخالفہ العقول او یناقض الاصول فاعلم انہ موضوع فلا یتکلف اعتبارہ ای لا تعتبر رواتہ ولا تنظر فی جر حھم او وکون مما یدفعہ الحس و المشاھدۃ او مبانیا لنص الکتاب او السنۃ المتواترۃ او الاجماع القطعی حیث لا یقبل شیء من ذالک التاویل او یتضمن الافراط بالوعید الشدید علی الامر الیسیر او بالوعد العظیم علی الفعل الیسیر وھذا الاخیر کثیر موجود فی حدیث القصاص والطرقیۃ ومن رکۃ المعنی لا تاکلو ا القرعۃ حتیٰ تذبحو و لذا جعل بعضھم ذالک دلیلا علی کدب راویہ وکل ھذا من القرائن فی المروی قد تکون فی الراوی کقصۃ غیاث مع المھدی وحکایۃ سعد بن طریف الفاضی ذکر ھما و اختلاق المامون بن احمد الھروی حین قیل لہ التریٰ الشافعی ومن تبعہ الخر اسان ذاک الکلام القبیح حکاہ الحاکم فی السدخل قال بعض المتاخرین وقد رئیت رجلا قام یوم الجمعۃ قبل الصلوۃ بابتدا لئیوروہ فسقط من قامتہ مغیا علیہ۔ او انفرادہ عمن لم یدرکہ بما لم یوجد عنہ غیرہ او انفرادہ لشی مع کونہ فیما یلزم المکلفین علمہ و قطع العذرفیہ کما قررہ الخطیب فی اول الکفایۃ او یامر جسیم بتو فراالدواعی علیٰ نقلہ کحصر العدد للحاج عن البیت اوبما صرح بتکذیبہ فیہ جمع کثیر یمتنع فی العادۃ تواطعھم علی اکذب و تقلید بعضھم بعضاً (فتح المغیث صفحہ ۱۱۴)۔ (ترجمہ) ’’ابن جوزی نے کہا کہ جو حدیث عقل کے مخالف ہے یا اصول کے برخلاف ہے اس کو موضوع جانو۔ اس کے راویوں کی جرح و تعدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے یا حدیث میں ایسا بیان ہو جو حس و مشاہدہ کے برخلاف ہے یا قرآن یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی کے برخلاف ہے جن میں سے ایک کی بھی تاویل نہیں ہو سکتی یا تھوڑے سے کام پر بہت سے عذاب یا ثواب کا ذکر ہو ارو یہ اخیر مضمون قصہ گویوں اور بازاریوں کی حدیثوں میںبہت کثرت سے پایا جاتا ہے۔ یا معنی رکیک و سخیف ہوں جیسے اس حدیث میں کہ کدو کو بغیر ذبح کیے نہ کھائو اسی لیے اس رکت معنی کو بعض نے راوی کے کذب پر دلیل گردانا ہے اوریہ سب قرینے تو روایت میں ہوتے ہیں اور کبھی راوی میںایسا قرینہ ہوتا ہے جیسے غیاث کا قصہ مہدی کے ساتھ اور سعد بن طریف کی حکایت کا ذکر ہو چکاہے ۔ اور ابن احمد حروی کا وہ بیہودہ کلام (نسبت امام شافعی کے) گھڑ لینا جب اس سے کہا گیا کہ کیا تو شافعی کو نہیں دیکھتا اور ان کو جو ا سکے تابع ہیں۔ خراسان کے حاکم نے اس کو مدخل میں بیا ن کیا ہے اور متاخرین میں سے ایک نے کہا کہ میںنے ایک مرد کو دیکھا کہ جمعہ کے دن نماز سے پہلے کھڑا ہو کر چاہا کہ اس کو بیا ن کرے پھر بیہوش ہو کر گر پڑا اور راوی کا منفرد ہونا ایسی حدیثوں مٰں جو اوروں کے پاس نہیں ہے ا ن لوگوں سے جنہوںنے اس حدیث کو نہیں سنا یا اس کا منفرد ہونا ایسی حدیث میں جس کے مضمون کا جاننا تمام مکلفین کو نہایت ضروری ہے یا سیسے عظیم الشان واقعہ کا بیان کرنا جس کے نقل کرنے کی بہت سے لوگوں کو ضرورت ہے۔ جیسے کعبہ کے حاجیوں کے ایک گروہ کا روکا جانا یا ایسا بیان جس کو اتنی بڑی جماعت نے جھٹلا دیا ہے جن کا جھوٹ پر اتفاق کرنا اور ایک دوسرے کی تقلید کرنا عادتہ ناممکن ہے۔ نسبت صحت اور عدم صحت حدیث کے اس بات کی بحث کہ اس کے راوی ثقہ اور قابل اعتماد ہیں یا نہیں ایک جد ا بحث ہے۔ اس مقام پر راویوں سے بحث کرنی ہم کو مقصود نہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جن راویوں کو معتبر مان کران کی حدیث نقل کی گیء ہے ان حدیثوں کے مضمون پر دراعۃ غور کرنا ضرور ہے کہ ان میں کوئی نقص نقصہائے مذکورہ بالا میں سے ہے یا نہیں‘ تاکہ ان کے مضمون کی صحت پر بھی طمانیت کی جا سکے اوراگر کسی حدیث کے مضمون میں کچھ نقص ظاہر ہو تو وہ حدیث نہیں مانی جاوے گی اورنہ وہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت منسوب ہو گی بلکہ یہ خیال کیا جاوے گا کہ راوی سے الفاظ کے یا مضمون کے بیان کرنے میں کچھ تبدیلی یا غلطی ہوئی ہے۔ غرضیکہ ہمارے نزدیک حدیثوں کی صحت کا مدار بہ نسبت راویوں کے زیارہ تر درایت پر منحصر ہے۔فقط۔ ٭٭٭ کتب احادیث (تہذیب الاخلاق بابت یکم شوال ۱۲۸۸ھ) کسی مسئلہ یا طریقہ یا عادت یا رسم و رواج پر بحث کرنے میں وہ اقوال انسان کو بری غلطی ڈالتے ہیں جو حدیث کے نام سے مشہور ہیں جو کہ اب تمام حدیثیں کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں اسلیے ہم کو دیکھنا چاہیے کہ علمائے متقدین و متاخرین نے کتب حدیث کی بلحاظ اعتبار و عدم اعتبار کے کس طرح تقسیم کی ہے؟ شاہ ولی اللہ صاحب کہ علماء متاخرین میں جامع سلف اور مقتدائے خلف تھے انہوں نے نہایت عمدہ طرح پر کتب حدیث کی تفصیل بیان کی ہے ۔ اسی کو ہم بھی اس مقام پر بیان کرتے ہیں: وہ لکھتے ہیںکہ کتب احادیث باعتبار صحت و شہرت اور قبول کے کئی درجہ پر ہیں۔ صحت کے معنی انہوںنے یہ لیے ہیں کہ مصنف نے احادیث صحیحہ اس میں لکھی ہوں اور ا س کے سوا جو حدیث لکھی ہو اس کا نقص بھی اس کے ساتھ لکھ دیا ہو۔ شہرت کے انہوں نے یہ معنی لیے ہیں کہ ہر زمانہ میں اہل حدیث اس کو پڑھتے پڑھاتے رہے ہوں اور اس کی ہر چیز بیان میں آ گئی ہو۔ قبول سے وہ یہ مراد لیتے ہیں کہ علمائے حدیث نے اس کتاب کو معتبر و مستند سمجھا ہو اور کسی نے اس سے انکار نہ کیا ہو۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ ان باتوں میں سب سے اول درجہ کی تین کتابیں ہیں: موطا امام مالک ؒ ‘ صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان تینوں کتابوں کی حدیثیں اصح الاحادیث ہیں اگرچہ انہیں میں بعض حدیثیں بعض سے زیادہ تر صحیح ہیں۔ ان کتابوں کے بعد دوسرے درجہ میں انہوںنے جامع ترمذی ‘ سنن ابو دائود‘سنن نسائی کو قرار دیا ہے۔ وہ انہی چھ کتابوں کو صحاح ستہ کہتے ہیں۔ لیکن اکثروں نے موطا کو صحاح میں سے خارج کر دیا ہے۔ اور ابن ماجہ کو داخل کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب کا یہ بھی قول ہے کہ مسند امام احمد بھی اس دوسرے درجہ میںداخل ہونے کے لائق ہے ۔ مگر اس میں ضعیف حدیثیں بہت ہیں۔ تیسرے درجہ میں انہوںنے ان کتابوں کو شمار کیا ہے: مسند شافعی‘ سنن ابن ماجہ‘ مسند دارمی‘ مسند ابو یعلیٰ موصلی‘ مصنف عبدالرزاق‘ مصنف ابوبکر بن ابی شیبہ‘ مسند عبد بن حمید‘ مسند ابودائود طیالسی‘ سنن دار قطنی‘ صحیح ابن حبان‘ مستدرک حاکم‘ کتب بیہقی‘ کتب طحاوی‘ تصانیف طبرانی۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ ان کتابوں کے مصنف عالم متحیر تھے لیکن ان میں اچھی بری یہاں تک کہ موضوع حدیثیں بھی شامل ہیں۔ چوتھے درجہ میں انہوںنے ان کتابوں کو گنا ہے۔ کتاب الضعفا لا بن حبان‘ تصانیف الحاکم‘ کتاب الضعفا للعقیلی‘ کتاب الکامل لا بن عدی‘ تصانیف ابن مردویہ‘ تصانیف خطیب ‘ تصانیف ابن شاہین‘ تفسیر ابن حریر‘ فردوس دیلمی‘ سایر تصانیف فردوس دیلمی‘ تصانیف ابی نعیم‘ تصانیف جوزقانی‘ تصانیف ابن عساکر‘ تصانیف ابو الشیخ‘ تصانیف ابن نجار۔ وہ لکھتے ہیںکہ یہ کتابیں محض نامعتمد ہیں اور اس لائق نہں ہیں کہ کسی عقیدہ کے اثبات یا کسی عمل کے جواز میں ان کتابوں سے سند لی جاوے۔ جو شاہ صاحب نے لکھی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت شیخ جلال الدین سیوطی کے رسائل و نوادر کا مادہ یہی کتابیں ہیں اور اس قدر میں اور لکھتا ہوں کہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی بھی تمام تصنیفات انہ نامعتمد کتابوں پر مبنی ہے۔ اسی بیان کے ساتھ مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب فرماتے ہیں کہ وضعی ‘ یعنی بنائی ہوئی حدیثوں کے پہچاننے کی یہ صورتیں ہیں کہ اول یہ کہ تاریخی واقعہ کے برخلاف ہو۔ دوسرے یہ کہ صرف کسی دشمن نے روایت کی ہو۔ تیسرے یہ کہ ایسی بات کہی ہو کہ جس کا جاننا اور ادا کرنا سب پر فرض ہو مگر صرف وہی ایک شخص روایت کرتا ہو۔ چوتھے یہ کہ قرینہ حالیہ اس کے جھوٹے ہونے پر دلالت کرے۔ پانچویں یہ کہ عقل اور قواعد شرع کے برخلاف ہو۔ چھٹے یہ کہ ایک قصہ مذکور ہو کہ اگر درحقیقت ہو ہوا ہوتا تو ہزاروں آدمی اس کو دیکھتے‘ گر اس کو صرف وہی شخص بیان کرتا ہے۔ ساتویں یہ کہ الفاظ کے خلاف محاورہ اور مضمون نامعقول ہو۔ آٹھویں یہ کہ چھوٹے سے گناہ میں نہایت سخت عذاب یا چھوٹے سے نیک کام میںبہت زیادہ ثواب کا ہونا بیان ہوا ہو۔ نویں یہ کہ چھوٹے چھوٹے کاموں پر حج عمرہ کے ثواب ملنے کا بیان ہو۔ دسویں یہ کہ کسی کو مثل انبیا ء کے مستحق ثواب کا کسی کام میںبیان کیا ہو۔ گیارھویں یہ کہ حدیث بیان کرنے والے نے اس کے جھوٹے ہونے کا خود اقرار کیا ہو۔ بعد اس کے شاہ صاحب ارقام فرماتے ہیں کہ بہت سے لوگوں نے مختلف سببوں سے جھوٹی حدیثیں بنا لی ہیں ۔ بعضوں نے اس خیال سے کہ لوگوں کو قرآنمجید پڑھنے اور تلاوت کرنے کا شوق پیدا ہو‘ ہر ایک سورۃ کی فضیلت میں حدیثیں بنا لیں۔ بے دینوں نے اسلام کی ہنسی اڑانے کو مضامین دور از قیاس کی حدیثیں مشہور کر دیں۔ مشہور ہے کہ چودہ ہزار حدیثیں ہیں جو اہل زندقہ کی بنائی ہو ئی مشہور ہیں۔ اسی طرھ ایک فرقہ کے متعصب نے اپنی تائید یا دوسرے کی تذلیل کے لیے حدیثیں بنا لیں ہیں۔ وعظ لکھنے والوں نے بہت سی حدیثیں اپنی طرف سے گھڑ لی ہیں اور بعض دفعہ اولیا اللہ بھی اس خرابی میں پڑ گئے ہیں کہ انہوںنے خواب میں دیکھا کہ یہ بات رسول خدا صلعم نے ان سے کہی پس مثل حدیث مسموع کے بیا ن کر دی۔ بعض لوگوںنے بزرگوں اور عالموں سے کوئی بات سنی وار اس کو یہ سمجھ گئے کہ یہ حدیث ہے اورمثل حدیث کے مشہور ہو گیئ۔ چنانچہ اس قسم کے بہت سے اقوال بطور حدیث مشہور ہیں۔ پس صرف حدیث کا نام سن کر گھبرانا اور توہمات مذہبی میں پڑ جانا نہیں چاہیے‘ بلکہ اول ا سس حدیث کی تحقیقات اور تفتیش کرنی چاہیے کہ وہ کیسی حدیث ہے اور کس قدر اعتبار رکھتی ہے۔ پھر جب سب طرح امتحان میں پوری نکلے اور معلوم ہو کہ در حقیقت یہ پوری اور پکی صحیح حدیث ہے ‘ اس کو سر اور آنکھوں پر رکھے ورنہ دودھ کی مکھی کی طرح اس کو نکال کر پھینک دے۔ کیوں کہ شاہ عبدلاعزیز صاحبؒ کا قول ہے کہ حدیث بے سند گوز شتر است اگر ہم مسلمان ایسی لغو اور بے سند باتوں کو اپنے مذہب میں شامل کر یں اور پوچ اور واہیات قصوں کو جن کی کچھ اصل نہیں ہے مذہبی قصہ ور الہامی واقعات سمجھنے لگیں تو ہمارا مذہب ہنسی ٹھٹھا ہو جاوے گا۔ اور لون کے گھر سے بھی زیادہ ناپائدار اور مکڑی کے جال سے بھی زیادہ بودا بن جاوے گا۔ علماء متقدمین نے نہایت سختی سے بطور ایک دشمن کے حدیثوں کا امتحان کرنے میں کوشش کی ہے۔ پس یہ بات کہ حدیث بے سند یا ضعیف یا مشتبہ کو حدیث نہ سمجھا جاوے اور مذہبی باتوں میں اسے داخل نہ کیا جاوے بے دینی کی بات نہیں‘ بلکہ نہایت ایمانداری اور اسلام کی بڑی دوستی کا کام ہے۔ ٭٭٭ اقسام حدیث (تہذیب الاخلاق بابت یکم ذی الحجہ ۱۲۸۸ھ) انسان کی روحانی ترقی اور دنیوی بہبود اور حسن معاشرت اور علم و تجربہ کا کمال بہت کچھ اس کے مسائل مذہبی کی تنقیح پر موقوف ہے۔ اوہام مذہبی کی تاریکی انسان کے دل کو سیاہ کر اور اس کے دماغ اور عقل کو گند اور خراب کر دیتی ہے۔ اس لیے جو لوگ کہ مسلمانوں کی ترقی علوم اور ترقی تہذیب و شائستگی پر بحث کرتے ہیں ان کو ایسے مسائل مذہبی سے بحث کرنا غلطی سے ان چیزوںکے مانع خیال کیے جاتے ہیں‘ ناگزیر ہوتاہے۔ منجملہ ان ہی موانع کے بہت سے مسائل ہیں جن کی بنیاد غلط یا نامعتبر حدیثوں پر مبنی ہوتی ہے۔ مسلمانوں میں یہ ایک عام خیال ہو گیا ہے کہ جو بات کسی حدیث میں آئی ہے اس سے انکار کرنا کفر یا خوف معصیت ہے مگر اس بات پر خیال نہیں کیا جاتا کہ جب ہم یہ بات سنیں کہ فلاں بات پر کسی حدیث میں ہے تو اول اس بات کی بھی تحقیق کریں کہ آیا وہ حدیث بھی معتبر ہے یا نہیں؟ اوردرحقیقت وہ قول یا فعل یا تقریر رسول اللہ صلعم کی ہے یا نہیں؟ غالباً لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ تحقیق حدیث کا زمانہ گزر گیا ار جو کچھ کہ اگلے علماء تحقیق کر کر کے لکھ گئے ہیں وہی احادیث محققہ ہیں۔ اب ہمارے لیے صرف انتی بات کا جاننا کافی ہے کہ وہ حدیث کتب حدیث میں مندرج ہے اور علما نے اس کو صحیح لکھا ہے۔ ہمار ا بھی مطلب اس مقام پر کسی نئی تحقیق سے نہیں ہے بلکہ ہم ان ہی حدیثوں کی نسبت جو کتب احادیث میں مندرج ہیں یہ بات دیکھنی چاہتے ہیں کہ ان میں سیکون سی حدیث در حقیقت قول یا فعل یا تقریر رسول خدا صلعم کی ہے؟ اور کون سی ان کی نہیں ہے۔ بلکہ دوسرے کی ہے؟ تاکہ ہم اپنے رسول مقبول کے کلام کو دوسرے شخص کے کلام سے بالکل جدا کر لیں۔ پس اسی مراد سے ہم اقسام حدیث کو جو علمائے حدیث نے بیان کی ہیں اس مقام پر لکھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان اقسام ی جتنی حدیثیں ہیں۔ان میں سے کسی پر اس بات کا یقین کامل نہیں ہو سکتا کہ درحقیقت پیغمبر خدا صلعم کی حدیث ہے۔ بلکہ بعض قسموں کی نسبت تو یقین ہے کہ وہ آنحضرت صلعم کی حدیث نہیں ہے اور بعد قسمیں مشتبہ ہیں۔ ممکن ہے کہ پیغمبر خدا صلعم کی حدیث ہوں اور ممکن ہے کہ نہ ہوں۔ چنانچہ اقسام مذکورہ یہ ہیں: اول حدیث بالمعنی تمام علماء اور محدثین اس بات پر متفق ہیں کہ روایت احادیث کی بلفظہ نہیں ہے بلکہ بالمعنی ہے یعنی احادیث مرویہ کے لفظ بعینہ وہ لفظ نہیں ہیں جو رسول خدا صلعم نے فرمائے تھے بلکہ راویوں نے ان کا مطلب اپنے لفظوں میں بیان کیاہے اور بخاری اور مسلم کی حدیثیں ایسی ہی ہیں اور اسی طرح پر روایت ہوئی ہیں۔ پس ہم اس کے ہر ہر لفظ کو صاحب وحی کی طرف منسوب نہیں کر سکتے بلکہ صحابی و تابعی کی طرف بھی بالعزم نسبت نہیں کر سکتے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ الفاظ سب سے اخیر راوی کے ہوں جس نے بخاری یا مسلم یا اور کسی سے روایت کی ‘ بلکہ کیا عجب ہے کہ بعض مقامات پر خود بخاری یا دوسرے مصنف جامع حدیث کے لفظ ہوں۔ اس کی تصدیق خود بخاری کی بہت سی حدیثوں کے آپس میںمقابلہ کرنے سے ہوتی ہے۔ چنانچہ ا س مقام پر تمثیلاً ہم دو حدیثوں کا آپس میں مقابلہ کرتے ہیں۔ حدیث اول حد ثنا بشر من خال قال اخبرنا محمد ن شعبۃ عن سلیمان عن ابی وایل ۔ قال ابو موسیٰ لعبد اللہ ابن مسعود اذا لم یجدا لماء لا یصلی قال عبداللہ نعم ان لم اجد الماء شھر الم اصل لو رخصت لھم فی ھذا کان اذا وجد احد ہم (احد کم البرد) قال ھکذا یعنی تیمم و صلی قال قلت فاین قول عمار لعمر قال انی لم ارعمر قنع بقول عمار۔ حدیث دوم حد ثنا عمر بن حفص ثنا ابی قال قال ثنا الس عمش قال سمعت شقیق بن سلمۃ قال کنت عند عبداللہ و ابی موسیٰ فقال لہ ابو موسیٰ ارایت یا ابا عبدالرحمن اذا اجنب فلم یجد ماء کیف یصنع فقال عبداللہ لا یصلی حتی یجد الماء فقال ابو موسیٰ فکیف تصنع بقول عمار حین قال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یکفیک قال الم تر عمر لم یقنع بذالک منہ فقال ابو موسیٰ فدعنا من قول عمار کیف تصنع بھذہ الا یۃ فما دری عبداللہ ما یقول فقال انا لور خصنا لھم فی ھذا لاوشک اذا برد علی احدھم الماء ان یدعہ وتیمم فقلت لشقیق فانما کرہ عبداللہ لھذا فقال نعم ۔ دونوں حدیثوں میںوہ گفتگو مذکور ہے جو درباب تمیم کے ابو موسیٰ اور عبداللہ ابن مسعود میں ہوئی تھی۔ پہلی حدیث میں تو مجملاً یہ بیان ہوا ہے کہ ابو موسیٰ نے عبداللہ ابن مسعود سے کہا کہ کیا جس شخص کو نہانے کی حاجت ہو جب اس کو پانی نہ ملے تو وہ نماز نہ پڑھے عبداللہ ابن مسعود نے کہا ہاں اگر مجھ کو مہینہ بھر پانی نہ ملے تو میں نماز نہ پڑھوں گا۔ اگر مٰں ان کو تمیم کی اجازت دوںتو اس وقت دوں کہ کسی کو سردی ہو گئی ہو۔ کہا کہ ایسا یعنی تمیم کیا اورنماز پڑھی۔ ابوموسیٰ نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود سے کہا کہ پھر وہ کیا بات ہوئی جو عمار نے عمر سے کہی تھی۔ عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ عمر عمار کی بات سے راضی نہیں ہوئے تھے۔ دوسری حدیث میں اسی واقعہ کو دوسری تقریر سے بیان کیا ہے کہ ابوموسیٰ نے عبداللہ بن مسعود سے کہا کہ تم کیا خیال کرتے ہو اے عبدالرحمن کے باپ کہ جب کسی کو نہانے کی حاجب ہو جاویاور اس کو پانی نہ ملے تو کیا کرے۔ تب عبداللہ بن مسعود نے کہا نماز نہ پڑھے‘ جب تک پانی نہ ملے۔ ابوموسیٰ نے کہا کہ تو آپ عمار کے قول کو کیا کریں گے جب کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کیا تم نہیں دیکھتے عمر ان سے اس بات پر راضی نہیں ہوئے تھے ابوموسیٰ نے کہا کہ ہم عمار کے قول کو چھوڑ دیتے ہیں آپ قرآن کی آیت میں (جس میں تمیم کا حکم ہے) کیا کریں گے۔ پھر عبداللہ کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہیں۔ پھر کہا کہ جب ہم ان کو تمیم کی اجازت دیں کہ پانی کو سردی پہنچاوے کہ اس کو چھوڑ دے اور تمیم کر لے۔ اب دیکھو کہ ایک ہی حدیث ہے اور ایک ہی مطلب ہے جس کو ایک راوی نے ایک تقریر سے اور دوسرے راوی نے دوسری تقریر سے بیا ن کیا ہے اور اس سے بخوبی ثابت ہے کہ حدیث کی روایت بلفظہ نہیں ہو ئی تھی۔ بلکہ بالمعنی ہوئی تھی۔ اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے ک جس قدر احکام احادیث کے لفظوںسے بخصوصیت الفاظ یا بوجہ تقدیم و تاخیر الفاظ یا بوجہ خاصیت ابوااب وغیر ہ ازروئے قواعد صرف و نحو و معانی و بیان نکالے جاتے ہیں مگر امکان ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مقصود نہ ہو۔ پس اس قسم کے تمام احکام منصوص نہیں ہو سکتے بلکہ اجتہادی ہیں یحتمل الخطا و الصواب۔ دوم در حکم مرفوع یعنی درحقیقت حدیث مرفوع تو وہ ہوتی ہے جس میں بالتصریح یہ بات کہی گئی ہو کہ رسول خدا صلعم نے فرمایا ہے کہ یا خود کیا ہے یا آ پ کے سامنے ہوا ہے لیکن اگر کسی حدیث میں یہ بات بالتصریح نہ بیان ہوئی ہو بلکہ کسی صحابی یا تابعی نے کوئی ایسی بات کہی ہو یا کی ہو کہ عقل اور اجتہاد سے اس کو کچھ تعلق نہ ہو۔ بلکہ منقولات میں سے ہو مثلاً قیامت کا حال یا آئندہ کی خبر یا کوئی صحابی یا تابعی یوں کہے کہ پیغمبر خدا صلعم کے زمانہ میں ہم یوں کرتے تھے یا اس طرح پر کرنا سنت ہے تو یہ حدیث بھی درحکم مرفوع ہے اور بعض علماء کا یہ قول ہے کہ ایسی حدیث سے یہ بھی احتمال ہے کہ صحابہ اور خلفائے راشدین کی سنت مراد ہو۔ مگر میںیہ بات کہتا ہوں کہ یہ رائے علماء متقدمین کی جو نسبت اس حدیث کے ہے جس کو در حکم مرفوع قرار دیا ہے کوئی منصوص یا منقول بات نہیں ہے‘ بلکہ ان علماء کی رائے ہے اور وہ بھی صرف اٹک اور اندازہ سے کہی گئی ہے۔ مگر ایسی حدیث کو در حکم مرفوع قرار دینا محض غلط اور بلاشبہ رائے کی غلطی ہے۔ اس لیے یہ یہ بات تحقیق ہے کہ یہودیوں کے ہاں بھی قیامت کی نسبت اور آئندہ کی خبروں میںبہت سی روایتیں زبان زد تھیں اور یہودیوں کے ہاں کی روایتوںکے ذکر کرنے کی خود پیغمبر خدا صلعم نے اجازت دی تھی۔ پس ممکن ہے کہ وہ بیان صحابی یا تابعی کا کوئی روایت روایات یہود سے ہو نہ قول پیغمبر صلعم کا اور صرف اس بات کے کہنے سے کہ پیغمبر خدا صلعم کے زمانہ میں ہم یوں کیا کرتے تھے اس فعل کے سنت ہو جانے پر بھی یقین نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے کہ سنت ہو اورممکن ہے کہ ایسا فعل ہو جو اس زمانہ میں جس زمانہ کا ذکر راوی نے کیا ہے بموجب رسم زمانہ کے ہوتا آیا ہو۔ اور سنت اس کے برخلاف ہو۔ غرض کہ ایسی حالت میں یقین کلی اس بات پر کہ وہ بلاشبہ قول یا فعل رسولؐ ہی ہے نہیں ہو سکتا۔ سوم مقطوع یعنی ایسی حدیث جس میں قول یا فعل یا تقریر صحابی کا بیان ہو اورجناب رسول خدا صلعم کی طرف نسبت نہ کیا گیا ہو۔ چہارم مقطوع یعنی وہ حدیث جو تابعی تک پہنچ کر رہ جاوے اور اس سے اوپر نہ بڑھے۔ پنجم معلق یعنی وہ حدیث جس کے کل راوی یا مبادی سند سے کچھ راوی چھوٹ گئے ہوں ششم مرسل یا منقطع یعنی وہ حدیث جس کی اخیر سند میں تابعی کے بعد راوی کا نام نہ لیا گیا ہو مثلاً تابعی یہ کہ کہ پیغمبر خدا صلعم نے فرمایاہے اور کسی صحابی کا درمیان میں نام نہ لے۔ ہفتم معضل یعنی وہ حدیث جس کے راویوں سے درمیان کے راوی چھوٹ گئے ہوں پس ان پانچوں قسموں کی حدیثوں میں سے کسی حدیث پر یقین نہیں ہو سکتا کہ بلاشبہ وہ قول یا فعل یا تقریر رسول مقبول صلعم کی ہے۔ علمائے سابقین نے جو کچھ ان کی نسبت بیان کیا ہے وہ سب ان کی رائے اور ان کی سمجھ بلا کسی منقول سند کے ہے۔ فرض کیا جاوے کہ ظن غالب ان کی نسبت حدیث نبوی ہونے کا حوالا اس پر یقین نہیں ہو سکتا۔ منجملہ اقسام مذکورہ بالا کے حدیث معلق پر جو صحیح بخاری کے ہر باب کے شرو ع میں ہے لوگوں نے گفتگو کی ہے۔ علمائے سابقین کا یہ قول ہے کہ اس قسم کی حدیثیں جو صحیح بخاری میں ہیں وہ سب صحیح ہیں اور بمنزلہ حدیث معضل کے ہیں یعنی بمنزلہ ایسی حدیث کے جس کا کوئی راوی نہ چھوٹا ہو اس لیے کہ بخاری نے التزام کیا ہے کہ سوائے حدیث صحیح کے اورکوئی حدیث اپنی کتاب میں نہ لاوے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ رائے بسبب حسن ظن کے بہ نسبت بخاری کے قرار پائی ہے پس تعلیقات بخاری کا بمنزلہ حدیث معضل کے قرار دینا صرف حسن ظن ہوا نہ یقینی وشتان بینہما۔ اسی طرح حدیث مرسل کی نسبت بحث ہوئی ہے۔ جمہور علماء کا یہ مذہب ہے کہ حدیث مرسل کو حدیث نبوی قرار دینے میں توقف چاہیے یعنی نہ تو اس کو کہہ سکتے ہیں کہ حدیث نبوی ہے نہ کہہ سکتے ہیں کہ نہیں ہے۔یعنی اس میں شک ہے ممکن ہے کہ حدیث نبوی ہو اورممکن ہے کہ نہ ہو یعنی اس کے حدیث نبوی ہونے پر یقین نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ ایک تابعی دوسرے تابعی سے بھی روایت کیا کرتا تھا اورجو راوی چھوٹ گیا ہے معلوم نہیں کہ ثقہ ہے یا نہیں اوریہ رائے بالکل صحیح و درست معلوم ہوتی ہے۔ مگر حضرت امام ابو حنیفہ ؒ اور حضرت امام مالکؒ کے نزدیک وہ حدیث بالکل مقبول ہے۔ وہ یہ بات فرماتے ہیں کہ تابعی نے جو اوپر کا راوی چھوڑ دیا تو اس کو اس حدیث کی صحت پر کامل یقین ہو گا۔ ورنہ وہ اس کو پیغمبر خداصلعم کی نسبت منسوب نہ کرتا۔ حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ اگر حدیث مرسل کی تقویت اور کسی طرح پر بھی ہو سکے تو وہ حدیث ناقابل قبول ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ کی رائے اس باب میں یکسو نہیں ہے۔ ایک قول ان کا ہے کہ ایسی حدیث قبول کی جاوے ایک قول ہے کہ توقف کیا جاوے۔ بہرحال جو لوگ کہ حدیث مرسل کو قابل قبول ٹھہراتے ہیں ان کی رائے کی بنا پر صرف حسن ظن پر ہے مگر کسی کو جزم اور یقین اس بات پر نہیں ہو سکتا کہ بلاشک وہ حدیث پیغمبر خدا صلعم کی ہے۔ ہشتم مدلس یعنی وہ حدیث جس کی روایت میں اس شخص کا نام جس سے راوی نے حدیث سنی چھوڑ کر اس سے اوپر کے راوی کا نام ایسے طور پر لیا جاوے جس سے یہ شبہ پڑے کہ اس راوی نے اسی سے یہ حدیث سنی ہے۔ ایسی حدیث کی نسبت علما ء کی یہ رائے ہے کہ اگر وہ راوی ثقہ اور نیک ہے اورکوئی غرض فاسد اس میں نہیں رکھتا تو وہ حدیث قبو کرنے کے لائق ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ایسی حدیث کے قبول کرنے کا مدار بھی صرف حسن ظن پر ٹھہرا مگر اس بات کا ثبوت یا یقین کہ یہ حدیث بیشک رسول مقبول صلعم کی ہے حاصل نہیں ہوتا۔ نہم مضطر وہ حدیث ہے جس کے راوی کو راویں کے نام یا حدیث کی عبارت بہ ترتیب یاد نہ رہی ہو۔ دہم مدرج وہ حدیث ہے جس میںراوی نے کسی مطلب کے لیے اپنی عبارت بھی ملا دی ہو۔ ایسی حدیثوں پر کبھی یقین نہیں ہو سکتا کہ پیغمبر خداصلعم کی حدیثیں ہیں کیوں کہ ترتیب کی درستی اور عبارت زائد اگر حذف ہی کی جاوے تو بھی یہ بات یقین کے لائق نہیں ہے ہ بقیہ الفاظ بے کم و کاست بلاشبہ رسول مقبول صلعم کے فرمائے ہوئے ہیں۔ یازدہم معنعن یعنی وہ حدیث جس کو راوی نے عن فلان عن فلان کر کر بیان کیا ہو۔ یہ ایک ایسی قسم کی حدیث ہے جس سے تما م حدیث کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور اس قسم کی حدیثیں بہت زیادہ غور کرنے کے لائق ہیں۔ واضح ہو کہ علمائے حدیث میںحدیث کی روایت میں چار لفظ مستعمل ہیں حدثنا۔ اخبرنا۔ انبانا ۔ یہ تینوں لفظ جب بولے جاتے ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ پچھلے راوی نے اوپر کے راوی سے یہ حدیث سنی یا سیکھی ہے مگر چوتھا لفظ عن مشتبہ لفظ ہے۔ اس لفظ سے دونوں احتما ل ہیں کہ پچھلے راوی نے اوپر کے راوی سے یہ حدیث سنی ہو اوریہ بھی احتما ہے ک اس نے نہ سنی ہو بلکہ جس سے سنی ہو اس کا نام چھوڑ کر اوپر کے راوی کا نا م لے دیا ہو پس اس بات کے قرار دینے میں کہ ایسی حدیث کا کیا حال ہے اختلاف ہے ۔ شاید یہ بات پر سب متفق ہیں کہ اگر اس میں کوئی راوی ایسا ہے۔ جو کسی غرض فاسد سے اس راوی کا نام چھپایاکرتا ہو جس سے درحقیقت ا س نے حدیث سنی ہے تب تو یہ حدیث معتبر نہ ہو گی اور اگر ایسا نہیں ہے کہ تو معتبر ہو گی۔ اس کے بعد علما میں اختلاف ہے ۔ بعض عالموں کا یہ قول ہے کہ ایسی حدیث کے معتبر ہونے کے لیے یہ بھی ضرور ہے کہ جس شخص نے بلفظ عن کسی سے روایت کی ہے ان دونوں کا آپس میں ملاقات ہونا اور حدیث سیکھنے کا ان کو موقع بھی ہونا ثابت ہو۔ چنانچہ بخاری کا مذہب یہی ہے مگر مسلم ان باتوں کو قبول نہیں کرتا اور کسی شرط کو ضروری نہیں سمجھتا۔ بہرحال ہم کو ان مذہبوں میں بحث نہیں ہے ہم کو صرف یہ بات دکھانی ہے کہ جس حدیث میں بلفظ عن روایت ہوئی ہے اس میںبرابر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم تک راویوں کے نہ ہونے کا احتمال ہے اور اسی سبب سے یہ بھی احتمال ہے کہ وہ حدیث رسول خدا صلعم کی نہ ہو۔ جن لوگوں نے مختلف شرطوں کے ساتھ اس حدیث نبوی کو سمجھا ہے ‘ صرف قیاس و تخمین و حسن ظن کے سبب سمجھا ہے‘ کوئی ثبوت یا کوئی نص اس پر ان کے پاس نہیں ہے۔ پس ایسی حدیث پر جزم و یقین اس بات کا کہ بلاشبہ وہ حدیث پیغمر خدا صلعم کی حدیث ہے نہیں ہو سکتا۔ دواز دہم مونن یعنی وہ حدیث جس میں کسی راوی نے ان کے لفظ سے روایت کی ہو اور اس کا حال بھی بجنسہ ویسا ہے جیسے کہ عن کے لفظ سے روایت کا ہے۔ علاوہ اس کے بھی اور بہت سی قسمیں حدیثوں کی ہیں جو اعتبار اور درجہ اور مضمون حدیث وغیرہ سے علاقہ رکھتی ہیں مگر ہم ان کا اس مقام پر ذکر کرنا نہیں چاہتے ‘ کیونکہ باقی اقسام کی حدیثوں کی جن میں کچھ نقصان ہے وہ تو ناقص او ر نامعتبر ہی ہیں۔ ہم ان حدیثوں پر بحث کرنی چاہتے ہیں جن میں اس قسم کا نقصان نہیں ہے۔ اورپھر ان پر اس بات کا شبہ ہے کہ آیا درحقیقت وہ حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے یا نہیں۔ پس یہ بارہ قسمیں احادیث صحیح کی جو ہم نے بیا ن کی ہیں ایسی ہی ہیں کہ ہر عاقل شخص یہ بات کہے گا ہ ان میں سے حدیث نبوی ہونا بھی ممکن ہے الا ان میں سے کسی کا بھی بالیقین حدیث نبوی ہونا ثابت نہیں ہے۔ علماء متقدمین نے جو کچھ رائے اس کی نسبت قائم کی ہے وہ صرف ان کی رائے ہے کوئی حدیث یا حکم من جانب شارع اس پر نہیںہے۔ پس ہمارا بھی یہی مقصود ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہم بھی ان راویوں اور بزرگوں کا ادب لحاظ رکھیں اور ہمیشہ دل سے حسن ظن سے ان کی طرف دیکھیں‘ مگر ایسا کرنے میں بالکل اندھے نہ ہو جاویں اور خود کچھ بھی خیال نہ کریں‘ بلکہ ہمارا فرض ہے ہ ہم ان حدیثوں کے حدیث نبوی ٹھہرانے کے لیے کوئی عمدہ اصول قرار دیں پس وہ اصول یہ ہیں۔ اول ہم کو دیکھنا چاہیے کہ آیا وہ حدیث احکام قرآن مجید کے برخلاف ہے یا نہیں۔ اگر ہو تو ہم کو یقین کرنا چاہیے کہ وہ حدیث نبوی نہیں ہے جیسے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے حدیث سماع موتیٰ کی حدیث نبوی ہونے سے بسبب مخالفت قرآن کے انکار کیا باوجود یکہ صحابی اس کے راوی تھے اورنہایت قلیل زمانہ عہد برکت مہد رسو ل مقبول صلعم سے گزر ا تھا۔ دوم اس حدیث میں اشیا موجودہ میں سے کسی شے کی حقیقت الہام سے بطور واقع کے بیا نکی ہو نہ بطور عرف عام کے اور وہ بیان درحقیقت اس موجودہ شے کی حقیقت کے برخلاف ہو تو وہ حدیث نبوی نہیں ہے۔ سوم اس حدیث میں کوئی ایسا واقعہ بیان ہو جو تاریخ سے علاقہ رکھتا ہے اور تاریخ سے ثابت ہو کہ وہ واقعہ صحیح نہیں ہے تو ہم اس حدیث کو ہرگز بطور حدیث نبوی تسلیم نہیں کرنے کے۔ چہارم اس حدیث میں ایسا واقعہ حسی بیان کیا گیا ہو کہ اگر وہ واقع ہوتا تو ہزاروں آدمی اس کو دیکجھتے مگر اس کا ہونا صرف اسی حدیث کے راوی بیان کرتے ہیں تو اس حدیث کو بھی ہم حدیث نبوی نہیں کہہ سکتے۔ پنجم اس حدیث میں ایسی بات ہو جو تمام لوگوں سے علاقہ رکھتی ہو اور جس کا جاننا سب کو ضرور تھا مگر اس سے صرف اسی حدیث کے راوی واقف تھے نہ اور کوئی تو وہ حدیث بھی حدیث نبوی نہیں ہو سکتی۔ ششم اس حدیث میں کوئی بات برخلاف ان احکام اور اصول مذہب اسلام کے ہو جو معتر حدیثوں سے ثابت ہو چکے ہیں تو ا س حدیث کو بھی حدیث نبوی قرار نہیں دے سکتے۔ ہفتم اس حدیث میں ایسے عجائبات بیان ہوئے ہوں جسے عقل تسلیم نہ کرتی ہ اور جب تک کہ ان کا الہام سے بیان ہونا ثابت ہو تو وہ تسلیم کرنے کے لائق نہ ہوں ۔ پس جبکہ ایسے عجائبات اس قسم کی حدیثوں میں مذکور ہوں جن کا اوپر ذکر ہوا تو ان حدیثوں کو بھی حدیث نبوی میں داخل نہیں کر سکتے اس لیے کہ بسبب ان نقصوں اور احتمالوں کے جو اس قسم کی حدیثوں میں ہیں اور جن کا اوپر بیان ہوا ان عجائبات کا الہام سے بیان ہونا اور جناب رسول خدا صلعم کا ان عجائبات کو بیان کرنا ثابت نہیں ہوتا اور جبکہ ان کا الہام سے بیان ہونا ثابت نہیں ہے تو اس حدیث کو جس میں وہ عجائبات ہیں حدیث نبوی بھی قرار دے سکتے۔ اسی قسم میں وہ حدیثیں بھی داخل ہیں جن میں تھوڑے سے عمل پر بڑے بڑے ثوابوں کا اور جنت میں محلوں کے بننے کا باادنیٰ گناہ میں سخت سخت عذابوں کا ذکر ہوا ہے۔ اقسام مذکورہ بالا کی حدیثیںتمام کتب احادیث میں یہاں تک کہ بخاری و مسلم میں بھی موجود ہیں۔ پس ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ اسی قدر کہتے ہیں کہ اس قسم کی حدیثوں کی کتاب میں مندرج ہے حدیث نبوی کہنا نہیں چاہیے۔ بلکہ ان اصول ہفتگانہ سے ا ن کا امتحان کرنا لازم ہے۔ اور اس میں بھی وہ ٹھیک اور پوری اترے اس وقت اس کی نسبت حدیث نبوی ہونے کا ظن غالب کہنا چاہیے۔ کیونکہ اس امتحان کے بععد بھی اس سبب سے کہ اس حدیث کی روایت اس قسم کی ہے جس سے حدیث نبوی ہونے کا ثبوت نہیں ہے اس حدیث کو بالجزم اور بالیقین حدیث نبوی نہیں کہہ سکتے۔ ٭٭٭ احادیث غیر معتمد (تہذیب الاخلاق بابت یکم ذی قعدہ ۱۲۸۸ھ) اسلام کا ادب اور اس کی دوستی اور کمال ایمانداری اس بات میں ہے ہ حدیثوں کی تنقیح کی جاوے اور جسس میں ذرا بھی شک ہو اسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دے۔ حدیث کی تنقیح نہ کرنا اور ہر حدیث کو سمجھنا کہ پیغمبر خدا صلعم کا قول ہے ‘ نہایت بے ادبی اور اسلام کی دشمنی ہے۔ پس سچی دوستی اور حقیقی ادب یہی ہے کہ غیر کے کلام کو اپنے نبی پاک کے کلام سے علیحدہ کر دے۔ حضرت علامہ مجدالدین فیروز آبادی نے جو اکابر علماء حدیث سے ہیں سفر السعادۃ کے خاتمہ میں بہت سی باتیں لکھی ہیں اوربیان کیا ہے کہ ان باتوں کی نسبت بہت سی حدیثیں بیان ہوئی ہیں ان میں سے کچھ بھی صحیح اور علما ء حدیث کے نزدیک ثابت نہیں ہیں۔ چنانچہ اسی مضمون کو ہم بھی لکھتے ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ کیسی کیسی مشہور حدیثوں کو علمائے معتبر قابل اعتماد نہیں سمجھتے تھے پس جو حدیثیں کہ معتبر نہیں ہیں ان کو نہ ماننا عین دینداری ہے۔ چنانچہ مفصلہ ذیل باتیں اس کتاب میںمندرج ہیں: (۱) ایمان کے بیان میں جو حدیثیں ہیں کہ ایمان قول اورعمل کا نام ہے اور گھٹتا اور بڑھتا ہے یا نہ گھٹتق ہے نہ بڑھتا ہے ان میں سے کوئی حدیث بھی پیغمبر خدا صلعم کی نہیں ہے ‘ بلکہ صحابہ اور تابعین کے اقوال ہیں۔ (۲) مرجیہ اور قدریہ اور جہیمیہ اور اشعریہ کی نسبت جس قدر حدیثیں ہیں کوئی بھی ان میںسے صحیح نہیں ہے۔ (۳) اس باب مٰں کہ کلام اللہ قدیم غیر مخلوق ہے بہت حدیثیں ہیں ‘ مگر پیغمبر خدا کی کوئی ھدیث نہیں ہے صحابہ و تابعین کے اقوال ہیں۔ (۴) ملائکہ کی پیدائش میں اور حضرت جبرائیل کے پروں کے قطروں سے فرشتوں کے پیدا ہونے میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔ (۵) محمدؐ اور احمد نام رکھنے کی خوبی اور بزرگی میں یا اس کی ممانعت میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔ (۶) عقل کی اصلیت اور اس کی فضیلت کے بیان میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔ (۷) خضر و الیاسؑ کی عمر اور اس کی درازی کے باب میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔ (۸) علم کے باب میں اور اس میں کہ علم کا طلب کرنا فرض ہے کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔ (۹) علم کے چھپانے کی برائی میں بھی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔ (۱۰) قرآن اور سورتوں کی خاص خاص فضیلتوں میں جس قدر حدیثیں ہیں سوائے چند کے ان میں سے بھی کوئی حدیث نہیں ہے۔ (۱۱) حضر ت ابوبکرؓ کی فصیلت کی مشہور حدیثیں موضوع اور مفتریات سے ہیں۔ (۱۲) حضر ت علیؓ کے فضائل میں بجز ایک حدیث کے اور کوئی ثابت نہیں۔ (۱۳) معاویہ ؓ کے فضائل میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۱۴) امام ابو حنیفہؒ اور شافعیؒ کی بزرگی یا برائی میں جس قدر حدیثیں ہیں سب موضوع اور مفتری ہیں۔ (۱۵) بیت المقدس اور صخرہ اور عسقلان اور قزوین اور اندلس اور دمشق کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث نہیںہے۔ (۱۶) قلتین پانی جب ہو تو ناپاک نہیں ہوتا۔ بعضے اس حدیث کو صحیح کہتے ہیں بعضے غیر صحیح مگر اکابر اہل حدیث نے اپنی تصنیفات میں اس حدیث کو بیان کیاہے (میرے نزدیک پانی کے باب میں صحیح حدیث صرف ایک ہے الماء طاہر و طہور الخ) (۱۷) دھوپ سے گرم ہوئے پانی کے مکروہ ہونے کی نسبت بھی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۱۸) وضو کے بعد ہاتھ پائوں کا پانی پونچھ لینے کے باب میں بھی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۱۹) ڈاڑھی کے خلال اور کانوں اور گردن پر مسحکرنے میں بھی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۲۰) نیند سے وصول کرنے کی بھی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۲۱) عورت کو چھونے سے وضو کرنے میں بھی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۲۲) مردہ کو غسل دینے کے بعد خود غسل کرنے کی بھی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۲۳) حمام میں جانے سے منع ہونے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۲۴) اس باب میں کہ بسم اللہ ہر سورۃ کی آیت ہے اور نماز میں اس کو پکار کر پڑھنا چاہیے کوئی حدیث نہیںہے۔ (۲۵) اس باب میں کہ امام ضامن ہے اور موذن موتمن ہے اور مسجد کے ہمسایہ میں رہنے والے کی نماز بغیر مسجدکے نہیں ہوتی اور ہر نیک و بد کے پیچھے نماز جائز ہے‘ کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۲۶) جس شخص پر قضا نمازیں ہوں اس کی نماز نہ ہونے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۲۷) سفر میں پوری نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کے گناہ ہونے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۲۸) فجر کی نماز اور وتر میں قنوت پڑھنے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۲۹) مسجد میں نماز جنازہ نہ پڑھنے میں اور تکبیرات جنازہ میں رفع یدین کرنے میں کوئی حدیث نہیں ہے۔ (۳۰) اس باب میں کہ نماز کوئی چیز قطع نہیں کرتی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۳۱) او ر ا س باب میں کہ طلب کرو تم خیر کو رحم دلوں اور خندہ رو لوگوںسے کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۳۲) اور اس باب میںکہ مالداروں کا غرباء کی حاجب براری سے پہلو تہی کرنا موجب زوال نعمت ہے اور احسان کرنے میں ثواب ہے کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۳۳) صلواۃ التسبیح اور صلواۃ رغایب اور صلواۃنصف شعبان ونصب رجب و صلواۃ ایمان اور صلواۃ لیلۃ المعراج و لیلۃ القدر اور صلوٰۃ ہر شب رجب و شعبان و رمضان کے باب میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۳۴) گہنے کی ور شہد کی اور ترکاری کی زکوٰۃ کے باب میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۳۵) روز عاشورہ کے فضائل ار اعمال کے باب میں سوائے روزہ کے مستحب ہونے کے اور رجب کے روزہ کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے اور اسی طرح جو حدیثیں صدقات اور خضاب اور سر میںتیل ڈالنے اور سرمہ لگانے کی اور دانہ ابالنے کی فضیلت میں آئی ہٰں سب موضوع ہیں۔ (۳۶) پچھنے لگانے سے روزہ جاتے رہنے میں کو ئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۳۷) اس باب میں کہ جو مقدور رکھ کر حج نہ کرے وہ یہودی ہو کر مرے گا یا عیسائی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔ (۳۸) جس قرض میں نفع ہو وہ سود ہے۔ اس باب میں بھی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔ (۳۹) چھری سے گوشت کاٹ کر کھانا منع ہونے میں کوئی حدیث صحیح نہیںہے۔ (۴۰) رسول خدا صلعم کے فارسی میں کلام کرنے میںیا فارسی زبان بولنے کے مکروہ ہونے میں بھی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔ (۴۱) دعا مانگ کر دونوں ہاتھوں کو منہ پر ملنے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۴۲) سفید مرغ اورمہندی کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔ (۴۳) اس باب میں کہ والدالزنا جنت میں نہ جاوے گا کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۴۴) اس باب میں کہ اجماع حجت ہے کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ (۴۵) اس باب میں کہ قیاس حجت ہے کوئی حدیث صحیح نہیںہے۔ (۴۶) اس باب میں کہ قیامت کی نشانیاں فلاں فلاں مہینوں میںظاہر ہوں گی اور دو سو برس سے قیامت کی نشانیاں ظاہر ہوں گی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ یہ چند باتیں بطور مثال کے ہم نے لکھی ہیں‘ مگر سفر السعادت میں اور بہت سی باتیں اس قسم کی ہیں جن کی نسبت صحیح حدیثیں نہیں ہیں ا س تمثیل سے ہماری غرض یہ ہے کہ جب تک حدیث کی صحت بخوبی پڑتال نہ لی جاوے‘ اس وقت تک اس کی صحت تسلیم کرنی نہ چاہیے‘ کیونکہ ایسا کرنے سے اسلام میں خلل آتا ہے اور صرف اس بات پر کہ یہ حدیث فلاں کتاب میں مندرج ہے بھروسا کرنا محض بیجاہے۔ گو کہ وہ کتاب صحیح بخاری ہی کیوں نہ ہو۔ ٭٭٭ قصص و احادیث و تفاسیر (تہذیب الاخلاق جلد ہفتم یکم رجب ۱۲۹۴ھ) ہم اکثر اپنی تحریروں میں لکھتے ہیں کہ تفاسیر کے قصے اور تفسیروں کی حدیثیں لائق اعتماد نہیں ہیں اور اسی سبب سے ہم ا ن کو لغو و مہمل سمجھتے ہیں اور ان پر جب تک کہ درایۃ ان کی صحت نہ معلوم ہو اعتماد نہیں کرتے۔ ان دنوں میں ہمارے زمانہ کے مقدسین و متبحرین میںجھگڑا ہو ا تھا ایک گروہ کا باستدلال اثر ابن عباس پر یہ اعتقاد تھا کہ زمینیں اوپر تلے سات ہیں اور ہر ایک پر ایسا ہی آسمان چاند سورج اور ستارے ہیں اور ہر ایک زمین میں ایک ایک باوا آدم اور ایک ایک نبی آخر الزمان ہے۔ پس صرف محمد رسول اللہ صلعم ہی خاتم الانبیاء نہیں ہیں۔ بلکہ چھ اور بھی ہیں۔ دوسرے گروہ مقدسیں نے ان کو کافر بتایا ۔ ار فتویٰ کفر دے گئے ان کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی گئی۔ آخر یہاں تک نوبت پہنچی کہ مکہ معظمہ کے علماء سے اس میں فتویٰ پوچھا گیا اوروہ فتویٰ بطور ایک رسالہ کے مصر میں چھاپا گیا ہے جو اس وقت ہمارے سامنے رکھا ہوا ہے ۔ ہم کو اس بحث اور فتوے سے تو غرض نہیں مگر اس میں دو مقدمے ہیں جن میں وہی مضامین نسبت قصص تفسیروں کے اور ان کی حدیثوں کے لکھے ہیں جو ہم ان کی نسبت لکھتے ہیں ۔ پس مناسب معلوم ہوتاہے کہ ہم ان دونوں مقد موں کو مع ترجمہ کر کے اس مقام پر لکھ دیں تاکہ لوگ جانیں کہ ہمارے سوا اور بہت یس اکابر مکہ معظمہ بھی ان قصص و حدیث کو لغو و نامعتبر سمجھتے ہیں۔ وھٰذہ ھی المقدمات المقدمہ الثامۃ فی المغازی والملاحم والتفسیر توجد الروایات الکثیرۃ و نقل بعض المفسرین اکثر القصص اولروایات عن الاسر ائیلیات قالالشو کانی فی الفواید المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ فی آخر الباب الاول من کتاب الفضائل قال احمد بن حنبل ثلث کتاب لیس لہا اسل المغازی والملاحم والتفسیر قال الخطیب ھذا محمول علی کتب مخصوصۃ فی ھذہ المعانی الثلثۃ غیر معتمد علیہا لعدم عدالۃ نا قلیہا و زیادۃ القصص فیہا اما کتب التفسسیر فمن اشہرھا کتابان للکلبی و مقاتل بن سلیمان قال احمد فی تفسیر الکلبی من اولہ الٰہی آخرہ کذب لا یحل النظرفیہ وقد حمل ھذا علی الاکثر (انتہی) ثم قال اقول لاشک ان کثیرا من کلام الصوفیۃ علی الکتاب العزیز ہو بالتحریف اشبہ من بالتفسیر بل غالب ذلک من جنس تفاسیر الباطنۃ تفسیر ابن عباس فانہ مروی عن طریق الکذابین کالکلبی والسدی والمقاتل ذکر معنی ذلک السیوطی وقد سبقۃ الی معناہ ابن تیمیۃ ومن کان من المفسرین تتفق علیہ الاحادیث الموضوعۃ کالثعلبی و الواحدی والزمخشری فلا یحل الوثوق بما یرویہ عن السلف من التفسیر فانہ ازالم یفہم الکذب علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یفہم الکذب علی غیرہ قال المحدث الدھلوی ولی اللہ فی الفوزا الکبیر فی اصول التفسیر و درینجا یا ید دانست کہ قصص انبیائے سابقین در حدیث کم مذکور شدہ اندایں قصص طویلہ عریضہ کہ مفسرین تصدیع روایت آں میکشند ہمہ منقول از علماء اھل کتاب است الا ماشاء اللہ ودر صحیح بخاری آمد ہ مرفوعاً (لا تصدقو ا اھل الکتاب ولا تکذبوھم ) انتھی کلامہ بلفظہ۔ ثم قال آئبہ محمد بن اسحاق و واقدی و کلبی دریں باب افراط کردہ اند و در زیر ہر آیتے قصہ آوردہ ان نزدیک محدثین اکثر آں غیر صحیح است و در اسناد آں نظر است۔ مقدمہ آٹھواں مغازی اور ملاحم اور تفسیر میں بہت روایات پائی جاتی ہیں۔ اور اکثر مفسرین نے بہت زیادہ قصہ اور روایتیں یہودیوںسے اکٹھی کی ہیں شوکانی نے فوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ کی کتاب الفضائل کے باب اول کے آخر میں کہا ہے کہ امام احمد بن حنبل نے تین کتابیں ہیں کہ جن کی کچھ اصل نہیں ہے۔ مغازی اور ملاحم اور تفسیر خطیب نے یہ کہا ہے کہ اس سے چند خاص کرابیں مراد ہیں اس فن کی جن پر اعتماد نہیںہے کہ ان کے راوی عدل نہیں ہیں اور ان میں قصے بڑھا دیے ہیں ۔ اورتفسیر کی کتابوں سے بہت مشہور دو کتابیں کلبی کی اور مقاتل بن سلیمان کی ہیں۔ کہا ہے احمد نے کہ تفسیر کلبی کے حق میں یہ کہا ہے کہ اول سے آخر تک جھوٹ ہے۔ اس کو دیکھنا بھی حلال نہیں ہے اور اس کے یہ معنی کیے گئے ہیں کہ ان میں سے اکثر جھوٹ ہیں اورپھر کہا ہے کہ کہتا ہوں میں کہ کچھ شک نہیں ہے کہ صوفیہ نے جو تاویلات کلام اللہ میں کی ہیں وہ بھی بمنزلہ تحریف کے ہیں نہ تفسیر کے بلکہ اکثر وہ تفسیر ایسی ہیں جیسے فرقہ یا طنیہ کی تفسیر اور تحریفات ہیں اور تفسیروں میں سے ایک تفسیر عبداللہ بن عباس کی ہے کہوہ منقول ہے جھوٹے راویوں کے ذریعہ سے جیسے کلبی اور سدی اورمقاتل ۔ سیوطی نے اس کے یہ معنی کہے ہیں اور اس سے پہیل ابن تمیمہ نے بھی یہی کہے تھ کہ مفسرین سے جو ایسا ہے کہ احادیث موضوعہ کو ذکر کرتاہے جیسے ثعلبی اور واحدی اور زمحشری (جس کی تفسیر کشاف بہت مشہور ہے) وہ جو تفسیر سلف سے روایت کرے اس پر بھی اعتماد نہ کرنا چاہیے کہ جب وہ رسول ہی کی طرف جھوٹی روایت کو نہیں سمجھتا تو اوروں کی طرف کس طرح جھوٹ سمجھے گا۔ محدث دہلوی شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فو ز کبیر میں جو اصول تفسیر میں کہا ہے کہ یہ جاننا چاہیے کہ پچھلے نبیوں کے قصے حدیث میں بہت کم مذکور ہوئے ہیں۔ یہ بڑے لمبے چوڑے قصے کہ مفسرین ان کے لکھنے کی تکلیف اٹھاتے ہیں‘ یہ سب اہل کتاب سے منقول ہیں اورصحیح بخاری میں یہ حدیث مرفوع منقول ہے کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب پس ان قصوں کی بھی نہ تصدیق کرو اورنہ تکذیب۔ اور پھر کہا ہے کہ محمد ابن اسحاق اور واقدی نے ا س باب میں بہت زیادتی کی ہے اورہر آیت کی ذیل میں قصہ بیان کیا ہے۔ محدثوںکے نزدیک اکثر وہ صحیح نہیں ہے۔ اوراس کی اسناد میں تامل ہے۔ المقدمۃ العاشرہ قال التفتا زانی فی شرح العقاید النسفیہ ذیل شرح قول المصنف والاولی ان لا نقتصر علی عدد فی الایمان بالانبیاء (الخ) ان خبر الواحد علی تقدیر اشتمالہ علی جمیع الشرایط المذکورۃ فی اصول الفقہ لا یفید الا الظن ولا عبرۃ بالظن فی باب الاعتقادات خصوصاً اذا اشتمل علی اختلاف الروایات وکان بموجبہ مما بفضی الی مخالفۃ ظاہر الکتاب وھو ان بعض الانبیاء لم یذکر للنبی علیہ السلام و یحتمل مخالفۃ الواقع وھو عدالنبی من الانبیاء (انتھی کلامہ بلفظہ) وقال الخیالی فی حاشیۃ قولہ علی تقدیر اشتمالہ علی جمیع الشرائط مثل العقل والضبط و العدالۃ والاسلام وعدم الطعن انتھی کلامہ بلفظہ۔ دسواں مقدمہ علامہ تفتا زانی نے شرح عقاید نسفی میں مصنف ک اس قول کی ذیل میں کہ بہتر یہ ہے کہ نبیوں پر ایمان لانے میں کسی عدد خاص پر اکتفا نہ کرے کہ اس معاملہ میں جو حدیث آئی ہے وہ خبر احاد ہے اور وہ حدیث جس کا راوی حضرت سے ایک ہی ہو اگر اس میں وہ ساری شرائط بھی پائی جاویں جو اصول فقہ میں مذکور ہیں تو اس سے صرف ظن حاصل ہوتا ہے اوردرباب اعتقاد کے ظن کا کچھ اعتبار نہیں خاص کر جبکہ اس میں اختلاف روایات کا ہو اور اس کے مطلب سے مخالفت ظاہر قرآن کی لازم آتی ہو اور وہ یہ ہے کہ بعض نبیوں کا ذکر حضرت سے نہیں کیا گیا ور نیز اس روایت میں احتمال مخالفت واقع کا بھی ہے کہ کوئی نبی غیر نبیوں میں نہ داخل ہو جاوے یا غیر نبی نبیوں میں شمار نہ ہو جاوے۔ اور خیالی نے اپنے حاشیہ میں کہا ہے کہ وہ شرائط جو حدیث میں معتبر ہیں‘ یہ ہیں۔ عقل اور حافظہ کا درست ہونا۔ اور عادل ہونا اور اسلام اور اس میں سے کسی نے طعن نہ کیاہو۔ خاتمہ پر ان لوگوں کی مہریں ہیں (۱) عبدالرحمن بن عبداللہ سرا ج الحنفی مفتی بمکۃ المکرمہ ۔ (۲) رحمت اللہ یہ ہندوستان کے معروف و مشہور مولوی رحمت اللہ صاحب ہیں۔ (۳) احمد بن زینی دحلان مفتی بمکتہ لمحمیہ۔ (۴) محمد بن عبداللہ بن حمید مفتی الحناہلہ بمکۃ المشرفہ۔ (۵) حسین بن ابراہیم مفتی المالکیہ بلید اللہ المحمیہ۔ (۶) ابراہیم بن محمد سعید۔ (۷) السید محمد الکتبی الحنفی الخطیب والام والمدرس بالمسجد الحرام۔ (۸) محمد الحسینی الطند نائی الحنفی بالازھر۔ (۹) عبدالقادر الدنیشانی الحنفی بالازھر۔ (۱۰) محمد سالم العباسی العابدی الشافعی بالازھر۔ (۱۱) محمد مطاع الشحیمی الشافعی الحسنی بالازھر۔ (۱۲) السید محمد الطیب الشافعی بالازھر۔ (۱۳) علی بن قاسم بن العباس الیمنی احد مجاورین الازھر۔ (۱۴) محمد صادق مدراسی الحنفی القادری۔ تشبہ تحقیق معنی من تشبہ بقوم فھو منھم (تہذیب الاخلاق جلد ششم بابت یکم شعبان ۱۲۹۲ھ صفحہ ۱۳۰) امیر الامرا افتخار العلماء سید خیر الدین احمد وزیر سلطنت ٹیونس نے جو نہایت عمدہ کتاب اقوام المسالک عربی زبان میں لکھی ہے جس پر وہاں کے برے بڑے علما کی تقریظیں چھپی ہیں اور اس کا ترجمہ حال میں جناب خلیفہ سید محمد حسن خاں بہادر وزری ریاست پٹیالہ کی عالی ہمتی اورفیاضی کی وجہ سے اردو میں مسمیٰ بہ نظم الممالک چھپا ہے اس میں ہم ایک مختصر تقریر سید خیر الدین احمد مصنف اصل کتاب کی جوتشابہ کے باب میں انہو نے لکھی ہے نقل کرتے ہیں اور وہ یہ ہے : دوسری بات جو اس تالیف کا باعث ہے ا ن غافل لوگوں کا ہوشیار کرنا اور متنبہ کرنا ہے جو ایک اچھی بات کو صرف اس خیال سے اختیار نہیں کرتے کہ وہ ظاہر ان کی شریعت میں نہیں ہے اور اس غلط خیال کا منشاء یہ ہے کہ وہ دوسرے مذہب کے لوگوں کی جملہ باتوں کو اسی قابل سمجھتے ہیں کہ ان کو ترک کیا جاوے خواہ وہ باتیں کسی قوم کی عادات میں سے ہوں خواہ تدابیر ملکیہ کے متعلق ہوں یہاں تک کہ وہ غافل لوگ غیر مذھب والے کی تالیفات کو بی پڑھنا برا سمجھتے ہیں اور اگر کوئی شکص ان کے سامنے غیر مذہب کی تالیفات یا عمدہ باتوں کی تعریف کرے تو وہ اس شخص کو برا بھلا کہنے پر مستعد ہو جاتے ہیں‘ حالانکہ یہ بات بالکل حماقت کی ہے‘ او ر سراسر خطا ہے‘ اس لیے کہ جو کام فی نفسہ اچھا ہو اور ہماری عقل بھی اس کو تسلیم کرے خصوصاً وہ کام جس کو کبھی ہم لوگ بھی کیا کرتے تھے اورغیروں نے اس کو ہم سے بھی اوڑا لیا ہے تو ایسے کام سے انکار کرنے یا اس کے چھوڑ دینے کی وجہ کوئی نہیں ہے بلکہ جب وہ کسی زمانہ میں ہماری ہی قوم کی عمل درآمد میں تھا تو ہم کو ایسے کام کے پھر حاصل کرنے میں نہایت شوق اور تنا ظاہر کرنی چاہیے۔ اور گو یہ بات مسلم ہے کہ ہر اہل مذہب اپنے مذہب کے سامنے درسرے کے مذہب کو ضلالت خیال کرتا ہے۔ لیکن اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ غیر مذہب والے کی دنیوی باتیں بھی بری ہوجاویں یا جو کام کہ مصلحت ملکی کے لحاظ سے اس نے کیا ہے وہ بھی ضلالت ہو جاوے اور ہم کو ان کاموں میں غیر مذہب والی قوم کا اتباع ممنو ع ہو۔ دیکھو فرنگیوں کا ہمیشہ سے یہ دستور ہے کہ جب وہ کسی قو کا کوئی اچھا کام دیکھتے ہیں تو فوراً اسس کے کرنے پر مستعد ہو جاتے ہیں چنانچہ وہ اپنی ایسی ہی باتوں کے سبب سے آج اپنی ترقی ارو بلندی کے اس رتبہ پر ہیں جس کو سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور حقیقت میں ایک پرکھے دانش مند کا کام بھی یہی ہے کہ جو بات اس کے سامنے پیش آ جاوے خواہ وہ کسی کا قول ہو یا فعل ہو اس کو نظر امتیاز سے تاڑ کر جانچے اور اگر اس کو اچھا دیکھے تو فوراً اخذ کر لے اور دل سے اس کو بہتر سمجھے‘ گو اس کا موجد دین مین سچا ہو یا جھوٹا اس لیے کہ حق بات کچھ لوگوں سے نہیں پہچانی جاتی بلکہ لوگ بات سے پہچانے جاتے ہیں اورحکمت مسلمانوں کے لیے بمبزلہ گم شدہ چیز کے ہے ۔ جہاں کہیں اس کو پاوے فوراً لے لے ۔ ایک مرتبہ حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ نے جناب رسول خد اصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور مشورہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ اہل فارس محاربہ کے وقت اپنے شہروںکے گرد خندقیں کھود لیتے ہیں تاکہ دشمن کے مقابلہ اورحملہ سے محفوظ رہیں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرما کر غزوہ احزاب میں مدینہ کے گرد خندقین کھودیں تاکہ مسلمان بھی اس تدبیر پر عمل کیا کریں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ قول کی خوبی کی طرف دیکھو‘ قائل کے حال کی طرف مت دیکھو اور جب کہ ہمارے متقدمین نے غیر ملت کے لوگوں سے علوم منطق کو نفع کی چیز سمجھ کر اپنی زبان میں ترجمہ کر لیا اور اس کے رواج کو مستحسن جانا یہاں تک کہ امام غزالی علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے کہ جو شخص منطق نہ جانتا ہو گویا علم اس کا کچا ہے تو غیر ملت قوم کی جن باتوں کو اپنے حق میں نافع اور کارآمد دیکھیں ان کو نہ یاد کر لیں ار جن باتوں کی طرف ہم کو مکایدا اعدا سے محفوط رہنے اور صدھا منفعتوںکے حاصل کرنے میں نہایت حاجت ہو ان کو اختیار نہ کریں۔ کتاب سنن المہتدین میں شیخ المراق المالکی نے صاف لکھا ہے کہ غیر قوم کے ساتھ جن باتوں میں مشابہت ممنوع ہے وہ صرف وہی باتیں ہیں جو ہماری شریعت کے خلاف ہیں اور جن باتوں کو غیر ملت کے لوگ موافق طریقہ مندوبہ یا مباح یا واجب کے کرتے ہوں ان کو ہم صرف اس خیال سے نہیں چھوڑ سکتے کہ غیر ملت کے لوگوں کا بھی ان پر عمل درآمد ہے‘ اس واسطے کہ ہماری شریعت نے ہم کو غیر قوم کے ساتھ ان باتوں میں مشابہ ہونے سے منع نہیں کیا جن کو وہ قوم بھی کارخانہ قدرت کی اجازت سے کرتی ہو اور حاشیہ درمختار میں علامہ شیخ محمد بن عابد بن الحقی نے تو یہاں تک بہ تصریح لکھا ہے کہ جن باتوں میں مخلوق خدا کی بہتری اور ترقی ہو اگر ان کے کرنے میں ہم کسی غیر ملت قوم کے ساتھ مشابہ ہو جاویں تو کچھ خرابی نہیں ہے اور بڑے تعجب کی بات یہ ہے کہ جو لوگ فرنگیوں کی باتوں کے اتباع سے سخت انکار کرتے ہیں وہ اپنی بھلائی کی باتوں میں تو ان کا انکار کرتے ہیں ارو جو باتیں ان کے حق میں مضر ہیں ان میں ان کی مشابہت سے کچھ ان کو انکار نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ لوگ صریح فرنگیوں کا بنا ہوا کپڑا پہن کر خوش ہوتے ہیں اور انہیں کا اسباب گھروں میں رکھتے ہیں اور انہیں کے ہتھیار اور ضرورت کی چیزیں استعمال میں لاتے ہیں مگر ان چیزوں کو ان کی تدبیروں سے کام میں لانے سے بڑا پرہیز کرتے ہیں۔ حالانکہ ان باتوں سے پرہیز کرنے میں ان کے ملکی انتظام اور ملکی ترقی دونوں میںبڑا نقصان اور خرابی پڑتی ہے اوروہ خرابی کچھ پوشیدہ نہیں‘ بلکہ ظاہر ہے اور گویا اس سبب ہی سے ان میں ایک عیب رہتا ہے‘ اس لیے کہ جب وہ اپنی ذاتی ضرورتوں کے سامان میں دوسری قوم کے محتاج ہیں تو گویا علم میں وہ ا س قو م سے پست درجہ ہیں اور ان کی ملکی ترقی میں یہ نقصان رہتا ہے کہ وہ اپنے ملک کی پیداوار وغیرہ کے ثمرہ سے نفع نہیں اٹھا سکتے‘ حالانکہ ترقی ملک کی یہی علامت اور اس سے یہی مقصود ہے اور تصدیق اس کی ہمارے اس مشاہدے سے ہوتی ہے کہ ہماری قوم کے صناع لوگ اپنی صنعت اور دستکاری سے کچھ فائدہ حاصل نہیں کرتے۔ مثلاً جو لوگ روئی بوتے ہیں یا بکریوں کی اون تراش کر درست کرتے ہیں اور سال بھر اس پر جان مارتے ہیں وہ اپنی سال بھر کی محنت کی پیداوار یعنی روئی اور اون وغیرہ کو تھوڑی سی قیمت پر فرنگیوں کے ہاتھ بیچ ڈالتے ہیں اورجب اسی روئی اور اون سے وہ لوگ تھوڑے عرصے میں اپنی صناعی کی بدولت طرح طرح کے کپڑے بن کر لاتے ہیں تو پھر وہی ہماری قوم کے لوگ جنہوں نے ان کو روئی دی تھی انہی کو چوگنی قیمت دے کر کپڑا خریدتے ہیں ۔ غرض یہ کہ ہم کو اپنے ملک کی اصلی پیداوار کی قیمت مل جاتی ہے اور کسی قسم کی ہنر مندی یا صناعی سے ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ پس جب ہم یہ بات دیکھیں کہ ہمارے ملک میں سے یہ چیز جاتی ہے اور یہ چیز آتی ہے اوراس بات کا اندازہ کر لیں کہ آنے والی چیز کا خرچ اور جانے والی چیز کی آمدنی مساوی ہے تو یہاں تک تو گویا خیریت ہے‘ تھوڑا ہی سا ضرر ہے اور جب ہم کو جانے والی چیز کی قیمت کم ملی اور آنے والی چیز کی قیمت چہار چند دینی پڑی تو یقین کر لو کہ ایسا ملک آج نہ تباہ ہوا کل تباہ ہو گا۔ ٭٭٭ تعلیم مذہبی (تہذیب الاخلاق بابت یکم ذی الحجہ ۱۲۸۸ھ) اب تو گویا تمام مسلمان بالاتفاق اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انگریزی پڑھنے اور علوم جدیدہ سیکھنے سے مسلمان اپنے عقائد مذہبی میں سست ہو جاتے ہیں‘ بلکہ ان کو لغو سمجھنے لگتے ہیں اور لامذہب ہو جاتے ہیں اور اسی سبب سے مسلمان اپنے لڑکوں کو انگریزی پڑھانا نہیں چاہتے۔ مسلمانوں پر کیا موقوف ہے۔ انگریز بھی ایسا ہی خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر ہنٹر صاحب نے اپنی کتاب میں جو حال میں انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی نسبت لکھی ہے یہ فقرہ مندرج فرمایا ہے: ’’کوئی نوجوان خواہ ہند و خواہ مسلمان ایسا نہیں ہے جو ہمارے انگریزی مدرسوں میں تعلیم پائے اور اپنے بزرگوں کے مذہب سے بداعتقاد ہونا نہ سیکھے۔ ایشیا کے شاداب اور تروتازہ مذہب جب مغربی (یعنی انگریزی) علوم کی سچائی کے قریب آتے ہیں تو مثل برف کے ہے تو سوکھ کر لکڑی ہو جاتے ہیں‘‘۔آمنا و صدقنا۔ یہ قول ڈاکٹر ہنٹر صاحب کا بالکل سچ اور بشمامہ سچ ہے۔ اب مسلمانوں کو بھی اس کی فکر پڑی ہے ۔ وہ دیکھتے ہیںکہ انگریزی پڑھنے کی ضرورت تو روز بروز ہوتی جاتی ہے اور بغیر انگریزی پڑھے اب گزارہ نہیں ہو سکتا مگر وہ مذہب کو بھی عزیز سمجھتے ہیں اور اس کو ہاتھ سے جاتا ہوا دیکھ کر بالکل بے قرار اور بے چین ہو جاتے ہیں اور طرح طرح کی تدبیریں سوچتے ہیں اور ہم ایک کونے میں کھڑے ہوئے ہنستے ہیں اور آہستہ آہستہ سے کہتے ہیں کہ میاں اگر تمہارا مذہب ایسا ہی پودا تھا تو جانے دو۔ایسی بودی چیز رہی تو کیا ور گئی تو کیا۔ مگر جگب کوئی ہماری چپکی چپکی آواز سن لیتا ہے تو ہم پر غراتا ہے کہ کیا ہمار ا مذہب کمزور ہے مگر دل میں کہتاہے کہ بات تو سچ کہی ہے۔ بوداتو ہے کہ ذرا سی انگریزی پڑھنے سے ڈھے جاتاہے۔ بڑے بڑ ے معمم و مشمشل قدوس عالموں نے بہت غور کے بعد یہ تجویز کی کہ انگریزی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم بھی دی جاوے اور کتب درسیہ عقاید اور فقہ و اصول و تفسیر و حدیث و عم کلام بھی انگریزی کے ساتھ پڑھائی جاویں‘ تاکہ عقاید مذہبی پختہ و درست رہیں اورعلوم غریبہ کے ریلے میں بہہ نہ جاویں۔ مگر میں یہ عرض کرتا ہوں کہ محققانہ تعلیم مذہبی اصول حقہ واقعیہ پر بلا شبہ مانع نقصان عقاید حقہ اسلامیہ کے ہو گی مگر تقصیر معاف ہو‘ یہ اندھی تقلیدی تعلیم مذہبی تو مانع نقصان عقاید نہیں ہو سکتی اوریہ کتب درسیہ مذہبیہ تو لامذہبی کا علاج نہیں کر سکتیں بلکہ اگر یہ کتابیں انگریزی تعلیم ارو مغربی علوم کے ساتھ پڑھائی جاویں گی تو اور زیادہ لامذہبی اوربداعتقادعی پھیلے گی اس لیے کہ سوائے قرآن مجید کے جس قدر کتب مذہبیہ اس زمانہ تک موجو د ہیں ہزاروں ‘ غلطیوں سے معمور ہیں۔ کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہیں ہے جس میں کوئی نہ کوئی عظیم الشان غلطی موجود نہ ہو اور جس نے اسلام کی سچی اور صحیح سیدھی سادی حقیقت کو وہمی اور خیالی نہ بنا دیا ہو۔ جن مقدس لوگوں نے موجودہ مذہبی تعلیم کو اس لامذہبی کا علاج سمجھا ہے انہوں نے یہ خیال کیا ہو گا کہ جس زمانہ میں فلسفہ یونانیہ مسلمانوں میں شائع ہوا تو بڑے زور و شور سے زندقہ والحاد نے رواج پایا ‘ مگر اس زمانہ کے عالموں نے فلسفہ یونانیہ کے ساتھ عقاید مذہبی کی تعلیم کو شامل کر دیا جس کے سبب سے وہ زندقہ و الحاد جاتارہا۔ مگر میری یہ عرض ہے کہ اگر اس زمانہ میں ایسا ہوا بھی ہو تو حال کے زمانہ میں ان کتابوں سے اس نتیجہ کی امید رکھنا قیاس مع الفاروق ہے۔ جس زمانہ میں کہ فلسفہ یونانیہ مسلمانوں میں رائج ہوا تھا اور اس زمانہ میں جو کتب مذہبیہ تھیں ان کو بھی اس وقت کے عالموں نے اس زندقہ اور الحاد کے روکنے کو کافی نہ سمجھاتھا ۔ اور اس لیے انہوں نے نئی نئی کتابیں علم کلام کی تصنیف کی تھیں اوران کتابوں میں انہوں نے زندقہ و الحاد دور کرنے کے لیے دو اصول قرار دیے تھے۔ یعنی یا تو ان مسائل فلسفہ یونانیہ کی جو عقائد مذہبی کے برخلاف تھے غلطی ثابت کر دیتے تھے یا مسائل مذہبی کی تطبیق مسائل فلسفیہ سے کر دیتے تھے۔ مگر اب میں نہایت ادب سے پوچھتا ہوں کہ جو کتب مذہبی اب تک ہمارے ہاں موجود ہیں اور پڑھنے پڑھانے میں آتی ہیں ان میں سے کون سی کتاب ہے جس میں فلسفہ مغربیہ اور علوم جدیدہ کے مسائل کی تردید یا تطبیق مسائل مذہبیہ سے کی ہو۔ وجود سموات سبع کی ابطال پر جو دلیلیں ہیں ان کی تردید کس کتاب میں لکھی ہے۔ اثبات حرکت زمین اور ابطال حرکت دوری آفتاب پر جو دلیلیں ہیں ان کی تردید کس سے جا کر پوچھیں ۔ عناصر اربع کا غلط ہونا جو اب ثابت ہو گیا اس کا کیا علاج کریں؟ آئیۃ کریمہ ولقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین ثم جعلنا ہ نطفۃ فی قرار مکین ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃ فخلقنا المضغۃ عظاماً فکسوانا العظام لحماً (مومنون ۱۲۔۱۴) کی جو تفسیر عالموں نے لکھی ہے فن تشریح کی روسے غلط معلوم ہوتی ہے ۔ ہم اپنی آنکھوںسے بوتلوں میں بھرے ہوئے نطفہ لے کر بچہ کے یدا ہونے تک کے تغیرات کو دیکھتے ہیں جو مفسرین کی تفسیروں کی غلطی کو ثابت کرتے ہیں۔ پھر کیوں کر ہم اس پر اعتقاد رکھیں۔ خدا کی بات ار اس کا کام ایک ہونا چاہیے۔ یہ مسئلہ تمام دنیا نے تسلیم کر لیا ہے۔ پھر اس کی تصدیق مذہب اسلام کی کس کتاب میںڈھونڈیں اور کس ملاں و اخوند سے جا کر پوچھیں؟ جب کوئی بات بھی ان میں سے موجودہ کتب مذہبی میں نہیں ہے تو ان سے لامذہبی جو فلسفہ مغربیہ اور علوم محققہ جدیدہ سے ہوتی ہے کیوں کر رفع ہو گی؟ یہ باتیں نہایت صاف اور روشن ہیں۔ ان کو ظاہر میں نہ ماننا دوسری بات ہے ۔ مگر کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جو اپنے دل میں ان باتوں کو سچ نہ جانتا ہو گا۔ پس ایسی حالت میں ان کتابوں کا نہ پڑھنا ان کے پڑھنے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ مسلمان ہونے اور بہشت میں جانے کو خدا کو ایک و پیغمبر کو برحق جاننا کافی ہے عمل کو نماز پڑھ لینی روزہ رکھ دینا بس ہے۔ ا ن غیر مفید کتابوںکے پڑھنے سے کیا حاصل؟ ہاں اگر مسلمان مرد میدان ہیں اور اپنے مذہب کو سچا سمجھتے ہیں تو بے دھڑک میدان میں آویں اور جو کچھ ان کے بزرگوں نے فلسفہ یونانیہ کے ساتھ کیاتھا‘ وہ فلسفہ مغربیہ اور علوم محققہ جدیدہ کے ساتھ کریں ۔ تب البتہ ان کا پڑھنا پڑھانا مفید ہو گا۔ ورنہ اپنے منہ میاں مٹھو کہہ لینے سے کوئی فائدہ نہیں۔ ٭٭٭ بحث ناسخ و منسوخ (’’ازآخری مضامین سرسید‘‘) ہم کو ہمارے ایک دوست نے اطلاع دی ہے کہ ہم نے اپنی تفسیر کی پہلی جلد میں جہاںناسخ اور منسوخ کی بحث کی ہے ۔ امام فخر الدین رازی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آیت ما ننسخ من ایۃ او ننسھا نات بخیر منھا او مثلھا سے قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ دو آیتیں اور ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے ۔ پہلی آیت تو یمحو اللہ ما یشاء و یشبت و عندہ ام الکتاب ہے اور دوسری آیت اذا بدلنا ایۃ مکان ایۃ ہے اور ہم نے لکھا تھا کہ ان دونوں آیتوںسے بھی قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ ہونا ثابت نہیں ہوتا اوروعدہ کیا تھا کہ ان دونوں آیتوں کی تفسیر میں اس کو بیان کریں گے مگر سورہ رعد اور سورہ نحل میں جہاں ان آیتوں پر بحث کرنے کا موقع تھا ہم بحث کرنی بھول گئے اور اس لیے اب ان پر بحث کرتے ہیں۔ پہلی آیت سورہ رعد کی ہے ۔ اس میںخدا فرماتا ہے کہ: ولقد ارسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لھم ازواجا و ذریۃ وماکان لرسول ان یاتی بایۃ الا باذن اللہ لکل اجل کتاب یمحو اللہ ماشاء اللہ ویشبت وعندہ ام الکتاب بے شک ہم نے تجھ سے پہلے رسول بھیجے ہیں اوران کو بیبیاں اور اولاد دی ہے اور کسی رسول کے شایان شان نہیں کہ بغیر حکم خدا کے کوئی حکم لے آئے اورہر چیز کا آخری وقت لکھا ہوا یعنی مقدر ہے ۔ خدا جو چاہے مٹائے اور جو چاہے قائم رکھے اوراس کے پا س اصل کتاب ہے۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ جو کچھ اس آیت میں بیان ہوا ہے وہ انبیاء سابق کی شریعت سے متعلق ہے۔ قرآن مجید کی آیتوں سے نتیجہ اس تما آیت کا یہ ہے کہ انبیاء سابق کی شریعت میں سے جن احکا م کو خدا چاہتا ہ قائم رکھتا ہے اور جن احکام کو چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے اور اس آیت سے کسی طرح سے یہ بات نہیں نکلتی کہ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ ہو جاتی ہے۔ پس یہ آیت قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ ہونے پر کسی طرح دلالت نہیں کرتی مگر یہ بحث باقی رہتی ہے کہ ام الکتاب کیا چیز ہے اور اگر ام الکتاب سے لوح محفوظ مراد لی جاوے تو لوح محفوظ کیا چیز ہے ۔ یہ ایک بہت بڑی بحث ہے جس کو ہم اپنی تصنیفات میں متعدد جگہ لکھ چکے ہیں مگر اس مقام میں اس کی بحث سے کچھ تعلق نہیں‘ بلکہ صرف یہ بات ثابت کرنی تھی کہ یمحو اللہ ما یشاء ویثبت سے مقصود ہونا یا ثابت رہنا احکام شریعت انبیاء سابق کا ہے۔ نہ محو ہونا یا ثابت رہنا قرآں مجید کی آیتوں کا اس لیے ہم اسی قدر بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔ دوسری آیت سورۃ نحل کی ہے جس میں خدا فرماتا ہے کہ : واذا یدلنا ایۃ مکان ایۃ واللہ اعلم بما ینزل قالوا انما انت مفتر بل اکثرھم لا یعلمون جب ہم ایک حکم کی جگہ دوسرا حکم بدلتے ہیں اور خدا جو حکم نازل کرتا ہے اس کو خوب جانتا ہے تو کہتے ہیں کہ تو تو افتراہی کرنے والا ہے حالانکہ ان میں سے بہت سے نہیں جانتے۔ اس آیت کی نسبت سوال یہ ہے کہ قالو ا سے کون لوگ مراد ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیںکہ قالوا کی ضمیر سے کفار مکہ مراد ہیں‘ مگر یہ صحیح نہیں ہو سکتا ‘ اس واسطے کہ کفار مکہ نے نہ اس پہلی آیت کو جو بدلی گئی ‘ منزل من اللہ جانتے تھے اورنہ اس دوسری آیت کو جس نے پہلی آیت کو بدلا ‘ منزل من اللہ سمجھتے تھے۔ بلکہ یہود و نصاریٰ جو ان احکام قرآن مجید کو جو برخلاف احکام سابق توریت و انجیل کے تھے‘ پیغمبر کا افترا سمجھتے تھے۔ پس قالوا کی ضمیر انہیں یہود و نصاریٰ کی طرف پھرتی ہے نہ عام کفار کی طرف جو عموماً بت پرست تھے اور وہ نہ احکام سابق کو مانتے تھے نہ احکام لاحق کو پس صاف ظاہر ہے کہ بدلنا ایۃ مکان ایۃ سے تبدیل شراع انبیاء سابق مراد ہے ۔ نہ تبدیل آیت قرآنی کی دوسری آیت ہے۔ تفسیر کبیر میں بھی ابو مسلم اصفہانی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس آیت میں شرائع سابق انبیاء کا تبدیل ہونا مراد ہے نہ قرآن مجید کے احکام میں سے ایک سے دوسرے کا منسوخ ہونا اور امام صاحب نے لکھا ہے کہ ابومسلم اصفہانی برخلاف دیگر مفسرین کے مذہب اسلام میں ناسخ و منسوخ کا بالکل قائل نہیں ہے۔ اور اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ اگر ان تمام آیتوںکو جن سے مفسرین اور فقہائے قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ ہونے کا دعویٰ پیش کیا ہے مجموعی طور پر سامنے رکھ لیا جاوے اور ان پر غور و تعمق کی نظر ڈالی جاوے اور ان کے سیاق و سباق کو مدنظر رکھا جاوے تو ان سے صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ آیتیں شراع سابقہ انبیاء کے بعض احکام کے تبدیل ہونے سے تعلق رکھتی ہیں‘ نہ قرآن مجید کی آیتوں کے باہم ناسخ و منسوخ ہونے سے اور ہم امید کرتے ہیں کہ جن بزرگوں کے پاس ہماری تفسیر کی پہلی جلد موجود ہے وہ اس بیا ن کو اس صفحہ کے حاشیہ پر درج فرما لیں گے جہاں ہم نے ناسخ و منسوخ پر بحث کی ہے ٭٭٭ قرآن مجید کی قسمیں (از ’’آخری مضامین سرسید‘‘) لوگ تعجب کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں اتنی قسمیں کیوں کھائیں ‘ مگر اس شبہ کے پیدا ہونے کا سبب یہ ہے ہکہ انہوںنے قرآن مجید کے طرز کلام پر غور نہیں کیا۔ اول یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید بلاشبہ خداکا کلام ہے مگر وہ انسانوں کی زبان اور محاورہ میں نازل ہوا ہے اور اس کا طرز کلام بعینہ جیسا ہے۔ جیسے کہ ایک نہایت فصیح شخص عربی زبان میں کلام کرتا ہو اور اس کی فصاحت بے مثل ہو۔ جس طرح کی انسان کی زبانوںمیں استعارہ اور کنایہ اور مجاز اور حقیقت پایا جاتا ہے‘ اسی طرح کلام اللہ میں بھی موجود ہے یہاں تک کہ عربی زبان میں غیر قوموں کے جو الفاظ شامل ہو گئے تھے وہ بھی قرآن مجید میں ہیں ۔ زمانہ نبوت میں جو طرز کلام عرب میں تھا اور جس طرح کہ وہ بات چیت کرتے تھے یا اپنے کلام کے استحکام اور اس کے سچ ہونے پر زور دیتے تھے اور جس قدر الفاظ غیر قوموں کے ان کی زبان میں مل گئے تھے اسی طرز کلام پر قرآن مجید نازل ہوا ہے۔ مثلاً لفظ سرادق جو قرآن میں ہے عربی کا لفظ نہیں ہے‘ بلکہ لفظ سراپردہ جو فارسی زبان کا ہے اس کو مغرب کر کے سرادق کر لیا ہے۔ ابریق کا لفظ بھی قرآن مجید میں موجود ہے حالانکہ وہ عربی زبان کا لفظ نہیں ہے‘ بلکہ فارسی لفظ آبریز کو معرب کر کے آبریق بنا لیا ہے۔ استبسرق کا لفظ بھی قرآن مجید میں موجود ہے ‘ وہ بھی عربی زبان کا لفظ نہیں ہے‘ بلکہ فارسی زبان کے لفظ اسردہ سے معرب کیاگیا ہے ۔ کنز کا لفظ بھی قرآن مجید میں ہے اوروہ بھی عربی زبان کا لفظ نہیں ہے‘ بلکہ فارسی کنج سے معرب ہوا ہے۔ فردوس کا لفظ بھی قرآن مجید میں موجود ہے جو عربی زبان کا لفظ نہیں ہ ‘ بلکہ آرین خاندان کی زبانوں سے لیا گیا ہے اور جو سنسکرت میں پردیش ہے جس کے معنی اجنبی ملک کے ہیں۔ یہی لفظ ہے جس کی شکل انگریزی زبان میں پیراڈائز ہو گئی ہے۔ اسی طرح بہت سے لفظ قرآن مجید میں ہیں جو عربی زبان کے لفظ نہیں ہیں‘ بلکہ عبرانی ‘ ریانی‘ قبطی ‘ فارسی‘ لاطینی اور یونانی زبانوں سے معرب ہو کر عربی زبان میںشامل ہو گئے ہیں ۔ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ’’القان فی علوم القرآن‘‘ میں ایک مستقل باب ان الفاظ کے لیے باندھا ہے جو غیر زبانوںسے معر ب ہو کر عربی زبان میں شامل ہو گئے ہیں اور قرآن مجید میں موجود ہیں۔ غرضیکہ قرآن مجید ایسی زبان میں نازل ہوا ہے جو اس زمانہ کے اہل عرب کی زبان تھی۔ طرز کلام قرآن مجید کا بھی اسی زمانہ کے طرز کلام پر ہے ۔ اس زمانہ میں کاہنوں کی جو عرب میں مقدس گنے جاتے تھے‘ یہ عادت تھی کہ عموماً فصیح کلام کرتے تھے اور اکثر مفقیٰ کلام بولتے تھے اور قسموں کااستعمال بھی کرتے تھے اور جس بات کو وہ کہانت یعنی اخبار بالغیب کے سچ سمجھتے تھے اور دوسروں کو اس کے سچ ہونے کا یقین دلانا چاہتے تھے اس کو قسموں کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ اسی طرز کلام پر جو عربوں کو عام طورپر مرغوب اور دل پسند تھا اور جو نہایت فصیح طرز کلام سمجھا جاتا تھا قرآن مجید نازل ہوا ہے اور اس میں بھیجن باتوں کا یقین دلانا منظور ہے ان کو قسموں کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اور اسی طرز کلام کے سببسے عرب کے لوگ آنحضرت ؐ کو کاہن خیال کرتے تھے جس کی قرآن مجید میں تردید کی گئی ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے : فلا اقسم بما تبصرون وما لا تبصرون انہ لقول رسول کریم و ما ھو بقول شاعر قلیلا ما تومنون ولا بقول کاھن قلیلا ما تذکرون تنزیل من رب العلمین یعنی جو چیز تم کو دکھائی دیتی ہے اور جو نہیں دکھائی دیتی ‘ ہم کو اس کی قسم ہے کہ یہ قرآن مجید ایک بڑے پیغمبر کا کلام ہے اور کسی شاعر کا کلام نہیں ہے‘ مگر تم بہت کم یقین کرتے ہو ار نہ ہو کسی کاھن کا قول ہے مگر تم بہت کم غور کرتے ہو‘ یہ پروردگار عالم کی طرف سے نازل ہوا ہے (الحاقہ۔ ۴۳۔۳۸)۔ اس تردید کو بھی خدا نے قسم ہی کے ساتھ بیا ن کیا ہے اور قسم بھی ایسی جو انہی کی سمجھ کے موافق تھی۔ دوسری جگہ خدا نے پیغمبر سے خطاب کر کے فرمایا ہے: فذکر فما انت بنعمۃ ربک بکاہن ولا مجنون یعنی اے پیغمبر تو نصیحت کیے جا۔ خدا کے فصل سے نہ تو کاہن ہے نہ مجنون ہے۔ (طور۔۲۹)۔ زمانہ جاہلیت کا کلام ہم تک بہت کم پہنچا ہے ۔ مگر ابن اثیر نے اپنی کتاب کامل میں قبیلہ بنی خزاعہ کے ایک کاہن کا قول ہاشم کی فضیلت اور امیہ کے منقصت میں نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کس قدر قسمیں کھائی ہیں اوروہ قول یہ ہے : والقمر الباھر والکوکب الزاھر و الغمام الما طروما بالجو من طائر ما اھتدی بعلم مسافر من تنجد و غائر لقد بلق ھاشم امیہ فی الماثر اول منہ و اخر و ابو ھمھمہ بذلک خابر یعنی قسم ہے روشن چاند کی قسم ہے روشن ستاروں کی‘ قسم ہے برستے بادلوں کی ‘ قسم ہے آسمان میں اڑنے والے پرندوں کی‘ قسم ہے اونچے اونچے راستوں میں چلنے والے مسافروں کے نشانوں سے ہدایت پانے کی ہاشم امیہ پر اگلی اور پچھلی نیکیوں میں سبقت لے گیا ہے اور ابو ھمھمہ کو اس بات کی خبر ہے (کامل ابن اثیر مطبوعہ مصر جلد دوم صفحہ ۸)۔ اسی طرح قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے ۔ والشمس وضحھا والقمر اذا تلھا والنھار اذا جلھا واللیل اذا یغشھا والسماء وما بنھا والارض وما طحھا یعنی قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی ‘ قسم ہے چاند کی جب وہ سورج کے پیچھے سے نکلتا ہے قسم ہے دن کی جب کہ سورج اس کو روشن کرتاہے‘ قسم ہے رات کی جب سور ج کو چھپا لیتی ہے قسم ہ آسمان کی اور اس کے بنانے والے کی۔ قسم ہے زمین کی وار اس کے بنانے والے کی۔ پس یہ قسمیں اسی طرز کلام پر واقع ہوئیں ہیں جو عرب کا طرز کلام تھا ۔ ہاں اس طرح قسمں کھانے پر اس بات کا شبہ پیدا ہوتا ہے کہ ہرگاہ خدا کے سوا اور کسی کی قسم کھانی منع کی گئی ہے تو خو دخدا نے غیر خدا کی قسمیں کیوںکھائی ہیں‘ مگر غیر خدا کی قسمیں کھانے کا امتناع اس سبب سے ہے کہ غیر خدا کی قسمیںکھانے سے اس میں شان الوھیت کا شائبہ پایا جاتا ہے‘ مگر جب کہ تسلیم کر لیا جاوے جیسا کہ قرآن مجید میں جا بجا بتایا گیا ہے کہ تمام چیزیں مخلوق ہیں اور خدا ان سب کا خالق ہے تو خدا اگر اپنی مخلوق کی قسم کھاوے تو کسی طرح شائبہ الوھیت اس مخلوق میں نہیں سمجھا جا سکتا اور ااگر کچھ سمجھا جاتا ہے تو اسی قدر سمجھا جاتا ہے کہ وہ چیزیں اپنی خلقت میں یا انسان کے لیے مفید ہونے میں عظیم الشان اور عظیم القدر ہیں ‘ لیکن اگر انسان ان میں سے کسی کی قسم کھاوے ‘ خصوصاً ایسی چیزوں کی جن کو مشرکین پوجتے تھے تو ان میں شائبہ الوھیت کے ماننے کا شبہ ہو جاتاہے اور اس لیے انسانوں کو غیر خدا کی قسم کھانا منع کیا گیا ہے ۔ عرب کے لوگوں میں جو یہ عادت تھی کہ باتوں میں بہت سی قسمیںکھایا کرتے تھے اور بعضے ایسے تھے کہ قسم کھانا ان کا تکیہ کلام ہو گیا تھا اور ہر بات پر لا واللہ بلی واللہ بطور تائید کے و توثیق اپنی کلام کے کہا کرتے تھے اوران کو ہرگز یہ خیال نہیں ہوتا تھا کہ ہم نے کوئی قسم کھائی ہے ۔اسی کی نسبت خدا نے فرمایاہے : لایواخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ولکن یواخذکم بما کسبت قلوبکم یعنی تمہاری قسموں میں جو لغو قسمیںہیں ان پر خدا تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم نے دل کے ارادے سے کھائی ہیں ان پر مواخذہ کرے گا۔ دوسری آیت میں بما کسبت قلوبکم کی جگہ بما عقدتم الایمان ہے۔ اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ خدا انہی قسموں پر پکڑے گا جن کو تم نے سمجھ بوجھ کر پختہ کیا ہے ۔ ٭٭٭ مکاشفہ (از ’’آخری مضامین سرسید‘‘) اگرچہ ہم کو کشف و مکاشفہ نہ ہو ‘ مگر ہم کو سمجھنا تو چاہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ جاھل طب کو نہیں جانتا ‘ مگر یہ جانتا ہے کہ طب سے کیا ہوتا ہے اور کیوں کر ہوتا ہے ۔ پس اگر ہم بھی کشف و مکاشفہ سے جاہل ہیں تو بھی ہم کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ہے کیا چیز؟ حضرت صوفیہ کرام فرماتے ہیںکہ روح اور جسم میںجو حجاب ہیاس کے اٹھ جانے کو مکاشفہ کہتے ہیں‘ مگر حجاب کے لفظ نے ہم کو گھبرا دیا کہ وہ پردہ کیا ہے جو روح اور جسم کے بیچ میں ہے۔ نہ وہ پردہ ٹاٹ کا ہو سکتاہے نہ کپڑے کا نہ لنکاٹ پھر وہ پردہ کاہے کا ہے؟ قرآن مجید میں ایک جگہ عطاء کا لفظ آیا ہے ۔ جس کے معنی بھی حجاب کے ہیں جہاں خدا نے فرمایا ہے: فکشفنا عنک غطاء ک فبصرک الیوم حدیدہ ہم نے جب تفسیروں کو دیکھا تو ان میں عطا ء کے معنی غفلت کے لکھے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو پردہ انسان کے جسم اور روح کے درمیان میں ہے وہ غفلت کا پردہ ہے اور اس غفلت کا نہ ہونا پردہ کا اٹھ جانا ہے۔ پس انسان مشاغل دنیوی سے جو اس پر پردہ غفلت ڈال دیتے ہیں علیحدہ ہو کر مبدء حقیقی یا ذات باری کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے خیال کو اسی طرف لگا لیتا ہے توغفلت کا پردہ اٹھ جاتا ہے۔ پس مکاشفہ ایک حالت ہوئی جو خود انسان کے خیال میں پیدا ہوتی ہے۔ پس جو کچھ کہ وہ اپنے نفس میںپاتا ہے ۔ اور فرض کرو کہ وہ اس حالت میں کچھ دیکھتا بھی ہے تو بجز اس کے خیال ک اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے اور کوئی چیز معلوم نہیں ہوتی اور اسی حالت کو صوفیہ کرام نے مکاشفہ نظری سے تعبیر کیا ہے او جب کہ اسی خیال کو اور زیادہ پکایا جاتا ہے اور اس کے تصورمیں یہ خیال جم جاتا ہے ۔ کہ میرا دل بھی نورانی ہو گیا ہے تو اس حالت کو صوفیہ کرام مکاشفہ نوری سے تعبیر کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ بجز خیال انسانی کے اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ اور جب اس خیال کو میں اور زیادہ پکاتا ہوں اور سمجھتا ہے کہ تمام اسرار آفرینش پر اس کا ذہن محیط ہو گیا ہے تو اس کو صوفیہ کرام نے مکاشفہ سری سے با مکاشفہ الٰہی سے تعبیر کیا ہے ۔ حالانکہ وہ بھی بجز ان کے خیال کے اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ اور جب کہ اس خیال کو دل میں اور زیادہ پکایا ارو سمجھنے لگا کہ دوزخ اور بہشت کا حال مجھ پر کھل گیا ہے اورفرشتے مجھ کو دکھائی دیتے ہیں اور بے انتہا عالم مجھ پر کھل گئے ہیں تو اس حالت کو صوفیہ کرام نے مکاشفہ روحانی سے تعبیر کیا ہے‘ حالانکہ وہ بھی بجز اس کے خیال کے اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ اور جب کہ وہ اس خیال کو اور زیادہ پکاتا ہے اوریہ سمجھتا ہے کہ میں صفات باری میں بیٹھ گیاہوں تو صوفیہ کرام نے اس حالت کو مکاشفہ صفاتی سے تعبیر کیا ہے ۔ حالانکہ وہ بھی بجز اس کے خیال کے اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ اگر یہ حالت انسان کی خدا کی صفت علمی میںبیٹھ جانے سے پیدا ہوئی ہو تو اس کو عم لدنی حاصل ہوتا ہے اور اگر خدا میں جو صفت سننے کی ہے اس میں بیٹھ گیا ہو تو وہ خدا کا کلام سن سکتا ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام سنتے تھے۔ اور اگر وہ خدا کے بصیر ہونے کی صفت میں بیٹھ گیا ہے تو اس کو خدا کا دیدا ر ہونے لگتا ہے اور اگر وہ خدا کے جلال کی صفت میں بیٹھ گیا ہے تو اس کو بقا حقیقی حاصل ہوتی ہے ۔ اسی طرح وہ خدا کی جس صفت میں بیٹھ جاتا ہے اسی کے موافق حالت اس پر طاری ہو جاتی ہے۔ جس کو وہ مکاشفہ سمجھتا ہے مگر وہ بجز اس کے خیال کے اور کوئی چیز نہیں ہے اب صوفیہ کرام فرماتے ہیں کہ مکاشفہ ذاتی ایسی چیز ہے جس کا بیا کسی طرح نہیںہو سکتا۔ پس ان بیانات سے اس قسدر سمجھ میں آتا ہے کہ انسان جو کچھ اپنے خیالات میں پکالیتا ہے اسی کا نام مکاشفہ ہے اور یہ حالتیں جو صوفیہ کرام نے بیان کی ہیں سب خیال ہی خیال ہیں اور خیال کے سوا کچھ نہیں ۔ واللہ درمن قال التصوف ہو ارجاع النفس الٰہی امور خیالیۃ والمداومۃ علیھا۔ الی زمان حتی تتخیل الامور بخیالیہ کان ھذا الامور موجودۃ فی نفسہ لکن المووجد فی خیال ہو خیالہ ۔ لا شی غیرہ۔ ھکذا یترقی من خیال الی خیال آخر۔ و یتصور شئی آخر۔ ولکنہ لیس شئی آخر۔ الا ہو خیال نفسہ فاذا ترقی ھدا الخیال الی شئی یتخیل انہ ہو اللہ ۔ لو شان من شیونہ والان یتخیل انہ رفع نفسہ الی اعلی الدرجۃ۔ وعرف اللہ حق معرفتہ۔ واللہ بری عن ھذا۔ والھق انہ لیس کمثلہ شئی۔ وھو السیمع البصیر۔ اس مضمون میں اوراس کے آگے کے مضمون میں سرسید نے یہ دکھانے اور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’مکاشفہ‘‘ درحقیقت کوئی چیز نہیں بلکہ بزرگ اور مذہبی آدمیوں کے دل میں جو خیال آتا ہے وہ اسے مکاشفہ سے تعبیر کرتے ہیں‘ لیکن عام لوگ جب کوئی ایسی بات دیکھتے ہیں تو اسے اتفاق اور دل کا خیال سمجھتے ہیں۔ مکاشفہ کے متعلق سرسید کا یہ خیال ان ہزاروں پیغمبروں اور لاکھوں اولیاء اللہ حضرات کے اقوال و ارشادات کے خلاف ہے جو مکاشفہ کو خد ا کی طرف سے سمجھتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ حالانکہ وہ سب ے سب نہایت سچے‘ راستباز اور نیک اور صالح انسان تھے اور ہرگز یقین نہیں آ سکتا کہ انہوں نے جھوٹ بول کر دنیا کو دھوکا دینا چاہا اگر سرسید کا یہ خیال صحیح سمجھ لیا جاوے تو پھر نعوذ بااللہ کوئی نبی بھی سچا نہیںٹھہر سکتا۔ ہر ایک کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے خیال کو مکاشفہ اور الہام سمجھا۔ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو کچھ طور پر دیکھا اورپالوس کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ غار حرا میں ملاحظہ فرمایا وہ سب وہمی باتیں اور نعوذ باللہ ان کے دل کے خیالات تھے اور خدا کے نور کی تجلی ان کے دلوںپر نہیں پڑتی تھی۔ محمد اسماعیل پانی پتی واقعات عامۃ الورود (از ’’آخر ی مضامین سرسید‘‘) دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں جن کو اکثر ایک ہی قسم کے واقعات پیش آتے ہیں‘ مگر جو لوگ کہ اہل اللہ کہلاتے ہیں وہ اور ان کے معتقدین اس کو کرشمہ ربانی سمجھتے ہیں اور جو لوگ اہل دنیا کہلاتے ہیں۔ وہ ان کو واقعات اتفاقی سمجھ کر کچھ خیال نہیں کرتے شاہ ولی اللہ صاحب نے ایک اپنا واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص ان سے ملنے آیا اور اس وقت شاہ صاحب اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے حلوہ کھا رہے تھے۔ شاہ صاحب کے خادم نے اس شخص کو بھی جو آیا تھا حلوہ دیا۔ اس شخص کے دل میں یہ بات آئی کہ اگر شا ہ صاحب وہ حلوہ مجھ کو دے دیں جو ان کے ہاتھ میں ہے تو میں ضرور یقین کروں گا کہ وہ اولیاء اللہ میںسے ہیں اورمیں ان سے خدا کی راہ سیکھوں گا۔ شاہ صاحب کو قرائن سے معلوم ہوا کہ اس شخص کے دل میں یہ بات گزری ہے۔ ان کواپنی ولایت کا اظہار منظور نہ ہوا اور جو خیال اس کے دل میں گزرا تھا اور جس کو انہوں نے بھی جان لیا تھا اس کی کچھ پروا نہ کی اور جو حلوہ ان کے ہاتھ میںتھا اس کو ایک لقمہ کر گئے۔ اس کے بعد شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ خدا نے مجھ سے مواخذہ کیا اور جو بے پروائی میں نے کی تھی وہ میرے منہ پر ماری۔ میںنے اپنے اس فعل کی خدا سے معافی چاہی اور استغفار کی۔خدا ن مجھ کو معاف کر دیا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جب شاہ صاحب نے قرائن سے اس شخص کے دل کی خواہش کو دریافت کر لیا تھا۔ اور اس کو پور ا نہ کیا تو آخر کو ان کے دل میں اس کا نہایت رنج و افسوس ہوا ہو گا جس کو اس سبب سے کہ وہ اہل اللہ تھے انہوں نے خدا کی طرف سے مواخذہ سمجھا اور اس سے توبہ اور استغفار کی ۔ اگر کوئی اہل دنیا میں سے ہوتا اور اس کو بھی ایسی حلات میں رنج و افسوس ہوتا تو وہ اس کو خدا کے مواخذہ سے تعبیر نہ کرتا۔ ایک واقعہ ہم پر قریب قریب اس کے گزرا ہے ۔ میں جب دھلی سے رہتک جانے والا تھا حضرت شاہ احمد سعید صاحب کی خدمت میں رخصت کے لیے حاضر ہوا۔ اس وقت ایک عورت ایک نہایت تروتازہ رنگرہ لائی اور شاہ صاحب احمد سعید کی خدمت میںپیش کیا۔ انہوںنے اس کو لے کر رکھ لیا۔ میرے دل میں یہ بات آئی کہ اگر شاہ صاحب یہ رنگترہ مجھ کو دے دیں تو میرے سفر کے لیے ایک فال نیک ہو گی۔ جب میں رخصت ہو کر جانے لگا تو شاہ صاحب نے وہ رنگترہ اٹھا کر مجھ کو دے دیا کہ آپ اس کو لیتے جائیے۔ میں چونکہ ایک دنیا دار تھا اور گو شاہ صاحب کی خدمت میں مجھ کو عقیدت تھی اور ہے مگر اس کو ایک امر اتفاقی سمجھا اور جو لوگکہ مریدان خاص حضرت شاہ صاحتب تھے انہوںنے اس امر کو خطراب قلب پر بطور مکاشفہ کے مطلع ہونا قرار دیا۔ شاہ ولی اللہ صاحب اپنا دوسرا واقعہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک باوجاہت آدمی ان سے ملنے کو آیا۔ اور وہ ایسا وقت تھا کہ شاہ صاحب کو مناسب تھا کہ اسکو کھانے کے لیے او ر اس کو رات کو اپنے ہاں ٹھہرنے کے لیے کہتے اور وہ شخص بھی یہی سمجھتا تھا کہ میں ان کے ہاں کھائوں گا اور انہیں کے ہاں رات کو رہوں گا۔ شاہ صاحب کو بھی یہ خیال ہوا کہ اگر میں اس کو کھانا نہ کھلائوںاور رات کو رہنے کو نہ کہوںتو اس کی نہایت دل شکنی ہو گی۔ مگر انہوںنے اس کی کچھ پروا نہیں کی۔ نہ اس کو کھانا کھلایا اور نہ رہنے کے لیے کہا۔ جب وہ اٹھ کر چلا گیا تو شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ مجھ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے خفگی ہوئی اور کہا گیا کہ یہ ایک نادانی کا کام تھا۔ شاہ صاحب کو بلاشبہ اس بات کا رنج ہوا ہو گا کہ اس کو کیوں نہیں کھانا کھلایا اورکیوں نہیں رات کو رکھا مگر اس رنج کو چونکہ وہ اہل اللہ تھے خدا کے عتاب سے منسوب کیا اگر کوئی دنیا دار ہوتا تو اس کا کچھ بھی خیال نہ کرتا۔ مثل اس کے ایک واقعہ ہم پر بھی گزرا ہے۔ بنارس میں ایک نہایت مقدس اور بزرگ شخص مجھ کو ملنے کو آئے جب کہ میں انگلستان سے واپس آیا تھا اور ان بزرگ کا ارادہ تھا کہ میرے ہاں رات کو رہیں مگر کھانا دوسری جگہ کھائیں۔ مجھ کو یہ امر پسند نہ آیا اور میں نے کہا کہ جہاں آپ کھانا کھائیں گے وہین رات کو بھی رہیں۔ وہ بزرگ تھوڑی دیر مل کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد مجھ کو نہایت رنج و افسوس ہوا کہ میں نے یہ بات نہایت خلاف آدمیت اور خلاف مروت اور خلاف اخلاق کی مگر چونکہ میں دنیا دار تھا اس لیے میرے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ خدا نے مجھ سے مواخذہ کیا۔ پس یہ عام واقعات ہیں جو کم و بیش ہر ایک کو پیش آتے ہیں۔ اہل اللہ ان کو خدا کی طرف سے منسوب کرتے ہیں اور اہل دنیا انکو اتفاق سمجھ کر ٹال دیتے ہیں۔ کسی نے سچ کیا ہے: کار پاکاں را قیاس خود مگیر گرچہ ماند درنوشتن شیر و شیر عجائبات کا زہول اور عجائبات کا قبول (از ’’آخری مضامین سرسید‘‘) ہیں! تم نے یہ کسی متضاد باتیں کیں؟ حضرت میں کیا کروں؟ انسان کی جبلت ہی اسی متضاد باتوں پر واقع ہوئی ہے۔ اس متضاد جبلت کے سبب سے بڑ ے بڑے بزرگوں ‘ یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام کو بھی نہایت مشکلیں پیش آئیں ہیں۔ مذہب سی عمدہ چیز کا بھی اسی جبلت نے ستیاناس کر دیاہے۔ حضرت اب تک تو ہماری سمجھ میں یہ معما نہیں آیا؟ اگر آپ کچھ تفصیل سے بتاویں تو شاید سمجھ میں آوے میں سمجھو! دنیا میں قدرتی عجائبات اس قدر ہیں کہ انسان نہ ان کو سمجھ سکتا ہے نہ گن سکتا ہے۔ دن کاہونا رات کا آنا چمکدار سورج کا نکلنا باریک چاند کا دکھائی دینا اور پھر بڑھتا جانا۔ بد ر ہونا اور اپنی چاندنی سے اندھیری دنیا کو روشن کرنا‘ پھر گھٹتا جانا اورپہلی طرح باریک سا ہو کر چھپ جانا‘ کیا عجائبات قدرت سے نہیں ہے؟ کالی گھٹا کا اٹھنا ‘ بڑے بڑے پہاڑوں سے بھی بڑے دل بادلوں کا جمع ہو جانا ہوا کے جھونکے سے ادھر ادھر دوڑے پھرنا بجلی کا چمکنا دل کو ہلانا ‘ مینہ کے توقو سے دل خوش کرنا ‘ پھر مینہ کا برسنا اولوں کا پڑنا‘ بادل کی گرج اور بجلی کی چمک کیا عجائبات قدرت سے نہیں ہیں؟ درختوں کا اگنا‘ ان کے ہرے ہرے پتوں کا نکلنا ‘ طرح بطرح ‘ رنگ برنگ کے پھولوں کا پھولنا ‘ درختوں کی شاخوں میں طرح بطرح کے میووں کا لٹکنا‘ ان کے مزوں کا مختلف ہونا‘ کیا عجائبات قدر ت سے نہیں ہے؟ پرندوں کا ہوا میں اڑنا‘ آسمان و زمین میں معلق رہنا‘ بئیے کا عجیب طرح پر گھونسلا بنانا‘ شہد کی مکھی کے کرتب‘ اس کا نہایت اعلیٰ اصول اقلیدس پر چھاتا بنانا‘ پہاڑوں پر اور اونچی اونچی جگہوںمیں لگانا‘ ہر ایک قسم کے سفید پھولوں سے رس چوس کر لانا اور مختلف رنگوں کا شہد بنانا‘ کیا عجائبات قدررت سے نہیں ہے؟ گائے بھینس اور لال گائے بکریسے جن کے پیٹ میں جنگل کا چارا سڑکر بھرا ہوا ہوتاہے‘ سفید اور شیریں مزے دار دودھ کا نکلنا اس سے ان کے بچوں ی پرورش ہونا اور انسان اور اس کے بچوں ک لے نہایت عمدہ اور مفید غذا کا ہونا کیا عجائبات قدرت سے نہیں ہے؟ خود انسان کو بلکہ تمام حیوانات کا ااور انڈے سے مرغی کا اور مرغی سے انڈے کا پیدا ہونا‘ پھر ان کا دل کش آوازوں سے بولنا چہچہانا‘ انسان کا اپنے قوائے عقلی اور دماغی سے ایسے اعلیٰ درجہ تک پہنچنا جہاں بقول شخصے جبرئیل کے بھی پر جلتے ہیں کیا عجائبات قدرت سے نہیں ہے؟ مگر جو کہ باتیں روز مرہ کے دیکھنے میں آتی ہیں‘ ان کا عجیب ‘ بلکہ عجیب تر ہونا انسان کے خیال میں نہیں رہتا اور اس سے ذھول ہو جاتا ہے ۔مگر انسان جب کسی مذہب پر اعتقاد لاتا ہے یا کسی شخص کو مقدس سمجھتا ہے تو عجائبات کو اس کے ساتھ لگا دیتا ہے اور جو عجائبات اس کے ساتھ لگائے گئے ہیں ان سب کو قبول کرتا ہے ۔ بلکہ بغیر ان عجائبات کے مذہب کی حقیقت یا اس شخص کے تقدس کو تسلیم نہیںکرتا۔ حضرت نو ح علیہ السلام کو کتنا ہی مقدس اور خدا کا پیغمبر کہا جاوے مگر جب تک طوفان نوح کو ایسا نہ مانا جاوے کہ ایک بڑھیا کے تنور میںسے پانی البتا اور مینہ ایسے زور سے چالیس دن برستا رہا جس کے سبب تما م دنیا ڈوب گئی ۔ بلند سے بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے بھی پانی اونچا ہو گیا اورحضڑت نوح نے خدا کے حکم سے کشتی بنائی اورکشتی کے تختے فرشت بہشت سے لائے۔ پھر ان کی دعا سے طوفان موقوف ہوا اور تمام دنیا کے انسان اور جانور سوائے ان کے جو کشتی میں تھے سب ڈوب کر مر گئے۔ اس وقت تک حضرت نوح علیہ السلام کی نبوت اور ان کا تقدس قبول ہی نہیں ہو سکتا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی نسبت اگر یہ یقین نہ کیا جاوے کہ وہ تمام جانوروں کی زبانیں سمجھتے تھے اور ہوا ان کے تحت کو اڑائے پھرتی تھی اورجن اور پری ان کے تابع تھے‘ اس وقت تک ان کا مقدس ہونا تسلیم نہیں کیا جاتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت جب تک یہ یقین نہ کیا جاوے کہ خدا ان سے باتیںکرتا تھا اوراس نے اپنی انگلی سے پتھر کی تختیوں پر توریت لکھی تھی اوروہ لکڑی کو سانپ بنا دیتے تھے اورسمندر کو چیر کر چلے گئے تھے اس وقت تک ان کا نبی ہونا نہیں مانا جاتا۔ حضرت یوشع کے حکم سے اگر آفتاب کا ٹھہر جانا نہ مانا جاوے تو گویا ان کی نبوت ہی کو نہیںمانا۔ اگر یہ نہ مانا جاوے کہ حضرت یونس علیہ اسلام کو مچھلی نگل گئی تھی اور تین دن تک وہ اس کے پیٹ میں رہے اور پھر اس نے ان کو کنارے پر اگل دیا اور پھر وہ جیتے جاگتے نکل آئے اس وقت تک گویا ان کے تقدس اور نبوت کا یقین ہی نہیں ہوتا۔ جب تک یہ نہ مانا جاوے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے تھے اور مردوں کو جلاتے تھے اور کوڑھیوں اور اندھوں کو اچھا کرتے تھے۔ پھر مع اپن جسم کے آسمان پر چلے گئے اور چوتھے آسمان پربیٹھے ہیں اس وقت تک گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ک نبی ہونے کا یقین ہی نہیں کیا جاتا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم باوجود یکہ فرماتے رہے انا بشر مثلکم یوحی الی انما الھکم الہ واحد لوگوں نے اس پر قناعت نہ کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی بہت سے عجائبات منسوب کر دیے اور انہیں عجائبات پر یقین رکھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرنا قرار پایا ہے۔ یہی خیال اولیا اللہ تک بھی پہنچ گیا۔ جب تک کہ ان میں کرامتیں نہ مانی جاتیں اوران پر یقین نہ کیا جاوے کہ ولیوں نے مردوں کو بھی زندہ کر دیا ہے اور برسوں کی ڈوبی ہوئی برات کو دریا میںسے زندہ نکال لیا ہے اورچنیں اور چناں کیا اس وقت تک ان کے ولی ہونے پر بھی یقین نہیں ہوتا۔ غرض کہ انسان کی یہ جبلت ہے کہ جس چیز کو بزرگ سمجھتا ہے اور جن اشخاص کو مقدس جانتا ہے ان کی نسبت ایسے عجائبات منسوب کر دیتا ہے۔ یہ باعث ہے کہ مذہب اسلام میں بھی لوگوں نے بہت سے عجائبات شامل کر دیے ہیں جو قابل یقین نہیںہیں مگر وہ لوگ جو ان کو قبول کرتے ہیں۔ رفتہ رفتہ لوگوں کے خیال میں یہ بات جم گئی ہے کہ عجائبات کے بغیر نہ مذہب چلتا ہے نہ لوگ ایسے مذہب کو جس میں کچھ عجائبات نہ ہوں قبول کرتے ہیں۔ مگر یہ سخت غلطی ہے کوئی مذہب جو سچا ہے اور سچا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس میں کبھی ایسے عجائبات نہیں ہوتے جو فطرت کے خلاف ہوں ۔ عقل انسانی کے خلاف ہوں اور کوئی سمجھ دار آدمی انکو تسلیم نہ کرے۔ بلکہ اصلی اور سچا مذہب ایسے عجائبات خلاف فطرت اور خلاف عقل سے بالکل پاک اور خالی ہوتا ہے گو کہ بعد کو اس کے ماننے والوں نے عجائبات پرستی کی راہ سے اس میں بہت سے عجائبات شامل کر دیے ہیں۔ مذہب اسلام کی نسبت ہم دل سے یقین کرتے ہیں کہ وہ ایسی عجیب کہانیوں اور ایسی حیرت انگیز خلاف فطرت اور خلاف عقل باتوںسے پاک ہے اور اس میں جس قدر حصہ عجائبات کا ہے وہ ان عجائب پرستوں کا شامل کیا ہوا ہے جو قدرت کے عجائبات کو ذھول کرتے ہیں اور خلاف قدرت اور خلاف عقل عجائبات کو قبول کرتے ہیں۔ خدا ان عجائبات پرستوں سے بچائے۔ کرامت اور معجزہ (تہذیب الاخلاق بابت ۱۲۹۶ھ صفحہ ۳۱‘۳۳) ہم اس امر کا ذکر نہیں کرتے جس کا وقوع اتفاقیہ نیچر کے قواعد کے موافق کسی دوسرے امر کے مقارن ہوا ہو اور جس کو ہم کرامت اور معجزہ تصور کرتے ہیں بلکہ اس کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جس کو لوگ کرامت اور معجزہ کہتے ہیںاور گویا سپر نیچرل ہونا اس کی ذاتیات میں سے ہے۔ انسان کے دین اوردنیا اور تمدن و معاشرت‘ بلکہ زندگی کی حالت کو کرامت اور معجزہ پر یقین یا اعتقاد رکھنے سے زیادہ خراب کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ کرامت اور معجزہ پر اعتقاد رکھنے والا بعض ایسے انسانوں پر جو مثل دیگر انسانوں کے ہیں‘ کراماتی ہونے کا یقین کرتا ہے اور ا ن کی بدی و بداخلاقی کو نظر انداز کرتا ہے۔ اور ان کی پرفریب و مکر آمیز باتوں کے دھوکے میں آ جاتا ہے۔ اور دین و دنیا سب کو برباد کرتا ہے۔ ٹھیٹ مذہب اسلام میں جو سب سے زیادہ خوبی ہے وہ یہی ہے کہ اس نے اپنی سچائی کے ثبوت میںکسی معجزے یا کرامت کا حیلہ و بہانہ نہیںکیا‘ گو کہ بعد کو اس کے پروئوں نے اپنی غلطی اور کم فہمی سے اس کے ساتھ کرامت اور معجزہ کا ایسا لا انتہا سلسلہ باندھ دیا اور ایسی باتیں اسکی نسبت بیان کیںجن کو خود مذہب اسلام نہ جانتا تھا۔ آنحضرت صلعم کے بعد خود اسلام کے پیروئو ںمیں بہت سے فرقے پیدا ہوئے ۔ اس کی ابتدا یہی ہوئی کہ ایک شخص اس فرقہ کا سرگروہ پیدا ہوا اور صاحب کرامت اور صاحب معجزہ ہونے کا دعویٰ کیا اورجو لوگ معجزہ و کرامت پر اعتقاد رکھنے والے تھے وہ اس کے معتقد اور پیرو ہو گئے اورٹھیٹ اسلام کو چھوڑ دیا اوراپنے دین و مذہب کو برباد کیا۔ ہم بطور تمثیل کے اس قسم کے دو تین فرقوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ اس فرقہ کا سرگروہ یا اس فرقے والے درحقیقت گمراہ تھے یا نہیں اور واقع میں ان کے اقوال اور اعتقادات کیا تھے‘ کیونکہ ان کے اصلی اقوا ل ہم تک نہیں پہنچے ہیں ‘ اورجو کچھ پہنچے ہیں‘ ان کے دشمنوں اور ان کے مخالفوں کی تحریرات کے ذریعہ سے پہنچے ہیں جو اعتماد کے لائق نہیں ہیں‘ مگر اس بیان سے ہم کو اس قدر ثابت کرنا ہے کہ اگر وہ فرقہ درحقیقت اس فرقہ کے سرگروہ کی پیروی کے سبب گمراہ ہوا تھا تو اس کا باعث بھی کرامت و معجزہ پر اعتقاد رکھنا تھا۔ ابتدا زمانہ اسلام یعنی دوسری صدی ہجری میں خلیفہ مہدی کے وقت میں ایک شخص ظاہر ہوا جو ابن مقنع کے لقب سے مشہور ہے۔ وہ ہمیشہ منہ پر مقنع ڈالے رکھتا تھا اس لیے کہ دنیا کو اس کے چہرے کا نور دیکھنے کی طاقت نہیں‘ حالانکہ حد سے زیادہ بدصورت تھا۔ اس نے طرح طرح کے معجزوں اور کرامتوں کا دعویٰ کیا ۔ ہزاروں آدمی اس کے معتقد ہو گئے۔ اصل بنا اعتقاد کی یہی تھی کہ وہ لوگ معجزوں اور کرامات کے حق میں ہونے کا یقین رکھتے تھے۔ کہتے تھے کہ آخر کار اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اسلام میں بڑی خرابیاں ڈالیں۔ اس کے معتقدوںکو لوگ مرتد سمجھتے تھے اور خلیفہ مہدی کو اس سے متعدد لڑائیاں لڑنی پڑیں جن میں آخر کار ابن مقنع کو شکست ہوئی۔ اس کے بعد یعنی ۲۷۷ھ میں ایک شخص عرب ‘ کوفہ کے قریب کے رہنے والے قرامط کے نام سے شہرت پائی۔ کہتے ہیں کہ اس نے عجیب لقب اختیار کیے تھے اور اپنے تئیں بالقاب ھادی‘ مرشد‘ برھان‘کلمۃ اللہ‘ روح القدس ‘ ناقہ صالح‘ منادی مسیح ملقب کیا تھا اور اپنے تئیں محمد بن حنفیہ ‘ حواری یوحنا اور جبرئیک امین کا وکیل مطلق کہتا تھا ۔ ہزاروںآدمی اس کو صاحب معجزہ و صاحب کرامات اعقاد کر کے ا س پر ایمان لے آئے۔ اس نے خلفائے عباسیہ کو زیر کر دیا۔ مکہ معظمہ کو جالوٹا اورقتل عام کر ڈالا۔ چاہ زمزم سے خون ابل پڑا۔ حرم میں لاشوں کے تودے لگ گئے‘ غلاف کعبہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے‘ حجر اسود کو وہاں سے اکھاڑ لیا اور فخریہ اپنے دارالخلافہ کو لے گیا۔ اسی طرح ہر زمانہ میں اسی کرامت و معجزہ کے اعتقاد کے لوگ ہمیشہ ایسے شخص کے جس نے کرامت و معجزہ کا دھوکا دیا معتقد ہوتے رہے ہیں۔ اکبر کے وقت میں روشنیہ فرقہ اور فریب عہد فرخ سیر کے حسینیہ فرقہ ‘ جو میر محمد حسین کے پیرو تھے اور جس نے اپنے پر ایک آسمانی کتاب کے اترنے کا بھی دعویٰ کیا تھا اور اپنے تئیں بارھواں بیکو ک کہتا تھا۔ اسی اعتقاد کے سبب اس کے معتقد ہو گئے تھے۔ پچھلی باتوں کو جانے دو اسی زمانہ میں ہماری سوسائٹی کا حال دیکھو‘ کس قدر لوگ فقیروں کے اور مشایخوں کے پیچھے اسی کرامت کے اعتقاد کے سبب خراب ہیں۔ حماقت سے دعائیں منگواتے پھرتے ہیں ۔ مرے ہوئے بزرگوں کی قبروں پر ان کے صاحب کرامات ہونے کے اعتقاد سے چلے باندھتے ہیں‘ منتیں مانتے ہیں‘ بیماروں وک لے جاتے ہیں‘ چوکھٹ پر ڈال دیتے ہیں ‘ درخت سے باندھ دیتے ہیں‘ کیا کیا کچھ ذلت و خواری ہے جو نہیں بھگتتے۔ شریفوں کے بچوں کے گلوں میں ‘ جوانوں کے بازوئوں پر ‘ اسی اعتقاد کے سبب تعویزوں کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ امراض کے لیے مرادیںحاصل ہونے کے لیے عمل پڑھے جاتے ہیں ۔ ہمارے شہر میں ایک بڑے خاندانی بزرگ تھے۔ اپنی بواسیر کی بیماری پر اپنے پیر سے دم ڈلوانے جاتے تھے۔ ہمار ے ایک دوست ہیں وہ نماز کے بعد کچھ پڑھتے ہیں اور اپنی پھونک اپنی ہی مٹھی میں بند کرتے ہیں اور آگے پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر چند کہتے ہیں کہ یہ تو باد بمشت پیمردن کی مثل ہے‘ مگر وہی اعتقاد معجزہ و کرامت کا اس لغو حرکت کا باعث ہے۔ فقیر کی دعا سے مرد کا عورت اور عورت کا مرد ہوجانا یقین کرتے ہیں۔ اسی قماش کے ہو لوگ ہیں جو سحر پر یقین رکھتے ہیں صر ف اتنا فرق جانتے ہیں کہ اعمال پاک اور سحرناپاک ہے ‘ مگر دونوں کا نتیجہ واحد ہے۔ ہندوستانی عدالتوں میں سحر کے مقدمات دائر ہوتے ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فلاں شخص مدعا علیہ نے سحر سے میرے بیٹے کو بیٹی بنا دیا ہے۔ اچھے اچھے مقدس آدمی گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے اسی حاضر ھذا کو جو اب بیٹی ہے ‘ بیٹا دیکھا تھا۔ یہ تمام برائیاں مذہبی اور تمدنی جو مسلمانوں میں پھیل رہی ہیں ان کا سبب وہی کرامات و معجزہ پر اعتقاد کا ہونا ہے۔ تمام جاہل و وحشی ناتربیت یافتہ ملک و قوم میں معجزے و کرامات کے خیا ل ہوتے ہے۔ مگر جب علم کی روشنی سے ملک و قوم روشن ہو جاتی ہے تو یہ سب باتیں مٹتی جاتی ہیں ۔ فرنگستان بھی جب تک جہالت کی تاریکی میںڈوبا ہوا تھا اس وقت وہاں بھی ہزاروں آدمی صاحب کرامات و صاحب معجزات تھے مگر اب کسی کا نام و نشان بھی نہیں پایا جاتا بلکہ اب ہزاروں آدمی ایسے پیدا ہو گئے ہیں جن کے کاموں سے معجزہ و کرامت بھی متحیر ہے۔ یہ اعتقاد مسلمانوںکی تہذیب کا بہت بڑ ااور قوی مانع ہے ۔ اور نیز ٹھیٹ مذہب اسلام کے بالکل برخلاف ہے ۔ خود مذہب اسلام اس امر کا جس کو لوگ معجزہ و کرامت کہتے ہیں سخت مخالف ہے۔ قرآن مجید میں بہت سے معجزوں کا ذکر ہے مگر وہ کیا ہیں؟ انسان کا پیدا کرنا۔ مینہ کا برسانا ‘ اناج کا میووں کا اگانا‘ سورج ‘ چاند ‘ ستاروں کا پیدا کرنا اور یہی حقیقت معجزے ہیں۔ پس جب تک کہ مسلمانوں میں سے معجزے و کرامت کا اعتقاد نہیں جاتا‘ ان کا کامل طور پر مہذب ہونا محالات سے ہے۔ ٭٭٭ عالم غیب (تہذیب الاخلاق یکم ذی الحجہ ۱۳۱۲ھ جلد دوم نمبر ۳) (دو رسوم) قال اللہ تعالیٰ یومنون بالغیب انی اعلم غیب السموات والارض وعندہ مقاتیح الغیب لا یعلمھا الا ھو۔ عالم الغیب الشہادۃ غیب کا اطلاق ان حقائق پر ہوتا ہے جو انسان کے ادراک سے باہر ہیں یا جن کے وقوع سے پہلے انسان ان کو نہیں جان سکتا جیسے خدا ی ذات اور اس کی صفات‘ عالم کے پیدا ہونے کی کیفیت‘ روح اور جان کی حقیقت‘ موجودات کی ماہیت‘ ان تراکی حقیقت جنکو خد انے اس عالم کا مدبر کیا ہے کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل اس پر کیا گزرے گی اورنہ کوئی شخص جانتا ہے کہ وہ کس جگہ مرے گا۔ موت کے بعد کیا ہو گا اور قیامت کی حقیقت کیا ہے اور کب ہو گی۔ واضح ہو کہ قیامت سے ہماری مراد مضمحل ہو جانا ارکان عالم کا ہے اس فطرت کے مطابق جس فطرت پر خدانے اس کو پیدا کیا ہے۔ عالم غیب کی نسبت جو کچھ ہم نے بیا ن کیا وہ کوئی خیالی امر نہیں ہے۔ بلکہ دنیا میں انسان ایسی چیزوں کا وجود پاتا ہے ۔ جن کی حقیقتوں کو ادراک نہیں کر سکتا۔ پس وہی حقیقتیں ہیں جو عالم غیب سے تعبیر کی جاتی ہیں مثلاً انسان و حیوان میں ایک قوت پائی جاتی ہے جس کو جان کہتے ہیں اور اس میں اور اشجار میں ایک قوت پائی جاتی ہے جس کو نامیہ کہتے ہیں مگر ان قویٰ کی حقیقت انسان کے ادراک سے خارج ہے۔ مقناطیس میں ہم ایک قوت جاذبہ اور قوت انحراف جانب قطب شمالی پاتے ہیں مگر ان کی حقیقت نہیں جان سکتے۔ ہزاروں چیزیں دنیا میں ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر تیسری چیز ہو جاتی ہے اور ہم نہ ان مین سے کسی کی حقیقت جانتے ہیں اورنہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے ملنے سے تیسری چیز بن جانے کی حقیقت کیا ہے۔ یہ تمام قویٰ اعلیٰ اور ادنیٰ ‘ ضعیف و قوی مع اپنی تمام اقسام کے عام غیب میں داخل ہیں اور قویٰ مدبر عالم کہلاتے ہیں ۔ خدا نے ھبی ان پر مدبرات کا لفظ اطلاق کیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ : فالمد برات امرا اور دوسری جگہ فرمایا ہے : فالمقسمات امرا اور انہی قوائے مدبرات عالم پر کتب سماوی اور زبان شرع میں ملک اورملائکہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ عبداللہ بن مسعود کی روایت میں جو صحیح مسلم میں ہے بہ لفظ ہیں : ’’ثم یرسل اللہ الملک فینفخ فیہ الروح یعنی جب بچہ ماں کے پیٹ میں دو چلہ کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ فرشتہ اس میں روح پھونک دیتا ہے۔ اور حذیفہ ابن اسید کی روایت میں یہ لفظ ہیں: یدخل الملک علی النظفۃ بعد ما تستقر فی الرحیم بار بعین او خمسۃ و اربعین لیلۃ فیقول کذ ا و کذا یعنی جب کہ نطفہ رحم میں ٹھہر جاتاہے چالیس رات یا پینتالیس رات کو ایک فرشتہ نطفہ پر داخل ہو جاتاہے اور چنیں و چناں کہتا ہے۔ اور عبداللہ بن مسعود کی روایت میں یہ لفظ ہیں: از ا مر بالنطفۃ اثنتان واربعون لیلۃ بعث اللہ الیھا ملکا نصورھا و خلق سمعھا و بصرھا وجلدھا و لحمھا و عظامھا یعنی جب نطفہ پر بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کی صورت بناتا ہے اور کان ‘ آنکھ‘ جلد اور گوشت اورہڈیاں بناتاہے۔ حذیفہ بن اسید الغفاری کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ان ملکا موکلا بالرحم اذا اراد اللہ ان یخلق شیئا باذن اللہ لبضع واربعین لیلۃ یعنی ایک فرشتہ عورت کے رحم میں متعین ہے جب خدا چاہتا ہے کہ پیدا کرے کچھ تو خدا کے حکم سے چالیس اور چند راتوں بعد وہ فرشتہ ویسا ہی کرتا ہے جیسا خدا کا حکم ہے۔ اور حذیفہ بن اسید الغفاری کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: یارب اسوی او غیر اسوی یعنی فرشتہ جو رحم میں نازل ہوا ہے وہ خد اسے پوچھتا ہے کہ وہ بچہ سیدھا پیدا ہو یا کبڑا جیسا حکم ہوتا ہے ویسا ہی کر دیتا ہے۔ اور انس بن مالک کی روایت میں یہ لفظ ہیں: ان اللہ قدوکل بالرحم ملکا فیقول ای رب نطفۃ ای رب علقۃ ای رب مضغۃ فاذا اراداللہ ان یقضی خلقا قال قال الملک ابی رب ذکر او انثی یعنی خدا نے رحم میں ایک فرشتہ متعین کر رکھا ہے وہ کہتا ہے کہ اے پرور دگار نطفہ ہی رہے اے پروردگار علقہ ہی رہے۔ اے پروردگار مضغہ ہی رہے پھر جبکہ خدا ارادہ کرتا ہے کہ اس سے مخلوق پیدا کرے تو فرشتہ خدا سے پوچھتا ہے کہ لڑکا پیدا ہو یا لڑکی۔ اور سورۃ آل عمران میں خدا فرماتا ہے: ھو الذی یصورکم فی الارحام کیف یشاء یعنی خدا وہ ہے جو تمہاری صورتیں بناتا ہے رحموں میں جیسی کہ چاہتا ہے۔ مسلم میں عبداللہ بن مسعود کی روایت میں یہ لفظ آئے ہیں: ویومربا ربع کلمات یکتب رزقہ و اجلہ و عملہ و شقی او سعید یعنی جب بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں مضغہ ہو جاتا ہے تو خدا ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے اور چار باتوں کا اسے حکم دیا جاتا ہے وہ فرشتہ اس کار زق اورموت کا وقت اور اس کا عمل کہ کیا کرے گا اوریہ کہ شقی ہو گا یا سعید لکھ دیتا ہے۔ اور انہی کی دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: ثم یقول یا رب اجلہ فیقول ربک ماشاء ویکتب الملک ثم یخرج الملک بالصحیفۃ فی یدہ فلا یزید علی امر ولا ینقص یعنی جب نطفہ رحم میں پڑنے پر بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو خدا ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ فرشتہ اس نطفہ میںصورت اور آنکھ‘ کان اور گوشت اور ہڈی اورپوست اورلڑکا یا لڑکی بنانے کے بعد خدا سے اس کی موت کے وقت کو پوچھتا ہے اور جو خداکہتا ہے وہ لکھ لیتا ہے۔ پھر وہ فرشتہ اس کے رزق کو پوچھتا ہے اور جو خداکہتا ہے وہ لکھ لیتا ہے ۔ پھر فرشتہ اس لکھی ہوئی کتاب کو ہاتھ میں لیے ہوئے نکلتا ہے ۔ پھر جو کچھ ا سمیں ہے نہ اس سے زیادہ ہوتاہے نہ کم۔ ظاہر ہے کہ ان حدیثوںمیں جو الفاظ یکتب اور یخرج الملک بالصحیفۃ کے ہیں ان ک لغوی معنی تو کسی طرح مراد نہیں ہو سکتے۔ پس یہ تمام الفاظ کنایہ ہیں اس امر کا کہ انسان اپنی ماں کے رحم ہی میں ایک جبلت پر مجبول ہو تا ہے اور اسی پر ہمیشہ رہتا ہے۔ ماںکے رحم ہی میں بچہ کے اعضاء اور دل و دماغ اس طرح پر بن جاتے ہیں کہ اس کے تمام افعال جو آئندہ اس سے سرزد ہوتے ہیں اسی کے مطابق ہوتے ہیں جس پروہ مجبول ہے‘ یعنی اپنی ماں کے پیٹ میں بنایا گیا ہے۔ حدیث میں بھی آیا ہے جیسا مسلم میں عمران بن حصین کی روایت ہے کہ : کل میسر لما خلق لہ یعنی ہر شخص کو اسی کام میں آسانی دی گئی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے اور خدانے فرمایا ہے: ونفس وما سواھا فالھمھا فجورھا وتقواھا قد افلح من زکھا و قد خاب من دسھا یعنی قسم ہے جان کی اورجس نے درست کیااس کو‘ پھر ڈالی اور میں اس کی بڑائی اور اس کی بھلائی۔ بے شک کامیاب ہوا وہ جس نے ا س کو پاک کیا اور بے شک نامراد ہوا وہ جس نے اس کو روند دیا۔ اس قسم کے الفاظ سے مقدرات کا بیان مقصود ہوتا ہے نہ ان کے حقیقی معنوں کا۔ ان تمام روایتوں سے صاف ظاہر ہے کہ انہیں قوتوں پر جو کہ خدا نے نطفہ میں اور عورت کے رحم میں رکھی ہیں‘ ملک کا لفظ اطلاق ہوا ہے۔ دخول ملک سے اس قوت کا ظہور مراد ہے جو نطفہ اور رحم میں ہے اور لڑکا اور لڑکی کا سیدھا اور کبڑ ا پیدا ہونا بھی نتیجہ انہی قوتوں کا ہے جو نطفہ اور رحم میںخدا نے رکھی ہیں اور ان پر ملک کا اطلاق ہوا ہے اور گویا وہ قوتیںزبان حال سے خدا سے پوچھتی ہیں کہ لڑکا ہو یا لڑکی سیدھا ہو یا کبڑا۔ خدا تعالیٰ نے فرشتوں کی تعریف میں فرمایا ہے : لا یعصون اللہ ما امرھم و یفعلون ما یومرون یعنی وہ نہیں نافرمانی کرتے اللہ کے اس حکم کی جو ان کو دیا گیا ہے اورکرتے ہیں جو حکم کہ ان کو دیا جاتا ہے ۔ یہ تعریف بالکل قویٰ مدبر عالم پر صادق آتی ہے کہ جس کام کے لیے خدا نے اس کو بنایا ہے وہی کرتے ہیں اور کبھی اس میںخطا نہیں کرتے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اگر قویٰ مدبر عالم پر ملائک کا اطلاق ہوا ہے جیسے کہ مذکورہ بالا حدیثوں میں ملک سے کوئی قوت منجملہ قویٰ مدبر عالم مراد لی ہے تو ملک کے وجود مستقل جداگانہ ہونے سے بھی انکار کرنا لازم آوے گا‘ اس لیے کہ قویٰ مدبر عالم مادہ میں ہوتے ہیں اور خارج از مادہ ان کا کوئی وجود مستقل نہیں پایا جاتا۔ پس ان حدیثوںکی نسبت کیا کہا جاوے گا جن میں فرشتوں کی نسبت ایسے افعال بیان ہوئے ہیں جو وجود مستقل اور جوہر قائم بالذات سے صادر ہوتے ہیں۔ مگر یہ بات جاننی چاہیے کہ اگلے زمانہ کے یونانی فلاسفر مثل افلاطون وغیرہ کے اعیان ثابتہ غیر مادی کو مانتے ہیں۔ یہودی اور عیسائی اور عرب کے بت پرست بھی فرشتوں کو مجسم اور متحیز مانتے ہیں۔ اوران کے جسم کے مادہ کو انسان کے جسم کے مادہ سے ایک جداگانہ قسم کا مادہ اور اس سے اعلیٰ قرار دیتے تھے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ فرشتے انسان کی صورت بن جاتے ہیں اور انسانوں کے پاس آتے ہیں اور انسانوں کو دکھائی بھی دے جاتے ہیں۔ اس قسم کے خیالات کا انسان میں پیدا ہونا ایک امر طبعی ہے ۔ انسان جب کسی ایسی شے کا خیال کرتا ہے جس کو نہیں دیکھتا تو خواہ مخواہ اپنے ذہن میں اس کی ایک صورت تصور کر لیتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ خیال ایسا مستحکم ہو جاتاہے کہ وہ خیالی صورت بطور اصلی اور واقعی صورت اس کے خیال میں جم جاتی ہے۔ تمام دیوتا اور دیویوں کی مورتیں جو بت پرستوں نے بنالی ہیں وہ اسی منشاء سے بنائی گئی ہیں۔ عرب کے بت پرستوں نے بھی اسی منشاء سے اپنے بتوں کی صورتیں بنا لی تھیں۔ مگر یہ مسئلہ کہ صرف قویٰ ہی مدبر عالم ہیں جو مادہ کے ساتھ ہوتی ہیں او ا ن کا کوئی وجود مستقل خارج از مادہ نہیں ہے ایسا نازک اور دقیق مسئلہ ہے کہ عام آدمی اس کو سمجھ نہیں سکتے۔ برخلاف اسکے اگر اس کو اس طرح بیان کیا جاسے کہ گویا وہ ایک جداگانہ وجود مستقل ہیں تو ہر شخص اس کو بخوبی سمجھ سکتا ہے انبیاء علیہم السلام کو ہدایت عامہ مقصود ہوتیہے ا س لیے اس امر کو صاف طرح پر بحث میں لانا جو عام لوگوں کی سمجھ سے خارج ہے ‘ بلاشبہ ان کے کام میں جس کے لیے وہ مبعوث ہوئے ہیں ہرج ڈالنے والا تھا اور اس امر کے ماننے سے کہ ان کا کوئی وجود فی الخارج بھی ہے ان کے کام میں اور اس امر کی ہدایت میں جس کے لیے وہ مامور تھے کچھ ہرج ڈالنے والا نہیں تھا‘ اس لیے انبیاء علیہم السلام کو اس امر کی نسبت کسی کاص بحث کی ضرورت نہ تھی۔ ہاں البتہ ان کو ایسے الفاظ میں اورتمثیلوں میں اس کا بیان کرنا ضرور تھا کہ جو حقیقت ہے وہ بھی اس سے پائی جاوے اورعام لوگوں کو بھی سمجھ کے لائق ہو جیسے کہ ان حدیثوں سے ظاہر ہے جن کو ہم نے ابھی بیان کیا ہے۔ باقی رہیں وہ حدیثیں جن میں فرشتوںکی نسبت ایسے افعال بیان ہوئے ہیں جو وجود مستقل اور جوہر قائم بالذات سے صادر ہوئے ہیں ان کی نسبت اول تو ہم اس بات کی طمانیت چاہتے ہیں کہ ان حدیثوں کے وہی الفاظ ہیں جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے تھے اس پر طمانیت ہونا نہایت مشکل قریب ناممکن کے ہے‘ اس لیے ہم قبول کرتے ہیں کہ ان کے الفاظ وہی ہیں جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے تھے یا کم سے کم یہ کہ راوی نے یہی سمجھا تھا کہ وہی لفظ کا اس کے مرادف یا اس کے ہم معنی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے تھے۔ تو بھی ہم کو کچھ شبہ نہیں ہے کہ وہ سب بطور استعارہ اور تمثیل کے بیان ہوئے ہیں نہ بطور بیان حقیقت واقعہ کے‘ چنانچہ تمثیلاً ان حدیثوں کو جن میں اس قسم کے الفاظ پائے جاتے ہیں اس مقام پر بیان کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ ان لوگوں کے موئد جو ملائک کو مخلوق جداگانہ مانتے ہیں وہ حدیث ہے جو حضرت عمر ؓ سے روایت کی گئی ہے اور جس میں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نہایت سفید چٹے کپڑے پہنے ہوئے نہایت سیاہ بالوںوالا جس پر کچھ سفر کی علامتیں بھی نہیں معلوم ہوتی تھیں آیا اور پوچھا کہ اسلام کیا چیز ہے۔ حضرت نے اس کو بتایا جس کی تفصیل حدیث میںہے۔ اس کے بعد یہ لفظ ہیں ۔ ثم انطلق فلبثت ملیا ثم قال یا عمر اتدری من السائل قلت اللہ و رسولہ اعلم قال فانہ جبریل اتاکم یعلمکم دینکم یعنی جب وہ چلا گیا تو تھوڑی دیر ہم ٹھہرے۔ پھر آنحضرت نے مجھ سے فرمایا کہ اے عمر توجانتا ہے کہ پوچھنے والا کون تھا۔ میں نے کہا اللہ اور رسول جانتا ہے۔ آنحضرت نے فرمایا کہ وہ جبرائیل تھے۔ تمہارے پاس آیا تاکہ تم کو تمہارا دین سکھلاوے۔ یہ لفظ مسلم کے ہیں اور بخاری میںہے: ثم ادبر فقال ردوہ فلم یرو شئیا فقال ھذا جبریل جاء یعلم الناس دینھم یعنی جب وہ اپنی پیٹھ پھیر کر گیا تو آنحضرت نے فرمایا کہ اس کو پھیر لائو۔ تو پھر کچھ دکھائی نہیں دیا ۔ پھر آنحضرت نے فرمایا کہ یہ جبریل آیا تھا تاکہ سکھاوے لوگوں کو ان کا دین۔ قبل اس کے کہ ہم اس کے معنی بتایوں ہم کو دکھانا چاہیے کہ اس باب میں کس قدر اختلافات ہیں۔ فتح الباری شرح بخاری میں یہ روایتیںلکھی ہیں۔ وفی روایۃ ابی فروۃ و الذی بعث محمد ا بالحق ماکنت باعلم بہ من رجل منکم و انہ جبریل وفی حدیث ابی عامر ثم ولی فلم نر طریقہ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم سبحان اللہ ھذا جبریل جاء لیعلم النسا دینھم والذی نفس محمد بیدہ ما جاء نی قط الا وانا اعرفہ الا ان تکون ہذہ المرہ۔ و فی روایۃ سلمان التیمی ثم نھض فولی فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی بالرجل فطلبناء کل مطلب فلم نقدر علیہ فقال ھل تدرون من ھذا۔ ھذا جبریل اتاکم یعلمکم من دینکم خذوا عنہ فواالذی نفسی بیدہ ماشبہ علی منذاتانی قبل موتی ھذہ و ماعرفتہ حتی ولی (فتح الباری جلد اول صفحہ ۱۱۵)۔ (ترجمہ) ابو فروہ کی روایت میں ہے کہ قسم اس خدا کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دین حق دے کر بھیجا کہ میں تم سے کسی آدمی سے زیادہ اس کو نہیں جانتا تھا اور یہ بیشک جبرئیل تھا۔ اور ابو عامر کی حدیث میں ہے کہ وہ چلا گیا ااورہم نے نہیں دیکھا کہ وہ کدھر گیا۔ آنحضرت نے فرمایا کہ یہ جبرئیل تھا اور ا س لیے آیا تھا کہ لوگوں کو دین سکھائے اور قسم ہے اس خدا کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے کہ اس دفعہ سے پہلے وہ کبھی اس طرح نہیں آیا کہ میں نے نہ پہچانا ہو۔ اور سلیمان تیمی کی روایت میں ہے کہ وہ پھر اٹھ کر چلا گیا ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ اس کو میرے پاس پھر لائو۔ ہم نے اس کو ہر طرف ڈھونڈا مگر اس کو نہیں پا سکے۔پھر آنحضرت نے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون تھا؟ تم اسی سے دین سیکھو۔ تمہیں تمہارا دین سکھانے آیا تھا۔ قسم ہے خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس دفعہ سے پہلے جب وہ آتا ہے کبھی بے شناخت کیے نہیں رہا اورجبتک وہ نہیں گیا میں نے اس کو نہیں پہچانا‘‘۔ اور نسائی میں یہ الفاظ ہیں: ثم قال لا والذی بعث محمد ا بالحق ھدی و بشیرا ماکنت باعلم بہ من رجل منکم و انہ لجبریل علیہ السلام نزل فی صورۃ دحیۃ الکلبی (نسائی صفحہ ۵۹۷) (ترجمہ) ’’پھر فرمایا کہ نہیں قسم ہے جس نے محمد کو دین حق کے ساتھ حادی اور خوشخبری دینے والا کیا ہے‘ میں تم میں سے کسی آدمی سے زیادہ اس کو نہیں پہچانتا تھا اور بے شک وہ جبرئیل تھا جو دحیہ کلبی کی صورت میں نازل ہوا تھا‘‘۔ اورنسائی میں یہ روایت بھی ہے: قال عمر فلبثت ملیا ثم قال لی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا عمر ھل تدری من السائل قلت اللہ ورسولہ اعلم قال فانہ جبریل (نسائی صفحہ ۵۹۷)۔ ’’حضرت عمر نے فرمایا کہ میں تھوڑی دیر ٹھہرا پھر آنحضرت نے مجھ سے فرمایا کہ اے عمر! تو جانتا ہے کہ یہ پوچھنے والا کون تھا؟ میںنے کہا کہ خدا اور خدا کا رسول خوب جانتا ہے۔ فرمایا کہ یہ جبریل تھا۔ اور ترمذی کی روایت میں ہے: قال عمر فلقینی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد ذالک بثلاث قال عمر ھل تدری من السائل ذاک جبریل اتاکم یعلمکم دینکم (ترمذی صفحہ ۴۴۰)۔ (ترجمہ) ’’حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے پیغمبر خدااس کے تین دن بعد ملے اور فرمایا کہ اے عمر تو جانتا ہے کہ وہ سائل کون تھا وہ جبریل تھا اورتمہارے پاس آیا تھا کہ تم کو تمہارا دین سکھائے‘‘۔ اور اور روایتوں میں اس طرح ہے: فی روایۃ ابی عوانۃ فلبثنا لیا لی فلقینی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد ثلاث ولا بن حبان بعد ثلاثہ ولا بن مندہ بعد ثلاثۃ ایام (فتح الطاری جلد اول صفحہ ۱۱۵)۔ (ترجمہ) ’’ابو عوانہ کی روایت میں ہے کہ چند راتیں گزریں ‘ پھر مجھ سے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ملے بعد تین کے اور ابن حبان اور ابن مندہ کی روایت میں ہے بعد تین دن کے‘‘۔ ابو فروہ اور ابو عامر اور سلیمان کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت نے بھی اس شخص کو نہیں جانا تھا کہ وہ جبرئیل ہے‘ مگر جب اس کو ڈھونڈا اور وہ نہ ملا تو آپ نے فرمایا کہ وہ جبرئیل تھا۔ اگر درحقیقت وہ جبرئیل نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ آنحضرت اس کو نہ پہچانتے۔ نسائی کی روایت بھی اس شخص کے نہ پہچاننے کا ذکر ہے۔ پھر بیان ہے کہ وہ جبرئیل تھا‘ دحیۃ الکلبی کی صورت بن کر آیا تھا۔ یہ روایت ان تمام روایات سے مختلف ہے‘ کیونکہ دحیہ الکلبی کو سب جانتے تھے۔ حضرت عمرؓ کا یا اور صھابہ کا اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو نہ پہچاننا تعجب کی با ت ہے۔ یہ اختلافات ایسے ہیں کہ جن میں کسی طرح پر تطبیق نہیں ہو سکتی۔ معہذا ان سب اختلافوں کو چھوڑ دو‘ یہ بات کچھ کم تعجب کی نہیں ہے کہ جبرئیل کسی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آویں اور آنحضرت ان کو نہ پہچانیں۔ ان تمام حدیثوں پر غور کرنے سے اصل واقعہ اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر آپ سے اسلام کو پوچھا۔ آپ نے اس کو بتا دیا۔ جب وہ چلا گیا اور پھر اس کا پتہ نہ چلا تو کہا گیا کہ وہ جبرئیل تھا ۔ اول تو بعض روایات کے سباق سے یقین نہیں ہو سکتا کہ اس شخص کو جبرئیل کہنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فول تھا بلکہ وہ راویوں کا خیال ہے اور بعض راویوںنے اپنے خیال کو آنحضرت کا قول کہہ دیا ‘ کیونکہ جب اس کا پتا نہ چلا تو کہا گیا کہ وہ جبرئیل یعنی فرشتہ تھا اور اگر آنحضرت ہی کا قول ہو تو بھی وہ فرماتا ایسا ہی تھا جس طرح کسی شخص نامعلوم کو کہہ دیتے ہیں کہ فرشتہ تھا۔ ہرگز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود اس قول سے یہ نہیں پایا جاتا کہ جو شخص آیا تھا ہو درحقیقت جبرئیل فرشتہ تھا بلکہ ایک اجنبی شخص تھا آدمیوںمیں سے جس نے اسلام کا حال آنحضرتؐ سے آ کر پوچھا تھا۔ بعض حدیثوں میں بیان ہے کہ فرشتے انسان کی صورت میں بن کر آنحضرتؐ کے پاس آتے تھے جیسے کہ بخاری میں حارث بن ہشام کی روایت میں ہے : واحیانا یتمثل لی الملکہ رجلا فیکلمنی فاعی ما یقول یعنی وحی آنے کی نسبت آنحضرتؐ نے فرمایا کہ کبھی تو وہ گھنٹوں کی آواز کی مانند آتی ہے اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت بن جاتا ہے۔ پھر مجھسے کلام کرتا ہے۔ پھر میں یاد کر لیتا ہوں جو کچھ کہ وہ کہتا ہے۔ اور اصابہ میں نسائی کے حوالہ سے یہ روایت نقل ہے: روی النسائی باسناد صحیح عن یحبی بن معمر عن ان عمر رضی اللہ عنہما کان جبریل یاتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی صورۃ دحیۃ الکلبی (اصابہ جلد اول صفحہ ۹۷۲)۔ (ترجمہ) ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س جبریل دحیتہ الکلبی کی صورت میں آتے تھے ‘‘ دحیۃ الکلبی تمام عرب میںنہایت خوبصورت تھے اور دحیۃ الکلبی کی صورت میںآنے سے غالباً یہ مراد ہے کہ اچھی صورت میں آتے تھے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے تو تمثل برزخی مراد لی ہے۔ یعنی بین المثال والشہادۃ جس کے معنی وہی سمجھتے ہوں گے مگر ہماری سمجھ میں تو نہیں آتے ۔ غالباً اور کوئی بھی نہیں سمجھتا ہو گا مگر اس امر کی نسبت کہ جب حضرت جبرئیل آدمی کی صورت بن کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے تو ان کا اصلی جسم کیسا ہوتا تھا علماء اسلام نے عجیب عجیب بحثیںکی ہیں امام الحرمین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے جسم کی زیادتی کو فنا کر دیتا تھا اور پھر پیدا کر دیتا تھا۔ ابن عبدالسلا م فرماتے ہیں کہ جسم کی زیادتی کو الگ کر دیتا تھا فنا نہیں کرتا تھا اور اس بات پر سب نے قرار دیا ہے کہ حضرت جبرئیل جو انسان کی صورت میں بن جاتے تھے تو ان کا اصلی جسم مر نہیں جاتا تھا ‘ بلکہ وہ بھی زندہ رہتا تھا اور امام الحرمین سے یہ بھی منقول ہے کہ ممکن ہے کہ جبرئیل اپنی اصلی صورت میں آتے ہوں مگر وہ سکڑ کر آدمی کی صورت میں بقدر انسانی جثہ کے بن جاتے ہوں اور جب جاتے ہوں تو پھر اپنی صورت میں آ جاتے ہوں۔ اس کے ثبوت میں روئی کی مثال دیہے کہ پھولی ہوئی روئی کو جب دبائو تو چھوٹی سی ہو جاتی ہے اور جب چھوڑا تو پھر پھول کر بڑی ہو جاتی ہے (فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد اول صفحہ ۲۰) بعض علماء نے اس طرح پر بحث کی ہے کہ جب جبرئیک دحیہ کی صورت میں آتے تھے تو ان کی روح کہاں ہوتی تھی۔ اگر وہ جسم میں ہوتی تھی جس کے چھ سو پر ہیں تو جو آنحضرتؐ کے پاس آتاتھا وہ جبرئیل کا جسم ہوتا تھا اورنہ اس کی روح اور اگر رو ح جبرئیل کی اسی جسم میں ہوتی تھی ج ودحیہ کی صورت میںآنحضرتؐ کے پاس آتا تھا تو حضرت جبرئیل کا اصلی جسم مر جاتا تھا یا بغیر روح کے رہتا تھا۔ آخر کو یہ قرار دیا کہ دحیہ کی صورت میں روح آنے سے اصلی جسم کا مر جانا لازمی نہیں ہے (عینی شرح بخاری جلد اول صفحہ ۵۴) غرض کہ علماء نے اس باب میں ایسی تقریریں کی ہیں کہ ہماری سمجھ تو اس کے سمجھنے سے قاصر ہے‘ مگر ان علماء نے نفس انسانی کے خواص پر غور نہیں کی ۔ انسان کے نفس میں ایسی قوتیںمخفی ہیں جن کو اس زمانہ میں قوت مقناطیسی سے تعبیر کیا جاتاہے جس سے مختلف طرح کے عجائبات ظہور میں آتے ہیں۔ وہ قوت دوسرے انسان کے نفس پر اثر کرتی ہے۔ اورخود اپنے نفس پر موثر ہوتی ہے۔ جب کہ انسان تمام دیگر تعلقات سے اپنیپ تئیں منقطع کر کے ایک جانب متوجہ ہوتا ہے تو اس کو ایسا استغراق ہو جاتا ہے کہ سوائے اس کے تمام دیگر موجودات اور خیالات اس سے محو ہو جاتے ہیں اور بجز اسی ایک خیال کے اور کچھ اس کے خیال میں نہیں رہتا ۔ خواب میں وہ اسی خیال کے متعلق بہت سے امور دیکھتے ہیں۔ جب وہ خیال ذات باری اور صفات باری میں منہمک ہوتا ہے تو نفس کے تقدس اور تقرب الی اللہ کی دلیل ہوتا ہے۔ وہ خدا کو دیکھتا ہے جس کا جواب موسیٰ سن چکا تھا ’’لن ترانی‘‘ اور دیگر عجائبات ملکوت اس کے خیال کے مطابق اس کو دکھائی دیتے ہیں۔ ترمذی میں رسول خدا سے معاذ ابن جبل کی روایت ہے: انی قمت من اللیل فتوضات فصلیت ما قدر لی فنعست فی صلواتھا فاسثقلت فانا بربی تبارک و تعالی فی احسن صورۃ (الحدیث) (ترمذی صفحہ ۵۳۵)۔ ’’میں رات کو اٹھا اور وضو کیا اور نماز پڑھی جتنی ہو سکی۔ پھرمیںنماز میں اونگھ گیا اور بوجھل ہو گیا… دفعۃً میںنے خدا کو دیکھا اچھی صورت میں‘‘ اور ترمذی کی دوسری روایت میں ہے جو ابن عباس سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اتانی اللیلۃ ربی تبارک و تعالی فی احسن صورۃ قال احسبہ فی المنام (الحدیث ) ترمذی صفحہ ۵۳۵) (ترجمہ) ’’رات کو خدا میرے پاس آیا اچھی صورت میں ابن عباس کہتے ہیں کہ میںسمجھتا ہوں کہ آنحضرت نے فرمایا تھا سونے میں‘‘۔ جس طرح سونے کی حالت میں تعلقات ظاہرہ منقطع ہو جاتے ہیں اور جس میں انسان کو انہماک ہے وہی خیالات مجسم صورت میں انسانی کو دکھائیدیتے ہیں وہی حالت انسان پر بیداری میں حالت استغراق اور انہماک میں طاری ہوتی ہے اور بیداری میں بھی اسی طرح سب چیزیں اپنی آنکھ سے دیکھتاہے جیسے کہ حالت خواب میں دیکھتا ہے وہ بن آواز دینے والے کے سنتا ہے۔ بغیر کسی موجود فی الخارج کے موجود فی الخارج دیکھتا ہے۔ بغیر موجود ہونے کسی بات کہنے والے کے وجود موجود کو متکلم پاتاہے۔ چونکہ ذات پاک انبیاء علیہم السلام کی بہت زیادہ مقدس اور منہمک فی اللہ اور فی صفات اللہ ہوتی ہے ان کو کامل استغراق فی ذات اللہ اور فی صفات اللہ ہوتا ہے اسی استغراق اور انہماک کے سبب کبھی بغیر کسی آواز کرنے والے کے آواز سنتے ہیں اور بغیر کسی موجود کے ایک وجود موجودکو پاتے ہیں جو ان سے اور وہ ان سے کلام کرتے ہیں۔ اسی حالت کے واقعات ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فرشتہ آدمی کی صورت بن کر مییر سامنے آتا ہے مجھ سے بات کرتا ہے اور جو وہ کہتا ہے اس کو یاد کر لیتا ہوں۔ وھو الصادق المصدوق وماقالہ فھو حق نو منبہ و نصدقہ۔ پس یہ سب صورتیںوہ ہیں جن کو خود نفوس مقدسہ پیدا کرتے ہیں نہ اور کچھ اولیا ء اللہ پر بھی یہ حالت طاری ہوتی ہے اور اس حالت میں جو انکشاف ان کو ہوتا ہے اس کو مشاہدہ اور مکاشفہ اور الہام اور نفث فی الروع سے تعبیر کرتے ہیں۔ وھذا ما نفث ربی فی روعی۔ ٭٭٭ عبادت (تہذیب الاخلاق بابت ۱۵ محرم ۱۲۸۸ئ) تمام نیکیاں اور عبادتیںجو قانون قدرت کے برخلاف ہیں پوری نیکیاں اور عبادتیں نہیں ہیں مگر افسوس ہے کہ بہت سے لوگ اس کا خیال نہیں کرتے ۔ اگر صرف اس کا خیا ل ہی نہ کیا جاتا تو چنداں مشکل نہ تھی۔ دقت یہ ہے کہ قانون قدرت کے مطابق جو نیکیاں اور عبادتیں ہیں ان کو نیکیاں اور عبادتیں ہی نہیں سمجھتے ۔ اس مطلب کے ثابت کرنے کو ہمارے لیے ارشاد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا کافی اور وافی ہے اور س کے بعد کسی دوسرے قول و فعل کی سند کی حاجت نہیں۔ عن انسا قال جائثلثۃ رھط الی ازوا ج النبی صلعم یسالون عن عبادۃ النبی فلما اخبرو ا بھا کانھم تقالوھا فقالو این نحن من النبی صلی اللہ علیہ وسلم و قد غفر اللہ ما تقدم من ذنبہ وماتاخر فقال احدھم اما انا فاصل اللیل ابداً وقال الاخرانا اصوم النھار ابداً والا افطر وقال الاخر انا اعتزل النساء فلا اتزوج ابداً فجاء النبی صلعم الیھم فقال انتم الذین قلتم کذا و کذا واللہ انی لاخشاکم للہ واتقاکم لہ لکننی اصول و افطرو اصلی و ارقدو اتزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی ۔ متفق علیہ۔ بخاری و مسلم نے حضرت انسؓ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ عرب کی تین قوموں کے کچھ لوگ پیغمبر خدا صلعم کی دریافت کرنے کو آئے۔ جب ان کو بتایا گیا تو انہوں نے اس کو بہت کم سمجھا اور آپس میں کہنے لگے کہ کجا ہم اور کجا پیغمبر صاحب۔ ان کو تو بہت سی عبادت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کو تو اللہ تعالیٰ نے اگلے پچھلے گناہوں سے پاک کر دیاہے پھر ان میںسے ایک نے کہا کہ ہم تو ہمیشہ تمام رات نماز پڑھا کریں گے ار دوسروں نے کہا کہ ہم ہمیشہ دن کو روزہ رکھا کریں گے اور کبھی روزہ نہ چھوڑیں گے اور وں نے کہا کہ ہم عورتوں کے پاس نہ جاویں گے اورکبھی جورو نہ کریں گے ۔ اتنے میں جناب پیغمبر خدا صلعم تشریف لے آئے اور فرمایا کہ تم نے ایسی ایسی باتیں کہی ہیں جانو خدا کی قسم میں تم سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں اور تم سے زیادہ اس کے حضور میں پاک رہنا چاہتا ہوں‘ لیکن میں تو روزہ رکھتابھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا اور نما ز پڑھتا بھی ہوں سو بھی رہتا ہوں۔ عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں پھر جو کوئی میرے طریقہ کو پسند نہ کرے وہ میرے ساتھیوں میں سے نہیں ہے۔ یہ حدیث ہم مسلمانوں کے لیے بہت بری سند کی بات ہے کہ اصلی اور سچی عبادت وہی ہے جو قانون قدرت کے اصول کے مطابق ہے۔ تمام قویٰ جو خدا تعالیٰ نے انسان میں پیدا کیے ہیں وہ اس لیے پیدا نہیں کیے کہ وہ بیکار کر دیے جاویں بلکہ اس لیے پیدا ہوئے ہیں کہ سب کام میں لائے جاویں ۔ شریعت حقہ مصطفویہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام نے کوئی نئی بات نہیں پیدا کی بلکہ صرف ان قویٰ کے کام میں لانے کے طریقہ کو بتایا ہے جس سے جملہ قویٰ اعتدال پر اور شگفتہ و شاداب رہیں اور ایک کے غلبہ سے دوسرا بیکار اور پژمردہ نہ ہو جاوے‘ مگر بہت ہی کم لوگ ہیں جو اس نکتہ کو سمجھتے ہیں بلکہ اس طریقہ کو جس کو ہمارے پیغمبر خد اصلعم نے رہبانیت قرار دیا ہے اور جس کو ہندی زبان میں جوگی یا جوگ کہتے ہیں کمال عبادت اور منتہائے زہد و تقویٰ قرار دیتے ہیں۔ فرائض جو مذہب اسلا م میںہیں ان کا ادا کرنا بلاشبہ باعث نجات ابدی ہے : عن ابی ھریرۃ قال اتی اعرابی النبی صلعم فقال دلنی علی عمل اذا عملۃ دخلت الجنۃ قال تعبداللہ ولا تشرک بہ شئیا وتقیم الصلوۃ المکتوبۃ و تودی الذکوۃ المفروضۃ و تصوم رمضان قال والذی نفسی بیدہ لا ازید علی ہذا شئیا ولا انقض منہ قال والذی نفسی بیدہ لا ازید علی ھذا شئیا ولا انقض منہ فلما ولی قال النبی صلعم من سرہ ان ینظر الی رجل من اہل الجنۃ الی ھذا۔ متفق علیہ۔ بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہؓ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ ایک دہقانی عرب پیغمبر خدا صلعم کے پاس آیا اور کہا کہ مجھ کو ایسی بات بتائیے کہ میں اگر اس کو کیا کروں تو بہشت میں جائوں۔ آپ نے فرمایا کہ خدا ہی کی عبادت کیا کرو۔ اور کسی دوسرے کو اس کی عباد ت میں مت ملا اور فرض نمازیں پڑھ اور زکوٰۃ دیا کر اور رمضان کے روزے رکھا کر۔ اس نیکہا کہ خدا کی قسم نہ تو میںاس میں کچھ بڑھائوں گا اورنہ گھٹائوں گا ۔ جب وہ پیٹھ پھیر کر چلا تو آںحضرت صلعم نے فرمایا کہ جو شخص جنتی آدمی کو دیکھنا چاہے تو اس شخص کو دیکھ لے۔ غرض کہ ادائے فرائض بلاشبہ اصلی عبادت ہے جس کا ادا کرنا ہر شخص مکلف پر فرض ہے‘ مگر ہم اس مقام پر فرائض کے سوا جو اور عبادتیں ہیں ان سے بحث کرنی چاہتے ہیں اور ان میں بھی اس بات سے بحث کرنا مقصود نہیں ہے کہ وہ عبادتیں عبادتیں نہیں ہیں بلکہ اس بات سے بحث منظور ہے‘ کہ عبادت کو انہی میں منحصر سمجھنا غلط ہے اور یہ کہ بعضی دفعہ بسبب تبدل حالت کے ادنیٰ درجہ کی عبادت اعلیٰ درجہ کی نہیں رہتی اور شریعت محمد یہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام میں یہی ایک حکمت بالغہ ہے جس سے تمام قوانین قدرت قائم رہتے ہیں الا افسوس ہے کہ اس زمانہ میں اکثر لوگوں کو اس حکمت بالغہ پر خیال نہیں ہے۔ ہمارے زمانہ کے مسلمان بھائیوں نے سوائے فرائض کے باقی عبادتوںکو صرف نماز روزہ و تلاوت قرآن مجید اور خیالی ترک دنیا اور درس و تدریس دینیہ اور اوراد ماثورہ یا وظائف مقررہ پیران ہی میں منحصر کر رکھا ہے‘ حالانکہ انہی پر ان کا انحصار محض غلط ہے‘ بلکہ ان میں سے بعض ایسے درجہ رپ پہنچ گئے ہیں اور بہت سی ایسی متروک ہیں جو بسبب تغیر و تبدل حالت کے ان سے بھی مقدم اور اعلیٰ ہیں۔ اب ہم اپنے اس مطلب کو چند مثالوں سے بیان کرنے سے زیادہ وضاحت سے بیان کرتے ہیں۔ علم مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ علمی عبادت صرف علوم دینیہ ہی کے پڑھنے پر منحصر ہے اور اس کے سوا کسی علم کا پڑھنا یا پڑھانا یا اس پر روپیہ خرچ کرنا داخل عبادت نہیں اور اسی لیے ثواب بھی نہیں۔ ان میں یہ مثل مشہور چلی آتی ہے کہ : علم دیں فقہ است و تفسیر و حدیث ہر کہ خواند غیر ازیں گردد خبیث مگر یہ خیال ان کا محض غلط ہے اور اسی سبب سے مسلمانوں میںروز بروز علم کا تنزل ہے اور جس کے ساتھ خود علم دین بھی معدوم ہوتا جاتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ علم کے معنی دانستن کے ہیں۔ علوم دینیہ کا صرف جاننا نہ کچھ عبادت ہے اور نہ کچھ ثواب۔ البتہ وہ اس وقت عبادت یا ثواب ہو سکتا ہے جب کہ اس کو امور دینی کے کام میں لانے کی نیت سے پڑھا جاوے۔ پس مدار عبادت اور ثواب تحصیل علوم دینیہ کانیت پر منحصر رہا نہ نفس علم پر۔ یہی حال تمام باقی علوم کا ہے۔ تمام علوم جن کو علوم دنیوی کہتے ہیں واسطے ترقی اور استحکام اور تعلی علوم دینی کے ضروری ہیں گو ا ن کا پڑھنا فی نفسہ عبادت نہ ہو جیسا کہ علوم دینیہ کا پڑھنا بھی فی نفسہ عبادت نہ تھا مگر جب ک وہ اس نیت سے پڑھے جاویں یا پڑھائے جاویںکہ علوم دینیہ کے لیے مثل آلہ بن جاویں تو ان کا پڑھنا یا پڑھانا ویسا ہی عبادت ہے جیسا کہ علوم دینیہ کا تھا۔ پس ایک کو عبادت سمجھنا او ر دوسرے کو نہ سمجھنا کیسی غلطی ہے۔ علاوہ اس کے وہ علوم بھی جن کو ہم علوم دنیوی کہتے ہیں اگر ان کی تعلیم نیک طرح پر ہو تو باعث ترقی ایمان اور سبب محبت اور ترقی معرفت ذات باری تعالیٰ جل شانہ کے ہوتے ہیں۔ امام غزالی صاحب احیاء العلوم میں جہاں خدا تعالی ٰ کی محبت کے اسباب کو بیان فرماتے ہیں لکھتے ہیں کہ قوت معرفت سبب قوت محبت ہے اور ی بات خدا تعالیٰ کی صفات اور ملکوت سموات و ارض پر دھیان لگانے سے ہوتی ہے اس لیے کہ کوئی ذرہ آسمان و زمین سے ایسا نہیں ہے جو اس کی حکمتوں اور عجیب نشانیوں سے خالی ہو۔ جس ذرہ پر نظر کی جاوے وہ اس کی قدرت کاملہ پر شہادت دیتا ہے۔ اور جس برگ درخت پر نظر کی جاوے‘ اس کی حکمت بالغہ پر دلالت کرتا ہے۔ زمین نے نہیں اگتا کہ اپنے اگانے والے کی توحید پر ہزار زبان سے اقرار نہ کرتا ہو اور اس کی قدرت کاملہ پر ہزار کی طرح سے شہادت نہ دیتا ہو۔ جس درخت پر نظر کی جاوے ہر ورق ا س کا اللہ جلشانیہ کی وحدانیت کا مقر ہے اور جس ورق پر غور کیا جاوے اس کی معرفت کا دفتر ہے اوران سب باتوں کا علم باعث ایمان کامل اس قادر مطلق پر ہے جس کی عبادت کرنا عین مسلمانوں کا ایمان ہے۔ پس تمام علوم دنیوی اس اعتبار سے علوم دینیہ سے کم نہیں ہیں۔ جس وقت کہ ہم علم ریاضی پڑھ کر خدا تعالیٰ کی اس قدر ت کاملہ سے واقف ہوتے ہیں جو خلق آسمان و زمین و کواکب سیارہ و ثوابت میں کام آئی ہے اورکتنے بڑے بڑے کرات کو کیسی سریع حرکت س معلق پھرتے دیکھتے ہیں اور اس کی عجائب حکمت کو دریافت کرتے ہیں تو کس طرح ہم کو وجود صانع اور اس کی قدرت کاملہ پر یقین ہوتاہے۔ جس وقت کہ ہم علم ارض یعنی جیالوجی پڑھتے ہیں اور ان عجائبات سے واقف ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے صرف اس کرہ خاک میں بنائے ہوئے ہیں جودن رات ہمارے پائوں تلے روندا جاتا ہے تو ہم کو کیسا مستحکم اس خدا کی خدائی پر یقین ہوتا ہے۔ علم نباتات اور علم حیوانات سے جب ہم کو واقفیت ہوتی ہے تو پھولوں کی پنکھڑیوں کی رنگت آمیزی اور مکھی کی آنکھ کی پچکاری ہی ہم کو اس حکیم مطلق کی حکمت کاملہ پر یقین کامل دلاتی ہے ۔ اسی طرح تمام علوم کیا علم آپ کیا علم ہوا اور کیا علم جوثقیل اور کیا علم برق و مقناطیس سب کے سب ہماری معرفت کر قوت اور ہمارے ایمان کو خدائے واحدپر پختہ اور مستحکم کرتے ہیں اور حق الیقین بلکہ عین الیقین کے مرتبہ تک پہنچاتے ہیں۔ پس اگر اس اعتبار سے ہم ان علوم کو بھی علوم دینیہ کے شامل سمجھیں تو کچھ بعید نہیں ۔ بعض علماء نے علم معقول او ر علم کلام دونوں کا پڑھنا ناجائز سمجھا تھا۔ او ر بعضون نے ا س کے برخلاف ان کو ضروری ٹھہرایا تھا۔ ہم اس کے جائز یا ناجائز ہونے کی بحث سے درگزر کر کے یہ کہتے ہین کہ وہ علم معقول جس پر علما ن انکار کیا صرف یونانی حکیموں کے عقلی تکے تھے ۔ وہ اپنی عقل ناقص سے خد ا کی ذات و صفات سے بحث کرتے تھے جس کا الٰہیات انہوں نے نام رکھا تھا ۔ وہ علوم ان کے ساتھ گئے اب جو نئے علوم پیدا ہوئے عقلی نہیں ہیں‘ نہ الٰہیات سے علاقہ رکھتے ہیں۔ وہ تو اشیاء موجودہ کے حقائق کے علو م ہیں جن سے ہر ایک شے جس کو ہم دیکھتے ہیں اس کی حقیقت معلوم ہوتی ہے ۔ پس ان علوم کو اس قدی یونانی معقولات پر قیاس کرنا کتنی بڑی غلطی کی بات ہے ۔ وہ علم تو ہماری عقلوں کو گمراہ کرنے والے تھے اوریہ علم حقیقت اشیاء کے بتانے والے اور خد اکی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ پر یقین دلانے والے ہیں۔ بعضے کٹ ملا یہ کہتے ہیں کہ ان علوم میں بھی جو حقیقت بعض اشیاء کی ثابت کی گئی ہے وہ مذہب اسلام کے برخلاف ہے اور اس لیے ان علوم سے بھی عقائد اورمسائل اسلام میں نقصان آنے کا احتمال ہے مگر ایسی رائے پر بجز افسوس اور نفرین کے کیا کہا جا سکتا ہے ‘ ایسے شخص کا مطلب یہ ہے کہ نعوذ باللہ مذہب اسلام حقیقت کے برخلاف ہے۔ ایسے شخص کی نسبت یہ کہنا چاہیے کہ یا تو وہ مذہب اسلام کی حقیقت سے واقف نہیں ہوا یا اس کو مذہب اسلام کے سچے ہونے پر کامل یقین نہیں ہے۔ اب ہم اس خیال کو کہ عبادت صرف علوم دینیہ ہی کا پڑھنا اورپڑھانا ہے دوسری طرح باطل کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے انسان میں وہ تمام قویٰ پیدا کیے ہیں جن سے وہ علم دین اور وہ علوم جن کو دنیاوی علوم کہتے ہیں دونوں کو حاصل کر سکتا ہے ۔ پس ان دونوں قوموںکو ہمیں کام میں لانا چاہیے تاکہ ہم نے خالق کی مرضی کے مطابق کام کیا ہو نہ یہ کہ ایک کو شگفتہ و شاداب اور دوسرے کو معطل و بیکار کر دیں کیونکہ یہ امر قانون قدرت کے برخلاف ہے اور اس لیے نیکی نہیں ہو سکتا اورجب نیکی نہیں ہو سکتا تو عبادت بھی نہیں ہو سکتا۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ہم ان دونوں قوتوں کو حد اعتدال پر رہنے دیں اور ایک کو دوسرے سے مغلوب نہ کر دیں۔ خدا تعالیٰ نے ہم کو ہمارا مذہب ایسا عمدہ دیا ہے جو ہماری معاد اورمعاش دونوں کو قانون قدرت کے مطابق اصلاح کرنے والا اور ترقی دینے والا ہے ۔ جس طرح کہ ہم اس بات کو خیال کر سکتے ہیں کہ اگر تمام لوگ صرف علوم دنیوی کی تحصیل کیا کریں تو دین کا حال ہو گا کہ اسی طرح اگر تمام لوگ صرف علوم دینی ہی پڑھا کریں تو ہماری دنیا کا جس کی اصلاح شریعت سے خارج نہیں ۃے ۔ کیا حال ہو گا۔ بلکہ علوم دنیاوی کے معدوم ہونے سے دین اور علوم دینی دونوں کے معدوم ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم دونوں قسم کے علوم کی ترویج پر سعی و کوشش کریں اور ایک کو دوسرے کا آلہ کار سمجھ کر دونوں پر پڑھنا اور پڑھانا داخل عبادت جانیں۔ قطع نظر ان سب باتوں کے اکل حلال کا پیدا کرنا ہر شخص پر فرض ہے اور اس کے لیے اسباب و سامان اور ذریعے اور وسیلے بہم پہنچانے بلاشبہ ثواب اور داخل عبادت ہوں گے۔دنیوی علوم بلاشبہ کسب حلال کے لیے نہایت عمدہ ذریعے اور وسیلے ہیں۔ پس مسلمانوں کے لے ان ذریعوں کو مہیا کرنا بلاشک و شبہ بہت بڑی نیکی اور عمدہ ثواب تصور کیا جائے گا اور اس لیے ٹھیک عبادت ہو گا۔ زہد و ریاضت ایک بڑی غلطی جس میں مسلمان پڑے ہیں وہ یہ ہے کہ انہوںنے زہد و ریاضت کو صرف راتوں کو جاگنے اور ذکر و شغل کرنے اورنفل پڑھنے وارنفلی روزہ رکھنے پر منحصر سمجھا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ ان کا ایسا کرنا اور حد اتعدال سے گزر جانا جو قانون قدرت کے برکلاف ہے مقصود شارع ہے یا نہیں ‘ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ وہ عبادت صحیح ‘ مگر اس کے سوا اورنیک باتوں کو عبادت نہ سمجھنا جو ان سے بھی بہت زیادہ مفید ہیں بہت بڑی غلطی ہے ۔ زہد و ریاضٹ جہاں تک کہ حد شرعی سے تجاوز نہ کرے بلاشبہ نیکی و عبادت ہے ۔مگر عام فلاح پر کوشش کرنا اور دنیوی حال اور مال کی بھلائی اور بہتری کے ہوں اس سے بہت زیادہ تو مفید ہے۔ زہد و ریاضت ایک بخیل نیکی ہے جو صرف اپنی ذات کے لیے کی جاتی ہے۔ اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جو ایک کوٹھڑی میں بیٹھ کر کھانا کھاوے اورسرف اپنا پیٹ بھر لے۔ عام فلاح چاہنے والا جو اس کام میں زہد و ریاضت کرتا ہے‘ اس کی مثال حاتم کی سخاوت کی سی ہے جو ہزاروں آدمیوں کو کھلا کر کھاتا ہے ۔ پس کیسی غلطی ہے جو تن پروری کو تو عبادت سمجھا جاوے اور اصلی فیاضی اور سخاوت اور ہمدردی کو عبادت نہ سمجھا جاوے۔ علاوہ اس کے درجہ ثواب و عبادت تبدل حالا ت سے بالکل بدل جاتا ہے۔ فرض کرو کہ اگر کسی مقام میں پانی کا قحط ہو تو اس کی جگہ بیتھ کر نفل پڑھنے یا قرآن مجید کی تلاوت کرنے یا ذکر و شغل کی ضرب لگانی زیادہ ثواب کی بات ہے یا کند ہے پر پانی لانا اورلوگوں کو پلانا زیادہ ثواب ہے۔ پس جو حالت کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کی ہے ‘ اگر ان کی بہتری پر سعی کی جاوے تو نفل و رات کے جاگنے کی ریاضت سے بلاشبہ زائد ثواب ہے۔ انصاف سے دیکھو کہ اگر پیر جی صاحب مریدوں سے حلو ا انڈے لینے کے بدلے مسلمانوںکی تعلیم کے لیے کچھ جمع کریں اورجناب مولوی صاحب قبلہ جومنبر پر بیٹھ کر دنیا کے ہیچ اور اہل دنیاکے کافر ہونے کا وعظ فرماتے ہیں‘ مگر جب سفید گول گول نذر پیش ہوتی ہے تو جھٹ ہاتھ لمبا کر کر اور ایک عجیب شرہ غمزہ سے اٹھا کر جیب مبارک میںرکھ لیتے ہیں اگر اسی پلید و ناپاک دنیا‘ یعنی نزر کو مسلمانوں کی تعلیم میں‘ دنیوی نہ سہی‘ دینی ہی تعی میں صرف کریں تو کیسا کچھ ثواب کمائیں۔پس جھوٹ موٹ کی عبادت اور دکھلاوے کی ریاضت جس سے انسان کا دل بعوض نرم ہونے کے پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو جاتا ہے ہماری سمجھ میں تو کچھ کام کی نہیں ہے۔ ترک دنیا ایک اور جھوٹا اور غلط خیال یہ ہے کہ ترک دنیا عبادت ہے۔ یہ ایک ایسا غلط اور جھوٹا قول ہے کہ اس سے زیادہ دوسرا نہیں ہو سکتا۔ دنیا کا ترک کرنا جس طرح کہ لوگ سمجھتے ہیں غیر ممکن ہے۔ البتہ جس طرح شارع نے فرمایا ہے کہ اور ترک دنیا سے جو اس نے مراد لی ہے وہ بالکل صحیح اور نہایت درست او ر بالکل قانون قدرت کے مطابق ہے مگر اس زمانہ کے لوگوں کے خیال کے مطابق شارع والی ترک دنیا عی شقاوت او ر کمال دینداری ہے۔ نعوذ باللہ منہا۔ دنیا ہمارے لیے پیدا ہوئی ہے اور ہم دنیا کے لیے ۔ پھر ہم اس کو اس طرح پر جس طرح کہ جھوتے دنیا ترک کرنے والے ترک کرنے کو کہتے ہیں‘ کیونکہ ترک کر سکتے ہیں۔ ہاں جس طرح کہ شارع نے دنیا کا ترک کرنا بتایا اس طرح پر ترک کرنا سچا ہے اوروہ یہ ہے کہ ہم دنیا کو اس طرح پر پکڑیں جس طرح کہ شارع نے بتایا ہے ۔ نہ اپنے جذبات نفسانی کی مرضی پر اور اس کو اس طرح پر کام میں لاویں جس طرح قانون قدرت نے ہم کو سکھایا ہے ‘ نہ اپنی ہوائے نفسانی کے مطابق۔ لنڈن میں ایک یوروپین لا مذہب میرا دوست تھا۔ اس کو اس بات کے معلوم ہونے سے کہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اور ان کی وعظ نصائح کو جو انجیلوں میں مندرج ہیں مانتا ہوں‘ نہایت تعجب تھا۔ لنڈن میں دستور ہے کہ اتوار کے دن تمام دوکانیں بند ہو جاتی ہیں ارو اگر ایک دن پہلے نہ خرید لیں تو کھانے پینے کی بھی کوئی چیز نہیں ملتی۔ ایک دفعہ وہ دوست اتوار کے دن کھانے کے وقت مجھ سے ملنے آیا اورمیز پر تمام کھانے کی چیز چنی ہوئی دیکھ کر تعجب سے پوچھنے لگا کہ آج یہ سب چیزیں آپ کو کیونکر میسر ہوئیں؟ میں نے کہا کہ ہفتے کے دن سب کچھ لے رکھا تھا۔ وہ ہنس کر بولا کہ خوب ہوا جو آپ نے حضرت مسیح ؑ کے اس قول پر کہ اس بات کی فکر مت کرو کہ کل کیا کھائو گے۔ عمل نہیں کیا۔ ورنہ آج بھوکے رہ جاتے۔میںنے ہنس کر کہا کہ یہ مطلب اس کا نہیں۔ پس جو مسلمان کہ خلاف قانون قدرت ترک دنیا کا وعظ فرماتے ہیں وہ اسی طرح سے اپنے مذہب کو مضحکہ خیز بناتے ہیں اور غور کر کے دیکھو تو وہ خود جو کچھ کرتے ہیں دنیا ہی کمانے کو کرتے ہیں۔ پس یہ بات سمجھنا کہ امورات دنیا میں مصروف ہونا عبادت نہیں ہے‘ عین غلطی ہے۔ ہاں اس کو قانون قدرت کے برخلاف استعمال میںلانا شقاوت اور اس کے مطابق برتائو میں لانا عین عبادت ہے۔ ٭٭٭ خلافت (از ’’آخری مضامین سرسید‘‘) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک میں تین صفتیں جمع تھیں۔ اول نبوت ‘ یعنی شریعت کے احکام کا خدا کی طرف سے آپ کے پاس پہنچنا ۔ دوم ان احکام کی لوگوں میں تبلیغ۔ سوم ملکی سیاست اورنفاذ احکام اور محافظت احکام شریعت کی قوت اوراہل ملک کی حفاظت اور قوت اور طاقت سے مخالفین کی مدافعت۔ پہلا امر رسول خداصلی اللہ علیہ ولم کے انتقال پر ختم ہو گیا۔ اور اس امر میں کوئی شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ اور نائب نہ تھا اورنہ ہے اور نہ ہو سکتاہے۔ دوسرے امر میں تمام فقہا اورعلماء اور محدثین جو احکام شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی لوگوں میں تبلیغ کرتے ہیں‘ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ یا نائب تصور ہو سکتے ہیں اور اسی واسطے بعض مفسرین نے آیت یا ایھا الذین آمنو ا اطیعو اللہ و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم میں جو لفظ اولی الامر کا ہے اس میں آئمہ اہل بیت علیہم السلام اور علماء اور فقہا ء کو داخل کیا ہے۔ تیسرے امر میں وہ لوگ جو کسی ملک کو اپنے قبضہ میں رکھتے ہیں اوراس کی سیاست کے مختار ہیں اورنفاذ احکام اور محافظت احکام شریعت کی قوت او اہل ملک کی حفاظت اور قوت اور طاقت سے مخالفین کی مدافعت کر سکتے ہیں وہ لوگ ا س امر میں خلیفہ یا نائب رسول تصور ہو سکتے ہیں‘ بشرطیکہ وہ خود صفات اور اخلاق محمدی سے موصوف اور تمام احکام شرعی کے پابند ہوں اور تقدیس ظاہری اور باطنی ان کو حاصل ہو اور بعض مفسرین نے سرداران لشکر اسلام کو بھی اولی الامر میں شامل کیا ہے جن کے ماتحت بہت سے لوگ ہوتے ہیں۔ سلاطین اسلام جو کسی ملک پر سلطنت رکھتے ہوں ۔ ممکن ہے کہ اس تیسرے امر کے لحاظ سے اپنے تئیں خلیفہ کے لقب سے ملقب کریں مگر ان کی خلافت یا سلطنت اسی ملک پر اور اسی ملک کے مسلمان باشندوں پر محدود رہے گی جو ان کے قبضہ اقتدار میں ہے نہ اس ملک کے مسلمان باشندوں پر جو ان کے قبضہ ملک پر قبضہ اور سلطنت رکھتا ہو اوراحکام حدود قصاص اس میں جاری کر سکتا ہو۔ اس کا حکم اس میں جاری ہو دین کی حمایت کرتا ہو‘ دشمنوں کے ہاتھ سے اس کے ملک کے باشندوں کو محفوظ رکھا سکتا ہو اور اس ملک میں امن قائم رکھنے کی قوت اس کو حاصل ہو ۔ پس جس ملک میں کسی مسلمان بادشاہ کو ایسا اختیار اور اقتدار نہ ہو وہ اس ملک کے لیے یا اس ملک کے مسلمان باشندوں کے لیے خلیفہ نہیں ہو سکتا نہ خلیفہ کہلایا جا سکتا ہے۔ سلطان ترکی کے خلیفہ ہونے کی نسبت جو اس پر بحث کی جاتی ہے کہ وہ نسل قریش سے نہیں ہیں اورجو لوگ ان کو خلیفہ جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ روایت جس میں خلیفہ کے قریشی النسل ہونے کا ذکر ہے صحیح نہیں ہے۔ ہم ان تمام بحثوں سے قطع نظر کرتے ہیں اورسلطان کو خلیفہ تسیم کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اگر وہ خلیفہ ہیں تو اس ملک کے اور اس ملک کے مسلمان باشندوں کے خلیفہ ہو سکتے ہیں‘ جس میں ان کی حکومت ہے اور جس میں ان کو قتل و قصاص اور احکام دین کے قائم رکھنے کا اختیار حاصل ہے نہ وہ قتل و قصاس کے احکام کو جاری کر سکتے ہیں نہ دین کو قائم رکھ سکتے ہیں نہ وہاںکے مسلمانوں کی حفاظت کر سکتے ہیں ایسے ملک میں وہ شرائط نہیں پائی جاتی جو خلیفہ ہونے کے لیے ضرور ہے اور اس لیے وہ اس ملک یا اس ملک کے مسلمانوں کے باشندوںکے لیے خلیفہ نہیں ہو سکتے۔ ہم مسلمان ہندوستن کے رہنے والے گورنمنٹ انگریزی کی رعیت ہیں اور گورنمنٹ انگریزی میں مستا من ہو کر رہتے ہیں۔ گورنمنٹ انگریزی نے ہم کو امن دیا ہے اور ہم کو ہر طرح کی مذہبی آزادی بخشی ہے ۔ باوجودیکہ گورنمنٹ انگریزی عیسائی مذہب رکھتی ہے ۔ اگر کوئی عیسائی مسلمان ہو کر جاوے تو وہ ایس طرح کچھ مزاحمت نہیں کرتی۔ جس طرح کہ کسی مسلمان کے عیسائی ہو جانے سے نہیں کرتی۔ مشنری پادریوں کو گورنمنٹ سے کچھ تعلق نہیں ہے جس طرح کہ وہ وعظ کرتے ہیں اسی طرح سینکڑوں مسلمان مذہب اسلام کا وعظ کرتے پھرتے ہیں ۔ اگر مسلمان عیسائی ہو جاتا ہے تو ہمیشہ کوئی نہ کوئی عیسائی بھی مسلمان ہو جاتا ہے۔ پس گورنمنٹ انگریزی نے ہم مسلمانوں کو جو بطور رعیت کے مستامن ہو کر اس کی عملداری میں رہتے ہیں کافی طور پر مذہبی آزادی دے رکھی ہے علاوہ اس کے گورنمنٹ انگریزی میں ہماری مال و جان کی حفاظت ہوتی ہے۔ ہمارے تمام ھقوق جو نکاح ‘طلاق‘ وراثت ‘ وصیت ‘ ھبہ و وقف سے متعلق ہیں بموجب شرع اسلام ک ہم کو ملتے ہیں‘ گو کہ اس قسم کے مقدمات ایک عیسائی حاکم کے سامنے پیش ہوں ‘ کیونکہ عیسائی حاکم مجبور ہے کہ ان کو بموجب شرع اسلام کے فیصل کرے اور اس لیے ہمارا مذہبی فرض ہے کہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے خیر خواہ اور وافادار رہیں اور کوئی بات قولاً و فعلاً ایسی نہ کریں جو گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی اور وفاداری کے برخلاف ہو۔ سلطان عبدالحمید خاں خلد اللہ ملکہ کی ہم رعیت نہیں ہیں نہ ان کو ہم پر یا ہمارے ملک پر کسی قسم کا اقتدار حاصل ہے۔ پس وہ بلاشبہ ایک مسلمان بادشا ہیں اور بوجہ اتحاد اسلامی کے ہم ان کی بھلائی سے خوش ہیں اور ان کی برائی سے ناخوش ہوتے ہیں۔ مگر کسی طرح نہ شرعا نہ مذھباً نہ خلیفہ ہیں نہ خلیفہ ہو سکتے ہیں۔ اگر ان کو کوئی حق خلافت ہے تو وہ اسی ملک پر ہے اور اسی ملک کے مسلمانوں پر محدود ہے جو ان کی عملداری میں رہتے ہیں۔ تاریخ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ جن مسلمان بادشاہوں نے لقب خلیفہ کا اختیار کیا ان کی خلافت اسی ملک اور اسی ملک کے باشندوں پر محدود رہی ہے جو ان کی سلطنت میں شامل اور ان کے قبضہ اقتدار میں داخل تھے اور جو ملک ان کی سلطنت میں نہ تھے ان کی خلافت یا امامت یا سلطنت سے ان کو کچھ تعلق نہ تھا۔ چنانچہ اس مقام پر ہم تاریخانہ طور سے خلفاء کے سلسلہ کو بیا ن کرتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ ان کی خلافت اسی حد تک محدود تھی جس قدر ملک کہ ان کے قبضہ میں تھا۔ حضرت ابوبکرؓ جو بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین ہوئے بلاشبہ وہ پسند فرماتے تھے کہ خلیفہ رسول اللہ کہلاویں‘ مگر جب حضرت عمرؓ ان کے جانشین ہوئے تو یہ بات پسندیدہ نہیں تھی کہ حضرت عمرؓ خلیفہ الرسول اللہ کہلاویں اس لیے بجائے اس لقب کے امیر المومنین کا لقت اختیار کیا گیا جس ے معنی ہیں مسلمانوں کے سردار۔ یہ ہی لقب حضرت عمر کا اور حضرت عثمان اور حضرت علی المرتضٰی کا اور حضرت امام حسن علیہم السلام کا رہا۔ جب حضرت امام حسنؑ نے خلع خلافت کی اور معاویہؓ بن سفیان کے ہاتھ حکومت آئی اور ۴۱ ہجری مطابق ۶۶۱عیسوی کے دمشق دارالخلافہ ٹھیرا اس وقت ان کا لقب بھی امیر المومنین رہا اور ٓٓج تک امیر معاویہؓ کے لقب سے مشہور ہیں ۔ مگر جو کہ خلیفہ کا لقب زیادہ مقدس سمجھا جاتا تھا کہ اس میں اشارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی نکلتا تھا ‘ اس لیے وقتاً فوقتاً جو کوئی بنی امیہ میں سے جانشین ہوا سب نے اپنا لقب خلیفہ کا اختیار کیا۔ خلفائے جو درحقیقت بمعنی سلطان کے تھا۔ اس کے بعد بنی عباس نے بنی امی کو مغلوب کیا اور ۱۳۷ھ مطابق ۷۸۴عیسویں کے السفاح نے حکومت حاصل کی اور المنصور نے بجانے دمشق کے بغداد کو اپنا دارالخلافہ بنایا اور جو لوگ وقتاً فوقتاً بنی عباس میں سے جانشین ہوتے گئے سب نے اپنا لقب خلیفہ کا اختیار کیا۔ خلفائے بنی امیہ معدوم ہو گئے اورخلفائے عباس کا دور دورہ ہو گیا۔ المقتدر باللہ عباسی بغداد میں خلیفہ موجود تھا اسی کے عہد میں ایک خلافت افریقہ میں قائم ہو گئی۔ یعنی ۲۹۷ہجری مطابق ۹۰۹عیسویں میں عبداللہ المہدی نے افریقہ میں بمقام قیروان خلافت کی بنیاد ڈالی اور ۳۴۱ہجری مطابق ۹۵۲ عیسویں میں المعز باللہ نے قیروان سے مصر کو دارالخلافہ بنایا۔ عبداللہ المہدی اور اسکے جانشین سب علوی تھے اور سب نے خلیفہ کا لقب اختیار کیا تھا۔ اب اسلامی دنیا میں دو خلیقہ مستقل با اقتدار اور اختیار پیدا ہو گئے۔ ایک خلفائے بنی عباس بغداد میں دوسرے خلفائے علوئین قیروان یا مصر میں۔ ۳۸ ۱ ھ مطابق ۷۵۵میں عبدالرحمن الداخل اندلس میں داخل ہوا۔ چند روز تک تو اس کے جانشینوں نے خلیفہ کا لقب اختیار نہیں کیا مگر جب المقتدر باللہ کے زمانہ میں جو بغداد میں خلیفہ تھا یعنی ۳۰۰ھ مطابق ۹۱۲ھ میں عبدالرحمان ناصر تخت پر بیٹھا اس نے اور اس کے جانشینوں نے لقب خلیفہ کا اختیار کیا جن کا دارالخلافہ قرطبہ تھا۔ اب اسلامی دنیا میں تین خلیفہ مستقل اوربااقتدار و اختیار پیدا ہو گئے۔ ایک خلفائے بنی عباس بغداد میں اور خلفائے علوین مصر میں عبدالرحمن ناسر اور اس کے جانشین اندلس میں۔ یہ تینوں خلیفے اپنے تئیں اسی ملک کا خلیفہ سمجھتے تھے جو ان کے قبضہ اقتدار میں تھا ہر ایک خلیفہ کے دربار میں قاضی اور مفتی سب موجود تھ اور اپنے اپنے ملک کے خلیفہ کے حکم اور مرضی سے فقہ کے احکام جاری کرتے تھے۔ بغدا د کی عباسی خلافت میںعدالتیں فقہ حنفی پر عمل درآمد کرتی تھیں۔ مصر کی فاطمی حکومت میں فقہ اسمعیلی کا رواج تھا اور اندلس کے اموی خاندان کی عدالتوں میں فقہ مالکی جاری تھی اوروہ ہر ایک کی خلافت کو اس ملک میںجو اس کی سلطنت میں تھا جائز قرار دیتے تھے ۔ پس ان تمام حالات سے ظاہر ہے کہ سلطان عبدالحمید خاں خلد اللہ ملکہ نہ ہم مسلمانوں کے لیے جو رعایائے گورنمنٹ انگریزی ہیں خلیفہ ہیں اورنہ ہو سکتے ہیں۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ سلطان ترکی محافظ حرمین شریفین ہیں‘ بلکہ حافظ احرام شریفہ ہیں جن میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ اور بیت المقدس یعنی یروشلم جو مقام مقد س یہودیوں‘ عیسائیوںاور مسلمانوں کا ہے داخل ہیں۔ مگر اس سے اور خلیفہ ہونے سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام یا خلیفہ ہر زمانہ میں تمام دنیا کے مسلمانوںکے لیے ایک ہی ہونا لازم ہے اور اس لیے سلطان ترکی کو وہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا خلیفہ قرار دیتے ہیں مگر یہ محض غلط رائے ہے۔ کیونکہ اس بات کا ثبوت کہ تمام دنیا مٰں ایک امام یا خلیفہ ہو نہ قرآن مجید سے ہوتا ہے نہ کسی حدیث سے نہ کوئی شخص آج تک ایسا ہوا ہے اورشاید ہو گا بھی نہیں جس کی حکومت و سلطنت تمام دنیا پر ہو۔ مسلمان دنیا کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں اور جب ایسے ملکوں میں ہوں جن میں کسی مسلمان بادشاہ کی حکومت و سلطنت نہیں ہے تو وہاں نہ کوئی مسلمان ان مسلمانوں پر جو وہاں رہتے ہیں خلیفہ ہو سکتاہے نہ امام زمان جس کو مرادف خلیفہ تصور کیا ہے اور یہ رائے تاریخ کے بھی برخلاف ہے ۔ کیونکہ ہم ابھی بیا ن کر چکے ہیں کہ ایک وقت میں تین خلیفے گزرے ہیں جن کو ان ملکوںکے رہنے والے مسلمان علماء و قاضی و مفتی جو ان کی حکومت میں رہتے تھے خلیفہ برحق قرار دیتے تھے۔ ہاں مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ آسمان سے اتریں گے اور امام مہدی پیدا یا ظاہر ہو ں گے تو حضرت امام مہدی تمام دنیا کے امام ہوں گے۔ اس وقت جو زندہ رہے گا وہ دیکھے گا کہ کیا ہوتا ہے مگر ہمارے نزدیک تو نہ حضرت عیسی ٰ آسمان سے اترنے والے ہیں نہ مہدی موعود پیدا یا ظاہر ہونے والے ہیں۔ کیونکہ جتنی روائتیں اس باب میں ہیں وہ ثابت نہیں کرتیں اور اکثر ان میں کی موضوع ہیں۔ بعض روایتوں پر استدلال کیا جاتا ہے کہ ہر مسلمان کو امام زمان کا جاننا اور اس سے بیعت کرنا واجب ہے گو یہ روایتیں بھی قابل وثوق اور لائق اعتبار نہیں ہیں مگر ہم اس پر کچھ بحث کرنا نہیں چاہتے اور ان کے تسلیم کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ہر شخص کو اپنے خلیف کی جس کی سلطنت میں وہ رہتا ہے جانتا ہے اور اس سے بیعت کرنا ضرور ہے بیعت کا مطلب صرف اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ ہم اسکے مطیع اور تابعدار ہیں اور جو شخص جس کی حکومت میںرہتا ہو اس کا فرض ہے کہ اس کی تابعداری کرے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتاکہ جو لوگ اس کی حکومت میں نہیں رہتے وہ بھی اس کی تابعداری کا اقرار کریں۔ غرضیکہ کوئی مسلمان بادشاہ ان مسلمانوں کے لیے جو اس کی سلطنت میں نہیں رہتے خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ ٭٭٭ خلافت اور خلیفہ (از ’’آخر مضامین سرسید‘‘) خلافت کے معنی جانشین ہونے کے ہیں اور خلیفہ اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کا جانشین ہو مگر اب خلافت ایک مذہبی لفظ بن گیا ہے اور خلیفہ بھی ایک مذہبی عہدہ خیال کیا جاتا ہے ابتدا اس کی رومن کیتھولک مذہب سے ہوئی ۔ سب سے بڑ ا افسر سینٹ پیٹرز چر چ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری سینٹ پیٹرز کا جانشین سمجھا جاتا ہے جس کو پوپ کہتے ہیں ۔ رومن کیتھولک کے اعتقاد میں پوپ معصوم ہے‘ یعنی اس سے کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ رومن کیتھولک کا یہ اعتقاد ہے کہ پوپ کو دنیا و دین اور نجات آخرت تینوں باتوں کے اختیارات حاصل ہیں اورہر ایک پوپ کویہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں‘ یہاں تک کہ اس زمانہ میں بھی جو ہولی پوپ ہے اس کو بھی یہ اختیارات حاصل ہیں۔ دنیوی امور میں اختیار ہونا تو ایک ظاہری امر ہے دینی اختیارات ہونے سے یہ مراد ہے کہ جو حکم وہ دینی امور میں صادر کرتے وہی مانا جاسیخواہ وہ پہلے احکام دیینی کے موافق ہو یا برخلاف اور گو کہ ا س نے ناجائز امر کو جائز یا جائز امر کو ناجائز عموماً کر دیا ہو یا کسی شخص کے لیے کر دیا ہو۔ نجات آخرت سے مراد یہ ہے کہ اس کو لوگوں کے گناہ معاف کر دینے کا جب کہ وہ پوپ اپنے گناہ بیان کریں اور معافی چاہیں بالکل اختیار ہے اور جب پوپ ان گناہوں کو معاف کرے تو وہ شخص ایسا ہی پاک ہو جاتا ہے کمن لا ذنب لہ اور آخرت میں ان گناہوں کی بابت ان سے کچھ مواخذہ نہیں ہو گا اور یہ بھی پوپ کو اختیار ہے کہ مرے ہوئے لوگوں کو گناہوں سے نجات دے اوربہشت میںداخل کرے اور اسی لیے پوپ کی ٹوپی گول اور لمبی ہوتی ہے ۔ اس کی چوٹی پر صلیب کی صورت بنی ہوتی ہے اور ٹوپی کے ارد گرد تین تاج ہوتے ہیں۔ پہلے تاج سے دنیوی اختیار مراد ہے اور دوسرے تاج سے دینی اختیار اور تیسے تاج سے آخر ت کا اختیار۔ مسلمانوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد حضرت ابوبکرؓ آنحضرتؐ کے جانشین قرار پائے اور ان کو خلیفہ رسول اللہ کا لقب بھی ملا مگر وہ ایسے خلیفہ نہ تھے ‘ جیسا کہ رومن کیتھولک اپنے پوپوں کو سمجھتے ہیں یعنی ان کو دینی اختیارات کچھ نہ تھے۔ نہ وہ حرام کو حلال کر سکتے تھے نہ حلال کو حرام۔ صرف ان کا کام تھا کہ جو دینی احام رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے ہیں ان کی تعمیل کی کوشش کریں۔ اور مسلمانوں کے گروہ کی جو ضروریات ہیں ان کو پورا کریں اور مطلق ان کو اختیار نہ تھا کہ کسی دینی حکم کو منسوخ کریں یا کوئی نیا حکم دین میں جاری کریں اور آخرت کا اختیار ان کو مطلق نہیں تھا۔ نہ وہ کسی کے گناہ معاف کر سکتے تھے نہ کسی کو بخشوا سکتے تھے۔ ہولی پوپ جو دینی حکم دیتا تھا اس میں کسی کو چون و چرا کرنے کی مجا ل نہ تھی۔ مگر اسلام میں جن کو خلیفہ کہا جاتا ہے ان کے احکام دینی میں ہر شخص کو حق تھا کہ اگر وہ خدا اور رسول کے حکموں کے برخلاف ہوں تو ان کو نہ مانے اور اس پر حجت کرے۔ غرضیکہ جن کو مذہب اسلام میں خلیفہ کہا جاتا ہے ان کو خلافت فی النبوہ یعنی مذہبی احکام کے وضع کرنے کا حق حاصل نہیں تھا‘ بلکہ وہ صرف خلیفۃ النبی تھے جس سے مراد یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو قائم رکھیں اور مسلمانوں کے حالات کی اصلاح کریں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ صدیق کو خلیفہ رسول کہا گیا ہے۔ مگر حضرت عمرؓ کے زمانہ میںیہ لفظ متروک ہو گیا اور بجائے اس کے امیر المومنین کا لقب اختیار کیا گیا جو بالکل صحیح اور نہایت موزوں اور واقع کے مطابق تھا۔ حضرت علی المرتضیٰؓ کے زمانہ تک اور ان کے بعد بھی چند روز تک بجائے خلیفہ کے امیر المومنین کا لفظ زیادہ استعمال ہوتا تھا مگر ان کے بعد اور امام حسن علیہ السلام کے زمانہ کے بعد جن لوگوں نے اقتدار حاصل کیا انہوں نے اس خیال سے کہ خلیفہ کا لفظ امیر المومنین کے لفظ سے زیادہ مقدس ہے ‘ اپنے تئیں خلیفہ کا لفظ سے تعبیر کیا۔ جیسے کہ خلفائے بنی امیہ اور بنی عباس نے اپنے نام کے ساتھ خلیفہ کا لفظ بھی شامل کر لیا تھا۔ مگر یہ امر غور طلب ہے کہ خلیفہ یا امیر المومنین کا ہونا قریش کی نسل کے لوگوں پر منحصر ہے یا نہیں۔ اس باب میں مختلف روائتیں ہیں۔ مستدرک حاکم میں اور اس کی دوسری کتاب میں جو کنیتوں کے بیان میں ہے حضرت انسؓ سے ایک روایت لکھی ہے ۔ ا س میں ہے الامراء من قریش اور مستدرک حاکم اور سنن بیہقی میں حضرت علیؓ مرتضیٰ کی روایت سے لکھا ہے الائمۃ من القریش۔ مسند امام احمد بن حنبل اور بخاری اور صحیح مسلم میں ابن عمر نے جو روایت ہے : اس میں لکھا ہے : لا یذال ھذا لا مفری قریش اور معجم طبرانی اورمسند امام احمد بن حنبل میں ذی مجمبر کی روایت میں ہے : کان ہذا الامر فی حمیر فنزعہ اللہ منھم وجعلہ فی قریش۔ اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ھذا الامر سے قوم کی سرداری یا حکومت سے مراد ہے ۔ کیونکہ حمیر کی قوم سے خلافت رسول اللہ تو کسی طرح متصور نہیں ہو سکتی۔ پس صاف ظاہر ہے کہ ھذالالمر سے قوم کی سرداری اور حکومت مراد ہے‘ نہ خلاف مصطلحہ۔ اور مسند امام احمد بن حنبل اور مسند ابی یعلیٰ اور صحیح ابن حبان اور جامع ترمذی میں سفینہ سے روایت ہے الخلافۃ بعدی فی امتی ثلاثون سنۃ ثم ملک بعد ذلک۔ سنن ابو دائود اور مستدرک حاکم میں سفینہ ہی سے روایت ہے : خلافۃ النبوہ ثلاثون ثم یوتی اللہ الملک لمن یشاء اور معجم طبرانی اور شعب الایمان بیہقی اور کتاب المعرفۃ ابو نعیم میں معاذ اور عبیدہ بن الجراح سے روایت ہے کہ: ان ھذا لا مریداء رحمۃ و نبوۃ ثم یکون رحمۃ و خلافۃ ثم کائن ملکا عضوضاً ثم کائن عتو اوجبریۃ و فساداً فی الارض یہ تمام روایتیں جو ہم نے بیان کیں ‘ منتخب کنزالعمال فی سنن الا فعال والا قوال میں مندرج ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ تمام روایتیں مجروح و مقدوح ہیں اور لائق اعتبار نہیں مگر ہم اس آڑٹیکل میں اس امر پر بحث نہیں کرتے‘ بلکہ انہی روایتوں کو قابل قبول تسلیم کرکے کہتے ہیں کہ ہرگاہ خلافت کا اختتام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے تیس برس بعد مذکور ہو چکا ہے اور وہ تیس برس خلع خلافت حضرت امام حسنؑ پر ختم ہوتے ہیں۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کے بعد جو لوگ صاحب حکومت و سلطنت ہوئے ہم ان کو خلیفہ رسول اللہ یا خلیفہ مصطلحہ قرار دیں خواہ وہ فرشی ہوں خواہ غیر قرشی۔ پس خلافت کا زمانہ ختم ہونے کے بعد جو لوگ صاحب حکومت ہوئے وہ لوگ بادشاہ یا سلطان یا والی ملک یا امیر وغیرہ قرار پا سکتے ہیں اور جو مذہبی تعلق ہم مسلمانوں کو ان خلفاء سے تھا جو زمانہ تیس برس بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوئے‘ وہ ان حاکموں سے نہیں ہو سکتا جو بعد تیس برس مذکور کے ہوئے ‘ خواہ وہ اپنا نام خلیفہ رکھیں یا سلطان یا امیر یا جو کچھ چاہیں۔ پس کسی مسلمان حاکم کو جو کسی ملک میں حکومت رکھتا ہو بجز ایک مسلمان یا حکم کے اور کچھ نہیں خیال کر سکتے ‘ نہ اس کو خلیفہ رسول اللہ یا خلیفہ خلیفہ رسول اللہ تسلیم کر سکتے ہیں۔ ہاں بے شک اسلامی اتحاد اور اس سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی بھلائی و بہتری سے خوش اور اس کی برائی و ذلت سے غمگین ہوتے ہیں۔ سلطان ٹرکی کی اس فتح سے جو اس وقت یونانیوں پر حاصل ہوئی ہے بہ سبب اس اتحاد قومی کے جو اسلام نے مسلمانو ں پر قائم کیا ہے۔ مسلمان نہایت خوش ہیں اور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ترکوں کی شکست ہوتی توہم کو اسی اتحاد کے سبب ضرور رنج ہوتا۔ اور یہ ایک امر انسان کاطبعی ہے جس سے انکار نہیں ہو سکتا۔ یونانی ہمارے حاکم نہیں ہیں ہم کو ان کی رعیت نہیں ہیں۔ پس ہم کو یہ کہنے میں کہ خوب ہوا یونانیوںنے شکست پائی اور ذلیل ہوئے اور خدا کا شکر ہے۔ کہ ترکوں نے فتح پائی۔ کیا تامل ہے۔ ہم کو ہرگز معلوم نہیں ہے کہ گورنمنٹ انگریزی کی جس کے امن میں بطور رعیت ہم مسلمان رہتے ہٰں اس لڑائی میں جو ترکوں اور یونانیو ں میں ہوئی‘ کیا پالیسی ہے اور جو لوگ بہ خیال کرتے ہیں کہ انگلش گورنمنت کی پالیسی ترکوں کے برخلاف ہے ۔ ہم کو اس پر یقین نہیں اور کچھ شبہ نہیں کہ لوگ وہ بات کہتے ہیں کہ ان کو درحقیقت معلوم نہیں اور اگر بالفرض انگلش گورنمنٹ کی پالیسی ترکوں کے برخلاف ہو‘ تب بھی ازروئے مذہب کے جو ہمارا فرض اپنے حاکموں کی اطاعت اور فرمانبرداری کا ہے اس سے ہم کسی طرح سبکدوش نہٰں ہو سکتے۔ اور ایسی حالت میں بھی ہمارا فرض ہے کہ اپنی گورنمنٹ کے مطیع ‘فرمانبردار اور وفادار رہیں۔ زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کر سکتے ہیں تو یہ ہے کہ خدا سے دعا کیا کریں کہ برٹش گورنمنٹ اور مسلمانوں کی سلطنتوں میں خواہ وہ ٹرکی ہو یا ایران یا افغانستان کی یا اور کسی دور دراز ملک کی دوستی اور اتباط رہے اور کبھی مخالفت پیدا نہ ہو۔ ٭٭٭ امام اورامامت (از ’’آخری مضامین سرسید‘‘) اس مقام پر امام کے لفظ سے ہماری مراد اس شخص سے نہیں ہے جو سب سے آگے کھڑا ہوکر لوگو کو نماز پڑھاتا ے‘ بلکہ ایسے شخص سے مراد ہے جو بہ سبب کمال نفسی و روحانی و علمی و عملی کے امام کے لفظ سے مخاطب کیا جاتاہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک میں علاوہ نبوت اور نفاذ احکام اور محافظت مسلمین کے جو آنحضرتؐ کے بعد شان خلافت سے متلعق ہیں ذاتی کمالات اور اعلیٰ درجہ کی صفات بھی تھیں‘ پس ان صفات کمال میں مشابہت پیدا کرنا اس کمال میں امامت کے درجہ پر پہنچتا ہے۔ مثلا ً رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو علم دین میں محققاً بذریعہ وحی یا الہام کے جو متقاضائے فطرت نبوت تھا۔ اعلیٰ درجہ کا کمال حاصل تھا اور گو اس درجہ کا کمال کسی دوسرے شخص کو حاصل نہیں ہو سکتا مگر جن لوگوں نے علم دین اور احکام شریعت کے سمجھنے اور نکالنے میں نہ بطور تقلید ‘ بلکہ بطور اجتہاد کوششیں کیں اور اس کو حاصل کیا اور جم غفیر مسلمانوں نے اس کو قبول و تسلیم کیا ‘ گو کہ اس میں خطا کا احتمال بھی ہو انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال دینی میں ایک قسم کی مشابہت پیدا کی ارو اس کمال میں درجہ امامت حاصل کیا اور تمام لوگوں نے اس فن میں ان کو تسلیم کیا جسے مجتہدین اربعہ امام ابو حنیفہؓ‘ امام شافعیؓ‘ امام احمد بن حنبلؓ‘ امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین تھے۔ یا مثلاً جو تقدس ذاتی اور صفات روحانی اور علم دینی و روحانی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا اس کو آئمہ اہل بیت علیہم السلام نے حاصل کیا‘ خواہ تعلیماً خواہ وحیاً اور اس کمال میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مشابہت پید اکی ‘ اس لیے جم غفیر مسلمانوں نے ان کو اس کمال میں امام تسلیم کیا اور آئمہ اہل بیت سے ملقب ہوئے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو علم عقائد تحقیقاً یا ازروئے وحی یا الہام کے حاصل تھا۔ ‘ جو دوسرے کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ پس اس مشابہت کا حاصل کرنا صرف استدلال پر منحصر تھا ‘ پھر جس نے استدلال سے اس کو حاصل کیا‘ گو کہ اس میںغلطی کا بھی احتمال ہو‘ اور جم غفیر مسلمانوں جنے اس کو تسلیم کیا ‘ اس نے اس فن میں امام کا درجہ پایا‘ جیسا کہ امام غزالی اور امام فخر الدین رازی و دیگر علمائے علم کلام اس فن میں رجہی امامت کو پہنچے تھے۔ علاوہ اس کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم میں اور بہت سے کمالات ذاتی تھے‘ جیسے تقدس روحانی ‘ استغراق فی ذات اللہ‘ توجہ الی اللہ ‘ تعمیل حکم ربانی‘ علم ‘ رحمت‘ شفقت علی المسلمین وغیرہ وغیرہ۔ پس جو شخص کمالا مصطفوی کے کسی کما ل سے اپنے تئیں مشابہ کرتا ہے وہی اس کمال کا امام ہوتا ہے‘ خواہ وہ امام کے نام سے مشہور ہوا ہو یا نہیں۔ اور جس نے تمام روحانی اور اخلاقی صفات محمد علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام میں مشابہت پیدا کر لی ہو اور ملک بھی اس کی حکومت میں ہو جس میں اس کو احکام شرعی کے نفاذ اور مسلمانوں کی ہدایت اور حفاظت کا اختیار حاصل ہو‘ بلاشبہ وہ شخص بھی اس ملک کے لیے جو اس کی حکومت میں ہے خلیفہ رسول اللہ اور امام کے لقب سے ملقب ہونے کا مستحق ہے‘ اور اگر اس نے اپنے تئیں ان صفات کمال کے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تھیں مشابہ نہیں کیا اورکسی ملک کی حکومت حاصل کی جیسا کہ بنی امیہ و بنی عباس نے تو وہ درحقیقت اس ملک کے لیے اور اس ملک کے مسلمان رہنے والوں کے لیے سلطان ہے نہ امام اورنہ خلیفہ رسول اللہ ‘ گو کہ اس نے فخریہ طور پر خلیفہ کا لقب اختیار کیا ہو اور بزور حکومت اپنے تئیں خلیفہ کہلوایا ہو‘ اسی لیے اس نے اپنے اجتہاد سے جو احکام متعلق مذہب کے دیے ہو وہ رفعت سے نہیں دیکھے جاتے۔ اور اگر اس نے اپنے تئیں صفات کمال رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کیا ہے اورکوئی ملک اس کی حکومت اور قبضہ اقتدار میں نہیں ہے‘ جس یں وہ احکام شرعی کو نافذ اور وہاں کے مسلمانوں کی حفاظت کر سکے تو وہ صرف انہی امور میں جن میں اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے مشاہبت پیدا کی ہے امام ہے مگر اس پر خلیفہ رسول اللہ کا اطلا ق نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے آئمہ اہل بیت علیہم السلام امام کے لفظ سے ملقب ہوتے ہیں۔ مگر فرق اسلامیہ میں امام کا مرتبہ قرار دینے میں اختلاف ہے۔ شیعہ تو امام کو معصوم اور منصوب من اللہ اور مفروض الطاعت قرار دیتے ہیں اور یہ کرامت حضرت امام مہدی علیہ السلام پر جو آئمہ اہل بیت کے اخیر امام ہیں‘ ختم ہو گئی ۔ وہ پیدا ہوئے تھے اورسرمن رائے کی غار میں غائب ہو گئے ہیں مگر اب تک زندہ ہیں اور امام العبد و الز مان ہیں اور قیامت کے قریب ظاہر ہوں گے اور اسلیے کوئی دوسرا شخص امام نہیں ہو سکتا۔ مگر اہل سنت و الجماعت کسی امام کو منصوب من اللہ اور معصوم عن الخطا قرار نہیں دیتے۔ بلکہ وہ سوائے پیغمبر کے کسی کو گو کہ وہ کیسا ہی مقدس ذی علم اور صاحب فضل و کمال ہو معصوم عن الخطا نہیں سمجھتے ۔ نتیجہ اس اختلاف کا یہ ہے کہ شیعہ تو امام کے حکم کو تمام دنیا کے شیعہ مسلمانوں پر بے چون و چرا واجب التعمیل سمجھتے ہیں مگر چونہ ان کے امام دنیا کی آنکھوں سے غائب ہیں‘ اس لیے اس زمانہ میں کوئی ایسا حکما ن کے لیے وجود پذیر نہیں ہوسکتا جس کی اطاعت تمام دنیا کے شیعہ مسلمانوں پر واجب ہو۔ اہل سنت و جماعت کسی امام موجودہ یا گذشتہ کا حکم تمام دنیا کے سنی مسلمانوں پر بے چون و چرا واجب التعمیل نہیں سمجھتے ۔ جو لوگ بے پڑھے یا کم استعداد ہیں۔ وہ تو جس امام کو معتقد ہیں یا جس کے ان کو باپ دادا معتقد تھے اسی کی پیروی کرتے ہیں اور جو لوگ ذی استعداد اور قابل ہیں وہ جب تک اس بات کو نہ سمجھ لیں کہ وہ حکم امام کا صحیح اور کتاب اللہ اور سنت اللہ کے مطابق ہے اس کو واجب التعمیل نہیں جانتے اور اسی سبب سے اہل سنت والجماعت میں تقلید اور عدم تقلید امام معین پر بحث چلی آئی ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ قرون مشہود لہا بالخیر میں اور اس کے بعد تک بھی یعنی جب تک فقہ کی کتابیں مرتب ہوئیں ‘ کوئی شخص کسی کی تقلید پر مجبور نہیں تھا۔ اگر کوئی مسئلہ کسی کو معلوم نہ تھا تو وہ کسی عالم سے جس سے اس کا جی چاہتا تھا پوچھ لیتا تھا۔ غرض یہ کہ سنیوں میں بعد پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی شخص ایسا نہیں ہو سکتا کہ مذہبی امور میں اس کا حکم تمام دنیا کے مسلمانوں پر واجب التعمیل ہو۔ خود صحابہ متعدد مسائل مذہبی میں مختلف الرائے تھے اور ایک دوسرے کی رائے کو واجب تسلیم نہیں سمجھتا تھا۔ مثلاً اکثر صحابہ معراج جسمانی کے قائل تھے مگر حضرت عائشہ کو معراج جسمانی سے انکار تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر سماع موتے کے قائل تھے مگر بعض صحابہ اس کے سخت مخالف تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ کا عقیدہ تھا کہ عزیزوں کے نوحہ کرنے سے مردہ پر عذاب نازل ہو تا ہے۔ حضرت عائشہ اس کی مخالف تھیںَ یہ اختلاف صحابہ میں عقائد کا تھا اسی طرح وہ فقہی مسائل میں بھی باہم مختلف تھے حضرت عبداللہ بن عباس اس بات کے قائل تھے کہ وضو میں اعضا کوایک ایک بار دھونا چاہیے مگر حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کے نزدیک دو دو بار دھونا لازم تھا۔ حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ تو فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھنے کو لازمی قرار دیتے تھے مگر حضرت ابومالک اشجعی کو اس سے انکار تھا اکثر صحابہ مسح علی الخفتین کو جائز سمجھتے تھے۔ مگر حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباسؓ اس کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ اسی طرح اور بہت سے مسائل ہیں جن میں صحابہ اور تابعی آپس میں مختلف الرائے تھے اور ایک دوسرے کی رائے کو تسلیم نہیں کرتا تھا موجودہ زمانہ کے حالات پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں ہے جو امام کا رتبہ رکھتا ہو اور نہ کوئی شخص ‘ گو کہ وہ کسی ملک کا حاکم بھی ہو۔ ایسا ہے جو خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل کہلانے کا مستحق ہو۔ البتہ جو مسلمان کسی ملک پر حکومت رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ مسح علی الخفتین کے معنی ہیں جرابوں پر مسح کرنا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس ملک کا سلطان کہلانے کے مستحق ہیں اوردرحقیقت وہ اس ملک کے سلطان بھی ہیں‘ گو انہوں نے اپنے تئیں کسی لقب سے ملقب کیا ہو۔ اب ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ مذہب اسلام کی رو سے رعیت کو اپنے سلطان کے ساتھ کس طر ح پیش آنا لازم ہے۔ اس کا بیان مشکوٰۃ کی ایک حدیث میں ہے جس کو ہم بعینہ اس مقام پر نقل کرتے ہیں۔ عن ابن عمر رضی اللہ عنہ ابن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ان السلطان ظل اللہ فی الارض یاوی الیہ کل مظلوم من عبادہ فاذا عدل کان لہ الاجر ولی الرعیۃ الشکر واذا جارہ کان علیہ الامرو علی الرعیۃ الصبر۔ یعنی ابن عمر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا نقل کیا ہے کہ بادشاہ زمین پر خدا کا سایہ ہے کہ ہر مظلوم اس کے بندوں میں سے اس کی پناہ میں آتا ہے پھر اگر اس نے عدل کیا تو اس کی بھلائی کے لیے ہے اور رعیت پر اس کا شکر کرنا فرض ہے اور اگر وہ ظلم کرے تو اس کی برائی اس پر ہے اور رعیت کو اس پر صبر کرنا لازم ہے ۔ اس حدیث میں سلطان کا لفظ بغیر کسی قید کے آیا ہے ۔ پس وہ سلطان خواہ مسلمان ہو ‘ خواہ یہودی ہو‘ خواہ عیسائی ہو‘ خواہ آتش پرست ہو‘ اس کے ساتھ اس کی رعیت کو اسی طرح پیش آنا لازم ہے کہ جس طرح کہ اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔ اس حدیث میں سلطان کو ظل اللہ اس لیے کہا ہے کہ جس طرح ہر مظلوم خدا کی پناہ ڈھونڈتا ہے اسی طرح اس کی رعیت کا ہر مظلوم کسی مذہب کا ہو سلطان کی پناہ میں آتاہے اور اسی مشابہت سے سلطان کو ظل اللہ کہا ہے۔ اب ہم کو ہندوستان کے مسلمانوں پر غور کرنا ہے جو بطور رعیت کے اور مستا من ہو کر انگلش گورنمنٹ کے ماتحت رہتے ہیں۔ انگلش گورنمنٹ نے ان کے ساتھ عدل اور انصاف کرنے میں بقدر اپنی طاقت کے کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ ان کے تمام معاملات کے فیصلہ کے لیے قانو بنا دئے گئے ہیں اور ہر شخص پہلے سے جانتا ہے کہ کسی فعل کا نتیجہ وہ ہے جو قانون میں لکھا ہے۔ مذہبی آزادی انگلش گورنمنٹ نے ہر ایک قوم کو دی ہے ۔ تمام مذہب والوں کے مذہبی معاملات ان کے مذہبی مسائل کے موافق عدالت سے فیصل ہو جاتے ہیں جان اور مال کا امن اور سوائے بغاوت اور شرارت کے ہر قسم کی آزادی انگلش گورنمنٹ کی رعیت کو حاصل ہے پس بالتخصیص مسلمانوں کو مطابق اس حدیث کے جو اوپر مذکور ہوئی انگلش گورنمنٹ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور انگلش گورنمنٹ کی رعایا ہو کر وہ انگلش گورنمنٹ کے ساتھ کسی قسم کا فساد یا مخالفت یا بغاوت قولاً و فعلاً نہیں کر سکتے۔ اور حدیث کی کتابوں میں متعدد حدیثیں اس مضمون کی موجود ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو نہایت تاکید سے نصیحت کی ہے اور فرمای ہے کہ تم اپنے امیروں اور حاکموںکی ہر حال میں اطاعت کرو‘ خواہ تمہارے ساتھ ظلم و ستم ہوتا ہو یا وہ انصاف اور مروت سے پیش آتے ہوں۔ ان حدیثوںمیں حاکم یا امیر کے ساتھ کوئی شرط یا قید نہیں ہے جس سے یہ بات معلوم ہو کہ حاکم یا امیر کس مذہب کا ہو۔ پس تمام مسلمانوں کو ان حدیثوں کا ماننا اور اس پر عمل کرنا لازم ہے اور انہی حدیثوں کی رو سے لازم آتا ہے کہ تمام مسلمان جو ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ کے سایہ حکومت میں زندگی بسر کرتے ہیں نہایت وفاداری اور نمک حلالی کے ساتھ برٹش گورنمنٹ کی اطاعت کریں اور خدا کا شکر ہے کہ اس نے ایسی مہربان اور عادل گورنمنٹ ان کی جان ومال اور عزت اور مذہب پر مسلط کی ہے جو ان کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کرتی ہے اور اس نے ہر طرح کی مذہبی آزادی بھی عنایت کی ہے اور وہ کوئی ایسا حکم نہیں دیتی نہ کبھی دے گی‘ جس سے ہم کو خدا کی نافرمانی کرنی پڑے۔ ٭٭٭ وراثت (از علی گڑھ انٹیٹیوٹ گزٹ ۱۲ دسمبر ۱۸۸۲ئ) اودھ اخبار میں پایونیز سے ایک مضمون ترجمہ ہو کر چھپا ہے جس کا عنوان قانون وراثت اسلام ہے۔ اس مضمون کو ہم نے بھی اپنے آج کے اخبار میں مندرج کیا ہے ہم اس مضمون کے ماحصل سے متفق ہیں مگر اس بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ قرآن مجید کے احکام قابل ترمیم یا تبدیل ہیں۔ قرآن مجید بطور قواعد کلیہ کے ایسے عمدہ اصول پر نازل ہوا ہے کہ کسی زمانہ میں بھی اس کی ترمیم کی حاجت نہیں ہے۔ ہاں بلاشبہ علماء نے جو اپنے اجتہاد یا رائے سے جو مسئلے قائم کیے وہ محدود ہیں اور شاید ان میں غلطی بھی ہے اور وہی قابل ترمیم ہیں مگر ان مسائل کے قابل ترمیم ہونے سے قرآن مجید کو قابل ترمیم سمجھنا غلطی ہے۔ ہم نے مسلمانوں کی جائدد کی حفاظت کی جو تدبیر سوچی تھی اس وقت ہمیں یہی مشکل پیش آئی تھی کہ ہمیں ایسی راہ اختیار کرنی چاہیے جو علماء اسلام کی رائے کے برخلاف نہ ہو۔ اور اسی لیے ہم نے وقف کے مسئلہ پر بنا رکھی تھی جو عموماً فقہ کی کتابوں میں علماء نے تسلیم کیا ہے۔ خود مخالفین بھی یقین کرتے تھے کہ جو مسئلہ ہم نے بیا ن کیا ہے بلاشبہ فقہ کی رو سے صحیح ہے ۔ ان کی مخالفت دراصل اس وجہ سے نہ تھی کہ وہ مسئلہ مسلمانوں کے مروجہ مذہب کے برخلاف ہے بلکہ متعصب مسلمان مولوی نہیں چاہتے ہ ان کے مذہب کا کوئی مسئلہ قانون میں بنایا جاوے۔ اگر بالفرض ایک قانون بنایا جاوے کہ ہر مسلمان کو نماز پڑھنی فرض ہے تب بھی وہ متعضب مولوی ایسا قانون بننے سے مخالفت کریں گے وہ لوگ کچھ جائداد نہیں رکھتے۔ ان کا پیشہ جاہلوں کو بہکا کر روٹی کمانے کا ہے۔ باایں ہمہ ہم کو یاد ہے کہ بہت سے خدا پرست مولویوں نے اور بہت سے مسلمان رئیسوں نے آس تدبیر سے دلی اتفاق کیا تھا۔ اب بھی ہم بہت سے مسلمانوں کو پاتے ہیں جو اس تدبیر کے پورا ہونے کی آرزو رکھتے ہیں۔ بہرحال ہم نے اس تدبیر میں علماء اسلام اور کتب فقہ کی پابند ی اپنے پر لازم کی تھی اور اسی لیے مشکل میں پڑے تھے اور ہمیں وقف کا مسئلہ اختیار کرنا پڑاتھااگر ہم صرف قرآ ن مجید کی پیروی کرتے اور عالموں کی رائے کا یا اجتہاد کا خیال نہ کرتے تو کچھ بھی مشکل نہ ہوتی۔ قرآن مجید میںجائداد کی تقسیم کا مسئلہ ایسا صاف و صریح و عمدہ و آسان ہے کہ اس سے زیادہ عمدہ ہو نہیں سکتا اورکسی زمانہ میں قابل ترمیم نہیں ہے۔ قرآ ن مجید میں ہر شخص کو جو کچھ جائدا د رکھتا ہے تاکیدی حکم ہے کہ وہ وصیت کرے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی جائداد کی نسیبت کیا کیا جاوے اور یہ بھی اجازت ہے کہ اس کے دوست اس کو اصلاح دیں۔ بہرحال اس کے مرنے کے بعد بموجب اس کی وصیت کے اس کی جائدا د کی نسبت بلا کسی قید کے بعد ادائے قرض خواہاں عمل درآمد ہونا چاہیے۔ اگر اس کی جائداد اس سے زیادہ ہو جس قر کی اس نے وصیت کی ہے یا آنکہ اس کو وصیت کرنے کا موقع نہیں ملا تو جائداد از وصیت یا غیر وصیت شدہ کا بعد ادائے زر قرضہ اس کے وارثوںمیں تقسیم ہونے کا حکم ہے اور ہر ایک حصہ کا بیان ہوا ہے جس کا بیان کرنا ضروری و لازمی تھا۔ علماء نے اپنے اجتہاد سے اس مسئلہ کو تنگ و خراب کر دیا ہے اور وصیت کی نسبت قیدیں وشرطیں لگائی حالانکہ قرآن مجید میں کوئی قید و شرط نہیں ہے پس جبکہ قرآن مجید نے وصیت کے مسئلہ کو ایسی وسعت کے ساتھ قائم کر دیا ہے جس میں وصیت کرنے والے کو کلیۃً اختیار حاصل ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ مسئلہ وراثت کی نسبت قرآن مجید قابل ترمیم ہے‘بلکہ ہم دعویٰ کر کے کہہ سکتے ہیں کہ کسی مذہب میں ایسی عمدگی سے یہ مسئلہ موجود نہیں ہے۔ اس تحریر سے ہمارا مقصد صرف اس بات کا دکھانا ہے کہ بلاشبہ قرآن مجید میں کسی ترمیم کی حاجت نہیں ہے۔ جوتی پہنے ہوئے نماز پڑھنی (از تہذیب الاخلاق بابت یکم محرم ۱۲۸۹ھ) ایک شخص نے انگریزی بو ٹ پہنے ہوئے نماز پڑھی۔ ایک نیک شخص نے اس کو نہایت برا جانا اور کہا ک ہ مجھے خوف کے مارے پسینہ آ گیاپس ہم کہتے ہیں کہ یہی باتیں اوہام مذہبی ہیں اور وسواس میں داخل ہیں۔ جوتا پہن کر نماز پڑھنی سنت ہے اور اس پر محس ہونے کا گمان کرنا وسواس میں داخل ہے۔ صرف اتنا دیکھ لینا چاہیے کہ کوئی نجاست ظاہری اس میں لگی ہوئی نہ ہو اور اگر ہو تو اس کو سخت چیز سے یا زمین سے رگڑ ڈالے ارو پہن کر نما ز پڑھ لے۔ انگریزی جوتا بہ نسبت ہندوستانی جوتا کے یا عرب کی نعلین کے بہت زیادہ صاف رہتا ہے۔ اس لیے کہ ان جوتوں کا تمام تلا زمن پر لگتا ہے اورانگریزی بوٹ کی ایڑی اونچی ہوتی ہے اور اس سبب سے بہت کم زمین پر لگتا ہے۔ اس امر کی نسبت شیخ امام ابو عبداللہ محمد ابی بکر عرف ابن قیم نے اپنی کتاب ’’ اغاثۃ اللہفان فی مصاید الشیطان‘‘ میں بہت بڑی بحث کی ہے اور اس کتاب کی تلخیص ہشام بن یحیٰ شامی نے کی ہے اور اس کا نام ’’تعبید الشیطان بہ تقریب اغاثہۃ اللہفان‘ ‘ رکھا ہے ۔ ا س میں بھی اس تمام بحث نقل کی ہے ۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے ااور اس کا ترجمہ مولوی محمد احسن صاحب نے جو اس زمانہ کے مولویان نامی میں سے ہیں‘ اردو زبان میں کیا ہے اور تہذیب الایمان اس کا نام رکھا ہے اور ۱۲۸۳ھجری میں بمطبع صدیقہ بریلی چھاپہ ہوا ے۔ چنانچہ ہم اس مقام کو بجنسہ اس جگہ نقل کرتے ہیں: انہوں نے اپنی کتاب میں بہت وسواسوں کا جو انسان کو مذہبی باتوں میں ہوتے ہیں ذکر کیا چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ : ’’منجملہ ان کے یہ ہے کہ موزہ اور جوتے کے نیچے جب نجاست لگ جاتی ہے تو اس کو زمین سے رگڑ دینا کافی ہے اور اس کا پہن کر حدیث صحیح کی رو سے نماز درست ہے امام احمد نے اس کی تصریح کی ہے اور ان کے محقق پاروں نے اس کو پسند فرمایا ہے ۔ چنانچہ ابوالبرکات کہتے ہیں کہ روایت مطلق رگڑ ڈالنے کی میرے نزدیک صحیح ہے‘ اس لیے کہ حضرت ابوہریرہؓ آں حضرت صلعم سے راوی ہیں ہ آپ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی جوتا پہن کر ناپاکی پر کو چلے تو مٹی اس کے واسطے پاک کرنے والی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ جب ہم میں سے کوئی اپنپے موزوں سے ناپاکی کو پامال کرے تو موزوں کو پاک کرنے والی مٹی ہے۔ ان دونوں روائتوں کو ابودائود نے بیان کیا ہے اور ابو سعید روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلعم نے نماز پڑھی‘ پس اپنی جوتیاں نکالیں‘ لوگوںنے بھی اپنی جوتیاں اتار دیں۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں سے پوچھا کہ تم نے کیوں اتاریں‘ انہوںنے عرض کیا کہ ہم نے آ پ کو دیکھا کہ جوتیاں اتاریں ‘ ہم نے بھی اتاریں۔ آپ نے فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل نے آ کر خبر دی کہ ان میں ناپاکی ہے تو جب تم میں سے کوئی مسجد میں آوے تو چاہے کہ اپنی جوتیوں کو الٹ کر دیکھے۔ اگر ان میں کچھ خبث یعنی ناپاکی ہو تو اس کو زمین پر رگڑ دے۔ پرھ ان سے نماز پڑھ لے ۔ اس حدیث کو امام احمدؒ نے روایت کیا ہے اور اس کے معنی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ناپاکی سے غرض مکروہ چیزیں ہیں مثلاً زینت وغیرہ پاک اشیا ء کے ‘ تو یہ تاویل کئی وجہ سے درست نہیں۔ اول تو یہ کہ اس طرح کی چیزیں خبث نہیں کہلاتیں۔ دوسرے یہ کہ نماز کے وقت ان اشیاء کے پونچھنے کا حکم نہیں کیوں کہ ان سے نماز نہیںجاتی۔ تیسرے یہ ک ان کے لیے نما ز میں جوتیاں نہیں اتارنی چاہئیں‘ اس لیے یہ کام بے ضرورت ہیں‘ ادنیٰ بات یہ ہے کہ مکروہ ہو گا۔ چوتھے یہ کہ روایت دار قطنی کی ابن عباس یہ ہے کہ رسول مقبول صلعم نے یہ فرمایا کہ جبریلؑ نے میرے پاس آ کر خبر دی کہ ان میں خون حلمہ کا ہے ۔ جو بڑی قسم کی کنی ہوتی ہے ۔ اور اس وجہ سے کہ جوتی ایسی جگہ ہے کہ اکثر نجاست بہت دفعہ اس کو پہنچتی ہے تو رفع حرج کے لیے سخت چیز سے اس کا مل ڈالنا کافی ہوا۔ بعد اس کے انہوں نے یہ بات لکھی ہے کہ جوتیاں پہن کر نما ز پڑھنے سے وسواسیوں کا دل خوش نہیں ہوتا‘ حالانکہ یہ سنت رسول خدا صلعم اور ان کے اصحا ب کی ہے ۔ فعل اور حکم دونوں کے اعتبار سے ‘ انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ آں حضرت صلعم اپنی جوتیوں سے نماز پڑھتے تھے اور شداد بن اوس کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ یہودیوں کے خلاف کرو کہ وہ اپنے موزوں اور جوتوں سے نماز نہیں پڑھتے ۔ روایت کیا ہے اس کو ابودائود نے‘‘۔ اس تمام تحقیقات سے جو ابن قیم نے کی ہے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں جوتی پہنے ہوئے مسجد میں جانا اور جوتی پہنے ہوئے نما ز پڑھنا ایک عام عادت تھی‘ مگر اس زمانہ میں اور بالخصوص ہندوستان میں مسلمانوں نے اس بات کو اپنی غلطی سے معیوب سمجھا ہے ٭٭٭ خطبہ میں بادشاہ کا نام (از تہذیب الاخلاق جلد ہفتم بابت شعبان ۱۲۹۴ھ) چند روز ہوئے کہ ہم نے پایونیر میں نسبت خطبہ جمعہ کے ایک تحریردیکھی تھی جس میں بعض خطبوں کا ترجمہ بھی تھا۔ جمعہ کا خطبہ ہو یا عیدیں کا مسلمانوں کے مذہب کے بموجب اس میں صرف خدا کی تعریف اور مسلمانوں کو نیکی اختیار کرنے کی نصیحت ہونی چاہیے ۔ خطبہ کی کوئی عبارت مذہباً معین نہیں ہے۔ بلکہ خطیب خود اپے علم و استعداد و لیاقت کے موافق خطبہ پڑھتا ہے ۔ یا اور لوگوں نے جو خطبے کہے ہیں اور جو چھپے ہیں یا قلمی لوگوں کے پاس ہوتے ہیں ان میں سے کوئی خبہ پڑھ دیتا ہ ۔ خطبہ کی مثال ایسی ہے جیسے عیسائیوں میں سسرمن مگر پائیونیر میں اس بات کی کافی بحث نہیں کی گی تھی کہ آیا خطبہ میں بادشاہ کا نام لینا بھی کوئی مذہبی مسئلہ ہے اور مذہب کی رو سے جائز ہے یا نہیں اور اسی بحث کو ہم اپنے اس آرٹیکل میں لکھنا چاہتے ہیں۔ پیغمبر خدا صلعم کے وقت اور خلفائے راشدین کے وقت میں کسی کا نام خطبہ میں نہیں پڑھا جاتا تھا۔ مگر جو محاربات کہ صحابہ میں واقع ہوئے تھیے اور اس کے سبب سے باہمی نزاع قائم ہو گئی تھی اور خلفائے راشدین کی نسبت سب و شتم کا رواج ہو چلا تھا‘ اس کے مٹانے کو خطبہ میں خلفائے راشدین اور عمین مکرمین کا نام لیے جانے کا رواج ہوا ‘ تاکہ معلوم ہو کہ سب کے سب واجب التعظیم اور قابل ادب ہیں اور فقہانے اس کو مندوب‘ یعنی اچھا قرار دیا۔ اس کے بعد بخوبی تحقیق نہیں ہوتا کہ کس خلیفہ سے جو حقیقت میں بادشا ہ ہے ان کا نام خطبہ میں لینا شروع ہوا۔ تاریخ الخلفاء سیوطی سے ہم اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۸ھجری مطابق ۸۱۳ء کے محمد امین کی خلافت میں اس کا نام مع اس کے لقب کے جس میں فخریہ الفاظ تھے خطبہ میں لیا گیا اور امیر المومنین کا لقب تحریر کیا گیا چنانچہ اس میں لکھا ہے کہ : لم یدع السفاح ولا للمنصور للرشید علی المنابر با وصافہم ولا کتب فی کتبہم حتی ولی الامین فدعی لہ بالا میر علی المنابر و کتب عنہ من عبداللہ من الامین امیر المومنین و کذا قال العسکری فی الا وایل اول من دعی لہ بلقبہ علی المنابر الامین۔ علی بن محمد نوفلی نے اور اس کے سوا اورلوگوں نے کہا ہے کہ سفاح اور رشید ک لیے ممبروں پر اور ان کی تعریفیں کر کے دعا نہیں کی گئی اور نہ ان کے فرمانوں میں کچھ فخریہ لفظ لکھے گئے مگر جبکہ امین خلیفہ ہوا تو اس کے لیے ممبر پر امیر کہہ کر دعا کی گئی اور اس کی طرف سے فرمانوں میں لکھا گیا عبداللہ محمد الامین امیر المومنین اور عسکری نے بھی اوایل میں لکھا ہے کہ سب سے اول امین کے لیے ممبروں پر اس کا لقب لیکر دعا کی گئی۔ مگر اب ہم کو دیکھنا چاہیے کہ فقہا کی ‘ جن کی رائے و اجتہاد پر مذہب اسلام کا مدار رہ گیا ہے‘ کیا رائے ہے۔ در مختار میںجو نہایت معتبر فقہ حنفی کی کتابوں میں سے ہے ‘ لکھا ہے کہ خطبہ میں بادشاہ کے لیے دعا کرنا کوئی مذہبی ثواب کا کام نہیں ہے صرف قہستانی نے لکھا ہے کہ بادشاہ کا نام لینا کچھ مضائقہ نہیں اور بحر الرائق میں ہے کہ بادشاہ کا نام لینا ثواب نہیں ہے‘ اس لیے کہ یہ امر محدث ‘ یعنی بدعت ہے۔ خطبہ میں صرف نصیحت ہونی چاہیے۔ چنانچہ درمختار اور اس کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ : ومندب ذکر الخلفاء الراشدین والعمین لا الدعاء للسلطان وجوذہ القہستانی کذا فی الدر المختار۔ قولہ وجوزہ القہستانی الخ عبارتہ ثم یدعو لسلطان الزمان بالعدل والاحسان منتجبا فی مدحہ عما قالو ا انہ کفرو خسران کما فی الترغیب وغیر الخ و اشار الشارح بقولہ وجوز الی حمل قولہ ثم یدعو الخ علی الجواز لا الندب لا نہ حکم شرعی لا بدلہ من دلیل وقد قال فی البحر انہ لا یستحب لما روی عن عطا حین سئل عن ذالک فقال انہ محدث وانما کانت الخطبۃ تذکیرا کذا فی رد الحتار حاشیہ الدرالمختار۔ ثواب ہے ذکر کرنا خلفائے اربع راشدین اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں چچا حضرت حمزہؓ اور حضرت عباسؓ کا اور ثواب نہیں ہے بادشاہ وقت کے لیے دعا کرنا (واضح ہو کہ اسی دعا کے ساتھ بادشاہ کا نام بھی لیا جاتا ہے ) مگر قہستانی نے اس کو جائز لکھا ہے ۔ یہ مضمون تو درمختار میں ہے اور درمختار کے حاشیہ میں جس کا نام رد المختار ہے یہ لکھا ہے کہ خلفائے اربع اور عمین مکرمین کے نام کے بعد بادشاہ وقت کے لیے دعا کی جاوے کہ وہ عدل اور بھلائی کرے مگر اس کی ایسی تعریف کرنے سے پرہیز کیا جاوے جس کو عالموں نے کفرو گمراہی کہا ہے‘ چنانچہ یہ مطلب ترغیب میں اور اور کتابوں میں لکھا ہے ۔ درمختار کے مصنف نے جو لفط جائز قہستانی کی طرف منسو ب کیا ہے اور ثواب ہونے کو منسوب نہیں کیا‘ اس کا سبب یہ ہے کہ ثواب افعال میں ایک حکم شرعی ہے جس کے لیے کسی دلیل شرعی کا ہونا ضرور ہے ( اور بادشاہ کے نام لینے اور اس کے لیے دعا کرنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ) اور بحر الرائق میں مذکور ہے کہ بہتر نہیں ہے کہ بادشاہ کا نام لینا اور اس کے لیے دعا کرنا‘ کیونکہ عطاء ابن یسار تابعی سے روایت ہے کہ جب ان سے اس کی نسبت پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ نئی بات نکالی ہوئی ہے خطبہ میں تو صرف نصیحت ہوا کرتی تھی۔ اس تمام تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ خطبہ میں بادشاہ کا نام لینا اور اس کے لیے دعا کرنا کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے ۔ بلکہ مذہب کی رو سے بدعت و محدث ہے ۔ واللہ درمن قال کل محدث (ای فی الدین) بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ۔ جس طرح کہ خلفائے بغداد اپنے فخر و شیخی کے لیے خطبوں میں اپنا نام دلواتے تھے اسی طرح ہندوستان کے بادشاہ بھی اپنا نام خطبوںمیں دلواتے تھے مگر مذہب کے بالکل برخلاف تھا۔ ہم نے بھی اکبر شاہ وبہادر شاہ کا نام باوجودیکہ کچھ بھی بادشاہت ان کی باقی نہیں رہی تھی‘ دلی کی مسجدوں کے خطبوںمیں اور بیرون جات کی بھی بہت سی مسجدوںمیں لیا جاتا سنا ہے مگر ہندوستان کی بہت سی مسجدیں ایسی بھی تھیں کہ شاہ عالم کے بعد ان میں کسی بادشاہ کا نام نہیں لیا جاتا تھا اس لیے کہ اکبر بادشاہ وبہادر شاہ کو خطبہ میں بادشاہ کے نام سے ملقب کرنا وہ جھوٹ سمجھتے تھے اور خطبہ میں اس کا استعمال کرنا جھوٹ کا استعمال کرنا جانتے تھے۔ شاہ عال کے بعد جن مسجدوںمیں اکبر بادشاہ و بہادر شاہ کا نام نہیں لیا جاتا تھا وہ دوقسم کی ہو گئیں تھیں۔ جو لوگ کہ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے تھے کہ کسی مسلمان بادشاہ کا نا لینا چاہیے گووہ کہیں کا بادشاہ ہو انہوںنے تو سلطان روم کا نام لینا شروع کر دیا۔ او رشاید بمبئی کلکتہ اورا یسے ہی دور دراز کے شہروں میں اس کا رواج ہوا مگر اکثر مسجدوں میں کسی بادشاہ کا نام نہیں لیا جاتا تھا‘ بلکہ اور باقی مسجدوں میں مسلمانوں کے حق میں صرف یہ دعا ہوتی تھی کہ : اللھم ایدی المسلمین بالسلطان العادل (بعضی جگہ سلطان کے لفظ کے بدلے امام کا لفظ کہا جاتا ہے) والخیر والطاعۃ واتباع سنن سید الموجودات یعنی اے خدا مسلمانوں کی مددکر بادشاہ عادل کی حکومت سے ‘ ان کی مدد کر بھلائی کرنے سے اور خدا کی فرماں برداری اور رسول کی پیروی کرنے سے جو تمام موجودات کے سردار ہیں۔ یہی دعا ہندوستان کی اکثر مسجدوں میں پڑھی جاتی ہے ۔ پس جو بادشاہ ہم پر عدل و انصاف سے حکومت کرے‘ ہمارے مذہبی فرائض میں دست اندازی نہ کرے‘ ہماری جان و مال کی حفاظت کرے‘ ہمارے حقوق ہم کو عطا کرے وہ بھی اس دعا میں داخل ہے ۔ یہ دعا درحقیقت کسی بادشاہ کے لیے نہیں ہے ‘ بلکہ عام مسلمانوں کی بھلائی کے لیے ہے۔ پس یہ خیال کہ کسی بادشاہ کا خطبہ میں نام لینا کسی مذہبی مسئلہ پر مبنی ہے اور مسلمانوں کو اس بادشاہ کے مذہب کی رو سے کوئی مذہبی اطاعت واجب ہے‘ صحیح نہیں ہے۔ ٭٭٭ زمانہ کا اثر مذہب پر (از تہذیب الاخلاق یکم شوال ۱۳۱۱ھ جلد او ل نمبر اول دور سوم صفحہ ۱۴) زمانہ انسان پر سب سے بڑا اثر ڈالنے والا ہے ۔ وہ انسان کے خیالات ‘ اعتقادات‘ رسم و رواج کو اپنے پوشیدہ اثروں سے جو معلوم نہیں ہوتے بدلتا جاتاہے۔ دن وہی رہتا ہے ‘ رات وہی رہتی ہے ‘ سورج ایک ہی طرح نکلتا ڈوبتا ہے‘ چاند ایک ہی طرح پر گھٹتا بڑھتا ہے ۔ ستارے جس طرح چمکتے تھے اسی طرح چمکتے رہتے ہیں‘ پھر کیا چیز نئی ہوتی ہے جس سے اگلی چیزیں بدلتی ہیں اور دقیانوسی کہلاتی ہیں اور نئی چیزیں پیدا ہوتی ہیں اور انسانوں میں پھیلتی جاتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن چیزوں سے زمانہ گنا جاتا ہے‘ ان میں تو کچھ تغیر نہیں ہوتا‘ مگر خود انسان کے خیالات اور اس کے معلومات میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ نئے نئے علوم و فنون نکلتے آتے ہیں اور انسان پر موثر ہوتے ہیں اوروہی اس تغیر و تبدل کا باعث ہوتے ہیں اور یہ جو کہ وہ سب کسی نہ کسی زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں اس لیے مجاز اً زمانہ کے اثر سے اس کو تعبیر کرتے ہیں۔ جس طرح دنیوی خیالات‘ عادات اور رسم و رواج‘ حالت تمدن اور معاشرت پر زمانہ موثر ہوتا ہے‘ اسی طرح مذہب و اعتقاد پر بھی زمانہ کا اثر پڑتا ہے۔ ایک زمانہ یقین کا زمانہ کہلاتا ہے ۔ کہ جو بات کہی جاتی ہے گو وہ کیسی ہی عجیب ہو‘ اس پر سب کو یقین ہوتا ہے مگر حال کا زمانہ وہ زمانہ نہیں ہے۔ بلکہ شک کا زمانہ ہے ۔ کوئی بات ہو جب تک اس کے سچ ہونے کا یقین نہ آوے۔ سچ نہیںمانی جاتی اور یہی سبب ہے کہ انسانوں کے مذہب پر یا یوں کہو کہ ان کے اعتقادات پر زمانہ نے سب سے بڑا اثر ڈالاہے ۔ اگلے زمانہ کے واعظان مذہب اسلام جو بات سنتے تھے گو وہ کیسی ہی عجیب ہو اور گوکہ مذہب کی رو سے بھی اس کی تصدیق نہ ہوتی ہو بمقتضائے زمانہ خود بھی اس پر یقین کرتے تھے اور اوروں کو بھی یقین دلاتے تھے بلکہ جو بات بہت زیادہ عجیب ہوتی تھی وہ زیادہ تر موثر ہی ہوتی تھی۔ یہ خاصیت اس زمانہ کی تھی جس کو یقین کا زمانہ کہا جاتا ہے‘ مگر وہ زمانہ اب نہیں رہا‘ اب شک کا زمانہ ہے۔ اب جب کسی بات کا یقین نہ آوے مانی نہیں جاتی۔ ایسی باتیں مذہب اسلام کی جن پر اگلے زمانہ میں یقین ہو تا تھا اور اب یقین نہیں آتا ۔ ان حکایات اور واقعات اورنقل اقوال سے متعلق ہیں جو بطور روایت کے کتابوں میں مندرج ہیں یا روایتاً سینہ بہ سینہ ہ تک چلی آئی ہیں اور درحقیقت نہیں معلوم ہو سکتا کہ فی الواقع کیا بات ہوئی تھی اور کہاں تک تغیر و تبدل ہوتے ہوتے ان تک پہونچی ہے جنہوںنے ان کو کتابوں میں لکھا ہے یا وہ سینہ بہ سینہ ہم تک پہونچی ہیں۔ ہمار ے پیشوایان مذہب اس خرابی سے جو ضرور پیدا ہونے والی تھی بے خبر نہ تھے۔ یہودیوں کا مذہب‘ عسائیوں کا مذہب ان کے سامنے موجود تھا۔ وہ دیکھتے تھے کہ اور سمجھتے تھے کہ نقل حکایات اور واقعات اور اقوال میں کیا کچھ تغیر و تبدل ہو گیا ہے جس کے سبب بجائے اس کے کہ ان پر مذہب حق کا اطلاق ہو سکے مذہب باطل کا اطلاق ہوتا ہے۔ ہمارے پیشوائوں کو خوف تھا کہ ایسا نہ ہو کہ مذہب اسلام میں بھی یہی آفت نازل ہو‘ اس لیے انہوں نے کوشش کی کہ نقل حکایات اور واقعات اور اقوال کا طریقہ بند کیا جاوے ‘ کیونکہ وہ یقین کرتے تھے کہ بجنسہ بلا کسی کمی و بیشی کے ان کا نقل کرنا محالات سے ہے اور جس کیفیت اور حالت اس وقت کی تھی جب کہ وہ بات ہوئی اور کہی گئی تھی اور جو اس بات کے سمجھنے میں نہایت موثر ہے ‘ اس کا نقشہ سامعین کے سامنے کھینچنا ناممکن ہے ۔ پھر اس قول کے مطلب سمجھنے میں جو غلطی ہو سکتی ہے جیسے کہ حضرت موسیٰ اشعری کا بکاء علی المیت کا مطلب سمجھنے میں ہوئی اس کا دور کرنا اور اختلاف آرا کا مٹانا محال علی المحال تھا ‘ اس لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے لوگوں کو جمع کر کے (۱) کہا کہ تم رسول خدا صلعم کی بہت حدیثیں بیان کرتے ہو اور ان میں اختلاف کرتے ہو اور تمہارے بعد کے لوگ بہت زیادہ اختلاف کریں گے۔ پس تم رسول اللہ صلعم سے کوئی حدیث نہ بیان کیا کرو۔ جو کوئی تم سے کچھ پوچھے تو کہہ دو کہ ہم میں اور تمہارے میں اللہ کی کتاب یعنی قرآن مجید ہے حضرت عمرؓ نے بھی بہت دفعہ اور بہت لوگوں کو آنحضرتؐ سے حدیثوں کے روایت کرنے سے منع کیا اور کہ کہ : حسبنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱) ان الصدیق جمع الناس بعد وفاۃ بینھم فقال انکم تحدثون عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تختلفون فیھا والناس بعد کم اشد اختلافاً فلا تحدثوا عن رسول اللہ شیئاً فمن سالکم فقولوا بیننا وبینکم کتاب اللہ (تذکرۃ الحفاظ جلد اول صفحہ ۳)۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتاب اللہ یہاں تک کہ ایک دفعہ انہوںنے بڑے عالم اور فقیہہ تین صحابیوں کو ‘ یعنی ابن مسعود‘ ابودرداء اور ابو مسعود انصاری کو اس لیے کہ وہ آنحضرت صلعم سے بہت سی حدیثیں روایت کیا کرتے تھے قید کردیا (۱)۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بعد جو زمانہ آیا اورجس میں مشاجرات صحابہ اور جن جمل اور جنگ صفین واقع ہوئی اور آخر کار دردناک واقعہ شہادت حسین علیہ السلام کا واقع ہوا اور پھر بنی امیہ اور بنی عباس کا زمانہ آیا۔ وہ تو ایسا شور و شغب کا زمانہ اور روایات پر بد اثر ڈالنے والا تھا کہ جس کی خرابی بیان سے باہر ہے ۔ اس کے بعد زھاد اورشائقین فی الخیرات پیدا ہوئے اور اوروں کو بھی زھد و ریاضت و عبادت پر ترغیب دلانے کو اور قیامت کے عذاب کا ڈر جتلانے کو روایات ضعیف اور موضوع کے رواج پر مائل ہو گئے اور چھوٹے چھوٹے اعمال سے جنت الفردوس کا ملنا اور ادنیٰ ادنیٰ مصیبت پر جہنم میں داخل ہونے کا وعظ کرنے گے۔ یہ سب رطب و یاس کتابوںمیں جمع ہو گیا ہے اوراس زمانہ میں جو شک کا زمانہ ہے ہم تک پہنچا ہے۔ خیر جو کچھ ہوا وہ ہو چکا اب کیسا ہی افسوس کیا جاوے وہ مٹتا نہیں‘ مگر اب ہم کو یہ نہ کرنا چاہیے کہ اس رطب و یاس کو جو کچھ موجود ہے ‘ مذہب اسلام اور اس کی ہدایت سمجھ کر اسی کو مدار اسلام اور عین مذہب اسلام قرار دیں‘ بلکہ ہمارا یہ فرض ہے ہ جو حدیثیں درایتاً ثابت نہیں جو اصلی کسوٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۔ ان عمر حیس ثلثۃ ابن مسعود و ابا الدرداء و ابا مسعود الانصاری فقال اکثرتم الحدیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تذکرہ الحفاظ جلد اول صفحہ ۷) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ کے پرکھنے کی ہے ۔ ان کو نہ پیغمبر خدا صلعم کی طرف منسوب کریں اورنہ ان روایات ضعیف و موضوع کو اور اقوال شائقین فی الخیرات کو مذہب اسلام میں داخل کر کے مذہب کا ایک جزو قرار دیں اور قال رسول اللہ جب کہیں توہم غور کریں کہ ہم کس کی نسبت اس بات کو منسوب کرتے ہیں۔ یہ سمجھنا کہ جو حدیثیں اور روائتیں اگلے عالموں اور زاہدوں نے کتابوں میں لکھی ہیں ‘ انہی پر ہمارا اعتماد ہے کافی نہیں ہے‘ بلکہ خود اس کو سوچنا اور سمجھانا واجب ہے کہ جس امر کو ہم رسول خدا صلعم کی طرف منسوب کرتے ہیں گو کہ اوروں نے کیا ہو‘ اس کا منسوب کرنا صحیح ہے یا نہیں‘ کیونکہ جو وعید اس امر کی رسول اللہ صلعم کی طرف منسوب کرنے میں آئی ہے جو فی الحقیقت رسول خدا کی طرف منسوب نہیں ہے اس تقلید کے سبب وہ اس وعید سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ مسائل اجتہادیہ میں تقلید دوسری چیز ہے اور کسی امر کو رسول اللہ صلعم کی طرف منسوب کرنا دوسری چیز ہے ۔ ہاں اس میں کچھ شبہ نہیں کہ وعید تعمد کذب سے محفوظ رہ سکتا ہے ‘ مگر نہ کذب سے فقط ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔حصہ اول ۔۔۔۔جزو اول۔۔۔۔۔۔۔ اردو کا کلاسیکی ادب مقالات سر سید مذہبی و اسلامی مضامین حصہ اول جزو دوئم مرتبہ کتابۃ الاعمال و المیزان و الموازنۃ (از تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۶ (دوم سوم ) یکم ربیع الاول ۱۳۱۲ھ) قال اللہ تعالیٰ و ان علیکم لحافظین کراما کاتبین یعلمون ما تفعلون (سورۃ انفطار آیت ۱۰۔۱۲) ثم قال ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ فلا تظلم شیئاً وان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا وکفیٰ بنا حاسبین (سورۃ انبیاء آیت ۴۸) ثم قال والوزن یومئذن الحق فمن ثقلت موازینہ فاولٔک ھم المفلحون ومن خفت موازینہ فاولک الدذین خسرو انفسھم (سورۃ اعراف ۸‘۹) ان آیتوں کے مطابق جمہور مسلمین کا یہ اعتقاد ہے کہ انسان اپنی زندگی میں جو اچھے یا برے کام کرتے ہیں اس کو دو فرشتے لکھتے جاتے ہیں۔ قیامت کے دن ان سے حساب کتاب ہو گا اوراعمال تولے جاویں گے۔ جس کی نیکیاں بھاری نکلیں گی وہ نجات پاوے گا اورجس کی بدیاں بھاری ہو ں گی وہ عذاب پاوے گا۔ مگر بحث اس میں ہے کہ ان آیتوںمیں جو بیان کتابۃ الاعمال اور میزان اور موازنہ کا ہے وہ علی حقیقتہ ہے یا بطور تمثیل ہے۔ جس وقت امام غزالی نے کتا ب الاقتصاد لکھی تھی اس وقت تک کراما کاتبین کے لکھنے اور اعمال کے ترازو میں تولے جانے کو بطور حقیقت سمجھتے تھے‘ نہ بطور مثال کے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: قد سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ھذا فقال یوزن صحائف الاعمال فان کراما کاتبین یکتبون الاعمال فی صحائف من اجسام فاز اوضعت فی المیزان خلق اللہ تعالیٰ فی کفیھا میلا بقدر رتبہ الطاعات و ھو علی ما تشاء قدیر (صفحہ ۱۱۰ نسخہ قلمی) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات پوچھی گئی تھی۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اعمال کے لکھے ہوئے چٹھے تولے جاویں گے ۔ کیونکہ کراماً کاتبین ہر ایک انسان کے اعمال کا چٹھا لکھتے جاتے ہیں اوروہ مجسم چیز ہے ۔ پھر جب ان چٹھوں کو میزان میں رکھ دیں گے تو اللہ تعالیٰ اس کے پلڑوں میں ہلکا پن یا بھاری پن اعمال کے رتبہ کے موافق پیدا کر دے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ مگر اس حدیث کے صحیح و قابل تسلیم ہونے کی کوئی کافی دلیل اور سند انہوں نے نہیں بیان کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد امام صاحب کا خیال ترقی کر گیا اور انہوں نے میزان کو ایک مثالی امر تصور کیا ہے ‘ چنانچہ انہوںنے اپنی کتاب ’’المضنون بہ علی غیر اہلہ‘‘ میں لکھا ہے : تعلق النفس بالبدن کالحجاب لھا عن حقائق الامور و بالموت ینکشف الغطاء کما قال اللہ تعالیٰ فکشفنا عنک غطاء ک ومما یکشف لہ تاثیر اعمالہ مما یقربہ الی اللہ تعالیٰ و یعبدہ وھی مقادیر تلک الاثار و ان بعضھا اشد تاثیر ا من البعض ولا یمتنع فی قدرۃ اللہ تعالیٰ ان یجری سیا یعرف الخلق فی لحظۃ واحدۃ مقادیر الاعمال بالاضانۃ الیٰ تاثیرا تہا فی التقریب والا بعاد فحد المیزان ما یتمیز بہ الزیادۃ من النقصان و مثالہ فی العالم المحسوس مختلف فمنہ المیزان المعروف و منہ القبان لا ثقال و الاصطرلاب لحرکات الفلک والاوقات و المسطرۃ للمقادیر و الخطوط والعروض للمقادیر حرکات الاصوات فالمیزان الحقیقی اذا مثلہ اللہ عز و جل للحو اس مثلہ بما شاء من ھذہ الامثلۃ او غیر ھا فحقیقۃ المیزان وحدہ موجود فی جمیع ذالک وھو ما یعرف بہ الذیادۃ من النقصان و صورۃ یکون مقدرۃ للحس عند التشکیل وللخیال عند التمثیل واللہ تعالیٰ اعلم بما یقدر ہ من صنوف التشکیلات و التصدیق بجمیع ذالک واجب ‘‘ (المضنون بہ علی غیر اھلہ صفحہ ۳۵ء ۳۶ مطبوعہ مصر)۔ (ترجمہ) ’’نفس انسانی کا تعلق بدن کے ساتھ گویا اس کے لیے ایک پردہ ہے حقائق امور میں اور موت سے وہ پردہ کھل جاتا ہے‘ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ پھر کھول دیا ہم نے تجھ سے تیرا پردہ اور چیز کہ اس کو منکشف ہوتی ہے وہ اس کے اعمال کی تاثیر ہے جو قریب کرتے ہیں اس کو اللہ سے یا بعید کرتے ہیں اور یہی اندازہ ہے ان اثروں کا اور ان میں سے بعض زیادہ تاثیر والے ہیں بعض سے اور خدا کی قدرت سے دور نہیں ہے کہ کوئی ایسا سبب نکالے جس سے ایک لحظہ میں تمام خلق اعمال کے مقادیر بہ نسبت ان کی تاثیروں کے جو نزدیکی یا دوری میں ہیں جان لے۔ میزان حقیقت میں اس چیز کا نام ہے جس سے کسی شئی کی کمی یا زیادتی معلوم ہو ‘ مثلاً اس دنیا میں ثقیل چیزوں کے تولنے کے لیے پلڑے دار ترازو ہے ‘ آسمانوں کی حرکت اور وقت دریافت کرنے کی میزان یعنی ترازو اصطرلاب ہے ‘ یعنی میزان الشمس یعنی آفتاب کی ترازو اور سطروں کے اندازہ کی ترازو مسطر ہے اور حرفوں کے مقدار اور حرکات‘ یعنی اشعار کی میزان‘ یعنی ترازو علم عروض ہے اور آواز کی حرکات‘ یعنی گانے کی ترازو علم موسیقی ہے ۔ پس خدا کو اختیار ہے کہ اعمال کے اندازہ کے طریقہ کو متمثل کر دے جس سے زیادتی و کمی اعمال کی معلوم ہو اوار ا س کی صورت محسوس موجود ہو یا صرف خیال میں تمثیل ہو تو اور خدا کو معلوم ہے کہ وہ اس کی ایسی صورت پیدا کرے گا جو محسوس ہویا ایسی پیدا کرے گا جو تمثیل خیالی ہو اور اللہ جانتا ہے جس طرح کی وہ بناوے گا تمثیلات کی قسموں میں سے اور اس سب پر تصدیق واجب ہے ۔ اس اخیر بیان میں امام صاحب نے میزان کے وجود حقیقی کو تسلیم نہیں کیا‘ بلکہ وجود مثالی‘ یعنی خیالی یا عقلی یا شبہی کو تسلیم کیا ہے اور جب کہ میزان کا وجود حقیقی ان کے نزدیک نہیں رہا تو موازنہ اعمال کا بھی مثالی ہو اور حقیقی نہ رہا اورجب موازنہ اعمال کا حقیقی نہ رہا تو کراماً کاتبین کا لکھنا بھی حقیقی نہ رہا اور اس لیے جو کچھ ان آیتوں میں مذکور ہے ۔ وہ سب مثالی ہو گیا۔ امام صاحب نے اپنی کتاب ’’التفرقۃ بین الاسلام والزندقہ‘‘ میں وجود کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں (۱) وجود ذاتی حقیقی (۲) وجود حسی جو صرف محسو ہو اورخارج میں اس کا وجود نہ ہو (۳) وجود خیالی جو صرف خیال میں موجود ورہے (۴) وجود عقلی جس سے ہر سہ وجود مذکورہ بالا کی صرف غایت کا وجود مراد ہو (۵) وجود شبہی بفتح شین و بائے موحدہ جس سے وہ چاروں کو وجود مراد نہ ہوں‘ بلکہ اور شی مراد لی جاوے جو اس پر مبنی ہو۔ اس کے بعد امام صاحب فرماتے ہیں کہ جس شخص نے شارع کے اقوال کو ان قسموںمیں سے کسی قسم پر تسلیم کیا وہ شارع کے اقوال کا تصدیق کرنے والا ہے نہ کہ تکذیب کرنے والا۔ ہمار ا بھی اعتقاد یہ ہے کہ ان آیتوں میں کتابت اعمال اور میزان و موازنہ کا جو ذکر ہے وہ مثالی ہے۔ مقصود اس بات کا بتانا ہے جو کچھ انسانوں نے اپنی زندگی میں اچھا یا برا کیا ہے اس میں سے کچھ بھی کھویا نہیں جاوے گا۔ بلکہ قیامت کے دن بے کم و کاست سب موجود ہو گا اور اس پر جزا و سزا ہو گی جیسے کہ خدا نے فرمایا: فلا تظلم نفس شیئاً و ان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا و کفیٰ بنا حاسبین۔ حالات معاد یا واقعات بعد الموت اس قسم کے ہین جن سے انسان بالکل ناواقف ہے اور ان کی حقیقت واقعی کا عموماً انسانوں کو سمجھانا نہایت دشوار ہے‘ بلکہ قریب ناممکن ہے اور اس لیے بجز اس کے اور کچھ چارہ نہیں ہے کہ ایسی تمثیلوں سے ان کا بیان کیا جاوے کہ انسان کے دل پر اس کا کچھ خیال پیدا ہو۔ خدا خود فرماتا ہے : ویضرب اللہ الامثال للناس لعلھم یتذکرون۔ چونکہ انسانوں کی عادت تھی کہ جو حالات واقع ہوں ان کی یادداشت ایک کاغذ پر لکھ دیں اور ایک چیز کا دوسری چیز سے کم و بیش ہونا دریافت کرنے کو ان کو وزن کر لیں اور ایسا کرنے سے ان کو لکھی ہوئی یادداشت پر یقین ہوتاہے اور دونوں چیزوں کے کم وہ بیش ہونے میں کچھ شبہ نہیں رہتا اس لیے بطور تمثیل کے خدانے فرمایا: کراماً کاتبین یعلمون ما تفعلون۔ ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ فلا تظلم نفس شیئاً۔ یہ مقصود جو قرآن مجید کا تھا اس کو بلا خیال اس کے کہ یہ بیان حقیقت ہے یا تمثیلی‘ تمام بدوان عرب اور صحابہ و تابعین اور تبع تابعین بخوبی جانتے تھے اور سمجھتے تھے اور یقین کرتے تھے اور اس سے زیادہ جاننے کی اور بیان کرنے کی اور حجت کرنے کی ان کو کوئی ضرورت نہ تھی اور اس زمانہ میں بھی اگر کوئی خدا کا بندہ اسی طرح پر ان پر یقین کرے تو اس کے کامل بلکہ اکمل الایمان ہونے میں کچھ کلام نہیں ہو سکتا‘ مگر جب علوم نے ترقی کی اور متعدد قسم کے علوم شائع ہوئے اور یہ خیال پیدا ہوا کہ خدا تو خود عالم ہے : وھو یعلم سرکم و جھرکم و یعلم ما فی انفسکم ۔ وان تبدو ا ما فی انفسکیم او تخفو ہ یحاسبکم بہ اللہ اور نسیان کا اس پر احتما ل نہیں ہے تو اس کے لیے یادداشت لکھنے کے کیا معنی ہیں پھر فرشتوں کے لکھنے سے کیا مرادہے۔ اعمال تو اعراض ہیں وہ ترازو سے کیونکر تولے جا سکتے ہیں۔ ان کی شدت و خفت کا کیونکر اندازہ ہو سکتا ہے۔ تو ان آیتوں کی حقیقت پر زیادہ غور کرنی واجب ہوئی اور مطابق سیاق و سباق قرآن مجید کے اور دیگر آیات کے اشارات سے ثابت ہوا کہ جو کچھ ان آیتوں میں بیان ہوا ہے وہ تمثیلی ہے ۔ پس اگر کوئی یہ حجت کرے کہ ان آیتوں کا تمثیلی ہونا بدوان عرب نے یا صحابہ و تابعین نے بھی سمجھایا تھا کیسی نادانی کی حجت ہے ۔ ہم نے قرآن مجید کی تفسیر میں روح کے وجود پر مستوعب دلیلیں بیان کی ہیں اور ثابت کیا ہے کہ رو ح ایک سم لطیف ہے قائم بالذات اور وہ ایسے مادہ میں جو اس کی قابلیت رکھتا ہے داخل ہو جاتی ہے اور تمام حیوانوں اور انسانوں میں وہی باعث تعقل و ارادہ ہے۔ اس بات کو بھی ہم نے ثابت کیا ہے کہ روح کا سب و مکتسب ہے اور بذریعہ جسم انسانی کے جب وہ اس میں شامل ہوتی ہے سعادت اور شقاوت کا اکتساب کرتی ہے۔ اس وقت دنیا میں بہت لوگ ہیںجو نہایت نیک ہیں اور اخلاق حمیدہ اور صفات پسندیدہ اپنے میں رکھتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو نہایت بد ہیں اور اخلاق و خصائل رذیلہ کا اثر ان کے اعضا میں ہوتا ہے تو کسی عضو کے ضائع ہونے سے اخلاق میں کچھ کمی ہو جاتی ہے‘ حالانکہ کچھ کمی نہیں ہوتی اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گوشت پوست اعضا کے سوار جو اور کوئی چیز انسان میں ہے اس میں اخلاق اور رذائل مستقر ہوتے ہیں علاوہ اس کے انسان کے اعضاء اس کی ہڈیاں اس کا گوشت پوست سب تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اگر انسان کا جسم اخلاق حمیدہ یا خصائل رذیلہ کا محل ہوتا تو وہ بھی تبدیل ہوتے رہتے ۔ پس کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ روح جو انسان میںہے وہی کاسبب و مکتسب اور محل علم و اخلاق ہے نہ انسان کا جسم اور نہ کوئی عضو اعضائے انسان میں سے۔ کسب وا کتساب کے معنی ہیں کسی چیز کے کسی ذریعہ سے حاصل کرلینے کے جس کو کمائی کہتے ہیں قرآن مجید میں بھی یہ لفظ یا اس کے مشتقات بہت جگہ آئے ہیں اور اسی بھلائی یا برائی کی نسبت بولے گئے ہیں جس کو انسان نے حاصل کر لیا ہے جیسے کہ ایک جگہ فرمایا ہے : تلک امۃ قد خلت لنھا ما کسبت ولکم ما کسبتم غرضیکہ اعمال و افعال کا اثر فی الفور انسان کی روح پر ہوتا ہے ‘ جیسے کہ آئینہ میں ہر چیز کی جو اس کے سامنے آتی جاتی ہے صورت بنتی جا رہی ہے ۔ اس زمانہ میں اس کی مثال فوٹو گراف کے پلیٹ سے خوب سمجھ میں آوے گی۔ فوٹو گراف کے کیمرہ میں پلیٹ رکھی ہو۔ اس کے سامنے جو چیزیں آتی جاویں گی ان کا نقش پلیٹ پر رہتا جاوے گا۔ اس طرح روح میں افعال نیک و بد کا اثر بمجرد ارتکاب افعال سے ہوتا رہتا ہے اور اسی سبب سے روح کے جسم میں ان اثرات کے سبب سے ایک تغیر پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس کو کاسب مان لیا گیا ہے اورجدید چیز کے اکتساب سے تغیر ہونا لازمی ہے اوررفتہ رفتہ ان تغیرات کے سبب روح ایک ایسا جسم حاصل کر لیتی ہے ۔ جو پہلے جسم سے بلحاظ عوارض جدیدہ کے مختلف ہے ۔ جب تک کہ روح بدن انسانی میں شاغل ہے اس کو ان اثرات کے جو ا س نے کمائے ہیں نتیجے محسوس نہیں ہوتے ‘ مگر جب وہ بدن سے الگ اور مجرد عن العلائق ہو جاتی ہے اس وقت اس کو اپنے کمائے ہوئے اثرات کے نتائج اچھے یا برے محسوس ہوتے ہیں جن کو جزا یا سزا یا سزائے اعمال سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ پس اعمال نیک یا افعال بد کے جو اثرات روح انسانی میں مستقر ہوتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ نے کتابت کراماً کاتبین کی مثال میں بیان کیا ہے اور وہی ذریعہ ہیں نیکی و بدی کی مقدار ظاہر ہونے کا جو نتیجہ ہے میزان اور موازنہ کا‘ اس لیے وزن اعمال کی مثال سے اس کو تعبیر کیا ہے اور اس بات کو جتلایا ہے کہ قیامت میں کسی کے ساتھ ظلم نہیں کیا جاوے گا۔ ولھذا قال فی موضع و نضع الموازین القسط۔ فالقسط ھوالعدل و موازین القسط ھو العدل کما یقول الموازین ھو العدل ۔ المیزان ھوالعدل۔ فنعتقد ان کراما کاتبین حق و المیزان حق ووزن الاعمال حق ولکن کلھا امثال ضرب اللہ الامثال للناس لعلھم یتذکرون۔ ٭٭٭ گناہ سے کیوں عذاب ہوتا ہے اور شرک سے کیوں نجات نہیں ہوتی (از تہذیب الاخلاق جلد اول نمبر ۶ (دوم سوم) یکم ربیع الاول ۱۳۱۲ھ صفحہ ۹۶ تا ۱۰۱) مقدمات مسلمہ ۱۔ ایک دوست کہتے ہیں خہ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ خدائے واحد لا شریک لہ ازلی و ابدی علۃ العلل جمع کائنات۔ ۲۔ اس کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ روح جو ہر مستقل بالذات ہے اور انسان میں وجود ہے۔ ۳۔ اس کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا وجود ثابت ہوتا ہے ‘ الا اس کی ماہیت اسی طرح لامعلوم ہے جس طرح کہ اور چیزوں کی ماہیت بے معلوم ہے ۔ ۴۔ اس کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ روح کا سب اور مکتسب ہے اور انسان کی زندگی میں اخلاق حمیدہ اور خصائل ذمیمہ کا اکتساب کرتی ہے۔ ۵۔ اس کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بعد موت کے روح قائم رہتی ہے۔ ۶۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان کے اخلاق حمیدہ سے خدا کی شان میں کچھ زیادتی اور خصائل ذمیمہ سے اس کی شان میں کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ ۷۔ پھر کیوں خدا گناہوں سے ناراض ہو کر سزا دیتا ہے اور شرک سے اس کی شان میں کیا کیا نقصان لازم ہے اور روح میں جو جوہر مستقل بالذات ہے کیا اثر پیدا ہوتا ہے کہ اس کو مانع نجات قرار دیا ہے اور فرمایا ہے : ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذالک لمن یشاء ۔ میں نے بھی کچھ کتابیں پڑھی ہیں اورمنقولات کی پسند پر میں بھی اس کا جواب دے سکتا ہوں مگر میں صرف عقلی دلائل اور فطرت کی رو سے اس کا جواب شافی چاہتاہوں جس سے دل کو طمانیت ہو اور جو خدشات دل میں آتے ہیں وہ دور ہو جاویں۔ اے عزیز دوست! پہلے چھ مقدمے مذکورہ بالا تو بالکل صحیح ہیں مگر ساتویں مقدمہ نے تم کو تردد میںڈالا ہے ‘ جس کو تم اچھی طرح نہیں سمجھتے ۔ قبل اس کے کہ میں تمہارا خدشہ رفع کروں تم کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں جس قدر اوامر اور نواہی منصوص ہیں وہ تمام اوامر فطرتاً انسان کی فطرت کو اعلیٰ درجہ پر ترقی دیتے ہیں اور روح کو مجلا اور انسان میں اخلاقی عمدگی پیدا کرتے ہیں اور جس قدر نواہی ہیں وہ فطرتاً انسان کی فطرت کو مضرت پہنچاتے ہیں اور رو ح کو کثیف اور انسان میں خصائل ذمیمہ پیدا کرتے ہیں ۔ اگر تم چاہو گے تو ہم کسی وقت اس امر کو دلائل عقلی سے ثابت کریں گے مگر اس آرٹیکل میں اس پر بحث ضروری نہیں۔ اس امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور تم بھی انکار نہ کرو گے کہ اخلاق حمیدہ اور خصائل ذمیمہ انسان کے کسی اعضاء جسمانی میں پیدا نہیں ہوتے‘ بلکہ روح انسانی میں جو کا سب اور مکتسب ہے اخلاق حمیدہ اور خصائل ذمیمہ پیدا ہوتے ہیں۔ اعمال حسنہ یعنی مامور بہا اور افعال قبیحہ ‘ یعنی منہی عنہا کے ارتکاب سے روح فی الفور سعادت یا شقاوت اکتساب کرتی ہے جیسے آئینہ کہ بمجرد مقابل ہونے کسی چیز کے اس کا عکس حصول سعادت یا شقاوت امر فطری ہے اور بمجرد ارتکاب اعمال و افعال کے اس کا اثر روح میں ہوتا ہے اور کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں رہتی۔ ثواب کیا چیز ہے؟ حاصل ہونا ثواب کا ہے روح میں اور عقب کیا چیز ہے؟ حاصل ہونا شقاوت کا ہے روح میں۔ پس ثواب اور عقاب دونوں امر فطری ہیں جو بمجرد ارتکاب افعال و اعمال حاصل ہوتے ہیں اور یہ خیال کرنا کہ ثواب اور عقاب معلق رہتے ہیں اور خدا بعد کو ثواب یا عذاب دیتا ہے ‘ صحیح نہیں ہے۔ ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ جب روح مجرد عن العلائق ہو جاتی ہے تو اس کو وہ محسوس ہوتے ہیں اور اسی کو خدا نے ثواب دینے اور عذاب دینے سے تعبیر کیا ہے اور اس راحت کو جو حصول سعادت سے حاصل ہوتی ہے اور ان آلام کو جو حصول شقاوت سے حاصل ہوتے ہیں خدا نے امثال نعیم جنت اور آلام دوزخ سے بیان کیا ہے ‘ کیونکہ اصلی نعیم جنت اور آلام دوزخ انسا ن کی سمجھ سے باہر ہیں اور اس کے لیے امثال سے وہ بیان کیے جاتے ہیں‘ تاکہ انسان میں ان کا کچھ خیال پیدا ہو۔ امام غزالی نے اپنی کتاب ’’المضنون بہ علیٰ غیر اھلہ‘‘ میں اس مطلب کو عمدہ طرح پر بیان کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں: واما العقاب علیٰ ترک الامر و ارتکاب النھی فلیس العقاب من اللہ تعالیٰ عضباً و انتقاماً و مثال ذالک ان من غادر الوتاع عاقبہ اللہ تعالیٰ بعد مرالو لدومن ترک ارضع الطفل عاقبہ بھلاک اولد ومن ترک الا کل والشرب عاقبہ بالجوع والعطش ومن ترک تناول الادویۃ عاقبہ بالم المرض و غضب اللہ تعالیٰ عبادہ غیر ارادتہ الایلام کما ان الاسباب والمسیاب یتادیبعضھا الیٰ بعض فی الدنیا بترتیب مسبب الاسباب فبعضھا یغفی الی لام و بعضا الی اللذات ولا یعرف عو اقبہا الا الانبیاء فذالک نسبہ الطاعات و المعاصی الیٰ امم الآخرہ ولذاتھا من غیر فرق (صفحہ ۱۶۔۱۷ مطبوعہ مصر) (ترجمہ) ’’باقی رہا امر کے چھوڑنے اور نہی کے اختیار کرنے پر عذاب کا ہونا تو یہ عذاب خداکا غصہ اور انتقام نہیں ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ جو شخص بیوی کے پاس نہ جاوے خدا اس کو اولاد نہ دے گا اور جو شخص بچہ کو دودھ نہ پلوائے گا خدا اس کے بچے کو ہلاک کردے گا اور جو شخص کھانا پینا چھوڈ دے گا خدا اس کو بھوک اور پیاس کی مصیبت میں مبتلا کر دے گا اورجو شخص دوا استعمال نہ کرے گا خدا اس کو بیماری میں مبتلا کر ے گا۔ خدا کا غصہ اپنے بندوں پر اس طرح نہیں ہے کہ وہ ان کو دکھ دینا چاہتا ہے ۔ جس طرح اسباب اور مسبباب ایک دوسرے کا سبب ہوت ہیں چنانچہ بعض تکلیف کا سبب ہوتے ہیں اور بعض آرام کا اور یہ ترتیب خود مسبب الاسباب نے قائم کی ہے اور سبب و مسبب کے اس تلازم کی وجہ سے پیغمبروں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اسی طرح نیکی اورگناہ قیامت کی تکلیف اور آرام کے سبب ہیں بغیر کسی فرق کے ‘‘۔ خدا کی رضامندی یا نارضامندی اور اس کے اوامر اور نواہی کو بندوں کی سی رضامندی یا نارضامندی اور ان کے سے اوامر و نواہی پر قیاس کرنا محض غلطی ہے۔ خدا حقیقت میں راضی ہوتاہے نہ ناراض‘ مگر بندے جو کچھ کرتے ہیں اپنے لیے آپ ہی کرتے ہیں۔ اس امر کی نسبت بھی امام غزالی نے اسی کتاب میں نہایت عمدہ مضمون لکھا ہے وہ فرماتے ہیں: تکلیف اللہ تعالیٰ عبادہ لا یضاھی تکلیف الانسان عبدہ الاعمال الی برتبط بھا غرضہ وما لا حظ لہ فیہ ومالا یحتاج الیہ فلا یکلفہ بہ و تکلیف اللہ تعالیٰ عبادہ یجری مجری تکلیف الطبیب المریض فاذا غلبت علیہ الحرارۃ امرہ بشرب المبردات و الطبیب غنی عن شربہ لا یضرہ مخالفتہ ولا ینفعہ موافقتہ ولکن الضرو النفع یرجعان الی المریض و انما الطبیب ھادو مرشد فقط فان و فق المریض حتیٰ و افق الطبیب شفی و تخلص و ان لم یوفق فخالفہ تمادی بہ المرض و ھلک و بقائوہ وھال کہ عند الاطبیب شیان فانہ مستغن عن بقائہ وفنا ئہ فکما ان اللہ تعالیٰ خلق للشفاء سببا مفضیا الیہ کذالک خلق السعادۃ سببا وھوا لطاعات و نی النفس عن الھویٰ بالمجاھدۃ المزکیۃ لھا عن رذائل الاخلاق منجیات و رذائل الاخلاق فی آخرۃ مھلکات کما ان رزائل الاخلاط ممر ضات فی الدنیا و مھلکات و لامعاصی بالا ضافۃ الیٰ حیوۃ الاخرۃ کالمسوم بالا ضافۃ الیٰ حیوۃ الدنیا و للنفوس طب کما ان للا جساد طبا ء والانبیاء علیہم الصلوۃ و السلام اطباء النفوس یرشدون الخلق الیٰ طریق الفلاح بتمھید الطریق المزکیۃ للقلوب کما قال اللہ تعالیٰ قد افلح من زکا ھا و قد خاب من دسا ھا ثم یقال ان الطبیب امرہ بکذا و منہاھ عن کذاوانہ زاد مرضہ لا نہ خالف الطبیب وانہ صح لا نہ راعی قانون الطبیب ولم یقصر فی الاحتماء و بالحقیقۃ لم یتماد مرض المریض بمخالفۃ الطبیب لعین المخالفۃ بل لا نہ سلک غیر طریق الصحۃ الی امرہ الطبیب بھا فکذلک التقویٰ ھی الاحماء الذی ینفی عن القولب امراضہا و امراض القلو ب تفوت حیاۃ الاخرۃ کما تفوت امراض الا جساد حیاۃ الدنیا والمثال الاخر ان ملکا من ملوک الناس امر لبعض عبیدہ الغائب عن مجلسہ بمال ومرکوب لیتوبہ تلقاہ لینال رتبہ القرب منہ ولیسعد بسببہ مع استغنا ء الملک عن الاستعانہ بہ و تصمیم العزم علیٰ ان لا یستخدمہ اصلاثم ان ان العبد ان ضع المرکوب و اھلکہ و انفق المال لا فی زاد الطریق کان کافر اللنعمۃ وان کرکب المرکوب و انفق لامل فی الطریق متزو دابہ کان شاکر اللنعمۃ لا بمعنی انہ انال الملک حظانا لم یرو فی الا نعام علیہ وی فی تکلیف الحضور حظا لنفسہ ولکن اراد سعادۃ العبد فاذا وافق مراد السید فیہ کان شاکر او ان خالف عدت مخالفتہ کفرانا واللہ تعالیٰ جلالہ و استغنائہ ولکنہ لا یرضی الطبیب ھلاک المرضی ویعالجہم ولا برضی الملک المستغنی عن عبدہ لعبدہ الشاوۃ بالبعد عنہ و یرید لہ السعادۃ بالقرب منہ وھو غنی عنہ قرب او بعد فھکذا ینبغی ان یفھم امرا التکلیف فان الطاعات ادویۃ و المعاصی سموم و تاثیر ھا فی القلوب ولا ینجوالا من اتی اللہ بقلب علیم کما لا تسعد الصحۃ الا من اتی بمزاج معتدل وکما یصح قول الطبیب للمریض قد عرفتک ما یضرک وما ینفعک فان و افقتنی فلنفسک و ان خالفت فعلیھا کذالک قال اللہ تعالیٰ من اھتدیٰ فانما یھتدی لفسہ ومن ضل فانما یضل علیہا وقولہ من عمل صالحا فلنفسہ ومن اساء فعلیہا۔ (صفحہ ۱۳۔۱۴۔ ۱۵) (ترجمہ) ’’خدا جو بندوں کو اعمال کی تکلیف دیتا ہے یہ اس طر ح کا تکلیف دینا نہیں ہے جس طرح انسان اپنے غلا م کو دیتا ہے یعنی جن کاموں سے انسان کی غرض متعلق ہے ان کے کرنے کا حکم دیتا ہے اور جن سے کچھ غرض متعلق نہیں ہے ان کے کرنے کا حکم نہیں دیتا۔ خدا کا تکلیف دینا ایسا ہے کہ جس طرح حکیم بیمار کو تکلیف دیتا ہے‘ یعنی جب بیمار پر حرارت کا غلبہ ہوتا ہے تواس کو ٹھنڈی چیزوں کے پینے کا حکم دیتا ہے‘ حالانکہ حکیم کو اس کے پینے سے کچھ غرض نہیں ہے۔ اگر بیمار حکیم کا کہنا نہ مانے تو حکیم کا کچھ نقصان نہیں اور مانے تو ا س کا کچھ فائدہ نہیں۔ نقصان یا فائدہ جو کچھ ہے جو بیمار کا ہے حکیم تو صرف ایک رہنما ہے۔ اگر بیمار کو کوئی تکلیف ہو ئی تو اس نے حکیم کا کہنا مان لیا تو اس کو بیماری سے نجات ہو جاوے گی ورنہ اس کا مرض بڑھتا جائے گا‘ یہاں تک کہ وہ تباہ ہو جائے گا اور اس کا زندہ رہنا یا مرجانا حکیم کے لیے یکساں ہے کیوںکہ وہ بیمار کی زندگی و موت سے مستغی ہے۔ پس جس طرح خدا نے شفا کے لیے ایک سبب مقرر کیا ہے اسی طرح سعادت کے لیے طاعت و بندگی کو سبب بنایا ہے اور نفس کو مجاہدہ کے ذریعہ سے جو رذیل عبادتوں سے محفوظ رکھے۔ خواہش نفسانی کو روکنا نجات دینے والی چیزوں میں سے ہے اور رذیل عادتیں ہلاک کرنے والی چیزوں میںہیں۔ جس طرح کہ خلطیں دنیا میں بیماری کا سبب ہوتی ہیں اور گناہ اخروی زندگی کے حق میں ایسے ہیں جیسے دنیاوی زندگی کے لیے زہر اور نفس انسانی کے لیے ایک طب ہے‘ جس طرح بدن کے لیے طب ہے اور انبیاء علیھم السلام روح کے طبیب ہیں لوگوں کو بھلائی کی طرف راستہ دکھاتے ہیں‘ اس طریقہ کے درست کرنے کا ذریعہ سے جو قلب کا تزکیہ کرتا ہے۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کامیاب ہوا جس نے اس کو پاک کیا اور ناکام رہا جس نے اس کو خراب کیا۔ پھر کہا جاتا ہے کہ حکیم نے اس کو اس بات کا حکم دیا تھا اور اس بات سے منع کیا تھا اور یہ کہنا کہ اس کا مرض اس وجہ سے بڑھ گیا کہ اس نے حکیم کی مخالفت کی اور وہ اس وجہ سے صحیح ہوگیا کہ اس نے حکیم کے قاعدوں کا خوب لحاظ رکھا اور اس میںکچھ کمی نہ کی اور درحقیقت بیمار کا مرض محض حکیم کی مخالفت کی وجہ سے نہیں بڑھا‘ بلکہ اس وجہ سے مریض نے اس طریقہ کے خلاف عمل کیا جو صحت ک لیے حکیم نے بتایا تھا۔ اسی طرح پر پرہیز گاری بھی وہ پرہیز ہے جو قلبی بیماریوں کو دور کر دیتی ہے اور دل کی بیماریاں حیات اخروی کے فنا ہوجانے کے سبب ہیں‘ جس طرح کہ بدن کی بیماریوں کی وجہ سے دنیا کی زندگی فوت ہو جاتی ہے اور اس کی دوسری مثال یہ ہے ہ ایک بادشاہ نے اپنے غلام کو جو دربار سے غائب ہے حکم دیا کہ اس کو کچھ مال دو اور سواری بھیجی جائے‘ تاکہ وہ بادشاہ کے پاس حاضر ہو اور بادشاہ کے تقرب کا مرتبہ حاصل کرے اور سعادت مند ہو‘ حالانکہ بادشاہ کو اس کی اعانت کی کچھ ضرورت نہیں ہے اور بادشاہ قطعی ارادہ ہے کہ اس سے خدمت نہ لے پھر اگر اس غلام نے وہ سواری ضائع کر دی اور روپیہ برباد کر دیا اور سفر خرچ میں اس کو نہیں لگایا تو وہ کفران نعمت کا مرتکب ہو گا اور اگر وہ سواری پر آیا اور روپہیہ کو سفر خرچ میں لگایا تو شکر گزار سمجھا جائے گا۔ کچھ اس وجہ سے نہیں کہ اس نے بادشاہ کو فائدہ پہنچایا ۔ کیوں کہ بادشاہ کو اس کی حضوری سے اور انعام دینے سے اپنا فائدہ تو مقصود نہیں تھا‘ بلکہ اس کو غلام کی بھلائی اور سعادت مقصود تھی۔ سو اگر بادشا ہ کے حسب مرضی کام کیا تو شکر گزار ہوگا اور اگر مخالفت کی تو اس مخالفت ناشکری سمجھی جائے گی اور خدا کے نزدیک کافروں کا کفر کرنا یا ان کا ایمان لانا سب برابر ہے‘ بلحاظ خدا کے حلال اور استغناء کے لیکن وہ بندوں کو ناشکری کرنی زیبا نہیں ہے اس لیے کہ وہ ان کو بدبخت بنا دیتی ہے جس طرح کہ حکی بیماروں کا ہلاک ہوجانا پسند نہیں کرتا اور ان کا معالجہ کرتا ہے اور بادشاہ جو اپنے غلام سے مستغنی ہے غلام کی بدبختی کو اپنی خدمت کی دوری سے پسند نہیںکرتا اور اس کے لیے اس کی سعادت چاہتا ہے بذریعہ اپنے قرب کے ‘ حالانکہ وہ اس کے قرب و بعد سے مستغنی ہے۔ پس اسی طرح خدا کی تکلیف کو خیال کرنا چاہیے‘ کیوں کہ طاعت دوا ہے اور گناہ زہر اور اس کا اثر دل پر ہوتا ہے اور نجات نہیں پاتا‘ مگر وہ شخص جو خدا کے سامنے قلب سلیم لے کر آئے جس طرح کہ صحت نہیں پاتا‘ مگر وہ شخص جو مزاج دین اعتدال رکھتا ہو اور جس طرح کہ حکیم کا یہ کہنا صحیح ہے کہ میں نے تجھ کو بتا دیا ہے کہ یہ چیز مضر ہے اور یہ مفید۔ پس اگر تو میرا کہا مانے گا تو اپنے لیے اور نہ مانے گا تو اپنے لیے‘ اسی طرح خداتعالیٰ نے کہا کہ جو ہدایت حاصل کرتاہے وہ اپنے لیے اور جو شخص گمراہ ہوتا ہے وہ اپنے لیے اور یہ کہ جو شخص اچھے عمل کرتا ہے وہ اپنے لیے اور جو شخص بر ے کام کرتا ہے وہ اپنے لیے۔ ترکیب اخلاط سے انسان یا حیوان کے بدن میں ایک بخار لطیف پیدا ہوتا ہے جس کو شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البلاغۃ میں نسمہ سے تعبیر کیاہے اور ان ہی بخارات کو روح حیوانی یا جان یعنی زندگی کہا جاتاہے ۔ اور روح جو ہر لطیف مستقل بالذات ہے ان ہی بخارات سے شامل ہوتی ہے اور بذریعہ اس نسمہ کے جسم سے اور یہی شمولیت روح کو سعادت یا شقاوت اختیار کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ اس کے دلائل بجائے خود مذکور ہیں اور شاہ صاحب نے بھی اپنی کتاب حجۃ اللہ البلاغہ میں ان کو بیان کیا ہے ۔ پس روح جب ان بخارات سے ملتی ہے تو مطابق اصول کیمیائی کے اور قسم کا جسم حاصل کر لیتی ہے جسکا اس پہلے جسم سے ایک خصوصیت کے ساتھ مختلف ہونا لازمی ہے۔ یہ جسم انسان کے اعمال نیک اور افعال بد سے موثر ہوتا رہتاہے ‘ جیسے ایک لباس ہو اور اس پر مختلف رنگ کے چھینٹے پڑتے جاویں جس سے اس کی حالت تبدیل ہوتی جاوے اوریہی معنی ہیں روح کے کاسب اور مکتسب ہونے کے۔ مرنے کے بعد جب روح بدن سے جدا ہوتی ہے تو جو جسم نسیمہ سے مل کر اس نے حاصل کیا تھا اور جو تغیر اس میں اکتساب سعادت یا شقاوت سے ہو اتھا اس کے بھی روح سے علیحدہ ہو جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے پس وہ بدن سے علیحدہ ہو تی ہے مع ا س حیثیت یا کیفیت کے جو اس نے مصاحبت بدن کے ذریعہ نسمہ کے اختیار کی ہے ۔ روح کے سبب جو کمالات انسان سے اور نیز حیوانات سے صادر ہوتے ہیں وہ عجائبات قدرت الٰہی سے ہیں جن میں ایک نمونہ قدرت الٰہی کا پایا جاتا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روح کو ایک خصوصیت خاص مبدا ء فیاض سے ہے جو سوائے روح کے اور کسی میں نہیں پائی جاتی۔ اگر قرآن مجید پر غو ر کیاجاوے تو اس خصوصیت خاص کا ثبوت اس سے بھی پایا جاتاہے۔ جہاں خدا نے فرمایا ہے : فنفخت فیہ من روحی رو ح کی نسبت جو خدا نے اپنے ساتھ کی ہے یہ ثبوت ہے اس خاصیت خاص کا میں نے ابھی ذکر کیا۔ تمام موجودات میں ہم یہ بات پاتے ہیں کہ ان کو بالطبع رجو ع طرف اپنے ھیز کے ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ روح میں بھی اس کا میلان طر ف اپنے حیز کے نہ ہو اور مقتضا اس میلان کا ہے راحت و سکون جب کہ وہ اپنے حیز میں پہنچ جاوے اور الم یا عدم سکون جب تک کہ وہ اپنے حیز میں نہ پہنچے انسان کے مرنے کے بعد جو حالت روح کی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ وہ چیزیں شامل ہو گئی ہیں جس کا اس نے زمانہ مصاحبت بدن میں اکتساب کیاہے۔ پس اگر وہ اکتساب اخلاق حمیدہ اور اعمال نیک کا ہے جو منافی جوہر روح کے نہیں تو اس کو اپنے حیز تک پہنچنے میں کچھ دقت نہیں ہے اور اگر وہ اکتساب افعال ذمیمہ کا ہے جو منافی جو ہر روح کے ہیں تو اس کو اپنے حیز تک پہنچنے کو اپنے تئیں اس سے بری کرنا ضروری ہے پس اگریہ اکتساب ایسا ہے کہ جس پر روح غالب آ جاتی ہے تو وہ بعد غلبہ اس سے بریت حاصل کرتی ہے اور اپنے حیز تک پہنچ جاتی ہے اور اگو وہ اکتساب ایسا ہے جس نے روح کو ایسا ضعیف کر دیاہے کہ اس سے اپنے تئیں بری نہیں کر سکتی تو ہمیشہ اپنے حیز سے دور اور آلام یا عدم سکون میںمبتلا رہتی ہے ۔شارع نے بتایا ہے کہ صرف شرک ایسی چیز ہے جس کا اکتساب روح کو ایسا ضعیف کر دیتا ہے کہ اسکی برائی سے اپنے تئیں بری نہیں کر سکتی اور ہمیشہ دوزخ میںرہتی ہے۔ غرضکہ موحدین نجات پاتے ہیں اور مشرکین ہمیشہ دوزخ میں رہتے ہیں اوریہ کہ یہ بہت بڑی بحث ہے کہ موحدین کا اطلاق کن کے اوپر ہوتا ہے جو آخر کو نجات پاتے ہیں اور مشرکین کا کن پر جو نجات نہیں پاویں گے۔ مگر اس بحث کو اس آرٹیکل میں لکھنے کی ضرورت نہیں ۔ جو کچھ کہ ہم نے اس مقام پر محض بدلائل عقلی بیان کیاہے جیسے کہ اے میرے دوست تمہاری خواہش تھی اسی کے قریب قریب شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البلاغہ میں بیان کیا ہے اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس آرٹیکل کے آخر میں اس کو نقل کردوں وہ فرمات ہیں: ازا مات الانسان کان للنسمۃ نشاۃ اخری فینشی فیض الروح الالٰہی فیھا قوۃ فیما بقی من الحس المشترک نکفی کفایۃ السمع والبصر والاکلام بمدد من عالم المثال اعنی القوۃ المتوسطۃ بین المجردو المحسوس المنبثۃ فی الافلاک کشیء واحدور بما تستعد النسسمۃ حینئذ للباس نورانی او ظلمانی بم دمن عالم المثال ومن ھنالک تتولد عجائب عالم البرزخ ثم اذا نفخ فی الصور ای جاء فیض عام من باری الصور بمنزلۃ الفیض الذی کان منہ فی بداالخلق حین نفخت الارواح فی الاحساد و اسس عالم الموالید او جب فیض الروح اللٰہی ان یکتسی لباسا جسمانیا اولباسا بین المثال والجسم فیتحقق جمیع ما اخبر بہ الصادق المصدوق علیہ فضل الصلوات وایمن التحیات ولما کانت النسمۃ برزخا متوسطابین الروح الالٰہی والبدن الارضی وجب ان یکون لھا وجہ الی ھذا ووجہ الی ذالک والوجہ المائل الی القدس ہو الملکیۃ والوجہ المائل الی الارض ھو المھیمیۃ وانقتصر من حقیقۃ الروح علی ھذہ المقدمات لنسلم فی ھذا العلم و تفرع علیھا التفاریع قبل ان تنکشف الحجاب فی علم اعلی من ھذاا علم واللہ اعلم (حجۃ اللہ البلاغۃ صفحہ ۱۸)۔ (ترجمہ) ’’جس انسان مر جاتاہے تو روح حیوانی کے لیے ایک دوسری زندگی ہوتی ہے تو روح الٰہی اس کے حس مشترک میں جو باقی رہ گیا ہے ایک قوت پیدا کرتی ہے جو سننے ‘ دیکھنے اور بولنے کا کام دیتی ہے عالم کی مثال کی مدد کے ذریعہ سے یعنی اس قوت کے ذریعہ سے جو مجرد اور محسوس کے بیچ میں ہے اور جو افلا ک میں پھیل ہوئی ہے شئی واحد کی طرح سے اور اکثر اس حالت میں روح حیوانی مستعد ہوتی ہے نورانی یا ظلمانی لباس کے بذریعہ عالم مثال کے اور یہاں عالم برزخ کے عجائبات پیدا ہوت ہیں پھر جب نفخ صور ہو گا یعنی ایک عام فیض خدا کی طرف سے آئے گا جیسا کہ ابتدائے خلق کے وقت اور عالم موالید کی بنیاد پڑنے کے وقت ہوا تھا تو روح الٰہی کا فیض اس بات کو واجب کرے گا کہ وہ جسمانی لباس پہنے یا ایک ایسا لباس جو مثال اور جسم کے بیچ میں ہے تو اس وقت وہ تمام چیزیں متحقق ہوں گی جس کی خبر رسول اللہ صلعم نے د ی ہے جو سچ ہیں اور سچے کہے گئے ہیں اور جن پر عمدہ درود اور مبارک تحیہۃ ہے اور چونکہ روح حیوانی ایک برزخ ہے درمیان روح الٰہی اورخاکی بدن کے تو ضرور ہے کہ اس کا ایک رخ اس کی طرف ہو اور ایک اس کی طرف اور جو رخ عالم قدس کی طرف ہے وہ ملکیہ ہے اور جو رخ خاک کی طرف ہے وہ بہیمیہ ہے اور روح کی حقیقت میںسے ہم انہی مقدمات پر اکتفا کرتے ہیں تاکہ اس علم میں وہ تسلیم کر لی جاویں اور اس پر تفریعیں متفرع ہوں قبل ا سکے کہ جو علم اس سے اعلیٰ ہے اس کے حجاب اٹھ جائیں اور خدا زیادہ جاننے والا ہے۔ (حجۃ اللہ البلاغۃ صفحہ ۱۸) ٭٭٭ آدم کی سرگزشت (از تہذیب الاخلاق بابت یکم ربیع الاول ۱۲۸۹ھ) ’’تم کون ہو؟اور تمہارا نام کیا ہے ؟‘‘ ’’’یہ تو میں جانتا نہیں کہ میں کون ہوں مگر میرا نام آدم ہے ‘‘۔ ’’تم پر کیا گزری؟‘‘ ’’میں نے اپنے تئیں اسی دنیا میں پایا‘ مگر نہ جانا کہ کس طرح بنا اور کس نے بنایا؟ میں نے ااور بھی بہت سے چرند و پرند‘ کیڑے مکورے دنیا میں دیکھے‘ میں سمجھا کہ جس طرح یہ بنے ہوں گے اسی طرح میںبھی بنا ہوں گا ۔ مگر میںدیکھتا تھا کہ وہ تو سب ایک سا کام کرتے ہیں اور کسی کو ا س بات کا ارادہ بھی نہیں کرتے‘ مگر میرے دل میں بہت سے خیالات آتے تھے۔ کبھی دل چاہتا تھا کہ یہ کروں کبھی دل چاہتا تھا کہ وہ کروں کبھی کہتا تھا کہ یہ کیا ہے؟ کبھی کہتا تھا کہ وہ کیاہے؟ دل گھبراتا تھا اوران چرند پرند کے پاس بیٹھتا تھا ‘ کسی کو اپنا سا نہ پاتا تھا اور دل نہ لگتا تھا۔ تنہائی میرے دل کو گھبراتی تھی اور اس بے قراری میں یہ بات دل میں آئی تھی کہ میرے لیے میری ہی سی کچھ اور چیز چاہیے‘‘۔ ’’ایک دن میںنے اپنے بائیں پہلو کے پاس ایک اپنی ہی سی صورت کی چیز بیٹھی ہوئی دیکھی۔ دل بہت خوش ہوا۔ بے قصد باچھیں کھلنے لگیں۔ دل بھی دھکڑ پکڑ کرنے لگ ار اس کی طرف کھنچنے لگا۔ وہ بھی میرے پاس بیٹھنے سے نہایت خوش معلو م ہوتی تھی ۔ اور پیاری پیاری نگاہوںسے مجھے دیکھتی تھی اور مسکراتی تھی۔ آخر میں بے قرار ہو گیا اور مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے اس سے پوچھا کہ ’’بوا! تم کون ہو؟ اور تمہارا نام کیا ہے ؟ وہ بولی کہ بھائی میں تو یہ نہیں جانتی کہ میں کون ہوں۔ جو تم ہو وہی میں ہوں‘ مگر میرا نام حواہے۔ میںبہت خوش ہوا اور تالیاںبجا کر خوب اچھلا خوب کودا اور اوپر کو دیکھ دیکھ کر ایک بڑی ہستی اور بڑے قادر مطلق کا خیال کر کر خوب گیت گائے اور نہایت ذوق و شوق سے یوں چلایا۔ او اورے او ارے او ار وہ جو ہے ارے وہ جو ہے ‘ ارے وہ جو رہے گا‘ ارے وہ جو رہے گا‘ ارے وہ جو تو ہی ہے‘ ارے وہ جو تو ہی ہے ‘ میری شکر لے۔ اس انجن جانب کار نے میرا شکر لیا۔ اب تم اسی برکت کے پھل پھول ہو۔ اجی دادا جان یہ تو تم نے حال کی کہی‘ ہم تو اس سے بھی پچھلی پوچھتے ہیں۔ میرے پیارے وہ تو ہمارے ہوش اور تمیز سے پہلے کی بات ہے ۔ مگر اس کی کچھ نشانیاں ہم پاتے ہیں اور خدا نے اپنی قدرت سے جو کچھ ہم میں بنایاہے اسی سے وہ پچھلا حال سمجھ سکتے ہیں‘ اگر تم کو اس کے جاننے کا شوق ہے تو سنو۔ تمام زمین پر بسنے والی چیزیں زمین سے پیدا ہوئی ہیں‘گو اس کی آئندہ نسل چلنے کا کوئی قاعدہ بنایا ہو‘ مگر سب سے پہلی فرد صرف ا س کی قدرت سے بنی۔ ا س نے کہاکہ ہو وہ ہو گئی‘ بس اس طرح زمین میں بھی زمین سے پیدا ہو گیا۔ پلا اور بسا اور بڑا ہوا‘ مگر جب زمین سے نکلا تھا تو ایسا نہ تھا‘ جیسا اب ہوں۔ رفتہ رفتہ ہم کو یہ صورت ملی ہے ۔ اگر تم میری وہ ھئیت دیکھو جو زمین سے نکلی تھی تو نہایت تعجب کرو۔ بال سے بھی باریک اور رائی کے دانے سے بھی چھوٹا پھنگا تھا اور اسی میں حسن و جمال عقل و کال سب چھپا ہوا تھا‘ جیسے بیج میں درخت کے تمام پھل پھول ٹہنی پتے چھپے ہوتے ہیں۔ یہ اس کی صانع کی قدرت ہے جو ایسی ضعیف و ناچیز چیز کو ایسا کیا جس کے حسن و جمال پر لوگ فریفتہ ہوتے ہیں۔فرھاد سر پھوڑتا ہے ‘ زلیخا ہاتھ کاٹتی ہے ‘ مجنوں سر بصحرا نکل جاتا ہے ‘ اپنے تقدس و کمال سے فرشتوں پر فوق لے جاتا ہے ار اپنے آپے سے اپنے صانع کو پہچانتا ہے اور پھر اس کی مرجی اور خوشی کے بیان کرنے کو اوروں کے لیے واعظ بنتا ہے۔ تمام قوتیں حیوانی اور انسانی ملکی و شیطانی اس میں تھیں اور سب اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں حاضر تھیں۔ جس جس کام پر وہ مامور تھیں ان کو کر رہی تھیں اور اپنے کام میںذرا سی بھی خطا نہیں کرتی تھیں مگر ایک قوت نہایت قوی اور سرکش تھی وہ میری کوئی خدمت نہیں کرتی تھی‘ بلکہ طرح طرح کے جذبات کو جو غصہ اور غضب ا ور بغض اور کینہ ‘ عداوت اور دسمنی‘ قتل و خوں ریزی ‘ چوری و زناکاری کے منشاء ہیۃں تحریک دیتی رہتی تھیں ۔ اس کے کوتکوں سے میں نے جان لیا تھا کہ وہ میری بڑی دشمن ہے اسی پر فتح پانا میرا بڑا کام ہے ‘ مگر وہ بھی جتاتی تھی کہ میں تیری دشمنی کبھی نہیں چھوڑنے کی۔ جہاں پائوں گی اپنا کام کروں گی اورجس طرف سے قابو پائو ں گی ماروں گی۔ وہ قوت ایک عجیب و غریب چیز تھی۔ دشمن تو ایسی سخت تھی لیکن اگر وہ نہ ہوتی تو ایک اورچیز ہم میں نہ ہوتی جو انسان کے کمال کی بھی وہی باعث ہے اور اس کے وبال کی بھی وہی باعث ہے اور اسی سبب سے وہ قوت کبھی سخت دشمن دکھائی دیتی تھی۔ اور کبھی دوست سمجھ میں آتی تھی ۔ مگر میری اطاعت میں کبھی نہ تھی۔ خدا نے ایک ایسی مرکب چیز کو جو مختلف قوتوں کا مجموعہ تھی‘ یعنی مجھ کو ایک جگہ ڈال دیا جہاںنہ مجھ کو بھوک تھی نہ پیاس‘ نہ دھوپ کی گرمی لگتی تھی نہ کپڑا پہننے کی حاجت ہوتی تھیَ میں رفتہ رفتہ بڑا ہوتا جاتا تھا اورتمام قوتیں جو مجھ میں تھیں میرے کام آتی تھیں۔ ایک قوت مجھ میں تو تھی‘ مگر میرے کام نہ آتی تھی‘ نہ میں اس کو کام میں لاتا تھا۔ جب میں بڑا ہوا اور سن تمیز کو پہنچا تو اسی دشمن قوت نے مجھ کو بتایا کہ اس سے بھی کام لے کیونکہ وہ جانتی تھی کہ جب میں اس سے کام لوں گا تب ہی مصیبت میں پھنسوں گا ‘ مگر اس قوت سے کام لینا کمال کا بھی سبب تھا۔ اس لیے اس دشمن قوت نے بہکایا کہ اگر اس سے کام لے گا تو فرشتہ ہو جاوے گا اورکبھی فنا نہ ہو گا۔ وہ قوت میری ہی تو تھی اور میں اس کو کام میں لانے ک قابل بھی ہو چکا تھا۔ میں اس کوکام میں لایا اور اسی وقت میرے عیب مجھ پر کھل گئے۔ میں نے جانا کہ میں تو ایک نہایت ناچیز ہستی ہوں ۔ بے شک مجھ میں فرشتہ ہونے اور ہمیشہ رہنے کی قوت ہے ‘ مگر اس کے ساتھ بڑی قوی دشمن بھی لگا ہوا ہے ۔ اس سے بچنا نہایت مشکل ہے ۔ میں اپنے عیبوں کے چھپانے کی فکر میں پڑا اور خدا نے للکارا کہ خبردار اب تو اپنا مالک ہوا دوست دشمن سے واقف ہوا‘ اب جب تک زمین پر رہنا ہے ‘ نیک و بد کو سمجھ اوراپنا کام کر۔ میںنہایت حیران ہوا کہ کیا کام کروں اور کس طرھ پر چلوں۔ پھر میں سمجھا کہ خدا کی نشانیاں اور خدا کی ہدایتیں ہمارے ساتھ ہیں۔ انہی کو سمجھو اور انہی کو مانو ‘ انہی کی ہدایت پر چلو اور دشمنوں سے نجات پائو مگر یہ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ گزشتہ بدی کا کیا علاج ہو۔ بہت غور کے بعد سمجھا کہ کسی دوسرے سے اس کا علاج نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اس کا علاج خود مجھ میں ہے جو چیز مجھ میں ہو گئی ہے اسی کا سیدھا کرنا اس کا علاج ہے ۔ تب میں نے خدا سے کہا : ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخسرین۔فتاب علی انہ ھو التواب الرحیم پھر تو خدا نے مجھ کو ایسا رتبہ بخشا کہ زمین پر اپنا نائب کر دیا اور فرشتے غل ہی مچاتے رہے۔ دادا جان آپ کی باتیں تو ہماری سمجھ میں نہ آئیں اور ہم نہ سمجھے کہ کن قویٰ کا مجموعہ خدا نے تم کو بنایا تھا وہ کیا قویٰ تھے جو تمہارے مطیع و فرماں بردار بھی تھے۔ وہ کیا قوت تھی جو سرکش و نافرماں بردار تھی۔ وہ کیا چیز تھی جو دشمن بھی تھی اور دوست بھی دکھائی دیتی تھی۔ اسی نے وبال میں ڈالا ار اسی نے کمال کا رستہ بتایا۔ یہ سب باتیں تو ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ اگر کسی اور طرح پر آپ گفتگو کریں اورہم کو سمجھا سکیں تو آپ کی نہایت شفقت و عنایت ہو گی۔ آدمؑ نے کہا کہ تمہاری اور تمام دنیا کی سمجھ میں آ جان کے لائق تو اسی بات کو موسیٰ اور محمدؐ نے بہت اچھی تمثیل سے بتایا ہے ۔ انہوں نے ملکی قویٰ کا نام فرشتہ رکھا ہے ارو اس دشمن نما دوست کا نام شیطان رکھا ہے اور اس قوت کا نام جو مجھ میں تھی پر میرے کام میں نہ تھی درخت اور اس وقت یا حالت کا نام جب میں اس قوت کو کام میں لانے کے لائق ہوا اس درخت کا مزا چکھنا رکھا ہے اور اس مشکل عقدہ کو ان تمثیلوں سے حل کر کر یوں بیان کیا ہے ۔ خدا نے سری ہوئی کیچڑ سے جو آگ میں پکے ہوئے کی مانند گرم ہو رہی تھی۔ آدمؑ کو اور اسس کی جوڑی حواؑ کو کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو۔ سب نے سجدہ کیا مگر شیطان نے سرکشی کی اور خدا کے حکم کو نہ مانا اورسجدہ نہ کیا۔ خدا نے اس سے پوچھا کہ تو نے کیوں سجدہ نہ کیا؟ اس نے کہا کہ میں آدم سے افضل ہوں تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے۔ خدا نے کہا کہ جا دور ہو تو فرشتوں میں ہونے کے لائق نہیں۔ اس نے کہا تو مجھ کو قیامت تک ایسا ہی رہنے و خدا نے کہا دور ہو اے مردود۔ جو لوگ تیری تابعداری کریں گے ان سے دوزخ بھر دوں گا۔ پھر خدا نے ہم کو سمجھایا کہ شیطان تمہارا پکا دشمن ہے ‘ اس سے خبردار رہنا‘ پھر ہم کو بہشت میں رکھا۔ وہاں ہم کو نہ بھوک تھی نہ پیاس‘ نہ دھو پ لگتی تھی اورنہ کپڑے کی حاجت تھی خدا نے کہا کہ اس میں سے جو کچھ چاہو کھائو مگر ایک درخت کو بتلایا کہ اس کے پاس مت جانا اگر جائو گے تو اپنے لیے خود برا کرو گے۔ مگر شیطان نے ہم کو بہکایا اورکہا کہ میں تم کو ہمیشگی کا اور ہمیشہ رہنے والی بادشاہت کا درخت بتلائوں۔ اس نے وہی درخت بتلایا جس سے کدا نے منع کیا تھا ۔ اور کہا کہ کسی برائی کے سبب سے منع نہیں کیا بلکہ اس لیے منع یا کہ تم فرشتہ اور ہمیشہ رہنے والے نہ ہو جائو اورقسمیں کھا کر کہا کہ میں تمہارا دوست ہوں۔ ہم اس کے بہکائے میں آ گئے اور اس درخت میں سے کھا لیا۔ ایک پردہ نادانی کا جو ہم پر تھا کھاتے ہی اٹھ گیا۔ عیب و صواب معلوم ہونے لگا۔ اپنا ننگا پن ہم کو شرمانے لگا۔ درکتوں کے پتوں سے اپنی شرمگاہوں کو چھپانے لگے۔ اتنے میں کدا للکارا کہ کیوں اس درخت کے کھانے سے میں تم کو منع نہ کیا تھااور تم کو نہ کہہ دیا تھا کہ شیطان تمہارا پکا دوست ہے ۔ چلو یہاں سے جائو تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ چند مدت تک زمین پر رہو گے‘ اسی میں جیو گے اسی مٰں مرو گے اسی سے نکلو گے۔ پھر خدا کے بتانے سے اپنے قصور کی معافی اس طرح پر خدا سے چاہی کہ اے ہمارے خدا ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو معاف نہ کرے گا اور رحم نہ کرے گا تو ہم آفت میں رہیں گے۔ خدا نے معاف کیا اور یہ بتایا کہ تمہارے پاس میری ہدایت آوے گی‘ جو کوئی اس کی تابعداری کرے گا اس کو کچھ ڈرد نہ ہو گا‘ جو میری نشانیوں کو نہ مانے گا وہ دوزخ میں جاوے گا اور ہمیشہ اسی میں رہے گا۔ پھر خدا نے آدمؑ کو زمین پر اپنا نائب بنایا۔ فرشوں سے کہا کہ ایسے شخص کو زمین کی نیابت دے گا جو اس میں فساد کرے اور خون بہاوے اورہم تو تیری پاکیزگی سے تجھ کو یاد کرتے ہیں اورتیری تعریف کرتے ہیں۔ خدا نے کہا ہاں میں سب کچھ جانتا ہوں جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ پھر خد ا نے آدمؑ کو سب چیزوں کے نام بتائے اور فرشتوں کے سامنے کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتائو فرشتوں نے کہا کہ تیری دوہائی ہے جو کچھ تو نے بتا دیا ہے ہم تو اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ پھر آدمؑ سے کہا کہ تم ان کے نام بتائو۔ آدمؑ نے سب کے نام بتا دیے۔ خدا نے کہا کہ میں نہ کہتا تھا کہ آسمان و زمین میں کی چھپی ہوئی باتیں اور جو کچھ تم علانیہ یا خفیہ کرتے ہو سب کو جانتا ہوں۔ دادا جان یہ بتائیں تو صاف صاف ہماری سمجھ میں آئیں۔ ہم سمجھے کہ خد انے ہم کو پیدا کیا اور ہم کو فرشتوں پھر بھی عزت دی اور ہمارے دشمن شیطان کو بھی ہمیں بتلا دیا مگر ہم اس کے فریب میں آ گئے اور خدا کے حکم کے برخلاف کام کیا اور خود اپے فعل سے گنہگا ر ہوئے اور جب اپنے گناہ کا اقرار کیا اور معافی چاہی تو خدا نے معاف کر دیا اور ہم کو زمین پر اپنا نائب کر دیا اور ہمارے پاس ہدایت بھیجنے کا وعدہ کیا۔ پھر اگر اس کی ہدایت پر چلیں گے اپنا بھلا کریں گے اگر اس پر نہ چلیں گے ‘ خود اپنے لیے کانٹے بوئیں گے مگر اس میں بھی کئی باتیں پوچھنی ہیں۔ آ پ نے فرمایا کہ خدا نے آدم و ھوا کو پہلے پیدا کیا‘ پھر ان کو اس صورت پر جو اب ہے بنایا۔ بیٹا تم نے قرآن شریف پڑھا ہے۔ اس میں تو صاف لکھا ہے کہ : ولقد خلقنا کم ثم صورنا کم یعی خدا نے تم وک پیدا کیا پھر تمہاری صورتیں بنائیں۔ اصل یہ ہے کہ انسان نطفہ میںنہایت باریک پھنگے کی مانند پیدا ہوتا ہے پھر اس کی صورت بنتی ہے یہی بات خدا نے بھی کہی اور ہمیشہ یونہی ہوتا ہے ۔ دادا جان یہ تو عجیب بات آپ نے بتائی ‘ ہم نے کبھی سنی نہ تھی۔ قرآن میں تو عجیب عجیب قدرتی باتیںلکھی ہیں جو اس زمانہ کے لوگوں کے خیال میں نہ تھیں۔ اب جس قدر حقائق موجودات کھلتی جاتی ہیں قرآن کی حقیقت سمجھ میں آتی جاتی ہے ۔ بے شک یہ خدا کا کلام ہے ۔ مگر آپ تو یہ فرمائیے کہ جن قوتوں سے خدا نے ہم کو بنایا اور جو ہم ہی میں موجود تھین انہی میں سے کسی کو فرشتہ اور کسی کو شیطان اس طرح پر بیان کیا کہ گویا وہ ہم سے علیحدہ دوسری چیزیں تھیں جن میں کوئی ہماری فرماں بردار تھی اور کوئی ہماری دشمن اور اگر درحقیقت وہ ہم ہی میں تھیں تو اس طرح پر کیوں بیان ہوئیں۔ بیٹا ابھی میں نے تم سے بیان کیا کہ انسان عجیب مختلف قوتوں سے بنا ہوا ہے کہ باوصف مرکب ہونے کے ہر ایک قوت جداجدا کام کرتی ہے مگر تمہاری سمجھ میںکچھ نہیں آیا اور جب اس زمانہ ہی میں تم اس کو نہ سمجھ سکے تو موسیٰ کے اور اس سے بھی پہلے کے زمانہ میں کون سمجھ سکتا تھا‘ اس لیے خدا نے اس مطلب کو ایسے لفظوںمیں بیان کیا ہے کہ سینا ک جنگل میں پھرنے والوں اور عرب کے ریگستا ن کے رہنے والوں سے لے کر سقراط اور بقراط کے درجوں تک کے لوگ سمجھ لیں۔ تمام دنیا کے خیا ل میں ہے ‘ کہ مرکب چیز جب متعدد چیزوں سے ملتی ہے تو ایک خاص مزاج پیدا کر لیتی ہے اس کے ہر ہر فرد کو مزاج اپنی پہلی حالت پر باقی نہیں رہتا‘ بلکہ دونوں سے مل کر ایک قسم کا مزاج پیداہو جاتا ہے اگر گرم پانی میں تم ٹھندا پانی ملاتے ہو تو اس کی سردی اور ا س کی گرمی مل کر اس کو کنکنا کر دیتی ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ دونوں ملیں اور سر د پانی کی سردی بدستور سرد اور گرم پانی کی گرمی بدستور گرم رہے۔ بہت سی گرم و سرد و خشک و تر دوائوں سے ملا کر ایک معجون بنائو۔ ان دوائوں میں سے کسی ایک کا بھی مزاج اپنی اصلی حالت پر باقی نہیں رہے گا‘ بلکہ سب سے مل ملا کر اس معجون مرکب کا ایک خاص مزاج پیدا ہو جاوے گا‘ مگر انسان ایک عجیب معجون مرکب مختلف قویٰ سے مرکب ہے اور وہی اس کے وجود کے اور نیز باہم ایک دوسرے قویٰ کے بقا کے سبب ہیں۔ اگر اندرونی قویٰ میں سے ایک قوت انسان میں سے فوت ہو جائے تو دوسری قوت بھی باقی نہیں رہتی اور باوجود یکہ یہ سب قویٰ ایسے آپس میں ملے ہوئے ہیں جییس دودھ میں پانی اس پر بھی سب اپنے اپنے جدا جدا مزاج پر قائم ہیں اور اپنا اپنا جدا جدا کام کر رہے ہیں۔ پس اس ترکیب انسانی کو سمجھنے ک لیے تمام نبیوں نے تمثیلی زبان اختیار کی اور جس طرح کہ اس قویٰ کے جداجدا کام تھے اسی طرح ان کو علیحدہ علیحدہ اس طرھ ُر بیان کیا کہ وہ الگ الگ ایک دوسرے کے مقابل جدا جدا چیزیں ہیں۔ دادا جان ! یہ بات تو ہماری سمجھ میں آ گئی اور اس بیان سے ایک اور عقد حل ہو گیا کہ بعضی روایتوں میں جو یہ بیان ہوا ہے کہ رحم میں فرشتہ انسان کی صورت بناتا ہے اس سے بھی وہی قوت مصورہ مراد ہے جو خدا نے اس میں رکھی ہے مگر یہ بات بھی بتا دیجیے کہ ان ملکی قویٰ کے سجدہ کرنے اور اس ایک قوت کی سرکشی کرنے سے کیا مطلب ہے ۔ بیٹا! یہ تو بہت صاف بات ہے تم خود اپنے آپے کو دیکھو۔ تما م قوتیں جس جس مطلب کے لیے تمہارے میں پیدا ہوئی ہیں سب تمہاری تابع ہیں جب وقت تم کسی ایسی قوت کو تحری ک دینا چاہتے ہو جو نیکی کی مخرج ہے فی الفور تحریک میں آتی ہے اور تم سے نیکی اور نیک دلی‘ رحم و محبت‘ ہمدردی‘ وفا شعاری‘ خدا کے سامنے تذلل ظہور میں آتا ہے اور صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ تمام قویٰ جو ان چیزوں کے منشاء ہیں تم کو سجدہ کر رہے ہیں‘ یعنی تمہارے مطیع و فرماں بردار ہیں‘ برخلاف ا سکے اس قوت کو دیکھو جو بدی اور گناہ کا مخرج ہے ۔ تم ان افعال کو جو اس قوت سے پیدا ہوتے ہیں بر جانتے ہو اور ان کے نہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہو ارو پھر کرتے بھی جاتے ہو۔ جھوٹ کو برا سمجھتے ہو اور چاہتے ہو کہ نہ بولیں مگر بولتے جاتے ہو۔ غصہ کو برا جانتے ہو اور ہر چند چاہتے ہو کہ روکیں پر کرتے جاتے ہو۔ زنا جو سب سے بڑھ کر بدی ہے اس کو کر کر نادم ہوتے ہو خود اپنے آپ پر لعنت کرتے ہو‘ سر پیٹتے ہو ُ منہ پر طمانچے مارتے ہو اور پکا اراد کر تے ہو کہ پھر نہ کریں گے اور پھر کرتے ہو۔ غرض کہ اس قوت پر جو تمام بدیوں کی جڑ ہے خیال کرو اور دیکھ لو کہ وہ کیسی سرکش اورتمہاری نافرماں بردار ہے ۔ آہ بہٹا! تم انسان اسی وقت ہو گے جب اس سخت دشمن پر فتح پائو گے۔ دادا جان! یہ باتیں تو آپ نے ایسی بتائیں کہ ہمارا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔ بالکل سچ ہے اور انسان پر یہی گزرتا ہے جب ہم اپنی بدیوں پر نظر کرتے ہیں ااور دیکھتے ہین کہ وہ مخالف قوت شیطان کیسی ہم پر غالب ہے تو ہم کو اپنی زندگی پر افسوس آتا ہے اور ہم کہتے ہیں ہ کاش ہم پیدا نہ ہوئے ہوتے مگر ہم نہایت ادب اور عاجزی سے ایک بات اور پوچھنی چاہتے ہیں کہ شیطان نے خدا سے ی کیا بات کہی کہ تم ہی نے مجھے بہکایا ہے میں بھی انسان کو بہکاتا ہی رہوں گا۔ ی تو غلط معلوم ہوتی ہے ۔ بھلا خدا نے شیطان کو کاہے کو بہکایا ہو گا۔ کیا خدا شیطان کا شیطان تھا اور اگر خود خدا نے ایسا کیا تو پھر اس کو سجدہ کا کیوں حکم دیا۔ نعوذ باللہ‘ نعوذ باللہ‘ بیٹا توبہ کر و توبہ کرو۔ گالوں پر طمانچے مارو۔ یہ کیسی کفر کی باتیں تم نے کیں۔ یہ غلط نہیں ہے بالکل سچ ہے قرآن میں بھی لکھاہوا ہے : قال فبا اغویتنی لا قعدن لھم صراطک المستقیم یعنی شیطان نے خداسے کہا کہ اس سبب سے کہ تو نے مجھ کو گمراہ کیا میں بھی ان کی باٹ مارنے کے لیے تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔ مگر غور کرو اور سمجھو کہ اس کا مطلب کیا ہے اور کس بات کا اشارہ ہے ۔ سمجھو کہ وہ سرکش قوت خود خدا نے بنائی ہے اور اس سرکشی کی قوت خود خدا نے اس میں رکھی ہے ۔ پس ان لفظوں سے کہ تو نے ہی مجھ کو بہکایا ہے اسی با ت کا اشارہ ے کہ اس قوت کا خالق اور اس قوت کو یہ قوت دینے والا بھی وہی ایک خدا ہے اور یہی اس کا بہکانا ہے ‘ مگر خدا نے انسان میں بھی قویٰ رکھے ہیں جو اس کو زیر اور مطیع کر سکتے ہیں اور یہی حکم دینا ہے ک آدم کو سجدہ کر۔ پس ان دونوں صفتوں کو عام فہیم کرنے کو خدا نے تمثیلی زبان سے یوں لگتا ہے کہ خدا نے شیطان کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کر یعنی ایسے بھی اسباب بنا دیے ہیں کہ وہ انسان کا مطیع ہو سکتاہے۔دیکھو ایوب پیغمبر نے کیسا اس کو مطیع کیا۔ پھر یوں کیہا کہ اس نے سرکشی کی اور خدا کا حکم نہ مانا‘ یعنی وہ قوت ایسی سرکش ہے ہ مطیع ہو ہی نہیں سکتی۔ ایک موقع پر ہم گناہ سے بچتے ہیں اور دوسرے موقع پر گناہ میں پڑتے ہیں۔ اگر نہیں پڑتے و ہم کو اس دشمن کو ہر وقت و ہر دم دبائے رہنا اور باندھے رکھنا تو ضرور پڑتا ہے اوروہ ہر دم چھوٹنا اوہ پر حملہ تو ضرور چاہتا ہے ۔ پس اس حقیقت کو نبیوں کی زبان نے کیسی عمدہ طرح پر حکم اور نافرمانی کی اصلاح میں بیان کیا ہے صلوات اللہ علیہم اجمعین ۔ دادا جان جو کچھ تم نے کہا ہم سمجھتے ہیں کہ خدا ہی نے تم کو بتایا ہے۔ کیونکہ آج تک کسی انسان کو تو ایسے حقائق و معارف بیان نہیں کیے جس سے دل کو تسکین ہو۔ آپ ہی پر خدا نے اپنا فضل کیا ہے جو آپ کے دل سے ایسے حقائق و معارف نکلتے ہیں۔ اب تو ہمیں پوچھتے بھی شرم آتی ہے مگر دو چار باتیں تو اور بتا دیجیے ۔ بیٹا! تم کچھ شرم مت کروپوچھتے جائو۔ خدا کی بات میں کچھ غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ ہاں ممکن ہے کہ میری بات یا میری سمجھ میں غلطی ہو جاوے میں بھی انسان ہوں جس طرح تم غلطی میں پڑ سکت یہو میں بھی پڑ سکتا ہوں۔ میرے اسی قدر کلام میں غلطی نہیں ہوتی جس قدر کہ مجھ کو وحی آئی ہے۔ یہ سب باتیں میں نے وحی سے نہیں کیں بلکہ خود اپنے میں اور تم میں دیکھ دیکھ کر کہی ہیں اور ہر شخص ان باتوں کو اگر اس کو خدا دیکھنے کے لائق آنکھ دے خود دیکھ سکتا ہے۔ دادا جان! خدا نے یہ کیا کہا کہ میں نے شیطان کو آگ سے پیدا کیا اور پہلے فرشتوں میں سے تھا پھر مردود کر دیا ۔ وہ تو ایک قوت خود ہم میں ہے۔ بیٹا! تم قوائے انسانی پر جس میں وہ سرکش قوت بھی داخل تھی فرشتوں کا اطلاق کیا گیا اور جب اس ایک قوت کا سرکش ہونا بتایا گیا تو اس کو ان میں سے علیحدہ کر کر شیطان بنایا پس یہی اس ک امردود ہونا اور فرشتوں میں سے نکالا جانا ہے۔ اب تم خود اپنے میں غور کرو کہ تمہارے قویٰ کی ترکیب میں ایک قسم کی حرارت ہے جس کو کوئی حرارت غریزی اور کوئی ماد ہ الیکٹرسٹی کہتا ہے۔ اس تمام حرارت کا سرجوش وہ قوت ہے جس کو قوت سرکش یا شیطان بتایا ہے ۔ پس وہ قوت سب سے اوپر ہے اورباقی قوتیں اس سے نیچے ۔ پس شیطان کا یہ کہنا کہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین بالکل ٹھیک اور مطابق واقع کے ہے۔ مولوی صاحب جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی روٹی پکانے کے چولہے کی اگ سے بنایا ہے یہ ا ن کی نادانی ہے۔ بھلا دادا جان! جس درخت کے کھانے سے خدا نے منع کیا تھا وہ کیا قوت تھی اور اس کا کھانا یا استعمال میں لانا کیا حالت تھی؟ بیٹا! وہ قوت عقل و علم ہے۔ کیونکہ علم کے لیے عقل کا ہونا بھی لازم ہے اور جب انسان اس حد کو پہنچتاہے کہ اس قوت کو استعمال میں لانے کے قابل ہو جاوے‘ اس حالت کا نام انبیاء کی زبان میں شجر ممنوعہ کا کھانا چکھنا ہے اور زبان شرع میں اس کا مکلف ہونا اور زبان حکما میں اس کا بالغ ہونا ہے ۔ دادا جان! یہاں تو آپ بڑی مشکل پیش آئی۔ اس لیے کہ انسان کا چھتپنے سے بڑا ہونا او ر عقل و تمیز کی حالت تک پہنچنا ایک ضروری اور لازمی بات ہے ۔ اگر انسان زندہ ہے تو خواہ مخواہ اس حالت تک پہنچتا ہے ‘ پھر خدا کا اس درخت کے کھانے سے منع کرنے کا اور انسان کا اس کو کھا لینے کا او ر خدا کی نافرمانی کر کر گنہگار ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ بیٹا تم نے نہایت عمدہ بات کہی تمہاری عقلمندی سے میں بہت خوش ہوا۔ جو کچھ تم نے کہ ایہ سب سچ ہے مگر اس مقام پر ایک نہایت عمدہ اور مشکل مسئلہ جبر وقدر کا نہایت خوبی اور سہل تمثیل سے حل کیا گیا ہے۔ بعضے لوگ خیال کرتے ہیں کہ انسان بالکل مجبور ہے۔ خواہ مخواہ ا سکو وہی باتیں کرنی پڑتی ہیں جو اس کے لیے مقرر ہو چکی ہیں اور بعضے خیال کرتے ہیں کہ وہ خود مختار اور اپنے تمام افعال پر قار ہے جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے ۔ بعضے خیال کرتے ہیں کہ نہ مجبور ہے نہ قادر ہے بین الجبر و الاختیار ہے جیسے ایک مچھلی والے نے ایک بادشاہ کو مچھلی نذر کرتے وقت اس خیال سے کہ بادشاہ ا س کا جوڑا نہ مانگے کہا تھا کہ یہ مچھلی مخنث ہے اس مقام پر خدا تعالیٰ کو یہ بات بتلانی تھی کہ جو قویٰ کہ انسان کو خدا نے دیے ہیں۔ وہ خود ان کا مالک و مختار ہے اوران سب کو خود کام میں لا سکتا ہے ۔ پس خدا کے منع کرنے اور انسان کے کھا لینے سے انسان کا ان قویٰ پر جو اس کو دیے گئے ہیں قادر ہونا اور ان کے استعمال کی خود قدرت رکھنا بتایا گیا ہے اور جو کہ اس حالت تک پہنچنا اور عقل و تمیز حاصل کرنا انسان پر گناہ ہونے کا سببہے اس لیے خدا نے فرمایا کہ اس حالت کو پہنچنے کے بعد آدم گنہگار ہوا۔ من ملک بودم و فردوس بریں جایم بود آدم آورد دریں دیر خراب آبادم السعید من سدی بی بطن امہ والشقی من شقی فی بطن امہ نہایت صحیح اورسچا قول ہے ۔ جو کچھ اس وقت تم انسان کی حالت دیکھتے ہو اچھی یا بری یہاں تک کہ نبیوں کی نبوت اور عابدوں کی عبادت ‘ زاہدوں کا زہد‘ معشوقوںکا حسن‘ عاشقوں کا عشق ‘ شاعروں کی شاعری ‘ فاسقوں کا فسق ‘ کافروں کا کفر یہ سب وہ اپنی ماں کے پیٹ سے لے کر نکلتے ہیں۔ پس نبی کو نبوت اور عابد کو عبادت اور زاہدوں کو زہد معشوقوں کو حسن‘ عاشقوں کو عشق‘ شاعروں کو شاعری‘ فاسقوں کو فسق‘ کافروں کو کفر لازمی اور ضروری ہے کہ بے ہوئے رہ ہی نہیں سکتا۔ جو شخص جو کچھ اپنی ما ں کے پیٹ سے لایا ہے وہ اسی کو گاتا ہے۔ انبیاء یوں فرماتے ہیں کہ انا نبی و آدم بین العماء والطین۔ سعداء یوں کہتے ہیں کہ انا سعید و آدم بین الما والطین۔ اشقیاء کا یہ قول ہے کہ انا شقی و آدم بی الماء والطین۔ اور ہمار ا ی قول ہے کہ انا احمد و آدم بین الماء والطین۔ مگر یہ عابد کی نجات عبادت پر ہے اور نہ فاسق کی درکات اس کے فسق پر‘ بلکہ انسان کی نجات صرف اس پر ہے ہ جو قویٰ خدا تعالیٰ نے اس میں رکھے ہیں اور جس قدر رکھے ہیں‘ ان سب کو بقدر اپنی طاقت کے کام میں لاتا رہے اگر قوائے بہمیہ اس پر غالب ہیں اور قوائے ملکیہ کمززور تو ان کمزور قویٰ کو بیکا رنہ چھوڑے ان کو بھی کام میں لاتا رہے کہ یہی ان گناہوں کا علاج ہے جس کو انبیاء کی زبان میں توبہ اور کفارہ کہتے ہیں اور جس کو شارع نے ان عمدہ لفظوںمیں کہ التائب من الذنب کن لا ذنب لہ بیان فرمایا ہے پس یہ مشکل اور باریک مسئلہ تھا جو اس آسان اور عام فہم تمثیل میں خدا نے فرمایا۔ دادا جان! خدا کا شکر ہے کہ ہم بھی ان حقائق و معارف کا آپ کی زبان مبارک سے سننا اپنی ماںکے پیٹ سے لے کر نکلے تھے مگر یہ تو فرمائییھ کہ آدم کا زمین پر نائب کرنا اور فرشتوں کا تکرار کرنا اورخدا کا آدم کو سب چیز کے نام سکھانا کے کیا معنی ہیں۔ بیٹا ! زمین موجود ہے انسان موجود ہے دیکھ لو کہ زمین کی تمام مخلوقات میں زمین کی بادشاہت اور خدا کی نیابت کس کو ہے ۔ کیسے فرشتے کسی تکرار ی تو خطابیات کی قس سے بیان ہے ۔ قویٰ جس قدر کہ ہیں ہمیشہ وہی کام کرتے ہیں جس کے لیے وہ مخلوق ہیں لا یعصون اللہ ما امرھم و یفعلون ما یرمرون مگر انسان ہی ایسی مخلوق ہے کہ وہ نیکی بھی کر سکتا ہ اور بدی بھی۔ پس خدانے اس مقام پر انسان کی حقیقت بیان کر دی ہے کہ وہ کیسے کیسے سخت گناہوں کے کرنے پر قادر ہے مگر اسی کو نائب کرنے کی وجہ کو بھی بتایا کہ وہ قابل تعلیم ہے اور اس کی غلطیاں اصلاح کے قابل ہیں اور وہ ایسے اعلیٰ درجہ تک ترقی پا سکتا ہے جہاں فرشتوں کا بھی مقدور نہیں‘ کیونکہ ان میں جو بات ہے اس سے زیادہ ترقی کی قوت ا ن میں نہیں ہے۔ قالو سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا خدا نے آدم کو تمام چیزوں کے نام اس طرح پر نہیں سکھائے تھے جس طرح کہ انا بچے کو سکھاتی ہے بلکہ تمام چیزوں کا سکھانا وہ ملکہ عل انسان میں ودیعت کرنا ہے جس سے ااج ہم بقدر اپنی طاقت کے خدا کی خدائی کے کارخانوں پر فکر کرتے ہیں اورجہاں تک ہو سکتا ہے اس کو جانتے ہیں۔ تم خود اپنے حال پر خیال کرو ہ تم میاں جی سے یا مولانا صاحب سے پڑھتے ہو اور فضیلت کی دستار مبارک سر پر باندھ لیتے ہو۔ کیا میاں جی صاحب یا جناب مولانا صاحب تم کو سب کچھ پڑھا دیتے ہیں؟ نہیں بلکہ ایک ملکہ تم میں حاصل ہوتا ہے جس سے تم عالم کہلاتے ہو پس خدا جو اس ملکہ کا تم میں پیدا کرنے والا ہے اگر یوں کہے کہ وعلم آدم الاسماء کلھا تو کون سی اس میں مشکل بات ہے ۔ بھلا دادا جان! یہ تو ہوا مگر یہ تو فرمائیے کہ آدم کو سب چیزوں کے نا م سکھائے یہ نام سکھانے سے کیا مطلب تھا؟ ارے بیٹا! یہی تو خدائی کا بھید ہے ۔ خدا بڑا استاد ہے پچھلا دائوں ہمیشہ اٹھا رکھتا ہے۔ اس لفظ میں یہ بھید ہے کہ خدا نے انسانوں کو حقیقت اشیاء کچھ نہیں بتائی ۔ انسان سب کچھ بتلا سکتاہے۔ مگر حقیقت اشیاء نہیں بتلا سکتا۔ پس جب حقیقت اشیاء نہیں بتلا سکتا تو و ہ کچھ جو وہ بتلایتا ہے صرف اسماء ہیں نہ حقائق اسی لیے خدا نے فرمایا: وعلم آدم الاسماء کلھا دادا جان! آپ نے تو ایسی بات کہی کہ دل میں کھب گئی۔ اب تو بالکل دل کو تسلی ہو گئی مگر ایک شبہ پھر دل میں اٹھا کہ خدا نے ایسا قصہ بیان کیا جو حقیقت میں واقع نہ ہوا تھا۔ اگر ادب سے ہم کچھ نہ کہیں گے تو نہ کہیں مگر دل میں تو ہم ضرور کہیں گے کہ جھوٹ یا فرضی قصہ ہے۔ استغفرا للہ۔ کیا حماقت کی بات تم نے اس وقت کہی۔ جو کوئی اس بیان کو قصہ یا حکایت سمجھے وہ خود نادان ہے نہ یہ قصہ ہے نہ حکایت ہے۔ بلکہ خدا نے اصلی حالات فطرت انسانی کو جسے اس زمانہ میں نیچر کہتے ہی خود انسان کی فطرت کی زبان حال سے بیان کیاہے جو ایک نہایت عمدہ اور فصیح اور موثر طریقہ کا بیان ہے جو لوگ اس سے ہدایت پانے کا دل رکھتے ہیں ہدایت پاتے ہیں‘ جو نہیں رکھتے وہ گمراہ ہوتے ہیں : کماقال اللہ تبارک و تعالیٰ : یضل بہ کثیراً ویھدی بہ کثیرا پس تمام عبادت اور تمام شکر اور تمام انسانیت یہی ہے کہ انسان اپنے تمام قویٰ کو جو خدا نے اس کو دیے ہیں کام میں لاتا رہے اور اسی طرح پر کام میں لاوے جس طرھ کہ ان کا کام میں لانا انکے صانع کی مرضی ہو اور اس مرضی کے انسان پر ظاہر ہونے کا خدا تعالیٰ نے ان لفظوں سے وعدہ کیا ہے : اھبطو منھا جمعاً فاما یاتینکم منی ھدیً فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون والذین کفرو وکذبو بایتنا اولئک اصحاب النارھم فیھا خالدون۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کا مذہب حنیف (از ’’آخری مضامین سر سید‘‘) مامون رشید کے زمانہ میں عبدالمسیح ابن اسحاق کندی جس کا عیسائی مذہب تھا اور بڑا عالم تھا مامون رشید کے دربار میں ایک بہت ہی معزز عہد پر ملازم تھا۔ مامون رشید کے ایک قریبی دوست نے جس کا اپنا لقب الہاشمی قرار دیا ہے ‘ ایک خط عبدالمسیح کے نام دعوت اسلام کا بھیجا اوریہ خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی مسلمان ہو جائے۔ عبدالمسیح نے نہایت سختی سے اس خط کا ججوب لکھا ہے اور اسلام قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس جواب میں یہ بات بھی لکھی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس زمانہ تک جب کہ وہ پیغمبر ہوئے یعنی پچھتر برس کی عمر تک بت پرستی کیا کرتے تھے اور وہی بت پرستی کا مزہب مذہب حنیف کہلاتا تھا۔ مگر یہ دونوں باتیں محض غلط ہیں۔ تو ریت مقدس سے یا اور کسی کتاب سے ثابت نہیں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے کسی وقت اور کسی زمانہ میں بت پرستی کی ہو بلکہ برخلاف اس کے کہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے کبھی بت پرستی‘ یعنی شرک نہیںکیا قرآن مجید میںحضرت ابراہیمؑ کی نسبت متعدد جگہ آیا ہے کہ وما کان من المشرکین یعنی ابراہیم شرک کرنے والوںمیں سے نہیں تھا۔ اور خود حضرت ابراہیمؑ کا قول قرآن مجید میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم نے کہا : ما انا من المشرکین یعنی میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ پس بلا سند اور بلا دلیل یہ کہنا کہ حضرت ابراہیم ؑ پچھتر برس کی عمر تک بت پرستی کرتے تھے ‘ محض بے اصل اور صرف اتہام ہے ۔ پچھتر برس کی عمر توریت کے حساب سے لکھی ہے ۔ مگر جو عمریں توریت میں لکھی ہوئی ہیں ان کی صحت نہایت مشتبہ اور بحث طلب ہے۔ تمام انبیاء اسی قوم سے پیدا ہوتے ہیں اور اسی قوم پر پلتے اور بڑھتے ہیں جس کی بری باتوں کی اصلاح کے لیے وہ مبعوث ہوتے ہیں لیکن ان کا یہ امر طبعی ہوتا ہے کہ جن بری باتوں کی اصلاح کے لیے وہ اپنے زمانہ رشد میں کرتے ہیں ابتدا ہی سے ان کو ان سے نفرت ہوتی ہے اور اس لیے کبھی بھی وہ ان امور میں ملوث نہیں ہوتے ۔ اگر وہ ان میں ملوث ہوں تو زمانہ رشد میں ان امور کی اصلاح ان سے ہوئی نہایت مشکل ہے ‘ کیونکہ جو مقتضائے طبیعت ہوتاہے‘ وہی زمانہ رشد میں ظاہر ہوتا ہے۔ پس گو حضرت ابراہیمؑ ایسے خاندان میں پیدا ہوئے تھے جو بت پرستی میں ملوث تھا ۔ مگر صر ف ایسے خاندان میں پیدا ہونے سے یہ خیال نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے بھی بت پرستی کی ہو اس لیے حضرت ابراہیمؑ کی نسبت بر پرستی کا خیال سراسر غلط اور محض بیہودہ ہے۔ اور یہ بات بھی کہ وہی بت پرستی کا مذہب مذہب حنیف کہلاتا تھا‘ محض غلط ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مذہب توحید ذات باری تھا ار ان کے مراسم مذہبی جیسے کہ حج خانہ کعبہ کا ہے ‘ تمام ملک عرب میں پھیل گئے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مذہب توحید مذہب حنیف کہلاتاتھا ۔اس کے بعد لوگوںنے بت پرستی کو اس مذہب میں ملا دیا تھا۔ مگر وہ ابراہیمی مذہب کے مراسم بھی مثل حج کعبہ وغیرہ ادا کرتے تھے ارو اس لیے اپنے مذہب کا وہ پرانا نا م لیتے تھے اور مذہب حنیف کہتے تھے۔ مگر بت پرستی مذہب حنیف ابراہیمی میں نہ تھی چنانچہ تاج العروس شرح قاموس میںلکھا ہے۔ وکان عبدۃ الاوثان فی الجاھلیۃ یقولون نحن حنفاء علیٰ دین ابراھیم فلام جاء الاسلام سموا المسلم حنیفاً وقال الاخفش وکان فی الجاھلیۃ یقال من اختتن وحج البیت قبل لہ حنیف ان العرب لم تتمسک فی الجاھلیۃ بشیء من دین ابراھیم غیر الختان و حج البیت ‘ وقال الزجاجی الحنیف۔ فی الجاھلیۃ من کان یحج البیت و پغتسل من الجنابۃ و یختتن فلما جاء الاسلام کان الحنیف المسلم لعدولہ عن الشرک۔ یعنی ’’ بت پرست لوگ ایام جاہلیت میں دعویٰ کرتے تھے کہ ہم حنیف ہیں اور ابراہیم علیہ السلام کے مذہب پر ہیں۔ جب مذہب اسلام کا ظہور ہوا تو مسلمانوں کو بھی حنیف کہنے لگے۔ اخفش نے کہا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جو لوگ ختنہ کرتے تھے اور کعبہ کا حج کرتے تھے ان کو حنیف کہتے تھے کیونکہ اس زمانہ میں عرب کے لوگوںمیں سوائے ختنہ اور حج کعبہ کے ابراہیمی مذہب میں سے کوئی چیز اختیار نہیں کی تھی ۔ زجاجی کہتاہے کہ عرب جاہلیت ان لوگوں کو جو کعبہ کا حج کرتے تھے اور جنابت کے بعد غسل کرتے تھے‘ اور ان میں ختنہ کی رسم بھی جاری تھی‘ حنیف کہتے تھے۔ جب اسلام شروع ہوا تو مسلمانوں کو بھی حنیف اس لیے کہنے لگے کہ وہ شرک سے باز رہے تھے۔‘‘ پس یہ کہنا کہ جو مذہب بت پرستی کا تھا وہی مذہب حنیف کہلاتا تھا صریح غلطی ہے ۔ خدا نے التباس کو جا بجا قرآن مجید میں رفع کیاہے‘ کیوںکہ جہاں تک قرآن مجید میںمذہب حنیف کا ذکر آیا ہے ‘ اسی کے ساتھ اس مذہب کے شرک سے بری ہونے کا بھی ذکر آیا ہے جس سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ حنیف سے وہ مذہب مراد نہیں ہے جس کو مشرکان زمانہ جاہلیت مٰں مذہب حنیف کہتے تھے ۔ بلکہ خاص مذہب توحید ذات باری جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مذہب تھا لفظ حنیف سے وہی مذہب مراد ہے نہ وہ مذہب جس کو مشرکین عرب مذہب حنیف کہتے تھے۔ سورۃ بقرہ میں خدا نے فرمایا ہے : وقالو ا کونو ھوداً او نصاریٰ تھتدو۔ قل بل ملۃ ابراھیم حنیفا وما کان من المشرکین ۔ (آیت ۱۲۹) یعنی کہتے ہیں کہ ہو جائو یہود اورنصاریٰ تو راہ پر آئو گے۔ اے پیغمبر کہہ دے کہ نہیں ہم نے ابراہیم کا مذہب اختیار کیا ہے جو ایک خدا کا ہو رہا تھا اور شرک کرنے والوںمیں سے نہیں تھا۔ سورۃ آل عمران میں خدا نے فرمایا ہے : ما کان ابراھی یہودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما و ما کان من المشرکین (آیت ۶۰)۔ یعنی ابراہیم نہ یہودی تھا نہ نصرانی بلکہ ایک خدا کا ماننے والا مسلمان تھا اور شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ سورۃ آل عمران میں دوسری جگہ خدا نے فرمایا ہے : قل صدق اللہ فاتبعو املۃ ابراھیم حنیفا وما کان من المشرکین (آیت ۸۹)۔ یعنی اے پیغمبر کہدے خدا نے سچ فرمایا ہے کہ تم ابراھیم کے مذہب کی پیرو ی کرو جو ایک خدا کا ماننے والا تھا اورشرک کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ سورۃ انعام میں خدانے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول فرمایا ہے : انی وجھت وجھی للذی فطر السموات و الارض حنیفا وما انا من المشرکین ۔(آیت ۷۶) یعنی میں نے اپنا منہ اس کی طرف پھیرا ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اسی کا ماننے والا ہو کر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ اور سورۃ انعام میں دوسری جگہ خدا نے فرمایا ہے: قل انی ھدانی ربی الی صراط المستقی دینا قیما ملۃ ابراھیم حنیفا وما کان من المشرکین ۔ (آیت ۱۶۲) یعنی اے پیغمبر کہدے کہ مجھ کو میرے پروردگار نے سیدھے راستہ کی ہدایت دی ہے یعنی صحیح مذہب کی جو ابراھیم کا مذہب تھا اور جو ایک خدا کا ماننے والا تھا اور شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ سورۃ یونس میں خدا نے فرمایا ہے: وان اقم وجھک للذین حنیفا ولا تکونن من المشرکین ۔ (آیت ۱۰۵)۔ یعنی مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنا منہ مذہب کی طرف سیدھا رکھ کر ایک خدا کا جاننے والا ہو کر اور شرک کرنے والوںمیں سے مت ہو۔ سورۃ نحل میں خدا نے فرمایا ہے : ان ابراھیم کان امۃ قانتا حنیفا ولم یک من المشرکین ۔ (آیت ۱۲۱) یعنی ابراہیم ایک بزرگ تھا ۔ خدا کی عبادت کرنے والا اور ایک خدا کا ماننے والااور شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ سورہ نحل میں دوسری جگہ خدا نے فرمایا ہے : ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراھیم حنیفا و ما کان من المشرکین ۔ (آیت ۱۲۴)۔ یعنی پھر ہم نے تیرے پاس وحی بھیجی کہ مذہب ابراہیم کی پیروی کر جو ایک خدا کا ماننے والا تھا اور شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ سورۃ حج میں خدا نے فرمایا ہے : فاجتنبوا الرحمن من الاوثان و اجتنبوا قول الزور حنفاء للہ غیر مشرکین۔ (آیت ۳۱۔۳۲)۔ یعنی تم بتوں کی ناپاکی سے بچتے رہو۔ ایک خدا کے ماننے والے اور اس کے ساتھ شرک نہ کرنے والے ہو کر۔ سورۃ بینۃ میں خدانے فرمایا ہے : وما امرو ا الا لیعبدو االلہ مخلصین لہ الذین حنفاء و یقیموا الصلوۃ و یوتوا الزکوۃ وذالک دین القیمۃ۔ (آیت ۴)۔ یعنی ان کو یہی حکم ہوا تھا کہ خدا کی عبادت کریں خالص اس کے لیے اوربندگی کریں اس کی مخلص ہو کر ۔ نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں اوریہی مذہب ٹھیک ہے۔ پس بت پرستی کے مذہب کو مذہب حنیف قرار دینا نہایت بڑی غلطی ہے۔ صبانا صبانا (از ’’آخری مضامین سرسید‘‘) یہ کس نے کہا؟ بنی خزیمہ نے مگر افسوس ہے کہ حضرت خالد ابن ولید اس کا مطلب نہیں سمجھے اور ان کو قتل کر دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد ابن ولید کو خزیمہ کے پاس بھیجا کہ ان کو اسلام کی طرف دعوت کریں۔ بنی خزیمہ نے بجائے اس کے کہ اسلمنا کہیں صبانا صبانا کہا جس کا مطلب تھا کہ ہم اپنے مذہب سے پھر گئے ۔ یعنی مسلمان ہو گئے۔ حضرت خالد اس کا مطلب نہیں سمجھے اوران کو قتل کر دیا۔جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی تو ٓپ نے فرمایا کہ اے خدا میں بری ہوں اس کام سے جس کو خالد نے کیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جو لوگ اپنا مذہب چھوڑ کر دوسرے میں آتے ہیں‘ ان کے دل میں کیا بات پیدا ہوتی ہے ۔ جس کے سبب وہ دوسر امذہب اختیار کرتے ہیں۔ جو لوگ کسی خوف یا لالچ سے اپنا پہلا مذہب چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرتے ہیں وہ ہماری بحث سے خارج ہیں۔ ہم اس بات پر غور کرنا چاہتے ہیں کہ دوسرے مذہب کی کیا خوبی نہایت سچائی سے ان کے دل میں بیٹھتی ہے کہ جس سے وہ پہلا مذہب چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرتے ہیں۔ اگر کسی شخص نے اپنے مذہب میں جس میں کہ وہ ہے سخت پابندیاں اور سخت احکام دیکھے جس سے اس کو اپنی زندگی تلخ معلوم ہوئی اور دوسرے مذہب میں اس کو اپنی زندگی پابندیوں سے نجات دیکھی اور اس لیے اس مذہب کو اختیار کیا تو اس کو بھی ہم انہیں شخصوں میں شمار کریں گے۔ جنہوں نے کسی لالچ سے دوسرا مذہب اختیار کیا ہے۔ حالانکہ ہم اس سچائی کی تلاش کے درپے ہیں جو دوسرے مذہب کی اس کے دل میں بیٹھی اور اس کے سبب سے اس نے دوسرا مذہب اختیار کیا۔ اس بات کا ہم کو یقین نہیں ہوتا کہ جو دوسرا مذہب اس نے اختیار کیا ہے اس کے تمام مسائل اور عقیدہ کو دوسرے مذہب کے عقائد اور مسائل پر ترجیح دے کر دوسرا مذہب اختیار کیا ہو ۔ کیونکہ ہہ امر تو نہایت مشکل کام ہے ۔ ایک بہت بڑا علم بھی ایسا نہیں کر سکتا۔ پس کیا چیز ہے جو مذہب کو بدلوا دیتی ہے۔ صحبت بھی دوسرے مذہب کی طرف مائل کر دیتی ہے مگر ہم اس کو بھی اس میں شمار نہیں کرتے جس میں کسی شخص نے نہایت سچائی اور ایمانداری سے دوسرے مذہب کو سچ اور برحق سمجھ کر اختیار کیا ہو اور اپنا مذہب چھوڑ دیا ہو۔ لو گ کہتے ہیں کہ سیدھی راہ اختیار کرنی خدا کی ہدایت پر موقوف ہے ‘ ہم بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سیدھی راہ یعنی مذہب حق اختیار کرنا بلاشبہ خدا کی ہدایت پر موقوف ہے مگر ان کی نسبت ہم کیا کہیں کہ جو مذہب حق کو چھوڑ کر دوسرا مذہب جو گمراہی ہے ‘ اختیار کرتے ہیں۔ ہدایت اور گمراہی دونوں خدا کے اختیار میں ہیں مگر ہم اس بات کی تلاش میں ہیں کہ کیا چیز انسان کے دل میں آ جاتی ہے جس کے سبب وہ مذہب تبدیل کر ڈالتا ہے ۔ خواہ وہ مذہب جو اس نے پہلا مذہب تبدیل کر کے اختیار کیاہے حق ہو یا باطل ہو۔ موجودہ اور گزشتہ زمانہ کے حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے ہ علاوہ ان اسباب کے ہم نے اوپر بیان کیے ہیں یہ ہوتا ہے کہ کسی شخص کا دل کو کسی مذہب کی کچھ باتیں کسی دلیل کے بغیر یابغیر کسی دلیل کے سچ اور صحیح معلوم ہونے لگتی ہیں اور وہ ان کو نہایت نیک نیتی سے اور سچے دل سے سچا اور برحق سمجھتا ہے اور اس لیے اس مذہب کو اختیار کر لیتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ اس مذہب کی تمام باتیں اس کو سچی معلوم ہونے لگتی ہیں اور وہ اس مذہب کو پورا پورا اختیار کر لیتا ہے ۔ اس بات کا سبب کہ اس شخص کو کسی مذہب کی کچھ باتیں کیوں سچ معلوم ہونے لگتی ہیں زیادہ تر ان لوگوں کی بزرگی اور تقدس اور اخلاق کی خوبی ‘ نیکی اور نیک خصلت پر منحصر ہوتا ہے جو اس مذہب کا وعظ کرتے ہیں یا اس مذہب کو پھیلانا چاہتے ہیں خود بھی وہی کرتے ہیں جو کہتے ہیں ان کا قول اور فعل ظاہر و باطن ‘ سب یکساں ہوتا ہے یہی سبب ہے کہ انبیا علیہم السلام تمام ان صفات کے جامع ہوتے ہیں جو انسان میں حسب فطرت انسانی جمع ہو سکتی ہیں۔ ان کا وظیفہ شبانہ روزی انسان کو خدائے واحد کی پرستش اور نیکی اورنیکدلی کی ہدایت کرنا ہوتاہے اور جو کہ ان کا طریقہ عمل بالکل اس کے مطابق ہوتا ہے جس کی وہ لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں اور وہی خود بھی کرتے ہیں جو لوگوںکے کرنے کو کہتے ہیں اس لیے درحقیقت وہ معصوم ہوتے ہیں یعنی بری باتوں سے محفوظ اور اچھی باتوں میں مشغول رہتے ہیں۔ پس ہمارے نزدیک انبیاء علیہم السلام کا معصوم ہونا ضرور ہے اور اگر معصوم ہوں تو ان سے پوری پوری امت کی ہدایت غیر ممکن ہے۔ یہی طریقہ اب تک چلا آتاہے ۔ علماء کو جنہوں نے اپنی تمام زندگی علوم کے حاصل کرنے میں صرف کر دی ہے ان کو تو علیحدہ رکھو مگر جن لوگوںنے روحانی نیکی حاصل کرنے پر توجہ کی ہے خواہ وہ عالم ہوں یا جاھل ھاں اگر عالم بھی ہوں تو نور علی نور ہیں۔ ان کے اخلاق اور اوصاف انبیاء علیہم السلام کے اخلاق اور اوصاف کے زیادہ مشابہ ہو جاتے ہیں اور ان ہی سے صرا ط مستقیم ‘ یعنی مذہب اسلام کی اشاعت ہوتی ہے ۔ یہی حال ہندوستان میں ہوا ہے۔ علماء کے ذریعہ سے تو شاید دو چار دس پانچ آدمی مسلمان ہوئے ہوں مگر فقراء اور اولیاء اللہ کی بدالت ہزاروں لاکھوں آدمی مسلمان ہوے ہیں۔ پس مذہب کی خوبی ہی ان لوگوں سے ظاہر ہوتی ہے جو نیکی کا پتلا ہو جاویں‘ ورنہ ایسے لوگ تو بہت مارے مارے پھرتے ہیں جن کی نسبت حافظ نے کہا ہے کہ: واعظان کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند چوں بخلوت میروند آں کار دیگر می کنند اللھم اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین آمین۔ العجب ثم العجب (از ’’آخری مضامین سرسید‘‘) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب تفہیمات الٰہیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ خدا نے معادن پر نظر رحمت ڈالی جو عناصر کے ٹکرانے اور ملنے سے پیدا ہوئی تھی اور اور ان سے کہا کہ میں نے تجھ سے اپنا رب ہونا ظاہر کیا ہے تجھ کو میں نے اپنی خلق سے برگزیدہ کیا ہے ۔ جو کچھ میں نے پیدا کی اہے میں نے تیرے لیے ہے اور آسمان اور زمین کو تیرا تابعدار بنایا ہے ۔ اسی طرح خدا تعالیٰ معدنیات سے کہتا رہا ‘ یہاں تک کہ پہلا دورہ ختم ہو گیا۔ پھر معدنیات کی صورت خدا کے سامنے حاضر ہوئی اور خدا کے سامنے عجز و نیاز کرنے لگی تو خدا کی بارگاہ سے ایک فیض عجیب معدنیا ت کی صورت پر پڑا کہ اس میں تغذبہ کا ااور نمو کا استعداد پیدا ہو گیا اورنباتات پیداہو گئیں اورمعدنیا ت کی صورت پر غالب آ ئیں اور معدنیا ت اس میں چھپ گئیں اور خدا کی شان دوسری ہو گئی۔ پھر خدا نے نباتات پر نظر رحمت ڈالی اور کہا کہ جو کچھ میں نے پیدا کیا ہے تیرے لیے ہے۔ میر ی خلقت میں سے تو ہی برگزیدہ ہے اور تو ہی میرا مقصود ہے اور مقام عالم تیرے تابع ہیں۔ اسی طرح خدا تعالیٰ نباتات سے کہتا رہا یہاں تک کہ دورہ ختم ہو گیا یعنی دوسرا دورہ۔ پھر نباتات کی صورت خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوئی اور عجز و نیاز کرنے لگی تو خدا کی بارگاہ سے ایک فیض عجیب نباتات کی صورت پر پرا کہ اس میں ادراک ارو حس اور ارادہ کی قوت پیدا ہو گئی اور اس سے حیوان پیدا ہو گئے اورمعدنیات اور نباتات اس میں چھپ گئیں۔ اب خدا نے حیوان پر نظر رحمت کی اور کہا کہ جن کو میں نے پیدا کیا ہے ان میں سے تو ہی اور تو ہی میرا برگزیدہ اور تو ہی میرا محبوب ہے اور تو ہی میرا مطلوب ہے اور تو ہی عالم کے پیدا ہونے کا سبب ہے اور تو ہی خلق کے یدا ہونے کی علت فاعلی ہے ۔ پھر اسی طرح خدا اس سے کہتا رہا یہاں تک کہ دورہ ختم ہو گیا یعنی تیسرا دورہ۔ پھر حیوانات کی صورت خدا کے سامنے حاضر ہوئی اور عجز و نیاز کرنے لگی تو خدا کی طرف سے انسان کی صورت اس پر فائز ہوئی۔ پھر اس میں اس سے افضل استعداد پیدا ہو گیا جو ان میں تھا اور اصل صورت انسان کے دل وار عقل لطیفہ کا پورا ہونا ہے ۔ پھر انسان کی نوع پیدا ہوئی جن میں سب سے پہلے آدم علیہ السلام ہیں اور خدا نے رحمت کی نظر سے اس کو دیکھا اورکہا کہ تو عالم صغیر ہے خبر دینے والا عالم کبیر کا۔ تو ہی امامت کے لائق ہے نہ آسمان اور نہ زمینیں اورنہ پہاڑ عالم کو تیرے لیے مسخر کیا ہے اورتیرے لیے مینہ برسایا ہے اور نباتات اگائے ہیں اور تیرے لیے حیوانوں کو زمین میں پیدا کیا۔ میری خلقت میں تو ہی میر امحبوب ہے (انتہی) گویا یہ چوتھا دورہ تھا۔ شاید اسی مقام کے مناسب حافظ علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے : آسماں بار امانت نتو انست کشید قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند قال اللہ تعالیٰ انا عرضنا الا مانۃ علی السموات ولارض والجبال فابین ان یحملنھا واشفقن منھا وحملھا الانسان انہ کان ظلوما جھولا ۔ (سورۃ الاحزاب آیت ۷۲)۔ یعنی ہم نے پیش کیا امانت کو آسمانوں اور زمینوں کے اور پہاڑوں کے سامنے پھر انہوں نے اس کے برداشت کر نے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اوراس کو برداشت کیا انسان نے بے شک وہ زیادتی کرنے والا اور نادان تھا۔ اس مقام پر ہم کو اس آیت کی نسبت بحث کرنا مقصود نہیں ہے۔ ہر کوئی جان سکتا ہے کہ جو چیز انسان میں حیوانوں کی بہ نسبت زیادہ ہے اسی کی نسبت لفظ امانت کا کہا گیا ہے مگر جو کچھ کہ تعجب ہم کو ہے وہ اس بات سے ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے ان چاروں دوروں کا ہونا اور خصوصاً اسس طرح پر جس طرح کہ انہوں نے بیان کیا ہے کہاں سے اخذ کیا ہے ۔ جو لوگ کہ ڈارون کی تھیوری کے قائل ہیں وہ تو شاہ ولی اللہ صاحب کے اس بیان سے انقلاب کی تھیوری پر استدلال کرتے ہیں ار جو لوگ انقلاب کے قائل نہیں ہیں بلکہ مماثلت کے قائل ہیں‘ جیسا کہ ہمارا خیال ہے وہ ان کے بیان سے مماثلت کی تھیوری پر استدلال کرتے ہیں مگر جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ کہاں سے ان دوروں کا شاہ ولی صاحب نے استنباط کیا ہے اس وقت تک کوئی قطعی فیصلہ نہیں ہو سکتا ہے۔ البتہ توریت میں ہے کہ زمین نے سبزہ زار اور درخشاںمیوہ دار کو اگایا اور خدا نے ان کو دیکھ کر کہا کہ بہت اچھا ہے۔پھر خدا نے پانیوں کو کہا کہ پانی کے جانور اور اڑنے والے جانور پیدا کریں اور خدا نے ان کو دیکھ کر کہا کہ بہت اچھا ہے۔ پھر خدا نے زمین کو کہا کہ زمین پر چلنے والے جانور پیدا کرے۔ اس نے پیدا کیے اور خدا نے ان کو دیکھ کر کہا کہ بہت اچھا ہے۔ پھر خدا نے اپنے مشابہ انسان کو پیدا کیا مگر جو طرز بیان کہ شاہ ولی اللہ صاحب کا ہے اور جو طرز بیان کہ توریت میں ہے وہ یکساں نہیں ہے ۔ مگر ہم کو پتہ نہیں لگتا کہ شاہ صاحب نے وہ بیان کہاں سے اخذ کیا ہے ۔ اگر انہوں نے بذریعہ اپنے مکاشفہ کے بیان کیا ہے تو اس میں کچھ کلام نہیں اور اگر انہوں نے کتاب اور سنت سے اخذ کیا ہے تو ہم کو امید ہے کہ کوئی دوست ہم کو اس کے ماخذ سے مطلع فرماوے گا۔ ٭٭٭ سبع ارضین (از ’’آخری مضامین سرسید‘‘) یعنی سات زمینیں ۔ قال اللہ تعالیٰ اللہ الذی خلق سبع سموات ومن الارض مثلھن یعنی اللہ وہ ہے جس نے پیدا کیا سات آسمانوں کو اور زمینوں کو مثل ان کے ۔ اس آیت میں یہ بحث ہے کہ مثلھن سے زمین کو آسمانوں سے کس چیز میں مماثلت ہے۔ ہمارا قول یہ ہے کہ اس آیت میں زمین کو آسمانوں سے مماثلت فی الخلق مقصود ہے یعنی جس طرح خدا نے اپنی قدر ت کاملہ سے آسمانوں کو پیدا کیا ہے اسی طرح سے اپنی قدرت کاملہ سے زمین کو پیدا کیا ہے۔ اس آیت سے ارض مفرد آیا ہے ۔ بلکہ تمام قرآن مجید میں کسی جگہ ارض بصیغہ جمع‘ یعنی ارجین نہیں آیا اور یہ اس بات کی دلیل ہے ک جب ارض پر کسی حیثیت سے جمع کا اطلا ق نہیں ہوا تو تداد ارض نہیں پایا جاتا۔ والارض میں جو وائو ہے اس کا عطف سموات پر ہے یعنی خلق الارض مثل خلق السموات بکمال قدرۃ وارادۃ مگر علمائے مفسرین نے یہ معنی اختیار نہیں کیے‘ انہوں نے مثل سے مماثلت فی العد د مراد لی ہے۔ ان علما کے بھی دو فرقے ہیں۔ ایک فرقہ وہ ہے جو زمین کو تو ایک ہی مانتاہے ‘ مگراس کی مماثلت کو طبقات ارض کی مماثلت پر محدود رکھتا ہے‘ یعنی اس کا مقصود یہ ہے کہ جس طرح آسمان کے طبقے ہیں‘ اسی طرح زمین کے بھی طبقے ہیں۔ تفسیر کبیر میں کلبی کا قول لکھا ہے کہ جس طرح آسمان کے اوپر آسمان پیدا کیے اسی طرح زمین کے طبقے بھی پیدا کیے ہیں۔ ایک طبقہ تو خالص اس کا مٹی کا ہے اورایک طبقہ گیلی مٹی کا ہے اورایک کھلا ہواطبقہ ہے جس پر دریا اور جنگل ہیں اورہم لوگ رہتے ہیں۔ بعض عالموں نے خیال کیا ہے کہ اس آیت میںسبع السموات کا لفظ ہے اور ایک جگہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ سبع سموات طباقاً۔ پس مثلھن سے زمین کے بھی سات طبقے قرار دینا ضرور ہے ۔ چنانچہ انہوں نے زمین کی سات اقلیموں کو زمین کے ساتھ طبقے قرار دیے ۔ تفسیر کبیرمیں لکھا ہے کہ کچھ عجب نہیں کہ مثلھن سے سات اقلیمیں مراد ہوں مطابق سات آسمانوں کے جن میں سات ستارے ہیں۔ بخاری کی ان حدیثوں میں جو حضرت عائشہ ؓ اور سعید ابن زید سے مروی ہیں کہ جو کسی کی بالشت بھر زمین غصب کرے گا اس کو خدا تعالیٰ قیامت میں سات زمینوں کا طوق پہناوے گا۔ اورجو حدیث سالم کے باپ یعنی عبداللہ بن عمر سے بخاری میں مروی ہے کہ غضب کرنے والا کسی کی زمین کا قیامت میں ساتویں زمین تک دھنسایا جاوے گا۔ ان حدیثوں میں علماء نے سا ت زمینوں سے سات طبقے زمین کے مراد لیے ہیں۔ چنانچہ فتح الباری میں علامہ ابن حجر نے دائودی کا قول نقل کیا ہے کہ آسمان کی طرح زمین کے بھی سات طبقے ہیں اور وہ طبقے بلا فصل ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور جس عذاب کا ان حدیثوں میں ذکر ہے اگرچہ فتح الباری میں اس کی تصریح لکھی ہے مگر ہم کو ا س مقام پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ غرضیکہ قرآن مجید میں تو مماثلت کی کچھ تصریح نہیں ہے کہ زمین کو آسمانوں سے کس چیز میں مماثلت ہے ‘ بلکہ جو کچھ اوپر بیان ہوا وہ صرف علماء کی رائے اور ان کا اجتہاد ہے جس میں ہم کو کوئی مقام عذر نہیں ہے ۔ امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ یہ تفسریریں ایسی ہیں جن سے عقل انکار نہیں کرتی اور ان کے سوا جو اور تفسریریں مفسرین نے نقل کی ہیں وہ ایسی ہیں کہ جن کو عقل قبول نہیں کرتی۔ پس بعض علماء نے جو بر بناء بعض روایتوں کے مثلھن سے مماثلت فی عدد تصور کر کے یہ قرار دیا ہے کہ سات جداگانہ زمینیں ہیں‘ ہم اس رائے کو اور ان حدیثوں کو نہیں مانتے جیسا کہ ہم آگے بیان کریں گے۔ ترمذی میں سورۃ الحدید کی تفسیر میں ایک بڑی حدیث لکھی ہے اور سات زمین ہونے کے متعلق جو فقرہ اس میں لکھا ہے وہ یہ ہے کہ ’’رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا کہ تمہارے نیچے کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خدا اور رسول جانتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ زمین ہے۔ پھر پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ اس کے نیچے کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خدا اور رسو ل جانتا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے نیچے ایک دوسری زمین ہے اور ان دونوں میں پانچ سو برس کا فاصلہ ہے ۔ اسی طرح سات زمینوں کو گنا کہ ہر زمین میں پانچ سو برس کے رستہ کا فاصلہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ قسم ہے اس شخص کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ اگر تم ایک رسی نیچے زمین تک لٹکائو تو خدا پر جا پہنچے گی۔ پھر آپ نے آیت پڑھی یہ آیت ھو الاول و الاخرو الظاہر و الباطن وھو بکل شیء علیم خود ترمذی میں لکھا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے‘ کیونکہ حسن بصریؓ نے ابو ھریرہ سے روایت کی ہے اور حسن بصری کا سماع ابوھریرہ سے ثابت نہیں۔ میزان الاعتدال میں علامہ ذھبی نے لکھا ہے کہ حسن بصری روایتوںکے بیان کرنے میں تدلیس بہت کرتے تھے‘ یعنی اس راوی کا نام لے دیتے تھے جس سے انہوں نے حدیث نہیں سنی اس لیے جب کبھی وہ عن کے لفظ سے کسی صحابی سے حدیث بیان کرتے ہیں (جیسے کہ اس حدیث میں عن ابوہریرہ کر کے بیان کیا) تو محدثین کے نزدیک اس حدیث سے استدلال کرنا نہایت ضعیف ہو جاتا ہے ‘ خصوصاً جب وہ ایسے شخص سے روایت کریں جس کی نسبت محدثین نے تصریح کر دی ہے کہ حسن بصریؓ نے اس سے حدیث نہیں سنی اورانہیں میں سے ایک ابوہریرہ ہیں تو ان کی روایت ساقط ہو جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ تما م محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو راوی تدلیس کرتا ہو اس کی معنعن روایت مقبول اور قابل احتجاج نہیں ہے۔ پس یہ حدیث خود محدثین کے اصول کے مطابق قابل اعتبار نہیں ہے۔ اورمسند امام احمد بن حنبل بھی یہ حدیث باختلاف الفاظ قلیل آئی ہے ۔ اس میں بھی حسن بصریؓ نے بالفاظ عن ابی ہریرہ روایت کی ہے اور اس لیے یہ بھی مثل حدیث ترمذی کے قابل سند کے نہیں ہے ۔ ایک حدیث مستدرک حاکم میں ہے جس کا مطلب یہ ہے ’’ایک زمین سے دوسری زمین تک جو اس کے متصل ہے پانچ سو برس کا راستہ ہے۔ اوپر والی زمین ایک مچھلی کی پشت پر ہے جس کے دونوں کنارے آسمان دنیا سے ملتے ہیں۔ مچھلی ایک پتھر کی چٹان پر ہے۔ پتھر کی چٹان ایک فرشتہ کے ہاتھ پر ہے دوسری زمین وہ ہے جہاں ہوا بند رہتی ہے ۔جس خدانے قوم عاد کو ہلاک کرنا چاہا تو ہوا کے موکل کو حکم دیا کہ ان پر ہوا بھیجے جس سے وہ ہلاک ہو جائیں ۔ موکل نے پوچھ کہ میں اتنی ہوا بھیجوںجتنی کی بیل کے نتھنے مٰں سے نکل سکتیہے۔ خدا نے فرمایا نہیں کیونکہ زمین اور اس کے رہنے والے سب ہلاک ہو جائیں گے۔ تو ان پر اتنی ہوا بھیج دے جتنی کہ انگوٹھی کے حلقے سے نکل سکتی ہے۔ اسی کی طرف خدانے اشارہ کیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ وہ جہاں سے گزرتی ہے بوسیدہ ہڈی کی طرح چورہ کیے بغیر نہیں چھوڑتی تھی۔ تیسری زمین وہ ہے جہاں دوزخ کے پتھر ہیں۔ چوتھی زمین وہ ہے جہاں دوزخ کی گندھک ہے ۔ لوگوں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ دوزخ میں گندھک بھی ہے؟ آ پ نے فرمایا کہ ہاں خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ دوزخ میں گندھک کے دریا ہیں کہ اگر سنگلاخ پہاڑوں پر چھوڑ دیے جائیں تو وہ پگھل کر رہ جاویں۔ پانچویں زمین وہ ہے جہاں دوزخ کے سانپ ہیں جن کے منہ دریا کی وادی کی طرح فراخ ہیں ۔ وہ کافروں کو ڈسیں گے اور ان کی ہڈی پر گوشت نہ چھوڑیں گے ۔ چھٹی زمین وہ ہے جہاں دوزخ کے بچھو ہیں جن میں ادنیٰ بچھو خچروں کے برابر ہیں وہ کافروں کے بدن پر ڈنگ ماریں گے ج سکی تکلیف سے وہ دوزخ کی آنچ کی تکلیف بھول جاویں گے۔ ساتویں زمین کا نام سقر ہے جہاں شیطان لوہے کی زنجیرو ں میں قید ہے ایک ہاتھ آگے اور ایک ہاتھ پیچھے۔ جب خدا اپنے بندوں میں سے کسی پر اس کو بھیجنا چاہتاہے تو اس کو چھوڑ دیتا ہے‘‘۔ مستدرک حاکم ہمارے پاس موجود نہیں ہے‘ حدیث ہم نے منتخب کنزل العمال سے نقل کی ہے۔ اس کے آخر میں لکھا ہے کہ : وتعقب عن ابن عمر یعنی اس روایت کو عبداللہ بن عمر سے بیان کیا ہے‘ لیکن مستدرک حاکم میں نے پہلی فدعہ اس حدیث کو جس طریقہ سے بیان کیا ہے اس کے آخیر راوی کا نام نہیں لیا۔ پس اس راوی کے دونوں طریقہ سے کوئی ہوں ہم کو معلوم نہیں ہیں اور اس لیے اس حدیث کے سلسلہ روایت پر کوئی بحث روایتاً نہیں ہو سکتی۔ درایتاً ہم اس روایت پر عنقریب بحث کریںگے۔ یہاں تک تو ہم نے ان حدیثوں کی نامعتبری بلحاظ راویوں کے بیان کی ہے ‘ لیکن ہمارے نزدیک اور علمائے محققین کے نزدیک بھی سب سے بڑا اصول حدیثوں کے معتبر یا نا معتبر قرار دینے کا درایت ہے جس سے نفس حدیث کے مضمون پر جانچ کی جاتی ہے ۔ اگر مضمون حدیث کا ایسا ہو جس کی صحت تسلیم نہ ہو سکے تو بلا لحاظ اس بات کے کہ اس کے راوی معتبر ہیں یا نا معتبر وہ حدیث نا معتبر قرار پاوے گی۔ مثلاً کوئی حدیث ایسی ہو جس میں مشہور تاریخ کے خلاف کوئی بات بیان کی گئی ہو یا یہ کہ جو کچھ حدیث میں بیان کیا گیا ہو جس کو حس اور مشاہدہ غلط قرار دیتا ہو یا خود حدیث کے الفاظ یا اس کے معنوں میں رکاکت اور سخافت ہو تو ایسی حدیثیں باعتبار درایت کے نامعتبر قرار دی جاویں گی۔ چنانچہ یہ سب باتیں اور مثل اس کے اوربہت سی شاہ عبدالعزیز صاحب نے عجالہ نافعہ میں اور امام سخاوی نے فتح المغیث میں اور سیوطی نے تدریب الراوی میں لکھی ہیں۔ اب اول تو ان حدیثوں میں جو سات زمینوں کے ہونے کا بیان ہے وہ خود غلط ہے‘ اس لی ے کہ سات زمینوں کا وجود دنیا میں نہیں ہے اور علم ہئیت سے خواہ وہ قدیم ہو یا جدید ‘ زمین کے تلے اور متعدد زمینوں کا ہونا ثابت نہیں۔ دوسرے ان حدیثوں کے مضمون ایسے رکیک اور سخیف ہیں کہ کسی طرح جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے کیا کوئی شخص اس مضمون کو جو ترمذی اور امام احمد بن حنبل کی حدیث میں ہے سخیف نہیں قرار دیتا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر کہا کہ اگر تم ایک رسی نیچے کی زمین تک لٹکا دو تو خدا پر جا پہنچے گی۔ علاوہ اس کے ان حدیثوں میں اور بہت سی رکیک باتیں ہیں جن کو ہم نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ زمین کے متعدد ہونے سے متعلق نہیں تھیں۔ مستدرک حاکم میںجو حدیث ہے اس میں لکھا ہے کہ پہلی زمین ایک مچھلی کی پشت پر ہے جس کے دونوں کنارے آسمان سے ملتے ہیں۔ اول تو یہی غلط ہے کجا زمین کے کنارے اور کجا آسامن۔ ان میں تو زمین اور آسمان کا فرق ہے ۔ پھر لکھا ہے کہ مچھلی ایک پتھر پر ہے اور پتھر ایک فرشتہ کے ہاتھ پر ہے۔ دوسری زمین کی نسبت لکھا ہے کہ اس میں ہوا بند رہتی ہے اور جب قوم عاد پر عذاب آیا تھا تو فرشتہ نے پوچھا کہ ان پر اس قدر ہوا بھیجوں کہ جس قدر بیل کی ناک میں س نکل سکتی ہے؟ خدا نے کہا نہں نہیں ی تو بہت ہے اتنی بھیج جتنی کہ انگوٹھی کے حلقہ میں سے نکل سکے۔ تیسری زمین میں دوزخ ک پتھر ہیں اور چوتھی زمین میں گندھک کے دریا ہیں جو دوزخ میں ہوں گے۔ پانچویں زمین پر دوزخ کے سانپ رہتے ہیں اور چھٹی زمین میں دوزخ کے بچھو رہتے ہیں اور ساتویں زمین پر شیطان لوہے کی زنجیروں میں جکڑا ہوا قید ہے ۔ ایک ہاتھ اس کا آگے ہے اور ایک ہاتھ پیچھے۔ ان سے زیادہ رکیک اور سخیف الفاظ کے معانی نہیں ہو سکتے اورنہایت افسوس اورہزار افسوس ان لوگوں پر ہے جو ایسے رکیک اور سخیف الفاظ کو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طر ف منسوب کرتے ہیں۔ وانا اشھد باللہ ان ھذا بھتان عظیم اصل یہ ہے کہ زمینوں کا متعدد ہونا نہ عرب جاہلیت کے خیال میں تھا۔ نہ عیسائیوں کے اور نہ یہودیوں کے ‘ نہ آتش پرستوں کے اورنہ ان سے پہلے کلدانی ‘ عبرانی‘ لاطینی و یونانی قوموںمیں تھا۔ شاید ہندوئوں میں ہو‘ مگر صرف قرآن کی اس آیت سے جو اوپر لکھی گئی ہے اور اس میں جو لفظ مثلھن ہے اس پر یہ تمام ھدیثیں وضع کی گئی ہیں۔ واللہ ورسولہ بریء عن ھذا۔ اور ان حدیثوں سے بھی عجیب تر وہ روایت ہے جو علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب فتح الباری میں نقل کی ہے۔ یہ روایت جس کی طر ف ہم اشارہ کریں گے ابن جریر نے باسناد شعبہ عن عمرو بن مرہ عن ابی صخی عن ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں جس پر ہم بحث کرتے ہیں مختصر طور پر بیان کی ہے اور حاکم اورامام بیہقی نے باسناد عطا بن السائب عن ابی ضحیٰ مطول پر بیان کی ہے۔ اس روایت کے اول الفاظ یہ ہیں۔ ومن الارض مثلھن۔ ای سبع ارضین فی کل ارض آدم کادمکم و نوح کنوحکم و ابراھیم کا براھیم کم۔ وعیسیٰ کعیسا کم ‘ و نبی کنبیکم ۔ یعنی من الارض مثلھن کے الفاظ سے سات زمینیں مراد ہیں۔ ہر ایک زمین میں سے ایک آدم ہے‘ جیسا کہ تمہارا نوح ہے اور ابراہیم ہے جیسا کہ تمارا ابراہیم ہے اور عیسیٰ ہے جیسا کہ تمہارا عیسیٰ ہے اورنبی ہے جیسسا کہ تمہارا نبی ہے۔ اس روایت کو ابن عباس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسل کی طرف منسوب نہیں کیا۔ ابن جریر اور امام بیہقی اور حاکم کی تصنیفات اس وقت ہمارے پاس موجود نہیں ہیں مگرفتح الباری مٰں جہاں اس روایت کے ابتدائی الفاظ لکھے ہیں ‘ وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ ابن ابی حاتم نے مجاھد کے واسطے سے خود ابن عباس سے روایت کی ہے کہ وہ لوگوںسے کہا کرتے تھے کہ اگر میں اس آیت کی تفسری تم سے بیان کروں گا تو تم کافر ہو جائو گے۔ اور تمہارے کافر ہونے کا سبب اس تفسیر کا جھٹلانا اور نہ ماننا ہو گا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مثلھن کی یہ تفسیر تھی جو ان کے دل میں تھی اور جس کو انہوں نے بیان کیا نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول اور جب کہ یہ اثر ابن عباس کا ہے اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے۔ تو اس پر کچھ اجتماع کرنا لازمی نہیں ہے۔ اس اثر کی تائید قرآن مجید سے کسی طرح نہیں ہوتی کیونکہ تمام قرآن میں ارضین کا لفظ بصبیغہ جمع نہیں آیا اور اس آیت میں بھی مفرد کا لفظ ہے۔ نہ جمع کا۔ علاوہ اس کے قرآن مجید کی کسی آیت سے نہیں پایا جاتا کہ خدا نے سات آدم پیدا کیے تھے اور سات نوح اور سات ابراہیم اور سات عیسیٰ اور سات نبی آخرالزمان۔ پس صرف لفظ مثلھن سے سات زمینوں اور سات آدم اور سات ابراہیم اور سات عیسیٰ اور سات نبی آخر الزمان کے ہونے پر استدلال کر نا صحیح نہیں ہے۔ علاوہ اس کے یہ امر خلاف واقع بھی ہے انہی دلائل سے جو ہم نے حدیث ترمذی کی دلیل میں لکھے ہیں۔ اس روایت کے انکار کرنے سے کوء کافر نہیں ہو سکتا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ روایت شاذ ہے اگر ہم فرض کر لیں کہ روایت ایسی شاذ ہے کہ حضرت ابن عباس تک اس کے کی صحیح سند موجود ہے تو بھی بجز اس کے کہ حضرت ابن عباس کے ذہن سے اس آیت کی تفسیر میں یہ امور تھے جو انہو ں نے بیان کیے اور کچھ خیال نہیں کر سکتے ۔ مگر جب کہ اس کی تائید نہ قرآن مجید سے ہوتی ہے ‘ نہ وہ مطابق واقع معلوم ہوتی ہے تو درایۃ بھی مقبول نہیں ہو سکتی۔ غرضیکہ سات زمینوں کا جداگانہ ہونا کسی طرح پر ثابت نہیں ہے۔ اگلے زمانہ میں علوم دینیہ اورعلوم عربیہ و فلسفہ یونانیہ کی ترقی کس وجہ سے تھی اور اب کیوں تنزل ہو گیا ہے؟ (از ’’آخری مضامین سرسید‘‘) ایک کلیہ قاعدہ ہے جو ہر ایک زمانہ اور ہرایک قوم سے یکساں تعلق رکھتا ہے ۔ اور کوئی چیز کسی زمانہ میں اس سے مسنثنی نہیں ہے اورنہ ہو سکتی ہے اور وہ قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز کی قدر ہوتی ہے ‘ اسی کی بہتات ہوتی ہے جس کو انگریزی میں ڈیمانڈ اور سپلائی کے لفظوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ڈمانڈ اور سپلائی پولیٹیکل اکونمی کے اصطلاحی الفاظ ہیں مگر ہم ن ان کی جگہ قصد اور بہتایت کے لفظ قائم کیے ہیں‘ تاکہ تمام اشیا ء مادی و غیر مادی پر حاوی ہوں‘ کیونکہ درحقیقت یہ دو لفظ اشیاء مادی اور غیر مادی دونوں کے برابرتعلق رکھتے ہیں۔ یہ بھی کلیہ قاعدہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ کیا جاتا ہے کسی نہ کسی غرض سے کیا جاتا ہے او وہ غرض کبھی تو اس کام کا معاوضہ حاصل کرنے کی ہوتی ہے اور کبھی کسی امر میں کمال حاصل کرنے کی جس کے باعث خود اس کے دل میں ایک قسم کا فخر پیدا ہو تا ہ یا اعزاز و تقدس پیدا ہونے کی جس کی لوگ قدر کرتے ہیں یا صرف دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی بغیر کسی ذاتی غرض کے یا بہ نیت خالص تقرب الی اللہ کے۔ پس ان تمام اسباب سے جس چیز کی قدر کی جاتی ہے۔ اسی کی بہتات ہوتی ہے۔ مثلاً عرب جاہلیت میں شاعری کا بہت چرچا تھا۔ ہر سال عکاظ کی منڈی مٰں شاعر جمع ہوتے تھے اوراپنے اشعار پڑھتے تھے اور ہر ایک دوسرے پر سبقت ل جانا اور اپنا فخر اوروں پر جتلانا چاہتا تھا جس سے اس کے دل سے بھی اسیک قسم کا فخر پیدا ہوتا تھا اور تمام قوم اس کو مفخر و معظم سمجھتی تھی اورجزیرہ عرب میں اس کی ناموری ہوتی تھی اور یہی غرض ان کو شاعری سے تھی اور اسی کی قدر ملک میں بھی تھی۔ اس زمانہ میں شاعری کا بڑا عروج تھا۔ نہایت عمدہ شاعروں کے قصیدے خانہ کعبہ میں لٹکائے جاتے تھے ۔ جن میں سات قصیدے اب تک مشہور و معروف ہیں۔ پھر اسلام کا زمانہ آیا ار کذب کی برائی بتلائی اور بتوں کی پرستش اور ان کی الٰہیہ تعریف کی جو ایک زیور بت پرستوں کی شاعری کا تھا ممانعت ہوئی اور خدا نے فرمایا: والشعراء یتبعھم الغاون۔ الم ترا نھم فی کل وادیھیمون۔ وانھم یقولون ما لا تفعلون اس سبب سے شاعری کی وہ قدر نہ رہی جو زمانہ جاہلیت میں تھی اور شاعری کو تنزل ہو گیا ۔ امام فخر الدین رازی نے تفسری کبیر میں نہایت عمدہ بات لکھی ہے کہ اسلام کے بعد تمام شاعروں نے کذب چھوڑ دیا تھا او ر سچائی اختیار کر لی تھی۔ اس سبب سے ان کی شاعری اچھی نہ رہی تھی اور اس میں تنزل ہو گیا تھا ۔ لیپد اور حسان جب دونوں مسلمان ہو گئے تو ان کے اشعار زمانہ اسلام کے عمدگی اور خوبی میں ان کے ایام جاہلیت کے اشعار کے برابر نہ تھے باایںہمہ اسلام کے شروع زمانہ میں کچھ شعراء اورزمان جاہلیت کے باقی تھ اور ان لوگوں میں بھی جو زمانہ قریب اسلام میں پیدا ہوئے تھے ۔ جاہلیت کے زمانہ کے شعراء کا کچھ اثر تھا جس کی مثال فرزدق میں پائی جاتی ہے کہ جب ھشام ابن عبدالملک حج کو گیا تو طواف میں کثرت ہجوم خلائق سے اس کو حجر اسود تک پہنچنے کا راستہ نہیں ملتا تھا‘ مگر جب ہمارے داما امام زین العابدی علیہ السلام طواف کرتے کرتے وہا پہنچے تو تمام ہجوم کائی کی طرح پھٹ گیا اور امام کو حجر اسود تک جانے کا راستہ دے دیا۔ ایک شخص جو شام کا رہنے والا تھا ھشام سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہیں؟ اس نے تجاہل عارفانہ سے کہا کہ میں نہیں جانتا۔ وہاں فرزدق شاعر بھی موجود تھا۔ ھشام کا یہ کہنا اس کو برا معلوم ہوا۔ اس نے حضرت امام کی شان میں فی البدیہہ ایک قصیدہ کہا جس کے یہ چند اشعار ہیں: ھذا الذی تعرف البطحاء و طاتہ والبیت یعرفہ والحل والحرم ھذا ابن خیر عباد اللہ کلھم ھذا التقی النقی الطاہر العلم ھذا ابن فاطمۃ ان کنت جاھلہ بجدہ انبیاء اللہ قد ختموا ماقال لا قط الا فی تشھدہ لولا التشھدکانت لاء ہ نعم یعنی یہ وہ شخص ہے کہ مکہ کی زمین اس کے نقش قد م کو پہچانتی ہے اور خدا کا گھر اور اس کی بزرگ زمین اور تمام لوگ اس کو جانتے ہیں۔ یہ فرزند ہے اس کا جو تمام خدا کے بندوں میں سے بہتر تھا۔ یہ ہے بزرگ اورمقدس اور پاک جس کو سب جانتے ہیں۔ یہ ہے فرزند فاطمہؓ کا گو ک تو اس کو نہ جانتا ہو۔ اسی کے دادا پر خداکے نبیوں کی نبوت ختم کی گئی ہے یہ ایسا فیاض ہے کہ بجز کلمہ پڑھنے کے کبھی اس نے لا کا لفظ نہیں کہا اگر کلمہ میں بھی لا نہ ہوتا تو لا کی جگہ وہ نعم ہی کہتا۔ زمانہ خلفائے بنی امیہ اور بنی عباس میں پھر شاعری کی قدر ہوئی ‘ گر شاعری کی رنگ بدلا ہوا تھا۔ نہ اشعار میں عرب جاہلیت کا جوش تھا نہ سادگی و سلاست باقی رہی تھی ہاں مضامین دقیق اور نازک جو عرب جاہلیت کے خیا ل میں بھی نہ تھے اور شاندار لفظ جو عرب جاہلیت کی سادگی کے مقابہ میں ہیچ تھے شعروں میں داخل ہو گئے تھے مگر جاہلیت کے اشعار تک کب پہنچ سکتے تھے؟ جیسے کہ فارسی میںظہوری اورنظیری نے بہت کچھ لفاظی اور مضمون آرائی کی‘ مگر حافظ شیرازی کی شاعری سے جو نہایت سادہ اور آمد کی خوبیوںسے مملو تھی ‘ ان کے اشعار جن میں آورد کے سوا اور کچھ نہ تھا کب لگا کھا سکتے تھے؟ بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانہ کے بعد شاعری کی اوربھی قدر گھٹتی گئی اور اسی کے ساتھ اس مٰں تنزل آتا گیا اور اب یہاں تک تنزل آ گیا ہے ہ اگر میں چاہوں تو اپنے تئیں بھی عربی کا شاعر کہنے لگوں ۔ گو کہ میں نے کبھی عربی کا شعر نہیں کہا۔ ارونہ کہہ سکتا ہوں۔ بلکہ عربی اشعار کو موزوں پڑھ بھی نہیں سکتا۔ اس سے بخوبی ثابت ہے کہ جس چیز کا ڈمانڈ نہٰں ہے اس کی سپلائی بھی نہیں ہے یعنی جس چیز کی قدر نہیں ہے۔ اس کی بہتات بھی نہیں ہے۔ مگر یاد رہے کہ جو چیز دنیا میں بکار آمد اور فائدہ مندہوتی ہے اس کی قدر کبھی نہیں گھٹتی ‘ جب تک کہ اس سے زیادہ مفید دوسری چیز پیدا یا ایجاد نہ ہو جائے اور جو چیزیں کہ بطور مشغلہ کے ہوتی ہیں تو جب مشغلہ رکھنے والے نہیں رہتے یا وہ ذریعہ باقی نہیں تہتا جو اس مشغلہ کو قائم رکھے تو ان چیزوں کی قدر گھٹ جاتی ہے شاعری اسی قسم کی چیز تھی جس کی قدر زیادہ تر بطور مشغلہ کے کی جاتی تھی۔ جب وہ نہ رہا تو لازمی طور سے اس کا تنزل ہونا تھا۔ جب ڈمانڈ نہ رہا تو سپلائی بھی نہ رہی۔ نثر زمانہ جاہلیت کی ہم تک نہیں پہنچی اور جو ٹکڑے نثر جاہلیت کے بعض کتابوں میں ملتے ہیں ان پر پورا یقین نہیں ہو سکتا کہ وہ خالص جاہلیت کے ہیں۔ اسلام کے قرن اول کا کلام یا خطبات جس قدر ہم کو ملتے ہیں‘ وہ بھی بذریعہ روایا ت کے ہم تک پہنچ ہیں ان پر بھی پورا یقین نہیں ہو سکتا۔ کہ وہ خالص کلام قرن اول اسلام کا ہے۔ صرف قرآن مجید ہمارے پاس یقین کے قابل ہے جو ابتدائے اسلام اور آخر عہد جاہلیت کا کلام یقینا خیال میں آ سکتا ہے۔ قرآن مجید کو ہم وحی متلو یا خدا کا کلام یقین کرتے ہیں]مگرجب وہ انسانوں کی زبان میں نہایت فصیح و بلیغ طرز پروحی ہوا ہیتو اس لیے ہم کو اس زمانہ کے لٹریچر سے تعبیر کرتے ہیں ۔ مگر وہ کلام ایسا بے نظیر و بے مثل ہے کہ آج تک نہ کسی سے ویسا ہوا ہے وار ہم یقین کرتے ہیں کہ نہ مثل اسکے آئندہ ہو سکتاہے کیونکہ جب ہم نے دکھایا کہ عربی لٹریچر کا روز براز زوال ہوتا گیا ہے تو پیشن گوئی کرنی کہ آئندہ بھی مثل قرآن کے کوئی تحریر نہیں ہو سکنے کی کوئی ناقابل یقین بات نہیں ہے۔ ان تمام وجوہات سے ہم زمانہ جاہلیت کی نثر سے اسلام کے بعد کی نثر میں جو تنزل ہوا ہے اس کو علانیہ نہیںدکھا سکتے۔ مگر جب کہ فصحائے عرب مثل قرآن کے کوئی تحریر نہ لا سکے تو اس پر یقین ہو سکتا ہے‘ کہ اس زمانہ کے فصحاء بھی قرآن کی مثل تحریر کرنے پر عاجز تھے۔ سخت افسوس ان لوگوں پر ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں یا کہت ہیں کہ قرآن مجید کی عبارت بھی یکساں نہیں ہے بلکہ بعض آیتیں نہایت اعلیٰ درجہ کی ہیں اوربعض مقامات ویسے اعلیٰ درجہ کے نہیں ہیں۔ مگر ایسا کہنا یا سمجھنا ان لوگوں کی نہایت نا سمجھی ہے ادائے کلام بمتقاضائے اس مضمون کے ہوتا ہے جو ادا کیا جاتا ہے۔ نعیم جنت اوروعید عجیم ایک طرز کلام سے ادا نہیں ہو سکتیں اورنہ ان کو ایک طرز پر ادا کرنا مقرضائے فصاحت و بلاغت ہے۔ جس وقت کہ ایک مضمون قہر آلود واسطے زجر و توبیخ لوگوں کے بیا ن کیا جاتا ہے اس کے الفاظ اور لفظوں کی ترتیب اور فقروں کی ترکیب دوسری طرح کی ہوتی ہے‘ اگرچہ اس کو پڑھتے ہیں تو اس وقت صرف وہ لفظ ہی موجود ہوتے ہی اور جس ٹون سیوہ لفظ ادا کیے گئے ہیں‘ وہ ٹون موجو دنہیں ہوتی۔ مگر ا سکے الفاظ اور لفظوں کی ترتیب اور فقروں کی ترکیب اس قسم کی ہوتی ہے کہ پڑھنے والے کے دل میں وہی ٹون پیدا کر دیتی ہے اور جب کوئی مضمون محبت اور شفقت اور رحم اور عفو ا بیان ہو تا ہے تو اس کے لفظ اور لفظوں کی ترتیب اور فقروں کی ترکیب جدا قسم کی ہوتی ہے اور جب کوئی واقعہ یا حالات بیان کیے جاتے ہیں تو اس کے الفاظ نہایت سادہ اور عبارت سلیس اور سہل ممتنع ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں یہ تینوں قسم کے مضامین اور ان کے مناسب الفاظ اور ان کے مطابق طرز بیان سب موجود ہے اور ہر قسم کا مضممون جس طرح ُر بیان ہوا ہے وہ بے مثل اور بے نظیر عبارت میں بیان ہوا ہے پس یہ کہنا کہ رسد تبت یدا یا قیل یا ارض ابلعی نہایت بے سمجھی اور محض سفاہت کی بات ہے۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانہ میں جو نثریں لکھی گئی ہیں اورجن پر ان کے لکھنے والوں کو مثل مقامات حریری وغیرہ کے فخر ہے وہ قرآن مجید کے سامنے نہایت ہی متبذل اور نہایت ہی حقیر ہیں اور ہر شخص یقین کر سکتاہے کہ جو سادگی اور سلاست عرب جاہلیت سے منسوب ہے وہ مطلق اس کلام میںنہیں پائی جاتی اورنہ عرب جاہلیت کے خیالات اس قسم کے تھے جو ان میں اد اکیے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ مقد س حدیث کا علم ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے وقت میں تو حدیث کی روایت کرنے کی ممانعت تھی۔ خود حضرت عمرؓ نے لوگوں کو حدیث کی روایت کرنے سے منع کر دیا تھا۔ جو لوگ حدیث کی روایت کرتے تھے ان کی درہ سے خبر لیتے تھے اور ابن مسعود اور ابودرداء اور ابو مسعود انصاری کو بجرم روایت احادیث کے قید کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ خود حضرت ابوبکرؓ نے جس قدر حدیثیں جمع کی تھیں وہ جلا دی تھیں۔ اگرچہ یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کثرت سے حدیثوں کی روایت کرنے کا سلسلسہ کب سے شروع ہا مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد شروع ہوا ہو گا۔ خود صحابہ رضی اللہ عنہم نے حدیث کی روایت شروع کر دی تھی اورہم یقین کرتے ہیں کہ صحابہ صرف خالصاً لوجہ اللہ احادیث روایت کرتے تھے۔ اس زمانہ میں حدیث کی روایت ایک سے دوسرے کو صرف زبانی تھی‘ مگر جو صحابہ زیاد ہ حدیثیں بیان کرتے تھے وہ معزز اور مقدس اور بہت بڑے حدیث جاننے والے خیال کیے جاتے تھے اور تمام صحابہ ان کی بہت تعظیم و تکریم کرتے تھے ۔ صحابہ کے بعد جو راوی تھے ان کا بھی اعزاز کچھ کم نہ تھا ارو جو شخص کو ئی حدیث روایت کرتا تھا وہ زیادہ مکرم اور مقدس سمجھا جاتا تھا۔ اسی تقدس حاصل کرنے کو بہت سے لوگ جھوٹی حدیثوں کی روایت کرنے پر مائل ہوئے اور حدیث کی روایت کرنے لگے اور عن فلان عن فلان یا اخبرنا فلان یا انبانا فلان کہہ کر آخر کو قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ دیتے تھے۔ چنانچہ علمائے حدیث کو جو آخر کو ہوئے احادیث موضوع کے چھانتنے میںنہایت مشکلات پیش آئیں اور اس کے پرکھنے اور جانچنے کے لیے متعدد قاعدے بنائے۔ یہ گرما گرمی اور زبانی روایت کرنے والوں کا اعزاز و تقدس اس وقت تک باقی رہا جب کہ زبانی روایت کی کچھ ضرورت باقی نہ رہی اوروہ زمانہ وہ تھا جب علماء محدثین رضی اللہ عنہم اجمعیننے بعد تحقیق و تفحص راویوں کے حال کے حدیث کی کتابیں لکھنی شروع کیں۔ جب حضرت امام مالک ؓ نے اپنی کتاب موطا لکھ لی تو جو حدیثیں اس میں لکھی گئی تھیں ان حدیثوں کی نسبت کسی راوی کی زبانی روایت کرنے کی ضرورت باقی نہ رہی تھی۔ اسی طرح جب محمد اسماعیل بخاری نے اپنی کتاب لکھ لی تو ان حدیثوں کی نسبت بھی کسی راوی کی زبانی روایت کرنے کی ضرورت نہیں رہی رفتہ رفتہ صحاح ستہ بلکہ صحاح سبعہ مرتب ہو گئیں تو زبانی روایت کرنے والوں کی کچھ قدر نہیں رہی یعنی ان کا ڈمانڈ نہیں رہا اور زبانی روایت بالکل زوال پذیر ہو گئی۔ اب تمام دارومدار علم حدیث کا ان کتابوں پر رہ گیا جو صحاح کے نا م سے مشہور ہیں مگر اس وقت بھی راویوں کے حالات بیان کرنے کی ضرورت تھی اور ان حالات کا بیان کرنا صرف زبانی بیان پر منحصر تھا۔ یہاں تک کہ اسماء رجال کی کتابیں مرتب ہو گئیں اور اس وقت راویوں کے حال کی جو روایت زبانی بیان کی جاتی تھی اس کا ڈمانڈ بھی نہ رہا اور اس کو بھی زوال ہو گیا۔ اب علم حدیث کا اور محدث ہونے کا دارومدار صرف ان کتابوں کے پڑھنے اور جاننے پر رہ گیا جو علم حدیث میں لکھی گئی تھیں۔ ابتدا ابتدا میں تو اسی شخص کی عزت کی جاتی تھی جس نے وہ کتابیں ایسے شخص سے پڑھی ہوں جس نے اپنی قرات یا سماع کا سلسلہ ان کتابوں کے مصنف تک پہنچا دیا ہو مگر بعد کو یہ قید نہیں رہی۔ بلکہ چند جزو حدیث کی کتاب پڑھ لینے کے بعد استاد کل کتاب کی سنددے دیتا ہے مگر ہر زمانہ میں محدثین نہایت مقدس اور معزز گنے جاتے تھے اورتمام مسلمان کیا امیر‘ کیا فقیر‘ کیا بادشاہ محدثین کا نہایت اعزاز و اکرام کرتے تھے اور جو اوصاف ان میں تھے‘ درحقیقت وہ اسی قابل تھے کہ لوگ ان کا اعزاز و اکرام کریں اور ان کو مقدس جانیں۔ رفتہ رفتہ محدثین کے اوصاف میںبھی کمی ہوتی گئی‘ اسی کے ساتھ ان کے اعزاز و تقدس میں کمی ہوئی اور اسی کے ساتھ علم حدیث کا بھی تنزل شروع ہوا۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ علمائے علم حدیث اس تقدس و اعزاز و اکرام حاصل کرنے کے ارادہ سے حدیث کے سیکھنے میں مشغول رہتے تھے غالباً ان کی نیت خالصاً اللہ ہو گی مگر اس میں بھی کچھ شبہ نہیں کہ اس سبب سے ان فتوحات سلاطین کی طرف سے اور عام لوگوں کی طرف سے اس قدر پہنچتی تھیں جو ان کی حاجت اورضرورت س بہت زیادہ تھیں مگر رفتہ رفتہ اس میں بھی زوال آ گیا اور اسی کے ساتھ علم حدیث کو بھی زوال ہو گیا۔ اس زمانہ میں حدیث کی کتابوں کی شرحیں ایسی مفصل لکھی ہوئی موجود ہیں اور جن میں ہر ایک امر کی نسبت پوری بحث ہے اور اسماء رجال متعدد کتابیںنہایت مبسوط موجود ہیں اس لیے کسی شخص کو جو عربی جانتاہے کسی استاد سے حدیث پڑھنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ وہ کچھ وہ ان کتابوں میں دیکھ کر پاتا ہے استاد کبھی اتنا یا اس سے زیادہ نہیں بتا سکتا اوریہی وجہ ہوئی ہے کہ حدیث ی پوری کتابیں پڑھنے کی اب رسم نہیں رہی۔ بلکہ صرف تبرکا کوئی حدیث کی کتاب کسی استاد سے شروع کی جاتی ہے اور چند جزو پڑھنے کے بعد استاد اس کتاب کی سند دے دیتا ہے ۔ شاذ و نادر ہی طالب علم ہوں گے جو استاد سے حدیث کی پوری کتاب پڑھتے ہوں گے۔ حدیث کے بعد مقدس علم فقہ کا ہے انمہ مجتہدین کے زمانہ سے پہلے ہر ایک شخص حدیث پر جو اس کو پہنچتی تھی یا تعامل پر عمل کرتا تھا۔ اس زمانہ کے بعد ان حدیثوں پر جو کتابوں میں لکھی گئی ہٰں جو جو مطلب وہ ان کا سمجھتا یا جس کو عال اور مقدس سمجھتا تھا‘ اس کی سمجھ پر عمل کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ اور اصول فقہ کی کتابیں مرتب ہوئیں اور اہل سنت و جماعت میں چارامام مقبول ہوئے اور جو امام جس شہر یا نواح شہر میں تھا وہاں کے لوگ اس ے شاگر دتھے ۔ اس کی رائے پر چلتے تھے۔ رفتہ رفتہ تقلید کا زور ہوا۔ اہل علم نے قرآن و حدیث پر غور کرنا اور اس سے مسائل کا استخراج کرنا چھوڑ دیا اور جو کچھ آئمہ مجتہدین نے کہا اسی پر اکتفا کیا۔ اس سبب سے ان لوگوں میں سے مادہ اجتہاد کا زوال ہو گیا۔ ابتدا ابتدا میں ایسے لوگ بھی تھے جو مرجعین فی الروایت کے لقب سے مشہور تھے وہ جانتے تھے کہ فلاں حکم کہاں سے استنباط کیا گیا ہے اور کتاب و سنت سے اس کی کیا دلیل ہے او ر جس کو قوی سمجھتے تھے اس کو اختیار کرتے تھے مگر جب فقہ کی کتابیں زیادہ مبسوط تصنیف ہو گئیں جن میں ہر ایک امر کی تفصیل تھی تو مرجحین فی الوایت کی بھ ضرورت نہیں رہی اس میں بھی زوال آ گیا۔ اب صرف روایت جزیہ پر جو کتب فقہ اور فتاووں میں مندرج ہیں در و مدار قضا اور افتاء کا رہ گیا تھا۔ان قاضیوں اور مفتیوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ حکم کہاں ہے اور کیوں کر اور کس وجہ سے استباط ہوا ہے۔ بڑ ا فقیہ وہ ہے جو ہر ایک جزئی روایت کو کسی فتاوے سے نکال دے۔ اس زمانہ میں ایک فرقہ ہے جو اپنے تئیں اہل حدیث کہتا ہے ۔ اور اس کے مخالف اس کو وہابی کہتے ہیں۔وہ فرقہ تقلید کا منکر ہے اور عمل بالحدیث کا قائل ہے مگر وہ بھی تقلید میں پھنسا ہوا ہے ‘ اس لیے کہ ا س نے حدیث مجتمعہ میں درایت کو چھوڑ دیا ہے ‘ بلکہ اس کو حرام سمجھتا ہے اور حدیثوں کی نسبت اگلے لوگ جو لکھ گئے ہیں‘ اس کی تقلید کرنا ہے اور جس قدر لوگوں کی مقلدین ائمہ مجتہدین تقلید کرتے ہیں اس سے بہت زیادہ لوگوں اور راویوں کی یہ فرقہ تقلید کرتا ہے‘ اس بیان سے ظاہر ہے کہ جس چیز کا زمانہ تھا اسی کی سپلائی تھی۔ جب ڈمانڈ نہ رہا تو سپلائی بھی نہ رہی۔ اس کے بعد فلسفہ ہے جس کے جاننے پر چند علمائے اسلام بہت فخر و ناز کرتے تھے مگر بعض علمائے اسلام نے تو اس کا پڑھنا حرام بتلایا ہے اور بعض نے منطق کو بھی جزوفلسفہ سمجھ کر اس کے پڑھنے کو بھی حرا م ٹھہرایا ہے۔ یہ فلسفہ جو اب تک ہمارے پاس ہے دراصل یونانیوں سے جو بت پرست تھے لیا گیا ہے ۔ اس کا موضوع زیادہ تر انجانی چیزوں پر بحث کرنی ہے اور بہت سا حصہ اس خیالی امور پر بحث کرنے سے متعلق ہے ۔اس لیے یہ بھی بطور ایک مشغلہ کے سمجھے جانے کا مستحق ہے‘ کیونکہ ا س میں کوئی امر محقق حاصل نہیں ہوتا۔ ہیولے(۱) اور صورت اور جزو لا یتجزیٰ کی بحث میں عمر صرف ہو جاتی ہے ۔ اس فلسفہ کے مقابلہ کے لیے علماء اسلام نے علم کلام ایجاد کیا تھا‘ تاکہ اسلام کو اس کے صدمہ سے بچاویں‘ اس لیے چند مسائل فلسفہ کے علم کلام میں داخل ہوگئے تھے مگر بہت ہی کم اور شاید کوئی بھی نہیں علمائے مذہب ایسے ہوئے ہیں جن کو اس فلسفہ میں کافی دستگاہ حاصل ہوئی ہو اور اس لیے ضرور تھا کہ اس فلسفہ کو روز بروز تنزل ہوتا جاوے‘ کیونکہ اس کا ڈمانڈ نہیں تھا یا بہت ہی کم تھا۔ علم ادب کا عروج یا تو سلاطین کی قدر کے سبب سے تھایا اس سبب سے تھا کہ اسی زبان کے ذریعہ سے مذہبی کتابیں پڑھی جاتی تھیں۔ ایسے لوگ تو بہت کم گزرے ہیں جنہوں نے عربی زبان کو علوم عربیہ اورعلوم مذہبیہ کو صرف خالصا لللہ پڑھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱) ہیولا۔ ہر چیز کا مادہ‘ ہر شے کی ماہیت‘ ہر چیز کی اصل‘ حکماء نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ جسمانی صورت کا مجل ہے۔ جوہر اول کو بھی کہتے ہیں بعض اس کو ہئیت اولے کا مخفف کہتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو ‘ بلکہ وہ علم جو ذریعہ حصول معاش کی بھی تھے اورعہدہ قضاء اور افتاء اور تولیت اور محتسب اور دبیر و وزیر اور دیگر عہدہ ہائے دفاتر سلطنت ہائے اسلامیہ ان کے پڑھنے سے حاصل ہوتے تھے اور نیز اعزاز و تقدس اور قبولیت عام انہی علوم کے پڑھنے سے ہوتی ھتی اور نیز اعزاز و تقدس اور قبولیت عام انہی علوم کے پڑھنے سے ہوتی ہے۔ اور نیز فتو ح سلاطین اور نذر و نیاز عوام انہی کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے۔اس لیے کثرت سے لوگ اس علوم کے پڑھنے پر متوجہ تھے۔ جب کہ ان کا زمانہ نہ رہا ت ان کی بہتات بھی نہ رہی۔ تعجب ہے کہ اکلے زمانہ میں فقرا اور صوفی اور صاحبان سجادہ و خانقاہ بہت کثرت سے موجود تھے‘ گر اس زمانہ میں وہ بھی نایاب ہیں اورکہیں کچھ اس کے مدعی پائے جاتے ہیں وہ اگلے لوگوں کی خاک پا کے برابر بھی نہیں ہیں ۔ اس کا سبب کچھ ہی ہو مگر یہ کلیہ کہ جس قدر ڈمانڈ ہوتا ہے اسی قدر سپلائی بھی ہوتی ہے ان پر بھی صادق آتاہے۔ اگلے زمانہ میں بہت بڑی مشکل یہ تھی کہ اگر کوئی عالم کسی مسئلے میں کوئی بات جو مذہب مروجہ کے خلاف تھی تحقیق کرتا تھا تو اس کو ظاہر نہیں کر سکتا تھا اور اگر ظاہر ہو جاتی تھی تو قتل و قید سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اور ا س لیے تحقیقات مسائل مذہبی بالکل بند ہو گئی تھی۔ امام غزالی نے اس میںکسی قدر جرات کی اور چھوٹے چھوٹے رسالے ’’المظنون علی غیر اھلہ‘‘ ور ’’المظنون علی اھلہ‘‘ اور ’’التفرقۃ بین الاسلام و الزندقہ‘‘ لکھے ۔ ان کی قسمت اچھی تھ کہ ملک شاہ سلجوقی کے چنگل سے بچ گئے ورنہ قتل ہونے میں کچھ باقی نہ تھا۔ ان کی کتاب ’’احیاء العلوم‘ ‘ جو نہایت عمدہ کتاب ہے اس میں بھی کچھ شائبہ تحقیق جدید کا پایا جاتا ہے۔ اس کے بھی جلانے اور معدوم کرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہیںرہا تھا۔ ہمارے قریب زمانہ میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ہوئے جو محدث بھی کہلاتے تھے۔ مگر ان کے خیالات و اقوال بھی کسی قدر تحقیقات جدید پر مائل تھے۔ ان کی قدر نہ اس زمانہ میںہوئی جب وہ زند ہ تھے اورنہ اس زمانہ میں لوگوں کے دلوں میں ان کی قدر ہے باوجودیکہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اس اخیر زمانہ میں مثل انکے کوئی دوسرا عالم نہیں ہوا۔ اس زمانہ میں ہر ایک کو اپنے خیالات ظاہر کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔ مگر اب نہ پہلے سے عالم ہیں اور جو ہیں کیا مقلد اور کیا اہل حدیث سب تقلید کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں اور ان میںمادہ اجتہاد و تحقیق معدوم ہو گیا ہے پس ہر ایک اپنی لکیر پر فقیر ہے۔ اور کولکھو کے بیل کی مانند اسی حلقہ میں چکر کھاتا جاتاہے جس حلقہ میں اس کو آنکھ بند کر کے ہانکا جاتاہے۔ اس زمانہ میں ایک مقدس گروہ علوم عربیہ کے زندہ کرنے اور رونق دینے پر آمادہ ہے‘ ہم بھی خدا سے چاہتے ہیں کہ وہ اس میںکامیاب ہو مگر سوال یہ ہے کہ بموجب اس قاعدہ کلیہ کے جو ہم نے بیان کیا ہے بغیر ڈمانڈ کے سپلائی نہیں ہو سکتی۔ اگلے زمانہ میں جو علوم عربی کو رونق تھی وہ سلاطین کے انعامات ‘ جاگیرات‘ امراء کے صلات اور عوام کی نذرات‘ حصول معا ش کے ذریعہ اور تقدس حاصل ہونے کے سبب سے تھی اور یہی امور ان کے لیے ڈمانڈ تھے‘ مگر اب یہ ڈمانڈ نہیں رہا اس کی سپلائی کیوں کر ہو سکتی ہے۔ باقی رہا خالصا للہ اوریہ نیت ثواب بلا خیال تقدس کسی علم کو یا علم دین کو حاصل کرنا‘ یہ تو شاید کسی کا مقصد ہو کیونکہ نیک آدمیوں سے دنیا خالی نہیں ہے‘ مگر کروڑوں مسلمانوں کا جو دنیا میں بستے ہیں یہی ایک مقصد نہیں ہو سکتا وللہ درمن قال شب کہ عقد نماز بربندم چہ خورد بامداد فرزندم ہاں یہ بات دوسری ہے کہ کوئی نماز پڑھ کر یا پڑھا کر پیٹ بھرے۔ کوئی وعظ کہہ کر پیٹ پالے۔ کوئی حدیث فقہ پڑھا کر معاش حاصل کرے۔ کوئی فقیر اور مشائخ اور سجادہ نشیں ہو کر زندگی بسر کرے۔ اس زمانہ میں مدارس علوم عربیہ اس کثرت سے ہیں کہ پہلے زمانہ میں نہ تھ مگر چونکہ ان کا ڈمانڈ نہیں ہے سب کے سب خستہ حالت میں ہیں اور لوگوں کو برباد کرتے جاتے ہیں اور آخر کو خود بھی برباد ہو جاتے ہیں ۔ ایک گروہ قلیل مسلمانوں کا ہے جو علوم زبان انگریزی کی تحصیل میں مشغول ہے ان پر بے انتہا جھوٹی جھوٹی تہمتیںلگائی جاتی ہیں اور ان جھوٹی تہمتوں کا لگانا بڑی دینداری سمجھا جاتاہے جو لوگ ادھر ادھر دونوں طرف ملے جلے ہیں ان سے ان کے قدیم یار کہتے ہیں: امنو ا کما امن الناس تو جواب دیتے ہیں انومن کما امن السفہاء اور خدا کہتا ہے : الا انھم ھم السفھاء اس پر ہمارے انگریزی خواں طالب علم کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں جس چیز کا پہلے زمانہ میں ڈمانڈ تھا اس کو پہلے لوگ حاصل کرتے تھے جس چیز کا اس زمانہ میں ڈمانڈ ہے اس کو ہم حاصل کرتے ہیں۔ پس ہم میں اورپہلوں میں کچھ فرق نہیں ہے۔ ان انگریزی خواں لوگوں میںجو لوگ کچھ زیادہ جان گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان علوم کو جو عربی میں ہیں کیوں پڑھیں جب کہ تمام علوم جو اس میں تھے بہت زیادہ اور اعلیٰ درجے پر ترقی کر گئے ہیں اور اس میں بہت سے علم ایسے ہٰں جو محض غلط اور خیال خام پر مبنی ہیں اورجن کی غلطیاں علانیہ ظاہر ہو گئی ہیں اور بہت سے علو م جدید تحقیق ہو گئے ہیں۔ پس اگر ہم علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ترقی یافتہ علوم قدیم اور تحقیقات شدہ علوم جدید کو کیوں نہ حاصل کریں۔ بعض علماء ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ ارے کم بختو علم دین کو تو پڑھو تو وہ ان عالموں کو جواب دیتے ہیں کہ علوم دین سے اگر تمہارے نزدیک ہماری کنارہ کشی ہے تو اس کا عذاب اور گناہ تمہارے سر پر ہے ۔ کیونکہ کتب قدیمہ کا غلط ہونا ثابت ہو گیا ہے ۔ خدا اور رسول نے ان کو شامل نہیں کیا۔ بلکہ علما نے اپنی غلطی سے ان کو مذہب میں شامل کر دیاہے۔ اور تم ا ن کی تنقیح نہیں کرتے۔ علاوہ اس کے علوم جدیدہ سے جو بعض مشکلات امور مذہبی میں پیش آتی ہیں ان کو تم حل نہیں کرتے اورعلو م جدیدہ کے مقابلے کے لیے کوئی جدید علم کلام نہیں بناتے ‘ جیسا کہ تمہارے پیشوائوں نے یونانی فلسفہ کے لیے بنایا تھا۔ پس جو کچھ اس میںگناہ ہے وہ تمہارے سر پر ہے مگر برائے خدا ایسا علم کلام نہ بنانا کہ الٹی ہنسی ہو۔ بہت سے بزرگ انگریزی خواں لوگوں کو بد عقیدہ یا ملحد و دہریہ کہتے ہیں۔ شاید ایسا کوئی ہو جس سے میںواقف نہیں ہوں مگر ایسے لوگوں سے واقف ہوںجو ایک حرف انگریزی کا نہیں جانتے وہ بھی بد عقیدہ ہیں اور اگر میںمذہب اسلام کا ایک وسیع دائرہ میں ہونا تسلیم نہ کرتاتو ان کو اسلا م کے دائرہ سے خارج کر دیتا۔ انگریزی خوانوں کی نسبت کہا جاتاہے کہ نیچری خیال رکھتے ہیں اور نماز روزہ کے پابند اور احکام مذہبی میں چست نہیں ہیں اور عقائد مذہبی سے ناواقف محض ہیں۔ یہ کہنا کسی قدر صحیح ہے مگر انگریزی مدرسوں اور مشنریوں کے مدرسوں کی نسبت یہ کہنا زیادہ موزوں ہے۔ یورپ کے مدرسوں میں علاوہ پروفیسروں کے ایک شخص طالب علموں کے مذہب کی نگہبانی کے لیے مقرر ہوتا ہے ۔ جو ڈین کہلاتا ہے۔ ہم نے بھی اپنے کالج میں طالب علموں کی مذہبی حفاظت کے لیے ایک نہایت لائق عالم مقرر کیاہے جس کی نصیحت سے طالب علموں کو بہت فائدہ ہے۔ تمام طالب علم جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں مختصر کتابیں عقائد مذہبی کی ان کو پڑھائی جاتی ہیں۔ اسلام کی مختصر تاریخ ان کے درس میں شامل ہے۔ جنہوں نے عربی زبان بطور سیکنڈ لنگویج کے لی ہے ان کو عربی میں اور جنہوں نے سیکنڈ لینگوئج نہیں لی ہے ان کو فارسی میں اور چھوٹے لڑکوں کو نماز کی کتابیں اردو میں پڑھائی جاتی ہیں۔ پس ہمارے کالج کی نسبت یہ کہنا کہ انگریزی خوان طالب علموں کو عقائد مذہبی سیلاعلمی ہو تی ہے محض غلط ہے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہمارے طالب علم جس قدر نماز روزہ کے پابند ہیں شاید بہت گھرانے ایسے نکلیں جن کے لڑکے اس قدر نماز و روزہ کے پابند ہوں۔ احکام مذہبی میں چست نہ ہونے کی نسبت ہم پوچھتے ہیں۔ کہ کون سا خاندان ہے۔ جس کے لڑکے انگریزی نہیں پڑھتے اور وہ احکام مذہبی میں چست ہیں یا زمانہ سابق میں کوئی خاندان تھا جس کے لڑکے احکام مذہبی میں چست تھے۔ لڑکوں کو جانے دو ہم بڑوں کی نسبت پوچھتے ہیں کہ کیا سوائے اشخاص خاص کے کس قدر ہیں جو احکام مذہبی میں چست ہیں۔ جس طرح زمانہ کے مسلمانوں کا حال ہے ہماری دانست میں ہمارے کالج کے طالب علموں کا اس سے بہتر حال ہے کہنے والوں کو اختیار ہے کہ جو چاہیںسو کہیں۔ بعض علماء مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ نئی روشنی والوں یعنی انگریزی خوانوںاور ان کے حامیوں کو آگے بڑھتے جانے دو۔ اگر تم دینی تمدنی ترقی چاہتے ہو تو پیچھے ہٹو اور پچھلے لوگوں سے ملو واریہاں تک پیچھے ہو کہ ہٹتے ہٹے صحابہ اور نبی آخر الزمان سے جا ملو۔ اے حضرت پیچھے ہٹنا تو آسان ہے مگر صحابہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تک جا ملنانہایت دشوار‘ بلکہ ناممکن ہے۔ مجھ کو خوف ہے کہ ایسا نہ ہو کہ پیچھے ہٹتے ہٹتے گڈے میں جا پڑو۔ لا نکم علی شفاً حفرہ پھر ہم عاجزی سے کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے زمانہ تک پہنچنا تو دشوار ہے مگر برائے خدا پیچھے ہٹنے کی نصیحت نہ فرمائے جس جگہ کہ مسلمان تھے اسی جگہ ٹھہرے رہتے تو مسلمانوں کو اور مسلمانی سلطنتوں کو برباد قوم اسلام کو ذلیل اور خوار کر دیا۔ دنیا میں جہاں مسلمان ہٰں سب ایک حالت میں ہیں۔ پھر اب ان کو پیچھے ہٹا کر کیا کیجیے گا۔ کی ا ن کو معدوم کر دینے کا ارادہ ہے۔ خدا نہ کرے۔ بقول ایک بزرگ کے مسلمان عالموں نے اپنے تعصب بے جا یا نادانی اور بے سمجھی اور جھوٹی دینداری اور جھوٹی ترک دنیا کی نصیحت کر تے کرتے تو مسلمانوں کو لنگوٹی بندھوا دی اب کیا آپ کا ارادہ اس لنگوٹی کے بھی کھلو ا لینے کا ہے۔ اب ہم مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں اور بلا خوف لومۃ لائم بلند آواز سے کہتے ہیں کہ مذہب اسلام شان نہایت ارفع ہے اور دنیوی جاہ و مکنت ‘ دولت و عزت کے حاصل کرنے سے اوراس میں ترقی کرنے سے اور اس میں ترقی کرنے سے اس میں کچھ خلل نہیں آتا۔ اسلام کی عزت ‘ اسلام کی شان و شوکت سے ہے۔ وہ علیحدہ بت نہیں ہے جس کی پرستش مسلمانوں سے علیحدہ ایک مندر یا کعبہ کی چار دیواری میں کی جائے۔ تاریخ اسلام کی ورق گردانی کرو اوردیکھو کہ جب کبھی مسلمانوں نے علوم دنیوی میں ترقی کی اور دنیا میں دولت اور عزت شان و شوکت حاصل کی وہی زمانہ اسلام کی ترقی اور جاہ و جلا ل اور عزت و شوکت کا سمجھا جاتا ہے جو علما اور وہ غالبا حنفی علماء ہیں نصیحت کرتے ہیں کہ انگریزی پڑھنے اور علوم جدیدہ میںترقی کرنے سے مسلمانوں کے ایمان میں خلل آتا ہے ا کو یاد رکھنا چاہیے کہ الایمان لا یزید ولا ینقص اور ان کو سوچنا چاہیے اور نہایت راستبازی سے کہنا چاہیے کہ اسلام میں اور دنیوی عزت حاصل کرنے میں کوئی تناقص نہیں ہے اور اب بجائے اس کے کہ وہ پکارتے ہیں ہ زمانہ کے رخ کے برخلاف حرکت کرو‘ مسلمانوں کہ یہ سچی نصیحت کرنی چاہیے کہ درمع الدھر کیف مادار واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم حکایت ایک نادان خدا پرست اور دانا دنیا دار کی (از تہذیب الاخلاق بابت یکم ربیع الاول ۱۲۸۸ھ) کیا عجیب بات ہے کہ ان ہونی اوران سنی! دو شخص پچھلی رات کو جنگل میں چلے جاتے تھے ۔ صبح ہونے ہی کو تی کہ ان کے سامنے روشنی کا ایک شعلہ نمودار ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہے۔ شعلہ میں سے آواز آئی کہ میں خدا ہوں ‘ میرے سوا کوئی خدا نہیں۔ تب تو یہ دونوں گھبرائے اورننگے پائوں ہو کر آگے بڑھے۔ قدموں کو ہاتھ لگایا اور ہاتھوں کو چوما اور کہا کہ اے پیار ے خدا ہم تو تجھ کو ملکوں میں ڈھونڈ پھرے مگر تو ہمار پاس ہی نکلا۔ اب ہم پر مہربانی کر‘‘۔ شعلہ میں سے آواز آئی کہ ’’تمہاری دعا قبو ل ہوئی۔ کل صبح کو نور کے تڑکے تم دونوں میں سے ایک اس پہاڑ پر اور دوسرا دوسرے پہاڑ پر جو دکھائی دیتے ہیں آ حاضر ہو جو تمہاری تمنا ہو گی دی جاوے گی‘‘۔ سارا دن اور ساری رات دونو ں کو بے قرار ی میں گزرا اور ہر ایک اپنے دل میں منصوبے کرتا رہا کہ کیا مانگوں؟ کیا نہ مانگوں؟ اتنے میں وقت آ پہنچا اور یہ دونوں اپنے اپنے پہاڑوں پر جا حاضر ہوئے۔ اتنے میں ایک جھاڑی چمکنے لگی اور خدا کی آواز آئی۔ دونوں لبیک لبیک کہہ کر چلا آئے۔ جھاڑی میں سے آواز آئی جو مانگنا ہو مانگو۔ خدا پرست نے کہا ’’مجھ کو اپنی محبت اور چند روزہ دنیا کی مزخفات سے نفرت دے۔ دنیا دار نے کہا ’’مجھ کو نیک کاموں کے لیے دنیا دے‘‘۔ خدا کے ہاں کس بات کی کمی اور کاہے کی دیر تھی۔ جو انہوں نے کہا وہی ہو گیا۔ وہ دونوں پہاڑ پر سے اپنے اپنے گھر آئے۔ ایک خدا کی محبت سے نہال اور دوسرا دنیا کی جاہ و حشمت سے مالا مال۔ خدا پرست خدا کی محبت میں چورتھا اوراپنے دوست دنیا دار کے حال پر افسوس کرتا تھا کہ کس طرح دنیا کے کاموں میں مصروف ہے اور اس کو خداکی عبادت اور زھد و تقویٰ کے سوا کچھ کام نہ تھا مگر دنیا کی طرف نہایت عاجز اور ذلیل۔ کبھی کبھی زکوۃ دینے کا جو ثواب ہے اس کے حاصل کرنے کی خواہش ہوتی تھی مگر مقدور نہ تھا کہ اس دولت کو حاصل کرے۔ حج کرنے کا شوق دل میں اٹھتا تھا الا بے استطاعتی کے سبب سے مجبور تھا۔ اپنی قوم کو خدا پرست ہونے کی راہ بتاتا تھا مگر بے استطاعت اور بے مقدور قوم کیا کرے۔ پراگندہ روزی پراگندہ دل کسی سے کچھ بن نہیں آتا تھا۔ ان بیچارہ کا یہ حال کہ نان شبینہ کو محتاج ۔ کپڑا بدن پر نہیں کہ جس سے ستر ڈھانکیں ۔ روٹی کھانے کو نہیں کہ بدن میں عبادت کی طاقت آوے۔ چار نا چار شہر چھوڑنا پرٓ۔ لوگوں سے کنارہ گزیںہونے پر مجبور ہوا۔ جنگل میں جا بسیر کیا۔ وحوش و طیور سے جا صحبت کو گرم کیا۔ دنیا اور دنیا کے کاموں سے نفرت کی اور خدا اور خدا کی محبت سے الفت کی۔ فاقے پر فاقے ہوتے تھے مگر یہ شیر خدا کی محبت سے سیر تھے مگر جب تین تین دن کے فاقے گزرنے لگے تو مردار کھانے یا ایک ٹکڑا روٹی کا مانگنے پر مستعد ہوئے۔ لکڑی ٹیکتے ٹیکتے پائوں لڑکھڑاتے لڑکھڑاتے کسی گائوں گنویں میں جاتے ہئیت مبارک دیکھ کر گائو ں کے کتے پیچھے دوڑتے یہ بیچارے خدا پرست کتوں سے بچتے بچاتے ہشت ہشت کرتے کسی کے دروازہ تک پہنچتے ۔ کس نے دیا تو لے لیا ورنہ دوسرا دروازہ دیکھا۔ جب قوت لا یموت جھولی میں آیا پھر اس سے زیادہ سوال کرنا حرام سمجھا ۔ کسی کنوئیں کے کنارہ پر بیٹھے سوکھے بھیک کے ٹکرے چبائے کسی چلتے کنوئیں پر جا کر کھڑے ہوئے پانی کے دو چلو پی لیے۔ خدا کے نور کے شعلے سینہ میں بھڑکتے تھے۔ مگر نکل نہ سکتے تھے۔ جس سے دنیا روشن ہو۔ رفتہ رفتہ ان کی بزرگی کا شہر ہ پھیلا۔ دور و نزدیک کے لوگوںنے زیارت کا قصد کیا۔ لوگ جمع ہونے لگے کسی نے بیٹے کی خواہش ہر ایک نے اپنے مطلب کی دعا منگوانی چاہی۔ کسی نے روزگار کی تنما کی کسی نے تجارت ی ترقی کی آرزو کی۔ ان کو تو دنیا کی باتوں سے نفرت تھی لاتھی لے سامنے ہوئے۔ لوگو ں کو سمجھانے لگے دنیا چند روزہ ہے اس کے لیے کیوں ولولہ کرتے ہو۔ ولولہ کے لائق تو دین کی باتیں ہیں۔ دنیا کو چھوڑا اور دین کی باتیںکرو۔ عقل منداور نیک بخت آدمی ان کوبہت بزرگ سمجھتے تھے مگر ان کی نصیحتوں سے متعجب ہوتے تھے کہ اگر سچ مچ دین داری یہی ہے تو دنیا کا کیا حال ہو گا اور دنیا کا کیونکر کام چلے گا۔ پیغمبر کا بھی زمانہ گرا صحابیوں کا بھی زمانہ گزرا کسی نے دنیا کو نہیں چھوڑا‘ مگر دنیا کو دین کے لیے برتا۔ وہ احکام شرعی کو بجا لاتے تھے۔ کینہ و بغض و حسد سے دل کو صاف رکھتے تھے ۔ دغا و فریب اور جھوٹ سے بچتے تھے اور اچھے خاصے دنیا دار تھے۔ مولوی روم نے بھی یہی کہا ہے : چیست دنیا از خدا غافل بودن نے قماش و نقرہ و فرزند و زن طوطے کی طرح اللہ اللہ نپنا اور یاھو کبوتر کی مانند غٹرغوں غوٹر غوں کرنا اللہ کی یاد نہیں ہے‘ بلکہ اس نے جو چیز یں ہم کو مرحمت کی ہیں ان کو اسیکے کام میںصرف کرنا خدا کی یاد ہے ۔ عقل ہم کو خد انے اس لیے دی ہے کہ اس کی صنائع و بدائع پر غور کریں۔ اس کی عجائب قدرت کو دیکھیں اور اس کے وجود ازلی و ابدی بے ضد و ند پر یقین کریں۔ آنکھ‘ ناک ‘ حس و حرکت اس لیے بخشی ہے کہ ہماری عقل کے مصاحب اور مددگار ہوں۔ نطق ہم کو اس لیے دیا ہے کہ ہم اوروں کو اپنے خیالات کا فائدہ پہہنچاویں۔ مال و متاع اس لیے ہمارے لیے مہیا کیا ہے کہ ہم خود بھی اس سے فائدہ اٹھاویں اور اوروں کو بھی فائدہ پہنچاویں ۔ یہ کیسا وحشیانہ طریقہ ہے کہ جس میں اپنی ذاتی ٖغرض کے سوا اور کچھ مدنظر ہی نہیں۔ گر آں گلیم خویش بروں می برد زموج من سعی میکنم کہ برارم غریق را بعضے دس پانچ سو پچاس آدمی جو انہی سے بیوقوف تھے خدا پرست صاحب کے گرد ہوئے۔ دنیا کو اپنے خیال کے موافق چھوڑ چھاڑ دھونی رما مسلمان جوگی جی کے ساتھ ہو لیے اور دنیا کے عیش و آرام اور اس کے کاروبار کو ترک کر کر خدا کی خیالی محبت میں سرشار ہو گئے۔ اب خیال کرو کہ ان بزرگواروں سے اسلام نے کیا عزت پائی اور ان کے حال سے اسلام کی صورت کیسی دکھائی دی۔ اسلام ایسا دکھائی دیاجیسے ایک ضعیف پیر مرد پر کڑکھایا ہوا میلا بدن ٹوٹے دانت ‘ ہڈی پر چمڑا چمٹا ہوا کنپٹیاں بیٹھی ہوئیں‘ پیٹ پیٹھ سے ملا ہوا‘ کمر کبڑی ‘ ٹانگیں ٹھٹہری‘ ہاتھ پائوں کانپتے ہوئے‘ لڑکھڑا لڑکھٓ لاٹھی ٹیک ٹیک کر ایک قد آگے دھرا اور کپ کپا کر دوقدم پیچھے ہٹ گیا۔ پھٹی گدڑی پڑی ہوئی ادھر سے ران کھلی ادھر سے چوتڑ کھلا۔ جدھر گئے ادھر ہزاروں مکھیاں چمٹ گئیں۔ ادھر کتے بھوں بھوں کر کے پیچھے پڑ گئے جس قسم کے سامنے سے نکلے اس نے نفرت کی۔ ہر طرف سے دور دور پرے پرے کی آواز سنی اور ذلت کے لیے مسلمان دنیا میں ضرب المثل ٹھہرے سبحان اللہ ان نادان خدا پرست نے خوب اسلام کی صورت دکھائی اور نہایت اس کی عزت بنائی۔ اب دنیادارصاحب کا حال سنیے ۔جب وہ گھر آئے دوست آشنا بھائی بند جمع ہوئے اور لعنت ملامت کرنے لگے کہ دنیا کا لالچی‘ دنیا کا کتا ایمان اسلام سے بے بہرہ‘ دنیا کے عیش و آرام میں غرق اوراسی کا طالب دین کے بدلے دنیا لے کر آ یا ہے۔ یہ بیچارہ چپ ان جاہلوںسے کیا کہے ۔ اپنے دل میں کہتا ہے کہ میں نے تو نیک کاموںکے لیے دنیا لی ہے۔ اگر دنیا کو نیک کاموں کے لیے برتاجائے تو وہ ہزاروں زہد و تقویٰ اور جنگل میں بیٹھنے اور مالا جپنے سے بہتر ہے۔ خدانے جو کچھ ہم پر فرض کیا ہے وہ بہت تھوڑا ہے اور اگر ہم واللہ لا ازیدولا انقص کے مضمون پر یقین کریں تو صر ف فرائض کے اد اکرنے سے قطعی بہشتی ہیں۔ باقی رہی اوپر کی نیکی وہ نادان خدا پرست بننے سے حاصل نہیں ہوتی۔ ہم کو دینداری کے لیے دنیا کے کاموں میں مصروف ہونا چاہیے۔ محرمات شرعیہ سے بچنا اور مباحات شرعیہ کے مزے اڑانا اور دنیا کو نیک کاموں اور برتنا بھی سب سے بڑی نیکی اور اصلی خدا کی عبادت ہے۔ پھر وہ اس سوچ میں گیا کہ کسی قوم پر خدا کی خفگی اور خدا کی لعنت ہونے کی کیا نشانی ہے۔ ہر چند سوچتا تھا‘ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا‘ لوگوں سے پوچھتا تھا پر تشفی نہ پاتا تھا۔ آخر ایک د قرآن مجید پڑھتے پڑھتے یہودیوں کے حال میں یہ آیت اس نے پڑھی: وضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ وبائوا بغضب من اللہ یہ پڑھتے ہی وہ چلا اٹھا کہ پا لیا پا لیا بے شک دنیا میں قومی ذلت خدا کے غضب کی نشانی ہے ۔ دنیا میں غریب مسکین محتاج ہر قوم ہوتے ہیں مگر جب قومی ذلت اور قومی مسکنت دنیا میں ہو جاتی ہے تو وہ ٹھیک نشانی خدا کی غضب اور خدا کی لعنت کی ہوئی ہے۔ اب تو اس کا دل شیر ہوا اور ڈھارس بندھی اور کہا کہ بیشک میں نے اس نادان خدا پرست سے اچھا کام کیا ہے ۔میں نے تو نیک کاموں کے لیے دنیا کو اختیار کیا ہے ۔ اب تو میں دنیا ہی سے دین کو لے لوں گا اور ایسے ایسے لنگڑے لولے بوڑھے ٹھیڑے نادان خدا پرستوں کو کوڑی کوڑ ی پر خرید کر پھینک دوں گا۔ پر اے خدا جیسے کہ تو نے میری دعا قبول کی ہے میرے ساتھ رہ اورنیک کاموں میں دنیا کو برتنے دے۔ اب وہ اس سوچ میں گیا کہ اس دنیا کو کیونکر نیک کاموں میں برتوں۔ سب سے پہلے یہ خیال کیا کہ بھوکوں کو روٹی اور ننگوں کو کپڑا دوں۔ پھر اپنے دل میں کہا کہ بات تو اچھی ہے کرنی تو چاہیے پر اس سے قومی ذلت تو نہیں جاتی جو خدا کے غضب کی نشانی ہے۔ پھر سوچا کہ حافظ نوکر رکھ کر قرآن بہت سے پڑھوائو۔ لوگوں سے چلہ کھنچوائو‘ ختم خواجگان کروائو‘بخاری شریف کی منزلیں پڑھوائو۔ پھر ہنسا کہ اس سے کیا فائدہ ۔ ایک کا کھایا دوسرے کے پیٹ میں کب آتا ہے۔ پھر سوچا کہ سب سے عمدہ بات یہ ہے کہ مسجدیں بنوائو اور ٹوٹی مسجدوں کی جو خدا کے گھر ہیں‘ مرمت کے لیے روپیہ اکٹھا کرو اورجھاڑ فانوس روشن کرو۔ پھر ہنسا اور کہا کہ زندہ خدا کے گھر یعنی قوم کے دل ٹوٹے ہوئے ہیں دل کی آنکھوں کے پھوٹ جانے سے بے نور ہو رہے ہیں۔ مسجد کس کے لیے بنائوں اور چراغ کس کے لیے جلائوں۔ پھر سوچا کہ مکہ شریف روپیہ بھیج دوں۔ وہاں کے غریبوں پر بانٹو۔ ایک ایک کے لاکھ لاکھ ملیں گے۔ روپیہ بھیج کر حاجیوں کے لیے رباطیں بنوائو اور خیر جاری کا ثواب کمائو۔ پھر ہنسنے لگا کہ کیا بیوقوفی کی بات ہے جہاں شدید ضرورت ہے وہیں روپیہ خرچ کرنے سے ثواب زیادہ ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ جو ضرورت مکہ میں پہلے تھی وہ اب بھی ہے یا نہیں ۔ ہمارے ملک اور ہماری قوم کو جو ضرورت ہے وہ اس سے زیادہ ہے۔ رباطیں بنوانے اور متولیوں کی آمدنی کر دینی بری نہ سہی مگر ہماری قوم کے گھروں پر چھر نہیں ہیں تو مکہ میں رباطیںبنوانے سے کیا منفعت ہے۔ ایک صاحب اٹھے کہ اجی سب سے عمدہ بات ہے کہ غریبوں کا جہاز کرایہ کر دو اور مکہ حج کو بھیج دو۔ اس نے کہا کہ ہاں اپنی تو بری نیک نامی ہے مگر خدا کے نزدیک تو پشیمانی ہے۔ خدا نے جس پر جو بات فرض نہیں کی میں اس پر فرض کرنے والا کون ہوں۔ بڑے خیر خواہ اور عقلمند تھے وہ اٹھے کہ میاں عربی مدرسہ قائم کرو۔ قال اللہ و قال الرسول کا زکر سنو۔ حکمت فلسفہ ڈوبی جاتی ہے اس کو بلے لگائو۔ مگر یہ شخص سوچا کہ علوم دینیہ قوم کے زیور ہیں مگر جب قوم ہی نہیں تو وہ زیور کون پہنے گا۔ پرانی حکمت اورفلسفہ کو اب کوڑی کو بھی کوئی نہیں پوچھتا اس سے قومی ترقی اور قومی عزت کی کیا توقع ہے۔ غرض کہ سب کی باتیں اس نے سنیں اور کہا کہ یہ سب مکر کی باتیں شیطان کا نیکی کی صورت میں جلوہ افروز ہو کر دھوکے میں ڈالنا ہے۔ ان سب کو چھوڑو اور نیک نیت سے خدا پر بھروسا کر کے قومی عزت اور قومی ترقی کی فکر کرو۔ اور اصلی نیک کام میں دنیا کو برتو۔ اس نے سمجھا کہ بھلا سب سے بڑا سبب قومی ذلت کا آپس میں ہمددری نہ ہونا ہے۔ میری قوم خو د غرضی کی بیماری میں مبتلا ہے۔ اپنے فائدے کے لیے ہزاروں محنتیں کرتے ہیں اور اچھا کپڑا پہنتے ہیں اورچین سے سونے اور ہنس ہنس کر میٹھی میٹھی باتیں بنا دینے کو تمام اکلاق اورلیاقت کا منتہا سمجھتے ہیں۔ قوم کی بھلائی اوررفاہ عام کی طرف مطلق توجہ نہیں ہے ۔ اس نے اس بیماری کو کھونا چاہا اور فرض پنجگانہ ادا کرنے کے بعد قرآن پاک کی تلاوت اوراد مندوبہ اور اعمال مشایخ کے بدلے اپنی قوت لسانی اورمراقبہ قلبی کو اس طرف متوجہ کیا۔ خلوت میں اس بات کی فکر کی کہ یہ بیماری کیونکر جاوے ۔ جلوت میں پندو نصائح تقریر بیان سے اسی بات کا چرچا کیا اگرچہ بہت سی ناامیدیاں اس کو پیش آ تی گئیں۔ الا اپنے ارادہ میں مستحکم اور ثاابت قدم رہا اوریہ سمجھا ہ اس کام میں جتنا میرا وقت صرف ہوتا ہے وہ اس مندوب عبادت سے جس کو لوگ عبادت سمجھتے ہیں کچھ کمتر عبادت میں صرف نہیں ہوتا۔ ا س نے بقدر اپنی طاقت کے مسائل شرعیہ اور حقائق و معارف قرآن و حدیث پر غور کیا۔ اس نے دیکھا کہ علمائے سابق نے اپنے زمانہ کے علم کے موافق بہت سی باتیں ایسی کہی ہیں جو زمانہ حال میں یقینی غلط اورجھوٹی ثابت ہوئی ہیں اور تمام مسلمانوں نے ان علماء کے غلط اقوال کو مثل احکام شارع سمجھ رکھا ہے اور ا سبب سے اسلام کو یہ مضرت پہنچی ہے کہ جو لوگ زمانہ حال کے علوم سے واقف ہوتے ہیں وہ مذہب اسلام کو غلط سمجھتے ہیں‘ حالانکہ مذہب اسلام میں غلطی نہیں ہے‘ بلکہ ان علماء کے اقوال میں غلطی ہے ۔ چند روز تک تو اس نے علماء کا بڑا ادب کیا اور پھر وہ سمجھا کہ علماء کے اقوال کا غلط ہونا مذہب اسلام میں کچھ نقص نہیں لاتا۔ اگر بالفرض ابوبکرؓ و عمرؓ نے کسی بات میں غلطی کی ہو تو بھی مذہب اسلام پر کچھ داغ نہیں لگتا پھر اور بیچارے مولوی ملا کس شمار قطار میں ہیں۔ تب اس نے علماء وقت کی خدمت میں رجوع کی اور ہر ایک کے آگے ہاتھ جوڑے ‘ ناک رگڑی کہ خدا کے واسطے آپ ان غلطیوں کے رفع کرنے پر مستعد ہو جائے ۔ یہ بیچارہ خود جاہل صرف دو چار لفظ سے آشنا تھا‘ خود کیا کر سکتاتھا‘ مگر جب کوئی متوجہ نہیں ہوا تب اس نے کہا کہ جو عقل خدا نے مجھ کو دی ہے اس کو کام میں لانا اور اپنے خیالات کو دوسروں تک پھیلانا خاص میری عبادتہے ۔ اس نے ملامت کرنے والوں کی ملامت کا ڈر نہ کیا اور اسلام کی محبت کو ابو حنیفہ و شافعی ‘ مالک و حنبل کی محبت سے زیادہ سمجھا اور نیک نیتی اور صرف اسلام کی محبت سے جو کیا سو کیا ۔ اور اس کے عوض اپنے ہم مذہبوں سے جو سنا اور کو بخندہ پیشانی گواراکیا۔ اس نے بہادرانہ طور سے مذہب کو عقل کے سامنے ڈال دیا کہ جس طرح چاہو جانچو سچا سچا ہی ہے ۔ اس نے مذہب کوحقائق موجودات سے موازنہ کیا اوردنیا کو یہ دکھلانا چاہا کہ خدا کا قول‘ یعنی مذہب اور خدا کا فعل‘یعنی فطرت موجودات دونوں ایک ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں کامبداء ایک ہی ہے۔ اس نے اپنی قوم سے تعصبات اور پابندی رسومات اور اوھام مذہبی کے جو حقیقت میں مذہب سے متعلق نہ تھے چھوڑانے پر کوشش کی ‘ تاکہ لغو خیالات سے لوگوں کے دل پاک ہوں۔ اس نے لوگوں کو اس بات پر رغبت دلائی کہ اچھی باتیں جس میں ہوں ان کو لو اور بری باتیں جس میں ہوں ان سے پرھیز کرو۔ جو علوم غیر قوم اور غیر مذہب کے لوگوں نے پیدا کیے ہیں بلا تعصب سیکھو۔ جس زبان کے ذریعہ سے وہ علم میں آ سکتے ہوں‘ خواہ وہ انگریزی ہو یا فریسنسی‘ یونانی ہو یا لاطینی سب کو سیکھو اور اپنی قوم میں پھیلائو تاکہ ان کو عجائبات قدرت الٰہی زیادہ تر معلوم ہوں اور دنیا حاصل کرنے کی بھی لیاقت ہو۔ صناع و بدائع ہر قسم کے جو کسی قوم میں ہوں ان کو اپنی قوم میں لانے کی کوشش کی تجارت کے اصول جو غیر قوموں نے عمدہ طور پر قائم کیے ہیں ان کی اپنی قوم میں مروج ہونے کی خواہش کی اور ان تمام باتوںسے یہ مقصود تھا کہ قوم کی مسکنت اور اس کے باعث سے جو ذلت ہے وہ رفع ہو اورقوم آصودہ حال اور اور اپنی قوم کے لوگوں کو سنبھالے اور شعار اسلامی کو بجا لا سکے۔ جس سے اسلام کو رونق ہو۔ اس نے خیال کیا کہ طریقہ تمدن و معاشررت اگر خراب ہے تو وہ بھی ذلت قومی کا باعث ہے ۔ اس نے اپنی قوم کے طریقہ معاشرت و تمدن کے ادنیٰ ذلیل درجہ سے اعلیٰ درجہ پر تبدیل ہونے کی کوشش کی تاکہ اسلام پر سے یہ جھوٹا دھبہ کہ خرابی معاشرت و تمدن کا باعث اسلام ہے مٹ جاوے۔ قوم کا معزز اور ذلیل نظر آنا ان کے طریقہ لباس اور اکل و شرب اور چال و چلن اخلاق و عادات پر بہت زیادہ منحصر ہے۔ اس نے ان کی درستی پر کوشش کی اور طہارت اور صفائی اور اجلا پن اور لباس اور اکل و شرب کے طریقہ کو بہت اعلیٰ اور عمدہ درجہ پر پہنچانا چاہا جس کے سبب سے اور قوموں کی نظر حقارت جو اسلامی قوم کے ساتھ تھی وہ نہ رہی۔ اس نے خوب غور کیا تھا کہ اسلام ایک مٹی کا پتلا بن کر دنیا کے سامنے نہیں آ سکتا۔ وہ اس ک پیروئوں کی خصلت اور افعال سے دکھائی دیتا ہے۔ پس ان کا طریقہ زندگی ایسا عمدہ و پاک صاف کیا جاوے جس سے اسلام کی جو اصلی صورت ہے دنیا کو نظر آوے۔ فرض کرو کہ یہ سب خواہشیں پوری ہو گئیں تو ان کی بدولت اسلام کو کیسی صورت دکھائی دی؟ ایسی دکھائی دی کہ جیسے ایک نورانی فرشتہ جس نے رحمت کے پر پھیلا کر تمام عالم کو اپنی رحمت سے ڈھانپا ہے۔ پس بڑی نادانی اور کم سمجھی کی بات ہے ۔ جو دنیا دار کے ان کاموں کو دنیا کے کام سمجھے اور عین خدا کی عبادت نہ جانے۔ اہل سنت والجماعت کے لیے مجتہد کی ضرورت (تہذیب الاخلاق بابت ۱۰ محرم ۱۲۸۹ھ) مذہب شیعہ امامیہ کا نہایت صحیح اور سچا مسئلہ ہے کہ ہر زمانہ میں مجتہد کا ہونا ضرور ہے۔ کوئی زمانہ مجتہد العصر سے خالی نہیں ہوتا۔ البتہ ان کا یہ مسئلہ کہ مات المفتی مات الفتوی صحیح نہیں ہو سکتا۔ مگر متاخرین اہل سنت و جماعت نے عجیب غلط مسئلہ بنایا ہے کہ اجتہاد ختم ہو گیا ہے اور اب کوئی مجتہد نہیں ہو سکتا۔ مگر اب تک ان کو اس میں شبہ ہے کہ نعوذ باللہ منہا مثل خاتم النبیین کے خاتم المجتہدین کون ہے کسی نے زید کو اور کسی نے عمرو کو بتلایا ہے۔ مگر ہم کو بعض کتابو ں سے معلوم ہوا ہے کہ اکثر علماء کا یہ مذہب ہے کہ ہر زمانہ میں مجتہد کا ہونا ضرور ہے اور کوئی زمانہ مجتہد سے خالی نہیںہوتا۔ شاہ ولی اللہ صاحب اپنی کتاب مسمی بانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ و اسانید و ارثی رسول اللہ کی جلد دوم میں ارقام فرماتے ہیں کہ بغوی در تہذیب و امام الحرمین در نہایہ و رافع در شرح و جیز واعز الدین عبدالسلام در غایۃ و نووی در شرح مہذب و ابو عمر بن صلاح در کتاب ادب الفتیا و بدر الدین زر کشی در کتاب بحر تصریح کردہ اندکہ علم دوقسم است فرض علی الاعیان و فرض علی سبیل الکفایۃ و فرض کفایہ آنست کہ کسے بتبہ اجتہاد برسد و از اعداد مقلدین بر آید پس اگر در ہر ناحیہ یک یا دو بایں معنی قایم شوند فرض ساقط و الا ہمہ عاصی شوند و حنابلہ با مرھم بآں رفتہ اند کہ جائز نیست خلو زمان از مجتہد لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق حتی یاتی امر اللہ و زر کشی گفتہ است کہ ایں قل مخصوص بجنابلہ نیست‘ بلکہ جماعۃ از اصحاب‘ یعنی شافعیہ بداں تصریح کردہ اند و ابن عرفہ از علماء مالکیہ گفتہ قال شیخنا ابن عبدالسلام لا یخلو الزمان عن مجتہد و امام الرحرمین گفتہ کہ اختلاف کردہ ان اولین در آنکہ عصرے از اعصار عدد مجتہدین از مبلغ تواتر کم می شود یانہ جمعے منع کردہ و جمعے جائز داشتہ۔ پس ان تمام اقوال سے ہر زمانہ میں مجتہد کا ہونا ضروری معلو م ہوتا ہے پس کیسی بڑی غلطی اہل سنت و جماعت کی کہ اجتہاد کو ختم اور مجتہد کو معدوم مانتے ہیں۔ اس غلطی اعتقاد نے ہم مسلمانوں کو دین و دنیا میں نہایت نقصان پہنچایا ہے اس لیے ہم کو ضرور ہے کہ ہم اس خیال کو چھوڑیں اورہر بات کی تحقیق پر مستعد ہوں۔ خواہ وہ بات دین کی ہو یا دنیا کی ۔غور کرنا چاہیے کہ ہر گاہ زمانہ حادث ہے اور نئے نئے امور اور نئی نئی حاجتیں ہم کو پیش آتی ہیں پس اگر ہمارے پاس زندہ مجتہد موجو د نہ ہوں گے تو ہم مردہ مجتہدوں سے نئی بات کا مسئلہ جو ان کے زمانہ میں حادث بھی نہیں ہوئی تھی کیونکر پوچھیں گے۔ پس ہمارے لیے بھی مجتہد العصر و الزمان کا ہونا ضرور ہے۔ ٭٭٭ (اس مضمون کے شائع کرنے سے سرسید کا صرف یہ مقصد تھا کہ ہر زمانہ میں کوئی نہ کوئی ایسا صاحب علم و عرفان شخص ضرور ہونا چاہیے جو لوگوں کو سچے دین اسلام کی طرف رہنمائی کرتا رہے اور جو غلط عقائد اور غلط خیالات مذہب کے نام سے مسلمانوں میں پیدا ہو گئے ہیں ان کا ازالہ کرتا رہے اور جو بری رسول اور فضول توہمات ان میں اسلام کے خلاف پھیل گئے ہیں ان کو دور کرتا رہے۔ مگر مضمون کے شائع ہونے کے بعد سر سید کے مخالفین نے شور مچایا کہ یہ دیکھو سرسید اب ’’مجتہد‘‘ بننے کا ڈول ڈال رہے ہیں اور اسی لیے مجتہد کی ضرورت پر انہوں نے یہ مضمون شائع کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرسید کا یہ منشا نہیں تھا۔ نہ انہوں نے اپنے آپ کو کبھی مجتہد جانا ہے نہ کہلوایا ‘ نہ اس کی خواہش کی مگر ان کے معتقدین (ان کے اشارہ یا مرضی کے بغیر) ان کو مجتہد ‘ بلکہ مجدد اور اما م لکھنے ‘ تسلیم کرنے اور ماننے لگے۔ چنانچہ سرسید کے انتقال کے بعد اسی سال یعنی ۱۸۹۸ء ہی میں ان کے بعض مضامین کا جو مجموعہ مولانا امام محمد الدین گجراتی اور مولوی احمد بابامخدومی نے مرتب کیا ا س کے سرورق پر ان کا نام اس طر لکھا ہوا ہے۔ ’’ملک کے جاں نثار ‘ مسلمانوں کے عملی غم خوار‘ مصلح و ریفارمر‘ مجتہد ومجدد‘ پیشوائے ملت ‘ امام وقت ‘ اسلام کے عاشق صادق ‘ قوم پر اپنا تن من دھن قربان کرنے والے ‘ جوادالدلہ‘ عارف جنگ آنربیل ڈاکٹر سر سید احمد خاں صاحب بہادر کے ۔سی ۔ ایس ۔ آئی ایل۔ ایل ۔ڈی ۔ ایف ۔آر۔ ایس بانئی مدرسۃ العلوم علی گڑھ مرحوم و مغفور علیہ الرحمۃ )۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) ٭٭٭ محبت (از مقالت سر سید ‘ صفحہ ۱۴۲۔۱۴۳) فرض کرو کہ کوئی شخص کسی سے محبت رکھتا ہے ہم اس سے سوال کرتے ہیں کہ : ’’تم اس سے کیوں محبت رکھتے ہو؟‘‘ وہ اس کا جواب دیتاہے کہ : ’’میرا بڑا محسن ہے۔ اس نے بڑے مشکل وقتوں میں مجھ پر احسان کیا ہے ۔ تنگی کے وقت روپیہ سے مدد کی ہے بیماری کی حالت میں میری تیمارداری کی ہے دوا دارو ‘ علاج معالجہ میں بڑی کوشش کی ہے‘‘۔ یا وہ اس کا یوں جواب دیتا ہے کہ : ’’ہم اور وہ مدت تک ساتھ رہے ہیں‘ دن رات آپس میںاٹھنا ‘ بیٹھنا ‘ کھانا ‘ پینا ‘ ساتھ رہا۔ روز روز کی ملاقات‘ بات چیت‘ ہنسی مذاق‘ دل لگی‘ مزاج کی باہمی موافقت کے سبب آپس میں دوستی و محبت ہو گئی ہے ‘‘۔ یا وہ کہتا ہے کہ : ’’جس فن کا مجھ کو شوق ہے اس فن کا اس کو بدرجہ غایت کمال ہے اس فن کے کمال کے سبب جس کا مجھ کو شوق ہے اس شخص سے دلی محبت اور جانی دوستی ہو گئی ہے ‘‘۔ یا اس کا سبب وہ یہ بتلاتا ہے کہ : ’’وہ شخص نہایت خوبصورت ہے۔ اس کے حسن و جمال کے میرے دل میں اس کی محبت بلکہ اس کا عشق پیدا کر دیا ہے ‘‘۔ پھر ہم اس سے دوسرا سوال کرتے ہیں اور کسی بزرگ کا بزرگان دین میں سے نام لیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ : ’’تم ان بزرگ سے بھی محبت رکھتے ہو؟‘‘ وہ جواب دیتا ہے کہ : ’’ہاں کیوں نہیں؟‘‘ تب ہم اس کو کہتے ہیں کہ : ’’وہ بزرگ تو تم سے کئی برس پہلے گزر چکے ہیں۔ انہوں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا ۔ کسی مشکل وقت تمہارے کام نہیں آئے۔ کبھی تنگی میں تمہاری کو کچھ نہیں دیا کبھی تمہاری تیمارداری نہیں کی ۔ کبھی تمہاری دو دارو اور علاج معالجہ کی کوشش نہیں کی۔ کبھی وہ اور تم ساتھ نہیں رہے۔ نہ کچھی ساتھ اٹھے بیٹھے نہ کبھی آپس میں ملاقات بات چیت ہوئی نہ کبھی ہنسی مذاق ہوا نہ کبھی باہم مذاجی موافقت ہوئی جس فن کا تم کو شوق ہے وہ اس کا نام بھی نہیں جانتے تھے۔ نہ تم نے ان کو دیکھا کہ ان کے حسن و جمال نے تم کو فریفتہ کر لیا ہو۔ پھر کیوں تم اس سے محبت رکھتے ہو؟ اس سوال پر وہ نہایت ناراض ہو کر اور لال منہ کر کے غصہ بھری آواز سے جواب دیتا ہے کہ : ’’میاں! وہ بزرگان دین تھے۔ خدا کے ہاں ان کا بڑا درجہ ہے ۔ وہ دین داری میں یگانہ وقت تھے۔ ایمان کامل ان کو نصیب تھا۔ دین میں سب کے سردار تھے۔ ہم اس لیے ان سے محبت رکھتے ہیں‘‘۔ اب میں بتاتا ہوں کہ یہی پچھلی محبت محبت من حیث الدین ہے جس کو میں حب ایمانی کہتا ہوں اور یہی محبت غیر مذہب سے رکھنی شرعاً ممنوع ہے اور حرام بلکہ کفر ہے اور پہلی محبت جس کو میں حب انسانی کہتا ہوں شرعاً ممنوع نہیں۔ دونوں قسم کی محبت میں بالبداہت تفرقہ و تمیز موجود ہے کہ ایک قسم کی محبت ان اسباب ظاہری کے باعث تھی جو بمتقاضائے فطرت انسانی ایک کو دوسرے کے ساتھ پیدا ہو جاتے ہیں اور دوسری قسم کی محبت باوجود معدوم ہونے ان تمام اسباب ظاہری کے من حیث الدین تھی۔ اب کون شخص ہے جو ان دونوں قسم کی محبت میں تمیز نہیں کر سکتا؟ پس جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ غیر مذہب والوں سے سچی دوستی اور دلی محبت کرنا ممنوع ہے یہ ان کی غلطی ہے ۔ جو چیز کہ خدا تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں بنائی ہے وہ برحق اور بالکل سچ ہے ۔ہم کو تمام دوستوں سے خواہ وہ کسی مذہب کے ہوں سچی دوستی اور دلی محبت رکھنی اور برتنی چاہیے‘ مگر وہ تمام محبت اور دوستی جب انسانی کے درجہ میں ہو نہ حب ایمانی کے‘ کیونکہ حب ایمانی بلااتحاد مذہب ‘ بلکہ بلا اتحاد مشرب ہونی غیر ممکن ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی ہدایت ہم کو ہمارے سچے مذہب اسلام نے کی ہے۔ ما قصہ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم از ما بجز حکایت مہر و وفا مپرس ٭٭٭ مسائل متفقہ (از تہذیب الاخلاق بابت یکم رمضان ۱۲۹۰ھ) باوجود اتحاد قلبی کے پیارے مہدی کو ہم سے متعدد مسائل میں اختلا ف ہے جیسا کہ ہمارے پرچہ تہذیب الاخلاق کے ناظرین کو ان کی تحریروں سے ظاہر ہوا ہو گا مگر مفصلہ ذیل وہ مسائل ہیں جن میں ہمارے مخدوم مولوی مہدی ولی صاحب کو بھی ہم سے اتفاقہے۔ شیطان کا منہ کالا انشاء اللہ تعالیٰ آئند اور مسائل میں بھی بعد تحقیق و تدقیق وہ متفق ہوں گے۔ (۱) لا تحریف فی الکتب المقدسۃ الا معنویا (کتب مقدسہ میں معنوی تحریف کے علاوہ اور کوئی تحریف نہیں ہوئی)۔ (۲) لیس الاستر قاق فی الاسلام (اسلام میں لونڈی غلام بنانا جائز نہیں)۔ (۳) لا وجود للسموات جسمانیا (آسمانوں کا جسمانی وجود نہیں ہے)۔ (۴) ما کان الطعفان عاما (طوفان نوح عام نہیں تھا بلکہ صرف حضرت کی قوم پر آیا تھا)۔ (۵) الاجماع لیس بحجۃ (اجماع حجت نہیں ہے)۔ (۶) التقلید لیس بواجب (تقلید واجب نہیں )۔ (۷) کل الناس مجتھدون لا انفسھم فیما لم ینصص فی الکتاب والسنۃ (جن باتوں کے متعلق کتاب اور سنت میں کوئی نص موجود نہیں ان کے بارے میں ہر شخص کو خود فیصلہ کرنے پر اختیار ہے)۔ (۸) کل مانزل من القرآن فھو ما بین الدفتین ( قرآن کریم جو کچھ نازل ہوا وہ کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے)۔ (۹) ما نسخت تلاوۃ آیۃ من آیات القرآن (قرآن کریم کی آئتوں میں سے کسی کی تلاوت منسوخ نہیں کی گئی)۔ (۱۰) لیس النسخ فی القرآن ( قرآن میں نسخ نہیں ہے‘ یعنی قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے)۔ (۱۱) لیس خلافۃ النبوۃ بعد النبی صلعم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت نبوۃ نہیں ہے)۔ ٭٭٭ انگریزوں کے ساتھ کھانا پینا اسلامی احکام کی رو سے (منقول از ’’رسالہ احکام طعام اھل کتاب ‘‘) (عام طور پر اخبارکے ایڈیٹروں کو مفتی ‘ قاضی ‘ طبیب ‘ قانون دان غرض ہر علم و فن کا ماہر سمجھ کر مختلف قسم کے ادبی‘ علمی ‘ سیاسی ‘ طبی ‘ صنعتی ‘ معاشرتی ‘ اصلاحی اور مذہبی سوالات لکھ کر ان کو بھیجتے رہتے ہیں اور ایڈیٹر سے توقع رکھتے ہیں ک وہ ماہرانہ انداز میں اس مسئلہ کو شافی اور کافی جواب دے گا۔ ایسے لوگ پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ جب سرسید نے اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ سے جاری کیا تو حسب معمول ان کے پاس بھی اس قسم کے سوال اکثر آتے تھے او رسرسید ان کے جواب دیتے تھے جو اخبار میں چھپتے تھے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک صاحب نے یہ دلچسپ سوال لکھ کر انہیں بھیجا کہ اگ دستر خوان پر کوئی حرام چیز موجو دنہ ہو تو کیا کیس مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی انگریز کے ساتھ مل کر ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھا لے؟ ازروئے شرع اس سوال کا جواب مکمل اور مدلل طور پر دیا جائے۔ (واضح ہو کہ اس وقت یہ حرکت قطعاً حرام سمجھی جاتی تھی اور اس فعل کا مرتکب فوراً کافر ہو جاتا تھا)۔ اس سوال کا جواب سرسید نے اخبار سائنٹفک سوسائٹی کے ۲۴ ستمبر ۱۸۶۶ء کے پرچہ میں دیا جس میں قرآن اور احادیث کے حوالے سے اس امر کو ثابت کی اکہ اسلامی احکام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تعامل سے یہ بات بالکل جائز اور مباح ہے کہ اہل کتاب کے ساتھ کھانے پینے میں کوئی تامل اور پرہیز نہیں کرنا چاہیے بشرطیکہ سور ‘ شراب ‘ یا کوئی اور ایسی چیز کھانے پر نہ ہو جسے شریعت اسلام نے حرام کیا ہے۔ سرسید نے اس آرٹیکل میں یہ بھی لکھا کہ انگریزوں سے یہ شدید نفرت صرف ہمارے ملک کے نہایت دیندار مسلمانوں سے مخصوص ہے باقی تمام دنیا کے مسلمان اس میں کوئی عیب اور نقص نہیں سمجھتے اور بلا تکلف انگریزوں کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں۔ جب سرسید کا یہ مضمون اخبار میں چھپا تو ایک صاحب نے لکھنو سے خط بھیجا جس میں طنزاً یہ بات لکھی کہ ’’میں اس دن کے دیکھنے کا نہایت مشتاق ہوں جب سرسید احمد خاں اپنے لکھنے پر عمل کر کے بھی دکھائیں کیا میں امید کروں کہ سید احمد خاں ایسا جرات آمیز قدم اٹھا کر اپنی ذات سے اس باب میں ایک نمونہ قائم کریں گے‘‘ اس چٹھی کا جواب تو سرسید نے اخبار میں دیا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ انہوں نے لکھا ’’میں نے اسلام کو اس لیے اختیار نہیں کیا کہ میں ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوا اورمیرے باپ داد ا مسلمان تھے بلکہ میں نے اپنی لیاقت اور قابلیت کے مطابق خوب اچھی طرح تحقیق کر کے اور تمام معلومہ مذاہب سے موازن اور مقابلہ کرنے کے بعد جب اسلام کو سب سے اعلیٰ‘عمدہ اور افضل پایا تو اسے قبول کیا۔میں تقلید مذہب اسلام کو تمام ادیان عالم میں بہترین نہیں سمجھتا بلکہ تحقیقا اسے میں نے ایسا پایا اس لیے اسے اختیار کر لیا۔ اسی سچے اور بہترین مذہب نے مجھے یہ تعلیم دی ہے کہ ہمیشہ اور ہر حال میں سچ بولو جو کہو وہی کرو اور وہی کہو جو کرو۔ میرے نزدیک نہایت کمینہ اور بد ذات وہ شخص ہے جو کہتا کچھ ہو اور کرتا کچھ ہو اور اس سے بھی بدبخت وہ شخص ہے جو شریعت کے حکم سے باخبر ہو اور پھر لوگوں کی شرم اور رسم و رواج کی لاج سے یا ملامت کے خوف اور لعن طعن کے ڈر سے اس حکم کو بجا لانے میں تامل کرے۔ یہی وجہ ے کہ میں کسی انگریز کی میز پر اس کے ساتھ کھانے میں کسی قسم کا کوئی پرہیز نہیں کرتا بشرطیکہ میز پر شراب یا سور کا گوشت وغیرہ کوئی حرام چیز نہ ہو۔ میرے اکثر انگریز دوست میرے مہمان ہوتے ہیں اور کئی کئی دن ٹھہرتے ہیں۔ اسی طرھ مین بھی کبھی کبھی اپنے انگریز دوستوں کے ہاں جاتا ہوں اور ان کے پاس ٹھہرتا ہوں اور تمام دوران قیام میں ہم سب اکٹھے کھانا کھاتے ہیں۔ جب خدانے اپنے پاک کلام میں ہمیں اس بات کی اجازت دی ہے تو پھر ہم جھوٹی دنیا کی شرم کا کیوں لحاظ و خیال رکھیں‘‘۔ اس سوال و جواب کے بعد سرسید نے محسوس کیا کہ حاکم و محکوم کے تعلقات مضبوط اور مستحکم کرنے اور انہیں خوش گوار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلہ پر سیر حاصل مکمل اور مفصل بحث کی جائے چنانچہ ۱۸۶۸ء میں انہوںنے ایک مبسوط اور مدلل مقالہ اس موضوع پر احکام طعام اہل کتاب کے نام سے لکھا۔ خوش قسمتی سے یہ مقالہ خود سرسید کا شائع کردہ میری لائبریری میں موجود ہے اورمیں اس کو ذیل میں ناظرین کرام کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ ا س مقالہ میں سرسید نے قرآنی آیات‘ احادیث نبوی اور فقہی روایات سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کو انگریزوں کے ساتھ ان کے اہتھ کا پکاہوا اور ان کا ذبیحہ انہی کے برتنوں میںکھانا جائز ہے۔ صرف سور اور شراب حرام ہے۔ اس مقالہ میں ان تمام شبہات کا مدلل جواب بھی دیا گیا ہے جن کی بنا پر ہمارے علمائے کرام اہل کتاب کے ساتھ کھانے کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ مولانا حالی حیات جاوید میں لکھتے ہیں کہ جب ی ہمقالہ چھپا تو ہندوستان کے عوام اور خواص میں بہت شور مچا۔ فوراً سرسید کے کافر ‘ مرتد اور کرسٹان ہو جانے کا فتویٰ طمطراق کے ساتھ تیار کای گیا جس میں ان کا بائیکاٹ کا حکم دیا گیا اور بڑے زور سے اعلان کیا گیا کہ کوئی مسلمان مومن نہ سید احمد خاں سے بات چیت کرے گا ‘ نہ اس سے تعلق واسطہ رکھے گا ‘ نہ اس کے ساتھ کھائے پیے مگر بقول سرسید وہ سب باتیں ایسی تھیں جیسے آندھی کا ایک بگولہ اٹھا خاک اڑی اور پھر مطلع صاف ہو گیا )۔ (محمد اسماعیل پانی پتی) الحمد للہ الذی بعث فی الا میین رسولا منھم بتلو علیھم ایاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمۃ وان کانو امن قبل لفی ضلال مبین۔ والصلواۃ والسلام علی رسولہ محمد خاتم الانبیاء والمرسلین رحمۃ للعالمین الذین ھدانا الٰی صراط مستقیم و جعل لنا الدین یسرا ولا عسر حیث قال علیہ السلام ان الدین یسر‘ ولا رھبانیۃ فی الاسلام و علی الہ و اصحابہ و اتباعہ و امتہ اجمعین سیما علی الذین جاھدو فی اشاعۃ مسائل دین القیمۃ الحفیفیۃ السمحۃ ولا یخافون لومۃ الائم واستحقو ا علیٰ ذالک فرحۃ بعد فرحۃ۔ (ترجمہ) ساری تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اٹھایا ان پڑھوں میں سے ایک رسول ان ہی میں سے پڑھتا ہے جو ان کے پاس ا س کی آیتیں اور ان کو سنوارتا ہے اور سکھاتاہے کتاب اور عقلمندی اور اگرچہ وہ اس سے پہلے برے بھلاوے میں تھے اور درود اور سلام ہووے اس کے رسول پر جو محمد ہیں ختم کر دیا جنہوں نے پیغمبروں اور رسولوں کو رحمت ہیں تمام عالم ک لیے جو لے چلے ہم کو سیدھی راہ اور کیا ہمارے لیے دین کو آسان نہ سخت مشکل‘ کیونکہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ دین بے شک آسان ہے اورنہیں ہے بڑی پرہیز گاری کی سختی سہنا اور ہر چیز سے پرہیز کرنا دنیا کی تمام چیزوں کو چھوڑ بیٹھنا اسلا م میں اور ان کی اولاد اوران کے یاروں اور ان کے پیروئوں اور ان کی امت کے لوگو ں پر سب پر رحمت ہو‘ خصوصاً ان پر جنہوں نے ان کے دین کے مسائل پھیلانے میں کوشش کی جو دین کہ نہایت مضبوط اورسیدھا اور آسان ہے اورنہ ڈرے ملامت کرنے والے کی ملامت سے اور اس بات پر مستحق ہوئے خوشی پر خوشی کے۔ اما بعد چونکہ اس زمانہ میں درباب اباحت طعام اہل کتاب کے نہایت گفتگو ہو رہی ہے اورہندوستان کے مسلمان جنہوںنے ہزاروں رسمیں ہندووں کی اختیار کر لی ہیں اور اس کو نہایت ہی برا جانتے ہیں اورجو شخص اس کومباح کہے یا اس کے کھانے کا مرتکب ہو اس کو کافر یا کرسٹان یا مسلمانوں کے گروہ سے خارج ایک بہت بڑے امر قبیح کا مرتکب سمجھتے ہیں اور ہزاروں طرح سے زبان طعن و تشنیع اس پر دراز کرتے ہیں اور گناہ گار ہوتے ہیں‘ اس لیے یہ ایک مختصر رسالہ درباب احکام طعام اہل کتاب کے لکھا ہے اور یہی اس کا نام رکھا ہے تاکہ مسلمان بھائی اپنے مسلمان بھائیوں پر بدگمانی کرنے اور برا بھلا کہنے سے باز آویں اور گناہ میں پڑنے سے محفوظ رہیں۔ جاننا چاہیے کہ طعال اہل کتاب بشرطیکہ محرمات شرعیہ میں سے نہ ہوں‘ مسلمانوں کے لیے حلال اوردرست اور اس کا کھانا جائز و مباح ہے‘ خواہ ان کا بھیجا ہوا اورانہیں کا پکایا ہوا اپنے گھر کھاویں خواہ ان کے ہاں جا کر کھاویں۔ خواہ ہم اکیلے کھاویں خواہ ہم اور اہل کتاب ایک جگہ ساتھ بیٹھ کر کھائیں اور وہ کھانا قسم لحوم طیبہ سے ہو یا از قسم حبوب و شیرینی سے۔ قال اللہ تعالیٰ الیوم احل لکم الطیبات وطعام الذین اوتوا الکتاب جل لکم وطعامکم حل لھم (ترجمہ) فرمایا اللہ تعالیٰ نے آج حلال کی گئی ں تمہارے لیے سب پاکیز ہ چیزیں اور کھانا ان لوگوں کو جن کو کتاب دی گئی ہے حلا ل ہے تمہارے لیے اور کھانا تمہارا حلال ہے ان کے لیے ‘‘۔ وفی الترمذی مثلت النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن طعام النصاریٰ فقال لا یتخلجن فی صدرک طعام ضارعت النصرانیۃ الٰی اخر الحدیث وقال الترمذی و العمل علیٰ ھذا عند اھل العلم من الرخصۃ فی طعام اھل الکتاب۔ (ترجمہ) اور ترمذی میں بلب سے روایت ہے کہ پوچھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حکم طعام نصاریٰ کا تو فرمایا کہ نہ خلجان ڈالے تیرے سینہ میں (یعنی دل میں) کوئی کھانا۔ کیا مشابہ ہو گیا تو نصرانی لوگوں کے سساتھ اورکہا ہے ترمذی نے اورعمل ہے اسی حدیث پر سب اہل علم کے نزدیک رخصت اور اجازت کا کھانے میں اہل کتاب کے‘‘۔ وفی العالمگیری لا باس لطعام الیھود و النصاریٰ کلہ من الذبائح وغیرھا۔ (ترجمہ) ’’اور فتادی ٰ عالمگیری میں ہے نہیں کچھ مضائقہ کھانے یہود اور نصاریٰ کے سب قسم کے کھانے میں ذبیحہ اور اس کے سوا‘‘۔ وفی فتح المنان فی تائید مذہب النعمان و عن علی قال لا باس بطعام المجوس انماعن ذبائحھم رواہ البیھقی۔ (ترجمہ) ’’اور کتاب فتح منان میں ہے کہ کچھ مضائقہ نہیں ہے مجوسیوں کے کھانے میں جو کچھ منع کیا ہے وہ ان کا ذبیحہ ہے‘‘۔ اس آیت اور حدیث سے اور فقہ کی روایتوں سے ثابت ہوا کہ طعام اہل کتاب ہم کو حلال اور جائز ہے اورجو شے کہ دراصل حلال ہے وہ کسی کی بھیجی ہوئی ہو اور کسی کی پکائی ہو ہو حرام یا ناجائز نہیں ہو سکتی۔ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے ہاں کا پکا ہوا کھانا تناول فرمایا ہے۔ فی المشکوٰۃ عن جابر ان یھودیۃ سمت شاۃ ثم اھدتھا الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الذراع فااکل منھا و کل رھط من اصحابہ الیٰ اخر الحدیث رواہ ابو دائود الدارمی۔ (ترجمہ) ’’مشکوٰۃ میں جابر سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت نے بکری کے گوشت میں زہر ملا دیا اور پھر تحفہ بھیجا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے۔ سو لیا حضرت نے اوراس میں سے کھایا اور آپ کے چند اصحاب نے بھی کھایا۔ روایت کیا اس حدیث کو ابودائود دارمی نے۔ اور حلال چیز کو اگر ایک جگہ بیٹھ کر مسلمان اورمشرک بھی چہ جائے کہ اہل کتاب کھاویں تو وہ چیز حرام اور ناجائز نہیں ہو جاتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل نے کافروں کو بھی اپنے ساتھ بٹھا کر کھلایا ہے۔ فی مطالب المومنین روی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یاکل فاتاء کافر فقال اکل معک یا محمد فقال نعم الیٰ آخر ما قال و سیاتی ذکرہ۔ (ترجمہ) ’’مطالب المومنین میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھا رہے تھے کہ ایک کافر آیا اور کہا کہ میں آ پ کے ساتھ کھائوں اے محمد! آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ آخر اس کلام کے کہا اورقریب ہے کہ ذکر اس کا آتا ہے‘‘۔ اور حلال چیز کو اگر مسلمان او ر اہل کتاب یا کوئی کافر ایک رکابی میں کھاویں یا ایک کا جھوٹا دوسرا کھاوے‘ بشرطیکہ کھانے کے وقت ان کا ہاتھ یا منہ شراب میں یا کسی اورحرام چیز میں آلودہ نہ ہو‘ تو بھی اس چیز کا کھانا حلال و جائز ہے‘ کیونکہ ہم مسلمانوں کے مذہب میں یہ مسئلہ مسلم الثبوت ہے سور الانسان طاہر یعنی جھوٹا آدمی کا پاک ہے ۔ سئل مولنا شاہ عبدالعزیز المحدث الدھلوی رحمۃ اللہ علیہ عن ھذا فافتیٰ بجوازہ کما ہو مذکور فی فتاواہ وعبارتہ ھذا۔ و حکم طعا الکفار من المشرکین و المواکلۃ مع الانگریز علی سفرتھم وفی او انیتہم ان کان مع ظہور منکر کالخمر و الخنزیز و اوانی الذھب و الفضۃ و التاطخ بالنجاسات کاحشاء البقر وغیرھا و زمزمۃ المجوس حرام و ان کانت الانیۃ اللتی یا کل فیھا المسلم خالیۃ عن النجاسۃ لان ذالک مشارکۃ معھم فی شعائرھم و ان خلا عن ھذہ المقاصد فھو مباح بشرط الطھارۃ۔ انتھیٰ کلامہ۔ (ترجمہ) ’’پوچھا گیا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے اس کا فتویٰ(۱) تو فتویٰ دیا اس نے اس کے جائز ہونے کا جیسا کہ یہ فتویٰ موجود ہے ان کے فتاویٰ میں اور جو عبارت اس کی ہے اس کا ترجمہ ہے : ’’اورحکم طعام کفار مشرکین کا اورحکم کھانے کے ساتھ انگریزوں کے دستر خوان پر اور ان کے برتنوں میں ی ہے کہ کہ اگر ہووے ساتھ ظہور کسی برائی کے مانند شراب یا سور کے اور برتن سونے اور چاندی کے اورآلودگی کے ساتھ نجاست جیسا کہ اوجھ گاء وغیرہ کا اورامزمہ مجوس کے تو حرام ہے اگرچہ ہووے وہ برتن کہ جس میں مسلمان کھاتا ہے خالی نجاست سے کیونکہ یہ شرکت ہے ان کے شعار میں اور اگر خالی ہووے ان برائیوں کے تو مباح ہے بشرط پاک ہونے کے‘‘۔ غرض کہ اہل کتاب کے ہاں کا کھانا کھانے میں اور ان کے ساتھ ایک جگہ بیٹھ کر کھانے میں کوئی محظور شرعی نہیں‘ فی نفسہ حلال و مباح ہے۔ اب باقی رہا عدم جواز لغیرہ‘ چنانچہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱) اس رسالہ میں جہاں کہیں جناب مولوی شاہ عبدالعزیز صاحب کے فتویٰ کا ذکر ہے اس فتوے کی نقل ہم کو جناب خواجہ محمد ولی اللہ صاحب غازی پوری سررشتہ دار کلکٹری بنارس نے مرحمت فرمائی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ہم ان تمام شبہون کو جن کے سبب ہندوستان کے مسلمانان متشبہین بالہنود طعام اہل کتاب کو ان کے ساتھ مواکلت کو ناجائز بتاتے ہیں رفع کرتے ہیں ۔ وباللہ التوفیق۔ الشبھۃ الاولیٰ (پہلا شبہ) بعض لوگ کہتے ہیں کہ زمانہ حال کے انگریز اہل کتاب میں داخل نہیں ہیں‘ اس لیے کہ اس زمانہ کے انگریز اپنی کتاب پر نہیں چلتے اور اس کے حکمو ں کو نہیں مانتے تین خدا بتاتے ہیں اور جو اصلی کتابیں توریت و انجیل کی تھیں ان کو بدل ڈالا ہے پھر یہ لوگ کس طرح اہل کتاب ہو سکتے ہیں؟ مگر یہ سمجھ صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہر بات ہر کوئی جانتا ہے کہ تما م قرآن مجید میں اول سے آخر تک اورتمام حدیثوں میں جہاں کہیں لفظ اہل کتاب آیا ہے اس سے یہود اور نصاریٰ مراد ہیں اوراس آیت میں بھی جو لفظ الذین اوتو الکتاب آیا ہے اس میں بھی یہو د و نصاریٰ مراد ہیں ۔ چنانچہ بیضاوی میںلکھا ہے : ویعم الذین اوتو الکتاب الیھود والنصاریٰ (ترجمہ) ’’اور عام ہیں وہ لوگ جن کو کتاب دی گئی اوروہ یہود اور نصاریٰ ہیں‘‘۔ علاوہ اس کے بہت صاف بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی امت پر توریت اور حضرت عیسیٰ کی امت پر انجیل اتری تھی۔ پھر جو لوگ اپنے تئیں حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ کی امت میں سمجھتے ہیں یا ان کا تابع جانتے ہیں اور اپنے تئیں یہودی یا عیسائی کہتے ہیں گو ان کے افعال اور عقاد کیسے ہی ہوں وہ انہیں میں داخل ہیں جن پر کتاب اتری تھی ‘ جیسے کہ ہم مسلمانوں میں بہت سے فرقے ہیں‘ یہاں تک کہ ایک دوسرے کو کافر بتاتا ہے اور وہ سب انے تئیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سمجھتے ہیںَ پس تمام فرقے اہل القرآن ہیں یعنی یعنی ان پر قرآن اترا ہے۔ ان مین سیکسی فرقہ کو باوجود اس قدر اختلاف افعال و عقائد کے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اہل قرآ ن نہیں ہیں۔ اسی طرح تما م یہود و نصاریٰ کو ان کے افعال اور عقائد کیسے ہی ہوں ۔ اہل کتاب ہونے سے خارج نہیں ہو سکتے۔ علاوہ اس کے ایک اور بات غور کرنے کی اور سمجھنے کی ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن مجید میں یہود اورنصاریٰ دونوں کا ذکر فرماتا ہے اور جس قدر عیب اور برائیاں کہ حال کے یہود و نصاریٰ میں اب موجود ہیں وہ سب بیان فرمائی ہیں؛ چنانچہ یہودیوں کی نسبت فرمایا ہے: وقالت الیھود عزیرن ابن اللہ (اور کہا یہود نے عزیر بیٹا ہے اللہ کا) اور یہود و نصاریٰ کے حق میں درباب تحریف کے فرمایا ہے کہ : یحرفون الکلم عن مواضعنہ (پھیرتے ہیں کلموں کو ا ن کی جگہ سے)۔ اوریہ بھی فرمایا کہ : فویل للذین یکتبون الکتاب بایدیھم ثم یقولون ھذا من عنداللہ لیشتروا بہ ثمنا قلیلا (خرابی ہے ان کی جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھ سے پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے ہے ‘ تاکہ لیویں اس پر مول تھوڑا)۔ اورنصاریٰ کے حق میں درباب ان کے اعتقاد تثلث کے حضرت عیسیٰ کو مخاطب کر کے فرمایا : یا عیسیٰ ابن مریم ء انت قلت للناس اتخذونی ا امی الھین من دون اللہ قال سبحانک ما یکون لی ان اقول ما لیس لی بحق ان کنت قلتہ فقد علمتہ تعلم ما فی نفسی ولا اعلم ما فی نفسک۔ انک انت علام الغیوب۔ ما قلت لھم الا ما امرتنی بہ ان اعبدو اللہ ربی و ربکم و کنت علیھم شھیدا مادمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم وانت علی کل شئی شھید۔ ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم (ترجمہ) ’’اے عیسیٰ مریم کے بیٹے! کیا تو نے کہا لوگوں کو کہ ٹھہرائو مجھ کو اور میری ماں کو دو معبود سوائے اللہ کے تو بولا پاک ہے تو۔ مجھ کو نہیں لائق تھاکہ وہ کہوں جو مجھے کہنا نہ تھا۔ اگر میںنے یہ کہا ہوگا تو مجھ کو معلوم ہو گا ۔ تو جانتاہے میرے جی کی اور میں نہیں جانتا تیرے جی کی۔ تو ہی جانتا ہے چھپی بات ۔ میں نے نہیں کہا ان کو مگر جو تو نے حکم کیا کہ بندگی کرو اللہ کی جو رب ہے میرا اورتمہارا اورمیں ان سے خبردار تھا جب تک میں ان میں رہا ۔ پھر جب تو نے مجھے وفات دی تو ہی ہے خبر رکھتا ان کی اور ہر چیز سے خبردار ہے۔ اگر تو ان کو عذاب کرے تو بندے ہیں تیرے اور اگر ان کو معاف کر دے تو تو ہے زبردست حکمت والا‘‘۔ اوراسی باب میں ایک جگہ یہ فرمایا ہے: لقد کفر الذین قالو ا ان اللہ ثالث ثلثۃ ۔ ومامن الہ الا الہ واحد وان لم ینتھو ا عما یقولون لیمسن الذین کفرو امنھم عذاب الیم (ترجمہ) ’’بیشک کافر ہوئے جنہوںنے کہا اللہ ہے تین میں کا ایک اور بندگی کسی کو نہیں مگر ایک معبود کو اور اگر نہ چھوڑیں گے جو بات کہتے ہیں‘ البتہ جو ان میں منکر ہیں پاویں گے دکھ کی مار‘‘۔ اور اسی باب میں ایک اور جگہاس طرح پر فرمایا ہے: یااھل الکتاب لا تغلوا فی دینکم ولا تقولو علی اللہ الا الحق انما المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ وکلمتہ القھا الیٰ مریم وروح منہ فامنو ا باللہ ورسلہ ولا تقولو ثلثۃ انتھوا خیرا لکم انما اللہ الہ واحد سبحنہ ان یکون لہ ولد لہ ما فی السموات وما فی الارض وکفی باللہ وکیلا۔ ترجمہ: ’’اے کتاب والو! مت مبالغہ کرو اپنے دین کی بات میں اور مت بولو اللہ کے حق میں مگر بات تحقیق ۔ مسیح جو ہے عیسی مریم کا بیٹا رسول ہے اللہ کا اورا س کا کلام جو ڈال دیا مریم کی طرف اور روح ہے اس کے ہاں کی سو مانو اللہ کو اور اس کے رسولوں کو اور نہ بتائو اس کو تی۔ یہ بات چھوڑو کہ بھلا ہو تمہارا۔ اللہ جو ہے سو ایک معبود ہے ۔ اس لائق نہیں کہ اس کی اولاد ہو۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اور اللہ بس ہے کام بنانے والا‘‘۔ اور نصاریٰ کے حق میں حضرت عیسیٰ کو خدا کہنے کی نسبت خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا: لقد کفر الذین قالو ا ان اللہ ھو المسیح ابن مریم وقال المسیح یا بنی اسرائیل اعبدو ا ربی وربکم (ترجمہ) ’’بے شک کافر ہوئے جنہوںنے کہا اللہ وہی ہے مسیح مریم کا بیٹا اورمسیح نے کہا ہے کہ اے بنی اسرائیل بندگی کرو اللہ کی جو رب ہے میرا اورتمہارا۔ اور ان کے شراب پینے اور سور کھانے کا ذکر بہت سی حدیثوں میں موجود ہے ۔ چنانچہ ابودائود میں جو حدیث آنیتہ اھل الکتاب کی ہے اس میں ہے۔ ہم یشربون الخمرو یطبخون فی انیتھم الخنزیر (ترجمہ) ’’ وہ لوگ پیتے ہیں شراب اور پکاتے ہیںاپنے برتنوں میں سور۔ غرض ک یہ جو کچھ افعال و عقائد زمانہ حال کے نصاریٰ کے ہیں وہ سب اس وقت کے نصاریٰ میں بھی تھے اور باوجود ان سب باتوں کے اللہ تعالیٰ نے ان کو اہل کتاب فرمایا ہے ‘ علی الخصوص اس آیت میں ان کے اعتقاد تثلیث کا ذکر کیا ہے اور اس پر بھی ان کو اہل کتاب کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ پس زمانہ حال کے نصاریٰ باوجود ان تمام افعال اور عقائد کے جو وہ رکھتے ہیں اہل کتاب میں داخل ہیں‘ بلکہ زمانہ حال کے بعض فرقے نصاریٰ کے جیسے پروٹسٹنٹ اس زمانہ کے نصاریٰ سے بہت اچھے ہیں۔ اس زمانہ کے اکثر نصاریٰ رومن کیتھولک تھے۔ صلیب کو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مورت کو پوجتے تھے ۔ پروٹسٹنٹ ایسا نہیں کرتے اور بعض فرقے عیسائیو ں کے اب ایسے ہیں جو موحد ہیں اور وہ فرقہ جو یونی ٹیرین کے نام سے مشہور ہے اور جو ایک خدا مانتا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی مانتا ہے ان کے عقائد میں اور مسلمانوں کے عقائد میں نسبت نبوت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذرا فرق نہیں۔ علاوہ اس کے ہمارے ہاں کے فقہاء نے انہیں نصاریٰ کے ذبیحہ کو حلال بتایا ہے جو تثلیث کے قائل ہیں اور صاف اس کی تصریح کر دی ہے کہ اگر نصاریٰ وقت ذبح کے بتصریح کہیں بسم اللہ الذری ثلاثہ (یعنی ساتھ نام اس اللہ کے کہ وہ تیسرا ہے تین میں کا) تو وہ ذبیحہ حرام ورنہ حلال چنانچہ فتاویٰ عالمگیری کے کتاب الذبائح میں لکھا ہے: الا اذا نص بسم اللہ الذی ہو ثالث ثلاثۃ فلا یحل واما اذا سمع منہ انہ یسمی المسیح علیہ السلام وحدہ او سمی اللہ سبحانہ وسمی المسیح لا یوکل ذبیحتہ (ترجمہ ) ’’مگر جب ظاہر کیا پس کہا ذبح ہے ۔ بنام اس اللہ کے کہ وہ تیسرا ہے تین میں کا تو نہیں حلال ہے پر جب کہ سنا جاوے کہ اس نے صرف مسیح علیہ السلام کا نام لیا یا اللہ سبحانہ اور مسیح کا نا لیا تو نہ کھایا جاوے ذبیحہ اس کا۔ پس اگر بہ سبب عقیدہ تثلیث کے نصاریٰ مشرکوں میں داخل ہوتے تو کیونکر ان کا ذبیحہ حلال ہوتا۔ الشبھۃ الثانیہ (دوسرا شبہ) طعام کے لفظ میں گوشت اور ذبیحہ کیونکر داخل ہے۔ بلاشبہ داخل ہے اس لیے کہ طعام کے معنی لغت میں گیہوں کے اورتمام کھانے کے ہیں گوشت ہو یا غلہ ہو‘ مگر اہل کتاب کے غلہ میں اور ان کے پاس جو گوشت ہو اس کے حلال ہونے مٰں تو کچھ شبہ تھا ہی نہیں بلکہ اگر شبہ تھا تو اس بات میں شبہ تھا کہ جس حلال جانور کو اہل کتاب نے مزکی کیا ہو اس کا گوشت بھی حلال ہے یا نہیں اورآیت و طعام الذین اوتو ا الکتاب (اور کھانا ان کا جو دیے گئے ہیں کتاب) اسی کی حلت کے لیے نازل ہوئی تھی اس لیے تمام مفسرین نے طعام کے معنی اہل کتاب کے ذبائح اور تمام کھانے کی چیزیں لی ہیں چنانچہ تفسیر کشاف میں لکھا ہے: وطعام الذین اوتوا الکتاب قیل ھوذبائحھم وقیل جمیع مطاعھم و یستوی فی ذالک جمیع النصاریٰ۔ (ترجمہ) اور کھانا ان لوگوں کا جن کو دی گئی کتاب کہا گیا ہے کہ وہ (یعنی کھاناذبائح ان کا ہے اورکہا گیا ہے تمام کھانے ان کے برابر ہیں اس حکم میں سب نصاریٰ۔ اور تفسیر نیشا پوری میں ہے : وطعام الذین اوتو الکتاب حل لکم الاکثرون علیٰ ان المراد بالطعام الذبائح لان ماقبل الایۃ فی بیان الصید و الذبائح ولان ما سوی الصید و الذبائح محللۃ قبل ان کانت لا حل الکتاب و بعد ان صارت لھم فلا تبقیٰ لتخصیصھا لا ھل الکتاب فائدۃ وعن بعض ائمۃ السر بہ ان المراد ہو الخبز و الفاکھۃ ومالا یحتاج منہ الیٰ الذکوۃ وقیل انہ جمیع المطعومات (ترجمہ) ’’اور کھانا ان کا جن کو دی گئی ہے کتاب حلا ل ہے واسطے تمہارے ۔ اکثر علماء اس پر متفق ہیں کہ مرا د طعام سے ذبائح ہے اس لیے وہ آیت جو اس آیت سے پہلے ہے بیچ بیان شکار کے اور ذبائح کے ہے ۔ اور اس لیے کہ سب چیزیں سوائے شکار اور ذبائح کے حلال کی گئی ہیں پہلے اس کے کہ ہوویں وہ اہل کتاب کی او ربعد اس کے کہ ہو گئیں ان کی۔ بس نہ باقی رہا واسطے خاص کرنے ا کے کے اہل کتاب کے لیے کچھ فائدہ اور بعض آئمہ سے روایت ہے کہ سراس میں یہ ہے کہ مراد طعام سے صرف روٹی اور میوہ اوروہ چیز ہے کہ حاجت ان کے ذبح کی نہیں ہے اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد طعام سے سب کھانے کی چیزیں ہیں۔ اور تفسیر بیضاوی میں ہے : وطعام الذین اوتو الکتاب حل لکم یتناول الذبائح وغیرھا۔ (ترجمہ) ’’اور کھانا ان لوگو ں کا جن کو دی گئی کتاب حلال ہے تمہارے لیے مرادہے ذبائح یہود و نصاریٰ کی۔ غرض کہ طعام کے لفظ میں ذبائح اوروہ گوشت جو زکوۃ سے ھاصل ہوا ہو اورہر قسم کا کھانا داخل ہے۔ الشبھۃ الثالثۃ (تیسرا شبہ) بعض لوگ ذبیحہ میں شبہ کرتے ہیں اوریہ بات کہتے ہیں کہ ذبح سے جانور اس وقت حلال ہوتاہے جس وقت کہ اسی طرح پر ذبح کیا جائے کہ جس طور پر مسلمانوں کے یہاں ذبح ہوتا ہے اور انگریزوںکے ہاں جو گوشت ہوتا ہے یہ بات معلوم نہیں ہوتی ہے ہ اس کو بھی ذبح کیا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اکثر انگریز جانور کو بغیر ذبح کیے ہوئے گردن مروڑ کر یا سر توڑ کر مار ڈالتے ہیں اوراگر ذبح کیا ہو تو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس کو موافق قاعدہ مسلمانوں کے ذبح کیا ہے کیا نہیں اور اگر موافق قاعدہ مسلمانوں کے بھی ذبح کیا ہو تو کسی اہل کتاب نے ذبح کیا ہے یا نہیں‘ کیونکہ انگریزوں کے یہاں اس بات کی بھی کچھ احتیاط نہیں ک جانور کو اہل کتاب ہی مارے۔ اس شبہ کا جواب ہم کئی صورت سے دیتے ہیں۔ اول تو یہ صورت ہے کہ ہندوستان میں اس شبہ کو پیش کرنا بے جا ہے اس لیے کہ وہی قصائی اور وہی ذباح جو ہمارے کھانے کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں وہی انگریزوں کے ہاں ذبح کیا ہوا گوشت دیتے ہیں اور اگر یہ نہ ہو تو بھی اس قسم کا شبہ کرنا توہمات میں داخل ہے ‘ کیونکہ طعام اہل کتاب کا بنص صریح خدا تعالیٰ نے ہم پر حلال کر دیا ہے اوریہ بات کہ وہ ذبح ہوا ہے یا نہیں امر مشتبہ ہے اور اصول کا مسئلہ ہے کہ یقین شبہ سے ذائل نہیں ہوتا۔ علاوہ ااس کے ابودائود میں باب اللحم لا یدری اذکر اسم اللہ علیہ ام لا (باب اس گوشت کا کہ معلوم نہ ہو کہ اس پر نام خدا ہوا ہے یا نہیں) میں حضرت عائشہ سے یہ حدیث مذکور ہے: انھم قالو ا یارسول اللہ ان قوما حدیثو اعہد بجا ھلیۃ یا توننا بلحمان لا ندری اذکرو ا اسم اللہ علیھا ام لم یذکرو ا اناکل منھا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمو ا اللہ وکلوا۔ (ترجمہ) ’’انہوں نے کہا یا رسول اللہ! جو لوگ عہد والے ہیں ساتھ جاہلیت کے (یعنی ابھی مسلمان ہوئے ہیں) لاتے ہیں گوشت ہم نہیں جانتے کہ اس پر اللہ کا نام انہوں نے لیا ہے یا نہیں آیا کھائیں ہم وہ گوشت تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اللہ کا نام لو اور کھائو‘‘۔ اگرچہ یہ حدیث نو مسلموں کے باب میں ہے لیکن جبکہ اہل کتاب کا ذبح کیا ہوا گوشت کھانا ایسا ہی درست ہے ۔ جیسا کہ مسلمان کا تو اس وقت اس بات کے نہ معلوم ہونے سے کہ آیا بموجب قاعدے کے ذبح ہوا ہے یا نہیں اس کا کھانا ناجائز نہیں ہے۔ فی العالمگیری لا باس بطعام الیھود و النصاریٰ کلہ من الذبائح وغیرھا وفیہ انما توکل ذبیحۃ الکتابی اذا لم یشھد ذبہحہ ولم یسمع منہ شیئی او شھد و سمع منہ تسمیۃ اللہ تعالیٰ وحدہ لا نہ اذا لم یسمع منہ شیئاً یجمل علیٰ انہ قد سمی اللہ تعالیٰ تحسینا اللظن بہ کما بالمسلم۔ (ترجمہ ) ’’عالمگیری میں ہے کچھ مضائقہ نہیں طعام میں یہود و نصاریٰ کے سب قسم کے کھانے میں ذبائح یا غیر ذبائح اور عالمگیری میں ہے کھایا جاوے ذبیحہ کتابی اس کا وقت بھی کہ نہ موجود ہوں اس کے ذبح کے وقت اورنہ سنا ہو اس سے کچھ یا موجود ہوں اس وقت اور سناگیا ہو اس سینام لینا اللہ ہی کا کیونکہ جب نہ سنا گیا ہو اس سے کچھ تو حمل کریں گے کہ اس نے بے شک اللہ کا نام لیا بہ سبب حسن ظن کے ساتھ اس کتابی کے جیسا کہ مسلمان کے ساتھ چاہیے‘‘۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ ہمارے لیے خدا تعالیٰ نے حلال کیا ہے ۔ پس جس طرح کہ ان کے نزدیک اور ان کے مذہب میں جانور کی زکاۃ درست ہے وہی ان کا ذبیحہ ہے اور اسی کا کھانا ہم مسلمانوں کو حلال ہے ‘ یہاں تک کہ اگر اہل کتاب کسی جانور کی گردن مروڑ کر مار ڈالنا یا سر پھاڑ کر مار ڈالنا زکوۃ سمجھتے ہوں تو ہم مسلمانوں کو اسی کا کھانا درست ہے۔ سب سے اول اوربہت بڑ ی سند اس بات کے لیے ابودائود کی حدیث ہے باب ذبائح اہل کتاب میں اور حضڑت ابن عباسؓ سے روایت ہے ‘ قال فکلوا مما ذکر اسم اللہ علیہ ولا تاکلوا ممالم بذکر اسم اللہ علیہ فنسخ و استثنیٰ من ذالک فقال طعام الذین اوتو ا لکتاب حل لکم و طعامکم حل لھم (ترجمہ) ’’کہا اللہ تعالیٰ نے پس کھائو تم اس جانور کو کہ ذکر ہو اس پر نام اللہ کا اورنہ کھائو وہ کہ اس پر نہیں ہے ذکر اللہ کا۔ سو منسوخ کیا اس کو اللہ نے اور استثناء کیا اس میں سے تو فرمایا اللہ نے کھانا ان لوگوں کا کہ جن کو دی گئی ہے کتاب حلال ہے تمہارے لیے اورکھاناتمھارا حلال ہے ان کے لیے ‘‘۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے ذبح میں موافقت ہمارے قواعد ذبح کی شرط نہیں ہے۔ دوسری یہ دلیل کہ جو احکام حلال و حرام کے ہمارے مذہب میں ہیں اہل کتاب ان کے مکلف نہیں ہیں‘ بلکہ وہ صرف ایمان لانے کے مکلف ہیں۔ پس جبکہ اہل کتاب کا ذبیحہ خدا تعالیٰ نے ہم کو حلال کر دیا ہے تو اس میں شرط ہے کسی طرح نہیں لگ سکتی کہ جس طرح ذبح کا حکم مسلمانوں کے لیے ہے اسی طرح وہ بھی ذبح کیا کریں‘ یہاں تک کہ بعض روایتوں میںآیا ہے کہ اہل کتاب حضرت مسیح کا نام لے کر ذبح کریں تو وہ بھی اس کا کھانا درست ہے۔ فی المعالم ولو ذبح یھودی او نصرانی علیٰ اسم غیر اللہ کا النصرانی بذبح باسم المسیح فاختلفوا فیہ قال ابن عمر لا یحل وھو قول ربیعۃ و ذہب اکثر اھل العلم انہ یحل وھو قول الشعبی و عطاء الزھری و مکحول سئل الشعبی و العطاء عن النصرانی بذبح باسم المسیح قال لا یحل فان اللہ تعالیٰ قد احل ذبائحھم وھو یعلم ما یقولون وقال الحنس اذا ذبح الیھودی او النصرانی فذکر اسم غیر اللہ وانت تسمع فلا تاکلہ فاذاغاب عنک فکل فقد احل اللہ ذالک (ترجمہ) ’’معالم میں ہے اور اگر ذبح کیا یہودی یا نصرانی نے بنام غیر خدا مثلاً نصرانی ذبح کرے ساتھ نام مسیح کے تو اختلاف ہے اس میں۔ امام ابن عمر نے کہا کہ حلال نہیں اور یہ ہی ہے قوم ربیعہ کا اور گئے ہیں اکثر علماء اس طرف کہ حلال ہے اوریہ قول ہے شعبی اورعطاء اور زھری اور مکحول کا ۔ سوال کیا گیا شعبی اور عطاء سے کہ ایک نصرانی جو ذبح کرے بنام مسیح علیہ السلام کے اس کا کیا حکم ہے۔ انہوں نے کہا کہ حلال ہے ‘ کیونکہ حلال کردئے اللہ تعالیٰ نے ان کے ذبیحہ اور اللہ خوب جانتا ہے نصرانی ذبح کے وقت کیا کرتے ہیں اورحسن بصری نے کہا کہ جب یہودی یا نصرانی ذبح کرے وارنام لیوے غیر خدا کا تو سن لیوے اور تو نہ کھا اس کو اور اگر تیرے سامنے ذبح نہ ہو تو کھائو کہ بے شک اللہ نے یہ کھانا حلال کیا ہے‘‘۔ مگر ہماراعمل ایک وجہ خاص سے اس روایت پر نہیں ہے اورنہ اس پر ہم نے عمل کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور نہ اس پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت سمجھتے ہیں کیونکہ کوئی انگریز کسی ملک میں کسی جانور کو باسم المسیح ذبح نہیں کرتا۔ تیسری یہ کہ اگرچہ حنفی مذہب کی کتابوں میں ا س مسئلہ کی زیادہ تفصیل نہیں ہے الامالکی مذہب کی کتابوں میں بہت تفصیل ہے جو اس مقام پر لکھی جاتی ہے۔ تفسیر امام ابن العربی میں تحت تفسیر آیت و طعام الذین اوتو ا الکتاب (اورکھانا ان کا جن کو دی گئی ہے کتاب) میں لکھا ہے سئلت عن النصرانی یقتل عندہ الدجاجۃ ثم یطبخھا ھل تعکل معہ او توخذ منہ طعاما فقلت توکل لانھا طعاما و قدا جتازہ رھبانہ و ان لم تکن ھذہ زکوۃ عندنا ولکن اللہ اباح طعامھم مطلقا و کلما رایتا ہ حلالا لھم بمائدتھم فھو حلال لنا الا ماوردنص فی حرمتہ انتھی کلامہ باختصارہ۔ (ترجمہ) ’’پوچھا گیا مجھ سے کہ نصرانی جو قتل کرے مرغی اور پکائے اس کو تو آیا کھائی جائے ساتھ اس نصرانی کے یا لیا جاوے اس میں سے کچھ کھانے کے لیے تو میں نے کہا کہ کھائی جاوے کیونکہ وہ کھانا ہے نصرانی کا اور جائز کیا ہے اس کو علماء نے اگرچہ نہیں ہے یہ ذبح ہمارے یہاں مگر اللہ نے مباح کر دیا ہے ان کا کھانا مطلقاً اور جو کھانا کہ دیکھیں ہم ان کے سے حلال ان کے دستر خوان پر تو وہ حلال ہے ہمارے لیے الا وہ کھانا کہ وارد ہوا ہے صریح حکم اس کی حرمت کا تمام ہوا کلام اس کا بالاختصار۔ اس کے سوا معیار میں لکھا ہے : سئل یعنی ابو عبداللہ العجار عما ذکرہ ابن العربی عند قول اللہ تعالیٰ وطعام الذین اوتوا الکتاب حل لکم اذا سئل عن النصرانی یسل عنق الدجاجۃ ثم یطبخھا ھل توکل معہ اوتو خذمنہ طعاما فقال توکل لانھا طعامہ وھل ذالک قول فی المدونۃ یجوز الفتویٰ بہ ام لا وھل یجوز للانسان فی خاصۃ نفسہ ان یعتمدہ ع یعمل بہ ام لا وقال بعد ذالک کلما یرونہ حلالا فی دینہم فہو حلال لنا الا ما ورد نص فی حرمتہ فاجاب وقفت علی السوال فی مسئلۃ فک النصرانی رتبۃ الدجاجۃ ھل یاکلھا المسلم معہ او یاخذھا منہ طعاما فافتی القاضی ابن العربی بجو از ذالک ولم تزل الطلبہ و الشیوخ تستشکلھا ولا اشکال فیھا عند صاحب الشامل لان اللہ تعالیٰ اباح لنا طعامھم الذی یستحلونہ فی دینھم علی الوجہ الذی شرح ولا یشترط ان تکون زکوتھم موافقۃ لزکاتنا فی ذالک الحیوان المزکی ولا یستثنی الا ما حرم اللہ علینا علی الخصوص کالخنزیر و ان کان من طعامھم و یستحلونہ بالزکوۃ التی یستحلون بھابھیمۃ الا نعام کالمیبتۃ وامامالم یحرم علینا علی الخصوص فہو مباح لنا کسائر اطعمتھم وکلما یفتقرالی الزکوۃ من الحیوانات فاذازکہ علیٰ مقتضیٰ دینھم احل لنااکلہ ولا یشترط فی ذالک موافققۃ زکوتنا لزکوتھم و ذالک رخصۃ من اللہ تعالیٰ تیسر علینا فاذا کانت الزکوۃ مختلفۃ فی شرعنا فتکون ذبحا فی بعض الحویانیات و نحرا فی بعض و عقرا فی بعض و قطع عضو الراس و شبھہ کماہی زکوۃ افراد او و ضعا فی ماء جار و ذالک فی الحلزون فاذا کان الا ختلاف موجوداً بالنسبۃ الی الحیوانات فی شرعنا فکذالک قد یکون فی شرع غیر ملتنا سل عنق الحیوان علی وجہ الزکوۃ فاذا فعل الکتابی ذالک اکلنا طعامہ کما اذن لنا ربنا سبحانہ ولا یلزمنا ان نبعث علیٰ شریعتھم فی ذالک بل اذا رائینا ذوی دینھم یستحلون ذالک اکلنا قال القاضی لانھا طعام احبارھم و رھبانھم الیٰ ان قال و اماقولکم ھل ذالک قول فی المذہب و ھل یجوز الفتویٰ بہ امر لا فھو کلام منکر مشکل لان ظاہرہ ان مایفتیٰ بہ من تعاطریٰ من المسلمین ذالک ولا خلاف ان المسلم اذا سل عنق الدجاجۃ او غیرھا انھا میتۃ و انما کلام القاضی اذا کان المسلم مع کتابی فعل الکتابی ھل یا کل المسلم ذالک الطعام ام لا فقال القاضی بجوز للممسلم لا یفعل ذالک بحیوان فقولکم ھل ذالک قول فی المذھب و ھل یجوز الفتویٰ بہ کلام غیر محصل بل ھل المذہھب کلھم یقولون و یفتون ان کل طعام اھل الکتاب حلال لنا الا ما خصص من ذالک کما تقدم فھذہ المسئلۃ مما لا یختلف فیھا ولا یتوفف علیٰ الفتویٰ بھا ان ماوقع استشکال کلام القاضی ولا اشکال فیہ اذا تامل فیہ علیٰ الوجہ الذین تقرر انتھیٰ نقل صاحب المعیار باختصارہ۔ (ترجمہ) ’’پوچھا گیا ابوعبداللہ العجار سے و مسئلہ کہ ذکر کیا ہے اس کا ابن العربی نے پاس قول اللہ تعالیٰ کے اورکھانا ان کا جن کو دی گئی ہے ۔ کتاب حلال ہے تمہارے لیے جب کہ سوال ہو ا ان سے بابت اس نصرانی کے کہ اکھاڑ لیوے گردن مرغی کی اور پکاوے اس کو تو کھاوی جواوے وہ مرغی ساتھ اس نصرانی کے یا لیا جاوے اس میں سے کچھ کھانے کو تو کہا ابن العربی نے کھاوی جاوے کیونکر وہ کھانا ہے نصرانی کا اور کیا یہی حکم ہے کتابوں میں فتویٰ دینا اس پر جائز ہے یا نہیں اور کیا جائز ہے انسان کو ک خاص اپنے لیے اس پر اعتماد کرے اور عمل کرے اورکہا ہے ابن العربی نے بعد اس قول کے سب چیزیں کہ حلال جانتے ہیں وہ لوگ اپنے دین میں حلال ہے ہم کو سوائے اس کے حکم آیا ہے اس کے حرام ہونے کا تو جواب دیا ابوعبداللہ العجار نے کیا واقف میںاس سوال سے بیچ مسئلہ توڑ ڈالنے نصرانی کے گردن مرغی کی کہ کھاوے مسلمان وہ مرغی ساتھ اس نصرانی کے یا لیوے ا س میں سے کچھ کھانے کو سو فتویٰ دے چکے ہیں قاضی ابن العربی اس کے جواز کا اور طالب علم اور مشائخ ہمیشہ اس کے شبہ میں رہتے ہین اور حال یہ ہے کہ کچھ شبہ نہیں ہے نزدیک صاحب شمل کے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مباح فرمایا ہے ہمارے لیے ان کا کھانا کہ جس کو حلال جانتے ہیں وہ لوگ اپنے دین میں جس طرح پر کہ ان کے دین میں حکم شرع ہے اورنہیں ہے یہ شرط کہ ذبح ان کا ہمارے ذبح کے موافق ہو اس حیوان حلال کے ہونے میں اور ان کا کوئی کھانا اس حکم سے مستثنیٰ نہیں ہے سوائے ان چیزوں کے کہ خاص ہم پر اللہ نے حرام کی ہیں مثلاً سور اگرچہ ہے ان کا کھانا اور حلال کرتے ہیں اس کو ساتھ ایسے ذبح کے کہ جس سے حلال کرتے ہیں جو پائوں کو اور مثلا مردار مکروہ چیزیں کہ حرام نہیں خاص ہم پر مباح ہیں ہم کو جیسے کہ سب کھانے ان کے ہم کو حلال ہیں اور جتنے جاندار کہ حاجت ان کے ذبح کی ہوتی ہے ہم کو اس کا کھانا اور نہیں شرط ہے اس میں کہ ان کے ذبح موافق ہو ہمارے ذبح کے اور یہ اجازت ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اورآسانی سے ہم پر۔ پس جب کہ ہے ذبح ہماری شریعت میں مختلف قسم پر کہ بعض حیوان کا ذبح ہے یعنی گلا کاٹنا اور بعض کا نحر‘ یعنی سینہ کاٹنا اور بعض کا عقر ‘ یعنی زخمی کرنا اوبعض کا سر وغیرہ اعضا کا کاٹنا جیسے کہ ذبح افراد کی ہے یا ڈالنا گرم پانی میں اوریہ کہ اس کیڑے میں ہوتاہے کہ چراگاہ شتر اور گیاہ شور میں پیدا ہوتا ہے۔ پس جب کہ اختلاف ذبح بہ نسبت حیوانات کے ہماری شریعت میں ہوتا ہے تو ایسا ہی ہو سکتا ہے کہ ہووے اختلاف ذبح اور شریعت میں بھی توڑی گئی گردن کسی جاندار کی واسطے ذبح کرنے اس کے سو اگر کتابی نے یہ کیا ہے تو ہم کھائیں گے یہ کھانا اس کا کیونک اجازت دی ہم کو ہمارے رب سبحانہ نے اور لازم نہیں ہے ہم کو کہ بحث کریں ان کی شریعت پر اس باب میں‘ بلکہ جب دیکھیں ہم کہ ان کے دیندار لوگ حلال جانتے ہیں اس کو تو کھائیں ہم وہ ۔ کہا ہے قاضی نے اس لیے کہ یہ کھانا ان کے عالموں اور ان کے پرہیز گاروں کا ہے ۔ یہاں تک کہ فرمایا قاضی نے کہ اور یہ کہنا تمہارا کہ کیا یہ قول ہے مذہب میں اور کیا اس پر فتویٰ جائز ہے یا نہیں۔ ایک بات نہایت نا پسند اور شبہ دراز ہے اس واسطے کہ ظاہر قول قاضی کا یہ ہے کہ وہ یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ اس کو کہ آمدورفت کرے اور معاملہ رکھے اس ے ساتھ مسلمانوں میں سے اس کا اور اس میں کچھ خلاف نہیں ہے کہ مسلمان توڑ ڈالے اگر گردن مرغی کی یا کسی اور جانور کی تو بے شک وہ مردار ہے اورکلام قاضی کا صرف اس میں ہے کہ جب مسلمان ہو کتابی کے ساتھ اور اس کتابی نے ی ہ کیا تو وہ مسلمان بھی یہ کھانا کھاوے یا نہیں تو قاجی نے فرمایا جائز ہے مسلمان کو اس کا کھانا کیونکہ مسلمان یہ کام نہیں کرتا ہے کسی جاندار کے ساتھ۔ سو یہ کہنا تمہارا کہ یہ قول مذہب میں ہے اور اس کے ساتھ فتوی ٰ بھی ہے ایک بات لا حاصل ہے۔ بلکہ سب اہل مذہب کہتے ہیں اور فتویٰ دیتے ہیں کہ کھانا اہل کتاب کا ہم کو حلال ہے سوا س کے کہ خاص ہے اس میں جیسا کہ اوپر گزرا۔ سو یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے اورکچھ توقف اس فتوے کے دینے میں نہیں ہو سکتا ہے اس سے کہ واقع ہووے اشتباہ کلام قاضی میں اورحال یہ ہے کہ کچھ شبہ نہیں ہو سکتا ہے اس میں جب کہ تامل ہووے جس طور کہ ثابت ہوا۔ تمام ہوئی نقل صاحب معیار کی بالاختصار‘‘۔ اور یہ بات منقح ہو چکی ہے کہ اگر کوئی شخص مقلد کسی ایک امام کا ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک خاص مسئلہ میں کسی دوسرے امام کی تقلید کرے تو ناجائز نہیں ہے خصوصاً ایسی صورت میں کہ اس کی نصریح اس کے مذہب میں موجو د نہ ہو۔ پس اسی روایت پر مذاہب اربعہ کے مقلد عمل کر سکتے ہیں۔ تیسری صورت یہ ہے کہ جو گوشت ہمارے سامنے آیا ہے نہ تو معلوم ہے کہ اس کو کسی مسلمان نے ذبحکی اہے اورنہ یہ معلوم ہے کہ اس کو کسی کتابی نے مطابق اپنے طریقہ کے مزکی کیا ہے اور نہ یہ معلوم ہے کہ اس کو کسی مشرک نے مارا ہے‘ کیونکہ انگریزوں کو مشرک کے مارے ہوئے جانور کے کھانے مٰں بھی کچھ پرہیز نہیں ہے اور ہندوستان میں زیادہ تر شبہ اس لیے ہوتا ہے کہ انگریزوں کے ہاں چمار تک باورچی اور خدمت گار ہوتے ہیں پس کیا تعجب ہے کہ کسی مشرک نے اس کو مارا ہو۔ اس کے جواب میں ہم کہتے ہیںکہ درحقیقت اس میں کچھ شک نہیں کہ مشرک کا مارا ہوا حرام ہے مگر اس شبہ پر جو بیان کیا گیا عمل کرنے کے دو طریق ہیں۔ ایک بموجب فتویٰ کے اور ایک بہ طریق احتیاط کے۔ عمل اوپر فتویٰ کے یہ ہے کہ جب طعام اہل کتاب کا ہمارے سامنے آیا ہے جس کو بنص صریح خدا تعالیٰ نے حلال کر دیا ہے تو ہم کو اس بات کی تفتیش کی کہ کس نے ذبح کیا اور کیونکر ذبح ہوا ہے کچھ حاجت نہیں اور جب تک ہم کو ثابت نہ ہو جاوے کہ وہ مشرک کا مارا ہوا ہے اس وقت تک اس کے کھانے سے انکار کرنے کی یا اس کے کھانے کو ناجائز سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں تحسینا للظن بہ کما بالمسلم کماذکرنا انفا من العالمگیری (بہ سبب حسن ظن کے ساتھ کتابی کے جیسا کہ حسن ظن کے ساتھ مسلمان کے ہے چنانچہ ذکر کیا ہم نے ابھی عالمگیری میں سے) لیکن جب معلوم ہو جاوے گا کہ مشرک کا مارا ہوا ہے تو البتہ اس وقت اس کا کھانا ممنوع اور حرام ہے اور طریقہ احتیاط یہ ہے کہ اگر ایسا شبہ یا وھم دل میں آوے تو دریافت کر لیں۔ اگر درحقیقت مشرک نے قتل کیا ہو نہ کھاویں مگر اس شبہ خاص سے عموماً طعام اہل کتاب کیوں ناجائز ہو گا۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ اگر ہم بلا کسی بحث کے نسبت ذبائح اہل کتاب کے یہ بات فرض کر لیں کہ تمام ذبائح بجز اس سورت کے کہ اس کو مسلمان نے ذبح کیا ہو یا اہل کتاب نے مسلمانوں کے قواعد ذبح کے موافق ذبح کیا ہو حرام اور ناجائز ہیں تو بھی صرف اسی گوشت کا کھانا ناجائز ہو گا جو اس طرح کے ذبح سے حاصل ہوا ہے۔ نہ اس کا جو مسلمان یا اہل کتاب مسلمانوں کے قاعدہ کے موافق ذبح سے حاصل ہوا ہو اورنہ ان چیزوں کا جن میں ذبح ہوتا ہی نہیں مثلا روٹی ‘ چاول ‘ انڈا‘ شیرینی وغیرہ۔ پس صرف گوشت کی نسبت ہر شخص دریافت کر سکتا ہے کہ کس طرح حاصل ہوا ہے ۔ اس کو نہ کھایا جاوے۔ یہی طریق ہم مسلماونں میں بھی جاری ہے۔ جب کوئی شیعہ ہمارے دستر خوان پر آتا ہے اور ہمارے ہاں مچھلی پکی ہوئی طیار ہے تو وہ پوچھتا ہے کہ یہ فلس دار ہے یا بے فلس۔ اگر بے فلس مچھلی ہووے تو وہ نہیں کھاتا کہ اس کے مذہب میں بے فلس کی مچھلی کھانا منع ہے ۔ پس اگر ہم کو بہ احتیاط ہو تو یہی طریقہ ہم کو اہل کتاب کے ساتھ برتنا چاہیے۔ الشبھۃ الرابعۃ (چوتھا شبہ) انگریزوں کے ہاں کھانا پکانے والے چمار تک ہوتے ہیں تو ان کا پکایا ہوا کھانا کس طرح جائز ہو سکتا ہے یہ شبہ ایسی صورت میں کہ مسلمانوں کے ہاں پکا ہوا کھانا ہو اور انگریز شریک ہوں یا انگریزوں کے ہاں کا کھانا پکانے والے مسلمان ہوں نہیں ہو سکتا۔ باقی رہی یہ بات کہ کھانا پکانے والا انگریز یا کوئی اورہو مشرکینمیں سے اگر انگریز ہے تو اہل کتاب ہے جس کے پکائے ہوئے کھانے میں کچھ محذور شرعی نہیں ہے اور اگر وہ مشرک ہے تو بموجب مذہب اہل السنت و المجماعت کے مشرکین میں کوئی نجاست ظاہری نہیں۔ نی العنایۃ شرح الھدایۃ قال اللہ تعالیٰ انما المشرکون نجس قلت النجاسۃ فی اعتقادھم لا فی ذاتھم (عنایہ شرح ہدایہ میں ہے فرمایا اللہ تعالیٰ نے صرف مشرکین ناپاک ہیں۔ کہتا ہوں میں نجاست ان کے اعتقاد میں ہے نہ ذات میں) پس جس طرح کہ ہ بلا تردد و تامل کے ہندوئوں کے ہاں کا پکایا ہوا کھانا اور حلوائیوں کی مٹھائی کھاتے اسی طرح اس کو بھی کھائیں گے۔ جیسا احتمال اس بات کا ہے کہ اسے انگریز یا مشرک پکانے والے پکانے میں بے احتیاطی کی ہو اس سے بہت زیادہ احتمال حلوائیوں کی مٹھائی اور دودھ اور ہندوئوں کے پکے ہوئے کھانے میں ہے۔ خصوصاً اس کھانے میں جو چوکے میں بنایا گیا ہو کہ بدون گوبر کے لیپنے سے چوکا ہو وہی نہیں سکتا۔ پس جبکہ ہم ان کے کھانے میں کچھ تامل نہیں کرتے تو انگریزوں کے ہاں کھانے میں اگر اس کو کسی مشرک نے پکایا ہو تو کیوں تامل کریں گے ۔ لان کل ذالک محکوم بطھارتہ حتی تیقن بنجاستھا (کیونکہ اس سب کے پاک ہونے کا حکم ہے جب تک کہ اس کی نجاست کا یقین ہو جاوے)۔ جناب مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اسی مسئلہ کے مانند ایک فتویٰ پوچھا گیا اور انہوںنے جواز کا فتویٰ دیا چنانچہ وہ فتویٰ بعینہ نقل کیا جاتا ہے: قول المستفتی ما تقولوں ان الادویۃ المرکبۃ الرطبۃ اتی یصنعونھا اہل الحرب فی دارھم من الادھان و میاہ الشجار وغیرھا ھل یجوز استعمالہ للمسلینمن فی دار الاسلام من غیر ضرورۃ شدیدۃ تبیع المحذورات ام لایجوز وھل تعود النجاسۃ عند استعمال الادویۃ بالسحق مع الماء او الادھان ام لا وما حکم مداواتھم و قرطاسھم اذا بلت طاہر او نجس و کذا صمغ الثی یختمون بھا مکتوبھم بعد ان تبل بلعاب الفم ھل یجوز للمسلم ان یدخلھا فی فمہ لیکون صالحا للختام وھی ایضا من مصنوعاتھم فی دیارھم۔ (ترجمہ) ’’قول فتویٰ لینے والے کا۔ کیا کہتے ہو تم کہ دوائیں مرکب اور تر کہ بناتے ہیں اہل حرب اپنے ملک میں مثلاً تیل اور درختوں کے مدھ وغیرہ تو جائز ہیں مسلمانوں کو ان کا استعمال اپنے ملک میں بغیر ضرورت سخت کے کہ مباح کرتی ہے ممنوعات کو یا نہیں جائز ہے اور کیا پھر آ جاتی ہے نجاست بروقت استعمال دوا خشک کے ساتھ پسینے کے پانی میں یا تیل میں یا نہیں اور کیا حکم ہے دوا کرنے ان کا اور کاغذ کا جب کہ گیلا ہو جاوے پاک یا ناپاک اور ایسا ہی وہ گوند کہ بند کرتے ہیں اس سے وہ اپنے خطوط گیلا کر کے اپنی تھوک سے تو کیا جائز ہے مسلمان کو کہ لیوے اس گوند کو اپنی منہ میں تاکہ اس کو درست کرے خطوط بند کرنے کے لیے اوروہ گوند بنایا ہوا بھی ہے ان ہی کے ملک میں۔ (جواب) یجوز استعمال الادویۃ المذکورۃ والصمغ وغیرھا من مصنوعات اہل الشرک بحکم ھذہ الروایۃ لعموم البلویٰ او عدم التقین بالنجاسۃ قال ابو حفصان البخاری من شک فی انائہ و ثوبہ او یدیہ اصابہ النجاسۃ طاہر مالم یتیقن وکذالک الابار والحیاض التی یتخذھا اہل الشرک والبطالۃ وکذالک الثیاب التی ینسجھا اھل الشرک والجھلۃ من اھل الاسلام وکذالک الجیاب الموضوعۃ والمرکبۃ فی الخرق والعمامات التی یتوھم فیھا اصابۃ النجاسۃ کل ذالک محکوم بطھارۃ حتی یتیقن بنجاستھا واصل ذالک ماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ استسقیٰ و اصل ذالک ماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ استسقیٰ عبدالرحمان بن عوف فقال اسقیک من جرۃ بخمرۃ ااو من الجب الذی یشرب منہ الذی یشرب منہ الناس فقال علیہ السلام من الجب الذی یشرب منہ الناس وروی عن محمد بن واسع ان رجلا جاء الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللہ اجرۃ ابیض مخمرۃ ای مستورۃ اتوضا بہ احب الیک ام وضو جماعۃ المسلمین قال وضوع جماعۃ المسلمین احب الادیان الی اللہ الحنیفیۃ السمحۃ فتاویٰ عمادیۃ واللہ اعلم۔ وفی الھدایۃ سور الادمی ومایوکل لحمہ طاہر لان المختلط بہ اللعاب و قد تولد من لحم طاہر و یدخل فیہ الجنب والحائض والنفساء والکافر وفی الکافی شرح الھدایۃ ثبت فی الصحیحین اذلم حکم بنجا سۃ لا حتاج کل جنب وحائض الیٰ اناء علیھدۃ وفیہ الحرج کما لا یخفی وفی العنایۃ شرح الھدایۃ ثبت فی الصحیحین ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم ممکن ثما مۃ ابن اثالۃ فی المسجد قبل اسلامہ فلو کان نجسا لما مکنہ من ذالک فان قلت قال اللہ تعالیٰ انما المشرکون نجس قلت النجاسۃ فی اعتقاد ھم لا فی ذاتھم انتھیٰ۔ (ترجمہ) جواب ۔جائز ہے استعمال ان دوائو مذکورہ کا اور اس گوند وغیر ہ کا کہ بنائی ہوئی ہیں اہل شرک کی بموجب حکم اس روایت کے واسطے عموم بلویٰ کے اور عدم تیقن نجاست کے۔ کہا ابو حفص بخاری نے جس شخص نے کہ شک کیا اپنے برتن میں یا اپنے کپڑے یا اپنے ہاتھوں میں کہ لگی ہے اس کو نجاست یا نہیں سو وہ پاک ہے جب تک کہ یقین نہ ہو اور ایسے ہی وہ کنوئیں اور حوض کہ بناتے ہیں ان کو اہل شرک اور بطالت اور ایسے ہی وہ کپڑے کہ بنتے ہیں ان کو اہل شرک یا جاھل مسلمان اورایسے ہی وہ تھیلیاں کہ رکھی ہوں یا لگائی ہوں خرقوں میں اور عماموں میں کہ جن میں وھم ہووے لگنے نجاست کا ‘ سو اس حکم طہارۃ کا ہے جب تک کہ یقینا نجاست نہ ہووے اور اس سب کی اصل وہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی مانگا عبدالرحمان بن عوف سے تو انہوں نے کہا کہ جو مٹکا ڈھکا ہوا ہے۔ اس میں سے پانی پلائوں یا اس تالاب سے کہ جس میں لوگ سب پیتے ہیں اورروایت ہے کہ امام محمد بن واسع سے کہ ایک شخص آیا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اورکہا کہ بلند مٹکا جو ڈھکا ہو اہے اس میں سے وضو کروں تویہ آپ کو پسند ہے یا وہ پانی کہ جس میں جماعت مسلمانوں کی وضو کرتی ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ پانی جس میں جماعت مسلمانوں کی وضو کرتی ہے۔ سب دینوں میںوہ دین اللہ کو پسند ہے کہ راست ہو اور آسان ہو۔ فتویٰ عمادیہ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ اورہدایہ میںہے کہ جھوٹا آدمی کا یا اس جانور کا کہ کھایا جاتاہے گوشت اس کا پاک ہے ۔ کیونکہ جو ملا ہے اس میں وہ لعاب دہن ہے اوریہ لعاب پیدا ہوتا ہے گوشت پاک سے اور داخل ہیں اسی حکم میں جنابت والے اور حیض و نفاس والی عورتیں اور کافر اور کافی شرح ھدایہ میں ہے ‘ کیونکہ اگر حکم ان کی نجاست کا کریں تو بے شک حاجت مند ہو ں گے سب جنبی اور حیض و نفاس والی عورتیں علیحدہ برتن کے اور اس میں بہت جرح ہے کہ یہ پوشیدہ نہیں ہے اور عنایہ شرح ھدایہ میں ہے کہ ثابت ہے صحیح بخاری اور مسلم میںکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھہرایا ثمامہ بن اثالہ کو مسجد میں ا س کے مسلمان ہونے سے پہلے۔ پس اگر نجس ہوتا تو اس کو مسجد میںنہ ٹھہراتے۔ پھر اگر تو یہ اعتراض کرے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مشرک لوگ ناپاک ہیں تو ہم جواب دیتے ہیں کہ نجاست ان کے اعتقاد میںہے نہ ذات میں‘‘۔ با ت یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں حقیقت مسائل شرعیہ کی علی الخصوص ان مسائل کی جن کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا یا بالتصریح ان کے جائز ہونے کا حکم دیا بخوبی مستحکم ہے اوربہ مقابل ان مسائل کے نہ لوگوں کے برا بھلا کہنے کی کچھ حقیقت سمجھتا ہے اورنہ اس کو اپنے مریدوں اور شاگردوں کے اور وعظ سننے والوں کے پھر جانے کا اندشہ ہے اورنہ نذر و نیاز کے بند ہونے کا کچھ خدشہ ہے اس کے لیے ان تمام شبہات وھیمہ کے دور کرنے کے لیے صرف یہ فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ آپ نے یہودی کے ہاں کا پکا ہوا کھانا بغیر کسی خدشہ کے کھایا اور جب آپ نصایٰ کے ہاں کھانے کے باب میں پوچھا گیا تو آپ نے صاف فرمایا لا یتخلجن فی صدرک طعام (نہ خلجان ڈالے تیرے سینہ میں کوئی کھانا) کافی و وافی ہے کیونکہ یہ شبہات جس قدر کہ پیش کیے جاتے ہیں یہی تمام شبہات اس وقت بھی موجود تھے اور باوجود ان تمام باتوں کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لا یتخلجن فی صدرک طعام پس جس کسی کا اتقا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے اتقا سے بڑھا ہوا ہو وہ ان شبہاب وھیمہ پر طعام اہل کتاب سے بچنے کا دعویٰ کرے۔ الشبھۃ الخامسۃ (پانچواں شبہ) جن برتنوں میں کہ کھانا انگریزوں کے یہاں پکتا ہے اورجن برتنوں میں کھایا جاتاہے ان کے پاک ہونے کا کس طرح یقین ہو سکتا ہے؟ یہ شبہ اس صورت سے کہ انگریز مسلمان کے گھر آن کر مسلمان کے یہاں کا پکا ہوا کھانا کھایں متعلق نہیں ہو سکتا البتہ اس صورت سے کہ مسلما ن انگریزوں کے گھر جا کر کھاویں متعلق ہو سکتا ہے پس ایسی حالت میںیہ بات دیکھنی چاہیے کہ وہ برتن کس قسم کے ہیں۔ آیا تانبہ یا چینی یا شیشہ کے ہیں کہ جن میں اثر اشیاء محرمہ کا اگر ان میںکھائی یا پی گئی ہوں نفوذ نہیں کرتا ہے یا مٹی وغیر ہ کی قسم کے ہیں کہ جن میں اثر ان کا نفوذ کرتا ہے تو پس اگر وہ برتن قسم اول کے ہیں ور دھوئے ہوئے ہیں تو ان میںکھانا بے خدشہ مباح اور درست ہے اور اگر وہبے دھوئے ہوئے ہیں اور ان میں محرمات کے کھائے جانے کا صرف احتمال ہے یا ظن غالب ہے مگر یقین نہیں اورنہ کوئی ظاہری نجاست ان میں ہے تو بغیر دھوئے ہوئے میںکھانا مکروہ ۔ یعنی بے احتیاطی ہے مگر حرام یا ممنوع شرعی نہیں۔ لان کل ذالک محکوم بطھارتہ حتی تیقن بنجاستھا (کیونکہ اس سبب کے پا ک ہونے کا حکم ہو چکا ہے جب تک کہ اس کے ناپا کے ہونے کا یقین ہووے) اور یہ حکم کچھانگیرزوں ہی کے برتنوں سے متعلق ہے جو ان چیزوں کو کھاتے پیتے ہیں جن کا کھانا پینا ہماری شریعت میںحرام ہے ‘ اور اگر وہ برتن قدم دوم کے ہیں جن میںاثر نفوذ کرتا ہے جیسا کہ مٹی کے برتن اور ہم اس بات کا یقین ہے کہ ان میں شراب پی گئی ہے یا سور پکایا گیا ہے تو ان کے واسطے یہ حکم ہے کہ اگر اور برتن ملیں تو ان میں نہ کھاویں‘ اگر اوربرتن نہ ملیں تو ان کو دھولیں اور کھاویں۔ ابودائود میں ابو ثعلبہ الخشنی سے روایت ہے : سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال انا نجاوز اھل الکتاب و ھم یطبخون فی قدورھم الخنزیر و یشربون فی آنیتھم الخمر فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان وجدتم غیر ھا فکلو ا فیھا و اشربوا وان لم تجدوا غیرھا فارحضوھا بالماء وکلو ا واشربوا۔ (ترجمہ) ’’پوچھا ابو ثعلبہ الخشنی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ ہمارا گزر ہوتاہے اہل کتاب پر اور وے پکاتے ہیں اپنی ہانڈیوںمیں سور اور پیتے ہیں اپنے برتن میں شراب تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر پائو تم اور برتن تو کھائو اورپیو ان میں اور اگر اور برتن نہ پائو تو ان کو پانی سے دھو کر ان میںکھائو پیو‘‘۔ اور صحیح مسلم میں اس حدیث کے یہ الفاظ ہیں: فن وجدتم غیرھا فلا تاکلوا فیھا وان لم تجدوا فاغسلوھا وکلوا فیھا (اگر پائو تم اور برتن تو نہ کھانا ان میں اور اگر نہ پائو تم اور برتن تو یہی دھو لو اور ان ہی میں کھائو)۔ ان حدیثوں کی نسبت بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب اور برتن ملیں تو پھر انگریزوں کے برتنوںمیںکھانا نہ چاہیے مگر ایسا سمجھنا تین وجہ سے غلط ہے۔ اول یہ کہ یہ حدیث ان برتنوںسے متعلق ہے جن میں شراب اور سور کھایا پکایا جاتا ہے۔ اس زمانہ میں انگریزوں کے یہاں جو عام رواج ہے اس میں شراب پینے کے برتن بالکل علیحدہ ہیں اور سور کھانے کے برتن بالکل علیحدہ ہیں‘ بلکہ ہر قسم کے کھانے کے برتن جدا جدا ہیں۔ پس یہ حدیث ان برتنوں سے جو سور اور شراب کے کھانے کے نہیں ہیں متعلق نہیںہو سکتی۔ دوسری جگہ یہ حدیث ان برتنوںسے متعلق ہے کہ جس میں اثر ماکول اور مشروب کا سرایت کرتا ہے۔ تیسری یہ کہ تمام علماء نے اس حدیث کی شرح میںلکھا ہے کہ یہ نہی احتیاطی ہے اور انگریزوں کے برتنوں میں دھونے کے بعد کھانے کے باوجود یکہ اور برتن موجود ہوں کچھ کراھت بھی نہیں ہے۔ چنانچہ ہم اس مقام پر وہ روایتیںنقل کرتے ہیں۔ شارح مشکوۃ ملا علی قاری لکھتے ہیں: لا تاکلو فیھا ای احتیاطا فااغسلوھہ امرو جوب ان کان ظن النجاسۃ والا فامر ندب (نہ کھائو ان برتنوں میں‘ یعنی احتیاط کے لیے پس دھوئو ان کو ۔ یہ حکم وجوبی ہے اگر ہووے گمان نجاست ورنہ یہ حکم استحبابی ہے)۔ اورامام نووی نے شرح صحیح مسلم میں کتاب الصید و الذبائح میں لکھا ہے: قد یقال ھذ ا الحدیث مخالف لما یقول الفقھا فانھم یقولون بجوز استعمال اوانی المشرکین اذا غسلت ولا کراھۃ فیھا بعد الغسل سواء وجد غیرھا ام لا و ھذا الحدیث یقتضی کراھۃ استمالھا ان وجد غیرھا ولا یکفی غسھا فی نفی الکراھۃ واما یغسلھا و یستعملہا اذا لم یجد غیرھا والجواب ان المراد النھی عن الاکل فی آنیتہم التی کانوا یطبخون فیھا لحم الخنزیر ویشربون الخمر کما صرح بہ فی روایۃ ابی دائود وانما نہی ان الاکل فیہا بعد الغسل للاستقذار وکوفھا معتادۃ للنجاسۃ لما یکرہ الاکل فی المحجمۃ المغسولۃ واما الفقھاء فمرادھم مطلق آنیۃ الکفار التی لیست مستعملۃ فی النجاسات فھذہ یکرہ استعمالھا قبل غسلھا فلا کراھۃ فیھا لانھا طاہرۃ ولیس فیھا استقذار ولم یریدو ا نفی الکراھۃ عن آنیتہم المستعملۃ فی الخنزیر و غیرہ من النجاسات واللہ اعلم ۔ (ترجمہ) ’’کہتے ہیں کہ یہ حدیث مخالف ہے قول فقہا ء کے کہ وے کہتے ہیں جائز ہے استعمال مشرکین کے برتنوں کا جب دھوئے جاویں اورکچھ کاہت ان میں نہیں بعد دھونے کے اور برتن ان کے سوا موجود ہوں یا نہ ہوں اوریہ حدیث مقتضی ہے اس کی کہ استعمال ان برتنوں کا مکروہ ہے‘ اگر اور برتن ان کے سوا موجود ہوں اور صرف دھونا ہی ان کا کافی نہیں ہے کراہت دور کرنے کے لیے بلکہ دھووے اور برتے ان کو جب نہ موجود ہوں اور برتن اور جواب یہ ہے کہ مراد اس حدیث سے یہ ہے کہ منع کرنا کھاتے سے ان کے اس برتن میںکہ پکاتے ہیں اس میں گوشت سور کا اورپیتے ہیں اس میں شراب ۔ چنانچہ یہ ہی تصریح ہے روایت ابودائود میں اور منع کیا گیا ہے ان میںکھانا غسل کے بعد صرف گھن کے سب اور اس لیے کہ ان میں نجاست ہی کی عادت ہے۔ چنانچہ مکروہ ہے کھانا پچھنوں کے برتن میں جو کہ دھویا گیا ہے اور فقہاء کی مراد یہ ہے کہ مطلق برتن کافروں کے جو نجاستوں میں مستعمل نہیں ہیں مکروہ ہے ان کا استعمال دھونے سے پہلے او جب ان کو دھو لیا ہے تو کچھ کراہت نہیں کہ وہ پاک ہیں اور نہیں ہیں ان میں کچھ گھن اور نہیں مراد ہے فقہاء کی یہ کہ کراہت نہیں ہے ان میں کچھ گھن اور نہیں مراد ہے فقہاء کی یہ کراہت نہیں ہے ان کے ان برتنوں میں جو مستعمل ہوتے ہیں خنزیر وغیرہ نجاستوں میں واللہ اعلم‘‘۔ علاوہ اس کے ابو دائود میں جو دوسری حدیث جابر سے روایت ہے اس میں صاف بلا کسی خدشہ اور بلا کسی قید کے مشرکین کے برتنوں کا استعمال آیا ہے اوروہ حدیث یہ ہے : عن جابر قال کنا نغزو ا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فنصیب من آئیۃ المشرکین واسقیتھم فنستمع بھا فلا یعیب ذالک علیھم ۔ (ترجمہ) ’’جابر سے روایت ہے کہ ہم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑائیوں میں جاتے تھے تو ملتے ہم کو برتن مشرکوں کے اور پانی کے برتن ان کے تو برتتے ہم ان کو سو حضرت عیب نہیںنکالتے تھے اس کا ہم پر ۔ وقد سئل مولانا عبدالعزیز المحدث الدھلوی عن ھذا فاحباب ھکذا کما ھو مذکور فی فتاواہ و ھذہ عبارتہ۔ یکرہ الاکل والشرب فی اوانی المشرکین قبل الغسل ال ان الغالب والظاہر من اونیھم النجاسۃ وانھم یستلحون الخمر و یشربون ذالک ویاکلون و یطمعون فی قدورھم و فی قصاعھم و اوانیھم فکرہ الاکل فیھا قبل الغسل اعتبارا للظاہر کما کرہ التوضی بسور الدجاجۃ لانھا لا تتوقی من النجاسۃ غالبا لان الاصل فی الاشیاء الطھارۃ و تشکیکا فی النجاسۃ فلم یثبت النجاسۃ باشک ھذا اذا لم یعلم بنجاسۃ الا وانی افاذا علم فانہ لا یجوز ان یشرب فیھا قبل الغسل ولا اکل وشرب کان شاربا و آکلا حراما ھذا حاصل ماذکر فی الذخیرۃ۔ (ترجمہ) ’’اورپوچھا گیا شاہ عبدالعزیز سے اس کا حکم تو ی جواب دیا کہ وہ مذکور ہے ان کے فتاویٰ میں اور ان کی عبارت ی ہے: مکروہ ہے کھانا اور پینا مشرکین کے برتنوں میںپہلے دھونے سے اور ظاہر ان کے برتن میں نجاست ہے اور وے حلال جانتے ہیں شراب اور پیتے ہیں اس کو اور کھاتے ہیں پکاتے ہیں اپنی ہانڈیوں میں اور اپنے گھڑوں میں اور اپنے برتنوںمیں تو مکروہ ہے کھانا ان میںدھونے سے پہلے باعتبار ظاہر کے جیسا کہ مکروہ ہے وضو ساتھ جھوٹے پانی مرخی کے کہ وہ غالب نجاست سے نہیں بچتی ہے کہ اصل اشیاء سے طہارۃ ہے اور شک کرتا ہے نجاست میںتو نہیں ثابت ہے نجاست شک سے جب نہ معلوم ہووے نجاست برتنوں کی اور جب معلوم ہووے تو نہیں جائز ہے کہ پیوے ان میںپہلے دھونے سے اوراگرکھا لیا یا پی لیا ان میں تو ہو گا حرا م کا کھانے والایا حرام کا پینے والا یہ حاصل ہے اس کا جو ذخیرہ میںہے۔ قال العبد (ای شاہ عبدالعزیز) اصلحہ اللہ تعالیٰ وما ابتلینا من شرء السمن و الخل واللبن والجبن وسائر المائعات من الھنود علیٰ ھذا الاحتمال تلویث او انیھم وان نساء ھم لا تتوقین عن السرقتین و کذایا کلون لھم ما قتلوہ و ذالک میتۃ فی المجتنب ان لم یجدیدا منھم انیستوثق علیھم ان یجتبنو ا عن السرزین والمیتۃ فانشق علیھم یا مرھم ان یعطوا او انیھم مسلما یغسلھا او یغسلو ا ایدیھم بمرائی من المسلمین والا والا باحتہ فتویٰ والتحرز التقویٰ کذافی نصاب الاحتساب۔ (ترجمہ) ’’کہتا ہے بندہ (یعنی شاہ عبدالعزیز ) صلاحیت دے اللہ اس کو اور وہ چیزیں کہ مبتلا ہیں ہم ان میں خریدنا گھی اور سرکہ کا اوردودھ کا اور پنیر کا اور سب تر رقیق چیزوں کا ہود کے یہاں سے اسی حکم میں ہیں بسبب احتمال آلودگی ان کے برتنوں کے اور ان کی لگائیاں نہیں بچتی ہیں نجاستوں سے گوبر سے اورکھاتے ہیں گوشت اس جانور کا کہ قتل کرتے ہیں اس کو واریہ مردار ہے اور مجتنب کہ نہ پائے چارہ اس بات کا کہ اعتماد کرے ان پر کہ بچیں وہ گوبر اور مردار سے تو دشوار ہو گا کہ حکم کرے ان کو کہ دیویں وہ اپنے برتن مسلمان کو کہ دھووے ان کو یا دھویں وہ اپنے ہاتھ سے سامنے مسلمان کے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو اباحتہ فتویٰ ہے اور پرہیز گاری تقویٰ ہے ۔ یہ ہے نصاب الاحتساب میں‘‘۔ اور اس باب میں کہ وہ پانی جس سے برتن دھوئے گئے پاک تھا یا ناپاک شرعا کچھ شبہ نہیں ہو سکتا اس لیے کہ کوئی پاک چیز شبہ سے ناپاک نہیں ہو جاتی جیسے کہ ابھی بیان ہوا ہے۔ علاوہ اس کے تیسیر الوصول میں خاص انگریزوں کے گھر کے پانی میں پاک ہو نے پر اثر صحابہ موجود ہے اوریہ حدیث اس میں ہے۔ وعن ابن عمر قال توضا عمر رضی اللہ عنہ بالحمیم فی جر نصرانیۃ ومن بیتھا اخرجۃ رزین قلت و ترجم بہ البخاری واللہ اعلم۔ (ترجمہ) ’’اورابن عمرؓ سے روایت ہے کہ وضو کیا عمر رضی اللہ عنہ نے گرم پانی سے جو ایک نصرانی عورت کے گھر میں اور اسی کے مٹکہ میں تھا۔ یہ حدیث امام رزین نے نکالی ہے اور میں کہتا ہوں کہ اس کو بخاری نے بھی بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم ۔ الشبھۃ السادسۃ (چھٹا شبہ) میز پر بیٹھ کر چھری اور کانٹے سے کھانا اور تشبہ بالنصاریٰ کرنا کس طرح جائز ہے؟ اس شبہ کا حل دو طرح پر کرنا چاہیے۔ اول یہ کہ فی نفسہ میز پر بیٹھ کر اورچھری اور کانٹے اور چمچے سے کھانے کا کیا حکم ہے؟ پھر تشبہ کا حکم بیان کیا جاوے ۔ چھری سے کاٹنا جائز ہے بلکہ سنت ہے۔ خود جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسل نے گوشت کو چھری سے کاٹ کر تناول فرمایا ہے۔ بخاری میں ابن عمرو امیہ سے روایت ہے : اخبرہ انہ رای النبی صلی اللہ علیہ وسلم یحتز من کتف الشاۃ فی یدہ قدعیٰ الیٰ الصلواۃ فالقھا و السکین التی یجتز ھا ثم قال فصلی ولم یتوضا۔ (ترجمہ) ان کو خبر دی ہے کہ انہوںنے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھری سے کاٹتے تھے شانہ بکری کا جو آپ کے ہاتھ میں تھا کہ بلائے گئے طرف نماز کے سو رکھ دیا اس شانہ کو اور اس چھری کو جس سے کاٹتے تھے اور جا کھڑے ہوئے نماز پر اورنماز پڑھائی اور وضو نہ کیا‘‘۔ ابودائود میں جو حدیث درباب منع قطع لحم بالسکین کے ہے اس کو خود ابودائود نے ضعیف لکھا ہے: قال القسطلانی قال قلت ھذا الحدیث یعارضہ حدیث ابی معشر عن ھشام ابن عروۃ عن ابیہ عن عائشۃ رفعتہ لا تقطعوا اللحم بالکسین فانہ من صنیع الا عاجم و انھشوہ فانہ اھناہ ا امراء اجیب بان ابا دائود قال ھو حدیث لیس بالقوی و حینئذ لا یحتج بہ من اجل ابی معشر یحتج السندی الھاشمی صاحب المغازی قال البخاری وغیرہ منکرالحدیث و من مناکیرہ حدیث لا تقطعو ا اللحم بالسکین ھذا لکن قال الحافظ ابن الحجر ان لہ شاھد ا انتھیٰ۔ (ترجمہ) ’’کہتے ہیں قسطلانی۔ اگر تو یہ کہے کہ یہ حدیث معارض ہے حدیث ابی معشر کی جو روایت کرتے ہیں ہشام ابن عروہ سے کہ وہ روایت کرتے ہیں اپنے با پ سے جو روایت کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ وہ اس حدیث کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہنچاتے ہیں کہ فرمایا حضرت نے نہ کاٹو گوشت کو چھری سے ۔ یہ فعل عجم کا ہے اور دانت سے کھائو کہ یہ بہت خوب اور خوشگوار ہے تو جوا ب یہ ہے کہ ابودائود نے کہا ہے کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے ۔ اور اس وقت اس حدیث سے حجت نہ ہو گی بسبب ابی معشر کے کہ حجت لیتے ہیں اس کے ساتھ سندی الہاشمی صاحب المغازی۔ کہتے ہیں امام بخاری وغیرہ کہ یہ ابو معشر منکر الحدیث ہیں اور ان کے مناکیر سے ہے حدیث لا تقطعو اللحم بالسکین۔ یہ یاد رکھنا چاہیے ۔ کہتے ہیں حافظ ابن حجر کہ اس کے لیے شاہد بھی ہے‘‘۔ اور اگر فرض کیا جاوے کہ یہ حدیث بھی صحیح ہے تو اس کی تطبیق پہلی حدیث سے شیخ عبدالحق محدث دھلوی نے صراط المستقیم شرح سفر السعادت اس طرح پر کی ہے۔ اگر حدیث نہی صحیح است در گوشتے باشد کہ نیک نضج یافتہ و احتیاج بریدن ندارد و آنچہ در بریدن آید در آنچہ نضج نیافتہ بعد اس کے شیخ محدث دھلوی نے اسی مقام پر حدیث نہی کو اور بھی ضعیف کیا ہے اورلکھا ہے کہ یہ نہی ایسی ہے جیسا کہ ہاتھ سے گوشت توڑنے پر بھی نہی آئی ہے اور اس کی عبارت یہ ہے۔ ھمچنانکہ نہی از بریدن گوشت بکار دورود یافتہ از گرفتن گوشت از استخوان بدست نیز منع گونہ واقع شدہ ودر جامع الاصول از صفوان بن امیہ آوردہ کہ گفت بودم من کہ میخوردم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و میگرفتم گوشت را بدست خود از استخوان فرمودہ نزدیک بگرداں گوشت از دھن خود کہ وے گوارا تروسبک تراست رواہ ابودائود و روی الترمذی۔ پس یہ نہی ایسی نہیں ہے کہ جس کے ارتکاب میں کچھ قباحت ہووے‘ کیونکہ یہ نہی حکمی نہیں ہے چمچہ اور کانٹے کے استعمال کا قیاس چھری پر کرنا چاہیے کہ ان کے استعمال کی ممانعت کہیں نہیں ہے ۔ چنانچہ ایسی چیزیں جن سے ہاتھ بھرتا ہے سب چمچہ سے کھاتے ہیں ولا عیاب ولا یکرہ (نہ معیوب ہے نہ مکروہ)۔ میز پر کھانے سے کوئی حدیث منع کی وارد نہیں ہے صرف اتنی بات ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چپاتی تناول نہیں فرمائی اورکبھی تشتریوں اور رکابیوں میں کھانا تناول نہیں فرمایا ہے اورنہ کبھی میدے اور روے کی اورچھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھائی اسی طرح دستر خوان پر ‘ یعنی میز پر کھانا تناول نہیں فرمایا۔ پس جو حال کہ ان چیزوں کا ہے وہی میز پر کھانے کا ہے۔ جس طرح وہ باح ہیں اسی طرح یہ بھی مباح ہے۔ بخاری میں فتاویٰ سے روایت ہے : ما اکل النبی صلی اللہ علیہ وسلم خبز ا مرققا ولا شاتا مسموطۃ حتی لقی اللہ عز و جل۔ (ترجمہ) ’نہیں کھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چپاتی اور نہ بکری کا گوشت بھنا ہوا یہاں تک کہ ملے اللہ عزو جل سے ‘‘۔ اور حضرت انس سے روایت ہے : ما علمت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اکل علی اکرجۃ قط ولا خبز ا مرققاقط ولا اکل علیٰ خوان قط قیل لقتادۃ فعلیٰ ما کانوا یا کلون قال علی السفر۔ (ترجمہ) ’’نہیں جانا میں نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھایا ہو اوپر تشتری کے کبھی اورنہ چپاتی کبھی اور نہ خوان کبھی تو کہا گیا قتادہ سے پھر کس پر کھاتے تھے تو کہا کہ دستر خوان پر۔ السکرجۃ بضم السین و الکاف االراء المشددۃ وفتح الجیم و قیل الراء المفتوحۃ وھی صحاف و صغار کذا فی القاموس۔ (ترجمہ) ’’سین اور کاف اور راء تشدید والی پر پیس ہے اور جیم پر زیر اوربعض راء پر بھی زبر کہتے ہیں اور وے رکابیاں ہیں چھوٹی چھوٹی اوریہ ہے قاموس میں‘‘۔ وفی مجمع البحار ولا علیٰ خوان قط ھوما یوضع علیہ الطعام عند الا کل لانہ من داب المترفین لئلا یفتقر الی التطاطوء والا نحنائ۔ (ترجمہ) ’’اورمجمع البحار میں ہے اور نہ کھایا اوپر خوان کے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی۔ خوان وہ چیز ہے کہ جس پر کھانے کے وقت کھانا رکھتے ہیں‘ اس لیے کہ یہ دستور ہے تونگروں کا تاکہ نہ حاجت ہووے جھکنے کی۔ اوربخاری میں ابو حازم سے روایت ہے: انہ سئل سھلا ھل رایتم فی زمان النبی صلی اللہ علیہ وسلم النقی قال قلت کنتم تنخلون الشعیر قال لا ولکن کنا ننفخہ۔ (ترجمہ) ’’پوچھا ابو حازم نے سہل سے کہ دیکھا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسل کے وقت میں میدہ؟ کہا نہیں پھر کہا میں نے تم چھانا کرتے تھے جو کا آٹا؟ کہا نہیں‘ مگر پھونک مار لیتے تھے‘‘۔ اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح کھانا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کھایا اس طرح کا کھانا سنت ہے اوراس کے سوا فی نفسہ مباح ہے۔ اسی طرح دستر خوان پر کھانا سنت اور میز پر کھانا فی نفسہ مباح ہے۔ اب باقی رہی بحث نسبت تشبہ کے اور اس باب میں حدیث منہ تشبہ بقوم فھو منھم (جو تشبہ کرے کسی قوم کے ساتھ وہ اس قوم میں سے ہے) پر استدلال کیا جاتاہے ۔ جو کتاب اللباس باب ماجاء فی الاقبیہ (کتاب پوشاک۔ باب ان حدیثوں میں کہ آئی ہیں قبائوں میں) میں ابودائود نے لکھی ہے۔ مگر اس حدیث کو اس مسئلہ سے کچھ بھی علاقہ نہیں ہے مناسب ہے کہ اول نفس الفاظ حدیث میں غور کی جاوے کہ قوم سے کیا مراد ہے اور تشبہ سے کیا مرا د ہے اور منہم کے کیا معنی ہیں اور اس کے بعد حدیث کے معنی بیان ہوں۔ تشبہ کسی قوم کے ساتھ اسی وقت کہا جا سکتا ہے ما بہ التشبہ (جس بات میں تشبہ ہے) خاصہ اسی قوم کا ہو اورکسی قوم میں نہ پایا جاوے۔ میز پر بیٹھ کر کھانا اورچھری کانٹے سے کھانا قوم نصاریٰ کا خاصہ نہیں ہے بلکہ تمام ترک جو مسلمان ہیں وہ بھی اسی طرح پر کھاتے ہیں۔ پس کیا وجہ ہے کہ جو میز پر بیٹھ کر کھانے والوں کو مشابہت نصاریٰ کے ساتھ دی جاوے اور اتراک کے ساتھ نہ دی جاوے‘ علی الخصوص ایسی صورت میں کہ مسلمان کے حق میں نیک گمان چاہیے۔ پس جب کہ یہ بات بخوبی معلوم ہو کہ جو لوگ میز پر بیٹھ کر کھاتے ہیں وہ مسلمان ہیں اور عقائد اسلامیہ رکھتے ہیں تو کیوں ان کے اس فعل کو نصاریٰ کے ساتھ تشبیہہ دیویں اور مسلمانوں کے ساتھ تشبیہ نہ دیویں اوریہ بات کہ ترکوں کی قوم کو ہندوستان کے لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ان کے ساتھ مشابہت دیں‘ اس میں کچھ قصور مرتکبین کا نہیں ہے ‘ بلکہ مشاہبت دینے والوں کا قصور ہے۔ اب لفظ تشبہ پر غور کرنا چاہیے کہ آیا اس لفظ سے تشبہ تام مرد ہے یا غیر تام مراد ہے اگر غیر تام مراد ہے تو کسی طرح درست نہیں ہو سکتا۔ کیا جو شخص صرف انگریزی جوتی پہن لے یا بگھی پر سوار ہو کر نکلے یا گھوڑے پر انگریزی کاٹھی بجائے زین کے رکھے یا چینی کے برتنوں میںکھاوے اور شیشہ کے گلاس میں پانی پیوے یا کرسی پر بیٹھے وہ سب معنی لفظ تشبہ میں داخل ہوں گے‘ حالانکہ جزئیات میں تشبہ ساتھ اہل کتاب کے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا ہے۔ چنانچہ ترمذی نے شمائل میں ابن عباس سے روایت کی ہے : ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یسدل شعرہ وکان المشرکون یفرقون رئوسھم وکان اھل الکتاب فیما یسدلون فئوسھم وکان یحب موافقۃ اھل الکتاب فیما لم یومر فیہ بشیء ثم فرق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (ترجمہ) ’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھا چھوڑتے تھے اپنے بال اور مشرکین مانگ نکالتے تھے اور اہل کتاب سیدھا چھوڑتے تھے اوراپنے بال اور حضرت پسند کرتے تھے موافقت اہل کتاب کی جس امر میں کہ حکم نہ ہوا ہو پھر حضرت مانگ نکالنے لگے‘‘۔ اور اگر لفظ مشابہت سے مشابہت کا نام مرادہے بان لا یعرف ام ھومن النصاریٰ ام ھومن الاتراک (نہیں پیچانا جاتا کہ وہ نصرانی ہے یا ترک) تو ایسی مشابہت میز پر بیٹھ کر کھانے پر متحقق نہیں ہے کیونکہ کوئی شخص جس کی ظاہری و باطنی آنکھیں خدا تعالیٰ سے اندھی نہ کر دی ہوں اگر مسلمانوں کو میز پر کھاتے دیکھے تو کبھی اس کو یہ شبہ نہیں ہو گا کہ یہ لوگ انگریز ہیں یا مسلمان‘ بلکہ مسلمانوں کو مسلمان پہچان لے گا۔ مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے صاف فتویٰ دی اہے کہ جو باتیں کفار کے ساتھ ایسی مخصوص ہیں کہ کوئی مسلمان ان کو نہیں کرتا ان کا کرنا تشبہ میں داخل ہے اور منع ہے اور ایسی باتیں جو کفار پر مخصوص نہیں ہیں‘ گو کفار اس کو بہت زیادہ کرتے ہوں اورمسلمان کم ان کے کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں ہے اور انہون نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی بات جو مخصوص کفار کے ساتھ ہو بنظر آڑام و فائدہ کے کی جاوے تو کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ بعد اس کے لکھتے ہیں کہ جو تشبہ کہ منع ہے وہ یہ ہے کہ اپنے تئیں انہیں میںسے گنے اوربلاشبہ اس طرح اپنے تئیں کفار میں گننا منع کیا بلکہ کفر ہے نہ یہ کہ جو باتیں دنیا کے آرام کی کفار کرتے ہیں ان کے اختیار کرنے میں وہ تشبہ لازم آ جاوے جو شرعاً منع ہے۔ چنانچہ ہم اس مقام پر فتویٰ شاہ عبدالعزیز صاحب کا بعینہ نقل کرتے ہیں۔ فتویٰ حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ در باب تشبہ محررہ شہر جمادی الثانی ۱۲۳۷ھ موافق قواعد شرع چیزے کہ مخصوص بکفار باشد و مسلمانان آنراستعمال نکنند خواہ در لباس خواہ در چیز دیگر بطریق اکل و شرب داخل تشبہ است و ممنوع و آنچہ مخصوص بکفار نیست گو کہ کفار آنرا بیشتر استعمال کنند و مسلمانان کمتر مضائقہ ندادر وہہمچنیں اگر بعض از امور مخصوصہ کفار بنا بر آرام و یابنا بر فائدہ دوائے استعمال کنند بے آنکہ خود رامشتبہ بانہا سازند مضائقہ ندارد۔ آرے تشبیہے کہ ممنوع است مطلقا آنست کہ خوددادر اعداد آنہا داخل کنند و استمالہ قلوبانہا داشتہ باشند و ہمچنیں تعلیم لغت ایشاں و خط ایشاں بنا بر تشبہ البتہ ممنوع ‘ اما بنا بر اطلاع مضامین کلام ایشاں یا خواندن خطوط ایشاں اگر تعلم لغت کنند یا خط ایشانں بنا بر تشبہ البتہ ممنوع‘ اما بنا بر اطلاع مضامین کلام ایشاں یا خواندن خطوط ایشاں اگر تعلم لغت کنند یا خط ایشاں بنو یسند مضائقہ ندارد و در حدیثے کہ در مشکواۃ مذکور است کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زید ابن ثابت را بتعلم خط یہود امر فرمادند و زید ابن ثابت آر رادر عرصہ قریب آمو ختند و تشبہ در عبادات و اعیاد مطلقا ممنوع است۔ احادیث دالہ بریں بسیار اند غرض کہ تشبہ بانہا بر چیزے کہ باشد داخل منع است و آموختن زبان ایشاں برائے اطلاع یا پوشیدن پوشاک برائے فائدہ بدنی مضائقہ ندارد انتہی۔ اگرچہ مولانا جناب شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اس فتویٰ میں تشبہ ممنوع کی نسبت بہت سی قیدیں لگائی ہیں اور بالکل مدار تشبہ ممنوع کا ان لفظوں پر رکھا ہے کہ خود رادر اعداد آنہا داخل کنند‘ پھر بھی درحقیقت اس حدیث کو اس قسم کے تشبہ سے بھی کچھ علاقہ نہیں جیسا کہ اسی مقام پر لکھا جاوے گا۔ اب لفظ منھم پر غور کرنا چاہیے کہ منھم کے لفظ کے کیا معنی ہیں۔ آیا یہ معنی ہیں کہ جس شخص نے مشابہت تام نصاریٰ کے ساتھ کی تو وہ بھی نصرانی ہو گیا وان اعتقد ان لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ و ان استقبل قبلتنا و اکل ذبیحتنا وان صلیٰ صلواتنا وصام صیامنا اگرچہ اعتقاد کرے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور اگرچہ قبلہ بنائے ہمارا قبلہ اورکھائے ہمار ا ذبیحہ اورنما ز پڑھے ہماری اورروزہ رکھے ہمارا روزہ امید ہے کہ کوئی متعصب سے متعصب یہاں تک کہ نصرانی بھی منھم کے لفظ سے یہ مراد نہیں لیں گے۔ پس جب کہ لفظ منھم کے یہ معنی ہ ٹھہرے تو کوئی اور معنی اس کے لینے چاہئیں ۔ پس معنی اس حدیث کے یہ نہیں ہیں جو لوگ خیال کرتے ہیں بلکہ یہ معنی ہیں جو ہم بیا ن کرتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ اس حدیث کو نہ طعام سے علاقہ ہے نہ کسی قسم کے تشبہ سے جو اور کسی قو م کے ساتھ کیا جاوے تعلق ہے ۔ نہ اس حدیث سے کوئی حکم شرعی بحالت تشبہ بقوم آخر بجز ایک حکم کے جس کا بیان کیا جاتا ہے مراد ہے اور وہ ایک حکم یہ ہے کہ حالت جدال و قتال یا اور کسی واقعہ میں مسلمان اورکسی قوم کے لوگ ایک جگہ مار ے جاویں تو ان کی شناخت کہ کون مسلمان ہٰںکون نہیں ہیں کیونکر کی جاوے تاکہ مراتب تجہیز و تکفین موافق اس قوم کے ادا کیا جاوے۔ پس صرف اسی باب میں یہ حدیث ہے اوریہ حکم ہے کہ جس قو م کے مشابہہ جو ہو اسی قوم میں اس کو شمار کیا جاوے اور چونکہ اس طرح کی شناخت اغلط اوپر لباس کے منحصر ہوتی ہے اسی لیے تمام محدثین نے اس حدیث کو کتاب اللباس میں ذکر کیا ہے اور اسی حدیث کی بنا پر روایات فقھیہ کتب فقہ میں مذکور ہیں۔ مثل اس کے اور موید اورمثبت اس گفتگو کی ایک اورحدیث ابودائود میں آخر کتاب جہاد میں موجود ہے : عن سمرۃ بن جندب اما بعد قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من جاء مع المشرکین وسکن معہ فانہ مثلہ (سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص آیا کہ ساتھ مشرکین کے اور رہا ان کے ساتھ تو وہ بھی مانند انہی کے ہے) یعنی جس طرح کہ لڑائی میں مشرک کا خون یا غرت مال و اسباب محفوظ نہیں رہ سکتا اسی طرح اس کا بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اب رہا ایک اعتراض جو بعض متعصبین نسبت ا سکے پیش کرتے ہیں اوریہ کہتے ہیں کہ چونکہ میز پر بیٹھ کر کھانا یا انگریزوں کے ساتھ کھانا ان ہندوستانیوںنے اختیار کیا ہے جو عیسائی ہو گئے ہیں اور ان کی صورت میں اکثروں کے لباس میں کچھ فرق نہیں ہے۔ پس جو مسلمان انگریزوں کے ساتھ یا میز پر بیٹھ کر کھاتا ہیوہ اس بات میں تشبہ کرتاہے وہ بھی متنفر ہے مگر اس قسم کا شبہ اہل علم کی شان سے نہایت بعید ہے ۔ بہرحال اس شبہ کا بھی یہی جواب ہے کہ حدیث تشبہ کو اس قسم کے افعال سے کچھ تعلق نہیں نہ اس کی نسبت اس میں کچھ حکم ہے۔ معہذا یہ تخصیص جو ہندواستان میں جاری ہے وہ اس سبب سے ہے کہ یہاں کے مسلمانوں نے اس تعامل کو جو بلاد اسلام میں جاری ہے اور تمام انگریز اورمسلمان آپس میں کھاتے ہیں اور میزوں پر کھاتے ہیں ہندوستان میں رائج نہیں کیا۔ پس مسلمانوں کو اس کا رواج دینا چاہیے کہ وہ تخصیص از خود باطل ہو جاوے گی۔ فیا ایھا المسلمون تعاملو ا علیھا لا علیٰ نیۃ العجب و التکبربل علیٰ نیۃ ترفع حال المسلمین لئلا ینظر ھم قوم بنظر الحقارۃ مما اعتادو ا من الذلۃ و المسکنۃ ۔ ان اللہ یعلم ما فی صدور نا مما اعتادوا من الذلۃ والمسکنۃ ان اللہ یعلم ما فی صدور نا و یحکم علینا بما فی قلوبنا من حسن انیۃ اوغیرہ (سوائے مسلمانو! برتائو کرو تم اس پر نہ بہ نیت غرور اور تکبر کے بلکہ بہ نیت ترقی حال مسلمانوں کے تاکہ نہ دیکھ سکے ان کو کوئی قوم حقارت کے بہ سبب ان کی ان عادتوں کے جو ذلت اور مسکنت کی ہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ جانتاہے جو ہمارے دلوں میں ہے اورحکم کرے گا موافق اس کے کہ ہمارے دلوں میں ہے حسن نیت یا غیر حسن نیت)۔ مولانا مولوی شاہ محمد اسمعیل رحمۃ اللہ علیہ سے کہا گیا کہ رفع یدین نماز میں اگرچہ سنت ہدیٰ ہے مگر چونکہ ان بلاد میں شعار اہل تشبع کا ہے تو اس وجہ سے احتراز اولیٰ ہے مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ان کا شعار اسی وجہ سے ہو گیا ہے کہ تم نے تر ک کر رکھا ہے ۔ پس اگر تم اس کو اختیار کرو گے تو ان کے شعار کی خصوصیت نہ رہے گی۔ پس جو امر کہ مباح ہے اس کے کرنے والوں پر اس وجہ سے کہ اس ملک میں اورکوئی مسلمان نہیں کرتا کسی طرح کی ملامت نہیں ہو سکتی۔ انصاف کرنے کی بات ہے کہ میز پر کھانا تو تشبہ بالنصاریٰ ہووے اور مباح یعنی ان کے کھانے کو ترک کرنا اور اس کے کھانے والے کو کافر جاننااور ذات سے گرا دینا اورحقہ پانی بند کر دیان تشبہ بالیہودیہ ہووے اور تمام اہل علم جانتے ہیں کہ جہال میں یہ بات مشہور ہے کہ جہاں کسی نے کھانا انگریز کے برتن میں کھالیا وہ کافر ہو گیا ہے ارو کم قومون اور ذاتوں میں تو یہ جہالت کی رسم ہے کہ جب تک وہ بیچارہ کچھ صرف نہ کرے اور پنچایت نہ کرے اور پھر کر قاضی اس کو مسلمان نہ کرے تب تک وہ ذات میں نہیں ملایا جاتا اورپھر جاہلون کے خوف سے کوئی عالم یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کیا تمہاری جہالت ہے۔ شراب پینے سے بھی آدمی کافر نہیں ہوتا نہ کہ حلال و مباح کھانے سے۔ یہ بلا اسی سبب سے ہے اوراسی سبب سے عوام میں اس کا رواج بھی ہو رہا ہے ۔ کہ علماء ان کے ڈر سے اور اپنی نذر و نیاز کے خوف سے اور اپنے تئیں جھوٹ موٹ کا صاحب تقویٰ و ورع جتانے کے لیے اور جو لاہوں میں بیٹھ کر تعریف سننے کے لالچ سے کلمہ حق زبان پر نہیں لاتے۔ صاف اور صریح حدیثوں کو اور حکموں اور مسئلوں کو چھپاتے ہیں اور عوام کی تالیف قلوب کے واسطے ا س مسئلہ کو کبھی بہ نظر تشبیہ کے حرام بتلاتے ہیں۔ کبھی اس کو باعث محبت و دوستی کا بتلا کر منع ٹھہراتے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ ہنود اورمشرکین کے حق میں اس قسم کا کوئی مسئلہ جاری نہیں کرتے۔ ان کے دینی بھائی بن جاتے ہیں اور ان کے میلوں میں شریک ہو جاتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ راہ و رسم دوستانہ رکھتے ہیں ان کے گھر کا کھانا کھانے میں تو کبھی کوئی مسلم کافر کیا گنہگار بھی نہ ہوے اور اہل کتاب کے ساتھ کھانا کھانے سے کافر اور مرتد ہو جاوے اس کا کیا سبب ہے؟ یہی سبب ہے کہ جو طریہ جاری ہو گیا ہے وہ سنت ہے اور جو جاری نہ ہوا وہ بدعت ہے۔ سبحان اللہ! دین کو بھی دل لگی ٹھہرا رکھا ہے۔ بعض صاحب فرماتے ہیں کہ قبول کیا اس قسم کے ارتکاب میں کوئی محظور شرعی نہیں ہے مگر تنصر کا اتہام تو بیشک ہو تا ہے اور حدیث میں آیا ہے کہ اتقوا من مواضع التہم (بچو تم تہمتوں کی جگہ سے) پس مسلمانوں کو ایسے امور سے کہ اتہام تنصر ہو بچنا چاہیے۔ یہ گفتگو نہایت عجیب ہے ۔ مواقع تہم وہ ہیں جو محظور شرعی ہیں اور جو امر کہ شرعا مباح ہیں ان پر مواقع تہم کا اطلاق کسی طرح نہیں ہو سکتا۔ الشبھۃ السابعۃ (ساتواں شبہ) بعض شبہ کرتے ہیں کہ تسلیم کیا کہ ان آیات و روایات سے طعام اہل کتاب کا مباح ہوا مگر مضمون آیت طعامھم حل لکم و طعامکم حل لھم (کھانا ان کا تمارے لیے اور تمہارا ان کے لیے حلال ہے) سے مواکلت اورایک جگہ بیٹھ کر کھانا کہاںسے نکلا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو خود اشارۃ النص سے صریحا مواکلت نکلتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سرف یہی نہیں فرمایا کہ اہل سنت کتاب کا کھانا مسلمانوں کو حلال بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ ان کو مسلمانوں کا کھانا بھی حلال ہے۔ یعنی وہ ان کا کھانا کھاویں اور یہ ان کا اور اسی سے اشارہ ہے مواکلت پر۔ دوسرے یہ کہ ابودائود میں جو حدیث ابن عباس سے مروی ہے اور جس کے اخیر میں واحل طعام اہل الکتاب (اور حلا ل ہے کھانا اہل کتاب کا) ہے اس حدیث کو ابو دائود نے باب ضعیف میں لکھا ہے جس سے پایا جاتاہے کہ بطور ضیافت کے کھانا جائز ہے۔ تیسرے یہ کہ جب ساتھ بیٹھ کر کھانے میں کوئی محظور شرعی نہیں ہے تو ا س ممنوع ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔ چوتھے یہ کہ شاہ عبدالعزیز صاحب نے اپنے فتوے میں صاف لکھا ہے کہ انگریزوں کے ساتھ ان کے دستر خوان پر اوران کے برتنوں میں کھانا ‘ بشرطیکہ منکرات میں سے کوئی چیز نہ ہو اورکھانا و برتن نجس نہ ہوں‘مباح ہے اور یہی ہم بھی کہتے ہیں اور کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ نہ کچھ کہیں نہ کریں۔ الشبھۃ الثامنہ (آٹھواں شبہ) اس پر یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ ساتھ بیتھ کر کھانا اور آپس میں اختلاط رکھنا باعث ازدیاد محبت وتولا کا ہے اور مسلمان کے سوا اورکسی مذہب والے سے تولا و دوستی شرعاً جائز نہیں۔ اس واسطے اہل کتاب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا جو باعث محبت و اخلاص کا ہوتا ہے‘ حرام یا مکروہ تحریمی ہے۔ اس اعتراض سے دو امر کی تسلیم تو لازم آ گئی‘ اول تو اس بات کی کہ انگریزوں کے ساتھ کھانا فی نفسہ توناجائز نہیں ہے۔ اگر کچھ عدم جواز ہے تو بغیرہ ہے۔ دوسرے اس بات کی تسلیم لازم آئی کہ اگر ایک آدھ دفعہ اتفاق سے کھا لے تو کچھ مضائقہ نہیں ہے کیونکہ ایک آدھ دفعہ کے کھانے میں کچھ تردد و اختلاط نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس کے کھانے میں کچھ تردد و اختلاط نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس زمانہ کے بعد علماء نے بھی دو ایک دفعہ کے کھالینے کا فتویٰ دیا ہے اور عالمگیری اور مطالب المومنین اورنصاب الاحتساب کی روایتوں پر استدلال کیاہے اور وہ روایتیں یہ ہیں: عالمگیری: ولم یذکر محمد الاکل مع المجوس و مع غیرہ من اہل الشرک انہ ھل یحل ام لاوحکی عن الحاکم فلا باس بہ واما الدوام الیہ فمکروہ کذا فی المحیط۔ (ترجمہ) ’’اورنہیں ذکر کیا ہے محمد نے کھانا ساتھ مجوسی کے اور غیر مجوسی کے جو اہل شرک ہیں کہ حلال ہے یا نہیں‘ اورحکایت ہے حاکم امام عبدالرحمان کاتب سے کہ اگر مبتلا ہووے مسلمان اس میں ایک بار دو بار تو کچھ مضائقہ نہیں ہے مگر دوام و مداومت اس پر مکروہ ہے ۔ اسی طرح محیط میں‘‘۔ مطالب المومنین: وھھنا تفصیل لا بدمن معرفتہ ان الا کل مع المجوس و مع غیر المجوس من اہل الشرک ہل مباح ام لا حکمی عن الحاکم الامام ابن عبدالرحمان الکاتب انہ یقول ان ابتلی بہ المسلم مرۃ او مرتین فلا باس بہ لمار وی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یا کل فاتاہ کافر فقال ااکل معک یا محمد فقل نعم۔ فقد اکل النبی صلی اللہ علیہ وسلم مع الکافر مرۃ اومر تین لتالیف قلبہ علی الاسلام۔ فاما علی الدوام فانہ مکروہ لما نھینا عن مخالطتھم وموالاتھم وتکثیر سوادھم و روی انہ علیہ السلام قال من الجفاء ان تاکل مع غیر اھل دینک و ھذا یدل علی انہ لا یاکل مع غیر اھل ملتہ و روی انہ اکل مع غیر اھل دینہ فلا بدمن التوفیق و و جہ مار وینا اولا بالا کل مرۃ اومرتین و یحمل ھذا الحدیث علی الاکل معھم و ذکر القاضی الامام رکن الدین السغدی ان المجوس اذا کان لا یزمزم فلا باس بالاکل معہ وان کان یزمزم فلا یاکل معہ لا نہ یظھر الکفر والشرک فلایاکل معہ طال مایظھر الکفر۔ کذافی اخر الفصل العاشر من سیر الذخیرۃ انتھیٰ (ترجمہ) ’’اور یہاں ایک تفصیل ہے کہ ضرور ہے جانتا اس کا وہ ی ہے کہ کھانا مجوسی کے اور غیر مجوسی کے ساتھ جو مشرک ہیں مباح ہے یا نہیں تو حکایت ہے حاکم امام عبدالرحمان کاتب سے کہ اگر مبتلا ہوا اس میں مسلمان ایک بار یا دو بار تو کچھ مضائقہ نہیں ہے اس لیے کہ روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھا رہے تھے کہ ایک کافر آی ااور کہا کہ میں کھائوں آپ کے ساتھ اے محمد کہا آپ نے ہاں کھائو ۔ سو بیشک کھایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کے ساتھ ایک بار یا دو بار واسطے دل لگانے کے اس کے کے اسلام پر‘ مگر مداومت اس پر مکروہ ہے اس لیے کہ ہم منع کیے گئے ہیں ان کی دوستی سے اور خلط ملط سے اور محبت کرنے ان کی جمیعت سے اورروایت ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ظلم کی بات ہے کہ کھاوے تو اپنے غیر دین والے کے ساتھ اوریہ حدیث دلیل ہے اس پر کہ غیر دین والے کے ساتھ نہ کھانا چاہیے اورروایت ہے کہ کھایا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غیر دین والے نے اپنے کے تو ضرور ہے کہ ان دونوں میں موافقت دی جاوے اور وجہ اس حدیث ک کہ ہم نے اول روایت کی ہے کہ کھانا ایک بار یا دو بار اورحدیث یہ حمل کی گئی ہے اس پر کہ کھانا اس کے ساتھ اور ذکر کیا قاضی امام رکن الدین سعدی نے کہ مجوس اگر نہ زمزمہ کریں تو کچھ مضائقہ نہیں ان کے ساتھ کھانے میں اور اگر زمزمہ کریں تو نہ کھاویں ان کے ساتھ اس وقت تک کہ وہ ظاہر کرتے ہیں کفر و شرک۔ پس نہ کھایا جاوے ان کے ساتھ اس وقت کہ وہ ظاہر کریں کفر اور شرک ۔ یہ ہے دسویں فصل کا آخر سیر ذخیر ہ کا‘‘۔ نصاب الاحتساب: وھل یا کل مع الکافر فان کان مرۃ اومرتین لتالیف قلبہ علی الاسلام فلا باس فانہ صلی اللہ علیہ وسلم اکل مع کافر مرۃ فحملنا علی انہ کان لتالیف قلبہ علی الاسلام ولیکن یکرہ المداومۃ علیہ لماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال من الجفاء ان تاکل مع غیر اھل دینک و حمل ھذا الحدیث علی المداومۃ و علی ان لم یکن نیتہ تالیف قلبہ علی السلام توفیقابین الحدیثین۔ (ترجمہ) ’’اور کیا کھاوے ساتھ کافر کے پس اگر ہووے ایک بار یا دو بار واسطے دل لگانے اس کے اسلا م پر تو کچھ مضائقہ نہیں ہے اس لیے کہ کھایا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ کافر کے۔ پس حمل کیا ہم نے کہ یہ کیا حضرت نے واسطے تالیف قلب اس کے کے اسلام پر‘ مگر مکروہ ہے مداومت اس پر ‘ اس لیے کہ روایت ہے کہ فرمایا حضرت نے کہ ظلم ہے کھانا غیر دین والے کے ساتھ اور حمل کی جاتی ہے یہ حدیث منع کی اوپر مداومت کے یااس پر کہ نہ ہووے نیت اسکے تالیف قلب کی اسلام پر اورحمل کی گئی حدیث پہلی اس کے تالیف قلب کی اسلام پر اور حمل کی گئی حدیث پہلی اس پر کہ ہووے نیت تالیف قلب کی اسلام پر واسطے موافقت کے دونوں حدیثوں میں‘‘۔ مگر اس زمانہ کے ان عالموں سے جنہوں نے ان روایتوں کو اہل کتاب کے ساتھ صرف ایک دو دفعہ کھانا جائز ہونے اور اس سے زیادہ ناجائز ہونے پر دلیل پیش کیا ہے ان سے صریح غلطی ہوئی ہے اس لیے کہ ان روایتوں میں جو احکام ہیں وہ مجوس اور بت پرست مشرکوں کے ساتھ کھانے میں ہیں نہ اہل کتاب کے ساتھ اور جو شخص نے استانی جی سے بھی قرآن پڑھا ہو گا وہ بھی جانتا ہو گا کہ قرآن مجید میں بہت سے ایسے احکام مشرکین کی نسبت ہیں جو اہل کتاب سے علاقہ نہیں رکھتے۔ پس ان روایتوں کو اہل کتاب کے ساتھ کھانے پر استدلال کرنا صریح غلطی ہے اور نہ یہ روایتیں ایسی قوی ہیں جو قرآن اور احادیث صحیح کے مقابل لائی جاویں۔ مگر ہم تولیٰ اور دوستی کے ممنوع ہونے کی زیادہ تر تحقیقات کرتے ہیں اور جو تولیٰ کہ شرعا منع ہے اس کو بالتصریح بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ ان آیتوں کو نقل کر کے جن میں تولیٰ کی نہی آئی ہے پھر اس کی تصریح و تحقیق لکھیں گے۔ آیت اول۔ یا ایھاالذین آمنو ا لا تتخذوا الیہود والنصاریٰ اولیاء بعضھم اولیاء بعض ومن یتولھم منکم فانہ منھم ان اللہ لا یھدی القوم الظالمین فتری الذین فی قلوبھم مرض یسارعون فیھم یقولون فخشی ان تصیبنا دائرۃ فعسی اللہ ان یاتی بالفتح او امر من عندہ فیصبحو ا علی ما اسروا فی انفسھم نادمین ۔ ویقول الذین آمنوا اھولاء الذین اقسموا باللہ جھدا یمانھم لمعکم حبطت اعمالھم فاصبحوا خاسرین۔ (ترجمہ) ’’اے ایمان والو نہ بنائو تم یہود اور نصاری کو اپنا دوست کہ بعض ان کے دوست ہیں بعض کے ور جو کوئی ان سے دوستی کرے گا ان میں سے ہو گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ نہیں راہ سمجھاتا ہے قوم گنہگار کو۔ پس دیکھے گا تو ان لوگوں کو کہ جن کے دل میں مرض ہے جلدی کرتے ہیں ان کے اندر اور کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہ پہنچے ہم پر کوئی سخت گردش۔ سوقریب ہے کہ اللہ دیوے فتح یا لاوے ایک امر اپنے پاس سے پس ہو جاویں گے یہ لوگ اوپر اس کے کہ چھپایا انہوں نے اپنے دل میں پشیمان ۔ اور کہتے ہیں ایمان والے کہ قسم کھائی ان لوگوںنے اللہ کی بہت مضبوط قسم کہ و ہ بے شک تمہارے ساتھ ہیں۔ مٹ گئے کام ان کے اور ہو گئے ٹوٹے والے‘‘۔ آیت دوم۔ یاایھا الذین آمنو ا لاتتخذوا الکافرین اولیاء من دون المومنین (اے ایمان والا نہ بنائو تم کافروں کو دوست سوائے مومنین کے )۔ آیت سوم۔ لا تتخذالمومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین (چاہیے کہ نہ بناویں ایمان والے کافروں کو دوست سوائے مومنین کے)۔ آیت چہارم۔ یاایھا الذین آمنو الا تتخذوا عدوی وعدو کم اولیاء تلقون الیھم بالمودۃ (اے ایمان والو ! نہ بنائو تم میرے دشمن کو اوراپنے دشمن کو دوست کہ ملو تم ان کی طرف ساتھ دوستی کے)۔ آیت پنجم ۔ ولا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین (اور نہ بیٹھ تو بعد یاد آنے کے ساتھ قوم گنہگار کے) آیت ششم ۔ لا تجد قوما یومنون باللہ والیوم الاخر یوادون من حاد اللہ ورسولہ ولو کانو اباعھم او اخوانھم او عشیر تھم (نہ پائے گا تو اس قوم کو کہ ایمان رکھتے ہیں ساتھ اللہ کے اور اس کے رسول کے کہ دوستی کریں اس کے ساتھ جو جھگڑا کرے اللہ اور اس کے رسول سے اگرچہ ہوویں وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا ان کے کنبہ)۔ ان سب آیات کی نسبت اور جو کہ ان کے مثل ہیں ہم یہ بیان کرتے ہیں کہ ان آیات سے مولات عماماً ممنوع شرعی نہیں ہے بلکہ صرف وہی مولات جو من حیث الدین ہو حرام اور ممنوع شرعی بلکہ کفرہے اور موالات من حیث الدین یہ ے کہ ہم کسی شخص کو اس وجہ سے کہ ا س کا مذہب اور دین جس کو اس نے اختیار کیا ہے بہت اچھا ہے‘ دوست کہیں اور صرف اسی قسم کی موالات منع ہے نہ اور قسم کی ۔ ہم مسلمان اپنے مذہب کے علماء متقدمین اور صلحاء اوراولیاء اللہ سے محبت رکھتے ہیں اور کوئی دنیاوی غرض ان کے سامنے یا کوئی جبلی اور فطرتی محبت ان سے نہیں رکھتے۔ نہ کسی قسم کے دنیاوی احسان کے سبب ان سے محبت رکھتے ہیں اور نہ کسی قسم کی محبت باعتبار معاشرہ کے ان سے رکھتے ہیں پس جو محبت کہ ہماری ان کے ساتھ ہے وہ صرف باعتبار دین کے ہے : لانھم کانوا علماء عیننا او ا تقیاء مذھبنا او اولیاء الامۃ المرحومۃ الی نحن فیھا (کہ وے تھے علماء ہمارے دین کے اور پرہیز گار ہمارے مذہب کے ارو دوستدار اور اولیاء اس امت مرحومہ کے جس میں ہم ہیں) پس اگر اس قسم کی محبت کسی غیر کے ساتھ رکھی جاوے بیشک حرام اور بلکہ کفر ہے اورماسوا اس کے کہ جو اور قسم کی محبتیں ہیں وہ لا باس بہ (کچھ مضائقہ نہٰں اس میں ) ہیں اور ممنوع شرعی نہیں ہیں بلکہ ان کے کرنے میں ہم مامور ہیں اورہم پر فرض ہے کہ جیسے دین محمدی میں رحمت و شفقت عام ہے‘ وہی شفقت و رحمت ہم تمام لوگوں کیساتھ خواہ وہ مشرک ہوں‘ خواہ اہل کتاب‘ برتیں اور اپنے تئیں اس رحمت و شفقت محمدیہ کا نمونہ بنائیں کہ تمام لوگ ہمارے دین کی حقیقت پر ہمارا نمونہ دیکھ کر یقین بنائیں کہ تمام لوگ ہمارے دی کی حقیقت پر ہمارا نمونہ دیکھ کر یقین لائیں اورضلالت اور گمراہی سے نکل کر صراط مستقیم پر آئیں‘‘ نہ یہ کہ ہم اپنے مذہب کو اور مذہبوں میں ایسا بنائیں کہ پیشوں میں قصائی کا پیشہ‘ وما فعل الولیاء امتنا الا ھذا فانھم نور و ابنور الاخلاق المحمدیۃ علی صاحبھا الصواۃ والسلام والتچیۃ وتولو ا ا وتو ا دوا مع الذین کانو ا ینکرون اللہ و یعبدون الا صنام فاثر اخلاق المحمدیۃ فی کل صغیر وکبیر من البریۃ فانتشیر نور الاسلام فی الافاق و ھداھم الی طریق الوفاق وان کا نوا فضا غلیظ القلب کحال مسلمی زماننا لا نفضو ا من حولھم۔ (ترجمہ) ’’اور نہیں کیا ہے اولیاء ہماری امت نے مگر یہ ہے اس لیے کہ منور ہوئے وہ بنور اخلاق محمدیہ سے علی صاحبہا الصلوۃ والسلام والتحیۃ اور دوستی اور موالات کی انہوںنے ان کے ساتھ جو منکر تھے اللہ کے اورعبادت کرتے تھے بتوں کی۔ پس اثر کیا اخلاق محمدیہ نے ہر چھوٹے اور بڑے میں سب خلقت میں اور پھیل گیا نور اسلام کا جہان میں اورہدایت کی ان کو طرف راہ موافقت کے اور اگر ہونے یہ لوگ بدخو سخت دل مثل ہمارے زمانہ کے مسلمانوں کے تو بے شک بھاگنے وہ لوگ ان کے پاس سے‘‘۔ مسلمان کو ان عورتوں سے جو کافرات اہل کتاب ہیںنکاح کرنا درست ہے باوجود اس کے کہ وہ اپنے مذہب پر رہیں اورہم اپنے مذہب پر قال اللہ تعالیٰ والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم وای مودۃ اقرب من الزوجیۃ لکنہ تلک المودۃ من حیث الدین۔ (ترجمہ) فرمایا اللہ تعالیٰ نے اور عورتیں پاک کتاب والوں کی اورکونسی دوستی زیادہ قریب ے زوجیت سے مگر نہیں ہے یہ دوستی باعتبار دین کے‘‘۔ کفار والدین کے اتھ محبت کرنے کا ہم کو حکم ہے ۔ لقولہ تعالیٰ واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ وقال عزاسمہ وان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ عل فلا رطعھما وصاحبھما فی الدنیا معروفا لکنہ لیست تلک من حیث الدین۔ (ترجمہ) ’’اورجھکاوے ان کے لیے بازو ذلت کا بہ سبب رحمت کے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے اور اگر جھگڑا کریں تمہارے ماں باپ کہ شریک کرے تو میرے ساتھ اس کو جس کا علم تجھ کو نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کر اور رہ ان کے ساتھ دنیا میں نیکی سے مگر یہ محبت باعتبار دین کے نہیں ہے‘‘۔ صلہ رحمی کا ہم کو حکم ہے اور جب مسلمان اہل کتاب کے ساتھ نکاح کرتے ہیں تو ان کی اولاد کے ذوی الرحام اھل کتاب ہوتے ہیں کہ ان کو ان کے ساتھ تودد اور صلہ رحمی واجب ہے لکنہ لیس من حیث الدین (پر نہ بحیثیت دین کے )۔ ھمسایہ کے ساتھ اگرچہ کافر ہو محبت اور احسان کرنے پر ہم مامور ہیں لکنہ لیس من حیث الدین ( پر نہ بحیثیت دین کے)۔ خود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں اور اہل کتاب میں بالتخصیص نصاریٰ کے ساتھ تو دد ہونا بتایا ہے حیث قال عزوجل لتجدن اشد الناس عد اوۃ للذین آمنوا الیہود و الذین اشرکوا ولاتجدن اقربھم مودۃ للذین آمنوا الذین قالوا انا نصاریٰ ذالک بان منھم قسیسین ورھبانا وانھم لا یستکبرون۔ (ترجمہ) ’’کہا اللہ تعالیٰ نے اور پائے گا جو سخت سب سے دشمنی میں مسلمانوں کی یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں اور پائے گا تو قریب تر دوستی میں مسلمانوں کے ان کو جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں اور یہ اس لیے کہ ہیں ان میں قسمیں اور پرہیز گار اوریہ لوگ غرور نہیں کرتے ہیں‘‘۔ پس ان آیات سے ثابت ہوا کہ مطلق تودد ممنوع شرعی نہیں ہے‘ نہ ان آیتوں کے احکام میں داخل ہے ‘ بلکہ وہی تودد ممنوع ہے جو من حیث الدین (بحیثیت دین) ہووے۔ مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب نے ایک رسالہ میں جو تحفہ اثنا عشریہ کے لکھنے کے بعد مسئلہ تفضیل میں لکھا ہے کہ اس کے مقدمہ چہارم میں ارقام فرماتے ہیں کہ تعظیم شرعی آنست کہ منبی باشد بر محبت للہ و فی اللہ و ولایت و دوستی از دل و ایں معنی در غیر اہل فضل در شرع وارد نشدہ انتہیٰ۔ پس محبت و مودت غیر مشروع وہی ہے جو کہ غیر اہل دین سے من حیث الدین ہو اور جو آیات کہ اوپر مذکور ہوئیں ان سب میں اسی قسم کی محبت کی نہی وارد ہے۔ چنانچہ ہر ایک آیت کی تفسیر بالتفصیل اس مقام پر لکھی ہے۔ پہلی آیت منافقین کے حق میں اور خصوصاً عبداللہ بن مالک بن ابی بن سلول کے معاملہ میں وارد ہوئی ہے جو ظاہر میں ایمان لایا تھا اور درحقیقت محبت من حیث الدین مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ رکھتا تھا جن کے فتویٰ ار حکم پر تمام مدینہ کے لوگ چلتے تھے۔ چنانچہ تمام اس آیت سے صا ف ظاہر ہے کہ وہ منافقین کے حق میں ہے جو مسلمانوں سے من حیث الدین کچھ بھی محبت نہیںرکھتے تھے۔ تفسیر کے معالم میں لکھا ہے۔ فتری الذین فی قلوبھم مرض ای نفاق یعنی عبداللہ ابن ابی و اصحابہ من المنافقین الذین یوا لون الیہود و یسارعون فیھم ای فی معونتھم وموالاتھم علیٰ ما اسروا فی انفسھم من موالاۃ الیھود من الاخبار الیھم اھولاء الذین اقسموا باللہ حلفوا باللہ جھد ایمانھم ای حلفوا با غلظ الایمان انھم لمعکم و ای انھم لمومنون یرید ان المومنون حینئذ یتعجبون من کذبھم و حلفھم بالباطل۔ (ترجمہ) ’’پس دیکھے گا تو ان لوگوں کو جن کے دل میں مرض ہے یعنی نفاق ہے یعنی عبداللہ ابن ابی اور اس کے ہمراہی منافقین کہ دوستی رکھتے یہود سے اور جلدی کرتے تھے ان کے اندر یعنی ان کی مددگاری اور ان کی دوستی میں اور اوپر اس کے کہ چھپایا انہوںنے اپنے دل میں موالات یہود کی اور خبر دینے کی ان کو ۔ کیا وہی لوگ ہیں جنہوںنے قسم کھائی ساتھ اللہ کے بہت سخت مضبوط قسم کہ بیشک وے ان کے ساتھ ہیں‘ یعنی بے شک وے مسلمان ہیں‘ مراد یہ ہے کہ مسلمان تعجب کرتے تھے ان کے جھوٹ بولنے سے اور ان کی بیہودہ قسم کھانے سے‘‘۔ پس بیشک جو اس طرح کی محبت غیر دین والوںکے ساتھ رکھے وہ حرام اور ممنوع شرعی ہے۔ اس آیت کی تفسریر ایک اور دوسری آیت سے ہوئی ہے وہ یہ ہے ۔ قال اللہ تعالیٰ بشر المنافقین بان لھم عذابا الیما الذین یتخذون الکافرین اولیاء من دون المومنین ایبتغون عندھم العذۃ فان العزۃ للہ جمعا۔ (ترجمہ) ’’فرمایا اللہ تعالیٰ نے خوش خبری دے تو منافقوں کو کہ ان کو عذاب ہے سخت یہ وہ لوگ ہیں کہ بتاتے ہیں کافروں کو دوست سوائے مومنین کے۔ کیا چاہتے ہیں ان کے پاس عزت ۔ بیشک عزت سب طرح کی اللہ کو ہے‘‘۔ تفسیر نیشا پوری میں لکھا ہے : کان المنافقون یوادون الیھود اعتقادامنھم ان امر محمد لا یتم و جینئذ ینتفعون بصدھم و یحصل لھم بھم قوۃ و غلبہ۔ (ترجمہ) ’’منافقین دوستی رکھتے تھے یہود سے بدیں اعتقاد کہ کام محمد کا پورا نہ ہو گا اور اب فائدہ مند ہوں گے یہود کے روزگار کے ساتھ اورملے گی ان کو بہ سبب یہود کے قوت اور غلبہ‘‘۔ اور تفسیر کشاف میں ہے : وکانو ابما یلون الکفرۃ و یواالونہم ویقول بعضھم لبعض لایتم امر محمد فتوالوا الیھود۔ (ترجمہ) ’’اور و ے میلان رکھتے تھے کافروں کے ساتھ اور دوستی کرتے تھے ان کے ساتھ اور کہتاتھا بعض بعض کو کہ نہیں پورا ہو گا کام محمد کا تو دوستی رکھو یہود کے ساتھ‘‘۔ اور تفسیر زاھدی میں ہے : ومن یتولھم منکم فانہ منھم (اور جو دوستی کرے گا ان سے تو وہ بے شک ان ہی میں سے ہے) ہر کہ دوستی دارد با ایشان وے از ایشان است ایں و عید کسے راست کہ دوستی دارد بااھل کتاب بحکم عقیدت و دیانت۔ پس منافقین کی دوستی کفار کے ساتھ یا تو من حیث الدین ہے یا اس وجہ سے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے۔ پس ایسی قسم کی ولا و دوستی شرعا ممنوع ہے۔ آیت دوم ۔ اس آیت میں بھی جو لفظ اولیاء کا آیا ہے ۔ اس سے بھی محبت فی الدین مراد ہے۔ جیسا کہ مذکور ہوا۔ تفسیر کشاف میں اسی آیت کے نیچے لکھا ہے کہ اخلاق کافروں کے ساتھ کرنا چاہیے اور خلوص مسلمانوں کے ساتھ جس کا صاف منشاء یہ ہے کہ اسی آیت کے نیچے لکھا ہے کہ اخلاق کافروں کے ساتھ کرنا چاہیے اور خلوص مسلمانوںکے ساتھ‘ جس کا صاف منشاء یہ ہے کہ حسن معاشرت کفار کے ساتھ منع نہیں‘ الاخلوص یعنی محبت من حیث الدین مسلمانوںکے ساتھ ہونی چاہیے ۔ عن صعصعۃ ابن صوجان انہ قال لا بن اخ لہ خالص المومنون و خالق الکافرو الفاجر فان الفاجر یرضی منک بالخلق الحسن و انہ یحق علیک ان نخالص المومنین (ترجمہ) ’’صعصمہ بن صوجان سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے بھتیجے کو کہا کہ خلوص سے محبت کرو مومن کے ساتھ اور خلق کرو کافر کے ساتھ اور فاجر کے ساتھ۔ سو فاجر تجھ سے خوش ہو گا ساتھ خلق نیک کے اور حق تیرے ذمہ یہ ہے کہ خالص دوستی کرو مسلمانوں سے۔ علاوہ اس کے یہ آیت نصاریٰ کے لیے آئی تھی جو حلیف یعنی دینی بھائی قریظہ کے تھے ۔ جب انہوں نے پوچھا ک اب ہم کس سے دوستی کریں تو حضرت نے فرمایا کہ مہاجرین سے اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی جس سے صاف ظاہر ہے کہ جو محبت من حیث الدین ہو وہی ممنوع شرعی ہے۔ قال الامام الرازی فی تفسیر الکبیر و السبب فیہ ان الانصار بالمدینۃ کان لھم فی بنی قریظۃ رضاع و حلف و مودۃ فقالو الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من تولیٰ فقال المھاجرون فنزلت ھذا الایۃ۔ (ترجمہ) کہا امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں اور سبب یہ ہے کہ انصار مدینہ کو بنی قریظہ کے ساتھ ہمشیر گی اور دینی بھائی ہونا تھا اور دوستی ان کے ساتھ تھی تو انہوںنے آپ عرض کیا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہ اب ہم کس کو دوست کریں۔ آ پ نے فرمایا کہ مہاجرین کو تو نازل ہوئی یہ آیت‘‘۔ اور دوسری روایت اس آیت کے شان نزول میںیہ لکھی ہے کہ یہ آیت منافقوں سے موالات کرنے کے امتناع میں آئی ہے‘ یعنی سچے مسلمان منافقوں کو بھی سچا مسلمان سمجھتے تھے۔ مسلمانوں کی سی محبت ان کے ساتھ رکھتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ منافقین سچے مسلمان نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ سچے مسلمانوں کی سی محبت نہ کرو۔ قال الامام الرازی فی تفسیرہ الکبیر قال القفال وھو ان ھذا النھی للمومنین من موالات المنافقین یقول قد بینت لکم اخلاق ھولاء المنافقین و مذاھبھم فلا تتخذو ھم اولیائ۔ (ترجمہ) ’’کہا امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں کہ کہا قفال نے اور بات یہ ہے ہ یہ منع کرتا ہے مسلمانوں کو دوستی منافقین سے تو فرماتاہے اللہ تعالیٰ کہ جب ظاہر کیے میں نے تمہارے لیے اخلاق منافقین کے اور ان کے مذہب تو اب نہ بنائو ان کو اپنا دوست‘‘۔ اور تفسیر کشاف میں لکھا ہے: لا تتخذوا الکافرین اولیاء لا تتشبھوا بالمنافقین فی اتخاذھم الیھود و غیر ھم من اعداء الاسلام اولیائ۔ منافقین ظاہر میں مسلمانوں سے ملے ہوئے تھے اور باطن میں دلی محبت من حیث الدین کافروں سے رکھتے تھے پس اس طر ح کی محبت کافروں کے ساتھ رکھنے میں ممانعت فرمائی۔ وقد کان تلک الاحکام فی ابتدا الاسلام ولا یمیز المسلم من المنافق ولا یمیز الخبیث من الطیب و یشبہ المنافق بالمسلم الصادق و یتشابہ اہل الحق والکذ ب فان المسلمین الذین کانو ا حدیثی عھدا بالاسلام یفعلون کما کان یفعلیہ المنافقون من الاحکام واما الان فظھر ما ظھر من الدین ولم یبق احد من المنافقین فالمسلمون مسلمون بحق و امتاز الکافرون والمسلمون بخلق و خلق ولم یبق التشابہ والتشاکل لا فی التعامل و لا فی التناول فانتفیٰ العلۃ فاین المعلوم وظہر الحق المعلول فلا باس بان یعاشر الموسلمون بالکفار بحسن المعاشرۃ بل الان آن ان یظھر الاخلاق المحمدیۃ بکل من خالفنا فی الدین و السجیۃ لیحق حق الدین القویم و یصدق خلق نبینا وانک لعلی خلق عظیم۔ (ترجمہ) ’’یہ احکام ابتدا میں اسلام میں تھے اور تمیز نہ تھی جب مسلمان اور منافق میں اور برے اورنیک میں اور ہم شک تھا منافق مسلمان صادق کے اور متشابہ تھے اہل حق اور اہل کذب کیونکہ مسلمان ابھی نئے مسلمان ہوئے تھے۔ اسی طرح کرتے تھے کہ جس طرح منافقین کرتے تھے‘ مگر اب ظاہر ہوا جو کچھ کہ ظاہر ہو ادین اسلام اور نہ رہا کوئی منافق تو مسلمان اب مسلمان سچے ہیں اور تمیز ہو گی کافر اور مسلمان کی اپنی اپنی شکل اور عادات میں اور نہ باقی رہا ہم شکل اور مشابہ ہونا نہ بیچ برتائو کے ورنہ لین دین میں ۔ پس جاتا رہا اب وہ سبب تو اب کہاں ہے وہ حکم اور غالب ہو گیا حق آفت رسیدہ تو اب کچھ مضائقہ نہیں کہ معاشرت کریںمسلمان کفار کے ساح بحسن معاشرت بلکہ اب وہ وقت ہے کہ ظاہر کیا جاوے اخلاق محمدی ہر ایک کے ساتھ جو مخالف ہے ہمارے دین اور عادت میں تامستحقق ہووے حقیقت دین راست کی اورصادق آوے خلق ہمارے نبی کا کہ تو بیشک اوپر خلق بزرگ کے ہے ‘‘۔ آیت سوم بھی منافقین کے حق میں وارد ہے۔ امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے ۔ واعلم انہ تعالیٰ انزل آیات اخر کثیرۃ فی ھذا المعنی فمنھا قولہ تعالیٰ لا تتخدو ا بطانۃ من دونکم و قولہ لا تجد قوما یومنون باللہ والیوم الاخر یوادون من حاد اللہ ورسولہ وقولہ لا تتخذو ا الیھود والنصاریٰ اولیائ۔ وقولہ یا ایھا الذین آمنوا لا تتخذوا عدوی وعدو کم اولیاء وقال المومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض واعلم ان کون المومن موالیا للکافر یحتمل ثلثۃ اوجہ احدھم ان یکون راضیا بکفرہ و یتولاہ لاجلہ الا ان کل من فعل ذالک کان مصوبالہ فی ذالک الدین و تصویب الکفر کفر و الرضیٰ بالکفر کفر فیسحیل ان یبقیٰ مومنا مع کونہ بھذہ الصفۃ وثانیھا المعاشرۃ الجمیلۃ فی الدنیا بحسب الظاھر و ذالک غیر ممنوع منہ والقسم الثالث وھو المتوسط بین القسمین الاولین ھو ان موالاۃ الکفار بمعنی الرکون الیھم والمعونہ و المظاہرۃ والنصرۃ اما بسبب القرابۃ او بسبب المحبۃ مع اعتادہ ان دینہ باطل و ھذا لا یوجب الکفرا لا انہ منھی عنہ لان الموالاۃ بھذا المعنی قد یجر الی استحسان طریقۃہ والرضیٰ بدینہ و ذالک یحرجہ عن الاسلام فلا جرم ھدہ اللہ تعالیٰ فیہ فقال و من یفعل ذالک فلیس من اللہ فی شئی انتھیٰ ۔ (ترجمہ) ’’اور جان تو کہ اللہ تعالیٰ نے اتاری ہیں آیتیں اور بہت اس معنی میں ایک یہ آیت ہے کہ نہ لوتم دوست ولی سوائے اپنے اور ایک یہ کہ نہ پائے گا تو اس قوم کو کہ ایمان لائے ہیں اللہ اور قیامت پر کہ دوستی کریں اس شخص کے ساتھ کہ مخالفت کرے اللہ اور رسول سے اور ایک یہ کہ نہ بنائو تم یہو د اور نصاریٰ کو اپنا دشمن کو اپنا دوست اور ایک آیت یہ ہے کہ مسلمان مرد اور عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ار جان تو کہ ہونا مسلمان کا دوست کافر کے لیے تین وجہ سے ہے۔ ایک یہ کہ ہو گا راضی اس کے کفر سے اور اس سبب سے اس سے دوستی کرے گا تو بیشک اس کے سب کام کو درست اور پسندیدہ کہے گا اور دوست اور پسند کرنا کفر کا کفر ہے اور خوش ہوونا کفر کے ساتھ کفر ہے تو محال کہ باقی رہے مسلمان مع اس صفت کے اور دوم یہ کہ معاشرت نیک دنیا میں باعتبار ظاہر کے اوریہ منع نہیں ہے سوم یہ کہ یہ قسم متوسط ہے ان دونوں قسموں میں۔ وہ یہ کہ دوستی کانر کافروںکے ساتھ بمعنی میلان اور اعتماد کے ان کی طرف اور ساتھ مدد گاری اور پشت پناہ اور یاری یا بسبب قرابت کے یا بسبب محبت کے مع اعتقاد اس کے کہ دین ا س کا باطل تو یہ موجب کفر نہیں ہے‘ مگر بیشک منع ہے ‘ کیونکہ دوستی اس کی بدیں معنی بیشک پہنچاتی ہے طرف پسند کرنے کے طریقہ اس کے اور خوشنودی کی اس کے دین کی اور یہ نکالتا ہے اسلام سے سب ۔ لاچار دھمکایا اللہ تعالیٰ نے اس مقدمہ میں اورفرمایا جو کوئی کرے گا یہ کام تو نہیں ہے اللہ سے کسی چیز میں‘‘۔ اگرچہ اس تفصیل کے بعد جو امام فخر الدین رازی نے لکھی ہے ہم کو باقی آیات سے بحث کرنے کی کچھ ضرورت نہیں رہی تھی‘ مگر احسانا علی المتعصبین (واسطے احسان کے متعصبوں پر) ہم ان آیات کی تفسیر لکھتے ہیں۔ چوتھی آیت حاطب بن ابی بلتعہ کے معاملہ میں وارد ہوئی تھی۔ یہ بڑے صحابی ہیں اور جنگ بدر میں بھی موجود تھے اور اعرابی ہیں مگر ایام جاہلیت میں قریش کے ساتھ حلیف‘ یعنی دینی بھائی تھے۔ اس سبب سے انہوں نے اہل مکہ کو کچھ حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لکھ بھیجا تھا کہ ان کے مال و اسباب بال بچہ سب مکہ میں تھے۔ وہ خط پکڑا گیا۔ ان سے حضرت نے جب پوچھا تو انہوں نے عر ض کیا۔ یا رسول اللہ یا تعجل علی ان کنت امرء ملصقا فی قریش کنت حلیفا ولم اکن من انفسھم وکان معک من المھاجرین من لھم قرابات یحمون اھلیھم واموالھم فاحببت اذا فاتنی ذالک من النسب فیھم ان اتخذ عندھم یدایحمون قرابتی فلم افعلہ ارتدادا عن دین ولا رضا بالکفر بعد الاسلام فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اما انہ قدصد قکم فقال عمر یا رسول اللہ دعنی اضرب عنق ھذا ا لمنافق فقال انہ شھد بدر اوما یدریک لعل اللہ طلع علی من شھد بدر افقال اعملو اماشئتم قد غفرت لکم فانزل اللہ تعالیٰ ھذاہ السورۃ یا ایھا الذین آمنوا لاتتخذو اعدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیھم بالمودۃ انتھیٰ ما فی المعالم اور سب تفاسیر میں یہی ہے۔ (ترجمہ) ’’یا رسول اللہ! نہ جلدی کیجیے مجھ پر۔ میں ہوں ایک مرد خوش باش قریش میں اور تھا ان کا دینی بھائی اورنہ تھا میںان کی قوم میں سے اورجتنے لوگ آپ کے ساتھ مہاجر ہیں ان سب کو قرابت ہے کہ حمایت کرتے ہیں وہ اہل اور ان کے مال کی۔ تو پسند کیا می نے کہ جب قوت ہے مجھ میں نسب ان سے تو کروں میں انکے ساتھ ایک احسان کہ حمایت کریں گے میرے کنبہ کی سو نہیں کیا میںنے دین سے مرتد ہونے کے لیے اورکفر کے ساتھ خوشی کے لیے ۔ پس فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیشک اس نے سچ بول دیا تم سے ۔ پھر کہا حضرت عمرؓ نے مجھ کو اجازت ہو کہ ماروں میں گردن اس منافق کی تو فرمایا حضرت نے یہ بے شک بدر میں موجود تھا اور کیا معلوم ہے تجھ کو شاید مطلع ہو اللہ تعالیٰ ان پر جو بدر میں تھے۔ سو کہا اللہ تعالیٰ نے تم جو چاہو کرو میں نے بخش دیا تم کو۔ پس نازل ہوئی یہ سورۃ اے مسلمانو! نہ بنائو تم میرے اور اپنے دشمن کو دوست کہ ملو تم ان کی طرف دوستی کے ‘‘۔ اب غور کرنا چاہیے کہ اگرچہ یہ مودت جو باضرار دین اور باضرار مسلمین تھی منع ہوئی‘ مگر چونکہ یہ مودت من حیث الدین نہ ھتی تو من یتولھم منکم فانہ منھم میں داخل نہیں ہوئی اورلہ اس قسم کا فعل من شھد بدرا سے وقع میں آ سکتا تھا۔ اس بیان کا زیادہ تر ثبوت اس کے بعد کی آیت سے ہوتا ہے۔ تفسیر نیشاپوری میں لکھا ہے: لما نزلت ھذہ الایۃ ای الایۃ المذکورۃ فی حق حاطب ابن ابی بلتعۃ فشد المومنون فی عداوۃ اقاربھم وعشائرھم فنزل ایۃ لا ینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلونکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم و تقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین۔ انما ینھکم اللہ عن الذین قاتلو کم فی الدین و اخر جو کم من دیار کم و ظاہروا اعلیٰ اخراجکم ان تولو ھم ومن یتولھم منکم فاولئک ھم الظالمون۔ (ترجمہ) ’’جب نازل ہوئی یہ آیت مذکورہ بیچ حق حضرت حاطب بن ای بلتعہ کے تو سختی کی مسلمانوں نے بیچ عداوت اپنے رشتہ داروں اورکنبوں کے تو یہ آیت نازل ہوئی ۔ نہیں منع کرتا ہے اللہ تم کو ان لوگوں سے کہ نہ قتال کیا انہوںنے تم سے دین میں اور نہیں نکالا تم کو تمہارے وطن سے یہ کہ احسان کرو تم اور انصاف کو تم ان کے ساتھ کہ بیشک اللہ دوست رکھتا ہے انصاف کرنے والوں کو‘ مگر منع کرتا ہے تم کو صرف ان لوگوں سے کہ قتال کیا تم سے انہوںنے دین میں نکالا تم کو تمہارے وطن سے اور مدد دی تمہارے نکالنے پر یہ کہ دوستی کرو تم ان سے اورجو دوستی کرتے گا ان سے بیشک وہ گنہگار ہو گا‘‘۔ پس اس آیت سے بخوبی ثابت ہے کہ تولیٰ ممنوع وہی ہے جو من حیث الدین ہو اور اس میں کچھ شک نہیںکہ یہ آیت بعد جنگ بدر کے نازل ہوئی ہے اور جنگ بدر بالضرور بعد آیت قتال و سیف کے ہوئی تھی تو نازل ہونا اس آیت کا بھی بعد آیت سیف ثابت و متحقق ہوتا ہے۔ آیت پنجم۔ یہ ساری آیت اس طرح پر ہے : واذا رائیت الذین یخوضون فی آیاتنا فاعرض عنھم حتیٰ یخوضوا فی حدیث غیرہ ۔ واما ینسینک الشیطان فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین۔ (ترجمہ) اور جب دیکھتے تو ان لوگوں کو کہ خوض (ٹھٹھا) کرتے ہیں ہماری آیات میں تو ارعاض کر ان سے یہاں تک کہ خوض کرنے لگیں اس کے سوا اور بات میں اور اگر بھلاوے تجھ کو شیطان تو پھر نہ بیٹھ بعد یاد آنے کے ساتھ قوم ظالموں کے‘‘۔ اس آیت کو اس معاملہ سے جس میں ہم گفتگو کر رہے ہیں کچھ تعلق نہیں ہے۔ کفار قریش ہمارے دین کی اور چیزیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے اس کی تکذیب کرتے تھے اور اپنی مجلسوں میں اس پر استہزاء کیا کرتے تھے۔ اس آیت میں صرف اتنا حکم آیا کہ جب مشرکین اپنی مجلسوں میں دین کے ساتھ استہزاء کریں تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر طعن کریں تو ایسی مجلسوں میں شریک ہونے سے احتراز کرو۔ قال الامام فخر الدین الرازی فی تفسیرہ اکبیر ان اولئک المکذبین ان ضموا الی کفر ھم وتکذیبھم الا ستہذاء بالدین و الطعن فی الرسول فانہ بجب الاحتراز عن مقارنتہم و ترک مجالستھم (ترجمہ ) ’’کہا فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں کہ بیشک یہ جھٹلانے والے اگر ملا دیویں اپنے کفر اور تکذیب کے ساتھ استہزاء دین کے اوپر اور طعنہ زنی رسول پر تو بے شک واجب ہے بچنا ان کی صحبت سے اور چھوڑنا ان کی ہم نشینی کا‘‘۔ اور اسی میں ہے : نقل الواحدی ان المشرکین کانوا جالسوا المومنین وقعوا فی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والقرآن فشتمو ا واستھزوا فامرھم ان لا یقعدو وامعھم حتی یخوضو ا فی حدیث وغیرہ (ترجمہ ) ’’نقل کیا واحدی نے کہ مشرکین جو ہم نشینی کرتے تھے مسلمانوں کی پڑتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی بحث میں۔ پس برا کہتے تھے اور استہزاء کرتے تھے اور حکم کیا ان کو اللہ تعالیٰ نے کہ نہ بیٹھیںساتھ مشرکین کے‘ یہاں تک کہ خوض کریں اور کسی بات میں سوائے اس کے۔ وفی الکشاف یخوضون فی آیاتنا الاستہزاء بھا والطعن فیہا فکانت قریش فی اندیتھم یفعلون ذالک فاعرض عنہم ولا تجالسھم وقم عنھم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ فلا باس ان تجالسھم حینئذ ۔ (ترجمہ) ’’اور کشاف میں ہے: خوض کرتے تھے وہ ہماری آیات میں بیچ استہزاء اور طعنہ زنی کے۔ پس تھے قریش کہ اپنی مجلسوں میںیہ کرتے تھے۔ تو اعراض کر ان سے اورنہ بیٹھ ان میں اور کھڑا ہو جانا ا ن میںسے‘ یہاں تک کہ خوض کریں کسی اوربات میں سوا اس کے۔ پھر کچھ مضائقہ نہیں کہ بیٹھے تو ان میں اس وقت‘‘۔ پس یہ آیت ایسی مجلسوں کی نسبت ہے جن میں دین کے اوپر استہزاء ہویا جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت نعوذ باللہ منہا کچھ برا بھلا کہا جاوے‘ یہاں تک ہکہ صاحب کشاف نے صاف لکھ دیا ہے کہ اگر اور قسم کی باتیں ہوں تو اس وقت تک مجلس میں بیٹھنا کچھ مضائقہ نہیں ہے ۔ پس انگریزوں کے ساتھ جو مجلسیںکھانے کی ہوتی ہیں ان میں صرف دل لگی اور دنیا کی باتیںہوتی ہٰں۔ کبھی ذکر مذہب کا نہیں ہوتا اور نہ کوئی کسی پر ہنستا ہے اورنہ کوئی کسی کو برا کہتا ہے۔ پس اس آیت کو ایسے محل پر دلیل پکڑنا بجز ایک بیہودہ بات کے اور کیا ہے۔ آیت ششم بھی حاطب بنابی بلتعہ صحابی بدری کے معاملہ میں ہے جس کا ذکر ہم ابھی کر چکے ہیں۔مگر جو کچھ کہ ہم نے بیان کیا کہ اس کا استدلال نہایت اقویٰ وجوہ سے اس آیت سے ہوتا ہے ‘ یعنی خدا تعالیٰ نے اس آیت میں باپ اوربیٹے اوربھائی اورکنبہ کے تودد سے بھی منع فرمایا ہے حالانکہ اور آیات قرآنی سے صلہ رحم ہم پر واجب ہے۔ قال اللہ تعالیٰ یا ایھا الناس اتقو ا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ و خلق منھا زوجھا و بث منھما رجالا کثیرا ونساء واتقو اللہ الذی تسائلون بہ الارحام ان اللہ کان علیکم رقیبا۔ (ترجمہ) ’’کہا اللہ تعالیٰ نے اے لوگو! ڈرو تم اپنے رب سے کہ جس نے پیدا کیا تم کو نفس واحدہ سے اور پیدا کیا اس میں سے جوڑا اس کا اور پھیلایا ان سے بہت مرد اور عورتیں اور ڈرو اللہ سے کہ مانگتے ہو تم اس کے ساتھ اور ارحام سے بیشک اللہ ہے تم پر نگہبان‘‘۔ اور ماں باپ کی تعظیم اور ان کے ساتھ محبت اور ان کی خدمت ہم پر واجب کی ہے اگرچہ وہ کافر ہوں۔ کما قال اللہ تعالیٰ واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ وقال وان جاھد اک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلا تطعھما وصا حبھما فی الدنیا معروفا۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ تودد جو آیت ششم میں منع فرمایا ہے وہ وہی تودد ہے جو من حیث الدین ہو۔ اب ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ مواکلت کسی قسم کی تودد کا باعث ہوتی ہے اوریہ بھی فرض کرتے ہیںکہ عموما تودد باوی وجہ کان مبوجب آیات سابقہ کے ممنوع ہے تو ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ آیت و طعام الذین اوتواالکتاب حل لکم وطعامکم حل لھم (اور کھانا ا ن کا جو دیے گئے ہیں کتاب حال ہے تمہارے لیے اورکھانا تمہارا حلال ہے ان کے لیے ) میں جو دونوں طرف کاکھانا ایک دوسرے کو آپس میں حلال کیا گیا ہے اوصاف فرمایا ہے کہ اہل کتاب کا کھانا ہم کو اور ہمار اکھانا ان کو حلال ہے تو اشارۃ النص صریحا اوپر جوا ز مواکلت کے دلالت کرتا ہے۔ پس بالفرض اگر مواکلت سے کسی قسم کا تودد ہوتا ہے تو یہ آیت ان تمام آیات کے لیے مخصص ہو گی اور مواکلت جائز رہے گی۔ اب باقی رہیں چند ضروری روایات جن سے تعرض مناسب ہے ۔ تفسیر نیشاپوری میں ابوموسیٰ سے روایت ہے۔ قال قلت لعمر بن الخطاب ان لی کاتبا نصرانیا فقال مالک قاتلک اللہ الا اتخذت حنیفا الا سمعت ھذہ الایۃ یعنی لاتتخذو الیھود والنصاریٰ اولیاء قلت لہ دینۃ ولی کتابۃ فقال لا اکرمھم اذا اھا نھم اللہ ولا اعزھم اذا اذلھم اللہ ولا ادنھم اذا البعدھم اللہ۔ (ترجمہ) ’’کہاانہوںنے کہا میںنے عمرؓ بن الخطاب سے کہ میرے لیے ایک منشی ہے نصرانی تو انہو ںنے کہا کہ کیا ہوا کہ تجھ کر ہلاک کرے تجھ کو اللہ تعالیٰ۔ کیوںنہیں بنایا تو نے منشی دیندار کو‘ کیانہیں سنا تو نے آیت کہ نہ لو تم یہود نصاریٰ کو دوست۔ کہا میںنے اس کے لیے ہے اس کا دین او ر میرے لیے اس کی کتاب تو آپ نے کہ کہ نہ اکرام کر ان کا جب ذلیل ان کو اللہ نے اورنہ عزت دے ان کو جب رسوا کیا اللہ نے ان کو اورنہ پا بٹھلا ان کو جب دور کیا اللہ نے ان کو‘‘۔ اس حدیث کا کہیں حدیث کی کتابوں میںٹھکانا نہیں‘ اس قسم کی حدیثیں لا یعبا بہ (غیر معتبر) میں داخل نہیں۔ اور جو حدیث فتاوی ٰ مطالب المومنین میں ہے وروی انہ علیہ السلام قال من الجفاء ان تاکل غیر اھل دینک (اور روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم کی بات ہے کھانا تیرا ساتھ غیر اہل دین والے اپنے کے) اس حدیث کی بھی نہ کچ سند ہے اورنہ اس کا کوئی راوی ہے پس ایسی حدیثوں پر ہی لوگ عمل کرتے ہیں جو بمقابلہ نصوص قرآنی ایسی روایات مجمہولہ کو اپنی خواہش نفس کے مطابق جہلا میںاپنی شیخی اور فخر جتلانے کو نکالتے ہیں اور جن کی تائید کے لیے کوئی حدیث صحیح اورنص قرآنی موجود نہیں ہے‘ بلکہ اس کے مخالف موجود ہیں اب ایک حدیث باقی رہی جس کو جہلا ء عم جواز مواکلت کی استدلال میں پیش کرتے ہیں: فی الترمذی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقعت بنو اسرائیل فی المعاصی فنھتھم علماء ہم فلم ینتھوا فجالسوھم فی مجالھم و اکلوھم و شاربوھم فضرب اللہ قلوب بعض علیٰ بعض ولعنھم علیٰ لسان دائود و عیسیٰ ابن مریم بما عصوا وکانوا یعتدون۔ (ترجمہ) ’’ترمذی میں ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب واقع ہوئے بنی اسرائیل کے بیچ گناہوںکے پس منع کی ا اور ان کو علمائ۔ پس نہ بازآئے وے۔ پس ہم نشینی کی ان کے علماء نے اور کھایا پیا ان کے ساتھ۔ پس مارا اللہ نے ان کیدلوں پر ایک دوسرے کے اورلعنت کیا ان کو اوپر زبان دائود اور عیسیٰ ابن مریم کے بسبب ان گناہوں کے اور جو وہ زیادتی کرتے تھے‘‘۔ اس حدیث پر وہ لوگ اس طریق پر استدلال کرتے ہیں کہ ہرگاہ اہل معاصی کے ساتھ کھانا اور بیٹھنا منع ہے تو اہل کفر کے ساتھ بذریعہ اولیٰ منع ہے۔ مگر یہ طریقہ استدلال کا ایسا عمدہ ہے کہ ائمہ مجتہدین رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے بھی یہ طریقہ استدلال کسی کو نہیںسوجھا۔ وھل ہوا لا اجتھاد علماء زماننا سلمھم اللہ تعالیٰ ۔ (اور نہیں ہے کہ یہ مگر اجتہاد ہمارے علماء زمانہ کا سلمہم اللہ تعالیٰ) اس حدیث سے اور اباحت طعام اھل کتاب اور ان کے ساتھ مواکلت سے کیا علاقہ ہے جس آیت کا اقتباس اس حدیث میں کیا گیاہے خواہ وہ آیت ہے آیات احکام سے نہیں ہے۔ علاوہ اس کے یہود کو فساق یہود کے اور مسلمانوں کو فساق مسلمین کی مجالست اور مواکلت شئی آکر ہے اور کفار اوراہل کتاب کے ساتھ معاشرت امر آخر ہ ۔ کیونکہ وہ لوگ کسی حکم شرعی کے بجز ایمان کے مکلف نہیں ہیں۔ اب رہی یہ بات کہ مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب نے جو اپنے فتویٰ میںیہ بات لکھی ہے کہ انگریزوں کے ساتھ کھانا کھانے میں تلطخ بالنجاسات ہو یا زمزمۃ المجوس ہوتو مواکلت حرا م ہے۔ اس بیان میں بھی ایک تھوڑا سا تسامح ہے یعنی اگر تلطخ بالنجاسات ہے تو بلاشک ماکول حرام ہے اور اگر زمزمۃ المجوس ہے تو ماکول حرام نہیں الا اس مجلس میں شرکت حرام ہو گی جیسا کہ دوت ولیمہ کہ اس کے اندر منکرات ہوں تو ماکو ل میں کچھ حرمت نہیںآتی۔ الا اس مجلس میں شرکت ممنوع ہے۔ فی الوقایۃ و مقتدی دعی ولیمۃ فوجدتم لعبا وغناء لا یقدر علیٰ منعہ یخرج البتۃ وغیرہ ان قعد واکل جاز ولا یحضر ان علم من قبل قال ابو حنیفہ ابتلیت بھذا مرۃ فتصریت وذا قبل ان یقتدیٰ بہ ودل قولہ علی حرمتہ کل الماہی لان الابتلاء بالمحرم یکون۔ (ترجمہ) ’’وقایہ میں ہے اور ایک مقتدی بلایا گیا ولیمہ میں اور پایا وہاں کھیل اورراگ کہ نہیں قدرت رکھتاہے۔ اس کے منع کی تو نکل جاوے وہاں سے‘ البتہ اورغیر مقتدی اگر بیٹھ جاوے اور کھا لیوے تو جائز ہے اورچاہے کہ حاضر نہ ہووے اگر جان لیا یہ پہلے اورکہا ہے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہ مبتلا ہوا میں ساتھ اس کے ایک بار پس بدشوار صبر کیا میں نے اور یہ پہلے ان کے مقتدی ہونے سے تھا اورامام صاحب کا کہنا دلیل ہے اس پر کہ حرام ہے سب کھیل‘ کیونکہ مبتلا ہونا حرام میں ہوتا ہے‘‘۔ اور یہ بات جو مولانا صاحب نے لکھی ہے کہ اگر وہاں خمر اور اوانی فضہ ہوں اور اگرچہ وہ برتن جس میں مسلمان کھاتا ہے نجاست سے صاف ہوں تو بھی حرام ہے۔ اس کی وجہ ہمار سمجھ میںنہیں آئی۔ کیونکہ اگر وہ ماکول کسی قسم کی آمیزش سے نجس نہیں ہو ا تو وہ کیوں حرام ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ شرکت ایسے مائدہ پر جس پر خمر وار خنزیر ہو حرام ہے تو بفرض اس بات کے فعل شرکت حرام ہو گا نہ ماکول اور نہ فل مواکلت۔ علاوہ اس کے اور اس بات بھی سمجھ میںنہیں آتی ہے۔ کہ اہل کتاب جن کے مذہب میں خمر و خنزیر حلال ہے اور وہی اس کے مرتکب ہوں نہ مسلمان اورنہ مسلمانوں کے برتن اور ماکول اس سے آلودہ ہون تو اس مجلس کی شرکت بھی کیوں حرام ہوئی۔ خلافا للمائدۃ التی یدور علیہا الخمرو یشربھا المسلمون فلاشک ان الشرکۃ فی ھذا المجلس حرام لا نہا قد وقع فیہ محرمات شرعیۃ (برخلاف اس دستر خوان کے کہ شراب کا دور چلے اور پیویں اس کو مسلمانان تو بی شک شرکت اس مجلس میں حرام ہے کہ اس میں واقع ہوئے محرمات شرعیہ) الشبھۃ التاسعۃ (نواں شبہ ) بعضے اور لوگ ان باتوں کو قبول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ امر مباح شرعی ہے لیکن اگر اس کی اباحت کا فتویٰ دے دیا جاوے تو مصلحت عامہ کے برخلافہے۔ کیونکہ عوام الناس انگریزوںکا کھانا بلاتمیز اس بات کے کہ محرمات شرعیہ سے خالی ہے یا نہیں کھانے لگیںگے۔ پس بنظر عموم بولی عوم جواز کا فتویٰ دینا مصلحت ہے۔ لیکن اگر یہ بات صحیح قرار پاوے توتمام احکام شرعی حلا ل و حرام کے ہر ایک کی مصلحت پر موقوف ہو جاویںگے۔ عموم بلویٰ کا خیال بھی ایک عجیب قیاس ہے۔ آج تک مسئلہ فقہ یوں سنا کرتے تھے الضرورات تبیحالمحظورات (ضرورت مباح کرتی ہے منع چیزوںکا) فسبحانہ و تعالیٰ شانہ مشروع کو غیر مشرو ع بنانا تو ایسا ہے جیسے کہ غیر مشروع کو مشروع اور درحقیقت ایسا کرنا خیانت فی الدین ہے : عی ابی ہریرہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من افتیٰ بغیر علم کان اثمہ علیٰ من فتاہ ومن اشار عیٰ اخیہ بغیر علم ان الرشد فی غیر ہ خانہ رواہ ابودائود۔ (ترجمہ) ’’ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فتویٰ دیوے بغیر علم کے تو ہو گا گناہ اس کا اس پرکہ جس نے فتویٰ دیا اور جس نے مشورہ دیا اپنے بھائی کو بھلائی کی اس کی غیر ہے بغیر علم کے تو بیشک چوری کی اس کی۔ روایت ہے کہ اس کو ابودائود نے ۔‘‘ فی القاموس الرشد الاستقامۃ علیٰ طریق الحق مع تصلب فیہ (فاموس میں ہے کہ رشد قائم رہنا اور پر طریق حق کے ساتھ مضبوطی کے اس پر ) ہمارے بھائی جب کہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کمایعرفون ابناء ھم (جیسا پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کو) کہ شرح میں طعام اہل کتاب خواہ مواکلت منہم بشرط الطہارۃ جائز و مباح ہے تو عام لوگوں کو بھی صحیح اور سیدھا مسئلہ کیوںنہیں بتاتے کہ انگریزوںکے یہاں کھانا اوران کو کھلانا ایک ساتھ بیٹھ کر درستہے ۔ لیکن حرام چیزوں سے بچنا چاہیے تاکہ عند اللہ ماجور اورعندالناس مشکور ہوں۔ ہاں مگر اس کہنے میںمولویت کی شیخی اورجہلاء کی آنکھ میں اتقی الناس بنی کے تفاخر میں اور پیری مریدی نذر و نیاز لینے کی دکاندار ی میں بٹا لگتا ہے۔ خاتمہ الا ن نختم ھذہ الرسالۃ علی بیان امر بلیق بیانہ فی ھذا المقام فاعلم ان بعض علما نارحمۃ اللہ علیہ قد منع من تعظیم الکافر من سبقۃ السلام وغیرھا کما ھو عادۃ وہل دیار نا و استد لواعلیٰ منعہ بما ھو مذکور فی التھذیب انکل فعل فیہ تو فیر الذمی فہو حرام کالقیام والسلام والمصافحۃ والمعانقہ لان الجزیۃ علیھم الا ھانۃ وبالسلام توقیر ھم وفیہ نظر علیٰ جوہ (ترجمہ) ’’اب ختم کرتے ہیں ہم یہ رسالہ اوپر بیان اس امر کے لائق ہے بیان اس کا اس جگہ پس جاننا چاہیے کہ ہمارے بعض عالم رحمۃ اللہ علیہ نے منع کیا ہے کافر کی تعظیم کرنے سے سبقت اسلام سے اوراور باتوں سے جیسا کہ وہ عادت ہے ہمارے دیار کی اور دلیل پکڑی ہے اس کی منع پر ساتھ اس کے وہ مذکور ہے تہذیب میں کہ بے شک جو فعل اس میں توقیر ہو ذمی کی وہ حرام ہے جیسے کھڑا ہونا اور سلام کرنا اور مصافحہ کرنا اور معانقہ کرنا کیونکہ جزیہ ان پر اھانت کے لیے ہے۔ اوراسلا م میں ان کی توقیر ہے اور اس میں چہوجہ سے شبہ ہے۔ الاول انہ لایوافقھا الادلۃ الشرعیۃ لان اللہ تعالیٰ قال وم احسن قولا ممن دعا الی اللہ وعمل صالحا وقال اننی من المسلمین ولا تستوی الحسنۃ ولا السئۃ ادفع باللتی ھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم وما یلقھا الا الذین صبرو وما یلقھا الا زوحظ عظیم وقال اللہ تعالیٰ و عباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ہو ناوا ذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاما۔ (ترجمہ) ’’اول یہ کہ نہیں موافق ہیں اس کے دلائل شرعیہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور کون ہے کہ بہتر ہوبات کرنے میں اس شخص سے کہ بلائے طرف اللہ کے اور عمل کرے نیک اورکہے کہ بیشک میں مسلمان ہوں اورنہیں برابر نیکی اور بدی۔ دفع کرو ایسی بات کے ساتھ کہ بہت نیک ہو۔ پس اس وقت وہ شخص کہ تجھ میں وہ اور اس میں عداوت ہے گویا وہ دوست ہے۔ گرم اور نہیں پہنچتے ہیں اس بات کو مگر وہ جو کہ صبر کرتے ہیں اورنہیں پہنچتے ہیں اس بات کو مگر وہ کہ بڑے نصیب والے ہیں اور کہا اللہ تعالیٰ نے اوربندہ رحمن کے وہ ہیں جو چلتے ہیں زمین پر نرمی سے اورجب کلام کریں ان سے جاھل تو کہتے ہیں سلام‘‘۔ الثانی ان الروایۃ المذکورۃ فی التہذیب لیس یلائم حالنا ومن سکن دیارنا لان المشرکین اوالنصاری فی دیارنا لیسواباھل ذمتنا بل نحن معاشر المسلمین فی رعیتھم وفی جوارھم و نسکن فی امانھم و نعمر فی دیارھم وھم احسنو الینا بو جوہ کثیرۃ لا نھم یحکمون علینا بالعدل علیٰ ما یمکنھم ولا یراعون قوما دون قوم فی حکومتہم ومن قواعد ھم التسویۃ بین حقوق العباد یہود یا کان او نصرانیا مشرکا کان او مسلما ثم لا یمنعون ادا الفرائض الصلواۃ والصیام والذکرہ والحج ولا یزاحمون اقامۃ الجمع والا عیاد الا البغی والفسادو ای شئی اقبح من ہذین وھم یحکمون علینا فی القضا یا التی یتعلق بالمذہب خاصۃ کالنکاح واطلاق والمیراٹ وغیرہ علی ماھو ما ثور فی شریعتنا فیف لا نوثرھم علی انفسنا و نختارھم فانھم یحفظون انفسنا و یرعون اموالنا ویکلئون دمائنا علی مابینا مما احسنو ا وقد افترض علینا اطاعۃ امر السلطان و امبتثال حکمہ بتعلق من امور الدنیا قال فی التاتار خانیۃ الاسلام لیس بشرط فی السلطان الذی یقلد و فی الدر المختار ان غلبو ا علی اموالنا ولا عبدا مومنا و احرزوھا بدارھم لکوھا و یگترض علینا اتباعھم فما روی فی التہذیب عن منع الاسلام والمصافحۃ المعانقۃ فھو متعلق باھل الذمۃ کما ہو مصرح فیہ لا بالحکام والسلطان فعلینا ان نتگکر فی حالۃ یکون اھل الاسلام محکومین و غیرھم علیھم حاکما فما کان طریق معاشرۃ المسلمین بالحکام بعلینا ان نعمل بذالک الطریق و تلک الحالۃ وجدت فی ثلثۃ اقران ۔ الاول کان بنو اسرائیل عبید الفرعون والثالث ھاجر المسلمون بارض الحبشۃ فکان ہولاء اطاعوا من کان لہ سلطنۃ علیہم ما استطاعو ا و کانوا یعاشرون معاشرۃ الخلان بمن لیس لھم علیھم سلطان حتی قبل ابوبکر رضی اللہ عنہ ذمۃ مالک ابن الدغنۃ وجوارہ لینجو ممن ظلمہ وجارہ و رجع مکۃ وسکن دارہ ولم یعد الاستیمان بالکافر عارہ فعلینا ان نفعل ذالک اتاعا لہولا ولا نفع فی المھالک واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم واسلم۔ (ترجمہ) ’’دوسرے یہ کہ روایت جو تہذیب میں ذکر ہوئی ہے مناسب نہیں ہے ۔ ہمارے حال کے اوران کے جو ہمارے ملک میں رہتے ہیں ۔ اس لیے کہ مشرکین یا نصاریٰ نہیں ہیں ہمارے اہل ذمہ بلکہ ہم گروہ مسلمانان ان کی رعیت میں ہیں اور ان کی ہمسائیگی میں ہیں اور بستے ہیں ہم ان کی امان میں اور آباد ہیں ہم ان کے ملک میں ارو انہوں نے احسان کیا ہے ہم پر بہت طرح کہ حکم کرتے ہیں ایک قوم کی اپنی حکمرانی میں اور ان کے قواعد سے ہے برابری درمیان حقوق عباد کے یہودی ہو یا نصرانی‘مشرک ہو یا مسلمان ۔ پھر نہیں منع کرتے ہیں ادا فرائض نماز و روزہ و زکوۃ و حج کو اور نہیں روکتے ہیں قائم کرنے جمعہ اور عیدوں کو مگر بغاوت اور فساد کو اور ان سے بری کون سی اور چیز ہے اور حکم کرتے ہیں ہم پر بارے ان جھگڑوں میں جو متعلق ہیں خاص مذہب کے ساتھ مثل نکاح اور طلاق اور میراث کے اور سوائے اس کے موافق اس کے ہماری شریعت منقول ہے۔ پھر کیوں نہ اخیتار کرین ہم ان کو اپنی جان کے برابر کہ وے حفاظت کرتے ہیں ہماری جانوں کی اوررعایت کرتے ہیں ہمارے مال کی اور حفاظت کرتے ہیں ہمارے خونکی علاوہ اس کے جو جو بیان کیے یہم نے انکے احسان اور فرض ہے ہم پر اطاعت حکم سلطان اور فرمانبرداری حکم ان کے کی ان امور سے جو متلق ہیں دنیا کے ساتھ۔ کہاتاتار خانی میں اسلام شرط نہیں ہے اس بادشاہ میں جس سے نوکری حکومت کی لی جاوے اوردرمختار میں ہے گر غالب آویں کفار ہم پر اورہمارے مال پر اگرچہ وہ غلام مسلمان ہو اور لے جاویں وہ سب اپنے ملک میں تو وہ اس کے مالک ہو جاویںگے اورفرض ہے ہم پر ان کی اطاعت پس جو روایت ہے کہ تہذیب میں ہے منع سلام اور مصافحہ اور معانقہ کی تو وہ متعلق ہے اہل ذمہ سے کہ اس میں اس کی تصریح ہے نہ ساتھ حکام اور بادشاہ کے۔ لازم ہے ہم کو کہ فکر کریں اس حالت میں کہ اہل اسلا م محکوم تھے اور غیر اہل اسلام انپر حاکم پس جو طریق تھا اس وقت معاشرہ میں مسلمانوں کا ساتھ حاکموں کے لازم ہے ہم کو کہ یہ عمل کریں موافق اس کے ہم بھی اوریہ حالت تین وقت میں پائی گئی ہے ۔ اول بنی اسرائیل کے تابع تھے فرعون کے اور وہ ان پر سلطان قاہر تھا اور دوم تھے مسلمان مکہ میں پہلے ہجرت سے اور سوم ہجرت کی مسلمانوں نے زمین حبشہ میں۔ پس ان لوگوں نے اطاعت کی اس کی کہ جو صاحب سلطنت تھا۔ ان پر حتی المقدور معاشرت کرتے تھے دوستوں کی سی ساتھ ان لوگوں کے کہ ان پر ان کو سلطنت نہ تھی‘ یہاں تک کہ قبول کیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ذمہ مالک بن دغنہ کا اور ہمسائیگی اس کی تاکہ نجات پاویں اس شخص سے کہ ظلم کیا اور جور کیا ان پر اور چلے آئے مکہ میں اور رہے اپنے گھر اور نہ شمار کیا اس امان لینے کا کافر کے اپنا عار۔ تو لازم ہے ہم پر کہ ہم یہی کریں۔ یہ ہے باتباع ان لوگوں کے اورنہ پڑیں ہم تباہی اور ہلاکی میں۔ واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم واسلم ‘‘۔ ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End